اِقبال تشکیلی دَور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۳ء خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان © جملہ حقوق بنام حمزہ خرم محفوظ ہیں ناشر: محمد سہیل عمر، ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ) چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، لاہور Tel: [+92-42] 99203-573 [+92-42] 36314-510 Fax: [+92-42] 36314-496 Email: infor@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978-969-416-430-4 ٹائٹل ڈیزائن: خالد فیصل پہلی بار اقبال اکادمی پاکستان نے ۲۰۰۹ء میں شائع کی۔یہ دوسرا ایڈیشن ترمیم اور اضافے کے ساتھ اقبال سائبر لائبریری کے لیے ۲۰۱۴ء میں تیار کیا گیا۔ تم سب کا پیدا کیا جانا اور دوبارہ اُٹھایا جانا ایک نفس ِ واحد کی طرح ہے۔ بیشک اللہ سب سننے اور سب دیکھنے والا ہے! ترجمہ سورۃ۳۱: لقمان۔ آیت ۲۸ وجود افراد کا مجازی ہے ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا اقبال، ۱۹۰۸ء سازِ خاموشم نوائے دیگرے دارم ہنوز آنکہ بازم پردہ گرداند پئے آنم برید (اقبال) ٭ سازِ خاموش ہوں مگر ابھی ایک نغمہ مجھ میں باقی ہے۔ جودوبارہ میرا پردہ اٹھا دے، مجھے اُس کے پاس لے چلو۔ پہلی بات سامنے ٹرنٹی کالج کیمبرج کا صدر دروازہ ہے۔ دروازے کے اوپر سے ہنری ہشتم کا مجسمہ غالباً کافی بے بسی سے دیکھ رہا ہے کہ انگلستان کے اِتنے اہم شہر میں اب انگریزوں سے زیادہ ایشیائی ملکوں بالخصوص چین کے باشندوں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ سو برس سے کچھ اوپر ہوئے جب علامہ اقبال ایک طالب علم کے طور پر یہاں آئے تھے اور ذبیحہ گوشت کی فراہمی مسئلہ بن گئی تھی۔ اب یہاں انگریزی کھانوں کی فراہمی میں دقت پیش آتی ہے۔ اِسی شہر میں بیٹھ کر علامہ نے پیش گوئی کی تھی کہ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی۔ اُس خنجر کے وار سے اگر مغربی تہذیب بچ بھی گئی ہو تو حلال گوشت فراہم کرنے والی چھُری سے شاید نہ بچ سکے گی۔ بہرحال اِس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کاپیش لفظ لکھنے کے لیے شاید یہی مقام مناسب ہے۔ میں کاغذ قلم ساتھ نہیں لایا مگر ذہن میں یہ تمام الفاظ ترتیب دے رہا ہوں۔ بعد میں براہِ راست کمپیوٹر میں لکھ لوں گا۔ پچھلے ایڈیشن کا پیش لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ ذرا بوجھل ہو گیا تھا اور کتاب بھی۔ کتاب میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں، اتنی زیادہ کہ اب یہ ایک نئی کتاب بن گئی ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بات تو خیر مجھے بہت اصرار کے ساتھ کہنی ہے کہ اِس سلسلے کی ہر کتاب اپنی جگہ مکمل ہے۔ یہ کتاب بھی جو آپ کے ہاتھ میں ہے، ایک خاص مقام سے شروع ہوتی ہے جب برطانوی ہندوستان میں وطنیت کا ایک نیا مفہوم سامنے آیا تھا جو پہلے مقبول نہ تھا۔ کتاب کا خاتمہ وہاں ہوتا ہے جب یہ تصور نہ صرف برطانوی ہندوستان میں بلکہ مسلم دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جڑ پکڑ چکا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک متبادل تصور بھی سامنے آ چکا تھا جس کے سب سے بڑے مبلغ علامہ اقبال تھے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۳ء کے اِس عرصے کو علامہ کی زندگی کا تشکیلی دَور کہنا مناسب ہے کیونکہ اِسی زمانے میں علامہ نے ایک مکمل اور مربوط نظامِ فکر ترتیب دیا۔ ناخوشگوار شادی، ناکام محبت اور ٹوٹے ہوئے خواب بھی اِس کہانی کا حصہ ہیں کیونکہ ان محرومیوں کے احساس سے بلند ہو کر ہی علامہ اپنے نصب العین تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلسلے کی پہلی کتاب آپ نے نہیں پڑھی، تب بھی آپ شوق سے یہ کتاب پڑھ سکتے ہیں (یا پڑھ سکتی ہیں)۔ اِس کے علاوہ اِس کتاب کو صرف معلومات کی غرض سے مت پڑھیے بلکہ اِس کی کہانی سے بھی لطف اندوز ہونے کی کوشش کیجیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو مایوسی نہیں ہو گی۔ کتاب کے حوالے سے بس اتنا ہی عرض کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی باتیں کتاب ہی میں آپ کی نظر سے گزرنے والی ہیں۔ بالخصوص اگر اِس کتاب کو ایک عام قاری کی نظر سے، یعنی شروع سے آخر تک، پڑھنے کا ارادہ ہے۔ کتاب کے علاوہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ مزید معلومات کے لیے میری ویب سائٹ ملاحظہ کر لیجیے، یعنی www.marghdeen.com جہاں اقبال اکادمی پاکستان کی سرپرستی میں اقبالیات کے موضوع پر آن لائن سرٹیفکیٹ کورسز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اگرکتاب کے بارے میں اپنی رائے مجھے بھیجنا پسند کریں تو مجھے بہت خوشی ہو گی جس کے لیے ایمیل ایڈریس نیچے درج کیا جا رہا ہے۔ خرم علی شفیق ۲۴ستمبر ۲۰۱۲ء کیمبرج، انگلستان khurramsdesk@gmail.com فہرس ہَر اِک مقام سے آگے گُزر گیا مَہِ نو باب ۱ نیا مندر ۹ باب ۲ شمع کے سامنے ۳۴ باب ۳ سمندر ۳۹ باب ۴ تثلیث کا مدرسہ ۵۷ باب ۵ پری جمالوں کا شہر ۱۶۳ باب۶ نامعلوم دنیا ۱۹۶ باب ۷ صقلیہ ۲۴۶ باب ۸ شیطان کی خدائی ۲۵۱ باب ۹ جنت الفردوس ۴۱۹ ضمیمہ۱:نظموں کے ترمیم شدہ متن ضمیمہ۲: اقبال کی بیاضیں ۵۷۶ ضمیمہ۳:تبصرہ فلسفہ عجم کا ترجمہ ضمیمہ۴: سیاست کے دو رُوپ ۵۸۱ حاشیے ۵۹۳ کتابیں ۶۴۳ باب ۱ نیا مندر جنوری سے جولائی ۱۹۰۵ء تک ۱ ماں! میں تیرے آگے جھکتا ہوں رواںبہتی ندیوں والی باغوں کی روشنی سے چمکتی ہوئی مسرت کی ٹھنڈی ہواؤں والی پراسرار کھیت لہلہاتے ہیں، اے ماں شکتی والی، اے ماں آزاد! یہ بندے ماترم کے پہلے بند کا مطلب تھا جسے حال ہی میں کانگریس نے ایک ترانے کے طور پر اپنایا تھا۔ ۲ اقبال کے نزدیک ہندوستان ایک ملک تھا جس میں کئی قومیں آباد تھیں۱۔ میرا وطن چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے گوتم کا جو وطن ہے، جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے مدفون جس زمیں میں اسلام کا حشم ہے ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے، ارم ہے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے فارس کے آسمان سے ٹوٹے ہوئے تاروں سے مراد پارسی قوم تھی جس نے ہندوستان میں اپنی ساکھ بنائی تھی۔ وحدت کی لے سے شری کرشن کی بانسری مراد تھی۔ نظم کے حواشی میں لکھا، ’’سینٹ ٹامس (حضرت مسیح کا ایک شاگرد جو عیسائی مذہب کی تلقین کے لیے سب سے پہلے ہندوستان میں آیا) کی قبر جنوبی ہندوستان میں ہے۔ بعض کے خیال میں حضرت مسیح علیہ السلام بھی کشمیر میں مدفون ہیں۔‘‘ بعد میں کبھی ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: ہندوستانی بچوں کا قومی گیت [متروک عنوان: ’ہمارا وطن‘] چشتیؒ نے جس زمیں میں پیغامِ حق سُنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چُھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے یُونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہُنر دیا تھا مٹّی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا تُرکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے ٹُوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے وحدت کی لَے سُنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سینا نوحِؑ نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا جنّت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے ۳ جنوری ۱۹۰۵ء کے مخزنمیں ’سپاسِ جنابِ امیرؑ ‘ کے نام سے حضرت علیؓ کی تعریف میں اُن کی وہ فارسی منقبت بھی شائع ہوئی جسے اُن دنوں صبح کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ ۴ ’’میں ۱۹۰۵ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا،‘‘ اقبال کے ایک طالب علم خواجہ فیروزالدین کا بیان ہے۔ ’’میں منطق کے متعلق [اقبال سے] کلاس میں سوالات کرتا تھا۔ اِن سوالات کے باعث وہ مجھے ایک حد تک خوشگوار طریق سے متاثر کرتے تھے۔‘‘۲ خواجہ فیروزالدین کے والداقبال کے پرانے شناسا خواجہ رحیم بخش تھے۔ وہ اور اُن کے دو بھائی بازارِ حکیماں والے مشاعروں کے زمانے سے اقبال کے دوست تھے۔ للی لاج کے مالک تھے جو بازارِ حکیماں کے قریب جینوں کے محلے تھڑیاں بھابھڑیاں میں واقع تھا۔۳ ۵ ۸ جنوری کو مرزا عبدالرحیم کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ اقبال بھی گئے۔۴ ۶ فروری کیمخزن میںص۴۹ پر ’میرا وطن‘ شائع ہوئی۔وضاحت کے لیے حواشی بھی تھے۔ اُسی ماہ دکن ریویو میں اقبال کی کتاب علم الاقتصاد پر تبصرہ ہوا جسے ظفر علی خاں نے ’نقاد‘ کے فرضی نام سے لکھا تھا۔ علیگڑھ میں شبلی نعمانی کے شاگرد رہ چکے تھے، اب حیدرآباد دکن میں ساتھ تھے ، دکن ریویو نامی پرچہ نکال رہے تھے اوراُنہی مولوی سراج الدین کے صاحبزادے تھے جو کبھی لاہور کے بازارِ حکیماں میں نوجوان اقبال کو غزلوں میں رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ’’ہندوستان کو جیسے اس علم کی ضرورت ہے شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کو ہو، کچھ تو اس لیے کہ ایک حصہ ملک کا پہلے ہی سے زراعت، تجارت اور مزدوری میں مصروف ہے اور کچھ اس لیے کہ موجودہ تمدن روزبروز ان ضرورتوں کو بڑھا رہا ہے اور بغیر اس کے ترقی ناممکن ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھاتھا۔ ’’ایسے زمانے میں اس قسم کی کتابیں لکھنا درحقیقت ملک پر احسان کرنا ہے۔‘‘ کتاب کا تعارف کروانے کے بعد شکایت تھی کہ طرزِ تحریر اور انداز کچھ ایسا تھا کہ پڑھنے والے کو الجھن ہوتی اور مضامین مشکل سے سمجھ میں آتے۔ زبان کی غلطیاں بھی نکالیں۔ اس بات سے اختلاف کیا کہ علم کا مقصد صرف واقعات کے سبب معلوم کرنا تھا اور کسی مقصد کے حصول کا طریقہ متعین کرنا فن کے دائرے میں آتا۔ اقبال کا خیال تھا کہ ہندوستان کی اقتصادیات کو باقی دنیا سے الگ کر کے پڑھنے کی کوشش علم اور فن کے اسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوئی مگر ظفر سمجھتے تھے، ’’اس کا خیال ملک کے حالات اور واقعات پر غور کرنے سے پیدا ہوا ہے چنانچہ مولف خود اِس امر کو تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ کتاب سے دو اقتباس پیش کیے تھے جن میں اقبال نے کہا تھا کہ نئے حالات میں اقتصادیات کے اصول بدل کر زیادہ وسیع بھی ہو سکتے تھے اور بعض چیزیں مختلف ممالک کے حالات پر منحصر تھیں۔۵ ۷ ہندوستانی وطنیت ایک نیا تصور تھا۔ مشکل یہ تھی کہ ہندوستانی وطنیت کے پرستار تاریخ کو اُلٹا دیکھ رہے تھے۔ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ وطن کے نام پر قوم کی نفی کرنے کا تصور اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔ فائدہ انتہا پسندوں کو ہوا۔ مسلمانوں کے قومی وجود کو ختم کرنے کا بہانہ ہاتھ آیا۔ ۱۸۸۵ء میں کانگریس بنی تو کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے اور فرقہ وارانہ فسادات کی فضا تیار ہوئی۔ تقسیمِ بنگال کے خلاف ردِ عمل اُسے ہوا دے رہا تھا۔۶ نیا شوالہ سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تُو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پرانے اپنوں سے بیر رکھنا تُو نے بتوں سے سیکھا جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تُو، خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے آ مل کے غیریت کے پردوں کو پھر ہٹا دیں بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقشِ دُوئی مٹا دیں سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے جی کی بستی آ اِک نیا شوالہ اِس دیس میں بنا دیں دُنیا کے تیرتھوں سے اُونچا ہو اپنا تیرتھ دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں پھر اِک انُوپ ایسی سونے کی مُورتی ہو اِس ہردوارِ دل میں لا کر جسِے بٹھا دیں سندر ہو اُس کی صورت، چھب موہنی ہو اُس کی اُس دیوتا سے مانگیں جو دِل کی ہوں مرادیں زُنار ہو گلے میں، تسبیح ہاتھ میں ہو یعنی صنم کدے میں، شانِ حرم دکھا دیں ہندوستان لکھ دیں ماتھے پہ اس صنم کے بھولے ہوئے ترانے دنیا کو پھر سنا دیں اگنی ہے وہ جو نِرگُن، کہتے ہیں پیت جس کو دھرموں کے یہ بکھیڑے اُس آگ میں جلا دیں ہے رِیت عاشقوں کی تن من نثار کرنا رونا، ستم اُٹھانا اور اُن کو پیار کرنا نظم میں دو بند تھے اور اٹھارہ اشعار پر مشتمل تھی۔بعد میں کبھی ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: نیا شوالا [نیا متن] سچ کَہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پُرانے اپنوں سے بَیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے پتّھر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی آ، اک نیا شوالا اس دیس میں بنا دیں دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے ۸ ’’دنیا میں ایک چیز ہوتی ہے وسیع المشربی جس میں انسان اپنے عقیدے، مسلک اور موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی دوسرے مذاہب کی صداقت سے انکار نہیں کرتا،‘‘ روایت ہے کہ بعد میں اقبال نے کہا۔ ’’مجھے اس روش کی اخلاقی قدر و قیمت سے انکار نہیں کیونکہ اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے تعصب اور تنگ نظری کا ازالہ، انسانوں کے باہم قریب تر ہونے کی ایک صورت۔‘‘۷ اُس زمانے میں سمجھتے تھے کہ شاید اِس طرح انسان کی وحدت بھی حقیقت بن سکے۔ نوعِ انساں کی محبت میں ہے مذہب کا کمال امتیازِ کاسۂ شیخ و برہمن میں نہیں خاک اگر ناپاک بھی چھُونے سے ہو جائے تو کیا؟ پاک ہے جو چیز وہ آب و گِلِ تن میں نہیں۸ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۹ داغ دہلوی حیدرآباد دکن کے ’’نظام‘‘ یعنی نواب محبوب علی خاں کے استاد تھے۔ مزے میں رہتے تھے۔ اُن کے گھررقص و سرود کی محفلوں میں شبلی نعمانی بھی آتے جو اَب ریاست میں تصنیف و تالیف کے شعبے میں تھے۔ ۱۶ فروری کو داغ کا انتقال ہو گیا۔۹ ۱۰ محمد دین فوق لاہور میں تھے۔ محمد حسین آزاد کو یکی دروازہ کے باغ میں ٹہلتے دیکھا تو اُن کے پیچھے ہو لیے۔ ’’چند قدم چل کر ڈرتے ڈرتے ’مولانا السلام علیکم‘ کہا،‘‘ فوق کا بیان ہے۔ ’’اب یاد نہیں کہ انہوں نے کیا جواب دیا لیکن ہاتھ اُٹھا کر لب ہلاتے رہے۔ میں نے کہا مولانا! آپ کو معلوم ہے حضرت امیر ؔمینائی کا عرصہ سے انتقال ہو چکا ہے۔ فرمایا کون امیر؟ میں نے کہا منشی مظفر علی اسیرؔ کے شاگرد، نواب کلب علی خاں والیِ رام پور کے استاد۔ فرمایا اسیرؔ کو ہم جانتے ہیں معلوم نہیں یہ امیرؔ کون ہے۔ میں نے پھر عرض کیا نواب فصیح الملک کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ فرمایا وہ کون؟ میں نے کہا نواب میرزا خاں داغؔ دہلوی، آپ کے استاد بھائی۔ ’’ یہ نام سن کر ایک جگہ ٹھہر گئے اور ایک منٹ خاموشی کے بعد فرمایا، غلط اور بالکل غلط! وہ دیکھو، داغؔ اورا میرؔ دونوں پھاٹک حبش خانی (دہلی) کے مشاعرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا یہ دونوں شاعر دنیا سے گزر چکے ہیں۔ ذرا ترش رُو ہو کر فرمایا تم بکواس کرتے ہو۔ یہ کہہ کر پھر روانہ ہو گئے۔ لیکن میں ان کے ساتھ ساتھ پروفیسر اقبال۔۔۔ اور مولانا کی تصنیف دربارِ اکبری کی قبولیت کے متعلق باتیں کرتے اسٹیشن تک جا پہنچا کیونکہ باغ سے نکل کر چوکی چاہ میراں سے ہوتے ہوئے اسٹیشن کی طرف انہوں نے اپنا رخ کر لیا تھا۔ مگر انہوں نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ ’’آخر جب عالمِ تخیلات کے اس بادشاہ کو اپنے مشتاقِ سخن کی ہمراہی ناگوار معلوم ہوئی، غصہ کے لہجے میں فرمایا، ’میرا پیچھا بھی چھوڑو گے یا نہیں۔ تم نے میرا بہت ہرج کیا ہے۔‘ میں یہ سن کر دبے پاؤں وہیں سے واپس آ گیا۔‘‘۱۰ اسلام اور ایران کی صدیوں کی تاریخ محمد حسین آزاد کے وجود میں سمائی ہوئی تھی مگر دہلی کو نیم وحشی انگریزوں کے ہاتھوں اُجڑتے دیکھنا پڑا۔ آزاد کا معجزہ تھا کہ انگریزی خیالات کو اِس طرح اُردو میں ڈھالا کہ زیادہ بلند ہو گئے مگر غالب کی بجائے ذوق کے شاگرد اور شہنشاہ اورنگزیب کی بجائے شہنشاہ اکبر کے پرستار ہوئے جو یہ نہ سمجھا سکتے تھے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے کیوں طلوع ہو رہا تھا۔ جو تہذیب کے باطن سے رابطہ پیدا کر لے مگر رہنمائی نہ پا سکے وہ اس طرح دیوانہ ہو سکتا تھا۔۱۱ ۱۱ جو بات ذوق، محمد حسین آزاد کو نہیں بتا سکے وہ غالب نے اپنے نوجوان دوستوں سید احمد خاں اور الطاف حسین حالی وغیرہ کو سمجھائی تھی۔ ابھی پچھلے برس نواب ارکاٹ کے پوتے شاطر مدراسی کی فلسفیانہ نظم ’اعجازِ عشق‘ شائع ہوئی جو اسلامی الٰہیات کی تشریح تھی اور مخزن میں بھی ایک حصہ چھپا تو حالی نے وہ شعر پسند کیا جس کا مطلب تھا کہ دنیا میں جو واقعات پیش آتے وہ خدا کی بنائی ہوئی ایک خاص ترتیب کے مطابق ہوتے تھے: بے محل اٹھتا نہیں ہے ایک بھی تیرا قدم کوئی ہے تجھ پر سوار، اے ابلقِ لیل و نہار شاطر نے اقبال کوخط لکھ کردرخواست کی کہ نظم کے سقموں سے آگاہ کریں۔ ۲۴ فروری کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے بتایا کہ جالندھر میں ایک دوست نے نظم اتنی دفعہ پڑھی ہے کہ وہ تمام حصہ جومخزنمیں چھپا زبانی یاد ہے۔اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا، ’’انسان کی رُوح کی اصلی کیفیت غم ہے۔ خوشی ایک عارضی شے ہے۔۔۔ آپ نے فطرتِ انسانی کے اِس گہرے راز کو خوب سمجھا ہے۔۔۔ مگر بخدا مجھ میں یہ قابلیت نہیں کہ آپ کے کلام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھوں۔‘‘ ۱۲ ۲۶ فروری کو اسلامیہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالغنی بی اے کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے اور ایک سال کے لیے مجلس انتظامیہ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۳ مارچ کے مخزن میں ص۵۱-۵۰ پر ’نیا شوالہ‘ کے ساتھ مضمون ’قومی زندگی‘ کی دوسری قسط شائع ہوئی جس کی پہلی قسط پچھلے برس اکتوبر میں چھپی تھی۔تب مضمون کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگوں کے فیصلے تلوار کی بجائے قلم سے ہوں گے۔ اب صنعت کو سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا۔ قومی زندگی [اقتباس] حال کی قوموں میں اہل اطالیہ تو خیر فرنگستانی ہیں۔ جاپانیوں کو دیکھو کس حیرت انگیز سرعت سے ترقی کررہے ہیں۔ ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریبا مردہ تھی۔۱۸۶۸ء میں جاپان کی پہلی تعلیمی مجلس قائم ہوئی۔ اس سے چار سال بعد یعنی ۱۸۷۲ء میں جاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیاگیا اور شہنشاہ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے:۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گاؤں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے۔ غرض کہ ۳۶ سال کے قلیل عرصے میں مشرق اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی، دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کی اور ترقی کرکے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے اور محققین مغرب اس کی رفتارِ ترقی کو دیکھ کر حیران ہورہے ہیں۔ جاپانیوں کی باریک بین نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا اور وہ راہ اختیار کی جو ان کی قومی بقاکے لیے ضروری تھی۔ افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اور تعلیم و اصلاحِ تمدن نے قوم کی قوم کو کچھ اور بنا دیا اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان رموزِ حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے۔ اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ اس قوم کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں۔ ان واقعات کی روشنی میں اگر ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو ایک مایوس کر دینے والا نظارہ سامنے آتا ہے، کیا ہمارا ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہے؟ اپنے مکان کے اسباب آرائش ہی کو دیکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ ذرا ذرا سی بات کے لیے ہم اقوام غیر کے محتاج ہیں اور روز بروز ہوتے جاتے ہیں۔ آپ کا لیمپ جرمنی میں بنا ہے اس کی چمنی آسٹریلیا میں تیار ہوئی ہے۔ اس کا تیل روس سے آیا ہے اور گندھک کی سلائی جس سے یہ لیمپ روشن کیا جاتا ہے سویڈن یا جاپان سے پہنچی ہے۔ کلاک جو آپ کی نشست گاہ کی دیوار پر آویزاں ہے، آمریکہ کے کارخانوں میں تیار ہوا تھا۔ اور وہ چھوٹی سی گھڑی جو آپ کی جیب میں ٹک ٹک کر رہی ہے جنیوا کے کاریگروں کی صنعت کا نمونہ ہے۔ علی ہذا القیاس پہننے کا کپڑا، ہاتھوں کی چھڑی، چاقو، قینچی، دروازوں کی چلمنیں اور روزمرہ کے استعمال کی صد ہا چیزیں غیر ملکوں کے کارخانوں میں تیار ہو کر آپ کے پاس پہنچتی ہیں۔ ایسے حالات میں جب مصنوعات اور تجارت کی طرف سے ہمارا ملک بالکل غافل ہو یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ مصافِ زندگی میں جس کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جاتاہے کامیاب ہوں گے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے ملک سے کپاس، چائے، کوئلہ اور مصالحہ خام کی اور صورتیں ممالک غیر کو جاتی ہیں مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بدقسمت ہے وہ ملک جوممالک غیر کے لیے مصالحہ خام کا ایک ذخیرہ ہو اور مصنوعات کے لیے ان کا محتاج ہو۔ وہ ملک جس کا دار و مدار محض زراعت پر ہو جیسا کہ ہندوستان کا ہے، ترقی کی دوڑ میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ قحطوں اور وباؤں سے نجات پاسکتا ہے۔ جب تک کہ وہ اپنی آبادی کی ضروریات پورا کرنے کی کوئی اور راہ نہ اختیار کرے۔جب تک ہندوستان صنعتی ملک نہ ہوگا اور ہم جاپانیوں کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوں گے اس وقت تک قدرت ہمیں قحط کے تازیانے لگاتی رہے گی، طرح طرح کی وبائیں ہمیں ستاتی رہے گی، جس سے ہم جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے ناتواں ہوتے جائیں گے۔ اقوامِ ہند میں سے ہمارے [پارسی؟ ہندو؟] بھائیوں نے اِس راز کو کسی قدر سمجھا ہے اور چونکہ یہ لوگ بالطبع اس کام کے لیے موزوں بھی ہیں اس واسطے یقینا ان کے سامنے ترقی کا ایک وسیع میدان ہے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس اعتبار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے۔ یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔ اور باتیں تو خیر، ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسانی کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے۔ غرض کہ ان فرقہ آرائیوں نے خیر الامم کی جمعیت کو کچھ ایسی بری طرح منتشر کر دیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہوجائیں، تو حیات مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ و پیما ہوتے ہیں اور اگر بحث چھڑ جائے، اور بالعموم بحث جھڑ جاتی ہے، تو ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا نام کو بھی نہیں۔ ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں روز بروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ہاں امراکی عشرت پسندی کی داستان سب سے نرالی ہے۔ خیر سے چار لڑکیاں اور دو لڑکے تو پہلے سے ہیں، ابھی میاں تیسری بیوی کی تلاش میں ہیں اور پہلی دو بیویوں سے پوشیدہ کہیں کہیں پیغام بھیجتے رہتے ہیں۔ کبھی گھر کی جوتی پیزار سے فرصت ہوئی تو بازار کی کسی حسن فروش نازنین سے بھی گھڑی بھر کے لیے آنکھ لڑا آئے۔ اوّل تو کسی کو جرات نہیں کہ حضرت کو نصحیت کرے اور اگر کسی کو لب کشائی کا حوصلہ ہو تو چیں بہ جبیں ہو کر ارشاد فرماتے ہیں۔ ع تجھ کو پرائی کیاپڑی اپنی نبیٹر تو عوام کی تو کچھ نہ پوچھئے، کوئی اپنی عمر کا اندوختہ بچے کے ختنہ پر اڑا رہا ہے، کوئی استاد کے خوف سے اپنے ناز پرور پر وردہ لڑکے کا پڑھنا لکھنا چھڑا رہا ہے،کوئی دن بھر کی کمائی شام کو اڑاتا ہے اور کل کا اللہ مالک ہے کہہ کر اپنے دل کو تسکین دیتا ہے۔ کہیں ایک معمولی بات پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ کہیں جائیداد کے جھگڑوں سے جائیدادیں فنا ہو رہی ہیں۔ غرض کس کس کی شکایت کریں، لنکا میں جو رہتا ہے باون ہی گز کا ہے۔ تمدن کی یہ صورت کہ لڑکیاں ناتعلیم یافتہ، نوجوان جاہل، روزگار ان کو نہیں ملتا، صنعت سے یہ گھبراتے ہیں، حرفت کو یہ عار سمجھتے ہیں، مقدمات نکاح کی تعداد ان میں روز بروز بڑھ رہی ہے، جرم کی مقدار روز افزوں ہے، دماغ شاہجہانی، آمدنیاں قلیل اور افلاس کا یہ عالم کہ ع رمضاں خوب مہینہ ہے مسلمانوں کا یہ وقت بڑا نازک وقت ہے اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ نہ کرے کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں کوئی بڑا کام سعی ٔبلیغ کے بغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ خدا تعالی بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خود نہ بدلے۔ ایک فرنگستانی مصنّف لکھتا ہے کہ دیانت داری سے محنت کرنا سب سے بڑی عبادت ہے، خواہ اس محنت کا اثر کسی فرد خاص کی ذات تک محدود ہو، خواہ تمام قوم پر اس کا اثر پڑتا ہو۔ لیکن اگر غور کرکے دیکھا جائے تو فرد کا وجود قوم کے وجود کے بغیر تصوّر میں بھی نہیں آسکتا اور فرد کی کوئی ایسی حرکت نہیں جس کا اثر تمام قوم پر نہ پڑتا ہو۔ اور ایسی صورت میں آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہر فرد کی محنت حقیقت میں ایک قومی کام ہے۔ اگر اس محنت کا مدعا مذموم ہوگا تو قوم پر برا اثر پڑے گا۔ اور نیک ہوگا تو قوم پر اچھا اثر پڑے گا۔ پس فرد قوم کا پہلا فرض ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ اس تمدنی مقصد کو پورا کرے جو قوم نے اس کے ذمے دے رکھا ہے اور اس بات کو سمجھ جائے کہ اس کا عروج و زوال حقیقت میں قوم کا عروج و زوال ہے۔یہی ہے وہ محنت جس کا نام عبادت رکھا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک فارسی شاعر کہتا ہے جزبہ محنت نشود پا بہ رہ عشق رواں اشکِ من خونِ جگر خورد و دیدن آموخت دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے فرد کے تمام افعال و حرکات حقیقت میں قومی افعال و حرکات ہیں۔ یہاں تک کہ اُس کی زندگی بھی اُس کی اپنی نہیں ہے بلکہ قوم کی ملکیت ہے۔ خودکشی کیوں جرم قرار دی گئی ہے؟ بادی النظر میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی کا اقدام کرنے والے کو سزا دینا ظلم ہے مگر یہ ایک سطحی خیال ہے۔ قانون نے اس بات کو اصولاً تسلیم کر لیا ہے کہ فرد کی زندگی حقیقت میں قوم کی زندگی ہے اور خودکشی کرنے والا اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں اس تمدنی قوت کو معدوم کرنا چاہتا ہے جس کا وہ بحیثیت فردِ قوم ہونے کے ایک مظہر ہے۔ اگر ہم جاپان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں اور موجودہ وقت میں یہی ملک ہمارے واسطے بہترین نمونہ ہے تو اس وقت ہمیں دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے یعنی اصلاح تمدن اور تعلیم عام۔ مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوال ہے کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہبِ اسلام کی عملی صورت کا نام ہے اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصولِ مذہب سے جدا ہو سکتا ہو۔ میرا یہ منصب نہیں کہ میں اس اہم مسئلے پر مذہبی اعتبار سے گفتگو کروں تاہم میں اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالاتِ زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب آ جانے کی وجہ سے بعض ایسی تمدنی ضروریات پیدا ہو گئی ہیں کہ فقہا کے استدلالات جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعتِ اسلامی کہا جاتا ہے ایک نظر ثانی کے محتاج ہیں۔ میرا یہ عندیہ نہیں کہ مسلماتِ مذہب میں کوئی اندرونی نقص ہے جس کے سبب سے وہ ہماری موجودہ تمدنی ضروریات پر حاوی نہیں ہیں۔ بلکہ میرا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف اور احادیث کے وسیع اصول کی بنا پر جو استدلال فقہا نے وقتاً فوقتاً کیے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص زمانوں کے لیے واقعی مناسب اور قابلِ عمل تھے مگر حال کی ضروریات پر کافی طور پر حاوی نہیں ہیں۔ اگرچہ شیعہ مفسروں نے بعض بعض اصول کی تشریح میں ایک حیرت ناک وسعت نظر سے کام لیا ہے تاہم جہاں تک میرا علم ہے شریعتِ اسلامی کی جو توضیح جناب ابو حنیفہ نے کی ہے ویسی کسی اسلامی مفسر نے آج تک نہیں کی۔ اگر مذہب ِاسلام کے رُو سے مجسموں کے ذریعے بڑے بڑے علما اور حکما کی یادگاریں قایم رکھنے کا دستور جائز ہوتا تو یہ عظیم الشان فقیہہ اس عزت کا سب سے پہلا حق دار تھا۔ دینی خدمت کے اس حصے یعنی فلسفۂ شریعت کی تفسیر و توضیح میں جناب امیر المومنین جناب علی کے بعد جو کچھ اس فلسفی امام نے سکھایا ہے قوم اُسے کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ لیکن اگر موجودہ حالاتِ زندگی پر غور و فکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تفسیر کے لیے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسی طرح قانونِ اسلامی کی جدید تفسیر کے لیے ایک بہت بڑے فقیہہ کی ضرورت ہے۔ جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلماتِ کی بنا پر قانونِ اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب و منظم کر سکے بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اسلامی دنیا میں اب تک کوئی ایسا عالی دماغ مقنن پیدا نہیں ہوا اور اگر اس کام کی اہمیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام شاید ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے کم از کم ایک صدی کی ضرورت ہے۔ یہ بحث بڑی دلچسپ ہے مگر چونکہ قوم ابھی ٹھنڈے دل سے اس قسم کی باتیں سننے کی عادی نہیں ہے اس واسطے مجبوراً نظرانداز کرتا ہوں۔ ؎ نیست جرأت بعرضِ حال مرا گلہ مندم زبے زبانیہا اننت رام مخلص سودہروی باوجود اس بات کے کہ میں چند خاص تمدنی ضروریات کی طرف ناظرین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان پر غور کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اصلاح تمدن کے ضمن میں سب سے زیادہ نازک مسئلہ حقوقِ نسواں کا ہے جس کے ساتھ چند اور ضروری مسائل مثلاً تعددِ ازواج، پردہ، تعلیم وغیرہ وابستہ ہیں۔ مغربی علما نے حقوقِ نسواں کے متعلق مذہبِ اسلام پر بعض بعض بڑے بیجا اعتراض کیے ہیں۔ لیکن یہ اعتراض حقیقت میں مذہبِ اسلام پر نہیں ہیں جیسا کہ ان علمأ نے خیال کیا ہے۔ بلکہ ان کی آماجگاہ وہ استدلالات ہیں جو فقہائے اسلام نے کلامِ الٰہی کے وسیع اصولوں سے کیے ہیں اور جن کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے کہ فردی اجتہادات مذہب کے کوئی ضروری اجزا نہیں ہیں۔ ان تمام اعتراضات کا مقصد و مدعا یہی ہے کہ اصول مذہب اسلام کے رُو سے عورتوں کی حیثیت محض غلامانہ ہے لیکن ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ جس نبی نے نوعِ انسانی کے ایک بہت بڑے گروہ یعنی غلاموں کو حقوق کے رُو سے آقاؤں کے مساوی کر دیا۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہی نبی نوعِ انسانی کے ایک نہایت ضروری حصے کو جس کو اُس نے اپنی تین محبوب ترین اشیأ میں شامل کیا ہے۔ غلاموں کی صورت میں منتقل کر دیتا۔ مسلمانوں کا موجودہ طریق عمل زیادہ تر فقہائے قدیم کے ذاتی استدلالات پر مبنی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ استدلالات ترمیم طلب ہیں اور کون کہہ سکتا ہے کہ اِن استدلالات میں موجودہ حالات کے رُو سے ترمیم کرنا گناہ ہے بشرطیکہ یہ ترمیم اصولِ مذہب کے مخالف نہ ہو۔ عمومیات کو چھوڑ کر اگر خصوصیات پر نظر کی جائے تو عورتوں کی تعلیم سب سے زیادہ توجہ کی محتاج ہے۔ عورت حقیقت میں تمام تمدن کی جڑ ہے۔ ’’ماں‘‘ اور ’’بیوی‘‘ دو ایسے پیارے لفظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں مستتر ہیں۔ اگر ماں کی محبت میں حب وطن اور حب قوم پوشیدہ ہے جس میں سے تمام تمدنی نیکیاں بطور نتیجے کے پیدا ہوتی ہیں تو بیوی کی محبت اُس سوز کا آغاز ہے جس کو عشقِ الٰہی کہتے ہیں۔ پس ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ تمدن کی جڑ کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم صرف ایک فردِ واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔ لیکن اس ضمن میں ایک غورطلب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مشرقی عورتوں کو مغربی طریق کے مطابق تعلیم دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے ان کے وہ شریفانہ اطوار جو مشرقی دل و دماغ کے ساتھ خاص ہیں قائم رہیں۔ میں نے اس سوال پر غور و فکر کیا ہے مگر چونکہ اب تک کسی قابل عمل نتیجے پر نہیں پہنچا اس واسطے فی الحال میں اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ تعدّدِ ازواج کا دستور بھی اصلاح طلب ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کا جائز قرار دیا جانا ایک دقیق روحانی وجہ پر مبنی تھا اور علاوہ اس کے ابتدائی اسلام میں اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اس کی ضرورت بھی تھی۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں موجودہ مسلمانوں کو فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ حالت میں اس پر زور دینا قوم کے اقتصادی حالات سے غافل رہنا ہے۔ اور امرائے قوم کے ہاتھ میں زنا کا ایک شرعی بہانہ دینا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے ضمن میں پردے کا سوال بھی غورطلب ہے کیونکہ کچھ عرصے سے اس پر بڑی بحث ہو رہی ہے۔ بعض مسلمان جو مغربی تہذیب سے بہت متاثر ہو گئے ہیں اس دستور کے سخت مخالف ہیں۔ اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں اور نیز حال کے دیگر اسلامی ممالک میں پردے کی یہ صورت نہیں ہے جو آج کل ہندوستان میں ہے۔ لیکن اگر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں پردے پر سخت زور دیا جانا اخلاقی وجوہ پر مبنی تھا۔ چونکہ اقوامِ ہندوستان نے اخلاقی لحاظ سے کچھ بہت ترقی نہیں کی۔ اِس واسطے اِس دستور کو یک قلم موقوف کر دینا میری رائے میں قوم کے لیے نہایت مضر ہو گا۔ ہاں اگر قوم کی اخلاقی حالت پھر ایسی ہو جائے جیسی کہ ابتدائے زمانۂ اسلام میں تھی۔ تو اس کے زور کو بہت کم کیا جا سکتا ہے اور قوم کی عورتوں کو آزادی سے افرادِ قوم کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرنے کی عام اجازت ہو سکتی ہے۔ ان تمام اصلاحوں کے علاوہ شادی کی بعض قبیح رسوم قوم کی توجہ کی محتاج ہیں۔ نارضامندی کی شادیاں مسلمانوں میں عام ہو رہی ہیں۔ جن کی وجہ سے ۹۹ فیصد اسلامی گھروں میں اس بات کا رونا رہتا ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں نہیں بنتی۔ منگنی کا دستور نہایت مفید ہو سکتا ہے بشرطیکہ شادی سے پہلے میاں بیوی کو اپنے بزرگوں کے سامنے ملنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کی عادات اور مزاج کا مطالعہ کر سکیں اور اگر اُن کے مذاق قدرتاً مختلف واقع ہوئے ہیں۔ تو منگنی کا معاہدہ فریقین کی خواہش سے ٹوٹ سکے۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ دستور کے مطابق فا انکحوا ما طاب لکم من النسائِ پر پورا عمل نہیں ہو سکتا۔ لڑکا خواہ منگنی سے پہلے اپنے سسرال کے گھر میں جاتا ہی ہو منگنی کے بعد تو اس کو اس گھر سے ایسی ہی پرہیز کرنی ہوتی ہے جیسے ایک متقی کو میخانے سے۔ افغانوں میں منگنی کے بعد میاں بیوی کو آپس میں ملنے کی عام اجازت ہوتی ہے۔ لیکن یہ مغلیہ دستور اسلامی نہیں ہے بلکہ اسرائیلی ہے اور پٹھانوں کے اسرائیلی الاصل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس دستور میں بہت سی قباحتیں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ منگنی کے بعد سے شادی کے زمانے تک بعض مسلمان ذاتوں میں بہت سا روپیہ فضول طور پر خرچ ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے روز کی خانہ جنگیاں اور شکوے شکایت ہوا کرتے ہیں۔ جن سے جانبین میں ابتدا ہی سے بدمزگی پیدا ہو جاتی ہے اور ان کے نتائج سے میاں بیوی کی آیندہ زندگی بسا اوقات نہایت تلخ ہو جاتی ہے۔ تاہم اگر اس کی اصلاح کر دی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور نہایت مفید ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں مغربی دستور کورٹ شپ کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور اس کے نقائص معدوم۔ منجملہ اور قومی امراض کے ایک بے جا نام کی خواہش کا مرض ہے جو عام طور پر ہمارا دامن گیر ہے۔ مجھے اس وقت ایک معنی خیز لطیفہ یاد آیا جس کو بیان کرنے سے رک نہیں سکتا۔ ہمارے سیالکوٹ کے قریب تحصیل وزیر آباد میں ایک بزرگ کیسر شاہ نام کے رہا کرتے تھے۔ رندانہ طریق کے ایک صاحب کرامت درویش تھے اور مراقبہ و وحدت الوجود سے انھیں خصوصیت تھ۔ قرب و جوار کے تمام معززین ہندو اور مسلمان ان کے حلقہ مریدین میں شامل تھے۔ ایک رز کا ذکر ہے کہ ایک دیوان صاحب جو ان کے معتقد تھے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی سے فارغ ہو کر حضرت کی زیارت کو آئے اور اپنے نام و نمود کا نقشہ اتارنا شروع کیا۔ وہ بزرگ ان کے اخراجات کی طویل فہرست خاموشی سے سن رہے تھے کہ ایک درویش سائیں نے صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت کھانا تیار ہے۔ سائیں صاحب نے پوچھا: ’’بھائی نری خشک روٹی ہے کہ ساتھ کوئی سالن بھی ہے؟‘‘ درویش نے عرض کیا: ’’حضرت اس وقت سالن موجود نہیں۔‘‘ حضرت نے دیوان صاحب سے فرمایا: ’’ذرا بازار سے جا کر ایک مولی تو لے آؤ ہمیں یہی سالن کا کام دے دے گی۔‘‘ اتفاقاً دیوان صاحب کی جیب میں اس وقت کوئی پیسہ موجود نہیں تھا۔ ذرا کھسیانے ہوئے اور سائیں صاحب کے سامنے جو چند کوڑیاں رکھی تھیں انھیں دیکھ کر بولے: ’’حضرت یہ کوڑیاں دلوائیے، میرے پاس اس وقت کچھ نہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’بیٹے کی شادی پر تم نے جو نام و نمود حاصل کیا ہے وہ دے کر ایک مولی لے آؤ۔‘‘ دیوان صاحب مسکرائے اور کہنے لگے: ’’حضرت بھلا نام و نمود کے عوض بھی کوئی کھانے پینے کی چیز ہاتھ آ سکتی ہے؟‘‘ سائیں صاحب نے اپنے معمولی ظریفانہ طریق میں فرمایا: ’’بھائی جس نام و نمود کی قیمت ایک مولی بھی نہیں پڑتی اس کے حصول سے فائدہ ہی کیا؟‘‘ دیوان صاحب نہایت خفیف ہوئے اور آیندہ کے لیے اپنی حرکات سے توبہ کی۔ اصلاح تمدن کے بعد ہماری دوسری ضرورت تعلیم عام ہے۔ مسلمانوں نے بالعموم یہ سمجھا ہے کہ تعلیم کا منشا و مقصد زیادہ تر دماغی تربیت ہے اور جو تعلیمی کام آج تک ہمارے اہل الرائے نے کیا ہے، اس کی بنا اسی خیال پر رہی ہے۔ مگر میں نے جہاں تک اس مسئلہ پر غور و فکر کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کا اصل مقصد نوجوانوں میں ایسی قابلیت پیدا کرنا ہے جس سے ان میں باحسن وجوہ اپنے تمدنی فرائض کے ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ میری مراد یہ نہیں کہ جو دماغ قدرتی طور پر علمی تحقیقات کی اصلی صورتوں کی طرف میلان رکھتے ہیں ان کے نمو کو روک دے۔ بلکہ میرا مدعا یہ ہے کہ مجموعی حیثیت میں قومی تعلیم کی بنیاد ان ضرورتوں پر ہونی چاہیے جو انقلاب حالات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوں۔ انگلستان ایک تجارتی قوم ہے۔ نپولین ہمیشہ اس قوم کو دکاندارں کی قوم کہا کرتا تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تاریخی لحاظ سے یہ بات نپولین کے زمانے میں اس قدر صحیح نہ تھی جس قدر کہ اب ہے۔ یہ ملک اپنی خوراک کے چار حصے اور قریباً قریباً تمام مصالحہ خام غیر ممالک سے حاصل کرتا ہے۔ اور ہر دو صورتوں میں قیمت کے عوض غیر ممالک کو اپنی مصنوعات دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ انگلستان ایک بہت بڑی دکان ہے جس سے تمام دنیا کی قومیں اپنی ضروریات کی چیزیں خرید کرتی ہیں۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ انگلستان کو زیدہ تر ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس کے تجارتی کاروبار کو سرانجام دے سکیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ایسے ملک مین تعلیم کا مدعا زیدہ تر تجارتی قابلیت پیدا کرنا ہے۔ اور اگر واقعات کی رو سے دیکھا جائے تو انگلستان نے اپنی قومی تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس وقت قومی زندگی کی شرائط میں جو حیرت ناک انقلاب آیا ہے، میری رائے میں اس کی سب سے بری خصوصیت صنعت و تجارت ہے۔ ایشیائی قوموں سے جاپانیوں نے سب سے پہلے اس تغیر کے مفہوم کو سمجھا اور اپنے ملک کی صنعت کو ترقی دینے میں ایسی سرگرمی سے مصروف ہوئے کہ آج یہ لوگ دنیا کی مہذب اقوام میں شمار ہوتے ہیں۔ اس امتیاز کی وجہ یہ نہیں کہ جاپانیوں میں بڑے بڑے فلسفی یا شاعر و ادیب پیدا ہوئے ہیں، بلکہ جاپانی عظمت کا دار و مدار جاپانی صنعت پر ہے۔ وہ مصافِ زندگی جو آج کل اقوام عالم میں شروع ہے اور جس کے نتائج بعض اقوام کی صورت میں یقینا نہایت خطرناک ہوں گے، ایک ایسی جنگ ہے جس کو مسلح سپاہیوں کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے سپاہی وہ ہنرمند دست کار ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے ملک کے کارخانوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں اگر کسی قوم کی قوت کا اندازہ کرنا مطلوب ہو تو اس قوم کی توپوں اور بندوقوں کا معاینہ نہ کرو بلکہ اس کے کارخانوں میں جاؤ اور دیکھو کہ وہ قوم کہاں تک غیر قوموں کی محتاج ہے اور کہاں تک اپنی ضروریات کو اپنی محنت سے حاصل کرتی ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے۔ واقعات کی رو سے یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقینا ذلیل و خوار ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ صفحہ ہستی پر اس کا نام و نشان بھی نہ رہے گا لیکن افسوس کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں۔ میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتا ہوں اور اگر میرے دل کی پوچھو تو سچ کہتا ہوں کہ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے ہاتھ جو تیشے کے متواتر استعمال سے کھردرے ہو گئے ہیں، ان نرم نرم ہاتھوں کی نسبت بدرجہا خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس مضمون کے متعلق تاثرات کا جو ہجوم میرے دل میں ہے اسے الفاظ ظاہر نہیں کر سکتا اور یقینا ان ٹوٹی پھوٹی سطور سے میرے مانی الضمیر کا پورا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ از اشک مپر سید کہ در دل چہ خروش است ایں قطرہ ز دریا چہ خبر داشتہ باشد ۱۴ اُنہی دنوں داغ کا مرثیہ لکھا: چل بسا داغ، آہ میّت اُس کی زیبِ دوش ہے آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے۱۲ اس شعر میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔ نظم میں ۴، ۹، ۶ اور ۸ شعر کے چار بند تھے۔ ۱۵ شاطر مدراسی نے ایک اور خط لکھا جس کا جواب اقبال نے ۱۶ مارچ کو تحریر کیا، ’’آپ کی صفائیِ زبان آپ کے ہموطنوں کے لیے باعث ِ افتخار ہے۔ میرا تو خیال تھا کہ آپ ہندوستان کے رہنے والے ہوں گے مگر یہ معلوم کر کے کہ آپ کی پرورش بچپن سے مدراس میں ہوئی ہے مجھے بھی تعجب ہوا۔ ‘‘ حالی نے شاطر کا وہ شعر پسند کیا تھا جو تاریخ میں خدا کا ہاتھ دیکھنے کی طرف مائل کرتا مگر اقبال نے وہ پسند کیا جو باطن کی کیفیات میں خدا کی شان دکھاتا تھا: ہم خدائی کرتے ہیں تیری بدولت اے خیال ایک کُن سے ہوتے ہیں عالم ہزاروں آشکار ’’جن صاحب کو آپ کا قصیدہ ازبر ہے اُن کا نام پنڈت چھجو رام وکیل ہے۔ باقی خیریت ہے۔‘‘ اُسی روز انجمن حمایت اسلام کی جنرل کمیٹی کے اجلاس میں انجمن کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لیے پانچ ارکان کی سب کمیٹی بنائی گئی۔ اقبال اجلاس میں نہ تھے مگر رکن منتخب ہوئے۔۱۳ ۱۸ مارچ کو انجمن کی جنرل کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ قواعد میں ترمیم اور اضافے کے لیے سب کمیٹی بنی۔ اقبال پانچ اراکین میں سے تھے۔۱۴ ۱۶ مراکش نے مسیحی طاقتوں سے ہمیشہ دوستی نبھائی تھی مگر فرانس قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ برطانیہ سے امید تھی کہ اپنے مفادات کی خاطر ہی فرانس کو روکے مگر پچھلے برس اُس نے بھی فرانس سے دوستانہ سمجھوتہ کر لیاتھا۔ ۳۱ مارچ کو جرمن بادشاہ قیصر ولیم مراکش کے دورے پرآئے۔ مراکش کی آزادی کی زبردست حمایت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یورپ میں سنسنی پھیل گئی۔ ۱۷ اپریل کیمخزن میں ص۴۵-۴۴ پراقبال کا لکھا ہوا داغؔ کا مرثیہ شائع ہوا۔ ۱۸ ۴ اپریل کوکانگڑہ میں ایسا زلزلہ آیاجس کی تباہ کاری اُس نسل کے لوگوں کو ہمیشہ یاد رہی۔ لاہور تک سب نے محسوس کیا مگر اقبال آرام کرسی میں بیٹھے کوئی کتاب پڑھنے میں مگن رہے۔ ایک بار سر اُٹھا کر علی بخش کی طرف دیکھا جو بے چینی سے اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔ ’’جاؤ، سیڑھیوں کے نیچے کھڑے ہو جاؤ،‘‘ اُنہوں نے کہا اور دوبارہ گم ہو گئے۔مطالعے سے فراغت پائی تو جھٹکے ختم ہو چکے تھے۔ اتفاق سے مکان سلامت رہا تھا۔ باہر نکلے تو دیکھا شیخ عبدلقادر کا مکان گر چکا تھا۔ واپس آئے اور کاغذ قلم اٹھا کر عبدالقادر کو خط لکھنے بیٹھ گئے جو لندن میں تھے۔ سیالکوٹ میں شیخ نور محمد نے زلزلے سے ایک گھنٹہ پہلیخیال ظاہر کر دیا تھا کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ بعد میں پوچھنے پر کہا کہ ایک خاص کیفیت محسوس ہوئی تھی جس سے اندازہ یہی تھا۔۱۵ ۱۹ لاہور میں ایک مرزاخاندان تھا۔ مغل زمانے میں تاریخی عمارتیںاِسی کی تحویل میں ہوا کرتی تھیں۔ انگریزوں نے عمارتوں کو تحویل میں لیا تو اِنہوں نے مقبرۂ جہانگیر کی بازیابی کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ پریوی کورٹ تک چلا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ مقبرے کی بجائے کچھ اور زمینیں انہیں دی جائیں۔ مرزا خاندان کو جہانگیر سے ایسی عقیدت تھی کہ اپنے خرچ پر ہر سال اُس کا عرس مناتے رہے جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔ مرزاجلال الدین اسی خاندان کے نوجوان اور شیخ عبدالقادر کے دوستوں میں سے تھے۔ انہی دنوں لندن سے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کر کے آئے تھے ۔ ریلوے روڈ اور چیمبرلین روڈ کے چوک میں دفتر لیا تھا جہاں سے مولوی ممتاز علی کا دارُالاشاعت قریب تھا۔ اقبال ایک روز مولوی ممتاز علی کے حوالے سے مرزا جلال سے ملنے گئے۔ ’’چھدری مونچھیں، الجھے ہوئے ابرو اور چہرے پر بشاشت،‘‘ مرزا جلال الدین نے بعد میں اقبال کا حلیہ یاد کیا۔ آنکھوں سے لگتا تھا کہ اُن دنوں خوش ہیں۔ عبدلقادر پہلے ہی مرزا جلال سے اقبال کا تذکرہ کر چکے تھے اور اُن کی نظمیں بھی پڑھوائی تھیں جن سے یہ متاثر ہوئے تھے۔ اچھی طرح پیش آئے۔ ’’میں انگلستان کی زندگی کے متعلق اُس قسم کے افسانے سناتا رہا جو ہمارے نوجوان اُس ملک سے لَوٹنے پر اپنی فتوحات کے سلسلے میں سنایا کرتے ہیں،‘‘ مرزا جلال کا بیان ہے۔ فتوحات عموماً سفید فام خواتین کو جیتنے سے متعلق ہوتی تھیں۔اقبال نے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ پھر ملیں گے۔ ۲۰ غزل مجنوں نے شہر چھوڑا تُو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے واعظ! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد دُنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے اچھا ہے دِل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے مخزن، مئی ۱۹۰۵ء غزل میں چودہ اشعار تھے۔بعد میں کبھی ’’مینارِ دل‘‘ والا شعر غزل سے نکال دیا۔ ۲۱ کانپور کے محب ِ وطن دیانرائن نگم کے اخبارزمانہ میں مئی میں علم الاقتصاد پر تبصرہ شائع ہوا: اب چونکہ ہندوستان نے بھی گوشۂ تنہائی سے نکل کر کشاکش ِ حیات کے میدان میں قدم رکھا ہے جہاں اس کو اپنی قومی زندگی کی حفاظت کے لیے ایسی اقوام سے مقابلہ کرنا ہے جو۔۔۔ تجارتی اور حرفتی اسلحے سے پوری طرح آراستہ ہیں اس لیے ہمارے اہلِ وطن کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ علمِ دولت کے اصولوں سے ماہر ہو کر اپنے کو ان کے مقابلے کے قابل بنائیں۔ شیخ محمد اقبال صاحب نے بھی اس ضرورت کا ذکر اپنے دیباچے میں کیا ہے۔ تبصرہ نگار نے لکھا کہ اُن کی معلومات کے مطابق ایک دو ترجموں کو چھوڑ کر یہ اُردو میں اس موضوع پر پہلی کتاب تھی۔ یہ بات درست نہ تھی کیونکہ کم سے کم چھ اُردو کتابیں اِس سے پہلے آ چکی تھیں۔ ’’مگر جس صراحت کے ساتھ علم سیاست ِ مدن کے ہر پہلو پر شیخ محمد اقبال صاحب نے اس کتاب میں بحث کی ہے اور جس عمدگی کے ساتھ اُنہوں نے مضامین کو ترتیب دیا ہے وہ دوسرے نامکمل نسخوں میں نظر نہیں آتی۔۔۔‘‘ یہ درست رہا ہو گا۔ ہندوستانی تاجروں کے مفادات کی حفاظت کے لیے اقبال نے جو رائے پیش کی اُس میں وہ تبصرہ نگار کو مرحوم راناڈے اور مسٹر جی سلبرمینا آئر کے ہمزبان دکھائی دیے یعنی اگر برطانوی حکومت غیرملکی اشیا ٔ پر زیادہ ٹیکس لگاتی تو مقامی تاجروں کو اپنی چیزیں زیادہ بیچنے کا موقع ملتا اور ہندوستان محض خام مال کا گودام بننے کی بجائے ایک صنعتی ملک کے طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا۔ تبصرہ نگار کواختلاف تھا۔ حکومت ِ برطانیہ سے توقع نہ تھی کہ کبھی ایسا قانون بنائے۔ دَت کی تاریخ سے پچھلے سو برس میں ہندوستانی تجارت کے ساتھ انگریزوں کی ناانصافی کا حال معلوم ہوتا تھا۔ ’’ایسی حالت میں کیا ہندوستانیوں کا فرض نہیں ہے کہ جہاں تک ان سے ممکن ہو اپنی حرفت کی محافظت آپ کریں؟‘‘ اشارہ سودیشی تحریک کی طرف تھا۔ جس کے رضاکار بنگال میں دکانوں پر حملہ کر کے غیرملکی اشیا ٔ خاص طور پر غیرملکی کپڑے کو آگ لگا رہے تھے۔ پچھلے برس تقسیم ِ بنگال کی تجویز کے جواب میں یہ کاروائی شروع ہوئی مگر غیرملکی کپڑا بیچنے والے تاجر زیادہ تر مسلمان تھے۔ سودیشی تحریک کے کارکن عام طور پر ہندو ہوتے۔ مسلمانوں میں پریشانی کی لہر پھیل رہی تھی۔ تبصرہ نگار کو یہ شکایت بھی تھی کہ اقبال نے کرنسی کے ایکسچینج کے لیے سونے کے سکے کو معیاربنانے پر اطمینان کا اظہار کیامگر ایکسچینج کے قانون کا منفی پہلو پیش نہ کیا۔ اگر حکومت ایک پونڈ کی قیمت پندرہ روپے مقررنہ کرتی ’’تو شاید اس وقت بڑھتے بڑھتے اس کی قیمت سترہ یا اٹھارہ روپے تک پہنچ گئی ہوتی اور ہندوستانی کاشتکار کو ایک من گیہوں کے عوض پندرہ کے بجائے سترہ یا اٹھارہ روپے ملتے۔‘‘ تعجب ہوا کہ اقبال اس بات کے قائل نہ تھے کہ اگر زرعی ٹیکس مستقل طور پر مقرر ہو جائے اور اس کے بڑھنے کا خوف نہ رہے تو لوگ قحط کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ تبصرہ نگار کا خیال تھا: ہر بیس یا تیس برس کے بعد اگر اضافہ مالگزاری نہ ہوا کرے تو زمیندار و کاشتکار کا وہ افلاس جس میں وہ مالگزاری کی سختی کی وجہ سے آئے دن گرفتار رہتے ہیں کچھ ضرور کم ہو جائے گا۔ ہندوستان کا قحط غلے کا قحط نہیں ہوتا بلکہ روپے کا قحط ہوتا ہے۔ عوام افلاس کی عالمگیر بلا میں ایسے مبتلا ہیں کہ ان کے پاس اتنا اندوختہ بھی نہیں کہ وہ ایک سال کی گرانی اُس کی مدد سے جھیل سکیں۔۔۔ ہندوستان میں غیرقوم کی حکومت ہونے کی وجہ سے اقتصادی اصول اپنا اثر آزادی کے ساتھ نہیں پیدا کر سکتے۔ تعلیمی مسائل کی طرح اقتصادی مسائل پر بھی ہمارے ملک میں پولیٹکل رنگ چڑھتا جا تا ہے اور اقتصادی ترقی کے راستے میں بیسیوں پولیٹکل رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اِسی وجہ سے تو ہندوستان کی برٹش گورنمنٹ کے سایۂ عاطفت میں رہ کر پولیٹکل آزادی کی سخت ضرورت ہے۔۱۶ ۲۲ ۲۷ مئی تھی۔ کوریا کے جنوب میں سمندری دُھند میں سے روس کے جنگی بحری جہاز برآمد ہوئے۔ یورپ اور افریقہ کے گرد چکر کاٹ کر آ رہے تھے۔ اب قیامت ٹوٹ پڑی۔ جاپانی بیڑا تاک لگائے بیٹھا تھا۔ رُوس کے پینتیس جنگی جہازوں میں سے صرف تین چھوٹے جہاز بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ بقیہ تباہ ہو کر ڈوبے، بیکار ہوئے یا جاپان کے قبضے میں گئے۔ آدھی رات کے بعد روسی ایڈمرل نے ہتھیار ڈال دیے۔ اُس کے نو ہزار چھو سو افراد کے عملے میں سے نصف ہلاک ہو گئے تھے جبکہ جاپانیوں کے صرف ایک سو سترہ ملاح اور تین تارپیڈو کشتیاں کام آئی تھیں۔ اتنی بڑی بحری جنگ پہلے کبھی نہ لڑی گئی تھی۔ایشیا ئی ملکوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ روس مغربی سلطنت تھی اور جاپان چھوٹا سا مشرقی ملک۔ ثابت ہوا کہ مغرب کو شکست دی جا سکتی تھی۔ ۲۳ واعظ ترے فلسفے سے ہوں میں حیراں منطق ہے تری نئی، نیا اندازِ بیاں انسان کے واسطے ہے مذہب، لیکن تُو کہتا ہے، مذہب کے لیے ہے انساں زمانہ (کانپور)، جون ۱۹۰۵ء یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ زمانہ میں اُس مہینے اقبال کی مختصر نظم ’ابر‘ بھی شائع ہوئی۔ اُس سے مختلف تھی جو پچھلے برس اِسی عنوان سے مخزن میں چھپی تھی۔۱۷ طالب بنارسی مشہور ڈرامہ نویس تھے۔ بمبئی کی وکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی اِن کے ڈرامے پیش کرتی تھی۔مخزن میں اُس ماہ اُن کی نظم ’ماں کی مامتا‘ یا ’خوابِ محبت‘ شائع ہوئی۔ ولیم بارنس کی اُسی نظم سے ماخوذ تھی جس سے متاثر ہو کر چند برس پہلے قصور کے ایک شاعر نے ’ماں کا خواب‘ مخزن میں شائع کروائی تھی۔ اقبال بھی اِسی موضوع پر لکھ چکے تھے یا آیندہ لکھنے والے تھے۔ ۲۴ داغ کے شاگرد احسن مارہروی جن سے مدت پہلے اقبال نے داغ کی تصویرکی فرمایش کی تھی اب لاہور آ چکے تھے اور مطبع مفید عام میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔اقبال سے ملاقات ہوئی ہو گی مگر تفصیل معلوم نہیں۔۱۸ ۲۵ ۱۹ جون کو حکومت نے تقسیم ِ بنگال کا حتمی اعلان کر دیا۔انتہا پسند ہندوؤں کاغصہ انگریز حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر بھی نکل رہا تھا۔ ۲۶ اقبال کوولیم کوپر کی نظم یاد آگئی جس میں ایک بلبل کسی جگنو کو دیکھ کر اُسے کھانے دوڑا تھا: So, stepping down from hawthorn top He thought to put him in his crop. The worm, aware of his intent, Harangued him thus, right eloquent: اقبال کے ترجمے میں جگنو نے بلبل سے کہا: ’’تجھے جس نے چہک، گل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی ۔۔۔ چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اِسی سے ہے بہار اِس بوستاں کی‘‘ مخزن، جولائی ۱۹۰۵ئ، ص۵۲ نظم کا عنوان ’ایک پرندہ اور جگنو ‘ تھا ۔ بارہ اشعار تھے۔شمارے میں علم الاقتصاد کا اشتہار بھی شائع ہوا۔ علم الاقتصاد یا سیاست مدن (مصنفہ) شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔اے جس میں علم الاقتصاد کے دقیق اصول کی توضیح کے ساتھ ساتھ مصنف نے ہندوستان کے موجودہ تمدنی اخلاقی اور اقتصادی حالات کی طرف لطیف اشارات کیے ہیں۔ جن سے پڑھنے والے کی نظر وسیع ہوتی ہے اور اس کو مسائل اقتصاد پر آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے کی تحریک ہوتی ہے۔ منگا کر دیکھیے (عہ کو مخزن ایجنسی لاہور سے ملتی ہے) محصولڈاک علاوہ۔ اسی شمارے میں اکبر الٰہ آبادی کا کلام شائع ہواجو اقبال کو حسبِ حال معلوم ہوا ہو گا: سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے بتانِ مغربی سے ہیں تعارف کی تمنائیں میں دیکھوں گا انہیں اور وہ مرا ایمان دیکھیں گے ایک نظم میں اقبال کی ’پرندے کی فریاد‘ اور ’سرگذشتِ آدم‘ کا امتزاج دکھائی دے رہا تھا۔ آٹھ آٹھ اشعار کے تین بند، عنوان ’عہدِ عتیق‘ اور شاعر کا نام اسلم جیراج پوری تھا: یارب کہاں ہے اب وہ گذرا ہوا زمانا دنیا میں جبکہ پہلے، اپنا ہوا تھا آنا آدم کی گودیوں میں پلتے تھے ناز سے ہم لے دے کے تھا جہاں میں اپنا ہی اِک گھرانا ۲۸ یورپ روانگی کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ کالج میں طویل رخصت بلا تنخواہ کی درخواست دے چکے تھے جو غالباً گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے منظور ہو گئی۔ شاید زندگی میںپہلی دفعہ انگریزی سوٹ اور ہیٹ خریدا۔ علی بخش سے کہا کہ وہ ہنگو جا کر اُن کے بھائی کے پاس ملازم ہو جائے، ولایت سے واپس آ کریہ اُسے بلا لیں گے۔ مکان چھوڑ دیا، ستارکسی دوست کے حوالے کیااورخود گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے سیالکوٹ چلے گئے۔ باب ۲ شمع کے سامنے اگست ۱۹۰۵ء ۱ بتیس برس پہلے سر سید نے ’گزرا ہوا زمانہ‘والا خواب دکھا کر نئی نسل کو ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ یہی تلاش اقبال کو عبدالکریم الجیلی کے رسالے پرتحقیق کی طرف لے گئی تھی جو اَب پھیل کر پی ایچ ڈی بننے والا تھا۔۱ ۲ شیخ عطا محمد کے بیوی بچے سیالکوٹ ہی میں تھے۔ سب سے چھوٹا لڑکا مختار کم سن تھا۔ گھنٹوں شمع کی جانب دیکھتا رہتا ۔ کبھی اُچھل کر اُس کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش بھی کرتا۔ عطا محمد تو کسی اور طرح خبر لیتے ہوں گے مگر اقبال اُسے گود میں بٹھا کر لیمپ یا شمع دان سامنے رکھ دیتے اور بڑی دلچسپی سے اُسے دیکھتے رہتے۔۲ بچہ اور شمع کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خو شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جنبش ہے کیا؟ روشنی سے کیا بغل گیری ہے تیرا مدعا؟ اِس نظارے سے ترا ننھا سا دل حیران ہے یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے شمع اِک شعلہ ہے لیکن تُو سراپا نُور ہے آہ! اِس محفل میں یہ عریاں ہے تُو مستور ہے دستِ قدرت نے اِسے، کیا جانے، کیوں عریاں کیا تجھ کو خاکِ تِیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا نُور تیرا چھُپ گیا زیرِ نقابِ آگہی ہے غبارِ دیدۂ بینا حجابِ آگہی زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بیہوشی ہے یہ محفلِ قدرت ہے اِک دریائے بے پایانِ حُسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن حُسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مِہر کی ضَوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت، شفق کی گل فروشی میں ہے یہ عظمتِ دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلکِ ناآشنا کی کوششِ گفتار میں ساکنانِ صحنِ گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے چشمۂ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن رُوح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اِس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس؟ حُسن کے اِس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے زندگی اِس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے۳ بعد میں ایک شعر میں لفظی ترمیم کے سوا اس نظم میں کبھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ۳ ’’میری والدہ کو دردِ گردہ اِس شدت سے ہوتا تھا کہ ہمیں ان کی موت سامنے نظر آیا کرتی تھی،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’ ایک دفعہ وہ دردِ گردہ سے بیہوش پڑی تھیں ، رات کا وقت تھا کہ حکیم نورالدین صاحب قادیانی نے آ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حکیم صاحب نے جو ہیجان دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ ہم نے صورتِ حال بیان کی۔ حکیم صاحب نے کہا میں بھی ذرا دیکھوں۔۔۔‘‘ حکیم نورالدین نے امام بی بی کی ایڑی کے قریب کسی رگ کو دبایا تو اُنہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ حکیم صاحب نے کہا، ’’اب رات کا وقت ہے، اِس وقت تو سینک کر و، صبح باقاعدہ علاج ہو گا۔‘‘ صبح ہوئی تو حکیم صاحب نے چوزہ تجویز کیا اور کہا کہ اس کا شوربہ پئیں اور گوشت کھائیں۔۴ ۴ سید میر حسن کی عادات میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ مرحوم بہن سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے ہر صبح اُس کی قبر پر جاتے۔ پھر کالج جاتے۔ پیدل چلتے اور اپنا ہر کام خود کرتے تھے۔ ’’ایک دفعہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ میں بھی وہاں پہنچ گیا،‘‘شاگرد مولوی ظفر اقبال کا بیان ہے۔ ’’نماز کے بعد میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُن کا جُوتا اُٹھا لیا اور لے کر چلا کہ مسجد کے باہر اُن کو پہنا دُوں گا۔ آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا کہ یہ جُوتا میرا ہے۔ اور میرے ہاتھ سے جُوتا لے لیا۔‘‘۵ اقبال نے مغربی ادب کی کتابیں یورپ جانے سے پہلے سیالکوٹ میں چھوڑ دیں۔۶ میر حسن سے پی ایچ ڈی کی تحقیق کے بارے میں مشورہ کیا ۔ اقبال کو تمام انسانوں کی روح پر فریفتہ کرنے والے بزرگ کی ضرورت ابھی باقی تھی۔ ۵ ۲۱ اگست کو اعلان ہوا کہ وائسرائے لارڈ کرزن نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی فوج کے کماندارِ اعلیٰ لارڈ کچنر سے اختلافات ہوئے تھے جو فوج کو وائسرائے کی نگرانی سے آزاد رکھنا چاہتا تھا۔ حکومت نے اُسی روز وائٹ پیپرچھاپ کر استعفے کی وضاحت کی۔ لارڈ منٹو آیندہ وائسرائے ہونے والے تھے جو کینڈا کے گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ ۶ سکوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی اقبال ایک دفعہ پھر لاہور میں تھے اور دوستوں کی محفل تھی۔ راوی اُس زمانے میں صاف ستھرا اور بھرپور دریا تھا جس میں بادبانی کشتیاں چلا کرتی تھیں۔ دُور جاتے ہوئے پہلے اُن کے بادبان نظر سے غائب ہوتے اور پھر آہستہ آہستہ پوری کشتی غائب ہو جاتی تھی۔۷ اقبال نے سوچا، کشتی نظر سے غائب ہوتی ہے مگر موجوں میں ڈوبتی تو نہیں۔ نظر کا دھوکا کشتی کو غیرموجود بتا رہا ہے ورنہ وہ تو باقی ہے۔ یہی مثال انسان کی بھی تو ہو سکتی ہے: جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چُھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا اِن اشعار میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔نظم کا نام ’کنارِ راوی‘ رکھا۔ تیرہ اشعار تھے۔ پہلے بند میں تین، دوسرے میںچھ اور تیسرے میں چار۔ ۷ اقبال پھر مرزا جلال الدین سے ملنے گئے۔ ولایت کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ ’’علمی بات نہ میں نے چھیڑی نہ انہوں نے کی،‘‘ مرزا جلال کا بیان ہے۔۸ ۸ اخبار وطن کے اڈیٹر انشا ٔ اللہ خاں سے وعدہ کیا کہ سفر کا حال اشاعت کے لیے لکھ کر بھیجیں گے۔۹ ۹ سفر کی اطلاع کالج کے زمانے کے دوست میر غلام بھیک نیرنگ کو بھیجی۔ اَنبالہ میں وکیل تھے اور کئی سال پہلے قانون کا وہی امتحان پاس کیا تھا جس میں ناکامی کا داغ اقبال کے دل سے بیرسٹر بننے کے بعد مٹنے والا تھا۔۱۰ باب ۳ سمندر ستمبر ۱۹۰۵ء دہلی ۱ یکم ستمبر کو نیرنگ عدالتی مصروفیات کی وجہ سے شملہ میں تھے ۔ قریب ترین ریلوے اسٹیشن کالکا تھا اور وہاں تک مسافروں کو تانگے سے آنا پڑتا تھا۔ محکمہ ڈاک کے دوگھوڑوںوالے تانگے چلتے تھے جن میں دن کے وقت مسافروں کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی مگر کوئی مسافر رات کے تانگے میں بیٹھنا چاہے تو اُسے ایک فارم پر دستخط کرنے پڑتے تھے کہ اُس کے کسی نقصان یا حادثے کے لیے حکومت ذمہ دار نہ ہو گی۔ نیرنگ نے بھی یہی فارم پُر کیا اور شام چھ بجے تانگے میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے تاکہ اگلی صبح کالکا سے دہلی جانے والی گاڑی نہ چھوٹے۔منزل سے دو میل پہلے ایک کھیت میں آگ جلتی دیکھ کر گھوڑے بے قابو ہوئے اور ایک پُل پر اِس طرح چڑھے کہ تانگہ ٹوٹ گیااور گھوڑے ٹوٹے ہوئے تانگے سے آزاد ہو کر بھاگ نکلے۔ ڈاک کے تھیلے سڑک پر بکھر گئے اور نیرنگ کے گھٹنے سے خون بہنے لگا۔ کچھ دیر بعد کالکا کی جانب سے ایک خالی تانگہ شاید اِس حادثے کی اطلاع پا کر بگل بجاتا پہنچا اور نیرنگ وقت پر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ ۱ ۲ اقبال ۲ ستمبر کی صبح گیارہ بجے دہلی پہنچے۔ اسٹیشن پر خواجہ حسن نظامی اور اقبال کے دوست نذرمحمد بی اے موجود تھے۔ اقبال نے کچھ دیر نذرمحمد کے گھر آرام کیا اور اُس کے بعد دوستوں کے ساتھ خواجہ نظام الدین اولیا ٔ کے مزار پر پہنچ گئے جہاں نیرنگ بھی اُن سے آن ملے۔شیخ محمد اکرام بھی جو عبدالقادر کے پیچھے مخزن کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے، اقبال کے میزبانوں میں شامل تھے۔ ’’اللہ اللہ!حضرت محبوب الٰہی کا مزار بھی عجیب جگہ ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔‘‘۲ اُنہوں نے دوستوں سے درخواست کی کہ وہ باہر صحن میں ٹھہریں اور خود مزار کے سرہانے بیٹھ کر اپنی نظم ’التجائے مسافر‘ پڑھی: چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو اِن اشعار میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔ چھتیس اشعار کی نظم میں دو بند تھے۔ صحن میں آئے تو دوستوں نے فرمایش کی۔ اقبال مزار کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور نظم دوبارہ پڑھی۔ ’برگِ گل‘ بھی جو دو برس پہلے درگاہ میں پڑھی گئی تھی دوبارہ سنائی۔ اسی قبرستان کے ایک گوشے میں ایک قبرپر میرمہدی مجروح کا لکھا ہوا مادۂ تاریخ درج تھا: ہاتف نے کہا، گنجِ معانی ہے تہِ خاک! ’’ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میرنیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالبؔ مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہو جائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنجِ معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی۔۔۔‘‘ ولایت نامی ایک قوال لڑکے نے مزار کے قریب بیٹھ کر موقع کی مناسبت سے ایک غزل گائی۔ سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں اور اقبال تولوحِ مزار کو دونوں ہاتھوں کے حلقے میں لے کر بیٹھ گئے اور سر جھکا لیا: دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی دونوں کو اِک ادا میں رضامند کر گئی خاص طور پر اُس وقت اقبال کی آنکھوں میں آنسو آگئے جب ولایت اِس شعر پر پہنچا: وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اُٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی اُٹھے اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دیا۔ معلوم ہوتا ہے دہلی میں اِس کے علاوہ صرف ہمایوں کے مقبرے اور داراشکوہ کی قبر پر جا سکے کیونکہ وقت کم تھا۔ ہمایوں کا مقبرہ بھی خواجہ نظام الدین کی بستی ہی میں واقع تھا جس سے کچھ دُور نظام الدین اولیا کی اصل خانقاہ کے کھنڈر موجود تھے جہاں امیر خسرو بھی مرشد سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں اقبال نے وہ کھنڈر دیکھے یا نہیں جن کے لیے امیر خسرو نے کہا تھا، ’’میں، وہ راتیں اور اُس کوچے کا کنارا کہ بس میں ہی جانتا ہوں۔ دل بھی گیا اور روح بھی گئی مگراُس طرف کہ بس میں ہی جانتا ہوں‘‘: من و شبہا و یادِ آں سرِ کوئے کہ من دانم! دلم رفتست و جاں ہم می رود سوئے کہ من دانم امیر خسرو۳ ’’شہنشاہ ہمایوں کے مقربے میں فاتحہ پڑھا۔ داراشکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ہوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی سبق لے کر رخصت ہوا جو صفحہ ٔدل سے کبھی نہ مٹے گا۔‘‘ ۳ جس وقت اقبال خواجہ نظام الدین کی درگاہ پر گزری ہوئی تہذیب کے نشان تلاش کر رہے تھے عین اُسی وقت کلکتہ سے نئے وائسرائے لارڈ منٹو نے اعلان کیا کہ ۱۶ اکتوبر تقسیمِ بنگال کی حتمی تاریخ ہے۔ ہندوستانی معاشرہ نئی کروٹ لینے والا تھا جس کے بعد کوئی چیز ویسی نہ ہوسکتی جیسی وہ اب یا پہلے کبھی تھی۔ بمبئی ۴ تقریباً چوبیس گھنٹے ریل میں گزارکر اقبال ۴ ستمبر کی صبح بمبئی پہنچے۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی انگلش ہوٹل تھا جس کا نگران ایک پارسی بزرگ تھا جس کے چہرے پر اس قدر تقدس تھا کہ اقبال کو ایران کے قدیم خثور (نبی) یاد آگئے۔ طامس کک کمپنی نے اِس ہوٹل میں قیام تجویز کیا تھا لیکن اگر نہ کیا ہوتا تب بھی شاید اقبال کفایت شعاری کی وجہ سے اِسے پسند کرتے کیونکہ کرایہ دوسرے ہوٹلوں سے کم تھا یعنی صرف تین روپے یومیہ۔ وہ بمبئی کی وسعت اور رنگینی سے بہت متاثر ہوئے۔’’خدا جانے لندن کیا ہو گا جس کا دروازہ ایسا عظیم الشان ہے، ‘‘ انہوں نے لکھا۔ اُن کا لاہور تو خیر دہلی کے عبرت کدے کا پائیں باغ تھا اور خود دہلی ایک پرتکلف تہذیب کا مزار مگر بمبئی کی کیفیت بالکل جدا تھی۔ ’’خدا اِسے آباد رکھے، عجیب شہر ہے۔ بازار کشادہ، ہر طرف پختہ سربفلک عمارتیں ہیں کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان سے خیرہ ہوتی ہے۔ بازاروں میں گاڑیوں کی آمدورفت اِس قدر ہے کہ پیدل چلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر چیز مل سکتی ہے۔ یورپ و امریکہ کے کارخانوں کی کوئی چیز طلب کرو، فوراً آملے گی۔ ہاں البتہ ایک چیز ایسی ہے جو اِس شہر میں نہیں مل سکتی یعنی فراغت۔‘‘ یہاں مستقل رہنا پڑتا تو شاید زندہ درگور ہو جاتے مگر صرف سات دن کا قیام تھا لہٰذا ہنسی خوشی شہر دیکھتے اور پارسی لڑکیوں کے حسن پر تنقید کرتے رہے۔فطرتاً سست تھے مگر جس مقام پر جاتے وہاں کے تہذیبی مزاج کو جلد سمجھ لیتے تھے۔بمبئی کی تجارتی اور میٹروپولیٹن فضا کو خاص طور پر محسوس کر رہے تھے۔ اقتصادیات دلچسپی کا خاص مضمون تھا اور بمبئی گویا اس کے لیے بہت بڑی تجربہ گاہ جو مطالعے کی دعوت دے رہی تھی۔ ’’(انگلش ہوٹل) کا منتظم ایک پارسی پیر مرد ہے۔۔۔دکانداری نے اُسے ایک ایسا عجز سکھا دیا ہے کہ ہمارے بعض علما میں باوجود عبادت اور مرشدِ کامل کی صحبت میں بیٹھنے کے بھی ویسا انکسار پیدا نہیں ہوتا۔ کارلائل نے کیا خوب کہا ہے کہ ’محنت ہی بہت بڑی عبادت ہے۔‘ ‘‘۴ کچھ دنوں میںاُس سے اتنے متاثر ہو گئے کہ بعض اوقات اُسے دیکھ کر آنکھیں پُرنم ہو جاتی تھیں۔ ہوٹل کا حجام ہر روز گجراتی اخبار پڑھتا تھا اور ہندوستان کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات جانتا تھا۔جاپان اور روس کی لڑائی سے پورا باخبر تھا اور دادابھائی نوروجی کا نام بڑی عزت سے لیتا تھاجو بقول اُس کے انگلستان میں ’’ہم کالوں کے لیے لڑتا ہے۔‘‘ ہوٹل کے نیچے مسلمان دکاندار تھے اور وہ بھی ہر روز گجراتی اخبار پڑھتے تھے مگر اُردو نہیں پڑھ سکتے تھے حالانکہ اُن کا مولوی اُردو ہی میں اُن کا نکاح پڑھاتا تھا۔ اقبال نے لکھا، ’’یہاں ہر کوئی اُردو سمجھ سکتا ہے اور ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتا ہے۔ ہمارے ہوٹل کا سیٹھ کبھی ہندوستان نہیں گیا مگر اُردو خاصی بولتا تھا۔‘‘ ہوٹل کا سیٹھ وہی پیرمرد تھا مگرمعلوم ہوتا ہے کہ اقبال ذہنی طور پر بمبئی کو ہندوستان سے الگ ہی ایک دنیا سمجھ بیٹھے تھے۔ ہوٹل میں مختلف اقوام کے لوگ آتے جاتے رہتے اور اقبال کوشش کرتے کہ کسی نہ کسی طرح اُن کے درمیان جا بیٹھیں۔ ایک یونانی تاجر ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا تھا اورچین سے اپنا بوریا بستر اٹھا کر جنوبی افریقہ میں ٹرانسوال جا رہا تھا کیونکہ اب چینیوں نے یورپی چیزیں خردینا چھوڑ دی تھیں۔ ’’شاباش افیمیو!شاباش، نیند سے بیدار ہو جاؤَ،‘‘ اقبال نے اپنے دل میں سوچا۔ ’’ابھی تم آنکھیں مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی ۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیا کی تجارتی عظمت کو ازسر ِنو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے۔ ہم متفق ہو کر کام کرنا نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں محبت اور مروّت کی بُو باقی نہیں رہی۔ ہم اُس کو پکّا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوؤں کے خون کا پیاسا ہو اور اُس کو پکا ہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمانوں کی جان کا دشمن ہو۔ ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں۔ کاش! خلیج بنگالہ کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں۔‘‘ اِن جذبات میں سودیشی تحریک کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ’’اِس سوال کے متعلق تاثرات کا ہجوم میرے دل میں اِس قدر ہے کہ بعض اوقات مجھے مجنون کردیتا ہے۔ ‘‘ جب اقبال ایک سستے ہوٹل میں بیٹھے قوم کے مستقبل پر غور کر رہے تھے نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح شہر کے کسی اور حصے میں واقع اپنی شاندار قیام گاہ میں شایدکانگریس کی کسی میٹنگ میں پڑھنے کے لیے اپنی تقریر تیار کر رہے ہوں۔ممکن ہے اقبال نے کانگریس کے سرگرم رکن کے طور پر اُن کا نام بمبئی کے کسی روزنامے میں پڑھا ہو اور نظرانداز کر گئے ہوں۔ اُس زمانے میں بمبئی کے کسی موڑ پر دونوں کی ملاقات ہو جاتی توایک دوسرے پر کیا تاثر قائم کرتے؟ ۵ رات کا وقت تھا۔ کھانے کے کمرے میں دو جنٹلمین اقبال کے سامنے آ بیٹھے اور فرانسیسی میں باتیں کرنے لگے۔ کھانے کے بعد اُن میں سے ایک نے کرسی کے نیچے سے لال ٹوپی نکال کر پہنی۔ معلوم ہوا تُرک ہیں۔ اگلے روز اقبال نے اُن میں سے ایک کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کی کیونکہ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ اُس کی فارسی اتنی ناقص تھی کہ اقبال کو مجبوراًٹوٹی پھوٹی عربی پر اُترنا پڑا۔ یہ نوجوان ترک ینگ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا اور سلطان عبدالحمید کا مخالف تھا۔ ترکی کے سب سے مشہور زندہ شاعر کمال بے کا شاگرد تھا اور سیاسی موضوعات پر لکھتا تھا۔اُس نے کمال بے کے کچھ عمدہ اشعار اورسلطان کی ہجو میں اپنے اشعار بھی سنائے۔ اقبال نے اُسے مشورہ دیا، ’’ینگ پارٹی کو انگلستان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ جس طریق سے رعایائے انگلستان نے بتدریج اپنے بادشاہوں سے پولٹیکل حقوق حاصل کیے وہ طریق سب سے عمدہ ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان انقلابوں کا بغیر کشت و خون ہو جانا کچھ خاکِ انگلستان ہی کا حصہ ہے۔ ‘‘ ۶ ستمبر کیمخزن میں ص۴۹ پر ’بچہ اور شمع‘ شائع ہوئی۔ ۷ ستمبر ہی میں ہندوستان کے اردودان طبقے میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ یہ مثنوی گلزارِ نسیم کے بارے میں عبدالحلیم شرر اور لکھنوی ادیب چکبست کا جھگڑا تھا۔ کئی رسالے جھگڑے میں شریک ہوئے۔ ۸ اقبال کا خیال تھا کہ بمبئی میں مسلمانوں کا کالج ضرور ہوگا کیونکہ یہاں کے مسلمان دولت مند تھے۔ مگر ایک شام اُسی ترک جنٹلمین کے ساتھ بمبئی کا اسلامیہ مدرسہ دیکھتے ہوئے انہوں نے چند لڑکوں سے معلومات حاصل کیں جو اسکول کی گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے تو معلوم ہوا فنڈ موجود ہیں مگرجو مسلمان طلبہ میٹرک سے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ دوسرے کالجوں میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جیسی اچھی تعلیم وہاں ملتی ہے ویسی تعلیم ایک الگ کالج بنا کر نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ مسلمانوں کا الگ کالج نہ بنایا گیا۔ ’’معلوم ہوا کہ تمول کے ساتھ اُن میں عقل بھی ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ہم پنجابیوں کی طرح احمق نہیں ہیں۔۔۔نفع و نقصان پر ہر پہلو سے غور کر لیتے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے اسکول کے پارسی لڑکوں اور لڑکیوں کو بازار میں پھرتے بھی دیکھاجو’’ چستی کی مورتیں تھی‘مگر تعجب ہے کہ ان کی خوبصورت آنکھیں اسّی فیصد کے حساب سے عینک پوش تھیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عینک پوشی پارسیوں کا قومی فیشن ہوتا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کے قومی ریفارمر اِس طرف توجہ کیوں نہیں کرتے۔‘‘ تجارتی نقطۂ نگاہ رکھنا بمبئی کے مسلمانوں میں پسندآیا تھا مگر یہی بات پارسیوںمیں بری لگی۔اس کی ایک وجہ تھی۔’’یہ لوگ کسی چیز پر اقتصادی پہلوکے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے۔ علاوہ اس کے نہ کوئی ان کی زبان ہے نہ ان کا لٹریچر ہے اور طرّہ یہ ہے کہ فارسی کو حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔۔۔ اِس قوم کی صلاحیت نہایت تعریف کے قابل ہے اور اُن کی دولت و عظمت بے اندازہ، مگراِس قوم کے لیے کسی اچھے فیوچر کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔‘‘ بمبئی سے رخصت ہونے سے پہلے اقبال ہوٹل کے سیٹھ سے بھی متنفر ہو گئے۔ہوا یوں کہ ایک شام وہ نیچے والی منزل میں کرسی پر بیٹھے تھے کہ ’’پارسی پیرمرد کمرے سے باہر نکلا۔ اس کی بغل میں شراب کی ایک بوتل تھی۔ جب اُس نے مجھے بیٹھے ہوئے دیکھا تو اُس نے چھپانے کی کوشش کی اور میں نے دُور سے تاڑ کر آواز دی کہ سیٹھ صاحب ہم سے کیوں چھپاتے ہو، خوشی سے اِس کا شوق کرو۔ ذرا مسکرایا اور کچھ پئے ہوئے بھی تھا، بولا: سرابِ سوک پینے سے سبھی گم دُور ہو جائے۔ میں نے سن کر کہا واہ رے بڈھے خدا تیری عمر دراز کرے اور تیری پرانی شاخ سے بہت سا میوۂ نورس پیدا ہو کر بمبئی کی کھیت واڑی میں بکتا پھرے۔‘‘ آخری جملے کی پرتکلف عبارت کا آسان الفاظ میں مطلب یہ تھا کہ اُس بزرگ سے کئی بیٹیاں پیدا ہوکر بمبئی کے بازارِ حسن میں جسم فروشی کریں۔ بظاہراُس غریب کی شراب نوشی ایسی بات نہ تھی جس پر اُسے یہ بددعا ملتی۔ ممکن ہے پارسی پیر مردکے ہمراہ کوئی بازاری عورت رہی ہو جس کا ذکر اقبال نے نہیں کیا یا اخبار میں سینسر ہو گیا۔ سمندر ۹ ۷ ستمبر تھی۔اقبال کے لاہور کے دوست لالہ دھنپت رائے اور اُن کے دوست کوئی ڈاکٹر صاحب جو اُس روز اتفاق سے بمبئی میں موجود تھے اقبال کو چھوڑنے بندرگاہ تک گئے۔ ’’اللہ اکبر!یہاں کی دنیا ہی نرالی ہے،‘‘اقبال بمبئی کی وکٹوریہ ڈَوک کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ’’کئی طرح کے جہاز اور سینکڑوں کشتیاں ڈاک [dock]میں کھڑی ہیں اور مسافر سے کہہ رہی ہیں کہ سمندر کی وُسعت سے نہ ڈر۔ خدا نے چاہا تو ہم تجھے صحیح و سلامت منزل مقصود پر پہنچا دیں گے۔ خیر، طبّی معاینہ کے بعد میں اپنے جہاز پر سوار ہوا ۔۔۔ کوئی ۳ بجے جہاز نے حرکت کی اور ہم اپنے دوستوں کو سلام کہتے اور رومال ہلاتے ہوئے سمندر پر چلے گئے۔ یہاں تک کہ موجیں اِدھر اُدھر سے آ آ کر ہمارے جہاز کو چُومنے لگیں۔‘‘ یہ مسرت اور سرخوشی اُس وقت غارت ہو گئی جب اندازہ ہوا کہ جہاز پر ساٹھ سے زیادہ مسافر نہیںاور چونکہ یہ فرانسیسی کمپنی کا جہاز تھا لہٰذا تقریباً سب فرانسیسی بول رہے تھے۔ گویا پندرہ دن کے سفر میں گفتگو کے مواقع محدود۔بہت پچھتائے۔’’اگرچہ فرانسیسی جہازوں میں ہر طرح کی آسایش ہے تاہم میری رائے یہی ہے کہ ہم لوگوں کو انگریزی کمپنیوں کے جہازوں سے سفر کرنا چاہیے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ۱۰ رات کو مسافر اپنے اپنے کمروں میں سوتے تھے اور صبح سے شام تک عرشے پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے رہتے تھے۔ سیفٹی میچ کا رواج ہونے سے قبل ماچس ایک ایسی چیز تھی جسے استعمال کرنے کی جہاز پر مسافروں کو اجازت نہ تھی۔ عرشے پرکسی کیبن کی دیوار سے کوئی انگیٹھی نما چیز لٹک رہی تھی کہ جس کسی کو سگریٹ یا سگار جلانا ہو وہ اُس میں سے ایک لکڑی اٹھا لے۔ ملازموں میں مصر کے چند حبشی بھی تھے جو عربی بولتے تھے مگر افسر تمام فرانسیسی تھے جن کے تکلفات دیکھ کر اقبال کو لکھنؤ یاد آگیا۔ ’’ایک روز افسر تختۂ جہاز پر کھڑا تھا کہ ایک حسین عورت کا اُدھر سے گزر ہوا۔ اتفاق سے یا غالباً ارادتاًیہ عورت اُس افسر کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی گزری۔ ہمارے نوجوان افسر نے اِس توجہ کے جواب میں ایک ایسی ادا سے جنبش کی کہ ہمارے ملک کے حسین بھی اس کی نقل نہیں اتارسکتے۔‘‘ سفر کے دوسرے دن ہی مسافر بحری امراض میں مبتلا ہونے لگے مگر اقبال بھلے چنگے رہے۔’’ بمبئی سے ذرا آگے نکل کر سمندر کی حالت کسی قدر متلاطم تھی،‘‘ اُنہوں نے نوٹ کیا۔’’ خواجہ خضر صاحب کچھ خفا سے معلوم ہوتے تھے۔ اتنی اُونچی اُونچی موجیں آتی تھیں کہ خدا کی پناہ ۔ دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔ ایک شب ہم کھاناکھا کر تختۂ جہاز پر آبیٹھے۔ کچھ عرصہ کے بعد سمندر کی سردہوا نے ہم سب کو سُلا دیامگر دفعتہً ایک خوفناک موج نے اُچھل کر ہم پر حملہ کیا اور تمام مسافروں کے کپڑے بھیگ گئے۔ عورتیں، بچے اور مرد نیچے بھاگ کر اپنے اپنے کمروں میں جا سوئے اور ہم تھوڑی دیر کے لیے جہاز کے ملازموں اور افسروں کے تمسخر کا باعث بنے رہے۔ ’’راستے میں ایک آدھ بارش بھی ہوئی جس سے سمندر کا تلاطم نسبتاً بڑھ گیا اور طبیعت اِس نظارے کی یکسانیت سے اکتانے لگی۔ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتاہے اور موجیں جو زور سے اٹھتی ہیںتو اُن کو سفید جھاگ چاندی کی ایک کلغی سی پہنا دیتی ہے اور دُور دُور تک ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کسی نے سطح سمندر پر روُئی کے گالے بکھیر ڈالے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے محسوس کیا کہ خدا کی بے انتہا قوت کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتا ہے شاید ہی کسی اور چیز سے ہوتا ہو۔ ’انہوں نے لکھا، ’’حجِ بیت اللہ میںجو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں اُن سے قطع نظر کر کے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمندر کی ہیبت ناک موجوں اور اُس کی خوفناک وسعت کا دیکھنا ہے جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچِ محض ہونے کا پورا پورا یقین ہو جاتا ہے۔ شارعِ اسلام کی ہر بات قربان ہو جانے کے قابل ہے۔‘‘ ہم سفروں میں اقبال نے کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب دریافت کر لیے جو اٹھارہ ماہ کی رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے۔ بہت باخبر آدمی معلوم ہوتے تھے اور ان کے ساتھ علم و ادب پر گفتگو ہو سکتی تھی۔ ۱۱ ۹ ستمبر کواُن کے سمندر سے بہت دُور رُوسی ادب کا سب سے بڑا آدمی تراسیویں سالگرہ منا رہا تھا۔ وہ اپنی جائداد سے دست بردار ہو چکا تھا اور غریب کسانوں میں زندگی بسر کرتا تھا۔ پہلے وہ سپاہی بنا مگرہولناکیوں نے اُسے بیزار کر دیا۔ پھر اُس نے ضخیم ناول لکھے مگر محسوس کیا کہ جس حقیقت کی اُسے تلاش ہے وہ ادب اورافسانے میں نہیںہے۔ مذہب کی طرف رجوع کیا اور یسوع مسیح کی سادہ تعلیمات میں اُسے کئی سوالوں کا جواب مل گیا۔اُس کے بدلے ہوئے خیالات سے واقف ہو کر عیسائی دنیا اُس کی گرویدہ ہو گئی اور دُور دُور سے لوگ اُس کی زیارت کو آنے لگے مگربے چین طبیعت نے پھر کروٹ لی اور کلیسا کی طاقت بھی اُس کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی۔ کلیسا کی رُوح مسیح کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہ ہو سکتی تھی۔ ٹالسٹائی نے تہذیب کے تمام اداروں کو باطل قرار دیا۔ ریاست، قانون، جنگ، حُبِّ وطن، شادی بیاہ، جدید ادب، فن، سائنس اور طب سبھی دھوکہ قرار پائے۔ کلیسا نے راندۂ درگاہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر وہ پہلے ہی تعریف اور تنقید سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ اُس کا پیغام یہ تھا کہ بادشاہ کی فوج کا سپاہی شیطان کا چیلہ ہے جو تلوار کے زور پر روٹیاں چھین کر اپنے آقا کی جھولی میں ڈالتا ہے۔ تاج و تخت، کلیسا اور وطن خواب آور دوائیں ہیں جن کے عوض بادشاہ رعایا کی عزتِ نفس خریدتے ہیں۔ ’’ٹالسٹائی! ٹالسٹائی!!‘‘ جہاز پرایک فرانسیسی پادری نے پکارا جو رُوسی زبان سے واقف تھا مگر ٹالسٹائی کے نام سے اُسے اقبال ہی نے چند روز پہلے واقف کروایا تھا۔’’تم ٹالسٹائی بننا چاہتے ہو؟‘‘ ’’ٹالسٹائی بن جانا آسان نہیں ہے، ‘‘ اقبال نے جواب دیا۔ ’’زمین سورج کے گرد لاکھوں چکّر لگاتی ہے تب کہیں جا کر ایک ٹالسٹائی پیدا ہوتا ہے۔‘‘ رات دیر تک ڈپٹی کمشنر صاحب سے گفتگو رہی۔ سرولیم میورکے بارے میں وہ کہتے تھے کہ کاش یہ شخص ذرا کم متعصب ہوتا۔ اُنہوں نے عمر خیام کی تعریف بھی کی جس پر اقبال نے کہا کہ اہلِ یورپ نے ابھی سحابی نجفی کی رباعیات کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ خیام کوبھول گئے ہوتے۔۵ ۱۲ اگلی صبح جلداُٹھ گئے۔ ’’آج ۱۲ ستمبر کی صبح ہے۔ میں بہت سویرے اٹھا ہوں۔ جہاز کے جاروب کش ابھی تختے صاف کر رہے ہیں۔ چراغوں کی روشنی دھیمی پڑ گئی ہے۔ آفتاب چشمۂ آب میں سے اٹھتا ہوا معلوم ہو رہا ہے اور سمندر اِس وقت ایسا ہی ہے جیسا ہمارا دریائے راوی۔ شاید صبح کے پُرتاثیر نظارے نے اُس کو سمجھا دیا ہے کہ سکونِ قلب بھی ایک نایاب شے ہے۔ ہر وقت کی اُلجھن اور بیتابی اچھی نہیں۔ طلوعِ آفتاب کا نظارہ ایک دردمند دِل کے لیے تلاوت کا حکم رکھتا ہے ۔۔۔ حقیقت میں جن لوگوں نے آفتاب پرستی کو اپنا مذہب قرار دے رکھا ہے میں اُن کو قابل ِ معذوری سمجھتا ہوں۔ ‘‘ جہاز کی اوپر کی چھت پر کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور فرانسیسی پادری بھی اس منظر کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ’’اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا،‘‘ اقبال نے لکھا۔’’ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اِس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے اُس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کر وں۔۔۔ اے عرب کی مقدس سرزمین! تجھ کو مبارک ہو۔ تُو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خداجانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدّن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔۶ ’’ باغ کے مالک نے اپنے ملازموں کو مالیوں کے پاس پھل کا حصہ لینے کو بھیجا لیکن مالیوں نے ہمیشہ ملازموں کو مارپیٹ کے باغ سے باہر نکال دیا اور مالک کے حقوق کی کچھ پروا نہ کی۔ مگر اے پاک سرزمین تُو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا تاکہ گستاخ مالیوں کو باغ سے نکال کر پھولوں کو اُن کے نامسعود پنجوں سے آزاد کرے۔۷ ’’ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اورسلمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش! میرے بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفّارہ ہو۔۸ کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھُوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پرواہ نہ کرتا ہوا اُس پاک سرزمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ ‘‘ قطرے کے منہ سے نام جو تیرا نکل گیا بادل سے گر کے روئے ہوا پر سنبھل گیا عظمت ہے خاص، پاک مدینے کی خاک کو خورشید بھی گیا تو وہاں سر کے بل گیا بعد میں یہ اشعار کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ عدن ۱۳ جہاز عدن پہنچا مگر مسافروں کو قرنطینہ کی وجہ سے نیچے اترنے کی اجازت نہیں ملی۔عرب کے ساحل پر قدم رکھنے کی اقبال کی تمنا پوری نہ ہو سکی مگر شاید یہیں سے کسی کے ذریعے مولوی انشأاللہ خاں کے نام اپنے سفرنامے کی پہلی قسط پوسٹ کروائی۔ ۹ سویز ۱۴ مولوی انشا ٔ اللہ کو لکھا تھا کہ سفرنامے کی اگلی قسط سویز پہنچ کر لکھیں گے مگر سویز تک راستہ بہت مختصر تھا۔ جہاز ساحل سے لگا تو مسلمان دکانداروں کی ایک تعداد جہاز پر آ موجود ہوئی۔ ’’ اِنہی کے آباو اجداد تھے جن کے ہاتھوں میں کبھی یورپ اورایشیا کی تجارت تھی،‘‘ اقبال نے لکھا۔’’سلیمانِ اعظم ان ہی میں کا ایک شہنشاہ تھا جس کی وسعت تجارت نے اقوامِ یورپ کو ڈرا کر ان کو ہندوستان کی ایک نئی راہ دریافت کرنے کی تحریک کی تھی۔ ‘‘ پوسٹ کارڈ اور پھل سے لے کر مصر کے پرانے بتوں تک جو غالباً جعلی تھے بہت سی چیزیںبیچی جا رہی تھیں۔ معلوم نہیں ’قینچی‘ کے سگریٹ بھی تھے یا نہیں مگر اقبال نے ایک نوجوان دکاندار سے سگریٹ خریدنے چاہے اور بتا بیٹھے کہ مسلمان ہیں۔ اُسے تامل ہوا اورپوچھا کہ ہیٹ کیوں پہنتے ہیں۔ اقبال نے جواب دیا کہ کیا ہیٹ پہننے سے اسلام تشریف لے جاتا ہے تو اُس نے کہا کہ اگر مسلمان کی ڈاڑھی منڈی ہو تو اُس کو ٹرکی ٹوپی یعنی طربوش ضرور پہننا چاہیے ورنہ پھر اسلام کی علامت کیا ہوگی؟ اقبال نے دل میں سوچا کہ کاش ہندوستان میں یہی اصول رائج ہو جائے تاکہ ڈاڑھی منڈوانے کے خلاف وعظ کرنے والے مولویوں سے نجات ملے! معلوم ہوا کہ یہ شخص ٹوٹی پھوٹی اردو بھی جانتا تھا اور حافظ ِ قرآن تھا۔ اقبال نے چند آیات پڑھیں تو خوشی سے اُن کے ہاتھ چومنے لگا اور باقی دکانداروں کو بلا لیا۔ وہ اقبال کے گرد حلقہ باندھ کر ماشا ٔاللہ ماشأاللہ کہنے لگے، ’’یا یوں کہیے کہ دوچار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے اُبھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔‘‘ تھوڑی دیر بعد مصری جوانوں کا وفد جہاز کے عرشے پر آیا جسے دیکھ کر اقبال کو علی گڑھ کے طلبہ یاد آگئے۔ ’’یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے اورمیں بھی دخل درمعقولات ان میں جا گھسا،‘‘ اقبال نے لکھا۔’’ان میں سے ایک مسلمان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا جیسے حریری کا کوئی رسالہ پڑھ رہا ہو۔‘‘ بندرگاہ سے روانہ ہو کر جہاز آہستہ آہستہ سویز کنال میں جا داخل ہوا۔ یہ انجینئرنگ کا معجزہ تھا۔ بحیرۂ احمر کو بحیرۂ روم سے ملا کر ایشیا سے یورپ کے سفر کو سیکڑوں میل مختصر کر دیا گیا تھا۔ اقبال نے دیکھا کہ بعض جگہوں پر نہر ایسی تنگ تھی کہ دو جہاز مشکل سے اکٹھے گزر سکتے۔ سیکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے رہتے جب ٹھیک رہتی تھی۔ ’’ یہ کنال جسے ایک فرانسیسی انجنیر نے تعمیر کیا تھا دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’عرب اور افریقہ کی جدائی ہے اور مشرق و مغرب کا اتحاد ہے۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی اس قدر اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی دماغ نے زمانہ حال کی تجارت پر اثر کیا ہے۔ کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا۔‘‘ ۱۵ چالیس برس پہلے جب فرانسیسی انجنیرنہر تعمیر کر رہا تھا تو برطانیہ کا خیال تھا کہ منصوبہ کبھی کامیاب نہ ہو گا۔ بعد میں آنکھیں کھلیں تو یہودیوں سے قرض لے کر منصوبے میں حصہ دار بنے۔ پھر مصر کو ’’حفاظت‘‘ میں لے لیا۔ ۱۶ کنارے پر جو مزدور کام کررہے تھے اُن میں سے بعض نہایت شریرتھے۔ جب جہاز آہستہ آہستہ جا رہا تھا اورجہاز کی چند یورپین عورتیں عرشہ پر کھڑی ساحل کا نظارہ کر رہی تھیں تو اُن میں سے ایک مکمل ننگا ہو کر ناچنے لگا اور یہ بے چاریاں دوڑ کر اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں۔ کنال میں اقبال نے ایک مصری جہاز بھی دیکھا جس پر تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے عربی غزل گاتے جا رہے تھے۔ ابھی پورٹ سعید بھی نہ پہنچے تھے کہ ایک بارود سے بھرے ہوئے جہاز کے پھٹ جانے کی خبر ملی۔ کچھ دیر بعد اُس کے ٹکڑے کنال سے گزرتے دکھائی دیے۔ پورٹ سعید ۱۷ اقبال کے خیال میں یہ چھوٹاموٹا بمبئی تھا۔ ایک ہم سفر کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کرساحل پرپہنچے تھے اوراَب ایک مسلمان رہنما کی مدد سے شہر کی سیر کر رہے تھے۔ نوٹس بورڈ سے عربی کے کچھ نئے الفاظ سیکھے جنہیں ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ یہودی، فرانسیسی، انگریز، یونانی، مسلمان سب یہاں آباد تھے اور سب کے محلے، ہوٹل اور عبادت گاہیں الگ تھیں، ’’لیکن افسوس ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہیں وہ جگہ بہت میلی ہے۔‘‘ پوسٹ آفس سے اقبال نے کچھ خط ڈاک میں ڈالے اور رہنما کو انعام دے کر واپس جہاز پر آگئے۔ یہاں تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ’’اِن عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی نہایت حسین تھی،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’مجھے دیانت داری کے ساتھ ِاس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا لیکن جب اُس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہوگیا کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘ بحیرۂ روم ۱۸ بحیرۂ روم کی خوش گوار آب و ہوا مشہور ہے۔ جزیروں سے پٹے ہوئے سمندر میں پہنچتے ہی اقبال کی طبیعت نہال ہو گئی۔ سامنے افق سے ذرا پرے یورپ کے مختلف ممالک تھے جو اَب قریب آتے جا رہے تھے۔ ایک طرف سسلی تھا عربی میں جسے صقلیہ کہتے تھے۔ کبھی عربوں کی تہذیب کا گہوارہ تھا مگر اب ایک مدت سے اٹلی کے قبضے میں تھا۔ ممکن ہے اقبال نے تہذیبِ حجازی کے اس مزار کے بارے میں بھی تاثرات لکھے ہوں مگرابھی وہ دل پر نہیں صرف کاغذ پر درج ہوئے ہوں گے کیونکہ کاغذ گم ہونے پریاد نہ آسکے۔ اٹلی کے جزیرے جو سامنے نظر آرہے تھے ایک بڑے انقلاب سے دوچار ہونے کے بعد تیس پینتیس برس پہلے ہی متحد ہوئے تھے اور اِس اتحاد میںمزینی اوراس کے ساتھیوں کا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے تلوار اور قلم دونوں کی قوتیں جمع کر کے اپنی قوم کو یورپ کی دوسری اقوام کے برابر لا کھڑا کیا تھا۔ ’’سمندر کا نظارہ بہت دلچسپ تھا اور ہوا میں ایسا اثر تھا کہ غیرموزوں طبع آدمی بھی موزوں ہو جائے،‘‘اقبال نے لکھا۔ ’’ میری طبیعت قدرتاً شعر پر مائل ہو گئی ۔۔۔‘‘ غزل مثالِ پرتوِ مے طوفِ جام کرتے ہیں نماز ادا یہی ہم صبح و شام کرتے ہیں خصوصیت نہیں کچھ اِس میں اے کلیم! تری شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں غرض نشاط ہے شغلِ شراب سے جن کی حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ؟ کہ ہم تو رسمِ محبت کو عام کرتے ہیں ہرے رہو وطنِ مازنی کے میدانو! جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں غزل میں چَودہ اشعار تھے۔۱۰ان میں کبھی ترمیم نہ کی۔ جہاز چھ روز بحیرۂ روم میں رہا۔سمندر کا آخری حصہ بہت طوفانی تھا۔ کپتان نے احتیاطاً محفوظ راستہ اختیار کیا جو اصل راستے سے زیادہ تھا۔ مارسیلز ۱۹ ۲۳ ستمبر کی صبح مارسیلزپہنچ کراقبال نے پہلی دفعہ یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا۔ وہ راستے میں دیکھ آئے تھے کہ ہندوستان سے پورٹ سعید تک تمام علاقے براہِ راست یورپی اقوام کے تصرف میں تھے یا بالواسطہ اُن پر یورپ کی عمل داری قائم تھی۔ اب اُس چھوٹے سے براعظم کے کنارے پر کھڑے تھے جہاں کے رہنے والوں نے یہ سب کرشمے دکھائے تھے۔ دس گھنٹے کا وفقہ ملا۔ بندرگاہ کی سیر کرنے کا موقع پایا۔ ’’مارسیلز کا نوٹرڈام گرجا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس عمارت کو دیکھ کر دل پر یہ بات منقش ہو جاتی ہے کہ دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی محرک ہوئی ہے۔ ‘‘ ایک عمارت دیکھ کر تمام علوم و فنون کے بارے میں فیصلہ دے دینا کچھ عجیب سہی مگر اُس زمانے کی انشأ پردازی کے عام رواج کے مطابق تھا۔ بنیادی خیال جو ظاہر ہوا وہ اقبال کی اُس سوچ سے منسلک تھا جو مضمون ’قومی زندگی‘ میں بھی ظاہر ہو چکی تھی یعنی تاثیرِ نبوّت زندگی کے تمام شعبوں پر عمل کرتی ہے۔ مارسیلز سے وہ گاڑی میں روانہ ہوئے اور رات کے اندھیرے میں بھی گاڑی کے اِدھراُدھر آنے والی کھیتیوں سے فرانسیسی لوگوں کے نفیس مذاق کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ ڈوور ۲۰ ۲۴ ستمبر کو اقبال برٹش چینل عبور کر کے ڈوورپہنچے۔ اندھیری رات میں اِس ساحل پر لہروں کے ٹکرانے کی آوازوں سے انگریز شاعر میتھو آرنلڈ نے یقین کی دولت سے محروم دنیا کی ذہنی کیفیت کی ترجمانی کی تھی: And we are here as on a darkling plain Swept wth confused alarms of struggle and flight, Where ignorant armies clash by night. بہرحال وہ ڈوور میں نہ ٹھہرے اور سیدھے لندن روانہ ہو گئے۔ لندن ۲۱ ۱۹۰۵ء کا لندن دلچسپ جگہ تھی۔ موٹرکاروں کا رواج نیا نیا شروع ہوا تھا۔ رولزرائس کمپنی اُسی برس وجود میں آئی تھی۔ سڑکوں پر ابھی گھوڑاگاڑیاں زیادہ تھیں اور ٹریفک سگنل کا تصور نہیں تھا۔ ایمبولنس کے لیے بھی گھوڑاگاڑیاں ہی استعمال ہوتی تھیں۔ شہر میں چلنے والی ریل گاڑیوں کے لیے نئی طرز کے زیرِزمین راستے بھی اُسی برس وجود میں آئے تھے اور’انڈرگراؤنڈ‘ کی بجائے ’ٹیوب‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہو رہے تھے۔ یہ وہ قوم تھی جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھااور جس کے رہنما تقدیر کے فیصلوں پر مہر لگاتے تھے۔ ہندوستان میں انگریز مغرور ہی کیوں نہ نظر آتے ہوں مگر ان کی اصل طاقت اس بات میں تھی کہ دو تین سو سال کے سیاسی تجربات نے شخصی آزادی کا احترام پیدا کر دیا تھا۔اقبال نے یہ تاثرقائم کیا کہ ’’جو قوم خود آزادی کی دلدادہ ہو وہ اوروں کی آزادی کو رشک کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی۔‘‘ ۱۱ لندن میں شیخ عبدالقادرمنتظر تھے ۔عبدالقادر کی ’’باریک نگاہ نے باوجود میرے انگریزی لباس کے مجھے پہچان لیا اور دوڑ کر بغل گیر ہو گئے، ‘‘اقبال نے لکھا۔ جس کاغذ پر سفر کے نوٹ لکھتے آئے اور وہ بھی جس پر پورٹ سعید سے نئے عربی الفاظ درج کیے گم ہو چکے تھے۔ جدید عربی میں ملت سے خاص طور پر ملت ِ اسلامیہ مراد نہ ہوتی بلکہ ہر قوم ملت کہلاتی تھی، کاغذ گم ہونے کے باوجود یہ لفظ آیندہ انہی معانی میں استعمال کیا۔ ۲۲ ایک روایت کے مطابق لندن میں شیخ عبدالقادر مشرقی پنجاب کے علاقے بٹالہ کے ایک زمیندار کے اکیس سالہ لڑکے شیخ عبدالعزیز کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے جو بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔ ’’جب ابا جی [شیخ عبدالعزیز] لندن پہنچے تو اپنے پنجاب کے امتحانات کے خراب نتائج سے احساسِ کمتری میں مبتلا تھے،‘‘ شیخ عبدالعزیز کے لڑکے کا بیان ہے۔ ’’باقاعدہ کاغذ قلم لے کر لیکچر کے کمرے میں جاتے۔ جو نکتے سمجھ میں آتے وہ کاغذ پر اُتار لیتے۔ گوش بر آواز رہتے۔ غور سے سنتے۔ دقیق مسائل پر دھیان دیتے۔ جو کتابیں استاد پڑھنے کو کہتے ان کا مطالعہ لائبریری میں بیٹھ کر کرتے۔ اگو کوئی بات ذہن میں نہ آتی تو اُن سے ملتے اور اپنی مشکل بیان کرتے۔۔۔ ساری زندگی سید امیر علی اور سر ٹامس آرنلڈ کے مشکور رہے کہ انہوں نے ہی راہِ سفر بتائی اور اُس پر چلنے کا طریقہ بھی۔‘‘۱۲ بعد میںشیخ عبدالعزیز نے اپنے لڑکے کو بتایا کہ اقبال لندن آ کر سب سے پہلے وہیں ٹھہرے۔۱۳ باب ۴ تثلیث کا مدرسہ ستمبر ۱۹۰۵ء سے مارچ ۱۹۰۷ء تک پہلا حصہ ۱ جرمنی کی زیوریخ یونیورسٹی میں سینتالیس سالہ پروفیسر میکس پلانک (Max Planck) روشنی کے بارے میں اپنے خیالات مرتب کر رہا تھا جنہیں کوانٹم تھیوری کہتا تھا اور ابھی مقبول نہ ہوئے تھے۔ اُس برس اُس کی نگرانی میں ایک ایسے نوجوان نے فزکس میں ڈاکٹریٹ حاصل کی تھی جس کے اسکول کے زمانے میں اساتذہ اُس سے مایوس رہے تھے اور اب بھی اُس کے خیالات کو سمجھنا مشکل تھاکیونکہ سائنس میں وجدانی شعور کی ضرورت پر زور دیتا تھا اور اپنے نظریات کو زیادہ تمہید کے بغیر پیش کرکے توقع رکھتا تھا کہ سمجھ لیا جائے گا۔ اب تک یہ توقع پوری نہ ہوئی تھی۔ تازہ مقالہ تو کسی کی سمجھ میں نہ آیا تھا جس میں حرکت کے متعلق اضافیت (relativity" ") کا تصور پیش کیا تھا۔ نوجوان کا نام البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) تھا۔ ۲ ۲۴ ستمبر لندن میں اقبال کی پہلی صبح تھی اور اتوار کا دن تھا۔ وقت ضائع کیے بغیر مصروفیات کا آغاز کر دیا۔دفاتر بند تھے لہٰذا ان مصروفیات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ممکن ہے اپنے لاہور والے اُستاد پروفیسر ٹامس آرنلڈ (Professor Thomas Arnold) سے ملنے گئے ہوں جو ومبلڈن میں رہتے اور لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھا تے تھے۔خیال ہے کہ جہاز پر لکھی ہوئی غزل بھی لندن پہنچتے ہی دکن ریویو میں چھپنے کے لیے روانہ کر دی مگر سفر کے نوٹس گم ہونے کی وجہ سے مولوی انشأاللہ خاں کے لیے سفرنامے کی دوسری قسط ابھی نہ لکھ سکے اور کیمبرج (Cambridge) روانہ ہو گئے۔۱ کیمبرج سے اقبال کو بی اے کی نئی ڈگری حاصل کرنا تھی مگر لاہور سے ایم اے کر لینے کی وجہ سے ایڈوانسڈ اسٹوڈنٹ کی رعایت مل سکتی تھی کہ کلاسوںمیں حاضر ہوئے بغیر مقالہ لکھ کر ڈیڑھ سال میں ڈگری لے لیں۔اس کے بعد پی ایچ ڈی کسی جرمن یونیورسٹی سے کرنی تھی کیونکہ کیمبرج میں ابھی اس کے قواعد مرتب نہ ہوئے تھے۔ طلبہ عام طور پر ہائیڈلبرگ یا میونک جاتے۔۲ ۳ ٹرنٹی کالج (Trinity College) کیمبرج میں سب سے بڑا کالج تھا۔ اِسے ہنری ہشتم نے ۱۵۴۶ء میں قائم کیا اور ۱۶۹۰ء میں انگلستان کے سب سے مشہور معمار سر کرسٹوفر رین نے اِس کی دلکش لائبریری کی عمارت بنائی تھی۔ ۲۹ ستمبر کو اِقبال نے مفصل درخواست پیش کی۔ بنام سینئر ٹیوٹر، ٹرنٹی کالج To The Senior Tutor Trinity College Cambridge. Sir, I desire to enter the University of Cambridge as a research student. I passed the M. A. Examination of Philosophy in the Punjab University in 1899. The following year I was appointed McLeod Arabic Reader by that University and attached to the staff of The Lahore Oriental College, and in 1903 was appointed Assistant Professor of Philosophy in the Lahore Government College. As evidence of my previous study and attainments I beg to state that I wrote a dissertation entitled "The Doctrine of Absolute Unity as explained and defended by Abdul Karim Al-Jilani", which was printed in the Indian Antiquary (Vol XXIX [1900] p.237 ff.), a copy of which will be sent to you in a day or two. My knowledge of Arabic and Persian and my acquaintance with European Philosophy (the study of which I began 12 years ago) suggest to me that I might make a contribution to the knowledge in the west, of some branch of Muhammadan Philosophy. I would propose as a subject of Research - "The genesis and development of Metaphysical concepts in Persia", or some contribution to the knowledge of Arabic Philosophy which the University might approve. I beg further to say that I have attained the age of 21 years. The certificates required are also enclosed herewith. Hoping that you will kindly place my application before the proper authorities. I beg to remain, Sir, Your most obedient Servant Muhammad Iqbal M.A. 69 Shepherds Bush Rd London W. 29th Sep: 1905 ۴ یکم اکتوبر ۱۹۰۵ء تھی۔ ٹرنٹی کالج میں میٹریکولیشن کی تقریب (Matriculation Ceremony) ادا کی گئی۔ ہر طالب ِعلم لائبریری میں رکھے ہوئے رجسٹر داخلہ میں اپنے کوائف درج کرتا۔ کلرک نے نام Mohammed Igbal لکھ کر رجسٹر اُن کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے محمد کے آخر میں eکو aسے بدلا مگر’اقبال‘ کے ہجے درست نہ کیے۔ تاریخ پیدایش محرم ۱۸۷۶ء غالباً اندازے سے درج کی۔ ٹیوٹر کا نام پروفیسر سج وک (Professor Sidgewick) لکھا جو علم حیوانیات کے پروفیسر تھے۔ ان کا کام صرف رہن سہن کے مسائل میں مشورہ دینا تھا۔۳ لائبریری میں اقبال کے محبوب شاعر بائرن کا مجسمہ تھا۔ ملٹن کی کھوئی ہوئی جنت یعنی پیراڈائز لوسٹ (Paradise Lost) کا اصل مسودہ بھی تھا۔ کھڑکی سے باہر کیم ندی کا دلکش منظر دیکھا جا سکتا جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کشتی چلایاکرتے تھے۔ کیمبرج میں اقبال ۱۷ پرتگال پیلس (17 Portugal Place) میں رہنے لگے۔ غالباً پے اِنگ گیسٹ تھے۔ ۵ کیمبرج میں کئی فلسفی اور عالم جمع تھے۔ میک ٹیگرٹ (McTaggart) ہیگل (Hegel) کے فلسفے پر سندمانے جاتے۔ وائٹ ہیڈ (Whitehead) ، وٹگنسٹائن(Witgenstein) ، جارج مور (George Moore) اور برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) بھی ان دنوں کیمبرج میں تھے۔ مشہورمستشرق پروفیسر آر اے نکلسن(Professor R. A. Nicholson) بھی یہیں تھے۔ رومی اور دوسرے فارسی شاعروں کے کلام کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔۱۸۹۳ء میں ٹرنٹی کالج کے فیلو اُس تھیسس کی بنیاد پر منتخب ہوئے جو مولاناروم کی شاعری کے انتخاب اور تبصرے پر مشتمل تھا۔ پانچ برس بعد رومی کے دیوانِ شمس تبریز کا انگریزی ترجمہ بھی کر دیا: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر ایک اور استاد پروفیسرای جی براؤن (E. G. Browne) تھے جو فارسی ادب کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ بہائی تحریک کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کا تعلق اقبال کے موضوع سے بھی تھا۔شاید انہی کے کہنے پر اقبال نے حافظؔ شیرازی پر مرزا محمد دارابی کی تصنیف دیکھی ہو جو حال ہی میں تہران سے شائع ہوئی تھی اور جس میں حافظؔ پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔ مشہور ہندوستانی عالم سید علی بلگرامی بھی اہل و عیال سمیت کیمبرج میں رہتے۔ نوجوان طلبہ وہاں آتے جاتے رہتے۔ اقبال بھی جانے لگے۔ ۶ کیمبرج میں طلبہ کے کئی کلب تھے مگر ہندوستانی طالب علم کے لیے رکنیت اختیار کرنا مشکل تھا۔ ان میں مڈنائٹ،(Midnight) سنڈے اَیسّے سوسائٹی (Sunday Essay Society) اور شیکسپئر سوسائٹی (Shakespeare Society) شامل تھیں۔ پراسرار کلب جس کا نام کیمبرج کنسورزیشیان سوسائٹی (Cambridge Conversazione Society) تھا اُسے عرفِ عام میں ’حواری‘ (Apostles)کہا جاتا۔ یہ خفیہ تنظیم تقریباً ایک صدی سے قائم تھی۔ چونکہ ارکان اسے خفیہ رکھنے کا حلف اٹھاتے لہٰذا عام طور پر طلبہ کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تنظیم اب تک موجود ہے۔ کبھی شاعر ٹینی سن (Tennyson) بھی رکن رہ چکا تھا۔ اقبال کے اساتذہ میں سے میک ٹیگرٹ اور سیج وِک طالب علمی کے زمانے میں رکن رہ چکے تھے۔ پھر بھی امکان کم ہے کہ اقبال ان میں سے کسی تنظیم میں شامل ہوئے ہوں۔ ۷ کیمبرج میں میاں شاہنواز بھی تھے۔ یہ لاہور کے مشہور میاں خاندان سے تعلق تھااور شاہ دین ہمایوں کے رشتہ دار تھے اس لیے شاید پہلے سے اقبال کے واقف رہے ہوں مگر کیمبرج میں دوستی زیادہ ہو گئی۔۴ پیرزادہ تاج الدین بھی لاہور سے تعلق رکھتے تھے اور بیرسٹر بننے لندن آئے تھے۔ بے تکلف طبیعت کے آدمی تھے جن کی زبان ہر قسم کی پابندی سے آزاد تھی۔ اقبال کے گہرے دوست بنے۔۵ ۸ اکتوبر کے مخزن میں اقبال کی نظم ’التجائے مسافر‘ ص ۵۲-۴۹ پرشائع ہوئی۔۶ ریویو (ڈرامیٹک) بمبئی کی مشہور و معروف وکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی کی موجودگی سے لاہور کی رونق میں ان دنوں معتد بہ اضافہ ہو گیا ہے اور مہذب تفریح کے شایقین کے لیے دلچسپی کا خاصا سامان مہیا ہے۔ اس وقت تک اس کمپنی کے صرف دو کھیل ہماری نظر سے گزرے ہیں، یعنی نازاں اور گوپی چند لیکن وہ دو کھیل کمپنی کے محاسن کا پتہ لگانے کے لیے کافی ہیں۔ ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ مسٹر بالی والا (مالک کمپنی) ایکٹنگ کے فن پر بالخصوص توجہ کرتے ہیں، اور ان کے ایکٹروں کو دوسری کمپنیوں پر ایک خاص فوقیت حاصل ہے جو ذوقِ سلیم پر مخفی نہیں رہتی۔ نازاں میں مصنف نے ترکی اوضاع و اطوار کا نمونہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اور بحیثیت مجموعی خاصا دلچسپ ناٹک ہے، لیکن اگر بالاستیعاب دیکھا جائے تو پلاٹ میں بعض اس قسم کی خامیاں ہیں، جن سے کھیل کی دلچسپی میں بہت کچھ فرق آ جاتا ہے۔ گوپی چند ہمارے دوست حضرت طالبؔ کی زورِ قلم کا نتیجہ ہے، اور قبولیت عامہ کا تاج پہن چکا ہے۔ لوٹن اور جوگن کے چست فقرات زباں زدِ ہر خاص و عام ہیں، اس لیے اس ظرافت پیکر کھیل کی زیادہ توصیف فضول ہے۔ مخزن، اکتوبر ۱۹۰۵ء ص۴۸ ۹ میک ٹیگرٹ کے نزدیک ایگو) (ego یعنی انا، خودی یا’مَیں‘ ہی کائنات کی اصل سچائی تھی۔ انا ختم نہ ہو سکتی۔ موت کے بعد بھی باقی رہتی۔اس کی حقیقت وقت میں رہتے ہوئے نہ سمجھی جا سکتی۔ ابدیت کی ضرورت تھی۔۷ اَنا کی حقیقت عمل کے ذریعے نہیں بلکہ محبت میں تلاش کی جا سکتی تھی۔ محبت کسی کے قریب آنے کی وجہ سے پیدا نہ ہوتی بلکہ محبت ہی کی وجہ سے کوئی قریب آتا تھا۔ محبت موجود تھی اِسی لیے ہر ایک کے الگ انداز میں محبت کرنے کے باوجود ساری محبتیں مل کر کائنات کو قائم رکھے ہوئے تھیں۔ ۱۰ میک ٹیگرٹ کے نزدیک خدا کا وجود ممکن نہ تھا۔ محبت ہی ابدی سچائی تھی۔ یہ اَناؤں کو قریب لاتی مگر ایک اَنا دوسرے کے ساتھ یکجا نہ ہو سکتی تھی۔ وصال میں بھی محبت کرنے والے دو رہتے، ایک نہ ہو جاتے۔اگر خدا کا وجود تسلیم کیا جاتا تو ماننا پڑتا کہ وہ ایسی اَنا ہے جس میں باقی تمام اَنائیں شامل ہیں۔ ’’ٹرنٹی کالج میں اُن کے کمرے میں تقریباً ہر روز میری اُن کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’اکثر ہماری گفتگو کا رخ خدا کے موضوع کی طرف پھر جاتا تھا۔ ان کی طاقتور منطق اکثر مجھے خاموش کر دیتی تھی مگر وہ مجھے کبھی قائل نہ کر سکے۔‘‘۸ ۱۱ ایسی انا کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا جو بہت سی اناؤں کا مجموعہ اور اُن سب پر محیط ہو۔ اقبال کا یہی خیال تھا۔۹ ۱۲ ’’ایک دعوت میں ہمیں ایک صاحب سے ملاقات کا اتفاق ہوا جو صرف سطحِ بحر کی مخلوقات کے پروفیسر تھے،‘‘ اقبال سے روایت ہے۔ ’’اُنہوں نے اپنے فن سے متعلق عجیب و غریب انکشافات فرمائے۔ اُن کی زبانی معلوم ہوا کہ سمندر کی سطح پر رہنے والے جانداروں کی انواع و اقسام اور ان کے احوال و کوائف بیحد دلچسپ اور اہم ہیں۔ مجھ پر اُن کی تقریر سے سحر ہو رہا تھا۔‘‘ وہ چیزیں جو دوسروں کے لیے کوئی معانی نہ رکھتی ہوں ایک ماہر ِ علم کے لیے تہ در تہ کھلتی چلی جاتی تھیں۔۱۰ ۱۳ اُنیس برس پہلے جب محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، نوجوان استاد شبلی نعمانی نے قرارداد پیش کی تھی کہ حکومت اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کو صرف انگریزی تعلیم دے۔ تائید کرتے ہوئے سر سید نے کہا تھا کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے اِسلامی علوم کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے لہٰذا وہ علوم پرانی طرز کے اداروں کے سپرد رہنے دیے جائیں۔ اب مسلمانوں کو اعلیٰ انگریزی تعلیم مل رہی تھی اور ملازمتوں کے دروازے کھل گئے تھے مگر دوسرا نکتہ جسے سرسید نے واضح کیا تھااُس کی تکمیل بھی شبلی ہی کے ہاتھوں ہونی تھی۔ حیدرآباد چھوڑ کر لکھنؤ واپس آئے اور ندوۃالعلما ٔ کا اہتمام سنبھال لیا جو اسلامی علوم کے لیے پرانی طرز کا ادارہ تھا۔ ندوہ کے نصاب میں علم الکلام، عربی ادب، جدیدعربی زبان اور انگریزی کا اضافہ کیا مگر کم سن مولوی اے بی سی ڈی سے آگے بڑھتے نظر نہ آتے تھے۔ ندوہ جیسے اداروں کو علیگڑھ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے رہنمائی کی ضرورت تھی مگر علیگڑھ کے مدرسے کی تعمیر کے وقت مسلمان شرفأ نے سرسید کے مذہبی افکار کی بجائے مولویوں والے اسلام کی تعلیم دینے پر اصرار کیا۔ اُن روایتی باتوں میں اِتنا دم نہ تھا کہ جدید خیالات کے سامنے بند باندھے جا سکتے۔ اب علیگڑھ سے جو نوجوان نکل رہے تھے اُن میں سے کچھ مذہب ہی سے بیزار تھے، باقی میں سے کوئی توجہ بھی دیتا تو سمجھ نہ پاتا کہ جدید علوم میں سے کون سی چیزیں پرانی طرز کے اِداروں کے لیے مفید ہوں گی۔ انگریزی پڑھے ہوئے لڑکے عام طور پر مذہبی اداروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جیسے کوئی نوجوان کسی امیر لڑکی سے شادی کرنے کے لیے اپنے غریب والدین اور بہن بھائی کے وجود سے انکار کر دے۔ مولویوں نے سرسید کے مذہبی خیالات کی مخالفت کر کے ناسمجھی میں اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی لیکن اگلے سو برس تک الزام سرسید کو برداشت کرنا تھا۔۱۱ ۱۴ شبلی جن طلبہ پر مہربان ہوتے اُنہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتے: عبدالسلام، مسعود علی اور سید سلیمان۔ندوۃ العلماکی رعایت سے ندوی کہلاتے: عبدالسلام ندوی، مسعود علی ندوی، سید سلیمان ندوی۔ رسالہ الندوۃ جو دارُالعلوم سے علما ٔ کے لیے شائع ہوتا اُس کی ادارت میں شبلی کے ساتھ نواب حبیب الرحمٰن شیروانی کا نام بھی ہوتا مگر ساراکام شبلی ہی کرتے تھے۔کلکتہ کے نوجوان محی الدین احمد جن کا قلمی نام ابوالکلام آزادؔ تھا، شبلی نعمانی کے کہنے پر لکھنؤ آ کرالندوۃ کی ادارت میں ہاتھ بٹانے لگے۔ عمر سترہ برس تھی۔ والد صاحب گدی نشین پیر تھے۔ بچپن ہی سے ایسی مشق کروائی کہ ذہن میں کئی خانے بن گئے جن میں مذہب، فلسفہ، شعر و ادب اور سیاست الگ الگ رکھی ہوئی تھیں۔ شبلی انہیں خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ ابوالکلام ہر صبح چار بجے اُن کے کمرے میں پہنچ جاتے اور چائے کے ساتھ علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ ۱۵ سرسید کے مذہبی خیالات جن سے علیگڑھ کے بعض طلبہ محروم رہے، وہ سید میر حسن نے اپنے شاگرد کو بچپن ہی سے گھول کر پلا دئیے تھے جو ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ کی تلاش میں کیمبرج پہنچا ہوا تھا۔ ۶ اکتوبر کو سنڈیکیٹ بلڈنگ میں میٹنگ ہوئی جس کی صدارت پروفیسر ڈبلیو آر سورلے (W.R. Sorley) نے کی۔ پروفیسر میک ٹیگرٹ ، پروفیسر وارڈ اور دو اور صاحبان بھی میٹنگ میں شریک تھے۔ منٹ نمبر ۲ کے مطابق اقبال کے تحقیقی مقالے کی تجویز منظور ہوئی اور میک ٹیگرٹ کو اس کی رہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا۔ مقالے کا عنوان تھا:۱۲ The Genesis and Development of Meta-Conceptions in Persia ۱۶ تحقیقی مقالے کا بنیادی خاکہ بنا:۱۳ پہلا باب، فارسی ثنویت کے بارے میں یعنی ایران میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے جوروشنی اور تاریکی کو اس کائنات کی دو قوتوں کے طور پر خدا کا مظہر سمجھا جاتا تھا ۔ دوسرا باب، ایران کی فتح کے بعد مسلمانوں میں جو ’نوافلاطونی‘ فلسفی گزرے ان کے بارے میں یعنی فارابی، ابن مسکویہ اور بو علی سینا۔ تیسراباب، اسلامی عقلیت پسندی کا دَور یعنی یونانی اور ایرانی فلسفہ کی آمیزش سے جومعتزلہ فرقہ پیدا ہوا اُس کا عروج و زوال۔ اس کے ردِ عمل میں جو اسمٰعیلیہ اور اشاعرہ فرقے وجود میں آئے اُن کا ذکربھی ہونا تھا۔ چوتھا باب، تصوف کے بارے میں ۔ اس میں مشہور مسلمان فلسفیوں کے عقاید و افکار کا جائزہ پیش ہونا تھا۔ پانچواں باب، آخری دَور کے ایرانی فلسفے کے بارے میں لکھا جانا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ اس مختصر عرصہ میں تمام فلسفیوں کے افکار کا خلاصہ پیش کردیتے جو ایران کے ڈھائی ہزار سال میں نمودار ہوئے مگر افکار کا خاکہ مرتب ہو سکتا تھا جس کے مطابق بعد میں خود یا کوئی اور مفصل تاریخ لکھ سکے۔ اسلامی فکر کو جدید فلسفے کی اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوئی خاص کوشش ابھی تک نہ ہوئی تھی۔ تقریباً تمام کام عربی اور فارسی ماخذوں کی مدد سے کرنا تھا۔ اکثر نایاب تھے۔ انڈیا آفس لائبریری، رائل لائبریری اور برٹش میوزیم میں سولہ مخطوطے زیادہ کام آسکتے تھے ۔ ان میں برٹش میوزیم میں پڑا ہوا بو علی سینا کی تحریروں کا کلیات بھی شامل تھا۔۱۴ بدنصیبی تھی کہ مسلمانوں کے آباواجداد کی کتابیں یورپ کے کتب خانوں میں دیکھی جا سکتیںاوراپنے ممالک میں ناپید تھیں۔غنیؔ کاشمیری کا شعر یاد آیا ہو گا کہ حضرت یعقوبؑ بیٹے کی جدائی میں روتے روتے نابینا ہو گئے مگر اُن کی آنکھوں کے نور سے زلیخا اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھیں:۱۵ غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن کہ نورِ دیدہ اَش روشن کند چشمِ زلیخا را ۱۷ ۱۹۰۵ء کے اواخر میں جب ابھی انگلستان میں بھی عورتوں کی برابری کا تصور قبول نہ کیا جا سکا تھا، شبلی نے ہمت کر کے گیارہویں صدی کے مشہور عالم ابن حزم کے بارے میں مضمون تحریر کیا جنہوں نے قرآن شریف سے دکھایا تھا کہ بی بی سارہ، والدۂ حضرت موسیٰ اور بی بی مریم نبی تھیں۔ جتنے اعتراضات قاری کے ذہن میں آسکتے تھے اُن کا جواب دیا تھا۔۱۶ ’’علامہ موصوف کا یہ خیال صحیح ہو یا نہ ہو، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے کے تعلیم یافتہ حضرات کے ہم خیال پہلے بھی موجود تھے،‘‘ شبلی نے لکھا مگر قدامت پسندوں کے ہم خیال بھی نئے زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں میںموجود تھے۔ دکن ریویو کے ’اِسلام نمبر‘ میں کسی مولوی محمد اختر کا اسلام میں عورت کے مرتبے پر مضمون شائع ہوا تو ظفر علی خاں نے لکھا کہ زندگی کے بعض کارنامے صرف مردوں کا حصہ ہیں۔ عورتوں کو برابر سمجھا گیا تو وہ صورت حال پیش آئے گی جس کا ذکر اکبر الٰہ آبادی نے یوں کیا تھا کہ: جس کو بیٹا وہ سمجھتے تھے بھتیجا نکلا پردہ اٹھ جانے کا آخر یہ نتیجہ نکلا۱۷ ۱۸ ۱۴ اکتوبر کو برطانیہ میں ووٹ کا حق مانگنے والی خواتین میں سے دو رضاکاروں نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا اور عدالت نے بالترتیب سات روز اور تین روز کی سزا سنائی۔ اقبال یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی ہو گی کہ میک ٹیگرٹ عورتوں کے ووٹ کے حق کی حمایت کرتے تھے۔ ۱۹ ۱۶ اکتوبر کو لاہور میں مولوی انشا ٔاللہ خان کے اخبار وطن میں اقبال کے سفرنامے کا پہلا حصہ شائع ہوا۔ اُس روز بنگال تقسیم ہوا۔ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاںنے منشی گنج میں مسلمانوں کے سامنے تقریر کی، ’’اس تقسیم نے ہماری بے عملی رفع کر دی اور ہم کو جدوجہد کی طرف متوجہ کر دیا۔‘‘ کانگریس نے صوبے میں یومِ سیاہ منایا۔ پیلے دھاگے تقسیم کر کے راکھی باندھی گئی اور پھر ہندو رضاکاروں کے جتھے اُن دکانوں کو بند کروانے نکل کھڑے ہوئے جہاں انگلستان سے درآمد کیا ہوا کپڑا بکتا تھا۔ زیادہ تر مسلمانوں کی دکانیں تھیں۔ ۲۰ بنام حسن نظامی ازکیمبرج، ٹرینٹی کالج ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۵ء اسرارِ قدیم سیّد حسن نظامی ایک خط اس سے پہلے ارسال کر چکا ہوں۔ امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گذرا ہوگا۔ اُس خط کے جواب کا انتظار ہے اور بڑی شدت کے ساتھ۔ اب ایک تکلیف اور دیتا ہوں اور وہ یہ کہ قرآن شریف میں جس قدر آیات صریحاًتصوف کے متعلق ہوں اُن کا پتہ دیجیے۔ سپارہ اور رکوع کا پتا لکھیے۔ اِس بارہ میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کر کے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں۔ اس مضمون کی سخت ضرورت ہے اور یہ گویا آپ کا کام ہے۔۔۔ اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلہ وحدت الوجود یعنی تصوّف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے تو وہ کون کون سی آیات پیش کر سکتے ہیں۔ اور ان کی کیا تفسیر کرتے ہیں؟ کیا وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے تعلق ہے؟ کیا حضرت علی مرتضیٰ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟ غرضکہ اس امر کا جواب معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر میں مفصل چاہتا ہوں۔ میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استصواب ضروری ہے۔ آپ اپنے کسی اور صوفی دوست سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں مگر جواب جلد آئے۔ باقی خیریت ہے۔ اقبال ۲۱ پورٹ سعید سے حسن نظامی اور دوسرے دوستوں کو جو خط بھیجے اُن میں سے کسی کی رسید اب تک نہ ملی تھی۔ مقالے میں تصوف کا ذکر چوتھے باب میں تھا مگر معلوم ہوتا ہے تحقیق کی ابتدا اِسی موضوع سے ہوئی۔ پھر معلوم نہیں حسن نظامی نے مطلوبہ مواد بھیجا یا نہیں مگر رسالہ احسان کے دو شمارے موصول ہوئے۔ رسالہ تصوف کے بارے میں تھا اور حسن نظامی نے جاری کیا تھا۔اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا: کس قدر تغیر ہے!ایک وہ زمانہ تھا کہ اِس مضمون پر بات کرنا خلافِ اصولِ طریقت تھا۔ اب یہ زمانہ ہے کہ ماہوار رسالے شائع ہوتے ہیں۔ اِس کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے۔ یہ نئے زمانے پر اعتراض نہ تھا بلکہ تعریف تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ کب سے یہ خیال ذہن میں تھا کہ اَسرارکے بے حجاب ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ بہرحال اب پہلی دفعہ تحریر میں سامنے آیا۔ اس کے بعد فکر کا مرکزی نکتہ بن گیا۔ ۲۲ اکبر الٰہ آبادی کے لڑکے سید عشرت حسین بھی کیمبرج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔دلچسپی دوسری چیزوں میں زیادہ تھی۔ اکبر لکھ کر بھجوا چکے تھے: عشرتی! گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے کھا کے لندن کی ہوا، عہدِ وفا بھول گئے موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بھلایا گھر کو جب کہ بوڑھے روشِ دین ِ خدا بھول گئے ۲۳ ۲۱ اکتوبر کو اقبال نے کیمبرج سے میٹرکولیشن کی سند حاصل کی۔ کسی رسمی کاروائی کے لیے ضرورت رہی ہو گی۔۱۸ ۲۴ اکتوبر کے کسی ہفتے یا نومبر کے شروع میں کیمبرج سے واپس لندن آئے۔ ۶ نومبر کو لنکنزاِن میں داخلہ لیا تاکہ بیرسٹری کی سند حاصل کر سکیں۔ فیس آٹھ پونڈ بارہ شلنگ تھی۔ پچاس پونڈ کی رقم جمع کروائی اور غالباً کسی فارم پر کوائف لکھ کر داخلہ کلرک کے حوالے کیے۔ انگریزی میں لکھتے ہوئے حروف کھینچنے کے عادی تھے لہٰذا کلرک نے نور محمد کو میر محمد پڑھا اور نمبر ۶۹ کے سامنے ولدیت میں اسی طرح لکھا۔۱۹ ۲۵ شیخ عبدالقادر کا بیان ہے: جب اقبال لندن آتے تو بیرسٹری کے لیکچروں یاکھانوں کے لیے ہم دونوں مل کر جاتے۔ بعض علمی مجالس میں بھی اکٹھے شریک ہوتے تھے۔ ہمارے بعض احباب بھی سانجھے تھے مگر اقبال کی طبیعت کی دو عادتیں وہاں زیادہ نمایاں ہو جاتی تھیں۔ ایک تو ان کی کم آمیزی جس کا اشارہ انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کیا ہے۔ بہت سے دوست نہیں بناتے تھے۔ دوسری عادت نقل و حرکت میں تساہل و تکاہل تھی۔ وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے، ’’بھئی کون جائے۔ اس وقت تو کپڑے پہننے یا باہر جانے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘ ہم انہیں ہنسی سے’قطب از جا نمی جنبد‘کی کہاوت سنایا کرتے تھے۔ شیخ عبدالقادر کے مطابق لندن میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ ملنے جلنے سے بھی اقبال محظوظ ہوئے۔۲۰ ۲۶ اقبال کے کسی ملنے والے ہندوستانی طالب علم نے اپنی پریشانی بیان کی۔ ایک انگریز خاتون سے دوستی تھی۔ اُس نے اِس کی کسی چیز کی تعریف کی تو اِس نے وہ چیز پیش کرتے ہوئے کہا، ’’یہ میرے کسی کام کی نہیں۔‘‘ وہ ناراض ہوگئی۔ اقبال ہندوستانی طالب ِ علم کی طرف سے اُس کے پاس گئے اور سمجھایا کہ مشرق میں کسی کو تحفہ دیتے ہوئے خیال رکھا جاتا ہے کہ تحفہ لینے والے کو احساس نہ ہونے دیا جائے کہ کوئی احسان کیا جا رہا ہے۔ بات بن گئی۔۲۱ ۲۷ نومبر میںمخزن میں ص ۴۹ پر’کنارِ راوی‘ شائع ہوئی۔ دکن ریویوکا ستمبر کا شمارہ بھی دو ماہ کی تاخیر سے اب شائع ہوا ۔ اقبال کی وہ غزل شامل تھی جو اِٹلی کے قریب سے گزرتے ہوئے لکھی تھی۔ ۲۸ شیخ عبدالقادر کو اخباروطن کے مدیر مولوی انشأ اللہ خاں کا خط ملا جس میں شکایت تھی کہ اقبال نے سفرنامے کی دوسری قسط ارسال نہیں کی۔شیخ عبدالقادر نے شکایت اقبال تک پہنچادی۔۲۲ ۲۹ برٹش میوزیم میںابن سینا کے کلیات میں عشق کے موضوع پر ایک نایاب تحریر شامل تھی۔ ابن ِ سینا کے نزدیک حسن کی ستایش کا نام عشق تھا۔ چنانچہ کائنات میں تین اقسام کی ہستیاں تھیں: ٭ پہلی جو حسن کے انتہائی کمال پر فائز تھیں ٭ دوسری جو حسن میں کمترین مقام پر پائی جاتی تھیں ٭ تیسری ان دونوں مقامات کے درمیان تھیں مگر یہ علیحدہ قسم نہ تھی کیونکہ تمام چیزیں یا حسن کے کمال پر پہنچ چکی ہوتیں یا پہنچ رہی ہوتی تھیں حسن یا کمالِ ِہستی تک پہنچنے کی اِسی خواہش کا نام عشق تھا۔ چیزوں کے ظاہری ارتقأ کے پیچھے عشق کی قوت کارفرما ہوتی۔ یہ عشق کائنات کی ہر چیز میں جدوجہد،حرکت اور عمل پیدا کرتا۔ میک ٹیگرٹ کے نزدیک علم کا سرچشمہ عمل نہیںمحبت سہی مگر محبت کی فطرت میں عمل بھی تو شامل تھا! محبت عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی ناآشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذتِ رم سے قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا نہ واقف تھا ابھی گردش کے آئین ِ مسلّم سے ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشمِ خاتم سے سنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغر ِ جم سے لکھا تھا عرش کے پائے پہ اِک اکسیر کا نسخہ چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ رُوحِ آدم سے نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب تمنائے دِلی آخر بر آئی سعیٔ پیہم سے پھرایا فکرِ اجزا نے اسے میدانِ امکاں میں چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے محرم سے چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا حرارت لی نفس ہائے مسیحِ ابن ِ مریم سے ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیرِ شبنم سے پھر اِن اجزا کو گھولا چشمۂ حیواں کے پانی میں مرکّب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے ہوئی جنبش عیاں، ذرّوں نے لطفِ خواب کو چھوڑا گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے خرامِ ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے اس نظم میں کبھی ترمیم نہ ہوئی۔ ۳۰ ایک اور نظم جو کہیں شائع نہ ہوئی وہ شاید اُسی زمانے میں کہی گئی ہو۔عنوان ’ عورت‘ تھا۔ جس طرح پچھلی نظم میں محبت کا فارمولا بتایا تھا، اِس میں عورت کے اجزائے ترکیبی بیان ہوئے۔ خاص خاص یہ تھے: چاند کی گولائی، سانپ کا پیچ و خم، گھاس کی پتی کی ہلکی تھرتھراہٹ، بید ِ مجنوں کی نزاکت، مور کا بانکپن، پہاڑی پھول کی نرمی، چینی ہرن کی آنکھیں، بادل کے آنسو۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی۔۲۳ ۳۱ ۱۸ نومبر کولارڈ منٹو نے وائسرائے کا عہدہ سنبھالا۔ ۳۲ ۲۴ نومبر کو مولوی انشا ٔ اللہ خاں کے نام پرائیویٹ خط تحریر کیا۔ اگلے روز سفرنامے کی دوسری اور آخری قسط قلم بند کرتے ہوئے لکھا: میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سویز پہنچ کر دوسرا خط لکھوں گا مگر چونکہ عدن سے سویز تک کے حالات بہت مختصر تھے اِس واسطے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ لندن پہنچ کر مفصل واقعات عرض کروںگا۔ میرے پاس ایک کاغذ تھا جس پر میں دورانِ سفر نوٹ لیتا جاتا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ منزلِ مقصود پر پہنچ کر وہ کاغذ کہیں کھو گیا۔۔۔ پچھلے روز والا پرائیویٹ خط بھی اِسی سفرنامے کے ساتھ روانہ کیا گیا۔ ۳۳ ٭ برطانیہ میں قدامت پسند یعنی کنزرویٹو جماعت(Conservative Party) جو حکومت کر رہی تھی جاگیرداروں کی نمایندہ اور بادشاہ کی وفادار سمجھی جاتی۔ مخالفین اِسے ٹوری کہتے جو پرانی زبان میں ٹھگ کے مترادف تھا۔ ٭ شہری سرمایہ داروں کی نمایندہ آزاد خیال یعنی لبرل جماعت(Liberal Party)تھی۔ مخالفین اسے وِگ کہتے جو علاقائی زبان میں گھوڑوں کے چرواہے کے مترادف تھا۔ ٭ آئرش پارٹی آئرلینڈ کے جزیرے کو آئینی حقوق دلوانے کے لیے وجود میں آئی تھی۔ ٭ مزدوروں کی حامی ایل آر سی یعنی لیبر ریپریزنٹیٹو کمیٹی (Labour Representative Committee) تھی۔ ۵ دسمبر کو ٹیرف کے مسئلے پر وزیراعظم آرتھر بالفور کو استعفیٰ دینا پڑا۔ بادشاہ نے یہ عہدہ سر ہنری کیمبل بینرمین کو پیش کر دیا۔ اُن کی لبرل پارٹی اقلیت میں تھی مگر مزدوروں کو ووٹ دینے کا حق مل چکا تھا۔ ۱۹۰۱ء کے عدالتی فیصلے سے بے چین تھے جس کے مطابق کارخانے کا مالک ہڑتال کرنے والوں سے نقصان کا معاوضہ مانگ سکتا تھا۔عام انتخابات اگلے ماہ ہونے والے تھے۔ ۳۴ ۱۰ دسمبر کو بینرمین کی حکومت کے تحت جان مارلے وزیر ِ ہند مقرر ہوئے۔ لبرل پارٹی سے تعلق تھا۔ ۳۵ پروفیسر ارنسٹ ہیکل جرمن بیالوجسٹ تھے جنہوں نے اُنتالیس برس پہلے ماحولیات کے لیے لفظ ’’اکالوجی‘‘(ecology) اختراع کیا تھا۔ ان کے خیال میں تہذیب اور معاشرت یہاں تک کہ مذہب بھی ڈارون کے نظریۂ ارتقأکا پابند تھا۔ بعض اوقات سائنسی مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے میں جلدبازی بھی کرتے تھے مگر اُن کے نظریات مقبول ہو رہے تھے۔ اُس برس ولیم اینڈ نارگیٹ لندن سے اولیور لاج(Oliver Lodge) کی کتاب لائف اینڈ میٹر(Life and Matter) شائع ہوئی جس میں ان نظریات پر تنقید کی گئی تھی۔ معلوم نہیں اقبال اِس سے کب واقف ہوئے مگر کبھی نہ کبھی یہ اُن کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئی۔ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ تھیں۲۴: A. Z. The Emancipation of Egypt. London, Chapman Alsworth Ross, Edward. Foundations of Sociology. New York, McMillan Bagehot, Walter. Physics and Politics. London, Kegan Paul Besant, Annie & C. W. Leadbeater: Thought Forms. London, Theosophical Publishing Society Clarke. Towards Democracy. London, Swan Sonnenachein George Edward Woodberry. Swineburn. London, William Heinemann Gulson, J. R. The Philosophy of Proof. London, George Rutledges Hiller, H. Croft. The New Science of Causation. London, Walter Scott Innes, Taylor A. The Trial Of Jesus Christ: A Legal Monograph. Edinburgh, T.T.Clark Lodge, Oliver. Life and Matter. London, William & Norgate Mercier, Charles. Criminal Responsibility. Oxford University Press Seth, James. A Study Of Ethical Principles Edinburgh, W. Blackwood Tisdall, W. St. Clair. The Original Sources of the Quran. London, Society for Promoting Christian Knowledge Whitney, L. H. Life And Teachings of Zoroaster, the Great Persian. Chicago, Loren Harper Whitney ۳۶ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس اس دفعہ علیگڑھ میں منعقد ہو رہا تھا۔ سید میر حسن اپنے بیٹے ذکی کے ساتھ شرکت کرنے گئے۔ سابق شاگرد اور اقبال کے سیالکوٹ کے ساتھی جگن ناتھ دہلی میں تھانیدار تھے۔ دہلی میں میر حسن اور ذکی کی خوب خاطر تواضع کی۔۲۵ اجلاس میں قریباً ایک ہزار رُکن اور ۳۲۷ مہمان شریک ہوئے۔ یہیں میر حسن نے اُس نوجوان کو دیکھا ہو گا جس کی عمر ستائیس برس تھی، علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ سے تاریخ میں بی اے کی ڈگری لایا اور اَب ریاست بڑودہ میں مہاراجہ کی زمینوں سے پیدا ہونے والی افیون کو بیچنے کا ذمہ دار تھا۔ دیانت دارتھا اس لیے اس کی وجہ سے منافع بڑھ گیا تھا۔ داڑھی نہ رکھتا مگر مونچھیں تھیں، نظم کبھی کبھی کہتا مگر انگریزی نثر ایسی لکھتا کہ انگریز رشک کریں۔ نام محمد علی اور تخلص جوہر ؔتھا۔ قرارداد پیش کی: ’’قومی قوتوں کا کسی ایک ہی مرکز پر اس طرح اجتماع اور انضباط کیا جائے کہ مقامی ضرورتوں کا بھی کافی لحاظ رہے۔‘‘ اس کے بعد معاشرے کا تجزیہ پیش کیا۔ اس قابل تھا کہ آیندہ ہر مورخ کے لیے سنگِ بنیاد بنتا: ہماری قوم میں جتنے فرقے ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو تعلیمی حیثیت سے ان کے چار حصے ہیں۔ ایک طبقہ علمأ کا جو برہمنوں کی طرح اور لوگوں سے علیٰحدہ رہتے ہیں مگر پھر بھی عام مسلمانوں پر ان کا بہت اثر ہے مگر وہ کسی طرح ہمارے لیے باعثِ منفعت نہیں۔ دوسرا طبقہ رؤسا کا جو ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں مگر جن کو علم دنیا و دین سے کوئی تعلق نہیں۔ تیسرا فرقہ غربأ کا جو اپنی آپ بھی مدد نہیں کر سکتے۔ چوتھا فرقہ متوسط درجے کے لوگوں کا اور وہی ہماری قوم کی جان ہے اور جو ایک حد تک اپنے فرائض پورے کر سکتے ہیں۔ ان میں بھی دو فرقے ہیں۔ اول وہ جو کہ مغربی تعلیم سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا۔ دوسرے ان کے خلاف جو کہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آج سے تیس برس پہلے ان لوگوں کا فرقہ جو مغربی تعلیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے بالکل مفقود تھا مگر ایک شخص کی کوشش سے اور ایک دیاسلائی سے ہزاروں چھوٹے چھوٹے چراغ ٹمٹماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آخری جملہ سرسید کی طرف اشارہ تھا۔ ریاست پٹیالہ کے وزیر، خان بہادر خلیفہ محمد حسین صدارت کر رہے تھے۔ مسلمان لڑکوں میں سائنس کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا، ’’اس زمانے میں کسی ذی فہم شخص کواِس امر سے انکار نہیں۔ اگر اس مسئلۂ اشاعتِ تعلیمِ نسواں میں کچھ اختلاف ہے تو محض تعلیم دینے کے طریقوں کی نسبت ہے۔‘‘ انگلستان کے ولی عہد ہندوستان کا دورہ کرنے والے تھے۔ نظام دکن کے قصیدے کے ساتھ ولی عہد کی شان میں بھی مسدس پڑھی گئی:۲۶ سیاحت کے لیے شہزادۂ ذی جاہ آتے ہیں مبارک ملک کو فرزندِ شاہنشاہ آتے ہیں مولانا حالی نئی نظم لکھ کر لائے تھے، ’چپ کی داد‘۔بہت مشہور ہوئی: ماؤ، بہنو، بیٹیو! دنیا کی زینت تم سے ہے ملکوں کی بستی ہو تمہیں، قوموں کی عزت تم سے ہے ۳۷ قرآن شریف میں علم کے تین ذریعے بتائے گئے: فطرت، تاریخ اور وجدان۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مطالعۂ فطرت میں سرسید رہنما تھے۔ تاریخ میں محمد علی (جوہرؔ) اور وجدان میں اقبال وہ رہنما بننے والے تھے جن سے صرفِ نظر کرنا قوم کے لیے ناممکن ہو جاتا۔ دُوسراحصہ ۳۸ To Zoroaster - the ancient sage of Iran - must always be assigned the first place in the intellectual history of Iranian Aryans who, wearied of constant roaming, settled down to an agricultural life at a time when the Vedic Hymns were still being composed in the plains of Central Asia. This new mode of life and the consequent stability of the institution of property among the settlers, made them hated by other Aryan tribes who had not yet shaken off their original nomadic habits, and occasionally plundered their more civilised kinsmen. Thus grew up the conflict between the two modes of life which found its earliest expression in the denunciation of the deities of each other - the Devas and the Ahuras. It was really the beginning of a long individualising process which gradually severed the Iranian branch from other Aryan tribes, and finally manifested itself in the religious system of Zoroaster - the great prophet of Iran who lived and taught in the age of Solon and Thales. In the dim light of modern oriental research we see ancient Iranians divided between two camps - partisans of the powers of good, and partisans of the powers of evil - when the great sage joins their furious contest, and with his moral enthusiasm stamps out once for all the worship of demons as well as the intolerable ritual of the Magian priesthood. یہ اقبال کے تحقیقی مقالے کی ابتدأ تھی۔آریاؤں کی جو شاخ ایران کے میدانوں میں آباد ہوئی بہت جلد تہذیب سے واقف ہو گئی اگرچہ اُس ابتدائی تہذیب کے بارے میں معلومات کم تھیں۔ مقالے کا پہلا باب اسی کھوئی ہوئی تہذیب کے ذہنی ارتقا کی جستجو تھا۔ اولین ایرانی دو گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آتے۔ ایک گروہ کے نزدیک اندھیرا، ظلم، جھوٹ اور نفرت زندگی کی اصل قوتیں اور کائنات پر انہی کی حکومت تھی۔ ہر دن کا اختتام رات پر ہوتا، تاریکی ہمیشہ غالب آتی۔ بدروحوں کی پُوجا بھی کرتے تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک روشنی، انصاف، سچاّئی اور محبت میں اصل طاقت تھی۔ ہر رات کے بعدصبح ہوتی تو پھر کیوں نہ کہا جاتا کہ روشنی اندھیرے پر غالب آتی تھی! یہ گروہ اچھی روحوں کی پوجا کرتا۔ ایران کے ان جھگڑتے ہوئے گروہوں کے درمیان ایک نیم تاریخی اور دیومالائی قسم کا شخص نمودار ہوا جس کی فراست کی روشنی نے ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ پھر خیالات ویسے نہ رہے جیسے پہلے تھے۔ اس کا نام زرتشت تھا۔ زرتشت نے کہا، کائنات میں اچھائی کی قوتیں متفرق نہیں بلکہ ایک ذاتِ واحد میں جمع ہیں۔ مختلف روحوں کی بجائے اُسی کی پرستش کرنی چاہیے۔ اُس کا نام اہورا مزدا ہے۔ برائی کا سرچشمہ بھی مختلف روحوں کی بجائے صرف ایک ہستی ہے جس کا نام اہرمن ہے۔اُس کے خلاف جنگ میں اہورامزدا کا ساتھ دینا چاہیے۔ اقبال اِن تعلیمات کوجدید مابعدالطبیعات کے تین بنیادی سوالوں کے حوالے سے بیان کرنا چاہتے تھے: ۱ خدا کے وجود کوکیسے سمجھا جائے؟ ۲ کائنات کیا ہے؟ ۳ رُوح کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ زرتشت کے اقوال جو قدیم ایرانی زبان ژند میں موجود تھے کسی مربوط نظام کے تحت نہ لکھے گئے بلکہ یہ اُسی طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے خود ایرانی مزاج منتشر تھا۔ اقبال کوشش کر رہے تھے کہ اس پھیلاؤ میں سے اپنے تین سوالوں کے جواب اخذ کر سکیں۔ ژند نہ جانتے تھے لہٰذا دُوسرے مستشرقین کی کتابوں سے استفادہ کرنا تھا۔ جہاں تک خدا کے وجود کا تعلق تھا زرتشت کہتے کہ خیر اور شر دو علیحدہ قوتیں نہیں بلکہ ایک ہی خدائے بزرگ کی ہستی کے دو رُخ تھے۔ ’’اِسی بنا پر ڈاکٹر ہاگ کہتے ہیں کہ قدیم ایران کا یہ پیغمبرمذہبی اعتبار سے توحیدپرست اور فلسفیانہ نقطہ ٔ نظر سے دُوئی پرست تھا،‘‘ اقبال نے انگریزی میں نوٹ کیا۔ ’’مگر یہ کہنا کہ دوایسی روحیں موجود ہیں جن میں سے ایک اچھائی کو جنم دیتی ہے اور دوسری برائی کو، اور پھر اِن دونوں جڑواں روحوں کو ایک ہی برتر ہستی کے وجود میں سمونا یہ کہنے کے برابر ہے کہ اچھائی اور برائی کی جدّوجہد دراصل خدا کی اپنے آپ سے جنگ ہے۔ چنانچہ زرتشت نے مذہبی توحید اور فلسفیانہ دُوئی میں صلح کروانے کی جوکوشش کی اُس میں یہی بنیادی نقص تھا۔‘‘ کائنات کیا ہے؟ زرتشت کی کائنات کو دوشعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا۔حقیقت، یعنی تمام اچھی تخلیقات کا مجموعہ جو اچھائی کی رُوح سے فیض حاصل کر رہا ہے، اور غیرحقیقت، جو برائی کی پیداوار ہے۔ انگریزی میں لکھا: اچھائی اور بُرائی کی دو رُوحوں کی کشمکش کی جھلک ہمیں کائنات کی مختلف قوتوں کی آویزش میں نظر آتی ہے۔۔ ۔پوری کائنات کی تاریخ اِنہی کی جنگ کی کہانی ہے، اور بس! دوسری چیزوں کی طرح ہم بھی اِس جنگ میں شریک ہیں اور ہمیں چاہیے کہ روشنی کے طرف دار بنیں جو آخر میں غالب آئے گی اور تاریکی کی رُوح کو بالکل ختم کر کے چھوڑے گی۔ یوں افلاطون کی طرح زرتشت کا نظریۂ کائنات بھی اخلاقیات تک پہنچتا ہے۔۔۔ رُوح کے متعلق زرتشت کا نظریہ کافی سادہ ہے۔ اُن کے نزدیک یہ خدا کے وجود کا حصہ نہیں ہے بلکہ اُس کی تخلیق ہے۔ یہ پیدا تو وقت میں ہوئی ہے مگر چاہے تو اِس دنیا کے میدانِ عمل میں برائی کے خلاف جدّوجہد کر کے ابدی زندگی حاصل کر سکتی ہے۔ گویا وقت کی قید سے آزاد ہو سکتی ہے۔ ایسی رُوح جسم کی قید سے آزاد ہونے کے بعد خاص مرحلوں سے گزرتی ہے جن میں سے آخری مرحلہ’ازلی عظمت‘ ہے جہاں رُوح اپنی انفرادی شخصیت کوختم کیے بغیر نُور کی طاقت یعنی خدا کی ذات سے متحد ہو سکتی ہے۔۲۷ ۳۹ جنوری ۱۹۰۶ء میںمخزن میں ص ۴۹ پر اقبال کی نظم ’محبت‘ چھپی۔ ۴۰ ۱۲ جنوری کو انتخابات شروع ہوئے تو مزدوروں کی بے چینی سڑکوں پر نکل آئی۔ خواتین ووٹ نہ ڈال سکتی تھیں۔ بعض یہ حق مانگتی تھیں۔ وہ بھی سرگرم تھیں۔ ۴۱ اسپین کے الجزیرہ میں مسیحی طاقتیں مراکش کے مستقبل کا فیصلہ کرنے جمع ہوئیں توجرمنی نے فرانس پر دھاک بٹھانے کے لیے فوجیں اکٹھی کرنا شروع کیں۔ جواب میں فرانس نے اپنی فوجیں جرمنی کی سرحد پر بھیج دیں۔ جس طرح ہندوستان میں طوائفوں کے مجرے کے بغیر شادی کی تقریب مکمل نہ ہوتی، یورپ میں فوجی دستوں سے دہشت پھیلوائے بغیرمذاکرات مزہ نہ دیتے۔ یہ گن بوٹ ڈپلومیسی(gunboat diplomacy) کہلاتی۔ ۱۶ جنوری کو کانفرنس شروع ہوئی۔ مراکش کے نمایندے تیرہ مسیحی طاقتوں کے درمیان گھرے بیٹھے تھے۔ فرانس اپنی مرضی چلانا چاہتا تھا۔ ۴۲ سید جمال الدین افغانی نے تیس برس پہلے جو لہر دوڑائی تھی اُسے ایران میں محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بغاوت ہوئی تھی۔ شہنشاہ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذہبی علما ٔرہنمائی کر رہے تھے۔ ۴۳ ہندو انتہاپسندوں کی وجہ سے مسلمانوں میںبیچینی پھیل رہی تھی۔ سوا سو برس پہلیر تقی میر نے اُردو میں جس شعری ذوق کی پرورش کی تھی اُس میں ایمان عشق کا جمال اور کفر اُس کا جلال دکھائی دیتا تھا۔ انہی دنوں دلّی سے نذر محمد کا خط آیا جو پچھلے برس اقبال کے میزبان ہوئے تھے، تو اقبال نے منظوم جواب میں کچھ ایسی ہی بات سمجھانے کی کوشش کی۔ وقت کا وہ حرکی (dynamic) تصور بھی یہاں پھر موجود تھا جس کا اشارہ اکتوبر یا نومبر میں حسن نظامی کے نام خط میں آ چکا تھا۔ اُس خط میں کہا تھا کہ اب تصوف کے اَسرار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نذر محمد کے نام نظم میں کہا کہ محفل بدل گئی ہے، نئی محفل کو مئے مجاز نہ دی جائے۔ ٭ مجاز سے دُنیاوی یا انسانی صورت مراد ہوتی تھی، مثلاً کسی انسان سے محبت ہو تو مجازی محبوب اور مجازی عشق کہا جاتا تھا۔ ٭ حقیقت سے عموماً حقیقتِ مطلقہ (Ultimate Reality) یعنی خدا کی طرف اشارہ سمجھا جاتا تھا۔ اُسی کی محبت کو عشقِ حقیقی کہتے۔ اقبال اصرار کر رہے تھے کہ اب مجاز کی ضرورت نہیں رہی، حقیقت کے ظہور کا وقت ہے۔ گویا وقت مسلسل خیر کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا۔۲۸ بارہ اشعار کی غزلِ مسلسل میں عروض کا تجربہ کیا۔ کتابوں میں تھا کہ مفتعلن کی جگہ مستفعلن یا مفاعلن یا مفعولن بھی لا سکتے ہیں چنانچہ یہی کمال دکھایا جو عروض کے لحاظ سے جائز مگر نظم کی موزونیت اور ترنم پر برا اثر ڈال رہا تھا۔ پیغامِ راز کیونکر نہ وہ جہان کو پیغامِ بزمِ ناز دے غم کی صدائے دلنشیں جس کا شکستہ ساز دے قسمت سے ہو گیا ہے تو ذوقِ تپش سے آشنا پروانہ وار بزم کو تعلیمِ سوز و ساز دے اس عشقِ خانہ سوز کا شانِ کرم پہ ہے مدار یاں قیدِ کفر و دیں نہیں جس کو وہ بے نیاز دے غافل تجھے خبر نہیں لذت فراغ میں ہے کیا دنیا ادا پہ کر فدا، عقبیٰ بہائے ناز دے مانند شمع نور کا ملتا نہیں لباس اُسے جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے بکتا نہیں جہان میں ارزاں متاعِ کافری قیمت میں اس کی خرقہ دے، تسبیح دے، نماز دے پابندِ یک صنم نہ ہو، ہر لحظہ نو نیاز رہ پوجا کو اِس روش سے تو پیرہن ِ نیاز دے تارے میں وہ، قمر میں وہ، بجلی میں وہ، شفق میں وہ چشمِ نظارہ میں نہ تُو سرمہ ٔ امتیاز دے رفعت ہے عجز میں نہاں، یعنی نیاز شعار کر وہ محوِ ناز ہے اگر، تُو بھی جوابِ ناز دے ہو شوقِ سیرِ گل اگر ایسا چمن تلاش کر ہر غنچے کی چٹک جہاں لطفِ نوائے راز دے محفل جو تھی بدل گئی ساقی! تجھے خبر بھی ہے اب نہ خدا کے واسطے اِن کو مئے مجاز دے پیرِ مغاں فرنگ کی مئے کا نشاط ہے اثر اِس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے نظم مخزن کے فروری ۱۹۰۶ء کے شمارے میں صفحات ۵۴-۵۲ پر شائع ہوئی۔ بعد میں کبھی ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: پیام [متروک عنوان: ’پیغامِ راز‘] عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا بزم کو مثلِ شمعِ بزم حاصلِ سوز و ساز دے شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا دَیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اُسے جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ چشمِ نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے عشق بلندبال ہے رسم و رہِ نیاز سے حسن ہے مستِ ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے پیرِ مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیفِ غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزمِ کہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو میٔ مجاز دے مخزن میں اس کے فوراً بعد صفحات ۵۸-۵۴ پر مولانا حالی کی ’چپ کی داد‘ تھی۔ ۴۴ حلال گوشت کی فراہمی کا مسئلہ دوسرے مسلمان طلبہ کی طرح اقبال کوبھی پریشان کر رہا تھا۔گائے کا گوشت تو خیر اُنہیں ہضم ہی نہیں ہوتا تھا، شایداُن کے برہمن نسل ہونے کی وجہ سے، مگر بکرے اور مُرغی کے بغیر گزارہ نہ تھا اور ان کا حلال ہونا ضروری تھا۔ پروفیسر سیج وک کی مدد سے یا اُس کے بغیر کسی یہودی خاندان کے ساتھ ان کے قیام کا بندوبست کیا گیااورغالباً ۱۹۰۶ء میں کسی وقت وہ ۱۰ کاسل اسٹریٹ منتقل ہو گئے۔ عمارت کا نام ہنوور ہاؤس تھا۔۲۹ ممکن ہے یہاں ان کے میزبان وہی رہے ہوں جن کے بارے میں روایت ہے کہ ابتدائی دنوں میں اقبال اُن سے اتنے قریب ہو گئے یہاں تک کہ جب وہ عبادت کرتے تو یہ بھی شریک ہو جاتے کہ حضرت موسیٰ اِن کے بھی پیغمبر ہیں۔ ۴۵ ۱۹۰۶ء میں کسی وقت حافظ محمود شیرانی بھی لندن چلے آئے۔عمر چھبیس برس تھی اور راجستھان کی ریاست ٹونک سے تعلق تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اورینٹل کالج لاہور سے فارسی فاضل کا امتحان پاس کیا تھا اور اب بیرسٹر بننا چاہتے تھے۔ اگر اقبال، عبدالقادر اور آرنلڈ سے اِن کے مراسم لاہور میں نہ تھے تو اب ہوئے۔۳۰ ۴۶ ہندوستان میں بعض نوجوان فکری رہنمائی کے لیے ترکی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان میں شبلی کے چہیتے شاگرد سجاد حیدر یلدرم شامل تھے۔ دو برس پہلے اقبال کو اُردو شاعری کا روشن ستارہ قرار دیا تھا اورعلی گڑھ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ترکی زبان جاننے کی وجہ سے دو برس پہلے بغداد میں سفارتکار مقرر ہوئے تھے۔ پردے کے مخالف تھے۔ فروری کے مخزن میں ان کی ’صحبت ِ ناجنس‘ شائع ہوئی۔ انگریزی تعلیم یافتہ سہیلیوں کی خط کتابت کے ذریعے اُن کی مشکلات دکھائی گئیں۔مسلمان لڑکی کا انگریزی تعلیم حاصل کرنا غیرفطری معلوم ہوتا لہٰذا خط کتابت پر ۱۹۲۵ء کی تاریخ ڈالی۔مرکزی خیال ترکی سے ماخوذ اور غالباً پچھلے برس کہیں اوربھی شائع کروا چکے تھے۔بعض پڑھنے والوں کو اُردو میں جدید طرز کا پہلا افسانہ معلوم ہوا۔ ۴۷ ۸ فروری کو عام انتخابات ختم ہوئے۔ لبرل پارٹی جیت گئی مگر اس کے ساتھ ہی ایل آر سی کے ۲۹ نمایندے بھی پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ یہ مالدار لوگ نہ تھے اِس لیے ٹریڈ یونینوں نے جیب خرچ دینا قبول کیا تھا۔ ان کی قیادت ریمزے میکڈونلڈ کر رہے تھے جنہوں نے چالیس برس پہلے اسکاٹ لینڈ کے کسی محنت کش اور ایک گھریلو ملازمہ کی ناجائز اولاد کے طور پر جنم لیا، لندن میں کلرک کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا اور پھر سوشلسٹ خیالات رکھنے والی سوسائٹیوں میں شامل ہو کر ترقی کی منزلیں طے کی تھیں۔ ۱۵ فروری کو ایل آر سی نے اپنا نام لیبر پارٹی رکھ لیا۔ ۴۸ پی ایچ ڈی جرمنی سے حاصل کرنی تھی لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۶ء کے آغاز تک اقبال نے جرمن زبان سیکھنی شروع کر دی تھی۔ گوئٹے کی ایک نظم 'Vier Jahrezeiten' یعنی ’چار موسم‘ تھی۔موسم ِ گرما کے تحت لکھا تھا کہ حسن نے زیوس سے اپنے بارے میں پوچھا کہ فانی کیوں ہے۔ دیوتا نے جواب دیا کہ وہی چیزیں حسین بنائی گئیں جو ہمیشہ نہ رہیں۔ عشق، پھول، شبنم اور جوانی سب نے سنا اور روتے ہوئے دیوتا کے تخت کے پاس سے روانہ ہوئے۔ جینا اور محبت کرنا چاہیے مگر زندگی ختم ہو جاتی ہے اور محبت بھی، اے تقدیر! تم دونوں کے تار کاٹ دیتی ہو! مخزنکے مارچ کے شمارے میںص۴۳ پر اقبال کی ایک نظم اِس نوٹ کے ساتھ چھپی کہ ’’اصل خیال جرمن نثر میں دیکھا گیا۔ میں نے ناظرین کے لیے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اُردو نظم میں منتقل کر دیا‘‘: حسن اور زوال خدا سے حسن نے اِک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تُو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویرخانہ ہے دنیا شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دُنیا ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے، حقیقت زوال ہے جس کی کہیں قریب تھا، یہ گفتگو قمر نے سنی فلک پہ عام ہوئی، اخترِ سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا اس نظم میں کبھی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ۴۹ مارچ ۱۹۰۶ء میں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ ہوا۔ پچھلے برس بھی اقبال نے کوئی نظم نہ پڑھی تھی مگر اس دفعہ تو ملک ہی میں نہ تھے۔ ان کے نوجوان دوست خواجہ دل محمد نے انہی کے ترنم میں اپنی نظم پڑھی اور شاید ارشد گورگانی کی بات لوگوں کو یاد آگئی ہوکہ نظم ِ اقبالی نے ہر اک کو گوّیا کر دیا! ڈپٹی نذیر احمد سے کسی نے کہہ دیا کہ دل محمدصاحب ریاضی میں ایم اے ہیں۔ اُنہوں نے اسٹیج سے اعلان کیا کہ جب خدا نے ایسا دماغ دیا جو ریاضی کی گتھّیاں سلجھا سکے تو اُسے شاعری جیسی عامیانہ شے میں صرف کرنا نعمت کی توہین ہے۔ اِس پر انجمن کے سیکرٹری حاجی شمس الدین تڑپ کر اُٹھے اور کہا، ہمارا مقصد تو ایک نیک کام کے لیے چندہ جمع کرنا ہے اور وہ صرف شاعری کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ مگر جو بحث میں ہار مان جائے اُس کا نام ڈپٹی نذیر احمد نہ ہو سکتا تھا جنہوں نے چارکونوں والی ٹوپی اتاری اور کشکول کی طرح پھیلا کر حاضرین سے کہا کہ یہ ٹوپی جو حیدرآباد دکن کے نظام بہادر کے روبرو بھی نہیں اُتری تھی آج کاسۂ گدائی کی طرح آپ کے سامنے ہے، چندہ دیجیے، فقیر آپ کے سامنے ہے۔ ہاںدے دو بابا، بھلا ہوگا! چندہ جمع ہوا توہنس کر حاجی صاحب سے کہا، ’’کیوں صاحب، آپ نے دیکھا ہماری نثر کا کمال!‘‘۳۱ اجلاس میں ابوالکلام آزاد بھی موجود تھے۔ شبلی کے رسالے سے الگ ہو کر لکھنؤ سے چلے آئے تھے۔ اب امرتسر جا رہے تھے۔ ۵۰ اقبال انگریز قوم کی دو خوبیوں کے قائل ہوئے (یا پہلے سے تھے)۔ پہلی خوبی حسِ واقعہ (sense of fact) تھی۔ بعد میں کہا: جس طرح رنگ و بو وغیرہ کے لیے مختص حواس ہیں اسی طرح انسانوں میں ایک اور حاسّہ بھی ہے جس کو ’’حسِ واقعات‘‘ کہنا چاہیے۔ ہماری زندگی واقعاتِ گرد و پیش کے مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قوت سے کام لیتے ہیں جسے میں نے حسِ واقعات کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے؟ نظامِ قدرت کے پراَسرار بطن سے واقعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر بیکنؔ سے پہلے کون جانتا تھا کہ یہ واقعاتِ حاضرہ جن کو نظریات کے دلدادہ فلسفی اپنے تخیل کی بلندی سے بہ نگاہِ حیرت دیکھتے ہیں اپنے اندر حقائق و معارف کا ایک گنج گراں مایہ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی عملی نکتہ رَسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں ’’حسِ واقعات‘‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ’’دماغ یافتہ‘‘ فلسفیانہ نظام جو واقعاتِ متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیاتِ عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اِس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظرِ ثانی کریں۔ ۳۲ دوسری خوبی غالباً اِسی سے پیدا ہوتی تھی۔ وہ تھی قانون کا احترام جس کی وجہ سے سیاسی جدوجہد میں باغیانہ روش اختیار کر کے بے گناہوں کا خون بہانے کی بجائے بتدریج انقلاب کا راستہ اختیار کیا گیا تھا۔ ستم ظریفی تھی کہ ہندوستان میں کانگریس کی سیاست انگلستان کی تقلید سے پیدا ہوئی تھی لیکن انہی صفات سے محروم تھی۔ تقسیمِ بنگال کے خلاف جو تحریک اُٹھی تھی اُس کے بارے میں بنگال کے مسلمان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نئے صوبے کے قیام سے بنگال کے مسلمانوں کو جو فائدہ ہے یہ اُس کے خلاف انتہاپسند ہندوؤں کا ردِ عمل ہے۔ یہ درست بھی تھا کہ گزشتہ سوا سو برس کی برطانوی حکمتِ عملی نے اقتصادی طور پر بنگال میں مسلمانوں کو ہندوؤں سے پیچھے کر دیا تھا اور نئے صوبے کے قیام سے مثبت امکانات پیدا ہوئے تھے۔ کانگریس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ امکانات انگریز سرکار نے اِس لیے پیدا کیے ہیں تاکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اتحاد ختم کیا جائے۔ اِس نقطۂ نظر کی خرابی یہ تھی کہ نئے صوبے کے عوام کی اکثریت جو مسلمانوں پر مشتمل تھی، اُن کی رائے خاطر میں نہیں لائی جا رہی تھی۔ جمہوریت کے بنیادی اُصول نے ہندوستان میں جنم لینے سے پہلے ہی کانگریس کے ہاتھوں وفات پائی تھی۔ بنگال کے مسلمان جو نئے صوبے کی حمایت کر کے صرف اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے تھے، انگریز کے حمایتی قرار پائے جبکہ گزشتہ صدی سے زیادہ عرصے میں انگریز سے تعاون کر کے فائدہ اُٹھانے میں ہندوؤں کا وہی بارسوخ طبقہ زیادہ آگے رہا تھا جس کی نئی نسل اب انگریزی کپڑوں اور کوٹ پتلون کو آگ کے الاؤ میں جھونک کر حکومت کے خلاف نعرے لگا رہی تھی۔ اِس احتجاج کا نام سودیشی تحریک رکھا گیا۔ کانپور کے منشی دیانرائن نگم نے تحریک کے بارے میں سوالنامہ تیار کر کے ملک کے سرکردہ افراد کے پاس بھیجاتاکہ جوابات اپنے اخبارزمانہمیں شائع کر سکیں:۳۳ ۱ سودیشی تحریک بذاتِ خود ملک کی ترقی کے لیے کہاں تک مفید ہے اور اِس تحریک کے نشیب و فراز، نفع و نقصان اور عمل درآمد کے متعلق آپ کی مفصّل رائے کیاہے؟ ۲ اِس تحریک میں ہندوستان کے اتفاق کی کہاں تک ضرورت ہے؟ خاص مسلمانوں کے لیے اس سے کوئی نفع یا نقصان پہنچنے کی کہاں تک اُمید ہے؟ ۳ اِس تحریک کی کامیابی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور اس کی کامیابی کا ہندومسلمانوں پر جداگانہ اور ملک پر بہ حیثیت مجموعی کیا اثر ہو گا؟ ۵۱ اقبال کو بھی منشی نگم کی طرف سے سوالنامہ موصول ہوا۔ کیمبرج پہنچ کر اقتصادیات میں پرانی دلچسپی زندہ ہو گئی تھی۔ فلسفہ ناکارہ نہ کردے، اس خیال سے اقتصادیات کے لیکچر بھی سنے۔ معلوم نہیں یہ شغل انہی دنوں اختیار کر رکھا تھا یا بعد میں کیا بہرحال نگم کے سوالنامے کے جواب لکھتے ہوئے اقتصادیات پیش ِ نظر تھی۔ عجلت میں لکھے گئے اس خط کا طرزِ تحریر اُن خطوط سے بہت مختلف تھا جو کچھ عرصہ پہلے مولوی انشأاللہ کے نام لکھے تھے۔ وجہ شاید مصروفیت تھی۔۳۴ سودیشی تحریک از جناب پروفیسر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے! از کیمبرج ۱۔ سودیشی تحریک ہندوستان کے لیے کیا ہر ملک کے لیے جس کی اقتصادی اور سیاسی حالات ہندوستان کی طرح ہوں مفید ہے۔ کوئی ملک اپنے سیاسی حقوق کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ پہلے اس کے اقتصادی حالات درست نہ ہو جائیں۔ ہمارے اہل الرائے سیاسی آزادی سیاسی آزادی پکارتے ہیں مگر کوئی شخص اس باریک اصول کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ سیاسی آزادی کی شرائط میں سب سے بڑی شرط کسی ملک کا اقتصادی دوڑ میں سبقت لے جانا ہے۔ جہاں تک کہ اس کا جغرافی مقام اور دیگر قدرتی اسباب اس کے ممد ہوں۔ سیاسی آزادی کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ بغیر دام دئیے مل جائے۔ انگلستان کی سر زمین کے ہر ذرے میں ان لوگوں کا خون چمکتا ہوا نظر آتا ہے جنھوں نے سیاسی حقوق کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ باغیوں کی طرح نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرح جن کے دلوں میں اپنے وطن کے قانون اور اس کی رسوم کی عزت ہوتی ہے اور جو اپنے گراں قدر خون کے قطرے قانون کی تائید میں بہاتے ہیں نہ اس کی تردید اور مخالفت میں۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو قوم خود آزادی کی دلدادہ ہو وہ اوروں کی آزدی کو رشک کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی اور انگریزوں کی معاشرت دیکھ کر بھی میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ ہاں ہم لوگوں میں اس کی قابلیت ہونا ضروری ہے اور اس قابلیت کے پیدا ہونے کا سب سے بڑا سبب جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اقتصادی قوانین کو ایک مرکز پر جمع کرنا ہے جس کی طرف خوش قسمتی سے اب اہلِ وطن کی توجہ ہوئی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ بے وجہ جوش میں ایسی طفلانہ حرکات کر دیتے ہیں جس کا مفید اثر کچھ نہیں ہوتا اور جن کا نقصان دیر پا ہوتا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکہ اور جرمن کی چیزیں خریدو مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو۔ مجھ کو تو اس کا اقتصادی فائدہ کچھ نظر نہیں آتا بلکہ اگر انسانی فطرت کے محرکات پر غور کرو تو اس میں سراسر نقصان ہے۔ اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔ اپنے وطن کی محبت کسی غیر ملک[کی نفرت] کے مستلزم نہیں ہے۔ علاوہ اس کے اقتصادی لحاظ سے اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔ مغربی خیالات اور تعلیم کی اشاعت سے اب ہماری ضرورتوں کا احاطہ وسیع ہوگیا ہے اور اس میں سے بعض اس قسم کی ہیں کہ سر دست ہمارا اپنا ملک ان کو پورا نہیں کر سکتا۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ اس طفلانہ فعل سے سوائے اس کے کہ حکام کو خواہ مخواہ بدظن کیا جائے اور کیا فائدہ ہے۔ قطع نظر ان تمام باتوں کے ہزاروں چیزیں ایسی ہیں کہ ہمارا ملک بعض حوالی خصوصیات اور دیگر قدرتی اسباب کے عمل کی وجہ سے ان کو ارزاں نرخ پر تیار ہی نہیں کر سکتا۔ اس بات کی کوشش کرنا کہ ہماری ساری ضروریں اپنے ملک کی خصوصیات سے پوری ہو جایا کریں سراسر جنون ہے۔ واقعات کے لحاظ سے دیکھو تو یہ بات کسی ملک کو نہ اب نصیب ہے اور نہ ہو سکتی ہے اور اگر یہ بات ممکن بھی ہو جائے تو اس میں میرے خیال میں بجائے فائدہ کے نقصان ہے جس کی مفصل تشریح اس مقام پر نہیں ہوسکتی۔ سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لیے میری رائے میں ان باتوں کا لحاظ ضروری ہے: (ا) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو اس وقت ملک میں تیار ہو رہی ہیں اور ان کی کمیّت اور کیفیت کیا ہے۔ (ب) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو پہلے تیار ہوتی تھیں اور اب تیار نہیں ہوتیں۔ (ج) وہ کون سی مصنوعات ہیں جن کو ہم خصوصیت سے عمدہ اور ارزاں تیار کر سکتے ہیں۔ (د) ملک کے صوبوں یا دیگر قدرت حصص کے لحاظ سے وہ کون کون سے مقام ہیں جو بعض اسباب کی وجہ سے خاص خاص مصنوعات کے لیے موزوں ہیں۔ (۱) تخمیناً کس قدر سرمایہ زیورات وغیرہ کی صورت میں ملک میں معطل پڑا ہے اور اس کو استعمال میں لانے کے لیے کیا وسائل ختیار کیے جائیں۔ ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر عملی کام شروع کرنا چاہیے۔ ضرور ہے کہ ابتدا میں ناکامی کا سامنا بھی ہو مگر کوئی بڑا کام سوائے قربانی کے نہیں ہوا۔ کسی ملک کے اقتصادی حالات کا درست ہونا تھوڑے عرصے کا کام نہیں ہے، اس میں صدیوں کی ضرورت ہے۔ ہم نقصان اٹھائیں گے تو ہماری آئندہ نسلیں فائدہ اٹھائیں گی۔ علاوہ اس کے مشترک سرمایہ کی جماعتیں نہایت مفید ثابت ہوں گی خصوصاً ہمارے ملک میں جہاں کے لوگ کم سرمایہ رکھتے ہیں۔ سرمایہ کے بہترین نتائج اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس کی مقدار بڑی ہو۔ مگر عملی لحاظ سے کامیاب ہونے کے لیے سب سے بڑی ضرورت اصلاحِ اخلاق کی ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے پر اعتبار کرنا سکھاؤ، ان کے اسراف [کی] عادت پر نکتہ چینی کرو اور ان کے دل پر یہ امر نقش کر دو کہ انسان کی زندگی کا مقصد خود غرضی کے پردے میں بنی نوع انسان کی بہتری کی جستجو کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ میں جیسا چاہتا تھا ویسا جواب نہیں لکھ سکا کچھ اس خیال سے کہ ڈاک کا وقت جاتا ہے اور کچھ اس خیال سے کہ زیادہ تعویق مناسب نہ ہوگی۔ (۲) سیاسی حقوق کے حصول کی د وسری بڑی شرط کسی ملک کے افراد کے اغراض کا متحد ہونا[ہے]۔ اگر اتحادِ اغراض نہ ہوگا تو قومیت پیدا نہ ہوگی اور اگر افراد قومیت کے شیرازے سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ نہ ہوں گے تو نظامِ قدرت کے قوانین ان کو صفحۂ ہستی سے حرف ِغلط کی طرح مٹا دیں گے۔ قدرت کسی خاص فرد یا مجموعۂ افراد کی پروا نہیں کرتی۔ مگر رونا تو اس بات کا ہے کہ لوگ اتفاق اتفاق پکارتے ہیں اور عملی زندگی اس قسم کی اختیار نہیں کرتے جس سے ان کے اندرونی رجحانات کا اظہار ہو۔ ہم کو قال کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کے واسطے حال پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ مذہب دنیا میں صلح کرانے کے لیے آیا ہے نہ کہ جنگ کی غرض سے۔ میری رائے میں اس تحریک کی کامیابی سے مسلمانوں کو ہر طرح فائدہ ہے۔ ایک صاحب نے کسی اخبار میں یہ خط چھپوایا تھا کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ عام طور پر مسلمان زراعت پیشہ ہیں۔ ان کا یہ ارشاد شاید پنجاب کی صورت میں صحیح ہو تاہم یہ کہنا کہ مسلمان زراعت پیشہ ہیں اس امر کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کو سودیشی تحریک کی کامیابی سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اگر مصنوعات سستی ہوں (جو بالآخر اس تحریک کی کامیابی کا نتیجہ ہوگا) تو خریدنے والوں کو بھی فائدہ ہے اور بیچنے والوں کو بھی۔ مسلمان خواہ بیچنے والے ہوں خواہ خریدنے والے ہر طرح فائدہ میں ہیں۔ ہاں اگر وہ بیچنے والے ہیں تو ان کو زیادہ فائدہ ہے اور یہ کون کہتا ہے کہ وہ بایع نہ بنیں۔ (۳) اگر صبر و استقلال سے کام کیا گیا تو اس تحریک میں ضرور کامیابی ہوگی۔ دور اندیشی تمام کامیابی کا راز ہے۔ ایک حد تک تو اس تحریک کے مطابق ملک میں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس عمل کی توسیع کی ضرورت ہے۔ جو اس صورت میں ممکن ہے کہ عمدہ اور ارزاں مصنوعات پیدا کرکے گراں اور ظاہری نمائش والی چیزوں کو ملک سے نکالو۔ مقدس عہد لینا کہ ہم خارجی ممالک کی مصنوعات کا استعمال نہ کریں گے اور جوش میں آ کر انگریزی کپڑے کے کوٹ آگ میں پھینک دینا ایک طفلانہ فعل ہے جو اقتصادی لحاظ سے غیر مفید اور سیاسی لحاظ سے مضر ہے۔ اگر اس تحریک سے ہندو اور مسلمانوں میں اتحادِ اغراض پیدا ہو جائے اور رفتہ رفتہ قوی ہوتا جائے تو سبحان اللہ اور کیا چاہیے۔ ہندوستان کے سوئے ہوئے نصیب بیدار ہوں اور میرے دیرینہ وطن کا نام جلی قلم سے فراق اقوام میں لکھا جائے۔ والسلام ۵۲ برطانوی معاشرے کی بعض کمزوریاں بھی اقبال کی نگاہ میں تھیں۔ بعد میں انہوں نے کہا: میں جب انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کرچکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسانوں کے لیے امید، ہمت اور جرأت عمل کا پیغام ہوتی ہے اور جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن ان کے مقابلے کے لیے سائنس کھڑی تھی۔ جو ان کو افسردہ بنا رہی تھی۔۳۵ یہ بصیرت مولانا حالی کی فراہم کی ہوئی تھی جنہوں نے مقدمہ شعر و شاعری میں لکھا تھا کہ سائنسی ترقی کے بیشمار فوائد کے ساتھ یہ نقصان بھی ہے کہ ادب کی ترقی میں مانع ہوتی ہے۔ ورنہ جس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا اُس کی روشنی دوسری نگاہوں سے یہ بات چھپائے دے رہی تھی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی پھیل چکی ہے۔ پچھلے برس فارغ التحصیل ہونے والے ایک رئیس زادے نے ’’حواریوں‘‘ کی کسی میٹنگ میں جو مضمون پڑھا تھا اُس میں خواہش ظاہر کی کہ موجودہ زمانے کی بجائے قدیم یونان و روم یا ملکہ الزبتھ کے زمانے کے انگلستان میں ہوتا خواہ غلام ہی سہی۔ کوئی یونانی ڈرامہ، گلیڈئیٹروں کی لڑائی یا شیکسپئر کے تھیٹر کی کوئی پیشکش تو دیکھ پاتا! معاشرے کی رُوح سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ اُن کی وجہ سے اجتماعی زندگی کی ترتیب ختم ہونے کے اِمکانات پیدا ہوتے تھے:۳۶ Is there no possibility of a break-up so general and so complete that the entire reorganization of society would be a necessary sequence? Personally, I welcome every endeavour, conscious or unconscious, to bring about such an end. I welcome thieves, I welcome murderers, above all I welcome anarchists. I prefer anarchy to the Chinese Empire. For out of anarchy good may come, out of the Chinese Empire nothing... تخیل کی موت سے پیدا ہونے والے بعض رویے برطانوی قوم کی دونوں مخصوص خوبیوں، حسِ واقعہ اور قانون کے احترام کو برباد کر سکتے تھے۔ روایت ہے کہ اقبال نے بعد میں کہا،’’یہاں بعض لوگ اپنے بچوں کا بیمہ کروا کے اُنہیں بھوکا مرنے دیتے ہیں تاکہ بیمے کی رقم وصول کریں!‘‘ سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں اقبال کو یورپ میں اپنی شاعری کے ویسے قدرداںنہ ملے جیسے اُس زمانے میں ہندوستانی شاعروں کو عام طور پر مل جاتے تھے۔ پچھلے برس سروجنی نائیڈو کی نظموں کے مختصر مجموعے کو زبردست پذیرائی ملی تھی۔ بلبل ِہند کہلانے لگی تھیں۔ مجموعے کی داغ بیل بھی انگلستان ہی میں پڑی تھی جب دس برس پہلے انیس سالہ لڑکی کے طور پر یہاں آئیں۔ چند برس بعد ٹیگور بھی اپنی نظموں کے ترجمے دکھا کر انگلستان فتح کرنے والے تھے۔ اقبال کے ’ترانۂ ہندی‘ کی گونج پورے ہندوستان میں سنائی دے رہی تھی لہٰذا شاعری کے معیارمیں شبہ نہ ہو سکتا تھا۔ ابھی مغرب کے خلاف تند وتیز لہجہ بھی اختیار نہ کیا تھا۔ اسلامی رنگ بھی ویسا غالب آیا تھا جیسا بعد میں آنے والا تھا۔ لہٰذا ان کے تمام موضوعات نقادوں کی دلچسپی کے تھے۔ آرنلڈ جیسے قدردان کی موجودگی میں انگلستان کے علمی حلقوں تک رسائی بھی رہی ہو گی۔ وہاں کے بعض ادبی مشاہیر کے ساتھ ایسے روابط بھی استوار ہوئے جو بعد میں بھی خط کتابت سے جاری رہے۔ اصل رکاوٹ بس یہی معلوم ہوتی ہے کہ دنیا بالخصوص مشرق کو یورپ کے ادبی حلقے جس طرح دیکھنا چاہتے تھے، اقبال ویسا نہ دکھاتے تھے۔ ۵۳ فوق نے کشمیری میگزین شائع کیا۔ ا قبال سے شعر یا مضمون کی فرمایش کی۔ اقبال نے لکھا: مجھے سخت افسوس ہے کہ یہاں کے مشاغل سے فرصت نہیں ملتی۔۔۔ ایسے حالات میں مضامین لکھنے کی کہاں سوجھتی ہے۔ البتہ شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہوجاتا ہے۔ سو شیخ عبدالقادر (ایڈیٹر مخزن) لے جاتے ہیں۔ اُن سے انکار نہیں ہو سکتا، آپ سے بھی انکار نہیں۔ اگر کچھ ہو گیا تو حاضر کروں گا۔۳۷ ۵۴ زرتشت کے کئی سو سال بعد ایران میں ایک فلسفی پیدا ہواجس کا نام مانی تھا۔ زمانہ تیسری صدی عیسوی بتایا گیا ہے۔اُس نے یہ تصور پیش کیا کہ خیر اور شر کی قوتیں ایک وجود نہیں رکھتیں بلکہ دو علیحدہ قوتیں ہیں۔ خیر کی قوت نور ہے اور اس کی خصوصیات شرافت، علم، سمجھ وغیرہ ہیں۔ یہ قوت نَر ہے۔ یہ مانی کا تصورِ خدا تھا۔ کائنات کے بارے میں خیال تھا کہ نورانی قوت کے خلاف تاریکی کی مادہ قوت موجود ہے جس کے پیٹ سے شیطان نے جنم لے کرنور کی سلطنت پر حملہ کیا۔ نورانی قوت نے جواب دینے کے لیے کیومرث یعنی پہلے انسان کو پیدا کیا۔ شیطان نے کیومرث کو ختم کر کے نُور کے پانچ اوصاف کو تاریکی کے پانچ اوصاف کے ساتھ ملا یا۔ تب نورانی قوت نے فرشتوں کو حکم دیا کہ کائنات کی تخلیق کریں اور اس میں سے روشنی کے ذرّات کو ایک ایک کر کے نکالتے رہیں تاکہ وہ اندھیرے کی قید سے آزاد ہو کر منزل پر پہنچ جائیں۔ اقبال نے مانی کا موازنہ دوسرے فلسفیوں مثلاً چینی حکمأ، عیسائی صوفی اکوئی ناس، ہندو فلسفی کپیلا اور میک ٹیگرٹ کے محبوب جرمن فلسفی ہیگل وغیرہ سے کیا۔ ایران کی ذہنی تاریخ کی اگلی اہم شخصیت مزدک تھی۔ یہ نوشیروانِ عادل کے دورِحکومت (۵۳۱ء تا ۵۷۸ئ) میں نمودار ہوا اور مانی کے فلسفے کو ایک نیا رنگ دیا۔ مزدک کا خدا حِس رکھتا اور چار بنیادی توانائیوں کا مرکب تھا مگر اس فلسفے کانمایاں پہلو یہ تھا کہ تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دیا اور کہا کہ ذاتی ملکیت ایسا تصور ہے جس کے ذریعے شیطان خدا کی کائنات کو دکھوں کا گھر بنادینا چاہتا ہے۔ چنانچہ انسان کو ذاتی ملکیت رکھنے کا کوئی حق نہ تھا۔ عورت کو بھی انسان کی بجائے ملکیت تصور کرتا لہٰذا اُس کے پیروکار شادی بیاہ کے مخالف اور اپنی پسند کی ہر عورت سے جسمانی تعلق قائم کرنے کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ اقبال کے خیال میں مزدکیت اپنے اشتراکی پہلو کی وجہ سے قدیم ایران میں مقبول نہ ہو سکی اور بالآخر اسے سختی سے کچل دیا گیا۔ یہ تھا اسلام سے پہلے کے ایران کی ذہنی تاریخ کا ایک مختصر خاکہ ! پھر جنگ ِ نہاوند ہوئی اور سخت جان عرب شہسوار ایران پر چھا گئے۔ ایرانی بڑی تعداد میں مسلمان ہو ئے مگر اُن کے اثر سے اسلام کی صورت میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ ایرانیوں کے آریائی ذہن نے سامی مذہب قبول کیا مگر اپنے پرانے رجحانات کو زندہ رکھا۔ جس طرح چند صدیاں قبل یونان کے آریائی ذہن نے عیسائیت قبول کرنے کے بعد اس کی شکل تبدیل کی تھی اُسی طرح عجم کے گلزاروں میں پہنچ کر اسلام کے سخت اور بے لچک قوانین نرم پڑنے لگے۔ اسلام کے لیے ایسے اصول وضع ہوئے جو قدیم ایرانی فلسفہ کے اثر سے آزاد نہ تھے۔ یہ عجمی اسلام بو علی سینا کی تحریروں میں نظر آتا اور صُوفی سلسلوں میں بھی جو اَب دنیا میں پھیلے ہوئے تھے!۳۸ ۵۵ لفظ نیشنلزم پہلی بار پندرہ بیس برس پہلے فرانس اور اٹلی میں اُن انتہا پسندوں کی سوچ کے لیے استعمال ہواتھا جو وطن کے نام پرلوگوں کو شخصی آزادی اور اختلافِ رائے کے حق سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ وطن پرستی کے جذبے کو پروان چڑھانے میں جمہوریت کا ہاتھ بھی رہا تھا کیونکہ سیاسی رہنما ووٹ حاصل کرنے کے لیے حب الوطنی کے جذبات کو جارحانہ رنگ دے دیتے تھے۔ پچھلے چالیس برس میں سارا یورپ زرہ پوش ہو گیا تھا۔ برطانیہ کے سوا ہر یورپی ملک میں فوجی ملازمت لازمی تھی۔ اقبال کی فکر میں یہ خیال نمایاں ہونے لگا کہ اسلام، معاشرے کی جو بنیاد فراہم کرتا تھا جو وطنیت سے زیادہ وسیع تھی۔ اپنے مضمون ’قومی زندگی‘ میں بھی وطن کی بجائے مذہب ہی کو قومیت کا اصول تسلیم کیا تھا۔ اب وہ خیال مزید نمایاں ہو کر شاعری میں بھی ظاہر ہوا جس کی تشریح بعد میں یوں کی: ایک ملت (community) کے طور پر اسلام کی رکنیت کا انحصار پیدایش، علاقے یا شہریت پر نہیں ہے۔ یہ عقیدے کی پہچان میں مشتمل ہے۔ ’’ہندی مسلمان‘‘ کی اصطلاح جتنی بھی سہل ہو، بہرحال ایک تضاد پر مبنی ہے کیونکہ اسلام اپنی اصل میں زمان و مکان کی تمام کیفیات سے بلند ہے۔ ہمارے لیے قومیت (nationalism) ایک خالص تصور (pure idea) ہے۔ اس کی کوئی جغرافیائی بنیاد نہیں ہے۔ مگر چونکہ ایک عام شخص کو قومیت کے مرکزِ محسوس کی ضرورت ہوتی ہے، مسلمان اسے مکہ کے مقدس شہر میں تلاش کرتا ہے۔ چنانچہ مسلم قومیت (Muslim nationality) کی بنیاد حقیقی (real) اور تصوراتی (ideal) ، ٹھوس (concrete) اور مجرد (abstract) دونوں پر قائم ہے۔ قومیت کے اس تصور میں دوسرے مذاہب کے ساتھ اشتراک ِ عمل کی گنجایش تھی۔ دوسرے مذاہب کے پیروکار جو سیاسی اور مذہبی مقاصد میں مسلمانوں کے ساتھ اتفاق رکھتے ہوں وہ اس دولتِ مشترکہ کی تشکیل میں حصہ لے سکتے تھے۔ بعد میں اقبال نے ایک انگریزی تحریر میں کہا: روایت ہے کہ روحانی جذب و سرور کے ایک لمحے میں آنحضور [صلی اللہ علیہ وسلم] نے ارشاد فرمایا، ’’جاؤ اور لوگوں سے کہہ دو، ’جو بھی لاالٰہ الااللہ کہتا ہے، وہ جنت میں جائے گا۔‘‘‘ یہ کہتے ہوئے آپؐ نے دانستہ کلمۂ طیبہ کا دُوسرا حصہ ’’محمد الرسول اللہ‘‘ حذف فرما دیا۔ قومیت کے اِس تصور کوقبول کروانے کے لیے پیہم عمل کی ضرورت تھی۔ اقبال نے سوچا کہ شاعری ترک کر دیں۔ شعر نہ کہنے کی قسم کھانا چاہتے تھے: نرالا سارے جہاں سے اِس کو عرب کے معمار نے بنایا بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتّحادِ وطن نہیں ہے مدیرِ مخزن سے کوئی اقبالؔ جا کے میرا پیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، اُنہیں مذاقِ سخن نہیں ہے ۳۹ مگر مدیرِمخزن آسانی سے ہار مانے والے نہ تھے۔ اُن کا بیان ہے: میں نے اُن [اقبال] سے کہا کہ اُن کی شاعری ایسی شاعری نہیں ہے جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے، اس لیے ایسی مفیدخدادادطاقت کو بیکارکرنادرست نہ ہو گا۔ شیخ صاحب [اقبال]کچھ قائل ہوئے ، کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈصاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اقبال کے دل میں چھپے فلسفی نے شاعر کو نکال باہر کرنا چاہاجیسے افلاطون کی ریاست میں شاعروں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ آرنلڈ نے کہا کہ اقبال جو وقت شاعری میں صرف کرتے ہیں اُن کے لیے بھی مفید ہے اور ملک و قوم کے لیے بھی۔۴۰ غزل زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا جو موجِ دریا لگی یہ کہنے ’’سفر سے قائم ہے شان میری‘‘ گہر یہ بولا ’’صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا‘‘ نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے ہوا نہ سرسبز وہ کے پانی میں عکس کنارِ سروِ جُو کا کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا الٰہی تیرا جہان کیا ہے! نگارخانہ ہے آرزو کا اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں؟ نگہ کو نظارے کی تمنا ہے دل کو سودا ہے جستجو کا کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہوس سراپا جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی غبار تھا کوئے آرزو کا چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا ’’اتنا بے درد کیوں ہے انساں؟ تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا‘‘ ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا حقیقتِ گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا سپاس شرطِ ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر ذرا سا اک دل دیا ہے وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا اُڑایا ذوقِ تپش پتنگے سے شمع سے شوقِ اشک باری کہیں سے سیکھی نماز میں نے لیا کہیں سے سبق وضو کا کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو، گرے رگِ گل سے قطرہ انساں کے لہو کا جو چاک میرے جگر کے دیکھے، کلی نے بادِ صبا سے پوچھا یہ آدمی ہے کہ گل ہے؟ منت پذیر ہے سوزنِ رفو کا گیا ہے تقلید کا زمانہ مجاز رختِ سفر اُٹھائے ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا؟ تمام مضموں مرے پرانے، کلام میرا خطا سراپا ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جُو کا جو گھر سے اقبالؔ دُور ہوں میں تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا مخزن،اپریل ۱۹۰۶ئ۴۱ بعد میں کبھی ’’اُڑایا ذوقِ تبش‘‘ اور ’’جو چاک میرے جگر‘‘ والے اشعار غزل سے نکال دیے۔ دو ماہ قبل مخزنمیں شائع ہونے والی نظم ’پیغامِ راز‘ میں نذر محمد سے کہا تھا کہ انجمن بدل گئی لہٰذا اسے مجاز کی شراب نہ پلائی جائے۔ اب مقطع سے پہلے والے دو اشعار میں وہی بات زیادہ وضاحت کے ساتھ دہرائی یعنی حقیقت نمایاں ہو چکی تھی اس لیے مجاز باقی نہ رہے گا۔ یہ نئی حقیقت بھی ’’پرانے مضموں‘‘ سے مختلف نہ تھی۔یہ کون سی حقیقت تھی اور مجاز سے کیا مراد تھی؟ ۵۷ مراکش امریکہ کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ ۱۷۷۷ء میں جب امریکہ آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اور بحرِاوقیانوس میں اُس کے بحری جہازوں پر حملے ہو رہے تھے، کسی بھی مسیحی طاقت نے مدد کو آنا پسند نہ کیا مگر مراکش کے سلطان نے امریکی جہازوں کو تحفظ دینے کا اعلان کیا۔ بعد میں امریکہ نے اپنے محسن کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ دنیا بھر میں دوستی کے زندہ معاہدوں میں اَب سب سے پرانا تھا۔ اب الجزیرہ کانفرنس میں مراکش کے نمایندے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ دوسروں کی طرح امریکہ بھی فرانس کے مطالبے کی حمایت کر رہا تھا کہ اسے مراکش کے سیاہ و سفید کا مالک بننے دیا جائے۔ فرنگیوں کو زمین خریدنے کا حق دیا جا رہا تھا۔ بینک کے اعلیٰ افسران جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اسپین کی مرضی سے مقرر ہونے تھے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران صرف فرانسیسی اور اسپینی ہو سکتے تھے جنہیں اُن کی حکومتیں مقرر کرتیں۔ انسپکٹر جنرل سوئٹزرلینڈ کا باشندہ ہوتا۔۷ اپریل تک اکثر مسیحی طاقتیں دستخط کر چکی تھیں۔ مراکش کے نمایندے غلامی کی دستاویز قبول نہ کر سکے۔ اُن کی حمایت کرنے میں جرمنی کے ساتھ صرف آسٹریا ہنگری رہ گیا۔کسی کو اندازہ نہ تھا کہ جرمنی کی تنہائی یورپ کو کتنی بھاری پڑے گی۔ ۵۸ لندن میں ایک پنجابی مسلمان اچار، مربہ اور چٹنیاں بیچا کرتا۔ اقبال مستقل گاہک تھے۔ روایت ہے کہ اُس نے نام اور مقام پوچھا۔ اقبال نے بتایا تو اُس نے کہا، ’’اقبال اور وطن سے باہر؟ آہ، یوسف کوچہ و بازار میں!‘‘ ’’گوہر کی ہوئی قدر سمندر سے نکل کر،‘‘ اقبال نے کہا۔ اُس نے پوچھا یہ کس قبیلے سے ہیں تو اِنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’مسلمانوں کے قبیلے سے!‘‘ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ آپ کس قوم، کس گوت یا ذات سے ہیں؟‘‘ اُس نے کہا۔ اقبال نے کہا، ’’اقبال کا تعلق کسی قوم اور کسی ذات سے نہیں ہوتا۔‘‘۴۲ ۶۱ اپریل ہی میں نکلسن کا ایک مضمون جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی (Journal of Royal Asiatic Society)میں شائع ہوا۔ تصوف کی مختلف تعریفیں جمع کی تھیں۔ مضمون اقبال نے بھی پڑھا۔ ۵۹ جمعہ ۲۰ اپریل کی شام پندرہ سولہ مہمان کھانے کے بعد ولیم ٹامس اسٹیڈ کے گھر جمع ہوئے۔ انگلستان کے مشہور ترین صحافیوں میں سے تھے۔ قریباً بیس برس پہلے کم عمر سفیدفام لڑکیوں کی بردہ فروشی کے خلاف طوفان اُٹھایا تھا۔ خواتین کے حقوق کے زبردست حامی تھے۔ اس شام عبداللہ یوسف علی، پروفیسر پرمانند، پنڈت چرنجیت رائے، ڈاکٹر انصاری، مسٹر عبداللطیف، مسٹر نندلال دوبے نے تقریریں کیں۔ اقبال نے مسئلہ ہندوستان کے اقتصادی پہلو پر اور ہندوستان کی اقتصادی ترقی کی ضرورت پر تقریر کی۔ اسٹیڈ ہندوستان کے ہمدرد نظر آتے تھے۔ پھربھی اقبال نے محسوس کیا کہ بعض معاملات میں روایتی سوچ سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ اسی محفل میں یا کسی اور موقع پر مسلمانوں کی جنت میں حوروں کی موجودگی پر اعتراض کر رہے تھے جب تار آیا۔ کسی جلسے کی صدارت کے لیے بلائے گئے تھے مگر جلسے میں عورتوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ اسٹیڈ نے اُسی وقت جواب لکھا، ’’نو وومن، نو اسٹیڈ‘‘ ("No woman, no Steed") اور اقبال کو بھی پڑھ کر سنایا۔ ’’میں نے اُسی جواب کو لے کر اس کے جنت والے اعتراضات کا جواب دے دیا،‘‘ اقبال سے روایت ہے۔ ’’کہنے لگا تم مشرقی لوگ بڑے ہوشیار ہوتے ہو۔‘‘۴۳ ۶۰ بعد میں اقبال کے ایک نوجوان عقیدتمند نے روایت کی: ولایت میں ایک ناکتخدا میم صاحبہ، مذہبِ عیسوی آپ کے سامنے پیش کیا کرتی تھیں اور نئے نئے پیرایہ سے تبلیغ و تلقین کی خدمات بجا لاتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتداً تو اس مبحث سے ’’پہلو تہی‘‘ کی لیکن جب میم صاحبہ نے زیادہ چھیڑا تو ڈاکٹر صاحب کو اُنہیں نہایت سنجیدگی سے سمجھانا پڑا کہ ’’دینِ عیسوی نجات کے لئے چاہے کافی ہو یا نہو لیکن اُس متاہل زندگی کے لئے (جس کے متمنی یورپ کے جوان مرد و زن عموماً اور مس صاحبہ خصوصاً رہتی تھیں) کسی طرح رہنما اور قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مسیح جنہیں دو پشت سے شادی کا مطلق تجربہ نہ تھا کسی طرح اِس بارے میں رہنمائی نہیں کر سکتے۔‘‘ سنا ہے کہ یہی لطیفہ مذہبِ عیسوی کی طرف سے مس صاحبہ کی بددلی کا دیباچہ ثابت ہوا۔۴۴ ۶۱ حسن نظامی نے ہندوستان کے مقدس مقامات کی سیر کا پروگرام بنایا۔میرغلام بھیک نیرنگ اور شیخ محمد اکرام (معاون مدیر مخزن) کو ساتھ لے کر متھرا، ہردوار، جگن ناتھ، امرناتھ اور بنارس ہر جگہ کی زیارت کی۔ اقبال کو خط میں اس کا حال لکھا تو اُنہوں نے ۲۵ اپریل کو جواب دیا، ’’بنارس جا کر لیلام ہوگئے۔ کیوں ٹھیک ہے ناں؟ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بت خانہ ہے کہ ہر بت اس صنم کدے کا رشکِ صنعتِ آزری ہے۔ اِس پرانے مکان کی کبھی سیر کی ہے؟ خدا کی قسم، بنارس کا بازار فراموش کر جاؤ۔ ‘‘ غزل نظارہ ماہ کا سامانِ بے خودی ہے مجھے یہ چاندنی ہے کہ گردُوں سے مے برستی ہے وہ سیر دل کی کرے، ذوقِ جستجو ہو جسے جہاں کو جس نے بسایا یہ اُس کی بستی ہے میں اُس دیار کے، پچھّم کے ساکنو! صدقے جہاں کے کُوچوں میں غیرت ہے تنگ دستی ہے ہزاروں نقش مٹے اِک ترے بنانے کو تری نمود سے غافل! نمودِ ہستی ہے۴۵ بعد میں یہ غزل کسی مجموعے میں شامل نہ کی۔ ۶۲ قدیم ایرانی دماغ خدا اور شیطان کی جنگ میں اُلجھا رہا۔ اس کے برعکس یونانی ذہن خدا اور مادّے کی کشمکش سے نبردآزما ہوا تھا۔ جب ایران میں اسلام آیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد شام کے عیسائیوں کے توسط سے یُونانی فلسفہ بھی وہاں پہنچ گیا۔ عجم میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کم تھی، یونانی فلسفے کے مطالعے نے اِس خامی کو دُور کیا۔ اس کے بعد مسلمان فلسفیوں کے کارنامے زبردست تجزیاتی اندازِفکر کے حامل ہوئے۔ اقبال نے اس سلسلے میں تین فلسفیوں پرخاص توجہ دی۔ فارابی، ابنِ مسکویہ اور ابنِ سینا۔۴۶ ۶۳ فارابی نے خدا کا وجودجس طرح ثابت کیا اُس میں ارسطو کا اثردکھائی دیتا تھا۔ اُنہوںنے کہا، دنیا میں دو طرح کی ہستیاں ہیں۔ ایک وہ جو ممکن ہے، دوسری جو ضروری ہے۔ مثلاً اگر کسی کے سامنے ایک کرسی پڑی ہے جو ایک مکمل حقیقی وجود رکھتی ہے توظاہر ہے کہ اس کا وجود میں آنا ممکن رہا ہوگا مگر اسے وجود میں لانے کے لیے ایک بنانے والے کا وجود بھی ضروری ہے۔ پھر اُس بنانے والے کا بنانے والابھی ضروری ہو گا اور اس طرح سلسلہ خدا تک پہنچے گا۔ خدا کا بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ اگر ہم اُس سے پیچھے جائیں گے تو پھر اسباب کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کرسی کی تخلیق ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جوکبھی ختم نہیں ہو رہا اور اس طرح کرسی کی مکمل تخلیق ممکن ہی نہ رہی ہوگی لیکن چونکہ یہ موجود ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ ایسا بنانے والا بھی ہے جسے کسی نے نہیں بنایا۔ وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے، اُس کی کوئی شکل نہیں اور نہ وہ کبھی تبدیل ہوتا ہے۔ ایک ہے کیونکہ دو ہوں گے تو کسی نہ کسی اعتبار سے مختلف اور اپنی اپنی جگہ محدود بھی ہوں گے مگر جو مختلف اور محدود ہوں وہ حتمی سبب یا سب چیزوں کو بنانے والے نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ فارابی نے خدا کو واحد ثابت کیا اور یہ ایرانی فلسفہ پر گویا اسلام کا اثر تھا۔ فارابی کے نزدیک کائنات میں رُوح اصل شے ہے اور مادّہ صرف رُوح کی منتشر صورت ہے۔ اِس طرح یہ یونانی خیال کہ روح اور مادہ الگ الگ ہیں اسلامی فکر میں داخل ہو گیا۔۴۷ ۶۴ ابن مسکویہ ایران ہی نہیں بلکہ شاید دنیائے اسلام کے سب سے مشہور فلسفی تھے جنہوں نے ارسطو اور دوسرے یونانی فلاسفہ کا ترجمہ کیا اور اپنا مربوط نظامِ فکر بنانے کی کوشش بھی کی جو اس سے پہلے ایران کے کسی فلسفی نے نہیں کی تھی۔ عجیب بات تھی کہ مستشرقین نے اب تک ان پر بہت کم توجہ دی تھی۔ اقبال نے ابن مسکویہ کے خیالات کو تفصیل سے بیان کیا۔ان کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں شبلی نعمانی کی کتاب علم الکلام سے ایک اقتباس بھی ترجمہ کیا:۴۸ The combination of primary substances produced the mineral kingdom, the lowest form of life. A higher stage of evolution is reached in the vegetable kingdom. The first to appear is spontaneous grass; then plants and various kinds of trees, some of which touch the border-land of animal kingdom, in so far as they manifest certain animal characteristics. Intermediary between the vegetable kingdom and the animal kingdom there is a certain form of life which is neither animal nor vegetable, but shares the characteristics of both (e.g. coral). The first step beyond this intermediary stage of life, is the development of the power of movement, and the sense of touch in tiny worms which crawl upon the earth. The sense of touch, owing to the process of differentiation, develops other forms of sense, until we reach the plane of higher animals in which intelligence begins to manifest itself in an ascending scale. Humanity is touched in the ape which undergoes further development, and gradually develops erect stature and power of understanding similar to man. Here animality ends and humanity begins. ۶۵ ابن سینا کو طبیب ہونے کی وجہ سے رُوح کے موضوع سے خاص دلچسپی تھی۔ اُن کے خیال میں رُوح بدن کے بغیر بھی نہ صرف زندہ رہ سکتی ہے بلکہ ادراک بھی کر سکتی ہے۔ اگر رُوح کو سوچنے یا سمجھنے کے لیے جسم کی ضرورت ہوتی تو پھر جسم کے ادراک کے لیے بھی جس میں رُوح موجود ہے، ایک اور جسم کی ضرورت پیش آتی مگر ایسا نہیں ہے۔ ابنِ سینا کے نظریے کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اُن کے خیال میں رُوح اور جسم دونوں اکٹھے بنتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے جسم بنتا ہو اور پھر اُس میں رُوح پھونکی جاتی ہو اور نہ ہی رُوح جسم کے وجود میں آنے سے پہلے کہیں اور موجود ہوتی ہے۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ نشونما پاتے ہیں مگر چونکہ جسم مادّی ہے لہٰذا زوال کے قانون کا پابند ہے اور فنا ہوجاتا ہے۔ رُوح غیرمادّی ہے لہٰذا جسم سے اگلے مراحل میں بھی باقی رہ سکتی ہے۔ رُوح اور مادہ الگ الگ نہیں۔ اِن کی اصل ایک ہے۔۴۹ This striving for the ideal is love's movement towards beauty which, according to Avicenna, is identical with perfection. Beneath the visible evolution of forms is the force of love which actualises all striving, movement, progress. Things are so constituted that they hate non-existence, and love the joy of individuality in various forms. The indeterminate matter, dead in itself, assumes, or more properly, is made to assume by the inner force of love, various forms, and rises higher and higher in the scale of beauty. ۶۶ اقبال نے انگریزی میں لکھا: ہم اُن فلسفیوں کے کام کا جائزہ لے چکے ہیں جنہیں ابتدائی ایرانی فلسفیوں میں سے نوافلاطونی کہا جاتا ہے۔ یہ نوافلاطونی افکار اُس زمانے میں قدیم ایران کی روشنی اور تاریکی کی ثنویت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ (یونانی فکرسے) ایک علیحدہ زندگی مانگ کر لائے تھے۔ البتہ یہ افکار اُس توحیدی رُجحان کی تقویت اور وُسعت کا سبب ضرور بنے جو شروع شروع میں زرتشتی مذہب میں رُونما ہوا تھا۔ ہم دیکھیں گے کہ آگے چل کر یہ نوافلاطونی فِکر بھی عام ایرانی فکر کے دھارے میں ضم ہو گئی اور وہ ابتدائی توحیدی رُجحان بھی کچھ عرصہ تک اسلام کی فقہی بحثوں کے نیچے دبا رہنے کے بعد پُوری توانائی کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوا۔۵۰ ۶۷ ڈاروِن کے نظریۂ ارتقا نے مسیحی دنیا میں ایک نطریاتی جنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس نظریے سے بائبل کے اُن حصوں کی نفی ہوتی تھی جن میں آدم اور حوا کی تخلیق کا واقعہ بیان ہوا تھا۔ مسیحی دنیا کے مذہبی حلقے شدت سے اس کی نفی کرتے۔ نظریۂ ارتقا کے حمایت کرنے والے مذہبی تصورِ تخلیق کی مخالفت کرنے پر مجبور تھے۔ اقبال کیوں پرائے جھگڑے میں پڑتے۔ سر سید احمد خاں کے مطابق قرآن شریف میں آدم کی تخلیق کا واقعہ تمثیلی انداز میں بیان ہوا تھا۔ چنانچہ اقبال کے تحقیقی مقالے میں بھی نظریۂ ارتقأ کے بارے میں آزادانہ غیرجانبداری نظر آتی ہے۔ اس موضوع میں سے جو چیز ملّت کے وجود کی مددگار دکھائی دی، لے لی۔ ممکن ہے بعض نکات کو سمجھنے میں اُن کے انتظامی نگران پروفیسر سیج وِک نے بھی مدد کی ہو۔ علم الحیات (biology) کے اہم ترین مشاہیر میں سے تھے۔ جدید علم الحیات کا ایک نظریہ جس کا حوالہ صرف پانچ برس بعد اقبال نے اپنے تصورِ حیات کے مرکزی ستون کے طور پر پیش کیا وہ پراگرامڈ ڈیتھ کا نظریہ (theory of programmed death) تھا۔ اِسے جرمن ماہرِ علم الحیات آگسٹ ویزمان (August Weissman) نے دس پندرہ برس قبل پیش کیاتھا۔اس کے مطابق کسی حیوان کی عمر کا تعین بھی اُس نسل کی اجتماعی ضرورت سے ہوتا تھا۔ یعنی قدرت نے کچھ ایسا بندوبست کیا تھا کہ جب نسل کی بقا کے لیے کسی حیوان کی ضرورت نہیں رہتی تھی تو وہ جلد ہی مر جاتا تھا۔ اِس نظریے پر کافی اعتراضات ہو رہے تھے۔ وہ بھی اقبال کی نظر سے گزرے ہوں گے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پھر بھی نظریے کے بعض پہلو ضرور مفید معلوم ہوئے۔ پانچ برس بعد ملت اور فرد کے باہمی ربط کی تشریح میں استعمال ہوئے۔۵۱ ۶۸ مئی کے مخزن میں ص۶۴-۶۲ پر اقبال کی ایک نظم کا جواب شائع ہوا۔ اس میں گیارہ بند تھے۔ میرا وطن کون سا ہے؟ ماسٹر علأ الدین از قصور فوق السمأ پہ جس کی عظمت کا تھا ستارہ شوکت کا جس کی بجتا تھا چار سو نقارہ علم و ہنر کا جس نے تھامے رکھا اِجارہ تہذیب کا ہے جس کی دنیا پہ گوشوارہ افسوس اے عزیزو! میرا وطن وہی ہے؟ جس کی گزشتہ دولت اب ہو گئی فسانہ کہتا ہے نیم وحشی اب جس کو سب زمانہ ہے جس جگہ امیروں کا ساگ پات کھانا اور ہے ہوا غریبوں کا محض آب و دانہ افسوس اے عزیزو! میرا وطن وہی ہے؟ ۶۹ تعطیلات میں اقبال ایک ہم جماعت کے ساتھ اُس کے گھر گئے۔ اسکاٹ لینڈ کے دورافتادہ قصبے میں تھا۔ ایک مشنری صاحب ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے۔ اقبال بھی دوست کے ساتھ جلسے میں پہنچے جو شام کے وقت قصبے کے اسکول میں ہوا ۔ پادری صاحب نے بھیل، گونڈ، دراوڑ اور اڑیسہ کے جنگلات میں بسنے والے غیر مہذب قبائل کی نیم برہنہ مکروہ تصاویر میجک لینٹرن پر دکھا کر قصبے والوں سے کہا کہ ہندوستانیوں کو تہذیب سکھانے کے لیے چندے کی ضرورت ہے۔ اقبال بچپن ہی سے مشنری سرگرمیوں سے بدظن تھے، اُٹھے اور منتظمین سے اجازت لے کر بڑے جوش سے تقریر کی۔ کہا کہ خالص ہندوستانی ہیں مگر وضع قطع دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان مشرقی دنیا کا ایک متمدن اور مہذب ملک ہے جس نے صدیوں تک تہذیب اور علم کی شمع بلند رکھی ہے۔ مشنری صاحب کو وہاں سے خالی ہاتھ نکلنا پڑا۔۵۲ یہ روایت درست ہے تو سیالکوٹ میں مشنریوں کی اسلام دشمنی کا بدلہ سکاٹ لینڈ میں لے لیا۔ سمندر سے دُور گرنے والی شبنم کو پھول کی پتیوں پر کہاں چین ملتا ہے: صحنِ گلشن سے ہوں گو میں آشیاں برباد دُور لالہ و گل سے نہیں میرا دلِ ناشاد دُور شبنمے را کز محیطِ بیکراں افتاد دُور در کنارِ لالہ و آغوشِ گل آرام نیست۵۳ بعد میں یہ اشعار کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۷۰ ’’میں تو کسی قوم کے تمدن کو اس بات سے جانچتا ہوں کہ اس قوم میں کھانا کھانے کے آداب اور طور طریقے کس قسم کے رائج ہیں،‘‘ اقبال سے روایت ہے۔ ’’جب میں پہلی مرتبہ انگلستان گیا تو مجھے ایک پر لطف واقعہ پیش آیا۔ میں کھانے کی ایک تقریب میں شریک تھا۔ مہمانوں میں انگریز مرد اور عورتیں دونوں موجود تھے۔ میز پر گوشت کا ایک بہت بڑا ٹکرا پڑا تھا اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ دیکھیں اس کے کاٹنے کی کیا سبیل ہوتی ہے۔ اتنے میں میزبان خاتون نے ایک اِتنا لمبا چھُرا کہیں سے نکالا اور بڑے مزے سے گوشت کو اس ٹکڑے پر چلانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آئی اور یہ خیال بھی دل میں آیا کہ یہاں وحشت اور تمدن میں آخر کتنا فرق رہ گیا ہے؟‘‘۵۴ ۷۱ عجیب چیز ہے مغرب کی زندگی جس سے دماغ ہوتا ہے، دل آشنا نہیں ہوتا۵۵ بعد میں یہ شعر کسی مجموعے میں شامل نہ کیا۔ ۷۲ میک ٹیگرٹ کے خیال میں وقت ایک تصور تھا جس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ اقبال متفق نہ ہوئے۔ ’’ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کے نزدیک زمانہ غیر حقیقی ہے، کیونکہ ہم جس حادثے کو چاہیں ماضی، حال اور مستقبل سے منسوب کر سکتے ہیں،‘‘ اُنہوں نے بعد میں انگریزی میں لکھا۔ ’’مثال کے طور پر ملکہ این کی وفات ہمارے لیے تو ماضی کا حادثہ ہے، لیکن ملکہ کے معاصرین کے لیے حال اور ولیم ثالث[ملکہ کے پیشرو] کے لیے مستقبل کا۔ گویا اس ایک حادثے میں وہ سب خصائص جمع ہیں جن کا باہم جمع ہونا محال ہے۔‘‘۵۶ پورا امکان موجود ہے کہ اُس زمانے میں اقبال کے ذہن میں وہ اعتراض موجود تھا جو بعد میں اُنہوں نے اِس نظریے پر عائد کیا جب انگریزی میں لکھا: اِس دلیل کا انحصار جیسا کہ خود ہی ظاہر ہو جاتا ہے اس مفروضے پر ہے کہ زمان متسلسل (serial time) ہی حقیقی زمانہ (real time) ہے۔ اب اگر زمانے کے تصور کو ماضی، حال اور مستقبل کا تصور مستلزم ہے تو ہم اس کا قیاس ایک خط مستقیم ہی پر کریں گے جس کا ایک حصہ طے ہو چکا ہے، یعنی ہم اسے پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور ایک ہمارے سامنے ہے، لہٰذا اس کا طے کرنا باقی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمانہ کوئی زندہ اور تخلیقی حرکت نہیں بلکہ ایک سکون مطلق جس میں ہر طرح کے ڈھلے ڈھلائے حوادث پہلے سے جمع ہیں اور اب یکے بعد دیگرے ویسے ہی ہمارے سامنے آرہے ہیں جیسے خارج میں بیٹھے ہم کسی فلم کا تماشا کر رہے ہوں۔ اس لحاظ سے تو ملکہ این کا حادثہ ولیم ثالث کے لیے فی الواقع مستقبل کا حکم رکھتا ہے، بشرطیکہ یہ حادثہ پہلے سے متشکل ہوچکا اور مستقبل میں کہیں پڑا اپنے ظہور کا منتظر تھا۔ لیکن ہم مستقبل کے کسی حادثے کو حادثے سے تعبیر ہی نہیں کرسکتے، کیونکہ ملکہ این کی وفات سے پہلے اس حادثے کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ این کی زندگی میں تو بیشک اس کا وجود تھا مگر حقیقت مطلقہ (Ultimate Reality) کے ایک غیر وقوع یافتہ امکان کے طور پر۔۔۔ لہٰذا ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ مستقبل کو وجود کہا جاتا ہے تو محض ایک غیر معین امکان کی حیثیت سے۔ اس حیثیت سے نہیں کہ وہ سچ مچ کہیں موجود رکھا ہے۔ اندریں صورت یہ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اگر کسی حادثے کو ماضی اور حال دونوں سے منسوب کیا جائے تو اس میں وہ سب خصائص جمع ہو جاتے ہیں جن کا باہم جمع ہونا محال ہے۔۔۔ آگسٹائین(St. Augustine) کے یہ پرمعنی الفاظ کہ ’اگر مجھ سے پوچھیے تو میں نہیں جانتا زمانہ کیا ہے، لیکن اگر نہیں پوچھیے تو جانتا ہوں کیا ہے‘، آج بھی ویسے ہی صحیح ہیں جسے اس وقت تھے جب پہلے پہل کہے گئے۔۵۷ روایت ہے کہ اقبال نے اس موضوع پر مقالہ لکھ کر میک ٹیگرٹ کو دکھایا۔ انہوں نے سخت تنقید کی۔ اقبال نے مضمون ضائع کر دیا۔۵۸ وہ تلف کیا ہوا مقالہ اب موجود نہیں۔ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کیا رہا ہو گا۔ روایت میں کہا گیا ہے کہ اس میں پیش کیے گئے خیالات فرانسیسی فلسفی برگساں کے خیالات سے قریب تھے۔ وہ ۱۸۸۹ء میں فرانسیسی میں شائع ہوئے مگر ابھی انگریزی میں ترجمہ نہ ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اقبال اُن سے واقف نہ تھے مگر بعد میں کہا، ’’برگساں کا تصورِ زمان بھی صوفیوں کے لیے نیا نہیں ہے۔‘‘۵۹ لہٰذا جو مقالہ لکھ کر تلف کیا اُس میں وقت کے بارے میں صوفیأ کے تصورات ہی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہو گی۔ بعض تصورات جو بالکل اُسی زمانے میں اُن کی شاعری میں وارد ہونے لگے تھے، اُنہیں بھی سامنے رکھا جائے تو بالکل وہی تصورات سامنے آ جاتے ہیں جو بعد میں انگریزی کی ایک اور تحریر میں ظاہر ہوئے۔ کیمبرج میں قیام کے دوران اگر کوئی مقالہ اس موضوع پر لکھ کر تلف کیا تو یہی تصورات اُس میں بھی پیش کیے ہوں گے۔ وہ کچھ یوں تھے: جب واردات شعور کا مطالعہ زیادہ گہری نظر سے کیا جاتا ہے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ داخل کی زندگی میں نفس انسانی کا رُخ دراصل مرکز سے خارج کی طرف رہتا ہے اور اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک فعال یا کارفرما، دوسرا بصیر یا قدر آشنا۔ اپنے فعال اور کارفرما پہلو یا عالم جلوت میں تو اس کا تعلق اس دنیا سے قائم ہوتا ہے جسے ہم مکان کی دنیا کہتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ہم اس کے زمانے کو طویل بھی کہہ سکتے ہیں اور قیصر بھی اور جس کا مکان سے بمشکل ہی امتیاز ہوسکتا ہے۔۔۔ لیکن برگساں کہتا ہے کہ زمانے کا یہ تصور زمان حقیقی کا تصور نہیں اور اس لیے جس وجود کا تعلق زمان مکانی سے ہے وہ حقیقی وجود نہیں۔ بایں ہمہ جب ہم اپنی واردات شعور کا تجزیہ زیادہ گہری نظر سے کرتے ہیںتو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ نفس انسانی یا ہماری خودی کا ایک پہلو وہ بھی ہے جس کو ہم نے بصیر اور قدر آشنا، یا خلوت کا پہلو کہا تھا، گو اپنے ارتقا کی موجودہ منزل میں ہم اس کی کوئی جھلک مشکل ہی سے دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ اس منزل میں ہماری توجہ اشیا کے خارجی نظام پر مرتکز رہتی ہے۔۔۔ صرف گہرے غور و فکر کے لمحات میں جب انائے فعال معطل ہو جاتا ہے، ہمیں موقع ملتا ہے کہ اپنے عمیق تر نفس میں ڈوب کر محسوسات و مدرکات کے حقیقی مرکز تک جاپہنچیں، اس عمیق تر انا کی زندگی میں جملہ کیفیات شعور باہم مدغم ہوجاتی ہیں اور اس لیے انائے بصیر کی وحدت گویا ایک جرثومے کی وحدت ہے جس میں اس کے اسلاف کے ہر فرد کی واردات کثرت کی بجائے ایک ایسی وحدت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جس میں ہر واردہ پورے کل میں سرایت کر جاتا ہے۔۔۔ گویا یوں کہیے کہ اس میں تغیر بھی ہوگا اور حرکت بھی، لیکن نہ اس تغیر کا تجزیہ ہوسکے گا نہ حرکت کا کیونکہ اس کے اجزا ایک دوسرے میں پیوست اور باعتبار نوعیت سلسلہ بندی سے آزاد ہوں گے۔ حاصل کلام یہ کہ انائے بصیر کا زمانہ محض ایک ’آن‘ ہے جس کو انائے فعال دنیائے خارج سے رسم و راہ کے باعث ’آنات‘کے ایک سلسلے میں تقسیم کر دیتا ہے اور جس کی مثال ویسی ہے جیسے کسی لڑی میں موتیوں کے دانوں کی۔ یہ ہے زمان خالص بلا شائبہ مکان جس کے یہی باسلسلہ اور بے سلسلہ پہلو ہیں۔‘‘۶۰ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا، ’’زمانے کو برا مت کہو کیونکہ خدا کہتا ہے، بیشک میں ہی زمانہ ہوں۔‘‘۶۱ ۷۳ کیمبرج میں پروفیسر میک ٹیگرٹ کے ایک دوست اُن سے ملنے کبھی کبھی آتے۔ آدھے سے زیادہ گنجا سر، افسردہ آنکھیں اور جرمن طرز کی نیچے کو جھکی ہوئی مونچھیں۔ گیارہ سال پہلے اُن کے ایک ناول پراتنا شدید ردِ عمل ہوا تھا کہ نظم تک محدودہو گئے۔ یہ ٹامس ہارڈی تھے۔ زندگی سے ناامیدی کی تصویرکھینچنے میں بے مثال تھے۔ ایک روایت ہے کہ بعد میں اقبال نے کہا، ’’اگر میں کسی ملک کا حکمراں ہوتا اور میرے ملک کا کوئی مصنف ٹامس ہارڈی کی سی حرکت کرتا تو میں اُسے گولی سے اُڑا دیتا!‘‘۶۲ ۷۴ جنوبی افریقہ کے آسمان پر ۱۰ جون کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔جدید سلحے سے لیس برطانوی افواج کے سامنے ایک وادی میں نیزوں، بھالوں اور لاٹھیوں سے مسلح زولو قبیلے کے افراد اپنے سردار بمباتھا کے ساتھ موجود تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سفیدفام آقا کے لیے جبری مشقت کرنے سے انکار کیا تھا۔ گورے سپاہیوں نے گولیاں برسانا شروع کیں۔ سیاہ مٹی پر سیاہ لاشیں گرنے لگیں۔ پونے چھ سو افریقی مارے گئے۔ بعد میں بعض گوروں کو بھی اپنی درندگی پر افسوس ہوا مگر ایک ہندوستانی جسے حسرت تھی کہ اِس جنگ میں گوروں کے ساتھ شریک ہوتا وہ سینتیس سالہ موہنداس کرم چند گاندھی تھے۔ گاندھی پچھلے بائیس برس سے جنوبی افریقہ میں اِس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے تھے کہ وہاں کے انگریز حکمراں وہاں رہنے والے ہندوستانیوں کو وہاں کی سیاہ فام مقامی آبادی سے نسلی اور تہذیبی طور پر برتر تسلیم کر لیں۔ اُس وقت تک گاندھی مشہور نہ ہوئے تھے۔ اقبال نے ذکر نہ سنا ہو گا اور ہندی قومیت کا یہ نسل پرستانہ رُوپ بھی دو برس پہلے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ لکھتے ہوئے ذہن میں نہ رکھا ہو گا۔ ۷۵ دنشوئی مصر کا ایک گاؤں تھا۔ ۱۳ جون کو پانچ برطانوی فوجی کبوتروں کا شکار کھیلنے تشریف لائے۔ دو آئرلینڈ کے اور تین انگریز تھے۔ ترجمان اورایک مقامی پولیس افسربھی ساتھ تھا۔ کبوتر جو مارے وہ جنگلی نہ تھے۔ دیہاتیوں نے پالتو کبوتروں کے قتل پر احتجاج کیا تو فوجیوں نے گولیاں برسائیں اور غلے کو آگ لگا دی۔ حسن محفوظ کے کبوتر مرے تھے۔ عبدالنبی کی بیوی زخمی ہوئی۔ دونوںنے لاٹھیوں کے ساتھ سپاہیوں پر حملہ کیا۔ دُوسروں نے پتھر مارے۔ صاحب لوگوں کے ہوش ٹھکانے آئے۔ اسلحہ ، نقدی، گھڑیاں وغیرہ گاؤں والوں کے حوالے کیں۔ دو کمزور دل تھے، بھاگ نکلے۔ راستے میں ایک پر دل کا دورہ پڑا۔ دوسرا فوج تک پہنچا۔ گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے باقی تین سپاہیوں کی جانیں بچا لی تھیں۔ اگلے روز بہادر انگریز سپاہی بڑی تعداد میں آئے۔ راستے میں دل کا مریض ملاجو مر چکا تھا۔ ایک دیہاتی نے اُس کی جان بچانے کی کوشش کی تھی۔ فوج نے اُسے قتل کیا اور باون دیہاتیوں کو گرفتار کر کے لے گئے۔ مقدمہ چلا۔ عبدالنبی جس کی بیوی زخمی ہوئی تھی اور جس کا غلہ جلایا گیا تھا اُسے عمرقید کی سزا ہوئی۔ حسن محفوظ جس کے کبوتر مرے تھے اُسے اُس کے گھر کے دروازے پر پھانسی دی گئی۔ تین دوسرے دیہاتیوں کو بھی پھانسی ہوئی۔ اُن پر اُس سپاہی کے قتل کا الزام تھا جو دل کا دَورہ پڑنے سے مرا تھا۔ چھبیس دیہاتیوں کو سر ِ عام کوڑے لگائے اور پھر جیل بھیجا گیا۔ مصری پولیس افسر نے انگریز سپاہیوں کے خلاف گواہی دی۔ اُسے ملازمت سے برطرف کر کے پچاس کوڑے لگائے گئے اور دو برس کی قید ہوئی۔ بے چینی کی لہر پورے مصر میں پھیل گئی۔ ۷۶ مراکش میں بعض لوگ ہموطنوں کو سمجھا رہے تھے کہ غیرملکی مداخلت اچھی ہے۔ مسیحی طاقتوں کے تیار کیے ہوئے معاہدے پر دستخط کر دینے چاہئیں۔ ان میں دانشور، اساتذہ اور روشن خیال علما ٔشامل تھے۔ قاضی خاندان کا ہونہار لڑکا محمد بن عبدالکریم الخطابی جس نے اسپینی تعلیم حاصل کی تھی، نظریہ پیش کر رہا تھا کہ مراکش میں دو قسم کے لوگ تھے، سمجھدار اور بیوقوف۔ غیرملکیوں کی مخالفت کرنے والے بیوقوف اور انتہاپسند تھے۔ کون جانتا تھا کہ یہی شخص کبھی غیرملکیوں سے ذاتی اختلافات کے بعد حریت پسند بنے گا جس کے گوریلا حربوں سے رہنمائی لینے والوں میں ویتنام، چین اور ارجنٹائن کے نوجوان شامل ہوں گے اور اُن کے نام ہو چن من، ماؤزے تنگ اور چیگوویراہوں گے۔ ۱۸ جون کو سلطان نے مسیحی طاقتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے۔ ۷۷ عطامحمد کی سخت گیری سے ڈر کر علی بخش بھاگ گیا تھا اور لاہور جا کر اسلامیہ کالج میں نوکری کر لی تھی۔ معراج اور آفتاب کو ابّو بہت یاد آتے ہوں گے کیونکہ عطامحمد اپنے مخصوص انداز میں دونوں کی تربیت کر رہے تھے۔روایت ہے کہ کسی شرارت پر آفتاب کو برا بھلا کہہ رہے تھے جب کریم بی نے ڈر کر بچے کو اپنے پاس بلا لیا۔ عطامحمد بید لے کر آئے اور آفتاب کواس کی ماں کی گود سے چھین کر علیحدہ کمرے میں لے گئے۔ نَوبرس کے بچے کی ایسی پٹائی کسی کواچھی نہ لگی۔ نورمحمد کو خبر ہوئی تو تڑپ کر اٹھے اور کسی نہ کسی طرح بچے کو چھڑا لائے۔ ۶۳ اقبال کے خطوط گھرکے سب افراد کے نام آتے تھے مگر وہ محفوظ نہیں ہیں۔ معراج کے لیے عطامحمد صاحب کا حکم تھا کہ وہ خود باپ کو خط نہ لکھے اور جو بات کہنی ہو وہ چچا یا دادا کے ذریعے کہلوائے۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کا خط لکھنا ایک معیوب بات تھی خواہ خط کسی کو بھی لکھا جائے۔ معراج کی عمر صرف گیارہ برس تھی مگر کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ براہِ راست باپ کو خط لکھ دیا تو عطا محمد نے سختی سے بازپرس کی۔ ۶۴ ۷۸ اقبال کو معلوم ہوا کہ اُن کے گورنمنٹ کالج کے طالب علم خواجہ فیروزالدین کا رشتہ کریم بی بی کی بہن کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے سسر حافظ عطا محمد کو لکھا کہ رشتہ اچھا ہے۔۶۵ ۷۹ خواجہ فیروزالدین ریاضی کے لازمی امتحان میں فیل ہوئے جس کی وجہ سے حافظ عطا محمد نے رشتے سے انکار کر دیاتھا۔ اقبال کا خط ملا تو سر مہدی شاہ کو لڑکے کے والدین کے پاس کیمبل پور بھیج کر منظوری کی اطلاع دی۔۶۶ ۸۰ ایران پر عربوں کی حکومت خلافت ِ راشدہ کے زمانے میں قائم ہوئی۔ بنی امیہ کا دَور آیا تو بقول ڈوزی عربوں نے اسلام کے بلند نصب العین سے منہ موڑکر زمانۂ جاہلیت کے تعصبات کی طرف رجوع کیا۔ مفتوحہ اقوام کے ساتھ برتاؤ تبدیل ہو گیا۔ بڑے ظلم ہوئے۔ کربلا کا واقعہ پیش آیا، صحابہ کو شہید کیا گیا، اہل ِ بیت پر سختیاں روا رکھی گئیں۔ ایرانیوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہواجو دیکھ رہے تھے کہ بنی امیہ اپنے مظالم کے جواز میں قرآن کی بعض آیتوں سے تقدیر کا مسئلہ تلاش کر لیتے یعنی جو کچھ ہو رہاتھا اُس کی ذمہ داری کسی حاکم پر نہیں بلکہ تقدیرمیں یہی لکھا تھا۔ ایرانی ذہن نے بغاوت کی اور ’’آٹھویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں ہمیں بصرہ کا ایرانی واصل ابن عطأ اُس عظیم تحریک کی ابتدا کرتا نظر آتا ہے جس کا نام اعتزال یعنی عقلیت پسندی تھا،‘‘ اقبال نے انگریزی میں لکھا۔ اس تحریک سے وابستہ فلسفیوں نے جنہیں معتزلہ کہا جاتا تقدیر کے مقابلے میں انسانی آزادی کا نظریہ پیش کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کائنات ایٹموں کی بنی ہوئی تھی جو ٹوٹتے نہ ختم ہوتے تھے۔ اِس طرح مخلوق اور فطرت کی اہمیت بیان کی مگر خدا کے روایتی مذہبی تصور پر زد پڑی۔ خدا کا تصور ایک ناقابلِ بیان آفاقیت تک محدود ہو گیا۔ معتزلہ کا ایک محبوب موضوع یہ بھی تھا کہ برائی کیسے پیدا ہوتی۔یہ بحث قدیم زرتشتی فکر کا تسلسل تھی۔ معتزلہ نے مذہب کو انسانی عقل کا پابند کیا۔ بعدمیں اسماعیلیہ فرقہ نے کچھ تبدیلی کر کے ایک زندہ اور حاضر امام کا تصور پیش کیا جو باقی انسانوں کے لیے دانائی کا سرچشمہ ہوتا۔ امامت ثابت کرنے کے لیے کائنات کا ایک مربوط نظریہ پیش کیا۔ اقبال نے انگریزی میں لکھا: خدا کے متعلق اسماعیلیہ کا نظریہ یہ تھا کہ اُس کی کوئی صفات نہیں ہو سکتیں کیونکہ خدا سے صفات منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی فطرت اُن صفات کی پابند ہو گی جبکہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ پس جب ہم قوت کی صفت کو اُس سے منسوب کرتے ہیں تو ہمارا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ قوت عطا کرنے والی ہستی ہے۔ چونکہ وہ صفات سے بالاتر ہے لہٰذا اُس میں آکرتضادات ختم ہوجاتے ہیںاور وہ اپنی ذات سے متضاد چیزوں کو جاری کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس طرح وہ مسئلہ جو زرتشت اور اُن کے پیروؤں کو پریشان کرتا رہا تھا اسماعیلیوں نے گویا حل کردیا۔ اہرمن یا شیطان کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ کوئی بُری چیزیں پیدا کرنے والا بدذات نہیں بلکہ ایک ایسی قوت ہے جو وحدتِ ازل سے ٹکراتی اور اُسے ظاہری کثرت میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ اسماعیلی نظریہ قدیم ایرانی فلسفے کو اسلام کے عقیدۂ توحید سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی۔ اِسی سلسلے میں قرآن کی علامتی تفسیر پیش کی جس سے بعد میں صُوفیا ٔ نے بھی فائدہ اُٹھایا۔۶۷ ۸۱ معتزلہ اور اسماعیلی مفکروں نے اسلامی عقاید کی تفسیر میں بڑی آزادی سے کام لیا۔ اس کے خلاف ردِعمل ہونا تھا اور ہوا۔ نویں صدی عیسوی کے آغاز میںابوالحسن اشعری اسلام کو بنیادی عقاید کی طرف واپس لے جانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ خود عرب ہونے کے لحاظ سے سامی نسل سے تھے مگر اُن کے ماننے والوں میں ایرانیوں کی بڑی تعداد شامل ہوگئی چنانچہ اُن کے اشعری فرقے کوبھی ایرانی فکر کے تسلسل میں جگہ دی جاسکتی تھی۔ ابوالحسن خود معتزلہ کے مدرسوں میں تعلیم حاصل کر چکے تھے لہٰذا فلسفیانہ انداز میں معتزلہ کو جواب دیا۔سبب اورنتیجے کے قانون کو ماننے سے انکارکیا۔ ان کے خیال میں کسی تخلیق یا واقعے کا سبب تلاش نہ کیا جا سکتا تھا سوائے اِس کے کہ خدا کی مرضی تھی۔ اِس طرح خدا کا وہ تصوّر بحال کیا گیا جسے معتزلہ کی عقلیت پسندی سے نقصان پہنچا تھا مگر مخلوق یا فطرت کی ظاہری حقیقت کا تصورختم ہو گیا۔ امام غزالی اشعری مکتب ِ فکر کی سب سے بڑی شخصیت سمجھے جاتے۔ انہوں نے رُوح کے بارے میں نظریات پیش کیے جس کے متعلق دوسرے اشعری خاموش رہے تھے۔ غزالی نے سمجھنے کی کوشش کی کہ رسول ؐاللہ نے رُوح کے بارے میں خاموشی کیوں اختیار فرمائی۔ اقبال نے غزالی کا موقف انگریزی میں تحریر کیا: اِس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں،عام لوگ اور مفکر۔ عام لوگوں کی نظر مادّیت سے آگے نہیں دیکھتی لہٰذا وہ کسی غیرمادّی چیز کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اِس کے برعکس مفکرین اپنی منطق کے ذریعے رُوح کے ایک ایسے تصور کے قریب جا پہنچتے ہیں جو عام رُوحوں اور خدا کے درمیان فرق ختم کر دیتا ہے۔ غزالی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اُن کی جستجو اُنہیں وحدت الوجود کی طرف لے جارہی ہے لہٰذا انہوں نے رُوح کی آخری حقیقت بتانے پر خاموشی کو ترجیح دی۔ ایرانی فلسفیوں کا ایک گروہ بھی خدا کے بارے میں خاموش تھا۔ اِس روّیے کو اقبال نے ’ایرانی اثباتیت ‘ کا نام دیا۔ البیرونی اور ابن ِ سینا یہی روّیہ رکھتے تھے۔ کچھ لوگوں نے خدا اور رُوح کے بارے میں جستجو بڑی دلیری کے ساتھ جاری رکھی۔ یہ صوفی تھے۔۶۸ ۸۲ اقبال ریل میں کیمبرج سے لندن آرہے تھے۔ڈبے میں کچھ لوگ قریب بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ آخر ایک پارٹی ہار کر اُٹھ گئی۔ جیتنے والوں نے رقم سمیٹی اور کچھ نئے لوگوں کو دعوت دی۔ بہت جلد یہ بھی ہار گئے۔ روایت ہے کہ اقبال نے بغور دیکھا اور سمجھ گئے کہ بے ایمانی ہو رہی ہے۔ وہ لوگ بیس پونڈ اکٹھے کر چکے تھے۔ اب اقبال کو دعوت دی اور یہ تیارہوگئے۔گاڑی لندن پہنچ کر رُکی تو بیس پونڈاقبال کی جیب میں پہنچ چکے تھے اور بے چارے پیشہ وَر جواری اُن کے سامنے حیران بیٹھے تھے۔ اسٹیشن پر وہ پیچھے پیچھے ہو لیے اور خوشامد کرنے لگے تاکہ رقم واپس مل جائے۔ اقبال نے دھمکی دی کہ غائب نہ ہوئے تو پولیس میں پکڑوا ئے جائیں گے۔ تب ٹلے۔۶۹ لندن میں لنکنز اِن کے لیکچر سننے اور وہاں کے لازمی ڈنرزمیں شرکت کرنے، آرنلڈ سے مل کر فلسفۂ عجم پر بحث کرنے اور کتب خانوں کی خاک چھاننے کے علاوہ بھی اقبال کی کچھ مصروفیات تھیں جن کی روداد وہ محمد تقی کو خط میں لکھ کر بھیجتے تھے۔ اقبال کی وفات کے بعد تقی نے وہ سارے خطوط جلا ڈالے لہٰذا اب اُن کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکتی۔ صرف کچھ بکھرے ہوئے واقعات کی روشنی میں دھندلی سی تصویر ابھرتی ہے۔ ’’تم مسلمان ہو؟‘‘ کسی انگریز نے اقبال سے پوچھا۔ اقبال لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے جواب دیا، ’’تیسرا حصہ مسلمان ہوں۔‘‘ جب انگریز نے وضاحت چاہی تو کہا، ’’رسول اکرمؐ فرماتے ہیں مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں۔ نماز، خوشبو اور عورت۔ مجھے اِن تینوں میں سے صرف ایک پسند ہے!‘‘۷۰ ۸۳ نہ پوچھ مجھ سے حقیقت دیارِ لندن کی یہ ایک شہر ہے گویا پری جمالوں کا ولی بھی، رند بھی، شاعر بھی کیا نہیں اقبالؔ حساب ہے کوئی کم بخت کے کمالوں کا۷۱ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۸۴ علی گڑھ سے سرسید کے کوئی ہمعصر دوست جو شاید وکیل بھی تھے اور مولوی کہلاتے، انگلستان آئے ہوئے تھے۔ روایت ہے کہ آرنلڈ نے اقبال کو بلا کر کہا، ’’مولوی صاحب کو لندن کی تمام قابل ِ دید جگہیں اور چیزیں دکھادو۔‘‘ مولوی صاحب کی سفید داڑھی اورنورانی چہرہ دیکھ کر اقبال کی رگِ ظرافت پھڑکی اور چڑیا گھر، عجائب خانہ اور تاریخی عمارتیں دکھانے کے بعدقہوہ خانے لے گئے جہاں کچھ جسم فروش خواتین اقبال کے اشارے پر یا خود ہی مولوی صاحب کے گرد جمع ہو کر اُنہیں متوجہ کرنے لگیں۔ شاید ایک نے بڑھ کر اُن کے نورانی رخساروں پر اپنی عقیدت کی مہریں بھی ثبت کردیں۔ مولوی صاحب آرنلڈ کے پاس پہنچے اور برس پڑے۔اگلے روز آرنلڈ کے جواب طلب کرنے پر اقبال نے کہا کہ اگر مولوی صاحب کو قہوہ خانہ لے کر نہ جاتے تو وہ لندن کے متعلق سخت غلط فہمی میں مبتلا رہتے اور یک طرفہ خیالات لے کر جاتے جبکہ لندن کی زندگی میں قہوہ خانوں کا رُخ خواہ برا ہو یا بھلا بہت اہم ہے۔۷۲ کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں شبہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں غالبؔ ۸۵ لاکھوں طرح کے لطف ہیں اِس اضطراب میں تھوڑی سی دیر اور ہو خط کے جواب میں کیوں وصل کے سوال پہ چپ لگ گئی تمہیں دو چار گالیاں ہی سنا دو جواب میں۷۳ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۸۶ اقبال سے روایت ہے،’’اپنے قیامِ انگلستان کے دوران میں نے دیکھا کہ جب کبھی میں نے کسی انگریز خاتون یا مرد سے کسی مخصوص مشرقی رسم یا طرزِ فکر سے متعلق بات کی تو عموماً مجھے ایسے تبصرے کا سامنا کرنا پڑا، ’کتنا مضحکہ خیز ہے!‘‘‘ ۷۴ خفا ہونے کی بجائے عموماً لطف اٹھاتے تھے۔ روایت ہے کہ لندن میں کسی خاتون نے پوچھا، ’’کیا ہندوستان میں آپ کے بستر کے نیچے بھی ہر روز صبح کے وقت سانپ ہوتا تھا؟‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ ہندوستان بہت بڑا جنگل ہے جہاں سب لوگ جانوروں کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ اقبال نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’ہر روز نہیں، ہر تیسرے دن۔ ‘‘۷۵ ۸۷ تہران میں برطانوی سفارتخانے کے وسیع لان پر قریباً بارہ ہزار ایرانی دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ بغاوت غیرملکیوں کے عمل دخل کے خلاف ہوئی تھی مگر شاہی سپاہیوں نے عوام پر حملے شروع کیے تو برطانوی سفارتخانہ ہمدرد بن گیا۔ جو مذہبی علما ٔ بھاگ کر قم نہ جا سکے یہاں آگئے۔ برطانوی سفارتخانے کے سبزہ زار پر زورشور سے تقریریں ہوئیں تو مطالبہ بدل گیا۔ ایران کو غیرملکیوں کے اثر سے نکالنے کی بجائے مغربی طرز کے آئین اور پارلیمنٹ کی بات ہونے لگی۔ ۸۸ پروفیسر براؤن کی فارسی ادب کی تاریخ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ ’’میں نے تاریخ ادبیات ایران پر تبصرہ نہیں کیا،‘‘ اقبال سے روایت ہے۔ ’’میرا کہنا تھا اس تاریخ سے ایرانی قومیت کا احیا مقصود ہے اور ایرانی قومیت کا تصور اُمت کے سیاسی اور ملی تشخص کی نفی۔‘‘۷۶ ہندوستان میں شبلی نعمانی براؤن کی کتاب پڑھ کر بیچین ہوئے۔ خود فارسی ادب کی تاریخ کئی جلدوں میں لکھنے کا عزم کر لیا۔ دوسرے کئی برس لگاتے مگر اِنہوں نے ندوہ سے صرف تین ماہ کی چھٹی لی۔ پچھلے دس بارہ برس میںسات آٹھ کتابیں لکھی تھیں جن میں سے ایک ایک کتاب کو لکھنا آٹھ آٹھ برس کا کام ہوتا۔ اب بنارس گئے اور پھرعلی گڑھ کے زمانے کے چہیتے طالب علم سے ملاقات کرنے بڑودہ پہنچے۔یہ طالب علم محمد علی تھے جن کا تخلص جوہرؔ تھا۔ اُس برس ہندوستان کے مسلمانوں میں جو عام بے چینی پھیلی ہوئی تھی وہ شاید ہر گوشے سے کھنچ کھنچ کر اِنہی کے دل میں اکٹھی ہو رہی تھی۔ اسے عام حالات کا ردِ عمل نہ سمجھتے تھے بلکہ اُن کے خیال میں قوم قدرتی طور پر اپنی نشو و نما میں اُس مقام پر پہنچی تھی جہاں ایک نیا موڑ آنا تھا۔۷۷ محمد علی نے فرمایشیں کر ڈالیں۔ مارگولیتھ جو آکسفورڈ میں ان کے مقالے کا نگراں رہ چکا تھا اُس کی لکھی ہوئی سیرۃ النبیؐ میں رسول اکرمؐ کے مرتبے سے غفلت برتی گئی تھی۔ایسی مکمل سیرۃ النبی لکھی جانی چاہیے جس کے بعد ایسی کتابوں کی گنجایش نہ رہے۔اورنگزیب عالمگیر کے دفاع میں کچھ مضامین بھی ہونے چاہئیں۔ انتہاپسند ہندو یہ کہہ کر اشتعال پیدا کررہے تھے کہ اورنگزیب نے ہندوؤں پر بہت ظلم توڑے تھے۔ شبلی کے جذبات ایسے ہی علمی تقاضوں سے مہمیز ہوا کرتے تھے چنانچہ پچھلے اِرادوں میں یہ نئے منصوبے بھی شامل ہو گئے بلکہ شاید ایک دو روز خیالوں میں رہ کر خوابوں میں انہیں مکمل بھی کر لیا ہو کیونکہ بڑودہ سے نکل کر بمبئی پہنچے اور نجانے کتنی مدت بعد باقاعدہ آرام کیا۔ وہاں کی فضا کا اثر ہوا۔ اُنیس برس بعد دوبارہ فارسی میں غزلیں لکھنا شروع کر دیا۔ ۸۹ بمبئی کے قریب جزیرہ تھا جو وہاں کے تلفظ میں بگڑ کر جنجیرہ ہو گیا۔ وہاں اُنہی حسن آفندی کا خاندان رہتا تھا جن سے شبلی کی ملاقات بارہ برس پہلے ترکی میں ہوئی تھی۔بڑی لڑکی کی شادی جنجیرہ کے نواب سے ہوئی تھی۔ حسن آفندی فوت ہو چکے تھے مگر بیوہ اپنے لڑکے اور دوچھوٹی لڑکیوں کے ساتھ جنجیرہ میں رہتی تھیں۔ لڑکیاں جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکی تھیں۔ ایک کا نام زہرہ فیضی تھا اور کافی مشہور تھیں کیونکہ اُن کا سفرنامہ لاہور میں مولوی ممتاز علی کے ماہنامہ تہذیبِ نسواں میں قسط وار شائع ہوتا ۔ چھوٹی لڑکی کا نام عطیہ فیضی تھا۔ عطیہ کی عمر چوبیس برس تھی مگر نقوش نازک تھے لہٰذا اور بھی کم عمر نظر آتیں۔انہیں مغرب کی کلاسیکی موسیقی سے گہرا لگاؤ تھا مگر شبلی کے لحاظ میں حافظ کی کوئی غزل سنائی۔ ۹۰ ہندوستان میں اقبال کی کمی محسوس کرنے والے صرف ماں، باپ، بچے اور بھتیجے نہ تھے۔ شاعری پڑھنے والے اور نئے شاعر بھی محسوس کر رہے تھے کہ چار ماہ سے مخزن میں اقبال کی نظم نہیں چھپی۔ اگست کے مخزن میں ص۵۴ پر دُرگاسہائے سرورجہاںآبادی کی نظم ’فضائے برشگال اور پروفیسر اقبال ‘ میں نئی تخلیق کا تقاضا ہوا۔۷۸ ۹۱ ۵ اگست کو ایران کے شہنشاہ مظفرالدین قاجار نے دستوری حکومت کا اعلان کر دیا۔ چند ہفتوں میں انتخابات اور اس کے بعد مغربی طرز کی پارلیمنٹ منعقد ہونے والی تھی۔ اُس ماہ شبلی کی کتاب سوانح مولانا رومشائع ہوئی جو پہلے سے مکمل پڑی تھی۔ سوانح مولانا روم از شبلی نعمانی [اقتباس] یہ عجیب بات ہے کہ شمس تبریز سے ملاقات کا واقعہ جو مولانا کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہے تذکروں اور تاریخوں میں اس قدر مختلف اور متناقص طریقوں سے منقول کہ اصل واقعے کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ جواہرِ مضیٔہ جو علمائے حنفیہ کے حالات میں سب سے پہلی سب سے زیادہ مستند کتاب ہے اُس میں لکھا ہے کہ ایک دن مولانا گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ تلامذہ آس پاس بیٹھے تھے چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا، اتفاقاً شمس تبریز کسی طرف سے آ نکلے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ مولانا کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ یہ (کتابوں کی طرف اشارہ کر کے) کیا ہے۔ مولانا نے کہا یہ وہ چیز ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ یہ کہنا تھا کہ دفعتا ً تمام کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا نے کہا یہ کیا ہے، شمس نے کہا یہ وہ چیز ہے جس کو تم نہیں جانتے۔ شمس تو یہ کہہ کر چل دیے، مولانا کا یہ حال ہوا کہ گھربار، مال اولاد سب چھوڑ چھاڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور ملک بہ ملک خاک چھانتے پھرے لیکن شمس کاکہیں پتہ نہ لگا۔ کہتے ہیں کہ مولانا کے مریدوں میں سے کسی نے شمس کو قتل کر ڈالا۔ زین العابدین شروانی نے مثنوی کے دیباچے میں لکھا ہے کہ شمس تبریز کو ان کے پیربابا کمال الدین چندی نے حکم دیا کہ روم جاؤ، وہاں ایک دل سوختہ ہے اُس کو گرم کر آؤ۔ شمس پھرتے پھراتے قونیہ پہنچے، شکرفروشوں کی کارواں سرائے میں اُترے، ایک دن مولانا روم کی سواری بڑے تزک و احتشام سے نکلی، شمس نے سرِ راہ ٹوک کر پوچھا کہ مجاہدہ و ریاضت سے کیا مقصد ہے۔ مولانا نے کہااتباعِ شریعت، شمس نے کہا یہ تو سب جانتے ہیں، مولانا نے کہا، اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے، شمس نے فرمایا علم کے یہ معنی ہیں کہ تم کو منزل تک پہنچا دے، پھر حکیم سنائی کا یہ شعر پڑھا: علم کز تُو ترا نہ بستاند جہل بہ علم بہ بود بسیار مولانا پر ان جملوں کا یہ اثر ہوا کہ اُسی وقت شمس تبریز کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ مولانا حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، سامنے کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں، شمس نے پوچھا کہ یہ کیا کتابیں ہیں؟ مولانا نے کہا یہ قیل و قال ہے تم کو اس سے کیا غرض، شمس نے کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں، مولانا کو بہت رنج ہوا اور کہا کہ میاں درویش! تم نے ایسی چیزیں ضائع کر دیں جو اَب کسی طرح نہیں مل سکتیں، ان کتابوں میں ایسے نادر نکتے تھے کہ ان کا نعم البدل نہیں مل سکتا، شمس نے حوض میں ہاتھ ڈالا اور تمام کتابیں نکال کر کنارے پر رکھ دیں۔ لطف یہ کہ کتابیں ویسی ہی خشک کی خشک تھیں، نمی کا نام نہ تھا، مولانا پر سخت حیرت طاری ہوئی، شمس نے کہا یہ عالم ِ حال کی باتیں ہیں تم ان کو کیا جانو؟ اس کے بعد مولانا ان کے ارادتمندوں میں داخل ہو گئے۔ ابنِ بطوطہ سفر کرتے کرتے جب قونیہ پہنچا ہے تو مولانا کی قبر کی زیارت کی تقریب سے مولانا کا کچھ حال لکھا ہے اور شمس کی ملاقات کی جو روایت وہاں تواتر سے مشہور تھی اس کو نقل کیا ہے چنانچہ وہ حسبِ ذیل ہے۔ مولانا اپنے مدرسے میں درس دیا کرتے تھے، ایک دن ایک شخص حلوا بیچتا ہوا مدرسے میں آیا، حلوے کی اس نے قاشیں بنا لی تھیں اور ایک ایک پیسے کو ایک ایک قاش بیچتا تھا، مولانا نے ایک قاش لی اور تناول فرمائی۔ حلوا دے کر وہ تو کسی طرف نکل گیا اِدھر مولانا کی یہ کیفیت ہوئی کہ بے اختیار اُٹھ کھڑے ہوئے اور خدا جانے کدھر چل دیے، برسوں کچھ پتہ نہ چلا، کئی برس کے بعد آئے تو یہ حالت تھی کہ کچھ بولتے چالتے نہ تھے، جب کبھی حالت سنبھلتی تھی تو شعر پڑھتے تھے۔ ان کے شاگرد اِن شعروں کو لکھ لیا کرتے تھے، یہی اشعار تھے جو جمع ہو کر مثنوی بن گئی۔ یہ واقعہ لکھ کر ابن ِ بطوطہ لکھتا ہے کہ اِن اطراف میں اس مثنوی کی بڑی عزت ہے، لوگ اس کی نہایت تعظیم کرتے ہیں اور اس کا درس دیتے ہیں، خانقاہوں میں شب ِ جمعہ معمولاً اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ جو روایتیں نقل ہوئیں ان میں سے بعض نہایت مستند کتابوں میں ہیں (مثلاً جواہر المضئیہ) بعض اور تذکروں میں منقول ہیں، بعض زبانی متواتر روایتیں ہیں لیکن ایک بھی صحیح نہیں، نہ صرف اس لحاظ سے کہ خارج از قیاس ہیں بلکہ اس لیے کہ جیسا آگے آتا ہے صحیح روایت کے خلاف ہیں۔ اس سے تم قیاس کر سکتے ہو کہ صوفیا ٔ کبار کے حالات میں کس قدردُور از کار روایتیں مشہور ہو جاتی ہیں اور وہی کتابوں میں درج ہو کر سلسلہ بہ سلسلہ پھیلتی جاتی ہیں۔ سپہ سالار جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے مولانا کے خاص شاگرد تھے، چالیس برس فیضِ صحبت اٹھایا تھا، واقعہ نگاری میں ہر جگہ خرقِ عادت کی بھی آمیزش کرتے جاتے ہیں تاہم شمس کی ملاقات کا جو حال لکھا ہے سادہ صاف اور بالکل قرین ِ عقل ہے چنانچہ ہم اس کو بہ تفصیل اس موقع پر نقل کرتے ہیں لیکن ملاقات کے ذکر سے پہلے مختصر طور پر شمس تبریز کے حالات لکھنے ضروری ہیں۔ شمس تبریز کے والد کا نام علاؤالدین تھا۔ وہ کیا برزگ کے خاندان سے تھے جو فرقۂ اسماعیلیہ کا امام تھا لیکن انہوں نے اپنا آبائی مذہب ترک کر دیا تھا۔ شمس نے تبریز میں علمِ ظاہری کی تحصیل کی پھر بابا کمال الدین جندی کے مرید ہوئے لیکن عام صوفیوں کی طرح پیری مریدی اوربیعت و اِرادت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ سوداگروں کی وضع میں شہروں کی سیاحت کرتے رہتے۔ جہاں جاتے کارواں سرا میں اترتے اور حجرے کا دروازہ بند کر کے مراقبے میں مصروف ہوتے، معاش کا یہ طریقہ رکھا تھا کہ کبھی کبھی ازاربند بُن لیا کرتے تھے اور اسی کو بیچ کر کفاف مہیا کرتے۔ ایک دفعہ مناجات کے وقت دعا مانگی کہ الٰہی کوئی ایسا بندۂ خاص ملتا جو میری صحبت کا متحمل ہو سکتا، عالم ِ غیب سے اشارہ ہوا کہ روم کو جاؤ، اُسی وقت چل کھڑے ہوئے۔ قونیہ پہنچے تو رات کا وقت تھا ، برنج فروشوں کی سرائے میں اترے، سرائے کے دروازے پر ایک بند چبوترہ تھا، اکثر امرأ اور عمائد تفریح کے لیے وہاں آ بیٹھتے تھے شمس بھی اسی چبوترے پر بیٹھا کرتے تھے، مولانا کو ان کے آنے کا حال معلوم ہوا تو ان کی ملاقات کو چلے، راہ میں لوگ قدم بوس ہوتے جاتے تھے، اسی شان سے سرائے کے دروازے پر پہنچے۔ شمس نے سمجھا کہ یہی شخص ہے جس کی نسبت بشارت ہوئی ہے، دونوں بزرگوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور دیر تک زبانِ حال میں باتیں ہوتی رہیں۔ شمس نے مولانا سے پوچھا کہ حضرت بایزید بسطامی کے ان دو واقعات میں کیونکر تطبیق ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو یہ حال تھا کہ تمام عمر خربوزہ نہیں کھایا کہ معلوم نہیں جناب رسولؐ اللہ نے اس کو کس طرح کھایا ہے دوسری طرف اپنی نسبت یوں فرماتے تھے کہ سبحانی مااعظم شانی (یعنی اللہ اکبر! میری شان کس قدر بڑی ہے) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با ایں ہمہ جلالتِ شان فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر میں ستّر دفعہ استغفار کرتا ہوں، مولانا نے فرمایا کہ بایزید اگرچہ بہت بڑے پائے کے بزرگ تھے لیکن مقام ولایت میں وہ ایک خاص درجے پر ٹھہر گئے تھے اور اس درجے کی عظمت کے اثر سے ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے، بخلاف اس کے جناب رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منازلِ تقرب میں برابر ایک پائے سے دُوسرے پر چڑھتے جاتے تھے اس لیے جب بلند پائے پر پہنچتے تھے تو پہلا پایہ اس قدر پست نظر آتا تھا کہ اس سے استغفار کرتے تھے۔ مناقب العارفینکی روایت میں جزئی اختلافات کے ساتھ تصریح ہے کہ یہ ۶۴۲ھ کا واقعہ ہے اس بنا پر مولانا کی مسندنشینیٔ فقر کی تاریخ اسی سال شروع ہوتی ہے۔۷۹ ۹۲ شبلی بمبئی سے لکھنؤ واپس گئے تو خط کتابت کا سلسلہ جاری ہو گیاجس میں یہ عطیہ کی بمبئی والی اُردو کی غلطیاں درست کرتے تھے۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ اُن مشہور عورتوں کی طرح اسپیکر اور لیکچرار بن جائیں جو انگریز اور پارسی قوم میں ممتاز ہو چکی ہیں،‘‘ اِنہوں نے لکھا۔ ’’اگر یہ موقع ملا تو میں پھر چاہوں گا کہ تمہاری کچھ علمی خدمت کر سکوں، تم کو فارسی پڑھاؤں اور اُردو کی انشا ٔپردازی سکھاؤں۔‘‘ ۹۳ اس سے پہلے کہ شبلی، عطیہ کی کچھ علمی خدمت کرتے، وہ یورپ کا ارادہ کربیٹھیں۔ بھائی کے ساتھ جا رہی تھیں: مجھے لندن اِس لیے بھیجا گیا تاکہ میں مسلم لڑکیوں کے ادارے میں پڑھانے کی اہلیت حاصل کروں جو کلکتہ میں کھلنے والا تھا۔ اسکالرشپ کا اہتمام مس کورنیلیا سہراب جی نے کیا تھا اور برطانوی حکومت نے بڑی عنایت اور مہربانی سے مجھے فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کی سہولت فراہم کی۔ میں کسی طرح بھی اِس کام کی اہلیت کے معیار پر پوری نہ اُترتی تھی مگر صاحبانِ اختیار کا خیال تھا کہ میں اچھی رہوں گی۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں لندن میں اقبال سے ملوں۔اگست کی ۲۲ تاریخ تھی جب ہم مولداویا جہاز سے روانہ ہوئے۔۸۰ ۹۴ اقبال سے ملاقات کے بارے میں عطیہ فیضی نے بعد میں متضاد بیانات دیے۔ ایک بیان کے مطابق لندن پہنچیں اور مس بیک اور وائلی کرزن نامی میزبانوں نے استقبال کر کے برانڈزبری ٹریننگ کالج میں ان کے انتظامات کے بارے میں بتایا تو ساتھ ہی اقبال کی طرف سے رقعہ بھی دیا جس میں تجویز تھی کہ لندن کی بجائے کیمبرج زیادہ مناسب رہے گا۔۸۱ ۹۵ میر غلام بھیک نیرنگ کا شعری مجموعہ شائع ہو گیا تھا۔ ستمبر کے مخزن میں کلامِ نیرنگ کا اشتہار چھپا۔ ۹۶ جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کو بھی مقامی آبادی کی طرح خصوصی پاس رکھنے کی ہدایت ہوئی۔ گاندھی نے برا مانا۔ کالوں کے برابر درجہ دیا جا رہا تھا۔ انگریزی میں لکھا: کم ذاتوں اور کافروں نے بھی جو ہم سے کم ترقی یافتہ ہیں حکومت کی مزاحمت کی ہے۔ پاس کا قانون اُن پر بھی لاگو ہوتا ہے مگر وہ پاس نہیں دکھاتے۔ ۱۱ ستمبر کو نئی تحریک شروع کی۔ جون میں زولو قبائل کے قتل ِعام کے بعد کئی انگریزوں نے گاندھی کو بتایا تھا کہ نہتے لوگوں پر گولی چلانا اچھا نہ لگا۔ گاندھی نے ساتھیوں سے کہا کہ بالکل نہتے ہو کر سامنے آئیں۔ پولیس کا تشدد برداشت کریں مگر ہاتھ نہ اُٹھائیں۔۸۲ ۹۷ اب ہندوستان بھر کے مسلمان اُس بے چینی کی لہر محسوس کر رہے تھے جس کی لرزش محمد علی (جوہرؔ)کے دل میں نجانے کب سے پیدا ہو رہی تھی۔ سرسید کے جانشین نواب محسن الملک نے ساتھیوں سے مل کر طے کیا کہ مسلمانوں کا نمایندہ وفد وائسرائے کے پاس جائے۔ ۱۵ اور ۱۶ ستمبر کو لکھنؤ میں ان نمایندوں کا جلسہ ہوا اور آپس کے مشورے سے وائسرائے کے سامنے پیش ہونے والے ایڈریس کا متن منظور کیا گیا۔ لبرل پارٹی کے وزیر ِ ہند مورلے صاحب نے سیاسی اصلاحات کی تجویز پیش کر رکھی تھی۔مسلمان نمایندے اس پر اپنے تاثرات لکھنے بیٹھے تو ایک نئی چیز سامنے آئی: ۱ نمایندگی کا طریقہ ایسا ہوجس میں مسلمان خاص حلقوں سے اپنے نمایندے منتخب کریں ۲ ان کی تاریخی اہمیت اور سیاسی حیثیت کا لحاظ کر کے مسلمانوں کو اُس سے زیادہ نشستیں دی جائیں جتنی آبادی کے تناسب سے مل سکتی ہیں ۳ ایک تناسب کے مطابق گزیٹڈ اور نان گزیٹڈ ملازمتوں پر مسلمانوں کا تقرر ہو۔ ہائی کورٹ کے ججوں، چیف کورٹ کے ججوں اور ایگزیکٹیو کونسل کے ممبروں کے عہدے بھی ملیں ۴ یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹوں اور سینٹوں میں مسلمانوں کے لیے چند نشستیں محفوظ ہوں ۵ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے امداد ملے۔ ہندوستان کی نمایندہ حکومت میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی تشخص کی بقا کے لیے جو بہتر سے بہتر تدبیر مسلمان رہنما پیش کر سکتے ہیں وہ جداگانہ انتخاب ہے جو ان تجاویز میں موجود ہے جداگانہ انتخاب وہی تصور تھا جسے دس برس پہلے سیدمحمود نے مسلمانوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ باقی تجاویز وقت کا تقاضا تھیں مگروائسرائے کے نام جو سپاسنامہ لکھا گیا وہ پہلی دستاویز تھی جس میں مسلمان انگریز حکومت سے اپنے جداگانہ مفادات کی بنیاد پر مخاطب ہوئے: ہمیں محض ایک اقلیت نہ سمجھا جائے۔ ہم ایک قوم میں دُوسری قوم ہیں جس کے حقوق کو باقاعدہ تحفظ فراہم ہونا چاہیے۔ مسلم قومیت اب ایک تصور کی بجائے زندہ حقیقت کے طور پر سامنے دکھائی دے رہی تھی۔سر سید نے نوجوانوں کو جس کا دیوانہ بنایا تھا، وہ محبوب اب سامنے تھا۔ موسم بدل گیا جیسے سرپھرے جوان اپنے دل کے ساز پر کوئی گیت گا رہے ہوں،جیسے قیس نے لیلیٰ کی سواری کے پیچھے دوڑ لگائی ہو۔ جھومتا جاتا ہو۔ یہ معلوم ہونا ابھی باقی تھا کہ محبت یک طرفہ تھی یا قوم کی روح بھی اِسی طرح بے قرار تھی۔ ۹۸ سرسبز پہاڑیوں کے درمیان پیچ کھاتی سڑکیں انسان اور قدرت کے کرشموں کا سنگم پیش کر رہی تھیں۔ یہ شملہ تھا۔ یکم اکتوبر کی صبح گیارہ بجے ہندوستان کے وائسرائے یہاں اپنے محل کے دیوانِ خاص میں نمودار ہوئے۔ اسماعیلیوں کے امام آغا خاں سوئم جو کچھ دن پہلے نواب وقارالملک کی درخواست پر چین کا دورہ منسوخ کر کے واپس آئے تھے چونتیس دوسرے مسلمانوں کے ساتھ موجود تھے۔ یہ سب ہندوستان کے تمام صوبوں اور کئی ریاستوں کے مسلمانوں کی نمایندگی کرتے تھے۔ سپاسنامہ نفیس پارچے پر لکھوا کر پہلے ہی عملے کی خدمت میں پیش کیا جا چکا تھا۔ وائسرائے نے کہا: جیسا کہ میں سمجھا ہوں یہ دعویٰ آپ کے سپاسنامے کا حاصل ہے کہ نمایندگی کے ہر طرز میں خواہ اس کا اثر میونسپل بورڈ پر ہو، ڈسٹرکٹ بورڈ پر ہو یا مجلس واضعان قانون پر، جس میں بھی انتخابی نظام داخل کرنے کی تجویز ہو یا اس میں کسی اضافے کی، مسلمان جماعت کی نمایندگی جماعت کی حیثیت سے ہونی چاہیے۔۔۔ میں اس میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ سہ پہر کو محل کے خوبصورت لان پر چائے کی دعوت میں مسلمان وفد کے کچھ نمایندوں نے وائسرائے کی بیگم سے کہا، ’’ہمیں یقین آ گیا ہے کہ وائسرائے ہمارے دوست ہیں۔‘‘ لیڈی صاحبہ نے سمجھ لیا کہ ہندوستان کے سوا چھ کروڑ مسلمان باغیوں کا ساتھ دینے سے رک گئے تھے مگر ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی فراست کا عجیب و غریب پہلو دفاعی عمل سے اقدامی عمل کے مقاصد حاصل کرنا تھا۔۸۳ وائسرائے سے ملاقات کے بعد وفد نے شملہ ہی میں آیندہ پروگرام پر آپس میں گفتگو کی اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے قیام کی تجویز سامنے آ گئی۔ ۹۹ لندن کے کنسرٹس، اوپیرا، ڈراموں اور کالج کی سرگرمیوں میں عطیہ کو مزہ آ رہا تھا۔۲۱ کرامویل روڈ (21 Cromwell Road) پر علیگڑھ کالج کے پرنسپل کی بہن مس بیک کی قیام گاہ ہندوستانی طلبہ کی آمد و رفت کا مرکز تھی۔ اسے نیشنل انڈین ایسوسی ایشن کا نام دیا گیا تھا اور مس بیک اس کی سیکرٹری تھیں۔وہاں بھی خاصی رونق رہتی تھی۔ ’’اقبال لندن آتے جاتے رہتے تھے اور مجھے اپنی آمد کی خبر دیا کرتے تھے،‘‘ عطیہ کا بیان ہے۔ ’’مگر [اپریل ۱۹۰۷ء تک] میں نے اُن کی تھیٹر اور رات کے کھانے پر ملنے کی دعوتوں کا کوئی جواب نہ دیا۔‘‘۸۴ ۱۰۰ ۴ اکتوبر کو کلکتہ کے وطن پرست اخبار امرت بازار پتریکا نے مسلمانوں کے وفد کو ملامت کی اور وائسرائے سے ملاقات کو برطانوی حکومت کا شعبدہ قرار دیا جو مراعات یافتہ طبقے کی مدد سے دکھایا گیا تھا۔ اعتراضات کی بوچھاڑ میں یہ بات نظرانداز ہو گئی کہ نمایندوں نے وہی مطالبات منوائے تھے جن پر مسلمان قوم پہلے سے متفق تھی۔ اگر کسی وجہ سے ان قومی مطالبات کی منظوری کے لیے حالات ہی سازگار ہو گئے تھے تویہی کہا جا سکتا تھا کہ وقت خود مسلمانوں کو اُس طرف لے گیا تھا جس کا اشارہ سر سید کر گئے تھے۔ ۱۰۱ اُس ماہ مخزن نے ’بنگال کا قومی نعرہ‘ کے عنوان سے ص۶۱-۵۹ پر بندے ماترم کا ترجمہ شائع کیا جسے لالہ گل بہار سنگھ صاحب ایم۔اے نے کیا تھا۔ ۱۰۲ ۷ اکتوبر تھی۔ ایران کی پہلی منتخب مجلس کا افتتاح ہوا۔ یورپ کی طرح یہاں بھی عورتوں کو ووٹ دینے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ ووٹ کے حق سے محروم رکھے گئے، مثلاً جو ’’شرپسند نظریات رکھتے ہوں۔‘‘ ووٹ ڈالنے کی کم سے کم عمر پچیس برس اور مجلس کی رکنیت کی تیس برس تھی۔ رُکن کے لیے فارسی پڑھا لکھا ہونا اور ریاست کے امور میں بصیرت رکھنا ضروری تھا۔ جس طرح انگلستان میں بادشاہ کے لیے صرف عیسائی ہی نہیں بلکہ پروٹسٹنٹ ہونے کی شرط بھی تھی اُسی طرح ایران میں بادشاہ کا صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ شیعہ ہونا بھی لازمی قرار پایا۔ مشرق کے کسی آزاد ملک میں مغربی طرز کی آئینی حکومت کا پہلا تجربہ تھا۔ ۱۰۳ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تاریخی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ آنحضورؐ نے حضرت علی ؓ یا کسی اور کو کوئی پوشیدہ تعلیم دی تھی۔وہ تصوف جو صوفیوں کے اکثر سلسلوں کے مطابق حضرت علیؓ اور ایک سلسلے کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شروع ہوا مسلمانوں کی عام میراث تھی۔ خانقاہوں نے اس کی حفاظت کی مگرکیا اب وقت آ گیا تھا کہ یہ مے چھپ کر پینے کی بجائے عام کر دی جائے؟ قرآن میں کم از کم ایک آیت میں اشارہ ملتا تھا کہ رسولؐنے قرآن کی تعلیم کے علاوہ بھی کوئی چیز اُمت کو دی۔ یہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۶ تھی جس میں رسول ؐکے بارے میں کہا گیا کہ وہ ’’ہماری آیتیں تمہیں سناتے ہیں، تمہارا تزکیہ کرتے ہیں، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمہیں وہ سکھاتے ہیں جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔‘‘ اگر حکمت بھی کتاب میں شامل ہوتی تو دو الگ الفاظ کیوں استعمال کیے جاتے؟ It can, I think, be easily shown that in the Qur'an as well as in the authenticated traditions, there are germs of Sufi doctrine which, owing to the thoroughly practical genius of the Arabs, could not develop and fructify in Arabia, but which grew up into a distinct doctrine when they found favourable circumstances in alien soils. The Qur'an thus defines the Muslims:- "Those who believe in the Unseen, establish daily prayer, and spend out of what We have given them."' But the question arises as to the what and the where of the Unseen. The Qur'an replies that the Unseen is in your own soul:- "And in the earth there are signs to those who believe, and in yourself, - what! do you not then see!" [Sura 51, v. 20, 21]. And again:- "We are nigher to him (man) than his own jugular vein." [Sura 50, V. 15]. Similarly the Holy Book teaches that the essential nature of the Unseen is pure light:- "God is the light of heavens and earth." [Sura 24, V. 35]. As regards the question whether this Primal Light is personal, the Qur'?n, in spite of many expressions signifying personality, declares in a few words:- "There is nothing like him." [Sura 42, V. 9] ’’میرے خیال میں بڑی آسانی سے دکھایا جا سکتا ہے کہ قرآن اور مستند حدیثوں میں تصوف کے بیج موجود ہیں،‘‘ اقبال نے انگریزی میں لکھا۔ ’’عرب میں اُنہیں پروان چڑھنے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ عربوں کا مزاج پوری طرح عمل پسندی کی جانب مائل تھا۔دوسری سرزمینوں میں پہنچنے کے بعد یہ ایک بھرپور نظامِ فکر کی صورت میں نمایاں ہوئے ۔‘‘ اس طرح گویا تصوف کی ابتدا ہوئی۔ نکلسن کا خیال تھا کہ تصوف نوافلاطونی فلسفے کی وجہ سے شروع ہوا۔ براؤن نے کہا تھا کہ تصوف سامی نسل کے عربوں کے غیرجذباتی مذہب کے خلاف آریائی نسل کا ردِّعمل تھا۔ اقبال کو دونوں اساتذہ سے اختلاف تھا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ کوئی خیال اُس وقت تک کسی قوم کے ذہن میں جڑ نہیں پکڑ سکتا جب تک وہ اُس قوم کا اپنا خیال نہ ہو۔ چنانچہ اُن فکری، سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ لینا ضروری تھا جن سے ایران یا عالم ِ اسلام دسویں صدی کی ابتدا میں دوچار تھا۔ دراصل ایرانی ذہن میں پہلے سے کچھ ایسی خصوصیات موجود تھیں کہ جب ایک مخصوص صورت حال پیدا ہوئی تو اُس نے قرآن کی بعض آیتوں کے ایسے معانی تلاش کر لیے جو عمل پسند عربوں کی نگاہوں سے چھپے رہے تھے۔ انہی نئے دریافت کیے ہوئے معانی کی بنیاد پر تصوف کی عمارت کھڑی ہوئی۔ مگر وہ صورت حال کیا تھی جس نے ایرانی ذہن کو اِس طرف مائل کیا؟ ٭ مامون اور امین کی خانہ جنگی ٭ مختلف بغاوتوں میں سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال ہونا ٭ عقلیت پسندی کا عام ہونا ٭ اسلامی فکر میں غیرجذباتی سُنّی مکاتیب ِ فکر کا وجودمیں آنا اِن سب باتوں کے ردِعمل میں تصوف سامنے آیا جو مذہب کا یہ تصور پیش کرتا کہ سب سے محبت کی جائے اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے اپنی انفرادیت بھلا دی جائے۔ نویں صدی عیسوی میں مذہبی انتہاپسندی میں کمی آ چکی تھی اور مختلف مذاہب کے علما کے درمیان مکالمہ ہو رہا تھا۔ چنانچہ عیسائی راہبوں کی مثالیں بھی مسلمانوں کے سامنے رہی ہوں گی۔ اقبال کا خیال تھا کہ صوفیوں نے عیسائی راہبوں سے ترکِ دنیا کا سبق لیا ورنہ اِسلام کی اپنی رُوح کے خلاف تھا۔ سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی ہدایات میں لچک نہ تھی جبکہ ویداَنت ایک سرد نظامِ فکر تھا۔ دونوں کے برعکس صوفی انسانی فطرت کا ایک مکمل تصور پیش کرتا۔ ایک طرف بُدھ مت سے فنا کا تصور لیتا اور اپنے تصورِ کائنات کی بنیاد اِس عقیدے پر رکھتا کہ خدا کے سوا ہر شے کو بالآخر فنا ہونا تھا۔ دُوسری طرف اِس تصور کا جواز قرآن سے تلاش کر کے قرآن کے اُن معانی کو بے نقاب کرتا جو نگاہوں سے چھپے ہوئے تھے۔۸۵ ۱۰۴ غزل زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے، رَم کے سوا کچھ بھی نہیں گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو، مگر شمع بولی گریۂ غم کے سِوا کچھ بھی نہیں رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھُل گیا جس دم تو محرم کے سِوا کچھ بھی نہیں زائرانِ کعبہ سے اقبال! یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سِوا کچھ بھی نہیں۸۶ اِن اشعار میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔ ۱۰۵ سیالکوٹ میں بے جی یعنی امام بی بی نے محلے کی جن غریب لڑکیوں کو اپنے گھر رکھا ہوا تھا تاکہ اُن کی تربیت کر کے شادی کر دیں، اُن میں سے کسی کو بے جی کی کسی بیٹی نے بازار سے کوئی چیز لانے بھیج دیا۔ بے جی نے لڑکی کو بازار سے واپس آتے دیکھ لیا۔ ’’جب اُنہیں معلوم ہوا کہ اُسے پھوپھی جی نے بھیجا تھا تو بیچاری پھوپھی جی کی شامت آگئی،‘‘ عطا محمد کے بڑے لڑکے اعجاز احمد کا بیان ہے۔’’بار بار اُنہیں کہتیں، تمہاری اپنی بیٹی ہوتی تو تم اُسے بازار بھیجتیں؟ اس واقعے کے بعد اُن لڑکیوں کے گھر سے نکلنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔‘‘۸۷ ۱۰۶ کسی تالاب میں مچھلیاں رہتی تھیں، اُنہیں احساس ہوا کہ پانی میں رہتی اورحرکت کرتی ہیں اور یہی پانی اُن کی زندگی کا ذریعہ بھی تھا مگر خود اِس کی حقیقت سے بے خبرتھیں۔ دریا کی کسی سمجھدار مچھلی کے پاس گئیں اور اپنا سوال پیش کیا۔اُس نے کہا، ’’اے کہ تم وجود کا راز جاننا چاہتی ہو! تم وصال میں پیدا ہوئی ہو مگر ایک خیالی جدائی کے تصور میں مرتی ہو۔ ساحل پر پیاسی! مفلسی میں مرنے والی جبکہ خزانوں کی کنجیاں تمہارے پاس ہوں!‘‘ صوفی نسفی نے یہ کہانی بیان کر کے کہا تھا: اے درویش!کیا تُو سمجھتا ہے کہ تیرا وجود خدا سے الگ ہے؟ یہ بہت بڑی بھول ہے۔‘‘وہ صوفیوں کے اُس گروہ میں سے تھے جس نے ذاتِ حق کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ توجہ دی تھی۔ رومی بھی اِنہی میں سے تھے۔اِن لوگوں کے خیال میںحسن ِ ازل یا حقیقت ِ اصلی لامحدود تھی۔ اُس کا شروع تھا نہ آخر، دایاں نہ بایاں، اوپر نہ نیچے۔ کائنات یا فطرت آئینہ تھی جس میں حسن ِ ازل اپنی جھلک دکھاتا۔ مگر آئینہ دو طرح کا ہوتا۔۔۔ نسفی نے یہ بات جس رسالے میں کہی اُس کا مطالعہ تو شاید اقبال نے ٹرنٹی کالج کی لائبریری میں کیا مگر دوسرے ذرائع سے یہ بات بہت پہلے علم میں آ چکی تھی اورنظم ’انسان اور بزمِ قدرت‘ میں بیان کی تھی۔۷۱اُن کے خیال میں یہ وہی مکتبِ فکر تھا جس کے سب سے بڑے نمایندہ مولانا جلال الدین رومی تھے: All feeling of separation, therefore, is ignorance; and all "otherness" is a mere appearance, a dream, a shadow - a differentiation born of relation essential to the self-recognition of the Absolute. The great prophet of this school is "The excellent Rumi" as Hegel calls him. He took up the old Neo-Platonic idea of the Universal soul working through the various spheres of being, and expressed it in a way so modern in spirit that Clodd introduces the passage in his "Story of Creation". I venture to quote this famous passage in order to show how successfully the poet anticipates the modern concept of evolution, which he regarded as the realistic side of his Idealism. First man appeared in the class of inorganic things, Next he passed therefrom into that of plants. For years he lived as one of the plants, Remembering nought of his inorganic state so different; And when he passed from the vegetive to the animal state, He had no remembrance of his state as a plant, Except the inclination he felt to the world of plants, Especially at the time of spring and sweet flowers; Like the inclination of infants towards their mothers, Which know not the cause of their inclination to the breast. Again the great creator as you know, Drew man out of the animal into the human state. Thus man passed from one order of nature to another, Till he became wise and knowing and strong as he is now. Of his first soul he has now no remembrance, And he will be again changed from his present soul. (Mathnawi Book IV). صوفیوں کے دوسرے گروہ نے ذاتِ حق کو ایک خالص فکر کے طور پر پہچاننے کی کوشش کی۔ اِس گروہ کے نمایندہ اقبال کے پرانے ہیرو الجیلی تھے لہٰذا اپناانڈین اینٹی کوئیری والا مقالہ تقریباً پورا یہاں شامل کر لیا۔ ایک اور گروہ ذاتِ حق کو ارادے کے طور پر پہچانتا تھا۔رابعہ بصری، شفیق بلخی اور ابراہیم ادہم وغیرہ سوچ بچار سے زیادہ عمل پر زور دیتے لہٰذا مابعد الطبیعات کی بحث میںان کا خاص حصہ نہ تھا۔ اقبال نے سرسری تذکرہ کیا۔۸۸ ۱۰۷ غزل چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں، سورج میں، تارے میں بلندی آسمانوں میں، زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں، افتادگی تیری کنارے میں مرے پہلو میں دل ہے یا کوئی آئینہ جادو کا تری صورت نظر آئی مجھے اپنے نظارے میں شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلم کی چھپا جاتا ہُوں اپنے دِل کا مطلب استعارے میں جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں، پُھول میں، حیواں میں، پتھر میں، ستارے میں مجھے پُھونکا ہے سوزِ قطرۂ اشکِ محبت نے غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں اِن اشعار میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔ اکتوبر میں کسی وقت بارہ اشعار کی غزل شیخ عبدالقادر کے حوالے کرتے ہوئے لکھا: گو مصروفیت کا وہی عالم ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت سرور جنہوں نے خاموشی کو توڑنا چاہا ہے کہیں ناراض نہ ہو جائیں، اِس لیے اُن کی نظم کے شکریے میں سر ِدست یہ غزل بھیجتا ہوں۔ اُمید ہے کہ عنقریب کچھ اور بھی بھیجوں گا۔۸۹ ۱۶ اکتوبر کو کیمبرج سے آرنلڈ کے نام پوسٹ کارڈ پر پیغام لکھا کہ خیریت سے مطلع کریں: Please let me have a line about you. Iqbal ۱۰۸ گاندھی لندن میں تھے۔برٹش انڈین ایسوسی ایشن نے آؤ بھگت کی، اخبارات میں انٹرویو شائع کروائے اور بہت لوگوں سے ملاقات کا اہتمام کروایا۔ ۶ نومبر کو سید امیر علی سے بھی ملے۔ یہ معلوم نہیں کہ اقبال سے بھی ملاقات ہوئی یا نہیں۔۹۰ ۱۰۹ سوامی رام تیرتھ جن سے اقبال نے چند برس پہلے سنسکرت سیکھی تھی اور جو ویدانت کی روشنی پھیلانے امریکہ گئے تھے، کچھ عرصہ قبل وطن لوٹ آئے تھے مگر لاہور آنے کی بجائے لکشمن جھولا چلے گئے۔ جذب گہرا ہو رہا تھا۔ ہر ذرے میں خدا نظر آتا تھا ۔ گرو کو خط لکھا تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی، ’’آپ اور میں ایک ہیں۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ نومبر میں ایک روز پانی میں نہاتے ہوئے پتھر سے پھسلے اور گنگا میں غوطہ کھانے لگے۔ دیکھا کہ ڈوبنے والے ہیں تو زور سے بولے، ’’اگر تیری قسمت میں اِسی طرح مرنا تھا تو یہی سہی۔‘‘ لاش برآمد ہوئی تو مشہور ہوا کہ سوامی جی کا جسم بالکل سمادھی کی حالت میں تھا اور منہ اِس طرح کھلا ہوا تھا گویا ’اوم‘ کہہ رہے ہوں۔ کچھ لوگوںکا خیال تھا کہ دریا میں اِس لیے اُترے کہ ہر طرف برہما نظر آرہا تھا اور عین دریا کے بیچ میں رام کی محبت طاری ہو گئی جس کی وجہ سے اپنی زندگی بچانے کی فکر نہ کر سکے۔ سوامی کی وفات کی خبر اقبال کو پہنچی تو سوچا، عشق ایک ابراہیم ہے جو زندگی کے بت کو پاش پاش کر کے مخلوق کو خدا سے ملا دیتا ہے۔ جس پر ہمیشہ کی زندگی کی سچائی روشن ہو جائے وہ دنیاوی زندگی کی پروا نہیں کرتا: کیا کہوں زندوں سے میں اُس شاہد ِ مستور کی دار کو سمجھے ہوئے ہیں جو سزا منصور کی۹۱ بعد میں کبھی نظم سے یہ شعر نکال کر دُوسرا رکھ دیا۔ ۱۱۰ وحشی تاتاری حملہ آوروں کو بھلاآزادخیالی سے کیا رغبت ہو سکتی تھی، چنانچہ اُن کے زیرِ سایہ فلسفے کی نشو و نما کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ تصوف کا واسطہ چونکہ مذہب سے تھا لہٰذا اس کے دائرے میں رہتے ہوئے پرانے افکار بھی منظم ہوتے رہے اور نئے خیالات بھی ترقی پاتے رہے مگر خاص فلسفہ تاتاری مزاج کے لیے ناگوار تھا یہاں تک کہ اسلامی فقہ کی ترقی کا راستہ بھی بند ہو گیا۔ تاتاریوں کے نزدیک حنفی فقہ انسانی سوچ کی معراج تھی اور قانون کی اس سے زیادہ نفیس تعبیریں اُن کے ذہن سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ اقبال نے یہ خیالات دورِ آخر کے ایرانی فلسفے کا تذکرہ کرتے ہوئے انگریزی میں قلم بند کیے۔ ملّا صدرا کا ذکر کیا تھا جن کے نزدیک ’’حقیقت ہر شے تھی اور ان میں سے کوئی شے بھی نہیں تھی۔ سچا علم موضوع (subject) اور معروض(object) کی پہچان پر مبنی تھا۔‘‘ سترہویں صدی کے ملّاہادی کو اقبال نے کتاب کے اِس حصے میں سب سے زیادہ اہمیت دی۔ ہادی کہتے تھے کہ کائنات کا بغور مطالعہ کر کے ہم تین چیزوں کو پہچان سکتے ہیں: ۱ حقیقت جو روشنی ہے ۲ سایہ ۳ غیرحقیقت جو اندھیرا ہے جو حقیقی ہے وہ حتمی اور ضروری بھی ہے جبکہ سایہ اضافی ہے اور دوسرے پر انحصار کرتا ہے۔ جو حقیقی ہے وہ فطری طور پر اچھا ہے اور اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہی حقیقی کسی بھی امکان کو واقعہ بناتا ہے۔ واقعہ بننے سے پہلے اُس امکان کے لیے واقعہ بننے اور نہ بننے کے راستے کھلے ہوتے ہیں۔ اِس قسم کے دلائل سے ملا ہادی یہ ثابت کرتے ہیں کہ حقیقی ہستی یعنی خدا موجود ہے اور ایک ہے۔ وہی ہر شے کو آگے بڑھنے اور مکمل ہو جانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بے جان پتھر، جان دار نباتات بننا چاہتا ہے۔ بناتات حیوان بننا چاہتے ہیں اور حیوان سے اگلا مرحلہ انسان ہے۔ یہ بات قابل ِ غور تھی کہ ماں کے رحم میں انسان ان تمام مراحل سے گزرتا تھا۔ ۱۱۱ انیسویں صدی کے ایران میں ایک نئی تحریک نمودار ہوئی۔ مرزا محمد علی باب شیعہ فرقے کے ایک فرد تھے مگر انہوں نے غائب امام اور باقی دنیا کے درمیان واسطہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ جیسے جیسے اس فرقہ پر سختیاں ہوئیں ان کے بنیادی عقاید اسلام سے جدا ہوتے گئے۔ محمد علی باب کے عقاید کا جائزہ لینے کے بعد اقبال نے انگریزی میں لکھا: بہائیت خالص تخیل اور خواب آلود تصوف کا راستہ روکتی ہے۔ مخالفت سے بے پروا، یہ ماضی سے ورثے میں ملنے والے تمام فلسفیانہ اور مذہبی رجحانات کو تحلیل کر کے انسانی رُوح کو اشیأ کی حقیقت کا زبردست شعور عطا کرتی ہے۔ ممکن ہے بہائیت کا یہ غیرصوفیانہ کردار اور عمل پسند رویہ ہی ایران میں حالیہ سیاسی ترقی کا دُور دراز سبب رہا ہو۔ ۱۱۲ دسمبر کے مخزن میں اقبال کی ’چمک تیری عیاں‘ والی غزل درگاسہائے کے نام ان کے نوٹ کے ساتھ ص۶۴ پر شائع ہوئی۔ سات ماہ بعد مخزن میں ان کی نظم چھپی تھی۔ رسالے کے آخر میں مخزن پبلشنگ ایجنسی کے اشتہارات میں ص۷ پر علم الاقتصاد کا اشتہار بھی تھا۔ ۱۱۳ روایت ہے کہ ایک دن اقبال کومعلوم ہوا کہ اپنے یہودی میزبانوں کے ذریعے جو چیز بھی بازار سے منگواتے تھے، میزبان اُس میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتے تھے۔ بڑی بات نہ رہی ہو مگر اُن کے لیے یہ انکشاف بمبئی کے بوڑھے پارسی کی بوتل سے کم نہ تھا۔ طبیعت بیزار ہو گئی۔۹۲ دسمبر ۱۹۰۶ء ہی میں یا اگلے برس انہوں نے ایک دفعہ پھر اپنی اقامت گاہ تبدیل کی اور ۹۰ ہن ٹنگ ٹن روڈ منتقل ہو گئے۔ممکن ہے یہ وہی مکان ہو جس کی بوڑھی مالکن کے بارے میں اقبال سے روایت ہے کہ وہ اس بات پر اکثر حیران ہوتی تھی کہ اقبال غسل خانے جاتے ہوئے ایک عجیب سی چیز اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ چیز لوٹا تھا۔آخر ایک دن رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا، ’’تم یہ چیز غسل خانے میں کیوں لے جاتے ہو؟‘‘اقبال نے اُسے لوٹے کا مقصد سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ اسلام میں کن کن موقعوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ پھر کہا، ’’بڑی بی کسی خاص غسل کی تو آپ کو حاجت نہ ہو گی البتہ طہارت کے لیے پانی ضرور استعمال کیا کیجیے۔‘‘ کہتے ہیں کہ وہ بڑی بی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئیں۔۹۳ ۱۱۴ شاید ہی کسی اگلے زمانے میں موت کے بعد کی زندگی پر اتنی بحث ہوئی ہو جتنی اب ہو رہی تھی۔اس برس آرچی بالڈ کانسٹیبل لندن سے اس موضوع پر شائع ہونے والی بعض کتابیں اقبال کے مجموعے میں ملتی ہیں اور ممکن ہے لندن ہی میں خریدی گئی ہوں۔ بہرحال اُس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں، یہ تھیں:۹۴ Baldwin, James Mark. Social Ethical Interpretations in Mental Development: A Study in Social Psychology. New York, McMillan. Berdoe, Edward. Browning's Message to His Time: His Religion, Philosophy and Science. London, Sonnenschein Carpenter, Edward. Love's Coming of Age: The Relations of the Sexes. London, Swan Sonnensehein Crothers, Samuel McChord. Endless Life. Davidson, John. New Interpretation of Herbart's Psychology and Educational Theory Through the Philosophy of Liebniz Hamerton, Philip Cilbert. Human Intercourse. London, McMillan James, William. Immortality: Supposed Objections to the Doctrine (2 volumes). Macaulay, Lord. Selections from the Writings of Lord Macaulay (Edited by Sir George Otto Trevelyan). London, Longman's Green Münsterberg, Hugo. The Eternal Life. Osler, William. Science and Immortality. ۱۱۵ ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاںبیماری کی وجہ سے اکتوبر کے شملہ وفد میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ صحت یاب ہو کر فرمایش کی کہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس اُن کے شہر میں منعقد ہو۔ شاید مولوی میرحسن کو بھی دعوت نامہ سیالکوٹ بھیجا گیا ہو گا مگر وہ طویل فاصلے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ اجلاس دسمبر کے آخر میں ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ کی خاندانی حویلی احسن منزل میں ہونا تھا۔ مشرقی بنگال کے مسلمان سب سے پہلے انگریزی حکومت سے واقف ہوئے تھے۔ اپنے صوبے کے ہندو یعنی ’’بابو‘‘ کی تمناؤں سے بھی یہی زیادہ باخبر تھے۔ ۱۱۶ ۲۵ دسمبر کو کلکتہ میں انڈین نیشنل کانگریس کا بیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں محمد علی جناح ۴۴ ہم خیال مسلمانوں اور ڈیڑھ ہزار ہندوؤں، پارسیوں اور عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوئے ۔ دادابھائی نوروجی صدارت کر رہے تھے جن کی تقریر لکھوانے میں جناح نے خاصی مدد کی تھی۔ نوروجی اتنے ضعیف ہو چکے تھے کہ اُن کی تقریر گوکھلے کو پڑھ کر سنانی پڑی جو ایک حقیقت پسند رہنما اور جناح کے پسندیدہ قائد تھے۔ ’’تمام مذاہب اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو متحد ہو کر اپنے مستقبل کی تعمیر کرنی چاہیے،‘‘ تقریر میں کہا گیا۔ ’’بنگال کی تقسیم انگلستان کی نہایت بدنما غلطی ہے لیکن اگر ہم چاہیں تو مظاہروں کے ذریعے اِسے دُرست کروا سکتے ہیں۔ ‘‘ اِسی جلسے میں جناح کی ملاقات سروجنی نائیڈو سے ہوئی۔ شاعرہ تھیں اور اُردو، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتی تھیں۔ بمبئی کے اونچے حلقوں میں تاثر پھیل گیا کہ جناح کی وجاہت سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ ۱۱۷ ۳۰ دسمبر کوڈھاکہ کی احسن منزل میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اِجلاس کے اختتام پر مسلمان رہنماؤں کاجلسہ ہوا۔ ملک کے طول و عرض سے نمایندوں کی تعداد قریباً چار ہزار تھی۔ پہلے کبھی ہندوستانی مسلمانوں کا ایسا اجتماع نہ ہوا تھا۔مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سیکرٹری نواب وقار الملک نے تقریر کرتے ہوئے کہا: جس مقصد کے لیے آج ہم مجتمع ہوئے ہیں وہ نیا نہیں ہے۔ یہ اُسی روز پیدا گیا تھا جب انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہاں تک کہ سر سید احمد خاں مرحوم، جن کی مدبرانہ اور دُوراندیشانہ پالیسی کے ہم ہمیشہ مرہون منت رہیں گے، کانگریس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے ایسے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کے لیے دلیری سے کوشش کی کہ ان کی فلاح اور سلامتی اسی میں ہے کہ کانگریس میں شرکت سے اجتناب کریں۔ یہ نصیحت ایسی صائب تھی کہ آج اگرچہ وہ ہم میں نہیں ہیں تاہم مسلمان اسی رائے پر مضبوطی سے قائم ہیں اور جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے اس کی اہمیت نمایاں ہوتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے سیاسی حقوق کی حفاظت کی انتہائی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔ مسلمان لیڈروں نے جو شملے میں ارکان وفد کی حیثیت سے مجتمع ہوئے تھے اس پر غور کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے کیا مستقل تدابیر اختیار کی جائیں، یہ تہیہ کیا کہ آخر دسمبر میں مختلف صوبوں کے نمایندے ڈھاکہ میں مجتمع ہوں اور اس مسئلے کا فیصلہ کریں۔ نواب سلیم اللہ خاں نے مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے قیام کی تجویز یہ کہہ کر پیش کی کہ بیس برس پہلے سرسید احمد خاں نے جو راستہ دکھایا اب اُس پر ایک نیا موڑ آیا تھا: قرار پایا کہ یہ جلسہ جو ہندوستان کے مختلف حصص کے ان نمایندوں پر مشتمل ہے جو ڈھاکہ میں مجتمع ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک سیاسی انجمن قائم کی جائے جس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ ہو اور جس کے اغراض و مقاصد حسب ذیل ہوں: الف:ہندوستان کے مسلمانوں میں حکومت برطانیہ کی طرف سے وفاداری کے جذبات کو ترقی دینا اور کسی آیندہ تدبیر کی نسبت حکومت کے ارادوں کے متعلق اگر کوئی بدگمانی پیدا ہو تو اس کو رفع کرنا۔ ب: مسلمانانِ ہند کے سیاسی حقوق اور مفاد کی حفاظت کرنا اور انہیں آگے بڑھانا اور ان کی ضروریات اور تمناؤں کی حکومت کے سامنے ادب سے ترجمانی اور نمایندگی کرنا۔ ج: دوسری جماعتوں کے خلاف مسلمانوں میں جذبات عداوت کی نشو و نما کا اس طریقے پر انسداد کرنا کہ لیگ کے مذکورہ بالا اغراض و مقاصد کو ضرر نہ پہنچے۔ قرارداد کی تائید میں حکیم اجمل خاں، محمد علی یعنی جوہرؔ اور ظفر علی خاں نے تقاریر کیں۔ اتفاقِ رائے سے آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔ نواب محسن الملک اور وقار الملک جوائنٹ سیکرٹری ہوئے۔دستور وضع کرنے کے لیے ساٹھ ارکان کی ایک کمیٹی مقرر کی گئی۔ اس کی روحِ رواں محمد علی (جوہرؔ) تھے۔ بارہ سو برس میں ایسا اتحاد نہ دیکھا گیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی سنی برادری نے شیعوں اور اسماعیلیوں کے ساتھ مل کر جماعت بنائی اور آل انڈیا مسلم لیگ یعنی پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی جماعت نام رکھا تھا۔ تاتاریوں کی یورش کے زمانے میں جان بچانے کے لیے بھی مسلمان فرقہ واریت سے بلند نہ ہو سکے تھے۔ ہلاکو خاں نے بغداد کا محاصرہ کیا تو شہر والے آپس میں مناظرے کر رہے تھے۔ اب جیسا اتحاد ہوا وہ مسلمانوں کے اپنے نہ کسی غیر کے بس میں تھا۔ نچلی سطح پر اختلافات افراد کو خود ختم کرنے تھے مگراُس سطح پر ختم ہو گئے جو اختیار سے باہر ہوتی تھی۔ ’’خدا کے احسان کو یاد کرو،‘‘ سورہ آل عمران میں مسلمانوں سے کہا گیا تھا۔ ’’تم آپس میں دشمن تھے۔ اُس نے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔‘‘ تمام انسانوں کی روح مسکرائی تھی۔ قوم اور فرد کی محبت دوطرفہ ہو گئی تھی۔ عشق کی آنچ سر سید کے مخالف کیمپ تک پہنچی۔ دیوبند کے اشرف علی تھانوی جنہوں نے حال ہی میں بہشتی زیور لکھی تھی، اُنہوں نے بھی کبھی نہ کبھی ضرور محسوس کیا کہ مسلمانوں سے محبت کرنا تمام صفات کی جان یعنی ’’روح الصفات‘‘ تھی اور محمد علی (جوہرؔ) اُس کا جسم تھے۔۹۵ ۱۱۸ بعد میں محمد علی (جوہرؔ) نے کہا: عام طور پر ایک نسلِ انسانی تیس سال کی سمجھی جاتی ہے حالانکہ ہندوستان میں شادی بیاہ بھی اس عمر سے بہت پہلے ہو جاتا ہے اور ہندوستانیوں کی عمر کا اوسط بھی کم ہے،‘‘ محمد علی نے بعد میں کہا۔ ’’بہرحال۔۔۔ جس طرح کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیوں کے قیام کے تیس سال بعد ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل تیار ہو کر کانگریس کی بانی ہوئی، اُسی طرح ۱۸۷۵ء سے علی گڑھ کالج کی بنیاد کے تیس سال بعد مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل ۱۹۰۶ء میں تیار ہو کر مسلم لیگ کی بانی ہوئی اور مسلمانوں نے بحیثیت ملت میدانِ سیاست میں قدم رکھا۔۹۶ غالباً محمد علی کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ چودہویں صدی کے مورخ ابن خلدون کے نظریے کی تشکیلِ نو کرنی چاہیے۔ ابن خلدون کے مطابق سلطنت کی عمر بھی فرد کی عمر کے مطابق ہوتی تھی۔ بادشاہوں کے تحت ایک دَور چالیس برس کا ہوا کرتا تھا۔اب بادشاہ نہ رہے تھے۔ نئے حساب کی ضرورت تھی۔ مقدمہ تاریخ ابن خلدون باب ۳ فصل ۱۴: انسانوں کی طرح سلطنتوں کی عمریں بھی طبعی ہوتی ہیں واضح رہے کہ طبیبوں اور نجومیوں کی رائے میں انسان کی طبعی عمر ایک سو بیس شمسی سال ہے مگر ہر صدی میں ستاروں کے اَدوار (قرن) کے لحاظ سے یہ مدت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔۔۔ چنانچہ ہماری اِس امت ِ محمدیہؐ میں طبعی عمر ساٹھ ستر برس کے درمیان مانی گئی ہے اور حدیث پاک میں اسی کی تصریح ہے۔۔۔ سلطنتوں کی عمریں اَدوار کے لحاظ ہی سے گھٹتی بڑھتی ہیں مگر عموماً ایک سلطنت کا عرصہ تین اَدوار سے زیادہ نہیں ہوتا جس میں ایک دَور انسان کی درمیانی عمر کے برابر ہے جو چالیس برس کی ہوئی ہے۔۔۔ اِس طرح گویا تین ہی اَدوار میں سلطنت اپنے زور و شور کو چھوڑ کے کمزور و ضعیف ہو جاتی ہے (اور اِسی لیے خاندانی شرافت و بزرگی بھی چار پشتوں تک چلتی ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے اور پوری دلیل کے ساتھ ہم نے اس کو ثابت کیا ہے جسے دیکھ کر کوئی انصاف پسند سچائی کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا)۔ چالیس برس کا ایک دَور ماننے پر تین اَدوار ایک سو برس کے ٹھہرے تو عام طور سے سلطنت اتنی ہی مدت قائم رہتی ہے سوائے اس کے کہ کوئی خاص صورت پیش آ جائے، مثلاً یہ کہ حکومت آخری سانس لے بھی رہی ہو تو میدان میں کوئی دعویدار نہ کھڑا ہوا ہو کہ اس پر قبضہ جمائے۔چنانچہ سلطنت کی عمر انسان کی عمر کی طرح بڑھتی ہے۔ پہلے جوانی تک پہنچتی ہے اور پھر بڑھاپے کی طرف۔۔۔ ۱۱۹ بیس برس پہلے ۲۷ دسمبر ۱۸۸۶ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے قیام کے ساتھ مسلم قومیت کے حصول کو مقصد بنایا گیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے وہ مقصد پورا ہوا تھا۔ سفر کی پہلی منزل مکمل ہوئی تھی۔ دوسری منزل کے لیے لیگ نے ایک نیا مقصد پیش کیا تھا: جداگانہ انتخابات کا حق۔۹۷ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِل’‘ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ o اور جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔ اُنہوں نے کہا: کیا آپ ایسے کو نائب بنانا چاہتے ہیں جو خرابیاں کرے اور کُشت و خون کرتا پھرے اور ہم آپ کی تقدیس کے ساتھ تسبیح و تعریف کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا: میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ سورہ ۲ البقرہ: ۳۰ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ لا وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ o نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کر لوبلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روزِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں، اور گردنوں کے چھڑانے میں۔ اور نماز پڑھیں اور زکٰوۃ دیں۔ اور جب عہد کر لیں تو اُس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں، اور کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ اور یہی ہیں جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔ سورہ ۲ البقرہ: ۱۷۷ فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلّٰہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ط وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ ط فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ج وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ ط وَاللّٰہُ بَصِیْر’‘ م بِالْعِبَادِ o اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑنے لگیں تو کہنا کہ میں اور میرے پیرَو تو خدا کے فرمانبردار ہو چکے ہیں۔ اور اہلِ کتاب اور ناخواندہ لوگوں سے کہیے کہ کیا تم بھی؟ اور اسلام لاتے ہو؟ اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پا لیں۔ اور اگر نہ مانیں تو آپ کا کام صرف ہدایت پہنچا دینا ہے۔ اور خدا بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ سورہ ۳ آلِ عمران: ۲۰ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ o عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اُس نے پہلے مٹی سے ان کا قالب بنایا۔ پھر فرمایا کہ ہو جا تو وہ ہو گئے۔ سورہ ۳ آلِ عمران: ۵۹ لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ط ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًا وَّاَنَّھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ o آپ دیکھیں گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں، اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر اُن لوگوں کو پائیے گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس لیے کہ اُن میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ سورہ ۵ المآئدہ: ۸۲ وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ ٰیقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃ’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْر’‘ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنْیْنَ o اور مدَین کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اُنہوں نے کہا کہ قوم! خدا ہی کی عبادت کرو۔ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آ چکی ہے۔ تو تم ناپ تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔ سورہ ۷ الاعراف: ۸۵ لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ لا وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اَ لَا سَآئَ مَا یَزِرُوْنَ o یہ قیامت کے دِن اپنے پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں، اُن کے بوجھ بھی اُٹھائیں گے۔ سُن رکھو کہ جو بوجھ اُٹھا رہے ہیں، برے ہیں۔ سورہ ۱۶النحل : ۲۵ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ ط وَکَفٰی بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرَا نِ o الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ج اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا o اور اُس زندہ پر بھروسہ رکھو جو نہیں مرے گا اور اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہ رحمان۔ تو اُس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر لو۔ [سورہ ۲۵ الفرقان: ۵۹-۵۸] اِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ o وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃ’‘ کَلَمْحٍ م بِالْبَصَرِ o ہم نے ہر چیز اندازۂ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اور ہمارا حکم تو آنکھ کے جھپکنے کی طرح ایک بات ہوتی ہے۔ [سورہ ۵۴ القمر: ۵۰-۴۹] ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلاَ تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْابِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ط وَاتَّقُوااللّٰہَ الَّذِیْ ٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَo اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ، زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کیے جاؤ گے، ڈرتے رہنا۔ سورہ ۵۸ المجادلہ: ۹ تیسرا حصہ ۱۲۰ سات سمندر پار بیٹھے اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی خبر اخبار میں پڑھی ہوگی۔ بارش کے بعد فضا میں ٹھہرے ہوئے قطروں میں روشنی کے وہ رنگ دکھائی دیتے تھے جو ویسے ظاہر نہ ہوتے۔ پہلو سے اُٹھنے والے دردِ محبت کی گھٹا میں دل بھی رُوح کے وہ جلوے دیکھ لیتا جو ویسے نظر نہ آتے تھے۔ قطرۂ اشک [اقتباس] اے طفلِ اشک! اے مری الفت کی آبرو اے وہ کہ جس سے پایہ ہے برتر مجاز کا مدت سے بزمِ عشق ہے ویراں پڑی ہوئی شعلہ بجھا ہے مشعلِ سوز و گداز کا وقفِ خزاں ہوا چمنستانِ آبرو نغمہ نہیں وہ بلبلِ ہنگامہ ساز کا وہ دل کہ جس میں جلوے تڑپتے تھے رات دن ہر تار اب شکستہ ہے اس دل کے ساز کا ظلمت سرا بنی ہے شبستانِ آرزو جلوہ نہیں دل میں مرے جلوہ ساز کا آباد آ کے کر مری چشمِ خیال کو میں تجھ سے دیکھتا ہوں کسی کے جمال کو نظم میں چھ چھ اشعار کے تین بند تھے۔بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کی۔۹۸ ۱۲۱ علیگڑھ اچانک سیاسی مہمانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ محمد علی (جوہرؔ) بھی طلبہ کی رہنمائی کرنے پہنچ گئے۔ گوپال کرشن گوکھلے جو مسلمانوں کی نئی حکمت عملی سے خفا نہ تھے فروری میں آئے۔ سامعین سے کہا: جو حالت بلحاظ مردم شماری وغیرہ اس وقت مسلمانوں کی ہے اگر یہی حالت اتفاق سے ہندوؤں کی ہوتی تو کیا عجب ہے کہ یہی اعتراض ہمارے دلوں میں خطور کرتا۔ ہم بھی اسی خیال کو پیش ِنظر رکھتے اور اسی پالیسی پر عمل کرنے کو تیار ہوتے جس پر کہ اس وقت مسلمان عمل کر رہے ہیں۔ ۱۲۲ جنوری کے مخزن میں اقبال کی نظم ’سوامی رام تیرتھ‘ شائع ہوئی۔ اس میں سات اشعار تھے۔ رسالے کے آخر میں علم الاقتصاد کا اشتہار دوبارہ شائع ہوا۔ ۱۲۳ اُس برس اقبال کی عمر تیس برس ہونے والی تھی اور اُن کے اپنے حساب سے ہو بھی چکی تھی۔جرمن فلسفی نیٹشے نے اپنی کتاب زرتشت نے کہا (۱۸۸۷) میں لکھا تھا کہ زرتشت کی عمر بھی تیس برس تھی جب اپنا گھر اور گھروالی جھیل چھوڑ کر پہاڑوں میں چلا گیا۔ وہاں سکون پایا، تنہائی کا لطف اٹھایا اور دس برس بیزار نہ ہوا۔ پھر دل بھر گیا۔ ایک دن طلوعِ سحر کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، سورج کے سامنے آیا اور کہا: اے عظیم ستارے! تیری خوشی کہاں ہو اگر وہ نہ ہوں جن کے لیے تُو چمکتا ہے! تُو یہاں میرے غار پر دس سال آتا رہا ہے۔ اگر میں، میرا شاہین اور میرا سانپ نہ ہوتے تو تُواپنی روشنی اور اپنے سفر سے تنگ آجاتا۔ مگر ہم نے ہر صبح تیرا انتظار کیا، تیری کھرچن تجھ سے وصول کی اور تیرا احسان مانا۔ دیکھ! میں اپنی دانائی سے تنگ آگیا ہوں، شہد کی اُس مکھی کی طرح جو ضرورت سے زیادہ شہد جمع کر بیٹھی ہو۔ میں وہ ہاتھ چاہتا ہوں جو اِسے لینے کے لیے بڑھے ہوئے ہوں۔ میں اپنی دانائی سے دامن جھاڑنا چاہتا ہوں اور اِسے بانٹ دینا چاہتا ہوں یہاں تک کہ جو انسانوں میں سے عقل مند ہیں وہ دوبارہ اپنی حماقت پر راضی ہوجائیں اور جو غریب ہیں وہ اپنی امیری پر خوش ہو جائیں۔ مجھے پستیوں میں اُترنا پڑے گا جس طرح اے عظیم ستارے تُو ہرشام اُترتا ہے جب تُو سمندروں کے نیچے چلا جاتا ہے تاکہ پاتال کو روشن کر دے۔ مجھے آشیرباد دے اے مطمئن آنکھ کہ تُو بڑی سے بڑی مسرت کو بغیر رشک اور حسد دیکھنے پر قادر ہے۔ اِس جام کو آشیرباد دے جو جھلکنا چاہتا ہے تاکہ اس کے پانی تمام دنیا پر محیط ہو جائیں اور تیری خوشیوں کے سنہرے عکس سب کے سامنے پیش کریں۔ دیکھ یہ جام دوبارہ خالی ہونا چاہتا ہے اور زرتشت دوبارہ انسان ہو جانا چاہتا ہے! اِس طرح زرتشت نے نیچے اترنا شروع کیا۔ لوگوں سے کہا: ارتقا ٔ کے تسلسل میں ہر مخلوق نے اپنے سے بہتر کسی مخلوق کو جنم دیا ہے۔ پھر کیا تم چاہتے ہو کہ یہ سلسلہ تم پر ختم ہو جائے اور تم انسان کے مرحلے سے آگے بڑھنے کی بجائے دوبارہ جانور بن جاؤ؟ انسان سے اگلا مرحلہ سپرمین یعنی فوقُ البشر تھا۔ بستی کے لوگ کرتب دکھانے والے کے انتظار میں جمع تھے جو رسی پر چل کر دکھاتا تھا۔ زرتشت نے کہا، ’’انسان بھی ایک رسی ہے جو حیوان اور سپرمین کے درمیان تنی ہے۔‘‘ نیٹشے کا ہیرو تاریخی زرتشت سے مختلف تھا۔ اُنہوں نے پارسی مذہب کی بنیاد ڈالی تھی جس نے ہخامنشی سلطنت کی صورت میں توحید پر مبنی مذہبی رواداری پر مبنی سیاست کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا، مصر و یونان کے شرک کے خلاف جنگ کی اور فرعونیت کے مقابلے پر شہنشاہیت کا متبادل تصور پیش کیا جس میں بادشاہ دیوتا نہ سمجھا جاتا تھا۔ نیٹشے کا زرتشت انسان کو دوبارہ فرعون بنانے چلا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اب خدا باقی نہیں رہا۔ ۱۲۴ اس بات کا کافی امکان ہے کہ اقبال نے نیٹشے کا مطالعہ کیمبرج میں شروع کیا ہو۔۹۹ ۱۲۵ ’’مسٹر اقبال!یہ کیا بات ہے کہ جتنے بھی پیغمبر دنیا میں آئے وہ سب کے سب ایشیا میں پیدا ہوئے، یورپ میں ایک بھی پیدا نہیں ہوا؟‘‘ کیمبرج کے ایک انگریز طالب علم نے طنز کیا۔ اقبال نے جواب دیاکہ شروع ہی میں خدا اور شیطان کے درمیان تصفیہ ہو گیا تھا کہ خدا اپنے پیغمبر ایشیا میں بھیجے گا اور شیطان یورپ میں۔ ’’تو پھر شیطان کے پیغمبر کیا ہوئے؟‘‘ انگریز نے پوچھا۔ ’’یہ تمہارے میکیاولی اور مشہور اہل ِ سیاست اُس کے رسول ہیں،‘‘ اقبال نے جواب دیا۔۱۰۰ یورپ میں بعض دُوراندیش سمجھ رہے تھے کہ ایک بہت بڑی جنگ ہونے والی ہے۔ اقبال سمجھنے لگے تھے کہ اس کی وجہ علاقائی وطنیت کا وہ نظریہ ہے جسے یورپ نے میکیاولی کے زیرِ اثر قبول کر رکھا ہے۔ ۱۲۶ نظارۂ کہکشاں نے مجھ کو عجب نکتہ یہ کل سجھایا ہزار گردش رہی فلک کی مگر یہ تارے بہم رہے ہیں کوئی غرورِ شہنشہی سے یہ جا کے میرا پیام کہہ دے کہ اِس زیاں خانے میں سکندر رہے، نہ دارا، نہ جم رہے ہیں اگر تمنا ہو عافیت کی خدا سے بیگانگی نہ کرنا جہاں میں تیرِ ستم سے ایمن طیورِ بامِ حرم رہے ہیں۱۰۱ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۱۲۷ مقالہ شاید فروری ۱۹۰۷ء میں مکمل ہوا۔ میک ٹیگرٹ سے منظور کروانے کے بعد اقبال نے چندکاپیاں چھپوانے کے لیے ٹائپ رائیٹنگ بیورو کے حوالے کیا جو ۵ کنگز پریڈ پر واقع تھا۔۱۰۲ تب کچھ فراغت ملی ہو گی۔ مقالہ یونیورسٹی کے مطلوبہ معیار سے بہت اونچا تھا اور علم کی دنیا میں نیا اضافہ تھا چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ میک ٹیگرٹ یا نکلسن نے کہا ہو گا کہ اِسی مقالے کو اِصلاح کے بعد جرمنی کی کسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے داخل کروایا جا سکتا ہے۔ شیخ عطا محمد کی رائے تھی کہ اقبال بی اے کے بعد بیرسٹری کی ڈگری لے کر واپس آجائیں مگر اقبال نے اُنہیں پی ایچ ڈی کے ارادے کی اطلاع دیتے ہوئے مزید رقم کی درخواست کی۔ عطا محمد نے فراخ دلی سے رقم بھجوا دی۔ دوستوں کی محفل میں کسی نے دریافت کیا، ’’کیوں شیخ صاحب، سنا ہے اقبال نے ایک اور ڈگری لی ہے؟‘‘ کہنے لگے،’’بھئی کیا بتاؤں، ابھی تو وہ ڈگریوں پہ ڈگریاں لیے جا رہا ہے۔ خدا جانے ان ڈگریوں کا اجرأ کب ہو گا۔‘‘۱۰۳ ۱۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کے مخزن میں ص۶۱-۶۰ پر اقبال کی نظم ’ایک پرندے کی فریاد‘ ’’بہ اجازت ٹیکسٹ بک کمیٹی‘‘ شائع ہوئی۔ پہلے بند میں آٹھ اور دوسرے، تیسرے اور چوتھے بند میں چار چار شعر تھے۔ ص۷۱-۷۰ پر منشی نذر محمد نے اقبال کی ’پیغامِ راز‘کا جواب ’سلامِ نیاز (مخمس بر پیغامِ راز) ‘کی صورت میں دیا تھا۔ نو بند تھے: ان وسوسوں کو دُور کر تکلیفِ صبر آزما میدان و کوہ و بحر و بر سب ہے جلوۂ خدا قدرت خدا کی دیکھ کر کر تو حصولِ مدعا قسمت سے ہو گیا ہے تو ذوقِ تپش سے آشنا پروانہ وار بزم کو تعلیمِ سوز و ساز دے اُس ماہ اکبر الٰہ آبادی کے بیٹے عشرت قانون میں بی اے کی ڈگری لے کر ہندوستان واپس چلے گئے۔ ۱۲۹ ۲۵ فروری کو انگلستان سے دُور پنجاب کے شہر ملتان میں وہ شمع بجھ گئی جس کی روشنی میں اقبال کی زندگی کا پہلا یادگار مشاعرہ ہوا تھا۔ مرزا ارشد گورگانی اٹھاون برس کی عمر میں وفات پا گئے۔۱۰۴ ۱۳۰ حیدرآباد دکن میں اقبال کے مداحوں نے اقبال کلب بنائی ہوئی تھی۔ دکن کے حکمراں نظام نواب محبوب علی خاں کی سالگرہ کے موقع پر کلب نے اپنا سالانہ جلسہ منعقد کیا اور شرکت کے لیے ریاست کے وزیراعظم مہاراجہ کشن پرشاد کو دعوت دی ۔انہیں نواب صاحب سے اجازت لینی ضروری تھی جو مل گئی۔۱۰۵ ۱۳۱ ۷ مارچ کو اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں اپنا مقالہ داخل کروا دیا۔پونے دو برس کی محنت رنگ لائی تھی۔ اُس روزکلیۂ اخلاقیات کے خصوصی بورڈ(Special Board for Moral Science) کی میٹنگ ہوئی۔ صدارت پروفیسر کینز کر رہے تھے۔ وارڈ، سورلے، میک ٹیگرٹ اور رِوَرز بھی شامل تھے۔ فیصلہ ہوا کہ سورلے، نکلسن سے رابطہ کریں۔ وہ اور نکلسن یا براؤن مقالے کو جانچیں۔ اب عنوان میں ترمیم ہو چکی تھی :۱۰۶ Development of Metaphysics in Persia ۱۳۲ تحقیقی مقالے کی ایک مستقل افادیت تھی۔ اقبال یہ دکھانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ عجمی فکر و فلسفہ ایک تسلسل ہے جو قبل از اسلام سے چلا آ رہا ہے۔ اسلام نے بھی اس کے ارتقأ میں حصہ لیا۔ اِس طرح اُس وطنیت پرستی کے جذبے کا سدِ باب ہوتا تھا جسے ای جی براؤن وغیرہ ایرانی ادبیات کے نام پر فروغ دے رہے تھے۔ ایران اپنے زرتشتی ماخذوں سمیت اسلام سے ہم آہنگ ہوجاتا تھا۔ یہ نکتہ آرنلڈ سے بھی پوشیدہ نہ رہا۔ اُن کے اپنے مقاصد خواہ کچھ اور رہے ہوں، مگر صرف سات ماہ بعد مقالے پر رائے دیتے ہوئے انہوں نے اِسی چیز کو مقالے کی نمایاں ترین خصوصیت قرار دیا۔ ۱۰۷ ۱۳۳ یہ شعر بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیا: حق میں آزادوں کے ہے قیدِ تعلق کیمیا بن گئی گوہر جو موجِ آب زندانی ہوئی۱۰۸ جرمنی جانے کا وقت آ رہا تھا۔ ایک نوٹ بک میں شناساؤں کے پتے جمع کرنا شروع کیے۔۱۰۹ ۱۳۴ دل و دماغ میں خواجہ حافظ شیرازی کی وہ غزل گونج رہی ہو گی جس کا مطلع تھا کہ صبح غیبی آواز نے یہ خوشخبری میرے کانوں تک پہنچائی کہ شاہ شجاع کا زمانہ ہے، شراب کھل کر پیو!۱۱۰ سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش کہ دورِ شاہ شجاع است مے دلیر بنوش حافظ صوفی تھے۔ اُن کی شراب سے عام طور پر شرابِ معرفت مراد لی جاتی تھی۔ اقبال کے دل و دماغ میں وہ انقلاب برپا تھا جس کے لیے روایتی استعارے ناکافی ہوئے جا رہے تھے۔ سولہ برس بعد اِسے یوں بیان کیا: ہندوستان کی متحدہ قومیت کا خواب شاید سب سے پہلے میں نے دیکھا تھا لیکن تجربے اور خیالات کی وسعت نے میرے خیالات میں تبدیلی کر دی اور اب [جغرافیائی] قومیت میرے نزدیک محض ایک عارضی نظام ہے۔۔۔ اسلام ایک قدم ہے نوعِ انسانی کے اتحاد کی طرف۔ یہ ایک سوشل نظام ہے جو حرّیت و مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ پس جو کچھ میں اسلام کے متعلق لکھتا ہوں اس سے میری غرض محض خدمتِ بنی نوع [انسان] ہے اور کچھ نہیں اور میرے نزدیک عملی نقطۂ خیال سے صرف اسلام ہی humanitarian ideal کو achieve کرنے کا ایک کارگر ذریعہ ہے۔ باقی ذرائع محض فلسفہ ہیں۔ خوشنما ضرور ہیں مگر ناقابلِ عمل۔۱۱۱ ان دنوں جو غزل کہی، مارچ ۱۹۰۷ء کے مخزن میں شائع ہوئی۔ اُس سے کچھ ہفتے قبل فروری میں لکھی گئی ہو گی (اگر مارچ ہی میں لکھی گئی تو پھر شمارہ ڈیڑھ مہینے کی تاخیر سے نکلا)۔ اس میں وہی خیال وارد ہوا جسے اگلے برس انگریزی نثر میں یوں بیان ہونا تھا: یونانیوں اور رومیوں کی طرح عربوں نے بھی کشورکشائی کے ذریعے ایسی قوم تخلیق کرنے کی کوشش کی [جو سیاسی اور روحانی مقاصد کے اِشتراک پر مبنی اور کسی مخصوص خطے کی بجائے پوری دنیا پر محیط ہو]، مگر اپنے نصب العین کے حصول میں ناکام رہے۔ تاہم اِس نصب العیین کا حصول ناممکن نہیں ہے کیونکہ اُس مثالی قوم کا بِیج پہلے ہی سے موجود ہے۔۔۔ پھر یوں بھی نہیں کہ ایسی قومیت انفرادی ریاستوں کے اقتدارِ اعلیٰ (sovereignty of individual States) کے ساتھ نہ چل سکتی ہو۔ جبکہ اس کی ساخت کا تعین مادی قوت سے نہیں بلکہ ایک مشترک نصب العین کی روحانی قوت سے ہوتا ہے۔۱۱۲ غزل کے بارے میں تقریباً پچیس برس بعد کہا: اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اُ نہوں نے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کردیا۔ اس طرح اُن کی تہذیب روح اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ میں نے آج سے پچیس برس پیشتر اِس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں۔ میری زبان پر وہ پیش گوئیاں جاری ہوگئیں۔ اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہ سمجھتا تھا۔ یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے۔ اس سے چھ سات سال بعد یعنی ۱۹۱۴ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہوگئیں۔ ۱۱۳ ایک بات واضح تھی۔ اقبال اب اقبال سے آگاہ ہو گیا تھا۔ غزل [متروک متن] زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیرِ میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہو گا دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا جنہوں نے میری زبانِ گویا کو محشرستاں صدا کا جانا مرا وہ دل چیر کر جو دیکھیں تو واں سکوتِ مزار ہو گا چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اِس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا کہا جو قمری سے میں نے اِک دن یہاں کے آزاد پابگل ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا یہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبشِ نظر بھی رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شررفشاں ہو گی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہو گا نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا تو اِک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی کہیں سرِ رہگزار بیٹھا، ستم کشِ انتظار ہو گا مخزن، مارچ ۱۹۰۷، ص۷۲-۷۱ بعد میں کبھی ترمیم ہوئی۔ قطع برید ہوئی۔ بعض اشعار کی ترتیب بھی بدلی: مارچ ۱۹۰۷ [نیا متن] زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا کہا جوقمری سے میں نے اک دن، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں تو غنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا باب ۵ پری جمالوں کا شہر مارچ سے جولائی ۱۹۰۷ء تک پہلا حصہ ۱ ’’سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا،‘‘ اقبال نے کہا تھا۔ تھیٹر کے اسٹیج پر یہ بات سمجھانے کے لیے شیکسپئر کی کارڈیلیا سے بہتر کون تھا۔ آغا حشر کاشمیری جو چند برس پہلے تھیٹر چھوڑنے کے بعد قرآن شریف کی تلاوت میں مشغول رہے تھے، اچانک بمبئی میں نمودار ہوئے اور کنگ لیئر کو اِس طرح ماخوذ کیا کہ موجودہ بیچینی گزرے ہوئے ڈیڑھ سو برس کا آئینہ بن گئی۔ ۲ اپنے دورِ حکومت کے خاتمے پر شہنشاہ نے حکومت جن دو بیٹیوں کے سپرد کی وہ جھوٹی، نااہل، بے مروت، بے وفا اور ظالم تھیں۔ تیسری بیٹی جسے عاق کر دیا اُسی نے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ واپس آ کر باپ کو مشکل سے نکالا۔ وہی عوام اور خواص کی متفقہ رائے سے تخت کی وارث ہوئی۔ ناخلف ورثأ اپنی سازشوں کا شکار ہوئے۔ اسٹیج کی دنیا کا باطن یہ تھا مگر کامیڈی پلاٹ اُس کا ظاہر تھا جہاں عوامی زندگی کے واقعات انہی پہلوؤں کو کچھ اور طرح ظاہر کر رہے تھے: سپہ سالار کے لڑکے نے ’’لیلیٰ‘‘ سے محبت کر کے شادی کر لی اور سپہ سالار کا گھرانہ غلط فہمیوں کی وجہ سے دیوارِ قہقہہ بن گیا۔ سفید خون میں دنیا اُلٹ رہی تھی: ٭ ہمایوں کے سپہ سالار بیرم نے وفاداری کی تاریخ میں بلند مقام حاصل کیا تھا مگر ڈرامے میں اُس کا ہمنام کردار مجسم غداری بنا ٭ پرویز بادشاہت کی بجائے درویشی کا نام قرار پایا۔ حشر عناصر کا تماشا لے کر واپس آئے تھے۔ ہر کردار قوت، روحانیت، عشق اور عقل میں سے کسی نہ کسی کی علامت تھا۔ شہنشاہ خاقان اور اُس کی بڑی بیٹیاں قوت کی علامت تھے۔ مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے جس طرح لال قلعہ خالی کروایا گیا اُس کی جھلک وہاں نظر آتی جب ماہ پارا خاقان کو محل چھوڑنے کے لیے کہتی۔ پھر بھی یہ ڈرامہ صرف مشرق نہیں بلکہ مغرب کا المیہ بھی تھا۔ وہاںبادشاہت کی جانشین ملحد سیاست ہوئی اوریہاں وہ فرنگی آقا جنہوں نے مغل بادشاہوں کی خوشامد کر کے مراعات حاصل کی تھیں۔ نام ماہ پارا اور دل آرا سہی مگر چاند کا ٹکڑا نظر آنے اور دل کو لبھانے کے باوجود کردار تاریک تھے۔ بے ضمیر طاقت اپنی ہی سازش سے ہلاک ہو تی تھی۔ روحانیت کے نمایندے بادشاہ کی چھوٹی لڑکی زارا اور وزیر سعدان کا لڑکا پرویز تھے۔ یہ ان کے تعارفی مکالمات اور گانوں سے بھی ظاہرتھا، مثلاً زارا خاموشی پر اصرار کرتی اور خاقان کہتا کہ آخر خدا نے زبان کس لیے دی ہے تو جواب دیتی: اُس کی خدائی اور یکتائی کا اقرار کرنے کے لیے اور ضرورت کے وقت اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے لیے۔۔۔ میں اپنے بزرگ باپ سے اُسی قدر محبت رکھتی ہوں جس قدر محبت رکھنا ہر سعادت مند بیٹی کا فرض اور ایمان ہے۔ یہ سرسید احمد خاں کے ’گزرا ہوا زمانہ‘ کے اصول ’’نہ زیادہ نہ کم‘‘ کے عین مطابق تھا اور جو مناظر شیکسپئر سے لیے گئے اُن میں بھی مکالموں، کردارنگاری اور واقعات میں مناسب ترامیم کر کے یہ مقاصد پورے کیے گئے۔ پرویز عموماً کوئی صوفیانہ گانا گاتا ہوا یا اپنی درویشی کے بارے میں خودکلامی کرتے ہوئے اسٹیج پر آتا۔زارا کے نام سے حاضرین کا ذہن ویرانوں کی طرف جاتا کیونکہ خاقان کہہ رہا تھا: ’’اب سے جانِ زار ہے تو اور بیحد اضطراب۔‘‘ صوفیانہ طبیعت رکھنے والے وزیرزادے کا نام پرویز ہونا درویشوں کے مسند نشین ہونے کی طرف اشارہ اور باغ و بہار کی پیش گوئی کا اعادہ بن گیا۔ عشق کی سب سے بڑی علامت ’’لیلیٰ‘‘ کامیڈی پلاٹ کے سنجیدہ کردار کے طور پر ظاہر ہوئی جس کے ساتھ سپہ سالار کے نوجوان تعلیم یافتہ لڑکے جلیل نے محبت کی شادی کر لی تھی (لڑکے کا نام جلیل اُس شان کی طرف اشارہ کرتا تھا جسے قوم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ظہور میں آنا تھا)۔ ان کے بچے کا نام ’’نظیر‘‘ تھا جو قانون کی زبان میں دلیل یا ثبوت کو بھی کہتے تھے اور واقعی یہ اُن کے رشتے کی نظیر تھا کیونکہ اگلے زمانے کی داستانوی لیلیٰ نے زبردستی کے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم نہ کیا تھا۔ سپہ سالار کی منچلی ملازمہ گلدم اسی عشق کی کچی صورت تھی جو کانوں سے سن کر اور آنکھوں سے دیکھ کر بھی لیلیٰ کی اصلیت نہ پہچان پاتی جب تک جلیل وضاحت نہ کرتا۔کڑک اور بھڑک سفلی جذبات کے نمایندہ تھے جو لیلیٰ اور گلدم دونوں ہی کو بری نظر سے دیکھتے اور مرزا طرم کے ہاتھوں ذلت اٹھاتے۔ بیرم اُس عقل کی علامت تھا جو قوت حاصل کرنے کی خواہش میں اپنے آپ پر بھروسہ کر لیتی اور شیطان کے بھی کان کاٹتی مگر اپنی ہی سازش کا شکار ہو جاتی تھی۔ قوت کی خواہش سے محروم عقل کی علامت بغلول تھا جو معمولی حساب کتاب میں بھی چالاک نوکروں سے مات کھا جاتا۔ عشق کی حقیقت سے بیخبر تھا۔ اُس کے اعلیٰ مقامات کو نہ پہچان سکتا۔ ۳ لفاظی بمقابلہ سچائی ڈرامے کا مرکزی خیال تھا۔ شیکسپیئر کے اسٹیج پر زیادہ ساز و سامان نہ ہوتا اس لیے پردے کی ضرورت نہ تھی اور شیکسپیئر چھوٹے چھوٹے مناظر سے ڈرامے کی رفتار بڑھاتا۔ حشر کے اسٹیج پر آرایش زیادہ تھی اور پردہ بھی گرتا تھا اس لیے طویل مناظر ضروری تھے۔ انہوں نے خاص طور پر کامیڈی پلاٹ میں بعض مناظر کو اپنی جگہ مکمل کہانی بنا کر ڈرامے کی مجموعی رفتار بڑھائی۔ گانے اور منظوم مکالمے کرداروں کی علامتی حیثیت نمایاں کر نے میں خاص طور پر کام آتے تھے کیونکہ ہندوستانی ڈرامہ مسلمانوں کی داستان گوئی اور غزلیہ شاعری کا جانشین بھی تھا جس کی وجہ سے زندگی کے باطن کو بھی اسٹیج پر نظر آنا چاہیے تھا۔ حشر کی اصل کامیابی اجتماعی رائے کے احترام میں تھی۔ اُنہوں نے دوسرے ڈراموں سے بھی مدد لی، مثلاً بغلول کا کردار شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے مسخرے فلسفی اتالیقوں کا مجموعہ تھا، گولڈاسمتھ کے ڈرامے شی اسٹوپس ٹو کانکر (She Stoops to Conquer)کی جھلک بھی کامیڈی پلاٹ میں موجود تھی۔ انگریزی جاننے والوں کے لیے کنگ لئیر اور ہیملٹ کے باہمی ربط کے بارے میں بلیغ اشارہ بھی تھا جب پرویز (یعنی کنگ لئیر کا ایڈورڈ)، خاقان (یعنی کنگ لئیر) کے بارے میں کہتا، ’’ہائے! کیسی اچھی طبیعت برباد ہو گئی‘‘ تو یہ ہیملٹ کے بارے میں اوفیلیا کے مکالمے کا ترجمہ تھا۔ ایک عام تماشائی کے لیے بھی وہ سب کچھ موجود تھا جس کی اُسے خواہش ہو سکتی تھی۔ سفید خون ۱:۱ حمد، کورس اور دوہے کے بعد دربار میں شہنشاہ خاقان ہر بیٹی سے پوچھتا ہے کہ وہ اُسے کس قدر پیار کرتی ہے۔ ماہ پارا اور دل آرأ خوشامد کرتی ہیں مگر زارا خاموشی کو ترجیح دیتے ہوئے کم الفاظ میں جواب دیتی ہے۔ خاقان ناراض ہو کر اُسے عاق کر دیتا ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ وزرأ ارسلان اور سعدان کے احتجاج کے باوجود سلطنت بقیہ دونوں لڑکیوں کے سپرد ہو جاتی ہے۔ ۲:۱ ارسلان کا بیٹا بیرم حسد میں آ کر اپنے بھائی پرویز کے خلاف سازش کرتا ہے جو نیک معاش ہونے کی وجہ سے باپ کا چہیتا ہے۔ بیرم ایک جھوٹا خط چھُپا چھُپا کر باپ کو دکھاتا ہے جس میں پرویز کی طرف سے باپ کے قتل کی سازش کا منصوبہ ہے۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ اگر رات کو سازش پر عمل ہونے کے آثار دکھائی دیں تو پرویز کو گرفتار کیا جائے۔ پرویز صوفیانہ گانا گاتے ہوئے آتا ہے (’’سارے چتر گنی گئے ہار، جگ کی نہ پائی سار، لاکھن کیے وچار‘‘) اور بھائی سے پوچھتا ہے کہ والد صاحب کیوں ناراض ہیں۔ بیرم لاعلمی ظاہر کر کے مدد کا وعدہ کرتا ہے۔ تنہائی میں اپنی حرص، فصاحت اور عقل کے گن گاتا ہے ، ’’میں عاقل و دانا ہوں، دنیا کا سیانا ہوں، میری یگانہ ہے چال‘‘)۔ ۳:۱ ماہ پارا کے محل میں خاقان کو ارسلان سے اطلاع ملتی ہے کہ ماہ پارا کے نوکر نے طلب کرنے پر انکار کر دیا ہے۔ ماہ پارا آ کر مزید مطالبہ کرتی ہے کہ خاقان موجودہ مکان چھوڑ کر کسی اور محل میں چلا جائے کیونکہ خاقان کے نوکر بدتمیز ہیں۔ خاقان اپنے غریب نوکروں کی حمایت کرتا ہے تو بات بڑھ جاتی ہے (’’اری او مغرور ہستی! تو خدا کی بستی میں بستی ہے اور اُس کی قدرت اور قہر پر ہنستی ہے‘‘)۔ زارا یاد آتی ہے مگر ابھی منجھلی بیٹی دل آرا موجود ہے ، اُس کے پاس جانے کا ارادہ کرتا ہے۔ ۴:۱ سپہ سالار مرزا طرم کے مکان میں اُس کی ملازمہ گلدم اُس کے ملازم گلخیرہ سے نوک جھونک کر رہی اور اُس کے ساتھ عشقیہ گیت گارہی ہے جب خشک مزاج بغلول (مرزا طرم کے لڑکے جلیل کا اتالیق) آ کر اسی جرم میں انہیں ملازمت سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے اور شکر اَدا کرتا ہے کہ جلیل نے ’’ان لیلیٰ مجنوں کی جوڑی کو نہیں دیکھ لیا۔۔۔ غریب بچہ جو ابھی نہیں جانتا کہ لغت میں ایک لفظ عشق بھی ہے‘‘) مگر جلیل آ کر اپنے عشق کے معاملے میں مدد مانگتا ہے کیونکہ وہ اپنی پسند کے مطابق لیلیٰ سے شادی بھی کر چکا ہے اور اب باپ سے چھپا کر بیوی کو گھر لانا چاہتا ہے۔ بغلول لیلیٰ کو اپنی کوٹھڑی میں چھپاتا ہے تو گلدم سن لیتی ہے اور غلط مطلب اخذ کر کے مرزا طرم کے آنے پر اُس سے چغلی کھاتی ہے مگر کوٹھڑی کھلوائی جانے پر وہاں سے جلیل برآمد ہوتا ہے۔ باقی لوگوں کے جانے کے بعد بغلول لیلیٰ کو کہیں اور چھپانا چاہتا ہے تواُسے معلوم ہوتا ہے کہ لیلیٰ کا ایک بچہ بھی ہے جس کا نام نظیر ہے۔ بغلول مجبوراً لیلیٰ کو پھر کوٹھڑی میں بھیجتا ہے تو اِس دفعہ گلدم اپنی آنکھوں سے لیلیٰ کو دیکھ لیتی ہے اور گلخیرو کے ذریعے مرزا طرم کو پھر اطلاع بھیجتی ہے۔ باپ سے پہلے جلیل آتا ہے تو گلدم کو معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا تعلق بغلول سے نہیں بلکہ وہ جلیل کی بیوی ہے۔ طرم کے آنے پر بات بنانے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ دروازہ کھلواتا ہے۔ لیلیٰ ظاہر ہوتی ہے مگر بغلول اُس کے بچے کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، ’’کچھ نہیں۔ یہ تو ایک ناٹک کی کتاب ہے۔۔۔ شیریں فرہاد عرف اندرسبھا عرف لیلیٰ مجنوں عرف ہیر رانجھا عرف سسی پنوں۔‘‘ جلیل خود بڑھ کر راز فاش کرتا ہے اور بغلول کی سفارش پر بات بن جاتی ہے۔ ۵:۱ خاقان ساتھیوں کے ہمراہ دل آرا کے مکان پر آتا ہے۔ وہ پیشوائی کو نہیں آتی، بلانے پر آ کر باپ سے کہتی ہے کہ ماہ پارا کے پاس واپس جائے۔ ماہ پارا آتی ہے اور دل آرا کہتی ہے کہ خاقان یہاں رہنا چاہے تو زیادہ سے زیادہ ایک ملازم رکھ سکتا ہے۔ ۶:۱ بہرام کے سکھائے ہوئے دو قاتل سعدان کے مکان میں سیڑھی لگا کر داخل ہوتے ہیں اور شور اُٹھنے پر صرف پہرے دار کو قتل کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ پرویز نیند سے اُٹھ کر آتا ہے اور حیران ہوتا ہے۔ بیرم باپ کو یہ موقع دکھاتا ہے۔ پرویز ہی مجرم نظر آتا ہے۔ ۱:۲ جنگل پہاڑ سے پرویز گزرتا ہے (’’کون جانتا ہے کہ اس فقیرانہ لباس میں ایک دولت مند نواب کا نورِ نظر، لختِ جگر ہے‘‘)۔ پھر سعدان اور بیرم آتے ہیں۔ بیرم بتاتا ہے کہ خاقان کی بیٹیوں نے اس طوفان میں اُسے پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ خاقان کی حالت دیکھ کر سعدان پھر بیرم کے ساتھ دونوں لڑکیوں سے درخواست کرتا ہے کہ کسی پناہ کی جگہ پر چلے مگر ماہ پارا سے الجھتا ہے۔ اُس کے جانے کے بعد ماہ پارا اور بیرم کی عشقیہ گفتگو ماہ پارا کا شوہر سن لیتا ہے۔ بیرم کے ساتھ اُس کی لڑائی ہوتی ہے۔ ۲:۲ مرزا طرم کے مکان پر گلدم اور بغلول، گلخیرو کا انتظار کر رہے ہیں جو سودا لینے بازار گیا ہے۔ واپس آ کر بغلول کو پیسوں کے معاملے میں چکر دیتا ہے۔ بغلول کے جانے کے بعد مرزا طرم کے دوست کڑک اور بھڑک آتی ہیں۔ مرزا طرم موجود نہیں اس لیے بغلول کو بلایا جاتا ہے مگر گلخیرو چپکے سے کڑک اور بھڑک سے کہہ دیتا ہے کہ بغلول ذات کا بھانڈ ہے۔ خاصی دلچسپ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، لیلیٰ آتی ہے تو گلخیرو اُسے بھی بھانڈ کی لڑکی بتاتا ہے جس کی وجہ سے کڑک اور بھڑک اُس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرزا طرم آ کر خفا ہوتا ہے تو گلخیرو کی شرارت کھلتی ہے اور اُسے بوریے میں بند کر کے پیٹا جاتا ہے۔ وہ مہمانوں کی نوٹوں کی گڈی پہلے ہی بغلول کی جیب میں چھپا چکا ہے اس لیے چوری کے الزام میں بغلول بھی گلخیرو والے بوریے ہی میں ڈال دیا جاتا ہے اور دونوں کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے۔ ۳:۲ پہاڑی جنگل میں سعدان اور بیرم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ زارا پنے شوہر سمیت حملہ آور ہوئی ہے۔ سعدان نے خاقان کو اُس کے پاس بھجوا دیا ہے اور اَب سپہ سالار مرزا طرم کے نام بغاوت کا پیغام لکھ کر بیرم کو دیتا ہے۔ خاقان دیوانگی کے عالم میں قلعے سے بھاگ نکلتا ہے۔ ارسلان اُس کے ساتھ ہے۔ سعدان اُس کی حالت پر افسوس کرتا ہے۔ زارا اپنے شوہر کے ساتھ آ کر باپ کو واپس قلعے میں لے جاتی ہے۔ سعدان دعا دیتا ہے۔ ۴:۲ دل آرا کے مکان پر بیرم اپنے باپ سعدان کا خط دل آرا اور ماہ پارا کو دکھاتا ہے اور عذر پیش کر کے رخصت ہو جاتا ہے، ’’میں اپنے باپ کو برائی کا بدلہ پاتے ہوئے دیکھوں گا تو مجھے شرم آئے گی۔‘‘ سعدان آتا ہے تو دل آرا اور ماہ پارا اُس کے قتل کا حکم دیتی ہیں مگر دل آرا کا شوہر آ کر جلاد کو ہلاک کر دیتا ہے۔ تکرار کے دوران یہ بات کھلتی ہے کہ بیرم نے باپ کی چغلی کھائی ہے۔ سعدان حیران رہ جاتا ہے، ’’افسوس، افسوس! اب میری آنکھ کھل گئی۔ ضرور غریب پرویز کے ساتھ بھی اُسی نے دغابازی کی۔‘‘ دل آرا کا شوہر سپاہیوں کو حکم دیتا ہے کہ سعدان کو آزاد کیا جائے تو دل آرا کے حکم پر سپاہی اُسی کو قتل کر دیتے ہیں۔ پھر ماہ پارا سعدان کو ہلاک کر دیتی ہے۔ ۵:۲ راستے سے بیرم فوج کا دستہ لیے ہوئے گزرتا ہے۔ ۶:۲ قلعے کے دروازے سے خاقان، زارا کے ساتھ نکلتا ہے۔ بیرم، فوج کے ساتھ آ کر اُسے گرفتار کرتا ہے۔ ۱:۳ بیرم کے مکان پر اُس کے سامنے رقص و نغمہ ہوتا ہے۔ پھر ماہ پارا آتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے وقت وہ اپنے شوہر کو قتل کر چکی ہے۔ بیرم کہتا ہے کہ رات کو وہ چپکے سے خاقان کو قتل کروائے گا، ماہ پارا زارا کو قتل کر دے، ’’رعیت خاقان اور زارا کو مظلوم سمجھتی ہے اس لیے بلوہ کر کے ان کو چھڑانا چاہتی ہے۔ اگر وہ دونوں آزاد ہوئے تو یہ سر اور تاج دونوں جاتے رہیں گے۔‘‘ ماہ پارا کے جانے کے بعد دل آرا آتی ہے تو بیرم اُس سے کہتا ہے کہ ماہ پارا قاتلوں کے ذریعے خاقان کو قتل کروانے اور خود زارا کو قتل کرنے کے بعد الزام دل آرا پر لگائے گی اس لیے جب وہ دونوں کو قتل کر چکی ہو تو ’’فوراً تم وہاں پہنچ جاؤ اور شور کر کے اُسے گرفتار کرواؤ۔‘‘ وہ جاتی ہے تو بیرم اپنی سازش پر خوش ہوتا ہے، ’’بندہ اکیلا ہی اس ملک کا مالک و مختار ہو گا۔‘‘ ۲:۳ قیدخانے میں زارا اپنی اور باپ کی بے بسی پر غمگین گانا گا رہی ہے (’’اے نصیب رحم کر تو ہمیں کیوں ستا رہا ہے‘‘)۔ جلاد آ کر خاقان کو لے جاتے ہیں۔ ماہ پارا، زارا کو قتل کرنے آتی ہے مگر اُسی وقت دوسرے کمرے میں آہٹ پا کر ماہ پارا اُدھر دیکھنے جاتی ہے۔ دل آرا اور بیرم نشے کی حالت میں آتے ہیں تو زارا چھپ جاتی ہے۔ دل آرا سمجھتی ہے کہ ماہ پارا دوسرے کمرے میں زارا کو قتل کرنے گئی ہے۔ بیرم نے حوصلہ دلانے کے لیے بہت شراب پلائی ہوئی ہے اس لیے بیرم کے جانے کے بعد پلنگ پر گر کر سو جاتی ہے اور ماہ پارا واپس آ کر زارا کے دھوکے میں اُسے قتل کر دیتی ہے۔ زارا بھاگ جاتی ہے اور بیرم شور سن کر آتا ہے تو مرتے ہوئے دل آرا جو کچھ کہتی ہے اُس سے ماہ پارا سمجھ جاتی ہے کہ بیرم نے دونوں کے خلاف سازش کی تھی۔ بیرم بھاگنا چاہتا ہے، ماہ پارا بیرم پر اور وہ اُس پر پستول سے گولی چلاتا ہے۔ دونوں مرتے ہیں۔ ۳:۳تاریک جنگل میں جلاد خاقان کو قتل کرنے کے لیے لاتے ہیں مگر زارا کا شوہر پستول سے جلادوں کو گولی مارتا اور خاقان کو چھڑا لے جاتا ہے۔ ۴:۳ مرزا طرم کے مکان پر گلدم پریشان ہے کہ بغلول کی ناحق پٹائی ہوئی، گلخیرو بھی نوکری سے گیا اور اب شاید اپنی بھی چھٹی ہو جائے۔ گلخیرو آتا ہے، دونوںمل کر گاتے ہیں۔ ایک طرف سے بغلول اور دوسری سے مرزا طرم کے آنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں تو گلخیرو چھپنا چاہتا ہے اور گلدم اُس پر رنگ کر کے اُسے پُتلا بنا دیتی ہے۔ بغلول پہلے بیوقوف بنتا ہے، پھر پہچان جاتا ہے اور ڈنڈا لینے جاتا ہے۔ گلخیرو میز کے نیچے چھپتا ہے، بھڑک شراب پیے ہوئے آتا ہے اور بغلول واپس آ کر دھوکے میں اُسی کی پٹائی کر ڈالتا ہے۔ غلطی کا احساس ہونے پر بھاگ جاتا ہے اور بھڑک گلدم پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں کی تکرار دوگانے کی شکل اختیار کرتی ہے جس میں گلخیرو بھی شریک ہو جاتا ہے۔ مرزا طرم آ کر بھڑک کی پٹائی کرتا ہے تو سب گاتے ہوئے شریک ہو جاتے ہیں، ’’مارو، مارو، مارو، یہ ہے لچا اور آوارہ‘‘۔ ۵:۳دربار میں درباری خدا کی تعریف کرتے ہیں، زارا اپنے باپ خاقان کو تخت پیش کرتی ہے مگر وہ اس کا حق دار زارا کو قرار دے کر خدا کے انصاف کی تعریف کرتا ہے، ’’اُس کے انصاف کو دیکھ کہ اِنہی ہاتھوں سے تیرا حق تجھے واپس دلاتا ہے۔‘‘ سعدان کی موت کا افسوس کرتا ہے اور پھر زارا اور اُس کے شوہر کو ایک دفعہ پھر اپنے سامنے ہاتھ ملانے کو کہتا ہے (’’زندہ رہو، نہال رہو، حشر تک رہو‘‘)۔ اہلِ دربار خوشی میں گاتے ہیں، ’’تازہ ہوا گلزار آؤ مل کرشادی رچائیں۔‘‘ ۴ ’’میرے عزیز نوجوانو!‘‘ نواب وقار الملک نے علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس کو جو کام زمانہ آیندہ میں انجام دینا ہے اُس کا منصوبہ قائم کر لیا ہے اور اُس کا ایک مکمل خاکہ وہ پہلے سے تیار کر چکے ہیں۔۔۔‘‘ علی گڑھ میں پہلا موقع تھا کہ کالج کی طرف سے طلبہ کے سامنے سیاسی خیالات پیش کیے جا رہے تھے۔کالج کے سیکرٹری نواب محسن الملک کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ بیشتر ذمہ داریاں وقارالملک کی طرف منتقل ہو چکی تھیں جو مزاج میںاُن کی ضد تھے۔ سخت گیر اور جلد بھڑک اُٹھنے والے تھے۔ ۲۸ مارچ کو سرسید کی نویں برسی تھی۔ محمد علی بھی آئے۔ انگریز اسٹاف کی مداخلتوں پر ناراض تھے۔ اولڈ بوائز کی ضیافت میں گیارہ اَشعار کی ’عرضداشت بخدمت سر سید احمد خاں مرحوم‘پڑھی: جنہیں احساس ہے قومی محبت کا وہی جانیں نہیں معلوم جس کو کیا کہیں اُس سے کہ کیا تم ہو ملا ہے تم کو ورثہ قوم کی مشکل کشائی کا عزیزِ مصطفیٰؐ تم ہو، عزیزِ مرتضیٰؓ تم ہو تمہی ہو زندۂ جاوید باقی جانے والے ہیں نمونہ ہیں فنا کا ہم تو تمثیلِ بقا تم ہو سکھایا تھا تمہیں نے قوم کو یہ شور شر سارا جو اس کی انتہا ہم ہیں تو اس کی ابتدا تم ہو ۵ یکم اپریل کو مس بیک عطیہ فیضی کے پاس آئیں اور اُنہیں ایک چٹھی دی جو ’آپ کا مخلص، اقبال‘ کی طرف سے تھی اور صرف اتنا کہا گیا تھا کہ لندن آرہے اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ عطیہ کو نوجوانوں کی طرف سے دعوت نامے ملتے ہی رہتے تھے، اس پیغام کو بھی رد کر دیتیں مگر مس بیک کی سفارش آڑے آئی۔ ’’میںآج ایک زبردست دعوت کا بندوبست کر رہی ہوں،‘‘ مس بیک نے کہا۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ آپ بھی آئیں اور پروفیسر اقبال سے ملیں۔ وہ زبردست آدمی ہیں۔‘‘ ’’وہ کس لحاظ سے زبردست آدمی ہیں؟‘‘عطیہ نے دریافت کیا اور مس بیک نے بتایا کہ پروفیسر براؤن اُن کی ذہانت کی تعریف کرتے ہیں۔سید علی بلگرامی کی طرف سے بھی کوئی پیغام لا رہے ہیں۔ ’’میں فوراً تیار ہو گئی،‘‘ عطیہ کا بیان ہے۔ ’’میں سید علی بلگرامی کا بہت احترام کرتی تھی۔‘‘۱ ۶ ’’دعوت میں مس بیک لپک کر میرے پاس آئیں،‘‘عطیہ نے بعد میں انگریزی میں لکھا۔ ’’اُن کے پیچھے پیچھے ایک سنجیدہ سا آدمی تھا جس کی آنکھیں اندر کی طرف دھنسی ہوئی تھیں۔ ’پروفیسر اقبال!یہ ہیں مس فیضی!‘ مس بیک نے ہمیں لے جا کر ایک طرف بٹھا دیا جہاں ہم نے خوب باتیں کیں۔اقبال کے بارے میں میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ وہ ذہنی پیچیدگی کا شکار ہیں، اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہیں، اُن کی زندگی کا محور اُن کی اپنی ذات ہے اور وہ اپنے نظریات کو اہمیت دینے کے شوقین ہیں۔ ’’بری علامت!‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ ’’آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟‘ ‘میں نے اُن سے پوچھا۔ ’’آپ لندن اور ہندوستان میں اپنے سفرنامے کی وجہ سے مشہور ہو چکی ہیں۔‘‘ اُن کی گہری گہری آنکھوں سے ظاہر نہ ہو سکا کہ تعریف کر رہے ہیں یا مجھ پرطنز کیا ہے۔ میں نے کہا، ’’سفرنامہ میری بہن زُہرہ بیگم کا ہے اور میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ آپ نے کیمبرج سے یہاں تک آنے کی زحمت صرف اِس لیے گوارا کی کہ مجھے خراجِ عقیدت پیش کریں۔ لیکن مذاق چھوڑیں اور بتائیں کہ آپ کا اصل مقصد کیا ہے؟‘‘ میری صاف گوئی اور روکھے پن پر وہ ذرا حیران ہوئے اور پھر کہا،’ ’میں آپ کو مسٹر اور مسز بلگرامی کی طرف سے دعوت دینے آیا ہوں کہ آپ کیمبرج میں اُن کی مہمان بنیں۔ اگر آپ انکار کریں گی تو ناکامی کا داغ مجھ پر رہے گا جسے میں نے آج تک قبول نہیں کیا۔ ‘‘ اقبال سوسائٹی میں بہت زندہ دلی کا ثبوت دیتے تھے اگرچہ اُن کے مذاق اکثر طنزیہ ہوتے تھے۔ دَورانِ گفتگو میں نے حافظ کے بہت سے برمحل اشعار سنائے۔ ’’جب میں حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں تو اُن کی رُوح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں،‘‘ اقبال نے کہا۔ عطیہ کہتی ہے کہ اس کے ساتھ ہی اقبال نے امیر خسرو کا شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ میں تم بن گیا تم میں بن گئے، میں روح بن گیا تم جسم بن گئے تاکہ اب کوئی یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں، تم اور ہو: من تو شدم و تو من شدی، من جاں شدم و تو تن شدی طے ہو چکا تھا کہ ۲۲ تاریخ کو عطیہ کیمبرج آئیں گی۔۲ ۷ اقبال کی لندن آمد کا مقصد غالباً آرنلڈ سے مل کر آیندہ تعلیم کا منصوبہ بناناتھا۔ جرمنی کی کوئی یونیورسٹی منتخب کرنی تھی جو کم سے کم وقت میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دے سکے۔ چنانچہ ۹ اپریل کو جب عطیہ اقبال کی دعوت پر اُن کے ساتھ ڈنر کرنے ہوٹل فراس کاتی پہنچیں تووہاں چند جرمن مہمان بھی موجود تھے۔ ’’کھانوں کی فہرست اور پھولوں کی سجاوٹ دیکھ کر میں حیران رہ گئی،‘‘ عطیہ کہتی ہیں۔ تعریف کی تو اقبال نے جواب دیا، ’’میں دو شخصیتوں کا مجموعہ ہوں۔ ظاہری شخصیت ہر اُس چیز کی قدردان ہے جو کارآمد اور عملی ہے۔ باطنی شخصیت خواب دیکھنے والی فلاسفر اور صوفی!‘‘ قابل غور ہے کہ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے کسی نے اُن کے رُوحانی تجربات پر اتنی روشنی نہیں ڈالی جتنی عطیہ فیضی نے فراہم کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگلی چند ملاقاتوں میں اقبال نے عطیہ فیضی کے سامنے اپنی باطنی شخصیت کی کافی گرہیں کھولنے کی کوشش کی۔ بچپن کا وہ واقعہ بھی بیان کیا جب ان کی عمر گیارہ سال تھی اور نورمحمد کو کسی قافلے کی مصیبت کے بارے میں کشف ہوا تھا۔ عطیہ کہتی ہیں کہ گفتگو کے دوران اقبال فارسی اشعار بھی سناتے رہے۔ رومی، نیٹشے اور کانٹ کا موازنہ ہوا جس کے دوران جرمن خاتون شمڈٹ نے اچانک ایک فارسی شعر داغ دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ محض تمہارا وہم ہے کہ دل تمہارے سینے میں ہے ورنہ اس کا مقام زمین و آسمان سے پرے ہے۔ اقبال نے حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ فارسی بھی جانتی تھیں۔۳ ۸ ۱۵ اپریل کو عطیہ نے اقبال کو چائے پر بلایا۔ عطیہ کا بیان ہے کہ انہوں نے بعض حسین و ذہین خواتین کو بھی مدعو کیا۔ مس سلوسٹر اور مس لوی زبان و شعر کی ماہر تھیں، ہر میتھوروٹز وائلن بجاتے تھے اور سینیور مینڈل پیانو سے کھیلتے تھے۔ ان دونوں نے ساز چھیڑے تو خواتین بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئیں۔ انہوں نے ناروے کے موسیقار ایڈورڈ گریگ کی تخلیقات پیش کیں جوچند برس قبل اپنے شاہکاروں کے گراموفون ریکارڈ بنوانے کے بعد اب مرض الموت میں مبتلا آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ذہین خواتین نے گریگ کے شاہکاروں کی تشریحات پیش کیں اور اقبال نے عطیہ سے آہستہ سے کہا، ’’نغمے کے اس بیکراں سمندر میں ذہن ایک ستارے سے دوسرے کی طرف بھٹکتے ہوئے یادوں کے ریزے اکٹھے کر رہا ہے، اُلجھے ہوئے بھی اور منور کرنے والے بھی!‘‘ عطیہ کا کہنا ہے کہ اس محفل میں اقبال نے غزل بھی لکھ کر اُن کی نذرکی مگر وہ دستیاب نہیں ہے۔ بہرحال اُن کی ظرافت عروج پر تھی۔ مزاحیہ اشعار بھی کہہ رہے تھے۔ عطیہ نے لکھنے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر روک دیا کہ وقتی چیزیں ہیں۔کسی بات پر موج میں ملا نصرالدین کا لطیفہ سنایا: چاندنی رات میں ملا نصرالدین نے ٹھہرے ہوئے پانی میں چاند کا عکس دیکھا۔ انہوں نے کہا، ’’بیچارہ چاند کنویں میں گر گیا ہے، مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘ اُنہوں نے ایک رسی میں آنکڑہ لگا کر اسے کنویں میں پھینکا۔ کچھ دیر بعد آنکڑہ کسی چیز میں پھنس گیا مگر رسی پرانی ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی اور ملا چاروں خانے چت زمین پر جا گرے۔ سانس بحال کرنے کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں۔۔۔ آسمان پر چمکتا چاند دکھائی دیا۔ وہ خوشی سے چیخ اٹھے اور کہا، ’’خدا کا شکر ہے میں نے اُس کی جان بچا لی اور اُسے آسمانوں پر بھیج دیا، بیچارہ چاند!‘‘ حاضرین اس لطیفے سے خوب محظوظ ہوئے۔ اقبال نے ایک اور سنایا: ایک دن ایک دوست نے ملا نصرالدین سے کہا، ’’میں نے سنا ہے تمہارا پڑوسی ایک بڑی دعوت کا اہتمام کر رہا ہے۔‘‘ ’’خدارا، مجھے اِس سے کیا!‘‘ ملا نے کہا۔ دوست نے کہا، ’’کیوں؟ وہ تمہیں بھی تو بلانے والا ہے۔‘‘ ’’شیطان! تو پھر تمہیں اِس سے کیا؟‘ ‘ ’’اقبال کی لاجواب ظرافت انہیں محفلوں میں پسندیدہ بنا دیتی تھی،‘‘ عطیہ کا بیان ہے۔۴ ۹ ۱۷ اپریل کو شبلی نعمانی لکھنؤ سے اعظم گڑھ آئے ہوئے تھے جہاں اُن کی اولاد رہتی تھی۔ صبح دس بجے کے قریب دفتر سے اٹھ کر زنانہ کمرے میں گئے جہاں تخت بچھے ہوئے تھے اور ایک طرف کارتوس بھری ہوئی بندوق رکھی تھی۔ یہ پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے اور بندوق اٹھا کر بہو کے ہاتھ میں دے دی۔ انہوں نے نال نیچے کو جھکا کر پکڑی مگر عین اُسی وقت ٹریگر دب گیا اور شبلی کو اپنے پاؤں میں جھٹکا سا محسوس ہوا۔ انہوں نے کہا یہ کیا ہوا مگر باہر سے جو نوکر اور مامائیں اندر آئیں وہ سخت گھبرائیں اور رونے لگیں۔ کسی نے آکر اِن کے جوتے پر ہاتھ رکھ دیا تو انہوں نے پاؤں باہر نکالا اور کہا اس پر پانی ڈالو۔ پانی ڈالا جاتا تھا تو بھک بھک کی آوازیں آتی تھیں اور دُھواں اٹھتا تھا۔پندرہ منٹ بعد جب اس طرح پنڈلی اٹھائے رکھنے سے دکھن محسوس ہوئی تو کہا کہ اب تکیہ لا کر میرا پاؤں اُس پر رکھ دو۔ جو آدمی اب تک پانی ڈال رہا تھا اُس نے روتے ہوئے کہا، کیا چیز ہے جو رکھی جائے۔ پاؤں غائب تھا ۔ کارتوس میں صرف چھرے تھے مگر بندوق بالشت بھر کے فاصلے سے چلی تھی اس لیے پہلے ٹخنے کی ہڈی چور ہوئی تھی اور پھر جوتے میں سے پاؤں نکالتے ہوئے ایڑی اُسی میں رہ گئی تھی۔ شبلی میں درد کی برداشت اُتنی ہی تھی جتنی اقبال میں، یعنی بھِڑ کاٹ لے تو اس قدر ہائے واویلا کرتے تھے کہ سننے والوں کو اُن تمام جنگوں کے زخمیوں کا کرب یاد آجاتا تھا جنکا ذکر شبلی کی کتابوں میں ہوتا تھا۔ آج خود شبلی کو وہ جنگیں یاد آگئیں اورسوچا، ’’تکلیف گو سخت ہے لیکن وہ ہمارے ہی بزرگ تھے جنہوں نے سرکٹوائے تھے، پاؤں کٹنے پر کیا روؤں!‘‘ چنانچہ خود کو تیمور لنگ سمجھ کر بیٹھے رہے۔ آپریشن ہوا اور چونکہ ٹانگ کی ہڈی کچھ اوپر تک پھٹ گئی تھی لہٰذا پاؤں کے ساتھ نصف پنڈلی بھی کاٹ کر پٹی باندھ دی گئی۔۵ ۱۰ ۲۲ اپریل کو لندن سے کیمبرج جانے والی ریل گاڑی میں اقبال اور عبدالقادر کے ساتھ عطیہ فیضی بھی موجود تھیں۔ یہ سب دوپہر بارہ بجے سید علی بلگرامی کے دولت کدے پر پہنچے۔ عطیہ کہتی ہیں کہ اقبال نے عطیہ کا تعارف یوں کروایا جیسے کوئی مقدس چیز اُن لوگوں کے سپرد کر رہے ہوں۔ کم ازکم عطیہ نے یہی محسوس کیا۔اُن کا بیان ہے کہ اقبال نے کہا، ’’اگر زندگی میں مجھے کبھی ناکامی کا خطرہ پیش آیا تو وہ اُس وقت جب میں مس فیضی سے ملا۔۔۔‘‘اس کے ساتھ ہی ایک فارسی شعر سنایا۔۶ معلوم ہوتا ہے یہی وہ موقع تھا جس کے بارے میں شیخ عبدالقادر نے بعد میں لکھا : [اقبال] ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں۔ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ انھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کبھی کہنے کے، فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔۷ ’’غیررسمی ظہرانے کے بعد ہم سب باہر نکلے اور پھلوں، پھولوں اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے درمیان جا کر پھیل گئے،‘‘عطیہ کا بیان ہے۔ ’’بہار آ چکی تھی اور اپنے پورے شباب پر تھی۔ ماحول نے صاحب ِ علم لوگوں کو مہمیز کیا اور اقبال نے اپنی گفتگو میں محاکات کے خزانے لٹائے۔ دوسرے بھی گفتگو میں شامل ہو گئے، اپنے محسوسات کا اظہار کیا اور واقعات سنائے۔‘‘۸ ۱۱ شام کو عطیہ واپس چلی گئیں اور اپنی اُردو ڈائری میں لکھا ، ’’یہ دن ہمیشہ یاد رہے گا!‘‘ یہ بھی نوٹ کیا کہ اقبال جب کبھی اکتائے ہوئے اور اُچاٹ نظر آتے ہیں تو دراصل موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ پارٹی میں کسی شخص کے منہ سے کوئی بات نکلے اور فوراً اُسے طنز کی نوک پر رکھ لیں۔’’تب اُن کا جواب اتنا جلد اور غیرمتوقع ہوتا ہے کہ دُوسرا تھوڑی دیر کے لیے تو ضرور سٹپٹا جاتا ہے،‘‘عطیہ نے لکھا۔۹ ۱۲ ’’کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک اُن کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر، بستر پر لیٹے ہوئے، باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے،‘‘ شیخ عبدالقادر کا بیان ہے۔ ۱۰ غزل یُوں تو اے بزمِ جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے اِک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی پا گئی آسُودگی کُوئے محبت میں وہ خاک مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی محفلِ ہستی میں آزارِ تہی دستی نہ ہو یہ بھی اک میری جوانی کی تمناؤں میں تھی کس قدر اے مے تجھے رسمِ حجاب آئی پسند پردۂ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی حسن کی تاثیر پر غالب نہ آسکتا تھا علم اِتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی میں نے اے اقبالؔ! یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی۱۱ بعد میں کبھی’’محفلِ ہستی‘‘ اور ’’میں نے اے اقبالؔ‘‘ والے اشعار غزل سے نکال دیے۔ کُل نو اشعار تھے۔ اُسی نوٹ بک میں لکھے جا رہے تھے جس میں ابھی تک صرف پتے لکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی تین فارسی غزلیں لکھی گئیںجن میں سے پہلی میں عروض کا وہی تجربہ ہوا جو ’پیغامِ راز‘ میں کیا گیا تھا: - اے گُل زخارِ آرزو آزاد چوں رسیدہٰ - در پسِ راہزن روم دوش بہ راہبر زنم - آشنا ہر خار را از قصۂ ما ساختی۱۲ ۱۳ ’’صبح اُٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دوتازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں،‘‘ عبدالقادر کا بیان ہے۔ ’’جواُنہوں نے مجھے زبانی سنائیں۔‘‘ ۱۳ ۱۴ دوروز بعد یعنی ۲۴اپریل کو عطیہ کو اقبال کا خط موصول ہوا جس میں انگریزی میں لکھا تھا: میں ایک غزل بھیج رہا ہوں جس کا میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔‘۱۴ بنام عطیہ فیضی Trinity College Cambridge 24th April 07 My dear Miss Fayzee, I enclose herewith one of the poems I promised to send you, and I shall feel obliged if you could read it carefully and let me know of your criticism. I was thinking of sending you a copy of my Political Economy in Urdu but I am sorry I haven't got one here though it would not be difficult to get it from India. I shall write for it in this mail. Hoping you are getting on well. Yours sincerely S. M. Iqbal ۱۵ عطیہ فیضی کو خط کے ساتھ جو غزل بھیجی،وہ فارسی میں اور حافظ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی بلکہ مطلع بھی معنی خیز تھا: اے گلاب تُو آرزو کے کانٹے سے آزادکیسے ہوا ، آخر تُو بھی تو ہماری طرح اِسی چمن کی مٹی سے بنا ہے! اے گُل زخارِ آرزو آزاد چوں رسیدہٰ تُو ہم زخاکِ ایں چمن مانندِ ما دمیدہٰ اگر دل خدا کی محبت میں دھڑکتا اور ہر حسین شے میں اُسی بچھڑے ہوئے محبوب کا عکس دیکھ کر مچل جاتا تو پھر خدا نے انسان کو زمین پر بھیج کر واقعی مشکل میں ڈال دیا تھا۔ خدا سے شکایت اُس برس دھیمے سُروں میں شروع ہوئی۔ دوسری فارسی غزل جو عطیہ کو نہیں بھیجی اُس میں کہا تھا: آشنا ہر خار را از قصۂ ما ساختی در بیابانِ جنوں بُردی و رُسوا ساختی یعنی آپ نے ہر کانٹے کو ہمارے قصے سے واقف کر دیا۔ ہمیں دشتِ جنوں میں بھیج کر رُسوا کر دیا۔ اور: پہلے اُس سے ناراض ہوئے کہ اُس نے ہمیں سجدہ نہ کیا، پھر ایک دانے کی وجہ سے ہمیں بھی مجرم ٹھہرا دیا۔ آپ نے نہ اُس بیچارے سے نبھائی نہ ہم سے بنا کر رکھی! کوئی نئی طرز لائیے کہ طبیعت نیاپن چاہتی ہے۔ یہ کیسا حیرت خانہ بنا یا ہے جہاں صرف آج اور کل ہیں۔ شراب کی طرح آپ نے بھی شیشے کے پردے میں چھُپنا پسند کیا ہے کیونکہ آپ کے حسن کی جھلک تو صاف نظر آرہی ہے! ۱۶ علم الاقتصاد کا ایک نسخہ عطیہ کی نذرکرناچاہتے تھے ۔ شاید ۲۴ اپریل ہی کو اس کے لیے ہندوستان خط لکھا۔کیا اُنہیں عطیہ اور شبلی کی خط کتابت کا علم تھا؟ علم الاقتصاد کے مسودے پر تو شبلی کے قلم سے کئی جگہ زبان کی اصلاح ہوئی ہو گی۔ کیا مسودہ اسی لیے عطیہ کو پیش کرنا چاہتے تھے؟ ۱۷ عطیہ کا بیان ہے: فلسفیانہ مضامین پر تبادلہ ٔ خیال کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے خط کتابت شروع کی اور اکثر مواقع پر انہوں نے چھٹیاں گزارنے کے لیے مقام کے تعین اور کتابوں کے انتخاب میں میری امداد طلب کی۔ جدید اور قدیم فلسفہ کے متعلقہ نصاب کو میں نے انہی دنوں ختم کیا تھا اور افلاطون اور نیٹشے جیسے فلسفیوں کے نظریوں کی تشریح کے بارے میں ہماری آرأ میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ اقبال مطمئن نہیں ہوئے بلکہ خط کتابت میںبحث جاری رکھی۔۱۵ عطیہ نے یہ نہیں بتایا کہ اختلافات کیا تھے۔ ۱۸ فرانسیسی مفکر ہنری برگساں کی تصنیف تخلیقی ارتقا (L'Evolution créatrice)شائع ہوئی۔ فکر کو وجدان ہی کی ایک اعلیٰ صورت قرار دیا تھا۔ فرانس سے باہرپذیرائی کرنے میں امریکی نفسیات داں ہنری جیمز سب سے آگے تھے مگر پوری کتاب کا انگریزی ترجمہ ابھی نہ ہوا تھا۔ ممکن ہے یہی موقع ہو جس کے بارے میں اقبال نے بعد میں کہا کہ میک ٹیگرٹ کی تنقید سے پریشان ہو کر جب اپنا مقالہ تلف کر دیا، تب ’’تھوڑے ہی دنوں میں جب برگساں نے اس موضوع پر ویسے ہی اظہارِ خیال کیا اور اس کے نظریے کی اشاعت ہونے لگی تو میک ٹیگرٹ کو بڑا دُکھ ہوا،‘‘ اقبال سے روایت ہے۔ ’’برگساں نے بھی کم و بیش وہی نظریہ قائم کیا تھا جسے پہلے میں اپنے مقالے میں پیش کر چکا تھا۔میک ٹیگرٹ نے مجھ سے کہا افسوس ہے میں نے اپنا فریضۂ استادی ادا نہیں کیا۔ میں نے تم پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بہت بڑے کارنامے سے محروم کر دیا۔ مجھے بھی رنج تھا کہ میں نے اپنا مقالہ کیوں تلف کر دیا۔‘‘۱۶ زیادہ رنج نہ ہونا چاہیے تھا۔ برگساں کے نظریات کی بنیادبہت پہلے اس کی کتاب Time And Free Willمیں رکھی جا چکی تھی جو فرانسیسی میں ۱۸۸۹ میں شائع ہوئی تھی۔ ۱۹ شیخ عبدالقادر سے روایت ہے کہ اقبال نے ایک دن اُن سے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کی کانفرنس منعقد ہونی چاہیے۔۱۷ ۲۰ علیگڑھ کے پرنسپل آرچی بولڈ نے کسی معزز مسلمان کے ساتھ بدتمیزی کی تو طلبہ نے ہنگامہ کھڑاکردیا۔ بعض ٹرسٹیوں نے بھی مطالبہ کیا کہ کالج کے یورپین اسٹاف کو برطرف کرنا چاہیے۔ محمد علی نے نواب محسن الملک کو بڑی تلخی کے ساتھ لکھا، ’’اگر اس موقع کو ہاتھ سے دے دیا تو سمجھ لیجیے کہ آپ مسلمانوں کے لیڈر نہ ہوں گے بلکہ ہر بے ریشیا یورپین پروفیسر اپنے کو اِس قوم کا فرعون سمجھے گا۔ نہ یہ مصلحتیں ہوں گی نہ آپ میں وہ طاقت ہو گی۔ ہمیشہ کے لیے کالج آپ کے اور ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔‘‘۱۸ خبر انگلستان پہنچی۔ اقبال نے علی گڑھ کے طلبہ کے نام منظوم پیغام لکھا۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ابدیت کا حصول ہے۔ سر سید کے بوڑھے کو یہی فکر دامن گیر تھی اور اُسے اِس کا حل ’’ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی‘‘ میں ملا جس نے کہا، ’’میں تمام انسانوں کی روح ہوں۔‘‘ ابدیت کا حصول اجتماعی زندگی کے ذریعے ممکن تھا جس کی طرف بڑھتی ہوئی قوم ابھی عشق کی وادی سے گزر رہی تھی جہاں آگ کے الاؤ روشن تھے۔ یہ آگ دل میں سمیٹ کر قوم کے مفاد کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔ اگر یورپین اسٹاف کو رکھنا قومی مفاد میں ہو تو رکھنا چاہیے کیونکہ سودیشی نظریات قومی وجود سے زیادہ اہم نہ تھے۔ اس پیغام کو نظم کرتے ہوئے عروض کے وہی تجربات کیے تھے جو اس سے پہلے ’پیغامِ راز‘ اورایک فارسی غزل میں ہو چکے تھے۔ممکن ہے نظم کو ڈاک سے بھیجنے کی بجائے عبدالقادر کے حوالے کیا ہو جو اُنہی دنوں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وطن واپس جارہے تھے۔ ۱۹ ۲۱ شیخ عبدالقادر روانگی سے پہلے آخری بار کیمبرج آئے تو ایک دوست نے چائے کی دعوت کی۔ سب لوگ دریائے کیم کے کنارے سیر کے لیے گئے۔ ایک خاتون کے پاس کیمرہ تھا مگر عین اُس وقت جب سب لوگ کیمرے کے سامنے کھڑے ہوئے تو سورج بادلوں میں چھپ گیا۔ عبدالقادر کہتے ہیں کہ اقبال نے فوراً فارسی میں شعر موزوں کیا جس کا مطلب تھا کہ وہ چاند سے چہرے والی ندی کے کنارے ہماری تصویر اتار رہی ہے اور ہم انتظار میں ہیں کہ سورج نکل آئے: ماہ روئے بر لبِ جُوئے می کشد تصویرِ ما منتظر باشیم ما تا آفتاب آید بروں ’’یہ مجھے اب یاد نہیں کہ آفتاب پھر نکلا اور وہ خاتون تصویر کھینچ سکی یا نہیں،‘‘ عبدالقادر کا بیان ہے۔۲۰ ۲۲ ۷ مئی کو کلیہ ٔ اخلاقیات کے خصوصی بورڈ کی میٹنگ ہوئی۔ ترتیب وہی ۷ مارچ کی میٹنگ والی تھی۔ اقبال کے مقالے پر سورلے اور نکلسن کی رپورٹیں پڑھ کر سنائی گئیں اور بورڈ نے رائے ظاہر کی کہ مقالہ دنیائے علم میں تازہ اضافے کی حیثیت سے امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ دو روز بعد اقبال نے مقالے کے داخلے کی فیس ادا کر دی۔۲۱ ۲۳ ۱۷ مئی کو کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے اقبال کو سند ِتحقیق جاری کی گئی۔کچھ دنوں میں بی اے کی ڈگری بھی ملنے والی تھی۔ اگلا مرحلہ میونک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنا تھا۔ اِس کے بعد لنکنز اِن سے بیرسٹری اور پھر وطن واپسی، گویا ابھی مزید ڈیڑھ سال یورپ میں قیام کرنا تھا۔ ۲۴ ۲۲ مئی کو پارلیمنٹ کے رکن جارج ہنری فشر کا انتقال ہوا۔ یہ ’’فادر آف دی ہاؤس آف کامنز‘‘ یعنی بابائے دارالعوام تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کے اُن رسمی اعزازات میں سے تھا جو انگریز قوم کی روایت پرستی کو زندہ رکھنے کے بہانے تھے۔ جو سب سے زیادہ مدت تک دارالعوام کا مستقل رکن رہا ہو مگر بادشاہ کی کابینہ میں نہ ہو اُسے یہ اعزاز ملتا۔ ہنری کیمبل بینرمین کی عمر اِکہتر برس کے قریب تھی، وہ مستحق ہوئے۔اعزاز کی اہمیت صرف اِتنی تھی کہ اسپیکر کے انتخاب کے وقت اُس کی خالی کرسی پر بٹھائے جائیں مگرپہلے کوئی وزیراعظم بابائے دارالعوام نہ ہوا تھا۔ ۲۵ شیخ عبدالقادر لاہور پہنچے تو ان کا شاندار استقبال ہوااور جلوس نکالا گیا۔مرزا جلال الدین کہتے ہیں: اُس زمانے میں یہ بات بڑی عجیب تھی۔ بڑے بڑے انگریز افسر بھی اس استقبال سے بہت متاثر ہوئے۔ اگلے دن گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پارٹی تھی۔ ہم نے شیخ عبدالقادر کو بھی ایک دعوت نامہ بھجوا دیا۔ وہاں چیف کورٹ کے چیف جج مسٹر کنگ نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کون آدمی تھا جس کا کل پرجوش استقبال ہوا؟ میں نے شیخ عبدالقادر کو لے جا کر ملوادیا اور اُن کی بڑی تعریف کی۔ چیف جج نے کہا، ’’شیخ صاحب ! آپ کا خوب استقبال ہوا۔‘‘۲۲ ۲۶ کیمبرج، یکم جون۱۹۰۷، عطیہ کی ڈائری: آج ندی کے کنارے درخت کے سائے میں بہت بڑی پکنک پارٹی جمع ہوئی۔ پروفیسر آرنلڈ نے زندگی اور موت کے مسائل پر بہت کچھ باتیں کہیں۔ آخر میں اقبال نے ایک بات کہی جس کے بعد بحث ختم ہو گئی۔ اُنہوں نے فرمایا، ’’زندگی موت کی شروعات ہے اور موت زندگی کی۔‘‘ یہ جملہ کہتے وقت ایک قسم کی طنزیہ مسکراہٹ اُن کے چہرے سے نمایاں تھی۔۲۳ ۲۷ مخزنکا جون کا شمارہ اِس طرح آیاکہ ص۵۸-۵۷ پراقبال کے منظوم پیغام ’طلبہ علی گڑھ کے نام‘ میں بتایا گیا تھا کہ انسان قوم کی روح سے وابستہ ہو کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتا ہے۔یہ وادیٔ عشق سے گزرنے والے پرندوں کا ترانہ معلوم ہوتی تھی۔ اس وادی سے متعلق عطار کے استعارے یہاں موجود تھے۔ طلبہ علی گڑھ کالج کے نام اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے غربت کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے مرغانِ زیرِ دام کے ہنگامے سن چکے ہو تم یہ بھی سنو کہ نالہ ٔ طائرِ بام اور ہے مستور مے درونِ جام پرتوِ مے برونِ جام اِس کا مقام اور ہے، اُس کا مقام اور ہے یوں تو پلانے آتے ہیں محفل کو ساقیانِ ہند لیکن اُنہیں خبر نہیں یہ تشنہ کام اور ہے جس بزم کی بساط ہو سرحدِ چیں سے مصر تک ساقی ہی اُس کا اور ہے مے اور جام اور ہے تمکیں جو ہے سکوں سے ہے آتی ہے کوہ سے صدا کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اور ہے اے بزمِ دورِ آخری! کس کی تلاش ہے تجھے؟ تو سبحۂ حجاز ہے تیرا امام اور ہے جذبِ عرب کے بل پہ ہے انجمِ قوم کا قیام یثرب کے آفتاب کا یعنی نظام اور ہے باقی ہے زندگی میں کیا ذوقِ نمو اگر نہ ہو حرکتِ آدمی ہے اور حرکتِ جام اور ہے شمعِ سحر یہ کہہ گئی ہے ساز زندگی کا سوز اس محفلِ نمود میں شرطِ دوام اور ہے فانوس کی طرح جیو آتش بہ پیرہن رہو اے جلنے والو! لذّتِ سوزِ تمام اور ہے عجلت کرو نہ میکشو بادہ ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی مخزن، جون ۱۹۰۷ء بعد میں کبھی ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: طلبہ علی گڑھ کے نام [نیا متن] اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم یہ بھی سنو کہ نالۂ طائر بام اور ہے آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکوں کہتا تھا مورِ ناتواں لطف خرام اور ہے جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے موت ہے عیش جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز غم کدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی مخزن میں آخری شعر صفحہ ۵۹ پر آیا تھا۔ بقیہ صفحے اور اگلے صفحے پر محمد علی کی نظم ’علی گڈھ کالج سے رخصت‘ تمہیدی نوٹ کے ساتھ موجود تھی: مسٹر محمد علی صاحب بی۔ اے (اکسفورڈ) کے نام سے اخباربیں دنیا بخوبی واقف ہے۔ انگریزی زباندانی میں اُن کی قابلیت مسلمہ ہے اور انکی تحریر و تقریر دونوں پرزور ہیں۔ مگر ہمیں یہ دیکھ کر مسرّت ہوئی کہ انگریزی میں اعلیٰ قابلیت حاصل کرنے کے باوجود انہیں اپنی زبان کی طرف بھی توجہ ہے۔ اُنہوں نے ایک اُردو نظم ہمیں بھیجی ہے جسے ہم خوشی سے چھاپتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ مضامینِ نثر کے ذریعے بھی اپنے خیالات سے ہمیں مستفید فرمائیں گے۔ صاحب موصوف جوہرؔ تخلص کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تمہیدی جملوں سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کلام زمانہ طالب علمی کی یادگار اور جذباتِ دلی کا اظہار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:- ’’’آجکل کے مشغلے شعر و سخن کی فرصت کب دیتے ہیں ؎ فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں ’’البتہ آٹھ برس ہوئے کبھی کبھی فکرِ شعر بھی ہو جاتی تھی۔ اس کے بدلے اب فکرِ دنیا ملی ہے۔ پرانے کاغذات میں سے چند شعر مل گئے ہیں جو علیگڈھ کالج چھوڑ کر ولایت جانے کے وقت بے اختیار دل سے نکل آئے تھے۔ جن باتوں کا اندیشہ ہی اندیشہ اُس وقت تھا وہ اب بمنزلہ تجربہ کے ہو گئی ہیں مگر جو دعا اُس وقت نکلی تھی وہ اب تک وردِ دل اور وردِ زبان ہے۔‘‘‘ (جوہرؔ) اٹھارہ اشعار کی نظم کے آخر میں تھا: سیکھی تھی محبت جو یاں آٹھ برس رہ کر جوہرؔ اُسے کس طرح پھر دل سے بھلائے گا جس حال میں ہم ہوں گے ایک حشر بپا ہو گا ایامِ گذشتہ کا کچھ دھیان جب آئے گا کالج کے لیے لیکن نکلے گی دعا دل سے ہر بار زباں پر یہ مطلع مگر آئے گا کیا بادۂ گلگوں سے مسرور کیا دل کو داتا رکھے آباداں ساقی تری محفل کو ۲۸ خیال کیا جاتا ہے کہ ۱۳ جون کو کیمبرج یونیورسٹی میں کانووکیشن ہوئی۔ اقبال پچھلے ماہ کی سترہ تاریخ کو ڈگری وصول کر چکے تھے۔۲۴ دوسرا حصہ ۲۹ اقبال لندن آگئے۔تحقیقی مقالے کو میونخ یونیورسٹی میں داخل کروانے سے پہلے کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے اس میں آرنلڈ کا مشورہ بھی شامل رہا ہو۔ تیسرے باب کے آخری حصے کو الگ باب بنایا، دوسرے باب کا وہ حصہ نکال دیا جس میں فارابی کے نظریات سے بحث تھی اور کسی ماہر مستشرق سے عربی اور فارسی الفاظ کا متبادل انگریزی املا اُس زمانے کے علمی رواج کے مطابق کروا لیا۔ بعض ابواب کے نام تبدیل کیے اور جہاں جہاں قلم بہک کر تاریخ نویسی یا انشاپردازی کے میدان میں ذرا دُور نکل گیا تھا اُسے کھینچ کر واپس فلسفے کی سرحد میں لے آئے۔ کچھ عرصہ قبل اپریل میں کسی سلیمن صاحب کی تحریر فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی اور اقبال کے موضوع سے مطابقت رکھتی تھی۔ اُس سے بھی واقفیت حاصل کی۔ اِس کے علاوہ معتزلہ کے بارے میں پروفیسر آرنلڈ اور پروفیسر براؤن سے غالباً طویل بحثیں ہوئیں جن کے نتیجے میں دونوں کی بعض تحریروں کے حوالے بھی مقالے میں شامل ہوئے۔۲۵ ۳۰ ’’۱۹ جون کو میں پروفیسر آرنلڈ کے یہاں کھانے پر مدعو تھی اور اقبال بھی وہاں موجود تھے،‘‘ عطیہ کہتی ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ نے جرمنی میں ایک نایاب عربی مخطوطے کی دریافت کا ذکر کیا جس کے بارے میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ کیا ہے، اور کہا، ’’اقبال! میں تمہیں وہاں بھیجنے کا خیال کر رہا ہوں کیونکہ تم ہی اس ذمہ داری کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخص ہو ۔‘‘ اقبال نے معذرت کے لہجے میں کہا، ’’میں اپنے استاد کے سامنے بالکل مبتدی ہوں۔‘‘ پروفیسر آرنلڈ نے جواب دیا، ’’مجھے پورا یقین ہے کہ شاگرد اپنے استاد سے آگے بڑھ جائے گا۔‘‘ اقبال نے قدرے خشک مزاجی سے کہا،’ ’اگر یہ آپ کی رائے ہے تو میں مانے لیتا ہوں اور جیسا آ ٓپ کہیںکرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ پروفیسر آرنلڈاُن کا مطلب سمجھ گئے اور کہا کہ اس بارے میں اقبال کو اُن پر نمایاں فوقیت حاصل ہے۔۲۶ ۳۱ اگلی شام اقبال عطیہ کے گھر آئے اور چند جرمن اور عربی کتابیں بھی ساتھ لائے۔ عطیہ نے ڈائری میں لکھا: میں دیکھتی ہوں کہ اقبال جرمن فلاسفروں کی کتابوں سے زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔ فارسی شعرا میں زیادہ تر حافظ کا کلام سناتے رہے۔ تین گھنٹے تک برابر بحث رہی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ’’ اِس طرح سنانے اور بحث کرنے سے میرے خیالات پختہ ہو جاتے ہیں۔‘ ‘۲۷ ۳۲ ۲۳ جون کو عطیہ فیضی کے یہاں پھر پارٹی تھی۔ پونے تین بجے سے مہمان آنا شروع ہوئے اور رات گئے تک محفل جمی رہی۔ ڈاکٹرمختار احمد انصاری جو انگلستان میں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سرجن ہوئے تھے، انہوں نے بھی گانا سنایا۔ حیرت کی بات تھی کہ اقبال جنہوں نے ہندوستان میں مشاعروں میں ترنم سے پڑھنے کی روایت شروع کی تھی لندن میں گانے سے گریز کر رہے تھے۔ ۳۳ تقریباً اُسی وقت جب لندن میں عطیہ کی پارٹی میں مہمانوں کی آمد شروع ہوئی تھی دوراُفتادہ ہندوستان میں اقبال کے بیٹے آفتاب کی آٹھویں سالگرہ کا سورج سیالکوٹ پر ڈھل رہا تھا۔ ۳۴ ’’ابا جان [شیخ عطا محمد] سے جسمانی سزا پانے میں [میرے منجھلے بھائی امتیاز] کے بعد دوسرا نمبر بھائی آفتاب کا تھا،‘‘ عطا محمد کے بڑے لڑکے اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’وہ لڑکپن میں بیحد شریر تھے اور اُن کی پٹائی زیادہ تر اُن کی شرارتوں کی وجہ سے ہوتی تھی جو بعض اوقات خطرناک قسم کی ہوتی تھیں۔ ایک دن ہمارے مکان کی بڑی ڈیوڑھی میں کچھ چھوٹی لڑکیاں گیند سے کھیل رہی تھیں۔ کونے میں ہماری گائے بندھی تھی۔ جس لڑکی کی پشت گائے کی طرف تھی بھائی آفتاب نے چپکے سے اُس کی چوٹی گائے کی دُم سے باندھ دی۔ گائے نے دُم جو ہلائی تو [اپنی] آزادی میں رکاوٹ کے احساس سے دولتیاں جھاڑنے لگی۔ اُس کے ساتھ دُم سے بندھی بیچاری لڑکی پٹخنیاں کھانے لگی۔ شکر ہے دو ایک پٹخنیوں کے بعد اُس کی چوٹی کا پراندہ جو اُون کا تھا اِس کھینچا تانی میں ٹُوٹ گیا اور لڑکی کی جان بچ گئی۔‘‘۲۸ ۳۵ لندن، ۲۷ جون ۱۹۰۷، عطیہ کی ڈائری: اقبال آئے اور مجھے اپنے مکان پر لے گئے جو ایک جرمن خاتون مس شولی کے زیر انتظام ہے۔ بہت عمدہ اور نئے نئے [کذا: نئی نئی ]قسم کے کھانے پکائے تھے۔ یہ بہت ہوشیار خاتون ہے۔ اقبال کا علمی مقالہ مکمل ہو چکا ہے۔ اُنہوں نے شروع سے اخیر تک اپنی تحقیقات کا خزانہ سنایا۔ میری رائے پوچھی تو میں نے چند باتیں کہیں جنہیں انہوں نے قلمبند کر لیا۔ اس کے بعد ہم امپیریل انسٹی ٹیوٹ کے سالانہ جلسہ میں گئے جہاں شہزادیاں بھی آئی تھیں۔ اقبال نے حسبِ عادت خوب فقرے کسے۔ جو سنتا ہنس پڑتا۔ الغرض جب واپس ہونے لگے تو کہا،’’مسرت بخش تضیع اوقات۔‘‘ سوسائٹی میں اقبال کے بارے میں یہ شہرہ ہے کہ وہ لندن میں سب سے تیز طبیعت رکھنے والے ہندوستانی ہیں۔۲۹ ۳۶ دو روز بعد عطیہ لیڈی ایلیٹس کی فیشن ایبل پارٹی میں پہنچیں تو حیرت ہوئی کہ وہاں اقبال بھی موجود تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اقبال سے مصروفِ گفتگو تھیں جب مس سروجنی داس جو سفر میں عطیہ کے ساتھ رہی تھیں اور جن سے عطیہ ناخوش تھیں، زیورات سے آراستہ اقبال کی طرف بڑھیں اور اُن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کہا، ’’میں صرف آپ سے ملنے یہاں آئی ہوں۔‘‘ عطیہ کے بیان کے مطابق اقبال نے برجستہ جواب دیا، ’’یہ صدمہ اس قدر فوری اور اچانک ہے کہ اگر میں زندہ اس کمرے سے زندہ باہر نکل سکا تو مجھے تعجب ہو گا۔ ‘‘۳۰ ۳۷ جب سے مسلم لیگ بنی تھی کانگریس کی طرف سے سر سید پر اعتراضات بڑھ گئے تھے: ۱ وطن کے غدار تھے ۲ دُوراندیش نہ تھے ۳ معمولی سمجھ بوجھ رکھتے تھے ۴ انگریزوں سے مرعوب ہو گئے تھے ۳۸ بڑے زور کا طوفان آیا تھا۔ مون سون کی آمد آمد تھی۔ سونا مشکل ہوا تو محمد علی (جوہرؔ) نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا، ’موجودہ بے چینی پر چند افکار‘ اور کئی مضمون ہو گئے: ٭ مسلمانوں کا رویہ ٭ کانگریس کے اعتدال پسند اور انتہا پسند ٭ اینگلو انڈین یعنی ہندوستان کی انگریز جماعتیں ٭ مشرق و مغرب کا فرق ٭ تعلیم کا کھیل ٭ سوراج ٭ کونسلوں کی بجائے کلب ٭ انگریزوں کی کم آمیزی ٭ غلط پالیسیاں ٭ مغلوں اور انگریزوں کا موازنہ ٭ حرفِ آخر! محمد علی نے انگریزی میں لکھا: اگر کبھی ایسا وقت آیا کہ ہندوستان اور برطانیہ کے مفادات ٹکرا کر ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہو گئے تو باغیوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے کافی جواز مل جائے گا۔ اِس لیے کہ تب بغاوت معیوب نہ رہے گی بلکہ آزادی کی جنگ ٹھہرے گی۔ باغیانہ خیالات رکھنا صرف انگریزوں کی نظر میں ہی قانون شکنی نہ تھی بلکہ خود ہندوستانیوں کی بڑی تعداد اِسے اخلاقی جرم سمجھتی تھی۔ اس لیے محمد علی کی بات ذرا عجیب تھی مگر جس طرح سرسید کا ’گزرا ہوا زمانہ‘ حقیقت بنا اُسی طرح محمد علی کی پیش گوئی بھی اُنہی کے ہاتھوں پوری ہونی تھی۔ آسمان سے سمندر برسا۔ محمد علی کے جوہر کھل گئے۔ایسی نثر انگلستان کے کسی زندہ ادیب کو بھی شاید نصیب نہ تھی۔۳۱ Thoughts on the Present Discontent by Muhammad Ali [Excerpt] Last Words We have seen that the present discontent is due partly, and inevitably, to the advance of Western education and enlightenment, aggravated by the blunders of the educationalists, and extended and amplified by the active support of the Congress Extremists, and the contributory negligence of the Moderates. But it is also partly due to the actual discourtesy of some Europeans, and the social exclusiveness of all. An additional impetus is also given by the lavish promises of the English and their tardy performance. These pledges were not given by Machiavellian politicians as the Extremists would have us believe, but were the outcome of those generous impulses which a free people are bound to feel from time to time. When our politicians complain of the casuistical interpretation put upon the Queen's Proclamation by pro-Consuls and Parliaments, they are apt to forget that the most gracious sentences were not the compositions of some pettifogging lawyer, but of our Sovereign Lady, Victoria, who was every inch a woman and a queen. In fact, hardly any Indian patriot has rendered India such valuable services as Englishmen of the type of Burke and Bright, Macaulay and Bentinck. But all cannot take the wings of angels. Because the average Englishman lacks the fluffy growth on his shoulder blades, is it any reason to credit him with the cloven foot? He is really and truly much more commonplace, being merely a man. It is true, however, that nobody in the wide world is half so sanctimonious as an Englishman. His insularity, added to his puritanic bent of mind, makes him an admirable hypocrite. What the French would cynically acknowledge and laugh over, and the Germans would boastfully proclaim from housetops, the English would disguise with the most praiseworthy pertinacity. It is this trait of their character which makes alien nations suspect them of conscious hypocrisy. They feel annoyed if other people take them at their word. "We rule India for India's benefit only," says the Anglo-Indian. Yet no philanthropist was ever so persevering in doing good to others against their will. Every civilian talks of exile, and yet I fancy there is not a little regret when the would-be Governor is denied by the examiners the privileges of martyrdom and life-long exile. Such pugnacious altruism and persistent philanthropy are liable to be misunderstood. A little more self-introspection and cynical frankness could sweep away much of the prevailing discontent. A writer in the Empire Review from Johannesburg has put the case with true Colonial directness. "It is not to-day nor to-morrow," says he, "but the day will come when the Indians can justly claim they can rule themselves, and then we must cast aside hypocrisy, and either acknowledge we do not govern India merely for India's benefit, or we must retire. Self-interest in trade is why we rule India, and not pure philanthropy. It remains to be seen which we stand by." If this were wholly true, and-what is more,-if the interests of India and England were to become contradictory and mutually exclusive, there would, then, be ample justification for seditionists to do their work. For sedition would then lose its stigma, and become a war of independence. The English would then have to say frankly: "Snatch, if you can, the club from the hand of Hercules," and deport all their disaffected subjects to another continent, or crush three hundred million malcontents. To hope to succeed by persuasion and reasoning would then be as futile as it would be treacherous. But if that time has not yet come,-and I refuse to believe that it has come,-then, let the elect on the European side curb the petty passions of European Extremists, and let the Indian Moderates silence the rabid Radicals in their own camp, or disown them as courageously as they pronounce anathemas on Fullers and Curzons. The slow but sure method, however, of crushing disaffection is by courting affection. And for that there is no other royal road than that trod by the Afghan and the Moghal. Believe me, there is no greater Little Englander than your Imperialist. His seclusion behind a purdah that neither morality demands nor religion sanctions, and living in the midst of the people, yet avoiding the touch of a sixth of the whole human race, is a folly that would be amusing, did it not lead to a tragic end. Cannot Imperial Rome-with all her failings, truly Imperial-teach the simple text of the Poet, "Homo sum, nihil humani a me alienum puto"? Could but a few men at the top ponder deeply over the rejoicings of an Empire Day in which but a small slice of this gigantic Empire participated, there would be food enough for thought, and hope enough for the Empire's permanence and prosperity. ۳۹ جولائی کے مخزن میں سجاد حیدر یلدرم کا ’سیلِ زمانہ‘ شائع ہوا: انسان کی حیثیت وقت کے سامنے بے بس تنکے سے زیادہ نہ تھی اور اُس کے پاس ابدیت کے حصول کا کوئی راستہ نہ تھا۔ یورپ کے انحطاط کے ادب کی عمدہ پیروی میں حیرت کی وہ کیفیات دیکھی جا سکتی تھیں جن میں پرندے نہ خوش ہوں نہ غمگیں، نہ جانتے ہوں کہ زندہ ہیں یا مردہ۔ تنہا پرندہ مغرب کی طرف جا نکلا تھا۔ سیلِ زمانہ یلدرم بہے جا، بہائے لیے جا۔ نہ تجھ میں سلامتی، نہ تیرے کنارے سلامتی۔ مٹے ہوؤں کے نشان مٹائے جا۔ تیراکوں کو ڈُبا، غواصوں کو نہ اُبھار، یہی تیرا کام ہے۔ تجھ میں جو خوش نما ہرے بھرے جزیرے نظر آتے ہیں، جو پھولوں سے مالامال ہیں،جن میں خوبصورت پرندے چہچہا رہے ہیں، کیا یہی لذائذِ حیات ہیں؟ وہ حسین سحرکار عورتیں، جو ہاتھ میں ستار لیے دلربا گانے گا رہی ہیں اور جادُوبھری نظریں ڈال ڈال کر مجھے اپنی طرف بلا رہی ہیں، کیا یہی جوانی کی اُمنگیں ہیں؟آہ! مجھے اس جزیرے کو تو دیکھنے دے، ان دیویوں سے، ان پریوں سے تو ملنے دے، ان کے گانے سے اپنے دل کو راحت تو پہنچانے دے، مگر تو کس کی سنتا ہے! تو نے کسی اور تِنکے کی سنی ہے جو میری سنے گا۔ اچھا لے، تجھے بھی قسم ہے، بہائے لیے جا بھگائے لیے جا، ذرا نہ ٹھہر۔ مگر یہ تو بتا دے، تو مجھے کہاں سے لا رہا ہے، کب سے لا رہا ہے، کیوں لا رہا ہے، کب تک بہائے گا؟ یہ کیا، کیا اور تیزی سے بہنا، بھنور میں پڑنا، طوفان کا اُٹھنا، موجوں کا تھپیڑے مارنا، میرے سوالوں کا جواب ہے؟تجھے میرے سوالوں سے غصہ آ گیا؟میں نے بے ادبی کی!اچھا، اچھا، جواب نہ دے، بہے جا، بہائے جا۔ میری رُوح متجسس، مدید نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتی ہے۔ نینوا، بابل، قدیم ہند، قدیم مصر کے ٹکڑے تجھ میں نظر آتے ہیں۔ واعظ کہتا ہے: ’’باطل، باطل، سب باطل ہے۔‘‘ ’’سکندر، ہینیبال، نوشیرواں، دارا‘‘ تیری موجوں سے کبھی کبھی ان آوازوں سے ملتی جلتی آوازیں آتی ہیں۔ کیا شہرتِ رفتگاں یہی ہے؟فلاسفر کہتا ہے:’’دھوکا، دھوکا، سب دھوکا ہے، شہرت دھوکا ہے، نام و نمود دھوکا ہے، خود زندگی دھوکا ہے۔‘‘ لیکن نہیں، میں نہ مللِ سابقہ کو باطل، نہ شہرتِ رفتگاں کو دھوکا سمجھتا ہوں۔ اُن کی شہرت ہمت بڑھاتی ہے، لیکن یہ خیال کر کے کہ کیا ہوں میںاورکیا ہے میری ہست و بود، دل بیٹھ جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ لاتعداد خس و خاشاک کی طرح، جو مجھ سے پہلے آئے اور بعد میں آئیں گے، بہے جاؤں۔ پس اے سیل ِ زمانہ! بہے جا، بہائے لیے جا، اور اُس بحر ِ ناپیداکنار میںاُس عمانِ عظیم میں، اس اوقیانوسِ ابد میں، اب یا جب تیرا دل چاہے گرا دے۔ ۴۰ عطیہ کا بیان ہے کہ اقبال نے اپنے جرمن امتحان کے لیے دُنیا کی تاریخ لکھی تھی جو ۴ جولائی کو مکمل ہوئی اور اُنہوں نے عطیہ کو سنائی۔ اِس تحریر کا اور کہیں تذکرہ نہیں ملتا ۔ معلوم ہوتا ہے عطیہ کی یاداشت نے اُنہیں دھوکہ دیا۔ اُس روز اقبال نے کوئی مسودہ پڑھ کر سنایاتو فلسفہ ٔ عجم والے مقالے ہی کا کوئی حصہ رہا ہو گا۔ عطیہ نے بعض تاریخی واقعات کے بارے میں خیالات پیش کیے تو اقبال نے کہا، ’’ہر شخص اپنے مخصوص زاویۂ نگاہ سے واقعاتِ عالم پر نگاہ ڈالتا ہے اور میں بھی [ایک] مخصوص روشنی میں دنیا کی تاریخ کو دیکھتا ہوں۔‘‘ ۴۱ کاسابلانکا مراکش کی خوبصورت بندرگاہ تھی۔ فرانسیسیوں نے اپنی ضرورت کے لیے ریلوے لائن قبرستان میں سے گزارنا چاہی تو ہنگامہ ہو گیا۔ کچھ یورپین مارے گئے۔ فرانس نے قبضہ کر لیا۔ ۴۲ شیخ عبدالقادر وطن واپسی کے بعد لاہور میں وکالت کرنے کی بجائے دہلی چلے آئے تھے اور اس کے ساتھ ہی مخزنبھی اب دہلی سے نکلنے لگا تھا۔ وہاں ادارت کا کچھ کام ایک نئے آدمی نے اپنے ذمے لے لیا۔ یہ اُردو کے ادیب راشد الخیری تھے جن کی عمر انتالیس برس تھی۔ شیخ عبدالقادر سے کافی روابط ہو گئے۔ ۴۳ ۱۳ سے ۱۵ جولائی کے لیے اقبال نے تجویز کیا کہ عطیہ روزانہ شام ۵ سے ۷ بجے تک ان کے مکان پر فلسفے کے مطالعہ کے لیے آئیں۔ ’’دُوسروں سے بحث کرتے ہوئے ایک نئی دنیا آپ کے سامنے آ جائے گی،‘‘ اقبال کہتے تھے۔ ’’درحقیقت اِس طرح سکھانے سے میں خود سیکھتا ہوں۔‘‘ اِن مباحث میں ایک اور صاحب بھی شریک ہوتے تھے جو جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر آئے تھے۔ اقبال گرمجوشی سے جرمن علوم و فنون کی تعریف کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر علم کے کسی شعبے میں استعداد بڑھانی ہو تو جرمنی کو اپنی منزل سمجھنا چاہیے اور وہ چاہتے تھے کہ عطیہ بھی جرمنی چلیں یابعد میں آ جائیں۔۳۲ ۴۴ پروفیسر آرنلڈ کچھ مہینوں کے لیے مصر جا رہے تھے۔لندن یونیورسٹی میں اپنی جگہ اقبال کو نامزد کیا۔ طے پایا کہ اقبال نومبر کے آغاز تک جرمنی سے واپس آجائیں تاکہ آرنلڈ کی جگہ لیکچر دے سکیں۔ یوں اُن کے پاس پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی میں قیام کرنے کو صرف چند ماہ تھے۔ آرنلڈ جرمن پروفیسروں سے خط کتابت کر رہے تھے تاکہ اقبال کو اِسی مختصر عرصے میں ڈگری مل جائے۔ ۴۵ لندن ، ۱۶ جولائی ۱۹۰۷، عطیہ کی ڈائری: آج اقبال نے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پولیٹکل اکانومیکا نسخہ مجھے دیا۔ کتنے مہربان ہیں!اور وہ علمی مقالہ بھی مجھے بخشا جس کے لکھنے پر انہیں بی اے کی ڈگری عطا ہوئی۔ عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ اقبال بہت ہی فاضل اور تیز فہم اسکالر ہیں۔ اِس مقالے کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو رہا ہے۔۳۳ یہ اقبال اورعطیہ کی علمی نشستوں کا اختتام تھا۔ایک دو روز میں اقبال کو جرمنی روانہ ہونا تھا۔ ۴۶ اگر دوسری شادی کا فیصلہ کر چکے تھے تب بھی امکان کم تھا کہ عطیہ کو شریکِ زندگی بنانے کے بارے میں سوچا ہو۔ عطیہ کے مزاج کی آزادی اقبال کی طبیعت سے میل نہ کھاتی تھی۔اُس زمانے کی ایک نظم میں کہا کہ کیا دُنیا میں کوئی ہے بھی جس کے ساتھ وہ باقی تمام زندگی گزارنے پرتیار ہو سکیں؟ جلوۂ حُسن جلوۂ حسن کہ ہر تارِ نفس کا مضراب پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب یعنی جو آگ تاثر کو لگا دیتا ہے اور دِل کو شرر آباد بنا دیتا ہے اَبدی بنتا ہے یہ عالمِ فانی جس سے ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بگریباں ہونا منظرِ عالمِ حاضر سے گریزاں ہونا دلِ سفلی کو ملی عرش مقامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے دورۂ عصر کی ہستی کو مٹاتا ہے خیال ہر گھڑی ایک نیا دہر بناتا ہے خیال آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟ خاتمِ دہر میں یارب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟۳۴ بعد میں کبھی اس نظم میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی : جلوۂ حُسن [نیا متن] جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے ایک افسانۂ رنگیں ہے جوانی جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں ۴۷ دل سے نکلنے والی بات اثر رکھتی ہے۔ قدرت نے اِس شکایت کا ازالہ یوں کیا کہ جرمنی میںاقبال کی ملاقات ایما سے کروادی۔ باب ۶ نامعلوم دُنیا جولائی ۱۹۰۷ء سے جولائی ۱۹۰۸ء تک ۱ Wenn im Unendlichen dasselbe Sich wiederholend ewig fliesst. Das tausendfdltige Gewolbe Sich krdftig ineinander schliesst; Str'dmt Lebenslust aus alien Dingen, Dem kleinsten wie dem grossfen Stem, Und alles Drdngen, alles Kingen Ist ewige Kuh in Gott dem Herm. — Goethe. اپنی ہی ذات کے بے پایاں تکرار میں، کیونکہ وہی سدا رواں دواں ہے۔ کتنی محرابیں ہیں جو بڑھ بڑھ اور مل مل کر اتنے بڑے قالب کو سہارا دیتی ہیں۔ ہر شے سے زندگی کی محبت پھوٹ رہی ہے بلند ترین ستارہ ہو، یا حقیر ترین ذرہ، یہ ساری کش مکش اور ساری جدوجہد ابدی سکون ہے، ذاتِ خداوندی میں۔۱ جرمنی میں دستوری شہنشاہیت تھی مگر سیاست کا بنیادی اصول جرمنی پر ناز کرنا تھا۔ جرمن شہنشاہیت، جرمن فوج اور کسی حد تک زمیندار طبقے کے قدامت پسند مقاصد کو تاریخ کی آگ نے آنچ دے کر قوم کا خمیر تیارکیا تھا۔ تیس چالیس برس پہلے مردِ آہن بسمارک (Otto von Bismarck)نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اکٹھا کر کے طاقتور ریاست بنائی۔ قیصر ولیم شہنشاہ بنا۔ اُس کا پوتا قیصر ولیم ثانی کے نام سے اب شہنشاہ تھا۔ آنجہانی انگریز ملکہ وکٹوریہ کا نواسا تھا۔ جرمنی کی قومی زندگی کا ترجمان وہ نغمہ تھا جسے پچھلی صدی کے شاعر ہوفمین (August Heinrich Hoffmann)نے لکھا اور جس کا پہلا مصرعہ اُن دنوں قوم پرستوں کی زبان پر تھا،’جرمنی، جرمنی سب سے پہلے‘: Deutschland, Deutschland über Alles۲ ۲ ایملی ایما ویگے ناست (Emily Emma Wegenast)خوبصورت اور باوقار تھیں۔ گہری نیلی آنکھیں، سیاہ بال، پانچ فٹ سات انچ قداورغیرمعمولی ذہانت ! اُس زمانے میں بھی جبکہ عورتوں نے ابھی یونیورسٹی جانا شروع نہیں کیا تھا ایما جرمن زبان اور ادب پر خاصا عبور رکھتی تھیں۔ وہ ۲۸ اگست ۱۹۷۹ء کو جرمنی کے قصبے ہائیل برون (Heilbronn)میں پیدا ہوئی تھیں۔ جولائی ۱۹۰۷ء میں ان کی عمر اٹھائیس برس ہونے والی تھی۔ والدہ سوفی (Sophie) سات برس پہلے وفات پا چکی تھیں۔ اب اُن کی ہم نام ایما کی بڑی بہن ان کی یاد دلاتی تھیں۔ والد اڈولف (Adolf) کی عمر تریسٹھ برس تھی اور اب خاندان کی سربراہی ان کے سب سے بڑے لڑکے کارل (Karl) کرتے تھے جو اٹلی میں آباد تھے۔ ان کا شکر کا کاروبار تھا۔ ان کے علاوہ ایما کے دو بڑے اور دو چھوٹے بھائی تھے۔ ایما اپنے گھر والوں سے دُور ہائیڈلبرگ (Heidelberg)میں رہتی تھیں۔ پینسیون شیرر (Pension Scherer) میں بعض دوسری خواتین کے ساتھ غیرملکی طلبہ کو جرمن زبان سکھاتی تھیں۔ عمارت دریائے نیکر (Neckar) کے کنارے ۵۸نیون ہائمر لینڈسٹراسے (58 Neuenheimer Landstrasse) پر واقع تھی۔ عمارت کے مالک پروفیسر ہنس شیرر (Professor Hans Scherer) تھے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ پینسیون شیرر میں جرمن زبان سکھانے کا مدرسہ کھول رکھا تھا۔ طلبہ کے رہنے کا بندوبست بھی تھا۔ ہندوستانی طلبہ شیرر منزل کہتے تھے۔۳ ۳ اقبال غالباً ۲۰ جولائی کے قریب اُس ملک پہنچے جہاں غالب کا ہم نوا دفن تھا۔ عطیہ فیضی کو خط لکھا۔۴ ۲۱ جولائی کومیونخ کی لڈوگ میکسی ملین یونورسٹی میںپی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے داخلے کی درخواست جمع کروائی۔فلسفے کو خاص مضمون، اور عربی اور انگریزی لسانیات کو ثانوی مضامین کے طور پر درج کیا۔ ریفرنس کے طور پر تین نام لکھے جن کے پاس آرنلڈ کی طرف سے کوئی خصوصی خط لے گئے ہوں گے: ٭ پروفیسر ڈاکٹر فرٹز ہومل (Professor Dr. Fritz Hommel) ٭ پروفیسر ڈاکٹر ہرٹلنگ(Professor Dr. Georg von Hertling) ٭ پروفیسر لپز(Professor Th. Lipps) اُسی روز یہ درخواست ایچ پال (H. Paul) کے دستخط کے ساتھ تینوں پروفیسروں کے ووٹ اور کلیے کے باقی پروفیسروں کی ممکنہ رائے کے لیے تیار کر دی گئی۔ ۵ ۴ اگلے روز گریجویشن فیس ۲۶۰ مارک جمع کروائی۔ شاید مقالے کی کاپی بھی جمع کروائی ہو۔ طے ہوا کہ تین ماہ بعدزبانی امتحان جرمن زبان میں ہوگا۶ چنانچہ کسی پروفیسر رین (Professor Renn) کی قابل اور خوبصورت لڑکی سے جرمن زبان کے کچھ سبق لیے۔۷ ۵ ممکن ہے کہ اقبال کچھ دن کے لیے برلن (Berlin) بھی گئے ہوں اور وہاں کی اسٹیٹ لائبریری میں کم سے کم تین عربی مخطوطوں کا جائزہ لیا ہو جو موضوع سے متعلق تھے۔۸ ۶ ۲۳ جولائی کو لندن میں ایک علمی مذاکرے میں اقبال کی نظمیں گائی گئیں ۔ کچھ طلبہ نے مخزن کے خطوط اور مضامین سنائے جن میں کہا گیا تھا کہ تمام شمالی ہندوستان کے گلی کوچوں میں اقبال کی نظمیں گائی جاتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہندوستانی قومیت کا وہ احساس پید اہو گیا ہے جو پہلے موجود نہیں تھا۔عطیہ کا بیان ہے: سارا ہال اقبال کی نظموں سے گونج اٹھا۔ ذرا جوش ٹھنڈا ہوا تو میں نے وہ خط نکالا جو اقبال نے مجھے جرمنی سے بھیجا تھا۔ یہ جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا اور جب وہ پڑھا جا چکا تو سب نے یہ کہہ کر اُس کی تعریف کی کہ وہ روانی کا بہترین نمونہ ہے۔۹ ۷ آرنلڈ نے عطیہ کو اپنے گھر مدعو کیا تھا جولندن کے علاقے وِمبلڈن (Wimbledon)میں تھا۔ ۲ اگست کو عطیہ وہاں گئیں۔ آرنلڈ کی چھوٹی سی بچی نینسی (Nancy) بھی موجود تھی اور ایک جرمن خاتون مس اسٹریٹن، جنہوں نے جرمنی کی بہت تعریف کی۔ آرنلڈ نے کہا کہ اقبال کی خواہش ہے کہ عطیہ جرمنی جائیں اور اُن کی رائے میں بھی یہ مناسب ہو گا۔ وہاںزیادہ تر اقبال کی ذہانت کا تذکرہ رہا اور آرنلڈ نے کہا، ’’اگرچہ وہ میرے شاگرد ہیں مگر میں خود بھی اُن سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُنہوں نے عطیہ سے اقبال کا وہ خط مانگ لیا جو انہوں نے جرمنی سے عطیہ کو لکھا تھا۔ آرنلڈ کی خواہش تھی کہ وہ اِسے اپنے نوادرات کے ساتھ رکھ سکیں۔ علم الاقتصاد اور مقالے کے مسودات، جو اقبال نے روانگی سے پہلے عطیہ کو دیے تھے، وہ بھی آرنلڈ کے پاس ہی رہ گئے۔۱۰ ۸ اقبال نے عطیہ کو ایک اور خط لکھا۔ اُن کتابوں کی فہرست بھیجی جو جرمنی میں عطیہ کے لیے جمع کی تھیں۔ اُن شہروںاور عجائب خانوںکے نام لکھے جو دِکھانا چاہتے تھے۔ تاکید کی کہ عطیہ ضرور ہائیڈلبرگ آئیں جہاں خود بھی جرمن زبان سیکھنے کے لیے قیام کر رہے تھے۔۱۱ ۹ ۶ اگست کواقبال کا خط عطیہ کو ملا۔ جواب میں لکھا کہ اپنے بھائی ڈاکٹر فیضی کے ساتھ ہائیڈلبرگ آ رہی ہیںاور ۱۹ تاریخ کو لندن سے روانہ ہوں گی۔۱۲ ۱۰ ہائیڈلبرگ میںاقبال شیرر منزل میں ٹھہرے۔ایما کے ساتھ پہلی ملاقات کا کوئی احوال محفوظ نہیں۔ یہ معلوم ہے کہ اُس زمانے میں کسی وقت دونوں نے گوئٹے کا شہرۂ آفاق جرمن ڈرامہ فاؤسٹ اکٹھے بیٹھ کر پڑھا۔ شیطان کے ساتھ ڈاکٹر فاسٹس کے معاہدے کا قصہ بہت لوگوں نے لکھا تھا مگر گوئٹے نے اُسے ایک نیا انداز دیا تھا۔ اُس کا فاؤسٹ علم کے بدلے شیطان کے ہاتھ اپنی رُوح بیچتے ہوئے کہتا، ’’اگر میں گزرتے ہوئے لمحے سے کہہ دوں کہ وہ ٹھہر جائے، وہ کس قدر حسین ہے، تو تُم مجھے اپنی زنجیر میں جکڑ لینا!‘‘ اقبال بعد میں گوئٹے کوانگریزی اور جرمن میں Geothe لکھتے تھے جبکہ درست Goethe ہے۔ ممکن ہے کسی وجہ سے یہ غلط املا شروع ہی سے اُن کے ہاتھ پر چڑھ گئے ہوں۔۱۳ ۱۱ فاؤسٹ کے علاوہ وہ جرمن زبان میںمشرقی ادب کی تحریک سے بھی واقف ہوئے۔۱۴ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب انگلستان میں ورڈزورتھ اور کولرج نے رومانوی تحریک کی بنیاد رکھی، جرمن شعرأ مشرقی ادب کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ گوئٹے نے تو جرمن میں غزلیں لکھ ڈالیںجن میں زلفِ گرہ گیر اور تیر ِ مژگاں جیسے استعارے موجود تھے ( اقبال کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہو گی کہ گوئٹے میں بھی حافظ کی رُوح حلول کرتی تھی)۔ گوئٹے نے فارسی سے متاثر اپنی جرمن منظومات کے مجموعے کو دیوانِ مغرب کا نام دیاتھا: West-östlicher Diwan ممکن ہے دیوانِ مغربایما کے ساتھ بیٹھ کر کھولا ہو اور عنوانات پر نظر پڑتے ہی طبیعت باغ باغ ہو ئی ہو:مغنی نامہ، ساقی نامہ، عشق نامہ، تیمورنامہ وغیرہ وغیرہ۔جیسے اُن کا اپنا مجموعۂ کلام ہو! ۱۲ وصال جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبیٔ قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے خود تڑپتا تھا، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں تجھ کو جب رنگیں نوا پاتا تھا شرماتا تھا میں میرے پہلو میں دلِ مضطر نہ تھا سیماب تھا ارتکابِ جرمِ الفت کے لیے بے تاب تھا نامرادی محفلِ گل میں مری مشہور تھی صبح میری آئینہ دارِ شبِ دیجور تھی از نفس در سینۂ خوں گشتہ نشتر داشتم زیرِ خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہلِ گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں عشق کی گرمی سے شعلے بن گئے چھالے مرے کھیلتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے غازۂ الفت سے یہ خاکِ سیہ آئینہ ہے اور آئینے میں عکسِ ہمدمِ دیرینہ ہے قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی دل کے لُٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی ضو سے اس خورشید کی، اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے یک نظر کردی و آدابِ فنا آموختی اے خنک روزے کہ خاشاکِ مرا واسوختی اِس نظم میں کبھی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ۱۵ ۱۳ وہ بلبل کون تھا جسے اقبال نے ’وصال‘ میں مخاطب کر کے کہا تھا کہ پھول مل گیا ہے؟ ممکن ہے بلبل سے مراد عطیہ رہی ہوں۔ تب وہ پھول جس کے ملنے سے تاثر کی پریشانی ختم ہوئی، ایما ہو سکتی تھیں۔ اقبال کے ایک جاننے والے نے بعد میں دو اِشارے دیے جو متضاد ہونے کی وجہ سے معانی خیز ہیں۔ نظم میں تغزل کے رنگ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ٭ ’شاعر نے ایک واردارتِ عاشقی کا بیان کیا ہے‘‘ ٭ ’’اقبال کے آیندہ کلام کے مطالعے سے واضح ہو سکتا ہے کہ وہ ’گل‘ قرآن حکیم کا پیغام ہے جس کی اشاعت وہ آخری دم تک کرتے رہے۔‘‘۱۶ تخلیقی تجربے میں مجازی اور حقیقی عشق کا امتزاج انہونی بات نہ تھی۔ ۱۴ حسن و عشق جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمینِ قمر نُورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر جیسے ہو جاتا ہے گم نُور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول جلوۂ طُور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم موجۂ نکہتِ گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیلِ محبت میں یونہیں دل میرا تو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں حسن کی برق ہے تُو، عشق کا حاصل ہوں میں تُو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری شامِ غربت ہوں اگر میں تو شفق تُو میری میرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے تیری تصویر سے پیدا میری حیرانی ہے حسن کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا ہے مرے باغِ سخن کے لیے تُو بادِ بہار میرے بے تاب تخیل کو دیا تُو نے قرار جب سے آباد ترا عشق ہوا سینے میں نئے جوہر ہوئے پیدا مرے آئینے میں حسن سے عشق کی فطرت کو ہے تحریکِ کمال تجھ سے سرسبز ہوئے میری اُمیدوں کے نہال قافلہ ہو گیا آسُودۂ منزل میرا اس نظم میں کبھی ترمیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ۱۷ ۱۵ ایک رات تاروں نے چاند سے کہاکہ وہ چمک چمک کر تھک گئے ہیں مگر آسمان پر وہی منظر ہیں اور راستہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ آخر کب یہ سفر ختم ہو گا؟ کہنے لگا چاند، ہم نشینو اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو! جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ کھا کھا کے طلب کا تازیانہ اِس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں انجام ہے اِس خرام کا حسن آغاز ہے عشق، انتہا حسن نظم: چاند اور تارے اِن اشعار میں کبھی ترمیم کی ضروت محسوس نہ ہوئی۔۱۸ ۱۶ گم شدہ دستانہ رکھا تھا میز پر ابھی ہم نے اُتار کر تُو نے نظر بچا کے ہماری اُڑا لیا آنکھوں میں ہے تری جو تبسم شریر سا مگر پھر نظم ادھوری چھوڑ دی۔ کبھی شائع نہ کروائی۔۱۹ ۱۷ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اور ایماشادی کرنا چاہتے تھے۔ ایما نے آخری فیصلہ گھروالوں کی مرضی پر چھوڑا جن سے بہت جلد بات کرنے والی تھیں۔۲۰ اقبال دوسری شادی سے پہلے ہندوستان واپس جا کر اپنے والد صاحب اور بڑے بھائی کو صورت حال سمجھاناچاہتے ہوں گے تاکہ صلح صفائی کے ساتھ کریم بی سے رشتہ منقطع ہو سکے۔ ۱۸ کیا شرارا چمک اُٹھا مری خاکستر میں سوز سے اپنے نفس آپ جلا جاتا ہے فکر کے مری جبیں پر ہوئے آثار نمود۔۔۔ اگلا مصرعہ موزوں نہیں ہو سکا مگر خیالات کا تسلسل جاری رہا۔ کچھ متانت سی ہوئی میری روش میں پیدا دل سے وہ نقش لڑکپن کا مٹا جاتا ہے لطف ملتا نہیں کچھ اگلے تماشاؤں میں اب کوئی اور جنوں دل کو ہوا جاتا ہے جس طرح نیند کی لذت میں کھلونا رنگیں طفلکِ خفتہ کے ہاتھوں سے گرا جاتا ہے آ گیا خوابِ محبت میں یونہی ہوش مجھے ہو گئے کھیل لڑکپن کے فراموش مجھے یہ اشعار کبھی شائع نہ کروائے۔ ۲۱ ۱۹ روایت ہے کہ جرمن خواتین کے بارے میں اقبال نے بعد میں کہا کہ اُن میں مشرقیت زیادہ ہوتی ہے: انگریز عورت میں وہ نسائیت اور بے ساختگی نہیں جو جرمن عورت میں ہے۔ جرمن عورت ایشائی عورت سے ملتی جلتی ہے۔ اِس میں محبت کی گرمی ہے ۔ انگریز عورت میں یہ گرمی نہیں۔ انگریز عورت گھریلو زندگی اور اس کی بندشوں کی اُس طرح شیدا نہیں جس طرح جرمن عورت ہے۔۲۲ ۲۰ محفل ِ قدرت میں ہر طرف محبت پھیلی نظر آتی تھی۔ صبح کا رنگین رخسار دیکھ کر کلی اپنا سنہری سینہ کھول دیتی ہے گویا صبح کے میخانے میں یہ سورج کے جام سے اپنے محبوب کے جلوے کی شراب پی رہی ہو۔ اگر کوئی ایسا ہی محبوب انسان کو میسر ہو جائے تو کیا ہو! میرے خورشید! کبھی تُو بھی اُٹھا اپنی نقاب بہرِ نظارہ تڑپتی ہے نگاہِ بے تاب تیرے جلوے کا نشیمن ہو مرے سینے میں عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں جانِ مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کر دُوں نظم: کلی اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔۲۳ ۲۱ گوئٹے اپنی محبوبہ کرسچیانہ سے شادی کیے بغیر اٹھارہ سال اُس کے ساتھ رہا۔ ویمر (Weimar)کے معاشرے میں شادی مذہبی فریضے کی بجائے سماجی معاہدہ ہی سمجھی جاتی مگر پھر بھی یہ معاہدہ اہم تھا۔ گوئٹے کا طرزِ زندگی سب کو الجھن میں مبتلا کرتا تھا ۔ معاشرے کی پروا کرناالبتہ گوئٹے کے مزاج کا حصہ نہ تھا۔ مگر پھر ۱۴ اکتوبر ۱۸۰۶ء کونپولین کے سپاہی جرمنوں کو شکست دے کر ویمر میں گھس آئے اور چند سپاہیوں نے گوئٹے کے مکان پر بھی حملہ کیا۔ عظیم شاعر سپاہیوں کے مقابلے میں بُودا نکلا اور قریب تھا کہ اُس کی پٹائی کر کے گھر کا تمام سامان لُوٹ لیا جاتا جب کرسچیانہ اپنی پرواہ نہ کرتے ہوئے سپاہیوں کے سامنے آگئی۔ اب گوئٹے کو گوارا نہ ہوا کہ جس عورت نے اُسے بچایا ہے وہ اُسے معاشرے میں بیوی کا درجہ نہ دلوائے۔ پانچ دن بعدشادی ہوئی تو دُلہا کی عمر ستاون برس اور دلہن کی اکتالیس برس تھی۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پانچ بچے پیدا کر چکے تھے۔ اِس شادی پراُتنے ہی اعتراض ہوئے جتنے اِس کے نہ ہونے پر ہو رہے تھے مگرچند ماہ بعد گوئٹے کا ایک دوست آکر اُس سے ملا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ساری رنگ رلیاں ختم ہو چکی تھیں۔ ۲۲ اقبال کی ایک رومانی نظم ’۔۔۔ کے نام‘ غالباً جرمنی ہی میں لکھی گئی۔ سورج کی جدائی میں صبح پیچ و تاب کھاتی ہے، شفق کی آنکھ سے شام کے تارے کے لیے آنسو بہ رہے ہیں، دن کے قیس کو رات کی لیلیٰ کی ہوس رہتی ہے اور صبح کا ستارہ ہمیشہ کی چمک کے لیے بے چین ہے۔ قطب نما ستارہ جو ہمیشہ اپنی جگہ پر رہتا ہے وہ ستاروں کے قافلے سے کہہ رہا تھا کہ وہ جنبش کے لطف کو ترس گیا ہے مگر طواف کرنے والوں کی محفل سے چاند کی آواز آئی کہ صبحِ ازل سے قیام ہی کے لیے تو سفر رہتا ہے: سوتوں کو ندیوں کا شوق، بحر کا ندیوں کو عشق موجۂ بحر کو تپش ماہِ تمام کے لیے حُسنِ ازل کہ پردۂ لالہ و گُل میں ہے نہاں کہتے ہیں بے قرار ہے جلواۂ عام کے لیے رازِ حیات پوچھ لے خضرِ خجستہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوششِ ناتمام سے اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ نظم کا عنوان بعد میں کبھی ’کوششِ ناتمام‘ ہوا۔ ۲۴ اُردو شاعری میں خضر بہت پسندیدہ کردار نہیںتھے ۔ جس شاعری میں عشق، آوارگی اور موت کی تمناہواُس میں ایسے کردار کی تعریف نہیں ہو سکتی تھی جس کا اس کے سوا کوئی اور مشغلہ ہی نہ ہو کہ وہ ہزاروں سال سے بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھارہا ہے۔ پہلے اقبال نے بھی خضر سے اجنبیت برتی تھی مگر اب چند خوبصورت لفظوں میں اِس کردار کو عاشقوں کا دوست بنا دیا۔ آگے چل کر جو اُن کا اہم کردار بننے والا تھا یہ اُن کی شاعری میں اُس کا پہلا اچھا ذکر تھا۔۲۵ ۲۳ ۱۹ اگست کو پیر کے دن عطیہ اپنے بھائی ڈاکٹر فیضی اور ہندوستانی طلبہ کے گروپ کے ساتھ لندن سے روانہ ہوئیں۔ دوسرے دن سہ پہر ۵ بجے ہائیڈلبرگ پہنچیں۔ اقبال، ویگے ناست اور سینے شل(Seneschal) استقبال کرنے والوں میں موجود تھے۔ راستے میں اقبال نے عطیہ سے کہا، ’’مس فیضی نے یورپ میں جو کام شروع کیا ہے وہ اب مکمل ہو جائے گا۔‘‘۲۶ شیرر منزل کے باغ میں ہندوستانی طلبہ کو دعوت دی گئی۔ عطیہ شیرر منزل کو یونیورسٹی کا ہاسٹل سمجھتی رہیں اور ویگے ناست کو اقبال کی پروفیسر خیال کیا۔کچھ عجب نہیں کہ یہ معلومات اقبال ہی نے فراہم کی ہوں۔ مذاق کرنے کی عادت تھی۔ عطیہ کا بیان ہے: جو کچھ وہاں کہا جاتا اقبال اُسے نہایت گہری توجہ اور انکساری کے ساتھ سنتے تھے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ وہ سننے میں اِس قدر محو ہو جایا کرتے تھے کہ جب سبق ختم ہو جاتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی خواب سے بیدار ہوئے ہیں۔ یہاں اُن کا طرزِ عمل لندن کے طرزِ عمل سے کس قدر مختلف تھا۔ معلوم ہوتا ہے جرمنی ان کی رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے اور وہ ان تمام درختوں سے جن کے پاس سے وہ گزرتے تھے اور اُس گھاس سے جس پر وہ چلتے تھے علم حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ کبھی کبھی جب اقبال کے جواب صحیح نہ ہوتے تو فرالائن سینے شل ایسی نرمی سے اُن کی اصلاح کر دیتیں کہ اقبال اسکول کے بچے کی طرح اپنی انگلیوں کے ناخن کاٹنے لگ جاتے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ انہوں نے وہ بات کیوں نہ کہی جو انہیں کہنی چاہیے تھی۔۔۔ میں تعجب کرنے لگتی تھی کہ جو کچھ میں نے لندن میں دیکھا وہ صحیح بھی تھا یا نہیں۔۲۷ ۲۴ اگلے دن سیر و تفریح کا آغاز ہوا۔ قہوہ خانہ، دریائے نیکر کے کنارے چہل قدمی اور ایک بلند چوٹی سے وادی کا نظارہ۔ ایما نے مغربی اوپیرا گایا جس میں اقبال نے اُن کا ساتھ دینا چاہا مگر مغربی موسیقی سے واقف نہ تھے۔ بے سُرے معلوم ہوئے۔ شاید اُنہی کی دلجوئی کے لیے ایما نے اُنہیں بتائے بغیر اُس رات عطیہ سے ایک ہندوستانی گیت یا اس کے چند بول سیکھ لیے۔ اگلی صبح گاڑی نکلنے کا وقت قریب آگیا تو خادمہ چلّاتی ہوئی عطیہ کے پاس آئی اور کہا کہ معلوم نہیںپروفیسر صاحب کو کیا ہو گیا ہے۔ عطیہ کا بیان ہے: دُور سے دیکھا کہ ایک بتّی جل رہی ہے اور اقبال ایک ہاتھ سر پر رکھے ہوئے بیٹھے ہیں، آنکھیں کھلی ہیں اور دو چار کتابیں میز پر پڑی ہیں۔ جب ذرازور سے اُنہیں پکارا تو بھی جواب ندارد۔۔۔ خیر، میں آہستہ آہستہ گئی، ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں جھنجھوڑا اور اقبال، اقبال کہہ کر پکارا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ ہوش میں آئے۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہاں ہیں، پھر کچھ یاد کر کے کہا ۔’ ’میں عالمِ بالا میں چلا گیا تھا!‘‘ میں نے اُردو میں ڈانٹا کہ آپ کے لیے ٹرین ٹھہر نہیں سکتی۔ خیر، خوب مسکراتے ہوئے باہر آئے اور ہم سب روانہ ہوکر کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد نائن ہائم (Neinheim)پہنچے۔۔۔ تین چار میل کی چڑھائی چڑھ کر قافلہ ایک ہوٹل میں تازہ دم ہوا تو عطیہ نے اقبال کو الگ لے جا کر پوچھا، ’’یہ کیا شعبدہ بازی تھی؟‘‘ عطیہ کہتی ہیں کہ اقبال نے جواب دیا، ’’میں رات کو کتابیں پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں میرا خیال میرے جسم سے الگ ہو گیا اور میں عالمِ بالا میں چلا گیا۔ وہاں بھی میری حالت پریشان تھی۔ پھر آپ نے مجھے جگا دیا۔‘‘ کھانے کی میز تک پہنچتے پہنچتے اقبال معمول کے مطابق ہنسی مذاق کرنے لگے تھے۔ کھانے کے بعد سب نے رنگ برنگے پوسٹ کارڈ اپنے جاننے والوں کو روانہ کیے۔ اقبال نے بھی تین کارڈ بھیجے۔ دوسری جگہوں کے علاوہ گرانڈ ڈیوک آف ہیس (Grand Duke of Hesse) کے دیہی مکان کی سیر بھی ہوئی۔ پہاڑوں پرسب نے پھول توڑ توڑ کر اس کے تاج بنائے اور ایما نے اچانک ہندی میں گانا شروع کر دیا: گجرا بیچن والی نادان یہ تیرا نخرا! پھر ان سب نے اپنے اپنے پھولوں کے تاج اقبال کے سر پر رکھتے ہوئے کہا: ’’ہم آپ کو معلوم اور نامعلوم دنیا کی بادشاہت کا تاج پہناتے ہیں!‘‘۲۸ ۲۵ تعجب ہے کہ عطیہ نے اقبال کو ویگے ناست کی بجائے سینے شل کی طرف متوجہ پایا۔ لاہور میں اقبال اپنے دوستوں سے مزاحاً کہا کرتے تھے کہ جس سے زیادہ محبت ہو اُس کی طرف سے غفلت برتنی چاہیے تاکہ عشق کا راز ظاہر نہ ہو۔ ٭ کیا وہ یہاں بھی اسی اصول پر کارفرما تھے یا عطیہ کواپنے معاملات سے آگاہ کر دیا تھا اور بعد میں عطیہ نے اپنی تحریروں میں اخلاقاً پردہ پوشی کی؟ ٭ اگرخود عطیہ بھی اقبال میں دلچسپی رکھتی تھیں، جیسا کہ بعض سوانح نگاروں نے سمجھا، تو پھراُن پر اقبال کی ایما میں دلچسپی کا کیا ردِ عمل ہوا ہو گا؟ ٭ کیا اقبال کی نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ اسی سوال کا جواب ہے؟اگرچہ یہ نظم دو سال بعد کہی گئی مگربانگِ درا ترتیب دیتے ہوئے اُنہوں نے اِسے یورپ میں کہی گئی نظموں کے درمیان رکھ دیا۔ کیا یہ اپنے دل و دماغ کی سرگزشت کے بارے میں کوئی اشارہ ہے؟ ۲۶ ۲۲اگست کی رات شایدنائن ہائم کے قریب ہوٹل ہی میں گزری۔اگلے روز وہ سب بجلی کی ٹرین میں سوار ہو کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے جسے کونگ اسٹال (Königstuhl)یعنی بادشاہ کی نشستگاہ کہا جاتا تھا۔ وہاں بیٹھ کر اقبال ہر ایک کی شان میں کچھ اشعار اردو میں کہنے لگے۔ جب جرمن اور دوسروں نے ہندوستانیوں کو ہنستے دیکھا تو اقبال نے کہا کہ وہ آسمانی زبان میں حکم دے رہے ہیں کہ ایک طلسماتی دائرہ بنا کر فرشتوں کا نغمہ سنایا جائے۔ چنانچہ سب نے مل کر کسی آپیرا کا ایک حصہ گایا اور بجایا۔ اس کے بعد تین میل دُور کوہ لوف گئے جو ایک زمانے میں کسی بادشاہ کے باغات کا حصہ تھا جنہیں بارہ دریوں سے سجایا گیا تھا۔ وہاں اقبال کی ظرافت پورے زوروں پر تھی۔ پونے تین بجے یہ قافلہ واپس ہائیڈل برگ روانہ ہوا اور سات بجے کے قریب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دوتین کی صفوں میں دوڑتا ہوا واپس پہنچا۔۲۹ ۲۷ اگلے روز آرام کرنے کے بعد اتوار ۲۵ اگست کو ٹرین میں سوار ہو کر ایک گھنٹہ بعد شمال کی سمت میں کسی جگہ پہنچے جہاں کسی بادشاہ نے اپنے ’باغِ فردوس‘ میں ہر ملک کے لیے عبادت گاہیں بنائی تھیں۔ چنانچہ یونانی دیوتاؤں کے مجسمے بھی تھے، اپالو کا مندر بھی تھا اور ایک مسجد بھی تھی۔ عطیہ کا بیان ہے کہ جب آبشار، تالاب اور پھل دار درختوں کی سیر کرنے کے بعد قافلہ مسجد میں پہنچا تو اقبال سے فرمایش کی گئی کہ دیواروں پر لکھی ہوئی عربی عبارتوں کا ترجمہ کر کے سنائیں۔یہ قرآنی آیتیں تھیں مگر اقبال نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ بیان کیا کہ ایک مسلمان حُوراِس شرط پر بادشاہ سے شادی کرنے پر رضامند ہوئی کہ بادشاہ مسلمان ہو کر ایک مسجد بنائے جہاں ان دونوں کا نکاح ہو، چنانچہ یہ مسجد وجود میں آئی۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے مگر کہتے بھی تو کیا کہتے۔ ہندوستانی ہنسے مگر اقبال نے کہا، ’’مجھے بہت سے اندرونی حالات معلوم ہو جاتے ہیں جو آپ کو معلوم نہیں ہو سکتے۔‘‘ اگلے روز کسی اور گاؤں کی چوٹی پر دیہاتی ناچ کا مشاہدہ کیا گیا۔ سال میں ایک دفعہ ہوتا تھا۔ایک سو لوگوں کا قافلہ ہائیڈلبرگ سے ٹرین میں روانہ ہوا۔ فرا ہیرن کے کہنے پر مضامین لکھے گئے اور تصویریں بنائی گئیں۔ اقبال اس شغل سے باز رہے۔ فرا ہیرن نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ اگر خود لکھتے تو پھر منصف کیسے بن سکتے تھے! بہرحال عطیہ فیضٰی کے مضمون کو سب سے زیادہ پسند کیا گیاجسے عطیہ نے مہمان نوازی پر محمول کیا ۔ اگلے روز صبح آٹھ بجے کی ٹرین سے سب میونخ روانہ ہوئے اور چھ گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے۔ اقبال کا کہنا تھا کہ میونخ ’’موسیقی اور شاعری کا مجسم تخیل ہے۔‘‘ ۳۰ عجیب بات ہے کہ عطیہ نے ایک بیان میں کسی پیشن پلے (passion play)کی تفصیل دی ہے مگر اُس کا ذکر ڈائری میں ہے نہ کتاب میں۔ اُس بیان کے مطابق میونخ کے قریب بویرین آلپس (Bovarian Alps) کے پہاڑوں میں سیکڑوں دیہاتی جمع ہو کر حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے کے واقعے کو موسیقی اور ڈرامے میں پیش کرتے تھے۔ عطیہ کے جرمنی جانے میں اِس ڈرامے کو دیکھنے کے شوق کا دخل بھی تھا۔ چنانچہ عطیہ کے ساتھ اقبال بھی وہاں پہنچے جسے بعد میں خود عطیہ نے دنیا کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پلیٹ فارم قرار دیا۔ اِس بیان کے مطابق میونخ میں قیام کے دوسرے روز اقبال پھر عطیہ کے ساتھ وہاں گئے مگر خاموش رہے۔ آخر میں پوچھا کہ گاؤں والوں کو یہ ساری مصیبت اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ انہیں گاؤں والوں کی کہانی سنائی گئی (عطیہ نے یہ کہانی نہیں لکھی مگر لگتا ہے کہ کسی مشکل سے نکلنے کی خوشی میں گاؤں والوں نے منّت مانی تھی)۔ عطیہ کا بیان ہے کہ اقبال نے سن کر ذرا تلخی سے کہا، ’’مذہب ہمیشہ بدترین خونریزی کا سرچشمہ رہا ہے۔ یہ محض منافقت اور تنگ نظری ہے۔ صلیب پر چڑھائے جانے والے کی مدد کو خدا کبھی نہیں آیا مگر Dare Devil ضرور آتا ہے!‘‘۳۱ عطیہ کی ڈائری اور کتاب کے مطابق میونخ میںقیام دو دن رہا جس کی تفصیلات کچھ اور ہیں یعنی ۲۷ اگست کو میونخ پہنچنے کے بعد یہ سب ایک ہوٹل میں کھانا کھا کر جلدی سے آگے بڑھے۔ شاہی باغات میں پہنچے جہاں پہنچ کر اقبال نے کتابیں نکالیں اور کہا، ’’اسپنوزا تو ختم ہوا، اب آپ کو لیبنیز کا نقطہ ٔ نظر سمجھایا جائے گا۔میں ہرسال تین مہینے آپ کے پاس آ کر رہوں گا اور نفسیات، تاریخ، اخلاقیات، شاعری او رمابعد الطبیعات کے بارے میں جرمنوں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ سب پڑھاؤں گا۔۔۔‘‘ دو ڈھائی گھنٹے تک یہ سب باغ میں فلسفیانہ سبق پڑھتے رہے حتیٰ کہ شام ہو گئی۔ اگلے روز باغات، عجائب خانے اور تصویروں کی گیلریاں دیکھی گئیں۔ غالباً لڈوگ ثانی کی گیلری آف بیوٹیز میں کسی تصویر ’’جزیرۂ مسرت‘‘ کے سامنے کھڑے ہو کر اقبال نے کہا، ’’شہر میونک ہی جزیرۂ مسرت ہے جو خوبصورت تصور میں ڈوبا ہوا ہے۔‘‘۳۲ عطیہ کہتی ہیں کہ بی بی مریم کی تصاویر کی نمایش تھی۔ ان میں سے ایک تصویر کی سب نے تعریف کی تو اقبال بول اٹھے، ’’بیشک مائکل اینجلو کی میڈونا آف دی ٹریز یہاں سب سے بہتر تخلیق ہے۔‘‘ سننے والے ہنس پڑے کیونکہ یہ تصویر مائکل اینجلو نہیں بلکہ کسی اور مصور کی بنائی ہوئی تھی۔ اقبال نے سبکی محسوس کی اور عطیہ نے پلٹ کر آہستہ سے کہا، ’’آپ کو فلسفہ خوب آتا ہو گا مگر ابھی آپ کو مصوری کے لیے نگاہ اور موسیقی کے لیے کانوں کی ضرورت ہے۔‘‘ ’’اقبال اتنے تیز ضرور تھے کہ احساسِ کمتری کی لہر محسوس کر لیتے،‘‘ عطیہ کہتی ہیں۔ ’’اُن کی خودپسندی اجازت نہ دیتی تھی کہ موقع محل سے بے جوڑ معلوم ہوں۔ چنانچہ وہ ایک انکسارپسند طالب علم بن گئے، کھلے ذہن اور خاموش زبان کے ساتھ گیلریوں میں گھومے اور خاصے مشاق ہو گئے۔‘‘۳۳ عطیہ نے لکھا ہے کہ شام کو پروفیسر رین کے مکان پر گئے جن کی حسین اور قابل بیٹی پہلے بھی اقبال کو جرمن سکھا چکی تھی۔ اُس نے اقبال کی زبان میں غلطیاں نکالنا شروع کیں تو عطیہ کو بہت مزہ آیا۔ آخر اُس نے کہا، اقبال نے تین مہینے میں جتنی جرمن سیکھی ہے اتنی کوئی نہیں سیکھ سکتا تو اقبال نے جواب دیا، اگر یہ تیز اور میٹھی چھری ان کی استانی نہ ہوتی تو وہ کچھ نہ سیکھ سکتے۔جرمن لڑکی نے پیانو پر کوئی دھن بھی سنائی۔ ۳۴ غالباً اسی موقع کے بارے میں عطیہ کا بیان ہے کہ اقبال ویسی ہی غلطی کر بیٹھے جیسی آرٹ گیلری میں سرزد ہوئی تھی۔ کسی اور موسیقار کی دھن تھی مگر جوش و خروش سے تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’برابنز (Brabbins) سب سے بہتر موسیقار ہے۔‘‘۳۵ عطیہ کا بیان ہے کہ اگلے دن اقبال نے مہمانوں کو لائبریری میں عربی مخطوطے دکھاکر کہا، ’’مجھے یہاں عربی کا علم حاصل ہوا ہے۔‘‘ پھر سب کو ریلوے اسٹیشن لائے جہاں سے وہ واپس ہائیڈلبرگ پہنچے۔وہاں باقی استقبال کرنے والے تو ہندوستانی وضع میں گُندھے ہوئے پھولوں کے ہار لائے تھے مگر سینے شل عطیہ کے لیے گلاب لائی تھیں ۔ اقبال نے کہا کہ گلاب کا پھول گلاب ہی دیتا ہے۔ اگلے روز وہ سب اقبال کو ساتھ لے جانے ان کے کمرے میں پہنچے۔ دیکھا کہ کتابوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ایما نے ان سے کہا، ’’آج کشتی کی ریس مقرر ہے، چلنا ہوگا!‘‘ آخر سب مل کر اُنہیں گھسیٹ کر لے گئے مگر ریس میں اقبال کی کشتی سب سے آخر میں پہنچی۔ کشتی میں بیٹھ کر کتاب پڑھتے رہے تھے۔ ۳۶ سنیچر ۳۱اگست اقبال کی زندگی کے خوشگوار ترین دنوں میں سے رہا ہوگا۔ عطیہ کا بیان ہے کہ تقریباً ۸۰ لوگوں کا قافلہ جس میں ایما بھی شامل تھیںٹرین میں بیٹھ کرپرانے قلعے(Schloss Neckarbischofsheim) پہنچا۔ بہت بلندی پر واقع تھا. راستے بھر مختلف زاویوں سے دریائے نیکر کے پیچ و خم کا مشاہدہ کرتے آئے تھے۔عطیہ کہتی ہیں کہ اقبال نے منزل پر پھل پھول کے درخت دیکھے تو طنزیہ کہا، ’’ہم سیب کھانے کے لیے پُل صراط سے گزر کر جنت میں داخل ہوئے ہیں۔‘‘ درختوں سے پھل پھول توڑتے ہوئے قافلہ پہاڑ کے دامن کی طرف روانہ ہوا۔ درخت اتنے زیادہ تھے کہ ان کے درمیان سے گزرتا ہوا راستہ ایک مخروطی سرنگ نظر آتا تھا۔ پہاڑ کے دامن میں ایک مشہور اوپن ائر ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد تجویز ہوئی کہ پھولوں کے تاج پہن کر رقص کیا جائے۔ سب سے پہلے ایما اُٹھیں اور اقبال کے ساتھ رقص کرنا شروع کر دیا۔اُنہیں دیکھ کر دُوسرے بھی رقص کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اقبال کے قدم بہت اوچھے پڑ رہے تھے۔ کئی لوگ ہنسے مگر ایما اُن کے ساتھ رقص کرتی رہیں۔ کچھ تصویریں بھی اکٹھی کھنچوائیں۔ ۳۷ ۲۸ اُسی روز دنیا کے بڑے شہروں میں سب سے زیادہ شمال پر واقع سینٹ پیٹرزبرگ (St. Petersberg) میں روسی وزیر ِ خارجہ اور انگریز سفیر معاہدے پر دستخط کر رہے تھے جس کے مطابق ایران کے شمالی حصے میں رُوس اور جنوبی حصے میں انگلستان اپنے اپنے رسوخ کو ترقی دے سکتے تھے۔ افغانستان کو برطانیہ کا طفیلی تسلیم کیا گیا تھا جس کے امیر سے روس براہ راست تعلقات نہ رکھ سکتا۔ تبت کو چین کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ ایران، افغانستان اور تبت میں سے کسی کو اطلاع دینے کی زحمت نہ کی گئی تھی۔ ۲۹ اگلے دو روز میڈم شیرر کی رہنمائی میں آئر باغ (Aire Garden) کی سیر ہوئی جہاں نیچرل ہسٹری میوزیم اور اسلحے کا عجائب خانہ تھا۔ ۳ ستمبر کو عطیہ اور کچھ جرمن خواتین ورزش کر رہی تھیں۔ عطیہ کہتی ہیں کہ ایما اُن کے گرد بازوؤں کا حلقہ کیے کھڑی تھیں۔ اقبال اچانک داخل ہوئے اور ٹکٹکی باندھ کر انہیں دیکھنے لگے۔ایما نے پوچھا کہ کیا دیکھ رہے ہیں تو جواب دیا، ’’میں اچانک سائنس دان بن گیا ہوں اور ستاروں کے جھرمٹ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔‘‘۳۸ رات کے کھانے پر کوئی سنہرے بالوں والی لڑکی دکھائی دی۔ کم سن تھی۔ گالوں پر رُواں تھا۔عطیہ کہتی ہیں کہ اقبال نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے کہا: اس کے عارض پر سنہری بال ہیں ہو طلائی استرا اس کے لیے عطیہ کو اِتنی ہنسی آئی کہ پیٹ میں بل پڑ گئے۔ اگلے روزعطیہ کو واپس جانا تھا۔ صبح چھ گھنٹے پھلوں کے باغ میں گزرے جہاں سب نے الگ الگ کھانا تیار کیا۔ اقبال نے بھی ہندوستانی کھانا تیار کیا تھا۔ آخر میں سب لوگ ایک صف میں کھڑے ہو گئے اور عطیہ کو سامنے کھڑا کر کے اقبال کی رہنمائی میں گیت سنایا جسے شاید انہیں میں سے طیب نامی کسی ہندوستانی نے لکھا تھا: ’’آخرکار ہندوستان کے نہایت درخشاں ہیرے کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ ہی گیا۔۔۔‘‘ ۳۹ ۳۰ عطیہ کے جانے کے بعد جرمنی میںاقبال کی نجی مصروفیات کا کوئی تفصیلی ریکارڈ موجود نہیں۔ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ستمبر کے شروع یا اکتوبر کے شروع میں جب اقبال میونک جانے والے تھے تو ایما اپنے خاندان والوں سے ملنے ہائیل برون چلی گئیں۔ ممکن ہے اقبال کے بارے میں بات کرنے گئی ہوں۔۴۰ ۳۱ نظم جس کی نمود دیکھی چشمِ ستارہ بیں نے خورشید میں، قمر میں، تاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں جس کی چمک ہے پیدا، جس کی مہک ہویدا شبنم کے موتیوں میں، پھولوں کے پیرہن میں صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر ہنگامہ جس کے دم سے کاشانۂ چمن میں ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اُس کا آنکھوں میں تیری دیکھا میں نے کمال اُس کا بعد میں کبھی نظم کا آخری مصرعہ بدل کر نظم کا عنوان ’سلیمیٰ‘ رکھ دیا: آنکھوں میں ہے سلیمیٰ تیری کمال اُس کا۴۱ ۳۲ مراکش کے سلطان عبدالعزیز نے ہمیشہ یورپ سے دوستی نبھائی تھی۔ کاسابلانکا پر قبضے کی فریاد کی تو فرانس نے خلعت اور قرضہ عطا کر دیا۔ بندرگاہ واپس نہ کی۔ مراکش میں عام بغاوت ہو گئی۔ ۳۳ اختر ِ صبح ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے اماں مجھی کو تہِ دامنِ فلک نہ ملی بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحر! غمِ فنا ہے تجھے؟ گنبدِ فلک سے اتر ٹپک بلندیِ گردُوں سے ہمرہِ شبنم مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور میں باغباں ہوں، محبت بہار ہے اس کی بنا، مثالِ ابد پائیدار ہے اس کی۴۲ اس نظم میں کبھی ترمیم نہ ہوئی۔ ۳۴ گوئٹے نے 'Wanderers Nachtlied'کے عنوان سے دو نظمیں لکھی تھیں جن میں ایک کا ترجمہ انگریزی میں کولرج یا کسی اور شاعر نے بھی کیا تھا: Over all the hilltops Is peace; In all treetops Thou feelest Hardly a breath; The little birds are silent; Wait but a while, soon Thou too shalt rest. چاندنی رات تھی اور اقبال دریائے نیکر کے کنارے پر تھے۔ خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے صدافروش خاموش کہسار کے سبزپوش خاموش جنبش بیہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں دشت و کوہ و دریا قُدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تُو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا بعد میں کبھی نظم میں ترمیم ہوئی: ۴۳ ایک شام ( دریائے نیکر ’ہائیڈل برگ ‘ کے کنارے پر ) [نیا متن: متروک متن میں کوئی عنوان نہیں] خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوافروش خاموش کہسار کے سبزپوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا تنہائی تنہائیِ شب میں ہے حزیں کیا انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا یہ رفعتِ آسمانِ خاموش خوابیدہ زمیں، جہانِ خاموش یہ چاند، یہ دشت و در، یہ کہسار فطرت ہے تمام نسترن زار موتی خوش رنگ، پیارے پیارے یعنی ترے آنسوؤں کے تارے کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل! قدرت تری ہم نفس ہے اے دل! اس نظم میں کبھی ترمیم نہ ہوئی۔۴۴ ۳۵ قوم کی وحدت کاثبوت تھا کہ اگر کسی ایک حصے میں کوئی ضرورت پیدا ہو تو دوسرا حصہ اُسے پورا کر دے۔۴۵ علی گڑھ تحریک نے جستجو کی تڑپ پیدا کر کے سفر کا آغاز کروایا مگربعض اُڑنے والے مغربی تہذیب کے جادو میں بھی گرفتار ہوئے۔ ان کے لیے الٰہ آباد سے طنزیہ آواز بلند ہوئی جس میں بڑے کام کی نصیحت تھی۔ اکبر الٰہ آبادی قدیم معاشرے کی سوچ کے نمایندہ تھے۔ دنیاوی زندگی محض دھوکہ تھی جس پر یقین کرنے سے بچنا چاہیے تھا۔ یہ تصوراُس زمانے کی غزلوں میں بھی تھا جب طنزیہ شاعری شروع نہ کی تھی: دُنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں اس منزلِ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں قومی موضوعات پر طنزیہ شاعری شروع کی تو قومی زندگی کے تمام تقاضے سامنے نہ رکھے مگر پیغام اپنی جگہ اہم تھا۔ ستمبر کے مخزن میں اُن کا قطعہ شائع ہوا ۔ بِنائے ملت بگڑ رہی ہے، لبوں پہ ہے جان، مر رہے ہیں مگر طلسمی اثر ہے ایسا کہ خوش ہیں، گویا اُبھر رہے ہیں اِدھر ہے قومِ ضعیف و مسکیں، اُدھر ہیں کچھ مرشدانِ خودبیں یہ اپنی قسمت کو رو رہے ہیں، وہ نام پر اپنے مر رہے ہیں قفس ہے کم ہمتی کا سیمیں، پڑے ہیں کچھ دانہ ہائے شیریں اِسی پہ مائل ہے طبعِ شاہیں، نہ بال ہیں اب نہ پر رہے ہیں اگرچہ یورپ بھی مبتلا ہے، وہاں بھی پھیلی یہی وبا ہے خیال مَیٹر کا بڑھ چلا ہے، خدا کا انکار کر رہے ہیں مگر وہاں کی بِنا ہے نیشن، رُکا ہے ملحد کا آپریشن نہیں ہے گم لفظ سالویشن، خدا سے اب بھی وہ ڈر رہے ہیں جنابِ اکبر سے کوئی کہہ دے کہ لوگ بیٹھے ہیں ہر طرح کے اس انجمن میں اور ایسی باتیں، یہ آپ کیا قہر کر رہے ہیں۴۶ اکبرؔ الٰہ آبادی ۳۶ سجاد حیدر یلدرم نے لیلیٰ مجنوں کی پیروڈی لکھی۔ ’قصہ لیلیٰ مجنوں‘ کے عنوان سے مخزن میں شائع ہونی تھی: قدرت نے، اُس ستم ظریف، مرحمت ناشناس قدرت نے جو ہم سب کو اپنا بازیچہ بنائے ہوئے ہے، بیچارے قیس کو پھر نجد میں لا بٹھایا تھا، مگر کس نجد میں؟اُس نجد میں نہیں جو قیس بھولے، سچے قیس کے زمانہ سے لے کر ۱۹۰۷ء تک تھا۔ اس نجد میں نہیں جس میں آج تک قیس کی روح شاداں و فرحاں پھرتی ہے کیونکہ وہ اب تک نجد میں نہیں، اپنے زمانے کے صحرا، اپنے زمانے کے ٹیلے، اپنے زمانے کے غزال، اپنے زمانے کی صبا، اپنے زمانے کا ناقہ، اپنے زمانے کا ساربان پاتی ہے بلکہ اس نجد میں جس میں اب ریل تھی، تار تھا، موٹرکار تھی، ٹراموے تھی، ترقیاں تھیں، مصیبتیں تھیں۔ ۳۷ میونک یونیورسٹی کے پروفیسر ہومل کو آرنلڈ کی طرف سے اقبال کے مقالے پر رائے موصول ہوئی۔ ۲ اکتوبر کو لکھی گئی تھی۔ غالباً ہومل صاحب نے خود طلب کی ہوگی۔آرنلڈ نے لکھا تھا کہ مسلم فلسفے میں ایرانی تخیل کی روایت کے تسلسل کو دریافت کرنے کی یہ پہلی کوشش ہے اور مصنف نے بہت سا ایسا مواد استعمال کیا ہے جو یورپ میں اب تک شائع نہیں ہوا تھا: White Hall, India Office, Oct. 2, 1907 I have read Prof. Muhammad Ikbal's dissertation "The Development of Metaphysics in Persia" with much interest. So far as I am aware, it is the first attempt that has been made to trace the continuous development of ancient Iranian speculations as they have survived in Muhammadan philosophy and so bring out the distinctively Persian character of many phases of Muslim thought. The writer has made use of much material hitherto unpublished and little known in Europe, and his dissertation is a valuable contribution to the history of Muhammedan philosophy. T. W. Arnold, Prof. of Arabic University of London۴۷ ۳۸ اُس مہینے اقبال میونخ گئے تاکہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر سکیں۔پروفیسر ہومل سے ملاقات کی۔۴۸ ۱۴ اکتوبر کو پروفیسر ہومل نے اقبال کے پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے حوالے سے اپنی رائے جرمن زبان میں تحریر کی۔ جرمنی میں چند ہی ایسے عالم موجود ہیں جن کا میدانِ تحقیق عربی و عجمی فلسفہ ہے۔ عربی شاعری اور اُس کے علاوہ (عربی) تاریخ اور جغرافیہ ہی وہ میدان ہیں جن پر ہمارے ماہرینِ عربیات زیادہ تر کام کر رہے ہیں اور دسترس رکھتے ہیں۔ چند ماہرینِ اسلامیات جو یہاں موجود ہیں اُن میں سے کسی نے بھی جہاں تک میں جانتا ہوں، اسلامی-فارسی فلسفے کو اپنی زندگی کا حاصل نہیں بنایا ہے۔ بڈاپسٹ میں پروفیسر اگناک گولڈزایہر یورپ کے چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں اس شعبے میں سند تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی جس قسم کا مقالہ ہمارے سامنے ہے، اُس پر رائے دینے کے مجاز صرف ایسے ہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، ایک اہل مبصر کے لیے بیک وقت فلسفی اور مستشرق ہونا ضروری ہو گا جیسا کہ سابق میں برسلو (Breslau) میں شمولڈرز (Schmölders) تھے یا اُس سے بھی پہلے ہمارے مشہور جوز میکس ملر (Jo. Max Müller)۔ چنانچہ میرا کام تو صرف یہی ہو سکتا تھا کہ یہ جانچوں کہ آیا مقالے میں مطلوبہ لسانیاتی بنیادیں استوار تھیں۔ خوش قسمتی سے میں اب اس سوال کا جواب اثبات میں دے سکتا ہوں۔ جیسا کہ انگریزی میں ملفوف سند سے ظاہر ہوتا ہے، اور ہندوستان اور کیمبرج سے معرفی رقعے بھی جس کی تائید کرتے ہیں، پروفیسر اِکبال [کذا: اقبال] عربی اور فارسی کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ عالم ہیں۔ میں اُن سے ذاتی تعارف اور اُن کے مقالے کو بغور جانچنے سے بھی اِس بات کا قائل ہوں۔ اُن کے اُستاد پروفیسر آرنلڈ جو لندن میں ہیں، پہلے ایک ہندوستانی یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے اور اَب لندن میں انڈیا آفس کے لائبریرین اور وہاں کی یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہیں، میں اُن کا ایک خط نقل کرنے کی جسارت کرتا ہوں جو اِس مقالے کے بارے میں ہے جس کی تیاری انہوں نے خود دیکھی اور حتمی صورت میں بھی اُن کی نظر سے گزرا: وہائٹ ہال، اِنڈیا آفس، اکتوبر۲، ۱۹۰۷ء میں نے پروفیسر اِکبال [کذا: اقبال] کا مقالہ ’’فارس میں مابعدالطبیعات کا ارتقا‘‘ خاصی دلچسپی کے ساتھ پڑھا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، یہ وہ پہلا مقالہ ہے جس میں ایرانِ قدیم کے فلسفیانہ خیالات کے مسلسل ارتقاکا اُن اسلامی مآخذ کی مدد سے تجزیہ کیا گیا ہے جو اب تک باقی ہیں۔ چنانچہ اس مقالے میں اسلامی فکر کے مختلف ادوار و جہات کے اس خاص انداز کی نشان دہی کی گئی ہے جو بالخصوص عجمی ہے۔ صاحب تحریر نے ایسے بہت سے مواد سے استفادہ کیا ہے جو پیش ازیں یا غیر مطبوعہ تھا، یا یورپ میں بہت نامعلوم تھا۔ چنانچہ میری رائے میں یہ مقالہ مسلم فلسفے کی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافے کے مترادف ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک میں فیصلہ کر سکتا ہوں (اِس میدان کا کچھ علم مجھے بھی ہے کہ اپنے زمانۂ طالب علمی مِیں اپنے مرحوم اُستاد اوٹو لوٹے [Otto Lotte] کے اسلامی ادب پر چوتھے لیکچر کو میں نے بڑے جوش کے ساتھ سُنا اور پڑھا تھا جس کا ایک تہائی حصہ خاص طور پر عقائد اور فلسفے سے متعلق تھا)، میں نیک نیتی کی بنیاد پر فیکلٹی سے پروفیسر اِکبال [کذا: اقبال] کے مقالے کو قبول کرنے کی سفارش کر سکتا ہوں۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۰۷ء [دستخط] فرا ہومل پسِ تحریر: میں زبانی امتحان کے بارے میںاپنے رفیقِ کار کوہن (Kuhn) کے ساتھ اتفاقِ رائے میں تجویز کرنا چاہوں گا کہ پورے مقالے کی نوعیت کی روشنی میں اُمیدوار کا تاریخِ فلسفہ میں بطور اصل مضمون نصف گھنٹہ امتحان لیا جائے اور نصف گھنٹہ نفسیات میں نہیں بلکہ مشرقی تاریخِ ادب میں (اور میرے خیال میں بہتر ہو گا کہ میرے رفیقِ کار کوہن یہ امتحان لیں)؛ زرتشتی اور ہندی مذاہب بہرحال اُس سے زیادہ علاقہ رکھتے ہیں بہ نسبت مشرقِ قریب کے جن کا میں خاص طور پر مطالعہ کر رہا ہوں۔۴۹ ۳۹ ۱۵ اکتوبر سے اقبال پنسیون تھرنر (Pension Thurner) میں قیام پذیر ہو گئے۔ میونخ یونیورسٹی کے بالکل پہلو میں واقع تھا۔ پتہ شلنگ اسٹراسے ۴۱ (Schelling Strasse 41) تھا۔ کوائف درج کرتے ہوئے اقبال کا نام Sheik, Igbal, Mühammad اور تاریخِ پیدایش ۱۰ جولائی ۱۸۷۶ء لکھی گئی۔ ۵۰ اقبال نے مزید جرمن سیکھنے کے لیے اخبار میں اشتہاربھی دیا۔ ۴۰ ہائیل برون سے ایما کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ ۱۶ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ جرمن زبان میں اُن کی پہلی تحریر ہے: خزاں کی دھیمی اور نرم ہوا بڑی خوش گوار ہے۔۔۔ مگر افسوس کہ ہر حسین چیز کی طرح یہ بھی بے دوام ہے۔‘‘۵۱ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] Pension Thurner Schelling Str. 41 München 16th Oct 1907 Mein Liebes Frl. Wegenast, Ich habe Ihre Karte bekommen. Es ist unglücklich dass die wenigheit meiner bekannschaft mit der sprache wie eine mauer zwischen Sie und mich steht. Wenn meine briefe kurz sind, es ist nicht weil Ich nichts zu schreiben habe, sondern fehlt mir den genauen ausdruck für meine gedanken. Auch wunsche Ich nicht mit meinem schlechtes Deutsch sie zu beleidigen. Aber diese hinderniss existiert nicht bei Ihnen; und Ich kann hoffen alles von Ihnen zu hören. Ich habe eine benachrichtigung in einer Zeitung gegeben um eine passende lehrerin zu finden. Es ist schade dass, während mein aufenthalt zu Heidelberg, Ich machte keine übung Deutsch zu schreiben. Diese Schrift ist die erste dass Ich in Deutsch geschrieben habe. Die laue, feuchte herbsluft ist schön. Das Wetter ist herrlisch; aber alles schön ist, leider, Kurzweilig. Bitte schreiben sie bald. Adieu. Ihre Freund S.M. Iqbal ۴۱ اُس روز شملہ میں نواب محسن الملک انتقال کر گئے۔ ۴۱ کوہسار کی رفعت سے اُترتی ہوئی ندی دھو دھو کے چٹانوں کو گزرتی ہوئی ندی اقبال نے نظم مکمل نہ کی یا بعد میں بھول گئے۔ کہیں شائع بھی نہ کروائی مگر دوسری منظومات میں یہ تصور بار بار واپس آتا رہا۔۵۲ ۴۲ مسلمان وقارالملک کو علیگڑھ کالج کا سیکرٹری بنانا چاہتے تھے۔ یوپی کے گورنر سر جان ہیوئٹ راضی ہوئے مگر کہا، ’’محمد علی اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر نہ کیا جائے۔‘‘ وقار الملک اِس بات کو گول کر گئے۔ اُن کی خاطر محمد علی (جوہرؔ) نے کچھ عرصہ خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اپنے مضامین کتابی صورت میں شائع کروا دیے۔ موجودہ بیچینی پر چند افکار(Thoughts on the Present Discontent)مقبول ہوئے۔ ۴۳ ایما کے گھر والے اُن کے ہندوستان جانے پر آمادہ نہ تھے۔ کم سے کم بڑے بھائی کارل کی مخالفت اِتنی شدید تھی کہ ایما کو ہار ماننی پڑی۔۵۳ اُنہوں نے اقبال کو ایک خط لکھا اور پھاڑ دیا۔پھر ایک اور خط لکھا جس میں پچھلے خط کے انجام کا ذکر کیا۔ ۲۳ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا، ’’آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرا خط پھاڑ ڈالیں۔‘‘ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] Pension Thurner Schelling str. 41 München 23rd Oct. 07. Mein liebes Frl. Wegenast, Es ist so gut von Ihnen zu schreiben. Aber zu kurtz. Ich werde nicht schreiben bis Sie schicken zu mir den Brief der Sie zurissen haben. Es is so grausam! Sie waren nicht so in Heidelberg. Vielleicht Heilbronn Klima hat Sie unfreundlich gemacht. Ich wünschte mehr zu schreiben; aber.., der Brief. Sie haben kein Recht meinem Brief zu reissen. Yours very sincerely, S.M. Iqbal München ۴۴ اقبال کے پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کی فائل اب تاریخِ مذاہبِ مشرقی کے استاد پروفیسر ای کوہن (Professor E. Kuhn) کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اس میں پروفیسر ہومل کے ووٹ کے بعد بقیہ دونوں نامزد کردہ پروفیسروں کے ووٹ بھی شامل تھے۔ پروفیسر ہرٹلنگ نے لکھا تھا: میں نے پروفیسر اقبال کے مقالے کا دلچسپی کے ساتھ معائنہ کیا ہے۔ یہ مقالہ ایک ایسے شخص کی تصنیف نظر آتا ہے جو بڑی وسیع تعلیم کا مالک ہے۔ اور بس اِن جملوں کے ساتھ جو کچھ کہ میں کہہ سکتا ہوں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ عربی اور فارسی لسانیات کے ساتھ میرا تعلق تو اسی حد تک رہا ہے جہاں تک انھوں نے مغربی فلسفے کومتاثر کیا ہے۔ اور وہاں بھی میرا مبلغِ علم صرف ازمنۂ وسطیٰ کے لاطینی تراجم تک محدود رہا ہے۔ اس مقالے کے مصنف کی پیش کش جو زیادہ تر غیر مطبوعہ اصلی مآخذ پر منحصر ہے، میرے سرمایۂ علم سے کہیں بیشتر ہے۔ اور اس سے نہ صرف ایک وسیع تر بلکہ ایک بسیار پہلو تصویر اُجاگر ہوتی ہے۔ اس مقالے میں ابو سینا کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اس پر بھی مندرجۂ بالا الفاظ صادق نظر آتے ہیں۔ لیکن میں اس مقالے کی سائنٹفک قدر و قیمت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، چونکہ میرے پاس اس کے بیانات کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اور نہ میں اپنے ان شکوک کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرسکتا ہوں جو بعض مقامات پر میرے ذہن میں اُٹھے ہیں، کہ آیا مصنف نے ان فلسفیوں کے خیالات درستی کے ساتھ پیش کیے ہیں یا نہیں جن کا اس نے اپنے مقالے میں جائزہ لیا ہے۔ بہرصورت، چونکہ ہمارے سامنے ایک ماہرِ خصوصی [پروفیسر طامس آرنلڈ] کی رپورٹ موجود ہے جو اُمیدوار کے حق میں جاتی ہے، اس لیے میں اپنے رفیقِ کار ہومل کی اس تجویز کی تائید کرتا ہوں کہ مصنفِ مقالہ کو پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔ اس زبانی امتحان سے اس بات کا پتا بھی چلے گا کہ یونانی فلسفیوں کے افکار کے ساتھ مصنف کو کس حد تک آگاہی ہے، کیوںکہ تھیسس کے پڑھنے سے اس بات کا حتمی علم نہیں ہوسکتا، اگرچہ یونانی فلسفے پر اس مقالے میں کافی بحث کی گئی ہے۔۔۔ زبانی امتحان کے بارے میں میرے رفیقِ کار پروفیسر ہومل نے جو طریقۂ کار تجویز کیا ہے وہ بالکل معقول معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ عام مروجہ دستور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور میرے خیال میں اس کے لیے فیکلٹی کو فیصلہ کرنا پڑے گا۔ پروفیسر لپس نے لکھا تھا: میں اس مقالے کے بارے میں اپنا کوئی ذاتی فیصلہ صادر کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ اپنے رفیقِ کار پروفیسر فون ہرٹلنگ کی موافقت میں میں۔َ۔ بھی اپنے ساتھی ہومل کی اس تجویز کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ اُمیدوار کو داخلے کی اجازت دی جائے۔ جہاں تک زبانی امتحان کا تعلق ہے تو پروفیسر ہومل [کذا: پروفیسر ہرٹلنگ؟] کی تجویز کی مطابقت میں خود میری بھی یہی رائے ہے کہ فیکلٹی کو ایک خاص فیصلہ اس بارے میں کرنا ہوگا کہ اُمیدوار کا اصل مضمون کیا قرار دیا جانا چاہیے۔ ۲۶ اکتوبر کو تاریخِ مذاہبِ مشرقی کے استاد پروفیسر کوہن نے اپنی رائے درج کی: میں اپنے رفیقِ تدریس پروفیسر ہومل کی اس تجویز کے ساتھ بلا پس و پیش اتفاق کرتا ہوں کہ جنابِ اقبال کو اپنے مقالے کی بنیاد پر زبانی امتحان دینے کی اجازت دی جائے۔ یہ مقالہ یقینا بڑی احتیاط کے ساتھ اور عالمانہ طور پر مرتب کیا گیا ہے اور بدیہی طور پر ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ کیوںکہ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مشرقی شخص جس نے یورپ میں تعلیم پائی ہے ان مسائل کو کس طور سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ جہاں تک زرتشتی اور مانوی وغیرہ مذاہب کے بیان کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن چونکہ مقالے کے ابتدائی متعلقہ ابواب خاصے مختصر ہیں اس لیے مجھے ان پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے مصنف اپنے مقالے کو ان علمی حوالہ جات کی روشنی میں جن کا پروفیسر ہومل نے اضافہ کیا ہے کسی حد تک مزید بہتر ضرور بنا سکتا ہے۔ چونکہ مصنفِ مقالہ دس نومبر تک انگلستان واپس پہنچنا چاہتا ہے اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ وہ اپنے اصل مضمون کے طور سے مشرقی (بالخصوص عربی) لسانیات کا انتخاب کرے، اور فلسفے کو اپنا فروعی یا ذیلی مضمون قرار دے۔ اور اس آخر الذکر مضمون کے ممتحن جناب فون ہرٹلنگ ہوں تو بہتر ہوگا۔ اس کے لیے فیکلٹی کے کسی مزید فیصلے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگلے روز پروفیسر کوہن نے پسِ تحریر ایک نوٹ کا اضافہ کیا: مجھے ابھی پتا چلا ہے کہ فیکلٹی کی ایک میٹنگ اگلے بدھ کو ہورہی ہے، تو یہ اور اچھا ہوا۔۵۴ ۴۵ ممکن ہے ایما اقبال کو پریشان نہ کرنا چاہتی ہوں۔ اب اقبال کی ضد سے مجبور ہو کر اپنے اگلے خط میں انہیں تفصیل سے آگاہ کیا ہوگا۔ جواب میں اقبال نے ۲۷ اکتوبر کوجو خط لکھا اس میں یہ جملہ بھی تھا: مجھ میں سوچنے اور صحیح زبان لکھنے کی سکت نہیں ہے۔۔۔ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] Pension Thurner Schelling Str. 41 I München 27th Oct. 07 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich danke Ihnen für den Brief. München gefällt mir sehr viel. Herr Reiner schrieb zu seiner Freundin hier, und Sie hat, für mich, eine Lehrerin besorgst. Obgleich gibt es keine gelegenheiten Deutsch zu sprechen in dem Pension, Ich spreche viel mit den swie Lehrerinen. Gestern gingen wir die Kunst Ausstellung zu besuchen. Es gibt so viele schöne Bilder vorstellt in der Ausstellung dass man sich in dem Traumland fühlt. Zwie stunden waren wir da, und meine Lehrerin, die die Kunst versteht, erklärte mir manche sachen welche Ich nicht zuvor wusste. Gestern hatte Ich einen Brief von Frau Professor. Sie hörte von Herrn Reiner dass Ich mit dem Pension nicht zufrieden bin. Ich habe ihr geschrieben dass, wenn man einmal im Pension Scherer gewöhnt hat, es nicht möglisch ist mit einem anderen Pension zufrieden zu werden. Heute kann Ich nicht ausgehen. Das Wetter ist nicht günstig. Bitte entschuldigen Sie mein schlechtes Deutsch und auch was Ich in meinem ersten Briefe geschrieben habe. Ich höffe dass sie ganz gesund sind. Ich habe nicht die Geduld zu denken and mein Deutsch richtig hier zu schreiben.Ihr Freund, S.M. Iqbal ۴۶ انسان قدرت کا عجیب یہ ستم ہے! انسان کو رازجُو بنایا راز اُس کی نگاہ سے چھپایا بیتاب ہے ذوق آگہی کا کھُلتا نہیں بھید زندگی کا حیرت آغاز و انتہا ہے آئینے کے گھر میں اور کیا ہے ہے گرمِ خرام موجِ دریا دریا سُوئے بحر جادہ پیما بادل کو ہوا اُڑا رہی ہے شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے تارے مستِ شرابِ تقدیر زندانِ فلک میں پا بہ زنجیر خورشید، وہ عابدِ سحر خیز لانے والا پیامِ ’’برخیز‘‘ مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر پیتا ہے میٔ شفق کا ساغر لذّت گیِر وجود ہر شے سرمستِ میٔ نمود ہر شے کوئی نہیں غم گسارِ انساں کیا تلخ ہے روزگارِ انساں!۵۵ ’انسان‘ اُن چند نظموں میں سے ہے جو اُس زمانے میں ایک مختلف ذہنی رَو کا سراغ دیتی ہیں۔ بے صبری، بے چینی اور مایوسی کی انتہا ’’حیرت‘‘ تھی جو منطق الطیر کی چھٹی وادی تھی۔ تاریخ میں اسے حضرت عیسیٰ ؑکے دَور سے منسوب کیا جا سکتا تھا اور مسیحی یورپ کے علوم و فنون اور تہذیب عموماً اِس مقام تک پہنچ کر رُک جاتے تھے۔ ۴۷ تلاشِ گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں نظم: فراق اِس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔۵۶ ۴۸ ۲۸ اکتوبر کو اقبال کی پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کی فائل پر کسی والمر صاحب (Vollmer) نے چاروں ووٹوں کے نیچے فیصلہ درج کیا: جو اَصحاب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اُمیدوار کو داخلے کی اجازت دی جائے اور فیکلٹی کی میٹنگ میں مسئلے کا رسمی فیصلہ کیا جائے، وہ نیچے دستخط کریں۔ اس کے بعد کسی وقت بارہ پروفیسروں نے اس کے نیچے دستخط کر کے تائید کر دی: Riezler, Pohlmann, Schick, Rahm [?], Muncker, Auring, Friedrich, Paul, Neigels [?], Wegmann, Striehl, Grauert. فیصلہ ہوا: اقبال صاحب کا مشرقی (عربی) زبان و ادب بطور اصل مضمون، فلسفہ اور انگریزی زبان و ادب بطور فروعی مضامین میں امتحان لیا جائے گا۔۵۷ ۴۹ جرمن یونیورسٹیوں میں دستور تھا کہ سند کے لیے پیش ہونے والا مقالہ چھپوا کر داخل کیا جائے۔ صرف ایک یا دو جلدیں کافی نہ سمجھی جاتیں بلکہ اکثر زیادہ تعداد میں طلب کی جاتی تھیں کہ کتب خانوں اور تحقیقی مراکز کو بھجوائی جائیں۔۵۸ اقبال نے بھی مقالہ طبع کروایا۔ انتساب ٹامس آرنلڈ کے نام تھا۔ The Development of Metaphysics in Persia Lebenslauf. ٰI was born on the 3rd of Dhu Qa'd 1294 A.H. (1876 A.D.) at Sialkot - Punjab (India). My education began with the study of Arabic and Persian. A few years after I joined one of the local schools and began my University career, passing the first Public examination of the Punjab University in 1891. In 1893 I passed the Matriculation and joined the Scotch Mission College Sialkot where I studied for two years, passing the Intermediate Examination of the Punjab University in 1895. In 1897 and 1899 respectively I passed my B.A. and M.A. from the Lahore Government College. During the course of my University career I had the good fortune to win several gold and silver medals and scholarships. After my M.A. I was appointed Mc Leod Arabic Reader in the Punjab University Oriental College where I lectured on History and Political Economy for about 3 years. I was then appointed Asst. Professor of Philosophy in the Lahore Government college. In 1905 I got leave of absence for three years in order to complete my studies in Europe where I am at present residing. S. M. Iqbal. * My Dear Mr. Arnold, This little book is the first-fruit of that literary and philosophical training which I have been receiving from you for the last ten years, and as an expression of gratitude I beg to dedicate it to your name. You have always judged me liberally; I hope you will judge these pages in the same spirit. Your affectionate pupil Iqbal * Contents Part I: Pre-Islamic Persian Philosophy Chapter I Persian Dualism 1. Zoroaster 2. Mani and Mazdak 3. Retrospect Part II: Greek Dualism Chapter II Neo-Platonic Aristotelians of Persia 1. Ibn Maskawaih 2. Avicenna Chapter III Islamic Rationalism 1. Metaphysics of Rationalism-Materialism 2. Contemporary Movements of Thought 3. Reaction against Rationalism - The Ash`arite Chapter IV Controversy between Realism and Idealism Chapter V Sufiism 1. The origin and Quranic justification of Sufism 2. Aspects of Sufi Metaphysics A. Reality as Self-conscious Will B. Reality as Beauty C. (1) Reality as Light (Return to Persian Dualism - Al-Ishraqi) (2) Reality as Thought - Al-Jili Chapter VI Later Persian Thought Conclusion * Introduction The most remarkable feature of the character of the Persian people is their love of Metaphysical speculation. Yet the inquirer who approaches the extant literature of Persia expecting to find any comprehensive systems of thought, like those of Kapila or Kant, will have to turn back disappointed, though deeply impressed by the wonderful intellectual subtlety displayed therein. It seems to me that the Persian mind is rather impatient of detail, and consequently destitute of that organising faculty which gradually works out a system of ideas, by interpreting the fundamental principles with reference to the ordinary facts of observation. The subtle Brahman sees the inner unity of things; so does the Persian, but while the former endeavours to discover it in all the aspects of human experience and illustrates its hidden presence in the concrete in various ways, the latter appears to be satisfied with a bare universality and does not attempt to verify the richness of its inner content. The butterfly imagination of the Persian flies half inebriated as it were, from flower to flower, and seems to be incapable of reviewing the garden as a whole. For this reason, his deepest thoughts and emotions find expression mostly in disconnected verses (Ghazal), which reveal all the subtlety of his artistic soul. The Hindu while admitting, like the Persian, the necessity of a higher source of knowledge, yet calmly moves from experience to experience, mercilessly dissecting them, and forcing them to yield their underlying universality. In fact the Persian is only half conscious of Metaphysics as a system of thought; his Brahman brother, on the other hand, is fully alive to the need of presenting his theory in the form of a thoroughly reasoned out system. And the result of this mental difference between the two nations is clear. In the one case we have only partially worked out systems of thought: in the other case, the awful sublimity of the searching Vedanta. The student of Islamic Mysticism who is anxious to see an all embracing exposition of the principle of Unity, must look up the heavy volumes of the Andalusian Ibn al Arabi, whose profound teaching stands in strange contrast with the dry-as-dust Islam of his countrymen. The results, however, of the intellectual activity of the different branches of the great Aryan family are strikingly similar. The outcome of all Idealistic speculation in India is Buddha, in Persia Bahdullah, and in the West Schopenhauer whose system, in Hegelian language, is the marriage of free oriental universality with occidental determinateness. But the history of Persian thought presents a phenomenon peculiar to itself. In Persia, due perhaps to Semitic influences, philosophical speculation has indissolubly associated itself with religion, and thinkers in new lines of thought have almost always been founders of new religious movements. After the Arab conquest, however, we see pure Philosophy severed from religion by the Neo-Platonic Aristotelians of Islam, but the severance was only a transient phenomenon. Greek philosophy, though an exotic plant in the soul of Persia, eventually became an integral part of Persian thought; and later thinkers, critics, as well as advocates of Greek wisdom, talked in the philosophical language of Aristotle and Plato, and were mosly influenced by religious pre-suppositions. It is necessary to bear this fact in mind in order to gain a thorough understanding of post Islamic Persian thought. The object of this investigation is, as will appear, to prepare a ground work for a future history of Persian Metaphysics. Original thought cannot be expected in a review, the object of which is purely historical; yet I venture to claim some consideration for the following two points: (a) I have endeavoured to trace the logical continuity of Persian thought, which I have tried to interpret in the language of modern Philosophy. This, as far as I know, has not yet been done. (b) I have discussed the subject of Sufism in a more scientific manner, and have attempted to bring out the intellectual conditions which necessitated such a phenomenon. In opposition, therefore, to the generally accepted view I have tried to maintain that Sufism is a necessary product of the play of various intellectual and moral forces which would necessarily awaken the slumbering soul to a higher ideal of life. Owing to my ignorance of Zend, my knowledge of Zoroaster is merely second hand. As regards the second part of my work, I have been able to look up the orginal Persian and Arabic manuscripts as well as many printed works connected with my investigation. I give below the name of Arabic and Persian manuscripts from which I have drawn most of the material utilized here. The method of transliteration adopted is the one recognised by the Royal Asiatic Society. 1. Tarikh al-Hukama, by Al-Baihaqi - Royal Library of Berlin. 2. Sharh-i-Anwriyya, (with the original text) by Muhammad Sharif of Herat. 3. Hikmat al-`Ain, by al-Katibi. 4. Commentary on Hikmat al-`Ain, by Muhammad ibn Mubarak al-Bukhari - India Office Library. 5. Commentary on Hikmat al-`Ain by Husaini. 6. Awarif al-Ma'arif, by Shahab al-Din. 7. Mishkat al-Anwar, by Al-Ghazali 8. Kash f al-Mahjub by `Ali Hajveri 9. Risalah-i Nafs, translated from Aristotle, by Afdal Kashi. 10 Risalah-i Mir Sayyid Sharif. 11.Khatima, by Sayyid Muhammad Gisudaraz. 12.Manazil al-sa'irin, by `Abdullah Isma`il of Herat. 13. Jawidan Nama, by Afdal Kati. 14.Tarikh al-Hukama, by Shahrzuri, British Museum Library. 15. Collected Works of Avicenna. 16.Risalah fi'l-Wujud, by Mir Jurjani 17.Jawidani Kabir Cambridge University Library. 18. Jami Jahan Numa. 19.Majmu'ai Farsi Risalah Nos: 1, 2, of Al-Nasafi, Trinity College Library. S. M. IQBAL. ۵۰ ۳۰ اکتوبر کو فیکلٹی کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا۔ اقبال کو مشرقی لسانیات (عربی) میں پی ایچ ڈی کے لیے زبانی امتحان کی اجازت دی جا سکتی تھی: جنابِ اقبال کے امتحان کا اصل یا بڑا مضمون مشرقی (عربی) لسانیات ہوگا اور فلسفہ اور لسانیات ان کے فروعی مضامین ہوں گے۔۵۹ اگلے روز اِقبال نے پروفیسر آرنلڈ کو پوسٹ کارڈ بھیجا کہ مقالہ منظور ہو چکا ہے، زبانی امتحان جلد ہو گا۔ ۱۰ نومبر سے پہلے واپس لندن پہنچ جائیں گے لہٰذا آرنلڈ تشویش نہ کریں:۶۰ The dissertation is approved. The oral exam will be held soon. I hope to reach London the 10th of Nov. So do not be anxious about the matter. Iqbal چاہتے تھے کہ واپسی کے سفر میں ہائیل برون سے ہو کر گزریں۔ ایما سے مل سکیں۔ مشکل نظر آ رہا تھا۔اب تو شاید زبانی امتحان دینے کے بعد نتیجہ نکلنے کا انتظار بھی نہ کر سکتے تھے۔ آرنلڈ کا خط ملا تو ۳ نومبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ۷ نومبر کی صبح لندن پہنچ جائیں گے۔ اُسی روز آرنلڈسے اُن کے دفتر میں ملاقات کریں گے:۶۱ Thanks for your letter. Reaching London on the morning of the 7th & hope to meet you in the office the same day. There is no reason to be anxious. I had decided to leave before I received news from the university. Iqbal ۵۱ ۴ نومبر کو پیر کا دن تھا۔شام پانچ بجے سینٹ کے میٹنگ روم میں اقبال کا زبانی امتحان ہوا۔ فیکلٹی کے قائم مقام ڈین ڈاکٹر ایچ بریمان (Dr. H. Breymann) تینوں مضامین کے ممتحن حضرات کے ساتھ موجود تھے: ٭ اصل مضمون مشرقی زبان و ادب (بالخصوص عربی): پروفیسر ہومل ٭ اضافی مضمون انگریزی زبان ا دب: پروفیسر شِک (Schick) ٭ اضافی مضمون فلسفہ: پروفیسر لپس زبانی امتحان کے بعد پروٹوکول (Protokol) یعنی نتیجۂ امتحان میں لکھا گیا کہ اقبال کو مشرقی زبان و ادب میں درجہ اول، انگریزی زبان و ادب میں درجہ دوم اور فلسفے میں درجہ سوم دیا گیا ہے۔مجموعی درجہ دوم تھا۔ اسے میگنا کم لاڈ (Magna cum Laude)یعنی ’’بڑی تحسین کے ساتھ‘‘ کہا جاتا تھا۔ زبانی امتحان شام پانچ بجے ہوا تھا۔ قائم مقام ڈین ڈاکٹر بریمان نے یونیورسٹی کے چانسلر کے نام اقبال کے لیے ڈگری کے اجرأ کا دفتری خط لکھا تو اُسی روز کی تاریخ ڈالی۔ شاید زبانی امتحان کے فوراً بعد لکھا گیا ہو: To The Office of the Chancellor of the Royal University Regarding a Doctoral Degree. Pursuant to Mr. S. M. Iqbal from Sialkot having proved by certificates and scientific education as well as the specified time of study at a university required for doctoral degree, and (having) submitted in accordance with regulations a thesis: Development of Metaphysics in Persia approved by the Philosophical Faculty Section I, finally, passed the Ph.D. examination with Mark II, so the undersigned Dean files the present application with the Chancellor, as the Pro-Chanceller of the University, to pass judgement on the permission regarding the doctoral graduation. [signed] Dr. H. Breymann At-Present [Acting] Dean of the Philosophical Faculty Section I پھر کسی وقت چانسلر اینڈرس (Endres) نے منظوری دیتے ہوئے دستخط کر دیے۔۶۲ ۵۲ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، اب اُن کا نیا لقب تھا۔ کوشش کی تھی کہ ہائیل برون کے راستے سفر کریں تاکہ ایما سے مل سکیں۔ نہ ہو سکا۔۶۳ وہ ایما سے ملے بغیر ہی جرمنی سے رخصت ہو گئے۔ دوسرا حصہ SUB AUSPICIIS GLORIOSISSIMIS AUGUSTISSIMI AC POTENTISSIMI DOMINI DOMINI OTTONIS BAVARIAE REGIS COMITIS PALATINI AD RHENUM BAVARIAE FRANCONIAE ET IN SUEVIA DUCIS CET. IN INCLTA UNIVERSITATE LUDOVICO-MAXIMILIANEA MONACENSI RECTORE MAGNIFICO PLURIMUM REVERENDO AC DOCTISSIMO ET ILLUSTRISSIMO VIRO MAXIMILIANO ENDRES OECONOMIAE PUBLICAE DOCTORE POLITICAE ET HISTORIAE SILVATICAE PROFESSORE PUBLIC ORDINARIO CET. PROMOTOR LEGITIME CONSTITUTUS EXPERIENTISSIMUS ET SPECTATISSIMUS VIR HERMANNUS WILHELMUS BREYMANN PHILOSOPHIAE DOCTOR PHILOLOGIAE ROMANICAE AC FRANCOGALLICAE PROFESSOR PUBLICUS ORDINARIUS ORDINIS MER. S. MICHAELIS CL.III EQUES LLD. CET. FACULTATIS PHILOSOPHICAE SECT. I P.T. DECANUS ET PROMOTOR LEGITIME CONSTITUTUS PRAECLARO ET PERDOCTO VIRO AC DOMINO SHEIKH MUHAMMAD IQBAL EX OPPIDO SIALKOT EXAMINIBUS RGIROSIS MAGNA CUM LAUDE SUPERATIS DISSETATIONE INAUGURALI SCRIPTA TYPISQUE MANDATA ِِ"THE DEVELOPMENT OF METAPHYSICS IN PERSIA" DOCTORIS PHILOSOPHIAE GRADUM CUM OMNIBUS PRIVILEGIIS ATQUE IMMUNITATIBUS EIDEM ADNEXIS DIE IV MENSIS NOVEMBRIS MDCCCCVII EX UNANIMI ORDINIS PHILOSOPHORUM SECT. I DECRETO CONTULIT. IN HUIUS REI TESTIMONIUM HOC PUBLICUM DIPLOMA SIGILLIS MAIORIBUS REGIAE LITERARUM UNIVERSITATIS PHILOSOPHICAE ADIECTIS FACULTATIS EISDEM DECANUS ATQUE RECTOR MAGNIFICUS UNIVERSITATIS IPSI SUBSCRIPSERUNT. LS LS ۵۴ ؒٓلاطینی زبان میں یہ عبارت اقبال کی پی ایچ ڈی کی ڈگری تھی۔ کونے پر نمبر شمار 8016 کاٹ کر 8015 لکھا گیا تھا۔ تاریخ ۴ نومبر تھی جس دن زبانی امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔ اگر سند کی تیاری میں کچھ دن لگے تو پھر لندن میں ڈاک کے ذریعے وصول کی ہو گی۔ پروگرام کے مطابق ۷ نومبر کی صبح لندن پہنچنا تھا۔ امکان ہے کہ پہنچے ہوں گے۔ ۵۵ آرنلڈ دو ماہ کے لیے مصر چلے گئے۔ اُن کی جگہ اقبال لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھانے لگے۔ ہفتے میں دو لیکچر ہوتے تھے۔ ۱۶ نومبر کو لندن سے ایما کے نام جرمن میں لکھا: مجھے آپ کے خطوط مل گئے ہیں۔ مگر ابھی تک ٹھکانہ نہیں ملا۔ جلد ہی لکھوں گا۔ بنام ایما دیگے ناست [جرمن میں] London 16th Nov. 1907 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich habe Ihre Briefe bekommen. Aber ich bin noch nicht angesiedelt. Werde schreiben später. Herzlichen Gruss Iqbal ۵۶ ۳۰ نومبر کو لاہور میں چیف کورٹ کے قریب میاں محمد شفیع کے مکان پر اجلاس ہوا۔پنجاب کے مختلف شہروں سے ۴۸ نمایندے شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں میاں شاہ دین ہمایوںؔ نے پنجاب مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ وہ خود اس کے صدر تھے۔ نواب محمد علی قزلباش جو اُن دنوں پنجاب کی ہر مسلمان تنظیم کے سرپرست ہوا کرتے تھے دو اور رہنماؤں کے ساتھ نائب صدر، میاں محمد شفیع جنرل سیکرٹری ، مولوی محبوب عالم اور شیخ عبدالعزیزجائنٹ سیکرٹری اور مرزا جلال الدین اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ فنانشل سیکرٹری شیخ گلاب دین تھے۔ مجلس ِ عاملہ میں بھی اقبال کے بہت سے دوست شامل تھے جن میں شیخ عبدالقادر، چودھری شہاب الدین، مولوی احمد دین، خواجہ کمال الدین اور مولوی انشأ اللہ خاںشامل تھے۔۶۴ میاں فضل حسین علیحدہ پنجاب مسلم لیگ بنا چکے تھے جس میں وہ خود، عبیداللہ وکیل، پیر تاج الدین بیرسٹراور میاں حسام الدین شامل تھے۔ اب پنجاب میں دو مسلم لیگیں تھیں جن کا تصادم لازمی تھا۔ ۵۷ ۲ دسمبر کو جرمن میں ایما کے نام لکھا: جو شخص آپ سے دوستی کر چکا ہو اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہِ کرم جلدلکھیے۔ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o Messrs Thomes Cook & Son Ludgate Circus London 2nd Dec: 07. Mein Lieoes Frl. Emma, Ich habe Ihre Brief bekommen. Es ist so traurig dass Ich meine Deutsch forgessan habe. Ich war sehr beschaftigt, und konnte nicht viel lernen. Darum lernen sie nicht English - es wird so Liecht fürmich Innen zu schreiben & meinem her: zu sagen. Ich dachte Dass Ich fahig werden wurde durch Heilbron zu reisen, aber es nicht moglich war. Es war absolut nötwending für mich in London zu sein am 5th Nov: Prof: Arnold ist nach Egypt gegangen und Ich bin ein Prof: von Arabisch ernant. Ich habe zwei vorlesungen in einen woche. Ich kann nicht viel sagen oder schreiben-Sie können bilden ein was Ich in meinem Geist habe. Mein grasser Wünsch ist noch einmal mit Innen zu screchen und sie zu sehen-aber ich weis nicht was zu tun. Für eine Man welcher hat Ihr Freundschaft gemacht, es ist nicht möglisch ehne Sie zu leben. Bitte vergeben Sie für was Ich geschreiben habe. Ich denke Sie naben selche ausdrucken nicht gern. Bitte schreiben Sie bald und alles. Es ist nicht gut etwas zu verderben von einem person welcher verdirbt nicht von Ihnen. Yours sincerely, S.M. Iqbal ۵۸ ایما نے لکھا کہ بڑے طوفانوں سے گزرنے کے بعد دل کا سکون حاصل ہوا تھا۔ اقبال سمجھے کہ وہ خط کتابت جاری رکھنا نہیں چاہتیں۔کچھ بیمار تھے۔ زیادہ ہو گئے۔۶۵ ۵۹ لاہور میں علی بخش اسلامیہ کالج چھوڑ کر مشن کالج میں ملازم ہو چکا تھا۔ ایک روز مولوی میر حسن کے لڑکے سید تقی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ولایت سے شیخ صاحب (اقبال) نے پیغام بھیجا ہے کہ علی بخش کو تلاش کر کے کہا جائے کہ وہ نوکر ہو یا بیکار، اُن کا انتظار کرے۔ ’’میں نے کہا، میں اب ملازم ہوں،‘‘ علی بخش کا بیان ہے۔ ’’وہ (سید تقی) بولے کہ شیخ صاحب کا تاکیدی خط آیا ہے۔ جو وہ چاہتے ہیں، وہی کرو۔‘‘۶۶ ۶۰ علی بخش کے گھر چوری ہو گئی تھی۔ اس نے اقبال کو خط لکھوایااور شادی کے بارے میں بھی مشورہ مانگا۔ شاید اُسے امید تھی کہ اقبال واپس آنے والے ہوں گے اور مدد کر سکیں گے۔ بنام علی بخش لندن ۱۱ دسمبر ۱۹۰۷ء عزیز علی بخش کو معلوم ہو کہ خط تمہارا پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ میرے آنے میں ابھی چھ سات ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ امید ہے کہ اس وقت تک تم فارغ نہ رہو گے اور وہ کمی جو چوری سے ہو گئی ہے اُسے پورا کر لو گے۔ مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا، اگر میں وہاں ہوتا تو اس موقع پر ضرور تمہاری مدد کرتا۔ تم نے اپنی شادی کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا ہے۔ میرا تو خیال تھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے۔ بہرحال انسان کو شادی سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ بیوی اور بچوں کی پرورش کے واسطے اس کے پاس سامان ہے یا نہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اپنی محنت سے بیوی کو آسودہ رکھ سکو گے تو ضرور کر لو۔ شادی کرنا عین ثواب ہے اگر بیوی آسودہ رہ سکے۔ اگر کوئی شخص ایسا نہ کر سکتا ہو تو شادی کر نے سے نہ صرف اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے بلکہ ایک بے گناہ کو بھی ساتھ لے ڈوبتا ہے۔ باقی خیریت ہے۔ امید ہے تم سب خیریت سے ہو گے۔ محمد اقبال ۶۱ اُسی برس ضلع جہلم میں جلال پور شریف کے کسی پیر حیدر شاہ کا انتقال ہوا اور کسی نے فرمایش کر کے اقبال سے تاریخ وفات کا قطعہ لکھوایا جو انہوں نے خط کے ذریعے بھیجا ہو گا۔۶۷ ۶۲ جس طرح وحدت الوجود پر یقین رکھنے والے صوفی خدا سے لَو لگا کر فنا ہو جاتے اُسی طرح محمد علی (جوہرؔ) کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ قوم کے عشق میں فنا فی القوم ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ کا آئین بنانے کے لیے جو ساٹھ ارکان کی کمیٹی مقرر کی گئی تھی اُس کا جوہر بھی یہی تھے۔ آئین تیار ہوا تو لیگ کے تمام ارکان کو بھیجا گیا۔ منظور ہوا۔ عام خیال تھا کہ آئین خود محمد علی ہی نے لکھا۔ سالانہ جلسے میں منظور ہونے والا تھا۔ ۶۳ امریکی فلسفی اور جدید نفسیات کے بانی ولیم جیمز کے لیکچرز کا مجموعہ ’پریگماٹزم‘ (Pragmatism) شائع ہوا۔ یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ خیالات کی سچائی کا بہترین فیصلہ اُن پر عمل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے اس برس شائع ہونے والی اس کتاب کو اقبال نے کب پڑھا مگر دو برس بعد اُنہوں نے ’میلیورزم ‘ (meliorism) کی اصطلاح استعمال کی جسے اِس کتاب میں فروغ ملا تھا اگرچہ پہلے سے موجود تھی۔ اصطلاح کا مطلب یہ تھا کہ دنیا اچھی ہے نہ بری مگر مجموعی طور پر بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ جیمز نے میلیورزم کو رِجائیت (optimism) کے مروجہ معانی کے مقابلے میں پیش کیا تھا۔ عام طور پر رجائیت کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب اُمید کی کوئی کرن دکھائی دے تب اُمید رکھی جائے یا پھر دل کو تسلی دینے کے لیے بغیر کسی وجہ کے بھی اُمید رکھی جا سکتی تھی۔ جیمز کے نزدیک اُمید کی یہ قسمیں حسیاتی (sensual) تھیں۔ اُمید کی اخلاقی بنیاد پر مبنی نہ تھیں۔ وہ اخلاقی بنیاد صرف اِس بات پر ایمان کے ذریعے پیدا ہو سکتا تھا کہ خیر کسی نہ کسی صورت میں غالب آ کر رہے گا۔ اِس ایمان پر قائم اُمید کھوکھلی رجائیت نہ تھی۔ یہ اخلاقی رجائیت تھی جس کے لیے ’’میلیورزم‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی تھی۔ اِسلام کا تصور جو اقبال کے ذہن میں تھا یہ بات اُس سے قریب لگی۔۶۸ Pragmatism by William James [excerpt] But the highest good can be achieved only by our getting our proper life; and that can come about only by help of a moral energy born of the faith that in some way or other we shall succeed in getting it if we try pertinaciously enough. This world is good, we must say, since it is what we make it and we shall make it good. How can we exclude from the cognition of a truth a faith which is involved in the creation of the truth? M has its character indeterminate, susceptible of forming part of a thorough-going pessimism on the one hand, or of a meliorism, a moral (as distinguished from a sensual) optimism on the other. All depends on the character of the personal contribution x. Wherever the facts to be formulated contain such a contribution, we may logically, legitimately, and inexpugnably believe what we desire. The belief creates its verification. The thought becomes literally father to the fact, as the wish was father to the thought. ۶۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۶۹ Blunt, Wilfrid. Secret History of the English Occupation of Egypt. London, T. Fisher Bon, Gustave Le. The Evolution of Matter (Translated by F. Legge). London, The Walter Scott Publishing Forrest, J. Dorsey. The Development of Western Civilization. Chicago, University Francke, Kuno. A History of German Literature. New York, Henry Holt Gibbon, Edward. The History of the Decline and Fall of the Roman Empire (Volumes 1-7). Oxford, University Press. Green, Thomas Hill. Lectures on the Principles of Political Obligation. New York, Longmans Green Jalal Uddin Qazi. The Abbasids, Part 1. Moradabad, A.M. Zaman Bros. Publishers Kellogy, Vernon L. Darwinism Today. London, George Bell Loria, Archille. The Economic Foundations of Society. London, Swan Scott, Sir Walter. Waverley Or Its Sixty Years Since. London, Cassell Seignobos, Charles. History of Ancient Civilization. London, T. Fisher Seligman, Edwin, R. A. The Economic Interpretation of History. New York, Columbia University Press Whittaker, Thomas. The Liberal State: A Speculation. London, Watts ۶۵ بال گنگادھرتلک کے دماغ میں شیواجی کے خواب نے نیا جنم لیا تھا۔ اورنگزیب کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا سہرا انہی کے سر تھا۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے تشدد، قتل اور دہشت گردی کو بھی جائز سمجھتے تھے۔ گوکھلے ان سے اتفاق نہ کر سکے۔ سورت میں اجلاس ہوا تو ہندوستان کو ایک قوم تسلیم کرنے والی کانگریس دو حصوں میں بٹ گئی۔ ۶۷ کراچی میں سرکاری مہمان خانے کے پہلو میں ایم جیون جی کا وسیع باغ تھا۔ یہیں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اور نوزائیدہ مسلم لیگ کے جلسوں کے لیے کیمپ قائم کیا گیا۔ ہر صوبے کے نمایندوں کے لیے الگ قیام گاہ تھی۔ ہرقیام گاہ کے وسط میں ایک بڑا شامیانہ ڈرائنگ روم کا کام دیتا۔ کیمپ میں تارگھر، ڈاک گھروغیرہ کی سہولتیں بھی تھیں۔ریاست خیرپور کے وزیرشیخ صادق علی میزبان تھے۔ تیرہ سو کے قریب مہمان کراچی پہنچے جن میں سے کچھ رنگون سے بھی تھے۔ جگہ کم پڑی تو سرکاری مہمان خانہ کھلوایا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ اور آغاخانی جماعت خانے میں بھی کچھ مہمان ٹھہرائے گئے۔ میاں محمد شفیع اور بعض ساتھیوں نے ہوٹل میں قیام کیا۔ میاں فضل ِ حسین کی پنجاب لیگ مرکزی جماعت سے منظور نہ ہوئی تھی مگر ساتھیوں سمیت پہنچ گئے اور کیمبرج ہوٹل میں ٹھہرے۔ ۶۸ کانفرنس کے اجلاس کی صدارت مولانا حالیؔ کر رہے تھے۔ ’’انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن گورنمنٹ آف انڈیا نے بھی کانفرنس میں تقریر کی،‘‘ مرزا جلال الدین کہتے ہیں۔ ’’اس تقریر کے جواب میں میاں شاہ دین نے ۔۔۔ کہا کہ حکومت کو شکایت ہے کہ قابل مسلمان نہیں ملتے۔ کیوں نہیں ملتے؟ پنجاب میں مسلمان موجود ہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی قابل آدمی موجود ہیں۔ ‘‘تقریر زبردست تھی۔ بار بار تالیاں بجیں۔ مخالف پارٹی سے علی امام کی تقریر کو بھی داد ملی اور سمجھا گیا کہ انگریز ایجوکیشنل کمشنر نے دونوں کا اثر لیا ہے۔ نواب وقار الملک کو کالج کا سیکرٹری بنائے جانے کی تائید میں قرارداد بھی میاں شاہ دین نے پیش کی: یہ کانفرنس مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے ٹرسٹیوں کو مبارک باد دیتی ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی متفقہ رائے کا لحاظ کر کے نواب وقار الملک بہادر کو مدرسۃ العلوم کا آنریری سیکرٹری منتخب کیا ہے۔۔۔ اجتماعی رائے مسلمانوں کی زندگی کا عنوان بن گئی تھی۔محمد علی (جوہرؔ)نے یہ بات واضح کر دی۔ محمد علی نے تاریخ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ رہنما کی اصل طاقت اُس کی اپنی صلاحیتوں سے زیادہ اِس بات میں تھی کہ اجتماعی رائے کی علامت ہوتا۔ یہ علامت ایک معجزے جیسا اثر رکھتی: چالیس برس پہلے کے واقعات پر غور کر کے اب دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ جو حالت موجود ہے کیا اُسی خوابِ پریشاں کا نتیجہ نہیں ہے؟‘‘ انہوں نے ہزاروں کے مجمع کے سامنے قرارداد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ’’اب دوسرے انقلاب پر نظر کرو۔ جہاں قوم میں ٹکڑیاں ہو رہی تھیں، دل پھٹے ہوئے تھے اور ایک کی رائے دوسرے کی رائے کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی تھی۔ خودغرضیوں، خودنمائیوں کا طوفان برپا تھا، قومی حقوق اور فوائد پر نظر نہ تھی۔ یا اب یہ زمانہ ہے کہ وہی قوم اس جلسے میں آپ کے سامنے موجود ہے۔ یہ تمام صورتیں ایک غرض کے حاصل کرنے کے لیے جس میں ساری قوم کا فائدہ مشترک ہے جمع ہوئی ہیں اور ہر سال ہوتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کتاب زندگی کے تیس چالیس ورق اُلٹ گئے ہیں۔ ابھی ایک خاص مسئلہ ہے جس کو صرف چند ہی دن گزرے ہیں ہمارے اور آپ کے سامنے پیش تھا یعنی نواب محسن الملک بہادر کی جانشینی کے متعلق تمام قوم نے جو ہندوستان کے وسیع ملک کے ہر گوشے میں پھیلی ہوئی ہے ہر جگہ سے آواز بلند کی کہ نواب وقار الملک بہادر ہمارے سردار بنائے جائیں اور وہی نواب محسن الملک کے جانشین اور مدرسۃ العلوم کے سیکرٹری، قوم کے پشت پناہ ہوں۔ گذشتہ حالت کا مقابلہ کرنے سے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ خدا کی مدد نہیں ہے؟ ۔۔۔ نواب صاحب کا اس جلیل الشان خدمت پر قوم کی متفقہ آواز سے مقرر ہونا واقعی ہماری قوم کے دن پھرنے کی علامت ہے،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’اب ضرورت اور بیحد ضرورت اِس امر کی ہے کہ جس شخص کو ہم نے اپنے انتخاب اور اپنی مرضی سے اپنا پیشوا، اپنا رہنما اور اہنا لیڈر بنایا ہے ہم کو ہر طریقے سے اس بات پر بھی آمادہ اور قائم رہنا چاہیے کہ اس کے اراکین اس کے منصوبوں میں مدد دیں۔ وہ جو حکم ہم کو دیں اس کی تعمیل کریں۔ ہم سے جس وقت یہ کہا جائے کہ فلاں کام کرو اور فلاں کام مت کرو، ہم اُس وقت جواب دیں کہ نواب وقار الملک سے پوچھو۔ ہم سے کہا جائے کہ نیشنل کانگریس میں شریک ہوں، ہم جواب دیں کہ اِن سے پوچھو۔۔۔ محمد علی نے وقار الملک کی طرف اشارہ کیا۔ پھر کہا: ہم سے سوال کیا جائے کہ قومی حقوق اور فوائد کے لیے فلاں تدبیر مناسب ہے، ہم کہیں کہ اِن سے دریافت کرو۔ صاحبو! ہمارے کان یہ ہیں، ہمارے دل یہ ہیں، ہماری آواز یہ ہیں، ہماری جان یہ ہیں۔ غرض جو کچھ کرو اِن سے پوچھ کر کرو۔ مجمع سے چیئرز کی آوازیں بلند ہوئیں۔آخر میں محمد علی نے کہا: جس وقت یہ کیفیت خدا ہم میں پیدا کر دے پھر دیکھیے قومی ضرورتیں کیسی اور کتنی جلد پوری ہوتی ہیں۔ کانفرنس کے بعد لیگ کا جلسہ ہوا ۔ محمد علی کے پیش کیے ہوئے آئین کی منظوری دی گئی۔ میاں شاہ دین کی پنجاب مسلم لیگ کا مرکزی مسلم لیگ سے الحاق بھی ہو گیا۔۷۰ سلطان محمد شاہ آغا خاں کومسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ تیسرا حصہ ۶۹ لندن یونیورسٹی، جہاں اقبال پروفیسر آرنلڈ کی جگہ عربی پڑھا رہے تھے، وہاں سوشیالوجیکل سوسائٹی سالانہ اپنے مقالات کا مجموعہ (Papers)شائع کرتی تھی۔ اس کی بجائے سہ ماہی تحقیقی مجلہ شائع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ نام سوشیالوجیکل ریویو (The Sociological Review) تھا۔ پہلا شمارہ جنوری ۱۹۰۸ء میں نکلا۔ اداریے میں پروفیسر ایل ٹی ہوب ہاؤس (Professor L. T. Hobhouse) نے لکھا تھا: We shall, therefore, welcome contributions from the philosopher and the specialist, from the comparative sciences which search the whole human record for their data, and from the detailed study of comparative tendencies. We shall hope to show that in the study of social evolution the organization of a medieval city, or the genesis of an Oriental religion have their place alongside of the analysis of contemporary institutions. We hope to show at the same time that the problems of the day are just as much objects of science as any period of past history or any phase of primitive life. To the sociologist "nothing that is human is foreign." Not that such scattered fragments of Sociology are of real value for the science till they are brought or rather till they grow together. On the contrary it is one of the functions of Sociological criticism to prevent the crude use of fragments of history and of empirical generalization from isolated cases. But the main problem of Sociology at the present day is to build up the great Comparative Science which alone can put the theory of social evolution on a firm basis. To form by a philosophic analysis a just conception of human progress, and trace this progress in its manifold complexity in the course of history, to test its reality by careful classification and searching comparisons, to ascertain its conditions, and if possible to forecast its future-this is the comprehensive problem towards which all sociological science converges and on the solution of which reasoned sociological effort must finally depend. In the light of this conception everything that concerns human development acquires value and all sociological work achieves unity. The comparative study of law, of government and the social fabric; the history of science and philosophy, of art and litrerature; the study of the ethical and religious consciousness in their manifold phases; the story of the individual arts and the gradual conquest of nature, all these have their sociological side. All contribute to the general enquiry into the nature, conditions, and possibilities of human progress and to understand their contributions is the work of sociology. ایک مثالی معاشرے کا تصور جو کم سے کم پچھلے پانچ برس سے اقبال کے ذہن میں ضرور تھا، اُس کے لیے ایک کڑی اِسی شمارے میں ڈبلیو ٹی ماریسن (W. T. Morrison) کے مقالے ’جرم کا مسئلہ‘ ('The Criminal Problem') سے بھی دستیاب ہوئی ہو گی: It will be gathered from these observations that crime is much more a social problem than a penal problem. It is certain that whatever changes may be made in the penal law will have comparatively little effect on the amount of crime. Just as most fevers arise from defective sanitary conditions so do most crimes arise from defective social conditions. The real remedy for these fevers is not improved hospital treatment, but better sanitary arrangements. The real remedy for crime is not more elaborate methods of punishment, but an improvement of the adverse social conditions of the community as a whole. The real problem is social, not penal; it forms one branch of the great social problem which is now confronting and puzzling the world. کسی وقت اقبال نے بھی مجلے کے لیے لکھنے کا فیصلہ کیا۔۷۱ ۷۰ جنوری میں علما ٔنے عبدالعزیز کو معزول اور اس کے بڑے بھائی عبدالحفیظ کو سلطان قرار دے دیا۔ مولائے حفیظ کہلائے۔ خانہ جنگی ختم نہ ہوئی۔ ۷۱ ۲۰ جنوری کی شام ایما کا خط ملا۔اپنی دو تصویریں بھیجی تھیں۔ شکایت کی تھی کہ اقبال خط نہیں لکھتے۔شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا کرتے، اسدؔ کی طرح ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں گے، یہ جان کر کہ وہ خط کتابت جاری رکھنا چاہتی ہیں۔اُسی رات جواب دیتے ہوئے جرمن میں لکھا: میں آپ کی تصاویر کے لیے ہزار گونہ شکریہ ادا کرتا ہوں، جو آج شام مجھے موصول ہوئیں۔ یہ آپ کی بڑی مہربانی ہے۔ دونوں تصویریں بڑی خوبصورت ہیں، اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی، لیکن یہ مت باور کیجیے گا کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے د- میں بھی موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ شاید میرے لیے ممکن نہ ہو گا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ پاؤں لیکن میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔ میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا۔ میں اپنی جرمن زبان بالکل بھول چکا ہوں، آپ ہی انگریزی کیوں نہیں سیکھ لیتیں؟ یوں ہم ایک دوسرے کی بات بہتر سمجھ سکیں گے۔ براہِ کرم جلد خط لکھیے۔ جوں ہی میری فوٹوگراف بنتی ہے، میں بھی آپ کو اپنی تصویر بھیج دوں گا۔ خدا حافظ مائی ڈیر ایما، اور ہمیشہ جانیے آپ کا ایس ایم اقبال خط کو لفافے میں بند کرنے کے بعد لفافے پر دوبارہ لکھا، ’’میں دونوں تصویریں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o Messrs ThomasCook & Son Ludgate Circus London E.C. 20th Jan. 1908 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich Danke tausendmal für die Photographien die Ich heute Abend erhalten. Es ist so gut von Ihnen. Beide sind schon und sie werden immer in meinem studie-zimmer auf meinem Tisch stehen. Aber glauben sie nicht dass sie nur auf dem papier sind; sie sind auch in meinemz, und werden immer da bleiben. Veilleich ist es nicht möglisch für mich sie weiden zu sehen---aber Ich muss erkennen dass sie in meinem leben eine wirkliche Kraft gewesen sind. Ich werde Sie neimals f vergessen und mich immer von Ihrer Gute erinnern. Ich habe mein Deutsch ganz vergessen. Warum lernen sie nicht English? - wir werden einander besser verstehen. Bitte schreiben sie bald ---. Als Ich photographiert bin Ich werde auch meine photo schicken. Adieu mein liebes Frl. Emma, und glauben sie mich immer Ihrer S.M. Iqbal ]P.S. on envelope: "Ich werde beide Bilder aben."[ ۷۲ اگلے روز جرمن میں ایما کے نام ایک اور خط لکھا: میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔ چنگاری سے شعلہ اُٹھتا ہے اور شعلے سے ایک بڑا الاؤ روشن ہو جاتا ہے مگر آپ بڑی سرد مہر ہیں، غفلت شعار ہیں۔آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں بالکل کچھ نہ کہوں گا۔ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o Messrs Thomas Cook & Son Ludgate Circus London E.C. 21st. Jan 1908 Mein liebes Frl. Emma, Glauben sie dass ich nachlässig bin? Es ist ganz unmöglich -- Ich war sehr Krank als Ihre letztere Brief kam und es machte mich noch mehr Krank; für sie sagten dass sie viele sturmen ubergegangen und Ihre Friede wider gewinnen hatten. I ch dachte dass sie wunschten nicht mit mir Brief zu wechseln und dass machte mich sehr bekummert. Nun habe ich ein Brief von Ihnen und es mich sehr gefreut hat. Immer denke ich von Ihnen und mein herz ist immer voll von schöne Gedanken! Ein Funke wachst ein Sauasen und eine Flame eine grosse Brand! Aber sie sind unparteilich, gleich-gültig--- Tun sie was sie wollen; Ich werde sagen nichts und sein immer Geduld. Vielleicht werde ich Sie besuchen als Ich nach Indien gehe. Ich habe mein Deutsch ganz vergessen, warum lernen sie nicht English. Ihrer Iqbal ۷۳ میاں شاہ دین ہمایوں پنجاب چیف کورٹ میں عارضی جج تھے۔ اب اُن کی حیثیت مستقل ہو گئی۔ یہ سب سے بڑا عہدہ تھا جس پر اُس زمانے میں کوئی ہندوستانی پہنچ سکتا تھا۔ باقی انگریزوں کے لیے مخصوص تھے۔ وہ پہلے مسلمان تھے جن کا اِس عہدے پر تقرر ہوا تھا۔ ۷۴ میاں شاہ دین جج بن گئے تو پنجاب مسلم لیگ کی صدارت نواب فتح علی قزلباش کرنے لگے جو اُن دنوں پنجاب میں مسلمانوں کی اکثر انجمنوں کے سرپرست تھے۔ ۷۵ لندن کی مختلف تنظیموں کی طرف سے اقبال کو لیکچر دینے کے لیے دعوت نامے ملنے لگے تھے۔ ’پان اسلامک سوسائٹی‘ کے رکن بن گئے۔ لیکچروں کا سلسلہ طے پایا۔ اگر ماہانہ تھا تو پھر ترتیب کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے: جنوری: اِسلام کے بعض پہلو فروری: تصوف مارچ: مسلمانوں کا اثر تہذیبِ یورپ پر اپریل: اِسلامی جمہوریت مئی: اِسلام اور عقلِ انسانی۷۲ ۷۶ جنوری ۱۹۰۸ء میں پین اسلامک سوسائٹی کے زیر اہتمام کیکسٹن ہال میں ’مذہبِ اسلام کے بعض پہلو‘ پر لیکچر دیا۔۷۳ دستیاب نہیں ہے۔ بعض بنیادی نکات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگلے ہی برس لاہور میں دیا ہوا اسلام کے اخلاقی اور سیاسی پہلوؤں پر مبسوط لیکچر پوری طرح محفوظ ہے۔ ممکن ہے اِسی لندن والے لیکچر کا اعادہ ہو۔ ورنہ نقشِ اول ضرور سمجھا جا سکتا ہے۔ اُس کے بعض نکات کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ لندن والا لیکچر دیتے ہوئے بھی اقبال کے پیشِ نظر رہے ہوں گے۔ اقبال نے ایک آزاد طالب علم (critical student) کے طور پر مذہب کا جائزہ لینے کا روّیہ اپنایا تھا۔ سمجھتے تھے کہ کسی مذہب کے بانی یا مبلغ کے برعکس ایک آزاد طالب علم کا کام صرف مذہب کے حیاتیاتی نظام (organic structure) کو سائینٹفک طریقِ کار کی روشنی میں دیکھنا تھا۔ بالکل اُسی طرح جیسے بیالوجسٹ کسی جاندار، اور جیالوجسٹ کسی معدنیات کے ٹکڑے کا جائزہ لیتا تھا۔ مقصد کسی مذہب کے نظام کو سمجھنا اور تاریخی ارتقا کی قوتوں میں سے ایک تہذیب آور قوت کے طور پر اُس مذہب کی افادیت متعین کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت جو سوال اُٹھائے جا سکتے تھے اُن میں سے بعض اقبال نے خاص طور پر منتخب کیے: ۱ کسی مذہب کے مختلف اجزأ کس طرح آپس میں مل کر مکمل نظام ترتیب دیتے ہیں، انفرادی طور پر ہر جزو کس طرح کام کرتا ہے اور تمام اجزا کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کس طرح مذہب کی عملی افادیت متعین کرتا ہے؟ ۲ کون سی تاریخی قوتوں کے لازمی اثرات کے طور پر اُس مذہبی نظام کا ظہور ہوا؟ ۳ کسی مذہبی نظام کا اُسے پیش کرنے والی قوم کی خصوصیات کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ ۴ کسی مذہبی نظام کی اُسے پیش کرنے والی قوم کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے؟ ۵ پوری انسانی تاریخ میں اُس مذہب کی کیا اہمیت ہے؟ ۶ کیا بعض جٖغرافیائی عوامل بھی کسی مذہب کی ایک مخصوص علاقے میں پیدایش کے ذمہ دار ہیں؟ ۷ کسی مذہب سے اُس قوم کے ضمیر اور اُن کے سماجی، اخلاقی اور سیاسی اَرمان کس حد تک ظاہر ہوتے ہیں؟ ۸ کسی مذہب نے اگر کسی قوم میں کوئی تغیر پیدا کیا ہے تو وہ تغیر کیا ہے؟ ۹ انسانی تاریخ نے خود جو مقصدِ وحید ظاہر کیا ہے اُس کے حصول میں کسی مذہب نے کس حد تک حصہ لیا ہے؟ یہ نو سوال تھے۔ اقبال نے اِن کا تعین جولائی ۱۹۰۹ء سے پہلے کسی وقت کر لیا تھا۔ جنوری ۱۹۰۸ء میں پین اسلامک سوسائٹی والے لیکچر کا موضوع ہی ایسا تھا۔۷۴ جوابات کے اظہار کا پیرایہ بھی متعین ہو چکا تھا۔دینیات کی مروجہ اصطلاحات سے دانستہ گریز کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں وضاحت کی: میرا طریقِ کار بنیادی طور پر سائینٹفک ہے جس کے لیے ایسی اصطلاحات کا استعمال ضروری ہے جن کی تشریح انسان کے روزمرہ تجربے کی روشنی میں ہو سکے۔ مثلاً جب میں کہتا ہوں کہ مذہب کسی قوم کے تجربے کا ایک عظیم شخصیت کے ذریعے واضح اور متعین طور پر ظاہر ہونے والا حاصلِِ کُل ہے تو میں محض وحی کی حقیقت کا سائینس کی زبان میں ترجمہ کر رہا ہوں۔ اسی طرح فرد اور کائناتی توانائی کے درمیان عملی تعلق، محض عبادت کے احساس کو سائینسی طور پر درست پیرائے میں بیان کرنا ہے۔ میں زیادہ سائنٹفک نوعیت کے پیرائے اس لیے اختیار کرتا ہوں کہ اپنے مضمون کا اِنسانی نقطۂ نظر سے مطالعہ کر سکوں، نہ اِس لیے کہ مجھے وحی کے تمام مذاہب کی بنیاد ہونے کی صداقت میں شبہ ہے۔ مزید برآں، اسلام تمام مذاہب میں سب سے نیا ہے، انسانیت کا آخری حاصل ہے۔ بانیٔ اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] کی ہستی صاف ہمارے سامنے موجود ہے، وہ صحیح معنوں میں ایک تاریخی شخصیت ہیں جن کے بارے میں عمیق ترین تنقیدی مطالعہ ممکن ہے۔ افسانہ طرازی نے آپؐ کی شخصیت پر پردے نہیں ڈالے ہیں۔ آپؐ تاریخ کی تیز روشنی میں دنیا میں آئے۔ ہم آپؐ کے افعال کے باطنی محرکات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ہم آپؐ کے ذہن کا باقاعدہ نفسیاتی تجزیہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ا ٓئیے، مافوق الفطرت عنصر کو وقتی طور پر خارج کر کے اسلام کی ساخت جیسی نظر آئے اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ اقبال کی زندگی کا نیا مقصد تھا۔ باقی عمر اِسی میں صرف ہونی تھی۔۷۵ ۷۷ بڑے مذہبی نظام انسانی فطرت اور کائنات کے بارے میں کسی مخصوص مفروضے سے شروع ہوتے تھے: ٭ بدھ مت کے مطابق فطرت ہمیں دُکھ دیتی تھی۔ انسان ایک فرد کے طور پر برا تھا۔ دُکھ سے نجات کے لیے شخصیت (personality) کے بوجھ سے چھٹکار اضروری تھا۔ عمل سے گریز (inaction) ہی نجات (salvation) تھی۔ خودی کو مٹانا (renunciation of self) اور دنیا سے بے اعتنائی (otherworldliness) بنیادی نیکیاں تھیں۔ ٭ عیسائیت کے مطابق فطرت گناہ کی طرف مائل کرتی تھی۔ انسان پیدایشی طور پر گنہگار تھا۔ نجات کے لیے ایک مافوق الفطرت نجات دہندہ کی ضرورت تھی۔ بُدھ مت کے برعکس عیسائیت انسانی شخصیت کے وجود کو حقیقی تسلیم کرتی مگر اُسے گناہ کے مقابلے میں ایک موثر قوت نہ سمجھتی تھی۔ ٭ زرتشتی مذہب کے مطابق فطرت، خیر و شر کی قوتوں کے درمیان مستقل کشمکش کی آماجگاہ تھی۔ انسان دونوں قوّتوں سے مرکب تھا۔ اپنی راہِ عمل خود منتخب کر کے خیر کی قوتوں کا ساتھ دے سکتا تھا۔ ٭ اسلام کے مطابق فطرت خوف دلاتی تھی۔ دُکھ، گناہ اور کشمکش بھی دنیا کے حقائق میں شامل تھے مگر بنیادی طور پر خوف اور حُزن سے نجات پاکر اِنسان، فطرت کی قوتوں کو قابو میں لا سکتا تھا۔ انسان کی اصل فطرت عقل میں نہیں بلکہ اِرادے میں مضمر تھی۔انسان کو خوف سے آزاد کروانا اسلام کا مقصد تھا۔۷۶ چار مذاہب کے بارے میں یہ بنیادی نکات اقبال کی فکر کے مستقل عناصر بن گئے۔ اُن سے روایت ہے: انگلستان میں طالب علمی کے زمانے میں مجھے ہر روز شام کے وقت اپنی قیام گاہ کی طرف ریل گاڑی میں سفر کرنا پڑتا تھا۔ یہ گاڑی ایک جگہ ختم ہوتی تھی اور سب مسافروں کو سامنے والے پلیٹ فارم پر دوسری گاڑی میں سوار ہونا پڑتا تھا۔ گاڑی اسٹیشن پر پہنچتی تو گارڈ بلند آواز سے پکارتا، ’’آل چینج!‘‘ یعنی سب بدل جاؤ۔ ایک روز میں حسبِ معمول گاڑی میں بیٹھا تھا کہ میرے اردگرد اخبار بین مسافر آپس میں بدھ مذہب کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ ایک صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ صاحب غالباًایشیائی ہیں ان سے بدھ مذہب کے متعلق پوچھنا چاہیے، چنانچہ مجھ سے پوچھا گیا۔ میں نے کہا، ابھی جواب دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر چپ رہا۔ چند منٹوں کے بعد انہوں نے مجھ سے دوبارہ پوچھا، میں نے پھر کہا ابھی جواب دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگے، شاید آپ جواب سوچ رہے ہیں۔ میں نے کہا، ہاں۔ اِس دوران اسٹیشن آگیا اور گارڈ ’’آل چینج‘‘ پکارنے لگا۔ میں نے کہا، بس یہی بدھ مذہب ہے۔ اِشارہ بدھ مذہب کے عقیدۂ تناسخ کی طرف تھا۔۷۷ ۷۸ جنوری کے اواخر یا فروری کے شروع میں پروفیسر آرنلڈ مصر سے واپس آ گئے۔۷۸ اقبال اُن کی جگہ لندن یونیورسٹی میں عربی پڑھانے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ ممکن ہے کہ یوں ذرا فراغت ملنے کی وجہ سے سوشیالوجیکل ریویو کے لیے مقالہ لکھنے کی تیاری شروع کی ہو۔ بہرحال ایک اہم سوال سامنے آیا: ٭ کیا وجہ تھی کہ اسلام شروع میں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ پھیلا تھا مگر اصل حرارت جس نے مسلمانوں کے وجود کو ایک معجزہ بنا یا تھا بہت جلد سرد پڑ گئی؟ بعد میں اُن کے ایک جاننے والے نے بیان کیا: اِس سوال کا پیدا ہونا فلسفہ ٔاقبال کی تاریخی ابتدا ہے۔ وہ ابھی ابھی کیمبرج اور قانون کے امتحانات سے فارغ ہوئے تھے اور کسی انگریزی رسالے کے لیے ’سیاستِ اسلام‘ پر مضمون لکھ رہے تھے کہ ُان کے سامنے یہ سوال بجلی کی طرح یکایک پیدا ہوا۔ خدا جانے اس کا نفسیاتی محرک کیا تھا؟ مگر یہ سوال اُن کے ذہن میں اِس تواتر سے پھرنے لگا کہ ’سیاست ِ اسلام‘ والا مضمون طاقِ نسیاں پر دھرا رہ گیا اور آپ اِس کا جواب تلاش کرنے لگے۔ آپ نے عربی تواریخ کو تحقیق کی نظر سے دیکھنا شروع کیا مگر ان مورخوں کا تاریخی مطمح نظر ہی جداگانہ تھا۔ یہی حال مغربی مورخوں کا تھا۔ اس تحقیق سے اگر کوئی سبب معلوم ہوتا تھا تو یہ کہ مسلمانوں کے پاس بحری طاقت نہ تھی اس لیے انہیں زوال آیا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ نفسیاتی اسباب جو اقتضائے فطرت کے محرکِ اصلی ہوتے ہیں کسی طرح بھی معلوم نہ ہو سکے۔ تو کیا یہ اسلام کی تعلیم کا خاصہ تھا کہ اُس سے ایک ایسی جماعت، ایک ایسا کیریکٹر پیدا ہو جو قلیل عرصے تک غیرمعمولی تیزی سے چمکے اور پھر جلدی زوال پذیر ہو جائے؟ مگر قرآن اور حدیث کا مطالعہ اس کلیے کی تکذیب کرتا تھا۔ تو پھر کیا وجہ تھی۔۔۔؟۷۹ اِس بیان کا یہ حصہ درست نہیں کہ اقبال اُنہی دنوں کیمبرج اور قانون کے امتحانات سے فارغ ہوئے تھے۔ کیمبرج سے پچھلے برس مارچ میں فارغ ہو چکے تھے۔ قانون کی سند چند ماہ بعد جولائی میں ملی اور مقالہ بھی اُسی ماہ جریدے میں شائع ہو گیا۔ لہٰذا قانون کے امتحان سے فارغ ہونے سے پہلے ہی اُسے لکھنا شروع کیا ہو گا۔ بہرحال جب بھی شروع کیا، اُس نئے فلسفے کی بنیاد پڑ گئی جسے بعد میں دنیا نے اقبال کے فلسفے کے نام سے جاننا تھا۔ اُسے سمجھنے میں قوم کو پوری ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ لگنے والا تھا۔ ممکن ہے اِس موقع پر یہ عجیب و غریب نکتہ بھی اقبال کے سامنے آیا ہو کہ اُن کا اپنا تحقیقی مقالہ دو حصوں میں منقسم تھا: قبل از اسلام کی عجمی فکر اور یونانی ثنویت۔ گویا اسلام کی آمد سے قبل عجمی فکر جو کچھ بھی تھی، اسلام کی آمد کے بعد یونانی ثنویت کی مقلد بن گئی۔ ۷۹ حسن نظامی کی طرف سے کبھی کبھی خطوط مل جاتے تھے۔ بمبئی گئے تو وہاں سے ایک خط اقبال کے لندن کے پتے پر لکھا۔ اُس سے اقبال کو معلوم ہوا کہ جرمنی کے پتے پر بھی کوئی خط لکھا تھا۔ نہیں ملا تھا۔ اب اقبال نے بمبئی والے پتے پرخط کا جواب بھیجا۔ تصوف کی رعایت سے اقبال کبھی کبھی اُنہیں اور اپنے آپ کو یک جان دو قالب قرار دیتے تھے۔ ۸۰ گورنمنٹ کالج لاہور نے غیرحاضری میں اقبال کو ۲۰۰ روپے ماہوار سے بڑھا کر ۲۵۰ روپے ماہوار پر ترقی دی تھی۔ بلاتنخواہ رخصت پر تھے لہٰذا اُن کی جگہ عارضی طور پرشیخ نیاز علی اسسٹنٹ انسپکٹر آف اسکولز کو ملی۔۸۰ ۲۲ جنوری ۱۹۰۸ء کو اقبال نے پنجاب کے سرکاری اداروں کے ڈائرکٹر کے نام اپنی ملازمت سے استعفیٰ لکھ دیا۔ اب پروفیسری نہیں کرنا چاہتے تھے۔۸۱ ۸۱ ۸ فروری کو محمد علی (جوہرؔ) نے گوکھلے کو طویل خط لکھا: ۔۔۔مذاہب کے درمیان عملی قسم کا اتحاد ممکن ہے اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے پیروکاروں کو کھوکھلے نعرے ترک کرنا اور صورت حال جیسی ہے اُس کا اُسی طرح بیباکی اور سمجھداری کے ساتھ سامنا کرنا سکھائیں۔ مذہبی قومیت سے مجھے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ مذہبی اختلافات نے اُس کے نصف خون خرابا بھی نہیں کیا جتنا علاقائی وطن پرستی کی وجہ سے ہر روز ہو رہا ہے۔ نپولین کی مہم اور اب روس جاپان جنگ، اور یورپ اور ایشیا کی چھوٹی جنگیں جو چھوٹی ہیں مگر نتائج میں کم اہم نہیں،یہ مذہبی قومیت کی وجہ سے نہیں بلکہ اُسی علاقائی وطن پرستی کی وجہ سے ہوئی ہیں جسے اب ہمارا آئیڈیل بنایاجا رہا ہے۔ ۸۲ حسن نظامی نے اقبال کو رام کرشن ارسال کیا۔ شاید کوئی مذہبی رسالہ تھا۔ ۱۰ فروری کو جوابی خط میں اقبال نے لکھا: مسٹر آرنلڈ صاحب بہادر سے آج اس کا ذکر آیاتھا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور آپ کی کتاب مجھ سے لے لی۔ کہتے تھے کہ میں نے ہندوستان میں بہت کوشش کی کہ سلسلۂ نظامیہ نے جو کوشش اشاعتِ اسلام میں کی ہو اس کی کوئی تاریخی شہادت ملے مگر کامیابی نہ ہوئی، اگرآپ کے خاندان میں اس مضمون پر کوئی کتاب محفوظ چلی آتی ہو تو آگاہ کیجیے۔۔۔ مسٹر آرنلڈ کا یہ خیال ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندوؤں میں اسلام پھیلانے کے لیے کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی اور اب وقت ہے کہ ایسا کیا جائے۔اس میں ہندوستان کیا، ساری دنیا کابھلا ہے۔زیادہ کیا عرض کروںمیری کامیابیوں پر جو لوگ آپ کو مبارک باد دیتے ہیں، راستی پر ہیں۔ مجھ میں اور آپ میں فرق ہی کیا ہے۔ دیکھنے کو دو، حقیقت میں ایک۔ اسی خط میں اقبال نے لکھا تھا کہ انگلستان میں اسلامی تہذیب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ پان اسلامک سوسائٹی کے کیکسٹن ہال والے لیکچروں کی طرف اشارہ تھا: ایک لیکچر ہو چکا ہے۔ دوسرا اسلامی تصوف پر فروری کے تیسرے ہفتہ میں ہو گا۔ باقی لیکچروں کے معانی یہ ہوں گے: مسلمانوں کا اثر تہذیبِ یورپ پر، اسلامی جمہوریت، اسلام اور عقلِ انسانی وغیرہ۔۔۔ ۸۳ غالباً فروری ہی میں کسی وقت اقبال کو جرمنی سے میڈم شیرر کا خط موصول ہوا۔ اُن کا ایک فرانسیسی طالب علم لندن میں تھا۔ دونوں نے مل کر شاید جرمن میں جواب لکھا۔ ۸۴ ہندوؤں کی انتہا پسند تنظیم آریہ سماج کی کوششوں سے راجپوتانہ اور دہلی کے اطراف کے کئی مسلمان راجپوت دوبارہ ہندو ہونے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ باقی مسلمان بہت پریشان ہوئے اور مارچ میں پٹیالہ میں ایک مسلمان راجپوت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شبلی بھی گئے۔ ۸۵ اس برس کسی وقت مخزن پریس دہلی سے لالہ سری رام ایم اے کی کتاب ہزار داستان معروف بہ خم خانۂ جاوید شائع ہوئی۔ اِس میں اقبال کا تذکرہ اور اُن کے اشعار کا انتخاب بھی تھا: اگرچہ شیخ صاحب کا کلام ابھی خاص خاص باتوں میں کہنہ مشق اساتذہ کے درجے پر نہیں پہنچا ہے مگر جو خاص بات اِس میں ہے وہ سوائے نامور اُستادوں کے اور لوگوں کو کم نصیب ہوتی ہے۔ آپ کے کلام میں بھرتی کے شعر کم پائے جاتے ہیں۔ کوئی شعر درد، وحدت اور اخلاق کی چاشنی سے خالی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دُور دُور سے داد آتی ہے۔۸۲ ۸۶ تصوف والا لیکچر ۲۶ فروری کو ہوا۔دستیاب نہیں ہے۔ موضوع کے بارے میں دو بنیادی نکات پچھلے دو ڈھائی برس سے نظم و نثر میں دہرا رہے تھے۔ یہاں بھی اُن کا اعادہ کیا ہو گا: ٭ قرآن اور مستند حدیثوں میں تصوف کے بِیج موجود تھے۔ عرب میں پروان چڑھنے کا موقع نہ ملا۔ ایران اور دوسری سرزمینوں میں پہنچنے کے بعد یہ ایک بھرپور نظامِ فکر کی صورت میں نمایاں ہوئے۔ اس کا نام تصوف تھا۔۸۳ ٭ زمانہ بدل چکا تھا۔ بعض حقائق جنہیں تصوف اشاروں میں بیان کرتا تھا اب کُھل کر سامنے آنے تھے۔ کسی بڑی حقیقت کے ظہور کا وقت قریب تھا۔ ۸۴ اُس روز اقبال نے جرمن میں ایما کو خط بھی لکھا: آپ انگریزی کیوں نہیں سیکھ لیتیں؟مجھے اپنی بھدی جرمن زبان سے آپ کے کانوں کی توہین کرتے شرم آتی ہے۔ بہرحال میں اس خط کتابت کو جرمن زبان سیکھنے کا ایک بہانہ سمجھتا ہوں۔ سو آپ مجھے اب تک درس دے رہی ہیں۔ میں جولائی کے اوائل میں ہندوستان لوٹ رہا ہوں۔ اور میری تمنا ہے کہ اپنے سفر سے پیشتر آپ سے ملنے کا موقع مجھے حاصل ہو سکے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ چند روز کے لیے ہائیڈلبرگ آ سکوں۔ لیکن اگر ممکن ہو تو کیا آپ پیرس میں مجھ سے مل سکتی ہیں؟ آپ ہائیڈلبرگ کب آئیں گی؟ جناب رائنر کہاں ہیں؟ وہ مجھے بالکل خط نہیں لکھتے۔ میں دو مرتبہ انہیں لکھ چکا ہوں۔ شاید وہ بیحد مصروف ہیں۔ آپ تمام دن کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ مطالعہ کرتی ہیں یا سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں؟ آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہے، اور ہمیشہ مجھے اُن سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔۔۔ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o .Messrs Thomas Cook & Son Ludgate Circus London E.C. 26th Feb.08 Mein liebes Fraulein Wegenast, Ich muss apologieren vor alles - Ich hatte so viel zu tun dass Ich konnte nicht zu Ihnen schreiben. Ein guter Engel als Sie sind, Ich hoffe dass sie mich vergeben werden. Heute Abend auch habe Ich eine Vorlesung zu geben - 'Mysticismus'. Frau Prof, schrieb mir ein Brief vor einige tagen. Ein Franszosicher Schüler von Frau Prof. war in London, und wir zusammen schrei-ben ein Brief an Frau Prof. Warum lernen sie nicht English? Ich bin beschämt Ihre öhren zu beleidigen mit meinen schlechtes Deutsch - obgleich benutze Ich die Gelegenheiten von diesen Briefwechselungen als Deutsche Stünden. So sie unterrichten mich immer noch. Im Anfang Juli werde Ich nach Indien gehen, und hoffe dass es möglich sein wird Sie zu besuchen vor meinem Reise. Ich werde mich bestreben nach Heidelberg zu kommen für einige Tagen. Aber wenn es nicht möglich ist können sie mich im Paris treffen? Wann werden sie nach Heidelberg kommen? Wo ist Herr Reiner? Er niemals schreibt mir ein Brief - Ich habe zwei geschrieben. Vielleicht er ist sehr beschäftigt. Was tun Sie alles tag? Lesen sie oder zubringen sie Ihre Zeit mit Freundinnen? Ihre Photo ist auf meinem Tisch, und immer erinnert mir von dem glückliche Zeit die Ich mit Ihnen zugebracht habe. Mit einer Rosenkranz von glückliche Gedanken. Ihr S.M. Iqbal ۸۷ شبلی مصنوعی پاؤں بنوانے دوبارہ بمبئی گئے تو عطیہ یورپ سے واپس آچکی تھیں۔ اس دفعہ شبلی کو کئی مہینے ٹھہرنا تھا چنانچہ اُنہیں عطیہ کو ادب اور فنونِ لطیفہ کے زیادہ درس دینے کا موقع ملا۔ پاؤں بن گیا تو شبلی واپس چلے گئے مگر اب خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بعض خطوط کی تحریریں اِس قسم کی ہوتی تھیں، ’’قرۃ عینی! تمہارا خط مدت کے بعد ملا تو بے ساختہ میں نے آنکھوں سے لگایا۔۔۔‘‘ ۸۸ شبلی نے دو برس پہلے جو فارسی ادب کی تاریخ لکھنا شروع کی تھی اُس برس اُس کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ کتاب کا نام شعرُالعجم تھا۔ ۸۹ ’’تہذیبِ اسلامی کے اثرات یورپ پر‘‘ کے موضوع پر لندن میں اقبال لیکچر دے سکے یا نہیں، یہ معلوم نہیں۔ بہرحال تین برس بعد (اپریل ۱۹۱۱ء میں) لاہور میں اِسی موضوع پر لیکچر دیا۔ اُس کا خلاصہ دستیاب ہے۔ بنیادی طور پر: ٭ کسی تہذیب کے اصولِ تمدن معلوم کرنے کے لیے اُس میں تین پہلوؤں کا تجزیہ کرنا ضروری ہے: عقل و تدبیر، جذبات اور عمل۔ ٭ قرونِ وسطیٰ کی مغربی تہذیب عیسائیت کے اِس مفروضے پر قائم تھی کہ انسان فطرتاً برا ہے۔ اُس زمانے میں یورپ میں نہ آزادانہ تحقیق تھی، نہ اُنہیں فطرت میں حسن دکھائی دیتاتھا۔ نہ ہی انسان کی آزادی کے قائل تھے۔ ٭ جدید تہذیب عیسائیت کے اِس مفروضے کے انکار پر مبنی ہے۔ بیکن اور ڈیکارٹ نے عقل، مارٹن لوتھر نے مذہب اور رُوسو نے سیاست کے میدان میں انسان کی آزادی کا اعلان کیا۔ بالآخر نپولین نے بادشاہتوں کی بنیادیں ہلا کر جمہوریت کی بنیاد رکھی(اگرچہ نپولین خود بھی شہنشاہیت کا دعویٰ کر بیٹھا لیکن اس کی جنگوں کے نتیجے میں بہرحال بادشاہتیں ختم ہوئیں۔ بالواسطہ طور پر جمہوریتوں کے قیام کی راہ ہموار ہوئی)۔ ٭ حال کی مغربی تہذیب صحیح اصولِ تمدن پر مبنی ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحیح علم مشاہدے اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے، فطرت میں حسن ہے اور انسان آزاد ہے۔ جدید تہذیب میں یہ رجحان اسلام کی وجہ سے آیا ہے۔ ۸۵ ۹۰ بہادری اُن کی نمایاں خصوصیت ہے۔ جنگ کے میدان میں وہ ایشیا کی تمام اقوام پر برتری رکھتے ہیں۔ سادگی اور دیانتداری میں ممتاز ہیں۔ اتنے معقول مزاج ہیں کہ کبھی مقدمہ بازی کی نوبت نہیں آنے پاتی۔ ایمانداری میں ایسے ہیں کہ نہ اُن کے یہاں دروازوں میں قفل لگانے کی ضرورت پڑتی ہے نہ معاہدوں کو تحریر کرنے کی۔ ان کے یہاں آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا گیا۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ اُس خطے کے بارے میں قدیم ترین تاریخی دستاویز تھی جس خطے سے اقبال کا تعلق تھا۔ دریائے بیاس سے مغرب کی طرف کا علاقہ یعنی صوبہ سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان جسے یونانی ’’اِنڈیا‘‘ کہتے تھے، اُس کے لوگوں کو قدیم یونانی مورخ آریاں نے سکندرِاعظم کی فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں بیان کیا تھا۔ انگریزی ترجمہ سوشیالوجیکل ریویو کے اپریل کے شمارے کے صفحہ ۱۵۸ پر جوہن ایم رابرٹسن (John M. Robertson) نے اپنے مقالے ’نسلوں کی اتالیقی‘ ('The Tutelage of Races') میں نقل کیا تھا: ...they are remarkably brave, superior in war to all Asiatics; they are remarkable for simplicity and intergrity; so reasonable as never to have recourse to law-suit and so honest as neither to require locks to their doors nor writings to bind their agreements. No Indian was ever known to tell an untruth. رابرٹسن نے لکھا تھا کہ ایک قوم کے دوسری قوم پر حکومت کے بارے میں دو قسم کی آرأ موجود ہیں۔ پہلی رائے یہ کہ برتر قوم کے تسلط کے نتیجے میں کمزور قوم کو فائدہ ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں رومیوں کی سلطنت کا حصہ بننے کی وجہ سے برطانیہ، فرانس، یونان اور مصر کے لوگ فائدے میں رہے۔ موجودہ زمانے میں برطانوی استعمار پسماندہ اور وحشی اقوام کو منظم حکومت اور روزگار فراہم کر رہا تھا۔ دُوسری رائے یہ تھی کہ طویل عرصے تک کسی غیر قوم کے تسلط میں رہنا کسی بھی معاشرے کے لوگوں کے اخلاق پر تباہ کن اثر ڈالتا ہے۔ ثبوت میں دریائے سندھ کے خطے کے لوگوں کے بارے میں آریاں کی رائے پیش کی جا سکتی تھی۔ بعد میں صدیوں تک غیر قوموں کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے یہی لوگ اب کیسے ہو گئے تھے! برطانیہ، فرانس، یونان اور مصر کے علاقے بھی رومیوں کا تسلط ختم ہونے پر ویسی دفاعی قوت سے محروم ہو چکے تھے جیسی رومیوں کی سلطنت میں شامل ہونے کے وقت اُن کے پاس تھی: That which at home we call "popular demand for reform," in India we call "sedition"; and the average Briton to-day stands in that regard where most reactionary Tories stood in British politics a hundred years ago. The one thing that neither press nor public will attempt is to do in relation to the claims of subject races as it would be done by... Putting aside practical problems, and seeking only to reach a sociological conclusion, we seem constrained to infer that in so far as any race or nation has to be under the tutelage of another, the slighter the tutelage the better for both. A complete control tends to abuse the ruled and to demoralize the ruler. The good that may be done by simple culture-contact, by the voluntarily undergone influence of the more civilized race, apart from any species of coercion, is incalculable. The evil that is done by a complete and arbitrary domination, on the other hand, is such as apparently to outweigh any of the benefits it conveys. By the admission of Sir Philip Lely and of many another Anglo-Indian ex-official, "there is as much content and prosperity, because more knowledge, under the go-as-you-please orders of a native state as under a 'policy' thrice tried in the Sceretariat fire and carried out by departmental battalions." [Quoted by Sir Henry Cotton, New India, ed.1907, p.47]. The planning of the Secretariate, he admits, is very able; but those able and well-intentioned gentlemen, as we might put here, have studied everything except sociology. And indeed they are hardly to be blamed, for it was never taught to them. Macpherson [Memorials of Service in India, 1865, page 351] declared that his success in putting down human sacrifice among the Khonds was due to his study of Guizot; but it is not on such studies that our youth are prepared for the Indian civil service. And, indeed, no mere study will prepare a multitude of averafe young men, of whom only a few are likely to be gifted with humane political genius, to manage successfully the affairs of a vast congeries of alien races held in tutelage. Let us not finally ascribe our countrymen's failure to their idiosyncracy; it is incident to their task and to their normality. But so long as hope remains, we must continue to demand, as the first condition of any betterment, the effort to do as we would be done by. It is experienced official who, earnestly pleading for more sympathy in Indian administration, thus suggests an exercise in the psychics of reciporcity. "Suppose that in England foreigners were ruling, say the Japanese, who committed the province to one of their statemen who had never been in Europe before, and surrounded him with a group of men of his own race who got their knowledge of the country chiefly from books and papers from Whitehall, who for the most part could not talk the English language, whose unreserved intercourse with Englishmen was limited to a few Japanese-speaking callers in London, and who, when not in London, divided their time between the Scottish Highlands and the Riviera. What sort of Government would it be? It might seem admirable to the people in Tokio, but would it to the men in Yorkshire and Cornwall? How long would it last?" [Sir F. S. P. Lely, as cited, page 39]. A change of heart in an entire bureacracy, it is true, is not to be proposed as a practicable policy or a likely achievement; but those who can see the need for it may also see the need for altering the bureacrats' equation from without. معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کبھی وہ خطہ دوبارہ آزاد ہو جائے، کوئی ایسا روحانی اور تمدنی انقلاب بھی آ جائے کہ صدیوں کی غلامی کے اثرات طبیعتوں سے دُھل جائیں، تب کیا وہی صفات واپس نہیں آ سکتی تھیں جنہوں نے یونانیوں کو حیران کر دیا تھا؟ اپنے خِطے کے بارے میں ہزاروں برس پہلے لکھی ہوئی یونانی مورخ کی سطور برسوں بعد نظم میں ڈھل کر مثالی دُنیا مرغدین کی تصویر بننے والی تھیں۔۸۶ ۹۱ اپریل میں اخبارزمانہ کانپور میں ’عشقِ دنیا و حب ِ وطن‘ کے عنوان سے ایک تحریر شائع ہوئی۔ اٹلی کا رہنما مزینی جو یورپ جاتے ہوئے اقبال کو ایک شعر میں یاد آیا تھا اُس کے اور اس کی محبوبہ مگڈالین کے حالات اس تحریر میں بڑے دلچسپ انداز میں بیان ہوئے تھے۔ مصنف کا نام منشی پریم چند تھا۔ اُن کا پہلا مختصر افسانہ تھا۔ ۹۲ ۳ اپریل کوانگلستان کے وزیراعظم اور بابائے دار العوام کیمبل بینرمین نے بیماری کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ دو روز بعد وزیر خزانہ ہنری ہربرٹ اسکوئیتھ وزیراعظم بنے جنہوں نے اُنہیں سرکاری قیام گاہ ۱۰-ڈاؤننگ اسٹریٹ ہی میں رہنے دیا۔ چل چلاؤ تھا۔ ۹۳ رینہارٹ ڈوزی (Reinhart Dozy) کا تعلق ہالینڈ سے تھا۔ عربی کے بہت بڑے عالم تھے۔ پچھلی صدی میں فوت ہوئے تھے۔ کسی وقت ان کی کتاب سے حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں ایک اہم واقعہ اقبال نے نوٹ کیا اور بعد میں اپنے الفاظ میں انگریزی میں بیان کیا: حضرت عمر فاروقؓ نے بعد میں یہ موقف اختیار کیا کہ جس طرح عجلت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب کیا گیا تھا اگرچہ اُس کے نتائج بڑے خوشگوار تھے اور وقتی ضرورت اُسے جائز بھی قرار دیتی تھی، تاہم اُسے آیندہ کے لیے اسلام میں ایک مثال نہیں بننا چاہیے۔ کیونکہ روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا (ڈوزی، جلد اول، صفحہ۱۲۱)، کوئی انتخاب جو عوام کے اجتماعی اِرادے کا صرف جزوی اظہار ہو وہ کالعدم ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ واقعہ مسلم سیاسی فکر کے ایک بنیادی پہلو کو ظاہر کرتا تھا: چنانچہ یہ بات کافی پہلے ہی سمجھی جا چکی تھی کہ سیاسی اقتدارِ اعلیٰ عملی طور پر عوام کے پاس ہے [اگرچہ حقیقی طور پر مالکِ کائنات کے پاس ہے] اور انتخاب کرنے والے اپنی متفقہ رائے کے آزادانہ استعمال سے اِسے ایک فردِ متعین میں پنہاں کرتے ہیں جس میں اجتماعی ارادہ ایک طرح سے شخصیت اختیار کرتا ہے۔ قانون کی نگاہ میں اِس مقتدر شخصیت کو کوئی امتیازی خصوصیت حاصل نہیں ہوتی سوائے اِس کے کہ اُسے انفرادی اِرادوں پر اختیار حاصل ہوتا ہے جن کی وہ ایک مظہر ہے۔ اجماع (universal agreement) کا خیال دراصل مسلم نظریۂ آئین سازی کا بنیادی اصول ہے۔ پیغمبر [صلیٰ اللہ علیہ وسلم] کا ارشاد ہے، ’’مسلم اُمت جسے خیر سمجھتی ہے، اللہ بھی اُسے خیر سمجھتا ہے۔‘‘ اشعری نے غالباً اِسی حدیث کی بنیاد پر اپنا سیاسی عقیدہ اختیار کیا تھاکہ ’’پوری اُمت کی متفقہ رائے میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔‘‘۸۷ یہ اِسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کا بنیادی فرق تھا۔ سرسید مرحوم نے بھی نمایاں کیا تھا، محمد علی (جوہرؔ) بھی اِس کی ترویج کر رہے تھے اور اقبال بھی اِسے ہمیشہ سامنے رکھنے والے تھے۔ ۹۴ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے تھے: اسلامی اخلاقیات کا سارا نظام انفرادیت پر قائم ہے۔ کوئی بھی چیز جو اِنفرادیت کی صحتمند ترقی میں حائل ہو وہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔ ایک مسلمان کو عمل کی پوری آزادی حاصل ہے بشرطیکہ وہ قانون کے خلاف نہ ہو۔ اِس قانون کے عمومی اصولوں کے متعلق یہ ایمان ہے کہ وحی کے ذریعے نازل ہوئے ہیں۔ تفصیلات پیشہ ور ماہرینِ قانون پر چھوڑی گئی ہیں تاکہ نسبتاً زیادہ دنیاوی معاملات کا احاطہ کر سکیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اسلامی قانون جو عملاً نافذ ہوتا ہے وہ حقیقتاً عدالتوں میں بنا ہوا قانون (judge-made law) ہے چنانچہ اسلامی آئین میں وکیل قانون ساز کا کردار اَدا کرتا ہے۔ ہاں اگر کوئی بالکل نیا مسئلہ درپیش آئے جس کے متعلق اسلامی قانون میں کچھ بھی نہ رہا ہو تو پوری مسلم اُمت کی مرضی قانون کا ایک اور ماخذ بن جاتی ہے۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ اس مقصد کے لیے پوری مسلم اُمت کی مجلسِ عام کبھی منعقد کی گئی۔۸۸ ۹۵ ’’اِسلامی جمہوریت‘‘ کے موضوع پر لندن میں مجوزہ لیکچر ہوا یا نہیں، یہ معلوم نہیں۔ قریب کے زمانے میںجو بنیادی نکات اُن کی تحریروں میں ظاہر ہوئے وہ معلوم ہیں: ٭ سیاست کی تعریف ’’اجتماعی انفرادیت‘‘ (corporate individuality) کی جا سکتی تھی۔ اِسلامی تصورِ ملت میں فرد پر لازم تھا کہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔ اِس پابندی کے سِوا فرد ہر طرح آزاد تھا۔ ٭ جمہوریت، سیاسی اعتبار سے اسلام کا اہم ترین پہلو تھی۔ اسلام کے اخلاقی نصب العین اور تصورِ ملت کا منطقی نتیجہ یہی تھا۔ ٭ اِسلامی جمہوریت قانون کے احترام اور ملت کے اتحاد کو فروغ دینے کے مقاصد رکھتی تھی۔ جابرانہ حکومت کے چالیس برس لاقانونیت کے ایک گھنٹے سے بہتر تھے۔ مسلمان ایک رہنما پر متفق ہو چکے ہوں تو کسی دوسرے کے لیے جائز نہ تھا کہ اپنی قیادت کا ڈول ڈالے۔ ٭ اسلامی سیاست کے دو بنیادی اصول تھے: ۱ خدا کا قانون سب پر حاوی سمجھا جائے۔ کلیسا اور ریاست کی تفریق اسلام کے منافی تھی کیونکہ اسلام میں پروہت اور بادشاہ کی گنجایش ہی نہ تھی۔ ۲ تمام شہریوں کے درمیان مساوات) (equalityتسلیم کی جائے۔ حکمراں بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ ٭ اصولی طور پر تمام مسلمان مرد اور عورت حکومت کے انتخاب میں حصہ لینے کا حق رکھتے تھے۔ اس کے لیے کسی خاص مالی حیثیت کی شرط نہ تھی۔ تاہم عورتیں اور غلام یہ حق استعمال نہ کر سکے۔ بہت ممکن ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ کے زمانے کے بعد پردے میں سختی بھی اِسی وجہ سے بڑھی ہو کہ خواتین کو سیاسی حق سے محروم کیا جا سکے۔ ٭ اِسلام کی اپنی جمہوریت زیادہ عرصہ قائم نہ رہی۔ اُس کی بجائے ملوکیت آ گئی۔مشرقی اقوام صدیوں تک اس کے بوجھ تلے کراہتی رہیں۔ اسلام کا اپنا سیاسی نصب العین یعنی جمہوریت بالآخر برطانیہ کے ذریعے مشرق کو ملا۔ اِس اعتبار سے برطانیہ گویا وہ فرض ادا کر رہا تھا جسے ادا کرنے سے مسلمان تاریخی حالات کی وجہ سے قاصر رہے تھے۔ ٭ یورپ اور برطانیہ کی مدد سے مسلمانوں کو صرف وہ جمہوریت دریافت کرنی چاہیے تھی جو اُن کے اپنے مذہبی نظام کی روح میں مضمر تھی۔ وطنیت کے علاقائی تصور کو جو مغرب میں جمہوریت کے مترادف سمجھا جاتا تھا، مسترد کرنے کی ضرورت تھی۔۸۹ ۹۶ ۲۲ اپریل کو کیمبل بینرمین مرے تو وزیراعظم کی سرکاری قیام گاہ میں فوت ہونے والے پہلے سابق وزیراعظم کا اعزاز پایا۔ ۹۷ ۳۰ اپریل کو صوبہ بہار کے شمال میں لیچی کے باغات سے گھرے ہوئے اور ہمالہ کے برفیلے پانی سے سیراب ہونے والے مظفر پور میں یورپین کلب کے گیٹ سے ایک بگھی باہر نکلی۔ دو نوجوان انتظار کر رہے تھے۔ دھماکے ہوئے اور بگھی تباہ ہو گئی۔ انتہاپسند تنظیم جگانتر نے نوجوانوں کو مجسٹریٹ کنگسفورڈ پر بم پھینکنے بھیجا تھا۔ بگھی میں آج اُن کی بجائے وکیل کنیڈی صاحب کی بیوی اور لڑکی تھیں۔ ایک ملازم ساتھ تھا۔ تینوں ہلاک ہو گئے۔ ۹۸ مئی میں عطیہ کو پھر یورپ کا سفر درپیش آگیا۔ شبلی نے ایک دردانگیز الوداعیہ لکھا جوعشقیہ شعر پر ختم ہوتا تھا۔ ۹۹ ہندوستان میں مسلم لیگ کے قیام کو اب قریب قریب ڈیڑھ برس ہو چکا تھا۔ مئی ۱۹۰۸ء میں لندن میں اس کی شاخ قائم ہوئی اور امیر علی کی صدارت میں کیکسٹن ہال میں افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ اقبال مجلسِ عاملہ کے رکن بنے اور اُس سب کمیٹی میں بھی شامل ہوئے جسے قواعد و ضوابط مرتب کر نے تھے۔۹۰ ۱۰۰ برطانیہ کا کوئی بادشاہ کبھی روس نہ گیا تھا۔ اُن کی آپس کی دشمنی عثمانی سلطنت کے لیے مفید تھی۔ مئی میں ایڈورڈ ہفتم نے یہ رسم توڑ دی۔ اِس دَورے میں زارِ روس کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ اسکندراعظم کا آبائی وطن مقدونیہ جو صدیوں سے عثمانی سلطنت کا حصہ تھا وہاں کا گورنر مسیحی طاقتوں کی مرضی سے متعین کیا جائے۔ اُس کے ساتھ یورپی افسر ہوں۔ ترکی مراکش نہ تھا۔ بیچینی پھیل گئی۔ ۱۰۱ ہمالیہ کے دامن میں بم دھماکے کرنے والے نوجوان الگ الگ فرار ہوئے تھے۔ چکی رام کی عمر بیس برس تھی۔ پولیس نے گھیرا تو سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی۔ کھڈی رام کی عمر اُنیس برس تھی اور بھگوت گیتا کی تعلیمات سے متاثر تھا۔ گرفتار ہوا۔سولہ برس کی عمر سے بم دھماکے کر رہا تھا۔ بال گنگادھر تلک نے اپنے اخبار میں دہشت گردوں کی حمایت کی۔ وہ بھی گرفتار ہوئے۔ ۱۰۲ ۲۶ مئی کو جنوب مغربی ایران میں ہزاروں برس پرانا مسجد ِ سلیمان کہلانے والا کھنڈر بہت اہم ہو گیا۔ قدرتی تیل برآمد ہواتھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں انگریز تاجروں کا خیال درست نکلا ۔ اُس روز لاہور میں مرزا غلام احمد قادیانی کا انتقال ہوا۔ پیچش ہوئی تھی۔ حکیم نورالدین جانشین ہوگئے۔ ۱۰۳ ’’اِسلام اور عقلِ انسانی‘‘ کے موضوع پر لندن میں مجوزہ لیکچر ہوا یا نہیں، یہ معلوم نہیں۔ قریب کے زمانے کی تحریروں سے اِس موضوع پر بعض بنیادی نکات دستیاب ہو سکتے ہیں: ٭ کسی بڑے مذہبی نظام کے بارے میں جو سوالات اُٹھائے جا سکتے تھے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پوری انسانی تاریخ میں اُس مذہب کی کیا اہمیت ہے۔ اِسلام کے حوالے سے اِس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ اِسلام انسانی تاریخ میں اِستقرائی عقل (inductive intellect) کی پیدایش کا اعلان ہے۔ ٭ قدیم تہذیبوں کے زمانے میں عقلِ انسانی مسلسل ارتقأ کرتی رہی۔ جب یہ اس مقام پر پہنچی جہاں آسمانوں سے گھڑے گھڑائے فیصلوں کی محتاج نہ ہو بلکہ بعض آسمانی اصولوں کی روشنی میں خود فیصلے کر چکے تو قرآن شریف نازل ہوا۔ ٭ اِسلام کی آمد کے بعد مزید کسی نبی کی ضرورت نہ رہی۔ اس کے ساتھ ہی موروثی بادشاہوں اور پروہتوں کی گنجایش بھی نہ رہی۔ ۱۰۴ اقبال نے سوشیالوجیکل ریویو کے لیے ’’اسلام میں سیاسی فکر‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ لیا: ٭ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دَور میں نظامِ حکومت کے متعلق عرب کے قدیم دستور میں اسلامی اصولوں کے مطابق ارتقا ہوا۔ یہ اصول بنیادی طور پر دو تھے: ۱ اسلامی ملّت جو دراصل ایک دولت ِ مشترکہ (commonwealth) تھی وہ ہم خیالی کے اصول پر قائم تھی چنانچہ اس میں مکمل مساوات تھی۔ ۲ اسلام میں ریاست اور مذہب کے درمیان کوئی تفریق نہ تھی چنانچہ اسلام میں پاپائیت کی گنجایش نہ تھی۔ ٭ حضرت عثمان غنیؓ کی خلافت کے زمانے میں وہ اختلافات شروع ہوئے جنہوں نے آگے چل کر سیاست کے بارے میں تین مکاتیبِ فکر کو جنم دیا: ۱ سنی مکتبِ فکر کی وضاحت کرنے والوں میں الماوردی خاص طور پر قابلِ ذکر تھے۔ ان کے مطابق پوری مسلم امت کو خلافت کے امیدواروں اور خلیفہ کو منتخب کرنے کا حق رکھنے والوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا۔ اُمیدوار کی پانچ لازمی خصوصیات الماودری [۱۰۵۸ئ-۹۷۲ئ] نے گنوائی تھیں۔ امام غزالی [۱۱۱۱ئ-۱۰۵۸ئ] اور بیضاوی [وفات لگ بھگ ۱۲۸۶ئ] نے ان میں ایک ایک شرط کا اضافہ کیا تھا۔ خلیفہ اپنے جانشین کو نامزد کر سکتا تھااور وہ خلیفہ کی اولاد میں سے بھی ہو سکتا تھا مگر نامزدگی غیرمؤثر رہتی جب تک عوام اس کی توثیق نہ کر دیں۔ خلیفہ اپنی زندگی میں اپنے جانشین کے لیے یہ توثیق حاصل نہ کر سکتا تھا ورنہ اُس کے بعد عوام کسی دوسرے کو منتخب کر سکتے تھے اور پہلے توثیق کیے ہوئے خلیفہ کو دستبردار ہونا پڑتا ورنہ واجبُ القتل تھا۔ خلیفہ اسلام کے مطابق عمل نہ کرے، یا جسمانی یا ذہنی معذوری میں مبتلا ہو جائے تو خلافت سے محروم کیا جا سکتا تھا۔ ابن جامہ [وفات ۱۳۳۳ئ] کے مطابق ایک وقت میں ایک سے زیادہ خلفأ نہیں ہو سکتے تھے۔ ابن خلدون [۱۴۰۶ئ-۱۳۳۲ئ] کے مطابق ہو سکتے تھے بشرطیکہ ایک ہی ریاست میں نہ ہوں۔ اقبال اِسی کی تائید کرتے تھے بلکہ عملاً مسلم دنیا میں مدت سے یہی ہو رہا تھا۔ الماوردی کے مطابق خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے والے میں بھی تین خصوصیات ضروری تھیں: ایک دیانتدار شخص کے طور پر اچھی شہرت؛ امورِ مملکت سے ضروری واقفیت؛ اور ضروری بصیرت اور قوتِ فیصلہ۔ زبردستی انتخاب جائز نہ تھا۔ ابن جامہ کے نزدیک سیاسی ابتری کے زمانے میں جائز تھا۔ اقبال اِس رائے کو اِسلام کے منافی سمجھتے تھے مگر ہسپانیہ کے عالم طرطوشی [۱۱۲۷-۱۰۵۹] کہہ گئے تھے، ’’جابرانہ حکومت کے چالیس برس لاقانونیت کے ایک گھنٹے سے بہتر ہیں۔‘‘ الماوردی نے انتخاب کرنے والے اور منتخب ہونے والے کے درمیان رشتے کو ’’عقد‘‘ کا نام دیا تھا۔ سماجی معاہدہ تھا: لہٰذا الماوردی کے مطابق ریاست کی اصل جبر نہیں بلکہ افراد کی بلاجبر و اِکراہ رضامندی ہے جو ایک ایسی اُخوت قائم کرنے کے لیے متحد ہوتے ہیںجو قانونی مساوات پر قائم ہوتاکہ اس اخوت کا ہر فرد قانونِ اسلام کے تحت اپنی انفرادیت کے ممکنات باہر لا سکے۔ اُس کے نزدیک حکومت ایک مصنوعی بندوبست ہے اور صرف اِن معانی میں منجانب اللہ ہے کہ قانونِ اسلام، جس کے منجانب اللہ ہونے پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں، وہ امن و امان کا تقاضا کرتا ہے۔ الماوردی نے ریاست کے پانچ اہم عمّال کی ذمہ داریاں بھی گنوائی تھیں: وزیر، گورنر، سپہ سالارِ اعلیٰ، قاضی القضاۃ اور محتسب اعلیٰ۔ وزیر کے اختیارات غیرمحدود بھی ہو سکتے تھے اور محدود بھی، محدود اختیارات والے وزیر کے عہدے پر غیرمسلم کو بھی فائض کیا جا سکتا تھا۔ ۲ شیعہ مکتبِ فکر کے مطابق ریاست کی اصل خدا کی طرف سے تھی۔ خلیفہ جسے وہ امام کہتے تھے، خدا کے دیے ہوئے حق کے تحت حکومت کرتا تھا۔ یہ نقطۂ نظر پہلے پہل عرب کے ایک غیرمعروف فرقہ صبائیہ میں رائج ہوا جس کا بانی عبداللہ ابن صبا یمن کے علاقے صنعا کا ایک یہودی تھا، حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں مسلمان ہوا اور بالآخر مصر میں مقیم ہو کر اپنے نظریے کی تبلیغ شروع کی۔جلد ہی اس نظریے کو فارس [ایران] میں مستقل جگہ مل گئی کیونکہ وہاں اسلام سے پہلے رائج سیاسی اطوار کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ فارسیوں ]ایرانیوں] کے مطابق امام منتخب نہیں ہوتا بلکہ خدا کی جانب سے مامور کیا جاتا ہے اگرچہ عمان کے شیعوں نے امام کے انتخاب کا اصول اپنایا اور اُسے امامت سے علیحدہ کرنے کا حق بھی رکھا۔ اِمام عقلِ کُلّی کی تجسیم ہوتا ہے، کامل ہوتا ہے، اُس کی دانائی عقلِ انسانی سے ماورا ہوتی ہے اور اُس کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔ پہلے امام حضرت علیؓ تھے جنہیں پیغمبر [صلی اللہ علیہ وسلم] نے نامزد کیا۔ حضرت علیؓ کے خلف خدا کی جانب سے مامور کیے جانشین تھے۔ بارہویں امام کوفہ کے نزدیک اچانک غائب ہو گئے مگر واپس آکر دنیا کو امن اور خوشحالی سے بھر دیں گے۔ اپنے پیغامات بعض خاص افراد کے ذریعے پہنچاتے رہتے ہیں جنہیں باب کہا جاتا ہے۔ ’’غیبتِ امام‘‘ کے اِس نظریے کا ایک ایسا سیاسی پہلو بھی تھا جس کی اہمیت کا احساس اقبال کے خیال میں ابھی تک کسی کو نہیں ہوا تھا: امام سچ مچ غائب ہوئے یا نہیں، میں نہیں جانتا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ریاست اور کلیسا کو علیحدہ کرنے کا معقول طریقہ ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، غائب امام ہر معاملے میں حتمی حکم رکھتا ہے۔ اس لیے موجودہ منتظمینِ اعلیٰ مملکت کے محض نگراں ہیں جو حقیقت میں امام کی ہے جو مرنے والے صاحبانِ جائیداد کی جائیداد کا ایک طرح سے وارث بھی ہوتا ہے اگر وہ کوئی وارث نہ چھوڑ جائیں۔ لہٰذا یہ دیکھا جائے گا کہ شاہِ ایران کا اختیار ملّاؤں کے اختیار کے مقابلے میں محدود ہو جاتا ہے جو غائب امام کے نمایندے ہیں۔ مملکت کے محض نگراں ہونے کے طور پر شاہ، ملّاؤں کی مذہبی بالادستی کا تابع ہے اگرچہ منتظمِ اعلیٰ کے طور پر وہ مملکت کی بھلائی کے لیے کوئی بھی اقدامات کرنے میں آزاد ہے۔ چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایران میں حال ہی میں ہونے والی دستوری اصلاحات میں ملّاؤں نے عملی حصہ لیا۔ ۳ خوارج کے نظریات کی تاریخ مرتب نہ ہوئی تھی لہٰذا اختصار سے تذکرہ کیا۔ خارجی کا لقب سب سے پہلے اُن بدنام بارہ سو مسلمانوں کو دِیا گیا جنہوں نے جنگِ صفین کے بعد حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اِس بات پر ناراض ہوئے تھے کہ حضرت علیؓ نے خلافت کا فیصلہ انسانوں کی رائے پر چھوڑ دیا تھا۔ اِن کے خیال میں قرآن کے مطابق کرنا چاہیے تھا۔ مشرقی افریقہ اور جنوبی الجیریا میں ابھی تک ان کی کی جمہوریت کا سادہ تصور رائج تھا۔ بنیادی طور پر خوارج کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا: اول؛ جن کے خیال میں کوئی بھی اچھا مسلمان خلیفہ منتخب ہو سکتا ہے، خواہ قریش سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ عورت اور غلام بھی حکومت کر سکتے ہیں۔ دوم؛ جن کے خیال خلیفہ کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کا اجتماع اپنے معاملات خود سنبھال سکتا ہے۔ سوم؛ جن کے خیال میں کسی بھی قسم کی حکومت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ یہ گویا مسلمانوں کے لاقانونیت پرست (anarchist) تھے۔ ٭ یہ بات واضح تھی کہ قرآن میں جو بنیادی اصول بتایا گیا وہ انتخاب (election) تھا۔ اس اصول کو قابلِ عمل نظامِ حکومت میں ڈھالنے کا کام اور تفصیلات دوسرے عوامل پر چھوڑ دی گئی تھیں۔ ٭ انتخاب کا اصول خالص جمہوری خطوط پر ترقی نہ پا سکا۔ مسلمان فاتحین نے ایشیا کی سیاسی بہتری کے لیے کچھ نہ کیا۔ بغداد اور ہسپانیہ میں انتخاب تو ضرور ہوتے رہے مگر عوام کو متحرک کرنے والے باقاعدہ سیاسی ادارے فروغ نہ پا سکے۔ دو بنیادی وجوہات تھیں: ۱ انتخاب کا تصور فارسیوں [ایرانیوں] اور منگولوں کی طبیعت سے میل نہ کھاتا تھا اور یہ دو بڑی نسلیں تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ۲ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کی زندگی فتوحات پر مبنی تھی۔ ان کی ساری توانائی سیاسی اقتدار کی سرحدیں وسیع کرنے پر مرکوز تھی، جس کا نتیجہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ طاقت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے اور جمہوریت کی جگہ ملوکیت لے لیتی ہے (اقبال سمجھتے تھے کہ اِس بات سے انگریزوں کو سبق سیکھنا چاہیے!)۔ آخر میں ہمعصر مسلمان رہنماؤں کو پیغام دیا: دَورِ جدید میں مغربی سیاسی افکار کے اثرات کی مہربانی سے مسلمان ملکوں نے سیاسی زندگی کے آثار ظاہر کیے ہیں۔ انگلستان نے مصر میں زندگی کی لہر دوڑائی ہے؛ فارس [ایران] نے شاہ سے دستور حاصل کر لیا ہے، اور نوجوان ترک پارٹی (Young Turk Party) بھی اپنا مقصد حاصل کرنے لیے جدوجہد، منصوبہ بندی اور سازشیں کرتی آ رہی ہے۔ تاہم اِن سیاسی مصلحین کے لیے بالکل ضروری ہے کہ اسلام کے آئینی اصولوں کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو ایک نئی ثقافت کے پیغمبر ظاہر کر کے اپنے عوام کی قدامت پسندی کو صدمہ نہ پہچائیں جو فطری طور پر پہلے ہی شبہ میں مبتلا ہے۔ یقینا وہ لوگوں کو زیادہ متاثر کر سکیں گے اگر وہ دِکھا سکیں کہ اُن کے بظاہر مستعار نظر آنے والا سیاسی آزادی کا نصب العیین حقیقتاً اسلام کا نصب العین ہے اور یوں ایک آزاد مسلم ضمیر کا جائز مطالبہ ہے۔ ۹۱ ۱۰۵ واپسی کا وقت قریب آرہا تھا۔ اقبال سوچ رہے تھے کہ ایما سے ملاقات کرتے ہوئے جائیں گے۔۳ جون کو جرمن میں ایما کے نام لکھا: آج کل بہار کا موسم ہے۔ سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے اور آپ کا خط میری بہار ہو گا۔ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o messrs. Thomas Cook & Co. Ludgate Circus London E.C. 3rd June 08 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich hatte ein Brief von Ihnen and Ich schreibe eine antwort gleich. Vielleicht mein antwort haben sie nicht erhalten. Besten Danken für Ihre post carte... Bitte schreiben sie bald und sagen sie zu mir was sie tun und Denken. Warum warten sie auf meinen Brief. I wunsche jeden tag von Ihnen zu hören. Frl. Fyzee ist heir mit ihre Schwester und Schwager der ein Indian Fürst ist. Ich ging vor einige tag um sie zu besuchen. Sie ist wohl und im besten Giest. Vielleicht werden sie nach Deutschland kommen. Ich bin sehr beschaftigt--- werde England verlassen bald--- im anfang Juli. Ich weis nicht ob es möglisch sein wird durch Deutschland zu fahren. Es ist meine grosse wunsch Sie zu besuchen vor Ich nach Indien reise. Seien sie nicht grausam--- Bitte; Schreiben sie bald und alles. Mein Körper ist heir, mein Gedanken sind in Deutchland. Es ist Frühling, die Sonne lachelt, mein herz, aber, ist traurig. Senden sie einige worter, und Ihre Brief wird meinen Frühling sein. Ich habe sehr schöne Gedanken für sie in meinen traurigen Herzen, und Schweigsam gingen sie nach Ihnen ein nach ander. Diese sind meine Wünsche für sie. Ihr Iqbal ۱۰۶ ۹ جون کو اقبال کی ملاقات عطیہ فیضی اور اُن کی بہن نازلی سے ہوئی اور نازلی بیگم نے اقبال کا آٹوگراف لیا۔اُن کے خاوند ہزہائی نس نواب اسدی احمد خاں بھی ساتھ تھے: اے کہ تیرے آستانے پر جبیں گستر قمر قطعے میں چار اَشعار تھے۔ آخری شعر فارسی میں تھا جس میں ملت کی رہنمائی کرنے کی درخواست تھی۔ دلچسپ سوال ہے کہ کیا عطیہ نے اقبال سے شبلی کا ذکر کیایا اُن کے خطوط دکھائے؟اقبال شاید شبلی کو اپنا ذہنی رہنما تسلیم کر چکے ہوں کیونکہ سوچ پر شبلی کے تاریخی شعور کی چھاپ گہری ہوتی نظر آتی تھی۔ عطیہ سے ملاقات کے اگلے روز اقبال نے ایما کو اپنی تصویر بھیج دی اور لکھا، ’’شاید ایک اور بھی بھیجوں۔‘‘ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] c/o Messrs Thomas Cook & Son Ludgate Circus London E.C. 10th June O8 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich habe schon geschrieben und warte auf Ihren Brief. Hiermit schliese Ich ein Photographie von mir. Viel-leicht werde Ich eine andere Bild zu Ihnen Schiken. Ihre S.M. Iqbal P.S. Ich reise nach Indien am 2. Juli und werde von da schreiben. ۱۰۷ اقبال سے روایت ہے: ایک دفعہ لندن میں کسی صاحب نے کسی مہمان کے اعزاز میں چند دوستوں کو ضیافت پر مدعو کیا تھا۔ میں بھی شامل تھا۔ فراغتِ طعام کے بعد مہمانِ عزیز سے تفصیلی تعارف کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ [پتھروں کے ماہر] ہیں۔ میں نے ان سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔ چنانچہ سیر کرتے ہوئے ہم سمندر کے ساحل پر پہنچ گئے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اپنے مضمون کے متعلق کچھ فرمائیں۔ اُنہوں نے ساحل سے ایک چھوٹا سا سنگ پارہ اٹھا لیا اور اس کی سوانح عمری بیان کرنا شروع کر دی۔ مختصر یہ کہ ہم پندرہ دن تک روزانہ سیر کو جاتے رہے اور وہ پتھر کے ٹکڑے کے راز بیان کرتے رہے۔۹۲ ۱۰۸ دمشق سے مدینہ تک ریل کی پٹری بچھانے کا منصوبہ تیار تھا۔ کئی مسلمان ملکوں میں چندے کی اپیلیں شروع ہو رہی تھیں۔ ہندوستان میں بھی ہو رہی تھیں۔ ۱۰۹ برطانوی سفیر نے ایران کی جمہوری حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اپنے نئے بادشاہ محمد علی مرزا کے سامنے سر نہ اُٹھائے۔ وہ مظفرالدین قاجار کا بیٹا تھا۔ اُس کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھتے ہی عوامی نمایندوں کے خلاف ہو گیا تھا۔ روسی سفیر نے بھی اُس کی حمایت کی تھی۔ جمہوری مجلس باز نہ آئی تو بادشاہ نے ۲۳ جون کو مجلس توڑ دی۔ اگلے روز شاہی فوجوں نے مجلس کے ایوان پر گولے برسائے۔ ۱۱۰ ۲۷ جون کو جرمن میں خط لکھا۔ یہ لندن سے ایما کے نام لکھا ہوا آخری خط تھا: مائی ڈیر مس ایما میں نے اپنی سی پوری کوشش کی ہے کہ جرمنی کے رستے سفر کروں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ میں ۳ جولائی کو لندن سے روانہ ہوں گا اور چند روز پیرس میں رکوں گا جہاں مجھے کچھ کام ہے۔ براہِ کرم فوراً لکھیے۔ میں ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے آپ کا خط پانے کا متمنی ہوں۔ میں اگلے سال یورپ واپس آنے اور آپ سے ملنے کی اُمید رکھتا ہوں۔ مت بھولیے گا کہ اگرچہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دُوسرے سے جُدا کریں گے مگر ہمارے درمیان کبھی نہ مٹنے والا ایک تعلق رہے گا۔ میرے خیالات مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی طرف دوڑیں گے اور اس رشتے کو مضبوط بنائیں گے۔ ہمیشہ مجھے لکھتی رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست ہے اگرچہ وہ بہت دُور ہے۔ جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ براہِ کرم فوراً لکھیے۔ آپ کا ایس ایم اقبال ایما کے پچھلے خط سے یا کسی اورطرح خنفر صاحب کی بیماری کا حال معلوم ہوا تھا جو ایما اور اقبال کے باہمی شناسا رہے ہوں گے۔ پسِ تحریرمیں افسوس کیا، ’’میں نے اُن سے کہا تھا کہ صحت کا خیال رکھیں۔‘‘ بنام ایما ویگے ناست [جرمن میں] 49, Elsham Rd. Kensington W. London 27th June 1908 Mein liebes Frl. Emma, Ich habe mein bestes gethan um durch Deutschland zu fahren --- aber es nicht möglish ist. Ich werde am 3rd July verlassen und einige Tage in Paris bleiben wo ich etwas zu tun habe. Bitte schreiben sie bald; Ich wunsche ein Brief von Ihnen zu haben bevor Ich nach Indien reise. Nachtes Jahr hoffe Ich nach Europa zuruck zu kommen und sie zu besuchen. Vergessen Sie nicht dass es gibt eine unsichtbare verbindung zwischen uns obgleich viele länder und meere uns trennen von einander. Mit ein magnetischer gewalt meine gedanken eilen nach Ihnen, und diese verbindung festigen und stark machen. Schreiben sie mir immer, und erinnern sie sich dass sie ein treuer freund haben obgleich er entfernt ist. Wenn die herzen bei einander sind, entfernung macht nicht. Bitte schreiben sie gleich. Ihr S.M. Iqbal P.S. Es tut mir lied von Herrn Chanfers' Krankheit zu hören.Ich sagte zu ihm dass es daher sorgvoll sein muss. ۱۱۱ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے کہ جماعتوں کی تنظیم و ترتیب کے دو اسباب تھے۔ پہلا کسی عظیم شخصیت کا ظہور تھا۔ رسول اکرم ؐ کی بدولت مسلمانوں میں معجزاتی صفات پیدا ہوئیں اور یہ اثر صحابہ میں کام کرتا رہا مگر جیسا کہ ابن خلدون نے تاریخ کا اصول بیان کیا تھا کہ چار نسلوں کے بعد زوال کے آثار پیدا ہوتے، مسلمانوں میں بھی اتنے ہی عرصے کے بعد زوال کے آثار پیدا ہو گئے۔۹۳ ۱۱۲ فرد کی طرح قوم بھی ایک متعین وجود رکھتی ہے۔ یہ خیال نظم ’پیامِ عشق‘ میں اب ظاہر ہوا۔ بعد میں انگریزی نثر میں وضاحت کی: علم الحیات کی حالیہ تحقیقات نے ظاہر کیا ہے کہ فرد اپنی ذات میں محض ایک تجرید ہے، سماجی حوالے کی سہولت کے لیے اختیار کیا جانے والا پیرایۂ اظہار ہے، ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے اُس گروہ کی زندگی میں جس سے اُس کا تعلق ہے۔ فرد کے خیالات، اُس کے ارمان، اُس کا طرزِ زندگی، اُس کا تمام ذہنی و جسمانی سرمایۂ حیات، یہاں تک کہ اُس کی زندگی کا دورانیہ بھی سب اُس ملت کی ضروریات سے متعین ہوتے ہیں جس کی اجتماعی زندگی کا فرد صرف ایک جزوی اظہار ہے۔۔۔ معاشرے کو ترتیب دینے والی وحدتوں [یعنی افراد] سے علیحدہ معاشرے کی اپنی ایک نمایاں زندگی ہے۔۔۔ معاشرہ اپنی جگہ ایک شعور، ایک ارادہ اور ایک عقل رکھتا ہے بلکہ رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے اگرچہ اِس کی ذہنیت کی رَو کے لیے افراد کے ذہنوں کے ذریعے بہنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ ’’رائے عامہ‘‘، ’’قومی مزاج‘‘، یا جرمنوں کی خوش کن اصطلاح ’’روحِ عصر‘‘ سماجی نفسیات کی اِس انتہائی اہم حقیقت کی صرف جزوی پہچانیں ہیں۔ اجتماع، جلسۂ عام، کارپوریشن، فرقہ اور سب سے آخر میں فیصلے کرنے والی مجلس وہ مختلف ذرائع ہیں جن کی مدد سے سماجی وجود اپنی تنظیم کرتا ہے تاکہ شعور کی وحدت حاصل کر سکے۔۔۔ چنانچہ یہ بات صاف ہے کہ معاشرے کا ایک اپنا زندگی کا دھارا ہے۔۹۴ پیامِ عشق سُن اے طلبگارِ دردِ پہلو، میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں، تو سراپا ایاز ہو جا نہیں ہے وابستہ زیرِ گردوں کمال شانِ سکندری سے تمام ساماں ہے پاس تیرے تو بھی آئینہ ساز ہو جا غرض ہے پیکارِ زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تو ادا مثالِ نماز ہو جا دیارِ خاموش دل میں ایسا ستم کشِ دردِ جستجو ہو کہ اپنے سینے میں آپ پوشیدہ صورتِ حرفِ راز ہو جا نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اِسی سے قائم ہے شان تیری کہ اپنے سینے میں آپ پوشیدہ صورتِ حرفِ راز ہو جا گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرانوردیوں کا جہاں میں مانندِ شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا وجود افراد کا مجازی ہے ہستیٔ قوم ہے حقیقی فِدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال!ؔ آذری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا۹۵ بعد میں کبھی نظم میں ترمیم کی: پیامِ عشق [نیا متن] سن اے طلب گارِ دردِ پہلو! میں ناز ہوں، تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شانِ سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینے میں، تو بھی آئینہ ساز ہو جا غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرضِ قدیم ہے تو، ادا مثالِ نماز ہو جا نہ ہو قناعت شعار گلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری وفورِ گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا گئے وہ ایام، اب زمانہ نہیں ہے صحرانوردیوں کا جہاں میں مانند شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا ’’وجود افراد کا مجازی ہے ہستیِ قوم ہے حقیقی‘‘، اقبال نے اِس نظم میں کہا تھا۔ اسلامی ادبیات میں فرد کے وجود کو مجازی (virtual) ہی دکھایا گیا تھا۔ البتہ ’’حقیقی‘‘ (real) کی اصطلاح عموماً خدا کی ذات کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ اب اقبال اِسے قوم کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ گزشتہ صدیوں کے ادبی ذخیرے کی تعبیریں بدل سکتی تھیں۔ اقبال خود کبھی اِس اصول کی روشنی میں پورے اسلامی ادب کی تشریح کرنے نہ بیٹھے۔ البتہ اُن کی آیندہ شاعری میں مولانا نظامی گنجوی، شیخ فریدالدین عطار، مولانا رومی اور شیخ سعدی جیسے نمایندہ شعرأ کے حوالے اِسی نئے رنگ میں آنے والے تھے: ٭ آذربائیجان کے فارسی شاعر نظامی گنجوی (۱۲۰۹ئ-۱۱۴۱ئ) کی مثنوی لیلی و مجنوں (۱۱۹۲ئ) نے عرب لوک کہانی کے نیم تاریخی کرداروں کو تمام اسلامی دنیا میں شہرت دلوائی تھی۔ مجازی عشق کے پردے میں عشقِ حقیقی کے راز بیان کیے تھے۔ عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ خدا کی محبت میں انسان جن مراحل سے گزرتا ہے وہ دکھائے گئے ہیں۔ قیس یعنی مجنوں انسان کا اور لیلیٰ حقیقتِ مطلق یعنی خدا کا استعارہ سمجھے جاتے تھے۔ پانچ برس پہلے اقبال نے بھی کہا تھا: طُور پر تُو نے جو اے دیدۂ موسیٰ دیکھا وہی کچھ قیس نے دیکھا پسِ محمل ہو کر اب عشقِ حقیقی سے قوم کا عشق مراد لے رہے تھے۔ لیلیٰ قوم کے اُس اجتماعی وجود کا استعارہ بنتی تھی جس کے بارے میں اقبال سمجھتے تھے، ’’یہ بات صاف ہے کہ معاشرے کا ایک اپنا زندگی کا دھارا ہے۔۔۔‘‘ ۱ لیلیٰ امیر ِ شام کے ساتھ زبردستی بیاہ دی گئی۔ یہ اسلام میں ملوکیت کی آمد کی طرف اشارہ سمجھا جا سکتا تھا۔ اسلام کی روح جمہوری تھی۔ لیلی [قوم] اور عوام [قیس] کی دوطرفہ محبت پر قائم تھی۔ اِس سے پہلے کہ دنیا میں اپنا اصل رنگ دکھاتی، قوم کو بادشاہت کے چنگل میں دے دیا گیا (ماوردی نے اِس کے لیے ’’عقد‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا جس کا دوسرا مطلب نکاح تھا)۔ ۲ جو لوگ قوم کی محبت کو دل سے نکال نہ سکے، صوفی بن گئے۔ قیس صحراؤں میں رہتا تھا اور درندے چرندے سبھی اُس کے گرد سکون سے بیٹھے رہتے۔ صوفیوں کی حقیقت یہی تھی۔ جو قیس کی حقیقت سے واقف نہ تھے، اُسے دیوانہ اور مجنوں کہتے تھے۔ جو تصوف کی حقیقت سے واقف نہ تھے، سمجھتے تھے کہ یہ محض دنیا سے بے پروا ہو جانے کا نام تھا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ تصوف ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ تک پہنچنے کا عملی طریقہ تھا۔ ایک معاشرتی قوت بن سکتا تھا: کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر اُستوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا وہ لوہے کی تلواریں نہ تھیں بلکہ فقرِ بوذرؓ، زورِ حیدرؓ اور صدقِ سلمانی جیسی خصوصیات تھیں۔ بادشاہوںنے اِن خصوصیات کا ’’عقد‘‘ قوم کی روح کے ساتھ نہ ہونے دیا تو صوفی انہی خصوصیات کو لے کر خانقاہوں میں چلے گئے۔ وہ تصوف جس میں یہ خصوصیات نہ رہی ہوں، اب اقبال کی نظر میں جعلسازی کے برابر تھا۔ ۳ لیلیٰ نے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم نہ کیے۔ بادشاہت نے صرف قوم سے ’’عقد‘‘ کیا، اُس کی رُوح کو آلودہ نہ کر سکی۔ ۴ نظامی کی مثنوی میں لیلیٰ اور مجنوں کے ایک دوسرے کے نام خطوط دنیا کے تمام ادب میں عشق و محبت کے اظہار کی بلند ترین مثالیں تھے۔ اب انہیں قوم کی اجتماعی روح اور فرد کے درمیان پیغامات کا تبادلہ سمجھا جا سکتا تھا (اقبال سمجھتے تھے: ’’ معاشرہ اپنی جگہ ایک شعور، ایک ارادہ اور ایک عقل رکھتا ہے بلکہ رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے اگرچہ اِس کی ذہنیت کی رَو کے لیے افراد کے ذہنوں کے ذریعے بہنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔۔۔‘‘) قوم کا پیغام، فرد کے نام [لیلیٰ کا خط]: ’’غم مت کرو۔ اپنے دل کو افسردہ مت ہونے دو ، یہ مت سوچو کہ تمہارا کوئی دوست نہیں۔ کیا میں کوئی نہیں؟ کیا اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ میں ہوں اور صرف تمہارے لیے ہوں؟ جان لو کہ تنہائی کی شکایت کرنا غلط ہے۔ جن کا کوئی نہ ہو اُن کا خدا ہوتا ہے۔‘‘ فرد کے جذبات [قوم کے لیے]: ’’تمہارے عشق میں میری عمر کٹتی ہے، آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میں تمہاری خاطر اپنا آپ کھو چکا ہوںمگر اِس راہ پر وہی چل سکتے ہیں جو اپنے آپ کو بھلا دیں۔ تمہی میری رہنما ہو اور مجھے عشق کا سچا مذہب سکھا رہی ہو خواہ تمہاری اپنی وفا مجھ سے ہمیشہ چھپی رہے۔ میرے عشق کو میرے رازوں کا محافظ بننے دو۔ میرے زخم کے لیے مرہم نہیں تو کیا! تمہیں کوئی زخم نہ لگے تو مجھے بھی کوئی درد نہیں۔‘‘ وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال!ؔ آذری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا ۵ لیلیٰ فوت ہوئی تو قیس چرندوں پرندوں کے پورے ہجوم کے ساتھ اُس کی قبر پر جا کر مر گیا۔ دونوں ایک ہی قبر میں دفنائے گئے۔ مثنوی اِس اعلان پر ختم ہوتی تھی کہ اگلے جہان میں دونوں عاشق ایک ہی خیمے میں رہیں گے۔ کبھی جدا نہ ہوں گے۔ کسی تہذیب کا ختم ہو جانا بھی قیامتِ صغریٰ کہلاتا تھا۔ وہ مسلم تہذیب ختم ہو چکی تھی جہاں بادشاہت نے جلوے دکھائے تھے۔ کیا اب قوم دوبارہ زندہ ہو گی اور عوام کے ساتھ ’’عقد‘‘ کر لے گی؟ وہ عشق جس کے متحمل صرف چند صوفیا ہوا کرتے تھے، اب ہر دل میں ہو گا؟ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا ٭ نیشاپور میں شیخ فریدالدین عطار (۱۲۲۱ء تقریباً- ۱۱۴۵ء تقریباً) اُسی زمانے میں اپنی مثنوی منطق الطیر (۱۱۷۷ئ) لکھ رہے تھے جب آذربائیجان میں نظامی گنجوی نے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ عطار کی مثنوی بعد میں مولانا روم (۱۲۷۳ئ-۱۲۰۷ئ) جیسی شخصیات کی روحانی تربیت کا ذریعہ بنی۔ کہانی یہ تھی کہ تمام پرندے اپنے بادشاہ کی تلاش میں نکلے۔ اُس کا نام سیمرغ تھا۔ کسی نے دیکھا نہ تھا۔ راستے میں کئی پرندے ختم ہوئے۔ صرف تیس رہ گئے۔ پردہ اُٹھا تو تیس آئینے رکھے تھے۔ ہر پرندہ اپنا عکس دیکھ رہا تھا: فارسی میں ’’سی‘‘ کے معنی تیس اور ’’مرغ‘‘ کے معنی پرندہ ہوتے ہیں۔ ایک کی آواز سب کی اور ایک کا وجود سب کاتھا۔ یہی سیمرغ تھا۔ ۱ سیمرغ کو خدا کا استعارہ سمجھا گیا تھا۔ اس طرح وحدت الوجود کے تصور کا اثبات ہوتا۔ اقبال کی نئی تعبیر کے مطابق سیمرغ کو قوم کے اجتماعی وجود کی علامت سمجھا جا سکتا تھا (’’فرد اپنی ذات میں محض ایک تجرید ہے، سماجی حوالے کی سہولت کے لیے اختیار کیا جانے والا پیرایۂ اظہار ہے، ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے اُس گروہ کی زندگی میں جس سے اُس کا تعلق ہے،‘‘ اقبال سمجھتے تھے۔ ’’ اجتماع، جلسۂ عام، کارپوریشن، فرقہ اور سب سے آخر میں فیصلے کرنے والی مجلس وہ مختلف ذرائع ہیں جن کی مدد سے سماجی وجود اپنی تنظیم کرتا ہے تاکہ شعور کی وحدت حاصل کر سکے۔۔۔‘‘)۔ ۲ سیمرغ اُسی اجتماعی وجود کے جلال کا مظہر سمجھا جا سکتا تھا جس کے جمال کی جھلک لیلیٰ تھی۔ یہ وہ نظامِ فطرت ہو سکتا تھا جسے معاشرے کو صحیح اصولوں پر منظم کر کے دریافت کیا جا سکتا تھا۔ ’’اجتماعی انفرادیت‘‘ (corporate individuality) ہو سکتی تھی جسے اقبال سیاست کی صحیح تعریف سمجھتے تھے۔ وحدتِ انسانی کا وہ تصور ہو سکتا تھا جسے اقبال، اسلام کا اصل نصب العین سمجھتے تھے۔ اگلے وقتوں میں اس کے حصول کے لیے حالات سازگار نہ تھے۔ اب ہو رہے تھے۔ ۳ سیمرغ تک پہنچنے کے لیے پرندے سات وادیوں سے گزرے۔ انہیں سلوک کے سات مراحل کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اقبال کے تصور کی روشنی میں یہ وادیاں وہ مراحل سمجھے جا سکتے تھے جن سے گزر کر قوم اپنے حقیقی وجود کو دریافت کرنے والی تھی۔ منطق الطیر از شیخ فریدالدین عطار [اقتباسات کے ترجمے] ۱۔ وادیٔ طلب [۱۹۰۶ئ-۱۹۸۷ئ] جب وادیٔ طلب میں اُترتے ہو تو تمہیں ہر لمحہ سو مشکلیں پیش آتی ہیں، یہاں ہر سانس میں سو بلائیں ہیں، آسمان کا سبز پرندہ یہاں مکھی ہے! یہاں کئی سال جدوجہد کرنی ہے تاکہ یہاں سے دل کیفیات حاصل کر سکے، یہاں وطن چھوڑنا اور ملکیت سے ہاتھ دھونا ہے، اپنے لہو میں ڈوبنا اور ہر ظاہر سے گزرنا ہے، ہر بات جسے جانتے ہو وہ ہاتھ سے دینی ہے تاکہ دل ہر اُس چیز پاک ہو جائے جو ہے۔ جب تمہارے دل سے صفات دھل جائیں تو اُسے حضور سے نورِ ذات حاصل ہو سکتا ہے، وہ نور دل پر روشن ہو جائے تو تمہارے دل میں ایک طلب ہزار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اُس کی راہ میں آگ اور سیکڑوں ناخوشگوار وادیاں آتی ہیں، وہ کسی کے دیوانہ وار شوق میں اپنے آپ کو پروانے کی طرح شعلے کی نذر کرتا ہے، راز اُس کے تجسس کی وجہ سے طلب بن جاتا ہے اور وہ اپنے ساقی سے صرف ایک گھونٹ مانگتا ہے، اُس شراب کا گھونٹ حلق سے اُتارتے ہی ہر دو عالم کو بھلا بیٹھتا ہے، بھرے دریا میں پیاسا ڈوب جاتا ہے اور رُوح سے محبوب کا راز طلب کرتا ہے، وہ راز اُسے جس سے آشنا کرتا ہے اُس کی آرزو میں ایک جان لیوا اژدھے سے مقابلے پر اُتر آتا ہے، اگر کفر اور لعنت بھی دروازے پر ہوں تو ہٹتا نہیں جب تک دروازہ کھل نہ جائے، پھر دروازہ کھل جائے تو کیا کفر اور کیا دیں، اُس درس گاہِ ازل میں سب ایسے ہو جاتے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں! ۲۔ وادیٔ عشق [۱۹۲۶ئ-۱۹۰۷ئ] اس کے بعد وادیٔ عشق آتی ہے۔ جو وہاں پہنچا، آگ میں ڈوبا! اس وادی میں اترنے والا سراپا شعلہ بنا اور جو نہ بنا اُسے سہولت راس نہ آئی! عاشق وہ ہے جو شعلے کی طرح جیے: چہرہ گرم اور تپا ہوا، آپ سرکش و بیباک! ایک لمحے کو بھی انجام کی فکر نہ کرے اور ہنسی خوشی سو جہاں آگ میں پھونک دے، ایک پل کو بھی کافری کا دھیان کرے نہ دین کا، ذرّہ بھر شک کرے نہ یقیں، اُس کی راہ میں اچھے برے ایک جیسے ہوں کہ جب وہ خود عشق بن گیا تو پھر کچھ اور نہ رہا! اے پرہیز کرنے والے! یہ باتیں تیرے مطابق نہیں، تو واپس پلٹ جانے والا ہے اور یہ تیرے بس کا نہیں! جس کی محبت پاک ہو وہ ضرور سب کچھ ہاتھ سے جانے دیتا ہے تاکہ محبوب کا ساتھ اُسے مل جائے، دوسروں کے لیے کل کا وعدہ ہے مگر اُسے یہاں بھی دستیاب ہے! جب تک اپنے آپ کو یکدم جلا نہ ڈالو، غم سے نجات کیسے پا سکتے ہو؟ اپنے وجود کی ریشم جلاؤ گے نہیں تو دل کو تقویت دینے والی دوا کیسے پاؤ گے؟ شاہین سوز و گداز میں مسلسل تڑپتا ہے تاکہ اپنے نشیمن تک پہنچ سکے، مچھلی دریا سے صحرا میں جا پڑے تو واپس پانی میں پہنچنے کے لیے تڑپتی ہے، عشق یہاں آگ ہے اور عقل دھواں، عشق دیر سویر برداشت کر لیتا ہے اور عقل جلدی چاہتی ہے، عشق کا جنوں عقل سے نہیں سیکھا جا سکتا کہ یہ ماں کے پیٹ سے آئی ہوئی عقل کا کام نہیں ہے۔ اگر نظر نہ آنے والے پر اپنی آنکھ لگاؤ تو یہاں دیکھ پاؤ گے کہ عشق کا سرچشمہ کہاں ہے، ایک ایک پتہ عشق کے دم سے ہے، عشق کی مستی میں آپے سے باہر ہوا جا رہا ہے، اگر تم وہ غیبی آنکھ اپنے لیے کھول پائے تو دنیا کا ہر ذرّہ تمہارا ہمراز ہو جائے گا، ورنہ اگر عقل کی آنکھ سے نظر دوڑائی تو عشق کا سر پیر معلوم نہ کر پاؤ گے۔ عشق کے لیے ایسا شخص چاہیے جو پورا ہو، عشق کے لیے آزاد طبیعت والا چاہیے، تم نہ پورے ہو نہ عاشق ہو، تم مردہ ہو پھر عشق کے لائق کیسے ہو سکتے ہو؟ اِس راہ میں زندہ دل کی ضرورت ہے جو ہر سانس میں سو جانیں نثار کر سکے۔ ۳۔ وادیٔ معرفت [۱۹۴۶ئ-۱۹۲۷ئ] اس کے بعد ایک بے سروپا وادی میں معرفت ملتی ہے! یہاں اتنے راستے ہیں کہ جو یہاں پہنچے اُسے ضرور ایک الگ راہ اختیار کرنی پڑتی ہے، ان میں سے کوئی راہ دوسری جیسی نہیں: جسم کا مسافر اور ہے، روح کا مسافر اور! روح اور جسم کا شاہین گھٹنے اور بڑھنے کے بعد سے ہمیشہ ترقی اور زوال کے چکر میں ہے، بس جب ایسی راہ آئے گی تو ہر ایک اپنی حد کو پہنچ جائے گا، خلیل اللہ کی اس راہ پر بھلا ایک پھنسی ہوئی مکڑی ہاتھی کے ساتھ کیسے چل سکتی ہے؟ ہر کسی کی اُڑان اُس کے اپنے کمال تک ہے، ہر کسی کا قرب اُس کے حال کے مطابق ہے، مچھر جتنا بھی اُڑے، اُسے تیز ہوا کا کمال کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ جب یہاں ہر پرندے کی راہ الگ ہے تو پھر کوئی دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتا، معرفت یہاں اختلاف میں ہے، کوئی محراب سے اور کوئی بت سے لو لگاتا ہے، جب اس بلند صفت راستے کے آسمان پر معرفت کا سورج نکلتا ہے تو ہر ایک اپنے آپ کو دیکھنے کے قابل ہوتا ہے اور حقیقت اُس کے دل پر کھل جاتی ہے، اُس کے ذرے ذرے کا راز روشن ہو جاتا ہے، دنیا کی بھٹی اُس کے لیے باغ ہو جاتی ہے، وہ چھلکا نہیں، گودا دیکھتا ہے، محبوب کے سوا اُسے اپنا ذرّہ بھی دکھائی نہیں دیتا، جو بھی اُسے دیکھتا ہے وہ ہمیشہ دیکھتا ہے، اُس کے کوچے کا ذرہ ذرہ ہمیشہ دیکھتا ہے! اُس کا چہرہ سورج بن کر نقاب کے پیچھے سے ایک لاکھ اسرار کو روشن کرتا ہے، لاکھوں لوگ ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتے ہیں تب کہیں رازوں کو دیکھنے والا ایک شخص تکمیل پاتا ہے، اُسے پورا اور بلند طبیعت ہونا ضروری ہے تاکہ اس گہرے سمندر میں غوطہ لگا سکے۔ اگر تمہیں اَسرار کا ذوق حاصل ہو گیا تو ہر لمحہ تمہارا شوق تازہ ہوتا رہے گا، یہاں پیاس کو انتہا تک پہنچنا ضروری ہے، یہاں صدہزار خون جائز ہیں، اگر عرشِ مجید تک بھی پہنچ جاؤ تو پل بھر کے لیے ’’ھل من مزید‘‘ [مجھے اور چاہیے] کہنا مت چھوڑو! اپنے آپ کو عرفان کے سمندر میں ڈبو دو ورنہ راستے کی دھول اپنے سر پر ڈالنا! اے سوئے ہوئے اگر تم مبارک باد کے قابل نہیں بنتے تو پھر اپنی تعزیت کر چکو، اگر محبوب کے وصل کی خوشی نہیں اٹھاتے تو ہمیشہ کے لیے جدائی کا غم بھگتو، اگر اب بھی محبوب کا جلوہ نظر نہیں آتا تو اُٹھو، راز جاننے کی طلب پیدا کرو، اگر جانتے نہیں ہو تو جاننا چاہو - شرم کرو، گدھے ہو تو پھر کب تک پالان کے بغیر گھومو گے! ۴۔ وادیٔ استغنا [۱۹۶۶ئ-۱۹۴۷ئ] اس کے بعد وادیٔ استغنا ہے جس میں دعویٰ ہے نہ معانی آفرینی! بے نیازی کی آندھی اٹھتی ہے اور ایک پل میں پورے ملک کو درہم برہم کر دیتی ہے، یہاں سات سمندر ایک تالاب اور سات سیارے ایک چنگاری ہیں، آٹھ جنتیں مردہ ہیں اور سات جہنم بھی برف کی سل جیسے افسردہ ہیں! کیسی عجیب بات ہے کہ یہاں ہر لمحہ چیونٹی کو بغیر محنت سو ہاتھی تنخواہ میں ملتے ہیں، سو قافلوں کا ایک ایک مسافر ہلاک ہو جاتا ہے تاکہ ایک کوّے کا پیٹ بھر سکے! لاکھوں فرشتے غم کی آگ میں جلے تب آدم کے لیے ایک چراغ روشن ہوا، لاکھوں جسم بیجان ہوئے تب نوح اپنی کشتی چلا سکے، لاکھوں مچھروں کے لشکر بھیجے گئے تب ابراہیم سربلند ہوئے، لاکھوں بچوں کے سر کٹے تب کلیم اللہ صاحبِ نظر ہوئے، لاکھوں بندگانِ خدا زُنّار پہن کر بت پرست ہوئے تب عیسیٰ محرمِ اَسرار ہوئے، لاکھوں جان و دل شکست سے دوچار ہوئے تب ایک رات آنحضرتؐ معراج پر پہنچے! یہاں نہ نئے کی اہمیت ہے نہ پرانے کی، خواہ تم کچھ کرو یہ نہ کرو۔ اگر پوری دنیا کو آگ میں خاک ہوتے دیکھو تو سمجھنا جیسے خواب دیکھا، اگر ہزاروں اِس سمندر میں ڈوب مریں تو شبنم کا ایک قطرہ لامحدود میں گرا، اگر لاکھوں سر نیند کے خمار میں ڈوبیں تو سورج طلوع کی وجہ سے ایک حقیر ذرّے کا سایہ دکھائی دیا، اگر آسمان اور تمام ستاروں کے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں تو دنیا میں کسی درخت سے ایک پتہ جھڑا، اگر ایک پورا مہینہ غائب ہو جائے تو لنگڑی چیونٹی کنوئیں کی گہرائی میں اُتری ہے، اگر دو جہان اکٹھے ختم ہو جائیں تو پوری زمین کی ریت میں سے ایک ذرّہ کم ہوا، تمام جن اور انسان مٹ جائیں تو بادل کے کنارے سے ایک قطرہ کم ہوا، اور اگر یہ تمام جسم سو جائیں؟جنگلی جانور کے بدن سے ایک بال جھڑ جائے تو غم کیسا! اگر جزو اور کُل پوری طرح تباہ ہو جائیں تو زمین کی سطح سے گھاس کی ایک پتی کم ہوئی، اگریہ نو آسمان اکٹھے گم ہو جائیں تو ایک قطرہ تھا جو آٹھ سمندروں میں کھو گیا۔ ۵۔ وادیٔ توحید [۱۹۸۶ئ-۱۹۶۷ئ] اس کے بعد وادیٔ توحید آتی ہے، انفرادیت کی اور تعلقات سے آزاد رہنے کی منزل آتی ہے! جب اس بیاباں کا رُخ کیا تو سب نے اپنے سر ایک ہی گریباں میں پائے، تمہیں یہاں بہت سے نظر آئیں یا تھوڑے، ایک کو ایک سے ضرب تو حاصل ایک ہی ہو گا! وہ ایک دکھائی نہیں دے سکتا اس لیے اعداد کی صورت میں تمہارے سامنے آیا ہے، چونکہ اُس کی کوئی حد نہیں اور اِن کی کوئی گنتی نہیں اس لیے ازل پر نظر ڈالو نہ ابد پر، جس طرح ازل کا سرا نہیں ملتا اُسی طرح ابد بھی ہمیشہ تک پھیلا ہے مگر دونوں کے درمیان کیا ہے؟ چونکہ وہ کچھ بھی نہیں اس لیے اِسے بھی کچھ نہ سمجھو کہ ان میں دراصل ایک بھلاوے کے سوا کچھ نہیں! کسی نے اپنے مرشد سے پوچھا، ’’دنیا کیا ہے؟ اِس جہان کی کوئی مثال دیجیے۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’یہ نام و نمود سے بھری دنیا موم کے بنے ہوئے رنگین درخت کی طرح ہے، ذرا ہاتھوں میں مسل کر دیکھو تو موم کے سوا کچھ نہ نکلے گا، چونکہ یہ تراشی ہوئی صورت اصل میں صرف موم ہے اس لیے رنگ بھی اصل میں ایک ہی ہے، جب سب ایک ہے اور دوسرا نہیں ہو سکتا تو پھر یہاں نہ میں ہوں نہ تم ہو۔‘‘ بو علی کے پاس ایک بڑھیا آئی، ’’یہ سونے کا کاغذ میری طرف سے تحفہ ہے۔‘‘ شیخ نے اُس سے کہا، ’’میں نے عہد کر رکھا ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کسی سے کوئی چیز قبول نہ کروں گا۔‘‘ بڑھیا نے کہا، ’’بو علی! تم کہاں سے بھینگے ہو آئے کہ تمہیں دو دکھائی دیتے ہیں؟ تم اس راہ کے شناسا نہیں! اگر بھینگے نہیں تو تمہیں غیر کیونکر نظر آتا ہے؟‘‘ ہمت والے کو اِس راہ پر غیر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہاں کعبہ ہے نہ بتخانہ، جو کچھ’’ وہ‘‘ کہے، یہ اُسے سنتا ہے اور اُسی میں رہتا ہے کہ وہی وجود رہنے والا ہے، اُس کے سوا کوئی دکھائی دیتا ہے نہ اُس کے سوا کسی کو باقی رہنے والا جانتا ہے۔ اُسی میں، اُسی سے اور اُسی کے ساتھ ہونا ہے مگر اِن تینوں سے باہر بھی! جو بھی دریائے وحدت میں گم نہ ہوا اگرچہ آدمی تھا مگر انسان نہ ہوا! ہر ہنرمند اور بے ہنر غیبِ غیب میں ایک سورج رکھتا ہے۔ آخر وہ دن آتا ہے کہ اپنے آپ میں اُس سورج کو پا کر نقاب الٹ دیتا ہے، بس جب وہ اپنے سورج تک پہنچا تو یقین کر لو کہ نیک و بد کو بھی پا گیا۔ جب تک تم تھے، نیک و بد بھی تھے۔ تم نہ رہے تو وہ بھی وہم ہو گئے۔ اگر اپنے آپ کو مٹا نہ سکے تو پھر نیک و بد بہت دکھائی دینے لگیں گے اور راستہ طویل! تم کچھ نہ ہونے سے ہوئے مگر اپنے آپ میں گرفتار ہو گئے، کاش کہ تم ابھی تک پہلے جیسے ہوتے یعنی ہونے سے باہر ہوکر! پہلے بری خصلتوں سے پاک ہو جاؤ ، پھر ہوا اور مٹی کے ساتھ بکھر جاؤ۔ تمہیں کیا معلوم کہ تمہارے جسم میں کتنی نجاستیں اور کتنے جہنم بھرے ہیں، سانپ اور بچھو تمہارے اندر چھپے ہیں، سوئے ہوئے اور اپنے آپ سے غافل ہیں، ذرا اُنہیں بڑھاوا دے بیٹھو تو اُن میں سے ہر موذی سو اژدھے بن جائے گا۔ ہر شخص سانپوں سے بھرا ہو ا جہنم ہے تو پھر اصل کام یہ ہے کہ تم اپنا جہنم خالی کرو، اُن سب سے آزاد ہو جاؤ تو وہ پاک چیز باہر آئے جو تمہاری مٹی میں سوئی ہوئی ہے ورنہ مٹی کے نیچے کتنے ہی بچھو اور سانپ حشر تک تمہیں سخت تکلیف دیتے رہیں گے! جو بھی اِس پاکی سے بیخبر ہے، سمجھ لو کہ مٹی کا کیڑا ہے۔ اے عطار! کب تک یہ مجاز کی گفتگو کرو گے، چلو واپس توحید کے اَسرار کی طرف آؤ۔ جب مسافر اِس مقام پر پہنچ جائے تو راستے کے مقامات اُس کے لیے نہیں رہتے، مسافر گم ہو جاتا ہے کیونکہ ’’وہ‘‘ ظاہر ہو گیا ہے، مسافر گونگا ہو جاتا ہے کیونکہ ’’وہ‘‘ بول رہا ہے، جزو ہوا، کُل ہوا، نہ جزو ہے نہ کُل! ایک صورت بنی مگر نہ صفت ہے، نہ رُوح ہے، نہ اعضا ہیں کیونکہ یہ چاروں اُن چاروں سے نکل کر باہر آگئے ہیں، لاکھوں میں سے لاکھوں نکل آئے ہیں۔ میں نے عجائب کے رازوں کی اِس درس گاہ میں لاکھوں عقلوں کے ہونٹ خشک ہوتے دیکھے ہیں، یہاں عقل کا کیا کام!دروازے کے باہر ٹھکرائی پڑی ہے جیسے پیدایشی بہرے کو مکتب میں داخلہ نہ ملے! جسے اِس راز میں سے ایک ذرّہ بھی ملا اُس نے دونوں جہانوں سے منہ پھیر لیا، کیوں نہ ہو جب بال برابر بھی خود بیچ میں نہ رہا! یہاں پہنچنے والا اگرچہ نہیں ہے مگر ہے بھی! وجود بھی ہے، عدم بھی ہے اور ہے بھی! ۶۔ وادیٔ حیرت [۲۰۰۶ئ-۱۹۸۷ئ] اس کے بعد تم حیرت کی وادی میں پہنچو گے، درد و حسرت کے مقام پر پہنچو گے! یہاں تمہاری ہر سانس تمہیں تلوار کی طرح کاٹے گی، ہر لمحہ افسوس بن کر آئے گا، آہ ہوگی، درد ہو گا اور جلن بھی! دن، دن رہے گا نہ رات، رات رہے گی! یہاں تلوار سے نہیں بلکہ تمہارے ہر مسام سے خون ٹپکے گا اور لکھے گا، ’’ہائے افسوس!‘‘ یہاں ٹھنڈی آگ ملے گی اور یہاں کے درد سے برف جل اٹھے گی! حیران مسافر یہاں پہنچتا ہے تو حیرت میں پڑ کر راستہ بھول جاتا ہے۔ ساری توحید جو روح پر لکھی گئی اَب گم ہوئی اور وہ آپ بھی! اگر اُس سے پوچھا جائے، ’’تم نشے میں ہو یا نہیں ہو، زندہ ہو یا نہیں ہو، بیچ میں ہو، بیچ سے نکلے ہوئے ہو، کنارے پر ہو، اندر ہو یا باہر ہو، فانی ہو، باقی ہو یا پھر دونوں میں سے کچھ بھی نہیں ہو؟ تم، تم ہو یا تم بھی نہیں ہو؟‘‘ جواب دے گا،’’سچ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کیا ہوں، نہ یہ کہ ’میں نہیں جانتا‘ کیا ہے! عاشق ضرور ہوں مگر نہیں جانتا کہ کس پر ہوں، نہ مسلمان ہوں نہ کافر ہوں تو پھر میں کیا ہوں! مگر اپنے عشق کی مجھے خبر نہیں، میرا دل عشق سے لبریز بھی ہے اور خالی بھی ہے!‘‘ ۷۔ وادیٔ فقر و فنا [۲۰۲۶ئ-۲۰۰۷ئ] اس کے بعد فقر کی وادی ہے اور فنا - بھلا کون اسے گفتگو میں لا سکتا ہے! ذہن سے سب کچھ مٹ جانا اِس وادی کی خاصیت ہے، گونگا بہرہ ہونا اور ہوش کھو بیٹھنا! مدتوں کے سائے سورج کے ایک جلوے سے تمہیں مٹتے نظر آئیں گے، جب پورا سمندر ہی حرکت میں آ جائے تو لہروں پر بنے ہوئے نقش کہاں رہ سکتے ہیں! ہر دو جہاں بس اُس دریا پر بنے ہوئے نقش جیسے ہیں، جو بھی کہے کہ ایسا نہیں ہے وہ پاگل پن کی بات کر رہا ہے۔ آسودگی سے لبریز اِس دریا میں کھو جانا ہی دل کا سب کچھ پا لینا ہے، اِس ڈوبنے کے بعد اگر پھر اُبھر آیا تو تخلیق کے رازوں کو دیکھنے اور جاننے والا بن کر آئے گا! پکے مسافر اور ہمت حوصلے والے اِس میدانِ درد پر پہنچتے ہی کھو جاتے ہیں اور جو نہیں کھوتے وہ بچ نہیں پاتے، یہاں پہلے قدم پر ہی گم ہو جانا چاہیے کیونکہ دوسرا قدم یہاں ہے ہی نہیں، چونکہ سب یہاں پہلے قدم پر گم ہوتے ہیں اس لیے تمہیں وہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں، آگ میں جل کر عود اور لکڑی ایک جیسی راکھ ہو جاتی ہیں لیکن اگرچہ دیکھنے میں ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں، ان کی صفات میں بڑا فرق ہوتا ہے، ناپاکی اگر کُل کے سمندر میں غرق ہو تو دراصل اپنی ہی صفات کی کیچڑ میں ڈوبتی ہے لیکن اگر پاکی اِس دریا میں اُتر جائے تو اپنے وجود سے عاری ہو جاتی ہے۔ اُس کی حرکت، دریا کی حرکت بن جاتی ہے۔ جب وہ بیچ میں رہا ہی نہیں تو حسن بن گیا! وہ نہ رہے اور رہ جائے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ عقل سے باہر کی باتیں ہیں۔ انجام پرندوں کی ایک دنیا سفر پر روانہ ہوئی تھی مگر بیشتر منزل پر نہ پہنچے اور صرف تیس رہ گئے۔۔۔ جب وہ سب عشق کے مارے سراپا درد میں ڈوبے ہوئے منزل پر پہنچے تو اگرچہ دربان کی بے نیازی برداشت سے باہر تھی مگر اُس کی مہربانی بھی ایک نئی صورت میں نمودار ہوئی، اُس نے مہربان ہو کر دروازہ کھولا، ہر سانس کے ساتھ سو پردے اُٹھے، بے حجابی کے سو جہاں آشکار ہوئے اور پھر اُن سب کو روشنیوں کی بارگاہ میں پہنچایا۔ ان سب کو نزدیکی کی مسند تک پہنچایا۔ عزت اور ہیبت کے مقام تک لایا۔ اُن کے سامنے ایک کاغذ پھینکا اور کہا، ’’اِسے آخر تک پڑھ جاؤ۔‘‘ اُس کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر میں اُن کے پورے سفر کا ماجرا درج تھا اور وہ تحریر یہ تھی: یوسف، جن کے حسن سے ستارے بھی رشک کرتے تھے، جب دس بھائیوں نے اُنہیں بیچا تو مالکِ دُغر نے خریدتے ہوئے اُن سے تحریر لکھوا لی کیونکہ بہت کم قیمت پر خرید رہا تھا۔ اُس پر دستخط بھی لیے اور اس طرح اُن دس بھائیوں کو اُن کے اپنے خلاف گواہ بنا لیا۔ جب عزیزِ مصر نے یوسف کو خریدا تو بے وفائی کی وہ دستاویز بھی یوسف تک پہنچ گئی۔ آخر جب یوسف بادشاہ ہوئے، دس بھائی اُن کے سامنے پہنچے، یوسف کی صورت نہ پہچانی، اپنے آپ کو اُن کے رحم و کرم پر ڈالا، اپنے لیے زندگی کا سامان طلب کیا، عاجزی کے ساتھ اَناج مانگا، یوسفِ صدیق نے فرمایا، ’’میرے پاس عبرانی زبان میں لکھی ہوئی ایک تحریر ہے مگر یہاں کوئی یہ زبان پڑھ نہیں سکتا، اگر آپ لوگ پڑھ دیں تو میں بہت سا اناج دوں گا۔‘‘ یہ سب عبرانی زبان پڑھنے میں ماہر تھے۔ بڑی خوشی سے کہا، ’’بادشاہ سلامت، خط لائیے!‘‘ (قارئین میں سے وہ دل کا اندھا ہے جسے خوش فہمی کی وجہ سے اِس حکایت میں اپنا احوال دکھائی نہ دے)۔ یوسف نے اُن کا خط اُنہیں دے دیا۔ اُن کے جسموں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ نہ پڑھ کر سنا سکے نہ زبانی کچھ کہہ پائے، بس غم سے غمگین اور یوسف کے حربے میں مبتلا ہوئے۔ یوسف نے کہا، ’’پڑھو! اب کیوں خاموش ہو جب خط منگواتے ہوئے پرجوش تھے؟‘‘ اُن سب نے اُن سے کہا، ’’ہمارا چپ رہنا ہی بہتر ہے اِس خط کو پڑھ کر سنانے اور جان سے جانے سے!‘‘ اُن تیس تھکے ہارے پرندوں نے جب یہ مستند رقعہ پڑھاتو شروع سے آخر تک اُن سے جو کچھ سرزد ہوا تھا سب سامنے آتاگیا۔ سخت بات تھی مگر جیسے جیسے وہ پڑھتے گئے، سمجھتے گئے کہ انہوں نے اپنے یوسف کو کنوئیں میں پھینکا تھا، چالیں چلی تھیں، یوسف کی روح کو تکلیف پہنچائی اور اور اُس کے جسم کو بیچ ڈالا تھا۔ (کیا تم نہیں جانتے کہ ہر سانس کے ساتھ اپنے یوسف کو بیچ رہے ہو؟ تمہارا یوسف بالآخر بادشاہ بنے گا اور تم اُس کی بارگاہ میں پہنچو گے، تم تھکے ہارے، بھوکے ننگے اُس کے سامنے پہنچو گے تو پھر کیا تمہیں اُسے خواہ مخواہ بیچنا چاہیے؟) اُن پرندوں کی روحیں شرمندگی سے پگھل گئیں اور وجود سمٹ گئے۔ جب وہ دنیا بھر کے بوجھ سے آزاد ہو گئے تو حضوری کی روشنی سے اُنہیں نئی روحیں ملیں، یوں وہ پھر زندہ ہوئے اور ایک نئے انداز میں حیران ہوئے۔ اُن کے کردہ اور ناکردہ گناہ دھلے اور اُن کے دلوں سے مٹ گئے، نزدیکی کا سورج اُن کے سامنے چمکا، اُن سب کی روحوں کو اُس کی روشنی سے حرارت ملی اور تب اس دنیا کے ’’سی مرغ‘‘ یعنی تیس پرندوں میں اُس کا چہرہ دکھائی دیا! اُن پرندوں نے پھر دیکھا اور بیشک وہ سیمرغ یہی تیس پرندے تھے! وہ سب کے سب متحیر رہ گئے کہ آخر یہ بات پہلے کیوں سمجھ میں نہ آئی! اپنے آپ کو اپنی منزل پایا، جو وہ ہمیشہ سے تھے اب ہو گئے! جب اُس سیمرغ پر نظر ڈالتے تو وہاں وہی نظر آتا جو یہاں تھا مگر جب اپنے آپ کو دیکھتے تو یہ پرندے اور وہ سیمرغ الگ الگ دکھائی دیتے اور اگر دونوں کو ایک ساتھ دیکھتے تو دونوں کم و بیش ایک ہی سیمرغ ہوتے! یہ ایک وہ تھا اور وہ ایک یہ تھے، دنیا بھر میں کسی نے ایسا نہ سنا تھا۔ وہ سب تحیر میں ڈوبے اور سوچے بغیر سوچ میں پڑگئے۔ ۱۱۳ اقبال نے بعد میں کہا: میں جب انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کرچکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسانوں کے لیے امید، ہمت اور جرأت عمل کا پیغام ہوتی ہے اور جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ یہاں پہنچ کر یورپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن اُن کے مقابلے کے لیے سائنس کھڑی تھی، جو اُن کو افسردہ بنا رہی تھی۔ اور ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے واپس گیا تو میرے نزدیک یورپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی جو مشرقی ادبیات کی تھی۔ اِن حالات سے میرے دل میں کشمکش شروع ہوئی کہ ان ادبیات کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہیے اور ان میں روح پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہیے۔ ۹۷ عبدالقادر کے نام اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اِسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں پھونک ڈالا تھا کبھی دفترِ باطل جس نے حدتِ دم سے اسی شعلے کو پیدا کر دیں اہلِ محفل کو دکھا کر اثرِ صیقلِ عشق سنگِ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں جلوۂ یوسفِ گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خونِ زلیخا کر دیں۹۸ نظم میں سولہ اشعار تھے۔’’حدتِ دم‘‘ والا شعر بعد میں نکال دیا۔ ۱۱۴ یکم جولائی کو اقبال کو لنکنز اِن سے بیرسٹری کی سند ملی ۔ اُن کا رول نمبر ۵۲ تھا اور فیس پچاس پونڈ۔ اُنہوں نے اُسی روز چیف کورٹ لاہور میں بہ حیثیت وکیل رجسٹر ہونے کی درخواست بھجوادی۔۹۹ آٹھ نو سال پہلے قانون کے امتحان میں فیل ہونے سے جو خواب ادھورا رہ گیا تھا وہ اب پورا ہو گیا۔ کلامِ اکبر ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکہ تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اِتنا برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے اکبرؔ الٰہ آبادی، مخزن، جولائی ۱۹۰۸ء ، ص۵۸-۱۰۰۵۷ ۱۱۵ خیال کیا جاتا ہے کہ اقبال کا تحقیقی مقالہ جولائی کی ابتدائی تاریخوں میں لندن سے شائع ہو ا۔ باب ۷ صقلیہ جولائی ۱۹۰۸ء The Development of Metaphysics in Persia Inaugural Dissertation Der Philosophischen FakultätSekt I (RESP II) Der Ludwig-Maximilians-Universität, München By S. M. Iqbal M.A. London Luzac & Co. 46, GReat Russel StreetW.C. 1908 ۱ ۳ جولائی کو کتاب کا ایک نسخہ کسی دوست ایف ڈبلیو ٹامس کو تحفتاً پیش کیا۔۱ اُسی دن ترکی کے ایک صوبے میں کچھ سپاہیوں نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ مطالبہ تھا کہ آئین بحال کیا جائے۔ ۲ اُس دن یا پانچ چھ روز بعد اقبال روانہ ہوئے۔جرمنی راستے میں نہ تھا۔ وہ کبھی ایما سے دوبارہ نہ مل سکے۔۲ ۳ دوستارے آئے جو قِرآں میں دو ستارے کہنے لگا ایک دوسرے سے یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب انجامِ خرام ہو تو کیا خوب تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو لیکن یہ وصال کی تمنا پیامِ فراق تھی سراپا گردش تاروں کا ہے مقدر ہر ایک کی راہ ہے مقرر ہے خواب ثباتِ آشنائی آئین جہاں کا ہے جدائی۳ اِس نظم میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ٭ ’’جسے مسلم اُمت پسند کرے، اُسے خدا بھی پسند کرتا ہے۔‘‘ رسول اکرمؐ کی یہ حدیث اقبال کے دل میں بیٹھ چکی تھی۔ ابولحسن اشعری نے یہ سیاسی نظریہ اختیار کیا تھا پوری ملت کے اجتماعی فیصلے میں غلطی نہیں ہو سکتی۔ دونوں باتیں اقبال نے اُس مقالے میں لکھی تھیں جو لندن کے سوشیالوجیکل ریویو کے پرچے میں اُس ماہ شائع ہو رہا تھا۔ بات یہاں ختم ہونے والی نہ تھی: ٭ ـ’’نشانِ ہلال کی تاریخ میں اختلاف ہے۔۔۔ مگر تمام امت کا اس پر صدیوں سے اجماع ہو چکا ہے۔۔۔ جن اسلامی قوموں کا نشان اور ہے وہ اس نشان پر کبھی معترض نہیں ہوئیں اور حدیثِ صحیح ہے کہ میری امّت کا اجماع ضلالت پر نہ ہو گا۔ اِس واسطے اِس کو ضلالت تصور کرنا ٹھیک نہیں۔‘‘ [۲۲ مئی ۱۹۱۶ئ] ٭ ’’میرے نزدیک یہی راہ کھلی ہے اور یہی راہ شریعت کی رُو سے بھی انسب و اُولیٰ ہے کہ حضرات علمأ ایک جگہ جمع ہو کر ہر قسم کا اعتراض سننے اور پورے بحث و مباحثے کے بعد مسلمانوں کے لیے ترکِ موالات کا ایک پروگرام مرتب کریں۔ اِس جمعیت میں حضرات مشائخ، بڑے بڑے حنفی علمأ اور اگر ضروری ہو تو شیعہ اور اہلِ حدیث علمأ بھی جن کے علم و تقویٰ پر قوم کو اعتماد ہو، طلب کیے جائیں۔۔۔ مسلمان وکلأ بھی اِس بحث میں شریک ہو کر کم از کم سائل کی حیثیت سے مدد دیں۔‘‘ [۱۵ نومبر ۱۹۲۰ئ] ٭ ’’آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہوگا۔‘‘ [یکم جنوری ۱۹۲۹ئ] ٭ ’’تم آج تک اپنی مصیبت کے علاج کے لیے ہزاروں تدبیریں کرچکے ہو، اب ایک تدبیر محمد عربی صلعم کی بھی آزمائو۔ حضور صلعم فرماتے ہیں ’اتحاد اُمتی حجۃ قاطعۃ‘[میری امت کا اتحاد حجتِ قاطعہ ہے]۔ ایک دفعہ اتحاد کرکے دیکھو۔۔۔ حضرت محمد مصطفی صلعم کا بتلایا ہوا یہ نسخۂ شفا کبھی ناکامیاب نہیں ہوگا۔‘‘ [۳ جون ۱۹۳۱ئ] برطانیہ سے واپس آنے تک وہ تغیر ختم ہو چکا تھا جو دس برس پہلے لاہور میں ایم اے کے زمانے میں پیدا ہوا تھا۔ مابعد الطبعیات میں دلچسپی کا زمانہ ایک قسم کا ذہنی الحاد دکھائی دے رہا تھا۔۴ اب سینے میں ملت کی وُسعت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ فرانس کے ساحل تک پھیلی ہوئی آبنائے بہت مختصر تھی۔ ۴ اقبال آبنائے برطانیہ عبور کر کے فرانس پہنچے۔ شاید پیرس میں کچھ دن قیام کیا۔ کوئی ضروری کام تھا۔ اُس کی نوعیت معلوم نہیں ہو سکی۔۵ ممکن ہے فرانس کی اُسی بندرگاہ سے ہندوستان کے لیے جہاز پر سوار ہوئے ہوں جہاں تین برس پہلے اُترے تھے۔ اُس وقت میں اور اب میں فرق تھا۔ ۵ ۸ جولائی کو سیالکوٹ میں شیخ عطا محمد کے گھر لڑکی پیدا ہوئی۔ عنایت بی بی نام رکھا گیا۔۶ ۶ ولفریڈ ٹراٹر (Wilfred Trotter)انگلستان کے ممتاز سرجنوں میں شمار ہوتے تھے۔ خاص دلچسپی کا موضوع اجتماع کی جبلت (herd instinct) تھا۔ بیس پچیس برس پہلے فرانسیسی ماہر گستاو لاباں (Gustav La Bon) نے اجتماع میں فرد کے روّیے کے بارے میں کچھ نظریات پیش کیے تھے۔ اُس کے بعد وارڈ، سِیڈی اور دوسرے ماہرین نے کتابیں لکھی تھیں۔ اجتماعی جبلت سے تعلق رکھنے والے اوصاف کو زیادہ تر منفی روشنی میں دیکھا تھا۔ ٹراٹر چاہتے تھے کہ انگریزی میں لاباں کے کام کو آگے بڑھائیں۔ سائینسی بنیادوں پر اُستوار کر دیں۔ جولائی میں لندن یونیورسٹی کے سہ ماہی مجلے سوشیالوجیکل ریویو (The Sociological Review) کی جلد الف اول، شمارہ ۳ (Volume a1; Issue 3) میں ٹراٹر کا مضمون، اقبال کے سیاستِ اسلام والے مقالے کے ساتھ ہی شائع ہوا۔ شمارہ جہاز میں اقبال کے پاس رہا ہو گا۔ ورق گردانی کا اچھا موقع تھا۔ ٹراٹر کے مضمون کے بعض نکات اقبال کے تصوّرِ ملت کے لیے اہم ہو سکتے تھے: ۱ فرد کی زندگی کا مطالعہ دراصل اجتماعی زندگی کے مطالعے کا تسلسل تھا۔ نفسیات فرد کی زندگی کے انہی پہلوؤں کا احاطہ کر سکتی تھی جو دُوسروں کے ساتھ معاملات میں ظاہر ہوتے۔ اِنسان ایک ایسے حیوان کے طور پر دستیاب ہی نہ تھا جو معاشرے سے باہر بالکل تنہا ہو۔ ۲ جان بچانے، کھانے پینے اور افزائشِ نسل کی جبلت تمام حیوانوں میں تھی۔ گروہوں کی صورت میں رہنے والے حیوانوں (gregarious animals) ، مثلاً شہد کی مکھیوں، بھیڑیوں، انسانوں اور بہت سے دوسروں میں ایک چوتھی جبلت بھی دریافت کی جا سکتی تھی۔ یہی اجتماع کی جبلت (herd instinct) تھی۔ The Sociological Review Volume a1; issue 3 July 1908 Sociology and Comparative Politics (pages 209-226) by C. L. Tupper Herd Instinct and its Bearing on the Psychology of Civilized Man (pages 227-248) by W. Trotter Political Thought in Islam (pages 249-261) by S. M. Iqbal The Law of the Three Stages (pages 262-279) by L. T. Hobhouse Sociological View of the History of Ireland (pages 280-290) by S. H. Swinny Discussions Old age Pensions : 1. The Dangers of the Non-Contributory Principle (pages 291-294) by Edward Brabrook Old age Pensions : ii. The Responsibility of the State to the Aged Poor (pages 295-299) by J. A. Hobson Reviews A Sociological Survey (pages 300-311) Official Publications (pages 312-313) The Control of Infantile Mortality (page 314) Children Under the Poor Law. A report to the President of the Local Government Board (page 314) Periodical Literature (pages 315-317) Books Received (page 318) Notes and Notices (pages 319-320) Herd Instinct and its Bearing on the Psychology of Civilized Man by W. Trotter [Excerpt] If it be granted that gregariousness is a phenomenon of profound biological significance and one likely therefore to be responsible for an important group of instinctive impulses, the next step in our argument is the discussion of the question as to whether man is to be regarded as gregarious in the full sense of the word, whether, that is to say, the social habit may be expected to furnish him with a mass of instinctive impulse as mysteriously potent as the impulses of self-preservation, nutrition and sex. Can we look to the social instinct for an explanation of some of the "a priori synthesis of the most perfect sort needing no proof but their own evidence" which are not explained by the three primitive categories of instinct, and remain stumbling blocks in the way of generalizing the conduct of man…? From the biological standpoint the probability of gregariousness being a primitive and fundamental quality in man seems to be considerable. As already pointed out, like the other great enlargement of the biological unit, but in a much more easily recognizable degree, it would appear to have the effect of enlarging the advantages of variation. Varieties not immediately favourable, varieties departing widely from the standard, varities even unfavourable to the individual may be supposed to be given by it a chance of survival. Now the course of the development of man seems to present many features incompatible with its having proceeded among isolated individuals exposed to the unmodified action of natural selection. Changes so serious as the assumption of the upright posture, the reduction in the jaw and its musculature, the reduction in the actuity of smell and hearing, demand, if the species is to survive, either a delicacy of adjustment with the compensatingly developing intelligence so minute as to be almost inconceivable, or the existence of some kind of protective enclosure, however imperfect, in which the varying individuals may be sheltered from the direct influence of natural selection. The existence of such a mechanism would compensate losses of physical strength in the individual by the greatly increased strength of the larger unit, of the unit, that is to say, upon which natural selection still acts unmodified… If we now assume that gregariousness may be regarded as a fundamental quality of man, it remains to discuss the effects we may expect it to have produced upon the structure of his mind… The functions of the gregarious habit in a species may broadly be defined as offensive or defensive, or both. Whichever of these modes it has assumed in the animal under consideration, it will be correlated with effects which will be divisible into two classes-the general characteristics of the social animal, and the special characteristics of the form of social habit possessed by the given animal. The dog and the sheep illustrate well the characteristics of the two simple forms of gregariousness - offensive and defensive… The cardinal quality of the herd is homogeneity. It is clear that the great advantage of the social habit is to enable large numbers of act as one, whereby in the case of the hunting gregarious animal strength in pursuit and attack is at once increased to beyond that of the creatures preyed upon, and in protective socialism the sensitiveness of the new unit to alarms is greatly in excess of that of the individual member of the flock. To secure these advantages of homogeneity, it is evident that the members of the herd must possess sensitiveness to the behavior of their fellows. The individual isolated will be of no meaning, the individual as part of the herd will be capable of transmitting the most potent impulses. Each member of the flock tending to follow his neighbor, and in turn to be followed, each is in some sense capable of leadership; but no lead will be followed that departs from its resemblance to the normal. If the leader go so far ahead as definitely to cease to be in the herd, he will necessarily be ignored… Again, of two suggestions, that which the more perfectly embodies the voice of the herd is the more acceptable. The chances an affirmation has of being accepted could therefore be most satisfactorily expressed in terms of the bulk of the herd by which it is backed. It follows from the foregoing that anything which dissociates a suggestion from the herd will tend to ensure such a suggestion being rejected. For example, an imperious command from an individual known to be without authority is necessarily disregarded, whereas the same person making the same suggestion in an indirect way so as to link it up with the voice of the herd will meet with success… Man is not, therefore, suggestible by fits and starts, not merely in panics and in mobs, under hypnoses, and so forth, but always, everywhere, and under any circumstances… Man's resistiveness to certain suggestions, and especially to experience, as is seen so well in his attitude to the new, becomes therefore but another evidence of his suggestibility, since the new has always to encounter the opposition of herd tradition… In matters that really interest him, man cannot support the suspense of judgment which science so often has to enjoin… Direct observation of man reveals at once the fact that a very considerable proportion of his beliefs are non-rational to a degree which is immediately obvious without any special examination, and with no special resources other than common knowledge. If we examine the mental furniture of the average man, we shall find it made up of a vast number of judgments of a very precise kind upon subjects of very great variety, complexity and difficulty. He will have fairly settled views upon the origin and nature of the universe, and upon what he will probably call its meaning; he will have conclusions as to what is to happen to him at death and after, as to what is and what should be the basis of conduct. He will know how the country should be governed, and why it is going to the dogs, why this piece of legislation is good, and that bad. He will have strong views upon military and naval strategy, the principles of taxation, the use of alcohol and vaccination, the treatment of influenza, the prevention of hydrophobia, upon municipal trading, the teaching of Greek, upon what is permissible in art, satisfactory in literature, and hopeful in science. The bulk of such opinions must necessarily be without rational basis, since many of them are concerned with problems admitted by the expert to be still unsolved, while as to the rest it is clear that the training and experience of no average man can qualify him to have any opinion about them at all. The rational method adequately used would have told him that on the great majority of these questions there could be for him but one attitude - that of suspended judgment. In view of the considerations that have been discussed above, this wholesale acceptance of non-rational belief must be looked upon as normal. The mechanism by which it is effected demands some examination, since it cannot be denied that the facts conflict noticeably with popularly current views as to the part taken by reason in the formation of opinion… It should be noticed, however, that verifiable truths may acquire the potency of herd suggestion, so that the suggestibility of man does not necessarily or always act against the advancement of knowledge… Political Thought in Islam S. M. Iqbal Pre-Islamic Arabia was divided into various tribes, continually at war with one another. Each tribe had its own chief, its own god and its own poet, whose tribal patriotism manifested itself chiefly in the glorification of the virtues of his own tribe. Though these primitive social groups recognized, to a certain extent, their kinship with one another, yet it was mainly the authority of Muhammad and the cosmopolitan character of his teaching which shattered the aristocratic ideals of individual tribes, and welded the dwellers of tents into one common ever-expanding nationality. For our purposes, however, it is necessary to notice, at the outset, the features of the Arabian system of tribal succession, and the procedure followed by the members of the tribe on the death of their chief. When the Chief or Shaikh of an Arab tribe died all the elders of the tribe met together and sitting in a circle discussed the matter of succession. Any member of the tribe could hold the chieftainship if he were unanimously elected by the elders and heads of great families. The idea of hereditary monarchy, as Von Kremer has pointed out, was quite foreign to the Arab mind, though the principle of seniority which, since Ahmad I, has received legal recognition in the constitution of modern Turkey, did certainly influence the election. When the tribe was equally divided between two leaders, the rival sections separated from each other until one of the candidates relinquished his claim; otherwise the sword was appealed to. The Chief thus elected could be deposed by the tribe if his conduct necessitated deposition. With the expansion of the Arab conquest, and the consequent enlargement of mental outlook, this primitive custom gradually developed into a Political Theory carefully constructed, as we shall see, by the constitutional lawyers of Islam through reflective criticism on the revelations of political experience. True to this custom, the Prophet of Arabia left no instruction with regard to the matter of his succession. There is a tradition that the old Amir, son of Tufail, came to the Prophet and said, "If I embrace Islam what would my rank be? Wilt thou give me the command after thee?" "It does not belong to me," said the Prophet, "to dispose of the command after me." Abu Bakr-the Prophet's father-in-law and one of his chief companions-therefore, in consequence of the danger of internal disruption, was rather hurriedly and irregularly elected. He then rose and addressed the people thus: O people! Now I am ruler over you, albeit not the best amongst you. If I do well, support me; if ill, then set me right. Follow the true wherein is faithfulness, eschew the false wherein is treachery. The weaker amongst you shall be as the stronger with me, until that I shall have redressed his wrong; and the stronger shall be as the weaker until, if the Lord will, I shall have taken from him that which he hath wrested. Leave not off to fight in the ways of the Lord; whosoever leaveth off, him verily shall the Lord abase. Obey me as I obey the Lord and his Prophet, wherein I disobey, obey me not. Omar, however, afterwards held that the hurried election of Abu Bakr, though very happy in its consequences and justified by the need of the time, should not form precedent in Islam; for as he is reported to have said (Dozy, I, p. 121) an election which is only a partial expression of the people's will is null and void. It was, therefore, early understood that Political Sovereignty de facto resides in the people; and that the electorate by their free act of unanimous choice embody it in a determinate personality in which the collective will is, so to speak, individualized, without investing this concrete seat of power with any privilege in the eye of the law except legal control over the individual wills of which it is an expression. The idea of universal agreement is in fact the fundamental principle of Muslim constitutional theory. "What the Muslim community considers good," says the Prophet, "God also considers good." It is probably on the authority of this saying of the Prophet that al-Ash'ari developed his political dogma-"That error is impossible in the united deliberations of the whole community." After the death of Abu Bakr, Omar, who acted as Chief Judge during his predecessor's Caliphate, was universally elected by the people. In 644 A.D. he was mortally wounded by a Persian slave, and committed his trust, before he died, to seven electors-one of them being his own son-to nominate his successor, with the condition that their choice must be unanimous, and that none of them must stand as a candidate for the Caliphate. It will be seen from Omar's exclusion of his own son from the candidature, how remote was the idea of hereditary monarchy from the Arabian political consciousness. The choice of this council, however, fell upon one of the councillors, Uthman, who was consequently nominated, and the nomination afterwards confirmed by the people. The Caliphate of Uthman is really the source of the three great religio-political parties with their respective political theories which each party, finding itself in power, attempted to realize in one or other of the provinces of the Arab Empire. Before, however, I proceed to describe these theories, I want to draw attention to the following two points: 1. That the Muslim Commonwealth is based on the absolute equality of all Muslims in the eye of the law. There is no privileged class, no priesthood, no caste system. In his later days the Prophet once ascended the pulpit and said to the people: "Muslims! If I have struck any one of you, here is my hack that he may strike me. If anyone has been wrongedby me, let him return injury of injury. If I have taken anybody's goods, all that I have is at his disposal." A man arose and claimed a debt of three dirhams (about three shillings). "I would much rather," said the Prophet, "have the shame in this world than in the next." And he paid him on the spot. The law of Islam does not recognize the apparently natural differences of race, nor the historical differences of nationality. The political ideal of Islam consists in the creation of a people born of a free fusion of all races and nationalities. Nationality with Islam is not the highest limit of political development; for the general principles of the law of Islam rest on human nature, not on the peculiarities of a particular people. The inner cohesion of such a nation would consist not in ethnic or geographic unity, not in the unity of language or social tradition, but in the unity of the religious and political ideal; or, in the psychological fact of "like-mindedness" as St. Paul would say. The membership of this nation, consequently, would not be determined by birth, marriage, domicile, or naturalization. It would he determined by a public declaration of "like-mindedness" and would terminate when the individual has ceased to be like-minded with others. The ideal territory of such a nation would be the whole earth. The Arabs, like the Greeks and the Romans, endeavoured to create such a nation or the world-state by conquest, but failed to actualize their ideal. The realization of this ideal, however, is not impossible; for the ideal nation does already exist in germ. The life of modern political communities finds expression, to a great extent, in common institutions, Law and Government; and the various sociological circles, so to speak, are continually expanding to touch one another. Further, it is not incompatible with the sovereignty of individual States, since its structure will be determined not by physical force, but by the spiritual force of a common ideal. 2. That according to the law of Islam there is no distinction between the Church and the State. The State with us is not a combination of religious and secular authority, but it is a unity in which no such distinction exists. The Caliph is not necessarily the high-priest of Islam; he is not the representative of God on earth. He is fallible like other men and is subject like every Muslim to the impersonal authority of the same law. The Prophet himself is not regarded as absolutely infallible by many Muhammadan theologians (e.g. Abu Ishaq, Tabari ). In fact, the idea of personal authority is quite contrary to the spirit of Islam. The Prophet of Arabia succeeded in commanding the absolute submission of an entire people; yet no man has depreciated his own authority more than he. "I am," he says, "a man like you; like you my forgiveness also depends on the mercy of God." Once in a moment of spiritual exaltation, he is reported to have said to one of his companions, "Go and tell the people: 'he who says, there is only one God, will enter the paradise'," studiously omitting the second half of the Muslim creed-"and Muhammad is his Prophet." The ethical importance of this attitude is great. The whole system of Islamic ethics is based on the ideal of individuality; anything which tends to repress the healthy development of individuality is quite inconsistent with the spirit of Islamic law and ethics. A Muslim is free to do anything he likes, provided he does not violate the law. The general principles of this law are believed to have been revealed; the details, in order to cover the relatively secular cases, are left to the interpretation of professional lawyers. It is, therefore, true to say that the entire fabric of Islamic law, actually administered, is really judge-made law, so that the lawyer performs the legislative function in the Muslim constitution. If, however, an absolutely new case arises which is not provided for in the law of Islam, the will of the whole Muslim community becomes a further source of law. But I do not know whether a general council of the whole Muslim community was ever held for this purpose. I shall now describe the three great political theories to which I have alluded above. I shall first take up the Sunni view. I. Elective monarchy A. The Caliph and the People During the days of the early Caliphate things were extremely simple. The Caliphs were like private individuals, sometimes doing the work of an ordinary constable. In obedience to the Quranic verse-"and consult them in all matters"-they always consulted the more influential companions of the Prophet in judicial and executive matters, but no formal ministers existed to assist the Caliph in his administrative work. It was not until the time of the House of 'Abbas that the Caliphate became the subject of scientific treatment. In my description of the Sunni view I shall mainly follow al-Mawardy-the earliest Muslim constitutional lawyer who flourished during the reign of the Ahbasi Caliph al-Qadir. Al-Mawardy divides the whole Muslim community into two classes: (1) the electors, (2) the candidates for election. The qualifications absolutely necessary for a candidate are thus enumerated by him: 1. Spotless character. 2. Freedom from physical and mental infirmity. The predecessor of the present Sultan of Turkey was deposed under this condition. 3. Necessary legal and theological knowledge in order to be able to decide various cases. This is true in theory; in practice the power of the Caliph, especially in later times, was divided. 4. Insight necessary for a ruler. 5. Relationship with the family of Quraish. This qualification is not regarded as indispensable by modern Sunni lawyers on the ground that the Prophet never nominated any person as his successor. 6. Full Age (al-Ghazali). It was on this ground that the chief judge refused to elect al-Muqtadir. 7. Male sex (al-Baidawi). This is denied by the Khawarij who hold that a woman can be elected as Caliph. If the candidate satisfies these conditions, the representatives of all influential families, doctors of law, high officials of the State, and commanders of the Army meet together and nominate him to the Caliphate. The whole assembly then proceeds to the mosque where the nomination is duly confirmed by the people. In distant places representatives of the elected Caliph are permitted to receive homage on behalf of the Caliph. In the matter of election the people of the capital, however, have no precedence over other people-though, in practice, they have a certain amount of precedence, since they are naturally the first to hear of the Caliph's death. After the election, the Caliph usually makes a speech, promising to rule according to the law of Islam. Most of these speeches are preserved. It will be seen that the principle of representation is, to a certain extent, permitted in practical politics; in the law of property, however, it is expressly denied. For instance, if B dies in the lifetime of his father A and his brother C, leaving issues, the whole property of A goes to C. The children of B have no claim; they cannot represent their father, or "stand in his shoes". From a legal standpoint, the Caliph does not occupy any privileged position. In theory, he is like other members of the Commonwealth. He can be directly sued in any ordinary law court. The second Caliph was once accused of appropriating a large share in the spoils of war, and he had to clear his conduct before the people, by production of evidence according to the law of Islam. In his judicial capacity he is open to the criticism of every Muslim. Omar I was severely reprimanded by an old woman who pointed out to him that his interpretation of a certain Quranic verse was absolutely wrong. The Caliph listened to her argument, and decided the case according to her views. The Caliph may indicate his successor who may be his son; but the nomination is invalid until confirmed by the people. Out of the fourteen Caliphs of the House of Umayya only four succeeded in securing their sons as successors. The Caliph cannot secure the election of his successor during his own lifetime. Ibn Athir tells us that Abdul Malik - the Umayya Caliph - endeavoured to do so but Ibn Musayyib, the great Mekkan lawyer, strongly protested against the Caliph's behaviour. The Abbasi Caliph Hadi, however, succeeded in securing the election of his son Ja'far but after his death the majority declared for Harun. In such a case, when the people declare for another Caliph, the one previously elected must, on penalty of death, immediately renounce his right in public. If the Caliph does not rule according to the law of Islam, or suffers from physical or mental infirmity, the Caliphate is forfeited. Usually one influential Muhammadan stands up in the mosque after the prayer and speaks to the congregation giving reasons for the proposed deposition. He declares deposition to be in the interest of Islam and ends his speech by throwing away his finger-ring with the remarks: "I reject the cliph as I throw away this ring." The people then signify their assent in various ways and the deposition is complete. The question whether two or more rival Caliphates can exist simultaneously is discussed by Muslim lawyers. Ibn Jama holds that only one Caliphate is possible. Ibn Khaldun holds that there is nothing illegal in the co-existence of two or more Caliphates, provided they are in different countries. Ibn Khaldun's view is certainly contrary to the old Arabian idea, yet in so far as the Muslim Commonwealth is governed by an impersonal authority, i.e. law, his position seems to me to be quite a tenable one. Moreover, as a matter of fact, two rival Caliphates have existed in Islam for a long time and still exist. Just as a candidate for the Caliphate must have certain qualifications, so, according to al-Mawardy, the elector also must be qualified. He must possess: (1) Good reputation as an honest man. (2) Necessary knowledge of State affairs. (3) Necessary insight and judgment. In theory all Muslims, men and women, possess the right of election. There is no property qualification. In practice, however, women and slaves did not exercise this right. Some of the early lawyers seem to have recognized the danger of mass-elections as they endeavour to show that the right of election resides only in the tribe of the Prophet. Whether the seclusion of women grew up in order to make women incapable of exercising a right which in theory could not be denied to them, I cannot say. The elector has the right to demand the deposition of the Caliph, or the dismissal of his officials if he can show that their conduct is not in accordance with the law of Islam. He can, on the subject, address the Muslim congregation in the mosque after the prayer. The mosque, it must be remembered, is the Muslim Forum, and the institution of daily prayer is closely connected with the political life of Muslim communities. Apart from its spiritual and social functions, the institution is meant to serve as a ready means of constant criticism of the State. If, however, the elector does not intend to address the congregation, he can issue a judicial inquiry concerning the conduct of any State official, or any other matter which affects the community as a whole. The judicial inquiry as a rule does not mention the name of any individual. I quote an illustration in order to give an idea of this procedure: In the name of God, most merciful and clement. What is the opinion of the doctors of law, the guides of the people, on the encouragement of the Zimmis, and on the assistance we can demand from them, whether as clerks to the Amirs entrusted with the administration of the country, or as collectors of taxes?... Explain the above by solid proofs, establish the orthodox belief by sound arguments, and give your reasons. God will reward you. Such judicial inquiries are issued by the State as well, and when the lawyers give conflicting decisions, the majority prevails. Forced election is quite illegal. Ibn Jama, an Egyptian lawyer, however, holds that forced election is legal in times of political unrest. This opportunist view has no support in the law of Islam; though undoubtedly it is based on historical facts. Tartushi, a Spanish lawyer, would probably hold the same view, for he says: "Forty years of tyranny are better than one hour of anarchy." Let us now consider the relation between the elected and the elector. Al-Mawardy defines this relation as "Aqd" binding together, contract. The State, therefore, is a contractual organism, and implies rights and duties. He does not mean, like Rousseau, to explain the origin of society by an original social contract; he holds that the actual fact of election is contract in consequence of which the Caliph has to do certain duties, e.g. to define the religion, to enforce the law of Islam, to levy customs and taxes according to the law of Islam, to pay annual salaries and properly to direct the State treasury. If he fulfils these conditions, the people have mainly two duties in relation to him, viz, to obey him and to assist him in his work. Apart from this contract, however, Muslim lawyers have also enumerated certain cases in which obedience to the Caliph is not necessary. The origin of the State then, according to al-Mawardy, is not forced but free consent of individuals who unite to form a brotherhood, based upon legal equality, in order that each member of the brotherhood may work out the potentialities of his individuality under the law of Islam. Government with him is an artificial arrangement, and is divine only in the sense that the law of Islam-believed to have been revealed-demands peace and security. B. Ministers and Other Officials The Caliph, after his election, appoints the principal officials of the State, or confirms those previously in office. The following are the principal State officials with their duties defined by the law: 1. The Wazir-The Prime Minister-either with limited or unlimited powers. The Wazir with unlimited powers must possess the same qualifications as the Caliph, except that, according to al-Mawardy, he need not necessarily belong to the Quraish tribe. He must be thoroughly educated, especially in Mathematics, History and the Art of Speaking. He can, without previous sanction of the Caliph, appoint officers of the various departments of the State. The Wazir with limited powers cannot do so. The dismissal of the Wazir with unlimited powers means the dismissal of all officials appointed by him; while the dismissal of the Wazir with limited powers does not lead to dismissal of the officials appointed by him. More than one Wazir with unlimited powers cannot be appointed. The Governors of various provinces can appoint their own Wazirs. A non-Muhammadan may be appointed Wazir with limited powers. The Shi'a dynasty of the Obaidias appointed a Jew to this position. An Egyptian poet expresses their sentiments as follows: "The Jews of our time have reached the goal of their ambition. Theirs is all honour, theirs is all gold. O people of Egypt, I advise you to become Jews; God himself has become a Jew." 2. Next to the Wazir the most important executive officers of the State were governors of various provinces. They were appointed by the Caliph with limited or unlimited powers. The governor with unlimited powers could appoint sub-governors to adjoining smaller provinces. For instance, the sub-governor of Sicily was appointed by the Governor of Spain and that of Sind by the Governor of Basra. This was really an attempt to create selfgoverning Muslim colonies. The officer in charge was, so to speak, a miniature caliph of his province; he appointed his own Wazir, Chief Judge and other State officers. Where special commander of the provincial army was not appointed, the Governor, ex-officio, acted as the commander. This, however, was an error, since the governors became gradually powerful and frequently asserted their independence. But in his capacity of the commander the governor had no right to raise the salaries of his soldiers except in very special circumstances. It was his duty to send all the money to the central treasury after defraying the necessary State expenses. If the provincial income fell short of the expenses, he could claim a contribution from the central treasury. If he is appointed by the Caliph, the death of the latter is not followed by his dismissal; but if he is appointed by the Wazir, the death of the Wazir means the dismissal of all governors appointed by him, provided they are not newly confirmed in their respective posts. The governor with limited powers was a purely executive officer. He had nothing to do with judicial matters and in criminal matters too his authority was very much limited. Muslim lawyers, however, recognize a third kind of governorship, i.e. by usurpation. But the usurper must fulfil certain conditions before his claim is legally justified. 3. Commander of Armies: Here too the distinction of limited and unlimited powers is made, and the duties of commanders, subordinate officers, and soldiers are clearly defined. 4. The Chief Judge. The Chief Judge could be appointed by the Caliph or the Wazir. According to Abu Hanifa, in some cases, and according to Ibn Jarir Tabary, a non-Muslim can be appointed to administer the law of his co-religionists. The Chief Judge, as representative of the law of Islam, can depose the Caliph-he can kill his own creator. His death means the dismissal of his staff; tut the death of the sovereign is not followed by the dismissal of the judges appointed by him. During an interregnum a judge can be elected by the people of a town, but not during the sovereign's lifetime. 5. President of the Highest Court of Appeal and General Control. The object of this institution was to hear appeals and to exercise a general supervision over all the departments of the State. Abdul Malik-the Ummaya Caliph and the founder of this court-personally acted as the president, though more difficult cases he transferred to Qazi Abu Idris. In later times the president was appointed by the Caliph. During the reign of the 'Abbasi Caliph al-Muqtadar, his mother was appointed President, and she used to hear appeals on Fridays, surrounded by Judges, priests and other notables. In one respect, the President of this Court differed from the Chief Judge. He was not bound by the letter of law like the Qazi; his decisions were based on general principles of natural justice, so that the President was something like the keeper of the Caliph's conscience. He was assisted by a council of judges and lawyers whose duty was to discuss every aspect of the case before the President announced his decision. The importance of this institution may be judged from the fact that it was among the few Muslim institutions which the Normans retained after their conquest of Sicily in the eleventh century. II. The Shi'ah view According to the Shi'ah view the State is of divine origin, and the Caliph, or as they call, Imam, governs by divine right. The view arose among an obscure Arabian sect known as Saba'ites, whose founder Abdullah ibn Saba was a Jew of Sana in Yemen. In the time of Uthman he became a convert to Islam, and finally settled in Egypt where he preached his doctrine. This doctrine harmonized with the pre-Islamic habits of political thought in Persia, and soon found a permanent home in that country. The Imam, according to the Persians, is not elected (the Shi'ahs of Oman, however, adopted the elective principle and held that the Imam might be deposed) but appointed by God. He is the reincarnation of Universal Reason, he is endowed with all perfections, his wisdom is superhuman and his decisions are absolute and final. The first Imam, Ali, was appointed by Muhammad; Ali's direct descendants are his divinely ordained successors. The world is never without a living Imam whether visible or invisible. The twelfth Imam, according to the Shi'ahs, suddenly disappeared near Kufa, but he will come again and fill the world with peace and prosperity. In the meantime, he communicates his will, from time to time, through certain favoured individuals-called Gates-who hold mysterious intercourse with him. Now this doctrine of the absence of the Imam has a very important political aspect which few students of Islam have fully appreciated. Whether the Imam really disappeared or not, I do not know; but it is obvious that the dogma is a clever way of separating the Church and the State. The absent Imam, as I have pointed out above, is absolute authority in all matters; the present executive authorities are, therefore, only guardians of the estate which really belongs to the Imam who, as such, inherits the property of deceased intestates in case they leave no heirs. It will, therefore, be seen that the authority of the Shah of Persia is limited by the authority of the Mullas-the representatives of the absent Imam. As a mere guardian of the estate he is subject to the religious authority of the Mullas though as the chief executive authority he is free to adopt any measure for the good of the estate. It is not, therefore, surprising that the Mullas took an active part in the recent constitutional reforms in Persia. III. The Khawarij republicanism I shall be very brief in my account of the Khawarij, since the history of their opinions is yet to be worked out. The first Muslims who were so called were the notorious 12,000 who revolted against 'Ali after they had fought under him at the battle of Siffin. They were offended at his submitting the decision of the right to the Caliphate to the arbitration of men when, in their opinion, it ought to have been submitted to the law of God-the Quran. "The nation," they said to 'Ali, "calls us to the book of God; you call us to the sword." Shahristani divides them into twenty-four sects, differing slightly from one another in legal and constitutional opinion, e.g. that the ignorance of the law is a valid excuse; that the adulterer should not be stoned, for the Quran nowhere mentions this punishment; that the hiding of one's religious opinions is illegal; that the Caliph should not be called the commander of the faithful; that there is nothing illegal in having two or more Caliphs in one and the same time. In East Africa and Mazab-South Algeria-they still maintain the simplicity of their republican ideal. Broadly speaking, the Khawarij can be divided into three classes: 1. Those who hold that there must be an elected Caliph, but it is not necessary that he should belong to a particular family or tribe. A woman or even a slave could be elected as Caliph provided he or she is a good Muslim ruler. Whenever they found themselves in power, they purposely elected their Caliph from among the socially lowest members of their community. 2. Those who hold that there is no need of a Caliph, the Muslim congregation can govern themselves. 3. Those who do not believe in Government at all-the anarchists of Islam. To them Caliph Ali is reported to have said; "You do not believe in my Government, but there must be some Government, good or bad." Such are, briefly the main lines of Political Thought in Islam. It is clear that the fundamental principle laid down in the Quran is the principle of election; the details or rather the translation of this principle into a workable scheme of Government is left to be determined by other considerations. Unfortunately, however, the idea of election did not develop on strictly democratic lines, and the Muslim conquerors consequently failed to do anything for the political improvement of Asia. The form of election was certainly maintained in Baghdad and Spain, but no regular political institutions could grow to vitalize the people at large. It seems to me that there were principally two reasons for this want of political activity in Muslim countries. 1. In the first place the idea of election was not at all suited to the genius of the Persians and the Mongols-the two principal races which accepted Islam as their religion. Dozy tells us that the Persians were even determined to worship the Caliph as a divinity, and on being told that worship belonged to God alone, they attempted to rebel against the Caliph who would not be the centre of religious emotion. 2. The life of early Muslims was a life of conquest. Their whole energy was devoted to political expansion which tends to concentrate political power in fewer hands; and thus serves as an unconscious handmaid of despotism. Democracy does not seem to be quite willing to get on with Empire-a lesson which the modern English Imperialist might well take to heart. In modern times-thanks to the influence of Western political ideas-Muslim countries have exhibited signs of political life. England has vitalized Egypt; Persia has received a constitution from the Shah, and the Young Turkish Party too have been struggling, scheming, and plotting to achieve their object. But it is absolutely necessary for these political reformers to make a thorough study of Islamic constitutional principles, and not to shock the naturally suspicious conservatism of their people by appearing as prophets of a new culture. They would certainly impress them more if they could show that their seemingly borrowed ideal of political freedom is really the ideal of Islam, and is, as such, the rightful demand of free Muslim conscience.۷ ۷ سمندر کی سطح پر اندھیرے کی حکمرانی تھی ۔ دُور کچھ روشنیاں اُبھریں۔یہ سسلی تھا۔ عرب صقلیہ کہتے تھے۔ ۹۶۵ء میںتقریباً سو برس کی جدوجہد کے بعد فتح کیا ۔ جاگیرداروں کے تسلط کو ختم کیا۔ یہ اصول رائج کیا کہ زمین صرف خدا کی ہے۔ چھوٹی چھوٹی زمینداریوں کے تحت کھیتی باڑی نے فروغ پایا۔ خوشحالی ہوئی۔ عیسائیوں اور یہودیوں کو ’’ذِمّی‘‘ کے طور پر وہ حقوق ملے جن کا اُس زمانے کے یورپ میں تصوّر نہ تھا۔ ۱۰۶۱ء میں شمالی فرانس کے نارمن قبائل نے اِسے فتح کر کے یہاں عربوں کی حکومت ختم کی۔ پانچ برس بعد اِنہی نارمنوں کے ایک اور رہنما ولیم نے انگلستان فتح کیا، ولیم فاتح (William the Conqueror) کہلایا۔ اُس کے جانشین آج تک انگلستان پر حکومت کر رہے تھے۔ اقبال نے اپنے سیاستِ اسلام والے تازہ ترین مقالے میں لکھا تھا کہ صقلیہ کی فتح کے بعد نارمنوںنے وہاں کے بعض اسلامی ادارے برقرار رکھے جن میں محتسب کا ادارہ شامل تھا۔ بعض خیالات اور جذبات نے طبیعت پر ہجوم کیا۔ نظم ہوگئی۔ جزیرہ سیسلی ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں! تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں جس کی تُو منزل تھا میں اُس کارواں کی گرد ہوں رنگ تصویرِ کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے قصّہ ایامِ سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے میں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا خود یہاں روتا ہوں اَوروں کو وہاں رُلواؤں گا اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ نظم ۱۸ اشعار پر مشتمل تھی۔ تین بند تھے۔۸ ۸ ہندوستان میں اُس برس آغا حشر کاشمیری نے شیکسپیئر کے کنگ جَون سے بعض واقعات کو اِس طرح اسٹیج پر لائے کہ اُن میں وہ کرب دیکھنا ممکن ہو گیا جو ۱۸۵۷ء کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے محسوس کیا تھا۔ اسٹیج پر انگریز حکمراں کو غاصب نہیں دکھایا جا سکتا تھا لیکن ڈرامہ تو ایک خواب کی مانند تھا۔ حشر علامات سے کام لے سکتے تھے۔ شخصیات کی بجائے اصولوں کی تجسیم کرتے تھے۔ صیدِ ہوس کا لالچی کردار جو حکومت کے لالچ میں بھائی کو خوشامد اور دھوکے سے قتل کر کے اُس کے بڑے لڑکے پر اِلزام لگاتا اگرچہ نادر کہلاتا مگر اُس میں انگریز سوداگروں کی جھلک دیکھی جا سکتی جنہوں نے دیسی بادشاہ سے حکومت چھین کر اصل وارثوں کو ’’غداری‘‘ کے الزام میں پھانسیاں دیں اور اَب پھر ہندوستان کے باشندوں کو اُنہی کے وطن میں ’’باغی‘‘ قرار دے رہے تھے (نادر شاہ نے بھی باہر سے آ کر دِلّی لوٹی تھی اس لیے یہ نام ویسے بھی غیرملکی حملہ آور کا اِشارہ تھا)۔ بادشاہ کے چھوٹے لڑکے قیصر کا قلعے کی دیوار سے گر کر ہلاک ہونا، اُس کی ماں اور بہن کا مجبوری کے عالم میں ایک دوسرے کو ہلاک کر کے عزت بچانا ، یہ واقعات ۱۸۵۷ء سے وابستہ یادیں تازہ کر سکتے تھے جو اَبھی ذہنوں سے اُتری نہ تھیں۔ لالچی ماں جو اپنی بیٹی نرگس کو اُس کے محبوب شمشاد سے جدا کر کے بوڑھے بوبک کے ساتھ زبردستی بیاہنا چاہتی تھی، اُس کی کامیڈی (ناموں کی معنویت کے لحاظ سے بھی) بظاہر ’’پسند کی شادی‘‘ کے موضوع پر تھی۔ حقیقت میں پسند کی حکومت کے اُس مسئلے کی آئینہ دار تھی جو اَصل پلاٹ کا موضوع تھا۔ مقتول بادشاہ کا بڑا لڑکا سنجر میدانِ جنگ میں ہارجاتا مگر عوام کی رائے اور سرداروں کی حمایت پھر بھی اُسے تخت پر بٹھا دیتی۔ غاصب کی اپنی لڑکی ’’اقبال‘‘ تخت کے جائز وارث اور عوام کے پسند کیے ہوئے حکمراں کو تاج پہناتی۔ ۹ عثمانی سلطنت میں طوفان آیا ہوا تھا۔ خلیفہ کے خلاف بغاوت پوری فوج میں پھیل رہی تھی۔ مطالبہ تھا کہ آئین جو پچھلی صدی میں دو برس نافذ رہ کر معطل ہو گیا تھا اُسے بحال کیا جائے۔ سلطنت کے یورپی علاقوں میں بغاوت زیادہ زوروں پر تھی، مثلاً سالونیکا اور مقدونیہ وغیرہ۔ یہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ خدشہ تھا کہ یہ علاقے یورپ کے قبضے میں چلے گئے تو مسلمانوں کا وہی حشر نہ ہو جو گیارہویں صدی میں یروشلم پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد وہاں ہوا تھا کہ مسلمانوں کا بہتا ہوا خون گھوڑوں کے گھٹنوں تک پہنچ گیا تھا۔ باغی جماعت کا نام اتحاد و ترقی تھا۔ عام طور پر ینگ ٹرک یعنی نوجوان ترک کہلاتے تھے۔ فرانسیسی نظریات سے متاثر تھے۔ آئین کی بالادستی چاہتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ سلطنت کے مختلف صوبوں کو اکٹھا رکھنے کے لیے اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہ ہو گی۔ ۱۰ لاہور میں میاں محمد شفیع ایک اہم مقدمہ لڑ رہے تھے جس کی انہوں نے بھاری فیس بھی وصول کی تھی۔ اچانک انہیں حکومت کی طرف سے تار موصول ہوا کہ فوراً شملہ پہنچیں ۔انہوں نے کسی اچھے وکیل کو مقدمے کی تفصیلات سمجھا کر اگلے دن کے لیے تیار کیا اور خود شملہ روانہ ہو گئے۔ وہاں ہندوستان کے مسلمانوں میں سے چار رہنما بلائے گئے تھے جن میں علی امام شامل تھے۔ حکومت کی خواہش تھی کہ مسلمان مخلوط انتخاب قبول کر لیں۔ اس کا مطلب وطن کے مغربی تصور کو قبول کرنا ہوتا۔ میاں محمد شفیع کی بیٹی جہان آرا جو اُس وقت بارہ برس کی تھیں کہتی ہیں کہ باقی تینوں رہنمامان گئے مگر میاں محمد شفیع تیار نہ ہوئے۔ ’’واپس آکر ابا جان نے بہت سے مسلمان رہنماؤں کو خط لکھے جن میں آغا خان اور سید امیر علی بھی شامل تھے جو اُس وقت انگلستان میں تھے،‘‘ اُن کا بیان ہے۔ ’’ابا جان نے اُن سب سے کہا کہ پوری کوشش کریں کہ ہندو، انگریز حکومت کو مخلوط انتخابات پر آمادہ نہ کر سکیں۔‘‘۹ ۱۱ میجر انور نوجوان ترکوں کے رہنما تھے۔ ۲۳ جولائی کو اُنہوں نے آئین کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ اگلے روز خلیفہ نے بھی تائید میں فرمان جاری کر دیا۔ ۱۲ ۲۵ جولائی کو جہاز بمبئی کے ساحل سے آ لگا۔ معلوم نہیں اُس پارسی پیر مرد کو دوبارہ دیکھ سکے یا نہیں جس کے ہوٹل میں پچھلی دفعہ قیام تھا۔ اُسی روز ریل میں سوار ہو کر دہلی روانہ ہوئے۔ وطن پرست تحریکوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ راستے میں کئی اسٹیشنوں پر بچے اور بڑے استقبال کے لیے موجود اورترانۂ ہندی گا رہے تھے: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا دہلی میں دوست جمع تھے۔ اقبال رات کو پہنچے۔ اِس دفعہ داراشکوہ کے مزار سے ہُوالموجود کی آواز سنائی نہ دی ہومگر نظام الدین اولیأ کی درگاہ پر اگلے روز صبح سویرے دوستوں کے ساتھ ضرور حاضر ہوئے۔ فاتحہ کے بعد سارا دن وہیں قیام کیا۔ قوالی ہوئی۔ میر نیرنگ اور مقبول احمد نظامی نے استقبالیہ نظمیں پڑھیں۔ پچھلی دفعہ اقبال نے ’التجائے مسافر‘ سنائی تھی۔ اِس دفعہ بھی دوستوں کو کسی نظم کی توقع تھی۔ صقلیہ والی نظم نکالی۔ شانِ نزول بتاکر سب کو سنائی۔ اگلی صبح ریل گاڑی سے لاہور روانہ ہو گئے۔ باب۸ شیطان کی خدائی جولائی ۱۹۰۸ء سے مارچ ۱۹۱۱ء تک پہلا حصہ ۱ ۲۷ جولائی پیر کا دن تھا مگر بھاٹی دروازے میں شیخ گلاب دین کے لگوائے ہوئے شامیانے میں خاصا رش تھا۔ گیارہ بجے استقبال کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ریلوے اسٹیشن پر دہلی سے آنے والی گاڑی سے اقبال کو اُتار کر وہاں لائے۔ اقبال جلسہ گاہ میں پہنچے۔ گلے میں سونے کا ہار ڈالا گیا۔ میاں محمد شفیع نے تعریف میں چند کلمات کہے۔ اِستقبالیہ نظمیں پڑھی گئیں۔ اُن میںکوئی خاص بات نہ تھی مگر سادہ دل عقیدت مندوں کو جذبات کا اظہار کرنا تھا: آمدِ اقبالی سے جشنِ طرب گھر گھر ہوا اوج پر آج پھر لاہور کا اختر ہوا ڈگریاں پا کر ولایت سے تُو آیا کامیاب فلسفے میں خاص کر بیکن کا تُو ہمسر ہوا۱ بھرے مجمع میں سونے کا ہار گلے میں ڈالے اقبال کیا سوچ رہے تھے؟ کوئی نہ جانتا تھا۔آخر میں نظم کی فرمایش ہوئی تو صاف انکار کر دیا۔ دوپہر کا کھانا گلاب دین کے گھر کھایا۔ اگلی گاڑی سے سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔ ۲ مشرقی ادب میں نئی روح پھونکنے کی خواہش دل میں تھی۔ بعد میں اقبال نے کہا: میں اپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی۔ میں اِس درجہ منہمک تھا کہ دو تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں!۲ ۳ بیٹی معراج جسے نو برس کا چھوڑ ا تھا اب بارہ برس کی تھیں۔ آفتاب دس برس کے تھے اور ممکن ہے تین برس باپ کے سائے سے محروم رہنے اورکبھی کبھی تایاکے ہاتھوں سختی برداشت کرنے کا اثر طبیعت میں نظر آرہا ہو۔ دونوں بچوں کا زیادہ تر وقت ماں کے ساتھاپنی ننہیال میں گزرا تھا۔ کریم بی کی عمر تینتیس برس تھی۔ معلوم نہیںاقبال کی واپسی سے کس قدر خوش ہوئیں مگراقبال دوسری شادی کا پختہ ارادہ کر چکے تھے۔ کریم بی کو طلاق دینا چاہتے تھے مگرمعلوم ہوتاہے کہ اُس وقت اپنا ارادہ کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ خاموشی سے جائزہ لیتے رہے۔ شیخ عطا محمد کی طبیعت خراب رہتی۔ جو کچھ کمایا تھا اُس کاکافی حصہ اقبال کی تعلیم پر خرچ ہوچکا تھا۔ باقی رقم بھی اُٹھ چکی تھی۔ اُن کے بڑے لڑکے اعجاز کی عمر نو برس تھی۔ باقی لڑکے چھوٹے تھے۔ اسی مہینے لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی۔ اقبال کی سب سے چھوٹی بہن زینب تو ماں باپ کے ساتھ ہی رہتیں کیونکہ شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی اور ساس نے گھر سے نکال دیا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر باقی تینوں بہنیں بھی اقبال سے ملنے آئی ہوں۔ دریائے نیکر کے کنارے جو خواب دیکھے تھے، مسمار ہوتے نظر آئے ہوں گے۔ ’’میں اپنے بھائی کا اخلاقی قرض دار ہوں،‘‘ کچھ دن بعد ایک خط میں لکھا۔ کیا وہ عطا محمد سے کہہ سکتے کہ لاہور میں وکالت کر کے خاندا ن کا بوجھ اٹھانے کی بجائے یورپ واپس جا رہے ہیں تاکہ جرمنی میں آباد ہو سکیں؟ ۴ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان ہندوؤں سے مرعوب نظر آتے تھے۔ اقبال کی نظر میں یہ احساسِ کمتری کی وجہ سے تھا جو غیرملکی ادب کے مطالعے کے باعث پیدا ہوا تھا۔ اقبال کے ضمیر سے ایک آواز بلند ہوئی۔ کچھ اِس قسم کی تھی: میں تو کسی حد تک شیطان کے لیے بھی تحسین کے جذبات محسوس کرتا ہوں۔ آدم، جسے وہ واقعی اپنے سے کمتر سمجھتا تھا، اُسے سجدہ کرنے سے انکار کر کے اُس نے عزتِ نفس کے بلند معیار کا ثبوت دیا جو میری رائے میں کردار کا ایسا وصف ہے جسے میری رائے میں اُس کے روحانی قبح کی تلافی سمجھنا چاہیے، بالکل اُسی طرح جیسے مینڈک کی خوبصورت آنکھیں اُس کی جسمانی بدنمائی کی تلافی کرتی ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ خدا نے اُسے جو سزا دی وہ اِس لیے نہیں تھی کہ وہ ایک ضعیف و نزار انسانیت کے جدِ اعلیٰ کے آگے جھکنے پر تیار نہ ہوا تھا بلکہ وہ سزا اس لیے تھی کہ اُس نے مالکِ کائنات کی مرضی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ تعلیم یافتہ ہندی مسلمانوں میں سے اکثر شیطان سے بدتر تھے: مذہبی روح کے انحطاط نے سیاسی نوعیت کے دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر جو ہندی مسلمان کے اختیار سے باہر تھے، اُس میںاپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے کی عادت، دُوسروں کی مرضی کے تابع ہونے کا احساس اور سب سے بڑھ کر وہ روحانی تساہل پیدا کر دیا ہے جسے قوت سے محروم ہو جانے والی قومیں اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے ’’قناعت‘‘ کا معزز نام دیتی ہیں۔ قومی مفادات کے صحیح تصور اور ملک کی دوسری ملتوں کے درمیان اپنی ملت کی موجودہ صورت حال کے درست اندازے سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنی ناقص کاروباری اخلاقیات کی بدولت وہ اقتصادی میدان میں بھی ناکام ہے۔ اپنی بری کاروباری اخلاقیات کی وجہ سے وہ اقتصادی میدان میں ناکام ہے۔ نجی اور معاشرتی دونوں حیثیتوں میں وہ ایسے خطوط پر کام کر رہا ہے جومیرے اندیشے کے مطابق اُسے ضرور تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ کتنی دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسی ایسے مقصد کی حمایت سے جو نمایاں طور پر قومی اہمیت کا حامل ہے، محض اِس لیے گریز کرتا ہے کہ اُس کی لاتعلقی کسی ایسے بارسوخ ہندو کی خوشنودی کا باعث ہو گی جس کے ذریعے اُسے کوئی ذاتی فائدہ پہنچنے کی امید ہے؟ میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہتا ہوں کہ ایک ناخواندہ دکاندار جو رزقِ حلال کماتا ہے اور بازوؤں میں اتنی قوت رکھتا ہے کہ مشکل وقت میں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کر سکے، میں اُس کی زیادہ عزت کرتا ہوں بہ نسبت ثقافتِ عالیہ [high culture] کے ذہین و فطین گریجویٹ کے، جس کی مدھم دبی ہوئی آواز جسم کے روح سے خالی ہونے کی غماز ہے، جو فرمانبرداری میں فخر محسوس کرتا ہے، کم کھاتا ہے، بیخواب راتوں کی شکایت کرتا ہے اور اپنی ملت کے لیے نحیف اولاد پیدا کرتا ہے، اگر اولاد پیدا کر سکے تو! ۔۔۔ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مطمحِ نظر زیادہ تر ملازمت ہے اور بالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں ملازمت دوسروں کے تابعِ فرمان ہونے کا وہ احساس پیدا کرتی ہے جو انسانی انفرادیت کی قوت زائل کر دیتا ہے۔ بیشک ہم میں جو غریب ہیں اُن کے پاس سرمایہ نہیں ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کر سکنے کی وجہ سے مشترکہ کاروبار نہیں کر سکتے۔ اور امیر کاروبار کو حقیر پیشہ سمجھ کر اپنے رتبے کے منافی سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اقتصادی محتاجی وہ سبب ہے جو تمام دوسری برائیوں کو کثرت سے جنم دیتا ہے۔ ہندی مسلمان کی برائیاں بھی اُس میں قوتِ حیات ہی کے ضعف کا پتہ دیتی ہیں۔ جسمانی طور پر بھی وہ بھیانک انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ اگر کوئی اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان لڑکوں کے زرد مرجھائے ہوئے چہرے دیکھے تو اُسے میری بات کا تکلیف دہ ثبوت مل جائے گا۔ طاقت، توانائی، قوت- جی ہاں، جسمانی قوت- زندگی کا قانون ہے۔ جب ایک طاقتور شخص کی جیب میں کچھ نہ ہو تو وہ دوسروں سے چھین تو سکتا ہے لیکن ایک ناتواں شخص، اُس کے پاس دنیا کے پیکارِ مسلسل کے اندوہناک میدان میں ایک بے حقیقت شے کی موت مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مگر اِس خراب صورت حال کو بہتر کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟۳ ۵ آغا حشر نے اپنے نئے ڈرامے خوابِ ہستی کے واقعات میکبتھ سے لیے مگر ترجمہ کرنے پر مجبور نہ تھے۔ اُن کا میکبتھ جس کا نام صولت تھا، نوابزادہ تھا مگر بے حیا عباسی کو محبوبہ اور چالاک فضیحتا کو دوست بنائے بیٹھا تھا۔ باپ نے اُسے عاق کر کے بھتیجی رضیہ کو جائیداد کا وارث بنایا (جس طرح التمش نے نالائق لڑکوں کی بجائے بیٹی رضیہ کو تخت کا وارث بنایا)۔ عباسی شوہر کو زہر دے کر برائی کی طرف مائل ہوئی کیونکہ دولت نہ رکھتی تھی اور حاصل کرنا چاہتی تھی۔ فضیحتا اس لیے بے ایمان تھا کیونکہ باپ نے سمجھایا تھا، ’’بیٹا! تو ایمان دار رہے گا تو بھوکا مرے گا اور بے ایمانی کے غبارے اُڑائے گا تو تر نوالے کھائے گا‘‘ [۷:۱]۔ صولت کو دولت حاصل کرنے کے لیے اِن جیسا نہیں بلکہ اِن سے مختلف ہونے کی ضرورت تھی کیونکہ جائیداد کا وارث تھا۔ پھر کیوں اپنے مقام سے گر کر ایسی جگہ پہنچا کہ اِن کے ساتھ مل کر باپ کے قتل کی سازش کرے؟ وہ اِس کی دولت میں خود حصہ نکالنے کے لیے اُسے اُکسا رہے تھے مگر یہ کیوں پوری جائیداد کا مستحق بننے کی بجائے دو بدمعاشوں کو حصہ دار بنانے پر مائل تھا؟ وجہ یہ دکھائی گئی کہ نیکی، محبت اور اچھی اقدار کا انکار کرتا تھا۔ سمجھتا تھا کہ یہ وجود ہی نہیں رکھتیں۔ یہ اُن نوجوانوں کا المیہ بھی ہو سکتا تھا جو مغربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے کہ مغرب کی دولت اور طاقت انہی کے بزرگوں سے چھینی ہوئی تھی۔ آغا حشر کا اسٹیج ایک خواب کی مانند تھا۔ یہاں ملت کی باطنی زندگی کے وہ حقائق دیکھے جا سکتے تھے جنہیں محمد علی (جوہر)، اقبال اور دوسرے مدبرین اپنی بصیرت سے محسوس کر رہے تھے۔ اِس ڈرامے کے کردار خواب ہی میں حقیقت کا صحیح ادراک کرتے تھے۔ عباسی کے لیے سوتے میں چلنا جہنم کا تجربہ تھا۔ کامیڈی میں اِسی کا عکس وہ منظر تھا جہاں فضیحتا کو جھوٹ موٹ مرنا پڑتا۔ البتہ فضیحتا اُس تجربے کے لیے تیار نہ تھا جس کے بارے میں صوفیوں میں قول مشہور تھا کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ۔ ’’جب موت آئے گی تو میں مر جاؤں گا،‘‘ دوسرے باب کے تیسرے پردے میں جھلا کر کہتا۔ ’’موت سے پہلے کیسے مر جاؤں؟‘‘ قیدخانہ، صولت کے لیے برزخ تھا جہاں وہ حسن افروز کی تصویر کے سامنے پچھتاتا۔ ڈرامے کا نام خوابِ ہستی معنی خیز تھا۔ صولت کی اصل اُس کا باپ نواب اعظم تھا تو روح وہ حسن افروز تھی جسے یہ حُسنا کہتا تھا۔ پہلے باب کے چوتھے پردے میں پوچھتی کہ اُسے کیا سمجھتا ہے تو جواب دیتا، ’’اپنی زندگی، اپنی جان، اپنی روح‘‘ (اور فضیحتا کی روح وہ بدتمیز بیوی تھی جسے پہلے باب کے ساتویں پردے میں فضیحتا پہچاننے سے انکار کر کے اور دھوکے سے مجرم قرار دلوا کر پولیس کے حوالے کر دیتا)۔ حسنا کا کہنا درست تھا: کیا یہ شرم اور افسوس کی بات نہیں ہے کہ جسے تم اپنی روح سمجھتے ہو اُسی کو جہنم میں گرانے کے لیے تیار ہو؟ خوابِ ہستی آغا حشر کاشمیری [۸:۱ سے اقتباس - مکانِ صولت] صولت بس بس حسنا بس! میں دولت کے سوا تیری خدمت کا عوض اور کچھ نہیں دے سکتا ہوں۔ حسنا میں دولت پر لعنت بھیجتی ہوں۔ صولت میں اس لعنت سے نفرت کرتا ہوں۔ حسنا میں اس نفرت کو حقارت سے دیکھتی ہوں۔ صولت حسنا! تو مفلس و فقیر ہے۔ حسنا مگر حسنا دل اور خصلت میں تجھ سے زیادہ امیر ہے۔ صولت حسنا! سن میں عیاش ہوں، بدمعاش ہوں، بدقماش ہوں، تمام دنیا سے ہیٹا ہوں مگر پھر بھی نواب اعظم کا بیٹا ہوں۔ حسنا اس لیے۔۔۔؟ صولت میں عزت کی بربادی نہیں کر سکتا۔ حسنا یعنی؟ صولت تو چور ہے اور میں چور سے کبھی شادی نہیں کر سکتا۔ حسنا میں چور، تم ساہوکار؟ صولت کیا تم نے وصیت نامہ نہیں چرایا؟ حسنا مگر مجھے چوری کرنے کے لیے کس نے سمجھایا؟ ایک فرشتے سے کس نے گناہ کرایا؟ ایک سیدھی سادی ایمان دار عورت کو کس نے بہکایا؟ تو نے! اے دولت مند مفلس! تو نے۔ جس بدذاتی سے بڑھ کر کوئی بدذاتی نہیں، جس بے ایمانی سے بڑھ کر کوئی بے ایمانی نہیں، جس دغابازی سے بڑھ کر کوئی دغابازی نہیں، کس نے کی؟ تو نے او نواب اعظم کے بیٹے! تو نے۔ میں محبت میں سرشار تھی، میں تجھ پر نثار تھی، تیری مرضی کی تابع دار تھی، چوری کے لیے لاچار تھی۔ او خوبصورت سانپو! تم کو کیسی زہریلی باتیں یاد ہوتی ہیں! او خدا، او خدا! آج مجھے معلوم ہو گیا کہ مردوں کے ہاتھ سے بے چاری عورتیں اسی طرح برباد ہوتی ہیں، نامراد رہتی ہیں، ناشاد رہتی ہیں: دعائیں دی ہیں میں نے جب کوئی تو نے جفا کی ہے خدا ہی داد دے گا بیوفا جیسی وفا کی ہے صولت وفا کیسی؟ کہاں کی وفا؟ وفا محلوں میں نہیں، محلوں میں نہیں، قلعوں میں نہیں، امیرزادیوں میں نہیں، شہزادیوں میں نہیں، پھر تجھ میں کہاں سے آئی اور تم نے کہاں سے پائی؟ حسنا تو وفا کو غلط جگہ ڈھونڈ رہا ہے۔ امرت ظلمات میں جا کر ہاتھ آتا ہے۔ وفاداری کا چراغ امیروں کے محلوں میں نہیں غریبوں کی جھونپڑیوں میں جگمگاتا ہے۔ صولت خیر میں ہی بیوفا ہوں، باوفا ہے ایک تُو میں ہی دنیا کا برا ہوں، ایک ہے بس نیک تُو جیسی مجھ میں ہے، کسی میں ایسی بدذاتی نہیں چھوڑ دے پھر، دُور ہو، مر کس لیے جاتی نہیں؟ حسنا خیر جاتی ہوں مگر یہ ساتھ لے جاتی ہوں میں [وصیت نامہ چھین لینا] صولت او دغا! حسنا بس داغ پایا، داغ دے جاتی ہوں میں صولت لا اِدھر کاغذ وگرنہ لوں گا ظلم و جور سے حسنا بس وہیں ٹھہرو، جہاں آ جائے گا اِک شور سے صولت حسنا، پیاری حسنا! حسنا میں پیاری؟ تیری پیاری! صولت ہاں، میری پیاری۔ حسنا کون؟ صولت ماہ پارا۔ حسنا کون؟ صولت دل آرا۔ حسنا پر کون؟ صولت اچھی حسنا۔ حسنا ارے پر کون؟ صولت ایسے وفاشعار سے ایسے ستم، فریب! حسنا بیشک کیا فریب مگر تجھ سے کم فریب صولت وہ چاہ، وہ نباہ ترے دل سے دُھل گئی حسنا پہلے تھی خواب میں مگر اب آنکھ کھل گئی [جانا] ۶ اقبال نے سیالکوٹ کی مشہور جامع مسجد دودروازے والی میں لیکچر دیا۔ روایت ہے کہ وہاں کسی نے پوچھا کہ خدا کی ہستی کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کا شعر پڑھا: فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں اِس کے بعد کہا کہ رسولِ اکرمؐ کو نبوت ملنے سے پہلے ہی لوگ سچا اور امانتدار کہتے تھے، آپؐ نے کہہ دیا کہ خدا ہے تو پھر اِس بحث میں پڑنا ہی نہ چاہیے۔ خدا کی ہستی پر سب سے بڑی دلیل رسولِ اکرمؐ کا اپنا وجود ہے۔۴ ۷ چند روز بعد عطا محمد لاہور گئے تاکہ اقبال کے لیے دفتر کا بندوبست کر سکیں۔مرزا جلال الدین سے مشورے کے بعد ضلع کچہری (ڈسٹرکٹ کورٹ) کے نزدیک چنگڑ محلہ، موہن لال روڈ پرگلاب سنگھ کے مطبع مفید عام کے سامنے لالہ چونی مونگا سے ایک دفتر کرائے پرلیا۔ کچھ دن بعد اقبال بھی سیالکوٹ سے اپنے کبوتر لے کر آگئے اور دفتر کے لیے قانون کی کچھ کتابیں اور ایک منشی حاصل کیا جس کا نام کاہن چند تھا ۔ اُس نے بہت جلد پیسوں پر جھگڑنا شروع کر دیا۔۵ ۸ اگست کے مخزن میں ’صقلیہ‘ شائع ہوئی۔ غالباً اُنہی دنوں ایک روسی اخبار نویس کی تجویز نے اسلامی ممالک میں ہلچل پیدا کی کہ مصر میں عالمی کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جس میں تمام اسلامی ممالک کے نمایندے شامل ہوں۔۶ یہی بات کئی مہینے پہلے خود اقبال کے ذہن میں آئی تھی جس کا عبدالقادر سے ذکر کیا تھا۔ ۹ محمد الدین فوق نے اپنے رسالے کشمیری میگزین کے اگست کے شمارے میں دو استقبالیہ نظموں کے ساتھ استقبال کی روئیداد بھی شائع کی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری تو اقبال اپنے ساتھ لائے تھے، ایل ایل ڈی فوق جذبات کی رَومیں عطا کر گئے: ملک کے فخر، اہل ِ خطہ ٔ قوم کے سرمایۂ ناز اور نیازمند فوقؔ کے محب شیخ محمد اقبال جو اپنے وطن میں صرف پروفیسر اقبال ایم اے تھے، انگلستان اور جرمنی میں کشمیری ذہانت و طبّاعی کا سکہ بٹھا کر اور اپنی تعلیم کو کامیابی اور تعریف کے ساتھ تکمیل کر کے نہ صرف ایل ایل ڈی اور پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی) کی اعلیٰ علمی ڈگریاں لے کر مع الخیر اپنے وطن کو تشریف لائے ہیں۔۔۔۷ ۱۰ علی بخش کا بیان ہے: ڈاکٹر صاحب (اقبال) ولایت سے واپس آئے تو پھر مجھے پیغام بھیجا۔ میں اُس وقت مشن کالج (لاہور) میں تھا۔ اُن سے ضلع کچہری میں ملا۔ فرمایا کہ ملازمت چھوڑ کر ہمارے ہاں چلے آؤ، بہت اچھے رہو گے۔ چنانچہ میں کالج کی ملازمت چھوڑ کر پھر اُن کے پاس آگیا۔۸ ۱۱ بال گنگادھر تلک انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں کی بھی مخالفت کرتے رہے تھے لیکن مقدمے کی پیروی کے لیے مسلمان بیرسٹر ہی کو منتخب کیا۔ محمد علی جناح کی صداقت اور امانت داری پر مخالفین بھی شبہ نہ کر سکتے تھے۔ تلک موت کی سزا سے بچ گئے مگر چھ سال کی قید ہوئی۔ ۱۹ اگست کو بم دھماکے کرنے والے کھڈی رام کو پھانسی دے دی گئی۔ ان واقعات کے بارے میں اقبال کی واضح رائے معلوم نہیں۔اس زمانے کی انگریزی تحریروں میں بالواسطہ اشارے موجود ہیں: معلوم ہوتا ہے کہ [ایک سطحی قسم کے نظامِ تعلیم نے ہندوؤں] میں بہت سے سیاسی تصوریت پسند پیدا کر دیے ہیں جن کا تاریخ کا غلط مطالعہ انہیں سیاسی نظم و نسق اور سماجی امن کی تمام کیفیات کو درہم برہم کرنے پر اُکساتا ہے۔ ۹ اقبال افسوس کرتے تھے کہ اِن ہندو رہنماؤں سے مرعوب ہو کر بعض تعلیم یافتہ مسلمان بھی ان کی طرح سوچنے پر تیار ہونے لگے تھے۔ اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس تھیں: مدافعانہ جنگ میں بھی اسلام شکست خوردہ دشمن کے خلاف سفاکی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔ میں [پیغمبرِ اسلامؐ] کے وہ الفاظ یاد کرتا ہوں جو آپؐ نے اپنے پیروکاروں سے ایک جہاد پر روانگی کے وقت ارشاد فرمائے: ہم پر ڈھائے گئے مظالم کا بدلہ لینے میں بے ضرر راہبوں کی عزلت نشینی میں خلل انداز مت ہونا، عورتوں کی جسمانی کمزوری پر رحم کھانا، اور شیرخوار بچوں اور صاحبِ فراش مریضوں کو زخمی مت کرنا۔ غیرمزاحم شہریوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے گریز کرنا، اُن کے ذرائع روزگار اور پھل دینے والے درخت برباد مت کرنا اور کھجور کے درختوں کو نقصان مت پہنچانا۔ سچ یہ ہے کہ اسلام اصلاً امن کا مذہب ہے۔ قرآن میں سیاسی اور سماجی ابتری کی تمام صورتوں کی مکمل طور پر مذمت کی گئی ہے۔۔۔ مگر قرآن فساد کے شر کی صرف مذمت کرنے پر نہیں رک جاتا۔ اس برائی کی جڑ تک جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم اور جدید دونوں زمانوں میں خفیہ نشستیں سیاسی اور سماجی ابتری کا مستقل ذریعہ رہی ہیں۔ اِن مجلسوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے: اے ایمان والو! اگر تم خفیہ گفتگو کرو (یعنی خفیہ نشست ہو) تو گناہ اوربغاوت کے مقصد سے گفتگو مت کرو۔ اسلام کا نصب العین یہ ہے کہ ہر قیمت پر معاشرے کا امن حاصل کیا جائے۔ معاشرے میں تشدد کے ساتھ تبدیلی لانے کے تمام طریقوں کی بالکل واضح زبان میں مذمت کی گئی ہے۔۔۔ اِس ملک میں ہم ایک مسیحی حکومت کے تحت رہ رہے ہیں۔ ہمیں اُن اولین مسلمانوں کی مثال ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے جنہیں اپنے ہموطنوں کے مظالم کی وجہ سے گھر چھوڑ کر حبشہ کی عیسائی ریاست میں آباد ہونا پڑا تھا۔۱۰ ۱۲ ۱۹ اگست کو مراکش میں خانہ جنگی ختم ہوئی۔ مولائے عبدالحفیظ کو سلطان تسلیم کر لیا گیا۔اُنہوں نے یورپ سے منہ موڑنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۳ ۲۸ اگست کو اقبال سیالکوٹ واپس پہنچے تو خطوط کا انبار منتظر تھا۔ ہندوستان کے کونے کونے سے واپسی کی مبارکباد موصول ہوئی تھی۔ چالیس کے قریب نظمیں ہی تھیں۔ شاطر مدراسی جن کا مجموعہ شائع ہو چکا یا ہونے والا تھا، اُنہوں نے دریافت کیا تھا کہ اپنا مجموعہ کب شائع کروائیں گے۔ اقبال نے اگلے روز اُنہیں لکھا: نہ مجھے اِن اوراقِ پریشاں کے جمع کرنے کی فرصت ہے نہ حقیقت میں اِن کی ضرورت ہے۔ محض دوستوں کے بہلانے کی خاطر کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں اور وہ بھی مجبوراً۔ گذشتہ تین سال سے بہت کم اتفاق شعر گوئی کا ہوتا ہے اور اب تو میں پیشہ ہی کچھ اِس قسم کا اختیار کرنے (کو )ہوں جس کو شاعری سے کوئی نسبت نہیں۔۱۱ اِسی قسم کی بات محمد الدین فوق کے نام خط میں تحریر کی۔ اُنہوں نے کشمیری میگزین کے لیے اشعار کی فرمایش کی تھی۔ معذرت کرتے ہوئے مصروفیت کا عذر پیش کیا: روٹی تو خدا ہر ایک کو دیتا ہے۔۔۔میری آرزو ہے کہ خدا تعالیٰ اِس مہم میں میرا شامل ِ حال ہو۔ ۱۴ غزل عیاں ستارے، ہویدا فلک، زمیں پیدا تری خدائی تو پیدا ہے، تو نہیں پیدا وہ چیز نام ہے جس کا تڑپ محبت کی مرے وطن میں نہیں ہے ابھی کہیں پیدا پھر آیا دیس میں اقبالؔ بعد مدت کے پس از سہ سال ہوا گمشدہ نگیں پیدا کسی ادب کی جو قسمت بگڑتی ہے اقبالؔ تو پہلے ہوتے ہیں نادان نکتہ چیں پیدا۱۲ یہ اشعار کبھی شائع نہ کروائے۔ ۱۵ وہ آنکھیں جنہوں نے غالب ؔ کو دیکھا بڑھاپے سے کمزور ہو چکی تھیں۔مولانا حالیؔ کو شاعری میں اصلاح دینا مشکل معلوم ہونے لگا تھا لہٰذا کوئی درخواست کرتا تو کسی اور کے پاس بھیج دیتے۔ ایک دن پٹھانکوٹ سے کسی مسلمان سرکاری ملازم کے بیٹے کا خط ملاجس کی عمر چودہ برس کے قریب تھی مگر جدید شاعری کرنا چاہتا تھا۔ نام عبدالمجید سالکؔ تھا۔ حالیؔ شاید خبر سن چکے تھے کہ اُن کا جانشین ولایت سے واپس آچکا ہے چنانچہ اُسی کا نام لکھ کر بھیج دیا۔ عبدالمجید سالک نے بعد میں بیان کیا کہ اقبال نے انہیں لکھا: اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خودبخودشعر گوئی پر مجبور ہوں گے۔ باقی رہی زبان تو اس میں مَیں موزوں اُستاد نہیں ہو سکتا۔ ۱۶ ۳ ستمبر کو سیالکوٹ میں بارش ہوئی۔ شہر جل تھل ہو گیا۔ اقبال نے وطن سے ایما کے نام پہلا خط لکھا: میں اپنی ساری جرمن زبان بھول گیا ہوں لیکن مجھے صرف ایک لفظ یاد ہے: ایما!۱۳ Sialkote City India 3rd Sep. 08 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich habe here gekommen. Es ist sehr schade dass es nicht möglisch war sie zu besuchen vor Ich verliess England. Bitte schreiben sie bald was sie tun jetzt. Ich habe entschieden meine Geschäft in Lahore zu beginnen. Es ist ein gutes platz für ein Advocat. Ich glaube dass Sie ins Heidelberg sind. Bitte geben Sie meine salutations zu Frau & Herr Professor, und denken Sie von mir when sie zusammen sind. Es hat here sehr viel geregelt (geregnet?). Alles ist wasser, und wir hoffen mehr. Ich habe meine Deutsche ganz fergessen, aber Ich erinnere mich nur ein Wort--- Emma. Ihr S.M. Iqbal ۱۷ اُس مہینے کے مخزن میں وہ نظمیں شائع ہوئیں جو اقبال کی واپسی پر کہی گئی تھیں۔ New Books. Shaikh Muhammad Iqbal, B.A. (Cantab.), a pupil of Professor T. W. Arnold, has written a useful little book on The Development of Metaphysics in Persia (Luzac and Co., pp.xii. 195, 3s. 6d. net). It gives an interesting account of Persian thought from its beginnings in Zoroaster to its culmination in Babism, showing the way in which Islamic ideas and Greek philosophy influenced its development. Elements of similarity between Persian and modern European metaphysics are emphasised, and philosophical students will find Shaikh Iqbal a clear and scholarly expositor of his subject. The Manchester Guardian; September 15, 1908, p.5 ۱۸ عطا محمد نوکری پر واپس جا چکے تھے۔ امام بی بی کی طرف سے نیاز بھی لے گئے تھے جو دہلی میں نظام الدین اولیأ کے مزار پر پہنچانی تھی۔ وہاں شاید فرصت نہیں ملی، نیاز کسی اور کے ہاتھ حسن نظامی کو پہنچائی۔ حسن نظامی نے پوسٹ کارڈوں میں اقبال کا شکریہ ادا کیا۔ اپنا کوئی رسالہ بھی خاص طور سے پارسل کیا اگرچہ اقبال نے عام وی پی کی فرمایش کی تھی۔ معلوم ہوتا ہے نئے حلقے نظام المشائخ میں اقبال کو اُن کی اجازت کے بغیر شامل کیا تھا اور اطلاع بھی دی تھی۔ اقبال اُن دنوں بیمار تھے مگر ۱۳ اکتوبر کو لکھا: آپ اپنی ہر تحریک میں بغیر پوچھے مجھے شامل تصور کیجیے۔۔۔ مگر جس درد نے کئی مہینوں سے مجھے بیتاب کر رکھا ہے، جو مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتا، جو مجھے تنہائی میں رلاتا ہے، اس کی وجہ مجھ سے پہلے سُن لیجیے پھر جو چاہے کیجیے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ میرے ساتھ۔ لگتا ہے اُس وقت تک گھر والوں سے بھی کھل کر دوسری شادی کی بات نہ کر سکے تھے۔ کریم بی کے ساتھ اختلافات کی نوعیت واضح طور پر معلوم نہیں ہے۔ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ کریم بی کے ساتھ رہنے کو وہ زندگی اجیرن کرنا سمجھتے اور والد صاحب سے بھی شکایت تھی کہ اُن کے انکار کے باوجود کم عمری میں شادی کر دی۔ شاید انہی دنوں چھوٹی بہن زینب بی بی کی ساس فوت ہو گئیں اور شوہر انہیں گھر واپس لے جانے آئے۔ نُور محمد کی ہمدردیاں داماد کے ساتھ تھیں۔ روایت ہے کہ اقبال سخت ناراض تھے۔ نور محمد کے سمجھانے پر بھی کہتے رہے کہ مصالحت کی ضرورت نہیں۔ آخر نور محمد نے کہا، ’’بیٹا! قرآن کریم میں تو والصُّلحُ خیر فرمایا گیا ہے۔‘‘ اقبال خاموش ہو گئے۔ نور محمد بھی کچھ دیر خاموش رہے اور کچھ دیر بعد پوچھا، ’’پھر کیا فیصلہ کیا جائے؟‘‘ ’’وہی جو قرآن کریم کہتا ہے،‘‘ اقبال نے کہا۔۱۴ ۱۹ اکتوبر کے مخزنمیں شیخ عبدالقادرنے ’پیامِ عشق‘ سے کام چلایا۔ممکن ہے اسے دیکھ کر اقبال کو یورپ میں گزارے ہوئے دن یاد آ ئے ہوں۔ ۲۰ اُسی ماہ کسی وقت اقبال نے چیف کورٹ میں پریکٹس کی اجازت کے لیے درخواست دی۔ علی بخش دوبارہ اُن کے پاس آ چکا تھا اور گھر کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ۲۰ اکتوبر کو چیف کورٹ کے رجسٹر میں اقبال کا نام بحیثیت وکیل درج ہو ا۔ دس دن بعدحکم نامہ مل گیا۔۱۵ ۲۱ اقبال نے بچپن کے دوست لالُو پہلوان کو بھی لاہور بلوایا اور مہمان رکھا۔ ’’چنانچہ میں چند روز اُن کے ساتھ رہا،‘‘ لالُو پہلوان کا بیان ہے۔ ’’[اقبال] مختلف مقامات سے کبوتروں کی اعلیٰ نسلیں منگوایا کرتے تھے۔‘‘ ۲۲ محمد دین فوق شاید اقبال کی واپسی کے وقت لاہور سے باہر تھے۔ اُن کا بیان ہے کہ واپسی پر اقبال سے ملنے گئے۔ اپنا ملاقاتی کارڈ اقبال کے ملازم کے حوالے کیاجس نے تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہا کہ فرماتے ہیں، ابھی فرصت نہیں ذرا تشریف رکھیے۔فوق نے اسے سردمہری سمجھا۔ چار پانچ منٹ بعد انہیں اندر بھیجا گیا تو رہا نہ گیا اور پوچھ لیا، ’’یاحضرت! یہ کیا!‘‘ تب معلوم ہوا کہ اقبال نے مذاق کیاتھا۔ ’’آپ خود سوچیں آپ نے کیا کیا؟‘‘ اقبال نیکہا۔ ’’جب ایک بے تکلف دوست یہ تکلف کرے تو اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے ورنہ آپ کے لیے تو میں اس شعر کی صورت میں حاضر ہوں:۱۶ بصحنِ گلشنِ ما صورتِ بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہرِ انتظار بیا‘‘ فارسی شعر کا مطلب تھا، ہمارے گلشن کے صحن میں بہار کی طرح آؤ۔ پھولوں کی آنکھیں انتظار میں کھلی ہیں۔ ۲۳ شاہ دین ہمایوںؔ کے بڑے بھائی میاں تاج الدین ایک شام میاں محمد شفیع کے گھر آئے اور کہنے لگے کہ معمولی ذاتوں کے لوگ بھی اپنے آپ کو سید اور راجپوت کہنے لگے ہیں مگر میاںشفیع نے اپنی برادری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ میاں شفیع ناراض ہوئے۔ کہا کہ انہیں عرب نسل کی ارائیںبرادری سے متعلق ہونے پر فخر ہے۔ مرنے سے پہلے ضرور بندوبست کرجائیں گے کہ ارائیں نوجوان اپنی برادری پر فخر کیا کریں۔ ۱۷ ۲۴ للی لاج میں تقریباً ہر شام لاہور کے روشن خیال مسلمان اہلِ علم جمع ہوتے تھے۔ ان میں اقبال کے پرانے دوست شہاب الدین اور شیخ عبدالقادر شامل تھے۔اقبال بھی آنے لگے۔۱۸ ۲۵ نومبر کے مخزن میںتلوک چند محروم کی نظم ’سلام و پیام‘ چھپی۔ اقبال کے ’ترانۂ ہندی‘ اور ’نیاشوالہ‘ وغیرہ کے استعارے یاد دلائے تھے۔ درخواست کی تھی : اِک بار پھر سنا دے ’ہندوستاں ہمارا‘ اپنی زباں میں کہہ دے رازِ نہاں ہمارا! پھر زمزموں سے اپنے آباد اس کو کر دے تیرے بغیر سُونا ہے گلستاں ہمارا! اُنہی دنوںاقبال نے ایما کے نام ایک خط لکھا جس کا مضمون معلوم نہیں کیونکہ وہ ڈاک میں گم ہو گیا۔۱۹ ۲۶ ۱۴ نومبر کو اقبال کی کتاب پر انگریزی میں تبصرہ اتھینیم میں شائع ہوا جو انگلستان کے علمی اور ادبی جریدوں میں بڑی نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ تبصرہ نگار نے تعریف کی تھی۔ اس تعریف میں مربیانہ انداز جھلک رہا تھا۔ اعتراض بھی کیا تھا کہ اقبال تمام حقائق کو سامنے نہیں رکھ پائے۔ اقبال اور مغربی نقادوں کے درمیان ایک دیرپا اختلاف کا آغاز تھا۔ Athenaeum No. 4229, November 14, 1908, pp.601-2 The Development of Metaphysics in Persia by Shaikh Muhammad Iqbal. (Luzac & Co.). This little volume is the work of an Indian scholar who has studied philosophy at Cambridge and Munich, and holds degrees from both these universities. Not only has he read widely and with evident grasp of the subject, but he is also familiar with, and has learnt to employ, European methods of criticism which generally make no profound impression, even on the most gifted Oriental minds. Consequently he has produced a really valuable resume of the history of Persian metaphysics, inevitably sketchy and incomplete, but sound in principle, and trustworthy as far as it goes. In this field the labourers are so few that every one must rely, to a large extent, on his own researches. The materials have to be collected from numberless manuscripts preserved in the great libraries of Europe, and it is only after long and tiresome research that any attempt can be made to reconstruct. To review the work in detail is impossible, on account of the enormous range of speculation which it covers—from Zoroaster and Mani to modern Babism. Naturally there are points to which exception might be taken. In discussing the origin of Sufism the writer claims to have treated the subject in a more scientific manner than previous investigations:— “They seem completely to have ignored the principle that the full significance of a phenomenon in the intellectual evolution of a people can only be comprehended in the light of those pre-existing intellectual, political, and social conditions which alone make its existence inevitable. Von Kremer and Dozy derive Persian Sufism from the Indian Vedanta; Merx and Mr. Nicholson derive it from Neo-Platonism, while Prof. Browne once regarded it as Aryan reaction against an unemotional Semitic religion. It appears to me, however, that these theories have been worked out under the influence of a notion of causation which is essentially false. That a fixed quantity A is the cause of or produces another fixed quantity B is a proposition which, though convenient for scientific purpose, is apt to damage all inquiry, in so far as it leads us completely to ignore the innumerable conditions lying at the back of a phenomenon.” We are sure that the scholars mentioned in this passage recognize, as unreservedly as Shaikh Iqbal himself, that Sufism, like all great spiritual and intellectual movements, was ultimately the result of a certain environment, the nature of which is well known to every student of Islam. Their reasons for not laying stress on this fact are obvious enough. The conditions of which the Shaikh speaks enable us to explain the appearance of mysticism in Islam towards the end of the eighth century A.D., but that is all. We cannot hope, by examining these general conditions, to learn how it came to pass that the mystical tendency assumed a particular form, or how the special doctrines which we find in early Sufism arose. No wonder, then, that European Orientalists should have preferred a more fruitful line of inquiry, which has demonstrated the influences of other religions in moulding the development of Sufism. Those who derive it from Neo-Platonism do no more than assert that the early Sufis actually drew their leading ideas from that source; but had these Sufis been ignorant of Greek philosophy, they might still have produced a mysticism of the same type. To suppose that Sufism was created by foreign influence is an absurdity so palpable that its refutation, even in the most scientific manner, hardly constitutes a claim to originality. We have dwelt upon the author’s treatment of this question because it illustrates the one weak spot in his admirable survey. He is rather deficient on the historical side, and is apt to forget that a theory will carry greater conviction if it comes to close quarters with all the relevant facts. The present work, however, is mainly concerned with elucidating the various systems of Persian thought and their relations to each other. Any one at all versed in the subject will perceive the appalling difficulty of the author’s task when he undertook to give a coherent account in less than two hundred pages of the subtle and complex problems which have formed, during thousands of years, the favourite pabulum of a race that has always been distinguished by its passion for metaphysical speculation. Moreover, for a great part of his journey the traveller finds himself on virgin soil, which he must explore and delineate as well as he can without the help of guides. Shaikh Iqbal deserves high praise for what he has accomplished. The immediate result of his labour is considerable, and he has laid a solid foundation for further research. The most notable sections of the volume are perhaps those which describe the Hikmat al-Ishraq, or “Philosophy of Illumination,” expounded by Shihab al-Din al-Suhrawardi, the famous Sufi thinker who was put to death as a heretic by order of Malik al-Zahir, a son of Saladin; and the Insan al-Kamil, or “Perfect Man,” of al-Jili, whose system in some points curiously anticipates the views of Hegel and Schleiermacher. ۲۷ حسن نظامی حلقہ نظام المشائخ کے مقاصد متعین کر چکے تھے۔اتفاق سے بیوی فوت ہو چکی تھیں۔ دوسری شادی کے بارے میں بھی سوچ رہے تھے۔ ۲۵ نومبر کو اقبال نے انہیں لکھا: میں سمجھتا ہوں کہ آپ نادانستہ اُسی طرف جا رہے ہیں جس طرف میں آپ کو لانا چاہتا ہوں۔ اس بات نے مجھے جرات دلائی ہے کہ میں آپ سے رہنے سہنے کا دکھ ظاہر کروں۔ بہت کم لوگ ہیں جو ہمدردی کے ساتھ اس قضئے کو سن سکتے ہیں مگر آپ سے مجھے پوری ہمدردی کی توقع ہے۔ ابھی تک کسی دوست سے اس بات کا ذکر نہیں آیا۔ آپ سے ذکر ہو چکنے کے بعد اگر مناسب ہوا تو بعض خاص دوستوں سے اس کا تذکرہ کروں گا۔ ۲۸ دسمبر کیمخزن میںاقبال کی چند ماہ پرانی نظم شائع ہوئی، ’عبدالقادر کے نام‘۔شروع میں عبدالقادر نے لکھا: اگر میرے نصیب میں کوئی خدمت ملک کی لکھی ہے تو [خدا] مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے ذریعے نیا سرمایۂ حیات فراہم کرنے کی دعوت دی تھی۔ اُن کی نظر میں یہ پوری انسانیت کی خدمت تھی۔ شیخ عبدالقادر نے ملک کی خدمت کا ارادہ کیا۔ وہ بات درست معلوم ہوتی ہے جو بہت بعد میں اقبال نے انگریزی میں لکھی: جس زمانے سے میں وطنیت کے تصور کی مخالفت کر رہا ہوں، تب یہ ہندوستان اور عالمِ اسلام میں زیادہ معروف نہ تھا۔ بالکل شروع ہی میں یورپی مصنفین کی تحریروں سے مجھ پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ یورپ کے استعماری منصوبے شدت سے اِس موثر حربے، یعنی مسلمان ممالک میں یورپی تصورِ وطنیت کی ترویج، کے محتاج تھے تاکہ اسلام کے مذہبی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے۔۲۰ ۲۹ ۱۰ دسمبر ۱۹۰۸ء کو ہال روڈ پر کوئن میری اسکول کا پہلا دن تھا۔ یہ لڑکیوں کے لیے لاہور میں پہلا بڑا اسکول تھا جس کی بنیاد لڑکوں کے چیف ایچی سن کالج کے خطوط پر رکھی گئی تھی۔ داخلے کا معیار اتنا سخت تھا کہ صرف اٹھارہ لڑکیاں منتخب ہو سکی تھیں جن میں پہلا نام میاں محمد شفیع کی بیٹی جہان آرا کا تھا جس کی عمر اُس وقت بارہ برس تھی۔ داخلے کے لیے صرف ذہین ہونا ہی ضروری نہیں تھا بلکہ کسی اچھے خاندان سے تعلق بھی لازمی تھا اور داخلہ کمیٹی کا سربراہ پنجاب کا گورنر خود تھا۔پرنسپل ایک انگریز خاتون مس ایجلی تھیں جو ہندوستان میں بیس برس گزار چکی تھیں اور اس سے پہلے امرتسر کے الیگزانڈریا اسکول کی ہیڈ مسٹریس رہ چکی تھیں۔۲۱ ۳۰ ’’جوان ترکوں‘‘ نے سمجھا تھا کہ آئین کی بحالی اور جمہوریت کی ترویج سے بکھرتی ہوئی سلطنت متحد ہو جائے گی۔ چھ ماہ قبل آئین بحال ہوا تھا۔ اب تک بوسنیاہرزگوینا، بلغاریہ اور کریٹ چھن چکے تھے۔ آسٹریاہنگری نے پہلے پر قبضہ کیا، دوسرا خودمختار ہوا اور تیسرے کو مسیحی طاقتوں نے یونان کی جھولی میں ڈالا۔ ۱۷ دسمبر کو استنبول میں لٹی ہوئی جمہوری پارلیمنٹ کا افتتاح ہوا۔نمایندے براہِ راست منتخب نہ ہوئے تھے۔ عوام نے صرف ووٹ ڈالنے والوں کو منتخب کیا تھا۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب کیا۔۲۲ ۳۱ عطیہ فیضی کی والدہ فوت ہو گئیں۔ اقبال کو بھی اطلاع بھیجی گئی۔ ۲۷ سے ۲۹ دسمبر تک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس امرتسر میں ہونے والا تھا۔ اقبال شریک ہونے جا رہے تھے۔ ارادہ کیا کہ اجلاس کے بعد بمبئی جا کر عطیہ سے خود تعزیت کریں گے۔ دسمبر کے اواخر سے جنوری کے اوائل تک عدالتیں بند تھیں۔۲۳ ۳۲ حسرتؔ موہانی جیل میں تھے۔ اپنے رسالے اُردوئے معلّیٰ میں ایک مضمون مصر میں انگلستان کی پالیسی کے خلاف شائع کیا تھا اور جب حکومت نے باغیانہ قرار دیا تو مضمون لکھنے والے کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ چار سال قید با مشقت اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی۔ اُن کی بیگم نے بھرپور ساتھ دیا۔ خط لکھ کر حوصلے بلند کیے۔ جیل میں حسرتؔ نے جو غزلیں لکھیں اُن میں سے ایک انہی دنوں مخزنمیں شائع ہوئی جس کا مطلع اُسی طرح مشہور ہو گیا جس طرح آٹھ برس پہلے ’’بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں‘‘ اُن کی پہچان بنا تھا۔نئی غزل کا مطلع تھا: ہے مشقِ سخن جاری، چکّی کی مصیبت بھی اِک طُرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی ۳۳ اُس برس میکملن نیویارک سے جارج فلرٹن کی کتاب Introduction to Philosophy شائع ہوئی۔ معلوم نہیں اس کتاب سے اقبال کا تعارف کب ہوا مگر بعد میں یہ ان کی کتابوں میں موجود تھی۔ ایک عام آدمی کس طرح سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کو جانتا ہے، کیا چیزوں کو حسیات کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے؟ آئیڈیلزم اور تنقیدی فلسفہ اس کتاب کے مباحث میں شامل تھے۔ اس برس شائع ہونے والی دوسری کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۲۴ Angell, James Rowland. Psychology: An Introductory Study to the Structure and Function of Human Consciousness. London, Constable Driesch, Hans. The Science and Philosophy of the Organism: Gifford Lectures 1907 (Volumes 1-2). London, Adam and Charles, Black Kidd Benjamin. Principles of Western Civilization: A Sociological Study. London, Macmillan MacPherson, Hector. A Century of Political Development. Edinburgh, William Blackwood Seignobos, Charles. HIstory of Mediaeval Civilization. London, T. Fisher Wrench, G. T. The Grammar of Life. London, William Heinemann اُسی برس دی نیو ایج پریس لندن سے شائع ہونے والی آگسٹ فورڈ کی Sexual Ethics لاہور میں امراؤسنگھ مجیٹھیا کے پاس آئی اور بعد میں کبھی اقبال کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئی۔ ۳۴ امرتسر میں اجلاس کی صدارت کے لیے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں آئے۔ مشرقی بنگال کے وجود میں آنے کے بعد اُن کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ اتفاق سے کشمیری تھے ۔ کشمیری مسلمانانِ لاہور نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد اُن سے درخواست کرے کہ تنظیم کی سرپرستی قبول کر لیں۔ پہلے ایک وفد ملاقات کا وقت لینے گیا۔ اس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ محمدالدین فوق، مولوی احمد دین اور للی لاج والے خواجہ رحیم بخش اور خواجہ امیر بخش تھے۔نواب صاحب نے سب سے مصافحہ کیا۔ اگلی شام کا وقت مقرر کیا۔ اگلی شام پنجاب کے کئی شہروں سے کشمیری قوم کے نمایندوں کا ایک بڑا وفد نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈاکٹر محمد دین ناظر کے تیار کیے ہوئے فارسی سپاس نامے کو اقبال نے بلند آواز میں پڑھ کر سنایا: الحمداللہ امروزِ ساعتِ سعید، بل روزِ عید کہ ما اہلِ خطہ از مختلف مقاماتِ صوبۂ پنجاب بخدمتِ اقدس۔۔۔ طویل سپاس نامے کا جواب انگریزی میں دیتے ہوئے نواب صاحب نے انجمن کی سرپرستی قبول کر لی۔۲۵ اگلے روز اقبال کانفرنس کی بحثوں میں شریک تھے جب انہیں سیالکوٹ سے تار ملا کہ عطا محمد خطرناک طور پر بیمار ہو گئے ہیں۔ اقبال کانفرنس چھوڑ کر سہ پہر کو سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔ ۲۶ ۳۵ عطا محمد موت کے دروازے پر نظر آتے تھے۔ خاندانی ذمہ داریاں اقبال کے دل ودماغ پر دستک دے رہی تھیں۔ ۳۶ اقبال سیالکوٹ میں تھے جب امرتسر میں۳۰ دسمبر کو آل انڈیا مسلم لیگ کادوسرا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت کرتے ہوئے سر علی امام نے ایک زبردست خطبہ پیش کیا: ۔۔۔میں آپ کے ذہن و دل پر یہ خیال مسلط کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ایک عظیم قوم ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں آپ غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور یہ آپ کا فرض ہے کہ اس ذمے داری کو جو آپ کے سپرد ہے اچھی طرح محسوس کریں۔۔۔ ہم اِس وطن کے احترام اور محبت میں کسی دوسرے سے کم نہیں ہیں مگر جب ہم پڑھے لکھے ہندوؤں کو بندے ماترم گاتے سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انہوں نے سیواجی کو قومی ہیرو بنا رکھا ہے تو ہمارا دل مایوسی اور بے اطمینانی سے بھر جاتا ہے۔ ۳۷ چند روز میںعطا محمد کی طبیعت سنبھل گئی۔ دوسرا حصہ ۳۸ ۱۹۰۹ء کے شروع میں عدالت کی چھٹیوں کے اختتام پر اقبال لاہور آگئے۔ اعلان کیا کہ ضلع کچہری کی بجائے صرف چیف کورٹ میں وکالت کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی موہن لال روڈ سے اُٹھ کر انارکلی کے اُس دومنزلہ میں منتقل ہو گئے جو اس سے پہلے میاں محمد شفیع کی قیام گاہ کے طور پر شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اِسی میں اقبال کا قیام تھا اور اسی میں ان کا دفتر تھا۔ اوپر کوٹھے پر کبوتروں کو رکھنے کی جگہ بنائی گئی اور کاہن چند کو رخصت کر کے میاں محمد شفیع کے پرانے منشی طاہرالدین کی خدمات حاصل کیں جو مکان کے پچھلے حصے میں منتقل ہو گئے۔۲۷ اُس زمانے میں انارکلی کے اوپر والے چوباروں میں طوائفیں رہا کرتی تھیں۔ ’’میری آنکھوں کے سامنے اب تک وہ نظارہ موجود ہے،‘‘ ایک ہمعصر کا بیان ہے۔ ’’اقبال کی بیٹھک سے انارکلی کے مقابل کے پہلو پر نگاہ کرو تو سفید کپڑا کھڑکی سے لٹکا ہوا جو کسی عورت کی جائے سکونت کی نشانی ہے اور ایک نسائی چہرہ بنا ٹھنا کھلی کھڑکی کے اندر نظر آتا ہے۔ لوہاری دروازے کے اندر ’چوک چکلہ‘ اب بھی اِس نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘۲۸ ۳۹ ۴ جنوری کو اقبال نے تلوک چند محروم کو خط لکھ کر ان کے سلام و پیام کا شکریہ ادا کیا جو کئی مہینے قبل مخزنمیں شائع ہوا تھامگر شعر کہنے کی فرمایش سے معذرت کر لی: ’’افسوس ہے کہ میں بوجہ مصروفیت فی الحال شعرگوئی سے محروم ہوں۔ خدا آپ کی جولانی ٔ طبع کو اور زیادہ کرے۔‘‘ ۴۰ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب لالہ شادی لال، مولوی شاہ دین، میاں محمد شفیع، میاں فضل حسین، لالہ لاجپت رائے، پنڈت شیونرائن شمیم اور دیگر کئی نامور وکلا ٔ ابھی پریکٹس کے مدارج طے کر رہے تھے،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’اقبال بھی اسی عہد میں بار روم میں داخل ہوئے۔ وہ اپنے مقدمات ۔۔۔کوبڑی محنت سے تیار کرتے تھے۔۔۔ فارغ اوقات میں بار روم میں بیٹھ کر جب ظریفانہ انداز اختیار کرتے تو متعدد افراد ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ ہندوؤں میں پنڈت شیونرائین شمیم کو اقبال سے خاص اُنس تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں خاص دلچسپی لیتاتھا۔ اِس دوران میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے ۔۔۔ ہمارا معمول یہ تھا کہ ہم دس بجے کے قریب چیف کورٹ پہنچتے۔ مقدمات شروع ہونے تک اِدھر اُدھر کی گپ شپ چلتی اور جب کوئی مقدمہ ختم ہو جاتا تو دُوسرے کے شروع ہونے تک پھر بار روم میں آجاتے۔ منشی طاہر دین کی جیب میں قینچی سگریٹ کی ڈبیا پڑی رہتی۔ ڈاکٹر صاحب سگریٹ سلگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور لطائف و پرمذاق باتوں سے وقت کاٹتے۔۔۔ ۲۹ ۴۱ اُسی برس اقبال ایک قانونی رسالے انڈین کیسز لا ٔرپورٹس Indian Cases Law Reports) (کے جوائنٹ سیکرٹری بنے۔ یہ لا ٔ پبلشنگ پریس لاہور سے کسی ایس ڈی چودھری صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا۔۳۰ ۴۲ اقبال نے شیخ نور محمد کو خط لکھا کہ انہیں کوئی حق نہ تھا کہ کم عمری میں اُن کی شادی کر دیتے خاص طور پر جبکہ انکار کیا تھا۔ اب بیوی کا خرچ اٹھانے پر تیار ہیں مگراُسے ساتھ رکھ کر زندگی جہنم نہیں بنا سکتے۔ مختلف ردّعمل سامنے آئے ۔ امام بی بی بیٹے کی دوسری شادی کے حق میں تھیں مگر اُس کے یورپ جا کر آباد ہونے کے بارے میں اُن کا کیا خیال تھا یہ معلوم نہیں۔ عطامحمد اس تجویز پر خوش نہ تھے۔ میاں جی دوسری شادی ہی کے خلاف تھے مگر وجہ شایدبہو سے ہمدردی ہو۔۳۱ ۴۳ ۱۰ جنوری کو کشمیری مسلمانانِ لاہور کا اجلاس بلایا گیا جس میں اقبال بھی شریک ہوئے ۔۳۲ ۴۴ ایما نے لکھا تھا کہ پہلے بھی ہندوستان کے پتے پر خط بھیج چکی ہیں۔ یہ اقبال کو نہیں ملا تھا۔ خاؤبال صاحب انتقال کر گئے تھے ( شاید وہی خنفر صاحب جنہیں اقبال صحت کا خیال رکھنے کو کہتے تھے)۔ اقبال نے ۱۱ جنوری کو جواب لکھا: یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کبھی آپ کے خوبصورت وطن کو بھلا سکوںجہاں میں نے بہت کچھ سیکھا اور براہِ کرم ہمیشہ مجھے لکھتی رہیے گا۔ شاید ہم دوبارہ جرمنی یا ہندوستان میں ایک دوسرے سے مل سکیں۔ کچھ عرصے بعد جب میرے پاس کچھ پیسے جمع ہو جائیں گے تو میں یورپ میں اپنا گھر بناؤں گا۔ یہ میرا تصور ہے اور میری تمّنا ہے کہ یہ سب پورا ہو گا۔۔۔ مہربانی سے اپنے دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتاہے اور جو آپ کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام مجھے ایک خوبصورت خواب سا لگتا ہے اور میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ بہتر جانتی ہیں۔ بنام ایما Lahore (India) 11th Jan.09 Mein liebes Frl. Emma, Für Ihren Freundlichen Brief Danke Ich Ihnen vielmal. Es ist so gut von Ihnen zu schreiben und sich von mir zu erinnern wenn Ich so weit bin von Deutschland. Von Heidelberg habe Ich keine Briefe von Ihnen erhalten. Vielleicht Ihren Brief ist verloren, und Ich fühle mich sehr traurig zu horen dass meinen Brief verloren gegangen ist. Meine Landsleute gaben mir eine grosse Ehre als Ich ins Indien kam. Es ist nicht möglich für mich in worten zu erklaren. Vielleicht 40 Gedichte von allen Seiten meinem Land zu mir geschickt wurden --- als grüsse von Freunde und andere Leute. Als ich ins Lahore kam sie gaben mir ein Garland von Gold, und Ich hatte es um meinem Kopf. Es gab viele tausende menschen an der Bahnhöfen von allen stationen von Bombay zum Lahore und Sialkot wo Ich fand viele Kinder und erwachsenen meinen eignen Gedichten singend aus der Bahnhof über dem weg. Es freut mich dass meinen Eltern waren ganz gesundals Ich nach heimaat kam, Maine Schwestern und Mutter sind nun ganz zufrieden mich heir zu haben. Ich bin nun ins Lahore und arbeite als ein Advokat. Es ist nicht möglich für mich immer zu vergessen Ihren schonen Land wo habe ich viel gelernt, und--- Bitte Schreiben Sie immer zu mir--- Vielleicht wir treffen wieder ins Deutschland oder ins Indien. Nach etwas Ziet als ich ein wenig geld habe, will Ich meinen heim ins Europa machen. Das ist meinen Ansicht und Ich höffe dass es alles gut sein würden. Es ist sehr traurig von Herrn Chaubals' Todt zu horen.Vielleicht Sie erinnern Sich dass Ich zu ihn vielmal von seinen Gesundheit sagte. Bitte vergessen Sie nicht den Freunden welchen Sie immer zu herzen hat und kann Sie niemals vergessen. Mein Aufenthalt ins Heidelberg erscheint zu mir wie ein schönen Traum und Ich wunsche es zu wiederholen. Ist es moglich? Sie kennen wohl. Mit herzlichen Grüssen Ihr S.M. Iqbal Bar-at-Law ۴۵ دو دن بعد عطیہ کا خط موصول ہوا۔جنجیرہ آنے کی دعوت دی تھی۔ بمبئی کے قریب تھا۔ عطیہ کے بہنوئی وہاں نوابوں کی طرح رہتے تھے۔ چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں۔ اقبال ستمبر سے پہلے جنجیرہ نہیں جا سکتے تھے۔ اُسی روز انگریزی میں جواب لکھتے ہوئے عطیہ کی والدہ کی تعزیت کی۔ یہ بھی لکھا: مجھے اس دنیاداری کی وجہ سے برا مت سمجھیے جو یقینا حماقت ہی ہے جب ہم شاعری کے خوابستان میں ہوتے ہیں۔۔۔فارسی مابعدالطبعیات پر میری کتاب شائع ہو گئی ہے۔ ایک نسخہ جلد ہی آپ کو بھیجوں گا۔ نظمیں (غنائیہ) جلد ہی شائع کرنے کی اُمید رکھتا ہوں۔ وہ ہندوستان میں شائع ہوں گی، جرمنی میں جلد بندھے گی اور انتساب ایک ہندوستانی خاتون کے نام ہو گا۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 13 January 09 My dear Miss Atiyya, Thank you so much for the very kind letter which I have just received to my great relief. I had on mind to come to Bombay for a personal expression of sympathy, but unfortunately on the 29th of Dec when I was participating in one of the Conference discussions I received a telegram from home telling me that my brother was seriously ill. I had to run to Sialkot the same afternoon. The remaining holidays I looked after him. Thank God that he is alright now. God has spared him for me. I have spent and am still spending so much of his money. His loss would have been dreadful from every point of view. It is extremely kind of their Highnesses and yourself to ask me to come to Janjira. Nothing could be more pleasant as well as profitable intellectually and physically. But you are aware that I have just started my business which requires my constant presence at the station. For the sake of others I must forego the pleasure of your society in spite of a strong-almost irrepressible desire-to come and help you and your sister in getting over your recent sorrow. I feel I can be of some use to you in this respect, but I am constrained to be cruel to my sentiments in suppressing them for considerations where force makes itself felt-situated as I am-all the more vehemently. Please do not dislike me for this bit of worldly wisdom which, of course, is folly when we are in the dreamland of poetry. It is therefore not possible for me to come to Janjira in the near future. I may however manage to see you during the September holidays when the Chief Court is closed. To spend some time in the company of their highnesses and yourself is honour[,] intellectual treat and pleasure all combined. Please convey my most respectful salams to them and assure them of the good wishes of a far off friend whom circumstances cannot rob of his imagination though they have cruelly robbed him of immediate opportunities to visit you and their highnesses. Yours ever S. M. Iqbal Bar-at-Law P. S. My book on Persian Metaphysics is published; I shall soon send you a copy. The poems (lyrical) I hope to publish soon. They will be printed in India, bound in Germany and dedicated to Indian Lady. ۴۶ حیرت ہے کہ دوسروں سے کہہ رہے تھے کہ مجموعہ شائع کروانے کا شوق ہے نہ فرصت، مگر عطیہ کو لکھا کہ ہندوستان میں چھپے گا، جرمنی میں جلد بندھے گی اور انتساب ایک ہندوستانی خاتون کے نام ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کے اور عطیہ کے درمیان کوئی خفیہ استعارہ ہو۔ ایما سے متعلق ہو سکتا تھا۔ بہرحال یہ درست ہے کہ انہی دنوں شاید زندگی میں پہلی بار باقاعدہ بیاض میں اپنی نظمیں جمع کرنا شروع کیں۔انگلستان میں جس نوٹ بک میں شناساؤں کے پتے اور چند غزلیں تحریر کی تھیں اب اُس میں دوسری طرف سے یورپ کے زمانے کی وہ نظمیں اکٹھا کرنا شروع کیں جو کہیں شائع نہ ہوئی تھیں۔ سب سے پہلے وہ نظم لکھنا چاہی جو میونک میں کہی تھی مگر صرف پہلا مصرعہ یاد آ سکا: جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے باقی صفحہ خالی چھوڑ دیا۔ ۳۳ ۴۷ ۱۴ جنوری کو میاںشفیع نے حسن نظامی کا ذکر کیا۔ اُنہوں نے شاید میاں شفیع کو بھی اپنے حلقے کے بارے میں لکھا تھا۔ اقبال نے اُسی روز حسن نظامی کو لکھا: مجھ کو بھی اپنے حلقے کے ادنیٰ ملازمین میںتصور کیجیے۔ مجھے ذرا کاروبار کی طرف سے اطمینان ہو لے تو پھر عملی طور سے اس میں دلچسپی لینے کو حاضر ہوں۔ ۴۸ ۲۲ جنوری کو کشمیری مسلمانانِ لاہور کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں انجمن کشمیری مسلمانان قائم کی گئی۔۳۴ ۴۹ ۲۴ جنوری کو اگلے تین برس کے لیے انجمن حمایت اسلام کی مجلس انتظامیہ کے ارکان کا انتخاب ہوا۔ اقبال بھی رکن منتخب ہوئے اور انجمن کے ساتھ پرانا تعلق پھر اُستوار ہو گیا۔ اس دوران انجمن نے ترقی کی تھی۔ دو برس پہلے امیر حبیب اللہ نے کالج کی نئی عمارت کا سنگ ِ بنیاد رکھا جس کا نقشہ میاں محمد عبداللہ نے بنایا تھا جو انجینئر تھے اور انجمن کے بانیوں میں سے تھے۔ اُنہی کی نگرانی میں عمارت تعمیر ہو رہی تھی۔ پچھلے برس طلبہ کے لیے نئے ہاسٹل کی تعمیر مکمل ہوئی جس کا نام ریواز ہاسٹل رکھا گیا تھا۔ ۵۰ خواجہ رحیم بخش کے لڑکے فیروزالدین کی شادی اقبال کی بیوی کریم بی بی کی چھوٹی بہن فاطمہ بیگم سے ہوگئی۔۳۵ شادی کی تقریبات میں فیروزالدین کے تایازاد بھائی خواجہ عبدالوحید سے آفتاب کی کافی دوستی ہو گئی۔ ہم عمر تھے۔۳۶ ۵۱ اقبال کی بیوی کریم بی بی کے چھوٹے بھائی غلام محمد شیخ تعلیم مکمل کر کے انڈین میڈیکل سروس میں شامل ہو گئے تھے۔ اُن کی شادی لاہور کے ایک کشمیری گھرانے کی لڑکی فہمیدہ بیگم سے ہوئی۔۳۷ ۵۲ اقبال کے منشی نے پوچھے بغیر اُن کے دوست ہوشیارپور کے بیرسٹر عبدالعزیزکو کوئی نوٹ لکھ بھیجا۔ ممکن ہے اِس میں اقبال کی وکالت میں کسی قسم کی مدد کرنے کی درخواست کی ہو ۔ بہرحال بیرسٹر عبدالعزیز نے براہِ راست اقبال سے رابطہ کیا۔ ۲۷ جنوری کو اقبال نے انگریزی میں لکھا: آپ نے مجھ میں اور میرے کام میں دلچسپی لینے کا جو وعدہ کیاہے اُس کا بہت بہت شکریہ۔ منشی نے جو نوٹ آپ کو لکھ کر بھیجا اس کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا۔ یہ مناسب تھا کہ آپ نے براہِ راست اُس کو جواب نہیں دیا۔۳۸ ۵۳ وزیر ِہند لارڈ مورلے نے ہندستان کے لیے آئینی تجاویز پیش کر دی تھیں جن میں مسلمان نمایندوں کے علیحدہ انتخاب کی بجائے پورے ہندوستان کو ایک قوم تصور کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کی طرف سے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ ۲۷ جنوری کو سید امیر علی کی قیادت میں لندن مسلم لیگ کا وفد لارڈ مارلے سے ملا۔ لارڈ مارلے نے تسلی دلائی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز نہ کیا جائے گا اور یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ مسلمان بھی آئینی اصلاحات میں دلچسپی لے رہے ہیں ورنہ وہ تو سمجھتے تھے کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں برطانوی حکومت کو دشواری کا سامنا ہو گا۔۳۹ ۵۴ ۵ فروری کو نواب سلیم اللہ نے کلکتہ میں وائسرئے کی کونسل میں کشمیریوں کی فوج بندی کے متعلق سوالات اُٹھائے۔ ہندوستان میں برطانوی افواج کے کمان دارِ اعلیٰ لارڈ کچنر نے جواب دیا کہ کشمیری مسلمانوں کی فوج میں بھرتی پر پابندی نہیں مگر چونکہ ان کا کوئی علیٰحدہ دستہ موجود نہیں لہٰذا وہ خود ہی اس طرف نہیں آتے۔ کاشت کاری کے بارے میں کہا گیا کہ کاشت کار قوموں کا تعین مقامی حکومت کی مرضی پر ہے۔ ۵۵ ۶ فروری کو لاہور میںانجمن کشمیری مسلمانان کے عہدہ داروں کا تعین ہوا۔ اقبال جنرل سیکرٹری بنے۔ ۵۶ ۲۴ فروری کو اقبال انجمن حمایت اسلام کی مجلسِ عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۵۷ وائسرائے کی کونسل میں جو سوال پوچھے جاتے اور ان کے جواب میں جو کچھ کہا جاتا وہ متعلقہ صوبوں کو بھجوا دیا جاتا۔ نواب سلیم اللہ خاں کے پوچھے ہوئے سوال بھی جواب سمیت حکومتِ پنجاب کو بھیجے گئے جس نے فیصلہ کیا کہ کشمیری مسلمانوں کی باقاعدہ فہرست تیار کر کے اندازہ لگایا جائے کہ وہ زراعت پیشہ اقوام میں شامل کیے جانے کے قابل ہیں یا نہیں۔ کمشنروں کو حکم جاری ہوئے جنہوں نے فہرستیں بنانے کا کام ڈپٹی کمشنروںکے سپرد کیا۔ انہوں نے تحصیل داروں کو حکم بھیجا کہ اپنی اپنی تحصیل کے اعدادوشمار کی روشنی میں چار سوالوں کے جواب تیار کر کے بھجوائیں: ۱ قوم کشمیری کے افراد کا عموماً کیا پیشہ ہے؟ ۲ کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کا گزارہ صرف زراعت کاری پرہے؟ ۳ اگر وہ مالکانِ اراضی ہیں تو کب سے انہوں نے زمین حاصل کی ہے؟ ۴ کوئی کشمیری دخیل کار ہے یا نہیں؟ ایسی تحقیقات عموماً بڑی تیزی سے مکمل کی جاتی تھیں۔ انجمن کشمیری مسلمانان کے جنرل سیکرٹری کے طور پر اقبال نے بھی اس فہرست بندی میں دلچسپی لی۔۷ مارچ کو فوق کے نام لکھا: تمام اہل ِ خطہ کو جو آپ کے علاقے میں رہتے ہیں ان کو مفصل طور پر یہ سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں بھی فہرست کے تیار کرنے میں مدد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو اور ہماری عادل گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مودبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کو بموجب حکم کے تیار کرانے کا حکم صادر فرمائیں۔ جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقل انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔۔۔ ہر علاقے میں کشمیری مجلس قائم کی جائے: کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحاد و یگانگت کی صورت پیدا ہو گی بلکہ قومی حقوق [کشمیری مسلمانوں کے حقوق] کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی۔ ۵۸ مارچ کی ابتدا میں اقبال کو ایما کا ایک اور خط ملا مگر کافی عرصہ جواب نہ دے سکے۔ ۵۹ امرتسر میں ایک علمی مجلس منروا لاج کے نام سے قائم تھی۔ ہندو، مسلمان اور سکھ سبھی شریک تھے۔ منروا کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع کرتے تھے۔ مارچ کے شروع میں ان کی طرف سے کسی غلام قادر فرخ نے اقبال کو اگلے ماہ ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے اجلاس کا حوالہ دیا۔ اگلے ماہ ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کا امرتسر آنا مشکل تھا ۔ یہ بھی لکھا کہ امرتسر کے مسلمان منروا لاج کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ ۶۰ کوئی شیخ عتیق اللہ صاحب تھے جنہوں نے شہادت الفرقاننامی کتاب لا کر دی۔ اس کے مصنف شیخ عطا ٔ اللہ تھے۔ معلوم ہوا کہ ان کا پیشہ قانون ہے ۔ کتاب میں قرآن کے الہامی ہونے کے دلائل شاید قرآن کی تالیف کے انداز سے نکالے گئے تھے۔ اقبال خود فان کریمر کی جرمن کتاب کے کچھ حصوں کو اُردو میں ترجمہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ وہاں خالص علمی نقطۂ نگاہ سے قرآن کے جمع کیے جانے کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ کتاب مسلمانوں کے عقاید سے مطابقت نہ رکھتی تھی مگر ہندوستانی علما ٔ کو یورپی تحقیق سے واقفیت ہو جاتی۔۴۰ ۶۱ رات کی دلہن کے موتی چمک رہے تھے۔ عرش سے ایک فرشتے کی آواز آئی۔ ستاروں سے کہہ رہا تھا، کوئی ایسا نغمہ چھیڑیں جو زمین والوں کوغفلت کی نیند سے بیدار کر دے۔ رات کی فضا سے خاموشی رخصت ہو ئی۔ ستاروں کا گیت آسمان کی وسعت میں گونجنے لگا: حسن ِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں جس طرح عکسِ گل ہو شبنم کی آرسی میں یہ رسم ہے پرانی، رہتے ہیں درد والے بے خواب مثلِ انجم راتوں کی خامشی میں آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں یہ کاروانِ ہستی ہے تیزگام ایسا قومیں کچل گئی ہیں اِس کی رواروی میں سمجھیں گے کب وہ ناداں آئینِ سروری کو ناقص ہیں اب تلک جو آدابِ بندگی میں ملت حجاز کی ہے مصروفِ فرقہ بندی نادان لُٹ رہے ہیں سورج کی روشنی میں بنتے بگڑتے دیکھیں ہم نے ہزاروں قومیں اِک بات ہے نرالی اِس بزمِ آخری میں بارِ گلوئے ملت طوقِ وطن نہیں ہے تازے ہیں یہ مسافر اسلوبِ راہروی میں آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں بیاض کے حاشیے میں ایک اور شعر کا اضافہ ہوا: اِک عمر میں نہ سمجھے اُس کو زمین والے جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں۴۱ بعد میں’بزمِ انجم‘ عنوان رکھا اور ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: بزمِ انجم [نیا متن] سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں ’تارے‘ محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی عرشِ بریں سے آئی آواز اک ملک کی اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو! تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری چھیڑو سرود ایسا، جاگ اُٹھیں سونے والے رہبر ہے قافلوں کی تابِ جبیں تمھاری آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے ’’حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں جس طرح عکس گل ہو شبنم کی آرسی میں آئین نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں‘‘ ۶۲ بادشاہی مسجد اورپنجاب کی دوسری اہم مساجد کی نگرانی کے لیے چالیس سال سے ایک تنظیم موجود تھی جس کا نام انجمن اسلامیہ پنجاب تھا۔ ۲۶ مارچ کوبرکت علی محمڈن ہال میں رئیس ِ لاہور سید فضل شاہ کی صدارت میں اس کی مجلس منتظمہ کا اجلاس ہوا۔ اقبال انجمن کے رکن منتخب کیے گئے۔ ۶۳ امرتسر سے غلام قادر فرخ کا جواب آیا۔ لکھا تھا کہ منروالاج میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے مگر ہندوؤں کا قصور نہیں۔ مسلمان خود ہی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ فرخ سے روایت ہے کہ ۲۸ مارچ کواقبال نے جواب میں لکھاکہ مسلمان، برہمو سماج اور کانگریس سے بھی متنفر رہے۔ اگر کسی شہر یا گاؤں میں دو اسکول ہوں جن میں سے ایک ہندوؤں کا اور دوسرا عیسائیوں کا ہو تو مسلمان اپنے بچوں کو عیسائیوں کے اسکول میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش بیکار ہے۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کے راستے الگ الگ ہیں: میں خود اِس خیال کا رہ چکا ہوں کہ امتیازِ مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے اور اب تک پرائیویٹ زندگی میں اسی پر کاربند ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’مگر اب میرا خیال یہ ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان میں ایک مشترک قومیت پیدا کرنے کا خیال اگرچہ نہایت خوبصورت ہے اور شعریت سے معمور ہے تاہم موجودہ حالت اور قوموں کی نادانستہ رفتار کے لحاظ [سے] ناقابل ِ عمل ہے۔۴۲ ۶۴ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: اقبال انگلستان سے تشریف لائے تو اُن کی عظمت اُن کی جلیل القدر شاعری کی وجہ سے تھی۔ لوگ اُن کے تبحر ِ علمی اور حکیمانہ ژرف نگاہی سے واقف نہ تھے لیکن کچھ عرصے بعد ایک جلسے میں جو احمدیہ جماعت کی طرف سے۔۔۔ کیلیاں والی سڑک (برانڈرتھ روڈ) پر منعقد ہوا، ڈاکٹر صاحب (اقبال) نے ایک پرمغز مقالے میں مذہب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ مقالہ دستیاب نہیں۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ انگریزی میں تھا۔ زبان اِس قدر عالمانہ تھی کہ ہر شخص کی سمجھ میں نہ آسکتی۔ چنانچہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کے دلوں پر اقبال کی ’’بالغ نظری، عالمانہ استعداد اور فلسفیانہ لیاقت کا نہایت گہرا اثر ہوا اور وہ آیندہ کے لیے ایک جلیل القدر شاعر کے علاوہ ایک رفیع المرتبت عالم بھی سمجھے جانے لگے۔۴۳ بہرحال اس دفعہ انجمن کے سالانہ جلسے میں بھی نظم سنانے کی بجائے لیکچر ہی دینے والے تھے۔ انگریزی میں ہونا تھا۔ عنوان ’اسلام بطور اخلاقی اور سیاسی نصب العین ‘ (Islam As a Moral And Political Ideal)تھا۔ ۶۵ جس بیاض میں قیامِ یورپ کی نظمیں جمع کر رہے تھے اُس میں کچھ صفحے خالی چھوڑ کر ایک طویل نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی جس میں اکتیس اشعار تھے۔ مدینہ کو مخاطب کر کے دہلی، بغداداور قسطنطیہ کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ رسول اللہ ؐ سے نسبت کی وجہ سے مدینہ ان سب سے بڑھ کر ہے: جب تلک باقی ہے تُو دنیا میں باقی ہم بھی ہیں صبح ہے تو اس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں سبھی استعارے موت سے وابستہ تھے۔ نظم کے آخری اشعار کے سوا پوری دنیا ایک وسیع قبرستان معلوم ہوتی۔ پھر بھی زندگی کا پیغام تھا۔ نظم کا نام ’بلادِ اسلامیہ‘ رکھا۔۴۴ ۶۶ اپریل میں شیخ عبدالقادر دہلی سے واپس لاہور آئے۔ چیف کورٹ میں وکالت کرنے لگے۔ مخزنبھی واپس لاہور آگیا۔ اس مہینے اس میں ’بلادِ اسلامیہ ‘ شائع ہوئی۔ اُسی ماہ کشمیری میگزین میں ’حالاتِ اقبال‘ کے عنوان سے مضمون اقبال کے فوٹوگراف کے ساتھ شائع ہوا۔ ۶۷ گورنمنٹ کالج میں تاریخ کے پروفیسر کی جگہ خالی ہوئی۔ اقبال کو دعوت دی گئی۔ انکار کردیا۔۴۵ ۶۸ علیگڑھ میں فلسفے کے پروفیسر کی جگہ خالی ہوئی۔ پانچ سو روپے تنخواہ تھی۔ لوگوں کو امید ہوئی کہ اقبال قومی خدمت سمجھ کر فوراً حامی بھرلیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ شاہ دین ہمایوں نے بھی سمجھایا کہ بیرسٹری کا پیشہ اُن کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، علیگڑھ کی پروفیسری قبول کرنی چاہیے تاکہ جس طرح حالیؔ نے سر سید سے متاثر ہو کر مسدس لکھی تھی اُسی طرح اقبال بھی قوم کی کوئی ویسی ہی خدمت کر سکیں۔ ۴۶ اقبال تیار نہ ہوئے۔ اخبارات نے شکایات کادفتر کھول دیا۔ پرانے دوست محبوب عالم کا پیسہ اخبار بھی شامل تھا۔ اقبال کے ہمزادحسن نظامی بھی اخبارات میں تنقید کا شکار ہو رہے تھے۔ نظام الدین اولیأکی درگاہ پر طوائفوں کا مجرا رُکوانے کی کوشش کی تھی۔ پرانے خیال کے بزرگ خلاف ہو گئے۔ اقبال کچھ دن بیمار رہ کر بستر سے اُٹھے اور حسن نظامی کا کارڈ ملا تولکھا: بعض لوگ آپ پر اخباروں میں حملے کرتے ہیں۔ افسوس ہے مسلمانوں میں معمولی اخلاق بھی نہ رہے۔ ۶۹ انگریز حکومت باصلاحیت نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کا پابند کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اقبال کو گورنمنٹ کالج سے وابستہ کرنے کی کوششیں آیندہ بھی جاری رہیں۔ فی الحال ہندوستان میں مستقل رہنے ہی کا ارادہ نہ تھا۔ انکار کیا۔ بعد میں کسی نہ کسی دوسری وجہ سے انکار کرتے رہے۔ اگر کوئی وجہ نہ ہوتی تب بھی یونیورسٹیاں ان کی نظر میں بجائے خود کوئی مقصد نہ تھیں۔ قومی زندگی کے تقاضے پورا کرنے کا ذریعہ تھیں۔ بڑی حد تک ناکام رہی تھیں۔ اُن کا خیال تھا: ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تعلیم [معاشرے میں] مطلوبہ تبدیلی لائے گی۔ میں اخلاقی تربیت کے لیے تعلیم کا کچھ خاص قائل نہیں ہوں، یعنی تعلیم کا جو مفہوم اِس ملک میں لیا جاتا ہے۔ انسانیت کی اخلاقی تربیت درحقیقت عظیم شخصیتوں کا کام ہے، جو انسانی تاریخ کے عمل میں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا موجودہ سماجی ماحول ایسی اخلاقی مقناطیسیت رکھنے والی شخصیات کی پیدائش اور نشوونما کے لیے سازگار نہیں ہے۔ شخصیات کی اِس کمیابی کی وجہ دریافت کرنے کے لیے اُن تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کا جائزہ لینا ہو گا جو اِس لمحے ہمارے سماجی ارتقأکی تشکیل کر رہی ہیں۔۔۔ اِس صورت میں تعلیم ہی واحد شے ہے جس پر تکیہ کیا جا سکتا ہے مگر کس قسم کی تعلیم؟ تعلیم میں کوئی حرفِ آخر نہیں جس طرح فلسفے اور سائینس میں نہیں ہے۔ علم برائے علم احمقوں کا اصول ہے۔۔۔ دوسری چیزوں کی طرح تعلیم بھی سیکھنے والے کی ضروریات کے لحاظ سے متعین کی جانی چاہیے۔ ہر وہ تعلیم بالکل فضول ہے جس کا براہِ راست اُس قسم کے کردار سے تعلق نہ ہو جو آپ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ اِس ملک کا موجودہ نظامِ تعلیم ایک قوم کے طور پر ہمارے لیے بالکل موزوں نہیں ہے۔ یہ ایک قوم کے طور پر ہمارے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، یہ ایک نامسلمان قسم کا کردار پیدا کرتا ہے، یہ ہماری قومی ضروریات کی روشنی میں متعین نہیں کیا گیا، یہ ہمارے ماضی سے رابطہ یکسر منقطع کر لیتا ہے اور اِس غلط مفروضے کی بنیاد پر چلتا ہے کہ تعلیم کا مطلب انسانی ارادے کی بجائے انسانی عقل کی تربیت ہے۔۔۔ صحیح معنوں میں اپنے وجود کی دریافت کے لیے ہمارے اپنے اسکول، اپنے کالج اور اپنی یونیورسٹیاں ہونے چاہئیں جو ہماری سماجی اور تاریخی روایت کو زندہ رکھیں، ہمیں اچھا اور پُر امن شہری بنائیں اور ہم میں وہ آزاد مگر قانون کی اطاعت کرنے والی روح پیدا کریں جو شریفانہ ترین سیاسی اقدار میں سے ارتقأ پذیر ہوتی ہیں۔۴۷ ۷۰ ۳ اپریل کو یونیورسٹی ہال میں پنجاب مسلم لیگ کی طرف سے وائسرائے لارڈ منٹو کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا۔ چالیس لوگوں کے دستخط تھے۔ ان میں اقبال بھی شامل تھے۔۴۸ ۷۱ ۵ اپریل کو اقبال نے انارکلی پوسٹ آفس سے ٹامس آرنلڈ کی گیارہ سالہ بچی نینسی کو ایک پوسٹ کارڈ بھیجا۔ پشت پر جامع مسجد دہلی کی تصویر تھی : Here is a problem of arithmetic for you. Count the men and women who are praying in the mosque of Dehli. Iqbal آرنلڈ کے پتے، 28 Thornton Road, Wimbledon پر بھیجا گیا۔ ۷۲ ظفروال میں دس بارہ آدمیوں نے تین کشمیریوں پر مار پیٹ کا دعویٰ دائر کیا۔ تحصیلدار نے فیصلے میں لکھا کہ بظاہر تین آدمیوں کا دس بارہ کی مار پیٹ کرنا مشکل ہے مگر چونکہ کشمیری عام طور پر مفسد اور بہادرپائے جاتے ہیں لہٰذا ممکن ہے۔ کسی کشمیری نے اس فیصلے کی مصدقہ نقل مسلم کشمیری کانفرنس کے دفتر میں بھیجی کہ تحصیلدار پر توہین کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ روایت ہے کہ اقبال نے کہا: تحصیل دار نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ جو قوم بہادر ہے وہ ضرور مفسد ہے اور جو مفسد ہے وہ بہادر اور دلیر ہے۔ اِس فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا کشمیریوں کی طرف سے نہیں تھی اس لیے وہ لاتفسدو فی الارض کی ذیل میں نہیں آسکتے بلکہ اُنہوں نے قومی غیرت سے کام لے کر اپنی مدافعت کی۔ مقدمے کی تجویز مسترد ہو گئی۔۴۹ ۷۳ عطیہ فیضی سماجی کاموں میں بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔علی گڑھ کی پروفیسری سے اقبال کے انکار کی خبرسن کر غصہ آیا۔ اقبال کو لکھا کہ اُنہیں ہرگز یقین نہیں کہ سچ مچ تعزیت کرنے بمبئی آنا چاہتے تھے۔کسی میر محمد صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ یہ بھی لکھا کہ جنجیرہ کے گرلز اسکول کے لیے اُستانی تلاش کرنے میںمدد کریں۔ بعد میں بعض لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ چونکہ عطیہ کی عمراس وقت ستائیس برس ہو چکی تھی لہٰذا والدہ کی وفات کے بعد بڑی بہن اور بہنوئی کو اُن کی شادی کی فکر ہوئی ہو گی۔ اِسی لیے عطیہ، اقبال کو بار بار بمبئی کے قریب جنجیرہ آنے کی دعوت دینے لگیںجہاں اُن کے بہنوئی نواب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اِس قیاس آرائی کے لیے ثبوت موجود نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عطیہ کو اقبال کی ایما میں دلچسپی کا علم رہا ہو۔ حقیقت جو بھی ہو مگر اگلے دو برسوں میںاقبال کی گہری دوست ثابت ہوئیں۔ کسی اور دوست کے ساتھ اقبال کی ویسی خط کتابت شاید کبھی نہیں ہوئی جیسی عطیہ سے اب شروع ہوئی۔ ۹ جولائی کی صبح عطیہ کا خط موصول ہوا۔ اُسی روز انگریزی میں جواب دیتے ہوئے گھریلو حالات بیان کیے۔ آپ کے نوازش نامے کا شکریہ جو مجھے آج صبح موصول ہوا۔ میں نہیں بتا سکتا کہ میرمحمد صاحب کون ہیں۔ آپ شاید انہیں نہیں جانتیں مگر ان کی بیگم سے واقف ہیں اور میرا خیال ہے کہ اب آپ ا نہیں پہچان چکی ہوں گی۔ ۔۔۔ ایک انسان کی حیثیت سے خوشی پر میرا بھی حق ہے، اگر معاشرہ یا قدرت اس سے انکار کرتے ہیں تو میں دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ واحد حل یہی ہے کہ میں اِس بدنصیب ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا شراب میں پناہ لوں جو خودکشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ یہ کتابوں کے مردہ بنجر کاغذ مسرت فراہم نہیں کر سکتے۔ میری روح میں اتنی آگ موجود ہے جو انہیں جلا کر خاک کرنے کے لیے کافی ہو گی اور معاشرے کے تمام رواجوں کو بھی۔ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ بنایا، آپ کہیں گی۔ ہو سکتا ہے۔ مگر اس زندگی کے حقائق کسی دوسری طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک اچھے خدا کی بجائے ایک قادر مطلق شیطان ِ لم یزل پر ایمان لاناعقلی طور پر زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ براہِ کرم میری ان باتوں سے درگذر کیجیے۔ مجھے ہمدردی نہیں چاہیے۔ میں صرف اپنی روح سے بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔ آپ میرے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں اور اسی لیے میں نے اپنے جذبات بیان کرنے کی جسارت کی ہے۔ یہ صیغۂ راز میں ہے، براہِ مہربانی کسی کو بتائیے گا نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ سمجھ سکتی ہیں کہ میں نے کیوں ملازمت سے انکار کیا۔ ۔۔۔دو تین ہفتے قبل مجھے آپ کی دوست مس ویگے ناست کا خط موصول ہوا تھا۔ مجھے وہ لڑکی پسند ہے۔ اتنی اچھی اور سچی ہے۔ میں نے اسے اور بوڑھے فرا پروفیسر کو جواب لکھ دیا ہے۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 9th April 09 My dear Miss Faizee, Thank you so much for your very kind letter which I received this morning. I cannot tell you who is Mr. Mir Muhammad. Probably you do not know him; but you know his wife and I hope you will be able to identify him by this time. Yes I refused the Aligarh chair of Philosophy and a few days ago I refused to accept the Lahore Govt. College chair of History. I do not wish to enter any service. My object is to run away from this country as soon as possible. You know the reason. I owe a sort of moral debt to my brother which detains me. My life is extremely miserable. They force my wife upon me-I have written to my father that he had no right to arrange my marriage especially when I had refused to enter into any alliance of that sort. I am quite willing to support her, but I am not prepared to make my life miserable by keeping her with me. As a human being I have a right to happiness-if society or nature deny that to me I defy both. The only cure is that I should leave this wretched country for ever, or take refuge in liquor which makes suicide easier. These dead barren leaves of books cannot yield happiness; I have got sufficient fire in my soul to burn them up and all social conventions as well. A good God created all this, you will say. May be. The facts of this life, however, tend to a different conclusion. It is intellectually easier to believe in an eternal omnipotent Devil rather than a good God. Please excuse me for these utterances. I do not want sympathy. I wanted only to disburden my soul. You know all about me, and for this reason I have ventured to give expression to my feelings. This is in confidence; please do not tell anybody. I hope you understand now why I refused service. I am extremely sorry that I have not been able to get an ustani for you. The secretary of the Anjuman told me the other day that it was not possible to get one. The other day I delivered a public lecture on the meaning of religion as a factor in the evolution of society. I took down only a few notes. I do not know whether anybody took down what I said. The Anjuman lecture will be in English -"Islam as a moral and political ideal." If it is printed I shall send you a copy. I shall ask the Editor of the Observer to send a copy of the Observer to you. Abdul Qadir has come to Lahore to practice in the Chief Court. I am sorry to hear that you do not believe me when I say that I wish to come to Bombay to see you and their Highnesses who were so very kind to me. I certainly do wish to come over-whether this would be possible I can not say at present. No greater relief to me than this. Two three weeks ago I received a letter from your friend Frl. Wegenast. I like the girl. She is so good and truthful. I have written to her and to the good old Frau Professor. Please remember me to their Highnesses and assure them of my friendship-which though not of much use to them-is nonetheless true and unflinching. Yours Sincerely Iqbal ۷۴ اُسی روز انجمن حمایت اسلام کا چوبیسواں سالانہ اجلاس شروع ہوا۔ اگلے روز ۱۰ اپریل تھی۔ اقبال نے وقت نکال کر شہادت الفرقان کے مصنف شیخ عطأاللہ کو شکریے کا خط لکھا۔ اُس روز انجمن کے تیسرے جلسے کی صدارت میونسپل کمیٹی ملتان کے نائب صدر شیخ عبدالحق کر رہے تھے۔ اقبال کا تعارف کروایا۔ اقبال نے انگریزی میں لیکچر دیا: Islam As a Moral And Political Ideal پانچ برس بعد اقبال سامنے آئے تھے اور نظم کی بجائے انگریزی میں لیکچر دے رہے تھے۔ میاں فضل حسین نے اُردو میں لیکچر کا خلاصہ پیش کیا۔۵۰دستیاب نہیں۔ لیکچر دستیاب ہے۔ بنیادی نکات یہ تھے: ٭ مذہب کے مطالعے میں ایک آزاد طالب علم کا رویہ ، مذہب کے بانی اور مذہب کے مبلغ دونوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک آزاد طالب علم کا کام صرف مذہب کے حیاتیاتی نظام کو سائینٹفک طریقِ کار کی روشنی میں دیکھ کر مذہب کے نظام کو سمجھنا، تاریخی ارتقا کی قوتوں میں سے ایک تہذیب آور قوت کے طور پر اُس مذہب کی افادیت متعین کرنا اور اِس ضمن میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دینا تھا۔ ٭ انسانی فطرت اور کائنات کے بارے میں بدھ مت، عیسائیت، زرتشتی مذہب اور اِسلامکے مفروضے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ اسلام کے مطابق انسان کی اصل فطرت عقل میں نہیں بلکہ ارادے میں مضمر تھی۔ انسان کو خوف سے نجات دلانا اسلام کا مقصد تھا۔ ایک صحتمند جسم میں مضبوط ارادہ ہی اسلام کا اخلاقی نصب العین تھا۔ ٭ ہندوستان کے مسلمان اِس نصب العین پر پورے نہیں اُترتے تھے۔ وجہ موجودہ نظامِ تعلیم تھا۔ ٭ یہ اِلزام غلط تھا کہ اسلام جنگ بازی کا مذہب ہے۔ یہ امن کا مذہب تھا۔اس کی اشاعت جبر کے ذریعے نہیں بلکہ تبلیغ کے ذریعے ہوئی تھی۔ ہر قیمت پر سیاسی اور سماجی امن برقرار رکھنا اس کی اہم ترجیح تھی۔ ٭ سیاست یعنی ’’اجتماعی انفرادیت‘‘ (corporate individuality) کے اعتبار سے اسلام کی قومیت جغرافیائی حدود کی پابند نہ تھی۔ سارے جہان پر محیط تھی۔ ٭ فرد پر لازم تھا کہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔ اس کے سوا ہر طرح آزاد تھا۔ چنانچہ سیاسی اعتبار سے اسلام کا اہم ترین پہلو جمہوریت تھی۔ اسلام کی اپنی جمہوریت صرف تیس برس رہی۔ ایشیا میں ملوکیت کے خاتمے کے لیے اسلام عملی اقدامات نہ کر سکا۔ برطانوی سلطنت یہ خدمت ادا کر رہی تھی۔ اس لحاظ سے بھی اور دنیا کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ مسلمان شہریوں کا وطن ہونے کی وجہ سے بھی برطانوی سلطنت، مسلم سلطنت کہلا سکتی تھی۔ ٭ اسلامی سیاست کے دو بنیادی اصول تھے: ۱ خدا کا قانون سب پر حاوی سمجھا جائے۔ کلیسا اور ریاست کی تفریق اسلام کے منافی تھی کیونکہ اسلام میں پروہت اور بادشاہ کی گنجایش ہی نہ تھی۔ ۲ تمام شہریوں کے درمیان مساوات تسلیم کی جائے۔ حکمراں بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔ ٭ ہندوستان کے مسلمان اِس سیاسی نصب العین سے بھی غافل تھے۔ ذات پات کی تفریق ہندوؤں سے سیکھنے کے بعد ہندوؤں کو بھی اِس معاملے میں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ جس طرح مذہب میں فرقہ بندی کرتے رہے تھے، اُسی طرح سیاست میں دھڑے بندی کر رہے تھے: جس طرح اپریل ۶۶۰ ء کے شروع میں، جنگِ صفین کے تئیس برس بعد مکہ میں ایک مسلمان اُس مقدس زمین پر پہنچنے والے حاجیوں کو یہ بتانے کے لیے اُٹھا تھا کہ کس طرح اسلام کی وحدت مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی، اُسی طرح اپریل کے آغاز میں لاہور شہر میں، جس کی خاک میں اسلام کی بعض عظیم ترین ہستیاں دفن ہیں، میں، ملت کا ایک حقیر رکن، کھڑے ہوکر معاشرے کے وجود میں اِس خوفناک زخم کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اِس عظیم اجتماع میں، میں اِس ملعون مذہبی اور سماجی فرقہ واریت کی مذمت کرتا ہوں۔ میں اس کی مذمت کرتا ہوں خدا کے نام پر، انسانیت کے نام پر، موسیٰ کے نام پر، عیسیٰ کے نام پر اور اُس کے نام پر - جس اعلیٰ نام کے بارے میں سوچتے ہی میری روح کے ریشے ریشے میں جذبات کا اِرتعاش پیدا ہو جاتا ہے- ہاں، اُس کے نام پر جو انسانیت کے لیے آزادی اور مساوات کا آخری پیغام لایا۔ اسلام ایک ہے اور تقسیم نہیں ہو سکتا۔ یہ اپنے آپ میں کسی قسم کے امتیازات کا روادار نہیں۔ اسلام میں کوئی وہابی، شیعہ، مرزئی یا سنی نہیں ہیں۔ سچ کی تعبیروں پر مت لڑو جبکہ خود سچ ہی خطرے میں ہے۔ ٹھوکر کھانے کی شکایت کرنا حماقت ہے جب تم رات کے اندھیرے میں چل رہے ہو۔ آؤ سب آگے بڑھیں اور ملت کے عظیم سرمایے میں اپنا اپنا حصہ ادا کریں۔ طبقاتی امتیازات اور فرقہ واریت کے بُت ہمیشہ کے لیے پاش پاش ہو جائیں۔ اس ملک کے مسلمان ایک بار پھر مل کر ایک زندہ وحدت بن جائیں۔ پرتشدد باہمی جھگڑوں کی موجودگی میں ہم کس طرح دوسروں کو اپنی طرزِ فکر پر قائل کر سکتے ہیں؟ انسانیت کو توّہم سے آزاد کرنے کا کام - ایک ملت کے طور پر اِسلام کا حتمی نصب العین، جس کی تعبیر کے لیے ہم نے اساطیر اور اوہام کی اس سرزمین میں اِتنی کم کوشش کی ہے - ہمیشہ ناکردہ رہے گا اگر آزادی دلوانے والے خود ہی بتدریج اُن زنجیروں میں جکڑے جا رہے ہیں جن سے دوسروں کو نجات دلوانا اُن کا مشن ہے۔۵۱ ۷۵ سہیل ستارے کے بارے میں مشہور تھا کہ جس مقام سے دکھائی دے وہاں تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہتی تھی۔ غائب ہو جائے تو حکومت چلی جاتی۔ آغا حشر کے نئے ڈرامے کے ہیرو کا نام سہیل تھا۔ خوبصورت بلا میں عام ڈراموں کے تین ابواب کی بجائے چار تھے۔ غیرملکی حکومت کی غلامی کا صدمہ جھیلنے والی قوم کے چار اَدوار بھی سمجھا جا سکتا تھا۔ پہلا دَور: نیکی اور بدی کے درمیان شرط لگتی ہے کہ دنیا میں بالآخر کون کامیاب ہوتا ہے۔ بدی کی ملکہ شمسہ اپنے بھائی کو قتل کر کے اُس کے کم سن لڑکے سہیل کو قتل کروانا چاہتی ہے تو وفادار سپہ سالار توفیق بہادری سے جان دے دیتا ہے اور اُس کی نیک بیوی اپنے لڑکے رشید کی قربانی دے کر سہیل کو فرار ہونے میں مدد دیتی ہے۔ جنرل قہرمان بظاہر شمسہ کے ساتھ مل جاتا ہے مگر درپردہ سہیل کی مدد کرتا رہتا ہے۔ پاپڑ پیچنے والے کا لڑکا خیرو جو معمولی سپاہی تھا، غداری کے عوض ’’ایڈی کانگ‘‘ کا عہدہ پاتا ہے اور انگریزی طور طریقے اختیار کر کے پہلی بیوی سے چھٹکارہ پا کر فیشن ایبل میڈم سے شادی کرتا ہے جو اُس کی خوب درگت بناتی ہے (’’یہ بھی آج کل کا فیشن ہے،‘‘ پہلے باب کے چوتھے پردے میں وہ یہ فقرہ نو مرتبہ دُہراتا ہے)۔ دوسرا دَور: قتلو جس کی غداری شمسہ کی مددگار ہوئی تھی، اب شادی کر کے حکومت میں شریک ہونا چاہتا ہے مگر شمسہ بہانے سے ٹال رہی ہے۔ دونوں کو سہیل کی تلاش ہے تاکہ اُسے قتل کر دیں۔ سہیل کو قہرمان کے سپاہیوں نے چھپا رکھا ہے اور طاہرہ اپنے بچے کی یاد میں دیوانی ہوئی پھر رہی ہے جس کی زندگی قربان کر کے سہیل کو بچایا تھا۔ وہ نہیں پہچانتی مگر سہیل اُسے پہچانتا ہے۔ نئے کردار تسنیم اور شہریارایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں (شہریار کے مصاحب ماشأاللہ اور اُس کی بیوی ممتاز کا رکھ رکھاؤ خیرسلا اور میڈم سے مختلف ہے مگر نئے زمانے کی ہوا میں یہ بھی کچھ کچھ ڈول رہے ہیں)۔تسنیم اور شہریار کے درمیان قتلو کا لڑکا طغرل دیوار بنتا ہے۔ شہریار کا کورٹ مارشل کرواتا ہے مگر جنرل قہرمان جلادوں کو ہلاک کر کے شہریار کو بچا لیتا ہے۔ تیسرا دَور: سہیل گرفتار ہو جاتا ہے۔ خیرسلا کے مشورے پر ماشأ اللہ اپنی بیوی ممتاز کی آزمایش کرتا ہے تو وہ میڈم کے ساتھ مل کر اِنہیںایک دوسرے کے ہاتھوں ہی پریشان کروا دیتی ہے جس طرح سہیل کو محل سمیت بارود سے اُڑانے کی ترکیب میں طغرل محل کے نیچے دب کر ہلاک اور سہیل قہرمان کی مدد سے فرار ہو جاتا ہے۔ چوتھا دَور: اَب رعایا سہیل کے ساتھ ہے۔ جنگ میں بھی شمسہ اور قتلو کو شکست ہوتی ہے مگر شمسہ سچائی کے سامنے سر جھکانے کی بجائے ابوجہل کی طرح سر بلند رکھ کر مرنا قبول کرتی ہے۔ قتلو کو ہلاک کر کے اپنے پستول سے آپ ہی خودکشی کرتی ہے، ’’آگ! جہنم!‘‘کامیڈی پلاٹ میںنئے کردار ایک دوسرے کو پہچاننے میں غلطی کرتے ہیں۔ سہیل تخت نشیں ہوتا ہے مگر اپنی منہ بولی ماں طاہرہ سے منوا لیتا ہے کہ وہ بھی اُس کے ساتھ تاج و تخت میں شریک ہو۔ طاہرہ نورِ اقبال ترا آج سے گھر گھر چمکے حشر تک تاجِ حکومت ترے سر پر چمکے قہرمان یا الٰہی! اِن کا یہ اقبال تابندہ رہے ملک کی قسمت کا مالک حشر تک زندہ رہے ۷۶ جوان ترکوں کے خلاف ردعمل ہوا۔ اتحادِ محمدی کے نام سے تحریک چلی تھی۔ فوج بھی شامل ہو چکی تھی۔ ۱۳ اپریل کو استنبول میں جوان ترکوں کی حکومت کو معطل کر دیا۔ ۷۷ شیخ عطا محمد کا تبادلہ بمبئی کے قریب ہو گیا تھا۔ جانے والے تھے۔اُنہی دنوں اقبال کو انجمن حمایت اسلام لاہور کے زنانہ مدارس کی سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے جنجیرہ کے گرلز اسکول کی استانی کے لیے درخواست موصول ہوئی۔۵۲ ۷۸ عطیہ کو اقبال کا خط ملا تو کچھ پریشان ہوئیں اور کچھ مایوس۔ لکھا کہ کبھی ملاقات ہونے پر بتائیں گی کہ چھوٹی چھوٹی مشکلات جو انسان کو ورثے میں ملتی ہیں اُن پر قابو نہ پا نے میں اقبال کیسی حماقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سامنے ہوتے تو بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھیں۔ ۷۹ اقبال کا لیکچرآبزرور میں شائع ہو گیا۔ ۸۰ ۱۶ اپریل کی رات تھی۔جہنم میں بہت سردی تھی۔ فرشتوں نے بتایا کہ یہ اصل میںٹھنڈی جگہ تھی مگر آنے والے دنیا سے اپنے ساتھ انگارے لاتے جن کی وجہ سے گرم ہو جاتی۔ صبح ہوئی توعطیہ کا ہمدردی نامہ موصول ہوا۔ اقبال نے جہنم کی سیر کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا: اِس ملک میں جہاں کوئلے کی کانیں بہت زیادہ نہیں ہیں جتنے انگارے جمع ہو سکتے ہیں میں انہیں جمع کرنے کی تیاری میں مصروف ہوں۔عبدالقادر سے میری اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ تقریباً ہر روز چیف کورٹ کے بار روم میں، لیکن بہت عرصہ سے ہم نے آپ کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ آج کل میں دوسروں سے زیادہ بات چیت نہیں کرتا۔ میری اپنی بدنصیب ذات مصیبت انگیز خیالوں کی کان بنی ہوئی ہے جو سانپ کی طرح میری رُوح کے گہرے اندھیرے سوراخوں سے باہرنکلتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں سپیرا بن جاؤں گا اور بازاروں میں پھرا کروں گا۔ تماشہ دیکھنے والے لڑکوں کی ایک جماعت میرے پیچھے ہو گی! ۔۔۔چند دن ہوئے مجھے مس ویگے ناست کا خط موصول ہواتھا۔ جب میں انہیں خط لکھوں گا تو انہیں اُن دنوں کی یاد دلاؤں گا جب آپ جرمنی میں تھیں۔ افسوس، وہ دن جو پھر کبھی نہ آئیں گے۔ وہ آج کل اپنے گھر پر ہیں یعنی ہائیل برون میں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اب فرا پروفیسر کی مدد کرنے ہائیڈل برگ واپس آگئی ہوں گی۔ خط کے ساتھ آبزرور کے دو پرچے بھی پوسٹ کر دیے۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 17th April 09 My dear Miss Atiya, Thank you for the consoling words-your letter has brought me great relief. I too wish to see you and pour out my entire self before you. You say you want to ask me many questions-why don't you? Your letters to me are always kept in a safe chest; nobody can see them. And you know I withhold nothing from you and I believe it is a sin to do so. I admit my letters are not at all satisfying as you say -but they are necessarily so for the reasons you mentioned in your last letter. Don't accuse me of forgetfulness; I forget nothing; but I should like to hear the explanation simply because I wish to see how you explain. Last night I went to heaven and happened to pass through the gates of Hell. I found the place dreadfully cold. They told me, when they found me amazed, that the place was cold in its own nature; but that it would become intensely hot since everybody had to bring his own fire from the world. I am preparing to collect as much burning coal as possible in this country where there are not many coal mines. I often see Abdul Qadir, about every day in the Bar Room of the Chief Court; but we have not talked about you for a long time. I do not talk much with others now; my own wretched self is a mine of miserable thoughts which emerge snake-like from the deep and dark holes of my soul. I think I shall become a snake charmer and walk about in the streets with a host of curious boys behind me. Don't think that I am a pessimist. I tell you misery is most delicious; and I enjoy my misfortune and laugh at those who believe they are happy. You see how I steal my happiness. I received a letter from Miss Wegenast some time ago. When I write to her I shall remind her of the days when you were in Germany-Ah the days which will never come again. She is at present at her own place-Heilbroun; but, I believe, she must have come by this time to Heidelberg to assist Frauline Prof. in her teaching work. You may rest assured that she is quite well. Please excuse my bad writing. I do not remember what I have written before-each moment brings its own thought with it so that if you find my letter incoherent forgive the vagrant. As regard the Ustani I have received an application today forwarded to me by the Superintendent of Zenana Schools of the Anjuman-i-Himayat Islam Lahore. I am going to correspond with her and shall soon let you know of the result. But I should like to know whether she will have to teach in a public school, and in Janjira or Bombay. My elder brother is transferred to a place about 16 miles from Bombay. He will proceed shortly. Two issues of the Observer are sent herewith. I hope you will find them interesting. Please remember me to their Highnesses and oblige. Yours very sincerely Iqbal ۸۱ ترکی میں ینگ ٹرک پارٹی نے حکومت پر دوبارہ قبضہ کر کے جمہوری دستور بحال کیا۔ سلطان عبدالحمید کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ انہیں خلافت سے معزول کر دیا جائے۔ فتویٰ حاصل کیا گیا۔ ۲۷ اپریل کو سلطان عبدالحمید معزول ہوئے۔ انہیں ایک عالیشان محل میں نظربند کر دیا گیا۔ ان کی جگہ سلطان محمد خامس (پنجم) تخت پر بٹھائے گئے جن کی شخصیت معمولی تھی۔ امید تھی کہ کسی کو متاثر نہ کر سکیں گے۔ ۸۲ یکم مئی کو گورنمنٹ کالج لاہور کے فلسفے کے پروفیسر انتقال کر گئے۔ صرف دو مہینے بعد یعنی جولائی میں سالانہ امتحانات ہونے والے تھے۔ اقبال نے اس شرط پر لڑکوں کو پڑھانے کی ذمہ داری قبول کر لی کہ کلاسیں عدالت شروع ہونے سے پہلے صبح ۶ بجے سے ۹ بجے تک ہوں گی۔ تنخواہ پانچ سو روپے ماہوار تھی ۔ لاہور میں گرمیوں میں سورج کافی جلدی نکلتا تھا ۔ محکمہ تعلیم کے انڈرسیکرٹری نے چیف کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نام درخواست لکھی۔ اقبال نے بھی ۸ مئی کو رسمی درخواست داخل کر دی۔۵۳ ۸۳ انجمن کشمیری مسلمانان چاہتی تھی کہ انگریز افواج میں کشمیری مسلمانوں کی بھی علیحدہ رجمنٹ یا کمپنی بنائی جائے۔ سرپرست نواب سلیم اللہ خاں کی قیادت میں ایک وفدکمانڈر انچیف کے پاس بھیجنے کا پروگرام تھا۔ زراعت پیشہ کشمیری مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وائسرائے کے پاس وفد لے جانے پر بھی غور کیا جا رہا تھا۔ ۱۱ مئی کو اقبال نے اِس سلسلے میں کسی مرزاافضل احمد کا خط محمد دین فوق کو ارسال کیا۔ ساتھ نوٹ تھا کہ اسے کمیٹی میں پیش کرنے کی تجویز آئی ہے۔ چند روز بعد کسی وقت ایک اور طویل مراسلہ تحریر کر رہے تھے۔ اگلے ماہ کشمیری گزٹ میں شائع ہونا تھا۔ یہ انجمن کشمیری مسلمانان کے اراکین کے نام تھا۔ درخواست کی تھی کہ انجمن کے تیار کیے ہوئے فارم پُر کر کے واپس ارسال کر دیںتاکہ زراعت پیشہ اور فوج پیشہ کشمیری مسلمانوں کی تفصیلات اور دیگر کشمیری مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا اندازہ ہو سکے اور کمیٹی: اپنے بھائیوں کو کسی قسم کی امداد پہنچا سکے۔ دنیا اِس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ بغیر تعلیم کے کوئی قوم زندہ قوموں میں شمار نہیں ہو سکتی۔ جس قدر قومیں آج آپ کو مہذّب، شائستہ اور ترقی یافتہ نظر آتی ہیں وہ سب علم کے زینے ہی سے آسمانِ عروج و کمال پر پہنچی ہیں۔ آپ کو یاد رہے کہ آپ میں بھی وہ سُچّے موتی اور جواہر موجود ہیں جن کی چمک دمک سے دنیا حیران اور خیرہ ہو سکتی ہے لیکن صرف جِلا کی ضرورت ہے اور جِلا تعلیم کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ خط کے آخر میں اپنے آپ کو قوم کا خادم اور بیرسٹر ایٹ لا ٔ لکھا تھا۔ ۸۴ ۱۷ مئی کو سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان کی منظوری سے اقبال کو مشروط طور پرگورنمنٹ کالج میں مقرر کر لیا گیا۔ اقبال نے ابھی چارج نہیں لیا۔ باقاعدہ منظوری کے بعد چارج لینا زیادہ مناسب سمجھا ہو گا۔ ۸۵ ہمارا جنرل سیکرٹری نہایت خوشی کی بات ہے کہ انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور کے آنریری جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا ٔ عارضی طور پر بہ منظوری صاحب وزیرِ ہند پروفیسر فلاسفی گورنمنٹ کالج لاہور میں بہ مشاہرہ پانچ سو روپیہ ماہوار مقرر ہوئے ہیں۔ اِس عرصے میں آپ کو بیرسٹری کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ کشمیری میگزین، جون ۱۹۰۹ء ۸۶ ستارہ قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو مآلِ حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟ متاعِ نُور کے لُٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو؟ زمیں سے دُور دیا آسماں نے گھر تجھ کو مثالِ ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے! تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے جو اَوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر فنا کی نیند میٔ زندگی کی مستی ہے وداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینشِ گُل عدم، عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے! سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اِس نظم میں کبھی ترمیم نہ ہوئی۔ ۸۷ انگلستان میں لبرل پارٹی نے بوڑھوں کے لیے پنشن، اسکول کے بچوں کے لیے مفت کھانے اور مزدوروں کے لیے نئی مراعات شروع کی تھیں۔ اکثر پر عمل نہ ہوتا تھا۔ اس برس کے بجٹ میں وزیر ِ خزانہ لائڈ جارج نے امیروں پر زیادہ ٹیکس عائد کیے۔ ان کا اثر سرمایہ داروں سے زیادہ جاگیرداروں پر پڑتا تھا۔ پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے بڑے جوش سے کہا: یہ ایک جنگی بجٹ ہے۔ یہ غربت اور ذلت کے خلاف زبردست جنگ کے لیے رقم اکٹھی کرنے کے لیے ہے۔ میں امید کرنے اور اس بات کا یقین کرنے پر مجبور ہوں کہ موجودہ نسل کی زندگی ہی میں ہم اُس اچھے زمانے کی طرف بڑے قدم اٹھا چکے ہوں گے جب غربت کے ساتھ وہ مجبوری اور انسانی پستی بھی جو ہمیشہ اس کے ہمراہ آتی ہے، اس ملک کے عوام سے اتنی ہی دُور ہو چکی ہوں گی جتنے کہ وہ بھیڑیے جو کبھی اس کے جنگلوں میں بھرے ہوئے تھے۔ دارُالعوام نے منظور کر لیا جہاں عوام کے منتخب نمایندے تھے۔ ’’ہاؤس آف لارڈز‘‘ یعنی دارالامرأ میں نامنظور ہو گیا۔ وہاں برطانوی امرأ تھے۔ ۸۸ ’’شروع شروع میں ڈاکٹر صاحب (اقبال) ہائی کورٹ بند ہو جانے پر سیالکوٹ آ جایا کرتے تھے،‘‘ سید محمد ذکی کا بیان ہے۔ ’’کبھی کبھی باہر نکلتے تو میراں بخش عطار کی دکان پر بیٹھتے اور وہیں دوست جمع ہو جاتے۔‘‘ ایک دفعہ کہاکہ رسولِ اکرمؐ نے عیسائیوں پر بڑا احسان کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو تمام الزامات سے پاک کر دیا اور پیغمبروں میں اونچا درجہ دیا۔۵۴ ۸۹ ’ایک حاجی مدینے کے راستے میں‘ براؤننگ کی بعض نظموں کی طرح ڈرامائی مونولاگ تھی۔ مسافر کا قافلہ مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے لُٹ گیا۔ اب سوچ رہا تھا کہ آگے بڑھے یا جان بچا کر واپس کعبے کی طرف لَوٹ جائے۔ محبوبؐ کے روضے کی زیارت کیے بغیر خدا کے گھر کی طرف واپس پلٹ گیا تو قیامت کے روز عاشقوں کو کیا منہ دکھائے گا: گو سلامت محمل ِ شامی کی ہمراہی میں ہے عشق کی لذت مگر خطروں کی جانکاہی میں ہے ۹۰ یکم جولائی کی شام تھی۔ لندن میں انڈین نیشنل ایسوسی ایشن کی سالانہ تقریب ساؤتھ کنسنگٹن کے امپریل انسٹی ٹیوٹ میں ہو رہی تھی۔ امورِ ہند کے محکمے سے تعلق رکھنے والے سر کرزن وائلی، بیوی کے ساتھ داخل ہوئے۔ پانچ گولیاں لگیں۔ مر گئے۔ گولیاں چلانے والا نوجوان پنجابی ہندو تھا۔ ایک پارسی ڈاکٹر نے پکڑنے کی کوشش کی۔ دو گولیاں مار کر اُسے بھی ہلاک کیا۔ پھر خودکشی کی کوشش کی۔ نام مدن لال تھا۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کروانے کے لیے ابھی تک صرف ہندوستان میں انگریزوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے کی بجائے ہندو انتہاپسند خودکشی کو ترجیح دیتے تھے۔ اب خودکش حملے انگلستان کی سرزمین پر پہنچ گئے تھے۔ ۹۱ جولائی کے مخزن میں اقبال کی نظم ’ستارہ‘چھپی۔ اسی ماہ الٰہ آباد کے انگریزی جریدے ہندوستان ریویو میں ان کے انجمن حمایت اسلام والے لیکچر کی پہلی قسط شائع ہوئی۔ Islam as a Moral and Political Ideal S. M. Iqbal [Part 1] There are three points of view from which a religious system can be approached: the standpoint of the teacher, that of the expounder, and that of the critical student. I do not pretend to be a teacher whose thought and action are or ought to be in perfect harmony in so far as he endeavours to work out in his own life the ideals which he places before others and thus influences his audience more by example than by precept. Nor do I claim the high office of an expounder who brings to bear a subtle intellect upon his task. Endeavours to explain all the various aspects of the principles he expounds and works with certain pre-suppositions, the truth of which he never questions. The attitude of the mind which characterizes a critical student is fundamentally different from that of the teacher and the expounder. He approaches the subject of his inquiry free form all pre-suppositions, and tries to understand the organic structure of a religious system, just as a biologist would study a form of life or a geologist a piece of mineral. His object is to apply methods of scientific research to religion, with a view to discover how the various elements in a given structure fit in with one another, how each factor functions individually, and how their relation with one another determines the functional value of the whole. He looks at the subject from the standpoint of history and raises certain fundamental questions with regard to the origin, growth, and formation of the system he proposes to understand. What are the historical forces, the operation of which evoked, as a necessary consequence, the phenomenon of a particular system? Why should a particular religious system be produced by a particular people? What is the real significance of a religious system in the history of the people who produced it, and in the history of mankind as a whole? Are there any geographical causes which determine the original locality of a religion? How far does it reveal the inmost soul of a people, their social, moral and political aspirations? What transformation, if any, has it worked in them? How far has it contributed towards the realization of the ultimate purpose revealed in the history of man? These are some of the questions which the critical student of religion endeavours to answer, in order to comprehend its structure and to estimate its ultimate worth as a civilizing agency among the forces of historical evolution. I propose to look at Islam from the standpoint of the critical student. But I may state at the outset that I avoid the use of expressions current in popular Revelation Theology; since my method is essentially scientific and consequently necessitates the use of terms which can be interpreted in the light of every-day human experience. For instance, when I say that the religion of a people is the sum total of their life experience finding a definite expression through the medium of a great personality, I am only translating the fact of revelation into the language of science. Similarly, inter-action between individual and universal energy is only another expression for the feeling of prayer, which ought to be so described for purposes of scientific accuracy. It is because I want to approach my subject from a thoroughly human standpoint and not because I doubt the fact of Divine Revelation as the final basis of all religion that I prefer to employ expressions of a more scientific content. Islam is moreover the youngest of all religions, the last creation of humanity. Its founder stands out clear before us; he is truly a personage of history and lends himself freely even to the most searching criticism. Ingenious legend has weaved no screens round his figure; he is born in the broad day-light of history; we can thoroughly understand the inner spring of his actions; we can subject his mind to a keen psychological analysis. Let us then for the time being eliminate the supernatural element and try to understand the structure of Islam as we find it. I have just indicated the way in which a critical student of religion approaches his subject. Now, it is not possible for me, in the short space at my disposal, to answer, with regard to Islam, all the questions which as a critical student of religion I ought to raise and answer in order to reveal the real meaning of this religious system. I shall not raise the question of the origin and the development of Islam. Nor shall I try to analyze the various currents of thought in the pre-Islamic Arabian society, which found a final focus in the utterances of the Prophet of Islam. I shall confine my attention to the Islamic ideal in its ethical and political aspects only. To begin with we have to recognize that every great religious system starts with certain propositions concerning the nature of man and the universe. The psychological implication of Buddhism, for instance, is the central fact of pain as a dominating element in the constitution of the universe. Man, regarded as an individuality, is helpless against the forces of pain, according to the teachings of Buddhism. There is an indissoluble relation between pain and the individual consciousness which, as such, is nothing but a constant possibility of pain. Freedom from pain means freedom from individuality. Starting from the fact of pain, Buddhism is quite consistent in placing before man the ideal of self-destruction. Of the two terms of this relation, pain and the sense of personality, one (i.e. pain) is ultimate; the other is a delusion from which it is possible to emancipate ourselves by ceasing to act on those lines of activity which have a tendency to intensify the sense of personality. Salvation, then, according to Buddhism, is inaction; renunciation of self and unworldliness are the principal virtues. Similarly, Christianity, as a religious system, is based on the fact of sin. The world is regarded as evil and the taint of sin is regarded as hereditary to man, who, as an individuality, is insufficient and stands in need of some supernatural personality to intervene between him and his Creator. Christianity, unlike Buddhism, regards human personality as something real, but agrees with Buddhism in holding that man as a force against sin is insufficient. There is, however, a subtle difference in the agreement. We can, according to Christianity, get rid of sin by depending upon a Redeemer; we can free ourselves from pain, according to Buddhism, by letting this insufficient force dissipate or lose itself in the universal energy of nature. Both agree in the fact of insufficiency and both agree in holding that this insufficiency is an evil; but while the one makes up the deficiency by bringing in the force of a redeeming personality, the other prescribes its gradual reduction until it is annihilated altogether. Again, Zoroastrianism looks upon nature as a scene of endless struggle between the powers of evil and the powers of good and recognizes in man the power to choose any course of action he likes. The universe, according to Zoroastrianism, is partly evil, partly good; man is neither wholly good nor wholly evil, but a combination of the two principles-light and darkness-continually fighting against each other for universal supremacy. We see then that the fundamental pre-suppositions, with regard to the nature of the universe and man, in Buddhism, Christianity and Zoroastrianism respectively are the following: 1. There is pain in nature and man regarded as an individual is evil (Buddhism). 2. There is sin in nature and the taint of sin is fatal to man (Christianity). 3. There is struggle in nature; man is a mixture of the struggling forces and is free to range himself on the side of the powers of good which will eventually prevail (Zoroastrianism). The question now is, what is the Muslim view of the universe and man? What is the central ideal in Islam which determines the structure of the entire system? We know that sin, pain and sorrow are constantly mentioned in the Quran. The truth is that Islam looks upon the universe as a reality and consequently recognizes as reality all that is in it. Sin, pain, sorrow, struggle are certainly real but Islam teaches that evil is not essential to the universe; the universe can be reformed; the elements of sin and evil can be gradually eliminated. All that is in the universe is God's, and the seemingly destructive forces of nature become sources of life, if properly controlled by man, who is endowed with the power to understand and to control them. These and other similar teachings of the Quran, combined with the Quranic recognition of the reality of sin and sorrow, indicate that the Islamic view of the universe is neither optimistic nor pessimistic. Modern psychometry has given the final answer to the psychological implications of Buddhism. Pain is not an essential factor in the constitution of the universe, and pessimism is only a product of a hostile social environment. Islam believes in the efficacy of well-directed action; hence the standpoint of Islam must be described as melioristic-the ultimate pre-supposition and justification of all human effort at scientific discovery and social progress. Although Islam recognizes the fact of pain, sin and struggle in nature, yet the principal fact which stands in the way of man's ethical progress is, according to Islam, neither pain, nor sin, nor struggle. It is fear to which man is a victim owing to his ignorance of the nature of his environment and want of absolute faith in God. The highest stage of man's ethical progress is reached when he becomes absolutely free from fear and grief. The central proposition which regulates the structure of Islam then is that there is fear in nature, and the object of Islam is to free man from fear. This view of the universe indicates also the Islamic view of the metaphysical nature of man. If fear is the force which dominates man and counteracts his ethical progress, man must be regarded as a unit of force, an energy, a will, a germ of infinite power, the gradual unfoldment of which must be the object of all human activity. The essential nature of man, then, consists in will, not intellect or understanding. With regard to the ethical nature of man too, the teaching of Islam is different from those of other religious systems. And when God said to the angels -"I am going to make a Viceroy on the earth," they said: "Art Thou creating one who spills blood and disturbs the peace of the earth, and we glorify Thee and sing Thy praises?" God answered? "I know what you do not know." This verse of the Quran, read in the light of the famous tradition that every child is born a Muslim (peaceful) indicates that, according to the tenets of Islam, man is essentially good and peaceful-a view explained and defended, in our own times, by Rousseau-the real father of modern political thought. The opposite view, the doctrine of the depravity of man held by the Church of Rome, leads to the most pernicious religious and political consequences. Since if man is elementally wicked, he must not be permitted to have his own way: his entire life must be controlled by external authority. This means priesthood in religion and autocracy in politics. The Middle Ages in the history of Europe drove this dogma of Romanism to its political and religious consequences, and the result was a form of society which required terrible revolutions to destroy it and to upset the basic pre-suppositions of its structure. Luther, the enemy of despotism in religion, and Rousseau, the enemy of despotism in politics, must always be regarded as the emancipators of European humanity from the heavy fetters of Popedom and absolutism, and their religious and political thought must be understood as a virtual denial of the Church dogma of human depravity. The possibility of the elimination of sin and pain from the evolutionary process and faith in the natural goodness of man are the basic propositions of Islam, as of modern European civilization, which has, almost unconsciously, recognized the truth of these propositions inspite of the religious system with which it is associated. Ethically speaking, therefore, man is naturally good and peaceful. Metaphysically speaking, he is a unit of energy, which cannot bring out its dormant possibilities owing to its misconception of the nature of its environment. The ethical ideal of Islam is to disenthral man from fear, and thus to give him a sense of his personality, to make him conscious of himself as a source of power. This idea of man as an individuality of infinite power determines, according to the teachings of Islam, the worth of all human action. That which intensifies the sense of individuality in man is good, that which enfeebles it is bad. Virtue is power, force, strength; evil is weakness. Give man a keen sense of respect for his own personality, let him move fearless and free in the immensity of God's earth, and he will respect the personalities of others and become perfectly virtuous. It is not possible for me to show in the course of this paper how all the principal forms of vice can be reduced to fear. But we will now see the reason why certain forms of human activity, e.g. self-renunciation, poverty, slavish obedience which sometimes conceals itself under the beautiful name of humility and unworldliness-modes of activity which tend to weaken the force of human individuality-are regarded as virtues by Buddhism and Christianity, and altogether ignored by Islam. While the early Christians glorified in poverty and unworldliness, Islam looks upon poverty as a vice and says: "Do not forget thy share of the world." The highest virtue from the standpoint of Islam is righteousness, which is defined by the Quran in the following manner: It is not righteousness that ye turn your faces in prayers towards east and west, but righteousness is of him who believeth in God and the last day and the angels and the scriptures and the Prophets, who give the money for God's sake unto his kindred and unto orphans and the needy and to strangers and to those who ask and for the redemption of captives; of those who are constant at prayer, and of those who perform their covenant when they have covenanted and behave themselves patiently in adversity and in times of violence. (2: 177) It is, therefore, evident that Islam, so to speak, transmutes the moral values of the ancient world, and declares the preservation, intensification of the sense of human personality, to be the ultimate ground of all ethical activity. Man is a free responsible being; he is the maker of his own destiny, his salvation is his own business. There is no mediator between God and man. God is the birthright of every man. The Quran, therefore, while it looks upon Jesus Christ as the spirit of God, strongly protests against the Christian doctrine of redemption, as well as the doctrine of an infallible visible head of the Church-doctrines which proceed upon the assumption of the insufficiency of human personality and tend to create in man a sense of dependence, which is regarded by Islam as a force obstructing the ethical progress of man. The law of Islam is almost unwilling to recognize illegitimacy , since the stigma of illegitimacy is a great blow to the healthy development of independence in man. Similarly, in order to give man an early sense of individuality the law of Islam has laid down that a child is an absolutely free human being at the age of fifteen. To this view of Muslim ethics, however, there can be one objection. If the development of human individuality is the principal concern of Islam, why should it tolerate the institution of slavery? The idea of free labour was foreign to the economic consciousness of the ancient world. Aristotle looks upon it as a necessary factor in human society. The Prophet of Islam, being a link between the ancient and the modern world, declared the principle of equality and though, like every wise reformer, he slightly conceded to the social conditions around him in retaining the name slavery, he quietly took away the whole spirit of this institution. That slaves had equal opportunity with other Muhammadans is evidenced by the fact that some of the greatest Muslim warriors, kings, premiers, scholars and jurists were slaves. During the days of the early Caliphs slavery by purchase was quite unknown; part of public revenue was set apart for purposes of manumission, and prisoners of war were either freely dismissed or freed on the payment of ransom. Slaves were also set at liberty as a penalty for culpable homicide and in expiation of a false oath taken by mistake. The Prophet's own treatment of slaves was extraordinarily liberal. The proud aristocratic Arab could not tolerate the social elevation of a slave even when he was manumitted. The democratic ideal of perfect equality, which had found the most uncompromising expression in the Prophet's life, could only be brought home to an extremely aristocratic people by a very cautious handling of the situation. He brought about a marriage between an emancipated slave and a free Qureish woman, a relative of his own. This marriage was a blow to the aristocratic pride of this free Arab woman; she could not get on with her husband and the result was a divorce, which made her the more helpless, since no respectable Arab would marry the divorced wife of a slave. The ever-watchful Prophet availed himself of this situation and turned it to account in his efforts at social reform. He married the woman himself, indicating thereby that not only a slave could marry a free woman, but also a woman divorced by him could become the wife of a man no less than the greatest Prophet of God. The significance of this marriage in the history of social reform in Arabia is, indeed, great. Whether prejudice, ignorance or want of insight has blinded European critics of Islam to the real meaning of this union, it is difficult to guess. In order to show the treatment of slaves by modern Muhammadans, I quote a passage from the English translation of the autobiography of the late Amir Abdur Rahman of Afghanistan: For instance [says the Amir], Framurz Khan, a Chitrali slave is my most trusted Commander-in-Chief at Herat, Nazir Muhammad Safar Khan, another Chitrali slave, is the most trusted official of my Court; he keeps my seal in his hand to put to any document and to my food and diet; in short he has the full confidence of my life, as well as my kingdom is in his hands. Parwana Khan, the late Deputy Commander-in-Chief, and Jan Muhammad Khan, the late Lord of Treasury, two of the highest officials of the kingdom in their lifetime, were both of them my slaves. The truth is that the institution of slavery is a mere name in Islam, and the idea of individuality reveals itself as a guiding principle in the entire system of Muhammadan law and ethics. Briefly speaking, then, a strong will in a strong body is the ethical ideal of Islam. But let me stop here for a moment and see whether we, Indian Mussalmans, are true to this ideal. Does the Indian Muslim possesses a strong will in a strong body? Has he got the will to live? Has he got sufficient strength of character to oppose those forces which tend to disintegrate the social organism to which he belongs? I regret to answer my questions in the negative. The reader will understand that in the great struggle for existence it is not principally number which makes a social organism survive. Character is the ultimate equipment of man, not only in his efforts against a hostile natural environment but also in his contest with kindred competitors after a fuller, richer, ampler life. The life-force of the Indian Muhammadan, however, has become woefully enfeebled. The decay of the religious spirit, combined with other causes of a political nature over which he had no control, has developed in him a habit of self-dwarfing, a sense of dependence and, above all, that laziness of spirit which an enervated people call by the dignified name of 'contentment' in order to conceal their own enfeeblement. Owing to his indifferent commercial morality he fails in economic enterprise, for want of a true conception of national interest and a right appreciation of the present situation of his community among the communities of this country. He is working, in his private as well as public capacity, on lines which, I am afraid, must lead him to ruin. How often do we see that he shrinks from advocating a cause, the significance of which is truly national, simply because his standing aloof pleases an influential Hindu, through whose agency he hopes to secure a personal distinction? I unhesitatingly declare that I have greater respect for an illiterate shopkeeper, who earns his honest bread and has sufficient force in his arms to defend his wife and children in times of trouble than the brainy graduate of high culture, whose low timid voice betokens the dearth of soul in his body, who takes pride in his submissiveness, eats sparingly, complains of sleepless nights and produces unhealthy children for his community, if he does produce any at all. I hope I shall not be offending the reader when I say that I have a certain amount of admiration for the devil. By refusing to prostrate himself before Adam whom he honestly believed to be his inferior, he revealed a high sense of self-respect, a trait of character which in my opinion ought to redeem him from his spiritual deformity, just as the beautiful eyes of the toad redeem him from his physical repulsiveness. And I believe God punished him not because he refused to make himself low before the progenitor of an enfeebled humanity, but because he declined to give absolute obedience to the will of the Almighty Ruler of the Universe. The ideal of our educated young men is mostly service, and service begets, specially in a country like India, that sense of dependence which undermines the force of human individuality. The poor among us have, of course, no capital; the middle class people cannot undertake joint economic enterprise owing to mutual mistrust; and the rich look upon trade as an occupation beneath their dignity. Truly economic dependence is the prolific mother of all the various forms of vice. Even the vices of the Indian Muhammadan indicate the weakness of life-force in him. Physically too he has undergone dreadful deterioration. If one sees the pale, faded faces of Muhammadan boys in schools and colleges, one will find the painful verification of my statement. Power, energy, force, strength, yes physical strength, is the law of life. A strong man may rob others when he has got nothing in his own pocket; but a feeble person, he must die the death of a mean thing in the world's awful scene of continual warfare. But how [to] improve this undesirable state of things? Education, we are told, will work the required transformation. I may say at once that I do not put much faith in education as a means of ethical training-I mean education as understood in this country. The ethical training of humanity is really the work of great personalities, who appear time to time during the course of human history. Unfortunately our present social environment is not favourable to the birth and growth of such personalities of ethical magnetism. An attempt to discover the reason of this dearth of personalities among us will necessitate a subtle analysis of all the visible and invisible forces which are now determining the course of our social evolution-an enquiry which I cannot undertake in this paper. But all unbiased persons will easily admit that such personalities are now rare among us. This being the case, education is the only thing to fall back upon. But what sort of education? There is no absolute truth in education, as there is none in philosophy or science. Knowledge for the sake of knowledge is a maxim of fools. Do we ever find a person rolling in his mind the undulatory theory of light simply because it is a fact of science? Education, like other things, ought to be determined by the needs of the learner. A form of education which has no direct bearing on the particular type of character which you want to develop is absolutely worthless. I grant that the present system of education in India gives us bread and butter. We manufacture a number of graduates and then we have to send titled mendicants to Government to beg appointments for them. Well, if we succeed in securing a few appointments in the higher branches of service, what then? It is the masses who constitute the backbone of the nation; they ought to he better fed, better housed and properly educated. Life is not bread and butter alone; it is something more; it is a healthy character reflecting the national ideal in all its aspects. And for a truly national character, you ought to have a truly national education. Can you expect free Muslim character in a young boy who is brought up in an aided school and in complete ignorance of his social and historical tradition? You administer to him doses of Cromwell's history; it is idle to expect that he will turn out a truly Muslim character. The knowledge of Cromwell's history will certainly create in him a great deal of admiration for the Puritan revolutionary; but it cannot create that healthy pride in his soul which is the very lifeblood of a truly national character. Our educated young man knows all about Wellington and Gladstone, Voltaire and Luther. He will tell you that Lord Roberts worked in the South African War like a common soldier at the age of eighty; but how many of us know that Muhammad II conquered Constantinople at the age of twenty-two? How many of us have even the faintest notion of the influence of our Muslim civilization over the civilization of modern Europe? How many of us are familiar with the wonderful historical productions of Ibn Khaldun or the extraordinarily noble character of the great Mir Abdul Qadir of Algeria? A living nation is living because it never forgets its dead. I venture to say that the present system of education in this country is not at all suited to us as a people. It is not true to our genius as a nation, it tends to produce an un-Muslim type of character, it is not determined by our national requirements, it breaks entirely with our past and appears to proceed on the false assumption that the idea of education is the training of human intellect rather than human will. Nor is this superficial system true to the genius of the Hindus. Among them it appears to have produced a number of political idealists, whose false reading of history drives them to the upsetting of all conditions of political order and social peace. We spend an immense amount of money every year on the education of our children. Well, thanks to the King-Emperor, India is a free country; everybody is free to entertain any opinion he likes-I look upon it as a waste. In order to be truly ourselves, we ought to have our own schools, our own colleges, and our own universities, keeping alive our social and historical tradition, making us good and peaceful citizens and creating in us that free but law-abiding spirit which evolves out of itself the noblest types of political virtue. I am quite sensible of the difficulties that lie in our way. All that I can say is that if we cannot get over our difficulties, the world will soon get rid of us. Hindustan Review, Allahabad, July 1909۵۵ ۹۲ اقبال نے اُن اعتراضات کو نظم کرنا شروع کیا جو جاننے والے اُن کی شخصیت پر کرتے رہتے تھے: ہے کوئی مجموعۂ اضداد اے اقبال تُو جلوہ پیرا انجمن میں ہو کے پھر تنہا بھی ہے تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا زینت ِ گلشن بھی ہے، رونقِ صحرا بھی ہے ہم نشیں تاروں کا ہے تُو رفعتِ پرواز میں اے فلک پیما، قدم تیرا زمیں فرسا بھی ہے عین شغل ِ مے میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز کچھ ترے مسلک میں رنگِ مشربِ مینا بھی ہے مثلِ بوئے گل لباسِ رنگ سے عریاں ہے تُو ہے تو حکمت آفریں لیکن تجھے سودا بھی ہے نظم کے اِس حصے کو کئی بار کاٹا گیا اور کئی بار اصلاح ، ترمیم اور اضافے ہوئے (بعد میں کبھی نظم کا عنوان ’عاشقِ ہرجائی‘ ہوا)۔ ۵۶ اب اعتراضات کا جواب دینا چاہتے تھے۔ پچھلے جواب سے بڑھ کر ہواِس لیے رک گئے۔ ۹۳ برطانیہ نے ایران کے بادشاہ کے ظلم کی صرف حمایت کی تھی۔ روسی فوجیں مدد کر رہی تھیں۔ ۱۷ جولائی کو عوام نے انہیں شکست دی۔ تہران پر قبضہ کر لیا۔ بادشاہ سلامت نے روسی سفارتخانے میں پناہ لی۔ عوامی نمایندوں نے اُن کے تیرہ برس کے لڑکے احمد مرزا کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ آئین بحال کرنا تھا۔ ۹۴ اُس روز اقبال نے عطیہ کو انگریزی میں لکھا: میں نے اپنے منصوبے نہیں بدلے ہیں۔ میری خاموشی سے آپ کوکچھ اور نہیں سمجھنا چاہیے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ [جنجیرہ کا سفر] ہفت خواں عبور کرنے سے کم نہیں۔۔۔ اور میں تو عام طور پر کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ مجھے جس طرف بھی لے جائیں۔ ۔۔۔آپ خود واقف نہیں ہیں کہ آپ نے میرے ساتھ کیا بھلائی کی ہے۔ میں اس سے آگاہ ہوں مگر بیان نہیں کر سکتا لہٰذا اس بات کو رہنے دیجیے۔ جو بات بیان نہیں کی جاسکتی اُسے بیان کر نا میرے لیے بیکار سا ہو گا اور آپ ماننے پر تیار بھی نہیں ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی شکایات (جنہیں آپ کا معمولی کہنا درست نہیں)، کیا میں انہیں جان سکتا ہوں؟ یقینا ہر شخص اپنی آخری آرام گاہ میں پہنچنے کا منتظر ہے اور میں بھی بے تاب ہوں کیونکہ میں اپنے خالق سے ملنا اور یہ مطالبہ کرنا چاہوں گا کہ وہ میرے ذہن کی معقول تشریح کرے۔ جسے کرنا ، میرے خیال میں، اُس کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میں خود بھی اپنے آپ کو نہیں سمجھ سکا، آپ کو اس کی شکایت نہ ہونی چاہیے۔ کئی سال ہوئے میں نے یہ شعر کہا تھا: اقبالؔ بھی اقبالؔ سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے بہت سے لوگوں نے میرے بارے میں ایسی ہی باتیں کہی ہیں اور کبھی کبھی میں خود بھی تنہائی میں اپنے آپ پرہنستا ہوں۔ اب میرا ارادہ ہے کہ میں ایسے بیانات کا آخری بار جواب دے دوں ۔ شائع ہونے پر آپ اُسے مخزن میں دیکھیں گی۔ لوگ جو کچھ میرے متعلق خیال کرتے ہیں اُسے میں نے نظم کر دیا ہے۔ ابھی جواب کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ پبلک کے بہت سے پیروں والے عفریت کو اپنے احترام کا فضلہ دوسروں پر گرانے دیجیے جو مذہب اور اخلاق کے بارے میں جھوٹے رواجوں کی پیروی کر سکتے ہیں، میں ان باتوں کا احترام نہیں کر سکتا جو انسانی دماغ کی فطری آزادی کو دباتی ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو ان کے سامنے جھکا سکتا ہوں۔ بائرن، گوئٹے اور شیلے کا ان کے زمانے کے لوگوں نے بالکل احترام نہیں کیا اور میں اگرچہ شاعری میں ان کے برابر نہیں مگر اس معاملے میں مجھے اُن کی رفاقت ضرور حاصل ہے۔ عطیہ نے لکھا تھا کہ وہ زیادہ محتاط ہوتے اگر انہیں احساس ہوتا۔ اقبال نے جواب میں لکھا: براہِ مہربانی وضاحت کیجیے۔۔۔ میں ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں جس سے آپ خوش ہوں۔ دنیا میری پرستش نہیں کر سکتی نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میری پرستش کی جائے۔ میری فطرت ہی ایسی ہے کہ میں پرستش کا مرکز نہیں بن سکتا، میرے رگ و ریشے میں تو پرستش کرنے کا رجحان اتنا گہرا ہے ۔ ہاں، میری روح کی گہرائی میں جو خیالات ہیں اگر وہ دنیا پر ظاہر ہر جائیں اور میرے دل میں جو باتیں چھپی ہوئی ہیں اگر وہ کبھی ظاہر ہو جائیں مجھے یقین ہے کہ دنیا میری موت کے بعد ایک دن میری پرستش ضرور کرے گی۔ میری کوتاہیوں کو بھلادے گی اوراپنے آنسوؤں سے مجھے خراجِ تحسین پیش کرے گی۔ عطیہ سے میونک والی نظم کی نقل بھی مانگی ۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 17th July 09 My dear Miss Atiya, Thank you very much for your letter which I have just received. I find myself extraordinarily cheerful this morning; so please excuse me if you discern a vein of humour in my letter. I have not changed my plans; you are not justified in making the inference from my silence. But, of course, I am sometimes scared by two boats, one steamer, two tongas and two creeks-a veritable haftkhwan which will bring me the fame of Rustam if I could get through it. The need of Rustam was great and I am not certain what my need would be. I generally make up my mind to do a certain thing and then give myself up to circumstances leaving me to carry me whither they will. You are not conscious of what good you have done me-this is true and better so. You could not have been conscious of it. I am conscious of it, but cannot give an expression to it. Let us drop the subject. It would be futile on my part to describe the indescribable, and then you say you are not open to conviction. These petty grievances (you are wrong in describing them petty) may I know them? You will not stint information on this point specially if these grievances are against me-of course everybody is waiting patiently for the place of rest. I am anxious to go to that place because I should like to meet the Creator and call upon him to give me a rational explanation of my mind-which I think is not an easy task for him to do. I am incomprehensible to myself-you should not complain. Years ago I wrote- اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے Many people have made similar statements about me and I have often laughed at myself in solitude. I now propose to give a final answer to such statements. You will see it published in the Makhzan. I have nicely put what people think about me; the answer is yet to be versified. I am sorry to hear that you were distressed to find people in North India not respecting and admiring me. I tell you that I do not care for other people's respect-I do not mean to live by other people's breath- جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے I live a straightforward honest life; my heart is in perfect unison with my tongue. People respect and admire hypocrisy. If hypocrisy brings me fame, respect and admiration I would rather die unknown and unlamented. Let the many-headed monster of public give their dross of respect to others who act and live in accordance with their false ideals of religion and morality. I cannot stoop to respect their conventions which suppress the innate freedom of man's mind. Byron, Goethe and Shelley were not respected by their contemporaries-and though I am far inferior to them in poetic power I am proud that I am in their company in this respect. Have I instructed you? You never stood in need of instruction. I remember I introduced you to Plato -but there it ended. We read so little of it that I cannot justly claim the honour of having instructed you. You say I have no regard for your wishes!! This is indeed strange; for I always make it a point to obey your wishes and to please you in any way I can. But sometimes, of course, such a thing is beyond my power. The force of my own nature impels me in a different direction. "Otherwise you would be more careful." I confess I do not understand what you mean. Please explain to me in what respect I should be more careful. I am ready to do all that will please you. The world cannot worship me. I would not be worshipped; since my nature is such that I cannot become an object of worship-so deeply is ingrained in me the instinct of a worshipper. But if the innermost thoughts of my soul are ever revealed to the public, if what lies concealed in my heart is ever expressed-then, I am sure, the world will worship me some day after my death. They will forget my sins, and give me the tribute of a tear. The Lt. Governor was willing to recommend me to the Secretary of State for India for the vacant Professorship in the Lahore Government College, but I have given up the idea of standing a candidate for the appointment much against my personal inclination. Force of circumstances compels me to consider things from a financial point of view-a point of view which was revolting to me a few years ago. I have decided to continue in the legal profession trusting in God's help. Could you send me a copy of the poem I wrote to you from Munich? I have got no copy of it and I wish to keep one with me. Please convey my salaams to their Highnesses. Yours sincerely Muhammad Iqbal ۹۵ غالباً اس کے بعد عطیہ نے اقبال کو اُس وقت تک کوئی خط نہیں لکھا جب تک اگلے برس اقبال نے خود خط کتابت دوبارہ شروع نہ کی۔ ۹۶ اقبال نے اُس نظم کو مکمل کرنے کی کوشش کی جس میں اپنے اوپر اعتراض کرنے والوں کے بیانات شامل تھے۔ دوسرے حصے یعنی اپنے دفاع میں کئی اشعار لکھے: سیکڑوں کیفیتیں ہیں ہر کیفیت اقبال اور۵۷ مصرع سے تسلی نہ ہوئی۔ پھر بہت دنوں تک شاعری کی طرف توجہ دینے کا وقت نہ ملا۔ ۹۷ ۲۰ جولائی کو اقبال نے جرمن میں ایما کے اُس خط کا جواب دیاجو انہیں مارچ میں موصول ہوا تھا۔ خط کے شروع میں ہوفمین کے ترانے کا مصرعہ لکھا، ’’جرمنی سب سے پہلے!‘‘ آپ کی بڑی مہربانی کہ آپ نے مجھے لکھا۔ مجھے آپ کا خط پا کر ہمیشہ بہت مسرت ہوتی ہے اور میں بے چینی سے اس وقت کا منتظر ہوں جب میں دوبارہ آپ کے وطن میں آپ سے مل سکوں گا۔ براہِ کرم مجھے ہمیشہ ہمیشہ لکھتی رہیے۔ مجھے جرمنی بہت پسند ہے۔ اس نے میرے خیالات پر بہت اثر کیا ہے اور میں جرمنی میں اپنا قیام کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ میں یہاں بالکل اکیلا رہتا ہوں اور خود کو بڑا غمگین پاتا ہوں۔ ہماری تقدیر ہمارے اپنے ہاتھوں میں نہیں، ایک عظیم قوت ہے جو ہماری زندگیوں کو منظم کرتی ہے۔ محترمہ پروفیسر صاحبہ، جناب پروفیسر صاحب، اور تمام خواتین و حضرات کو میں ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہوں۔ آہ وہ دن جب میں جرمنی میں تھا! مس فیضی بمبئی میں ہیں۔ اُن کی والدہ انتقال کر گئی ہیں اور وہ بہت غمزدہ ہیںمگر اب کچھ بہتر ہیں۔ بعض اوقات میں خود کو بالکل تنہا محسوس کرتا ہوں اور میرے دل میں یورپ، خاص طور پر جرمنی، کو دیکھنے کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ براہِ کرم مجھے اپنے دل میں اور اپنی یادوں میںایک چھوٹی سی جگہ دیجیے گا۔ آپ کا دوست، ایس ایم اقبال۔۔۔ بنام ایما Deutschland uber alles Lahore (India) 20th July 09 Mein liebes Fraulein Emma, Es ist so gut von Ihnen an mich zu schreiben. Es erfreut mich sehr viel ein Brief von Ihnen zu haben, und ich warte angstlich auf der Zeit Sie noch einmal ins Ihre Heimat zu besuchen. Bitte schreiben Sie an mich immer und immer. Deutschland habe ich sehr gern - er hat eine grosse Einfluss über meine Idealen gemacht, und ich werde neimals vergessen meinen Aufenthalt ins Deutschland. Ich lebe hier ganz allein und finde mich sehr traurig. Unsere Schicksal ist nicht in unserem eigenen Händen. Es gibt ein grosser Macht welcher unseren leben reguliert. Frau Professor, Herr Professor und alle Damen und Herren habe ich immer in meinem Herzen. 0 die Tag als ich in Deutschland war! Fraulein Faizi ist in Bombay. Ihr Mutter ist tot und sie war sehr traurig. Sie ist ein wenig besser nun. Manchmal ich fühle mich ganz allein und finde mich in einem grossen Sehnsucht nach Europa und Deutschalnd in speziel. Bitte geben Sie mir einen kleinen Platz in Ihrem Herzen und Erinnerung. Ihre Freund S. M. Iqbal Bar-at-Law ۹۸ اگست میں مخزن میں اقبال کی نظم ’دو ستارے‘ شائع ہوئی۔ ۹۹ اقبال اور عطیہ فیضی کی دوستی میں یہ عجیب واقعہ ہے کہ عطیہ لاہور آنے والی تھیں مگر اقبال کو خبر نہ دی۔ اقبال کو دوسروں کی زبانی معلوم ہوا۔ اچھا نہ لگا۔ عطیہ نے لاہور میں بھی ملاقات کی کوشش نہیں کی۔ اتفاق سے دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ تفصیل موجود نہیں۔ بعد کے ایک خط میں صرف ہلکا سا اشارہ ہے۔ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ واقعہ کب پیش آیا۔ممکن ہے عطیہ ان کے جنجیرہ نہ آنے پر ناراض رہی ہوں۔ پہلے والدہ کی تعزیت کے لیے بھی نہ آسکے تھے۔۵۸ ۱۰۰ کچھ عرصہ پہلے اقبال نے خواب میں جہنم کا جو منظر دیکھا اور عطیہ فیضی کو خط میں بیان کیا تھا اُسے نظم کر دیا۔ عنوان رکھا ’سیر ِ فلک‘۔ اُس وقت اندازہ نہ رہا ہو گا کہ آسمانوں کی سیر کا موضوع بہت پھیل کر آخرکار اُن کے سب سے بڑے شاہکار کا عنوان بنے گا۔ ۵۹ ۱۰۱ مرزا جلال الدین کی کوٹھی چیمبرلین روڈ پر تھی جو انارکلی سے قریب تھی چنانچہ اقبال کا آنا جانا بڑھ گیا۔ کبھی کبھی ہائی کورٹ سے اپنی گھوڑا گاڑی پوربی سائیس کے ساتھ واپس بھجوا کر مرزا جلال الدین کی گاڑی ہی میں اُن کے دفترچلے جاتے اور دیر گئے تک ان کے ساتھ رہتے یا صبح ہونے تک رک جاتے۔ اب نواب ذوالفقار علی خاں بھی ان دوستوں میں شامل ہو گئے اور بلاناغہ کبھی نواب صاحب کے گھر اور کبھی مرزا صاحب کے گھر محفلیں جمنے لگیں۔ اُن دنوں پنجاب کے مسلمانوں کا رہنما بننے کے لیے میاں محمد شفیع کی نواب ذوالفقار کے ساتھ کشمکش چل رہی تھی۔ وہ اِن تینوں دوستوں کو ازراہِ مذاق’’ٹرائیو‘‘ ) trio (یعنی اصحابِ ثلاثہ کہتے تھے۔ اِن دوستوں میں میاں شاہنوازکا اضافہ ہوا اور اُن کے وقت کا اکثر حصہ بھی یہیں گزرنے لگا۔ جوگندر سنگھ اور امراؤسنگھ شیرگل بھی شامل ہوئے ۔ جوگندر سنگھ کو اقبال ’جوگی‘ کہتے تھے۔۶۰ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: میرے ہاں اکثر شام کے وقت محفل ِ سرود برپا ہوا کرتی تھی۔ جب اقبال سے میری ملاقات ہوئی تو اُن پر بھی اِس مجلس کا حال کھلا۔ اُدھر میں نے بھی مولوی احمد دین سے اُن کی داستان سن لی تھی۔ دونوں طرف سے کشش تھی اور پہلی ہی صحبت میں ہم سمجھ گئے۔۔۔ چنانچہ اقبال کی شمولیت کے بعد اِن صحبتوں کی تعداد اور دلکشی میں ایک گونہ اضافہ ہو گیا۔۔۔ بعض اوقات اقبال پر ایک معنی خیز سکوت سا چھا جاتا اور وہ یوں دکھائی دینے لگتے کہ گویا کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ پھر وہ یکلخت یوں چونک پڑتے گویا نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ اس حالت کے ظاہر ہوتے ہی سمجھ جاتے کہ ان کے دل پر کوئی وجدانی کیفیت طاری ہے اور وہ شعر کی فکر میں ہیں۔ یہ کئی مرتبہ میرے مشاہدے میں آیا کہ جب اقبال کا دل کسی جذبے سے متاثر ہوتا تو وہ گرد و پیش کے حالات سے بالکل بے خبر ہو جاتے۔ بہرکیف ان نشاط افزا صحبتوں میں اقبال کی ظرافت پرور طبیعت اپنے زوروں پر نظر آتی اور ان کی زبان سے ایسے ایسے لطیف فقرے چست ہوتے اور ایسی دلفریب پھبتیاں نکلتیں کہ سننے والے پھڑک اٹھتے، مگر ان کے مذاق میں واہیات باتوں اور بیہودہ گفتار کا کوئی دخل نہ ہوتا۔ جب کبھی اقبال مرزا جلال الدین کے گھر رات گزارتے تو وہ دیکھتے کہ اقبال صبح اٹھ کر نماز پڑھتے اور پھر خوش الحانی سے دیر تک قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے۔مرزا جلال الدین کا بیان ہے: اُن کی تلاوت سن کر بڑا لطف آتا تھا اور ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ پھر چائے پی کر وہ اپنے ہاں چلے جایا کرتے تھے۔۶۱ ۱۰۲ مرزا جلال الدین کا نوکر ستار بجانے کا ماہر تھا اور مسدس حالیبھی سناتا تھا۔ اقبال اُس کے ساتھ بیٹھ کر ستار بجانے کی مشق کرتے اور مسدس بھی سنا کرتے۔ گانے والیاں بھی کبھی کبھی نعت پڑھتی تھیں۔ اِن محفلوں میں شائد صرف حالی کی شاعری اور نعتیںنہ پڑھی جاتی ہوں مگر یہ اِندرسبھا کا اکھاڑا بھی نہ تھیں۔اُس زمانے کے رواج کے مطابق وقت گزارنے کا انتظام تھا۔ ۱۰۳ ’’میاں شفیع کی آرزو تھی کہ [پنجاب مسلم لیگ کے] صدر بن جائیں،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ وغیرہ نے کوشش کی کہ ڈاکٹر اقبال کو صدر بنایا جائے۔‘‘اقبال نے اپنی جگہ نواب ذوالفقار علی خاں کا نام پیش کیا۔ اس پر برکت علی محمڈن ہال میں کامیاب جلسہ ہوا۔ میاں محمد شفیع نے میاں شاہ دین سے شکایت کی۔ ’’میاں شاہ دین نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ اور شفیع گہرے دوست ہیں، پھر جھگڑا کیوں؟‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’میں نے کہا کہ یہ میاں صاحب کی غلطی ہے، میں اُن کا مخالف نہیں ہوں،لیکن نواب ذوالفقار علی خاں اور ڈاکٹر اقبال کا بھی دوست ہوں۔ میاں صاحب بولے کہ میری گاڑی میں بیٹھئے، ابھی میاں شفیع صاحب کے ہاں چلتے ہیں۔‘‘ راستے میں میاں شاہ دین نے کہاکہ میاں محمد شفیع کمزور ہیں اور دوستوں پر بھروسہ نہیں رکھتے۔ کوٹھی پہنچ کر مرزا جلال الدین اور میاں محمد شفیع کو گلے ملوایا اور پھر کہا، ’’ڈاکٹر اقبال کو لے کر میرے پاس آئیے۔‘‘ مرزا جلال الدین نے جواب دیا، ’’ہم نواب ذوالفقار علی خاں کو چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘ ۶۲ ۱۰۴ اگست کے شروع میں حسن نظامی کی طرف سے کوئی رسالہ ملا۔ انہوں نے اقبال کو بھولنے کا الزام دیا۔ ۲ اگست کو اقبال نے لکھا: میں فراموش کار نہیں ہوں۔ البتہ اگر آپ کو یہ خطاب دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ پنجاب میں نظامی مشہور ہوں اور آپ خبر نہیں لیتے۔ ۱۰۵ محمد دین فوق ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔ اس مہینے اپنی شاعری کے مجموعے کے پروف لے کر اقبال کے پاس آئے۔ سنہ وار ترتیب دیا تھا۔ ہر نظم سے پہلے مختصر الفاظ میں شانِ نزول بیان کی تھی۔ اقبال نے کمالِ نضرِ فوق تاریخ نکالی۔ چھ مصرعوں میں نظم کی۔۶۳ ۱۰۶ ۱۱ ستمبر کو پیسہ اخبار میں اعلان شائع ہوا کہ پنجاب مسلم لیگ کا اجلاس۲۱ سے ۲۳ اکتوبر تک منعقد ہوگا۔ میاں محمد شفیع اور شیخ عبدالقادرکے علاوہ اقبال بھی سیاسی موضوعات پر اظہارِ خیال کریں گے۔۶۴ ۱۰۷ ۹ اکتوبر کو گورنمنٹ کالج کے کسی پروفیسر ایم سعید نے ڈبلیو اسٹینلے جیونز کی کتاب Elementary Lessons in Logic Deductive and Inductiveخریدی یا کسی اور وجہ سے اس پر دستخط کیے۔ بعد میں یہ اقبال کی کتابوں کے مجموعے میں پہنچی مگر تفصیل معلوم نہیں۔ ۶۵ ۱۰۸ امریکہ کے شمال مشرق میں دریائے کنٹکٹی کٹ کے کنارے ہارٹ فورڈ کے شہر میں مسیحیت کی مذہبی تعلیم کے ادارے میں پروفیسر ڈنکن بلیک میکڈونلڈ اِسلامی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ متعصب تھے۔ تین برس پہلے شکاگو یونیورسٹی نے اسلام میں مذہبی زندگی اور رویے کے موضوع پر خصوصی ہاسکل لیکچرز کے لیے انہیں بلوایا تھا۔ اِس برس یہ لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے: Religious Life and Attitudes in Islam پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا تھا۔ بعض مقامات پر کُھل کر مذاق اُڑایا تھا۔ صاف صاف لکھا تھا کہ آپؐ کو بنی اسرائیل کے نسبتاً کم اہم پیغمبروں کے ساتھ بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کے سرچشمے کو کسی نفسیاتی مرض میں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی میں مخطوطوں اور نادر کتابوں کے مطالعے سے میک ڈونلڈ نے اِسلام کے بارے میں وسیع معلومات جمع کر لی تھیں۔ اسلامی دنیا میں چند ہی عالم مقابلہ کر پاتے۔ پھر بھی اسلامی تہذیب کا تجزیہ علمی نقطۂ نظر کی بجائے کالے علوم کی روشنی میں کرنے کو زیادہ مناسب قرار دیا۔ ۶۶ ۱۰۹ ۱۲ اکتوبرکو اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر کے طور پر عارضی چارج لے لیا۔ اس زمانے میں آرٹس کے ہر سینئر پروفیسر کو بی اے کے طلبہ کو انگریزی بھی پڑھانا ہوتی تھی۔چنانچہ بی ایس سی کے طلبہ کو پی جی ہیمرٹن کی ہیومن انٹرکورس (Human Intercourse) اور ہیل کی مرتب کی ہوئی لونگر انگلش پوئمز(Longer English Poems) پڑھانا بھی اقبال کے فرائض میں داخل تھا۔اِن طلبہ میں اقبال کے کالج کے زمانے کے دوست فضل حسین کے چھوٹے بھائی افضل حسین بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں دو پیریڈ ایف اے کے طلبہ کی انگریزی کے بھی انہیں لینے تھے۔ اِن میں اقبال کے دوست میاں نظام الدین کے لڑکے میاں اسلم بھی تھے جنہوں نے اُسی برس میٹرک کیا تھا۔ شاعری بھی کرتے اور خوشی محمد ناظرؔ سے اصلاح لیتے تھے۔۶۷ ۱۱۰ ۱۷ اکتوبر کو شبلی جنجیرہ میں عطیہ فیضی کے گھر ایک ہفتہ گزارنے کے بعد بمبئی پہنچے اور جنجیرہ کی ’’صحبت ہائے رنگیں‘‘ کو یاد کر کے ایک قطعہ لکھا جس کا آخری شعر بہت مشہور ہوا: اب نہ وہ صحبت نہ وہ جلسے نہ وہ لطف ِ سخن خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا ۱۱۱ اقبال کی عادت تھی کہ کلاس روم میں داخل ہو کرتختۂ سیاہ کے اُس رُخ کو جو پہلے سے طلبہ کی طرف ہوتا اُلٹا دیتے اوردوسرا رُخ استعمال کرتے۔ اگر کوئی پچھلے گھنٹے کے نوٹس نہ لکھ سکا ہوتا تو اُس کا نقصان نہ ہوتا۔ پہلے حاضری لیتے۔ اس کے بعد انگریزی نظم کا ایک بند خوبصورتی اور صفائی سے پڑھتے اور تختۂ سیاہ پر لکھتے جاتے۔ اُس کے مختلف حصوں کے ہم معنی اردو اور فارسی کے اشعار اور کبھی کبھی عربی کا کوئی شعر بھی لکھ دیتے۔ پہلے ان سب اشعار کی تشریح اس طرح کرتے کہ اُن کی فنی خوبیوں پر بھی روشنی پڑتی اور اس کے بعد اصل انگریزی نظم کے بند کی طرف متوجہ ہوتے۔ اشعار کو اس طرح موازنہ کر کے پڑھانے کا طریقہ اپنے اُستادمولوی میر حسن سے لیا تھا۔ ایک شاگرد محمد علی قصوری کا کہنا ہے: ڈاکٹر صاحب (اقبال) مختلف نظموں کی تشریح اس طرح کرتے تھے کہ انگریز شاعر ہمارے مشرقی شاعروں سے بہت قریب معلوم ہوتے تھے۔ طلبہ لیکچر کے ضروری نکات نوٹ کرتے جاتے، خاص طور پر تختۂ سیاہ پر لکھی ہوئی چیزیں تو ضرور نوٹ بک میں منتقل ہو جاتیں۔ لیکچر تمام انگریزی میں ہوتا مگر الفاظ کی ادائیگی میں پنجابی طلبہ کی سہولت کا خیال رکھتے۔ عام طور پر ایک پیریڈ میں ایک بند سے زیادہ نہ پڑھاتے اور اپنا موضوع ختم کرتے ہی کلاس روم سے چلے جاتے خواہ ابھی پینتالیس منٹ کا پیریڈ ختم ہونے میں دس پندرہ منٹ باقی ہی کیوں نہ ہوں۔ میاں اسلم کا بیان ہے: وہ اس زمانے میں ایک قومی شاعر کی حیثیت سے منظر ِ عام پر ابھر رہے تھے اس لیے طلبہ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ دورانِ تدریس وہ ہمیشہ سنجیدہ اور پروقار رہتے تھے۔ بعض اساتذہ کے طریقِ کار کے برعکس صرف اپنے موضوع ہی سے تعلق رکھتے، اِدھر اُدھر کی باتیں اُنہوں نے کبھی نہیں کیں اور نہ کبھی ٹرخانے کی کوشش کی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہمیشہ تیاری کر کے آتے تھے۔ طلبہ سے سبق بھی نہ سنتے تھے اور نہ ہی بلند آواز میں کتاب پڑھوانے کے قائل تھے بلکہ ہمیشہ خود ہی پڑھ کر سناتے تھے۔ ہفتہ وار یا ماہانہ آزمایشی پرچہ بھی نہ لیتے تھے۔ ایف اے کے طلبہ کو اقبال کے علاوہ پروفیسر گلبرٹ بھی انگریزی پڑھاتے اور اگرچہ والٹر اسکاٹ کا ناول آئیون ہو Ivanhoe) (اور رومن معاشرت کے بارے میں ایک کتاب اُن کے ذمے تھی مگر پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ طلبہ اُکتا جاتے۔ اس کے برعکس اقبال کی کلاس میں حاضری سب سے زیادہ ہوتی۔ افضل حسین کا بیان ہے: اقبال نے ہیمرٹن کے تصورات کو ذاتی تجربات سے مثالیں دے کر ہمیں سمجھایا۔ اُنہوں نے انسانی روابط میں کئی ایسی غلط فہمیوں کی مثالیں دیں جو اس وجہ سے پیش آتی ہیں کہ مختلف معاشروں میں لوگ چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں یورپ کے زمانے کے اُس دوست کی مثال بھی دی جس کی انگریز دوست ناراض ہو گئی تھی۔ ہیل کی لونگر انگلش پوئمز پڑھاتے ہوئے اقبال کی بات ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ اقبال جیسے مرتبے کے شاعر کو کسی نظم کی خوبیوں پر بات کرتے ہوئے اور اُن معانی کی وضاحت کرتے ہوئے سننا جو شاعر کے ذہن میں تھے بہت مزے کا تجربہ تھا۔ اقبال کا اصل مضمون فلسفہ تھا جس کی تدریس کے بارے میں ایک طالب ِ علم خادم محی الدین کا بیان ہے: اس کے ادق نکات ایسی وضاحت سے بیان فرماتے کہ مضمون آئینہ ہو جاتا تھا۔ چونکہ پروفیسر بریٹ کی طرح برق رفتار نہ تھے اور ہماری ذہنیت سے واقف تھے اس لیے میں ان کے لیکچروں کا بیشتر حصہ کلاس ہی میں قلمبند کر لیتا تھا۔ گھر جا کر ہر لیکچر کے نوٹ دوبارہ صاف کر کے لکھ لیتا۔۶۸ ۱۱۲ بعض شاگرد اقبال کے گھر آکر اُن سے علمی باتیں دریافت کرتے۔ ان میں محمد علی قصوری اور میاں اسلم شامل تھے۔’’انگریز شاعروں میں سے ڈاکٹر صاحب ورڈزورتھ، شیلے اور کیٹس کو بہت پسند کرتے تھے،‘‘ محمد علی قصوری کا بیان ہے۔ سید محمد علی جعفری اسلامیہ کالج کے پرنسپل تھے۔ مذہبی خیالات رکھنے والے شیعہ عالم تھے۔ اقبال اور طلبہ کا میل جول پسند نہ کرتے۔ اُن کا بیان ہے: جو تبادلہ ٔ خیالات ہوتا، آزادانہ اور بے تکلف ہوتا۔ میرا خیال تھا کہ طلبہ سے اس قسم کی گفتگو نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں نے اُن سے کہہ بھی دیا۔۶۹ ۱۱۳ ۲۱ سے ۲۳ اکتوبر پنجاب مسلم لیگ کے جس اجلاس کا اعلان ہوا تھا معلوم نہیں وہ ہوا یا نہیں۔ ۱۱۴ وائسرائے اور وزیر ِ ہندکی تجاویز بالآخرمکمل ہو کر اور برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہو کر۱۵ نومبر ۱۹۰۹ء کو سامنے آگئیں اورعوام میں منٹومارلے اصلاحات کے نام سے مشہور ہوئیں۔جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا تھا۔ میاں محمد شفیع کی بیٹی جہاں آرا کا بیان ہے: جس روز اصلاحات کا اعلان ہوا کیا میں ابا جان کی اُس روز کی خوشی کبھی بھول سکتی ہوں؟اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور انہوں نے کہا، بر ِ صغیر میں مسلمان قوم کا علیحدہ وجود ہمیشہ کے لیے تسلیم ہو گیا ہے اور میں خدا تعالیٰ کا شکرگزار ہوں جس نے ہماری کوششوں کو کامیاب کیا۔۷۰ ۱۱۵ پنجاب کی مجلس قانون ساز جو بارہ برس پہلے قائم ہوئی تھی نئی اصلاحات کے تحت اُس کے ارکان تعداد بڑھا کر چھبیس کر دی گئی۔ ان میں سے کم سے کم دس نامزد اور کم سے کم پانچ منتخب ہونے تھے۔ صوبہ جس میں دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش اور چندی گڑھ کے علاقے بھی شامل تھے پانچ ضلعوں میں تقسیم تھا۔ کئی ریاستیں بھی تھیں جن کے حکمرانوں کے برطانوی حکومت کے ساتھ علیحدہ معاہدے ہوئے تھے۔ اکثر ضلعوں کے کمشنر اپنے علاقے کی ریاستوں کے نگراں بھی تھے۔ ۱۱۶ انگلستان سے جنوبی افریقہ جانے والے بحری جہاز پر گاندھی موجود تھے۔ لندن میںدوبارہ سید امیر علی سے ملاقات ہوئی تھی۔اب اپنی مادری زبان گجراتی میں لکھ رہے تھے: ہندوستان ایک ہی قوم ہے اگرچہ اس میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں،‘‘ گاندھی اپنی مادری زبان گجراتی میں لکھ رہے تھے۔ ’’غیرملکیوں کی آمد ہمیشہ قوم کو ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ اس میںجذب ہو جاتے ہیں۔ کوئی ملک ایک قوم تبھی ہو سکتا ہے جب اِس قابل ہو جائے۔ ایسے ملک میں جذب کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ہندوستان ہمیشہ ایسا ہی ملک رہا ہے۔ درحقیقت ہر شخص کا مذہب الگ ہے مگر جو قومیت کی روح سے واقف ہیں وہ ایک دوسرے کے مذہب میں دخل نہیں دیتے۔ اگر ہندو سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہونے چاہئیں تو خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ہندو، مسلمان، پارسی اور عیسائی جنہوں نے ہندوستان کو اپنا ملک بنایا ہے، ہموطن ہیں اور اُنہیں متحد ہو کر جینا پڑے گا خواہ محض اپنے فائدے کی خاطر ہی سہی۔ دنیا کے کسی حصے میں قومیت اور مذہب کے معانی ایک نہیں، نہ ہی کبھی ہندوستان میں ایسا ہواہے۔ آخری بات تاریخی طور پر درست نہ تھی۔۷۱ ۱۱۷ گورنر کی قانون ساز کونسل منتخب ہونے والی تھی چنانچہ لاہور کے مسلمانوں میں بھی ہلچل مچی۔پنجاب میں مسلمانوں کے صرف دو بڑے رہنما تھے، میاں محمد شفیع اور نواب ذوالفقار علی خاں۔ اُن کی ایک دوسرے سے کشمکش مشہور تھی مگر اُنہی دنوں سر بہرام خاں مزاری بلوچ لاہور آئے تواُنہوں نے فیصلہ کروایا کہ آپس میں مقابلہ کر کے اپنی قوتیں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ میاں صاحب منتخب ہو ں اور اگلی دفعہ نواب صاحب کو موقع دیا جائے۔ دونوں مان گئے اور گورنر کی کونسل کے لیے مسلمانوں کی طرف سے میاں محمد شفیع کا نام پیش ہوا۔ ۱۱۸ نواب ذوالفقار علی خاں کو مہاراجہ پٹیالہ نے اپنی ریاست کا وزیراعظم بنا لیا اور وہ وہاں چلے گئے۔ پھر اپنے گہرے دوست جوگندر سنگھ کو بھی بلوا لیا جو ریاست کے ہوم منسٹر بن گئے۔۷۲ ۱۱۹ مہاراجہ کشمیر پرتاپ سنگھ کبھی کبھی لاہور آکر کشمیر ہاؤس میں قیام کرتے تھے۔ فوق کشمیری مسلمانوں کا ایک وفد لے کر اُن کے پاس جانے والے تھے۔ فوق سے روایت ہے کہ اقبال سے درخواست کی۔ انہوں نے انکار کیا اور کہا: جو مہاراجہ دن کے بارہ بجے سے پہلے کسی مسلمان کا منہ دیکھنا گوارا نہیں کرتا میں کسی وقت بھی اُس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جس کے شہر جمّوں کا نام صبح ہی صبح لینا نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو تک منحوس سمجھتے ہیں، اُس منحوس شہر کا رہنے والا مسلمان کو منحوس سمجھ کر اُس کی شکل سے نفرت کرتا ہے! فوق نے سمجھانا چاہا کہ بارہ بجے سے پہلے مہاراجہ اشنان، پوجا پاٹ اور حقہ پینے میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے وزیر بھی بارہ بجے سے پہلے اُن سے نہیں مل پاتے مگر اقبال جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ملاقات کا وقت آٹھ بجے شام تھا۔ فوق اور وفد کے باقی ارکان کشمیر ہاؤس پہنچے جہاں ایک چھوٹے سے خیمے میں انتظار کرنے کے بعد رات نو بجے سب کو بڑے کمرے میں بلایا گیا۔ کمرے میں انگیٹھی جل رہی تھی اور مہاراجہ گاؤتکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ وفد فرش پر بیٹھ گیا۔ مہاراجہ نے معروضات کے جواب میں کہا، ’’دیوان صاحب آپ سے گفتگو کر چکے ہیں، وہ آپ کی باتوں کا خیال رکھیں گے۔ سرکار کو خود بھی خیال ہے۔‘‘ اس کے بعد خاموشی ہو گئی۔ سب سلام کر کے چلے آئے۔۷۳ ۱۲۰ الٰہ آباد سے شائع ہونے والے انگریزی جریدے ہندوستان ریویو کے دسمبر کے شمارے میں اقبال کے انجمن حمایت اسلام والے لیکچر کی دوسری اور آخری قسط شائع ہوئی۔ Islam as a Moral and Political Ideal S. M. Iqbal [Part 2 of 2] Having discussed in the last issue of this Review the ethical ideals of Islam I now proceed to say a few words on the political aspect of the Islamic ideal. Before, however, I come to the subject I wish to meet an objection against Islam so often brought forward by our European critics. It has been said that Islam is a religion which implies a state of war and can thrive only in a state of war. Now there can be no denying that war is an expression of the energy of a nation; a nation which cannot fight cannot hold its own in the strain and stress of selective competition which constitutes an indispensable condition of all human progress. Defensive war is certainly permitted by the Quran; but the doctrine of aggressive war against unbelievers is wholly unauthorized by the Holy Book of Islam. Here are the words of the Quran: Summon them to the way of thy Lord with wisdom and kindly warning, dispute them in the kindest manner. Say to those who have been given the book and to the ignorant: Do you accept Islam? Then, if they accept Islam they are guided aright; but if they turn away then thy duty is only preaching; and God's eye is on His servants. All the wars undertaken during the lifetime of the Prophet were defensive. His war against the Roman Empire in 628 A.D. began by a fatal breach of international law on the part of the Government at Constantinople who killed the innocent Arab envoy sent to their Court. Even in defensive wars he forbids wanton cruelty to the vanquished. I quote here the touching words which he addresses [sic. addressed] to his followers when they were starting for a fight: In avenging the injuries inflicted upon us, disturb not the harmless votaries of domestic seclusion, spare the weakness of the female sex, injure not the infant at the breast, or those who are ill in bed. Abstain from demolishing the dwellings of the unresisting inhabitants, destroy not the means of their subsistence, nor their fruit trees, and touch not the palm. The history of Islam tells us that the expansion of Islam as a religion is in no way related to the political power of its followers. The greatest spiritual conquests of Islam were made during the days of our political decrepitude. When the rude barbarians of Mongolia drowned in blood the civilization of Baghdad in 1258 A.D., when the Muslim power fell in Spain and the followers of Islam were mercilessly killed or driven out of Cordova by Ferdinand in 1236, Islam had just secured a footing in Sumatra and was about to work the peaceful conversion of the Malay Archipelago. In the hours of its political degradation [says Professor Arnold], Islam has achieved some of its most brilliant conquests. On two great historical occasions, infidel barbarians have set their foot on the necks of the followers of the Prophet, the Seljuk Turks in the eleventh and the Mongols in the thirteenth century, and in each case the conquerors have accepted the religion of the conquered. We undoubtedly find [says the same learned scholar elsewhere] that Islam gained its greatest and most lasting missionary triumph in times and places in which its political power has been weakest, as in South India and Eastern Bengal. The truth is that Islam is essentially a religion of peace. All forms of political and social disturbance are condemned by the Quran in the most uncompromising terms. I quote a few verses from the Quran: ٌٌ* Eat and drink from what God has given you and run not on face of the earth in the matter of rebels. * And disturb not the peace of the earth after it has been reformed; this is good for you if you are believers. * And do good to others as God has done good to thee, and seek not the violation of peace in the earth, for God does not love those who break the peace. * That is the home in the next world which We build for those who do not mean rebellion and disturbance in the earth, and the end is for those who fear God, * Those who rebelled in cities and enhanced disorder in them, God visited them with His whip of punishment. One sees from these verses how severely all forms of political and social disorder are denounced by the Quran. But the Quran is not satisfied with mere denunciation of the evil of fesad. It goes to the very root of this evil. We know that both in ancient and modern times, secret meetings have been a constant source of political and social unrest. Here is what the Quran says about such conferences: "O believers, if you converse secretly-that is to say, hold secret conference, converse not for purpose of sin and rebellion." The ideal of Islam is to secure social peace at any cost. All methods of violent change in society are condemned in the most unmistakable language. Tartushi-a Muslim lawyer of Spain-is quite true to the spirit of Islam when he says: "Forty years of tyranny are better than one hour of anarchy." "Listen to him and obey him," says the Prophet of God in a tradition mentioned by Bukharee, "even if a negro slave is appointed to rule over you." Muslim mentioned another important tradition of the Prophet on the authority of Arfaja, who says: "I heard the Prophet of God say, when you have agreed to follow one man then if another man comes forward intending to break your stick (weaken your strength) or to make you disperse in disunion, kill him." Those among us who make it their business to differ from the general body of Mussalmans in political views ought to read this tradition carefully, and if they have any respect for the words of the Prophet, it is their duty to dissuade themselves from this mean traffic in political opinion which, though perhaps it brings a little personal gain to them, is exceedingly harmful to the interests of the community. My object, in citing these verses and traditions, is to educate political opinion on strictly Islamic lines. In this country we are living under a Christian Government. We must always keep before our eyes the example of those early Muhammadans who, persecuted by their own countrymen, had to leave their home and to settle in the Christian State of Abyssinia. How they behaved in that land must be our guiding principle in this country where an overdose of Western ideas has taught people to criticize the existing Government with a dangerous lack of historical perspective. And our relations with the Christians are determined for us by the Quran, which says: And thou wilt find nearer to the friendship of the believers those men who call themselves Christians. This is because among them there are learned men and hermits, and they are never vain. Having thus established that Islam is a religion of peace, I now proceed to consider the purely political aspect of the Islamic ideal-the ideal of Islam as entertained by a corporate individuality. Given a settled society, what does Islam expect from its followers regarded as a community? What principles ought to guide them in the management of communal affairs? What must be their ultimate object and how is it to be achieved? We know that Islam is something more than a creed; it is also a community, a nation. The membership of Islam as a community is not determined by birth, locality or naturalization; it consists in the identity of belief. The expression Indian Muhammadan, however convenient it may be, is a contradiction in terms since Islam in its essence is above all conditions of time and space. Nationality with us is a pure idea; it has no geographical basis. But in as much as the average man demands a material centre of nationality, the Muslim looks for it in the holy town of Mecca, so that the basis of Muslim nationality combines the real and the ideal the concrete and the abstract. When, therefore, it is said that the interests of Islam are superior to those of the Muslim, it is meant that the interests of the individual as a unit are subordinate to the interests of the community as an eternal symbol of the Islamic principle. This is the only principle which limits the liberty of the individual, who is otherwise absolutely free. The best form of Government for such a community would be democracy, the ideal of which is to let man develop all the possibilities of his nature by allowing him as much freedom as practicable. The Caliph of Islam is not an infallible being; like other Muslims he is subject to the same law; he is elected by the people and is disposed by them if he goes contrary to the law. An ancestor of the present Sultan of Turkey was sued in an ordinary law court by a mason, who succeeded in getting him fined by the town Qazee. Democracy, then, is the most important aspect of Islam regarded as a political ideal. It must however be confessed that the Muslims, with their ideal of individual freedom, could do nothing for the political improvement of Asia. Their democracy lasted only thirty years and disappeared with their political expansion. Though the principle of election was not quite original in Asia (since the ancient Parthian Government was based on the same principle), yet somehow or other it was not suited to the nations of Asia in the early days of Islam. It was, however, reserved for a Western nation politically to vitalize the countries of Asia. Democracy has been the great mission of England in modern times and English statesmen have boldly carried this principle to countries which have been, for centuries, groaning under the most atrocious forms of despotism. The British Empire is a vast political organism, the vitality of which consists in the gradual working out of this principle. The permanence of the British empire as a civilizing factor in the political evolution of mankind is one of our greatest interests. This vast Empire has our fullest sympathy and respect since it is one aspect of our political ideal that is being slowly worked out in it. England, in fact, is doing one of our own great duties, which unfavourable circumstances did not permit us to perform. It is not the number of Muhammadans which it protects, but the spirit of the British Empire that makes it the greatest Muhammadan Empire in the world. To return now to the political constitution of the Muslim society. Just as there are two basic propositions underlying Muslim ethics, so there are two basic propositions underlying Muslim political constitution: 1) The law of God is absolutely supreme. Authority, except as an interpreter of the law, has no [place?] in the social structure of Islam. We regard it as inimical to the unfoldment of human individuality. The Shi'as, of course, differ from the Sunnis in this respect. They hold that the Caliph or Imam is appointed by God and his interpretation of the Law is final; he is infallible and his authority, therefore, is absolutely supreme. There is certainly a grain of truth in this view; since the principle of absolute authority has functioned usefully in the course of the history of mankind. But it must be admitted that the idea works well in the case of primitive societies and reveals its deficiency when applied to higher stages of civilization. Peoples grow out of it, as recent events have revealed in Persia, which is a Shi'a country, yet demand a fundamental structural change in her Government in the introduction of the principle of election. 2) The absolute equality of all the members of the community. There is no aristocracy in Islam. "The noblest among you," says the Prophet, "are those who fear God most," There is no privileged class, no priesthood, no caste system. Islam is a unity in which there is no distinction, and this unity is secured by making men believe in the two simple propositions-the unity of God and the mission of the Prophet-propositions which are certainly of a supernatural character but which, based as they are on the general religious experience of mankind, are intensely true to the average human nature. Now, this principle of the equality of all believers made early Mussalmans the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it gave the individual a sense of his inward power; it elevated those who were socially low. The elevation of the down-trodden was the chief secret of the Muslim political power in India. The result of the British rule in this country has been exactly the same; and if England continues true to .this principle it will ever remain a source of strength to her as it was to her predecessors. But are we Indian Mussalmans true to this principle in our social economy? Is the organic unity of Islam intact in this land? Religious adventurers set up different sects and fraternities, ever quarrelling with one another; and then there are castes and sub-castes like the Hindus'. Surely we have out-Hindued the Hindu himself; we are suffering from a double caste system-the religious caste system, sectarianism, and the social caste system, which we have either learned or inherited from the Hindus. This is one of the quiet ways in which conquered nations revenge themselves on their conquerors. As in the beginning of April 660 A.D. 23 years after the Battle of Siffin, in the town of Mecca, a Muslim had stood up to tell the pilgrims of that sacred soil how the unity of Islam had been split up into various factions, so in the beginning of April in the town of Lahore, the soil of which claims the bones of some of the greatest personalities of Islam, I, an insignificant member of the community, venture to stand up and place my finger on this dreadful wound in the body-social. In this great assembly of educated Mussalmans, I condemn this accursed religious and social sectarianism; I condemn it in the name of God, in the name of humanity, in the name of Moses, in the name of Jesus Christ, and in the name of him-a thrill of emotion passes through the very fibre of my soul when I think of that exalted name-yes, in the name of him who brought the final message of freedom and equality to mankind. Islam is one and indivisible; it brooks no distinctions in it. There are no Wahabies, Sh'ias, Mirzais or Sunnies in Islam. Fight not for the interpretations of the truth, when the truth itself is in danger. It is foolish to complain of stumbling when you walk in the darkness of night. Let all come forward and contribute their respective shares in the great toll of the nation. Let the idols of class distinctions and sectarianism be smashed for ever; let the Mussalmans of the country be once more united into a great vital whole. How can we, in the presence of violent internal dispute, expect to succeed in persuading others to our way of thinking? The work of freeing humanity from superstition-the ultimate ideal of Islam as a community, for the realization of which we have done so little in this great land of myth and superstition-will ever remain undone if the emancipators themselves are becoming gradually enchained in the very fetters from which it is their mission to set others free. Hindustan Review, Allahabad, December 1909 ۱۲۱ اس برس جرمن یونیورسٹیوں میں منظور ہونے والے مقالات کے سالانہ ریکارڈ کا ۲۳واں جزو شائع ہوا۔ ۱۵ اگست ۱۹۰۷ء سے ۱۴ اگست ۱۹۰۸ء کے عرصے پر محیط تھا: Verzeichnis der an den Deutchen Universitaten Jahres Erschienenen Schriften XXIII, 15 August 1907 Bis 14 August 1908, Berlin, verlang vol Behrend & Co. 1909 اندراج نمبر۲۰۸ جو صفحہ۵۴۴ پر تھا، اقبال کے مقالے کے بارے میں تھا جو ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو میونک یونیورسٹی سے منظور ہوا تھا۔ مقالے کے آغاز میں درج کی ہوئی اقبال کی ہجری تاریخِ ولادت کو عیسوی میں تبدیل کر کے اس ریکارڈ میں درج کیا گیا تھا: ۹ نومبر ۱۸۷۷ئ۔ Iqbal S(heikh) M(uhammad). M.A. (Assist. Professor an der universität Lahore, Indien. The Development of Metaphysics in Persia London: Luzac Co. 1908 (XII + 195 S (صفحات) 8o (Octavo Phil. Fak Ref (Erent) Hommel München Dissertation Von 4 Nov 1907 (Geb. 9 Nov. 77 Sialkot (Prov. Punjab) Staatangeh (Öriger): Britisch Indien) Wohnort : Lahore Vorbildund: Gymn (Asium) Sialkot Refe Mai 93 Studium: Pubjab Univ. Sccotch Mission College Sialkot, Lahore Gov. College B.A. 97 M.A. 98; Rig (Orosum) 4 Nov 07۷۴ ۱۲۲ شبلی نعمانی کی شعرُالعجم کی دوسری جلد سال کے آخر میں شائع ہو گئی۔ ۱۲۳ اُس برس لوزاک لندن سے شائع ہونے والی آرتھر گلن لیونارڈ کی کتاب Islam, Her Moral and Spiritual Value and Psychological Studyجس پر سید امیر علی نے پیش لفظ لکھا تھا، اقبال کی بیوی کریم بی بی کے بھائی شیخ غلام محمدکے پاس آئی اور کبھی اقبال کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئی۔۷۵ تیسرا حصہ ۱۲۴ اقبال کے دوست اکثر پوچھتے، ’’کیا آپ خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں؟‘‘ اقبال سمجھتے تھے کہ یہ سوال پوچھنے والوں کو وضاحت کرنی چاہیے کہ ’’یقین‘‘، ’’وجود‘‘ اور ’’خدا‘‘ سے مراد کیا ہے۔ خاص طور پر دونوں آخری اصطلاحات کے معانی درکار تھے۔ اقبال اعتراف کرتے تھے کہ ان اصطلاحات کو نہیں سمجھتے۔ دوستوں پر جرح کرتے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نہیں جانتے۔۷۶ الجیلی نے خدا کے وجود پر بحث کے لیے مابعدالطبعیات کا راستہ اختیار کیا تھا۔ چھ درجات بیان کیے تھے۔ وہ درجات انسان اور خدا کے مقامات کے درمیان سیڑھیوں کی طرح تھے۔کبھی اقبال نے اس موضوع پر لکھا تھا۔ اب مجاز کا زمانہ گزر چکا تھا۔ فلسفیانہ مباحث ناکافی معلوم ہو رہے تھے۔ الجیلی والے درجات یعنی تنازیل ِستہ استعارے تھے۔ حقیقت نہیں تھے جیسا کہ بعض فلسفی سمجھ بیٹھے۔ حقیقت سمجھے جانے کا نہیں، دیکھے جانے کا تقاضا کرتی تھی۔ ۱۲۵ ۱۵ جنوری کو انگلستان میں عام انتخابات شروع ہوئے۔ لبرل پارٹی جاگیرداروں پر مناسب ٹیکس نہ لگا سکی تھی۔ وجہ اُمرأ کی طاقت تھی۔ انتخابی مہم میں لبرل پارٹی نے یہ طاقت کم کرنے پر خاصا زور دیا۔ کنزرویٹو پارٹی اُمرأ کی حمایت کر رہی تھی۔ ۱۲۶ ۲۲جنوری ۱۹۱۰ء کی رات تھی۔ محمد حسین آزادلاہور میںؔ انتقال کر گئے۔خبر پھیل گئی۔ اگلے روز محرم کی دس تاریخ تھی۔ جنازہ ۲۴ جنوری کو اُٹھا۔ تاریخِ وفات اُس کی جو پوچھے کوئی حالیؔ کہہ دو کہ ہوا خاتمہ اُردو کے ادب کا۷۷ ۱۲۷ ایک روز اقبال کمرۂ جماعت میں داخل ہوئے اور عادت کے مطابق تختۂ سیاہ کو پلٹایا تو دوسری طرف ٹینی سن کی نظم 'And We Kissed Again With Tears' کا اُردو ترجمہ لکھا تھا: پہنچے جب گور پر اِس طور سے دونوں باہم میاں اسلم کہتے ہیں کہ اقبال نے سنجیدگی سے انگریزی میں پوچھا، ’’یہ کس نے لکھا ہے؟‘‘میاں اسلم نے کھڑے ہو کر انگریزی ہی میں ادب سے کہا، ’’سر، یہ میں نے لکھا ہے۔‘‘ اقبال مزید کچھ کہے بغیر سبق پڑھانے میں مصروف ہو گئے۔۷۸ ۱۲۸ ۱۰ فروری کو انگلستان میں انتخابات ختم ہوئے۔ عوام نے جاگیرداروں کے حق میں زیادہ ووٹ دیے تھے۔ کنزرویٹو پارٹی پچھلے انتخابات ہاری تھی، اِس دفعہ لبرل کے برابر آ گئی۔ ۱۲۹ ۲۰ فروری کو انجمن حمایت اسلام کے گریجویٹ ارکان کے انتخاب کے لیے جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ اقبال جو۱۹۱۲ء تک کے لیے مجلس انتظامیہ کے رکن منتخب ہو چکے تھے اب جنرل کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ ۱۳۰ ۲۵ فروری کو وائسرائے کی کونسل میںمحمد علی جناح کی شخصیت کھل کر سامنے آگئی۔ انہیں پہلی دفعہ وائسرائے کی کونسل میں بولنے کا موقع ملا۔ جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں سے بیگار لینے کی پالیسی پر اعتراض کیا۔ اُسے سخت بے رحم اور ظالمانہ قرار دیا۔ لارڈمنٹو نے اپنے مخصوص انداز میں انہیں جھڑک دیا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت دوست ہے، وائسرائے اپنی کونسل میں اُس کے لیے اس قسم کے الفاظ سننا پسند نہ کریں گے، جناح کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ لفظ ’’ظالمانہ‘‘ کو واپس لے لیں۔ جناح نے انتہائی سرد لہجے میں وائسرائے کو جواب دیا، ’’جنابِ والا! میں تو اِس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کرنا پسند کروں گا مگر میں اِس کونسل کے ضابطوں سے واقف ہوں اور میں ذرّہ برابر بھی اُن سے باہر نہیں نکلا ہوں۔‘‘ سب نے دیکھا کہ وائسرائے سنّاٹے میں آگیا تھا۔ پھر بیرسٹر جناح نے قانونِ وقف کے بارے میں سوال اٹھایا۔ اسلامی شریعت کے مطابق اگر کوئی مسلمان مرتے ہوئے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ مذہبی کاموں کے لیے وقف کر جاتا تو وہ ٹیکس سے مستثنیٰ اور ناقابل ِ فروخت ہوتا۔ بیس بائیس برس پہلے انگریز حکومت نے دوسرا قانون بنایا تھا۔ قانونِ وقف معطل ہو گیا تھا۔ ’’کیا حکومت مسلمانوں کی خواہشات کے برعکس پریوی کونسل کے پاس کیے ہوئے قانونِ وقف اور خصوصاً وقف علی الاولاد سے متعلق قانون بنانا تجویز کرتی ہے؟‘‘جناح نے پوچھا۔ وائسرائے کے انگریز لأممبر ایڈورڈ تھامسن نے کہا کہ فی الحال حکومت مناسب نہیں سمجھتی کہ پریوی کونسل جو برطانوی عدالتی نظام کا سب سے اونچا ادارہ ہے اُس کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے لیے کوئی قانون بنایا جائے۔ ۱۳۱ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مسٹر کھوسلہ طلبہ کو ترجمے کی مشق کرواتے۔ عام طور پر متعصب سمجھے جاتے تھے۔ چن چن کر ایسے اقتباسات لاتے تھے جن میں اسلامی تاریخ کی مقبول شخصیتوں کی توہین ہوئی ہو۔ ورنہ کسی اور طرح مسلمانوں کی دل آزاری ہوسکے۔ ایک روز میاں اسلم نے کلاس میں کھڑے ہو کر کھوسلہ صاحب سے انگریزی میں پوچھا کہ کب تک ان کے ضمیر کو مجروح کرتے رہیں گے:"Sir, how long will you abuse our conscience?" کھوسلہ صاحب نے غضبناک ہو کر کلاس سے نکل جانے کا حکم دیا، "Get out!" میاں اسلم کہتے ہیں کہ تمام طلبہ کلاس رُوم سے نکل گئے۔ غالباً مراد مسلمان طلبہ ہے۔ باہر لان پر بیٹھ گئے۔ بائیکاٹ دو دِن جاری رہا۔ خواجہ صادق اور کچھ دوسرے سرکردہ طلبہ اقبال کے پاس پہنچے۔ اُنہوں نے مذہبی جذبے کی تعریف کی۔ بائیکاٹ کی حمایت نہ کی۔ اسے ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ تیسرے دن کالج کے پرنسپل مسٹر رابسن نے طلبہ کو اکٹھا کیا۔ سخت گیری کے لیے مشہور تھے۔ اُن کے کچھ کہنے سے پہلے میاں اسلم نے صفائی پیش کرنی چاہی:"Sir, I beg to say..." رابسن صاحب نے میاں اسلم کی بات کاٹی۔ ایک گھنٹے کی مہلت دی۔ اُس کے بعد طلبہ کالج سے نکال دیے جاتے:"I give you one hour, otherwise I will expell you." طلبہ واپس کلاس روم میں پہنچ گئے۔ مسٹر کھوسلہ نے دل آزار اقتباسات منتخب کرنے ترک کر دیے۔۷۹ ۱۳۲ اقبال حیدرآباد دکن کے سفر کا ارادہ کر چکے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نظام محبوب علی خاں کی عجیب و غریب شخصیت اقبال کو مجبور کر رہی تھی کہ اُنہیں تصنیف و تالیف کے سلسلے میں اپنے عزائم سے واقف کر کے مسلمانوں کی بیداری میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ ۸۰ نواب صاحب کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں۔ جو مشغلہ ہاتھ آ جائے اُس میں دل لگاتے ہوئے دن اور رات کی پرواہ نہیں کرتے۔ دکن کے پرانے لوگوں میں ولی مشہور تھے۔ بیحد فیاض سمجھے جاتے تھے۔ داغ دہلوی کو اپنا استاد بنایا تو سارے جہاں کے تفکرات سے آزاد کر دیا۔ مولانا گرامی بھی دربار سے وابستہ تھے۔ حیدرآباد کی دو اہم شخصیات سے اقبال کا غائبانہ تعارف ضرور رہا ہوگا۔ یہ سر اکبر حیدری اور مہاراجہ کشن پرشاد تھے۔ اکبر حیدری کچھ روز پہلے تک ریاست میں فنانس کے معتمد تھے۔ اب عدالت و امورِ عامہ کا محکمہ رکھتے تھے۔ کشن پرشاد مغل زمانے کے ماہرِ اقتصادیات راجہ ٹوڈرمل کے خاندان سے تھے۔ مدارالمہام یعنی ریاست کے وزیراعظم تھے۔ اقبال نے سفر کے لیے گورنمنٹ کالج سے دس روز کی چھٹی (casual leave) لی۔ ۱۹ مارچ سے شروع ہونے والی تھی۔ ۱۳۳ عبدالماجد دریابادی اٹھارہ برس کے تھے۔ لکھنؤ کی کسی درس گاہ میں میں بی اے فلسفہ پڑھتے تھے۔ اسلام سے منحرف ہو چکے تھے۔ شبلی نعمانی کی علم الکلام دیکھ کر بھنائے۔ شبلی نے اسلام کو سچا مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بعض انگریزی کتب کے اقتباسات عربی ترجموں سے لیے تھے۔ عبدالماجد نے اُن مصنفوں کے نام نہ سنے تھے۔ سوچا کہ شبلی نے مغربی زبانوں سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے عربی کے کسی خلاصے پر اکتفا کیا ہے۔ ان کی معلومات غلط ہیں۔۸۱ مارچ میں لکھنؤ کے رسالے الناظرمیں تنقیدی مضامین کی پہلی قسط شائع ہوئی۔ عبدالماجد نے کتاب کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی لپیٹ میں لیا۔ ’’طالب ِ علم‘‘ کا قلمی نام اختیار کیا۔ بوڑھے شبلی کوقوم اور مذہب کی خدمت کا یہ صلہ ملا۔ پھر بھی دل ہی دل تھے۔ جاننے کی کوشش کی کہ فرضی نام سے لکھنے والا کون ہے۔ قابو میں آئے تو اِسلام کی طرف راغب کر کے اُسے کسی قابل بناسکیں۔ ۱۳۵ ۲ مارچ ۱۹۱۰ء کو پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر نے اقبال کوفیلو مقرر کیا۔ اُن کے علاوہ چار دوسرے لوگ بھی نامزد ہوئے تھے۔ ان میں شیخ عبدلقادر اور محمد عبدالعزیز (پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور) شامل تھے۔ تعلیمی میدان میں اقبال کی بہت قدر ہو رہی تھی۔ روایت ہے کہ اسی زمانے میں پیشکش ہوئی کہ گورنمنٹ کالج میں مستقل طور پرشبعۂ فلسفہ کے صدر بن جائیں۔ یہ اعزاز بہت کم ہندوستانیوں کے نصیب میں آتا۔ صرف چھ برس پہلے اسی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پر رہے تھے۔ اقبال نے دوستوں سے مشورہ کیا۔ مرزا جلال لدین کہتے ہیں: ہم سب نے یہی رائے دی کہ سرکاری ملازمت میں اول تو قوتِ عمل کے سلب ہونے کا احتمال ہے، دوسرے محکمہ تعلیم میں وسعت کے امکانات بہت محدود ہیں۔ چنانچہ اگر سرکاری ملازمت ہی پر نگاہ ہو تو وکالت ہی کیوں نہ کی جائے جس میں ترقی کے جملہ مدارج میں جج کا عہدہ بھی ہے۔ ۱۳۴ معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ نے مسلمان ممبر کے سوال کو سمجھا ہی نہیں ورنہ وہ ایسا جواب نہ دیتی۔ مسلمانوں کی خواہش جس کا اظہار مسٹر جناح نے کیا ہے یہ ہے کہ پریوی کونسل نے مسلمانوں کے قانون وقف علی الاولاد کو غلط سمجھا اس لیے جوفیصلہ صادر کیا وہ اسلام کے خلاف ہے۔ پس اس فیصلے کو مسترد کیا جائے تاکہ آیندہ معاملات پر اس کا کوئی اثر نہ پڑ سکے۔۸۲ پیسہ اخبار(لاہور)، ۱۴ مارچ ۱۹۱۰ء ۱۳۵ حیدرآباد جانے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ گرامی کی طرف سے جواب نہیں آیا تھا۔ اقبال نے ۱۱ مارچ کو دوبارہ خط لکھا۔ پھر شاید جواب سے محروم ہی جمعہ ۱۹ مارچ یا اُس سے اگلے روز لاہور سے روانہ ہوگئے۔ تین چار دن کا سفر تھا۔ حیدرآباد میں مسٹر اور مسز اکبر حیدری نے خوب میزبانی کی۔ اقبال کا قیام بھی شاید انہی کے گھر رہا۔ ’’میں وہاں سب بڑے لوگوں سے ملا اور بہت سوں نے مجھے اپنے یہاں مدعو بھی کیاتھا،‘‘اقبال نے بعد میں لکھا۔ان میں مہاراجہ کشن پرشاد بھی تھے۔ نظام حیدرآباد کے وزیراعظم تھے۔ خود بھی شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ اقبال کو کسی قسم کا تعریفی رقعہ دیا۔ اپنے اشعار پڑھ کر سنائے۔ یہ ان دونوں کے درمیان ایک تعلق کی ابتدا تھی جو مدتوں جاری رہا۔ مسز اکبر حیدری بقول اقبال’’عربی اسپرٹ‘‘ رکھتی تھیں۔ نہایت دانشمند خاتون تھیں۔ مسٹر حیدری کے متعلق اقبال سمجھتے تھے کہ کوئی خشک مزاج آدمی ہوں گے جنہیں صرف اعدادوشمار سے دلچسپی ہو گی مگر ملاقات پر معلوم ہوا، ’’قدرت نے انہیں ایک نہایت نفیس تخیل اور بہت ہی نازک دل عطا کیا ہے۔‘‘ اقبال کی نظر میں آرنلڈ کے گھرانے کی طرح یہ گھرانہ بھی حقیقی خوشیوں کا نمونہ تھا۔ مہاراجہ کشن پرشاد سے بھی ملاقات ہوئی۔ سات بیویوں میں سے چار مسلمان تھیں۔ ان میں سے ایک کی محبت میں ختنہ بھی کروا لیا تھا۔ اپنے بارے میں کہتے تھے کہ مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی ہیں۔ ان کا شعر تھا: شاد کا مذہب شاد ہی جانے آزادی آزاد ہی جانے بعد میں یہ اقبال پر خاص طور پر مہربان ہوئے۔ سب کچھ تھا لیکن اگر اقبال یہ سوچ کر آئے تھے کہ میر محبوب علی خاں سے کوئی ڈھنگ کی بات کر سکیں گے تو خوش فہمی دُور ہو گئی۔ حیدرآباد زوال آمادہ معاشرہ تھا۔ انگریزوں کی حکومت بری یا بھلی جیسی بھی تھی، اُس نے ہندوستان والوں کو جگا دیا تھا۔ ریاستوں میں ابھی تک ہر روز نئے لطیفے ہوتے تھے۔ خود حضور نظام کے بارے میں مشہور تھا کہ کھڑے ہیں توگھنٹوں کھڑے ہیں۔ شکار پر نکلے ہیں تو واپس آنے کا نام نہیں لے رہے۔ اگر اقبال اُنہیں اٹھارویں صدی کا کوئی جرمن نواب سمجھ کر آئے تھے تو اُمیدوں پر پانی پھر گیا ۔ لکھنوی شاعر نظم طباطبائی بھی اُن دنوں حضور نظام کی ملازمت میں تھے۔ ان کی ’گورِ غریباں‘ بہت مشہورہو رہی تھی۔تھامس گرے کے اُسی مشہور مرثیے کا ترجمہ تھی جس کے چند اشعار کو اقبال نے بھی کسی زمانے میں اپنی پہلی مقبولِ عام نظم ’نالہ ٔ یتیم‘ میں ترجمہ کیا تھا۔ اقبال نیملاقات کی خواہش کی۔ سر اکبر حیدری نے نائب صدر محاسب عبدالرزاق راشد کے ذریعے طباطبائی کو بلوایا۔ اشعار سنوائے۔ جلیلؔمانک پوری کے گھر بھی گئے۔ عمر رسیدہ شاعر راقم الدولہ ظہیرؔ دہلوی بھی بیٹھے تھے۔ زمانے کے تبرکات میں سے تھے۔ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ہوش و حواس میں دیکھا ۔ اس کا روزنامچہ بھی لکھا۔ قصائد کا دیوان رکھتے تھے۔ اقبال سے فرمایش کی۔ اقبال نے عرض کی، ’’یا حضرت ! جب تک میں پہلے آپ کی زبان سے شعر نہ سن لوں گا اپنا شعر ہرگز نہ سناؤں گا۔‘‘ ظہیرؔؔ نے جو اَشعار سنائے اُن میں سے یہ اقبال کی یادداشت میں محفوظ رہ گیا: وہ جھوٹا عشق ہے جس میں فغاں ہو وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو۸۳ ۱۳۶ حیدرآباد کے سفر میں تین نظموں کی بنیاد پڑی۔ پہلی ایک مختصر نظم تھی۔ اُن صفحوں میں جو اَب تک یورپ والی نظموں کے لیے خالی پڑے تھے، اسے لکھ کر عنوان ’صبح‘ رکھا۔ دوسری نظم مہاراجہ کشن پرشاد کا قصیدہ تھی۔ تیسری کی آمد یوں ہوئی کہ ایک رات مسٹر حیدری اقبال کو حیدرآباد کے مشہور قطب شاہی خاندان کے بادشاہوںکے قبرستان لے گئے۔مغلوں سے پہلے بڑی آب و تاب سے یہاں حکومت کی تھی۔ مقبروں پر پراَسرار گنبد بنے ہوئے تھے ۔ اقبال کا بیان ہے: رات کی خاموشی، ابر آلود آسمان اور بادلوں میں سے چھن کے آتی ہوئی چاندنی نے اِس پُرحسرت منظر کے ساتھ مل کر میرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ وہیں ایک پرتاثیر نظم کی داغ بیل پڑ گئی۔مہاراجہ کشن پرشاد کے قصیدے کے لیے کچھ صفحے خالی چھوڑ کر بیاض میں لکھنی شروع کی: آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے یعنی دھندلا سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے بعد میں ترمیم ہوئی: آسماں، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے حیدرآباد سے عطیہ کو خط بھی لکھا کہ جنجیرہ نہیں آسکتے۔ یہ خط عطیہ کو نہیں ملا۔ پھر عطیہ کے بہنوئی جنجیرہ کے نواب کی طرف سے جنجیرہ آنے کا دعوت نامہ ملا تو عطیہ کو ایک اور خط میں کالج کھلنے کا عذر پیش کیا۔ ۱۳۷ چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔ پھر بھی واپسی کا راستہ طویل کر کے اورنگزیب کے مزار کی زیارت کرنا چاہتے تھے۔ بیاض کے کچھ خالی صفحات پر سفر کی تفصیلات اور گاڑیوں کے اوقات وغیرہ لکھ کر گھنٹوں اور منٹوں کا حساب لگایا۔ محنت سے اِس اضافی سفر کی گنجایش نکالی۔ ۲۳ مارچ کو حیدرآباد سے روانہ ہو گئے۔۸۴ نظام اُن سے ملاقات کا وقت نہیں نکال سکے تھے۔ ۱۳۸ عطا محمد دیولالی چھاؤنی میں تھے۔ ملٹری ورکس کے بمبئی ڈسٹرکٹ سے وابستہ تھے۔ اقبال کے حیدرآباد میں قیام کے دوران یا واپسی کے سفر میں کسی مقام پر آن ملے۔ اورنگ آباد میں اقبال نے اورنگزیب عالمگیر کے مزار کی زیارت کی۔ شیخ عطا محمد مزار کے احاطے سے باہر کھڑے رہے کیونکہ اُن کی ڈاڑھی شرعی نہیں تھی۔ اقبال کی سرے سے ڈاڑھی ہی نہیں تھی مگر مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ جس دل نے چند برس پہلے داراشکوہ کی قبر سے ہوالموجود کی آواز سنی تھی، اب کچھ دوسری آوازیں سن کر لاہور واپس آگیا۔ ۱۳۹ اقبال ۲۹ مارچ کو لاہور واپس پہنچے۔ سیدھے کالج چلے گئے۔ وہاں سے کچہری گئے۔ پھر گھر پہنچے۔ عطیہ فیضی کا خط پہلے سے آیا ہوا ہے۔ اقبال کو سخت برا بھلا کہا تھا۔ اقبال نے احتیاطاً عطیہ کے بہنوئی کو الگ سے معذرت کا تار بھیج دیا۔ اگلے روز عطیہ کو انگریزی میں طویل معذرت نامہ لکھا۔ سر اکبر حیدری عطیہ کے رشتہ دار تھے۔ اُن کے سامنے عطیہ کے بہنوئی کا دعوت نامہ ملنے کے باوجود اقبال کے جنجیرہ نہ جانے سے عطیہ کی خاصی سبکی ہوئی ہو گی۔ عطیہ کی شکایت سخت تھی مگر اقبال احساس نہ کرسکے ۔عذر پیش کیا کہ کالج کی رخصت میں جنجیرہ کے سفر کی گنجایش نہیں تھی۔ اورنگزیب کے مزار کی زیارت کرنا تھی۔ یہ دِل جلے کو جلانے والی بات تھی۔ شاید اِسی لیے جلدی سے وضاحت کی: میں اُن کے بارے میں ایک نظم لکھنے والا ہوں کہ ایسی ہلاد ینے والی چیز اُردو کے قارئین نے آج تک نہ پڑھی ہوگی۔ اس کے علاوہ اپنے بارے میںوہی وضاحتیں تھیں جو عطیہ ہمیشہ سے سنتی آئی تھیں: میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے کہ میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ میرے تعلقات میں بڑی گہرائی اور گرم جوشی ہوتی ہے مگر دنیا یہی سمجھتی ہے کہ میں ایک بے حس انسان ہوں۔۔۔براہِ مہربانی نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کو یقین دلائیے کہ میں ہمیشہ ان سے عقیدت رکھتا ہوں۔۔۔میں تو ایک ایسا معمہ ہوں جسے میرے علاوہ سب جانتے ہیں: وہ راز ہوں کہ زمانے پہ آشکار ہوں میں! ۔۔۔اگر کبھی وقت آیا تو میں یقینا آپ کو دکھا دوں گا کہ میں اپنے دوستوں سے کتنی گہری محبت کرتا ہوں اور میرے دل میںکتنے گہرے جذبات اُن سب کے لیے موجود ہیں۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 30th Mar. 10 My dear Miss Atiya, Thank you so much for your malamatnama which I enjoyed very much. Nothing is more enjoyable than malamat from a friend. I received His Highness's invitation at Hyderabad and soon after I wrote to you as to why it was not possible for me to come to Murud. Yesterday on my return I received the letter-the sweet scolding-and wired to His Highness that I could not come owing to my college engagement which has handicapped me so often. If I could have stayed a little more at Hyderabad I am sure His Highness the Nizam would have expressed a desire to see me. I saw all the big people there and most of them invited me to their place. My visit to Hyderabad had some meaning which I shall explain to you when we meet. The Hydaries were not the only consideration of my visit. Perhaps you know them. I have not had the pleasure of their acquaintance before I saw them at Hyderabad. I enjoyed my stay with them immensely. It is extremely kind of Mrs. Hydari to speak so kindly of me. I felt quite at home in her house. I like the intensely Arab spirit in her, and I have a great admiration for her good sense and wisdom in all the affairs which attract her attention or sympathy. It was chiefly through the influence of Mr. and Mrs. Hydari that I had the good fortune to see some of the best specimens of the Hyderabad society. Mr. Hydari is a man of great culture and broad sympathies. I expected him to be a man of dry facts and figures, but nature has gifted him with a very fine imagination and a very tender heart. I have immense respect for both of them. Theirs is the second real home that I have seen-the first being the Arnolds. Mrs. Hydari is a person of intuition whereby she can see things more clearly than we men by their cold analysing reason. Now would you be so good as to convey my apologies to their Highnesses and ask pardon on my behalf. I really do not know what became of my letter which I wrote to you after the receipt of His Highness's wire. I am unfortunately a man who does not reveal his affections but they are none the less deep for want of expression. People are apt to think that I am cold. Please assure their Highnesses that I am always at their disposal, and whenever it is possible for me to come to Janjira I shall do so with the greatest pleasure. I had only ten days casual leave which expired on the 28th. I left Hyderabad on the 23rd and it takes about 4 days to reach Lahore from Hyderabad. Moreover I had to visit Aurangzeb's tomb on my way back on which I am going to write the most stirring poem that the readers of Urdu have ever read. I reached Lahore on the morning of 29th and had to go straight to the College and thence to the Court. Under these circumstances you can see for yourself-it was not possible for me to make a trip to Janjira. I had, therefore, to forego the pleasure of seeing their Highnesses. I hope this explanation will convince you and you will act the advocate for me. I have got my faults, but certainly not hypocrisy and indifference. Perhaps I am a mystery (even to myself!) as you would like to put it; but this mystery is known to everybody. وہ راز ہوں کہ زمانے پر آشکار بھی ہوں My ways be strange, but there are people in this wicked world whose ways are stranger than mine. Opportunity is the only test of a man's real nature. If any opportunity comes I shall certainly show you how intensely I love my friends and how deeply my heart feels for them all. People hold life dear and rightly so. I have got the strength to give it freely away when it is required by others. No! don't call me indifferent or hypocrite, not even by implication, for it hurts my soul and makes me shudder at your ignorance of my nature. I wish I could turn inside outwards in order to give you a better view of my soul which you think is darkened by hypocrisy or indifference. Please ask forgiveness on my behalf for this unavoidable remissness and let me know immediately that my explanation has convinced him. Yours ever Mohd. Iqbal ۱۴۰ بنام وحشت لاہور ۳۰ مارچ ۱۹۱۰ء مخدوم و مکرم جناب وحشت دیوانِ وحشتکی ایک کاپی جو آپ نے ازراہِ عنایت ارسال فرمائی موصول ہوئی، شکریہ قبول کیجیے۔ میں ایک عرصے سے آپ کے کلام کو شوق سے پڑھتا ہوں اور آپ کا غائبانہ مدّاح ہوں۔ دیوان قریباً سب کا سب پڑھا اور خوب لطف اٹھایا۔ ماشأ اللہ طبیعت نہایت تیز ہے اور فی زمانہ بہت کم لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں۔ آپ کی مضمون آفرینی اور ترکیبوں کی چستی خاص طور پر قابل ِ داد ہیں۔ فارسی کلام بھی آپ کی طباعی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ شعر کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ ایک مستقل اثر پڑھنے والے کے دل پر چھوڑ جائے اور یہ بات آپ کے کلام میں بہ درجۂ اَتم موجود ہے۔ والسلام نیازمند محمد اقبال ۱۴۱ اٹلی کے صوبے نیپلز سے کسی بیرونس کا خط اقبال کے نام آیا۔ اقبال کی کچھ نظمیں انگریزی ترجمے کے ساتھ مانگی تھیں۔ اقبال اپنی شاعری میں دلچسپی محسوس نہیں کر رہے تھے۔۸۵ ۱۴۲ اقبال کا معذرت نامہ پڑھ کر عطیہ کی برداشت جواب دے گئی۔اقبال کی میونک والی نظم کی نقل بھیج دی۔ اقبال نے پچھلے برس مانگی تھی۔ ساتھ ہی لکھا کہ سخت جھوٹے ہیں۔ کہاں معاشرے سے بغاوت کی باتیں اور کہاں حیدرآباد کے نواب کی مصاحبت اختیار کرنے کے لیے بھاگ دوڑ! جن درباروں کی کہانیاں سن کر ہی گھن آتی ہے، اُن کا حصہ بننے کے لیے جدوجہد! اتنا بھی احساس نہیں کہ نواب جنجیرہ جو عطیہ کو اقبال پر اَتھارٹی سمجھتے ہیں، اُن کی نظر میں عطیہ کی پوزیشن اقبال کی بے اعتنائی کی وجہ سے کس قدر خراب ہوئی ہو گی۔ اب اقبال کو محسوس ہوا کہ پچھلے خط سے عطیہ کے غصے کا صحیح اندازہ نہ کر سکے تھے۔ ۱۷ اپریل کو انگریزی میں دوسرا معذرت نامہ لکھا۔ یہ بھی لکھ دیا کہ لاہور میں کچھ لوگ اقبال کو بھی عطیہ پر اتھارٹی سمجھتے تھے۔ اقبال کو بھی افسوس ہوا تھا جب عطیہ نے انہیں اپنے لاہور آنے کی اطلاع نہ دی تھی۔ آمنے سامنے بیٹھ کر وضاحتیں پیش کرنا ضروری تھا۔ نہیں تو شکایتیں بڑھتی رہیں گی۔ چنانچہ ملاقات کے لیے وقت ضرور نکالیں گے۔ آخر میں لکھا: میرا خیال ہے مجھے اب اپنا خط ختم کرنا چاہیے۔ میں نے آپ کو کافی زحمت دی ہے۔ اب رات کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، میں دن بھر کام کرنے کے بعد بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا ہوں اور اُداس دل کے ساتھ بستر پر آرام کرنے جا رہا ہوں۔آپ کی ساری جھڑکیوں کا بہت بہت شکریہ! بنام عطیہ فیضی Lahore 7th April 10 My dear Miss Atiya, Thank you very much for your kind letter which I received this morning. You do not seem to realise that I wrote to you two letters from Hyderabad; one before I heard anything from you, and the other after I had received your telegram. In my second letter I acknowledged your telegram and explained to you how it was not possible for me to come to Janjira. As ill luck would have it, this second letter which would have saved you a good deal of scolding went wrong. I am at a loss to know why it did not reach you. I am afraid you are suffering from a very bad misunderstanding about my conduct and motives, and it is not easy to cure you of it without seeing you. It has become, in the interest of friendship which I still claim, absolutely necessary that we should see each other. And I shall find time to do so, though you think there would be no opportunity for a verbal explanation. I hope I shall be able to convince you of my truth and sincerity. I believe in your good nature. But for the present I must ask you to convey my explanation to their Highnesses; I am sure they are more forgiving than you are. The misunderstanding which has unfortunately come between us has many causes, and these causes, I am afraid, are unconsciously working in your mind. It is my misfortune that they have so far prejudiced you against me that you charge me with insincerity and untruth. Please do not make any inferences about my visit to Hyderabad-such as reception by the Nizam, etc.-until you have heard me. I could not have undertaken such a long journey merely for seeing friends at a time when I could ill afford to do so. I may tell you that I do agree with you in what you say about Hyderabad society. I thought, until this morning, when I received your last letter, that there was an undercurrent of goodwill in your letter I received on my return to Lahore. But this letter has upset me; I find that you are really angry with me. Your letter has upset me and I shall have to bear all this until I have cleared myself in your eyes. I assure you that my mind has not undergone any change; I am still the same person and you will see it for yourself one day. I predict it. Where did I speak of the Nizam's recognition as an honour? You know I do not care for all these things. I do not wish to become known as a poet; though unfortunately people know me in this capacity. Only the other day I received a letter from an Italian Baroness at Naples asking me to send her a few of my poems with English translation. But I feel no enthusiasm about poetry and you are responsible for it. What do I care for a native ruler's recognition when I receive recognition from persons of culture in foreign lands? No! My dear Miss Atiya do not misunderstand me; do not be so cruel as you have shown yourself, beyond my expectations, in your last letter. You have not heard all. You do not know my troubles which will, to a great extent, explain my conduct. A thorough explanation of my attitude towards you will require an intolerably long letter-perhaps more letters than one. Moreover, the actual sound of words is more convincing than the mere reproduction of their sounds on paper. Paper lacks humanity. And there are things which ought not to appear on paper. Do not be so hasty in judging my motives. You accuse me of having become mercenary and practical. Perhaps there is an element of truth in it; but when you know all the circumstances you will find some justification for it. In other respects I am still a dreamer and "a dreamer of exquisite fancies" as one of your friends has recently called me in an essay of his on Urdu literature. His Highness was not mistaken in looking upon you [as] the only authority on my whereabouts. May I suggest that you did not choose to continue to be so; though I have confessed and shall always confess the power of this authority? Some people look upon me as a similar authority about you; but imagine my disappointment when I heard from other people that you had designed to visit Lahore and were already in it! And you did not condescend to drop a line to me! It was sheer chance that I had the pleasure to see you only to make myself more miserable. I am afraid I am writing things which ought to be reserved for talk. I shall not write more about it, since I feel tempted to outpour myself and say many other things-not necessarily of the same kind-which I need not bring on paper. For the sake of those days when you had so much confidence and regard for me, grant me one thing-request their Highnesses on my behalf to realise my situation and forgive me for my remissness. If I could have come nothing could have been more pleasant to me. I do not say more, lest the tone of my letter be looked upon as insincere. It is my misfortune that you read my letters with the background of a wrong impression of my attitude towards you, and do not make an effort to get rid of a channel of thought or feeling in which your mind has begun to run. If you cannot do so, then for the sake of truth and honesty which, as you think, are no longer mine; but which, as I believe, are assuredly yours, wait till the whole thing comes before you. It is only just to do so; and you are just, even though you may be, at times, cruel and unrelenting. In memory of those days, then,-days dead in nature, are 'living' in my heart-do convey my message to them and tell them not to attribute my remissness to indifference, or to the fact that any other person holds a warmer place in my heart or a higher in my estimation. On my return to Lahore I received your letter and wired to His Highness explaining to him that I could not visit Janjira owing to College engagement. But I do not know whether my telegram reached him or went wrong like my letter from Hyderabad which has caused this unfortunate misunderstanding. Thank you so much for the copy of the poem which you have so kindly sent to me. It was badly needed. I tried to recollect the verses, but could not do so in spite of repeated efforts. I have been receiving letters from various parts of the country to bring out my poems in book form. A gentleman whom you have perhaps met has offered to do the whole thing for me-to write an introduction, to get them printed in the best press in India and to get the book bound in Germany. But I feel no enthusiasm for poetry; I feel as if somebody has slain my pretty muse and I am left widowed of all my imagination. Perhaps the poem on Aurangzeb-whose tomb I have recently visited-will be my last. I feel as if it is my duty to write this poem and hope that, once completed, it will live for some time to come. I think I must finish now; I have bored you enough. It is now half past twelve; I feel extremely tired after the day's work and go to bed with a heavy heart. Thanking you for all your scolding. Yours ever sincerely Muhammad Iqbal Lahore 7th April '10 ۱۴۳ اس کے بعد شاید سال بھر سے زیادہ عرصے تک اقبال اور عطیہ کے درمیان خط کتابت نہیں ہوئی۔ ۱۴۴ عطیہ کی بھیجی ہوئی نقل کی مدد سے نظم ’وصال‘ بیاض میں شامل کر لی۔۸۶ ۱۴۵ نواب حیدرآباد کی شان میں جو نظم لکھی اُس کا عنوان ’شکریہ‘ تھا۔ قصیدے کی روایت کے مطابق پہلے مناظرِ قدرت کی تعریف میں اپنی نظم ’صبح‘ شامل کی۔ پھر اپنے حالات پیش کیے۔ نواب صاحب کی تعریف اس طرح کی کہ مہاراجہ کشن پرشاد کے شکریے کا موقع بھی نکلا۔ بعض اشعار اقبال کے عام معیار سے گرے ہوئے تھے۔ عرب شاعری کے ایک خاص انداز کی پیروی کر رہے تھے۔ اُردو زبان کی شعریت سے میل نہ کھاتا تھا۔ مثال کے طور پر پنجاب کی بلبلیں شاعر سے شکایت کر رہی تھیں کہ اتنے دن کہاں غائب رہا ۔ جواب میں شاعربتا رہا تھا کہ ایک ایسی سرزمین میں پہنچ گیا تھا جس کے بادشاہ کی طاقت اور ُرعب ایران کے پرانے شہنشاہوں کے برابر تھی۔ اُس کے وزیراعظم کی بخشش کے سامنے موتی لٹانے والاسمندر بھی شرما جاتا تھا۔ نظام بیچارے اپنا ملک انگریز کے پاس گروی رکھوائے ہوئے تھے۔ کشن پرشادبھی صرف ملازم تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ایک تصور کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ شاہی قبرستان والی نظم اس کے ساتھ ہی لکھی۔ اُس میں یہ احساس واضح تھا کہ اسلامی تاریخ میں بادشاہوں کا زمانہ گزر چکا تھا۔ اب اُن پر آنسو بہائے جا سکتے تھے۔ تھامس گرے کی نظم 'Elegy Written in Country Churchyard'کے بعض مصرعوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی: The boast of heraldry, the pomp of power, And all that beauty, all that wealth e'er gave, Awaits alike the inevitable hour. The paths of glory lead but to the grave. بعد میں دیکھنے والوں کو سوائن برن کی'The Garden of Proserpine' کا رنگ بھی دکھائی دیا۔ مگر سوائن برن کی قنوطیت نہ ملی: Though one were strong as seven, He too with death shall dwell, Nor wake with wings in heaven, Nor weep for pains in hell ; Though one were fair as roses, His beauty clouds and closes ; And well though love reposes, In the end it is not well. ’شکریہ‘ اور ’گورستانِ شاہی‘ اپریل یا مئی میں کسی وقت مکمل ہو کر مخزن کے سپرد ہوئیں۔ بعد میں ’شکریہ‘ کا صرف ایک بند باقی رکھا۔ ’گورستانِ شاہی‘ میں آیندہ کچھ ترمیم ہوئی: گورستانِ شاہی [نیا متن] آسماں، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارئہ خاموش میں صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی باطنِ ہر ذرّئہ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے آہ! جولاں گاہِ عالمگیر یعنی وہ حصار دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار زندگی سے تھا کبھی معمور، اب سنسان ہے یہ خموشی اُس کے ہنگاموں کا گورستان ہے اپنے سکانِ کہن کی خاک کا دلدادہ ہے کوہ کے سر پر مثالِ پاسباں اِستادہ ہے ابر کے روزن سے وہ بالائے بامِ آسماں ناظرِ عالم ہے نجم سبز فامِ آسماں خاکبازی وسعتِ دنیا کا ہے منظر اسے داستاں ناکامیٔ انساں کی ہے ازبر اسے ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے رنگ و آبِ زندگی سے گل بدامن ہے زمیں سینکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں ! خوابگاہ شاہوں کی ہے یہ منزلِ حسرت فزا دیدۂ عبرت! خراجِ اشکِ گلگوں کر ادا ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر جنبشِ مژگاں سے ہے چشمِ تماشا کو حذر کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں جو اتر سکتی نہیں آئینۂ تحریر میں سوتے ہیں خاموش، آبادی کے ہنگاموں سے دور مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک کیا یہی ہے اُن شہنشاہوں کی عظمت کا مآل جن کی تدبیر جہانبانی سے ڈرتا تھا زوال رعبِ فغفوری ہو دنیا میں کہ شانِ قیصری ٹل نہیں سکتی غنیمِ موت کی یورش کبھی بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور شورشِ بزمِ طرب کیا، عود کی تقریر کیا درد مندانِ جہاں کا نالۂ شب گیر کیا عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا خون کو گرمانے والا نعرئہ تکبیر کیا اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں سینۂ ویراں میں جانِ رفتہ آ سکتی نہیں روح، مشتِ خاک میں زحمت کش بیداد ہے کوچہ گردِ نَے ہوا جس دم نفس، فریاد ہے زندگی انساں کی ہے مانند مرغِ خوش نوا شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم، کیا گئے! زندگی کی شاخ سے پھوٹے، کھلے، مرجھا گئے موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے سلسلہ ہستی کا ہے اک بحرِ ناپیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں مزار اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار یہ شرارے کا تبسم، یہ خسِ آتش سوار چاند، جو صورت گرِ ہستی کا اک اعجاز ہے پہنے سیمابی قبا محوِ خرامِ ناز ہے چرخِ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقتِ سحر اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے، جو مہتاب تھا آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار اس زیاں خانے میں کوئی ملتِ گردوں وقار رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار ذوقِ جدت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہگزر چشمِ کوہِ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور مصر و بابل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں دفترِ ہستی میں اُن کی داستاں تک بھی نہیں آ دبایا مہرِ ایراں کو اجل کی شام نے عظمتِ یونان و روما لوٹ لی ایام نے آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا آسماں سے ابرِ آذاری اٹھا، برسا، گیا ہے رگِ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی سینۂ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے کس قدر پیارا لبِ جو مہر کا نظارہ ہے محوِ زینت ہے صنوبر، جوئبار آئینہ ہے غنچۂ گل کے لیے بادِ بہار آئینہ ہے نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں چشمِ انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے میں اور بلبل، مطربِ رنگیں نوائے گلستاں جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں عشق کے ہنگاموں کی اُڑتی ہوئی تصویر ہے خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں وادیِ کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح دستِ طفلِ خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم، یعنی غمِ ملت ہمیشہ تازہ ہے دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں اپنے شاہوں کو یہ اُمت بھولنے والی نہیں اشک باری کے بہانے ہیں یہ اُجڑے بام و در گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشمِ تر دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں وادیِ گل، خاکِ صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے امیدِ دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ ہو چکا گو قوم کی شانِ جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شانِ جمالی کا ظہور ۱۴۶ وہ نظم جس میں اپنے بارے میں اعتراضات اور اُن کا جواب لکھا ہوا تھا، بیاض میں مدت سے ادھوری پڑی تھی۔ اب پوری ہوئی۔ حصۂ اول کی صفائی کی۔ دوسرا حصہ بیاض میں یوں درج ہوا: عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے مشت ِ خاک ایسی نہاں زیر ِ قبا رکھتا ہوں میں دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کی رستخیز کیا خبر تجکو درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں ہیں ہزاروں اس کے پہلو رنگ ہر پہلو کا اور سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں پھر لکھا: سیکڑوں کیفیتیں، ہر کیفیت کی شان اور کیا خبر تجکو درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں مگر پھر اِسے کاٹ کر آگے بڑھے: آرزو ہر کیفیت کو اِک نئے جلوے کی ہے مضطرب ہوں دل سکوں ناآشنا رکھتا ہوں میں گو حسینِ تازہ ہے ہر لحظہ مقصودِ نگاہ حُسن سے مضبوط پیمانِ وفا رکھتا ہوں میں بے نیازی سے ہے ثابت میری خلقت کا نیاز یعنی خوئے جستجو مثلِ صبا رکھتا ہوں میں موجبِ تسکیں تماشائے شرارِ جستۂ ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں تو ذرا میری نظر کی جلوہ آشامی تو دیکھ طُور شرما جائے ایسا حوصلہ رکھتا ہوں میں جستجو کُل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حُسن بے پایاں ہے دردِ لادوا رکھتا ہوں میں زندگی اُلفت کی دردانجامیوں سے ہے مری عشق کو آزادِ دستورِ وفا رکھتا ہوں میں سچ اگر پوچھے تو افلاسِ تخیل ہے وفا دل میں ہر دم اِک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں فیضِ ساقی شبنم آسا، ظرفِ دل دریا طلب تشنۂ دائم ہوں آتش زیرِ پا رکھتا ہوں میں مجکو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں اپنے مصوّر سے گلہ رکھتا ہوں میں محفلِ ہستی میں جب ایسا تُنک جلوہ تھا حُسن پھر تخیل، آہ! کیوں لا انتہا رکھتا ہوں میں مگر دوسرے مصرعے میں یوں ترمیم کر دی: پھر تخیل کس لیے لاانتہا رکھتا ہوں میں آخری شعر فارسی میں تھا کہ دریا کی لہر کی طرح ہمیشہ جستجو میں رہتا ہوں۔ اپنے ہی کاندھوں پر ٹوٹتا ہوں: ہرزہ می سازم شکستِ خویش بر دوشم چو موج یعنی در راہِ طلب ہم وازہ من کوشم چو موج اِس شعر کو کاٹ کر قریب قریب یہی مفہوم اِس طرح ادا کیا: در بیابانِ طلب پیوستہ می کوشیم ما موجِ بحریم و شکستِ خویش بر دوشیم ما اُنہی دنوں یا بعد میں کبھی نظم کے حاشیے میں اشعار پر نمبر ڈال کر اُن کی ترتیب میں تبدیلی کی یعنی دوسرا شعر تیسرے نمبر پر اور تیسرا شعر اُس سے پہلے۔بعد میں کبھی مزید ترمیم ہوئی اور نظم کا عنوان ’عاشقِ ہرجائی‘ ہوا:۸۷ عاشقِ ہرجائی [نیا متن] (۱) ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو رونق ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے تیرے ہنگاموں سے اے دیوانۂ رنگیں نوا! زینت گلشن بھی ہے، آرائش صحرا بھی ہے ہم نشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے اے زمیں فرسا، قدم تیرا فلک پیما بھی ہے عین شغل مے میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز کچھ ترے مسلک میں رنگِ مشربِ مینا بھی ہے مثل بوئے گل لباسِ رنگ سے عریاں ہے تو ہے تو حکمت آفریں، لیکن تجھے سودا بھی ہے جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج اور پھر اُفتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟ ہے حسینوں میں وفا ناآشنا تیرا خطاب اے تلون کیش! تو مشہور بھی، رسوا بھی ہے لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ سیماب تو تیری بے تابی کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو (۲) عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں ہیں ہزاروں اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کی رستخیز کیا خبر تجھ کو، درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے مضطرب ہوں، دل سکُوں ناآشنا رکھتا ہوں میں گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصودِ نظر حسن سے مضبوط پیمانِ وفا رکھتا ہوں میں بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز سوز و سازِ جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں موجب تسکیں تماشائے شرارِ جستہ اے ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ! وہ کامل تجلّی مُدّعا رکھتا ہوں میں جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے، دردِ لادوا رکھتا ہوں میں زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری عشق کو آزادِ دستورِ وفا رکھتا ہوں میں سچ اگر پوچھے تو افلاسِ تخیل ہے وفا دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں فیض ساقی شبنم آسا، ظرفِ دل دریا طلب تشنۂ دائم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں در بیابانِ طلب پیوستہ می کوشیم ما موجِ بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما ۱۴۷ رجکماری بامبا، اقبال سے ملنا چاہتی تھیں۔ اصل نام صوفیہ جنداں تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔ لاہور میں جیل روڈ پر رہتی تھیں۔ اقبال کے دوست جوگندر نے اقبال تک پیغام پہنچایا۔ مرزا جلال الدین، جوگندر اور اقبال مقررہ وقت پرکوٹھی پر جا پہنچے۔ راجکماری نے اقبال کے لیے حقہ تیار کروا رکھا تھا۔ درختوں کے گھنے جھنڈ کے نیچے سب بیٹھ گئے۔ وہ خود اٹھیں۔ برآمدے سے حقہ لاکر اقبال کے سامنے رکھا۔ اُن کی فرمایش پر اقبال نے اردو نظم بھی سنائی۔ وہ انگلینڈ میں پلی بڑھی تھیں، جوگندر سنگھ ترجمہ کرتے گئے۔ بعد میں اقبال نے مرزا جلال الدین سے کہا، ’’دیکھیے مرزا صاحب! ہمیں رنجیت سنگھ کی پوتی نے اپنے ہاتھ سے حقہ پلایا!‘‘ کچھ روز بعد معلوم ہوا کہ راجکماری کی کوئی سہیلی آئی ہوئی ہیں۔ ہنگری سے تعلق تھا۔ ان کا نام میری انٹوئنٹ گوٹسمین تھا۔ وہ بھی اقبال سے ملنا چاہتی تھیں۔ جوگندر سنگھ اُن دنوں شہر میں موجود نہیں تھے۔ اقبال اور مرزا جلال الدین اُن کے بغیر ہی چلے گئے ۔ اِس کے کچھ روز بعدانہیں شالامار باغ میں چائے کی دعوت پر مدعو کیاگیا۔ راجکماری اور مس گوٹسمین کے علاوہ ایک اور یورپین خاتون موجود تھیں۔ ان کی گود میں بلّی تھی۔مس گوٹسمین نے باغ سے پھول توڑ کر اقبال کی خدمت میں پیش کیا۔ اقبال نے ایک نظم لکھ دی کہ مجھے اِس پھول پر رشک آتا ہے جسے اُس مستِ ناز نے پسند کیا۔ اس طرح یہ اپنی شاخ کی جدائی برداشت کر کے اُس نازنیں کے وصال تک پہنچا ۔ افسوس کہ میرا کنول جس کی اہلِ نظر لوگوں میں بڑی اہمیت ہے، جس پر میری جوانی کے گلشن کو فخر ہے، اُس کی مرادکبھی پوری نہ ہوئی۔ کسی کے رنگیں دامن تک نہ پہنچ سکا:۸۸ شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اِسے فسردہ رکھتا ہے گل چیں کا انتظار اِسے غالباً گھر واپس آ کر ایک اور نظم کی فکر ہوئی۔ بیاض کھل گئی۔ بلّی سے مخاطب ہو کر کہا جا رہا تھا کہ تمہیں کن اکھیوں سے دیکھنا کس نے سکھایا ہے؟ کس نے تمہیں بتا یا ہے کہ محبت کا آغاز اِسی طرح ہوا کرتا ہے!نظم کے اشعار لکھ لکھ کر کاٹے گئے۔ بالآخر پوری نظم کاٹ کر اگلے دو صفحوں پر دوبارہ لکھی گئی۔ایک شعر کے دونوں مصرعوں کے نیچے لکیریں کھینچی گئیں۔ گویا یہ پہلے بند کا آخری شعر ہوگا۔ آخری شعر کے دونوں مصرعوں کے نیچے بھی لکیریں کھینچ کر اُسے دوسرے بند کا آخری شعر بنایا۔ اشعار کی ترتیب تبدیل کرنے کے لیے اُن کے حاشیے میں نمبر ڈالے۔ تیسرا شعر دوسرے نمبر پر اور دوسرا شعر اُس کے بعد قرار پایا۔ پھر کبھی ان اشعار میں ترمیم کی ضروت نہ پڑی۔۸۹ ۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر تجھ کو دُزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے رمز آغازِ محبت کی بتا دی کس نے دیکھتی ہے کبھی اُن کو کبھی شرماتی ہے کبھی اٹھتی ہے کبھی لیٹ کے سو جاتی ہے آنکھ تیری صفتِ آئینہ حیران ہے کیا نُورِ آگاہی سے روشن تری پہچان ہے کیا؟ ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی مارتی ہے اُنہیں پہنچوں سے عجب ناز ہے یہ چھیڑ ہے، غصہ ہے یا پیار کا انداز ہے یہ شوخ تُو ہو گی تو گودی سے اُتاریں گے تجھے گر گیا پھول جو سینے کا تو ماریں گے تجھے! نیلگوں آنکھ تری کس کی تمنّائی ہے آہ! کیا تُو بھی اسی چیز کی سودائی ہے خاص انسان سے کچھ حُسن کا احساس نہیں صورتِ دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں شیشۂ دہر میں مانندِ مئے ناب ہے عشق رُوحِ خورشید ہے خُونِ رگِ مہتاب ہے عشق دلِ ہر ذرّہ میں پوشیدہ کسک ہے اِس کی نُور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اِس کی کہیں سامانِ مسرت، کہیں سازِ غم ہے کہیں گوہر ہے، کہیں اشک، کہیں شبنم ہے ۱۴۸ مس گوٹسمین والی نظم سردار امراؤسنگھ نے انگریزی میں ترجمہ کی۔ ۹۰ ۱۴۹ اقبال کے شاگرد محمد علی قصوری کا بیان ہے: ’ورڈزورتھ کی مشہور نظم ’اوڈ ٹو اِمورٹیلٹی‘('Ode to Immortality') کی جیسی شرح ڈاکٹر صاحب نے کی تھی اُس کا خوشگوار نقش اب تک میرے ذہن پر مرتسم ہے۔ ۱۵۰ مجموعہ مرتب کرنے کا خیال پھر آیا۔ بیاض میں Dedication to...' کا حوصلہ افزا عنوان ڈالا۔ مشقِ سخن ہوئی۔ سات اشعار لکھ کر کاٹے۔ دوسرے صفحے پر ساڑھے گیارہ اشعار تسلی بخش نکل آئے: گلستاں بن کر مہک اٹھا دلِ پرخوں مرا خاتمہ ٔ کلام یہ تھا: عشق لیکن دردِ محرومی سے پاتا ہے کمال ہجرِ لیلیٰ سے ہوا آوارہ تر مجنوں مرا۹۱ یہ اشعار کبھی شائع نہ کروائے۔ ۱۵۱ انجمن حمایت اسلام دم توڑتی نظر آ رہی تھی۔وطن اخبار والے مولوی انشا ٔ اللہ خاں جن کے لیے اقبال نے لندن کے سفر کے حالات لکھ کر بھیجے تھے انجمن کے خلاف کئی مقدمات دائر کیے بیٹھے تھے۔ اس دفعہ سالانہ اجلاس میںاقبال نے کوئی تحریرنہ پڑھی۔ ۲۲ اپریل کو نواب فتح علی خان قزلباش کے دولت کدے پر انجمن سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اکٹھے ہوئے۔ اقبال بھی شامل تھے۔ فیصلہ ہوا کہ سات اصحاب کا ایک ثالثی بورڈ مقرر ہو۔ اس میں دونوں طرف سے تین تین لوگ ہوں۔ نواب فتح علی قزلباش اس کے صدر مقرر کیے جائیں۔ اس بورڈ میں اقبال بھی شامل تھے۔ ۹۲ ۱۵۲ طویل انگریزی نظموں کا انتخاب جو اِقبال گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے، اُس کی آخری نظم شیلے کی ’اڈونس‘ 'Adonais') (تھی۔ اُس نے کیٹس کی وفات پر لکھی تھی۔ کیٹس کی ایک طویل نظم پر نادان نکتہ چینوں نے اِتنی بے سروپا تنقید کی تھی کہ وہ خون تھوک تھوک کر مر گیا تھا۔ شیلے نے نظم کا آغاز ایک یونانی شعر سے کیا تھا۔ افلاطون سے منسوب کیا جاتا تھا۔ مطلب تھا، ’’تم زندوں کے درمیان ایک چمکتے ہوئے ستارے تھے۔ اب جب تمہاری روشنی یہاں دکھائی نہیں دیتی، تم اگلی دنیا کا وہ ستارہ بن گئے ہو جس کی روشنی مرے ہوؤں کو نئے جلوے فراہم کرتی ہے۔‘‘ نظم کے شروع میں کیٹس کے جنازے کا فرضی منظر تھا۔ موسمِ بہار سے لے کر چرند پرند، دیویاں اور بڑے بڑے شاعر سبھی آنسو بہانے جمع ہو رہے تھے۔ آخر میں نظم کا لہجہ بدل جاتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کیٹس مرا نہیں بلکہ اُن لوگوں میں داخل ہو گیا ہے جنہیں اب کبھی موت نہیں آئے گی۔ نظم میں پچپن بند تھے۔ شاید سبھی نصاب میں شامل تھے۔ اقبال نے اِسے پڑھاتے ہوئے مشرقی شاعری میں سے اس کی ملتی جلتی مثالیں ضرور تلاش کی ہوں گی۔ ۱۵۳ Adonais by P. B. Shelley Stanza LV The breath whose might I have invoked in song Descends on me; my spirit's bark is driven, Far from the shore, far from the trembling throng Whose sails were never to the tempest given; The massy earth and sphered skies are riven! I am borne darkly, fearfully, afar; Whilst, burning through the inmost veil of Heaven, The soul of Adonais, like a star, Beacons from the abode where Eternals are. ۱۵۴ اقبال کو دعوت ملی کہ علیگڑھ یونیورسٹی میں لیکچر دیں۔ معلوم نہیں دعوت کب ملی۔ لیکچر اَگلے برس فروری میں تھا۔ علیگڑھ کے اسٹریچی ہال میں لیکچر دینا ایک اعزاز تھا۔ ۱۵۵ دل نے کہا،’’یہ بالکل یقینی ہے کہ خدا وجود رکھتا ہے۔‘‘ عقل بولی، ’’مگر میرے عزیز، ’وجود‘ تو میری اصطلاحوں میں سے ہے اورتمہیں اس کے استعمال کا کوئی حق نہیں۔‘‘ دل نے جواب دیا، ’’یہ توا ور بھی اچھا ہے، میری ارسطو!‘‘ اقبال اپنے خیالات مربوط کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہوں گے۔ بظاہر اِسی مقصد کے لیے ایک نوٹ بک رکھنا شروع کی۔ اس کے سرورق پر ۲۷ اپریل ۱۹۱۰ء کی تاریخ لکھی۔ اگلے کئی ماہ تک انگریزی میں خیالات درج کرتے رہے۔ ایک مکمل نظامِ فکر کے بنیادی نکات بھی ہو سکتے تھے۔ ایسے اشاروں میں لکھے جا رہے تھے جن کے اصل مطلب سے خود ہی واقف تھے۔ سرورق پرتاریخ کے ساتھ’’اسٹرے تھاٹس‘‘ (Stray Thoughts) لکھا مگر پھرکاٹ کر’’اسٹرے ریفلکشنز‘‘ (Stray Reflections) یعنی افکارِ پریشاںکر دیا۔ * Art is a sacred lie. * Our Soul discovers itself when we come into contact with a great mind. It is not until I had realised the Infinitude of Goethe's imagination that I discovered the narrow breadth of my own. * Human intellect is nature's attempt at self-criticism. * The charitable man really helps the non-charitable, not the indigent. For what is given to the poor is virtually given away to those who do not give anything to the poor. The non-charitable, therefore, are kept in their state of non-benevolence, and the benevolent man pays for them. This is the economics of charity. * My friends often ask me, "Do you believe in the existence of God"? I think I am entitled to know the meaning of the terms used in this question before I answer it. My friends ought to explain to me what they mean by "believe," "existence" and "God", especially by the last two, if they want an answer to their question. I confess I do not understand these terms; and whenever I cross-examine them I find that they do not understand them either. * Heart - "It is absolutely certain that God does exist." Head - "But, my dear boy! Existence is one of my categories, and you have no right to use it." Heart - "So much the better, my Aristotle!" * The satisfaction of vanity has an economic value with us. Call me sub-assistant surgeon instead of Hospital Assistant and I am quite contented even if you do not increase my salary. ۹۳ ۱۵۶ وجاہت جھنجھانوی، محمد دین فوق کے دوست تھے۔ مئی میں کسی وقت اُن کے ساتھ اقبال کے پاس آئے۔ دونوں نے غزلیں کہی تھیں۔ فوق کی غزل کا مطلع تھا: مصدرِ فکر و پریشانی ہوں میں مرجعِ تشویش و حیرانی ہوں میں ان کا خیال تھا کہ یہ غزل صوفیانہ رنگ میں ہے۔ وجاہت کی غزل دوسرے رنگ میں تھی۔ اتنے میں منشی طاہردین کسی موکل کی آمد کی اطلاع لے کر پہنچ گئے۔ فوق سے روایت ہے کہ اقبال نے کہا کہ موکل کو بٹھایا جائے۔ فارغ ہونے کے بعد ملیں گے۔فوق اور وجاہت نے حیرت ظاہر کی تو اقبال نے کہا، ’’موکل اگر میرا ہی نام سن کر آیا ہے تو کہیں بھاگ نہیں جائے گا۔‘‘ اس کے بعد ایک فارسی غزل سنائی۔ انہی دنوں کہی تھی۔۹۴ ۱۵۷ شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم دن میں بیس سگریٹ اور بارہ سگار پیتے تھے۔ برونکائیٹس کے دورے پڑ رہے تھے۔ ۶مئی کو ولی عہد نے خوشخبری سنائی کہ ریس میں اُن کا گھوڑا جیت گیا ہے۔ ’’مجھے بہت خوشی ہے،‘‘ شہنشاہ نے کہا اور بیہوش ہو گئے۔ رات پونے گیارہ بجے فوت ہوئے۔ شہزادہ جارج اب شہنشاہ جارج پنجم تھے۔ تاجپوشی کی رسم بڑے پیمانے پر کروانا چاہتے تھے۔ ۱۵۸ ’’اِس تلخ نفسیات دانی کے لیے مجھے معاف کرنا، مگر تم اپنی کوششوں میں ناکام رہے اور اب اپنے گھر سے دُور پردیس میں قسمت آزمانا چاہتے ہو،‘‘ انگریزی نوٹ بک میں شاید اپنے آپ کو مخاطب کر کے لکھاگیا۔ ’’بات یہ نہیں کہ ناکامی نے تمہیں کوئی نیا حوصلہ دیا ہو بلکہ بات یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے منہ چھپانا چاہتے ہو جنہوں نے تمہیں ناکام ہوتے دیکھا ہے۔‘‘ کبھی ہیگل کے حوالے دیے تھے۔ اب وہ فلسفہ نثر میں لکھی ہوئی شاعری لگ رہا تھا۔ * Excuse me a bit of cruel Psychology. You fail in your enterprise, and now you wish to leave your home and try your luck in other climes. It is not because your ambition has received a fresh spur from your failure; but chiefly because you wish to hide your face from those who have witnessed your failure. * Belief is a great power. When I see that a proposition of mine is believed by another mind, my own conviction of its truth is thereby immensely increased. * Christianity describes God as love; Islam as power. How shall we decide between the two conceptions? I think the history of mankind and of the universe as a whole must tell us as to which of the two conceptions is truer. I find that God reveals Himself in history more as power than love. I do not deny the love of God; I mean that, on the basis of our historical experience, God is better described as power. * Hegel's system of philosophy is an epic poem in prose.۹۵ ۱۵۹ ۱۴مئی تھی۔ صبح چار بجے آسمان پر ہیلی کا دُم دار ستارہ دیکھا۔ ہمیشہ پچھتر برس بعدنمودار ہوتا تھا۔ ایک دم یوں محسوس ہوا جیسے بے پناہ وسعت اُن کے مختصر وجود میں سمٹ آئی ہو۔ پھر دھیان میں آیا کہ ستارہ دوبارہ کب ظاہر ہوگا۔ دنیا میں نہ ہوں گے۔ اسے صرف اپنے پوتے کی آنکھ سے دوبارہ دیکھ سکتے تھے۔ اپنی عمر کے دورانیے کے محدود ہونے کا خیال آیا۔ ایک لمحے کو ہر خواہش مر گئی۔ اگلے دن تک اس کے بارے میں نوٹ بک میں بھی نہ لکھ سکے۔ ایک ستارے کی مدت ایسی طویل تھی کہ سوچنے والے پر ہیبت طاری کر دے۔ قوم کی روح کی جھلک کیسی ہوتی ہو گی؟ اُسے خواب میں دیکھ کر سرسید کے افسانے کا بوڑھا پھر جوان ہو گیا تھا۔ اُس خواب کا ذکر سن کر پورے معاشرے نے کھوئی ہوئی جوانی دوبارہ حاصل کر لی تھی۔ اقبال اُسی واپس آئی ہوئی جوانی کا حصہ تھے۔ کیا مسلمان کھوئی ہوئی طاقت بھی واپس حاصل کر سکتے تھے؟ سیاسی قوت زائل ہونے پر ہندوستان کے مسلمان شاید دنیا بھر کے مسلمانوں میں سب سے گھٹیا کردار کے ہو گئے تھے۔ تعلیم یافتہ نوجوان کسی دوسری قوم کے سامنے اپنی قوم کی جائز حمایت کرنے کے حوصلے سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ آیندہ زمانے میں ہندوستان کے مسلمانوں سے دنیا پر حکومت کرنے کا کام نہیں لیا جانا تھا۔ اسلام کی سچائی پر گواہی دینے کا کام لیا جانے والا تھا۔ ’’شاعری میں سچائی تلاش کرنا بڑی فضول بات ہے،‘‘ انگریزی نوٹ بک میں لکھا گیا۔ ’’تخیل کا نصب العین خوبصورتی ہے، سچائی نہیں۔ چنانچہ کسی شاعر کے کام میں سے اُن اقتباسات کے حوالے دے کر جو تمہارے نزدیک سائنسی سچائی کے حامل ہیں اُس کی عظمت جتانے کی کوشش مت کرو۔‘ ‘علمی حوالوں سے سمجھنے کی کوشش میں وہ بات ہاتھ نہ آسکتی جو شاعر بتانا چاہتا تھا۔ * 15th May, 1910: Yesterday morning at about 4, I saw that glorious visitor of our hemisphere known as Halley's comet. Once in seventy-five years this superb swimmer of infinite space appears on our skies. It is only with the eyes of my grandsons that I shall see it again. The state of my mind was quite unique. I felt as if something indescribably vast had been closed up within the narrow limits of my clay: Yet the thought that I could not see this wanderer again brought home to me the painful fact of my littleness. For the moment all ambition was killed in me. * "Let fools fight for the forms of government," says Alexander Pope. I cannot agree with this political philosophy. To my mind, government, whatever its form, is one of the determining forces of a people's character. Loss of political power is equally ruinous to nations' character. Ever since their political fall the Musalmans of India have undergone a rapid ethical deterioration. Of all the Muslim communities of the world they are probably the meanest in point of character. I do not mean to deplore our former greatness in this country, for, I confess, I am almost a fatalist in regard to the various forces that ultimately decide the destinies of nations. As a political force we are perhaps no longer required; but we are, I believe, still indispensable to the world as the only testimony to the absolute Unity of God - Our value among nations, then, is purely evidential. * It is idle to seek logical truth in poetry. The ideal of imagination is beauty, not truth. Do not then try to show a poet's greatness by quoting passages from his works which, in your opinion, embody scientific truth.۹۶ ۱۶۰ فوق اقبال سے ملنے آئے۔ اقبال کتابوں کی الماری میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔ فوق نے پوچھا تو کہا، ’’انگوری شراب کی ایک بوتل رکھی تھی۔ کل شمس العلما ٔ مفتی عبداللہ ٹونکی آئے تھے۔ دیکھ رہا ہوں کہیں وہ نہ لے گئے ہوں۔‘‘۹۷ اقبال شراب نہ پیتے تھے مگر اپنی رندی کی تشہیر کرنے میں مزہ آتا تھا۔ ۱۶۱ میاں شاہ دین ہمایوں کے گھر دعوت تھی۔ انگریزوں کے لیے علیحدہ کمرے میں شراب کا بندوبست کیا گیا تھا۔اقبال اور مرزا جلال الدین پہنچے تو میاں شاہ دین نے ازراہِ مذاق کہا، ’’تم لوگوں کے لیے الگ انتظام کر رکھا ہے۔‘‘اقبال نے بھی مذاقاً کہا، ’’میاں صاحب! ہم نے آپ سے دو باتیں سیکھی ہیں۔ ایک چھپ کر پینا، دُوسرے کسی کو چندہ نہ دینا۔‘‘ ۹۸ ۱۶۲ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں اقبال ایک نتیجے پر پہنچے تھے۔ حیات بعد الموت کوئی کیفیت نہ تھی۔ ایک عمل تھا۔ انسانی تاریخ سے سیکھا جا سکتا تھا۔ قوموں کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے میں بڑے اشارے تھے۔ ’’ہمارے قومی اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذہبی اصول پر ہماری گرفت مضبوط ہو،‘‘ اقبال نے نوٹ بک میں انگریزی میں لکھا۔ ’’جونہی یہ گرفت ڈھیلی پڑی، ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ شاید ہمارا وہی انجام ہو جو یہودیوں کا ہوا۔ اس گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کسی معاشرے میں مذہب کا سب سے بڑا امین و محافظ کون ہوتا ہے؟ عورت ہوتی ہے۔ مسلم خواتین کو صحیح مذہبی تعلیم حاصل ہونی چاہیے کیونکہ وہی قوم کی حقیقی معمار ہیں۔ میں آزاد نظامِ تعلیم کا قائل نہیں۔‘‘ اعلیٰ تعلیم کے دروازے یورپ میں بھی عورتوں پر عام طور پر بند تھے۔ مشرق میں لڑکیوں کو انگریزی طرز کی تعلیم دلوانے کا مقصد بھی انہیں روزگار کے قابل بنانا نہیں تھا۔ صرف شادی کے بعد گھر کی دیکھ بھال مشرقی انداز کی بجائے مغربی انداز میں کرنے کے قابل بنانے کے لیے یہ تعلیم دلوائی جاتی تھی۔ ’’تعلیم بھی دیگر امور کی طرح قومی ضروریات کی تابع ہوتی ہے،‘‘ اقبال لکھتے رہے۔ ’’ہمارے مقاصد کے پیش ِ نظر مسلم بچیوں کے لیے مذہبی تعلیم بالکل کافی ہے۔ ایسے تمام مضامین جن میں عورت کو نسوانیت اور دین سے محروم کر دینے کا میلان پایا جائے، احتیاط کے ساتھ تعلیم ِ نسواں کے نصاب سے خارج کر دیے جائیں۔ لیکن ہمارے ماہرین ِ تعلیم اب بھی اندھیرے میں ٹٹول رہے ہیں۔ انہیں اب تک لڑکیوں کا نصابِ تعلیم مقرر کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ شاید مغربی تصورات کی چمک دمک سے ان کی آنکھیں اتنی خیرہ ہو گئی ہیں کہ وہ اسلامیت اور مغربیت کے اس واضح فرق کو بھی نہیں سمجھتے کہ اسلامیت خالصتہً ایک مجرد تصور یعنی مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتی ہے، دوسری طرف مغربیت ہے جس کے تصورِ قومیت کی روح ایک مادی شے یعنی ملک ہے۔‘‘ * Personal immortality is not a state; it is a process. I think the distinction of spirit and body has done a lot of harm. Several religious systems have been based on this erroneous distinction. Man is essentially an energy, a force, or rather a combination of forces which admit of various arrangements. One definite arrangement of these forces is Personality - whether it is a purely chance arrangement does not concern me here. I accept it as a fact among other facts of nature, and try to find out whether this arrangement of forces - so dear to us - can continue as it is. Is it then possible that these forces should continue to work in the same direction as they are working in a living, healthy personality? I think it is. Let human personality be represented by a circle - which is only another way of saying that these forces result in describing a definite circle which may be obliterated by an upsettal of the arrangement of forces constituting it. How then can we manage to secure the continuance of this circle? Evidently by energising in a way calculated to assist the constitutive forces in their regular routine of work. You must give up all those modes of activity which have a tendency to dissolve personality, e.g. humility, contentment, slavish obedience, modes of human action which have been erroneously dignified by the name of virtue. On the other hand, high ambition, generosity, charity and a just pride in our traditions and power fortify the sense of personality. Personality being the dearest possession of man must be looked upon as the ultimate good. It must work as a standard to test the worth of our actions. That is good which has a tendency to give us the sense of personality; that is bad which has a tendency to suppress and ultimately dissolve personality. By adopting a mode of life calculated to strengthen personality we are really fighting against death - a shock which may dissolve the arrangement of forces we call personality. Personal immortality then lies in our own hands. It requires an effort to secure the immortality of the person. The idea I have dropped here has far-reaching consequences. I wish I could have time to discuss the comparative value of Islam, Buddhism and Christianity from the standpoint of this idea; but unfortunately I am too busy to work out the details. * History is a sort of applied ethics. If ethics is to be an experimental science like other sciences, it must be based on the revelations of human experience. A public declaration of this view will surely shock the susceptibilities even of those who claim to be orthodox in morality but whose public conduct is determined by the teachings of history. * I confess I am a bit tired of metaphysics. But whenever I happen to argue with people I find that their arguments are always based on certain propositions which they assume without criticism. I am, therefore, driven to examine the value of these propositions. The practical in all its shapes drives me back to the speculative. It seems to me to be impossible to get rid of metaphysics altogether. * All nations accuse us of fanaticism. I admit the charge - I go further and say that we are justified in our fanaticism. Translated in the language of biology fanaticism is nothing but the principle of individuation working in the case of group. In this sense all forms of life are more or less fanatical and ought to be so if they care for their collective life. And as a matter of fact all nations are fanatical. Criticise an Englishman's religion, he is immovable; but criticise his civilisation, his country or the behaviour of his nation in any sphere of activity and you will bring out his innate fanaticism. The reason is that his nationality does not depend on religion; it has a geographical basis - his country. His fanaticism then is justly roused when you criticise his country. Our position, however, is fundamentally different. With us nationality is a pure idea; it has no material basis. Our only rallying point is a sort of mental agreement in a certain view of the world. If then our fanaticism is roused when our religion is criticised, I think we are as much justified in our fanaticism as an Englishman is when his civilisation is denounced. The feeling in both cases is the same though associated with different objects. Fanaticism is patriotism for religion; patriotism, fanaticism for country. * Islam appeared as a protest against idolatry. And what is patriotism but a subtle form of idolatry; a deification of a material object. The patriotic songs of various nations will bear me out in my calling patriotism a deification of a material object. Islam could not tolerate idolatry in any form. It is our eternal mission to protest against idolatory in all its forms. What was to be demolished by Islam could not be made the very principle of its structure as a political community. The fact that the Prophet prospered and died in a place not his birthplace is perhaps a mystic hint to the same effect. * Justice is an inestimable treasure; but we must guard it against the thief of mercy. * From what I have said above on Islam and patriotism it follows that our solidarity as a community rests on our hold on the religious principle. The moment this hold is loosened we are nowhere. Probably the fate of the Jews will befall us. And what can we do in order to tighten the hold? Who is the principal depositary of religion in a community? It is the woman. The Musalman woman ought to receive sound religious education, for she is virtually the maker of the community. I do not believe in an absolute system of education. Education, like other things, is determined by the needs of a community. For our purposes religious education is quite sufficient for the Muslim girl. All subjects which have a tendency to dewomanise and to de-Muslimise her must be carefully excluded from her education. But our educationists are still groping in the dark; they have not yet been able to prescribe a course of study for our girls. They are, perhaps, too much dazzled by the glamour of western ideals to realise the difference between Islamism which constructs nationality out of a purely abstract idea, i.e. religion, and "Westernism" the very life-blood of whose concept of nationality is a concrete thing, i.e. country.۹۹ ۱۶۳ گورنمنٹ کالج میں فطری شاعری کے لیے بھی انعام مقرر تھا۔ منصفین میں اقبال بھی شامل تھے۔ اُس برس کے مقابلے میں اُنہوں نے میاں اسلم کی نظم ’وسطِ ایشیا‘ کو اول انعام دیا۔ نظم میں میاں اسلم کے استاد خوشی محمد ناظرؔ کا انداز صاف جھلک رہا تھاجودس برس پہلے اقبال اور ناظر دونوں کے یہاں مشترک تھا: پھر بلا لے اپنے ویرانوں میں وسطِ ایشیا اب تو خاکِ ہند میں میرا گزارا ہو چکا۱۰۰ ۱۶۴ مرزا جلال الدین نے دیکھا کہ کبھی کبھی اقبال موسیقی کی محفل کے دوران اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: گانا جاری رہتا کہ اقبال کا قلب جذبات سے متاثر ہونے لگتا اور ایک دھیمی آواز میں گنگنانا شروع کر دیتے جس کے ساتھ ساتھ اپنے داہنے زانو کو ہاتھ سے تھپکتے جاتے۔ اس کیفیت کے آشکار ہوتے ہی اربابِ نشاط کو فی الفور گانے سے روک دیا جاتا۔۔۔ سازندے جو اقبال کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے، نہایت مدھم سُروں میں ایک قسم کی تال سی دیتے تھے جس کے ساتھ وہ اپنی مخصوص لَے میں اپنے اشعار پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کی آواز سازوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے کچھ ایسی دل نواز ہو جاتی کہ ایک سماں بندھ جاتا۔۔۔ شیخ عبدالقادر نے مرزا جلال الدین کو مشورہ دیا تھا کہ ان اشعار کو محفوظ کر لیا کریں۔ نہ ہو سکا۔ ایسا ہی موقع تھا۔ اقبال اطراف سے بیخبر بیٹھے تھے۔ ملت کی وحدت میں گم ہو گئے ہوں گے۔ الست کے دن وجود میں آ ئی تھی۔ تمام رُوحوں کا اللہ کے ساتھ پیمان ہوا تھا۔ دُنیا کی تاریخ میں کا ظہور حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت سے ہوا۔ ہر شہر کے الگ الگ دیوتاؤں نے انسانیت کو تقسیم کر رکھا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ میں خدائے واحد کا گھر بنایا۔ اِنسانیت کی وحدت کا اعلان کر دیا۔ اقبال کی زبان سے ایک نیا شعر جاری ہوا۔ سازاُس کے مطابق ہو گئے: دُنیا کے بتکدے میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اُس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا۱۰۱ بعد میں کبھی اِس شعر میں ترمیم ہوئی۔ ۱۶۵ موسیقی کی محفل کے بعد مزید اشعار لکھے: تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا کافی نہیں ہے ہم کو وحدت عرب عجم کی مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا گیارہ اشعار کی نظم ہوئی ۔ آغاز کے بارے میں مطمئن نہیں تھے۔ پھر یوں لکھا: مشعل جلا دی ہم نے تاریکیٔ جہاں میں دوسرا مصرعہ نہ ہو سکا۔ آخر نظم کے نیچے الگ سے دو اَشعار لکھے: چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا اے موجِ دجلہ تُو بھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا۱۰۲ بعد میں کبھی نظم کا عنوان ’ترانۂ ملی‘ ہوا۔ کچھ ترمیم ہوئی۔ ۱۶۶ کوئی انجمن شبابِ اسلام تھی۔ اُس کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے نیا ترانہ سنایا۔ ترانۂ ملی چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا اے گلستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا اے موجِ دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا اے ارضِ پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا سالارِ کارواں ہے میر حجازؐ اپنا اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا اقبالؔ کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا یہ ترانہ، اقبال کا ترانہ کہلایا۔ اُس زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں اُسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کی قومی شناخت بن گیا جس طرح پہلے ترانۂ ہندی، ہندوستان کی شناخت بنا تھا۔وہاں اقبال نے کہا تھا،’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔ اُس نکتے کی انتہا یہی ہو سکتی تھی کہ مذہب، وطن کے نام پر دوسرے ملکوں سے بیر رکھنا بھی نہ سکھائے۔ یہ بتائے کہ سارا جہاں اپنا وطن ہے۔ ترانے کا ذہنی ماحول ’صقلیہ‘، ’بلادِ اسلامیہ‘اور ’گورستانِ شاہی‘ وغیرہ سے کچھ مختلف تھا۔ وہاں گزری ہوئی تاریخ کی راکھ سے ہلکی ہلکی آنچ اٹھ رہی تھی۔ یہاں سرشاری تھی۔ گزرا ہوا کل اپنی پوری حرارت کے ساتھ شاعر کے سینے میں دوبارہ زندہ ہوگیا تھا۔ ۱۶۷ وطنیت (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصوّر کے) اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اِس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے غارت گرِ کاشانۂ دینِ نَبوی ہے بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفَوی ہے نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے اے مصطفَوی خاک میں اس بُت کو ملا دے ! ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزادِ وطن صُورتِ ماہی ہے ترکِ وطن سُنّتِ محبوبؐ الہٰی دے تُو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی گُفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے ۱۶۸ انسانیت کی تقدیر میں ہر قوم کو حصہ لینا تھا۔ فتوحات اور مال و دولت کا شوق حجاب بن جاتا تھا۔ جرمن قوم کو انسانی علوم کی تنظیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اب وہ تجارت کے چکر میں پڑے تھے۔ سلطنت بنا بھی لیتے تو راستے سے ہٹنے کے بعدکتنی دُور جاسکتے؟ سیاسی آزادی ہندُو کے لیے حجاب بن رہی تھی۔ اقبال نے انگریزی نوٹ بک میں لکھا: اس تجربے سے گزرنے کے بعد اُسے اپنے نقصان کا احساس ہو گا،‘‘ انگریزی نوٹ بک میں لکھا ۔ ’’وہ اپنا چولا بدل کر بالکل ایک نئی قوم کی جون میں آ جائے گا۔ نئی اس اعتبار سے کہ وہ اپنے اُن بزرگوں کا کوئی اثر اپنے آپ میں نہ پائے گا جن کے بلند و پاکیزہ تخیلات بہت سے پریشان ذہنوں کے لیے مستقل تسکین کا ذریعہ بنتے رہے۔ قومیں تصورات کو جنم دیتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ تصورات خود ماں بن کر نئی قوموں کو جنم دے ڈالتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ نے شاعری کو زندگی پر تنقید کہا تھا۔ زندگی بھی تو شاعری پر تنقید تھی۔ * In the economy of nature each nation has a function allotted to it. The function of the German nation is the organisation of human knowledge. But they have recently started on a commercial enterprise which may give them an empire, but they will have to suffer the displacement of a higher ideal by the all-absorbing spirit of trade. * It is extremely interesting to watch the birth and growth of a new ideal among a people. O! the enthusiasm it inspires and the force with which it attracts all the energies of a people to one common centre. The modern Hindu is quite a phenomenon. To me his behaviour is more of a psychological than a political study. It seems that the ideal of political freedom which is an absolutely new experience to him has seized his entire soul, turning the various streams of his energy from their wonted channels and bringing them to pour forth their whole force into this new channel of activity. When he has passed through this experience he will realise his loss. He will be transformed into an absolutely new people - new in the sense that he will no longer find himself dominated by the ethical ideals of his ancestors whose sublime fancies have been a source of perpetual consolation to many a distressed mind. Nations are mothers of ideals; but ideals, in course of time, become pregnant and give birth to new nations. * Philosophy is the logic of right, history the logic of might. The cannons of this later logic appear to be more sound than those of her sister logic. * The verdict of history is that buffer states have never been able to form themselves into great political units. So was the case with Syria - a buffer state between the Empire of Rome and that of the Persians. It seems difficult to forecast the future of Afghanistan. * Matthew Arnold defines poetry as criticism of life. That life is criticism of poetry is equally true. * In the sphere of human thought Muhammad, Buddha, and Kant were probably the greatest revolutionaries. In the sphere of action Napoleon stands unrivalled. I do not include Christ among the world's revolutionaries, since the movement initiated by him was soon absorbed by pre-Christian paganism. European Christianity seems to me to be nothing more than a feeble translation of ancient paganism in the language of Semitic theology. * The Jewish race has produced only two great men - Christ and Spinoza. The former was God incarnated in the Son, the latter in the universe. Spinoza was only a completion of the greatest teacher of his race.۱۰۳ ۱۶۹ ’’نواب ذوالفقار علی خاں صاحب جب پٹیالہ میں تھے تو ہمیں بار بار وہاں بلایا کرتے تھے،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’ایک دفعہ میں اور ڈاکٹر صاحب (اقبال) اُن سے ملنے کے لیے گئے اور دو تین دن وہاں رہے۔‘‘۱۰۴ ۱۷۰ گورنمنٹ کالج کے تقسیمِ انعامات کے جلسے میں لیفٹنٹ گورنر مہمانِ خصوصی تھے۔ شہر کے معززین بھی مدعو تھے۔ اقبال اپنے ساتھ علی بخش کو لے گئے۔ تقریب میں میاں اسلم نے بھی اپنی نظم ترنم کے ساتھ پڑھی۔ اگلے روز میاں اسلم، اقبال کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گرامی بھی آئے ہوئے ہیں۔ علی بخش نے میاں اسلم کو پہچان کر پنجابی میں کہا، ’’واہ اسلم جی! راتیں تے تُسی حد کر دِتی۔‘‘ گرامی اونچا سننے لگے تھے۔ انہوں نے علی بخش سے دریافت کیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو اُس نے پچھلی رات کی تقریب اور نظم کا ذکر کیا۔ گرامی نے اسلم سے کچھ سنانے کی پنجابی میں فرمایش کی جس پر میاں اسلم اس لیے خاموش رہے کہ اپنے کالج کے اُستاداقبال کی موجودگی میں وہ شعر پڑھنے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ اصلاح تو خوشی محمد ناظرؔ سے لیتے تھے۔ گرامی نے گرج کر دوبارہ تقاضا کیا تو اسلم نے اقبال کی طرف دیکھا اور اُنہوں نے اجازت دی تو اسلم نے جھجھکتے ہوئے کہا: قیس اُڑائے نہ جنوں سے جو کبھی گرد و غبار سُرمہ پھر زیب دہِ چشمِ غزالاں نہ رہے گرامی نے شاید ذرا چِڑ کر کہا، ’’ایہہ تے تیرے اُستاد دا رنگ اے، کجھ ہور سنا!‘‘ یعنی یہ تو اقبال کا رنگ ہے، کچھ اور سناؤ۔ اسلم نے ایک اور شعر سنایا: جس طرح بنے گزارا کر یہ زمانہ نہیں شکایت کا اقبال نے کہا، ’’پھر پڑھو!‘‘ جس پر اسلم نے خوشی خوشی اپنا شعر دہرایا۔ اقبال کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہا، ’’اسلم! شعر مت کہا کرو۔ نثر لکھا کرو۔‘‘ اُس وقت شاید کسی کو بھی اندازہ نہ رہا ہو کہ اس دن کے بعد میاں اسلم واقعی شاعری ترک کر دیں گے اور بالآخر ایم اسلم کے نام سے اردو کے زُودنویس اور مقبول ناول نگار بنیں گے۔۱۰۵ ۱۷۱ نیٹشے کی دیوانگی کا مطلب کم لوگ سمجھتے تھے۔ اُس کی تعلیمات برائی کی طرف لے جاتی تھیں۔لیکن وہ برائی مغربی تہذیب کی گہرائیوں میں پہلے سے موجود تھی۔ انگریزی نوٹ بک میں لکھا: اگر میں کسی طوائف سے شادی کروں تو اس کا مطلب ہے کہ اس قسم کے گھناؤنے رشتے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اگر آپ میرے فعل کو کسی کہانی کا موضوع بنائیں تو مجھے اعتراض ہو گا۔ ۱۷۲ امریکی ماہر ِعمرانیات فرینکلن گڈنگز(Franklin Giddings) کا خیال تھا کہ معاشرہ اپنے ارتقا کے عمل میںچار قسم کی شخصیات پیدا کرتاتھا: ۱ دلیر اور اُجڈ ۲ عیش و عشرت کا ذوق رکھنے والی شخصیت پہلی کے ردعمل میں سامنے آتی ۳ اپنے آپ پر قابو رکھ کر سنجیدگی اختیار کرنے والی شخصیت جو دوسری کے ردِ عمل میں سامنے آتی ۴ منطقی اور باضمیر شخصیت اقبال کے خیال میں امیر تیمور پہلی قسم کا نمایندہ تھا۔ شہنشاہ بابر کی شخصیت میں پہلی اور دوسری اقسام کی آمیزش تھی جبکہ جہانگیر پوری طرح دوسری قسم کی تصویر تھا۔ تیسری قسم کی بہترین مثال اورنگزیب عالمگیر تھا۔۱۶۱ قرآن گزشتہ صحیفوں کی تکمیل کی تصدیق کرنے والی کتاب تھی۔ کسی گزشتہ مذہب کو ماننے والی قوم جب اسلام قبول کرتی تو پچھلے مذہب سے پیدا ہونے والی ذہانت اُس میں باقی رہتی۔ مسلمان معاشرے کا حصہ بننے کے بعد پھر چمک اُٹھتی۔ انگریزی نوٹ بک میں لکھا: ہماری مسلم تہذیب سامی اور آریائی تصورات کی پیوندکاری کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسی اولاد ہے جسے اپنی آریائی ماں کی نرمی اور شائستگی، اور اپنے سامی باپ کا مضبوط کردار ورثے میں ملا ہو۔ ایران کی فتح کے بغیر اسلامی تہذیب یک رخی رہ جاتی۔ ہمیں ایران کی فتح نے وہ دیا جو یونان کی فتح نے روم کو دیا تھا۔ * I have the greatest respect for Aristotle, not only because I (living in the twentieth century) know him much better than the older generations of my community, but also because of his vast influence on the thought of my people. The tinge, however, of ingratitude revealed in his criticism of Plato's doctrine of Ideas withholds me from giving him my fullest admiration. I do not deny the truth contained in his criticism of his master's views; but I detest the spirit in which he chooses to approach them. * There are strange inconsistencies in the nature of man. If I marry a prostitute I indicate thereby that I do not object to such nasty alliances. But if you make my conduct the subject of a story I take it ill - I condemn in theory what I permit in practice. The philosophy of Nietzsche - at least in the domain of ethics - is an attempt rationally to justify the conduct of Europe, yet this great prophet of aristocracy is universally condemned in Europe. Only a few have realised the meaning of his madness. * The political genius of Aurangzeb was extremely comprehensive. His one aim of life was, as it were, to subsume the various communities of this country under the notion of one universal empire. But in securing this imperial unity he erroneously listened to the dictates of his indomitable courage which had no sufficient background of political experience behind it. Ignoring the factor of time in the political evolution of his contemplated empire he started an endless struggle in the hope that he would be able to unify the discordant political units of India in his own lifetime. He failed to Islamise (not in the religious sense) India just as Alexander had failed to Hellenise Asia. The Englishman, however, came fully equipped with the political experiences of the nations of antiquity and his patience and tortoise-like perseverance succeeded where the hasty genius of Aurangzeb had failed. Conquest does not necessarily mean unity. Moreover, the history of the preceding Mohammedan dynasties had taught Aurangzeb that the strength of Islam in India did not depend, as his great ancestor Akbar had thought, so much on the goodwill of the people of this land as on the strength of the ruling race. With all his keen political perception, however, he could not undo the doings of his forefathers. Sevajee was not a product of Aurangzeb's reign; the Maharatta owed his existence to social and political forces called into being by the policy of Akbar. Aurangzeb's political perception, though true, was too late. Yet considering the significance of this perception he must be looked upon as the founder of Musalman nationality in India. I am sure posterity will one day recognise the truth of what I say. Among the English administrators of India, it was Lord Curzon who first perceived the truth about the power of England in India. Hindu nationalism is wrongly attributed to his policy. Time will, I believe, show that it owes its existence to the policy of Lord Ripon. It is, therefore, clear that in their political purpose and perception both the Mughals and the English agree. I see no reason why the English historian should condemn Aurangzeb whose imperial ideal his countrymen have followed and whose political perception they have corroborated. Aurangzeb's political method was certainly very rough; but the ethical worth of his method ought to be judged from the standpoint of the age in which he lived and worked. * If you ask me what is the most important event in the history of Islam, I shall say without any hesitation: "The Conquest of Persia." The battle of Nehawand gave the Arabs not only a beautiful country, but also an ancient civilization; or, more properly, a people who could make a new civilisation with the Semitic and Aryan material. Our Muslim civilisation is a product of the cross-fertilisation of the Semitic and the Aryan ideas. It is a child who inherits the softness and refinement of his Aryan mother, and the sterling character of his Semitic father. But for the conquest of Persia, the civilisation of Islam would have been one-sided. The conquest of Persia gave us what the conquest of Greece gave to the Romans. * As far as I can see Mirza Ghalib - the Persian poet - is probably the only permanent contribution that we - Indian Muslims - have made to the general Muslim literature. Indeed he is one of those poets whose imagination and intellect place them above the narrow limitations of creed and nationality. His recognition is yet to come. * A disinterested foreign rule is an impossibility. Yet the tutelage of nations is a necessity. The fee paid for this tuition is sometimes a nation's daily bread. The Mexicans had to undergo a severe training under the Spaniards before they could undertake to manage their own affairs. * The popularity of a poem does not depend on the amount of logical truth revealed in it. Goldsmith's "Deserted Village" is extremely popular; yet the poem is full of scientific inaccuracies and bad economic reasoning.۱۰۶ ۱۷۳ ہیگل اور گوئٹے نے چیزوں کے باطن کی طرف اقبال کی رہنمائی کی تھی۔ مرزا غالب اور عبدالقادر بیدل نے سکھایا تھا کہ شاعری کے غیرملکی نصب العین کو سمونے کے باوجود اپنی روح کو مشرقی کیسے رکھا جائے۔ ولیم ورڈزروتھ نے طالب علمی کے زمانے میں دہریت سے بچایا تھا۔ زندگی کی عمیق ترین گہرائیوں کو سادہ حکایات میں پیش کرنے کے اُستاد صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مولانا جلال الدین رومی اور ولیم شیکسپئیر تھے۔ انگریزی نوٹ بک میں لکھا: تصورات ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں۔ سیاست میں انفرادیت کی رَو اپنے زمانے کی سائنسی فکر پر اثر ڈالے بغیر نہیں بڑھ رہی ہے۔ جدید فکر کائنات کو زندہ جوہروں کی ایک جمہوریت کے طور پر دیکھتی ہے۔ * I confess I owe a great deal to Hegel, Goethe, Mirza Ghalib, Mirza Abdul Qadir Bedil and Wordsworth. The first two led me into the "inside" of things; the third and fourth taught me how to remain oriental in spirit and expression after having assimilated foreign ideals of poetry, and the last saved me from atheism in my student days. * To explain the deepest truths of life in the form of homely parables requires extraordinary genius. Shakespeare, Maulana Rum (Jalaluddin) and Jesus Christ are probably the only illustrations of this rare type of genius. * In the development of universal civilisation the Jewish factor cannot be regarded as a negligible quantity. The Jews were probably the first framers of the principles of business morality summed up in the idea of righteousness. * The true sphere of Mazzini was literature, not politics. The gain of Italy is not much compared to the loss which the world has suffered by his devotion to politics. * Modern science ought not to mock at metaphysics, for it was a metaphysician - Liebnitz - who first gave science her working idea of matter. The "substance," said he, is essentially "force" "resistance." Borrowing this notion from metaphysics, science devotes herself to the study of the behavior of this force. And it is clear that she could not have discovered it for herself. * Ideas act and react on each other. The growing spirit of individualism in politics is not without its influence on contemporary scientific thought. Modern thought regards the universe a democracy of living atoms. * The progress of thought cannot be divorced from other phases of human activity. Our histories of philosophy tell us what various peoples have thought, but they give us no information as to the various causes - social and political - which have determined the character of human thought. To write a complete history of philosophy would certainly be a tremendous task. A mere theologian cannot fully reveal to his readers the rich content of Luther's Reform. We are apt to isolate great ideas from the general stream of man's intellectual activity.۱۰۷ ۱۷۴ شاعری والی بیاض میں ’شیکسپیئر‘ کا عنوان ڈال کر لکھا: شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ شفقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ برگِ گل آئینۂ عارضِ زیبائے بہار جوہرِ گل کے لیے ماہِ تمام آئینہ جس طرح شراب پینے والے کو جام میں، صبح کے رنگوں کو دریا کی روانی میں اور بہار کے موسم کو پھول کی پتی میں اپنا حسن دکھائی دیتا اُسی طرح دل کو شیکسپیئر کے کلام میں وہ حسن دکھائی دیتا جو فطرت کی سچائی تھا۔ مصرعوں کی بندش بدلنے کی ضرورت پیش آئی: شفقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشیٔ شام آئینہ برگِ گل آئینۂ عارضِ زیبائے بہار شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ حسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حُسن واسطے دل کے ترا حُسنِ کلام آئینہ۱۰۸ تراش خراش سے نظم سنور رہی تھی مگر کسی وجہ سے یہ بہت مدّت کے لیے ادھوری چھوڑ دی گئی۔ترمیم و تکمیل بہت بعد میں کبھی ہوئی۔ کالج زمانے کے دوست فضلِ حسین کے والد میاں حسین بخش فوت ہوگئے تھے۔ اقبال تعزیتی نظم لکھنے لگے۔ ۱۷۵ نظم دھیمے اور گمبھیر لہجے میں شروع ہوئی۔ جیسے کسی کا جنازہ جا رہا ہو ۔پھرموت کی وادی میں آہستہ آہستہ زندگی کے پھول کھلنے لگے۔ پہاڑ کی بلندیوں سے ندی گاتی ہوئی آئی۔ شاعر نے موت سے اور شاید اپنے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے بھی انتقام لی۔ کہا کہ مرنے والے کبھی جدا نہ ہوتے تھے۔ جب زندگی میں ایسے اندھیرے چھا جاتے جنہیں دُور کرنا زندہ دوستوں کے بس میں نہ ہوتا تو مرنے والے روشنی دکھاسکتے تھے۔جسم کی قید سے آزاد جو تھے۔ موت زندگی کی طاقت کم نہیں کرتی تھی۔ امکانات میں اضافے کا سبب بنتی تھی۔ زندگی ایک ندی تھی۔ بلندی سے گرتے وقت کئی بوندوں میں تقسیم ہو جاتی۔ یہ افراد تھے۔ آگے سمندر تھا۔ سات بند تھے جن کی خوب تراش خراش ہوئی۔ عنوان پہلے ’فضل حسین کے نام‘ رکھا۔ پھر کاٹ کر ’فلسفۂ غم‘ لکھ دیا۔اڈونس کے مقابلے میں یہ بہت سادہ تھی۔۱۰۹ شیلے نے اپنی نظم سے پہلے جو افلاطونی شعر اور اُسی خیال کا آخری بند لکھا تھا، اُس کا اثربھی نظر آتا۔ اِس فرق کے ساتھ کہ افلاطون کے مرنے والے صرف مردوں کی دنیا میں روشنی پہنچاتے تھے۔ اقبال کے گزرے ہوئے بدستور زندوں پر چمک رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کالج میں اڈونس پڑھاتے ہوئے اپنی عادت کے مطابق ملتے جلتے خیالات والے اَشعار مشرق کے قدیم شاعروں کے کلام میں سے بھی اکٹھے کیے ہوں گے۔ اُن کا اثر بھی نظم میں آیا ہوگا۔بہرحال ایک نیا رنگ جھلک رہا تھا۔ اقبال کا خاص رنگ تھا۔۱۱۰ فلسفہ ٔ غم (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹرایٹ لأ لاہور کے نام) گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے ساز یہ بیدار ہوتا ہے اِسی مضراب سے طائرِ دل کے لیے غم شہپرِ پرواز ہے راز ہے انساں کا دل غم انکشافِ راز ہے دیدۂ بینا میں داغِ غم چراغِ سینہ ہے روح کو سامانِ زینت آہ کا آئینہ ہے غم نہیں غم، روح کا اِک نغمۂ خاموش ہے جو سرودِ بربطِ ہستی سے ہم آغوش ہے شام جس کی آشنائے نالۂ ’یا رب‘ نہیں جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں جس کا جامِ دل شکستِ غم سے ہے ناآشنا جو سدا مستِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا ہاتھ جس گلچیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے عشق جس کا بیخبر ہے ہجر کے آزار سے گو بظاہر تلخیٔ دوراں سے آرامیدہ ہے زندگی کا راز اُس کی آنکھ سے پوشیدہ ہے اے کہ نظمِ دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید عشق عقلِ انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید عشق عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے ظلمتِ ہستی میں یہ سورج سدا تابندہ ہے رخصتِ محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں روح میں غم بن کے رہتا ہے، مگر جاتا نہیں ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی آتی ہے ندی جبینِ کوہ سے گاتی ہوئی آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی آئینہ روشن ہے اس کا صورتِ رخسارِ حور گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور نہر جو تھی، اُس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے یعنی اِس اُفتاد سے پانی کے تارے بن گئے جوئے سیمابِ رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے دو قدم پر پھر وہی جُو مثلِ تارِ سیم ہے ایک اصلّیت میں ہے نہرِ روانِ زندگی گر کے رفعت سے ہجومِ نوعِ انساں بن گئی پستیِ عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو دامنِ دل بن گیا ہو رزم گاہِ خیر و شر راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر خضرِ ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر فکر جب عاجز ہو اور خاموش آوازِ ضمیر وادیٔ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اُس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں بعد میں کبھی نظم میں کچھ ترمیم ہوئی: فلسفۂ غم (میاں فضل حسین صاحب بیرسٹرایٹ لأ لاہور کے نام) [نیا متن] گو سراپا کیف عشرت ہے شرابِ زندگی اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی موج غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی ہے ’الم‘ کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں جو خزاں نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں دیدۂ بینا میں داغِ غم چراغِ سینہ ہے روح کو سامانِ زینت آہ کا آئینہ ہے حادثاتِ غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال غازہ ہے آئینۂ دل کے لیے گردِ ملال غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے راز ہے انساں کا دل، غم انکشافِ راز ہے غم نہیں غم، روح کا اک نغمۂ خاموش ہے جو سرودِ بربط ہستی سے ہم آغوش ہے شام جس کی آشنائے نالۂ ’یا رب‘ نہیں جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں جس کا جامِ دل شکست غم سے ہے ناآشنا جو سدا مست شرابِ عیش و عشرت ہی رہا ہاتھ جس گُلچیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے کلفت غم گرچہ اُس کے روز و شب سے دور ہے زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید عشق عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں روح میں غم بن کے رہتا ہے، مگر جاتا نہیں ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی آئنہ روشن ہے اس کا صورتِ رخسار حور گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور نہر جو تھی، اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے جوئے سیمابِ رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی ہجر، ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے دو قدم پر پھر وہی جو مثل تارِ سیم ہے ایک اصلیت میں ہے نہر روانِ زندگی گر کے رفعت سے ہجومِ نوعِ انساں بن گئی پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو دامن دل بن گیا ہو رزم گاہِ خیر و شر راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر خضرِ ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر فکر جب عاجز ہو اور خاموش آوازِ ضمیر وادیِ ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں ۱۷۶ گرمیوں کی رات تھی۔ چھت پر سونے کے لیے لیٹے تھے۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ کچھ اشعار موزوں ہو گئے۔ علی بخش کو جگانے کی بجائے خود ہی بیاض لینے کے لیے اُٹھے۔ لالٹین لے کر نچلی منزل میں دفتر کے کمرے میں گئے۔ انارکلی بازار کے رُخ پر تھا۔ اشعار قلم بند کر لیے۔ روایت ہے کہ واپس جانے کے لیے پلٹے تو دیکھا کہ کمرے میں ایک درازقد سفید داڑھی والے بزرگ سفید لباس پہنے کھڑے تھے۔ تعجب ہوا ۔ گھر کے سب دروازے بند تھے۔ پوچھا کہ کون ہیں اور کیسے آئے تو بزرگ نے جواب دیا، میں یہ کہنے آیا ہوں کہ تم پانچ سو آدمی تیار کرو، پانچ سو آدمی تیار کرو۔ یہ کہتے ہوئے نظروں سے غائب ہو گئے۔ اگلی صبح آنکھ کھلی تو رات کا واقعہ ذہن میں آیا۔ خواب سمجھے مگر نچلی منزل پر پہنچے تو رات کے لکھے ہوئے اشعار موجود پائے۔ قریب ہی لالٹین رکھنے کا نشان بھی ابھرا ہوا تھا۔۱۱۱ ۱۷۷ یورپ کی نظر میں یہ بات کھٹکتی تھی کہ اسلام میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔ لیکن انگلستان کے اونچے طبقے میں جو داشتائیں رکھنے کا رواج تھا؟ بچے وراثت سے محروم رہتے تھے۔ مرد کو ایک شادی تک محدود کرنا عورت پر احسان تھا یا مرد پر؟ فرانس میں جسم فروشی باقاعدہ پیشہ تھی۔ اس کا بندوبست کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ صرف تعددِ ازدواج ہی کو کیوں برا سمجھا جائے؟ اقبال نے انگریزی نوٹ بک میں لکھا: تعددِ ازدواج کی رسم کا یہ مطلب کبھی نہ تھا کہ اِسے عام کر دیا جائے۔ اسلام کے لحاظ سے جائز چیزوں میں سب سے بری طلاق ہے۔ تعددِ ازدواج کو کچھ اس وجہ سے بھی برداشت کیا گیا کہ طلاق معاشرے میں عام نہ ہو جائے۔۔۔ اس قانون کی رُو سے مرد اپنے تنوع کے رجحان کو بھی پورا کر سکتا ہے اور اس شوق کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں عائد ہوں اُن سے منہ پھیر کر نکل بھی نہیں سکتا۔ ۔۔۔یورپی ممالک میں۔۔۔ معاشرتی اور سیاسی نوعیت کی مختلف قوتیں ایسی عورتوں کی تعداد بڑھا رہی ہیں جنہیں شوہر دستیاب نہ ہو سکیں۔ وہ مائیں نہیں بن سکتیں اور نتیجے کے طور پر بچوں کی پرورش کے سوا دوسری دلچسپیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ وہ بچوں کی بجائے تصورات کو ’’جنم‘‘ دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ’’عورتوں کے لیے ووٹ‘‘ کے ولولہ انگیز تصور کو جنم دیا ہے۔۔۔ انگریز شاعر جَون ملٹن کی شاعری جھوٹے دیوتاؤں کے نام پر تعمیر کیا ہوا مندر تھی۔ * The institution of polygamy was never meant to be a universal institution. It was permitted to exist in order to meet certain difficulties which are not peculiar to Muslim society alone. The worst of permitted things, according to Islam, is "divorce". It was partly to avoid "divorce" becoming a common social phenomenon that polygamy was tolerated. Of the two social evils divorce and polygamy (evils if universalised), the later is certainly the lesser. But the avoidance of divorce is perhaps not the only justification for this institution; it is partly a concession to the nature of the male who, according to this institution, is allowed to indulge in his inclination for variety - without escaping scot-free from the responsibility arising out of this indulgence. In England the individual, does in some cases, indulge in such inclinations, but the law leaves him absolutely free from the responsibilities which may arise from his sexual freedom. He is not responsible for the education of the children he produces. Nor can such children inherit their father. The consequences, in some cases, are awful. France has been compelled to recognise prostitution as a social institution which it is the ugly duty of the State to keep healthy. But perhaps the greatest criticism on monogamy is the existence of the superfluous women in several European countries where various forces of a social and political nature are tending to enhance the number of women who cannot secure husbands. They cannot become mothers, and consequently they are driven to seek interests, other than the bringing up of children. They are compelled to "conceive" ideas instead of children. Recently they have conceived the inspiring idea of "votes for women." This is really an attempt on the part of the superfluous woman, or, if you like an attempt on her behalf, to create "interests" for her in the sphere of politics. If a society cannot allow their women to produce and bring up children they must give them something else to be occupied with. The Suffragette movement in Europe is at bottom a cry for husbands rather than votes. To me it is nothing more than a riot of the unemployed. * It is Goethe's Faust - not the books supposed to have been written by the Galilean Fishermen - which reveals the spiritual ideals of the German nation. And the Germans are fully conscious of it. * Love is more than elixir. The latter is supposed to turn baser metals into gold; the former turns all the baser passions into itself. Christ and Buddha were absolutely correct in their perception of the nature of love; but in their passion for ethical idealism they ignored the facts of life. It is too much to expect of man to love his enemies. Some extraordinary individuals may have realised this maxim in their life; but as a principle of national morality the maxim clearly falls down. The results of the Russo-Japanese war would have been different if the Japanese had acted on the principles of morality associated with their religion. * Individuals and nations die; but their children, i.e. ideas, never die. * An English gentleman once told me that he hated the Jews, because they believed themselves to be the Chosen People of God - a belief which implies and perhaps justifies contempt of other nations. He did not remember that the phrase White Man's Burden concealed the same Jewish belief in a different garb. * Goethe picked up an ordinary legend and filled it with the whole experience of the nineteenth century - nay, the entire experience of the human race. This transformation of an ordinary legend into a systematic expression of man's ultimate ideal is nothing short of Divine workmanship. It is as good as the creation of a beautiful universe out of the chaos of formless matter. * The Puritan theology of Milton cannot appeal to the imagination of our age. Very few people read him. Voltaire is quite true in saying that Milton's popularity will go on increasing because nobody reads him. There is, however, one thing in Milton. No poet has been more serious about his task than him. His style - a gigantic architecture consecrated to false deities - will always stand untouched by the palsied hand of time.۱۱۲ ۱۷۸ ’شکریہ‘ اور ’گورستانِ شاہی‘ مخزن جون ۱۹۱۰ء میں شائع ہوئیں۔ اقبال کے تعارفی نوٹ بھی شامل تھے۔ ۱۷۹ اقبال کے سابقہ منشی سلطان علی کسی فوجداری مقدمے میں پھنسے۔ اقبال سے درخواست کی کہ ہوشیارپور کے بیرسٹر شیخ عبدالعزیز سے مدد کروا دیں۔ ۱۲ جون کو اقبال نے تعارفی رقعہ لکھ کر سلطان علی کے حوالے کر دیا۔ ۱۸۰ سیالکوٹ میں گرمیوں کی رات تھی۔ اقبال تعطیلات پر آئے ہوئے تھے۔ اعجاز احمد، میاں جی (شیخ نور محمد) کا بدن دبا رہے تھے۔ اقبال بھی سونے کے لیے لیٹے۔ میاں جی سے اُس پراسرار بزرگ والے واقعے کا ذکر کیا۔ اس کا مطلب بھی پوچھا۔ میاں جی نے جواب دیاکہ اقبال پانچ سو آدمی تیار نہیں کر سکتے مگر اُنہیں چاہیے کہ آدمی بنانے والی پانچ سو اشعار کی کتاب لکھ دیں۔۱۱۳ ۱۸۱ اقبال کی بڑی بہن طالع بی بی جو آٹھ برس پہلے فوت ہوئی تھیں، اُن کے دوسرے لڑکے شیخ خورشید احمد بیس برس کے ہو چکے تھے۔ برادری میں حکیم پروفیسر جمشید احمد کے بڑے بھائی کی لڑکی مہتاب بی بی سے شادی ہوگئی۔ طالع بی بی کے شوہر شیخ غلام محمد بھی سیالکوٹ ہی میں رہتے تھے۔ میاں جی کا کاروبار سنبھالتے تھے۔ میاں جی کی اجازت سے دوسری شادی کر چکے تھے۔ بڑے لڑکے نور احمد نے پسند کی شادی کی تھی۔۱۱۴ ۱۸۲ امام بی بی اقبال کی دوسری شادی کی اجازت دے چکی تھیں۔ شیخ نور محمد تیار نہ تھے۔ اقبال کی بہن کریم بی بی سے روایت ہے: ایک دن میاں جی (شیخ نور محمد) اور بھائی صاحب (اقبال) میں کچھ علمی گفتگو ہو رہی تھی۔ بھائی صاحب نے میاں جی سے دریافت کیا کہ قرآن کریم کی آیت ھواالذی خلقکم مّن نفس واحدۃ وّ جعل منھا زوجھا لیسکن اِلیھامیں ’’نفس واحدۃ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ میاں جی سمجھ گئے کہ بھائی صاحب نفسِ واحدہ کا مطلب نہیں پوچھ رہے بلکہ اپنی بے سکون زندگی کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ شیخ نور محمد نے اُس روز کوئی جواب نہ دیا۔ خاموش رہے۔ دوسرے دن امام بی بی سے پوچھا، اقبال کے لیے کوئی رشتہ تلاش کیا؟۱۱۵ ۱۸۳ انجمن حمایت اسلام کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے جو بورڈ بنایا گیا تھا اس نے فیصلہ دے دیا۔ مجلس عاملہ توڑ دی جائے۔ انجمن کا سارا انتظام ایک جنرل کونسل اور نو ماتحت کمیٹیوں کے سپرد ہو۔ جنرل کونسل کی ہئیت میں بھی تبدیلیاںہوں۔ اسے زیادہ جمہوری بنایا جائے۔ مولوی انشأ اللہ خاں نے اپنے مقدمات واپس لے لیے۔ ۱۹ جولائی کو فیصلہ پیسہ اخبار میںشائع ہوا۔۱۱۶ ۱۸۴ جولائی ۱۹۱۰ء کے مخزن میں’ فلسفۂ غم‘ شائع ہوئی۔ تعارفی نوٹ میں اقبال نے لکھا تھا کہ نظم ذاتی نوعیت کی ہے۔ پھر بھی شائع کی جا رہی ہے تاکہ میاں فضل حسین کے تمام احباب تک پہنچ جائے۔ فضل حسین کے چھوٹے بھائی افضل حسین جو کالج میں اقبال سے شاعری پڑھ رہے تھے، اقبال کی نظم کاموازنہ شیلے کی اڈونس سے کیے بغیر نہ رہ سکے۔۱۱۷ ۱۸۵ شاید میاں فضل حسین ابھی تمام سرگرمیاں دوبارہ شروع نہیں کر سکے تھے۔ ۲۶ جولائی کو انجمن حمایت اسلام کی کالج کمیٹی کے اجلاس میں، جس کے وہ سیکرٹری تھے، شریک نہ ہو ئے۔ اقبال کو سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ۱۸۶ ایک عرب شاعر نے حماسہ میں لکھا تھا: وہ میرے چچا کا لڑکا چٹان کے کنارے پر چلا جا رہا ہے کیا میں پیچھے سے جا کر اُسے سنگلاخ وادی میں دھکیل دوں کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے؟ اُس کے رویے کے پیش نظر جائز ہو گا مگر کمینگی ہے اور مردانگی کے خلاف! اِس بات میں چھپی شعریت دیکھنے کے لیے کس مزاج کی ضرورت تھی؟ * The soul of Oscar Wilde is more Persian than Eng[lish.] * The spendthrift is nature's own child. She does not like the accumulation of large masses of wealth in the hands of a few individuals. When the maker of a family succeeds in amassing a fortune, it often happens that in the third or even in the second generation a spendthrift appears and scatters the whole wealth. But for this agent of nature the circulation of wealth would be clogged. What is true of individuals is also true of nations. When a nation, by industry or otherwise, amasses and hoards up wealth - thus clogging the wheel of the world's industry the working of which depends on the continual circulation of money - robber nations appear on the scene and set the imprisoned wealth at liberty. Warren Hastings, Clive and Mahmud are the representative types of such nations which are unconscious agents of nature in the advancement of world's industry. The robbery of Warren Hastings finds its true explanation in the history of the European currencies in the seventeenth and eighteenth centuries. * The memory of man is generally bad except for the offences he receives from his fellow men. * There are no amusements in Muslim countries - no theatres, no music halls, no concerts, and better so. The desire for amusement once satisfied soon becomes insatiable. The experience of European countries clearly proves this deplorable fact. The absence of amusement in Muslim countries indicates neither poverty nor austerity nor bluntness of the sense for enjoyment; it reveals that the people of these countries find ample amusement and enjoyment in the quiet circles of their homes. The European critic ought not to be so hasty in his denunciation of the Muslim home. I admit that indifference to outdoor amusement is not a necessary consequence of domestic happiness; nor does love of amusement necessarily mean domestic unhappiness. * The fate of the world has been principally decided by minorities. The history of Europe bears ample testimony to the truth of this proposition. It seems to me that there is a psychological reason why minorities should have been a powerful factor in the history of mankind. Character is the invisible force which determines the destinies of nations, and an intense character is not possible in a majority. It is a force; the more it is distributed the weaker it becomes. * There are some people who are sceptical and yet of a religious turn of mind. The French Orientalist Renan reveals the essentially religious character of his mind in spite of his scepticism. We must be careful in forming our opinion about the character of men from their habits of thought. * "There is my uncle's son walking along the edge of a precipice. Shall I go and, from behind, push him down the rocky valley to die without a dawn? Considering his treatment I am perfectly justified in doing so; but it is mean and unmanly to do such a thing." * So says the Arab poet in the Hamasa (?) This passage may be taken as a typical specimen of Arab poetry. No poetry is so direct, so straightforward and so manly in spirit. The Arab is intensely attached to reality; brilliancy of colour does not attract him. The poet Mutanabbi, however, may be regarded as an exception; but he is an Arab poet by language only; in spirit he is thoroughly Persian.۱۱۸ ۱۸۷ بھوپال میں ۱۸ اگست کو غالب کی غزل پر طرحی مشاعرہ ہو رہا تھا۔ کسی نے اقبال سے بھی فرمایش کی اور انہوں نے غالب کی غزل پر تین شعر لکھ کر بھجوا دیے: ۱۱۹ حلقہ زنجیر کا ہر جوہرِ پنہاں نکلا آئینہ قیس کی تصویر کا خنداں نکلا ہم گراں جان کر لائے تھے عدم سے بلبل باغِ ہستی میں متاعِ نفس ارزاں نکلا وسعت افزائیِ آشفتگیٔ شوق نہ پوچھ خاک کی مٹھی میں پوشیدہ بیاباں نکلا یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۱۸۸ افلاطون کو حیرت سوال پوچھنے پر اُکساتی تھی۔ مرزا عبدالقادر بیدل جو غالب سے ڈیڑھ سو برس پہلے گزرے، کہہ گئے تھے کہ حیرت کے میناخانے کی آغوش میں نزاکتیں ہیں، پلک مت جھپکو۔ منظر جما رہے: نزاکت ہاست در آغوش مینا خانۂ حیرت مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگ ِ تماشا را مذہبی خیالات کے ارتقأ میں پہلے تشکیک کا دَور آتا تھا۔ پھر بھی مذہب کی ضرورت باقی رہتی۔ تب دوسرا دَور شروع ہوتا۔ مذہب کو عقل کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ نتیجے میں تیسرا دَور آتا۔ اختلافِ رائے پیدا ہو جاتا۔ بددیانتی پر مبنی ہو تو بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔ عام طور پر بددیانتی ہی پر مبنی ہوتا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان اِسی دَور میں تھے۔ کسی حد تک دُوسرا دَور بھی باقی تھا۔ بعض اَن دیکھی قوتیں کام کر رہی تھیں۔ وہ ملت کی وحدت برقرار رکھنے والی تھیں۔ اُن کا اثر زیادہ عرصے نہ رہ سکتا تھا۔ * Wonder, says Plato, is the mother of all science. Bedil (Mirza Abdul Qadir) looks at the emotion of wonder from a different standpoint. Says he:- نزاکت ہاست در آغوش مینا خانۂ حیرت مژہ برہم مزن تا نشکنی رنگ ِ تماشا را To Plato wonder is valuable because it leads to our questioning of nature; to Bedil it has a value of its own irrespective of its intellectual consequences. It is impossible to express the idea more beautifully than Bedil. * In so far as the evolution of religious ideas is concerned there are principally three stages in the development of a community: 1) The Attitude of scepticism towards traditional religion - a revolt against dogma. 2) But the need of religion as a social force of great value is at last felt and then begins the second stage - an attempt to reconcile religion with reason. 3) This attempt leads necessarily to difference of opinion which may have awful consequences for the very existence of a community. Difference of opinion, if not honest (and unfortunately it is generally not honest), must lead to utter disintegration. The Musalmans of India are now in the third stage; or, perhaps, partly in the second partly in the third. This period in the life of our community appears to me to be extremely critical; but I am glad that there [are] forces of a different nature at work which have a tendency to preserve the solidarity of the community - though their influence, I fear, will be only temporary. * History is only an interpretation of human motives; and, since we are liable to misinterpret the motives of our contemporaries and even of our intimate friends and associates in daily life, it must be far more difficult rightly to interpret the motives of those who lived centuries before us. The record of history, therefore, should be accepted with great caution. * The working power of an idea depends on the force of the personality in which it embodies itself. Muhammad, Buddha and Jesus Christ are the great embodiments of the ideas of Equality, yet Islam is the only force in the world which is still working in the direction of Equality. * God created things; man created the worth of things. The immortality of a people depends upon their incessant creation of "worths," said Nietzsche. Things certainly bear the stamp of Divine manufacture; but their meaning is through and through human. * What is the law of things? Continual struggle. What must, then, be the end of Education? Evidently preparation for the struggle. A people working for intellectual superiority reveal thereby their feebleness. * Power is more divine than truth. God is power. Be ye, then, like your father who is in heaven.۱۲۰ ۱۸۹ کسی نے اکبر الٰہ آبادی سے اقبال کے ترانے پر رائے لی۔ اُنہوں نے کہا، ’’اقبال جوان آدمی ہیں، سارا جہاں ہمارا کہہ گئے۔ میں بڑھاپے میں یہ ترنگ کہاں سے لاؤں!‘‘ پھر کسی کو کاغذ پنسل سنبھالنے کا کہہ کر بولے: کالج میں ہو چکا جب امتحاں ہمارا سیکھا زباں سے کہنا ہندوستاں ہمارا رقبے کو کم سمجھ کے اقبال بول اٹھے ہندوستان کیا ہے، سارا جہاں ہمارا لیکن یہ سب غلط ہے کہنا یہی ہے لازم جو کچھ ہے سب خدا کا، وہم و گماں ہمارا۱۲۱ ۱۹۰ ’’مہدی کا انتظار چھوڑو، جو طاقت کی تجسیم ہے،‘‘ انگریزی نوٹ بک میں لکھا۔ ’’جاؤ اور اُسے جا کر تخلیق کرو۔‘‘ * The powerful man creates environment; the feeble have to adjust themselves to it. * Power toucheth Falsehood, and lo! it is transformed into Truth. Civilization is a thought of the powerful man. * Give up waiting for the Mehdi - the personification of Power. Go and create him. * The idea of Nationality is certainly a healthy factor in the growth of communities. But it is apt to be exaggerated, and when exaggerated it has a tendency to kill the broad human elements in Art and Literature. * No one can fully understand the significance of Kant's Categorical Imperative who does not study the political history of the German people. The rigor of Kant's conception of duty finds its full explanation there. * A diseased social organism sometimes sets up within itself forces which have a tendency to preserve the health of the organism - e.g. the birth of a great Personality which may revitalise the dying organism by the revelation of a new ideal.۱۲۲ ۱۹۱ ہزارہ کے قصبے پکھل میں کوئی انجمن اسلامیہ تھی۔ اس کے آنریری سیکرٹری گوہر علی خاں کو خیال آیا کہ عالمگیر اسلامی کانفرنس کے بارے میں مسلمان مشاہیر سے دریافت کیا جائے کہ کیا ایسی کانفرنس میں مسلمانوں کی شرکت مناسب ہے ۔ اقبال کو بھی خط لکھا۔ پیسہ اخبار ۳۱ جولائی کی اپنی تحریر یاد دلائی۔ اُس میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ اقبال اپنی قوم کی خدمت کریں گے۔ شکایت بھی کی کہ بیرسٹری کو پیارے ہو گئے ہیں۔ قومی خدمت کو پس ِ پشت ڈال دیا ہے۔ ۲۲ اگست کو اقبال نے اپنے جواب میں لکھا: کوئی شخص جو اپنی زندگی میں ناکام رہے اوروں کے کام نہیں آسکتا تاہم ان نامساعد حالات میں بھی جو کچھ مجھ سے ہوا ہے میں نے دریغ نہیں کیا۔ قومی خدمت کوئی آسان بات نہیں، افسوس ہے کہ آپ کو تمام حالات معلوم نہیں۔ کئی لوگوں نے ایسے ہی اعتراضات مجھ پر اور بعض لوگوں پر بھی کیے ہیں لیکن میں نے ان احباب کو معذور سمجھ کر کوئی جواب نہیں دیا۔ مصرمیں عالمگیر کانفرنس کی تجویز کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ ایسی کانفرنس ہونا ہی دشوار ہے۔ اسلامی ممالک اپنے اپنے سیاسی انقلابات میں اُلجھے ہیں۔ پھر بھی ہو جائے تو سیاست سے الگ رکھی جائے: اس کی تجاویز مسلمانوں کی سوشل اور مذہبی اصلاح تک محدود ہوں۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ دنیا کی گورنمنٹیں ضرور اسے بدظنی کی نگاہ سے دیکھیں گی۔۔۔ جو مقصد اس قسم کی کانفرنس سے پورا ہو وہ مکہ معظمہ کی سالانہ کانفرنس سے ہو سکتا ہے۔ افسوس ہے مسلمان اس سے فائدہ اٹھانا نہیں جانتے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب مسلمان اس رمز سے آگاہ ہوں گے جو فریضہ ٔ حج میں مختص ہے۔ مسلمانانِ عالم کی کسی ملک میں کوئی ایسی تحریک عام طور پر نہیں ہے جس کامنشا یورپ سے پولیٹکل مقابلہ کرنا ہو۔ نہ ایسا خیال ایک ایسی قوم میں پیدا ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو کلامِ الٰہی میں امن اور صلح کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پوشیدہ طور پر مشورہ کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ اقبال کے خیال میں پان اسلام ازم فرانسیسی صحافیوںکی وضع کی ہوئی اصطلاح تھی جو حقیقت سے ناواقف تھے۔ نواب وقارُالملک، شبلی نعمانی، میاں محمد شفیع اور مولوی محمد عزیز مرزا نے بھی اس کانفرنس سے دُور رہنے کی صلاح دی تھی۔ گوہر علی خاں نے ان خطوط کو اُس وقت شائع کروانا مناسب نہ سمجھا۔ ۱۹۲ ۲۶ اگست کو امریکہ کی ریاست نیوہیمپ شائر میں ولیم جیمز کا انتقال ہو گیا۔ ۱۹۳ بی ایس سی کے طلبہ مضمون نویسی کے لیے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ افضل حسین کا گروپ اقبال کے سپرد تھا۔ اُن سے روایت ہے کہ اقبال نے کہا، پرانے اور گھسے پٹے موضوعات پر سبھی لکھتے ہیں۔ نئے اور اچھوتے موضوعات پر بحث کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ گروپ کو مشورہ دیا کہ باطل کے دفاع میں مضمون لکھے۔۱۲۳ ۱۹۴ اسلام ایک نسل ساز قوت تھا۔ دُکھوں اور گناہوں سے بھری ہوئی دنیا کو سچ مچ کی جنت میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ صرف کردار اور صحتمند تخیل کی ضرورت تھی۔ مصیبت بھی قدرت کا تحفہ تھی۔ اس کی وجہ سے انسان زندگی کا مکمل مشاہدہ کر سکتا تھا۔ انگریزی نوٹ بک میں لکھا: دُنیا کی روح اپنی باطنی زندگی کے مختلف مرحلے علامات میں چھپاتی ہے،‘‘ لکھا گیا۔ ’’کائنات ایک بہت بڑی علامت کے سوا کچھ نہیں مگر وہ کبھی ہمارے لیے ان علامات کی تشریح کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ ہمارے لیے ان علامات کی تشریح کرنا شاعر کی ذمہ داری ہے۔ ان کی تشریح کرنا اور انسانیت پر اُن کے معانی ظاہر کرنا شاعر کی ذمہ داری ہے۔ لگتا یوں ہے جیسے شاعر اور دُنیا کی روح ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہی ہیں کیونکہ پہلا اُسے فاش کر دیتا ہے جسے دوسری چھپاتی ہے۔ * Self-Control in individuals builds families; in communities, it builds empires. * Both Islam and Christianity had to deal with the same adversary, i.e. idolatry. The difference, however, is this - that Christianity made a compromise with her adversary; Islam destroyed it altogether. * The more you reflect on the history of the Muslim community, the more wonderful does it appear. From the day of its foundation up to the beginning of the sixteenth century - about a thousand years, this energetic race (I say race since Islam has functioned as a race-making force) was continually busy in the all-absorbing occupation of political expansion. Yet in this storm of continuous activity this wonderful people found sufficient time to unearth and preserve the treasures of ancient sciences, to make material additions to them, to build a literature of a unique character, and above all to develop a complete system of law - the most valuable legacy that Muslim lawyers have left us. * Given character and healthy imagination, it is possible to reconstruct this world of sin and misery into a veritable paradise. * Suffering is a gift from the gods in order to make men see the whole of life. * A mathematician cannot but a poet can enclose infinity in a line. * The world-spirit conceals the various phases of her inner life in symbols. The universe is nothing but a great symbol. But she never takes the trouble to interpret these symbols for us. It is the duty of the poet to interpret these symbols for us. It is the duty of the poet to interpret them and to reveal their meaning to humanity. It would, therefore, appear that the poet and the world-spirit are opposed to each other; since the former reveals what the latter conceals. * Matthew Arnold is a very precise poet. I like, however, an element of obscurity and vagueness in poetry; since the vague and the obscure appear profound to the emotions. * History is a sort of huge gramophone in which the voices of nations are preserved. * At least in one respect sin is better than piety. There is an imaginative element in the former which is lacking in the latter. * Sin has an educative value of its own. Virtuous people are very often stupid. * Life, like the arts of poetry and painting, is wholly expression. Contemplation without action is death. * It is determination, not brains, that succeeds in life. * If you wish to become a public leader you ought to know how to flirt with the Dame Public. Entertain her with platitudes and, if necessary, with lies. * Recognise your limitations, estimate your capacities and your success in life is assured. * There is something of the plant in the lazy mind; it cannot dance. * No religious system can ignore the moral value of suffering. The error of the builders of Christianity was that they based their religion on the fact of suffering alone, and ignored the moral value of other factors. Yet such a religious system was a necessity to the European mind in order to supplement the beautiful but one-sided Hellenic Ideal. The Greek dream of life was certainly the best, as Goethe says; but it was wanting in the color-element of suffering which was supplied by Christianity. * If you have got a big library and know all the books therein, it only shows that you are a rich man, not necessarily that you are a thinker. Your big library only means that your purse is heavy enough to hire many people to think for you. * The question is not whether miracles did or did not happen. This is only a question of evidence which maybe interpreted in various ways. The real question is whether belief in miracles is useful to a community. I say it is; since such a belief intensifies the sense of the supernatural which holds together primitive societies as well as those societies (e.g. Islam) whose nationality is ideal and not territorial. Looked at from the standpoint of social evolution, then, belief in miracles appears to be almost a necessity. * Democracy has a tendency to foster the spirit of legality. This is not in itself bad; but unfortunately it tends to displace the purely moral standpoint, and to make the illegal and the wrong identical in meaning.۱۲۴ ۱۹۵ نثر میں افسانے اور ناول ہی لکھے جا سکتے تھے۔ میاں اسلم کا خیال تھا کہ یہ اکثر بے مقصد ہوتے ہیں۔ اُن کا بیان ہے کہ اقبال نے اُن سے کہا، ’’تم افسانہ لکھویا ناول، وہ بے مقصد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘۱۲۵ ۱۹۶ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں جو کلام پڑھا تھا وہ بازار میں کتابچوں کی صورت میں ملتا۔ انہوں نے اپنے بعض طلبہ کے لیے یہ سلسلہ شروع کیا کہ مرزا جلال الدین کی کوٹھی پر دس بارہ مخصوص طلبہ کو جمع کرتے اور ان کے سامنے اپنے اُس کلام کی تشریح کرتے جو کتابچوں کی صورت میں دستیاب تھا۔۱۲۶ ۱۹۷ ۱۷۸۹ء میں فرانس میں انقلاب آیا تھا۔ اُمرأ کے گلے کاٹے گئے تھے۔ تب جمہوریت قائم ہوئی تھی۔ مشکل سے پندرہ برس رہی۔ پھر نپولین بوناپارٹ شہنشاہ بن گیا۔ اُس کے بعد پرانے شاہی خاندان کی بادشاہت بحال ہو گئی۔ ان بادشاہوں نے شہریوں کے بعض حقوق تسلیم کیے۔ پارلیمنٹ کے نچلے ایوان کے ارکان ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے لگے۔ البتہ ووٹ ڈالنے کا حق صرف امیرترین آدمیوں کو حاصل تھا۔ ۱۸۴۸ء میں ایک نئے خون خرابے کے بعد یہ حق عوام کو بھی مل گیا۔ تب فرانس کے دانشوروں نے کہرام مچا دیا۔ ناول نگار اسٹینڈل نے یہ کہہ کر جمہوریت کی برائی کی کہ اس نظامِ حکومت میں بندوں کو صرف گنتے ہیں، تولتے نہیں ہیں۔ شاعر بودلیئر نے کہا کہ عوام بھاڑے کے جانوروں سے مختلف نہیں۔ یہ صرف بوجھ اُٹھانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ عزت کے قابل صرف سپاہی، پروہت اور وہ شعرأ ہیں جو عوام کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انگلستان میں بھی ووٹ ڈالنے کا حق صرف امیر ترین آدمیوں تک محدود تھا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ حق شہری آبادی کے اکثر مردوں کو دے دیا گیا۔ ان میں مزدور طبقے کے افراد شامل تھے۔ تب وہاں کے دانشوروں میں بھی کہرام مچا۔ میتھو آرنلڈ نے کہا کہ ثقافت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لاقانونیت اس کی جگہ لے لے گی۔ اُس نے یہ حل تجویز کیا کہ ادب اور ثقافت کو صرف خواص کے لیے محدود کر دیا جائے۔ یہ ثقافتِ عالیہ (high culture)ہو گی۔ عوام اپنے لیے الگ ثقافت بنا لیں جسے سوچ بچار سے تعلق نہ ہو۔ وہ مقبول ثقافت (popular culture) کہلائے گی۔ صدیوں سے ادب اور ثقافت، معاشرے کے تمام طبقوں کے درمیان فکر و نظر کا اتحاد پیدا کرتے آئے تھے۔ مغرب میں یہ راستہ بند کر دیا گیا۔ اقبال گزشتہ چند برسوں میں انگلستان کی تعریف کرتے رہے تھے کہ ایشیا میں جمہوریت کو متعارف کروانے کا سہرا اس کے سر ہے۔ پھر بھی اس حقیقت سے واقف تھے کہ فرانس اور برطانیہ میں جمہوریت کے خلاف ردِ عمل بہت گہرا تھا۔ ’’یورپ کی مختلف قوموں کے استعماری عزائم ظاہر کرتے ہیں کہ مغرب والے جمہوریت سے تنگ آ چکے ہیں،‘‘ انہوں نے نوٹ بک میں انگریزی میں لکھا۔ ’’انگلستان اور فرانس میں جمہوریت کے خلاف ردعمل بہت معنی خیز بات ہے مگر اس کا اصل مطلب سمجھنے کے لیے سیاسیات کے طالب علم کو صرف خالص تاریخی اسباب کی کھوج اور دریافت سے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے جن کی وجہ سے یہ پیدا ہوا ہے۔ اُسے زیادہ گہرائی میں جانا چاہیے اور اس ردعمل کے نفسیاتی اسباب تلاش کرنے چاہئیں۔‘‘ * The imperial ambitions of the various nations of Europe indicate that the Westerners are tired of Democracy. The reaction against Democracy in England and France is a very significant phenomenon. But in order to grasp the meaning of this phenomenon the student of political sciences should not content himself merely with the investigation and discovery of the purely historical causes which have brought it about; he must go deeper and search the psychological causes of this reaction. * The ancients produced Personalities; we produce moral readers. * Our young prophets of social reform think that a few doses of education on western lines will revitalise the dead Musalman woman and make her tear her ancient shrouds. This is perhaps true. But I fear, finding herself naked, she will have once more to hide her body from the eyes of these young prophets. * Nations are born in the hearts of poets; they prosper and die in the hands of politicians. * A prophet is only a practical poet. * Philosophy is a set of abstractions shivering in the cold night of human reason. The poet comes and warms them up into objectivity. * Nature was not quite decided what to make of Plato - poet or philosopher. The same indecision she appears to have felt in the case of Goethe. * A woman of superb beauty with a complete absence of self-consciousness is to me the most charming thing on God's earth. * The attitude of toleration and even conformity without belief in dogma is probably the most incomprehensible thing to the vulgar mind. If such is your attitude, keep quiet and never try to defend your position. * All the wonderful booklore in your library is not worth one glorious sunset on the banks of the Ravi. * True political life begins not with the claiming of rights, but with the doing of duties. * The beauties of nature can be realised only through the eyes of a lover. Hence the importance of a true marriage. * Both God and the Devil give man opportunities only, leaving him to make use of them in the way he thinks fit. * Think of the Devil and he is sure to appear." This is equally true of God. * God! I thank Thee for my birth in this world of rosy dawns, flame-clad sunsets and thick forests wherein the gloom of nature's bygone nights rests in eternal sleep! ۱۲۷ ۱۹۸ ایک مہینے بعد انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے، جو خود بھی اقبال کا قدردان تھا، اُن سے کہا کہ اُن کی محفل میں دوچار اُس کے مخبر بھی ہیں تو اقبال نے اپنے کلام کی تشریح کا سلسلہ بند کر دیا۔۱۲۸ ۱۹۹ رات نے شاعر سے پوچھا کہ سب نیند کی آغوش میں ہیں پھر وہ کیوں رات کے جادو سے آزاد ہے؟ اُس نے جواب دیا، دن میں جو آنسو دوسروں کے سامنے رُکے رہتے ہیں وہ اندھیرے اور تنہائی میں گویا چاند کی کھیتی میں بوئے جاتے ہیں۔ یہ آنسو اِس دُکھ کے ہیں کہ وہ جلوہ جسے دیکھنے کے لیے طُور پر موسیٰ بیتاب ہو گئے تھے وہ میرے دل میں مچل رہا ہے مگر کوئی نہیں جو اِسے دیکھنے کا شوق رکھتا ہو: صفتِ شمعِ لحد مردہ ہے محفل میری آہ، اے رات! بڑی دُور ہے منزل میری عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو یہ دلِ مردہ کو تعلیمِ رضا دیتے ہیں لُٹ کے غارت گرِ گلشن کو دُعا دیتے ہیں ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سُنا جاتا ہوں۱۲۹ بعد میں کبھی ’’یہ دلِ مردہ‘‘ والا شعر نظم سے نکال دیا۔ ۲۰۰ مسلم یونیورسٹی کے لیے تحریک کے وفد لاہور بھی آنے لگے۔ ایک وفد میں وہ مولوی صاحب بھی تھے جنہیں اقبال نے کچھ برس پہلے لندن کی سیر کروائی تھی مگر معلوم نہیںدوبارہ ملاقات ہوئی یا نہیں۔۱۳۰ ۲۰۱ سیالکوٹ میں اقبال کے آبائی گھر کے سامنے والے بازار چوڑیگراں میں سبزی فروش سڑک کے دونوں طرف زمین پر بیٹھ کر سبزیاں بیچا کرتے اور اگر شام کو کچھ مال بچ رہتا تو وہ کسی کی دکان میں رکھوا جاتے۔ سبزی فروشوں میں سیالکوٹ کے قریب کسی گاؤں کا رہنے والاارائیں برادری کابابا لوٹا بھی تھا جو اپنے ٹوکرے شیخ نُور محمد کی دکان میں رکھوایا کرتا۔ ایک روز اعجاز احمد اور دوسرے لڑکوں نے اُس کے ایک ٹوکرے میں بیر رکھے پائے اور کچھ بیر نکال کر کھا لیے۔ بے جی یعنی امام بی بی کو خبر ہوئی تو اگرچہ بابا لوٹا کہتا ہی رہ گیا کہ بچوں نے کھالیے تو کیا ہوا، انہوں نے سب کی پٹائی کر دی۔ میاں جی یعنی نور محمد کو بھی یہ بات معلوم ہوئی۔ اُس دن وہ خاموش رہے مگر اگلی صبح بازار سے بڑے عمدہ بیر خرید کر لائے، سب لڑکوں کو کھلائے اور پھر اُن سے پوچھا کہ یہ بیر اچھے ہیں یا وہ مردے کا گوشت جو کھل کھایا تھا۔ بات لڑکوں کی سمجھ میں نہ آئی تو کہاکہ بابا لوٹے کا سامان جو وہ ہمارے ہاں رکھ جاتا ہے، ہمارے پاس امانت ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں امانت میں خیانت نہ کرنے کا بار بار حکم آیا ہے۔ امانت کا مال کھانا مُردے کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ کل والے بیر جو تم لوگوں نے کھائے تھے وہ مُردے کا گوشت تھا۔ ’’یہ سن کر میاں جی کے لائے ہوئے بیروں کا مزہ بھی جاتا رہا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’لیکن بابالوٹے کا مال جو ہمارے ہاں رکھا جاتا تھا ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔‘‘۱۳۱ ۲۰۲ اعجاز احمد اور آفتاب کو پڑھنے کی ترغیب دلانے کے لیے شیخ نور محمد کہا کرتے تھے، تم لوگ سپرو ہو اور یہ لفظ پہلے ’’سب پڑھو‘‘ تھا، لہٰذا تمہیں علم حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔۱۳۲ ۲۰۳ بیاض میں ایک نظم ’عید پر شعر لکھنے کی فرمایش کے جواب میں‘ درج ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قوم کی تباہ حالت کی وجہ سے عید پر خوشی منانے کا جواز نظر نہیں آتا: یہ شالامار میں اِک برگِ زرد کہتا تھا گیا وہ موسمِ گُل جس کی یادگار ہوں میں۱۳۳ اِس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۲۰۴ نفسیات داں تیرتا تھا مگر شاعر غوطہ لگاتا۔ ’’آؤ عزیز دوست،‘‘ انگریزی نوٹ بک میں لکھا۔ ’’تم نے مجھے صرف خیالات کے مفکر اور بلند مقاصد کا خواب دیکھنے والے کے طور پر جانا ہے۔ مجھے میرے گھر میں بچوں کے ساتھ کھیلتے اور لکڑی کے گھوڑے کی طرح انہیں باری باری سواری کرواتے ہوئے دیکھو۔ مجھے میرے خاندان والوں کے درمیان اپنی بوڑھی ماں کے قدموں میں لپٹا ہوا دیکھو جس کے زندگی بخشنے والے ہاتھوں کا لمس وقت کی گردش کو پیچھے کی طرف دوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور میرے دماغ میں بسے ہوئے تمام کانٹوں اور ہیگلوں کے باوجود مجھے دوبارہ اسکول کے دنوں کا احساس دلاتا ہے۔ وہاں تم مجھے ایک انسان کے طور پر دیکھ سکو گے۔‘‘ * The psychologist swims, the poet dives. * In a certain class of Indian families - mostly creatures of the British rule - the tendency to collect and print testimonials from various officials has grown into a sort of instinct, which reveals itself sometimes very early in the offspring. I look upon it as a kind of moral infirmity developed by an unhealthy environment. * If you wish to study the anatomy of the human mind you may go to Wund, Ward, James or Stout. But a real insight into human nature you can get from Goethe alone. * As a plant growing on the bank of a steam heareth not the sweet, silver music which sustains it from beneath, so man, growing on the brink of infinity, listenenth not to the divine undertone that maketh the life and harmony of his soul. * Come dear friend! Thou hast known me only as an abstract thinker and dreamer of high ideals. See me in my home playing with the children and giving them rides turn by turn as if I were a wooden horse! Ah! See me in the family circle lying in the feet of my grey-haired mother the touch of whose rejuvenating hand bids the tide of time flow backward, and gives me once more the school-boy feeling in spite of all the Kants and Hegels in my head! Here Thou will know me as a human being. * Philosophy ages; Poetry rejuvenates. * Both Shakespeare and Goethe rethink the Divine thought of Creation. There is, however, one important difference between them. The realist Englishman Rethinks the individual; the Idealist German, the universal. His Faust is a seeming individual only. In reality, he is humanity individualised. دنیا خدا کی تخلیق تھی۔ انسان خدا کے اِس خیال کو دوبارہ سوچتا تو ڈرامہ تخلیق ہوتا تھا۔ ۱۳۴ ۲۰۵ آغا حشر کاشمیری ان دنوں حیدرآباد دکن میں تھے۔ وہاں راجہ گوبند راؤ کے ساتھ مل کر ذاتی کمپنی قائم کی تھی۔اب جو ڈرامہ لکھا تھا، سِلور کنگ (۱۸۸۲) سے ماخوذ تھا۔اُسے انگریز ڈرامہ نگار ہنری آرتھر جونز (Henry Arthur Jones) نے ہنری ہرمین (Henry Herman) کے ساتھ مل کر لکھا تھا۔اسی ڈرامے نے میلوڈرامہ(melodrama) کی وہ ہئیت پیدا کی تھی جو زندگی سے گریز کی بجائے ایک بہتر زندگی کا خواب دکھاتی تھی۔ یہی ہئیت اُردو ڈرامے کی بنیاد ثابت ہوئی تھی۔ ۱۳۵ معاشرے کے زندہ مسائل اسٹیج پر کس طرح پیش کیے جائیںکہ عوام اور خواص دونوں کی نبض ایک ساتھ دھڑکنے لگے۔جونز سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ پھر بھی حشر مجبور تھے کہ اُردو میں منتقل کرتے ہوئے اپنے حاضرین کی پسند کا خیال رکھیں۔ یوں اُن کے ڈرامے میں کچھ نئی باتیں پیدا ہوئیں۔ کیا ان کا جائزہ لے کر معلوم کیا جا سکتا تھا کہ معاشرہ حشر سے کیا تقاضے کر رہا تھا؟ وہ لاشعوری طور پر کن باتوں کے تقاضے تھے؟ ٭ حشر کے ڈرامے میں علامتی رنگ زیادہ نمایاں ہو گیا۔ قمارخانہ، مکانات، راستے اور غار باقاعدہ علامتیں بن گئے: - قمارخانہ، فرنگی کی دُنیا تھی (’’جواب دو، کیا یہ تمام دنیا جواخانہ نہیں ہے؟‘‘ ۲:۱) - غار جو تیسرے باب کا دُوسرا پردہ تھا اُسے ہر کردار کی زبان سے قبر جیسا قرار دلوایا گیا۔ خواب اور عالمِ برزخ اُسی طرح یکجا ہوئے جیسے خوابِ ہستی میں ہوئے تھے۔ جس طرح قیامت کے روز ’’دغا آواز دے گا اور گنہ سر چڑھ کے بولے گا،‘‘ اُسی طرح غار کی رات میں محسوس کروایا گیا: ’’کل ایک خوفناک صبح آنے والی ہے اور ہر ایک سیہ کاری و بدکاری جو اِس جگہ کی گئی اور چھپائی گئی ہے، آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہو جانے والی ہے۔‘‘ ٭ ڈرامے کے ہیرو ولفریڈ ڈینوَر (Wilfred Denver) نے افضل کا رُوپ دھارا تو مکالمے اور کردار خودبخود ہندوستانی معاشرے بالخصوص مسلمانوں کی عکاسی کرنے لگے: - افضل کی طرح انہوں نے بھی بیدردی سے دولت اور عزت گنوائی تھی۔ - اَب اُس بلند ہستی کے دامن سے وابستہ ہونے کے لائق نہ تھے جو ملتِ اسلامیہ کا باطنی وجود تھی۔ ڈرامے میں یہ ہستی سب سے اونچے ستارے ’’پروین‘‘ کے نام سے دیکھی جا سکتی تھی (پچھلے ڈرامے خوبصورت بلا کی مرکزی علامت ’’سہیل‘‘ سے معنوی ربط قابلِ غور تھا)۔ The Silver King (1882) by Henry Arthur Jones and Henry Herman [Excerpt from Act I; Scene 1 - The Skittle Alley at the "Wheatsheaf" Clerkenwell] JAIKES. Come Master Will, you'd better come home. DENVER Home! What should I go home for? To show my poor wife what a drunken brute she's got for a husband? To show my innocent children what an object they've got for a father? No, I won't go home, I've got no home. I've drunk it up. JAIKES. For mercy's sake, Master Will, don't talk like that! DENVER. (Furiously). Get home with you ! JAIKES. Yes I'll go home! DENVER. (Drops his voice.) Jaikes, don't let her come here and find me like this—tell her I haven't come back—tell her I'm not to be found—tell her any lie that comes handiest, but don't let her see me. Be off now, be off! JAKES. (Going.) Poor Master Will! Ruined! What'll become of poor Missus and the dear little 'uns ? (Exit.) سلور کنگ عُرف نیک پروین آغا حشر کاشمیری [۲:۱ سے اقتباس - جواخانہ] افضل تم چاہتے ہو کہ میں گھر چلوں مگر پہلے یہ بتاؤ کہ میرا گھر اب کہاں ہے۔ نہیں میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ میں نے گھر کی رونق، گھر کی دولت، گھر کی اطمینان بخش زندگی، سب شراب اور جوئے میں غارت کر دی۔ اب گھر کی جگہ صرف مٹی اور پتھر سے بنی ہوئی چاردیواری ہے جس پر خوفناک مستقبل اپنے سیاہ پر کھولے ہوئے منڈلا رہا ہے۔ اور جس کے اندر ایک شریف بیوی اپنے بدچلن شوہر کے لیے، ایک معصوم بچی اپنے بدبخت باپ کے لیے رحم کے آنسو بہا رہی ہے: ٹھکانا اب کہیں آتا نہیں نظر مجھ کو میں گھر کو بھول گیا اور میرا گھر مجھ کو نہ ہو خراب تم اِک خانماں خراب کے ساتھ بس اب سے چھوڑ دو قسمت کے رحم پر مجھ کو تحسین ایسا نہ کہیے۔ جس طرح ہَوا اور روشنی کے بغیر کوئی جان دار جی نہیں سکتا اُسی طرح آپ کے بغیر دونوں ماں بیٹی زندہ نہیں رہ سکتیں: بہت مشتاق ہے اپنے مسیحا کی زیارت کا مداوا کیجیے گھر چل کے بیمارِ محبت کا حواس و ہوش کی دشمن پریشانی نہ ہو جائے میں ڈرتا ہوں کہیں وہ غم سے دیوانی نہ ہو جائے افضل دیوانی نہ ہو جائے! تحسین وہ تو پہلے سے دیوانی تھی۔ اگر دیوانی نہ ہوتی تو آنکھیں ہوتے ہوئے تاریکی پر روشنی کا دھوکا نہ کھاتی۔ اپنی قسمت اور اپنا ہاتھ ایک بدترین آدمی کے ہاتھ میں دے کر خود کو اور اپنی پسند کو ذلیل نہ بناتی۔ آہ تحسین اُسے کس نے رائے دی کہ مجھے قبول کرے۔ اس نے کیا دیکھا جو مجھ سے شادی کی: بھرے پڑے تھے جہاں بھر کے عیب سینے میں ہزاروں داغ تھے اِس دل کے آبگینے میں شراب خور، جواری، ذلیل و آوارہ بتاؤ کون سی خوبی تھی مجھ کمینے میں تحسین خداوندِ نعمت! آپ کو پسند کرنا ہی اُس کے عقل مند ہونے کا ثبوت ہے۔ اُس نے خود کو آپ کی غلامی میں ہمیشہ کے لیے اِس واسطے دے دیا کہ آپ کے دل میں محبت، آنکھوں میں مروت، ہاتھوں میں سخاوت، باتوں میں شرافت، قول میں صداقت، غرض وہ تمام خوبیاں جن سے گوشت اور پوست کا مجموعہ شریف انسان کہلاتا ہے، پورے جاہ و جلال کے ساتھ آپ میں موجود ہیں۔ افضل مجھے یہ خیال آتا ہے کہ شاید پہلے کبھی تھیں مگر اب۔۔۔ تحسین اب بھی ہیں مگر آپ نے اُن سے کام لینا چھوڑ دیا ہے: خار و خس پردہ بنے گل ہائے خوشبودار کے زنگ آ جانے سے جوہر دب گئے تلوار کے افضل تحسین! آدھے شرابی اور آدھے پاگل کے سوا اب کچھ نہیں ہوں اس لیے شرابی اور پاگل کے ساتھ اپنا وقت بالکل ضائع نہ کرو: چھوڑو یہ مغزپاشی لاحل سمجھ کے مجھ کو دفتر لپیٹو فردِ مہمل سمجھ کے مجھ کو حل ہی نہیں ہے جس کا وہ نکتۂ ادق ہوں میں اپنی زندگی کا بھولا ہوا سبق ہوں ۲۰۶ اقبال نے اپنے مقالے، ’اسلام بطور اخلاقی اور سیاسی نصب العین‘ میں دکھایا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے نصب العین سے کس قدر دُور جا پڑے ہیں۔ آغا حشر کے ڈرامے میں افضل کہہ رہا تھا: میں اپنی زندگی کا بھولا ہوا سبق ہوں اقبال سمجھتے تھے کہ ملت ایک وجود ہے۔ ایک حصے میں کوئی طلب پیدا ہوتی ہے تو کوئی دوسرا حصہ اسے خودبخود پورا کر دیتا ہے۔۱۳۶ اس کی مثال وہ یوں دیتے تھے کہ انگریزی تعلیم کے نتیجے میں قومی وقار کو جو نقصان پہنچا اُس پر تنقید کی خواہش اکبر الٰہ آبادی کی شاعری نے پوری کر دی۔ اقبال کی نظموں اور حشر کے ڈراموں میں جو تعلق موجود تھا، کیا اُسے بھی اِسی کی ایک مثال سمجھا جا سکتا تھا؟ ۲۰۷ شہنشاہ جارج پنجم چار برس پہلے ولی عہد کے طور پر ہندوستان آئے تو انہیں بہت مزہ آیا تھا۔ دوبارہ آنا چاہتے تھے۔ ۸ ستمبر کو لارڈ مارلے سے فرمایش کی کہ ہندوستان میں دربار منعقد ہو۔ ۲۰۸ کچھ دن پہلے اخبار الحکم (قادیان) میں خبر چھپی تھی کہ کسی احمدی لڑکی کا نکاح ڈاکٹر محمد اقبال سے ہوا ہے۔ اقبال کے ملنے والوں کو خیال ہواکہ بتائے بغیر دوسری شادی کر لی ہے۔ ۱۰ ستمبر کو اقبال نے پیسہ اخبار میں وضاحت بھیجی: جن ڈاکٹر محمد اقبال کا ذکر ایڈیٹر صاحب ’الحکم‘ نے کیا ہے وہ کوئی اور صاحب ہوں گے۔۱۳۷ ۲۰۹ ۱۱ ستمبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کالج کمیٹی کے سیکرٹری کے عہدے پر اقبال کی توثیق کی گئی۔ اس کے چار روز بعد کالج کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اُس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ اسلامیہ کالج کے امور میں اچھی طرح چھان بین کی جائے اور اس کے لیے نو ارکان کی ایک کمیٹی بنائی جائے ۔ ۲۱۰ ۱۵ ستمبر کوپیسہ اخبار میں پانچ دن پہلے بھیجی ہوئی اقبال کی وضاحت ’’وہ ڈاکٹر محمد اقبال اور ہوں گے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ ۱۳۸ ۲۱۱ ۲۲ ستمبر کو اقبال نے ایما کو خط لکھا: مجھے آپ کا نوازش نامہ موصول ہو گیا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج ڈاک کا دن ہے مگر بدقسمتی سے میں بہت مصروف ہوں۔ اگلے ہفتے میں آپ کو زیادہ طویل خط لکھوں گا، میرے خیال میں اُس وقت ممکن ہوگا۔ اِس عبارت سے لگتا ہے جیسے اقبال ایما کو ہر ہفتے خط لکھتے ہوں۔ایسا تھا توچند ہی خطوط ہم تک پہنچے ہیں۔ اِس دفعہ کے خط کے ساتھ اقبال نے تبتی بھیڑ کی کھال کا تحفہ بھی بھیجا تھا: یہ دراصل اوورکوٹ کے کالر اور بازوؤں کے لیے ہے۔ ۱۳۹ بنام ایما ویگے ناست Lahore India. 22nd Sep. 1910 Mein liebes Frl. Wegenast, Ich habe Ihren Freundlicher Brief erhalten, und danke sie dafür. Heute ist der Brief-Post Tag; aber, unglücklicherweise bin Ich sehr beschäftigt. Nachste Woche werde Ich schreiben Sie ein langen Brief. Ich glaube werde es möglich sein. Das Fell ist von einem Tibet Schaaf. Es ist eigentlich zu Halsband (collar) und Ärmel der Überzieher (over-coat). Mit herzliche Grüsse Muhammad Iqbal Bar-at-Law Lahore (India) ۲۱۲ ۲۵ ستمبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل نے کالج کمیٹی کی تجویز کی منظوری دے دی۔ کالج کے معاملات میں تحقیق کے لیے جو کمیٹی بنی اُس میں اقبال کو بھی شامل کیا گیا۔۱۴۰ ۲۱۳ اُس برس شبلی نعمانی کی شعرالعجم کی تیسری جلد شائع ہوئی۔ اگر اقبال نے اس کا مطالعہ کیا تو اکبر کے دَور کے ایرانی شاعر عرفی شیرازی کے تذکرے نے ضرور اُن کی توجہ حاصل کی ہوگی جس کے بارے میں سب کچھ شاید اُنہیں پہلے ہی سے معلوم رہا ہو۔ ۲۱۴ بیاض میں نظم لکھی، ’شاعر‘۔ شاعر کو بہتی ندی سے تشبیہ دی جس کی وجہ سے قوم کی کھیتی سیراب ہوتی ہے۔ ۱۴۱ ۲۱۵ سردار بیگم، منشی طاہرالدین کے دوست عبدالغنی کی بہن تھیں۔ یہ ایک غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور قالین بیچتے تھے۔ دونوں بہن بھائی بچپن ہی میں یتیم ہوکر دس بارہ سال پہلے لاہور آگئے تھے جہاں ان کی پرورش اُن کی پھوپھی نے کی۔ پھوپھی صاحبہ کی پہلی شادی سیالکوٹ میں ہوئی تھی مگر شوہر کی وفات کے بعد اُنہوں نے منشی گلاب دین نقشہ نویس سے شادی کر لی جن کی پہلی بیوی سے ایک بیٹی تھی اور جو موچی دروازے میں رہتے تھے ۔ ایک اور روایت کے مطابق وہ ضلع کچہری میں عرضی نویس تھے۔ سردار بیگم کبھی اسکول تو نہیں گئی تھیں مگر گھر پر قرآن مجید اور معمولی اُردو پڑھنے لکھنے کی تعلیم ضرور حاصل کی تھی۔ اُن کی عمر انیس برس کے قریب تھی۔ منشی گلاب دین کی پہلی بیوی سے جو لڑکی تھی اُس کی شادی نبی بخش وکیل سے ہوئی تھی۔ ’’وہ ذرا رنگین طبیعت کا آدمی تھا،‘‘ عبدالغنی کے ایک دوست شمس الدین کا بیان ہے۔ اُس نے کوشش کی کہ اُس کی دوسری شادی سردار بیگم سے ہو جائے مگر سردار بیگم کی پھوپھی صاحبہ نے پسند نہ کیا اور صاف انکار کر دیا۔۱۴۲ ۲۱۶ ’’لاہور میں ایک کلب پہلے سے موجود تھی، اُس میں ہندوؤں کا بڑا زور تھا،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’ہم نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی الگ کلب بنا لیں، چنانچہ میکلوڈ روڈ پر ایک کوٹھی لی اور کلب بنا لی۔ یہ بڑے اونچے پیمانے پر چلتی رہی۔ پہلے میاں شاہ دین اس کے صدر اور میاں شفیع اس کے سیکرٹری تھے، پھر [میاں شفیع] اس کے صدر بنے اور مجھے اس کا سیکرٹری بنایا گیا۔۔۔ میں اور ڈاکٹر اقبال روزانہ اس کلب میں جایا کرتے تھے۔‘‘۱۴۳ ۲۱۷ لاہور میں کوئی پنجاب ایجوکیشنل کانفرنس بنی تھی۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل عبدالعزیز اس کے سیکرٹری تھے مگر اب انہوں نے کسی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ میاں فضل حسین نے تجویز پیش کی کہ اقبال کو اُن کی جگہ لینی چاہیے چنانچہ ۲۳ اکتوبر کے اجلاس میں، جو میاں نظام الدین کی صدارت میں ہورہا تھا، یہ تجویز منظور کی گئی۔ کانفرنس کے قواعد و ضوابط بنانے کا کام بھی اقبال اور نئے جوائنٹ سیکرٹری کے ذمے تھا جو اسلامیہ ہائی اسکول کے پرنسپل تھے۔ ۲۱۸ اقبال نے میاں اسلم سے کہا، ’’جو کچھ لکھو، قومی نقطۂ نظر سے لکھو۔‘‘۱۴۴ ۲۱۹ میاں نظام الدین کو بیٹے کا افسانہ لکھنا پسند نہیں تھا۔ ایک دن اقبال اُن کے یہاں آئے تو میاں نظام الدین نے کہا کہ وہ اسلم کو افسانے وغیرہ لکھنے سے منع کر دیں۔ اقبال نے مسکرا کر جواب دیا، ’’میں نے اسلم کو ہدایت کر دی ہے کہ جو کچھ لکھے کسی مقصد کے تحت لکھے۔ مقصد کے تحت لکھنا برا نہیں ہے۔‘‘۱۴۵ ۲۲۰ امام بی بی جن لڑکیوں کی پرورش کرتی تھیں اُن میں سے کئی کی اب شادیاں ہو چکی تھیں مگر وہ اب بھی ملنے آیا کرتی تھیں جیسے اپنے میکے آتی ہوں۔ ۲۲۱ بابا لوٹا کی بیوی فوت ہو گئی۔ اُس کی ایک لڑکی تھی جس کا نام حسن بی بی تھا اور عمر دس بارہ سال تھی۔ اُس کی پرورش کی دشواریوں کو سامنے رکھتے ہوئے امام بی بی نے حسن بی بی کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ امام بی بی کی ایک رشتہ دار لڑکی جو اُن کے گھر میں پرورش پا رہی تھی اور شکل صورت کی اچھی ہونے کی وجہ سے بھی اپنے آپ کو دوسری لڑکیوں سے برتر سمجھتی تھی، اُس نے ایک دن حسن بی بی کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانے سے انکار کر دیا۔ امام بی بی نے سنا تو اُنہوں نے حسن بی بی کو اپنے برتن میں کھلانا شروع کر دیا اور رشتہ دار لڑکی کو اکیلے کھانے کی ہدایت کی۔ دوچار دن بعد رشتہ دار لڑکی نے بھی امام بی بی کے ساتھ کھانے کی اجازت مانگی تو اُنہوں نے کہا کہ میں تو حسن بی بی کے ساتھ کھاتی ہوں، تمہیں اُس کے ساتھ کھانے میں عار ہے تو میرے ساتھ کیسے کھاؤ گی۔ ’’اُس نے ندامت سے رونا شروع کر دیا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’بے جی (امام بی بی) نے اُسے گلے سے لگا کر کہا کہ حسن بی بی بھی ویسی ہی میری بیٹی ہے جیسی تم ہو اور صاف ستھری بھی تم سے کم نہیں، پھر تمہیں اُس کے ساتھ کھانے میں اعتراض کیوں ہو؟ دو چار دن اُس کے ساتھ کھانا کھا لو، پھر میرے ساتھ بھی کھا لینا۔‘‘ اُس دن سے رشتہ دار لڑکی کا گھمنڈ جاتا رہا اور وہ حسن بی بی کی پکّی سہیلی بن گئی۔ ۱۴۶ ۲۲۲ فقیر سید افتخارالدین سے اقبال کی دوستی کا آغاز ہو چکا تھا اور اُن دنوں وہ ہوشیارپور میں تھے ۔ اقبال نے ہوشیارپور والے دوست بیرسٹر عبدالعزیز کو ۱۴ اکتوبر کو لکھا: اگر ممکن ہو اتو مجھے حاضر ہونے میں خوشی ہو گی۔ ہوشیارپور میں خود آپ کی ذات میں بڑی کشش ہے جس میں میرے دوست ایف ایس افتخارالدین کی وجہ سے اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ارادہ تھا کہ مہینے کے آخر میں ہوشیارپور جائیں گے۔ طویل وِیک اَینڈ کی توقع تھی۔ ۲۸ اکتوبر کو معلوم ہوا کہ پیر کی چھٹی نہیں مل رہی۔ عبدالعزیز کو لکھا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں جمعے کی شام ہوشیارپور پہنچ جاتا مگر ۔۔۔مجھے امید ہے کہ آپ اس سال مجھے معاف رکھیں گے۔ آیندہ سال مجھے امید ہے کہ میں حاضر ہو سکوں گا۔۔۔ یہ کالج کا تعلق مجھے معذور کر دیتا ہے، دسمبر میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ۲۲۳ ۳ نومبر کو لارڈ مارلے کی جگہ لارڈ کرو (Earl of Crewe)وزیر ِ ہندمقرر ہوئے۔ ۲۲۴ معلوم ہوتا ہے کہ اب گھر والے تسلیم کر چکے تھے کہ اقبال کریم بی بی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اورپسند سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال بھی اِس بات پر آمادہ نظر آ رہے تھے کہ دوسری بیوی ایسی ہو جو گھر والوں کے ساتھ گھل مل کر رہ سکے۔ روایت ہے کہ منشی طاہر الدین نے تجویز پیش کی کہ عبدالغنی کی بہن سردار بیگم مناسب رہیں گی۔ اقبال نے اصرار کیا کہ صورت دیکھیں گے۔ طاہرالدین عبدالغنی سے یہ کہہ کر تصویر لے آئے کہ اقبال کی والدہ کو دکھانی ہے۔ اقبال نے پسند کیا۔ سیالکوٹ سے امام بی بی نے آکر لڑکی کے گھر والوں سے بات کر لی۔۱۴۷ ۲۲۵ نومبرمیں عطا محمد فوجی ملازمت سے سوا سال کی رخصت قبل از پنشن لے کر سیالکوٹ آئے۔ آبائی مکان اور دو ملحقہ مکان جو پندرہ بیس برس پہلے خریدے گئے تھے اُنہیں ملا کر ایک بڑا مکان بنانے کی گنجایش تھی۔ عطا محمد نے آتے ہی پرانے مکان کو گرا کر نیا سہ منزلہ تعمیر کروانا شروع کر دیا۔ اُس زمانے میں خاص عمارتیں چونے گچی مسالے سے تعمیر ہوتی تھیں۔ یہ مسالہ اینٹ پیس کر اور اُس میں چونا ملا کر تیار کیا جاتا۔ محنت طلب، مہنگا اور مضبوط طریقۂ تعمیر تھا۔ عطا محمد نے چنوائی اور پلستر کے لیے یہی پسند کیا۔ اقبال یورپ جانے سے پہلے جو کتابیں سیالکوٹ میں چھوڑ گئے تھے، ابھی تک وہیں پڑی تھیں۔ عطا محمد نے توجہ دلوائی تو اقبال نے کہا، مجھے اب ان کی ضرورت نہیں، یہیں رہنے دیجیے۔۱۴۸ ۲۲۶ دنوں، مہینوں اور برسوں کی وقعت تجربے کی اہمیت سے متعین کرتے تو حیران رہ جاتے کہ کبھی کبھی ایک لمحہ پورے سال سے زیادہ قیمتی نکلتا (ہر تجربہ انسان کی روح سے کچھ برآمد کرتا تھا۔ گناہ کا تجربہ بھی باطن کے کسی ایسے گوشے کو بے نقاب کر سکتا تھا جس کی پہلے خبر نہ ہو)۔ قدیم روم کے شاعر ہوریس نے کہا تھا: ہم اس طرح کھنچے جاتے ہیں جیسے پانی کے ریلے میں لکڑی کا ٹکڑا، غیر کی طاقت سے اِدھر اُدھر دھکیلے جاتے ہیں۔ مونٹین کے کسی مضمون میں لاطینی سطور انگریزی ترجمے کی صورت میں میں نظر سے گزریں۔ محمد حسین آزاد مرحوم یاد آ گئے۔ کبھی مخزن میں اُن کا شعر چھپا تھا: جہازِ عمرِ رواں پر سوار بیٹھے ہیں سوار خاک ہیں، بے اختیار بیٹھے ہیں * I judge the worth of my days, months and years from the experiences which they bring to me; and sometimes I am surprised to find that a single moment is more valuable than a whole year. * Every experience evokes something from the soul of man. Even the experience of sin will reveal some aspect of your soul of which you were not cognisant before. Experience, then, is a double source of knowledge; it gives you an insight into what is without you, as well as an insight into what is within you. * Nothing is more common-place than facts; yet mankind were blind to them until Bacon opened their eyes. * "So are we drawn, as wood is shoved, By others' sinews each way moved." Montaigne remarks on the above lines of Horace:- "We go not, but we are carried, as things that float, now gliding gently, now hulling violently, according as the water is either stormy or calm." While reading this passage in Montaigne I was put in mind of a verse by our late and lamented poet "Azad" who has given an expression to this idea much more beautifully than either Horace or Montaigne. Says he: جہازِ عمرِ رواں پر سوار بیٹھے ہیں سوار خاک ہیں، بے اختیار بیٹھے ہیں * Literary criticism does not necessarily follow the creation of literature. We find Lessing at the very threshold of German literature. * No nation was so fortunate as the Germans. They gave birth to Heine at the time when Goethe was singing in full-throated ease. Two uninterrupted springs! * In words like cut jewels Hafiz put the sweet unconscious spirituality of the nightingale.۱۴۹ ۲۲۷ ’’محبت ایک شریر بچی جیسی ہے،‘‘ نوٹ بک میں انگریزی میں لکھا گیا۔ ’’وہ ہماری انفرادیت کی تعمیر کرتی ہے اور پھر چپکے سے ہمارے کان میں کہتی ہے، ’اِسے ترک کر دو۔‘‘‘ * Love is a playful child. She makes our individuality and then quietly whispers in our ears - "Renounce it." * I have often played hide and seek with wisdom; she conceals herself always behind the rock of determination. * If you wish to be heard in the noise of this world, let your soul be dominated by a single idea. It is the man with a single idea who creates political and social revolutions, establishes empires and gives law to the world. * Science, Philosophy, Religion all have limits. Art alone is boundless. * The result of all philosophical thought is that absolute knowledge is an impossibility. The poet Browning turns this impossibility to ethical use by a very ingenious argument. The uncertainty of human knowledge, teaches the poet, is a necessary condition of moral growth; since complete knowledge will destroy the liberty of human choice. * Flattery is only exaggerated good manners.۱۵۰ اس کے بعد انگریزی نوٹ بک میں خیالات درج کرنے کا سلسلہ ختم کر دیا۔ ۲۲۸ لارڈ منٹو کے عہدے کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔ ۲۳ نومبر کو لارڈ ہارڈنگ نئے وائسرائے بنے۔ ایران اور روس میں برطانوی حکومت کی نمایندگی کر چکے تھے۔ پانچ روز قبل کلکتہ پہنچنے پر لندن سے پہلی اطلاع یہ ملی تھی کہ کابینہ نے ہندوستان میں شہنشاہ جارج کا دربار منعقد کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اگلے برس منعقد ہونا تھا۔ ۲۲۹ موسمِ سرما میں کسی وقت اقبال کا دوسرا نکاح ہوا۔ شیخ عطا محمدسیالکوٹ سے آئے۔ دوستوں میں سے مرزا جلال الدین، میاں شاہنواز، مولوی احمد دین اور شیخ گلاب دین اقبال کے ساتھ سسرال پہنچے۔ نکاح ہوا۔ مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا۔ رات بارہ بجے روانگی کے وقت میاں شاہنواز کااووَر کوٹ غائب پایا گیا۔ انہوں نے کھونٹی پر ٹانگا تھا۔ یہ پہلا برا شگون تھا۔ اگلے ڈھائی برس نئے رشتے کے لیے اچھے ثابت نہ ہوئے۔۱۵۱ ۲۳۰ نکاح کے چند روز بعد ہی گمنام خطوط ملے۔ روایت ہے کہ اُن میں لکھا تھا کہ لڑکی کا چال چلن درست نہیں۔ اقبال الجھن میں پڑ گئے۔ مرزا جلال الدین کی بیگم کے ملنے جلنے والوں میں مس بوس تھیں۔ سردار بیگم کے محلے میں وکٹوریہ گرلز اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں۔ اُن سے لڑکی کی تعریف ہی سننے کو ملی۔ خود شیخ نور محمد نے استخارہ کیا۔ تب بھی یہی سامنے آیا کہ لڑکی پاک دامن ہے۔ اقبال کی ذہنی اذیت کم نہ ہو ئی۔ رخصتی رُکوا دی۔ ۲۳۱ نئی اصلاحات کے بعد وائسرائے کی کونسل میں ایک لا ٔ ممبر یعنی رکن ِ قانون کا اضافہ ہواتھا۔ اس کی حیثیت ایک طرح سے وزیر ِ قانون جیسی تھی۔ پچھلے برس ستیندر سنہا کو اولین ہندوستانی لأ ممبر بننے کا فخر حاصل ہوا تھا مگر وہ چوٹی کے بیرسٹر تھے۔ لأ ممبر کا عہدہ قبول کرنے سے انہیں دس ہزار پونڈ سالانہ کا نقصان ہورہا تھا۔ پہلے ہی یہ دعوت قبول نہ کرتے اگر بیرسٹر جناح نے اپنے سیاسی گرو گوکھلے صاحب کے ساتھ مل کر سنہا جی پر زور نہ ڈالا ہوتا۔ مسلم لیگ اُسی وقت سے کوشش کر رہی تھی کہ اسامی کسی مسلمان کے ہاتھ آئے ۔ نومبرمیں سنہا جی نے استعفیٰ دیا تو لیگ کی خواہش پوری ہوئی۔ علی امام لأ ممبر بن گئے۔ اُن دنوں لیگ کے رہنماؤں میں پیش پیش تھے۔ ۲۳۲ مہاراجہ کشمیر پرتاپ سنگھ پھر لاہور آئے ہوئے تھے۔ اس دفعہ لاہور کے کشمیری مسلمانوں نے باقاعدہ میموریل لکھ کر لے جانا چاہا۔ اس کا لہجہ تلخ تھا۔ مہاراجہ کے دیوان بشن داس نے رائے دی کہ جو کچھ کہنا ہو زبانی کہا جائے۔ ’’سرکار ہمیشہ فرشی دربار کیا کرتے ہیں لیکن آپ کی خاطر آج کرسیوں کا دربار لگایا گیا ہے،‘‘ مہاراجہ نے کہا جب وفد کے ارکان کرسیوں پر بٹھائے جا چکے تھے۔ وفد نے شکریہ ادا کرنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کی طرف مہاراجہ کی توجہ دلائی۔ ’’سرکار کو ساری خبر ہے کہ لیڈر کس طرح بنا کرتے ہیں،‘‘ مہاراجہ نے جواب دیا۔ پھر کہتے چلے گئے کہ جو شخص بہت زیادہ باتیں بنائے، تحریر میں تلخ لہجہ اختیار کرے یا ہندومسلم فساد پھیلائے وہ لیڈر بن جاتا ہے۔ اپنے کشمیری بھائیوں سے ہمدردی ہے تو کشمیر ہاؤس آنے کی بجائے کشمیر آئیں۔ وہ پنجاب نہیں، کشمیر ہے۔ وہاں ہندومسلم فساد کا سوال پیدا نہ ہونے دیا جائے گا۔ وفد کے سربراہ خان بہادر اللہ بخش نے بڑے سلیقے سے جواب دیاکہ انہوں نے سرکار کے عہد میں کبھی ریاست میں ہندومسلم فسادات کا ذکر نہیں سنا۔ صرف اِن لوگوں کے اطمینان کی ضرورت ہے۔ ’’کیا سرکار کی زبان پر اعتبار نہیں؟‘‘ مہاراجہ نے کہا۔ ’’بس ہم نے کہہ دیا، یہی ہماری زبان ہے اور یہی ہماری تحریر ہے۔‘‘۱۵۲ ۲۳۳ دسمبر میں اقبال کے دو سال پرانے لیکچر’اسلام میں سیاسی فکر‘('Political Thought in Islam') کی پہلی قسط الٰہ آباد کے انگریزی پرچے ہندوستان ریویو) Hindustan Review (میںبھی شائع ہوگئی۔۱۵۳ ۲۳۴ درگاسہائے بیوی اور لڑکے کی وفات کے بعد شراب میں گم رہنے لگے تھے۔ ۳ دسمبر کو فوت ہو گئے۔ عجب رقت بھری اے چارہ گر ہے داستاں میری جگر میں چٹکیاں لیتی ہے رہ رہ کر فغاں میری درگاسہائے سرورؔ جہان آبادی ۲۳۵ ۱۳ دسمبر کو شام ساڑھے چھ بجے برکت علی محمڈن ہال میں انجمن اسلامیہ کی ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ شیخ امیر علی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اقبال نے تقریر کی۔ خلیفہ شجاع الدین نے ’مسلمانوں کی تعلیم‘ پر انگریزی میں لیکچر دیا۔ منشی اللہ یار جوگیؔ نے ’برکاتِ تعلیم‘ کے عنوان سے نظم پڑھی۔۱۵۴ ۲۳۶ ۱۷ دسمبر کو انجمن حمایت اسلام کی کالج کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ معلوم ہوتا ہے نو ارکان کی تحقیقی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کر چکی تھی کیونکہ اب کالج کے قواعد پر نظر ِ ثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ اس کے چار ارکان میں سے ایک اقبال تھے۔۱۵۵ ۲۳۷ سولہ روز پہلے انگلستان میں شروع ہونے والے انتخابات ۱۹ دسمبر کو مکمل ہوئے۔ ایک ہی سال میں دوسری دفعہ ہوئے تھے مگردونوں بڑی جماعتوں نے پھر تقریباً برابر نشستیں حاصل کیں۔ اُس وقت معلوم نہ تھا کہ اب آٹھ برس تک انگلستان کو انتخابات نصیب نہ ہوں گے۔ ۲۳۸ نواب وقار الملک نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ علی گڑھ کالج کومسلم یونیورسٹی بنانے کی اجازت دی جائے۔ تجویز کی مخالفت اور حمایت میں بحث کا آغاز ہو گیا۔ ۲۳۹ اقبال سیالکوٹ آئے تھے اور امام بی بی کی محفل میںبیٹھے تھے۔ محلے کے کسی تاجر گھرانے کی ایک شادی کا ذکر ہو رہا تھا جب کسی نے کہا کہ لڑکے والوں نے دلہن کو علاوہ اور زیور کے سونے کے پازیب پہنائے۔ اعجاز احمد، امام بی بی کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے۔ امام بی بی نے پوتے کو پیار کرتے ہوئے کہا، اِس کی شادی ہو گی تو میں بھی اِس کی دُلہن کو سونے کے پازیب پہناؤں گی۔۱۵۶ ۲۴۰ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ اقبال تعطیلات میں سیالکوٹ آتے تو اپنی منجھلی بھتیجی عنایت بیگم کے ساتھ گھنٹوں کھیلتے رہتے۔ ان دنوں دو تین سال کی رہی ہوں گی: لیٹ کر اُس کو اپنے پیٹ پر بٹھا لیتے اور پوچھتے، تمہارا نام کیا ہے؟ وہ توتلی زبان میں کہتی ’لیت‘ تو خوب ہنستے۔ بار بار یہی سوال اور جواب دہرایا جاتا۔۱۵۷ ۲۴۱ اقبال سے روایت ہے: ۱۹۱۰ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہییں۔ لیکن اندیشہ تھا کہ اِن سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ بہرحال میں نے ۱۹۱۰ء میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر اپنی مثنوی۔۔۔ لکھنی شروع کی۔۱۵۸ مربوط خیالات کو تفصیل سے پیش کرنے کے لیے مثنوی سے بہتر کوئی صنف نہ تھی۔ اسے فارسی میں فردوسی، نظامی، سنائی، عطار، رومی اور جامی وغیرہ بہت ترقی دے گئے تھے۔ اُردو میں ابھی تک مثنوی نے ایسی ترقی نہ کی تھی۔ اقبال نے اُردو میں طویل مثنوی لکھنا شروع کی۔ اس کے بارے میں بعد میں کہا کہ تقریباً ڈیڑھ سو شعر لکھنے کے بعد تلف کر دیے۔ البتہ بیاض میں ’نورِ محمدّی‘ اور ’قربانی ٔ خلیل‘ کے عنوانات سے چھوٹے چھوٹے ادھورے ٹکڑے اِسی مثنوی کے باب معلوم ہوتے ہیں۔ موضوع وہی ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ تھا۔ آنحضرتؐ کے نور کے تذکرے سے ابتدأ ہوئی۔ نورِ محمدیؐ جوہرِ خالقِ دہر اور دہر بھی جوہرِ بحر اور بحر کی لہر بھی جو کثرت میں آ کر بھی تنہا رہا نہاں ہو کے پردوں میں پیدا رہا رہی بے کلی جس کو سیماب وار ملا میمِ احمد میں جس کو قرار وہاں بھی دُوئی نے نہ پایا اُسے کہ بھایا نہ احمد کا سایا اُسے ہوا جسمِ بے سایہ بن کر عیاں بنی جس سے خاکِ عرب آسماں سمایا نہ جو وہم و اِدراک میں درخشاں ہوا شانِ لولاک میں کہیں پر ہے آبادیٔ بزمِ قیس کہیں خیرہ کرتے ہیں چشمِ اویس کہیں قہرِ فاروق و وعظِ علی کہیں نعرۂ اُمتّی، اُمتّی عَلَم پر کہیں اس کے چمکا ہلال جلایا کہیں اس نے رختِ بلال کہیں طُور پر لن ترانی سے کام کہیں کوہِ فاراں پر دیدارِ عام اِسی سے تھا روشن یقینِ خلیل اِسی کی امیں تھی جبینِ خلیل یہاں سے کلام کا سلسلہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف نکلا۔ تین بند اُن کے بارے میں کہے گئے۔انسان کا تعلق نہ صرف خدا سے بلکہ قومیت کے اُس تصور سے بھی جوڑنا چاہتے تھے جس کی بنیاد رسول اللہ نے رکھی تھی مگر جس کی جڑیں حضرت ابراہیم کے اِس اعلان تک پہنچتی تھیں کہ انسان کا سر خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکے گا اور نہ ہی خدا کے سوا کوئی خوف دل میں جگہ لے گا۔ مگر اُردو زبان کا اپنا مزاج تھا۔ مرثیے کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ بالآخر تسلیم کرنا پڑا کہ جو محسوسات ضمیر میں ہیں وہ اِس نظم میں ادا نہیں ہو پا رہے۔بہت بے بسی محسوس کی ہو گی۔ ۱۵۹ یہ اشعار کبھی شائع نہ کروائے۔ ۲۴۲ ایک فارسی غزل کی آمد ہوئی۔ اُسے بیاض کے آخری صفحات میں لکھا۔’قربانی ٔ خلیل‘ کے بعد کے صفحات اب بھی اُردو نظم کے لیے خالی رہے۔ فارسی غزل کا مفہوم یہ تھا کہ رات اپنے گھر میں جلنے والی شمع سے پوچھا کہ میں بھی تمہاری طرح جلتا ہوں مگر کیا وجہ ہے کہ کوئی پروانہ مجھ پر فدا نہیں ہوتا: دوش می گفتم بشمعِ کلبۂ ویرانِ خویش کچھ سوچ کر کلبہ کاٹ کر اُسے منزل کر دیا۔غزل کی بجائے ترکیب بند ہو گئی کیونکہ کچھ اشعار کے بعد ایک ٹیپ کا شعر ہوا تھا۔ ویسے قریباً سترہ اشعار ہوئے جن کی اصلاح کرتے رہے اور کئی اشعار کاٹ دیے۔۱۶۰ اُردو شاعری میں لالے کا پھول عاشق کی علامت تھا کیونکہ سینے میں داغ رکھتا تھا۔ نامکمل عشق کی علامت بھی تھا کیونکہ اپنا داغ ہر ایک کے سامنے ظاہر بھی کر دیتا تھا۔ مشرق میں یہ بات اچھی نہ سمجھی جاتی تھی۔ اقبال نے بھی لالے کو روایتی حیثیت میں کئی دفعہ استعمال کیا تھا مگر اس غزل میں پہلی بار لالے کے لیے ایک ایسی ترکیب استعمال کی جو بعد میں ایک بہت اہم استعارے کو جنم دینے والی تھی۔ اپنے آپ کو صحرا میں اُگے ہوئے لالے سے تشبیہ دی جو اپنے عشق کا داغ ظاہر تو کرتا تھا مگر اُسے دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ملکہ نورجہاں کے مزار پر لکھے اُس مشہور فارسی شعر کا اثر بھی نظر آرہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم غریبوں کے مزار پر چراغ ہے نہ پھول ہیں، یہاں پروانوں کے پر جلتے ہیں نہ بلبل کے نغمے سنائی دیتے ہیں۔ ۲۴۳ اس برس کسی وقت عیسائی مشنری مارشل برومہال (Marshall Broomhall) کی کتاب اسلام چین میں (Islam in China) شائع ہوئی۔ بعد میں اقبال نے اس کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی: ایک مشنری نے مشنری اغراض کے لیے لکھی ہے۔ بایں ہمہ اس کتاب کے بعض حصص کے مطالعہ سے چینی مسلمانوں کے موجودہ نصب العین، اُن کی تحریکات اور اُن کی آرزوئوں کا پتہ لگتا ہے۔ مصنف نے ان کی اصلیت کے متنازع فیہ مسئلہ، ان کی موجودہ آبادی، ان کے معابد اور ان کے ادب کی نوعیت سے بھی بحث کی ہے۔۱۶۱ ۲۴۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۱۶۲ Cumont, Franz. The Mysteries of Mithra (Translated by Thomas J. McCormack from French). Chicago, Open Court Publishing Co. Dewe, J. A. Psychology of Politics and History. New York, Longmans Green Dopp, Katherine Elizabeth. The Place of Industries in Elementary Education. Chicago, University Press Ghulam Ahmed Mirza of Qadian. The Teachings of Islam: A Solution of five fundamental religious problems from the Muslim point of view. London, Luzac Haqqani, Muhammad Abdul Haqq. An Introduction to the Commentary on the Holy Quran (being an English translation of "Al Bayan"). Calcutta, Thaker, Spink Justus. Prologemena to Theism. New York, Andrew H. Kellogg Titchner, Edward Bradford. A Textbook of Psychology. New York, Macmillan چوتھا حصہ ۲۴۵ یکم جنوری ۱۹۱۱ء کو ایل پی سانڈرز فلسفے کے پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہورپہنچے اور اقبال سے چارج لے لیا۔ ۲۴۶ علیگڑھ یونیورسٹی میں جو لیکچر اگلے ماہ دینے والے تھے، اُسے لکھنا اب تک شروع کر چکے ہوں گے۔ ۲۴۷ اس ماہ ہندوستان ریویومیںاقبال کے دو سال پرانے لیکچر کی دوسری اور آخری قسط چھپی۔ رسالہ ادیب میں مس گوٹسمین والی نظم شائع ہوئی۔ ۲۴۸ کالج میں اقبال کے لیے الوداعی تقریب ہوئی۔ رابرٹ براؤننگ کی شاعری پر لیکچر دیا۔ لیکچر کی تفصیل موجود نہیں۔یہ معلوم ہے کہ اس زمانے میں براؤننگ کا مطالعہ فلسفیانہ شاعر کے طور پر کیا جاتا تھا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ وہ رجائیت پسند (optimistic) ہے۔ انسان اگر خیر و شر کے بارے میں حتمی علم حاصل نہیں کر سکتا تو یہ بھی براؤننگ کی نظر میں اچھا ہی ہے۔ اس طرح شخصیت کی نشوونما کے مواقع ملتے ہیں۔ حق الیقین سے یہ مواقع مسدود ہونے کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ براؤننگ کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ڈرامائی مونولوگ (dramatic monologue)تھی۔ یہ صنف اقبال نے بھی اپنی شاعری میں اختیار کی تھی۔ ۲۴۹ علی بخش کا بیان ہے کہ اُس نے اقبال سے پوچھا کہ ملازمت کیوں چھوڑ دی۔ انہوں نے جواب دیاکہ جو کچھ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے اُسے حکومت کی ملازمت میں ہوتے ہوئے آزادی سے نہیں کہہ سکتے۔۱۶۳ ۲۵۰ روایت ہے کہ اقبال نے خود یا کسی شاگرد نے اُن کی مدد سے شیلے کے شاعرانہ نظریات پر کتاب شائع کی۔ طباعت معمولی تھی۔ سرورق پر مصنف کی حیثیت میں شیخ محمد اقبال درج تھا۔۱۶۴ ۲۵۱ پیر ۹ جنوری کو صبح سویرے علی بخش یا کوئی اور نوکر ایک لفافہ لے کر آیا۔ اس میں آرنلڈ کی بیٹی نینسی کی طرف سے کرسمس کارڈ تھا۔ شاید ڈاک کی تاخیر کی وجہ سے دیر میں پہنچا تھا۔ آرنلڈ اُن دنوں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی طلبہ کی مدد کے لیے مشیرِ تعلیم کے طور پر کام کر رہے تھے۔ دو روز بعد اقبال کے سائیس کی سیاہ فام بچی نچلی منزل پر رو رو کر اُن کے ذہنی سکون میں خلل ڈال رہی تھی۔ اُن کے نزدیک ’’پرفیکٹ نیوسینس‘‘ (perfect nuisance) تھی۔ بہرحال نینسی کے کارڈ کا جواب لکھا۔ بنام نینسی آرنلڈ Lahore 11th Jan. 1911 My dear Nancy, Last Monday early in the morning when I was meditating over the vanities of life my servant brought me your Xmas card. You can imagine how glad I was to receive it, especially because it put me in mind of the happy days that I had spent with my Guru in England. I am indeed thankful to you for this nice present. I suppose you are getting on well with your lessons in Botany. When I come next time to England to Kiss the feet of my Guru, I hope you will educate me in the names of all the flowers that grow in the beautiful valleys of England. I still remember the Sweet Williams, the blue bells, the leep tulips; so that you see that your pupil has not got a bad memory. You know that my Guru is at present very busy - looking after the welfare of younger humanity - so do act as a good Prophet between his Divinity and the poor mortal Iqbal who is anxious to know all about him. I am sure he will not strict his revelations to you which you will communicate to me in due course. I am afraid I must close this letter now. The little black daughter of my Sice is crying downstairs, and has been disturbing my quiet since morning. She is a perfect nuisance, but I have to tolerate her, because her father is a very dutiful servant. Please do remember me to father, mother, auntee and Marcas if you ever write to him. Yours affectionately Md. Iqbal Miss Nancy Arnold, 24, Launceton Place, Kensington Gate. (England) London W.۱۶۵ ۲۵۲ ۲۸ جنوری کودوپہر دو بجے برکت علی محمڈن ہال میں انجمن اسلامیہ پنجاب کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ نواب فتح علی قزلباش صدارت کر رہے تھے۔ اگلے تین برس کے لیے عہدیدار منتخب کیے گئے۔ اقبال، میاں شفیع، میاں نظام الدین، شیخ عبدالقادر، نواب ذوالفقار علی خاں، میاں فضل حسین، مولوی محبوب عالم، مفتی عبداللہ ٹونکی، شیخ عبدالعزیز اور میاں عبدالعزیز وغیرہ مجلس عاملہ کے ارکان قرار پائے۔۱۶۶ ۲۵۳ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک دفعہ پھر اقبال اور مرزا جلال الدین کو پٹیالہ بلایا تھا۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: اِس خیال سے کہ کہیں ہم انکار نہ کر دیں، اُنہوں نے ایک مقدمے میں ہم دونوں کو وکیل کر دیا۔ ہم کھانا ساتھ لے گئے۔ راج پورہ پہنچ کر کھانا کھایا۔ پٹیالہ پہنچے تو اتفاق سے اُس وقت نواب صاحب اور سر جوگندر سنگھ، مہاراجہ کے پاس کسی ضروری میٹنگ میں مصروف تھے۔ اُن کے آدمی اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد نواب ذوالفقار اور جوگندر سنگھ بھی پہنچ گئے۔ تین دن تک اقبال اور مرزا جلال الدین کو مہمان رکھا۔ جوگندر نے دونوں کو پٹیالے کی خوب سیر کروائی۔ دونوں مقدمے میں بھی پیش ہوئے۔ شاید دو دو ہزار فیس ملی۔ اقبال کو پیچش ہو گئی۔ سول سرجن نے علاج کیا۔ واپسی پر اقبال اور مرزا جلال الدین امرتسر میں رکے۔ بیرسٹر تاج الدین سے ملے۔ وہ اُس زمانے میں وہاں بندوبست کے محکمے میں نائب تحصیلدار تھے۔ ۱۶۷ ۲۵۴ ۱۴ جنوری کو محمد علی نے کلکتہ سے انگریزی ہفت روزہ کامریڈ (Comrade)جاری کیا۔ ظفر علی خاں نے زمیندار میں تعریف کی۔ لکھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی ضرورتوں کی فہرست میں ایک ایسا اخبار مدت سے شامل تھا جو اُن کی آرزوؤں کی انگریزی میں ترجمانی کر سکے۔ کامریڈ یہ ضرروت پوری کرتاتھا۔ ۲۵۵ ہندوستان کے مسلمان جن کے دل میں سارے جہاں کا درد تھا، ایران کے لیے دعائیہ جلسے کر رہے تھے۔ لاہور میں اقبال سے شرکت کی درخواست کی گئی۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ طبعیت ٹھیک نہیں۔ ایک دفعہ پھر خوب اعتراضات ہوئے۔ انہیں اکٹھا کر کے خود ہی نظم کر دیا: تُو بھی ہے شیوۂ اربابِ ریا میں کامل دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکرِ حجاز۱۶۸ ۲۵۶ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ قریب آ رہا تھا۔ ۵ فروری کو جلسہ کمیٹی کے ارکان مقرر کیے گئے۔ اِس دفعہ اقبال نے بھی شامل ہونا قبول کر لیا۔۱۶۹ ۲۵۷ یہ بات عام ہو چکی تھی کہ ڈاکٹر اقبال مزید شادی کرنا چاہتے ہیں۔ نکاح کے پیغام آنے لگے۔ ایک ہندو ڈپٹی کمشنر کی بیٹی انہیں خط لکھا کرتی تھی کہ اُن سے شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ اسے ہندوؤں سے نفرت ہے۔۱۷۰ ۲۵۸ پہلا پیار آغا حشر کاشمیری [اقتباس] داس دیو ہردیشوری! وِواہ کے دن سے آج تک دس برس کی لمبی مدت میں ایک دن بھی میں نے تمہیں پھول کی طرح کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا اور کلکتہ سے آنے کے بعد تو مانو تمہاری مسکراہٹ بھی کوئی اُدھار مانگ کر لے گیا ہے۔ کیا میں تمہارے مُکھ پر واستوک سُکھ کے چنہ نہ دیکھوں گا؟ شاردا سُکھ-؟ سُکھ؟ پُرش، ناری کے سُکھ کے لیے نہیں اپنے سُکھ کے لیے وِواہ کرتا ہے۔ اُسے بھوجن بنانے کے لیے ایک رسوئیے کی، سیوا کرنے کے لیے ایک باندی کی، سر جھکا کر آگیا پالن کرنے کے لیے ایک خوشامدی مصاحب کی، گھر کی رکھشا کے لیے ایک دربان کی اور آدھی رات دروازے کی اور ٹکٹکی لگا کر انتظار میں بیٹھے رہنے کے لیے ایک پربھو بھگت کتے کی ضرورت ہے اور یہ سب ضرورتیں استری سے پوری ہوتی ہیں۔ ناری نے سنسار میں سُکھ پانے کے لیے نہیں پُرش کے لیے اپنے سُکھ کا بلیدان کرنے کو جنم لیا ہے۔ داس دیو پرئیہ! مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا دُکھ ہے؟ مجھ سے نہ کہو گی تو پھر کس سے کہو گی؟ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں سم بھاگی بننے ہی کے لیے میرا اور تمہارا وِواہ ہوا ہے۔ شاردا کنیا کی اِچھیا جانے بِنا اُسے رسی میں بندھی ہوئی گائے کے سمان دوسرے کے حوالے کر دینا، اِس مہانرتھ کو تم وِواہ کہتے ہو۔ وہ وِواہ تھا؟ میرا لالچی باپ روپوں کی تھیلی چاہتا تھا اور تم بڑھاپے کے جُھری دار ہاتھ میں چودہ برس کی یوا کنیا کا ہاتھ چاہتے تھے۔ اِس لیے میرا تمہارا وِواہ نہیں ہوا۔ دھن کے لوبھ، بڑھاپے کی کامنا کا، سوارتھ سے انیائے کا اور ضرورت سے روپے کا وِواہ ہوا ہے۔۱۷۱ ۲۵۹ شہنشاہ کا ہندوستان تشریف لانا آسان کام نہ تھا۔ نپولین کی طرح تاج اپنے ہاتھوں سے پہننا چاہتے تھے مگر کانٹربری کے بڑے پادری اجازت نہ دیتے تھے۔ فیصلہ ہوا تھا کہ شہنشاہ تاج پہنے ہوئے ہی ہندوستان کے عوام کے سامنے آئیں گے۔ تاجپوشی کے موقع پر جو تاج پہنا جاتا تھا وہ برطانوی روایات کے مطابق انگلستان سے باہر نہ لے جایا جا سکتا۔ ہندوستان میں پہنائے جانے کے لیے ہندوستانی خزانے سے بیش قیمت تاج بنانے کا فیصلہ ہوا۔ جشن کے بعد بادشاہ اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے۔ بادشاہ ایسے مواقع پر رعایا کو بھی کچھ عطا کرتے تھے۔ تجویز پیش ہوئی کہ ہندوستان میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے ایک کروڑ روپیہ دیا جائے۔ برطانوی کرنسی میں چھ لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھ سو سرسٹھ پونڈ بنتے تھے۔ شہنشاہ کو زیادہ لگے۔ متبادل تجویز پیش ہوئی۔ کیوں نہ بنگال کی تقسیم ختم کر دی جائے۔ ہندو رعایا خوش ہو جائے گی۔ دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل کیا جائے تو مسلمان بھی خوش ہو جائیں گے۔ وائسرائے کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ۲۲ فروری کو لارڈ مارلے کو لکھا: اس قسم کا اعلان مسلمانوں کو ناراض کر دے گا۔ اس وقت ہندوستان کو کسی اور چیز سے زیادہ جس کی ضرورت ہے وہ امن اور سکون ہے۔ ۲۶۰ مسلمانوں کی سیاست میں ابھی انگریزوں سے مفاہمت کا دَورجاری تھا۔ پھر بھی ظفر علی خاں کی طبیعت بھڑک اُٹھتی تھی۔ کہیں سے خبر ملی کہ جرمنی کے قیصر ولیم نے اپنی بحری فوج سے کہا تھا کہ آیندہ ایک ہولناک جنگ واقع ہو گی۔ اُس کے مناظر دل دہلا دیں گے۔ صرف وہی قوم بازی لے جا ئے گی جو شراب کم پیتی ہو۔ زمیندار نے ۲۴ فروری کو لکھا: کاش کہ ٹرکی جو اسلام کے تصدق میں اِس اُم الخبائث سے بچا ہوا ہے اُس ہولناک جنگ کے وقت جس کی طرف قیصر نے اشارہ کیا ہے انگلستان کا حریف بن چکا ہو تاکہ جب جنگ چھڑے تو وہ قیصر کے قول کی عملی طور پر تصدیق کر سکے۔ اتفاق ہے کہ تین سال بعد مولانا ظفر علی خاں کی دعا قبول ہوئی۔ پھر بھی قیصر کا قول پورا نہ ہو سکا۔ ۲۶۱ ۹ فروری تھی۔ علیگڑھ کے اسٹریچی ہال میں اقبال نے لیکچر دیا۔ انگریزی میں تھا:۱۷۲ 'The Muslim Community - Sociological Study' بنیادی نکات یہ تھے: ۱ قوموں کے عروج و زوال پر نظر ڈالنے سے یوں لگتا ہے جیسے فطرت کی قوتیں فرد کا احترام کرتی ہیں نہ اقوام کا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے قوانین اپنے ہی بعض مقاصد کے تابع ہیں جنہیں انسان کی تقدیرِ مبرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ۲ فطرت کے یہ بیرحم قوانین اُس خواب کی تعبیر میں حائل دکھائی دیتے ہیں جو وہ ایک مثالی شخصیت کے حصول کے لیے دیکھتا ہے۔ تاہم انسانی تخیل، شعور کے ماتحت کام کرتے ہوئے اپنے اس خواب کی تعبیر کے قدرتی وسائل دریافت کرتا رہتا ہے۔ قدرتی انتخاب کے قانون (The Law of Natural Selection) کی دریافت اس کی ایک مثال ہے۔ اِس قانون پر نظریۂ ارتقأ کی بنیاد ہے۔ اس کی بدولت انسان اپنی تاریخ کے بارے میں ایک معقول (rational) تصور قائم کرنے میں قائم ہوا ہے۔ اب انسانی تاریخ محض بے مقصد واقعات کے تسلسل کی بجائے ایک مقصد کے حصول کی کہانی کے طور پر مرتب کی جا سکتی ہے۔ ۳ ڈارون کے بعد ہونے والی (post-Darwinian) تحقیقات نے ظاہر کیا ہے کہ فرد کی زندگی جماعت کے وجود پر منحصر ہے۔ قدرت فرد کا عرصۂ حیات بھی جماعت کی ضروریات کے مطابق طے کرتی ہے۔ ۴ جماعت کا ایک اپنا وجود ہے۔ یہ فرد کے وجود سے الگ پہچانا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ اجتماعی شعور ہر فرد کے تمام خیالات سے واقف ہو۔ یہ افراد کے ذہنوں سے اپنے مطلب کے افکار اخذ کر کے اجتماعی مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ ۵ جماعت کی نظر میں مستقبل زیادہ اہم ہوتا ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے موجودہ نسل کو بھی قربان کر سکتی ہے۔ ۶ جماعت کا وجود نئی اقدار کی تخلیق پر منحصر ہے۔ قدرت صرف اشیأ تخلیق کرتی ہے۔ ان کی قدروقیمت متعین کرنا انسان کا کام ہے۔ ۷ یہ قدر و قیمت جماعت کی بقأ کے اجتماعی مقصد کی روشنی میں متعین ہونی چاہیے۔ اِس کے لیے تین باتیں سمجھنا ضروری ہیں: ۱لف۔ ملتِ اسلامیہ کی عمومی ساخت: یہاں قومیت کی بنیاد زبان، جغرافیے یا نسل پر منحصر نہیں۔ یہ دراصل مذہبی اعتقادات پر منحصر ہے۔ ب۔ مسلم ثقافت کی یکسانیت: محض مذہبی اعتقادات بھی کافی نہیں۔ ملت کی اجتماعی زندگی میں حصہ لینے کے لیے فرد کے ذہن کو تبدیلی کے ایک پورے عمل سے گزرنا ضروری ہے۔ بیرونی طور پر یہ تبدیلی اسلام کے اداروں کے ذریعے آتی ہے۔ اندرونی طور پر اُس مسلم ثقافت کے ذریعے آتی ہے جس کی تخلیق و تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ ایران کا ہے مگر جو پوری مسلم دنیا میں کم و بیش یکساں ہے۔ یہ ثقافت مسلسل ارتقأ حاصل کر رہی ہے۔ اسی کی روشنی میں ملت کے وجود کو پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ وجود ایک طرح کی اجتماعی شخصیت (corporate individuality) ہے جو ملت کے افراد سے علیحدہ اپنے عزائم اور مقاصد رکھتی ہے۔ ج۔ سیرت کی وہ قسم جو ملتِ اسلامیہ کی زندگی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے، علمِ سماجیات کی مروجہ اصطلاحات کی روشنی میں ’’متین‘‘ (austere) سیرت کہلائی جا سکتی ہے۔ مسلم ہندوستان میں اِس کی ایک ابتدائی جھلک مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر تھا۔ اُن دنوں پنجاب کی احمدی جماعت کو بھی اقبال اِس قسم کی سیرت کا نمونہ سمجھتے تھے۔ ۸ موجودہ نظامِ تعلیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اِس قسم کی سیرت کی تشکیل میں مدد فراہم کرے۔ اِس مسئلے کی جو وضاحت دو برس پہلے اسلام کے اخلاقی اور سیاسی نصب العین والے لیکچر میں کی تھی، اُسے اقبال نے یہاں مزید وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا۔ عورتوں کی تعلیم کے بارے میں کہا کہ اس کا تعین اُس ذمہ داری کی روشنی میں ہونا چاہیے جسے عورت نے معاشرے میں پورا کرنا ہے۔ یہ ذمہ داری آیندہ نسلوں کی تیاری ہے۔ چنانچہ لڑکیوں کی تعلیم مذہب، اسلامی تاریخ، ہوم اکنامکس اور حفظانِ صحت پر مبنی ہونی چاہیے تاکہ وہ شوہر کی ذہنی رفاقت اور بچوں کی نگہداشت بہتر طور پر کر کے قومی زندگی کے تسلسل کو یقینی بنا سکیں۔ ۹ ہندوستان میں اسلامی یونیورسٹی ضرور قائم ہونی چاہیے۔ البتہ یہ صرف اُسی صورت میں مفید ہو گی جب مسلمان معاشرہ خود نصاب تیار کرے۔ اس کے لیے تمام مکاتیبِ فکر کو یکجا کیا جائے۔ ۱۰ تکنیکی تعلیم کے اداروں کی ضرورت ایک یونیورسٹی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اس لیے کہ یونیورسٹی طلبہ کو صرف ملازمت کے حصول یا پھر دانشوری کے لیے تیار کر سکتی ہے۔ یہ دونوں شعبے چند افراد تک محدود ہوتے ہیں۔ ملت کی ترقی کا دارومدار عوام پر ہے۔ اُن کی اقتصادی حالت اُس وقت تک بہتر نہ ہو گی جب تک ان کے لیے تکنیکی اور صنعتی تعلیم کا بندوبست نہ ہو۔ احمدی تحریک کے متعلق اِس لیکچر میں جو رائے دی تھی، اُس رائے کے بارے میں کئی برس بعد لکھا، ’’اُس وقت مجھے اس تحریک سے اچھی توقعات وابستہ تھیں۔ لیکن کسی مذہبی تحریک کے اصل اجزأ اور اُس کی روح ایک دن میں ظاہر نہیں ہوتی۔ اسے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔‘‘۱۷۳ The Muslim Community-A Sociological Study S. M. Iqbal In the epic sweep of human history, there is nothing more awe inspiring, nothing more destructive of human ambition than the ruins of bygone nations, empires and civilizations appearing and disappearing, during the painful course of human evolution, like the scenes of a rapidly vanishing dream. The forces of Nature appear to respect neither individuals nor nations; her inexorable laws continue to work as if she has a far off purpose of her own, in no sense related to what may be the immediate interest or the ultimate destiny of man. But man is a peculiar creature. Amidst the most discouraging circumstances, his imagination, working under the control of his understanding, gives him a more perfect vision of himself and impels him to discover the means which would transform his brilliant dream of an idealized self into a living actuality. An animal of inferior physical strength, unequipped with natural weapons of defence, lacking the power of nocturnal vision, keen scent, or fleetness of foot, man has, in search of a freer, ampler life, always directed his indefatigable energy to discover the laws of nature, understand their working, and thus gradually to become a determining factor in his own evolution. By the great discovery of the law of Natural Selection he has succeeded in reaching a rational conception of his own history which, before long appeared to him to be nothing more than an inscrutable series of events dropping out, one by one, from the mysterious womb of time, without any inherent order or purpose. A still deeper insight into the meaning of this law, and the discovery by Post Darwinian thinkers, of other equally important facts of collective life are calculated to work a complete revolution in man's notions of group life in its social, ethical, economic and political aspects. It has been brought to light by recent biological research that the individual as such is a mere abstraction, a convenient expression for facility of social reference, passing moment in the life of the group to which he happens to belong. His thoughts, his aspirations, his ways of life, his entire mental and physical outfit, the very number of days which he lives, are all determined by the needs of the community of whose collective life he is only a partial expression. The interests of society as a whole are fundamentally different and even antagonistic to the interests of the individual whose activity is nothing more than an unconscious performance of a particular function which social economy has allotted to him. Society has a distinct life of its own, irrespective of the life of its component units taken individually. And just as an individual organism, in a state of organic disorder, sometimes unconsciously sets up within itself, forces which tend to its health, so a social organism under the corroding influence of destructive forces, may sometimes call into being counteracting forces-such as the appearance of an inspiring personality, the birth of a new ideal, or a universal religious reform-which tend to restore its original vitality, and finally save the organism from structural collapse by making the inward communal self to bring into subjection all the insubordinate forces, and to throw off all that is inimical to the health of its organic unity. Society has or rather tends to have a consciousness, a will, and an intellect of its own, though the stream of its mentality has no other channel through which to flow than individual minds. The expressions "Public Opinion", "National Genius", or what the Germans happily phrase the "Zeitgeist" are only vague recognitions of this exceedingly important fact of social Psychology. The crowd, the mass meeting, the corporation, the sect, and, finally the deliberative assembly are the various means by which the body social organizes itself in order to secure the unity of self-consciousness. It is not necessary that the social mind should be conscious of all the various ideas that are, at a particular moment, working in the individual minds. The individual mind is never completely aware of its own states of Consciousness. In the case of the collective mind, too many feelings, states and ideas remain below the threshold of social sensibility, only a portion of the universal mental life crossing the border, and getting into the clear daylight of social consciousness. This economical arrangement saves from unnecessary expenditure, a great quantity of the energy of the central organs which would otherwise be fruitlessly spent on details. It is, therefore, clear that society has a life stream of its own. The idea that it is merely the sum of its existing individuals is essentially wrong and consequently all projects of social and political reform, which proceed on this assumption, must undergo a careful re examination. Society is much more than its existing individuals; it is in its nature infinite; it includes within its contents, the innumerable unborn generations, which, though they ever lie beyond the limits of immediate social vision, must be considered as the most important portion of a living community. Recent biological research has revealed that in the successful group life it is the future which must always control the present; to the species taken as a whole, its unborn members are perhaps more real than its existing members whose immediate interests are subordinated and even sacrificed to the future interests of that unborn infinity which slowly discloses itself from generation to generation. To this remarkable revelation of biological truth the social and political reformer cannot afford to remain indifferent. Now it is from this standpoint-from the standpoint of the future-that I wish to test the worth of our present social activity. There is strictly speaking only one all-important problem before a community-call it whatever you like, social, economic or political-and that is the problem of a continuous national life. Extinction is as abhorrent to a race as to an individual. The worth of all the various activities of a community-intellectual or otherwise-ought always to be determined in reference to this ultimate purpose. We must criticize our values, perhaps trans-valuate them; and, if necessary, create new worths; since the immortality of a people, as Nietzsche has so happily put, depends upon the incessant creation of worths. Things certainly bear the stamp of divine manufacture, but their meaning is through and through human. Before, however, I proceed to this examination I wish to consider a few preliminary points, the consideration of which, to my mind, is essential to arriving at any definite conclusion concerning the Muslim Community. These points are: 1. The general structure of the Muslim Community. 2. The uniformity of Muslim Culture. 3. The type of character essential to a continuous National life of the Muslim Community. I shall take these points in order. 1. The essential difference between the Muslim Community and other Communities of the world consists in our peculiar conception of nationality. It is not the unity of language or country or the identity of economic interest that constitutes the basic principle of our nationality. It is because we all believe in a certain view of the universe, and participate in the same historical tradition that we are members of the society founded by the Prophet of Islam. Islam abhors all material limitations, and bases its nationality on a purely abstract idea, objectified in a potentially expansive group of concrete personalities. It is not dependent for its life principle on the character and genius of a particular people; in its essence it is non temporal, non spatial. The Arab Race, the original creation of Islam, was certainly a great factor in its political expansion, but the enormous wealth of literature and thought-manifestations of the higher life of the spirit-has been the work of chiefly non-Arabian races. It seems as if the birth of Islam was only a momentary flash of divine consciousness in the life history of the Arab race; the working of its spiritual potentialities was due to the genius of people other than the Arabs. The essence of Islam, then, being purely ideal, it could not accept any objective principle-such as country-as a principle of nationality. The territorial conception of nationality, which has been so much exaggerated in modern times, bears within itself the germs of its own destruction. The idea of modern nationalism has certainly functioned usefully in forming smaller political units, and creating a healthy rivalry among them, which has contributed so much to the variety of modern civilisation. But the idea is apt to be exaggerated; it has created a great deal of misunderstanding of international motives; it has opened up a vast field for diplomatic intrigue, and tends to ignore the broad human element in art and literature by emphasising the peculiar traits and characteristics of particular peoples. To my mind the feeling of patriotism, which the national idea evokes, is a kind of deification of a material object, diametrically opposed to the essence of Islam, which appeared as a protest against all the subtle and coarse forms of idolatry. I do not, however, mean to condemn the feeling of Patriotism. Peoples whose solidarity depends on a territorial basis are perfectly justified in that feeling. But I certainly do mean to attack the conduct of those who, while they recognize the great value of patriotic feeling in the formation of a peoples' character, yet condemn our 'Asabiyyat which they miscall fanaticism. We are as much justified in our 'Asabiyyat as they are in their Patriotism. For what is 'Asabiyyat? Nothing but the principle of individuation working in the case of a group. All forms of life are more or less fanatical, and ought to be so, if they care for their individual or collective life. And as a matter of fact all nations are fanatical. Criticise a Frenchman's religion; you do not very much rouse his feelings; since your criticism does not touch the life principle of his nationality. But criticise his civilisation, his country or the corporate behaviour of his nation in any sphere of political activity and you will bring out his innate fanaticism. The reason is that his nationality does not depend on his religious belief; it has a geographical basis-his country. His 'Asabiyyat is then justly roused when you criticise the locality-which he has idealised as the essential principle of his nationality. Our position however, is essentially different. With us nationality is a pure idea; it has no objective basis. Our only rallying point, as a people, is a kind of purely subjective agreement in a certain view of the world. If then our 'Asabiyyat is roused when our religion is criticised, I think we are as much justified in it as a French man is when his country is denounced. The feeling in each case is the same though associated with different objects. 'Asabiyyat is Patriotism for religion; Patriotism 'Asabiyyat for country. 'Asabiyyat simply means a strong feeling for one's own nationality and does not necessarily imply any feeling of hatred against other nationalities. During my stay in England I found that whenever I described any peculiarly Eastern custom or mode of thought to an English lady or gentlemen, I, almost invariably, invoked the remark, "how funny", as if any non English mode of thought was absolutely inconceivable. I have the highest admiration for this attitude; it does not indicate any want of imagination; the country of Shakespeare, Shelley, Keats, Tennyson and Swinburne cannot be wholly unimaginative; on the other hand it indicates how deeply England's mode of thought and life, her institutions, her manners and customs are rooted in the mind of her people. The religious idea, then, without any theological centralisation, which would unnecessarily limit the liberty of the individual, determines the ultimate structure of the Muslim Community. In the case of no community the words of Augustus Comte are so completely true as in the case of our own. "Since Religion", says he, "embraces all our existence, its history must be an epitome of the whole history of our development." It may, however, be asked that if mere belief in certain prepositions of a Metaphysical import is the only thing that ultimately determines the structures of the Muslim Community, is it not an extremely unsafe basis especially before the advance of modern knowledge, with its habits of Rationalism and criticism? This is what the French Orientalist Renan thought; and entertained a veiled hope that Islam would one day "lose the high intellectual and moral direction of an important part of the universe." Nations, the basic principle of whose collective life is territorial, need not be afraid of Rationalism; to us it is a dangerous foe, since it aims at the very principle, which gives us a communal life, and alone makes our collective existence intelligible. Rationalism is essentially analysis and consequently threatens to disintegrate the communal synthesis achieved by the force of the religious idea. It is undoubtedly true that we can meet Rationalism on its own ground. But the point which I wish to impress on you is that the dogma i.e. the point of universal agreement on which our communal solidarity depends, has essentially a national rather than intellectual significance for us. To try to convert religion into a system of speculative knowledge is, in my opinion, absolutely useless, and even absurd, since the object of religion is not thinking about life; its main purpose is to build up a coherent social whole for the gradual elevation of life. Religion is itself metaphysics; in so far as it calls up into being a new universe with a view to suggest a new type of character tending to universalise itself in proportion to the force of the personality in which it originally embodies itself. The point that I have tried to bring out in the above remarks is that Islam has a far deeper significance for us than merely religious; it has a peculiarly national meaning so that our communal life is unthinkable without a firm grasp of the Islamic Principle. The idea of Islam is, so to speak, our eternal home or country wherein we live, move and have our being. To us it is above everything else, as England is above all to the Englishman and "Deutschland uber alles" to the German. The moment our grasp of the Islamic Principle is loosened that solidarity of our community is gone. 2. Coming now to the second point: The uniformity of Muslim Culture. The unity of religious belief on which our communal life depends, is supplemented by the uniformity of Muslim culture. Mere belief in the Islamic principle, though exceedingly important, is not sufficient. In order to participate in the life of the communal self, the individual mind must undergo a complete transformation, and this transformation is secured, externally by the institutions of Islam, and internally by that uniform culture which the intellectual energy of our forefathers has produced. The more you reflect on the history of the Muslim Community the more wonderful does it appear from the day of its foundation up to the beginning of the 16th century almost a thousand years this energetic race was busy in the all absorbing occupation of political expansion. Yet in this storm of continuous activity the Muslim world found time to unearth the treasures of ancient science, to make material additions to them, to build a literature of unique character and above all to develop a comprehensive system of law, probably the most valuable legacy that Muslim civilisation has left us. Just as the Muslim Community does not recognize any ethnological differences, and aims at the subsumption of all races under the universal idea of humanity, so our culture is relatively universal, and is not indebted for its life and growth to the genius of one particular people. Persia is perhaps the principal factor in the making of this culture. If you ask me what is the most important event in the history of Islam, I shall immediately answer, the conquest of Persia. The battle of Nehwand gave to the Arabs not only a beautiful country, but also an ancient people who could construct a new civilisation out of the Semitic and the Aryan material. Our Muslim civilisation is a product of the cross fertilisation of the Semitic and the Aryan ideas. It inherits the softness and refinement of its Aryan mother and the sterling character of its Semitic father. The Conquest of Persia gave to the Musalmans what the Conquest of Greece gave to the Romans, but for Persia our culture would have been absolutely one-sided. And the people whose contact transformed the Arabs and the Mughals are not intellectually dead. Persia, whose existence as an independent Political unit is threatened by the aggressive ambition of Russia, is still a real centre of Muslim culture, and I can only hope that she still continues to occupy the position that she has always occupied in the Muslim world. To the Royal family of the Persia the loss of the Persia's political independence would mean only a territorial loss, to the Muslim culture such an event would be a blow much more serious than the Tartar invasion of the 13th century. But perhaps I am drifting into politics which it is not my present object to discuss, all that I mean to establish is that in order to become a living member of the Muslim Community, the individual, besides an unconditional belief in the religious principle, must thoroughly assimilate the culture of Islam. The object of this assimilation is to create a uniform mental outlook, a peculiar way of looking at the world, a certain definite standpoint from which to judge the value of things which sharply defines our community, and transforms it into a corporate individual giving it a definite purpose and ideal of its own. 3. The third point need not detain us long. The above remarks indicate the principal features of an essentially Muslim type of character. The various types of character, however, that become popular in a community do not appear haphazard. Modern Sociology teaches us that the moral experience of nations obeys certain definite laws. In primitive societies where the struggle for existence is extremely keen and draws more upon man's physical rather than intellectual qualities it is the valiant man who becomes an object of universal admiration and imitation. When, however, the struggle relaxes and the peril is over, the valorous type is displaced, though not altogether, by what Giddings calls the convivial type, which takes a due share in all the pleasures of life, and combines in itself the virtues of liberality, generosity and good fellowship. But these two types of character have a tendency to become reckless, and by way of reaction against them appears the third great type which holds up the ideal of self control, and is dominated by a more serious view of life. In so far as the evolution of the Muslim Community in India is concerned, Temur represented the first type, Babar combined the first and the second, Jahangir embodied pre eminently the second, while the third type was foreshadowed in Alamgir whose life and activity forms, in my opinion, the starting point in the growth of Muslim Nationality in India. To those whose knowledge of Alamgir is derived from the Western interpreters of Indian History, the name of Alamgir is associated with all sorts of cruelty, intolerance, treachery and political intrigue. I shall be drifting away from the main point of this lecture if I undertake to show, by a right interpretation of contemporary history, the legitimacy of motives that guided Alamgir's political life. A critical study of his life and times has convinced me that the charges brought against him are based on a misinterpretation of contemporary facts, and a complete misunderstanding of the nature of social and political forces, which were then working in the Muslim State. To me the ideal of character, foreshadowed by Alamgir is essentially the Muslim type of character, and it must be the object of all our education to develop that type. If it is our aim to secure a continuous life of the community, we must produce a type of character, which at all costs, holds fast to its own, and while it readily assimilates all that is good in other types, it carefully excludes from its life all that is hostile to its cherished traditions and institutions. A careful observation of the Muslim Community in India reveals the point on which the various lines of moral experience of the community are now tending to converge. In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in the so called Qadiani sect; while in the United Provinces, owing to a slightly different intellectual environment, the need of such a type of character is loudly proclaimed by a great poetic voice. In his light hearted humour Maulana Akbar of Allahabad, aptly called the tongue of the times, conceals a keen perception of the nature of the forces that are at present working in the Muslim Community. Do not be misled by the half serious tone of his utterances; he keeps his tears vieled in youthful laughter, and will not admit you into his workshop until you come with a keener glance to examine his wares. So deeply related are the currents of thought and emotion in a homogeneous community that if one portion reveals a certain organic craving the material to satisfy that craving is almost simultaneously produced by the other. Let me now precede a step further. In the foregoing discussion I have tried to establish three propositions 1. That the religious idea constitutes the life-principle of the Muslim Community. In order to maintain the health and vigour of such a community, the development of all dissenting forces in it must be carefully watched and a rapid influx of foreign elements must be checked or permitted to enter into the social fabric very slowly, so that it may not bring on a collapse by making too great a demand on the assimilative power of the social organism. 2. Secondly: the mental outfit of the individual belonging to the Muslim Community must be mainly formed out of the material which the intellectual energy of his forefathers has produced, so that he may be made to feel the continuity of the present with the past and the future. 3. Thirdly: that he must possess particular type of character which I have described as the Muslim type. It is my object now to examine the value of the work that we have done in the various spheres of activity. Now a thorough going criticism of the work of the Muslim world in the sphere of Politics, Religion, Literature and Thought, Education, Journalism, Industry, Trade and Commerce will require several volumes! The events, which are now happening in the Muslim World, are extremely significant and a searching examination of them would be exceedingly instructive; but the task is enormous, and I confess it is beyond my power to undertake it. I shall, therefore, have to confine my observations to the work that we have done in India, and here too I do not pretend to give you any exhaustive treatment of the various problems now confronting us. I shall consider only two points-Education and the improvement of the general condition of the masses. During the last fifty years or so, the work of Education has absorbed almost all our energies. It is not improper to ask whether we have been following any definite educational ideal, or only working for immediate ends without giving a thought to the future. What kind of men have we turned out? And is the quality of the output calculated to secure a continuous life of such a peculiarly constructed community as our own? The answer to these questions has been already indicated. The students of Psychology among you know very well that the personal identity of the individual mind depends upon the orderly succession of its mental states. When the continuity of the stream of individual consciousness is disturbed there results Psychical ill health which may, in course of time, lead on to a final dissolution of vital forces. The same is the case with the life of the social mind whose continuity is dependent on the orderly transmission of its collective experience from generation to generation. The object of education is to secure this orderly transmission and thus to give a unity of self consciousness [or] personal identity to the social mind. It is a deliberate effort to bring about a organic relation between the individual and the body politic to which he belongs. The various portions of the collective tradition so transmitted by education, permeate the entire social mind, and become objects of clear consciousness in the minds of a few individuals only whose life and thought become specialized for the various purposes of the community. The legal, historical and literary traditions of a community, for instance, are definitely present to the consciousness of its lawyers, historians and literary writers, though the community as a whole is only vaguely conscious of them. Now I wish you to look at and judge the value of our educational achievement from this standpoint. In the modern Muslim young man, we have produced a specimen of character whose intellectual life has absolutely no background of Muslim culture without which, in my opinion, he is only half a Muslim or even less than that; provided his purely secular education has left his religious belief unshaken. He has been allowed, I am afraid, to assimilate Western habits of thought to an alarming extent, a constant study of Western literature, to the entire neglect of the collective experience of his own community, has, I must frankly say, thoroughly de Muslimized his mental life. No community, I say without any fear of contradiction, has produced so very noble type of character as our own; yet our young man who is deplorably ignorant of the life history of his own community, has to go to the great personalities of Western history for admiration and guidance. Intellectually he is a slave to the West, and consequently his soul is lacking in that healthy egoism which comes from a study of one's own history and classics. In our educational enterprise, we have hardly realized the truth, which experience is now forcing upon us, that an undivided devotion to an alien culture is a kind of imperceptible conversion to that culture, a conversion which may involve much more serious consequences than conversion to a new religion. No Muslim writer has expressed this truth more pointedly than the poet Akbar who, after surveying the present intellectual life of the Muslim young man cries out in despair: شیخِ مرحوم کا یہ قول مجھے یاد آتا ہے دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے We now see that the fears of the "شیخِ مرحوم", the representative of the essentially Muslim culture, who waged a bitter controversy with the late Sir Syyed Ahmad Khan on the question of Western Education, were not quite groundless. Need I say that our educational product is a standing testimony to the grain of truth contained in the Shaikh Marhum's contention? Gentlemen, I hope you will excuse me for these straightforward remarks. Having been in close touch with the student life of today for the last ten or twelve years, and teaching a subject closely related to religion, I think I have got some claim to be heard on this point. It has been my painful experience that the Muslim student, ignorant of the social, ethical and political ideals that have dominated the mind of his community, is spiritually dead; and that if the present state of affairs is permitted to continue for another twenty years, the Muslim spirit, which is now kept alive by a few representations of the old Muslim culture, will entirely disappear from the life of our community. Those who laid it down as a fundamental principle that the education of the Muslim child must begin with the study of the Quran-no matter whether he understands it or not-were certainly much more sensible of the nature of our community than we claim to be. Economic considerations alone ought not to determine our activity as a people; the preservation, of the unity of the community, its continuous national life is a far higher ideal than the service of merely immediate ends. To me a Muslim of scanty means who possesses a really Muslim character is a much more valuable national asset than a high salaried free thinking graduate with whom Islam, far from being a working principle of life, is merely a convenient policy in order to secure a greater share in the loaves and fishes of the country. These remarks need not lead you to think that I mean to condemn Western culture. Every student of Muslim history must recognize that it was the West, which originally shaped the course of our intellectual activity. In the sphere of pure thought we are still perhaps more Greek than Arab or Persian; Yet nobody can deny that we possess a unique culture of our own, which no modern Muslim system of education can afford to ignore without running the risk of denationalizing those whose good it aims at securing. It is indeed a happy sign that the idea of a Muslim University has dawned upon us. Considering the nature of our community the necessity of such an institution cannot be doubted provided it is conducted on strictly Islamic lines. No community can afford to break entirely with its past and it is more emphatically true in the case of our community whose collective tradition alone constitutes the principle of its vitality. The Muslim, must of course, keep pace with the progress of modern ideas; but his culture must, in the main, remain Muslim in character; and it is clear that such a thing cannot be attained without a teaching university of our own. If you produce young men, the groundwork of whose culture is not Muslim, you will not be bringing up a Muslim community, you will be creating a totally new community, which having no strong principle of cohesion may, at any time lose its individuality in the individuality of any of the surrounding communities, that may happen to possess a greater vitality than itself. But there is, perhaps a still more important reason for the necessity of a Muslim University in India. You know that the ethical training of the masses of our community is principally in the hands of a very inefficient class of Moulvies or public preachers, the range of whose knowledge of Muslim history and literature is extremely limited. A modern public teacher of morality and religion must be familiar with the great truths of history, economics and sociology besides being thoroughly conversant with the literature and thought of his own community. Such public teachers are the great need of the times. The Nadwa, the Aligarh College, the theological Seminary of Dewband, and other institutions of a similar type, working independently of one another, cannot meet this pressing demand. All these scattered educational forces should be organized into a central institution of a large purpose which may afford opportunities not only for the development of special abilities, but may also create the necessary type of culture for the modern Indian Muslim. A purely Western ideal of education will be dangerous to the life of our community if it is to continue as an essentially Muslim community. It is therefore absolutely necessary to construct a fresh educational ideal in which the elements of Muslim culture must find a prominent place, and past and the present commingle in a happy union. The construction of such an ideal is not an easy task; it requires a large imagination, a keen perception of the tendencies of modern times, and a complete grasp of the meaning of Muslim history and religion. Before leaving this point, I think, I ought to say a few words on the education of the Muslim woman. This is not a place to discuss the ideal of womanhood in Islam. I must, however, frankly admit that I am not an advocate of absolute equality between man and woman. It appears that Nature has allotted different functions to them, and a right performance of these functions is equally indispensable for the health and prosperity of the human family. The so called "emancipation of the Western woman" necessitated by Western individualism, and the peculiar economic situation produced by an unhealthy competition, is an experiment, in my opinion, likely to fail, not without doing incalculable harm, and creating extremely intricate social problems. Nor is the higher education of women likely to lead to any desirable consequences in so far as the birth rate of a community is concerned. Experience has already shown that the economic emancipation of women in the West has not, as was expected, materially extended the production of wealth. On the other hand it has a tendency to break up the unity of the family, which is an exceedingly important factor in the psychical life of society. Now I am ready to recognize that the evolution of society by resident forces alone is impossibility in modern times. The almost total annihilation of space and time has produced a close contact among the various communities of the world, a contact that is likely to affect the natural orbit of some and to prove disastrous to others. What the larger economic, social and political forces that are now working in the world will bring about, nobody can foretell; but we must remember that while it is advisable, and even necessary for a healthy social change, to assimilate the elements of an alien culture, a hasty injudicious jump to alien institutions may lead to most abrupt structural disturbance in the body social. There is an element of universality in the culture of a people; their social and political institutions, on the other hand, are more individual. They are determined by their peculiar tradition and life-history, and cannot be easily adopted by a community having a different tradition and life history. Considering then the peculiar nature of our community, the teaching of Islam, and the revelations of Physiology and Biology on the subject, it is clear that the Muslim woman should continue to occupy the position in society which Islam has allotted to her. And the position which has been allotted to her must determine the nature of her education. I have tried to show above that the solidarity of our community rests on our hold on the religion and culture of Islam. The woman is the principal depositary of the religious idea. In the interests of a continuous national life, therefore, it is extremely necessary to give her, in the first place, a sound religious education. That must, however, be supplemented by a general knowledge of Muslim History, domestic economy, and hygiene. This will enable her to give a degree of intellectual companionship to her husband and to successfully do the duties of motherhood, which, in my opinion, is the principal function of the woman. All subjects which have a tendency to de womanize and to de Muslmize her, must be carefully excluded from her education. But our educationists are still groping in the dark. They have not yet been able to prescribe a definite course of study for our girls; and some of them are, unfortunately too much dazzled by the glamour of Western ideals to realize the difference between Islam which constructs nationality out of a purely abstract idea, i.e. religion, and Westernism which builds nationality on an objective basis i.e. country. I shall now proceed to offer a few remarks on the improvement of the general condition of the masses of our community. And in this connection the first point of importance is the economic condition of the average Muslim. I am sure nobody will deny that the economic condition of the average Muslim is extremely deplorable. His small wage, dirty house and under fed children are a matter of common observation in the towns where the population is mostly Muslim. Pass through a Muslim street in Lahore; what do you find? An old silent gloomy street whose mournful quite is relieved by the shrieks of ill clad bony children or by the subdued entreaties of an old woman in Pardah spreading out her skinny hand for alms. This is not all. Inside these unhappy dwellings there are hundreds of men and women whose fathers have seen better days, but who are now compelled to starve without ever opening their lips for appeals to charity. It is really this poverty of the lower strata of our community and not the Pardah system, as our young protagonists of social reform sometimes contend, that is reacting on the general physique of our community. Besides this class there is the absolutely incapable who brings into the world children as incapable as himself, and by surrendering himself to laziness and crime spreads the contagion of these vices to others. Have we ever given a thought to these aspects of the social problem? Have we ever realized that the duty of our Anjumans and leagues is to work for the elevation of the masses and not to push up the individuals? The most important problem before the Muslim public worker is how to improve the economic conditions of his community. It is his duty to make a careful study of the general economic situation in India and the causes, which have brought it about. How much of this situation is due to the larger economic forces that are working in the modern world, how much to the historical antecedents, customs, prejudices and ethical shortcomings of the people of this land, how much, if at all, to the policy of the Government; these are the questions which, in preference to other questions, must occupy his brains. The problem will, of course, have to be approached in a broad impartial non sectarian spirit; since the economic forces affect all communities alike. The ever increasing land revenue, the importation of foreign drink into country, or the rise of prices, whether it is due to a wrong currency policy or the establishment of free trade between an agricultural country and a manufacturing country or to any other cause-these things affect the economic condition of Hindus, Muslims, Sikhs and Parsees all alike, and loudly proclaim that the public workers of all the various communities can, at least, meet on the common ground of economic discussion. The Muslim public worker however has hitherto concentrated almost all his energies on the point of securing our due share in Government Service. The effort is certainly laudable, and he must continue to work until we have achieved our object. But he must remember that Government Service as a field for the production of wealth is extremely limited. It offers prospects of economic elevation only to a few individuals; the general health of a community depends largely on its economic independence. There is no doubt that a few individuals in the higher branches of Government Service give a tone of honour and self respect to the whole community; but it is equally true that there are other spheres of economic activity which are equally important and more profitable. The process of change and adjustment to an economic ideal is certainly painful to a people whose tradition have been in the main, military, yet in view of the change that is coming over the communities of Asia, principally through the economic energy of western nations, the ordeal must be gone through. Besides working for the removal of economic disabilities, if any, we must have a system of technical education, which is, in my opinion, even more important, than higher education. The former touches the general economic condition of the masses which form the backbone of a community, the latter only a few individuals who happens to possess more than average intellectual energy. The charity of the wealthier classes among us must be so organized as to afford opportunities of a cheap technical education to the children of the community. But industrial and commercial training alone is not sufficient. In economic competition the ethical factor plays an equally important part. The virtues of thrift, mutual trust, honesty, punctuality and co operation are as much valuable economic assets as professional skill. How many economic undertakings have failed in India through want of mutual trust and a proper spirit of co-operation. If we want to turn out good working men, good shopkeepers, good artisans and above all good citizens, we must first make them good Muslims. ۲۶۲ پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلبگار نہ تھا ایک بھی نرگسِ بیمار کا بیمار نہ تھا جنس اچھی تھی تری، لیک خریدار نہ تھا ہم سِوا کوئی ترا رونقِ بازار نہ تھا کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ جلا سکتے تھے میر تقی میر واسوخت نظم کی وہ قسم تھی جس میں محبوب کی بے وفائی، ظلم و ستم، رقیب کے ساتھ بیجا محبت اور جدائی کی مصیبت کی شکایت ہوتی۔ فارسی کی اِس صنف کو اُردو میں میر تقی میرؔ نے اٹھارہویں صدی میں چار واسوختیں لکھ کر مقبول کیا: میں بھی ناچار ہوں اب منہ میں زباں رہتی نہیں ۲۶۳ اقبال نظم لکھنے بیٹھے تو اُن صفحات کو استعمال کرنا مناسب نہ سمجھا جنہیں طویل اردو مثنوی کے لیے خالی چھوڑ رکھا تھا۔ چنانچہ ایک نئی بیاض میں لکھی۔ ممکن ہے پہلے کسی اور کاغذ یا کاپی میں لکھی ہو مگر اب وہ دستیاب نہیں۔ آٹھ برس پہلے ’ابر ِ گہربار‘ لکھتے ہوئے تمہید میں ایک غزل اِس ڈر سے لکھی تھی کہ کوئی کفر کا فتویٰ نہ لگا دے۔ اب جو کچھ لکھنے جا رہے تھے اُس کے موضوع کی وجہ سے پھر یہی خدشہ پیدا ہوا چنانچہ معذرت میں نو اشعار کا قطعہ شاید نظم سے پہلے ہی تحریر کر لیا: منظور شکایت کا نرالا مجھے ڈھب ہے شوخی مری ایسی ہے کہ بس حدِ ادب ہے اس کے بعد نظم لکھنا شروع کی۔ نئی بیاض میں متن درج ہوا۔ عنوان تھا، ’شکوہ‘۔ ’شکوہ‘ اُس کرب کے اظہار کا ذریعہ بھی تھی جو ذاتی زندگی میں کچھ عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ اِس سے زیادہ بھی کچھ تھی۔ پچھلے دو برس کی تمام تحریروں میں جو خیالات پیش کیے تھے انہیں نظم کیا جاتا تو دو حصوں پر مشتمل ہوتے: ۱ مسلمان اور اسلام ایک وجود ہیں جو تاریخ کو آگے بڑھانے والی قوت ہے ۲ مسلمانوں کے زوال کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسلام کی روح سے دُور ہو کر عملاً بے وجود ہو گئے ’ملت ِ بیضا پر عمرانی نظر‘میں دونوں باتیں پیش کیں تو لیکچر بن گیا۔’شکوہ‘ میں صرف پہلی بیان کی۔ باقی آیندہ کے لیے اٹھا رکھی۔ نظم ہو گئی۔ خدا سے سوال پوچھا جس کی نوعیت اُسے شکایت بنا رہی تھی۔ پھر بھی حمد سے خالی نہ تھی، عقبہ بن نافع کے مشہور جملے کی طرح جو بحر ِ اوقیانوس یعنی ’’بحر ِظلمات‘‘ میں گھوڑا ڈالنے کے بعد خدا سے مخاطب ہو کر کہا تھا، ’’یا اللہ! اگر تیرے سمندر کی موجیں میرا راستہ نہ روک لیتیں تو میں تیرا پیغام دنیا کے آخری سرے تک لے جاتا!‘‘ مغربی مصنفوں کا اسلام پر اعتراض تھا کہ یہ تلوار کے زور پر پھیلا۔ امیر علی اور سرسیداِسی کوشش میں رہے کہ اس الزام کو غلط ثابت کریں۔ پھر بھی ’شکوہ‘ کی ساخت تقاضا کر رہی تھی کہ فی الحال خدا سے کہہ دیا جائے کہ مسلمانوں ہی کی قوتِ بازو نے خدا کا نام پھیلایا۔ اگر چاہتا ہے کہ دنیا میں توحید باقی رہے تو مسلمانوں کو پھر وہی شان و شوکت عطا کرے۔ دوسروں کی طرح مسلمانوں میں بھی اچھے برے بادشاہ گزرے تو نظم کے موضوع سے اس کا تعلق نہ تھا۔ غزالی، عطار اور رومی کے تذکرے کی گنجایش بھی نہ تھی۔ شکایت میں سے دم نکل جاتا ۔ سوچنا پڑتا کہ حکومت دُوسروں نے چھین لی مگر علم و حکمت میں پیچھے رہ جانا مسلمانوں نے خود کیوں پسند کیا؟ فنی اعتبار سے نظم ایسی چیز تھی جو خیال کی وحدت کا مطالبہ کرتی۔ اِس کے دامن میں متضاد خیالات سمیٹنے سے تاثیر کم ہو سکتی تھی۔ ’ملت ِ بیضا پر عمرانی نظر‘ کے دوسرے پہلو الگ نظم کا تقاضا کرتے تھے۔ مناسب تھا کہ اُنہیں قوم کے سامنے پیش کرنے سے پہلے قوم کو سوچنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ ۲۶۴ ’شکوہ‘واضح طور پر میرؔ کی واسوخت سے ماخوذ تھی۔ انیسؔ کے مرثیے اور حالیؔ کی مسدس کے علاوہ غالبؔ کی معنی آفرینی کی جھلک بھی اِس میں موجودتھی۔ زبان کی نزاکتیں بھی تھیں کہ اگر ایک مصرعے میں بلبل کے نغموں کا ذکرتھا تو دوسرے مصرعے میں اپنے ساتھی کو بھی ہمدم یا کسی اور خطاب کی بجائے ہم نوا کہہ کر مخاطب کیا کہ بلبل کے نغمے سے مناسبت رہے۔ بعض مصرعوں کے درمیان میں بھی ہم قافیہ الفاظ استعمال کر ڈالے۔ جس بند میں لڑائی کا ذکر تھا وہاں کرخت آوازیں یا ایسے حروف تھے جن کے سُر چڑھے ہوئے ہوں مثلاً اَڑ، اُکھڑ، بگڑ، لڑ وغیرہ۔ ویسے تو ہر نظم میں لفظوں کی موسیقیت کا خاص خیال رکھتے مگر بعض دفعہ ایسا کمال دکھاتے کہ کوئی زبان نہ جانتا ہو اور اُس کے سامنے نظم پڑھی جا ئے تو وہ بھی جان جائے کہ کس قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہاہے۔۱۷۴ اُمید کی جا سکتی تھی کہ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ اجلاس جہاں یہ نظم پڑھی جانے والی تھی اُس میں ایک سماں بندھ جائے گا۔ پھر بھی ہزاروں کے مجمع میں ایسی نظم سنانا جس میں بظاہر خدا سے شکوہ کیا جا رہا ہو، خطرہ مول لینے کی بات تھی۔ اقبال تیار تھے۔ ۲۶۵ ۲۶ مارچ ۱۹۱۱ء کو پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے اقبال کو اورینٹل فیکلٹی کا فیلو نامزد کیا جبکہ شیخ عبدالقادر کو قانون کی فیکلٹی میں رکھا گیا۔ ۱۷۵ ۲۶۶ ۲۹ مارچ کو خبر پہنچی کہ بزرگ شاعر ظہیر دہلوی جن سے اقبال پچھلے برس حیدرآباد (دکن) میں مل کر آئے تھے دس روز قبل انتقال کر گئے۔ ۲۶۷ ۳۱ مارچ کو پنجاب مسلم لیگ کی طرف سے وائسرائے کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کا بندوبست کیا گیا جو ایک روز پہلے لاہور تشریف لائے تھے۔ ایڈریس اگلی شام یونیورسٹی ہال میں پیش کیا گیا۔ ۴۸ افراد کے وفد میں اقبال بھی شامل تھے۔ وہ ان دنوں پنجاب مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ وہ اسسٹنٹ سیکرٹری کب بنے اور کب تک رہے۔ ۲۶۸ اس برس مارچ میں ہنری برگساں کی تصنیف تخلیقی ارتقا کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔چار برس پہلے فرانسیسی میں شائع ہوئی تھی۔ اب دھوم مچی۔ Creative Evolution by Henri Bergson Authorized Translated by Arthur Mitchell, Ph.D [Excerpts] The existence of which we are most assured and which we know best is unquestionably our own, for of every other object we have notions which may be considered external and superficial, whereas, of ourselves, our perception is internal and profound. What, then, do we find? In this privileged case, what is the precise meaning of the word "exist"? Let us recall here briefly the conclusions of an earlier work. I find, first of all, that I pass from state to state. I am warm or cold, I am merry or sad, I work or I do nothing, I look at what is around me or I think of something else. Sensations, feelings, volitions, ideas - such are the changes into which my existence is divided and which color it in turns. I change, then, without ceasing. * In particular, it may be said of individuality that, while the tendency to individuate is everywhere present in the organized world, it is everywhere opposed by the tendency towards reproduction. For the individuality to be perfect, it would be necessary that no detached part of the organism could live separately. But then reproduction would be impossible. For what is reprodduction, but the building up of a new organism with a detached fragment of the old? Individuality therefore harbours its enemy at home. Its very need of perpetuating itself in time condemns it never to be complete in space. The biologist must take due account of both tendencies in every instance, and it is therefore useless to ask him for a definition of individuality that shall fit all cases and work automatically. * Suppose we wish to portray on a screen a living picture, such as the marching past of a regiment. There is one way in which it might first occur to us to do it. That would be to cut out jointed figures representing the soldiers, to give to each of them the movement of marching, a movement varying from individual to individual although common to the human species, and to throw the whole on the screen. We should need to spend on this little game an enormous amount of work, and even then we should obtain but a very poor result: how could it, at its best, reproduce the suppleness and variety of life? Now, there is another way of proceeding, more easy and at the same time more effective. It is to take a series of snapshots of the passing regiment and to throw these instantaneous views on the screen, so that they replace each other very rapidly. This is what the cinematograph does. With photographs, each of which represents the regiment in a fixed attitude, it reconstitutes the mobility of the regiment marching. It is true that if we had to do with photographs alone, however much we might look at them, we should never see them animated: with immobility set beside immobility, even endlessly, we could never make movement. In order that the pictures may be animated, there must be movement somewhere. The movement does indeed exist here; it is in the apparatus. It is because the film of the cinematograph unrolls, bringing in turn the different photographs of the scene to continue each other, that each actor of the scene recovers his mobility; he strings all his successive attitudes on the invisible movement of the film. The process then consists in extracting from all the movements peculiar to all the figures an impersonal movement abstract and simple, movement in general so to speak: we put this into the apparatus, and we reconstitute the individuality of each particular movement by combining this nameless movement with the personal attitudes. Such is the contrivance of the cinematograph. And such is also that of our knowledge. Instead of attaching ourselves to the inner becoming of things, we place ourselves outside them in order to recompose their becoming artificially.۱۷۶ ۲۶۹ یہ معلوم نہیں کہ اقبال نے برگساں کی کتاب کب پڑھی۔ بہرحال ان کا ذہن قرآن شریف کی بعض آیات کی طرف گیا: اور اُس زندہ پر بھروسہ رکھو جو نہیں مرے گا اور اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔ اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہ رحمان۔ تو اُس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر لو۔ [سورہ ۲۵ الفرقان: ۵۹-۵۸] ہم نے ہر چیز اندازۂ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اور ہمارا حکم تو آنکھ کے جھپکنے کی طرح ایک بات ہوتی ہے۔ [سورہ ۵۴ القمر: ۵۰-۴۹] بعد میں کبھی برگساں پر تنقید کرتے ہوئے انگریزی میں کہا: برگساں کے نزدیک حقیقت مطلقہ ایک آزاد، ناقابل تعین، تخلیقی اور حیاتی محرک ہے اور اپنی کنہ میں سر تا سر مشیت، جس کو فکر قید مکانی میں لے آتا اور پھر اس کا مشاہدہ ’اشیا‘ کی ایک کثرت کی شکل میں کرتا ہے۔ اس کی حیاتیت کی انتہا فکر اور مشیت کی ایک ایسی ثنویت میں ہوتی ہے جس میں کوئی مفاہمت ممکن نہیں اور جس کی ہمارے نزدیک وجہ ہے فکر کے متعلق اس کا جزئی نظریہ، کیونکہ فکر کا منصب برگساں کی رائے میں صرف یہ ہے کہ ہر شے کو قید مکانی میں لے آئے۔۔۔ لیکن فکر کی ایک عمیق تر حرکت بھی ہے۔۔۔ واردات شعور میں زندگی اور فکر دونوں باہم مدغم ہوکر ایک وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور اس لیے ہم کہیں گے کہ فکر بھی اپنی کنہ میں عین حیات ہے۔ لیکن برگساں کہتا ہے زندگی چونکہ ہجوم کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اس نے آزادانہ خلاقی کا جو راستہ اختیار کررکھا ہے غایات کے نور سے منور ہو، خواہ قریب خواہ دور سے۔ وہ گویا ایک من مانی، بے بصر، بے راہ اور ناقابل ادراک حرکت ہے جس کے سامنے کوئی مقصد ہے، نہ غرض کہ اس سے کوئی خاص نتیجہ پیدا کرے۔ لیکن یہیں پہنچ کر واردات شعور کے متعلق برگساں کا تجزیہ ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے واردات شعور عبارت ہیں ماضی سے اور یہ صرف ماضی ہے جو حال کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا اور اس میں کارفرما رہتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ وحدت شعور کا ایک پہلو وہ بھی ہے جس میں اس کی آنکھیں مستقبل پر لگی رہتی ہیں۔۱۷۷ ۲۷۰ بہار کا موسم تھا۔ شاہدرہ میں پارٹی ہوئی اور چوہدری شہاب الدین سفید سوٹ پہن کر وہاں پہنچے تو اقبال نے پنجابی میں کہا، ’’بھئی دیکھو دیکھو! کپاہ وِچ کٹّا وَڑ گیا اے‘‘ (بھئی دیکھو، دیکھو! کپاس میں کٹّا گھس گیا ہے۔‘‘ اقبال نے پھر چوہدری شہاب الدین کی سیاہ رنگت پر چوٹ کی تھی۔مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ چوہدری صاحب جب بگڑتے تھے تواقبال کہتے، ’’بھئی تجھے دیکھ کر لطیفوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ خدا کے لیے مجھے لطیفوں سے نہ روکا کرو۔‘‘ ۱۷۸ ۲۷۱ ۱۳ اپریل کی رات گیارہ بجے شاہدرہ میں چاند کو دیکھ کر اقبال کی طبیعت رواں ہوئی۔ اے چاند حسن تیرا گردوں کی آبرو ہے تو پھول ہے کنول کا، مہتاب تیری بو ہے چاند جسے تاروں کی دلکشی میں ڈھونڈتا ہے وہ شاید زندگی کے ہنگاموں میں پوشیدہ ہے۔ سرو میں سر اٹھائے کھڑا ہے اور سبزے میں لپٹ کر سو رہا ہے۔ انسان کے دل سے چاند کے داغ تک ہر طرف بس وہی ہے۔ مصرعے اترتے رہے اور چار چار اشعار کے دو بند ہوگئے۔ عنوان ’چاند‘ رکھا اور پھر نظم میں ترمیم ہوئی:۱۷۹ اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے طوفِ حریم خاکی تیری قدیم خو ہے ۲۷۲ ۱۴ اپریل کو لاہور کے مشہور قوم پرست اخبار ہندوستان نے اقبال کے ترانے کا جواب شائع کیا تھا: دعویٰ غلط تمہارا عربستان ہے تمہارا ہندوستاں کے ہم ہیں، ہندوستاں ہمارا مذہب سب سے اوّل دنیا میں تھا ہمارا تاریخ میں ہراول نام و نشاں ہمارا شاعر کا نام رعنا تھا ۔۱۸۰ مسلمان رہا ہو یا ہندو، سمجھتے ہوئے یا نادانستگی میں اُس پروپیگنڈے کو ہوا دے رہا تھا جسے مغرب ’’پان اسلامزم‘‘ کی غلط اصطلاح کے ذریعے پھیلا رہا تھا۔ یہ مغرب کے ذہن میں چھپے اُس خوف سے پیدا ہوا تھا جو اُسے اسلام سے تھا۔ روشن خیال یورپ اور اِنتہاپسند ہندو تمام اختلافات کے باوجود اِس خوف میں اکٹھے تھے۔ ۲۷۳ اُسی روز اقبال کے دوست میاں شاہنواز کی شادی میاں محمد شفیع کی لڑکی جہان آرا سے ہو ئی جو ابھی تک کوئن میری اسکول میں پڑھ رہی تھیں۔ شاہنواز کی عمر چھتیس برس تھی اور جہان آرا پندرہ برس کی تھیں۔ تقریب کا انتظام میاں خاندان کی باغبانپورہ والی قیام گاہ میں روایتی انداز میں کیا گیا تھا۔ دلہن کو تقریب میں بھکاریوں کے داخلے پر اعتراض تھا مگر دلہن کی دادی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ اقبال نے اس شادی کے موقعے پر تاریخ کہی جس میں پانچ شعر تھے اور تاریخی مصرعہ یہ تھا:۱۸۱ خانۂ فرخندہ اش آباد باد ۲۷۴ کسی تقریب میں اقبال اورجسٹس شاہ دین اکٹھے تھے۔ میز کے ایک طرف سے اقبال نے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں جسٹس شاہ دین نے اُسی بحر میں شعر لکھ کر بھیجا۔ دونوں میں کافی نوک جھونک ہوئی۔ ۱۸۲ ۲۷۵ ۱۵ اپریل کو انجمن پنجاب پرووِنشل ایجوکیشنل کانفرنس کا پہلا اجلاس میاں شاہ دین ہمایوںؔ کی صدارت میں ہوا۔ اقبال سیکرٹری مقرر ہوئے۔ کانفرنس کا مقصد پنجابی مسلمانوں کی تعلیمی حالت پر غور و خوض کرنا تھا۔اُس روز آٹھ قراردادیں منظور ہوئیں جن میں اردو اور فارسی کی حمایت،غیرمسلم اساتذہ کی اکثریت کے پیشِ نظر مسلمان طلبہ کے حقوق کے تحفظ اور دیسی اسکولوں کی تجدید اور ترویج پر زور دیا گیا تھا۔۱۸۳ اُس روز انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے ’اصولِ تمدّن‘ کے موضوع پر زبانی تقریر بھی کی جس کے دوران نوٹ لیے گئے تاکہ اُسے انجمن کی روئیداد میں درج کیا جا سکے۔ تقریر ’شکوہ‘کا ذہنی پس منظر واضح کرتی تھی۔ اصولِ تمدن۱۸۴ شنبہ ۱۵ اپریل ۱۹۱۱ء کو ڈاکٹر اقبال نے انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں ’اصولِ تمدن‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ یہ تقریر پہلے سے لکھی ہوئی نہ تھی، اس لیے ان نوٹوں سے جو تقریر کے دوران میں لیے گئے، حسبِ ذیل خلاصہ روئیداد میں درج ہوا: جناب صدر انجمن و معززین! میرا مقصد اس لیکچر میں یہ دکھانا مقصود ہے کہ صحیح اصول تمدن کیا ہے اور دنیا میں پہلے پہل ان اصولوں کی بنیاد کس نے رکھی؟ فطرتِ انسانی کے تین پہلو ہیں یعنی (۱) عقل و تدبیر، جس کے عمل سے نتائجِ علمیہ پیدا ہوتے ہیں۔ (۲) جذبات جو علم و ادب و دیگر فنونِ لطیفہ مثلاً شعر، مصوری اور تعمیرات وغیرہ کی صورت میں صفحۂ ظہور پر آتے ہیں۔ اور (۳) عمل جس کے اثر سے اقوامِ عالم کا نظامِ تمدن مرتب و منظم ہوتا ہے۔ چونکہ تہذیب و تمدن انسان کی فطرت کے عمل کا ایک نتیجہ ہے، اس واسطے ہر تہذیب میں اگر اس کا تجزیہ کیا جائے، یہی تینوں پہلو فطرتِ انسانی میں عمل کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ پس ایسے اصولِ تمدن معلوم کرنے کے لیے جن پر کسی قوم کی تہذیب کا دارومدار ہو، اس تہذیب کا پورا پورا تجزیہ کرنا لازم ہے۔ مثال کے طور پر قرونِ وسطیٰ میں مغربی تہذیب کو لیجیے۔ عقلی پہلو سے اس کو دیکھیے تو اس تہذیب میں آزادانہ تحقیقات کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ جو لوگ جرأت کر کے نئی علمی راہیں پیدا کرتے ہیں، زندہ جلا دیے جاتے ہیں۔ فلسفہ موجود ہے۔ کلیسا کے مسلمات میں بگڑا ہوا [کذا: جکڑا ہوا (؟)]مشاہدہ ہے اور تجزیہ سے غافل محض نظریات کی بھول بھلیوں میں گمراہ۔ پس عقلی لحاظ سے قرونِ وسطیٰ کی مغربی تہذیب کا ابتدائی مسلّمہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحیح علم تجزئے اور مشاہدے سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ مسلماتِ کلیسا سے باہر کسی علم کا وجود ہی نہیں ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس تہذیب کو جذباتی اعتبار سے جانچیے تو یہاں بھی اسی مسلّمہ کا اثر محسوس ہوگا۔ علمِ ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ کا مواد تجزئے اور مشاہدے سے پیدا نہیں کیا جاتا بلکہ کلیسا کے قصے کہانیاں اس کا مسالہ ہیں۔ فنون کا مقصد ہے حسین اشیا کا پیدا کرنا۔ قرونِ وسطیٰ کے اہلِ فن اس اصول کے معتقد معلوم ہوتے ہیں کہ محض قدرت میں حسین اشیأ پیدا کرنے کا مسالہ موجود نہیں ہے۔ با الفاظِ دیگر یوں کہو کہ ان کا ابتدائی مفروضہ یا مسلّمہ یہ اصول ہے کہ قدرت میں حسن نہیں ہے۔ جس طرح علمی یا عقلی اعتبار سے علمائے قرونِ وسطیٰ اس اصول پر کاربند معلوم ہوتے ہیں کہ نظامِ عالم کے قویٰ کا مشاہدہ کرنے سے کوئی مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتا اسی طرح جذباتی اعتبار سے اس زمانے کے اہل ِ فن نظامِ عالم میں وجودِ حسن کے قائل نہیں معلوم ہوتے یا کم از کم اس مفروضے کے نادانستہ کاربند معلوم ہوتے ہیں۔ عملی اعتبار سے قرونِ وسطیٰ کی تہذیب میں صرف حکومت کی صورت کو لیجیے۔ تمام یورپ کے ممالک میں مطلق العنان حکومتیں نظر آتی ہیں، جو اس مسلمہ پر مبنی ہیں کہ انسان آزادی کا حق نہیںرکھتا اور انفرادی حیثیت سے حاکموں کا ایک غلام ہے۔ پس قرونِ وسطیٰ کی تہذیب کے تجزئے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس تہذیب کا دارومدار ان تین مسلماتِ ابتدائیہ پر ہے: ۱۔ عقلی اعتبار سے، تجربہ مشاہدہ سے صحیح علم نہیں پیدا یا باالفاظِ دیگر یوں کہو کہ انسان نظامِ عالم کی قویٰ کا مشاہدہ کر کے ان سے مفید نتائج نہیں پیدا کر سکتا اور اس طرح نظامِ عالم سے دکھ درد کے ان اسباب کو زائل نہیں کر سکتا جو ان قویٰ کے عمل سے جاہل ہونے کی وجہ سے اسے متاثر کرتے ہیں۔ ۲۔ جذباتی اعتبار سے نظامِ عالم میں حسن موجود نہیں ہے۔ ۳۔ عملی اعتبار سے انسان غلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مغربی تہذیب کے مسلمات ہو بھی یہی سکتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ سب مسلمات نتیجہ ہیں مذہب ِ عیسائی کے ایک اصول کا۔ یعنی یہ کہ انسان فطرتاً بد ہے اور وہ اِس دنیا میں اپنے ابتدائی گناہ کے عوض بھیجا گیا ہے۔ اگر انسان فطرۃً بد ہے تو ظاہر ہے کہ عملی لحاظ سے اس پر ہر وقت پہرا قائم رہتا ہے۔ اس اصول کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے انسان ایک مطلق العنان حکومت کے تابع رہے اور مذہبی لحاظ سے ایک معصوم عن الخطا امام یعنی پوپ کا مطیع و منقاد ہو، جو ہر حیثیت میں انسان کے عمل کو متیقن کر دے تاکہ وہ احکام کی زنجیروں میں جکڑا رہے اور اِدھر اُدھر نہ ہونے پائے۔ اس اصول سے یہ نتیجہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان نظامِ عالم کے قویٰ کے مشاہدے اور تجربے سے دنیا سے تکلیف کے اسباب کو زائل نہیں کر سکتا کیونکہ عیسائی مذہب کے اصول کے مطابق یہ دنیا دکھ درد کا گھر ہے جہاں انسان اپنے گناہ کے عوض بھیجا گیا ہے۔ جس قیدخانے کی حالت انسانی کوشش سے اچھی ہو سکتی ہے وہ قیدخانہ ہی کیا۔ پس یہ اصول کہ نظامِ عالم سے اسباب ِ درد زائل نہیں ہو سکتے اور یہ کہ نظامِ عالم میں حسن نہیں ہے، مذہبِ عیسائی کے مسلمۂ اولیہ سے بطور ایک لازمی نتیجے کے پیدا ہوتے ہیں۔ زمانۂ حال کی مغربی تہذیب اِن مسلمات پر مبنی نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زمانۂ حال میں ان مسلمات سے، جن پر قرونِ وسطیٰ کی تہذیب مبنی تھی قطعی انکار کر دیا گیا ہے۔ یورپ میں پہلے پہل بیکن اور ڈیکارٹ نے اس بات کا علان کیا کہ صحیح علم تجربے اور مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی کوشش سے دنیا کے دکھ درد کو زائل کر سکتا ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس عملیات میں مذہبی دائرے میں لوتھر نے انسان کی جبلی آزادی کا اعلان کیا اور اس کو پوپ کی زنجیروں سے آزاد کیا۔ سیاسی دائرے میں رُوسو نے وہی کام کیا جو لوتھر نے مذہبی دائرے میں کیا تھا یعنی سیاسی لحاظ سے اس نے انسان کی آزادی کا اعلان کیا اور بالآخر اُس کی تعلیم نے نپولین کو پیدا کیا جس نے زمانۂ حال میں مطلق العنان حکومت کی بنیادوں کو متزلزل کر کے جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ ڈیکارٹ اور بیکن کی تعلیم کے اثر سے نہ صرف علمی اغراض کے لیے نظامِ عالم کا مشاہدہ شروع ہوا بلکہ فنونِ لطیفہ کے اغراض کے لیے بھی لوگوں نے نظامِ عالم کی طرف توجہ کی اور علمِ ادب اور فنونِ لطیفہ کی بنیاد مشاہدۂ فطرت پر قائم کی گئی۔ پس زمانۂ حال کی مغربی تہذیب اصولاً قرونِ وسطیٰ کی تہذیب سے مختلف ہے کیونکہ اس کی مسلماتِ اولیہ اُن مسلماتِ اولیہ سے متناقص ہے جن پر قرونِ وسطیٰ کی تہذیب مبنی تھی۔ حال کی مغربی تہذیب صحیح اصولِ تمدن پر مبنی ہے جو مندرجہ ذیل ہے: ۱۔ صحیح علم مشاہدے اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔ ۲۔ نظامِ عالم میں حسن ہے۔ ۳۔ انسان فطرتاً آزاد ہے۔ اِن اصولوں کو تہذیب کا رُوح و رواں قرار دینا اور قرونِ وسطیٰ کے اصول ِ تہذیب کو ترک کر دینا حقیقت میں مذہبِ عیسائی کے اس اصول کو ترک کر دینا ہے کہ انسان فطرتاً بد ہے۔ چونکہ اس مذہبی انکار سے کفارے کا انکار بھی لازم آتا ہے اس واسطے زمانۂ حال کی تہذیب کے بانیوں کی سخت مخالفت کی گئی۔ لوتھر پر تو یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے اور مذہبِ اسلام کے اصول کی ترویج کرتا ہے۔ اب میں یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ صحیح اصولِ تمدن پہلے پہل دنیا کو کس نے سکھلائے؟ میرا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تمام اصول جن کے عمل سے تہذیب کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوتی ہیں قرآن سے اخذ کیے گئے ہیں اور قرآن ہی نے ان تمام اصولوں کی اشاعت دنیا میں سب سے پہلے کی ہے۔ قرآن ہی نے دنیا کو پہلے پہل سکھلایا کہ انسان فطرتاً نیک ہے۔ اس کو کسی کفارے کی ضرورت نہیں۔ یہ اپنی کوشش سے اپنی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ نہ مذہبی دائرے میں اسے محافظوں کی ضرورت ہے نہ سیاسی دائرے میں اسے ایک مطلق العنان حاکم چاہیے۔ یہ بالطبع آزاد ہے اور آزادی کا حق رکھتا ہے۔ پس اسلام نے اول اول رہبانیت کے خلاف جہاد کر کے مذہبی دائرے میں اُس جمہوریت کی بنیاد رکھی جو زمانۂ حال کی تہذیب و تمدن کی روح و رواں ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس قرآن ہی نے پہلے پہل بنی نوعِ انسان کی توجہ تجربے اور مشاہدے کی طرف مبذول کی اور ان کو سکھلایا کہ تدّبر کرنے والوں کے لیے اس نظامِ عالم میں آیات ہیں اور کہ اس نظام کے قویٰ انسان کے فائدے کے لیے تسخیر کیے گئے ہیں۔ شرک کو اسلام کیوں گناہِ کبیرہ قرار دیتا ہے؟ اس وجہ سے کہ جب تک کسی فطری قوت کو معبود تصور کیا جائے گا تب تک اُس کومعبود اور خدا تسلیم کرنے والا اس کی حقیقت پر غور نہیں کر سکتا، اس کو تجربے کا مطیع و منقاد نہیں کر سکتا۔ اس کو عام استعمال کی چیزوں کی طرح بوجہ اُس عزت و تکریم کے جو اس قوتِ فطری کے لیے وہ اپنے دل میں رکھتا ہے، چھو نہیں سکتا۔ علوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی روک شرک تھی اور اسلام نے جس زور سے اس کا قلع قمع کیا ہے وہ تاریخی لحاظ سے حیرت ناک ہے اور میرے نزدیک علمی اعتبار سے دنیا پر سب سے بڑا احسان مذہب ِ اسلام کا یہی ہے۔ اِس حقیقت سے متاثر ہو کر مذہبِ اسلام کے پیروؤں نے ملک اسپین میں ان تمام علمی اصولوں کی تدوین کی جن کا تعلق تجربے اور مشاہدے سے ہے، بلکہ بعض ایسے علوم کی بنیاد بھی رکھ دی (مثلاً کیمسٹری) جن کی روح و رواں صرف مشاہدۂ فطرت ہے۔ اگر پوری تحقیق و تدقیق کی جائے تو ہر اعتبار سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یورپ میں تہذیب و تمدن کے صحیح اصول مسلمانوں کے اثر سے ہی مروج ہوئے۔ نتیجہ اس تمام تقریر کا یہ ہے کہ تہذیب کی اعلیٰ صورتیں صرف انہی اصولوں کے عمل سے پیدا ہو سکتی ہیں جو اسلام نے سکھلائے ہیں اور اگر حال کے مسلمان یہ آرزو رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کی طرح دنیا کی مہذب اقوام میں شمار ہوں تو اُن کو لازم ہے کہ وہ قرآن کو مضبوط پکڑیں اور ان اصولوں پر کاربند ہوں جو خدائے تعالیٰ نے انہیں سکھلائے ہیں۔ زندگی انہی اصولوں پر عمل کرنے سے ہے۔ ان کے مخالف عمل کرنا موت ہے۔ اس وقت جو اسلامی دنیا کی حالت افسوس ناک ہے اس کے اسباب پر بھی اگر غور کیا جائے تو یہی معلوم ہو گا کہ مسلمان ان اصولوں سے غافل ہو گئے جو شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو سکھائے تھے۔ ۲۷۶ غالباً اگلے دن اسلامیہ کالج کے ریواز ہاسٹل کا وسیع صحن حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔ خبرمشہور ہو چکی تھی کہ اس دفعہ اقبال نظم پڑھیں گے مگرعنوان اور موضوع قریبی دوستوں کو بھی معلوم نہ تھا۔ اُس وقت بھی جب فقیر سید افتخار الدین جلسے کی صدارت کے لیے اسٹیج پرموجود تھے اور شاید ابتدائی تقریروں کا سلسلہ جاری تھا، اقبال مزے سے مرزا جلال الدین کے گھر بیٹھے تھے اور اُن کے ساتھ شیخ نور محمدتھے جو سیالکوٹ سے بیٹے کی نظم سننے اپنے پوتے اعجاز احمد کے ساتھ آئے تھے۔ ’’ہم کھانا ختم کر رہے تھے کہ انجمن کے سیکرٹری صاحب مع چند اراکین کے ہانپتے ہوئے تشریف لائے،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔’’[انہوں نے] پریشانی کی حالت میں کہا کہ نظم کا وقت شروع ہونے والا ہے اور سامعین شدّت سے انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فی الفور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم سمجھ گئے کہ اس مرتبہ کوئی معرکۃ الآرا نظم ہو گی جس کے لیے اس قدر پردہ داری سے کام لیا گیا ہے۔‘‘۱۸۵ ۲۷۷ ہاسٹل ریلوے روڈ پر واقع تھا۔ اردگرد زیادہ تر کھلی زمین تھی۔ صرف احمدیہ بلڈنگز کی چند عمارتیں نظر آتی تھیں۔ سامنے حبیبیہ ہال زیرِ تعمیر تھا۔ اسلامیہ کالج کی عمارت یک منزلہ تھی اور ہاسٹل کا صرف سامنے کا حصہ دومنزلہ تھا۔ شہر کی طرف آنے جانے کا عام راستہ وہ پگڈنڈی تھی جو قریب ہی بہتے ہوئے پانی کے نالے کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔ شاید اسی طرف سے اقبال اُس روز جلسے میں شرکت کے لیے ریواز ہاسٹل پہنچے ہوں گے۔اُنہوں نے شلوار قمیص اور چھوٹا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ سر پر تُرکی ٹوپی تھی۔ ہاسٹل کے صحن میں گھاس کا فرش تھاجسے دو گزرگاہیں کراس کی شکل میں کاٹ کر چار حصوں میں تقسیم کرتی تھیں۔ دائیں جانب کے آخری حصے میں اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں اقبال کے ساتھ اُن کے والد اور اعجاز کو بھی بٹھا یا گیا۔ پنڈال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ دومنزلہ کے برآمدے اور چھتوں پر بھی حاضرین موجود تھے۔ اقبال نظم سنانے ڈائس پر آئے تو حاضرین نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ اقبال نے نظم سے پہلے وہی قطعہ سنایا جس میں کچھ اپنا مذاق اڑایا تھا اور کچھ اُس زمانے کے سیاستدانوں پرطنز کیا تھا۔ اس کے بعد نظم کی رونمائی کا سوال اُٹھا۔ اقبال نظم چھپوا کر نہیں لائے تھے کہ اُسے فروخت کر کے انجمن کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتا۔ نظم کا اصل مسودہ موجود تھا، اُسے نیلامی کے لیے پیش کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر نواب ذوالفقار علی خاں نے بولی لگائی اور نظم کے سو روپے دیے۔ اس کے بعد مسودہ بھی انجمن کے حوالے کر دیا۔ اقبال نظم سنانے لگے تو آوازیں بلند ہوئیں کہ نظم ترنم سے پڑھی جائے ۔ اقبال نے کہا کہ وہ خود ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ نظم کس طرح پڑھنی چاہیے۔ یہ نظم ایسی ہے کہ اسے گا کر پڑھنے کی بجائے تحت اللفظ پڑھنا مناسب ہوگا۔ ’’ایک بند سن لینے کے بعد سب کو یقین ہو گیا کہ حضرت علامہ ہی کا ارشاد درست تھا،‘‘ غلام رسول مہر کا بیان ہے جو اُس وقت اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے اور جلسے میں شامل تھے۔ ’’حضرت علامہ نظم پڑھتے جاتے تھے اور پورا جلسہ جو ہزاروں افراد پر مشتمل تھا بالکل حیرت زدہ سا معلوم ہوتا تھا۔ وقتاً فوقتاً واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔‘‘ بہت سے مداح پھول برسا رہے تھے۔۱۸۶ شکوہ کیوں زیاں کار بنوں، سودفراموش رہوں فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرأت آموز مری تابِ سُخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم اے خدا شکوۂ اربابِ وفا بھی سن لے خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم پھول تھا زیب ِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی ورنہ امت ترے محبوؐب کی دیوانی تھی؟ ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر تجھ کو معلوم ہے، لیتا تھا کوئی نام ترا؟ قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، توُرانی بھی اہل چیں چین میں، ایران میں ساسانی بھی اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے بات جو بگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں خشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟ قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی! ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟ کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟ کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی کس کی شمشیر جہانگیر، جہاںدار ہوئی کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے منہ کے بل گر کے ’ھو اﷲ احد‘ کہتے تھے آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے میٔ توحید کو لے کر صفتِ جام پھرے کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے اور معلوم ہے تجھ کو کبھی ناکام پھرے! دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں! امتیں اور بھی ہیں اُن میں گنہ گار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست میٔ پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے ہے خوشی اُن کو کہ کعبے کے نگہبان گئے منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں یہ شکایت نہیں ہیں ان کے خزانے معمور نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب رہروِ دشت ہو سیلی زدۂ موجِ سراب طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟ بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے! تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلا لے بھی گئے آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے آئے عشاق گئے وعدہء فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر درد لیلٰی بھی وہی قیس کا پہلو بھی وہی نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی عشق کا دل بھی وہی حسن کا جادو بھی وہی امت احمد مرسلؐ بھی وہی تو بھی وہی پھر یہ آزردگیٔ غیرِ سبب کیا معنی اپنے شیداؤں پہ یہ چشمِ غضب کیا معنی تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربیؐ کو چھوڑا؟ بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟ عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟ رسم سلمانؓ و اویس قرنیؓ کو چھوڑا؟ آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثلِ بلال حبشیؓ رکھتے ہیں عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے! سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے اِک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے پھونک دی گرمیٔ رخسار سے محفل تو نے آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں ہم وہی سوختہ ساماں ہیں تجھے یاد نہیں؟ وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لبِ جو بیٹھے سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کوکو بیٹھے دُور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ’ھو‘ بیٹھے پھر پتنگوں کو مذاقِ تپش اندوزی دے برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگرسوزی دے قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز لے اڑا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز تو ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز! نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے طور مضطر ہے اُسی آگ میں جلنے کے لیے مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے یعنی ہم دَیرنشینوں کو مسلماں کر دے جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن راز چمن کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن! عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک قمریاں شاخِ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں پیّتاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں ڈالیاں پیرہنِ برگ سے عریاں بھی ہوئیں قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی! لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں کچھ مزا ہے تو یہی خونِ جگر پینے میں کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینوں میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں چاک اِس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری! ۲۷۸ اقبال آواز کے نشیب و فراز سے خوب کام لے رہے تھے۔’’بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے،‘‘ والا مصرعہ کہتے ہوئے وہ اس طرح آگے بڑھ آئے اور ہاتھ کو جنبش دی جیسے سچ مچ کوئی راز کی بات کہہ رہے ہوں۔ نظم سناتے ہوئے کافی وقت صرف ہو گیا مگر مجمع اس طرح حیرت زدہ ہو کر سن رہا تھا کہ اگر نظم کئی گھنٹے بھی جاری رہتی تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ شیخ نور محمد کی آنکھوںمیں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے مگر شیخ عبدالقادر محسوس کر رہے تھے کہ لبوں پر تاثیر ِ کلام سے وہی علاماتِ غم تھیں جو بیٹے کے چہرے پر تھیں، جیسے بیٹے نے یہ خصوصیت باپ سے ورثے میں پائی ہو۔ نظم ختم ہوئی تو اسٹیج پر بیٹھے ہوئے سامعین میں بارہ مولا کے رئیس خواجہ عبدالصمد ککڑو اٹھ کر والہانہ اقبال سے بغلگیر ہوئے، روتے ہوئے اقبال کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ایک کشمیری دُھسہ اُن کے کندھوں پر ڈال دیا جسے اقبال نے انجمن کو پیش کر دیا۔ وہ دُھسہ اُسی اجلاس میں ایک بڑی رقم کے عوض نیلام کیا گیا۔ جلسے کے بعد بھی اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میںمجمع لگا کر لوگ نظم کے بارے میں گفتگوکرتے رہے۔ مولوی محبوب عالم کسی کو اسٹیشن چھوڑنے گئے تھے اس لیے نظم نہیں سن سکے تھے۔ ’’اُن سے سب کہہ رہے تھے کہ اِس مرتبہ تو اقبال نے کمال کر دیا، افسوس آپ نہیں تھے،‘‘ حکیم محمد حسن قرشی کا بیان ہے جن کا اُس وقت لڑکپن تھا۔ ’’[محبوب عالم] کہہ رہے تھے کہ اقبال کی نظمیں ہمیشہ بلند ہوتی ہیں۔ اقبال کے مشہور عاشق خواجہ عبدالصمد ککڑو۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ میرے اقبال کا تخیل بہت بلند ہے۔‘‘۱۸۷ ۲۷۹ معلوم ہوتا ہے کہ نظم سنانے کے فوراً بعد ہی اقبال نے اپنے پاس موجود نقل میں سے تین بند نکال دیے۔نظم کے مجموعی تاثر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ ان میں سے پہلا ’’بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ کے فوراً بعد تھا: تھے اشاعت پہ کمربستہ غریب اور امیر غافل اِس کام سے رہتے تھے نہ سلطاں نہ وزیر شہرِ دشمن میں گئے جنگ میں ہو کر جو اسیر واں بھی مقصود رہی خدمتِ دیں کی تدبیر ذوقِ تبلیغ سے بے چین رہا کرتے تھے اہلِ زنداں کو مسلمان کیا کرتے تھے دوسرا ’’اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں‘‘ کے فوراً بعد تھا: پہلے رہنے کو محل تھے اب گھر بھی نہیں ایسے ششدر ہیں کہ سر رکھنے کو اِک دَر بھی نہیں پھوڑئیے کس کو یہاں دوش پہ اب سر بھی نہیں یہ میسر ہو تو پھر ہاتھ میں پتھر بھی نہیں نہیں مسجد تو ڈریں طعنۂ اغیار سے کیا توڑ سکتے نہیں بتخانے کی دیوار سے کیا؟ ’پھوڑئیے کس کو یہاں دوش پہ اب سر بھی نہیں‘ خالص غالب کے رنگ کا نمونہ تھا۔ سب سے بڑی خرابی اُس بند میں یہ تھی کہ جس طرح واسوخت میں محبوب کو کسی اور کی طرف مائل ہو جانے کی دھمکی دی جاتی اُسی طرح اِس بندمیں مسجد کی بجائے بتخانے کی دیوار سے سر توڑنے کی دھمکی تھی جو اُس زبان سے اچھی نہ لگتی جو اپنی توحید پرستی پر اصرار بھی کر رہی ہو۔ تیسرا بند ’’کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے‘‘ کے فوراً بعد تھا: صفتِ غنچہ ہے تدبیر ہماری دلگیر ہو نہ تقدیر مساعد تو کرے کیا تدبیر مدرسے بنتے ہیں پوری نہیں ہوتی تعمیر زندہ ہم خاک ہوں تقدیر ہی کہتی ہے بمیر دل کو تسلیم کی خُو ڈال کے بہلائیں گے بے نیازی تری عادت ہے تو سہہ جائیں گے۱۸۸ ۲۸۰ تین برس پہلے ایک سوال سے فلسفۂ اقبال کا آغاز ہوا تھا: ’’کیا وجہ تھی کہ اسلام شروع میں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ پھیلا تھا مگر اصل حرارت جس نے مسلمانوں کے وجود کو ایک معجزہ بنا یا تھا بہت جلد سرد پڑ گئی؟‘‘ اس برس علیگڑھ والا لیکچر گویا جواب کی تکمیل تھا۔ اس کے بعد نظم ’شکوہ‘ اُس آتشِ رفتہ کی جستجو میں پہلا قدم تھی۔ اُس زمانے میں کچھ لوگوں نے ’شکوہ‘ کو خدا سے گستاخی قرار دیا۔ بعد میں مشہور ہوا کہ کفر کا فتویٰ بھی دیا گیا لیکن یہ روایت درست معلوم نہیں ہوتی۔اعتراض کرنے والوں سے تعریف کرنے والے بہت زیادہ تھے۔ اُن کے خطوط ملنا شروع ہوئے جن کا سلسلہ کئی ماہ جاری رہا۔ یہ ایک نئے باب کا آغاز تھا۔اُردومیں کسی اور نظم کو ایسی شہرت حاصل نہیں ہوئی۔ باب ۹ جنت الفردوس اپریل ۱۹۱۱ء سے ۱۹۱۳ء تک پہلا حصہ ۱ بعد میں کسی نے کہا طالب بنارسی اور پنڈت نرائن پرشاد نے طعنہ دیا تھا۔ کسی نے کہا اُردو کے بعد ہندی اسٹیج کو بھی فتح کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال آغا حشر نے ہندی ڈرامہ کسی وجہ سے بھی لکھا ہو، مسلمانوں کی وحدت کا مستقبل ہندو اکثریت سے جڑا ہوا تھا۔ اسلام کو آخری مذہب ہونے کا دعویٰ تھا۔ ہندومت کے روشن پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالنی تھی۔ دورِ حاضر کے ہندو کے سامنے کرشن اور شنکر کا اصل روپ پیش کرنا تھا۔کبھی صوفیائے کرام یہ کام کرتے تھے۔ موجودہ حالات میں ہندوستانی شیکسپیئر نے بیڑا اُٹھایا: بلوا منگل عرف پہلا پیار! بلوامنگل مشہور برہمن تھا۔ طوائف چنتامنی کی محبت میں کھو گیا۔ سب کچھ بھول گیا۔ چنتامنی کے ہوش دلانے پر آنکھیں کھلیں تو ہر تعلق سے بے نیاز ہو کر کرشن سے لو لگائی۔ چنتامنی نے بھی یہی راہ اپنائی۔ وہ کون تھی؟ ایک بازاری عورت جو خود اپنے الفاظ میں، ’’اُس ہڈی کی مانند ہے جس کو سیکڑوں کتوں نے چچوڑا ہے‘‘ [۱:۲]۔اُسے دنیا بھی سمجھا جا سکتا تھا۔ اُس کے مقام کا صحیح اندازہ لگا کر برہمن خود بھی نجات پاتا اور اُسے بھی دلاتا۔ اُسے قومیت کا وہ مغربی تصور بھی سمجھا جا سکتا تھا جس کے عشق میں دورِ حاضر کے ہندو نے ہوش و حواس گنوائے تھے (جیسا کہ اقبال نے پچھلے برس انگریزی نوٹ بک میں درج کیا تھا)۔ چنتامنی کہتی: میرا خاندان اور خون نیچ نہیں۔ میرے غریب ماں باپ جن کے مرنے کے بعد مجھے صرف اپنا پیٹ پالنے کے لیے یہ برا کام کرنا پڑا ان کی بچپن کی دی ہوئی نصیحتوں سے اب بھی دنیا کے نشیب و فراز کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔ [۱:۲] مغربی تہذیب کے غریب ماں باپ یسوع مسیح، شیکسپیئر اور گوئٹے وغیرہ تھے جن کی ’’بچپن کی دی ہوئی نصیحتوں‘‘ سے اب بھی چراغ جل سکتے تھے مگر ’’پیٹ پالنے کے لیے‘‘ اس تہذیب نے جو رُوپ اپنایا، برہمن اُسی پر مر مٹا تھا۔ دوسرے باب کے تیسرے پردے میںکرشن کہتے: شنکر! دنیا میں یونہی ہوتا آیا ہے اور یونہی ہوتا رہے گا۔ سنسان رات، طوفانی ندی، دیوار سے لٹکتا ہوا سانپ، مری ہوئی عورت کا جسم اِن چیزوں کو انہوں نے الگ الگ بہت دفعہ دیکھا۔ ایک بار بھی ان کے دل میں کوئی دھیان گیان پیدا نہیں ہوا۔ مگر دیکھو جب یہی معمولی چیزیں ایک خاص وقت میں خاص حالتوں کے ساتھ اکٹھی ہو گئیں تو چنتامنی اور بلوامنگل کے سدھار کی وجہ بن گئیں۔ کئی برس بعد اقبال نے ’گلشن راز جدید‘ میں شنکر کو منصور حلاج کے ساتھ رکھنا تھا۔ حشر کے ڈرامے میں شنکر کا کردار اُس کے عین مطابق تھا۔ ڈرامہ آسمان پر شروع ہوتا۔ شنکر کی روح شری کرشن سے اجازت چاہتی کہ ایک لیکچر دے کر ساری دنیا کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔ کرشن اُسے تاریخ کا راز سمجھاتے۔ بلوامنگل عُرف پہلا پیار آغا حشر کاشمیری [۲:۱ سے اقتباس - پرلوک] کرشن شنکر! یہ جگت صرف کرم بھومی نہیں بھوگ بھومی بھی ہے۔ یہ سنسار کھیتی ہے جس میں انسان اپنے پچھلے جنم کا بویا ہوا اِس جنم میں کاٹتا اور آنے والے جنم کے لیے بیج بوتا ہے۔ یہاں ہر کام کا ایک بھید ہوتا ہے۔ کیا جب تک روئی، تیل، آگ یہ تمام چیزیں یکساں نہ ہو جائیں، صرف تمہارے اتنا کہہ دینے سے کہ ’’جل جا،‘‘ دیپک روشن ہو سکتا ہے؟ کیا جب تک زمین، بیج اور جل یہ سب چیزیں اکٹھی نہ ہو جاویں، تمہارے اِن لفظوں سے کہ ’’اُگو اور پھولو‘‘ درخت پیدا ہو سکتا ہے اور پھول پھل دے سکتا ہے؟ تم بگڑے ہوئے کو بنانے کے لیے ایک بار نہیں لاکھ بار اُپدیش کرو۔ مگر جب تک اُس کے بننے اور سدھرنے کے اسباب یکجا نہ ہو جائیں، اُس کا بھول سے نکل کر سیدھے راستے پر آنا کٹھن ہے۔ کیونکہ یہاں ہر ایک بات کرم انوسار ہے: اک آہ کرے اک واہ کرے، اک ہنستا ہے اک روتا ہے جو کرم میں ہے وہ ملتا ہے، جو کرم کرے وہ ہوتا ہے شنکر پربھو! یہ سچ ہے۔ مگر جب بھٹی میں گرم تپا ہوا لوہا بھی جس چیز کے ساتھ چھو جاتا ہے تو اُس میں ایک نیا بھاؤ پیدا کر دیتا ہے۔ تو آپ کے ست سنگ اور بھگتی پرتاپ سے میرا بویا ہوا بیج بھی ضرور پھل دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا ایک ہی اپدیش دراچاریوں کا ارادہ بدل دے گا: ہے بڑی شکتی بڑا بل ست بچن ست سنگ میں رنگنے والا ہو تو سب کو رنگ دے اِک رنگ میں کرشن ٹھیک ہے۔ اگر تمہارا ایسا ہی اِرادہ ہے تو آؤ بلوامنگل نامی ایک برہمن، چنتامنی ویشیا کے اپوتر پریم میں پھنس کر اپنا کرم دھرم سب کچھ نشٹ کر رہا ہے۔ تمہیں اس سے ملاتا ہوں۔ تمہارے گیان بل اور برہم کی شکتی آزماتا ہوں۔ شنکر لے چلیے مہاراج، لے چلیے! آپ کی بدولت سرنر دُکھ دور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر آپ کے بھگت نے ایک ہی اپدیش میں اُس برہمن زادے کے بگڑے ہوئے پتر کو نہ سدھارا تو شنکر نام نہیں۔ کرشن آنکھ بند متی ہے اندھا سب سنسار وِش کا پیالہ ہاتھ میں، امرت کرے بچار جن نیناں سوجھے نہیں برے بھلے کا بھید مستک کے دو گھاؤ ہیں بھؤں نیچے دو چھید ۲ انسان کیا ہے؟ پرانی اصطلاح میں جسے نفس کہتے تھے، عوام کی زبان میں وہ روح کہلاتا تھا (اگرچہ اصطلاحاً روح کے معانی کچھ اور رہے ہوں)۔ یونانی فکر کی روشنی میں مسلم حکمأ نے بھی اسے کسی قسم کے مادے یا توانائی کے طور پر سمجھا تھا۔ جدید فکر کی روشنی میں تین نقطہ ہائے نظر سامنے آئے تھے: ۱ انسانی شخصیت دراصل ایک اَنا (ego) پر مرکوز ہے۔ یہ وحدتِ وجدانی کا روشن نقطہ ہے جو تمام انسانی شعور کو منور کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نگاہ برطانوی فلسفی ایف سی بریڈلے نے پچھلی صدی کے نصف آخر میں پیش کیا۔ غالباً مغربی فلسفہ اس کا متحمل نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے بریڈلے نے بتدریج یہ نظریہ واپس لے لیا۔ جرمن فلسفی نیٹشے نے بھی اَنا کی حقیقت کے بارے میں تردد ہی میں مبتلا رہا۔ ۲ امریکی فلسفی ولیم جیمز نے شعور کو خیالات کی رَو قرار دیا۔ موجودہ خیال کا گزرے ہوئے خیال کو اَپنانا اوربعد میں آنے والے خیال کو تفویض ہو جانا ہی وہ چیز تھی جسے وہ اَنا (ego) کہتا تھا۔ ۳ روسی ماہرِ نفسیات پاولوف کے نزدیک جبلت ہی سب کچھ تھی۔ جبلت پر ماحول کے اثرات سے شخصیت ترتیب پاتی تھی۔ اقبال نے پاولوف کے نظریے پر کبھی بات نہ کی۔ اسے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھتے ہوں گے۔ اس کی سب سے بڑی قباحت یہی تھی کہ جبلت محض جسمانی وجود کا حصہ تھی۔ اگر یہی سب کچھ تھی تو پھر حیات بعدالموت کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ اس نظریے میں اقبال کو دلچسپی نہ ہو سکتی تھی۔ عام مسلمانوں میں بھی یہ مقبول نہ ہو سکتا تھا۔ شعور کی رَو کا تصور ولیم جیمز نے جس طرح پیش کیا تھا، اُس کا مقصد یہی تھا کہ حیات بعدالموت کی دلیل پیش کی جا سکے۔ اقبال نے بعد میں کہا کہ ذہنی زندگی کے اِس تصور میں ندرت ہے، سچائی نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ شعور ایک ہے، تمام ذہنی زندگی اسی پر منحصر ہے۔ یہ الگ الگ ٹکڑوں پر مشتمل نہیں ہو سکتاجن میں سے ہر ایک دوسرے کو پیغام پہنچانے کے بعد ختم ہوتا چلا جائے۔ جیمز کا نظریہ تجربے کے نسبتاً زیادہ مستقل عنصر کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق گزرتے ہوئے خیالوں میں وجود کا کوئی تسلسل نہیں۔ایک موجود ہو تو دوسرا غائب ہو چکا ہوتا ہے۔ گزرا ہوا خیال جو ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے، وہ کس طرح موجودہ خیال کو تفویض ہو سکتا ہے؟ ۱ اقبال کے تصورات سے وہی نظریہ میل کھاتا تھا جسے مغربی فکر نے محض ایک امکان کے طور پر پیش کر کے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ اس تصور کی تراش خراش اور تکمیل اقبال کے ہاتھوں ہونی تھی۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست نہ ہوتا کہ اقبال نے اَنا کا تصور مغربی فکر سے مستعار لیا۔ حقیقت یہ تھی کہ اُن کے تصورِ حیات کی بنیاد تاریخی عمل تھا جس کا وہ خود بھی حصہ تھے۔ اس ذہنی سفر میں پہلے ملت کا اجتماعی وجود ثابت ہوا۔ تاریخی عمل اسے ثابت کرتا تھا۔ یہی توحید کا ثبوت بھی تھا (اور نظم ’شکوہ‘ میں اقبال نے شاعرانہ پیرائے میں یہی نکتہ پیش کیا تھا: ’’اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟‘‘)۔ ملت کے اُس وجود کی بنیاد پر جو ثابت ہو چکا تھا، اب فرد کے وجود کو ثابت کرنا تھا۔ ۳ حکیم احمد شجاع کی عمر سترہ برس تھی۔ حکیم شجاع الدین مرحوم کے صاحبزادے تھے، جن کے گھر پر ہونے والے مشاعروں نے کبھی نوجوان اقبال کو لاہور والوں سے متعارف کروایا تھا۔ حکیم احمد شجاع علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ علامہ اقبال سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ ڈرامے کے فن سے بھی گہرا شغف تھا۔ خود بھی لکھنے کی مشق کرتے تھے مگرکالج میں شیکسپیئر اور حشر کے ڈرامے اسٹیج کرنے کی کوشش میں نواب وقار الملک سے اپنی اور ساتھیوں کی سرزنش بھی کروا چکے تھے کیونکہ وقار الملک ڈرامے کے فن کو غیراسلامی سمجھتے تھے۔ حکیم احمد شجاع ایف اے کا امتحان دے کر لاہور آئے۔ معلوم ہواکہ آغا حشر کاشمیری اپنی کمپنی سمیت لاہور آ گئے ہیں۔ بیتاب ہو گئے۔ شام کو حشر کی تلاش میں نکلے: جب میں نے وہ ٹوٹا پھوٹا مکان دیکھا جس میں حشر ایک تھیٹریکل کمپنی کا مالک اور ہندوستان کا سب سے زیادہ عظیم المرتبت ڈراماٹسٹ رہتا تھا تو میں سمجھا کہ میری آنکھوں نے کچھ دھوکہ کھایا ہے۔ آخرکار میں نے رک رک کر اس مکان کے دروازے پر دستک دی۔ ایک آواز جس میں شیر ببر کی گرج تھی، سنائی دی، ’’کون ہے؟‘‘میں نے جواب میں فقط یہی کہا، ’’ایک مشتاقِ دیدار۔‘‘ جواب ملا، ’’آ جاؤ۔‘‘ اب میں اُس مکان کی رعشہ براندام سیڑھیوں پر اِس فخر سے چڑھ رہا تھا جیسے کوئی منزلِ ہفت خواں طے کر رہا ہو۔ چھت پر پہنچ کر دیکھا۔ حشر ایک عجیب عالمِ کیف میں ایک فرسودہ تپائی کے سامنے بیٹھے ہیں۔ شیشۂ مے خالی ہے مگر وہ آتشِ سیال جو اُس وقت سے پہلے اُس شیشے سے چھلک رہی تھی اب اُن کی آنکھوں میں جھلک رہی ہے۔ حشر نے ایک اچٹتی سے نظر مجھ پر ڈالی۔ اور فرمایا، ’’تم کون ہو بھائی اور مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو؟‘‘ میں نے شوقِ ملاقات کی داستان سنانی شروع کی۔ ’’دو برس گزرے۔ دلّی میں۔‘‘ میری بات کاٹ کر فرمایا۔ ’’دلّی میں۔ ہاں! دو برس ہوئے میں وہیں تھا۔ تم نے مجھے دلّی میں دیکھا ہو گا۔ مگر اب دِلّی وہ دِلّی نہیں۔ دِلّی حشر کے ڈراموں کی قدر کرتی ہے، حشر کی قدر نہیں کرتی۔ اِسی لیے لاہور آیا ہوں۔ اِس شہر سے مجھے محبت ہے۔ میں نہیں جانتا کیوں۔ تم لاہور ہی میں رہتے ہو؟‘‘ عرض کی، ’’جی ہاں۔‘‘ فرمانے لگے، ’’تو پھر مجھے تم سے بھی محبت ہے۔ مجھے اِس شہر کے در و دیوار سے محبت ہے۔ اِس کے آسمان، اِس کی زمین سے محبت ہے۔‘‘۲ شجاع محسوس کرنے لگے جیسے وہ اور حشرپرانے دوست ہوں۔ شجاع کے چچازاد بھائی حکیم امین الدین، جنہوں نے شجاع کے والد کی وفات کے بعد مشاعرے سنبھالنے کی ذمہ داری کچھ عرصہ نبھائی تھی، اُن دنوں بیمار تھے۔ ایک دن حشر اُن کی عیادت کو آئے تو حکیم امین الدین کے ساتھ گہری دوستی ہوگئی۔ ’’اب اُن کے شب و روز یکجا بسر ہونے لگے،‘‘ حکیم احمد شجاع کا بیان ہے۔ ’’ان صحبتوں میں مجھ پر پہلی مرتبہ یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ حشر ایک خوش فکر شاعر اور ایک بے نظیر ڈراماٹسٹ ہونے کے علاوہ اسلامی تاریخ اور دینیات کا ایک وارفتہ اور منتہی عالم ہے۔ اور اُس کو مذہبی معاملات سے اس قسم کا شغف ہے جس قسم کا شغف کسی مردِ مجاہد ہی کو ہو سکتا ہے۔‘‘ ایک دن جب حشر حکیم امین الدین کو اپنا ڈرامہ سنا رہے تھے، حکیم احمد شجاع نے شاگردی کی درخواست پیش کر دی۔ اپنے لکھے ہوئے ڈرامے کے کچھ ٹکڑے سنائے۔ حشر نے اُٹھ کر گلے سے لگا لیا اور پوچھا، ’’تمہیں میری طرح لکھنا کس نے سکھایا؟‘‘ شجاع نے جواب دیا، ’’آپ نے۔‘‘ حشر نے کہا، ’’تو آج سے تم ہمارے شاگرد ہو۔‘‘۳ ۴ روایت ہے کہ آغا حشر کاشمیری کے اقبال کے ساتھ بھی گہرے مراسم قائم ہوئے۔البتہ ملاقاتوں کی تفصیل محفوظ نہیں۔۴ ۵ شیخ نورمحمد چاہتے تھے کہ بوعلی قلندر کی طرز پر فارسی مثنوی لکھی جائے۔ اقبال کو بیرسٹری کے ساتھ یہ کام مشکل معلوم ہوا مگر ابتدا کر دی۔۵ ۶ بو علی قلندر کے کسی مرید کو راستے سے نہ ہٹنے پر گورنر کے چوبدار نے زخمی کیا تو قلندر نے بادشاہ کو خط لکھا کہ گورنر کو سزا دے ورنہ اُس کی سلطنت کسی دوسرے کے حوالے کر دی جائے گی۔ یہ واقعہ ستمبر ۱۹۰۳ء کے مخزن میں بھی اقبال کی نظر سے گزر چکا ہو گا۔ ایسے واقعات عام مسلمانوں کے شعور کا حصہ تھے۔زیادہ تر بغداد کی تباہی کے بعد کے تصوف سے منسوب تھے۔ جس روحانی قوت کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ قوم کی اجتماعی خودی سے وابستہ تھی تو اب بھی باقی رہی ہو گی۔ ایک دفعہ کسی انگریز افسر نے محمد علی (جوہرؔ) کے بڑے بھائی شوکت علی سے پوچھاتھا، ’’تمہارے خیال میں آج ہندوستان میں سب سے بڑا باغی کون ہے؟‘‘ ’’جو جواب میرے بھائی نے دیا اُس پر یہ گرگِ باراں دیدہ ہنس پڑا اور کہا کہ ہندوستان میں سب سے بڑا باغی وفاداروں کا وفادار سید احمد خاں ہے،‘‘ محمد علی نے بعد میں لکھا۔ شوکت علی کو تعجب ہوا تو انگریز نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ نوجوان مسلمان جو علی گڑھ میں وہی تعلیم پا رہے ہیں جو ہمارے بچے ہیرو اور ونچسٹر میں پاتے ہیں، جو انہیں کی سی زندگیاں بسر کرتے ہیں اور انہیں کے کھیلوں میں انہیں ہرا سکتے ہیں، اس بات پر قانع ہوں گے کہ جب وہ سویلین بن کر ہندوستان آئیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوں تو ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہوں اور ’جی حضور‘ اور ’بجا ارشاد ہوا‘ ان کے روبرو کہا کریں؟ نہیں شوکت علی صاحب! ہندوستان میں اب انگریزی حکومت کے دن نہیں رہے اور یہ آپ کا چوٹی کا وفادار سید احمد خاں ہی ہے جو آج سب سے بڑا باغی ہے۔۶ قلندری کے انداز بدل چکے تھے۔ ۷ فریاد کے لیے ایک نئی طرز ایجاد کرو، جسم کو ہائے اور ہُو سے آباد کر لو۔ تم آگ ہو، دُنیا کو روشن کرو اور اس آگ سے دوسروں کو بھی جلنے کا موقع دو: نالہ را اندازِ نو ایجاد کن جَرم را از ہاے و ہُو آباد کن آتش استی بزمِ عالم برفروز دیگراں را ہم ازیں آتش بسوز اقبال نے یہ اشعار کسی کاغذ پر درج کیے۔ بیاض کے اُن صفحات میں لکھنا مناسب نہ سمجھا جنہیں طویل اُردو نظم کے لیے خالی چھوڑ رکھا تھا۔ اُسے لکھنے کا خیال ابھی تک رہا ہو گا۔ فارسی مثنوی کی حیثیت الگ تھی۔۷ ۸ ’’کوئی شخص جو اپنی زندگی میں ناکام رہے اَوروں کے کام نہیں آسکتا،‘‘ گذشتہ اگست میں ہزارہ کی انجمن اسلامیہ کی دعوت کے جواب میں لکھا تھا۔ اب یہی بات پھول سے خطاب کر کے کہی: تجھے کیوں فکر ہے اے گل دلِ صد چاکِ بلبل کی تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ ِگل بھی ہے اِنہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ ہوئی۔ بیاض میں نو اشعار کی نظم لکھی گئی۔بعد میں کسی وقت اس کا عنوان ’پھول‘ رکھا۔۸ ۹ اخبارہندوستان میں اقبال کے ترانے پر اعتراض کرنے والے شاعر کا نام رعنا لکھا گیا تھا۔ ظفر علی خاں کے خیال میں کسی ہندو کی حرکت تھی۔ زمیندار میںللکارا کہ کیسا مسلمان تھا جو اسلام کی بجائے ویداَنت کو اپنا مذہب قرار دیتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اخبار جنابِ رعنا کی شخصیت پر ہندوستانی مسلمان کی نقاب ڈالنے کی بجائے ’’جناب کے نامِ نامی اور اسم ِ سامی کو بھی شائع کر دیتا تاکہ ہم ایسے مقدس بزرگ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہو سکتے۔‘‘ اقبال پر اعتراض کرنے میں اخبار ہندوستان تنہا نہ تھا۔ پنڈت اُدت نرائن ملّا کے اشعار مشہور ہوئے: ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا اپنی محفل کا رِند پرانا آج نمازی بن بیٹھا محمل میں چھُپا ہے قیس حزیں دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں پیغامِ جنوں جو لایا تھا، اقبال وہ اب دُنیا میں نہیں۹ ۱۰ مراکش میں پھر بغاوت ہوئی تھی۔ مولائے حفیظ فاس شہر میں محصور تھے۔ اپریل کے آخر میں فرانس نے سلطان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہر پر قبضہ کر لیا۔جرمنی نے بھی اجازت دے دی۔ ۱۱ داغ ؔ دہلوی کے لاہور میں موجود شاگردوں نے ۲۳ اپریل کواپنے استاد بھائی ظہیر دہلوی کی یاد میں تعزیتی جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت اقبال نے کی۔ داغؔ کے سب سے نامور شاگرد وہی تھے۔ ظفر علی خاں اور میر جالب دہلوی نے تقریریں کیں۔ پھر منشی ہدایت اللہ شیدا امرتسری، محمدالدین فوق، منشی وجاہت جھنجھانوی اور خواجہ دل محمد نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اقبال نے وہیں بیٹھے بیٹھے مرحوم کی تاریخ ِ وفات نکالی مگر نظم نہ کر سکے:زبدۂ عالم ظہیر دہلوی۔ آخر میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے پچھلے برس دکن میں ظہیر سے ملاقات کا حال بیان کیا اور کہا، ’’اُن کی ہستی تبرک تھی۔‘‘۱۰ ۱۲ ظفر علی خاں نے کرم آباد سے لاہور آکر کسی مشکوک محلے میں مکان لیا اورللی لاج کی محفل میں شریک ہو کر بتایا کہ زمینداریکم مئی سے لاہور سے نکلا کرے گا تو مرزا جلال الدین والی اسلام کلب میں اُنہیں بھی مدعو کیا گیا۔ ’’پنجاب مسلم کلب میں جب میاں محمد شفیع، شیخ محمد اقبال اور مرزا جلال الدین نیز دیگر احباب نے پوچھا کہ مکان کہاں لیا اور ہم نے پتا بتایاتوسب کے سب مسکرا دیے،‘‘ ظفر علی خاں نے یکم مئی کو لاہور سے زمیندارکے پہلے اداریے میں لکھا۔ ’’اِس معنی خیز تبسم کا جواب ہمارے پاس بھی موجود تھا: تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘۱۱ ۱۳ مئی میں یا اس سے پہلے کسی وقت اقبال کو ایما کی طرف سے کچھ خوبصورت ٹائیاں یا اسکارف موصول ہوئے۔ اُس کے بعد ایک پوسٹ کارڈ ملا۔ اقبال نے ۱۱ مئی کو لکھا: میری بڑی تمنّا ہے کہ جرمنی کا دوبارہ سفر کروں تاکہ آپ سے مل سکوں اور میں نہیں جانتا کہ یہ کس دن ممکن ہو سکے گا مگر جیسی خوفناک جرمن زبان میں لکھتا ہوں اُن کی وجہ سے میرے خطوط آپ کو بہت محظوظ کرتے ہوں گے۔ ٹائیوں کا شکریہ بھی ادا کیا اور ایک طویل خط کی درخواست بھی کی۔ ہمیشہ کی طرح اِس دفعہ بھی پروفیسر صاحبہ کی خیریت دریافت کی تھی۔ بنام ایما ویگے ناست Lahore 11th May 1911 Mein liobes Fraulein Wegenast, Ihre schone Postkarte habe ich erhalt und schicke meine herzliche grusse zu Ihnen. Ich wUnsche sehr viel nach Deutschland zu reisen um Sie zu besuchen, und weis nicht an was tag were es möglich sein. Meine Briefen aber geben Ihnen viel Material zu lacheln für das Schreckliche Deutsch das Ich schreibe. Die schone Cravaten hatte Ich erhalten, und ich bin sehr beschämt das Ich war zu beschäftigt Ihnen zu schreiben und meine Danke zu schicken. Wenn man einen Sprache nicht schreiben kann Seine Fader ist viel miserable und es ist nicht möglich für solch ein Mann seine herzliche Gedanken zu entfalten. Ich habe keine Zeit mein Deutsch zu corretieren. Bitte vergeben mit für meine Fehler. Aber bitte schreiben Sie eine lange briefe. Ich hofe Frau Professor ist wohl. Ihre Freund Muhammad Iqbal ۱۴ مئی ۱۹۱۱ء میں مولانا ظفر علی خاں نے اقبال کے علیگڑھ والے لیکچر کا ترجمہ ’ملت ِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ کے عنوان سے برکت علی محمڈن ہال لاہور میں ایک جلسہ ٔ عام میں پڑھ کر سنایا۔اقبال بھی موجود تھے۔۱۲ ۱۵ ۱۲ مئی کو لندن کے کرسٹل پیلس میں جشن ِ سلطنت(Festival of Empire)کا آغاز ہوا۔ اگلے ماہ جارج پنجم کی تاجپوشی ہونی تھی۔ دکھانا تھا کہ اُن کی سلطنت پرسورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ۱۶ مارگن شوسٹر ایک امریکی افسر تھے۔ کیوبا اور فلپائن میں کام کرچکے تھے۔ امریکی حکومت نے ایرانی وزارت کو مشورہ دیا کہ اقتصادی مسائل حل کروانے کے لیے شوسٹر کو بلائیں۔ مئی میں ایران چلے آئے۔ ۱۷ اقبال نے آفتاب کو سیالکوٹ کے مشن اسکول سے نکال کر قادیان کے تعلیم الاسلام اسکول میں داخل کروایا۔۱۳ ۱۸ ظفر علی خاں کا کیا ہوا اقبال کے لیکچر کا ترجمہ مرغوب ایجنسی لاہور سے خوبصورت طباعت کے ساتھ شائع ہوا۔ ایک روز وہ اپنے دس گیارہ برس کے لڑکے حامد علی خاں کے ساتھ اقبال کے پاس آئے۔ ’’سادہ سے مکان میں سادہ سا بستر لگا تھا،‘‘ حامد علی خاں کا بیان ہے۔ ’’بستر میں صرف شُتری رنگ کے دو کمبل تھے۔ سوچا کہ بیرسٹر ہیں اس لیے رضائی نہیں اوڑھتے لیکن یہ اُن کی زندگی کی سادگی تھی جس کا احساس بعد میں ہوا۔‘‘۱۴ اُن دنوں ظفر علی خاں سے گہرے مراسم تھے۔ وہ شاہ محمد غوث کی درگاہ کے قریب ایک نئی عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر کرائے پر رہتے تھے۔ ایک شام اسلامیہ کالج کے کچھ طالب علم مغرب کے بعد دوسری منزل پر پہنچے تواقبال بھی موجود تھے۔ ’’اقبال نے شلوار پہن رکھی تھی،‘‘طلبہ میں سے اُس کا بیان ہے جو غلام رسول مہرؔ تھا۔ ’’سفید قمیص، اوپر چھوٹا کوٹ، سر پر لنگی بندھی تھی، ہاتھ میں چھڑی تھی۔۔ ٹہلتے ٹہلتے مولانا ظفر علی خاں سے ملنے آگئے ہوں گے۔۔۔‘‘ اقبال جو کچھ کہہ رہے تھے اُس کا مفہوم یہ تھا کہ ظفر علی خاں، آپ کے اخبار میں کانپور کے فلاں صاحب کی جو لمبی لمبی نظمیں چھپتی ہیں، بعض اوقات خیال آتا ہے کہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لوں اور کانپور پہنچ کر ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دوں، پھر سوچتا ہوں کہ اس شخص کو ختم کرنے کے لیے کانپور تک تھرڈ کلاس کا کرایہ خرچ کرنا بھی روپے کا ضیاع ہوگا۔ ’’اس شاعر کی نظمیں بہت معمولی ہوتی تھیں اور عموماً زمیندارکا پورا پہلا صفحہ گھیر لیتی تھیں،‘‘ مہرؔ کا بیان ہے۔۱۵ ۱۹ لاہور میں نواب ذوالفقار علی خاں کے اعزاز میں پارٹی دی گئی۔وہاں اقبال نے فارسی شعر کہا جس کا مطلب تھا کہ پٹیالہ اِنہی کے چہرے کے نُور سے روشن ہے، ہندو بھی ذوالفقارِ علی پر ناز کر رہا ہے: پٹیالہ روشن است از انوارِ روئے اُو ہندو بہ ذوالفقارِ علی ناز می کند نواب ذوالفقار علی نے کہا کہ انہیں زیادہ تر کامیابی جوگندر سنگھ کی مدد سے ہوئی ہے جو وہاں ہوم منسٹرتھے۔ ظفر علی خاں نے اقبال ہی کی زمین میں ایک شعر کا اضافہ کر دیا جس کا مطلب تھا کہ نواب ذوالفقار علی آئینہ ہیں اور جوگندر اُن کا جوہر، ایک سے ساز ہے اور دوسرے سے سوز ہے: جوگندر است جوہر و نواب آئینہ یک سوز می کند و دگر ساز می کند۱۶ ۲۰ فوق نے جون میں کتاب مشاہیرِ کشمیر شائع کی۔ اقبال کے حالات بھی شامل تھے۔۱۷ ۲۱ جون کے مخزن میں ’شکوہ‘ شائع ہوئی۔ ۲۲ ۲۲ جون کو لندن میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کا جشن ہوا۔ دنیا بھر کی سلطنتوں کے نمایندے آئے۔ ہندوستان سے بھی کئی راجے، رانیاں اور نواب شریک ہوئے۔ ۲۳ فرانس کے بعد اسپین بھی مراکش کے دو شہروں پر قبضہ کر چکا تھا۔ پھر یکم جولائی کو مراکش کی بندرگاہ اغادیر پر جرمن جنگی جہاز پینتھر نمودار ہوا۔اس کا اثر یورپ میں محسوس کیا گیا۔ بے چینی پھیل گئی۔ ۲۴ معلوم ہوتا ہے موسم ِ گرما میں ایک دفعہ پھر شعری مجموعے کی اشاعت کی بات نکلی۔ کسی دوست نے مرتب کیا۔ کتابت بھی شروع ہو گئی۔ شاید اُنہی دنوں ایک نئی کاپی خرید کر نظمیں صاف کر کے اُس میں درج کرنا شروع کیں۔ ایک غزل، ’شکوہ‘ اور دو قطعات درج ہو گئے مگر نئی نظمیں اُسی پرانی بیاض میں لکھی جاتی رہیں جس میں طویل اُردو مثنوی کے لیے کئی صفحات خالی چھوڑے گئے تھے۔۱۸کچھ عرصہ بعد محسوس کیا: اشاعت کے لیے انتخاب میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ گذشتہ پانچ سال سے میری نظمیں بیشتر نجی نوعیت کی ہو کر رہ گئی ہیں۔ اِن میں سے بعض تو میں نے بالکل ہی تلف کر ڈالی ہیں، اس ڈر سے کہ کہیں کوئی انہیں چرا کر شائع نہ کر دے، بہرحال میں دیکھوں گا کہ اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے۔۱۹ ۲۵ عطیہ فیضی کا خط موصول ہوا۔ نظموں کی تعریف کی تھی، کچھ نظمیں یا پھر شاید ساری نظمیں مانگی تھیں۔ لکھا تھا کہ اُن کی خوشی کے لیے یہ نظمیں روانہ کر دیں۔ اقبال نے خاص طور پر وہ نظمیں تلاش کرنے کی کوشش کی جو بمبا دلیپ سنگھ کی چائے کی دعوت کے دوران لکھی تھیں۔ اپنے پاس نہ ملیں۔ اُمراؤسنگھ کو لکھا۔۲۰ ۲۶ ۷ جولائی کو صبح کچہری جانے سے پہلے عطیہ کے خط کا انگریزی میں جواب دیا۔ خط کتابت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ پہلے جیسی گرم جوشی نہ تھی۔ البتہ ایسا ٹھہراؤ تھا جس نے آیندہ دوستی کو قائم رکھنے میں مدد دی: مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں آپ کے نوازش نامے کی طرف جو مجھے کچھ عرصہ ہوا ملا تھا، اب تک توجہ نہ دے سکا۔ میں اِن دنوں بہت ہی پریشان رہا ہوں۔ میری بدقسمتی ایک وفادار کتّے کی طرح میرا پیچھا کر رہی ہے اور میں نے محترمہ کو پسند کرنا سیکھ لیا ہے، اس کی نہ تھکنے والی وفاداری کے سبب۔۔۔ نظموں کے مجموعے کی ترتیب کے بارے میں اطلاع دی۔ زیرتصنیف فارسی مثنوی کے کچھ اشعار بھیجے۔ رسالہ ادیبمیں شائع ہونے والی غزل ارسال کی۔ یہ بھی بتایاکہ اپنے دوست امراؤسنگھ کولکھا تھا کہ مس گوٹسمین والی نظم کا انگریزی ترجمہ ارسال کریں۔ ’’اب دس بجے ہیں اور میرا خیال ہے مجھے جانا چاہیے۔۔۔‘‘ بنام عطیہ فیضی Lahore 7th July 1911 My dear Miss Fyzee, I am so sorry that I have not been able to attend to your very kind letter which I received some time ago. The reason is that I have been very much upset during these days-my misfortune has been following me like a faithful dog; and I have learnt to like the Dame for her untiring loyalty to her miserable King. Detail I shall let you know later on. As regards the poems I shall be glad to send you a copy of. A friend of mine has lent me his collection of my poems. I have engaged a man to transcribe it for me. When his work is over I shall revise the whole, rewrite the poems fit for publication and send a copy of these to you. You need not be grateful to me; since making you happy, as you say in your kind letter, is my sufficient reward. On the other hand I am grateful to you for the admiration which I do not deserve at all. But what will you do with these poems-these wailings of a bleeding heart? There is nothing of cheerfulness in them. So I say in my dedication- خندہ ہے بہرِ طلسمِ غنچہ تمہیدِ شکست تو تبسم سے مری کلیوں کو نامحرم سمجھ درد کے پانی سے ہے سرسبزیٔ کِشتِ سخن فطرتِ شاعر کے آئینے میں جوہر غم سمجھ The great difficulty is selection for publication. During the 5, 6 years my poems have become more of a private nature and I believe the public have no right to read them. Some of them I have destroyed altogether for fear of somebody stealing them away and publishing them. However I shall see what I can do. Father has asked me to write a masnavi in Persian after Bu Ali Qalandar's; and in spite of the difficulty of the task I have undertaken to do so. Here are the opening verses: نالہ را اندازِ نَو ایجاد کن بزم را از ہا و ہُو آباد کن آتش استی بزمِ عالم را فروز دیگراں را ہم ازیں آتش بسوز سینہ را سر منزلِ صد نالہ ساز اشکِ خونیں را جگر پرکالہ ساز پشتِ پا بر شورشِ دنیا بزن موجۂ بیروںِ ایں دریا بزن The rest I have forgotten, but hope to be able to recollect when I return from court. It is now 10 and I must be going. Herewith is enclosed a ghazal which is recently published in the Adeeb. I have written to my friend Sardar Umrao Singh (whom I suppose you know) to send me a copy of his English translation of a few verses which I wrote to Miss Gottesman (a friend of Princess Dhalip Singh) on her presenting to me a beautiful flower plucked from the Shalamar Gardens. The original, I am afraid, is not with me. I shall try to find it out for you. Please remember me to their Highnesses and oblige. Yours sincerely Md. Iqbal ۲۷ اُسی روز پیرس میں جرمن سفیر نے فرانسیسی حکومت کو بتایا کہ فرانس کو مراکش پر قبضے کی اجازت دی جا سکتی ہے اگر کانگو میں فرانس اپنے فتح کیے ہوئے علاقوں میں سے کچھ جرمنی کے حوالے کر دے۔ چھ برس قبل قیصر ولیم نے مراکش کی آزادی کی حمایت کا اعلان کر کے وہ مسئلہ کھڑا کیا تھا جس کی وجہ سے آج فرانس اور اسپین کی فوجیںمراکش میں بیٹھی تھیں۔ اب اصل مقصد معلوم ہوا۔ ایک ہفتہ قبل اغادیر کی بندرگاہ پر جرمن جنگی جہاز کا آنا بھی مراکش کی حفاظت کے لیے نہ تھا۔دہشت کی سیاست تھی۔ ۲۸ طویل نظم کو اُردو میں لکھنے کا خیال ترک کر دیا۔ فارسی مثنوی ہی میں سب کچھ کہا جا سکتا تھا۔۱۴ بعد میں کہا: میں نے اپنی مثنوی ابتدا میں صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے۔ میری غرض یہ تھی کہ جو خیالات میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں وہ [کم سے کم لوگوں] تک پہنچیں۔۔۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اِس کے بعد فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں اِسی زبان میں شعر کہتا رہا۔۲۱ ۲۹ مس گوٹسمین والی نظم مل گئی۔ بیاض میںجو صفحے پہلے اردو مثنوی کے لیے چھوڑے تھے اُن میں درج کر دی۔۲۲ ۳۰ تین برس بعد جو شعلہ دنیا کو جلانے والا تھا اُس کی ہلکی سی لَو ۲۱ جولائی کو برطانیہ میں دکھائی دی۔ وزیر ِ خزانہ لائڈ جارج نے یورپ کو جنگ کی دھمکی دی۔ مراکش پر نیت خراب ہوئی تھی۔لندن کے مئیر کے گھر تقریر کرتے ہوئے برطانوی سیاستداں نے وطن کی محبت سے لبریز ہو کر کہا: اگر کسی ایسے معاملے میں جہاں برطانیہ کے مفادات پر اہم اثر پڑ رہا ہو ایسا سلوک کیا گیا جیسے اقوام کی کابینہ میں اس کی کوئی حیثیت نہ ہو تو میں بہت زور دے کر کہتا ہوں کہ امن کی یہ قیمت ادا کرنا ایسی بے عزتی ہو گی جسے ہم جیسا عظیم ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ ۳۱ غزل پھر بادِ بہار آئی اقبال غزل خواں ہو غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہو تُو خاک کی مٹھی ہے اجزا کی حرارت سے برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں بیاباں ہو تُو جنسِ محبت ہے، قیمت ہے گراں تیری کم مایہ ہیں سوداگر، اِس دیس میں اَرزاں ہو کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری تو نغمۂ رنگیں ہے ہر گوش پر عریاں ہو اے رہروِ فرزانہ، رستے میں اگر تیرے گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طُوفاں ہو ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی مقصد ہے اگر منزل، غارت گرِ ساماں ہو۲۳ اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۳۲ اقبال نے اکبر الٰہ آبادی کے اُس قطعے کی پیروی میں لکھنا چاہا جو چار برس پہلے مخزنمیں چھپا تھا۔ قطعہ نہ ہو سکا۔ جولائی میں ظفر علی خاں کے پنجاب ریویو میں ’ناتمام نظم کے اشعار‘ کے عنوان سے چھ شعر شائع کروائے: کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مٹا رہے ہیں۲۴ اس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔ اُن دنوں شاید پہلی بار طبیعت اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں کچھ لکھنے کی طرف مائل ہوئی تھی۔۲۵ ۳۳ ۳۱ جولائی کی رات ظفر علی خاں اقبال کے گھر آئے ہوئے تھے۔ دونوں نے مل کر نظم لکھی جس میں شاہِ انگلستان کے متوقع دربار کا ذکر بھی ہو ا اور مغرب زدہ مسلمانوں سے بیزاری کا اظہار بھی: مبارک ہے یہ جشن ِ تاجپوشی جس کے صدقے میں وہ مسجد تک چلا آیا کلب گھر کا جو رہرو ہے اقبال نے یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ نظم بنیادی طور پر ظفر علی خاں کے ہنگامی اندازمیں تھی۔۲۶ ۳۴ نئی بیاض میں مزاحیہ نظم کی داغ بیل ڈالی مگر صرف ساڑھے سات اشعار ہوئے اور پھر نظم نامکمل ہی رہی:۲۷ کہا یہ ایک مرے مہرباں نے کل مجھ سے پلٹ گئے ہیں خیالات ہر مسلماں کے غضب کیا ہے زمیندار کے اڈیٹر نے سکھائے قطرے کو انداز اس نے طوفاں کے یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۳۵ حسن نظامی حجاز، فلسطین اور شام کے مقدس مقامات کی زیارت کو گئے ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی حاضری دی اور موسم ِ سرما کے بعد واپس آئے تو اپنے حلقے نظام المشائخ کی ترویج میں پہلے سے زیادہ مصروف ہو گئے۔ اقبال کو بھی دعوت دی کہ ہاتھ بٹائیں۔ اقبال کا کہنا تھا: آرڈر قائم کرنے کا خیال تھا اور اب تک ہے۔ مگر اس راہ میں مشکلات بیحد ہیں اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس مذاق کے لوگ کہاں ہیں۔ بہرحال میں ہم خیال پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں اور کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتا۔۲۸ اپنے نظریے کو فارسی مثنوی کے ذریعے پیش کرتے ہوئے تصوف کا ایک نیا حلقہ قائم کرنے کی فکر میں بھی تھے۔ جاننے والوں میں سے کم از کم محمد دین فوق یہی محسوس کرتے تھے کہ اقبال کے نظریات تصوف کی تشکیلِ جدید ہیں۔۲۹ ۳۶ لبرل پارٹی چاہتی تھی کہ عوامی نمایندوں کے منظور کیے ہوئے کسی قانون کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز یعنی دارالامرأ آیندہ وہ سلوک نہ کر سکے جو دو برس پہلے عوامی بجٹ کے ساتھ کیا تھا۔ پارلیمنٹ ایکٹ دارالا ُمرأ پر اس قسم کی پابندیاں لگاتا تھا۔ اس کے منظور ہونے کی امید بھی نہ تھی مگر بادشاہ سلامت مان گئے کہ لبرل پارٹی کے اِتنے سارے ہمدردوں کو خطاب دے دیں کہ دارالامرأ میں بھی ان کی اکثریت ہو جائے۔ اس کی نوبت نہ آئی۔ امرأ ڈر گئے۔ ۱۰ اگست کو ایکٹ منظور ہو گیا۔ ۳۷ دلآویز نظم، دلکش آواز، قومی امداد، ہم خرما و ہم ثواب اس عنوان سے کامریڈ میں پورے صفحے کے اشتہار شائع ہو رہے تھے۔ محمد علی نے گراموفون کمپنی سے اقبال کے ملّی ترانے کے ریکارڈبنوائے تھے۔ گانے والا علی گڑھ کا طالب علم تھا جس نے معاوضہ وصول کرنے کو وقار کے منافی سمجھا چنانچہ رائلٹی مسلم یونیورسٹی کی تحریک کے نام کر دی گئی تھی۔ ۳۰ ۳۸ امریکی ماہرِ اقتصادیات کی ایران میں موجودگی رُوس کو پسند نہ آئی تھی۔ مارگن شوسٹر نے جمہوری حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ بڑے جاگیرداروں سے ٹیکس وصول کیے تھے۔ جاگیرداروں کے رُوسی حکومت سے تعلقات تھے۔روس نے حملہ کیا تھا۔ شمالی ایران میں آذربائیجان اور تبریز پر قبضہ کر چکا تھا۔ شمس تبریز کے شہر میں روسی فوجوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ اب تہران کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ معزول شہنشاہ محمد علی قاجار بھی اُن کے ساتھ تھا۔ ۳۹ بادشاہ سلامت ہندوستان میں دربار کرنا چاہتے تھے۔ پیسے بھی بچانا چاہتے تھے۔ آخر وہی تقسیم ِ بنگال کو منسوخ کرنے اور دہلی کو دارالحکومت بنانے کی بات ٹھہری۔ ۲۵ اگست کو شملہ میں دستخط ہوئے۔ رازداری برتی گئی۔ ملکہ عالیہ اور برطانوی کابینہ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ صرف بیس یا اس سے بھی کم لوگ واقف تھے۔ اس کا خفیہ نام ’’سم سم‘‘ (sesame) تھا۔ ۴۰ کوئی مولوی کرم الٰہی صوفی تھے جنہوں نے ہندوستان میں سلاطین ِ دہلی کے عہد ِ حکومت کی تاریخ لکھی۔ مسلمان بادشاہوں کے کارنامے بیان کیے۔ تبصرے کے لیے اقبال کو بھیجی گئی تو پسند آئی۔مولوی صاحب کا اندازِ تحریر ثبوت تھا کہ ’’ابھی قوم میں ایسے لوگ زندہ ہیں جو اپنی تاریخ کو غیراقوام کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‘‘ مصنف کے نام خط میں لکھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر مسلمان وہ اصول سیکھ سکتے ہیں: جن پر عمل کرنے سے حجاز کے صحرانشین تیس ہی سال کے اندر شتربانی سے جہاں بانی تک پہنچ کر اقوامِ قدیمہ کی تہذیب کے وارث اور تہذیب ِ جدید کے بانی بن گئے۔ تاریخ کا مقصد اگر اخلاقی ہے اور میرے خیال میں تاریخ کا یہی مقصد ہونا چاہیے تو آپ کی تصنیف اس مقصد کو بدرجۂ اتم پورا کرتی ہے۔۔۔ قومیت کا احساس جس کو بالفاظِ دیگر قومی خودداری کہنا چاہیے، قومی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جن وسائل سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے وہ بھی قومی حیات کے لیے ضروریات میں سے ہیں۔ پس اِس اعتبار سے آپ کی کتاب کا مطالعہ ہر مسلم پر واجب ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں ہر مسلم خاندان اس کتاب کے پڑھنے سے مستفید ہوگا۔ کرم الٰہی نے خط مخزن کو بھجوا دیاکہ اسلامی تاریخ عہدِ افغانیہ کے اشتہار کے طور پر شائع ہو۔۳۱ ۴۱ کرم الٰہی والے خط میں جنہیں شتربانی اور جہابنانی کہا گیا وہ چیزیں فارسی مثنوی میں ’’ضبط ِ نفس‘‘ اور ’’نیابت ِ الٰہی‘‘ بننے والی تھی مگر ابتدا کہاں سے ہو؟ زمیندار کے’ عید نمبر‘ کے لیے نظم لکھی۔ پہلے بند میں یہ بات دہرائی کہ ہلال مسلمانوں کا قومی نشان تھا لہٰذا عید کے چاند سے اُنہیں خاص تعلق تھا۔ اس بند کا ہر شعر مثنوی کی طرح اپنے آپ میں ہم قافیہ تھا۔ دوسرے بند کی ہئیت اور تھی۔ ترکیب بند تھا۔چاند کسی ایک ملک پر نہیں بلکہ ساری دنیا پر جھانکتا لہٰذا دنیا بھر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اُسے دکھائی دے سکتی تھی: قافلے دیکھ اور اُن کی برق رفتاری بھی دیکھ رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ بت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ کافروں کی مسلم آئینی کا نظّارہ بھی کر اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ جس کو ہم نے آشنا لطفِ تکلم سے کیا اُس حریف ِ بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ مکر کے پھندے میں شہبازِ مراکش آ گیا اُمت ِ عیسیٰ کا آئین ِ جہاں داری بھی دیکھ صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ۳۲ بعد میں کبھی ’’مکر کے پھندے‘‘ والا شعر نظم سے نکال دیا۔ نظم مقبول ہوئی۔ عطیہ فیضی نے اِسے بھی خودترسی سمجھا ہو گا۔ جسے اقبال کی نئی قومی شاعری کہا جا رہا تھا اُس میں عطیہ نے تلخی محسوس کی۔ اُسے ایک طرح کی قنوطیت کہنے پر مجبور ہوئیں۔۳۳ حقیقت کا دُوسرا رُخ یہ تھا کہ اقبال نے تین پیش گوئیاں کی تھیں: ۱ عثمانی سلطنت کے اکٹھے رہنے کی اصل وجہ خلافت تھی۔ نوجوان ترکوں نے سلطان عبدالحمید کو برطرف کر کے اُن کی جگہ کمزور شخصیت کو تخت پر بٹھایا۔ وطن پرستی کے ذریعے یہ سلطنت یکجا نہ رہ سکتی۔ بکھرنے والی تھی۔ ۲ ایران کے قدرتی وسائل سے مغربی طاقتیں فائدہ اٹھانے کے لیے اپنا جال زیادہ مضبوط کرنے والی تھیں۔ ۳ چھ برس پہلے قیصر ولیم نے مراکش کی حمایت میں جو بیان دیا وہ محض ایک چال تھی۔ نتیجے میں اب مراکش مسیحی طاقتوں کی غلامی میں جانے والا تھا۔۳۴ ۴۲ ۲۹ ستمبر کو اٹلی نے طرابلس اور اس کے نواح پر حملہ کر دیا جو شمالی افریقہ میں عثمانی سلطنت کے آخری مقبوضہ جات تھے۔اٹلی کی سوشلسٹ پارٹی نے اپنی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی اور جن سوشلسٹوں کو جیل ہوئی اُن میں ایک اٹھائیس سالہ نوجوان شامل تھا جس پر اشتراکی تحریروں کے علاوہ نیٹشے کا اثر بھی تھا۔ اس کا نام بنیٹو مسولینی تھا۔ برطانیہ اور فرانس نے فوراً غیرجانبداری کا اعلان کیا۔ یہ مصر اور تیونس کی نگرانی کرتے تھے جہاں سے طرابلس پہنچا جا سکتا تھا لہٰذا ترکوں کے لیے یہ راستہ بند ہو گیا۔ سمندری راستوں کی اٹلی پہلے ہی ناکہ بندی کر چکا تھا چنانچہ ترک سپاہیوں اور سپہ سالاروں کے پاس اب یہی چارہ تھا کہ بھیس بدل کر خفیہ طور پر مصر پہنچیں اور وہاں سے طرابلس جائیں۔انہی میںایک نوجوان افسر تھا جس کا نام مصطفی کمال تھا۔ ۴۳ طرابلس پر حملہ صرف زمین پر قبضے کے لیے نہ تھا۔ بالکل اُسی زمانے میں شیریڈن نامی کسی یورپین نے طرابلس کی جنگ پر لیکچر دیا تو کہا کہ اسلام نے کبھی دنیا کو کچھ نہیں دیا اِس لیے اِس کا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے۔۳۵ ۴۴ ۵اکتوبر کو ظفر علی خاں سے معلوم ہوا کہ اکبر الٰہ آبادی کو چوٹ آئی تھی۔ خیال آیا کہ عیادت کا خط لکھا جائے۔ اگلے روزخوداکبر کا خط موصول ہوا جس میں ’ناتمام نظم کے اشعار ‘پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اکبر کے نام اقبال کے دستیاب خطوط میں پہلا اِسی کے جواب میں لکھا گیا۔ اس سے پہلے کے خطوط دستیاب نہیں۔اقبال نے لکھا: میںآپ کو اُسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرفِ نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔۔۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں۔ ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے۔۔۔ اکبر سے درخواست کی کہ زمیندارمیں ہلالِ عید والے اشعار بھی پڑھیں: میں نے چند اشعار آخر میں ایسے لکھے ہیں کہ ترکی و اٹلی کی جنگ نے اُس کی تصدیق کر دی ہے۔ اگر زمیندار اخبار آپ تک نہ پہنچا ہو تو تحریر فرمائیے، بھجوا دوں گا۔ اُس روز یعنی ۶ اکتوبر کو بادشاہی مسجد میں جلسہ تھا۔ جنگ ِ طرابلس کے لیے چندہ اکٹھا کرنا تھا۔ اقبال مختصر سی نظم لائے۔ بیاض میں جو متن درج ہوا اُس کا عنوان ’سبز گنبد والے آقا کے حضور میں خونِ شہدأ کی نذر‘ تھا۔ جلسے میں ’عندلیبِ حجاز کی نذر‘ کہہ کر سنائی۔ نظم کا اختتام پہلے سے ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں گے۔ بعد میں کبھی اس کا عنوان ’حضور رسالتمابؐ میں‘ ہوا۔ پہلے بند کا تیسرا شعر جو بیاض میں تھا، وہ خارج ہو گیا۔ معلوم نہیں وہ جلسے میں پڑھا گیا تھا یا نہیں: ہوا رفیقِ اجل اشتیاقِ آزادی سمندِ عمر کو اِک اور تازیانہ ہوا کمر پر ہاتھ رکھ کر غالباً ترنم سے پڑھنا شروع کی۔ کسی نے تصویر کھینچ لی۔ یہ اقبال کی نظم پڑھتے ہوئے واحد تصویر تھی جو بعد کی نسلوں تک پہنچی۔ بادشاہی مسجد کا صحن بھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ معلوم ہو سکتا تھا کہ اقبال کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد جو ہزاروں میں بتائی جاتی اُس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ پہلے بھی بعض نظموں میں زمین کو چھوڑ کر آسمانوں کا خیالی سفر کیا تھا۔ اِس دفعہ تیسرے ہی شعر میں فرشتے رسولِ اکرمؐ کے حضور لے گئے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ دنیا کے باغ سے خوشبو کی طرح نکل کرآتے ہوئے کیا تحفہ لائے ہیں؟ عندلیبِ حجاز کی نذر [ترمیم کے بعد: ’حضور رسالتمابؐ میں‘] گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظامِ کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو کہا حضورؐ نے، اے عندلیب باغِ حجاز! کلی کلی ہے تری گرمیٔ نوا سے گداز ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز اُڑا جو پستیٔ دنیا سے تو سوئے گردوں سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟ ’’حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اِس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اِس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں‘‘ آخری شعر پر خود بھی رو رہے تھے۔ سننے والوں پر بھی ایسی کیفیت طاری تھی کہ کئی پشتوں تک منتقل ہو کر باقی رہتی۔ سینہ بہ سینہ یہ روایت چلی کہ آخری مصرعہ پڑھتے ہوئے اقبال نے فرطِ جذبات سے اپنا ہاتھ کھول دیا جیسے واقعی کچھ پیش کر رہے ہوں۔ سننے والوں نے سب کچھ جیبوں سے نکال کر طرابلس فنڈ کے لیے پیش کر دیا۔ اِتنی مختصر نظم سے اتنے بڑے مجمع پر ایسا تاثر قائم کرنا فنکار کی خودعتمادی کی انتہا تھی۔۳۶ ۴۵ دو تین روز بعداقبال کی محفل میں کسی نے ذکر چھیڑا کہ بادشاہی مسجد والے جلسے میں خیریت رہی ورنہ ڈر تھا کہ کہیں لوگ اقبال کی نظم سے جوش میں آ کر ہنگامہ نہ کر دیں۔ اقبال نے کہا، ابھی قوم تیار نہیں ہے۔۳۷ ۴۶ محمود طرزی افغانستان کی شاہی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اڑتالیس برس عمر تھی۔ سولہ برس قبل استنبول میں سید جمال الدین افغانی نے اُن کی دنیا بدلی تھی۔دیکھ رہے تھے کہ افغانستان بظاہر آزاد ہے مگر ہر لحاظ سے برطانیہ کا غلام ہے۔ ذہنی جنگ کی تیاری کیے بغیر آزادی حاصل نہ ہوسکتی تھی۔ اکتوبر میں کابل سے سراج الاخبارجاری کیا۔ مہینے میں دو دفعہ شائع ہوتا۔بیداری کا سامان تھا۔ ۴۷ اکبرؔ الٰہ آبادی نے اقبال کی ہلالِ عید والی نظم پڑھی اور متاثر ہوئے۔ احباب کو سنائی۔ ایک نے نقل مانگی۔شکست ِ رشتۂ تسبیح ِ شیخ یعنی تسبیح کے دھاگے کا ٹُوٹنا اور پختہ زُناری یعنی برہمن کا اُس دھاگے کو مضبوط رکھنا جو وہ مذہباً گلے میں ڈالتا تھا اکبرؔ کے خیال میں اقبال ہی کا حصہ تھا۔ خاص طور پر کافروں کی مسلم آئینی والا مصرعہ پسند آیا۔ ۳۸ ۴۸ زمیندارمیں خبر شائع ہوئی کہ اکبر الٰہ آبادی اُردو میںشاہنامہ لکھ رہے تھے۔ ضائع ہوگیا۔ صرف نمونے کے چند اشعار قارئین کی نذر کیے جا رہے تھے۔ اقبال متاثر ہوئے۔ ایک مصرعے کے بارے میں خیال ہوا کہ فردوسی اور نظامی گنجوی بھی اس پر رشک کرتے: رگِ موج سے خون جاری کریں۳۹ ۴۹ انجمن حمایت اسلام نے بھی دہلی دربار کے سلسلے میں ایڈریس پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۲ اکتوبر کو جنرل کونسل کے اجلاس میں اس کے لیے سب کمیٹی بنائی گئی جس کے سات ارکان میں اقبال بھی شامل تھے۔ ۴۰ ۵۰ پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر سر لوئی ڈین نے دہلی میں کوئی شاہی میلہ قائم کیا جس میں تاجپوشی کی نظموں پر مشاعرہ ہونا تھا۔ اقبال کو صدر بنایا گیا۔ فیصلے کے لیے نظمیں بھیجی جانے لگیں۔۴۱ ۵۱ سیالکوٹ میں آبائی مکان کی جگہ سہ منزلہ حویلی تعمیر ہو چکی تھی۔ بازار کی جانب لکڑی کی خوبصورت بالکونی تھی اور انگریزی رواج کے مطابق کئی کمروں کے ساتھ ملحقہ غسلخانے تھے۔ باہر کی طرف سیڑھیوں کے ساتھ تین دکانیں تھیں اور صدر دروازہ امام بی بی کے کہنے پر اندر گلی کی طرف رکھا گیا تھا۔ امام بی بی کا کمرہ خاص طور پر سجایا گیا۔ پورے کمرے میں لکڑی کے تخت بچھائے گئے، اُن پر نئی دری اور ایک درمیانہ سائز کا ایرانی قالین ڈالا گیا۔ عطا محمد نے حویلی کو ’اقبال منزل‘ کا نام دیا۔ ۴۲ ۵۲ عطا محمد سب لڑکوں کے لیے اُس زمانے کی مقبول سیاہی اسٹیفنزاِنک (Stephen's Ink) کی بڑی بوتل لائے جو پتھر کی تھی اور اس کے منہ پر کارک لگا ہوا تھا جسے لاکھ سے بند کیا گیا تھا۔ دوپہر کو جب گھر کے لوگ آرام کر رہے تھے تو آفتاب، اعجاز کو ساتھ لے کر بوتل اور کارک کھولنے والا اسکرو لے کر امام بی بی کے کمرے میں چلے آئے۔امام بی بی کی گاؤ تکیے والی خاص مسند پر بیٹھ کر آفتاب نے سیاہی کی بوتل اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان رکھ لی اور جب اسکرو لگا کر زور سے کارک کھینچا تو بوتل لڑھک گئی۔ نہ صرف آفتاب کے ہاتھ اور کپڑے سیاہی میں رنگ گئے بلکہ نیچے قالین اور دری بھی تربتر ہو گئے۔ اعجاز کا بیان ہے: گھبراہٹ میں آفتاب بھائی نے کہا، چلو بھاگ چلیں۔ شہر کے وسط میں سالبان کا قلعہ ایک مشہور جگہ ہے۔ اُن دنوں شہر کا تھانہ، میونسپل ہال، میونسپل کمیٹی کے دفاتر، پبلک لائبریری، گورنمنٹ ہائی اسکول، سب قلعے پر ہوتے تھے اور لڑکوں کے کھیلنے کے لیے بھی کھُلا میدان ہوتا تھا۔ گھر سے فرار ہو کر ہم نے وہاں پناہ لی۔ گھرمیں جب یہ راز کھلا تو ہمارے لیے ڈُھنڈیا پڑی۔ میرے بہنوئی اور پھوپھی زاد بھائی فضل الٰہی مرحوم ہمیں قلعے سے پکڑ لائے۔۔۔ عطا محمد نے دونوں کے ہاتھوں پر آٹھ آٹھ بید مارے۔ آفتاب عادی ہو چلے تھے۔ باپ کے ہاتھوں اعجاز کی یہ پہلی جسمانی سزا تھی۔ ۴۳ ۵۳ اقبال نے پچھلے برس انگریزی نوٹ بک میں لکھا تھا کہ جرمنی کو ملک گیری سے باز رہنا چاہیے۔ ۴ نومبر کو یہ بات درست ثابت ہوئی۔ فرانس اور جرمنی میں معاہدہ ہوا۔ جرمنی کے بادشاہ قیصر ولیم نے مراکش کی آزادی کا نعرہ لگا کر یورپی طاقتوں کو اس غریب ملک پر حملہ کرنے کا جواز فراہم کیا تھا۔ اب آنکھیں پھیر کر راضی ہوئے کہ مراکش کو فرانس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ بدلے میں فرانس نے کانگو کا جو علاقہ جرمنی کی جھولی میں ڈالا اُس میں سے بیشتر دلدل کے سوا کچھ نہ تھا۔ ستمبر میں ہلالِ عید سے خطاب میں اقبال نے شہبازِ مراکش کے پھنسنے کی جو بات کی تھی وہ سچ نکلی۔ ایران میں ماتم کی تیاری بھی ہورہی تھی۔ روسی فوجیں شمالی ایران پر قبضہ کر چکی تھیں۔ جرمنی نے جنگی جہاز مراکش کی بندرگاہ پر بھیج کر جو دہشت پیدا کی اُس کی وجہ سے برطانیہ کے نوجوان ہوم سیکرٹری ونسٹن چرچل کو خیال آیا تھا کہ سمندری برتری قائم رکھنے کے لیے بحری جہاز کوئلے کی بجائے تیل سے چلائے جائیں۔ تیل ایران کے پاس تھا۔ ۵۴ طرابلس کی جنگ سے اردو صحافت میں تبدیلی آئی تھی۔ اخباروں کی فروخت بڑھ گئی۔ نومبر میں کسی معرکے میں ترکوں کی فتح کی خبر آئی۔ اُردو اخباروں میں یوں شائع ہوئی جیسے جنگ کا فیصلہ ہو چکا اور ترک ہلال نے اٹلی کی صلیب کو شکست ِ فاش دے دی ہے۔ چند روز بعد اقبال کو اکبر الٰہ آبادی کے دو خطوط ملے جن میں غالباً ترکوں کی فتح کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ۹ نومبر کو جواب میں اقبال نے لکھا: ترکوں کی فتح کا مژدۂ جانفزا پہنچا۔ مگر اس کا کیا علاج کہ دل کو پھربھی اطمینان نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں روح کیا چاہتی ہے اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے۔ میں ایک زبردست تمنا کا احساس اپنے دل میں کرتا ہوں گو اس تمنا کا موضوع مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں۔ ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہو تو اس میں اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۔ دریافت کیا کہ کیا دربار کے موقع پر دہلی آنے والے تھے اور اُن کے لڑکے ہاشم کے لیے دعائیں لکھتے ہوئے اُسے پیغام دیا: اب کوئی دن جاتا ہے کہ پیرانِ مشرق دنیا میں نہ رہیں گے اور آیندہ زمانے کے مسلمان بچے نہایت بدنصیب ہوں گے۔ میاں ہاشم!اب وقت ہے اس کی قدر کرنا اور جو کچھ پیر ِمشرق سے لے سکتے ہو لے لینا۔ یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔ اس تربیت کے فیض سے زندگی بھر تمہاری روح لذت اٹھائے گی۔ ۵۵ اس ماہ وزیر ِ ہند لارڈ کرو نے برطانوی کابینہ کو ’’سم سم‘‘ کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ وائسرائے نے اپنی کونسل کو خبردار کیا۔ پھر بھی ابھی بات کو راز میں رکھنا تھا۔ جن صوبوں پر اثر پڑنے والا تھا اُن کے گورنروں کو بھی مطلع نہ کیا گیا۔ یہ صوبے مشرقی بنگال، مغربی بنگال اور پنجاب تھے۔ پہلے دونوں صوبے دوبارہ ایک ہونے والے تھے۔ پنجاب کے اہم علاقے دہلی کو علیحدہ کر کے دارالحکومت بنایا جانا تھا۔ ۵۶ دسمبر ۱۹۱۱ء میں اقبال کو عربی کے انٹرمیڈیٹ کے پرچہ ب کا ممتحن مقرر کیا گیا۔ ایک پرچہ مرتب کرنے کا معاوضہ تیس روپیہ تھا اور پرچہ جانچنے کا معاوضہ چھ آنہ فی پرچہ تھا۔ اسی برس عربی کے انٹرمیڈیٹ پرچہ ب اور بی اے پرچہ ب، اور بی اے فلسفہ کے پرچہ ب کے ممتحن ہوئے۔ ایم اے فلسفہ کے ممتحن بھی مقرر ہوئے جس میں پروفیسر سانڈرز اور ریورنڈ گریسولڈ بھی ممتحن تھے۔۴۴ ۵۷ اپنی زندگی کو ایسے رباب سے تشبیہ دے رہے تھے جس کی آغوش میں ہر طرح کے نغمے ہوں مگر کوئی مضراب اس رباب کو بجانے والا نہ ہو۔ پھر آسمان سے کسی حور کی سانس آہستہ سے آکر اِسے چھیڑ دے: مگر آتی ہے نسیمِ چمنِ طُور کبھی سمتِ گردوں سے ہوائے نفسِ حور کبھی چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مرا تارِ حیات جس سے ہوتی ہے رہا رُوحِ گرفتارِ حیات نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اُٹھتی ہے اشک کے قافلے کو بانگِ درا اُٹھتی ہے جس طرح رفعتِ شبنم ہے مذاقِ رم سے میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ نظم میں چار چار اشعار کے دو بند تھے۔ عنوان ’نوائے غم‘تھا۔ لفظ ’بانگ ِ درا‘ جو پہلے ’تصویرِ درد‘ اور چین و عرب والے ترانے میں آ چکا تھا ایک دفعہ پھر استعمال ہوا۔۴۵ اس کے بعد کسی روز دہلی کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ گرامی کا خط ملاجس میں دہلی کے بارے میں گرامی کے کچھ فارسی اشعار بھی تھے۔فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۵۸ ۴ دسمبر کوبادشاہ جارج پنجم اور ملکہ الیگزانڈرا بحری جہاز سے بمبئی پہنچے۔ مخزن کے مضمون نگار نے لکھا: دیگر باشندگانِ ہند بالعموم اور مسلمان بالخصوص جو مذہباً اپنے ولی نعمت تاجدار کو ظل ِ اللہ فی الارض خیال کرتے ہیں اور اس کے دیدار کو روحانی انبساط سمجھتے ہیں، بیتابانہ ہمہ تن چشم براہ تھے کہ دیکھیے کب وہ ذاتِ قدسی صفات اپنے قدومِ میمنت لزوم سے تِیرہ خاکِ ہند کو منور کرتی اور اپنے دیدارِ فرحت آثار سے اُس کے اہالیان کی امیدوں کے کنول کھِلاتی ہے۔۔۔۴۶ ۱۸۷۷ء میں ملکہ وکٹوریہ اور ۱۹۰۳ء میں سگار والے بادشاہ ایڈورڈ کے دربار بھی منعقد ہوئے مگر وہ دونوں خود نہ آئے تھے۔ اب پہلی بار کسی انگریز بادشاہ نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ اس کی موجودگی میں لارڈ ہارڈنگ وائسرائے نہ رہے صرف گورنر جنرل رہ گئے۔ ۵۹ ہمارا تاجدار بیادگارِ شاہی دربار ہز امپیریل میجسٹی جارج پنجم بمقام دہلی ہمائے اوجِ سعادت ہو آشکار اپنا کہ تاج پوش ہوا آج تاجدار اپنا اسی کے دم سے ہے عزّت ہماری قوموں میں اسی کے نام سے قائم ہے اعتبار اپنا اسی سے عہدِ وفا ہندیوں نے باندھا ہے اسی کے خاکِ قدم پر ہے دل نثار اپنا۴۷ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۶۰ دہلی میں عالیشان خیموں کا شہر آباد ہو گیا تھا۔ہندوستان بھر کے والیانِ ریاست جمع تھے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے بھی اپنا اجلاس ۴ دسمبر سے شروع کیا تاکہ شاہِ انگلستان کی دہلی آمد سے پہلے ختم ہو جائے۔ آغاخاں سوئم افتتاحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ تیسرے اجلاس کے صدر اقبال تھے۔ اس میں خواجہ حسن نظامی نے اُنہیں ترجمانِ حقیقت کا خطاب دیا۔ اقبال کے دل و دماغ کے بہت سے واردات جن سے سوانح نگار واقف نہیں، حسن نظامی اُن سے بھی شاید واقف رہے ہوں۔ خواجہ کمال الدین نے جو احمدی عقائد رکھتے تھے، ’اسلام اور علومِ جدیدہ ‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔ آخر میں جذبات میں ڈوب کر پکارا، ’’کہاں ہے تُو ڈاکٹر اقبال؟‘‘ اقبال اسٹیج پر قریب ہی بیٹھے ہوں گے مگر کمال الدین اپنی رَو میں کہتے چلے گئے: قوم تجھے ملک الشعرأ بنانا چاہتی ہے اور وہ ایسا کرنے میں غلطی پر ہے اور تُو پست ہمت ہوگا اگر اُس پر قانع ہوا۔۔۔ یاد دلایاکہ قرآن مجید میں شاعروں کے متعلق کہا گیا کہ اندھی وادیوں میں سر ٹکراتے پھرتے تھے: جرمنی کی یونیورسٹی میونک کا قرضہ تیرے ذمے ہے۔۔۔ تجھے اگر مغربی حکمت و فلسفہ اُنہوں نے سکھاکر ڈاکٹر کا خطاب دیا تو یہ قرضہ ترانوں اور نغموں سے ادا نہیں ہو سکتا۔ اس کا معاوضہ یہ ہے کہ تو قرآن کو کھولے اور اس کے دریائے حقیقت میں غوطہ لگائے اور اس سے حکمت و فلسفہ ٔ حقہ کے درِ شہوار نکالے اور برنارڈ شا اور ہیزل کی آنکھوں کو چکاچوند کرے۔ اُنہوں نے پوچھا، کیا وہ بات درست ہے جو کچھ روز پہلے شیریڈن نامی کسی یورپین نے طرابلس کی جنگ پر لیکچر دیتے ہوئے کہی تھی؟ پھرخود ہی جواب دیا کہ مغرب والے خود چور ہیں، ان کا فلسفہ اور سائنس سب کی سب مسلمانوں سے چُرائی ہوئی ہیں: بیرسٹر اقبال، آ میرے ساتھ وکالت میں شامل ہو اور ہم۔۔۔ اِس مال کو اپنے گھر کا مالِ مسروقہ ثابت کر دیں۔ صدارتی تقریر میں اقبال نے کہا: خواجہ صاحب نے جو تقریر اِس وقت کی ہے وہ نہایت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔۔۔ اس کے بعد بتایا کہ اسلام اور علومِ جدیدہ کے موضوع پر اس زمانے میں مسلمانوں نے بہت لکھا تھا۔ ڈیکارٹس کا فلسفیانہ طریقِ کار غزالی کے یہاں پہلے سے موجود تھا، راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا اور جان اسٹوارٹ مل کے فلسفے کے تمام بنیادی اصول بو علی سینا کی کتاب میں پہلے سے موجود تھے نیز اُس نے منطق پر جو اعتراض کیا ہے بالکل وہی اعتراض رازی نے بھی کیا تھا۔ چنانچہ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو پر اچھا اثر ڈالا۔ اپنی شاعری کے دفاع میں کچھ نہ کہا جسے کمال الدین بیکار قرار دے رہے تھے۔ چھٹے اجلاس کے صدر شاہ سلیمان پھلواری تھے۔ مولانا شبلی نعمانی کے ہاتھوں اقبال کو پھولوں کا ہار پہنایا جانے والا تھا۔سجاد حیدر یلدرم نے جو اَب امیر ِ کابل کے پولیٹکل اسسٹنٹ افسر تھے، شبلی نعمانی سے درخواست کی تو وہ اُٹھے اور اُسی لب و لہجے میںجو اُن کی عالمانہ تصانیف کے ساتھ مخصوص ہو چکا تھاایک مختصر تقریر کی: یہ رسم کوئی معمولی رسم نہیں ہے اور اس کو محض تفریح نہ تصور کرنی چاہیے۔ ہم مسلمانوں کا یہ شعار رہا ہے کہ ہم جس قدر قوم کی دی ہوئی عزت اور خطابات کی قدر کرتے ہیں اُتنی کسی اور عزت کی شہرت ہمارے ناموں کے ساتھ نہیں ہوئی۔محقق طوسی وغیرہ کو اس زمانے کے سلاطین نے بڑے بڑے خطابات دئیے لیکن آج سوائے کتابوں کے اوراق کے کسی کی زبان پر نہ چڑھ سکے۔ لیکن قوم کی طرف سے ’محقق‘ کا جو خطاب دیا گیا وہ آج زبان زدِ خاص و عام ہے۔ جو عزت قوم کی طرف سے آج ڈاکٹر اقبال کو دی جاتی ہے وہ ان کے لیے بڑی عزت اور فخر کی بات ہے اور حقیقت میں وہ اس عزت کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر اقبال کا علم، ادب اور ان کی شاعری کا معیار غالب کی شاعری سے کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہو سکتا۔ بادشاہوں کی طرف سے جو خطاب ملتے ہیں وہ دائمی نہیں ہوتے اور نہ ہی عالمگیر شہرت رکھتے ہیں۔ برخلاف اس کے قوم جب کسی شخص کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے کسی لقب سے ملقب کرتی ہے تو وہ خطاب جاودانی ہوتا ہے جیسے امام فخرالدین رازی، امام ابوحنیفہ و دیگر ائمہ سلف۔ چنانچہ ’ملک الشعرأ‘ کا خطاب ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب کو قوم عطا کر رہی ہے۔ شبلی نے اقبال کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا۔ اقبال کی باری تھی کہ شکریہ ادا کریں۔ غالباً اخبار ہندوستان کے رعنا جیسے ناقدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میری نظموں کے بارے میں بعض ناخداترس لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور مجھ کو ’پان اسلامزم‘ کی تحریک پھیلانے والا بتایا جاتا ہے۔ مجھ کو پان اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخرکار غالب آئے گی۔ اس مشن سے متعلق جو جوش اور خیال میرے دل میں ہے اپنی نظموں کے ذریعے قوم تک پہنچانا چاہتا ہوںاور اس سپرٹ کے پیدا ہونے کا خواہش مند ہوں جو ہمارے اسلامی اسلاف میں تھی کہ باوجود دولت اور امارت کے وہ اس دارِ فانی کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے۔ میں جب دہلی آتا ہوں تو میرا یہ دستور رہا ہے کہ ہمیشہ حضرت نظام الدین اولیا ٔ محبوب الٰہی کے مزار پر جایا کرتا ہوں اور وہاں کے دیگر مزارات پر بھی ہمیشہ حاضر ہوا کرتا ہوں۔۔۔ میں نے ابھی ایک شاہی قبرستان میں ایک قبر پر ’الملک للہ‘ کا کتبہ لکھا ہوا دیکھا۔ اس سے اس اسلامی جوش کا اظہار ہوتا ہے جو دولت اور حکومت کے زمانے میں مسلمانوں میں تھا۔ جس قوم اور جس مذہب کا اصول یہ ہو اُس کے مستقبل سے نا امیدی نہیں ہو سکتی اور یہی وہ ’پان اسلامزم‘ ہے جس کا شائع کرنا ہمارا فرض ہے اور اس قسم کے خیالات کو میں اپنی نظموں میں ظاہر کرتا ہوں۔ صدرِ جلسہ شاہ سلیمان پھلواری کی باری آئی: ایک اور قابل ِذکر امر میرے عزیز دوست، فخر ِ قوم، پروفیسر محمد اقبال صاحب کو اُن کی قومی شاعری کی سند میں پھولوں کا ہار پہنائے جانے کا بھی ہے،‘‘ انہوں نے دوسری باتوں کے بعد کہا۔ ’’اس کے متعلق قرآن سے کیا فیصلہ دوں، وہاں تو فرمایا گیا، والشعرأ یبتہم الغاوون۔ مگر نہیں نہیں، یہ تو ایامِ جاہلیت کے ان شعرأکی نسبت کہا گیا ہے جن کی شاعری کا مایۂ ناز ہزلیات، ہجو و مذمت، غیرمہذب اور مخرب اخلاق باتیں تھیں۔ لیکن ڈاکٹر اقبال ان شاعروں میں ہیںجن کو اِسی آیت کے آگے الالذین آمنوسے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ یہ ان لوگوں میں ہیں جن کی شان یہ بتائی گئی کہ فبشر عبادی یسمعون القول احسنہ۔ مسٹر اقبال تو احسن القول والے ممدوح شاعر ہیں۔ ان کی قومی شاعری اب اس قبولِ عام کو پہنچ گئی ہے کہ قومی جلسوں میں مولود اور وعظ کی محفلوں میں ان کے قومی ترانے اور ان کی نعتیہ نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کا رنگ ڈھنگ اگلے شعرأ سے نرالا ہے۔۔۔ ایک طرف تو طرابلس قبضہ سے نکلا جاتا ہے، ایک طرف ایران معرضِ خطر میں ہے مگر ان کا ترانہ یہ ہے کہ زمین ہماری، آسمان ہمارا، چین ہمارا، ہند و جاپان ہمارا، یہاں تک کہ ع مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا خیر ہم بھی کہتے ہیں کہ خدا کرے سارا جہاں تمہارا ہو جائے اور کوئی نہ ہو تو ہم تمہارے ہیں۔بہرحال میرے خیال میں ان کی قومی شاعری فقط پھولوں کا ہار پہنانے اور زبانی شکریہ ادا کرنے سے کہیں بالاتر ہے۔ یہ ہمارے موجودہ اسلام کے حسان ہیں، فرزوق ہیں، لیکن ہاں اُن دونوں معزز خطابوں میں سے ’حسان الہند‘کا خطاب تو علامہ میر آزاد بلگرامی بہت پہلے عطا کر چکے ہیں لہٰذا میں مسٹر اقبال کو ’فرزوقِ ہند‘ کہتا ہوں جو ان کے لیے اس وجہ سے بھی نہایت مناسب اور موزوں ہے کہ جس طرح فرزوق محب ِعزتِ رسولؐ اور شاعر ِاہل ِ بیت تھا اُسی طرح اقبال بادۂ تولائے اہل ِبیت سے مست و سرشار ہیں اور اولیائے اللہ کی محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے جس کا اندازہ خود ان کے بیان سے آپ لوگوں نے کر لیا ہو گا۔۔۔۴۸ ۶۱ بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم تعلیمِ نسواں کے شعبے کی صدارت کر رہی تھیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں تقریریں ہوئیں اور عام تعلیم کے حوالے سے مسٹر گوکھلے کے اُس بل کی حمایت کی گئی جو اُن دنوں مشہور ہورہا تھا اور جس میں انگریز حکومت سے کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ فیصلہ ہوا کہ بل منظور ہو تو مسلمانوں کی ضرورتوں اور مقاصد کی پوری حفاظت ہونی چاہیے۔۴۹ ۶۲ سر لوئی ڈین کے شاہی میلے میں اقبال نے پنڈت برج موہن دتاریہ کیفی کی نظم کو بہترین قرار دیا۔ آنریبل سردار دلجیت سنگھ اہلو والیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ تمغہ اور سرٹیفکیٹ ملا۔۵۰ معلوم ہوتا ہے دہلی کی رونق میں سروجنی نائیڈو سے بھی ملاقات ہوئی۔ ’نوائے غم‘ کا ذکر کیا۔ شاید نظم یاد نہ رہی ہو۔ وعدہ کیا کہ عطیہ فیضی نظم دکھا دیں گی۔۵۱ ۶۳ دہلی میں اقبال کا قیام مہاراجہ کشن پرشاد کے دولت خانے پر رہا جو اس موقع پر وہاں آئے ہوئے تھے۔ حیدرآباد کے بعد غالباً دوسری ملاقات تھی۔ ملازمت کے بارے میں سرسری گفتگو ہوئی مگراِرادہ معلوم نہ ہوسکا۔ کچھ اُمید بندھی ہو گی۔ لاہور واپس آ کر گرامی کو لکھا: بہرحال مجھے بیتابی نہیں۔ مقدر کا قائل جو شخص ہو اُس کی طبیعت مطمئن رہتی ہے۔ مجھ کو جہاں ہوں اپنے فرائضِ مفوّضہ کی ادائیگی سے کام ہے۔ خواہ لاہور میں ہوں خواہ لندن میں ہوں، کسی خاص جگہ ملازمت کرنے کی خواہش بھی دل میں پیدا نہیں کرتاکیونکہ سراپا تن بہ تقدیر رہتا ہوں۔ گرامی نے جو فارسی اشعار بھیجے تھے اُن میں سے ایک مصرعے کی اقبال نے خوب داد دی: ’ذوقِ وارفتگی ٔ کج کلہانِ دہلی،‘ یعنی ہائے وہ دلی کے بانکوںکا ذوقِ بیخودی! معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲-۱۱ دسمبر کو جو اصل دربار منعقد ہونا تھا جہاں بادشاہ خود تشریف لا کرراجوں، مہاراجوں اور خاص خاص شخصیات کو اِنعامات دینے والے تھے اُس سے پہلے ہی اقبال واپس آگئے ۔ ’نوائے غم‘ ایک کاغذ پر لکھ کر کنارے پر تحریر کیا: مسز نائیڈو صاحبہ کی خدمت میں سلام کہیے اور ان کو یہ اشعار دکھائیے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ مس عطیہ آپ کو دکھائیں گی۔ عطیہ فیضی کو بھیج دی۔۵۲ ۶۴ مرزاجلال الدین کے گھر رقص و سرود کی محفل تھی۔ اقبال پر وہی وجد کی کیفیت طاری ہوئی جس میں شعر کہا کرتے تھے۔ جذبات ایک ایسی بحر پر جا نکلے جس میں پہلے کبھی مشق نہ کی تھی۔ بحر مترنم تھی۔ سازوں کے ساتھ جب یہ مصرعے پہلی بار محفل میں گونجے توضرور سماں بندھ گیا ہوگا: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے۵۳ قیامت آنے پر لیلیٰ مجنوں کو ملنا تھا۔ اسلام پر قیامت گزر چکی تھی لیکن مردے کے اپنے ضمیر میں نہ گزرے تو اُٹھے گا کیسے؟ نہیں اُٹھے گا تو لیلیٰ بھی نہ ملے گی۔ وہ ’’زبردست تمنا‘‘ جو کئی دنوں سے دل میں محسوس کر رہے تھے اُس کا موضوع متعین ہو گیا۔ صبح چار بجے مزید اشعار کا اضافہ کیا: پھر وادیٔ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دکھلا دے پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلیٰ دے بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اِس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے آتش منشی جس کی کانٹوں کو جلا ڈالے اِس بادیہ پیما کو وہ آبلۂ پا دے رفعت میں مقاصد کو ہم دوشِ ثرّیا کر خودداریٔ ساحل دے، آزادیٔ دریا دے اِس دَور کی ظلمت میں ہر قلب ِ پریشاں کو وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے میں بلبل ِ نالاں ہوں اِک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے بعد میں کبھی ’’آتش منشی‘‘ والا شعر نظم سے نکال دیا۔ ۶۵ بہت کم دعائیں اتنی جلدی اتنے بڑے پیمانے پر قبول ہوئی ہوں گی۔ سورج نکلنے سے پہلے دعا مانگی۔ سورج چڑھے پر قبول ہو گئی۔ اُس دوپہر دہلی میں ایک میل پر پھیلی وسیع تماشاگاہ میں شاہی چتر کے سائے میں کھڑے ہو کر نصف دائرے میں بیٹھے سیکڑوں نوابوں، رئیسوں اور راجاؤں کے سامنے دنیا کے سب سے بڑے شہنشاہ نے تیس ہزار کے مجمعے میں دو ہزار باجوں کی ولولہ انگیز موسیقی کے درمیان اعلانات کیے: ۱ دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل کیا جا رہا تھا ۲ تقسیم ِ بنگال منسوخ کی جا رہی تھی مسلمانوں کی روح تڑپی،دل گرما گئے۔ پھر کبھی انگریزوں پر بھروسہ نہ کیا۔ ۶۶ انگریز نے اگر ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی سے منہ نہیں پھیر لیا تھا تو پھر یہ بات رہی ہو گی کہ اسلامی دنیا میں پھوٹ ڈالنا، ہندوستان میں پھوٹ ڈالنے سے زیادہ اہم ہو گیا تھا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کسی دوسرے ملک سے زیادہ تھی۔ انہیں ایک موثر طاقت بننے سے روکنا چاہتے ہوں گے۔ اقبال سمجھتے تھے کہ بنگالیوں کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہے۔ بظاہر بنگالی وطن پرستی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے لیکن حقیقت میں بنگال کی اہمیت بالکل ہی ختم کر دی گئی ہے۔ دو شعر لکھے۔ بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے لیکن اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں شعر کہنے کی کوشش میں ایسی کامیابی اقبال کو بہت کم نصیب ہوئی: مندمل زخمِ دلِ بنگال آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیزِ کافر و مومن گئی تاجِ شاہی آج کلکتہ سے دہلی آگیا مل گئی بابو کو جُوتی اور پگڑی چھن گئی۵۴ ۶۷ عطیہ نے لکھاکہ سروجنی نائیڈو اُردو شاعری کی قدر نہیں کر سکتیں۔اقبال نے حسب ِ معمول انگریزی میں جواب دیتے ہوئے لکھا: اگر آپ سمجھتی ہیں کہ مسز نائیڈو اردو شاعری کی قدر نہیں کر سکتیں تو اُنہیں یہ نظم نہ دکھائیے۔ یہ کچھ اور اشعار ہیں جو پرسوں صبح چار بجے کہے۔ اس بحر میں پہلے کبھی کچھ نہیں کہا ہے۔یہ بحر نہایت مترنم ہے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور آپ کواور بیگم صاحبہ کو گا کر سناتا۔۵۵ یہ ’’یارب دلِ مسلم کو۔۔۔‘‘ والی نظم کی طرف اشارہ تھا جسے ایک الگ کاغذ پر خوشخط لکھ کر اُس روز کی تاریخ ڈال کر لفافے میں رکھا۔ خط کے پیچھے تقسیم ِ بنگال کے بارے میں انگریزی میں خیالات درج کیے: بنگالی سمجھتا ہے اُسے بہت بڑی فتح حاصل ہوئی ہے مگر یہ نہیں دیکھ رہا کہ اُس کی اہمیت صفر کے درجے تک گھٹا دی گئی ہے۔ اِس بارے میں دو شعر ملاحظہ ہوں۔ بنام عطیہ فیضی Lahore 14th Dec. 1911 Dear Miss Fyzee, I thank you so much for your kind letter which I received a moment ago. Do not show the poem to Mrs. Naidu if you think she cannot appreciate Urdu poetry. This is one of the new poems which are yet nowhere published. Here are a few more verses which I wrote the day before yesterday early in the morning at 4 AM. I have never tried this metre before . It is extremely musical; I wish I had been there to sing the poem to you and Begum Sahiba. Yours Sincerely, Md. Iqbal Lahore 14th Dec. The Partition of Bengal-the severance of the Muslim Bengal from the Hindu Bengal was-so the Bengali Hindu thought-a mortal wound inflicted by the Govt. on the heart of Bengali nationality. The Govt., however, have cleverly undone their own doing by the imperialisation of Delhi. The Bengali thinks he has secured a great point, little thinking that his importance has truly been reduced to Zero-point. Here are two verses on this point- مندمل زخمِ دلِ بنگال آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیزِ کافر و مومن گئی تاجِ شاہی آج کلکتہ سے دہلی آگیا مل گئی بابو کو جُوتی اور پگڑی چھن گئی ۶۸ مسلمانوں میں پہلا ردِ عمل نواب وقار الملک کا مضمون تھا۔ دہلی دربار سے واپس آتے ہی لکھا۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۱۱ء کو علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں چھپ گیا: ان واقعات کو دیکھنے کے بعد جو اُس وقت مشاہدہ میں آئے یہ مشورہ دینا کہ مسلمانوں کو گورنمنٹ پر بھروسہ کرنا چاہیے، لاحاصل مشورہ ہے۔ اب زمانہ اِس قسم کے بھروسوں کا نہیں رہا۔ خدا کے فضل و کرم کے بعد جس پر بھروسا کرنا چاہیے وہ ہماری قوتِ بازو ہے۔ نواب وقارالملک کا خیال تھا کہ مسلمان اگر کانگریس میں شامل ہوئے تو اُن کی ہستی فنا ہو جائے گی۔مضمون کا عنوان’مسلمانوں کی آیندہ حالت‘ تھا۔ اِس کے چھپتے ہی وہ طوفان اُٹھا جو دِلوں میں نجانے کب سے کسی ایسی ہی اجازت کا انتظار کر رہا تھا۔ ۶۹ کانگریس کاسالانہ اجلاس ۲۶ سے ۲۸ دسمبر تک کلکتہ میں ہوا۔ اجلاس کے دوسرے روز رابندرناتھ ٹیگور کا شاہِ انگلستان کی شان میں لکھا ہوا بنگالی گیت پڑھا گیا:’’جنا گنا منا۔۔۔‘‘ اے ذہنوں پر حکومت کرنے والے ! بھارت کی تقدیر کے مالک! اگلے روز کانگریس نے قراردار منظور کی جس میں ہندوستان کو رونق بخشنے پربادشاہ کا شکریہ ادا کیا گیاتھا۔۵۶ ۷۰ اس برس میکملن لندن سے ہنری برگساں کی کتاب لافٹر(Laughter) کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ یہ معلوم نہیں کہ اقبال اس سے کب متعارف ہوئے مگر بعد میں یہ کتاب ان کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئی۔اس میں برگساںنے مزاح کے میکانکی پہلوؤں کا جائزہ لیا تھا۔ اسی برس اقبال کے کیمبرج کے استاد سورلے کی کتاب دی مورل لائف اینڈ ماڈرن ورتھ (The Moral Life and Modern Worth) کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔ یہ اور لوزاک لندن سے اسلام کے دفاع میں ہنری اسٹب کی کتاب بھی جسے حافظ محمود شیرانی نے مرتب کیا تھا، اقبال کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئیں۔ دوسری کتاب کا عنوان تھا: A History Of the Rise and Progress of Mahometanism with the Life of Muhammad and a vindication of him and his religion against the calumnies of the Christians اس برس شائع ہونے والی دوسری کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۵۷ Baedeker, Karl. The Mediterranean: Seaports and Sea Routes, Handbook for Travellers. Leipzig, Karl Baedeker Fyfe, H. Hamilton. The New Spirit in Egypt. Edinburgh, William Blackwood Hill, J. Arthur. Religion and Modern Psychology: a study of present tendencies, particularly the religious implications of the scientific belief in survival, with a discussion on mysticism. London, William Rider Judson, Harry Prat. The Higher Education As A Training for Business. Chicago, University Press of Chicago Rogers, P. Reginald. A Short History of Ethic: Greek and Modern. Macmillan, London Sedlack, Francis. A Holiday with a Hegelian. London, A. C. Field ۷۱ رُوسی فوجیں تہران کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اُن کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ مارگن شوسٹر کو ملک سے نکالا گیا۔ ۲۴ دسمبر کو جمہوری مجلس پھر توڑ دی گئی۔ ۷۲ غزل اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے اُمت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی عزت ہے محبت کی قائم اے قیس حجابِ لیلیٰ سے محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لیلیٰ بھی گئی کی ترک تگ و دَو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی آوارگیٔ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی نکلی تو لبِ اقبال سے ہے کیا جانئے ہے یہ کس کی صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی دل محفل کا تڑپا بھی گئی اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔تیسرے شعر کے بعد ایک اورمصرعہ بھی بیاض میں لکھا تھا مگر پہلا مصرعہ موزوں نہ ہو سکا: ساقی بھی گیا، محفل بھی گئی، صہبا بھی گئی، مینا بھی گئی۵۸ ۷۳ جوشِ عشق سے ہوا رُخِ بہار بے حجاب یہ ایک اردو نظم کا پہلا مصرعہ تھا جس میں زندگی کا فلسفہ بیان ہونا تھا۔ چند اشعار سے زیادہ نہ ہو سکے۔ کبھی شائع نہ کروائے۔۵۹ ۷۴ ۳۱ دسمبر کو نظم لکھ رہے تھے، ’نمودِ صبح‘ ۔ جب اپنے دامن میں ہنگامے لیے مشرق سے صبح نمودار ہوتی ہے تو دنیا سے خاموشی چلی جاتی ہے۔ ہر چیز اپنی زندگی کا ثبوت دینے لگتی ہے: مسلمَ خوابیدہ! اُٹھ ہنگامہ آرا تُو بھی ہو وہ نکل آئی سحر! گرمِ تقاضا تُو بھی ہو اِس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔ دوسرا حصہ ۷۵ یکم جنوری ۱۹۱۲ء کو اسلامیہ ہائی اسکول سے ۴۰۲ طلبہ کو انجمن حمایت اسلام کے تحت ایک نئے اسکول منتقل کر دیا گیا۔ موچی دروازے کے باہر ڈاکٹر بوس کی کوٹھی میں کھولا گیا تھا۔ پرانے اسکول کے نام میں شیرانوالہ دروازہ کا اضافہ ہو گیا۔۶۰ ۷۶ ۶ جنوری کو محمد علی (جوہرؔ) نے لکھا کہ ایک متحدہ ہندوستان وجود نہیں رکھتا مگر اِسے وجود میں لانا ہوگا۔ انہی دنوں اقبال کی ’دعا‘ زمیندار میں شائع ہوئی۔ محمد علی نے اس کا خاص اثر قبول کیا۔ ۷۷ اُسی مہینے عطا محمد نوکری پر واپس چلے گئے۔اِس دفعہ اُن کا تقرر کیمبل پور میں ہوا تھا۔ ۶۱ ۷۸ خواجہ فیروزالدین اور فاطمہ بیگم کے یہاں لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام خواجہ خورشید انور رکھا گیا۔۶۲ ۷۹ مس گوٹسمین نے اُس برس کسی وقت سردار امراؤسنگھ سے شادی کر لی اور دونوں ہنگری چلے گئے۔ ۸۰ جنوری ۱۹۱۲ء کے مخزن میں اکثر مضامین تاجپوشی کے جشن سے متعلق تھے۔ غلام محمد طور بی اے لاہور نے اپنے مضمون ’دربارِتاجپوشی‘ میں لکھا تھا: ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیر ملک کا رہنے والا بادشاہ صلح و امن کا فرشتہ بن کر ہندوستان میں رونق افروز ہے۔۔۔۶۳ ۸۱ اُس مہینے رسالہ الندوہ میں شبلی نے اعلان کیا کہ رسولِ اکرمؐ کی مفصل اور مستند سوانح لکھنے کا ارادہ تھا۔ نایاب اور قلمی کتابیں درکار تھیں۔ مغربی مصنفوں کی کتابوں کا ترجمہ کروانے کی ضرورت بھی تھی تاکہ اُن کے اعتراضات کا جواب دیا جا سکے۔یہ بھی ضروری تھا کہ کتاب کے انگریزی اور عربی میں ترجمے شائع ہوں: ’’محض اُردو ایڈیشن بیکار ہے۔‘‘ شبلی کا خیال تھا کہ اس کام کے لیے ڈھائی سو روپے ماہانہ درکار ہوں گے۔۶۴ ۸۲ حیدرآباد دکن میں نواب میر محبوب علی خاں انتقال کر چکے تھے اورمیر عثمان علی خاں نظام بنے تھے۔ ۱۱ جنوری کو مہاراجہ کشن پرشاد سے مدارالمہام کے عہدے سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ۸۳ وقف علی الاولاد کمیٹی کی طرف سے وائسرائے کی خدمت میں وفد لے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جنوری ۱۹۱۲ء کے آغاز میں مولانا شبلی نعمانی نے اقبال کو بھی خط لکھا اورلکھنؤ آنے کی دعوت بھی دی۔ ۱۲ جنوری کو اقبال نے وفد میں شامل ہونے سے معذرت کر لی مگر چودھری شہاب الدین، نواب ذوالفقار علی خاں اور میاں محمد شفیع کے نام تجویز کیے۔ انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ایسٹر کی تعطیلات میں ہونے والا تھا۔ اقبال نے لکھا کہ اگر اس کے بعد وہ لکھنؤ آسکے تو ضرورحاضر ہوں گے۔ ۸۴ اُس روز کلکتہ میں شہنشاہ جارج پنجم کا شاہی دورہ اختتام کو پہنچا۔ ۸۵ ۱۴ جنوری سے لکھنؤ کے سربرآوردہ مسلمانوں نے نیا اُردو اخبار جاری کیا جس کا نام مسلم گزٹ تھا۔ وحیدالدین سلیم جو پہلے علی گڑھ سے معارف نکالا کرتے تھے اس کے مدیر بنے۔ ظفر علی خاں نے زمیندارمیں نئے اخبار کو خوش آمدید کہا۔ ۶۵ ۸۶ شبلی ایک مجلس بنانا چاہتے تھے جو ایک نئے علم ِ کلام کی بنیاد رکھ کر اسلامی فکر کی تشکیل ِ جدید کرے۔ تین علمأ کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں سے اقبال کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۸۷ پچھلے برس ہندوستان میں ہونے والی مردم شماری کی رپورٹ اس برس شائع ہوئی۔ چودھویں جلد میں جو پنجاب کے بارے میں تھی، حصہ اول میں اقبال کے علی گڑھ والے لیکچر کے اقتباسات شامل تھے۔۶۶ ۸۸ یکم فروری کو موچی دروازے کے باہر باغ میں مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا۔ تقسیم ِ بنگال کی تنسیخ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال پر تبصرہ کرنا تھا۔ اقبال کو جلسے کا صدر تجویز کیا گیا تھا۔ انہوں نے اسٹیج پر آ کر اپنی جگہ ملک مبارز خاں صاحب ٹوانہ سے صدارت کی درخواست کی۔ ٹوانہ صاحب صدر کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اقبال نے سورۂ دہر کی چند آیات کی تلاوت سے جلسے کا آغاز کیا ۔ جلسے کی تیسری قرارداد مولوی غلام محی الدین نے پیش کی جس میں اُس رشتۂ اتحاد کی قدر کی گئی تھی جو شاہِ انگلستان اور ملکہ عالیہ کے ہندوستان تشریف لانے کی وجہ سے ہندوستان اور انگلستان کے درمیان قائم ہوا تھا۔ یہ توقع بھی ظاہر کی گئی تھی کہ ’’ہندوستان کی بین الاقوامی محفل‘‘ میں مسلمان وہ درجہ حاصل کریں گے جس کے وہ اپنی بڑی تعداد اور اہمیت کی وجہ سے مستحق ہیں۔ قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے اقبال نے کہا کہ بادشاہ سلامت کے ہندوستان تشریف لانے سے یہ ملک برطانیہ سے قریب ہو گیا ہے۔ ہندوستانیوں کو بہت سی برکات حاصل ہوں گی۔ یہاں کی قومیں ایک دوسرے سے قریب آ جائیں گی خواہ اِس وقت کچھ اختلافات ہی کیوں نہ سامنے آ رہے ہوں۔البتہ مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود بھی ہاتھ پاؤں مارنے چاہییں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اس کے بعد اقبال نے اسلام کے اولین زمانے میں عربوں کے عروج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہمیں چاہیے کہ اپنے خدا، اپنے رسول، اپنے دین اور اپنے قوتِ بازو پر بھروسا رکھ کر حاکموں سے مؤدبانہ حاجات طلب کریں اور بنی نوعِ انسان میں امن و امان قائم رکھیں کیونکہ اسلام ہمیں شر و فساد کی ممانعت کرتا ہے۔ اِن اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر باقی اقوام سے ربط و اتحاد بڑھائیں اور جو سیکھ سکتے ہیں انہیں سکھائیں، جو سکھا سکتے ہیں اُن سے سیکھیں، اور حتی الوسع ہمارا وہ نصب العین ہو جو اگلے مسلمانوں کا تھا۔۶۷ ۸۹ ۲ فروری کو لندن کے اسکالا تھیٹر میں دستاویزی فلم وِد اؤر کنگ اینڈ کوئین تھرو اِنڈیا(With Our King and Queen Through India)کا افتتاح ہوا۔ اسکرین کے سامنے اسٹیج تاج محل کی شکل میں سجایا گیا تھا۔ دہلی دربار کی فلم ریلیں پہلے بھی دکھائی گئی تھیں مگر بلیک اینڈ وہائٹ تھیں۔ فلم ساز چارلس اربن نے خاص طریقے کنیما کلرکے ذریعے سرخ اور سبز فلٹر والے کیمروں سے عکس بندی کی تھی۔ اَب انہی رنگوں کے فلٹر والے پروجیکٹر سے فلم دکھائی جا رہی تھی۔ قدرتی رنگوں کا تاثر پیدا ہو رہا تھا۔ فلم بے آواز تھی۔ ۴۸ سازندوں کے آرکسٹرا کے ساتھ ۲۰ گلوکاروں پر مشتمل کورَس، بیس ڈرم بجانے والوں اور تین بیگ پائپ والوں کی مدد سے زندہ موسیقی دی جا رہی تھی۔ تبصرہ نگار نے کہا: کنیما کلرکے بعد چلتی پھرتی تصویروں میں اب شاید ہی مزید کسی ترقی کی گنجایش باقی رہی ہو۔ ہندوستانی عوام کی غربت اور سادگی کے ساتھ ساتھ انگریز شہنشاہ کے دہلی دربار کی شان و شوکت کے مناظر پردۂ سیمیں پر دکھائی دیے۔ لندن والے ہندوستان کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہوں گے۔ ۹۰ ۴ فروری کو شیخ غلام محمد انتقال کر گئے جو امرتسر کے اخباروکیل کے مالک تھے۔ ایک عرصے تک یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا اخباررہا تھا ۔۶۸ ۹۱ ۸ فروری کو عطا محمد کے گھر ایک اور لڑکی پیدا ہوئی۔ اقبال کی چھوٹی بہن کریم بی بی نے لڑکی کا نام مبارکہ تجویز کیا۔اقبال نے وسیمہ تجویز کیا اور یہی نام رکھا گیا۔۶۹ ۹۲ ۱۰ فروری کو کامریڈ میں ’دی فیوچر آف اسلام‘ ('The Future of Islam')یعنی ’اسلام کا مستقبل‘ کے عنوان پر محمدعلی (جوہرؔ) کے اداریے کی پہلی قسط شائع ہوئی۔ عنوان اُس کتاب کی طرف اشارہ تھا جسے ولیم بلنٹ نے پچھلی صدی میں لکھا تھا اور جس میں عالمِ اسلام میں رشیہ دوانیوں کے لیے ایک وسیع منصوبہ پیش کیا تھا۔ اُسی وقت سے اسلام کے عزائم اور مستقبل کے بارے میں بڑے جارحانہ انداز میں سوالات اُٹھائے جا رہے تھے۔ محمد علی نے اقبال کی ’دعا‘ کو بہترین جواب قرار دیا۔ The Future of Islam by Muhammad Ali [Part 1] Comrade, February 10, 1912 There are national and racial temperaments, as there are individual temperaments which prefer the contemplation of life to living it. Such vague speculation concerning the future has a charm of its own and while many a dainty rainbow-hued gossamer is spun by the philosophic brain of the optimist, many a dismal nightmare also leaves the pessimist with his chronic fit of "blues" more dejected than ever. Islam never encouraged that depth of contemplation which left the thinker too impotent to act. But, then, no religion has yet attained that universal sovereignty over the feelings and ideas of its believers which could make even occasional excursion into undesirable realms of thought an impossibility. The strange happenings of today in the world of Islam must be a great temptation to the pessimist to draw the gloomiest picture of the future of a world-conquering creed and to give way to that dismal contemplation of what may be, which paralyses the power to determine what should be and shall be. But beyond a certain lassitude in the work of collecting funds for the Muslim University, we see no signs of that paralysis in India, and speculation as to the future, is not as rife as it might have been expected to be. However, the occasion for speculation has not been allowed to pass away in England, and two bitter opponents of Islam have come forward to enlighten the world about the character of Islam and, incidentally, about its future. In a previous issue we have dealt, though in a general way and far from exhaustively, with views of Sir Harry Johnston who seems to voice the hopes and fears of a large section of the Christians and of the British people, and now we have to notice the exposition of pan-Islamism by Professor Margoliouth. In noticing the Oxford Arabic Professor's dissertation on the question "Is pan-Islamism a Power" read before the Central Asian Society, in its issue of the third instant in a leading article entitled, "The Future of Islam," the Pioneer refers to Sir Harry Johnston as "by no means a friend of Islam in general." But its correspondent thinks that Professor Margoliouth's lecture was in no sense an attack upon Islam, as Syed Amir Ali was inclined to think, and states that "Sir Mortimer Durand, presiding on the occasion, while sympathising with the Right Honourable gentleman's spirited defence of Islam, emphatically supported Professor Margoliouth as in no sense an adverse critic but a knowledgeful interpreter of Islam." We do not think that the personality of the interpreter matters very much when we have the interpretation itself to deal with. But when claims are put forward for the interpreters themselves by those who are indisposed to agree with them, it is a clear rule of the law of evidence that such claims can be repudiated and evidence rebutting friendly statements is admissible. As regard Sir Harry Johnston we need say little, for the late Governor of British Nigeria has fully established his claim to a description far more forcible than "by no means a friend of Islam in general" by his article in the Nineteenth Century and After, in which the Prophet of Islam has been called the "bandit mystic of Arabia." But many Muslims in India are still in the dark about the attitude of Professor Margoliouth towards Islam and its Prophet, and for their enlightenment we may mention that the learned Professor is anything but a devotee of "undenominationalism and indifferentism," which characterise so many eminent Christians in England and especially the savants of the country. He is, we believe, an ordained clergyman although he takes, so far as we know, no practical part as such in directing Christian worship. As his name indicates, he is of Eastern extraction, and the knowledge of Arabic and other Semitic languages comes naturally to him. Besides other works, he is the author of a treatise on Islam, which is not likely to commend itself to Muslim readers and of a life of Mohammad published by Messrs. G. P. Putman's Sons in their well-known series of "Heroes of the Nations." The latter is perhaps the subtlest of attacks on the Apostle of Islam, for the Professor has studiously avoided the too apparent fanaticism and virulence which characterise most of the Christian indictments of Mohammad. But although he refers to the "confessedly Christian bias," of Sir William Muir, who wrote so skilful a life of the Prophet that Sir Syed Ahmad Khan was compelled to write a most scholarly refutation thereof and publish under the title of "Essays on the life of Mohammad"خطباتِ احمدیہ) ) in order to save Muslim youth from influences designed to undermine their faith. Professor Margoliouth's own "Life" is far more dangerous. Under the cloak of appreciation of "Mohammad as a great man, who solved a political problem of appalling difficulty, the construction of a state and an empire out of the Arab tribes," and of doing justice to "his intellectual ability," and observing towards him "the respectful attitude which his greateness deserves," Professor Margoliouth has hidden, though not always successfully, a worse Christian bias than Sir William Muir's and in the praise of the hero has sought to kill the Prophet. There is an insidious under-current running throughout the book and the virus is skilfully mined in every page. In dealing with pan-Islamism Professor Margoliouth turns to Syed Rashid, Editor of Al-Manar, for "a definition of the somewhat difficult word." We should have thought that those who had coined the "difficult word" would also be the persons best able to give it a suitable "definition." But in the topsy-turvydom of modern politics it is the editor of a rather detached literary and ethical magazine of Cairo who is the last refuge of those whose equanimity is disturbed by a bogey of their own creation. As for the "definition" itself, it is the strangest of all kinds. According to Syed Rashid, pan-Islamism "is a phantasm abstracted from the Muslim profession of religious fraternity and magnified by the European imagination, while it is embraced by Muslims owing to their supposed need of it." "The Syed adds," continued Professor Margoliouth, "that both the fear of the Europeans and the hope of the Muslims on this subject are futile because as a matter of fact phantasms do not materialize." If anything so vague be called a "definition", then the definition of "definition" itself would have to undergo material alteration. But as the opinion of an enlightened Muslim about the bogey of Christian Europe, the quotation from Syed Rashid is entitled to respect and consideration. All the same, the strangeness of the so-called definition, which the Professor accepts, has not lessened the personage who is credited with originating the pan-Islamic idea-the Afghan, Mohammad Jamal-ud-Din and that Syed Rashid himself is "the one who may claim to be doing most to carry out Jamal-ud-Din's ideas." If the Editor of Al-Manar has shouted himself hoarse in proclaiming the unity of Muslims, and if "the eminent reformer," according to the Pioneer, is the chief apostle of one kind of pan-Islamism, "a comparatively sedate and probably impracticable movement for softening differences between Mohammedan sects and creating increased religious unity among Muslims throughout the world," then we may well believe that his utterance about the futility of Muslim hopes and about phantasms never materializing is the pathetic wail of one who ardently believes in that "phantasm" himself but whose saddening experience in afar from ideal world makes him despondent. In India, too, and we believe elsewhere also in the Muslim world, there are similar, though far too few, ardent spirits that are devoted to the pursuit of Syed Rashid's formula of the spiritual unity of Islam. They look forward, possibly more hopefully, to a future when sectarian differences would be so far softened that doctrinal differences such as those of the Shias and the Sunnis-the believers in the infallibility of a spiritual guide (Imam) and the dissenters that consider all men other than prophets fallible, but permit individual interpretation (Qiyas), while guiding their conduct according to the consensus of opinion among the faithful (Ijma-i-ummat) - would not be a bar to cooperation in working out the temporal salvation of all Muslims. Such a desire is far from the "undenominationalism and indifferentism" by which alone according to Professor Margoliouth, "the specific differences of Islam can be glozed over." The Professor has a most ingenious argument wherewith to commend its followers the existing state of affairs in Islam and its sectarian division. "It is absurd to suppose," says the Reverend Professor, "that a religious bond can be strengthened by thinning the strands which make it up . . . That form of government is best suited to man's religious needs which permits the greatest exuberance of religious variety, which, so to speak, admits of the exactest accommodation of the spiritual medicine to the individual soul ... Co-operation between units is necessary for the existence of a nation, but religion is the concern of the individual mind." [sic should be soul] According to Sir Harry Johnston, on the other hand, "the only hope of ... the raising of the peoples now Mohammedan to absolute equality, intellectual and social, with the leading Christian peoples lies in the defecation of Islam to a pure transparency." It would thus seem that while one physician would kill the Muslim world slowly with the disease the other would do the same more expeditiously with the remedy. Whatever the motives of the physicians, one of them, at least, does not seemingly possess true knowledge of the temperament and the constitution of the patient. Islam is not only a creed but also a social polity, and the bond of Islam, however enfeebled by narrow schism still binds three hundred million people of different races, colours and countries as no other bond in the world's long history has yet done; and the sharp contrast between "religion" and "nation" which Professor Margoliouth draws has not the same application to Islam as to Christianity. The young Under-Secretary of State for India is, we must admit, a better exponent of its extra-territorial patriotism than the Oxford savant. We can, therefore, take leave of this self-constituted spiritual adviser of the Muslim world with little regret, and commend to the Muslims a return to that spiritual unity of which the early days of Islam have given the world an attractive, even if also a far too fleeting glimpse. It was only a couple of months ago that Dr. Mohammad Iqbal declared in the strongest possible terms and in the compelling accents of sincerity his belief that Islam as a spiritual force would one day dominate the world, and with its simple nationalism purge it of the dross of superstition as well as of Godless materialism. And shortly afterwards our contemporary, the Zamindar, has published his "Prayer" which must be echoed by all Muslims who have the faith that moves mountains. Who knows that this brilliant young man, Doctor of Philosophy and Poet, may yet prove that the "phantasm" which Syed Rashid has not been able to "materialize" may still be a reality, that the denizen of the Town may yet achieve the vastness of the desert, and that those who, like the modern Qais of Najd who lives a recluse in Cairo, cry themselves hoarse in praying for spiritual unity may yet discover their Lailla in the inmost recesses of their hearts? When others are troubled by the strange and disturbing succession of events in the political world, this true Muslim does not forget the real spiritual needs of his co-religionists, and prays that the danger of the morrow may be realized in the unrest of today, who knows that the [تاثیر] which Syed Rashid with his college of missionaries has not yet attained may come to the eloquently persuasive poet for the mere asking? ۹۳ ۱۲ فروری کو مسلم گزٹ میں شبلی نعمانی کے مضمون ’مسلمانوں کی پولیٹیکل کروٹ‘ کی پہلی قسط شائع ہوئی۔ اُنہوں نے وقارالملک کی اِس بات پر تنقید کی کہ کانگریس میں شامل ہونے سے مسلمانوں کی ہستی فنا ہو جائے گی۔ شبلی کے خیال میں یہ غلط منطق تھی۔ ۹۴ فروری کی ایک سرد رات شمع نے اُس سوال کا اُردو میں جواب دیا جو کچھ عرصہ پہلے اقبال نے فارسی غزل میں پوچھا تھا۔اُس نے کہا کہ وہ رات بھر خاموشی سے جلنے کے بعد صرف ایک آہ بھرکر ختم ہو جاتی۔ شاعرہر سانس کے ساتھ شعر کہتا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے تقاضے سے جلتی تھی مگر شاعر کا سوز و گداز محض دِکھاواتھا۔ ’شکوہ‘ کا اختتام اِس بات پر ہوا تھا کہ اگلے زمانے کے مسلمان اپنی تہذیب سمیٹ کر دنیا سے چلے گئے مگر اقبال اُن کی آخری نشانی بن کر دنیا میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ اب شمع اِسی آہ و زاری پر شاعر کو شرمندہ کر رہی تھی۔ سب کچھ ختم ہونے کے بعد اِس شاعری کا کیا فائدہ تھا۔ فرد کا وجود اپنی قوم سے تھا۔ جس طرح لہر دریا میں ہوتی ہے اور دریاکے باہر کچھ بھی نہیں ہوتی۔ کافی تراش خراش ہوئی۔ پسندیدہ ترکیب ’بانگ ِ درا‘ یہاں بھی ایک مصرعے میں آئی: کارواں بے حس ہوا بانگ ِ درا ہو یا نہ ہو مگر پھر کچھ سوچ کر اس مصرعے میں بانگ ِ درا کی بجائے آوازِ درا کر دیا۔ نظم میں تغزل تھا مگرشاعر مسلمان قوم کا نمایندہ تھا اس لیے کچھ اشعار کاٹنے پڑے، مثلاً: بت کدے دنیا کے ویراں کر دیے اس نے مگر بت شکن کے دل کی بستی میں صنمخانے رہے لالہ بھی بار بارذہن میں آ رہا تھا ۔کچھ جگہوں پر رہنے دیا مگر ایک جگہ بات نہ بنی۔ اُسے کاٹ دیا: داغِ نَو سے سینۂ مسلم گلستاں ہو گیا چھوٹی چھوٹی مشعلیں لالوں کی روشن ہو گئیں جیسے جیسے نظم آگے بڑھی بعض ٹیپ کے شعر جو کسی پچھلے بند آخر میں لکھے تھے، اٹھا کر اگلے بند میں رکھ دیے اور پچھلے بند کے لیے کوئی اور شعر لکھ دیا۔ پہلے جو شعر چوتھے بند کے آخر میں تھا وہ اب پانچویں کا آخری شعر بنا۔ اُس کا یہ پہلا مصرعہ بھی تبدیل ہوا: ہے خبر تاروں میں لیکن آمدِ خورشید کی نظم کا آخری بند سب سے زیادہ تیاری کے ساتھ لکھا گیا۔ زمین نکالنے کے لیے بے جوڑ لیکن مترنم مصرعے لکھے کہ بعد میں شاید اُن پر گرہ لگ جائے: - خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی - یہ کلی آزادِ احسانِ صبا ہو جائے گی - صبح نکلے گی تو یہ شبنم ہوا ہو جائے گی - برگِ گل پر موجِ بُو اِک دِن فدا ہو جائے گی ان میں سے ایک ہی مصرعہ کام آیا۔ بہرحال آخری بند نظم کی عظمت کے مطابق تھا۔ اگر کوئی غور کرتا تو اُس میں چھپا ہوا درد محسوس کر سکتا تھا۔ صبح ہوتے ہی شمع بجھا دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک ایسی خوشی کا پیغام دے رہی تھی جس میں شریک ہونے کے لیے خود زندہ نہ ہو گی۔ شمع اور شاعر [متروک متن] شاعر دوش می گفتم بہ شمعِ منزلِ ویرانِ خویش گیسوے تو از پرِ پروانہ دارد شانۂ درجہاں مثلِ چراغ لالۂ صحراستم نے نصیبِ محفلے نے قسمت کاشانۂ مدتے مانندِ تو من ہم نفس می سوختم در طوافِ شعلہ ام بالے نہ زد پروانۂ می تپد صد جلوہ در جانِ امل فرسودِ من بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانۂ از کجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی کرمکِ بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی شمع میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تو کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا ہے مری شب کے لہو سے گل بہ دامن میری صبح اور ترے امروز سے ناآشنا فردا ترا سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟ انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا! قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل لب اُسی موجِ نفس سے ہے نواپیرا ترا کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بتخانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا اور ہے تیرا شعار، آئین ملت اور ہے زُشتروئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا اے دُرِ تابندہ، اے پروردۂ آغوش موج! لذتِ طوفاں سے ہے ناآشنا دریا ترا جل رہی ہوں میں تو اپنی انجمن کے واسطے نغمہ پیرا تو بھی ہو اپنے وطن کے واسطے تھا جنھیں ذوق تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے ساقیا محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائیِ سوزِ تمام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی جل مرنے سے بیگانے رہے شوق بے پروا گیا فکر فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں فائدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے خوفِ جاں پروردۂ عقلِ زیاں اندیش ہے ۔۔۔ خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں رقص میں لیلیٰ رہی ، لیلٰی کے دیوانے رہے رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے رہزنِ دانا متاعِ کارواں بھی لے گیا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی لے گیا سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی شہر اُن کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نااُمیدِ نور ایمن ہوگئیں اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں دل میں کیا آئی کہ پابندِ نشیمن ہو گئیں دیدۂ خونبار ہو منت کشِ گلزار کیوں اشکِ پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں وسعتِ گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہوگئیں شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی ظلمتِ شب میں نظر آئی کرن امید کی مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز بعد مدت کے ترے رِندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقدِ خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی پھر دکاں تیری ہے لبریزِ صدائے نائو نوش ٹوٹنے کو ہے طلسمِ ماہ سیمایانِ ہند پھر سلیمیٰ کی نظر دیتی ہے پیغام خروش پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے میٔ مغرب نے کر ڈالے خموش نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینابدوش در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغامِ سروش آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے زندہ کر دے دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے ملک ہاتھوں سے گیا ملّت کی آنکھیں کھل گئیں سرمہ چشمِ دشت میں گردِ رمِ ہوا رہزنِ ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا بحر تھا صحرا میں تو گلشن میں آبِ جُو ہوا زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات یہ کبھی گوہر کبھی شبنم کبھی آنسو ہوا پنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا پھر کہیں سے اس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا آبرو باقی تری ملّت کی جمیعت ہے تھی جب یہ جمیعت گئی، دُنیا میں رسوا تو ہوا فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر بجلیوں کو پردۂ دل میں ابھی مستور رکھ یعنی اپنی میٔ کو رسوا صورت مینا نہ کر خیمہ زن ہو وادیٔ سینا میں مانندِ کلیم شعلۂ تحقیق کو غارتگرِ کاشانہ کر تو اگر خوددار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو عینِ دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر ہاں اسی شاخِ کہن پر پھر بنا لے آشیاں اہلِ گلشن کو شہیدِ نغمۂ مستانہ کر اس چمن میں پیروِ بلبل ہو یا تلمیذِ گل یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر تو عصا افتاد سے پیدا مثالِ دانہ کر کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تو لب کشا ہو جا، سرودِ بربطِ عالم ہے تو تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیامِ ناز کا جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے پنہاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے اب تلک شاہد ہے جس پر کوہِ فاراں کا سکوت اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے؟ دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں کسوت مینا میں مے مستور بھی عریاں بھی ہے پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے راز اِس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ! آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اِس قدر ہو گی ترنّم آفریں بادِ بہار نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزمِ گُل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی نالۂ صیاد سے ہوں گے نواساماں طیور خونِ گل چیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اِس چمن کی ہر کلی دردآشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اِسے زنجیرِ پا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے بعد میں کبھی نظم میں ترمیم ہوئی: شمع اور شاعر (فروری ۱۹۱۲ئ) [نیا متن] شاعر دوش می گفتم بہ شمع منزلِ ویرانِ خویش گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے درجہاں مثل چراغِ لالۂ صحراستم نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم در طوافِ شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے می تپد صد جلوہ در جانِ امل فرسودِ من بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانہ اے از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی کرمک بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی شمع مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تو کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثل چراغِ لالۂ صحرا ترا سوچ تو دل میں، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟ انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا! اور ہے تیرا شعار، آئین ملت اور ہے زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا قیس پیدا ہوں تری محفل میں! یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا اے درِ تابندہ، اے پروردئہ آغوشِ موج! لذتِ طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا اب نوا پیرا ہے کیا، گلشن ہوا برہم ترا بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا تھا جنھیں ذوقِ تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدۂ دیدارِ عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آہ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائیِ سوزِ تمام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں، تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے، آوازِ درا ہو یا نہ ہو شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے شوقِ بے پروا گیا، فکر فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں فائدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے خیر، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں رقص میں لیلیٰ رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی شہر اُن کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نا امید نورِ ایمن ہوگئیں اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز بجلیاں آسودئہ دامانِ خرمن ہو گئیں دیدۂ خونبار ہو منّت کشِ گلزار کیوں اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز! بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقد خودداری بہائے بادئہ اغیار تھی پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نائو نوش ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایانِ ہند پھر سلیمٰی کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شرابِ خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش! کَہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغامِ سروش آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے زندہ کر دے دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی جب یہ جمعیت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ یعنی اپنی میٔ کو رسوا صورتِ مینا نہ کر خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم صرفِ تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر تو اگر خود دار ہے، منّت کش ساقی نہ ہو عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر تو عصا افتاد سے پیدا مثالِ دانہ کر ہاں، اسی شاخِ کہن پر پھر بنا لے آشیاں اہلِ گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر اس چمن میں پیروِ بلبل ہو یا تلمیذ گل یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر کیوں چمن میں بے صدا مثل رمِ شبنم ہے تو لب کشا ہو جا، سرودِ بربط عالم ہے تو آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو دیکھ آ کر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اﷲ کو خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے، لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے سینہ ہے تیرا امِیں اُس کے پیامِ ناز کا جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے اب تلک شاہد ہے جس پر کوہِ فاراں کا سکوت اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے دل کی کیفیت ہے پیدا پردئہ تقریر میں کسوتِ مینا میں مے مستور بھی، عریاں بھی ہے پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے راز اِس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ! آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے ۹۵ ۱۷ فروری کو کامریڈ میں محمد علی کے اداریے کی دوسری قسط شائع ہوئی۔ پچھلے ہفتے اقبال کی ’دعا‘ سے ایک نتیجہ اخذ کیا تھا۔ اس دفعہ اُسے مزید پھیلایا۔ The Future of Islam by Muhammad Ali [Part 2] Comrade, February 17, 1912 We dealt last week with "hopes of the Muslims", and had reserved the discussion of "fears of the Europeans" for another occasion. Before we close this chapter, however, we should like to refer in passing to the sneer of Professor Margoliouth that "it is not as an advocate of the higher morality that Islam has ever filled Europe with apprehension." "Hence," he added, "the Syed's project may arouse curiosity, interest, or even sympathy in Europe, but it is not likely to occasion alarm." We do not know whether even curiosity is aroused by Islam in England, for England knows far less of Islam than Islamic countries know of Christianity. But certainly it gives rise to cheap sneers, and Sir Mortimer Durand's ridicule of Mr. Ameer Ali's reference to the democratic character of Islam is an instance in point. He related how on the conclusion of a mission to Afghanistan, the Amir, having assembled four hundred notables, put to them every point of the agreement, asking their opinion. All agreed, and Sir Mortimer concludes that it was a remarkable instance of democracy. If the opinion of the caste to which Sir Mortimer Durand belongs be taken to be the criterion of the fitness of things democracy is anything but desirable. And if it is not desirable and its absence can best be shown by the Jo- Hookam acquiescence of notables, our own Khan Bahadurs would amply vindicate the aristocratic, oligarchic or autocratic character of our Empire whichever it may, after a searching enquiry, be found to be. But in any case we had better not talk of democracy when even with radically ruled England a word put in the mouth of royalty necessarily becomes irrevocable. It is true that as an advocate of higher morality Islam is not likely to cause alarm to Europe. But that is not because Islam is, as the Pioneer tells us, "less exacting" and "starts from a lower level." Some of its first demands are divine worship at least five times a day and thirty days' fast every year, and if there is any honesty in modern Christians they will perhaps tell us how seldom, and then how unwillingly they go to church even on Sunday. Another demand of Islam would be absolute teetotalism, and the controversies over repeated Licensing Bills in England can tell us something about the rigour of this self-denying ordinance. Nor is this all. The one "weak point" which Christian critics seem to discover in Islam is the relation of the sexes. But with reference to this it is best to quote Professor Margoliouth's own view. Speaking of the achievements of the Prophet's system, he writes: For the females it certainly achieved much and there too it is best to hush the voice of sentiment and treat his rules and innovations as an attempt to grapple with a hopeless problem: hopeless in the sense that no community of any magnitude has ever found a blanket (to use Isaiah's image) that will cover the whole frame. The seclusion and veiling of women were, as Muir has well observed, a direct consequence of polygamy and facility of divorce. Polygamy is itself an attempt at solving a problem which Indo-Germanic nations solve by harbouring prostitution. In the latter system a portion of the female population is wholly degraded, in the former the whole female population is partially degraded. If by the introduction of the veil Muhammad curtailed women's liberty, he undoubtedly secured for them by laws the rights of inheriting and holding property which under the older system were precarious. Not that we absolutely agree with this view. The normal condition in Islam is monogamy and the permission to marry up to four wives, hedged round as it is with conditions remarkably stringent which-thanks to the illicit practices of the Muslims themselves-Christian critics slur over, gives to the code of Islam just that elasticity which is necessary for a body of laws universally binding on Muslims of all countries and climes and for all eternity. But while Islam permits, not commands-a limited number of wives Christianity itself lays down no such restrictions, and for all that a Christian's creed dictates he may marry a million. Monogamy, we repeat, is the normal condition of the Muslim world, and polygamy which disregards the stringent conditions laid down in the Qur'an is as much a sin as the less obvious polygamy of many Christians. In such cases, too, let the teaching of Christ be the guide of all Christians, and let him first cast a stone at the openly polygamous Muslim that is without sin among the Christians. As regards the seclusion and the veil, far from being the direct consequence of polygamy and facility of divorce, they are practised in order to check polygamy and polyandry, both secret and open, and to lessen the temptation to abuse the Islamic law of divorce. The separation of the two sexes in the daily intercourse of life would prove too exacting demand for a society which is habituated to the zest which the presence of forbidden fruit provides in its Eden, a society which satiated with the milder excitement of decollete and the short skirt with open lacework stocking, directoire costume, or the close-draping, clinging sheath, excites its jaded palate with La Milo and Maud Allannudities and with Russian dances, or occasionally takes a turn itself with the "Cake Walk" the "Boston Dip" and the, "Turkey Trot." But let that be. As for Islam, however it may have curtailed the liberty of a woman's movement, it alone strove to give her economic freedom, which will, we trust, some day cut off the fetters in Europe and America, where she is still the slave of man-made laws and man-made conventions. And howsoever Christian Europe may sneer at the marriage and divorce laws of Islam, it is plain that it is not itself satisfied with the laws made by man that it substitutes for those of God's own making. The novels of Mr. Hubert Wales and Victoria Cross, as much as the proceedings of the Divorce Commission in England, indicate the growing revolt against irrational and all too rigid conventions of modern English society, while the plays of Mr. Alfred Sutro, the essays of "Rita" and the sermons of Father Bernard Vaughan will present the other side of the picture of woman's social freedom. The fact is that Christians for the most part no more: "The faiths and moral hold that Milton held." In England the middle of the seventeenth century saw in Milton the fine flower of the Reformation as well as of the Renaissance and in Cromwell the Servant of God as well as the protector of British liberties. But the restoration came all too soon, the decline of morals was even more marked than the decline of literature and of liberty. The Revolution of 1688 restored British liberties, but more than a century was needed to revive letters, and although a protestant revolution, it could not restore the morals of Puritan England. The only hopeful feature of the present generation is the decline in the Drink Bill of England but so far as other aspects of morality are concerned-and we say this more in sorrow than in anger, more with a desire to vindicate morality than be vindictive-the countries of Europe do anything but support the view that the life of the civilized people of the West is a triumphant proof of the fact that it is saturated with Christianity and that their morality constitutes as magnificent a pean [sic] of thanksgiving as has ever been sounded in the world since the Day of Bethlehem. But there are signs which show that they are drifting into port, and if this continues, Islam as an advocate of higher morality, though it will not fill Europe with apprehension and dismay, would yet certainly serve to cleanse some of the moral sins of Christendom. All that it seeks to arouse is curiosity, interest, and sympathy" but all that it seems to have aroused is political alarm, which is more natural to the victim than to the victimiser. اُسی روز لاہور میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہوا۔ مسٹر گوکھلے کے لازمی تعلیم کے بل پر بحث ہونی تھی۔ اِسے جبری تعلیم کا بل بھی کہا جاتا تھا۔ اقبا؛ جلسے کی صدارت کر رہے تھے۔ قرارداد پیش کی: مسلمانانِ لاہور کا یہ عام جلسہ یقین کرتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں میں ابتدائی تعلیم عام طور پر پھیلانے کے لیے سابق کی نسبت زیادہ بااثر کوشش کی ضرورت ہے اور جلسہ استدعا کرتا ہے کہ انجمن حمایت اسلام بطور مسلمانانِ پنجاب کی سب سے اعلیٰ تعلیمی جماعت کے مسلمانوں کے تعلیمی پروگرام کے اس حصے کو نہایت مستعدی اور گرم جوشی سے پورا کرنے کے لیے ایک باضابطہ اور زبردست تحریک چلائے۔‘‘ قرارداد منظور ہوئی۔۷۰ اگلے روز ۱۸ فروری کو مسودۂ قانون کے لفظ ’’جبریہ‘‘ پر غور کرنے کے لیے ایک اور جلسہ اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میںہوا اور اقبال نے صدارت کرتے ہوئے کہا، ’’لفظ جبر سے کھٹکنا نہیں چاہیے۔ جس طرح چیچک کا ٹیکا لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے۔۔۔ جبریہ تعلیم بھی گویا روحانی چیچک کا ٹیکہ ہے۔ اسلام میں جبر کی تعلیم موجود ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو زبردستی نماز پڑھائیں۔‘‘۷۱ ۹۶ ۱۹ فروری کو مسلم یونیورسٹی کے لیے لاہورمیں جلسہ ہوا۔ اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی قومیت کا اصول توحیدہے جس کا تعلق دل سے ہے۔ مسلمان جہاں جاتا ہے اپنی قومیت ساتھ لے جاتا ہے۔ ایسے غیرمحسوس اصول کی حفاظت کے لیے کچھ ٹھوس چیزوں کو اس سے منسلک کرنا ضروری ہے جن میں سے پہلی یہ ہے کہ اسلام نے ہر وقت خد اکو یاد کرنے کا حکم دیا ہے اور دن میں کئی بار نماز فرض کی ہے تاکہ مسلمان اصولِ توحید کو بھول نہ جائے۔ مسلمان کی قومی زندگی کی دوسری ٹھوس محافظ اُس کی ثقافت ہے جس کی بنیاد اپنی معاشرت، تمدن، سیاست وغیرہ کے علم پر ہے۔چنانچہ ابتدا ہی سے علم کو اہمیت دی گئی یہاں تک کہ بعد میں اسپین میں ایک بہت بڑی یونیورسٹی قائم ہوئی جس کا نام قرطبہ یونیورسٹی تھا۔ یورپ سے عیسائی بھی وہاں آیا کرتے تھے اور بالآخر اُنہوں نے مسلمانوں کے اسی ادارے کے نمونے پر پیرس میں ایک یونیورسٹی قائم کی جو اب تک موجود ہے۔ اقبال نے کہا، دنیا میں سب سے پہلے یونیورسٹی بنانے کا خیال مسلمانوں کو آیا۔ نصاب میں عربی زبان لازمی قرار دی گئی کیونکہ اُس زمانے میں تمام علوم و فنون اس زبان میں موجود تھے۔ چنانچہ مسلمانوں کی ثقافت کے خزانے بھی اسی زبان میں چھپے ہوئے موجود ہیں مگر چونکہ اب سلطنت مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اُنہیں دوسری قوموں کا تمدن پڑھنا اور سیکھنا پڑا ہے چنانچہ وہ اپنے تمدن سے ناواقف ہو گئے ہیں جس کے بغیر قومی وجود بھی مشکل ہے۔ چنانچہ نوجوانوں میں پہلے بداعتقادی پھیلی اور پھر وہ بے دین ہوگئے۔ اقبال نے کہا، مسلمانوں کے مقتدر اور ذہین لیڈروں نے اس خطرے کا اندازہ لگا کر مسلمانوں کے نصاب میں اُن کی معاشرت اور تمدن و سیاست کو داخل کرنا چاہا جس کے لیے محمڈن یونیورسٹی ضروری ہے۔۷۲ ۲۳ فروری کو لاہور میں آغاخاں، نواب وقارالملک اور ان کے ساتھیوں کا زبردست استقبال کیا گیاجو دو روز بعد ہونے والے مسلم یونیورسٹی کے بہت بڑے جلسے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ریلوے اسٹیشن سے پرانے شہر کے راستے انارکلی تک کے علاقے کو بینروں، محرابوں اور دوسرے آرایشی سامان سے سجایا گیا۔۷۳ ۹۷ اگلے روز کامریڈ میں محمد علی (جوہرؔ) کے اداریے ’دی فیوچر آف اسلام‘ کی تیسری اور آخری قسط شائع ہوئی۔ اقبال کی ’دعا‘ سے شروع ہونے والے مباحث کا ’اختتام ترانۂ ملی‘ کے ایک شعر اور قرآن شریف کی اِس آیت کے ترجمے کے ساتھ ہوا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم اپنے آپ کو نہیں بدلتی۔ The Future of Islam by Muhammad Ali [Part 3] Comrade, February 24, 1912 There now remain "the fears of Europeans" to consider before we express our own opinion on the subject of Islam's future. In this connection it is best to remember that Pan-Islamism is not the only bogey that frightens or is supposed to frighten Europe. The success of sturdy little Japan and the weakening of the sleeping giant in China have caused more than a passing flutter in the dove-cotes of Europe, and wherever the case of a negro or Kafir outrage occurs or a Jack Johnson mercilessly about a Jeffries or is about to castigate a Bombardior Wells, the tremors of Imperialism become tremendous. We are familiar with the Yellow Peril and the Black Peril; but if we paid the same attention to the unexpressed apprehensions of Asia and Africa that we pay to the [پیش از مرگ واویلا] (mourning before death) of Europe and America there would seem to be reality in the White Peril than in either of the other two. But it is with Pan-Islamism or the Revolt of Islam that we are at this moment concerned. Islamic kingdoms to-day stand on the brink of a great precipice. Morocco, the extreme western representative of Islam, is feared to sink to the position of a European dependency. Tripoli, the last section of the Muslim Empire in Africa, was expected by Italy to follow the same fate. In Asia too, Persia has been in imminent danger-though we hope it has now passed away-or partition and annexation, and is still in danger of becoming a European dependency. Turkey which was to have been sent "bag and baggage to Baghdad" by Mr. Gladstone, may possibly lose even Asia Minor to Germany which seeks "a place in the sun," and if Mr. Hogarth be true, Arabia itself is not immune from falling into the hands of Christendom. And in Europe anything may happen when the snows melt and the spring flowers bloom. Is it strange then that uneasiness should prevail throughout the Islamic world? But it is not the Muslims that have begun to cast the horoscope of Islam. A daily paper of Natal has written two leading articles on the subject and in one of these it says: Europe is at best definitely retaliating on Asia for the alarm into which the Mohammedan arms threw the West from the seventh to the end of the seventeenth century ... All this should make it clear how momentous a change it is that is represented by these doings that are now marking the commencement of the second decade of the twentieth century. Europe is now finally rooting out the power of Islam from North Africa, and having checked the inrush of the Turks at the end of the seventeenth century, and steadily weakened the Mohammedan grip on the South Eastern Europe ever since, she is now battering and disintegrating one branch of Mohammedanism in Persia, in the Middle East, and thereby threatening the Turkish Empire itself with insolation and final dissolution. The West had not only beaten back the ancient attack of the East, but is carrying a counter-attack into the enemy's quarters. Most assuredly the world-import of these events in Morocco, Tripoli, and Persia deserves more than a passing attention, at this period of consideration and looking around, provided by these Christmas and New Year holidays. In India, the Pioneer cries in the same strain: At all points the independent dominion of the Moslem is hemmed in and threatened. The future seems dark for its continuance in any part of the world. That being the case we consider pan-Islamism only as a force for purposes of defence, not of defiance. But Professor Margoliouth ignores this distinction when he says: It is the thought of an offensive and defensive alliance between 300 millions of Muslims against the European ruler of Asia and Africa which renders the phantasm alarming. And the alarmists are so far in the right that this is the end which the movement called pan-Islamism compassed and compasses. Whether the spirit which it summons from the vast deep will come or not may be questionable but it certainly summons it. So far as the phantasm is aggressive it is certainly, as the Rt. Honourable Mr. Ameer Ali said, "created by Europe to create a prejudice against Islam." But the Muslim historian was careful to add that "intelligent sympathy between Muslims in each other trials and tribulations should appeal to all who have a spark of humanity." If that is pan-Islamism and alarming the spirits of mischief, that it may summon from the vast deep, whether they will come or not would be Frankenstein created by Christian Europe itself. In India, as Mr. Ameer Ali has said, "no Muslim thinks of disloyalty under Great Britain," and when the fruits of victory had been cruelly snatched from the hands of Turkey after the unprovoked war foisted upon it by Greece, and there was a general stir in the restless elements on our North-Western Frontier, Muslim soldiers, including many Afghans, fought against their own co-religionists for King and Country, and elicited from Lord Elgin the remark that "in the course of these unfortunate disturbances we have again seen what we have often seen before-the loyalty and gallantry of Muhammadan subjects and soldiers of the Queen". Even the Pioneer is forced to remark: In the past the misfortunes of any part of the Turkish Empire sent a wave of sympathetic unrest through all countries where the Muslim element was at all strong. The French have known the feeling in Algeria and the British in India and in their African possessions and both have been anxious as to the attitude of their Muhammadan subjects. Today the sympathetic tremor is felt, but neither in Algeria nor in India is it accompanied by the familiar signs of political unrest and disaffection. No sane person who appreciates the extent of the responsibility would like to answer for the actions of the 300 million Muslims of the world in all conceivable and inconceivable contingencies. But so far as we know the Muslims of India, we are prepared to say, as Sir Syed Ahmad Khan had said years ago, that the attitude of the Muslims of India towards their British Rulers would depend wholly and solely on the treatment meted out to them in this country. So long as their rulers give them the blessings of peace and provide them the opportunities of attaining spiritual salvation and temporal prosperity, as they have done in past and continue to do today, there is not the ghost of a chance of the Muslims of India being anything but a great asset of loyalty. After the Mutiny, Sir Syed Ahmad Khan at one time contemplated retirement to Egypt. But better reason prevailed and he decided to share the fate with others and improve the condition of his co-religionists in India. The result of that choice is obvious today. We trust no one would contemplate retirement to Turkey today. For not only the proper place of an Indian Muslim is India itself, but in these more peaceful days the future is [less] far from certain than it was fifty years ago, and we have no hesitation in saying that it is a hopeful and progressive future. At one time it was the dream of Syed Ahmad Khan and Theodore Beck to make Aligarh the nursery of Islam's missionaries of progress who would raise their co-religionists in other lands also. Although Aligarh has not yet been able to realize that dream there is no reason why it should not do that in the future, and from the point of view of the rulers too it would be better if Aligarh sends out its missionaries to backward Muslim States than if Muslim India has to import Enwar Beys to uplift the Muslims of India. But there are passages in the leader of the Pioneer which cannot be allowed to pass unchallenged. It says: Islam for centuries had only one aspect. It was a universal conquering religion which identified itself with political supremacy. The Moslem's creed taught him that he must either subdue a "hostile" land or quit it ... By degrees Islam acquired in his mind no other aspect. He begins to concern himself with the extension of its spiritual influence, and is satisfied if he obtains a just share of political influence in the state of which he is a citizen. As the idea of a Messianic Kingdom gradually faded away among Christian communities, so the educated Muslim sees that in the Moslem world the idea of a Universal Islamic state is difficult of realisation. He is learning to accept the principle of a constitutional and neutral polity in which he finds his own phase as a member with equal civil rights irrespective of religious belief. It is hard to discard the notion of a divine theocracy, for this colours the whole body of Koranic doctrine. But the Moslem, like the Christian, is amenable in the long run to the hard facts of the society in which he lives, and he is assimilating, even faster than he imagines, the notion of the civilized creedless state, and of civil rights which do not depend on religious observances. If by this the Pioneer means that the Muslims of today are departing from the original tenets of Islam in the matter of peaceful obedience to their non-Muslim rulers, it is wholly mistaken. Islam as a spiritual force was never dependent upon temporal dominance, except in the way of regarding worldly dominion as the handmaid of the Faith. And although Islam had for centuries been a "universal conquering religion" in most parts of the world we cannot ignore the Titanic Empire of China, where there are no less than forty million Muslims who have obeyed and prospered under Chinese and Manchu rulers and where Islam has not been the forced growth of a temporal power, but the vigorous banyan developing from a tiny seedling into a whole forest of sturdy growth. It must also be remembered that no land is "hostile" where perfect religious freedom is permitted to the true believer. Hali, the great Muslim poet of India, regarded temporal power only as a useful adjunct of the Islam's mission, and not as its essence, for he complained in his famous Musaddas: ادا کر چکی جب حق اپنا حکومت رہی پھر نہ اسلام کو اُس کی حاجت مگر حیف اے فخرِ آدم کی اُمت ہوئی آدمیت بھی ساتھ اُس کے رخصت حکومت تھی گویا کہ اِک جھول تم پر کہ اُڑتے ہی اُس کے نکل آئے جوہر (When temporal rule had done its work, Islam no longer had need of it. But fie, O followers of the pride of Adam, your humanity has also departed along with it. As if temporal power was but a covering and that removed, your reality is at last betrayed.) The same idea is expressed in another way by Iqbal who says: توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا (The message of the unity of God is a trust locked up in our breasts. Hence it is not easy to obliterate our name and all traces of us.) In the days of Islamic rule the faith followed the flag much more naturally than the commerce of European countries follows their conquest to-day. Muslims cannot be expected to despise such a powerful safeguard of their missionary rights and neither their own fate nor that of the Jews can encourage them in the belief that the loss of temporal power would have no effect on the progress of Muslim missionary efforts. The treatment of the Moors in Spain cannot be forgotten, nor does the constant clamour against Mornoism [sic. Mormonism?] in England as well as in America give any assurance that the propagation of the Qur'an would not be tabooed as "the inculcation of doctrines subversive of morality." In fact, we need not go so far for the illustration of a very real danger. Does the Pioneer know how many Hindu states under the "protection" of the British Government place difficulties in the way of the Muslims desirous of performing their religious duties in peace? Does it know how many mosques have been usurped in the past and are still withheld from Muslim worshippers, and how many have been desecrated in recent times? We have with us several letters from correspondents writing from such states the publication of which is certain to be considered by a large section of the Hindu Press as tending to "accentuate religious differences." The Muezzin is not permitted in several states to call the Faithful to prayer, and similar custom dating from the time of the Sikh rule in the Punjab is paramount even in portions of British India. As for the slaughter of cows for sacrificial purposes, no mention is needed. It is undreamt of in Hindu states, but in British India itself Muslims are not immune from worries, as the recent case of Meerut would show, where the sacrificed animal was interred in the ground by order of the Magistrate, and many Muslims who had slaughtered it in good faith, even if not in accordance with custom, were harassed for long with a criminal prosecution. The principle of a constitutional and neutral polity is almost as difficult of realization as that of the equality of all states according to International Law or the policy of the Open Door in international trade. At a time when the most powerful European States believe in an armed peace, and concern themselves only with the thoughts of the world to come. If Professor Margoliouth's own view was to prevail it is certain that Islam would get short shrift [sic. thrift] in this world. For referring to the persecutions of the Prophet before the Hijrat to Madina, he writes in his Life: A measure which seems both natural and harmless was taken by the Meccans. The Moslems were kept out of the precincts of the Kabah. When they came there, their devotions were rudely interrupted. And although the other adviser of Islam, Sir Harry Johnston, says that "no civilized man or woman wishes to revive any idea of religious persecutions or desirability," and points out that "no European Power that has achieved predominance over a country essentially Mohammedan has, since the eighteenth century, persecuted Mohammedans by forbidding polygamy or compelling them to abandon any of their rites or ceremonies," what guarantee is there that, when once the face of a Muslim alliance for defensive purposes is wholly gone, Sir Harry Johnston's vague exception in regard to such religions or religious tenets as by international opinion are devoted to be indefensibly cruel and harmful to human development would not be applied to religious tenets of the Muslims which fail to secure the approval of Europe's changing fashion? According to Sir Harry, "somehow or other Jews and Christians have found a way of evading the trammels of their religious beliefs where they, in process of time, grew to be inconvenient or out of harmony with the enlargement of men's outlook and the firmly based revelations of science." But Islam has never pretended to be equally a la mode and whatever may happen to man's "outlook or the revelations of science" which supplied each other with bewildering rapidity. Muslims must hold fast the rope of Allah, trust in his unchanging and steady outlook and shape their conduct according to the revelations of their religion, which are far more firmly based on the rock of Eternal Reason. Christendom has permitted the defection of Christianity to a pure transparency and has evaded even the trammels of an antinomian creed already made fossil by the teaching of St. Paul. Many regard Rudyard Kipling as embodying in his powerful verse the spirit of the Christendom of to-day. But it is a European and a Christian who calls him three parts Pagan and only one part Christian. When the Imperialism of Kipling and the pan-Christianism of Sir Harry rule the world as the sole arbiters of its destiny, what chance is then for the Quran, which, in the opinion of Sir Harry, "was a kind of parody of the Old Testament." Would any toleration be then shown for a religion in which according to this advocate of European morals, "lustful man was to find for thirteen centuries a warrant for polygamy and an excuse for uncontrolled sexuality." Do we not see already, though yet dimly, the unthinkable future in the words of the writer when he talks of "the intolerable sieve of the narrow mentality of an illiterate, uneducated, bandit-mystic of the seventh century A.C." Prof. Margoliouth has done his work in the vilest biography of the Prophet that has yet been written by a Christian to prove in the character of the "bandit-mystic"- a phrase confessedly based on the Professor's researches-mysticism was a secondary feature and brigandage the main purpose of his life. He writes that "one mode of acquiring a living is open to the very poorest, where there is impurity; and that is robbery," and adds that when persecuted by the Meccans he migrated to Medina "even then he expected to have to fall back on plundering their caravans." According to him, the battle of Badr was a bandit's raid, and at Medina the Prophet "was at the head of a robber community." In the words of Sir Harry Johnston, "the appetite growing with the eating, Mohammad sought to transform the successes of a bandit into the foundation of a kingdom." The line of reasoning is, of course, based on the Professor's own interpretation of the character of the Prophet of Islam. This is the view of Sir Mortimer Durand's "knowledgeful interpreter of Islam," and so let it be. But if a being whom a sixth of mankind regards as immaculate and a paragon of virtue and humanity, and of whom three hundred million people can say with assurance, Whatever record leap to light, He never shall be shamed if such a being was a "bandit" and had put himself at the head of "robber community," then those who have inherited their predatory habits as well as mysticism from him shall not readily allow other and more cultured bandits to snatch away the booty. If the appetite grew with the eating thirteen hundred years ago, it has not grown so dull with the diminishing sustenance of the last two hundred years that it can now reconcile itself to the promise of complete starvation. If Mecca was then made the religious and political capital of Mohammad's Empire, is it right to suppose that what the Pioneer promises so innocently would reconcile the Muslims to the sight of the Cross floating over the sacred stone? If the Prophet of Islam had given them a rallying point in their common creed, are we to believe with that "friend" of the Muslims that the faith of the followers of Mohammad had discovered a bond more permanent than a dynasty, are we to understand that Professor Margoliouth is right, and an appeal to the Brotherhood of Islam is as futile as an appeal to the Brotherhood of Man? To our mind Islam and pan-Islamism are one and neither is aggressive and provoking. But even the proverbial worm turns, and those who calculate on the acquiescence of peaceful Muslims in every aggression on the part of Europe and Christendom seem to believe that human nature is one thing in a Christian and quite its contrary in a Muslim. So far as India is concerned, we have no faith in a conventional passive loyalty, and shall ever work for an active devotion to a king that is the Sovereign Lord of seventy million Muslims of India no less than of the forty-five million Christians of Great Britain and Ireland. But only a perverse judgment would base loyalty on anything but a rational basis, and it is difficult to believe that the mentality of British statesmen has become so warped as to call up wantonly the spirits of mischief from the very vast deep. No doubt that clouds have darkened the horizon. But we are inveterate optimists, and our unalterable belief that the Unity of God has yet to prevail throughout the universe and that the Message of Islam is still only partially delivered, makes us certain of the silver lining to these dismal clouds. This hope brings us to an aspect of the matter which seems to have been wholly ignored. Islam has never encouraged a lacerating distinction between this world and the next, or between things temporal and things spiritual. It is the prayer of Islam that the Faithful may receive good in this world and good in the next, and just as every Muslim is or at least can be a missionary, so also Islam does not require Muslim kings to renounce the good things of the world, like the great Budhha, before they can become useful missionaries of Islam. According to the Muslim view, a strict adherence to the spiritual precepts of Islam would not only ensure to the pious salvation hereafter, but temporal power in this world also. Viewed in this light, the loss of temporal power would betray a want of religious piety, and conversely, the extension of Islam's spiritual influence is certain to bring it political predominance also. These aspects of Islamic belief have evidently escaped the notice of those of its friends and advisers who would encourage it in the continuance of scheme and give the opiate of security for its spiritual influence. Who that has read the history of Turko-Persian struggles in the sixteenth and subsequent centuries can mistake the significance of the remarks of Busbequins Ferdinand's ambassador at the court of Suleiman the Magnificent, that "'Tis only the Persian who stands between us and ruin. The Turk would fain be upon us, but he keeps him back. This war with him affords us only a respite, not a deliverance. As for the soothing syrup of spirituality, it is little strange that its dispensers should be those who call themselves the disciple of a Messiah who said that his was not the kingdom of this world." To the Muslims we shall say that the God, who hath poised upon Heaven and Earth and by whose aid Islam has so long struggled not altogether unsuccessfully against its foes, will come to the assistance of the Muslims only if they will follow His dictates. Unconditional loyalty to a temporal sovereign accords ill with the hope of unconditional assistance from the source of all power, temporal no less than spiritual. One of the greatest truths of the Quran is that which the greatest leader of Indian Muslims prominently put before them throughout a long and arduous career. It is this, "God never changeth the state of a people unless they change it themselves." ۹۸ مسلم یونیورسٹی کے لیے لاہور میں جلسہ ۲۵ فروری کو ہوا۔ غالباً یہی موقع ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ سر آغا خاں کی صدارت میں برکت علی میموریل ہال میں یونیورسٹی کے لیے جلسہ ہوا تو اقبال بھی موجود تھے اور رُباعی پڑھی: باہر ہوئے جاتے ہو کیوں جامے سے پوچھو کسی پنڈت سے نہ علّامے سے میں تم کو بتاتا ہوں یونیورسٹی کیا ہے پتلون کی تکرار ہے پاجامے سے (یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے)۔آغاخاں نے یونیورسٹی کے لیے ایک لاکھ روپیہ دیا۔ لاہور سے پانچ لاکھ روپے کے قریب چندہ جمع ہوا۔ ۹۹ مسلم لیگ کا آیندہ سالانہ اجلاس بہت اہم ثابت ہونے والا تھا۔ صدارت کے لیے اُسے منتخب کیا گیا جس نے اولین اجلاس کی صدارت کی تھی۔ نواب سلیم اللہ خاں نے انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا: تقسیمِ بنگال کی تنسیخ میں وہ تمام باتیں موجود تھیں جو اسے انتہائی باغیانہ مظاہروں کے دباؤ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ظاہر کرتیں۔ یہ بغاوت اور نافرمانی پر انعام دینے والی بات لگتی ہے اور اس نے غیرذمہ دار لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ آئین کی بالادستی کی بے دریغ اور مسلسل مخالفت کر کے حکومت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ۱۰۰ زمیندار اخبار میں شائع ہوا: کیا یہودی مسلمانوں کے دوست ہیں؟ پیرس کا کروڑ پتی یہودی ایک فرانسیسی عالمِ طبقات الارض کے ساتھ فلسطین کو آنے والا ہے تاکہ قدیم یہودی بادشاہوں کے مقبروں کا پتہ نکالے۔ درپردہ اس سفر کا مقصد اپنی نوآبادی کو قائم کرنااور یہودی سلطنت کے بنانے کا ہے۔ اِسی طرح اخبار میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ ینگ ٹرکش پارٹی کو یہودیوں سے مدد ملی ہے اور اب وہ آئینی حکومت کے قیام میں مالی مدد دینے کو تیار ہے۔۷۴ ۱۰۱ یکم مارچ کو انجمن اسلامیہ پنجاب نے عیدمیلادالنبی منعقد کیا۔ اس کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا تھا جس میں اقبال نے بھی ایک روپیہ دیا تھا۔ ۷۵ ۱۰۲ ۳ مارچ کو اکبرؔ الٰہ آبادی نے اقبال کو خط لکھا۔ اُس فارسی محاورے کا ذکر کیا جس کا مطلب تھا، وقت کے ساتھ چلو۔ اکبر نے لکھا تھا: بازمانہ بساز صحیح ہے لیکن بے ضرورت با زمانہ بساز کیوں۔ میرے اشارات بڑی تفصیل چاہتے ہیں۔۔۔ اکبر کو خوشی تھی کہ اقبال کم عمرہونے پر بھی معاشرے کو اُسی گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں جو اکبرؔ کا خاصہ تھی۔ اقبال کے اُس قطعے سے متاثر ہوئے تھے جو ’شکوہ‘ سے پہلے سنایا گیاتھا۔۷۶ ۱۰۳ اخبار بنگالی نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ کی تقریر کے حصے الفاظ بدل کر شائع کیے۔ پھر لکھا کہ بغاوت ہو گئی۔۹ مارچ کے کامریڈ میں محمد علی نے تقریر کے اصل الفاظ شائع کیے۔ اخبار کی خبر لی۔ انگریزی میں لکھا: باقی تمام شعبوں میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے بعد بنگالی کے سرپرست اب سیاسی احتجاج پر بھی اجارہ داری قائم کرنے چلے ہیں۔ ہنگامے بلکہ جرائم بھی حب الوطنی صرف اُس وقت قرار پا سکتے ہیں جب وہ اِن کی شکایت پر کیے جائیں۔ ۱۰۴ ظفر علی خاں کی شعلہ بیانی بالآخر رنگ لائی۔ کسی تحریر سے متاثر ہو کر حکومت نے زمیندار کی ہزار روپے کی ضمانت ضبط کر لی۔ دوہزار روپے کی تازہ ضمانت طلب کی۔ کامریڈنے ۲۳ مارچ کے اداریے میں زبردست احتجاج کیا:’’اگر زمیندار نے اٹلی یا روس کے رویے پر اور ان مسائل پر گفتگو کی تو ہم شاہ جارج کی رعایا ہیں، اٹلی یا روس کی نہیں۔ ‘‘۷۷ ۱۰۵ ظفر علی خان کو عرصے سے خیال تھا کہ جاپان میں اسلام کی تبلیغ ہونی چاہیے۔ اب اقبال کووہاں بھیجنے کی تجویز پیش کی۔ ۲۸ مارچ کو پیسہ اخبار نے لکھا کہ تجویز محض جوش میںپیش کی گئی ہے۔ ورنہ اقبال خود کہتے ہیں کہ جب مولوی برکت اللہ بھوپالی تین سال جاپان رہ کر اور اخبار نکال کر بھی دو تین سے زیادہ جاپانیوں کو مسلمان نہ بنا سکے تو میں کیا کر لوں گا۔اقبال اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی قوم کی بہتر خدمت کر سکتے تھے۔۷۸ ۱۰۶ ۳۰ مارچ کو مراکش کی آزادی ختم ہو گئی۔ مولائے حفیظ نے شہر فاس میں اُس معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے مطابق اُن کا ملک فرانس کی ’’حفاظت‘‘ میں آ گیا۔ ستمبر میں عید کے اشعار میں اقبال نے جو اندازہ لگایا تھا وہ صحیح نکلا۔ ۱۰۷ اپریل میں فوق کے اخبارکشمیری میں کسی غلام محمد امرتسری کے قلم سے اقبال کی اُس تقریر کا خلاصہ شائع ہوا جو ۱۹ فروری والے جلسے میں مسلم یونیورسٹی کے موضوع پر کی تھی۔ امرتسری لاہور میں رہتے تھے۔ کشمیری برادری سے تعلق تھا۔ لکھا کہ اقبال کی خصوصیت صرف یہی نہیں کہ کشمیری ہیں بلکہ اُن کا علم و تبحر بھی مسلمہ ہے۔۷۹ ۱۰۹ ۶ اپریل تھی۔ سنیچر تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کا دوسرا دن تھا۔ جلسہ اسلامیہ کالج کے سامنے بڑے میدان میں تھا۔ منتظمین نے اقبال سے فرمایش کی تھی کہ اپنی طویل نظم دو نشستوں میں سنائیں تاکہ انجمن کے دو بڑے سرپرستوںکی یہ خواہش پوری ہو جائے کہ نظم اُن میں سے ہر ایک کی صدارت میں پڑھی جائے۔ پہلی نشست کی صدارت کے لیے فقیر سید افتخارالدین ہوشیارپور سے آئے ہوئے تھے۔ ظفر علی خاں دس ہزار کاپیاں چھپو کر لائے تھے۔ ایک کاپی کی قیمت پچاس پیسے تھی۔اپنی دھواں دھار تقریر میں کہا کہ نظم کی فروخت سے جو پانچ ہزار روپے جمع ہوں گے وہ ڈاکٹر اقبال صاحب کو دے کر اِسلام کی تبلیغ کے لیے جاپان بھیجا جائے گا۔۸۰ اقبال جلسہ گاہ پہنچے تو گوجرانوالہ کے حافظ جھنڈا پنجابی میںاپنی نظم پڑھ رہے تھے۔ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں مولانا ظفر علی خاں کو اُردو میں ترجمہ کر کے بتا رہے تھے۔ ایک روایت ہے کہ جلسے سے پہلے طلبہ کے درمیان تقریروں اور نظموں کا مقابلہ ہوا تھا اور انعامات میں سے ایک آئینہ بھی تھا جو میز سے گر کر ٹوٹ گیا۔ اقبال نے دیکھا تو نظم سے پہلے سنانے کے لیے جو غزل لائے تھے اُس میں ایک اور شعر کا اضافہ کر دیا۔۸۱ جس طرح نو برس پہلے ’فریادِ امت‘ لکھنے سے پہلے ایک غزل تمہید میں کہی تھی، اُسی طرح آج کی غزل کا بھی نظم سے کوئی خاص تعلق محسوس ہو رہا تھا۔ غزل کبھی اے حقیقتِ منتظَر، نظر آ لباسِ میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں تُو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن نہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمہائے سیاہ کو ترے عفوِ بندہ نواز میں بعد میں کبھی ’’مرے جرمہائے سیاہ‘‘ والے مصرعے کو تبدیل کر دیا: ’’مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں‘‘۔ نظم کی تمہید میں اقبال نے ایک مختصر تقریر کی: جو نظم پچھلے سال لکھی تھی وہ شکوہ تھا اور اُس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اُسے برا خیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ میں نے بھی یہی خیال کیا لیکن تو بھی وہ اِس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف کے میرے پاس آچکے ہیں۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو کہ لوگوں کے دلوں میں تھی وہ ظاہر کر دی گئی لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ میرا شکوہ خدا کو بھی پسند آیا۔ خیر اگر وہ نہ بھی بخشے تو میں تو یہی کہوں گا: یہ بھی رحمت ہے تیری تُو نے دیا دوزخ مجھ کو میرے مکافات کی تو یہ بھی جگہ نہ تھی اِس کے لیے میں نے خود ایک سزا تجویز کی ہے کہ میں اپنی شکایت کروں تاکہ معاوضہ ہو جائے۔ میں اپنی نظم پر خاص توجہ انگریزی یافتہ نوجوانوں کو دلاتا ہوں۔ میرا شعر لکھنا خاص خاص احساس کا ایک نمونہ ہے۔ میری آج کی نظم ایسی جامع ہے جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہو گا۔ اس لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں۔ ایک شاعرانہ پہلو سے، دوسرے تجاویزنسخے کے لحاظ سے اور اس لیے عرض ہے کہ تعلیم یافتہ خاص کر توجہ فرمائیں۔ یہ زمانہ اہل ِ اسلام کی تاریخ میں سخت پولیٹکل ٹائم ہے۔ خدا کے واسطے تم توجہ کرو اور اسلام کی عزت بڑھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو۔ میری نظم کا عنوان ’شمع اور شاعر‘ کا مناظرہ ہے۔ نظم شروع ہوئی ۔ اِس دفعہ بھی حاضرین نے ترنم سے پڑھنے کی فرمایش کی۔ پچھلے برس کی طرح اِس دفعہ بھی اقبال نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ نظم کیسے پڑھنی چاہیے۔ روایت ہے کہ دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو ایک شخص جو پشاور سے آیا تھا اور دُور کھڑا تھا، اُس نے فارسی شعر میں اقبال سے اونچا پڑھنے کو کہا۔ اقبال نے نظم پڑھنا بند کر دی اور شعر ہی میںکہا کہ اگر تمہارے کان سنتے ہیں تو سنو، دوسروں کو بدمزہ مت کرو۔ مجمع میں پہلے شور ہوا اور پھر مکمل خاموشی۔ تب اقبال نے دوبارہ نظم پڑھنا شروع کی۔ ’’پورا جلسہ جو ہزاروں افراد پر مشتمل تھا، بالکل حیرت زدہ سا معلوم ہوتا تھا۔ وقتاً فوقتاً واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتی تھیں،‘‘ غلام رسول مہرؔ کا بیان ہے۔ چھ بند سنانے کے بعد اقبال تھک کر بیٹھ گئے۔ وقفے کے بعد دوسری نشست شروع ہوئی۔ صدارت مرزا سلطان احمد کر رہے تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحبزادے تھے مگر احمدی نہیں تھے۔ عمر باسٹھ برس تھی۔ ہر عمر کے اہلِ ذوق میں گھل مل جاتے تھے ۔ اردو، عربی اور فارسی میںلکھتے تھے۔ رسمی تقریر کرنے کے بعد یا اُس سے پہلے اقبال کی طرف دیکھ کر ازراہِ مذاق کہا، ’’اقبال بڑا ہرجائی ہے۔ کبھی فقیر کا ساتھ دیتا ہے اور کبھی سلطان کا!‘‘ غالباً لفظ ’’اقبال‘‘ کو ذومعنی استعمال کیا تھا۔ اقبال نے وہیں کھڑے کھڑے فارسی میں ایک قطعہ بنا کر پڑھ دیا جس کا مطلب تھا کہ میرے مخلص ہم نشیں نے مجھ سے کہا کہ انجمن میں ہرجائی بن کر مت بیٹھو کہ کبھی فقیر کے ساتھ ہو اور کبھی سلطان کے ساتھ، مگرمیں نے جواب دیا کہ ظاہری فرق کے طلسم سے باہر آئیے کہ میری روح میں عشق کی شمع جل اٹھی تو اُس نے مجھے بھی جلا دیا اور دوئی کے اسباب کو بھی راکھ کر دیا!قطعہ برجستہ تھا۔ آخر میں شمع ہی کا استعارہ آیا تھا جو اُس روز کی نظم کا موضوع تھا۔ ’شمع اور شاعر‘ کے بقیہ بند سنائے گئے۔ انجمن کی رپورٹ میں درج ہوا: اِس نظم کے پڑھتے وقت حاضرین کی جو کیفیت تھی اُس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ فی الحقیقت۔۔۔ ڈاکٹر صاحب تو شاعری کی شمع بنے ہوئے تھے اور حاضرین پروانے۔ رقّت اور اس وجدانی کیفیت کی تصویر کا حال وہی خوب جانتے ہیں جو اس مجمع میں اپنے پہلو میں دل اور دل میں درد رکھتے تھے اور ذوقِ سلیم سے بہرہ ور تھے۔۸۲ ۱۱۰ ۱۱ اپریل کو نظم ’شمع اور شاعر‘ کے کچھ بند زمیندار میں تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئے۔۸۳ ۱۱۱ ۱۴ اپریل تھی۔ آسمان پر صرف تارے تھے۔ اُن کاعکس سمندر کے برفیلے پانی میں بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ پانی شیشے کی طرح ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ آس پاس کہیں برف کے تودے موجود ہیں۔ بحرِ ظلمات کے شمال میں پچیس میل فی گھنٹہ بڑھتے ہوئے بحری جہاز ٹائیٹینک(Titanic) نے رفتار کم نہ کی۔ جہاز کے عین راستے میں جو بہت بڑا تودہ تھا، وہ رات ۱۱ بج کر ۳۹منٹ پر دکھائی دیا۔ جہاز بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ کپتان کے حکم پر گھوم کر برابر سے نکلنے کی کوشش کی گئی۔ زوردار دھچکا لگا۔ بایاں پہلو ٹکرا گیا تھا۔ درجہ اول کے مسافروں میں مشہور صحافی اور مصنف ولیم ٹامس اسٹیڈ (William Thomas Stead) شامل تھے جن کے گھر ۲۰ اپریل ۱۹۰۶ء کو اقبال نے یادگار شام گزاری تھی۔ بحری جہاز ڈوبنے لگا تو لوگوں نے دیکھا کہ اسٹیڈ عورتوں اور بچوں کو حفاظتی کشتیوں میں سوار کروانے میں سرگرم تھے۔ اپنی حفاظتی جیکٹ بھی کسی دوسرے مسافر کو پیش کر دی۔ رات ۲ بجکر ۲۰ منٹ پر جہاز پانی میں غرق ہو گیا۔ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لوگ ڈوبے۔ اکثر کی لاشیں بھی دستیاب نہ ہوئیں۔ ان میں اسٹیڈ شامل تھے۔ ۱۱۲ ۱۹ اپریل کو زمیندار میں اکبر الٰہ آبادی کا خط شائع ہوا۔ ’شمع اور شاعر‘ کے جو بند آٹھ روز قبل زمیندار میں شائع ہوئے تھے اکبر نے ان کی تعریف کر کے یہ رباعی لکھی تھی: اِس نظم کا نقطہ نقطہ ہے منبعِ نُور ہر حرف سے ہے تجلّی کا ظہور اوجِ ملکوت کا ہے عالم ہر لفظ ہر بیت اقبال کی ہے بیت المعمور۸۴ ۱۱۳ اُسی مہینے کسی وقت بیگم صاحبہ بھوپال نے دو برس کے لیے شبلی کے لیے دو سو روپے ماہانہ کا وظیفہ مقرر کر دیاتاکہ وہ سیرۃالنبیؐ لکھنے کے منصوبے پر عمل کر سکیں۔ بیگم صاحبہ کے بیٹے نوابزادہ حمیداللہ خاں نے اپنی طرف سے دو ہزار روپے کتابوں کی خریداری کے لیے منظور کیے۔ کتاب لکھنے کا سامان ہو گیا۔ ۱۱۴ ۳ مئی کو ڈپٹی نذیر احمد دہلوی فوت ہو گئے۔ چھ روز قبل فالج ہوا تھا۔ ۱۱۵ ۱۲ مئی کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا ۔ تعلیم کے بارے میں اُس قرارداد پر غور کیا گیا جو اقبال نے فروری کے جلسے میں منظور کروائی تھی۔ بارہ ارکان پر مشتمل ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی۔ اس میں اقبال بھی شامل تھے۔ ۸۵ ۱۱۶ دہلی دربار والی ’’رنگین‘‘ دستاویزی فلم امریکہ پہنچ گئی۔نیو یارک ٹیلی گراف نے لکھا: داستانوی مشرق کو اَب دُور اُفتادہ مقام پر تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ براڈوے پر نیو یارک تھیٹر میں مل سکتا ہے جہاںدربار کی پکچروں کی سیریز میں کنیما کلر ہندوستان میں زندگی کے تمام شاندار رنگ اور چہل پہل دکھا رہا ہے۔۔۔ ۱۱۷ رابندرناتھ ٹیگورنے انگلستان کے راستے میں اپنی بنگالی کتاب گیتانجلی کی بہت سی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر لیا۔ روتھن اسٹائن ادبی حلقوں میں پہنچ رکھنے والے مصور تھے۔ اُن سے ملاقات کر کے ترجمہ دکھایا۔ اُنہوں نے اپنے گھر محفل سجائی۔ آئرلینڈ کے شاعر اور نقاد ولیم بٹلر ییٹس نے یہ ترجمہ ایذرا پاؤنڈ، مے سنکلئر، ارنسٹ رہس اور دوسرے دانشوروں کو پڑھ کر سنایا۔ نظم کے دھیمے، خواب آلود لہجے سے سننے والے متاثر ہوئے: گھر جاتے ہوئے مرد مجھ پر نظر ڈالتے اور مسکراتے ہیں، اور مجھے شرم سے پانی پانی کر دیتے ہیں۔ میں ایک بھکاری لونڈیا کی طرح بیٹھا ہوا اپنا دامن کھینچ کر چہرے پر ڈال لیتا ہوں اور جب وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کیا چاہیے، میں اپنی نظر جھکا لیتا ہوں اور کچھ نہیں کہتا۔۸۶ ۱۱۸ اپنے آپ پر طنز کر کے اُس کا جواب دینا اقبال کا محبوب مشغلہ رہا تھا۔ اب جو اُن کی شاعری گزرے ہوئے زمانے کی مصور بن کر رہ گئی تھی اُس کا بھی احساس تھا چنانچہ جون میں ’مسلم‘ کے عنوان سے نظم لکھی جس میں بظاہر کسی دُوسرے کی زبانی خود کو مخاطب کروا کے کہا تھا کہ شمعیں جلا کر گزری ہوئی رات کو روشن نہیں کیا جا سکتا۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ میںتو ماضی کے آئینے میں مستقبل کے نقوش دیکھتا ہوں۔ ۱۱۹ اُس زمانے کے ایک بچے نے بعد میں روایت کی: میکلوڈ روڈ پر اُس وقت کے میلارام تالاب کے سامنے ایک کوٹھی تھی جس میں اُن دنوںمولانا ظفر علی خاں مقیم تھے۔ میرے بچپن کا کچھ حصہ اِسی مکان میں گزرا۔۔۔ شدید گرمی کی اس دوپہر کی بعض کیفیتیں میرے حافظے پر نقش ہیں۔۔۔ اقبال اُس وقت ننگے سر فرش پر بیٹھے ایک سفید براق قمیص اور اتنی ہی براق شلوار میں ملبوس تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہنسی مذاق کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال کا ہنستا ہوا سرخ و سفید چہرہ سنجیدگی سے کوسوں دُور ہے۔ لطیفوں پر قہقہے گونج رہے ہیں اور بارہا اقبال ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔۸۷ ۱۲۰ جون میں الندوۃ میں جہاد پر مضمون شائع ہوا۔ اسے لکھنے والے رسالے کے نئے مدیر مولوی عبدالکریم تھے جبکہ شبلی پچھلے مہینے رسالے سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ ندوۃالعلما ٔکی انتظامیہ نے مولوی عبدالکریم کو انگریزسرکار کے خلاف باغیانہ خیالات لکھنے پر چھ ماہ کے لیے نوکری سے نکال دیا۔ ۱۲۱ سیرت النبیؐ پر جن یورپیوں نے لکھا تھا شبلی کے خیال میں ان میں سے کچھ عربی زبان و ادب سے ناواقف تھے۔ بعض مذہبی لٹریچر اور سیرت نگاری کے فن سے آگاہ نہیں تھے۔ بعض ان سب پر عبور رکھتے تھے جیسے مارگولیوس اور اسپنگلر مگرشبلی کو حیرت تھی کہ ان کا بھی ’’دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں‘‘ والا حال تھا۔ شبلی نے تصورات کی فہرست بنائی جو واقف اور ناواقف یورپین مصنفوں کی کتابوں میں مشترک تھے: ۱ آنحضرتؐ کی زندگی مکّہ معظمہ تک پیغمبرانہ زندگی ہے لیکن مدینہ جا کر جب زور و قوت حاصل ہوتی ہے تو پیغمبری دفعتہ بادشاہی سے بدل جاتی ہے۔ اس کے جو لوازم ہیں یعنی لشکرکشی، قتل، انتقام، خونریزی، خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ ۲ کثرتِ ازدواج اور میل الی النسأ ۳ مذہب کی اشاعت، جبر اور زور سے ۴ لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل ۵ دُنیاداروں کی سی حکمت ِ عملی اور بہانہ جوئی وجہ شاید یہ تھی کہ یورپ میں سب سے پہلے وہ مصنف میدان میں اُترے تھے جنہیں مسلمانوں کی کتابوں سے واقفیت ہی نہ تھی۔ اُنہوں نے رسولِ اکرمؐ کے بارے میں یہ تصورات بغیر تحقیق کے رائج کیے۔ بعد میں آنے والے یورپی مصنفین اپنی قابلیت اور واقفیت کے باوجود پابند رہے۔ دل آزاد نہ ہو تو ذہن بھی آزاد نہیں رہ سکتا۔ صرف معلومات صحیح نتیجے پر نہیں پہنچا سکتیں۔ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے ہی سے صحیح اور غلط کا تعین کیا ہوا نہ ہو۔ورنہ انسان درست معلومات کو بھی غلط تصورات کے سانچے میں ڈھال کر غلط نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ ۱۲۲ اقبال کی طبیعت فارسی مثنوی کی طرف آ ٓ کر پلٹ جاتی تھی: رفت و زخاکِ رہش برقِ تجلی دمید۸۸ ۱۲۳ اقبال گرمیوں کی تعطیلات میں سیالکوٹ آئے ہوئے تھے۔ دوپہر کے وقت اپنی والدہ امام بی بی کے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ گلی کی طرف تھا۔ عین کمرے کے نیچے میدان میں اعجازاحمد، آفتاب اور دوسرے لڑکے کھیل رہے تھے۔ پڑوس میں آٹھ نو برس کی ایک قبول صورت لڑکی اللہ رکھی تھی۔ یتیم ہونے کی وجہ سے اپنی پھوپھی کے پاس رہتی تھی۔ اعجاز سے روایت ہے کہ آفتاب کی زبان سے نکل گیا: رکھی۔ رکھی۔ رکھی۔ تیرے منہ تے بیٹھی مکھی لڑکی نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ اُس کی آواز سن کر اُس کی زبان دراز پھوپھی پہنچ گئی۔اعجاز کا بیان ہے: آفتاب بھائی کی قافیہ آرائی کا حال سن کر اُس نے نثر میں ’شاعر‘ کی سات پشتوں کو پن ڈالا۔ یہ ہنگامہ برپا تھا کہ ملازم لڑکا ہماری طلبی کا حکم لے کر آیا۔ ہم سب ڈرتے ڈرتے چچا جان [اقبال] کے حضور حاضر ہوئے۔ یقین تھا کہ آج سب کی پٹائی ہو گی۔۔۔ اقبال خاموشی سے اُٹھے۔ کھونٹی پر بہن کا سفید ململ کا دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ اُسے لے کرآفتاب کے دونوں ہاتھ باندھ کر کمرے کے کونے میں دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دیا۔کچھ دیر بعد امام بی بی نے آکرآفتاب کی جان چھڑائی۔ ’’آفتاب بھائی نے اپنی حیات میں فلسفہ، قانون اور نہ جانے اور کس کس میدان میں اپنے اشہب ِ طبع کو دوڑایا لیکن قافیہ آرائی کے میدان کی طرف پھر رُخ نہیں کیا،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ۸۹ ۱۲۴ عطا محمد اُن دنوں کیمبل پور میں تعینات تھے۔ اتفاق سے کیمبل پور کے کوئی صاحب اقبال کو وکیل کرنے سیالکوٹ پہنچ گئے۔ اقبال سفر سے گھبراتے مگر بھائی سے ملاقات کا بہانہ سمجھ کر قبول لیا۔ اعجاز احمد کی عمر تیرہ برس تھی۔ اُنہیں بھی ساتھ لے لیا۔ کیمبل پور میں مولوی احمد دین نے رات کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ بہت لوگ شامل تھے۔ غالباً یہ وہی موقع تھا جس کے بارے میںاعجاز کا بیان ہے کہ انگریز حکام بھی مدعو تھے۔ اس لیے شراب میسر تھی مگر اقبال نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جس چیز کو یورپ میں رہ کر منہ نہ لگایا اُسے اب کیا پیوں گا۔ تین چار دن بعد کیمبل پور سے واپسی ہوئی۔گاڑی آدھی رات کے قریب وزیرآباد جنکشن پہنچی۔ سیالکوٹ کے لیے دوسری گاڑی لینی تھی۔ وہ دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ صبح پانچ بجے روانہ ہونے والی تھی۔ اقبال اور اعجاز اُس میں بیٹھ گئے۔ اقبال کو حقے کی طلب ہوئی۔ قلی سے ایک روپیہ انعام کا وعدہ کیا۔ وہ کچھ دیر بعد ایک بوسیدہ سا حقہ لے آیا جس کا پیندا مٹی کا تھا۔ چلم بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اقبال بہت خوش ہوئے۔ اپنا بستر جو بستربند میں بندھا ہواتھا پلیٹ فارم پر رکھوا کر اُس پر بیٹھ گئے۔ قلی کو بھی اپنے پاس بٹھا لیا۔ دیر تک دونوں باری باری حقے کے کش لگاتے رہے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے رہے۔ اقبال ڈبے میں واپس آئے تو اعجاز نے سیٹ پر بستر لگادیا۔ وہ لیٹ گئے۔ اعجاز نے کہا کہ حقہ تو بہت ہی گندا تھا۔ اقبال نے کہا، ’’جس کو تمباکو نوشی کی عادت ہو جائے اُسے طلب کے وقت اِن نفاستوں کا خیال ہی نہیں آتا۔‘‘ پھر ذرا ٹھہر کر کہا، ’’تم اِس کی عادت نہ ڈالنا۔‘‘ ’’اِس واقعے سے میرے ذہن پر پہلا اثر تو یہ ہوا کہ باوجود اپنے رُتبے اور علم کے چچا جان نے ایک غریب مزدور کے ساتھ بیٹھ کر بے تکلفانہ گفتگوکرنے اور حقہ نوشی میں کوئی عار محسوس نہیں کی،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’دُوسرا تاثر یہ تھا کہ تمباکو نوشی اچھی عادت نہیں کہ حقے کے صاف اور ناصاف ہونے کا خیال بھی نہیں رہتا۔‘‘۹۰ ۱۲۵ معلوم ہوتا ہے اقبال نے جون کے آخر میں خواجہ حسن نظامی کو کچھ رقم نیاز کے لیے بھجوائی تھی کیونکہ ان کے نام اقبال کا ایک خط ۲۴ جون ۱۹۱۲ء کا لکھا ہوا موجودہے: مکرّمی!۱۲ روپیہ جس طرح آپ کے خیال میں آئے خرچ کر دیجیے۔ حلوا پکا دیجیے یا خانقاہ کے متعلقین میں تقسیم کر دیجیے۔ آپ سے ملنے کو دل چاہتا ہے مگر کیا کروں، علائق نہیں چھوڑتے۔ روٹی کا دھندہ لاہور سے باہر نکلنے نہیں دیتا۔ کیا کروں، عجب طرح کا قفس ہے۔ ممکن ہے یہ بارہ روپے عطا محمد نے بھجوائے ہوں کیونکہ انہیں نیاز دلوانے کا شوق تھا۔ ۱۲۶ ۴ جولائی کو اقبال نے جامع مسجد دہلی کی تصویر والا پوسٹ کارڈ ایما کے نام ارسال کیا۔: آپ کے خط کے لیے بہت شکریہ۔ براہِ کرم مجھے لکھیے کہ آپ کیسی ہیں؟ ان دنوں لاہور میں بے حد گرمی ہے۔ ہم ایک دوزخ میں رہ رہے ہیں۔ میں جرمنی کو کبھی نہ بھول سکوں گا۔۔۔ محترمہ پروفیسر صاحبہ کا کیا حال ہے؟ میرے خیال میں گھر بھرا ہوا ہوگا۔ یہ دلّی کی جامع مسجد ہے۔ بنام ایما ویگے ناست Viele Danken für Ihre Karte. Bitte Schrieben Sie mir wie geht es Ihnen. Es ist sehr heiss ins Lahore in diese Tagen. Wir leben in einen Hellen. Deutchland Ich werde niemals forgessen. Iqbal Den 4th July 1912 Wie ist Frau Prof. Ich glaube den haus ist füll. Es ist der grosse Moschee in Dehli. ۱۲۷ ابوالکلام آزاد کچھ عرصہ الحاد کے قریب رہ چکے تھے۔ پھر عشقِ مجازی سے گزرے۔ دو برس پہلے اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی جوڑ نہیں۔ مذہبی عقاید اور عقل کو ذہن کے الگ الگ خانوں میں رکھنا چاہیے۔ ایمان پختہ ہو گیا۔ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو کلکتہ سے الہلال اخبار جاری کیا۔لفاظی بہت تھی مگر دوسرے اخباروں سے مختلف تھا۔ ۱۲۸ ۱۸ جولائی کو پیسہ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا کہ عنقریب منتخب ہونے والی نئی کونسل میں بھی بیرسٹر جناح کو شامل ہونا چاہیے۔ تاکہ اپنے لکھے ہوئے مسودے کی وضاحت کر کے وقف بل کو منظور کروا لیں۔ مسلمان انہیں منتخب نہ کریں تو حکومت خود نامزد کر دے: افسوس ہے کہ آنریبل مسٹر جناح نے امپیریل کونسل میں اسلامی فوائد کی کافی نگہداشت نہ کی اور اکثر معاملات پر اُن سے خلافِ توقع رائیوں کا اظہار ہوا۔ خصوصاً آنریبل مسٹر باسو کے مسودہ شادی پر اُنہوں نے شرعِ اسلام کی ترمیم میں کوئی حرج نہ دیکھاجس پر اہلِ اسلام کااُن سے کبیدہ خاطر ہونا بالکل سچا ہے اور اُن کے انتخاب کی بہت ہی کم اُمید لگائی جا سکتی ہے۔ ۱۲۹ مولوی میر حسن کے چھوٹے بھائی سید عبدالغنی جن کے بیٹے احسان کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں اقبال کی زبان سے میر حسن کے سامنے یہ مصرعہ نکل گیا تھا، ’’تیرا احسان بہت بھاری ہے،‘‘ اُن دنوں پنجاب کے قصبے دینا نگر میں تھے۔ آریہ سماجی ہندوؤں کے مقابلے پر انجمن نصرت الاسلام بنائی تھی۔ یہ انجمن مختلف علما ٔ کو دینا نگر آنے کی دعوت دیتی تھی۔ جولائی میں اقبال کو بھی دعوت دی۔ انہوں نے معذرت کر لی۔’’میں نے تو پبلک لائف بوجوہ ترک کر دی ہے،‘‘۲۰ جولائی کو سید عبدالغنی کے نام اپنے مختصر خط میں لکھا۔ سید عبدالغنی کے چھوٹے لڑکے سید نذیر نیازی اُس وقت کم سن تھے۔ ۱۳۰ اقبال نے کئی لوگوں کو الہلال کا مستقل خریدار بنا کر اُن کے پتے اخبار کے فتر روانہ کر دیے۔۹۱ ۱۳۱ بہت دنوں سے گرامی کا کوئی خط موصول نہیں ہوا تھا۔ اقبال نے خط لکھا۔ گرامی کی بیگم کا نام بھی اقبال تھا۔ ترکؔ تخلص کر کے اُردو میں شعر بھی کہتی تھیں۔ بنام گرامی لاہور ۳ ستمبر ۱۲ء مخدومی جناب مولانا مولوی گرامی صاحب آپ کا تخلص گرامی کی جگہ ’’نومی‘‘ ہونا چاہیے تھا کیونکہ آپ سوتے بہت ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ راون لنکا کے بادشاہ کی طرح آپ چھ ماہ سوتے ہیں اور چھ ماہ جاگتے ہیں۔ حیدرآباد کی شاہی میں تبدیلی ہوئی، وزارت بدل گئی مگر آپ ابھی اونگھ رہے ہیں۔ برائے خدا کبھی خیریت سے مطلع کیا کرو۔ آپ کے بہت سے لاہوری دوست استفسار کرتے ہیں تو مجھے یہی جواب دینا پڑتا ہے کہ مولانا گرامی آرام میں ہیں۔ اکثر تو یہ کہتے ہیں کہ ان کو خط لکھ کے جگائیے مگر اس کے لیے شورِ محشرکی ضرورت ہے، خطوں سے کیا ہوتا ہے۔ کب تک لاہور آنے کا قصد ہے؟ ہم نامِ اقبال سلام قبول کریں، نیز اُن سے درخواست ہے کہ مولوی گرامی یعنی ’’شیخ ِ نامی‘‘ سے جس طرح بن پڑے خط لکھوائیں۔ والسّلام آپ کا خادم محمد اقبال از لاہور ۱۳۲ ضلع لائل پور کے چک جھمرہ میں کوئی شاکر صدیقی تھے جنہیں شعر کہنے کا شوق تھا۔ مخزن کے معاون مدیر کیسرا سنگھ نے انہیں اقبال سے اصلاح لینے کا مشورہ دیا۔ ۷ ستمبر یا اس کے قریب اقبال نے شاکر کے خط کے جواب میں لکھا: شاعرانہ خیالات و سوز و گداز، یہ سیکھنے سکھلانے کی شے نہیں، قدرتی بات ہے۔۔۔ مجھ کو اپنے ضروری مشاغل سے فرصت کہاں کہ کوئی ذمہ داری کا کام اپنے سر پر لوں۔ میں نے آپ کے اشعار پڑھے ہیں، میری رائے میں آپ اِس جھگڑے میں نہ پڑیں تو اچھا ہے۔ ۱۳۳ یہ سرودِ قمری و بلبل فریبِ گوش ہے باطنِ ہنگامہ آبادِ چمن خاموش ہے غزل۹۲ اِس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۱۳۴ ستمبر ۱۹۱۲ء میں شیخ عطا محمد ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ تنیوں لڑکے ابھی اسکول میں تھے۔ اُن سے چھوٹی دو لڑکیاں تھیں۔ نوکری سے بچائی ہوئی رقم مکان کی تعمیر پر صرف ہو چکی تھی۔ عطا محمد کسی اور نوکری کی فکر میں رہنے لگے۔ اقبال اس کے حق میں نہ تھے۔ اپنے ذمے اخلاقی قرض سمجھتے تھے کہ بھائی کی اولاد کے لیے کم سے کم اُتنا ضرورکر دیں جتنا بھائی نے اُن کے لیے کیا تھا۔ ۹۳ ۱۳۵ محمد دین فوق نے اقبال سے اسلامی احکام کے متعلق کچھ سوالات پوچھے۔ اقبال نے دو باتوں پر زور دیا: ۱ اسلامی احکام کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر قابو پانا سیکھے۔ چنانچہ نمازکے اوقات کے تعین میں اور روزہ، زکٰوۃ، حج اور جہاد کے فرض کرنے میں ایک طرح سے مسلمانوں کا بہت بڑا امتحان ہے کہ دن کے ہر مرحلے پر اور زندگی کے ہر موڑ پر خدا کے احکام کی خاطر کس حد تک قربانی دینے پر تیار ہیں۔ ۲ اسلامی تصوف دراصل شریعت کی ایسی ہی پابندی کا نام تھا۔ بعد کے لوگوں نے جس طرح شریعت سے روگردانی کے لیے شاعرانہ تاویلیں دریافت کی تھیں وہ نہ صرف اسلام کے خلاف تھیں بلکہ حقیقی تصوف سے بھی دُور تھیں۔ ’’غرض ارکانِ اسلام کی پابندی مسلمانوں کا عظیم امتحان ہے،‘‘ اقبال نے کہا۔ ’’ اور دراصل اِسی کا نام اسلامی تصوف ہے کیونکہ شعائرِ اسلام کی پابندی سے رُوح کو وہ تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں تبتل الیٰ اللّٰہ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘۹۴ ۱۳۶ ۶ اکتوبر کو اقبال انجمن حمایت اسلام کی تالیف و اشاعت کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے۔ کالج کمیٹی کے رکن وہ پہلے ہی سے تھے مگر اب اس تقرر کی توسیع بھی ہوئی۔۹۵ ۱۳۷ ۹ اکتوبر کو مسلم گزٹ میں شبلی نعمانی کے مضمون ’مسلمانوں کی پولیٹیکل کروٹ‘ کی چوتھی قسط شائع ہوئی۔ ہندومسلم اتحاد کی حمایت کی۔ اُسی روز الہلال میں اُن لوگوں کے ناموں کی فہرست شائع ہوئی جنہوں نے خریدار مہیا کیے تھے۔ دہلی کے کسی بزرگ نے سب سے زیادہ یعنی بارہ خریدار مہیا کیے تھے مگر اپنا نام چھاپنے سے منع کیا تھا۔ دوسرے نمبر پر اقبال کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ دس خریدار مہیا کیے تھے۔۹۶ اُس مہینے امام بی بی بیمار ہوئیں اور اقبال سیالکوٹ چلے آئے۔ بیماری طویل ہوئی۔ کئی روز رہنا پڑا۔ ۹۷ ۱۳۸ لاہور میں عجیب واقعہ ہوا۔ اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کا بیان ہے: ایک مسلمان رئیس نے اپنے آبائی قبرستان کو فروخت کر کے بہت سا روپیہ پیدا کیا۔ لاہور کے مسلمانوں میں اس وجہ سے اس شخص سے اِس قدر نفرت پیدا ہو گئی تھی کہ خود اس کے اعزہ نے اس سے قطع تعلق اور عدم تعاون کر لیاتھا۔۹۸ ۱۳۹ دارالحکومت دہلی آیا تو محمد علی (جوہرؔ) بھی آگئے۔ ۱۲ اکتوبر سے کامریڈ وہاں سے نکلنے لگا۔ اُردو میں اخبار نکالنے کا ارادہ بھی تھا۔ جس طرح کامریڈ عوام کی رائے حکومت تک پہنچاتا اُسی طرح اُردو اخبار عوام کو حکومت کے خیالات سے آگاہ کر سکتا تھا۔ اخبار کا نام ہمدرد تجویز ہوا تھا۔ بیروت، شام اور مصر سے ٹائپ آنے کا انتظار تھا۔ اِدارت کے لیے مولوی عبدالحق سے خط کتابت ہوئی تھی۔ وہ عربی فارسی جاننے کی وجہ سے مولوی کہلاتے تھے۔ مذہبی خیالات سے قدرے فارغ تھے۔ ہاتھ نہ لگے۔ لکھنؤ سے عبدالحلیم شرر دو سو روپے ماہوار پر تشریف لائے تھے۔ ۱۴۰ عثمانی سلطنت مشرقی یورپ کی چار مسیحی ریاستوں کے نرغے میں تھی۔ اکتوبر کے آغاز میں مونٹینگرونے حملہ کیا تھا۔ چند روز بعد سربیا، بلغاریہ اور یونان بھی جنگ میں شامل ہو گئے تھے۔ مطالبہ تھا کہ بلقان کے وہ علاقے ان کے حوالے کر دیے جائیں جہاں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ انہیں عثمانی شہنشاہوں نے اپنے عروج کے زمانے میں فتح کیا تھا۔ چند روز میں عیسائی علاقے ترکوں کے ہاتھ سے نکل چکے۔ دارالحکومت قسطنطنیہ کی حفاظت کا سوال بھی پیدا ہو گیا تھا۔ بہت سے ترک سپاہی ایک سال سے طرابلس میں اِٹلی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اُنہیں واپس بلانے کی ضرورت پڑی۔ ۱۸ اکتوبر کو عثمانی سلطنت نے طرابلس پر اِٹلی کا قبضہ تسلیم کر لیا۔بلقان میں جنگ جاری رہی۔ ہزاروں میل دُور برطانوی ہندوستان میں بیٹھے ہوئے شبلی نعمانی نے دردناک نظم لکھی کہ سلطنت ِ عثمانیہ مٹی تو اسلام مٹ جائے گا۔ ’شہرآشوبِ اسلام‘خاص و عام کی زبان پر جاری ہو گئی: حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک چراغِ کشتۂ محفل سے اُٹھّے گا دھواں کب تک ۱۴۱ اٹھارہ سالہ حکیم احمد شجاع ابھی تک علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بعد میں اُس فضا کا تذکرہ کیا جو اُن دنوں کے مخصوص حالات میں پیدا ہوئی تھی: میں نے اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہے کہ وہ مسلمان نوجوان جو پانچ وقت مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ جو خدا کے فضل و کرم سے تمام اسلامی شعائر کے پابند ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کے گھر پرورش پائی ہے اور جو ہندوستان میں بیٹھے بیٹھے ان تمام جذبات سے مشتعل ہو جاتے ہیں جو وقتاً فوقتاً عالمِ اسلام کو ہیجان میں لے آتے ہیں، جب آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں اور سلسلۂ گفتگو جاری ہوتا ہے تو کبھی اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ کی سیرت کا ذکر نہیں کرتے۔ اگر صلاح و فلاح کی منزل ڈھونڈی جاتی ہے تو نیٹشا، کانٹ، [جان اسٹوارٹ] مِل، بینتھم اور شاپنہار کی دکھائی ہوئی راہوں سے۔ اور حریت و آزادی کے سبق سیکھے جاتے ہیں تو بریڈلا، دادابھائی نوروجی، تلک، گوکھلے اور گاندھی کے لیکچروں سے۔ کیا اسلام کے مشاہیر کی زندگی ان تمام فضائل سے عاری ہے۔ کیا اللہ کے کام میں صلاح و فلاح کا کوئی رستہ نہیں۔ کیا پیغمبرِ اسلامؐ کی سیرت میں ایسے اوصاف نہیں کہ اِس زمانے کی مقتضیات کے کفیل ہو سکیں۔ کیا اسلامی عظمت اور شرف کی تاریخ اپنے آپ کو دُہرا نہیں سکتی۔ اور کیا اسلامی تہذیب میں ایسی کوئی صلاحیت موجود نہیں کہ دَورِ حاضر کے تمدن کے معیار پر پوری اُتر سکے۔ غرض اِسی قسم کے سوالات تھے جن کے گرداب میں میری فکر دن رات غوطے کھاتی رہتی تھی کہ ناگہاں کلکتے کے مطلعِ انوار سے [۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو] ’’ الہلال‘‘ کی شعاعیں نمودار ہو کر ظلماتِ ہند کو روشن کرنے لگیں۔ ابولکلام آزاد نے الہلال کے اوراق میں قرآن کو کچھ اِس طرح پیش کیا کہ یہ معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ وہ قرآن کے سیاق کو مدِّنظر رکھ کر اپنی عبارت کی طرح ڈالتے ہیں یا اُن کے حافظے میں قرآن اِس قدر مستحضر ہے کہ جس مضمون پر بھی وہ قلم اُٹھاتے ہیں اُن کے دعوے کی دلیل اور اُن کے نظریے کی تائید نصِّ قرآنی سے مل جاتی ہے۔ اُدھر تو ’’الہلال‘‘ کی نورافشانیوں سے کفر و اِنکار کی ظلمتیں کافور ہونے لگیں۔ اِدھر پنجاب کی فضا اقبال کے اسلامی نغموں اور توحید کے ترانوں سے گونج اُٹھی۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کی جگہ اب ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کا ترانہ اب بچے بچے کی زباں پر تھا۔۔۔ اِن جذبات کا ردِ عمل علی گڑھ کے طلبہ پر بڑی سُرعت اور شدت سے ہوا۔۔۔ کالج کے طلبہ کے مختلف حلقوں میں اب ’’الہلال‘‘ کے پرچے سبقاً پڑھے جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قرآن ایک بھولا ہوا سبق تھا جو یکلخت یاد آ گیا۔ اور جب یاد آیا تو اِس ڈر سے کہ کہیں یہ بھولا ہوا سبق پھر یاد سے محو نہ ہو جائے، اس کو حافظے میں محفوظ رکھنے کی تدبیریں دن رات ہونے لگیں۔ ۱۴۲ شرر نے لکھنے والوں سے ہمدرد کے لیے درخواست کی تھی۔ عبدالماجد دریابادی نے جان اسٹوارٹ مل کی آن لبرٹی (On Liberty) کا کچھ حصہ ترجمہ کر کے بھیجا۔ محمد علی نے دیکھا تو کہا کہ ترجمہ شائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ مل کے فلسفے پر مضمون لکھوانا بہتر ہو گا۔ ۱۴۳ اسماعیل میرٹھی نے اردو گرامر کے بارے میں کچھ سوال بھجوائے تھے۔ کئی روز سے پڑے تھے۔ ۲ نومبر کو اقبال نے خط لکھا: خط کتابت سے بھی معذور ہوں بلکہ ضروری مشاغل بھی بوجہ [والدہ] کی علالت چھٹ گئے ہیں۔ لاہور جاؤں گا تو آپ کے سوالات کا جواب لکھنے کی کوشش کروں گا مگر میں تو اردو زبان کا ماہر نہیں، اور بالخصوص گرامرسے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے خیال میں آپ مولوی فتح محمد صاحب جالندھری سے خط کتابت کریں جنہوں نے حال میں ایک کتاب اردو گرامر پر تصنیف کی ہے اور وہ کتاب اچھی ہے۔ ۱۴۴ ۱۳۱کتوبر کو شتلجہ کا اہم قلعہ عثمانی سپاہیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ حملہ آوروں کے خلاف قسطنطنیہ کے دفاع میں یہ آخری محاذ تھا۔ ۱۴۵ ۱۳ نومبر کو الہلال میں گیارہ سالہ عرب بچی فاطمہ بنت عبداللہ کی تصویرشائع ہوئی۔ ساتھ ہی سرخی تھی کہ یہ یہ مجاہدہ ’غزوۂ طرابلس‘ میں شہید ہوئی۔ جن دنوں ترک طرابلس میں اٹلی کا مقابلہ کر رہے تھے، اُنہوں نے مقامی عرب آبادی کی مدد بھی حاصل کی تھی۔ ان میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ کم سن لڑکیاں سپاہیوں کو پانی پلانے کا کام کرتیں۔ انہی میں فاطمہ بنت عبداللہ تھی۔دو ترک ڈاکٹروں نے اُسے میدانِ جنگ میں زخمیوں کی خدمت کرتے دیکھا تھا۔ اُن کا بیان تھا کہ جون کے ایک معرکے میں وہ کسی زخمی ترک سپاہی کو پانی پلا رہی تھی۔ ایک اطالوی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ اِس نے کہیں سے تلوار اٹھا کرایسا وار کیا کہ اطالوی کی کلائی کٹ کر لٹکنے لگی۔ پھر دوبارہ پانی پلانے پلٹی۔ اطالوی نے فاطمہ کا نشانہ لے کر بندوق چلا دی۔ الہلال کے اِسی شمارے میں شبلی نعمانی کی نظم بھی شائع ہوئی۔ علیگڑھ والوں کوبرا بھلا کہا گیا تھا۔ ۱۴۶ اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ پر نظم لکھی۔ پچھلے سات برس کے بتدریج ذہنی ارتقأ کی ایک کڑی تھی۔ مارچ ۱۹۰۷ء والی غزل میں ایک خوشگوار رُوحانی اور ثقافتی انقلاب کی پیش گوئی کی تھی۔ اگرچہ اُس انقلاب کی پیدایش بڑے دکھوں کے ساتھ ہونے والی تھی۔ اب کہا کہ فضا میں کچھ نئے تارے پیدا ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ابھی دریافت نہیں ہوئے۔ ۱۹۰۹ء میں ’گورستانِ شاہی‘ والی نظم میں اکہا تھا:’’آخری بادل ہیں اِک گذرے ہوئے طوفاں کے ہم‘‘ اور: ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں اب فاطمہ بنتِ عبداللہ کے حوالے سے لکھا: بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں مارچ ۱۹۱۱ء میں علیگڑھ والے انگریزی لیکچر میں کہا تھا کہ ملت کے مقاصد کو نئی نسل تک پہنچانا عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم اس کے لحاظ سے ہونی چاہیے۔ الہلال نے فاطمہ کو ’’مجاہدہ‘‘ لکھا تھا۔ وہ تھی بھی۔ اقبال نے نظم لکھتے ہوئے اُس کی غازیانہ شجاعت کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بھی نسوانیت کے اُس تصور کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جسے علیگڑھ والے لیکچر میں واضح کر چکے تھے۔ فاطمہ کو ’’حورِ صحرائی‘‘ اور گلستانِ خزاں منظر کی کلی کہا۔ نیز: پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اِس آغوش میں نظم کی ابتدائی صورت جو بیاض میں درج ہوئی، اُس میں آٹھ آٹھ اشعار کے دو بند تھے۔۹۹ فاطمہ بنت عبداللہ [متروک متن] فاطمہ! تو آبروئے اُمتِ مظلوم ہے ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے کس قدر عزت تجھے اے حورِ صحرائی ملی غازیانِ ملتِ بیضا کی سقائی ملی ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر دل کہ برگِ نازکِ گل سے بھی تھا پاکیزہ تر موت کے اندیشۂ جانکاہ سے بیگانہ تھا قلزمِ خوں کی ہم آغوشی سے بھی ڈرتا نہ تھا یہ کلی بھی اِس گلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی سینۂ ملت میں ایسا جلوۂ نادیدہ تھا جس کے نظارے کو اِک عالم سراپا دیدہ تھا اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے ہے کوئی ہنگامہ تیری تربتِ خاموش میں پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اِس آغوش میں بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعتِ مقصد سے میں آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اِس مرقد سے میں یعنے نوزائیدہ تاروں کا فضا میں ہے ظہور دیدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نُور جو ابھی اُبھرے ہیں ظلمت خانۂ ایام سے جن کی ضو ناآشنا ہے قیدِ صبح و شام سے ہے ابھی جن کے لیے رفتار کی لذت نئی آسماں کا خم نیا، وسعت نئی، عظمت نئی جن کی تابانی میں اندازِ کہن بھی نَو بھی ہے اور خونِ بنتِ عبداللہ کا پَرتو بھی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں کم و بیش اسی صورت میں کہیں شائع ہوئی۔ بعد میں کبھی خاصی ترمیم ہوئی: فاطمہ بنت عبداﷲ عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پِلاتی ہوئی شہید ہُوئی ۱۹۱۲ء [نیا متن] فاطمہ! تُو آبرُوئے اُمّتِ مرحوم ہے ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے یہ سعادت، حُورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی غازیانِ دیں کی سقّائی تری قسمت میں تھی یہ جہاد اﷲ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر یہ کلی بھی اس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی! اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہُوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں! فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے ہے کوئی ہنگامہ تیری تُربتِ خاموش میں پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعتِ مقصد سے میں آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور دیدئہ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور جو ابھی اُبھرے ہیں ظُلمت خانۂ ایّام سے جن کی ضَو ناآشنا ہے قیدِ صبح و شام سے جن کی تابانی میں اندازِ کُہن بھی، نَو بھی ہے اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پرتَو بھی ہے ۱۴۷ مولانا ظفر علی خاں نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹر سے رابطہ کیا۔ انگریزی اخباروں کی طرح تازہ خبریں منگوانے کا بندوبست کیا۔ ترکوں کی مالی امداد بھی کرنا چاہتے تھے۔ اعلان کیا کہ چندہ اکٹھا کیا جائے گا۔ ۳۰ نومبر کو موچی دروازے کے باہر باغ میں مغرب کی نماز کے بعد جلسہ ہو گا۔ اقبال نظم پڑھیں گے۔ ۱۴۸ مسلم یونیورسٹی کے مطالبے میں حکومت کے پاس کوئی وفد بھیجنے کے لیے لاہور میں انجمن حمایت اسلام کو تین ارکان منتخب کرنے تھے۔ ۱۹ نومبر کو ان کا چناؤ ہوا۔ میاں فضل حسین ۲۵ ووٹوں سے، اقبال ۲۱ ووٹوں سے اور ملک عمر حیات خاں ۲۰ ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ ۱۴۹ اِٹلی کے خلاف ردِ عمل زوروں پر تھا۔ موچی دروازے کے باہر محمڈن ہال میں ایک جلسہ ہوا۔اِٹلی کی بنی ہوئی ترکی ٹوپیوں سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم نے جو بٹالہ کا رہنے والا تھا سب سے پہلے اپنی ٹوپی اتار کر زمین پر پھینکی۔ پھر ٹوپیوں کا ڈھیر لگ گیا۔۱۰۰ ۱۵۰ ۲۵ نومبر کو عطیہ فیضی کی شادی ہوئی۔ دولہا یہودی آرٹسٹ سیموئیل رحمین تھا۔ مشہور ہوا کہ مسلمان ہو گیا ہے۔ ۱۵۱ ایران مٹ بھی جائے تو مسلمان قوم کا وجود ختم نہیں ہو سکتا۔ تیرہویں صدی میں بغداد کو تباہ کرنے والے تاتاریوں کی اگلی نسل نے بھی اسلام قبول کیا تھا! پچھلے چند برسوں میں اسلامی تمدن کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے تھے اب نظم ہوا۔ الفاظ کے خوبصورت انتخاب اور منفرد تشبیہوں میں تاثیر تھی، مثلاً ہمعصر زمانے کو رات اور مسلمان کو دھندلا سا ستارا کہنا جو دنیا میں سچائی کی کشتی کا واحد سہارا ہو۔اسلام کے درخت کو آبرومندی کا نمونہ اور سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا پھل قرار دیا۔ شاعر کی آواز عرش پر پہنچنے کی منظرکشی بعد کے بڑے شاہکاروں میں اور بھی سنورنے والی تھی۔۱۰۰ تہذیبِ نسواں کی کوششوں پر تنقید ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سجاد حیدر یلدرم کا ’قصۂ لیلیٰ مجنوں‘ (پیروڈی) بھی ذہن میں تھا۔ اس کے علادہ کچھ عرصہ پہلے یلدرم نے ’وہ نگاہیں‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تو اُن کی منگیتر نے بھی ’اُف وہ نگاہیں‘ لکھ کر شائع کروایا ۔ اس کا بہت چرچا تھا۔ اقبال نے کہا کہ اگر قیس صحراؤں کو چھوڑ کر شہر کی تن آسانی کا عادی ہو تو پھرلیلیٰ بھی لکھنا لکھانا شروع کر دے اور رسالوں میں مضامین چھپواکر گویا پردے میں رہتے ہوئے بے پردہ ہو جائے۔ بعد میں نظم میں بہت ترمیم ہوئی ۔ بہرحال اُس وقت بیاض میں جو متن درج ہوا، وہ یوں تھا: جوابِ شکوہ [متروک متن] دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں‘ طاقت پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے‘ رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے اُڑ کے آواز مری تابفلک جا پہنچی یعنی اس گل کی مہک عرش تلک جا پہنچی جب مئے درد سے ہو ِخلقتِ شاعر مدہوش آنکھ جب خون کے اشکوں سے بنے لالہ فروش کشورِ دل میں ہوں خاموش خیالوں کے خروش چرخ سے سُوئے زمیں شعر کو لاتا ہے سروش قیدِ دستور سے بالا ہے مگر دل میرا فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا پیرِ گردوں نے کہا سن کے‘ کہیں ہے کوئی بولے تارے کہ سرِ عرش بریں ہے کوئی چاند کہتا تھا‘ نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی‘ پوشیدہ یہیں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا! تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا! آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا! غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں! اس قدر شوخ کہ اﷲ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجودِ ملائک‘ یہ وہی آدم ہے! عالمِ کیف ہے‘ دانائے رموزِ کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو آئی آواز‘ سنی ہم نے کہانی تیری پھونک ڈالے نہ تجھے شعلہ بیانی تیری ۔۔۔ ہے عجب چیز مگر نغززبانی تیری شُکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تُو نے ہم سخن کر دیا بندے کو خدا سے تُو نے ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے رہر و منزل ہی نہیں تربیت عام تو ہے جوہرِ قابل ہی نہیں جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں جس طرح احمدِ مختار ہے نبیوں میں امام اس کی امت بھی ہے دنیا میں امامِ اقوام کیا تمہارا بھی نبی ہے وہی آقائے اَنام؟ تم مسلماں ہو؟ تمہارا بھی وہی ہے اسلام؟ اس کی امّت کی علامت تو کوئی تم میں نہیں مے جو اسلام کی ہوتی ہے وہ اِس خُم میں نہیں ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبرؐ ہیں بت شکن اٹھ گئے‘ باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں کہیں تہذیب کی پُوجا کہیں تعلیم کی ہے قوم دنیا میں یہی احمدِ بے مِیم کی ہے! کِشورِ ہند میں کلیۂ ناکام کا بُت عربستاں میں شفاخانۂ اسلام کا بُت اور لندن میں عبادت کدۂ سام کا بُت لیگ والوں نے تراشا ہے بڑے نام کا بُت بادہ آشام نئے، بادہ نیا، تم بھی نئے یعنی کعبہ بھی نیا، بُت بھی نئے، تم بھی نئے وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا نازش موسم گل لالۂ صحرائی تھا جو مسلمان تھا‘ اﷲ کا سودائی تھا کبھی معشوق تمھارا یہی ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کر لو ملت احمدؐ مرسل کو مقامی کو لو! کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمھیں پیاری ہے طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے تمھی کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے؟ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو ہو نِکونام جو قبروں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے صفحۂ دہرئے سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تھارے ہی مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظر فردا ہو! کیا کہا بہرِ مسلماں ہے فقط وعدۂ حور شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور عدل ہے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوئہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ‘ دین بھی ایمان بھی ایک حرمِ پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ کون ہے تارکِ آئین رسول مختارؐ؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟ ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟ قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا تو غریب امرأ نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملتِ بیضا غربأ کے دم سے واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برقِ طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود! وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو! دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک عدل اس کا تھا قوی لوثِ مراعات سے پاک شجَرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوقُ الادراک ’’خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود خالی از خویش شدن صورتِ مینایش بود‘‘ ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا ہے تمھیں موت کا ڈر اُس کو خدا کا ڈر تھا باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو! ہر کوئی مستِ میٔ ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟ حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم تم خطاکار و خطابیں وہ خطاپوش و کریم چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم تختِ فغفور بھی اُن کا تھا سریرِ کے بھی یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟ خودکشی شیوہ تمھارا وہ غیور و خوددار تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بہ کنار اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت اُن کی علمِ حاضر بھی پڑھا زائرِ لندن بھی ہوئے مثلِ انجم افقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے صفتِ طائرِ ھم کردہ نشیمن بھی ہوئے حال ان کا مئے نَو اور زبوں کرتی ہے شبِ مہ سایہ کی ظلمت کو فزوں کرتی ہے قیس زحمت کشِ تنہائیِ صحرا نہ رہے شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے یہ ضروری ہے حجابِ رُخِ لیلا نہ رہے شوقِ تحریرِ مضامیں میں گھلی جاتی ہے بیٹھ کر پردے میں بے پردہ ہوئی جاتی ہے عہدِنو برق ہے آتش زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے ملتِ ختمِ رُسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی یعنی ہونے کو ہے کانٹوں سے بیاباں خالی گل برانداز ہے خونِ شہدا کی لالی ساحلِ بحر پہ رنگِ فلک عنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے امتیں گلشنِ ہستی میں ثمرچیدہ بھی ہیں اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں سیکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا غیرِ یک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا ’’نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو‘‘ تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا امتحاں ہے ترے ایثار کا خود داری کا کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری ختم کاہے کو ہوا کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے ہو نہ افسردہ اگر ہل گئی تعمیر تری رازِ توحید! حکومت نہیں تفسیر تری تو وہ سرباز ہے اسلام ہے شمشیر تری نظمِ ہستی میں ہے کچھ اور ہی تقدیر تری کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے وسعتِ کون و مکاں ساز ہے مضراب ہے یہ دہر مسجد ہے سراپا خمِ محراب ہے یہ جامِ گردوں میں عیاں مثلِ مئے ناب ہے یہ رُوحِ خورشید ہے خونِ رگِ مہتاب ہے یہ صوت ہے نغمۂ کُن میں تو اِسی نام سے ہے زندگی زندہ اِسی نُور کے اتمام سے ہے دشت میں دامنِ کہسار میں میدان میں ہے بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان ’رَفَعْنَالَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے مردمِ چشمِ زمیں یعنی وہ کالی دنیا وہ تمھارے شہدأ پالنے والی دنیا گرمیٔ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح انجم اُس کے فلک اُس کے ہیں زمیں اُس کی ہے کیا یہ اغیار کی دُنیا ہے؟ نہیں اُس کی ہے سجدے مسجود ہوں جس کے وہ جبیں اُس کی ہے وہ ہمارا ہے امیں قوم امیں اُس کی ہے طوف احمدؐ کے امینوں کا فلک کرتے ہیں یہ وہ بندے ہیں ادب جن کا مَلَک کرتے ہیں مثلِ بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا رخت بردوشِ ہوائے چمنستاں ہو جا ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا! بول اس نام کا ہر قوم میں بالا کر دے اِس شبِ مادہ پرستی میں اجالا کر دے۱۰۲ بعد میں کبھی ترمیم کی جس سے نظم کی صورت کافی بدل گئی: جوابِ شکوہ [نیا متن] دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا آسماں چیر گیا نالۂ بے باک مرا پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی بولے سیارے، سر عرشِ بریں ہے کوئی چاند کہتا تھا، نہیں! اہل زمیں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا! تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا! آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا! غافل آداب سے سکانِ زمیں کیسے ہیں شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں! اس قدر شوخ کہ اﷲ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجودِ ملائک، یہ وہی آدم ہے! عالم کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ترا اشک بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا آسماں گیر ہوا نعرئہ مستانہ ترا کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے، رہرو منزل ہی نہیں تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائیِ پیغمبرؐ ہیں بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا نازشِ موسم گل لالۂ صحرائی تھا جو مسلمان تھا، اﷲ کا سودائی تھا کبھی محبوب تمھارا یہی ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو ملت احمدؐ مرسل کو مقامی کر لو! کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمھیں پیاری ہے طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے تمھی کہہ دو، یہی آئین وفاداری ہے؟ قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں جذبِ باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو! کیا کہا! بہر مسلماں ہے فقط وعدئہ حور شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوئہ طور تو موجود ہے، موسیٰ ہی نہیں منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک حرمِ پاک بھی، اﷲ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں کون ہے تارکِ آئین رسولِ مختارؐ؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟ ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟ قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمھیں پاس نہیں جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا، تو غریب امرأ نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود! وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو! دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک شجر فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود خالی از خویش شدن صورتِ مینایش بود ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا ہے تمھیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو! ہر کوئی مست میٔ ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے! حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم تخت فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟ خودکشی شیوہ تمھارا، وہ غیور و خود دار تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت اُن کی مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا قیس زحمت کشِ تنہائیِ صحرا نہ رہے شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیما نہ رہے! وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے یہ ضروری ہے حجابِ رخِ لیلا نہ رہے! گلۂ جور نہ ہو، شکوئہ بیداد نہ ہو عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو! عہد نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے ملت ختم رسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا پاک ہے گردِ وطن سے سر داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا نخل شمع استی و درشعلہ دود ریشۂ تو عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا کیوں ہراساں ہے صہیل فرسِ اعدا سے نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری کوکبِ قسمت امکاں ہے خلافت تیری وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہوجا نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا! قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شانِ ’رَفَعْنَالَکَ ذِکرَْک‘ دیکھے مردمِ چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنیا گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری ماسویٰ اﷲ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں ۱۵۲ ولیم ارنسٹ ہوکنگ (William Ernest Hocking) امریکی فلسفی تھے۔ مثالیت پسند (Idealist) مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مذہب میں عملیت پسندی (pragmatism) کی تحریک جو ولیم جیمز نے دس برس پہلے شروع کی تھی، اُس سے متاثر تھے۔ اس برس مذہب کے فلسفیانہ مطالعے پر ان کی کتاب انسانی تجربے میں خدا کے معانی (The Meaning of God in Human Experience) شائع ہوئی۔ کبھی نہ کبھی اقبال کی نظر سے ضرور گزری۔ ہوکنگ کے نزدیک احساس (feeling) اور فکر (thought) میں باطنی ربط تھا۔ اِس تجزیے کی خصوصی اہمیت مسلمانوں کے لیے یہ ہو سکتی تھی کہ قرآن شریف کے حادث یا قدیم ہونے کی بحث جس نے عباسی عہد میں بڑی ہلچل مچائی تھی، اُسے ایک نئی روشنی میں دیکھا جا سکتا تھا۔ اقبال نے بعد میں انگریزی میں تبصرہ کیا: احساس جو لفظوں میں بیان نہ ہو سکے، وہ اپنے نصیب کی تلاش میں خیال بن جاتا ہے۔ وہ خیال اپنے آپ میں سے اپنے لیے ظاہری لباس برآمد کرنے لگتا ہے۔ یہ کہنا محض استعارہ نہیں ہے کہ خیال اور لفظ دونوں ہی احساس کے بطن سے ایک ساتھ جنم لیتے ہیں اگرچہ منطقی استفہام ان سے صرف باری باری ہی نمٹ سکتا ہے اور یوں انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ سمجھ کر اپنی مشکلات خود پیدا کرتا ہے۔ ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ لفظ بھی الہام ہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔۱۰۳ The Meaning of God in Human Experience A Philosophical Study of Religion by William Ernest Hocking [Excerpts] What is that other-than-feeling in which feeling may end? I answer, consciousness of an object. Feeling is instability of an entire conscious self: and that which will restore the stability of this self lies not within its own border but beyond it. Feeling is outward-pushing, as idea is outward-reporting: and no feeling is so blind as to have no idea of its own object. As a feeling possesses the mind, there also possesses the mind as an integral part of that feeling, some idea of the kind of thing which will bring it to rest. A feeling without a direction is as impossible as an activity without a direction: and a direction implies some objective. There are vague states of consciousness in which we seem to be wholly without direction; but in such cases it is remarkable that feeling is likewise in abeyance. For example, I may be dazed by a blow, neither realizing what has happened nor suffering any pain, and yet quite conscious that something has occurred: the experience waits an instant in the vestibule of consciousness, not as feeling but purely as fact, until idea has touched it and defined a course of response. At that same moment it is felt as painful. If we are right, feeling is quite as much an objective consciousness as is idea: it refers always to something beyond the present self and has no existence save in directing the self toward that object in whose presence its own career must end. * Religious passion, at length, is the best illustration of all this: for this is the mark of religious passion, that a specific view of the whole makes conscious connection with one's practical ultimata... If ever upon the stupid day-length time-span of any self, or saint either, some vision breaks to roll his life and ours into new channels, it can only be because that vision admits into his soul some trooping invasion of the concrete fulness of eternity. Such vision doubtless means sub- conscious readiness, and subconscious resonance too, but the expansion of unused air-cells does not argue that we have ceased now to breathe the outer air: the very opposite! No. The so-called wisdom of feeling is of the same stuff and substance with other wisdom, positive, objective, belonging to our world of ideas. The religious vista is large and open: in integral continuity with the field-lines of our overt existence (not narrowly caught by peering up back-chimney-flues of consciousness). Whatever is thus continuous with the real known in idea is itself known in idea, not otherwise. There are vague ideas, and unfinished ideas, uncertain predicates, qualities only dimly divined known most certainly by their difference from others, their negative bearing but none of this haze and floating outline affects the intent and category of the scene-contents. Whatever is, or can be, predicate of idea is itself idea-stuff, whether or not yet successfully defined and connected. ۱۵۳ کانپور میں سڑک بن رہی تھی۔ مچھلی بازار کی مسجد سے کوئی ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر راستہ بدلنا پڑا کیونکہ ایک مندر سڑک کے بیچ میں آتا تھا۔ اب مسجد کا وضوخانہ زد میں آنے لگا۔ بے چینی پھیلنے لگی۔ ۱۵۴ البانیہ میں مسلمان رہتے تھے۔ ترکوں سے آزادی چاہتے تھے۔ ۲۸ نومبر کو وہاں خودمختار حکومت قائم ہو گئی۔ ۱۵۵ ۲۹ نومبر کو زمیندار اخبار میں جسٹس شاہ دین کی نظم کے ساتھ اقبال کا تعارفی خط شائع ہوا: ’عدن ‘کے عنوان سے جناب قبلہ آنریبل مولوی جسٹس شاہ دین صاحب جج عدالت ِ عالیہ پنجاب کی ایک نظم جو نہایت معنی خیز ہے، اتفاق سے میرے ہاتھ آگئی ہے۔۔۔ شاہ دین، جو ہمایوںؔ تخلص کرتے تھے، اُنہوں نے یہ نظم تین چار مہینے پہلے انگلستان جاتے ہوئے لکھی تھی جب بحری جہاز عدن کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ پانچ بند میں مسدسِ حالی کا خلاصہ کر کے اُس میں فلسفہ ملایا تھا: بنی آدم بنا انساں جہاں میں انقلاب آیا سوالِ اولیں کا عرشِ اعظم سے جواب آیا آخر میں کہا تھا کہ اے ہمایوں، کیا عجب اِس چمن میں پھر بہار آئے اور گرد سے نکل کر ایک شہسوار نمودار ہو۔ ۱۵۶ ۳۰ نومبر تک عثمانی حکومت حملہ آوروں سے امن کی درخواست کر چکی تھی جن کی فوجیں قسطنطنیہ کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ امن کی شرائط پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اُس روز لاہور میں موچی دروازے کے باہر ایک ہجوم جمع تھا۔ظفر علی خاں کہہ رہے تھے: ’’ہم لوگ بھی نظمیں کہتے ہیں مگر ڈاکٹر اقبال کی اور ہی بات ہے۔ وہ کبھی کبھی نظم کہتے ہیں مگر اس میں جبرئیل کی پرواز کا رنگ ہوتا ہے۔‘‘ ’’فرشِ زمین کے علاوہ اردگرد کے درختوں اور نالے کے باہر مکانوں کے دروبام پر لوگوں کا ہجوم تھا،‘‘ اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کا بیان ہے۔ چودھری شہاب الدین کرسیٔ صدارت پر بیٹھے تھے ۔ایک روایت کے مطابق محمد علی بھی موجود تھے۔ آغا حشر کاشمیری نے مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق پر تقریر کی۔ اقبال نے ’جوابِ شکوہ‘ پڑھنا شروع کی۔ ایک ایک صفحہ بکنے لگا۔ قیمتیں پچاس روپیہ فی صفحہ تک پہنچیں۔ وطن والے مولوی انشأ اللہ خاں نے دو صفحے ایک سو دس روپے میں خریدے۔ عورتوں نے زیور دے ڈالے۔ شعلہ بیاں مقرروں اور اقبال کی نظم نے ملا جلا کر چار ہزار سے کچھ اوپر روپیہ جمع کر لیا۔۱۰۴ ۱۵۷ کسی بیرونی یونیورسٹی سے پروفیسر صاحب آئے تھے۔ محمڈن ہال میں جلسہ ہوا ۔ روایت ہے کہ اقبال نے معروضی اور موضوعی کیفیات کے موضوع پر انگریزی میں لیکچر دیا: Subjective mind and objective mind اقبال نے یورپ کے بعض مشہور فلسفیوں کی اغلاط کی نشاندہی کی، منطق کی پہلی شکل پر اعتراض کیے۔ جنگِ طرابلس پر بھی گفتگو کی۔ ’’اس لیکچرمیں فلسفے کے بعض طلبہ نے بھی حصہ لیا اور مولوی صدرالدین صاحب نے بھی اشارات پیش کیے،‘‘ حاضرین میں سے ایک کا بیان ہے۔ یہ معلوم نہیں طلبہ کے حصہ لینے کی نوعیت کیا تھی۔ ممکن ہے سوال پوچھے ہوں یا اقبال نے لیکچر کے دوران اُنہیں اسٹیج پر بلایا ہو۔۱۰۵ ۱۵۸ اقبال کے ایک رشتہ دار جمشید راٹھور کا بیان ہے: میری والدہ اور ڈاکٹر صاحب [قبال] کی والدہ چچیری بہنیں تھیں۔ میری والدہ کے والدین ذرا غریب تھے، ڈاکٹر صاحب کے والدین کی حالت ذرا اچھی تھی۔ میری والدہ غیور تھیں، اِس خیال سے اپنی چچیری بہن کو ملنے نہیں جاتی تھیں کہ مبادا یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ کسی غرض سے آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ اکثر آیا کرتی تھیں۔ آخری عمر میں کمزور ہو چکی تھیں۔ اُس زمانے میں دونوں ہاتھ اپنے پہلوؤںپر رکھے ہوئے آہستہ آہستہ چلا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ خدا جانے دونوں بہنوں میں کیا بات چیت ہوئی کہ ڈاکٹر اقبال کی والدہ نے میری والدہ سے کہا، ’میرے اقبال جیسا بچہ پیدا کرو تو میرے مقابلے پر آؤ!۱۰۶ ۱۵۹ جنگ بلقان سے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں ہلچل پیدا ہوئی تھی۔ دہلی میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری جو کانگریس کے سرگرم رکن تھے طبی وفد لے کر ترکی جانا چاہتے تھے تاکہ جنگ میں زخمی ہونے والے ترکوں کی مرہم پٹی کریں۔ اِس نیک کام کے لیے جنہوں نے چندہ اکٹھا کیا اُن میں محمد علی سب سے آگے تھے۔ ۱۶۰ مغربی مورخوں کا طریقہ تھا کہ کسی بھی واقعے کو درج کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری خیال کرتے کہ اُس واقعے کی وجہ کیا تھی اور اس کا نتیجہ کیا ہوا۔اس طریقے کی خوبیاں تو ظاہر تھیں مگر خامی یہ تھی کہ جہاں کسی واقعے کا سبب معلوم نہ ہوتا تھا وہاں مصنف کواپنی طرف سے کچھ نہ کچھ بات بنانی پڑتی تھی۔ اُس مضمون میں جسے سیرۃ النبی مکمل ہونے پر دیباچہ بنانا چاہتے تھے، شبلی نعمانی نے لکھا: اِس میں بہت کچھ اُس کی خودغرضی اور خاص مطمح ِ نظر کو دخل ہوتا ہے۔ وہ اپنے مقصد کو محور بنا لیتا ہے۔ تمام واقعات اُسی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ بخلاف اِس کے اسلامی مورخ نہایت سچائی اور انصاف اور خالص بے طرفداری سے واقعات کو ڈھونڈھتا ہے۔ اُس کو اِس سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ واقعات کا اثر اُس کے مذہب پر، معتقدات پر اور تاریخ پر کیا پڑے گا۔ اس کا قبلۂ مقصد صرف واقعیت ہوتی ہے، وہ اس پر اپنے معتقدات اور قومیت کو بھی قربان کر دیتا ہے لیکن اِس میں حد سے زیادہ تفریط ہو گئی ہے۔ اِس بات سے بچنے کے لیے کہ واقعات رائے سے مخلوط نہ ہو جائیں، وہ پاس پاس کے ظاہری اسباب پر بھی نظر نہیں ڈالتا اور ہر واقعے کو خشک اور ادھورا چھوڑ دیتا ہے۔ شبلی کے ذہن میں یہ خیال جنم لے چکا تھا کہ اگر دونوں طریقوں کو ملایا جائے تو سوانحِ حیات لکھنے کا ایسا طریقہ اختیار کیا جا سکتا تھا جو دُنیا میں اپنی نوعیت کی بالکل نئی چیز ہو۔ بیس برس پہلے الفاروق میں لکھا تھا کہ اسلامی مورخ ہر معلومات کے بارے میں تحقیق کر لیتے تھے کہ راوی کون ہے۔ اب تسلیم کرنا پڑا کہ صرف حدیث لکھنے والے ایسی تحقیق کرتے تھے۔ عام مورخین اور سیرت نگاروں کا یہ حال تھا کہ رسولِ اکرمؐ کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی اس اصول سے فائدہ نہ اٹھاتے۔ شبلی نے حقیقت پسندی سے کام لے کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسلامی دَور میں حدیث پر تحقیق کرنے والے، قانون بنانے والے اور سیرت لکھنے والے اپنے اپنے میدان تک محدود رہے۔ کسی نے دوسرے کے طریقِ کار سے فائدہ نہ اٹھایا۔ خاص طور پر مسلمان مورخین اور سیرت نگار تو بہت ہی لاپروا تھے۔ عباسی خلفأ کی عیاشیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے رسولِ اکرمؐ سے بھی بعض نازیبا باتیں منسوب کر دیں۔ ۱۶۱ ٹیگور کی گیتان جلی کا انگریزی ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔انتساب روتھن اسٹائن(Rothenstein) کے نام تھا۔ انہوں نے سرورق کے لیے اسکیچ بنایا تھا۔ ییٹس (W. B. Yeats)نے دیباچہ لکھا تھا۔ دسمبر میں شکاگو سے ایذرا پاؤنڈ نے اپنے رسالے پوئٹری) (Poetry میںترجمے کی چھ نظمیں شائع کیں۔ ۱۶۶ اقبال فارسی ادب کا نصاب مرتب کر رہے تھے۔’’قدیم و حال کی تصانیف دونوں کے نام مطلوب ہیں،‘‘ انہوں نے گرامی کو ۴ دسمبر کو لکھا۔ ۱۶۷ بلقان فنڈلبریز ہو گیا۔ ظفر علی خاں نے فیصلہ کیا کہ پہلے پیرس اور لندن جا کر ترکوں کی حمایت کریں اور پھرقسطنطنیہ جاکرفنڈ کی رقم جمع کروا دیں۔ ۱۱ دسمبرکو وہ بمبئی سے پانی کے جہاز پر روانہ ہوئے۔ ۱۶۸ انجمن حمایت اسلام کے تحت چلنے والے منصوبوں میں حکومت سے مالی امداد کی درخواست کرنے کے لیے میاں نظام الدین کی صدارت میں تیرہ ارکان کا وفد حکومت کے پاس بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ ۱۵ دسمبر کو اقبال اس میں شامل ہوئے۔ عرضداشت میں جن مسائل کا ذکر کرنا تھا ان میں اسلامیہ کالج کے بورڈنگ ہاؤس کی توسیع، اسکول اور یتیم خانے کے لیے گرانٹ، صوبہ پنجاب میں مسلمانوں کی ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کی حالت شامل تھے۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میں مسلمان فیلوز کی تعداد بڑھوانی تھی۔ ۱۶۹ ۱۶ دسمبر کو لندن میں کانفرنس شروع ہوئی۔ عثمانی سلطنت اور بلقانی حملہ آوروں کے درمیان صلح کی شرائط طے ہو رہی تھیں۔ یورپی طاقتیں بلقان کی جنگ میں مداخلت کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ان میں انگلستان شامل تھا۔ خطرہ پیدا ہوا تھا کہ اگر عثمانی سلطنت بالکل ہی ختم ہو گئی تو اُس کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے یورپ کی تمام بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے الجھ جائیں گی۔ عالمگیر جنگ شروع ہو جائے گی۔ ۱۷۰ ۲۲ دسمبر کو یونیورسٹی فاؤنڈیشن والے جلسے کے لیے انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل میں ایک وفد نامزد کیا گیاجس میں اقبال شامل تھے۔جلسہ پانچ روز بعد ہونے والا تھا۔ ۱۰۷ ۱۷۱ مہاراجہ کشمیر دوبارہ لاہور آئے تو کشمیری مسلمانوں کا وفدپھر پہنچا۔ بعد میں منشی محمد دین فوق سے روایت کی گئی کہ اقبال بھی وفد میں شامل تھے۔ مہاراجہ نے فرمایا، ’’ڈاک دار صاحب، سنا ہے آپ بیت بناتے ہیں؟‘‘ نہیں معلوم اُن کے کہنے میں غلطی ہوئی یا اقبال اُن کی رعونت سے بھڑک اٹھے، چِڑھ کر کہا، ’’سرکار! بید نہ کبھی میں نے بنائے ہیں نہ میرے باپ دادا نے۔ اِس کے علاوہ میں ڈاک دار بھی نہیں۔ نہ میں نے کبھی ڈاک کا کام کیا نہ میرے بزرگوں نے!‘‘ مہاراجہ حیرانی سے اقبال کے دوستوں کا منہ دیکھنے لگے۔ اُن میں سے کسی نے بات سنبھالنے کے لیے کہا، ’’حضور، یہ شاعر ہیں اور شعر تحریر کرتے ہیں۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں مگر اِنہوں نے بیت کو وہ بید سمجھا جس سے کرسیاں بنائی جاتی ہیں۔‘‘ مہاراجہ نے اقبال سے شعر سنانے کی فرمایش کی۔ بادلِ نخواستہ اقبال نے کچھ اشعار پڑھنے شروع کیے تومہاراجہ نے کہا، ’’یوں نہیں۔ گا کر پڑھیے!‘‘ فوق سے روایت کی گئی ہے کہ اقبال کے جی میں آئی کہ کہہ دیں میرے دوستوں کے پاؤں میں گھنگھرو باندھیے تو میں گاؤں۔ بہرحال چند اشعار ترنم سے پڑھے جس کے بعد مہاراجہ نے بھی فارسی کے کچھ اشعار سنائے۔پھراقبال سے پوچھا کہ ڈاکٹری کا کون سا امتحان پاس کیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ فلسفے کے ڈاکٹر ہیں۔۱۰۸ ۱۷۲ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس لکھنؤمیں ہونے والا تھا۔ میاں شاہ دین صدارت کر رہے تھے۔ اقبال اور مرزا جلال الدین کو بھی دعوت نامے ملے۔ ۱۷۳ ۲۳ دسمبر کو وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کا جلوس دہلی میں چاندنی چوک سے گزر رہا تھا۔ کسی نے اُن کے ہاتھی پر بم پھینک دیا۔ چوبدار ہلاک ہو گیا۔ وائسرائے زخمی ہوئے۔وائسرائے چاہتے تھے کہ جلوس جاری رہے۔ بیگم نے اُنہیں سلامتی کا خیال کرنے پر راضی کر لیا۔ ہندوستان کے عام پریس میں اس دہشت گردی کو برا کہا گیا۔ ۱۷۴ اس برس آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن سے شری رادھا کرشنن کی کتاب ایسنشلز آف سائیکالوجی (Essentials of Psychology) شائع ہوئی۔ معلوم نہیں اس کتاب سے اقبال کا تعارف کب ہوا مگریہ ان کی کتابوں کے مجموعے میں شامل ہوئی۔ اس برس شائع ہونے والی دوسری کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۱۰۹ Hocking, William Ernest. The Meaning of God in Human Experience: A Philosophical Study of Religion. London, Oxford University Press Holt, Edwin B., and others. The New Realism Cooperative Studies in Philosophy. New York, Macmillan Majid, S.H.R. Abdul Majid. England and the Moslem World: articles, addresses and essays on Eastern subjects. New York, Yorkshire Printing Co. ۱۷۵ لکھنؤ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: ہم ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اجلاس کے ایّام میں ایک شام ایسی بھی تھی کہ ہم فارغ تھے۔ اقبال کی طبیعت جب بیکاری سے گھبرانے لگی تو وہ مجھ سے فرمانے لگے، چلو کہیں چل کر گھڑی دوگھڑی گانا ہی سن آئیں۔ میں پہلے تو آمادہ ہو گیا مگر بعدمیں کسی اچانک کام کی وجہ سے رُک گیا۔وہ چل کھڑے ہوئے۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، لو آج تمہیں تماشا دکھائیں۔ میں نے استعجاب کے عالم میں دریافت کیا، آخر ہوا کیا؟ فرمانے لگے، ہونا کیا تھا، بس آج ایک مولوی صاحب کو ہم نے پکڑ لیا۔ جس طوائف کے ہاں ہم گانا سننے گئے تھے، وہیں کہیں اس کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک مولوی صاحب بھی ہمارے جانے سے قبل دل بہلا رہے تھے مگر آپ جب وہاں سے چمپت ہوئے تو اپنی بوکھلاہٹ کے عالم میں کانفرنس کا دعوتی رقعہ وہیں پھینک آئے تھے۔ ہم پہنچے تو طوائف نے ہم سے کہا کہ جس طرح بھی ہو ہم مولوی صاحب کو تلاش کر کے اُن کی امانت بحفاظت اُن تک پہنچا دیں۔ مگر ہم نے یہ سوچا ہے کہ یہ رقعہ نواب وقارالملک بہادر صدر ایجوکیشنل کانفرنس ہی کی معرفت کیوں نہ لوٹائیں تاکہ ضابطہ کی پابندی بھی ملحوظ رہے اور نواب بہادر بھی دیکھ لیں کہ دنیا بھلی سے بھلی ہے۔ اتنا کہہ کر اقبال نے کاغذ کا تختہ نکالا اور قلم پکڑکر نواب صاحب کے نام طوائف کی طرف سے ایک مفصل خط لکھ ڈالا۔ اس میں شام کے واقعے کی تمام تفصیل بے کم و کاست بیان کرنے کے بعد لکھا کہ چونکہ بندی قبلہ مولوی صاحب کے پتے سے واقف نہیں، اِس لیے آپ سے التماس کرتی ہے کہ اُن کا کھوج نکال کر اُن کے کاغذات اُن تک پہنچا دیں۔ اس خط کی بھنک مولوی صاحب کے کان میں بھی پڑگئی اور وہ ہانپتے کانپتے اقبال کے پاس آئے اور لگے بے طرح منّت خوشامد کرنے اور اُن کی جان و مال کو دعائیں دینے۔ مگر اقبال تو گویا اسی وقت کے انتظار میں تھے، اب آئے ہو تو جاتے کہاں ہو کے مصداق انہوں نے حضرت کو وہ رگیدا دیا کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ نہ جانے آپ نے ناک سے کتنی لکیریں کھینچیں تب جا کر آپ کی جان چھوٹی۔ ۱۱۰ گوجرانوالہ کے وکیل عطا محمد بی اے نے بیان کیا: ایک اور حقیقت جس کا لکھنؤ کے اس اجلاس میں انکشاف ہوا ، یہ ہے کہ لکھنؤ میں ایک مقتدر گروہ حضرات کشامرہ [کشمیریوں] اور دوسروں کا ہے جو اپنے آپ کو اقبال پرست کہتے ہیں۔ ان کی عقیدت ڈاکٹر محمد اقبال کی نسبت اس شدت کی ہے کہ اگر کوئی شخص ڈاکٹر اقبال کی شان میں کسی گستاخانہ لفظ کے کہنے کی جرأت بھی کرے تو اُس کے ساتھ فوجداری [ہاتھاپائی] کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔۱۱۱ چنانچہ اقبال کے اعزاز میں بھی شاعری کی کوئی محفل منعقد کی گئی۔ لکھنؤ کے مشہور شاعر پیارے صاحب رشید ؔبھی آئے۔ میر مجلس کی درخواست پر اقبال نے چند نظمیں سنائیں۔ پیارے صاحب کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔بعد میں اقبال سے روایت کی گئی: مجھے وہ منظر اب تک نہیں بھولتا۔ کبھی اُن کی بھنویں تنتی اور پھیل جاتی تھیں، کبھی یکبارگی کھلتیں اور پھر بند ہو جاتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ جب میں کلام سنا چکا تو اُن کے پاس بیٹھ کر ادب سے پوچھا کہ آپ کے سامنے شعر پڑھنا ہے تو گستاخی لیکن جو کچھ عرض کیا ہے آپ نے ملاحظہ فرمایا؟اُنہوں نے کسی قدر تامل سے جواب دیا، ہاں صاحب سنا ہے لیکن سچ پوچھیے تو ایسی اُردو ہم نے نہ آج تک پڑھی ہے نہ سُنی ہے۔ حیران ہوں کہ یہ فارسی ہے یا اُردو ہے یا کوئی اور زبان ہے۔۱۱۲ ۱۷۶ ۲۷ دسمبر کو قیصر باغ بارہ دری میں مسلم یونیورسٹی فاؤنڈیشن کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ پہلا اجلاس صبح نو بجے شروع ہو کر سوا بارہ بجے ختم ہوا۔ دوسرا اجلاس دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوا ۔ اقبال نے قرارداد پیش کی۔ اَب محفوظ نہیں۔ مفہوم یہ تھا کہ اگر کالج یونیورسٹی بنے اور وائسرائے اس کے چانسلر ہوں تو اُنہیں صرف اُتنے ہی اختیارات دیے جائیں جتنے اس وقت صوبے کے گورنر کو کالج کے سرپرست کے طور پر ملتے ہیں۔ بحث کا بازار گرم ہو گیا۔ آخر اقبال نے خود ہی قرارداد واپس لے لی۔ حاضرین بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں نے تجویز پیش کی کہ جلسہ ایک کمیٹی مقرر کرے جو قطعی فیصلہ کرے۔محمد علی (جوہرؔ) نے تائید کی۔ کہا کہ جلسے ہی میں فیصلہ ہونا چاہیے۔ نواب وقار الملک نے پرسوں تک کے لیے مسئلہ ملتوی کر دیا۔ اگلے روز پھر جلسہ ہوا۔ اس کے بعد رات دو بجے تک وقارالملک کی قیام گاہ پر رہنماؤں کے درمیان صلاح مشورہ ہوتا رہا۔ ممکن ہے ان میں اقبال بھی شامل ہوئے ہوں۔ اُس کشمیری مجلس میں شریک نہ نہ تھے جو اُسی رات لکھنؤ کے رئیس حکیم محمد عبدالرشید کے گھر منعقد ہوئی۔ وہاں پچاس کے قریب کشمیری جمع تھے۔۱۱۳ ۲۹ کی صبح پہلے محمد علی سامنے آئے۔ عبدالماجد دریابادی کو ہمیشہ یاد رہا کہ خاکی لباس پہنے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر انصاری کے طبی وفد کی وردی تھی جسے اُنہوں نے ترکوں کی مدد کے لیے روانہ کیا تھا۔ عبدالماجد کا بیان ہے: تقریر شروع ہوئی۔ محمد علی نے نہ دلائل منطقی سے کام لیا، نہ خطابت کا حربہ چلایا۔ بس اپنے کو صداقت و اخلاص کے ساتھ قوم کے آگے پیش کر دیا۔ خلاصۂ تقریر یہ تھا کہ بحثابحثی بہت ہو چکی، آپ لوگ بیشک یونیورسٹی چارٹر کو آنکھ بند کر کے نہ قبول کرلیں، یقینا اپنے ہی شرائط پر لیں لیکن شرائط کی تفصیل و تعیین کے لیے تو یہ بڑا جلسہ موزوں نہیں۔ یہ کام ایک چھوٹے سے وفد کے سپرد کیجیے، وہ آپ کا نمایندہ ہو کر گورنمنٹ سے نپٹ لے گا۔ اُس وفد میں مجھ کو رکھیے، اور مجھ پر اور میرے رفیقوں پر اعتماد رکھیے۔ آپ سے سادہ چیک مانگنے کھڑا ہوا ہوں، آپ میری ساکھ پر سادہ چیک دیجیے۔ رقم کی خانہ پری میرے اوپر چھوڑیے۔ کمیٹی کے نام بھی محمد علی نے پڑھ کر سنائے۔ اقبال اور محمد علی کے علاوہ سر آغا خاں، راجہ محمود آباد، نواب اسحاق خاں، مسٹر جناح، فاضل بھائی کریم بھائی، مسٹر یعقوب حسین، نواب حسین خاں، آنریبل مظہرالحق، فخرالدین، آنریبل حسن امام، سلطان احمد بیرسٹر، سید نبی اللہ بیرسٹر، وزیر حسن ، نواب وقار الملک، صاحبزادہ آفتاب احمد، خان بہادر محمد شفیع، میجر سید حسن بلگرامی۔ یہ کمیٹی فیصلہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے بنی تھی۔ یہ بات اُس سے مختلف تھی جس کی محمد علی نے پرسوں تائید کی تھی۔ آنریبل خواجہ غلام الثقلین نے تنقید کی تو اُن کا نام بھی کمیٹی میں شامل کر دیا گیا۔ پھر آنریبل مباذر خاں، مولوی رحیم بخش پریزیڈنٹ کونسل بہاولپور اور فضل حسین بیرسٹرکے نام بھی شامل ہوئے۔ابوالکلام آزاد نے فارسی شعر پڑھا جس میں محمد علی کی رائے میں تبدیلی پر طنز تھا۔۱۱۴ ۱۷۷ ۳۰ دسمبر کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا۔ اقبال کا اثر لکھنؤ پہنچ چکا تھا۔ جلسے کے پہلے اجلاس میں پڑھی جانے والی مولانا صفی لکھنوی کی بارہ اشعار کی نظم میں ظاہر ہو رہا تھا: ایران ہو یا ٹرکی دونوں کو مٹا دیکھیں کیا صفحۂ ہستی سے اسلام مٹا دیں گے؟ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے اتنا ہی پھر اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے۱۱۵ جلسے کے صدر میجر سید حسن بلگرامی تھے۔ تقریر میں کہا: میں افسوس کرتا ہوں کہ زمانہ حال میں جو جذبہ لوگوں میں اپنی ذات کی حقیقت معلوم کرنے کا اور خودداری کا اور پبلک جماعتوں یا گورنمنٹ کی تجاویز پر نکتہ چینی کا پیدا ہو گیا ہے اُس کی ذمہ دار صرف انگریزی تعلیم نہیں ہے۔ یہ عقلمندی نہیں کہ تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کو ہندوستان کے نظم و نسق میں نشانہ ملامت بنایا جائے کہ وہ برٹش حکومت کی طرف سے حفاظت اور ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ جو تبدیلیاں ہمیں ہندوستان میں نظر آ رہی ہیں وہ زمانہ کی رفتار کا نتیجہ ہیں اور اس سے جدا نہیں رہ سکتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں جو بیداری کا نشان ہیں تمام مشرقی ممالک میں ظہور پذیر ہو رہی ہیں اور نمایاں صورت رکھتی ہیں۔۱۱۶ ایک برس میں بڑا فرق آ گیا تھا۔ پچھلے سال اِسی موقع پر اقبال خدا سے مسلمانوں کے لیے زندہ تمنا مانگ رہے تھے۔ آج محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اعلان ہو رہا تھا کہ قلب گرمائے گئے ہیں اور رُوح تڑپ اُٹھی ہے۔ تیسرا حصہ ۱۷۸ لاہور کے ایک مشن کالج کے طالب علم کا بیان ہے: [میں] کالج کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو ہر روز مشن کالج کے دروازہ سے باہر والی سڑک پر اپنی مختصر سی [گھوڑا]گاڑی میں چیف کورٹ سے واپس آتے دیکھتا تھا۔ چہرہ سرخ، سنہری مونچھیں، سرخ ترکی ٹوپی اور سیاہ سوٹ، ہاتھوں میں گھوڑے کی باگ۔ غرض اِسی شان سے ہر روز تفریح کی گھنٹی میں مجھے دُور سے اُن کی زیارت نصیب ہو جاتی تھی۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اکثر اپنی گھوڑا گاڑی خود ہی چلایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں باذوق نوجوانوں کا شوق سمجھا جاتاتھا۔شام کو اگر وہ گھر پر ہوں تو دوست اور شاگرد اُن کے پاس آ جاتے تھے۔۱۱۷ ۱۷۹ ۱۳جنوری ۱۹۱۳ء کو ندوہ میں اجلاس ہوا۔ شبلی نے مطالبہ کیا تھا۔ انہیں مولوی عبدالکریم کے باغیانہ مضمون سے شکایت تھی۔ انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب سے غلطی ہوئی مگر اُنہیں تو اِس کی سزا مل چکی تھی، اب اور کیا ہوسکتا ہے؟ اجلاس اس بات پر متفق ہو گیا کہ مولوی صاحب کی باقی سزا منسوخ کر کے انہیں واپس بلا لیا جائے۔ مسلم گزٹ نے یہ معاملہ یوں پیش کیا جیسے شبلی ایک خودغرض شخص ہوں۔ ۱۸۰ فوق کا کشمیری میگزین اَب ذرا بڑے سائز پر شائع ہوتا۔ بعض لوگوں کی زبان میں اخبار کشمیری کہلاتا تھا (اور جس کے اکثر شماروں میں کسی حکیم محمد شریف آئی ڈاکٹر کا اشتہار ’’میں کیمیاگر ہوں‘‘ کی جلی سرخی کے ساتھ شایع ہوتا)۔ ۱۴ جنوری کو اُس میں ص۹ پر ’مسلمانوں کا امتحان‘ کے عنوان سے اقبال کی اُس گفتگو کا خلاصہ شایع ہوا جو اقبال نے ضبطِ نفس کے موضوع پر کچھ عرصہ پہلے ابوظفر کے ساتھ کی تھی۔ ص۱۴ پر کسی غلام محمد نے یونیورسٹی فاؤنڈیشن کے دسمبر والے اجلاس پر تبصرہ کیا تھا: ۔۔۔ ٹرکی کے اتحادی انقلاب سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔ جس طرح ممبران اتحاد و ترقی نے سلطان عبدالحمید کے جوئے کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکنا چاہا۔ اور کہ پھینک دیا تھا۔ اسی طرح مسلمانوں کے اکثر حصہ نے لیڈروں کی خودمختاری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے یہ جلسہ تاریخ میں نیا ورق الٹنے کے لحاظ سے یادگار رہے گا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس اسپرٹ کا نتیجہ نوجوانانِ قوم کے ہاتھ سے وہی ہو گا۔ جو آج انجمن اتحاد کے نوجوانوں کے ہاتھوں ٹرکی بھگت رہی ہے۔ یا جاپان کی طرح ہو گا۔ جو اپنے ہونہار نوجوانوں کے کارناموں سے آج مہذب ممالک میں امتیازی درجہ حاصل کر چکا ہے۔ ۱۸۱ حکومت ظفر علی خاں سے خوش نہ تھی۔ پچھلے برس دوہزار کی ضمانت جو انہوں نے جمع کروائی تھی وہ جنوری ۱۹۱۳ء میں ضبط ہوئی اور زمیندار کا پریس بھی سیل کر دیا گیا۔ اُنہیں ۱۴ جنوری کو لندن میں رائٹر کے ذریعے خبر ملی کہ ہندوستان میں وہ اخبار ضبط ہو گیا ہے جو سب سے زیادہ چھپتا ہے۔ جس نے پان اسلام اِزم کی تحریک چلا رکھی تھی۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ اُنہی کا اخبارہے۔ اس کے کسی مضمون میں غلطی سے پان اسلام اِزم کا ذکر ہواتھا۔ لندن کے صحافیوں سے ملے۔ پارلیمنٹ کے ممبروں سے بات کی۔ سبھی نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ کیمبرج سے پروفیسر براؤن نے خط کے ذریعہ مشورہ دیا کہ مضمون کے جن حصوں پر حکومت کو اعتراض ہوااُن کا انگریزی ترجمہ انگلستان کے اخباروں میں چھپوا دو۔ کانگریس نے ہندوستان سے کہلوایاکہ اپنا بیان بھجوائیے۔ جلسے میں پیش کیاجائے گا۔ ظفر علی خاں نے بیان کی بجائے مقدمہ تیار کیا۔ دفتر کو لکھا کہ حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ۱۸۲ ۲۸ جنوری کو کشمیری میگزین کے ص۷ پر کسی ’پنجابی جنٹلمین کے خیالات شائع ہوئے۔ امتحانات کو ’یونیورسٹیوں کی پلیگ‘ قرار دیا تھا: باوجود تاریخ، فلسفہ اور سائینس کی تعلیم کے ہماری یونیورسٹیوں نے ایک بھی سائینس داں، مورخ اور فلاسفر ملک میں پیدا نہیں کیا ہے۔ ہمارے سائینس اور فلاسفی پاس کیے ہوئے گریجویٹ صرف وکالت کر سکتے ہیں یا سرکاری ملازمت۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ تعلیم اور نام نہاد امتحانات نے ہمارے نوجوانوں کا دماغ نچوڑ لیا ہے۔ امریکہ کا طریقہ تعلیم اول سے آخر تک امتحانوں کی پلیگ سے بالکل پاک و صاف ہے۔ وہاں یونیورسٹی اور تعلیم کی قابلیت ظاہر کرنے کے لیے امتحانوں کے سرٹیفکیٹ نہیں دکھلائے جاتے بلکہ کالج کے پروفیسروں کے سرٹیفکیٹ ہی ان کی قابلیت اور ان کے تعلیمی کام کے مقدار کی تصدیق کرتے ہیں۔ اسی شمارے میں محمد دین فوق کی مکمل تاریخ کشمیر کا اشتہار تھا۔تین جلدوں پر مشتمل تھی: ۱ مشاہیر کشمیر ۲ تذکرۃ الصالحین ۳ اخبارنویسوں کے حالات مشاہیرِ کشمیر میں اقبال کے حالات بھی درج تھے۔ ان کی بنیاد ۱۹۰۹ء میں کشمیری میگزین میں شائع ہونے والے حالات تھے۔ ۱۸۳ جنوری میں کسی وقت اقبال الٰہ آباد گئے تاکہ چند گھنٹے اکبر ؔ الٰہ آبادی سے مل سکیں۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔۱۱۸ ۱۸۴ کوئی شیخ عبدالحق تھے۔ ان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ اقبال نے کبھی اُن کی تاریخِ وفات کہی۔ مادۂ تاریخ غفران تھا۔ اس سے ہجری سال ۱۳۳۱ھ یعنی ۱۹۱۳ء کے اعداد برامد ہوتے تھے۔ تین اشعار کے فارسی قطعے سے معلوم ہوتا تھا کہ شیخ عبدالحق نے قوم کی بہت خدمت کرنے کے بعد اُس برس جوانی ہی میں شہادت پائی:۱۱۹ سالِ تاریخِ وفاتِ اُو ز غفران آشکار ۱۸۵ تاریخِ ہند اُسی برس شائع ہوئی۔ اسے بعد میں اقبال پر تحقیق کرنے والوں کے لیے معمہ بننا تھا۔ کتاب کے دو نسخے موجود ہیں۔ دونوں پر سالِ اشاعت ۱۹۱۳ء درج ہے اور مصنفین کے نام ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لأ اور لالہ رام پرشاد صاحب ایم اے پروفیسر ہسٹری گورنمنٹ کالج لاہور درج ہیں۔ جو نسخہ زیادہ ضخیم ہے اُس میں مسلمان فاتحین کے بارے میں ایسی باتیں درج ہیں جن میں سے کم از کم اورنگزیب کے متعلق اقبال اِس قسم کی رائے نہ خود دے سکتے تھے نہ ہی اس کی توثیق کر سکتے تھے ۔ اورنگزیب کو متعصب، ظالم اور کم ظرف بتایا گیا تھا جسے ’’بری طرح بھی کچھ ہاتھ لگتا تو کبھی نہ چوکتا تھا۔‘‘ دوسرے نسخے کی ضخامت کچھ کم ہے۔ اُس میں محمود غزنوی، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کے علاوہ اورنگزیب کے بارے میں رائے کچھ بہتر ہو گئی: اگر مسلمانوں کی خوشامد اور ہندوؤں کی مذمت سے قطعِ نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اورنگزیب سخت گیر اور اعلیٰ درجے کی لیاقت کا آدمی تھا۔۔۔ ایک نامی انگریز شاعر نے اپنے ایک نہایت نفیس ناٹک میں اورنگزیب کو ہیرو بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ جیتے جی کہانیوں کا ہیرو مشہور ہو گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب صرف لالہ رام پرشاد نے لکھی۔ اُن کے فائدے کے لیے اقبال نے شریک مصنف کے طور پر اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت دی ہوگی۔ یہ معلوم نہیں کہ معاوضے میں حصہ بھی تھا یا نہیں۔ اُن دنوں کتاب شائع کروانے کے بعد نصاب میں شامل ہونے کے لیے پیش کی جاتی تھی۔ تاریخِ ہند کے ایک ہی سال میں دونسخوںسے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے نمونے کو محکمے سے منظوری نہ ملی ہو گی۔ ممکن ہے کہ پہلا نسخہ چھپنے کے بعد اقبال کے سامنے آیا ہو۔اُنہیں اعتراض ہوا ہو۔ مگر اِصلاح شدہ کتاب بھی پوری طرح اُن کے خیالات سے میل نہیں کھاتی۔ یہ ایک معمہ ہے کہ اقبال نے اس کتاب پر اپنا نام دینا کیوں گوارا کیا۔۱۲۰ ۱۸۶ پنجاب میں ہیررانجھا کے موضوع پر کئی شاعر مشق کرتے تھے۔ انہی میںمولابخش کشتہؔ تھے جن کی کتاب ۱۹۱۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ خیال ہے کہ کتاب شائع ہونے کے بعد اقبال کو پیش کی گئی۔ اُنہوں نے رائے لکھی: کشتہ صاحب کی نظم موسوم بہ ہیر رانجھا بڑی خوبی سے جدید طرز پر لکھی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مقبولِ عام ہو گی۔۱۲۱ ۱۸۷ اقبال کے دوست سردار امراؤ شیرگِل کی شادی مس گوٹسمین سے ہو گئی تھی۔ وہ یورپ میں رہتے تھے۔ بڈاپسٹ میں ۳۰ جنوری کو اُن کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امرتا شیرگل رکھا گیا۔ ۱۸۸ ۳۱ جنوری کو ترکی میں ینگ ٹرک پارٹی نے سلطان کے وزیراعظم کے خلاف بغاوت کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ عثمانی حکومت لندن کانفرنس میں یورپی طاقتوں کی شرائط پر صلح کرنے پر تیار ہو گئی تھی۔ جبکہ ترکوں سے چھینے ہوئے علاقوں میں خاص طور پر سرب سپاہی مسلمان شہریوں کو ہلاک کر رہے تھے۔ محب ِ وطن باغیوں نے نیا وزیراعظم مقر رکروایا۔ ’’ہم قومی وقار بچائیں گے یا ختم ہو جائیں گے،‘‘ ینگ ٹرک نمایندے طلعت بے نے کہا۔ ’’ہم جنگ جاری رکھنا نہیں چاہتے مگر ہم ادِرنہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔‘‘ ادِرنہ کبھی عثمانی سلطنت کا دارالحکومت رہ چکا تھا۔یورپی طاقتوں کا مطالبہ تھا کہ اُن کے حوالے کیا جائے۔ ۱۸۹ معلوم ہواکہ دو ماہ پہلے وائسرائے پر بم پھینکنے والا امیرچندتھا ۔ کبھی دہلی کے سینٹ اسٹیفنز کالج میں پڑھاتا تھا۔لاہور والے لالہ ہردیال جن کی ایسوسی ایشن کے لیے اقبال نے نو برس پہلے ’ترانۂ ہندی‘ لکھا تھا اب امریکہ میں تھے۔ امیرچند کی تعریف میں کیلی فورنیا سے لکھا: اُس نے ہمیں نیند سے جگا دیا۔ ہندوستان خوف سے گونگا ہوا بیٹھاتھا۔ صرف اُسی نے آواز بلند کی۔ ۱۹۰ ۷ فروری کو محمد علی جناح امپیریل کونسل میں رکنیت ختم ہونے کے بعد خصوصی طور پر مسلمانوں کی طرف سے وقف بل کے لیے اضافی رکن بنائے گئے۔ کہا گیا کہ سر علی امام نے بھی وائسرائے سے سفارش کی تھی۔ ۱۹۱ نواب وقار الملک نے محمد علی کو خط لکھا کہ زیادہ صفحے نہ چھپ سکیں تب بھی ہمدرد ضرور نکالا جائے۔ محمد علی نے اقبال کو بھی پیغام کے لیے لکھا۔ انہوں نے ’پھول‘ بھیج دی۔۱۲۲ ۱۹۲ ۲۳ فروری سے ایک ورق کا ہمدرد چھپنا شروع ہوا اور نقیبِ ہمدرد کہلایا۔ اقبال کی نظم دیر میں ملی تھی۔ دو دن بعد شائع ہوئی۔ ۱۹۳ لندن سے تیس میل کے فاصلے پر ووکنگ کی وہ مسجد تھی۔ پچھلی صدی میں بیگم صاحبہ بھوپال اور دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی مدد سے قائم کی گئی تھی۔ احمدی عقائد والے خواجہ کمال الدین انگلستان میں تھے۔ فروری میںمسلم انڈیا اینڈ دی اسلامک ریویو کے عنوان سے رسالہ شایع کرنے لگے۔ اسی برس کسی وقت مسجد میں تبلیغی مشن قائم کیا۔ انگریزوںکا مذہب تبدیل کروانا تھا۔ ۱۹۴ اقبال پچھلے ڈیڑھ سال سے پنجاب ایجوکیشنل کانفرنس کے سیکرٹری تھے جس کاانجمن حمایت اسلام سے بھی تعلق ہو گیا تھامگر اب انہوں نے استعفیٰ دیا جس کی وجہ معلوم نہیں۔ استعفیٰ ۲ مارچ کو جنرل کونسل کے اجلاس میں منظور کیا گیا مگر اقبال نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر غور کرنے والی پانچ ارکان کی سب کمیٹی میں شامل ہونا قبول کر لیا۔ ۱۲۳ ۱۹۵ ۵ مارچ کو وقف بل منظور ہوا۔ ہندوستان کے مسلمانوںکو یہ بڑی کامیابی بیرسٹر جناح کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ۱۹۶ ساقی نشا پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی!۱۲۴ اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۱۹۷ مسلم یونیورسٹی کے منصوبے میں انگریزوں نے جو ترامیم پیش کی تھیں مسلمان اُنہیں قبول نہ کر سکے۔ آئرلینڈ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی آزادی کے لیے بھی کام کرنے والی مسز اینی بیسنٹ جو سیکولراِزم کی قائل تھیں اور تمام مذاہب کے اتحاد پر مبنی تھیوسوفی کی تبلیغ کرتی تھیں، بڑی مدت سے بنارس میں ہندو یونیورسٹی بنانا چاہتی تھیں۔ اب الٰہ آباد کے پنڈت مدن موہن مالویہ اُن کے ساتھ مل گئے۔ محمد علی (جوہرؔ) کا بیان ہے: ہماری دیکھا دیکھی ہندوؤں نے بھی مسز بیسنٹ کی پرانی اسکیم کو کہ ہندو کالج بنارس کو ہندو یونیورسٹی بنا دیا جائے، الماری سے نکالا تھا اور اسے جھاڑ پونچھ کر ہندو جاتی اور حکومت کے سامنے پیش کیا تھا۔ سر ہارکرٹ بٹلر نے جو پہلے وزیر تعلیمات تھے ان سے یہ سودا کیا کہ تم ان شرائط کو قبول کر لو تاکہ مسلمان بھی اس خوف سے انہیں منظور کر لیں کہ ہندو ہم سے بازی لیے جاتے ہیں۔ ہم دفتر خارجہ کے سیکرٹری رہ چکے ہیں، ہمارے اثر سے تمام ہندو ریاستیں تمہیں وہ روپیہ دے دیں گی جسے تم آج تک جمع نہیں کر سکے گو مسلمانوں کی مفلس ملت نے تیس لاکھ روپیہ جمع کر لیا۔۱۲۵ ۱۹۸ کچھ یونیورسٹی میں ڈوبا، جو باقی تھا بلقان گیا کیا تم سے کہیں اپریل میں جلسہ سالانہ بھی آتا ہے پر جیب ہماری خالی ہے اب چندوں سے کچھ کام نہیں ہاں گاہے بگاہے بہر ِ بقایا لیگ کا وی پی آتا ہے۱۲۶ یہ اشعار بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیے۔ ۱۹۹ جدّہ میں انگریزی شفاخانہ بنانے کی تجوایز ہوئی تھی جس کے لیے انگریز حکومت پانچ لاکھ روپے دینے پر تیار تھی اگر باقی رقم مسلمان چندے سے اکٹھی کر سکیں۔ بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اس طرح انگریزعرب میں اپنا اثر بڑھانا چاہتے ہیں۔ اقبال کا بھی یہی خیال تھا۔ مارچ ۱۹۱۳ء میں زمیندارمیں اُن کی نظم ’شفاخانۂ حجاز‘ شائع ہوئی۔ اِس میں ایک پیشوائے قوم اقبال کے پاس آکر کہتا ہے کہ آپ کو حجاز کی سرزمین سے بڑی محبت ہے چنانچہ شفاخانے کے لیے چندہ دیجیے تاکہ مریض کی نبض عیسیٰ کے پنجے میں دی جا سکے۔۔۔ میں نے کہا کہ موت کے پنجے میں ہے حیات پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا پایا نہ خضر نے میٔ عمرِ دراز میں اَوروں کو دیں حضور! یہ پیغامِ زندگی میں موت مانگتا ہوں زمینِ حجاز میں آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا رکھتے ہیں اہلِ درد مسیحا سے کام کیا اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔ آخری مصرعے میں لفظ ’’مسیحا‘‘ ذومعنی تھا۔ بظاہر کہا تھا کہ درد کی لذت جاننے والے معالج سے رابطہ نہیں کرتے۔ مگر مسیحا سے عیسائیت اور انگریزوں کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا تھا۔۱۲۷ ۲۰۰ کسی نے قیس کو ایک کاغذ لا کر دیا جس پر اُس کے اور لیلیٰ کے نام درج تھے۔ قیس نے دو ٹکڑے کیے اور لیلیٰ کے نام والا حصہ واپس کر دیا۔ دیکھنے والے کو تعجب ہوا تو قیس نے اپنے نام کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’اِس میں وہ بھی ہے۔‘‘یہ قصہ نظامی گنجوی کی مثنوی لیلی و مجنوں میں موجود تھا۔ اگلے وقتوں میں جو مقصد خودی کو فنا کر کے حاصل ہوتا اب اُسی کے لیے خودی کو باقی رکھنے کی ضرورت تھی۔۱۲۸ ۲۰۱ مولانا روم کہہ رہے تھے، ’’اقبال ! مثنوی لکھو!‘‘ اقبال نے کہا،’’ مثنوی کا حق تو آپ ادا کر گئے ہیں ۔‘‘ مولانا روم نے کہا، ’’نہیں تم بھی لکھو۔‘‘ اقبال نے کہا، ’’آپ فرماتے ہیں خودی کو مٹاؤ اور مجھ کو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خودی قائم کرنے کی چیز ہے۔‘‘ مولانا روم نے کہا، ’’ نہیں ہمارا مطلب بھی یہی ہے جو تم سمجھتے ہو۔‘‘ اقبال کی آنکھ کھلی تو زبان پر فارسی اشعار تھے۔ اُنہیں لکھنا شروع کر دیا۔۱۲۹ در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰؐ است آبروئے ما زنامِ مصطفیٰؐ است رسول اللہؐ ہر مسلمان کے دل میں رہتے ہیں۔ ہماری آبرو آپؐ ہی کے نام سے ہے۔ ہم اگرچہ مختلف سرزمینوں سے ہیں مگر رسول کی امت ہونے کی وجہ سے یکجا ہیں جیسے ایک صبح کی شبنم کے قطرے ! ہم کہ وطن کی قید سے آزاد ہیں، نگاہ کی طرح دو آنکھوں کی روشنی ہو کر بھی ایک ہیں ہم رسول اللہؐ کے دل میں چھپا ہوا راز تھے،آپؐ نے نعرۂ بے باکانہ بلند فرمایا اور ہم ظاہر ہو گئے! آپؐ نے وہ آگ روشن کی جس میں نام و نسب کے امتیازات جل کر خاک ہو گئے آپؐ نے غارِ حرا کی تنہائی میںایک قوم، آئین اور حکومت کو جنم دیا! آپؐ بورئیے پر سوتے تھے مگر قیصر کا تاج آپؐ کی اُمت کے قدموں تلے تھا۔ تاریخ میں آپؐ جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، آپؐ نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھول دیا! میری آغوش میں بھی نغمے پرورش پا رہے ہیں کیونکہ میری خاموش بانسری میں آپؐ کے عشق کا شور بھرا ہے۔۱۳۰ پچھلی تمام زندگی میں ارادے سے بھی فارسی میں بمشکل چند غزلیں ہی کہہ پائے تھے۔ فارسی بولنے پرآیندہ بھی قدرت حاصل نہ ہوئی مگراب فارسی میں اشعار کی آمد ہو رہی تھی جس کا تھمنا مشکل تھا۔ سارے شعر مولانا روم کی مثنوی کی بحر میں آ رہے تھے۔ مفہوم یہ تھا کہ اگر موت چاہتے ہو تو ضرور اپنے آپ سے غافل ہو کر دیکھولیکن اگر زندگی چاہیے تو اپنے آپ میں آباد ہو جاؤ۔ جو بھی اپنی زندگی کا خود مالک نہیں بنا وہ نوکر ہے۔ آدمیت کے مقام سے بہت نیچے ہے۔ اپنا رزق دوسرے کے ہاتھ سے وصول کرنے سے بچو! اونٹ پر سواری کی حالت میں حضرت عمرؓ کا چابک ہاتھ سے گر گیا تو اُسے اٹھانے کے لیے آپ خود اونٹ سے اترے۔ اِس معمولی کام کے لیے بھی کسی کا احسان گوارا نہ فرمایا۔تم بھی کسی کا احسان لینے سے باز رہو۔ بلند فطرت خواہ آسمانوں پر نظر رکھتی ہو، دوسرے کا احسان اٹھانے سے پست ہو جاتی ہے۔یہی زندگی کا راز ہے جو میں تمہیں بتا رہا ہوں: چوں خبر دارم زسازِ زندگی با تو گوئیم چیست رازِ زندگی آخر میں اُن اشعار کا اضافہ کیا جنہیں دو برس پہلے لکھ کر چھوڑ دیا تھا: نالہ را اندازِ نَو ایجاد کن مثنوی کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ ۲۰۲ بالکل اُنہی دنوں آغا حشر کاشمیری بھی نظم لکھ رہے تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں پڑھنا تھی۔ اقبال کے پیغام کے بعض گوشے جو ابھی تک سامنے نہ آئے تھے، حشر کی ’شکریۂ یورپ‘ میں بے نقاب ہو گئے: ۱ نظم کا موضوع یہ تھا کہ مغرب کی یلغار نے مشرق، خاص طور پر اِسلامی مشرق کو زندہ کر دیا۔ زیرِ تکمیل مثنوی میں اقبال بھی کہنے والے تھے کہ دشمن کا مقابلہ طاقت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ دس برس بعد ’طلوعِ اسلام‘ کے عنوان سے پوری نظم حشر کی نظم کے مرکزی خیال پر لکھنے والے تھے۔ ۲ حشر نے مغرب سے کہا: ’’صرفِ تصنیفِ ستم ہے فلسفہ دانی تری۔‘‘ یہ آگے چل کر اقبال کی شاعری کا مستقل موضوع بننے والا تھا۔ ۳ حشر کی نظم کا ماحول ’’پر زغوغا شد جہاں۔۔۔‘‘ (دنیا شور سے بھر گئی) جاویدنامہ کے آغاز میں دنیا کی تخلیق کے منظر میں جھلکنے والا تھا، ’’ہر جگہ خودگری کے ذوق و شوق سے ’میں اور ہوں، تم اور ہو‘ کا نعرہ۔۔۔‘‘: ہر کجا از ذوق و شوقِ خودگری نعرۂ من دیگرم تو دیگری ۴ حشر نے مغرب سے کہا: ’’تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے۔‘‘ تئیس برس بعد یہی مصرع فارسی میں بدل کر اقبال کی اہم تصنیف پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کے مرکزی اشعار میں آنے والا تھا: آدمیت زار نالید از فرنگ حشر کی نظم میں آٹھ بند تھے۔ ان میں سے پہلے سات منطق الطیر کی سات وادیوں سے ہم آہنگ تھے۔ آٹھواں بند حاصلِ بحث تھا۔ اقبال نے دو برس پہلے جو اشعار کہے اور عطیہ فیضی کو بھیجے تھے، ’’نالہ را اندازِ نو ایجاد کن۔۔۔‘‘ وہ ابھی کہیں شائع نہ ہوئے تھے مگر حشر کی نظم کے چوتھے بند کا ٹیپ کا شعر اِنہی سے ماخوذ لگ رہا تھا: طرحِ نو انداز و بنیادِ جہاں از سرفگن! اس میں اقبال کی ایک اور غزل کے شعر کا رنگ بھی جھلک رہا تھا: طرحِ نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم اقبال کی وہ غزل اپریل ۱۹۰۷ء میں کیمبرج کی پکنک والی غزلوں میں سے تھی۔اُس وقت تک اقبال اُسے نجی نظموں میں شمار کرتے تھے۔ یہ معلوم ہے کہ اقبال اور آغا حشر کے درمیان شاعری کے بارے میں مشورے ہوتے تھے۔ ممکن ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج میں دخیل بھی ہو گئے ہوں۔ ۲۰۳ ۲۲ مارچ کو انجمن حمایت اسلام کے دوسرے دن کے اجلاس میں آغا حشر کاشمیری نے نظم سنائی۔ جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ اقبال کے رنگ میں لکھنے کی کوشش بہت لوگوں نے کی، کامیابی صرف حشر کو حاصل ہوئی۔ ایسی باتیں بھی کہہ گئے جو ابھی اقبال نے خود نہ کہی تھیں۔ آیندہ کہنی تھیں۔ انفرادیت کا دامن بھی حشر کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ یہ کیسے ہوا؟ تاریخ خاموش ہے مگر الفاظ بول رہے ہیں۔ شکریۂ یورپ آغا حشر کاشمیری مدتوں سے نغمۂ توحید محوِ خواب تھا سازِ ہستیِ مسلم تشنۂ مضراب تھا پیکرِ احباب میں خوابیدہ روحِ درد تھی شعلہ ریزیِ نواہائے اخوت سرد تھی کر چکا تھا اپنی ہستی مسلمِ پرجوش گم گرمِ ہنگامہ تھے شب پر محشرِ خاموش گم ماضیٔ رنگیں تماشا حیرتیِ حال تھا روزگارِ جلوہ زا کے لب پہ کیف الحال تھا آمد و رفتِ نفس لاتی تھی پیغامِ حیات ورنہ نذرِ خود فراموشی تھا ناکامِ حیات چشمِ بینا حیرتِ طفلانہ کا گہوارہ تھی صرفِ تعمیرِ تحیر طاقتِ نظارہ تھی نغمہ سنجِ قدس چپ تھا گلشنِ تکبیر میں بند تھا شورِ انامسلم لبِ تقریر میں مدفنِ صد جلوۂ آشوب زا آئینہ بود یک جہانِ بیقراری دم بخود در سینہ بود وہ پیامِ آخری اسلام جس کا نام تھا وہ ظہورِ صدق جو پروردۂ الہام تھا وہ تجلیِ حقیقت جو ضلالت سوز تھی گرمیِ قلبِ محمدؐ سے تپش اندوز تھی روشنی دنیا کو دی جس مہرِ عالم تاب نے رنگِ فطرت دھو دیا جس نور کے سیلاب نے ظلمت آگیں خلقتِ انساں کو بینا کر دیا سنگریزے کو جلا دے کر نگینہ کر دیا شعلے پیدا کر دیے خاکسترِ افسردہ میں زندگی کی لہر دوڑا دی حیاتِ مردہ میں شورشِ ہنگامہ آرا آب و گل میں ڈال دی شور بادل کا، تڑپ بجلی کی دل میں ڈال دی ایک ہلچل پڑ گئی جذباتِ زنگ آلود میں آگ سی گویا لگا دی تودۂ بارود میں بارہا نالید و گفت اے قومِ ما بیدار شو! حصۂ خود از حریفاں گیر و گرمِ کار شو! پر زغوغا شد جہاں شورم ز ہفت اختر گذشت پنبہ در گوشی چرا؟ بر خیز! کآب از سر گذشت مایۂ صد آفت است ایں گوشِ ناشنوائے تو ہوش کن! ز امروز گردد خوار تر فردائے تو شرم کن! محوِ ادائے کفرساماں کردۂ آں دل و جاں را کہ اول نذرِ قرآں کردۂ اے کہ فطرت نرم و ہمت ہمچو آہن داشتی قطرۂ بودی مگر طوفاں بدامن داشتی پرکن از صہبائے دوشیں ساغرِ ایام را باز رنگِ جلوہ دِہ! از صبحِ ماضی شام را صرفِ نسیاں ہیبتِ غرناطہ و بغداد شد باز بر خواں آں سبق کو خلق را از یاد شد سطوتِ فاروقؓ بنما۔ شیوۂ حیدرؓ بگیر تاج از کسریٰ ستان و باج از قیصر بگیر حال و استقبال ہر دو حاصلِ تدبیرِ تست ہاں بجہد آمادہ شو! در دستِ تو تعمیرِ تست ہاں چھڑک پیشانیِ ظلمت پہ افشانِ سحر ٹانگ دے دامانِ شب میں پھر گریبانِ سحر پُرنوا کر دل کو سوزِ احمدِ بے میم سے جگمگا دے بزمِ جاں کو شمعِ ابراہیم سے اپنی ہستی نذر دے ملت کی قرباں گاہ کو زندہ کر دُنیا میں آئینِ خلیل اللہ کو ڈال دے شورِ نوا معمورۂ ظلمات میں دوڑ جا آہنگ بن کر سازِ موجودات میں خاک کو بھر دے سرورِ آسماں پرواز سے گرم کر دے روحِ مستی شعلۂ آواز سے حسن آرایش کو زینت عالمِ امکاں کو دے خلعتِ تجدید آئینِ کہن ساماں کو دے کلیاتِ دہر کی اِک شرحِ نو تحریر کر نظمِ ہستی کی نئے الفاظ میں تفسیر کر طرحِ نو انداز و بنیادِ جہاں از سر فگن! شعلہ در پیراہنی آتش بخشک و تر فگن! تیری لب بندی سبق آموزِ گویائی ہوئی طعنہ زن ہیں تجھ پہ قومیں تیری ٹھکرائی ہوئی آج اُن ذروں کو بھی ناز اپنی تابانی پہ ہے تیرے در کا نقشِ سجدہ جن کی پیشانی پہ ہے منتظر نظارے ہیں چشمِ خمار آلود کھول اُٹھ کلیدِ فتح بن، قفلِ درِ مقصود کھول - اے خوشا غفلت جو ممنونِ اثر کچھ بھی نہیں کان نے سب کچھ سنا دل کو خبر کچھ بھی نہیں گو صدائے ہمت افزا تا بگوش آتی رہی نالہ بن کر پیہم آوازِ سروش آتی رہی پھر بھی ننگِ زندگی آسودۂ خواری رہا سونے والے پر وہی خوابِ گراں طاری رہا جب تغافل اپنا شیوہ خفتہ قسمت نے کیا اور ہی سامانِ بیداری مشیت نے کیا دفعتہ از جلوۂ عیسیٰ اُفق تابندہ شد قم باذنی گفت مغرب روحِ مشرق زندہ شد اے زمینِ یورپ، اے مقراضِ پیراہن نواز اے حریفِ ایشیا! اے شعلۂ خرمن نواز چارہ سازی تیری بنیاد افگنِ کاشانہ ہے تیرے دم سے آج دنیا ایک ماتم خانہ ہے اشکِ حسرت زا سے چشمِ حریت نمناک ہے خوں چکاں رودادِ اقوامِ گریباں چاک ہے صرفِ تصنیفِ ستم ہے فلسفہ دانی تری آدمیت سوز ہے تہذیبِ حیوانی تری عظمتِ دیرینہ نالاں ہے ترے برتاؤ سے دھُل گیا حسنِ قدامت خون کے چھڑکاؤ سے جلوہ گاہِ شوکتِ مشرق کو سُونا کر دیا جنتِ دنیا کو دوزخ کا نمونہ کر دیا اُٹھ رہا ہے شورِ غم خاکسترِ پامال سے کہہ رہا ہے ایشیا رو کر زبانِ حال سے ’’بر مزارِ ما غریباں نے چراغے نے گلے نے پرِ پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے‘‘ گرچہ اک دنیا کا دل تیری طرف سے خون ہے امتِ خیرالوریٰ لیکن تری ممنون ہے کون ہوں؟ کیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ سب حقیقت کھل گئی تو نے وہ ٹھوکر لگائی چشمِ ملت کھل گئی چوٹ کھا کر بھر گیا دل لذتِ ایثار سے جلوے جاگے شیشۂ بشکستہ کی جھنکار سے یک بیک خونِ تنِ بیجاں میں ہیجاں آ گیا قطرہ دریا بن گیا، دَریا میں طوفاں آ گیا چونک اُٹھی روحِ اخوت ایک دل خستہ ہوئے پتیاں گل بن گئیں، گل مل کے گلدستہ ہوئے ہو گئیں بکھری ہوئی اینٹیں بہم تعمیر کی مل گئی ہر اِک کڑی ٹوٹی ہوئی زنجیر کی بت شکن، وحدت پرست اک جسم اک جاں ہو گئے غل ہوا دنیا میں پھر کافر مسلماں ہو گئے از کرم بپذیر یارب! جوشِ ما اندازہ را تاقیامت زندہ دار ایں زندگیِ تازہ را آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے اے دعا ہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے اے خدا اب پھیر دے رخ گردشِ ایام کے صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سرِ پیکار ہیں وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لیے کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لیے رحم کر، اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا! ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بھول جا خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں۱۳۱ اُسی دن دوسرے اجلاس میں صوبے کے گورنر لوئی ڈین کو سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ انگریزی اخبار آبزروَر کے مدیر اور اقبال کے دوست شیخ عبدالعزیز نے پیش کیا۔ پھر لوئی ڈین صاحب مدعو کیے ہوئے لوگوں کے ساتھ گارڈن پارٹی میں شریک ہوئے۔ ۲۰۴ اگلے روز اتوار تھی۔ ۲۳ مارچ تھی۔ صبح کے جلسے میں شاہ سلیمان پھلواری نے وعظ کی۔ گورنر نے سپاسنامے کا جواب دیا جو پچھلے روز پیش کیا گیا تھا۔۱۳۲ دوپہر کے جلسے کی صدارت ڈپٹی کمشنر شیخ اصغر علی روحی کر رہے تھے۔ انجمن کی رپورٹ میں درج ہوا : ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی کھڑے ہوئے تو حاضرین نے اظہارِ مسرت میں تالیاں بجا کر وہ شور مچایا کہ الامان! بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ فرمایا اس کا خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ میں اس سال علالت ِ طبع کی وجہ سے کوئی نظم نہیں لکھ سکا، مولوی احمد الدین صاحب بی اے جو میرے دوست ہیں مجھے اس وقت گھر سے اٹھا لائے ہیں تاہم میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ ایک فارسی نظم جو ابھی غیرمکمل ہے، آپ کو سناتا ہوں۔ اِس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اس نظم کے مضمون کو اُردو میں بیان کر کے اپنی بے بدل فارسی نظم سنائی جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔ ’’ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے کی فارسی نظم نے تصوف کا رنگ بالکل بدل دیا،‘‘ کشمیری میگزین کے نامہ نگار نے لکھا جو غالباً محمد دین فوق خود تھے۔۱۳۳ اشعار ضرور فارسی مثنوی کے رہے ہوں گے۔ ۲۰۵ جس روز لاہور میں اقبال نے تصوف کا رنگ بدلا، لکھنؤ میں مسلم لیگ اپنا منشور بدل رہی تھی۔ ’’تاجِ برطانیہ کے ماتحت رہتے ہوئے ہندوستان کے لیے موزوں سیلف گورنمنٹ کا حصول،‘‘ اس کے لیے ’’عوام میں اجتماعی روح بیدار کرنا‘‘ اور ’’اس مقصد کے لیے دوسری ملتوں کے ساتھ تعاون کرنا‘‘ اب مقصد ٹھہرا۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں وہ کمیٹی بھی منسوخ قرار دی گئی جس کے اقبال بھی رکن تھے اور جو دسمبر میں مسلم یونیورسٹی کے لیے حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ۲۰۶ مسلمانوں کے لیے مشورہ انگریزی اخبار آبزروَر میں شائع ہوا ۔ لکھنے والے نے غالباً سید امیر علی سے یہ نکتہ لیا تھا کہ چونکہ اسلام میں سیاست اور مذہب الگ نہ تھے اس لیے مذہبی فرقے مسلمانوں کے سیاسی گروہ بھی تھے۔ البتہ اس کے بعد مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی مغربی قوموں کی طرح سیاسی دھڑے بندیاں پیدا کریں۔ لکھنے والے نے افسوس کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں جو سیاسی گروہ بن رہے تھے وہ قومی اور سیاسی مسائل پر آپس میں متفق ہوتے تھے۔ ’’اس لیے آؤ اب ہم مسلمانوں میں سے ایک لبرل مسلم پارٹی، ایک کنزرویٹیو مسلم پارٹی، ایک ریڈیکل مسلم پارٹی بنائیں،‘‘ کشمیری میگزین نے ۲۸ مارچ کو مضمون کا ترجمہ شائع کیا۔ ۲۰۷ ادِرنہ کئی ماہ سے بلغاریوں کے محاصرے میں تھا۔ شکری پاشا جس طرح حفاظت کر رہے تھے اُس پر دشمن بھی حیران تھا مگر ترک فوج کے پاس غلہ ختم ہو چکا تھا۔فوج نے خوراک کے وہ ذخیرے قبضے میں لیے جو گھروں میں موجود تھے تو شہر کے قاضی نے برہم ہو کر فتویٰ دیا کہ مسلم حکومت جن غیرمسلموں سے جزیہ لے کر اُنہیں ذمی کا درجہ دے چکی ہو اُن کی ملکیت نہیں لے سکتی۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا مال واپس کر دیا گیا۔ یہ اُسی اُصول کا روشن پہلو تھا جو عثمانی سلطنت میں رائج تھا مگر جسے ’’جوان‘‘ ترک مٹانے کے درپے تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس جس مذہبی قومیت کے بارے میں کہتی تھی کہ کبھی کہیں رائج نہ تھی یہ اُسی کی مثال تھی۔ اقبال اُس پیمبرِ اُمّی کے میں فدا ایثار جس کی قوم کا دستور ہو گیا دُنیا میں جس کی مشعلِ خُلقِ عظیم سے ہر ذرہ شرحِ سورۂ والنّور ہو گیا یہ اشعار بعد میں نظم سے نکال دیے۔ نظم ’محاصرہ ادرنہ‘ میں ۲۲ شعر تھے۔ ۲۰۸ نقیب ہمدرد ایک صفحے کی بجائے چار کا چھپنے لگا تھا۔ عبدالحلیم شرر اُکتا کر لکھنؤ واپس جا چکے تھے۔ اُن کی بجائے مرادآباد سے قاضی عبدالغفار، دہلی کے سید جالب اور گورکھپور سے محمد فاروق دیوانہ آئے تھے۔ ۲۰۹ ۳۱ مارچ کو محمد علی (جوہرؔ)، اُن کے بڑے بھائی شوکت علی،عبدالباری فرنگی محلی، مشیر حسین قدوائی اور ڈاکٹر ایم اے انصاری نے انجمن خدامِ کعبہ کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو مسیحی طاقتوں سے بچانا تھا۔ ۲۱۰ یکم اپریل کو مچھلی بازار کی مسجد کی سلامتی کے لیے کانپور کے میونسپلٹی بورڈ میں مسلمان ارکان نے قرارداد پیش کی۔ بعض ہندو اَرکان نے بھی تائید کی۔ بورڈ کا چیئرمین انگریز تھا۔ آمادہ نہ ہوا۔ ۲۱۱ اعلیٰ ملازمتوں کے بارے میں غور کرنے کمیشن ہندوستان آیا۔ لارڈ اِسلنگٹن نیوزی لینڈ کی گورنری چھوڑ کر اِس کے سربراہ بنے تھے۔ محمد علی کے آکسفورڈ کے زمانے کے استاد پروفیسرہربرٹ فشر کے علاوہ لیبر پارٹی والے ریمزے میکڈونلڈ بھی شامل تھے۔۳۰ مارچ سے ۶ اپریل تک کمیشن لکھنؤ میں تھا۔۱۳۴ محمد علی (جوہرؔ) اپنی شہادت دینے گئے۔ میکڈونلڈ سے رہا نہ گیا۔ سوالات کے دوران شوق سے بتایا کہ باقاعدگی سے کامریڈ پڑھتے ہیں۔ ظریفانہ کالم کی خاص طور پر تعریف کی۔ اُس روز محمد علی کو کمیشن کے ساتھ کھانے پر بلایا گیا تھا۔ میکڈونلڈ وہاں بھی گھل مل کر باتیں کرتے رہے۔ دونوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کوئی نہ کہہ سکتا کہ کئی برس بعد یہی میکڈونلڈ برطانیہ کے وزیراعظم ہوں گے اور محمد علی بیماری کے عالم میں ان کے سامنے تقریر کر رہے ہوں گے، ’’میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیرملک میں جب تک وہ آزاد ہے مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ مجھے ہندوستان کی آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔‘‘ ۲۱۲ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ٹائیلر کانپور کی مچھلی بازار والی مسجد میں تشریف لائے۔ جوتوں سمیت وضوخانے میں پہنچ گئے۔ مسلمان دم بخود کھڑے تھے۔ ٹائیلر صاحب مڑے اور فرمایا کہ اگر یہ حصہ مسجد میں شامل ہوتا تو آپ لوگ مجھے جوتے اتارنے کے لیے کہتے۔ ثابت ہوا کہ مسجد کا حصہ نہیں اور مسمار کیا جا سکتا ہے۔ صوبے کے گورنر سر جیمز مسٹن کو محمد علی (جوہرؔ) اپنا دوست سمجھتے تھے۔ اُنہیں انگریزی میں طویل خط لکھا: مجھے لگتا ہے کہ اس سوال پر زیادہ توجہ دی گئی ہے کہ جس حصے کو میونسپلٹی کے چیئرمین مسمار کرنا چاہتے ہیں وہ نماز کے لیے استعمال ہوتا ہے یا نہیں۔ جو بات پہلے طے ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا کوئی زمین یا عمارت جو خدا کے نام وقف کی گئی ہو کسی دوسرے مصرف کے لیے خریدی یا منتقل کی جا سکتی ہے؟۱۳۵ ۲۱۳ ۹ اپریل کو پبلک سروس کمیشن لاہور آیا۔ ہفتے بھر ٹھہرنا تھا۔ معلوم نہیں اقبال پیش ہوئے یا نہیں۔ ۲۱۴ سات برس پہلے مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب بہشتی زیور میں، جو اَب بہت مشہور ہو چکی تھی، لکھا تھا کہ گھر میں اخبار نہیں آنے چاہییںکیونکہ وقت برباد ہوتا ہے۔ مگر اقبال اخبار کا مطالعہ مسلمان خواتین کے لیے بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ ضلع علی گڑھ میں دتاولی کے رئیس محمد اسماعیل خاں نے جغرافیے پر ایک آسان کتاب لکھ کر اُن کے پاس روانہ کی تو ۱۱ اپریل کو اقبال نے جواب میں لکھا کہ اس کی وجہ سے خاص طور پر مسلمان عورتوں کوبہت آسانی ہو گی جو جغرافیے سے ناواقفیت کی وجہ سے اخبار پڑھ کر سمجھ نہیں پاتیں۔ بیماری کا سلسلہ جس کی وجہ سے انجمن حمایت اسلام کے لیے بھی کوئی اردو نظم نہ لکھ سکے تھے، ابھی جاری تھا۔ ۲۱۵ بیگم صاحبہ بھوپال لاہور تشریف لانے والی تھیں۔ اُن کے استقبال کے لیے انجمن حمایت اسلام نے ۱۳ اپریل کو مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی جس میں اقبال بھی شامل تھے۔ چھ برس پہلے امیر حبیب اللہ نے اسلامیہ کالج کی جس عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا تھا وہ اسی برس مکمل ہوئی اور کالج کی جماعتیں ریواز کالج کے مغربی حصے سے یہاں منتقل ہو گئیں۔۱۳۶ ۲۱۶ قسطنطنیہ میں ظفر علی خاں نے محمود پاشا کو ایک لاکھ پانچ روپے کا چیک پیش کیا جس کی رسید انہوں نے زمیندار کے نام روانہ کر دی۔ دہلی کے ڈاکٹر انصاری بھی پہنچے ہوئے تھے۔ اُن کے ہمراہ ظفر علی خاں بالآخر عثمانی خلیفہ سلطان محمد پنجم کے حضور پیش ہوئے۔ مشرقی درباروں کا قاعدہ تھا کہ رعایا میں سے کوئی فرد حاضر ہو تو نذر پیش کرے۔ ظفر علی خاں نے جو نذر پیش کی اُس میں زمیندار کا کوئی خاص نمبر اور اقبال کی نظم فاطمہ بنت عبداللہ شامل تھیں۔۱۳۷ ۲۱۷ مولانا ظفر علی خاں کا بیان ہے کہ انہی دنوں انہوں نے شیخ عبدالعزیز شادیش اور ڈاکٹر انصاری کے ساتھ مل کر کسی مدینہ یونیورسٹی کے منصوبے کا خاکہ بھی بنایا۔ اقبال کو نصاب مرتب کرنے کی دعوت دی گئی۔۱۳۸ ۲۱۸ نواب ذوالفقار علی خاں اور جوگندر پٹیالہ سے واپس آچکے تھے۔ اقبال، مرزا جلال الدین، جوگندر سنگھ اور سردار امراؤ سنگھ اکثر نواب صاحب کی موٹر میں گھومنے نکلتے تھے۔ دوسری گاڑیوں کی نسبت کم شور مچاتی تھی۔ ایک روزجوگندر سنگھ نے موٹر کی خاموشی پر رائے ظاہر کی ۔ اُس وقت تو کوئی خاص بات نہ ہوئی مگر بعد میں اقبال نے دوستوں کو ایک نظم دکھائی جس میں جوگندر کی بات کو نظم کر کے اپنی طرف سے اس تبصرے کا اضافہ کیا تھا کہ دنیا میں ہر تیز رفتار خاموش ہے۔ صراحی میں سے قلقل کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے چنانچہ صراحی جہاں ہوتی ہے وہیں رہتی ہے مگر جام جس کی کوئی آواز نہیں، وہ ہاتھوں ہاتھ کہاں سے کہاں جا پہنچتاہے۔۱۳۹ ۲۱۹ سردار بیگم قانونی طور پر اقبال کی بیوی تھیں۔ پھر بھی گمنام خطوط کی وجہ سے جو شبہات ذہن میں ابھرے تھے، ابھی مٹے نہ تھے۔ نکاح منسوخ کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے۔ کرنال کے کوئی مولوی صاحب مصر ہو گئے کہ شریف گھرانے کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔ اُس سے اقبال کو ضرور شادی کرنی چاہیے۔آخر اُن خاتون کو مرزا جلال الدین کے گھر بلایا گیا۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ آئیں۔ مرزا جلال الدین سے روایت ہے کہ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں بھی آئے۔ سب نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ پھر اقبال رخصت ہو گئے۔ اگلے روز خاتون کو بھی سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا گیا۔ ۱۴۰ ۲۲۰ اقبال کے دوست سید بشیر حیدر خبر لائے کہ لدھیانے میں ایک گھرانہ جس کی دولت مندی کی وجہ سے اُسے نولکھوں کا گھرانہ کہا جاتا ہے اُس کے سربراہ ڈاکٹر سبحان علی اپنی لڑکی کا رشتہ اقبال سے کرنا چاہتے ہیں۔ مختار بیگم نرم طبیعت کی فراخ دل اور نیک سیرت خاتون تھیں۔ اس سے پہلے لدھیانہ ہی کے کسی محمد یعقوب کے ساتھ اُن کی بات طے ہو ئی تھی مگر شادی نہیں ہو سکی تھی اگرچہ یہ بات اقبال کے علم میں نہیں تھی۔۱۴۱ رشتہ طے ہو گیا توبارات لاہور سے لدھیانہ گئی جہاں ریلوے اسٹیشن پر اسکول کے طالب علموں نے ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ اور اقبال کی دوسری نظمیں گا کر استقبال کیا۔ ڈاکٹر سبحان علی یا ان کے کسی رشتہ دار کی طرف سے شہر بھر کے دکانداروں کو ہدایت کر دی گئی کہ بارات والے جو کچھ خریدیں اس کی قیمت اُن سے نہ لی جائے بلکہ اس کا تخمینہ نولکھوں کے گھرانے بھجوا دیا جائے۔ نکاح کے بعد اقبال کے دوست واپس لاہور چلے آئے اور اقبال کو کچھ دن گزارنے لدھیانہ ہی میں چھوڑ آئے۔ شادی کے بعد معلوم ہوا کہ جس لڑکی سے رشتہ ہوا ہے وہ ڈاکٹر سبحان علی کی بیٹی نہیں بلکہ بیوی کی بھانجی ہے جس کا باپ فوت ہوچکا ہے اور سرپرست بڑا بھائی غلام محمد ہے۔ اس قسم کے مغالطے اُس زمانے میں پیش آجایا کرتے تھے جب شادی بیاہ کے مراحل میں دلہا دلہن کا براہِ راست بات چیت کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور بعض دوسرے رِواجوں کے پہرے بھی ہوتے تھے۔ بہرحال اقبال نے شکایت نہ کی۔ ۲۲۱ لدھیانہ میں ایک بہت مشہور بزرگ تھے جو اپنی پھوس کی بنی ہوئی لنگوٹی کی وجہ سے باباپھوس والے کے نام سے مشہور تھے۔ اقبال نے دیکھا تویہ رائے قائم کی کہ میٔ توحید اپنی ہمت سے بڑھ کر پی جائے تو یہ انجام ہوتا ہے۔۱۴۲ ۲۲۲ مختار بیگم کو لے کر اقبال لدھیانہ سے سیالکوٹ گئے اور وہاں کچھ دن گزارنے کے بعد اُنہوں نے پہلی بیوی کریم بی بی کو بھی لاہور چل کر رہنے کی دعوت دی۔ ’’چنانچہ دونوں بیگمات لاہور آ گئیں اور کچھ عرصہ انارکلی والے مکان میں ساتھ ساتھ رہیں،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔۱۴۳ ۲۲۳ حسن نظامی کی طبیعت نے پلٹا کھایا تھا۔رسالہ حلقہ نظام المشائخ اپنے مرید دوست ملا واحدی کے سپرد کر کے خود میرٹھ سے ایک نیا ہفت روزہ توحید کے نام سے نکالنا شروع کیا۔ اس کے سرورق پر اقبال کے ترانے کا وہ شعر لکھا ہوتا تھا جس میں لفظ ’توحید‘ آیا تھا۔ حسن نظامی نے اعلان کیا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی یاد میں ۸ جون کورسالے کا خواجہ نمبر نکلے گا۔ بہترین تحریروں پر تمغے دیے جائیں گے۔ اکبر الٰہ آبادی، عبدالحلیم شرر اور اقبال منصفین قرار دیے گئے۔۱۴۴ ۲۲۴ ۲۸ مئی کوسول اینڈ ملٹری گزٹ(Civil And Military Gazzette) میں وائسرائے کا بیان شائع ہوا کہ ٹیگور ایشیا کے ملک الشعرأ ہیں۔ ان کے محسوسات، وجدان اور جذبات پوری انسانیت پر محیط ہیں۔ بم والے واقعے کے بعد وائسرائے نے ڈیرہ دُون میں آرام کیا تھا۔ وہاں آریاسماجی ماہر ِ تعلیم منشی رام اور ٹیگور کو اُن کے قریب رہنے کا موقع ملا تھا۔ ۲۲۵ اکبر الٰہ آبادی کے بیٹے ہاشم نمونیا میں مبتلا ہوئے۔ چند روز بیمار رہ کر فوت ہو گئے۔ ۲۲۶ اقبال بیمار تھے۔ وہ حسن نظامی کو خواجہ نمبر والے مضامین کے بارے میں اپنی رائے نہیں بھیج سکے۔۱۴۵ ۲۲۷ ۳۰ مئی کو لندن میں عثمانی سلطنت اور بلقانی ریاستوں کے درمیان صلح نامے پر دستخط ہو گئے۔ جنگ ِ بلقان اختتام کو پہنچی مگر ایک نئی جنگ کا آغاز دُور معلوم نہ ہوتا تھا کیونکہ بلغاریہ اور سربیا کے درمیان عثمانیوں سے چھینے ہوئے علاقے مقدونیہ کے بندوبست پر ابھی سے جھگڑا شروع ہو گیا تھا۔ ۲۲۸ جس ٹائپ کا انتظار تھا وہ بیروت سے دہلی پہنچ گیا۔ یکم جون سے ہمدرد اخبار باقاعدہ نکلنے لگا۔ آٹھ صفحے ہونے لگے مگر محمد علی کے جوہر دکھانے کو کم پڑتے تھے۔ خود کہتے تھے ، مجھے اتنی فرصت کہاں ہے جو مختصر لکھوں! ۲۲۹ لکھنؤکی فضا اِس حد تک شبلی نعمانی کے خلاف ہوئی کہ گھبرا کر بمبئی آگئے۔پھر ندوۃ سے استعفیٰ دے دیا۔ ’’۳ جون ۱۹۱۳،‘‘ عطیہ نے اپنی ڈائری میں لکھا۔ ’’اس شام کو تمام شام مولانا شبلی نے ہمارے ہاں گزاری۔‘‘ شبلی نے عطیہ اور ان کے شوہر رحمین کے لیے شعر بھی کہے۔ عطیہ کی زبان سے رحمین کو کہلوایا: کھینچ سکتا جو نہ تھا مجھ کو کوئی اپنی طرف اس لیے ننگ ِ قرابت سے مجھے دُوری تھی آپ نقاش ہیں اور حُسن کی تصویر ہوں میں آپ نے مجھ کو جو ’’کھینچا‘‘ تو یہ مجبوری تھی ۲۳۰ ۸ جون کوتوحید کا خواجہ نمبر شائع ہوا۔حسن نظامی نے لکھا کہ شرر کی رائے پہنچ چکی ہے مگر اکبر الٰہ آبادی اپنے بیٹے کی وفات کی وجہ سے اور اقبال اپنی بیماری کی وجہ سے رائے نہیں دے سکے ہیں۔ ان کی رائے ملتے ہی جیتنے والوں کو تمغے روانہ کر دیے جائیں گے۔۱۴۶ ۲۳۱ غالباً توحیدمیں حسن نظامی نے ہندوستان میں مسلمانوں کی بیداری کے پانچ اسباب گنوائے: ۱ ظفر علی خاں کا اخبار زمیندار ۲ محمد علی کا اخبار کامریڈ ۳ طرابلس کی لڑائی ۴ بلقان کی لڑائی ۵ نواب وقار الملک کی حق گوئی اقبال کا ذکر نہ تھا۔ بین السطور میں یہ بھی تھا کہ باقی گرم نوائی جو کہیں نظر آتی ہے، انہی پانچ اسباب میں سے کسی نہ کسی کی خوشہ چیں ہے۔ اقبال نے حسن نظامی کو خط لکھا: شاعروں کی بدنصیبی ہے کہ ان کا کام برا بھلا جو کچھ بھی ہو غیرمحسوس ہوتا ہے اور ظاہر بین آنکھیں مرئیات کی طرف قدرۃً زیادہ متوجہ ہوتی ہیں۔ اس خط کا مقصد شکایت نہیں اور نہ یہ کہ اقبال کے کام کا اشتہار ہو۔ حسن نظامی کو خوب معلوم ہے کہ اس کا دوست اشتہار پسند مزاج لے کر دنیا میں نہیں آیا مگر یہ مقصد اس خط کا ضرور ہے کہ ایک واقفِ حال دوست کی غلط فہمی دُور ہو تاکہ اقبال کی وقعت اپنے دوست کی نگاہ میں محض اِس خیال سے کم نہ ہو کہ اُس نے مسلمانانِ ہند کی بیداری میں حصہ نہیں لیا۔ آخر میں اُنہوں نے بیدل کا ایک شعر درج کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر بیدل کا کلام تمہیں ملے تو انصاف کی راہ سے مت ہٹناکہ تم سے داد کے سوا اور کچھ طلب نہیں کرتا: بکلامِ بیدل اگر رسی مگزر زجادۂ منصفی کہ کسے نمی طلبد ز تو صلۂ دگر مگر آفریں ۲۳۲ خلیفہ عبدالحکیم کی عمر سترہ برس تھی۔ لاہور کی کشمیری برادری سے تعلق تھا۔ علیگڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی کالج میں داخلہ لیا تھا۔ اس برس پہلی دفعہ اقبال سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا بیان ہے: علی گڑھ سے نکل کر جب میں ۱۹۱۳ء میں دہلی کالج میں داخل ہوا تو تعطیل کے زمانے میں اپنے نسبتی بھائی عطاء اللہ بٹ کے ہمراہ انارکلی والی بیٹھک میں پہلی بار ان سے ملنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ اس شاعر بے بدل اور مشہور آفاق شخص کے سینے میں ایک سادہ دل ہے۔ کچھ بڑائی کا رعب نہیں، کچھ دور باش کا اندازہ نہیں۔ چنانچہ ایک شام کو میں نے دیکھا کہ کچھ دیر ہو رہی ہے انارکلی کی گہما گہمی ختم ہے۔ عرض کیا کہ میں اب جاتا ہوں آپ کے کھانے کا وقت ہو گا۔ فرمانے لگے کہ نہیں بیٹھو، میں تو رات کو کھانا نہیں کھاتا، فقط دودھ کی پیالی سونے سے قبل پی لیتا ہوں۔ اس زمانے میں ان کی عمر چالیس سے بھی کم تھی لیکن اس قلندرانہ کم خوراکی کی عادت اس وقت بھی راسخ ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ طرح طرح کے آدمی ان کے پاس بے تکلف چلے آتے۔ علی بخش ان کا وفادار ملازم اس زمانے میں بھی ان کا خدمت گذار تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کو بھی کسی کو روکنے کا حکم نہ تھا۔ ۲۳۳ لندن میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہفت روزہ دی نیو وٹنس (The New Witness)کے مدیر سیسل چسٹرٹن نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر ِ خزانہ لائڈ جارج سمیت برطانوی حکومت کے بعض نمایندے مارکونی کمپنی کے اثاثوں کو غیرقانونی طور پر خریدنے میں ملوث پائے گئے۔ الزام درست ثابت ہوا ۔ پھر بھی عدالت نے فیصلہ صادر کیا کہ اثاثے کم مالیت کے تھے۔ بددیانتی ہوئی مگر معمولی تھی۔ رسالے کا مدیر ہتک ِ عزت کے بدلے میں سو پونڈ جرمانہ ادا کرے۔ ’’اِسی معاملے پر احتجاج کے دوران عام انگریز شہری اُس بیخبری سے باہر نکلا جو اَبھی تک نہ ٹوٹی تھی، یا عام زبان میں اُس کی معصومیت،‘‘ مدیر کے بھائی اور مشہور ادیب جی کے چسٹرٹن نے بعد میں کہا۔اُس وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ لائڈ جارج اور ساتھیوں کی بے ایمانی کی اصل رقم اُس سے کہیں زیادہ تھی جتنی سامنے آئی تھی۔ ۲۲۶ یکم جولائی کو کانپور میں گھڑسوار فوج کی موجودگی میں مچھلی بازار کی مسجد کی دیوار گرائی گئی۔ مسلمان دیکھتے رہ گئے۔اُس روز محمد علی (جوہرؔ) ڈاکٹر انصاری کے طبی مشن کی ترکی سے واپسی پر استقبال کرنے دہلی سے بمبئی جا رہے تھے۔ خبر نہ ہوئی۔ اگلے روز بمبئی پہنچ کر اخبار دیکھا تب معلوم ہوا۔ ابھی تک ہمدرد اور کامریڈ میں نہ لکھا تھا۔ اُمید تھی کہ یو پی کے گورنر مسٹن صاحب انصاف کی خاطر نہیں تو محمد علی کی دوستی ہی میں معاملے کو نمٹا دیں گے۔ اب انہیں تار بھیج کر پچھلے ڈیڑھ ماہ کی خط کتابت اخبار میں شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ دوسرا تار انگلستان کی لیبر پارٹی کے بانی ریمزے میکڈونلڈ کو بھیجا۔ کچھ عرصہ پہلے گہری دوستی کے وعدے کر کے گئے تھے۔ اُن سے کہا کہ پارلیمنٹ میں سوال اُٹھائیں۔ اُس تار کا جواب نہ ملا۔۱۴۷ ۲۳۴ جولائی میں ظفر علی خاں واپس آئے تو دہلی میںشاندار جلوس نکلا۔ ایک روایت کے مطابق لاکھوں لوگ شامل ہوئے۔ عقیدت مندوں نے ہاتھوں سے ان کی گاڑی کھینچی۔ اُس کے نیچے کچل کر دو بچے ہلاک ہوگئے۔ بعد میں مشہور ہوا کہ اُن میں سے ایک کی ماں نے کہا کہ اُس کے دس بیس بچے بھی ہوں تو ظفر علی خاں پر نچھاور کر دے گی۔ لاہور میں بھی شاندار استقبال ہوا۔ پنجاب مسلم کلب نے استقبالیہ دینا چاہا۔ میاں محمد شفیع کو خیال آیا کہ کوئی ایسی سیاسی بات نہ کہہ دیں جو مناسب نہ ہو۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے کہا کہ جب ممبر دعوت دینا چاہتے ہیں تو آپ اختلاف نہ کریں، ہم مولوی صاحب کو سمجھا دیں گے کہ ایسی ویسی بات نہ کریں،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’چنانچہ اُن کو سمجھا دیا گیا۔ دعوت میں کم و بیش ایک سو اصحاب شریک تھے۔ مولانا تقریر کے لیے اٹھے تو فرمایا: ’صاحبو! مجھے کہا گیا ہے کہ تیز بات نہ کروں۔‘ یہ کہہ کر بری طرح انگریزوں پر برستے رہے۔ میں اور ڈاکٹر صاحب بھی پریشان تھے اور [میاں] شفیع بھی مگر چونکہ وہاں کوئی رپورٹر نہ تھا اس لیے بات باہر نہ نکلی۔ بات باہر نکلنے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ سی آئی ڈی پہلے سے ظفر علی خاں کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔۱۴۸ ۲۵۳ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی لاہور میں بھی خوش نہ رہ سکیں اور کچھ عرصہ شوہر اور سوکن کے ساتھ رہنے کے بعد اپنے میکے گجرات واپس چلی گئیں۔ اقبال نے اپنے بھائی عطا محمد کو لکھا کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہیںاور یہ بات کریم بی بی کے والد حافظ عطا محمد صاحب پر بھی واضح کر دی جائے تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ ساتھ ہی اس معاملے میں آخری فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ کریم بی بی نے کہلوا بھیجا کہ طلاق نہیں چاہتیں۔ چنانچہ طے پایا کہ اقبال ہر ماہ اُنہیں گزارے کی رقم ادا کرتے رہیں گے۔ علیحدگی ہو گئی۔۱۴۹ ۲۳۶ ۲۱ جولائی کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کانپور میں مسجد کی شہادت کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مسجد کی گری ہوئی دیوار کو دوبارہ تعمیر کرے۔ ۲۳۷ ۲۳ جولائی کو مہاراجہ کشن پرشاد لاہور آئے۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کی طرف سے یتیم خانے کے لیے چندے کی درخواست پیش کرنے والے وفد میں شامل تھے چنانچہ ریلوے اسٹیشن پرہی جا ملے۔ شام کو مہاراجہ کے اعزاز میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں تین ہزار حاضرین موجود تھے۔ تقریر کرنے والوں میں اقبال، آغا حشر کاشمیری اور پنڈت دین دیال شرما بھی تھے۔اقبال نے کہا: صاحبان! پنجاب کے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں آج کا جلسہ یادگار رہے گا۔ اختلاف کا ناگوار مسئلہ اہلِ پنجاب کے اطمینان اور سکون کا دشمن ہو رہا ہے اور اگر غورکر کے دیکھا جائے تواختلاف کی چنداں وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ ہندوؤں کے مذہب، تاریخ، لٹریچر اور فلسفے سے بخوبی روشن اور ظاہر ہے کہ غیرمذہب کے پیشواؤں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی زبردست تائید فرماتے ہیں اور اِسی طرح مسلمانوں کے سرمایۂ حیات قرآن مجید میں بھی یہی ہدایت پائی جاتی ہے تو پھر اختلاف کے کیا معنی ہیں؟ اگر دونوں قومیں ایک دوسرے کی روایات سے آگاہ ہیں تو کسی کو ایک دوسرے سے وجہ ٔ شکایت نہیں ہو سکتی اور اگر مغربی تعلیم، جس کو مادی تاریخ کہا جاتا ہے، کی وجہ سے بے دینی ہو گئی ہے تو اِس حالت میں بھی کوئی وجۂ شکایت نہ ہونی چاہیے۔ اس کے بعد اقبال نے اکبرؔ کا شعر پڑھتے ہوئے کہا،یہ تو وہی بات ہوئی: بوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اِک مضموں لکھا میرا مضموں تو نہ پھیلا لیک جوتا چل گیا اگر سیاسی اختلاف ہے تو میں کہوں گا کہ دونوں کی حالت قابل ِ رحم ہے۔ اب آہستہ آہستہ دونوں کو معلوم ہونے لگا ہے کہ اختلاف کی تہہ میں پولیٹکل وجوہ بھی کوئی ہستی نہیں رکھتیں۔ جیسا جیسا ہندو مسلمان ملک کی حیثیت کو سمجھیں گے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آتے جائیں گے۔۱۵۰ دُور کانپور کے عیدگاہ میدان میں اُس روز مسجد کی گری ہوئی دیوار کے لیے مسلمانوں کا بہت بڑا اجلاس ہوا۔ ۲۳۸ ۲۴ جولائی کو توحید کی اشاعت میں اقبال کی رائے شائع ہوئی: نواب علی پروفیسر بڑودہ کالج کا مضمون مجھے سب سے زیادہ پسند آیا کہ معنی خیز ہے۔ اِس سے دوسرے نمبر پر’زلف ِ خواجہ کا اسیر‘ اور ’شہنشاہوں کی پیشانیاں اجمیری چوکھٹ پر‘۔ موخرالذکر مضمون کچھ نتیجہ خیز نہیں ہے۔ نظموں میں گرامی کی غزل اور اس کے بعد مولانا سید حسن شفقؔ کا ترانہ اقبال کو سب سے بہتر لگے تھے۔۱۵۱ ۲۳۹ اقبال مہاراجہ کشن پرشاد کو آغا حشر کا تھیٹر دکھانے لے گئے۔ لاہور میں کشن پرشاد کا زیادہ وقت اقبال ہی کے ساتھ گزرا۔ انجمن کے یتیم خانے کو ایک ہزار روپیہ چندہ دیا۔ اِس کے بعد اُن کی اقبال کے ساتھ باقاعدہ خط کتابت شروع ہو گئی۔ ان میں سے ابتدائی خطوط یا کم سے کم اقبال کا پہلا خط دستیاب نہیں ہے۔۱۵۲ ۲۴۰ ۲۸ جولائی کو اخبارکشمیری نے لکھا کہ مہاراجہ کشن پرشاد پنجاب کی سیر کے بعد اب دہلی گئے ہیں۔ لاہور میں اُن کے استقبالیہ جلسے کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کی تقریر شائع کی اور لکھا کہ کاش آریہ سماجی اخبارات پر مہاراجہ، اقبال اور پنڈت دین دیال کی تقریریں کچھ اثر کر سکیں اور وہ ’’باہمی اتحاد ہی میں اپنا اور ہندوستان کا فائدہ سمجھ سکیں۔‘‘۱۵۳ ۲۴۱ رام لبریز ہے شرابِ حقیقت سے جامِ ہند سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رامِ ہند یہ ہندیوں کے فکرِ فلک رس کا ہے اثر رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بامِ ہند اِس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں مَلَک سرِشت مشہور جن کے دم سے ہے دُنیا میں نامِ ہند ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہلِ نظر سمجھتے ہیں اُس کو امامِ ہند اعجاز اس چراغِ ہدایت کا ہے یہی روشن تر از سحر ہے زمانے میں شامِ ہند تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا۱۵۴ معلوم ہوتا ہے کہ اِس نظم میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۲۴۲ ظفر علی خاں کو معلوم ہوا کہ سی آئی ڈی اُن کے پیچھے لگی ہوئی ہے تو پراسرار طور پرغائب ہوئے اور واپس انگلستان چلے گئے۔ ۱۵۵ ۲۴۳ دوسری بلقان جنگ ہو رہی تھی۔ اِس دفعہ ترکی پر حملہ نہ ہوا بلکہ ترکوں سے چھینے ہوئے علاقوں کی تقسیم پر بلغاریہ نے اپنے ساتھیوں یونان، سربیا اور مونٹینگرو پر حملہ کیا تھا۔تب رومانیہ بھی بلغاریہ کے خلاف میدان میں آگیا۔ ترکی نے موقع مناسب جان کر دوبارہ ادِرنہ پر قبضہ کر لیا۔ ۲۴۴ معلوم ہوا کہ سردار بیگم کے متعلق جو گمنام خطوط موصول ہوئے اُن کے پیچھے نبی بخش وکیل کا ہاتھ تھا۔۱۵۶ سردار بیگم اب اقبال کے سواکسی اورسے شادی کرنے پر تیار نہ تھیں خواہ ساری زندگی یونہی گزارنی پڑے۔ اُس زمانے میں جب بوڑھی عورتیں بھی مرحوم شوہروں کا نام لینے سے شرماتی تھیں، سردار بیگم نے جرات سے کام لے کر اقبال کو خود خط لکھا ۔اُس میں لکھا کہ اقبال نے بے وجہ ان کے خلاف تہمت پر یقین کر لیا۔ نکاح ہو چکا، اب دوسری شادی نہ کریں گی اور زندگی اسی حالت میں گزارکر قیامت کے دن اقبال سے اپنا حق مانگیں گی۔ اقبال کو یہ خط ملا تو اُنہوں نے مختار بیگم کو دکھایا۔ نرم دل تھیں، دل بھر آیا اور رونے لگیں۔ پھر بخوشی اجازت دے دی کہ سردار بیگم کوبھی گھر لے آئیں۔ ۲۴۵ ایما ویگے ناست کے والد کے انتقال کی خبر ملی، شاید ایما ہی نے خط لکھا ہو گا۔ اقبال نے خلافِ معمول جرمن کی بجائے انگریزی میں جواب دیا: مجھے آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر سن کر بے انتہا صدمہ ہوا ہے اور اگرچہ میرا خط اس افسوس ناک سانحے کے بہت دنوں بعد آپ تک پہنچے گا مگر اس نقصان میں مجھے آپ کے ساتھ جو ہمدردی ہے اس کی شدّت کو نہ وقت کم کر سکتا ہے نہ فاصلہ۔ اس خبر سے مجھے حقیقتاً بڑا دکھ ہوا ہے اور میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اُس بزرگ اور قابلِ احترام ہستی پر اپنے انعام و اکرام کی بارش کرے۔ ’’بیشک ہم خدا ہی کے لیے ہیں اور خدا ہی کی طرف ہم لوٹ کر جاتے ہیں،‘‘ یہ وہ آیت مقدّسہ ہے جو ہم کسی کی وفات کی خبر سن کر پڑھتے ہیں اور آپ کا غم و اندوہ پڑھ کر میں نے یہ آیت بار بار دہرائی ہے۔ ایسے سانحات ہر شخص کی زندگی میں ضرور آتے ہیں اور لازم ہے کہ ہم اپنے مصائب کا سامنا اُسی استقلال کے ساتھ کریں جیسا کہ اُن لوگوں نے کیا جن کی زندگیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گوئٹے نے اپنی موت کے لمحے میں کیا کہا تھا: ’’مزید روشنی!‘‘ موت مزید روشنی کی طرف ایک نیا راستہ کھول دیتی ہے اور ہمیں اُن مقامات تک لے جاتی ہے جہاں ہم ابدی سچائی کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب میں نے گوئٹے کی شاعری آپ کے ساتھ پڑھی اور مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی وہ پرمسرت ایام یاد ہوں گے جب ہم روحانی طور پر ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اب بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں، یہاں تک کہ میں روحانی لحاظ سے آپ کے غم میں شریک ہوں۔ جب آپ کا خط لکھنے کو جی چاہے تو براہِ کرم مجھے ضرور لکھیے۔ کاش میں جرمنی میں ہوتا تاکہ اپنی ہمدردی ذاتی طور پر آپ تک پہنچا سکتا۔ بنام ایما ویگے ناست Lahore 30th July, 1913 Dear Miss Wegenast, I am exceedingly sorry to hear the sad news of your father's death; and though my letter must reach you a good many days after this sad event, yet neither time not distance can make my sympathy with you in your bereavement any the less warm. The news has pained me very much indeed, and I pray that Almighty God may be pleased to shower his choicest blessings on the venerable old man, and to give you strength to endure your sorrow. 'Verily we are for God and to God we return'. This is the sacred text which we recite when we hear the news of death. And I recited this verse over and over again on reading your painful letter. Such events do happen in every-day's life, and we must meet our trouble like those who have left us their lives to imitate. You remember what Goethe said in the moment of his death--- 'More light'. Death opens up the way to more light, and carries us to those regions where we stard face to face with eternal Beauty and Truth. I remember the time when I read Goethe's poems with you, and I hope you also remember those happy days when we were so near to each other spiritually speaking. And I feel we are still near to each other--- so much so that I spiritually share in you sorrow. Please write to me when you feel inclined to do so. I wish I had been in Germany to convey my sympathy to you personally. May god be with you Yours ever Mohammad Iqbal Advocate Lahore ۲۴۶ سردار بیگم کے بارے میںتمام شبہات ختم ہو چکے تھے۔ اب نیا اندیشہ لاحق ہوا۔ اقبال نے پہلے نکاح ختم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اب سوچا کہ کہیں اس طرح نکاح ختم نہ ہو گیا ہو۔ صرف اقبال کے سوچنے سے چیزیں ہو جایا کرتیں تو دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہوتی۔ پھر بھی مرزا جلال الدین کو حکیم نورالدین کے پاس قادیان بھیجا۔ اُنہوں نے کہا کہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اگر شبہ دُور نہیں ہوتا تو اپنی تسلی کے لیے پھر نکاح پڑھوا لینے میں حرج نہیں۔۱۵۷ اقبال احمدی عقائد سے اختلاف رکھتے تھے۔ پھر بھی قادیان سے فتویٰ طلب کیا۔ وجہ یہ رہی ہو گی کہ شرعی تحقیق کا تعلق علم اور مطالعے سے تھا۔ ممکن ہے حکیم نورالدین کی نیک نیتی پر بھی اعتماد ہو۔ مولوی میر حسن کے دوست ہونے کی وجہ سے اقبال کے لیے بھی بزرگ کا درجہ رکھتے تھے۔ ۲۴۷ یکم اگست کو حسن نظامی کے ہفت روزہ توحید میں اقبال کے وہ سینتالیس فارسی اشعار شائع ہوئے جو مولانا روم کو خواب میں دیکھنے کے بعد کہے تھے۔آغاز میں حسن نظامی کا طویل نوٹ تھا۔ اس میں اقبال کا خواب تفصیل سے درج تھا۔ اشعار کا عنوان غالباً حسن نظامی ہی نے تجویز کیا تھا: ’مثنوی اسرارِ خودی‘۔ مثنوی اسرارِ خودی یہ نظم ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی شہرۂ آفاق اور ہردلعزیز شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے۔ پہلی قسط اخبار توحید کے ذریعے شائع کی جاتی ہے۔۔۔ ناظرین نظر ِ غور سے پڑھیں۔ نوکری کی نسبت جو کچھ جنابِ اقبال کے قلم سے نکلا ہے وہ اس قابل ہے کہ دَورِ حاضر کے وہ تمام نوکری پرست لوگ جو دوسروں کی غلامی کے لیے باہمی کشمکش میں مبتلا ہیں [یہاں شاید کچھ الفاظ چھپنے سے رہ گئے]۔۔۔ ہندو کہتے ہیں کہ ہم غلام بنیں گے، مسلمان کہتے ہیں یہ حلقہ ہمارے کان میں ڈالنا چاہیے، ایسے داروگیر کے زمانے میں ڈاکٹر اقبال کی یہ نظم ہندوستانیوں میں ایک نئی زندگی پیدا کرے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ ناظرینِ توحید اِس نظم کو خود بھی یاد کریں اور اپنے دوستوں کو بھی یاد کروائیں۔۱۵۸ ۲۴۸ انسانی نفس کی اصلاح شبلی کے خیال میں کائنات کا سب سے مقدس فریضہ تھا۔ زبان یا قلم کے ذریعے بھی انجام دیا جا سکتا تھا۔ طاقت کے زور پر بھی ہو سکتا تھا۔ مگر’’سب سے زیادہ عملی طریقہ یہ ہے کہ ۔۔۔ فضائل ِ اخلاق کا ایک پیکر ِ مجسم سامنے آجائے جوخود ہمہ تن آئینۂ عمل ہو۔ ‘‘ یہ جامع ِ کامل آنحضرتؐ کی ذاتِ مبارک تھی۔ ۲۴۹ ذہنی امراض کے جرمن معالج سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Frued) کی کتاب خوابوں کی تعبیر (The Interpretations of Dreams) جو ۱۸۹۹ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی، اس برس انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو گئی۔ اب تک فرائیڈ کے نظریات کچھ زیادہ مشہور نہ تھے۔ اب ہو سکتے تھے۔ فرائیڈ کا خیال تھا کہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے عمل میں انسان ہر قسم کے محرکات سے دوچار ہوتا تھا۔ ان محرکات پر ردِ عمل آہستہ آہستہ ایک نظام کا پابند ہو جاتا تھا۔ یہ نظام زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتا رہتا۔ ہر وقت نئے محرکات قبول کیے جاتے تھے۔ جو محرکات اس نظام سے مطابقت نہ رکھتے انہیں ردکیا جاتا تھا۔ فرائیڈ سمجھتا تھا کہ جو محرکات رد ہوتے، وہ ذہن کے ایک ’’لاشعوری حصے‘‘ (unconscious region) میں منتقل ہوتے جاتے تھے۔ وہاں چُھپ کر ظاہری شخصیت پر اثرانداز ہونے کے منتظر رہتے تھے۔ منصوبوں میں گڑبڑ کر سکتے تھے۔ فکر کو مسخ کر سکتے تھے۔ خوابوں اور خیالوں کی تعمیر کر سکتے تھے۔ اُس غیرمہذب طرزِ عمل کی طرف واپس بھی لے جا سکتے تھے جسے ارتقا کا عمل ویسے بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ فرائیڈ کے نظریے سے اقبال کب واقف ہوئے۔ جب بھی ہوئے، اُن کا اعتراض یہ تھا کہ یہ نظریہ کسی ٹھوس ثبوت پر قائم نہیں۔ اگر دبے ہوئے رجحانات خوابوں میں یا کسی اور وقت ظاہر ہوتے تھے جب ہم اپنی عام شخصیت نہ رہتے ہوں، تو یہ کہاں ثابت ہوتاتھا کہ یہ رجحانات ہماری عام شخصیت کے پیچھے بھی کسی خفیہ کمین گاہ میں مستقل طور پر موجود رہتے ہیں؟ ان رجحانات کے ہماری عام شخصیت پر کبھی کبھار اثرانداز ہونے سے ہمارے ردِ عمل کے عام نظام کا محض عارضی طور پر متاثر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ذہن کے کسی تاریک گوشے میں ان رجحانات کی مستقل موجودگی ثابت نہیں ہوتی۔ فرائیڈ کی نظر میں مذہب محض افسانہ تھا۔ دبے ہوئے لاشعوری رجحانات نے انسان کے لیے خیالی جنت بنائی تھی۔ مذہبی عقائد فطرت کے بارے میں زمانہ قبل از تاریخ کے بعض رویوں کی بدلی ہوئی شکل تھے۔ تہذیب کے ارتقا کے کسی مرحلے پر مسترد ہو کر لاشعور میں بھیجے گئے تھے۔ اِس بارے میں اقبال نے بعد میں کہا کہ بعض مذاہب اور فن کے بعض شاہکار زندگی کے حقائق سے بزدلانہ فرار کی راہ بھی دکھاتے تھے مگر یہ بات تمام مذاہب کے لیے نہیں کہی جا سکتی تھی۔ مذہبی عقائد کے مابعدالطبیعاتی پہلو بھی تھے مگر مذہب کوئی فزکس یا کیمسٹری نہ تھا جو محض فطرت کے بارے میں انسانی معلومات کی توجیہات پیش کرتا۔ مذہب کا مقصد مذہبی تجربے کی تشریح تھا۔ اِنسانی تجربے کا یہ حصہ فطرت کے مطالعے سے مختلف تھا۔ اس کے مواد کو گھٹا کر کسی دوسری سائینس کے موادمیں تبدیل نہ کیا جا سکتا تھا۔ نہ ہی مذہبی شعور کو محض جنسی جذبے کی کارستانی قرار دیا جا سکتا تھا، جیسا کہ فرائیڈ نے کوشش کی تھی۔ اقبال نے بعد میں کہا کہ جنسی اور مذہبی شعور عموماً ایک دوسرے کے مخالف ہوتے تھے۔ اپنی نوعیت اور مقصد میں، اور جس قسم کا عمل نتیجے میں صادر ہوتا تھا اُس میں، ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ مذہبی جوش کے عالم میں کسی نہ کسی لحاظ سے اپنی شخصیت کے محدود دائرے سے باہر ایک واقعاتی حقیقت کا علم ہوتا تھا۔ یہ جس شدت کے ساتھ وجود کی گہرائیوں کو ہِلا دیتا اُس پر نفسیات داں کو لاشعور کی کارفرمائی کا گمان گزر سکتا تھا۔ مگر جوش کا عنصر تو علم کی ہر قسم میں تھا۔ جس شے کا علم حاصل کیا جا رہا ہو اُس کی معروضیت بھی جوش کی شدت میں کمی اور زیادتی سے متاثر ہوتی تھی۔ جو ہماری شخصیت کے پورے تانے بانے کو مرتعش کر دے وہی ہمارے لیے زیادہ حقیقی تھا۔ جوش کو سمجھنے کے لیے صرف نفسیاتی طریقِ کار کافی نہ تھا۔ ولیم جیمز اور ہوکنگ جیسے پختہ کار یہ بات جانتے تھے۔ نئے نفسیات داں وہی غلطی کر رہے تھے جوکبھی جان لاک اور ڈیوڈ ہیوم جیسے فلسفیوں سے ہوئی تھی۔ بہرحال، فرائیڈ اور اُس کے پیروکاروں نے مذہب کی یہ خدمت ضرور کی تھی کہ اُلوہیت میں سے شیطنیت کو خارج کردیا تھا۔۱۵۹ ۲۵۰ اگست کی ۳ تاریخ تھی۔ کانپور والا واقعہ اب دیوار یا وضوخانے کا مسئلہ نہ تھا۔ مسلمانوں کے وقار کا سوال بن گیا تھا۔ کلکتہ، پٹنہ، کراچی، لکھنؤ اور دوسرے شہروں میں احتجاجی جلسے ہو چکے تھے۔ اُس روزکانپور کے عیدگاہ میدان میں ایک بار پھر جلسہ ہو۔ پچیس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی۔ آخر مسجد کی طرف روانہ ہوئے تاکہ گری ہوئی دیوار کو دوبارہ تعمیر کر دیں۔ برطانوی فوج نے گولی چلائی۔ ستّر مسلمان ہلاک ہو گئے۔ بہت سے گرفتار کیے گئے۔ بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ گولیوں سے مرنے والوں میں بھی بچے شامل تھے۔ شبلی نعمانی نے نظم لکھی۔ اِس شعرپر بہت لوگ روئے: عجب کیا ہے جو نوخیزوں نے سب سے پہلے جانیں دیں یہ بچے ہیں انہیں تو جلد سو جانے کی عادت ہے ۲۵۱ اکبر الٰہ آبادی نے کانپور کے بارے میں یہ اشعار لکھ کر عبدالماجد دریابادی کو بھیجے: شیخ صاحب تو یہاں فکرِ مساوات میں ہیں بھائی صاحب کو سنا ہے کہ حوالات میں ہیں قوم کے حق میں تو اُلجھن کے سوا کچھ بھی نہیں صرف آنر کے مزے اُن کی ملاقات میں ہیں سربسجدہ ہے کوئی اور کوئی تیغ بکف بس ہمیں اِس رزولیوشن کی خرافات میں ہیں ۲۵۲ مرزا جلال الدین کے لڑکوں کو گجرات کے رہنے والے کوئی مولوی محمد حسین صاحب عربی پڑھاتے تھے۔ مرزا صاحب نے پہلے سیالکوٹ والی ریل گاڑی میں دو افراد کا ’کوپے‘ یعنی سلیپر بک کروایا۔ پھر مولوی محمد حسین صاحب کو دفتر بلوا کر اقبال اور سردار بیگم کا دوبارہ نکاح پڑھوایا۔ مختار بیگم کچھ دنوں کے لیے لدھیانہ چلی گئیں۔ اقبال کو سردار بیگم کے ساتھ سیالکوٹ بھیج دیا گیا۔ ۲۵۳ ۱۰ اگست کو بلغاریہ نے یونان، مونٹینگرو، سربیا اور رومانیہ سے صلح کر لی۔ دوسری بلقان جنگ ختم ہوئی مگر ثابت ہوا کہ چھوٹی ریاستوں کی دشمنی یورپ کے باردوخانے میںدبی ہوئی چنگاری تھی۔ پریشانی کی بات تھی۔ ۲۵۴ ثریا طرزی کی عمر چودہ برس تھی۔ان کی والدہ استنبول کے ایک موذن کی لڑکی تھیں۔ والد جمال الدین افغانی کے شاگرد محمود طرزی تھے۔ ان کی صحافت افغانستان میں بیداری کی لہر دوڑا رہی تھی۔ شاہی نسل سے تھے۔ افغانستان کے حکمراں امیر حبیب اللہ خاں کے تیسرے لڑکے امان اللہ خاں کی عمر بیس برس تھی۔ محمود طرزی کے افکار سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ثریا کو دیکھا تو محبت ہوئی۔ دونوں کی شادی کر دی گئی۔ رواج کے برعکس امان اللہ نے ایک ہی بیوی تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۵۵ اقبال اور سردار بیگم نے آٹھ دس دن سیالکوٹ میں گزارے۔ پھر مرزا صاحب کوواپسی کا تارملا۔ وہ استقبال کرنے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ اقبال بڑی گرم جوشی سے ملے اورانگریزی میںکہا، ’’میں بالکل مطمئن ہوں۔ میں جنت الفردوس میں آ گیاہوں‘‘: "I am perfectly satisfied. I am in heaven." ۱۶۰ ۲۵۶ کچھ دن بعد مختار بیگم بھی میکے سے واپس آگئیں۔ دونوں بیویاں مل جل کر رہنے لگیں۔ عمریں ایک سی تھیں۔ طبیعتیں ملنسار تھیں۔ دونوں یتیمی کے صدمے سے گزر کر بڑی ہوئی تھیں۔ سہیلیوں کی طرح رہتی تھیں۔ مختار بیگم کو بلی پالنے کا شوق تھا۔ایک بلی رکھی تھی۔ اس کا نام پُسی تھا۔ اقبال کے کبوتر پھر بھی محفوظ تھے۔ ان کے لیے اقبال نے بڑے سے کمرے جیسا پنجرہ بنوایا تھا ۔ سردار بیگم نے طوطا، مینا اور چوزہ پالے تھے۔ طوطے کی باتیں اقبال کو اچھی لگتیں ۔ اُسے سیٹی بجا کر بلاتے۔ مینا زیادہ بولتی تھی۔ اُسے چغل خور کہتے۔۱۶۱ اقبال کی چھوٹی بہن کریم بی بی جن کی اُن دنوں اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی وہ بھی آگئیں۔ پڑھنے لکھنے سے دلچسپی تھی، طبیعت میں مزاح بھی زیادہ تھا۔ اقبال سے صرف تین برس چھوٹی ہونے کی وجہ سے بہنوں میں وہی اقبال سے قریب ترین رہی تھیں۔ سردار بیگم سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد کی دو چھوٹی لڑکیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو بھی ساتھ لے آئیں۔ احساس ہوا ہو گا کہ اقبال کے دل پر بھائی کے احسانوں کا بہت بوجھ ہے۔۱۶۲ اقبال شام کے فارغ اوقات میں گھر بیٹھ کر لوڈو کھیلتے یا کوٹھے پر چڑھ کر کبوتر اڑاتے تھے۔ ہر شام دوستوں کے گھر جانا بھی ختم ہو گیا۔ دوست اب زیادہ تر اُنہی کے گھر آتے۔ مردانے میں گپ شپ رہتی۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے: ڈاکٹر صاحب کے متعلق جتنے قصے مشہور ہیں، اُن کے صحیح یا غلط ہونے کا فی الحال سوال نہیں لیکن میں نہایت وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ [سردار بیگم] سے شادی کے بعد۔۔۔ اُن کے طور طریقے اور زندگی کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل گیا۔۱۶۳ ۲۵۷ یہ معلوم نہیں کہ اُس برس اسٹیج ہونے والا ڈرامہ بن دیوی آغاحشر نے سردار بیگم والے معاملے کا تصفیہ ہونے کے بعد لکھا یا پہلے۔ عجیب بات ہے کہ اُس میں بھی سادھو کی لڑکی بن دیوی پر جھوٹا الزام لگتا تھا۔ وہ کچھ عرصہ شوہر سے دُور رہتی۔ پھر اصل معاملہ سامنے آنے کے بعد اپنے شوہر راجکمار کشور سے مل جاتی! ویسے یہ بتانا مقصود رہا ہو گا کہ ہندو معاشرے میں کھتری کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ وہ برہمن کے بیٹے بلوامنگل کی طرح دنیا چھوڑ کر بن باس نہ لے سکتا تھا۔ اُس کا کام جنگلوں میں پلنے بڑھنے والی سادھو کی لڑکی ’’بن دیوی‘‘ کو بیاہ کر محل میں لانا تھا۔ اس کے لیے عقل کافی نہ تھی۔ عشق کی ضرورت تھی۔ اگر بن دیوی قدیم ہندوستان کی وہ روح تھی جس کے لیے ٹیگور دنیا چھوڑنے پر تیار تھے اور جسے حشر دنیا میں واپس کھینچ لانے کا درس دے رہے تھے، تو پھر جاگیردار کی لڑکی پربھاوتی کون تھی؟ انتہاپسند ہندو کی نظر سے دیکھا جاتا تو پربھاوتی مسلمان قوم تھی جو حکومت کی آس لگائے بیٹھے تھی (پربھاوتی کی منگنی راجکمار کے ساتھ ہوئی تھی)۔ نئے زمانے میں حکومت ہندو اکثریت کو منتقل ہوتی نظر آ رہی تھی جس طرح راجکمار دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بن دیوی سے شادی کرتا تھا۔ پربھاوتی نے ایک تانترک سے کہا کہ اُس کے منگیتر کو دوبارہ اُس کی طرف مائل کر دے۔ تانترک ایک ایسا برہمن تھا جو دنیا کے لالچ میں اندھا ہوا بیٹھا تھا (جس طرح بلوامنگل شروع میں چنتامنی کی چاہت میں گرفتار تھا)۔ تانترک بے گناہوں کا خون بہا کر اُس کا جھوٹا الزام بن دیوی پر لگاتا۔ اُسے اُس کے شوہر سے الگ کروا کے موت کے حوالے کر دیتا (’’آپس میں بَیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا،‘‘ اقبال نے آٹھ برس پہلے کہا تھا)۔ قصے کے اِس حصے میں جہاں بے گناہ بچوں کا خون بہایا جاتا، شاید حشر کا ذہن عطار کی چوتھی وادی کی طرف بھی گیا ہو۔ عطار نے کہا تھا، ’’لاکھوں بچوں کے سر کٹے تب کلیم اللہ صاحبِ نظر ہوئے‘‘: صد ہزاراں طفل سر ببریدہ گشت تا کلیم اللہ صاحب دیدہ گشت پربھاوتی کا قصور نہ تھا۔ اُس کا دل ٹوٹا تھا (مسلمانوں نے کب چاہا تھا کہ آیندہ پورے ہندوستان پر زبردستی قبضہ کریں)! برہمن کو خون بہانے کا مشورہ اُس نے نہیں دیا تھا۔ آخر وہی اصل معاملے سے پردہ اٹھاتی۔ پھر بن دیوی واپس آ کر بتاتی کہ برہمن کو بھی معاف کر دینا چاہیے کیونکہ بن دیوی موت کے منہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو کر زندہ رہی تھی ( ہندوستان کی روح مری نہ تھی، صرف مردہ تصور کر لی گئی تھی)۔ راجکمار کے دل سے بن دیوی کبھی نہ نکلی تھی۔ پربھاوتی سے شادی کے باوجود بھی وہ محبت نہ کر سکا تھا۔ اب بن دیوی واپس راجکمار کے محل میں آئی تو کہا کہ پربھاوتی کو بھی آباد رکھا جائے۔کیا جدید ہندو بھی ہندوستان کے اِس اشارے کو سمجھ سکتا تھا کہ گزرے ہوئے زمانے کی جنگوں کو بھلا کر مسلم قومیت کو سلامت رہنے دیا جائے؟ بن دیوی آغا حشر کاشمیری [۴:۳ سے اقتباس - آخری دربار] بن دیوی پربھو! پرماتما کی شکتی پر وشواش رکھتے ہوئے اِتنے اشچرج کی کیا ضرورت ہے؟ ایشور کی لیلا نے جلاد کے وچار کا رُخ برائی سے بھلائی کی طرف موڑ دیا اور اُس نے استری ہتیا کے پاپ سے ڈر کر مجھے زندہ چھوڑ دیا۔ راجکمار کشور آنند ہے! پران تو زندہ ہے؟ بن دیوی ہاں زندہ ہوں۔ پران ناتھ میں زندہ ہوں۔ [دونوں کا آپس میں ملنا] بن دیوی وہ راجہ امیر کسی سے ہارنے والا نہیں ہے۔ پرماتما جسے زندہ رکھے اُسے کوئی مارنے والا نہیں ہے۔ راجہ کیسا وچتر ملاپ! کیسا وچتر ملاپ! ایشور! ایشور! تیرا اُپکار ہے۔ آج مجھے نشچے ہو گیا کہ تیری دَیا اور تیری شکتی اپار ہے۔ تانترک ستی! تجھے ہندوجاتی کی دھرماتما دیوی سمجھ کریہ پاپی برہمن بھی ہاتھ پھیلا کر تم سے ایک دکشنا مانگتا ہے۔ بن دیوی کیا؟ تانترک چھما! چھما! چھما! بن دیوی پرماتما تجھے بھلے برے کی پہچان دے۔ ست مارگ اور دھرم کا گیان دے۔ پربھاوتی بہن! بہن! تمہیں یہ سارے دکھ میری ہی وجہ سے سہن کرنے پڑے۔ میں بھی اپنے دم کو تمہارا اَپرادھی پاتی ہوں اور دَیا کا لفظ بھی زبان پر لاتے ہوئے شرماتی ہوں۔ بن دیوی نہیں نہیں، گزری ہوئی بات کا ذکر بیکار ہے۔ دنیا میں جو ہوا اور ہو رہا ہے کرم انوسار ہے۔ پربھو! اتنے دکھوں کے بعد مجھے سکھی دیکھنا اور سکھی رکھنا چاہتے ہیں تو پیار میں ہم دونوں کو برابر کی مدد کیجیے۔ اِس ہاتھ سے اُس کو اور اُس ہاتھ سے مجھ کو اپنی سیوا میں سویکار کیجیے۔ جلاد کو پہلے ہی انعام دے چکی ہوں، وہ سب سُکھی ہیں۔ [؟؟] دیوی تیری جے ہو! [رشی (بن دیوی کا باپ) آتا ہے] رشی آنسوارتھ پریم کی جے ہو! سب رشی راج نمسکار! رشی جیو اور سُکھی رہو۔ بن دیوی پِتا جی ہمیں آشیرباد دیجیے۔ رشی نیک رہو۔ ایک رہو۔ بچو! لوبھ اور سوارتھ کا پری نام دیکھ اور سمجھ لو۔ جہاں ست ہے وہاں دھرم ہے۔ جہاں پُن ہے وہاں پاپ ہی نہیں آئے گا۔ جہاں دھرم ہے وہاں جے ہے۔ تم سب کا کلیان ہو۔ ۲۵۸ اقبال کی بڑی لڑکی معراج بیگم اب سترہ برس کی تھیں۔ خوش شکل تھیں اور کافی ذہین بھی۔ اُنہیں خناریز کا مرض ہو گیا۔ کوئی حتمی علاج موجود نہ تھا۔نانا حافظ عطا محمد خود سرجن تھے۔ آپریشن کر کے متاثرہ غدود نکال دیا۔ کچھ عرصے میں تکلیف دوبارہ ہو گئی۔۱۶۴ ۲۵۹ میر حسن کے پوتے سید محمد عبداللہ اقبال کے پاس آئے ہوئے تھے۔ اُن سے روایت ہے کہ اقبال نے انہیں بتایا کہ یورپ کے بڑے بڑے عالموں سے بے جھجھک بات کر لیتے تھے مگر نجانے کیا بات تھی کہ شاہ جی (میر حسن) سے بات کرتے ہوئے بولنے کی قوت جواب دے جاتی۔ اگر اُن کے نقطہ ٔ نظر سے اختلاف ہو تو اُسے باآسانی زبان پر نہ لا سکتے تھے۔ ایک روز عبداللہ نے اقبال کو اچھے موڈ میں دیکھا تو کہا، ڈاکٹر صاحب کیا بات ہے کہ آپ اپنے اشعار شیخ عبدالقادر کو تو سناتے ہیں مگر ہمیں کبھی نہیں سناتے! اِس پر اقبال نے اُنہیں کچھ نئے اشعار سنائے جو فارسی مثنوی کے لیے لکھے گئے تھے۔ ان کا مفہوم یہ تھا کہ رومی کہتے ہیں پتھر اُس وقت تک ہرا نہیں ہو سکتا جب تک اپنی سطح کو مٹی نہ بنا لے تاکہ اُس پر سبزہ اُگ سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مولانا روم نے درست نہیں کہا مگر بات یہ ہے کہ جب تک تم اپنی خاک کی مٹھی کو اپنے قابو میں نہیں کرو گے تم محض دوسروں کے سبزے کے لیے کھیت بنے رہو گے۔ اِس کے بعد حضرت علی کی تعریف میں کہا تھا کہ کوہِ طُور جس پر حضرت موسیٰ ؑ کو خدا کا جلوہ دکھائی دیا وہ حضرت علی کے گھر کے غبار کی ایک موج تھا کہ آپ کا گھر خود کعبے کے لیے قبلہ گاہ ہے: طُور موجے از غبارِ خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش۱۶۵ اقبال اُس واقعے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے تھے جب حضرت علیؓ کو مٹی میں لیٹے دیکھ کر رسول اللہؐ نے بڑی محبت کے ساتھ ’بوتراب‘ کا لقب دیا۔ اقبال سمجھتے تھے کہ یہ رسول اللہؐکی طرف سے اس بات کا اشارہ تھا کہ حضرت علیؓ اپنے خاکی عناصر پر قابو پا کر اُن سے بلند ہو چکے ہیں۔ ’’موجے ازغبار‘‘ کی ترکیب پر عبداللہ سوچ میں پڑ گئے۔ آخر ہمت کر کے کہہ دیا کہ یہ ترکیب پہلے کبھی نہیں سنی۔ اقبال نے سامنے رکھی ہوئی لغت اُٹھائی۔ ترکیب اُس میں نہ ملی۔ یہ کہتے ہوئے لغت بند کر دی، ’’میں جس مفہوم کو بیان کرنا چاہتا ہوں اُس کے لیے یہی الفاظ موزوں ہیں۔‘‘ ۲۶۰ اقبال سے روایت کی گئی ہے: ایک دن سر علی امام نے مجھ سے کہا کہ مہاراجہ اَلوَر کو ایک قابل پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت ہے۔ میں منشی طاہرالدین اور علی بخش کو ساتھ لے کر الور پہنچ گیا۔ وہاں ہم مہمان خانۂ شاہی میں ٹھہرائے گئے۔ دوسرے ہی دن صبح ایک مسلمان حجام ہماری خدمت کے لیے آیا۔ اس نے کہیں سے سن رکھا تھا کہ ڈاکٹر اقبال آئے ہیں جو مسلمانوں کے بڑے مشہور شاعر اور رہ نما ہیں۔ اُس نے میری حجامت بناتے بناتے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ اس کے بعد اُس نے بہت رک رک کر نہایت تأمل سے کہا، ’صاحب! آپ یہاں نوکری نہ کریں تو اچھا ہے۔‘ میں نے پوچھا، ’وجہ؟‘ اُس نے پھر تامل کر کے کہا، ’صاحب! کچھ نہیں، ہم تو غریب رعایا ہیں، اپنے مہاراج کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں؟ لیکن آپ کے لیے کوئی ضروری تو نہیں کہ یہاں کی نوکری کریں۔‘ جب میں نے اُس سے بہ اصرار وجہ پوچھی تو اُس نے ہزار تامل کے بعد وہ ناگفتہ بہ باتیں سنائیں جو اُن اطراف میں بچے بچے کی زبان پر تھیں۔ مہاراجہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ اقبال کو ملازمت دینا چاہتے تھے ۔ تنخواہ صرف چھ سو روپے ماہوارتھی۔ اقبال کو یہ بھی اندازہ ہوا کہ مہاراجہ پر زور ڈالا جا رہا تھا کہ کسی ہندو کو پرائیویٹ سیکرٹری بنائیں۔ اقبال نے جواب سوچنے کے لیے مہلت طلب کی۔ پھر پلٹ کر الور کی طرف نہ دیکھا۔ فارسی میں چار اشعار کی ہجو لکھی کہ الور میں انسانیت مت ڈھونڈو، یہ بیج اِس زمین میں بویا ہی نہیں گیا!۱۶۶ الور کے مہاراجہ تو خیر ویسے ہی بدنام تھے۔ اقبال کی زندگی میںعجیب بات نظر آتی ہے کہ ریاستوں میں ملازمت کے لیے کوشش کرتے رہے مگرجب کہیں سے پیشکش ہوئی تو راضی بھی نہ ہوئے۔ ۲۶۱ رہیل کھنڈ کے سردار غلام قادر نے جسے مغل بادشاہ نے تکلیف پہنچائی تھی، اپنا انتقام اس طرح لیا کہ دارالحکومت پر حملہ کیا، شاہی محل میں داخل ہو کر اپنے خنجر سے تیموری بادشاہ کی آنکھیں نکال دیں اور شہزادیوں کو رقص کرنے کا حکم دیا۔ رقص کے دوران ہی خنجر سرہانے رکھ کر تخت پر سو گیا۔ شہزادیاں رقص کرتی رہیں۔ کچھ دیر بعد اُٹھا اور کہا کہ سویا نہ تھا بلکہ صرف یہ دیکھنا تھا کہ آیا کوئی شاہزادی اُسے قتل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ اقبال نے تین برس قبل انگریزی نوٹ بک میں لکھا تھا کہ سیاسی زوال کے بعد ہندوستانی مسلمان بلند اخلاق سے محروم ہو گئے تھے۔ اب یہ واقعہ نظم کر دیا: مگر یہ راز آخر کھل گیا زمانے پر حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے نظم: غلام قادر رہیلہ۱۶۷ اِس شعر میں کبھی ترمیم نہ کی۔ ۲۶۲ کسی چیز کی تقدیر اس بات پر منحصر ہے کہ وہ چیز کیا ہے۔ آئینے کی تقدیر یہ ہے کہ بالآخر اُسے ٹوٹنا ہے اور پتھر کی تقدیر یہ ہے کہ دوسروں کو اُس سے ٹکرا کر ٹوٹنا ہے۔ انسان خود کو بدل سکتا ہے۔ ٹُوٹ کر آئینہ سکھلا گیا اسرارِ حیات آبرو چاہے تو کر سختیٔ خارا پیدا۱۶۸ یہ شعر بعد میں کسی مجموعے میں شامل نہ کیا۔ ۲۶۳ اقبال اور مرزا جلال الدین بھی کانپور گئے۔ اقبال ۶ ستمبر کووہاں پہنچے اور حسن نظامی کے ساتھ شہر کے کلکٹر سے مسجد کے بارے میں گفتگوکی۔ اگلے روز الٰہ آبادروانہ ہو ئے تاکہ اکبر الٰہ آبادی سے ملاقات کریں۔اُن سے فرمایش کی کہ پٹنہ کے بیرسٹر مظہر الحق کی تعریف میں شعر کہہ دیں جو علی امام کے دوست تھے اور جنہوں نے بڑی محنت اور خلوص سے کانپور کے قیدیوں کی پیروی کی تھی۔ اکبر نے دو اشعار لکھے جو حسن نظامی کے ہفت روزہ توحید کو دے دیے گئے۔ اکبر سے ملاقات کے دوران کشن پرشاد کا ذکر بھی آتا رہا۔ ملاقات کی اور کوئی تفصیل معلوم نہیں۔ اقبال ۸ ستمبر کو الٰہ آباد سے روانہ ہو گئے۔۱۶۹ ۲۶۴ حکیم اجمل خاں سے راہ و رسم کب شروع ہوئی یہ معلوم نہیں۔ البتہ کانپور سے واپس آتے ہوئے علاج کی غرض سے حکیم صاحب کے پاس کچھ دن ٹھہرے۔ ظہیرؔ دہلوی کے نواسے اشتیاق حسین دہلوی ملے ۔ معلوم ہوا مہاراجہ کشن پرشاد نے ظہیرؔ کے قصائد اور روزنامچے کی اشاعت کے لیے دو سو روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اقبال نے مشورہ دیا کہ مسودے کی کانٹ چھانٹ اور طباعت کا کام حسن نظامی کے سپرد کر دیا جائے اور کشن پرشاد کو خط لکھا جائے کہ وہ روپیہ براہِ راست انہی کو بھجوا دیں۔ ۲۶۵ کانپور سے واپس ہو کر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب بیرسٹر، دہلی میں کئی روز مقیم رہے۔ حاذق الملک حکیم اجمل خاں صاحب نے ان کے اعزاز میں عمائدِ شہر کو مدعو کیا تھا۔ شعر و شاعری کی وہ دلچسپ صحبت گرم رہی کہ دہلی کے دورِ گزشتہ کا لطف آگیا۔ حاذق الملک کی غزل بھی پڑھی گئی۔ معلوم ہوا کہ حکیم صاحب شعرگوئی میں بہت اچھا ملکہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال نے فرمایا۔ حاذق الملک ہیں، محض طبیب نہیں ہیں یعنی ان کو حکمت جیسی بے مثل نعمت کا حصہ ملا ہے۔ ہفت روزہ توحید، ۱۶ ستمبر ۱۹۱۳ء اس کے ساتھ اکبر الٰہ آبادی کے اشعاربھی ’اکبری سارٹیفکیٹ مسٹر مظہر الحق کو حسب ِ فرمایش ِ حضرت اقبال‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔۱۷۰ ۲۶۶ لاہور واپسی کے بعد اقبال کو اُسی مہینے ایک مقدمے کے لیے فیروز پور جانا پڑا۔ ۲۶۷ میونخ میں اُس نئے مکتبِ فکر کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی جسے جرمن ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے فروغ دیا تھا۔ اسے تحلیلِ نفسی (psychoanalysis) کہتے تھے۔ فرائیڈ کے نسبتاً کم عمر ساتھی کارل یونگ (Carl Jung) نے پچھلی برس شائع ہونے والی لاشعور کی نفسیات کے موضوع پر تصنیف Wandlungen und Symbole der Libidoمیں دبی ہوئی جنسی جبلت کو وہ اہمیت نہ دی تھی جو فرائیڈ کے نظریات میں اسے حاصل تھی۔ اس ماہ دونوں کی ملاقات آخری ثابت ہوئی۔ راستے جدا ہو گئے۔ مذہب کے بارے میں یونگ کا نظریہ تھا کہ بحیثیت مجموعی مذہب میں خودی کا تعلق کسی ایسی حقیقت سے قائم نہیں ہوتا جو ذات سے باہر اور خارج میں واقع ہو۔ مذہب ایک مخلصانہ حیلہ تھا جسے اس لیے اختیار کیا جاتا کہ جماعت پر کچھ اخلاقی بندشیں عائد کر کے جماعت کے تانے بانے کو فرد کی اُن جبلتوں سے محفوظ رکھا جا سکے جنہیں کسی اور طریقے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عیسائیت اپنا یہ ’حیاتی‘ منصب بڑی مدت پہلے پورا کر چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عہدِ حاضر کے انسان کو یاد نہ رہا تھا کہ مذہب کا حقیقی مقصد بس اِتنا ہی تھا: ہم آج بھی اسے سمجھ لیتے اگر ہمارے رسم و رواج میں قدیم وحشت اور بربریت کا ذرا سا شائبہ بھی موجود ہوتا۔ ہم اس بے روک شہوت رانی کااندازہ ہی نہیں کرسکتے جو قیاصرہ (Caesars) کے روما میں ایک طوفان کی طرح باربار سر اٹھاتی۔ آج کل متمدن انسان تو جنسی تسکین کے ان مظاہر سے بہت دور ہٹ چکا ہے۔ برعکس اس کے وہ سوئے اعصاب میں مبتلا ہے۔ ہماری رائے میں تو اب وہ تقاضے ہی موجود نہیں جن کی بنا پر کبھی عیسائیت کا ظہور ہوا تھا۔ ہمیں کیا معلوم وہ تقاضے کیا تھے۔ ہم نہیں سمجھتے عیسائیت ہمیں کس چیز سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ اب تو ہر روشن خیال انسان یہی سمجھتا ہے کہ مذہبیت بڑی حد تک فسادِ اعصاب ہی کی ایک شکل ہے۔ پچھلے دو ہزار برس میں البتہ عیسائیت نے اپنا وظیفہ ضرور ادا کیا۔ اس نے کچھ ایسی بندشیں اور رکاوٹیں عائد کر دی ہیں جن سے ہماری گنہگاری کے منظر ہماری اپنی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ میونخ سے بہت دُور ہندوستان میں ملتِ اسلامیہ جس مکتبِ فکر کی پرورش کر رہی تھی، اُس کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا تو نئی نفسیات کے علمبرداروں کا طریقِ بحث اِس بارے میں کوئی بصیرت عطا نہیں کرتا تھا کہ مذہب کی ماہیت دراصل کیا تھی۔ انسانی شخصیت کی تعمیر میں اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کیا تھی۔ مذہب کی وہ بصیرت جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام سرسید کے مکتبِ فکر نے شروع کیا تھا اور جس کی تکمیل میں اقبال اپنی مثنوی لکھ رہے تھے، نئی نفسیات ابھی تک اُس سے ناواقف تھی۔۱۷۱ ۲۶۸ ۲۴ ستمبر کو محمد علی (جوہرؔ) اور وزیر حسن لندن پہنچے تھے۔ لیبر پارٹی والے ریمزے میکڈونلڈ بھی ان کی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ محمد علی نے تار کا جواب نہ آنے کی شکایت کی۔ فرمانے لگے کہ بھئی واقعہ یہ ہے کہ تمہارا نام اِس قدر عام ہے کہ میں سمجھ نہیں سکا کہ تار تم نے بھیجا ہے یا کسی اور محمد علی نے۔ بھیجا بھی بمبئی سے گیا تھا۔ اگر دہلی سے آیا ہوتا تو میں سمجھ جاتا کہ تمہیں نے بھیجا ہے۔ محمد علی کا بیان ہے: مجھے اِس جواب کو سن کر تعجب بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ اس لیے کہ میں نے تار میں صاف لکھ دیا تھا کہ محمد علی اڈیٹر کامریڈ اس کا ارسال کرنے والا ہے تاکہ بمبئی کے مقامِ ارسال کے باعث کوئی غلط فہمی واقع نہ ہو۔ جب آپ نے دیکھا کہ چال کارگر نہ ہوئی تو فرمایا کہ ہاں میں بھولا۔ واقعہ یہ تھا کہ تمہارا تار ملا تو میں نے احتیاط سے اپنی ڈاک کے ساتھ رکھ لیا کہ اس کے متعلق مزید حالات دریافت کر کے کاروائی کروں گا مگر پھر بہت سے اور لوگوں کے خطوط آئے اور یہ تمہارا تار ان کے نیچے کچھ اِس طرح دب گیا کہ آج تک دبا پڑا ہوا ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو گے کہ کس طرح بعض اوقات ضروری کاغذات اور کاغذات کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں اور حافظے سے ان کی یاد تھوڑے دن بعد محو ہو جاتی ہے۔ میں اُسی دن سے سمجھ گیا کہ یہ کس قماش کے بزرگ ہیں۔ بیرسٹر جناح بھی لندن میں تھے۔ اُنہیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اُنہوں نے شرط رکھی کہ وہ کانگریس سے علیحدہ نہ ہوں گے اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھانے پر آمادہ ہوں گے جو ہندوستان کی دوسری قوموں سے اتحاد کے خلاف جاتا ہو۔یہ شرط تسلیم کرنا اب کوئی مسئلہ نہ تھا۔ محمد علی اور وزیر حسن نے سید امیر علی سے مطالبہ کیا کہ لندن مسلم لیگ کانپور کے واقعے پر احتجاجی جلسے منعقد کروائے مگرامیر علی راضی نہ ہوئے۔۱۷۲ ۲۶۹ ’’غرض کہ یہ تمام دن سفر میں گزرے اور اس وجہ سے آپ کی خدمت میں عریضۂ نیاز نہ لکھ سکا،‘‘ اقبال نے یکم اکتوبر کو کشن پرشاد کے نام لکھا: اب خدا کے فضل و کرم سے لاہور میں ہوں اور شکر ہے کہ ہرطرح سے خیریت ہے۔۔۔ سنا ہے حیدرآباد میں پھر تغیرات ہونے والے ہیں۔ سالار جنگ بغرض تعلیم ولایت جاتے ہیں اور اُن کی جگہ مسٹر علی امام وزارت پر مامور ہوں گے۔ کیا اِس خبر میں صداقت ہے؟مرزا جلال الدین صاحب آداب عرض کرتے ہیں۔ بچوں کو میری طرف سے پیار! شاید کشن پرشاد کو اُن دنوں کوئی عہدہ یا خطاب وغیرہ ملا تھا کیونکہ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ ’’سرکار کی عزت افزائی کی خبر سے دل شاد ہوا۔‘‘ اس کے علاوہ اپنے مفصل حالات لکھے تھے۔ ظہیرؔ مرحوم کی کتابوں کی اشاعت کے لیے سفارش کی تھی۔ ایک زیرتکمیل نظم کے دو اشعار بھیجے تھے کہ انسان دنیا میں مجبور نہیں۔ اپنی مرضی سے دنیا کو بدل سکتا ہے: گم گشتۂ کنعاں ہے اے خوگرِ زنداں تُو بستی کے خیاباں میں ہر پھول زلیخا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہئیت چمنستاں کی تُو ہستیٔ بینا ہے، دانا ہے، توانا ہے پہلے شعر میں استعارے آپس میں مربوط نہ ہو رہے تھے۔ بعد میں اِسے منسوخ کر دیا۔ دوسرے شعر میں لفظی ترمیم کر کے ایک چھوٹی سی نظم پرانی بیاض کے ایک صفحے میں بچی ہوئی جگہ پر لکھ دی۔ انسان منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنّا ہے تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرمِ تقاضا ہے اِس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرّہ نہیں، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہئیت چمنستاں کی یہ ہستیٔ دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے اِن اشعار میں کبھی ترمیم نہ کی۔۱۷۳ ۲۷۰ محمد علی اور وزیر حسن کی کوشش رنگ لائی۔ لندن میں شور مچا۔ ہندوستان میں وائسرائے کو کانپور جانا پڑا۔ جو مسلمانوں گرفتار ہوئے تھے اُن کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ بیشتر چھوٹی عمر کے لڑکے تھے۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ مچھلی بازار کی مسجد کا منہدم حصہ مسلمانوں کو واپس کیا جائے۔ سڑک کچھ تنگ رہے۔ ۲۷۱ کشن پرشاد کی طرف سے اقبال کے خط کا جواب آیا۔ اپنے دو اشعار پر اقبال کی رائے طلب کرنے کے علاوہ ایک بہت بڑی پیشکش کی۔ کشن پرشاد ایک شاندار وظیفہ دینے پر آمادہ تھے۔ اقبال کو زندگی کی ضرورتوں سے بے نیاز کرنے پر تیار تھے۔ اقبال پوری یکسوئی کے ساتھ ادب اور فن کی خدمت کر سکتے تھے۔ یہ پیشکش کسی شاعر کی زندگی کا نصب العین ہو سکتی تھی۔ اقبال کچھ اور تھے۔ ۲۷۲ جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) کی عمر ستاون برس ہونے کو آئی تھی۔ مقبولیت حاصل نہ کر سکے تھے۔ کئی برس پہلے ان کے ایک ڈرامے پر بادشاہ سلامت اِتنے زور سے ہنسے تھے کہ کرسی ٹوٹ گئی۔ اُمرأ اور دانشوروں کی توجہ حاصل ہوئی۔ عام برطانوی معاشرہ پھر بھی لاتعلق رہا۔ اس دفعہ ایک نئی ترکیب سوجھی۔ نئے ڈرامے پگمیلین (Pygmalion) کا مسودہ لے کر جرمنی پہنچ گئے۔ ۱۶ اکتوبر کو وِیانا کے ہوفبرگ تھیٹر میں ڈرامہ جرمن ترجمے کی صورت میں اسٹیج ہوا۔ تلفظ سکھانے کا ایک ماہر نچلے طبقے سے کسی پھول بیچنے والی لڑکی کو اونچے طبقے میں بیٹھنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ زندگی اُس لڑکی کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ اپنا طبقہ اُس کے قابل نہ رہا۔ اونچے طبقے کے قابل وہ خود نہیں۔ شا اپنا ڈرامہ امریکہ میں بھی اسٹیج کروانا چاہتے تھے۔ سوچتے تھے کہ خبریں وہاں سے انگلستان پہنچیں گی۔ تب انگریز قوم بھی توجہ دینے پر مجبور ہو سکتی تھی۔ ’’افکار کے تھیٹر‘‘ (Theater of Ideas) کے علمبردار تھے۔ اِس کی جڑیں پچھلی صدی کے ناروے کے ڈرامہ نگار ہنرک اِبسن سے ہوتی ہوئی اُسی فرانسیسی ادب سے جا ملتی تھیں جو جمہوریت کے خلاف بغاوت کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ انگریز قوم کی ’’حسِ واقعہ‘‘ جس کے اقبال مداح تھے، ’’افکار کے تھیٹر‘‘ کو مجموعی طور پر رَد کر رہی تھی۔ سب سے بلند آواز ہنری آرتھر جونز کی تھی۔ اُن کا سلورکنگ آغا حشر کاشمیری کے قلم سے اُردو میں منتقل ہو چکا تھا۔ نیک پروین کے عنوان سے اقبال کے معاشرے میں بھی مقبول ہو چکا تھا۔ جونز نے ’’افکار کے ڈرامے‘‘ کو "harum-scarum drama" کہہ کر رد کیا۔ اُس ڈرامے کو بھی رَد کیا جسے ’’حقیقت پسندی‘‘ (realism) کے نام پر پیش کیا جاتا تھا۔ جس میں روزمرہ واقعات کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ جونز نے اِسے "Pentonville omnibus" قرار دیا (یہ اصطلاح ادبی تنقید میں پچھلی صدی کے اواخر سے رائج ہوئی تھی)۔ جونز کا کہنا تھا کہ ڈرامہ نگار کو عوام کی پسند کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہترین اقدار پیش کرنی چاہئیں۔ اُسے چاہیے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے: The dramatist who writes a play too far ahead of his public is like the statesman who makes a law too far ahead of the customs and morals of his people. The law is circumvented and disobeyed ; it can not be enforced, and thereby all law is brought into disrepute. The dramatist who writes plays too far ahead, or too far away from the taste and habits of thought of the general body of playgoers, finds the theatre empty, his manager impoverished, and his own reputation and authority diminished or lost. No sympathy should be given to dramatists, however lofty their aims, who will not study to please the general body of playgoers of their days. جونز کی یہ رائے نہ صرف آغا حشر بلکہ اقبال کے تخلیقی رویے کی بھی عکاسی کرتی تھی۔ اقبال نے جس مثنوی کا آغاز کیا تھا، اُس کے دیباچے میں لکھنے والے تھے: [انگریز] قوم میں ’حسِ واقعات‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ’دماغ یافتہ‘ فلسفیانہ نظام جو واقعاتِ متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیاتِ عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اِس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظرِ ثانی کریں۔ مقابلے پر ’’افکار کا ادب‘‘ (literature of ideas) تھا۔ پگمیلین کی کامیابی کے بعد صحیح معنوں میں سر اُٹھانے والا تھا۔ اقبال نے خطرہ نو برس پہلے بھانپ لیا تھا، جب یورپ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ تخیل کے مقابلے پر سائینس دکھائی دی تھی۔ بالکل اُنہی دنوں جب برنارڈ شا جرمنی میں ڈرامہ پیش کر رہے تھے، ایک جرمن عالم انگلستان میں ایسے نظریات پیش کر رہا تھا جو ’’افکار کے ادب‘‘ کی ضد تھے۔ پروفیسر ہانز ڈریش(Hans Driesch)ہائیڈلبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ علم الحیات (biology) کے ماہر تھے مگر فلسفہ پڑھاتے تھے۔ اکتوبر میں انہوں نے لندن یونیورسٹی میں، انفرادیت کے موضوع پر لیکچر دیے۔ ڈریش نے اُس میکانکی (mechanistic) تصور کی تردید کی جسے زندگی کے ہر شعبے پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اُن کے نزدیک زندگی ایک واقعاتی کلیت (factual wholeness) تھی۔ بعد میں کبھی اقبال نے ان کا اقتباس اپنے لیکچر میں استعمال کرنے کے لیے نوٹ کر لیا۔۱۷۴ The Problem of Individuality A course of four lectures delivered before the University of London in October 1913 by Hans Driesch Professor of Philosophy at the University of Heidelberg [Excerpt] Nobody will deny that the individual organism is of the type of a manifoldness which is at the same time a unity, that it represents a factual wholeness, if we may express its most essential character in a single technical word. And there is also not the least doubt that a great many of the processes occurring in the organism bring about this wholeness, or restore it if it is disturbed in any way. Processes of the first class are generally called embryological or ontogenetical. The restoring ones are spoken of as restitution or "regeneration" if the wholeness of the form as such is restored; they are described as adaptation if the physiological state of the organism has been disturbed and has now to be repaired; the factual wholeness represented by the organism being not merely a wholeness of form as such, but of living and functioning form. All of you know something, at least in rough outline, of the embryology of the frog; you have heard of the regeneration of the leg of a newt, and of the strange fact that in man one of the kidneys becomes larger if the other has been removed by an operation rendered necessary by some disease. These are three examples of processes which bring about or restore wholeness... The ultimate problem of the philosophy of wholeness, then, is a matter of belief. The decision can be nothing but personal in this case; it will depend on the value which you attribute to logic, in the last resort; and it may also depend on irrational matters of feeling. But what is not a mere belief and not a matter of feeling is the existence of factual wholeness in Nature, the existence of something that is certainly more than a mere sum. And to have proved this, and thus to have given a sound foundation to all further speculations about natural and metaphysical wholeness, is the merit of vitalism. ۲۷۳ محمد علی (جوہرؔ) لندن میں آزادیٔ اظہار رائے کا سوال اُٹھانا چاہتے تھے۔ کسی مسلمان ملک میں شائع ہونے والی کوئی اہم تحریر ہندوستان کے کسی مسلمان اخبار میں چھاپی جاتی تو انگریز سرکار اُسے اپنے یا دوسری مسیحی طاقتوں کے مفاد کے خلاف قرار دے کر پریس ایکٹ کے تحت پابندی لگا دیتی۔ ہمدرد کے بیسیوں شمارے ایسی پابندیوں کی نذر ہو کر نقصان اٹھا چکے تھے۔ اب محسوس ہوا کہ لندن کے بڑے اخباروں کو ہدایت ہوئی ہے کہ محمد علی کی خبروں کا بائیکاٹ کریں۔ مسلم لیگ کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی مراسلہ شائع نہ کریں۔ حکومت کے عہدے دار جو کبھی دوستی کا دم بھرتے تھے اب ملنے سے گریز کر رہے تھے۔ ۲۳ اکتوبر کو مشکل سے کرنل ڈنلپ اسمتھ ہاتھ لگے جو سیکرٹری آف اسٹیٹ کے پولیٹکل اے ڈی سی تھے۔اگلے روز اس ملاقات کی روئیداد شوکت علی کے نام خط میں بیان کرتے ہوئے محمد علی نے لکھا: میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح چھوٹے سے چھوٹے مقامی افسر کی بھی جونہی مخالفت کی جائے یا اُس پر تنقید کی جائے وہ ہمارے خلاف بڑے افسروں کے کان بھرنا شروع کردیتا ہے، اور کس طرح بڑے افسر چھوٹے افسر کی ہمارے خلاف کہی ہوئی ہر بات پر یقین کر لیتے ہیں یا ظاہر یہی کرتے ہیں کہ اُس مقدس لفظ ’پرسٹیج‘ کی خاطر اُس پر یقین کر رہے ہیں، اور کس طرح صرف ایک چھوٹے افسر کی غلطی چھنتی ہوئی اوپر جا پہنچتی ہے اور بڑے افسروں کی کئی غلطیوں کا اور اس طرح مقامی اور شاہی حکومت کا اور بالآخر سیکرٹری آف اسٹیٹ کی غلطیوں کا سلسلہ بن جاتی ہے۔ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی۔غدر کے اگلے برس سرسید نے انگریز حکومت پر تنقید کی تو ہندوستانی کی گستاخی پر انگریز حکومت کا خون کھول اُٹھا۔ پھر بھی پنی اصلاح کر لی۔ آج کرنل صاحب سب کچھ سن رہے تھے۔ اثر کچھ نہ ہو رہا تھا۔ باہمی اعتماد میں پڑنے والی اِس دراڑ میں اُس آتش فشاں کی لرزش محسوس کی جا سکتی تھی جو سات برس بعد اُبلنے والا تھا۔۱۷۵ ۲۷۴ اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کی پیشکش رد کر دی۔ بنام کشن پرشاد لاہور ، ۲۶ اکتوبر ۱۳ء سرکار والا تبار۔ تسلیم۔ آپ کا نوازش نامہ کئی روز سے آیا رکھا ہے لیکن میں بوجہ عارضۂ گردہ ایک ہفتے تک صاحب فراش رہا۔ دو تین روز سے افاقہ ہے۔ خدا نے فضل کیا، مرض جاتا رہا، میں باقی رہ گیا۔ دونوں اشعار خوب ہیں۔ واللہ قبائے وزارت کے نیچے شاعری، درویشی، سپہ گری اور خدا جانے کیا کیا کمالات آپ نے چھپائے رکھے۔ اللہم زدفزد۔ جو عنایت آپ اقبال کے حال پر فرماتے ہیں اس کا شکریہ کس زبان سے ادا ہو۔ دوست پروری اور غریب نوازی آپ کے گھرانے کا خاصہ ہے اور کیوں نہ ہو جس درخت کی شاخ ہو اس کے سائے سے ہندوستان بھر مستفیض ہو چکا ہے۔ الور کی ملازمت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تنخواہ قلیل تھی، سات آٹھ سو روپیہ ماہوار تو لاہور میں بھی مل جاتے ہیں۔ اگرچہ میری ذاتی ضروریات کے لیے تو اس قدر رقم کافی بلکہ اس سے زیادہ ہے تاہم چونکہ میرے ذمہ اوروں کی ضروریات کا پورا کرنا بھی ہے اس واسطے اِدھر اُدھر دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ گھر بھر کا خرچ میرے ذمے ہے۔ بڑے بھائی جان جنہوں نے اپنی ملازمت کا اندوختہ میری تعلیم پر خرچ کر دیا اب پنشن پا گئے، اُن کے اور اُن کی اولاد کے اخراجات بھی میرے ذمہ ہیں اور ہونے چاہیے۔ خود تین بیویاں رکھتا ہوں اوردو اولادیں۔ تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصہ بعد کی۔ ضرورت نہ تھی مگریہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت ناک ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اُس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں اُسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش دوسری بیوی کرنے سے پہلے یہ حال معلوم ہوتا۔ غرض کہ مختصر طور پر یہ حالات ہیں جو مجھے بسا اوقات مزید دوڑ دھوپ کرنے پر مائل کر دیتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں رہنا میرے لیے باعث ِ افتخار ہے۔ آہ! اس وقت ہندوستان میں ہنر کا قدردان سوائے آپ کے کون ہے؟ میں تو بسا اوقات قحط ِ خریدار سے تنگ آجاتا ہوں: ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں میں تو اپنا سامان یعنی قاش ہائے دلِ صد پارہ ایسے وقت بازار میں لے کر آیا ہوں جب سوداگروں کا قافلہ رخصت ہو چکا تھا!! اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے کہ آپ کی جانب سے ’’بوئے کسے‘‘ آتی ہے۔ متاعِ گرانمایہ اپنے دامن میں چھپائے رکھتا ہوں، حالات مساعد پاؤں تو دنیا کو دکھاؤں اور اگر حالات نہ ملے تو اقبال کو خیالاتِ ناگفتہ کا ایک متحرک مزار سمجھ لیجیے گا۔ آپ کی فیاضی کہ زمان و مکان کی قیود سے آشنا نہیں ہے مجکو ہر کسی سے مستغنیٰ کر سکتی ہے مگر یہ بات دیانت اور مروّت سے دُور ہے کہ اقبال آپ سے ایک بیش قرار تنخواہ پائے اور اس کے عوض میں کوئی ایسی خدمت نہ کرے جس کی اہمیت بقدر اُس مشاہرے کے ہو۔ خدا کو منظور ہوا تو کوئی نہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے گی کہ اقبال جو ہمیشہ سے معنوی طور پر آپ کے ساتھ رہا ہے صَوری طور پر بھی آپ کے ہمراہ ہو گا۔ آپ نے جس وسعت ِ قلب سے اقبال کو یاد فرمایا، مروّت کی تاریخ میں یادگار رہنے کے قابل ہے اور بندۂ اقبال جس کو آپ ازراہِ کرم گستری لفظ دوست سے مفتخر فرماتے ہیں نہایت سپاس گزار ہے اور دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مہاراجہ بہادر کے دلی مقاصد بر لائے اور اُن کے اعدأ کو ذلیل و خوار کرے۔ آمین۔ بندۂ درگاہ، محمد اقبال کیا سرکار نے اپنا اُردو دیوان مرتب کر لیا؟ اُسے ضرور شائع ہونا چاہیے۔ ۲۷۵ چاند سورج سے روشنی مانگتا ہے اِسی لیے اُس کے دل پر شرمندگی کا داغ ہے، اقبال سوچ رہے تھے۔ کسی سے کچھ مانگنے پر خودی کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور یہ مقدس درخت خدا کی تجلی سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیا خوب ہے وہ شخص جو دھوپ میں پیاسا ہونے پر بھی خضر سے پانی قبول نہ کرے بلکہ بلبلے سے خودی اور خودداری کا سبق سیکھے کہ وہ بھرے سمندر میں اپنا پیالہ اُلٹائے رکھتا ہے۔۱۷۶ ۲۷۶ ’شکوہ‘ والی بیاض میں سات موضوعات قائم ہوئے: ۱ خطاب بخود ۲ حقیقت ِ خودی ۳ زندگی ۴ موت ۵ استحکامِ خودی ۶ نیک و بد ۷ مابعد الموت اپنے سات موضوعات کا عطار کی وادیوں سے تعلق اگر اقبال کے سامنے نہ تھا تو پھر لاشعوری طور پر اسی طرح سوچنے کے عادی ہو چکے ہوں گے: ۱ پہلی وادی طلب :’خطاب بخود‘ میں اپنے آپ کو مخاطب کر کے سمجھانا چاہتے تھے کہ اجتماعی خودی کی طلب ہے ۲ دوسری وادی عشق: اِس کے لیے ’خودی کی حقیقت‘ کو سمجھنا اُن کے نزدیک ضروری تھا ۳ تیسری وادی معرفت: یہاں ’زندگی‘ کے اَسرار سمجھانا چاہتے تھے ۴ چوتھی وادی استغنا: یہاں ’موت‘ کا ذکر کرنا چاہتے تھے جو صرف جسم سے رُوح کے جدا ہونے کا نہیں بلکہ خودی کا اپنے آپ سے جدا ہونے کا نام تھا ۵ پانچویں وادی توحید: اُن کے نزدیک یہ ’استحکامِ خودی‘ کی ضامن تھی ۶ چھٹی وادی حیرت: یہاں ’نیک و بد کی حقیقت‘ بتانا چاہتے تھے کہ ان دونوں کو اپنے وجود میں دریافت کرنا ہی اصل حیرت کا مقام تھا ۷ ساتویں وادی فقر و فنا:یہاں ’مابعدالموت‘ کا ذکر کرنا چاہتے تھے دوسرا باب لکھنا پہلے شروع کیا۔ حقیقت ِ خودی، یعنی ہر چیز جو تم دیکھتے وہ خودی کے آثار میں سے ہے: ہر چہ می بینی ز آثارِ خودی است چھ اشعار ہوئے۔ پھر کبھی خیال آیا کہ تیسرا، چوتھا اور پانچواں شعر ’زندگی‘ کے عنوان میں رکھنے بہتر ہوں گے۔ نشان لگا دیا۔ دو صفحے خالی چھوڑے تاکہ ’حقیقت ِ خودی‘کا باب بعد میں مکمل کر لیں۔ اس سے آگے ’حقیقت ِ زندگی‘ لکھ کر لکیر کھینچی کہ خودی سے گزر کر ہمیشہ کی زندگی پا جاؤ، قطرہ بنو اور بحر کو اپنے آپ میں سمیٹ لو: از خودی مگذر بقا انجام باش قطرہ می باش و بحر آشام باش مثنوی خودی کے بارے میں تھی۔ اشعار بیخودی کے ہوئے جا رہے تھے۔ نجانے کب سے سمندر میں فنا ہو جانے کو قطرے کی منزل بتایا گیا تھا۔ صدیوں کے استعارے آہستہ آہستہ بدل رہے تھے۔ مشکل کام تھا۔ ’حقیقت ِ موت‘لکھ کر بعد میں کسی وقت اُسے کاٹا اور ’موت‘ کر دیا۔ جسم اور جاں کا رشتہ منقطع ہونا نہیں بلکہ خودی کا ختم ہونا موت تھی: تو چہ پنداری فراقِ جان و تن خیال آیا کہ زندگی اور موت الگ موضوعات کی بجائے اکٹھے ہوں۔ ’حقیقت ِ زندگی‘ کو ’حقیقت ِ زندگی و موت‘ کر دیا۔فہرست میں بھی یکجا ہو گئے۔ ہر عنوان کے سامنے درج کیا کہ اُس میں کتنے شعر ہونے چاہئیں: ۵۰، ۵۰، ۵۰، ۵۰ اور ۲۵۔ کبھی کیم ندی کے کنارے کہا تھا، ’’زندگی موت کی شروعات ہے اور موت زندگی کی۔‘‘ بات اب بھی وہی تھی۔ ۲۷۷ کبھی امیر علی نے مسلمانوں کی خوداعتمادی بحال کرنے میں حصہ لیا تھا۔ اب مسلم لیگ کی لندن کی شاخ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ چلانے پر تیار نہ تھے۔ احتجاجی جلسوں کی اجازت نہ دی۔ محمد علی اور سید وزیر حسن پیرس جا کرآغاخاں سے منظوری لے آئے۔ امیر علی نے ۲۷ اکتوبر کو استعفیٰ پیش کر دیا۔ ۲۷۸ اُسی روز اقبال نے رسالہ توحید میرٹھ کے مضامین کے انتخاب پر تقریظ لکھی۔ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی سادگی اور سوزوگداز کے بارے میں اُن کی رائے تھی: خواجہ صاحب موصوف نے مولانا آزادؔ مرحوم کی طرح اپنے لیے ایک نئی راہ نکالی ہے۔یہ مجموعہ ٔمضامین جس میں خواجہ صاحب کے مضامین بھی شامل ہیں ادبی اعتبار سے نہایت بلندپایہ ہے۔۱۷۷ ۲۷۹ ۵ نومبر کو کیکسٹن ہال میں جلسہ تھا۔ وزیر حسن صدارت کر رہے تھے۔ محمد علی (جوہرؔ) نے جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف قرارداد پیش کی۔ گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک ابھی تک اپنا مقصد حاصل نہ کر سکی تھی۔ محمد علی نے انگریزی میں قرارداد پیش کی: یہ میٹنگ سلطنتِ برطانیہ کی نو آبادیوں خاص طور پر کینیڈا اور جنوبی افریقہ میں ہمارے ہم وطنوں کے ساتھ کیے جانے والے توہین آمیز سلوک پر سخت احتجاج کرتی ہے اور اپنے گہرے یقین کا اظہار کرتی ہے کہ جب تک ملک معظم کی ہندوستانی رعایا کو سلطنت میں شہریوں کے معمولی حقوق دینے سے بھی گریز کی جاتی رہے گی، اُن کے لیے بھی سلطنت کے فرائض کو وفاداری سے نبھانا مشکل رہے گا۔۱۷۸ ۲۸۰ ۱۳ نومبر کو ہندوستان میں خبر پہنچی کہ ٹیگور کو اس برس ادب کے نوبل پرائز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ دو روز بعد وائسرائے ہارڈنگ نے مدراس میںجلسہ ٔ عام سے خطاب کیا۔ کچھ دن پہلے جنوبی افریقہ میں گاندھی کے کہنے پر مزدوروں نے ہڑتال کی تھی۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے اُن مزدوروں کو کوڑوں کی سزا دی۔ ہارڈنگ نے کہا: [ہڑتال کرنے والے ہندوستانی مزدوروں] کو صرف ہندوستانیوں کی گہری ہمدردی ہی حاصل نہیںہے بلکہ مجھ جیسے بہت سے اور لوگوں کی ہمدردی بھی حاصل ہے جو اگرچہ ہندوستانی نہیں مگر یہاں کے باشندوں کے دُکھ سُکھ میں شریک ہیں۔ ۲۸۱ نومبر کے آخر میں کشن پرشاد کی طرف سے خط ملا۔ دستخط نہ تھے۔ ساتھ میں ایک اہل کار کا پیغام تھا کہ کشن پرشاد کا لڑکا راجہ عثمان شاد فوت ہو گیاہے۔ ۳ دسمبر کو اقبال نے تعزیت نامہ بھیجا: اللہ تعالیٰ اس بچے کو جنت نصیب فرمائے۔ زندگی اور موت ایک عجیب راز ہے، خصوصاً بچوں کی موت تو ایک ایسا سربستہ راز ہے کہ اس کا انکشاف حضرتِ انسان سے ممکن نہیں۔ ۲۸۲ ۱۰ دسمبر کو اسٹاک ہوم کے گرانڈ ہوٹل میں نوبل پرائز کی تقریب منعقد ہوئی۔ سوئیڈش اکیڈمی کی نوبل کمیٹی کے چیئرمین نے ٹیگور کے بارے میں تقریر کی۔ ٹیگور موجود نہ تھے۔ اُن کا ٹیلی گرام پڑھ کر سنایا گیا: میں سوئیڈش اکیڈمی کو اپنے ستایشی تاثرات پہنچانا چاہتا ہوںجس کے فہم کی وسعت نے دُور کو قریب اور ایک اجنبی کوبھائی بنا دیا ہے۔ اُس برس انعام کی رقم ایک لاکھ تینتالیس ہزار دس سوئیڈش کراؤن تھی۔ ۲۸۳ جرمنی کی بون یونیورسٹی کے سامی زبانوں کے ماہر پروفیسر میکس ہورٹن (Max Horten) کی ابن رشد کے بارے میں کتاب شائع ہوئی: Die Hauptlehren des Averroes nach seiner Schrift; Die Widerlegung des Gazali ضمنی طور پر یہ سوال بھی اُٹھایا تھا کہ کیا اسلامی قانون سچ مچ ارتقا کا اہل ہے؟ خالص مذہبی فکر کی حد تک مسلمان فلسفیوں کے افکار پر نظر ڈالتے ہوئے خیال ظاہر کیا تھا کہ اسلامی تاریخ اُن دو قوتوں کی روز افزوں شدت اور گہرائی سے عبارت تھی جن کو ایک طرف آریائی تہذیب اور علم و حکمت، اور دوسری جانب سامی مذہب سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے گرد و پیش کی قوموں سے تہذیب و ثقافت کے جو عناصر اخذ کیے ان کو ہمیشہ اپنے مذہبی مطمح نظر کے مطابق ڈھال لیا۔ ۸۰۰ء سے ۱۰۰۰ء کے درمیان عالمِ اسلام میں الٰہیات کے کم سے کم ایک سو مذاہب قائم ہوچکے تھے۔ اس سے ظاہر تھا کہ اسلامی فکر میں کس قدر لچک پائی جاتی تھی۔ کس طرح اربابِ فکر شب و روز مسائل میں سرگرم اور منہمک رہتے تھے: اسلام کی روح بڑی وسیع ہے، اتنی وسیع کہ اس کے کوئی حدود ہی نہیں۔ملحدانہ افکار سے قطع نظر کر لی جائے تو اس نے گرد و پیش کی اقوام کے ہر اس فکر کو جذب کر لیا جو اس قابل تھا کہ اسے جذب کر لیا جائے اور پھر اسے اپنے مخصوص انداز میں نشوونما دیا۔۱۷۹ ۲۸۴ ۱۳ دسمبر ۱۹۱۳ء کو پنجاب یونیورسٹی کی اورینٹل فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس سینیٹ ہال میں ساڑھے پانچ بجے ہوا۔ چیئرمین جسٹس شاہ دین تھے۔ اقبال اور مولوی محمد حسین کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے۔۱۸۰ ۲۸۵ شبلی نعمانی وہ مضمون لکھ رہے تھے جسے سیرۃ النبیؐ کا دیباچہ بننا تھا: علوم و فنون کی صنف میں سیرت (بیاگرافی) کا ایک خاص درجہ ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کے حالاتِ زندگی بھی حقیقت شناسی اور عبرت پذیری کے لیے دلیل ِ راہ ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا انسان بھی کیسی عجیب خواہشیں رکھتا ہے، کیا کیا منصوبے باندھتا ہے، اپنے چھوٹے سے دائرۂ عمل میں کس طرح آگے بڑھتا ہے، کیونکر ترقی کے زینوں پر چڑھتا ہے، کہاں کہاں ٹھوکریں کھاتا ہے، کیا کیا مزاحمتیں اٹھاتا ہے، تھک کر بیٹھ جاتا ہے، سستاتا ہے اور پھر آگے بڑھتا ہے۔ غرض سعی و عمل، جدوجہد، ہمت و غیرت کی جو عجیب و غریب نیرنگیاں سکندراعظم کے کارنامہ ٔ زندگی میں موجود ہیں بعینہ یہی منظر ایک غریب مزدور کے عرصۂ حیات میں بھی نظر آتا ہے۔ اِس بنا پر اگر سیرت اور سوانح کا فن عبرت پذیری اور نتیجہ رسی کی غرض سے درکار ہے تو ’شخص‘ کا سوال نظرانداز ہو جاتا ہے، صرف یہ دیکھنا رہ جاتا ہے کہ حالات اور واقعات جو ہاتھ آتے ہیں وہ کس وسعت اور استقصا وتفصیل کے ساتھ ہاتھ آتے ہیں تاکہ مراحل ِ زندگی کی تمام راہیں اور ان کے پیچ و خم ایک ایک کر کے نظر کے سامنے آجائیں۔ لیکن اگر خوش قسمتی سے فردِ کامل اور استقصائے واقعات دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو اس سے بڑھ کر فن کی کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔ ۔۔۔کون شخص انکار کر سکتا ہے کہ صرف ہم مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام عالم کو اِس وجودِ مقدّس کی سوانح ِ عمری کی ضرورت ہے جس کا نامِ مبارک محمد ہے، اللّٰہمَّ صلِّ علیہِ وسلّمِ صلٰوۃً کثیراً کثیراً‘‘ شبلی نعمانی کی بیقرار طبیعت کو سیرۃ النبیؐ کے منصوبے میں قرار مل گیا۔ یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ طالب علم جس نے تین سال پہلے اُن کی کتاب الکلام پر تنقیدکی، عبدالماجد دریابادی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں سیرۃ النبیؐ کے لیے معاون بننے کی دعوت دی۔ سید سلیمان ندوی اور عبدالسلام ندوی پہلے ہی شریک ہو چکے مگر شبلی جو معیار چاہتے تھے اُس میں ہفتوں کی محنت کے بعد دو تین صفحوں کا مواد ہاتھ آتا۔ شعرُالعجمکی پانچویں جلدی لکھی ہوئی پڑی تھی مگرہوش نہ تھا کہ مسودے کو ترتیب دیں: عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی مجھے چندے مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا مگر اَب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتمؐ خدا کا شکر ہے، یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا شبلی نعمانی بیگم صاحبہ بھوپال سے سیرۃ النبیکے منصوبے کو جو وظیفہ مل رہا تھا اس کی مدت اگلے برس اپریل میں ختم ہونے والی تھی۔ دسمبر میں بیگم صاحبہ نے کتاب کی تکمیل تک جاری رکھے جانے کا حکم دے دیا۔ ۲۸۶ اُس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئیں یہ ہیں:۱۸۱ Newman. Newman's Apologia Provita Sua (the two versions of 1864 and 1865 preceded by Newman's and Kingsley's pamphlets with an introduction by Wilfrid Ward). London, Oxford University Press. Roy, Sripti. The Law Relating to Bad Livelihood. Calcutta, Wilkins Press. Waterfield, William. Indian Ballads. Allahabad, Panini Office. ۲۸۷ دسمبر کے آخر میں حسن نظامی کے دوست شیخ احسان الحق نے، جو رسالہ توحید میں اُن کے شریک بھی تھے اقبال کی شاعری کے بارے میں کوئی مضمون لکھنے کے لیے اقبال سے رابطہ کیا ۔ وہ اُس وقت اجمیر میں تھے یا حسن نظامی وہاں گئے ہوئے تھے۔ بہرحال ۲۷ دسمبر کو اقبال نے حسن نظامی کو لکھا: شیخ احسان الحق سے درخواست کیجیے کہ وہ اقبال کا اشتہار نہ دیں۔ میں اُن کا اور آپ کا ممنون ہوں گا اگر آپ مجھے اس زحمت سے بچائیں گے۔ آخر شاعری کی وجہ سے میں مشاہیر میں شامل ہوں گا لیکن آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کو شاعر تصور نہیں کرتا۔۱۸۲ ۲۸۸ ۲۷ دسمبر کو کراچی میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ بیرسٹر محمد علی جناح بھی آئے۔ یہیں پیدا ہوئے تھے مگر بیس برس پہلے بمبئی میں آباد ہونے کے بعد واپس نہیں لوٹے تھے۔ کانگریس کے اجلاس میں اپنی ترتیب دی ہوئی قرارداد منظور کروائی۔ ہندوستانی کونسل کی ساخت میں بہت سی تبدیلیاں تجویز کی تھیں۔ ہندوستانیوں کی نمایندگی بڑھانی تھی۔ ایک اور قرارداد کی حمایت میں بھی تقریر کی۔ اس میں مسلم لیگ کو مبارکباد دی گئی کہ بالآخر اُس نے بھی برطانوی سلطنت میں رہتے ہوئے ہندوستان کی مکمل آزادی کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ ۲۸۹ ۳۰ اور ۳۱ دسمبر کو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس آگرہ میں ہو رہا تھا۔ جناح پہلی دفعہ لیگ کے رکن کی حیثیت سے آئے۔ اب تک کسی رہنما کو یہ خصوصیت حاصل نہ ہوئی تھی کہ نہ صرف ہندوستان اور لندن میں انگریز حکومت کے اندرونی معاملات میں شریک ہو بلکہ کانگریس اورلیگ میں بھی بیک وقت نمایاں اہمیت رکھتا ہو۔ اُنہوں نے تجویز پیش کی کہ مسلمان جداگانہ انتخاب پر اصرار نہ کریں۔ اِس مطالبے کو کم سے کم ایک سال کے لیے ملتوی کر دیں۔ ورنہ ہندوستان کے عوام کا اتحاد تقسیم ہو جائے گا۔لیگ نے تجویز رد کر دی۔ تتمہ مثنوی اسرارِ خودی کے اقتباس پڑھ کر شاید کسی کو اندازہ نہ ہوا ہو کہ جب یہ مکمل ہو گی تو اقبال کی ایسی پہچان بنے گی کہ ’ہمالہ‘ اور ’شکوہ‘ جیسی نظمیں اس کے سامنے مدھم نظر آنے لگیں گی۔ بعد میںیہی نظر آیا کہ اقبال ہمیشہ سے اِس منزل کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ ایک شخصیت کے ذہن میں پھر بھی یہ سوال اُبھرتا رہا کہ اگراقبال کی زندگی اور شاعری کوئی دوسرا راستہ اختیارکرتی تو وہ کیا ہوتے؟ یہ عطیہ فیضی تھیں۔ بعد میں انگریزی میں لکھا: ’’اپریل ۱۹۱۰ء اور جولائی ۱۹۱۱ء کے دوران میں بہت سی ایسی باتیں ہوئیں جنہوں نے [اقبال] کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ کوئی چیز ایسی نہ تھی جو اُنہیں اُس مصیبت سے بچا سکتی جس کی وجہ سے وہ زندگی کو تلخ زاویۂ نگاہ سے دیکھنے لگ گئے تھے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ آیا قدرت ہی اُن کے تخیل کی دنیا کو بدلنا چاہتی تھی یا واقعات نے کچھ ایسی شکل اختیار کر لی تھی کہ اقبال کی تمامتر توجہ اُس سے زیادہ اور پیچیدہ مسائل پر لکھنے کی جانب متوجہ ہو گئی جن پر وہ اب تک لکھنے کے عادی تھے۔۔۔وہ شدید قنوطیت پسند بن گئے اور اِس حالت میں وہ خدا سے سوال کرتے تھے تاکہ وہ اُن کے شبہات دُور کرے۔ جو جواب انہیں ملا وہ اُن کی زندگی کے کارناموں سے ظاہر ہے اِس لیے کہ سوالات کا سلسلہ مناسب تسلی حاصل کیے بغیر جاری رہا۔۔۔ ‘‘۱۸۳ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی ۱۹۴۷ء میں فوت ہوئیں۔ ان کی بیٹی معراج بیگم ۱۹۱۵ء میں نوجوانی کی عمر میں فوت ہو گئیں۔ آفتاب ۱۹۷۹ء تک زندہ رہے۔دوسری بیوی مختار بیگم ۱۹۲۴ء میں فوت ہوئیں۔ ان سے کوئی اولاد نہ تھی۔ تیسری بیوی سردار بیگم ۱۹۳۵ء میں فوت ہوئیں۔ اُن کے صاحبزادے جاوید اور صاحبزادی منیرہ خدا کی مہربانی سے ابھی حیات ہیں۔ اقبال ۱۹۲۲ء میں انارکلی والے فلیٹ سے میکلوڈ روڈ کی ایک کوٹھی میں منتقل ہو گئے۔۱۹۳۵ء میں میو روڈ پر جاوید منزل میں منتقل ہوئے جس کی تعمیر زیادہ تر اُس پیسے سے ہوئی جو سردار بیگم نے گھریلو اخراجات سے بچایا تھا۔ اس لیے سردار بیگم کی وفات کے وقت اقبال نے اُسے جاوید کے نام منتقل کروا دیا۔ خود کرایہ دار کی حیثیت سے رہے۔ کرایہ ہر ماہ ۲۱ تاریخ کو بینک میں جاوید کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتے تھے۔ اب یہ عمارت علامہ اقبال میوزیم ہے۔ سڑک کا نام علامہ اقبال روڈ ہے۔ ایما ویگے ناست نے اقبال کے خطوط سنبھال کر رکھے۔ ۱۹۶۰ء یا اِس کے کچھ عرصے بعد اِس ہدایت کے ساتھ پاک جرمن فورم کے حوالے کر دیے کہ اقبال پر تحقیق کرنے والوں کو اِن سے استفادہ کرنے دیا جائے۔ ۱۹۶۴ء میں وہ فوت ہو گئیں۔اُنہوں نے کبھی شادی نہیں کی تھی۔۱۸۴ ضمیمہ۱ بیاضیں علامہ اقبال میوزیم (جاوید منزل) لاہور میں علامہ اقبال کی قلمی بیاضیں اور مسودات موجود ہیں جن کی فوٹوکاپی اقبال اکادمی پاکستان (لاہور) کی لائبریری میں دستیاب ہے۔ ان میںسے دو بیاضوں کے حوالے اس کتاب کے حواشی میں بھی موجود ہیں۔ چونکہ عام طور پر قارئین واقف نہیں ہیں لہٰذاان بیاضوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ پہلی بیاض علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اِس کا نمبر شمار AIM.1977.219 ہے۔ اِسی کو قیامِ یورپ کے زمانے کی بیاض کہا جاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ کیمبرج کے آخری زمانے میں یعنی ۱۹۰۷ء کے موسمِ بہار میں صرف شناساؤں کے پتے، تین فارسی اور ایک اُردو غزل انگریزی کی طرف کے صفحات میں درج کیں۔ باقی نظمیں ہندوستان واپسی کے بعد اُردو کی طرف سے درج کرنا شروع کیں کیونکہ یورپ کے زمانے کی نظمیںاُس ترتیب میں درج نہیں ہوئیں جس ترتیب میں وہ لکھی گئی تھیں، اور یہ اُن پر لکھی تاریخوں سے ظاہر ہے۔واپسی کے بعد کہی ہوئی نظمیں کم و بیش تاریخی ترتیب میں درج ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ براہِ راست بیاض میں درج ہوئیں اور اِس نوٹ بک کو مستقل بیاض کے طور پر استعمال کرنا واپسی کے بعد شروع ہوا۔ منظومات کی فہرست درجِ ذیل ہے۔ نظم کاعنوان پہلا مصرعہ بانگِ درا میں عنوان آشکارا چشم ِ عالم پر ہوں × خاموش ہے چاندنی قمر کی ایک شام جس کی نمود دیکھی چشمِ ستارہ بیں نے سلیمیٰ ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا اخترِ صبح اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے شبنم اور ستارے کوہسار کی رفعت سے آتی ہوئی ندی × جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے وصال آئے جو قراں میں دو ستارے دو ستارے ۔۔۔ کے نام فرقتِ آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح کوششِ ناتمام انسان منظر چمنستاں کے زیبا ہوں یا نا زیبا انسان سسلی کو دیکھ کر رو لے اب کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار صقلیہ تلاشِ گوشۂ عزلت میں پھر رہا ہوں میں فراق کیا شرارا چمک اٹھا مری خاکستر میں × سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو بزمِ انجم پیامِ عشق سن اے طلب گارِ دردِ پہلو پیامِ عشق صبح ہو رہی ہے زیرِ دامانِ افق سے آشکار صبح عبدالقادر کے نام عبدالقادر کے نام چاند اور تارے ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے چاند اور تارے بلادِ سلامیہ سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے بلادِ اسلامیہ ستارہ قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو ستارہ ایک حاجی مدینے کے راستے میں قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دُور ایک حاجی مدینے کے راستے میں عاشقِ ہرجائی ہے کوئی مجموعۂ اضداد اے اقبال تو عاشقِ ہرجائی (۱) گم شدہ دستانہ رکھا تھا میز پر ابھی ہم نے اتار کر × سیر ِ فلک تھا تخیل جو ہم سفر میرا سیر ِ فلک گل نے بلبل سے کہا لے ہم صفیر آیا ترا × عشق کی اشفتگی نے کر دیا صحرا جسے عاشقِ ہرجائی (۲) گورستانِ شاہی آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے گورستانِ شاہی ۔۔۔کی گود میں بلّی دیکھ کر تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے ۔۔۔ کی گود میں بلّی دیکھ کر Dedication to... نغمۂ رنگیں سمجھ یا نالۂ پیہم سمجھ × جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمینِ قمر حسن و عشق دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ترانۂ ملّی شیکسپیئر شاہد ِ مے کے لیے حجلہ ٔ جام آئنہ شیکسپیئر فلسفۂ غم فلسفۂ غم رات اور شاعر رات اور شاعر انسان قدرت کا عجیب یہ ستم ہے انسان عید پر شعر لکھنے کی فرمایش کے جواب میں یہ شالامار میں کہتا تھا ایک برگِ زرد عید پر شعر لکھنے کی فرمایش کے جواب میں شاعر جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے شاعر نورمحمدی جو ہے خالقِ دہر اور دہر بھی × قربانیٔ خلیل افق پر ہویدا ہوئی شانِ صبح × Frl. Gottesman وہ مستِ ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے پھول کا تحفہ عطا ہونے پر فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ ظریفانہ (حصہ سوئم) چاند اے چاند حسن تیرا گردوں کی آبرو ہے چاند تنہائی تنہائیٔ شب میں ہے حزیں کیا تنہائی نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیامِ عیش و سرور عشرتِ امروز نوائے غم زندگانی ہے مری مثلِ ربابِ خاموش نوائے غم جلوۂ حسن جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمّنا بیتاب جلوۂ حسن پھول تجھے کیوں فکر ہے اے گل دلِ صدچاکِ بلبل کی پھول نالہ را اندازِ نو ایجاد کن × (اسرارِخودی) غرۂ شوال غرۂ شوال اے نورِ نگاہِ روزہ دار غرہٌ شوال سبز گنبد والے آقا کے حضور گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا حضورِ رسالتمابؐ میں جب دکھاتی ہے کلی عارضِ رنگیں اپنا کلی دعا یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے دعا دارالسطنت دہلی ہو گیا زخم ِ دلِ بنگال آخر مندمل × اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا غزلیات (حصہ سوم) نوید ِ صبح آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر نوید ِ صبح ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے مسلم کبھی اے حقیقتِ منتظرنظر آ لباسِ مجاز میں غزلیات (حصہ سوم) رفت وزخاکِ رہش برقِ تجلی دمید × موٹر کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی موٹر شفاخانۂ حجاز اک پیشوئے قوم نے کل مجھ سے یہ کہا شفاخانۂ حجاز ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے مسلم فاطمہ بنت ِ عبداللہ فاطمہ بنت ِ عبداللہ پھربادِ بہار آئی اقبال غزل خواں ہو غزلیات (حصہ سوم) جوشِ عشق سے ہوا رخِ بہار بے حجاب × یہ سرودِ قمری و بلبل فریب ِ گوش ہے غزلیات (حصہ سوم) غزل دوش می گفتم بہ شمع ِ منزلِ ویرانِ خویش شمع اور شاعر (شاعر) یوں تو اے بزمِ جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے غزلیات (حصہ دوم) اے گل زخارِ آرزو آزاد چوں رسیدۂ × از آتشِ عشق سوختم خاشاکِ احتیاج را × آشنا ہر خار را از قصۂ ما ساختی × (پیامِ مشرق) الٰہی عقلِ خجستہ پا کو ذرا سی دیوانگی سکھادے غزلیات (حصہ دوم) انگریزی کی طرف سے نوٹ بک کے آغاز میں کچھ لوگوں کے پتے اقبال کی اپنی تحریر میں درج ہیں: 1. Herr F. Mitzworth (Germany) 2. Frl. Emma Wegenast (Germany) 3. Rene Pradere-Niquet (Bangkok) 4. Frl. Rose Cadenet (France) 5. Miss Sizaret (France) 6. Miss Ch. Ran (USA) 7. Miss A. Fyzee (India) 8. Miss E. Farwel (UK?) 9. Sir Frederick Pollock (UK) 10. Miss V. Denise Adams (UK) 11. Miss M. Shain (UK) 12. Miss E. Ramelow (Germany) دوسری بیاض علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.195 ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۱۱ میں کسی وقت اقبال نے اس بیاض میں اپنی نظمیں اکٹھا کرنی شروع کیں مگر ۱۹۱۲ء تک نئی نظمیں پچھلی بیاض ہی میں درج ہوتی رہیں اور صرف انہیں صاف کرنے کے بعد یہاں درج کیا گیا۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ سے نئی نظموں کے لیے بھی یہی بیاض استعمال ہونے لگی۔ اُس نظم کا زمانہ فروری ۱۹۱۲ء ہے۔ نظم کاعنوان پہلا مصرعہ بانگِ درا میں عنوان پھر بادِبہار آئی اقبال غزل خواں ہو غزلیات (حصہ سوئم) منظور شکایت کا نرالا مجھے ڈھب ہے × شکوہ کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں شکوہ قطعہ کل ملا مجھ سے جو اقبال تو پوچھا میں نے نصیحت شمع اور شاعر دوش می گفتم بشمعِ منزلِ ویرانِ خویش شمع اور شاعر جوابِ شکوہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے جوابِ شکوہ اس کے بعد ایک صفحے پر مندرجہ ذیل عنوانات قائم کیے گئے ہیں: ۱۔ خطاب بخود ۲۔ حقیقتِ خودی ۳۔ زندگی، موت ۴۔ استحکامِ خودی ۵۔ نیک و بد ۶۔ مابعدالموت یہ گویا اسرارِ خودی کی ابتدا ہے۔ سات صفحے اسرارِ خودی کے اسی بیاض میں مندرجہ بالا ترتیب کے مطابق درج ہیں جن کے درمیان شاید بعد میں لکھنے کے لیے خالی صفحے بھی چھوڑے گئے ہیں۔ ان کے بعد دو اردو نظمیں بلاعنوان ہیں۔ یہ بانگِ درا میں شامل نہیں کی گئیں۔ پہلے مصرعے بالترتیب یہ ہیں: ۱۔ کہا یہ ایک مرے مہرباں نے کل مجھ سے ۲۔ عجیب چیز ہے مغرب کی زندگی جس سے ضمیمہ۲ سیاست کے دو رُوپ اقبال کی سوانح کی اِس کتاب کا تعلق اُس دَور سے ہے جب برصغیر میں مسلمانوں کی سیاست جنم لے رہی تھی۔ اس دَور میں دو متضاد رویے سامنے آئے جن میں سے پہلا مولانا محمد علی جوہر کا ’’اجتماع‘‘ اور ’’انضباط‘‘ کا تصور تھا جو بعد میں اقبال کے یہاں ’’اطاعت‘‘ اور ’’ضبطِ نفس‘‘ اور قائداعظم کے تین سنہرے اصولوں میں یونٹی (unity) اور ڈسپلن (discipline) بنا۔ اس کے لیے بنیادی دستاویز محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ علی گڑھ دسمبر ۱۹۰۵ء میں محمد علی کی تقریر ہے (اس اجلاس میں اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن بھی موجود تھے)۔ یہ تصور شاہ ولی اللہ اور سرسید کے خیالات سے پیدا ہوا تھا۔ اقبال بھی آخر تک اِسی تصور کے حامی معلوم ہوتے رہے۔ بعد میں اُنہوں نے تشکیلِ جدید میں ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی جو اصطلاح پیش کی وہ بھی دراصل اسی تصور پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ۱۹۵۳ء کے بعد پاکستان میں یہ تصور بالکل ہی نظروں سے اوجھل ہوتا چلا گیا اور اس کی بجائے صرف وہی ’’دھڑے بندی‘‘ کا تصور رہ گیا جو مغرب سے درآمد ہوا تھا ۔ بعدمیں آنے والوں نے اِسے ایک قدرتی چیز سمجھ لیا مگر مارچ ۱۹۱۳ء میں کشمیری میگزین میں انگریزی اخبار آبزرور کے ایک مضمون کا ترجمہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ مغربی طرز کی دھڑے بندیوں کا یہ تصور مسلم سیاست میں قدرتی طور پر پیدا نہ ہوا بلکہ اُس تشکیلی دَور میں بعض لوگ اِسے مغرب سے درآمد کرنے کی تجویز پیش کر رہے تھے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں قوم نے جو فیصلہ دیا اُس کی تعمیل صرف محمد علی اور اقبال والے تصورِ اجتماع سے ہو سکتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس تصور کو ہم بھول گئے تھے ہماری اجتماعی خودی پوشیدہ طور پر اُسے باقاعدہ پروان چڑھاتی رہی ہے اور اب ’’ساتویں وادی‘‘ میں داخل ہوتے ہی ہمارے اجتماعی فیصلے کے ذریعے اسے دوبارہ ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم بیتے دنوں کے آئینے میں خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ کسی بہت بڑی تباہی سے بچ کر منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوں۔ دونوں دستاویزات پر تبصرہ کتاب میں ہو چکا ہے۔ یہاں ان کے مکمل متن پیش کیے جا رہے ہیں۔ محمد علی کی تقریر ۱۹۰۵ء اس تقریر میں ’’اجتماع‘‘ اور ’’انضباط‘‘ کا وہ تصور موجود ہے جو ہماری اپنی جدت تھا اور آج بھی ہماری سلامتی اُسی میں معلوم ہوتی ہے۔ محمد علی نے یہاں صرف تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک مسئلے پر بحث کی ہے مگر اِس ضمن میں وہ اجتماع اور انضباط کے جن پہلوؤں پر بات کر گئے اُنہیں آج پاکستان کی سرحدوں کے اندر سیاسی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر پھیلانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے (قابلِ غور ہے کہ فوکویاما نے قریباً نوے برس بعد اپنی کتاب ٹرسٹ میں جاپانی قوم کی اقتصادی ترقی کے معاشرتی اسباب کے بارے میں جو تجزیہ پیش کیا اُن میں سے بعض نکات ۱۹۰۵ء میں بھی محمد علی کے پیشِ نظر معلوم ہوتے تھے)۔ متن کا ماخذ ثنأ الحق صدیقی (۱۹۷۵)، ص۳۰۰-۲۸۸ ہے۔ حضرات! پچھلے سال لکھنؤ کی کانفرنس میں میں نے ایک حصہ اُس مضمون کا آپ حضرات کے سامنے پیش کیا تھا جو احمدآباد کی پراونشل کانفرنس میں میں نے انگریزی میں پڑھا تھا۔ مجھ سے شکایت کی گئی تھی کہ اتنی طویل تقریر ایسے جلسے میں کیوں پڑھی گئی۔ میں نے اس کا یہ جواب دیا کہ میرا مقصد یہ نہ تھا کہ اسی وقت اس کو سب لوگ سمجھیں یا پڑھیں بلکہ گھر جا کر فرصت کے وقت اس پر غور کریں، نہ یہ کہ فوری جوش ہو کر فرو ہو جائے۔ اگر کاروائی کے لائق سمجھیں تو اس پر عمل کیا جائے اور اگر اعتراض کرنے کا موقع ہو تو اس پر اعتراض کیا جائے۔ انگریزی میں مضمون لکھے جانے کی خاص وجہ یہ تھی کہ میرا روئے سخن مسلمانوں کی طرف نہ تھا بلکہ ان اقوام کی جانب تھا جو کہ قومیت کے لحاظ سے اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان سے تنفر ہے اور الگ ٹکڑیاں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا جواب میں نے یہ دیا تھا اور یہ ثابت کیا تھا کہ ہم کو کوئی ایسا خیال نہیں بلکہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اپنی بہبود کے لیے کر رہے ہیں۔ ان کی مخالفت ہرگز ہمارے مدنظر نہیں۔ اس وقت ہمارا روئے سخن خاص مسلمانوں کی طرف ہے اور یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی خاص تعلیمی ضرورتیں ہیں یا نہیں اور یہ کہ ان کو محمڈن یونیورسٹی کی ضرورت ہے یا نہیں اور یہ کہ یہ ضرورت علیٰحدہ علیٰحدہ کام کرنے سے پوری ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس رزولیوشن کے ایک حصے کے یہ الفاظ ہیں: اس کانفرنس کو نہایت افسوس ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں میں تعلیمی کوششوں کو مقامی خصوصیتوں پر محدود کرنے کا خیال دن بدن قوت پکڑتا جاتا ہے۔ اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ: یہ کانفرنس اس امر کو قومی ترقی کے لیے بہت ضروری سمجھتی ہے کہ قومی قوتوں کا کسی ایک ہی مرکز پر اس طرح اجتماع اور انضباط کیا جائے کہ مقامی ضرورتوں کا بھی کافی لحاظ رہے۔ اب میں پہلے حصے سے بھی درگزر کروں گا اور تھوڑی دیر کے لیے دوسرے حصے پر بحث کروں گا۔ یہ مرض عالمگیر ہے کہ ہماری قوم میں جتنے فرقے ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو تعلیمی حیثیت سے ان کے چار حصے ہیں۔ ایک طبقہ علمأ کا جو برہمنوں کی طرح اور لوگوں سے علیٰحدہ رہتے ہیں مگر پھر بھی عام مسلمانوں پر ان کا بہت اثر ہے مگر وہ کسی طرح ہمارے لیے باعثِ منفعت نہیں۔ دوسرا طبقہ رؤسا کا جو ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں مگر جن کو علم دنیا و دین سے کوئی تعلق نہیں۔ تیسرا فرقہ غربأ کا جو اپنی آپ بھی مدد نہیں کر سکتے۔ چوتھا فرقہ متوسط درجے کے لوگوں کا اور وہی ہماری قوم کی جان ہے اور جو ایک حد تک اپنے فرائض پورے کر سکتے ہیں۔ ان میں بھی دو فرقے ہیں۔ اول وہ جو کہ مغربی تعلیم سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتا۔ دوسرے ان کے خلاف جو کہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آج سے تیس برس پہلے ان لوگوں کا فرقہ جو مغربی تعلیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے بالکل مفقود تھا مگر ایک شخص کی کوشش سے اور ایک دیاسلائی سے ہزاروں چھوٹے چھوٹے چراغ ٹمٹماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ ایک درخت کی جڑ سے اس وقت چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں نکلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میرا روئے سخن علمأ کی طرف نہیں جو کہ ہم سے بالکل متنفر ہیں۔ اب رہا رؤسا کا فرقہ سو ان کو اپنی ہی ضروریات و ڈگریات و نشانات سے اتنی فرصت نہیں کہ ہماری طرف متوجہ ہوں۔ تیسرا فرقہ متوسط الحال لوگوں کا ہے جو تعلیمی ضرورت کو محسوس کر رہا ہے اور انشأ اللہ رفتہ رفتہ ان کو خود سکھا دے گا کہ جس طرح ہم آگاہ ہو گئے ہیں اسی طرح وہ بھی تعلیم کی ضرورتوں سے واقف ہو جائیں گے۔ اب رہے غربأ وہ ہماری مدد کے زیادہ محتاج ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان میں ہر طرف تعلیم و قوم کی ندا آ رہی ہے۔ یہ دونوں الفاظ ایسے ہیں کہ آج سے تیس برس پہلے اس سے لوگ بالکل نا آشنا تھے۔ مگر یہ صرف ایک شخص کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ بڑی سخت غلطی ہو گی اگر کالج یا کانفرنس کی طرف سے ان لوگوں کا خیرمقدم نہ کیا جائے جو اس راستے پر بڑھے جا رہے ہیں جس راستے پر ہم لوگ جانا چاہتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ جس راستے پر ہیں آیا وہ ایسا ہے کہ اس پر چل کر وہ منزلِ مقصود پر پہنچ سکیں گے یا نہیں۔ جب کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ اول وہ اپنی تمام قوتوں کا ایک جگہ انضباط کرے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ بعض اوقات بہادر فوجوں کو بدنظمی کی حالت میں تھوڑی مگر باقاعدہ جمعیت نے ہزیمت دی ہے اس لیے کہ وہ اپنی پوری قوت کو جمع کر کے ضابطے کے ساتھ عمل میں لائے تھے۔ جو بیوپاری ایک خاص طریقے سے چلتا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے جو بلاکسی مقررہ اصول کے کام کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک مضبوط اور زبردست آدمی کو پہلوان ذرا سی دیر میں گرا دیتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص جو اصول سے کام کرتا ہے وہ ہمیشہ ان لوگوں سے اچھا رہتا ہے جو بلااصول کام کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بہت سی ریاستیں موجود ہیں اور برٹش گورنمنٹ باوجودیکہ اس کی مملکت کا حصہ بہت دُور تک پھیلا ہوا ہے اگر آپ معلوم کرنا چاہیں کہ تعلیمی امور پر کس قدر خرچ کرتی ہے تو آپ کو ایک چھوٹی سی ڈائرکٹری سے معلوم ہو جائے گا۔ اس بیان سے میری غرض یہ ہے کہ جو قوم ترقی کرنا چاہتی ہے اس کو دیکھ لینا چاہیے کہ ہم کو اپنے پروگرام کے مختلف شعبوں میں کن کن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ ایک باقاعدہ فوج میں جنرل کو معلوم رہتا ہے کہ اس کا میمنہ کدھر رہنا چاہیے اور میسرہ کدھر اور اس کو اپنی پوری قوت کا اندازہ رہتا ہے۔ تھوڑا ہی زمانہ ہوا کہ سوڈان میں مہدی کو بہت بڑی شکست ہوئی اور وہ مارا گیا گو کہ مہدی کی طرف بڑے بڑے بہادر موجود تھے لیکن تھوڑے سے سوڈانیوں نے جن کو انگریزوں نے باقاعدہ تربیت دی تھی ان کو تباہ کر دیا۔ کیا فاتح مہدی کی فوج سے زیادہ بہادر تھے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ باوجود کم تعداد ہونے ان کو نہایت ہی باقاعدہ تعلیم دی ہوئی تھی اور وہ باقاعدہ لڑنا جانتے تھے۔ اور اصول جنگ سے واقف تھے۔ دُور کیوں جائیے، کمپنی کے جنرلوں نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ ہندوستان کی بڑی بڑی فوجوں کو کیسی شکست دی۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اپنی تمام قوتوں کا انضباط ایک جگہ کر لیا تھا۔ آپ خیال کیجیے کہ ایسے لوگوں نے جن کی مثال پیش کی گئی ایسی لڑائی صرف طاقت اور زیادتی تعداد کی وجہ سے فتح نہیں کی بلکہ انہوں نے یہ فتح محض انضباط سے حاصل کی۔ ہم کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری ضرورتیں کیا ہیں اور کس طرح وہ پوری ہو سکتی ہیں۔ حال میں وہ ایک مشت خاک جس کی طرف ساری دنیا کی آنکھ لگی ہوئی تھی یعنی جاپانی اُن کو دیکھیے ان کی کامیابی محض انضباط اور باقاعدگی پر منحصر تھی۔ انسان کی زندگی کو دیکھیے، پودوں کی زندگی کو دیکھیے، ہر ایک کی نشو و نما کا ایک قاعدہ مقرر ہے۔ جب تک ہر عضو اپنا کام پورا پورا نہیں کرتا تب بھی اس کی نشو و نما مکمل طور پر نہیں ہو سکتی۔ گویا قدرت نے ایک قاعدہ بنا دیا ہے کہ جو اس کے خلاف کرے گا وہ نقصان اٹھائے گا۔ تعلیمی مسئلہ مسلمانوں کا ایسا ہو گیا ہے کہ بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ اب تک ہم کو اپنی قوتوں کا احساس نہیں ہے۔ جب تک ایک قانون کی پابندی نہیں ہوتی آیندہ ترقی کی کوئی امید نہیں ہو سکتی۔ انضباط و اجتماع دو باتیں ہیں جن کے ملنے سے ایک خاص قانون پیدا ہوتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اپنی قوتوں کا ایک مرکز قرار دیں کہ جس سے تمام حصوں کو طاقت پہنچے۔ اگر یہ ہمارے تعلیمی معاملات میں نہ ہو گا تو سب میں ابتری پیدا ہو گی کیونکہ بغیر اصول کی پابندی کے اور بغیر مرکز کے کسی قسم کا نشو و نما نہیں ہو سکتا۔ آپ کو معلوم ہے انسان وہی کرتا ہے جس کو بہتر سمجھتا ہے۔ یا ان سب سے زیادہ عقل کی بات یہ ہے کہ آدمی بجائے خود غلطی کرنے کے دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھائے۔ اکثر انسان کچھ کھو کر دیکھتا ہے۔ کالج اور کانفرنس نے اب تک بہت کچھ کھویا ہے لیکن اتنا ہی کھونا کافی ہے۔ اب ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ ہم اور کھو کر سیکھیں۔ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایشیائی قوم نے جیسی کہ جاپان ہے دنیا میں مثل امریکہ اور جرمن کے کیسی حیرت انگیز ترقی دیکھتے ہی دیکھتے حاصل کی ہے۔ جو چیزیں جاپان کی بنی ہوئی آتی ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بمقابلہ جرمنی اور امریکہ کی چیزوں کے زیادہ حیرت انگیز معلوم ہوتی ہیں لیکن دراصل وہ ایسی حیرت انگیز نہیں ہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ وہ وہی جرمنی اور امریکہ کی چیزیں ہیں مگر بات صرف اتنی ہے کہ جاپانیوں نے دوسرے ممالک کی فروگذاشتوں سے فائدہ اٹھا کر ان چیزوں کو زیادہ مکمل کر دیا۔یورپ کی تاریخ کا ہر صفحہ جاپانیوں کے سامنے تھا اس لیے جو ترقی یورپ نے پچاس سال میں کی وہ جاپانیوں نے پانچ سال میں کر لی۔ ہم کو چاہیے کہ جو قوت ہم نے حاصل کی ہے وہ ایک مثقال کے برابر بھی ضائع نہ ہو۔ ابھی تک میری توجہ رزولیوشن کے ایک حصے کی طرف تھی۔ اب میں دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ میں چار پانچ برس سے اس مسئلے پر غور کر رہا ہوں۔ میں نے ہندوستان کے دوسرے حصوں میں جا کر تجربہ حاصل کیا ہے کہ اسلام نے جو ایک اجتماع کا اصول قائم کیا تھا اُس کا شیرازہ بکھرتا جاتا ہے۔ بمبئی کے متمول جو ترقی کر رہے ہیں سمجھتے ہیں کہ بمبئی کے مسلمان جدا، ممالک متحدہ کے جدا اور بنگال کے جدا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کوششیں آپ کو کرنی چاہئیں وہ اپنے ہی شہر اور صوبے کے لیے ہوں۔ پچھلے سال احمدآباد کی کانفرنس میں تین روز کی رخصت لے کر گیا تھا مگر لوگوں سے مل کر معلوم ہوا کہ وہاں ہنوز روزِ اول ہے۔ جو حال کانفرنس کے قائم ہونے کے تیسرے سال تھا وہ وہاں آج ہے۔ میں نے ضروری سمجھا تھا کہ علیگڑھ کو مرکز تصور کر کے اس کا ایک طالب علم بطور قائم مقام کے وہاں موجود ہو۔ احمدآباد میں یہ دیکھ کر کہ جہاں دور دور کے لوگ آئے تھے ان میں علیگڑھ کے لوگ بھی شامل تھے مجھے نہایے خوشی ہوئی مگر افسوس وہاں کے مسلمانوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے صوبے کا سرسید ہو جاؤں۔ کاش ان کو معلوم ہوتا کہ سر سید احمد بننے کے لیے کیا کیا خون جگر پینا پڑتا ہے۔ ہر ایک ان میں سے یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں نے تعلیم کی ابتدا کی، سید احمد خاں نے نہیں کی۔ میں نے ان سے کہا کہ حضرت تعلیم کی ابتدا سر سید احمد خاں نے کی ہو یاکسی اور نے کی ہو لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ انتہائے تعلیم کون کرتا ہے۔ اُن کی مثال تو ایک معمار کی ہے جنہوں نے دو ایک ردے رکھ دئیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس عمارت کو پورا کون کرتا ہے۔ الغرض احمدآباد والوں کا مافی الضمیر یہ تھا کہ اور کسی ملک اور جگہ سے ان کو کچھ تعلق نہیں۔ احمدآباد ہی پر کچھ تخصیص نہیں بلکہ سندھ میں بھی جہاں ۷۵فیصد مسلمان آباد ہیں اور جہاں ہندوستان میں سب سے اول سپہ سالار محمد بن قاسم کے طفیل اسلامی پھریرا اُڑا تھا یہی حال ہے۔ میرے ایک دوست جو علیگڑھ کے طالب علم تھے سندھ گئے۔ تمام پرجوش تقریروں کے بعد پریسیڈنٹ صاحب نے فرمایا کہ علیگڑھ کے معاملات سن کر ہم بہت خوش ہوئے لیکن ہم اس کی مدد پیسہ کوڑی سے نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ اول خویش بعدہ درویش پر عمل کریں گے۔ ہم اپنی اصلاح کے بعد دوسروں کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ جب میرے دوست مجھ سے ملے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے بڑی غلطی کی۔ آپ کو لازم تھا کہ پانچ روپے قرض لے کر دے دیتے اور کہہ دیا ہوتا کہ خدا ایک، رسول ایک اور کلمہ ایک ہیں، پھر علی گڑھ اور سندھ میں فرق کیوں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے بہانے کرتے ہیں نہ تو وہ اپنے لیے کچھ کرتے ہیں نہ دوسروں کے لیے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہر جگہ اتنا بڑا مجمع جیسا کہ علیگڑھ میں ہے پیدا کر سکتے ہیں؟ میں یہ نہیں کہتا کہ علیگڑھ ہی کو مرکز بنایا جائے بلکہ ایک مرکز ضرور ہونا چاہیے خواہ وہ مرکز علیگڑھ ہو یا کوئی اور مقام۔ دہلی کی جامع مسجد کی طرح ایک بڑے مرکز کی اہم ضرورت ہے۔ کیا بجائے ایک دہلی کی جامع مسجد کے اگر چھوٹی چھوٹی ہزاروں مسجدیں بنائی جائیں تو ایک کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ آفتاب اور چھوٹے چھوٹے ستاروں کی مثال ہمارے مرکز اور چھوٹے چھوٹے متفرق کاموں کی مثال ہے۔ جب جیسی روشنی ایک لیمپ سے پیدا ہو سکتی ہے کیا اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے چراغوں سے بھی پیدا ہو سکتی ہے؟ اجتماع قوم ہمارے مذہب کا اصل اصول ہے۔ نماز پنج وقتہ، جمعہ، عیدین اور حج کے احکام ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا مذہب اجتماع سکھلاتا ہے۔ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔ جب آپ اس پر نظر ڈالتے ہیں تو حدِ نظر آپ کی ایک حصے میں رہ جاتی ہے۔ اس کی تمام ضروریات پر نظر بھی نہیں پہنچتی اس لیے یہ بات نہایت ہی ضروری ہے کہ ہر ایک حصے کی مقامی ضرورتوں کا خاص خیال رکھا جائے لیکن اجتماع اس سے زیادہ ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کی غلطیوں سے آگاہی ہو، تبادلۂ خیالات سے ہم ایک دوسرے کی ضروریات سے واقف ہوں اور اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا جب تک کہ متفقہ کوشش سے کام نہ لیں۔ تیس سال سے قوم کو کچھ تعلیم کا خیال ہو گیا ہے لیکن ہم میں چونکہ اتفاق نہیں ہے اس لیے قوم کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو وہی حالت ہو جائے گی جو آج سے پچیس سال پہلے تھی۔ آپ نے جاپان کا حال سنا ہو گا کہ اب کس قدر ترقی کر چکا ہے مگر ایک جاپانی اخبار ناگاساکی کے ایڈیٹر نے جاپانیوں کی نسبت چند الفاظ لکھے ہیں جس سے ہم کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ: ہماری قوم کا عیب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر قانع ہو جاتی ہے اور وسعتِ نظر نہیں رکھتی۔ حضرات! جاپانیوں کے متعلق یہ بات، اور کون کہہ رہا ہے؟ ایک جاپانی۔ وہ جاپانی جنہوں نے اپنی قوتوں کو اس طرح سے مجتمع کیا ہے اور اپنے انضباط سے تمام دنیا کے مدبروں کو حیران کر کے تمام دنیا میں اپنا سکہ جما دیا ہے۔ ہندوستان کے سامنے جاپان ایک مشتِ خاک ہے۔ صرف علیگڑھ کالج ہی تمام ضروریات کے لیے کافی نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ماتحت ہندوستان کے مختلف حصوں میں کالج نہ ہوں۔ ہمارے کالج نے گو بہت کچھ ترقی کی ہے مگر یہ کافی نہیں۔ اس واسطے کہ ہمارا معیار آگرہ کالج، لکھنؤ کالج ہرگز نہیں۔ خیال تو کیجیے کہ سرسید نے پہلے یہاں ایک خیمہ نصب کیا تھا جس میں بیٹھ کے وہ نقشہ بنایا کرتے تھے جس کو دیکھ کر لوگ ہنستے تھے۔ آٹھ سو طالب علم اور ہزار طالب علموں کے لیے سامان کرنے کا ارادہ ہے! علی گڑھ کی مسجد پر اودھ پنچ نے ایک مرتبہ یہ ریمارک کیا تھا کہ شاہجہاں بادشاہ نے خواب میں مسجدِ اقصیٰ دیکھی اور اسی نمونے پر دہلی کی مسجد بنائی، سر سید نے ایک چہ بچہ اور جھونپڑا خواب میں دیکھا اور اُسی کی نقل علیگڑھ میں اُتار دی۔ حقیقت یہ ہے کہ سید صاحب نے شروع ہی سے علی گڑھ کو ایک مرکز بنانے کا خیال دل میں رکھا تھا۔ یہ کالج ایک ضلع یا ایک صوبے کے لیے نہیں تھا بلکہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے۔ جگہ جگہ ہماری انجمنیں اور چند اسکول بھی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا کام کیے ہیں۔ کرتے ضرور ہیں لیکن کام نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ وسعتِ نظر سے کام نہیں لیا جاتا اور قوتوں کا اجتماع نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر قومی مرکز قائم کرنا ضروری ہو تو وہ مرکز کہاں ہو اور ہماری قوتوں کے جمع کرنے کے لیے کون سی جگہ موزوں ہو گی۔ یہ تمام ہندوستان کی کانفرنس ہے اور اس میں ہر شخص کو برابر کا حق حاصل ہے۔ پنجاب کے لوگوں کو ایسا ہی حق ہے جیسا کہ یو پی کو۔ سب سے بڑا مرکز قائم کرنے کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ مقام وسط میں ہو۔ اگر کوئی وجہ علیگڑھ میں کالج قائم کرنے کی تھی تو یہی تھی کہ وہ وسط میں ہے۔ اور دوسری جگہ یہ حالت نہیں ہے۔ کیا اتنی طاقت جو یہاں جمع ہو گئی اس کا نامکمل چھوڑ کر دوسری جگہ اتنی طاقت آسانی سے جمع ہو سکتی ہے؟ دوسرے یہ امر قابلِ غور ہے کہ کیا ایک بنی ہوئی دیوار چھوڑ کر دوسری نئی بنیاد ڈالنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے؟ ہم کہتے ہیں کہ توجہ ضرور کرنی چاہیے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ دیوار کمزور بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ یہ بڑا سوال ہے اور اس پر بحث کرنا ابھی قابل از وقت ہے۔ اس وقت اصل بحث یہ ہے کہ مسلمانوں کی منتشرہ قوتوں کا مقامی ضروریات پر توجہ کرنے کی حالت میں کس طرح انضباط کیا جا سکتا ہے۔ اول یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ مقامی ضرورتیں مقدم ہیں۔ جب تک ایک درخت ایسا نہ ہو تو کہ جس کی ایک مضبوط جڑ ہو اور شاخیں اس کی ہر چہار طرف پھیلی ہوئی ہوں تو قوت کا انضباط [کس طرح] ہو سکتاہے؟ لیکن دشواری یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند اپنے خیال میں صرف شاخیں ہی شاخیں قائم کرنا چاہتے ہیں، ان کو جڑ کی فکر نہیں۔ لہٰذا اس خیال کے رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ آبزرور کا مضمون مندرجہ ذیل اقتباس اُس ترجمے سے ہے جو انگریزی اخبار آبزرور کے ایک مضمون سے کر کے خاص طور پر ۲۸ مارچ ۱۹۱۳ء کو کشمیری میگزین [ص۱۱ ] میں شائع کیا گیا اس میں سیاسی جماعتوں کا وہ مغربی تصور موجود ہے جو بعد میں ہم نے اپنایا اور جو ہماری بعض مشکلات کا سبب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ اجتماعی خودی سے مطابقت نہیں رکھتا۔معلوم نہیں کتنے لوگوں نے خاص طور پر اِس مضمون کا اثر لیا مگر یہ اُس سوچ کی نمایندگی ضرور کرتا ہے جو بالکل ابتدائی دَور میں ہمارے یہاں اس مسئلے پر پیدا ہوئی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی جماعتوں کو رواج دینے کے لیے کیا دلائل اور مقاصد ہمارے ذہنوں میں موجود تھے۔ متن کا ماخذ کشمیری میگزین کا شمارہ ہے جو اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں موجود ہے۔ مسلمانوں میں پولیٹکل دھڑہ بندیوں کو رواج دینے کی ضرورت انگریزی اخبارات اور انگریزی پبلک کی طرح اسلامی پبلک اور اسلامی اخبارات میں بھی الگ الگ پارٹیوں کی ضرورت ہے۔ ہر فرقہ کا الگ الگ لیڈر اور اخبار ہونا چاہیے (ابزرور سے خاص اخبار کشمیری کے لیے ترجمہ کیا گیا) جو لوگ مسلمان پبلک کی رائے کے قائم مقام ہیں اور چونکہ ان میں سے بعض اپنے موجودہ لیڈروں سے مطمئن نہیں ہیںاور معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیڈروں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی حالانکہ یہ تبدیلی شاید عنقریب زمانے میں ظہورپذیر نہ ہو، اس لیے مناسب ہے کہ اس معاملے کے متعلق چند امور بطور مشورہ تجاویز پیش کیے جائیں۔ لیڈر کس قسم کے ہونے چاہئیں: سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ سب سے بہتر لیڈر وہی ہو سکتا ہے جسے افرادِ قوم میں مجلسی اور دماغی فضیلت حاصل ہو اور جس کے کیرکٹر میں صداقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ جو ہر وقت اور ہر موقع پر قوم کی سچی آواز کو ظاہر کرے یا کم از کم قوم کے کسی خاص معتدبہ حصے کی آواز کو۔ یہ لیڈر اپنا طرزِ عمل کچھ اس قسم کا رکھے کہ اس کے معتقدوں کو اس کی ذات پر پورا پورا اعتماد ہو۔ اگرچہ[کذا] اپنے قول و فعل سے اپنے اثرزیر حلقے میں اپنی ذات کی نسبت اعتماد و اعتبار پیدا نہیں کر سکتا تو وہ قدرتاً اس کے زیراثر نہیں رہ سکتا۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ ہیں، لیڈر اپنے نمایندوں کا ایک فرمانبردار غلام ہو۔ وہ ایک خودمختار بادشاہ کے لباس میں رہے جو ظاہرداری کی بادشاہت رکھتا اور اپنی جماعت کے اشاروں پر چلتا ہو۔ اس کی طاقت کا انحصار ہی اس کی فرمانبرداری پر ہو۔ مختصر یہ ہے کہ لیڈر کی یہ تعریف ایسی تعریف ہے جس پر انگلی رکھنے کی گنجایش نہیں اور اہلِ فرانس نے اپنی اعلیٰ طباعی سے لیڈر کی جو تعریف بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ میں لیڈر ہوں اس لیے مجھے لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ کن لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے: لیکن عملی پالیٹکس کے بعد اس تعریف کے متعلق یہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ لیڈر کو کن لوگوں کی رائے کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ مسلمانوں کی قوم کئی فرقوں اور شاخوں میں منقسم ہے اور مسلمان اخبارات ہی کئی اقسام کے ہیں۔ مسلمانوں کی بہت سی پبلک انجمنیں بہت ہی بری حد تک ناموزونیت ظاہر کرتی ہیں۔ وہ ہم آہنگ نہیں۔ ان کے مقاصد میں یکرنگی نہیں۔ اس لیے مسلمان پبلک اپنے لیڈروں اور اپنی انجمنوں پر تہمتیں لگاتی ہیں اور لیڈر اور انجمنیں پبلک پر اور ایک دوسرے پر اتہامات لگانے کی جدوجہد اس زورشور سے جاری ہے کہ اس سے ان لوگوں کو بھی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے جن کا ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔ اس لیے ایک عجیب سوال پیدا ہوتا ہے کہ لیڈروں کو یہ علم نہیں کہ وہ کن لوگوں کی آواز کی پیروی کریں اور قوم کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کن لیڈروں پر حکومت کرے۔ اسلام میں پہلی قابلِ غور بات: لیڈری اور پیروی کی جو خصوصیات ہیں ان کے اعتبار سے مسلمانوں کی قوم دنیا میں نہایت پیچیدہ نظام رکھتی ہے۔ اسلام کے متعلق سب سے پہلے قابلِ غور یہ بات ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے حلقے میں داخل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی قوم میں مختلف اقسام کے افراد اور مختلف اقوام کے عناصر شامل ہیں۔اور یہ کہ مسلمانوں کے نصب العین جدا جدا قسم کے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی زندگی کے اصول جو مجلسی اور سیاسی کَل کو چلاتے ہیں، ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اسلام میں دوسری قابلِ غور بات: دوسری قابلِ غور بات اسلام کے متعلق یہ ہے کہ مسلمانوں کا نہ صرف ایمان ہے بلکہ وہ اس کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زندگی کے تمام اصول اور امور گویا اُن کے مذہب کے اصول اور امور ہیں۔ اس لیے ان کا لیڈر ایسا شخص ہونا چاہیے جو دینیات اور مذہب کا بھی فاضل ہو۔ اس کے علاوہ ایک زبردست سالار، ایک دوربیں مدبر ہو۔ اور اُس میں اسی قسم کی اور صفات بھی ہوں۔ مگر معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ توقع کی جاتی ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذاتی حیثیت سے ایک زاہد ہو۔ گویا ان صفات کا مجموعہ ہو مگر انسان ضعیف البنیان ہے اور دنیا اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ وہ لوگوں سے اپنے اصول کو عملی صورت میں لانے کا مطالبہ نرمی سختی سے کرتی کرتی ہے۔ مغربی طرز کی دھڑہ بندی کو رواج دیا جائے: اُس زمانے میں بھی جو اسلام کی سادگی کا زمانہ تھا، خلیفہ اول کے تین جانشینوں کی زندگیاں قاتلوں کے خون آشام خنجر کی نذر ہوئی تھیں۔ اور منطقی نقطہ خیال سے وہ تمام اصحاب جو مسلمانوں جیسی مختلف الفعل اور مختلف الاقوام جماعت کی لیڈری کا خیال یا خواہش رکھتے ہیں ان کو اس امر کے لیے بھی آمادہ رہنا چاہیے کہ افرادِ قوم کی طرف سے ان کی بڑی سختی اور شد و مد کے ساتھ مخالفت کی جائے گی۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ قوم میں صدیوں سے مختلف اقسام کے مجلسی دستورات اور مختلف اقسام کے مسائل دینیات کا دَور دَورہ رہا ہے۔ اس لیے لیڈری اور پیروی کے سوائے ایک اور صرف ہی حل ہے۔ وہ یہ کہ ہمیں پولیٹکل اغراض کے لیے قوم میں مغربی طرز کی دھڑہ بندی کو رواج دینا چاہیے۔ مسلمانوں کی کئی پارٹیاں بنائی جائیں: مغربی طرز کی دھڑہ بندی ہندوستانی مسلمانوں میں ضرور رواج پا جائے گی۔ لیکن اگر ہم اسے اسی وقت قصداً رواج دیں تو بہت سی خلش اور کوفت دُور ہو جائے گی۔ اور یہ کہ وہ قوم کی طاقت کو ایک بہت بڑی حد تک اپنے اندر جذب کرے گی۔ زمانہ اپنے زبردست ہاتھ سے جس بات کو ہماری قوم میں داخل کر رہا ہے، یہ گویا اس کا ایک عاقلانہ اور پیش از وقت احساس ہو گا۔ اس میں کلام نہیں کہ گذشتہ چند سال سے مسلمانوں میں پولیٹکل خیالات کا افتراق نمایاں طور سے ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اور یہ کہ پولیٹکل خیالات کے اعتبار سے ہندوستانی مسلمانوں کی قوم میں جدا جدا فرقے بن رہے ہیں جو موجودہ زمانے کے پبلک اور پولیٹکل معاملات پر ایسی رائیں اور خیالات رکھتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد نہیں، اس لیے آؤ اب ہم مسلمانوں میں سے ایک لبرل مسلم پارٹی، ایک کنسرویٹیو مسلم پارٹی، ایک ریڈیکل مسلم پارٹی بنائیں۔ ہر پارٹی کا پروگرام خاص قسم کا ہو: ان میں سے ہر ایک پارٹی کا پروگرام ایک خاص قسم کا اور دوسری پارٹی سے مختلف ہونا چاہیے اور یہ کہ ہر پارٹی کا انتظامیہ نظام نہایت باقاعدہ ہو۔ ایسی حالت میں ہماری قوم کے ان لوگوں کو جو مسٹر اسکویتھ یا مسٹر بونرلا کی سی حیثیت اور شخصیت یا حیات رکھتے ہیں یہ موقع ہی نہ ملے گا کہ وہ بھی قوم کے ترجمان یا قائم مقام بن سکیں۔ بلکہ وہ اپنی اپنی پارٹی کے بعد اور اس کے قرار دیے ہوئے اصولوں کو تکمیل کرنے والے ہوں گے۔ دھڑہ بندی کا فائدہ: بدیں وقت مسلمانوں کا ہر ایک لیڈر اپنے اصولوں سے تمیز کیا جائے گا۔ مسلم اخبارات کو بھی اپنے ذاتی عناد سے مخلصی مل جائے گی اور قوم میں نام نہاد لیڈروں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مسلم اخبارات کو اس ضرر رساں سخاوت [کذا: عداوت؟]سے بھی چھٹکارا نصیب ہو جائے گا جسے وہ اس وقت عزت کی خاطر نہیں بلکہ روپیہ کی غرض سے لیڈرانِ قوم کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اس وقت تو ہر اسلامی اخبار تمام قوم کی طرف سے وکالت کرنے کا دعویدار ہے اور اس کے اس میلان کو روکنے کی کوئی تدبیر نہیں ہے لیکن جب مسلمانانِ ہند میں مغربی طرز کی دھڑہ بندی کو رواج ہو جائے گا تو ہر اخبار کے لیے ایک خاص نشان اور خاص کام بھی مخصوص ہو سکے گا۔ اس کا جس پارٹی سے تعلق ہو گا وہ اس پر کافی نگرانی رکھ سکے گی۔ ورنہ اس اخبار کا پولیٹکل طور پر کوئی اثر یا رسوخ نہیں ہو گا۔ ضمیمہ۳ تبصرہ فلسفۂ عجم اصل انگریزی متن نومبر ۱۹۰۸ء کے واقعات میں درج ہے۔ ترجمہ ضمیمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اتھینیم شمارہ ۴۲۲۹، نومبر ۱۴، ۱۹۰۸، ص ۶۰۲-۶۰۱ ایران میں مابعدالطبعیات کا ارتقا از شیخ محمد اقبال (لوزاک اینڈ کمپنی) یہ مختصر جلد ایک ایسے ہندوستانی اہل ِ علم کا کام ہے جس نے کیمبرج اور میونخ میں فلسفہ پڑھا ہے اور ان دونوں یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔ نہ صرف اس کا مطالعہ وسیع اور اُسے موضوع پر عبور حاصل ہے بلکہ وہ تنقید کے مغربی طریقوں سے بھی واقف ہے اور انہیں استعمال بھی کیا ہے جو عام طور پر اعلیٰ ترین مشرقی ذہنوں پر بھی کوئی گہرا اثر مرتب نہیں کرتے۔نتیجے میں اُس نے ایرانی مابعد الطبعیات کی ایک تاریخ کا ایسا خاکہ پیش کیا ہے جو سچ مچ مفید ہے۔ ناگزیر طور پر ناہموار اور نامکمل ہے مگر صحیح اصولوں پر استوار ہے اور جو کچھ اس میں ہے اُس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میدان میں کام کرنے والے اتنے تھوڑے ہیں کہ زیادہ تر خود ہی تحقیق کرنا پڑتی ہے۔ یورپ کی عظیم لائبریریوں میں محفوظ بیشمار مسودات سے مواد اکٹھا کرنا پڑتا ہے اور صرف طویل اور تھکا دینے والی تحقیق کے بعد ہی نئی تشکیل کی کوئی کوشش کی جا سکتی ہے۔ تخیل کے جس وسیع میدان کا احاطہ کیا گیا ہے - زرتشت اور مانی سے جدید بابیت تک - اُس کی وجہ سے کتاب پر تفصیل سے تبصرہ کرنا ناممکن ہے۔ قدرتی طور پر ایسے نکات بھی ہیں جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تصوف کی ابتدا پر بحث کرتے ہوئے مصنف اس موضوع کو پچھلی تحقیقات سے زیادہ سائنٹفک انداز میں برتنے کا دعویٰ کرتا ہے:- ’’لگتا ہے انہوں نے یہ اصول پوری طرح نظرانداز کر دیا کہ کسی قوم کے فکری ارتقا کے کسی مظہر کو صرف اُن پہلے سے موجود فکری، سیاسی اور معاشرتی حالات کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے جو اُس کے وجود میں آنے کا تنہا سبب ہوتے ہیں۔ وان کریمر اور ڈوزی عجمی تصوف کو ہندوستانی ویداَنت سے اخذ کرتے ہیں، مرکس اور نکلسن صاحب اسے نوافلاطونیت سے اخذ کرتے ہیں جبکہ پروفیسر براؤن کبھی اسے ایک غیرجذباتی سامی مذہب کے خلاف آریائی ردِ عمل قرار دیتے تھے۔ تاہم مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ نظریات سبب اور اسباب کے درمیان تعلق کے بارے میں ایک ایسے مفروضے کے تحت قائم کیے گئے ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ یہ بات کہ ایک معین مقدار’’ الف‘‘ کسی دوسری معین مقدار ’’ب‘‘ کا سبب ہے یا اُسے پیدا کرتی ہے ایک ایسی تجویز ہے جو اگرچہ سائنسی تقاضوں کو پورا کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہو مگر تمام تحقیق کو غارت کر سکتی ہے، اِس اعتبار سے کہ یہ ہم سے کسی بھی مظہر کے پیچھے موجود بیشمار حالات کو نظرانداز کروا دیتی ہے۔‘‘ ہمیں یقین ہے کہ اس اقتباس میں جن اصحابِ علم کا نام لیا گیا وہ اس بات کو اتنی ہی فراخ دلی سے مانتے ہیں جتنا کہ خود شیخ [اقبال] کہ تمام روحانی اور فکری تحریکوں کی طرح تصوف بھی حتمی طور پر ایک خاص ماحول کی پیداوار تھا جس کی کیفیت اسلام کے ہر طالب علم کو معلوم ہے۔ اس پر اُن کے زور نہ دینے کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ شیخ جن حالات کی بات کرتے ہیں وہ آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلام میں تصوف کے ظہور کی وضاحت کرنے میں ہمیں مدد دیتی ہیںاور بس۔ہم ان عمومی حالات کا تجزیہ کر کے یہ کبھی نہیں جان سکتے کہ کس لیے صوفیانہ رجحان نے ایک مخصوص شکل اختیار کی یا وہ مخصوص نظریات کیسے پیدا ہوئے جو ابتدائی تصوف میں ہمیں ملتے ہیں۔ چنانچہ اس میں کوئی حیرت نہ ہونی چاہیے کہ یورپی مستشرقین نے تحقیق کے لیے ایک زیادہ مفید راستہ منتخب کیا جس نے تصوف کی نشو و نما پر دوسرے مذاہب کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔ جو تصوف کو نوافلاطونیت سے اخذ کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ ابتدائی صوفیوں نے اپنے رہنما تصورات اُس ماخذ سے لیے۔ لیکن اگر یہ صوفیا ٔیونانی فلسفے سے ناواقف ہوتے تب بھی اسی قسم کا تصوف تخلیق کر لیتے۔ یہ سمجھنا کہ تصوف غیرملکی اثرات سے پیدا ہوا اتنی بے تکی بات ہے کہ اس کی تردید کرنے میں بھی کوئی ندرت نہیں خواہ کتنے ہی سائنٹفک انداز میں کی جائے۔ اس مسئلے پر مصنف کے خیالات کے بارے میں ہم نے تفصیل سے بات کی ہے کیونکہ یہ اُس کے قابل ِستایش جائزے میں ایک کمزور کڑی کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ تاریخ کے معاملے میں کچا ہے اور اس بات کو نظرانداز کرنے کا رجحان رکھتا ہے کہ کوئی بھی نظریہ زیادہ قائل کرتا ہے اگر تمام متعلقہ حقائق سے نمٹ لے۔ تاہم موجودہ تصنیف بنیادی طور پر عجمی فکر کے مختلف نظاموں اور ان کے باہمی تعلقات کو واضح کرنے پر توجہ دیتی ہے۔ کوئی اس موضوع سے ذرا بھی واقف ہو تواُن دشواریوں کا اندازہ کر لے گاجو مصنف کی اس کوشش سے وابستہ تھیں کہ دو سو سے کم صفحات میں ان لطیف اور پیچیدہ مسائل کا مربوط بیان پیش کرے جو ایک ہزار برس میں ایک ایسی نسل کی سوچ کا محور رہے ہیںجو ہمیشہ اپنی مابعد الطبعیاتی فکر کے لیے ممتاز رہی ہے۔ مزید برآں اپنے سفر کے زیادہ تر حصے میں مسافر اپنے آپ کو ایسی زمین پر پاتا ہے جہاں پہلے کسی کے قدم نہیں آئے اور جسے وہ کسی رہنما کے بغیر ہی دریافت اور واضح کرنے پر مجبور ہوتا ہے، جس قدر کر سکے۔ شیخ اقبال نے جو کام کیا ہے اُس پر بڑی تعریف کے مستحق ہیں۔ ان کی محنت کا فوری حاصل قابل ِ اعتنا ہے اور انہوں نے مزید تحقیق کے لیے ٹھوس بنیاد رکھ دی ہے۔ کتاب کے سب سے زیادہ قابل ِ ذکر حصے غالباً وہ ہیں جو حکمت ِاشراق یعنی ’’فلسفہ ٔتنویر‘‘ کو بیان کرتے ہیں جسے مشہور مفکر شہاب الدین سہروردی نے پیش کیا جنہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ایک بیٹے ملک الظاہر نے ملحدانہ خیالات رکھنے کے الزام میں سزائے موت دی تھی یا ’’انسانِ کامل‘‘ کو جس کے مفکر الجیلی کا نظام بعض نکات میں ایک عجیب طور پر ہیگل اور شلائرماخر کے خیالات کی پیش بینی کرتا ہے۔ ہمیں مشرقی ناموں کے چند غلط ہجے ملے ہیں اور ایک دو ایسے بیانات بھی جن پر ہم اعتراض کرنا پسند کریں گے مگر مصنف کی قابلیت اور اس کے کام کی اہمیت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پہلی کتاب کے بعد (برسبیل ِ تذکرہ جس کا انتساب پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کے نام ہے) جلد ہی اسی قلم سے ایک زیادہ مفصل کتاب بھی آئے گی۔ حاشیے باب ۱: نیا مندر جنوری سے جولائی ۱۹۰۵ء تک ۱۔ علامہ اقبال کا مضمون ’قومی زندگی‘، عبدالواحد معینی اور عبداللہ قریشی (۱۹۶۳) میں شامل ہے اگرچہ وہاں پورے مضمون پر مخزن اکتوبر ۱۹۰۴ء کا حوالہ ہے جو غلط ہے۔ مضمون دو اقساط میں تھا جنہیں یکجا کر دیا گیا ہے۔ پہلی قسط اکتوبر ۱۹۰۴ء اور دوسری مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُردو میں قوم کا لفظ کئی معانی میں استعمال ہوتا تھا اور ایک عرصے تک علامہ بھی اِسے کم سے کم تین مختلف معانی میں استعمال کرتے رہے: (۱) برادری، جیسے لاہور کے کشمیری مسلمان(۱۸۹۶ء کی ابتدائی نظموں سے لے کر ۱۹۰۹ء کے اخباری مراسلے تک قوم کے یہ معانی نظر آتے ہیں)۔ (۲) وطن اور نسل، جیسا کہ علامہ کے ایک متروک قطعے کے مصرعے میں مذہب کے بارے میں لکھا ہے: ’’رنگِ قومیت مگر اِس سے بدل سکتا نہیں۔‘‘ (۳) ہم مذیب، جیسے مسلمان قوم۔ بعد میں سمجھا گیا کہ علامہ نے یہ معانی یورپ میں قیام کے دوران تلاش کیے مگرمضمون ’قومی زندگی‘ میں یہ معانی ۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۵ء ہی میں موجود تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ محاورتاً قوم کو جتنے بھی معانی میں استعمال کرتے ہوں مگرشروع ہی سے دین کی بنیاد پر مسلمان قوم کی شناخت کے قائل تھے۔ جیلانی کامران (۱۹۷۷)، بالخصوص باب ۲ ’بیسویں صدی کی دو شعری آوازیں‘ بہت قابلِ غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’اس امر سے بہت کم اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ وطن کا جغرافیائی تصور، برصغیر میں پہلے سے کسی طور موجود نہ تھا۔۔۔‘‘ص۳۴ ۲۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۸۸-۸۷ ۳۔ یہ محلہ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں برباد ہو گیا۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) میں خواجہ عبدالوحید کی روایت۔ ۴۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۱۸۴ ۵۔ علم الاقتصاد پر مولانا ظفر علی خاں کا تبصرہ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۲۴۱-۲۴۰ پر نقل کیا گیا ہے۔ ۶۔ برصغیر میں مسلم قومیت کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ پہلا نقطۂ نظر جو سر سید احمد خاں اوربعد میں آنے والے اُن تمام عوام و خواص کا ہے جن کا رجحان ’’اجتماعی رائے‘‘ کی طرف رہا، یہ ہے کہ ہندوستان کو جدید یورپ کی علاقائی ریاستوں جیسا ایک وطن سمجھنا ایک نیا تصور تھا جسے انیسویں صدی کے نصف آخر میں بالخصوص کانگریس نے پیش کیا۔ دُوسرا نقطۂ نظر جو کانگریس، بعض یورپی مستشرقین اور قدامت پسند علمأ سمیت اُن مسلمان خواص و عوام کا ہے جن کا رجحان ’’اجتماعی رائے‘‘ کے خلاف تھا، یہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے اُسی طرح کا ایک وطن تھا جیسے جدید یورپ کی علاقائی ریاستیں تھیں۔ ان لوگوں کے نزدیک مسلم قومیت ایک نیا تصور تھا جسے سرسید نے رواج دینے کی کوشش کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس معاملے میں اقبال ہمیشہ سے سرسید والے نظریے کے حامل تھے اگرچہ شروع میں سمجھتے تھے کہ نئے دور کے تقاضوں کے پیش نظر ہندوستان کو ایک متحد وطن بنانا اور مختلف مذاہب کو قائم رکھتے ہوئے ایک متحدہ قومیت تشکیل دینے کا کام شروع کر دینا چاہیے (دیکھیے اقبال: ابتدائی دور، مثلاً مخزن کے اکتوبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں جہاں ’ترانۂ ہندی شائع ہوا اُسی شمارے میں مضمون ’قومی زندگی‘ کی پہلی قسط میں قوم سے مراد ہندوستان میں رہنے والے مسلمان تھے نہ کہ تمام ہندوستانی)۔ ۷۔ نذیر نیازی (۱۹۷۹)، ص۱۰۰ ۸۔ اِس نظم کا ماخذ روزگارِ فقیرہے جہاں یہ چھ اشعار کا ترکیب بند ہے۔ عنوان موجود نہیں۔ گیان چند کا خیال ہے کہ یہ وطن پرست نظموں کے دَور میں لکھی گئی ہوگی۔ ۹۔ شبلی کے داغ کی محافلِ نشاط میں شامل ہونے کا بیان ایس ایم اکرام (۱۹۹۲) سے ماخوذ ہے۔ ۱۰۔ اجمل خاں نیازی، ڈاکٹر محمد (۱۹۹۰) ص۶۹-۶۸ ۱۱۔ ۱۹۲۳ء کے بعد ہمارے یہاں محمد حسین آزاد پر جو تنقید ہوئی میرے خیال میں اُس کا ایک حصہ کچھ پیچیدہ غلط فہمیوں پر مبنی ہے، مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی نے آزاد کو تہذیبی شعور سے بے بہرہ بتایا ہے۔ ممکن ہے یہ خیال اُنہیں ڈاکٹر اسلم فرخی کے مقالے کو پڑھ کر پیدا ہوا ہو جو نہایت گرانقدر دستاویزہے مگر جس میں آزاد کی تاریخ نگاری کو اس وجہ سے ناپختہ بتایا گیا کیونکہ پچاس برس بعد آنے والے ٹوائن بی کے تصورات کے مطابق نہ تھی حالانکہ جدید تاریخ، بالخصوص مشرق کے بارے میں ٹوائن بی کی اپنی معلومات میں اس قسم کے خلا واقع تھے کہ یہ حضرت ۱۹۷۳ء تک علامہ اقبال کے افکار سے بھی واقف نہ تھے۔ فاروقی نے آزاد پر وکٹورین مفکرین کی زلہ ربائی کا الزام بھی لگایا ہے جو صرف بیخبری کا نتیجہ ہو سکتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ایک اور جگہ فاروقی نے ضرب کلیم کی نظم’مقصود‘ کو غلط پڑھ کر علامہ اقبال کو افلاطون کا ہم خیال اور مداح سمجھا (!)۔ ایسے نامور نقادوں سے ایسی فروگذاشتیں سرزد ہونا بجائے خود ایک سبق آموز تجزیے کا موضوع بن سکتا ہے۔ ۱۲۔ اپریل ۱۹۰۵ء کے مخزن میں یہ مرثیہ شائع ہوا چنانچہ مارچ ہی میں لکھا گیا ہو گا۔ ۱۳۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۰ اور ۱۸۳ ۱۴۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۰ اور ۱۸۴ ۱۵۔ غلام رسول مہرؔ نے روزنامچے میں لکھا کہ ۶ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو اقبال نے انہیں یہ واقعہ سنایا۔ امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص ۲۶۰ ۱۶۔ زمانہ کانپورمیں ’تنقید علم الاقتصاد‘ ۔ یہ مضمون تحسین فراقی (۱۹۹۲)، ص ۳۹۶-۳۷۳ میں شامل ہے۔ ۱۷۔ یہ نظم بانگِ درا میں شامل نہیں کی گئی۔ چونکہ گیان چند (۱۹۸۷) میں بھی کسی وجہ سے نظرانداز ہو گئی ہے لہٰذا باقیاتِ اقبال میں سے یہاں نقل کی جاتی ہے۔ ابر نمودِ ابر سے ہشیار ہو گیا سبزہ اِسی کے ہجر میں گویا اُداس تھا سبزہ ہوا کے نم سے ہوئی نرم سرو کی ٹہنی جو آ کے فاختہ بیٹھی تو جھک گئی ٹہنی ہلا رہی ہے سرِ شاخ گل کو موجِ ہوا بنا ہے باغ میں بلبل کے واسطے جھُولا نشیمنوں سے نکل کر پرند گاتے ہیں ہوا سے کھیلتے پھرتے ہیں چہچہاتے ہیں مری نگاہ میں پھرتا ہے اور ہی نقشا جو دیکھتا ہوں خرامِ سکوں نما اُن کا کھڑے ہیں محفلِ قدرت کو دیکھنے والے کسان کھیتوں سے اُٹھ اُٹھ کے جھونپڑوں کو چلے جفا کشی کا خضر کہیے ان کسانوں کو یہ سبز کرتے ہیں کہسار کی چٹانوں کو ۱۸۔ عبدالرؤف عروج (۱۹۸۸) باب ۲: شمع کے سامنے اگست ۱۹۰۵ء ۱۔ عبدالکریم الجیلی چودھویں صدی کے مفکر تھے جن کی کتاب الانسان الاکامل عام طور پر ابن عربی کی فکر کی آزاد تشریح سمجھی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے ایم اے کرنے کے بعد سب سے پہلے اسی کتاب کو تحقیق کا موضوع بنایا اور ۱۹۰۰ء میں اس کے بارے میں تحقیقی مقالہ شائع کروایا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے اقبال: ابتدائی دَور ۲۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۸/۱۹۷۱)، ص۶۱ [طبع اول و دوم، ص۸۳]۔ یہ روایت علامہ اقبال کے خاندان میں مشہور ہے۔ ۳۔ مخزن، ستمبر ۱۹۰۵ئ، ص۴۹ پر شائع ہوئی جہاں آخری دونوں اشعار ٹیپ کے شعروں کی طرح لکھے گئے۔ بانگِ درا میں شامل کرتے ہوئے ایک مصرع میں ترمیم ہوئی۔ ۴۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص ۱۳۴ پر ڈاکٹر سعید اللہ کا بیان ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال سے سنا۔ ۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۵۸ ۶۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۶۰-۱۵۷۔ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق ان کتابوں کی تعداد تئیس تھی اور انہوں نے بعد میں یہ کتابیں نیشنل میوزیم کراچی کی تحویل میں دے دیں۔ اعجاز احمد نے اپنی کتاب میں ان کی فہرست بھی درج کی ہے: 1. R.A.Wilmot (1857): The Poets of the Nineteenth Century 2. Wordsworth (1885): Ode To Immortality 3. The Poetical Works of Longfellow (1882) 4. E. Myers (tr. 2nd Edition, 1884) The Extant Odes of Pindar 5. E. K. Chambers: English Pastorals 6. O. Smeaton: English Satires 7. W. C. Lawton (1898):The New English Poets 9. Mrs. S. Orr (7th Edition, 1896): A Handbook to the Works of Robert Browning 10. E. H. Plamptre (1878): The Tragedies of Sophocles 11. E. H. Plamptre (1881): The Tragedies of Aeschylos 12-13. The Poetical Works of Lord Houghton (Two Volumes; 1876) 14. Sir Edwin Arnold (1897): The Light of Asia, Or the Great Renunciation - being the life and teachings of Gautama as told in verse by an Indian Buddhist 15. The Poetical Works of James Beattie & The Poems and Plays of Oliver Goldsmith 16. S. Colvin (1883): Selections From Walter Savage Landor 17. John Keats: The Eve of St. Agnes 18. Elizabeth B. Browning: Sonnets From the Portugese 19. E. S. Haldane (1897): The Wisdom and Religion of a German Philosopher - being selections from the writings of G. W. F. Hegal 20. T. W. Rhys David (1886): Buddhism - being a sketch of the Life and Teachings of Gautama, the Buddha 21. Dean Church (1874): The Sacred Poetry of Early Religions: Two Lectures on (1) the Vedas and (2) the Psalms 22. H. L. Sidney Lear (tr.): A Selection from Pascal's Thoughts 23. T. W. Arnold (tr. from Italian): The Little Flowers of Saint Francis اِس فہرست کی آخری پانچ کتابیں ٹامس آرنلڈ کبھی ٹامس آرنلڈ کی ملکیت رہی تھیں اور اُنہوں نے علامہ اقبال کو دی تھیں۔ آخری کتاب کے مترجم خود آرنلڈ تھے۔ ۷۔ منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) کے مطابق نعیم الرحمان نے جو علامہ اقبال کے شاگرد تھے اپنے بانگِ درا کے نسخے میں ’کنارِ راوی‘ کے حاشیے میں لکھا تھا: ’’ایک شام کو راوی کے کنارے پر احباب کے ایک جلسے میں میں نظارے سے متاثر ہو کر کہی گئی۔‘‘ ۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)۔ ص۱۰۲۔ مرزا جلال الدین کی روایت ۹۔ یہ بات اُس سفرنامے سے معلوم ہوتی ہے جو خط کی صورت لکھ کر انشأ اللہ خاں کو بھیجا اور اخبار وطن میں شائع ہوا۔ اگلے باب میں اس کے بہت سے اقتباسات شامل ہیں۔ ۱۰۔ رفیع الدین ہاشمی وغیرہم (۲۰۰۲)، ص۱۰۔ نیرنگ کا مضمون ’اقبال کے بعض حالات‘ (اکتوبر ۱۹۵۷ء میں بزمِ اقبال لاہور کے مجلے اقبال میں شائع ہوا تھا)۔ باب ۳: سمندر ستمبر ۱۹۰۵ء ۱۔ نیرنگ کا مضمون ’اقبال کے بعض حالات‘ ۔بزمِ اقبال لاہور کا مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ، ص۱۱تا ۱۳ ۲۔ اِس باب میںعلامہ اقبال کے بیانات روزنامہ وطن کے اڈیٹر مولوی انشأ اللہ خاں کے نام مکتوبات ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ء سے لیے گئے ہیں۔ یہ دراصل علامہ کا سفرنامہ تھا۔ ۳۔ یہ امیر خسرو کی غزل کا مطلع ہے جس پر علامہ اقبال نے بعد میں غزل کہی۔ زبورِ عجم میں علامہ کی غزل کا مطلع ہے: دوعالم را تواں دیدن بمینائے کہ من دارم کجا چشمے کہ بیند آں تماشائے کہ من دارم یعنی دونوں جہاں جس میں دیکھے جا سکیں وہ صراحی میرے پاس ہے مگر وہ نگاہ کہاں ہے جو ایسا تماشا دیکھنا چاہے۔ ۴۔ The best worship, however, is stout working (In a letter to his wife) ۵۔علامہ اقبال اور عطیہ فیضٰی کی ابتدائی گفتگو میں بھی اس کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ ۶۔ مسدس حالی کے مشہور اشعار سے ماخوذ ہے: کہیں حفظِ صحت کے آئیں سکھائے سفر کے کہیں شوق ان کو دلائے مفاد ان کو سوداگری کے سجھائے اصول ان کو فرماں دہی کے بتائے نشاں راہِ منزل کا ایک اک دکھایا بنی نوع کا ان کو رہبر بنایا ہوئی ایسی عادت پہ تعلیم غالب کہ باطل کے شیدا ہوئے حق کے طالب مناقب سے بدلے گئے سب مثالب ہوئے روح سے بہرہ وَر ان کے قالب جسے راج رد کر چکے تھے، وہ پتھر ہوا جاکے آخر کو قائم سرے پر اِن خیالات کا اعادہ نہ صرف نظم ’شکوہ‘ میں بلکہ اُس موقع پر دیے گئے لیکچر میں بھی ہوا۔ دیکھیے مارچ ۱۹۱۱ء کے واقعات۔ ۷۔ اِس سے پہلے نظم ’ابرِ گہربار‘ (۱۹۰۳ئ) میں بھی یہی خیال پیش کیا گیا تھا کہ رسولؐ اللہ کی صورت میں خدا خود اپنے حسن کا خریدار بن کر دنیا میں نمودار ہوا۔ بعد میں جاویدنامہ میں لفظ ’عبدہ‘ ‘کی بحث میں حلاج کی زبان سے یہ بات نسبتاً محتاط انداز میں کہلوائی۔ ۸۔ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی یہ سطور گویا ثبوت ہیں اُس بات کا جو علامہ اقبال نے تیرہ برس بعد ’رموزِ بیخودی‘ (۱۹۱۸) کے آخر میں حضور رسالت مابؐکی خدمت میں عرض کی [ترجمہ]: جب سے اِس دنیا میں آیا ہوں، ایک اور ہی آرزو کی پرورش کر رہا ہوں۔ جس دن اپنے والد سے آپؐ کا نام سیکھا، اس آرزو کی آگ کو بھڑکاتا ہی جا رہا ہوں۔ یہ تمنا میری مٹی میں دبا ہوا گوہر ہے، میری رات میں ایک ستارے کی روشنی ہے۔ بجلیاں میرے خرمن کے گرد رقص کر رہی تھیں اور رہزنوں کا لشکر میرے دل کا اثاثہ لوٹے لیے جا رہا تھا، اُس وقت بھی یہ شراب میری روح کے پیالے سے نہ گری اور یہ خالص سونا میرے دامن ہی میں رہا۔ میں سالہا سال تشکیک میں گرفتار رہا اور فلسفے کی بے یقین دنیا میں پڑا رہا۔ میری تاریکی حق کے نور سے بیگانہ رہی اور میری شام کو شفق کا اُجالا میسر نہ آیا۔ یہ آرزو دل میں تھی تو مگر سوئی ہوئی، موتی کی طرح صدف میں پوشیدہ۔ آخر یہ تمنا میری آنکھ کے پیمانے سے چھلک پڑی اور اس نے میرے باطن میں بے شمار نغمے ایجاد کر دیے۔ اور اب تو یا رسول اللہؐ! میری روح آپؐ کے غیر کے خیال سے خالی ہو چکی ہے، اب اگر اِجازت ہو تو اِس آرزو کو لب پر لے آؤں! میری زندگی عمل سے خالی تھی، اس لیے میں اس تمنا کے لائق نہ تھا۔ مجھے اس وقت بھی اس کے اظہار سے شرم آ رہی ہے لیکن آپؐ کی شفقت میرا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ساری دنیا آپؐ کے سایۂ رحمت میں ہے، میری آرزو ہے کہ مجھے حجاز میں مرنا نصیب ہو۔ اگر میری مٹی آپؐ کے در سے اُٹھے تو آہ میرا حال اور واہ میرا مستقبل! ۹۔ مکتوب کے آخر میں تحریر ہے: مورخہ ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ئ، عدن۔ ۱۰۔ یہ غزل پہلے دکن ریویو اور پھر اخباروطن میں شائع ہوئی۔ کلیم ؑوالا شعر اُن اشعار میں سے تھا جن کی وجہ سے ۱۹۲۵ء میں اقبال پر کفر کا فتویٰ لگا۔ ۱۱۔ مکتوب بنام نگم مارچ ۱۹۰۶ء ۱۲ خورشید کمال عزیز[کے کے عزیز] (وہ حوادث آشنا)، ص ۵۹اور ۶۶۔ ۱۳۔ شیخ عبدالعزیز کے بیٹے خورشید کمال عزیز (کے کے عزیز) کی روایت ہے جو اُنہوں نے اپنے والد صاحب کی سوانح وہ حوادث آشنا میں لکھی ہے۔ اُن کے مطابق ستمبر ۱۹۰۴ء میں اُن کے والد لندن آئے تو شہر کے مغربی حصے میں شیپرڈز بش روڈ پر مکان نمبر ۶۹ (69 Shepherd's Bush Road) میں ’’دوسری منزل پر دو کمرے کرایہ پر لیے‘‘ (ص۵۱)۔ غالباً مراد دو خواب گاہیں ہیں، کیونکہ اگلے صفحے پر درج ہے، ’’شروع میں ابا جی نے سامنے کا کمرہ بطور بیٹھک یا نشست گاہ استعمال کیا اور اس سے ملحق دو کمروں کو بالترتیب مطالعہ کرنے اور سونے کے کام لائے۔۔۔ تیسرا کمرہ اتفاق سے خالی تھا۔ جب عبدالقادر پہنچے تو وہ انہوں نے لے لیا۔ غسل خانہ مشترک تھا۔ بعد میں جب اقبال بھی یہاں آگئے تو اباجی نے اپنی مطالعہ گاہ ان کو دے دی اور اپنی کتابیں بیٹھک میں لے آئے۔‘‘ (ص۵۲)۔ ممکن ہے شیخ عبدالقادر، عبدالعزیز کے ساتھ ایک مکان میں ٹھہرے ہوں اور کبھی اقبال بھی وہاں رکے ہوں مگر کے کے عزیز نے جس انداز میں یہ روایت بیان کی ہے اُس کی وجہ سے بعض الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے والد شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے علامہ اقبال کے قیامِ انگلستان کے بارے میں جو روایات بیان کی ہیں اُن میں جھول ہیں جیسے کئی برس بعد بیٹے سے لندن کا ذکر کرتے ہوئے عبدالعزیز صاحب کی یادداشت نے دھوکہ کھایا ہو یا مزید کئی دہائیوں کے بعد بیان کرتے ہوئے کے کے عزیز سے کچھ غلطی ہوئی ہو: (الف) کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال لندن پہنچے تو ’’سیدھے ابا جی والے مکان میں آئے۔ کہنے لگے میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ رہوں گا۔ میرے لیے جگہ بناؤ اور ابا جی کی مطالعہ گاہ پر قابض ہو گئے۔ اب دو دوستوں کے تین ہو گئے۔‘‘ شیخ عبدالعزیز عمر میں علامہ اقبال سے کم از کم سات برس چھوٹے تھے (۲۴ جنوری ۱۸۸۴ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے)۔ اپنے سے کہیں کم عمر نوجوان کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں یہ بے تکلفی ایسی چیز ہے جسے علامہ کی زندگی سے شناسائی رکھنے والا کوئی شخص آسانی سے تسلیم نہیں کر سکتا۔ علامہ ہزار ’’بے عمل‘‘ صحیح مگر جس اُصول پر ساری زندگی سختی سے کاربند رہے وہ قناعت اور کسی کا احسان نہ لینا تھا۔ بالخصوص مکان کے کرایے کے بارے میں کسی کا معمولی احسان بھی برداشت نہ کر سکتے تھے (میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کا کرایہ ذرا زیادہ ہی ادا کرتے رہے اور جب جاویدمنزل میں منتقل ہوئے تو چونکہ اُسے اپنے بیٹے جاوید کے نام لکھوا چکے تھے لہٰذا باقاعدہ کرایہ نامہ طے کر کے ہر ماہ کی اکیس تاریخ کو جاوید کے بینک اکاؤنٹ میں کرایہ جمع کرواتے رہے)۔ اِس کے برعکس کے کے عزیز لکھتے ہیں، ’’اقبال کچھ دیر کے لئے کیمبرج چلے گئے اور بعد میں جرمنی، مگر اپنا کمرہ نہ چھوڑا۔ جتنے دن لندن میں ہوتے یہیں رہتے۔‘‘ اول تو وہ ’’کچھ دیر کے لیے‘‘ نہیں بلکہ ڈیڑھ برس کے لیے کیمبرج گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ اس دوران لندن آتے جاتے رہے مگر اُس کا تذکرہ بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے جس طرح کیا ہے اُس میں رات کے کھانوں پر اکٹھے جانے کا تذکرہ تو ہے مگر لندن میں اکٹھے رہنے کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ شیخ عبدالقادر نے غیرضروری سمجھ کر ذکر نہ کیا ہو تب بھی کے کے عزیز کی یہ بات کیسے مانی جائے کہ علامہ نے کیمبرج اور جرمنی میں قیام کے دوران بھی ’’اپنا کمرہ نہ چھوڑا‘‘ جبکہ ص۵۸ پر خود ہی لکھتے ہیں، ’’۱۹۰۶ء میں یہ تینوں دوست شیپرڈز بش والے مکان کو چھوڑ کر بالکل نزدیک واقع ڈیوہرسٹ (Dewhurst) روڈ پر اٹھ آئے۔ گھر نمبر ۴۰ کرایہ پر لیا۔‘‘ یہاں واقعہ بیان کرنے میں عدم احتیاط نظر آتی ہے کہ جب پہلی دفعہ قاری یہ پڑھے کہ اقبال نے آخر تک ’’اپنا کمرہ نہ چھوڑا‘‘ تو بیشک سمجھ لے کہ شیپرڈز روڈ والے مکان کا کمرہ مراد ہے اور جب آگے چل کر مصنف ڈیوہرسٹ روڈ والے مکان میں منتقل ہونے کا ذکر کریں تو قاری اپنی سمجھ پر خود ہی افسوس کرتے ہوئے نتیجہ نکالے کہ مصنف کا مطلب یہ رہا ہو گا کہ جہاں جہاں بھی مصنف کے والد صاحب اقامت پذیر ہوئے علامہ اُن کے ساتھ ساتھ رہے۔ اول تو ’’اپنا کمرہ نہ چھوڑا‘‘ کے الفاظ یہ معانی نہیں دیتے لیکن اگر یہ مفہوم تسلیم کر بھی لیا جائے تو طرزِ بیان میں عجیب لابالی پن ہے جس کی وجہ سے راوی کا اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ (ب) ڈیوہرسٹ روڈ پر منتقل ہونے کا واقعہ کے کے عزیز نے جس طرح بیان کیا ہے وہ بھی علامہ کے مزاج کے خلاف ہے۔ پچھلے مکان کو چھوڑ کر یہاں منتقل ہونے کی وجہ تو مصنف یہ بتاتے ہیں، ’’۱۹۰۶ء میں ابا جی کو خیال آیا کہ رہائش ایسی جگہ ہونی چاہئے جہاں کوئی مداخلت نہ ہو،‘‘ وغیرہ اور پھر نئے مکان کی تفصیل دے کر یہ بھی ظاہر کر دیتے ہیں کہ اس کی مکانیت پچھلے سے زیادہ تھی اس لیے کرایہ بھی زیادہ رہا ہو گا، لیکن پھر لکھتے ہیں، ’’عبدالقادر اور اقبال نے کہا کہ وہ تو وہی کرایہ دے سکتے ہیں جو وہ پہلے والے مکان میں دیتے تھے۔ ابا جی اس بات پر رضامند ہو گئے اور بقایا تمام کرایہ وہ اپنی جیب سے دیتے۔‘‘ یہ بات علامہ کے مزاج کے خلاف ہے کہ اس قسم کا احسان لینا پسند کریں، وہ بھی ایک ایسے نوجوان سے جو عمر میں اُن کے شاگردوں کے برابرہو اور جس کے ساتھ ہم مزاجی اور ہم خیالی کے امکانات بھی نہ رہے ہوں(بلکہ شواہد اِس کے برعکس ہی ملتے ہیں، مثلاً کے کے عزیز نے خود ہی لکھا ہے کہ ان کے والد صاحب مغربی تہذیب سے کافی مرعوب تھے)۔ (ج) شیپرڈز روڈ والے مکان کی مالکہ کے ساتھ گفتگو کا ایک لطیفہ کے کے عزیز نے بیان کیا ہے۔ اگر اقبال واقعی کبھی اُس مکان میں ٹھہرے تو ممکن ہے کہ اس قسم کی کوئی گفتگو بھی ہوئی ہو مگر کے کے عزیز نے اسے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ اُلجھن پیدا کرتا ہے۔ ص۵۳ پر لکھتے ہیں، ’’ان تینوں کا اکٹھا رہنا مالکہ مکان کے لئے اُس وقت دلچسپی کا موضوع بنا جب اسے پتہ لگا کہ یہ سارے کے سارے ذات کے شیخ ہیں۔ کوئی بھی لفظ ’شیخ‘ کو اپنے نام کے آخری حصہ کے طور پر استعمال نہ کرتا تھا۔ مگر تینوں کے نام اسی لفظ سے شروع ہوتے تھے۔ انگریزوں کی بلا جانے کہ ذات پات اور ان کے نام کیا ہوتے ہیں۔ مالکہ مکان حیرت میں تھی کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ان تین مردوں کے ایک ہی نام ہیں مگر یہ آپس میں رشتہ دار نہیں۔‘‘ اول تو ان تینوں کے نام لفظ شیخ سے ’’شروع ہوتے تھے‘‘ تو پھر حیرت کیوں ہو کہ کوئی بھی اسے نام کے ’’آخری حصہ کے طور پر استعمال نہ کرتا تھا‘‘۔ اس طرح تو مالکہ مکان کو یہ خاندانی ناموں کی بجائے ذاتی نام معلوم ہوئے ہوں گے اور تعجب نہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’ان تین مردوں کے ایک ہی نام ہیں مگر یہ آپس میں رشتہ دار نہیں،‘‘ لیکن اگر بالفرض وہ ان ناموں کو خاندانی نام بھی سمجھ رہی تھی تو خود انگلستان میں یہ کب ضروری تھا کہ ایک ہی خاندانی نام رکھنے والے لازماً آپس میں رشتہ دار بھی ہوں۔ اس کے بعد ص۵۴-۵۳ پر اصل واقعہ بیان ہوا ہے لیکن اس پر قصہ گوئی کا رنگ غالب ہے: ایک دن شیخ عبدالقادر نے اُسے ہندوستانی مسلمانوں کے فلسفہ ذات و برادری پر ایک فصیح لیکچر دیا۔ خدا جانے کتنا سمجھ پائی۔ پوچھنے لگی کہ کیا تم تینوں بھائی ہو یا کزن۔ ان تینوں نے کہا کہ ایسا کوئی سلسلہ نہیں۔ اس کی گھبراہٹ اور سراسیمگی کا مزہ لیتے ہوئے ابا جی نے بات بڑھائی۔ بولے: ’’دیکھئے۔ ہم تینوں شیخ ہیں، مگر ہر ایک یکتا ہے۔ مسٹر قادر قانون گو شیخ ہیں۔ مسٹر اقبال کشمیری شیخ ہیں۔ میں ککے زئی شیخ ہوں۔‘‘ ان رازہائے سربستہ سے پردہ اٹھنے پر خاتون تو پاگل ہو گئی۔ اٹھ کر جانے لگی تو مذاق سے بولی: ’’آپ میرے مکان کے باہر دیوار پر ’شیخ ہاؤس‘ کی تختی نہ لگا لیں۔ آتے جاتے لوگ میری طرح حیران و پریشان ہوں گے۔‘‘ اس پر اقبال چپ نہ رہ سکے۔ بولے: ’’ایک اور دقیق نکتہ آپ کے گوش گذار کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ قانون گو، کشمیری اور ککے زئی، تینوں الفاظ انگریزی زبان میں حرف ’’کے‘‘ (K) سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘ ابھی وہ اِس وار سے سنبھلنے نہ پائی تھی کہہ ابا جی نے گرہ لگائی: ’’اگر اپنے مکان کے لئے ’شیخ ہاؤس‘ آپ کو ناپسند ہے تو ہم تختی پر ’تھری کے ہاؤس‘ (3-K House) لکھوا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی ہندوستانی لفظ یا حرف نہیں۔ ہمسائے برا نہ مانیں گے۔‘‘ تنگ آ کر بولی: "You three devils, you are making fun of me" (تم تینوں شیطان ہو اور میرا مذاق اڑا رہے ہو)۔ اور یہ جا وہ جا۔‘‘ (د) کے کے عزیز نے ص۵۴ پر لکھا ہے کہ ان کے والد صاحب بتایا کرتے تھے، ’’کمرے میں آٹھ دس اصحاب بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے۔ زور سے ہنستے۔ بلند آواز میں لطیفے سناتے۔ ایک ہنگامہ ہوتا۔ یکدم اقبال خاموش ہو جاتے اور آنکھیں بند کر لیتے۔ باقی لوگوں کو اکثر اس تبدیلی کا اور ایک آدمی کے چپ ہو جانے کا احساس بھی نہ ہوتا۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد اقبال کا اس جہانِ فانی میں دوبارہ ورود ہوتا۔ آنکھیں کھولتے۔ ادھر ادھر دیکھتے۔ پھر کہتے کہ کچھ شعر ہوئے ہیں۔ آپ لوگ بھی سنیے۔‘‘ علامہ کی یہ کیفیت اُن کے دوسرے دوستوں مثلاً شیخ عبدالقادر اور مرزا جلال الدین نے بھی تفصیل سے بیان کی ہے البتہ شیخ عزیز کی روایت کے آخری الفاظ جو علامہ سے منسوب ہوئے ہیں وہ علامہ کے نہیں ہو سکتے۔ علامہ اپنے دوستوں اور حاضرینِ مجلس کو اشعار سناتے ہوں گے مگر نجی محفلوں میں جس انداز اور جن الفاظ میں اُن کی تمہید کرتے ہوں گے وہ ’’کچھ اشعار ہوئے ہیں۔ آپ لوگ بھی سنیے‘‘ نہیں ہو سکتے۔ ان جملوں میں ایک طرف حاضرین کی توجہ کچھ ایسے انداز میں مانگی جا رہی ہے کہ جب وہ توجہ کریں گے تو دراصل شاعر پر ایک مہربانی ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ان جملوں میں ذرا علمی رعونت بھی ہے جیسے اِن اشعار کی آمد ایسی اہم چیز تھی کہ حاضرین پر فرض ہو گیا کہ اپنی ساری گفتگو چھوڑ کر اِس کے لیے ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ بعد میں مرزا جلال الدین نے لاہور میں ۱۹۱۱ء کے لگ بھگ اس قسم کی محفلوں کا جو نقشہ کھینچا ہے اُن میں حاضرین خود ہی اپنی دلچسپی کی وجہ سے علامہ کو اور اُن پر ہونے والی آمد کو توجہ دیتے نظر آتے ہیں مگر علامہ کی اپنی طبیعت میں اپنی شاعری کے بارے میں شروع ہی سے مرزا غالب کی ’’نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ والی بے نیازی موجود تھی (مثال کے طور پر دیکھیے وہ مضمون جو شیخ عبدالقادر نے ۱۹۰۲ء میں خدنگِ نظر لکھنؤ میں شایع کروایا اور اقبال: ابتدائی دور ۱۹۰۴ء تک میں اپنے تاریخی مقام پر شامل ہے)۔ (و) کے کے عزیز ص۵-۵۴ پر لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کو فارسی میں شعر کہنے کی ترغیب اُن کے والد نے دی: ایک روز ابا جی نے اقبال سے پوچھا ’’تم نے کبھی فارسی میں شعر کہنے کی کوشش کی ہے؟‘‘ اقبال نے کہا: ’’نہیں۔ فارسی بخوبی جانتا ہوں۔ مگر اس میں شاعری کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا۔‘‘ ابا جی نے مشورہ دیا: ’’فارسی زبان بے حد امیر ہے۔ الفاظ اور ترکیبوں کا خزانہ ہے۔ ہر احساس کو ادا کرنے کی حیرت ناک صلاحیت کی حامل ہے۔ پھر یہ کہ جو کچھ تم فارسی میں لکھو گے ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں پڑھا جائے گا۔ ہندوستان میں بھی اکثر پڑھے لکھے لوگ فارسی سے آشنا ہیں۔ تم کوشش تو کر کے دیکھو۔‘‘ اقبال چپ رہے۔ مگر تیسرے روز ناشتے پر اُنہوں نے ابا جی کو مخاطب کر کے کہا: ’’عبدالعزیز! اس روز تم نے مجھے فارسی میں شعر کہنے پر اُکسایا تھا۔ اب اس کا نتیجہ دیکھو۔ دو غزلیں ہوئی ہیں۔ ایک مکمل ہے۔ دوسری ابھی پوری نہیں ہوئی۔ سنو گے؟‘‘ ابا اور عبدالقادر دونوں نے مرحبا کہا، غزلیں سنیں اور داد دی۔ یہ اقبال کا فارسی شاعری میں پہلا قدم تھا۔‘‘ اس واقعے کو درست سمجھنے میں بڑی مشکلات ہیں۔ شیخ عزیز کی عمر بائیس تئیس برس اور اقبال کی انتیس تیس برس تھی۔ اقبال چار پانچ برس کالج میں پڑھا چکے تھے (اور جرمنی میں تو اُنہیں ہیر پروفیسر یعنی ’’پروفیسر صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب بھی کیا گیا)۔ شیخ عزیز اپنے بیٹے کے بیان کے مطابق ’’لندن پہنچے تو اپنے پنجاب کے امتحانات کے خراب نتائج سے احساسِ کمتری میں مبتلا تھے۔‘‘ یہ تو ممکن ہے کہ بعد میں اِسی احساس نے اُن کی یادداشت کے ساتھ کچھ شرارت کی ہو مگر یہ تسلیم کرنا ذرا مشکل ہے کہ بائیس تئیس برس کا ایک طالب علم اپنے سے سات برس بڑے پروفیسر کو یوں مخاطب کرے، ’’تم نے کبھی فارسی میں شعر کہنے کی کوشش کی ہے؟‘‘ علامہ جو فارسی کے نایاب مخطوطے بازیاب کر کے ایرانی فلسفے کی اچھوتی تاریخ مرتب کر رہے ہیں انہیں یہ ’’پنجاب کے امتحانات کے خراب نتائج سے احساسِ کمتری میں مبتلا‘‘ طالب علم فارسی زبان و ادب کے بنیادی نکات پر لیکچر دے اور وہ اس درجہ متاثر ہو جائیں! سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علامہ فارسی کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہہ سکتے تھے، ’’اس میں شاعری کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا۔‘‘ انگلستان روانگی سے پہلے ہی فارسی میں اُن کی منقبت ’سپاس جنابِ امیرؑ‘ جنوری ۱۹۰۵ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک غیرمطبوعہ نظم ’شکریۂ انگشتری‘ میں فارسی کا ایک بند اور چند برس پہلے انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں پڑھی جانے والی ایک ترکیب بند میں ٹیپ کے تمام اشعار بڑے اہتمام سے فارسی میں لکھے گئے تھے۔ بانگِ درا کے دیباچے میں بھی اُن سے یہی منسوب ہے کہ انہوں نے فارسی میں کم کہا ہے، نہ یہ کہ فارسی میں شعر کہنے کا خیال ہی کبھی نہیں آیا۔ بانگِ دراکے دیباچے میں جس واقعے کا ذکر ہے اُس کے بارے میں قریباً یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اپریل ۱۹۰۷ء میں کیمبرج والی پکنک کے دوران پیش آیا اور علامہ سے فارسی اشعار کی فرمایش کرنے والے شیخ عزیز نہیں بلکہ عطیہ فیضی تھیں۔ تفصیل اپریل ۱۹۰۷ء کے واقعات میں دیکھیے، شیخ عبدالقادر کا اقتباس مندرجہ ذیل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے جیسے شیخ عزیز والی روایت کسی نے اس دیباچے کو پڑھنے کے بعد لکھی مگر پوری واقفیت کے بغیر: فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی، اور میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے اپنی کتاب حالاتِ تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی ، اُس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں دخل ہو گا۔ اس کے علاوہ جوں جوں اُن کا مطالعہ علمِ فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو بھی چاہا تو اُنھوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلے میں اُردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقرے اور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں جن کے مطابق اُردو میں فقرے ڈھالنے آسان نہیں، اس لیے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے۔ مگر بظاہر جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی ہے ، وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں۔ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ انھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کبھی کہنے کے، فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر، بستر پر لیٹے ہوئے، باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اُٹھتے ہی وہ مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انھوں نے زبانی مجھے سُنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انھیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا جس کا پہلے انھوں نے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اُردو کی نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رُخ فارسی کی طرف ہو گیا ۔ یہ ان کی شاعری کا تیسرا دور ہے جو ۱۹۰۸ء کے بعد سے شروع ہوا اور جو اب تک چل رہا ہے۔ اس عرصے میں اُردو نظمیں بھی بہت سی ہوئیں اور اچھی اچھی ، جن کی دُھوم مَچ گئی۔مگر اصل کام جس کی طرف وہ متوجہ ہو گئے ، وہ ان کی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ تھی۔ اس کا خیال دیر تک ان کے دماغ میں رہا اور رفتہ رفتہ دماغ سے صفحۂ قرطاس پر اُترنے لگا، اور آخر ایک مستقل کتاب کی صورت میں ظہور پذیر ہوا جس سے اقبال کا نام ہندوستان سے باہر بھی مشہور ہو گیا۔ [بانگِ درا] (ہ) کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ اقبال نے کسی وقت ٹامس آرنلڈ سے کہہ کر محمود شیرانی کو انڈیا آفس لائبریری میں ’’ایک معمولی درجہ کی ملازمت‘‘ دلوائی اور بعد میں آرنلڈ نے محمود شیرانی کو ’’ایک معقول وظیفہ دلوا دیا‘‘ (ص۵۵)۔ ممکن ہے اس میں کچھ حقیقت بھی رہی ہو مگر یہ واقعہ جس انداز میں بیان ہوا ہے اُس میں تو وہ حقیقت ہاتھ آنی مشکل ہے۔ کے کے عزیز لکھتے ہیں کہ محمود شیرانی لندن میں تھے جب ۱۹۰۶ء میں ان کے والد کا انتقال ہوا۔ ’’ٹونک گئے اور واپس آئے۔ ساتھ اپنے سب سے چھوٹے بھائی مشہود کو بھی لیتے آئے۔ باپ کے مرنے سے مالی مشکلات میں گھر گئے تھے۔ بڑے پریشان تھے۔ علم کی لگن بے اندازہ تھی۔ واپس ہندوستان نہ جانا چاہتے تھے۔‘‘ واپس ہندوستان نہ جانا کیسا جبکہ ہندوستان واپس جا کر پھر لوٹ بھی آئے تھے اور مالی مشکلات میں گھر چکے تھے تو واپس کیسے آئے، ’’سب سے چھوٹے بھائی‘‘ کو کیوں ساتھ لائے تھے؟ اِن سوالات کا بوجھ بھی مصنف نے قاری پر ڈال دیا ہے۔’’معمولی درجہ کی ملازمت‘‘ کے الفاظ بھی اس روایت کو ذرا مشکوک بناتے ہیں کیونکہ کے کے عزیز اور اُن کے والد صاحب کی بیان کی ہوئی روایات میں ذات پات، مالی تفوق اور مشاہیر کے ساتھ بے تکلفی ظاہر کرنے کے رجحان کی تسکین کا جذبہ لاشعوری طور پر کارفرما دکھائی دیتا ہے اور بقیہ روایات میں جو سقم ہیں اُن کی وجہ بھی یہی اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ باب۴: تثلیث کا مدرسہ ستمبر ۱۹۰۵ء تا مارچ ۱۹۰۸ء ۱۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵)، ص۱۲۷(طبع اول میں ص۵۳) ۲۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵)، ص۱۰۵-۱۰۴، ۱۰۸-۱۰۷ اور کتاب کے دوسرے حصے (طبع اول میں ص۳۷-۳۶، ۴۰-۳۹ اور کتاب کے دوسرے حصے) ۳۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵)، ص ۳۵۵-۳۵۴ پر رجسٹر کا عکس موجود ہے۔ دیگر تفصیلات بھی اسی کتاب سے لی گئی ہیں (طبع اول می رجسٹر کا عکس ص۱۳۲ پر ہے)۔ سمجھا جاتا ہے کہ کیمبرج میں تاریخ پیدایش درج کرنے کے بعد علامہ اقبال نے گھر والوں سے خط لکھ کر دریافت کیا ہو گا اور وہاں سے جواب آنے پر پی ایچ ڈی کے مقالے پر درست تاریخ لکھی ہو گی۔ ۴۔ جہان آرا شاہنواز (۱۹۷۱ئ)، ص ۳ ۵۔ بیرسٹر پیرزادہ تاج الدین بعد میں پنجاب کے نامور مسلم لیگی رہنما ہوئے اور علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ علامہ سے ان کے مراسم کے بارے میں معلومات مجھے اُن کے پوتے عثمان پیرزادہ نے فراہم کی ہیں۔ اُن کے مطابق انگلستان میں پیرزادہ تاج الدین کا نکاح بھی علامہ ہی نے پڑھایا تھا۔ ۶۔ نظم ’التجائے مسافر‘ کی شانِ نزول اور اقتباس کے لیے ستمبر ۱۹۰۵ء کے واقعات باب۳ میں دیکھیے۔ ۷۔ بالآخر علامہ اقبال نے جو حقیقت دریافت کی اُس کی روشنی میں میک ٹیگرٹ کی فکر کے بعض مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے دکھایا کہ اسلام کے مطابق انفرادی خودی نہیں بلکہ اجتماعی خودی دائمی ہے بشرطیکہ ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ یعنی مسلمان قوم کی اجتماعی خودی ہو۔ اُس میں فنا ہو کر انفرادی خودی بھی ابدیت حاصل کر لیتی ہے۔ میک ٹیگرٹ کے نزدیک خودی کو وقت میں رہتے ہوئے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ممکن ہے یہ درست ہو مگر علامہ نے اجتماعی خودی کا جو تصور پیش کیا اُس کے مطابق اجتماعی خودی گزرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہے لہٰذا جب فرد قوم کے عشق میں ڈوبتا ہے تو وہ بھی وقت سے باہر نکل جاتا ہے اور خودی کو سمجھ سکتا ہے۔ مسلمان قوم کی اجتماعی رائے بھی اجتماعی خودی ہی کا ظہور ہوتی ہے لہٰذا یہ اجتماعی رائے وقت کی قید سے آزاد، خودی سے آگاہ اور مستقبل کے منصوبوں کی غماز ہوسکتی ہے۔ ۸۔ یہ معلومات علامہ اقبال کے مضمون 'McTeggart's Philosophy' سے لی گئی ہیںجو میک ٹیگرٹ کی وفات کے بعد اُن کی سوانح پر تنقید کے طور پر لندن کے Indian Art & Letters کے ۱۹۳۲ء کے پہلے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ میرا ماخذ Latif Sherwani (1944/1977), pp. 178-188 ہے۔ ۹۔یہ خیال علامہ اقبال نے اسرار و رموز (بالخصوص ’رموزِ بیخودی‘) اور Reconstruction میں بھی ہے۔ ۱۰۔ محمد حسین عرشی کی روایت۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷ئ)، ص ۶۲ ۱۱۔۱۲۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۲۹ء کو کانپور میں علمائے ہند کی کانفرنس سے خطاب فرماتے ہوئے مولانا محمد علی جوہرؔ نے واضح کیا کہ علیگڑھ سے تعلیم پانے والے بعض طلبہ میں مذہبی جوش اور معلومات کا فقدان سرسید کے مذہبی نظریات کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ’’علمائے ہند اُن سے [سر سید احمد خاں سے] سخت بدظن تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طلبأ کے والدین کو مطمئن کرنے کی خاطر سرسید احمد خاں نے اس کا التزام کیا کہ ٹرسٹیانِ مدرسۃ العلومِ مسلمانان کی جو کمیٹی تعلیم دینے کا انتظام کرے اُس کے وہ خود رکن بھی نہ ہوں اور اُن کی تالیفات بھی دینیات کی کتبِ درسیہ میں شامل نہ کی جائیں۔‘‘ ثنأ الحق صدیقی (۱۹۹۰/ ۱۹۷۵)، ص۲۵۹ ۱۲۔ سعید اختر درّانی(۱۹۹۵)، ص ۲۰۰ ۱۳۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ابتدائی دنوں میں کیا خاکہ رہا ہو گا مگر ڈیڑھ سال بعد مقالہ مکمل ہوا توبنیادی خاکہ یہی تھا۔ ۱۴۔ مقالے کا نسخہ ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا تو اُس میں علامہ اقبال نے انیس مخطوطوں کی فہرست پیش کی جن میں سے تین جرمنی میں تھیں: ۱۔ تاریخ الحکمأ از بیہقی (رائل لائبریری برلن) ۲۔ شرحِ انواریہ (مع متن) از محمد شریف ہراتی(رائل لائبریری برلن) ۳۔ حکمت العین از کاتبی(رائل لائبریری برلن) ۴۔ شرح حکمت العیناز محمد ابن المبارک البخاری (انڈیا آفس لائبریری) ۵۔شرح حکمت العین از حسینی (انڈیا آفس لائبریری) ۶۔ عوارف المعارف از شہاب الدین(انڈیا آفس لائبریری) ۷۔ مشکٰوۃ الانواراز الغزالی(انڈیا آفس لائبریری) ۸۔ کشف المحجوب از علی ہجویری(انڈیا آفس لائبریری) ۹۔ رسالۂ نفس ترجمۂ ارسطو از افضل کاشی(انڈیا آفس لائبریری) ۱۰۔ رسالۂ میر سید شریف(انڈیا آفس لائبریری) ۱۱۔خاتمہ از سید محمد گیسودراز(انڈیا آفس لائبریری) ۱۲۔ منازل السائرین از عبداللہ اسماعیل ہراتی(انڈیا آفس لائبریری) ۱۳۔ جاویدان نامہ از افضل کاشی(انڈیا آفس لائبریری) ۱۴۔ تاریخ الحکمأ از شہزوری (برٹش میوزیم لائبریری) ۱۵۔کلیاتِ ابنِ سینا(برٹش میوزیم لائبریری) ۱۶۔ رسالہ فی الوجود از میر جرجانی (برٹش میوزیم لائبریری) ۱۷۔ جاویدانِ کبیر (کیمبرج یونیورسٹی لائبریری) ۱۸۔ جامِ جہاں نما (کیمبرج یونیورسٹی لائبریری) ۱۹۔ مجموعۂ فارسی نسفی، رسالہ نمبر ۱، ۲ (ٹرنٹی کالج لائبریری) ۱۵۔ غنی کے اس شعر کو علامہ اقبال نے اپنی نظم ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ (۱۹۱۴ئ) میں تضمین کیا: حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مُسَلَّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ ۱۶۔ شبلی کے مضمون کا حوالہ ایس ایم اکرام (۱۹۹۲)، ص ۳۲۰ سے لیا گیا ہے۔ ابن حزم کے مضمون کا ترجمہ اُردو میں حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی قصص القرآن میں بی بی مریم کے باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عام طور پر دستیاب ہے۔ ۱۷۔ مولانا ظفر علی خاں کے مضمون کے اقتباس نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۶۵ سے ماخوذ ہیں۔ ۱۸۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵)، ص۲۰۶ ۱۹۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۹۵)، ص ۷۶-۷۴ (طبع اول میں ص۱۱) ۲۰۔ ’’لندن ایسی جگہ ہے جہاں کم آمیزوں کو بھی کہیں کسی سے ملنے کا وقت دینا پڑتا ہے اور ملاقات کا وعدہ لے کر کہیں منتظر رہنا ہوتا ہے۔ کسی ایسی ہی ملاقات کا اشارہ اِس شعر میں ہے: نہ پوچھو اقبالؔ کا ٹھکانا،وہی ابھی کیفیت ہے اُس کی کہیں سرِ رہگزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا‘‘ حوالہ: شیخ عبدالقادر کا مضمون ’اقبال کی شاعری کا ابتدائی دَور‘ مطبوعہ روزنامہ امروز (اقبال نمبر) لاہور بابت ۲۶ اپریل ۱۹۴۸ء (ص۴)۔ ہمارا ماخذ حنیف شاہد (۱۹۷۲ئ) ہے جس میں یہ مضمون شامل ہے۔ ۲۱۔ افضل حسین کی روایت ہے۔ میرا ماخذ Raheem Bakhsh Shaheen کی Mementos of Iqbal ص ۳۵ہے۔ ۲۲۔ اس کا ذکر مولوی انشأ اللہ خاں کے نام خط میں سفرنامے کی دوسری قسط میں علامہ اقبال نے خود کیا ہے۔ ۲۳۔ نظم کی فنی خامیوں کی وجہ سے گیان چند (۱۹۸۸) کا خیال ہے کہ ۱۹۰۵کی نہیں ہو سکتی۔ کئی سال پہلے کی ہونی چاہیے۔ لیکن اگر یہ نظم واقعی کہیں شائع نہیں ہوئی تو پھر یوں بھی سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ۱۹۰۵ء ہی کی ہو کیونکہ ایسی نظم ابتدائی زمانے میںکہی ہوتی تو اُسے چھپوایا ہوتا مگر اَب ایسی ناپختہ نظم کو شائع کروانا انہیں گوارا نہ ہوا۔ ۲۴۔ Muhammad Siddiq (1983) ۲۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۹ پر سید محمد ذکی کی روایت۔ ۲۶۔ الطاف علی بریلوی اور ایوب قادری (۱۹۷۰)، ص ۲۵۷-۲۴۱ ۲۷۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۲۸۔ غزل کے بارے میں گیان چند نے لکھا ہے: ’’اِس کا بنیادی وزن مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن ہے۔ اقبال نے عروضی کتابوں میں پڑھ لیا ہو گا کہ مفتعلن کی جگہ مستفعلن یا مفاعلن یا مفعولن بھی لا سکتے ہیں۔ اقبال اِس بات کو لے اُڑے۔ اُنہوں نے اپنی عروض دانی دکھانے کے لیے تین نظموں: پیغامِ راز، طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام، کوششِ ناتمام میں کئی مصرعوں میں یہ کرتب دکھایا۔ اُس وقت وہ یہ سمجھے کہ عربی عروض کی رُو سے اس کا جواز ہو سکتا ہے لیکن عروض کی غلتِ غائی ترنم یا موزونیت اس سے عنقا ہو جاتی ہے۔ بعد میں اُنہیں شعور ہوا تو بانگِ درا میں ایسے سب مصرعوں میں اصلاح کر دی یا انہیں یک قلم خارج کر دیا۔ ‘‘ ’پیغامِ راز‘ بہت سی تبدیلیوں کے بعد ’پیام‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل کی گئی۔ میرے تجزیے کی بنیاد بعد کی تین منظومات کے ساتھ اس کا موازنہ ہے: (۱) غزل ’’زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا‘‘، (۲) ’مارچ ۱۹۰۷‘ (۳) ’پیامِ عشق‘۔ چاروں منظومات کو ایک ہی سلسلہ ٔ خیال کی کڑیاں سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں بعض استعارے ایک خاص طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ’پیام‘ کے پرانے متن کا اس کے بانگ ِ درا والے اصلاح شدہ متن سے موازنہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اصل میں کیا کہنا چاہتے تھے۔’جوابِ ناز دے‘ والا شعر غورطلب ہے۔ دوسرے مصرع میں لفظی تغیر کے باوجود پرانے اور نئے متون میں اس کے معانی یہی رہتے ہیں کہ اگر حسن محوِ ناز ہے تو تم بھی جوابِ ناز دو۔ مگر پرانے متن میں اس شعر کے مصرعِ اول میں اس کا مطلب یوں بیان ہوا تھا، ’’رفعت ہے عجز میں نہاں یعنی نیاز کر شعار‘‘ جس کی وجہ سے یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا تھا۔ ترمیم کے بعد پہلے مصرع کے معانی کو بالکل برعکس کرنے سے یہ مفہوم واضح ہو گیا: ’’عشق بلندبال ہے رسم و رہِ نیاز سے‘‘۔ ۲۹۔ درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵) ص ۱۱۵-۱۱۲ (طبع اول میں ص۴۵-۴۲ اور ان کے درمیان پلیٹیں)۔ ممکن ہے یہ ہنوور ہاؤس انہی یہودی میزبانوں کا گھررہا ہو جن کا ذکر غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۵۹ میں پروفیسر عبدالحمید کی علامہ اقبال سے روایت کیے ہوئے واقعے میں آیا ہے۔ ۳۰۔عبدالرؤف عروج (۱۹۸۸) صفحہ ۴۳۵ ۳۱۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۴) ص ۲۱ ۳۲۔یہ اقتباس ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے اڈیشن کے دیباچے سے ہے۔ دیباچہ اُردو ہی میں تھا۔ ۳۳۔ برنی (۱۹۹۲) ص ۱۱۹ ۳۴۔ اس خط کی تاریخ صابر کلوروی نے متعین کی ہے کہ مارچ ۱۹۰۶ء میں لکھا گیا ہو گا۔ مطبوعہ متن میں بعض نقص ہیں۔ سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لیے جن باتوں کی علامہ اقبال نے نشاندہی کی تھی اُس کا شمار الف سے ’د‘تک کرنے کے بعد اگلے پیراگراف کو نمبر شمار ایک سے شروع کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ سہو ہے چنانچہ میں نے اِن سطور کو نمبر شمار ’ہ‘ سمجھتے ہوئے پچھلی بات کا حصہ سمجھا ہے۔ ۳۵۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹) ۳۶۔ یہ رئیس زادہ لٹن اسٹریچی(Lytton Stratchey) تھا جو جدید طرز کی سوانح نگاری کے بانی کی حیثیت سے مشہور ہے۔ ۳۷۔ چونکہ یہ خط اپریل ۱۹۰۶ء کے کشمیری میگزین میں شائع ہوا تھا لہٰذا صابر کلوروی نے اپنے ایک مضمون میں اِس کی تاریخ مارچ ۱۹۰۶ء متعین کی ہے۔ ۳۸۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۳۹۔ غزل کے ۷ اشعار دستیاب ہیں۔ ایک شعر، جسے علامہ اقبال نے بانگِِ درا میں شامل نہیں کیا : ہے سلطنت جس کی دفن دلّی میں خود وہ کابل میں سو رہا ہے جہاں میں سب کچھ ہے اِک علاجِ قضائے چرخِ کہن نہیں ہے گیان چند نے تعجب ظاہر کیا ہے کہ یہ شعر کس کے بارے میں ہے مگر شاید اُن کا دھیان دہلی کی مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی طرف نہیں گیا جس کا مزار کابل میں ہے۔ اِس غزل میں اُن اشعار میں سے بھی ایک شامل ہے جو بعد میں علامہ پر کفر کے فتوے کی وجہ بنے تھے: کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے میں نے غزل سے پہلے جو اقتباس پیش کیا ہے وہ علامہ اقبال کے مضمون 'Political Thought in Islam' سے ترجمہ ہے۔ پورے مضمون کا متن باب۷ میں جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات میں دیکھیے۔ ۴۰۔ شیخ عبدالقادر، دیباچہ بانگِ درا ۴۱۔ غزل میں پندرہ اشعار تھے۔ ۴۲۔ محمد دین فوق کی روایت، عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)ص ۱۹۸ میں ہے۔ ۴۳۔ ’ایک شام مسٹر سٹیڈ کے ہاں‘شیخ عبدالقادر کے قلم سے فروری ۱۹۰۷ء کے مخزن میں ص۲۴-۱۲ پر شائع ہوا۔ اُس میں تقاریر کا ذکر ہے۔ حوروں والے اعتراض اور جواب کا ذکر غلام رسول مہرؔ نے ۲۹ جنوری ۱۹۲۷ کو روزنامچے میں کیا ہے کہ یہ واقعہ علامہ اقبال نے سنایا: امجد سلیم علوی (۱۹۸۸) ص۲۶۸۔ ۴۴۔ یہ نوجوان عقیدتمند وحید احمد مسعود تھے۔ اقتباس اُن کے مضمون ’ڈاکٹر شیخ محمد اقبال: آبِ حیات کے دَورِ حاضر کا جرعۂ تیز‘ سے ہے۔ مضمون اُن کے اپنے رسالے نقیب کے شمارہ اگست-ستمبر ۱۹۲۲ء میں شائع ہوا۔ میرا مآخذ تحسین حسین فراقی (۱۹۹۲)، ص۹۳-۸۲ ہے جہاں پورا مضمون شامل ہے۔ وحید احمد مسعود نے مضمون میںوضاحت نہیں کی کہ روایت انہیں کہاں سے معلوم ہوئی۔ صرف یہی لکھا ہے، ’’بذلہ سنجی کے سلسلہ ہی میں ہمیں بہ صیغۂ راز یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جب سکوتِ فلسفہ و بُکا سے شاعری کا وقت نہ ہو تو موقع پر آپ ’’حاضر جواب منطق‘‘ سے بھی خوب کام لے سکتے ہیں۔‘‘ بہرحال یہ مضمون انہی دنوں علامہ اقبال کی نظر سے بھی گذرا۔ انہوں نے مصنف کے نام خط میں پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ ۴۵۔ یہ غزل غیرمطبوعہ ہے۔ اس کے صرف یہی چار اشعار دستیاب ہیں۔ ۴۶۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persiaia ۴۷۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۴۸۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۴۹۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۵۰۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۵۱۔ دیکھیے مارچ ۱۹۱۱ء کے واقعات میں علامہ اقبال کا خطبہ’Muslim Community ‘ ۵۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۴۱-۳۹ میں عاشق بٹالوی کی روایت ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال سے سنا۔ ۵۳۔ روزگارِ فقیر سے لے کر گیان چند (۱۹۸۸) ص۳۰۳ پر شامل کی گئی اور اندازہً یورپ کے زمانے کی سمجھی گئی ہے۔ ۵۴۔ حمید احمد خاں (۱۹۷۴)، ص ۳۴ ۵۵۔دوسری بیاض (نمبر 195 ) کے آخری صفحے پرتین اشعار کا قطعہ درج ہے۔ بیاض ۱۹۱۲ء کے زمانے کی ہے مگر ممکن ہے کہ پہلے کا کہا ہوا قطعہ بعد میںوہاں درج کیا ہو۔ شبہ ہوتا ہے کہ اِتنی رواں بحر میں علامہ اقبال نے شاید زیادہ شعر کہے ہوں اور بعد صرف یہی یاد رہ گئے ہوں۔ ۵۶۔ یہ اقتباس علامہ اقبال کی تصنیف The Reconstruction of Religious Thought (1930/34)کے دوسرے خطبے سے ہے۔ سید نذیر نیازی کے ترجمہ سے ماخوذ ہے۔ اصل انگریزی متن یوں ہے: Queen Anne’s death, for instance, is past to us; it was present to her contemporaries and future to William III. Thus the event of Anne’s death combines characteristics which are incompatible with each other. ۵۷۔ یہ اقتباس علامہ اقبال کی تصنیف The Reconstruction of Religious Thought (1930/34)کے دوسرے خطبے سے ہے۔ سید نذیر نیازی کے ترجمہ سے ماخوذ ہے۔اصل انگریزی متن یوں ہے: It is obvious that the argument proceeds on the assumption that the serial nature of time is final. If we regard past, present, and future as essential to time, then we picture time as a straight line, part of which we have travelled and left behind, and part lies yet untravelled before us. This is taking time, not as a living creative moment, but as a static absolute, holding the ordered multiplicity of fully-shaped cosmic events, revealed serially, like the pictures of a film, to the outside observer. We can indeed say that Queen Anne’s death was future to William III, if this event is regarded as already fully shaped, and lying in the future, waiting for its happening. But a future event, as Broad justly points out, cannot be characterized as an event. Before the death of Anne the event of her death did not exist at all. During Anne’s life the event of her death existed only as an unrealized possibility in the nature of Reality which included it as an event only when, in the course of its becoming, it reached the point of the actual happening of that event. The answer to Doctor McTaggart’s argument is that the future exists only as an open possibility, and not as a reality. Nor can it be said that an event combines incompatible characteristics when it is described both as past and present... Augustine’s profound words are as true today as they were when they were uttered: “If no one questions me of time, I know it: if I would explain to a questioner I know it not.” ۵۸۔ نذیر نیازی (۱۹۷۱) ص ۶۶۔ اُن کا بیان ہے کہ انہوں نے یہ واقعہ علامہ اقبال سے خود سنا۔ ۵۹۔ مکتوب بنام نکلسن ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء ۶۰۔ یہ اقتباس علامہ اقبال کی تصنیف The Reconstruction of Religious Thought (1930/34)کے دوسرے خطبے سے ہے (مگربرسوں پہلے سے اِس کے تانے بانے اُن کی فکر میں موجود تھے۔ مارچ ۱۹۱۱ء کے واقعات میں پیش کیے گئے خطبے 'Muslim Community' میں بھی اِن خیالات کی واضح جھلک ملاحظہ کی جا سکتی ہے)۔ یہاں پیش کیا ہوا اقتباس سید نذیر نیازی کے ترجمہ سے ماخوذ ہے۔ اصل انگریزی متن یوں ہے: A keener insight into the nature of conscious experience, however, reveals that the self in its inner life moves from the centre outwards. It has, so to speak, two sides which may be described as appreciative and efficient. On its efficient side it enters into relation with what we call the world of space... The time in which the efficient self lives is, therefore, the time of which we predicate long and short. It is hardly distinguishable from space... But time thus regarded is not true time, according to Bergson. Existence in spacialized time is spurious existence. A deeper analysis of conscious experience reveals to us what I have called the appreciative side of the self. With our absorption in the external order of things, necessitated by our present situation, it is extremely difficult to catch a glimpse of the appreciative self... It is only in the moments of profound meditation, when the efficient self is in abeyance, that we sink into our deeper self and reach the inner centre of experience. In the life-process of this deeper ego the states of consciousness melt into each other. The unity of the appreciative ego is like the unity of the germ in which the experiences of its individual ancestors exist, not as a plurality, but as a unity in which every experience permeates the whole... There is change and movement, but change and movement are indivisible; their elements interpenetrate and are wholly non-serial in character. It appears that the time of the appreciative-self is a single “now” which the efficient self, in its traffic with the world of space, pulverizes into a series of “nows” like pearl beads in a thread. Here is, then, pure duration unadulterated by space. ۶۱۔ یہ حدیث علامہ اقبال نے کئی مواقع پر دہرائی، مثلاً اسرار و رموز میں۔ ۶۲۔ حمید احمد خاں (۱۹۷۴)، ص ۴۳۔ اُن کی روایت ہے کہ علامہ اقبال نے یہ بات ۱۹۳۳ء یا کچھ پہلے ایک نجی محفل میں انگریزی میں کہی تھی۔ ۶۳۔حامد جلالی (۱۹۹۶) ص ۸۳ ۶۴۔ حامد جلالی (۱۹۹۶) ص ۸۳ ۶۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں خواجہ فیروزالدین کا بیان ہے۔ ۶۶۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۸۸ ۶۷۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۶۸۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۶۹۔ عبدالرشید طارق نے یہ واقعہ خود اقبال کی زبانی سنا۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص ۲۷۰ ۷۰۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام مکتوب ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ئ۔ علامہ اقبال کے جواب سے غالب یاد آتے ہیں جنہوں نے کسی انگریز کے سامنے اپنے آپ کو آدھا عیسائی اور آدھا مسلمان بتایا تھا: ’’ــشراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا!‘‘ ۷۱۔ اِس غزل کے ۴ اشعار دستیاب ہیں۔ زمانہ معلوم نہیں مگر خیال ہے کہ لندن میں کہے گئے ہوں گے۔ ۷۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۳-۶۱میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے کہ علامہ اقبال سے سنا تھا۔ ۱۹۱۰ میں مولوی صاحب کو دیکھا بھی تھا: ’’لمبی ترکی ٹوپی، لمبی سفید ڈاڑھی، سیاہ مارننگ ڈریس، الغرض چھوٹے پیمانے پر سر سید معلوم ہوتے تھے۔‘‘ ۷۳۔ یہ غزل دسمبر میں گلدستے نشتر میں شائع ہوئی۔کُل ۷ اشعار تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ طبیعت ہلکی کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ اگر یہ اُسی زمانے میں کہی تو مخزنکی بجائے روایتی قسم کے گلدستے میں بھجوانے سے ظاہر ہوتاہے کہ مخزنکے پڑھنے والوں میں نئے خیالات کوشناخت بنانا چاہتے ہوں گے۔ ۷۴۔'The Muslim Community' (1910)ترجمہ محمد جہانگیر عالم (۲۰۰۱)، ص۲۳ ۷۵۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص۶۰میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے کہ علامہ اقبال سے سنا تھا۔ ۷۶۔ نذیر نیازی ،(۱۹۷۹)، ص۱۰۱۔ عبداللہ چغتائی نے اقبال کی صحبت میں ص ۱۹۷ پر لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے براؤن کی تصنیف پر تبصرہ کیا اور اسی زمانے میں شائع بھی ہوا مگر چغتائی نے اپنی معلومات کا ماخذ نہیں بتایا اور یہ بھی نہیں کہ وہ تبصرہ کہاں شائع ہوا۔ قرین قیاس ہے کہ چغتائی کو غلطی لگی ہو اور نذیر نیازی کا بیان درست ہو۔ ۷۷۔ یہ خیال محمد علی جوہرؔ نے بڑی تفصیل سے ۱۹۰۷ء کے موسمِ گرما میں اپنے سلسلۂ مضامین میں بیان کیا۔ Muhammad Ali (Ed. Dr. Afzal Iqbal; 1944/87) ۷۸۔ گیان چند (۱۹۸۸) ص ۳۰۰ ۷۹۔ شبلی کی تنقید برحق تھی۔ مگر یہ بھی تو ممکن تھا کہ مولانا روم کے حلقے نے شمس تبریز سے ملاقات کے حوالے سے کتابیں جلنے یا تالاب میں پھینکے جانے کی جو حکایات وضع کی تھیں وہ کسی بات کا اشارہ رہا ہو؟ شمس تبریز کی ملاقات سے مولانا روم پر جو اثر ہوا اُس کی مثال یہی تھی کہ جیسے کتابیں جل جائیں یا پانی میں پھینک دی جائیں۔ کتابی علم ختم ہوا اور ایک نیا دروازہ کھلا۔ چند برس بعد ہلاکو خاں نے بغداد پر حملہ کیا، کتابیں جلائی گئیں اور راکھ سے دجلہ کا پانی سیاہ ہوا۔ پانچ سو برس میں تشکیل دی ہوئی تہذیب تباہ ہوئی مگر مولانا روم کی شاعری میں پھر زندہ بھی ہو گئی جیسے شمس تبریز نے راکھ اور پانی میں سے کتابیں نکال کر واپس دی تھیں۔ ۸۰۔ عطیہ فیضی (انگریزی مضمون 1956 ) ۸۱۔ عطیہ فیضی (انگریزی مضمون 1956 )۔ سات برس پیشتر جو کتاب عطیہ فیضی نے شائع کی تھی اُس کے مطابق مارچ ۱۹۰۷ء کی آخری تواریخ سے پہلے انہیں علامہ اقبال کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملا تھا۔ میرا خیال یہ ہے کہ کتاب چونکہ پہلی مرتبہ علامہ اور عطیہ کی گہری دوستی کا انکشاف کر رہی تھی لہٰذا اس میں عطیہ نے دانستہ احتیاط سے کام لیا ہو گا اور بعد میں جو مضامین اخبارات میں شائع ہوئے ان میں بالعموم یہ احتیاط کم ہوتی گئی۔ البتہ عطیہ کی فراہم کی ہوئی تمام معلومات کے لیے یہ اصول نہیں برتا جا سکتا کہ بعد میں لکھی ہوئی بات پہلے لکھی جانے والی بات سے زیادہ مستند سمجھی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کتاب کی مقبولیت کی وجہ سے بعد کے مضامین میں زیبِ داستاں کے تقاضے بڑھ گئے ہوں یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادداشت زیادہ غلطیاں کرنے لگی ہو۔ ۸۲۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کی جدوجہدمیں شروع میں ہندوستانی نسل کو مقامی کالی آبادی سے ممتاز قرار دلوانے کا مطالبہ تھی۔ ۱۸۹۴ء سے ۱۹۰۶ء تک گاندھی جی نے مقامی آبادی کے خلاف سفیدفام حکومت کی جارحیت میں ساتھ دیاتھا۔ جب ہندوستانیوں کو مقامی آبادی کی طرح اپنے آپ کو رجسٹر کروانے اور خصوصی پاس رکھنے کا حکم ملا تو گاندھی جی کے احتجاج کا عنوان ہی ’’امتیاز کی درخواست‘‘ (A Plea for Distinction) تھا جو اُن کی تحریروں کی کلیات کی پانچویں جلد میں موجود ہے۔ ۸۳۔ سید حسن ریاض (۱۹۹۲/۱۹۶۷)، ص ’’ح‘‘: ’’مسلمانانِ برصغیر کی سیاسی فراست کا ی عجیب کرشمہ ہے کہ انہوں نے پر مرحلے پر دفاعی عمل سے اقدامی عمل کے مقاصد حاصل کیے۔‘‘ اِس جملے پر کافی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ۸۴۔ عطیہ فیضی (انگریزی 1956 ) ۸۵۔ Iqbal: The Development of Metaphysics in Persia ۸۶۔ اس غزل کا زمانہ معلوم نہیں۔ بانگِ درا کی ترتیب سے خیال ہوتا ہے کہ ۱۹۰۶ء میں کہی گئی ہو گی۔ اِس کے کُل ۵ اشعار دستیاب ہیں۔ ۸۷۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۴۱ ۸۸۔ دیکھیے اقبال: ابتدائی دور ۱۹۰۴ء تک ۸۹۔ گیان چند (۱۹۸۸) ۹۰۔ گاندھی ۲۰ اکتوبر سے یکم دسمبر ۱۹۰۶ء تک لندن میں رہے۔ ۹۱۔ نظم ’سوامی رام تیرتھ‘ مخزن جنوری ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں ۷ اشعار تھے۔یہاں نظم کا آخری شعر درج کیا گیا ہے،جو بانگِ درا میں شامل نہیں ہے۔ ۹۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص۵۹-۵۸۔ پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے۔ ۹۳۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۵۷ میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے کہ انہوں نے اقبال سے سنا۔ ۹۴۔ Muhammad Siddiq (1983) ۹۵۔ عبدالماجد دریا بادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص ۵۴۵ پر مولانا اشرف علی تھانوی کا خط درج ہے جو انہوں نے ۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی کی وفات پر مصنف کو لکھا: ’’محمد علی کی وفات کا میرے قلب پر جو اثر ہے، بیان نہیں کر سکتا۔ خدا جانے کتنی دفعہ دعا کر چکا ہوں اور کر رہا ہوں۔ مجھ کو مرحوم کی جس صفت کا اعتقاد اور اُسی اعتقاد کی بناد پر محبت ہے، وہ صرف ایک صفت مسلمانوں کی سچی بے غرض محبت ہے۔ باقی دوسری صفات دیکھنے والے جانتے ہیں۔ میں نے کبھی دیکھا نہیں۔ اس لیے ایک ہی صفت سے محبت ہے، اور اس کو میں روح الصفات سمجھتا ہوں۔‘‘ ۹۶۔ مولانا محمد علی (۱۹۹۸)، ص۲۶۷-۲۶۰ ۹۷۔ اس پیراگراف کے بعد جو قرآنی آیات مع ترجمہ درج ہیں، اُن کی توجیہہ یہ ہے کہ یہ تمام وہ آیات ہیں جن کا حوالہ علامہ اقبال نے اپنی اُس زمانے کی تحریروں میں پیش کیا ہے جس زمانے پر یہ کتاب محیط ہے یعنی ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۳ئ۔ ان تمام آیات کو یہاں یکجا کرنے کا مقصد یہ تاثر دینا بھی ہے کہ مسلم لیگ کا قیام برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی تاریخ میں کتنا اہم سنگِ میل ہے۔ ۹۸۔ زمانہ معلوم نہیں۔ گیان چند (۱۹۸۸) نے ایک قلمی بیاض سے نقل کر کے اندازہً دسمبر ۱۹۰۶ء کے فوراً بعد کے زمانے کی قرار دیا ہے۔ ۹۹۔ علامہ اقبال نے نکلسن کے نام مکتوب ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء میں لکھا کہ الجیلی والا مقالہ لکھتے ہوئے وہ نیٹشے سے واقف نہ تھے۔ وہ مقالہ ۱۹۰۰ء میں لکھا گیا۔ نیٹشے کا تذکرہ سب سے پہلے علامہ اقبال کی نوٹ بک میں ملتا ہے جس کے اندراجات ۱۹۱۰ء کے ہیں۔ گویا بیسویں صدی کے ابتدائی دس برس میں کسی وقت وہ نیٹشے سے واقف ہوئے۔ یورپ میں ان دنوں نیٹشے کی خاصی شہرت تھی اس لیے بہت ممکن ہے کہ کیمبرج ہی میں علامہ نے پہلے پہل اُس کے افکار سے واقفیت حاصل کی ہو۔ ۱۰۰۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۶۰-۵۹۔ پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے۔ ۱۰۱۔ اِس غزل کے ۴ اشعار دستیاب ہیں۔ زمانہ معلوم نہیں مگر گیان چند نے یورپ میں کہی گئی غزلوں میں قیاس کیا ہے۔ ۱۰۲۔ سعید اختر درانی (۱۹۸۴ئ) ص ۱۵۲ ۱۰۳۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴) ، ص ۳۶میں عاشق بٹالوی کی روایت ۱۰۴۔ مرزا ارشد کی تاریخ وفات کے لیے حوالہ عبدالرؤف عروج (۱۹۸۸) ۱۰۵۔ جلسہ مرزا فیاض علی کے مکان پر ہونے والا تھا۔ اقبال ریویو (حیدرآباد دکن)، اپریل تا جون ۱۹۸۴ئ۔ ۱۰۶۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵)، ص۱۵۱ ۱۰۷۔ اقبال کے مقالے کے بارے میں یہ رائے پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے میونک یونیورسٹی کے پروفیسروں کے نام اپنے خط مورخہ ۲ اکتوبر ۱۹۰۷ء میں ظاہر کی: ...it is the first attempt that has been made to trace the continuous development of ancient Iranian speculations as they have survived in Muhammadan philosophy and so bring out the distinctively Persian character of many phases of Muslim thought. پورا مکتوب اکتوبر ۱۹۰۷ء کے واقعات میں اور مکمل ترجمہ اسی ماہ کے واقعات میں پروفیسر ہومل کے نوٹ کے ترجمے میں دیکھیے۔ ۱۰۸۔ فقیر سید وحیدالدین ۔ شعر کا زمانہ معلوم نہیں ۔ ۱۰۹۔یہ وہی نوٹ بک ہے جسے ہم علامہ اقبال کی پہلی بیاض کہتے ہیں اور جو اقبال میوزیم میں نمبر ۲۱۹ کے طور پر محفوظ ہے۔ اِس میں انگریزی کی طرف سے شروع میں کچھ پتے لکھے ہیں۔ اِس کے بعد تین فارسی غزلیں اور ایک اُردو غزل ہے جو قیامِ انگلستان کے زمانے میں براہِ راست درج کی ہوئی معلوم ہوتی ہیںمگر لگتا ہے کہ بیاض کی باقی نظمیں ہندوستان واپسی کے بعد اُردو کی طرف کے صفحات پر لکھی گئیں۔ ۱۱۰۔ میں نے یہ قیاس اُس غزل کی بنیاد پر کیا ہے جو علامہ اقبال نے انہی دنوں کہی یعنی ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ اور جو یہاں نقل کی جا رہی ہے۔ اس میں حافظ کی متذکرہ غزل کی جھلک واضح طور پر موجود ہے۔ ۱۱۱۔ مکتوب بنام سید محمد سعیدالدین جعفری ۱۴ نومبر ۱۹۲۳ء ۱۱۲۔ اقتباس علامہ اقبال کے انگریزی مقالے 'Political Thought in Islam' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ پورا مقالہ باب۷ میں جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات میں دیکھیے۔ یہاں پیش کیے گئے اقتباس کا اصل انگریزی متن یوں ہے: ...The Arabs, like the Greeks and the Romans, endeavoured to create such a nation or the world-state by conquest, but failed to actualize their ideal. The realization of this ideal, however, is not impossible; for the ideal nation does already exist in germ. The life of modern political communities finds expression, to a great extent, in common institutions, Law and Government; and the various sociological circles, so to speak, are continually expanding to touch one another. Further, it is not incompatible with the sovereignty of individual States, since its structure will be determined not by physical force, but by the spiritual force of a common ideal. ۱۱۳۔ غلام رسول مہر کی روایت کے مطابق علامہ اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان میں قیام کے زمانے میں ۱۸ نومبر ۱۹۳۱ء کو کیمبرج میں اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کے تحت منعقد کی گئی ایک تقریب میں یہ بیان دیا۔ مہر نے تقریب کی روئیداد لکھ کر لاہور بھجوائی جو روزنامہ انقلاب میں ۱۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو شائع ہوئی۔ گفتارِ اقبال مرتبہ رفیق افضل میں شامل ہے، جو میرا مآخذ ہے۔ باب ۵: پری جمالوں کا شہر مارچ سے جولائی ۱۹۰۷ء تک ۱۔اس کتاب میں اقبال کے بارے میں عطیہ فیضی کے تمام بیانات اُن کی تحریروں سے لیے گئے ہیں۔ ان کی مشہور کتاب Iqbal ۱۹۴۶ میں شائع ہوئی مگر اس کے علاوہ بعض اخباری مضامین ہیں جن کے حوالے کتابیات میں درج کر دیے گئے ہیں۔ یہ مضامین عنقریب اصل کتاب کے نئے اڈیشن کے ساتھ مجموعے کی صورت میں شائع ہوں گے۔ سید علی بلگرامی کا حوالہ عطیہ فیضی کے انگریزی مضمون (1956) میں ہے۔عطیہ نے اپنی ڈائری میں یہ بھی لکھا کہ اقبال نے پہلی ملاقات میںکہا کہ وہ ایران میں رہ چکے ہیں۔ اقبال کی زندگی کے بارے میں جہاں تک معلوم ہے وہ کبھی ایران نہیں گئے تھے اور نہ ہی وہاں جا کر کچھ عرصہ رہنے کی بات کسی طرح درست تسلیم کی جا سکتی ہے۔ اگر عطیہ کو بات سمجھنے میں غلطی نہیں ہوئی تو پھر اقبال انہیں متاثر کرنے کی کوشش میں کچھ زیب ِ داستاں کے لیے بڑھا رہے ہوں گے۔ ۲۔Atiya Fyzee (1946)۔ فارسی شعر کا حوالہ عطیہ فیضی کے انگریزی مضمون (1956) میں ہے۔ ۳۔ فارسی اشعار کا تذکرہ عطیہ فیضی نے انگریزی مضمون (1956) میں کیا ہے۔ ۴۔ موسیقی اور لطیفوں کا ذکر عطیہ فیضی نے انگریزی مضمون (1956) میں کیا ہے۔ ۵۔ایس ایم اکرام (۱۹۹۴)، ص ۳۰۳ سے ۳۰۶ تک۔ وہاںشبلی نعمانی کا اپنا بیان نقل کیاگیا ہے۔ ۶۔ Atiya Fyzee (1946) ۷۔ دیباچہ بانگِ درا۔ ۸۔ عطیہ فیضی کا انگریزی مضمون (۱۹۵۶) ۹۔عطیہ فیضی کی ڈائری ۔ ضیاالدین برنی کے ترجمے مطبوعہ اقبال اکادمی میں یہ ڈائری شامل ہے۔ اصل ڈائری کا عکس مجھے اقبال اکادمی سے دستیاب ہوا۔ ۱۰۔ دیباچہ بانگِ درا۔ ۱۱۔یہ غزل پہلی بیاض میں موجود ہے۔گیان چند نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’محفلِ ہستی‘‘ والا شعر بانگِ درا میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ اس میں مالی آسودگی کی خواہش کا اعتراف تھا۔ میرے خیال میں اس شعر میں دنیا سے غربت کے مٹنے کی تمنا کا ذکر ہے جو علم الاقتصاد کے دیباچے میں بھی ظاہر کی گئی تھی۔ ۱۲۔ اقبال کی پہلی بیاض جو اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہے ،جو بظاہر اُنہوں نے یورپ سے واپس آکر اپنی قیامِ یورپ کے دوران کی نظمیں جمع کرنے سے شروع کی تھی، اُس میں چار غزلیں ایک ساتھ درج ہیں۔ ایک اُردو غزل ہے اور باقی تین فارسی میں ہیں، جن میں ’’اے گل‘‘ والی غزل ۲۴ اپریل کو عطیہ فیضی کو خط میں روانہ کی گئی اور ’’آشنا ہر خار را‘‘ والی ۱۹۲۳ء میں پیامِ مشرق میں شامل ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ایک ہی نشست میں کہی گئیں۔ نہ صرف یہ غزلیں متصل صفحات پر ایک ہی جیسے انداز میں لکھی گئی ہیں بلکہ اِن میں بعض تراکیب اور تاثرات بھی یکساں ہیں، مثلاً اُردو غزل کے شعر ’’کس قدر اے مے تجھے۔۔۔‘‘ کا موازنہ فارسی غزل کے اس خیال سے کیا جاسکتا ہے: صورتِ مے پردہ از دیوارِ مینا ساختی ’’اے گل۔۔۔‘‘ والی غزل میں عروضی تجربے کی نشاندہی گیان چند (۱۹۸۸) ص ۳۱۵ پر جگن ناتھ آزاد کے حوالے سے کی گئی۔ اِس غزل میں اقبال کی آیندہ فارسی غزلوں کے بعض عناصر دیکھے جا سکتے ہیں، خاص طور پر خدا سے بے تکلفی کا وہ انداز جو آگے چل کر اُن کی فارسی شاعری میں زیادہ نمایاں ہوا (اور اُردو میں قدرے احتیاط کے ساتھ نظر آیا)، وہ یہاں شروع ہی سے موجود ہے۔ غالباً اُنہی دنوں کا ایک قطعہ متروکات میں شامل ہے جس کاپہلا مصرع ہے: ’’صحنِ گلشن سے ہوں گو میں آشیاں برباد دُور‘‘ اور معلوم ہوتا ہے کہ کسی فارسی شعر کی تضمین کی گئی ہے (دیکھیے گیان چند، ص ۳۰۳) ۱۳۔ دیباچہ بانگِ درا ۱۴۔ عطیہ فیضی (۱۹۴۶) ص ۲۰۔ ۱۵۔ Atiya Fyzee (1946) ۱۶۔ نذیر نیازی (۱۹۷۱) ص ۶۷-۶۶ ۱۷۔ حنیف شاہد (۱۹۷۲)، ۱۸۔ ثنأ الحق صدیقی (۱۹۹۰/ ۱۹۷۵)، ص۵۶-۵۵ ۱۹۔ نظم میںبارہ اشعار تھے۔ مخزن، جون ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔اس ماہ کے واقعات میں دیکھیے۔ ۲۰۔ حنیف شاہد (۱۹۷۲)، ص ۱۱-۱۰ ۲۱۔ سعید اختر درّانی ۲۲۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۰۳ پر مرزا جلال الدین کی روایت ۲۳۔عطیہ فیضی کی ڈائری ۔ ضیاالدین برنی کے ترجمے مطبوعہ اقبال اکادمی میں یہ ڈائری شامل ہے۔ ۲۴۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵)، ص۱۰۷-۱۰۶ (طبع اول میں ص۳۸) ۲۵۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۹/۱۹۸۵)، باب ۱۰ ’فلسفہ ٔ عجم کے اصل مسودے کی دریافت‘ ص۲۷۲-۲۳۱اور اسی کتاب کے دیگر حصے (طبع اول میں ص۱۷۶-۱۴۳) ۲۶۔عطیہ فیضی (۱۹۴۶) ۲۷۔ عطیہ فیضی کی ڈائری ۔ ضیاالدین برنی کے ترجمے مطبوعہ اقبال اکادمی میں یہ ڈائری شامل ہے۔ ۲۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۶۵۔ معلوم نہیں واقعہ کب ہوا ۔ شیخ اعجاز احمد نے اسے لڑکپن کے زمانے سے منسوب کیا ہے۔ ۲۹۔عطیہ فیضی کی ڈائری ۔ ضیاالدین برنی کے ترجمے مطبوعہ اقبال اکادمی میں یہ ڈائری شامل ہے۔ ۳۰۔Atiya Fyzee (1946) ۳۱۔یہ سلسلۂ مضامین Muhammad Ali (Ed. Dr. Afzal Iqbal; 1944/87) میں شامل ہے۔ وہاں شانِ نزول بھی درج ہے۔ ۳۲۔ عطیہ فیضٰی (۱۹۴۶) ص ۳۱ ، ۱۰۴ اور مضمون (۱۹۶۷)۔ اس بارے میں خود عطیہ نے بظاہر متضاد روایات پیش کی ہیں۔ ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اور پروفیسر آرنلڈ نے انہیں جرمنی جانے کے لیے قائل کیا مگر ان کا مضمون جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا ایک ڈرامائی منظر پیش کرتا ہے: ’’ہم پروفیسر آرنلڈ کی مطالعہ گاہ میں اکثر ملا کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ اس قدر منکسر اور بے غرض آدمی تھے ۔ اس کے برعکس اقبال چپکے سے اپنی رائے دوسرے پر مسلط کرنے کے عادی تھے اور یقینا اپنے آپ کو برتر سمجھتے تھے۔ کم از کم اس روز جب پروفیسر آرنلڈ نے کہا۔ ’میں اب تمہیں مزید نہیں پڑھا سکتا۔ تمہیں ہائیڈل برگ جانا ہو گا اور وہاں سے پی ایچ ڈی حاصل کرنی ہو گی۔‘ اقبال مڑے اور مجھ سے کہا۔ ’آپ بھی میرے ساتھ آئیں گی۔ میں آپ کو سیٹ بُک کروا دوں گا۔‘ میں نے جواب دیا۔ ’میں نے پہلے ہی ہائیڈل برگ جانے کا ارادہ کیا ہوا ہے تاکہ اس مشہور گروپ سے ملاقات کر سکوں جو ہر روز پھولوں سے لدی ہوئی پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے بعد میں لافانی پیشن پلے (حضرت عیسیٰ کی زندگی پر مبنی ڈرامہ) دیکھنے میونخ جاؤں گی۔‘ ‘‘ یہ بیان کم از کم اس لحاظ سے سہوِ نظر ضرور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ لندن میں اقبال کو باقاعدہ تعلیم نہیں دے رہے تھے جس کا تاثر اس مکالمے سے ملتا ہے۔ ہائیڈل برگ جانے اور میونخ سے پی ایچ ڈی حاصل کرنے کا مشورہ یوں اچانک آرنلڈ نے نہیں دیا ہو گا بلکہ کیمبرج میں اقبال کی اپنے اساتذہ سے شروع ہی میں بات ہوئی ہو گی۔ مضمون شاید ساٹھ سال بعد لکھا گیا تھا جب عطیہ ضعیف اور قریب المرگ تھیں۔ حافظے کی غلطی ہوئی ہو گی۔ ۳۳۔ پولیٹکل اکانومی سے مراد اقبال کی پہلی تصنیف علم الاقتصاد تھی۔ فلسفۂ عجم والے مقالے کا جرمن ترجمہ ممکن ہے اُس وقت کروانے کا ارادہ ہومگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی عطیہ کو غلط فہمی ہوئی ہو۔ بہرحال میونخ یونیورسٹی نے اقبال کے مقالے کو انگریزی زبان ہی میں قبول کیا اور ترجمے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف زبانی امتحان جرمن میں ہوا۔ ۳۴۔ یہاں نظم کا اولیں نقش استعمال کیا گیا ہے جو اقبال کی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219 ) میں ہے۔ وہاں ’’دورۂ عصر‘‘ والا شعر لکھ کر کاٹ دیا گیا ہے۔ اِس شعر کا ذہنی پس منظر اِقبال کے اِس فارسی شعر سے پیوستہ نظر آتا ہے: طرحِ نو افگن کہ ما جدّت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانۂ امروز و فردا ساختی متروک اُردو شعرمیں’ ’دورۂ عصر‘‘سے فارسی شعر والا ’’حیرت خانۂ امروز و فردا‘‘ہی مراد ہے۔ فارسی میں اس کے خلاف خدا سے شکایت کر رہے ہیں، اُردو میں اسے مٹا کر ایک خیالی دنیا بنائی جا رہی ہے۔(نوٹ: فارسی شعرپیامِ مشرق کی ’’آشنا ہر خار را‘‘ والی غزل میں ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ اِسی زمانے میں لکھی گئی تھی)۔ باب ۶: نامعلوم دنیا جولائی ۱۹۰۷ء سے جولائی ۱۹۰۸ء تک ۱۔ گوئٹے کے یہ اشعار اسپنگلر نے اپنی کتاب زوالِ مغرب میں استعمال کیے اور علامہ اقبال نے تشکیلِ جدید کے دوسرے خطبے میں۔ ۲۔ علامہ اقبال نے ایما ویگے ناست کے نام ایک خط میں بھی یہ نعرہ غالباً ازراہِ تفنن درج کیا۔ ممکن ہے کہ حقیقت میں اسے بھی بت پرستی کی وہی صورت سمجھتے ہوں جو وطن پرستی کی صورت میں رائج ہو رہی تھی اور جس کے بارے میں افکارِ پریشاں والی ڈائری میں ۱۹۱۰ء میں نوٹ بھی لکھا۔ جرمن زبان میں پورا نغمہ انگریزی ترجمے کے ساتھ درجِ ذیل ہے۔ Deutschland, Deutschland über alles, Über alles in der Welt, Wenn es stets zu Schutz und Trutze Brüderlich zusammenhält. Von der Maas bis an die Memel, Von der Etsch bis an den Belt, Deutsche Frauen, deutsche Treue, Deutscher Wein und deutscher Sang Sollen in der Welt behalten Ihren alten schönen Klang, Uns zu edler Tat begeistern Unser ganzes Leben lang. Einigkeit und Recht und Freiheit Für das deutsche Vaterland! Danach lasst uns alle streben Brüderlich mit Herz und Hand! Einigkeit und Recht und Freiheit Sind des Glückes Unterpfand; Translation: Germany, Germany above everything, Above everything in the world, When, for protection and defence, it always takes a brotherly stand together. From the Meuse to the Memel, From the Adige to the Belt, German women, German loyalty, German wine and German song Shall retain in the world Their old beautiful chime And inspire us to noble deeds During all of our life. Unity and justice and freedom For the German fatherland! For these let us all strive Brotherly with heart and hand! Unity and justice and freedom Are the pledge of fortune; ۳۔ میں نے ایما کے بارے میں معلومات عام طور پر سعید اختر درانی (۱۹۹۵) سے لی ہیں۔ ۴۔ Atiya Fyzee (1946) ۵۔ سعید اختر درانی (۱۹۸۵ئ) ۶۔ سعید اختر درانی (۱۹۸۵ئ) ص ۳۹، ۹۴ ۷۔ Atiya Fyzee (1946) ۸۔ ان مخطوطوں کا ذکر مطبوعہ مقالے میں کتابیات کی فہرست میں کیا ہے اور مقام ’’برلن اسٹیٹ لائبریری‘‘ بتایا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے برلن جانے کا اور کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ ۹۔ Atiya Fyzee (1946) ۱۰۔ Atiya Fyzee (1946) ۱۱۔ Atiya Fyzee (1946) ۱۲۔ Atiya Fyzee (1946) ۱۳۔ اقبال اور ایما کی داستان کے نقوش اس طرح مٹ چکے ہیں کہ تفصیلات کو اکٹھا کرنا اب ممکن نہیں ۔ مگر بانگِ درا جسے اقبال نے کئی سال بعد مرتب کیا اُس کے دُوسرے حصے کا مطالعہ کرتے ہوئے اس زمانے کے کم از کم تین جذباتی مرحلوں کا پتہ ملتا ہے: (۱) عشق میں خود کو محبوب کے سپرد کرنے کا زمانہ (حسن و عشق، ۔۔۔ کی گود میں بلّی دیکھ کر، کلی، چاند اور تارے، وصال، سلیمیٰ)، (۲) ہرجائی ہونے کا اعتراف (عاشقِ ہرجائی) اور (۳) ہجر اور جدائی کا زمانہ (کوششِ ناتمام، نوائے غم، عشرتِ امروز، انسان، جلوۂ حسن، ایک شام، تنہائی، پیامِ عشق، فراق، عبدالقادر کے نام، صقلیہ)۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیان چند نے ان میں سے تین نظموں کو بعد کے دَور کی نظمیں ثابت کیا لیکن تب بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بانگِ درا میں اس مقام پرشامل کرنے سے اقبال کا مقصد ایک ذہنی سفر کے مراحل کی نشاندہی کرنا تھا۔ ۱۴۔ اس موضوع پر تفصیل سے پیام مشرق (۱۹۲۳) کے دیباچے میں لکھا۔ ۱۵۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۱۶۔ اقبال کے یہ جاننے والے یوسف سلیم چشتی ہیں۔ کافی مدت بعد اقبال کے پاس اٹھنا بیٹھنا شروع کیا اور اقبال کے بعض کلام کی تشریح خود اقبال سے سنی۔ دونوں بیانات ان کی شرح بانگ درا میں ہیں جہاں سے گیان چند (۱۹۸۸) نے نقل کر کے دوسرے بیان کے بارے میں لکھا، ’’اس تاویل کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔‘‘ نجانے کیوں آتی ہے! تخلیقی تجربے میں مجازی اور حقیقی عشق کا امتزاج کوئی انہونی تو نہیں۔بیاض میں اقبال نے نظم پر میونخ، اگست ۱۹۰۷ء درج کیا ہے۔ ۱۷۔ پہلی بیاض (اقبال میوزیم نمبر219) میں یہ نظم موجود ہے۔ ۱۸۔ پہلی بیاض (اقبال میوزیم نمبر219) میں یہ نظم موجود ہے۔ ۱۹۔ بیاض میں اِسے یورپ کی نظموں کے ساتھ درج کیا ہے مگر زمانے کا تعین مشکل ہے۔ بعد میں کاٹ کر دوبارہ لکھا گیا ہے: وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا تُو نے اُٹھا لیا اُتار کر ابھی رکھا تھا میز پر ہم نے نظر بچا کے ہماری چھپا لیا تُو نے شریر سا جو تبسم ہے تیری آنکھوں میں ۲۰۔سعید اختر درانی (۱۹۹۵)، ص۱۹۔ سعید اختر درانی نے ایما کے کزن کی بیٹی پروفیسر ہیلا کرش ہوف سے ۷ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو اپنی ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے، ’’پروفیسر صاحبہ نے فرمایا کہ انہیں یاد پڑتا ہے کہ ان کے خاندان میں اس بات کا کچھ تذکرہ تھا کہ ایک زمانے میں (شاید ۱۹۰۸ء کے لگ بھگ) ایما ہندوستان جانا چاہتی تھیں، لیکن ان کے بڑے بھائی کارل نے (جو خاندان کی سربراہی کرتے تھے) ان کو اس دوردراز ملک میں تن تنہا جانے سے منع کر دیا تھا۔‘‘ ۲۱۔ پہلی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219)میں یہ نظم یورپ میں لکھی گئی نظموں کے ساتھ لکھ کر کاٹی گئی ہے۔ ۲۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۶۱میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے کہ انہوں نے اقبال سے سنا۔ ۲۳۔ نظم میں ۹ اشعار ہیں۔ بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۲۴۔ بانگِ درا میں ’کوششِ ناتمام‘ کے نام سے شامل ہے۔ اصل نظم میں دو بند تھے اور کل ۱۲ اشعار۔ دو اشعار میں عروض کا وہی تجربہ کیا تھا جو اس سے پہلے ’پیام‘ اور ’طلبہ علی گڑھ کے نام‘ میں کر چکے تھے۔ وہ دونوں اشعار اور ان کے علاوہ تین کمزور شعر بانگِ درا میں شامل نہیں کیے گئے۔ ۲۵۔ اردو شاعری میںخضر کی طرف عام رویہ وہی تھا جو غالبؔکے اس شعر میں نظر آتا ہے: کیا کِیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی ایک اور جگہ اس طرح طنز کیا تھا: بے صُرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عُمرِ خضر حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیے اقبال نے اس سے پہلے جہاں خضر کا تذکرہ کیا تھا وہاں اپنائیت یا پسندیدگی کا کوئی پہلو نہیں تھا، مثلاً: خضر سے چھُپ کے مر رہا ہُوں میں تشنہ کامِ میٔ فنا ہُوں میں ۱۹۰۲ء تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے ۱۹۰۵ء ۲۶۔ Atiya Fyzee (1946) ۲۷۔ Atiya Fyzee (1946) ۲۸۔ Atiya Fyzee (1946) ۲۹۔ Atiya Fyzee (1946) ۳۰۔ Atiya Fyzee (1946) ۳۱۔ عطیہ فیضی کا انگریزی مضمون مطبوعہ ۱۹۶۷ء ۳۲۔ Atiya Fyzee (1946) ۳۳۔ عطیہ فیضی کا انگریزی مضمون مطبوعہ ۱۹۵۰ء ۳۴۔ Atiya Fyzee (1946)، نیز عطیہ فیضی کی ڈائری ۳۵۔ عطیہ فیضی کا انگریزی مضمون مطبوعہ ۱۹۵۰ء ۳۶۔ Atiya Fyzee (1946) ۲۷۔ Atiya Fyzee (1946) ۳۸۔ Atiya Fyzee (1946)۔ ڈائری میں لکھا ہے کہ اقبال نے میڈم شیرر کے ٹوکنے پر جواب دیا تھا۔ ۳۹۔ Atiya Fyzee (1946) ۴۰۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۴۱۔ بانگِ درا میں نظم کا آخری مصرعہ یوں درج ہے: ’’آنکھوں میں ہے سلیمیٰ! تیری کمال اُس کا،‘‘ چنانچہ اکبر حیدری کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ پہلے ’’اے سلیمیٰ‘‘ کی جگہ عطیہ کا نام رہا ہوگا(گیان چند ۱۹۸۷ء میں اس کا ذکر ہے)۔ یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا۔ اقبال کی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219 )میں اِس مصرعے کی اولین صورت وہی ہے جو میں نے یہاں درج کی ہے اور پھر اسے کاٹ کر ’’آنکھوں میں اے حسینہ تیری کمال اُس کا‘‘ بنایا گیا ہے۔ ۴۲۔ اقبال کی سب سے پرانی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219) میں اِس نظم پر ہائیڈل برگ، ستمبر ۱۹۰۷ء کی تاریخ درج ہے۔ بیاض بعد کے زمانے کی ہے اور یہ نظم بھی شاید حافظے کی مدد سے اور غالباً عجلت میں وہاں لکھی گئی ہے کیونکہ تحریر میں کچھ غلطیاں محسوس ہوتی ہیں۔ چنانچہ میں نے یہ نظم یہاں بانگِ درا والی صورت میں درج کی ہے۔ ۴۳۔ یہاں نظم کا متن اقبال کی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219 )سے لیا گیا ہے۔ اُس میں عنوان درج نہیں مگر ہائیڈل برگ، ستمبر ۱۹۰۷ء کی تاریخ درج ہے۔ اکبر حیدری (۲۰۰۱) کے مطابق یہ نظم پہلی بار ۱۹۲۲ء میں رسالہ ہمایوں میں شائع ہوئی جہاں اس کا نام خاموشی تھا اور وضاحت کی گئی تھی کہ اقبال نے یہ نظم دریائے نیکر کے کنارے چاندنی رات میں کہی تھی۔ بانگِ درا میں اس کا نام تبدیل ہواـ : ’ایک شام ، دریائے نیکر(ہائیڈل برگ) کے کنارے‘ اور بعض اصلاحات ہوئیں۔ ۴۴۔ بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۴۵۔ یہ خیال علامہ اقبال نے ملت بیضا پر عمرانی نظر میں پیش کیا۔ ۴۶۔ بانگِ درا میں شامل ’قطعہ‘ اِسی کے جواب میں معلوم ہوتا ہے: کل ایک شوریدہ بارگاہِ نبی میں رو رو کے کہہ رہا تھا تفصیل ۱۹۱۱ کے واقعات میں دیکھیے۔ ۴۷۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۴۸۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵)، باب۳ ۴۹۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) میں اصل جرمن تحریر کا عکس، متن کی ٹائپ شدہ نقل، انگریزی ترجمہ اور جزوی اُردو ترجمہ فراہم کیا گیا ہے۔ ۵۰۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵)، باب۳ ۵۱۔ ایما ویگے ناست کے نام اقبال کے خطوط ۱۹۸۴ میں پاکستانی سائنسدان سعید اختر درانی کی اقبالیات میں دلچسپی کے ذریعے سامنے آئے۔ یہ ان کی کتاب اقبال یورپ میں (۱۹۹۹/۱۹۸۵) میں شامل ہیں۔ ان سے پہلے ۱۹۵۹ء میں پاک جرمن فورم کے صدر ممتاز حسن اور معتمد امان اللہ ہوبوہم نے جرمنی میں موجود ایسے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا جو اقبال سے مل چکے ہوں۔ عطیہ فیضی کی کتاب اقبال کی وجہ سے ان کی توجہ ایما ویگے ناست کی طرف گئی۔ ہوبوہم کا بیان ہے کہ وہ اور ممتاز حسن ایما سے ملاقات نہ کر سکے مگر ممتاز حسن کی ایما سے خط و کتابت ہوئی جس کے نتیجے میں ایما نے اپنے نام اقبال کے خطوط پاک جرمن فورم کے حوالے کر دیے اور درخواست کی کہ انہیں آرکائیوز میں رکھوا دیا جائے تاکہ اقبال پر تحقیق کرنے والے ان سے استفادہ کر سکیں۔ افسوس ہے کہ اُن کی یہ خواہش پوری نہ کی گئی ۔ ۱۹۸۲ میں ہوبوہم نے ان خطوط کی نقل سعید اختر درانی کو فراہم کی مگر کہا کہ وہ خود اسے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔سعید اختر درانی کے توسط سے پہلے ان خطوط کا ترجمہ کراچی کے ادبی ماہنامے افکار میں شائع ہوا۔ سعید اختر درانی کو خطوط کے اصل متن شائع کرنے میں تامل تھا کہ کہیں ہوبوہم صاحب کی دل شکنی نہ ہو مگر اِس دوران ایما کی بھتیجی پورفیسر کرشہوف نے بتایا کہ ایما نے اصل خطوط کئی نادر تصویروں سمیت اُن کے سامنے دو افراد کے حوالے کیے تھے جو کسی ادارے کی نمایندگی کر رہے تھے۔ پروفیسر کرشہوف کو افسوس تھا کہ ایما کی اِس خواہش کا احترام نہیں کیا گیا کہ یہ چیزیں اقبال پر تحقیق کرنے والوں کے لیے دستیاب کی جائیں۔ جب اُنہیں سعید اختر درانی نے بتایا کہ کم سے کم خطوط کی نقل وہ ہوبوہم سے حاصل کر چکے ہیں تو پروفیسر کرشہوف نے خواہش ظاہر کی کہ ان کے متن بھی شائع ہونے چاہییں۔سہیل عمر نے بھی، جو اُس وقت اقبال اکادمی کے نائب ناظم تھے، سعید اختر درانی کو یہی مشورہ دیا۔ یوں اقبالیات میں دلچسپی رکھنے والے پہلی دفعہ ان خطوط کے مجموعے سے فیضیاب ہو سکے۔ اقبال یورپ میں کے پہلے اڈیشن کے بعد کسی وقت ہوبوہم نے سعید اختر درانی کو خطوط کے اصل عکس شائع کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ یہ دوسرے اڈیشن میں شامل ہوئے۔ ۵۲۔ بیاض میں درج ہے۔ ۵۳۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۵۴۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) میںان تمام جرمن تحریروں کا عکس، متن کی ٹائپ شدہ نقل، انگریزی ترجمہ اور جزوی اُردو ترجمہ فراہم کیا گیا ہے۔ ۵۵۔ پہلی بیاض (اقبال میوزیم نمبر1977. 219) میں یہ نظم موجود ہے۔ ۵۶۔ پہلی بیاض (اقبال میوزیم نمبر1977. 219) میں یہ نظم موجود ہے۔ ۵۷۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۵۸۔ سعید اختر درانی (۱۹۸۵) ۵۹۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۶۰۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۶۱۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۶۲۔ سعید اختر درانی (۱۹۹۵) ۶۳۔ مکتوب بنام ایما ۲دسمبر ۱۹۰۷ء ۶۴۔ محمد حنیف شاہد (جون ۱۹۷۷)، ص ۱۰۔ اُن کا ماخذ ہے محمد انور امین کی تالیف کی ہوئی قیام پنجاب مسلم لیگ ّ(۱۹۶۹) مطبوعہ نعمت پبلی کیشنز لاہور ۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں مرزا جلال الدین کی روایت ہے کہ فنانشل سیکرٹری محمد شریف تھے جو آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ ۶۵۔ اقبال نے ایما کے نام ۲۱ جنوری ۱۹۰۸ء کے خط میں لکھا ، ’’جب آپ کا پچھلا خط ملا تو میں بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفانوں میں سے گزرنے کے بعد اپنی طمانیت قلب دوبارہ حاصل کر لی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔‘‘ ۶۶۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۷۳-۷۲ ۶۷۔ پیر حیدر شاہ کی وفات ۶ جمادی الثانی ۱۳۲۶ھ کو ہوئی تھی۔ قطعہ چونکہ گیان چند (۱۹۸۷) میں بھی شامل نہیں ہے لہٰذا یہاں درج کیا جاتا ہے۔ ہر کہ بر خاکِ مزارِ پیر حیدر شاہ رفت تربتِ اُو را زمینِ جلوہ ہائے طُور گفت ہاتف از گردُوں رسیدہ خاکِ اُو را بوسہ داد گفتمش سالِ وفاتِ اُو، بگو ’’مغفور گفت‘‘ ۶۸۔ meliorism کی اصطلاح کا اولین استعمال انگریز ناول نگار خاتون جارج ایلئٹ سے منسوب کیا جاتاہے۔ اقبال نے اپریل ۱۹۰۹ء کے لیکچر میں بھی یہ اصطلاح استعمال کی اور ۱۹۲۹ء میں اپنے مشہور خطباتِ مدراس میں بھی۔ ۶۹۔ Muhammad Siddiq (1983) ۷۰۔ کراچی کے اجلاس کا حال الطاف علی بریلوی و ایوب قادری (۱۹۷۰)، عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۳۳-۱۳۲ اور ثنأ الحق صدیقی (۱۹۹۰/۱۹۷۵)، ص۳۰۶-۳۰۴سے ماخوذ ہے۔ ۷۱۔ علامہ اقبال کا مضمون اس مجلے کے جولائی کے شمارے میں شائع ہوا۔ جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات میں مکمل متن دیکھیے۔ ۷۲۔ صرف موضوعات کی فہرست علامہ اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے نام خط مورخہ ۱۰ فروری میں لکھی ہے۔ ان میں سے پہلے اور دوسرے لیکچر کے بارے میں معلوم ہے کہ بالترتیب جنوری اور فروری میں ہوئے۔ بقیہ کی تاریخیں معلوم نہیں نہ یہ کہ وہ ہوئے یا نہیں۔ لیکن اگر پہلے دو لیکچر ماہانہ تھے تو شاید بقیہ بھی اسی حساب سے ہوئے ہوں۔ اس بنیاد پر قیاس کیا گیا ہے۔ نیز ’’اسلامی جمہوریت‘‘ وہی لیکچر معلوم ہوتا ہے جو اُسی برس مقالے کی صورت میں سوشیالوجیکل ریویو (لندن) میں 'Political Thought in Islam' کے عنوان سے شائع ہوا اور تحریکِ خلافت کے زمانے میں ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہوا۔غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۲۲ پر خلیفہ عبدالحکیم کا بیان درج ہے کہ اقبال نے لندن میں چھ(۶) لیکچر اسلام پر دیے تھے۔ ۷۳۔ اس زمانے کے بعض خطوط میں علامہ اقبال نے تذکرہ کیا ہے، مثلاً ۱۰ فروری ۱۹۰۸ء کو حسن نظامی کے نام خط جس کا متعلقہ اقتباس اپنی جگہ پر شامل کیا جا رہا ہے۔ ۷۴۔ دیکھیے علامہ اقبال کا ۱۹۰۹ والے انگریزی لیکچر پہلا حصہ (جولائی ۱۹۰۹ء کے واقعات میں پورا مرن نقل کیا گیا ہے)۔ متعلقہ حصہ یوں ہے: The attitude of the mind which characterizes a critical student is fundamentally different from that of the teacher and the expounder. He approaches the subject of his inquiry free form all pre-suppositions, and tries to understand the organic structure of a religious system, just as a biologist would study a form of life or a geologist a piece of mineral. His object is to apply methods of scientific research to religion, with a view to discover how the various elements in a given structure fit in with one another, how each factor functions individually, and how their relation with one another determines the functional value of the whole. He looks at the subject from the standpoint of history and raises certain fundamental questions with regard to the origin, growth, and formation of the system he proposes to understand. What are the historical forces, the operation of which evoked, as a necessary consequence, the phenomenon of a particular system? Why should a particular religious system be produced by a particular people? What is the real significance of a religious system in the history of the people who produced it, and in the history of mankind as a whole? Are there any geographical causes which determine the original locality of a religion? How far does it reveal the inmost soul of a people, their social, moral and political aspirations? What transformation, if any, has it worked in them? How far has it contributed towards the realization of the ultimate purpose revealed in the history of man? These are some of the questions which the critical student of religion endeavours to answer, in order to comprehend its structure and to estimate its ultimate worth as a civilizing agency among the forces of historical evolution. ۷۵۔ یہ علامہ اقبال کے ۱۹۰۹ء کے لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' میں سے وہ خیالات ہیں جن کے بارے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ جنوری ۱۹۰۸ء میں بھی ذہن میں موجود رہے ہوں یا تشکیل پا رہے ہوں گے۔ لیکچر کا متن جولائی اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں دیکھیے۔ ۷۶۔ یہ علامہ اقبال کے ۱۹۰۹ء کے لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' میں سے وہ خیالات ہیں جن کے بارے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ جنوری ۱۹۰۸ء میں بھی ذہن میں موجود رہے ہوں یا تشکیل پا رہے ہوں گے۔ لیکچر کا متن جولائی اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں دیکھیے۔ ۷۷۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۵۹میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے کہ انہوں نے اقبال سے سنا۔ ۷۸۔نوادر میں درانی نے پروفیسر آرنلڈ کے پوسٹ کارڈ کا تذکرہ کیا ہے جو جنوری ۱۹۰۸ء کے اواخر میں انہوں نے مصر سے اپنی بیگم کو لکھا تھا۔ اس کے مطابق وہ چند روز میں مصر سے روانہ ہونے والے تھے۔ ۷۹۔ یہ ملنے والے محمد دین تاثیر ہیں۔ اقتباس اُن کے مضمون ’فلسفہ ٔ اقبال‘ کی دوسری قسط سے لیا گیا ہے جو نیرنگِ خیال میں اگست ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ مشمولہ ممتاز اختر مرزا، مرتب (جون ۱۹۷۸)، ص۶۴۔ تاثیر کی روایت درست معلوم ہوتی ہے اگرچہ ذرا سا پیچ اِس بات میں ہے کہ کیمبرج اور لنکنز اِن سے فراغت ایک ساتھ نہیں بلکہ ایک ڈیڑھ برس کے فرق سے ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے یہ زمانہ مارچ ۱۹۰۷ کا بھی ہو سکتا ہے اور اوائل ۱۹۰۸ء کا بھی۔ مجھے دوسری صورت زیادہ قرین قیاس نظر آتی ہے (اور میرے خیال میں ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ والی نظم کا محرک بھی کسی سوال کا پیدا ہونا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں تو ایک ایسے جواب کے حصول کا جشن منایا جا رہا ہے جس کے بعد ہی اُس سوال کی منزل آ سکتی تھی جس کا یہاں تذکرہ ہے)۔ ۸۰۔ حسن اختر (۱۹۸۸ئ) ص ۷۲، بحوالہ پنجاب گزٹ ۳۱ جنوری ۱۹۰۸ء ۸۱۔ حسن اختر (۱۹۸۸ئ) ص۷۶۔ اقبال کے استعفے کا عکس موجود ہے۔ ۸۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵ئ)، ص ۴۱۳۔ کتاب پر تاریخِ کتابت ۲۸ مارچ ۱۹۰۸ء درج کی ہے۔ ۸۳۔The Development of Metaphysics in Persia ۸۴۔ متعدد نظمیں، بالخصوص زیرِ نظر کتاب کے چوتھے باب میں۔ جو حقیقت ظاہر ہونے والے تھی اُس کی وضاحت کے لیے جون ۱۹۰۸ء کے واقعات میں نظم ملاحظہ کیجیے۔ ۸۵۔ یہ نکات اپریل ۱۹۱۱ء والے لیکچر سے ماخوذ ہیں۔ پورے لیکچر کا خلاصۃ اُس ماہ کے واقعات میں دیکھیے۔ ۸۶۔ اسی مجلے کے آیندہ شمارے میں اُن کا اپنا مقالہ شائع ہوا اور عام دستور تھا کہ کسی مجلے کے لیے مقالہ لکھتے ہوئے قریب کے شماروں پر بھی نظر ڈالی جائے۔ اِس مقالے کے موضوع ’’نسلوں کی اتالیقی‘‘ پر دو برس بعد نجی نوٹ بک میں اپنا خیال بھی درج کیا۔ ۸۷۔ اقبال کے سیاسی فکر والے مقالے کے اقتباس کا ترجمہ ہے۔ پورے مقالے کا انگریزی متن باب۷ میں جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات کے تحت دیکھیے۔ یہاں نرجمہ ہونے والے اقتباس کا انگریزی متن یوں ہے: Omar, however, afterwards held that the hurried election of Abu Bakr, though very happy in its consequences and justified by the need of the time, should not form precedent in Islam; for as he is reported to have said (Dozy, I, p. 121) an election which is only a partial expression of the people's will is null and void. It was, therefore, early understood that Political Sovereignty de facto resides in the people; and that the electorate by their free act of unanimous choice embody it in a determinate personality in which the collective will is, so to speak, individualized, without investing this concrete seat of power with any privilege in the eye of the law except legal control over the individual wills of which it is an expression. The idea of universal agreement is in fact the fundamental principle of Muslim constitutional theory. "What the Muslim community considers good," says the Prophet, "God also considers good." It is probably on the authority of this saying of the Prophet that al-Ash'ari developed his political dogma-"That error is impossible in the united deliberations of the whole community." ۸۸۔ علامہ اقبال کے سیاسی فکر والے مقالے کے اقتباس کا ترجمہ ہے۔ پورے مقالے کا انگریزی متن باب۷ میں جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات کے تحت دیکھیے۔ یہاں نرجمہ ہونے والے اقتباس کا انگریزی متن یوں ہے: The whole system of Islamic ethics is based on the ideal of individuality; anything which tends to repress the healthy development of individuality is quite inconsistent with the spirit of Islamic law and ethics. A Muslim is free to do anything he likes, provided he does not violate the law. The general principles of this law are believed to have been revealed; the details, in order to cover the relatively secular cases, are left to the interpretation of professional lawyers. It is, therefore, true to say that the entire fabric of Islamic law, actually administered, is really judge-made law, so that the lawyer performs the legislative function in the Muslim constitution. If, however, an absolutely new case arises which is not provided for in the law of Islam, the will of the whole Muslim community becomes a further source of law. But I do not know whether a general council of the whole Muslim community was ever held for this purpose. ۸۹۔ بالخصوص ۱۹۰۹ والے مقالے میں یہ نکات موجود ہیں۔ ۱۹۰۸ء والے مقالے سے یہ اہم نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ اقبال کے نزدیک اسلام میں کلیسا اور ریاست کی تفریق کی گنجایش اس لیے جائز نہ تھی کہ یہ پروہتوں اور بادشاہوں کے وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ اقبال کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مغرب میں کلیسا اور ریاست کی تفریق پیدا کر کے سیکولراِزم اختیار کیا گیا تو صرف عیسائیت کی آپس کی فرقہ وارانہ جنگیں ختم ہوئیں اور صرف ریاستوں میں اندرونی طور پر جموریت قائم ہوئی۔ دوسرے مذاہب اور غیر تہذیبوں کے مقابلے میں مغرب کی سیکولر طاقتوں کا رویہ ہمیشہ ملوکانہ، استحصال پسند اور جنگ آمادہ ہا۔ اب تک ہے۔ ۹۰۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص ۵۷ ۹۱۔ پورے مقالے کا متن باب۷ میں جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات میں دیکھیے: 'Political Thought in Islam' ۹۲۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)ص ۶۳ میں محمد حسین عرشی کی روایت۔ ۹۳۔ محمد دین تاثیرکا مضمون ’فلسفہ ٔ اقبال‘ جو نیرنگِ خیال میں اگست ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ مشمولہ ممتاز اختر مرزا، مرتب (جون ۱۹۷۸) ۹۴۔ علامہ اقبال کا مضمون 'The Muslim Community' جس کا مکمل متن فروری ۱۹۱۱ء کے واقعات میں شامل ہے۔ متعلقہ اقتباس یوں ہے: It has been brought to light by recent biological research that the individual as such is a mere abstraction, a convenient expression for facility of social reference, passing moment in the life of the group to which he happens to belong. His thoughts, his aspirations, his ways of life, his entire mental and physical outfit, the very number of days which he lives, are all determined by the needs of the community of whose collective life he is only a partial expression... Society has a distinct life of its own, irrespective of the life of its component units taken individually... Society has or rather tends to have a consciousness, a will, and an intellect of its own, though the stream of its mentality has no other channel through which to flow than individual minds. The expressions "Public Opinion", "National Genius", or what the Germans happily phrase the "Zeitgeist" are only vague recognitions of this exceedingly important fact of social Psychology. The crowd, the mass meeting, the corporation, the sect, and, finally the deliberative assembly are the various means by which the body social organizes itself in order to secure the unity of self-consciousness... It is, therefore, clear that society has a life stream of its own. ۹۶۔ یہ غزل کی طرز پر تھی جس میں ۸ اشعار تھے۔ مخزن میں اکتوبر ۱۹۰۸ء میں چھپی جب اقبال ہندوستان واپس پہنچ چکے تھے مگر ظاہر ہے کہ اِس سے پہلے لکھی گئی ہو گی۔ فروری ۱۹۰۶ء کی نظم ’پیغامِ راز‘ سے اس کا موازنہ کرنا چاہیے۔ دونوں قریب کی بحروں میں لکھی گئی ہیں اور پہلی نظم کا باعث یہ واقعہ ہوا تھا کہ کسی دوست کو عشق میں ناکامی ہوئی۔ دوسری نظم کے وقت اقبال خود ناکامی سے گزر رہے تھے۔دونوں نظموں میں بعض ترکیبیں اور استعارے مشترک ہیں مگر اُن کے معانی میں کچھ فرق آیا ہے۔ واضح رہے کہ کہ لفظ ’ملّت‘ کو وہ جدید عربی معانی میں استعمال کرتے تھے جہاں یہ نیشن یعنی قوم کا مترادف تھی خواہ اُس قوم کا مذہب کچھ بھی ہو۔ اس کی وضاحت انہوں نے وفات سے پہلے اپنے آخری مضمون میںکی۔ ۹۷۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹) ، ص۲۵۰-۲۴۹ ۹۸۔ مخزن، دسمبر ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی مگر اقبال نے اس سے پہلے لکھی تھی اور بذریعہ خط عبدالقادر کو بھیجی تھی۔ اس میں ۱۶ اشعار تھے۔ ۹۹۔ حسن اختر (۱۹۸۸ئ) ص ۷۳ بحوالہ پنجاب گزٹ حصہ سوم ۲۹ اپریل ۱۹۱۰ء ۱۰۰۔ اُس ماہ مخزن میں اکبرؔ الٰہ آبادی کی دو غزلیں شایع ہوئیں۔ یہ غزل دس اشعار پر مشتمل تھی۔ باب ۷: صقلیہ اگست ۱۹۰۸ ۱۔ سعید اختر درانی (۱۹۸۵)، ص۷۵ ۲۔ جون کو ایما کے نام خط میں انہوں نے ۳ جولائی کو روانگی کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر بعض دوسرے شواہد کی بنیاد پر سعید اختر درّانی (۱۹۸۵) نے روانگی کی تاریخ ۸ یا ۹ جولائی متعین کی ہے۔ ۳۔ یہ نظم مخزن میں اگست ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی مگر اس سے پہلے کی بھی ہو سکتی ہے۔ پہلی بیاض (علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219 ) میں قیام یورپ کی نظموں کے آس پاس درج ہے۔ ۴۔ امجد سلیم علوی (۱۹۸۸) میں غلام رسول مہر کی ڈائری کے مطابق اقبال نے یہ بات غلام رسول مہر کو ملاقات میں بتائی۔ ۵۔ ایما کے نام مکتوب ۲۷ جون ۱۹۰۸ء ۶۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۸)، ص۱۴۲ ۷۔ مضمون کا متن Sherwani کے مجموعے میں شامل ہے۔ میں نے سوشیالوجیکل ریویو کے متعلقہ شمارے میں شائع ہونے والے اصل متن سے بھی اس کا موازنہ کر لیا ہے۔ ۸۔ مخزن میں اس کے ساتھ عبدالقادر کا نوٹ شائع ہوا: ’’ہمارے دوست فرماتے ہیں کہ وہ رات کے وقت جہاز میں اس جزیرہ کے پاس سے گزرے اور اس کی روشنیوں کو دیکھ کر بعض خیالات اور جذبات نے یکایک ان کی طبیعت پر ہجوم کیا۔ یہ نالہ ٔ موزوں ان ہی خیالات اور جذبات کا نتیجہ ہے۔ ‘‘ ۹۔ Jahan Ara Shahnawaz (1971), p. 29 باب۸: شیطان کی خدائی جولائی ۱۹۰۸ء سے مارچ ۱۹۱۱ء تک ۱۔ یہ نظم منشی غلام علی خاں صاحب غلامیؔ کی تھی۔ محمد الدین فوق نے کشمیری میگزین اگست ۱۹۰۸ء میں پوری نظم شائع کی جس میں نو اشعار تھے۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵ئ) میں شامل ہے۔ ۲۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹)، ص ۲۴۹وغیرہ ۳۔ علامہ اقبال کا لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' جس کا مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ ۴۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸) ص ۵۹ پر روایت محمد دین فوق۔ نیز خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۹۰-۸۹ اور عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۷۰، ان دونوں نے پروفیسر محمد دین بھٹی سے روایت کی ہے۔ ۵۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص ۶۳ اور جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۱۷۱ [۱۹۸۱، ص ۷]۔عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص ۲۴۵ پرموہن روڈوالے دفتر کو کوٹھی لکھا ہے۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص۴۰ پر ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اس مکان میں بٹ اسٹیشنری مارٹ کے نام سے اسٹیشنری کی دکان قائم ہوئی۔موہن لال روڈ کو اب اردو بازار کہتے ہیں۔ ۶۔ مکتوب بنام گوہر علی خان، ۲۲ اگست ۱۹۱۰ء ۷۔ کشمیری میگزین ماہ اگست ۱۹۰۸ء کے متعلقہ اندراجات رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵ئ) میں شامل ہیں۔ ۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۷۳ ۹۔ علامہ اقبال کا لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' جس کا مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ ۱۰۔ علامہ اقبال کا لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' جس کا مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ علامہ کی اِس نصیحت پر عمل کیا جائے تو پھر معاشرے میں تبدیلی کیسی لائے جائے گی؟ اگر یہی اسلامی مزاج کی سیاست ہے (جیسا کہ علامہ نے اور بعد میں تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں بالخصوص قائداعظم نے دعویٰ کیا)، تو پھر معاشرے میں انقلاب کس طرح آئے گا؟ علامہ کے بعدکے ادب میں اِس سوال کا ایک نہایت واضح جواب ابن صفی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے زمانے میں فراہم کیا: ’’جس طبقہ کے تم شاکی ہو اُس کی اِصلاح کی سوچو۔ ظلم و تشدّد کا تصوّر تک ذہن میں نہ لاؤ - ہمیشہ یاد رکھو، تم اُس کے غلام ہو۔ جس کی مظلومیت اِنقلاب لائی تھی (یاد کرو طائف کا وہ واقعہ جب میرے آقا و مَولا کی جوتیاں تک لہولہان ہو گئی تھیں)۔‘‘ (پیشرس، پاگلوں کی انجمن)۔ ۱۱۔ مکتوب بنام شاطر مدراسی۔ ۲۹ اگست ۱۹۰۸ء ۱۲۔ صابر کلوروی (۲۰۰۴)۔ اُن کا ماخذ بیاضِ اعجاز ہے۔ پوری غزل میں تیرہ اشعار ہیں۔ ۱۳۔ مکتوب بنام ایما ۳ ستمبر ۱۹۰۸ء ۱۴۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۳۰ ۱۵۔ حسن اختر (۱۹۸۸) بحوالہ پنجاب گزٹ حصہ سوم ۶ نومبر ۱۹۰۸ء ۱۶۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۱۳۵ پر فوق کا بیان ہے۔ ۱۷۔ Jahan Ara Shahnawaz (1971), p. 20-1 ۱۸۔ خواجہ کریم بخش کے بیٹے خواجہ عبدالوحید کی روایت۔ میرا ماخذ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) ہے۔ للی لاج تین بھائیوں، خواجہ کریم بخش، خواجہ رحیم بخش اور خواجہ امیر بخش کی ملکیت تھی۔نیز دیکھیے باب ۱۔ ۱۹۔ ایما کے نام مکتوب ۱۱ جنوری ۱۹۰۹ء ۲۰۔ ۱۹۳۸ء میں شائع ہونے والا اسلام اور وطنیت پر مضمون: I have been repudiating the concept of nationalism since the time when it was not well-known in India and the Muslim World. At the very start it had become clear to me from the writings of European authors that the imperialistic designs of Europe were in great need of this effective weapon-the propagation of the European conception of nationalism in Muslim countries-to shatter the religious unity of Islam to pieces. ۲۱۔Jahan Ara Shahnawaz (1971), p.31 ۲۲۔ یہ ایک طرح سے وہی طریقِ انتخاب تھا جسے چوّن برس بعد شیخ عبدالقادر کے فرزند منظور قادر کی رہنمائی میں صدر جنرل ایوب خاں نے پاکستان میں رائج کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ عثمانی ریاست میں اس طریقِ انتخاب کی ترویج کے بعد یورپی حصے ریاست سے علیحدہ ہو گئے اور پاکستان میں اس کی ترویج کے بعد ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہو گیا۔ ۲۳۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۲۴۔ Muhammad Siddiq (1983)۔ ۲۵۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۲) ۲۶۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۲۷۔ سالک (۱۹۵۵)، ص ۶۴۔ جاوید اقبال(۲۰۰۴)، ص۱۷۲-۱۷۱ [۱۹۸۱ ، ص ۸-۷] ۲۸۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۳۷۸-۳۷۷ میں ڈاکٹر شجاع ناموس کا بیان۔ وہ علامہ اقبال سے پہلی دفعہ ۱۹۱۶ء میں ملے مگر انارکلی بازار میں طوائفیں پہلے بھی رہا کرتی تھیں۔ کچھ برس بعد میونسپلٹی نے اُنہیں وہاں سے ہٹا دیا۔ ۲۹۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۸-۱۰۷ ۳۰۔ جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۱۷۳ [۱۹۸۱، ص ۹] ۳۱۔ ان میں سے بیشتر تفصیلات عطیہ فیضی کے نام مکتوب ۱۹ اپریل ۱۹۰۹ء سے ماخوذ ہیں اور کچھ اعجاز احمد (۱۹۸۵) سے لی گئی ہیں۔ معلوم نہیں علامہ اقبال نے نورمحمد کو خط کب لکھا مگر ۹ اپریل سے پہلے ہی لکھا ہو گا کیونکہ عطیہ سے خط میں ذکر کیا ہے۔ ۳۲۔ کلیات مکاتیب ص ۱۸۳ ۳۳۔ علامہ اقبال میوزیم نمبر 1977-219 ۔ اِس نوٹ بک کی تفصیل کے لیے دیکھیے ضمیمہ ۳۴۔کلیات مکاتیب، حاشیہ ص ۱۸۳ ۳۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) ۳۶۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۲۹۱ پر خواجہ عبدالوحید کی روایت۔ ۳۷۔ سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید (۱۹۸۶)، ص ۱۷۵-۱۷۴ ۳۸۔ مکتوب بنام شیخ عبدالعزیز ۲۷ جنوری ۱۹۰۹ئ۔ خط انگریزی میں ہے اور منشی کا نام درج نہیں ہے مگر ہو سکتا ہے کہ یہ کاہن چند ہو جس کے بارے میں علی بخش کا بیان ہے کہ وہ منشیانے کے لیے جھگڑتا رہتا تھا اور سال ڈیڑھ سال بعد اُسے فارغ کر دیا گیا۔ اگر علی بخش کو ’’سال ڈیڑھ سال‘‘ کا عرصہ بتانے میں غلطی لگی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اِسی واقعے کے بعد اقبال نے اُسے نوکری سے نکالا ہو۔ ۳۹۔ رزاقی (۱۹۷۰) ۴۰۔ مکتوب بنام شیخ عطأللہ، ۱۰ اپریل ۱۹۰۹ء ۴۱۔ نظم ’بزمِ انجم‘ کے تین بند بیاض میں درج ہیں۔ میں نے صرف تیسرا بند لیا ہے۔ یہ نقشِ اوّل ہے۔ بانگِ درا میں شامل کرتے ہوئے اصلاح کر کے بندش زیادہ چُست بنا دی گئی۔ ۴۲۔ سالک (۱۹۵۵) ص ۴-۹۳ میں غلام قادر فرخ کی کتاب سفینۂ حیات سے اقتباس۔ ۴۳۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص ۸۸-۸۷ ۴۴۔ ’بلادِ اسلامیہ‘ کے اشعار کی تعداد ۴۵۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۴۶۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں کے بیٹے میاں بشیر احمد کی روایت بحوالہ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷ئ)، ص ۴۵۔غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۲۳ پرخلیفہ عبدالحکیم نے علامہ اقبال سے یہ روایت بھی کی ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہوئے تھے کہ ’’ہندوستانی کالجوں کی پروفیسری میں علمی کام توکچھ ہوتا نہیں البتہ ملازمت کی ذلتیں ضرور سہنا پڑتی ہیں۔‘‘ ۴۷۔ علامہ اقبال کا لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' جس کا مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ ۴۸۔ حنیف شاہد (جون ۱۹۷۷)، ص۱۱۔ اُن کا ماخذ ہے پیسہ اخبار ۷ اپریل ۱۹۰۹ء ۴۹۔ محمد دین فوق نے مشاہیرِ کشمیر کے ۱۹۳۲ کے اڈیشن میں علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی میں یہ واقعہ لکھا۔ یہ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)ص ۸۹ میں درج ہے۔ واقعے کا زمانہ معلوم نہیں مگر فوق نے وضاحت کی ہے کہ یہ اقبال کے یورپ سے واپسی کے بعد کا واقعہ جب وہ کشمیری کانفرنس کے سیکرٹری تھے۔ ۱۹۴۱ء میں فوق نے اپنی کتاب استادوں اور شاگردوں کے لطیفے میں یہی واقعہ مختصر بیان کر کے لکھا کہ اُس وقت علامہ ا قبال کی عمر غالباً ۲۱ یا ۲۲ سال سے زیادہ نہ تھی (عبداللہ قریشی، ۱۹۸۸ ص۱۹۹)۔ فوق ۱۹۷۵ء کو علامہ کا سالِ پیدایش مانتے تھے مگر ۱۸۹۵ یا ۱۸۹۶ کے لگ بھگ علامہ کشمیر کانفرنس کے سیکرٹری نہ تھے۔ اگر واقعہ درست ہے تو پھر دوسرے بیان میں فوق کی یادداشت نے غلطی کی ہے۔ اپریل ۱۹۰۹ء میں علامہ اقبال نے جو لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پیش کیا اُس میں اِسی قسم کی کچھ اور باتیں دکھائی دیتی ہیں، مثلاً طاقتور شخص کمزور سے اس لیے بہتر ہے کیونکہ بوقتِ ضرورت وہ ڈاکہ ڈال کر اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے، شیطان اس لیے تعریف کے لائق ہے کیونکہ اُس نے آدم کو سجدے سے انکار کر کے خودداری کا ثبوت دیا اور برطانوی سلطنت اپنی سیاسی روح کے اعتبارسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہے۔ یہ واقعہ اُسی زمانے کا معلوم ہوتا ہے۔ ۵۰۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص۷۹-۷۸۔ جلسے کی تاریخ ۱۱ اپریل لکھی ہے جو درست نہیں۔مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ ۵۱۔ علامہ اقبال کا لیکچر 'Islam As a Moral and Political Ideal' جس کا مکمل متن دو حصوں میں جولائی ۱۹۰۹ء اور دسمبر ۱۹۰۹ء کے واقعات میں شامل ہے۔ ۵۲۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۱۷ اپریل ۱۹۰۹ء ۵۳۔ علامہ اقبال کی ملازمت اور وکالت سے متعلق دستاویزی معلومات میں نے عام طور پر حسن اختر (۱۹۸۸) سے اخذ کی ہیں۔ ۵۴۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۳۵۔ سید ذکی نے اقبال کا قول جن الفاظ میں دہرایا ہے وہ علامہ اقبال کے الفاظ معلوم نہیں ہوتے اگرچہ مفہوم علامہ کے اُس زمانے کے خیالات سے بہت قریب ہے: ’’ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کی نسلیں پشتوں تک اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتیں۔ ہمارے رسول کریمؐ ہی کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ؑ تمام الزامات سے پاک ہوئے اور پیغمبروں میں اُنہیں اُونچا مرتبہ ملا۔ خدا کی قسم! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا ہوتا تو حضرت عیسیٰ ؑ کو پیغمبر بھی نہ مانا جاتا۔‘‘ ۵۵۔ متن Sherwani کی تالیف میں شامل ہے۔ ۵۶۔ نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ بیاض میں سے نقشِ اول۔ ۵۷۔ نظم ’عاشقِ ہرجائی‘ بیاض میں سے نقشِ اول۔ ۵۸۔ عطیہ فیضی کے نام مکتوب اپریل ۱۹۱۰ء ۵۹۔ علامہ اقبال کے اپنے الفاظ میں اُن کا سب سے بڑا شاہکار جاویدنامہ ہے۔ ۶۰۔ جوگندر سنگھ کو ’جوگی‘ کہنے کا ذکر عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص ۵۰۳ پر درج ہے۔ ۶۱۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، مرزا جلال الدین کی روایات۔ ۶۲۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، مرزا جلال الدین کی روایات۔ ۶۳۔ عبداللہ قریشی، ۱۹۸۷ء ۔ ص ۵۶ ۶۴۔ حنیف شاہد (جون ۱۹۷۷)، ص ۱۱۔ اُن کا ماخذ ہے پیسہ اخبار ۱۱ستمبر۱۹۰۹ء ۶۵۔ Muhammad Siddique (1983) کتاب میکملن لندن سے ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ ۶۶۔ امریکہ کی ہارٹ فورڈ سیمنری میں اِسی عالم کے نام پر ’’ڈنکن بلیک میک ڈونلڈ مرکز برائے مطالعۂ اسلام و مسلم مسیحی تعلقات‘‘ (Duncan Black Center for the Study of Islam and Christian-Muslim Relations) قائم ہے جس کا مقصد عیسائیت اور اسلام کے درمیان باہمی افہام و تفہیم کا فروغ بتایا جاتا ہے! اقبال نے تشکیل جدید بالخصوص پہلے اور ساتویں خطبے میں میک ڈونلڈ اور اُس کے ہم خیال معترضین کا مدلل جواب پیش کیا۔ ۶۷۔ حسن اختر (۱۹۸۸ئ) ص ۷۹۔ بی ایس سی کے طلبہ کو انگریزی پڑھانے کی تفصیلات افضل حسین کے مضمون "My Preceptor" سے لی گئی ہیں جو Pakistan Times میں ۲۱ اپریل ۱۹۶۱ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون کے لیے میرا ماخذ Raheem Bakhsh Shaheen کی Mementos of Iqbal ہے۔ ایف اے کے طلبہ کو انگریزی پڑھانے کی تفصیلات اور اقبال کے اندازِ تدریس کی دیگر بہت سی جزئیات اور میاں اسلم کے ساتھ ان کے روابط کی تمام تفصیلات میاں اسلم کی روایت سے لی گئی ہیں جو رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) ص ۱۲۴ تا ۱۳۹میں درج ہے (میاں اسلم بعد میں مشہور ناول نگار ہوئے)۔مولوی محمد علی قصوری کی روایات عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں درج ہیں۔ ۶۸۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۲۶۵ ۶۹۔ مولوی محمد علی قصوری اور سید محمد علی جعفری کی روایات، عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں۔ ۷۰۔ Jahan Ara Shahnawaz (1971) ۷۱۔ اس دفعہ گاندھی ۱۰ جولائی سے ۱۰ نومبر ۱۹۰۹ء تک لندن میں تھے۔ ۷۲۔ سالک (۱۹۵۵)، ص ۶۷ ۷۳۔ عبداللہ قریشی (۱۹۶۷)، ص ۲۰۷-۲۰۶۔ محمدالدین فوق کی روایت ہے۔ ۷۴۔ سعید اختر درانی ۷۵۔ Muhammad Siddiq (1983)۔ کتاب پر شیخ غلام محمد کے دستخط موجود ہیں۔ ۷۶۔ یہ بات علامہ اقبال نے اپنی نوٹ بک Stray Reflections میں لکھی۔ متن ۱۹۱۰ء کے واقعات میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ۷۷۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۹۹ کے مطابق حالی کا قطعۂ تاریخ زمیندار ۱۶ فروری کے شمارے میں شائع ہوا۔ ۷۸۔رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) ، ص۱۲۷ پر میاں اسلم کی روایت ہے۔ ۷۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۲۸-۱۲۷ ۸۰۔ علامہ اقبال کے سفرِ حیدرآباد کے مقاصد جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۱۷۵ [۱۹۸۱، ص ۱۱] کے قیاس سے ماخوذ ہیں۔ عطیہ فیضٰی نے لکھا ہے کہ علامہ کے تعارفی خط کی درخواست پر انہوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی اکبرحیدری اور ان کی بیگم سے تعارف کروایاتھا۔اس بیان پر جاوید اقبال کا اعتراض درست معلوم ہوتا ہے۔ عطیہ فیضی کی یادداشت نے ضرور دھوکہ کھایا ہے کیونکہ حیدرآباد سے واپسی پر علامہ نے اکبر حیدری کا ذکر کرتے ہوئے عطیہ کو لکھا، ’’شاید آپ اُنہیں جانتی ہوں۔‘‘ ۸۱۔ ایس ایم اکرام (یادگارِ شبلی) ۸۲۔ احمد سعید(۱۹۸۱)، ص ۳-۲ ۸۳۔ عروج، عبدالرؤف (۱۹۸۸)، ص ۴۸۶۔ جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۱۷۶ [۱۹۸۱، ص ۱۲] ۸۴۔ بیاض میں یہ حساب کتاب موجود ہے۔ ۸۵۔ عطیہ فیضی کے نام مکتوب ۷ اپریل ۱۹۱۰ء میں ذکر کیاہے۔ ۸۶۔ بیاض 219 میں پہلے ہی صفحے پر ’میونک ۱۹۰۷ئ‘ کی سرخی ڈال کرلکھا ہے: جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے باقی صفحہ خالی ہے۔ غالباً نظم یاد نہیں آئی ہو گی اور اس کے بعد ہی عطیہ فیضی سے نقل منگوائی ہو گی۔ تین چار نظموں کے بعد یہ نظم پوری درج ہے اور عنوان ہے ’میونک میں لکھی گئی‘۔ عطیہ فیضی سے نقل ملنے کے بعد یہاں لکھی گئی ہوگی۔ ۸۷۔ یہاں نظم میں جن ترامیم کی بات کی گئی ہے وہ سب بیاض میں ہیں۔ کئی برس بعد بانگِ درا میں شامل کرتے ہوئے جو مزید ترامیم ہوئیں ان کا یہاں ذکر نہیں۔ ۸۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)۔ مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ اُنہوں نے شہزادی کی سہیلی کو آسٹرین بتایا ہے مگر مس گوٹسمین کا تعلق ہنگری سے تھا۔ اُن دنوں آسٹریااور ہنگری سیاسی اتحاد کی وجہ سے ایک ہی ملک تھے ۔ ۸۹۔ بانگ درا میں شامل ہے۔ ۹۰۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۷ جولائی ۱۹۱۱ء میں علامہ اقبال نے لکھا کہ سردار امراؤسنگھ نے مس گوٹسمین والے اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا تھا جو انہوں نے منگوایا ہے۔ ۹۱۔ تمام اشعار بیاض نمبر 219 میں درج ہیں۔ اِس انتسابی نظم کے دو بند ہیں اور نظم کا آغاز ہے: نغمۂ رنگیں سمجھ یا نالۂ پیہم سمجھ ۹۲۔ دیگر لوگوں کے نام یہ ہیں: میاں محمد شفیع، مولوی احمد دین، گلاب دین، مولوی محبوب عالم، چودھری فضل حسین ، چوہدری نبی بخش۔ مولوی فضل الدین ، میاں نظام الدین اور مولوی کریم بخش۔حوالہ: عبدالمجید سالک (۱۹۵۵) ص ۸۰-۷۹، ان کا ماخذ پیسہ اخبار کے شمارے ہیں۔ اور حنیف شاہد (۱۹۷۶ئ) ص ۱-۵۰، اُن کا ماخذ انجمن کی قلمی رودادیں ہیں۔ ۹۳۔ یہ تاثرات Stray Reflections اندراجات ۱ تا ۷ پر مبنی ہے ۹۴۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸ئ) ص ۱۲۸ ۹۵۔ یہ تاثرات Stray Reflections ۸ سے ۱۱ پر مبنی ہیں۔ ۹۶۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۱۲ سے ۱۴ پر مبنی ہیں۔ ۹۷۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸ئ) ص ۱۲۸ ۹۸۔ جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۲۱۱-۲۱۰ [۱۹۸۱، ص۴۱-۴۰] ۹۹۔ یہ تاثرات Stray Reflectionsکے اندراجات ۱۵ سے ۲۱ پر مبنی ہیں۔ اندراج ۲۱ کا ترجمہ افتخار احمد صدیقی (شذرات فکرِ اقبال) سے لیا گیا ہے۔ ۱۰۰۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۲۹ ۱۰۱۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) ۔ مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ ۱۰۲۔ بیاض ۱۰۳۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۲۲ سے ۲۸ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۰۴۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۱۴ ۱۰۵۔رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۳۱-۱۳۰ ۱۰۶۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۲۸ سے ۳۵ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۰۷۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۳۶ سے ۴۲ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۰۸۔ منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کی روایت ہے کہ نظم ’شیکپیئر‘ کالج کے چند طلبہ سے انگریزی اور فارسی کے شعرأ پر گفتگو کرنے کے بعد لکھی گئی۔ بانگِ درا میں شامل نظم کا متن یوں ہے: شیکسپیئر شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ برگِ گل آئنۂ عارضِ زبیائے بہار شاہد مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ حسن آئنۂ حق اور دل آئنۂ حسن دلِ انساں کو ترا حسن کلام آئینہ ہے ترے فکر فلک رس سے کمالِ ہستی کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی تجھ کو جب دیدئہ دیدار طلب نے ڈھونڈا تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری اور عالم کو تری آنکھ نے عُریاں دیکھا حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا نظم ۱۹۱۶ء میں شیکسپیئر کی تین سو سالہ برسی کے موقع پر شائع ہونے والی مشہور ضخیم کتاب A Book of Homage to Shakespeare میں شائع ہوئی۔ افضل حسین کا بیان ہے کہ اُس کتاب کے مرتب نے فرمایش کر کے لکھوائی تھی۔(Mementos of Iqbal by Raheem Bakhsh Shaheen, p. 36)۔ غالباً ۱۹۱۰ء کی یہ ادھوری نظم اُس وقت مکمل ہوئی ہو گی۔ ۱۰۹۔ نظم کے چوتھے اور پانچویں بند خاص طور پر علامہ اقبال کے مضمون 'McTeggart's Philosophy' کی روشنی میں پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ میک ٹیگرٹ کے نزدیک ایک فرد کی دوسرے سے محبت ہی کائنات کی اصل تھی۔ علامہ نے بھی اِسی کو دلیل بنایا ہے۔ مگر میک ٹیگرٹ کے نزدیک یہ ممکن نہیں تھا کہ دو اَنائیں ایک میں سما جائیں اور اس لیے نہ صرف خدا کا وجود ممکن نہ تھا بلکہ کسی رُوحِ کل کا تصور بھی دشوار تھا۔ علامہ نے اس کے جواب میں انسانیت کو ایسی ندّی سے تشبیہ دی جو دُنیا میں گرتے ہوئے من و تُو میں تقسیم ہو گئی ہے مگر موت کے بعد یہ بکھرے ہوئے قطرے پھر یکجا ہو جائیں گے۔ ۱۱۰۔ میرا ماخذ بیاض ہے۔ ۱۱۱۔ روایت اعجاز احمد کی ہے اور دو مختلف جگہوں پر تھوڑے سے فرق کے ساتھ درج کی گئی ہے۔ فقیر سیّد وحید الدین ( ۱۹۵۰، ۱۹۶۳)، ص ۱۱۶-۱۱۵ پر بنیادی فرق یہ ہے کہ پانچ سو آدمی تیار کرنے کی ہدایت کر کے وہ بزرگ اُس دروازے سے باہر نکلنے لگے جو گلی کی طرف کھلتا تھا اور جس طرف کوئی راستہ نہ تھا۔ علامہ اقبال نے لالٹین اُٹھا کر انہیں سیڑھیوں کی راہ دکھانی چاہی مگر وہ بزرگ اپنی تاکید دہراتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ علامہ باہر نکلے مگر بزرگ کا کہیں نشان نہ تھا۔ رات کو گشت کرنے والے کانسٹیبل سے دریافت کیا تواُس نے بھی اس حلیے کے کسی آدمی کو نہیں دیکھا تھا۔ فقیر صاحب نے بھی یہ روایت اعجاز احمد سے سن کر ہی لکھی تھی مگرخود اعجاز احمد کی کتاب (۱۹۸۵ئ) میں روایت کی بعض تفصیلات موجود نہیں ہیں اور میں نے اسی صورت کو اختیار کیا ہے۔اعجاز احمد کا بیان ہے کہ یہ واقعہ ۱۹۱۰ء کا ہے اور اس کے چند دن بعد علامہ اقبال گرمیوں کی تعطیلات میں سیالکوٹ آئے جہاں اعجاز نے خود اُن کی زبان سے یہ واقعہ سنا۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔ ۱۱۲۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۴۳ سے ۴۹ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۱۳۔ فقیر وحیدالدین (۱۹۶۳، ۱۹۵۰) اور اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۱۰۹۔ ۱۱۴۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۳)، ص۱۳۹ ۱۱۵۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۱۰۰۔ انہوں نے لکھا ہے کہ روزگارِ فقیر کے دوسرے اڈیشن میں اُن کی ایک روایت پڑھ کراُن کی پھوپھی ( علامہ اقبال کی چھوٹی بہن) کریم بی بی بے یہ واقعہ انہیں بتایا۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۳) نے اعتراض کیا ہے کہ کریم بی بی ۱۹۵۸ میں فوت ہو گئی تھیں جبکہ روزگارِ فقیر کا دوسرا اڈیشن اس کے کئی سال بعد شائع ہوا۔ ۱۱۶۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵) ص ۸۰۔ ان کا ماخذ پیسہ اخبار کے شمارے ہیں۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶) ص ۵۱، اُن کا ماخذ انجمن کی قلمی رودادیں ہیں۔ ۱۱۷۔ افضل حسین کا مضمون 'My Preceptor' جو Pakistan Times میں ۲۱ اپریل ۱۹۶۱ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون کے لیے میرا ماخذ Raheem Bakhsh Shaheen کی Mementos of Iqbal ہے۔ ۱۱۸۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۵۰ سے ۵۶ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۱۹۔صہبا لکھنوی (۱۹۷۳/۲۰۰۰) ۱۲۰۔یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۵۷ سے ۶۳ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۲۱۔ عبدالرؤف عروج (۱۹۸۸) ۱۲۲۔یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۶۴ سے ۷۰ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۲۳۔افضل حسین کی روایت ہے۔ میرا ماخذ Raheem Bakhsh Shaheen کی Mementos of Iqbal ص ۳۶-۳۵ہے۔ ۱۲۴۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۷۱ سے۹۰ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۲۵۔ ایم اسلم کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۳۱ ۱۲۶۔ ایم اسلم کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۳۲- ۱۳۱ ۱۲۷۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات۹۱ سے ۱۰۵ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۲۸۔ ایم اسلم کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۳۲- ۱۳۱ ۱۲۹۔ بیاض نمبر 219 ۔ اقبال کی بیاض میں ’فلسفۂ غم‘ کے فوراً بعدیہ نظم درج ہے جو بعد میں ترمیم کے ساتھ ’رات اور شاعر‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ ۱۳۰۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۶۱ میں پروفیسر عبدالحمید کی روایت ہے۔ ۱۳۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۳۱ ۱۳۲۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۲۰ ۱۳۳۔ بیاض نمبر 219 ۔ عنوان وہی ہے جو یہاں نقل کیا گیا۔ نظم میں آٹھ اشعار ہیں جن میں سے یہ شعر کاٹ دیا گیا ہے: مجھے قسم ہے نظامی مدینے والے کی ہمیشہ ماتمِ ملّت میں اشکبار ہوں میں چونکہ ۱۹۱۵ء میں یہ نظم بدایوں کے کسی نظامی صاحب کے رسالے میں شائع ہوئی تھی لہٰذا خیال کیا جاتا رہا ہے کہ یہ نظم ۱۹۱۵ء میں اُنہی کی فرمایش پر لکھی گئی ہو گی۔ اگر یہ بات ہے تو پھر علامہ اقبال نے بعد میں کسی وجہ سے اِسے اپنی پرانی بیاض میں شامل کر لیا ہو گا ویسے یہ بات زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ نظم ۱۹۱۰ء ہی میں اور شاید حسن نظامی کی فرمایش پر لکھی گئی مگر ۱۹۱۵ء میں علامہ اقبال نے یا تو اِسے بدایوں والے نظامی صاحب کی فرمایش پر دوبارہ اُنہیں ارسال کر دیا یا پھر اُنہوں نے خود ہی اپنے رسالے میں شائع کر لی۔ ۱۳۴۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۱۰۶ سے ۱۱۲پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۳۵۔اسی لیے ہنری آرتھر جونز اُن گروہوں کی غیرمنصفانہ تنقید کا نشانہ بنے جنہوں نے بعد میں ادب کو قبضے میں لے لیا۔ ۱۳۶۔ علامہ اقبال کا مضمون 'The Muslim Community'جس کا مکمل متن فروری ۱۹۱۱ء کے واقعات میں شامل ہے۔ متعلقہ اقتباس یوں ہے: So deeply related are the currents of thought and emotion in a homogeneous community that if one portion reveals a certain organic craving the material to satisfy that craving is almost simultaneously produced by the other. ۱۳۷۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۱۳۸-۱۳۷میں محمد دین فوق کا بیان۔ شادی کی خبر اخبار الحکم میں ۲۸ اگست کو شائع ہوئی تھی۔ ۱۳۸۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۱۳۸ میں محمد دین فوق کا بیان۔ ۱۳۹۔ سعید اختر درانی میں ایما کے نوادرات کے ذکر میں ایک اور زیور کا ذکر بھی ہے جو ہندوستانی ساخت کا ہے۔ ۱۴۰۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۱ ۱۴۱۔ بیاض نمبر 219 ۔ یہ نظم ترمیم کے بعد بانگِ درا میں شامل ہوئی۔ ۱۴۲۔ سردار بیگم بعد میں علامہ اقبال کی تیسری بیوی بنیں (جیسا کہ اس باب میں آگے ذکر ہو گا)۔ ان کے خاندانی پس منظر کی تفصیلات جاوید اقبال (۲۰۰۴ [۱۹۸۱])اور عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۷۶-۱۷۵ پر خواجہ عبدالغنی کے دوست شمس الدین کی روایت سے لی گئی ہیں۔ ۱۴۳۔ عبداللہ جغتائی (روایاتِ اقبال) ۱۴۴۔ ایم اسلم کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۳۱ ۱۴۵۔ ایم اسلم کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۳۱ ۱۴۶۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۴۱ ۱۴۷۔ دیکھیے حاشیہ نمبر۱۴۱ ۱۴۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص ۱۵۷، ۷۳۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۳)، ص ۱۸۷ ۱۴۹۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۱۱۳ سے ۱۱۹ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۵۰۔ یہ تاثرات Stray Reflections کے اندراجات ۱۰۲ سے ۱۲۵ پر مبنی ہیں۔ افتخار احمد صدیقی کا ترجمہ بھی مدنظر رکھا گیا۔ ۱۵۱۔ سردار بیگم کے انتخاب کے متعلق تین روایات پائی جاتی ہیں۔ مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ شیخ گلاب دین نے موچی دروازے میں کسی کشمیری لڑکی کا ذکر کیا جو وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھیں اور ایک غریب مگر نہایت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ علی بخش کا بیان تھا کہ ایک مرتبہ امام بی اُنہیں لے کر کہیں رشتہ دیکھنے گئیں اور واپسی پر کسی نائن نے سردار بیگم کے گھر کا پتہ دیا۔ تیسری روایت منشی طاہر دین کے بیٹے شیخ بشیر احمد کی ہے جو انہوں نے سردار بیگم کے بیٹے جاوید اقبال کو بتائی۔ جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۲۰۴ [۱۹۸۱، ص ۳۴] نے تینوں روایات درج کی ہیں مگر وضاحت کی ہے کہ اُن کی والدہ اسکول کی پڑھی ہوئی ہرگز نہیں تھیں اور نکاح کے وقت اُن کی عمر انیس بیس برس کے قریب رہی ہو گی۔ ۱۵۲۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص ۱۶۰-۱۵۹۔ محمدالدین فوق کی روایت ہے۔ ۱۵۳۔ لیکچر کے متن اور تفصیلات کے لیے جولائی ۱۹۰۸ء کے واقعات دیکھیے۔ ۱۵۴۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷)، ص۱۵۹ ۱۵۵۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷) ۱۵۶۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۴۷ ۱۵۷۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۳۸ ۱۵۸۔ جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۲۰۸ [۱۹۸۱، ص ۱۷۱] ۱۵۹۔ ایک خط میں لکھتے ہیںکہ اسرارِ خودی پہلے اردو میں لکھنا شروع کی تھی مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہے اور جو حصہ لکھا گیا تھا بعد میں اُسے تلف کر دیا۔ دیکھیے جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۲۴۷ [۱۹۸۱، ص ۶۹]۔ رسول اللہ کے بارے میں یہ خیال کہ ’’سمایا نہ جو وہم و ادراک میں‘‘ بہت عرصے بعد نظم ’ذوق و شوق‘ میں پھر ظاہر ہوا: گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب ۱۶۰۔ بعد میں یہ تبدیلیوں کے ساتھ ’شمع اور شاعر‘ کا پہلا حصہ بنی۔بیاض نمبر 219 میں نقشِ اول پر ’غزل‘درج ہے۔ ۱۶۱۔ مکتوب بنام خالد خلیل دسمبر ۱۹۲۴ء ۱۶۲۔ Muhammad Siddique (1983) ۱۶۳۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۸۲ پر علی بخش کی روایت ہے۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص۷۲ پردرج ہے کہ علامہ اقبال نے ملازمت اِس وجہ سے ترک کی کہ جج صاحبان اس بات پر راضی نہیں ہو رہے تھے کہ اقبال کے مقدمات ہمیشہ کے لیے کالج کے لیکچروں کے بعد لیے جایا کریں۔ عبداللہ چغتائی نے اِس روایت کا ماخذ نہیں بتایا۔ ۱۶۴۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص ۳۲۔ عبداللہ چغتائی، جن کا علامہ اقبال کے یہاں آناجانا کئی سال بعد شروع ہوا، اُن کا بیان ہے کہ اُنہوں نے اس کتاب کے نسخے علامہ اقبال کے یہاں دیکھے تھے۔تعجب ہے کہ علامہ کی تصانیف میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کی بنیاد اقبال کے کلاس لیکچرز ہوں جنہیں کسی شاگرد نے قلم بند کر دیا ہو۔ ۱۶۵۔خط کا انگریزی متن اقبالیات جولائی ۱۹۸۴ء کے شمارے میں رحیم بخش شاہین کے مضمون سے لیا گیا ہے۔ ۱۶۶۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷)، ص۱۵۸ ۱۶۷۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۱۵ میں مرزا جلال الدین کی روایت۔ ۱۶۸۔ اس قطعے کا متروک شعر تھا: کبھی ایراں کے لیے ہو جو دعا کا جلسہ عذر تیرا ہے کہ ہے تیری طبیعت ناساز شیخ اعجاز احمد(۱۹۸۵) کا بیان ہے کہ یہ ایک واقعے کی طرف اشارہ تھا جو اُنہی دنوں پیش آیا تھا۔ اپریل میں انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں اپنی نظم ’شکوہ‘ سنانے سے پہلے اُنہوں نے شاید فضا ہموار کرنے کے لیے یہی قطعہ پڑھا۔ بعد میں یہ مخزن کے مئی ۱۹۱۱ء کے شمارے میں کسی قدر ترمیم کے ساتھ شائع ہوا۔ وہاں اس کے سولہ اشعار چھپے مگر بیاض میں چھبیس درج ہیں۔ ۱۶۹۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۱۷۵ ۱۷۰۔ عبداللہ چعغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۲۸ ۱۷۱۔ ڈاکٹر مسز شمیم مرزا (۱۹۸۶)، ص۲۷۸-۲۷۷ ۱۷۲۔'The Muslim Community - Sociological Study' لیکچر کا ترجمہ مولانا ظفر علی خاں نے ’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ اصل متن ایک مدت بعد رفیع الدین ہاشمی نے علامہ اقبال کے کاغذات میں سے دریافت کیا اور ان کی کتاب (۱۹۸۲) میں شامل ہے۔ نیز دیکھیے محمد جہانگیر عالم (۲۰۰۱) ۱۷۳۔کئی برس بعد متن کے مسودے پر علامہ اقبال نے اپنے ہاتھ سے درج کیا: This lecture was delivered at Aligarh in 1911. The remark about the Qadianis in this lecture must be revised in the light of the revelation of the spirit of the movement since 1911. The Qadianis still appear to be Muslims in externals. Indeed they are very particular in the matter of externals, but the spirit of the movement as revealed often is wholly inimical to Islam. Outwardly they look Muslims and anxious to look so; but inwardly their whole mentality is Magian. It is probable that eventually the movement will end in Bahaism from which it originally appears to have received inspiration. M[uhamma]d Iqbal 21st Oct: 1935 ۱۷۴۔ حسن اختر (۱۹۸۸ئ) ص ۹۳ ۱۷۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) ۱۷۶۔ ان میں سے پہلے اقتباس کا ایک حصہ علامہ اقبال نے تشکیل جدید کے دوسرے خطبے میں اور دوسرے اقتباس کا حصہ تیسرے خطبے میں استعمال کیا۔ ۱۷۷۔ یہ خیال علامہ اقبال نے تشکیلِ جدید کے دوسرے خطبے میں پیش کیا مگربرسوں پہلے سے اِس کے تانے بانے اُن کی فکر میں موجود تھے۔ مارچ ۱۹۱۱ء میں پیش کیے ہوئے ملت بیضا والے لیکچر ہی میں ان خیالات کی واضح جھلک ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ۱۷۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) ۱۷۹۔ بیاض میں نظم تاریخ اور مقام کے ساتھ درج ہے۔ ۱۸۰۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۱۰۳ ۱۸۱۔ شادی کی تفصیل کے لیے جہان آرا شاہنواز (۱۹۷۱ئ)۔ قطعہ ٔ تاریخ صابر کلوروی (۲۰۰۴ئ)میں موجودہے۔ اُنہوں نے اپنا ماخذ وطن اخبار ۲۶ فروری ۱۹۰۴ء بتایا ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ سہو ہے۔ ۱۸۲۔یہ بیان میاں بشیر احمد کا ہے مگریہ معلوم نہیں کہ کون سی تقریب تھی اور کب ہوئی۔میاں بشیر کے پاس وہ کاغذ محفوظ تھا مگر اُنہوں نے اشعار شائع نہیں کروانے مناسب نہیں سمجھے۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷ئ)، ص ۴۴ ۱۸۳۔ حنیف شاہد(۱۹۹۷)، ص ۲۱۰-۲۰۸ ۱۸۴۔ نامہ نگار نے اس لیکچر کا خلاصہ انجمن حمایت اسلام کی روئداد سے نقل کیا ہے۔ یہ خلاصہ محمد دین فوق کے کسی اخبار سے عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۲۴۴-۲۳۸ پر نقل کیا گیا۔ عبداللہ قریشی نے اخبار کا نام اور تاریخ نہیں دی۔ اگرچہ ان کی کتاب میں اس باب کا عنوان ’اخبار کشمیریکے چند تراشے‘ ہے مگر اس میں دوسرے رسالوں کے تراشے بھی شامل ہیں۔ البتہ اُن دنوں فوق کشمیریہی نکال رہے تھے لہٰذا اُسی کے کسی شمارے (بالخصوص اپریل ۱۹۱۱ء کے کسی شمارے) میں یہ خلاصہ شائع ہوا ہوگا۔ تعجب ہے کہ ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ پر اِس قدر لکھا گیا مگر اب تک کسی نے اپنی تشریحات پر علامہ اقبال کے اِس لیکچر کی روشنی ڈالنے کی زحمت نہیں کی جبکہ یہ لیکچر اُسی سالانہ جلسے میں دیا گیا جس میں ’شکوہ‘ پڑھی گئی اور اُن فکری اصولوں کو بہت صفائی سے واضح کرتا ہے جو ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ کی تہ میں شاعر کے ذہن میں متحرک تھے۔ ۱۸۵۔ مرزا جلال الدین کی روایت۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص ۹۶۔ اس بیان کی روشنی میں امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص۱۱۸میں غلام رسول مہرؔ کی یہ روایت درست معلوم نہیں ہوتی کہ نظم ’شکوہ‘ اجلاس میں پڑھی جانے سے پہلے ہی وہ اسلامیہ کالج میں اپنے ریاضی کے استاد خواجہ دل محمد سے نظم کا نام اور اس کا ایک شعر سن چکے تھے۔ علامہ اقبال کی رازداری مرزا جلال الدین کے بیان کے علاوہ اس سے بھی ثابت ہے کہ وہ اس کی کاپیاں پہلے سے چھپوا کر اجلاس میں ساتھ نہیں لائے تھے جو بہت عجیب بات تھی۔ اگر علامہ نے دل محمد کو نظم کے اشعار سنائے بھی تھے تو دل محمد سے بعید ہے کہ جس نظم کے لیے اقبال اتنی رازداری برتیں یہ اُسے کالج کے لڑکوں میں مشہور کر دیں۔ ممکن ہے اجلاس کے بعد کے دنوں میں دل محمد نے طلبہ کو اشعار سنائے ہوں اورمہرؔکو غلطی سے اجلاس سے پہلے کے واقعے کے طور پر یاد آئے ہوں۔ ۱۸۶۔ جن لوگوں نے انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس ۱۹۱۱ء کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے اُن کے نام اور جن کتابوں میں اُن کا بیان شامل ہے اُن کے نام مندرجہ ذیل ہیں: ٭ عبداللہ چغتائی: عبداللہ چغتائی(اقبال کی صحبت میں) ص۷۶-۷۵ ٭ اعجاز احمد: اعجاز احمد (۱۹۸۵) ٭ شیخ عبدالقادر: حنیف شاہد (۱۹۷۲)، ص۱۱۲ ٭ غلام رسول مہرؔ: انہوں نے متعدد جگہوں پر لکھا ہے مگر امجد سلیم علوی ( ۱۹۸۸)ص ۲۵-۵غیرمطبوعہ مضمون’علامہ سے تعارف‘ اورص ۱۲۴-۱۱۸’شکوۂ اقبال اور جلسۂ انجمن‘ ان سب کا احاطہ کرتے ہیں۔ ٭ خواجہ فیروزالدین: عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)ص ۹۳، انہوں نے صرف اپنی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ ٭ حکیم محمد حسن قرشی: ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۲۷۷-۲۷۶ ۱۸۷۔ دیکھیے حاشیہ ۱۸۶ ۱۸۸۔ یہ تینوں متروک بند بیاض میں موجود ہیں۔ باب ۹: جنت الفردوس اپریل ۱۹۱۱ء سے دسمبر۱۹۱۳ء تک ۱۔ ولیم جیمز کے تصورِخودی پر علامہ اقبال کا اعتراض تشکیلِ جدید کے پہلے خطبے میں موجود ہے۔ ۲۔ حکیم احمد شجاع (۲۰۰۱۲/۱۹۴۳)، ص۵۷ ۳۔ حکیم احمد شجاع (۲۰۰۱۲/۱۹۴۳)، ص۵۸-۵۷ ۴۔ ۵۔ اقبال نے اس کا ذکر عطیہ فیضی کے نام ۷ جولائی ۱۹۱۱ء کے خط میں کیا۔ ۶۔ مولانا محمد علی (مرتبہ ۱۹۹۸) ۷۔ اقبال نے اس کا ذکر عطیہ فیضی کے نام ۷ جولائی ۱۹۱۱ء کے خط میں کیا۔ ۸۔ بیاض نمبر 219 میں اس کے نو اشعار موجود ہیں جن میں سے دو کاٹ دیے گئے ہیں۔ اس کے زمانے کا صحیح تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ اُن خالی صفحات میں درج ہے جنہیں طویل اُردو نظم کے لیے چھوڑا گیا تھا مگر بعد میں الگ جگہوں پر لکھی ہوئی نظمیں بھی ان میں درج کر دی گئیں۔ ۹۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۱۰۳پر ظفر علی خاں کا اعتراض درج ہے۔ اُدت نرائن کے اشعار کا زمانہ معلوم نہیں مگرعبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۶۷ میں منشی محمد دین فوق کے مضمون ’ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال‘ میں درج ہیں۔ ۱۰۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۷)، ص۶۲-۶۱ پر رسالہ اصلاحِ سخن لاہور، جون ۱۹۱۱، ص۱۵-۱۴ کے حوالے سے درج ہے۔ ۱۱۔ للی لاج میں ظفر علی خاں کا اعلان رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) میں خواجہ عبدالوحید کی روایت ہے۔ عبداللہ چغتائی(روایاتِ اقبال)، ص ۷۹ پر علی بخش کی روایت ہے کہ ظفر علی خان کو اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ وہ زمیندار کو کرم آباد کی بجائے سے نکالیں۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ چودھری شہاب الدین نے مشورہ دیا تھا۔ ظفر علی خاں کا بیان زمیندار کے یکم مئی ۱۹۱۱ء کے اداریے سے ماخوذ ہے جس کے لیے ہمارا ماخذ ہے نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۱۰۰ ۱۲۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۹۶ ۱۳۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۹۶۔ اُن کے مطابق یہ واقعہ ۱۹۱۱ء کا ہے۔ ۱۴۔ حامد علی خاں کی روایت۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۳۵۴ ۱۵۔ غلام رسول مہر کا غیرمطبوعہ مضمون ’علامہ سے تعارف‘مشمولہ امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص ۱۰، ۱۱۔ ۱۶۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص ۲۴۔ ان کا ماخذ روزنامہ آفاق ۲ دسمبر ۱۹۵۶میں حکیم محمد حسن قرشی کی روایت ہے۔ ۱۷۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۵۴ ۱۸۔ یہ نتیجہ میں نے اس طرح نکالا ہے کہ بیاض نمبر 219 میں اُردو مثنوی کے ابتدائی حصے درج کرنے کے بعد (یعنی ’نورِ محمدی‘ اور ’قربانیٔ خلیل‘) کچھ عرصے تک اقبال نے اپنی کوئی تازہ نظم اس میں درج نہیں کی، مثلاً شکوہ اور اُس کے تمہیدی قطعے کا نقشِ اول موجود نہیں اور صرف صاف کیا ہوا متن نئی بیاض میں درج ہے۔یہاں تک کہ اسرارِ خودی کے ابتدائی اشعار کے بارے میں بھی عطیہ فیضی کے نام خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے وہ اشعار اپنی بیاض میں نہیں بلکہ کسی علیحدہ کاغذ پر لکھے تھے۔چنانچہ قربانیٔ خلیل والی نظم کے بعد کے صفحے وہ اس خیال سے خالی رکھنا چاہتے ہوں گے کہ اُس میں اُردو نظم مکمل کر لیں (اس سے پہلے بھی بیاض میں بعض طویل نظموں کے لیے اس قسم کا اہتمام نظر آتا ہے)۔ اِن خالی صفحوں کو اُسی وقت استعمال کیا ہو گا جب اُردو میں طویل نظم لکھنے کا ارادہ ترک کیا۔چنانچہ قربانی ٔ خلیل کے بعد جو سب سے پہلی نظم درج ہے وہ اِس فیصلے کے بعد ہی درج کی گئی ہو گی۔ یہ نظم Frl Gottsman ہے (یعنی ’پھول کا تحفہ عطا ہونے پر‘)جس کے بارے میں اُنہوں نے ۷ جولائی ۱۹۱۱ء کے خط میں عطیہ فیضی کو لکھا کہ وہ نظم اُن کے پاس موجود نہیں ہے اور اُنہوں نے اپنے دوست امراؤ سنگھ سے منگوائی ہے۔ چنانچہ ۷ جولائی ۱۹۱۱ء تک اقبال کا اردو میں طویل مثنوی لکھنے کا ارادہ برقرار تھا یا کم سے کم اِس مقصد کے لیے چھوڑے ہوئے صفحات بدستور خالی تھے۔ اس کے بعد کسی وقت امراؤسنگھ یا کسی دوسرے ذریعے سے اُنہیں اپنی نظم کی کاپی ملی ہو گی (یہ نظم جنوری میں رسالہ ادیب میں شائع بھی ہو چکی تھی) اور پھر اقبال نے اِسے بیاض کے اُن خالی صفحات میں نقل کر لیا ہو گا جو اَب تک طویل اُردو نظم کے لیے خالی رکھے ہوئے تھے۔ (جس طرح کی مثنوی اُردو میں لکھنا چاہتے تھے وہ بیس بائیس سال بعد ’ساقی نامہ‘ کی صورت میں لکھی جوبالِ جبریل میں شامل ہے۔) ۱۹۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۷ جولائی ۱۹۱۱ء ۲۰۔ مکتوب بنام عطیہ فیضی ۷ جولائی ۱۹۱۱ء ۲۱۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹)، ص۲۵۰ ۲۲۔ میں نے یہ نتیجہ بیاض سے اخذ کیا ہے۔ ۲۳۔ یہ غزل بیاض نمبر 219 کے آخری صفحوں میں درج ہے جہاں اس کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا مگر جولائی ۱۹۱۱ء کے بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ بیاض نمبر 195 میں سب سے پہلے اِسی کے چار اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ غالباً وہاں یادداشت سے نقل کرنے کی کوشش کی گئی اور پوری غزل یاد نہ آسکی۔ ۲۴۔ اس نظم کے چار اشعار ترمیم کے ساتھ بانگِ درا میں ’قطعہ‘ کے عنوان سے درج ہیں۔ بشیر احمد ڈار (۱۹۶۷ئ)، ص ۳۱۱-۳۱۰ میں نظم کی پہلی اشاعت کے حوالے سے دو متروک اشعار دیے گئے ہیں۔شارحین نے عام طور پر اِس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ یہ نظم اکبر الٰہ آبادی کی نظم کی پیروی میں کہی گئی اور مقطع میں لفظ ’اِن‘ کا اشارہ اکبرؔ ہی کی طرف ہے: سنے گا اقبال کون اِن کو، وہ انجمن ہی بدل گئی ہے نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں بتا رہے ہیں ۲۵۔ مزاحیہ قطعوں میں سے بیاض میں سب سے پہلے وہ درج ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک واعظ سے یہ سن کر کہ مشرک کے ہاتھ سے خریدی ہوئی چیز ناپاک ہوتی ہے ایک شرابی کو فکر ہوئی کہ کھانے پینے کی چیزوں کی تجارت ایسے قانون کی پابندہوئی تو شراب کیسے ملے گی۔ میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش یہ قطعہ بانگِ درا میں ظریفاننہ حصے میں شامل ہے۔ ۲۶۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص ۹، ۱۰۔ پوری نظم یوں ہے: ہمارے شاہ کا ہمسر نہ دارا ہے نہ خسرو ہے کہ اس کی ذات پر نازاں بساطِ کہنہ و نو ہے اگر اس کی سلامی کے لیے نواب جھکتے ہیں تو راجاؤں نے بھی چھدوائی اپنے کان کی لو ہے کئی مسلک کیے ہیں ’لازمی تعلیم‘ نے پیدا احد شہ کا کوئی پٹھو، کوئی آغا کا پیرو ہے عجب ہے کھیل قسمت کا کہ پچیسی الیکشن کی بچھائی شیخ بیچارے نے لالہ کو پڑی پو ہے حصولِ جاہ و عزت جس وفاداری کا مقصد ہو وہ جنسِ ناروا گندم نہیں گندم نما جو ہے نہیں ہے بہرِ اظہارِ وفا لازم نمود اصلاً کہ بحرِ شعر میں پانی نہیں مطلق مگر رَو ہے ملے گی تشنہ عزت کو کب اعزاز کی قفلی مہینا جون کا ہے اور یہ سرگرمِ تگ و دو ہے مبارک ہے یہ جشنِ تاجپوشی جس کے صدقے میں وہ مسجد تک چلا آیا، کلب گھر کا جو رہرو ہے مسلمانوں کی جمعیت اگر کم ہے تو کیا پروا عدد چھ سو چھیاسٹھ ہوں مگر مفہوم تو سو ہے نہیں ہوتے ہیں لیڈر ان میں پیدا قابلیت سے مسلمانوں میں یہ مخلوق مثلِ سبزہ، خودرَو ہے خوشامد نے جلا ڈالا ہے خودداری کے خرمن کو ذرا سی شمع ہے کم بخت اور کتنی بڑی لو ہے ضرورت کچھ نہ کچھ دنیا میں ہے عصمت فروشوں کی یہ روحانی قدمچہ ہے یہ اخلاقی بدرَو ہے پرانی روشنی میں دیکھ لو ہے پختگی کیسی کہ پہلے دن سے مہروماہ میں قائم وہی ضَو ہے غلام رسول مہر نے سرودِ رفتہ میں لکھا ہے کہ شعر نمبر ۵، ۶، ۷، ۱۰، ۱۱اور ۱۳ بظاہر اقبال کے اور باقی ظفر علی خاں کے معلوم ہوتے ہیں۔ ۲۷۔ بیاض نمبر 195 ۲۸۔ مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ ۲۹۔ فوق کے اخبار میں چھپی ہوئی ایک رپورٹ مارچ ۱۹۱۳ء کے واقعات میں درج ہے۔ اس میں اقبال کی مثنوی کے بعض اشعار کے بارے میں یہی رائے پیش کی گئی ہے کہ تصوف کا رنگ بدل دیا۔ ۳۰۔ روزنامہ ہمدرد ۱۹ اگست ۱۹۲۷ء میں محمد علی جوہرؔ کا مضمون ’شاعرِ اسلام اقبال‘۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳) ص۱۰۸-۱۰۷ ۳۱۔ مکتوب بنام مولوی کرم الٰہی صوفی۔ یہ خط مخزنمیں نومبر ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا۔ ۳۲۔ نظم میں دو بند تھے جن میں انیس اشعار تھے۔ ۳۳۔ عطیہ فیضی کی کتاب Iqbal کے آخری حصے میں اُن کی رائے ۳۴۔مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء میں تذکرہ کیا ہے کہ اس نظم میں پیش گوئیاں موجود ہیں۔ ۳۵۔ اس کا حوالہ خواجہ کمال الدین نے دسمبر ۱۹۱۱ء کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے پیش کیا۔ میرا ماخذ زندہ رُود ہے۔ ۳۶۔بانگ درا میںاس کا عنوان ’ حضور رسالت ماب میں‘ہے۔ صرف ایک شعر منسوخ ہوا ہے۔ ۳۷۔رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۵۶۔ حکیم محمد یوسف حسن کی روایت محمد طفیل نے نقوش افسانہ نمبر۱۹۶۸ء میں چھاپی۔ ۳۸۔ بزمِ اقبال کے رسالے اقبال، اپریل-جولائی ۱۹۷۷ میں رحیم بخش شاہین کا مضمون ’علامہ اقبال اور اکبرؔ الٰہ آبادی‘۔ اُن کا ماخذ ہے اکبر اِس دَور میں مرتبہ اختر انصاری ۳۹۔ مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی، ۹ نومبر ۱۹۱۱ء ۴۰۔حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۲ ۴۱۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷) ص۲۱۲ پر یادگار دربار دہلی کے حوالے سے درج ہے۔ ۴۲۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۷۳، ۶۶ اور خالد نظیر صوفی (۲۰۰۳)، ص ۱۸۶۔ اعجاز احمد نے لکھا ہے کہ پوری عمارت دوبارہ تعمیر ہوئی چنانچہ آثارِ قدیمہ کا ایک کمرے کو اقبال کی ولادت کا کمرہ قرار دینا غلط ہے۔ خالد نظیر صوفی لکھتے ہیں کہ حویلی کے حصے میں ردّوبدل بہت کم ہوا اور ولادت کا کمرہ اُسی میں شامل ہے۔ ۴۳۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۶۶ ۴۴۔حسن اختر (۱۹۸۸) ص ۱۲۹ ۴۵۔ عطیہ فیضی کو ایک کاغذ پر یہ نظم لکھ کر بھیجی اور ساتھ ہی حاشیے میں لکھا، ’’مسز نائیڈو صاحبہ کی خدمت میں سلام کہیے اور اُن کو یہ اشعار دکھائیے۔ میں نے اُن سے کہا تھا کہ مس عطیہ آپ کو دکھائیں گی۔‘‘ عطیہ نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ نظم ۱۴ دسمبر کو لکھی گئی مگر یہ درست نہیں (تفصیل کے لیے ۱۴ دسمبر کے خط پر حاشیہ دیکھیے)۔ ۴۶۔ مخزن، جنوری ۱۹۱۲ء میں غلام محمد طُور بی اے لاہور کا مضمون ’دربارِ تاجپوشی‘۔ ۴۷۔ صابر کلوروی (۲۰۰۴) نے مخزن جنوری ۱۹۱۲ء کو اس نظم کا ماخذ بتایا ہے۔ ۴۸۔اس جلسے کا حال حنیف شاہد (۱۹۹۷) ص۲۱۶-۲۱۲ پر درج ہے۔ ان کا حوالہ انہی کا ایک مضمون ’اقبال کی زندگی کا ایک ورق‘ مطبوعہ ضیابار (اقبال نمبر ۱۹۷۳، جلد ۹ نمبر ۱) گورنمنٹ کالج سرگودھا ہے جو میری نظر سے نہیں گزر سکا۔ الطاف علی بریلوی (۱۹۷۰) نے کانفرنس کے۱۹۱۱ء کے جلسے کے تذکرے میں اس تقریب کا ذکر نہیں کیا۔ ممکن ہے اسے اپنی کتاب کے موضوع سے باہر سمجھا ہو۔ میں نے حنیف شاہد کی تحقیق پر بھروسہ کیا ہے۔ ۴۹۔ جلسے کی تفصیلات جاوید اقبال(۲۰۰۴)، ص۱۸۷-۱۸۵ [۱۹۸۱، ص ۳-۲۰]، بریلوی اور عروج سے ماخوذ ہیں۔ ملک الشعرأ کے خطاب کا ذکر حنیف شاہد (۱۹۹۷)، ص ۲۱۵ میں موجود ہے۔ ۵۰۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷) ص۲۱۲ پر یادگار دربار دہلی کے حوالے سے درج ہے۔ ۵۱۔ اقبال نے دسمبر ہی میں عطیہ فیضی سے خط میں ذکر کیا (دیکھیے حاشیہ ۴۱)۔ ۵۲۔ ’دعا‘ (یارب دلِ مسلم کو۔۔۔) کے بارے میں عطیہ فیضی کے نام خط میں تحریر ہے کہ ۱۲ دسمبر کی صبح کہی گئی۔ مرزا جلال الدین کی روایت ہے کہ اس کی بنیاد اُن کے گھر شام کی محفل میں پڑی۔ اگر نظم ایک ہی رات میں لکھی گئی جیسا کہ امکان ہے تو پھر ۱۱ دسمبر کی شام کو لاہور میں مرزا جلال الدین کے گھر موجود رہے ہوں گے البتہ دوسرے امکانات بھی نظرانداز نہیں کیے جا سکتے یعنی نظم کی بنیاد پہلے کسی شام پڑی ہو اور تکمیل ۱۲ دسمبر کو ہوئی ہو یا پھر مرزا جلال الدین کی یادداشت نے سرے سے دھوکہ کھایا ہو۔ ان صورتوں میں ممکن ہے کہ اقبال ۱۲-۱۱ دسمبر کو دربار کے وقت دہلی میں موجود رہے ہوں۔ ۵۳۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں مرزا جلال الدین کی روایت ہے کہ اس نظم کی بنیاد اُن کے گھر موسیقی کی محفل میں پڑی تھی۔ عطیہ فیضی کو یہ نظم بھیجتے ہوئے اقبال نے اسے ۱۲ دسمبر کی صبح لکھی ہوئی قرار دیا۔ ۵۴۔مکتوب بنام عطیہ فیضی ۱۴ دسمبر ۱۹۱۱ء ۵۵۔ عطیہ فیضی نے اپنی کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ اشارہ ’نوائے غم‘ کی طرف ہے اور گیان چند (۱۹۸۷)نے بھی یہی سمجھا۔ یہ درست نہیں ہو سکتا۔ ’نوائے غم‘ کی بحر مثمن مخبون میں تو اقبال نے بہت نظمیں کہی تھیں جن میں ’بچے کی دعا‘، ’ابرِگہربار‘ اور’ شکوہ‘ جیسی مشہور نظمیں شامل تھیں۔’نمودِ صبح‘ کی بحر رمل مثمن میں بھی کئی نظمیں موجودہیں جن میں ’ہمالہ‘، ’گورستانِ شاہی‘ اور ’فلسفۂ غم‘ جیسی مشہور نظمیں شامل ہیں۔ صرف ’دعا‘ کی بحرایسی ہے جس میں اقبال نے اِس سے پہلے کچھ نہیں کہا تھا۔ یہ ہزج مثمن اخرب سالم الآخر (مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن) ہے اور واقعی بہت مترنم ہے۔ اقبال کی نظموں کے اوزان معلوم کرنے کے لیے میں نے ابولاعجاز حفیظ صدیقی (۱۹۸۳)پر انحصار کیا ہے۔ ۵۶۔ ٹیگور کا ’جنا منا گنا‘ آزادی کے بعد ہندوستان کا قومی ترانہ بنا۔ اس میں جسے ہندوستان کی قسمت کا نگہبان کہا گیا کانگریس کے ۱۹۱۱ والے اجلاس کے لحاظ سے وہ انگلستان کا بادشاہ تھا۔ البتہ کئی سال بعد ٹیگور نے ایک خط میں لکھا (ترجمہ): ’’ایک بڑے سرکاری افسر نے جو میرا دوست بھی تھا مجھ سے کہا کہ میں شہنشاہ کی تعریف میں ایک نغمہ لکھوں۔ میرے دل میں زبردست ہلچل مچی۔ میں نے اس ہیجان کے نتیجے میں ’جنا گنا منا‘ میں اُس بھاگیا ودھاتا کی جے کہی جس نے ہر زمانے میں عروج اور زوال، مشکل اور آسان راستوں پر ہندوستان کی بگھی کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں۔ وہ تقدیر کا مالک، وہ ہندوستان کے اجتماعی ذہن کو پڑھنے والا، وہ ازلی رہنما جارج پنجم، جارج ششم یا کوئی بھی اور جارج نہیں ہو سکتا۔‘‘ ۵۷۔Muhammad Siddique (1983) ۵۸۔ بیاض نمبر 219 ۵۹۔ نظم کا زمانہ معلوم نہیں۔ بیاض 219 کے آخری صفحات میں موجود ہے۔ ۶۰۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶) ۶۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۶۲۔ سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید(۱۹۸۶)، ص ۱۷۳۔ خواجہ خورشید انور بعد میں بڑے موسیقار ہوئے اور ہندوپاکستان کی بہت سی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ ۶۳۔ مخزن، جنوری ۱۹۱۲ء میں غلام محمد طُور بی اے لاہور کا مضمون ’دربارِ تاجپوشی‘۔ ۶۴۔ ایس ایم اکرام(۱۹۹۴)، ص ۳۵۳ ۶۵۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۱۰۹ ۶۶۔ Lateef Ahmed Sherwani (1944/1977), p. 118۔ شیروانی نے لکھا ہے کہ اقتباسات صفحہ ۱۶۲ سے شروع ہوتے تھے۔ لیکچر 'Muslim Community' تھا۔ ۶۷۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹) ، ص ۱ تا ۳۔ اُس کا ماخذ ہے اخبار زمیندار ۳ ، ۴، ۶ فروری ۱۹۱۲ء ۶۸۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۱۰۹ ۶۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص ۶۱-۶۰ ۷۰۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۲ ۷۱۔ محمد رفیق افضل (۱۹۶۹) ، ص ۳ ۷۲۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸) ص ۲۵۵-۲۵۱ میں اخبار کشمیری کے تراشے کے حوالے سے تقریر کا مفہوم درج ہے۔ ’’تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی حفاظت (محمڈن یونیورسٹی کی تائید ایک عجیب پیرائے میں) کے عنوان سے کسی غلام محمد امرتسری از لاہور کا فوق کے نام خط ہے جس میں اُنہوں نے اقبال کی تقریر کا مفہوم یادداشت کے حوالے سے درج کیا ہے۔ عبداللہ قریشی نے تراشے کی تاریخ اپریل ۱۹۱۱ درج کی ہے جو صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ ۲۵ فروری کا آغا خاں والا جلسہ جس کا ذکر امرتسری کے خط میں موجود ہے وہ ۱۹۱۲ میں ہوا تھا۔ یہ مراسلہ اپریل ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا ہوگا۔ ۷۳۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۹۲ ۷۴۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۹۶ ۷۵۔ حنیف شاہد (۱۹۹۷)، ص ۱۵۹ ۷۶۔ بزمِ اقبال کے رسالے اقبال (اپریل -جولائی ۱۹۷۷) میں رحیم بخش شاہین کا مضمون ’علامہ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی‘۔ ان کا ماخذ ہے ادبی دنیا لاہور (اکتوبر ۱۹۶۷) میں محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’معاصر شعرأ اقبال کی نظر میں۔‘ ۷۷۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص ۲۳۸ ۷۸۔عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص ۸۲ ۷۹۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۲۵۱ ۸۰۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵) ۸۱۔ جھنڈے خاں والی روایت عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص ۷۷ پر درج ہے۔ آئینہ ٹوٹنے والی روایت منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کے بانگِ درا کے نسخے پر غزل کے حاشیے میں لکھی ہوئی تحریر میں نقل ہوئی ہے۔ ۸۲۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵-۸۴۔ ۸۳۔ مجلہ اقبال اپریل-جولائی ۱۹۷۷ میں رحیم بخش شاہین کا مضمون ’علامہ اقبال اور اکبر الہٰ آبادی‘ ۸۴۔ بزمِ اقبال کے رسالے اقبال (اپریل -جولائی ۱۹۷۷) میں رحیم بخش شاہین کا مضمون ’علامہ اقبال اور اکبر الٰہ آبادی‘۔ ان کا ماخذ ہے ادبی دنیا لاہور (اپریل-مئی ۱۹۷۰) ۸۵۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۵۲ ۸۶۔ اگلے برس گیتانجلی کے دیباچے میں ییٹس نے یہ نظم نقل کی۔ اِس لیے یہاں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ ۸۷۔ حمید احمد خان (۱۹۷۴)، ص ۲۴-۲۳ ۸۸۔ بیاض میں یہ فارسی کے اشعار اُسی زمانے کے معلوم ہوتے ہیں۔ ۸۹۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۶۴ ۹۰۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۱۵-۱۱۴۔ شراب سے اجتناب والی روایت اعجاز احمدکی زبانی جاوید اقبال(۲۰۰۴)، ص۲۱۵ [۱۹۸۱، ص ۴۵] ۹۱۔ ۹ اکتوبر کے الہلال کے حوالے سے غلام رسول مہرؔ نے لکھا ہے۔ امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص ۱۰۱ ۹۲۔ بیاض 210 ۔ وہاں دس اشعار درج ہیں۔ ۹۳۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۷۳ ،۴۹ ۹۴۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۲۵۸-۲۵۶ میںاخبار کشمیری لاہور ۱۴ جنوری سے لے کر یہ تحریر شامل کی گئی۔ تحریر کے نیچے ابوظفر لکھا ہے۔ مضمون نگار کا نام ہوگا۔تمہید میں ہے کہ اقبال نے گفتگو کے دوران جو معلومات ظاہر کیں ’’اُن کا جس قدر حصہ قوتِ حافظہ یاد رکھ سکی وہ دماغ کے خزانے میں آج تک محفوظ چلا آتا ہے۔‘‘ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو کافی مدت پہلے ہوئی ہوگی۔ بشیر احمد ڈار (۱۹۶۷)، ص ۲۷۸میں اخبار کشمیریکے اسی پرچے سے اِسے فوق کی تحریر بتا کر تمہید حذف کر کے شامل کیا گیا ہے لیکن اگر ابوظفر فوقؔ ہی کا قلمی نام نہیں ہے تو پھر یہ فوق کی تحریر نہیں۔ ۹۵۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۱۷۵ ۹۶۔ امجد سلیم علی (۱۹۸۸) ص ۱۰۱ ۹۷۔ اُس زمانے کے خطوط میں ذکر ہے۔ ۹۸۔ منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں ہے کہ اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان نے اپنے بانگِ درا کے نسخے میں ’جوابِ شکوہ‘ کے مندرجہ ذیل مصرعے کے حاشیے پر یہ روایت تحریر کی کہ یہ مصرع ’’لاہور کے ایک حقیقی واقعہ کی طرف اشارہ ہے‘‘: ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے ۹۹۔ اقبال کی بیاض (219) میں نظم درج ہے۔ بانگِ درا میں ترمیم کے بعد شامل کی گئی۔ ۱۰۰۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص ۹۴۔ طالب علم کا نام قاضی محمد حسین بتایا گیاہے۔ ۱۰۱۔ رفیع الدین ہاشمی (۱۹۹۳)، ص ۶۴-۴۹ میں ’جوابِ شکوہ‘ کے مطالعے کے لیے اچھا موادموجود ہے۔ ۱۰۲۔ ’جوابِ شکوہ‘ بھی اقبال کی دوسری بیاض میں موجود ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ نقشِ اول ہو۔ ممکن ہے نظم کا ایک حصہ پہلے کسی دوسرے کاغذپر لکھا ہو اور وہاں سے اس میں نقل کیا ہو۔میں نے یہاں بیاض والا متن ہی دیا ہے۔ اس میں ’’کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں‘‘ کے بعد اگلے بند کے چار مصرعے لکھ کر کاٹے گئے ہیں: یادِ ایامِ سلف فخرِ اب و جد بیکار مثل تابانیٔ شمعِ سرِ مرقد بیکار ایک اگر کام ہے تم میں تو یک صد بیکار دہر کی فرد میں تم ہو صفتِ بد بیکار ۱۰۳۔ یہ نکات تشکیلِ جدید کے پہلے خطبے سے ماخوذ ہیں۔ ۱۰۴۔ جوابِ شکوہ کے بارے میں نجانے کیوں مشہور ہے کہ ۱۹۱۳ء میں بڑھی گئی۔ میرا ماخذ جعفر بلوچ (۱۹۹۵) ص۱۷ہے، جس میں زمیندار کے ۳ دسمبر ۱۹۱۲ء کے شمارے سے اس جلسے کی خبر بھی نقل کی گئی ہے۔ حکیم محمد حسن قرشی نے بھی جوابِ شکوہ والے جلسے کا حال لکھا ہے (ابواللیث صدیقی ۱۹۷۷، ص ۲۷۸) مگر کم عمر تھے۔عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)نے ص ۷۶ پر لکھا ہے کہ ’جوابِ شکوہ‘ کا ’ ’زندگی مثلِ بلالِ حبشی رکھتے ہیں‘‘ والا شعر پڑھتے ہوئے اقبال نے معنی خیز نظروں سے حبشیوں جیسی رنگت والے چوہدری شہاب الدین کی طرف دیکھا اور اس کے بعد یہ شعر پڑھا: رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی مگر بلالِ حبشیؓ والا شعر تواس نظم میں نہیں بلکہ ’شکوہ‘ میںہے۔ عبداللہ چغتائی کو غلطی لگی ہے سوائے اِس کے کہ اقبال نے ’جوابِ شکوہ‘کے دوران ’شکوہ‘ کے کچھ اشعار پڑھ کر ’جوابِ شکوہ‘ میں سے اُن کے جوابات سنائے ہوں گے اگرچہ بعید از قیاس ہے کہ شاعر نے اِس طرح نظم کا تسلسل توڑنا گوارا کیا ہو۔ دیگر لوگ جو جلسے میں موجود تھے اور اس کا حال بیان کیا ہے اُن میں میاں عطاالرحمٰن شامل ہیں جن کا تذکرہ حنیف شاہد (۱۹۹۷) میں ’اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘ ص ۲۱-۲۰کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں اُس وقت کم سن تھے۔ انہوں نے اُنہی دنوں کے ایک جلسے کا ذکر کیا ہے جس میں ظفر علی خان بار بار اقبال کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں اسٹیج پر لانے کی کوشش کر رہے تھے اور اقبال کو تامل تھامگر اُن کی ’’ہر جنبش کی قیمت کے طور پر جنگِ بلقان کے لیے اچھا خاصا چندہ جمع ہو گیا تھا۔‘‘ حمید احمد خاں کو نظم یاد نہ رہی مگر اندازہ تھا کہ ’جوابِ شکوہ‘ رہی ہو گی (حمید احمد خان ۱۹۷۴ ص ۲۵-۲۴)۔ منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کی روایت دی گئی ہے۔ ۱۰۵۔عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص۹۴۔بیان بھی انہی کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ جلسہ ’جوابِ شکوہ‘ کے زمانے میں ہوا۔ ۱۰۶۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۵۴ ۱۰۷۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۲، عبدالرؤف عروج (۱۹۸۸) ۱۰۸۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)میں فوق کی تحریرجن سے اقبال نے خود یہ واقعہ بیان کیا تھا۔ واقعے کا زمانہ معلوم نہیں۔ ۱۰۹۔ Muhammad Siddiq (1983) ۱۱۰۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص ۱۱۹-۱۱۸ ۱۱۱۔ وکیل عطا محمد کا بیان کشمیری میگزین، ۷ جنوری ۱۹۱۳میں ص۲۱ پر شائع ہوا۔یہ میگزین اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں موجود ہے۔ ۱۱۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۳۸-۳۷ میں ڈاکٹر عاشق بٹالوی کی روایت ہے کہ اقبال سے سنا۔ ۱۱۳۔ کشمیری میگزین، ۷ جنوری ۱۹۱۳، ص۱۹ پر اس مجلس میں شامل ہونے والوں کے ناموں میں اقبال کا نام شامل نہیں ہے۔ ۱۱۴۔ محمد علی جوہر کی تقریر کا حال عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۱۴-۱۳سے لیا گیا ہے مگر بقیہ روداد کے لیے میں نے کشمیری میگزین ۷ جنوری ۱۹۱۳ء کے ص۸-۷ پر بھروسہ کیا ہے جو عبدالماجد کی روداد سے قدرے مختلف ہے۔ میگزین اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں موجود ہے۔ ۱۱۵۔ کشمیری میگزین، ۷ جنوری ۱۹۱۳، ص۱۹ ۱۱۶۔ کشمیری میگزین، ۷ جنوری ۱۹۱۳، ص۱۹ ۱۱۷۔ان میں سے ایک شاگرد نعیم الرحمان کی بعض روایات جو اُن کے صاحبزادے منصور زعیم الرحمان کی غیرمطبوعہ کتاب میں درج ہیں۔ نعیم الرحمان کے مطابق، ’’اقبال کے مکان کے ایک کمرے میں ایک عریاں تصویر تھی۔۔۔ ایک دن حاضرین ِ محفل نے دیکھا کہ وہ غائب ہے۔ اقبال سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے چند دوست اِس پر معترض تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ اِسے ہٹائیے۔ آخرکار اقبال نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کی یہی خواہش ہے تو کسی دن میری غیرموجودگی میں اِسے اُتار کر لے جائیے۔ چنانچہ دوستوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘نعیم الرحمان ہی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ اقبال نے کہا کہ وہ ہر طرح کا نشہ اُس نشے کے کہنہ مشقوں کی مصاحبت میں کر چکے ہیں، ’’لیکن محض یہ آزمانے کے لیے کہ ہر الگ نشے کے اثرات جسم پر، ذہن پر اور جذبات پر کیسے ہوتے ہیں اور کتنے دیرپا ہوتے ہیں۔ جب اُنہیں اِن باتوں کا مکمل علم ہو جاتا تو وہ اُس نشے کو چھوڑ دیتے اور کچھ عرصے بغیر کوئی نشہ کیے کسی دوسرے کو آزمانا شروع کر دیتے۔‘‘ نعیم الرحمان نے دریافت کیا کہ کیا اُس زمانے میں وہ کوئی نشہ آزما رہے ہیں تو اُس تکیے کا نام اور مقام بتایا جہاں جا کر اُن دنوں مختلف شکلوں میں بھنگ پی رہے تھے۔ تصویر اور بھنگ والی روایات منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں مصنف نے اپنے والد نعیم الرحمان کے حوالے سے بیان کی ہیں۔ ۱۱۸۔ اِس ملاقات کے بارے میںمرزا سلطان احمد کے نام ۲۷ جنوری ۱۹۱۳ء کے خط میں اکبرؔ الٰہ آبادی کے یہی جملے معلوم ہیں۔ ’’ڈاکٹر اقبال صاحب نے بڑی زحمت اٹھائی۔ صرف چند گھنٹوں کے لیے مجھے ملنے کو الٰہ آباد تشریف لائے۔‘‘ (مکتوباتِ اکبر بنام مرزا سلطان احمد، ص ۲۹)۔ میراماخذ مجلہ اقبال اپریل -جولائی ۱۹۷۷ میں رحیم بخش شاہین کا مضمون ہے۔ ۱۱۹۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۷)۔ کوئی عبدالحق بی اے ایل ایل بی نومبر ۱۹۰۷ء میں پنجاب مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے رکن منتخب ہوئے تھے اوراِقبال نے اپریل ۱۹۰۹ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کی جس نشست میں لیکچر دیا اُس کے صدر کا نام بھی شیخ عبدالحق تھاجو میونسپل کمیٹی ملتان کے نائب صدرتھے۔ تحقیق کی جا سکتی ہے کہ یہ تاریخِ وفات اِن دونوں میں سے کسی کی تو نہیں ہے۔ ۱۲۰۔ رفیع الدین ہاشمی نے بازیافتجنوری ۲۰۰۲ میں اپنے مضمون ’علامہ اقبال سے منسوب تاریخِ ہند: چند تصریحات‘ میں اِس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اُن کی کتاب تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ میں بھی اعتراض کی تفصیل موجود تھی مگر اُس وقت تک کتاب کا دوسرا نسخہ انہیں دستیاب نہیں ہوا تھا۔ ۱۲۱۔ تحسین فراقیؔ (۱۹۹۷)، ص ۲۰۳-۲۰۲ ۱۲۲۔ اقبال کی نظم کی روایت ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۴۸-۴۷ پر ضیأ الدین برنی کی عظمتِ رفتہ، ص۵۰ کے حوالے سے ہے ۱۲۳۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۳ ۱۲۴۔ یہ نظم کافی بعد کی ایک بیاض میں درج ہے۔ تاہم بانگِ درا کی ترتیب کے لحاظ سے یہاں رکھی گئی۔ ۱۲۵۔محمد علی (مرتبہ ۱۹۹۸)، ص ۳۴۶-۳۴۵ ۱۲۶۔ صابر کلوروی (۲۰۰۴)۔ اُن کا ماخذ تیسری بیاض (214) ہے۔ ۱۲۷۔ اکبر حیدری (۲۰۰۰) نے لکھا ہے کہ یہ نظم زمیندار میں مارچ ۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی تھی۔ اگر واقعی اگر ایسا ہے تو حکیم یوسف حسن کی اُس روایت میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے جس کے مطابق ظفر علی خاں گھبرائے ہوئے آئے کہ انگریز دواخانہ کھولنے کے بہانے حجاز پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اقبال نے بڑے وثوق سے کہا کہ وہ شام تک ایک ایسی نظم لکھ دیں گے جس کے بعد انگریزوں کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔مارچ ۱۹۱۳ء میں ظفر علی خاں ملک میں نہیں تھے۔ ۱۲۸۔اقبال نے اسلام کے باطن سے جو حقیقت دریافت کی، وہ میک ٹیگرٹ کے بعض سوالوں کا بالواسطہ جواب بھی ہے۔ میک ٹیگرٹ کے نزدیک خودی کو وقت میں رہتے ہوئے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ممکن ہے یہ درست ہو مگر اقبال نے اجتماعی خودی کا جو تصور پیش کیا اُس کے مطابق اجتماعی خودی گزرتے ہوئے وقت کی قید سے آزاد ہے لہٰذا جب فرد قوم کے عشق میں ڈوبتا ہے تو وہ بھی وقت سے باہر نکل جاتا ہے اور خودی کو سمجھ سکتا ہے۔ مسلمان قوم کی اجتماعی رائے بھی اجتماعی خودی ہی کا ظہور ہوتی ہے لہٰذا یہ اجتماعی رائے وقت کی قید سے آزاد، خودی سے آگاہ اور مستقبل کے منصوبوں کی غماز ہوسکتی ہے۔ ۱۲۹۔ حسن نظامی، ہفت روزہ توحیدیکم اگست ۱۹۱۳ء ۔ میرا ماخذ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵ئ) ص ۱۵ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ خواب کب دیکھا؟ میرا خیال ہے کہ ۱۹۱۳ء کے موسمِ سرما بلکہ شاید جولائی میں دیکھا ہو گا۔ دو سال پہلے جولائی ۱۹۱۱ء میں مثنوی کے جو اشعار وارد ہوئے تھے اورجو عطیہ فیضی کو لکھ کر بھیجے تھے (نالہ را اندازِ نَو ایجاد کن)، وہ اِس خواب سے پہلے کی کوشش معلوم ہوتی ہے جسے ڈیڑھ برس تک اقبال نے ادھورا چھوڑ دیا۔ اگر اُن دنوں ایسا خواب دیکھا ہوتا تو قوی امکان تھا کہ عطیہ سے خط میں ذکر کر دیتے۔ منشی سراج الدین کے نام ۱۹۱۵ء کے ایک خط میں بھی اقبال نے لکھا کہ مثنوی اسرارِ خودی گزشتہ دو برسوں میں لکھی گئی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مثنوی کی باقاعدہ ابتدا ۱۹۱۳ء میں ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ یہ باقاعدہ ابتدا خواب ہی سے ہوئی اور اُس رات مثنوی کے جو اشعار وارد ہوئے وہ لکھ کر حسن نظامی کو بھجوا دیے جسے حسن نظامی نے یکم اگست کو’مثنوی اسرارِ خودی‘ کے عنوان سے اپنے تمہیدی نوٹ کے ساتھ شائع کر دیااور لکھا کہ یہ پہلی قسط ہے۔ یہ اشعار دو حصوں میں منقسم تھے۔ پہلے حصے کے اشعار بعد میں اسرارِ خودی کے عشقِ رسول والے باب میں شامل ہوئے۔ دوسرے حصے کا عنوان’ خودی‘ تھا اور اِس کے اشعار بعد میں پوری مثنوی میں بکھر گئے۔ بعض اشعارکے مضامین پرمستقل ابواب لکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سینتالیس اشعار اِس ترتیب میں اقبال کی کسی بھی بیاض میں درج نہیں ہیں۔ شاید کسی الگ کاغذ پر لکھے گئے ہوں۔ یہاں رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵ئ) سے نقل کیے جاتے ہیں: در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است آبروئے ما زنامِ مصطفیٰ است از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنمِ یک صبح خندانیم ما ما کہ از قیدِ وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نورِ دو چشمیم و یکیم بندہؐ سلطان اُو ادنیٰ ستیم قم باذنی گفت و ما برخاستیم سِرِّ مکنونِ دلِ اُو مابدیم نعرۂ بیباکانہ زد افشا شدیم امتیازاتِ نسب را پاک سوخت آتشِ اُو ایں خس و خاشاک سوخت چوں گُلِ صدبرگ ما را بُو یکیست اوست جانِ ایں نظام و اُو یکیست سر شبستانِ حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید بوریا ممنونِ خوابِ راحتش تاجِ قیصر زیرِ پائے اُمتش از کلیدِ دیں درِ دُنیا کشاد ہم چو اُو بطن اُمِ گیتی نزاد سینۂ مسلم تجلّی گاہِ اُو طُور ہا بالا زگردِ راہِ اُو شورِ عشقش در نیِ خاموشِ من مے تپد صد نغمہ در آغوشِ من پیکرم را آفرید آئینہ اش صبحِ من از آفتابِ سینہ اش من چہ گویم از تولائش کہ چیست خشک چوبے در فراقِ اُو گریست در تپیدِ متصل آرامِ من گرم تر از صبحِ محشر شامِ من ابر آزار است و من بُستانِ اُو تاکِ من نمناک از بارانِ اُو چشم در کشتِ محبت کاشتم از تماشا حاصلے برداشتم خودی گر فنا خواہی زخود آزاد شو گر بقا خواہی بخود آباد شو از خودی مگزر بقا انجام باش قطرۂ میباش و بحر آشام باش چیست مُردن از خودی غافل شدن تو چہ پنداری فراقِ جان و تن ہستی و از نیستی ترسیدۂ اے سرت گردم غلط فہمیدۂ ہر کہ آقائی نداند چاکری است مردمی از چاکری بالاترست الحذر از نانِ چاکر الحذر رزقِ خویش از دستِ دیگر الحذر خود فرود آ از شتر مثلِ عمر الحذر از منتِ غیر الحذر فطرتِ کُو بر فلک بندد نظر پست میگردد زاحسانِ دِگر خود زرسمِ داد آزاد آمدی پیشِ قاضی طالبِ داد آمدی اے گدائے ریزۂ اخوانِ غیر جنسِ خود میجوئی از دکانِ غیر غافل از آدابِ فاروقی شدی زیں سبب منت کشِ قاضی شدی ایں قدر از خویشتن غافل مشو بے خبر فاروق تو سائل مشو ذوقِ استحکام اصلِ زندگیست یعنی از خودرفتگی بیچارگیست ہر کہ برخود نیست فرمانش رواں میشود فرماں پذیر از دیگراں چوں زمیں بر ہستیٔ خود محکم است پس زمیں زنجیریٔ ایں نیّر است خویش را دریاب از ایجابِ خویش سیم شو از بستنِ سیمابِ خویش چوں خبر دارم زسازِ زندگی با تو گوئم چیست رازِ زندگی غوطہ در خود صورتِ گوہر زدن پس زخلوت گاہِ خود سر بر زدن زیرِ خاکستر شرار اندوختن شعلہ گردیدن نظر ہا سوختن تا بہ کہ مانندِ گل باشی خموش ہمچو بلبل نالہ را ارزاں فروش فاش گو اسرارِ پیرِ مے فروش موجِ مے شو کستِ مینا بپوش در گرہ ہنگامہ داری چو سپند محفلِ خود بر سرِ آتش ببند خندہ را سر منزلِ صد نالہ ساز اشکِ خونی را جگر پرکالہ ساز نالہ را اندازِ نَو ایجاد کُن بزم را از ہاؤ ہو آباد کُن آتش استی بزمِ عالم بر فروز دیگراں را ہم زسوزِ خود بسوز اے کہ مضرابِ اَنا داری بدست ایں چنیں غافل نمی باشد نشست نسخۂ پیدا کن از تارِ حیات آشکارا ساز اسرارِ حیات سوزِ مضموں دفترِ منصور سوخت جلوہ رقصید و مطاعِ طُور سوخت رفت از تن رُوحِ گردُوں تازِ اُو از اجل بیگانہ ماند آوازِ اُو نعرہ اش در لب چو گویائی ندید سربروں از قطرۂ خونش کشید ۱۳۰۔ یہ یکم اگست ۱۹۱۳ء کو ہفت روزہ توحید میں شائع ہونے والے اشعار کے خودی والے حصے کا خلاصہ ہے۔ اصل اشعارکے لیے گزشتہ حاشیہ دیکھیے۔ ۱۳۱۔کشمیری میگزین، ۲۸ مارچ ۱۹۱۳ئ، ص۳۔ وہاں کتابت کی جو اغلاط تھیں انہیں اقبال اکادمی پاکستان میں جناب احمد جاوید کی نگرانی میں دُور کرنے کے بعد یہ متن پیش کیا جا رہا ہے۔ ۱۳۲۔ کشمیری میگزین، ۲۸ مارچ ۱۹۱۳ئ، ص۶ ۱۳۳۔کشمیری میگزین، ۲۸ مارچ ۱۹۱۳ئ، ص۶ ۱۳۴۔ کمیشن کے سفر کا پروگرام کشمیری میگزین، ۱۴ جنوری ۱۹۱۳، ص۵ پر یوں چھپا: ’’روانگی مدراس سے ۱۰ جنوری، کلکتہ میں ۲۲ سے ۲ فروری، کاروائی شہادت ہائے منجانب آسام بمقام کلکتہ اکنایت ۱۸ فروری۔ پھر کلکتہ سے روانگی ۱۹ فروری۔ ورود دہلی ۲۱ فروری ۲۵ تک قیام۔ یہاں سے بمبئی کے لیے ۲۶ کو روانگی ۲۸ کو ورود اور ۱۳ مارچ تک قیام۔ ناگپور میں ۱۶ سے ۲۱ مارچ تک۔ پٹنہ میں ۲۴ سے ۲۸ تک۔ یہاں سے داخلۂ لکھنؤ ۳۰ مارچ اور قیام تا ۶ اپریل۔ ورود لاہور ۹ اپریل۔ ۱۰ سے ۱۶ اپریل تک لاہور میں شہادتیں قلم بند کی جائیں گی۔ پھر ۱۷ اپریل کو لاہور سے روانہ ہو کر بمبئی اور اسی دن روانہ انگلستان ہو جائیں گے۔‘‘ ۱۳۵۔ Muhammad Ali (1979), p.18 ۱۳۶۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۱۷۵ ۱۳۷۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص ۱۹۔ ان کا ماخذ۱۹۵۳ کے زمیندار ( جوبلی نمبر) میں عبدالحمید مرزا کا مضمون ہے۔ عبدالحمیدمرزا نے ظفر علی خاں کی جون ۱۹۱۳ کی کسی پھٹے کاغذ والی تحریر سے معلومات لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ظفر علی خاں نے ’فاطمہ بنت عبداللہ‘ کو نشان کر کے بانگِ درا پیش کی (جو درست نہیں ہو سکتا کیونکہ بانگِ درا ۱۹۲۴ میں شائع ہوئی)۔ ۱۳۸۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص ۲۰ ۱۳۹۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)۔ مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ نظم ’موٹر‘ کے عنوان سے بانگِ درا میں شامل ہے اور پہلا شعر بہت مشہور ہے: کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کی کیا خموش منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کی روایت ہے کہ سر ذوالفقار علی خاں کے ڈرائیور کا نام جگندر تھا اور نظم کے پہلے شعر میں اُسی کی طرف اشارہ ہے۔ ۱۴۰۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال) میں مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ ۱۴۱۔ عبداللہ چغتائی (اقبال کی صحبت میں)، ص ۳۰۶۔ بعد میںیہ محمد یعقوب ایک انگریز کے اسٹینو ہوئے اوراقبال کے مشہور لیکچرز Reconstructions of Religiou Thought in Islam کے اوّلین مسودوں کو ٹائپ کرنے میں اقبال کی مدد بھی کی۔ اُس وقت مختار بیگم کی وفات کو چار پانچ برس گزر چکے تھے۔ عبداللہ چغتائی نے لکھا ہے کہ اقبال یہ بات نہیں جانتے تھے کہ یہ کبھی مختار بیگم سے منسوب رہ چکے تھے۔ ۱۴۲۔ عبداللہ قریشی (۱۹۶۷)، ص ۳۹ پر اقبال کے ایک نوجوان ملاقاتی کرنل صلاح الدین گوہر حزیں کی روایت ہے کہ انہوں نے یہ بات۱۹۳۵ء میں اقبال سے سنی۔ ۱۴۳۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۰۱ ۱۴۴۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۲ ۱۴۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۲ ۱۴۶۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۲ ۱۴۷۔ محمد علی (۱۹۹۸)، ص ۳۲۰ ۱۴۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۱۳، ۱۱۴۔ ظفر علی خاں کا سی آٗی ڈی کی نظروں میں آنا نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵) سے ماخوذ ہے۔ ۱۴۹۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۱۰۶، ۱۰۴، ۱۰۱ ۱۵۰۔ مہاراجہ کشن پرشاد کی آمد کا ذکر حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۲ سے ماخوذ ہے۔اجلاس کا حال اور اقبال کی تقریراخبار کشمیری لاہور ۲۸ جولائی ۱۹۱۳ سے عبداللہ قریشی (۱۹۸۸) ص۲۶۰-۲۵۹ میں شامل ہے۔ ۱۵۱۔رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۱۲ ۱۵۲۔ مہاراجہ کشن پرشاد کی آمد کا ذکر حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص ۵۲ سے ماخوذ ہے۔ نیز جاوید اقبال (۲۰۰۴)، ص۲۰۰۵ [۱۹۸۱، ص ۳۶]جن کا ماخذ صحیفہ اقبال نمبر (حصہ اول) ہے۔ ۱۵۳۔ عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص ۲۶۰ -۲۵۹ ۱۵۴۔ اس نظم کا زمانہ معلوم نہیں۔ بانگِ درا میں قریباً اِسی زمانے کی نظموں میں شامل ہے۔ ۱۵۵۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵) سے ماخوذ ہے۔ واقعے کی تاریخ یا مہینہ نہیں لکھا۔ ۱۵۶۔ سردار بیگم کے بھائی خواجہ عبدالغنی کے دوست شمس الدین کا بیان ہے کہ نبی بخش وکیل خود سردار بیگم سے شادی کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ وہ سردار بیگم سے اپنے بیٹے کا رشتہ کرنا چاہتا تھا۔ ۱۵۷۔ عبد اللہ چغتائی (۱۹۷۷)، ص ۱۲۵، ۱۲۶ ۱۵۸۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) ص۱۶- ۱۵ ۱۵۹۔یہ نکات تشکیلِ جدید کے پہلے خطبے سے ماخوذ ہیں۔ ۱۶۰۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۶۲۔ مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ ۱۶۱۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱) ص ۶۹-۶۷ ۱۶۲۔ اقبال کی چھوٹی بہن کریم بی بی کی زندہ دلی کی تعریف ڈورس احمد نے بھی کی جو آخری زمانے میں اقبال کے بچوں کی گورنس تھیں۔ ان کے مطابق کریم بی بی اپنی چھوٹی بہن زینب بی بی کو اُن کے مذہبی رجحانات کی وجہ سے ’’مولوی صاحب‘‘ کہتی تھیں۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۳) نے یہ دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد لڑکیوں کے کسی اسکول میں یومِ اقبال پر کریم بی بی کو بلایا گیا اور وہ وہاں وقت پر پہنچ گئیں تو پرنسپل صاحبہ جنہوں نے اُن کے باقاعدہ استقبال کا پروگرام بنایا ہوا تھا، برا مان کر کہنے لگیں کہ ایسی تقریبات میں سب دیر سے پہنچتے ہیں۔ کریم بی بی نے جواب دیا، آپ لوگ میرے بھائی کے نقشِ قدم پر خوب چل رہی ہیں مگر وہ تو اقبال تھے اس لیے ہمیشہ دیر سے آتے تھے آپ کیوں دیر سے آتی ہیں؟ ۱۶۳۔ عبد اللہ چغتائی (۱۹۷۷)، ص ۱۲۵، ۱۲۶ ۱۶۴۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)۔ یہ معلوم نہیں کہ تکلیف کا آغاز کب ہوا مگر ۱۹۱۴ء میں اِسی بیماری سے معراج بیگم فوت ہوئیں۔ ۱۶۵۔ یہ پوری روایت فقیر وحیدالدین (۱۹۵۳) ، ص ۱۷۱-۱۶۹میں درج ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ۱۹۱۳ء کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ صرف بیاضوں ہی میں یہ شعر حضرت علیؓ کی شان میں ہے۔ بعد میں مسودہ تیار کرتے ہوئے اقبال نے اسے رسول اللہؐ کی شان میں منتقل کر دیا اور اس سے پہلے کے اشعار تلف کر دیے۔ کتاب میں اسی طرح شائع ہوئے۔ ۱۶۶۔ حجام والی روایت سالک (۱۹۵۵) ص ۴-۸۳ سے لی گئی ہے۔ یہ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص ۱۴۱میں مرزا جلال الدین سے ذرا مختلف بیان ہوئی ہے کہ ذوالفقار علی خاں نے چٹھی لکھ کر دی اور ایک ہزار روپے تنخواہ ٹھہری۔ اقبال دہلی سے آگے ایک ڈاک بنگلے میں اُترے، وہیں منشی طاہردین کی حجام سے گفتگو ہوئی اور جب منشی نے اقبال کو بتایا تو یہ وہیں سے واپس پلٹ کر چوتھے دن لاہور پہنچ گئے۔ ہجو شیخ اعجاز احمد کی بیاض سے فقیر وحیدالدین (۱۹۵۰، ۱۹۶۳) میں نقل ہوئی ہے: گر فلک در اَلوَر اندازد ترا اے کہ می دارمی تمیزِ خوب و زشت گوئمت در مصرعۂ برجستۂ آنکہ بر قرطاسِ دل باید نوشت آدمیت در زمینِ اُو مجو آسماں ایں دانہ در الور نکشت کِشت اگر زآب و ہوا خر رستہ است زانکہ خاکش را خرے آمد سرشت ۱۶۷۔ تیسری بیاض (214) میں اس نظم کے سترہ اشعار درج ہیں جن میں سے بعض کاٹے گئے ہیں اوراکثر مصرعے دوبارہ لکھے گئے ہیں یا ان کی اصلاح کی گئی ہے۔ عنوان کی بجائے جلی قلم سے ’’۱۹۱۳ئ‘‘لکھا ہے۔ اگر یہ تاریخ درج کرتے ہوئے کوئی غلطی نہیں ہوئی تو منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ) میں اقبال کے شاگرد نعیم الرحمان کی اِس روایت میں کچھ مغالطے کا امکان ہے کہ یہ نظم ’شمع اور شاعر‘ والے جلسے میں پڑھی گئی ۔ وہ جلسہ ۱۹۱۲ء میں ہوا تھا۔ نعیم الرحمان کی روایت یہ ہے: ’’یہ نظم ’شمع اور شاعر‘ والی نظم کے دوسرے روز سہ پہر کے جلسے میں سنائی تھی۔ آخری دو شعر شاعر نے بڑی مشکل سے ادا کیے۔ آخر اِس قدر رقت طاری ہوئی کہ آخری شعر پڑھتے پڑھتے آواز بگڑ گئی اور آنکھوں سے زار و قطار آنسو جاری ہو گئے اور آخری دو لفظ ادا کرتے کرتے بالکل بیہوش ہو کر کرسی میں گر گئے۔ سر ذوالفقار علی خان صدرِ مجلس تھے۔ اُنہوں نے سنبھالا اور ہوش میں لا کر اپنی موٹرکار میں بٹھا کر مکان لے گئے۔ جلسہ درہم برہم ہو گیا۔ کم از کم ایک صد آدمی چیخیں مار مار کر رو رہا تھا۔ جلسہ بھر کا حال تباہ نژار تھا۔‘‘ ۱۶۸۔ شعر صابر کلوروی (۲۰۰۴) سے لیا گیا ہے۔ان کا ماخذ بیاضِ اعجاز ہے۔ پورے قطعے میں سات اشعار ہیں۔ ۱۶۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم اکتوبر ۱۹۱۳ئ۔ نیز رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)۔ ۱۷۰۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص ۲۳ ۱۷۱۔ یہ خیالات تشکیلِ جدید کے ساتویں خطبے سے ماخوذ ہیں۔ علامہ اقبال نے وہاں مزید کہا: ’’لیکن اس مطلب تو یہ ہے کہ ینگ کچھ بھی نہیں سمجھا۔ بات یہ ہے کہ جنسی ضبط نفس خودی کی تربیت کا اولین مرحلہ ہے او راس لیے مذہب چاہتا ہے اس نشوونما کو اس راستے پر ڈال دے جس کا تعلق خودی کی تقدیر اور مستقبل سے ہے۔ لہٰذا اس کی اہمیت صرف اس امر تک محدود نہیں کہ جس ماحول میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں ہماری حیات اجتماعیہ کا تار و پود اخلاقی اعتبار سے محفوظ رہے۔ مذہبی زندگی کی بنیاد ہمارا یہ ادراک ہے کہ خودی کی وحدت کو جو یوں دیکھنے میں بڑی نازک اور ناپائیدار نظر آتی ہے اور جسے ہر لحظہ ہلاکت اور فنا کا خدشہ ہے، پھر سے تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہر ماحول میں خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہیں، زیادہ سے زیادہ آزادی سے کام لیتے ہوئے جیسے مواقع چاہے پیدا کرلے۔ یہ ادارک ہے جس کے ماتحت اعلیٰ مذہبی زندگی میں ہماری نگاہیں محسوسات مدرکات کی اس نوع کی طرف منعطف ہو جاتی ہیں جن سے حقیقت کی بعض بڑی نازک حرکات کا سراغ ملتا ہے اور جو اس پہلو سے کہ خودی حقیقت کی ترکیب میں ایک دوامی عنصر بن جائے، اس کی تقدیر اور مستقبل کے لیے بڑے فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو نفسیات حاضرہ نے مذہبی زندگی کا گویا قشر تک بھی نہیں چھوا۔ وہ اس تنوع اور گوناگونی سے بالکل بے خبر ہے جو مذہبی واردات اور مشاہدات میں پائی جاتی ہے۔‘‘ ۱۷۲۔محمد علی (مرتبہ ۱۹۹۸)، ص ۳۲۱-۳۲۰ ۱۷۳۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۱۷۴۔ تشکیل جدید، خطبہ۲ ۱۷۵۔ Muhammad Ali (1979), pp.295-6آتش فشاں سے میری مراد تحریکِ خلافت اور اُس میں مولانا محمد علی جوہرؔ کا ہنگامہ خیز کردار ہے۔ یہ داستان اگلی کتاب اقبال: درمیانی دَور میں ملاحظہ فرمایے۔ ۱۷۶۔ یہ خیالات اسرارِ خودی سے ماخوذ ہیں۔ ۱۷۷۔ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، اکتوبر ۱۹۷۳، ص ۱۹۸-۱۹۷ ۱۷۸۔ Muhammad Ali (1944/87), p.145 ۱۷۹۔علامہ اقبال نے تشکیلِ جدید کے چھٹے خطبے میں حوالہ دیا۔ ۱۸۰۔ حسن اختر (۱۹۸۸) ص ۹۴۔ ۱۸۱۔ Muhammad Siddiq (1983) ۱۸۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص ۵۴، پروفیسر عبدالحمید کی روایت۔ ۱۸۳۔ عطیہ فیضی کی کتاب Iqbal کے آخری حصے میں اُن کی رائے ۱۸۴۔ یہ خطوط پھر کبھی دستیاب نہ ہو سکے البتہ ان کی نقل ۱۹۸۴ء میں سعید اختر درّانی کی کوشش سے سامنے آئی۔ کتابیں کتبِ اقبال The Development of Metaphysics in Persia (1908). Bazm-i-Iqbal (1964) Lahore. اقبال کی وہ تحریریں جو دُوسروں نے مرتب کیں اکبر حیدری، ڈاکٹر۔ ۲۰۰۱۔ کلامِ اقبال (نادرونایاب رسالوں کے آئینے میں)۔ جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز، سری نگر عبدالواحد معینی، عبداللہ قریشی۔۱۹۶۳۔ مقالاتِ اقبال۔ آئینۂ ادب(۱۹۸۸)۔ لاہور گیان چند، ڈاکٹر۔ ۱۹۸۸۔ ابتدائی کلامِ اقبال بہ ترتیبِ مہ و سال۔ شائستہ پبلشنگ ہاؤس۔ کراچی مظفر حسین برنی۔ ۱۹۹۲۔کلیات مکاتیب اقبال(جلد اول)۔ اُردواکادمی۔ دہلی عبداللہ قریشی، محمد۔ ۱۹۸۷۔ حیاتِ جاوداں۔ بزمِ اقبال۔ لاہور رفیق افضل، محمد۔ ۱۹۶۹ئ۔ گفتارِ اقبال۔ ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب (۱۹۸۶ئ)۔ لاہور Javid Iqbal, Dr., 1962/2006. Stray Reflections. Iqbal Academy Pakistan, Lahore B. A. Dar, 1967. Letters And Writings Of Iqbal. Iqbal Academy Pakistan Lahore Latif Ahmed Sherwani, 1944/1995. Speeches, Writings and Statements of Iqbal. Iqbal Academy Pakistan, Lahore (1995) اقبال کے تراجم افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر۔ شذرات فکر اقبال (ترجمہ)۔ مجلس ترقی ادب (۱۹۸۳)۔ لاہور جہانگیر عالم، محمد۔ ۲۰۰۱۔ خطبات اقبال۔ دائرہ معارف اقبال۔ فیصل آباد دیگر کتابیں آغا حشر کاشمیری (مرتب عشرت رحمانی)۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد اول [اسیرِ حرص، ٹھنڈی آگ]۔ مجلس ترقی ادب (۱۹۸۷)۔ لاہور آغا حشر کاشمیری (مرتب عشرت رحمانی)۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد دوم[اشہیدِ ناز، صیدِ ہوس، نیک پروین]۔ مجلس ترقی ادب (۱۹۹۷)۔ لاہور آغا حشر کاشمیری (مرتب عشرت رحمانی)۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد سوم [خوبصورت بلا، خوابِ ہستی، بلوامنگل]۔ مجلس ترقی ادب (طبع دوم ۲۰۰۱)۔ لاہور آغا حشر کاشمیری (مرتب عشرت رحمانی)۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد چہارم [سفید خون، یہودی کی لڑکی، بَن دیوی]۔ مجلس ترقی ادب (۲۰۰۲)۔ لاہور آغا حشر کاشمیری (مرتب عشرت رحمانی)۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد پنجم[آنکھ کا نشہ، تُرکی حور، رستم و سہراب]۔ مجلس ترقی ادب (۲۰۰۴)۔ لاہور ابوسلمان شاہجہان پوری۔ ۱۹۹۳۔ علامہ اقبال اور مولانا محمد علی۔ مکتبہ شاہد۔ کراچی ابولاعجاز حفیظ صدیقی ۔۱۹۸۳۔ اوزانِ اقبال۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔ لاہور ابواللیث صدیقی ۔ ۱۹۷۷۔ ملفوظاتِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور اجمل خاں نیازی۔ ۱۹۹۰۔ فوق الکشمیر۔ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور احمد سعید۔ ۱۹۸۱ئ۔ قائداعظم مسلم پریس کی نظر میں۔ قائداعظم اکادمی، کراچی۔ اعجاز احمد۔۱۹۸۵۔مظلوم اقبال۔ اعجاز احمد۔ کراچی الطاف علی بریلوی بی اے (علیگ)، سیّد اور پروفیسر محمد ایوب قادری ایم اے(مرتبین)۔ ۱۹۷۰۔ علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں۔ اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ۔ کراچی امجد سلیم علوی(مرتب)۔ ۱۹۸۸۔ اقبالیات از غلام رسول مہر۔ مہر سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور ایس ایم اکرام۔ یادگارِ شبلی۔ اِدارۂ ثقافتِ اِسلامیہ (۱۹۹۴)۔ لاہور بشیر احمد ڈار۔ ۱۹۶۷ئ۔انوارِ اقبال۔ اقبال اکیڈمی پاکستان، لاہور (۱۹۷۷ئ)۔ تحسین فراقی۔ ۱۹۹۲۔ نقدِ اقبال حیاتِ اقبال میں۔ بزمِ اقبال۔ لاہور تحسین فراقی۔ ۱۹۹۷۔ اقبال، چند نئے مباحث۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۳)۔ لاہور ثنا ٔ الحق صدیقی۔ ۱۹۷۵۔ مولانا محمد علی جوہر، حیات اور تعلیمی نظریات۔ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس(۱۹۹۰)۔ کراچی حسن اختر، ڈاکٹر ملک۔ ۱۹۸۸۔ اقبال، ایک تحقیقی مطالعہ۔ یونیورسل بُکس۔ لاہور حکیم احمد شجاع۔ ۱۹۴۳۔ خوں بہا۔ آتش فشاں (۲۰۱۲)۔ لاہور حمید احمد خاں، پروفیسر۔ ۱۹۷۴۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری۔ بزمِ اقبال(۱۹۸۳ئ)۔ لاہور حنیف شاہد، محمد۔ ۱۹۷۶۔ اقبال اور انجمن حمایت اسلام۔ کتب خانہ انجمن حمایت اسلام۔ لاہور حنیف شاہد، محمد۔ جون ۱۹۷۷۔ اقبال اور پنجاب کونسل۔ مکتبۂ زریں۔ لاہور حنیف شاہد، محمد۔ ۱۹۹۷۔ مفکرِ پاکستان۔ سنگ میل۔ لاہور خرم علی شفیق۔ ۲۰۰۸۔ اقبال: ابتدائی دَور ۱۹۰۴ء تک ۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور [پہلا ایڈیشن: دمادم رواں ہے یمِ زندگی۔ الحمرا پبلی کیشنز (۲۰۰۳)۔ اسلام آباد] رحیم بخش شاہین۔ ۱۹۷۵۔ اوراقِ گم گشتہ۔ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ۔ لاہور رفیع الدین ہاشمی۔ ۱۹۹۳۔ اقبال کی طویل نظمیں۔ سنگِ میل پبلی کیشنز۔ لاہور رفیع الدین ہاشمی۔ ۱۹۸۲۔ تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۱)۔ لاہور رفیع الدین ہاشمی (ڈاکٹر)، محمد سہیل عمر، ڈاکٹر وحید عشرت۔ ۲۰۰۲۔ اقبالیات کے سو سال۔ اقبال ادبیات پاکستان۔ اسلام آباد جاوید اقبال، ڈاکٹر۔ ۲۰۰۴۔ زندہ رُود (علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات)۔ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور۔ [اولین اڈیشن زندہ رُود مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز: حیاتِ اقبال کا تشکیلی دَور (۱۹۷۹)، حیاتِ اقبال کا وسطی دَور(۱۹۸۱)، حیاتِ اقبال کا اختتامی دَور (۱۹۸۴)] جیلانی کامران۔ ۱۹۷۷۔ اقبال اور ہمارا عہد۔ مکتبہ عالیہ۔ لاہور خالد نظیر صوفی۔۱۹۷۱ ۔ اقبال درون ِ خانہ۔ بزمِ اقبال (۱۹۸۳)، لاہور۔[ نظرثانی (اکادمی ایڈیشن) ۲۰۰۸، اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور] خالد نظیر صوفی۔۲۰۰۳۔ اقبال درونِ خانہ (جلد دوم)۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور خورشید کمال عزیز۔ وہ حوادث آشنا۔ الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب۔ لاہور سعید اختر درّانی۔ ۱۹۹۹۔ اقبال یورپ میں (ترمیم اور اضافہ شدہ ایڈیشن) ۔ فیروز سنز ۔ لاہور[پہلا ایڈیشن: ۱۹۸۵۔ اقبال اکادمی۔ لاہور] سعید اختر درّانی۔ ۱۹۹۵۔ نوادرِاقبال یورپ میں۔اقبال اکادمی۔ لاہور شاہد حسین رزاقی۔ ۱۹۰۷۔ سید امیرعلی۔ ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور صہبا لکھنوی۔ ۱۹۷۳۔ اقبال اور بھوپال۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۰)۔ لاہور ضیأ الدین برنی۔ عظمتِ رفتہ عبدالرؤف عروج۔ ۱۹۸۸۔ رجالِ اقبال۔ نفیس اکیڈمی۔ کراچی عبدالرشید تبسم۔ ملفوظاتِ رومی: فیہِ ما فیہِ۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ (۲۰۰۷)۔ لاہور عبدالقادر، شیخ۔ ۱۹۲۴۔’ دیباچہ‘ بانگِ درا ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز (۱۹۷۳) ۔ لاہور عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر محمد۔ ۱۹۷۷۔ روایاتِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان(۱۹۸۹)۔ لاہور عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر محمد۔ ۱۹۷۷۔ اقبال کی صحبت میں۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور عبداللہ قریشی ۔ ۱۹۸۲۔ حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں۔ بزمِ اقبال۔ لاہور عبداللہ قریشی(مرتب) ۔ ۱۹۸۸۔ تذکارِ اقبال از منشی محمد الدین فوق۔ بزمِ اقبال۔ لاہور عبدالماجد دریابادی ۔۱۹۵۶۔ محمد علی-ذاتی ڈائری۔ طبع مکرر بطور مولانا محمد علی سیرت و افکار۔ ادارۂ علم و فن (۲۰۰۱)۔ لاہور عبد المجید سالک ۔ ۱۹۵۵۔ ذکرِ اقبال۔ بزمِ اقبال۔ لاہور عبدالمجید سالک ۔ ۱۹۵۴۔ سرگزشت۔ الفیصل ناشران وتاجرانِ کتب(۱۹۹۳)۔ لاہور عطیہ فیضی (۱۹۴۷) اقبال ۔ مترجم ضیأالدین برنی۔ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۸۱)۔ لاہور غلام دستگیر رشید۔ ۱۹۴۴۔ آثارِ اقبال۔ ادارۂ اشاعتِ اردو، حیدرآباد دکن۔ فقیر سیّد وحید الدین ۔ ۱۹۵۰، ۱۹۶۳۔ روزگارِ فقیر (جلد اوّل)۔ آتش فشاںپبلی کیشنز(۱۹۸۸)۔ لاہور فقیر سید وحیدالدین۔ روزگارِ فقیر (جلد دوم)۔ آتش فشاں پبلی کیشنز (۱۹۸۸)۔ لاہور محمد حنیف شاہد ۔ ۱۹۷۲۔ نذرِ اقبال ، سر عبدالقادر کے مضامین، مقالات، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ۔ بزمِ اقبال۔ لاہور محمد علی جوہر، مولانا (مرتب پروفیسر محمد سرور)۔ مضامین محمد علی جلد دوم۔ طبع مکرر بطور مولانا محمد علی جوہر آپ بیتی اور فکری مقالات مرتبہ سید شاہ محمد قادری۔ تخلیقات (۱۹۹۸)۔ لاہور محمود حسین، ڈاکٹر سید۔ ۱۹۸۶ئ۔ اقبال کی ابتدائی زندگی۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور منصور زعیم الرحمان (غیرمطبوعہ)۔ پروفیسر محمد نعیم الرحمان کی سوانح حیات۔ (اقبال کے متعلق حصے اقبال اکادمی پاکستان نے مراسلہ ایف ۱-۶/۲۰۰۵/۹۰۸کے ذریعے فراہم کیے) ممتاز اختر مرزا، مرتب۔ ۱۹۷۸۔ مقالاتِ تاثیر۔ مجلس ترقی ادب۔ لاہور۔ نذیرنیازی، سیّد۔۱۹۷۹۔دانائے راز۔ اقبال اکادمی پاکستان(۱۹۸۸)۔ لاہور نذیرنیازی ، سیّد۔ ۱۹۷۱۔ اقبال کے حضور۔ اقبال اکادمی (۲۰۰۰)۔ کراچی نظیر حسنین زیدی۔ ۱۹۸۵۔ مولانا ظفر علی خاں بحیثیت صحافی۔ مکتبۂ اسلوب۔ کراچی۔ Muhammad Ali (Ed. Shan Muhammad). Unpublished Letters of the Ali Brothers. Idarah-i-Adabiyat-i-Delli (1979) Muhammad Ali (Ed. Dr. Afzal Iqbal; 1944/87), Select Writings and Speeches of Maulana Muhammad Ali. Islamic Book Foundation, Lahore Muhammad Siddique: Descriptive Catalogue of Allama Iqbal's Personal Library. Iqbal Academy, Lahore Raheem Bakhsh Shaheen. Mementos of Iqbal. All-Pakistan Islamic Education Congress Jahan Ara Shahnawaz (1971). Father And Daughter: A Political Biography. Oxford University Press (2002), Karachi جرائد اقبال(بزمِ اقبال لاہور )، اکتوبر ۱۹۵۷ صحیفہ (اقبال نمبر حصہ اول)، اکتوبر ۱۹۷۳ بازیافت(شعبۂ اردو پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور)، جنوری ۲۰۰۲ The Illustrated Weekly of Pakistan: April 16, 1950 (Attiya Faizi: My Impression of Iqbal) Dawn: April 21, 1952 (Attiya Faizi: When soft music confused Iqbal) Pakistan Times:April 21, 1956 (Attiya Faizi: The Poet as a Young Man) Dawn: April 30, 1967 (Attiya Faizi: Iqbal, a reflection) آیندہ کتاب سے اقتباسات ۱۹۱۴ء ۲۸ جون تھی۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیو میں صبح کے پونے دس بجے تھے۔ اُنیس سالہ نوجوان گاوریلو پرنسیپ نے ابھی ابھی ایک کیفے میں بیٹھ کر سینڈوچ ختم کیا تھا اور اَب وہ کھلی چھت والی ڈبل فینٹم گاڑی کو اُس طرف آتے دیکھ کر چونک اُٹھا۔ گاڑی میں آسٹریا ہنگری کا ولی عہد اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ گاوریلو کے ایک ساتھی نے تیس چالیس منٹ پہلے اِسی گاڑی پر دستی بم پھینکا تھا مگر ناکام رہا تھا اور پھر گاوریلو کو اطلاع ملی تھی کہ گاڑی کا راستہ بدل دیا گیا ہے۔ غالباً سیکورٹی کے عملے کا کوئی فرد ڈرائیور کو یہ بتانا بھول گیا تھا اس لیے اب پولیس کی حفاظتی گاڑی نئے راستے پر کافی دُور جا چکی تھی اور ولی عہد کی گاڑی تنہا تھی۔ عین اُسی وقت ڈرائیور کو غلطی کا احساس ہوا اور اُس نے بریک لگائی۔ واپس موڑنے کی کوشش میں گیئر پھنس گیا مگر یوں بھی اب دیر ہو چکی تھی۔ گاوریلو بڑی تیزی سے گاڑی کے قریب پہنچ کر سیمی آٹومیٹک براؤننگ پستول نکال چکا تھا۔ گولی شہزادے کی گردن میں لگی۔ ’’خدا کی پناہ! تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ شہزادی نے کہا اور عین اُسی وقت گاوریلو نے سرائیو کے گورنر کا نشانہ لے کر دوسرا فائر کیا۔ نشانہ چوکا اور گولی شہزادی کے پیٹ میں لگی۔ ’’صوفی ڈئر! صوفی ڈئر! مت جاؤ۔ ہمارے بچوں کی خاطر زندہ رہو۔‘‘ یہ شہزادے کے آخری الفاظ تھے۔ چند منٹ بعد دونوں ختم ہو چکے تھے۔یہ اُس محبت کا انجام تھا جس کی خاطر آسٹریاہنگری کے شہزادے نے اپنے باپ کے شاہی ارادوں سے ٹکرا کر شادی کی تھی۔ بے قابو ہجوم نے گاوریلو کے ہاتھ سے پستول چھین لیا تھا۔ اُس نے زہر کھا کر اپنی جان لینا چاہی مگر کسی نے زہر کی ایکسپائرڈ گولی اُس کے ہاتھ بیچی تھی۔ وہ زندہ رہاتاکہ دیکھ سکے کہ اُس نے ایسی چیز کا آغاز کر دیا ہے جو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو سکتی تھی۔ شہنشاہ یہ اطلاع ملنے پر چیخ اٹھا، ’’کوئی غم نہیں جو مجھے نہ ملا ہو!‘‘قتل بوسنیا میں ہوا تھا مگر آسٹریاہنگری کے وزیرِ خارجہ نے ذمہ داری سربیا کی ایک خطرناک تنظیم پر عائد کی۔ نوجوان سڑکوں پر نکل کر جنگ کا مطالبہ کرنے اور سربیا کے جھنڈے جلانے لگے۔ روم میں پوپ پائیس دہم یہ خبر سنتے ہی بیہوش ہو گئے۔ لندن میں خونی سرخیاں لگانے کے شوقین لارڈ نارتھ کلف کے اخبار ٹائمز نے لکھا، ’’دنیا کے ضمیر میں ہلچل مچ گئی ہے۔‘‘ ایک اور اخبار نے لکھا کہ یورپ پر بجلی کڑکی ہے۔ گاوریلو کے پہلے فائر نے اُس چیز کو یقینی بنا دیا تھا جسے بعد کی نسلیں پہلی جنگ عظیم کہنے والی تھیں۔ ٭ مثنوی آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اقبال نے گرامی کو خط لکھا، ’’آپ کہاں ہیں؟ حیدرآباد میں ہیں یا عدم آباد میں؟ اگر عدم آباد میں ہیں تو مجھے مطلع کیجئے کہ میں آپ کو تعزیت نامہ لکھوں۔ صدیاں گزر گئیں کہیں آپ کا کلام دیکھنے میں نہیں آیا۔کبھی کبھی چند اشعار بھیج دیا کرو تو کون سی بڑی بات ہے۔ ‘ ‘ اپنے بارے میں لکھا کہ کاروباری مصروفیات کی وجہ سے شاعری ترک کیے بیٹھے ہیں اور کبھی فرصت ملتی ہے تو فارسی کے اساتذہ کے اشعار پڑھ کر لطف اٹھا لیتے ہیں۔ ’’گزشتہ سال ایک مثنوی فارسی میں لکھنی شروع کی تھی۔ ہنوز ختم نہیں ہوئی اور اس کے اختتام کی امید بھی نہیں۔ خیالات کے اعتبار سے مشرقی اور مغربی لٹریچر میں یہ مثنوی بالکل نئی ہے۔‘‘ اقبال نے گرامی سے فرمائش کی کہ لاہور آکر مثنوی سنیں اور اس میں مشورہ دیں۔ ’’امید ہے کہ بابا گرامی اچھا ہو گا اور نئے نکاح کی فکر میں اپنے آپ کو گھلاتا نہ ہو گا۔‘‘ ٭ ۴ اگست تھی۔ لندن میں رات کے ساڑھے دس بجے تھے ۔ بکنگھم پیلس میں شاہ جارج پنجم ایک وزیر اور دو درباریوں کے ساتھ موجود تھے۔ پریوی کونسل کے اِس اجلاس نے فیصلہ کیا کہ رات گیارہ بجے جرمنی سے جنگ شروع ہو جائے گی جس نے بلجیئم پر حملہ کر کے برطانیہ کے الٹی میٹم کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ اُن کا فیصلہ وہ خنجر ہے جس سے یورپی استعمار خودکشی کرے گا۔ ٭ گیلی پولی ایک چھوٹا سا جزیرہ نما تھا۔ یہاںسے اتحادی فوجیں آسانی کے ساتھ استنبول پر حملہ کر سکتی تھیں۔ جو ترک اور جرمن دستے مستعد تھے اُن میں لیفٹنٹ کرنل مصطفی کمال بھی موجود تھے۔ کچھ عرصہ پہلے اُن کا تبادلہ اِس محاذ پر ہوا تھا۔ ۲۵ اپریل کو اتحادی فوجیں گیلی پولی کے ساحل پر اُتریں۔ یہ وہی مقام تھا جس کا مصطفی کمال نے پہلے سے اندازہ لگا رکھا تھا۔ اگلی صبح اُنہوں نے اپنی ڈویژن کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور خود اُن سے پہلے دشمن کے قریب پہنچ گئے۔ کسی اور ڈویژن کے سپاہی میدان چھوڑ کر واپس آ رہے تھے۔ اُن کے پاس گولیاں ختم ہو چکی تھیں اور سامنے والی پہاڑی سے دشمن کے سپاہی بڑھتے چلے آ رہے تھے۔’’گولیاں ختم ہو گئیںتو کیا ہوا،‘‘ مصطفی کمال نے کہا۔ ’’تمہارے پاس سنگینیں ہیں!‘‘ ’’میں نے اُنہیں حکم دیا کہ سنگینیں لگائیں اور زمین پر لیٹ جائیں،‘‘ ان کا بیان ہے۔ ’’اُنہوں نے ایسا کیا تو دشمن بھی لیٹ گیا۔ ہم نے مہلت حاصل کر لی تھی۔‘‘ اپنی ڈویژن پہنچی تو مصطفی کمال نے اُس سے کہا۔ ’’میں تمہیں حملے کا حکم نہیں دے رہا۔ میں تمہیں مرنے کا حکم دے رہا ہوں۔ جب تک ہم مریں گے، دوسرے یونٹ اور کمانڈر ہماری جگہ لینے پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘ ’’وہ حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی انیسویں ڈویژن کے ساتھ جنگ میں کود پڑا،‘‘ وان سانڈرز نے مصطفی کمال کے بارے میں لکھا۔ ’’اور دشمن کو واپس ساحل تک دھکیل آیا۔‘‘ ٭ اقبال اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سچی بیخودی اپنے آپ کو خدا کی ذات میں نہیں بلکہ اُس کے احکام میں فنا کرنے سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو چھوڑ کر ان احکامات کا اس طرح پابند ہو جائے کہ پھر نتائج کی پروا نہ رہے۔ جہاں تک فنا کا سوال تھااقبال کوقوم کے وجود میں فنا ہونا زندگی کا صحیح مقصد دکھائی دیتا تھا۔ ۱۹۱۶ء آئرلینڈ کے حریت پسندوں نے ہوم رُول مسترد کر دیا تھا اور آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگ کے خاتمے کا انتظار کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انگریز کے وعدے پر اعتماد نہ تھا۔ ۲۸ اپریل کو ڈبلن کے قلعے میں انگریز محافظوں پر حملہ ہوا۔ عدالت کے ایک حصے کو آگ لگا دی گئی اور باغیوں کے سربراہ نے ایک ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر آئرلینڈ کی آزادی کا اعلان کر کے ایک نیا جھنڈا بلند کر دیا۔ شام تک ڈاکخانے کی سنگین دیواریں انگریز سپاہیوں کی گولیوں سے داغدار ہو چکی تھیں۔ گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ مکتوب بنام گرامی لاہور۔ یکم جولائی ۱۷ء نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ لاہور آنے کا قصد رکھتے ہیں، لیکن میرے مکان میں آسمان نظر نہیں آتا تو کیا مضائقہ ہے، آسمانوں کا بنانے والا تو اس مکان سے نظر آ جاتا ہے۔ بہرحال آپ کو آسمان کا نظارہ مطلوب ہے تو اس کا انتظام آسانی سے ہو جائے گا۔ لاہور میں آخر ایسے مکان بھی ہیں جہاں سے آسمان دکھائی دیتا ہے۔ آپ تشریف لائیں تو ایک دو روز پہلے مطلع کر دیں۔ ایسا انتظام ہو جائے گا۔ دن بھر میرے پاس رہیے سونے کا انتظام وہاں کر دیا جائے گا۔ علی بخش رات کو آپ کی خدمت میں رہا کرے گا، مکان بھی قریب ہو گا۔ حیدرآباد والا معاملہ ابھی بدستور ہے یعنی اس میں خاموشی ہے۔ مہاراجہ کے خطوط آتے ہیں مگر ان میں کوئی اشارہ کنایہ اس بارے میں نہیں ہوتا۔ مجھے تو زیادہ خوشی اس وجہ سے ہے کہ آپ وہاں ہوں گے اور آپ کی صحبت میں مثنوی کی تکمیل میں آسانی ہو گی۔ دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے۔ مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصے کا مضمون ہو گا، ’’حیات مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آیندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجے پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔۔۔ مخلص محمد اقبال ۱۹۲۲ء عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر ’لایخلف المیعاد‘ دار آخری شعر کا مطلب تھا، ’’تم مسلمان ہو، اپنے سینے کو آرزو سے آباد رکھو۔ ہر لمحہ یہ آیت پیشِ نظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا!‘‘ اِقبال درمیانی دَور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک خرم علی شفیق سوانح ِ اقبال کے سلسلے کی تیسری کڑی میں بھی بعض ایسے گوشوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جو پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔ دُنیا تباہی کی زد میں تھی لیکن اقبال اس عالم گیر جنگ کو کس طرح دیکھ رہے تھے؟ یہ کتاب اقبال کی زندگی کے اُس دور کا احاطہ کرتی ہے جب اُنہوں نے ’اسرارِ خودی‘، ’رموزِ بیخودی‘ اور ’خضرِراہ‘جیسی نظمیں لکھیںاور ایک نیا زاویۂ نگاہ پیش کیا۔ انگلستان کے ادبی حلقوں میں شاعرِ اسلام کے طور پر متعارف ہوئے تو وہاں بھی ردِ عمل ہوا جس کا تفصیل سے جائزہ لینے پر دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ ممکن ہے یہ کتاب آپ کی دنیا کے بارے میں آپ کا زاویۂ نگاہ بدل دے! اقبال اکادمی پاکستان