اِقبال دَرمیانی دَور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان نوٹ: یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جو اقبال سائبر لائبریری کے لیے ۲۱۰۴ء میں تیار کیا گیا۔ پہلا ایڈیشن اقبال اکادمی پاکستان سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ ©جملہ حقوق بنام حمزہ خرم محفوظ ہیں کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر، رات کو چھپ جائے یا دن کو سرعام چلے پھرے، برابر ہے: اُس کے آگے اور پیچھے نگہبان ہیں جو اللہ کے حکم سے اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ کسی قوم کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو نہیں بدلتی اور اللہ جب کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ پھر نہیں سکتی اور خدا کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ ترجمہ سورۃ۱۳: رعد۔ آیات۱۱-۱۰ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائیِ تدبیر دیکھ! اقبال، ’خضرِ راہ‘ (۱۹۲۲ئ) سازِ خاموشم نوائے دیگرے دارم ہنوز آنکہ بازم پردہ گرداند پئے آنم برید (اقبال) ٭ سازِ خاموش ہوں مگر ابھی ایک نغمہ مجھ میں باقی ہے۔ جودوبارہ میرا پردہ اٹھا دے، مجھے اُس کے پاس لے چلو۔ پہلی بات اب دریائے ایون پر دُھوپ چمک رہی ہے۔ کنارے پر وہ گِرجا ہے جہاں شیکسپیئر کی قبر ہے۔ ابھی ابھی وہیں سے نکلا ہوں (گِرجے سے، قبر سے نہیں- جہاں تک میرا خیال ہے)۔ علامہ اقبال نے شیکسپیئر کے بارے میں کہا تھا کہ اگر ہم اُسے ڈھونڈنے نکلیں تو سورج کو اپنی ہی روشنی میں چھُپا ہوا پائیں گے۔ آج صبح راستے میں یہ منظر بھی زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ ایسی کہر چھائی ہوئی تھی جو اپنے یہاں نہیں دیکھی جا سکتی۔ زمین سے آسمان تک صرف ایک چمکیلا غبارتھا۔ اُسی میں کہیں ذرا زیادہ چمک تھی تو شبہ ہوا کہ شاید آسمان کے اُسی حصے میں سورج چھپا ہوا ہو: ’’تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا‘‘! یہ کتاب بہت دنوں سے مکمل پڑی تھی۔ صرف ’پہلی بات‘ لکھنا باقی تھی۔ چاہتا تھا کہ یہ دو صفحے شیکسپیئر کے مزار پر بیٹھ کر لکھوں۔ وجہ یہ تھی کہ اتفاق سے چند ماہ سے کوونٹری میں مقیم ہوں جو شیکسپیئر کے قصبے اسٹرَیٹ فورڈ سے بہت قریب ہے اور اِس کتاب میں علامہ اقبال اور شیکسپیئر کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ ایسی چیزیں پیش کی جا رہی ہیں جو پچھلے ۹۶ برس سے عوام و خواص کی نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ جس بنچ پر بیٹھا ہوں وہ زیادہ پرانی نہیں (یعنی صرف تیس پینتیس برس پرانی ہے)۔ البتہ دریا کا کنارہ وہی ہے جہاں شیکسپیئر خود بھی آیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ سطور جو آپ پڑھ رہے ہیں، اُسی مقام پر لکھی جا رہی ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے ممکن ہے کبھی شیکسپیئر نے اپنے ذہن میں کسی ڈرامے کا پلاٹ یا مکالمہ ترتیب دیا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ کر بہت خوشی ہو رہی ہے اور آپ کو بھی اِس میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ قوموں کے عروج و زوال کی طرح اُن کے باہمی تعلقات کی کہانی بھی بڑی پُراَسرار ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب جس عرصے پر محیط ہے یعنی ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء کا زمانہ، خواہ آپ اُس زمانے کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں، خواہ سب کچھ جانتے ہوں، بہرحال یہی محسوس کریں گے جیسے کچھ بالکل نئی باتیں پہلی دفعہ آپ کے سامنے آ رہی ہیں اور یہ کیفیت آخری صفحے تک برقرار رہے گی۔ سلسلے کی دونوں سابقہ کتابوں کی طرح یہ بھی اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔ اُس نقطے سے شروع ہوتی ہے جب مشرق بالخصوص اسلامی مشرق زوال کے پست ترین درجے پر پہنچ چکا تھا اور یورپ عروج کی انتہا پر تھا۔ صرف نَو برس بعد جہاں یہ کتاب ختم ہوتی ہے وہاں آپ دونوں کو برعکس پائیں گے یعنی مغرب کے زوال اور مشرق کے عروج کا منظر دکھائی دے گا۔ یہ کیسے ہوا؟ نو برس کی تسبیح ِ روز و شب کو دانہ دانہ شمار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ اِس سوال کا جواب اخذ کر سکیں۔ البتہ دوسرا سوال جو کتاب کے آخر میں بہت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اُبھرے گا اُس کا جواب اِس کتاب میں نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کہ اگر یورپ کے زوال اور مشرق کے عروج کا آغاز اِتنا عرصہ پہلے ہو چکا تھا تو ہمیں آج بھی اُس کے برعکس کیوں دکھائی دیتا ہے؟ سلسلے کی بقیہ کتابیں ضرور اِسی سوال کے جواب میں ہوں گی۔ فی الحال صرف یہی اضافہ کرنا ہے کہ شیکسپیئر کے مزار کی زیارت کروانے والے ڈیوڈ صاحب جو بہت زندہ دل بزرگ ہیں، آپ سب کو سلام کہہ رہے ہیں۔ خرم علی شفیق اسٹرَیٹ فورڈ اَپون ایون khurramsdesk@gmail.com فہرس ہَر اِک مقام سے آگے گُزر گیا مہ ِ نو باب ۱ خودی کا نشیمن ۹ باب ۲ ماں کا مزار ۱۳۲ باب ۳ نظام الدین اولیأ کی بستی ۱۵۴ باب ۴ ملت کا دربار ۲۵۹ باب ۵ تقدیر کی محفل ۳۰۷ باب۶ گوئٹے کی درس گاہ ۳۷۵ باب ۷ آبِ حیات کا چشمہ ۵۸۸ باب ۸ سمرنا ۷۳۱ باب ۹ خواجہ حافظ کا میخانہ ۷۷۷ ضمیمہ ۱ اقبال کی بیاضیں ۸۱۱ ضمیمہ۲ اقبال کی تصانیف ۸۲۶ ضمیمہ۳ ترکِ موالات ۸۳۱ ضمیمہ۴ مغرب کے بارے میں ۸۳۹ حاشیے ۸۵۲ کتابیں ۹۳۹ باب ۱ خودی کا نشیمن جنوری۱۹۱۴ء سے جون ۱۹۱۵ء ۱ یکم جنوری ۱۹۱۴ء تھی۔ برطانوی سیاستداں لائڈ جارج نے کہا کہ دنیا کو ایک بڑی جنگ کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ۲ صبح غیبی آواز نے یہ خوشخبری میرے کانوں تک پہنچائی کہ شاہ شجاع کا زمانہ ہے، شراب کھل کر پیو! مزہ تو یہ ہے کہ نظر رکھنے والے کنارہ کشی اختیار کر لیں کہ منہ میں ہزار باتیں ہوں اور لب خاموش! بادشاہ کی رائے تجلی کے نور کا گھر ہوتی ہے۔ اُس سے قریب ہونے کی آرزو کر رہے ہو تونیت صاف رکھو۔ اُس کے جلال کی تسبیح کو ہی اپنے دل کا وظیفہ بنا لو کہ دل کے کان سروش کا پیغام سنتے ہیں! اُمورِ سلطنت کے رموز بادشاہ جانتے ہیں۔ اے حافظ! تم ایک گوشہ نشیں فقیر ہو، اِس جھگڑے میں مت پڑو۔ سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش کہ دورِ شاہ شجاع است مے دلیر بنوش شد آنکہ اہل نظر بر کنارہ می رفتم ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش محلِ نورِ تجلی است رائے انورِ شاہ چو قربِ او طلبی در صفائے نیت کوش بجز ثنائے جلالش مساز وردِ ضمیر کہ ہست گوشِ دلش محرمِ پیامِ سروش رموزِ مصلحتِ ملک خسرواں دانند گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش ۳ جب سے مولانا جلال الدین رومی دکھائی دیے تھے اقبال کی طبیعت فارسی میں شعر کہنے پر مائل رہنے لگی تھی۔ روزگار کے لیے بیرسٹری کرنی پڑتی۔ شعر کہنے کی فرصت صرف اتوار کو ملتی ورنہ رات بھر جاگنا پڑتا۔ جو کچھ سمجھانا چاہتے تھے اُس کا آغاز ’’خودی‘‘ کے موضوع سے کرنا تھا۔ اس لفظ کے مروجہ معانی میں غرور، تکبر، خودغرضی ، انانیت پرستی اور ہر چیز کو صرف اپنی نظر سے دیکھنے کے منفی رویے اور خودداری، غیرت، عزتِ نفس اور کسی کے سامنے سر نہ جھکانے جیسے مثبت رویے دونوں شامل تھے۔ اقبال ان میں سے صرف مثبت رویوں کی تائید کرتے تھے مگر خودی سے اُن کا اصل مطلب کچھ اور تھا۔ خودی کے دوسرے معانی احساسِ نفس اور تعیینِ ذات کے تھے یعنی ’’میں‘‘ ہونے کا احساس اور شعور۔ یہ شعورِ ذات کہاں سے آیا اور کیوں ہے، اس کی تربیت کیسے کرنی چاہیے، اسے خودغرضی سے روک کر عزتِ نفس اور ملت کی تعمیر کے لیے کس طرح استعمال کیا جائے؟ اقبال اِن باتوں سے شروع کرنا چاہتے تھے۔ ۴ مولانا جلال الدین رومی از شیخ عبدالقادر [اقتباس] ۲۸ سال کی عمر تک مولانا نے نہایت زہد و ورع اور احکامِ شریعت کی پابندی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ سماع سے بھی نفرت رکھتے تھے۔ سنتِ نبوی کی پیروی میں عمامہ زیبِ سر اور کھلی آستینوں کی عبا استعمال کرتے تھے لیکن ۶۴۲؁ھ میں جبکہ مولانا کی عمر ۳۸ سال کی تھی حضرت شمس تبریز کی ملاقات نے مولانا کی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ سماع اب انکی زندگی کا جزوِ لازمی ہو گیا۔ یہانتک کہ پہلی مرتبہ مولانا کے ہمراہ شیخ صلاح الدین زرکوب کے جنازہ کے آگے اور بعد میں خود مولانا کے جنازے کے آگے قوالوں کی ٹولیاں حافظوں اور قاریوں کے ساتھ شریک ہوئیں۔ سلسلہ وعظ و درس بالکل مسدود ہو گیا۔ عمامہ کی جگہ دودھیا رنگ کی پگڑی نے لی اور ایک خاص طرز کی عبا کا استعمال شروع ہوا۔ مولانا کے خادموں اور مریدوں کو یہ باتیں باگوار گزریں اور اُن کی گستاخیوں کے باعث شمس تبریز مولانا سے دو مرتبہ عارضی طور پر جدا ہو گئے۔ جس کا مولانا کو ناقابلِ برداشت صدمہ ہوا اور عزلت گزینی و ترکِ ملاقات و تکلم پر نوبت آ گئی لیکن ۶۴۴؁ھ یا ۶۴۵؁ھ میں حضرت شمس تبریز کے شہید یا غائب ہو جانے کا یقین ہو جانے پر شیخ صلاح الدین زرکوب اور خلیفہ حسام الدین چلپی کو مولانا کے ہمراز و مقرب بننے کا شرف نصیب ہوا جس سے مولانا کو بہت تسکین حاصل رہی خصوصاً موخرالذکر بزرگ جن کو منصبِ خلافت بھی عطا ہوا۔۔۔ مخزن، جنوری ۱۹۱۴ء ۵ مثنوی کا آغاز تین برس پہلے والد صاحب کی فرمایش سے ہوا تھا کہ بو علی قلندر کی پیروی میں کچھ لکھا جائے مگر مولانا روم خودبخود پورے منصوبے پر چھا گئے۔ اَب غالب کی طرح اقبال بھی اپنی پہلی فارسی مثنوی کواُنہی کے تذکرے سے شروع کر رہے تھے۔ غالب ہی کی طرح دعویٰ تھا کہ جو باغ مستقبل میں پیدا ہونے والے ہیں وہ دامن میں موجود ہیں۔ لکھنے بیٹھے تو وقت کا تصور غالب آ گیا۔ ۶ ’’الوقتُ سیف،‘‘ امام شافعی نے فرمایا تھا۔ یعنی وقت تلوار ہے۔ ابن الوقت اُسے کہتے تھے جو دُنیاوی فائدے کے لیے اپنے آپ کو بدلنے پر تیار رہے مگر جس کے ہاتھ میں وقت کی تلوار ہو وہ ’’ابوالوقت‘‘ کیا ہوتا ہو گا؟ پہلے اُردو کی بیاض میں فہرست بنائی تھی۔ اب نئی نوٹ بک کھول کر نئے سرے سے بنائی۔۱ مگر نظم کا مرکزی خیال قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ پچھلی بیاض میں جو موضوعات اور اشعار لکھے تھے اُن میں سے کچھ نئی فہرست میں شامل کیے۔ ۲ شاید یہی مرحلہ تھا جب ایک خیال جو کچھ مدت سے ذہن میں گردش کر رہا تھا کسی گوشے سے نکل کر سامنے آ گیا۔ یہ جرمن فلسفی نیٹشے کو جواب دینے کا خیال تھا۔ ۷ اَنارکلی والے تین منزلہ فلیٹ کی نچلی منزل پر اِقبال کی گِگ یعنی گھوڑا گاڑی بندھی ہوتی۔، گھوڑے کا اصطبل اور سائیس کے رہنے کی جگہ بھی یہیں تھی۔ ایک گائے بھی پال رکھی تھی۔ دوسری منزل پر خود گھر والوں کے ساتھ رہتے تھے۔ درمیانی کمرے میں آتش دان کے اوپر ان کے دوست حکیم فقیر محمد چشتی کے ہاتھ سے خوشخط لکھا ہوا سجع خوبصورت فریم میں پڑا ہوتا: دارد اُمیدِ شفاعت ز محمدؐ اقبال بالائی منزل پر چوبارے اور باورچی خانہ تھا۔ صحن برابر والے مکان سے مشترک تھا جہاں کوئی ہندو گھرانہ رہتا تھا۔گھر والوں میں بیگمات مختار بیگم اور سردار بیگم، چھوٹی بہن کریم بی جن کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی اور بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی چھوٹی لڑکیاں عنایت اور وسیمہ شامل تھیں۔ وسیمہ کی عمر دو ڈھائی برس تھی۔ عنایت چار پانچ برس کی تھیں۔ ذہنوں پر چچا جان کے شب و روز کے نقوش بیٹھنے لگے تھے۔ شام کے فارغ اَوقات میں گھر کی مستورات کے ساتھ لوڈو کھیلتے یا چھت پر کبوتر اُڑاتے تھے۔ وسیمہ نے دیکھا کہ چچا جان خوش رہنے اور سب کو خوش رکھنے والے ہیں۔ اُنہیں پیار سے ’’سیما‘‘ کہتے اور پیٹھ پر بٹھا کر گھوڑا بنتے۔ کھانے کی چیز گھر میں تیار ہو یا باہر سے آئے، ملازمین کو بھی دیتے۔ ۳ کبوتروں کا شوق ابھی تک تھا۔ ’’ایک بڑا سا کمرہ نما پنجرہ بنوا رکھا تھا جس میں قسم قسم کے کبوتر بھرے رہتے اور سارا دِن غٹرغوں غٹرغوں کا شور مچایا کرتے،‘‘ وسیمہ نے بعد میں کہا۔ ’’بچپن میں مَیں گھنٹوں پنجرے کے پاس بیٹھی ان کا تماشا دیکھنے میں مصروف رہا کرتی تھی اور اُن کو دانا دُنکا ڈالا کرتی تھی۔‘‘ مختار بیگم کی بلّی ابھی تک اُن کے ساتھ تھی۔ ’’وہ بڑے پیار سے اُس کو گود میں لیے بیٹھی پان چبایا کرتیں یا سرَوتے سے چھالیہ کی ڈلیاں کاٹتی رہتیں،‘‘ وسیمہ کا بیان ہے۔ اقبال اُسے ’’مختار کی بے زبان بیٹی‘‘ کہہ کر بیگم کو چھیڑا کرتے تھے۔ سردار بیگم نے طوطا، مینا اور چند مرغیاں پال رکھی تھیں۔ طوطا بولنے والا تھا۔ اس کی باتیں دلچسپی سے سنتے اور سیٹی بجا کر بلاتے۔ مَینا زیادہ باتیں بنانے والی تھی۔ اُسے ناپسند کرتے اور ’’چغل خور‘‘ کہتے۔۴ سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بستر کے ایک طرف لیٹتے۔ کچھ دیر تک ایک پاؤں ہلتا رہتا۔ جونہی وہ رُکتا، خوفناک قسم کے خراٹوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ’’رات کو سارے گھر میں چچا جان کے خراٹے گونجا کرتے اور سب اپنے اپنے بستروں میں دُبکے ہوئے اُن کے بلند و بالا خراٹے سُنا کرتے،‘‘ وسیمہ نے بعد میں بتایا۔ علی بخش صبح کی نماز کے لیے جائے نماز اور وضو کے پانی کا اہتمام کر کے سوتا۔ صبح سویرے ہی بیدار ہو جاتے۔ اول وقت میں نماز اَدا کر کے بڑی خوش اِلحانی کے ساتھ تلاوت کرنے لگتے۔۵ ۸ پچھلی صدی میں یورپ نے سائنس کی سچائی کو تسلیم کیا توخدا کے وجود سے انکار کر بیٹھا۔ ساتھ ہی رُوح اور وقت کا انکار بھی کرنا پڑا۔ جرمنی کے مجذوب فلسفی نیٹشے نے یہی کیا۔ پندرہ برس پہلے جب وہ جرمنی میں پاگل قرار دیے جانے کے بعد آخری سانسیں لے رہا تھا، بمبئی کے تحقیقی رسالے میں انسانِ کامل کے تصور پر اقبال کا مقالہ شامل ہوا تھا۔ اُس وقت نیٹشے سے واقف نہ تھے۔اب مثنوی ایک مسلمان کی طرف سے نیٹشے کا جواب بھی ہو سکتی تھی۔ ایک دفعہ پھر فہرست بننا شروع ہوئی۔ انسان کی تکمیل کے تین مدارج شامل ہوئے: ۱ اُشتری (یعنی اونٹ ہونا) ۲ شتربانی (یعنی اونٹ پر سوار ہونے کے قابل ہونا) ۳ جہاں بانی (یعنی دنیا کو اپنے اشارے پر چلانے کے قابل ہونا) سوات کے بزرگ اخوند کے بارے میں غالباً اقبال نے اپنی طرف سے حکایت بنائی کہ ہرات سے ایک نوجوان دشمنوں میں گھرے ہونے کی فریاد لے کر آیا تو آپ نے اُسے خود کو مضبوط بنانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی موجودگی سے انسان کی صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔ حکایت سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ظاہری طاقت ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل قوت اخلاقی ہے۔ قوم کی زندگی کا انحصار اپنی مخصوص روایات کو اپنائے رکھنے پر ہے، اقبال کا خیال تھا۔ ملک گیری کی خاطر جنگ کرنا مسلمان پر حرام ہے اور وقت ایک تلوار ہے۔ اب پھر نئی فہرست بنی۔۶ ۹ میں نے آسمان کے اعصاب کی حرکت دیکھ لی اور چاند کی رگوں میں گردش کرتا ہوا لہو مجھے نظر آگیا! کئی راتیں میری آنکھ انسان کے لیے روتی رہی تب کہیں جا کر میں زندگی کے اسرار سے پردہ اٹھاسکا۔ میں وہ قلم ہوں جس نے اپنی فطرت کی بلندی سے نو آسمانوں کے راز صحراؤں میں بکھیر دیے ہیں۔ میں ممکنات کے کارخانے کے باطن سے تقویمِ زندگی کا راز کشید کر کے لایا ہوں تاکہ قطرہ سمندر کے برابر ہو جائے اور ذرہ نشو و نما پا کر صحرا بن جائے! ’تعلی بہ تمہید‘ کا عنوان ڈال کر فارسی میں پانچ اشعار لکھے۔ حرکت اعصاب گردوں دیدہ ام در رگِ مہ دورۂ خوں دیدہ ام بہر انساں چشم من شبہا گریست تا دریدم پردۂ اسرارِ زیست خامہ ام از ہمتِ فکرِ بلند رازِ ایں نہ پردہ در صحرا فگند بر کشیدم سرِ تقویمِ حیات از درونِ کارگاہِ ممکنات قطرہ تا ہم پایۂ دریا شود ذرہ از بالیدگی صحرا شود صفحے کے کنارے پر کچھ اور فکر آرائی ہوئی۔ اَشعار میں کانٹ چھانٹ ہوئی۔ پھر یہ سبھی اشعار کاٹ ڈالے اور اگلے صفحے پر صرف ’تمہید‘ کا عنوان ڈال کر طویل باب لکھنا شروع کیا۔ پچھلے برس والے کچھ اشعار اور ۱۹۱۱ء والے مصرعے ’’نالہ را اندازِ نو ایجاد کن‘‘ وغیرہ بھی اس سلسلے میں کھپ گئے اور سلسلہ وہیں سے جڑ گیا۔ زبردست آمد ہوئی ہو گی۔ پھر بھی کانٹ چھانٹ ہوئی، تب کسی وقت وہ صورت نکلی جس سے مطمئن ہوئے۔ اب یہ بالکل نئی چیز تھی جو مشرق یا مغرب کے ادب اور فلسفے میں پہلے موجود نہ تھی۔۷ تمہید [ترجمہ] جب دنیا کو روشن کرنے والے سورج نے رات کا راستہ کاٹا تو میر ا رونا گلاب کے منہ پر چھڑکاؤ بن گیا۔ میرے آنسو نے نرگس کی آنکھ سے نیند دھوئی اور میرے ہنگامے سے سبزہ بیدار ہو گیا۔ میرے نغمے کے سوز نے شبنم کی نمی کھینچی، قطرہ ٹپکایا اور آنسو بنا لیا۔ باغباں نے میرے زورِ کلام کو آزمایا، ایک مصرعہ بوکر تلوار کاشت کر لی! اور پھر میرے آنسو کے بیج کے سوا باغ میں کچھ اور نہ بویا: میری فریاد کے تانے کو باغ کے بانے سے ملا دیا! میں ذرہ ہوں مگر روشنی بخشنے والا سورج میری ایک آن ہے کہ سو صبحیں میرے گریبان میں ہیں! میری خاک اُس پیالے سے زیادہ روشن ہے جس میں شہنشاہ جمشید دنیا کے حالات دیکھا کرتا تھا کہ یہ تو اُن سے بھی واقف ہے جو ابھی رونما نہیں ہوئے، میری فکر نے اُس ہرن کو شکار کے تھیلے میں ڈالا ہے جو ابھی عدم سے باہر نہ نکلا تھا، جو سبزہ ابھی پیدا نہیں ہوا وہ میرے گلشن کی زینت ہے اور جو پھول اَبھی شاخ سے پھوٹا نہ تھا وہ میرے دامن میں ہے! میں نے دُنیا کی رگ کے تار کو مضراب سے چھیڑ کر نغمہ و سرود کی محفل برہم کر دی ہے۔ چونکہ میری فطرت کے عود کی صدا انوکھی ہے اس لیے میرے ہم نشیں میرے نغمے سے آشنا نہیں، میں آج کے کان سے بے نیاز ہوں کہ میں آنے والے کل کے شاعر کی آواز ہوں! میرا دَور اَسرار سے واقف نہیں۔ میرا یوسف اِس بازار کے لیے نہیں، میں پرانے دوستوں سے نااُمید ہوں اور میرا طور کسی کلیم کے انتظار میں جلتا ہے۔ میرا شعر کسی دوسرے جہان کی آواز ہے، یہ گھنٹی کسی اور کارواں کے لیے ہے! کتنے ہی شاعر ہیں کہ مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اپنی آنکھ بند کرتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں، اپنے مزار کی خاک سے پھول کی طرح اُگ کر عدم سے واپس آ جاتے ہیں! اگرچہ اس صحرا سے اور بھی کارواں گزرے مگر وہ اونٹنی کے قدموں کی چاپ کی طرح خاموشی سے چلے گئے۔ میں عاشق ہوں، فریاد میرا ایمان ہے اور قیامت کا شور میرے نقیبوں میں سے ہے۔ اگرچہ میرا نغمہ تار کی ہمت سے زیادہ ہے مگر میں اپنے ساز کے ٹوٹ جانے سے نہیں ڈرتا۔ قطرہ میرے سیلاب سے بیگانہ رہے تو بہتر ہے- بہتر ہے کہ صرف قلزم ہی اس کے طوفان سے دیوانہ ہو! میرا سمندر کسی ندی میں نہیں سما سکتا کہ میرے طوفان کے لیے کئی سمندروں کی ضرورت ہے، وہ کلی میرے ابرِ بہار کی مستحق نہیں جو اپنے زور سے باغ نہ بن سکی۔ میری روح میں بجلیاں سو رہی ہیں، میری تگ و تاز کے لیے کوہ و صحرا ہی مناسب ہیں۔ تم اگر صحرا ہو تو میرے سمندر کو اپنی گرفت میں لے لو، اگر تم سینا ہو تو میری بجلی قبول کرو! آبِ حیات کا چشمہ مجھے بخشا گیااور مجھے زندگی کے راز سے آگاہ کیا گیا ہے۔ کسی نے وہ راز بیان نہیں کیا جو میں بیان کرنے جا رہا ہوں، کسی نے فکر کے موتی اُس طرح نہیں پروئے جس طرح میں پرونے جا رہا ہوں۔ اگر تم ہمیشہ کی عیش کا راز جاننا چاہتے ہو تو آؤ، اگر تم زمین اور آسمان دونوں حاصل کرنا چاہتے ہو تو آؤ! بزرگ آسمان نے مجھے یہ راز بتائے ہیں جنہیں دوستوں سے چھپانا مناسب نہیں ہے۔ اے ساقی! اُٹھ اور جام میں وہ شراب ڈال دے جو دل سے زمانے کا دکھ مٹا ڈالے: وہ بہتی ہوئی آگ جس کی اصل زمزم سے ہے کہ اگر اس کا طلب گار بھکاری ہو تب بھی بادشاہ ہے! جو سوچ کو مزید تیز کرتی ہے، دیکھنے والی آنکھ کو زیادہ دیکھنے والا بناتی ہے، تنکے کو پہاڑ کی حیثیت اور لومڑی کو شیروں کی قوت عطا کرتی ہے، مٹی کو ثریا کی بلندی اور قطرے کو سمندر کی وسعت بخشتی ہے، خاموشی کو شورشِ محشر میں بدل کر چکور کے پنجے کو شہباز کے لہو سے سرخ کرتی ہے! اٹھ اور میرے جام میں خالص شراب ڈال کر میری فکر کی رات کو مہتاب عطا کر دے تاکہ میں نظارے کے شوق کو بیتابی کا ذوق دے کر بھٹکے ہوؤں کو منزل کی طرف لے جاؤں، ایک نئی آرزو سے واقف ہو کر ایک تازہ جستجو کے راستے پر چل نکلوں، اہلِ ذوق کی آنکھوں کی پتلی بنوں بلکہ آواز بن کر دنیا کے کان میں گم ہو جاؤں! اپنے آنسوؤں کو شامل کر کے میں نے شاعری کی قدر و قیمت بڑھائی ہے۔ پیرِ رومی کے فیض سے میں اسرارِ علوم کی بند کتاب دوبارہ کھول کر سنانے لگا ہوں، اُن کی روح اَن گنت شعلوں کی سرمایہ دار ہے جبکہ میں چنگاری کی طرح پل بھر کی چمک ہوں۔ میں اُن کی آواز کی گرمی سے جل اُٹھا ہوں۔ میں نے اُن کے ساز سے نغمے اکٹھے کیے ہیں۔ جلتی شمع نے مجھ پروانے پر شبخوں مارا ہے، گویا شراب نے خود میرے پیمانے پر شبخون مارا! پیرِ رومی نے مٹی کو اِکسیر بنا دیا: میرے غبار سے کئی جلوے تعمیر کر دیے۔ ذرے نے بیاباں کی خاک سے رختِ سفر باندھا تاکہ سورج کی شعاع کو گرفت میں لے لے: میں ایک موج ہوں جو اُس سمندر میں قرار پاؤں گا تاکہ ایک چمکدار موتی حاصل کر لوں۔ میں ان کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، میری زندگی انہی کی سانسوں سے ہے! رات میرا دل فریاد پر مائل تھا اور میری ’’یا رب!‘‘ خاموشی کو آباد کر رہی تھی، میں دنیا کے غم کا شکوہ اور اپنے پیمانے کے خالی ہونے پر افسوس کر رہا تھا۔ میری نگاہ اتنی بیچین ہوئی کہ بالآخر پرواز کی قوت کھو کر نیند میں ڈوب گئی۔ تب وہ بزرگ ظاہر ہوئے جن کی فطرت سچائی ہے اور جنہوں نے فارسی میں قرآن لکھا۔ فرمایا، ’’اے عاشقوں کے دیوانے، عشق کی خالص شراب سے ایک گھونٹ بھرو، اپنے جگر میں قیامت کا ہنگامہ برپا کر کے صراحی کو اپنے سر پر توڑو اور اپنی آنکھوں میں نشتر چبھو لو، تاکہ تمہاری ہنسی سیکڑوں فریادوں کا سامان ہو جائے اور خون کے آنسوؤں میں جگر کے ٹکڑے شامل ہوں! کب تک کلی کی طرح خاموش رہو گے، پھول کی طرح اپنی خوشبو عام کر دو! سونف کے دانے کی طرح تمہارے پاس بھی ایک ہنگامہ ہے اس لیے اپنے محمل کو آگ کے کنارے پر باندھو! کارواں کی گھنٹی کی طرح اپنے جسم کے ذرے ذرے سے فریاد پیدا کرو! تم آگ ہو، دنیا کی محفل کو روشن کرو اور دوسروں کو بھی اپنے سوز کی تپش عطا کرو! شراب کی موج بن کر صراحی کا لباس پہنو اور شراب بیچنے والے بزرگ کے راز ظاہر کر دو! فکر کے آئینے کے لیے پتھر بن کر اُسے سرِ بازار پھوڑ دو۔ بانسری کی طرح اُس کھیت کا پیغام سناؤ جو اُس کی اصل ہے اور قیس کے پاس لیلیٰ کے شہر سے پیغام لے کر جاؤ! نالے کے لیے ایک نیا انداز ایجاد کرکے بزم کو ہائے اور ہو سے آباد کرو! اُٹھو اور ہر زندہ کو نئی روح عطا کرو، اپنے ’’قم با اذنِ اللہ‘‘ سے زندوں کو مزید زندہ کر دو! اٹھو ، نئے راستے پر قدم رکھو اور پرانے جنون کو سروں سے نکال دو! گفتار کی لذت سے آشنا ہو جاؤ، اے کارواں کی گھنٹی! بیدار ہو جاؤ!‘‘ اس گفتگو نے مجھے آگ سے بھر دیا ، میں ہنگاموں سے آباد بانسری بن گیا، نغمے کی طرح اپنے تار سے نکلا، سماعت کے لیے جنت سجائی، خودی کے راز سے پردہ اُٹھایا اور خودی کے معجزے ظاہر کرنا شروع کر دیے! اس مثنوی کا مقصد شاعری نہیں ہے: بت پرستی اور بت گری اس کا مقصد نہیں ہے۔ میں ہندی ہوں اور فارسی سے واقف نہیں: ہلال کی طرح میرا پیمانہ خالی ہے! مجھ سے حسنِ بیان مت مانگو، یزد اور اصفہان کا ذائقہ مت مانگو! اگرچہ ہندی بھی مٹھاس میں شکر ہے مگر فارسی کا طرزِ گفتار زیادہ میٹھا ہے۔ میری فکر اُس کے جلوے سے مسحور ہوئی تو میرا قلم طور کے درخت کی شاخ بن گیا۔ اے سمجھ دار شخص! صراحی پر نکتہ چینی مت کرو بلکہ اس کی شراب سے لطف اٹھانے کا ذوق پیدا کرو! ۱۰ گزشتہ شاعری کے تقریباً سبھی استعارے اکٹھے ہو رہے تھے۔ پیغام واضح تھا مگر شفاف الفاظ کے پیچھے تہ در تہ تلمیحات کا سمندر تھا۔ کنارہ نہ تھا۔ ۱۱ کیمبرج ماڈرن ہسٹری آف انڈیا لکھی جا رہی تھی۔ بنگالی ادب پر مضمون لکھنے کے لیے رابندرناتھ ٹیگور کا نام تجویز ہوا۔ اُردو ادب کی تاریخ کے لیے کونسل سیکرٹری آف اسٹیٹ کے رکن سر تھیوڈور ماریسن نے اقبال سے کہا۔۸ ۱۲ بڑے بھائی شیخ عطامحمد ریٹائرمنٹ کے بعد نئی ملازمت کی تلاش میں تھے۔ حیدرآباد دکن کے چیف انجینئر اور سپرنٹنڈنگ انجینئر کو درخواستیں بھجوائیں۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے اپنے بیٹے عثمان شاد کا نوحہ لکھ کر اقبال کو بھیجا۔۲۳ جنوری کو اقبال نے اُن سے اُن کی کتابوں کی فہرست منگوائی تاکہ کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے اردو ادب والے باب میں اُن کا ذکر کریں اور درخواست کی کہ شیخ عطامحمد کی ملازمت کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ۱۳ ۲۹ جنوری کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیزکا اجلاس ہوا۔اقبال تین برس سے اس کے رکن تھے۔ اجلاس کے کنوینر وہی تھے۔ پچھلے ماہ جو فارسی کا بی۔اے کا نصاب منظور ہوا تھا اُس کی توثیق بھی ایجنڈا پر تھی۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں نے صدارت کی۔ پروفیسر کے ایم مترا اور مولوی محمد حسین بھی شامل ہوئے۔ کاروائی اقبال نے حسبِ قاعدہ انگریزی میں لکھی: ۱ فارسی کے میٹرک کے نصاب برائے ۱۹۱۶ء کے لیے بورڈ گنجینۂ خرد کی بجائے سرمایۂ خرد کی سفارش کرتا ہے۔ ۲ ۱۹۱۷ء کے میٹرک کے نصابات: فارسی، عربی، اُردو، پشتو-وہی جو ۱۹۱۶ء میں ہوں ۳ اورئینٹل [آرٹس] فیکلٹی کے ۱۲ دسمبر ۱۹۱۳ء کے منظورکردہ ریزولیوشن کے مدِ نظر فارسی کا بی۔اے کا نصاب مندرجہ ذیل طریق پر تشکیل دیا گیا: ۱ بی۔اے کا مکمل کورس بشمول گنجِ دانش جو پہلے حذف کر دی گئی تھی۔ ۲ اخلاقِ جلالی پہلے کی طرح محمد اقبال: کنوینر توثیق کی گئی: ایم۔شاہ دین (چیرمین)۹ ۱۴ پچھلے برس شائع ہونے والی تاریخِ ہند جسے لالہ رام پرشاد نے انگریزی سے ترجمہ کر کے اقبال کا نام بھی شریک مصنف کے طور پر درج کیا تھا، اس برس ریاست حیدرآباد دکن میں امتحان السنہ شرقیہ کے نصاب میں شامل ہوئی۔ جس کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اُس میں دارالعلوم کالج کے پرنسپل مولوی حمیدالدین فراہی اور مہتمم تعلیمات اورنگ آباد مولوی عبدالحق شامل تھے۔۱۰ ۱۵ چرچا تھا کہ پچھلے برس آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوستان کے لیے’’ حکومت خود اختیاری‘‘ حاصل کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر کانگریس کے ساتھ اتحاد کا راستہ پیدا کر لیا ہے جس کے صدر بھوپندر ناتھ باسو نے کہا، ’’اگر ماضی میں اِس کے متعلق کوئی غلط فہمی تھی تو ہم کو چاہیے کہ اُس کو بھول جائیں۔‘‘ اُن دنوں اقبال اُردو میں شعر کہتے تو وہ عموماً اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں ہوتے۔ مزاحیہ حکایت نظم کی کہ اونٹ نے رسی تڑا کر گائے کی محفل میں قدم رکھا تو گائے کو حیرت ہوئے۔ اونٹ نے شرما کر اظہارِ عشق کیا اور کہا کہ آقا بھی چاہتا ہے کہ ہم آپس میں مل جل کر رہیں۔ طنز کے پردے میں اقبال بتا گئے کہ برطانوی حکومت کی خواہش تھی کہ مسلمان جداگانہ قومیت کے احساس کو بھلا کر ہندوستانی قومیت کے تصوّر کو قبول کر لیں جو مغرب سے درآمد ہوا تھا۔۱۱ ۱۶ ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا رخصت ہوا دلوں سے خیالِ معاد بھی قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی پوچھو تو وقف کرنے کو ہے جائیداد بھی۱۲ ۱۷ خودی سے مراد شعور کا وہ نقطہ تھا جس سے بقیہ وجود روشن ہوتا تھا یعنی ’’میں‘‘۔ اِس کی تین قسمیں تھیں: ۱ خودی مطلق یعنی خدا جسے کسی نے نہیں بنایا تھا اور جو سب کا خالق تھا ۲ اجتماعی خودی جسے سر سید احمد خاں نے ’’سب انسانوں کی روح‘‘ کہا تھا ۳ انفرادی خودی یعنی فرد فرد اپنی قوم کے ساتھ تعلق کو پہچان کر خدا سے قوت حاصل کر سکتا تھا۔ اس کے لیے سب سے پہلے خودی کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت تھی۔ توحید کا مطلب یہ تھا کہ کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور بظاہر نظر آنے والے تضادات بھی ایک ہی خودی نے پیدا کیے ہیں۔ یہ کائنات ایک نظام کے تحت چل رہی ہے اور جس طرح ایک فرد اپنی روحانی تربیت کرتا ہے اُسی طرح پوری انسانیت کی روحانی تربیت ہو رہی ہے تاکہ خدا کا وعدہ پورا ہو جائے: زندگی کا وجود خودی کے آثار میں سے ہے۔ تم جو کچھ دیکھتے ہو خودی کے اَسرار میں سے ہے۔ جب خودی نے اپنے آپ کو بیدار کیا تو یہ جہان پیدا ہوا جس کا ہمیں علم ہے۔ اُس کی ذات میں سیکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اِس لیے اُس کا غیر بھی اُس کے اثبات ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔۱۳ ۱۸ اِس موضوع نے طبیعت میں عجیب جوش پیدا کیا تھا۔ انہی صفحات میں سے کسی کے کنارے پر ’آرزو سرچشمۂ حیات‘ لکھا تاکہ بعد میں اسے علیحدہ باب بنا دیں جو خاکے میں پہلے سے درج تھا۔ حاشیے پر شعروں کا اضافہ ہوتا رہا: علم کا مقصد معلومات اکٹھی کرنا نہیں بلکہ یہ زندگی کے شعلے کو روشن رکھنے کا بہانہ ہے، وغیرہ۔ آمد بھی ایسی ہوئی کہ زیادہ کانٹ چھانٹ کی ضرورت نہ پڑی۔ صرف اضافے ہوئے۔ باب مکمل تھا: ’آرزو سرچشمۂ حیات۔‘۱۴ ۱۹ سند تو لیجیے لڑکوں کے کام آئے گی وہ مہربان ہیں اب پھر رہیں، رہیں نہ رہیں۱۵ ۲۰ انساں نے سیکڑوں جم و دارا کیے پسند کچلا اُسے جنہوں نے عذابوں کے بوجھ سے دریائے ہست و بود کی رفتار ہے وہی دبتی ہے موجِ آب حبابوں کے بوجھ سے؟۱۶ ۲۱ نظامی گنجوی نے انسانی تاریخ کو آنحضورؐ سے محبت کرنے اور آپؐ سے بغض رکھنے کے رویوں میں تقسیم کر کے قوموں کے عروج و زوال کا نظام سمجھایا تھا۔ مولانا عبدالرحمان جامی جو خود بہت بڑے شاعر ہونے کے علاوہ مشرق میں ادب کے سب سے بڑے نقاد گزرے تھے اور جنہوں نے مولانا روم کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ اُن کی مثنوی فارسی میں قرآن ہے (’’مثنویِ مولویِ معنوی، ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘)، یہ فرما گئے تھے کہ آنحضورؐ کتابِ کائنات کا دیباچہ ہیں، سارا جہاں غلام ہے اور صرف آپؐ ہی آقا ہیں: نسخۂ کونین را دیباجہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست ’’ملا جامی کی نظم اور نثر میری خامیوں کا علاج ہے،‘‘ اقبال نے فارسی مثنوی میں لکھا۔ ’’میں اُن کے اندازِ بیاں پر قربان ہو چکا ہوں۔‘‘ جامی کا نعتیہ شعر جو برسوں اقبال کی روح پر نقش رہ کر اٹھارہ برس بعد ’’لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب‘‘ کے الفاظ میں ظاہر ہونے والا تھا یہاں اُس باب کا حصہ بن گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ عشق و محبت سے خودی مضبوط ہوتی تھی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عشق کا پیمانہ تھی۔ مولانا روم والے خواب کے فوراً بعد جن اَشعار کی آمد ہوئی تھی اور جو پچھلے برس حسن نظامی کے رسالے میں ’اسرارِ خودی‘ کے عنوان سے شائع ہو چکے تھے، اُن میں سے نعتیہ اشعار بھی اس باب میں شامل ہو گئے۔ چار برس پہلے اسی مثنوی کو اُردو میں لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ’نورِ محمدیؐ‘ کے بیان سے آغاز کیا تھا۔ ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ جس کے حقیقی ہونے کا پہلا ثبوت مسلمان قوم تھی، اُس کا نورِ محمدیؐ کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا۔ عشقِ رسول کے بارے میں اشعار ’استحکامِ خودی‘ کے عنوان سے درج ہوئے: ہم رسول اللہؐ کے دل میں چھپا ہوا راز تھے،آپؐ نے نعرۂ بے باکانہ بلند فرمایا اور ہم ظاہر ہو گئے!۱۷ ۲۲ سر سید علی امام کا تعلق پٹنہ سے تھا۔ بیرسٹر تھے اور مسلمانوں کے مقبول رہنما تھے۔ وائسرائے کی کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ اقبال کی رائے تھی کہ بہت سمجھدار اور تعلقات کو نباہنے والے آدمی ہیں۔ عام زندگی میں بے تکلف انداز رکھتے ہیں۔ اُن کی سادگی دلکش ہے۔۱۸ بہرحال کسی وقت ’ڈیڈیکشن‘ کا عنوان ڈال کر سولہ اشعار لکھے۔ پھر اُن میں ایک شعر کا اضافہ ہوا۔ تمہید سے پہلے ’تعلی‘ میں لکھے ہوئے اشعار وہاں سے کاٹ کر یہاں لائے گئے۔ پھر کبھی مزید کانٹ چھانٹ ہوئی اور پندرہ اشعار رہ گئے: اے امام، اے بلند نسب رکھنے والے سید! آپ کا خاندان عرب کے اشراف کا فخر ہے! میں آپ کے جدِ امجد کی غلامی سے زندہ ہوں اور دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں۔۱۹ ۲۳ بختِ مسلم کی شبِ تار سے ڈرتی ہے سحر تیرگی میں ہے یہ شب دیدۂ آہو کی طرح ہے اندھیرے میں فقط مولوی صاحب کی نمود بن کے شمس العلما چمکے ہیں جگنو کی طرح۲۰ ۲۴ اقبال کے ایک دوست میر صاحب کے دوست مارچ میں انگلستان روانہ ہونا چاہتے تھے۔ میر صاحب نے مدد کے لیے اقبال کو خط لکھا ۔ اقبال کسی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے جس کے سیکرٹری کو انہوں نے ۱۰ فرووی کو لکھا کہ اگر قواعد و ضوابط کی کچھ کاپیاں دستیاب ہوں تو بھجوا دیں۔اُسی روز میر صاحب کو خط میں ضروری ہدایات تحریر کرنے کے بعد لکھا، ’’سفر کے کوائف وغیرہ کے سلسلے میں میری معلومات بہت پرانی ہو چکی ہیں۔‘‘ خیال ہے کہ یہ میر صاحب ڈیرہ اسماعیل خاں کے سردار احمد خاںتھے۔ ۲۵ ’’حضرت زین العابدینؓ جو سادات کے آدم ہیں، جن کے سجدوں نے زمین کی گود پھولوں سے بھر دی ہے۔۔۔‘‘ دو صفحے خالی چھوڑ کر فارسی مثنوی کے اشعار لکھے جا رہے تھے۔ سات اشعار ہوئے۔ کاٹ دیے۔۲۱ اس کے بعد امام حسینؓ اور مسلم بن عقیل کے درمیان مکالمہ لکھنے کی داغ بیل ڈالی مگر اسے بھی مکمل نہ کیا۔ یہ مضمون مثنوی کے دوسرے حصے کے لیے زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا جس کا خیال ابھی سے ذہن میں موجود تھا۔ ملت کے مفہوم کو چھوڑ کر دوبارہ اصل خاکے کی طرف متوجہ ہوئے۔ اگلا باب لکھا کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ خواب کے بعد کہے گئے اشعار میں سے کچھ یہاں بھی کام آئے۔ اس کے بعد وہ حکایت لکھنا شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ خودی کی نفی کرنا اور اسے مٹانے کا درس دینا محکوم قوموں کا مخصوص حربہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ فاتح قوموں کو کمزور کر کے انتقام لیتی ہیں۔۲۲ کسی جنگل میں کچھ بھیڑیں بڑے مزے سے زندگی گزارتی تھیں لیکن پھر شیروں کا ایک قبیلہ وہاں آ نکلا جس نے اُن کی زندگی اجیرن کر دی۔ بالآخر ایک بوڑھی بھیڑ نے شیروں کو مخاطب کر کے طویل وعظ کیا: اے جھوٹو! اے شریرو! تمہیں اُس دن کی خبر نہیں جسے سخت منحوس کہا گیا ہے۔ میں روحانی قوت رکھتی ہوں۔ میں شیروں کے لیے خدا کی طرف سے بھیجی گئی ہوں۔ میں اندھی آنکھوں کے لیے روشنی کا پیغام لائی ہوں، میں شریعت دے کر بھیجی گئی ہوں۔ برے کاموں سے توبہ کرو، اے گھاٹے کی سوچ رکھنے والو! فائدے کی بات سوچو! جو بھی غضبناک اور طاقت ور ہو وہ بدبخت ہے، زندگی خودی کو مٹانے سے پختہ ہوتی ہے۔ اگر سمجھدار ہو تو اپنے آپ سے غافل ہو جاؤ۔ جو نہیں ہوا، وہ دیوانہ ہے۔ آنکھ، کان اور ہونٹ بند کر لو تاکہ تمہاری فکر آسمانوں تک پہنچ سکے! یہ نکات شیروں کے دل میں بیٹھ گئے۔ محنت مشقت سے تھک چکے تھے۔ شکار ترک کیا۔ ناخن جھڑ گئے اور دانت کمزور ہو گئے۔ اسے تہذیب قرار دینے لگے۔ ۲۶ جب ایرانی شعرأ کی وطن سے زیادہ ہندوستان میں قدر ہونے لگی تو ہمدان سے ابوطالب کلیم بھی آیا اور شاہجہاں نے اُسے تیموری خاندان کی منظوم تاریخ لکھنے کے لیے کشمیر بھجوا دیا۔ بعد میں اُس کی غزلوں پر میر تقی میر نے بھی تضمین کی تھی۔ اب اقبال نے کی: خوب ہے تجھ کو شعارِ صاحبِ یثربؐ کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں سات اشعار کی نظم کو ابوطالب کلیم کے شعر پر ختم کیا، ’’جس سے سرکشی اختیار کی تھی پھر اُسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔ جہاں سے شعلہ بن کر اُٹھے تھے پھر وہیں بیٹھ جاؤ‘‘: ’’سرکشی با ہر کہ کردی رامِ او باید شدن شعلہ ساں از ہر کجا برخاستیٔ آنجا نشیں‘‘۲۳ ۲۷ نیٹشے نے محنت کشوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ اقبال کے نزدیک محنت کشی ایک اعلیٰ صفت تھی۔ قانون کی اطاعت اور صبر و شکر کا نام تھا۔ اس کی شاعرانہ علامت اُونٹ تھا۔ اس مقام کو ’’اُشتری‘‘ کا نام دیا مگر جدید تعلیم اونٹ کی خوبی کی بجائے اُس کی حیوانی جبلت زیادہ واضح کر رہی تھی۔ علاج یہ تھا کہ اگلے مقام کی طرف بڑھیں۔ اپنے نفس کے اونٹ کی باگ ڈور سنبھالیں۔ یہ ’’شتربانی‘‘ کا مقام تھا۔ اُشتری اور شتربانی کے بعد جہانبانی کا مقام آتا۔ چھیننے اور کھانے کا نام نہیں بلکہ پچھلے دونوں مدارج سے گزرنے کا روحانی نتیجہ تھا۔خدا کے قانون کو دنیا میں رائج کرنے کی قوت اعلیٰ اخلاق سے پیدا ہوتی تھی۔۲۴ ۲۸ عہد کہن میں اور تھے اقسام خوف کے ملّا کا، محتسب کا، خدا کا، نبی کا ڈر دو خوف رہ گئے ہیں ہمارے زمانے میں مضمون نگار بیوی کا، سی آئی ڈی کا ڈر ۲۵ کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں ردِ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں۲۶ ۲۹ حضرت علیؓ سوئے ہوئے تھے۔ فرش کی مٹی آپ کے جسم سے لپٹی تھی۔ آنحضورؐ نے دیکھا تو فرمایا، ’’اُٹھو، ابوتراب!‘‘ تراب کا مطلب مٹی تھا اور’’ابو‘‘ کے تین معانی لیے جا سکتے تھے: ۱ نسبت کے لیے کہتے تھے۔ ان معانی میں ابوتراب کا مطلب ’’مٹی والا‘‘ ہو گا۔ اس لقب کے عام طور پر یہی معانی لیے جاتے تھے۔ ۲ باپ کو کہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ابوتراب کے یہ معانی نہیں لیے جا سکتے تھے کیونکہ حضرت علیؓ کے کسی بیٹے کا نام تراب نہیں تھا۔ ۳ آقا کو بھی کہتے تھے۔ ان معانی میں ابوتراب کا مطلب ’’مٹی کا مالک‘‘ ہو سکتا تھا۔ اقبال یہ معانی لے رہے تھے۔ مٹی پر غالب آنے کا مطلب اپنے وجود کے جسمانی پہلوؤں پرقابو پانا تھا۔ اس کی جتنی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں اسلامی ادب میں حضرت علیؓ اُن سب کی علامت تھے: ۱ غیرمعمولی جسمانی قوت حاصل کرنا اپنے جسم پر قابو پانے کی پہلی صورت ہو سکتی تھی۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ قلعۂ خیبر کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکا۔ ۲ دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ جسمانی وجود کی سطح سے اتنا بلند ہو جائیں کہ جسم کا احساس ہی نہ رہے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ پاؤں میں تیر پیوست ہوا تو نماز کی حالت میں اُسے نکالا گیا اور خبر نہ ہوئی کیونکہ نماز میں اتنے محو تھے۔ ۳ تیسری صورت جسمانی وجود کے علاوہ اپنے دل و دماغ کی سطح سے بھی بلند ہو جانا تھی۔ مولانا روم نے یہ بات اُس مشہور واقعے کی مدد سے سمجھائی تھی کہ کسی جنگ کے دوران حضرت علیؓ ایک کافر کی جان لینے والے تھے جب اُس نے آپؐ کے منہ پر تھوک دیا تو آپؐ نے اُسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جنگ خدا کے لیے تھی، اب اپنی توہین پر غصہ آیا ہے تو قتل جائز نہیں۔ ۴ چوتھی صورت مادی ذرائع کے استعمال میں مہارت ہو سکتی تھی۔ حضرت علیؓ کی تلوار ذولفقاربھی فتح اور غلبے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ۵ انتہائی صورت یہ تھی کہ کائنات کے مظاہر پر یہاں تک کہ گزرتے ہوئے وقت پر بھی قابو پایا جائے۔ حضرت علیؓ سے یہ معجزہ بھی منسوب تھا کہ عصر کی نماز قضا ہو گئی تو آپؐ کے اشارے پر سورج واپس لوٹ آیا۔ خودی باطنی طور پر خدا سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اپنے وجود کی جسمانی کیفیات پر غالب آنے والا خدا کی طاقت میں سے حصہ لے سکتا تھا یعنی ’’ابوتراب‘‘ بننے والا ’’یداللہ‘‘ بھی بن جاتا تھا۔ مدتوں پہلے کہی ہوئی ایک غزل کے پہلے اور آخری شعر میں جو بات کہی تھی وہ اُس باب کے نو تمہیدی اشعار کا مضمون بن گئی جو حضرت علیؓ کے ناموں کے اسرار کے بارے میں تھا۔ میں تو کچھ اور ہو گیا جب سے تیری محفل میں باریابی ہے پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال یہ گنہگار بوترابی ہے در شرح اسرارِ اسمائے حضرت علیؓ [اقتباس کا ترجمہ] وہ اولین مسلمان، بہادروں کے سردار علیؓ! عشق کے لیے ایمان کا سامان علیؓ! آپ کو دین کی طاقت کہا گیا اور آپؓ کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے۔ رسولؐ اللہ نے آپ کا لقب بوتراب رکھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپؓ کو یداللہ فرمایا۔ جو بھی زندگی کے رموز سے واقف ہے اُسے معلوم ہے کہ حضرت علیؓ کے ناموں کا راز کیا ہے۔۲۷ ۳۰ ہرات کے نوجوان کا قصہ لکھا۔ دشمنوں کے ہاتھوں پریشان ہو کر اخوندِ سوات کی خدمت میں حاضر ہواتھا۔ اخوند نے کہا، ’’پتھر اپنے آپ کو شیشہ سمجھ لے تو شیشہ بن کر ٹوٹنے لگتا ہے۔ تم کب تک اپنے آپ کو مٹی اور پانی سمجھتے رہو گے؟ اپنی مٹی میں سے شعلۂ سینائی پیدا کرو!دشمن کا وجود تمہارے بازار کی رونق ہے کہ تمہارے پوشیدہ امکانات کو نیند سے بیدار کرتا ہے۔ ہمت جواں ہو تو راستے کی مشکل پانی کی طرح بہہ جاتی ہے کہ سیل کے سامنے نشیب اور فراز کیا شے ہیں!‘‘۲۸ ۳۱ وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے مہذب ہے تو اے عاشق قدم باہر نہ دھر حد سے نہ جرات ہے نہ خنجر ہے تو قصدِ خودکشی کیسا یہ مانا دردِ ناکامی گیا تیرا گزر حد سے کہا میں نے کہ اے جانِ جہاں کچھ نقد دِلوا دو کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے۲۹ ۳۲ ہرات کے نوجوان والی حکایت کے آخر میں لکھا، ’’میں کہانیوں کے ذریعے چھپی ہوئی باتیں کھول رہا ہوں اور اپنے کلام کے زور سے کلیوں کو پھول بنا رہا ہوں‘‘: شرح راز از داستانہا می کنم غنچہ از زورِ نفس وا می کنم کئی برس پہلے ’ایک پرندہ اور جگنو‘ میں جب کسی پرندے نے جگنو کو نگلنا چاہا تو جگنو نے اُسے وحدت الوجود کا پیغام دیا تھا۔ اب کسی پرندے نے الماس کے چمکدار ٹکڑے کو پانی سمجھ کر چونچ ماری تو الماس نے جو جواب دیا اُس میںعرب کی رجزیہ شاعری کا رنگ جھلک رہا تھا: الماس نے کہا، اے اسیرِ ہوس! اپنے ہوس کی چونچ مجھ پر تیز مت کرو! میں پانی کا قطرہ نہیں، ساقی نہیں، میں دوسروں کی خاطرنہیں جیتا۔ دیوانے ہوئے ہو جو مجھے چوٹ لگانے کا ارادہ ہے؟ تمہیں اپنے آپ کو ظاہر کرنے والی زندگی سے پالا نہیں پڑا! میری چمک پرندوں کی چونچ توڑ دیتی ہے۔ انسان بھی مجھے نگلے تو مر جاتا ہے۔۳۰ پرندے نے شبنم کے ایک قطرے سے اپنی پیاس بجھائی اور اقبال نے قاری سے پوچھا کہ وہ پانی کا قطرہ ہے یا قیمتی پتھر ہے؟ الماس کی قوت کی طرح اُس کا حسن بھی مضبوطی ہی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے اجزا آپس میں سختی سے جڑے ہوتے ہیں تو روشنی کو منعکس کرتے ہیں۔ ڈھیلے ڈھالے ہوں تو یہی پتھر کوئلہ بن جاتا ہے جس میں روشنی جذب ہوجاتی ہے اور چمک پیدا نہیں ہوتی۔ منصور حلاج نے کہا، ’’انا الحق‘‘ یعنی میں ہی حق ہوں۔ اُس کا مطلب کیا تھا؟ اگر تم منصور حلاج کی طرح اپنے آپ کو نگاہ میں رکھنے والے بن جاؤ تو ذاتِ حق کی طرح آئینِ فطرت سے بلند ہو سکتے ہو۔ مضمون کے سوز نے منصور کی کتاب جلا ڈالی۔ جلوے نے بے حجاب ہو کر کوہِ طُور کو جلا ڈالا۔ اُس کی روح نے جسم سے نکل کر آسمان پر دھاوا بولا۔ اُس کی آواز موت سے بے نیاز ہو گئی۔ جب اُس کے نعرے کے لیے ہونٹوں سے ادا ہونے کی صورت نہ رہی تو لہو بن کر ٹپک پڑا۔ اپنی ذات کا اثبات کر کے اپنے آپ کو حاصل کر لو۔ اپنے پارے کو باندھ کر چاندی بن جاؤ۔ خودی کے تار سے نغمہ پیدا کرو۔ خودی کے اَسرار ظاہر کر دو۔ ۳۱ ۳۳ پچھلے برس جولائی کے زمانہ (کانپور) میں کسی ’’نقاد لکھنوی‘‘ نے اُردو رسالوں کے حصۂ نظم کی خبر لی تھی۔ اقبال کی پرانی نظم ’موجِ دریا‘ جو پچھلے برس جون میں انسان (امرتسر) میں دوبارہ چھپی تھی، زَد میں آ گئی۔ فروری کے مخزن میں ’تنقیدِ نقاد‘ کے عنوان سے کسی نے اِقبال کا دِفاع کیا: ’’یہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نقادانِ سخن سمجھتے ہیں۔ اور اپنے زعم میں فنِ شعر کے والی وارث ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ کسی اچھے لکھنے والے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ جہاں کسی کا اچھا کلام کوئی کتاب یا پارۂ نظم مقبول ہوا اور اُنہوں نے اپنی تنقید یا یہ کہئے اصلاح کی تیز چُھری لے کر اُس کی صورت بگاڑنی شروع کر دی۔ تعریض و تنسیخ گویا ان کے مذہب کا اسمِ اعظم ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نمونہ ان کے سامنے کیا ہے۔۔۔‘‘ ۳۴ کوئی ڈاکٹر عظیم الدین تھے۔ فروری میں اقبال نے اُن سے ہشیارپور والے بیرسٹر شیخ عبدالعزیز کی کتاب کا ذکر کیا۔ اُسی روز عبدالعزیز بھی ملے مگر اقبال اُن کی ملاقات ڈاکٹر عظیم الدین سے نہ کروا سکے۔۳۲ ۳۵ ہوشیارپور کے زنانہ جوتوں کی جوڑی چاہیے تھی۔ ۲۱ فروری کو شیخ عبدالعزیز کو لکھا جو اُن دنوں بیمار تھے۔’’اگر خوبصورت مل جائے تو براہِ کرم لکھئے کہ اس کی قیمت کیا ہو گی؟‘‘۳۳ ۳۶ تیس برس پہلے لاہور کے بعض خداترس مسلمانوں نے محسوس کیا تھا کہ اسلام کی حمایت کا طریقہ نادار مسلمانوں کو سر چھپانے کی جگہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا ہے۔ تب اُن سفیدپوش بزرگوں نے گلیوں میں آواز لگا کر گھروں میں بیٹھی عورتوں سے بھیک مانگی۔ ایک ایک کٹوری آٹا جمع کر کے وہ سرمایہ فراہم کیا جس کی بدولت آج ایک کالج، چار مردانہ اسکول، ایک زنانہ اسکول، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ یتیم خانے اور بے سہارا عورتوں کے لیے دارُالامان قائم تھے۔ ماہنامہ حمایت اسلام چھپتا تھا۔ اِیسٹر کی تعطیلات میں سالانہ جلسہ ہوتا تھا۔ ۲۲ فروری کو انجمن کی جنرل کونسل کا اجلاس خان بہادر نواب فتح محمد علی خاں کی صدرات میں منعقد ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔ کالج کمیٹی، اشاعت اسلام کمیٹی اور پنجاب ایجوکیشنل کانفرنس کمیٹی میں اقبال کی رکنیت کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔توسیع کی گئی۔۳۴ ۳۷ اقبال نے مزاج جو پوچھا تو شیخ نے موزوں کیا یہ شعر زبانِ سلیس میں نیلام خرقہ چندۂ ٹرکی کے واسطے عمامہ رہنِ مدرسہ لڑکوں کی فیس میں۳۵ ۳۸ ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر حاصل ہوا یہی، نہ بچے مار پیٹ سے مغرب میں ہے جہازِ بیاباں شتر کا نام ترکوں نے کام کچھ نہ لیا اِس ’’فلیٹ‘‘ سے۳۶ ۳۹ بلقان کی خونریز جنگ ختم ہونے پر خلافت عثمانیہ اور بلغاریہ میں سفارتی تعلقات بحال ہو چکے تھے۔ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں فینسی ڈریس بال ہونے والا تھا جہاں بادشاہ فرڈیننڈ بھی آنے والاتھا۔ عثمانی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اتاشی کا نام مصطفیٰ کمال تھا۔ عمر تینتیس برس تھی اوردل و دماغ میں ایسے خواب سمائے ہوئے تھے جن سے کوئی واقف نہ ہو سکتا تھا۔ استنبول کے فوجی عجائب گھر کو لکھا کہ ینی چری دستے کی فوجی وردی بھجوائی جائے جو کبھی عثمانی شہنشاہوں کے وفادار عیسائی محافظوں کا دستہ ہوتا تھا۔ پچھلی صدی کا عجیب و غریب لباس پہن کر ایسی رنگین محفل میں جانا حوصلے کا کام تھا مگر مصطفی کمال چاہتے تھے کہ مہمان سوال پوچھیں تو عثمانی سلطنت کی فوجی طاقت اور شاندار فتوحات کا تذکرہ چھڑ جائے۔۳۷ ۴۰ ۱۴۵۳ء میں ۲۹ مئی کو عثمانی شہنشاہ محمد ثانی سفید گھوڑے پر بیٹھ کر بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں داخل ہوا۔ اُس کی عمر صرف اکیس برس تھی۔تاریخ نے اُسے سلطان محمد فاتح کا لقب دیا۔ کہتے تھے کہ وہ قسطنطنیہ میں داخل ہوا تو کئی گھروں کے باہر ہلال کے نشان دیکھے۔ بتایا گیا کہ ۳۶۰ قبل مسیح میں مقدونیہ کے حکمراں فیلقوس ثانی نے حملہ کیا اور ناکام رہا تو یہاں کے لوگوں نے برکت کے خیال سے یہ نشان اپنایا (اُسی فیلقوس کے بیٹے کو تاریخ سکندر اعظم کے نام سے جانتی تھی)۔ہلال بڑھنے کے امکانات کی علامت تھا جسے مزید نمایاں کرنے کے لیے سلطان نے ستارے کا اضافہ کیا۔ہلال مسلمانوں کا قومی نشان بن گیا۔ یوں یورپ کی وہ پرانی تہذیب ختم ہوئی جس کے بارے میں اقبال کا خیال تھا، ’’عقلی پہلو سے اس کو دیکھیے تو اس تہذیب میں آزادانہ تحقیقات کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔‘‘عثمانی فاتح کے ہاتھوں شکست یورپ کی نئی زندگی بنی۔ یہ نشاۃ الثانیہ کا آغاز تھا۔ موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاداُن اصولوں پر قائم ہوئی جو قرآن سے اخذ کیے گئے تھے۔ یہ خیالات جو تین برس قبل نظم ’شکوہ‘ سنانے سے پہلے لیکچر دیتے ہوئے ظاہر کیے تھے اب امام شافعی والے باب ’الوقتُ سیف‘ کے اشعار میں ڈھل گئے۔ ۴۱ علی گڑھ میں اولڈبوائز ایسوسی ایشن کا جلسہ ہونے والا تھا۔شوکت علی نے اقبال کو دعوت دی۔اقبال کے ذہن میں حافظ کا شعر گونجا کہ ہمارے ناقص عشق سے یار کا حسن بے نیاز ہے۔ حسین چہرے کو آب و رنگ اور خال و خط کی کیا ضرورت ہے۔ زعشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مستغنی است بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را حافظؔ شیرازی بنام شوکت علی بھائی شوکت!اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفانِ بدتمیزی کے زمانے میں گھر کی چاردیواری کو کشتیٔ نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہلِ دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو میں ایک عرصہ سے خداگڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔ علی گڑھ والوں سے میرا سلام کہیے۔ مجھے ان سے غائبانہ محبت ہے۔ اور اس قدر کہ ملاقاتِ ظاہری سے اس میں کچھ اضافہ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ یہ چند اشعار میری طرف سے ان کی خدمت میں عرض کر دیجیے۔ والسلام کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا تمدن آفریں خلاقِ آئینِ جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا سماں ’’الفقر فخری‘‘ کا رہا شانِ امارت میں ’’بآب رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را‘‘ گدائی میں بھی وہ اللہ ولے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھے نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبأ کی جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ’’غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اَش روشن کند چشمِ زلیخا را‘‘۳۸ آخری شعر شاہجہاں کے زمانے کے شاعر غنی کشمیری کا تھا جو اپنے گھر میں تالالگا کر بیٹھتا تھا اور باہر جاتے ہوئے کھول دیتا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ ہی کو گھر کی سب سے قیمتی چیز سمجھتا تھا جس کے مقابلے میں دوسری چیزوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔ شعر کا مطلب تھا کہ اے غنی، کنعاں کے بزرگ یعقوب کی بدقسمتی دیکھو کہ اُن کی نگاہوں کے کھوئے ہوئے نور سے زلیخا اپنی آنکھیں سینک رہی ہے۔ ۴۲ ۶ مارچ کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ خیریت سے تھے۔ شاید اسی موقع پر اقبال کی طبیعت چمکی اور یہ اشعار ہوئے: شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں مفت میں کالج کے لڑکے اُن سے بدظن ہو گئے وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے۳۹ ۴۳ ممکن نہیں ہے ایک ہی بازار میں چلیں ہم سکے اور دھات کے وہ اور دھات کے مخلوط انتخاب سے ہے ناامید ہند پابند یاں کے ووٹ بھی ہیں چھوت چھات کے۴۰ ۴۴ ’’اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‘‘ غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا کیوں اے جنابِ شیخ سنا آپ نے بھی کچھ کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دَیر کیا ہم پوچھتے ہیں مسلمِ عاشق مزاج سے اُلفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بَیر کیا۴۱ ۴۵ چار برس پہلے انگریزی نوٹ بک میں درج کیا تھا کہ قومیت کے نئے مغربی تصور سے سرشار ہو کر ہندو اپنی اصل سے دُور نکلا جا رہا ہے۔ مثنوی میں ہندو قارئین کو بھی پیغام دیا۔ بنارس میں ایک معزز برہمن رہتا تھا جس کے ذہن میں عرفان و آگہی کے سمندر موجزن تھے مگر زندگی کا راز اُس کی سمجھ میں نہ آیا تو ایک شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ نے جو کچھ کہا وہ اُس اقبال کا اپنے ہم وطن ہندوؤں سے خطاب تھا جس نے کبھی ’نیا شوالہ‘ لکھی تھی: اگر قوم کی زندگی اتحاد سے ہے تو کفر بھی اتحاد کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ تم جو کفرمیں بھی پورے نہیں ہو، دل کے حریم کا طواف کرنے کے قابل نہیں۔ ہم دونوں ہی تسلیم و رضا کے راستے سے دُور ہیں: تم آذر سے اور میں ابراہیم سے دُور ہوں۔ ہمارا قیس لیلیٰ کے محمل کا دیوانہ ہوا نہ عاشقی کے جنون میں پورا اُتر سکا! جب وجود میں خودی کی شمع ہی بجھ گئی تو پھر آسمانوں کی پیمائش کرنے والی فکر سے کیا حاصل ہے!۴۲ ۴۶ کشن پرشاد کے لاہور آنے کی خبر تھی۔ نواب ذوالفقار علی خاں کے مشورے سے اقبال نے انہیں نواب صاحب کے محل میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کھتری کانفرنس والوں سے معلوم ہوا کہ کشن پرشاد نہیں آئیں گے۔ ۴۷ کشن پرشاد کو خط لکھنے میںتاخیر کر دی تھی۔ ۷ مارچ کو اُن کا خط ملا تو جواب میں طویل عذر پیش کرنا پڑا کہ وقت جس چیز کو چھوتا ہے وہ پرانی ہو جاتی ہے مگر دل اس اثر سے آزاد ہے۔ شاد کا نقش اقبال کے دل پر ہے لہٰذا اُن کی یاد پرانی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ’’اگرچہ خدا کے فضل و کرم سے ایسا بے نیاز دل رکھتا ہوں کہ خود اللہ میاں بھی اس پر رشک کریں مگر کبھی کبھی یہ دل بھی افکارِ دنیا سے عاجز آ ہی جاتا ہے۔‘‘ عرفی شیرازی نے کہا تھا کہ مدعی کی گرفت سے تو نکل آیا ہوں مگر اب اپنی طبعِ سلیم کے پھندے میں تڑپ رہا ہوں: در تابم از شکنجۂ طبعِ سلیمِ خویش ’’فارسی مثنوی کے اشعار ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اس مثنوی کو میں اپنی زندگی کا مقصد تصور کرتا ہوں۔ میں مر جاؤں گا۔ یہ زندہ رہنے والی چیز ہے۔‘‘ ہندوؤں کو مخاطب کر کے جو اشعار لکھے تھے وہ شاد کو بھیج دیے۔ ۴۳ ۴۸ گنگا اور ہمالہ کا مکالمہ لکھا مگر آمد میں وہ زور نہ تھا جو گزشتہ کئی ماہ دستیاب رہا تھا۔ کبھی بیچ میں خالی جگہ چھوڑی۔ کبھی لکیریں کھینچ کر اُسے پر کیا۔ مصرعے کھینچ کھینچ کر لائے جا رہے تھے۔ ہمالہ جو تیرہ برس پہلے اقبال کی معرکۃ الآرا نظم کا عنوان تھا اب مسلمان قوم کی علامت بن گیا۔ گنگا جس کے کنارے آبا و اجداد کے لشکراُترے تھے اَب ہندو قوم کی علامت ٹھہری۔ اُس نے ہمالہ کو طعنہ دیا کہ خدا نے تمہیں آسمان کا ہمراز بنایامگر تمہارے پاؤں کو حرکت سے محروم رکھا۔ ہمالہ نے کہا: اے کہ تمہاری وسعت میرا آئینہ ہے، تم جیسے سیکڑوں دریا میرے سینے میں موجود ہیں۔ یہ گھومنے پھرنے کا شوق فنا کا سامان ہے۔ جو بھی اپنے آپ سے نکلا وہ فنا کا نوالہ ہے۔ تم اپنے مقام کو نہیں پہچان پائی۔ بیوقوف، تم اپنے نقصان پر فخر کر رہی ہو! تم جس نے آسمان کے پہلو سے جنم لیا ہے، تم سے بہتر تو وہ ساحل ہے جو اپنی جگہ بچھا ہوا ہے۔ تم نے اپنی زندگی سمندر کی نذرکی ہے۔ اپنی جان خود ہی رہزن کو پیش کر دی ہے۔ باغ میں پھول کی طرح خوددار بنو۔ اپنی خوشبو پھیلانے کے لیے پھول توڑنے والے کے پیچھے مت دوڑو!۴۴ تیس برس پہلے جب برصغیر کے مسلمان اپنی بکھری ہوئی قوتوں کو سمیٹنے پر توجہ کر رہے تھے، سرکردہ ہندوؤں کی توجہ اپنی تہذیب کو مغرب میں مقبول بنانے پر تھی۔ ’’بہرِ نشرِ بو پئے گلچیں مرو‘‘ یعنی ’’ اپنی خوشبو پھیلانے کے لیے پھول توڑنے والے کے پیچھے مت دوڑو‘‘ سے غالباً اقبال نے اِن باتوں کی طرف بھی اِشارہ کیا تھا۔ ۴۹ تعلیمِ مغربی ہے بہت جرات آفریں پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ۴۵ ۵۰ تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟ دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجیے! تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے! بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل پیش کیجیے!‘‘۴۶ ۵۱ مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں۴۷ ۵۲ مارچ یا اپریل میںسیالکوٹ میں والدہ امام بی بی بیمار پڑیں۔ مرض نے طول پکڑا۔ اقبال کا دل بے چین رہنے لگا۔’’چچا جان نے علاج کے لیے لاہور چلنے کو کہا،‘‘ اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’لیکن وہ گھر چھوڑنے پر رضامند نہ ہوئیں۔‘‘۴۸ ۵۳ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے فارسی امتحانات کے پرچہ الف کے صدرممتحن تھے۔ تین برس پہلے رائج ہونے والی نئی شرح کے مطابق ایک کاپی جانچنے کا معاوضہ ۱۲ آنہ تھا۔ بی اے کے فارسی پرچہ الف اور بی اے آنرز کے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ پرچہ جانچنے کی شرح ۴ آنہ فی کاپی تھی۔۴۹ ۵۴ سردیوں میں کرسمس اور موسمِ بہار میں اِیسٹر عیسائیوں کی عیدیں تھیں۔ انگریز حکمرانوں کی دنیاوی شان و شوکت مذہبی رنگ میں ڈوب کر نمودار ہوتی تھی۔ مسلمانوں نے کرسمس کی تعطیلات میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسوں کی روایت ڈالی تھی۔ پنجاب میں ایسٹر کی تعطیلات میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہوتا تھا۔ پنجاب کے باہر سے بھی لوگ آتے تھے۔ اِس دفعہ اِیسٹر سنڈے ۱۲ اپریل کو تھا۔ جلسہ دو روز پہلے شروع ہو کر اِیسٹر کے دن تک جاری رہنا تھا۔ چودہ برس پہلے اسی جلسے کے ذریعے اقبال کی شاعری کی شہرت کا آغاز ہوا تھا۔ اس دفعہ والدہ کی بیماری اور فارسی مثنوی مکمل کرنے کی مصروفیت کی وجہ سے اقبال نے کوئی خاص نظم لکھنے سے معذرت کر لی۔ زیادہ اِصرار ہوا تو کچھ مزاحیہ قطعات سپردِ قلم کر دیے۔ جلسہ اسلامیہ کالج کے میدان میں اُس ہال کے سامنے ہوا جسے امیرِ افغانستان حبیب اللہ کے نام پر حبیبیہ ہال کا نام دیا گیا تھا۔ جس نشست میں اقبال شعر پڑھنے آئے اُس کی صدارت نواب سر ذوالفقار علی خاں کر رہے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تقریر میں کہا، ’’اگر یہی اقبال ولایت میں ہوتا تو اس کی قدر و منزلت شیکسپئر سے بھی بڑھی ہوتی مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ ملک اس کی قابلیتِ تامہ سے کم آشنا ہیں۔ اس کی دُنیوی زندگی کے بعد معلوم ہو گا کہ اقبال کیا چیز تھا۔‘‘ اقبال نے ’عجمی تصوف اور اِسلام‘ پر لیکچر دیا: اِس مروجہ تصوّف کو اسلام کے سادہ قواعد اور عربی روحِ دین سے کوئی علاقہ نہیں اور اس کا بنیادی ستم یہ ہے کہ یہ ’’خودی‘‘ کو تباہ کرتا ہے حالانکہ خودی ہی ایک ایسی چیز ہے جو افراد و اقوام کی زندگی کی ضامن اور انسان کو بلندترین مادی و روحانی مدارج پر پہنچانے کی کفیل ہے۔۵۰ پچھلے برس کی طرح اِس دفعہ بھی مثنوی کے کچھ اَشعار پڑھے۔ اُردو کلام کے لیے اصرار ہوا تو اس کے بعد کچھ مزاحیہ قطعات سنائے۔ان کا عنوان مذاقاً ’رگڑا‘ رکھا تھا۔ ’’یہ چند پکوڑے ہیں جو پبلک کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتا ہوں،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’بعض تازے اور بعض تو ان میں چوبیس گھنٹے کے تلے ہوئے ہیں مگر بعد ان پکوڑوں کے ایک تر لقمہ بھی ہو گا۔‘‘ تر لقمے سے مراد شاید ’’کبھی اے نوجواں مسلم‘‘ والی نظم تھی جو شوکت علی کو بھیجی تھی۔ ایک روایت ہے کہ جلسے میں وہ بھی سنائی۔۵۱ ۵۵ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ روشِ مغربی ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوشمند غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی آتا ہے اب وہ دَور کہ اولاد کے عوض کونسل کی ممبری کے لئے ووٹ چاہے گی مشرق و مغرب ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے واں کنٹر سب بلوریں ہیں، یاں ایک پرانا مٹکا ہے اس دَور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو قائم اپنی راہ پر ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے اے شیخ و برہمن سنتے ہو، کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں گردوں نے کتنی بلندی سے اِن قوموں کو دے پٹکا ہے یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبت قائم تھا یا بحث میں اُردو ہندی ہے، یا قربانی یا جھٹکا ہے۵۲ ۵۶ کشن پرشاد کا خط ملا۔ کچھ نکات پر اقبال کی مدد مانگی تھی۔ ’’کاش آپ امسال پنجاب آتے تو اس معاملے پر زبانی گفتگو ہوتی،‘‘ اقبال نے ۲۲ اپریل کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’جو عمل میرے ذہن میں ہے وہ سفر کا مقتضی ہے اور علاوہ اس کے صبر و استقلال کا۔ہندوستان کی آب و ہوا اس کے ناموافق ہے۔‘‘ مرزا جلال الدین کا سلام بھی پہنچایا، ’’وہ آپ کو خود مفصل خط لکھیں گے۔‘‘۵۳ ۵۷ ۲۹ اپریل کو زمیندار اخبار میں بھی انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھے ہوئے اقبال کے مزاحیہ قطعات میں سے تین شائع ہوئے: ’’لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی‘‘، ’’یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوشمند‘‘ اور ’’ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے‘‘۔۵۴ ۵۸ اقبال کی شاعری کی کوئی باقاعدہ کتاب اب تک شائع نہ ہوئی تھی۔ جلسوں میں سنائی جانے والی نظمیں کتابچوں کی صورت میں شائع ہو کر بکتی تھیں۔ عام طور پر فضل الٰہی مرغوب رقم کتابت کر کے خود شائع کرتے تھے۔ انجمن کے جلسے والے مزاحیہ قطعات بھی شائع کیے۔ دیباچہ خواجہ حسن نظامی سے لکھوایا۔ اکبری اقبال دیباچہ از خواجہ حسن نظامی [اقتباس] لاہور میں سیالکوٹ کے رہنے والے ایک آدمی رہتے ہیں جن کا نام اقبال ہے۔ وہ ڈاکٹر ہے اور بیرسٹر ہے اور پی ایچ ڈی ہے۔ وہ شعر گاتے، شعر بجاتے اور موقع پاتے ہیں تو شعر پیدا بھی کر لیتے ہیں۔۔۔ میں نے پروفیسر اقبال کو بھی دیکھا ہے اور ڈاکٹر اقبال کو بھی۔ سیالکوٹی اقبال کو بھی اور لاہوری اقبال کو بھی۔ یورپین اقبال کو بھی دیکھا ہے اور لندنی اقبال کو بھی، مگر آدمی کبھی نہیں پایا۔ وہ ازل سے حیوان ہیں اور حیاتِ ابدی کے نشان ہیں۔ ہندوستان کے لوگ حیوان کے لفظ کو مکروہ جانتے ہیں مگر میں اس لفظ میں وہ جان پاتا ہوں جو ہند کے کسی انسان میں نہیں۔ برسات میں مکھیاں اور پروانے دونوں پیدا ہوتے ہیں اور دونوں جاندار کہلاتے ہیں مگر ایک آدمی کو ستاتا ہے اور مگسِ بے حیا کا نام پاتا ہے اور دوسرا شمع کے رُخ پر قربان ہو جاتا ہے اور غیرت ڈھونڈنے والوں کو صبح کے وقت اپنی لاش دکھا کر رُلاتا ہے۔ اقبال بھی ایک پروانہ ہے جو اَن دیکھی شمع کا پروانہ ہے۔ مکھیاں اُس کے اشعار کو مٹھاس سمجھ کر چاٹتی ہیں اور پروانے شمع سمجھ کر قربان ہونے آتے ہیں۔ اقبال ہمیشہ آسمان پر اڑتے ہیں۔ زمین پر کبھی آنا ہوتا ہے تو اُس زمین میں جو آسمان سے زیادہ دُور نہیں ہوتی ہے اِس لیے وہ لوگ جن کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ اقبال کہاں ہیں؟ ہم اُن تک کیونکر پہنچیں؟ ایک دن بھری سبھا کے اندر اقبال زمین پر آئے اور چند جملے اُن کی زبان میں سنائے جو زمانے کی زبان کہلاتے ہیں جن کا نام اکبر ہے جو الٰہ آباد میں بیٹھ کر اللہ کی آبادیاں بساتے ہیں ۔۔۔ اکبر کی ہر بات زمین آسمان کو ایک کر دیتی ہے۔۔۔ اقبال نے اکبر کی زبان میں جو کچھ لکھا ہے وہ اکبری اقبال ہے۔۔۔ مجھ سے کہتے ہیں کہ اِس نظم پر وہ لکھوں جسے انگریزی میں ’’ریویو‘‘ کہتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں بہتے ہوئے دریا کی روانی کو اِس کی کیا ضرورت ہے کہ دوسرا اُس کے تیز بہاؤ کی حقیقت پر لیکچر دے۔۔۔۵۵ ۵۹ خواجہ حسن نظامی کبھی کبھی نثر میں ایسی بات لکھ جاتے جس پر اقبال کی نظم بھی حیران رہ جائے۔ ایک بیقرار فقیر کو مراقبے میں دکھایا۔ اُس کی سوچ کو مریخ پہنچایا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی کسی کی جدائی میں آہیں بھر رہی تھی۔ مریخ میں شبِ فرقت بقلم حسن نظامی [اقتباس] لڑکی نے ایک عالیشان قصر کی جانب اِشارہ کیا۔ فکرِ فقیر اُس کے اندر داخل ہو گیا۔ اور دیکھا خالی محل ہے اور دیواروں میں دُوربینیں لگی ہوئی ہیں۔ اُس نے ایک دُوربین کو دیکھا تو زمین اور اُس کی آبادیاں نظر آئیں۔ دوسری کو دیکھا تو مشتری کی بستیاں سامنے تھیں۔ تیسری کو دیکھا تو ایک لوح رکھی تھی۔ جس پر لکھا تھا۔ خدا نے بیشمار سورج پیدا کئے ہیں۔ ہر سورج کے ساتھ زمین، مریخ، مشتری، زہرہ، قمر وغیرہ سیارے ہیں اور ہر سیارہ میں جن و انس، حیوان و چرند، پہاڑ و دریا ہیں۔ نیک و بد ہیں۔ آدم و نوح و ابراہیم و عیسیٰ و موسیٰ و محمدؐ ہیں (علیہم السلام) اور سب میں محبت کا رشتہ قائم ہے۔ کیونکہ محبت ہی ہر چیز کی ابتدا ہے۔ محبت ہی اُس چیز کی زندگانی ہے۔ اور محبت ہی پر اُس کا انجام ہے۔ محبت کے لئے خدا نے ان بیشمار سورجوں کو پیدا کیا اور اُن کے ساتھ سیارے اور سیاروں میں مخلوقات پیدا کی۔ کیونکہ خدا کو مہجور کی آہ و بکأ میں لطف آتا ہے۔ وہ وصال نصیب عاشق کیا [کذا: کی] ہم آغوشی سے بھی مسرور ہوتا ہے۔ اِسی واسطے اُس نے اپنے حسن کے جلووں کو معشوق کے رُخسار اور رفتار و گفتار میں بکھیر دیا ہے۔ اس لوح کو دیکھ کر چوتھی دُوربین کو دیکھا۔ اُس کے اندر ایک ایسی چیز تھی کہ فکرِ فقیر کی آنکھیں گھبرا گئیں۔ اور باقیماندہ دُوربینوں کے دیکھے بغیر یہ کہتی ہوئی اور نعرہ مارتی ہوئی نکل آئی۔ کہ اب نہ کر پردہ۔ کہ او پردہ نشیں دیکھ لیا مخزن، اپریل ۱۹۱۴ئ۵۶ ۶۰ حکیم نورالدین جو مرزا غلام احمدقادیانی کے جانشین ہوئے تھے، ۱۳ مارچ کو قادیان میں فوت ہو چکے تھے۔ مرزا غلام احمد کے بڑے لڑکے مرزا سلطان احمد نے احمدیت قبول ہی نہیں کی تھی۔ لاہور میں رہتے تھے اور انجمن حمایت اسلام کے حامی تھے۔ایک اور لڑکے مرزا بشیرالدین محمود احمد اَب جانشین ہوئے تھے۔ جماعتِ احمدیہ کے ایک گروہ کے نزدیک مرزا غلام احمد صرف مجدد تھے، حقیقی معنوں میں نبی نہیں تھے۔ اِس گروہ کو مرزا بشیرالدین سے اختلاف تھا۔ گروہ کے رہنما احمدی عالم محمد علی لاہوری تھے۔ ۲ مئی کو انہوں نے لاہور میں احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام قائم کی۔ لاہوری جماعت یا لاہوری گروپ کہلائی۔ ۶۱ اقبال کے گورنمنٹ کالج کے زمانے کے دوست محمد دین فوق کا شوقِ اشاعت ابھی تک جوان تھا۔ اقبال کہتے تھے کہ کوئی ایسا رسالہ جاری کریں جس سے صوفیوں کی اصلاح ہو سکے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مردہ دل بنا دیا ہے۔ فوق مصروفیت کا عذر پیش کرتے تھے۔ ’’میں نے یہ بھی کہا کہ یہ طبقہ بہت ہوشیار اور جہاں گرد ہے،‘‘ فوق کا بیان ہے۔ ’’ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے فرمایا: ’۔۔۔دیکھو، مولانا روم کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ ایک طرف مولوی اور واعظ، شریعت کے مسائل بیان کرتے تھے اور دوسری طرف مولانا روم اپنی مثنوی کا وعظ لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ مثنوی میں بھی وہی باتیں ہوتی تھیں جو دوسرے واعظ سنایا کرتے تھے۔ لیکن مولوی کے وعظوں میں جہاں قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تھا، لوگوں کی جمعیت کم ہوتی تھی اور مولانا روم کی مثنوی کے وعظ میں صدہا لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مولانا نے وہ اصلاحی رنگ اختیار کیا جس کو لوگ جلد قبول کر سکتے تھے۔ انہوں نے عوام کا مذاق تاڑ لیا تھا اور وہ اُسی مذاق کے موافق کتاب و سنت کے مسائل بیان کرتے تھے۔۔۔‘‘ فوق غور کرنے لگے۔ ان کے والد صوفی مزاج تھے۔ امدا د کا وعدہ کیا۔ رسالے کا نام طریقت تجویز ہوا۔ پہلے شمارے کے لیے فوق نے اقبال سے مکالمہ کیا اور جوابات لکھ کر احتیاطاً نظرِ ثانی بھی کروا لیے۔۵۷ ۶۲ کشن پرشاد کے گھر لڑکا ہوا تھا۔ اُنہوں نے اقبال کو اطلاع بھجوا کر تاریخی نام کی فرمائش کی اور غالباً اپنی ایک غزل بھی ارسال کی۔ ’’عالم پناہ مہاراجہ عالمگیر پرشاد،‘‘ ۶ جون کو اقبال نے تاریخی نام تجویز کیا جس کے عدد ۱۳۳۴ھ نکلتے تھے۔ ’’ماشااللہ خوب غزل لکھی ہے۔‘‘۵۸ ۶۳ کسی وقت جرمنی سے ایما ویگے ناست کا خط موصول ہوا جس کا جواب اقبال کئی دنوں بعد بھی انگریزی ہی میں دے سکے۔ بنام ایما Lahore 7th June 1914 My dear Frl. Wegenast, I was most happy to receive your letter some time ago. Unfortunately I was not able to attend to it earlier owing to ill health. It is a pity that I cannot write to you in your beautiful German tongue which, I am sorry to say, I have forgotten except that I can read and understand the letters of my German friends. The other day I was reading Heine, and I thought of the happy days when we read the poet together at Frau Professors' in Heidelberg. Good old Lady! I suppose she is alright. Please remember me to her if you happen to see her. I should like very much to know what you are doing now, and what are your plans if any. I may come to Europe next year. But there is no knowing; all depends on circumstances. If I do come at all I shall certainly visit old Germany and see you once more at Heidelberg or Heilbornn whence we shall together make a pilgrimage to the scared grave of the great master Goethe. Although I never had the pleasure to meet your brother and sisters yet I should like you to remember me to them. Yours sincerely Mohammad Iqbal۶۲ ۶۴ وسیمہ نے دیکھا کہ آم، چچا جان کی کمزوری تھے۔ گرمیوں میں سہارن پور، الٰہ آباد اور دلی وغیرہ سے بعض دوست بھجواتے یا خود منگوا کر تقریباً ہر روز کھاتے اور کھلاتے۔ کبھی کبھی کہتے، ’’قدرت نے میووں کو ترقی دے کر انگور بنائے اور اَنگوروں میں جو کمی رہ گئی تھی وہ آموں کی تخلیق میں پوری کر دی۔‘‘بیماری میں بھی آم سے پرہیز نہ کر سکتے تھے۔ اُن کا قول تھا،’’پرہیز کا میں قائل نہیں۔‘‘۵۹ البتہ آم وہ زیادہ پسند تھے جن میں رَس زیادہ ہو مگر سردار بیگم مالدہ آم پسند کرتی تھیں لہٰذا گھر میں زیادہ تر مالدہ ہی آتا۔۶۰ اعجاز احمد کا بیان ہے، ’’جب آموں کی پیٹی کھلتی تو علی بخش سے کہتے کہ سب سے اچھا آم چن کر مجھے دو۔ وہ جب اپنی پسند کے مطابق آم منتخب کر کے۔۔۔ دیتا تو۔۔۔ کہتے کہ اِس آم کو تم کھا لو۔‘‘۶۱ ۶۵ ۱۷ جون تھی۔ ہندوستان میں مذہبی انتہاپسندی کے بانی بال گنگا دھر تلک جنہیں ان کے ماننے والے ’’لوک مانیا‘‘ یعنی عوامی رہنما کہتے تھے، بغاوت کے جرم میں سات برس برما میں جلاوطن رہنے کے بعد وطن واپس پہنچے۔ اب مسلم دشمنی چھوڑ کر بمبئی کے اُس مسلمان بیرسٹر کے گرویدہ ہو چکے تھے جس نے سات برس پہلے عدالت میں یہ کہہ کر اُن کا دفاع کیا تھا کہ اپنے وطن میں اپنے ہی وطن کی آزادی کا مطالبہ کرنے کو بغاوت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ بیرسٹر محمد علی جناح تھے جو اَب ہندوستان کے سیاسی افق کا رَوشن ستارہ بن چکے تھے۔ ۶۶ ۲۳ جون کو اقبال کے بیٹے آفتاب کی سالگرہ تھی جو اَب کالج میں پڑھتے تھے۔ شیخ عطا محمد کے بڑے لڑکے شیخ اعجاز احمد نے میٹرک کا امتحان دے رکھا تھا۔ اُس روز نتیجہ نکلا۔ اگلے روز اقبال کو معلوم ہوا تو یونیورسٹی گئے۔اعجاز کے ۲۴۰ نمبر تھے یعنی تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے۔ گھر آئے تو اعجاز کا کارڈ میز پر رکھا تھا۔ غالباً پچھلے روز ہی خبر سیالکوٹ پہنچ گئی تھی۔ اقبال نے تار دینے کا ارادہ ترک کر کے خط لکھا کہ سیالکوٹ ہی میں رہ کر اسکاچ مشن کالج میں داخلہ لیں۔ ایف اے کے لیے مضامین منتخب کر کے اقبال کو بتا دیں۔ ’’تمہارا بچپن کا زمانہ اب گزر گیا ہے،‘‘ اُس روز اقبال نے اعجاز کو لکھا۔ ’’کالج کے لڑکے جنٹلمین سمجھے جاتے ہیں نہ کہ لڑکے۔ یہ مرحلہ ایف اے کا مشکل ہے۔ شروع ہی سے توجہ اور بلاناغہ کام کرنا چاہئے۔ تین گھنٹے ہر روز پڑھائی کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ باقاعدہ ہو۔ ایف اے میں کم از کم تم کو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہونا چاہئے۔ بی اے کے واسطے تم کو گورنمنٹ کالج میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘شیخ عطا محمد، نورمحمد اور امام بی بی کو بھی مبارک باد بھجوائی۔ پانچ روز بعد ’مسلمان اور تعلیمِ جدید‘ کے موضوع پر آٹھ شعر لکھ کر اُنہیں فارسی شاعر ملک قمی کے اِس شعر پر ختم کیا کہ میں پاؤں سے کانٹا نکالنے لگا اور محمل میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک لمحے کو غافل ہو کر سو برس دُور ہو گیا: رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دُور شد۶۳ ۶۷ ۲۸ جون تھی۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیو میں صبح کے پونے دس بجے تھے۔ اُنیس سالہ نوجوان گاوریلو پرنسیپ نے ابھی ابھی ایک کیفے میں بیٹھ کر سینڈوچ ختم کیا تھا۔ کھلی چھت والی ڈبل فینٹم گاڑی کو اُس طرف آتے دیکھ کر چونک اُٹھا۔ گاڑی میں آسٹریا ہنگری کا ولی عہد اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ گاوریلو کے ایک ساتھی نے تیس چالیس منٹ پہلے اِسی گاڑی پر دستی بم پھینکا تھا مگر ناکام رہا تھا اور پھر گاوریلو کو اطلاع ملی تھی کہ گاڑی کا راستہ بدل دیا گیا ہے۔ لیکن شاید ڈرائیور کو یہ بات نہیں بتائی گئی تھی لہٰذا اب پولیس کی حفاظتی گاڑی نئے راستے پرتھی اور ولی عہد کی گاڑی تنہا اِدھر آ نکلی تھی۔ ڈرائیور کو غلطی کا احساس ہوا۔ بریک لگائی۔ واپس موڑنے کی کوشش میں گیئر پھنس گیا۔ گاوریلو بڑی تیزی سے گاڑی کے قریب پہنچ کر سیمی آٹومیٹک براؤننگ پستول نکال چکا تھا۔گولی شہزادے کی گردن میں لگی۔ ’’خدا کی پناہ! تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ شہزادی نے کہا اور عین اُسی وقت گاوریلو نے سرائیو کے گورنر پر بھی گولی چلائی۔ نشانہ چوکا اور گولی شہزادی کے پیٹ میں لگی۔ ’’صوفی ڈئر! صوفی ڈئر! مت جاؤ۔ ہمارے بچوں کی خاطر زندہ رہو۔‘‘ یہ شہزادے کے آخری الفاظ تھے۔چند منٹ بعد دونوں ختم ہو چکے تھے۔یہ اُس محبت کا انجام تھا جس کی خاطر آسٹریاہنگری کے شہزادے نے اپنے باپ کے شاہی ارادوں سے ٹکرا کر شادی کی تھی۔ بے قابو ہجوم نے گاوریلو کے ہاتھ سے پستول چھین لیا تھا۔ اُس نے زہر کی ایک گولی پہلے سے اپنے پاس رکھی ہوئی تھی مگر ایکسپائرڈ تھی۔ خودکشی نہ کر سکا۔ زندہ رہاتاکہ دیکھ سکے کہ اُس نے کس چیز کا آغاز کر دیا ہے۔ قتل بوسنیا میں ہوا تھا مگر ذمہ داری سربیا کی ایک دہشت گرد تنظیم پر عائد کی گئی۔آسٹریاہنگری کی سڑکوں پر نکل کر نوجوان جنگ کا مطالبہ کرنے اور سربیا کے جھنڈے جلانے لگے۔ روم میں پوپ پائیس دہم خبر سن کر بیہوش ہو گئے۔ لندن میں خونی سرخیاں لگانے کے شوقین اخبار ٹائمز نے لکھا، ’’دنیا کے ضمیر میں ہلچل مچ گئی ہے۔‘‘ ایک اور اخبار نے لکھا کہ یورپ پر بجلی کڑکی ہے۔‘‘گاوریلو کے پستول سے نکلنے والی گولی نے اُس چیز کو یقینی بنا دیا تھا جسے بعد کی نسلیں پہلی جنگ عظیم کہنے والی تھیں۔ ۶۸ ہم نے جو کانٹے بوئے تھے اُن سے کھجور حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے جو اُون بٹی تھی اُس سے مخمل نہیں بنا سکتے: خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم سعدی شیرازی اب کہیں سے نیا بیج لائیں اور پھر سے بوئیں کیونکہ جو کچھ پہلے بویا اُس کی فصل توشرمندگی سے کاٹ نہیں سکتے: تخم دیگر بکف آریم و بکاریم زنو کانچہ کشتیم زخجلت نتواں کرد درو ملا عرشی کوے اور چیل کے پروں کو باندھ کر اُنہیں کوئی قید نہیں کرتا۔ یہ سعادت صرف شہباز اور شاہین کی قسمت میں ہوتی ہے: شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اند خواجہ حافظ شیرازی اگر خضر کا ساتھی بننے کا شوق ہے تو آبِ حیات کی طرح سکندر کی نگاہوں سے چھپ جاؤ: گرت ہواست کہ باخضر ہم نشیں باشی نہاں زچشم سکندر چو آبِ حیواں باش خواجہ حافظ شیرازی اب ہمیں ہوش کہاں کہ باغباں سے پوچھیں بلبل نے کیا کہا، پھول نے کیا سنا اور باغ کی ہوا نے کیا کیا: اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد جس نے انگور کے دانے سے پانی نکال کر شراب بنائی اُس نے ستارہ توڑا اور آفتاب بنا دیا: مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازد ستارہ می شکنند آفتاب می سازند اے پروانے! تم نے محفل کی شمع سے یہ گرمی حاصل کی۔ دل میں سوز رکھتے ہو تو میری طرح اپنی آگ میں جلو: تو اے پروانہ ایں گرمی زشمع محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری فیضی فیاضی سننے والوں میں ذوق کی کمی دیکھتے ہو تو اپنی آواز زیادہ اونچی کر دو۔ محمل کا بوجھ زیادہ ہے تو حدی کی لَے تیز کر دو: نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی عرفی شیرازی شمع اپنے آپ کو محفل میں پگھلا دیتی ہے لیکن ہمارا نور پتھر میں چھپی آگ کی طرح نظروں سے اوجھل ہی اچھا لگتا ہے: شمع خود را می گدازد درمیان انجمن نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است میر رضی دانش لیلیٰ بیاباں ہی میں جلوہ گر ہو تو بہتر ہے کہ شہر کی تنگی صحرائی حسن کی تاب نہیں لا سکتی: ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیاباں جلوہ گر باشد ندارد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی مرزا صائب سرو ایک ہی مصرعے میں خزاں کی قید سے آزاد ہو گیا۔ تم بھی زندۂ جاوید ہو سکتے ہو اگر موزوں ہو جاؤ: سرو با یک مصرع از قیدِ خزاں آزاد شد زندۂ جاوید میگردی اگر موزوں شوی مرزا صائب ہر کمال کے ساتھ تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے۔ تم عقل کل بھی بن گئے ہو تو جنون سے خالی مت رہو: با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است ہرچند عقلِ کل شدہ ای بے جنوں مباش میرزا بیدل مجھے اپنے جسم کی ہڈیاں ٹوٹنے سے اتنی شرم نہیں آتی جتنی دوسروں کے آگے مرہم کے لیے ہاتھ پھیلانے سے: مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی تم نے ہم سے وفا سیکھی مگر اُسے دوسروں کے کام میں لائے۔ ہم سے موتی لے کر دوسروں پر نثار کر دیے: وفا آموختی از ما، بکارِ دیگراں کردی ربودی گوہرے از ما، نثارِ دیگراں کردی انیسی شاملو۶۴ ۶۹ بنام گرامی لاہور-۱۳ جولائی ۱۹۱۴ء جناب مولانا گرامی! آپ کہاں ہیں؟ حیدرآباد میں ہیں یا عدم آباد میں؟ اگر عدم آباد میں ہیں تو مجھے مطلع کیجیے کہ میں آپ کو تعزیت نامہ لکھوں۔ صدیاں گزر گئیں کہیں آپ کا کلام دیکھنے میں نہیں آیا۔ کبھی کبھی چند اشعار بھیج دیا کرو تو کون سی بڑی بات ہے۔ میں تو اب بوجہ مشاغل منصبہ کے تارک الشعر ہوں۔ ہاں کبھی فرصت ملتی ہے تو فارسی اساتذہ کے اشعار پڑھ کر مزا اُٹھا لیتا ہوں۔ میری شاعری گھٹ کر اب اسی قدر رہ گئی ہے کہ َاوروں کے اشعار پڑھ لوں۔ گذشتہ سال ایک مثنوی فارسی لکھنی شروع کی تھی۔ ہنوز ختم نہیں ہوئی۔ اور اس کے اختتام کی امید بھی نہیں۔ خیالات کے اعتبار سے مشرقی اور مغربی لٹریچر میں یہ مثنوی بالکل نئی ہے، لیکن آپ سے ملاقات ہو تو آپ کو اس کے اشعار سناؤں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے سن کر خوش ہوں گے۔ کہیے ادھر آنے کا کب تک قصد ہے؟ میں ایک عرصہ سے آپ کا منتظر ہوں۔ خدارا جلد آئیے۔ سب سے بڑا کام تو یہ ہے کہ آ کر میری مثنوی سنیے اور اس میں مشورہ دیجیے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اُمید ہے کہ بابا گرامی اچھا ہو گا اور نئے نکاح کی فکر میں اپنے آپ کو نہ گھلاتا ہو گا۔ گھر میں میری طرف سے سلام کہہ دیجیے۔ خط کا جواب جلد لکھیے اور نیز یہ کہ اپنے اشعار بھی بھیجیے۔ میری مراد تازہ افکار سے ہے۔ آپ کا خادم محمد اقبال، لاہور ۷۰ اِس بار لاہور میںبارش ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ بادل دکھائی دے جاتے تھے۔ ۷۱ کشن پرشاد کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ اقبال نے اخبار میں خبر پڑھ کر تعزیت نامہ بھیجا۔ جواب نہ آیا۔ ۶۵ ۷۲ اکبری اقبال پر اعتراضات ہو رہے تھے: ۱ اقبال نے اکبرؔ الٰہ آبادی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۲ یہ اقبال کا رنگ نہیں ہے اعتراضات اکبر الٰہ آبادی تک پہنچے۔ انہوں نے رسالہ نقاد کو جواب بھجوایا۔ ۱۶ جولائی کو ان کا خط اقبال کو بھی ملا۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ انہیں مرتے دم تک پیرومرشد تصور کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اقبال کواِس طرح برا کہے کہ اکبر کی بڑائی کا پہلو نکل آئے تو رنج نہیں۔ خوشی ہو گی۔ ’’کسی شاعر کی داد دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اگر داد دینے والا شاعر ہو تو جس کو داد دینا مقصود ہو اس کے رنگ میں شعر لکھے یا بالفاظِ دیگر اس کا تتبع کرے اور اس کی فوقیت کا عتراف کرے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ان کے پاس نقاد نہیں آتا تھا اس لیے فرمائش کی کہ خط شائع ہو جائے تو رسالے کی کاپی اُنہیں بھجوا ئیں۔ ۷۳ آسٹریا ہنگری نے مطالبہ کیا تھا کہ سربیا میں قتل کی تحقیق آسٹریا ہنگری کے افسروں کے سپرد کی جائے ورنہ اُس کی فوجیں سربیا پر حملہ کر دیں گی۔ زارِ روس نے للکارا کہ اُس صورت میں روسی فوجیں خود آسٹریا ہنگری پر حملہ کریں گی۔ جرمنی کے قیصر ولیم نے کہا کہ ایسا ہوا تو وہ روس پر حملہ کر دے گا اور اگر فرانس نے ساتھ نہ دیا تو اُس پر بھی حملہ ہو گا۔ اس کے لیے جرمن فوجوں کو بلجیئم سے گزرنا پڑتا اور ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بلجیئم کی حفاظت کرنے کا پابند تھا۔ ۲۸ جولائی کو آسٹریا ہنگری نے سربیا پر حملہ کر دیا۔ ۷۴ دو بحری جنگی جہاز جن کی پوری قیمت عثمانی سلطنت برطانیہ کو پہلے ادا کر چکی تھی اب تقریباً تیار تھے۔محب وطن وزیر چرچل نے ہنگامی حالات کے تحت اُنہیں برطانوی بحریہ میں شامل کر لیا۔ عثمانی حکومت کو پیغام بھیجا گیا کہ جب تک جہاز برطانیہ کے استعمال میں تھے ایک ہزار پونڈ روزانہ کرایہ ادا کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ عثمانی جنگ میں غیرجانبدار رہیں۔ ۲ اگست کو عثمانی ریاست نے جرمنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے مطابق اگر رُوس نے سربیا اور آسٹریاہنگری کے جھگڑے میں دخل دیا اور جرمنی کوجنگ میں شامل ہونا پڑا تو عثمانی ریاست جرمنی کا ساتھ دے گی۔ روس پچھلے روز مداخلت کر چکا تھا۔ معاہدے کا اصل مطلب یہ تھا کہ عثمانی ریاست جرمنی کی طرف سے جنگ میں شامل ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم سعید حلیم پاشا نے دستخط کیے جو جمال الدین افغانی کے بہت بڑے پیروکار تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ خلیفہ اور قیصر ولیم کو ایک ماہ میں دستخط کرنے تھے۔ استنبول میں اتحادی طاقتوں کے سفیروں سے معاہدہ اِس خوبصورتی سے چُھپایا گیا کہ جرمن بھی حیران رہ گئے۔۶۶ ۷۵ تہذیب حاضر کی گرمی سے مسلمان بھبھوکا بن کر بھڑک اُٹھے تھے مگر رقابت، خودفراموشی، ناشکیبائی اور ہوسناکی بھی اس تہذیب کے جلو میں آ رہی تھیں۔ اقبال نے سات اشعار لکھ کر فیضی کے شعر پر نظم کو ختم کر دیا: تو اے پروانہ ایں گرمی زشمع محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری۶۷ ۷۶ اگست میں محمد دین فوق کے رسالے طریقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ لکھنے والوں میں ابوالاعجاز حضرت احسان شاہجہانپوری، خواجہ حسن نظامی دہلوی، لسان العصر اکبر الٰہ آبادی، مہاراجہ کشن پرشاد، خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی اور اقبال کے بازارِ حکیماں کے زمانے کے دوست خان احمد حسین خاں بھی تھے۔ اقبال کے ساتھ فوق نے جو مکالمہ کیا تھا وہ بھی رسالے میں شامل تھا۔۶۸ مکالمہ [اقتباس] فوق: صوفیوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ اقبال: اہلِ تصوف خصوصاً ہندوستان کے صوفیائے عظام نے اسلام کو وہ رونق بخشی اور بجائے تیر و تلوار کے محض حسنِ عمل اور اخلاقِ محمدی کے ذریعے اس کی وہ اشاعت کی کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوںمیں چھ کروڑ یقینا ان ہی بزرگوں کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں۔ فوق: عُرس کی رسم کب سے جاری ہے؟ اقبال: عرب اور دیگر ممالکِ اسلامیہ کی تو خبر نہیں لیکن ہندوستان کے عرسوں کے متعلق یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں چونکہ جاترا کی رسم عرصۂ دراز سے چلی آتی ہے اور وہ دُور دراز ممالک سے بعض خاص تیرتھوں کی جاترا کے لیے جایا کرتے تھے، اس لیے جب وہ رفتہ رفتہ مشرّف بہ اسلام ہونے لگے، تو اُن کو اِسلام سے مانوس کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے گئے جو اُن کے مذہبی شعائر سے کسی قدر مشابہ تھے۔ یہ میرا قیاس ہے، یقین نہیں ہے۔ فوق: عرس کا مقصد کیاہے؟ اقبال: عرس کا مقصد تو دراصل یہ ہے کہ جس بزرگ کا عرس ہو، اُس کے سبق آموز حالات بیان کیے جائیں اور لوگوں کو اُس کے اچھے عمل کی تقلید و پیروی کی ترغیب دی جائے لیکن افسوس ہے کہ موجودہ عرسوں کا بیشتر حصہ اپنے اصلی مقصد سے دُور ہٹ چکا ہے اور محض بے خبر[ی] ہے۔ فوق: صوفی لوگ موجودہ زمانے کی جدوجہد میں ہمارے لیے کس طرح مفید ہو سکتے ہیں؟ اقبال: اہلِ تصوف، خصوصاً ان بزرگوں کا جو صاحبِ اثر ہیں اور اپنے عقیدت مندوں کا بہت بڑا حلقہ رکھتے ہیں، یہ نہایت ضروری فرض ہے کہ وہ اپنے معتقدوں اور ارادت مندوں کو اپنے اثر میں رکھیں اور اُن کی زندگی کو مذہبی اور اخلاقی پہلو سے ایک کامیاب زندگی بنا دیں۔ سوشل ترقی کے لیے جدوجہد کرنا بھی ایک قسم کی بیداری ہے اور یہ بیداری جب کبھی ہو گی، حضرات صوفیأ کے پاک نفوس ہی سے ہو گی۔ فوق: اولیأ کی کرامتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اقبال: میں کرامتوں کا قائل ہوں اور میرا خیال ہے کہ وہ پاک نفوس، جن کو اللہ تعالیٰ نے خاص دل اور دماغ عطا کیا ہے اور جو تزکیۂ نفس میں صاحبِ کمال ہیں، تیر از کماں جستہ اور آب از جُو رفتہ واپس لا سکتے ہیں: اولیأ را ہست قدرت از الٰہ تیرِ جستہ باز گرداند زراہ فوق: قبروں پر جانا چاہیے یا نہیں؟ اقبال: اگر مراد اِس سے قبرپرستی ہے، یعنی صاحبانِ قبور سے حاجات طلب کی جائیں جس طرح خدا کو حاضر جان کر کی جاتی ہیں، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں بلکہ اس کو سخت گناہ سمجھتا ہوں۔ اور اگر قبروں پر جانے سے مطلب فاتحہ پڑھنا، عبرت حاصل کرنا اور موت کو یاد کرنا ہے، تو میرے نزدیک اس میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ ایسا ضرور ہونا چاہیے۔ اِس کے علاوہ اِس بات کا بھی قائل ہوں کہ قبرستانوں پر خصوصاً کسی صاحبِ دل کے مزار پر جانے سے صفائیِ باطن بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ فوق: پیر کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اقبال: پیر یا مرشد کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کوئی صحیح اور کامل راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ روحانی فائدہ تو ان بزرگوں سے صرف ان ہی لوگوں کو ہو گا جو اہلِ دل ہیں، جن کے دل میں درد ہے، جن کے قلب میں گرمی اور جن کی روح میں تڑپ ہے، لیکن کم سے کم اخلاقی فائدہ تو ہر مرید حاصل کر سکتا ہے۔ پیر صاحب کی صحبت سے (بشرطیکہ پیر دکانداری نہ کرتا ہو) ہر مرید اپنا اخلاق سنوار سکتا ہے۔ اور جس کا اخلاق درست ہے، جس کے افعال ٹھیک ہیں اور جس کے اعمال، اعمالِ حسنہ کہے جاتے ہیں اُس سے بڑھ کر اور کون بہترین انسان ہو سکتا ہے۔ ۷۷ شیخ عبدالقادر مصروف رہتے تھے۔ سر سید احمد خاں کی ادبی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے تیرہ برس پہلے جو مخزن جاری کیا تھا اُس کے لیے بھی کم ہی وقت نکال سکتے۔ ریٹائرڈ تحصیلدار غلام رسول نے مخزن کی ملکیت حاصل کر کے اسے نئی زندگی دینی چاہی۔ اگست کے شمارے سے مخزن کا ’’نیا دَور‘‘ شروع ہو رہا تھا۔ عبدالقادر ’’آنریری ایڈیٹر‘‘ ہوئے۔ پہلے صرف حصہ نظم اور حصہ نثر ہوتا تھا۔ اَب علمی، ادبی، معاشرتی وغیرہ الگ حصے ہوئے۔ مرزا سلطان احمد جو مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے مگر احمدیت قبول نہیں کی تھی اور انجمن حمایت اسلام کے حامی تھے، ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے۔ اقبال کی مزاحیہ شاعری پر جو اعتراضات ہو رہے تھے اُس کا جواب لکھ کر بھیجا۔ حضرت اقبال کا طرزِ جدید سلطان احمد از لنڈن [اقتباس] یہاں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب شاعر فنِ شاعری کے کمالات کی حد تک رفتہ رفتہ پہنچ جاتا ہے تو چونکہ کمالات کا مرکز نقطۂ انتہائی ایک ہی ہوتا ہے، اس واسطے حدودِ کمالات اور اظہارِ کمالات میں ایک حد تک توافق اور تناسب پایا جاتا ہے۔ اور بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اہلِ کمال یا دونوں شاعروں کے کلام میں ایک توارد یا ایک تناسب ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ دونوں اہلِ کمال یا دونوں شاعر ایک ہی نقطۂ خیال یا ایک ہی نقطۂ بخت سے مناظر اور واقعات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں۔ انتہائی نقطہ خیال یا نقطہ بخت ان حالات میں حضرت اکبر اور حضرت اقبال کو ایک ہی مذاق اور ایک ہی دُھن کا مشاق ظاہر اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دیکھو مختلف زمانوں اور مختلف مذاقوں کے صوفیائے کرام کے کلام میں کس قدر یگانگت اور مناسبت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اُن میں بظاہر کوئی آشنائی اور تواصل نہیں ہوتا۔ مخزن، اگست ۱۹۱۴ ۷۸ ۳ اگست سے لاہور میں عدالتیں بند ہوئیں۔ ۷۹ ۴ اگست تھی۔ لندن میں رات کے ساڑھے دس بجے تھے ۔ بکنگھم پیلس میں شاہ جارج پنجم ایک وزیر اور دو درباریوں کے ساتھ موجود تھے۔ فیصلہ ہوا کہ رات گیارہ بجے جرمنی سے جنگ شروع ہو جائے گی جس نے بلجیئم پر حملہ کر کے برطانیہ کے الٹی میٹم کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اگلی صبح وائسرائے لارڈ ہارڈنگ نے ہندوستان والوں سے پوچھے بغیر ہندوستان کی طرف سے بھی جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۸۰ اقبال کو شملہ جانا تھا۔ وسیمہ نے دیکھا کہ سفر سے گھبراتے ہیں۔ کئی روز پہلے ہی سے ہدایات دینے لگتے۔ بار بار گاڑی کا وقت معلوم کرواتے، سامان وغیرہ کے متعلق دریافت کرتے۔ کوشش کرتے کہ رات کی گاڑی میں جگہ ملے۔۶۹ جنگ چھڑنے کی خبر اِقبال نے شملہ کے راستے میں سنی ہو گی۔ برطانوی سیاست دانوں کا خیال تھا کہ جنگ چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ اقبال کا خیال کچھ اور تھا۔ ۸۱ لاہور میں حضرت میاں میر کا مزار اور خانقاہ مشہور جگہ تھی۔ تاج محل بنانے والا شاہجہاں بھی آپ کے مریدوں میں سے تھا۔ کہتے تھے کہ کبھی دکن پر حملہ کرنے سے پہلے حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ایک غریب مرید نے آکر ایک سکہ شیخ کو نذرانے کے طورپر پیش کیا۔ میاں میر ولی [اقتباس کا ترجمہ] شیخ نے کہا، اس پر ہمارے سلطان کا حق ہے جو بادشاہی کے لباس میں بھکاری ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں پر حکومت کرنے والا ہمارا بادشاہ سب لوگوں سے زیادہ مفلس ہے۔ اُس کی نظریں دوسروں کے دسترخوان پر گڑی ہیں۔ اس کی بھوک ساری دنیا کو راکھ کرنے والی ہے۔ قحط اور طاعون اس کی تلوار کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ اُس کی تعمیر سے ایک دنیا ویرانہ بن چکی ہے۔ اس کی غربت، مفلسی اور کمزوروں پر ظلم سے عوام فریاد کرتے ہیں۔ اس کی شان و شوکت دنیا والوں کی دشمن ہے۔ بنی نوعِ انساں ایک قافلہ اور وہ لٹیرا ہے۔ اپنے خودفریب تخیل اور کچی سوچ کی وجہ سے وہ لوٹ مار کو فتح کا نام دیتا ہے۔ اس کی تلوار سے اس کا اپنا لشکر بھی اور دشمن کی فوج بھی دو ٹکڑے ہو جاتی ہے۔ فقیر کی بھوک صرف اُس کی جان کے لیے آگ ہے۔ بادشاہ کی بھوک ملک اور قوم کو فنا کر دیتی ہے۔ جس نے بھی غیراللہ کے لیے اپنا خنجر نکالا اُس کا پھل اپنے ہی سینے میں اُترا۔ حفاظتی معاہدے حفاظت کے خیال سے کیے جاتے تھے مگر یورپی ریاستوں نے ایسے معاہدے کر رکھے تھے کہ دو چھوٹی سی ریاستوں کی جھڑپ نے پورے یورپ کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تھا۔ ساتھ ہی باقی دنیا بھی برباد ہو رہی تھی۔ میاں میر کے حوالے سے اقبال نے جو بات لکھی تھی اُس کے معانی بہت وسیع تھے۔ ۸۲ شیطان نے لیڈر سے کہا، مجھے خوشی ہے کہ تمہارے روز و شب ہوس میں گزرتے ہیں۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے مگر میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی تم صدرِ محفل رہو گے۔ جہنم والوں کی سرداری بھی تمہیں عطا کر دی گئی ہے! پانچ اشعار کے فارسی قطعے میں یہ چھوٹی سی حکایت جسے اقبال نے غالباً کہیں شائع نہیں کروایا، اُس کردار کی آمد تھی جسے بعد میں اُن کی شاعری میں نمایاں حیثیت حاصل ہونی تھی۔ ابلیس کے بارے میں منصور حلاج نے بھی بہت کچھ لکھا تھا۔۷۰ ۸۳ اقبال شملہ میں تھے جب سیالکوٹ سے اطلاع ملی کہ اِمام بی بی کی طبیعت بگڑی ہے۔ وہاں پہنچے۔ عید سیالکوٹ ہی میں گزری۔ کشن پرشاد کی طرف سے بھیجا ہوا عیدمبارک کا تار ملا جو لاہور کے پتے سے ری ڈائرکٹ کیا گیا تھا۔ جوابی خط لکھا مگر اُس کا جواب نہیں آیا۔ ۸۴ سیالکوٹ میں عبدالحکیم سیالکوٹی کے مزار پر ضرور جاتے تھے جس کے برابر شاہجہاں کے زمانے کا تالاب تھا۔ مولوی سید میر حسن سے بھی ملاقات ہوئی ہو گی جنہیں سب شاہ جی کہتے تھے۔ مثنوی کا ذکر بھی کیا ہو گا۔ ’’[اقبال] بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بھی جب کبھی شاہ صاحب سے ملاقات کے لیے آتے تو دوزانو ہو کر بڑے باادب اُن کی خدمت میں بیٹھتے اور انتہائی توجہ کے ساتھ اُن کی نصیحتیں سنتے،‘‘ اقبال کے اسکول کے زمانے کے ساتھی پروفیسر محمد دین بھٹی نے بعد میں کہا۔ ’’اگر شاہ صاحب کوئی سوال کرتے تو اُس کا مختصر ترین جواب دے کر شاہ صاحب کو گفتگو کا زیاہ موقع دیتے۔‘‘۷۱ شاہ جی اب ستر برس کے ہو چکے تھے مگر صحت برقرار تھی۔ ہر صبح اپنے والدین اور اُس بہن کی قبر پر جاتے جس سے وعدہ کیا تھا کہ ہر روز قبر پر آیا کریں گے۔ جمعرات کے روز مرحوم دوستوں کی قبر پر بھی جاتے جن میں شیخ اللہ داد شامل تھے۔۷۲ کالج میں بدستور عربی پڑھا رہے تھے۔ گھر سے نکلتے تو مختلف فاصلوں پر شاگردوں کے ٹولے کھڑے ہوتے جو راستے میں باری باری درس لیتے جاتے۔ ’’بعض اوقات جب کوئی شعر بہ طور نظیر پڑھنا ہوتا تو چلتے چلتے ٹھہر جاتے اور شعر پڑھتے،‘‘ ان کے شاگرد مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کا بیان ہے۔ شہر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بازار سے گزرے۔ کوئی شخص سبزی فروش کو کھوٹا روپیہ دینے پر مصر تھا کہ اپنے پاس سے گھڑ کر تو نہیں لایا ہے۔ سبزی فروش نے کہا، ’’اچھا مولوی صاحب سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ شاہ جی نے روپے والے سے کہا، ’’یہ روپیہ آپ کی غفلت سے آپ کے پاس آیا۔ آپ کو دیکھ کر لینا چاہیے تھا۔ اب آپ اسے دانستہ دوسرے کو دینا چاہتے ہیں، یہ گناہ ہے۔‘‘۷۳ شاہ جی کے ایک شاگرد ظفر اقبال لاہور سے آئے۔ ان کے اُستاد نے کسی طالب علم کی سفارش کی تھی کہ اچھے نمبر دیے جائیں۔ شاہ جی نے فرمایا، ’’یہ لوگ دین اور دنیا کو الگ سمجھتے ہیں۔ اُن سے کہہ دیجیے کہ پیغام مل گیا ہے، میں خوب غور کروں گا۔ پھر پرچہ دیکھوں گا۔ اگر گنجائش ہوئی تو ضرور نمبر دوں گا۔ لیکن مولانا رُوم کے قول کے مطابق لقمہ ہی دیا جا سکتا ہے، حلق بنا کر نہیں دیا جا سکتا۔ یونیورسٹی سے جو ہمارا معاہدہ ہے اُس کی پابندی نہ ہو تو جو کچھ ملتا ہے وہ حلال نہ رہے، حرام ہو جائے۔‘‘ ۷۴ اِنہی ظفر اقبال نے مسجد سے نکل کر احتراماً شاہ جی کا جوتا اٹھا لیا اور لے کر چلے کہ مسجد کے باہر انہیں پہنا دیں تو شاہ جی نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’یہ میرا جوتا ہے۔‘‘ کسی کا معمولی احسان بھی گوارا نہ تھا۔ منجھلے لڑکے سید محمد تقی اکثر کہتے کہ ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ سابقہ شاگرد جمشید راٹھور نے تائید کی تو شاہ جی نے ہاتھ اوپر اٹھایا اور کہا، ’’میں اس ہاتھ کو اوپر رکھنا چاہتا ہوں۔ میری آرزو ہے کہ یہ اِسی طرح رہے۔ نیچے نہ ہو اور کسی کے سامنے نہ پھیلے۔‘‘۷۵ ۸۵ اعجاز احمد نے گھر میں سن رکھا تھا کہ میاں جی یعنی شیخ نور محمد کو اسمِ اعظم معلوم ہے جو اُنہوں نے اقبال کو سکھا دیا ہے۔ اعجاز سے روایت ہے کہ اقبال سیالکوٹ آئے تو اعجاز نے پاؤں دباتے ہوئے پوچھ لیا۔ اقبال نے کہا، ’’یہ بات تم میاں جی ہی سے پوچھنا۔‘‘ میاں جی سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا، ’’مجھے جادو منتر اور ٹونے ٹوٹکے جیسا کوئی اسمِ اعظم معلوم نہیں ہے کہ اُس کے پڑھتے ہی کچھ سے کچھ ہو جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے دعا مشکلوں کو حل کرتی ہے۔ اِس لیے دعا ہی اسمِ اعظم ہے۔۔۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی اچھی صفات ہیں، جن کے ذریعے سے اُس سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ مثلاً صحت کے لیے ’’یا شافی‘‘۔ رزق کی کشائش کے لیے ’’یا رزّاق‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی اسمائے حسنہ پکارنے سے مشکلیں حل ہوتی ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ الفاظ صرف زبان ہی سے نہیں، دل سے بھی نکلیں۔ اور دل اللہ تعالیٰ کی اُس صفت پر یقین بھی رکھتا ہو۔۔۔ قبولیتِ دعا کا ایک نسخہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر دعا سے قبل اور بعد حضور سرورِ کائناتؐ پر درود بھیجیں۔ کیونکہ درود سے بڑھ کر اور کوئی ’اسمِ اعظم‘ نہیں اور تمہارے چچا کو میں نے اسی ’اسمِ اعظم‘ کی تلقین کی ہے۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر میاں جی نے اعجاز سے کہا، ’’اسمأ الٰہی میں یا حی یا قیوم کا ورد بکثرت کرنا چاہیے۔ اقبال کو بھی میں نے اسی کی تاکید کی ہے۔‘‘۷۶ ۸۶ شیخ عطا محمد نے ڈاکٹر میر حیدر کی دکان پر لال سوداگر کو دیکھا۔ نام تو اُن کا بھی حیدر ہی تھا لیکن بے جی نے انہیں مذاقاً یہ نام دیا ہوا تھا کیونکہ مہینوں کے لیے شہر سے غائب ہو جاتے اور مشہور تھا کہ جواہرات کی تجارت کے لیے ریاستوں میں جاتے ہیں لیکن مالی حالت کچھ زیادہ نہیں تھی۔غالباً میاں جی کی کسی خالہ کے ناطے دُور کے رشتہ دار تھے۔ شیعہ تھے۔ محرم کے دنوں میں تعزیہ اور ذوالجناح کے جلوس کے ساتھ پروقار انداز میں آہستہ آہستہ سینہ کوبی کرتے تھے۔ اس وقت کہہ رہے تھے کہ اقبال تفضیلی عقیدہ رکھتا ہے: ہے اُس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی اُس رات میاں جی، شیخ عطا محمد اور اقبال چھت پر اپنے اپنے بستر پر لیٹے، اور اعجاز احمد اور دوسرے لڑکوں نے اُنہیں مٹھیاں بھرنے کی ذمہ داری سنبھالی تو شیخ عطا محمد نے لال سوداگر کی بات دہرائی۔ اعجاز کا بیان ہے، ’’چچا جان نے کہا لال سوداگر کو ممکن ہے جواہرات کی پرکھ ہو لیکن معلوم ہوتا ہے شعر کی سمجھ بالکل نہیں۔ اگر ہوتی تو سمجھ جاتے کہ اِس شعر میں بلکہ نظم کے اِس حصہ میں جس میں یہ شعر ہے، میں نے اپنے متعلق دوسروں کے خیالات بیان کیے ہیں نہ کہ اپنے۔ مزید کہا کہ رسولِ مقبولؐ کے اہلِ بیت کے ساتھ محبت تو ہر مسلمان کا جزوِ ایمان ہونا چاہیے اور مجھے اُن سے محبت میں شدّت کا بھی اعتراف ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ خلفائے راشدین میں ایک کو دوسرے پر فضیلت کا عقیدہ رکھوں۔‘‘۷۷ ۸۷ اعجاز کا بیان ہے کہ اس برس رات کی مجلسوں میں فارسی مثنوی کا تذکرہ ہوتا رہا جسے اقبال اُن دنوں لکھ رہے تھے۔ عجمی تصوف اور ایرانی شعرأ پر تنقید کرتے تھے کہ انہوں نے شعائرِ اسلامی پر چوٹیں کی ہیں۔۷۸ ۸۸ سیالکوٹ سے گھر کی خواتین کے ساتھ ہی واپس آئے ہوں گے۔ ’’اگر کبھی چچی جان اور میں بھی ان کے ہمراہ ہوتیں تو اُن کی پریشانی دیدنی ہوتی،‘‘ وسیمہ نے بعد میں بتایا۔ ’’یوں محسوس ہوتا کہ اُن کے ساتھ کوئی بہت بڑا خزانہ ہے جس پر ڈاکا پڑ جانے کا ڈَر اُنہیں چَین نہیں لینے دے رہا۔‘‘۷۹ ۸۹ لاہور واپس آکر ۲۸ اگست کو کشن پرشاد کے نام جواب لکھا جس میں اُس خط کا ذکر کیا جو کچھ دن پہلے لکھا تھا مگر جس کا جواب نہیں آیا تھا۔ ’’یورپ میں ایک خوفناک جنگ ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’کیا عجب کہ یہ وہی جنگ ہو جس کا ذکر پرانی کتبِ مقدّسہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو امن نصیب کرے اور اہل دنیا کو توفیق دے کہ وہ مادیات سے مغلوب ہو کر روحانیت سے غافل نہ ہو جائیں۔‘‘ جرمنی سے جنگ کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ ایما کو خط نہیں لکھ سکتے تھے۔ ۹۰ جہاں بانی کے تحت جو شعر لکھے تھے وہ اپنی خودی سے واقف ہونے والے شخص کی خصوصیات تھیں۔ اب کچھ خیالات جو مدت سے ذہن میں آوارہ تھے ‘تعلی مردِ خود آگاہ‘ کے باب میں ڈھل گئے۔ سوچا کہ یہ خودی سے واقف ہونے والے شخص کا ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب ہو گا [ترجمہ]:۸۰ کیا تم جلال الدین رومی کے قصے سے واقف ہو جو حلب میں درس دیا کرتے تھے؟ ان کے پاؤں میں عقلی دلائل کی زنجیر تھی، کشتی عقل کے ظلمات میں پھنسی ہوئی تھی، موسیٰ تھے مگر عشق کے طورِ سینا سے بیگانے، عشق اور اُس کے جنون سے بیخبر تھے۔ تشکیک اور اشراق پر درس دیتے اور فلسفے کے موتی پروتے تھے، مشائیں کے اقوال کی گتھیاں سلجھاتے اورفکر ہر چھپے ہوئے نکتے کو واضح کرتی۔ اردگرد کتابوں کے ڈھیر اور زبان پر کتابوں کے اسرار کی شرحیں رہتی تھیں۔ حضرت شیخ کمال الدین جنیدی کے حکم پر پیرِ تبریز، جلال الدین کے مکتب کی طرف روانہ ہوئے۔ فرمایا، ’’یہ شور اور قیل و قال کیا ہے؟ یہ قیاس، وہم اور استدلال کیسا ہے؟‘‘ ملا جلال نے کہا، ’’نادان، خاموش رہو! دانشوروں کے مقالات کا مذاق مت اڑاؤ۔ میرے مکتب سے باہر نکل جاؤ۔ اس قیل و قال سے تمہیں کیا کام! ہماری گفتگو جو تمہاری سمجھ سے بلند ہے، ذہن کے شیشے کو روشن کرتی ہے!‘‘ ملّا جلال کی گفتگو نے شمس تبریز کے سوز میں اضافہ کیا اور اُن کی روح کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کی نگاہ کی بجلی زمین پر گری تو اس کی حرارت سے مٹی شعلہ بن گئی، دل کی آگ نے شعور کے آشیاں کو جلا ڈالا۔ اُس فلسفی کی کتاب جل کر خاک ہو گئی! وہ جو عشق کے اعجاز سے بیگانہ اور اس کے ساز کے نغموں سے ناواقف تھے، بولے، ’’یہ آگ کہاں سے بھڑکی ہے جس نے فلسفیوں کی کتابیں خاک کر ڈالی ہیں۔‘‘ شیخ نے فرمایا، ’’اے زنار باندھنے والے مسلمان! یہ ذوق اور حال کی باتیں ہیں، تمہیں ان سے کیا کام! ہمارا حال تمہاری فکر سے بلند ہے کہ ہمارا شعلہ تانبے کو سونا بنانے والی سرخ کیمیا ہے!‘‘ تم نے فلسفے کی برف کو اپنا سرمایہ بنایا ہے اس لیے تمہاری سوچ کے بادل سے صرف اولے برستے ہیں، اپنے خس و خاشاک سے آگ روشن کرو، اپنی مٹی سے شعلہ تخلیق کرو۔ مسلمان کا علم سوزِ دل سے تکمیل پاتا ہے کہ اسلام کا مطلب ہر غروب ہونے والی چیز کو چھوڑنا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غروب ہونے والوں کی قید سے آزادی پائی تو پھر آگ کے شعلوں میں بھی محفوظ رہے۔ ۹۱ دیکھئے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک شیشۂ دیں کے عوض جام و سبو لیتا ہے ہے مداوائے جنوں نشترِ تعلیمِ جدید میرا سرجن رگِ ملّت سے لہو لیتا ہے۸۱ ۹۲ دونوں بیویاں باری باری بیمار ہو گئیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بار پھر سیالکوٹ جانا پڑا۔ ۳ ستمبر کو بیویوں کی طبیعت بہتر ہوئی تو واپس آئے۔۸۲ ۹۳ حیدرآباد دکن سے کشن پرشاد کی نگرانی میں کوئی رسالہ تزکِ عثمانیہ جاری ہوا تھا۔ ۵ ستمبر کو کشن پرشاد کے خط کے ساتھ اقبال کو موصول ہوا۔اقبال نے رسالے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اس کی سرپرستی میں نکل رہا ہے جو سارے ہندوستان میں فن کی پرورش کرنے کے لیے مشہور ہے ، جس کے شعر سمجھنے اور شعر کہنے کے ذوق کو علمی دنیا تسلیم کر چکی ہے مگر رسالہ اتنا مختصر نہیں ہونا چاہئے۔ ’’کوشش ہو کہ حیدرآباد کے علمی حلقوں میں اس کی وساطت سے جدید مذاق پیدا ہو اور نئی پود کے ہونہار لکھنے والے وہاں کی پبلک سے اور علی العموم ہندوستان کی پبلک سے روشناس ہو جائیں۔ پالٹیکس سے اسے مطلق سروکار نہ ہو، محض ادبی رسالہ ہو۔‘‘ اکبرؔ کے رنگ میں کہے ہوئے دو نوں اشعار بھی خط میں درج کیے۔۸۳ ۹۴ ۶ ستمبر کو ایک مقدمے کے سلسلے میں پٹیالہ گئے ۔ اگلے روز امیر خسرو کے عرس پر دہلی پہنچے۔ خیال تھا کہ گوالیار کے راجہ کی توجہ حاصل ہو سکتی ہے مگر وہ یورپ کے سفر کی تیاریوںمیں مصروف تھے۔ گوالیار کے سفر کا ارادہ ترک کر دیا یا اگر گئے تو ناکام پھرے۔۸۴ ۹۵ دہلی کے کوچہ چیلان کی ایک شاندار عمارت میں محمد علی کا دفتر تھا جہاں سے وہ ہمدرد اور کامریڈ نکالا کرتے تھے۔ ’’ڈرائنگ روم کچھ انگریزی اور کچھ ترکی وضع کے بیش قیمت فرنیچر سے آراستہ،‘‘ ایک ملاقاتی کا بیان ہے۔ ’’کوچ اور کرسیاں، گدے اور قالین، اور دیوار تصویروں سے مرصع۔‘‘ موسیقی کی طرح مصوری سے بھی محمد علی کو خاص دلچسپی تھی اس لیے دیواروں پر مغربی مصوروں کے شاہکار ٹنگے تھے۔ البتہ سڑک پار کے اوسط درجے کے مکان میں اپنی قیام گاہ سادہ اور اسلامی طرز پر سجائی تھی۔۸۵ ’’لندن ٹائمز نے ’چوائس آف دی ٹرکس‘ (ترکوں کی پسند) کے عنوان سے ایک مقالہ افتتاحیہ شائع کیا جس میں ترکوں کو اچھی خاصی دھمکی دی گئی تھی،‘‘ محمد علی نے ۱۴ برس بعد لکھا۔ ’’میں نے جب اس مضمون کو پڑھا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ترک اس قدر تلخ و ترش لہجے میں لکھے ہوئے مضمون کو پڑھ کر برطانیہ کے خلاف جنگ پر آمادہ نہ ہو جائیں اور چونکہ میں اس جنگِ عمومی میں ترکوں کی شرکت کو ترکوں اور عام طور پر مسلمانوں اور بالخصوص مسلمانانِ ہندوستان کے لیے مضر سمجھتا تھا، اس لیے میں مجبور ہو گیا کہ ایک بار پھر کوشش کروں کہ ترکوں کو اِس جنگ میں شرکت سے باز رکھوں۔۔۔ اس کے باعث ۲۶ ستمبر ۱۹۱۴ء کا کامریڈ اس تاریخ کے کئی دن بعد ہی نکل سکا مگر میں نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔‘‘ مسلسل چالیس گھنٹوں میں لکھا ہوا انگریزی مضمون اُنیس کالموں پرپھیل گیا۔ تعارف کے بعد پندرہ حصے تھے: اسٹراسبرگ اور سالونیکا۔ سالونیکا کیا کہتا ہے؟۔ ترکی کا ’’ریخ لینڈ‘‘۔ ترکوں کے لیے موقع۔ تنبیہ کرنے والے۔ ترک اور رُوس۔ ترک اور فرانس۔ ترکی، انگلستان اور مصر۔ قانون اور اخلاقیات کا ایک مسئلہ۔ ترکوں کو کیا کرنا چاہیے؟۔ احتیاط۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ انگلستان کو کیا کرنا چاہیے؟۔ ضمیر اور جرأت کا امتحان۔ رشوت کی ضرورت نہیں! The Choice of the Turks By Muhammad Ali, Editor Comrade Caution We are not unappreciative of the temptations and trials of the Turks; but even here a word of caution must be uttered. They must not be lured by the blandishments of those opposed to England and her Allies. They must remember that "War is Deceit." We desire from the bottom of our heart that this may be the last of the wars, and that human intelligence and human sense of justice may never know such constantly recurring eclipses. But we are bound to admit that as things are today there are some things worse than war. We shall not, therefore, pretend to believe that the Turks must have peace at any price. They must beware of entering into a quarrel, but once in it they must not come out of it till the claims both of honor and self-interest are satisfied. God knows they will have enough occasions to fight, for they have to contend against numerous army corps of prejudice and passion. That is all the more reason that they should fight only their own battles and not those of another. At present the fear is that they may be led into the firing line in a quarrel only outwardly their own. The Turks are not wanting in gratitude. In fact, few nations could equal the Turk in those characteristics which have extorted for him even from his enemies the title of "The Only Gentleman in Eastern Europe." To quote the old Arab saying mentioned by Gibbon, their women know not how to grant favors and their men know not how to refuse. Every Indian whom we know who has had any relations with them is loud in praises of their courtesy, which is as natural to the peasant as to the prince. But if courtesy is one of their qualities, they also possess the defects of that great quality. In matters of business they are imposed upon, and often imposed upon knowing that they are being imposed upon. Now nothing is a more serious business than war in which a nation can destroy in a month in the way of life, energies and resources what it had taken a generation to build. The Turk knows not what fear is, but life can be valueless only to those in the lowest scale of humanity. It is a rich treasure and a divine gift which we are not permitted by our Maker to squander. We must learn in war even more than in peace the importance and value of economy in human life. As regards material resources the Turks have never had even so much as could balance their peace requirements. All these considerations point in the way in the direction of peace. This is not all. Almost every other great nation of Europe has had peace for a generation or more. Even Russia with her immense resources did not find herself equal to a second world war three years after her first in which she had to fight only a small island kingdom. She has launched this new enterprise no less than a decade after her last war. France, Austria and Germany have each enjoyed nearly half a century of peace. England has not fought in a continental war for a century, and her little war against two little peasant states of South Africa, which was enough to prostrate her for many years after, was fought no less than fifteen years ago. Servia [Serbia] and Montenegro alone are fighting soon after their last war. But only a child could believe that they are paying their own way. Turkey must therefore proclaim a moratorium against her warlike instincts and her clamant revenge. But if she cannot do so, and must enter this terrible business, let her make sure that the quarrel is her own, that her good nature and courtesy are not being imposed upon, and that she is not hatching a cuckoo's egg believing all the time that it is her own. ۹۶ ’’ماہِ صیام میں بڑا اہتمام کیا جاتا تھا،‘‘ وسیمہ مبارک نے بعد میں یاد کیا۔ ’’چچی جان [سردار بیگم] بڑی پکی روزہ دار تھیں، خواہ کچھ بھی ہو روزہ کبھی قضا نہ کرتیں۔‘‘۸۶ ۹۷ ۲ اکتوبر کو کشن پرشاد کی طرف سے ریاست پٹیالہ کے سکھوں کے کسی مسئلے پرایک خط کے اردو اور انگریزی مسودے موصول ہوئے۔ ہدایت تھی کہ اقبال نہیں لے کر سردار گورنام سنگھ کے پاس جائیں۔ کوئی افسر رہے ہوں گے۔ ’’اگر سردار گورنام سنگھ صاحب سے آپ کا تعارف نہیں ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ آپ کی طرف سے میرا یہ خط لے کر جانا غیرموزوں اور بعید از مصلحت ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ مشورہ دیا کہ کشن پرشاد اپنے خیالات شائع کرواکر اس کی کاپیاں سردار گورنام سنگھ ، لالہ چمن لال صاحب جوڈیشل سیکرٹری ریاست اور مہاراجہ پٹیالہ کے پاس بھیجیں۔ ’’علاوہ اس کے عام طور پر اخباروں میں بھی اس مضمون کی اشاعت ہو جائے تو بہتر ہے۔ اس سے سکھ پبلک اور امرائے ریاست پٹیالہ کو آپ کے خیالات کا علم ہو جائے گا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے کسی مجذوب کو اقبال اور کشن پرشاد ’’اللہ اکبر‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اقبال نے لکھا کہ وہ کئی دن سے نظر نہیں آئے۔ ۸۷ آیندہ کشن پرشاد کے نام اقبال کے خطوط میں روحانی حوالوں اور مجذوبوں کے تذکرے کی بھرمار رہی۔ بعض حوالے ایسے تھے کہ آج انہیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے روحانی استعاروں کی آڑ میں سیاسی اُتار چڑھاؤ بالخصوص ریاست حیدرآباد سے وابستہ کشن پرشاد کے معاملات کے بارے میں خفیہ اشاروں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ بعید از قیاس نہیں۔ ۹۸ اکتوبر کے آغاز میں عدالتیں دوبارہ کھل گئیں۔ سر اکبر حیدری اقبال کو حیدرآباد بلا رہے تھے۔ کام میں حرج اور سفر کے اخراجات کے خیال سے نہ جا سکے۔۸۸ ۹۹ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس کی فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاس میں بورڈ کے صدر جسٹس شاہ دین ہمایوں، پروفیسر کے ایم مترا، مولوی محمد حسین اور ڈاکٹر عظیم الدین کے ساتھ اقبال بھی شریک تھے۔ کنوینر تھے۔ انگریزی میں کاروائی انہی نے لکھی ہو گی اگرچہ دستخط نہ ہوئے: ۱ بورڈ نے ۱۹۱۷ء کے نصابات پر غور کیا۔ مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئیں: آرٹس کے امتحانات: ۱ میٹرک: (ا) عربی پہلے کی طرح۔ (ب) فارسی پرانے کی جگہ نیا نصاب۔ (ج) اُردو: (۱) نظرِ ثانی شدہ اُردو نصاب؛ (۲) منہاجِ قواعد۔ (د) پشتو جیساکہ پہلے تھا۔ ۲ انٹرمیڈیٹ: (ا) عربی، فارسی- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) [اُردو] (ا) مراۃ العروس از مولوی نذیر احمد؛ (۲) رباعیاتِ حالی۔ ۳ بی۔اے (ا) عربی عام اور امتیازی جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) فارسی عام اخلاقِ جلالی کی جگہ انٹروڈکشن ٹو پرشین لٹریچر از جے واعظ لال، امتیازی-جیسا کہ پہلے تھا۔ ۴ ایم۔اے: (ا) پرچہ پہلا، تیسرا اور چھٹا- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) دوسرا پرچہ تفسیرِ جلالین کی جگہ تفسیرِ بیضاوی۔ سورۂ بقرہ (ج) چوتھا پرچہ۔ فلسفۃاللغویہ کی جگہ گرامر آف سیمیٹک لینگویج از رائٹ۔(د) پانچواں پرچہ-الدّرالمنثور کی جگہ الشعر والشعرا از ابن قتیبہ ڈی گوجر ایڈیشن صفحہ ۱۵۰-۱ مشرقی علوم کے امتحانات عربی: (ا) مولوی- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) مولوی عالم -جیسا کہ پہلے تھا۔ (ج) مولوی فاضل- پہلا پرچہ ادب (۱) مقاماتِ حریری، پہلے ۲۵ مقامات؛ (۲) تفسیرِ بیضاوی سورۂ بقرہ کو دیوانِ حالی کی جگہ رکھیں۔۸۹ کشن پرشاد نے اقبال کو لکھا تھا کہ اپنی روحانی قوت سے اُنہیں لاہور کھینچ لیں۔پنجاب کے بزرگوں سے فیض اٹھانا چاہتے تھے۔ اُس روزجواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ ُروحانی قوت کا سرچشمہ تو کشن پرشاد خود ہیں۔ یہ قوت اسی کے پاس ہو سکتی ہے جو اَمارت میں درویشی کرتا ہو۔۹۰ ۱۰۰ غالباً لاہور کے کوئی مجذوب ’’سائیں رب‘‘ نام کے بھی تھے جنہیں کشن پرشاد نے اقبال کے ہاتھ پیغام بھجوایا۔ اُنہوں نے جواب میں قرآنی آیت کا وہ ٹکڑا پڑھا جس کا مطلب ہے کہ مایوس مت ہو، لاتقنطو۱۔۹۱ ۱۰۱ کشن پرشاد کی طرف سے عید کی مبارک باد کا تار اور اُس کے بعد منظوم عیدکارڈ ملا۔ اقبال جواب نہ دے سکے۔۹۲ ۱۰۲ ۲۹ اکتوبر کو رمضان کی آخری تاریخ تھی۔ عثمانی بحری بیڑا کسی اعلان جنگ کے بغیر روسی بندرگاہوں پر پہنچا اور کئی جہاز تباہ کر دیے۔ عثمانی سلطنت نے اپنے وزیرِ اعظم سعید حلیم پاشا کو بھی خبر نہیں دی تھی۔ اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اِس نازک وقت میں ان سے زیادہ قابل ِاعتماد کوئی نہ تھا۔ سلطان کے اصرار پر استعفیٰ واپس لینا پڑا۔ رُوس سے معذرت کر کے اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا وعدہ کیا گیا۔ ۲ نومبر کو اُس نے عثمانی سلطنت کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۱۰۳ ۳ نومبر کو برطانیہ اور عثمانی سلطنت کے درمیان جنگ کا باقاعدہ اعلان ہو گیا۔ اُس روز ہندوستان میں کامریڈ اور ہمدرد کی ضمانت ضبط ہوئی اور کامریڈ بند کر دیا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے قیدخانے کی دعا مانگی تھی۔ محمد علی کے حق میں اُن کا ۲۶ ستمبر والا اِداریہ ’چوائس آف دی ٹرکس‘ ایسی ہی دُعا ثابت ہوا۔ اخبار کی ضمانت کے سلسلے میں لاہور آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں اپنے بھائی شوکت علی سمیت اقبال کے گھر ہی ٹھہرتے تھے۔ ’’کامریڈ کی ضمانت کے مقدمے میں جب مجھے متعدد مرتبہ لاہور جانا پڑا تو میں نے اُن کی زبان سے اُن کی مثنوی کے بعض حصے سنے تھے جب کہ وہ لکھی جا رہی تھی،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ اُس وقت نہیں جانتے تھے کہ مقدموں کا سلسلہ اگلے برس طویل نظربندی پر ختم ہوگا۔۹۳ رہرو تھا راہِ عشق کا منزل کو پا لیا اب اور کیا نشاں مری لوحِ مزار دے ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے محمد علی ’’جوہرؔ‘‘ ۱۰۴ انگلستان میں بائیں بازو کے ہفتہ وار نیو اسٹیٹسمین (New Statesman)کے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ محمد علی نے بغاوت کی نہیں بلکہ حکومت سے وفاداری کی ترغیب دی تھی۔ ’’جب سے جنگِ عمومی چھڑی تھی اُس وقت سے کامریڈ کے تمام پرچوں کو لفظ بہ لفظ پڑھ کر میری ایسی تعریف کی تھی اور حکومت کو اِس طرح لتاڑا تھا کہ کامریڈ کا بند کیا جانا بھی کچھ زیادہ محسوس نہ ہوا،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’حقیقتاً یہ تبصرہ کرنے والا برطانیہ کا ایک مشہور صحیفہ نگار میرے خیالات کو بھی خوب سمجھ گیا تھا۔ صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے، ملک و ملت کی خدمت ہے۔‘‘ ۱۰۵ پچھلے برس حسن نظامی نے اپنے رسالے میں اقبال کی مثنوی کے کچھ اشعار شائع کرتے ہوئے اس کا عنوان ’اسرارِ خودی‘ تجویز کیا تھا۔ شیخ عبدالقادر نے اسرارِ حیات، پیامِ نو، آئینِ نو اور پیامِ سروش تجویز کیے۔ آخری نام اقبال کو زیادہ پسند آیا۔ خواجہ حافظؔشیرازی کے شعر سے ماخوذ تھا: بجز ثنائے جلالش مساز وردِ ضمیر کہ ہست گوشِ دلش محرمِ پیامِ سروش غالبؔ نے بھی شائد اِسی شعر کو ذہن میں رکھ کر کہا تھا: آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے ۱۰۶ بے جی یعنی اقبال کی والدہ امام بی بی کی طبیعت نازک تھی۔ نومبر کے شروع میں کسی وقت گھر کا انتظام بڑی بہو یعنی شیخ عطامحمد کی بیوی مہتاب بیگم کے سپرد کیا جنہیں سب اقبال کے دیے ہوئے لقب ’’بھابھی جی‘‘ سے پکارتے تھے۔ لکڑی کا صندوق جس میں اپنی قیمتی چیزیں رکھتی تھیں اُس کی چابی بھی انہی کے سپرد کی۔ ۹ نومبر کو فوت ہو گئیں۔ ’’بے جی کی وفات کے دن کے واقعات اب تک آنکھوں کے سامنے ہیں،‘‘ قریباً ستر سال بعد اعجاز احمد نے لکھا۔ ’’بے جی کا جسدِ بیجان میاں جی [شیخ نور محمد] کے ہاتھوں تیار کیے ہوئے کفن میں لپٹا ہوا بڑے کمرے میں ایک چارپائی پر رکھا ہے۔ گھر میں مستورات کا ہجوم ہے۔ میاں جی صبر و رضا کا نقشہ بنے مستورات کو جزع فزع کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ ابا جان اپنے کمرے میں بچوں کی طرح رو رہے ہیں۔ چچا جان حزن و ملال لیکن ضبط و تحمل کی تصویر بنے انہیں تسلیاں دے رہے ہیں۔ رخصت کا وقت آ گیا ہے۔ بے جی کے جواں سال عزیز نعش کو اُٹھا کر گھر سے باہر لے جانے کے لیے اندر آگئے ہیں۔ ایک کہرام بپا ہو گیا ہے۔ بے جی کی بیٹیاں اور بہوئیں شدتِ غم سے بے حال میاں جی کے ڈر سے بے آواز آنسو بہا رہی ہیں اور حسرت سے اس پیارے چہرے کو دیکھ رہی ہیں جو پھر کبھی نظر نہ آئے گا۔ بے جی کی منہ بولی بیٹیاں نعش سے لپٹی جا رہی ہیں اور اِس ہنگامے میں پندرہ سولہ سال کا ایک دُبلا پتلا لڑکا جسے بے جی نے ڈھیروں پیار دیا تھا، اُن کے قدموں سے لپٹا بلک رہا ہے۔ جیسے وہ اُنہیں گھر سے جانے نہ دے گا۔‘‘۹۴ ۱۰۷ ۱۱ نومبر کو بے جی کا سوئم تھا۔ اقبال نے کشن پرشاد کو خط لکھ کر عیدکارڈ وغیرہ کے موصول ہونے کی خبر دی، ’’مگر امسال میرے لیے عید محرم کا حکم رکھتی تھی۔ ‘‘سائیں رب کا پیغام دینے کا پہلے موقع نہ ملا تھا۔ اب خط میں ذکر کیا۔۹۵ اُس روز استنبول میں عثمانی ریاست کی طرف سے اتحادی طاقتوں کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ ۱۰۸ نوجوان عبدالمجید سالک تعزیت کے لیے آئے۔ ’’[اقبال] دیر تک مرحومہ کی خوبیاں بیان کر کے آبدیدہ ہوتے رہے،‘‘ سالک کا بیان ہے۔ ’’فرمانے لگے: جب میں سیالکوٹ جاتا تھا اور والدہ شگفتہ ہو کر فرماتی تھیں ’میرا بالی آ گیا‘ تو میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک ننھا سا بچہ سمجھنے لگتا۔ افسوس شباب میں یہ لمحۂ طفلی اب کبھی نصیب نہ ہو گا۔‘‘۹۶ ۱۰۹ اخبارشیرِ پنجاب نے کشن پرشاد کی پریم پچیسی پر اداریہ لکھا جو شاید اقبال کی نظر سے بھی گزرا۔۹۷ ۱۱۰ لندن میں محسوس کیا جانے لگا تھا کہ جنگ جلد ختم نہ ہو گی۔ یورپ میں خندقوں کا جال بچھا تھا۔ دونوں طرف کے سپاہی اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے کے تھک جانے کا انتظار کرتے۔ اگلے وقتوں کے قلعے آسمانوں کی طرف سر اُٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ نئے زمانے کے قلعے زمیں دوز تھے۔ سمندروں کی حکمراں برطانیہ کی شاہی بحریہ تھی۔ اُس کے لیے جرمنوں نے نیا خطرہ پیداکیا۔ آبدوزوں نے جہاز غرق کرنے شروع کر دیے تھے۔ سوڈان کے فاتح اور ہندوستان میں برطانوی افواج کے سابق سپہ سالار، ہوریشیو کچنر نے جنگ شروع ہوتے ہی مصر میں اپنی سرگرمیوں سے توجہ ہٹا کر سیکرٹری آف وار بننا قبول کر لیا تھا۔ انگلستان کی گلیوں میں پوسٹر آویزاں تھے جن پر لارڈ کچنر انگلی اٹھائے کہہ رہا ہوتا، ’’اپنے وطن کو درکار ہو تم!‘‘ (Your country needs you) اصل میں اُس کا وطن صرف اپنے نوجوانوں کی قربانی نہیں مانگ رہا۔ محکوم ممالک سے بھی سپاہی درکار تھے۔ ان میں سب سے اہم ہندوستان تھا۔ ۱۱۱ تھکی ہوئی انگریز قوم کو طویل جنگ کے لیے ہمت دلانے والی چیزوں میں شاعری کی وہ کتاب شامل تھی جو حال ہی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا نام ۱۹۱۴ (’’1914‘‘) تھا۔ مصنف نوجوان شاعر رُوپرٹ بروک تھا : The Soldier By Rupert Brooke If I should die, think only this of me: That there's some corner of a foreign field That is for ever England. There shall be In that rich earth a richer dust concealed; A dust whom England bore, shaped, made aware, Gave, once, her flowers to love, her ways to roam, A body of England's, breathing English air, Washed by the rivers, blest by suns of home. And think, this heart, all evil shed away, A pulse in the eternal mind, no less Gives somewhere back the thoughts by England given; Her sights and sounds; dreams happy as her day; And laughter, learnt of friends; and gentleness, In hearts at peace, under an English heaven. یہ چھوٹی سی نظم وطن کی ایسی محبت کا مکمل شاہکار تھی جس کی بنیاد رُوح نہیں صرف جسم ہو۔ یورپ کی عظیم جنگ کے لیے مناسب تھی۔ ۱۱۲ لکھنؤ سے ۲۶۸ کلومیٹر مشرق کی طرف اعظم گڑھ میں گیارہ بیگہ زمین پر شبلی نعمانی کے مرحوم باپ کا وہ باغ اور دو بنگلے تھے جن سے یہ عمر بھر بھاگتے رہے تھے مگر جہاں اب دارالمصنفین بنایا تھا۔ ایک پاؤں پہلے ضائع ہوا تھا، اب صحت بھی گر چکی تھی مگر سیرۃ النبیؐ کے لیے فکرمند تھے۔ ایک جلد مکمل اور بقیہ جلدوں کے خاکے لکھ چکے۔ اس کے لیے بیگم صاحبہ بھوپال کی طرف سے دو سو روپے ماہوار کا وظیفہ نئے ادارے کی طرف منتقل کروا چکے تھے۔ چند ماہ پہلے سیرت کا دیباچہ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال میںشائع کروایا تو دیوبند کے علمائے کرام نے اُس کے خلاف مضمون چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ ۱۷ نومبر کی صبح مولانا حمید الدین اور سید سلیمان ندوی اُن کا تار ملنے پر اعظم گڑھ پہنچ کر اُن کے سامنے کھڑے تھے۔ شبلی نے نقاہت سے کہا، ’’سیرت! سیرت! سیرت!‘‘ پھر انگلی کے اِشارے سے لکھنے کا اشارہ کیا اور کہا، ’’سب کام چھوڑ کے۔‘‘ شام کو ڈاکٹر نے کہا، ’’دماغ کے سوا باقی تمام اعضا معطل ہو چکے ہیں۔ اب تدبیر بے سُود ہے۔‘‘ اگلی صبح ساڑھے آٹھ بجے شبلی فوت ہوگئے۔۹۸ ۱۱۳ اکبر الٰہ آبادی نے اقبال کی والدہ کی تاریخِ وفات ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ سے نکالی جس کے اعداد ۱۳۳۳ بنتے تھے جو امام بی بی کی وفات کا ہجری سال تھا۔ اسے نظم کر دیا: حضرتِ اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ حق آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوقِ معرفت یہ طریقِ دوستی، خوداریٔ باتمکنت اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے باخدا تھے، اہلِ دل تھے، صاحبِ اَسرار تھے جلوہ گر اُن میں انہی کا ہے یہ فیضِ تربیت ہے ثمر اُس باغ کا یہ طبعِ عالی منزلت مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں چشم تر ہے آنسوؤں سے، قلب ہے اندوہ گیں روکنا مشکل ہے آہ و زاری و فریاد کو نعمتِ عظمیٰ ہے ماں کی زندگی اولاد کو اکبرؔ اِس غم میں شریکِ حضرتِ اقبالؔ ہے سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات رحلتِ مخدومہ سے پیدا ہے تاریخِ وفات اکبرؔ الٰہ آبادی ۱۱۴ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی فارسی مثنوی اُنہی دنوں مکمل ہوئی جب دل ماں کی وفات سے افسردہ تھا۔ پہلے سے بنائے ہوئے خاکے کے مطابق آخری باب میں خدا سے خطاب کیا۔۹۹ خاتمہ و دُعا [ترجمہ] اے کہ آپ دنیا کے وجود میں جان کی طرح ہیں۔ آپ ہماری جاں ہوتے ہوئے بھی ہم سے گریز کرتے ہیں۔ زندگی کے ساز میں نغمہ آپ ہی کے فیض سے ہے۔ آپ کے راستے میں آنے والی موت پر زندگی بھی رشک کرتی ہے۔ ایک بار پھر ہمارے ناشاد دلوں کی تسکین بن جائیے۔ ایک بار پھر ہمارے سینوں میں آباد ہو جائیے۔ ایک بار پھر ہم سے ہمارے نام و نمود کی قربانی طلب کیجیے اور ہم کچے عاشقوں کو پختہ بنا دیجیے۔ ہمیں مقدر سے بہت شکوہ ہے کہ آپ کی قیمت ہماری استطاعت سے زیادہ ہے۔ ناداروں سے اپنا خوبصورت چہرہ مت چھپائیے۔ سلمانؓ اور بلالؓ جیسا عشق سستے داموں فروخت کر دیجیے۔ جن میں نیند نہ ہو وہ آنکھیں اور جسے سکون نہ ہو وہ دل عطا کیجیے۔ ایک بار پھر ہمیں پارے جیسی فطرت عطا کر دیجیے۔ اپنی روشن نشانیوں میں سے کوئی نشانی دکھائیے تاکہ دشمنوں کی گردنیں جھک جائیں۔ اس گھاس کی پتی کو آتش فشاں پہاڑ بنا دیجیے۔ ہماری آگ سے ماسواللہ کو راکھ کروا ڈالیے۔ قوم نے وحدت کا رشتہ توڑ دیا ہے اس لیے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ ہم دنیا میں ستاروں کی طرح بکھر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھی بھی ہیں اور واقف بھی نہیں ہیں۔ ان بکھرے ہوئے اوراق کی پھر شیرازہ بندی کر دیجیے۔ محبت کا دستور پھر سے جاری کر دیجیے۔ پھر وہی خدمت ہمارے سپرد کر دیجیے۔ اپنا کام اپنے عاشقوں کے سپرد کر دیجیے۔ مسافروں کو تسلیم و رضا کی منزل عطا کیجیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی قوت عطا کر دیجیے۔ لا کی دلچسپی اور الااللہ کی رمز سے عشق کو آگاہ کر دیجیے! میں جو شمع کی مانند دوسروں کے لیے جلتا اور اپنی بزم کو رونا سکھاتا ہوں، یارب! مجھے وہ آنسو عطا کیجیے جو دل کو روشن، بے قرار اور مضطرب کر کے کاہلی کو ختم کر ڈالے۔ میں اُسے باغ میں بو کر آگ کاشت کروں جو لالے کی قبا سے بھی بڑھ جائے! میرا دل ماضی کا گرویدہ اور نگاہ مستقبل پر ہے۔ میں اپنی انجمن میں تنہا ہوں۔ ’’ہر کوئی اپنے انداز میں میرا ساتھی بنا لیکن کوئی میری روح کے راز سے واقف نہ ہوا۔‘‘ یارب! دنیا میں میرا ہم راز کہاں ہے؟ میں طور کا درخت ہوں مگر میرا کلیم کہاں ہے؟ میں ظالم ہوں اور اپنے آپ پر بڑے ستم کیے ہیںمگر میں نے اپنے پہلو میں شعلے کی پرورش بھی کی ہے، وہ شعلہ جو ہوش کے سرمایے کو غارت کرنے والا ہے۔ اُس نے ہوش کے دامن میں آگ لگائی ہے، عقل کو دیوانگی سکھائی اور علم کے سرمائے کو راکھ کر دیا ہے۔ اُس کے سوز سے سورج آسمان پر پہنچا ہے اور بجلیاں ہمیشہ اُس کے طواف میں رہتی ہیں۔ میری آنکھیں شبنم کی طرح مسلسل روئی ہیں تب کہیں جا کر مجھے یہ چھپی ہوئی آگ ملی ہے۔ میں نے شمع کو کھل کر جلنا سکھایا ہے اور خود دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر جلتا رہا ہوں۔ آخر میرے ہر بن مو سے شعلے پھوٹ پڑے اور میری فکر کی رگ رگ سے آگ ٹپکنے لگی۔ میری بلبل نے چنگاریوں کو دانوں کی طرح چن کر ایک آتش مزاج نغمہ تخلیق کیا۔ میرے زمانے کے سینے میں دل نہیں ہے۔ مجنوں تڑپ رہا ہے کہ محمل خالی ہے۔ شمع کے لیے تنہا جلنا آسان نہیں مگر آہ! میرے پروانوں میں سے کوئی بھی کام کا نہیں۔ کسی غم گسار کا انتظار آخر کب تک؟ کسی رازدار کی جستجو آخر کب تک؟ اے کہ چاند ستارے آپ کے چہرے سے روشنی پاتے ہیں، میری روح سے اپنی روشنی واپس لے لیجیے! میرے سینے سے یہ امانت واپس لے لیجیے اور میرے آئینے سے یہ جوہر نکال لیجیے جو کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، یا مجھے ایک ہمدمِ دیرنہ عطا کیجیے! دنیا کو جلا دینے کے قابل میرے عشق کو آئینہ عطا کیجیے! سمندر میں موج سے موج گلے ملتی ہے کہ ساتھی کے ساتھ لہرانا ہی موج کی فطرت ہے، آسمان پر ستارہ، ستارے کا ہمراز ہے اور چاند نے شب کے زانو پر سر رکھا ہوا ہے، دن بھی سانولی رات کے پہلو میں رہتا ہے اور آج آنے والی کل سے ہم آغوش ہے، ہر ندی کا وجود کسی دوسری ندی میں اور ہوا کی موج خوشبو میں کھو جاتی ہے، ہر ویرانے کے گوشے میں رقص ہو رہا ہے، دیوانہ دیوانے کے ساتھ مل کر رقص کر رہا ہے، آپ اگرچہ اپنی ذات میں یکتا ہیں مگر آپ نے بھی تو اپنے لیے ایک دنیا سجا رکھی ہے! اور میں لالۂ صحرا کی طرح بھری محفل میں تنہا ہوں! میں آ پ کے کرم سے ایک مہربان ساتھی چاہتا ہوں جو میری فطرت کے رموز سے واقف ہو! ایک دیوانہ ساتھی جو سمجھدار ہو اور ظاہر کی فکر سے بے پروا ہو تاکہ میں اپنا جنون اُس کے حوالے کر کے اُس کے دل میں اپنا چہرہ دیکھوں، اپنی خاک سے اُس کا پیکر تراشوں۔ اُس کے لیے صنم بھی بن جاؤں اور بچاری بھی!۱۰۰ ۱۱۵ ’’اپنی خاک سے اُس کا پیکر تراشوں،‘‘ اقبال نے اپنے متوقع شاگرد کے لیے کہا جسے اپنا رہنما بھی بنانا چاہتے تھے۔ انگریز شاعر رُوپرٹ بروک چاہتا تھا کہ اُس کی مٹی کسی اجنبی سرزمین میں دفن ہو تو وہاں انگریزی تہذیب کے گُل کھلائے۔ ایک جیسی تمناؤں میں کتنا فرق تھا! ۱۱۶ مثنوی مکمل ہوئی مگر مطمئن نہ ہوئے۔ پچھلی پوری زندگی میں چار پانچ نظموں سے زیادہ فارسی میں نہ کہی تھیں۔ چاہتے تھے کسی استاد کو دکھائیں۔ گرامی لاہور آ جاتے تو بہتر تھا ورنہ لکھنؤ جا کر خواجہ عزیزالدین عزیز لکھنوی کو دکھانے کا ارادہ تھا۔۱۰۱ ۱۱۷ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوںؔ کے لڑکے میاں بشیر احمد لندن سے بیرسٹری کی سند لے کر واپس آئے تھے۔ اُن کے تایازاد بھائی میاں شاہ دین اقبال کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ ان کی بے تکلف صحبت میں میاں بشیر جیسے متین نوعمر کے لیے گنجایش نہ تھی۔ ’’جب میں نے سال دو سال بیرسٹری اختیار کرنے کی کوشش کی تو لاہور کے چیف کورٹ کے بار روم میں مجھے اکثر اقبال کو دیکھنے اور بعض دفعہ ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا،‘‘ میاں بشیر احمد کا بیان ہے۔ ’’میرے دل میں اُن کی بیحد عزت تھی۔ میں اُن کو اِتنا بڑا اور اپنے آپ کو اِتنا چھوٹا سمجھتا تھا کہ اُن سے باتیں کرنے کی بھی مجھے جرأت نہ ہوتی تھی۔ دُور ہی دُور سے دیکھ کر گویا اُن کی پرستش کیا کرتا۔‘‘۱۰۲ ۱۱۸ ۲۳ نومبر کو کشن پرشاد کا خط ملا جس میں اقبال کو والدہ کی وفات پر تسلی دی گئی تھی۔ دو نظمیں رائے لینے کو بھیجی تھیں اور سائیں رب کے بارے میں بھی رائے مانگی تھی۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء سرکارِ والا تسلیم۔ آپ کا تسلی نامہ ابھی ملا جس کے لیے میں آپ کا نہایت سپاس گزار ہوں۔ آہ! انسان اپنی کمزوری کو چھپانے میں کس قدر طاق ہے۔ بے بسی کا نام صبر رکھتا ہے اور پھر اس صبر کو اپنی ہمت اور استقلال کی طرف منسوب کرتا ہے مگر اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ’ ’موت کا انتظار ہے دنیا‘‘۔ موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں۔کیا خوب کہا ہے کسی استاد نے: ہلاک شیشۂ در خوں نشستۂ خویشم کہ آخرین نقش عذر خواہیٔ سنگ است آپ کو بھی گزشتہ ایام میں اسی قسم کے صدمات کا سامنا ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا کرے۔ گزشتہ چھ ماہ سے دل کی حالت نہایت بے اطمینانی کی ہے۔ کوئی شعر نہیں لکھ سکا ورنہ ضرور آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ ہاں فارسی مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ مطمئن ہو جاؤں تو اس کے چھپوانے کی فکر کروں۔ آپ کی دونوں نظمیں ماشأ اللہ نہایت اچھی ہیں۔ ان کو ضرور شائع کیجیے۔ پنجاب کے اخبار شیرِ پنجاب نے آپ کی پریم پچیسی پر ایک لیٹر لکھا تھا۔ امید ہے کہ ملاحظے سے گزرا ہوگا۔ خواجہ سلیم اللہ کی آمد مبارک ہو۔ لاتقنطوا کہنے والے اپنے مواعید کے سچے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ کے ساتھ بھی وعدہ پورا کریں گے۔ نظر فرمائیے کہ دنیا میں حالات و واقعات کتنی جلدی بدل رہے ہیں۔ اِس زمانے کے دس سال گزشتہ زمانے کی ایک صدی کے برابر ہیں۔ گویا عصرِ حاضر کی رفتار عصرِ قدیم سے دس گنا بڑھ گئی ہے۔ راکبش را می شناسد پختہ کار تیز تر گردد سمندِ روزگار پنجاب کی سیر کا قصد ہو تو اس کے لیے موسمِ سرما ہی مناسب و موزوں ہے۔ پچھلے سال آپ موسمِ گرما میں تشریف لائے تھے۔ وہ موسم موزوں نہ تھا۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے دعا کے۔ آپ کا مخلص محمدؐ اقبال، لاہور فارسی شعر کا مطلب تھا کہ تجربہ کار سوار کا گھوڑا بھی اُسے پہچان لیتا ہے چنانچہ وقت زیادہ تیز دوڑتا جا رہا ہے۔ ۱۱۹ شاد کی طرف سے خط کا جواب نہیں ملا تھا۔ ۵ دسمبر کو یاددہانی کا مختصر خط بھیجا ہی تھا کہ اصل جواب آ گیا۔۱۰۳ ۱۲۰ اخباروں میں خبر آئی کہ حیدرآباد دکن کی وزارت پھر تبدیل ہوئی۔ اکبر الٰہ آبادی کے خط سے معلوم ہوا کہ حسن نظامی بھی وہاں کی سیر کو نکلے ہیں۔ ۱۰۴ مثنوی مکمل ہونے پر طبیعت آہستہ آہستہ اُردو کی طرف مائل ہونے لگی تھی۔ پرانے دوست شیخ عبدالقادر نے محسوس کیا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ اشہبِ قلم جو فارسی کے میدان میں گامزن ہے، اُس کی باگ کسی قدر تکلف کے ساتھ اُردو کی طرف موڑی جا رہی ہے۔‘‘۱۰۵ ۱۱ دسمبر کو’شعاعِ آفتاب‘ لکھی۔ منظرنامہ مثنوی کی تمہید کے ابتدائی اشعار سے ماخوذ تھا: راہِ شب چوں مہرِ عالم تاب زد۔ شعاعِ آفتاب صبح جب میری نگہ سودائیِ نظارہ تھی آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی میں نے پوچھا اس کرن سے ’’اے سراپا اضطراب! تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ؟‘‘ ’’خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جائوں گی میں رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلائوں گی میں تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟‘‘ ۱۱ دسمبر ۱۹۱۴ئ۱۰۶ ۱۲۱ جاننے والوں میں اقبال، مرزا جلال الدین، نواب ذوالفقار علی خاں کی دوستی ضرب المثل تھی۔ اکثر نواب ذوالفقار علی خاں کی کوٹھی ’’زرفشاں‘‘ میں مل بیٹھتے۔ ۱۳ دسمبر کی شام اقبال وہیں تھے جب عرفی شیرازی کے تخیل کے سامنے بو علی سینا کا علم و حکمت اور حکیم ابو نصر فارابی کی حیرت انگیز ذکاوت اُسی طرح راکھ کا ڈھیر ہو گئیں جیسے شمس تبزیر کے آنے پر مولانا روم کی کتابیں اور مولانا روم کے آنے پر اقبال کی کیمبرج اور جرمنی کی ڈگریاں جل گئی تھیں۔ عرفی کی قبر سے، جو نہیں معلوم پرانے لاہور کی خواب ناک گلیوں یا نجف ِ اشرف میں رُوحوں کے دربارِ عالی شان میں تھی، صدا آئی کہ سننے والوں میں ذوق کی کمی دیکھتے ہو تو اپنی آواز تیز کردو۔ محمل بھاری ہے تو حدی کی لَے تیز کر دو! عرفی محل ایسا کیا تعمیر عرفیؔ کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانۂ سیناؔ و فارابیؔ فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا کہ رخصت ہوگئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی صدا تربت سے آئی ’’شکوۂ اہل جہاں کم گو نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی‘‘ ۱۰۷ ۱۲۲ ۶ادسمبر کو اکبر الٰہ آبادی کو خط لکھا مگرایک شعر کی تعریف کرنا بھول گئے جو اُن دنوں ذہن پر سوار تھا۔ بنام اکبر الٰہ آبادی لاہور ۱۷ دسمبر ۱۴ء مخدومی! السلام علیکم کل خط لکھ چکا ہوں۔ مگر آپ کے اس شعر کی داد دینا بھول گیا: جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں سبحان اللہ! کس قدر باریک اور گہرا شعر ہے۔ ہیگل جس کو جرمنی والے افلاطون سے بڑا فلسفی تصور کرتے ہیں اور تخیل کے اعتبار سے حقیقت میں ہے بھی افلاطون سے بڑا۔ اس کا تمام فلسفہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ آپ نے ہیگل کے سمندر کو ایک قطرہ میں بند کر دیایا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔ ہیگل لکھتا ہے کہ اصولِ تناقص ہستیٔ محدود کی زندگی کا راز ہے اور ہستیِ مطلق کی زندگی میں تمام قسم کے تناقص جو ہستیِ محدود کا خاصہ ہیں، گداختہ ہو کر آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔ کیمبرج کی تاریخ ہندوستان کے لیے جو مضمون اُردو لٹریچر پر مجھے لکھنا ہے، اُس میں اس شعر کا ضرور ذکر کروں گا۔ اسی رنگ کے فلسفیانہ اشعار اور بھی لکھیے کہ خود بھی لذت اٹھاؤں اور اوروں کو بھی اس لذت میں شریک کروں۔ آج مہاراجہ کشن پرشاد کا خط آیا تھا۔ معلوم ہوا کہ خواجہ نظامی حیدرآباد سے اورنگ آباد چلے گئے۔ خلدآباد کی زیارت مقصود ہو گی۔ میں بھی وہاں گیا تھا اور عالمگیر علیہ الرحمۃ کے مزار پاک پر حاضر ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی بھی ساتھ تھے۔ کہنے لگے، قنات کے اندر نہ جاؤں گا (مزار کے اردگرد قنات تھی) کہ میری ڈاڑھی غیرمشروع ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال۱۰۸ ۱۷ دسمبر ہی کو کشن پرشاد کو بھی جواب دیا۔ ’’خط لکھ چکنے کے بعد آپ کا خط مل گیا،‘‘ اپنے شکایت نامے اور اُن کے پچھلے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس واسطے نئی اُردو کی اصطلاح میں حرفِ شکائت واپس لیتا ہوں۔‘‘ وزارتوں کی تبدیلی کے حوالے سے لکھا کہ امیر مینائیؔ کے اصول پر عمل کرنا چاہئے: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منھ سے کچھ نہ بول آنکھ آئنے کی پیدا کر دہن تصویر کا۱۰۹ ظفر علی خاں پچھلے دو برسوں میں ہندوستان کی انگریز حکومت کے ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں آ چکے تھے۔ پچھلے برس گرفتاری سے بچنے کے لیے لندن چلے گئے تھے۔ اس برس اکتوبر میں واپس آئے تھے۔ اب دسمبر میں وزیرآباد کے قریب آبائی قصبے کرم آباد میں نظربند کر دیے گئے۔ ان کا روزنامہ زمیندار بدستور مولانا عبداللہ العمادی اور وجاہت حسین جھنجھانوی مرتب کرتے رہے۔ ۱۲۳ دل اس طرح بجھ جائے کہ دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینے اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش تک باقی نہ رہے تو عرفی کی بجائے خواجہ حافظ شیرازی کے نغموں میں زیادہ سکون محسوس کر سکتا تھا۔ والدہ کے غم نے اقبال کے دل کی یہی کیفیت کر دی تھی: اگر خضر کا ساتھی بننے کا شوق ہے تو آبِ حیات کی طرح سکندر کی نگاہوں سے چھپ جاؤ! منہ میں ہزار باتیں دبی ہوں اور لب خاموش! بادشاہ کی رائے تجلی کے نور کا گھر ہوتی ہے۔ اُس سے قریب ہونے کی خواہش کر رہے ہو تونیت صاف رکھو۔ خالص شراب لے کر میٹھے نغموں کے ساتھ پیو۔ اے حافظ! تم ایک گوشہ نشیں فقیر ہو، اِس جھگڑے میں مت پڑو۔ ۱۸ دسمبر کو بیاض میں جو نظم لکھی اُس میں وہ باتیں کہیں جو مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ حافظ کے میخانے کا چھوٹا سا نمونہ تھی۔ ایک خط کے جواب میں ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز حصول جاہ ہے وابستۂ مذاق تلاش ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریاپاش یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش ہوائے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش ’’گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشیں باشی نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش‘‘ تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال رضاے خواجہ طلب کن قباے رنگیں پوش مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش پرانے طرزِ سخن میں ہزار مشکل ہے نئے اُصول سے خالی ہے فکر کی آغوش مزا تو یہ ہے کہ یوں زیرِ آسماں رہیے ’’ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش‘‘ یہی اصول ہے سرمایۂ سکون و حیات ’’گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش‘‘ مگر ’’خروش‘‘ پہ مائل ہے تو تو بسم اللہ ’’بگیر بادۂ صافی، ببانگ چنگ بنوش‘‘ شریکِ بزمِ امیر و وزیر و سلطاں ہو لڑا کے توڑ دے سنگِ ہوس سے شیشۂ ہوش پیامِ مرشدِ شیراز بھی مگر سن لے کہ ہے یہ سرِ نہاں خانۂ ضمیرِ سروش ’’محلِ نورِ تجلی ست رائے انورِ شاہ چو قربِ او طلبی در صفائے نیت کوش‘‘ ۱۸ دسمبر ۱۹۱۴ء پوری نظم حافظ کی اُس غزل کی بازگشت تھی جس کا آغاز یوں ہوتا تھا کہ صبح غیبی آواز نے یہ خوشخبری میرے کانوں تک پہنچائی کہ شاہ شجاع کا زمانہ ہے، شراب کھل کر پیو! سات برس پہلے بھی اقبال کے دل و دماغ میں یہی صدا گونجی ہو گی جب کہا تھا، زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا!۱۱۰ ۱۲۴ بیاض میں اسی نظم کے دوسرے صفحے کے مقابل ایک نامکمل تاریخی نظم کے چودہ مصرعے ملتے ہیں۔ کسی عبداللہ اور زبیر کا مکالمہ جو آغا حشر کے تھیٹر کے انداز میں لکھا گیا۔ بعض مصرعوں میں ’جوابِ شکوہ‘ کی بازگشت تھی: تو صاحبِ شمشیر جہانگیر نہیں کیا ۱۲۵ کرسمس کی تعطیلات میں امام بی بی کے چہلم کے لیے سیالکوٹ چلے گئے۔۱۱۱ ۱۲۶ میری سرمستی پر حیران مت ہو کہ شراب خانے کے بوڑھے پیر نے خواجہ حافظ شیرازی کی رندی کی قبا میرے جسم پر سجا دی ہے۔ اے صبا! ہمارا پیغام حافظ کے شہر تک پہنچا دے کہ وہاں کی خاک نے نکتہ وروں کی نگاہوں کو روشنی بخشی: عجب مدار زسرمستیم کہ پیرِ مغاں قبائے رندیِ حافظؔ بقامتِ من دوخت صبا بہ مولدِ حافظؔ پیامِ ما برساں کہ چشمِ نکتہ وراں خاکِ آں دیار افروخت اقبال کی فارسی غزل حافظؔ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ چھ اشعار تھے۔۱۱۲ ۱۲۷ شراب لاؤ کہ آسمان ہمارے موافق ہو گیا۔ نغمے ٹہنیوں سے کلیاں بن کر پھوٹنے لگے۔ میں امامِ حرم کے کم پینے کی یاد میں پیتا ہوں جنہوں نے ہمراز دوستوں کی صحبت کے بغیر کبھی نہ چکھی۔ تمہارے وحشی نے دُوئی کے نقش کو اپنے مزاج کی لوح سے اس طرح مٹایا کہ پھر خیال کے آہو سے بھی بدکنے لگا! اُس پختہ کار کا قبیلہ پھلتا پھولتا رہے جس نے کہاامید کی جھلک زندگی کے راستے کا چراغ ہے! نغمہ یاروں کے حوصلے سے زیادہ بلند ہے اس لیے میں وہاں غزل سرا ہوا جہاں کوئی سننے والا نہ تھا۔ اقبال کی آگ سے تم بھی ایک شعلہ لے لو کہ فلسفے کادرس دیتا رہا اور عاشقی اختیار کر لی۔۱۱۳ ۱۲۸ بے جی کے لکڑی کے صندوق میں سے بھابھی جی کو جو قیمتی چیزیں ملیں ان میں اقبال کی تعلیمی اسناد بھی تھیں۔ اقبال سے کہا کہ لے جائیں۔ ’’[اقبال] نے فرمایا مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے پاس ہی رہنے دیں،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔۱۱۴ ۱۲۹ سیالکوٹ سے واپسی کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ کشن پرشاد کا خط ملا۔ ایک نظم ’ست بچن‘ بھیج کر مشورہ مانگا تھاجبکہ اسی خیال کو پہلے کئی بار استعمال کر چکے تھے۔ اپنے رسالے تزکِ عثمانیہ کے لیے اشعار بھی منگوائے تھے۔ اقبال نے لاہورپہنچ کر ۲۸ دسمبر کو جواب لکھا۔ شاد کی نظم اچھی تھی مگر ایک ہی خیال کو بار بار دہرانے میں اکثر ٹھوکر لگتی ہے۔ ’’پڑھنے والا بھی ممکن ہے کہ تکرار کو کسی اور وجہ پر محمول کرے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’لیکن اگر اشاعت مطلوب ہو تو اس میں جو ’شخصی عنصر‘ ہے اُسے نکال ڈالیے اور باقی اشعار پر نظرِ ثانی فرما لیجئے کیونکہ بعض بعض جگہ کچھ الفاظ کھٹکتے ہیں۔‘‘ شخصی عنصر سے مراد personal element تھا۔ اردو میں یہ ترکیب خود وضع کی تھی۔ چھ اشعار والی فارسی غزل رسالے کے لیے بھجوا دی، ’’زیادہ کیا عرض کروں بجز اس کے کہ زندہ ہوں۔‘‘۱۱۵ ۱۳۰ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Rudolf Eucken (edited and translated by Meyrick Booth). Collected Essays of Rundolf Eucken. T. Fisher Unwin, London Hans Driech. The Problems of Individuality. Macmillan, London Alphonse Mingana and Agnes Smith Lewis. Leaves from Three Ancient "Qurans" "Possibly pre-Othmanic" with a list of their Variants. Cambridge University Press Treitachke; translated by Adam L. Gowans. Selection from Treitachke's Lectures on Politics Gowans & Gray, London Aliotta; translated by Agnes McCaskill. The Idealistic Reaction Against Science. Macmillan, London ۱۳۱ اس بار مسلم لیگ سالانہ اجلاس کا اہتمام نہ کر سکی تھی۔ ۱۳۲ پانی پت میں محلہ سادات کے سادہ سے مکان میں ستاسی برس کے مولانا الطاف حسین حالی بیمار پڑے تھے۔ اپنی عربی اور فارسی تحریروں کا مجموعہ جسے پچھلے چند برسوں میں مرتب کیا تھا ابھی شائع نہیں کروا سکے تھے۔ دماغ کے اعصاب پر اثر تھا۔ کوئی بات کرتا تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک ہی لاپاتے۔ جواب دماغ سے زبان پر آنے تک اعصاب جواب دے جاتے۔ ۳۱ دسمبر کو اِنتقال کر گئے۔ پانی پت میں ایک عرصہ بعد شیعہ اور سنی عوام نے اکٹھے کسی کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ بو علی قلندر جن کی مثنوی کے نمونے پر اقبال نے اپنی مثنوی لکھنی شروع کی تھی، اُن کی درگاہ کے صحن میں مسجد کے حوض کے کنارے حالی کو دفن کیا گیا۔ اِسی صحن میں کبھی امیر خسرو نے قلندر کو راضی کرنے کے لیے اُس سعدی شیرازی کا کلام گایا ہو گا جس کی سوانح لکھ کر حالی نے اُردو کو نئی طرز عطا کی تھی۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر اِس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں حالیؔ نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اَب آئے ہو وقتِ صبح رہے رات بھر کہاں مولانا الطاف حسین حالیؔ دوسراحصہ ۱۳۳ یکم جنوری کو حکومت کی طرف سے خطابات کا اعلان ہوتا تھا۔دو برس قبل نوبل پرائز جیتنے والے بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کو اِس برس نائٹ ہڈ عطا ہوا۔ اب وہ سر رابندر کہلوا سکتے تھے۔ خواجہ حسن نظامی بھی نئے سال کے آغاز پر خطابات دیتے تھے۔ جنوری ۱۹۱۵ء کے طریقت میں خبر چھپی کہ اقبال کو ’’سرّالوصال‘‘ اور محمد دین فوق کو ’’وحدتی‘‘ کا خطاب دیا ہے۔۱۱۶ ۱۳۴ شبلی و حالی مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا دیوان جزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد تیرے سرودِ رفتہ کے نغمے علومِ نو تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد مردان کار، ڈھونڈ کے اسبابِ حادثات کرتے ہیں چارئہ ستمِ چرخِ لاجورد پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرنیہ رازدار کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد مسلم مرے کلام سے بے تاب ہوگیا غماز ہوگئی غم پنہاں کی آہ سرد کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد شبلیؔ کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں حالیؔ بھی ہوگیا سوئے فردوس رہ نورد ’’اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد‘‘۱۱۷ شبلی کے شاگرد سید سلیمان ندوی اُن کے دارُالمصنفین کو نئی بنیادوں پر اُستوار کررہے تھے۔ اقبال، اکبرؔ الٰہ آبادی، عمادالملک عمادی، حبیب الرحمان شیروانی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولوی عبدالحق سے رابطہ تھا۔۱۱۸ ۱۳۵ گرامی نے غزل بھجوائی کہ آنکھ سے دل کے دروازے تک ہر ذرہ راز فاش کر رہا ہے۔ بنام گرامی لاہور۔ ۱۸ جنوری ۱۵ء جناب بابائے گرامی سلمہ! آپ کا خط ابھی ملا جس کو پڑھ کر مجھے بہت مسرت ہوئی اور غزل سبحان اللہ آپ تو اس ولایت کے تاجدار ہیں۔ زدیدہ تا درِ دل ذرہ ذرہ۔۔۔ الخ سبحان اللہ کیا بات پیدا کی ہے۔ حافظ کی روح گرامی کو دعا دیتی ہو گی! تمام غزل مرصع ہے۔ جزاک اللہ۔ مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ آپ تشریف لائیں تو دکھا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کروں مگر فروری مارچ تو محض وعدۂ معشوقانہ معلوم ہوتا ہے۔ گرامی سے حیدرآباد نہیں چھوٹ سکتا۔ کاش میں خود حیدرآباد پہنچ سکوں مگر یہ بات اپنے بس کی نہیں، نہ یہاں کے حالات و مشاغل سفر کی اجازت دیتے ہیں نہ حیدرآباد کافی زور کے ساتھ کشش کرتا ہے۔ آپ کی دعائے نیم شبی کو بھی معلوم ہوتا ہے، آسماں تک رسائی نہیں۔ حیدری صاحب خواہش مند ہیں کہ میں وہاں آؤں۔ مگر ان کی خواہش کو دائرہ عمل میں لانے کے اسباب نہیں۔ میں خود قدرت کے ہاتھوں میں ایک بے حس ہستی کی طرح ہوں، جدھر لے جائے گی چلا جاؤں گا۔ سعی و کوشش میرے مذہب میں کفر نہیں تو گناہ ضرور ہے۔ بہرحال کچھ وہاں کے حالات لکھیے۔ حیدری صاحب سے کبھی کبھی ضرور ملا کیجیے۔ بڑی خوبی کے آدمی ہیں اور ماسٹر غلام محی الدین صاحب بھی نہایت ہوشیار اور اپنے فرائض کے ادا کرنے میں چست ہیں۔ میرا ان کو سلام کہیے۔ اُردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہوتا جاتا ہوں۔ فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اُردو میں نکال نہیں سکتا۔ چند اشعار عرض کرتا ہوں: بیار بادہ کہ گردوں بکامِ ما گردید مثال غنچہ نواہا زشاخسار دمید خورم بیادِ تنک نوشیِ امامِ حرم کہ جز بصحبتِ یارانِ رازداں نہ چشید چناں زنقشِ دوئی شست لوحِ خاطر خویش کہ وحشیٔ تو ہم از آہوئے خیال رمید فزوں قبیلۂ آں پختہ کار باد کہ گفت چراغِ راہ حیات است جلوۂ امید نوا زحوصلۂ دوستاں بلند تر است غزل سرا شدم آنجا کہ ہیچ کس نشنید تو ہم ز آتشِ اقبال شعلۂ بردار کہ درسِ فلسفہ می داد و عاشقی ورزید محمد اقبال اور کیا لکھوں خط کا جواب جلد لکھیے اور مفصل حالات سے آگاہ کیجیے۔ اس غزل کو بہ نظرِ اصلاح ملاحظہ فرمائیے۔ ۱۳۶ نہیں معلوم کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے لیے اردو ادب پرجو باب لکھنے والے تھے اُس کا کیا ہوا۔ پھر اس کا تذکرہ سننے میں نہیں آتا۔۱۱۹ ۱۳۷ اخباروں میں خبر آئی کہ نظام حیدرآباد نے وائسرائے سے ملاقات کی۔ اقبال کا خیال تھا کہ حیدرآباد کی وزارت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہو گی۔ یہ خبر بھی چھپی کہ سر سید علی امام کے وزیرحیدرآباد ہونے کے امکانات ہیں۔ پھر تردید شائع ہوئی۔ مثنوی کا انتساب علی امام کے نام کرنے کا خیال اگر پہلے سے موجود نہیں تھا تو اَب آیا ہو گا۔ بیاض کے شروع میں تعلی کے جو اشعار تھے اُنہیں انتساب میں شامل کرنے کاسوچتے ہوئے اُس صفحے کے کنارے پر ’’اے امام اے سیدِ والا نسب‘‘ لکھ کر کچھ مصرعے نکالنے کی کوشش کی۔ اُس وقت نہ بن پڑے۔۱۲۰ ۱۳۸ کشن پرشاد کی طرف سے دو خطوط موصول ہوئے۔ دریافت کیا تھا کہ پچھلے خط میں شخصی عنصر سے اقبال کی کیا مراد تھی اور اپنی کتاب پریم پچیسی کے حوالے سے کوئی فرمائش بھی کی تھی۔ وہ کتاب اقبال کو میز پر نہیں ملی چنانچہ ایک اور کاپی کی درخواست کی۔ ’’شخصی عنصر سے مراد وہ اشعار ہیں جن میں مصنف کے ذاتی حالات و اکتسابِ فیوض کا اشارہ ہے یا ذکر ہے،‘‘ اقبال نے ۱۹ جنوری کولکھا۔ ’’میں نے یہ لفظ خود وضع کیا تھا، اردو زبان میں مروج نہیں ہے۔‘‘ ۱۳۹ اسماعیل میرٹھی درسی کتابیں لکھا کرتے تھے۔اپنی ’قواعد ِ اُردو‘ کے دو حصے اقبال کو بھجوا کر رائے مانگی۔ ۲۵ جنوری کو اقبال نے لکھا کہ اردو زبان میں اپنی طرز کی پہلی کتاب ہے جس سے بہتر شائد بچوں کے لیے پہلے نہیں لکھی گئی۔ انگریزی گرامر سے مماثلت جو خودبخود پیدا ہو گئی ہے وہ انگریزی پڑھنے والے طلبہ کے لیے اور بھی آسانی پیدا کر دے گی۔ ’’تنقیحات جو آپ نے قائم کی ہیں اور مجھ سے رائے دریافت کی ہے اس کی نسبت عرض ہے کہ مجھے اس قدر فرصت نہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھ سکوں اور نہ میں اس پر خامہ فرسائی کرنے کا اہل ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ۱۴۰ ۲۷ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ گرامی کے شعر نے انہیں بھی تڑپایا تھا۔۱۲۱ ۱۴۱ گرامی نے لکھا کہ قدرت سامان پیدا کر رہی ہے۔ شاید اقبال کے حیدرآباد آنے یا وہاں روزگار پانے کے سامان مراد تھے۔ مزید اشعار بھی بھیجے : تمام خندہ بگریند و گریہ می خندید بر آسمانِ تصرّف چہ برق و بارانند ’’سبحان اللہ!‘‘ اقبال نے ۲۸ جنوری کو لکھا۔ ’’آج ہندوستان میں کون ہے جو یہ تبرّک لکھ سکتا ہے۔۔۔ آج ایران میں بھی ایسا سحرطراز نہ ہو گا۔ زندہ باش اے پیرِ کہن۔ ‘‘ حافظؔ کے رنگ کی غزل جو پہلے کشن پرشاد کے رسالے کو بھجوا چکے تھے گرامی کوبھی بھجوائی، ’’اس خیال سے نہیں کہ اپنے اشعار سناؤں بلکہ اس خیال سے کہ شائد آپ کو تحریک ہو اور آپ سے نئے اشعار سنوں۔۔۔‘‘ گرامی کی رائے بھی دریافت کی کہ کیا ان کے نزدیک ممکن ہے کہ کشن پرشاد پھر مدارالمہام ہو جائیں؟ ۱۴۲ عشق والے نعتیہ باب کے دو اشعار، ملا جامی کے شعر سمیت حسن نظامی کے دوست ملّا واحدی کوارسال کر کے لکھا کہ مثنوی جلدشائع ہو گی۔۱۲۲ ۱۴۳ ۲ فروری کی رات تھی۔ سولہ ہزار ترک سپاہیوں نے سوئز کنال پر حملہ کیا۔مقصد برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان آسان راستے کو بند کرنا تھا۔ وزیرِ بحریہ جمال پاشا خود قیادت کر رہے تھے۔ خیال تھا کہ مصر کے مسلمان انگریز حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ایسا نہ ہوا۔تین ہزار ترک سپاہی مارے گئے۔ جن برطانوی فوجوں نے حملہ ناکام بنایا وہ زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل تھیں۔ ۱۴۴ ایک نئی نوٹ بک کے سرورق پر ’پیامِ سروش‘ اور ’’در فروری ۱۹۱۵ء اتمام یافت‘‘ لکھا یعنی فروری ۱۹۱۵ء میں ختم ہوئی۔بیاض سے مثنوی کو نوٹ بک میں نقل کر کے مسودہ بنانا شروع کیا: ۱ تمہید، جسے ’شرر تمہید باشد نالہ آتش نوایاں را‘ کا عنوان دیا ۲ ’در بیان حقیقت خودی‘، یہ عنوان لکھ کر کاٹ دیا ۳ ’در معنی ایں کہ اصل خودی در آرزو مخفی است و تسلسل حیات بر تسلسل آرزو انحصار دارد‘ ۴ ’در معنی ایں کہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد‘ ۵ ’در معنی ایں کہ قوت خودی از سوال ضعیف می گردد‘ ۶ ’در بیان خصائص مرد خودآگاہ‘، یہ نیا باب ’جہاں بانی‘ کے باب کے کچھ شعروں کے ساتھ ’تعلی مرد خود آگاہ‘والے اشعار اکٹھے کر کے بنایا ۷ ’در بیان اینکہ کمال انسانی را سہ مراحل است و مرحلہ اول را ’’اشتری‘‘ نامیدہ اند‘ مگر پھر کاٹ کر اِس کی بجائے ’حکایت در معنی کہ مسئلہ نفی خودی۔۔‘ والا عنوان درج کیا۱۲۳ ۱۴۵ حسن نظامی کے دیے ہوئے خطاب ’’سرّالوصال‘‘ کے لیے ۶ فروری کو شکریہ ادا کرتے ہوئے اقبال نے لکھا، ’’وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی ہے اب قریباً تیّار ہے اور پریس جانے کو ہے۔ اُس کے لیے بھی کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے۔‘‘ دو برس پہلے حسن نظامی کے دیے ہوئے عنوان ’اسرارِ خودی‘ اور اب شیخ عبدالقادر کے دیے ہوئے عنوانات کے علاوہ بھی غور کرنا چاہتے تھے۔۱۲۴ ۱۴۶ ۷ فروری کے رسالہ خطیب میں وہ خط اور نعتیہ اشعار شائع ہوئے جو اقبال نے ملّا واحدی کو بھیجے تھے۔ ۱۴۷ اس دفعہ محمد علی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کی وزارت مسٹر گلینسی کو دی جا رہی ہے۔ سرسید علی امام کو ان کا نائب بننے کی پیشکش کی گئی تھی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ اقبال کو خبر درست نہ لگی۔۱۲۵ ۱۴۸ سر اکبر حیدری کے متعلق کوئی افسوسناک خبر سنی جس سے دل پر بہت بوجھ پڑا۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ خبر کیا تھی۔۱۲۶ ۱۴۹ اقبال کی بڑی بہن فاطمہ بی بی لاہور میں اقبال کے گھر ٹھہری ہوئی تھیں۔ سب سے چھوٹا لڑکا فضل حق بھی ساتھ تھا جس کی عمر سولہ سترہ برس تھی۔ ایک رات اُس نے ضد کی کہ وہ اقبال کے کمرے میں سوئے گا۔ اقبال کی اجازت سے اُس کی چارپائی بھی وہیں ڈال دی گئی۔ ۱۲۷ ۱۵۰ اقبال کے کسی بھانجے نے علی بخش کو گالی دے دی۔ ’’اُس پر سخت ناراض ہوئے،‘‘ علی بخش کا بیان ہے۔ ’’بلکہ اُسے پیٹا بھی۔‘‘۱۲۸ ۱۵۱ ۱۵ فروری کو گوپال کرشن گوکھلے فوت ہو گئے۔ ۱۵۲ مدّت سے گردے میں درد نہیں ہوا تھا ۔ فروری میں دورہ پڑا۔ کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکے۔۱۲۹ ۱۵۳ ۲۱ فروری کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ وہ خیرت سے تھے۔ ’’الحمداللہ میں بھی خدا کے فضل و کرم سے اب اچھا ہوں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’دَورہ جاتا رہا میں باقی رہ گیا۔‘‘ شاد کو بہت سے لوگ مبارک باد دینے لگے تھے حالانکہ دوبارہ مدارالمہام بننے کی ابھی صرف افواہ تھی۔ ’’مبارکباد کی آوازیں تو آنے لگیں اصلی مبارکباد میں بھی دیر نہیں،‘‘ اقبال نے بھی لکھ دیا۔ ’’کچھ عرصہ ہوا میں نے [حیدری صاحب] کے متعلق ایک نہائت افسوسناک خبر سنی تھی جو خدا کرے کہ غلط ہو۔ بوجہ اُس تعلق کے جو مجھ کو اُن سے ہے یہ خبر سن کر مجھے سخت تردّد ہوا تھا مگر بعد میں کچھ معلوم نہ ہوا کہ حیدری صاحب کہاں ہیں اور کس اشغال میں۔‘‘ ۱۵۴ امام بی بی کی وفات کے بعد شیخ نور محمد بہت اداس رہنے لگے تھے۔ ’’ایک دن مجھے کاغذ قلم لانے کو کہا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’فرمایا جو کچھ میں لکھاؤں لکھتے جاؤ اور اُسے چچا [اقبال] کو بھیج دو۔ میں سمجھا شاید چچا جان کو خط لکھوائیں گے۔ میں لکھنے بیٹھا تو اُنہوں نے سوچ سوچ کر شعر لکھوانے شروع کر دیے۔ دو یا تین نشستوں میں کچھ شعر لکھوائے۔‘‘ ان میں سے ایک اعجاز کو یاد رہ گیا: یہ تنہا زندگی پیری میں نصف الموت ہوتی ہے نہ کوئی ہم سخن اپنا نہ کوئی رازداں اپنا۱۳۰ ۱۵۵ مثنوی کا مسودہ جو صاف کرنا شروع کیا تھا ترک کر دیا۔ نئی تبدیلیاں بیاض ہی میں ہونے لگیں۔۱۳۱ ایک فرضی کردار بنایا۔ اُس کا نام میرنجات نقش بند رکھا۔ ’’مردِ خود آگاہ‘‘ کی طرف سے ہندوستان کے مسلمانوں کے نام جو پیغام لکھا تھا اب وہ میر نجات کا پیغام بن گیا: میر نجات نقشبند کی نصیحت جو اُنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تحریر فرمائی!۱۳۲ گویا میر نجات اپنی خودی سے واقف یعنی مردِ خودآگاہ تھا۔ اِس نام کے پردے میں اقبال خود تھے۔ پچھلے برس والی بیاض کی فہرست دوم میں کئی جگہوں پر تبدیلی کر کے اسے ایک نئی صورت دی: ۱ تمہید ۲ حقیقتِ خودی ۳ احساسِ خودی در آرزوست ۴ خودی از محبت محکم است ۵ خودی از سوال ضعیف می گردد ۶ حکایت در معنی ایں کہ مسئلہ نفی خودی الخ ۷ مدارجِ کمال انسانی اول اشتری دوم اشتربانی سوم جہاں بانی (خصائص مرد خودآگاہ) ۸ در شرح اسرارِ علی مرتضیٰ ۹ حکایت نوجوان ہرات کہ پیش اخوندِ سوات رفت ۱۰ حکایت در معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوص ملیہ است ۱۱ مقصدِ حیاتِ مسلم ۱۲ اندرز میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرمودہ است (اے کہ مثلِ گل زگِل بالیدۂ) ۱۳ الوقت سیف ۱۴ دعا ۱۵۶ مثنوی کی بیاض میں فہرست کے سامنے والا صفحہ خالی چھوڑ کر نئی فہرست بنانی شروع کی۔اُشتری، شتربانی اور جہاں بانی کو تکمیلِ انسانی کے مدارج قرار دینے کی بجائے اب تکمیلِ خودی کے مراحل قرار دیا۔۱۳۳ ’’شرر تمہیدِ نالہ آتش نوایاں را‘‘ یعنی آواز میں مولانا روم کی بانسری کی طرح آگ بھری ہو تو تمہید چنگاری سے کم نہیں ہوتی، یہ بات ذہن میں اٹک گئی تھی۔ اس کے بعد ایک اور نکتہ لکھا، پھر دونوں کو کاٹ کر نئے سرے سے لکھا۔ کئی جگہ اٹکے اور کئی نکتے کاٹے۔ آخر فہرست کی یہ صورت بنی: ۱ ’’شرر تمہید آتش نوایاں را‘‘ ۲ حیات خودی از جلوۂ تعینات است و تسلسل حیات تعینات بر استحکامِ خودی انحصار دارد ۳ در بیانِ اینکہ اصل حیات در تخلیق و تولیدِ مقاصد است ۴ در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد ۵ در بیان اینکہ خودی از سوال ضعیف می گردد ۶ حکایت دریں معنی کہ مسئلہ نفیٔ خودی از مخترعات اقوامِ مغلوبہ بنی نوع انسان است کہ بایں طریقِ مخفی اخلاق اقوامِ غالبہ را ضعیف می سازند ۷ در بیانِ اینکہ کمالِ انسانی را سہ مراحل است۔ مرحلۂ اول را اشتری و مرحلۂ دوم را اشتربانی و مرحلۂ سوم را جہاں بانی نامیدہ اند ۸ در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰؓ ۹ حکایت نوجوانِ ہرات: ۱ طائرِ تشنہ و قطرۂ شبنم ۲ حکایت الماس و زغال ۱۰ حکایت دریں معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوصہ ملیہ است ۱۱ در بیانِ اینکہ مقصد حیات مسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرک او جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است ۱۲ اندرر میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرموداست ۱۳ الوقت سیف ۱۴ دعا ۱۵۷ ایک نئی نوٹ بک میں مسودہ بنانا شروع کیا۔’پیشکش‘ کی سرخی کے نیچے ’بحضور سید علی امام مد ظلہ العالی‘ لکھ کر پندرہ اشعار درج کیے جن میں تعلی والے اشعار بھی شامل کر لیے گئے۔ اس کے بعد جلی حروف میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھ کر ’تمہید‘ کا عنوان ڈالا اور ایک ایک کر کے ابواب لکھنے لگے۔ ترتیب اور عنوانات وہی رہے جو بیاض میں مکمل ہونے والی آخری فہرست میں تھے۔۱۳۴ ۱۵۸ ’در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰؓ‘ والے باب سے آگے بھی ترتیب وہی رہی مگر عنوانات بدلے تھے: ٭ حکایت نوجوانے از ہرات کہ پیش اخوند سوات رفتہ از ستم اعدا فریاد کرد ٭ حکایت طائرے کہ از تشنگی بے تاب بود ٭ حکایت الماس و زغال ٭ مکالمہ گنگا و ہمالہ دریں معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوصہ ملیہ می باشد ٭ در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرک و جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است ٭ اندرز میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است ٭ الوقت سیف ٭ دعا یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسودہ کب مکمل ہوا ۔ بہرحال مثنوی تیار تھی۔ گرامی یا خواجہ عزیز ایک نظر ڈال لیتے تو اشاعت کا اہتمام کیا جاتا۔ ۱۵۹ دہلی جانے کا ارادہ تھا۔ سر سید علی امام سے بھی ملاقات کرنی تھی، غالباً انتساب کی اجازت لینے کے لیے۔ یہ بھی پوچھنا تھا کہ کیا واقعی حیدرآباد میں نائب وزیر بننے سے انکار کر دیا؟ ۱۶۰ ۱۰ مارچ کو میر رضیؔ دانش کا ایک شعر نظر سے گزرا جس نے بہت لطف دیا کہ میں ساقی سے شراب لے کر خود پینے کی بجائے انگور کی بیل کی جڑوں میں ڈال رہا ہوںگویا اپنی فکر نہیں، میخانے کی بنیاد رکھ رہا ہوں: زساقی بادہ می گیرم بپائے تاک می ریزم ندارم فکرِ خود، میخانہ را آباد می سازم ۱۳۵ ۱۶۱ ۱۱ مارچ کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ انہوں نے اکبر حیدری کے بارے میں کوئی افسوسناک خبرنہیں سنی تھی۔ اقبال کو تسلی ہوئی کہ پھر خبر غلط رہی ہو گی۔ ’’جنابِ احدیّت کو ایک دفعہ اُس کی ایک شاعرانہ بات پسند آ گئی تھی،‘‘ اقبال نے جواب دیتے ہوئے اپنا اور خدا کا کوئی معاملہ تحریر کیا۔ ’’استفسار فرماتے تھے کہ تُو تو گناہ اور ہر قسم کے فِسق و فجور کا دلدادہ تھا پھر تُو نے اُسے ترک کیوں کر دیا حالانکہ قواے بھی ابھی اچھے خاصے تھے؟ بندۂ قدیم نے عرض کیا کہ شیطان کی نجات کی خاطر۔ اب اَوروں کو بھی یہی پیام دیتا ہوں کہ گناہ چھوڑ دو اِس واسطے کہ بیچارے ابلیس کی نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی انسان گناہ نہ کرے اور اِس طرح وہ راندۂ درگاہ اپنے بہکانے میں ناکام ہو کر آخرکار کامیاب ہو جائے۔ قصہ مختصر یہ بے تکلفی امید دلاتی ہے کہ اپنے بندے کی بے نیازی کا پاس کر کے اپنی بے نیازی سے کام نہ لیں گے۔‘‘۱۳۶ ۱۶۲ اقبال کی جو نظمیں عوام کی دلچسپی کے لیے شائع ہوتی تھیں اُن میں مرغوب ایجنسی لاہور سے شائع ہونے والے کتابچے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ کتابت ایجنسی کے مالک منشی فضل الٰہی مرغوب رقم کرتے تھے۔ انہیں مثنوی کی کتابت کے لیے منتخب کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال گرامی کو مثنوی نہ دکھا سکے۔ خواجہ عزیز سے مشورہ کرنے لکھنؤ بھی نہ گئے۔ ۱۳۷ ۱۶۳ بعض پڑھنے والے سمجھے ہوں گے کہ اُردو نظموں کا مجموعہ شائع ہونے والا ہے لیکن محمد دین فوق کے اخبار نے مثنوی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے مجموعۂ کلام کی اشاعت کا انتظام [اخبار کشمیری لاہور، ۱۴ مارچ ۱۹۱۵ء کی ایک خبر] اکثر احباب ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ کا کلام منگوانے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے اب لکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مجموعۂ کلام کو، جس میں ان کی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ نظمیں شامل ہیں، نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد اپنے ہی اہتمام میں چھپوانے کا انتظام فرما رہے ہیں۔ چنانچہ کتابت شروع ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ دو ماہ تک مجموعہ ٔ مذکور کا نفیس و نادر ایڈیشن پبلک کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔ ڈاکٹر اقبال کا کلام کسی تعریف و توصیف کا محتاج نہیں ہے، آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ ان کے نام ہی میں ایک کشش ہے، جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ انسان کے پاک ترین قومی و مذہبی جذبات کے چمنستان میں مصروف رہ کر وہ نقش و نگار پیش کرتے ہیں کہ عقل دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ کبھی وہ ’’نالۂ یتیم‘‘ بن کر رلاتے ہیں، کبھی پیغامِ سروش کی صورت میں جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں، کبھی ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے پردے میں وہ راز و نیاز ظاہر کرتے ہیں کہ ’’کراماً کاتبین را ہم خبر نیست‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔۱۳۸ ۱۶۴ دو برس پہلے خواجہ حسن نظامی اپنے رسالے میں مثنوی کے کچھ بند شائع کر چکے تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں بھی اقبال نے اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے۔ ممکن ہے ’’مطبوعہ‘‘ نظموں سے فوق کی یہی مراد ہو۔ ۱۶۵ حکیم فقیر محمد چشتی جن کے ہاتھ کا لکھا ہوا سجع اقبال نے آتشدان کے اوپر سجا رکھا تھا، انہوں نے پچھلے برس نہ صرف آغا حشر اور اُن کی بیگم کو اپنے گھر ٹھہرا کر آغا حشر کی بیگم کا علاج کیا تھا بلکہ حشر کی بعض نظمیں بڑے شوق سے کتابت کر کے شائع بھی کروائی تھیں۔ اقبال نے مثنوی کے بعض حصے آغا حشر کوضرور سنائے تھے لہٰذا ممکن ہے کہ حکیم صاحب سے بھی مشورہ ہوتا رہا ہو۔ بہرحال اب مثنوی کی اشاعت کا اہتمام حکیم صاحب نے اپنے ذمے لے لیا۔ ۱۶۶ سِرُّ الوصال ڈاکٹر اقبال از خواجہ حسن نظامی ڈاکٹر اقبال مسلمانوں کے نہیں بلکہ کُل ہندوستان کے قومی شاعر ہیں۔ اگر آپ کے خیالات رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح انگریزی میں ترجمہ ہو کر یورپ میں شائع ہوتے تو یقینا اہلِ یورپ بھی انہی کو ہندوستان کا ملکی شاعر تصوّر کرتے۔ اقبال کی نظموں میں موجودہ سیاست کی ہلچل سے پہلے ان تمام اَسرار کی جھلک نظر آ جاتی ہے جو آج کل لوگوں کا طرزِ عمل ہے۔ مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ بجائے اس کے کہ اقبال اپنی شاعرانہ حیثیت کو منتہائے کمال تک پہنچاتے وہ ایک بیرسٹر بن گئے جہاں ان کو قانونی تخیلات کے کنویں میں اپنے شاعرانہ سمندر برباد کرنے پڑتے ہیں۔ اس زمانہ میں ان کی خاموشی بالکل حق بجانب ہے اور دُوسروں کی تقلید کے قابل ہے مگر خدا کرے کہ نہ وہ ہمیشہ خاموش رہیں اور نہ بیرسٹر۔ خطیب(دہلی)، ۲۲ مارچ ۱۹۱۵ئ۱۳۹ ۱۶۷ انجمن حمایت اسلام ایک امانت تھی مگر مسلمان عوام محسوس کر رہے تھے کہ بعض افراد اِس پر ’’قابض‘‘ ہو گئے ہیں۔ ایسٹر ۴ اپریل کو آ رہا تھا۔ انجمن کا سالانہ جلسہ ہونا تھالیکن مولوی احمد دین سے پروگرام کمیٹی کے اجلاس کی کیفیت اقبال کو معلوم ہوئی تو کہہ دیا کہ اس برس شرکت نہیں کریں گے اور نظم بھی نہ سنائیں گے۔۱۴۰ ۱۶۸ کشن پرشاد نے اقبال کو پریم پچیسی کی کاپیاں بھجوا دیں مگر تزکِ عثمانیہ شاید اُن کے کسی اہلکار کی غلطی کی وجہ سے وی پی پارسل کے طور پر پہنچا اور واپس ہوا۔ اقبال کے منشی کو قانونی رسالوں کے علاوہ کوئی رسالہ بذریعہ وی پی وصول کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کشن پرشاد نے اگلے خط میں ہَردوار کے سفر کی اطلاع دی۔ فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۱۶۹ معلوم نہیں اقبال حیران ہوئے یا ناراض جب انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے پروگرام میں اپنا نام بھی پایا۔ کئی روز پہلے منع کر چکے تھے مگر انجمن کے کسی کارپرداز نے ان کے نام کو استعمال کرنا چاہا ہو گا۔ ڈاکٹر محمد اقبال اور جلسۂ انجمن حمایت اسلام لاہور [اخبار کشمیری لاہور، ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء کی ایک خبر] انجمن کے سالانہ جلسے کا پروگرام کسی دوسری جگہ درج کیا جاتا ہے جس میں ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ اپنے نام کے متعلق لکھتے ہیں: ’’میں نے ابھی انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسے کا پروگرام دیکھا ہے، جس میں میرا نام بھی درج ہے۔ جب مجھے اس سے کئی دن پیشتر پروگرام کمیٹی کے اجلاس کی کیفیت مولوی احمد دین صاحب پلیڈر سے معلوم ہوئی تو میں نے اُسی روز پروگرام سیکرٹری صاحبان کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ میں سالانہ جلسے میں نظم پڑھنے کی غرض سے شامل نہیں ہو سکتا، اِس واسطے مہربانی کر کے میرا نام درجِ پروگرام نہ فرمایا جائے۔ باوجود اِس کے میرا نام پروگرام میں شائع کر دیا گیا ہے۔ چونکہ اِس سے پیشتر میرا نام کئی پروگراموں میں بغیر میری اطلاع اور اِجازت کے شائع کر دیا جاتا ہے، جس سے پبلک کو غلط فہمی ہوتی ہے، لہذا بذریعہ اِس خط کے میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ کارپردازانِ انجمن نے میرا نام بغیر میری اجازت کے شائع کر دیا ہے۔ میں اِمسال انجمن کے لیے کوئی نظم نہیں لکھ سکا اور نہ جلسے میں شریک ہو سکتا ہوں۔‘‘ ابھی خدا جانے قابضانِ انجمن کی مہربانیوں سے اور کیا کچھ ہونے والا ہے۔۱۴۱ ۱۷۰ ۲۸ مارچ کو کشن پرشاد کے خط کا جواب بھی دیا۔ ۱۷۱ مرزا جلال الدین کو ریاست گوالیار میں ملازمت مل گئی۔۱۴۲ ۱۷۲ کشن پرشاد کی پانچ بیویوں میں سے جو مسلمان سیدزادی تھی اس کا ایک لڑکا خواجہ نصراللہ تھا۔ اس کی رسمِ بسم اللہ مسلمانوں کے رواج کے مطابق ادا ہوئی۔ اِس دفعہ کشن پرشاد کا خط آیا تو اقبال کو معلوم ہوا کہ ہَردوار کا سفر نہیں کر رہے۔ ’’آپ آزادی کی تلاش میں حیدرآباد سے باہر جاتے ہیں مگر کوئی آپ کو چھوڑے بھی،‘‘ اقبال نے ۱۲ اپریل کو لکھا۔ ’’ہم تو اِسی خیال سے اپنے جذبِ دل سے بھی کام نہیں لیتے کہ ایسا نہ ہو جذبِ دل کو شرمسار ہونا پڑے۔‘‘ غالباً کشن پرشاد نے لاہور کے کسی پیرصاحب کے بارے میں پوچھا تھا۔ ’’شاہ صاحب بھی آج کل لاہور سے باہر ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’کوئی مرید اُنہیں بھگا لے گیا۔‘‘۱۴۳ ۱۷۳ سفینۂ اُردولکھنؤ سے شائع ہوئی۔ مولوی محمد اسماعیل نے ڈی پی آئی آگرہ اور اودھ کے حکم سے اسکولوں کی ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے ترتیب دی تھی۔ اقبال کی نظم ’ایک پرندے کی فریاد‘ شامل تھا: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ۱۴۴ ۱۷۴ اِس دفعہ بھی اقبال پنجاب یونیورسٹی کے لیے بی اے اور ایم اے فلسفہ کے پرچے جانچ رہے تھے۔ گرمی سے گھبرا کر کشمیر جانا چاہتے تھے کہ اب تک صرف اس کے قریب کے مناظر دیکھے تھے مگر کبھی وہاں گئے نہیں تھے۔ پرچے جانچنے کی مصروفیت اب بھی لاہور سے نکلنے نہیں دے رہی تھی۔ ۱۴۵ ضیا ٔالدین لکھنے لکھانے کا شوق رکھنے والے طالب علم تھے اور بی اے کا امتحان دے چکے تھے۔ خواجہ حسن نظامی نے ان کے نام میں برنی کا اضافہ کر دیا تھا کیونکہ ضیأالدین برنی نام کے مشہور مورخ خواجہ نظام الدین اولیأ کے زمانے میں گزرے تھے۔یہ حسن نظامی کا تعارفی خط لے کر اقبال سے ملاقات کرنے پہنچے۔ اپنی کتاب اخباراللغات کا انتساب ان کے نام کرنے کی اجازت چاہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اقبال بی اے کے فلسفے کے پرچے جانچ رہے ہیں تورول نمبر پیش کر دیا۔ اقبال ناراض ہوئے۔ ملاقات ختم ہو گئی۔ ۱۷۵ ضیا ٔالدین برنی نے خط لکھ کر اپنی کتاب کا انتساب اُن کے نام کرنے کی اجازت چاہی۔ افسوس ظاہر کیا کہ رول نمبر پیش کرنے کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اقبال نے انتساب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے ۱۷ اپریل کو لکھا کہ اِس قسم کا نام و نمود پسند نہیں کرتے۔ ’’تعجب ہے کہ اُس واقعہ کو آپ کشیدگیٔ تعلقات سے تعبیر فرماتے ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِس واقعہ سے پہلے میرے آپ کے کوئی تعلقات نہیں تھے اور میں نے اس موقع پر جو کچھ عرض کیا تھا اُس میں مَیں اخلاقی اعتبار سے بالکل حق بجانب تھا۔ اِس کو آپ بخوبی سمجھتے تھے اور یقینا اب بھی سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اور معاملہ ہوتا یا اب ہو تو میں ہر طرح آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں۔‘‘۱۴۶ ۱۷۶ برنی نے ایک اور خط لکھ کر اصرارکیا کہ اقبال ان کی کتاب کا انتساب قبول کر لیں۔رول نمبر والے واقعے کا دوبارہ ذکر کر کے شائد یہ لکھا کہ اقبال کے ذہن پر اُس واقعے کا ناخوشگوار اثر معلوم ہوتا ہے۔ ۲۰ اپریل کو دوبارہ جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ اگر انتساب سے برنی کو کوئی مالی فائدہ پہنچنے کا امکان ہوتا تو اقبال منع نہ کرتے، ’’مگر جہاں تک میں سوچتا ہوں اس کا یہ اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ مجھے اخباری دنیا یا اخبارنویسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر چونکہ آپ مصر ہیں اس لیے میں اپنا پہلا خط واپس لیتا ہوں اور یہ عرض کرتا ہوں کہ میں کتاب دیکھ کر اِس امر کا فیصلہ کروں گا۔لیکن آپ مجھ سے عہد کریں کہ اگر کتاب دیکھ کرمیں نے اجازت نہ دی تو آپ اس سے ناراض نہ ہوں گے۔ اُس واقعے کا کوئی اثر میرے دل پر نہ تھا اور نہ اب ہے۔ آپ بلاتکلف جب چاہیں میرے غریب خانے پر تشریف لائیں۔‘‘ ۱۷۷ ۲۳ اپریل کو شیکسپئر کی برسی تھی اور وہ برطانوی جہاز یونانی سمندروں سے گزر رہا تھا جس کے کیبن میں شاعر رُوپرٹ بروک بیمار پڑا تھا۔ مچھر کے کاٹنے سے جسم میں زہر بھر چکا تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے فوت ہو گیا۔ رات گیارہ بجے اُسے یونان کے جزیرے اسکائروس میں زیتون کے درختوں کے جھنڈ میں دفن کر کے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ اُنہیں گیلی پولی پر حملہ کرنا تھا۔ گیلی پولی، عثمانی ترکی میں چھوٹا سا جزیرہ نما تھا۔ یہاںسے اتحادی فوجیں آسانی کے ساتھ استنبول پر حملہ کر سکتی تھیں، جو کبھی قسطنطنیہ تھا اور جسے دوبارہ حاصل کرنا یورپ کے لیے ایک حسین تصور تھا۔یہاں جو ترک اور جرمن دستے تعینات تھے اُن میں لفٹننٹ کرنل مصطفی کمال بھی موجود تھے جنہوں نے پچھلے برس ینی چری کا قدیم لباس پہن کر بلغاریہ کے فینسی ڈریس بال میں حصہ لیا تھا۔ ۲۵ اپریل کو اتحادی فوجیں گیلی پولی کے ساحل پر ٹھیک اُسی جگہ اُتریں جس کا اندازہ مصطفی کمال نے پہلے سے لگا رکھا تھا۔ اگلی صبح مصطفیٰ کمال نے اپنی ڈویژن کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ خود سب سے پہلے دشمن کے قریب جا پہنچے۔ کسی اور ڈویژن کے سپاہی میدان چھوڑ کر واپس آ رہے تھے۔ اُن کے پاس گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ سامنے والی پہاڑی سے دشمن بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ ’’میں نے اُنہیں حکم دیا کہ سنگینیں لگائیں اور زمین پر لیٹ جائیں،‘‘ مصطفیٰ کمال کا بیان ہے۔ ’’اُنہوں نے ایسا کیا تو دشمن بھی لیٹ گیا۔ یوں ہم نے مہلت حاصل کر لی۔‘‘ اپنی ڈویژن پہنچی تو مصطفی کمال نے اُس سے کہا۔ ’’میں تمہیں حملے کا حکم نہیں دے رہا۔ میں تمہیں مرنے کا حکم دے رہا ہوں۔ جب تک ہم مریں گے، دوسرے یونٹ اور کمانڈر ہماری جگہ لینے پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘ ’’وہ حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی انیسویں ڈویژن کے ساتھ جنگ میں کود پڑا اور دشمن کو واپس ساحل تک دھکیل آیا،‘‘ جرمن جرنیل وان سانڈرز نے مصطفی کمال کے بارے میں لکھا۔ البتہ خود مصطفیٰ کمال جنگ میں ترکی کی شمولیت سے مطمئن نہ تھے۔ اعلانِ جنگ سے تقریباً دو ماہ قبل ستمبر میں، جب وہ ابھی بلغاریہ ہی میں تعینات تھے، ایک دوست کو خط میں لکھا تھا، ’’ہم نے مقصد متعین کیے بغیر ہی فوجوں کی نقل و حرکت شروع کر دی ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ واضح نہیں ہے کہ ہمارا رُخ کس طرف ہو گا۔ ایک بڑی فوج کو زیادہ عرصہ بے حرکت رکھنا بہت مشکل ہے۔ جرمنی کی پوزیشن کو فوجی نقطہ ٔ نظرسے دیکھتے ہوئے مجھے بالکل یقین نہیں ہے کہ جرمن یہ جنگ جیتیں گے۔‘‘۱۴۷ ۱۷۸ ۲۶ اپریل کو لندن میں برطانیہ، فرانس اور روس نے اٹلی کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا کہ آسٹریا کا کچھ حصہ اُسے ملے گا۔ تب اٹلی جنگ میں شامل ہوا۔ وہاں جو لوگ پہلے سے کوشش کر رہے تھے کہ جنگ میں حصہ لیا جائے اُن میں اسکول کا ایک سابق استاد بھی شامل تھا جو اَب اپنا اخبار نکال رہا تھا۔ اُس کا نام بنیٹو مسولینی تھا۔ ۱۷۹ لاہور گرمی سے تنور بنا ہوا تھا۔ اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں اقبال کو بخار ہوا۔ کشن پرشاد کا خط آیا جس میں لکھا تھا، ’’خدا کے لیے جلد بلوائیے۔‘‘ بہت دن جواب نہ دے سکے۔۱۴۸ ۱۸۰ ’’عرصہ ہوا میں نے دو چار خطوط آپ کی خدمت میں لکھے مگر آپ کے تساہل نے ایک کا جواب نہ دیا،‘‘ ۵ مئی کو گرامی کے نام لکھا۔ ’’عصائے پیر تو مدت ہوئی محوِ خواب ہے اب معلوم ہوتا ہے خود پیر بھی خواب میں ہیں۔‘‘ مثنوی ختم ہونے کی اطلاع دے کر کہا کہ اب اس کی اشاعت کا اہتمام درپیش ہے۔ دیباچے کے چند اشعار بھیجے کہ اصلاح کی نظر سے دیکھے جائیں۔ اُسی روز کشن پرشاد کو بھی خط لکھا۔ ’’خدا کے لیے وہیں قیام فرمائیے اور لیل و نہار کا رنگ چشم ِعبرت سے ملاحظہ فرمائیے۔ واقعی سرکار عالم ملکوت میں عالی کے ہم سبق تھے اسی واسطے تو میری عرض ہے کہ شاد عالی ہے ان شأ اللہ ایسا ہی ہو گا۔ یہی اقبال کی دعا ہے۔‘‘۱۴۹ ۱۸۱ ۷ مئی تھی۔دوپہر کے سوا دو بجنے والے تھے۔ برطانیہ کا عظیم الشان بحری جہاز لوسیطانیہ سمندر کا سینہ چیرتا ہوا واپس آ رہا تھا۔ یہ جنگی جہاز نہ تھا بلکہ اس میں مختلف ممالک کے مسافر سوار تھے۔ کنیڈا کا ایک صحافی عرشے پر کسی دوست سے باتیں کر رہا تھا جب اُسے کچھ دُور پانی میں ایک خوفناک چیز دکھائی دی۔ کسی آبدوز کا منارہ تھا۔ ساتھ ہی پانی میں کھنچی ہوئی موت کی لکیر پر نظر پڑی جو آبدوز سے چھوڑے گئے تارپیڈو کا نشان دے رہی تھی۔ دھماکہ زوردار تھا۔ جہاز آگے کی طرف جھکا اور اس کے کچھ ٹکڑے فضا میں بلند ہوئے۔ نیچے ڈائننگ ہال میں کھانا کھانے کے بعد وقت گزاری کرنے والے مسافروں نے بھی اسے سنا اور وہ دوسرا دھماکہ بھی جس کے بائیس منٹ بعد جہاز پانی کی لہروں میں غائب ہو چکا تھا۔ دو ہزار کے قریب افراد میں سے صرف چھ سو اپنی جانیں بچا سکے ۔ مرنے والوں میں ایک مشہور امریکی کروڑپتی اور امریکی صدر کے کچھ دوست شامل تھے۔نیویارک سے جرمن زبان میں شائع ہونے والے اخباروں نے عوام کو یاد دلایا کہ جرمن سفیر نے اُنہیں کچھ ہی عرصہ پہلے لوسیطانیہ میں سفر کرنے سے منع کیا تھا۔ پانچ روز بعد انگلستان میں بلوہ ہوا۔جرمن ناموں والی دکانیں جلائی گئیں۔ پولیس نے بچانے کی کوشش کی تو پتھر کھا کر زخمی ہوئی۔ کئی تنظیموں کا مطالبہ تھا کہ جرمن نسل کے برطانوی شہریوں سے بھی انتقام لیا جائے۔ ۱۸۲ ۱۶ مئی کو محمد علی اور شوکت علی ایک دُوردراز قصبے میں نظربند کر دیے گئے۔ حکومت نے کوئی وجہ نہ بتائی۔۱۵۰ ۱۸۳ یونانی فاتح سکندراعظم نے ایشیا کی عظیم سلطنت فتح کی مگر دنیاوی طاقت کی حد یہیں تک تھی۔ حضرت بلال ایک معمولی غلام تھے مگر جو اذان کبھی اُن کی زبان سے ادا ہوئی آج بھی فضا میں گونجتی تھی۔ بادشاہوں کو بھی تعمیل کرنی پڑتی تھی۔ سکندر مغربی حکمرانوں اور حضرت بلال حبشی ہندوستان کی مسلمان قوم کی علامت ہو سکتے تھے کہ حضرت بلال بھی کالے تھے اور غلام بھی: اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے؟ رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے!۱۵۱ ۱۸۴ مئی کے دوسرے حصے میں کشن پرشاد کے کسی اہلکار سے ملاقات ہوئی۔ مضطرؔ تخلص تھا اور دکن جا رہے تھے۔۱۵۲ ۱۸۵ اس دفعہ کشن پرشاد نے خط ظریفانہ انداز میں لکھا تھا۔ غالباً تین شادیوں کو اقبال کے بخار کی وجہ بتایا۔ ’’چوکڑہ ہانکنے سے تو بخار دفع ہوتا ہے بلکہ ہر قسم کے دُکھ درد سے نجات ملتی ہے،‘‘ اقبال نے ۲۱ مئی کو جواب لکھتے ہوئے اپنے آپ کو تین بیویوں کی رعائت سے صاحبِ تثلیث اور کشن پرشاد کو پانچ بیویوں رکھنے کی وجہ سے پنج تنی قرار دیا۔ ’’اگر یہ امر باعثِ امراض ہوتا تو قائلینِ پنج تن کو صاحبانِ تثلیث سے زیادہ موقع شکایت کا ہوتا۔‘‘ کشمیر کے مناظر کی تعریف بھی کی جہاں جانے کی حسرت لیے بیٹھے تھے۔ ’’ہر قدم پر قدرت کی دلفریبیاں نظر آتی ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اگر سرکار وہاں کی سیر کریں تو پنج تنی مذہب کو چھوڑ کر ضرور شش امامی ہو جائیں۔ زیا دہ کیا عرض کروں۔‘‘ ۱۸۶ برنی کی کتاب اچھی تھی۔ ’’اُردوخوانوں کے لیے بالخصوص اس قسم کی کتاب کی ضرورت تھی،‘‘ اقبال نے ۲۲ مئی کو اُنہیں خط میں لکھا۔ ’’اگر آپ اس کتاب کے ڈیڈیکیشن سے مجھے معزز کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گا۔‘‘ ۱۸۷ ۲۳ مئی کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس شمس العلمأ مولوی عبدالحکیم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کالج کمیٹی میں اقبال کی رکنیت کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ توسیع کی گئی۔۱۵۳ ۱۸۸ لارڈ نارتھ کلف کئی اخباروں کے مالک تھے۔ ڈیلی میل میں لارڈ کچنر کے بارے میں لکھا تھا کہ ناقص گولے فراہم کرنے کی وجہ سے سپاہیوں کی زندگیاں ضائع ہونے کے ذمہ دار تھے۔ برطانوی عوام کچنر کو قومی ہیرو تسلیم کر چکے تھے۔ ڈیلی میل کی خرید کم ہو گئی اور اسٹاک ایکسچینج کے ڈیڑھ ہزار ارکان نے اخبار کے خلاف قرارداد منظور کر کے رسمی طور پر اُس کی کاپیاں جلائیں۔ وزیراعظم ایسکوئیتھ نے بھی اخبار کی مذمت کی۔ دنیا کی سلامتی داؤ پر لگی تھی مگر برطانوی سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ سے باز نہ رہ سکیں۔ ایسکوئیتھ کے حریف لائڈ جارج نے ہاتھ دکھایا۔ حکمراں جماعت مشترکہ حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی۔ کابینہ میں ’منسٹر آف میونیشن‘ کا عہدہ تشکیل دیا گیا۔ ۲۵ مئی کو اُس پر لائڈ جارج فائز ہوئے۔ لارڈ کرُو نے سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا یعنی ’’وزیرِ ہند‘‘ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اُن کی جگہ آسٹن چیمبرلین اس پر فائز ہوئے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ ایک بٹالین کے لیے دو مشین گنیں کافی ہوتی ہیں۔ کچنر کے خیال میں چار بھی کام آ سکتی تھیںمگر اس سے زیادہ بیکار تھیں۔ لائڈ جارج نے اسلحہ بنانے والوں کو حکم دیا، ’’کچنر کی بتائی ہوئی تعداد لو۔ اُس کا مربع نکالو۔ اُسے دو سے ضرب دو۔پھر برکت حاصل کرنے کے لیے دوگنا کر دو۔‘‘ یہ تعداد چونسٹھ تھی۔ اسلحے کی اُس دوڑ کا آغاز تھا جو بعد میں بھی جاری رہنے والی تھی۔ ۱۸۹ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں پرچوں کا کام ختم ہو گیا۔ کشمیر سے شہزادی بمبا دلیپ سنگھ کا دعوت نامہ بذریعہ تار آیا مگر سردار جوگندر سنگھ جن کے ساتھ جانا تھا شملے میں بیمار ہو گئے۔۱۵۴ ۱۹۰ تین برس پہلے شکاگو سے شروع ہونے والے ماہنامے پوئٹری (Poetry)کا مقصد یہ تھا کہ اچھی اور بری شاعری کا فیصلہ معاشرے کی بجائے پیشہ ور نقادوں سے کروایا جائے۔ اس برس جون کے شمارے میں ایک نیا امریکی شاعر متعارف کروایا گیا جو برطانیہ کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ اُس کا نام ٹی ایس ایلیٹ تھا۔ نظم کا عنوان ’دی لوو سونگ آف جے الفریڈ پروفروک‘ تھا۔ اقبال کی مثنوی جو ابھی شائع نہ ہوئی تھی اُس کا آغاز اِس دعوے سے ہوتا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اُن کی بات ضرور سنی جائے گی کیونکہ وہ مستقبل کے شاعر کی آواز ہیں۔ ایلیٹ کی نظم کے آغاز میں دانتے کے جہنم نامے کے ایک کردار کا مکالمہ درج تھا کہ مجھے یقین ہے کہ میری آواز جہنم سے باہر کبھی نہ پہنچے گی۔ اقبال کی مثنوی ایک روشن صبح سے شروع ہوتی تھی۔ ایلیٹ کی نظم کا پس منظر ایک منحوس شام تھی۔ اقبال کی شاعری کے تمام استعارے جوانی اور شباب سے تعلق رکھتے تھے۔ ایلیٹ کی نظم کا مرکزی کردار وقت سے پہلے بوڑھا ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں میں جو فرق تھا اُسے اہلِ ذوق محسوس کر سکتے تھے۔ اگر مشرق میں اقبال کی مثنوی اور مغرب میں ایلیٹ کی نظم مقبول ہو جاتیں توپھر مشرق اور مغرب کی راہیں جدا تھیں۔ The Love Song of J. Alfred Prufrock By T. S. Eliot [Excerpt] Let us go then, you and I, When the evening is spread out against the sky Like a patient etherized upon a table; Let us go, through certain half-deserted streets, The muttering retreats Of restless nights in one-night cheap hotels And sawdust restaurants with oyster-shells: Streets that follow like a tedious argument Of insidious intent To lead you to an overwhelming question... Oh, do not ask, "What is it?" Let us go and make our visit. In the room the women come and go Talking of Michelangelo. ۱۹۱ مثنوی کی کتابت مکمل ہو چکی تھی۔ سید علی امام سے اجازت لی جا چکی تھی۔ ’پیشکش‘ کے ساتھ ’’با اجازت جناب ممدوح‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ عنوان بالآخر وہی پسند آیا جو دو برس پہلے حسن نظامی کے رسالے میں مثنوی کے اولین اشعار کے ساتھ چھپا تھا: ’اسرارِ خودی‘۔ کتابت شدہ نسخے میں رد و بدل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تقریباً ہر باب میں کانٹ چھانٹ ہوئی۔ پیشکش کے اشعار میں کافی ترمیم ہوئی۔ تعداد بڑھ کر اُنیس ہو گئی۔ ’تمہید‘ کا ایک شعر کاٹا۔ بعض مصرعوں میں ترمیم کی۔ نئے اشعار شامل ہوئے۔ حقیقتِ خودی والے باب میں بہت زیادہ کانٹ چھانٹ ہوئی۔ نئے اشعار میں شیخ فرید الدین عطار کی تیسری وادی ’’معرفت‘‘ اور چوتھی وادی ’’استغنا‘‘ کے اثرات صاف دکھائی دے رہے تھے: خودی نے اپنے آپ کو اپنا غیر سمجھ کر کائنات میں کشمکش کا بیج بویا ہے! اپنے آپ ہی سے غیروں کے وجود پیدا کرتی ہے تاکہ مقابلے کی لذت میں اضافہ ہو، ان میں سے بعضوں کو اپنی قوتِ بازو سے فنا کر دیتی ہے تاکہ اپنی طاقت سے آگاہ ہو جائے۔ اس کی خودفریبیاں اور پھول کی طرح اپنے لہو سے وضو کرنا ہی زندگی کی اصل ہے۔ ایک پھول کے لیے سیکڑوں باغوں کا خون اور ایک نغمے کے لیے سیکڑوں فریادیں کرتی ہے۔ ایک آسمان کی خاطر سیکڑوں ہلال اور ایک حرف کے لیے سیکڑوں اندازِ بیان لاتی ہے۔ اس فضول خرچی اور سنگدلی کا جواز باطنی حسن کی تخلیق اور تکمیل ہے!۱۵۵ ۱۹۲ آرزو یعنی ’’تخلیق و تولید مقاصد‘‘ والے باب میں اب بھی کوئی کانٹ چھانٹ نہ کرنی پڑی۔ صرف دو شعروں کا اضافہ ہوا: آرزو ہی اس جہانِ رنگ و بو کی جان ہے کہ ہر شے کی فطرت میں آرزو پوشیدہ ہے۔ اپنے دل میں آرزو کو زندہ رکھوتاکہ تمہارا جسم تمہاری قبر نہ بن جائے۔۱۵۶ ۱۹۳ عشق و محبت والے نعتیہ باب میں بھی آخری وقت تک تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ امام زین العابدین کے بارے میں متروک اشعار میں سے جو حضرت علی کے باب میں شامل کیا تھا اُسے اب آنحضورؐ کے بارے میں کر دیا: طور موجے از غبارِ خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش حضرت علی کے باب سے ایک اور شعر نکال کر آنحضورؐ کے بارے میں کیا گیا: ابد کا عرصہ آپؐ کی ایک آن سے بھی کم ہے، ابد نے آپؐ ہی کی ذات سے اپنی ابدیت پائی ہے۔ آخر میں ایک نئے بند کا اضافہ ہواجس میں مسلمانوں کی بیکسی کا تذکرہ تین برس پہلے والی اُردو نظم ’حضور رسالتمابؐ میں‘ کی یاد دلاتا تھا: ایک غزوے کے بعد حاتم طائی کی بیٹی قید ہو کر آنحضورؐ کے سامنے اس حال میں لائی گئی کہ سر پر چادر نہ تھی تو آپ نے اپنی چادر سے اُس کا سر ڈھانپ دیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اُس بے کس لڑکی سے بھی زیادہ مدد کے محتاج تھے اور آخرت کی طرح دنیا میں بھی آپؐ ہی کی شفاعت کا آسرا تھا۔ ۱۹۴ تین مراحل والے باب کے عنوان میں ’’کمالِ انسانی‘‘ کے الفاظ کاٹ کر اُنہیں ’’تربیت خودی‘‘ کر دیا۔ کمالِ انسانی سے عام طور پر ذہن قدرت کے کاموں کی طرف جاتا تھا۔ انسانِ کامل کی اصطلاح بھی ذہن میں آتی تھی۔ سب کے ساتھ مخصوص تصورات وابستہ تھے جن سے اقبال درگزر کر رہے تھے۔ مناسب تھا کہ اصطلاح نئی ہوتی۔تینوں مراحل کے نام بھی بدل گئے: ٭ اُشتری کی بجائے اطاعت ٭ شتربانی کی بجائے ضبطِ نفس ٭ جہاں بانی کی بجائے نیابتِ الٰہی ۱۹۵ ’مرحلہ اول اطاعت‘ میں اضافہ ہوا: ستارہ بھی کسی آئین کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ہی منزل کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ سبزے کا دین اُگنا ہے جس پر قائم رہ کر وہ اُگتا ہے اور ترک کر کے قدموں تلے روندا جاتا ہے۔ لالے کا قانون ہمیشہ چلنا ہے اس لیے اُس کی رگوں میں خون جوش مارتا رہتا ہے۔ وصال کے قانون سے قطرہ دریا اور ذرہ صحرا بنتا ہے۔ ہر شے کا باطن کسی آئین سے طاقت ور ہے تو پھر تم اس چیز سے بے خبر کیوں جا رہے ہو؟ اے پرانے دستور سے آزاد ہو جانے والے، اپنے پاؤں میں پھر وہ چاندی کی بیڑیاں ڈال لو۔۱۵۷ ’مرحلہ دوم ضبط نفس‘ کے پہلے شعر میں بھی ترمیم ہوئی: تمہارا نفس اونٹ کی طرح اپنی پرورش میں لگا رہتا ہے۔ خودپرست ہے، اپنے آپ پر حاوی اور بغاوت پر آمادہ ہے۔۱۵۸ ’مرحلہ سوم نیابت الٰہی‘ کے آخری چار اشعار کاٹ دیے۔ ان میں سے ایک تو معمولی تبدیلی کے ساتھ آخری شعر بنا، آخری شعر یہاں سے نکل کر عشق و محبت والے نعتیہ باب کے آخر میں سجا مگر دو اشعار ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہو ئے جن کی قسمت میں آٹھ برس بعد اُردو ترجمے کی صورت میں طلوع ہو کر مشہور ہونا تھا: سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۱۵۹ اس حصے کا اختتام دوبارہ لکھا گیا۔ دو اَشعار ’الوقت سیف‘ والے باب سے نکل کر آگئے، ایک شعر میں ترمیم کر کے اُس کی جگہ بدلی۔ باقی نئے اشعار تھے: ہماری کلی دامن میں گلستاں سمیٹے ہوئے ہے۔ ہماری آنکھوں میں آنے والے کل کی روشنی ہے۔ ہمارے آج کی راکھ میں ہمارے آنے والے کل کا وہ شعلہ دبا ہوا ہے جو دنیا میں آگ لگا سکتا ہے۔ اے زمانے کی سواری کے شہسوار، آجا! اے کہ تو اِمکان کی آنکھ کا نور ہے، آ جا!۱۶۰ ۱۹۶ ’پیشکش‘ میں سے جو اشعار نکالے تھے وہ حضرت علی کے باب کی تمہید میں بعض نئے اشعار کے ساتھ شامل کر کے نئی ترتیب بنائی: وہ اولین مسلمان، بہادروں کے سردار علیؓ! عشق کے لیے ایمان کا سامان علیؓ! میں آپؓ کے خاندان کی محبت سے زندہ اور دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں! میں نرگس ہوں اور نظارے میں کھویا ہوا ہوں، آپؓ کے باغ میں خوشبو کی طرح بے قرار پھر رہا ہوں! اگر میری خاک سے زمزم پھوٹ رہا ہے تو آپؓ کی وجہ سے ہے! اگر میری شاخ سے شراب ٹپک رہی ہے تو آپؓ کی وجہ سے ہے! میں خاک ہوں مگر آپؓ کے کرم سے آئینہ بن گیا ہوں اور میرا سینہ اتنا شفاف ہو گیا ہے کہ اس میں آواز کو دیکھا جا سکتا ہے! پیغمبرؐ خدا آپؓ کے چہرے سے فال لیتے تھے۔ آپؓ کے شکوہ سے ملتِ اسلامیہ نے عزت حاصل کی۔ آپ کو دین کی طاقت کہا گیا اور آپؓ کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے۔ رسولؐ اللہ نے آپ کا لقب بوتراب رکھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ کو یداللہ فرمایا۔ جو بھی زندگی کے رموز سے واقف ہے اُسے معلوم ہے کہ حضرت علیؓ کے ناموں کا راز کیا ہے۔۱۶۱ ۱۹۷ حکایت میں جس نوجوان کو سوات کے اخوند کے پاس حاضر ہوتے دکھایا تھا، اُس کا تعلق ہرات کی بجائے مرو سے کر دیا۔ بزرگ کے پیغام کے آخری مصرعے ’’مثل حق جبار شو، قہار شو‘‘ کو بدل کر ’’مرد حق شو، حامل اسرار شو‘‘ کر دیا یعنی ’’مردِ حق بنو اور اَسرار کے جاننے والے بن جاؤ!‘‘ اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ پیغام سوات کے اخوند کی بجائے ’’حضرت شیخ مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ‘‘ سے منسوب کر دیا جنہیں داتا گنج بخش کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ لاہور میں مزار تھا۔ آپ کی شان میں بعض اشعار ’الوقت سیف‘ والے باب سے لیے، باقی نئے تھے۔ حضرت علی ہجویری جو قوموں کے بزرگ ہیں، جن کا مزار خواجہ معین الدین چشتی کے لیے حرم کی مانند ہے کہ وہ بھی وہاں تشریف لائے، جو پہاڑوں کی رکاوٹیں نظرانداز کر کے آئے اور ہندوستان کی سرزمین میں سجدے کا بیج بویا، آپ کے جمال سے حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ واپس آ گیا۔ آپ کی تلوار سے سچائی کا بول بالا ہوا۔ آپ اُم الکتاب کی عزت کے پاسبان تھے۔آپ کی نگاہ سے باطل کا گھر برباد ہوا۔ آپ کے دم سے خاکِ پنجاب زندہ ہوئی۔ ہماری صبح آپ کے سورج سے زندہ ہوئی۔ آپ عاشق بھی تھے اور عشق کے تیزرفتار قاصد بھی تھے۔ آپ کی جبین سے عشق کے اسرار ظاہر ہوتے تھے۔ میں آپ کے کمال کی ایک داستان سناتا ہوں۔ ایک کلی میں باغ سمونے کی کوشش کرتا ہوں۔۱۶۲ فرضی کردار میر نجات نقشبند کے لیے ایک لقب کا اضافہ بھی کیا: بابائے صحرائی! ’الوقت سیف‘ میں سے سلطان محمد فاتح والے اشعار نکال دیے۔ ’’عہدِ فاروق از جلالش تازہ شد‘‘ کے جلال کو جمال سے بدل کر شیخ علی ہجویری والے باب میں اُن کی شان میں رکھ دیا جہاں فاتح کی تلوار کی بجائے صوفی کی آواز حق کا بول بالا کر رہی تھی (کشف المحجوب میں داتا صاحب نے لکھا بھی تھا، ’’ہندو کے دل پر محمود کی تلوار سے زیادہ صوفی کی محبت کا اثر ہے‘‘)۔ تبدیلی معنی خیز تھی۔ سلطان محمد فاتح کے رخصت ہو جانے پر مثنوی میں کسی بادشاہ کی تعریف شامل نہ رہی۔اب بادشاہوں کا تذکرہ صرف اِس حوالے سے تھا کہ کسی روحانی شخصیت نے اُن کے سامنے سر اُٹھایا۔ تب بھی وہ گمنام تھے، صرف روحانی ہستیوں کے نام لیے گئے تھے۔ مثنوی کے موجودہ عنوان ’اسرارِ خودی‘کے لحاظ سے مناسب بھی تھا کیونکہ خودی کا راز یہی ہو سکتا تھا کہ فقیر کے سامنے بادشاہ کانپنے لگیں۔ سلطان محمد فاتح کے بارے میں جو لکھا تھا کہ اُن کی تلوار فتح کی دعا پر آمین تھی جس نے شاہی خاندانوں کے سلسلے کاٹے اور اُنہوں نے ایک نئے زمانے کا آغاز کیا، وہ اشعار عشق و محبت والے باب میں آنحضورؐ کے بارے میں کر دیے۔ ’الوقت سیف‘ کے آخری دو شعر ’نیابت الٰہی‘ کے حصے میں آئے۔ ۱۹۸ وقت کے بارے میں نیا نکتہ بیان کیا جو پورا بند بن گیا: تم نے وقت کو ایک سیدھی لکیر سمجھ کر اپنی مٹی میں اندھیرے کا بیج بویا ہے اس لیے تمہاری سوچ نے زمانے کی طوالت کو دن اور رات کے پیمانے سے ناپا ہے۔ اس دھاگے کو تم نے اپنے گلے کا زنّار بنایا اور بتوں کی طرح جھوٹ کو فروغ دینے والے ہو گئے۔ تم کیمیا تھے، مٹی بن گئے۔ خدا کا راز پیدا ہوئے تھے، باطل ہو گئے۔ مسلمان ہو؟ اس زنار سے آزاد ہو جاؤ! آزادوں کی قوم کی محفل میں شمع بن جاؤ! تم کہ وقت کی اصلیت سے آگاہ نہیں ہو، ہمیشہ کی زندگی سے آگاہ نہیں! کب تک روز و شب میں قید رہو گے! وقت کی رمز آنحضورؐ کے اس قول سے سمجھو، ’’مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا وقت میسر ہے جو کسی نبی یا خاص فرشتے کو حاصل نہیں۔‘‘ چیزیں وقت کی رفتار سے پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی وقت کے اسرار میں سے ایک راز ہے۔ وقت سورج کی گردش کا نام نہیں ہے کہ وقت ہمیشہ رہنے والا ہے اور سورج ہمیشہ رہنے والا نہیں! وقت خوشی بھی ہے اور غم بھی، عید بھی اور عاشورہ بھی ہے۔ وقت چاند اور سورج کی روشنی کا راز ہے۔ تم نے زمان کو بھی مکان کی طرح بچھا کر ماضی اور مستقبل کو علیحدہ کر دیا ہے۔ اے کہ خوشبو کی طرح اپنے باغ سے نکل گئے ہو، تم نے اپنے ہاتھ سے اپنے لیے پنجرہ تعمیر کیا ہے۔ ہمارا وقت جس کی ابتدا ہے نہ انتہا، وہ ہمارے باطن کی کیاری سے پھوٹتا ہے، زندہ اپنی اصل کو پہچان کر زیادہ زندہ ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی صبح سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔ زندگی زمانے سے اور زمانہ زندگی سے ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا، ’’وقت کو برا مت کہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’میں ہی زمانہ ہوں۔‘‘‘۱۶۳ ۱۹۹ ہماری عقل، عمل کی اغراض پوری کرنے کے لیے اسباب اور علل میں تمیز کرتی ہے، یہ جادوگر ہم سے زندگی کا لطف چھین لیتی ہے۔ اس کا جام ہمیں جمشید کی شان سے محروم کر دیتا ہے۔ جب ہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں تو نقل و حرکت ہمیں سکون دکھائی دیتے ہیں۔ عقل کی فطرت اجزا کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس کے آئینے میں سمندر بھی شبنم ہے۔ وہ ہمیں حققیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ ہمارے کھیت کو دانوں کا انبار بنا دیتی ہے۔ اُس نے شعلے کو چنگاریوں میں تقسیم کر دیا۔ ہوش کو اَجزا کی پرستش سکھائی۔ وقت کے باب میں یہ اشعار لکھنے کے بعد محسوس ہوا کہ انہیں حقیقت خودی میں ہونا چاہیے۔ دل کی طرح عقل بھی خودی ہی سے جنم لیتی ہے تاکہ خودی عالمِ اسباب کو تسخیر کر سکے۔ بعض اشعار منسوخ ہوئے۔ باقی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’اصلِ نظام عالم‘ والے باب میں گئے۔۱۶۴ ۲۰۰ بعض ابواب کے عنوانات بھی بدلے: ٭ ’پیشکش‘ کا عنوان بدل کر ’تقدمہ‘ کر دیا ٭ حیاتِ خودی والے باب کا عنوان ’دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسل حیات تعینات وجود بر استحکام خودی انحصار دارد ‘ہو گیا ٭ مقاصد والے باب کا عنوان ’در بیان اینکہ حیاتِ خودی از تخلیق و تولید مقاصد است‘ ہوا ٭ تین مراحل والے باب کا عنوان ہو گیا: ’در بیان اینکہ تربیت خودی را سہ مراحل است۔ مرحلہ اول را اطاعت و مرحلہ دوم را ضبط نفس و مرحلہ سوم را نیابت الٰہی نامیدہ اند ٭ نوجوان والی حکایت کا عنوان ہو گیا: ’حکایت نوجوانے از مرو کہ پیش حضرت شیخ مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ آمدہ از ستمِ اعدا فریاد کرد‘ ٭ شیخ وبرہمن والے عنوان کے شروع کے الفاظ یوں ہوئے: ’حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگا و ہمالہ در معنی ایں کہ۔۔۔‘ ٭ میر نجات نقشبند والے باب کے عنوان میں اُس کے نام کے ساتھ ’’المعروف بہ بابائے صحرائی‘‘ کا اضافہ کیا ٭ الوقت سیف ۲۰۱ اس بارے میں کہ افلاطونِ یونانی اور حافظ شیرازی جن کے افکار سے مسلمان قوموں کے تصوف اور ادب نے گہرا اثر قبول کیا ہے، بھیڑوں کے مسلک پر کاربند تھے اور اُن کے تخیلات سے بچنا ضروری ہے رہبانیت کا بانی فلسفی افلاطون، پرانی بھیڑوں کے گروہ سے تھا۔ اس کا گھوڑا فلسفے کی تاریکی میں گم ہے اور زندگی کے کوہستان میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ وہ قیاسی علوم سے اس قدر مسحور ہوا کہ ہاتھ، آنکھ اور کان پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔ کہا کہ زندگی کا راز مرنے میں ہے۔ شمع کے لیے بجھنے میں سو جلوے چھپے ہوئے ہیں! وہ ہمارے افکار پر چھایا ہوا ہے۔ اس کا پیالہ بے ہوش کر کے دنیا چھین لیتا ہے۔ انسان کے لباس میں بھیڑ ہے مگر صوفی کی روح پر پوری طرح سوار ہے۔ اُس نے اپنی عقل کو آسمانوں میں دوڑایا اور اسباب کی دنیا کو محض افسانہ قرار دیا۔ اس کا کام زندگی کے اجزا کو بکھیرنا اور زندگی کی خوبصورت ٹہنی کاٹ دینا ہے۔ افلاطون کی سوچ نے نقصان کو فائدہ بتایا۔ اُس کے فلسفے نے موجود کو غیرموجود قرار دیا۔ اس کی فطرت سو گئی اور خواب دیکھنے لگی۔ تب اس کے ہوش کی آنکھ نے بھی سراب تعمیر کر لیے۔ وہ ذوقِ عمل سے اس حد تک محروم تھا کہ اس کی روح عدم کی گرویدہ تھی، وہ زندگی کے ہنگامے کا منکر ہوا اور ایسے اعیان کا خالق بن بیٹھا جن کا خارج سے کوئی تعلق نہ تھا: زندہ روح کو عالمِ امکان پسند آتا ہے۔ مردہ دل کو اعیان کی دنیا پسند آتی ہے! اس کا ہرن چلنے کے لطف سے بے بہرہ ہے۔ اس کے چکور پر ہلنے کی لذت حرام ہے! اس کی شبنم پرواز کی طاقت سے محروم ہے۔ اس کے پرندے کا سینہ سانسوں سے محروم ہے۔ اُس کا دانہ اُگنے کا ذوق نہیں رکھتا۔ اُس کا پروانہ تڑپ سے واقف نہیں۔ ہمارے راہب کے لیے فرار کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ اس دنیا کے ہنگامے کی تاب لانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ بجھے ہوئے شعلے کی حرارت سے دل لگایا اور اپنی افیونی دنیا کا خاکہ تیار کیا، اپنے نشیمن سے آسمان کی طرف پرواز کی مگر پھر نشیمن کی طرف واپس نہ پہنچا۔ اب تک آسمان کے پیالے میں گم ہے مگر معلوم نہیں تلچھٹ ہے کہ سرپوش ہے! اس کی مستی سے قومیں زہرآلود ہوئی ہیں، سوئی ہیں اور ذوقِ عمل سے محروم ہو گئی ہیں۔ خواجہ حافظ شیرازی سے بھی ہوشیار رہو جو تمہیں جام پیش کرتا ہے۔ اُس کے جام میں موت کا زہر بھرا ہوا ہے! اُس کے ہنگاموں کے عوض اُس کی پرہیز کا خرقہ ساقی کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ اُس کے بازار میں شراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شراب کے دو ہی پیالوں میں اُس کی پگڑی کھل کر بکھر گئی ہے۔ نشے میں دھت ہو کر وہ اپنے آپ کو قارون کا وارث سمجھ بیٹھتا ہے! اُس کی سلطنت میں مفتی شراب کی صراحی لیے گھوم رہا ہے اور محتسب شراب خانے کے بوڑھے کا احسان مند ہے۔ اُس نے شراب کے رنگ کی مانند جام کا طواف کیا۔ رباب، چنگ اور بانسری سے فریاد طلب کی۔ عیش و مستی کے رموز میں کامل ہے۔ شراب کی مستی سے اُس کا دل خون ہو کر پھولوں میں اٹکا ہوا ہے۔ ساغر اور ساقی کے شغل پیش کرتا ہے۔ رِندوں کی محفل اور مے باقی پیش کرتا ہے۔ قافلے کی گھنٹی کی طرح بجتا ہی رہتا ہے کہ جسے منزل پر پہنچ کر بھی سکون نہیں! محبت میں فرہاد کی پیروی بھی کی اور لب پر فریاد بھی سجائی، مگر پہاڑوں میں آہوں کے بیج ہی بوئے۔ خسرو کا مقابلہ کرنے کی طاقت اُس میں نہ تھی۔ مسلمان ہے مگر اُس کا ایمان زُنار باندھے ہوئے ہے۔ اُس کا دین محبوب کی پلکوں کی نذر ہو گیا ہے۔ غلامی کی شراب سے اتنا مست ہے کہ خواجہ ہو کر بھی خواجگی سے محروم ہے! وہ بھیڑ ہے اور نغمے سکھاتا ہے۔ عشوہ طرازی اور ناز و ادا سکھاتا ہے۔ اُس کی دلربائی زہر کے سوا کچھ نہیں۔ اُس کی نگاہ فن کو صرف غارت ہی کر سکتی ہے۔ کمزوری کو توانائی کا نام دیا۔ اُس کے ساز نے اقوام کو گمراہ کیا۔ یونان کی بھیڑ کی نسبت یہ زیادہ چالاک ہے۔ اس کے عود کا پردہ حجابِ اکبر ہے۔ اُس کے ساز کا نغمہ زوال کی دلیل ہے۔ اُس کی آوازِ غیب زوال کی وحی لاتی ہے! ہوشیار ہو جاؤ کہ جو صراحی تمہارے ہاتھ میں ہے اُس میں حشیش بھری ہوئی ہے، جیسے حسن بن صباح کے مریدوں کو پلائی جاتی تھی۔ تخیل سے ایک جنت ضرور تعمیر کی گئی ہے مگر تمہیں موت کا خواہشمند بنادیا گیا ہے۔ وہ تیرانداز جو دل سے گرمی چھین لے اُس کا تیر موت کو خوبصورت بنا دیتا ہے، جیسے باغ میںبیٹھا ہوا زہریلا سانپ اپنے شکار کو پہلے بیہوش کر دے۔ اُس کی نگاہ کے جادو سے عشق خودکشی بن جاتا ہے۔ اسے ختم کرنا مشکل ہے کہ آستین کا سانپ ہے! حافظ جس کے اندازِ بیاں میں جادو ہے اُس کا تعلق شیراز سے تھا۔ عرفی جس کی زبان نشتر ہے وہ بھی شیراز سے تھا۔ اِس نے ملک خودی میں اپنے آپ کو زندہ کیا اور وہ رکناباد کے دریا کے کنارے مر گیا۔ یہ بہادروں کی ہمت پر عاشق ہے اور وہ زندگی کی رمز سے بے خبر ہے۔ اِس کی شاعری اگر کھیت ہے جس میں ستارے اُگتے ہیں تو اُس کی آنکھ آنسوؤں سے لبریز ہے۔ قیامت کے دن اگر رحم کہے، ’’عرفی! جنت، فردوس اور عمدہ لباس لے لو!‘‘ اُس کی غیرت ایسی حوروں پر ہنس دے اور ایسی جنت ٹھکرا دے! ہنگامے پیدا کرنے والے عرفی سے شراب لو۔زندہ ہو؟ تو پھر حافظ کی محبت سے باز رہو! اس منتر پڑھنے والے نے ہم سے زندگی چھین لی ہے۔ اس کے جام نے ہمیں جمشید کی شان سے محروم کر دیا ہے۔ اُس کی محفل غیرت مندوں کی جگہ نہیں ہے۔ اُس کا پیالہ آزاد لوگوں کے قابل نہیں ہے۔ حافظ کی محفل سے بے نیاز ہو کر گزر جاؤ۔ خدا ہمیں بھیڑوں سے بچائے، خدا بچائے!۱۶۵ ۲۰۲ بو علی قلندر نے مثنوی وحدت الوجود میں کہا تھا: خودشناسی در جہاں عرفاں بود! عارفِ خود عارفِ سبحاں بود! کشف دانی چیست؟ عالی ہمتی! مردِ رہ نبود بجز زورِ خودی! صوفیاں چوں عارفِ خویش آمدند در خودیِ خویشتن پیش آمدند۱۶۶ اقبال نے ایک باب کا اضافہ کیا، ’’اِس بارے میں کہ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جائے تو نظامِ عالم کی ظاہری اور باطنی قوتوں پر حکومت کرتی ہے۔‘‘ بو علی قلندر کا واقعہ نظم کیا جب ان کے ایک مرید کو گورنر کے چوبدار نے سرِبازار پیٹا۔ قلندر نے سلطان غیاث الدین تغلق کو خط لکھا کہ اس گورنر کو بدل دے ورنہ وہ بادشاہ بدل دیں گے: اس خدارسیدہ بندے کے مکتوب نے بادشاہ کے جسم پر لرزہ طاری کر دیا۔ اُس کے رگ و ریشے میں مصیبت کی لہر دوڑ گئی۔ ڈوبتے سورج کی طرح رنگ زرد پڑ گیا۔ حاکم کے لیے زنجیر کا حلقہ منگوایا۔ قلندر سے اس قصور کی معافی مانگنا چاہی۔ امیر خسرو جو شیریں زباں اور رنگیں بیاں تھے، جن کے نغمے کائنات کے باطن سے جنم لیتے تھے، جن کی فطرت چاند کی طرح روشن تھی، اُنہیں اس سفارت کے لیے منتخب کیا۔ قلندر کے حضور ساز بجایا تو نغمے کی آواز سے آپ کی روح کے شیشے کو پگھلا دیا۔ وہ سلطنت جو پہاڑ کی طرح مضبوط تھی ایک نغمے کی بخشیش تھی! درویشوں کے دل کو زخمی مت کرو۔ اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں مت ڈالو۔ ۲۰۳ غلام محمد طُور جو مخزن میں لکھتے تھے، شعر کہتے تھے اور اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں انگریزی پڑھاتے تھے، لاہور آئے۔ اقبال سے ملاقات ہوئی تو اعجاز کا ذکر ہوا۔ طور کو اعجاز میں ادبی رجحان دکھائی دیتا تھا مگر انگریزی میں ذخیرۂ الفاظ کم رکھتے تھے، ریاضی میں برا حال تھا اور گھومنے پھرنے کی عادت زیادہ تھی۔ بنام شیخ عطا محمد لاہور ۱۲ جون ۱۹۱۵ء برادر مکرم۔ السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا۔ الحمد للہ کہ گھر میں سب طرح خیریت ہے۔ پروفیسر طور یہاں بھی آئے تھے۔ میں نے ان سے اعجاز کے متعلق دریافت کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس کا مذاق لٹریری ہے۔ عام طور پر وہ اُس کی ذہانت کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا دماغ نہایت صاف و روشن ہے مگر جو نقص انہوں نے بیان کیے وہ بھی لکھتا ہوں۔ ۱ طرز تحریر انگریزی میں اچھا ہے مگر الفاظ بہت نہیں جانتا اور ہجا عموماً غلط لکھتا ہے۔ ۲ ریاضی میں کمزور ہے یہاں تک کہ ایف اے میں اس مضمون میں پاس ہو جائے تو غنیمت ہے۔ ۳ پھرتا بہت ہے۔ بیٹھنے سے اسے نفرت معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں نقص نمبر ۳ پہلے دو نقصوں کا ذمہ دار ہے۔ اگر بیٹھنے کی عادت ہو گی تو پڑھنے کی عادت بھی پیدا ہو گی اور اگر پڑھنے کی عادت ہو گئی تو الفاظ بھی بہت سے آ جائیں گے اور ہجے بھی صحیح ہو جائیں گے۔ ہجا درست کرنے کا ایک ہی طریق ہے اور یہ کہ کثرت سے مطالعہ ہو اور ہر لفظ جو نہ آتا ہو اس کے معانی ڈکشنری میں دیکھے جائیں اور اس کا ہجا ذہن نشین کیا جائے۔ جو شخص ایک اجنبی زبان سیکھتا ہے اور ڈکشنری دیکھنے میں کوتاہی کرتا ہے وہ کبھی اس زبان کو سیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کو کم از کم چار گھنٹہ روز علاوہ کالج کے اوقات کے پڑھنا چاہیے۔ انگریزی ناول پڑھنا مفید ہے کہ دلچسپی کی دلچسپی ہے اور زبان بھی سیکھ لی جاتی ہے۔ ریاضی کی طرف ابھی سے خاص توجہ چاہیے ورنہ امتحان میں کامیابی موہوم ہے۔ والسلام محمد اقبال ۲۰۴ ۱۸ جون کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ ’’اب لاہور کی حرارت ہے اور میں،‘‘ اقبال نے اگلے روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’ستمبر میں یہاں سے نکلنا ہو تو ہو۔‘‘ کشن پرشاد آزادی اور قید کی بات کرتے رہتے تھے۔ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی سے پابندیٔ قیود کی فضیلت پر دو اشعار لکھ کر بھیج دیے۔ نظام حیدرآباد کے شملہ آنے کی خبر پڑھی تھی۔ اُس کا ذکر کرتے ہوئے حافظؔشیرازی کے مصرعے میں ترمیم کی کہ اپنی سلطنت کے معاملات بادشاہ خود ہی جانتے ہیں: رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند ۲۰۵ شاکر صدیقی جنہیں اقبال نے کبھی مشورہ دیا تھا کہ شاعری کے چکر میں نہ پڑیں اب گوجرانوالہ میونسپل کمیٹی میں اوورسیئر تھے۔ مخزن والے شیخ نذر محمد بھی ڈپٹی انسپکٹر مدارس کی ملازمت سے ریٹائر ہو کر وہیں رہتے تھے۔ شاکر صدیقی نے اقبال سے اُردو دیوان کے بارے میں دریافت کیا۔ ۲۲ جون کو اُنہیں جواب دیتے ہوئے لکھا کہ دیوان مرتب کرنے کی فرصت نہیں مل سکی: ’’یہ [فارسی] مثنوی ایک نہایت مشکل کام تھا۔ الحمداللہ کہ باوجود مشاغلِ دیگر کے میں اس کام کو انجام تک پہنچا سکا۔‘‘ ۲۰۶ دیباچہ اسرارِ خودی یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات مستنیر ہوتے ہیں۔ یہ پراسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیرمحدود کیفتیوں کی شیرازہ بند ہے۔ یہ ’’خودی‘‘ یا ’’اَنا‘‘ یا ’’میں‘‘ جو اپنے عمل کے رُو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رُو سے مضمر ہے جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتی کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور پر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریبِ تخیل یا دروغِ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے؟ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرزِ عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہو گی جس کے حکمأ و علمأ نے کسی نہ کسی صورت میں اِس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لیے دماغ سوزی نہ کی ہو۔ مگر اِس سوال کا جواب افراد و اقوام کی دماغی قابلیت پر اِس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدرکہ اُن کی افتادِ طبیعت پر، مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اُتار دینے کا نام نجات ہے۔ مغربی اقوام کا عملی مذاق ان کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی تھی۔ ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات و نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قوم کے موشگاف حکمأ نے قوتِ عمل کی حقیقت پر نہایت دقیق بحث کی ہے۔ اور بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اَنا کی حیات کا یہ مشہود تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے عمل سے متعین ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ اِنسانی اَنا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گزشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں اور جب تک یہ قانونِ عمل اپنا کام کرتا رہے گا وہی نتائج پیدا ہوتے رہیں گے۔ اُنیسویں صدی کے مشہور جرمن شاعر گوئٹے کا ہیرو فوسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ کلام کی جگہ لفظ عمل پڑھتا ہے (’’ابتدا میں کلام تھا کلام خدا کے اور کلام ہی خدا تھا‘‘) تو حقیقت میں اُس کی دقیقہ رَس نگاہ اسی نکتے کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکمأ نے صدیوں پہلے دیکھ لیا تھا۔ اس عجیب و غریب طریق پر ہندو حکمأ نے تقدیر کی مطلق العنانی اور انسانی حریت اور بالفاظ دیگر جبر و اختیار کی گتھی کو سلجھایا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدّت طرازی داد و تحسین کی مستحق ہے اور بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرأت کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جب اَنا کی تعیین عمل سے ہے تو اَنا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ترکِ عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اور ملّی پہلو سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضی تھا کہ کوئی مجدّد پیدا ہو جو ترکِ عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔ بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اِس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترکِ کلّی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے۔ بلکہ ترکِ عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دلبستگی نہ ہو۔ سری کرشن اور سری رام نُوج بھی اسی طریقے پر چلے مگر اَفسوس ہے کہ جس عروسِ معنی کو سری کرشن اور سری رام نُوج بے نقاب کرنا چاہتے تھے سری شنکر کے منطقی طلسم نے اُسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم اُن کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔ مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک اَنا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے مگر مسئلہ اَنا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس نقطۂ خیال سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اُسی نقطۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔ شیخ اکبر کے علم و فضل اور اُن کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ انتھک مفسّر تھے اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا۔ اوحدالدین کرمانی اور فخرالدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعرأ اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے جزو اور کل کا دشوارگذار فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کر کے ’’رگِ چراغ‘‘ میں ’’خونِ آفتاب‘‘ کا اور ’’شرارِ سنگ‘‘ میں ’’جلوۂ طُور‘‘ کا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔ مختصر یہ کہ ہندو حکمأ نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا۔ مگر ایرانی شعرأ نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخرکار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔ علمأ قوم میں سب سے پہلے غالباً ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ اور حکمأ میں واحد محمود نے اسلامی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ مگر افسوس ہے کہ واحد محمود کی تصانیف آج ناپید ہیں۔ ملّا محسن فانی کشمیری نے اپنی کتاب ’’دبستانِ مذاہب‘‘ میں اس حکیم کا تھوڑا سا تذکرہ لکھا ہے جس سے اس کے خیالات کا پورا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شعرأ میں شیخ علی حزین نے یہ کہہ کر کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ حقیقتِ حال سے آگاہ تھے، مگر باوجود اِس بات کے ان کا کلام شاہد ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان حالات میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عملی ذوق کو محفوظ رکھ سکتا۔ مرزا بیدل علیہ الرحمۃ لذتِ سکون کے اِس قدر دلدادہ ہیں کہ ان کو جنبشِ نگاہ تک گوارا نہیں: نزاکت ہا است در آغوشِ میناخانۂ حیرت مژہ برہم مزن تانشکنی رنگِ تماشا را اور امیر مینائی مرحوم یہ تعلیم دیتے ہیں: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منہ سے کچھ نہ بول آنکھ آئینے کی پیدا کر دہن تصویر کا مغربی اقوام اپنی قوتِ عمل کی وجہ سے تمام اقوامِ عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اَسرارِ زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کے ادبیات و تخیلات اہلِ مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں، اگرچہ مغرب کے فلسفۂ جدید کی ابتدأ ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظامِ وحدت الوجود سے ہوتی ہے، لیکن مغرب کی طبائع پر رنگِ عمل غالب تھا۔ مسئلہ وحدت الوجود کا یہ طلسم جس کو ریاضیات کے طریقِ استدلال سے پختہ کیا گیا تھا دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی اَنأ کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے۔ جس طرح رنگ و بو وغیرہ کے لیے مختص حواس ہیں اسی طرح انسانوں میں ایک اور حاسّہ بھی ہے جس کو ’’حسِ واقعات‘‘ کہنا چاہیے۔ ہماری زندگی واقعاتِ گرد و پیش کے مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قوت سے کام لیتے ہیں جسے میں نے حسِ واقعات کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے؟ نظامِ قدرت کے پراَسرار بطن سے واقعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر بیکنؔ سے پہلے کون جانتا تھا کہ یہ واقعاتِ حاضرہ جن کو نظریات کے دلدادہ فلسفی اپنے تخیل کی بلندی سے بہ نگاہِ حیرت دیکھتے ہیں اپنے اندر حقائق و معارف کا ایک گنج گراں مایہ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی عملی نکتہ رَسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں ’’حسِ واقعات‘‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ’’دماغ یافتہ‘‘ فلسفیانہ نظام جو واقعاتِ متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیاتِ عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اِس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظرِ ثانی کریں۔ یہ ہے ایک مختصر خاکہ اُس مسئلے کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے۔ میں نے اس دقیق مسئلے کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد کر کے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کی حقیقت کو سمجھنے اور غور کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ اِس دیباچے سے اس نظم کی تفسیر مقصود نہیں محض ان لوگوں کو نشانِ راہ بتلانا مقصود ہے جو پہلے سے اس عسیرالفہم حقیقت کی دقتوں سے آشنا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سطورِ بالا سے کسی حد تک یہ مطلب نکل آئے گا۔ شاعرانہ پہلو سے اس نظم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذتِ حیات ’’انا‘‘ کی انفرادی حیثیت اس کے اثبات استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے، یہ نکتہ حیات ما بعدالموت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک تمہید کے کام دے گا۔ ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعیینِ ذات ہے۔ مرکب لفظ بیخودی میں بھی اس کا یہی مفہوم ہے اور غالباً محسن تاثیر کے اِس شعر میں لفظ خودی کے یہی معنی ہیں؎ ’’غریقِ قلزمِ وحدت دَم از خودی نزند بود محال کشیدن میانِ آبِ نفس‘‘ محمدؐ اقبال۱۶۷ ۲۰۷ ’اسرارِ خودی‘ میں فہرست مضامین شامل نہ کی گئی۔ آخری باب کے خاتمے پر ’’تمّت‘‘ لکھا گیا۔ ۱۶۸ ۲۰۸ پھولوں کی شہزادی کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرّم کو بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو ۲۴ جون ۱۹۱۵ء لاہور۱۶۹ باب ۲ ماں کا مزار جولائی سے اگست ۱۹۱۵ء ۱ سیالکوٹ میں شیخ عطا محمد نے امام بی بی کی پختہ قبر بنوائی تھی۔ برابر میں دو قبروں کی جگہ خالی رکھوائی: ایک میاں جی کے لیے اور دوسری اپنے لیے۔امام بی بی کے مزار کے کتبے پر اکبرؔ الٰہ آبادی کا بھیجا ہوا قطعہ تاریخ وفات درج ہوا:۱ مادرِ مرحومۂ اقبال رفت سوئے جنت از جہانِ بے ثبات گفت اکبرؔ با دلِ پردردوغم رحلتِ مخدومہ تاریخِ وفات ۲ سر سید احمد خاں کا مقصد ملت کی تعمیر تھا۔ جدید تعلیم محض اس کی تیاری تھی۔ نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی تو مقصد نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہی بات ہوئی جو ملک قمی نے کہی تھی کہ کانٹا پاؤں سے نکالنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا۔ ایک لمحے کی غفلت نے سو برس کے لیے راستے سے ہٹا دیا۔ ۲۸ جون کو اقبال نے ’مسلمان اور تعلیمِ جدید‘ کے عنوان سے اِس خیال کو نظم کیا۔۲ تین روز بعد مرزا صائب کے فارسی شعر پر اُردو میں نظم لکھی۔ کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا نوا اِس باغ میں بلبل کو ہے سامانِ رسوائی۳ ۳ جسٹس دین محمد کے چھوٹے بھائی حیدر محمد ریلوے میں کلرک تھے اور بابو کہلاتے تھے۔ ایک شام محمد دین فوق کے ساتھ سیر کرتے ہوئے اقبال کے مکان پر پہنچے۔ ’’وہاں مولوی محمد انشأ اللہ خاں مالک و مدیر اخبار وطن بھی موجود تھے،‘‘ فوق کا بیان ہے۔ ’’کچھ باتیں ابتدائے اسلام کے متعلق ہو رہی تھیں۔ مولوی صاحب اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلام میں ایسی کشش نہ تھی کہ لوگ خودبخود اس طرف کھنچے آتے۔ اگر کشش حقیقی ہوتی تو ابتدا ہی میں بعض لوگ مرتد نہ ہو جاتے اور نہ لوگوں میں نبی بننے کی جرأت ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب واقعات و دلائل سے مولوی صاحب کے ان اعتراضات کی تردید کرتے تھے۔ آخر جب مولوی صاحب نے یہ کہا کہ چونکہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کی حمایت لازم ہے اور یہی کچھ اخبار میں کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب نہیں ہو سکتا، تو ڈاکٹر صاحب کو اس پر سخت طیش آیا۔ مولانا سے کہا، ’اگر آپ اِس وقت یہاں سے تشریف لے جائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ میں اِس وقت غصے سے کانپ رہا ہوں۔ شاید مجھ سے کوئی گستاخی ہو جائے۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جو اپنے اخبار میں روزوں کے فضائل اور ماہ رمضان کی برکات پر مضامین لکھتا ہے اور خود ایک بھی روزہ نہیں رکھتا، بلکہ دفتر میں ڈٹ کر حقہ پیتا ہے، وہ اگر اُس کو عالمگیر مذہب نہیں کہتا تو کون سے تعجب کی بات ہے۔‘ غرض مولوی صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔‘‘۴ ۴ چالیس برس قبل جب سر سید احمد خاں، علی گڑھ میں اسکول کی بنیاد رکھ رہے تھے، اونچے طبقے نے سید کے مذہبی افکار کی بجائے مولویوں کی روایتی تعبیروں کو نصاب میں رکھنے پر اِصرار کیا۔ روایتی باتیں جدید خیالات کے سامنے بند نہ باندھ سکیں۔ عبدالحق جنہوں نے بارہ برس قبل علی گڑھ میں انجمن ترقی اُردو کی بنیاد رکھی تھی، قوم کے عام افراد کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہمیت سے آگاہ نہ تھے۔ ’’افسوس ہے کہ انجمن ترقی اردو اپنی طرف سے شائع کردہ کتابوں کا کافی اشتہار نہیں دیتی،‘‘ محمد علی کو شکایت تھی۔ ’’اسے چاہیے کہ اگر کسی کتاب پر ایک ہزار روپے صرف کرے تو کم از کم دو سو پچاس اس کے متعلق اشتہاروں پر بھی صرف کرے، اخبار والے اس کے ساتھ ضرور رعایت کریں گے۔ میں نے خود ہمدرد میں یہی کیا تھا مگر خود انجمن کے کارکن اس معاملہ میں تساہل برتتے تھے۔‘‘۵ ممکن ہے تساہل کے پیچھے یہ سوچ کارفرما رہی ہو کہ عوام کو عمدہ کتابوں سے سروکار نہیں ہو سکتا۔ عبدالماجد دریابادی، ایم اے نہ کر سکے مگر بی اے تک فلسفہ پڑھ کر ملحد ہو گئے تھے۔ سائیکالوجی آف لیڈرشپ(Psychology of Leadership) کے عنوان سے انگریزی میں کتاب لکھی۔ دکھایا کہ عوام صحیح فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ رسول اکرمؐ کے بارے میں اُن عیسائی مشنریوں کی تائید کی جن کے نزدیک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ میٹھی زبان سے کام لینے والے دُنیاوی رہنما تھے۔ لندن کا بہت بڑا اشاعتی ادارہ ٹی فشر اینڈ اَنوِن (T. Fisher & Unwin) بڑے پیمانے پر یہ کتاب شائع کرنے والا تھا۔۶ ۵ مذہب اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی کانپتا ہوں پڑھ کے میں افسانہ اسرائیل کا ڈر ہے غفلت سے نہ ہو تیرا مقدر بھی وہی ’’سرو با یک مصرع از قیدِ خزاں آزاد شد زندۂ جاوید میگردی اگر موزوں شوی‘‘ ۲ جولائی ۱۹۱۵ئ۷ فارسی شعرأ کے کلام پر تضمینیں لکھی جا رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ نمرود کا شعلہ دنیا میں جل رہا ہے مگر آپ کا سوز کیوں نگاہوں سے چھپ گیا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ظاہر کی تسخیر کا شوق ہو تو ابراہیم کی نگاہ پیدا کرو ورنہ زمانے کی نگاہوں سے چھپے رہو۔۸ جدید تعلیم میں اِس ابراہیمی نظر کو پیدا کرنے کا سامان نہیں تھا۔ اس کے اثرات آیندہ نسلوں تک دکھائی دے رہے تھے۔ ۹ تہذیب صرف عقل کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی دیوانگی بھی زندگی کا حصہ تھی۔۱۰ جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اپنے آپ کو باقی معاشرے سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں پرواز سے محروم پرندوں کی طرح تھے۔ افلاطون کے پھینکے ہوئے دانے دنکے کو راستے کی خاک سے اُٹھانے پر مجبورتھے۔ اُس مسلمان قوم کے احوال سے بے خبر تھے جو آزاد پرندوں کی طرح فضاؤں میں رزق تلاش کرنا چاہتی تھی۔ پرندوں کا باہمی ’مکالمہ‘ اس مہینے سات اشعار کی چھوٹی سی نظم کی صورت میں نمودار ہوا۔ آگے چل کر اقبال کی شاعری کی اہم ترین علامت کو جنم دینے والا تھا: شاہین، جس کے کچھ حوالے مثنوی میں بھی آ چکے تھے!۱۱ شعور جسم کی قید سے آزاد ہو کر اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر پہنچا تو صدا آئی کہ کعبے کو نئی نسل کے تعلیم یافتہ مسلمانوں سے شکایت ہے کہ اپنی قوم سے کٹ کر غیر کے ہاتھوں میں بکنے والی چیز بن گئے۔ فارسی شاعر انیسی شاملو کی بات ان نوجوان پر پوری اترتی ہے: وفا آموختی از ما، بکارِ دیگراں کردی ربودی گوہرے از ما نثارِ دیگراں کردی ۱۲ ۶ شیخ سعدی شیرازی کی بہترین سوانح مولانا حالی نے لکھی تھی۔ جنت میں دونوں کی ملاقات ہوئی تو سعدی نے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال پوچھا جو صدیوں تک اُن کی لکھی ہوئی گلستان اور بوستان سے تعلیم کا آغاز کرتے رہے تھے۔ حالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہا کہ آنحضورؐ کے سامنے مت کہیے گا کہ قوم کی غیبت نہ ہو ورنہ ہماری حالت آپ کے اس شعر کے مطابق ہے: خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم ’فردوس میں ایک مکالمہ‘ میں اقبال کو بہت سے مصرعے بار بار کاٹ کر دوبارہ لکھنے پڑے۔۱۳ ۷ ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے ہے لازوال دَورِ خزاں اس کے واسطے کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے ہے تیرے گلستاں میں بھی عہدِ خزاں کا دور خالی ہے جیبِ گل زر کامل عیار سے جو نغمہ زن تھے خلوتِ اوراق میں طیور رخصت ہوئے ترے شجرِ سایہ دار سے شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو ناآشنا ہے قاعدئہ روزگار سے ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ! تیسرے شعر میں ’’دَورِ خزاں‘‘ آیا تھا۔ وہ ’’عہدِ خزاں‘‘ ہوا۔ آخری شعر میں ’’رابطۂ پائیدار‘‘ لکھا تھا۔ پھر اسے ’’رابطۂ استوار‘‘ بنایا۔ غالب نے بھی کہا تھا کہ وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے۔ ۸ اسلام کی نظر سے تاریخ کو دیکھتے تو وہ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی۔ جنگ یرموک میں ایک نوجوان آنحضورؐ کے دیدار کے شوق میں سب سے پہلے جنگ پر جانے کی اجازت لینے آیا تو حضرت ابو عبیدہ جراح کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا کہ شہادت کے بعد آنحضورؐ کی خدمت میں پہنچ کر صحابہ کی طرف سے کہنا: ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضورؐ نے ۱۴ ۹ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا جواب پا کر شاکر صدیقی کی ہمت بڑھ گئی کیونکہ اُنہوں نے ایک نظم اصلاح کے لیے بھیج دی۔ غیرضروری الفاظ کی بھرمار تھی اور بعض محاورے غلط تھے مثلاً سر کی بجائے دل میں سودا ہونے کا ذکر تھا۔ بعض الفاظ مثلاً ’’تعاقب‘‘، ’’چونکہ‘‘ وغیرہ اقبال کے نزدیک شعری زبان کے لیے مناسب نہ تھے۔ مرکب کی عنان بھی اقبال کو کھٹک رہی تھی۔ عام طور پر مرکب کی زمام اور شتر کی عنان سننے میں آتا تھا۔ ایک مصرعے میں ’’ہ‘‘ تقطیع سے گر رہی تھی۔ شاکر نے فارسی مثنوی کے بارے میںبھی دریافت کیاتھا۔’’مثنوی کا دیباچہ کسی قدر پیامات کے سمجھنے میں مُمّد ہوگا،‘‘ اقبال نے ۶ جولائی کو لکھا۔ ’’وہاں لفظ خودی کی بھی تشریح ہے۔آپ کی نظم اچھی ہے مگر اس میں بہت سے نقائص ہیں۔ میں نے اُن پر نشان کر دئیے ہیں۔ اصلاح کی فرصت نہیں رکھتا۔ ماسٹر نذر محمد کو دکھائیے۔۔۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ نظم طویل ہے۔‘‘ ۱۰ جولائی کے دُوسرے ہفتے میں اقبال کی بیویوں میں سے کوئی بیمار ہو گئیں۔پریشان رہے۔ کشن پرشاد کا خط ملا۔ انہوں نے شادی کے معاملے میں تثلیث سے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ۱۳ جولائی کو مومن استرآبادی کا ایک شعر ذہن پر طاری ہو گیا جسے اگلے روز تک شاید سیکڑوں باردہرایا کہ تم جو کہتے ہو کہ عشق کو ہجر کے درد کی دوا بنایا گیا ہے، کاش یہ بتا دو کہ ہجر کا علاج کیا ہے : اے کہ گوئی عشق را درمانِ ہجراں کردہ اند کاش می گفتی کہ ہجراں را چہ درماں کردہ اند ۱۴ جولائی کو کشن پرشاد کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ رعایا اپنے بادشاہوں کے مذہب پر چلتی ہے۔۱۵ ۱۱ دھنپت رائے جنہوں نے کبھی منشی پریم چند کے نام سے مخزن میں بھی افسانے لکھے تھے اب نیا مجموعہ شائع کروانے چلے تھے۔ کشن پرشاد کی کتاب پریم پچیسی کا ہم نام تھا۔ اقبال سے رائے مانگی ہو گی کیونکہ اقبال نے اسے اردو ادب میں نہایت قابلِ قدر اضافہ بتاتے ہوئے لکھا، ’’چھوٹے چھوٹے نتیجہ خیز افسانے جدید لٹریچر کی اختراع ہیں۔ میرے خیال میں آپ پہلے شخص ہیں جس نے اس دقیق راز کو سمجھا ہے اور سمجھ کر اس سے اہلِ ملک کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ان کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف انسانی فطرت کے اَسرار سے خوب واقف ہے اور اپنے مشاہدات ایک دلکش زبان میں ادا کر سکتا ہے۔‘‘۱۶ ۱۲ جنگ شروع ہونے کے بعد ہمدرد کی اشاعت دس ہزار کے قریب جا پہنچی تھی۔ اب حکومت نے اُس پر سنسر بٹھا دیا۔ ۱۳ جماعت علی شاہ مشہور پیر تھے۔ اقبال انہیں اُس وقت سے جانتے تھے جب وہ گدی نشین نہیں ہوئے تھے۔ اقبال سے روایت ہے کہ ایک بار بنگلور میں پیر صاحب کی وجہ سے بہت بڑا فساد ہونے والا تھا جب وہاں کے مسلمانوں نے اقبال کو خط لکھا کہ وہ اُن کے حالات کسی رعایت کے بغیر لکھ کر بھیج دیں۔ تب مسئلہ سلجھا اور پیرصاحب اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے۔ ۱۷ ۱۴ محمد دین فوق کا رسالہ طریقت صوفیوں میں مقبول ہو رہا تھا۔ اشاعت دو ہزار تک پہنچی تھی۔۱۸ بنام محمد دین فوق ڈیر فوقؔ السلام علیکم۔ کیا آپ آج کل لاہور میں ہیں یا میراکدال میں؟ ایک دفعہ آپ نے کشمیری میگزین میں میرے حالات شائع کئے تھے اگر اُس نمبر کی کوئی کاپی آپ کے پاس رہ گئی ہو تو ارسال فرمائیے پھر واپس کر دی جائے گی۔ اگر پاس نہ ہو تو کہیں سے منگوا دیجئے۔ زیادہ کیا عرض کروں، آپ کبھی ملتے ہی نہیں۔ اب تو پیرِ طریقت بھی بن گئے ۔ خدا کرے کہ جلد حافظ جماعت علی شاہ صاحب کی طرح آپ کے ورودِ کشمیر کے متعلق اطلاعیں شائع ہوا کریں۔ والسلام۔ اس کارڈ کا جواب جلد ملے۔ آپ کا خادم محمد اقبال لاہور ۲۳ جولائی ۱۹۱۵ء دوسرا حصہ ۱۵ شاکر صدیقی کے مرکب کی عنان کو زمام سے بدلوانے کے بعد دل میں شبہ پیدا ہواتھا۔ فارسی کی لغات میں جستجو کی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ کے زمانے کے مشہور فارسی دان لالہ ٹیک چند بہارؔ کی لغت بہارِ عجممیں دیکھا کہ زمام کا لفظ مرکب کے ساتھ بھی آ سکتا تھا۔ سند نہ دی گئی تھی مگر لالہ جی کے بیان پر سند کے بغیر بھی اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ ۱۶ عید مبارک کے ساتھ شاکر صدیقی نے ہلالِ عید پر اپنی نظم اصلاح کے لیے بھیجی۔ ’’الفاظ کے اعتبار سے اس نظم میں کوئی خامی نہیں ہے معانی کے اعتبار سے البتہ بعض شعر قابلِ اعتراض ہیں،‘‘ اقبال نے ۱۳ اگست کو مختصر سی رائے بھیجی۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ جو فارسی ترکیبیں آپ استعمال کرتے ہیں ان کا مطلب اچھی طرح سے نہیں سمجھتے۔ والسلام، آپ کو بھی عیدمبارک ہو۔‘‘ غالباً اگلے روز ۱۴ اگست کو اُنہیں اپنے بارے میں شاکر صدیقی کی نظم موصول ہوئی: یعنی مدہوشوں کو تو آمادۂ پیکار کر اقبال کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ ’’یہ آنسو خوشی کے نہ تھے بلکہ تاسف کے،‘‘ اگلے روز شاکر کوایک اور خط میں لکھا۔ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے ظن کو جو میری نسبت ہے صحیح ثابت کرے اور مجھ کو اِن باتوں کی توفیق عنایت کرے جن کا آپ ذکر کرتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو بھی اجرِ جزیل عطا کرے۔‘‘ پھر بھی مدہوشوں کو جنگ پر لے جانا مضحکہ خیز بات تھی،’’اِس مصرعے میں پیکار کا لفظ ٹھیک نہیں ہے یوں کہہ سکتے ہیں: یعنی اپنی محفلِ بیہوش (یامدہوش) کو ہشیار کر‘‘ نظم کی باقی خامیاں دوچار بار پڑھنے سے واضح ہو سکتی تھیں مگر نظم کو شائع نہ کیا جائے۔ ’’میرے لیے پرائیویٹ شرمندگی کافی ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اس کے علاوہ یہ آپ کے پرائیویٹ تاثرات ہیں پبلک کا ان سے آگاہ ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد زمام اور عنان کے بارے میں اپنی غلطی کا ذکر کیا۔ ’’یہ اس واسطے لکھتا ہوں کہ آپ اُس غلطی میں مبتلا نہ رہیں جو میری لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘‘ ۱۷ ۱۹ اگست کو اقبال نے علی گڑھ کالج کی ٹرسٹی شپ سے استعفیٰ دے دیا۔’’میں بوجہ علالت کبھی اجلاس میں حاضر نہیں ہو سکا اور نہ دیگر فرائض کو ادا کر سکا ہوں جو ٹرسٹی شپ سے متعلق ہیں،‘‘ کالج کے سیکرٹری نواب محمد اسحٰق خاں کے نام استعفے میں لکھا۔’’اِن حالات میں پنجاب سے کسی مفید آدمی کا انتخاب کرنا اچھا ہوگا۔‘‘ ۱۸ شاکر صدیقی نے کوئی نظم اصلاح کے بعد دوبارہ بھیجی۔شاید وہی جو اقبال کی تعریف میں لکھی گئی تھی۔ ’’یہ نظم ویسی ہے جیسی پہلے تھی،‘‘ اقبال نے۲۲ اگست کو خط کی پشت پر لکھا۔ ’’مضمون یعنی موضوع انتخاب کرنے میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ بعض اشعار ایسے ہیں کہ ان کے پڑھنے سے ہنسی آتی ہے اور مصنف کی نسبت اچھا خیال دل میں نہیں بیٹھتا۔ والسلام۔ مجھے فرصت کم ہوتی ہے اس واسطے پے درپے خطوط کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔‘‘ ۱۹ سینسر کی پابندیوں نے اخبار ہمدرد کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ اُس مہینے بند ہو گیا۔ ۲۰ نظام حیدرآباد شملہ آ ئے تھے۔ افواہ گرم تھی کہ حکومت نے انگریز وزیراعظم رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رد کر دیا۔ شملے سے دوستوں نے اقبال کو بھی خط لکھے مگر یہ دوسری الجھنوں میں گرفتار تھے۔ سید علی بلگرامی مرحوم کا خاندان حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ لڑکی کی شادی ہونے والی تھی۔ مسز بلگرامی نے مدعو کیا تھا مگر دُوردراز سفر کرنا اختیار میں نہ تھا۔ بیوی کی طبیعت ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ طبیعت پر سخت بوجھ پڑا۔ کشن پرشاد کا خط آیا تو کئی دن دھرا رہا۔۱۹ ۲۱ ’’ممکن ہوتا تو عرض کرتا کہ کس طرح لاہور میں بیٹھا شملہ کی باتیں سنتا ہوں،‘‘ آخر ۳۰ اگست کو کشن پرشاد کا دل بڑھاتے ہوئے لکھا۔ ’’میرے کان وحدت الوجود کا مراقبہ رکھتے ہیں اس واسطے جہاں کہیں کوئی آواز ہو میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اسباب نہایت عمدگی سے جمع ہو رہے ہیں اور ان کے مجموعی اثر کے ظہور کا وقت بھی قریب ہے۔ میں تو وہ آدمی ہوں کہ وقت سے پہلے کسی چیز کی خواہش و آرزو نہیں کرتا۔ معلوم نہیں اس بارے میں آپ کا خیال یا طرزِ عمل کیا ہے؟‘‘ ۲۲ والدہ مرحومہ کی یاد میں ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ہے شکست انجام غنچے کا سبو گلزار میں سبزۂ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں نغمۂ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں نغمہ رہ جاتا ہے، لُطف زیروبم رہتا نہیں علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں جانتا ہوں آہ، میں آلام انسانی کا راز ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز میرے لب پر قصۂ نیرنگی دوراں نہیں دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں پر تری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے گریۂ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہربار کے علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آئوں گا! تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر! کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں! کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے! قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں اک متاع دیدئہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دَور بھی ہیں پس نہ پردئہ گردوں ابھی دَور اور بھی سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں زندگی محبوب ایسی دیدئہ قدرت میں ہے ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا اس روش کا کیا اثر ہے ہیئت تعمیر پر یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو آہ سیماب پریشاں، انجم گردوں فروز شوخ یہ چنگاریاں، ممنون شب ہے جن کا سوز عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے خودنمائی، خودفزائی کے لیے مجبور ہے سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا دل مگر غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے حلقۂ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے وقت کے افسوں سے تھمتا نالئہ ماتم نہیں وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں سر پہ آجاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں اشک پیہم دیدئہ انساں سے ہوتے ہیں رواں ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے خون دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے آدمی تاب شکیبائی سے گو محروم ہے اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے ق جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح لالۂ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے سینکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے سازگار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے بند اول و دوئم: نظامِ عالم کے قوانین اٹل ہیں۔ قوانینِ فطرت کی محکم زنجیر میں ہر شے جکڑی ہوئی اور مجبور ہے۔ اِس واسطے جب انسان کو اِس عالمگیر مجبوری کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے مصائب پر نالاں نہیں ہوتا بلکہ آنسوؤں کا سرچشمہ خشک ہو جاتا ہے۔ عالِم کا دل گویا الماس کا ٹکڑا ہے جس میں علم کی روشنی تو ہے مگر ساتھ ہی اس میں سختی بھی پیدا ہو جاتی ہے اور سوز و گداز رخصت ہو جاتا ہے۔ بند سوئم: شاعر اگرچہ حکمت سے متاثر ہونے کے باعث رونے سے قاصر ہے تاہم محض تصویر کا نظارہ ہی اُس کے خوابیدہ تاثرات کو جگا دیتا ہے۔ بند چہارم: تاثر کی فضیلت عقل پر۔ ماں کی تصویر ایّامِ طفلی کی یاد دلاتی ہے۔ بند پنجم: ماں کے احسانوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ بند ششم: دنیا میں موت کی عمومیت اور کثرت۔ ہر جگہ اس کی حکمرانی ہے۔ کوئی مقام ایسا نہیں جہاں یہ انسانی تمناؤں کا خون نہ کرتی ہو۔ مگر یہ دنیا جہاں موت کی اتنی کثرت ہے محض امتحان گاہ ہے اور کبھی نہ کبھی یہ امتحان ضرور ختم ہو جائے گا۔ بند ہفتم: زندگی کبھی فنا نہیں ہو سکتی اور خود موت کی کثرت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کو فنا نہیں۔ قدرت اگر پیکرِ جسمانی کو توڑ دیتی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ قدرت ظالم ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ قدرت کو اِس بات پر کامل اعتماد ہے کہ وہ ہزاروں اچھے سے اچھے پیکر اور جسم بنا سکتی ہے۔ اس بات کو ہوا اور بلبلے کی مثال سے واضح کیا ہے۔ بند ششم: رات کے تارے جو اپنی چمک دمک کے لیے تاریکی کے محتاج ہیں اور جو محض روشنی کی چنگاریاں ہیں اُن کی عمر اِس قدر لمبی ہے کہ انسانی عقل اِس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے۔ پھر انسان جو قدرت کا روشن ترین ستارہ ہے کیا ایک عارضی زندگی رکھتا ہے اور روشنی کی آسمانی چنگاریوں سے بھی گیا گزرا ہے؟ نہیں اُس کی عمر ستاروں کی عمر سے بدرجہا زیادہ ہے۔ یہ ایک نہ بجھنے والا چراغ ہے۔ بند نہم: پھول کے بیج کی مثال سے قبر سے دوبارہ اُٹھنے کو واضح کرتا ہے اور اس کے امکان پر استدلال کرتا ہے۔ بند دہم: آدمی اگر کچھ وقت کے بعد اپنے مصائب اور غم کو بھول جاتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وقت میں کوئی پوشیدہ قوت ہے جس سے وہ انسانی غموں کو فنا کر دیتا ہے۔ ہم جو مرنے والوں کو فراموش کر دیتے ہیں تو یہ فراموشی وقت کے گزر جانے کا اثر نہیں بلکہ ہماری فطرت میں ایک احساس مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو فنا نہیں ہوتا۔ اس لطیف احساس کی وجہ سے ہمارا غم دُور ہو جاتا ہے۔ پس گزرے ہوئے عزیزوں کی طرف سے بے پرواہی اور گونہ غفلت روح کے اِس مخفی احساس کی وجہ سے ہے کہ ہمارے عزیز زندہ موجود ہیں۔ اگر وہ حقیقت میں فنا ہو چکے ہوتے تو یقینا ہمارا غم کبھی ختم نہ ہوتا۔ گویا اِس بند میں اور اس سے پہلے کے بندوں میں چار باتوں سے حیات بعد الموت کا استدلال کیا ہے۔ ۱۔ موت کی عمومیت و کثرت سے ۲۔ رات کے تاروں سے ۳۔ پھول کے بیج سے ۴۔ انسان کی ظاہری فراموشی سے جو عام لوگوں کے نزدیک مرورِ زمانہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بند یازدہم: عالم فلسفہ حیات اور دعائیہ اشعار محمدؐ اقبال ۲۰ ۲۳ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کاتب سے خوشخط لکھوا کر آخری دو صفحوں پر میاں جی کے لیے ہر بند کا مرکزی خیال اپنے قلم سے لکھا اور سیالکوٹ بھجوا دیا۔۲۱ تیسرا حصہ ۲۴ ۳ ستمبر کو سلطنت ِعثمانیہ نے کچھ سرحدی علاقہ دے کر پرانے دشمن بلغاریہ کو بھی جنگ میں اپنے ساتھ ملا لیا۔ ۲۵ ۸ ستمبر کو سرخوش ؔ کے کلمات الشعرأ میں ایک ایرانی شاعر ملا محمد سعید اعجاز کا شعر نظر سے گزراکہ میں نے جنون سے ایک ایسا پیالہ بھرا ہے کہ اب ہوش نہیں رہا۔ شراب بیچنے والے کے ساتھ پھر میرا کوئی معاملہ نہیں ہوا: کشیدہ ام زجنوں ساغرے کہ ہوش نماند دگر معاملہ با پیرِ مے فروش نماند لکھ کر اکبرؔ الٰہ آبادی کو بھیج دیا کہ وہ بھی اس شعر کی لذت یا دُکھ میں شریک ہو جائیں۔۲۲ ۲۶ کشن پرشاد نے شبہ ظاہر کیا کہ کہیں اقبال سیاستدان تونہیں بننے والے۔۹ ستمبر کو خط ملتے ہی اقبال نے جواب میں کلمات الشعرأ والا شعراُنہیں بھیجتے ہوئے لکھا، ’’میرے عریضے کا کچھ حصہ پولٹیکل رنگ میں رنگین تھا تو اس میں تردد کی کوئی بات نہیں۔ آپ مطمئن رہیں اقبال کبھی پولٹیشن نہیں بنے گا۔ وہ تو ایک راز کی بات تھی جس کا کھل جانا شاید یقینی ہے۔ بہرحال آپ کا اصول بہتر ہے یعنی سکوت۔‘‘ اس کے بعد مزاحاً لکھا کہ جس زمانے میں زندہ تھے یا دل زندہ تھے، تجربے نے سکھایا تھا کہ جس معشوق سے زیادہ محبت ہو اُس سے اصولاً زیادہ بے اعتنائی کرنی چاہیے چنانچہ ایک رسالہ اجرالسکوت نامی لکھا تھا کہ تماش بینوں کے کام آئے اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتا تھا۔ ’’مگر اب اُس کا نشان باقی نہیں کہ وہ محرکات نہیں جو اس کی تصنیف کا باعث ہوئے۔ غرض کہ سکوت بڑی اچھی چیز ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کام دیتی ہے۔‘‘ عین اُس وقت یونین اسٹیم پریس میںمثنوی طباعت کے آخری مراحل سے گزر رہی تھی۔ سرورق دو رنگوں میں علیحدہ چھَپ رہا تھا۔کتابیں عام طور پر جلد کے بغیر تیار ہوتی تھیں۔ پھر وقتاً فوقتاً تھوڑی تھوڑی تعداد میں کچھ نسخوں پر جلد بندھوائی جاتی رہتی جس پر کتاب کا نام اور کبھی کبھی مصنف کا نام بھی کندہ کروایا جاتا یا کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر چسپاں کر دیا جاتا۔ جلد پر باقاعدہ طباعت کرنے کا رواج نہ تھا۔ گردپوش بھی عام نہ ہوئے تھے۔ ۲۷ اگلے برس ولیم شیکسپئر کی وفات کو تین سو برس پورے ہو رہے تھے۔ سر اِسرائیل گولانکز دنیا بھر کے شاعروں کے خراج تحسین پر مبنی کتاب ترتیب دے رہے تھے: Book of Homage to Shakespeareپانچ برس پہلے اقبال نے بیاض میں جو نظم ادھوری چھوڑی تھی اُسے مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ۲۸ خیال کیا جاتا ہے کہ ۱۲ ستمبر کو مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کے اولین نسخے شائع ہو کر پریس سے نکلے۔ یہ اُس دَور کا باقاعدہ آغاز تھا جسے بعد میں اقبال کی الہامی شاعری کہا گیا اور جسے تئیس برس بعد اُن کی وفات کے ساتھ ہی آخری شعری تصنیف کی اشاعت پر ختم ہونا تھا۔۲۳ باب ۳ نظام الدین اولیأ کی بستی ستمبر ۱۹۱۵ء سے اگست ۱۹۱۶ء جملہ حقوق محفوظ اِن من الشعر لحکمۃ مثنوی اَسرارِ خودی از ڈاکٹر شیخ محمدؐ اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور باہتمام حکیم فقیر محمدؐ صاحب چشتی نظامی در یونین اسٹیم پریس لاہور طبع کردید بار اول تعداد ۵۰۰ ۱ کتاب کا سائز ۱۲x ۱۵ سینٹی میٹر تھا۔ سرورق کی عبارت سبز تھی جس کے حاشیے پر سرخ پھول پتیوں کی بیل تھی۔ ہر صفحے پر چھ اَشعار تھے۔ ابتدائی بارہ صفحات کے علاوہ ۱۵۵ صفحے تھے۔ پچھلی طرف کے سرورق پر درج تھا: اطلاع (بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ئ) مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ لہٰذا کوئی صاحب قصدِ طبع نکریں۔ مصنف بقلم مرغوب رقم مینجر مرغوب ایجنسی لاہور ۲ مولانا روم سے پچاس برس پہلے نظامی گنجوی نے اسلامی تصورِ خدا کے پانچ اجزأ کے بارے میں علیحدہ علیحدہ مثنوی لکھی تھی۔پہلی مثنوی کے آغاز میں کہا کہ اُس میں فقر اور شاہی کا سرمایہ اِکٹھا ہے اور خدا کے راز چُھپے ہیں: مایۂ فقر و شاہی در اُو مخزنِ اَسرارِ الٰہی در اُو صدیوں بعد اقبال نے یہی دعویٰ کیا تھا۔ نظامی کی پہلی مثنوی کا نام مخزنُ الاَسرار تھا۔ اقبال کا کلام پہلے مخزن میں چھپا۔ اَب ’اَسرارِ خودی‘ کے نام سے سامنے آیا تھا۔ حق کہہ حق ہی نے قوموں کو اُبھارا اقبالؔ حق ہے سینے میں ترے مخزنِ اَسرار ہے تُو۱ ۳ اقبال کا پیغام بیخودی تھا۔ اُسے پیش کرنے سے پہلے ’اَسرارِ خودی‘ اِس لیے ضروری تھی کہ عام طور پر حقیقت سے فرار کی کیفیت کوبیخودی سمجھا جاتا تھا۔ اس کی ایک قسم وہ تھی جو غنائیہ شاعری کے پڑھنے سے پیدا ہوتی تھی۔ نشے جیسی کیفیت کہ کچھ دیر کے لیے انسان اپنے آپ کو بھول جاتا۔ بعض صورتوں میں مفید بھی ہوتی۔ بیخودی کی دوسری قسم جو ہندو جوگیوں اور دوسرے مذاہب کے صوفیوں میں سے بعض کو پسند تھی یعنی اپنے آپ کو خدا کی ذات میں فنا کرنا، وہ تمام مذہب اور اَخلاق کی جڑ کاٹتی تھی۔ سچی بیخودی اپنے آپ کو خدا کی ذات میں نہیں بلکہ اُس کے احکام میں فنا کرنے سے پیدا ہوتی تھی۔ اِنسان اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو چھوڑ کر اُن احکامات کا اِس طرح پابند ہو جائے کہ نتائج کی پروا نہ رہے۔ اپنی ذات کو قوم کے وجود میں ’’فنا‘‘ کرنا اس کی عملی صورت تھی۔ یہ بات سمجھانے کے لیے پہلے ’اَسرارِ خودی‘ لکھنی ضروری تھی۔ اب دوسرا حصہ لکھا جانا تھا۔۲ ۴ ۱۲ ستمبر کو’اَسرارِ خودی‘ کشن پرشاد کو معذرت کے ساتھ بھیجی، ’’ اس کی چھپائی وغیرہ کچھ دلکش نہیں۔ مگر اس خیال سے کہ میں زیادہ روپیہ اس کی اشاعت پر خرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا۔۔۔‘‘ نواب سر ذوالفقار علی خاں کے نزدیک یہ مثنوی ایک نئے ادب کی بنیاد تھی۔ نئے طریقِ تربیت کا آغاز تھی: The poem forms a unique piece of literary art. It establishes a new system of character-training. It formulates a philosophy which will produce saviours of a misguided world. What flavours and forces do we not find mingled in it? It has fire and courage which make the soul restless. It directs thought into new channels. It inspires self-confidence in palsied wills to climb ice and frowning heights.۳ ۵ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ’اسرارِ خودی‘ کا ایک نسخہ اقبال نے اپنے والد کی خدمت میں بھیجا۔ وہ عام طور پر صبح کے وقت بڑے شوق سے پڑھنے لگے۔۴ ۶ گورنمنٹ کالج کے زمانے کے دوست میر غلام بھیک نیرنگ جو اَب لاہور سے باہر رہتے تھے، انہیں بھی ’اَسرارِ خودی‘ بھیجی گئی۔ ’’اس سے پہلے میں آگاہ نہ تھا کہ اِس قسم کی کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے۔ اس میں تصوف اور خواجہ حافظ پر جو سخت گیری کی گئی ہے، وہ مجھ کو ناگوار گزری اور میں نے اقبال کو ایک طومارِ اختلاف لکھ کر بھیجا اور اُس خط میں یہ بھی لکھا کہ میں اِس بارے میں مفصل مضمون لکھ کر شائع کروں گا۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ ابھی آپ اِشاعت کے لیے کچھ نہ لکھیں، پہلے مجھ سے بالمشافہ مبادلۂ خیالات ہو جائے، پھر اگر آپ ضروری سمجھیں تو اپنے خیالات کو لکھ کر شائع کر سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ میں نے اِس [کذا؟] مرتبہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خیالات قائم کئے ہیں۔ اِس سے میں متنبہ ہوا اور میں نے اپنی تنقید کو لکھ کر شائع کرنے کا اِرادہ ترک کر دیا۔ البتہ وقتاً فوقتاً خطوط میں اور زبانی اقبال سے مذاکرہ ہوتا رہا۔‘‘۵ ۷ اسلامیہ کالج کے علاوہ لڑکیوںکے دو پرائمری اسکول اور لڑکوں کے لیے دو ہائی اسکول انجمن حمایت اسلام کے تحت چل رہے تھے۔ ۱۵ ستمبر کو لڑکوں کے لیے تیسرے اسکول کا افتتاح ہوا۔ موچی دروازے کے باہر ایک کرائے کی کوٹھی میں مڈل اسکول کھولا گیا تھا۔ زیادہ موزوں جگہ کی تلاش جاری رہی۔۶ ۸ مرزا سلطان احمد جنہوں نے پچھلے برس اگست میں لندن سے اقبال کی حمایت میں مضمون مخزن کو بھجوایا تھا، واپس آ چکے تھے۔ ضلع روہتک میں سونی پت میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ اقبال نے فرمائش کی تو ’اَسرارِ خودی‘ پر تبصرہ لکھنے کی حامی بھر لی۔۷ ۹ نظربندی کے عالم میں محمد علی کا بیشتر وقت قرآن شریف پڑھنے میں صرف ہوتا۔ ’’میری پہلی زندگی اور بعد کی زندگی میں علاوہ بیشتر پابندیٔ احکامِ شریعت کے بس اِس قدر فرق ہے کہ پہلے میں اسلام سے کم واقف تھا اور ایک معنی میں اس پر بڑی حد تک ایمان بالغیب تھا،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’اور جب سے نظربندی کے زمانے میں، میں نے قرآن کریم پہلی بار شروع سے آخر تک بامعنی اور سمجھ کر پڑھا میں سمجھتا ہوں (اِس سے زیادہ دعویٰ کیا کروں؟) کہ میں اسلام کے جوہر اور اُس کی روح کو سمجھ گیا ہوں۔‘‘۸ ستمبر میں اقبال کی طرف سے چھوٹا سا پارسل موصول ہوا۔ اس میں ’اسرارِ خودی‘تھی۔ ’’اگر کسی نے اقبال سے عقیدت رکھنے میں مجھ سے برابری کی بلکہ مجھ سے بازی لے گیا وہ میرے بھائی [شوکت علی] تھے،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اِس دفعہ اقبال نے اپنی مثنوی فارسی میں لکھی ہے جس کے لئے انہیں اور مجھے اُس فارسی کی تحصیل کو تازہ کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے برسوں پیشتر اپنے لال داڑھی والے ملا صاحب سے رامپور کے مکتب میں کی تھی تو انہوں نے زور شور کے ساتھ اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ بہرحال ہم نے اقبال کی اسرارِ خودی پڑھنی شروع کی اور بتدریج ان کا غصہ فرو ہونے لگا۔۔۔ ’’جونہی ابتدائی باب ختم ہوا جس میں انہوں نے اپنے فلسفہ کا موضوع پیش کیا ہے اور اپنے مشرقی مطالعہ کنندگان کے آگے پرانی اصطلاحات کے نئے معنوں کی وضاحت کی ہے۔۔۔ ہم نے محسوس کیا کہ مرمر کی مورتوں میں بھی زندگی کا سیلِ آتش دوڑنے لگا ہے۔۔۔ ’’اسلامی ادبیات میں یہ چیز عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے معنے خدا کو کائنات کا حاکمِ مطلق تسلیم کرنا اور اس کی مرضی کے آگے اپنی گردن جھکا دینا ہیں۔ لیکن ہمارے مقتدایانِ دین کی نظر میں یہ بات اتنی معمولی تھی کہ وہ اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھتے تھے اور ہم اِس کی کنہہ سے بالکلیہ لاعلم ہونے کے باوجود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ گویا پوری طرح واقف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی اور ضرورت تھی کہ نئی قوت اور پورے زور کے ساتھ اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے۔۔۔‘‘۹ ۱۰ ایک انگوٹھی میں یہ کرامت تھی کہ جس کے پاس ہوتی وہ خدا اور بندوں کی نظروں میں محبوب ہو جاتا۔ پشت در پشت منتقل ہوتے ہوئے یہ ایسے شخص کے پاس پہنچی جس کے تین لڑکے تھے۔ اس نے دو نقلیں تیار کروائیں اور ہر لڑکے کو ایک ایک انگوٹھی دے دی۔ باپ کی موت کے بعد ہر لڑکے نے دعویٰ کیا کہ اصل انگوٹھی اُسی کے پاس ہے۔ کسی دانا نے کہا کہ اصل اور نقل کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں انگوٹھیاں نقلی ہوں اور اصل انگوٹھی پہلے کبھی کھو گئی ہو۔ اب جسے یہ معلوم کرنا ہے کہ اُس کی انگوٹھی اصلی ہے یا نہیں اُسے چاہیے کہ ایسی زندگی بسر کرے کہ خدا اور بندوں کی نظروں میں محبوب ہو جائے بجائے انگوٹھی سے توقع کرنے کے کہ وہ اُسے ایسا بنا دے گی۔ یہ کہانی یورپی ادب میں صدیوں سے موجود تھی۔ اٹھارہویں صدی کے جرمن ڈرامہ نگار نقاد گاٹہلڈ افرام لیسنگ (۱۷۸۱-۱۷۲۹) (Gotthold Lessing) نے اپنے ڈرامے عقلمند ناتھن(Nathan der Weise) (۱۷۷۹) میں مذہب کے بارے میں اپنا تصور واضح کرنے کے لیے اسے استعمال کیا: ’’اگر تم تینوں نے اپنی اپنی انگوٹھیاں اپنے باپ کے ہاتھوں سے وصول کی ہیں تو تم میں سے ہر ایک کو اپنی انگوٹھی کو اصل سمجھنا چاہیے۔ جان لینا چاہیے کہ باپ کو تم تینوں سے محبت ہے۔‘‘ لیسنگ کے ڈرامے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے یروشلم میں رہنے والا ایک یہودی سفر سے واپس آتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عیسائی ٹمپلر نائٹ نے اُس کی بچی کو آگ میں جلنے سے بچایا اگرچہ اُس عیسائی کو یہودیوں سے نفرت تھی۔ اَب عیسائی کو یہودی کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہودی پر اِلزام لگتا ہے کہ لڑکی اُس کی اپنی نہیں بلکہ کسی عیسائی کی ہے جسے اُس نے پالا اور اُس کا مذہب بدل ڈالا۔ مقدمہ سلطان کے سامنے پیش ہوتا ہے جو نائٹ ٹمپلر کے ساتھ لڑکی کی شادی کرنے کے لیے یہودی سے اجازت طلب کرتا ہے۔ تب یہودی انکشاف کرتا ہے کہ نائٹ ٹمپلر اُس لڑکی کا حقیقی بھائی ہے۔ دونوں بہن بھائیوں کا باپ سلطان کا مرحوم بھائی تھا جس نے ایک عیسائی عورت سے شادی کر کے جرمن نام اختیار کیا۔ یوں اُس لڑکی کی صورت میں جس کا بھائی عیسائی، سرپرست یہودی اور چچا مسلمان ہے، تینوں مذاہب وہی انگوٹھیاں بن جاتے ہیں جن کی کہانی کبھی یہودی نے سلطان کو سنائی تھی۔ لیسنگ جرمنی میں اُس رجحان کا نمایندہ تھا جسے آگے چل کر روشن خیالی (Enlightenment) کا نام دیا گیا۔ اُس نے جرمنی میں شیکسپئر کے سنجیدہ مطالعے کو فروغ دیا۔ جرمن ڈرامے کو فرانسیسی ادب کی روایت سے اور مذہب کو کلیسا کے تسلط سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔ فری میسن تحریک سے تعلق رکھتا تھا جو اُنہی ٹمپلر نائٹوں کی جانشین سمجھی جاتی تھی جن کا تذکرہ لیسنگ کے ڈرامے میں تھا۔ اُس کے ادبی نظریات نے جرمن قوم میں خوداعتمادی پیدا کی۔ بعد میں گوئٹے اور ہائنے جیسی ہستیاں ظاہر ہوئیں۔ اگلی صدی میں اس کہانی نے بڑی تبدیلیوں کے ساتھ یہودی فرانسیسی موسیقار فرامنٹل آلیوی (Fromental Halevy) کے ۱۸۳۵ء کے اوپرا لاژویو (Le Juive) اور انگریز ڈرامہ نگار ولیم ٹامس منکریف (William Thomas Moncrieff)کے ڈرامے دی جیویس (The Jewess) کی صورت اختیار کی۔ اِس کا محلِ وقوع سلطان صلاح الدین کے یروشلم سے قرونِ وسطیٰ کا یورپ ہو گیا۔ فلسفیانہ مباحث نکل گئے ۔ پلاٹ زیادہ چست مگر کردار بیجان ہو گئے۔ محبت کرنے والوں کی موت پر کہانی کا انجام دکھایا گیا۔ آغا حشر کاشمیری نے بظاہر منکریف کے ڈرامے سے پلاٹ لے کر یہودی کی لڑکی لکھا۔اُن جیسے وسیع مطالعہ رکھنے والے عالم سے بعید نہ تھا کہ لَیسنگ کے ڈرامے سے بھی واقف رہے ہوں۔ پھر بھی لَیسنگ کی روشن خیالی کے مقابلے میں اسلامی مزاج کا فرق اِس بات میں تھا کہ مستند صوفیا کے نزدیک مذاہب کے اختلافات کی مثال یوں تھی کہ اندھیرے کمرے میں بہت سے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔اندھیرے کی وجہ سے الگ الگ سمتوں میں رُخ کیے ہوئے ہیں۔ جب روشنی ہو گی تو سب اپنی سمتیں بدل کر ایک ہی رخ کر لیں گے سوائے اُس کے جو پہلے ہی سے اُسی سمت میں تھا۔ اسلام میں مذہبی رواداری کی بنیاد تشکیک کی بجائے توحید پر تھی۔ یہی بات آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے میں ظاہر ہو گئی۔ ۱۰ کہانی کو قرونِ وسطیٰ کے یورپ سے اُٹھا کر رومن سلطنت کے عہد میں لے گئے جب خدائے واحد کی بجائے رومن دیوتاؤں کی پرستش کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ یوں تقابلِ مذاہب کی فلسفیانہ بحث کی بجائے شرک اور توحید کی کشمکش ڈرامے کا اصل مسئلہ بن گئی۔ حشر نے کرداروں میں جان ڈال دی۔ انجام طربیہ کر دیا جو اِس کہانی کے لحاظ سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا تھا۔ لیسنگ اور منکریف نے شیکسپئر کے اثرات کو اپنے اپنے زمانے کے تماشائیوں کے مزاج اور ضروریات کے مطابق اخذ کیا تھا۔ حشر نے بھی اپنے تماشائیوں کا لحاظ کیا۔ جنگ عظیم کے زمانے کے برصغیر کے مسلمانوں کا اضطراب جس کے اظہار پر برطانوی حکومت نے پہرے لگائے ہوئے تھے، ڈرامے کے پردے میں ظاہر ہو گیا۔ یہودی کی لڑکی آغا حشر کاشمیری [۱:۳ سے اقتباس] منادی والے کا آنا منادی والا اے باشندگانِ روم! تم کو تاجدارِ دینی کونسل کا حکم ڈھنڈورے کی بلند آواز کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ کل چونکہ رومی دیوتاؤں کا مقدس دن ہے اس لیے روم کے قانون کے مطابق ہر جگہ جشنِ عام ہو، ہر صحبت میں ہنگامۂ بادہ و جام ہو۔ تین شبانہ روز تک تعطیل ہو، ہر کام میں التوا ہو، دھندے میں ڈھیل ہو۔ جو شاہی کونسل کے خلاف عمل میں لائے گا، وہ روم کے قانون کے مطابق زندہ آگ میں جلایا جائے گا۔ ایک شخص اجی میاں منادی والے! یہ تو کہو کہ تین دن تک تمام کاروبار بند رکھنے کا حکم صرف دیوتا کی پیاری قوم یعنی رومن لوگوں کے لیے ہے یا پارسی، عیسائی، یہودی سب کو تین دن کی مدت قابلِ احترام ہے؟ منادی والا سب کے لیے۔ جو لوگ رومی دیوتاؤں کو نہیں مانتے اُن کے لیے بھی۔ وہی شخص مگر جو لوگ دیوتاؤں کو مانتے ہی نہیں وہ کیونکر جشن منائیں گے؟ منادی والا نہ منائیں گے تو رومن قوم کے دشمن قرار دے کر زندہ جلائے جائیں گے۔ سب کا جانا، رومن افسروں کا داخل ہونا کینشش آج کے دن یہ شور و شر کیسا، عین عبادت میں یہ ضرر کیسا؟ ایک سردار عالی جاہ! یہ اُسی لایعنی عبرانی کا کارنامہ ہے۔ کینشش کیا ڈھنڈورے کی آواز اُس کے مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں سے ہو کر اُس کے کان تک نہیں پہنچی؟ کیا اُس نے ہمارے شہنشاہ اور ہماری مذہبی کونسل کا حکم نہیں سنا؟ دوسرا سردار نہیں حضور! ضرور سنا ہو گامگر یہ کمترین یہودی ہمارے رومن دیوتاؤں سے قلبی خصومت رکھتے ہیںاس لیے ہمارے کسی حکم کی پروا نہیں کرتے۔ کینشش اَن دیکھے خدا پر بھروسا رکھنے والے کافر کی یہ حرکت! ہم سے اور ہمارے مذہبی حکم سے یہ نفرت! جاؤ اور اُسے ڈاڑھی سے پکڑ کر منہ پر تھوکتے ہوئے یہاں لے آؤ۔ عذرا یہودی کو پکڑ کر لانا سردار۱ کرو سجدہ! عذرا کسے سجدہ؟ سردار [کینشش کی طرف اشارہ کر کے] اِس عالی شان کو۔ عذرا اس فانی انسان کو؟ ہم سجدہ کرتے ہیں اپنے سبحان کو: ٹکڑے مرے اُڑ جائیں، یہ ڈر کر نہ جھکے گا آگے کسی انسان کے یہ سر نہ جھکے گا سردار۲ آگے بڑھ اور جھک ان قدموں کے آگے۔ عذرا جھکوں؟ کس کے آگے؟ ان قدموں کے آگے جن قدموں نے اس سر سے بھی زیادہ سفید اور بوڑھے سروں کو ٹھوکریں ماری ہیں؟ جنہوں نے اپنی جوانی کی ضربوں سے مظلوم قوم کے سینوں کی ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں؟ نہیں، میں کبھی نہیں جھکوں گا: قیامتیں ہوں کہ آفتیں ہوں، جہان جائے کہ جان جائے مگر یہ ممکن نہیں ہے ہرگز کہ اُس کے بندے کی آن جائے اُسی کی چوکھٹ پہ ہو گا سجدہ جدھر وہ ہو گا اُدھر جھکے گا بجز خدا کے کسی کے آگے نہ دل جھکا ہے نہ سر جھکے گا کینشش مفسد باغی! ہماری رسموں اور مذہبی تہواروں کے ساتھ اعلانیہ نفرت کا اظہار کرنا اور پھر دنیا کے سامنے اپنی بے گناہی آشکار کرنا!ذلیلو! اگر ہم جانتے تو تمہیں آزادی اور زندگی کبھی نہ بخشتے۔ عذرا اِس ملکِ روم میں آزادی اور زندگی! یہ دونوں کہاں ہیں؟ ہماری قوم کے لیے یہ دونوں چیزیں کسی قیمت پر نہیں مل سکتیں۔ تم میں رحم، انصاف اور ایمانداری کہاں ہے؟ ہماری زندگی کے لیے قدم قدم پر ذلّت ہے، شرمندگی ہے: شجرِ زیست کے چُن چُن کے ثمر توڑے ہیں تم نے دل توڑے ہیں سب کے کہ جگر توڑے ہیں ایسے ظالم ہو کہ تم نے کوئی دو چار نہیں سینکڑوں لاکھوں ہی اللہ کے گھر توڑے ہیں کینشش صاحبو! سنیں تم نے باتیں خصومت کی؟ یہ سراسر توہین ہے رومن حکومت کی۔ عذرا اگر رحم نہ ہو تو حکومت کس کام کی، بے انصاف کی بہادری ہے بے نام کی۔ تم نے اگلے وقتوں میں ہماری قوم پر جو جو ظلم ڈھائے ہیں وہ اِس دل پر خون کے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں: ہمارے سر پہ ہزاروں ستم ڈھائے گئے ہمارے جھونپڑے توڑے گئے، جلائے گئے تمہی ہو جو کہ ہمیشہ ہمیں ستائے گئے ہمی ہیں جو کہ تمہارے ستم اٹھائے گئے سردار یہ ہمارے دیوتاؤں کا سخت دشمن ہے۔ عذرا نہ ہم کسی کے دشمن نہ بدخواہ تم اپنی راہ لو اور ہم اپنی راہ ہر ایک اپنے مذہب کا دُوربین خود ہے عیسیٰ بدینِ خود ہے، موسیٰ بدینِ خود ہے سردار ہمارا خدا یہاں ہے مگر تمہارا خدا کہاں ہے؟ عذرا ہمارا خدا یہاں ہے، وہاں ہے۔ محیطِ زمیں، مدارِ آسماں ہے۔ سردار خدا اگر ظاہر نہیں، برملا نہیں تو کچھ نہیں۔ عذرا خدا ہی سے خدائی ساری، خدا نہیں تو کچھ نہیں۔۱۱ ۱۱ روایت ہے کہ قریباً اسی زمانے میں سرحد یا مغربی پنجاب کے ایک پیر صاحب نے حکومتِ برطانیہ سے زمین حاصل کرنے کے لیے اقبال سے گورنر کے نام درخواست لکھوانا چاہی۔ اقبال نے انہیں روک دیا کہ زمین اللہ کی ملکیت ہے، پھر انگریز سے کیوں مانگی جائے۔ کچھ دن بعد پیر صاحب کے کچھ مریدوں نے جو فوج میں تھے اپنے کمانڈر انچیف سے کہا۔ انہوں نے گورنر سے کہا۔ پیر صاحب کو بغیر مانگے زمین مل گئی۔۱۲ ۱۲ اکبرؔ الٰہ آبادی کی طرف سے بھی ’اَسرارِ خودی‘ پر پسندیدگی ظاہر ہوئی۔ ۱۳ ۱۳ ستمبرمیں کسی وقت اقبال سیالکوٹ گئے۔ ایک بھانجا جو غالباً اُن دنوں ساتھ ہی رہتا تھا، گھر پر اکیلا رہ گیا۔ ۱۴ اقبال کی لڑکی معراج بیگم کی عمر انیس برس تھی۔ گجرات میں اپنی والدہ کریم بی بی کے ساتھ رہتی تھیں۔ گلے کے خنازیر کا مرض ہو گیا۔ نانا حافظ عطا محمد سرجن تھے۔ انہوں نے دو مرتبہ آپریشن کر کے متاثرہ غدود نکالے۔یقین ہوا کہ مرض لاعلاج ہے تو معراج بیگم نے اصرار کیا کہ آخری وقت ددھیال کے پاس گزارنا چاہتی ہیں۔ کریم بی بی انہیں سیالکوٹ لے آئیں۔ ۱۴ ہوشیارپور میں ایک عمررسیدہ اَن پڑھ حکیم بہت مشہور تھا جسے سب ’’بابا‘‘ کہتے تھے۔ ایک دفعہ علی بخش اُسے بھی لے آیا۔ ۱۵ ’’مجھے یاد ہے اُنہیں سفید رنگ کا بدبودار کاڈ لیور آئیل پینا پڑتا تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’وہ روزانہ صبح بڑی کراہت لیکن بڑی باقاعدگی سے اُسے پیتی تھیں۔۔۔ ‘‘ اگر معراج بیگم ستمبر تک سیالکوٹ آ چکی تھیں تو اِس دفعہ اقبال کی ملاقات ان سے اور پہلی بیوی کریم بی بی سے بھی ہوئی ہوگی۔۱۶ ۱۵ وفاداروں کی تین قسمیں تھیں۔ کچھ خوشامد کرتے۔ کچھ کسی فائدے کے لیے ساتھ دیتے۔ کچھ جان دینے پر تیار ہوتے۔ پانچ اَشعار کے فارسی قطعے میں یہ بات لکھی۔۱۷ ۱۶ سید بشیر احمد ایک احمدی شناسا میر اِنعام اللہ کے ساتھ اقبال منزل آئے۔ کافی دیر احمدیت کے بارے میں گفتگو رہی۔ اقبال نے مرزا بشیر الدین محمود کی تازہ تصنیف حقیقۃ النبوۃ کی ترتیب کی تعریف کی۔ اُس کے دلائل پر بات کرنے سے گریز کیا کیونکہ اُن کے نزدیک رسول اللہ ؐ کے بعدکوئی نبی نہیں آ سکتا تھا۔۱۸ ۱۷ شیخ نور محمد کو خاص طور پر ’’حقیقتِ منتظَر ‘‘ والی غزل بہت پسند تھی۔ پڑھتے ہوئے رونے لگتے۔ عفوِ بندہ نواز والے شعر پر بار بار کہتے، ’’جو اَماں ملی تو کہاں ملی!‘‘ عنایت اور سیمہ مبارک ’’اَماں‘‘ کو ’’ماں‘‘ سمجھتیں اور حیران ہوتی رہتیں۔ وسیمہ نے اقبال سے پوچھاکہ میاں جی اپنی والدہ کو اِتنا زیادہ کیوں یاد کرتے ہیں؟ ’’چچا جان میرے اِس معصومانہ اِستفسار سے بہت محظوظ ہوئے،‘‘ ان کا بیان ہے۔ ’’ہنستے ہوئے فرمایا،’یہ بات ابھی تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے، جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو تمہیں خودبخود معلوم ہو جائے گا کہ میاں جی اپنی ’’ماں‘‘ کو اِس قدر کیوں یاد کرتے ہیں۔‘‘‘۱۹ ۱۸ منڈی بہأالدین سے رسالہ صوفی نکلتا تھا۔ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ اُس میں اقبال کی نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ شائع ہو گئی۔ اقبال نے اعجاز کو بلا کر جواب طلب کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اقبال نے قلم دوات منگوا کر صوفی والوں کے نام نوٹس لکھا اور اعجاز کو دیا کہ ڈاک میں ڈال آئے۔ واپس آ کر اعجاز نے رسالے میں چھپی ہوئی نظم پڑھنا شروع کی تو بعض اشعار غیرمانوس لگے۔ گھر میں موجود نظم سے موازنہ کیا تو پورے نَو اَشعار مختلف تھے۔ اقبال کو بتایا۔ ’’وہ بہت متعجب ہوئے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’فرمایا، ’پھر تو نظم کسی طرح میرے ہاں سے اُڑائی گئی ہے۔‘ سنا ہے صوفی والوں نے بعد میں منّت سماجت کر کے چچا جان کو درگزر کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔‘‘۲۰ ۱۹ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر جنگل میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک شیر اُدھر آ نکلا۔ عالمگیر پر حملہ آور ہوا۔ عالمگیر نے تلوار نکالی اور نماز توڑے بغیر شیر کو ہلاک کر کے نماز پوری کی۔ اقبال کو اِس سے غرض نہ تھی کہ یہ واقعہ تاریخی طور پر درست ہے یا نہیں۔ سچی بیخودی، جو اپنے آپ کو خدا کے احکام میں فنا کرنے سے حاصل ہوتی تھی، اُسے سمجھانے کے لیے یہ واقعہ ایک مناسب تخیل فراہم کرتا تھا۔ لہٰذا ’اَسرارِ خودی‘کے دوسرے حصے کو لکھنے کی ابتدا اِسی سے ہوئی۔ ’پیامِ سروش‘ والی بیاض کا زیادہ حصہ خالی پڑا تھا۔ اُس میں اَشعار لکھے جانے لگے: شہنشاہ عالمگیر جس کا مقام آسمانوں کے برابر ہے، جو تیموری خاندان کے لیے فقر کا باعث ہے، اُس کے دم سے مسلمانوں کے وقار میں اضافہ ہوا اور پیغمبر کی شریعت کا احترام قائم ہوا۔ کفر اور دین کی جنگ میں وہ ہمارے ترکش کا آخری تیر تھا۔۔۔ شاہِ عالمگیر گردوں آستاں اعتبارِ دودمانِ گورگاں پایۂ اسلامیاں برتر ازو احترامِ شرعِ پیمبر ازو درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ مارا خدنگِ آخریں۲۱ ۲۰ مولانا رُوم نے کہا تھا، میں نے سات سو ستر روپ بدلے ہیں اور سبزے کی طرح بار بار پیدا ہوا ہوں: ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام کسی نے جس کا اقبال کافی اعتبار کرتے تھے کہا کہ یہ شعر رومیؔ کا نہیں ہے۔ اقبال کی نظر سے بھی مثنوی میں یہ شعر نہیں گزرا تھا۔ مولانا روم کے کلیات کا وہ حصہ بھی نہ پڑھا ہو گا جس میں یہ مصرعے موجود تھے۔۲۲ ۲۱ اُس برس کسی وقت شیخ عطا محمد نے اقبال منزل کے ساتھ والی دکان خریدی اور اُس پر سہ منزل عمارت تعمیر کر کے اُسے بھی اقبال منزل میں شامل کر لیا۔ ۲۳ ۲۲ مسلم یونیورسٹی سر سید کا خواب تھی۔ چھ برس پہلے یہ مطالبہ مسلمانوں کی تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے جو اپنی سینیٹ کے انتخاب اور نصاب سازی میں آزاد ہو۔ حکومت نے ایسی شرائط پیش کر دیں جن کے تحت یونیورسٹی بعض معاملات میں حکومت کی پابند رہتی۔ مسلمانوں کو قبول نہ ہوا مگر اِس برس ہندوؤں نے ہندو یونیورسٹی کے لیے یہی شرائط قبول کر لیں۔ انگریزوں کو بہانہ مل گیا۔ ۲۵ ستمبر کو صاف جواب دیا کہ حکومت مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کے وفد سے بات کرنے پر بھی آمادہ نہ ہو گی جب تک مسلمان وہی شرائط قبول نہ کر لیں جن پر ہندو یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے۔۲۴ ۲۳ اقبال سیالکوٹ سے واپس آئے تو بھانجے کے ساتھ ایک اجنبی خاتون کو دیکھا۔ معلوم ہوا کہ کشمیر کے کسی اچھے ہندو گھرانے کی خاتون ہیں جنہیں اِغوا کر کے بازارِ حسن پہنچا دیا گیا تھا۔ وہاں اقبال کے بھانجے سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مصیبت سے نجات دلاتے ہوئے نکاح کر لیا۔ اقبال کی غیرموجودگی میں معاملہ پولیس تک پہنچا تھا مگر قانون نے عورت کا ساتھ دیا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت دونوں کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا اور پھر کبھی اُن کی صورت دیکھنا پسند نہ کی۔ ’’وہ خاتون۔۔۔ آخر دم تک اپنے خاوند کی فرمانبردار رہیں،‘‘ خاندان والوں کا بیان ہے۔۲۵ ۲۴ کشن پرشاد نے ’اسرارِ خودی‘ کو پسند کرتے ہوئے بیس کتابیں بذریعہ وی پی منگوائیں۔ شاید تبصرہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ ۳۰ ستمبر کو اقبال نے انہیں لکھاکہ دوسرا حصہ معانی کے اعتبار سے زیادہ لطیف ہو گا۔ ’’ اگر لٹریری مشاغل اِس ملک میں بطور ایک پیشے کے اختیار کئے جا سکتے تو میں اپنے موجودہ کاروبار کو بمع اس کی تمام دلچسپیوں اور امیدوں کے خیرباد کہہ دیتا۔‘‘ بیس کاپیاں اُسی روز روانہ کر دیں مگر وی پی پارسل کرنے کو گناہِ کبیرہ جانا۔ ’’اگر ضرورت ہو تو مزید نسخے بھی حاضرِ خدمت ہوں گے۔‘‘ ۲۵ کشمیر میں رہنے والے منشی سراج الدین جن کی بھیجی ہوئی انگوٹھیوں نے کسی زمانے میں اقبال کو فارسی میں چند اشعار کہنے پر مائل کیا تھا، اُنہوں نے ’اَسرارِ خودی‘ پڑھ کر اقبال کو جو خط لکھا وہ اس قابل تھا کہ اقبال نے اُسے پڑھنے کے بعد زمیندار کے اڈیٹر مولوی عمادی کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اپنے تبصرے میں اس سے بھی مدد لے لیں۔۲۶ بنام منشی سراج الدین لاہور ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی۔ السلام علیکم آپ کا نواش نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ الحمداللہ کہ آپ کو مثنوی پسند آئی۔ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں ہیں جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرۂ شعرأ میں پیدا کرتی۔ بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوقِ شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شعر کہنے والا اور تصنیف کی شدید تکلیف اُسے اٹھانی نہیں پڑتی۔ یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی مگر اِس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے۔ موجودہ مشاغل وقت نہیں چھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میں زمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے کام بڑھ ہی جاتا ہے۔ لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہو گا جس کے مضامین میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حصہ اِس حصہ سے زیادہ لطیف ہو گا۔ کم از کم مطالب کے اعتبار سے، گو زبان اور تخیل کے اعتبار سے میں نہیں کہہ سکتا کہ کیسا ہو گا۔ یہ بات طبیعت کے رنگ پر منحصر ہے جو اپنے اختیار کی بات نہیں۔ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض و غائت سے آشنائی نہیں۔ ان کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلعم کے منھ سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ انشأ اللہ دوسرے حصے میں دکھاؤں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور صحابہ کرام کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف حامی ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال ۲۶ ۹ اکتوبر کو قادیان کے اخبار الفضلمیں میر اِنعام اللہ نے سیالکوٹ کی ستمبر میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے یہ بیان شائع کیا کہ سید بشیر احمد کے پوچھنے پر اقبال نے کہا کہ قادیانی جماعت حق پر ہے مگر مجھے ہمدردی لاہور والوں سے ہے۔ اس کے علاوہ کتاب حقیقۃ النبوۃ کی تعریف میں اقبال کی رائے بھی درج کی۔ ۲۷ اقبال کو اس مضمون کے بارے میں تب معلوم ہوا جب لوگوں نے اُن سے پوچھنا شروع کیا۔ بالکل یاد نہیں تھا کہ وہ باتیں کہی ہوں جو انعام اللہ نے اُن سے منسوب کی تھیں۔ تردید شائع کروانے سے پہلے سید بشیر احمد کو خط لکھنا مناسب سمجھا جوہشیارپور میں تھے۔ ۲۷ زمیندارکے اسسٹنٹ اڈیٹر مولوی عمادی نے منشی سراج الدین کا خط شائع کر دیا۔ انہوں نے اقبال سے شکایت کی۔ ۱۴ اکتوبر کو اقبال نے معذرت کے خط میں لکھا کہ ایسا غلطی سے ہوا جس کی ذمہ داری کچھ ان پر اور کچھ زمیندار کے عملے پر تھی جسے معلوم نہ تھا کہ خط اشاعت کے لیے نہیں بلکہ مولوی عمادی کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا۔ ۲۸ سیالکوٹ میں اقبال کی لڑکی معراج بیگم کا آخری وقت قریب تھا۔ دادی کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ ۱۷ اکتوبر کو فوت ہو گئیں۔ شیخ عطا محمد نے انہیں امام بی بی کے برابر والی اُس قبر میں دفن کر دیا جو اپنے لیے تیار کروائی تھی۔۲۸ ۲۹ اقبال کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ان کی طبیعت خراب تھی۔ پچھلے دنوں شیعیت کے بارے میں کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔ خط میں کسی انیس احمد کی بات چھیڑی تھی جن سے اقبال واقف تھے اور تعلیمِ قرآن پر اُن کے متنازعہ رسالے کو پسند بھی کرتے تھے۔ اُن کی کتاب معراج الدین کا ذکر تھا۔ اقبال کے واعظِ قرآن بننے کی کوئی بات تھی۔ اقبال نے ۱۸ اکتوبر کو جواب میں لکھا کہ واعظِ قرآن بننے کی صلاحیت تو اُن میں نہیں ہے مگر قرآن کے مطالعے سے اپنا اطمینان بڑھتا جاتا ہے۔ ’’آپ کے خطوط سے مجھے نہائت فائدہ ہوتا ہے اور مزید فکر کی راہ کھلتی ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت لوگوں کو اُن سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔‘‘ امامت کے بارے میں اقبال نے خیال ظاہر کیا کہ موجودہ زمانے میں جبکہ مذہبی حقائق کا معیار عقل ہے، امامت معاشرے کو انتشار سے محفوظ رکھ سکتی ہے مگر اس میں ایک نقص ہے، ’’وہ یہ کہ عوام کو مجتہدین سے تعلق رہتاہے اور قرآن سے تعلق کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل کوئی تعلق نہیں رہتا۔‘‘اکبر کے مضمون کا فقرہ نقل کیا کہ مذہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے۔ ’’یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لیے یہی خیال محرّک ہوا۔ میں گزشتہ دس سال سے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔‘‘ ایک غزل اکبرؔ کوبھیجی، ’’مدت ہوئی چند شعر فارسی کے لکھے تھے عرض کرتا ہوں۔‘‘ ۳۰ کسی انجمن، غالباً انجمن حمایت اسلام کے کام کے لیے بیرسٹر عبدالعزیز اقبال کو کہیں بلانا چاہتے تھے۔ بیوی کی طبیعت اب تک ٹھیک نہ ہوئی تھی اس لیے نہ جا سکے۔ ’’مجھے یقین ہے کہ یہ عذر آپ کے نزدیک خاصا وزنی ہو گا۔۔۔ اور اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ انجمن کے معاملات سے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے،‘‘ انہوں نے ۱۹ اکتوبر کو انگریزی میں لکھا۔’’میں نے اسے اُن لوگوں پر چھوڑ دیا ہے جو اسے زیادہ اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔‘‘ ۳۱ وہی نگاہ جو رکھتی ہے مست رِندوں کو غضب یہ ہے کہ کبھی محتسب بھی ہوتی ہے اکبرؔ الٰہ آبادی بنام اکبرؔ الٰہ آبادی لاہور ۲۵ اکتوبر ۱۵ء مخدومی! السلام علیکم نوازش نامہ ملا۔ دونوں اشعار لاجواب ہیں: فطرت کی زباں جس کو سمجھو سبحان اللہ! یہ طرز اور معنی آفرینی خاص آپ کے لیے ہے۔ کوئی دوسرا یہاں مجالِ دم زدن نہیں رکھتا اور دوسرا شعر: غضب یہ ہے کہ کبھی محتسب بھی ہوتی ہے کئی دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ اس کا لطف کم ہونے میں نہیں آیا۔ کبھی موقع ہوتا ہے تو دل کا دُکھڑا آپ کے پاس روتا ہوں۔ یہاں لاہور میں ضروریاتِ اسلامی سے ایک متنفس بھی آگاہ نہیں۔ یہاں انجمن اور کالج اور فکرِ مناصب کے سوا اور کچھ نہیں۔ پنجاب میں علمأ کا پیدا ہونا بند ہو گیا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے کوئی خاص مدد نہ کی تو آئندہ بیس سال نہائت خطرناک نظر آتے ہیں۔ صوفیا کی دکانیں ہیں مگر وہاں سیرتِ اسلامی کی متاع نہیں بکتی۔ کئی صدیوں سے علمأ اور صوفیأ میں طاقت کے لیے جنگ رہی جس میں آخرکار صوفیا غالب آئے۔ یہاں تک کہ اب برائے نام علمأ جو باقی ہیں وہ بھی جب تک کسی نہ کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں ہردلعزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علمأ کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدّد الفِ ثانی، عالمگیر اور مولیٰنا اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ ِ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے۔ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں صرف ایک بیچین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خداداد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آپ کا خادم محمد اقبال ۳۲ ’ہرن منارہ‘ وہ نظم تھی جو شاکر صدیقی نے اس دفعہ بھیجی تھی۔ اقبال نے اکتوبر میں کسی وقت اشعار کی خامیوں پر نشان لگا کرایک خط کے ساتھ نظم واپس کی۔ چند فارسی شعرأ کے نام لیے جن کا کلام پڑھنے سے فائدہ ہو سکتا تھا۔ حافظؔ شیرازی کا نام نمایاں طور پر غائب تھا۔ ۳۳ ’اسرارِ خودی‘ کے بعض پیکٹ ڈاک میں گم ہو گئے۔ اقبال کو خدشہ ہوا کہ کہیں کشن پرشاد کو بھیجی ہوئی بیس جلدوں کا بھی یہی حشر نہ ہوا ہو۔ ایک مدّت سے اُن کا خط بھی نہیں آیا تھا۔ ۲ نومبر کو یاددہانی کروائی۔ ۳۴ زمانہ (کانپور) کے نومبر کے شمارے میں اقبال کی ایک پرانی غزل شائع ہوئی: سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں ۳۵ ۱۲ نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کا الہلال دوبارہ جاری ہوا جو پچھلے برس بند ہوا تھا۔ پہلے صفحے پر اقبال کی نظم ’عرفی‘ تھی جو پچھلے برس ۱۳ دسمبر کو کہی گئی تھی۔ ۲۹ ۳۶ ہوشیارپور سے سید بشیر احمد کا جواب آیا۔ ’’میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کوئی سوال آپ سے نہیں کیا تھا،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’میر انعام اللہ صاحب سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ عادتاً مبالغہ آمیز باتیں کرنے کا عادی ہے۔ پوری گفتگو نہ کبھی اُس کی کسی نے سمجھی ہے اور نہ ہی وہ خود بیچارا سمجھ سکتا ہے۔ ایک فقرہ سے کئی کئی نتائج اخذ کیا کرتے ہیں۔ انہیں معذور سمجھنا چاہئے۔‘‘ اقبال نے ۱۳ نومبر کو جماعت احمدیہ لاہور کے ہفت روزہ پیغامِ صلح کے اڈیٹر کے نام خط لکھا۔ سید بشیر احمد کے خط کا اقتباس نقل کرکے لکھا، ’’افسوس ہے کہ میر انعام اللہ صاحب نے میرے الفاظ کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہو۔ ایک شخص جو کسی خاص فریق سے تعلق رکھتا ہو وہ قدرتی طور پر اَوروں کی گفتگو سے وہی الفاظ و مطالب یاد رکھتا ہے جو اُس کے مفیدِ مطلب ہوں اور سیاقِ الفاظ فراموش کر جاتا ہے۔ اِتنی بات ضرور ہے کہ میں نے کتاب حقیقۃ النبوۃ کی بہ لحاظ اس کی ترتیب کے تعریف کی تھی مگر اس کے دلائل پر رائے دینے کا مجھے حق حاصل نہیں کیونکہ اختلافِ سلسلۂ احمدیہ کے متعلق وہی شخص رائے دے سکتا ہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک غیراحمدی مسلمان جو رسول اللہ صلعم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل نہ ہو وہ کس طرح یہ بات کہہ سکتا ہے کہ عقائد کے لحاظ سے قادیان والے سچے ہیں۔‘‘۳۰ کشن پرشاد کے دو خط موصول ہوئے تھے۔ کسی پریشانی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اُس روز اقبال نے لکھا، ’’مفصل کیفیت سے آگاہی چاہتا ہوں۔۔۔ اگر نامناسب نہ ہو تو مطلع فرمائیے، اِس عرصے میں ہمہ تن دعا ہوں۔‘‘ ۳۷ لاہور کے عربی کے پروفیسر محمد شفیع ان دنوں کیمبرج میں پروفیسر براؤن کی نگرانی میں تحقیق کر رہے تھے۔ انہیں ’اَسرارِ خودی‘ کا ایک نسخہ موصول ہوا۔ وہ اُنہوں نے میاں فضل حسین کے بھائی میاں افضل حسین کو دیا جو گورنمنٹ کالج میں اقبال کے شاگرد رہ چکے تھے اور اُن دنوں کیمبرج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ’’جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور طاقت ور قومیں اپنے غلبہ و استیلا کے جنگ و جدل میں مصروف تھیں،‘‘ میاں افضل کا بیان ہے۔ ’’فوق البشر (Superman) کا جرمن فلسفہ ہمارے ہاں ایک عام موضوعِ بحث تھا۔ میں نے ’اَسرارِ خودی‘ کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اور میں اس کتاب سے بیحد متاثر ہوا۔‘‘۳۱ ۳۸ ’اَسرارِ خودی‘ [تبصرے سے اقتباس] مدعائے اسلام یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی چھپی ہوئی قوتوں کے اثر سے آگاہ ہو۔ ان سے کام لینا سیکھے اور ان ثغور و حدود کے اندر رہ کر کام کرے جو قانونِ قدرت و قرآن مجید نے مقرر کر دیے ہیں۔ یہی چیز تھی جس کو ہم اب تک بھولے ہوئے تھے اور اسی بھول جانے کا نتیجہ ہمارا موجودہ تنزل و انحطاط ہے اور یہی بھولا ہوا سبق ہے جسے ڈاکٹر اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کے ذریعہ سے ہم کو پھر یاد دلایا ہے۔ ہم نے اِس مثنوی پر مفصل تبصرہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے حقائق و معارف اِتنے وسیع ہیں کہ حقِ تبصرہ ادا ہو سکتا ہی نہیں۔۔۔ غرض یہ کہ یہ کتاب قرآن کریم کی سچی اور اصلی تفسیر ہے اور ہم اس سے زائد اِس پاک ترین مثنوی کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی یہ ایک مقدس شرح ہے جس کا پڑھنا اور جس پر عمل کرنا ہر ایک انسان کا سب سے پہلا فرض ہونا چاہئے۔ زمیندار (لاہور)، ۲۰ نومبر ۱۹۱۷ئ۳۲ ۳۹ ایک یہودی بادشاہ کے وزیر نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کر کے عیسائیوں میں مقبولیت حاصل کی۔ پھر صلیب کے ذریعے اپنا خاتمہ کروا کر اُن کے دلوں میں مستقل مقام بنا لیا۔ مرنے سے پہلے عیسائیوں کے بارہ سرداروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقات کر کے اُن میں سے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہی جانشین ہو گا۔ ہر ایک کو انجیل کی مختلف تفسیر دی تھی۔ وزیر کی موت کے بعد ہر سردار خلوصِ نیت سے دعویٰ کرنے لگا کہ وہ جانشین ہے۔ انجیل کی جو تفسیر اُس کے پاس ہے وہی درست ہے۔پھوٹ پڑ گئی۔ ایک فرقہ محفوظ رہا۔ یہ انجیل میں آنحضورؐ کے بارے میں پیشین گوئی پڑھ کر آپؐ پر غائبانہ درود بھیجتا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ نہیں بلکہ مولانا روم کی مثنوی کی حکایت تھی۔ خواجہ حسن نظامی کے دوست سید محمد شاہ ذوقی کو ’اَسرارِ خودی‘ پڑھ کر یاد آئی ہو گی کیونکہ اُن کے خیال میں اقبال نے مکّار وَزیر جیسا کام کیا تھا۔ مثنویٔ اقبال از سید محمد شاہ ذوقی [اقتباس] میں ایک جدیدترین حملے کی طرف ناظرین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو مذہب کی حمایت کی آڑ میں مذہب کی رُوح پر ہوا ہے۔ میرا اِشارہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ (لاہور) کی اُس مثنوی کی جانب ہے جو اُنہوں نے حال میں شائع کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کی نیت پر حملہ کرنے کا سرِدست مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔ ممکن ہے کہ اُن کی یہ غلطی چند غلط فہمیوں یا ناقص معلومات کا نتیجہ ہو اور حق تعالیٰ کی عنایت سے یہ نقص آگے چل کر دُور ہو جائے۔ یَھدِی اللّٰہُ لِنُورِہ مَن یَشَائُ ط (سورۂ نور رُکوع ۵) راہ دکھلاتا ہے اللہ اپنے نُور کی طرف جسے چاہتا ہے۔ لیکن اِس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ مثنوی ’اَسرارِ خودی‘ میں آزارِ خودی کی جن تیوروں سے حمایت کی گئی ہے وہ باعتبار اپنے نتائج کے ایک حملہ ہے جو اِسلام پر اِسلام ہی کی آڑ میں ہوا ہے۔ عوام الناس میں عموماً اور انگریزی داں طبقہ میں خصوصاً نہ معلوم کیوں اقبال کو دلداۂ تصوّف ہونے کی شہرت حاصل ہے۔۔۔ خطیب (دہلی)، ۳۰ نومبر ۱۹۱۵ئ۳۳ ۴۰ حسن نظامی کے شاگرد ضیأالدین برنی نے تصوف کے موضوع پر کوئی کتاب لکھ کر اقبال سے نظرِ ثانی کی درخواست کی تھی۔ ۳۰ نومبر کو اِقبال نے جواب دیتے ہوئے برنی کو لکھا، ’’مجھے تصوف سے معمولی واقفیت ہے اور وہ بھی سطحی۔ اِس کام کے لیے موزوں ترین آدمی خواجہ حسن نظامی ہیں۔‘‘ تصوف پر بہت سی کتابیں موجود تھیں جنہیں پڑھنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوا تھا۔ تصوف کی تاریخ کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو دکھائے کہ اِس کا تعلق اسلام سے ہے یا نہیں۔ ۳۴ ۴۱ سائیں رب سے ملاقات ہوئی تو اقبال نے کشن پرشاد کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا رب ہمیشہ شاد کے ساتھ ہے، وہ مطمئن رہیں۔ ۳۵ ۴۲ دسمبر میں پھر بخار اور نزلہ نے آ گھیرا۔کشن پرشاد کا خط ملا جس میں انہوں نے موسمِ سرما میں پنجاب کے سفر کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر اقبال جواب نہ دے سکے۔ ۱۳تاریخ کو پیغامِ صلحمیں کشن پرشاد کی کوئی نظم اقبال کی نظر سے گزری۔ ’’میں نے اسی کو نیم ملاقات تصور کر لیا،‘‘ انہوں نے دو دن بعد کشن پرشاد کو خط میں لکھا اور سائیں رب کا پیغام دینے کے بعد لکھا۔ ’’پنجاب کے لیے سردیوں کا موسم سفر کے لیے خوب ہے۔ فروری کا مہینہ خاص کر اچھا ہے۔‘‘ ۴۳ استنبول کے ایک محل میں معزول خلیفہ سلطان عبد الحمید نظربند تھے جن کی معزولی پر ۱۹۰۹ء میں اقبال نے کہا تھا: چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا مصطفیٰ کمال گیلی پولی میں دشمن کی یلغار ناکام بنا کر واپس آئے تو اُن کا قیام بھی اِسی محل میں ہوا۔ شہر میں ایک اور محل کے قریب وہ چھوٹا سا گھر تھا جو مصطفی کمال نے اپنی والدہ زبیدہ خانم کو لے کر دیا تھا جہاں وہ اُن کی بہن مقبولہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ جس طرح اقبال کے والد اُنہیں مذہبی تعلیم دلوانا چاہتے تھے اُسی طرح مصطفی کمال کی والدہ بھی یہی چاہتی تھیں مگر سات آٹھ برس کے تھے جب والد فوت ہو گئے۔ زبیدہ خانم کی عمر ستائیس برس تھی۔ گزربسر کا اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ دوسری شادی کر لیں۔ دوسرے شوہر کے پہلے سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیںجن میں سے بعض مصطفی کمال سے عمر میں بڑے تھے۔ مصطفی کمال ایک رشتہ دار کے گھر منتقل ہو گئے لیکن بعد میں سوتیلے باپ کے آخری دنوں میں اُس کی مدد بھی کی۔ ایک اور جانب سلطان احمد کی نیلی مسجد کے قریب روایتی قسم کے مکان میں فقری خانم رہتی تھیں۔ عمر اٹھارہ برس تھی۔ مصطفی کمال کے سوتیلے باپ کی بھتیجی تھیں۔ روایتی ماحول میں بھی پیانو بجانے اور جدید تہذیب کے بعض دوسرے لوازمات سے آگاہی حاصل کی تھی۔ دو برس قبل ملاقات ہوئی تھی۔ پھر جب موقع ملتا دونوں اکٹھے وقت گزارتے۔ سوتیلے باپ سے تعلق میںاپنائیت اور بیگانگی کی جو بھی کشمکش رہی ہو، وہ فقری سے تعلقات میں منتقل ہو سکتی تھی۔ ان کی ماں جیسا مشرقی مزاج رکھتی تھیں جس کی وجہ سے اِس پر بھی اعتراض نہ تھا کہ مصطفی کمال کو جب ضرورت نہ ہو تو اُنہیں نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بچپن میں ماں جس پرانی تہذیب کی علامت تھیں اُسے مصطفی کمال جتنی وقعت دیتے فقری کو بھی اُتنی ہی وقعت دیتے ہوں گے۔جس طرح وہ خود مغربی تہذیب سے زندگی کا لطف اُٹھانا جانتے تھے اُسی طرح فقری بھی پیانو بجانے اور خود اُن کے ساتھ وقت گزارنے کی شوقین تھیں۔ ۴۴ لاشعور کی تہوں میں چھپے ہوئے رجحانات ذہن کو متاثر کر سکتے تھے مگر خودی ان سے بلند بھی ہو سکتی تھی۔ اس کے لیے اجتماعی خودی کے سامنے اپنی انفرادی خودی مٹانے کی ضرورت تھی۔ ۴۵ ’’مثنوی اسرارِ خودی مصنفۂ ڈاکٹر اقبال صاحب جس میں مصنف نے کہا ہے کہ اپنی خودی کو مٹانے والا فلسفہ جس کا مشرق پر بہت بُرا اثر ہوا، صحیح نہیں۔ خودی کو بڑھانا چاہیے،‘‘ اکبرؔ الٰہ آبادی نے ۱۸ دسمبر کو عبدالماجد دریابادی کے نام خط میں لکھا۔ ’’مثنوی کی نسبت کچھ زیادہ کہنا نہ چاہیے۔‘‘۳۶ ۴۶ شبلی نعمانی کی الغزالی کا نیا اڈیشن شائع ہوا۔ اُن کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے دیباچے میں سر سید احمد خاں کو ہندوستان میں مسلمانوں کی اصلاحی تحریک کا سب سے بڑا قائد اور شبلی مرحوم کو اُن کی فوج کا بہت بڑا پہلوان قرار دیا۔۳۷ ۴۷ ۲۰ دسمبر کو خواجہ کمال الدین سے ملاقات ہوئی جنہوںنے چار برس پہلے شاعری چھوڑ کر سائنس کی طرف متوجہ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ لاہوری گروپ کے احمدی تھے۔ انگلستان میں تبلیغ کرتے تھے۔ کشن پرشاد کاذکر ہواجن کی غزل ’’دل چہ فروشم‘‘ ذخیرہ رسالے میں انہی دنوں اقبال کی نظر سے گزری تھی۔ کوئی مسٹر المالطیفی انڈین سول سرونٹ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ واپس آرہے تھے۔۳۸ اگلے روز کشن پرشاد کا خط ملا تو اقبال نے جواب دیتے ہوئے المالطیفی کے بارے میں دریافت کیا۔ فارسی غزل کے بارے میں لکھا کہ کشن پرشاد سادگی اور معصومیت کے ساتھ پتے کی بات کہہ جاتے ہیں جس کا چرچا عالمِ بالا میں رہنے والوں میں بھی ہو رہا ہے مگر ’’وہاں کی ایک پارٹی آپ کی موئد ہے اور آپ کے الفاظ کی مختلف تعبیر کرتی ہے۔‘‘ ۴۸ پنجاب میں کوئی گانے والی پیشہ ترک کر کے پردہ نشین ہو گئی تھی۔ اُس کا خط اقبال کو موصول ہوا کہ اُن کی شاعری سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ اُس کے ساتھ شادی کر لیں۔ مہذبانہ انکار کے سوا کیا کر سکتے تھے۔ ۳۹ ۴۹ اقبال نے فوق سے کوئی کتاب منگوائی مگر اِس خیال سے کہ وہ شیرانوالہ دروازے میں رہتے ہیں لکھ دیا کہ خود آنے کی بجائے کتاب ڈاک سے بھجوا دیں۔ انہوں نے اسے بے رخی سمجھ کر کارڈ میں دریافت کیا۔ اُس روز شائع ہونے والے کشمیری میگزین کے بارے میں بھی پوچھا جس میں’ڈاکٹر اقبال کی ایک نظم کا اثر‘ کے عنوان سے فوق نے لکھا تھا کہ بیگم صاحبہ بہاولپور نے ایک مقامی زنانہ اخبار کی اڈیٹر سے کہا کہ جب سے انہوں نے پرندے کی فریاد والی نظم پڑھی ہے تیتر، بٹیر اور چڑیوں کا کھانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ کسی پرندے کو پنجرے میں بند دیکھتی ہیں تو دل پر چوٹ لگتی ہے۔ فوق نے اپنی کتاب وجدانی نشترکے بارے میں بھی پوچھا جس میں ایسے واقعات درج تھے جب قرآن شریف کی کسی آیت یا عربی، فارسی، اُردو یا پنجابی کے کسی شعر کا کسی بزرگ پر کوئی خاص اثر ہوا۔ ’’کتاب جب آجائے تو ضرور ہمراہ لائیے بلکہ اس کے آنے میں دیر ہو تو بلا کتاب تشریف لائیں،‘‘اقبال نے کارڈ ملتے ہی ۲۱ دسمبر کو وضاحت کی۔وجدانی نشتر اور اُس روز کا کشمیری میگزین اقبال کی نظر سے نہیں گزرے تھے۔ ۵۰ لکھنے والے نے کشاف کا قلمی نام اختیار کر کے لکھا، ’’اقبال نے مثنوی اَسرارِ خودی کیا لکھی کہ اُس کے احباب و مخالفین میں معرکۂ کارزار گرم ہو گیا اور ملّتِ مرحومہ اپنے نازک وقت میں خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئی۔‘‘۴۰ ’اَسرارِ خودی‘ [کشاف کے مضمون سے اقتباس] خواجہ حسن نظامی صاحب مخالفت کے علمبردار ہیں اور یہ مخالفت وہ بہ حیثیت سیکریٹری آل انڈیا صوفی کانفرنس کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کو ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب اقبال نے مثنوی کا نمونہ ’توحید‘ میں شائع کروایا تھا، اُس وقت آپ نے اس کی کس قدر تعریف کی تھی، بلکہ اس کے اَزبر کر لینے کی آپ نے سفارش کی تھی۔ وہی خواجہ صاحب اَب اس کے مخالف ہو رہے ہیں۔ حافظ شیرازی کے متعلق اقبال نے بالکل درست لکھا ہے۔۔۔ قوم کے ارتقا میں شعرأ کا خاص حصہ ہوتا ہے۔ بائرن کے اَشعار نے یونان میں آگ لگا دی، فرانسیسی شعرأ نے انقلابِ فرانس میں نمایاں حصہ لیا۔ متنبی کے اشعار نے عربوں میں خاص روح پیدا کی۔ ہمارے برادرانِ وطن میں رابندرناتھ ٹیگور کے پاکیزہ اَشعار خاص اثر پیدا کر رہے ہیں۔ کیا اقبال اُن کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا؟ اقبال ہمارا بائرن ہے، ہمارا شیلے ہے، ہمارا متنبی ہے، ہمارا ٹیگور ہے اور ہمارا واحد قومی شاعر ہے جس کے کلام نے ارتقأ و احیائے اسلام میں نمایاں حصہ لیا ہے اور اَب مثنوی اَسرارِ خودی میں مسلمانوں کے آگے اُن کا دستور العمل پیش کیا ہے۔ اس بے قدری کے زمانہ میں مفید اشخاص کی جس قدر مٹی خراب ہو رہی ہے، وہ اور کسی کی نہ ہو گی۔ احمد شجاع نے خوب کہا ہے: تیری شمعِ شعر کا اقبال پروانہ ہوں میں تیری لیلائے سخن کا قیس دیوانہ ہوں میں وکیل (امرتسر)، ۲۲ دسمبر ۱۹۱۵ئ۴۱ ۵۱ شاید ۲۲ دسمبر ہی کی شام فوق وجدانی نشتر کے بغیر ملنے چلے آئے۔ ’’میرے دوست منشی محمد دین فوق۔۔۔ نے مجھ سے سوال کیا کہ تم نے حافظ پر کیوں اعتراض کیا ہے،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’اُس وقت فرصت کم تھی اور چونکہ مضمون طویل تھا، میں نے اُن کو کوئی جواب نہ دیا۔ عام مسائلِ تصوف پر گفتگو کرتا رہا۔‘‘۴۲ ۵۲ معلوم ہوتا ہے کہ وجدانی نشتر اگلے روز اقبال کو ملی اور اُنہوں نے اُسی روز دیکھ ڈالی۔ شاہجہاں کے زمانے میں لاہور میں میاں میر کے مرید اور شہزادہ داراشکوہ کے مرشد ملّا شاہ بدخشانی نے ایک شعر میں کہا کہ میں نے اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو پھر مجھے آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کیا پروا ہے: پنجہ در پنجۂ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیٰ دارم شہنشاہ شاہجہاں نے بازپرس کی تو ملّا نے کہا کہ رسالت کی توہین تو وہ کر سکتا ہے جو اپنے، مصطفیٰؐ ؐ اور خدا کے درمیان فرق کرتا ہو۔ خدا کے پنجے میں آپ بھی ہیں، میں بھی اور مصطفیٰؐ بھی، پھر پروا کس کی اور خوف کس بات کا! اقبال کو اَفسوس ہوا کہ فوق نے اِس بیہودہ واقعے کو چوتھے باب، ’تیر و نشتر‘ میں جگہ دی تھی۔۴۳ البتہ صفحہ ۹۴ پر اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں ایک واقعہ حافظ شیرازی کے اُس شعر کے حوالے سے درج تھا جس کا مطلب تھا کہ ہمیں نیک نامی کے کوچے میں جانے ہی نہیں دیاگیا، اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو ہماری تقدیر بدل دیجیے۔ اقبال نے محسوس کیا کہ یہاں فوق کے اِس سوال کا جواب موجود تھاکہ اقبال، حافظ شیرازی پر تنقید کیوں کر رہے ہیں۔ وجدانی نشتر از منشی محمد دین فوق [اقتباس از ص۹۴] اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے، جو بڑا متشدد بادشاہ تھا، ایک مرتبہ حکم دیا کہ اِتنی مدت کے اندر جتنی طوائفیں ہیں، سب نکاح کر لیں، ورنہ کشتی میں بھر کر سب کو دریابرد کر دوں گا۔ سینکڑوں نکاح ہو گئے مگر پھر ایک بڑی تعداد رہ گئی۔ چنانچہ ان کے ڈبونے کے لیے کشتیاں تیار ہوئیں اور صرف ایک دن باقی رہ گیا۔ یہ زمانہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تھا۔ ایک حسین نوجوان طوائف روزمرہ آپ کے سلام کو آیا کرتی تھی۔ آپ ورد و وظائف سے فارغ ہوتے، وہ طوائف سامنے آ کر دست بستہ کھڑی ہو جاتی۔ جب آپ نظر اُٹھاتے، وہ سلام کر کے چلی جاتی۔ آج جو وہ آئی تو بعد سلام عرض رساں ہوئی کہ آج خادمہ کا آخری سلام قبول ہو۔ آپ نے حقیقت دریافت فرمائی۔ جب تمام کیفیت بیان کر دی تو آپ نے اِرشاد فرمایا کہ حافظِ شیراز کا یہ شعر: دَر کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را تم سب یاد کر لو اور کل جب تمہیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآوازِ بلند اِس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان سب طوائفوں نے اِس شعر کو یاد کر لیا۔ جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش اِلحانی سے بڑے دردانگیز لہجے میں اِس شعر کو پڑھنا شروع کیا۔ جس نے یہ شعر سنا دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کان میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا سب کو چھوڑ دو۔۴۴ ۵۳ ’’وجدانی نشتر خوب ہے مگر تعجب ہے کہ شیخ ملّا کے ملحدانہ و زندیقانہ شعر۔۔۔ کو آپ اس کتاب میں جگہ دیتے ہیں اور پھر ملّاکی تشریح کس قدر بیہودہ ہے،‘‘ اقبال نے ۲۳ دسمبر کو فوق کو لکھا۔ ’’یہی وہ وحدت الوجود ہے جس پر خواجہ حسن نظامی اور اہلِ طریقت کو ناز ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے اور ہم غریب مسلمانوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔‘‘ دوسرے صفحے پر مختصر تبصرہ لکھ دیا کہ فوق تشہیر کے لیے استعمال کر لیں: مولوی محمدالدین فوق ایک صاحبِ ذوق آدمی ہیں۔ ان کی جدت پسند طبیعت ہمیشہ انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک کتاب موسوم بہ ’وجدانی نشتر‘ لکھی ہے جس میں ایسے عربی، فارسی، اُردو، پنجابی اشعار جمع کر دیے ہیں جو تاریخی اعتبار سے ایک خاص اثر اور سوز و گداز کا باعث ہوئے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں ان کو بہت محنت کرنی پڑی ہو گی۔ مگر مولوی محمدالدین محنت سے گھبرانے والے نہیں۔ کتاب نہایت اچھی ہے اور دلچسپ۔ فوق صاحب کی تلاش قابلِ داد ہے اور انسانی قلب کی گوناگوں کیفیات پر روشنی ڈالتی ہے۔۴۵ ۵۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: William Temple. The Nature of Personality. Macmillan, London Harald Hoffding (translated by Alfred C. Mason). Modern Philosophers: Lectures delivered at the University of Copenhagen during the autumn of 1902 and lectures on Bergson delivered in 1913. Macmillan, London۴۶ ۵۵ کشافِ خودی از خواجہ حسن نظامی [اقتباس] حضرت اقبال کے کمالِ شاعری، سوز و گداز اور اُس اثر سے انکار کرنا جس نے مسلمانوں کی موجودہ نسل کو بیدار کیا، آفتاب کے وجود سے انکار کرنا ہے۔۔۔ اخبار توحید میں اس مثنوی [اَسرارِ خودی] کے چند اَشعار چھپے تھے۔ میں نے تمام و کمال مثنوی نہ دیکھی تھی۔ اگر اُن اشعار کی تعریف کی گئی تو میری موجودہ رائے پر اُ س کا اثر نہیں پڑ سکتا۔ وہ جزو کو دیکھ کر تھا، یہ کُل کو دیکھ کر ہے۔ مجھے کوئی بتائے اَسرارِ خودی چاہتی کیا ہے؟ یہ تو نہیں جس کا اِشارہ نادانستہ جناب کشاف کے قلم سے نکل گیا ہے یعنی ’’انقلابِ فرانس‘‘؟ فرانس میں شاعروں کی تحریک سے کیا ہوا تھا؟ ہولناک قتلِ عام، اہلِ مذہب کی خوں ریزی، عبادت خانوں کی پامالی! اسی انقلاب کا نتیجہ ہے کہ مذہب فرانس میں ناپید ہو گیا، خودپرستی نے قبضہ کر لیا اور فرانس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ تو کیا اَسرارِ خودی یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان میں بھی مذہب کا وہی حشر ہو؟ ۔۔۔میں اقبال کی نیت پر حملہ نہیں کروں گا۔۔۔انہوں نے تو یہ مثنوی اپنی دانست میں مسلمانوں کے فائدہ کے لیے لکھی ہو گی مگر اِس سے سخت خطرے پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے اصول عقائد میں تزلزل پڑ جائے گا۔ دراصل یہ مثنوی اقبال کی نہیں بلکہ اقتضائے وقت کی لسانِ حال ہے۔ وقت کی خواہش ہے کہ مشرقی، مغربی بن جائیں۔۔۔ اگر وہ سچے ہیں کہ حافظ [شیرازی] کے کلام نے مسلمانوں کو کم ہمت بنا دیا ہے تو میں پوچھوں گا کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دنیائے مردار کی مذمت کی تھی اُس سے مسلمانوں کی ہمت نہ ٹوٹی؟ حضورؐ اور سب صحابہ دین کو مقدم اور دنیا کو موخر کہتے تھے۔ اُنہوں نے کیسی کیسی فتوحات کیں۔ اسرارِ خودی دنیا کو مقدم کہہ کر کیا دکھا سکے گی؟۔۔۔ اسرارِ خودی میں کن کن یورپین فلاسفروں کی روح ہے؟ وکیل (امرتسر)، ۲۹ دسمبر ۱۹۱۵ئ۴۷ صحت خراب تھی اس لیے اصل موضوع یعنی خودی اور بیخودی پر کچھ نہ لکھا۔ آیندہ لکھنے کا وعدہ تھا۔ ۵۶ اگلے روز کشن پرشاد اور خواجہ حسن نظامی کے خطوط موصول ہوئے۔ کشن پرشاد نے اقبال کے جواب نہ لکھنے کی شکائت کی تھی۔ ان کی بار بار کی بیماریوں کا ایسا حل تجویز کیا تھا جس پر وہ یہی کہہ سکتے کہ میں اپنے معاملات خدا کے حوالے کرتا ہوں، ورنہ میرا بے انتہا نشہ تو کئی سمندر مانگتا ہے۔ بقول نظیری نیشاپوری، جو میدان ِ جنگ کا آدمی نہ ہو وہ ہماری صفوں سے دُور رہے کہ جو قتل نہیں ہوا وہ ہمارے قبیلے سے نہیں۔ حسن نظامی کی بیماری پر افسوس کرنے کے بعد اقبال نے تصوف کے بارے میں اپنے خیالات تفصیل سے تحریر کئے۔ اُن کا آبائی اور فطری رجحان تصوف کی طرف تھا ۔ یورپ کے فلسفے نے جو مجموعی طور پر وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے اس رجحان کو مزید پختہ کر دیا۔ قرآن اور اسلامی تاریخ پر غور کرنے سے اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ رہبانیت صرف عیسائی مذہب ہی میں نہیں بلکہ ہر ثقافت میں پیدا ہوئی۔ ہر جگہ اس نے شریعت اور قانون کے اثر کو کم کرنا چاہا۔ ابنِ عربی ایک عظیم اسلامی حکیم کے طور پر قابلِ احترام تھے مگر اُنہوں نے قرآن کی جو تاویل کی تھی اُسے اقبال درست نہ سمجھتے تھے۔ مجدد الفِ ثانی کے افکار کے زیادہ قائل تھے۔ صوفیأ نے توحید اور وحدت کو ایک سمجھنے کی غلطی کی۔ توحید کی ضد شرک ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ توحید کوعقل کی بجائے حال سے ثابت کرنے کے لیے صوفیا نے حالتِ سکر اور وجدوحال دریافت کیا۔ ثابت کچھ نہیں ہوتا۔ وحدت کی ضد کثرت ہے جو کائنات میں موجود ہے۔ انکار کی ضرورت نہیں۔ تو پھر وحدت الوجود کا مقام محض دھوکا اور سراب تھا۔ کسی حقیقت کا انکشاف نہ کرتا تھا۔ اسے ثابت کرنے کی کوشش بھی بیکار تھی۔نجات کا انحصار بھی اور باتوں پر تھا۔قومی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ تھا۔ اُس رات کشن پرشاد کو خط لکھتے ہوئے اس خشک بحث کے بعد ذہن کو تروتازہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۳۰ دسمبر ۱۵ء سرکارِ والاتبار تسلیم۔ خادمِ درگاہِ عالیہ خاکسار اقبال تحریرِ احوال میں ضرور سست ہے مگر اُس کا دل عقیدت اور محبت اور اخلاص میں سست نہیں۔ اللہ تعالیٰ سرکار کو جزائے خیر دے کہ اِس سراپا قصور کو کبھی کبھی محبت سے یاد فرما لیتے ہیں۔ آج صبح والانامہ ملا تھا جس کو پڑھ کر ندامت بھی ہوئی اور مسرّت بھی۔ اِس والانامہ کے موصول ہونے سے پیشتر ایک عریضہ لکھ چکا تھا۔ امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظۂ اشرف سے گزر چکا ہو گا۔ میری صحت عام طور پر اچھی نہیں رہتی، کوئی نہ کوئی شکایت دامن گیر رہتی ہے۔ دوا پر مجھے چنداں اعتبار نہیں، ورزش سے گریز ہے۔ اِس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں کہ چلو اگر مقررہ وقت سے کچھ عرصہ پہلے رخصت ہو گئے تو کیا مضائقہ ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہو گا مگر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا، آخر رخصت ہونا ہے تو کیوں دوا اور ورزش کا دردِ سر خریدا جائے۔ سرکار نے جو نسخہ میرے لیے تجویز فرمایا ہے ضرور مفید ہوگا کیونکہ مجرّب ہے اور مجھے اس کے استعمال کی خواہش بھی بہت ہے مگر نری خواہش سے کام نہیں چلتا۔ استعمال کے وسائل ضروری ہیں اور وہ مفقود ورنہ یہ تو وہ چیز ہے کہ: خمارِ بیحدِ من بحرہا ہمی طلبم لنڈن میں ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟ میں نے کہا ہاں، تیسرا حصہ مسلمان ہوں۔ وہ حیران ہو کر بولے، ’’کس طرح؟‘‘ میں نے عرض کی کہ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں نماز، خوشبو اور عورت۔ مجھے اِن تینوں میں صرف ایک پسند ہے۔ مگر اِس تخیل کی داد دینی چاہئے کہ نبی کریمؐ نے عورت کا ذکر دو لطیف ترین چیزوں کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نظامِ عالم کی خوشبو ہے اور قلب کی نماز۔ ایک مطربہ پنجاب میں رہتی ہے۔ میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں مگر سنا جاتا ہے کہ حُسن میں لاجواب ہے اور اپنے گزشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کر لو۔ تمہاری نظم کی وجہ سے تم سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری توبہ کو ٹھکانے لگا دو۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ اِس کارِ خیر میں حصہ لوں مگر کمر میں طاقت ہی نری کافی نہیں، اس کے لیے دوسرے وسائل بھی ضروری ہیں۔ مجبوراً مہذبانہ انکار کرنا پڑا۔ اب بتائیے کہ آپ کا نسخہ کیسے استعمال میں آئے۔ مگر میں آپ کی ولائت کا قائل ہوں کہ آپ نے ایسے وقت میں یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ مریض کی طبیعت خودبخود اُدھر مائل تھی۔ نسخہ مجھے دل سے پسند ہے مگر اس کو کسی اور وقت پر استعمال میں لاؤں گا جب حالات زیادہ مساعد ہوں گے۔ فی الحال سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ قادروتوانا سرکار کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے کہ خماری شاہ کے مریدوں میں داخل ہو کر تثلیثی مذہب کو خیرباد کہہ کر پنج تنی ہو جاؤں۔ افوض امری الی اللّٰہکیا خوب فرمایا گیا ہے۔ اس سے طبیعت کا سکون اور اطمینان بڑھتا ہے۔ کسی انگریزی حکیم نے کیا خوب لکھا ہے: "The best way of getting a thing is in for getting it." اور یہ بات افوض امری الی اللّٰہکے وظیفے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ بہت رات جا چکی، بارہ بج گئے۔ اب سوتا ہوں اگر نیند آ گئی۔ پھر حاضر ہو کر باقی حالات عرض کروں گا۔ گریز از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست بندۂ درگاہ محمد اقبال ۵۷ ۳۱ دسمبر کو بمبئی کے ساحل پر وسیع و عریض شامیانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت بیرسٹر مظہرالحق کر رہے تھے جنہوں نے دو برس پہلے کانپور کے مقدمے میں مسلمانوں کی کامیاب وکالت کی تھی۔ اُنہوں نے بیرسٹرجناح کو اسٹیج پر آ کر وہ تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی جن کی روشنی میں کانگریس کے ساتھ اتحاد ممکن تھا۔ حسرت موہانی جنہوں نے بارہ برس پہلے اقبال کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ غلط اُردو کا رواج ہونے سے بہتر ہے کہ پنجاب میں اُردو رائج ہی نہ ہو، مسلم لیگ کے رکن نہیں تھے مگر ٹکٹ خرید کر آئے ہوئے تھے۔ اُٹھے اور اعتراض کر دیا۔ حسرت موہانی کے ساتھ بعض قدیم خیال کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور مظہرالحق کو مخاطب کر کے شور مچانے لگے، ’’تم مسلمان نہیں ہو!‘‘ اُن کا مطالبہ تھا کہ مسلم لیگ کے اجلاس میں صرف اُردو بولی جائے۔ دُوسرا حصہ ۵۸ دَورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد کیا زندگی جو دل میں کوئی آرزو نہ ہو رہتی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد ہے کس کے بل پہ حضرتِ جوہرؔ یہ رُوکشی ڈھونڈھیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد مولانا محمد علی ’’جوہرؔ‘‘ ۵۹ یکم جنوری کو صبح دس بجے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی تیسری نشست تاج ہوٹل بمبئی میں ہوئی۔ گزشتہ روز کے ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے صرف لیگ کے ارکان اور پریس کے نمایندوں کو شرکت کی اجازت دی گئی۔ بیرسٹر مظہرالحق نے علی برادران کی گرفتاری کے بارے میں قرارداد پیش کی جس میں حکومت سے مطالبہ ہوا کہ گرفتاری کی وجہ بتائے۔ محمد علی جناح نے لیگ کی طرف سے سیاسی پروگرام بنانے کے لیے کمیٹی بنانے کی قرارداد پیش کی جس میں پنجاب کے ارکان میں ظفر علی خاں شامل تھے۔۴۸ اُس روز وکیل (امرتسر) میں ’اَسرارِ خودی ‘کی حمایت میں مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر کرنے کی بجائے صرف ’’ایک مسلمان‘‘ لکھا تھا۔ بھوپال کی فرمانروا نواب سلطان جہاں بیگم کی طرف سے بھی حمایت ہوئی جن کی اِمداد سے شبلی نعمانی مرحوم کی سیرۃ النبیؐ پر کام ہو رہا تھا۔ الناظر (لکھنؤ) کے جنوری ۱۹۱۶ء کے شمارے میں نواب سلطان جہاں بیگم نے ’اَسرارِ خودی ‘ کے بارے میں لکھا، ’’دردمندانِ قوم پر اِس مثنوی کا مطالعہ واجب ہے۔‘‘ ’اَسرارِ خودی‘ [نواب سلطان جہاں بیگم کے مضمون سے اقتباس] باقی رہی اُس کی شاعرانہ حیثیت سو ڈاکٹر صاحب کے ذوقِ سلیم اور طبیعت داری میں کسے کلام ہو سکتا ہے اور اَب تو اُن کے توسنِ فکر نے کسی دوسرے ہی عالم کو اپنا جولاں گاہ بنانا چاہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِس طرح کی دلپذیر نظموں سے قوم کو فرسودہ خیالات کی بیڑیوں سے آزاد کر کے حکمتِ عملی کا دلدادہ بنائیں۔ خدا اُن کی مدد کرے اور قوم و ملک کو توفیق عطا فرمائے۔ ہم کو اِس سے پیشتر فارسی زبان پر ڈاکٹر صاحب کی قادر الکلامی کا کوئی بین ثبوت نہیں ملا تھا، اِس مثنوی کی برجستگیٔ بیان و بے تکلفیٔ زبان نے ثابت کر دیا کہ اُن کو فارسی پر بھی اُسی طرح اور اُسی قدر قدرت حاصل ہے جس قدر کہ اُردو پر۔ الناظر (لکھنؤ)، جنوری ۱۹۱۶ئ۴۹ ۶۰ ۱۲۰۱ء میں بغداد میں رمضان کی ایک رات ستاسی برس کے ایک بزرگ نے عربی میں اشعار پڑھے جن کا مفہوم تھا، ’’اے وہ ذات جو بہت بڑے گناہگاروں کو معاف کرنے والی ہے! تیرے حضور ایک ایسا گناہگار آ رہا ہے جسے اپنے گناہوں کی معافی مل جانے کی اُمید ہے۔ میں مہمان ہوں اور مہمان کے ساتھ اچھا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد فوت ہو گئے۔ یہ علامہ جمال الدین ابن جوزی تھے۔صوفیوں، حکیموں، فلسفیوں اور عام مسلمانوں پر سخت تنقید کرتے رہے تھے جس کا ہمیشہ رہنے والا نتیجہ ان کی کتاب تلبیس ابلیس تھی یعنی شیطانی ہتھکنڈے۔ علامہ ابن جوزی کی تنقید کی بنیاد اِس نکتے پر تھی کہ قرآن اور حدیث کے احکامات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور کسی قسم کی جدت پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ تلبیسِ ابلیس میں دو سو کے قریب صفحات صوفیوں کی مذمت میں لکھے گئے تھے جن میں صرف صوفیوں کے فلسفیانہ عقائد ہی نشانہ نہیں بنے تھے بلکہ حد سے زیادہ عبادت گزاری، وظیفے اور دنیاداری سے پرہیز کرنے کو بھی اِسلام کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ امام غزالی جیسے برگزیدہ عالمِ دین کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ تصوف کے اثرات انہیں اسلام سے بہت دُور لے گئے اور اُن کی کتاب احیأالعلوم الدینمیں خرافات جمع ہو گئیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ دوسرے بزرگوں کے بارے میں ابن جوزی کی رائے کیا رہی ہو گی اور کس قسم کے الفاظ میں ظاہر ہوئی ہو گی۔ اقبال کے لیے ابن جوزی کی تقلید کرنا تو خیر ممکن ہی نہیں تھا، شاید یہ بھی سوچا ہو کہ اگر آج ابن جوزی ہوتے اور ’اَسرارِ خودی‘ اُن کی نظر سے گزرتی تو وہ اس میں بو علی قلندر کی کرامت، امیر خسرو کی موسیقی اور ایسے ہی دوسرے معاملات کے بارے میں نجانے کیا خیال کرتے۔ اِس کے باوجود اقبال کا خیال تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو تلبیسِ ابلیسکا یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ خواہ اِس تنقید کی زد میں اقبال خود بھی آتے ہوں مگر کم سے کم ذہنوں کے دریچے تو کھلیں گے، یہ تو معلوم ہو گا کہ تصوف کے جن مسائل کو عین اسلام سمجھ لیا گیا ہے وہ بعض بزرگوں کے نزدیک اسلام کی ضد تھے۔ منصور اور شبلی جیسے صاحبِ حال ہوں یا امام غزالی جیسے صاحبِ علم، ہمارے بزرگوں نے کسی کو بھی تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا۔ اسلامی ادبیات کا دامن اِتنا وسیع ہے کہ اس میں ہر قسم کے مسائل پر آزادانہ بحث کی گنجایش موجود ہے۔ تلبیس ابلیس علامہ جمال الدین ابن جوزی [ایک اقتباس کی تلخیص کا ترجمہ] یہ بات بھی ذہن نشین فرما لیں کہ فقر و محتاجی ایک مرض ہے۔ جو کوئی اِس مرض میں مبتلا ہو پھر اظہارِ صبر کرے اُسے بوجہ صبر ثواب ملے گا۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مال ایک نعمت ہے اور نعمت شکریہ ادا کرنے کی محتاج ہے۔ مالدار آدمی اگر مال کے جائز استعمال میں اپنے آپ کو تھکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو نیک اُمور میں لگائے رکھتا ہے تو وہ ایک مفتی اور مجاہد کی مانند ہے اور ایک فقیر و کنگال ایک گوشہ نشین کی مثل ہے۔ ابو عبدالرحمٰن سلمی نے کتاب سنن الصوفیہ میں ان الفاظ کے ساتھ یہ باب باندھا ہے: ’’اس بات کا بیان کہ فقیر کا اپنی وراثت میں کوئی چیز چھوڑنا مکروہ ہے۔‘‘ پھر اس میں اہلِ صفہ میں سے ایک صحابی کی حدیث بیان کی ہے جو اپنے ترکہ میں دو دینار چھوڑ گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ’’یہ دو داغ ہیں۔‘‘ یہ اُس آدمی کی دلیل ہے جو حقیقتِ حال کو نہیں سمجھتا کیونکہ وہ فقیر صحابی تو فقرأ سے مزاحمت کے ساتھ مالِ صدقہ لیتا تھا اور جو اپنے پاس ہوتا تھا اُسے رکھ چھوڑتا تھا اس لیے نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا تھا، ’’یہ دو داغ ہیں۔‘‘ اگر صرف ترکہ چھوڑنا ہی مکروہ ہوتا تو رسول اللہؐ سیدنا سعدؓ سے یہ نہ فرماتے، ’’بلاشبہ تو اگر اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں ایسا کنگال چھوڑ جائے جو لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔‘‘اور پھر صحابۂ کرام میں سے کوئی بھی اپنے پیچھے کوئی چیز نہ چھوڑتا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا، ’’رسول اللہؐ نے صدقہ کرنے پر رغبت دلائی تو میں اپنا نصف مال لے آیا۔ رسول اکرمؐ نے دریافت کیا، ’تو نے اپنے اہل و عیال کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے؟‘ میں عرض کی، ’اِتنا ہی مال گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔‘ ‘‘رسول اللہؐ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔۵۰ ۶۱ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب سب مسلمان جنگ کے لیے چندہ فراہم کر رہے تھے اور حضرت عمرؓ بہت سے درہم لے کر آئے تو آنحضورؐ نے دریافت فرمایا تھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا تھا، نصف۔ اِتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بھی حاضر ہو کر ساز و سامان پیش کیا: بولے حضورؐ، چاہیے فکرِ عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار! پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۵۱ ۶۲ اقبال اپنی مثنوی کے دوسرے حصے کے لیے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے جمع کرنا چاہتے تھے۔ یہ دکھانا تھا کہ انصاف اسلامی معاشرے کے تصور میں ایک اہم عنصر ہے۔ خیال آیا کہ حیدرآباد کے گزشتہ نظام میر محبوب علی کے انصاف کا کوئی واقعہ ملے تو خوب ہو۔۵۲ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا۔ معلوم ہوا خوش و خرم ہیں۔ پھر ۳ جنوری کو کشن پرشاد کا خط ملا۔شکایت کر رہے تھے کہ اقبال کے خطوط کی تعداداُن کے خطوط سے کم ہے۔ ۴ جنوری کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس ہوا۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں صدارت کر رہے تھے۔ اس برس کنوینر ڈاکٹر عظیم الدین تھے۔ ایم ۔ او۔ ایل، ایف۔او۔ایل اور بی۔او۔ایل کے امتحانات کے لیے نصاب تیار کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اقبال کو اُس کا کنوینر بنانے کی تجویز ہوئی۔ اقبال نے صحت کی خرابی کا عذر پیش کر کے معذرت کی۔ ان کی تجویز پر کمیٹی کے کنوینر بھی ڈاکٹر عظیم الدین ہی بنے۔۵۳ اگلے روز کشن پرشاد کی اِس شکایت کے جواب میں کہ اقبال کے خطوط کی تعداد اُن کے خطوط سے کم ہے، اقبال نے لکھا، ’’اگر ایسا نہ ہوتا تو سرکار کی اقبال پروری کا ظہور کس طرح ہوتا؟‘‘ فرمائش کی کہ اگرنظام دکن نواب میر محبوب علی خاں کے عدل و انصاف کے بارے میں کوئی دلچسپ اور معنی خیز واقعہ معلوم ہو جسے حکایت کے طور پر لکھ سکتے ہوں تو بھیج دیں۔ ’’میں اُسے ایک خاص غرض کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو ایک وقت پر آپ کو معلوم ہو جائے گی۔‘‘۵۴ وہ خاص غرض مثنوی کا دُوسرا حصہ تھا۔ بالآخر خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ سے سلطان مراد کا وہ واقعہ استعمال ہوا جس کی طرف ۱۹۰۸ء میں ’اسلام میں سیاسی فکر‘ والے انگریزی مضمون میں بھی اشارہ کر چکے تھے۔ سلطان مراد نے خجند کے کسی معمار سے مسجد بنوائی۔ ایک دیوار ٹیڑھی نظر آئی تو معمار کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اُس نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ کر دیا۔ سلطان کو ملزم کی حیثیت میں پیش ہونا پڑا۔ قاضی نے فتویٰ دیا کہ سلطان کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ معمار نے معاف کر دیا۔ عثمانی تاریخ میں مراد نام کے کئی سلطان گزرے تھے۔ اقبال نے کبھی واضح نہ کیا کہ یہ واقعہ اُن میں سے کس کے بارے میں تھا۔ ضرورت بھی نہ تھی۔ اصل موضوع بادشاہ کی انصاف پروری نہیں بلکہ قرآن کی طاقت تھا۔ واقعے کی تاریخی صحت سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ بہرحال اسلامی تاریخ میں مطلق العنان بادشاہوں کو بھی کبھی نہ کبھی قرآن کے احترام پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ اسلامی معاشرے میں قرآن کسی نہ کسی حیثیت میں ایک زندہ قوت رہا۔ بہرحال اس قرآن کا اپنا نصب العین مساوات اور حریت یعنی انسانوں کے درمیان برابری اور اُن کی آزادی تھا۔ مثنوی پیامِ سروش کا متروک مسودہ جو اَب دوسرے حصے کی بیاض بن گیا تھا، اُس میں یہ واقعہ لکھا گیا۔ کئی مصرعے قلمزد ہوئے۔ قاضی کے خطاب سے مطمئن نہ تھے۔ آخر اس کے بعض اشعار کاٹ کر حاشیے میں کچھ نئے اشعار لکھے۔ پھر ایک ایسے زبردست شعر کی آمد ہوئی کہ وہ سب اَشعار کٹ گئے۔ قاضی کی زبان سے کہلوایا کہ محکوم مسلمان آزاد سے کمتر نہیں، بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ سرخ نہیں ہے۔ یہ شعر ذومعنی ہو گیا کیونکہ اب ہندوستان کے مسلمان ’’عبد مسلم‘‘ یعنی محکوم مسلمان تھے۔ ان کے لیے یہ شعر خاص معنویت رکھتا تھا: عبد مسلم کمتر از احرار نیست خونِ شہ رنگیں تر از معمار نیست۵۵ ۶۳ خیال کیا جاتا ہے کہ ۷ جنوری کے خطیب میں وہ خط شائع ہوا جو اقبال نے پچھلے برس ۳۰ دسمبر کو خواجہ حسن نظامی کو لکھا تھا۔۵۶ ۶۴ یاس، حزن اور بیم- یعنی اُداسی، غم اور مایوسی! یہ برائیوں کی جڑیں ہیں۔ یہ زندگی کے دشمن ہیں۔ توحید اِن کا خاتمہ کرتی ہے۔ اُس نکتے کی وضاحت کر رہے تھے جسے ۱۹۰۹ء کے انگریزی لیکچر، ’اسلام ایک سیاسی اور اخلاقی نصب العین‘ میں بیان کیا تھا کہ اسلامی تصورِ حیات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دنیا میں خوف موجود ہے مگر اس خوف پر قابو پانا چاہیے۔ اصل برائی خوف ہے۔ یہی ہمیں دوسروں سے بدظن کرتا ہے۔ اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ دنیا کی ہر برائی کی تہہ میں کسی نہ کسی قسم کا خوف ضرور چھپا ہوتا ہے۔ یہ باب مشکل سے مکمل ہوا۔ کانٹ چھانٹ کرنی پڑی۔ ممکن ہے کہ ’اَسرارِ خودی‘ پر اعتراضات کی وجہ سے ذہنی سکون غارت ہو گیاہو۔۵۷ ۶۵ مسلم قومیت کے بنیادی ارکان دو تھے۔ توحید پہلا رُکن تھی جو خوف اور مایوسی کا خاتمہ کرتی تھی۔ دوسرا رُکن رسالت تھی۔ یہ ہدایت کا دائرہ تھی کہ جو اِس میں آ گیا وہ محفوظ ہوا۔ جس طرح فرد خدا کے ساتھ تعلق سے زندہ تھا اُسی طرح ملت رسولِ پاکؐ کے ساتھ تعلق سے زندہ تھی۔ اِس رُکن پر ملت کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھی۔ تکمیل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ ہر کثرت وحدت کے بندھن سے زندہ ہے۔ مسلمانوں کی وحدت دینِ فطرت سے ہے۔ یہ دینِ فطرت ہم نے نبیؐ سے سیکھا ہے۔ حق کی راہ میں مشعل روشن کی ہے۔ یہ موتی آپؐ کے بے پایاں سمندر سے ہے۔ یہ آپؐ کا احسان ہے کہ ہم یکجان ہیں۔۵۸ ۶۶ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک سے کہا کہ بغداد میں آ کر حدیث کا درس دیں تاکہ خلیفہ بھی اُس میں شریک ہو سکے۔ امام مالک مدینہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے کہلا بھیجا ، ’’میں رسولِ پاکؐ کا غلام ہوں۔ان کا شہر چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ اقبال نے یہ واقعہ ملتِ اسلامیہ کے پہلے رکن توحید کی وضاحت کے لیے نظم کیا۔ بات بنی نہیں۔ ۶۷ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خواب میں دیکھا۔ اُن کے راستے کی خاک سے پھول چُنے۔ درخواست کی کہ ملّت کے دُکھ کا علاج تجویز فرمائیں۔ انہوں نے فرمایا، ’’تم کب تک ہوس کے قیدی بنے رہو گے۔ سورۂ اخلاص سے حرارت اور چمک حاصل کرو۔‘‘ مثنوی کے دوسرے حصے میں جو کچھ کہنا تھا، سورۂ اخلاص اُس کا خلاصہ بن گئی: قل ھو اللّٰہ احد (کہو کہ اللہ ایک ہے):مسلمان بھی ایک ہیں۔ رنگ، نسل، وطن اور دیگر امتیازات سے بلند ہیں۔ اللّٰہ الصمد(اللہ بے نیاز ہے): مسلمان کو بھی بے نیاز ہونا چاہیے۔ دوسروں کے سامنے اپنی ضرورتیں پیش نہیں کرنی چاہئیں۔ خلیفہ ہارون الرشید اور امام مالک کا واقعہ اس کی مثال تھا۔ لم یلد ولم یولد(نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اُس کی کوئی اولاد ہے): مسلمان کو بھی خون کے رشتے سے بلند ہونا چاہیے۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے کسی نے شجرۂ نسب پوچھا تو فرمایا، ’’سلمان ابن اسلام‘‘۔ ایک اور صحابی ابن مسعودؓ کے بھائی کا انتقال ہوا توصرف اِس بات کا افسوس کرتے تھے کہ وہ آنحضورؐ کی زیارت سے محروم ہو گیا (کیونکہ آنحضورؐ دنیا میں تشریف رکھتے تھے)۔ ولم یکن لہٗ کفواً احد(کوئی اُس کا ہمسر نہیں ، وہ یکتا ہے): مسلمان بھی دنیا میں بے مثال ہے کیونکہ اُس کے پاس قرآن ہے۔ رات میں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خواب میں دیکھا۔ اُن کے راستے کی خاک سے پھول چُنے۔ وہ جن کے احسانات ہمارے آقاؐ پر سب سے زیادہ تھے۔ جو ہمارے طُورِ سینا کے پہلے کلیم تھے۔ اُن کی ہمت ملّت کی کھیتی کے لیے بادل تھی۔ اسلام، غارِ ثور اور قبر میں آنحضورؐ کے ساتھ دوسرے وہی تھے۔ من شبے صدیق را دیدم بخواب گُل زخاکِ راہِ او چیدم بخواب آں امن الناس بر مولائے ما آں کلیمِ اولِ سینائے ما ہمّتِ او کشتِ ملّت را چو ابر ثانیٔ اسلام و غار و بدر و قبر۵۹ ۶۸ ۱۵ جنوری کو وکیل امرتسر میں اقبال کا طویل مراسلہ ’اَسرارِ خودی اور تصوف‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ معلوم نہیں یہ عنوان اقبال نے تجویز کیا تھا یا مدیر نے لیکن بہرحال بنیادی مقصد یہ دکھانا تھا کہ ’اَسرارِ خودی‘ میں تصوف کی مخالفت نہیں بلکہ اُس کی اصلاح کر کے معاشرے کے لیے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی گئی ہے: ۱ یہ شکایت کہ ’اسرارِ خودی‘ میں تصوّف کی مخالفت کی گئی ہے، اِسلامی لٹریچر سے لوگوں کی ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ۲ تصوف میںاسلامی عناصر کے ساتھ ساتھ غیراسلامی عناصر بھی شامل ہو گئے تھے۔ علامہ ابن جوزی نے تلبیس ابلیس کے ایک حصے میں اس کی وضاحت کی تھی اور یہ حصہ اب اُردو میں بھی دستیاب تھا۔ اقبال بھی تصوف کی تاریخ لکھ کر وضاحت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ۳ غیراِسلامی عناصر میں تین نمایاں مثالیں ایسی تھیں جن کے اقبال خود بھی کسی زمانے میں قائل رہے تھے (بالخصوص ۱۹۰۶ء سے پہلے): الف۔ مسئلہ قِدمِ ارواحِ کملا: اقبال کے خیال میں یہ مسئلہ افلاطون سے مستعار لیا گیا تھا، بو علی سینا اور ابونصر فارابی دونوں اِس مسئلے کے قائل تھے چنانچہ امام غزالی نے دنوں کو کافر قرار دیا تھا؛ مسلمانوں میں قبرپرستی کی بنیاد اِسی پر تھی۔ ب۔تنزلات ستّہ: اقبال کے نزدیک یہ مسئلہ پلوٹانیس سے مستعار لیا گیا تھا جو افلاطونیتِ جدیدہ کا بانی تھا اور اِسلام کے ابتدائی زمانے میں افلاطونیتِ جدیدہ کی ایک کتاب کو ارسطو کی کتاب سمجھ کر ترجمہ کرنے کی وجہ سے یہ مسئلہ مسلمان فلسفیوں میں رِواج پا گیا۔شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول اِس مسئلے کے قائل تھے (جنہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی)۔ ج۔ وحدت الوجود: یہ مندرجہ بالا نظریے کی تکمیل تھا، ’’یوں کہیے کہ عقلِ انسانی خودبخود تنزلاتِ ستّہ سے وحدت الوجود تک پہنچی ہے‘‘۔ ویداَنت یعنی ہندو فلسفہ بھی یہی وحدت الوجود تھا۔ مسلمانوں میں اس عقیدے کے ماننے والوں میں سے بعض اِسے ایک ’’حقیقتِ نفسِ امری‘‘ قرار دیتے تھے اور بعض محض ’’ایک کیفیتِ قلبی یا مقام‘‘۔ یہ مسئلہ اسلامی لٹریچر کا لازمی حصہ بن گیا اور اس کے ذمہ دار وہ صوفی شعرأ تھے جو اِس کی مدد سے پست اخلاق پیدا کرتے تھے یعنی ’’حقیقتِ انسانی ’گسستن‘ نہیں بلکہ ’پیوستن‘ ہے۔‘‘ مثلاً حسین گیلانی کے خیال میں انتہائے کمالِ روحِ انسانی اپنی شخصیت کو فنا کر دینا تھا۔ پنجابی زبان کے شاعر وحید خاں نے کسی ہندو جوگی کا مرید ہونے کے بعد شعر کہا کہ میں پٹھان تھا اور فوجوں کے منہ موڑ سکتا تھا مگر جب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیں ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا (یعنی معلوم ہوا ہے کہ ہر چیز میں خدا کا وجود ہے تو توڑنے میں تنکے کو دُکھ پہنچنے کا خیال پیدا ہوتا ہے)۔ ۴ جو مسلمان اِن غیراسلامی عقائد کو اِسلام کا حصہ سمجھ بیٹھے تھے، اقبال انہیں کافر نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ایسا کیاتھا۔ ۵ اقبال کا عقیدہ تھا، ’’خدائے تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظامِ عالم کا خالق ہے اور اُس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے جب وہ چاہے گا اِس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ ۶ فلسفیانہ مسائل کو تصوف سے خارج کر نے کے بعد وہ اصل تصوف بچتا تھا جس کے نمائندے حضرت علی ہجویری، نظام الدین اولیأ، بو علی قلندر، میاں میر اور ایسے ہی ہزاروں دیگر بزرگ تھے، ’’جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ہے اور جو اِس ذریعہ سے ذاتِ باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔‘‘ ’اَسرارِ خودی‘ میں اسی قسم کے بزرگوں کی حکایات اور اقوال سے دلائل پیش کیے گئے تھے۔ ۷ خواجہ حافظ شیرازی بلندپایہ شاعر تھے مگر اُن کی شاعری کا اثر ’’سکر‘‘ یعنی خواب آوری تھا جبکہ اسلام کا مقصود ’’صحو‘‘ یعنی بیداری تھا۔ لوگوں نے اُن کے اَشعار سے جو تصوف برآمد کیا وہ اقبال کے خیال میں حافظ کے پیشِ نظر نہیں تھا مگر بہرحال وہ تصوف بھی دلوں کو مردہ کرنے والا تھا جسے اولوالعزم صوفیأ کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ آخر میں خواجہ حافظ شیرازی کے شعر کے بارے اورنگزیب والا واقعہ فوق کی وجدانی نشتر سے نقل کر کے لطیفے کے طور پر لکھا، ’’منشی محمد دین فوق کو معلوم ہوکہ جو اُن کے نزدیک حافظؔ کا حسن ہے وہ میرے نقطۂ نظر سے اُس کا قبح ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ تقدیر کی ایک ایسی غلط مگر دلآویز تعبیر سے حافظؔ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو جو آئینِ حقۂ شرعیۂ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو اِس بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا قلبی اعتبار سے اِس قدر ناتواں کر دیا کہ اُسے قوانینِ اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت ہی نہ رہی اور اگر عالمگیر دارا کے معاملے میں بھی ’بادشمناں مدارا‘ پر عمل کرتا تو ہندوستان میں شریعتِ اسلامیہ کی حکومت کبھی قائم نہ ہوتی۔‘‘۶۰ ۶۹ مثنوی کے دوسرے حصے کی طرف سے توجہ ہٹ گئی۔ تصوف کی تاریخ پر دیباچہ لکھنے کے لیے مواد جمع کرنے لگے۔ فرانس سے منصور حلاج کی کتاب الطواسین منگوانے کا بندوبست بھی کرنے لگے۔اپنی کتاب میں تلبیس ابلیس کے تصوف والے حصے کا ترجمہ بھی شائع کرنے کا ارادہ تھا۔ پوری کتاب کا ترجمہ مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا تھا۔ تصوف والے حصے کو دوبارہ شائع کرنے کے لیے مترجم سے اجازت لے لی۔۶۱ ۷۰ خان محمد نیاز الدین کا خط آیا۔ مثنوی پسند آئی تھی۔ افلاطونیتِ جدید کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے کسی رسالے کا ذکر کیا۔ ’’سید ولی اللہ شاہ صاحب کا رسالہ میں نے دیکھا ہے،‘‘اقبال نے ۱۹ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیراسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اِسے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اقبال کے نزدیک یہ یونانی فلسفے کی ایک بگڑی ہوئی صورت تھی جسے پلوٹائنس نے مذہب کی صورت میں پیش کیا۔ عیسائیت کی ابتدائی صدیوں میں یہ رومی دنیا میں مقبول تھا مگر اس کی آخری حامی ہپٹائیا نامی عورت کو ۴۱۵ء میں عیسائیوں ہی نے مصر میں بڑی بیدردی سے قتل کر دیا۔ بعد میں حرّان کے عیسائیوں کے ذریعے مسلمانوں میں بھی یہ مذہب پھیل گیا۔ پھر یہ ہوا کہ ایک کتاب کو اَرسطو کی مابعدالطبعیات سمجھ کر عربی میں ترجمہ کیا گیا اور صدیوں تک اِسے ارسطو ہی کی تصنیف سمجھا جاتا رہا مگر موجودہ عہد میں اٹلی کے پروفیسر تریچی نے ثابت کیا تھا کہ مسلمانوں میں رائج الٰہیاتِ ارسطو بھی دراصل پلوٹائنس ہی کی ایک تصنیف تھی۔ ’’تصوف کی عمارت اِسی یونانی بیہودگی پر تعمیر کی گئی،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ۷۱ زیورخ میں یورپ کے کئی ممالک سے نکالے ہوئے فنکار جمع تھے۔ رومانیہ کے شاعر ٹرسٹان زارا کو فخر تھا کہ کسی ترتیب کے بغیر یونہی الفاظ جوڑ دیتا ہے۔ اس شاعری کا نام تجویز کرنے کے لیے ڈکشنری کو درمیان میں سے کھولا اور ’ڈاڈا‘ فنونِ لطیفہ کی نئی تحریک کا نام قرار پایا۔ فرانس ہی میں بعض لکھنے پڑھنے والوں کو اسلامی تصوف میں نئے سرے سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ لوئی میسگنان [ماسینوں] (Louis Massignon) نے منصور حلاج کی کتاب الطواسین اپنے حواشی کے ساتھ شائع کی۔۶۲ ۷۲ خواجہ حسن نظامی نے آٹھ سوالات صوفیوں اور پیروں کو بھیجے تاکہ جوابات ’اَسرارِ خودی‘ کے خلاف استعمال ہوں۔ ڈاکٹر اقبال کے آٹھ سوال [خواجہ حسن نظامی کے قلم سے] ۱ کیا قرآن شریف عقیدۂ وحدت الوجود کا مخالف ہے؟ ۲ کیا توحید اور وحدت الوجود دو جداگانہ اشیأ ہیں؟ ۳ کیا اِسلام صرف انانیت مٹانے کو آیا ہے؟ ۴ تصوف کا انتہائی نتیجہ اور مقصود کیا ہے؟ ۵ کیا صحابۂ کرام میں کیف و سُکر مثل خواجہ حافظ شیرازی کے کسی میں نہ تھا؟ ۶ صوفیوں کی حالت، سلوک کے کسی مقام کو مفید ہے یا نہیں؟ ۷ کیا وحدت الوجود کسی مقام کا نام ہے اور اس مقام کے بعد کیا مقام ہے؟ کیا حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علہ نے اس کے بعد عدمِ محض تسلیم کیا ہے اور یہ مذہبی اُمور میں مفید ہے یا نہیں؟ ۸ کیا وحدت الوجود محض علمی مسئلہ ہے یا اس کو مذہب سے بھی کچھ تعلق ہے؟۶۳ ۷۳ ۲۱ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی نے حسن نظامی کو لکھا، ’’میں آپ کو مناسب اور محفوظ جگہ نہ پاؤں گا اگر آپ قرآن مجید سے مسئلہ وحدت الوجود کو ثابت کرنے کے لیے قلم اٹھائیں گے۔‘‘۶۴ اشاعت کی اجازت لینے کی غرض سے مزاحیہ قطعہ بھیجا جس کے آخری شعر کا مفہوم تھا کہ ویرانے کے ہر گوشے میں رقص ہو رہا ہے۔ دیوانہ دیوانے کے ساتھ مل کر رقص کر رہا ہے۔ ۷۴ حسن نظامی نجی خطوط میں اقبال سے کہتے تھے کہ نیت پر شبہ نہیں۔ اخباروں میں برعکس لکھ رہے تھے۔ عجیب سا ہیجانی تعلق برقرار تھا۔ ۶۵ اس دفعہ حسن نظامی کا خط آیا تو معلوم ہوا کہ کشن پرشاد مقدس مقامات کی سیر کرنے حیدرآباد سے نکل گئے ہیں۔ پنجاب کے سفر کا ارادہ معلوم نہیں ہوتا تھا جس پر اقبال ذرا پریشان ہوئے۔۶۶ ۷۵ ۲۴ جنوری کو سراج الاخبار (جہلم) میں ’ڈاکٹر اقبال کی کمزوریاں‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر کرنے کی بجائے ’’ایک مسلم فلاسفر و طبعی‘‘ لکھا تھا۔۶۷ ۷۶ ۲۶ جنوری کو ظفر علی خاں کی بیگم نے مجبوراً روزنامہ زمیندار بند کر دیا۔ ظفر علی خاں ابھی تک کرم آباد میں نظربند تھے۔۶۸ ۷۷ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا۔ غالباً اِسی خط میں ورنہ انہی دنوں کسی اور خط میں اُنہوں نے اقبال کو لکھا تھا، ’’آپ کے مطمحِ نظر جو اَمر ہے اگر میں اُس کی قدر نہ کروں تو مسلمان نہیں۔‘‘ بہرحال انہیں تشویش تھی کہ اقبال اور حسن نظامی جیسے دوست کہ کبھی ہمزاد کہلاتے تھے اب اس طرح الجھے ہوئے تھے۔ ’’انشأ اللہ اختلافِ رائے کا اثر پرائیویٹ تعلقات پر نہ ہوگا،‘‘ اقبال نے ۲۷ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا اورحسن نظامی کی شکایت کی کہ خط میں کچھ اور لکھتے ہیں، اخبار میں کچھ اور، تصوف کی تاریخ اور قرآنی علوم و ادبیات سے بھی واقف نہیں ہیں۔ابنِ جوزی کی تحریراور اپنے دیباچے کا منصوبہ بھی بیان کیا، ’’رہبانیت کے متعلق جو آیہ شریفہ آپ کے خیال میں ہو ضرور لکھئے۔‘‘ ۷۸ ’’علم باطن جس کو اسلامی اصطلاح میں تصوف بھی کہتے ہیں ایک نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب چیز ہے،‘‘ اقبال لکھ رہے تھے۔ ’’اگرچہ عوام کے نزدیک تصوف محبتِ رسول کا دوسرا نام ہے اور اِسی وجہ سے لوگ صوفیوں اور عاملوں کی طرف جھکتے بھی ہیں۔ تاہم یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ سُنّی دنیا نے آخرِ کار یہ تسلیم کر لیا ہے کہ علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا امتیاز واقعی اور حقیقی ہے۔ اور علمِ باطن، علمِ ظاہر سے بزرگ تر ہے۔ آج اگر سنّی دنیا میں کوئی اناالحق کہنے والا یا احکامِ شریعتِ حقہ کی پروا نہ کرنے والا پیدا ہو جائے تو غالباً مجذوب یا مراقی سمجھا جائے اور عام لوگ اُس سے مطلق بازپرس نہ کریں۔‘‘۶۹ یہ اُس کتاب کی ابتدا تھی جسے تاریخِ تصوف کے طور پر لکھا جا رہا تھا۔ آیندہ مطالعہ کرنے والوں کے لیے تصوف کا دیباچہ ثابت ہو۔ ۷۹ ۲۹جنوری کو وکیل (امرتسر) میں کسی نقاد کی تحریر ’اَسرارَ خودی‘ کے خلاف شائع ہوئی۔۷۰ ۸۰ ۳۰ جنوری کو لائل گزٹ (لاہور) میں ’اَسرارِ خودی‘ کی مخالفت میں مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر نہ کیا تھا۔ ۷۱ اُس روز انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے اہتمام کے لیے کمیٹی بنی۔ اقبال اس میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ نواب ذوالفقار علی خاں، میاں محمد شفیع، حاجی شمس الدین، مولوی احمد دین، میاں فضل حسین، شیخ عبدالقادر، شیخ خیرالدین، منشی قادر بخش، خواجہ دل محمد، مولوی محبوب عالم اور چودہری شہاب الدین تھے۔ اُس روز خطیب میں’سِرِّ اَسرارِ خودی‘ کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی کا وہ مضمون شائع ہوا جس کا اقبال کو اِنتظار تھا۔ ’’اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا،‘‘ حسن نظامی نے مضمون میں لکھا تھا۔ ’’اُن کی مثنوی کو بیداری میں نہ پڑھا- اگر وہ ایسا کرتے تو قرآن کے خلاف نہ چلتے بلکہ قرآن کے اصول کو [اپنی] مثنوی میں لکھتے۔‘‘ آیندہ شمارے میں مزید لکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے کہ حسن نظامی نے مثنوی کے اصل موضوع پر بحث کرنے کی بجائے پانچ وجوہات کی بنا پر اُسے غیرمعقول قرار دے دیا تھا: ۱ ’اَسرارِ خودی‘ میں خودی کی حفاظت میں جو کچھ تھا وہ کچھ انوکھا اور نرالا نہیں تھا بلکہ قرآن شریف کی تعلیمات سے بہت ہی کم تھا۔ ۲ دیباچے میں اقبال نے الزام لگایا تھا کہ قوم میں ترکِ خودی کا جذبہ وحدت الوجود کی تقلید کرنے والے صوفیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ خواجہ حسن نظامی کے نزدیک اقبال کا اصل مقصد صوفی تحریک کا دنیا سے مٹانا تھا جس میں کامیابی ناممکن تھی۔ ۳ حسن نظامی سمجھتے تھے کہ دیباچے میں اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے عقائد بدل کر یورپ کے فلسفیوں کی پیروی کریں۔ ۴ ’اَسرارِ خودی‘ میں خودداری کے ساتھ ساتھ مغربی خودغرضی کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ ۵ ’اَسرارِ خودی‘ نے حسن نظامی کی اپنی خودی کی توہین کی تھی (اِس لحاظ سے کہ وہ حافظ کے عقیدتمند تھے)۔ مضمون کا خاتمہ اکبر الٰہ آبادی کے اِس مصرعہ پر ہوا: خودی خدا سے جھکے بس یہی تصوف ہے اقبال نے سوچا کہ ’اَسرارِ خودی‘ اِسی مصرعے کی تفسیر تو ہے۔ حسن نظامی کیوں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں؟ بہرحال اُس روز کشن پرشاد کو اجمیر کے پتے پر خط لکھ کر درخواست کی کہ پنجاب ضرور آئیں۔پھر جلد ہی حسن نظامی کے مضمون کا جواب لکھنے میں مصروف ہو گئے۔۷۲ ۸۱ اکبرؔ الٰہ آبادی کا وہ قطعہ شائع ہو گیا جو چند روز پہلے حسن نظامی کو خط میں بھیجا تھا۔ حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن از اکبرؔ الٰہ آبادی حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی اُن کی، اِن کا بانکپن جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آؤ گتھ جائیں خدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلّف ہی سہی ہاتھاپائی کو تصوّف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص۷۳ ۸۲ فروری کے شروع میں عثمانی وزیر اعظم سعید حلیم پاشا مستعفی ہو گئے۔ ۸۳ فروری کے مخزن میں اقبال کی پرانی نظم دوبارہ شائع ہوئی: ’’خدا سے حسن نے اِک روز یہ سوال کیا۔۔۔‘‘۷۴ ۸۴ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں کے صاحبزادے بیرسٹر میاں بشیر احمد کی نعت مخزن میں شائع ہوئی مگر میاں بشیر نے اپنا نام شائع نہ کروایا تھا: بیاباں کو بنایا غیرتِ خلدِ بریں تو نے چمن میں کر دیا ہر گل کو نکہت آفریں تو نے ــمیاں بشیر بار روم میں آئے تو اُن کے تایازاد بھائی میاں شاہنواز، اقبال کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اقبال نے دیکھ کر کہا، ’’آئیے مولانا بشیر!‘‘ ’’یہ سن کر مجھے بیحد شرم آئی،‘‘ میاں بشیر کا بیان ہے۔ ’’میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ بھائی شاہنواز نے کہا دیکھو تم نے مخزن میں جو گمنام ایک نعت بھیجی ہے وہ میں نے ڈاکٹر صاحب[اقبال] کو دکھا دی ہے۔ مخزن اُن کے ہاتھ میں تھا۔۔۔میرا دل بڑھانے کو ڈاکٹر صاحب نے بعض شعروں کی تعریف کی۔ کچھ یہ خیال ہو گا کہ آج کل کا کوئی یورپ زدہ نوجوان مذہب کا ذکر کرے تو اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔‘‘۷۵ ۸۵ ۴ فروری کو اقبال نے کشن پرشاد کے نام خط لکھا۔ اُسی روز اکبرؔ الٰہ آبادی کے خط کے جواب میں پھرحسن نظامی کی شکائت کی۔ شاہ اسماعیل شہید کے رسالے تقویۃ الایمان کی طرف توجہ دینے کا ارادہ بھی تھا مگر تاریخِ تصوف مکمل کرنے کے بعد، ’’فی الحال جو فرصت ملتی ہے وہ اِسی مضمون کی نذر ہو جاتی ہے۔۔۔ مثنوی کا دوسرا حصہ بھی ملتوی ہے مگر اس میں عالمگیر اورنگزیبؒ کے متعلق جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے ایک عرض کرتا ہوں۔‘‘ یہ لکھ کر وہ شعر درج کیا جس میں اورنگزیب کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر بتایا تھا: درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ ما را خدنگِ آخریں ’’آپ کا قطعہ حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن بہت خوب رہا،‘‘ آخر میں لکھا۔ ’’صرف ایک بات ہے کہ خواجہ صاحب کو تو کبھی رقص اور سکر نصیب ہو جاتا ہو گا میں اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ ۸۶ ’’ایک اور بات کا واضح کر دینا ضروری ہے تاکہ ناظرین کو ہماری نسبت غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ مضمون کا مقصد صوفی تحریک کو دنیا سے مٹانے کا ہے،‘‘ اقبال نے تاریخِ تصوف میں لکھا۔ ’’تصوف کا لٹریچر نہایت وسیع ہے اور اس کے دائرے کے اندر مختلف الخیال مصنفین آباد ہیں جن میں بعض مخلص مسلمان ہیں۔ بعض محض اپنے الحاد اور زندقہ کو تصوف کی آڑ میں چھپاتے ہیں اور بعض نیک نیتی سے غیراِسلامی فلسفے کو فلسفۂ اسلامی تصور کرتے ہیں۔ ہم مختصر طور پر یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ نظری اور عملی پہلو سے وہ کون سا نصب العین ہے جس پر ہم معترض ہیں۔ بغیر اِس کے کہ تصوف کی کوئی جامع و مانع تعریف کی جائے جو ہمارے نزدیک ناممکن ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں۔ اول وہ گروہ جو شریعتِ حقۂ محمدیہ پر قائم ہے اور اُسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمالِ انسانی تصور کرتا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ جس نے اُس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی۔ جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے۔ جو سونے کے وقت سوتا ہے، جاگنے کے وقت جاگتا ہے، جنگ کے وقت میدانِ جنگ میں جاتا ہے، کام کے وقت کام کرتا ہے، آرام کے وقت آرام کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اپنے اعمال و افعال میں اُس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوعِ انسان کی نجات کا باعث ہوئی۔ اِس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اور یہی مقدس گروہ اصل میں صوفی کہلانے کا مستحق ہے۔ راقم الحروف اپنے آپ کو اِن مخلص بندوں کی خاکِ پا تصور کرتا ہے، اپنے جان و مال و عزت و آبرو اِن کے قدموں پر نثار کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام و آسائش پر ترجیح دیتا ہے۔ ’’دُوسرا گروہ وہ ہے جو شریعتِ اسلامیہ کو خواہ وہ اُس پر قائم بھی ہو محض ایک علمِ ظاہری تصور کرتا ہے۔ ایک طریقِ تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں ’عرفان‘ کہتا ہے۔ علم پر ترجیح دیتا ہے اور اس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گروہ میں مختلف الخیال لوگ ہیں مگر ایک عام مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس کی تشریح اور توضیح اِس مضمون کا مقصد ہے۔‘‘۷۶ ۸۷ ’اَسرارِ خودی‘ مولوی محمود علی ایم اے، پروفیسر رندھیر کالج، کپورتھلہ [اقتباس] ۔۔۔خدارا کوئی بتائے کہ نفس ِمثنوی میں اقبال کون سا خیال پیش کرتا ہے جو اِسلامی تعلیم کے خلاف یا کم از کم تصوف کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اقبال انسان کو اس کی اپنی قابلیت اور قدرت کی عطاکردہ نعمتوں سے باخبر ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ کیا یہ اِسلام یا تصوف کے خلاف ہے؟ اقبال اپنی قوتوں کو کسی رہنما کی ہدایت کے مطابق کام میں لانے کی نصیحت کرتا ہے۔ کیا یہ تصوف کا بنیادی مسئلہ نہیں؟ بلکہ میں کہتا ہوں کہ نفسِ مثنوی میں وہ کون سا خیال ہے جو وحدت الوجود کو مان کر بھی غلط کہا جائے؟۔۔۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے دیباچہ میں وحدت الوجود کے ذکر سے ناحق بحث و تکرار کا دروازہ کھولا۔ جذبۂ عمل کو تحریک دینا تھا تو جذبۂ عمل ہی کے ذکر سے شروع کیا جاتا۔ اس صورت میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہوتا اور سب اس کو خاموشی بلکہ مسرت کے ساتھ سنتے۔ وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے، دیباچہ جیسا تنگ میدان اور نظم کی خیالی فضا ایسے مسائل کو تفصیل دینے سے عاجز، اور مختصر اشارہ بالضرور غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث ہے۔۷۷ ۸۸ ۹ فروری کو وکیل امرتسر میں ’سِرِّ اَسرارِ خودی‘ کے عنوان سے اقبال کا وہ مراسلہ شائع ہواجو خطیب میں ۳۱جنوری کو اِسی عنوان سے شائع ہونے والے حسن نظامی کے مضمون کے جواب میں تھا۔ حسن نظامی کے پانچوں اعتراضات کے جواب دے کر اور کچھ اپنی طرف سے لکھ کر اپنے مراسلے کو بھی اکبرؔ الٰہ آبادی ہی کے ایک شعر پر ختم کیا: ان میں باقی ہے کہاں خالدِ جانباز کا رَنگ دل پہ غالب ہے فقط حافظِ شیراز کا رَنگ۷۸ سِرِّ اَسرارِ خودی [اقبال کے مضمون سے اقتباس] میرا مذہب یہ ہے کہ اِسلام نے دین و دنیا کے فرائض کو یکجا کیا ہے اور اِس طرح بنی نوع انسان کے لیے ایک معتدل راہ قائم کی ہے۔ جہاں یہ سکھایا ہے کہ تمہارا مقصودِ اصلی کلمۃ اللہ ہے وہاں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ لاتنس نصیبک فی الدنیا (دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر)۔ ’’دنیا ہیچ است و کارِ دنیا ہمہ ہیچ‘‘ [دنیا پست ہے اور دنیا کے کام بھی پست ہیں] اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ صحیح اسلامی تعلیم یہ ہے جو شرح عقائدمیں چند الفاظ میں نہایت خوبی کے ساتھ بیان کی گئی ہے: ’’ترک الاسباب جہالت‘‘ یعنی اسبابِ دنیا کا ترک کرنا جہالت ہے ’’والاعتماد علیہا شرک‘‘، اور اُن پر اعتماد کرنا شرک ہے۔ پس جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت میں یہ کہتا ہوں کہ: از کلیدِ دیں درِ دنیا کشاد تو میرا مطلب اِس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہ نبی کریم نے دین کی وساطت سے دنیا میں حصہ لینا سکھایا، خدائے تعالیٰ نے مسلم کو ہدایت کی کہ لاتنس نصیبک فی الدنیا یعنی دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ پھر اُس حصے کو حاصل کرنے کا طریق بھی بتایا اور اُس کا نام شریعت ِ اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح خواجہ صاحب اسلام کی تعبیر فرماتے ہیں اُس طرح تو اسلام اور رہبانیت میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ ’’لارہبانیت فی الاسلام‘‘ جو مضمون میں لکھ رہا ہوں اُس سے ناظرین کو یہ سب باتیں معلوم ہوں گی اور اِس کے علاوہ اور کئی باتیں جو اِسلامی پبلک کے سامنے آج تک نہیں آئیں اور مجھے یقین ہے کہ خود خواجہ صاحب کو بھی اپنے اِس تصوف پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی اور اُن کو یہ معلوم ہو گا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ فلسفۂ حقۂ اسلامیہ ہے نہ کہ فلسفۂ مغربی۔ خواجہ صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ یورپ کا علمی مذہب تو وحدت الوجود ہے جس کے وہ حامی ہیں۔ میں تو اِس مذہب سے جو میرے نزدیک ایک قسم کی زندیقیت ہے تائب ہو کر خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہو چکا ہوں۔ وکیل (امرتسر)، ۹ فروری ۱۹۱۶ئ۷۹ ۸۹ یورپی ماہرین جو مشرق کے بارے میں تحقیق کر کے مستشرقین کہلاتے تھے عام طور پر قائل تھے کہ اسلامی تصوف مسلمانوں نے خود پیدا نہیں کیا۔ دوسری تہذیبوں بالخصوص ہندوؤں سے لیا۔ اقبال اختلاف کرتے تھے۔ آٹھ دس برس قبل کیمبرج والے مقالے میں بھی ظاہر کیا تھا۔ رسالہ اتھینئم کے تبصرہ نگار کی تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ ’’ہمارے نزدیک تصوفِ اسلامیہ کی پیدائش کے اسباب تلاش کرنے کے لیے کسی خاص خارجی تحریک کی طرف جانے کی ضرورت نہیں،‘‘اب تاریخ تصوف کا پہلا باب مکمل کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اسلامی دنیا کے اندر وہ تمام اسباب موجود تھے جن کے مجموعی اثرات سے اِس قسم کے نصب العین کا پیدا ہونا اور بڑھنا ایک یقینی امر تھا۔ گو ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس کے ارتقأ میں غیراسلامی خیالات بھی ضرور موثر ہوئے ہیں۔‘‘۸۰ اقبال کے خیال میں اندرونی اسباب پانچ تھے: ۱ مسلمان فاتح قوم تھے اور فاتح اقوام اکثر مفتوحہ اقوام کے علوم و فنون سے واقفیت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ہندوستان، ایران، عراق و شام اور مصر میں مروج علوم و فنون سے واقفیت حاصل کی اور یونانی فلسفہ کا مطالعہ بھی کیا۔ ۲ اس کے نتیجے میں مذہبی حقائق کو فلسفے کی روشنی میں پرکھنے کی تحریک یعنی معتزلہ وجود میں آئی جن کی توحید اِسلام سے بہت دُور جا پڑی۔ اشاعرہ نے اس تحریک کی مخالفت کی اور علمی دلائل کے ذریعے اسلامی عقائد کی تشریح کی۔ بعض طبیعتیں اِس خشک منطقی بحث سے اِس نتیجے پر پہنچیں کہ عقل رہنمائی کر ہی نہیں سکتی اس لیے دوسرے ذرائع کی ضرورت ہے۔ ۳ افلاطونیتِ جدیدہ کے معلم شام اور مصر میں مسلمانوں کے زمانے تک موجود تھے۔ ۴ مسلمانوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے اسلامی دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ہر قسم کی غیراسلامی تحریکیں بھی نشو و نما پاتی تھیں۔ ۵ بنو اُمیہ کے زمانے اور عباسیوں کے ابتدائی عہد کی خانہ جنگیوں، عیش پرستی اور تکلفات کے خلاف ردِ عمل بھی عوام میں پیدا ہوا۔ ۹۰ معلوم ہوا کہ اجمیر سے کشن پرشاد جمعے کے روز روانہ ہو چکے، اب متھرا میں قیام ہے۔ اقبال نے چاہا کہ مقدمات کا کچھ بندوبست کر کے کسی نہ کسی طرح راستے کے ریلوے اسٹیشن ہی پر حاضر ہو جائیں مگر یہ معلوم ہونا ضروری تھا کہ متھراسے سرکار کب روانہ ہونے والے ہیں۔باری باری دو تاربھیج ڈالے جن کے جواب میں وہاں سے بھی دو تار آئے۔ ۱۰ فروری کو اقبال نے خط میں وضاحت پیش کرکے لکھا، ’’یہی وجہ میرے اتنے استفسارات کی تھی جس سے سرکار کو اِس قدر زحمت ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ سرکار اُسی فراخدلی سے جو آپ کا خاصہ ہے یہ زحمت دہی معاف فرماویں گے۔‘‘ ۹۱ مسگنان (ماسینوں) کی مرتب کی ہوئی منصور حلاج کی کتاب الطواسیناقبال کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ صفحہ ۱۹۰ پر حواشی میں حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک قول درج تھا جسے اقبال نے اصل عربی عبارت میں نقل کر کے اُردو میں اُس کا ترجمہ کیا، ’’علم معرفت سے بلندتر، کامل تر اور جامع تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے، نہ معرفت۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے والذین اوتوالعلم درجات۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا تو کامل ترین اور اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ یعنی فرمایا کہ ’جان لے‘ کہ کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے اور یہ نہ فرمایا’پہچان لے‘ کیونکہ انسان کسی شے کی معرفت رکھ سکتا ہے حالانکہ ازروئے علم اُس پر احاطہ نہ کیا گیا ہو اور جب انسان کسی شے کا ازروئے علم احاطہ کر لیتا ہے تو یہی اُس شے کی معرفت ہے۔‘‘۸۱ ۹۲ ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اُن اصطلاحاتِ مذہبی کے بارے میں جو رسول اللہ صلعم کے عہدِ مبارک میں مروج تھیں، سخت غیرت و حمیّت رکھتے تھے،‘‘ اقبال نے تاریخِ تصوف میں لکھا۔ ’’چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے ایک شخص کو جس نے طوافِ کعبہ کرتے ہوئے ایک نئی مذہبی اصطلاح استعمال کی تھی، سخت تنبیہ کی اور فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلعم کی زندگی میں طواف کرتے ہوئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے تھے۔ باوجود اِن باتوں کے مسلمانوں نے صوفی اور تصوف کی نئی اصطلاحات کو گوارا کر لیا اور وجہ صرف یہ تھی کہ اُس ابتدائی زمانے میں تصوف کا مقصد اور مفہوم سوائے زہد و عبادت کے اور کچھ نہ تھا۔ لیکن جب تصوف نے حقائقِ فلسفہ کی طرف قدم بڑھایا اور اُن کو معلوم کرنے کا ایک فوقُ الادراک طریق نکالا تو علمائے وقت نے بجا طور پر اس کی مخالفت کی اور اگر علمائے اسلام ایسا نہ کرتے تو یقینا ایک بہت بڑے فرض کے اَدا کرنے سے قاصر رہتے۔ یہ انہی کی مساعیٔ جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ آج تھوڑا بہت اسلامی شعار اور اِسلامی علوم باقی ہیں۔ ورنہ اگر تمام مسلمان اِس عقیدے کے پابند ہو جاتے کہ عارف و معروف ایک ہی شے ہے تو وہ اِسلام جس پر ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تھے اور جس نے ہر ایسے تخیل سے منع کر دیا تھا جو اِنسان کے قوائے عملیہ کو کمزور و ناتواں کرنے والا ہو کب کا رخصت ہو چکا ہوتا اور بجائے اِس کے بیابانوں کی خاموشیوں اور پہاڑوں کی عزلتوں میں بیٹھنے والی رہبانیت رہ جاتی۔ ہم اِس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور مخلص بندوں پر کسی غیرمعلوم طریق پر سکینت نازل کرتا ہے جس سے اُن کی استقامت میں ترقی ہوتی ہے جو اُن کی صحبت میں بیٹھنے والوں پر ایک عجیب و غریب اور فوق الادراک دینی اثر ڈالتی ہے۔ جس سے اُن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں مقبول ہوتی ہیں۔ اور اُن کو کرامت اور خرقِ عادت کی توفیق ملتی ہے۔ مگر ہم یہ ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں کہ کتاب اللہ کی تعلیم کے خلاف ذاتِ باری، روحِ انسانی اور نظامِ عالم و معارف معلوم کرنے کا کوئی فوق الادراک ذریعہ تمام یا بعض انسانوں کی فطرت میں مخفی ہے یا کسی طریق سے پیدا ہو سکتا ہے۔ جس سے عارف و معروف کا حقیقی اتحاد یا خلقِ عالم کا راز معلوم ہو۔ پس ہماری رائے میں مسئلہ تنزلاتِ ستہ یا اِسی قسم کے دیگر مسائل جو عجمی تصوّف بطور حقائق کے پیش کرتا ہے۔ محض ایک فلسفہ ہیں۔ جن کی وقعت فلسفہ کے دیگر نظری نظاموں سے کسی طرح بڑھ کر نہیں ہے۔ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ روحِ اطلاق سے حفیضِ تعین میں تنزل کرتا ہے اور مجمل سے مفصل ہو کر مدارجِ مقدوہ اور منازلِ تکترہ طے کرتا ہوا تعیّنِ جسدی تک پہنچتا ہے ہمارے نزدیک محض الحاد اور زندقہ ہے۔ یہی مذہب افلاطونیتِ جدید کے حامیوں کا تھا اور افسوس ہے کہ مروجہ تصوف کی اِسی پر عمارت اٹھائی گئی ہے۔ اگر یہ مان لیا جاتا کہ ہستی کے مختلف مدارج قدرتِ کاملہ کا ظہور ہیں تو کوئی ہرج نہ تھا۔ مگر رونا اِس بات کا ہے کہ اِن مسائل کو حقائقِ وجودی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی صداقتِ قطعیہ وجودیہ کو بدلائل و براہین ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض کہ علم و معرفت کا یہ امتیاز اور معرفت کی علم پر ترجیح ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نتائج نہایت دوررس ہیں۔ یہ امتیاز مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے اور عملی اعتبار سے ان تمام علوم حسیہ عقلیہ کا ناسخ ہے جن کی وساطت سے انسان نظامِ عالم کے قواے کو مسخر کر کے اِس زمان و مکان کی دنیا پر حکومت کرنا سیکھتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اِسی بنا پر۔۔۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے اِس کی مخالفت کی۔‘‘۸۲ فروری کے وسط تک تاریخِ تصوف کے دو باب لکھے جا چکے تھے۔اب منصور حلاج کی باری تھی۔۸۳ ۹۳ نیازالدین خاں کا ایک اور خط ملا۔ ۱۳ فروری کو اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ تصوف کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے متعلق ہے بہت مفید ہے مگر فلسفہ کا حصہ محض بیکار ہے کیونکہ دین کا علم صوفیوں سے نہیں بلکہ علمأ سے حاصل کرنا چاہیے۔ تصوف شریعت کا باطن ہی سہی لیکن اگر ظاہر قائم نہ رہا تو باطن کیسے باقی رہے گا؟ ’’مسلمانوں کی حالت آج بالکل ویسی ہے جیسے کہ اسلامی فتوحات ِ ہندوستان کے وقت ہندوؤں کی تھی یا اُن فتوحات کے اثر سے ہو گئی تھی،‘‘ انہوں نے لکھا۔ہندو قوم آنکھیں بند کر کے منو مہاراج کے شاستر منوسمرتی پر چلنے کی وجہ سے باقی رہ گئی تھی۔ یہودی قوم بھی اپنی شریعت کی حفاظت کرنے کی وجہ سے زندہ تھی ’’ورنہ اگر پہلا یہودی صوفی فیلو قوم کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا تو آج یہ قوم دیگر اقوام میں جذب ہو کر اپنی ہستی سے ہاتھ دھو چکی ہوتی۔‘‘ کچھ اور خط بھی لکھے۔ اِدھر اُدھر ہو گئے۔ نیازالدین خاں کا خط سر اکبر حیدری کی طرف روانہ ہوگیا۔۸۴ ۹۴ اس برس اقبال نے حیدرآباد کے محکمۂ تعلیم کی ہدائت پر بیت العلوم دکن کے لیے اسلامی تاریخ کے پرچے کے سوالات بھی بنائے۔ ۸۵ ۹۵ ۲۱ فروری کو ہنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کا اجلاس ہوا۔ ڈاکٹر عظیم الدین نے بی۔اے اور ایف۔اے کا نصاب بنایا تھا۔ اس پر غور کرنے کے لیے سب کمیٹی بنی۔ ڈاکٹر عظیم الدین، پروفیسر کے ایم مترا اور مولوی محمد حسین شامل تھے۔ اقبال صدر تھے۔۸۶ ۹۶ [شاہ محمد سلیمان پھلواری کا جواب] [اقتباس] اِس میں شک نہیں کہ وحدت الوجود ایک علمی مسئلہ ہے جس کو اصطلاح میں ربط الحادث بالقدیم کہتے ہیں اور تمام کتبِ الٰہیات میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ اسلامی سیر و سلوک اور مشاہدۂ انوار و تجلیات سے اس کا تعلق تو ضرور ہے مگر مدارِ نجات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ خطیب، ۱۴ -۲۲ فروری ۱۹۱۶ئ۸۷ بنام شاہ محمد سلیمان پھلواری [۲۲ فروری ۱۹۱۶ئ، لاہور] مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا! السلام علیکم آپ کا خط خطیب میں شائع ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ میری مثنوی اَسرارِ خودی آپ تک نہیں پہنچی۔ ارسالِ خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ خواجہ حسن نظامی نے جو اتہامات مجھ پر لگائے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ آپ نے جو خط شائع کیا ہے اس کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے اور میں شکرگذار ہوں کہ آپ نے خدالگتی بات کہی۔ شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کو فتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا دَرس ہمارے گھر رہا۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفلِ درس میں ہر روز شریک رہا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود ہی پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات تعلیمِ قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے ان کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں تک میرا یہی خیال رہا ہے کہ میں غلطی پر ہوں مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں۔ لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں۔ اس واسطے بذریعہ عریضہ آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ آپ ازراہِ عنایت و مکرمت چند اِشارات تسطیر فرماویں۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر پڑھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا۔ اگر آپ ایسا ارشاد فرماویں تو میں مدت العمر آپ کا شکرگذار ہوں گا۔ تجلیٔ ذاتی کا ذکر کرتے ہوئے شیخِ اکبر فرماتے ہیں: ’’وما بعد ھذا التجلی الا العدم المحض فلاتطمع ولا تحب فی ان ترقی من ھذا الدرجۃ من التجلی الذاتی‘‘۔ اس میں شیخِ اکبر نے تجلیٔ ذاتی کو انتہائی مقام قرار دیا ہے اور اس کے بعد عدمِ محض۔ حضرت مجدد نے یہ ایک فقرہ ایک مکتوب میں نقل کیا ہے۔ میری کتابیں اس وقت لاہور میں موجود نہیں کہ صفحہ و مقام کا پتہ دے سکتا۔ میرا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ جن بزرگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے انہوں نے قرمطی تحریک سے افاضہ کیا۔ یہ خواجہ حسن نظامی صاحب کا بہتان ہے۔ بعض صوفیہ کی تحریروں اور علمائے قرمطی کی تحریروں میں مماثلت ہونا اور بات ہے۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ میں نے اپنی کسی تحریر میں کوئی سوالات نہیں کیے۔ خواجہ صاحب نے خود یہ تنقیحات قائم کی ہیں جو ان کے خیال میں میری تحریر سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ بات دیانت کے خلاف ہے کہ ان سوالوں کو جو خواجہ صاحب نے آپ کی خدمت میں ارسال کیے میری طرف منسوب کیا جائے اور اُن کا نام ڈاکٹر اقبال کے آٹھ سوال رکھا جائے۔ اُمید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اس عریضے کے جواب کا انتظار رہے گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐ اقبال ۹۷ کشن پرشاد کا تار آیا تو معلوم ہوا کہ خیریت کے ساتھ واپس حیدرآباد پہنچ گئے ہیں۔ ’’اب کے آپ کا سفر شمالی ہند مختصر رہا مگر ہوگا ضرور معنی خیز،‘‘ اقبال نے ۸ مارچ کو خط میں لکھا۔ ’’خدا جانے آپ کی نکتہ رس نگاہ نے حالات مشہودہ سے کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں گے۔‘‘ حافظ والے مضمون کا جواب نہیں آیا تھا لہٰذا اس کے بارے میں معلوم کیاکہ اگر پہنچا نہ ہو تویہ پھر لکھ دیں۔ ’’پنجاب کا حال بدستور ہے۔ گرمی کا آغاز ہے مگر یہ مارچ کے دن غنیمت ہیں۔ کوئی دن میں شگوفے پھوٹیں گے۔ بہار کی تیاری ہے، جنون پھر تازہ ہوں گے۔ میرا جنون جو کچھ عرصے سے مجھے فراموش کر چکا ہے کیا عجب کہ اس بہار میں عود کر آئے۔‘‘ یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر طبیعت راغب ہو تو مرزا عبدالقادر بیدل کا دیوان ایڈٹ کریں جس کے کئی قدیم نسخے حیدرآباد کے کتب خانوں میں مل سکتے تھے۔ اگر اس سے آسان کام کرنا ہو تو ولی سے پہلے کے دکنی شاعروں کا کلام جمع کریں جسے ضرور شائع ہونا چاہئے۔ ۹۸ ابلیس نے کہا، ’’میرا وقت اب پہلے سے زیادہ اچھا گزر رہا ہے کہ میں اُس کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے اُس کی طرف سے سونپی ہوئی خدمت بجا لاتا ہوں۔ اگر وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں ڈال دے تب بھی میں غیر کو سجدہ نہیں کروں گا۔۔۔ میں وہی ہوں جس نے ازل میں تجھے پہچانا ہے۔ میں انسان سے بہتر ہوں اور خدمت میں اُس سے قدیم ہوں۔‘‘ یہ مکالمے منصور حلاج نے لکھے تھے اور کہا تھا، ’’جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اُس نے اپنے آپ کو فنا کر کے اُس کی معرفت حاصل کر لی ہے تو اُس کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ فانی، باقی اور موجود کو کیسے پہچان سکتا ہے؟‘‘۸۸ اقبال کتاب الطواسین سے اپنی ضرورت کے اقتباسات نقل کر رہے تھے، منصور کی سوانح جمع کر رہے تھے اور تمام نکات اکٹھے کرتے جا رہے تھے لیکن پورا باب لکھنے کے لیے جن معلومات کی ضرورت تھی وہ دستیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ ۹۹ وکیل(امرتسر) میں ’تصوف‘ کے عنوان سے مضامین کا سلسلہ ظاہر ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر نہ کیا۔ اخبار لمعات (لاہور) میں حافظ شیرازی کی شاعری پر سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے لکھنے والے نے بھی نام ظاہر نہ کیا۔۸۹ ۱۰۰ سید سلیمان شاہ پھلواری نے ایک خط میں تصوف اور وحدت الوجود کی وضاحت پیش کی۔ ’’آپ کے مکتوبات نہائت دلچسپ ہیں اور حفاظت سے رکھنے کے قابل،‘‘ ۹ مارچ کوجواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا۔ ’’میں نے ان کو خود پڑھا ہے اور بیوی کو پڑھنے کے لیے دیا ہے۔‘‘ وحدت الوجود کے بارے میں شاہ پھلواری کے بعض خیالات سے اقبال کو اختلاف تھامگر سوچتے تھے کہ شائد تفصیل سے بات ہونے پر یہ اختلاف نہ رہے۔ ’’حقیقی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں،‘‘ اقبال نے اس بیعت کی طرف اشارہ کیا جو انہوں نے نوجوانی میں شیخ نور محمد کے ذریعے کی تھی۔ زیرِ تصنیف تاریخِ تصوف کے بارے میں لکھا، ’’یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے۔ میں صرف اِس قدر کام کر سکوں گا کہ جدید مذاق کے مطابق تنقید کی راہ دکھلا دُوں۔‘‘ ٹھیک اُسی روز لندن میں آئندہ صدیوں میں دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے والی خفیہ سازش ہو رہی تھی۔ سر مارک سائیکس، فرانسیسی سیاستداں جارجس پائیکاٹ کے ساتھ بیٹھے فیصلہ کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد فلسطین اور میسوپوٹیمیا انگلستان کے حصے میں آئیں گے۔ وہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا ملک بنانے دے گا۔ کچھ علاقہ عربوں کو دے کر اُن کا منہ بند کرے گا۔ شام کی سرزمین فرانس کے قبضے میں جانی تھی اور رُوس کی فرمائش پر قسطنطنیہ کو آزاد بندرگاہ بنانا طے پایا۔ مصر کی طرف سے پھر بھی خطرہ تھا۔ ۱۰۱ ۱۱ مارچ کو اتحادی افواج نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ مسلم دنیا کے لیے دردانگیز خبر تھی۔ یہ شہر تاریخ کے اُن پانچ سو برس کی علامت تھا جسے خلافت ِعباسیہ کہتے ہیں۔ ۱۰۲ ۱۳ مارچ کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ جواب نہ ملنے پر حیرت ظاہر کی تھی۔ ’’آپ کا خط غلطی سے حیدری صاحب کے لفافے میں پڑ گیا جس پر مجھے سخت افسوس ہے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ ’’میں نے حیدری صاحب کی خدمت میں لکھ دیا ہے کہ وہ خط واپس ارسال کر دیں۔ واپس آنے پر ارسالِ خدمت کروں گا۔‘‘ ۱۰۳ شیخ مشیر حسین قدوائی فلسفۂ عشق کے مصنف تھے۔ لندن میں معلوم ہوا کہ اقبال نے حافظ پر اعتراض کیے ہیں۔ دیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ جو شعر نکلا اُس کا مفہوم تھا کہ تم سب کو ویسے نظر نہیں آ سکتے جیسے ہو کیونکہ ہر شخص اپنی نظر کے مطابق ہی سمجھتا ہے۔ ’اَسرارِ خودی-دیوانِ حافظ‘ [شیخ مشیر حسین قدوائی کے مضمون سے اقتباس] ترا چنانکہ توئی ہر نظر کجا بیند بقدرِ بینشِ خود ہر کسے کند اِدراک شعرِ مذکور لسان الغیب حافظ کی جانب سے جواب ہے اَسرارِ خودی کے اِس مصرع کا کہ: ’’الحذر از گوسفنداں الحذر‘‘ میں نے ’اَسرارِ خودی‘ پر بعض اخبارات میں اعتراضات دیکھے جن سے معلوم ہوا کہ حافظ علیہ الرحمۃ پر کیا بے ادبانہ اور طفلانہ اعتراض کیے گئے ہیں۔ میں نے مثنوی کی حمایت میں بھی مضمون دیکھے تھے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ میں بھی اِس بحث پر کچھ لکھوں۔ چونکہ مجھے حافظ علیہ الرحمۃ سے نہایت خوردسالی کے زمانہ سے ایک خاص عقیدت ہے اور جیسا میں نے ابھی اپنی حال کی تصنیف فلسفۂ عشق میں لکھا ہے! میں سمجھتا ہوں حافظ دنیا کے تنہا [؟] شاعر ہیں یا جیسا میں نے ایک لیکچر میں جو فارسی شاعری پر میں نے ایک علمی سوسائٹی میں کہا تھا دنیا کی کوئی اور زبان نہ کوئی اور ملک دوسرا حافظ پیدا کر سکتے ہیں۔ میرے قلب کو اس لغو اعتراض سے تکلیف ہوئی۔ میں نے ابھی یہ کہہ کر دیوانِ حافظ کھولا کہ جواب لکھوں تو وہ شعر نکلا جو اوپر رقم ہے۔ زمیندار (لاہور)، ۲۳ مارچ ۱۹۱۶ء ۱۰۴ اس دفعہ شاکر صدیقی نے غزل بھیجی تھی۔’’اضافت کی حالت میں اعلانِ نون غلط ہے کبھی نہ کرنا چاہئے،‘‘ اقبال نے ۲۴ مارچ کو جواب لکھا۔ ’’اتنے شعروں میں صرف دو شعر جن پر نشان کر دیا ہے اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ تلمذ سے مجھے معاف فرمائیے۔‘‘ غزل اچھی ہو یا بری مگر شاکر نے اقبال کی پیروی کی کوشش کی تھی۔ غنیمت شعر یہ تھے: کسی کامل سے رسم و راہ میری جان پیدا کر علاجِ خاطرِ ناکام کا سامان پیدا کر رقابت اے دلِ مضطر نہیں اچھی زلیخا سے ہزاروں جس میں یوسف ہوں تو وہ کنعان پیدا کر ۱۰۵ نیازالدین خاں کا خط آیا مگر کئی دن تک جواب نہ دے سکے۔ ’’الحمداللہ کہ جالندھر کے کتب خانے کے لیے اجازت ہو گئی،‘‘ ۲۶ مارچ کو مختصر جواب دیتے ہوئے لکھا مگر معلوم نہیں یہ کس معاملے کی طرف اشارہ تھا۔’’میں فرصت کے دنوں سے جناب کو مطلع کروں گا۔‘‘ ۱۰۶ مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں شیخ نور محمد بیمار ہو گئے۔ ۱۰۷ شیخ مشیر حسین قدوائی کا مضمون اپریل کے طریقت میں بھی شائع ہو گیا۔۹۰ ۱۰۸ مخالفت کرنے والوں میں امرتسر کے حکیم فیروزالدین طغرائی بھی تھے۔ لسان الغیب کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر حافظ کے ایسے اَشعار پیش کیے جن میں سکر یعنی بیخودی کی بجائے صحو یعنی عمل پسندی کا پیغام تھا۔ اُن دنوں اقبال نے یہی سوچا، ’’بحیثیت مجموعی خواجہ حافظؔ کا اخلاقی نصب العین حالتِ سکر ہے نہ حالتِ صحو۔ اور کسی شاعر کی تنقید کے لیے اُس کے عام نصب العین ہی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔‘‘ ذہن کے کسی دوسرے حصے میں یہ امکان پیدا ہوا کہ حافظؔ کے بلندہمتی والے اَشعار کو عوام کے دل و دماغ پر نقش کر دیں کہ کم ہونے کے باوجود وہی اَشعار حاوی ہو جائیں۔ خیال کو شعور تک پہنچ کر قبول ہونے میں وقت لگنا تھا۔۹۱ ۱۰۹ کشن پرشاد نے پرانے فارسی شاعر راسخؔکی مثنوی شائع کروائی۔ انہی دنوں اقبال کو ایک خط لکھ کر ’اسرارِ خودی‘ کے متعلق شکوک و شبہات ظاہر کئے۔ اقبال نے ۳ اپریل کو جواب دیتے ہوئے تسلی دی کہ مثنوی کو سرسری نظر سے دیکھ کر جن دوستوں نے تعریف کر دی تھی اُن کی آرأ کو کہیں شائع نہیں کروایا گیا، ’’اِس خیال سے کہ بغور پڑھنے کے بعد ممکن ہے کہ اُن کی رائے تبدیل ہو جائے۔‘‘ ۱۱۰ ۴ اپریل کولارڈ ہارڈنگ کی جگہ لارڈ چیمسفورڈ وائسرائے بنے۔ ۱۱۱ ۱۴ اپریل کو کشن پرشاد کا ایک اور خط ملا جو ایک ہفتہ پہلے لکھا گیا تھا۔ ’’یہ مثنوی جس کا نام اسرارِ خودی ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے،‘‘ اقبال نے اُسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’قسم ہے خدائے واحد کی جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے میں نے یہ مثنوی ازخود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا میری روح کو چین نہ آئے گا۔۔۔ نہ حسن نظامی رہے گا نہ اقبال، یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بارآور ہوگا، مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے الحمداللہ۔۔۔‘‘ درخواست کی کہ خط کا یہ تمام صفحہ پرائیویٹ ہے بہتر ہو گا کہ اسے پڑھنے کے بعد تلف کر دیا جائے۔ ۱۱۲ ایسٹر سنڈے ۲۳ اپریل کو تھا۔ روایت ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں اکٹھے آئے۔ محمد الدین فوقؔ کے چچا منشی غلام محمد خادم نے فی البدیہہ کہا: اقبال و ذوالفقار کا ہو کیوں نہ احترام تخت اور تاج دونوں انہی کے تو ہیں غلام اقبال ذوالفقار سے آتا ہے ہاتھ میں وابستہ ذوالفقار ہے اقبال سے مدام۹۲ ۱۱۳ اُس روز ولیم شیکسپیئر کی وفات کو تین سو برس ہوئے۔ انگلستان میں اُسے ’’عظیم ترین انگریز‘‘ قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن جس انداز میں اُسے خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا تھا اُس میں یہ احساس بالکل نہیں جھلکتا تھا کہ اِس عظیم ترین انگریز نے اپنے وقت میں اَن پڑھ اور غریب عوام کے سامنے اپنا فن پیش کیا۔ اپنے ڈرامے انہی سے پسند کروائے۔ پھر اُن کی پسند کو ملکہ کے دربار تک پہنچایا۔ جس کتاب میں اقبال کی نظم بھی شامل تھی، صرف تین روز قبل اُس کے دیباچے میں سر اِسرائیل گولانکز نے بیان کیا تھا کہ کس طرح شیکسپیئر کی تین سو سالہ برسی منانے کے لیے یونیورسٹیوں اور دانشوروں سے مشورے ہوئے۔ ایک تھیٹر قائم کرنے کی تجویز ہوئی- جو ظاہر ہے کہ شیکسپیئر کے زمانے کے اُس تھیٹر سے بہت مختلف ہوتا جہاں ایک عام آدمی کی پسند اور ناپسند پر دنیا کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہوا کرتا تھا (لیکن شیکسپیئر کے زمانے کا تھیٹرلاہور کی انجمن حمایت اسلام کے اُن جلسوں سے کس قدر مماثل تھا جہاں اب اقبال اپنی نظمیں پیش کرتے تھے)! یادگاری کتاب میں ایک سو چھیاسٹھ لکھنے والوں کی تحریریں شامل تھیں۔اقبال کی نظم سے بالکل پہلے سیلون کے دانشور آنند کمارسوامی کا مضمون اور رابندناتھ ٹیگور کی نظم شامل تھے۔اُس زمانے میں کوئی آنندکمارسوامی کے مضمون کا ترجمہ کر کے خطیب وغیرہ میں شائع کروا دیتا تو شایدیوں لگتا جیسے ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے کے رَد میں لکھا گیاہے۔ ٭ آنندکمارسوامی کے مطابق تہذیب کو صرف انسانی ہونا چاہیے تھا نہ کہ مقامی یا قومی (اقبال وحدتِ انسانی کے دعویدار ضرور تھے مگر تہذیب کی بنیاد ملّت پر رکھتے تھے) ٭ آنندکمار سوامی کے مطابق ایشیائی اور یورپی طبیعتوں میں فرق محسوس کرنا گزشتہ دہائیوں میں پیدا ہونے والی ایک غلط فہمی تھی جسے اب ختم ہو جانا چاہیے تھا (اقبال نے یورپی طبائع کی عملیت پسندی کے علاوہ اِس قسم کا تصور بھی پیش کیا تھا: ’’انگریزی قوم ۔۔۔ میں ـحسِ واقعاتـ‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔‘‘) ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں افلاطون، شنکر، مولانا روم، بھگت کبیر اور نیٹشے وغیرہ ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے تھے (اقبال نے دبیاچے میں شنکر کی تعلیمات پر تنقید کی تھی اور مثنوی میں افلاطون کی پرزور مذمت کی تھی) ٭ آنندکمار سوامی کی تحریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ خودی کی نفی کرنا ہی تمام پیغمبروں اور مفکروں کا مشترکہ پیغام رہا ہے اور خودی وحدتِ انسانی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ مصنف نے اِس موضوع پر وِلیم بلیک کے مصرعے پیش کرتے ہوئے نفیٔ خودی کو تفرقہ سے آزادی کے مترادف سمجھا (اقبال نے نفیٔ خودی کے فلسفے کو گوسفندی قرار دے کر خودی کی حفاظت اور بقا پر زور دیا)۔ ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں خودی کی فنا ’’نجات‘‘ کے مترادف دکھائی دیتی تھی۔ فن کے نصب العین کو بیان کرنے کے لیے گوئٹے کے ڈرامے فاؤسٹ کے ایک کردار کا مکالمہ جرمن میں درج کیا گیا تھا کہ حُسن کی تعریف میں ہمیشہ گیت گائے گئے ہیں اور حُسن جس کے سامنے ظاہر ہو وہ اپنی خودی کھو بیٹھے (اقبال کے نزدیک فن کا مقصد خودی کی بقا تھا نہ کہ فنا)۔ ٭ آنندکمارسوامی نے نیکی، تلذذ، دولت اور نجاتِ اخروی (خودی کی فنا) کو شعر و فن کا حاصل بتایا تھا۔ فہرست میں نیکی بھی شامل تھی مگر ان کی تحریر میں تخلیقی شعور جس طرح خیر اور شر سے بے نیاز دکھائی دے رہا تھا وہ کس حد تک اقبال کے ’’اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ‘‘ کے تصور سے میل کھاتا جہاں خیر و شر کی جنگ میں شعرأ کے دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپر تھے؟ ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں شری کرشن کے پیغام کا مقصد سکون نظر آتا تھا (اقبال نے شری کرشن کے پیغام کو حرکت و عمل کا دَرس قرار دیا تھا)۔ ٭ آنندکمارسوامی کے نزدیک خودی تفریق کا باعث تھی۔ انہوں نے اپنے مضمون کا عنوان ’’اخوتِ دانش‘‘ ('Intellectual Fraternity') رکھا تھا۔ اقبال بھی سمجھتے تھے کہ فکرِ انسانی کی مماثلت سے انسانیت کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوتا ہے مگر اُنہوں نے اِس وحدتِ انسانی کی بنیاد خودی کو بنایا تھا۔ عشق اور عمل کی راہ اختیار کی تھی۔ ٹیگور نے اپنی نظم میں شیکسپیئر سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ اے شاعر، اے سورج، تم انگلستان پر طلوع ہوئے ۔ اُس نے تمہیں اپنا لیا مگر پھر تم بلند ہو کر نصف النہار پر پہنچے۔ آسمانوں کے ہر حصے کو تم نے اپنا لیا۔ اس لیے اب صدیوں بعد ہندوستان کے سمندر کے کنارے ناریل کے درخت اپنی شاخیں آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے تمہاری تعریف میں گنگاتے ہیں۔ نظم بنگالی میں تھی۔کتاب میں اصل متن کے ساتھ ترجمہ بھی شامل تھا۔ 1916 A Book of Homage to Shakespeare Edited by Israel Gollancz, Litt.D., F.B.A. Honorary Secretary of the Shakespeare Tercentenary Committee Humphrey Milford Oxford University Press Preface [By Israel Gollancz; Excerpt] For years past — as far back as 1904 — many of us had been looking forward to the Shakespeare Tercentenary as the occasion for some fitting memorial to symbolize the intellectual fraternity of mankind in the universal homage accorded to the genius of the greatest Englishman... At a noteworthy meeting held in July 1914 of delegates nominated by many institutions, universities, societies, and other bodies, to consider the question of the observance of the Shakespeare Tercentenary, Lord Bryce as President of the British Academy presiding, it was unanimously resolved, on the motion of the American Ambassador, His Excellency W. H. Page, ' That the Tercentenary of the death of Shakespeare should be commemorated in a manner worthy of the veneration in which the memory of Shakespeare is held by the English-speaking peoples and by the world at large '. The delegates, representing the British Empire, the United States, and foreign countries, were constituted as a General Committee, and an Executive Committee was appointed, with Lord Plymouth as Chairman, and myself as Honorary Secretary. Then came the War; and the dream of the world's brotherhood to be demonstrated by its common and united commemoration of Shakespeare, with many another fond illusion, was rudely shattered. In face of sterner duties all such projects fell necessarily into abeyance. Some months ago, however, it was recognized (and the call came to us from many quarters at home and abroad) that not even under present conditions should the Shakespeare Tercentenary be allowed to pass unobserved, though the scope of our original programme would of necessity be modified, — though we could not hope to witness even the foundation of the proposed Shakespeare Theatre, nor to welcome, as we had anticipated, the many devotees of the poet who would have wished to participate in our Commemoration. We knew we should have our friends with us in spirit on the great occasion, ; and it seemed to me, in one way at least, possible to link their homage with ours, and to hand down to posterity a worthy Record of the widespread reverence for Shakespeare as shared with the English-speaking world by our Allies and Neutral States, namely, by the publication, in honour of the Tercentenary, of a Book of Homage to Shakespeare, with contributions in prose and verse, representing the ubiquity of the poet's mighty influence. Accordingly, encouraged by those whom I ventured to consult, and subsequently with the approval of the Tercentenary Committee, I took upon myself the responsible and onerous task, complicated by present conditions ; and the ready and generous co-operation of one hundred and sixty-six Homagers finds expression in the present volume. Time and space necessitated certain limitations; and it has not been possible to include many who would have been willing to join in our Homage, and whose tributes to the poet would have been valued by all Shakespearians. The original plan of the book fixed the maximum number of contributors at one hundred. It soon became clear that this would have to be increased, and that the British Empire alone could not well be represented by less than one hundred contributors, with some seventy more representing America, France, Italy, Greece, Spain and Spanish-speaking countries, Portugal, Roumania, Switzerland, Belgium, Holland, Iceland, Denmark, Sweden, Norway, Russia, Serbia, Poland, 'Jugoslavia', Finland, Japan, China, Persia, Armenia — to follow the arrangement of the book, where the nations are grouped by languages, namely, English, Romance, Dutch, Scandinavian, Slavonic, &c. These languages, however, do not exhaust the list, for from British subjects we have tributes, not only in the classic dead languages of antiquity, Greek, Latin, Hebrew, Sanskrit, but also in the living languages of Ireland, Wales, India (Bengalee, Urdu, and Burmese), Egypt (Arabic), and South Africa (the Bechuana dialect). It is indeed a long-drawn procession that is here presented; and before it is graciously ushered in by our honoured chieftain Mr. Thomas Hardy, it is my pleasant duty to record my profound thanks to him and to all those who have made it possible for the Book of Homage to come forth amid the throes of this world-travail... Intellectual Fraternity [By Ananda Coomaraswamy] 'To mark by some celebration the intellectual fraternity of mankind.' Alike to those who grieve for Europe in her hour of civil war, and to those who would offer tribute at the shrine of William Shakespeare, it must appear appropriate and significant to publish tokens of the brotherhood of man in art. For no one has been more distinguished than William Shakespeare, in his profound appreciation of the common humanity of an infinite variety of men. Civilization must henceforth be human rather than local or national, or it cannot exist. In a world of rapid communications it must be founded in the common purposes and intuitions of humanity, since in the absence of common motives there cannot be co-operation for agreed ends. In the decades lately passed - in terms of 'real duration', now so far behind us - it has, indeed, been fashionable to insist upon a supposed fundamental divergence of European and Asiatic character: and those who held this view were not entirely illogical in thinking the wide earth not wide enough for Europe and Asia to live side by side. For artificial barriers are very frail: and if either white or yellow 'peril' were in truth an essentially inhuman force, then whichever party believed itself to be the only human element must have desired the extermination, or at least the complete subordination, of the other. But the premises were false: the divergences of character are superficial, and the deeper we penetrate the more we discover an identity in the inner life of Europe and Asia. Can we, in fact, point to any elemental experience or to any ultimate goal of man which is not equally European and Asiatic? Does one not see that these are the same for all in all ages and continents? Who that has breathed the pure mountain air of the Upanishads, of Gautama, Sankara, Kabir, Rumi, and Laotse (I mention so far Asiatic prophets only) can be alien to those who have sat at the feet of Plato and Kant, Tauler, Behmen, Ruysbroeck, Whitman, Nietzsche, and Blake? The last named may well come to be regarded as the supreme prophet of a post-industrial age, and it is significant that one could not find in Asiatic scripture a more typically Asiatic purpose than is revealed in his passionate will to be delivered from the bondage of division: I will go down to self-annihilation and eternal death, Lest the Last Judgment come and find me unannihilate, And I be seiz'd and giv'n into the hands of my own Selfhood. But it is not only in Philosophy and Religion - Truth and Love - but also in Art that Europe and Asia are united: and from this triple likeness we may well infer that all men are alike in their divinity. Let us only notice here the singular agreement of Eastern and Western theories of Drama and Poetry, illustrating what has been said with special reference to the hero of our celebration: for the work of Shakespeare is in close accordance with Indian canons of Dramatic Art. 'I made this Drama', says the Creator, 'to accord with the movement of the world, whether at work or play, in peace or laughter, battle, lust, or slaughter - yielding the fruit of righteousness to those who are followers of a moral law, and pleasures to the followers of pleasure - informed with the diverse moods of the soul - following the order of the world and all its weal and woe. That which is not to be found herein is neither craft nor wisdom, nor any art, nor is it Union. That shall be Drama which affords a place of entertainment in the world, and a place of audience for the Vedas, for philosophy and for the sequence of events.' And poetry is justified to man inasmuch as it yields the Fourfold Fruit of Life - Virtue, Pleasure, Wealth, and Ultimate Salvation. The Western reader may inquire, 'How Ultimate Salvation?' and the answer can be found in Western scriptures: Von Schonheit ward von jeher viel gesungen, Wem sie erscheint, wird aus sich selbst entruckt. That is the common answer of the East and West, and it is justified by the disinterestedness of aesthetic contemplation, where the spirit is momentarily freed from the entanglement of good and evil. We read, for example, in the dramatic canon of Dhanamjaya: 'There is no theme, whether delightful or disgusting, cruel or gracious, high or low, obscure or plain, of fact or fancy, that may not be successfully employed to communicate aesthetic emotion.' We may also note the words of Chuang Tau, The mind of the Sage, being in repose, becomes the mirror of the universe, and compare them with those of Whitman, who avows himself not the poet of goodness only, but also the poet of wickedness. It is sometimes feared that the detachment of the Asiatic vision tends towards inaction. If this be partly true at the present moment, it arises from the fullness of the Asiatic experience, which still contrasts so markedly with European youth. If the everlasting conflict between order and chaos is for the present typically European, it is because spiritual wars no less than physical must be fought by those who are of military age. But the impetuosity of youth cannot completely compensate for the insight of age, and we must demand of a coming race that men should act with European energy, and think with Asiatic calm - the old ideal taught by Krishna upon the field of battle: Indifferent to pleasure and pain, to gain and loss, to conquest and defeat, thus make ready for the fight. . . As do the foolish, attached to works, so should the wise do, but without attachment, seeking to establish order in the world. Europe, too, in violent reaction from the anarchy of laissez-faire, is conscious of a will to the establishment of order in the world. But European progress has long remained in doubt, because of its lack of orientation - 'He only who knows whither he saileth, knows which is a fair or a foul wind for him.' It is significant that the discovery of Asia should coincide with the present hour of decision: for Asiatic thought again affirms the unity and interdependence of all life, at the moment when Europe begins to realize that the Fruit of Life is not easily attainable in a society based upon division. In honouring the genius of Shakespeare, then, we do not merely offer homage to the memory of an individual, but are witnesses to the intellectual fraternity of mankind: and it is that fraternity which assures us of the possibility of co-operation in a common task, the creation of a social order founded upon Union. Ananda Coomaraswamy Shakespeare [By Rabindranath Tagore] When by the far-away sea your fiery disk appeared from behind the unseen, O poet, O Sun, England's horizon felt you near her breast, and took you to be her own. She kissed your forehead, caught you in the arms of her forest branches, hid you behind her mist-mantle and watched you in the green sward where fairies love to play among meadow flowers. A few early birds sang your hymn of praise while the rest of the woodland choir were asleep. Then at the silent beckoning of the Eternal you rose higher and higher till you reached the mid-sky, making all quarters of heaven your own. Therefore at this moment, after the end of centuries, the palm groves by the Indian sea raise their tremulous branches to the sky murmuring your praise. Rabindranath Tagore. Calcutta. شیکسپئیر شفقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشیٔ شام آئینہ برگِ گل آئینۂ عارضِ زیبائے بہار شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ حسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حسن دلِ انساں کو ترا حسنِ کلام آئینہ ہے ترے فکرِ فلک رَس سے کمالِ ہستی کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی؟ تجھ کو جب دیدۂ دیدارطلب نے ڈھونڈا تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا چشمِ عالم سے تو ہستی رہی مستور تری اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا حفظِ اَسرار کا فطرت کو ہے سَودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا کاتب مرغوب رقم Lahore. Mohammed Igval Urdu Tribute Translated To Shakespeare A Tribute from the East Translation by Sardar Jogundra Singh I The river's silent flow Mirrors the glory of the rosy dawn; The sunset-silence in the golden glow Mirrors the message of the evening song; The burgeoing leaf, after winter's sleep, Mirrors the rosy rapture of spring; The bridal-palanquin of crystal cup Reflects the virgin beauty of red wine' The rivers of endless Beauty Mirror the myriad coloured light of Truth; The great deeps of human heart Mirror the radiance from Beauty's Realm; And they enchanted verse in liquid notes Mirrors the great deep of human heart! II Under the flashing sunbeams of thy thought, Nature herself has found herself revealed In perfect glory in thy golden song; The conscious mistress of her treasured wealth! The eager eye in search of thy image Found thee enshrined within a veil of light, Like mighty monarch of night and day, That bathed in glory, seeing is not seen. Hid from the world's eye thou hast beheld The intricate workings of her inmost soul! The jealous mistress of deep mysteries Never again will suffer herself to bear A seer like thee who took her by surprise, Unveiled in starlighht and mellow moon.۹۳ ۱۱۴ اقبال کی نظم میں سات اشعار تھے۔ مصرعوں کی مجموعی تعداد ۱۴ بنتی تھی جو شیکسپیئر کے سانیٹ کے مطابق تھی۔ سانیٹ ہی کی طرح ان میں ایک خیال بتدریج ترقی کرتا تھا: ۱ فطرت میں متضاد چیزیں ایک دوسرے کا آئینہ بن جاتی ہیں جیسے آسمان پر موجود شفق کے لیے زمین پر رینگنے والے دریا کا خرام اور نغمۂ شام کے لیے خاموشیٔ شام آئینہ بنتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح تھیٹر جیسا پیشہ جسے بیحد شرمناک سمجھا جاتا تھا وہ شیکسپیئر کی ملکوتی فکر کے لیے آئینہ بن گیا۔ ۲ متضاد سے استفادہ کر کے فطرت جو چیز تخلیق کرتی ہے وہ خالق کے جوہر کا آئینہ بن جاتی ہے جیسے پھول کی پتی بہار کے حُسن کا اور شراب کا جام شراب کے حسن کا آئینہ بنتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح شیکسپیئر کے تخلیق کیے ہوئے شاہکار اُس کے جوہر کا آئینہ بن گئے۔ ۳ اب مجازی خالق کی تخلیق کی ہوئی چیز کا خالقِ حقیقی کے ساتھ تعلق سامنے آتا ہے۔ حق تعالیٰ کا آئینہ حُسن ہے جس میں ہمیں حق تعالیٰ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حُسن کا آئینہ دل ہے جس میں حُسن اپنی جھلک دیکھتا ہے (صرف انسانی دل ہی نہیں بلکہ کوئی بھی دل: ’’خاص انسان سے کچھ حُسن کا احساس نہیں‘‘)۔ البتہ انسانی دل کا امتیاز یہ ہے کہ فطرت کے حُسن کی بجائے شیکسپیئر کے کلام کا حُسن اِس کے لیے آئینہ ہے جس میں دل اپنی جھلک دیکھ سکتا ہے (یوں افلاطون کے اُس نظریے کی تردید ہوتی تھی جس کے مطابق ڈرامہ دُہرا حجاب تھا)۔ ۴ اگر یہ درست ہے تو پھر شیکسپیئر کی فکرِ فلک رَس کمالِ ہستی ہے۔ پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ خدا نے دنیا اِسی لیے تخلیق کی تھی کہ ایک روز شیکسپیئر کے ڈراموں کے لیے مسالہ فراہم ہو جائے؟اِس سوال کا جواب شیکسپیئر سے دریافت کرنے کو دل چاہتا ہے لہٰذا اب نظم کا انداز بدل جاتا ہے۔استعارے پس منظرمیں جا رہے ہیں۔ بلاواسطہ بات کہی جائے گی۔ ۵ جب ہم شیکسپیئر کو دیکھنے کی خواہش لے کر نکلے (شاید وہی سوال پوچھنے کے لیے جو پچھلے شعر میں اُٹھایا گیا) ، ہم نے سورج کو اپنی ہی روشنی میں چھپے ہوئے دیکھا۔ فرد کی خودی سورج کی مانند ہے۔ جو شخص اپنی خودی کو قوم یا انسانیت کی اجتماعی خودی میں گُم کر بیٹھے اُس کی خودی اُس سورج کی طرح ہے جو خود نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اُس کی روشنی ہر طرف بکھری ہوئی ہو۔ ۶ چنانچہ شیکسپیئر کی اپنی زندگی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی مگر وہ دنیا کو بے حجاب دیکھتا رہا۔ ۷ ظاہر ہے کہ ایسادیکھنے والا ایک اور پیدا ہو جائے تو پھر فطرت کا کوئی راز حجاب میں نہ رہے گا کیونکہ دوسرا دیکھنے والا پہلے کی بے حجابی کو اپنے لیے آئینہ بنا ڈالے گا۔ چونکہ فطرت اپنے بعض رازوں کو مخفی رکھتی ہے لہٰذا شیکسپیئر کے بعد وہ شیکسپیئر جیسا رازداں پھر کبھی پیدا نہ کرے گی۔ یہ محض شاعرانہ بات نہیں بلکہ نظم کے شروع میں فطرت کے جو قوانین پیش کیے گئے ہیں اُنہیں تسلیم کرنے پر یہ حقیقت ایک منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مشرق کا عظیم شاعر یہ بات اُس زمانے میں کہہ رہا تھا جب خود مغرب کے نمایندہ شعرأ اپنے آپ کو شیکسپیئر کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے پَر تول رہے تھے۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ شعوری یا غیرشعوری طَور پر اِقبال نے اِس نظم میں خودی کی بتدریج نشو و نما کے وہ سات مراحل پیش کر دیے تھے جنہیں وہ اپنے آیندہ شاہکاروں میں کئی مرتبہ مختلف انداز میں دہرانے والے تھے۔ ۱۱۵ ’’سر اِسرائیل نے مجھے اقبال کی نظم کا ایک ری پرنٹ دیا جسے میں نے فریم کروا لیا تھا،‘‘ شیکسپیئر والی نظم کے حوالے سے میاں افضل حسین کا بیان ہے جو اُن دنوں کیمبرج میں تھے۔۹۴ ۱۱۶ حیدرآباد دکن کے شاعر مولوی عبدالرؤف شوقؔکی نظم مرقع رحمت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپے کے بارے میں ذخیرہ پریس (حیدرآباد دکن) سے شائع ہوئی۔ تقریظ ترجمان الحقیقت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ، لاہور شوقؔ صاحب کی نظم میں نے دیکھی ہے۔ اس کے ہر شعر میں خلوص و محبت اور عقیدت کی جھلک ہے۔ خوشا وہ دل جو عشق نبوی کا نشیمن ہو۔ سید عبدالرؤف صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حبیبِ پاک کی محبت عطا فرمائی۔ میری نگہ میں ان کا ہر شعر قابلِ احترام ہے۔۹۵ ۱۱۷ آئرلینڈ کے حریت پسندوں نے ہوم رُول مسترد کر دیا تھا اور آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگ کے خاتمے کا انتظار کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انگریز کے وعدے پر اعتماد نہ تھا۔ ۲۸ اپریل کو ڈبلن کے قلعے میں انگریز محافظوں پر حملہ ہوا۔ عدالت کے ایک حصے کو آگ لگائی گئی۔ ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر آئرلینڈ کی آزادی کا اعلان ہوا اور ایک نیا پرچم بلند ہو گیا۔ شام تک ڈاکخانے کی سنگین دیواریں انگریز سپاہیوں کی گولیوں سے داغدار ہو چکی تھیں۔ گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ ۱۱۸ اُس روز حکومتِ پنجاب نے حسبِ معمول انجمن حمایت اسلام لاہور کو چٹھی بھیجی کہ امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پنجاب کی نمایندگی کرنے کے لیے تین مسلمان ممبروں کے نام تجویز کرے۔ ۹۶ ۱۱۹ اقبال، سر میاں محمد شفیع اور نواب ذوالفقار علی خاں: یہ تین نام تھے جو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل نے ۷ مئی کو دہلی کی امپیریل لیجلسیٹو کونسل میں پنجاب کے مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے اپنی طرف سے تجویز کیے۔۹۷ ۱۲۰ ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں ووٹ تو مل جائیں گے پیسے بھی دلوائیں گے کیا میرزا غالب، خدا بخشے، بجا فرما گئے ’’ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا‘‘۹۸ ۱۲۱ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اُردو کے صدرممتحن تھے۔ بی اے فارسی پرچہ الف اور فلسفہ، اور ایم اے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ ۹۹ ۱۲۲ کشن پرشاد نے لکھا کہ اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ میں اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ حافظؔ کی شاعری زندگی کی قوتوں کو کمزور کرتی ہے۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۱۰ مئی ۱۶ء سرکارِ والاتبار۔ تسلیم مع التعظیم۔ والانامہ مل گیا تھا۔ سرکار نے جو ارشاد فرمایا ہے بالکل صحیح ہے یعنی اس بات کے ثبوت میں میں نے مثنوی میں کچھ نہیں لکھا کہ جو کیفیت خواجہ حافظ اپنے ریڈر کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ قوتِ حیات کو ضعیف و ناتواں کرنے والی ہے۔ اِس دعوے کے ثبوت دو طرح سے دئے جا سکتے ہیں، فلسفیانہ اور شاعرانہ۔ مقدم الذکر قسم کا ثبوت اس مثنوی میں کوئی نہیں کیونکہ کتاب نظم ہے اور نظم میں فلسفیانہ ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔ اگر یہی مضمون نثر میں لکھا جا رہا ہوتا تو وہ تمام ثبوت لکھے جاتے۔ شاعرانہ ثبوت منطقی اعتبار سے ضرور نہیں کہ صحیح ہوں تاہم اس نکتۂ خیال سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ مثنوی میں جابجا موجود ہے۔ آپ مطالعہ فرمائیں گے تو معلوم ہو جائے گا۔ مسئلہ نہایت دقیق اور گہرا ہے اور چونکہ اس کا تعلق انسان کی موجودہ اور مابعدالموت کی زندگی سے ہے اس واسطے ہر ایک آدمی کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے۔ میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ نتیجہ بیشتراقوامِ مشرق کے موجودہ مذاق اور میلانِ طبیعت کے خلاف ہے لیکن مشرقِ قدیم کے حکمااس سے نآشنا نہیں ہیں اور یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ میں اس نتیجے پر پہنچنے میں فلاسفۂ مغرب سے متاثر ہوا ہوں۔ اگرچہ میں کوئی غیرمعمولی ذہانت و فطانت رکھنے والا آدمی نہیں ہوں اور نہ کوئی غیرمعمولی علم رکھتا ہوں تاہم عام لوگوں سے علم اور سمجھ کسی قدر زیادہ رکھتا ہوں، جب مجھ کو اِس نتیجے پر پہنچنے کے لیے بیس سال کی ضرورت ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ عام لوگ جو دنیا کی دماغی اور عملی تاریخ سے پورے واقف نہیں، تھوڑے غور و فکر سے اس کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ اعتراض کرنا دوسری بات ہے۔ کبھی ملاقات ہوئی تو مفصل عرض کرنے کی جرأت کروں گا۔ ستمبر میں لاہور کی انجمن حمایت اسلام کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن حیدرآباد کا قصد رکھتا ہے۔ اگر یہ ڈیپوٹیشن آیا تو ممکن ہے میں بھی ساتھ ہوں لیکن ڈیپوٹیشن کا روانہ ہونا ابھی قطعی طور پر فیصلہ نہیں ہوا۔ زیادہ کیا عرض کروںسوائے اس کے کہ سرکار کے لیے دست بدعا ہوں اور اطمینان کے ساتھ انقلاباتِ عالم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ کا خادمِ دیرینہ محمد اقبال ۱۲۳ آیندہ چھ ہفتوں تک کشن پرشاد نے اقبال کو خط لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ ۱۲۴ ۱۲ مئی کو امرتسر کے اڈووکیٹ غازی عبدالرحمٰن کوہلال کے نشان کی تاریخ کے بارے میں خط لکھا۔ ممکن ہے انہوںنے پوچھا ہوکیونکہ اقبال نے بھی تو خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا کہہ رکھا تھا۔ ’’نشانِ ہلال کی تاریخ میں اختلاف ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ یہ نشان نبیٔ کریمؐ اور صحابہ کے زمانے میں رائج نہ تھا۔ ممکن ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران صلاح الدین ایوبی نے شروع کیا ہو اگرچہ بعض مغربی مورخین کے خیال میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد عثمانی ترکوں نے شروع کیا۔ ایران کا نشان اور ہے مگر تمام سنّی دنیا اِسے اپنا نشان تصور کرتی ہے خواہ اس نشان کو پہلے پہل شروع کرنے والے نے چاند کو بڑھنے کی علامت سمجھ کر یہ نشان اختیار کیا ہو یا چاند سورج سے اپنا سلسلۂ نسب ملانے کے لیے۔ ’’مگر تمام امت کا اس پر صدیوں سے اجماع ہو چکا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’جن اسلامی قوموں کا نشان اور ہے وہ اس نشان پر کبھی معترض نہیں ہوئیں اور حدیثِ صحیح ہے کہ میری امّت کا اجماع ضلالت پر نہ ہو گا۔ اِس واسطے اس کو ضلالت تصور کرنا ٹھیک نہیں۔ واللہ اعلم۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اُمتِ مسلمہ کو ’’اسلامی قوموں‘‘ میں منقسم سمجھتے تھے جن میں سے ہر ایک کی رائے اپنی جگہ معتبر تھی۔ سب کی آرأ مل کر اُمتِ مسلمہ کی متفقہ رائے بنتی تھیں۔ ۱۲۵ امرتسرکے اڈووکیٹ سراج الدین پال اُن نوجوان مسلمانوں میں سے تھے جو اقبال کی حمایت میں تصوف کے خلاف مضامین لکھ رہے تھے۔ ۱۰۰ ۱۲۶ ۲۴ مئی کے خطیب میں اقبال کی غزل شائع ہوئی جو غالباً چار برس پہلے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں سنائی گئی تھی: کبھی اے حقیقتِ منتَظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں۱۰۱ ۱۲۷ یورپ میں امن کے خواب دیکھنے والوںمیں منیارڈ کینز بھی تھے۔ تجویز پیش کی تھی کہ جنگ کے بعد اقوام کی کوئی انجمن وجود میں آئے تو اُس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا جائے۔ ۲۷ مئی کو امریکی صدر وُڈرَو ولسن نے لیگ آف نیشنز کا تفصیلی خاکہ پیش کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور کمزور ریاستوں کی حفاظت کرنا ہو گا۔ ۱۲۸ کلکتہ کی مس گوہر جان کے گانے کے ریکارڈ لاہور میں بھی بجتے تھے۔ ’’لاہور میں گرمی کا زور ہے اور اس پر مس گوہر جان کا نغمۂ جگرسوز فضائے لاہور کی حدّت پر مستزاد ہے،‘‘ اقبال نے ۲۸ مئی کو کشن پرشاد کے نام لکھا۔ فکرمند تھے کیونکہ پچھلے خط کا جواب نہیں آیا تھا۔ ۱۲۹ کتابوں کی فراہمی میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ شیخ روزبہان بقلی کی کتاب شرحِ شطحیات تلاش کر رہے تھے جس میں وجودی صوفیا کی ایسی باتوں کی شرح کی گئی جو بظاہر شریعت کے خلاف دکھائی دیتی تھیں۔کتاب نہ ملی۔۱۰۲ معلوم ہوا لاہرپور (اودھ) میں قلندر صاحب نام کے کوئی بزرگ گزرے تھے جنہوں نے ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ کی تردید میں ایک مبسوط کتاب فارسی میں لکھی تھی۔ اُن کے سجادے میں اب تک محفوظ تھی۔اقبال نے سجادہ نشین کو خط لکھوایا مگر معلوم نہیں اس کا کوئی نتیجہ برامد ہوا یا نہیں۔۱۰۳ ۱۳۰ تاریخِ تصوف کے لیے جو نکات اکٹھے کیے جا رہے تھے اُن میں ’محی الدین ابن عربی، اسلام کی تھیاسوفی‘ کی سرخی ڈال کر فتوحاتِ مکیہ میں استعمال ہونے والی بعض اصطلاحات درج کیں اور لکھا، ’’یہ اصطلاحات عجیب و غریب۔ اگر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے سامنے یہ کتاب رکھی جائے تو اُن میں سے کوئی بھی اس کو نہ سمجھ سکے۔‘‘۱۰۴ ۱۳۱ ۷ جون تھی۔ برطانوی جہاز ہمپ شائر رُوس کی طرف بڑھا جا رہا تھا۔ سمندری لہروں کے نیچے بارودی سرنگ بچھی ہوئی تھی۔ دھماکہ ہوا تو جہاز پر سوار کوئی بھی شخص زندہ نہ بچا۔ مرنے والوں میں لارڈ کچنر بھی شامل تھا۔ اُس کی عمر چھیاسٹھ برس تھی۔ اقبال نے اُس کی موت کو درویش کا انتقام قرار دیا کیونکہ کچنر کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے سوڈان فتح کرنے کے بعد مہدی کی قبر سے ہڈیاں نکلوا کر دریا میں پھنکوا دی تھیں۔ اب کچنر کو خود قبر نصیب نہ ہوئی تھی۔ فرعون بھی دریا میں ڈوب کر مرا تھا۔ انگلستان میں سوگ منایا گیا۔ ۱۳۲ جنہیں اقبال اور کشن پرشاد ’’اللہ اکبر‘‘کہتے تھے اگر وہ کوئی مجذوب تھے تو ۱۴ جون کو اقبال کے پاس بیٹھے اُن کے ایک شعر کا مطلب پوچھ رہے تھے: نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں میں نے ہر ایک چیز میں دیکھا اُسے مکیں میں نے اقبال نے یہ شعر بارہ سال پہلے لکھا تھا۔ مجذوب نے کہا کہ مہاراجہ بھی اس پر غور کریں گے۔ کشن پرشاد نے گوہرجان والے خط کا جواب بھی نہیں دیا تھا، اب اقبال نے پھر یادہانی کروائی۔ اللہ اکبر کہنے لگے کہ مہاراجہ بہادر کو یہ بھی لکھ دو: جب تینوں ہووے علم اشیا ٔ ہر ہر چیز نوں کہیں خدا کاش کوئی جا کر حسن نظامی کو بتا آتا کہ اقبال کے قلم سے کیسی کیسی باتیں لکھوائی جا رہی تھیں! ۱۳۳ لاہور میں سہ پہر کے وقت آندھی چلی۔ انارکلی والے فلیٹ کی تیسری منزل پر سردار بیگم اور ملازمین صحن سے سامان اُٹھا اُٹھا کر اندر رکھنے لگے۔ چار پانچ سالہ وسیمہ بھی اپنی مَینا کا پنجرہ اندر لے گئیں۔ اتنے میں صحن کی دیوار کا کچھ حصہ گر پڑا۔ ڈر کے مارے وسیمہ کی چیخ نکل گئی اور اُنہوں نے روتے ہوئے کہا، ’’ہائے ہائے! میرے چچا جان اِینے پریے کتھوں لان گے؟‘‘ [میرے چچا جان اِتنے روپے کہاں سے لگائیں گے؟]۔ سردار بیگم ’’روپے‘‘ کو ’’پریے‘‘ سن کر محظوظ ہوئیں اور جب اقبال آئے تو وسیمہ کی نقل کر کے سنائی جس پر وہ جھینپ کر اندر کمرے میں جا چھپی۔ ’’آپ بچی کی بات کو مذاق میں نہ اُڑائیں بلکہ اس کے جذبے کی داد دیں کہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی اُسے دوسرے کی تکلیف کا کتنا احساس ہے،‘‘ اقبال نے کہا۔ پھر وسیمہ کر بلوا کر پیار سے سمجھایا کہ مکان کرائے کا ہے اِس لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ’’پریے‘‘ کا لفظ اُنہیں بھی دلچسپ لگا اور وسیمہ سے بات کرتے ہوئے وہ اِسے اکثر استعمال کرنے لگے جس پر وہ ہمیشہ جھینپ جاتیں۔۱۰۵ ۱۳۴ آفتاب نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کیا۔ اقبال کا مشورہ تھا کہ ملازمت کر لیں۔ وہ آگے پڑھنا چاہتے تھے۔ سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی چلے گئے۔ اقبال نے کالج کے لڑکوں سے اخراجات کا اندازہ کر کے ۳۵ روپیہ ماہوار خرچہ مقرر کر دیا۔ ۱۰۶ ۱۳۵ اقبال اپنے دوست فقیر سید نجم الدین کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ نجم الدین کے دوسرے لڑکے فقیر سید وحیدالدین کی عمر تیرہ چودہ برس کے قریب تھی۔ علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔ چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے۔ نجم الدین نے اقبال سے تعارف کروایا۔ وحیدالدین کا بیان ہے کہ اقبال نے اُن کے سر پر ہاتھ پھیر کر شفقت سے قریب بٹھا لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے مجھ سے کالج کے متعلق مختلف سوالات پوچھنا شروع کئے جن کا میں اَناپ شناپ دیتا رہا،‘‘ بعد میں اُنہوں نے لکھا۔ ’’اس لئے کہ خود میرے دل میں بہت سے سوالات پوچھنے کے لئے گدگدی ہو رہی تھی۔ ان دنوں لوگ انگلستان کے سفر کو عجب رشک اور استعجاب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوانوں کو تو دن رات انگلستان ہی کے خواب آیا کرتے۔ میری بھی بہت دنوں سے یہی کیفیت تھی۔۔۔ پے در پے کئی سوالات کر ڈالے وہ ہر ایک کا مسکرا کر جواب دیتے رہے۔ ضبط نہ ہو سکا تو میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’انگلستان پہنچ کر لوگ اپنے فرنگیانہ نام بنا لیتے ہیں۔ آپ کو بھی چاہئے تھا کہ اپنا نام A. K. Ball رکھ لیتے۔‘ ڈاکٹر صاحب نے بلاتامل جواب دیا۔ ’بھئی ہم نے تو نہیں کیا۔ لیکن تم ولایت جاؤ گے تو اِس نسخہ پر عمل کرنا۔ اور اپنا نام W. A. Heed رکھ لینا!‘ میں اس جواب سے کچھ لاجواب سا ہو گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد کسی بہانہ سے کھسک آیا۔‘‘۱۰۷ ۱۳۶ سردار بیگم کے بھائی عبدالغنی کی شادی ہوئی۔ اقبال کو جو کپڑے دیے گئے اُن میں سے ایک قمیص دکھاتے ہوئے سردار بیگم نے بتایا کہ یہ بوسکی ہے۔ اُس زمانے میں بوسکی کے کپڑے کا بہت چرچا تھا۔ حیران ہو کر کہا، ’’اچھا! تو یہ بوسکی ہے۔ لیکن اس میں کوئی خاص بات تو نظر نہیں آتی۔‘‘۱۰۸ ۱۳۷ ۱۹ جون کو جہلم کے سراج الاخبار میں مدیر مولوی فقیر محمد جہلمی نے اپنے مضمون ’ڈاکٹر محمد اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی پہلی قسط شائع کی۔۱۰۹ ۱۳۸ یہ سوال کئی ذہنوں میں پیدا ہوتا ہو گا کہ یورپ کے بعض دانشور اِسلامی تہذیب کا مطالعہ کرنے میں اپنی زندگیاں کیوں صرف کر دیتے ہیں؟ کیپٹن ٹی ای لارنس شائد اِس کا جواب دے سکتا۔ جنگ شروع ہونے پر وہ عربوں کے بارے میں بہت سی معلومات کے ساتھ عرب پہنچا اور خوب مقامی دوست بنائے تھے۔ آج اُس کی کوششوں کا پھل سب کے سامنے تھا۔ ۲۱ جون تھی۔مکہ کے عرب گورنر سید حسین نے عثمانی خلیفہ کے خلاف بغاوت کر کے بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ انوکھا واقعہ تھا۔ خلافت عباسیہ کے زمانے میں بھی مقامی بادشاہ خودمختار ہوئے تھے مگر خلیفہ کی تعظیم کرتے تھے۔ خودمختاری کی سند اُسی سے لیتے تھے خواہ شمشیر کے زور پر لیں۔ عربوں نے مسیحی طاقتوں سے سند لینا پسند کیا تھا۔ اقبال نے خبر سنی تو اُس ایرانی شاعر کا شعر ذہن میں گونجا جس نے پرندے کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ باغ کی تلاش میں صیّاد کے گھر جا پہنچے ہو: جویائے گلستانی و از طالعِ گمراہ ترسم کہ سر اَز خانۂ صیّاد برآری۱۱۰ ۱۳۹ آساں ہے اب تو ہندو و مسلم کا اتحاد کعبے کو پھر شریف نے بتخانہ کر دیا۱۱۱ ۱۴۰ کشن پرشاد کی خاموشی بے وجہ نہیں تھی۔آخر ۲۴ جون کو ان کا خط آیا تو کھلا کہ ان کے نزدیک اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ میں مغربی فلسفہ بھرا ہے اور کشن پرشاد کے سوالات پر برا بھی مناتے ہیں۔ ’’میں نے کوئی نئی بات نہیں کی،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھااور وہ باتیں دُہرا دیں جو اُن دنوں نہ جانے کتنی بار لکھ چکے تھے۔ تصوف کے مخالف نہیں، مگر وغیرہ وغیرہ۔’’آپ اپنے خیال پر قائم رہیں،‘‘ آخر میں لکھا۔ ’’میں نے چونکہ اِس خیال کو ہندوستان کی آئندہ نسلوں کے لیے مضر سمجھا ہے اس واسطے مجبوراً اِس سے اختلاف کیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی اگر دکن میں ہوں تو میری طرف سے سلام عرض کردیں۔‘‘ ۱۴۱ اُس برس اکبرؔ نے انہیں الٰہ آباد سے لنگڑا آم بھیجا۔ پارسل کی رسید اقبال نے اس طرح لکھی: اثر یہ ترے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا!۱۱۲ ۱۴۲ ۲۶ جون کو سراج الاخبار (جہلم) میں مولوی فقیر محمد جہلمی کے مضمون ’ڈاکٹر اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی دوسری قسط شائع ہوئی۔۱۱۳ ۱۴۳ علمِ ظاہر و باطن از ڈاکٹر شیخ محمد اقبال [اقتباس] احادیثِ صحیحہ میں کوئی ایسی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری جس سے یہ معلوم ہو کہ نبی کریمؐ نے علومِ رسالت میں سے کوئی خاص علم بعض صحابہ کو سکھایا اور بعض سے اُسے چُھپایا۔ بادی النظر میں بھی یہ بات خلافِ شانِ رسالتِ محمدیہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ آخری رسالت تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا حقیقت میں بعض جلیل القدر صحابہ کی توہین ہے۔ علاوہ اس کے ممکن نہیں کہ نصِ صحیح کے ہوتے ہوئے نبی کریمؐ نے علومِ رسالت میں سے بعض کو بعض سے چُھپایا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات و الھدی (۲: ۱۵۹) اِس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے کہ اگر علمِ باطن کا تعلق بیّنات اور ہدایت سے ہے تو معاذ اللہ، رسول اللہ صلعم اِس گروہِ صوفیہ کے عقیدے کے مطابق آیت مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہرحال چونکہ بارِ نبوت ان لوگوں پر ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ علم باطن علومِ رسالت میں سے ایک علم ہے جس کی تعلیم نبی کریمؐ نے صرف بعض صحابہ کو دی ہے اِس واسطے جو ثبوت اِن بزرگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اُس کا وزن کرنا ضروری ہے۔ چند سال ہوئے سیّد محمد فایق نظامی نیازی نے ایک رسالہ موسوم بہ تحقیق الحق فی الوجود المطلق لکھا تھا۔ اس رسالہ میں مسئلہ وحدت الوجود کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اُس کی تنقید تو ہم اور موقع پر کریں گے فی الحال ہم اُس روایت کا امتحان کرنا چاہتے جس کو انہوں نے عقیدۂ مذکور کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ نظامی صاحب وحدت الوجود کے دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کلمۂ توحید کے دو اجزا ہیں یعنی لا اِلہ الااللہ اور محمد رسول اللہ۔ پہلا جزو ظرف اور ماخذ ہے علمِ شریعت کا اور دُوسرا جزو ماخذ ہے علمِ تصوفِ وجودی کا، جس کو علمِ باطن بھی کہتے ہیں۔ اِس تشریح کے بعد صاحب موصوف حضرت ابوہریرہ کی مشہور روایت کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے:’’ عن ابی ھریرہ قال حفظُت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائین فا ما احد ھما۔۔۔الخ‘‘ (مشکٰوۃ بحوالہ بخاری) یعنی حضرت ابوہریرہ نے کہا کہ یاد رکھیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برتن یعنی دو طرح کے علم [لیے]، ایک علم کو تو میں نے پھیلایا اور دوسرا علم ہے کہ اگر میں اُسے پھیلاؤں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔‘‘ نظامی صاحب کی رائے میں دو برتنوں میں سے یا دو علموں سے ایک علم تو شریعت کا ہے جس کا ماخذ کلمۂ توحید کا جزوِ اول ہے اور دوسرا علم، علمِ تصوفِ وجودی یا علمِ باطن ہے جس کے ظاہر کرنے سے وہی انجام ہوتا ہے جو حسین بن منصور کا ہوا۔ اس روایت میں لفظ ’’ وعائین‘‘ سے دو مختلف اقسام کے مرتب و منظم علم مراد لینا محض زبردستی ہے۔ ’’وعا‘‘ کے معنی ابن اثیر نے نہایہ میں ظرف اور مجازاً محلِ علم کے لکھے ہیں۔ بس صاف اور سیدھے معنی اِس روایت کے یہ ہیں کہ دو قسم کی باتوں کی آگاہی حضرت ابوہریرہ کو نبی کریمؐ نے دی۔ ایک تو متفرق احکامِ دین جن کو انہوں نے رسول اللہ صلعم سے سُن کر عامہ مسلمین میں شائع کیا اور دوسری وہ باتیں جو اُنہوں نے خوف کے مارے شائع نہ کیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا باتیں تھیں جن کو ابوہریرہ نے خوفِ جان کی وجہ سے شائع نہیں کیا؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت ابوہریرہ کے دیگر اَقوال کو دیکھنا ضروری ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ’’اعوذ باللّٰہ من راس السنین و امارۃ الصبیان‘‘ یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں سن ۶۰ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت کے۔ حضرت ابوہریرہ جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں اَوروں کی نسبت زیادہ نبی کریم کی صحبت میں رہے۔ ان کو بعض وہ پیشگوئیاں بھی معلوم تھیں جو رسول اللہ صلعم نے مسلمانوں کی خانہ جنگیوں اور فتنوں کے متعلق کی تھیں جن کا ظہور عنقریب ہونے والا تھا۔ اور چونکہ ابوہریرہ کو ان جلیل القدر لوگوں سے جو بعد میں ان فتنوں میں نمایاں حصہ لینے والے تھے بصورت ان باتوں کا اعلان کر دینے کے جان کا اندیشہ تھا اِ س واسطے وہ کبھی صریحاً اِن باتوں کا ذکر نہ کرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی اشارۃً ذکر فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً ’’اعوذ باللّٰہ من راس السنین۔۔۔الخ‘‘ابن حجر عسقلانی فتح الباری (شرح بخاری) میں فرماتے ہیں (جلد۱-صفحہ۱۹۳): ومحل العلما الوعا الذی لم بینہ علی الاحادیث النبی فیھایتین اسامی امرا عالسو واحوالھم و زمنھم و قد کان ابوھریرہ یکتی عن بعضہ ولا بصرح بہ خوف علیہ نفسد منھم کفولہ اعوذ باللّٰہ من راس السنین و امارۃ الصبیان بشیر الی خلافۃ یزید بن معاویہ من الھجرۃ استعجاب اللّٰہ دعا ابی ھریرہ فمات قبلھا (ترجمہ) علمأ نے اُس وعا کا جس کو ابوہریرہ نے شائع نہیں کیا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں برے امرا ٔ کے نام، اُن کے احوال اور اُن کے زمانوں کے کوائف درج ہیں اور ابوہریرہ کنایۃً ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈر کے مارے ان کو مفصل نہ کہتے تھے۔ جیسے ان کا قول اعوذ باللّٰہ من راسہے اور اس میں اشارہ ہے یزید ابن معاویہ کی خلافت کی طرف کیونکہ یہ سن ۶۰ھ میں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ابوہریرہ کی دُعا قبول کر لی اور وہ خلافتِ یزید سے پہلے ہی رحلت کر گئے۔ وکیل (امرتسر)، ۲۸ جون ۱۹۱۶ء ۱۴۴ کوئی صوفی عبداللہ تھے جنہوںنے پہلے گالیوں کا طوفان اٹھایا۔ پھر’ مدہوشی بیخودی‘ کے عنوان سے ’اسرارِخودی‘ کے خلاف کتابچہ شائع کیا۔ الٰہ آباد سے ایک فصیح اللہ کاظمی نے اِس حوالے سے اقبال کو خط لکھا۔ ۱۱۴ ۱۴۵ ۳ جولائی کو فرانس میں صبح کے سات بجے تھے۔ دریائے سومے کے کنارے پندرہ میل تک خندقیں کھدی ہوئی تھیں۔ یہ جنگ ِعظیم کا سب سے بڑا محاذ تھا جہاں جرمن حملہ آوروں کے خلاف اٹھارہ ڈویژن فرانسیسی افواج کے ساتھ انگریز فوج کے چھبیس ڈویژن شامل ہو چکے تھے جو سب رضاکار تھے۔ سامنے کچھ دُور تک ’’نو مینز لینڈ‘‘ تھا یعنی خالی علاقہ تھا۔ اس کے دوسری طرف جرمن افواج خندقوں میں موجود تھی۔ انگریز افسر پہلے ہی ہلے میں جرمنوں کو کم سے کم کم چار ہزار گز پیچھے ہٹانا چاہتے تھے لہٰذا اتحادی سپاہیوں نے بہت بڑی تعداد میں دھاوا بولا۔ بھاری ساز و سامان کی وجہ سے قدم سست تھے مگر دل میں وطن پر قربان ہونے کی خواہش تھی جو بہت جلد پوری ہو گئی۔ دوپہر ہونے تک ہر طرف زخمی اور لاشے بکھرے ہوئے تھے۔ اتحادی رُک گئے اور جرمنوں نے بھی فائر روک دیا۔ اسٹریچر بردار بھیجے گئے جو میدان سے زخمیوں اور لاشوں کو ہٹا سکیں۔ شام چار بجے فائرنگ دوبارہ شروع ہوئی۔ یورپ کی تاریخ میں یہ بڑا اہم لمحہ تھا۔ اب دِلوں میں مایوسی بیٹھنے والی تھی۔ جرمن سیاستداں اور دانشور فریڈرک نائومن (Friedrich Naumann)نے حال ہی میں ایک مذہبی مکتوب(Brief über Religion) میںلکھا تھا، ’’ہمیں دنیا کا جو علم حاصل ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم ایک ایسے خدا کی ہستی کا اقرار کریں جو قادر اور توانا ہے اور موت و حیات کو یوں ساتھ ساتھ بھیجتا ہے جیسے سائے کے ساتھ روشنی۔ لیکن پھر ایک وحی اور ایک ایمان بھی ہے، جو ہماری نجات کا سرچشمہ ہے اور جس نے اسی قادر اور توانا خدا کو باپ کہا ہے۔ اب خدائے کائنات کا اتباع کیجیے تو بقا کی جنگ کا جواز ہے اور یسوع مسیح کے باپ کی خدمت کیجیے تو شفقت اور رحمت۔ حالانکہ خدا صرف ایک ہے، دو نہیں۔ لہٰذا دونوں کی ذات ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہے،مگر نجانے کہاں اور کس طرح‘‘۔ اُس روز سراج الاخبار (جہلم) میں مولوی فقیر محمد جہلمی کے مضمون ’ڈاکٹر اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی آخری قسط شائع ہوئی۔۱۱۵ ۱۴۶ ۴ جولائی سے رمضان شروع ہوا مگر لاہور میں ابھی بارش نہ ہوئی تھی۔ لوگ تڑپ رہے تھے۔۱۱۶ ۱۴۷ فلسفۂ عشق کے مصنف شیخ مشیر حسین قدوائی نے اُسی مضمون پر اِکتفا نہ کی جو زمیندار میں ۲۳ مارچ کو شائع ہوا تھا۔ ’خودی اور رہبانیت‘ کے عنوان سے یہ بھی بتایا، ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ راہبوں کا ادب ملحوظ رکھا اور ان کی خاص تعظیم فرمائی۔۔۔‘‘ اس کا جواب امرتسر کے مولوی سراج الدین احمد پال ایم اے نے، جو لاہور ہائی کورٹ میں وکیل تھے، وکیل (امرتسر) کی اشاعت میں ’خودی اور رہبانیت‘ ہی کے عنوان سے دیا۔۱۱۷ ۱۴۸ اقبال نے تین روزے رکھے تھے کہ دردِ گردہ کے دورے کی ابتدا محسو س ہوئی۔ ذہن ایک صحابی حضرت عمران بن حصین کی روایت کی طرف گیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’میری امت میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے۔ پھر اُن کا جو اُن کے بعد متصل ہوں گے۔۔۔‘‘ حضرت عمران کہتے تھے کہ ٹھیک سے یاد نہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنے بعد دو پشتوں کا ذکر کیا یا تین پشتوں کا مگر بہرحال اُس کے بعد آپؐ نے فرمایا، ’’تمہارے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر طلب کے گواہی دیں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور امین نہ بنائے جائیں گے۔ وہ نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہ کریں گے اور یہ لوگ سمن ہوں گے۔‘‘ عام طور پر حدیث کی تشریح کرنے والے ’’سمن‘‘ سے تن پروری مراد لیتے تھے لہٰذا بعض ترجمہ کرنے والے اس لفظ کی جگہ ’’موٹا‘‘ لکھ دیتے تھے۔ اقبال سمجھتے تھے کہ عربی لغت میں کوئی سند موجود نہیں کہ یہ لفظ اس مطلب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ عربی میں سمن سے مراد بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔ راہبوں کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا۔ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے کہ آنحضورؐ نے مسلمانوں میں رہبانیت کے فروغ کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ وجودی تصوف کی صورت میں پوری ہوئی۔۱۱۸ ۱۴۹ تاریخِ تصوف کا خاکہ کچھ یوں بنا: ۱ تصوف پر ایک تاریخی تبصرہ ۲ تصوف پر ایک نگاہ علم النفس [نفسیات] اور علم الحیات [بیالوجی] کے اعتبار سے ۳ تصوف اور اسلام ۴ تصوف اور ادبیاتِ اسلامیہ ۵ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تصوف کے متعلق ۶ آیۂ قرآنی اور وحدت الوجود۱۱۹ گویا پہلے وہ تاریخی حقائق جنہیں چند ماہ قبل لکھنا شروع کیا تھا اور آخر میں قرآن و حدیث کی روشنی میں نئے نکات پیش کیے جانے تھے۔ پھر کچھ سوچ کر یہ ترتیب اُلٹ دی اور منصور حلاج پر علیحدہ باب بنانا بھی زیادہ مناسب معلوم ہوا: ۱ مسئلہ وحدت الوجود اور آیاتِ قرآنی و احادیثِ نبوی ۲ رسول اللہ صلعم کی پیش گوئی تصوف کے متعلق (السمن قاضی عیاض) مجمع البحرین داراشکوہ ۳ تصوف اور ادبیاتِ اسلامیہ ۴ تصوف پر ایک نگاہ علم النفس اور علم الحیات کے اعتبار سے ۵ منصور حلاج ۶ افلاطونیتِ جدید اور یونانی صوفیا ۷ تصوف پر ایک عام تاریخی تبصرہ ۸ مسلمانوں میں صوفی نصب العین پیدا ہونے کے اسباب ۹ تصوف اور شعائرِ اسلامیہ ۱۰ اسلام اور دنیا۱۲۰ ۱۵۰ سمن والی حدیث کے حوالے سے مضمون لکھنا شروع کیا۔ خیال تھا کہ بالکل نرالا ہو گا۔گردے کی تکلیف برقرار تھی۔ ۷ جولائی سے روزے چھوڑنے پڑے۔۱۲۱ نیازالدین خاں کا ایک اور خط آیا۔ سراج الدین پال کے مضامین کی تعریف کی تھی۔ ۸ جولائی کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے اپنے زیرِ تصنیف مضمون کے بارے میں بتایا، ’’آپ دیکھیں گے تو داد دیں گے۔‘‘ ۱۵۱ سمن والی حدیث پر مضمون کا پہلا حصہ ’تصوفِ وجودیہ‘ کے عنوان سے وکیل (امرتسر) میں شائع ہوا۔۱۲۲ ۱۵۲ سراج الدین پال کا خط آیا۔ ’’آپ کے مضامین نہایت اچھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقائقِ اسلامیہ کی سمجھ عطا کی ہے،‘‘ اقبال نے ۱۰ جولائی کو جواب دیتے ہوئے لکھا اور حافظؔ پر طویل مضمون لکھنے کی دعوت دی جس میں اس نکتے کو پیش کیا جائے کہ کسی مذہب یا قوم کے قانون میں باطنی معنی تلاش کرنا حقیقت میں اُس قانون کومسخ کر دینا ہوتا ہے۔مسلمانوں میں ایرانی اثرات کی وجہ سے ایسے ادب کی بنیاد پڑگئی کہ اچھی چیزوں کو برا اور بری چیزوں کواچھا سمجھنے لگے۔ ’’اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکیم سنائیؒ افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔‘‘ اُسی روز الٰہ آباد کے فصیح اللہ کاظمی کو جواب لکھا اورایک دفعہ پھر اپنے اِس خیال کو دہرانے پر مجبور ہوئے کہ وجودی تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’صوفی عبداللہ صاحب اس خیال کے اظہار سے قال سے حال میں آگئے مگر یہ ایک خاص علمی اور تاریخی بحث ہے جس میں تاریخ اور آثار سے مدد لینی چاہئے، گالیوں سے کام نہ چلے گا۔‘‘ ۱۵۳ میاں ملک محمد قادری، جہلم میں ٹھیکیدار تھے۔ کشمیری تھے۔ مثنوی لکھی جس میں اقبال کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر دردِ دل رکھتے ہو تو علاج تلاش مت کرو اور دل کے داغ ہی کو سب کچھ سمجھو، پراگندہ خیالات سے بچو اور شیطان کے فریب سے پناہ مانگو۔ محمد الدین فوق کو بھیجی کہ طریقت میں ضرور شائع کی جائے۔ فوق کا بیان ہے، ’’[اقبال نے] فرمایا، نظم ضرور چھاپو اور اگر مناسب سمجھو تو مجھے بھی دکھا لو۔ لیکن آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی اصلاح، خدا کی قسم! ایک تو ثواب کا کام ہے اور اگر اِس اثنا میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو یہ جہادِ اکبر کا کام دے گا۔‘‘۱۲۳ ڈاکٹر اقبال اور اُن کی نظم اسرارِ خودی متعلقہ حافظ شیراز کا جواب از میاں ملک محمد صاحب قادری ٹھیکیدار جہلم [اقتباس] دردِ دل داری اگر درماں مجو جز داغِ دل دگر ساماں مجو از خیالاتِ پریشاں درگزر الحذر از مکرِ شیطاں الحذر طریقت (لاہور)۱۲۴ ۱۵۴ فصیح اللہ کاظمی نے رسالہ پیامِ امید بھجوایا۔ شاید خود بھی کچھ لکھنا چاہتے تھے اور’ اسرارِ خودی‘ کی کاپی منگوائی تھی۔ رسالہ پہلے بھی اقبال کی نظر سے گزر چکا تھا اس لیے۱۴ جولائی کو واپس کرتے ہوئے بتایا کہ ’اسرارِ خودی‘ کی کوئی کاپی اب موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر دوستوں میں تقسیم ہوئی تھیں۔ ’’میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’شاعری میرے لیے ذریعۂ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔ آخر میں انسان ہوں اور مجھ سے غلطی ممکن کیا یقینی ہے، نہ ہمہ دانی کا دعویٰ ہے نہ زبان دانی کا۔‘‘ حافظؔ پر مضمون کے لیے کچھ اور چیزیں ذہن میں آئیں۔ پرسوں والے خط میں سراج الدین پال کو لکھنا بھول گئے تھے کہ مرزا محمد دارابی کی کتاب بھی دیکھی جائے۔ دس گیارہ برس پہلے طہران سے شائع ہوئی تھی۔ حافظؔ پر کیے گئے مختلف اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔ ’’میں نے اس کا ایک مطبوعہ نسخہ انگلستان میں دیکھا تھا،‘‘ اقبال نے اس روز سراج الدین پال کو ایک اور خط لکھ کر بتایا۔ ’’اُس وقت یہ معلوم نہ تھا کبھی اس کی ضرورت پیش آئے گی ورنہ نوٹ کر لیتا۔بہرحال میرا خیال ہے کہ بمبئی کے ایرانی کتب فروشوں سے مل جائے گی۔‘‘ کلارک نے حافظؔ کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا تھا کہ حافظ کے چچا نے ان سے کہا تھا کہ تمہارا کلام پڑھنے والوں پر دیوانگی اور لعنت نازل ہو گی اور قسطنطنیہ کے کچھ شیعوں کا اب تک عقیدہ ہے کہ حافظ کو پڑھنے والے آخر میں پاگل ہو جاتے ہیں۔’’تاریخی اعتبار سے اس کے کلام پر نظر ڈالنی ہو تو مولوی شبلیؔ کی شعرالعجم ملاحظہ کیجئے، غالباً اُس سے آپ واقف ہوںگے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’دیوانِ حافظؔ سے فال نکالنے کے دستور کے متعلق بھی عمدہ آگاہی کلارک کے دیباچے میں ملے گی۔‘‘اقبال کے خیال میں وہ حافظ اور تیمور کی ملاقات کا قصہ جو آتش کدہ کے مصنف نے بیان کیا تھا درست نہیں تھا کیونکہ حافظؔ تیمور کے سمرقند فتح کرنے سے چار سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اقبال نے خود بھی مرزادارابی کی کتاب کی تلاش شروع کر دی۔۱۲۵ ۱۵۵ ایک مشکل یہ تھی کہ حافظ کی صحیح غزلوں کا پتہ نہیں چلتا تھا کیونکہ دیوانِ حافظؔ کے بعض پرانے نسخوں میں ایسی غزلیں موجود تھیں جو خواجوکرمانی کے دیوان میں بھی پائی جاتی تھیں جو حافظؔ سے پہلے گزرے تھے اور خود حافظؔ نے اُن کی پیروی کا اعتراف کیا تھا۔۱۲۶ ۱۵۶ ۱۸ جولائی کو اقبال غالباً ہندوستان کے کسی صوفی مفسر کی کتاب دیکھ رہے تھے۔خلق الارض و السمٰوات فی ستہ ایام یعنی خدا نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ستہ ایام سے تنزلاتِ ستہ مراد ہیں۔ یہ سوچ کر طبیعت پر بہت بوجھ پڑا کہ عربی محاورے میں تو ایام تنزلات کے معانی میں آ ہی نہیں سکتا، افسوس کہ اس ملک سے عربی کا علم اٹھ گیا ہے۔ ۱۲۷ ۱۵۷ سراج الدین پال کا خط آیا تو معلوم ہوا کہ انہوںنے کلارک کے ترجمے کے لیے کتب فروش تھیکرے کو لکھا ہے۔ انہی دنوں روزوں کے بارے میں سراج الدین پال کا کوئی مضمون شائع ہوا جسے پڑھ کر اقبال کو بہت خوشی ہوئی۔ ’’آپ کے مضمون کا آخری فقرہ میں نے سب سے پہلے پڑھا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا آپ کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ بابِ افعال کا ایک خاصہ سلبِ ماخذ ہے،‘‘ ۱۹ جولائی کو اقبال نے خط میں لکھا۔ ’’یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی کہ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔‘‘کلارک کے ترجمے کے بارے میں اقبال نے مشورہ دیا کہ آرڈر منسوخ کر دیں کیونکہ بڑی کتاب ہے لہٰذا خاصی مہنگی ہو گی۔ اورینٹل کالج کی لائبریری میں دوسری مفید کتابوں کے ساتھ یہ بھی موجود تھی۔ کچھ جرمن کتابوں کے حوالے بھی دئے کہ اگر سراج الدین مضمون لکھنا چاہیں تو اقبال ان میں سے ایک کتاب کے مفید حصے کا ترجمہ کر دیں گے۔ مولانا اسلم جیراجپوری کی کتاب حیاتِ حافظؔ کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ اور کچھ نہیں تو ماخذ ہی معلوم ہو جائیں گے۔ ’’سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حافظؔ کی معاصرانہ تاریخ غور سے دیکھئے،‘‘ انہوں نے سراج الدین کو لکھا۔ ’’مسلمانوں کی ذہنی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے؟ مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا تھی؟ پھر اِن سب باتوں کی روشنی میں حافظؔ کے کلام کا مطالعہ کیجئے۔‘‘ وجودی تصوف کا پہلا شاعر عراقی تھا ’’جس نے لمعات میں فصوص الحکم محی الدین ابن عربی کی تعلیموں کو نظم کیا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’فصوص میں جہاں تک مجھے معلوم ہے سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پر میں انشأ اللہ مفصل لکھوں گا۔ ‘‘ اگر حافظؔ کو صوفی مانا جائے تو وہ اقبال کے نزدیک وجودی تصوف کے آخری شاعر تھے۔ ’’یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نکتۂ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا موجبِ تسکین۔ اِس ترکِ دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جو اُن کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھئے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا!‘‘ ۱۵۸ ۲۴ جولائی کو جہلم کے ٹھیکیدار ملک محمدکا منظوم جواب جو پہلے طریقت میں شائع ہوا تھا، سراج الاخبار میں بھی شائع ہو گیا۔۱۲۸ ۱۵۹ عبدالماجد دریابادی نے اپنی کتاب سائیکالوجی آف لیڈرشپ محمد علی کو چھندواڑہ بھجوائی تھی جسے پڑھ کر وہ سخت بیچین ہوئے۔ ۲۵ جولائی کو انگریزی میں عبارت، مغز، اجتماع، قیادت، نظائر اور پیغمبر خدا کے عنوانات ڈال کر طویل خط کے ذریعے نوجوان مصنف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ علمی موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ ایک عام قاری اُسے سمجھ سکے۔ ’’اجتماع کا مفہوم آپ کے ذہن میں بس ان بڑے بڑے جلسوں اور مظاہروں کے مترادف معلوم ہوتا ہے جو ہندوستان میں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں نہ کہ ان ’مجلسوں‘ اور ’کانفرنس‘ کا جہاں و امرھم شوریٰ بینہم کے ارشاد ربانی کی تعمیل ہوتی رہتی ہے اور جہاں آزادانہ بحث و مباحثہ نظر و فکر کے بعد ’اجتماع‘ کے فیصلے اکثر افراد کے فیصلوں سے زیادہ معقول اور اجتماع کا عمل بھی افراد کے عمل سے زیادہ منظم ہو جاتا ہے۔ آپ کے فحوائے تحریر سے ظاہر ہے کہ ’اجتماع‘ (بھِیڑ) کی حقارت آپ کے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے (خود یہ لفظ ہی تحقیرآمیز ہے۔ عربی لفظ ’جمعیۃ‘ اس سے کہیں بہتر ہے)۔ کیا میرا یہ خیال صحیح ہے کہ آپ ’اجتماع‘ کی تحقیر کر رہے ہیں یا یہ ہے کہ کہ آپ اپنے خیالات پوری طرح واضح نہیں کر سکے؟ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ مجھے اس طرف (بلکہ یوں کہیے کہ آج سے ۱۵ مہینہ قبل، نظربندی کے وقت تک) جمہور سے خوب خوب سابقے رہے اور ممکن ہے کہ آپ مجھے بھی ان عوام پسند زعیموں میں شمار کر رہے ہوں جو زبان سے تو عامۃ الناس کی بڑی تعریف کرتے رہتے ہیں مگر دل ہی دل میں ان عوام کو کالانعام اور چوپایہ سمجھتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً میں جہاں تک اپنے جذبات اور خیالات کا اندازہ لگا سکا ہوں، میرے خیال میں نسبتاً سب سے بہتر بلکہ اکثر تو بہترین فیصلے جماعات ہی کے کیے ہوئے ہیں نہ کہ افراد کے۔ گو سرعتِ عمل کے لیے افراد ہی کی قیادت کی ضرورت ہے۔‘‘۱۲۹ ۱۶۰ عدالتیں بند ہونے والی تھیں۔ اقبال کاارادہ شملہ جاکر نواب ذوالفقار علی خاںکے پاس ٹھہرنے کا تھا مگر شیخ عطا محمد نے وعدہ لے لیا کہ اگست سیالکوٹ میں گزاریں۔۱۳۰ ۱۶۱ کوئی سعیداللہ تھے۔ آٹوگراف بک میں اقبال سے کچھ لکھنے کی فرمایش کی تو اقبال نے لکھا: دل ہے یک بین و یک اندیش تو پروا کیا ہے بے خطر دیدۂ بیتاب کو ہرجائی کر۱۳۱ ۱۶۲ ۳۱ جولائی کے قریب عید آئی۔ اقبال ابھی تک ’’پریے‘‘ والے واقعے کو بھولے نہیں تھے۔ وسیمہ سے کہا، ’’سیما! تمہیں کتنے پریے عیدی دی جائے؟‘‘۱۳۲ ۱۶۳ کوئی محمد مبین عباسی کیفیؔ چریاکوٹی تھے جنہوں نے العلم کے نام سے ایک رسالہ شائع کر کے اقبال کو بھجوایا تھا۔ ۱۲ اگست کو اقبال نے شکریے کے خط میں ایک مضمون ’الحیوانات فی القرآن‘ کی تعریف کی۔ ’’اِسی مضمون پر ایک مغربی مستشرق نے بھی لکھا ہے جس کا عنوان ہے، ’حیوانات کے نام سامی زبانوں میں۔‘مجھے یقین ہے کہ آپ کا رسالہ کامیاب ہو گا اور مسلمانوں کے لیے باعثِ برکت۔‘‘ ۱۳۳ اس خط پر مقام لاہور درج تھا۔ اگر یہ غلطی سے نہیں لکھا گیا تھا تو پھر اقبال ۱۲ اگست کے بعد ہی اہلِ خانہ کے ساتھ سیالکوٹ روانہ ہوئے ہوں گے۔ ۱۳۴ ۱۶۴ سیالکوٹ میں خواتین کی وہ محفلیں اب دوبارہ بحال ہو چکی ہوں گی جو کبھی امام بی بی کی صدارت میں ہوا کرتی تھیں۔ اقبال منزل کے تختوں والے کمرے میں گاؤتکیے سے ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ حقے کے کش لیتے ہوئے اقبال بھابی جی اور بہنوں سے خاندان اور محلے بھر کے قصے کہانیاں اور افواہیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سنتے اور سوالات بھی پوچھتے رہتے۔ بہنیں کریم بی بی اور زینب بی بی کسی مسئلے پر اُلجھ پڑتیں تو مسکراتے ہوئے اُن کی نوک جھونک سنتے رہتے۔ایک دفعہ پنجابی میں منظوم پہیلی بجھوائی جو کسی سے بوجھی نہ گئی کہ اس نوجوان کے کام عجیب ہیں، عورتوں کے گرد رہتا ہے، پگڑی نہیں ٹوپی پہنتا ہے اور پاؤں کے بغیر چلا جاتا ہے : ایس گبھرو دے کم کولّے رہندا رنّاں دے دولّے پگ نہ پہندا ٹوپی پاندا بِن پیراں تھیں ٹردا جاندا مراد سیدھا برقع تھا۔۱۳۵ ۱۶۵ سیالکوٹ میں اقبال اپنے والد کے ساتھ بیٹھے۔ ’اَسرارِ خودی‘ پر صوفیا کے حلقوں کی برہمی کا ذکر آیا۔اعجاز احمد کا بیان ہے، ’’چچا جان [اقبال] نے فرمایا۔ انہوں نے نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا، صرف عجمی تصوّف کی مخالفت کی ہے جو طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ افسوس ہے مسلمانوں پر عجمی اثرات اِس قدر غالب آ چکے ہیں کہ وہ زہر کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔ میاں جی نے۔۔ فرمایا اگر حافظ کے عقیدتمندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اصول کی تشریح کر دی جاتی تو اچھا تھا۔ اِس کے جواب میں چچا جان نے کہا یہ ’حافظ پرستی‘ بھی تو بت پرستی سے کم نہیں۔ میاں جی نے کہا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے بتوں کو بھی برا کہنے سے منع فرمایا ہے اس لیے مثنوی کے ان اشعار کو جن پر عقیدتمندانِ حافظ کو اعتراض ہے آیندہ ایڈیشن سے حذف کر دینا مناسب ہو گا۔ اس پر چچا جان نے جواباً کچھ نہ کہا۔ صرف مسکرا کر رہ گئے۔‘‘۱۳۶ دل چاہا کہ کچھ دن کہیں تنہائی میں جا بیٹھیں۔ ’’میں چاہتا تھا کہ کسی جگہ جہاں لوگ میرے جاننے والے نہ ہوں چلا جاؤں اور تھوڑے دنوں کے لیے آرام کروں،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’پہاڑ جانے کے لیے سامان موجود تھا مگر صرف اسی قدر کہ تنہا جا سکوں۔ تنہا جا کر ایک پرفضا مقام میں آرام کرنا اور اہل و عیال کو گرمی میں چھوڑ جانا بعید از مروّت معلوم ہوا اِس واسطے ایک گاؤں چلا گیا جہاں ویسی ہی گرمی تھی جیسی لاہور میں مگر آدمیوں کی آمدورفت زیادہ نہ تھی۔‘‘۱۳۷ تنہائی میسر آئی۔ مخالفین کی طرف سے طبیعت ہٹی۔ ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے حصے کی آمد شروع ہوئی۔ ایک نظم ’اقلیمِ خموشاں‘ کا خیال بھی ذہن میں آیا جس میں بتا سکیں کہ مردہ قومیں کس قسم کا ادب اور فن تخلیق کرتی ہیں۔ اسے اُردو میں لکھنے کا ارادہ تھا۔۱۳۸ ۱۶۶ اَشعار از اکبر الٰہ آبادی اے خواجہ حسن کرو نہ اقبال کو رَد قومی رکنوں کے نگہباں ہیں وہ بھی تم محو ہو حسن کی تجلی میں اگر ہیں دشمنِ فتنۂ رقیباں وہ بھی پریوں کے لیے جنوں ہے تم کو اگر دیووں کے لیے بنے سلیماں وہ بھی اکبرؔ نے یہ اشعار لکھ کر ۹ اگست کو حسن نظامی کو بھیجے تھے۔ اثر ہونے میں کچھ دن لگے بھی ہوں تو خواجہ حسن نظامی نے اکبرؔ کے ارشاد کے مطابق اقبال سے صلح کرنے کا اَرادہ تقریباً انہی دنوں کیا جب اقبال نے گاؤں کی تنہائی میں یہی فیصلہ کیا تھا۔۱۳۹ ۱۶۷ بچے کو فاصلوں کا احساس نہیں ہوتا۔ چاند کو گرفت میں لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔ ماں کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا۔ ہر چیز کو تجسس کے ساتھ دیکھتا ہے۔ حواس دنیا کا علم حاصل کرتے ہیں۔ تب ذہن واپس اپنی طرف پلٹتا ہے۔ ایک دن بچہ اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہہ کر پہچاننے لگتا ہے۔ ایک نئی قوم بھی بچے کی مانند ہوتی ہے۔ اے اپنے آپ سے بیخبر! تاریخ کیا ہے؟ کوئی داستان، قصہ یا افسانہ ہے؟ اس کے ذریعے تم اپنے آپ سے واقف ہوتے ہو۔ یہ تمہیں تجربہ کار اور سمجھدار بناتی ہے! یہ روح کے لیے حرارت ہے۔یہ ملت کے جسم کے لیے اعصاب کی طرح ہے۔ چیست تاریخ اے زخود بیگانۂ داستانے قصۂ افسانۂ؟ ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مردِ راہ کند روح را سرمایۂ تاب است ایں جسمِ ملّت را چو اعصاب است ایں ’حفظِ روایات و سرگزشتِ ملیہ‘ ایک باب ہو گیا۔۱۴۰ ۱۶۸ معاشرے پر جو عوامل اثرانداز ہوتے تھے، اُن سب کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ایک نبی ہی ان سب کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ بارہ برس پہلے اپنے مضمون ’قومی زندگی‘ میں یہی بات لکھی تھی۔ اب وسعت اختیار کر کے ایک باب بن گئی، ’’اِس بارے میں کہ ملّت افراد کے میل جول سے جنم لیتی ہے۔‘‘ ملّت کی ابتدائی شکل قبیلہ تھا۔ پھر کوئی نبی آتا اور مشاہدۂ حق کی بنیاد پر معاشرے کی تراش خراش کرتا۔ تب قبیلہ قوم بن جاتا جسے عربی میں ملت کہتے تھے۔ توحید کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس کے بغیر کوئی معاشرہ قبیلے کی سطح سے بلند ہو کر ملت یا قوم کی سطح تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ۱۶۹ مرزا سلطان احمد، جن سے گزشتہ ستمبر میں اقبال نے ’اَسرارِ خودی‘ پر تبصرہ لکھنے کی درخواست کی تھی، سمجھتے تھے کہ مغربی اقوام بالخصوص انگریز ’’حسِّ واقعہ‘‘ کا ذوق مشرقی اقوام سے زیادہ رکھتے ہیں۔ ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے میں اقبال نے بھی یہی لکھا تھا۔ کیا جنگِ عظیم سے پیدا ہونے والی مایوسی انگریزوں کے مزاج کو بدل سکتی تھی؟ ممکن ہے کہ اقبال ابھی سے غور کرنے لگے ہوں۔ تبصرہ بر ’اَسرارِ خودی‘ مرزا سلطان احمد [اقتباس] ۔۔۔حضرت اقبال نے فلسفۂ خودی کا جس جامعیت سے ثبوت دیا ہے الحق وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ ایک ایک شعر دفترِ زندگی کی شرح اور مایۂ حیات کی تبلیغ اور مخزن ہے۔۔۔ زندگی خود آرزو یا مجموعۂ آرزو ہے۔ یہ آرزو کیا ہے؟ وہی خودی، خودنمائی اور خودشخصی جو حضرت اقبال کا وعظ ہے۔ جس شخص اور جس قوم کا کوئی مدعا اور کوئی تمنا نہ رہی، جس کی آتشِ آرزو بجھ گئی، جس کی شمعِ مدعا مدھم پڑ گئی وہ شخص اور وہ قوم ہی مردہ ہو گئی۔ جو زندہ قوم ہے۔ جو زندہ شخصیت ہے وہ [ضرور کوئی اعلیٰ] تمنا رکھتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں نیک اور امن پسند آرزوئیں متموج ہوتی ہیں۔ کسبِ فضائل، شانِ امتیازات کب حاصل ہوتی ہے؟ جب ہجومِ آرزو ہو۔ امتیاز کیا ہے؟ اپنی ذات۔ اور ذات کا تعین کیا ہے؟ احساس اور اِدراک۔ احساس اور اِدراک کیا ہے؟ خودی یا خوداری۔ حقیقی رنگ میں خودی سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ میں ہوں۔ دنیا میں میری بھی کوئی شخصیت ہے۔ اور یہ میرا فرض ہے کہ میں ایسا سمجھوں کیونکہ یہ خیال میرے دل میں ڈالا ہی نہیں گیا بلکہ میرا ایک حصہ اور جزوِ اعظم ہے۔ جب میں یہ سمجھتا ہوں اور اِس سمجھنے میں غلطی پر نہیں ہوں تو دوسرے الفاظ میں اِس کا یہ مطلب ہو گا کہ ’’میں اپنے اردگرد نظر کروں‘‘؛ ’’مشاہدہ اور تجربہ سے کام لوں‘‘؛ ’’نشیب و فراز سوچوں‘‘؛ ’’واقعات کا مطالعہ اُس حس کے ساتھ کروں جو مجھ میں رکھی گئی ہے‘‘؛ ’’اپنی شخصیت کو قائم رکھوں‘‘۔ ۔۔۔حضرت اقبال نے بعض اَشعار میں حضرت حافظ علیہ الرحمہ اور بعض خدام صوفیہ کی نسبت دردبھرے دل سے جو کچھ کہا ہے اُس کا منشا سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگ ضروریاتِ مسلّمہ کی طرف پرامن اور نیک طریقوں سے متوجہ ہوں۔ غور کرنے پر معلوم ہو جاوے گا کہ حضرت اقبال کا خطاب خدانخواستہ کسی نکتہ چینی [اور] معاندانہ جہت سے نہیں ہے، بلکہ محض خلوص اور ہمدردی کی راہ سے ہے۔ میری رائے میں حافظ علیہ الرحمہ بھی اُس خودی اور خودداری کے مخالف نہیں ہیں جس کا وعظ حضرت اقبال کر رہے ہیں۔ ۱۷۰ مولوی احمد دین کشمیر جانے والے تھے۔ ۲۹ اگست کے بعد اقبال لاہور آگئے کہ ان کے ساتھ کشمیر جا سکیں۔ احمد دین جا چکے تھے۔ ۱۴۱ ۱۷۱ منارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے اقبال کے ابتدائی دور کی غزل کے اس شعر کے بارے میں ضیأالدین برنی سے کسی نے کہا کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کے جواب میں کہا گیا تھا۔ اُنہوں نے خط لکھ کر اقبال سے دریافت کیا اور عبدالماجد دریابادی کی فلسفۂ اجتماع کا ایک جملہ بھیج کر تشریح بھی کروانا چاہی۔ محمد علی ’’جوہر‘‘ؔکے کچھ اشعار بھی اقبال کو بھیجے۔ ’’اِس غزل کو اُس قصے سے کوئی تعلق نہیں جو آپ نے سنا ہے،‘‘ اقبال نے ۳۱ اگست کو لکھا۔ ’’پیغامِ بیعت کے جواب میں جو نظم میں نے لکھی تھی وہ اور ہے۔ مدت ہوئی مخزن میں شائع ہوئی تھی۔‘‘ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کے واپس آنے کے بارے میں جو احادیث مشہور تھیں وہ ابنِ خلدون کی رائے میں تمام کمزور تھیں۔ ’’میں بھی اُن کا ہمنوا ہوں مگر اِس بات کا قائل ہوں کہ مسلمانوں میں کسی بڑی شخصیت کا ظہور ہوگا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’احادیث کی بنا پر نہیں بلکہ اور بنا پر میرا عقیدہ یہی ہے۔‘‘۱۴۲ ۱۷۲ امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے نکولس اغنائیدیز (Nicholas Aghnides) نے اسلام کے اقتصادی نظریات پر مقالہ لکھا تھا۔ اِس برس شائع ہوا: Mohammedan Theories of Finance ۔ لکھا کہ حنفیوں اور معتزلہ کے نزدیک اجماع سے قرآن مجید کے احکام بھی منسوخ ہو سکتے ہیں۔ کوئی سند پیش نہ کی۔ ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔غالباً لفظ ’’نسخ‘‘ سے غلط فہمی ہوئی تھی جسے فقہا نے استعمال تو کیا مگر امام شافعی نے موافقات میں وضاحت کر دی تھی کہ اجماعِ صحابہ کے سلسلے میں اس سے قرآن شریف کے کسی حکم کی توسیع کرنا یا اُسے محدود کرنا مراد ہے نہ کہ اُسے نظرانداز یا منسوخ کرنا۔ بعد میں آنے والے شافعی فقیہ آمدی نے مزید صراحت کی کہ صحابہؓ کے پاس ضرور کوئی حکم ہو گا جس کی بنا پر اُنہیں اس توسیع یا تحدید کا حق پہنچتا تھا۔ احادیث کی صحت اور عدم صحت متعین کرنے کے جو طریقے مسلمانوں میں رائج رہے تھے اُن کا جائزہ لے کر اغنائیدیز نے جو رائے قائم کی وہ یہ تھی: It must be said in conclusion that the preceding considerations represent only theoretical possibilities and that the question whether and how far these possibilities have become actualities is largely a matter of how far the actual circumstances offered inducements for making use of the possibilities. Doubtless, the latter, relatively speaking, were few and affected only a small proportion of the entire sunnah. It may therefore be said that . . . for the most part the collections of sunnah considered by the Moslems as canonical are genuine records of the rise and early growth of Islam.۱۴۳ ۱۷۳ بیاض کے بقیہ صفحے خالی رہنے دیے۔ انگریزی کی طرف سے شروع کرتے ہوئے چار صفحے خالی رکھ کرمضامین کی فہرست بنائی۔ اطمینان نہ ہوا۔ کاٹا اور دوبارہ فہرست بنائی۔اس میں بھی کانٹ چھانٹ کرنی پڑی۔ پھر اسے ترک کر کے تیسری فہرست بنائی: تمہید ربطِ فرد و ملت ۱ در معنی اینکہ ملت از اختلاطِ افراد پیدا می شود ۲ در معنی اینکہ حیات ملیہ اتحادِ تامہ است درمیانِ فرد و ملت ۳ ارکانِ اساسی ملیۂ اسلامیہ i توحید- کیفیتِ قلب است و ضامنِ اتحاد ۔ انجامِ حقیقی مبنی است بر کیفیتِ قلوب (ا) در معنی اینکہ خوف ام الخبائث است و قاطعِ حیات و توحید ازالۂ خوف می کند (ب) در معنی اینکہ توحید مساواتِ تمدنی را پیدا کند و مساوات جانِ تمدن است (ج) در معنی اینکہ توحید اصلِ حریت است۔ سِرِّ واقعۂ کربلا (مقابلۂ استبداد) (د) در معنی اینکہ توحید ضامن اعتبارِ باہمی است کہ اتحادِ ملیہ را می افزاید (عالمگیر و ملّائے مکتب) ii رسالت و سِرِّ ختمِ رسالت ۴ در معنیٔ اینکہ چوں ملتِ محمدیہ مبنی بر توحید و رسالت است پس نہایتِ مکانی ندارد ۵ در معنیٔ اینکہ زمانی ملتِ محمدیہ موعود است ۶ اسبابِ دوامِ حیاتِ ملیۂ اسلامیہ i اتباعِ شریعتِ محمدیہ ii اخلاقِ محمدیہ iii حفظِ روایاتِ ملیہ iv تسخیرِ قوائے نظام عالم v نصب العین ملیہ ۷ عرضِ حال بحضور رحمت اللعالمین۱۴۴ ۱۷۴ مسلمان قوم کے وجود کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ دنیا میں توحید کی ترویج کا ذریعہ بنے۔ توحید کا عملی پہلو اخوت، مساوات اور آزادی ہے چنانچہ یہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مقصد تھا۔ تب سے دنیا میں یہ تصورات بتدریج فروغ پاتے رہے ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کے لیے تاریخ سے واقفیت ضروری ہے کیونکہ تاریخ اجتماعی حافظے کی طرح ہوتی ہے۔ فرد کی خودی بنیادی طور پر حافظے کی مدد سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ اپنی تاریخ کو محفوظ کر کے قوم اجتماعی خودی حاصل کر سکتی ہے۔ اجتماعی زندگی کی معراج یہی ہے کہ قوم بھی فرد کی طرح ایک حقیقی خودی بن جائے۔ قومیت کا یہ اسلامی تصور تھا جسے اقبال مثنوی کے دوسرے حصے میں پیش کر رہے تھے۔ ۱۷۵ ’’جب اُنہوں نے رموزِ بیخودی [مثنوی کا دوسرا حصہ] لکھنے کا اِرادہ کیا تو پہلے سے اس کا ایک خاکہ لکھ کر چند احباب میں بغرض مشورہ بھیجا،‘‘ میر غلام بھیک نیرنگ کا بیان ہے۔ ’’ان میں راقم، مرزا اعجاز حسین مرحوم اعجاز دہلوی اور لسان العصر اکبر حسین الٰہ آبادی۔ تین نام تو مجھے یاد ہیں، شاید کسی اور کو بھی بھیجا ہو۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی رائے لکھ کر بھیج دی اور اُس کے بعد مثنوی رموزِ بیخودی لکھی گئی۔‘‘ نیرنگ سمجھتے تھے کہ یہ احتیاط اُس خط کتابت کا نتیجہ ہے جو ’اَسرارِ خودی‘ کے بعد اقبال کی اپنے دوستوں کے ساتھ ہوئی جن میں نیرنگ بھی شامل تھے۔۱۴۵ ۱۷۶ تاریخِ تصوف پر اُس مہینے کچھ نہ لکھ سکے۔۱۴۶ باب ۴ مِلّت کا دَربار ستمبر ۱۹۱۶ء سے جون ۱۹۱۷ء تک پہلا حصہ ۱ ڈی وِٹ میکنزی امریکی صحافی تھا۔ ہندوستان آیا تھا۔ ادب کے نئے رجحانات کے بارے میں جوگندر سنگھ سے گفتگو کی۔ اُنہوں نے انگریزی میں بیان لکھ دیا۔ دو جملے ٹیگور کے بارے میں اور دو صفحے اقبال کے بارے میں تھے۔ اقبال ہی کے شعر پر بات کو ختم کیا: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا۱ ۲ صبحِ ازل جب خدا نے مجھے پیدا کیا تو میرے عود کے ریشمی تاروں میں نالہ تڑپنے لگا، نالہ جو عشق کے راز فاش کرنے والا تھا۔ عشق کی حسرتِ اظہار کا خونبہا تھا۔ خاشاک کو آگ کی فطرت بخشی۔ مٹی کو پروانے کی شوخی عطا کر دی۔ لالے کی طرح عشق کے لیے بھی ایک ہی داغ کافی ہوتا ہے۔ اُس کے گریبان میں صرف ایک ہی نالے کا پھول ہوتا ہے۔ میں وہی ایک پھول تمہاری دستار میں آویزاں کررہا ہوں۔ تمہاری میٹھی نیند میں حشر برپا کر رہا ہوں تاکہ تمہاری خاک لالہ زار بن جائے۔ تمہاری سانس بہار کی ہوا بن جائے۔ یہ خیالات ’پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ‘ میں نظم ہوئے۔ مثنوی کے دوسرے حصے کا انتساب قوم کے نام تھا۔ چوں مرا صبحِ ازل حق آفرید نالہ در ابریشمِ عودم تپید نالۂ افشاگرِ اَسرارِ عشق خونبہائے حسرتِ گفتارِ عشق فطرتِ آتش دہد خاشاک را شوخیٔ پروانہ بخشد خاک را عشق را داغے مثالِ لالہ بس در گریبانش گُلِ یک نالہ بس من ہمیں یک گُل بدستارت زنم محشرے بر خوابِ سرشارت زنم تا زخاکت لالہ زار آید پدید از دمت بادِ بہار آید پدید۲ ۳ پیدائشی نام کچھ اور تھا۔ روسی سوشلسٹوں میں وِلادمیر لینن (Vladimir Lenin) کہلاتا تھا۔ کارل مارکس کے فلسفے کے علاوہ رُوسی مصنف چرنشفسکی کے ناول کیا کرنا چاہیے؟ (۱۸۶۳) کا اثر بھی تھا جس میں مادیت پرستی کی تعلیم اور دُنیاوی جنت کا تصوّر پیش کیا گیا تھا۔ لیو ٹالسٹائی نے اِسی عنوان سے کتاب لکھ کر اخلاقی تربیت پر زور دیا تھا۔ پندرہ برس پہلے لینن کے اپنے پمفلٹ کا عنوان بھی یہی تھا (فارسی میں عنوان کا ترجمہ ’’پس چہ باید کرد‘‘ ہو سکتا تھا)۔۳ لینن کے خیال میں سرمایے کی مساویانہ تقسیم ہونی چاہیے تھی۔ پہلے ریاست پر محنت کشوں کا قبضہ ضروری تھا۔ اُن کے بس کی بات نہ تھی جب تک تعلیم یافتہ طبقہ اُن کے ذہنوں میں اپنے افکار منتقل نہ کرتا۔ اِن مسائل پر رُوسی سوشلسٹ پارٹی تقسیم ہو ئی تھی۔ اکثریتی حصہ بالشویک کہلاتا۔لینن اُس کے ساتھ تھا۔ موجودہ جنگ میں لینن اپنے وطن کی شکست چاہتا تھا۔ بددلی پھیلے گی۔ انقلاب آئے گا۔ ابھی نہیں آیا تھا۔ اَب آ رہا تھا۔ ستمبر ۱۹۱۶ء تک روسی فوج کے کئی دستے لڑنے سے اِنکار کر چکے تھے۔ ۴ محمددین کی عمر پندرہ برس تھی۔والدین بارہ برس پہلے امرتسر کے قصبے اجنالہ میں فوت ہوئے تھے۔ محمد دین کی ذمہ داری خالہ نے اُٹھائی جو لاہور میں اقبال کے دوست اور خاندانی رئیس میاں نظام الدین کی بیگم تھیں۔ محمد دین اسلامیہ اسکول شیرانوالہ گیٹ میںپڑھتے تھے۔ شوخی اور ذہانت کی وجہ سے شعر و ادب میں دلچسپی ہو گئی تھی۔ ’’اُن دنوں اکبر و اقبال کا مقابلہ [یعنی موازنہ] ہوا کرتا تھا،‘‘ محمددین کا بیان ہے۔ ’’۔۔۔اقبال ہمارے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دفعہ اُن کے سامنے جنبہ داری کے انداز میں اکبر کی مبالغہ آمیز تعریف کی تو اُنہوں نے میرے ذوقِ شعر کی تعریف کی۔ اس پر مجھے بڑی ندامت ہوئی۔‘‘۴ ۵ زمیندار بند ہوئے آٹھ ماہ ہو چکے تھے۔ اسسٹنٹ اڈیٹر مولانا عبداللہ العمادی حیدرآباد میں نوکری کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے ۲ ستمبر کو کشن پرشاد کوان کے بارے میں تعارفی خط لکھا، ’’میرے خیال میں ان سے بہتر آدمی سرکار کو نہ مل سکے گا۔ تنخواہ ان کو دو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ملتی رہی ہے۔ اگرسرکار کو ضرورت ہو اور ان کو پسند فرمائیں تو تنخواہ کے متعلق میں گفتگو کر لوں گا۔‘‘ ۶ سر اِسرائیل گولانکز کی مرتب کی ہوئی A Book of Homage to Shakespeareجس میں اقبال کی نظم شامل تھی، اقبال کو ملی۔ انہوں نے دستخط کر کے ۶ ستمبر ۱۹۱۶ء کی تاریخ درج کی۔۵ ۷ ۱۰ ستمبر کو ریذیڈنسی سے منشی سراج الدین کا خط آیا۔ معلوم ہواانہوں نے چودھری شہاب الدین کو جو غالباً ڈلہوزی میں ہیں، تار دیا ہے کہ اقبال کوساتھ لے کر چند روز کے لیے آ جائیں۔ ۶ ’اَسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن کے لیے کاغذ بھی اسی روز خریدا۔ ۷ ۸ ۱۱ ستمبر کو جالندھر سے نیازالدین خاں کا خط آیا۔شاہ ولی اللہ کی بات چھیڑی تھی۔ غزالی کے بارے میں دریافت کیا تھاکہ ہمہ اوست کے قائل تھے یا ہمہ از وست کے، شائد کسی رئیس کے خاندانی کتب خانے میں کچھ کتابیں دیکھنے کا ذکر بھی تھا۔ اقبال نے لکھا، ’’ انشأاللہ جالندھر ضرور حاضر ہوں گا۔ میاں مبارک علی کا متبنیٰ میرا موکل رہ چکا ہے اور اگر کتابیں اس کے پاس باقی ہیں تو ان کا دیکھنا کچھ مشکل نہیں اور اگر مشکل بھی ہو تو آپ کی موجودگی میں کون سی مشکل ہے جو حل نہ ہو۔‘‘ شاہ ولی اللہ کے بارے میں لکھا کہ خدا نے انہیں مغربی ہند کے ملحدوں کا جواب دینے اور اصلاح کرنے کے لیے مامور کیا تھا چنانچہ ان کی تصنیف فضیلت الشیخین بھی دیکھنی چاہئے۔ امام غزالی کے رجحان کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ دونوں طرف کی مشکلات خوب سمجھتے ہوں گے۔ جرمنی کا مشہور فلسفی لاٹسا اِس معاملے میں بالکل دوسرا غزالی ہے۔ اِسی لیے اُس کا فلسفہ مغرب میں مقبول نہ ہو سکا۔ منطقی اعتبار سے خداکے ہر چیز کو دیکھنے، سننے اور ہر چیز کا عین ہونے کو ایک ساتھ ثابت نہ کیا جا سکتا تھا۔ اِن میں سے کسی ایک ہی بات کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔ مگر یہ تمام مباحث بیکار تھے۔ مذہب کا مقصد عمل تھا نہ کہ انسان کے عقلی اور ذہنی تقاضوں کو پورا کرنا۔ قرآن کہتا تھا کہ میں نے تمہیں علم کا بہت ہی تھوڑا سا حصہ دیا ہے۔ آخر میں لکھا: اگر مذہب کا مقصود عقلی اور دماغی تقاضوں کو پورا کرنا ہو بھی جیسا کہ ہنود کے رِشیوں اور فلسفیوں نے خیال کیا ہے تو زمانہ حال کی خصوصیات کے اعتبار سے اس کو نظرانداز کرنا چاہئے۔ اِس وقت وہی قوم محفوظ رہے گی جو اپنی عملی روایات پر قائم رہ سکے گی: اِس دَور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو اپنی راہ پہ قائم ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے۸ ۹ ایک ایرانی عالم شیخ عبدالعلی طہرانی لاہور میں اقبال کے دوست سید محمد جعفری کے گھر ٹھہرے تھے۔ علمِ جفر میں کمال رکھتے تھے۔ شیعہ تھے مگر قرآن کے مطالب بتاتے تو لوگ حیران رہ جاتے۔ اقبال بھی ملنے جاتے تھے۔۹ ۱۰ کشن پرشاد کا خط آیا۔ شکایت کی تھی کہ اقبال ایک ماہ لاہور سے باہر رہے مگر حیدرآباد نہ آئے۔ یکم اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ مقصد سیاحت نہ تھا ورنہ آستانۂ شاد تک ضرور پہنچتے۔کیا اُن کے کتب خانے میں خواجو کرمانی کا دیوان موجود ہو گا؟ مثنوی کے دوسرے حصے اور’اقلیمِ خاموشاں‘ کا ذکر بھی کیا، ’’بس یہ دو باتیں میری تنہائی کی کائنات ہیں۔‘‘ ۱۱ خودی کی زندگی مقاصد کی تخلیق و تولید سے تھی۔ یہ بات فرد کی زندگی کے لیے بھی درست تھی جیسا کہ ’اَسرارِ خودی‘ میں لکھا تھا اور قوم کے لیے بھی درست تھی۔ ملتِ اسلامیہ کا اجتماعی مقصد، نصب العین یا آئیڈیل توحید کی نشر و اِشاعت تھا۔ دَورِ حاضر میں توحید کا دشمن سائنس نہیں بلکہ رنگ، نسل اور وطنیت کا وہ تصور تھا جس پر قومیت کے مغربی تصور کی بنیاد تھی۔ کبھی یہ بات اُردو نظم ’وطنیت بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘ میں بیان ہوئی تھی۔ اب مثنوی کے دوسرے حصے ’نصب العین ملیہ‘ کا باب بنی۔۱۰ ۱۲ حیدرآباد جانا چاہتے تھے۔ استخارہ کیا۔ اجازت نہ ملی۔۱۱ ۱۳ محمد شجاع ناموس گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی میں پڑھتے تھے۔ کالج میں مشاعرہ ہونے والا تھا۔ ایک شام طلبہ کی جماعت اپنی اپنی غزلیں لے کر اصلاح کے لیے پہنچی۔ شجاع ناموس کا بیان ہے کہ جب کوئی طالب علم غزل سناتا تو اقبال دوسرے طلبہ کو دعوت دیتے کہ وہ بھی رائے دیں۔ آخر میں اپنی رائے دیتے۔ ایک طالب علم دیوان آتمانند چھٹے شعر پر پہنچا تو اقبال نے کہا، ’’یار۔ او دوجا شعر ایس نال بدل لئو تے بہتر ہو جائے گا۔‘‘ ’’میرے دل نے مجھے کہا، اِس عظیم ہستی نے بڑا دماغ پایا ہے،‘‘ شجاع ناموس نے بعد میں بیان کیا۔ ’’چھٹے شعر پر نکتہ سنجی کرتے ہوئے دوسرے شعر کی اصلاح ہو رہی ہے۔ گویا قلب کے اندر دوسرا شعر ااَب بھی گھوم رہا ہے۔اور اُس کی اصلاح کر دی گئی ہے۔‘‘ آخر میں اقبال نے شجاع ناموس سے کہا کہ وہ کبھی کبھی آتے رہا کریں۔۱۲ ۱۴ کچھ عرصے سے اقبال کا معمول بن گیا تھا کہ صبح تین چار بجے اٹھ جاتے تھے اور پھر نہیں سوتے تھے سوائے اس کے کہ کبھی جانماز پر اونگھ جائیں۔۱۳ ۱۵ لاہور میں کتابوں کے کوئی تاجر منشی قمرالدین تھے۔اجازت کے بغیر اقبال کی اُردو نظمیں کتابی صورت میں شائع کر دیں۔ اقبال نے مقدمہ کرنا چاہا۔ ظفر علی خاں کے کہنے پر رک گئے۔۱۴ ۱۶ خط آیا تو معلوم ہوا کہ کشن پرشاد کے غالباً بیٹے کا انتقال ہوا تھا جن کا نام گویند پرشاد تھا۔’’کتنے رنج و قلق کی بات ہے کہ ایسا نوجوان اس دنیا سے ناشاد جائے،‘‘ اقبال نے ۳۱ اکتوبر کو تعزیت کرتے ہوئے لکھا۔ ’’لیکن گویند پرشاد باقی ہے اور یہ جدائی محض عارضی ہے۔‘‘ اس کے بعد اپنی والدہ مرحومہ والی نظم میں سے ایک شعر لکھا، لاہور آنے کی دعوت دی اور شیخ عبدالعلی طہرانی سے ملاقات کی تجویز بھی پیش کی۔ ۱۷ اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی میں جگہ خالی ہوئی۔ سنڈیکیٹ کے اراکین کی رائے میں سیدسلیمان ندوی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھے۔ بنام سید سلیمان ندوی لاہور یکم نومبر ۱۶ء مخدومی السلام علیکم اورئنٹل کالج لاہور میں ہیڈپرشین ٹیچر کی جگہ خالی ہوئی ہے۔ اس کی تنخواہ ایک سو بیس روپیہ ماہوار ہے۔ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس جگہ کو اپنے لیے پسند فرماتے ہیں؟ اگرایسا ہو تو آپ کے لیے سعی کی جائے۔ آپ کا لاہور میں رہنا پنجاب والوں کے لیے بیحد مفید ہوگا۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال بیرسٹر لاہور ۱۸ گرامی واپس ہشیارپور آ رہے تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں ان سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ ۵ نومبر کو اقبال نے ہشیارپور میں اپنے دوست بیرسٹر عبدالعزیز کو انگریزی میں لکھا کہ وہ گرامی کو چند روز لاہور آنے پر آمادہ کریں۔ ۱۹ برطانوی صحافی سر ویلنٹائن شیرول(Sir Valentine Chirol) دنیا بھر میں گھوم کر برطانوی استعمار کی بنیادیں مضبوط کرتے تھے۔ مڈل ایسٹ کی اصطلاح انہی کے دم سے رائج ہوئی تھی جسے اُردو میں مشرقِ وسطیٰ کہا جاتا تھا۔ چھ برس پہلے انڈین اَن ریسٹ(Indian Unrest)لکھ کر بتایا کہ ہندوستانی عوام جمہوریت اور آزادی کے اہل نہیں۔ اُس وقت بال گنگادھر تلک قید میں تھے۔ اب ہتکِ عزت کا مقدمہ کر کے شیرول کو دَھر لیا۔ شیرول نے عبدالماجد دریابادی کی کتاب کی تعریف کی۔ وہ خوش ہوئے۔ ۱۰ نومبر کو چھندواڑہ میں نظربند محمد علی نے عبدالماجد کو خط لکھا۔ سر ویلنٹائن شیرول ایک خبیث اور بدباطن شخص ہے۔ نہ معلوم اُس کی تعریف کی آپ نے کس طرح وقعت کی۔ وہ ہمارے لیے غلامی اور اپنے لیے خواجگی ہی کو پسند کرتا ہے۔ ابھی حال میں شملہ میں میرے ایک چغدصفت دوست جگندر سنگھ صاحب نے ان کے لکچر میں صدارتی تقریر کی تھی اور فرمایا تھا کہ ۲۰برس سے اُنہیں مشرق بلا رہا تھا، اُن کی مشرق کے حال پر یہ بڑی ہی نوازش ہوئی کہ تشریف لائے۔۔۔! مگر کاش ان کو ۴ہی سال پہلے مغرب بھی پکارتا اور وہ اُس کے حال پر بھی رحم فرماتے اور وطنِ مالوف کی طرف مراجعت فرماتے۔ مگر ان لوگوں کی صرف یہی سزا ہے کہ قانونِ قدرت ان کی خاطر بدل نہیں سکتا۔ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ غلامی کو دوسرے کے لیے پسند کرنا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے اپنی غلامی کا۔ اگر اجتماع ہمارے لیے برا سمجھا جاتا ہے تو کل کو خود ایسا کہنے والوں کے لیے برا سمجھا جائے گا۔ روما کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ تاریخ اسلام خود اس کی شاہد ہے۔۔۔ خدا نے ہم پر بڑا رحم فرمایا جو مسلمان کے گھر پیدا کیا۔ Heredity [وراثت] کا رجحان اسلام و توحید کی طرف، تربیت اسلام اور توحید کے دائرہ میں۔ اگر اس پر ہمارے فلسفہ نے ہماری امداد کی ہے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اسلام اور ایمان کو اور بھی تقویت ہو گئی اور عقل و نقل دونوں کی زد سے باہر ہو گئے۔ اب نہ ارسطو کا جادو چل سکتا ہے نہ کانٹ کا۔ لیکن اگر صرف استدلال ہی پھر بھروسہ ہے اور خود اپنی عقل پر اِس قدر زعم ہے کہ جو اس میں نہ سمائے وہ خدا نہیں اور جو اس میں نہ آئے وہ ایمان نہیں، تو اس کا جواب یہی ہے کہ ’پائے استدلالیاں چوبیں بود‘ [فلسفیوں کے پیر لکڑی کے ہوتے ہیں]۔۔۔ خواہ کسی طرح تفسیر کیجیے، مگر قرآن خود صاف کہہ چکا ہے کہ علم انسانی بہت ہی کم ہے۔ میں اس کا ضرور قائل ہوں کہ خواہ کسی قدر کم کیوں نہ ہو وہ خدا کی دین ہے اور ایمان کے بعد اُس کی بہترین دین، بلکہ اُس کے بغیر ایمان کمزور و ضعیف رہتا ہے۔ اس لیے اس کا پورا پورا استعمال کرنا چاہیے اور ایمان کے لیے علم کا پشتہ ایمان کو مستحکم کرنے والا ہوتا ہے، اِس لیے اس کے ذریعہ سے ایمان کا استحکام کرنا چاہیے۔ مگر زعمِ علم سے پرہیز ضروری ہے۔ خدا کی رحمت ہو اقبال پر خوب تعلیمِ مولانا روم کا اہتمام کر رہا ہے۔۱۵ ۲۰ سلیمان ندوی کا جواب آیا۔ اپنی غزل بھیجی تھی مگر ملازمت نہیں چاہتے تھے۔ ۱۲ نومبر کو اقبال نے لکھا کہ وہ جانتے تھے مگرسنڈیکیٹ کے اراکین کے اِصرار پر اور اس خیال سے کہ یوپی کے علمأسے پنجاب والوں کو جو فائدہ پہنچتا رہا ہے اس کا سلسلہ جاری رہے، اُنہوںنے لکھ دیا تھا۔شبلی کی زندگی میں کوشش کی تھی کہ وہ بھی پنجاب آ جائیں مگر یہاں کے رؤسا سرپرستی کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ ندوی کی غزل میں سے یہ شعر اقبالؔ کو زیادہ پسند آیا: ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگِ گلو میں ہے مشورہ دیا کہ شبلی کی طرح تاریخی نظمیں بھی لکھیں۔ ۲۱ شیخ عمربخش سے معلوم ہوا کہ گرامی ہشیارپورپہنچ گئے ہیں مگر سفر کی تھکان کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں۔ ۲۱ نومبر کو اقبال نے شیخ عبدالعزیز کو خط میں گرامی کے لیے یہ شعر بھجوایا: روشن دلوں کے وسطے نزدیک دُور کیا تھکتا نہیں ہے دُوریِ منزل سے آفتاب ۲۲ آغا حشر کاشمیری اور اُن کی بیگم ایک دفعہ پھر حکیم فقیر محمد چشتی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین برس پہلے بیگم کو حکیم صاحب کے علاج سے آرام آیا تھا۔ اب کم سن بیٹے کی موت کے بعد بیحد علیل ہو گئی تھیں۔ ۲۶ نومبر کو وفات پا گئیں۔ میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ’’نیک بخت!‘‘ اُردو کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار نے بیوی کی قبر پر کہا۔ ’’ایک دن حشر بھی اِسی قبرستان میں آئے گا اور تیرے پہلو ہی میں مدفون ہو گا۔‘‘ چھڑی سے قبر کے برابر میں نشان بنا کر حکیم فقیر محمد چشتی سے کہا، ’’حکیم! میں تمہیں یہ وصیت کیے دیتا ہوں۔ بھول نہ جانا۔‘‘۱۶ ۲۳ عبدالعلی طہرانی سے کشن پرشاد کا ذکر ہوا۔ انہوں نے دکن کے کسی امیر سے تذکرہ سن رکھا تھا۔ ۴ دسمبر کوکشن پرشاد کا خط آیا تو اقبال نے جواب لکھتے ہوئے عبدالعلی طہرانی کا ذکر کیا۔ لاہور میں سردی پڑ رہی تھی، کرسمس آ رہا تھا، علی گڑھ میں ایجوکیشنل کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور لکھنؤمیں مسلم لیگ اور کانگریس کے اُس مشترکہ اجلاس کی جس کا بہت چرچا تھا۔اقبال سردی کی وجہ سے کہیں نہیں گئے۔ ’’صاحبانِ تعلیم و سیاست تہیۂ سفر کر رہے ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ پنجاب میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان تھے۔ ’’انگلستان میں جنگ کی وجہ سے مرغی کی قیمت ایک روپیہ چار آنے اور ایک انڈہ چھ آنے کو بِکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اقوامِ عالم کو اِس مصیبت سے نجات دے۔‘‘ ۲۴ ۶ دسمبر کو کشن پرشاد کا خط آیاتو معلوم ہوا کہ نظام دکن کے ساتھ وہ بھی بمبئی گئے ہیں۔ نظام کے بمبئی جانے کی خبر اقبال نے اخبار میں پڑھی تھی مگر کشن پرشاد نظام کے اتنے قریب ہو گئے ہیں یہ معلوم نہ تھا۔ ’’امید کیفیتِ مستقل اور نااُمیدی عارضی ہے، ‘‘اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس کا ثبوت بھی انشأ اللہ مل جائے گا۔‘‘ پنجاب کے علاوہ اجمیر کے سفر کا مشورہ بھی دیا۔ ’’میں بھی ایک روز تخیلات کی ہوا پر اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔‘‘ ۲۵ لندن کے اخباروں نے وزیر اعظم ایسکوئتھ کے خلاف طوفان اُٹھایا تھا۔الزام تھا کہ جنگ میں پورا زور نہیں لگایا جا رہا۔ یہ شوشہ لارڈ نارتھ کلف نے چھوڑا تھا اور اس میں لائڈ جارج کا ہاتھ تھا۔ ۷ دسمبر کو ایسکوئتھ صاحب نے تنگ آ کر بادشاہ کی خدمت میں استعفیٰ پیش کیا اور اُسی شام شاہی اجازت سے لائڈ جارج وزیراعظم ہو گئے۔ ۲۶ ۱۳ دسمبر کو وکیل(امرتسر) میں اقبال کا مضمون ’تصوفِ وجودیہ‘ شائع ہوا۔اپنے اس موقف کی حمایت میں کہ آنحضورؐ نے لفظ سمن سے رہبانیت کی پیش گوئی کی تھی، اِقبال نے اِس قسط میں صرف لفظ کی لغوی بحث پر اکتفا کیا۔ اسناد کے حوالے دیے اور اِس رائے سے اختلاف کیا کہ مجازی معانی میں اس سے مراد تن آسانی لینے کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’کسی لفظ کے مجازی استعمال کی سند بھی لسانی اعتبار سے ضروری ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔۱۷ ۲۷ سنا تھا کہ حیدرآباد میں طاعون پھیلا ہے۔ بمبئی سے کشن پرشاد کا خط آیاتو ۱۷ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے اس کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ ’’سرکار اگر اجمیر اور لاہورتشریف لائیں تو زہے سعادت، اقبال کو آستان بوسی کا موقع مل جائے گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اب تو آپ کی زیارت کو بہت عرصہ ہو گیا۔‘‘ ۲۸ کرسمس کی چھٹیوں میں اقبال لاہور ہی میں رکنے والے تھے اور شیخ عبدالقادربھی یہیں تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں بھی گرامی سے ملنا چاہتے تھے چنانچہ اقبال نے ۱۸ دسمبر کو گرامی کو دعوت دیتے ہوئے لکھا، ’’یہ خط صرف اقبال کی طرف سے نہ سمجھئے بلکہ اقبال و ذوالفقار و قادر کی طرف سے تصور کیجئے۔ بھلا جس کو اقبال و ذوالفقار خود دعوت دیں وہ کیونکر انکار کر سکتا ہے کہ تمام زمانہ اِن دو چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔‘‘ گرامی تنہا سفر نہ کرسکتے ہوں تو اقبال علی بخش کو بھیجنے پر تیار تھے، ’’انکار نہ ہو ورنہ ہمارا آپ کا کوئی یارانہ نہیں۔‘‘ایک غزل بھی اپنی حافظؔ کے رنگ والی غزل کی زمین میں لکھنے کی فرمائش کی تھی جسے خط میں نقل کرتے ہوئے وہ دونوں اشعار نکال دئے جن میں حافظؔ کا ذکر آتاتھا۔ ۲۹ اقبال اُس ’’کانگریس لیگ اسکیم‘‘سے خوش نہیں تھے جسے محمد علی جناح نے کانگریس کے ساتھ سمجھوتے کے لیے تیار کیا تھا اور جسے اس برس لکھنؤ میں کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اپنے اپنے اجلاسوں میں منظور کرنے والی تھیں۔ مرکزی قانون ساز کونسل اور بمبئی کی صوبائی کونسل میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ ہونی طے پائی تھیں۔ بنگال کی صوبائی کونسل میں ۴۰ فیصد، یوپی میں ۳۰ فیصد، بہار اور اڑیسہ میں ۲۵ فیصد اور سی پی اور مدراس میں ۱۵ فیصد نشستیں بھی ان کے لیے محفوظ ہونا تھیں جو ان اقلیتی صوبوں میں اُن کی آبادی کے تناسب سے ذرا زیادہ تھیں۔ اس کے بدلے میں مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے پنجاب کی کونسل میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کی بجائے صرف ۵۰ فیصد مخصوص نشستیں قبول کر لی تھیں۔ اقبال کے خیال میں مسلمانوں نے اکثریتی صوبے پنجاب میں اپنے آپ کو عملاً اقلیت میں بدل کر اچھا نہیں کیا تھا۔ اس کے بدلے میں اقلیتی صوبوں کی اسمبلیوں میں اُنہیں جو رعایات ملی تھیں اُن کی عملی اِفادیت کچھ نہیں تھی۔ ۳۰ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Edward Carpenter. The Art of Creation: Essays on the Self and Its Powers. Allen and Unwin, London Ernest Northoroft Merrington. The Problems of Personality: A Critical and Constructive Study in the Light of Recent Thought. Macmillan, London C. Snouk Hurgronje. Mohammadanism: Lectures on its Origins, its Religious and Political Growth and its Present State. Putmans, New York. Stephen Leacock. Moon Beams from the Larger Lunacy. John Lane, London Sir Israel Gollancz. A Book of Homage to Shakespeare. Humphrey Milford F.J.E. Woodbridge. The Purpose of History. Columbia University Press, New York۱۸ ۳۱ ۳۰ دسمبر تھی۔ قیصر باغ لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں سید وزیر حسن نے کہا: The present conditions compel us to go much deeper into the problems of the entire social regeneration of 70 million Muslims; of extricating them from the terrible poverty, degradation and backwardness into which they have fallen, giving them at least the rudiments of a civilised existence, and making them free citizens of a free land. We must realise that... unless such a change is soon made, the whole of this social structure must come down with a crash... It is the duty of all of us...to combine together to lay the foundations of a new structure... Let me tell you that building of such a social edifice will be more glorious, more humane and more just than the building of an empire. اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے بھی انگریزی میں کہا، ’’پورا ملک اپنی تقدیر کی آواز پر جاگ رہا ہے۔۔۔ملک بھر میں مقصدیت، اعتماد اور عزم کی ایک نئی روح اُتری ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ سے اور اپنے ماضی کی روایات سے بے وفائی کرتے اگر وہ اُس نئی اُمید میں پوری طرح شریک نہ ہوتے جو آج ہندوستان کے محب وطن بیٹوں کے دلوں میں موجزن ہے یا اگر وہ اپنے وطن کی پکار پر جواب نہ دیتے۔ اُن کی نگاہیں بھی اپنے ہندو ہموطنوں کی طرح مستقبل پر جمی ہیں۔‘‘ کانگریس لیگ اسکیم کو دونوں سیاسی جماعتوں نے منظور کر لیا تھا۔ تاریخ اِسے لکھنؤ پیکٹ یا میثاقِ لکھنؤ کے نام سے یاد کرنے والی تھی۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے حق کو کانگریس سے قبول کرواکے ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی اُس اجتماعی رائے کو دریافت کرنے کا ذریعہ دریافت کر لیا تھا جس کی خاطر تیس برس پہلے ۱۸۸۶ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس قائم ہوئی تھی۔ ۳۲ محمد علی (جوہر) کا خیال تھا کہ کسی خاص قسم کی تعلیم رائج کی جائے تو قریباً تیس برس بعد نتائج ظاہر ہوتے ہیں: ٭ ۱۸۵۷ء میں کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اور ۱۸۸۵ء میں ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل نے وطنیت کے مغربی تصور پر کانگریس کی بنیاد رکھی ٭ ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ کالج قائم ہوا اور ۱۹۰۶ء میں مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل مسلم لیگ کی بانی ہوئی۔۱۹ اس نظریے کو پھیلایا جاتا تو ۱۸۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام بھی ایک طرح کی غیررسمی تعلیم کا آغاز تھا جس کے ٹھیک تیس برس بعد میثاقِ لکھنؤ ہوا تھا۔ ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی تھی۔ اُس کے تیس برس بعد ۱۹۳۶ء میں کیا ہونے والا تھا؟ دُوسرا حصہ ۳۳ مولانا عبدالحلیم شرر نے رسالۃ الحکم الرفاعیہ کا ترجمہ کیا تھا۔ اس میں شیخ احمد رفاعی کے اقوال اقبال کی نظر سے گزرے، ’’خبردار! اہلِ عجم کی زیادتیوں سے دھوکا نہ کھانا کہ ان میں سے بعض حد سے گذر گئے ہیں۔‘‘۲۰ ملتِ اسلامیہ کی تربیت کا کمال شریعت پر عمل کرنا ہے۔ طریقت اور تصوف اگر شریعت کے خلاف ہو تو گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ موضوع ایک باب بن گیا، ’در معنی اینکہ کمالِ تربیتِ امتِ محمدیہ در اتباعِ شریعتِ اسلامیہ است و آنچہ طریقت نامیدہ اند اگر غیرِ شریعت است، ضلالت است‘۔۲۱ کوئی قوم اپنے آئین سے ہٹ کر زندہ نہ رہ سکتی تھی۔یہ لکھنے کے بعد ابن عربی پر تنقید کرنے کا خیال آیا تو صفحے کے کنارے پر کچھ شعر لکھے کہ شیخِ اکبر محی الدین ابن عربی نے عقل کا فریب کھایا: شیخِ اکبر چوں فریبِ عقل خورد۲۲ ۳۴ ابن عربی والے اشعار قلمزد کر دیے۔ صفحے کے دوسرے کنارے پر نئے اشعار لکھے کہ شریعت میں پوشیدہ معانی تلاش کرنا فضول تھا۔ موتی کے باطن میں بھی روشنی کے سوا کچھ نہیں ہوتا: در شریعت معنیٔ دیگر مجو غیرِ ضَو در باطنِ گوہر مجو۲۳ ۳۵ انجمن حمایت اسلام کے تحت قائم اسلامیہ پرائمری اسکول ۱۹۱۷ء میں کسی وقت مڈل اسکول بنا دیا گیا۔۲۴ ۳۶ کشن پرشاد کا خط آیا۔ معلوم ہوا وہ پیرجماعت علی شاہ کے پاس گئے تھے جو اُن کے ساتھ بے نیازی سے پیش آئے۔ شاید خط میں اقبال سے کچھ شکایت بھی کی گئی تھی کیونکہ ۵ جنوری کو جواب میں اقبال نے صفائی پیش کی کہ کشن پرشاد سے اُن کی عقیدت کسی غرض کی وجہ سے نہیں ہے۔ پیرجماعت علی شاہ کے بارے میں اقبال نے لکھا، ’’وہ بڑے ہشیار آدمی ہیں اور پیری مریدی کے فن کو خوب سمجھتے ہیں۔‘‘ ان کی بے نیازی بھی مصنوعی رہی ہو گی جس کا مطلب اقبال خوب سمجھتے تھے۔ ۳۷ جنوری میں مثنوی کا دُوسرا حصہ پانچ سو اَشعار تک پہنچ چکا تھا۔۲۵ ۳۸ مولوی الف دین کا خط ملا۔ شائد کسی میجر کمرون سے سفارش کروانا چاہتے تھے اور ایک غزل بھی ارسال کی تھی تاکہ اقبال اپنی رائے دیں۔ ۹ جنوری کو اقبال نے جواب میں لکھا کہ میجر کمرون سے ان کی واقفیت نہیں، ’’آپ کو معلوم ہے میں اس قسم کے رسوخ سے کوسوں بھاگتا ہوں۔‘‘ اشعار کی تعریف اور د وجگہ اصلاح کی۔ مثنوی کے دوسرے حصے میں سے ہجرت والے اشعار لکھ کر بھیجے، ’’مگر ہاتف کبھی دوچار ہوتے ہیں اور مجھے فرصت کم ہے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہو جائیں گے۔‘‘ ۳۹ خواجہ حسن نظامی نے کوئی رسالہبیوی کی تعلیم لکھا تھا۔ بنام خواجہ حسن نظامی لاہور ۲۶ جنوری ۱۹۱۷ء مخدومی خواجہ صاحب السلام علیکم۔ میں آپ کے اندازِ بیان کا عاشق ہوں اور مجھی پر کیا موقوف ہے، ہندوستانی دنیا میں کوئی دل ایسا نہیں جس کو آپ کے اعجازِ قلم نے مسخر نہ کر لیا ہو۔ پیش پا افتادہ چیزوں میں اخلاقی اور روحانی اَسرار دیکھنا اور اس کے ذریعے انسان کے عمیق مگر خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنا آپ کے کمال کا خاص جوہر ہے۔ اگر مجھ کو یقین ہوتا کہ ایسا اندازِ تحریر کوشش سے حاصل ہو سکتا ہے تو قافیہ پیمائی چھوڑ کر آپ کے مقلدّین میں داخل ہوتا۔ اُردو لکھنے والوں میں آپ کی روش سب سے نرالی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ نثرِ اُردو کے آیندہ مورخین آپ کی ادبی خدمات کا خاص طور پر اعتراف کریں گے۔ رسالہ ’’بیوی کی تعلیم‘‘ جو حال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے، نہایت دلچسپ اور مفید ہے۔ خصوصاً دمڑی والے سبق نے تو مجھے ہنسایا بھی اور رُلایا بھی۔ باقی سبق بھی نہایت اچھے اور کارآمد ہیں اور عام تمدنی، سیاسی و مذہبی مسائل کو سمجھانے کے لیے خط کتابت کا طریق بھی نہایت موزوں ہے۔ لڑکیوں کو اس سے بیحد فائدہ پہنچے گا۔ میں نے بھی یہ رسالہ گھر میں پڑھنے کے لیے دے دیا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کو خواجہ بانو کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اُن کی تحریک سے ایسا مفید رسالہ لکھا گیا۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبال ۴۰ ۲۷ اور ۲۸ جنوری کی درمیانی رات سر سید احمد خاں کے دوست اور مسلمان رہنما نواب وقار الملک فوت ہو گئے۔ اقبال نے تاریخِ وفات نکالی، ’’وقار الملک انجام بخیر‘‘۔ ۱۳۳۵ اعداد ہوتے تھے۔ ہجری سال تھا۔ ۴۱ اُستاد نوح ناروی نواب مرزا خاں داغ دہلوی مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے۔ الٰہ آباد کے قریبی قصبہ نارہ کے رہنے والے تھے۔ فروری کے مخزن میںاُن کی غزل اُسی زمین میں شائع ہوئی جس میں اقبال کی غزل مشہور تھی: ’’ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی‘‘۔۲۲ شعر تھے۔ کیوں اپنے دل کو موردِ رحمت کرے کوئی کوئی یہ چاہتا ہے محبت کرے کوئی منصور کو ملی ہے اسی پر سزائے موت کیا انکشافِ رازِ حقیقت کرے کوئی میں نے تو خیر عشق میں طوفاں اُٹھا دیا اے نوحؔ ظاہر اپنی کرامت کرے کوئی حضرت نوحؔ ناروی، مخزن فروری ۱۹۱۷ئ۲۶ ۴۲ ۶ فروری کو کچھ فرصت ملی۔ شریعت و طریقت والے باب کا صفحہ بھر چکا تھا۔ کسی طرح جگہ نکال کر ترچھی لکھائی میں فقہ کا ایک مسئلہ نظم کیا۔ اگر کوئی دشمن صلح کی امید میں اپنی پناہ گاہ ختم کر دے اور پھر صلح نہ ہو تو جب تک وہ دوبارہ پناہ گاہ نہ بنا لے اُس پر حملہ کرنا حرام تھا۔ اقبال کے نزدیک اِس حکم کا راز یہ تھا کہ خطروں میں جینا ہی زندگی ہے۔۲۷ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ کوئی سفارش تھی جسے انہوں نے ملتوی کر دیا تھا۔ اشرف علی تھانوی کوئی کتاب لکھ رہے تھے اُس کا ذکر تھا۔ ’’مولوی اشرف علی تھانوی جہاں تک مجھے معلوم ہے وحدت الوجود کے مسئلے سے اختلاف رکھتے ہیں،‘‘ اقبال نے ۷ فروری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔’’مجھے یقین ہے اُن کی کتاب عمدہ ہو گی۔‘‘ شاعری میںعموماً تصوف پر تکیہ کیا گیا تھا۔ اقبال فقہ کے مسائل نظم کرنے چلے تھے۔ جدت تھی۔ دو مصرعوں میں بعض الفاظ کھٹکتے بھی تھے۔ ۸ فروری کو اَشعار مولانا گرامی کو بھیج دیے۔ ’’بنظرِ اصلاح دیکھ کر واپس فرمائیے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ہر روز کوئی نہ کوئی آدمی آپ کے متعلق دریافت کرتا ہے کہ مولانا گرامی لاہور تشریف لائے یا نہیں؟ افسوس ہے کہ مجھے ہر دفعہ نہیں کہنا پڑتا ہے۔‘‘ ۴۳ حیدرآباد دکن کی ہائی کورٹ کے جج سید ہاشم بلگرامی انتقال کر گئے تھے۔ میونسپل گزٹ لاہور نے اقبال کا نام تجویز کیا۔ کشن پرشاد پھر نظام کے ساتھ بمبئی جا رہے تھے۔ اس دفعہ وارنگل سے خط بھی آیا۔ اقبال نے اس خیال سے انہیں ججی کے بارے میں نہیں لکھا کہ اخبار سے خود ہی تجویز ان تک پہنچ جائے گی جس کی کاپیاں اب حیدرآباد کے بعض امرأ کو بھیجی جا رہی تھیں۔ ۲۸ ۴۴ گرامی کی طرف سے جواب جلدی آیا۔ جو مصرعے اقبال کو کھٹک رہے تھے ان میں سے ایک کی جگہ دوسرا بھیجا تھا۔ مطلب کا نہ تھا۔ اپنی ایک غزل بھی بھیجی تھی۔ ’’سبحان اللہ کیا عمدہ غزل ہے!‘‘اقبال نے ۱۲ فروری کو جواب دیا۔ ۴۵ اس دفعہ الٰہ آباد اور پنجاب دونوں یونیورسٹیوں کے ایم اے کے پرچوں کا کام ملا تھا۔ انہی دنوں حیدرآباد سے خط آیا کہ پچھلے سال کی طرح بیت العلوم دکن کے لیے اسلامی تاریخ کا پرچہ بنا دیں ۔ انکار کرنا پڑا۔۲۹ ۴۶ بیاض میں خالی چھوڑے ہوئے صفحات میں سے ایک پر ’سِرِّ واقعۂ کربلا‘ کا عنوان ڈالا۔ کربلا کے اَسرار لکھنے شروع کیے۔ جس کسی نے بھی ھو الموجود کے ساتھ پیمان باندھا، اُس کی گردن ہر بندھن سے آزاد ہو گئی۔ مومن عشق سے اور عشق مومن سے ہے۔ ہمارا ناممکن عشق کے لیے ممکن ہے۔ آزادی، عشق کے لیے آرامِ جاں ہے۔ آزادی اُس کے ناقے کے لیے سارباں ہے۔ جب میان سے لا کی تلوار نکالی تو اَربابِ باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا۔ کیا تم نے سنا کہ جنگ کے موقع پر عشق نے ہوس پرور عقل کے ساتھ کیا کیا؟ وہ عاشقوں کے امام، سیدہ فاطمہ بتولؓ کے فرزند جو رسولِ پاکؐ کے باغ کے سروِ آزاد تھے، اُن کے لہو سے غیرتمند عشق سرخرو ہے۔ اِس مصرعے کی شوخی اُن کے مضمون سے ہے۔ اُن کی بلندمرتبت شخصیت اُمت میں یوں ہے جیسے قرآنِ پاک میں سورۂ اخلاص! حسین گرمیٔ محفل ہیں۔ ہم خاک کے پتلے ہیں، حسین ہمارا دل ہیں۔ ہر کہ پیماں با ھوالموجود بست گردنش از بندِ ہر معبود رست مومن از عشق است و عشق از مومن است عشق را ناممکنِ ما ممکن است عشق را آرامِ جاں حرّیت است ناقہ اش را سارباں حرّیت است تیغِ لا چوں از میاں بیروں کشید از رگِ اربابِ باطل خوں کشید آں شنیدستی کہ ہنگامِ نبرد عشق با عقلِ ہوس پرور چہ کرد آں امامِ عاشقاں پورِ بتول سروِ آزادے زبستانِ رسولؐ سرخ رُو عشقِ غیور از خونِ اُو شوخیٔ ایں مصرعہ از مضمونِ اُو درمیانِ امت آں کیواں جناب ہم چو حرفِ قل ھو اللّٰہ در کتاب گرمیٔ ہنگامۂ محفل حسین پیکرِ خاکیم و ما را دل حسین یہاں پہنچ کر ذہن رک گیا۔ کنارے پر عقل اور عشق کے بارے میں مزید کچھ اشعار درج ہوئے۔ عقل سبب اور دلیل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق، عمل کے میدان کا شہسوار ہے، وغیرہ: عقل در پیچاکِ اسباب و عمل عشق چوگاں بازِ میدانِ عمل امام حسین کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ برصغیر میں بالخصوص اُردو میں مرثیہ کے ضخیم مجموعے موجود تھے۔ مسلمانوں کے دَورِ زوال کی پیداوار تھے۔ کم سے کم اقبال انہیں انحطاط کے ادب کا نمونہ سمجھتے تھے۔ اس باب کے ذریعے آیندہ آنے والوں کو کربلا کے بارے میں لکھنے کے لیے شاید ایک نئی راہ مل جاتی۔ ۱۹ فروری کو گرامی کا خط آیا تو کربلا والے باب میں سے عقل اور عشق کے موازنے پر اشعار انہیں اصلاح کی غرض سے بھیجے۔ حیدرآباد کی ججی کے بارے میں لکھا کہ صورتحال کا علم نہیں مگروہاں کی حکومت حیدرآبادیوں کو چھوڑ کر باہر کے آدمی کوکیوں ترجیح دے گی۔ ’’حیدری صاحب کمزور آدمی ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’اگر وہ کوشش کریں تو ممکن ہے مگر اس معاملے میں میرا لکھنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ اُن کو لکھنے سے فائدے کی اُمید ہے تو ضرور لکھئے بلکہ جہاں کہیں اور بھی آپ کے خیال میں ضروری ہو لکھ ڈالیے۔‘‘ خط پڑھ کر چاک کر دیا جائے۔ ۴۷ معلوم ہوتا ہے کہ اردو نظموں کا مجموعہ شائع کرنے کا خیال بھی ان دنوں دوبارہ آیا۔ فرصت نہ تھی۔۳۰ ۴۸ ۲۲ فروری کو بمبئی سے کسی جوہری کا خط آیا جو کبھی اقبال کا ہم جماعت رہ چکا تھا۔ کشن پرشاد بمبئی میں تھے اور یہ چاہتا تھا کہ اقبال اُن سے تعارف کروا دیں۔ اقبال کو کشن پرشاد کا بمبئی کا پتہ معلوم نہیں تھا اس لیے خاموش رہ گئے۔۳۱ اُس روز لاہورمیں ہوائی جہاز اڑائے گئے۔ مرد اور عورتیں یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھنے سارادن چھتوں پر اور میدانوں میں کھڑے رہے۔ اگلے روز کشن پرشاد کا خط آیا۔ بمبئی میں تھے۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے ہم جماعت جوہری کا ذکر کیا، ’’ذہانتِ خداداد قوتِ ایجاد رکھتا ہے اور زیوروں کی ساخت میں کمال۔‘‘ لاہور میں ہوابازی کا ذکر کر کے اپنا شعر لکھا: فضا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے مرا جہاز ہے محرومِ بادباں پھر کیا۳۲ فصیح اللہ کاظمی نے نجانے کیا لکھا تھا کہ معاملہ کورٹ کچہری کی دھمکی تک پہنچا تھا۔ خط لکھ کر اقبال سے مشورہ مانگا۔ ’اسرارِ خودی‘ پر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے بھی کوئی بات لکھی۔ جواب میں اقبال نے اُس روز لکھا، ’’اعتراضات کا تعلق جہاں تک زبان سے ہے اُس کا جواب دینا آسانی سے ہو سکتا ہے مگر اُس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور باقی رہے مطالب سو زمانہ خود سمجھا دے گا۔‘‘ جس تحریر کی وجہ سے کوئی کاظمی پر لائبل کا مقدمہ کرنا چاہتا تھا وہ اقبال کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ’’آپ کے پاس پیامِ امید کی وہ اشاعت ہو تو بھیج دیجیے میں بڑی خوشی سے اپنے علم اور سمجھ کے مطابق رائے دوں گا۔‘‘ ۴۹ فروری میں کسی وقت گرامی لاہور آکراقبال کے پاس ٹھہرے۔’اسرارِخودی‘ کے دوسرے حصے کا نام ’رموزِ بیخودی‘ تجویز ہوا۔ خیال تھا کہ سال کے آخر تک ختم ہو جائے گا۔غالباً اِسی موقع پر گرامی نے کہا کہ ان کی تقریظ کے بغیر مثنوی شائع نہ کی جائے۔۳۳ ۵۰ حیدرآباد کے اخبار مخبر دکن میں خبر چھپی کہ ہائی کورٹ کی ججی کے سلسلے میں اقبال کا نام اکثر لیا جا رہا ہے۔۳۴ ۵۱ مخزن میں اقبال کی ایک پرانی غزل شائع ہوئی۔ نجانے کس نے بھیجی تھی۔۳۵ ۵۲ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ مخزن والی غزل پسند کی تھی۔ ’’میں لاہور میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں،‘‘ اقبال نے ۲ مارچ کو جواب میں لکھا۔ ’’مشاغلِ ضروری سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالمِ تخیل میں قرونِ اولیٰ کی سیر مگر خیال کیجئے جس زمانے کا تخیل اس قدر حسین و جمیل و روح افزا ہے وہ زمانہ خود کیسا ہوگا!‘‘ ۵۳ جس مجذوب کو اقبال اور کشن پرشاد اللہ اکبر کہتے تھے اس سے پھر ملاقات ہوئی۔کشن پرشاد کا تذکرہ ہوا۔ لاہور میں سلطان کی سرائے میں ایک مجذوبہ نے ان دنوں بہت لوگوں کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ اقبال کا ارادہ تھا کہ کسی روز وہاں بھی جائیں گے۔ ۳۶ ۵۴ ۳ مارچ کو گرامی ہوشیارپور واپس جانے والے تھے۔ معلوم نہیں گئے یا اقبال کسی بہانے کچھ اور دن روکنے میں کامیاب ہوئے۔۳۷ ۵۵ آفتاب دہلی میں سینٹ اسٹیفنز کالج میں پڑھ رہے تھے اور اقبال انہیں ہر ماہ ۳۵ روپے جیب خرچ بھیجتے تھے۔ آفتاب کھیل کود کی طرف زیادہ راغب تھے۔ اقبال نے سوچا انہیں کہیں مرید کروا دیں یا ان کی شادی کر دیں۔۳۸ اس برس شیخ عطا محمد کے لڑکے اعجاز احمد اسلامیہ کالج لاہور میں ایف اے کے سال دوم میں تھے۔ اقبال ۲۵ روپے ماہوار دیتے تھے۔۳۹ اعجاز ریواز ہاسٹل میں رہتے تھے۔ چودہری محمد حسین بھی مقیم تھے اور ایم اے کے طالب علم تھے یا امتحان دے چکے تھے۔ ان کے کمرے میں اقبال کے جن عقیدت مندوں کی محفلیں جمتی تھیں اُن میں سے ایک کا نام چودہری رحمت علی تھا۔ ’’یہ لوگ گاہے گاہے چچا جان سے ملنے جایا کرتے تھے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’میں اگرچہ اُن حضرات سے بہت جونیر تھا لیکن چچا جان کی قرابت کی وجہ سے چودہری محمد حسین کی مجھ پر نظرِ عنایت تھی اور مجھے بھی کبھی کبھی اُن کی مجلس میں ایک سامع کی حیثیت سے بیٹھنے کا موقعہ ملتا رہتا تھا۔ چودہری صاحب کے کمرے میں جو گفتگو ہوتی اُس سے مجھے اندازہ ہوا کہ چچا جان جو ایک زمانے میں ہندومسلم اتحاد کا ’اِک نیا شوالہ اِس دیس میں بنا دیں‘ اور ’آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملا دیں‘ کے پرجوش اور سرگرم داعی تھے اب برادرانِ وطن کے طرزِ عمل سے بددل ہو کر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک مشترک قومیت کے طور پر سیاسی تحریک چلانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں اور اُن کے لیے اپنی قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا اور عالمِ اسلامی کے اتحاد کو اپنا نصب العین بنانا ضروری ہے۔‘‘۴۰ اعجاز کی انگشتِ شہادت پر تکلیف دہ پھنسی (وٹلو) نکلی تو اقبال نے علی بخش کو خیریت دریافت کرنے بھیجا۔ اُس نے واپس جا کر کیفیت بتائی تو ہاسٹل سے گھر بلوا لیا۔ دونوں بیگمات سیالکوٹ گئی ہوئی تھیں۔ رات کو علی بخش بھی جا چکا تھا جب اعجاز کو تکلیف سے بیخواب دیکھ کر اقبال نے خود ہی کسی لحاف یا توشک سے پرانی روئی نکال کر لالٹین پر گرم کر کے اعجاز کی انگلی پر ٹکور کی۔ صبح سویرے منشی طاہر دین سے مشورہ کیا جو اُسی احاطے میں رہتے تھے۔ وہ اعجاز کو ساتھ لے کر ڈاکٹر محمد حسین کے پاس گئے۔ اعجاز اِس خیال میں تھے کہ صرف سوئی چبھوئی جائے گی۔ ڈاکٹر نے انگلی کا آپریشن کر کے واپس بھیجا۔ چار پانچ دن اقبال کے گھر قیام رہا۔ روزانہ پٹی ہوتی رہی۔۴۱ ۵۶ ۵ مارچ کو اقبال بار روم میں تھے جب کشن پرشاد کا خط ملا۔ حیدرآباد واپس پہنچ گئے تھے اور کسی غرض سے اقبال اور ان کے بیٹے آفتاب کی تصویریں منگوائی تھیں۔ایک فارسی غزل بھیجی تھی جس کی ردیف شائد’’ کیستم من‘‘ تھی۔ اقبال نے بار روم میں پڑھ کر سنائی۔۴۲ ۵۷ منشی قمرالدین جنہوں نے اقبال کی نظمیں بغیر اجازت شائع کی تھیں مگر ظفر علی خاں کی سفارش پر اقبال نے قانونی چارہ جوئی نہیں کی تھی، فوق کی سفارش لائے کہ نظمیں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ ’’منشی قمرالدین جن کو آپ نے سفارشی خط دے کر بھیجا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ان کو اجازت دی جائے،‘‘ اقبال نے ۶ مارچ کو فوق کے نام خط لکھا اور پچھلے تجربے کا حوالہ دیا۔ ’’علاوہ اس کے یہ لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پرواہ نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح۔ اس کے بعد اعتراض مجھ پر ہوتے ہیں۔‘‘ فوق نے قمرالدین کے ہاتھ جو خط بھیجا تھا اس میں اودھ پنچ کے کسی پرچے میں اقبال کی شاعری پر کیے گئے اعتراضات کا ذکر بھی کیا ہوگا کیونکہ انہوں نے لکھا کہ وہ پرچہ تلاش کرنا چاہئے، ’’شائد اِن اعتراضوں میں کوئی کام کی بات ہو۔ لکھنؤ والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعر سمجھا ہے۔ حقیقت میں فنِ شاعری اِس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا پھر میں کیونکر کامیاب ہو سکتا ہوں جسے روزی کمانے کے دھندے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ میرا مقصود گاہ گاہ نظم لکھنے سے صرف اِسی قدر ہے کہ چند مطالب جو میرے ذہن میں ہیں اُن کو مسلمانوں تک پہنچا دُوں اور بس۔‘‘ ۵۸ ’’امارت، عزت، آبرو، جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا،‘‘ اقبال نے ۷ مارچ کو کشن پرشاد کے خط اور غزل کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’کیا خوب ہو اگر سرکارِ عالی کا فارسی دیوان مرتّب ہو کر دیدہ افروزِ اہلِ بصیرت ہو۔‘‘ تصویروں کے بارے میں لکھا کہ ابھی کوئی پاس نہیں ہیں مگراپنی اور آفتاب کی نئی تصویریں بنوا کر روانہ کر دیں گے۔ آفتاب کے مزاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اُنہیں کہیں مرید کروانا یا ان کی شادی کرنا چاہتے ہیں ’’تاکہ اس کے ناز میں نیاز پیدا ہو جائے۔‘‘ ۵۹ انہی دنوں اقبال کو دردِ گردہ کا دورہ پڑا۔۴۳ ۶۰ ۱۶ مارچ کو رُوس میں زار نے تخت سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔ ۶۱ میونسپل گزٹ کے اڈیٹر منشی محمد دین نے صرف اخبار میں تجویز چھاپنے پر گریز نہیں کیا تھا بلکہ کشن پرشاد کو بھی لکھا تھا کہ اقبال کو حیدرآباد کی ججی کے لیے نامزد کریں۔ وہاں سے جواب آیا کہ اقبال سے بڑی عقیدت ہے اور جو کچھ ہو سکا کریں گے بلکہ چند روز میں سامنے بھی آجائے گا۔ ۱۸ مارچ کو منشی محمد دین یہ خط لے کر اقبال کے پاس آئے۔ اقبال کو دردِ گردہ سے کچھ افاقہ ہوا تھا۔ پوری طرح آرام نہ آیا تھا۔۴۴ ’’میں نے اب تک اپنے معاملات میں ذاتی کوشش کو بہت کم دخل دیا ہے، ہمیشہ اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیا ہے اور نتیجے سے خواہ وہ کسی قسم کا ہو خدا کے فضل و کرم سے نہیں گھبرایا،‘‘ اقبال نے اُسی روز کشن پرشاد کولکھا۔ ’’دل میں یہ ضرور ہے کہ اگر خدا کی نگاہِ انتخاب نے مجھے حیدرآباد کے لیے چُنا ہے تو اتفاق سے یہ انتخاب میری مرضی کے بھی عین مطابق ہے گویا بالفاظِ دیگر بندہ و آقا کی رضا اس معاملے میںکُلّی طور پر ایک ہے۔‘‘ ’’آپ کی تصنیف اُردو زبان پر ایک احسانِ عظیم ہے،‘‘اُسی روز پروفیسر الیاس برنی کو جواب دیا۔ ’’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردوزبان میں علم اقتصاد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل۔‘‘ اُردو میں اس موضوع پر پہلی تصنیف توبارہ برس پہلے خود لکھی تھی۔ خط کا عکس موجود نہیں ہے ۔ برنی کی کتاب کو پہلی کامل کتاب قرار دیا ہوگا نہ کہ پہلی اور کامل مگر غالباً بعد میں نقل کرنے والوں سے غلطی ہوئی۔۴۵ ۶۲ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جائے تو کائنات کی ظاہری اور باطنی قوتوں پر حکومت کرتی ہے۔ یہ بات ’اسرارِ خودی‘ میں بیان ہوئی تھی۔ قوم کی زندگی کو وُسعت، فطرت کے عناصر کو تسخیر کرنے سے ملتی تھی۔ اس کے لیے سائنس ضروری تھی۔ یہ باب غالباً دردِ گردہ ہی کی حالت میں شروع کیا ۔ بیاض میں درج نہ ہوا۔ کسی علیحدہ کاغذ پر لکھا ہو گا۔ اپریل میں انجمن حمائت اسلام کا سالانہ جلسہ ہونے والا تھا۔ دردِگردہ کی وجہ سے کوئی نظم پڑھنے کا ارادہ نہ تھا۔ سوچا کہ اصرا ہوا تو کوئی پرانی نظم سنا دیں گے۔ گرامی جالندھر آنے والے تھے۔ اقبال کو بھی بلایا مگر اُن کے پاس طبیعت کی خرابی کا عذر موجود تھا۔زیادہ سے زیادہ سیالکوٹ تک جانے کا ارادہ تھا کیونکہ شیخ نورمحمد کی عمر اب سفر کو مشکل بنانے لگی تھی۔۴۶ نیازالدین خاں نے خط لکھ کر اُس نظم کے بارے میں پوچھا جو اقبال نے ۱۹۰۴ء میں ’بلال‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔۲۱ مارچ کو اقبال نے جواب دیا۔ اگلے روز گرامی کا خط ملا۔ ’’میری طبیعت ابھی تک روبراہ نہیں ہوئی لیکن پہلے کی نسبت بہت آرام ہے،‘‘ فوراً جواب دیتے ہوئے لکھا اور انہیں انجمن کے جلسے میں آنے کی دعوت دے کر کہا، ’’ایک آدھ شعر ذوالفقار علی خاں کے متعلق بھی لکھ ڈالیے۔ ذوالفقار کے نام میں ایک ذخیرہ مضمون کا ہے۔‘‘ محمد دین اور کشن پرشاد کی خط کتابت سے بھی آگاہ کیا۔ ’’مندرجہ ذیل اشعار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھئے،‘‘ تازہ اشعار میں سے دو نقل کرتے ہوئے لکھا جن میں ایک مصرعہ کھٹکتا تھا۔ ’’مضمون یہ ہے کہ دنیا کی قوتوں کو سمجھنا اور اُن کو قابو میں لانا چاہئے۔‘‘ ۶۳ ۳۱ مارچ کو اِنکم ٹیکس کا سال ختم ہوتا تھا۔ پچھلے برسوں میں اقبال کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ ٹیکس لگتا یا پھر ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یکم اپریل ۱۹۱۶ء سے ۳۱مارچ ۱۹۱۷ء تک آمدنی تین ہزار چھ سو روپے تھی۔ اقبال نے گوشوارہ داخل کیا۔چورانوے (۹۴) روپے ٹیکس بنتا تھا۔۴۷ ۶۴ اخبار میں اقبال کی حیدرآباد کی ججی کی خبر چھپ گئی۔ پنجاب کے موکل پریشان ہو گئے کہ جانے والے ہیں۔ نئے مقدمات ملنا مشکل ہو گیا۔۴۸ ۶۵ غزل نالہ ہے اے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنیٔ پیغام ابھی خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نوگرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی۴۹ یہ غزل اخبار پنجاب میں خاصی غلطیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔۵۰ ۶۶ ۶ اپریل کو امریکہ بھی جنگ میں شامل ہو گیا۔ ۶۷ کشن پرشاد نے حیدرآباد واپس پہنچ کر جواب دیاکہ انسان صرف تدبیر کر سکتا ہے۔ تقدیر اُوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ ’’اِس معاملے میں جس قدر تدابیر اقبال کے ذہن میں آسکتی ہیں اُن سب کا مرکز ایک وجود ہے جس کا نامِ گرامی شاد ہے، تدبیر اور تقدیر اِسی نام میں مخفی ہیں،‘‘ ۱۰ اپریل کو اقبال نے جواب دیاجب لاہور کے بازار بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں کے استقبال کو سجائے جا رہے تھے جو اگلے روز انجمن حمائت اسلام کے جلسے کی صدارت کرنے والے تھے اور لاہور پہنچ چکے تھے۔ ’’پھر اقبال انشا ٔاللہ العزیز ہر حال میں شاد ہے۔‘‘ ۶۸ ایسٹر سنڈے ۸ اپریل کو آ رہا تھا۔ ۲ اپریل کو پیسہ اخبارمیں انجمن حمایت اسلام کے بتیسویں سالانہ جلسے کا پروگرام شائع ہوا۔ ۶ سے ۸ اپریل تک ہو رہا تھا۔۵۱ کہتے ہیں کہ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں اکٹھے آئے۔ محمد الدین فوقؔ کے چچا منشی غلام محمد خادم نے فی البدیہہ کہا: اقبال و ذوالفقار کا ہو کیوں نہ احترام تخت اور تاج دونوں انہی کے تو ہیں غلام اقبال ذوالفقار سے آتا ہے ہاتھ میں وابستہ ذوالفقار ہے اقبال سے مدام۵۲ بہرحال پہلے روز اقبال نے نظم پڑھی جس کی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔۵۳ شیخ نور محمد غالباً جلسے میں شرکت ہی کے لیے لاہور آئے۔ چند روز ٹھہر گئے۔ امام بی بی اور اپنے والدین کی قبر پر ہر روز جانے کی عادت پوری نہ ہونے کی وجہ سے ذرا بے چین رہتے۔۵۴ ۶۹ مخبر دکن میں خبر چھپی کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام نظام حیدرآباد کے سامنے پیش کئے گئے جن میں ایک نام اقبال کا بھی تھا۔ ۱۵ اپریل کو اقبال نے احیتاطاً اپنے کوائف کشن پرشاد کو لکھ بھیجے۔ ججی کو فلسفے سے تعلق نہ سہی مگر انگلستان اور جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور پھر حکومت کی طرف سے بار بار گورنمنٹ کالج میں پڑھانے کی درخواست پر انکار کرنے کے ذکر میں کوئی حرج نہ تھا۔مسلم ریاست کی ہائی کورٹ میں شائد عربی کی سمجھ کام آسکتی چنانچہ ُاس زبان میں قابلیت اور لندن یونیورسٹی میں عارضی طور پر اُس کے پڑھانے کا ذکر کیا۔ پنجاب اور الٰہ آباد یونیورسٹیوں کا ممتحن ہونے کا ذکر بھی کیا۔ ’’علم الاقتصاد پر اُردو میں سب سے پہلی مستند کتاب میں نے لکھی۔ انگریزی میں چھوٹی تصانیف کے علاوہ ایک مفصل رسالہ فلسفۂ ایران پر بھی لکھا ہے جو انگلستان میں شائع ہوا تھا۔ میرے پاس اس وقت یہ کتابیں موجود نہیں ورنہ ارسالِ خدمت کرتا۔‘‘ باقی حالات سرکار پر بخوبی روشن تھے۔ البتہ ’’فقہِ اسلام میں اِس وقت ایک مفصل کتاب بزبانِ انگریزی زیرِ تصنیف ہے جس کے لیے میں نے مصروشام و عرب سے مسالہ جمع کیا ہے۔‘‘ یہ نیا انکشاف تھا۔ ممکن ہے کہ تاریخِ تصوف کے لیے جو مسالہ جمع کرنا شروع کیا تھا اُسی میں مزید تحقیقات شامل کر کے لکھنا چاہتے ہوں۔ اِس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ جس کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں اُس کی تاریخ لکھنے کی بجائے اُس پر کیوں نہ محنت کریں جسے فروغ دینا چاہتے ہیں یعنی اسلامی شریعت نئے زمانے کی روشنی کے لیے۔ ۷۰ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اردو کے پرچہ الف کے ممتحن تھے۔ بی اے آنرز کے جنرل فلاسفی اور فارسی، اور ایم اے فلسفہ کے دو پرچوں کے ممتحن بھی تھے۔۵۵ ۷۱ ۱۷ اپریل کو گرامی کا خط ملا۔ انہوں نے بھی لکھا تھا کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام نظام کے حضور پیش کئے گئے ہیں جن میں اقبال کا نام شامل ہے۔ ’’والد مکرم آپ کو کئی دفعہ یاد کر چکے ہیں بلکہ قریباً ہر روز یاد کرتے ہیں،‘‘ اقبال نے گرامی کو جلد آنے کی تاکید کرتے ہوئے لکھا اور پھر پوچھا کہ کیا انہیں مخبر دکن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ اقبال کا نام نظام کے حضور پیش کیا گیا ہے؟’’مگر مجھے بڑی پختہ امید نہیں کیونکہ جو لوگ وہاں کے ہیں اُن کو دوڑ دھوپ کا موقع بہت حاصل ہے اور مقامی اثرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ ۷۲ راجہ غلام حسین ضلع جہلم کے غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آٹھ نو برس سال پہلے اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیارپور میں ہیڈماسٹر ہوئے۔ پھر محمد علی جوہر کے کامریڈ میں سب اڈیٹر ہوئے۔ اخبار بند ہونے کے بعد کچھ روز لکھنؤ میں انڈین ڈیلی ٹیلی گراف سے منسلک رہے ۔ پھر وہیں سے اپنا ذاتی ہفت روزہ انگریزی میں نیو ایرا(The New Era) کے نام سے نکالنا شروع کیا۔ خاص لکھنے والوں میں اقبال شامل تھے۔۵۶ پہلا پرچہ سنیچر ۷ اپریل ۱۹۱۷ء کو شائع ہوا۔۵۷ Stray Thoughts [Excerpts] ٭ The result of all Philosophical thought is that absolute knowledge is an impossibility. The poet Browning turns this impossibility to ethical use by a very ingenious argument. The uncertainty of human knowledge, teaches the poet, is a necessary condition of moral growth, since complete knowledge will destroy the liberty of human choice. ٭ Literary criticism sometimes precedes the creation of a great Literature. We find Lessing on the very threshold of German Literature. ٭ Both Shakespeare and Goethe rethink the thought of Divine creation. There is, however, one important difference between them. The Realist Englishman rethinks the individual; the Idealist German, the Universal. Faust is a seeming individual only. In reality he is humanity individualised. ٭ As a plant growing on the bank of a stream heareth not the sweet silver-music which sustains it from beneath, so man, growing on the brink of Infinity listeneth not to the Divine undertone that maketh the life and harmony of his soul. ٭ Nations are born in the hearts of Poets; they prosper and die in the hands of politicians. ٭ No religious system can ignore the moral value of suffering. The error of the builders of Christianity was that they based their religion on the fact of suffering alone, and ignored the moral value of other factors. Yet such a religious system was a necessity to the European mind in order to supplement the beautiful but one-sided Hellenic Ideal. The Greek dream of life was certainly the best, as Goethe says; but it was wanting in the color-element of suffering which was supplied by Christianity. ٭ Life, like the arts of Poetry and Painting, is wholly expression. Contemplation without action is death. ٭ Matthew Arnold is a very precise poet. I like, however, an element of vagueness in poetry; since the vague appears profound to the emotions. ٭ At least in one respect sin is better than piety. There is an imaginative element in the former which is lacking in the latter. ٭ Suffering is a gift from the gods in order to make men see the whole of life. ٭ Self-control in individuals builds families, in communities it builds Empires. ٭ Power is more divine than truth. God is Power. Be ye, then, like your Father who is in heaven. ٭ The powerful man creates environment; the feeble have to adjust themselves to it. ٭ Matthew Arnold defines poetry as criticism of life. That life is criticism of poetry is equally true. ٭ The fate of the world has been principally decided by minorities. The history of Europe bears ample testimony to the truth of this proposition. It seems to me that there are psychological and physiological reasons why minorities should have been a powerful factor in the history of mankind. Character is the invisible force which determines the destinies of nations, and an intense character is not possible in a majority. It is a force, the more it is distributed the weaker it becomes. ٭ Our soul discovers itself when we come into contact with a great mind. It is not until I had realised the infinitude of Goethe's mind that I discovered the narrow breadth of my own. ٭ Belief is a great power. When I see that a proposition of mine is believed by another mind, my own conviction of its truth is hereby immensely increased. ٭ Hegel's system of Philosophy is an epic poem in prose. ٭ I have the highest respect for Aristotle. Not only because I (living in the 20th century) know him better than the oldest generations of my community, but also because of his vast influence on the entire thought of my people. The tinge, however, of ingratitude revealed in his criticism of Plato's doctrine of Ideas withholds me from giving him my fullest admiration. I do not deny the element of truth in his criticism, but I do detest the spirit in which he chooses to handle his master. ٭ A woman of superb beauty with a complete absence of self-consciousness is probably the most charming thing on God's Earth. ٭ Both God and the Devil give man opportunities only, leaving him to make use of those opportunities in the way he thinks best. ٭ God! I thank Thee for my birth in this world of rosy dawns, flame-clad sunsets and thick forests wherein the gloom of Nature's bygone nights rests in eternal slumber! ٭ Philosophy ages; Poetry rejuvenates. ٭ Science and Philosophy have limits, Art is boundless. ٭ The soul of Oscar Wilde is more Persian than English. The New Era (Lucknow), April 17, 1917 ۷۳ مخزن کے اپریل کے شمارے میں صفحہ۲۳ پر اقبال کی نظم ’شیکسپیئر‘ شائع ہوئی۔ پچھلے برس فروری میں ایک پرانی نظم کے ساتھ اقبال کا نام جو پیشہ ور شاعروں کی طرح ’’شیخ محمد اقبال صاحب۔اقبالؔ‘‘ لکھا گیا تھا، ممکن ہے کہ اقبال نے اُس پر برا منایا ہو کیونکہ اس دفعہ ’’ترجمانِ حقیقت جناب ڈاکٹر اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ ڈی‘‘ لکھا گیا۔ اقبال کو ترجمانِ حقیقت کا لقب پانچ برس پہلے خواجہ حسن نظامی نے دیا تھا۔ اب عام استعمال ہونے لگا تھا۔ ۷۴ بھوپال میں ایک مصنف محمد امین زبیری رہتے تھے۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں اقبال کو خط لکھ کر دریافت کیا۔ ’’میری رائے میں اس بحث پر سب سے بہتر کتاب قرآنِ کریم ہے،‘‘ اقبال نے ۲۹ اپریل کو جواب میں لکھا۔ ’’تدبر شرط ہے، اُس میں تمام باتیں موجود ہیں بلکہ modern ego eugenics کے تمام مسائل بھی اُس میں موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد میری والسٹونکرافٹ جس کا نام وہ بھول گئے تھے اس کی کتاب A Vindication of the Rights of Women اور جان اسٹوارٹ مل کی کتاب On the Rioghts of Women کے حوالے دیے۔ ’’زمانہ حال کی سفریجٹ عورتوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔‘‘ ۷۵ شیخ نورمحمد پانچ روز بعد واپس جانے والے تھے۔ یکم مئی کو اقبال نے گرامی کو خط لکھ کر لاہور آنے کی پھر تاکید کی۔ ۷۶ گرامی نے اقبال کے اشعار میں کچھ اصلاح تجویز کی تھی جو سید بشیر حیدر نے اپنے خط میں لکھ کر بھیجیں۔ اقبال کو ان سے اتفاق نہیں تھا۔ کچھ وجوہات بشیر حیدر کو لکھ بھیجیں اور باقی گرامی سے تفصیلی ملاقات کے لیے اٹھا رکھیں۔۵۸ ۷۷ بیاض میں خلاصے کے حصے ’اللہ ُ الصمد‘ میں کنارے پر تازہ اشعارکا اضافہ کیا۔ جن مسلمان نوجوانوں نے اپنا لباس، زبان، خیالات اور فیشن تبدیل کر لیے تھے اُن سے خطاب کیا تھا۔۵۹ ۳ مئی کو اخبار دیش میں خبر پڑھی کہ کشن پرشاد بیمار ہیں۔ ’’گونہ تردّد ہے،‘‘ اُس وقت کشن پرشاد کو خط میں لکھا۔ ’’اقبال کو خبر خیریت سے مطلع کیا جائے۔‘‘ گرامی کا پوسٹ کارڈ بھی ملا۔ اُن کی بیگم بیمار تھیں۔ شیخ نور محمد نے اُسی وقت دعا کی۔ ’’میں بھی دست بدعا ہوں،‘‘ اقبال نے اسی روز گرامی کو خط میں لکھا۔ ’’مہربانی کر کے ان کی خبر خیریت سے بواپسی ڈاک مطلع فرمائیے۔‘‘ بشیر احمد والے خط کا ذکر کرنے کے بعد اپنے تازہ اشعار اصلاح کے لیے بھیجے۔ ۷۸ ۷ مئی کو گرامی کا خط آیا۔ اقبال بیگم ترکؔ ٹھیک ہو گئی تھیں۔اقبال نے گرامی کو لکھا کہ اب وہ خود لاہور آجائیں تو ان کا بھی علاج ہو جائے گا، ’’میرے ایک ڈاکٹر صاحب دوست ہیں جو دماغ کی بیماریوں میں خاص طور پر ماہر ہیں۔‘‘ گرامی نے بلبلِ شوریدہ والی غزل میں اصلاح تجویز کی تھی۔ اقبال نے اُس پر تبصرہ کر کے لکھا کہ عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل والا شعر رموزِ بیخودی میں امام حسین والے حصے کے اس شعر کا ترجمہ ہے: عقل در پیچاکِ اسباب و علل عشق چوگاں بازِ میدانِ عمل ’’شمارِ سحر و شام‘‘ کی جگہ ’’رہینِ سحر و شام‘‘ تجویز کیا تھا جس سے اقبال کو اتفاق نہ ہوا۔ ’’زندگی سحر و شام کی تعداد کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا معیار سعیٔ پیہم ہے،‘‘ اقبال نے اپنے شعر کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا۔ ’’جب کوئی پوچھے فلاں آدمی کی عمر کتنی ہے تو جواب ملتا ہے اتنے سال یا اتنے مہینے، یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ جواب ایام یعنی سحر و شام کے شمار کا نتیجہ ہے۔‘‘ یہ وہی خیال تھا جسے ۱۹۱۰ء میں اپنی نوٹ بک میں بھی درج کر چکے تھے۔ ۷۹ یونیورسٹی کے پرچے جانچنے سے فرصت ہو گئی تھی اور خیال تھا کہ اب ’رموزِ بیخودی‘ مکمل کریں گے۔۶۰ ۸۰ ۱۸ مئی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا: زباں سے قلب پہ صوفی خدا کا نام لایا ہے یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے۶۱ ۸۱ کشن پرشاد کا خط آیا۔ معلوم ہوا خیریت سے ہیں اور ۱۴ اپریل کو کوئی خط لکھا تھا جو پہنچا نہیں۔ ’’گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا،‘‘ ۱۹ مئی کو جواب لکھتے ہوئے اقبال نے امام بخش ناسخ کا مصرعہ دہرایا۔ اُس برس لاہور میں مئی جون کی عام ناقابلِ برداشت لُو کی بجائے آسمان پر بادل چھائے رہتے تھے۔ صبح کے وقت خاصی سردی ہوتی تھی۔ ’’مغرب سے آفتاب نکلنے کا یہی مفہوم ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کا مطلع اور بلبلِ شوریدہ والی غزل کے تین اشعار کشن پرشاد کو بھیج دیے۔ ۸۲ ۲۰ مئی کو گرامی کے کسی عزیز نے کوئی عجیب و غریب بات اقبال سے کہی۔ ’’خط میں لکھنے کی نہیں ملاقات ہو گی تو عرض کروں گا، اتنا کہے دیتا ہوں کہ وہ بات آپ سے تعلق رکھتی ہے،‘‘اقبال نے اگلے روز گرامی کو لکھا جن کی طرف سے مدت ہوئی کوئی خط نہیں آیاتھا۔ اس کے بعد دریافت کیا کہ حیدرآباد سے کوئی خبر تو نہیں ملی۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی تقریظ کی یاددہانی کرو ا دی، ’’ایسا نہ ہو کہ آپ کی تقریظ کے لیے اس کی اشاعت کو روکنا پڑے۔‘‘ کسی اور خیال کے تحت ملا فِرِج اللہ ترشیزی کا وہ شعر بھی خط میں لکھا جس کا مطلب تھا کہ شراب بنانے والے نے جو انگور کا پانی بنایا ہے گویا ستارہ توڑ کر آفتاب بنا دیا ہے، ’’کیا اچھا شعر کسی استاد کا ہے‘‘: مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند آفتاب می سازند ۸۳ فوقؔ نے کشمیر کی سیر کرنے والوں کے لیے ایک رسالہ رہنمائے کشمیرلکھا تھا۔ اقبال اب تک کشمیر نہیں جا سکے تھے مگر رسالہ پسند آیا۔۶۲ ۸۴ ۸ جون کو فوقؔ کا خط ملا۔ ’اسرارِ خودی‘ منگوائی تھی۔ ’’کشمیر اور اہلِ کشمیر پر مختلف کتابیں لکھ کر آپ نے مسلمانوں پر اور اُن کے لٹریچر پر احسان کیا ہے البتہ کشامرہ کی قبر پرستی ایک ایسا مضمون ہے جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا،‘‘ اقبال نے اُسی وقت خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اس طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ فوقؔ کے رسالے رہنمائے کشمیر کی تعریف بھی کی اور بتایا کہ ’اسرارِ خودی‘ کی کوئی کاپی اب موجود نہیں ہے۔ مدتوں پہلے دوسرے اڈیشن کے لیے جو کاغذ خریدا تھا وہ نہ جانے کیا ہوا تھا کیونکہ فوقؔ کو لکھا، ’’ممکن ہے کہ دوسری ایڈیشن شائع ہو۔ ایسا ہوا تو سب سے پہلے ایک کاپی آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔‘‘ ۸۵ ترکی کا روایتی دشمن یونان جنگ میں شامل نہ ہوا۔ یونان کے بادشاہ قسطنطین کی ملکہ جرمن تھی ۔ اتحادی طاقتوں نے پہلے صرف دھمکیوں سے کام لیا مگر پھر یونانی بحری جہازوں کا راستہ روکنا شروع کر دیا۔ ۱۱ جون کو بادشاہ اپنے بیٹے کے حق میں تخت سے دست بردار ہو گیا اور متنازعہ طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم وینی زیلوس نے حکومت سنبھال لی۔ جنگ پر آمادہ تھا۔ ترکی کا سخت دشمن تھا۔ ۸۶ کشن پرشاد کا خط آیا۔ قرضہ چڑھ گیا تھا جس کا ذکر خط میں بھی کر دیا۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی والے معاملے کا کوئی ذکر نہ تھا البتہ اکبرؔ الٰہ آبادی کی زمین میں ایک مطلع لکھا تھا جو اقبال کوپسند آیا: شریعت کا طریقت کے لیے پیغام لایا ہے یہی اِک رازِ مخفی تھا جسے اسلام لایا ہے ۱۴ جون کو جواب میں لکھا کہ یہ شعر اکبرؔ کے مطلع سے کم نہیں۔ ’’ایک جہانِ معنی اس میں آباد ہے،‘‘انہوں نے لکھا۔ ’’آخر کیوں نہ ہو۔ اِن رموز کے جاننے والوں میں سرکارِعالی کا نمبر اوّل ہے۔ حیاتِ ملیہ کا راز اسی پیغام میں مخفی ہے۔ آپ نے خوب پہچانا۔‘‘ موسم کی عجیب حالت تھی کہ دوچار روز کی گرمی کے بعد کچھ بارش آ جاتی تھی اور ہوا میں کسی قدرخنکی پیدا کرجاتی تھی۔ موسمیات کے ماہرین بہت بارش کی پیشین گوئی کر تے تھے، ’’ہونی بھی چاہئے کہ خون کی بارش نے جو دھبّے چادرِ ہستی پر لگا دئیے ہیں وہ دُھل جائیں،‘‘ اقبال نے جنگِ عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ کشن پرشاد کے مقروض ہونے کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ اُس فیاضی کا نتیجہ ہے جو انہیں بزرگوں سے میراث میںملی تھی۔ ’’اللہ تعالیٰ اس سے ضرور سبکدوش کرے گا۔‘‘ ۸۷ بشیرحیدر کو پوسٹ کارڈ بھیج کر فرمائش کی کہ گرامی کی خبر خیریت سے بھی آگاہ کریں مگر وہاں سے جواب نہیں آیا۔ شائد دورے پر تھے۔۶۳ ۸۸ انہی دنوں اورنگ آباد سے مولوی عبدالحق کا خط بھی آیا۔ اُس زمانے میں عبدالحق نے علمی اصطلاحات کی طویل فہرست اقبال کو بھیجی تھی کہ اُن کے اردو تراجم پر رائے دیں۔ ممکن ہے اسی خط میں بھیجی ہو۔۶۴ ۸۹ کوئی تاج محمد صاحب تھے جن سے اقبال کی خط کتابت تھی۔ ان سے معلوم ہوا کہ گرامی کی اہلیہ اقبال بیگم ترکؔ کی طبیعت اب ٹھیک ہے۔۶۵ ۹۰ جوانی کے زمانے کا وہ واقعہ نظم کیا جب گھر کے دروازے پر جم جانے والے ایک بھکاری پر چھڑی اُٹھائی تھی اور والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ یہ باب ’اخلاقِ محمدیہ‘ کے متعلق تھا۔ ایک مسلمان کی تربیت کا کمال یہ تھا کہ اُس کی سیرت و کردار آنحضورؐ کے رنگ میں رنگے جائیں۔ اب اُس عظیم الشان باب کی آمد ہوئی جو پوری کتاب کی جان بننے والا تھا۔ تراش خراش ہوئی اور نجانے کب تک ہوتی رہی۔ حتمی صورت جو کبھی سامنے آئی اُس کا عنوان ’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمین‘ تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کی کہ مجھ پر مغرب پرستی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اگر میرے اشعار میں قرآن کے سوا کچھ ہے تو اپنی اُمت کو میرے شر سے محفوظ رکھیے اور قیامت کے دن مجھے اس سعادت سے محروم رکھیے کہ میں آپ کے قدم چوم سکوں۔ لیکن اگر میں نے قرآن کے معانی کو اپنے اشعار میں پرویا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ میرے عشق کو عمل سے ہم آہنگ کر دے۔ عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمین اے ظہورِ تو شبابِ زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی اے زمین از بارگاہت ارجمند آسمان از بوسۂ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب روئے تو ترک و تاجیک و عرب ہندوے تو از تو بالا پایۂ ایں کائنات فقر تو سرمایۂ ایں کائنات در جہان شمع حیات افروختی بندگان را خواجگی آموختی بے تو از نابودمندیہا خجل پیکرانِ ایں سراے آب و گل تا دم تو آتشے از گِل کشود تودہ ہاے خاک را آدم نمود ذرّہ دامن گیر مہر و ماہ شد یعنی از نیروے خویش آگاہ شد تا مرا افتاد بر رویت نظر از اب و ام گشتۂٖ محبوب تر عشق در من آتشے افروخت است فرصتش بادا کہ جانم سوخت است نالۂ مانندِ نے سامانِ من آں چراغ خانۂ ویرانِ من از غمِ پنہاں نگفتن مشکل است بادہ در مینا نہفتن مشکل است مسلم از سرِّ نبیؐ بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم بتخانہ شد از منات و لات و عزیّٰ و ہبل ہر یکے دارد بتے اندر بغل شیخِ ما از برہمن کافر تر است زانکہ او را سومنات اندر سر است رختِ ہستی از عرب برچیدۂِ در خُمستانِ عجم خوابیدۂِ شل ز برفابِ عجم اعضائے او سرد تر از اشکِ او صہبائے او ہمچو کافر از اجل ترسندۂ سینہ اش فارغ ز قلبِ زندۂ نعشش از پیشِ طبیباں بردہ ام در حضورِ مصطفیؐ آوردہ ام مردہ بود از آبِ حیواں گفتمش سرّے از اَسرارِ قرآں گفتمش داستانے گفتم از یارانِ نجد نکہتے آوردم از بستانِ نجد محفل از شمعِ نوا افروختم قوم را رمزِ حیات آموختم گفت بر ما بندد افسونِ فرنگ ہست غوغایش ز قانونِ فرنگ اے بصیری را رِدا بخشندۂِ بربطِ سلما مرا بخشندۂِ ذوقِ حق دہ ایں خطااندیش را اینکہ نشناسد متاعِ خویش را گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآن مضمر است اے فروغت صبحِ اعصار و دہور چشمِ تو بینندۂ ما فی الصّدور پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را زخارم پاک کن تنگ کن رختِ حیات اندر برم اہلِ ملّت را نگہدار از شرم سبز کشتِ نابسامانم مکن بہرہ گیر از ابرِ نیسانم مکن خشک گرداں بادہ در انگورِ من زہر ریز اندر میٔ کافورِ من روزِ محشر خوار و رُسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا گر دُرِ اَسرارِ قرآں سفتہ ام با مسلماناں اگر حق گفتہ ام اے کہ از احسانِ تو ناکس کس است یک دعایت مزدِ گفتارم بس است عرض کن پیشِ خداے عزّوجل عشقِ من گردد ہم آغوشِ عمل دولتِ جانِ حزیں بخشندۂٖ بہرۂ از علمِ دیں بخشندۂٖ در عمل پایندہ تر گرداں مرا آبِ نیسانم گہر گرداں مرا رختِ جاں تا در جہاں آوردہ ام آرزوے دیگرے پروردہ ام ہمچو دل در سینہ ام آسودہ است محرم از صبحِ حیاتم بودہ است از پدر تا نامِ تو آموختم آتشِ ایں آرزو افروختم تا فلک دیرینہ تر سازد مرا در قمارِ زندگی بازد مرا آرزوئے من جواں تر می شود ایں کہن صہبا گراں تر می شود ایں تمنا زیرِ خاکم گوہر است در شبم تابِ ہمیں یک اختر است مدّتے با لالہ رویاں ساختم عشق با مرغولہ مویاں باختم بادہ ہا با ماہ سیمایاں زدم بر چراغِ عافیت داماں زدم برقہا رقصید گردِ حاصلم رہزناں بردند کالائے دلم ایں شراب از شیشۂ جانم نریخت ایں زرِ سارا زدامانم نریخت عقلِ آزر پیشہ ام زُنّار بست نقشِ او در کشورِ جانم نشست سالہا بودم گرفتارِ شکے از دماغِ خشکِ من لاینفکے حرفے از علم الیقین ناخواندۂِ در گمان آبادِ حکمت ماندۂِ ظلمتم از تابِ حق بیگانہ بود شامم از نورِ شفق بیگانہ بود ایں تمنا در دلم خوابیدہ ماند در صدف مثلِ گہر پوشیدہ ماند آخر از پیمانۂ چشمم چکید در ضمیرِ من نواہا آفرید اے ز یادِ غیرِ تو جانم تہی بر لبش آرم اگر فرماں دہی زندگی را از عمل ساماں نبود پس مرا ایں آرزو شایاں نبود شرم از اظہارِ او آید مرا شفقتِ تو جرأت افزاید مرا ہست شانِ رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز مسلمے از ماسوا بیگانۂ تا کجا زناّریٔ بتخانۂ حیف چوں او را سرآید روزگار پیکرش را دَیر گیرد در کنار از درت خیزد اگر اجزائے من وائے امروزم خوشا فرداے من فرّخا شھرے کہ تو بودی در آں اے خنک خاکے کہ آسودی در آں ’’مسکنِ یار است و شہرِ شاہِ من پیشِ عاشق ایں بود حُبُّ الوطن‘‘ کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایۂ دیوار بخش تا بیاساید دلِ بے تابِ من بستگی پیدا کند سیمابِ من با فلک گویم کہ آرامم نِگر دیدۂٖ آغازم، انجامم نِگر ۹۱ ۲۵ جون کو ’رموزِبیخودی‘ اپنے خیال میں ختم کر کے اس کے مضامین کی آخری ترتیب دینے بیٹھے تو خیال آیا کہ کتاب ختم نہیں ہوئی ہے۔ ’’یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دوتین ضروری مضامین باقی ہیں،‘‘ ان کا بیان ہے۔ یہ مضامین مسلمانوں کی قومی زندگی میں قرآن اور خانۂ کعبہ کی حیثیت سے متعلق تھے۔ ’’ایسے ایسے مضامین ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لیے موجبِ حیرت و مسرت ہوں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملّتِ اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے،‘‘ اقبال محسوس کر رہے تھے۔ ’’نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصولِ حقّہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرورِ ایّام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی۔‘‘۶۶ ۹۲ ۲۷ جون کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ تجویز کیا تھا کہ آم دردِ گردہ کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ باقی وہ بھی خیریت سے تھے اور گرامی بھی بلکہ گرامی جالندھر آنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ ’’کچھ عرصہ ہوا میں نے انہیں خط لکھا تھا مگر اُن کے لیے خط کا جواب لکھنا ایسا ہی ہے جیسے روس کا موجود حالت میں جرمنی سے لڑ سکنا،‘‘ اقبال نے اُسی وقت نیازالدین خاں کو جواب دیتے ہوئے لکھاکہ اگر ہو سکتا تو وہ خود ہشیارپور جا کر گرامی کی صحبت کا لطف اٹھاتے۔ ۹۳ عورت پر نسلِ انسانی کی بقا کا انحصار تھا۔ ملتِ اسلامیہ کے لیے ماں کا وجود اِس لیے بھی زیادہ اہم تھا کہ کسی جغرافیائی قومیت کی بجائے ایک نظریے پر قائم تھی۔ ہر نئی نسل کی تربیت اُس نظریے کی روشنی میں کرنا ضروری تھا۔ اُس کے بغیر ملت باقی نہ رہتی۔ چھ برس پہلے انگریزی نوٹ بک میں اور پھر ’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ والے انگریزی لیکچر میں اس کی وضاحت ہوئی تھی۔ اب ’امومت و ملت‘ ایک علیحدہ باب بن گیا۔ مسلمان خواتین کے لیے اسوۂ کاملہ بی بی فاطمۃ الزہرا ؓ تھیں۔ علیحدہ باب ہوا۔ ابھی مکمل نہ کر سکے۔۶۷ ۹۴ جھوٹے پیروں کے بارے میں کچھ اشعار تحریر کیے کہ عرس کو حج تصور کر کے گویا خانۂ کعبہ کی افادیت سے انکار کرتے ہیں اور ملتِ اسلامیہ کی جمعیت کو مجروح کرتے ہیں۔ ۶۸ ۹۵ ۲۸ جون کو فاطمۃ الزہرا والے اشعار میں سے دو شعر اور جھوٹے پیروں والے حصے کے کچھ شعر گرامی کو بھیجے۔ انہیں کشمیر کے سفر کی دعوت بھی دی کہ ممکن ہے خود بھی ساتھ چلیں۔ شاہجہاں کے زمانے کا فارسی شاعر غنی ؔ کشمیری اقبال کو کشمیری ہونے کے علاوہ اس وجہ سے بھی پسند تھا کہ مکان سے باہر جاتے ہوئے تالا کھول دیتا تھا اور جب اندر ہو تو تالا لگا لیتا تھا کہ گھر میں مجھ سے زیادہ قدروقیمت کی چیز اور کیا ہو گی جس کے لیے تالا لگایا جائے۔ اس کا ذکر کر کے لکھا کہ اس کی روح چاہتی ہو گی کہ گرامی جالندھری اس کے مزار پر آئیں۔۶۹ ۹۶ کوئی مجذوب جنہیں اقبال اور کشن پرشاد ایاک نعبدُ کہتے تھے فوت ہو گئے۔۷۰ ۹۷ کشن پرشاد کا خط آیا۔ کسی نے انہیں مشرک کہہ دیاتھا۔ اس کے جواب میں ایک فارسی مثنوی لکھ کر اصلاح کے لیے اقبال کو بھیجی اور تقریظ کی فرمائش کی۔ مجذوب ایاک نعبدُ سے دعا بھی کروانا چاہتے تھے۔ اقبال نے نظم شروع سے آخر تک پڑھ کر کہیں کہیں ترمیم کی اور صفحہ دس اور گیارہ کے بعض اشعار کے نیچے لکیر کھینچ دی جن کا شائع کروانا اُن کے خیال میں مناسب نہ تھا۔ شائد ان میں ’’شخصی عنصر‘‘ کچھ زیادہ ہو گیا ہو۔ چار اشعار کی تقریظ لکھی جس میں اُس حدیث کا حوالہ دیا کہ جس نے بھی لاالٰہ الاللہ کہا وہ جنت میں جائے گا خواہ یہ بات ابوذرؓ کو ناگوار گزرتی ہو۔ ’’ایاک نعبدُ تو کوچ کر گئے،‘‘ اقبال نے ۳۰ جون کو کشن پرشاد کے نام خط میں نظم کی تعریف اور ترمیم کی بحث کے بعد لکھا۔ ’’اب تو عرش کے قریب ہوں گے یا وہاں تک پہنچ گئے ہوں گے۔ ایک اور بزرگ لاہور کے قریب ہیں۔ ذرا بارش ہو تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر طالبِ دعا ہوں گا۔‘‘ ۹۸ ’’ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ اہلِ بیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات درکار ہیں،‘‘ اقبال کے دوست سید محمد علی جعفری کا بیان ہے جو لاہور میں اسلامیہ کالج میں پڑھاتے تھے۔ ’’میں نے اس سلسلے میں باقر داماد کی کتاب افق المبینکا حوالہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ انہوں [میر باقر داماد] نے اہلِ بیت کے کردار کو خوب پیش کیا ہے۔‘‘۷۱ ۹۹ امام حسین کے بارے میں ڈیڑھ شعر اور ذہن میں آیا۔ زندگی کے پہلو سے دو قوتیں سامنے آتی ہیں۔ موسیٰ فرعون کے مقابل اور حسین یزید کے مقابل ضرور آتے ہیں۔ سچ حسین کی قوت سے زندہ ہے۔ موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آیدپدید زندہ حق از قوتِ شبیری است بی بی فاطمہؓ کے بارے میں کوئی ایسا شعر لکھنا چاہتے کہ سو شعروں پر بھاری ہو مگر ذہن میں نہ آتا تھا۔ ایک بات سمجھ میں آئی کہ اگر احترام اور عزت رشتوں کی وجہ سے ہے (اور اقبال کے معاشرے میں عورتوں کا احترام عام طور پر اسی لحاظ سے کیا جاتا تھا)تو بی بی مریمؑ صرف حضرت عیسیٰؑ کی ماں ہیں مگر بی بی فاطمہ خدا کے رسولؐ کی بیٹی، شیرِ خداؓ کی بیوی اور حسن و حسین جیسے بیٹوں کی ماں ہیں۔اِس خیال کو نظم کیا۔ ۱۰۰ اَور تب ایک عجیب بات ہوئی۔ آیندہ صدیوں کے واقعات ذہن پر روشن ہونے لگے۔ حیران تھے کہ کس کس کو نوٹ کریں۔ اِرتقا ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی حیات شعلہ مزاج و غیور و شورانگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی سکوتِ شام سے تا نغمۂ سحرگاہی ہزار مرحلہ ہائے فعانِ نیم شبی کشا کشِ زم و گرما، تپ و تراش و خراش زخاکِ تیرہ دروں تابہ شیشۂ حلبی مقامِ بست و شکت و فشار و سوز و کشید میانِ قطرئہ نیسان و آتشِ عِنبی اِسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے رازِ تب و تابِ ملّتِ عربی ’’مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند‘‘۷۲ باب ۵ تقدیر کی محفل جولائی ۱۹۱۷ء سے اپریل ۱۹۱۸ء تک ۱ از اکبرؔ الٰہ آبادی عشق میں کیوں بیخودی مقصود ہے؟ حسن بیحد ہے، خودی محدود ہے منکشف ہو جائیں اَسرارِ خودی بیخودی کا بھی یہی دستور ہے۱ ۲ بنام گرامی لاہور۔ یکم جولائی ۱۷ء مخدومی جناب مولانا گرامی۔ السلام علیکم! نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ لاہور آنے کا قصد رکھتے ہیں، لیکن میرے مکان میں آسمان نظر نہیں آتا تو کیا مضائقہ ہے، آسمانوں کا بنانے والا تو اس مکان سے نظر آجاتا ہے۔ بہرحال آپ کو آسمان کا نظارہ مطلوب ہے تو اس کا انتظام آسانی سے ہو جائے گا۔ لاہور میں آخر ایسے مکان بھی ہیں جہاں سے آسمان دکھائی دیتا ہے۔ آپ تشریف لائیں تو ایک دو روز پہلے مطلع کریں۔ ایسا انتظام ہو جائے گا۔ دن بھر میرے پاس رہیے سونے کا انتظام وہاں کر دیا جائے گا۔ علی بخش رات کو آپ کی خدمت میں رہا کرے گا، مکان بھی قریب ہو گا۔ حیدرآباد والا معاملہ ابھی بدستور ہے یعنی اس میں خاموشی ہے۔ مہاراجہ کے خطوط آتے ہیں مگر ان میں کوئی اشارہ کنایہ اس بارے میں نہیں ہوتا۔ مجھے تو زیادہ تر خوشی اس وجہ سے ہے کہ آپ وہاں ہوں گے اور آپ کی صحبت میں مثنوی کی تکمیل میں آسانی ہو گی۔ دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے۔ مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصہ کا مضمون ہو گا ’’حیات مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصہ کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔ افسوس ہے فاطمہ زہرا کے مفصل حالات نہیں ملے۔ سیدہ خاتون زمانۂ حال کی مسلمان عورتوں کے لیے ایک اُسوۂ کاملہ ہے۔ مثنوی کے دوسرے حصہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ کوئی چبھتا ہوا شعر اب تک نہیں نکل سکا۔ فکر میں ہوں کہ کوئی شعر ایسا نکلے کہ مضمون کے اعتبار سے ایک سو شعر کے برابر ہو۔ ایسا گوہر نایاب ہاتھ آ گیا تو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ حضرت حسین کے متعلق جو اشعار لکھے تھے وہ آپ کو سنائے تھے۔ دیڑھ شعر اور ہے: موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید زندہ حق از قوتِ شبیری است دوسرے مصرع کے لیے بہت فکر کیا نہیں مل سکا۔ البتہ فاطمہ زہراؓکے متعلق ایک مضمون ذہن میں آیا ہے یعنی یہ کہ احترام و عزت اگر نسبتوں پر موقوف ہے تو مریم کو صرف ایک نسبت حاصل تھی یعنی یہ کہ وہ مسیح کی ماں تھی مگر فاطمہ: نورِ چشمِ رحمۃ اللعالمین آں امام اولین و آخرین آنکہ جاں در پیکر گیتی دمید روزگارِ تازہ آئیں آفرید زوجۂ آں تاجدار ھل اتیٰ مرتضیٰ مشکل کشا شیرِ خدا بادشاہ و کلبۂ ایوان او یک حسام و یک زرہ سامان او مادرِ آں کارواں سالارِ عشق رونق ہنگامۂ بازارِ عشق در نوائے زندگی سوز از حسینؓ اہلِ حق حریت آموز از حسینؓ یہ مصرع ’’رونق ہنگامۂ بازارِ عشق‘‘ کھٹکتا ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ نے مثنوی کی تقریظ کی بھی فکر کی ہے یا نہیں؟ بیگم گرامی صاحبہ کو آداب۔ والسلام! مخلص محمد اقبال ۳ نویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا۔ حرم شریف میں داخل ہوتے ہوئے ایک شخص نے دیکھا کہ پھٹے پرانے اور گندے کپڑے پہنے ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے۔ اُس کے دل میں خیال آیا کہ ایسے لوگ دوسروں پر بوجھ ہیں۔ اُسی لمحے بھیک مانگنے والے نے اُس کی طرف دیکھا اور قرآن شریف کی آیت پڑھی جس کا مفہوم تھا، ’’جان لو کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، سو تم اُس سے ڈرو۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ شخص اپنے دل میں توبہ کرنے لگا اور خدا سے اپنے خیالات کی معافی چاہی۔ تب اُس بھکاری نے اُسے دوبارہ پکارا اور وہ آیت پڑھی جس کا مفہوم تھا، ’’وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، گناہ معاف کرتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ بھکاری نے جس شخص کو راہ دکھائی وہ بغداد کے عالم ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخرّاز تھے جن کے بارے میں علی ہجویری (داتا گنج بخش)نے کشف المحجوب میں لکھا تھا کہ فنا اور بقا کے اعتقادات پر سب سے پہلے انہی نے قلم اٹھایا۔ اُن کی کتاب الفَرَج تصوف کے موضوع پر پہلی کتاب تھی۔ اقبال اس کتاب سے پہلے بھی ضرور واقف رہے ہوں گے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں کبھی اس پر دوبارہ غور کرنے کا موقع ملا۔۲ خرّاز نے کہا تھا کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کو اُس کی متضاد صفات کے درمیان تطبیق کرکے پہچانا (جس طرح اقبال نے اپنی شخصیت کے تضادات کے درمیان خودی کی وحدت تلاش کر کے اپنے آپ کو پہچانا تھا)۔ اس کتاب کو تصوف کی ابتدا تسلیم کرتے ہوئے مرحلہ وار آگے بڑھنے سے تصوف کی پوری تاریخ بدل جاتی۔ سمجھا جا سکتا تھا کہ خرّاز کے نزدیک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ انسان کس طرح ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی متضاد صفات کے درمیان وحدت تلاش کرنے کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں اپنی شخصیت میں بھی وہ وحدت ہاتھ آ سکتی تھی جسے خرّاز جو کچھ بھی کہتے رہے ہوں، اقبال نے خودی کا نام دیا تھا۔۳ ۴ اقبال نے گرامی کے نام خط میں مستقبل کی تاریخ لکھنے کا ارادہ جو ظاہر کیا تھا اُس کا تعلق اِس بات سے بھی تھا کہ اقبال کے نزدیک شاعری محسوسات نہیں بلکہ مشاہدات کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ یہ مشاہدات تحصیلِ حاصل نہ تھے۔ ہر دَور کے شاعر کے سامنے کچھ نئے مشاہدات آتے تھے جو دُوسروں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے۔ تیرہ برس پہلے یورپ جانے سے بھی ایک سال پیشتر ’تصویرِ درد‘ میں کہا تھا: سنے ہیں اہلِ محفل نے فسانے حال و ماضی کے مرے نالوں میں استقبال کی تفسیر ہوتی ہے اُس کے سات برس بعد ۱۹۱۱ء میں ’دعا‘ میں خدا سے کہا: محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے اگلے ہی برس ’شمع اور شاعر‘ میں شمع سے کہلوایا: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اُس کے چار برس بعد شائع ہونے والی ’اَسرارِ خودی‘ کی تمہید یہی تھی کہ مستقبل کے پھول اُن کی جھولی میں ہیں اور وہ آنے والے زمانے کے شاعر کی آواز ہیں: من نوائے شاعرِ فرداستم گویا اب جو مستقبل کے واقعات نگاہوں کے سامنے آ رہے تھے یہ نئی بات نہ تھی۔ سلسلہ پہلے سے جاری تھا۔ اب مزید واضح ہو گیا۔ اِسے لکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ اُس تحریر کو خاص وقت پر دُنیا کے سامنے آنا تھا جو شاید اُن کی موت کے بعد تھا۔ یہ اہتمام کیسے کیا جا سکتا تھا اور ہوا یا نہیں، علیحدہ سوال ہے۔۴ بہرحال ہر تصنیف میں دعویٰ دہرایا گیا۔ بقیہ زندگی میں جو کچھ کہا اُس میں سنائی دینے والا تھا: کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دَور کی دھندلی سی اِیک تصویر دیکھ حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اُس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیرِ تقدیر خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نَو کی تصویر کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اِتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی ۵ دیوداس کا تعلق اونچی ذات کے ہندو زمیندار گھرانے سے تھا۔ شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر گاؤں کی لڑکی پاروتی سے محبت کی جو تجارت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ دیوداس کے ماں باپ اِس رشتے پر تیار نہ ہوائے۔ پاروَتی کی ماں نے پاروَتی کا رشتہ زیادہ دولتمند اور عمررسیدہ آدمی کے ساتھ کر دیا۔ پاروَتی گھر سے بھاگ کر دیوداس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی مگر دیوداس کمزور پڑ گیا۔ بعد میں آمادہ ہوا۔ تب پاروَتی نے انکار کر دیا مگر وعدہ لیا کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور واپس آئے گا۔ شہر جا کر دیوداس نے شراب کا سہارا لیا۔ طوائف چندرمکھی کو اُس سے محبت ہو گئی۔ بیمار پڑا۔واپس آیا۔ پاروَتی کے گھر کی دہلیز پر جان نکلی۔ گھر والوں نے پاروَتی کو دہلیز عبور کرنے سے روک دیا۔ یہ ناول سرت چندر چٹوپڑھیے نے سولہ برس پہلے لکھا تھا۔ اِس برس موسمِ گرما میں شائع ہوا۔ اس رومان میں نوجوانوں نے جس طرح کشش محسوس کی وہ صرف عجیب بات نہ تھی۔ پراَسرار بھی تھی۔ مولانا نظامی گنجوی کے قیس کی طرح دیوداس نے بھی محبت میں دنیا چھوڑی۔ قیس نے صحرا میں پڑاؤ ڈالا۔ دیوداس کے لیے شہر ہی صحرا تھا جہاں وہ اجنبی تھا۔ ۶ ۳ جولائی کو آنکھ کھلتے ہی ویسا شعر ذہن میں آیا جس کی فکرکئی دن سے تھی۔ بی بی فاطمہ کے بارے میں یہ کہہ کر کہ اُن کے آنسو عرش پر شبنم کی طرح برستے تھے واقعی ایک شعر کو سو شعروں کے برابر کیا جا سکتا تھا: گریۂ شب ہائے آں بالانشیں ہم چو شبنم ریخت بر عرشِ بریں البتہ اس میں بالانشیں کا لفظ کھٹک رہا تھا۔ ’’لیجئے آپ بھی کہیں گے کہ اس نے خطوں کا تانتا ہی باندھ دیا،‘‘ انہوں نے اُسی روز گرامی کو لکھا اور تازہ شعر درج کر دیا۔ ’’اب آپ جانیں اور آپ کا کام، میں نے مضمون پیدا کر دیا۔‘‘ بہرحال خط لکھنے کے بعد کسی وقت یا انہی دنوں میں اس شعر کی بہتر صورت نکل آئی یعنی یہ کہا جائے کہ حضرت جبریلؑ بی بی فاطمہ کے آنسو زمین سے چن لیتے تھے اور عرش پر شبنم کی طرح برساتے تھے: اشکِ اُو برچید جبریل از زمیں ہم چو شبنم ریخت بر عرشِ بریں اب فکر تھی کہ بی بی فاطمہ کے بارے میں عام طور پر جو روایات موجود تھیں وہ ذاتی اوصاف کے بارے میں تھیں مگر بیٹی، بیوی یا ماں کے طور پر بی بی فاطمہ کی زندگی اقبال کے پیشِ نظر تھی۔ اطاعت گزاری یا اولاد کی تربیت کے بارے میں کسی معنی خیز اور دل پر اثر کرنے والی روایت کی تلاش تھی۔۶ ۷ ۶ جولائی کو گرامی کا خط ملا۔ ان کی تجویز تھی کہ جب بی بی فاطمہؓ کے حسن اور حسین کی ماں ہونے کی نسبت بیان کریں تو لفظ مادر دونوں مصرعوں میں آئے۔ عرشِ بریں والے شعر میں بھی کوئی ترمیم کی تھی مگر اب اس کی ضرورت نہ تھی چنانچہ اقبال نے اسی وقت جواب میں شعر کی نئی صورت تحریر کر دی اور لکھا کہ واقعی لفظ مادر دونوں مصرعوں میں آنا چاہئے وہ اس نکتے کو خوب سمجھتے ہیں۔ دو اور اشعار لکھے، کشن پرشاد کی نظم کا ذکر کیا اور اپنی تقریظ گرامی کو بھی بھیجی، ’’اگر لاہور کا قصد حقیقت میں ہے تو آچکیے۔ یہاں سے جالندھر چلیں گے۔ وہاں آپ کو لنگڑا بھی مل جائے گا اور کالنگڑا بھی۔‘‘ کالنگڑا سے راگ مراد تھا۔ موسیقی کی محفل کی طرف اِشارہ معلوم ہوتا ہے۔ ۸ جولائی کے مخزن میںاقبال کے مضمون ’قومی زندگی‘ کی پہلی قسط دوبارہ شائع ہوئی۔ پہلی دفعہ اکتوبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔۷ ۹ حیدرآباد دکن سے سر اکبر حیدری کا خط آیا۔ پوچھا تھا کہ اگر وہاں قانون کی پروفیسری کرنی ہو مگر وکالت کرنے کی اجازت بھی ہو تواقبال کیا تنخواہ لیں گے۔ ۱۰ جولائی کو اقبال نے گرامی کو خط میں لکھا کہ حیدری صاحب کے ایک خط کے بارے میں مشورہ کرنا ہے۔ مضمون ان کے لاہور آنے پر بتائیں گے۔ ’’چونکہ توقع آپ کی تشریف آوری کی ہے اس واسطے زبانی مشورہ کروں گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اگر ارادہ آنے کا نہ ہو تو لکھئے۔‘‘ اس کے بعد اکبر حیدری کو خط لکھ کر پوچھا کہ وہ اگست میں بلانا چاہتے ہیں یا ستمبر میں اور بہتر ہو گا کہ سب باتیں وہیں آنے پرہوں۔ ۱۰ کوئی مولوی فرید احمد نظامی تھے جنہوں نے غالباً اقبال کی اردو نظموں کے بارے میں دریافت کیا۔ ’’افسوس ہے کہ مجموعہ ابھی تک تیار نہیں ہوا،‘‘ اقبال نے ۱۳ جولائی کو انہیں ایک سطر کا جواب بھیجا۔ ۱۱ امرأ القیس عرب کا مشہور شاعر تھا جو اِسلام سے قریباً چالیس برس پہلے گزرا تھا۔ آنحضورؐ نے اُس کے بارے میں فرمایا، ’’وہ شاعری میں سب سے بڑھا ہوا ہے اور جہنم کی طرف اُن کا رہنما۔‘‘ ایک اور مشرک شاعر عنترہ کا کلام آنحضورؐ کے سامنے پڑھا گیا تو آپؐ نے فرمایا، ’’کبھی کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اُس کی ملاقات کا شوق پیدا نہیں کیا لیکن سچ کہتا ہوں کہ اِس شعر کو لکھنے والے کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتا ہے۔‘‘جو شعر پڑھا گیا تھا اُس کا مفہوم تھا، ’’میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں رزقِ حلال کے قابل ہو سکوں۔‘‘ Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry History has preserved some of the criticisms of our Prophet on contemporary Arabian poetry. But two of these criticisms are most profitable to Indian Muslims whose literature has been chiefly the work of the period of their national decadence, and who are now in search of a new literary ideal. One of these criticisms indicates to us what should not be and the other what it should be. 1. Of the poet Imra-ul-Qais who flourished about 40 years before Islam, our Prophet is reported to have said: اشعرالشعرأ وقائدھم الی النار "He is the most poetic of all poets and their leader to Hell." Now what do we find in the poetry of Imra-ul-Qais? Sparkling wine, enervating sentiments and situations of love, heart-rending moans over ruins of habitations long swept away by stormy winds, superb pictures of the inspiring scenery of silent deserts - and all this is the choicest expression of old Arabia. Imra-ul-Qais appeals more to imagination than to will, and on the whole acts as a narcotic on the mind of the reader. The Prophet's criticism reveals this most important art-principle - that the good in art is not necessarily identical with good in life; it is possible for a poet to write fine poetry, and yet lead his society to Hell. The poet is essentially a seducer; woe to his people, if instead of making the trials of life look beautiful and attractive he embellishes decadence with all the glories of health and power, and seduces his people to extinction. Out of the richness of his nature he ought to lavish on others something of the super-abundance of life and power in him, and not steal away, thief-like, the little they already happen to possess. 2. Again the following verse of Antra of the tribe of Abs was read to our Prophet: و لقد ابیت علی المظوی واظنہ حتی انبل بہ کریم الکامل "Verily I pass through whole nights of toil to merit a livelihood worthy of an honourable man." ـThe Prophet whose mission was to glorify life and to beautify all its trials was immensely pleased, and said to his companions: "The praise of an Arabian has never kindled in me a desire to see him, but I tell you I do wish to meet the author of this verse." Imagine the man, a single look at whose face was a source of infinite bliss to the looker desiring to meet an infidel Arab for his verse! What is the secret of this unusual honor which the Prophet wished to give the poet? It is because the verse is so healthful and vitalizing, it is because the poet idealizes the pain of honourable labour. The Prophet's appreciation of this verse indicates to us another art-principle of great value - that art is subordinate to life, not superior to it. The ultimate end of all human activity is Life-glorious, powerful, exuberant. All human art must be subordinated to this final purpose and the value of everything must be determined in reference to its life-yielding capacity. The highest art is that which awakens our dormant will-force, and nerves us to face the trials of life manfully. All that brings drowsiness and makes us shut our eyes to reality around - on the mastery of which alone life depends - is a message of decay and death. These should be no opium-eating in Art. The dogma of Art for the sake of Art is a clever invention of decadence to cheat us out of life and power. Thus the Prophet's appreciation of Antra's verse gives us the ultimate principle for the proper evaluation of all arts. New Era (Lucknow), July 1917۸ ۱۲ اقبال نے گرامی کو لکھ دیا تھا کہ دونوں مصرعوں میں لفظ مادر استعمال کرنے کے نکتے کو خوب سمجھتے ہیں مگر جب شعر لکھنے بیٹھے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اُس وقت کیا سمجھے تھے۔ بہرحال اس اشارے سے فائدہ اٹھایا: مادرِ آں مرکزِ پرکارِ عشق مادرِ آں کارواں سالارِ عشق بعد کے اشعار میں اس رعائت سے امام حسنؓ اور امام حسینؓ دونوں کا ذکرکیا کہ ایسے بیٹوں سے جن کے اوصاف یہ ہیں ماں کی تربیت کا اندازہ کرنا چاہئیے کہ اس ماں کی آغوش میں کیا تاثیر تھی جس میں ایسے بچوں کی پرورش ہوئی۔ مگر اس بات کو سمیٹنے کے لیے کوئی مناسب شعر اُس وقت ذہن میں نہ آیا۔۹ ۱۳ علی بخش دوچار روز میں عید منانے ہشیارپور جانے والا تھا۔ انہی دنوں گرامی کا جواب آیاجس میں غالباً اکبر حیدری والے معاملے میں کوئی رائے تھی جو اقبال کو مناسب معلوم ہوئی۔ ۱۶ جولائی کو کشن پرشاد کو خط لکھ کر پوچھا کہ کیا تقریظ پسند آئی تھی؟ اکبر حیدری کی دعوت پر اگست یا ستمبر میں حیدرآباد آنے کے ارادے کا ذکر کیا۔ اکبر حیدری کی پیشکش کے بارے میں کچھ سوچ کر یہی فیصلہ کیا کہ کشن پرشاد کو خط میں نہ لکھیں اور ملاقات ہو تو زبانی مشورہ کریں۔ ’’چیف کورٹ لاہور بھی بند ہونے والا ہے اور میرا دل بھی چند روز کی آوارگی چاہتا ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’کیا سرکار بھی ان مہینوں میں حیدرآباد میں قیام فرما ہوں گے یا کہیں اور تشریف لے جانے کا قصد ہے۔‘‘ ’’چونکہ شائد مجھے اگست میں ہی حیدرآباد جانا پڑ جائے اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو چار روز کے لیے لاہور آجائیں،‘‘ اُسی روز گرامی کو لکھا اور کہا کہ علی بخش عید کے بعد لاہور واپس آئے تواُس کے ساتھ آ سکتے ہیں۔ بی بی فاطمہؓ کے بارے میں نئے اشعار بھیجے اور فرمائش کی کہ کوئی اشارہ دیں کہ کس طرح اس مضمون کو ایک شعر میں ادا کیاجائے کہ امام حسن ؓ اور امام حسینؓ کے اوصاف سے ان کی ماں کی تربیت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ ۱۴ ۱۷ جولائی کو آسٹن چیمبرلین کی جگہ ایڈوِن سیموئیل مونٹیگو وزیرِ ہند بنے۔ لبرل پارٹی اور یہودی مذہب سے تعلق تھا۔ ۱۵ محسوس ہو رہا تھا کہ عید پر علی بخش کی ضرورت رہے گی لہٰذا اُس کا ہشیارپور جانا عید کے بعد پر ٹھہرا۔ شیخ عمر بخش وکیل جو کانگریسی تھے اور ہر روز فجر کی نماز داتا گنج بخش کے مزار پر پڑھتے تھے ان کا بھتیجا عید کے بعد ہشیارپور سے واپس آنے والا تھا چنانچہ اقبال نے سوچا کہ گرامی اگر علی بخش کے ساتھ نہ آ سکیں تو اس کے ساتھ آسکتے ہیں۔ گرامی کا خط آیا تو انہوں نے کچھ چیزوں کی فرمائش کی تھی کہ لاہور سے خرید کر بھیج دی جائیں وہ قیمت ادا کردیں گے۔ ۱۹ جولائی کو جواب میں اقبال نے لکھا کہ چیزیں علی بخش کے ہاتھ بھیج دی جائیں گی اور جب وہ واپس آئے تو وہ بھی اس کے ساتھ آ سکتے ہیں یا شیخ عمر بخش کے بھتیجے کے ساتھ آ جائیں۔ ۱۶ ’’ایک لطیفہ بھی سن لیجیے،‘‘ اقبال کے شاگرد اور ہم زلف خواجہ فیروزالدین بیرسٹر کہتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے ایک ملازم گھر کے کام کاج کے لیے رکھا تھا۔ اُس کا نام عاشق تھا اور گجرات کا رہنے والا تھا۔ دو دن کام کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ پوچھا، ’بھائی کیا بات ہے؟‘ اس نے کہا ’یہاں کی ہر چیز نرالی ہے۔ دھوبی ہی کو لے لیجیے۔ آٹا کپڑا دو جب لے لیتا ہے، دو پیسے دو جب لے لیتا ہے، کچھ نہ دو جب لے لیتا ہے۔‘ ڈاکٹر صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور خصوصاً آخری فقرے کی بہت تعریف کی۔‘‘۱۰ ۱۷ اس برس لاہور میں گرمی دیر سے آئی مگر شدت کے ساتھ آئی۔ مئی کے درمیان تک جو بادل چھائے رہا کرتے تھے اب ان کا نشان نہیں تھا۔ وہ بہت سی بارش جس کی پیشین گوئی موسمیات کے ماہرین نے کی تھی کم سے کم لاہور پر ابھی تک نہ ہوئی تھی۔ ۱۱ ۱۸ Islam and Mysticism [Excerpt] Our birth as a society repudiating the ideas of race and language as principles of social reconstruction, was due only to our subjecting ourselves to a system of law believed to be Divine in its origin; yet the old Mystic frankly held and secretly preached it to be merely Phenomenal; nothing more than an outer husk of the real which is to be attained by means other than the Law of God. In most cases the observance of the Law, even though held to be Phenomenal, was retained to avoid social odium; but no student of Moslem thought and literature can deny that the tendency to ignore the Law - the only force holding together Moslem Society - was the direct consequence of a false Mysticism born of the heart and brain of Persia. The New Era (Lucknow), July, 1917۱۲ ۱۹ عید پر کشن پرشاد کی طرف سے عیدکارڈ ملا۔۱۳ عید کے بعد علی بخش ہشیارپور گیا تو گرامی کی منگوائی ہوئی چیزیں بھی اس کے ہاتھ بھجوا دیں۔۱۴ ۲۰ فوقؔ کی کتاب مشاہیرِ کشمیر غالباً ان کے ادارے کے کسی شخص نے بھیجی۔ ۲۶ جولائی کو اقبال نے جوابی رقعہ میں رسید سے مطلع کیا اور فوقؔ کو سلام بھیجا۔ ۲۱ کشن پرشاد نے کچھ تقریظیں اقبال کو بھیجیں۔ انہوں نے ۲۷ جولائی کویہ کہہ کر واپس کیا کہ ان میں بیرسٹرانہ اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔ نجانے کیا مطلب تھا۔ حیدرآباد کے سفر کے بارے میں لکھا کہ حیدری صاحب کے آنے پر کوئی تاریخ مقرر کرکے کشن پرشاد کو خبر دیں گے اور جس روز وہاں پہنچیں گے ’’اُسی روز آستانۂ شاد کا طواف ہو گا۔‘‘ جس سلسلے میں یہ سفر ہو رہا تھا اس کے بارے میں لکھا کہ وہیں پہنچ کر مشورہ کریں گے۔ ’’مجھے یقین ہے کہ سرکار اپنی جبلی فراست سے بہت حد تک معلوم کر گئے ہوں گے کہ کیا امر ہے،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’میری ذاتی قوتِ فیصلہ ناتواں ہے اس واسطے شاد کی رائے صحیح سے استمداد ضروری ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ بارش نہیں ہوئی، لاہور آتش کدۂ آذر بن رہا ہے مگر اِس آتش کدہ کا مصنف لطف اللہ نہیں بلکہ قہراللہ ہے۔‘‘ اِس جملے میں مشہور مصنف لطف اللہ کی تصنیف آتش کدہ کی طرف اشارہ تھا۔ آخر میں عیدکارڈ کا شکریہ اور گزشتہ عید سرکار کو بھی مبارک ہو کہہ کر لکھا، ’’میں روزے رکھتا ہوں مگر عید کے احساسِ مسرّت سے محروم۔‘‘ ۲۲ Muslim Democracy The Democracy of Europe - overshadowed by socialistic agitation and anarchical fear - originated mainly in the economic regeneration of European Societies. Nietzsche, however, abhors this "rule of the herd", and, hopeless of the plebeian he bases all higher culture on the cultivation and growth of an Aristocracy of Supermen. But is the plebeian so absolutely hopeless? The Democracy of Islam did not grow out of the extension of economic opportunity, it is a spiritual principle based on the assumption that every being is a centre of latent power the possibilities of which can be developed by cultivating a certain type of character. Out of the plebeian material Islam has formed men of the noblest type of life and Power. Is not, then, the Democracy of early Islam an experimental refutation of the ideas of Nietzsche? The New Era, July 28,1917۱۵ ۲۳ محمد علی جناح کے بارے میں سروجنی نائیڈو کی انگریزی کتاب ہندو مسلم اتحاد کا سفیر (An Ambassador of Hindu-Muslim Unity) شائع ہوئی۔ لقب مشہور ہو گیا۔ اُنہی دنوںنائیڈو کی انگریزی نظموں کی کتاب بھی چھپی تو بعض پڑھنے والوں نے سمجھا کہ رومانی نظمیں بھی جناح سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ سروجنی نائیڈو نے مجموعہ شکستہ پر (Broken Wing) اقبال کو بھی بھیجا۔ انہوں نے فارسی کے تین اشعار میں تاثرات کا اظہار کیا کہ اُٹھیے اور پر کھولیے کہ اس رنگ و خوشبو کی جلوہ گاہ میں پرواز سے بیزار ہونے والا پرندہ نہیں ہو سکتا۔ مرقع (لکھنؤ) میں اگست میں شائع ہوئے: خیز و پر زن کہ دریں جلوہ گہِ نکہت و رنگ طائرے نیست کہ پرواز گرانست اُو را۱۶ ۲۴ علی بخش واپس آگیا۔ گرامی کی خیریت کی خبر لایا انہیں ساتھ نہ لا سکا۔ ۱۷ ۲۵ اکبرحیدری سے طے ہوا کہ اقبال یکم ستمبر کو لاہور سے روانہ ہوں گے کیونکہ اگست کے دوسرے اور تیسرے ہفتے اکبر حیدری مدراس جانے والے تھے اور اگست کے تیسرے ہفتے وہاں سے واپسی تھی۔۱۸ ۲۶ معلوم ہوتا ہے کہ کشن پرشاد نے اقبال کو لکھا کہ وہ اکبر حیدری والے معاملے کی تفصیل سے انہیں آگاہ کریں اور اس کے جواب میں اقبال نے تفصیل لکھ بھیجی۔ یہ خط کتابت اگر ہوئی تو اب موجود نہیں ہے۔۱۹ ۲۷ Nietzsche and Jalal-ud-Din Rumi Comparisons, they say, are odious. I want, however, to draw your attention to a literary comparison which is exceedingly instructive and cannot be regarded as odious. Nietzsche and Maulana Jalal-ul-Din Rumi stand at the opposite pole of thought; but in the history of literature and thought it is the points of contact and departure which constitute centres of special interest. In spite of the enormous intellectual distance that lies between them these two great Poet-Philosophers seem to be in perfect agreement with regard to the practical bearing of their thought on life. Nietzsche saw the decadence of the human type around him, disclosed the subtle forces that had been working for it, and finally attempted to adumbrate the type of life adequate to the task of our planet. "Not how man is preserved, but how man is surpassed," was the keynote of Nietzsche's thought. The superb Rumi-born to the Moslem world at a time when enervating modes of life and thought, and an outwardly beautiful but inwardly devitalising literature had almost completely sucked up the blood of Moslem Asia and paved the way for an easy victory for the Tartar-was not less keenly alive than Nietzsche to the poverty of life, incompetence, inadequacy and decay of the social-body of which he formed a part and parcel. See with what unerring insight he describes the corroding disease of his society and suggests the ideal type of Moslem manhood: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود، جُستہ ایم ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست The New Era (Lucknow), August 1917۲۰ ۲۸ ۶ اگست کو مولانا جامی کے مطلع پر نظر پڑی کہ سونے کی بالیوں سے جس کے کان بھاری ہیں اُس پر جگر خوں کئے ہوئے عاشقوں کی آہ و فریاد کا کیا اثر ہو سکتا ہے: آن کہ از حلقہ ٔ زر گوش گران است اُو را چہ غم از نالۂ خونین جگران است اُو را بہت فکر کی کہ ایسا کوئی مطلع نکال سکیں مگر نہ ہو سکا البتہ اسی زمین میں دو فرد اشعار کہنے میں کامیاب ہوگئے کہ اگر بت کو بولنے کی طاقت مل جائے تو وہ بتائے گا کہ اسے ہندو بچوں سے کیا شکایت ہے۔ اے خدا! پھولوں کے لٹنے سے نرگس پرکیا گزر رہی ہے کہ اس کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں مگر ہاتھ شل ہو گئے ہیں: بازگوید صنم ار تابِ مقالش بخشند گلہ ہائے کہ ز ہندوپسران است اُو را یارب از غارتِ گل بردلِ نرگس چہ گزشت دستِ بے طاقت و چشمِ نگران است اُو را۲۱ ۲۹ گرامی کسی بات پر ناراض تھے جس کی تفصیل معلوم نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے چیزیں منگواتے ہوئے جو لکھا تھا کہ قمیت ادا کر دی جائے گی تو اُس میں اقبال کو بیگانگی محسوس ہوئی تھی اور عادت تھی کہ کوئی بے تکلف دوست تکلف برتے تو دکھاوے کی سردمہری سے پیش آ کر بدلہ لیں جس طرح انگلستان سے واپسی پر فوق کے ساتھ پہلی ملاقات میں کیا تھا۔ ’’اشیا کی قیمت کے لیے جو آپ نے لکھا ہے میں تسلیم کرتا ہوں کہ غلطی ہے مگر اس غلطی کے ذمہ دار آپ ہیں نہ میں،‘‘ اقبال نے ۷ اگست کو گرامی کی شکائت کے جواب میں لکھا۔ ’’اتنی یگانگت کے ہوتے ہوئے ایک دوست کو ایسا لکھنا ٹھیک نہ تھا۔‘‘ ۳۰ ۸ اگست کو ستارۂ صبح کا پہلا شمارہ نکلا۔۲۲ ظفر علی خاں نے کرم آباد میں نظربندی کی حالت میں سینسر کی نگرانی میں نکالا تھا۔ آنحضورؐ کے ادبی تبصرے کے بارے میں اقبال کا انگریزی مضمون جو جولائی میں نیو ایرا میں شائع ہوا تھا، اُس کا اُردو ترجمہ ’رسول اللہ صلعم شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘ کے عنوان سے شامل ہوا۔ اقبال کی مثنوی کے دوسرے حصے کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ علیحدہ مضمون کی صورت میں شائع کیے۔ ھن لباس لکم و انتم لباس لھن (رموزِ بیخودی کا ایک باب) ظفر علی خاں [اقتباس] ۔۔۔ایک لباس وہ ہے جس کی بہترین شکل تن کی عریانی بتائی گئی ہے کہ ع یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں اُلٹا سیدھا۔ عربوں کی اصطلاح میں صنفِ لطیف کو بھی ’’لباس‘‘ کہتے تھے جس کی تلمیح رسمی لباس سے تو ظاہر ہی ہے۔ ’’تن کی عریانی‘‘ والا لباس بھی کچھ اسی پر پھبتا ہے اور فرزدق نے عبداللہ بن زبیر کے واقعہ میں اس بنا پر صنفِ لطیف کو ’’لباسِ عریانی‘‘ سے تشبیہ دی تھی۔ ترجمان اسلام لسان توحید [ڈاکٹر اقبال] نے مثنوی اسرار خودی کے دوسرے حصہ میں جو ہنوز زیرِ تالیف ہے، اس لباسِ لطیف کی جھالر میں نئے موتی ٹانکے ہیں اور جنسِ نازک سے نہایت حکیمانہ بحث کی ہے جس کے جستہ جستہ اقتباسات نذرِ اہلِ نظر ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ نغمہ کوش از زخمہ زن سازِ مرد از نیازِ او دوبالا نازِ مرد عورت ہی تو ہے جس کی وجہ سے مردوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور ان میں نغمہ سنجی کی شان آتی ہے۔۔۔ ستارۂ صبح (کرم آباد)، ۸ اگست ۱۹۱۷ئ۲۳ ۳۱ اقبال کے نزدیک جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ لامحدود کس طرح محدود ہو جاتا ہے۔ پھر خودساختہ تضادات کے امتزاج سے اپنے آپ کو دوبارہ حاصل کر لیتا ہے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی خواہ اس فلسفے سے واقف نہ رہے ہوں مگر ایک شعر میں یہی بات کہہ گئے تھے: جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں Touch of Hegelianism in Lisan-ul-Asr Akbar [Excerpt] The special feature of Akbar, however, is that in a few simple and well-chosen words he reveals to you not only the conflict, but also the cause (i.e. Limitation of the Limitless) which has generated it. And in the words عقل and عقیدہ he further suggests that this conflict is not limited to the material Plane (عنصر) only, but extends itself to the mental plane as well. In [Samuel] Alexander's well-known book Moral Order and Progress you will find how our ideas, ideals, beliefs and modes of life are constantly engaged in a quiet bloodless, fight, and how they displace, kill and absorb one another. The New Era (Lucknow), August 1917۲۴ ۳۲ ۱۴ اگست کو کشن پرشاد کی طرف سے رجسٹرڈ خط ملا۔ ان کی رائے میں قانون کی پروفیسری پرائیویٹ پریکٹس کے ساتھ ترقی کا زینہ تھی۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کی کرسی کے لیے امید دلائی تھی کہ شائد خالی ہو جائے۔ ’’اگر ایسا ہو جائے تو میں اُسے قانون کی پروفیسری اور پرائیویٹ پریکٹس پر ترجیح دوں گا،‘‘ اقبال نے اسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا اور درخواست کی کہ اگر حیدری صاحب سے ملاقات ہو تو اگر مناسب خیال کریں تو اُن کی توجہ اس طرف دلائیں۔ ’’بہرحال یہ سب کچھ سرکار کی رائے پر منحصر ہے۔ اقبال خواہ لاہور میں خواہ حیدرآباد میں خواہ مرّیخ ستارے میں وہ غیرمحسوس روحانی پیوند جو اُس کو سرکار سے ہے انشأ اللہ العزیز قائم رہے گا۔ نہ وقت اسے دیرینہ کر سکتا ہے نہ تعلقات اسے کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘ ۳۳ ۱۸ اگست کو شیخ عمر بخش سے معلوم ہوا کہ گرامی نے ہشیارپور میں مشہور کیا ہے کہ اقبال کو حیدرآباد میں ملازمت مل گئی ہے یا ملنے والی ہے۔’’ یہ خبر بالکل غلط ہے، مہربانی کر کے ایسی غلط اور بے سروپا بات کی تشہیر نہ کیجئے،‘‘ انہوں نے اُسی وقت گرامی کو خط لکھا اور بتایا کہ ایک دفعہ پہلے ظفر علی خاں کے ہاتھوں ایسی خبر مشہور ہونے سے ان کے کاروبار کا نقصان ہو چکا ہے۔ ۳۴ ’رکنِ اول توحید‘ والے باب کو دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ کوئی بھی قوم اپنے آئین سے ہٹ کر زندہ نہ رہ سکتی تھی۔ ملتِ اسلامیہ کا آئین قرآن تھا۔ انحطاط کے زمانے میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔ کم نظر عالموں کے اجتہاد سے بہتر اسلاف کی پیروی ہے۔ اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط زاجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر ’آئینِ اسلامیہ قرآں‘ ایک اور باب ہوا۔ ۳۵ زندگی میں ٹھہراؤ بھی دراصل کسی حرکت کا سامان ہی ہوتا ہے۔ ہر قوم کو ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی مرکز اُس کی نشو و نما کا ضامن ہوتا ہے۔ مسلم قوم کا مرکز کعبہ ہے (جس کی مرکزیت ۲۱ جون کو شریفِ مکہ کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی تھی)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل سے یروشلم چھن گیا تو وہ کہیں کے نہ رہے۔ مسلمان ایسے انجام سے بچنا چاہتا ہے تو اُسے نیازمندی پیدا کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کا کعبہ کے طواف سے متحد ہونا اور اس مرکزِ توحید کا قوم کے دل کی کیفیات کو ایک کر دینا ایک شعر میں ادا ہو گیا کہ کعبہ ایک سورج کی طرح ہے اور اس کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ملتِ بیضا ایک قفس کی مانند: ملّتِ بیضا زطوفش ہم نفس ہم چُو صبح آفتاب اندر قفس کعبہ کے طواف کا نظارہ اور مسلمانوں کا اس کا محافظ ہونا بھی اس استعارے میں چھپا ہوا تھا۔ لفظ بیضا کے برمحل استعمال پر بھی خوش تھے۔ اس باب کا عنوان ’بیت الحرام مرکزِ جماعتِ اسلامیہ‘تھا۔۲۵ ۳۶ ۲۰ اگست کو نئے وزیرِ ہند لارڈ مونٹیگو کی طرف سے بیان جاری ہوا، ’’ملک معظم کی حکومت کی یہ پالیسی ہے اور حکومت ہند اِس سے متفق ہے کہ ہر شعبے میں ہندوستانیوں کو ترقی کے ساتھ شریک کیا جائے اور حکومت خوداختیاری کی تنظیمات کو اس نظر سے بتدریج بڑھایا جائے کہ سلطنت برطانیہ کے جزو لاینفک کی حیثیت سے، رفتہ رفتہ ہندوستان میں ذمہ دار حکومت قائم ہو۔‘‘۲۶ ۳۷ گرامی کا خط آیا ۔لکھا تھا کہ اقبال کے حیدرآباد جانے سے دو روز پہلے تاج محمد کے ساتھ لاہور آ جائیں گے اور اس کے بارے میں شائد تاج محمد کو آمادہ بھی کر لیا تھا۔ اقبال نے بی بی فاطمہؓ والے نئے اشعار جو بھیجے تھے اُن میں رنگ اور شمیم کے الفاظ پر کوئی تبصرہ کیا تھا اور حیدرآباد کے بارے میں رائے دی تھی کہ اگر چیف جسٹس یا نظام کا چیف سیکرٹری بننے کا موقعہ ملے تو منظور کر لیں۔ ’’بھلا میں تو آپ کی طبیعت سے واقف ہوں اور آپ کی وعدہ خلافیوں کا عادی ہو چکا ہوں بیچارے تاج محمد نے آپ کا کیا قصور کیا ہے کہ اُس کو یہ امید دلا دی ہے کہ اکٹھے لاہور چلیں گے؟وہ بزرگ پہلے بھی آپ کے زخم خوردہ ہیں،‘‘ اقبال نے ۲۲ اگست کو گرامی کو لکھا۔’’خوب میرے حیدرآباد جانے سے دو روز پہلے آنے کا قصد ہے لیکن میں تو اپنے دل میں امید نہیں پیدا کرتا کیونکہ آپ نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ کون تاریخ جاؤں گا۔ بہرحال میں خود بتا دیتا ہوں۔ میں یہاں سے ۳۰ اگست کی رات کو جاؤں گا۔ خط آپ کا بڑے شوق سے کھولا تھا کہ کچھ اشعار کے متعلق ہو گا مگر دیکھا تو سوائے اس کے کہ رنگ و شمیم محاورہ ہیں اور کچھ نہ نکلا۔ یہ تومجھے بھی معلوم تھا آپ نے میری معلومات میں کیا اضافہ کیا؟‘‘ حیدری صاحب کے کسی خط کا تقاضا کیا جو گرامی کو آیا تھا اور انہوں نے بھیجنے کا اقبال سے وعدہ کیا تھا۔ کشن پرشاد کی رائے بتائی کہ انہیں بھی اتفاق ہے حالانکہ اُن سے گرامی کی رائے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ’’اِس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نظام کا چیف سیکرٹری ہو تو گرامی وزیراعظم ہونے کے قابل ہے یا کم از کم معزول شدہ وزیر یا پیشکار۔‘‘ طوافِ کعبہ والا شعر خط میں لکھا، ’’اچھا ہو تو داد دیجئے۔‘‘ ۳۸ لکھنؤ میں نیو ایرا کے مالک اور مدیر راجہ غلام حسین بازار میں نکلے تھے۔ کسی بگڑے ہوئے گھوڑے نے ٹکر مار دی۔ ۲۵ اگست کو ہسپتال میں انتقال کر گئے۔۲۷ ابھی مرنا نہ تھا غلام حسین کوئی دن اور بھی جیے ہوتے محمد علی (جوہرؔ) ۳۹ گرامی کے بارے میں سنا تھا کہ جالندھر گئے ہیں مگر بابو رحمت اللہ کے مکان سے جہاں وہ ٹھہرتے تھے کہیں اور چلے گئے ہیں چنانچہ نیازالدین خاں کو لکھا مگر معلوم ہوا کہ گرامی بابو رحمت کے مکان ہی پر ہیں اور بہن مسماۃ فجاں فضل بی بی کے خلاف خاندانی مکان سے بے دخلی کا مقدمہ شروع کر رکھا ہے۔ خط آیا تو اس میں مثنوی کی تقریظ کے اشعارموجود تھے مگر اکبرحیدری کے خط کے بارے میں کہا تھا کہ اپنے ساتھ لاہور لائیں گے۔ شائد کچھ اشارہ کیا تھا کہ حیدرآباد میں جو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کرنے کا منصوبہ بن رہا ہے حیدری صاحب اس میں اقبال کی رائے لینا چاہتے ہیں۔ اقبال چوکنّے ہو گئے کہ کہیں ملازمت کی بات نکال کر حیدری صاحب صرف یونیورسٹی میں مشورے کی غرض سے اتنا لمبا سفر کروا رہے ہوں۔ سمجھتے تھے کہ یونیورسٹی قائم ہونے میں بہت عرصہ لگے گا بلکہ حیدرآباد میں ایک گروہ جس طرح اس کی مخالفت کر رہا تھا اُس کی وجہ سے شاید قائم ہی نہ ہو سکے۔ کشن پرشاد کے جذبِ دل کو ہٹا کر سوچ کے دروازے کھولے۔ چیف جسٹس کی کرسی تو خالی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر کبھی ہوئی بھی تو مناسب امیدوار ریاست ہی میں کم نہ ہوں گے۔ ایک گمنام خط حیدرآباد سے موصول ہوا کہ ہم تو دعا کر رہے ہیں مگر بعض آدمی جو بظاہر آپ کے دوست ہیں حقیقت میں آپ کے یہاں آنے پر خوش نہیں۔ لکھنے والا اکبر حیدری کا مخالف معلوم ہوتا تھا۔۲۸ ۲۹ اگست کی شام کو بخار آیا اور ایک دو روز بعد پیچش۔ ہفتہ بھر تکلیف میں مبتلا رہے۔ سفر ملتوی کرنا پڑا۔۲۹ ۴۰ ۳ستمبر کو گرامی کو خط لکھا کہ تقریظ خوب ہے مگر اشعاربہت کم ہیں اور مثنوی کے پہلے حصے کے لیے زیادہ موزوں ہوتے۔ ’’دوسرے حصے میں جو اب شائع ہوگا حیاتِ ملّیہ یعنی اجتماعی زندگی کے اصول پر بحث ہے اور خالص اسلامی نکتۂ خیال سے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’میرا مقصدکچھ شاعری نہیں بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوںمیں وہ احساسِ ملّیہ پیدا ہو جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اِس قسم کے اشعار لکھنے سے غرض عبادت ہے کہ شہرت ہے۔ کیا عجب کہ نبیٔ کریمؐکو میری یہ کوشش پسند آ جائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعۂ نجات ہو جائے۔‘‘ حیدرآباد والے خط کو ساتھ لاہور لانے کے وعدے پر اقبال نے لکھا، ’’اس پیش گوئی کے لیے کہ گرامی لاہور کبھی نہ آئے گا کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ جالندھر اور ہشیارپور کا ہر شیرخوار بچہ بلاتامل ایسی پیش گوئی کر سکتا ہے۔‘‘یونیورسٹی اور چیف ججی کے بارے میں اپنے خدشات ظاہر کر کے لکھا، ’’یونیورسٹی چلانے کے لیے آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمی وہاں پر موجود نہیں۔ جو آدمی وہاں پر موجود ہیں وہ اپنے ذاتی مفاد کی غرض سے اپنے سے قابل تر اور زیادہ کارکن آدمیوں کو حیدرآباد میں نہ گھسنے دیں گے۔‘‘گمنام خط کا بھی ذکر کیا۔ ’’بہرحال ایک مدّت سے اقبال اپنے سارے معاملات خدا کو سونپ چکا ہے اور اپنے آپ کو محض ایک لاش جانتا ہے جس کی حس و حرکت خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ۴۱ ۷ ستمبر کو اکبر حیدری کو بیماری کا حال لکھ بھیجا۔ پھرکشن پرشاد کو لکھا، ’’ڈاکٹر صاحب ایک ہفتہ تک اجازت نہیں دیتے اور میں نے بھی صحت کے خیال سے یہ بہتر سمجھا ہے کہ سفرِ حیدرآباد ملتوی کر دوں یہاں تک کہ معاملۂ معلومہ خط کتابت سے طے ہو جائے سو آج حیدری صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا ہے اور جو مشورہ سرکار نے بکمالِ عنایت دیا تھا اُسی کے مطابق میرے عریضے کا مضمون ہے۔‘‘ سرکار کا مشورہ تو یہ تھا کہ ملازمت قبول کر لیں نجانے اکبر حیدری کے نام خط میں کیا لکھا تھا اور کیا سمجھ رہے تھے۔ اکبر حیدری کو خط ملا توانہوںنے کیا سوچا یہ معلوم نہیں۔ ۴۲ اکبر حیدری کا تار آیا۔چاہتے تھے کہ اقبال آئیں۔ اِنہوں نے تار دیا کہ ستمبر میں نہیںآسکتے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں آئیں گے۔ حیدرآباد سے اور خطوط بھی آئے۔ نہیں معلوم اُن میں کیا تھا مگر وہاں جانے کا شوق پہلے سے بھی کم ہو گیا۔۳۰ ۴۳ اکبر حیدری کا تار پھر آیا۔ روانگی کی تاریخ پوچھی تھی۔ اقبال نے جواب بھیجا کہ گیارہ اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ ۳۱ ۴۴ ظفر علی خاں کو لاہور آنے جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ منسوخ شدہ زمیندار کے دفتر میں ٹھہرے۔ ’’رات کا وقت تھا،‘‘روزنامہ زمیندار کے نوجوان صحافی عبدالمجید سالک کا بیان ہے۔ ’’دفتر کی چھت پر مولانا کے چند عقیدت مند اور دوست جمع تھے۔ ڈاکٹر اقبال بھی ملنے کے لیے آ گئے تھے۔ شعرخوانی اور لطیفہ بازی کا ہنگامہ تھا۔‘‘ سالک کے بیان کے مطابق یہاں اقبال نے وہ چند اشعار ترنم سے سنائے جو اورنگزیب کی شان میں فارسی میں لکھے تھے۔۳۲ ۴۵ اقبال کے لیے سب سے پہلے علامہ کا لقب کب استعمال ہوا؟ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال ستارۂ صبح کی ۲۰ ستمبر کی اشاعت میں یہ لقب موجود تھا۔ جواہرریزے حضرت علامہ اقبال کے بعض اشعار کی تفسیر ظفر علی خاں [اقتباس] لاہور آنے کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ گاہے ماہے لسان توحید علامہ اقبال سے نیاز حاصل ہو جاتا ہے اور ان کی حکیمانہ پھلجڑیاں طبیعت کے انقباض کو جو کثرتِ کار اور ہجومِ افکار کا نتیجہ ہے، مبدل بہ انشراح کر دیتی ہیں۔ دو ایک دن ہوئے علامہ ممدوح سے حسب معمول نیاز حاصل ہوا۔ ہم نے کہا کچھ تازہ فکر کی ہو تو فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مولانا جامی کے ایک مرصع مطلع پر ایک شعر وارد ہوا ہے سن لیجئے۔ پہلے آپ نے یہ مطلع پڑھا۔ آنکہ از حلقہ زر گوش گرانست او را چہ غم از نالہ خونیں جگرانست او را کون ہے جو اس بے مثل مطلع کر پڑھ کر سر نہ دھنے گا۔۔۔ کہ وہ شوخ بے پروا جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں پڑی ہوئی ہیں کہ ان بالیوں کے بوجھ سے اس کے کان دہرے ہوئے جاتے ہیں (یا بارعایت معنوی بہرے ہوئے جاتے ہیں) ان خونیں جگر عشاق کی آہ و بکا کو کب خاطر میں لانے لگا تھا جو اس پر مٹے ہوئے ہیں اس لیے کہ اس کی بے نیازی کی کفیل اس کی گراں گوشی ہو چکی ہے۔ ۔۔۔اب اقبال کا شعر ملاحظہ ہو فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں۔ سر کند بت اگرش طاقتِ گفتار دہند گلہ ہائے کہ زہندو پسرانست اُو را اس میں توحید کا ایک نہایت ہی لطیف نکتہ مضمر ہے۔۔۔ کاشی اور سومنات کے صنم خانوں میں معبودانِ ہند کے سنگین ہونٹوں پر ازل سے سکوت کی جو مہر لگی ہوئی ہے اُس کا نقش ہزارہا سال ہوئے، عراق کے ایک ساحلی شہر کے بت کدہ میں بھی مرتسم تھا اور آذر کی صنعت گری نے اس کے ارتسام میں اپنا کمال دکھایا تھا۔ دینِ حنیف کا وہ وحیدالعصر موسس، لقبِ مسلم کا وہ سب سے پہلا حقدار، ابراہیمؑ جس پر خدا تعالیٰ کی سو سو رحمتیں ہوں، ایک دن صنم کدے میں گیا۔۔۔ ایک تبر لے کر تمام بتوں کا سر توڑ ڈالا اور صنم شکنی کی اولیت کا یہ شرف حاصل کرنے کے بعد تبر کو سب سے بڑے بت کے گلے میں ڈال دیا۔ جب پجاری آئے اور انہوں نے اپنے دیوتاؤں کی یہ حالت دیکھی تو ابراہیمؑ سے غضب ناک ہو کر پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ابراہیم نے تعریضِ منزہ کے اُس لہجے میں جو بعض دفعہ بلاغت کی جان ہوتا ہے اور جو مذہب کی تاریخ میں اِس موقع سے زیادہ کامیابی کے ساتھ کبھی نہیں برتا گیا، جواب دیا کہ مجھ انسان ضعیف البنیان سے کیا پوچھتے ہو اپنے اس سب سے بڑے خدا سے پوچھو، اگر اس میں نطق ہے تو بتا دے گا کہ بت شکن کون ہے؟ ۔۔۔ابراہیم نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ جن سنگین لعبتوں کو خود تمہارے ہاتھوں نے تراشا ہے اُن کو کیوں پوجتے ہو۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارے مصنوعات کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اُس کی پرستش کیوں نہیں کرتے؟ بت کو اگر طاقتِ گفتار دی جاتی تو وہ جناب خلیل اللہ کا ہم صفیر ہو کر یہی گلہ گزاری کرتا۔ اقبال کا شعر ایک کوزہ ہے جس میں توحید کا یہ دریا بھر دیا گیا ہے۔ فافہم ۲۰ ستمبر ۱۹۱۷ئ، ستارۂ صبح (کرم آباد)۳۳ ۴۶ ایک مقدمہ ملا جس کے لیے ۱۵ اکتوبر تک لاہور میں رکنے کی ضرورت تھی۔ اکبرحیدری کو خط لکھ دیا کہ اب ۱۵ اکتوبر کے بعد لاہور سے چلیں گے۔ ۳۴ ۴۷ اقبال کے شاگرد میاں محمد اسلم جنہیں چند برس پہلے اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ نظم کی بجائے بامقصد افسانے لکھنے پر توجہ دیں، اَب ایم اسلم کے نام سے سامنے آئے تھے۔ مسکیٹیرز یا یارانِ وفاکیش [ایم اسلم کے ابتدائیے سے اقتباس] ۔۔۔یوں تو ہندوستان میں بھی ناول نویسی نے بہت کچھ رواج پا لیا ہے۔ اور بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے ناول نویس پیدا کئے ہیں۔ اور پھر اُردو زبان کی ملاحت اور لطافت کچھ ایسی چیز ہے کہ ناول خواہ کیسا ہی ہو طبیعت اس کے پڑھنے کو خواہ مخواہ للچا ہی جاتی ہے۔ کچھ ہندوستانی اہل قلم نے انگریزی زبان کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مگر ترجمہ میں بھی وہی طرز ہے جو خاص ہندوستانی مذاق ہے۔ عشق و الفت کی داستان میں میرے محترم ہموطن کچھ ایسی جولانی اور زورِ قلم دکھاتے ہیں کہ بس وہ ان ہی کا حق ہے۔ اور بدقسمتی سے لوگوں کا مذاق ہی کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ حسن و الفت کی فرضی داستان کے سوا اور کچھ پسند ہی نہیں۔ شکر ہے کہ چیدہ چیدہ اصحاب نے اس مذاق کے بدلنے کی خوب کوشش کی ہے اور جو کچھ اُن کے قلمِ گوہربار سے نکلا ہے اُس نے قبولیتِ عام کی سند حاصل کر لی ہے۔ یورپ میں ناول نویسی کا مذاق بھی ہے۔ اور یہ ایک بڑا فن بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا طرزِ تحریر بالکل نرالا ہے۔ زندگی کے ہر ایک پہلو کی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ تواریخی واقعات کو ناول کے پیرایہ میں پیش کیا جائے۔ زمانہ کے نشیب و فراز کا عکس اتارا جائے پڑھنے والے کی طبیعت میں وارفتگی اور بیخودی پیدا کر دی جائے۔ ہر ایک مصنف کا طرزِ تحریر دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے مگر افسوس ہندوستان والوں کو یہ بات بہت کم نصیب ہوتی ہے۔ آج جس ناول کا ترجمہ میں نے پیش کرنے کی جرأت کی ہے اس کے مصنف کا نامِ نامی الگزنڈر ڈیوماز [Alexander Dumas]ہے اور کتاب کا نام تھری مسکیٹیرز (Three Musketeers)ہے۔۔۔ مخزن، اکتوبر ۱۹۱۷ء ۴۸ حکومت نے اَب تک علی برادران کی گرفتاری کی وجہ نہ بتائی تھی۔ محمد علی جناح نے مرکزی قانون ساز کونسل میں سوال اُٹھایا۔ حکومت کو جواب دینا پڑا، ’’اُنہوں نے بادشاہ سلامت کے دشمنوں سے ہمدردی کا اظہار اور پرچار کیا تھا۔‘‘ پہلا موقع تھا کہ حکومت اس معاملے میں زبان کھولنے پر مجبور ہوئی تھی۔ الزام بے بنیاد تھا۔ عوام کی نظروں میں علی برادران کا مقام زیادہ بلند ہو گیا۔ ۴۹ پروفیسرصلاح الدین برنی شائد اردو شاعری کا انتخاب شائع کرنے والے تھے جس میں اقبال کی نظمیں شائع کرنے کی اجازت مانگی۔ ’’مجھے کیونکر اجازت میں تامل ہو سکتا ہے،‘‘ اقبال نے ۲ اکتوبر کو لکھا۔ ’’مگر آج کا زمانہ ہندوستان میں اور طرح کا ہے۔ اس کی نبض شناسی ضروری ہے۔ اگر آپ میری نظموں کے متعلق مجھ سے مشورہ کریں تو شائد بہتر ہوگا۔یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کے خیال میں کون سی نظمیں اس مجموعے میں آنی چاہئیں تورائے دے سکوں۔‘‘ ۵۰ معلوم ہوا کہ گرامی ایک دفعہ پھر جالندھر آئے ہوئے ہیں۔۳۵ ۵۱ عیدالاضحی پر کشن پرشاد کی طرف سے عیدکارڈ ملا جس کا اقبال فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۵۲ ظفر علی خاں نے ستم ڈھایا۔ عنوان فارسی میں تھا جس کا مطلب تھا کہ ہمیں ابن عربی کی فصوص الحکم پر نہیں بلکہ شریعت کے نصوص پر توجہ کرنی چاہیے۔ یہ مجدد الف ثانی ؒ کا قول تھا۔ ما را نص باید نہ فص ظفر علی خاں [اقتباس] ابن عربی پر اگر علامہ اقبال نے یا ہمیں نے نکتہ چینی کی ہوتی تو جناب خواجہ حسن نظامی کی طریقت مابی کو ہم پر بگڑنے کا پورا حق حاصل تھا کہ یہ نااہل ان رمزوں کو کیا جانیں۔ اسی طرح اگر علمائے امت کی طرف سے فصوص الحکم پر اعتراض ہوں تو جناب خواجہ صاحب ابرو پر بھی بل ڈال سکتے ہیں اور فرما سکتے ہیں کہ عالمِ ظاہر جدا ہے اور عالمِ باطن الگ ہے۔ شریعت کی سطحی آنکھ، طریقت کے عمیق غوامض تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ عتاب ہمارے سرآنکھوں پر۔ لیکن کیا فرمائیں گے جناب خواجہ حسن نظامی خود اُن صوفیائے کرام کے باب میں جنہوں نے محی الدین ابن عربی کے عقائد سے علانیہ بیزاری کااظہار کیا ہے اور ایسے سخت اور درشت الفاظ میں صاحبِ فصوص الحکم پر جرح کی ہے کہ ہم نے تو اُس کا دسواں حصہ بھی نہیں لکھا؟ ۳ اکتوبر، ستارۂ صبح (کرم آباد) ۵۳ اقبال کا بیان ہے کہ انہوں نے ظفر علی خاں سے کہا کہ ستارۂ صبح میں تصوف والی بحث نتیجہ خیز نہیں اور اس سے عوام ہی کو نہیں بلکہ خواص کو بھی دلچسپی نہیں ہے۔ ظفر علی خاں نہیںمانے۔۳۶ جواہرریزے رموزِ بیخودی کے بعض اشعار کی تفسیر ظفر علی خاں [اقتباس] ۔۔۔مولانا جامی نے بھی اس خیال کو اپنے رنگ میں خوب ظاہر کیا ہے۔ بندہ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست لیکن اقبال کی پروازِ تخیل زیادہ بلند ہے۔ جامیؒ نے محض ایک حقیقت بیان کر دی تھی کہ عشق ذات کو نہیں پوچھا کرتا اور نسب کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کا ثبوت بھی دیا ہے اور بتایا ہے کہ عشق کے روئے دل آرام کو مشاطۂ نسب کی کیوں حاجت نہیں اور ثبوت کیسا لطیف ہے کہ نسب کا تعلق تو صرف کالبدِ خاکی سے ہے جو بے اعتبارِ محض ہے لیکن عشق پیوندِ جان ہے جو حقیقتِ اصلی ہے۔ پھر اس کا رشتہ نسب کے مقابلہ میں کیوں نہ استوار تر ہو۔ ستارۂ صبح، ۴ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۵۴ ۵ اکتوبر کو اکبر حیدری کا خط آیا کہ ممکن ہو سکے تونومبر میں آئیں۔ نومبر میں فرصت نہیں تھی۔ حیدرآباد جانے کاارادہ ہی ختم کر دیا۔ ۳۷ ۵۵ شیخ نورمحمد تین روز بعدکچھ دنوں کے لیے لاہور آنے والے تھے جب ۶ اکتوبر کو اقبال کو گرامی کا خط ملا۔اسی روز جواب لکھتے ہوئے حیدرآباد نہ جانے کی مختصر روداداور اپنے شبہات کا اشارہ دیا، ’’مفصل گفتگو آپ سے اس وقت کروں گا جب آپ لاہور تشریف لاویں گے۔‘‘ شیخ نور محمد کے گرامی سے ملنے کے شوق کا ایک دفعہ پھر ذکر کر کے کہا، ’’اگر آپ اُن سے ملنے کے لیے دوچار یوم کے لیے آجائیں تو بہت اچھا ہو۔‘‘ اسی روز کشن پرشاد کو عید کارڈ کا شکریہ اور حیدرآباد جانے کا ارادہ ملتوی ہونے کے بارے میں گول مول سا خط لکھا، ’’غرض کہ اقبال کی عید ابھی نہیں آئی کیونکہ یہ تو اس روز آئے گی جب آستانۂ شاد پر اس کا گزر ہو گا۔‘‘ اکبر حیدری کو بھی لکھ دیا کہ عدالتیں کھل جانے کی وجہ سے طویل سفر کرنے میں آمدنی کا نقصان ہے۔ اس کے بعدکافی عرصہ اکبر حیدری کا کوئی خط نہیں آیا۔۳۸ ۵۶ کشن پرشاد کا خط بھی پہنچ گیا اور شائد انہوں نے بھی حیدرآباد آنے کی تاکید کی تھی۔ جہاندیدہ تھے، جانتے تھے کہ کچھ نہ کچھ دوڑدھوپ کئے بغیر کامیابی حاصل ہونا محال ہے۔ ’’سرکار نے جو کچھ لکھا ہے بالکل بجا اور درست ہے لیکن گرما کی تعطیلوں میںحیدرآباد کا سفر آسان تھا اور اب یہ سفر تقریباً دو ہزار روپیہ کے نقصان کا مترادف ہے،‘‘ اقبال نے ۷ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اکبرحیدری اور اپنے درمیان سفر کی تاریخیںتبدیل ہونے کی پوری تفصیل لکھ دی۔ یہ بھی لکھا کہ اکبر حیدری نے ملازمت کی کوئی خاص اُمید دلائی نہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یونیورسٹی پر مشورہ کرنے اور’’محض تفنّن ِ طبع کے لیے‘‘ بلاتے ہیں۔ اس کے بعد کشن پرشاد کی طرف سے بھی بہت عرصہ کوئی خط نہیں آیا۔ ۵۷ بظاہر کچھ لگتا ہے کہ اقبال ہی نے پہلے اکبر حیدری کو منع کیا تھا کہ ملازمت کی تفصیل خط میں نہ لکھیں۔ زبانی آ کر پوچھ لیں گے۔ بعد میں ناراض ہو گئے کہ کوئی خاص امید دلائے بغیر سفر کیوں کروا رہے ہیں۔ ۵۸ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے انگریز ایسے ڈرے تھے کہ عدالتیں بھی ہندوستانیوں کے آپس کے جھگڑوں میں اُن کے رسم و رواج کا خیال رکھتی تھیں۔ گرامی کے دوست سید صفدر علی شاہ بھی کسی ایسے ہی مقدمے میں الجھے ہوئے تھے چنانچہ اقبال کو خط لکھ کر معلوم کیا کہ ان کے معاملے میں رواج کیا کہتا ہے۔ ’’رواج ہر ضلع بلکہ ہر گاؤں کا مختلف ہوتا ہے،‘‘ اقبال نے ۱۱ اکتوبر کو گرامی کے نام خط میں لکھا کہ سید صفدر نے جو رقعہ لکھا ہے اس سے ان کا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ ’’البتہ بعض بعض جگہوں اور قبائل کے رواج کے متعلق چیف کورٹ نے فیصلہ جات کر دئے ہیں وہ اُن کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔‘‘ پنجاب کے عام رواج پر سب سے مستند کتاب جسٹس ریٹیگن کی تھی جن کے نام پر لاہور کی ریٹیگن روڈ تھی۔ اس کی قیمت سولہ روپیہ درج کر کے اقبال نے لکھا کہ اُن کے خیال میں صفدر شاہ کو اس سے فائدہ نہ ہو گا بلکہ انہیں کسی وکیل سے مشورہ کرنا چاہئے کہ ان کے ضلع یا قصبے کے رواج کے متعلق چیف کورٹ کا کوئی فیصلہ پہلے سے موجود تو نہیں ہے۔’’اگر فیصلہ موجود نہ ہوا توپھر فیصلہ فریقین کی شہادتِ زبانی و تحریری پر ہو گا۔‘‘ ۵۹ کسی موقعے پر گرامی نے اقبال کو کوئی گولیاں دی تھیں۔ ۱۳ اکتوبر کو اقبال نے انہیں استعمال کرنے کا طریقہ اور پرہیز کے بارے میں دریافت کیا۔ ۶۰ ’رموزِ بیخودی‘ ختم ہونے میں چند اشعار کی کسر تھی۔ آمد ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔۳۹ ۶۱ خط انگریزی میں ٹائپ کیا ہوا تھا۔ سیکرٹری خارجہ نے دستخط کر دیے۔ مشرقِ وسطیٰ کا امن مدّتوں کے لیے خطرے میں پڑ گیا۔ Foreign Office, November 2nd, 1917. Dear Lord Rothschild, I have much pleasure in conveying to you, on behalf of His Majesty's Government, the following declaration of sympathy with Jewish Zionist aspirations which has been submitted to, and approved by, the Cabinet: "His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object, it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country". I should be grateful if you would bring this declaration to the knowledge of the Zionist Federation. Yours sincerely Arthur James Balfour یعنی مفہوم یہ تھا: دفتر ِ خارجہ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء ڈئر لارڈ روتھس چائلڈ، میں بہت مسرت کے ساتھ ملک معظم کی حکومت کی طرف سے یہودی صیہونی امنگوں سے ہمدردی کا مندرجہ ذیل اعلان آپ تک پہنچا رہا ہوں جو کابینہ کے سامنے پیش ہو کر اُس کی طرف سے منظور ہوا: ’’ملک معظم کی حکومت یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک قومی آبادی کے قیام کی حمایت کرتی ہے اور اور اس مقصد کے حصول میں مدد کرنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں صرف کرے گی واضح طور پر یہ سمجھ کر کہ کوئی ایسی چیز نہ کی جائے گی جس کی وجہ سے فلسطین میں اِس وقت موجود غیریہودی برادریوں کے شہری اور مذہبی یا کسی دوسرے ملک میں اِس وقت یہودیوں کو حاصل شدہ حقوق اور سیاسی حیثیت منفی طور پر متاثر ہوتے ہوں۔‘‘ میں شکرگزار ہوں گا اگر آپ یہ اعلان صیہونی وفاق کے علم میں لے آئیں۔ آپ کا مخلص آرتھر جیمز بالفور کابینہ میں بحث ہوئی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ شریف ِ مکہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کا علاقہ ترکوں سے لے کر عربوں کے حوالے کیا جائے گا اور اِسی لالچ میں عرب ترکوں کا خون بہانے پر آمادہ ہوئے تھے۔ بہرحال فاتح اقوام ہارنے والی قوم کے اُن غداروں پر ترس نہیں کھاتیں جن کی وجہ سے فتح نصیب ہوئی ہو۔ شریف ِمکہ اِسلام کا غدار تھا۔ ۶۲ ۴ نومبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ اُنہوں نے ’اسرارِ خودی‘ کے بارے میں کسی پنڈت چھجو رام کی رائے کا ذکر کیا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ چونکہ گرامی نے وعدہ کیا تھا کہ محرم میں آئیں گے لہٰذا گرامی پر عربی کا محاورہ چست کر دیا کہ کوفہ والوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ محرم میں وعدہ خلافی کی رعایت سے انہیں کوفی قرار دیا۔ ’ ’الکوفی لایوفی،‘‘ اقبال نے لکھاکہ گرامی تو امامِ غائب ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں اِس غیبتِ صغریٰ کا زمانہ کب ختم ہو گا۔ پنڈت چھجو رام کی رائے کے بارے میں کہا کہ انہیں تعجب نہیں ہواکیونکہ ہر شخص ہر کتاب سے وہی بات سمجھتا ہے جس کا تقاضا اُس کا ذہن کرتا ہے۔ ’’سیاسیات مسلمانوں میں کوئی علیحدہ شے نہیں بلکہ خالص مذہبی نکتۂ خیال سے کچھ شے ہی نہیں اور اگر کچھ ہے تو مذہب کی لونڈی ہے۔‘‘ ’رموزِ بیخودی‘ کے بارے میں لکھا کہ سال کے آخر سے پہلے ختم ہو جائے گی۔ اس سے ’اسرارِ خودی‘ پر کافی روشنی پڑے گی اوراس کی بہت سی غلط تشریحات ختم جائیں گی۔ ’’اسلامیnationalism کی حقیقت اس سے واضح ہو گی اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ یا خودستائی نہیں کہ اِس رنگ کی کوئی نظم یا نثر اسلامی لٹریچر میں آج تک نہیں لکھی گئی۔‘‘ ۶۳ ۷ نومبر تھی۔ روس برف کی آغوش میں تھا۔ بالشویک انقلابیوں کے مسلح گروہ سڑکوں پر نکلے۔ ریلوے اسٹیشنوں، پوسٹ آفسوں، ٹیلی فون ایکسچینجوں اور بینکوں پر قبضہ کرنے کے بعد بحری جہاز آرورا پر بھی سرخ جھنڈا لہرایا۔ دارالحکومت پیٹروگراڈ کے موسمِ سرما کے محل میں عبوری حکومت کے وزرأ جمع تھے۔ خواتین کی بٹالین اور کیڈٹوں کا دستہ پہرا دے رہا تھا۔ سامنے دریائے نیوا میں سرخ جھنڈے والا بحری جہاز نمودار ہوا۔ گولے دیوار سے ٹکرائے تو وزیروں نے ہتھیار ڈال دیے اور سرخ محافظ محل میں داخل ہو گئے۔ انقلاب آ چکا تھا۔ ۶۴ ۱۱ نومبر کو پیسہ اخبار والے مولوی محبوب عالم کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ لاہور میں اعلیٰ پیمانہ پر ایک اسلامی اور دینی مدرسہ قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ سب کمیٹی بنی۔ اس کے ارکان اقبال، مولوی احمد دین وکیل، مولوی فضل الدین، شمس العلمأ مولوی عبدالحکیم، مولوی ثنأ اللہ امرتسری، مولوی محبوب عالم، مولوی احمد بابا اور حاجی شمس الدین تھے۔۴۰ اُس روز اتوار تھی۔ ظفرعلی خاںلاہور میں تھے۔ غالباً اسی موقع پر اقبال نے تذکرہ کیا کہ سمرقند کے کسی صوفی بزرگ ابواللیث نے ایک قرآن تصنیف فرمایا تھا جس میں وہ آیات درج کی تھیں جو اُن کے خیال میں معراج کی رات آنحضورؐ پر نازل ہوئی تھیں مگر قرآن شریف میں شامل نہ تھیں اور نہ ہی عوام کے علم میں تھیں۔ ایک نسخہ لاہور کی اورینٹل لائبریری میں موجود تھا۔ بعد میں ظفر نے لکھا، ’’علامہ اقبال نے اس پر تبصرہ کرنا شروع کیا تھا اور اگر یہ دل کشا تبصرہ شائع ہو جاتا تو مسلمانوں کو معلوم ہو جاتا کہ مکی و مدنی قرآن کی زبان اور سمرقندی قرآن کی زبان میں کیسے کیسے مزے کے فرق ہیں۔ لیکن ہندوستان بھر کے اربابِ طریقت نے اُس زمانہ میں ستارۂ صبح کی قائم کی ہوئی تحریک کے اور میرے خلاف جو اعلانِ جنگ کر رکھا تھا، غالباً اُس کے شور و غوغا سے متاثر ہو کر علامہ ممدوح نے اپنے تبصرہ کی اشاعت کا قصد ملتوی کر دیا۔‘‘ ۴۱ شام کو نواب ذوالفقار علی خاں، ظفر کو ساتھ لے کر جہانگیر کے مقبرے پر گئے۔ ’’علامہ اقبال بھی ساتھ تھے،‘‘ ظفر کا بیان ہے۔ ’’سرو و شمشاد اور سبزہ و گل کی بہار تو وہی ہے جو یہ چرخِ فیرزہ گوں صدیوں پہلے دکھا چکا ہے بلکہ لارڈ کرزن کی فیاضانہ آثارپرستی کے صدقہ میں گلگشت کی فضا شاید پہلے سے بھی زیادہ پررونق ہے لیکن اس گنبد کو دیکھ کر جس میں جہانگیر ابن اکبر محوِ آرام ہے، دل میں ہزاروں عبرت اندوز حسرتوں کا ہجوم ہو گیا۔ علامہ اقبال نے اُس وقت سوز و گداز کے لہجے میں مولائے روم کی ایک غزل پڑھی جس کے یہ تین اشعار ہمیں وجد میں لے آئے۔۔۔‘‘ وہی اشعار تھے جو نیو ایرا میں یٹشے اور رومی والے مضمون میں بھی درج کیے تھے۔ مفہوم یہ تھا: کل شیخ چراغ لے کر شہر کا چکر لگا رہا تھاکہ میں بھوتوں اور جانوروں سے بیزار ہوں ، مجھے انسان چاہیے۔ ان بودے اور کم ہمت ہمراہیوں سے میرا دل بجھ گیا۔ مجھے تو اﷲ کے شیر اور رُستم کی آرزو ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں ملتا ، ہم ڈھونڈ چکے ہیں۔ وہ بولا کہ جو نہیں ملتا وہی تو میری آرزو ہے۔ واپسی مغرب کے بعد ہوئی۔ ظفر علی خاں نے بستر پر لیٹنے کے بعد نظم ’تصویرِ آرزو‘ موزوں کی: میری جاں پر چھائی جاتی ہے فنا کی آرزو اور زباں پر آئے جاتی ہے بقا کی آرزو۴۲ ۶۵ سلیمان ندوی کا خط آیا۔ اقبال نے اسے قوتِ روح اور اطمینانِ قلب کا باعث پایا۔ ’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوفِ وجودی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے،‘‘ انہوں نے ۱۳ نومبر کوسلیمان ندوی کے کام کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہوئے لکھا اور اخبار وکیل امرتسر میں اپنے اُن مضامین کی طرف توجہ دلائی جن میں تصوف کو فتنۂ سمن قرار دیا تھا۔ ’’افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور علالت کی وجہ سے میں ان مضامین کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔‘‘ ۶۶ ۱۵ نومبر کو پیرس میں ایمل درخائم کا انتقال ہو گیا۔ جدید عمرانیات کا بانی تھا۔ فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ ۶۷ ’رموزِ بیخودی‘ ۱۳ اور ۱۷ نومبر کے درمیان کسی وقت مکمل ہوئی۔ اقبال نے صاف نقل بنانا شروع کی۔ سینسر کو بھی دکھانی تھی۔ جنگ کی وجہ سے بے اجازت نہیں چھاپ سکتے تھے۔۴۳ رموزِ بیخودی یعنی اَسرارِ حیاتِ ملیہ اسلامیہ فہرستِ مضامین پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ ۱ تمہید در معنیٔ ربط فرد و جماعت ۲ در معنیٔ ایں کہ ملّت از اختلاطِ افراد پیدا می شود و تکمیلِ تربیتِ اُو از نبوّت است ۳ ارکانِ اَساسیِ ملّیہ اسلامیہ؛ رُکنِ اوَّل توحید ۴ در معنیٔ ایں کہ یاس و حزن و خوف اُمّ الخبائث است و قاطعِ حیات و توحید ازالۂ ایں امراضِ خبیثہ می کند ۵ حکایت شہنشاہِ عالمگیر رحمۃُ اللہ علیہ و شیر ۶ رُکنِ دوم رسالت ۷ حکایت بوعبید و جابان ۸ حکایت سُلطان مراد و معمار ۹ در معنیِٔ حُرّیتِ اسلامیّہ و سِرِّ حادثۂ کربلا ۱۰ در معنیٔ ایں کہ چوں ملتِ محمدؐیّہ موسّس بر توحید و رِسالت است پس نہایتِ مکانی ندار ۱۱ در معنیِٔ ایں کہ ملّتِ محمدیہؐ نہایتِ زمانی ہم ندارد کہ دوامِ ایں ملّتِ شریفہ موعود است ۱۲ در معنیٔ ایں کہ نظامِ ملّت غیر از آئین صورت نہ بندد و آئینِ ملّتِ محمدؐیّہ قرآن است ۱۳ در معنیِٔ ایں کہ پختگی ِ سیرتِ مِلّیہ از اتّباعِ آئین است ۱۴ در معنیِ ایں کہ حُسنِ سیرتِ ملّیہ از تادُّب بآدابِ رسول است ۱۵ در معنیِٔ ایں کہ حیاتِ ملّیہ مرکزِ مشہود می خواہد و مرکزِ ملّتِ اسلامیّہ بَیتُ الحرام است ۱۶ در معنیِٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی از محکم گرفتن نصب العین ملّیہ است و نصب العین اُمّتِ محمدؐیّہ حفظ و نشرِ توحید است ۱۷ در معنی ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ ایں است کہ ملت مثلِ فرد احساسِ خودی پیدا کند و تولید و تکمیلِ ایں احساس از حفظِ روایاتِ ملیہ ممکن گردد ۱۸ در معنیِٔ ایں کہ توسیعِ حیاتِ ملّیہ از تسخیرِ قوائے نظامِ عالم است ۱۹ در معنیِٔ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اصل اسلام است ۲۰ در معنیِٔ ایں کہ سیّدۃ النسأ فاطمۃ الزہرااسوۂ کاملہ ایست برائے نسا ِ ٔ اِسلام ۲۱ خلاصہ مطالبِ مثنوی در تفسیرِ سُورۂ اخلاص ۲۲ عرضِ حالِ مُصنّف بحضور رحمۃُ الّلعالمین۴۴ ۶۸ اقبال کے کبوتروں میں ایک مدینہ سے بھی آیا تھا۔ ۲۰ نومبر کو ایک بلّی نے اُسے شکار کر لیا۔ دو روز بعد ظفر علی خاں نے تعزیتی نظم کہی۔۴۵ ۶۹ ۲۷ نومبر کو نیازالدین خاں کو خط لکھ کر بتایا کہ ’رموزِ بیخودی‘ چند روز میں پریس کو دے دی جائے گی لہٰذا پندرہ روز میں گرامی سے تقریظ لکھوا دی جائے۔ وہ مقدمے کے چکر میں کہیں چھپے ہوئے تھے اور ان کا ٹھیک پتہ معلوم نہ ہو رہا تھا اس لیے نیازالدین خاں کو زحمت دینی پڑی تھی۔ ۷۰ تقریظ تو نہیں آئی مگر گرامی نے مقدمے کے سلسلے میں مشورہ مانگا۔ جالندھر میں اقبال کے دوست لالہ شوچرن داس اور شاگرد پنڈت کیول کرشن بیرسٹر ایٹ لأ کے نام خطوط کی فرمائش بھی کی۔ نومبر کی کسی تاریخ کو اقبال نے ان دونوں کے نام خطوط لکھتے ہوئے گرامی کو اطلاع دی اور خیال ظاہر کیا کہ جو حالات لکھے ہیں اُن کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ حق میں ہونا چاہئے۔ مزید کچھ سوال پوچھے اور کاغذات کی ایک نقل منگوائی۔ اکبرحیدری کے مفصل خط کا آج تک گرامی نے تفصیل سے ذکر نہیں کیا تھا۔ ’’وہ خط اگر آپ نے تلف نہ کیا ہو تو بھیج دیجئے،‘‘ اقبال نے پس ِ تحریر لکھا۔ ۷۱ ۳ دسمبر کو عثمانی افواج کے ہیڈ کوارٹر سے تمام یونٹوں کو اطلاع ملی کہ بالشویک رُوس جنگ سے باز آیا۔ مشرقی محاذ پر جنگ رُک گئی ہے۔ خلافت عثمانیہ اور جرمنی کی وہ افواج جو مشرقی سرحدوں پر روس سے لڑ رہی تھیںاب اُنہیں واپس بلوا کر اتحادی طاقتوں کے خلاف بھیجا جا سکتا تھا۔ ۷۲ بیرسٹر کیول کرشن کا خط آیا کہ وہ گرامی کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے مگر وہاں نہ گرامی آئے تھے نہ مسماۃ فجاں فضل بی بی۔ مقدمہ اب ۹ جنوری ۱۹۱۸ء کو پیش ہوگا۔ ۸ دسمبر کو اقبال نے گرامی کو خط لکھا کہ وہ بیرسٹر کے پاس جائیں اور تمام حالات سے انہیں آگاہ کریں۔ بہن کا پتہ بھی دیں کیونکہ اُس پر اب تک سمن کی تعمیل نہیں ہوئی ہے۔ ۷۳ یروشلم جو مسلمانوں کے لیے بیت المقدس تھا، اُسے بچانے کی کوشش میں ترک تنہا رہ گئے تھے۔ عرب، دشمنوں کے ساتھ تھے۔ ۹ دسمبر کو انگریز فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں۔ ’’کون جانتا ہے کہ یہ زبردست فتح تاریخ کے کسی بھی اور سنگ ِ میل کے برابر شاندار ہو جائے،‘‘ یہودیوں کے سب سے بڑے پروہت نے کہا۔ عربوں نے اگر سنا تو مطلب نہ سمجھے۔ یورپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ۷۴ گرامی کا خط آیا۔ مقدمے کے بارے میں اقبال کی طلب کی ہوئی معلومات کے علاوہ اپنی بیوی اقبال بیگم ترکؔ کے اشعار بھیجے تھے۔حیدرآباد والے خط کے حوالے سے کچھ نہ لکھا تھا۔ ۱۲ دسمبر کو جواب میں اقبال نے انہیں بیرسٹر کیول کرشن سے ملنے کی تاکید کی۔ ’’وہ میرے دوست بھی ہیں اور شاگرد بھی اور شعر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور نہائت محبت کرنے والا دل اس پر مستزاد،‘‘ انہوں نے لکھا اور پھر حیدرآباد والے خط کے بارے میں پوچھا۔ ’’تھوڑے سے حالات تو حیدرآباد کے لکھنے چاہئیں جو آپ کو خط سے معلوم ہوئے ہیں۔‘‘ گرامی سے درخواست کی کہ فارسی کا کوئی نہایت شگفتہ مصرع لکھیں کہ طبیعت رواں ہو جائے۔ بہت دنوں سے شعر نہیں کہا تھا۔ ۷۵ مدعیانِ تصوف سے دوٹوک فیصلہ (خواجہ حسن نظامی کا مطبوعہ گشتی خط بصیغہ راز) ظفر علی خاں [اقتباس] باوجود اُن تحریرات کے جو ہمارے خلاف اور ہمارے معزز دوست علامہ اقبال کے فضائل کی تنقیص میں خطیب اور کشمیری اور وکیل میں مختلف پیرایوں اور مختلف طریقوں سے شائع کرائی جاتی رہی ہیں، ہم جناب خواجہ حسن نظامی اور اُن کے گرامی قدر یارانِ طریقت کے باب میں اس سوظن کو گناہ سمجھتے ہیں کہ وہ علانیہ اختلافِ رائے کے علاوہ کوئی ایسا باطنی سازوباز ہمارے خلاف کریں گے جو صرف چھوٹی طبیعت والے بزرگوں ہی کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جناب خواجہ صاحب خدا کے فضل سے ہاتھ میں ایک گلریز قلم اور اس قلم میں بہارآفریں قدرت رکھتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے لکھا ہے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں یا جو کچھ ہم بشرطِ زندگی لکھیں گے، اس کا ابطال یا تخطیہ بہت ہی آسان ہے، اگر اس میں باطل کی آمیزش یا خطا کا لوث ہو۔ پھر کیوں نہیں جناب خواجہ صاحب و شرکأ سامنے آ کر ہمیں ہماری مزعومہ خطاکاریوں اور بدکرداریوں پر ٹوکتے ہیں اور کیوں نہیں علیٰ روس الاشہاد ہمیں ہدایت اور رشد کے صراطِ مستقیم پر ڈالتے ہیں؟ ستارۂ صبح (کرم آباد)، ۱۳ دسمبر ۱۹۱۷ء ۷۶ ستارۂ صبح میں کشن پرشاد کی غزل اقبال کی نظر سے گزری۔ ’’اِسی کو نصف ملاقات تصور کیا گیا،‘‘ ۱۹ دسمبر کو مختصر سے خط میں کشن پرشاد کو لکھا اور درخواست کی کہ خیریت سے مطلع کریں کیونکہ انہوں نے عرصے سے خط نہیں لکھا تھا۔ ۷۷ اکبر حیدری کی طرف سے کبھی کبھی یونیورسٹی کے کاغذات آ جاتے تھے کہ اقبال لاہور ہی سے مشورہ لکھ دیں۔۴۶ ۷۸ گرامی کا خط ملا۔ اپنی غزل بھیجی تھی کہ اُس فتنہ کار آنکھ کی ستم ظریفی مت پوچھو جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو امتحان کا ذوق بخشتی ہے: ستم ظریفیِ آن چشمِ فتنہ مست مپرس کہ با شکستہ دلان ذوقِ امتحان بخشد ۷۹ ۲۵ دسمبر کو کرسمس منایا جا رہا تھا۔ سینسر کے محکمے کے عبدالعزیز صاحب نے چھٹی کے دن بھی کام کیا کیونکہ ’رموزِ بیخودی‘ کے مسودے کے ہر صفحے پر مختصر دستخط کرنے کے بعد آخری صفحے پر پورے دستخط کرتے ہوئے جو تاریخ ڈالی وہ اِسی دن کی تھی۔خیال کیا جاتا ہے کہ سینسر نے کوئی شعر نہیں کاٹا۔ مسودے میں جو اشعار قلمزد ہوئے وہ اقبال نے خود ہی کسی وجہ سے کاٹے ہوں گے۔۴۷ اُس روز شیخ نور محمد لاہور آ کر کچھ دنوں کے لیے اقبال کے پاس ٹھہرے۔۴۸ ۸۰ ۲۶ دسمبر کو نیازالدین خاں کا خط آیا۔ جالندھر بلا رہے تھے۔اُسی روز شیخ عمر بخش سے ملاقات ہوئی جن کے ذریعے اقبال نے نیازالدین خاں سے کہلوا دیا کہ والد صاحب کے لاہور آنے کی وجہ سے وہ جالندھر نہ جا سکیں گے۔۴۹ اُسی روز ’رموزِ بیخودی‘ سینسر سے واپس آگئی۔۵۰ ۸۱ ’’گرامی عمر میں بڑھتا ہے مگر اس کا دل جوان رہتا ہے،‘‘ ۲۷ دسمبر کو گرامی کو اُن کی غزل کی تعریف میں لکھا۔ اُسی روز نیازالدین خاں کے نام الگ خط لکھ کر معذرت کی۔ ’’گاؤں کی زندگی واقعی قابلِ رشک ہے اور اگر جالندھر کے افغانوں میں کچھ اپنے قومی و ملّی خصائل ابھی تک محفوظ ہیں تواِسی زندگی کی وجہ سے۔ مگر گنّے کی کھیر سے یارانِ ہمدم کی صحبت شیریں تر ہے اور اس میں صرف اس قدر نقص ہے کہ ہر وقت میسر نہیں آتی۔‘‘ غالباً اُسی روز ’رموزِ بیخودی‘ کاتب پرویں رقم کے حوالے کی گئی۔ اشاعت کا اہتمام اِس دفعہ بھی حکیم فقیر محمد چشتی ہی کرنے والے تھے۔۵۱ ۸۲ میر غلام بھیک نیرنگ نے حسن نظامی کو خط لکھ کر وضاحت کی کہ ستارۂ صبح کے مضامین میں اقبال کا ہاتھ نہیں ہے۔حسن نظامی نے اقبال کو خط لکھ کر معذرت پیش کی۔۵۲ ۸۳ The Awakening of India by De Wit Mackenzie [Excerpt from quotation by Jogendra Singh] A great poet has arisen in the Punjab whose poems are consecrated to the ideas of new time. Iqbal has initiated a new era in Urdu poetry. He combines the imaginative philosophy of the East with ardent aspirations of the West. Like Moses he smote the rock, and fresh streams of poetry have leapt out in response, on whose swift and translucent surface we can hardly breathe. He does not sing of self-effacement, but holds forth self-affirmation as essential to self-preservation. The life value of self-affirmation he illustrates in a poem of great dignity and grace, 'A thirsty bird mistakes a diamond for a drop of water, but it cannot make it a source of life to itself. It sips the soft morning dew from the painted petals of flowers which lose their own brief existence in the yielding. The coal in essence is the same as a diamond, and yet coal feeds the flaming furnace while the diamond adorns the crown.' In a poem of keen, strong, rousing power he draws the moral that self-affirmation is the key to self-preservation. Iqbal in this poem has broken away entirely from the canons of accepted opinion. He is the precursor of great events in the domain of literature. He is the poet of reality, close to the very truth of things, in contradistinction to metaphysics and mere sentiment. His force, anger, even his gloom and freedom from mystic reticence, make him a spirit of power. His ambition is to set the heart burning like a candle, to be consumed and yet in the very process of burning to illuminate the path for the unseeing eye. He plunges into the whirlpool of thoughts, hopes and passions, joys and sorrows, and brings forth into life, with unshackled freedom, truth, and favour, ideas, so silent so long, of religious, social and political well-being. Iqbal, Tagore, and others are precursors of a new movement. What India will make of it? What will the new movement make of the new literature? It is not for me to prophesy. The words of Iqbal ring clear: 'The world will witness when from my heart springs the storm of expression; My silence conceals the seed of aspiration.'۵۳ ۸۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Sir Ananda Acharya. Brahmadarsanam or Intuition of the Absolute: "Being an Introduction to the Study of Hindu Philosophy". Macmillan, London محمد نجم الغنی نجمی۔ بحرالفصاحت۔ نولکشور، لکھنؤ ان کے علاوہ میکملن لندن والوں نے بھی اپنی دو کتابیں "Specimen for Considerration" کی مہر لگا کر اقبال کو بھجوائیں۔ درسی کتب کے طور پر منظور کروانا چاہتے ہوں گے۔۵۴ ۸۵ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں ہو رہا تھا۔ صدارت کے لیے محمد علی جوہر کا نام تجویز ہوا تھا جو سیکڑوں میل دُور نظربند تھے۔ کرسی پر اُن کی تصویر رکھ دی گئی۔ دوسرا حصہ ۸۶ کوئی قاضی امیر احمد شاہ رضوانی تھے۔ افغان تھے۔ ایک دن اقبال سے کہا کہ قدیم فارسی میں لفظ ’’فُغ‘‘ بت کے معانی میں آیا ہے اور لفظ افغان کے شروع میں الف نفی کا اشارہ کرتا ہے گویا معلوم ہوتا ہے کہ افغان جب پہلے پہل ایران میں آباد ہوئے تو بت پرست نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ نام دیا گیا۔ اس سے خیال ہوتا تھا کہ افغان یہودی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۵۵ ۸۷ خواجہ حسن نظامی کے خط کا ابھی تک جواب نہ دے سکے تھے۔ اُنہی دنوں کسی نے اقبال سے کہا کہ حسن نظامی نے مشہور کر رکھا ہے کہ اقبال نے اپنی ٹوپی ہمارے قدموں پر رکھ کر ہم سے معافی مانگی ہے اور آئندہ کے لیے توبہ کی ہے۔ ’’میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنّت ہے اقبال ان کے قدموں پر ٹوپی تو کیا سر رکھنے کو تیار ہے اوراُن کی صحبت کے ایک لحظہ کو دُنیاکی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتالیکن جو بات خواجہ حسن نظامی کی طرف منسوب کرتے ہو تو اُس کے لغو ہونے میں کوئی شبہ نہیں،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔۵۶ ۸۸ ۸ جنوری ۱۹۱۸ء تھی۔ امریکہ میں صدر ووڈرو وِلسن نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنے ملک کے جنگی مقاصد چودہ نکات کی صورت میں پیش کیے: ۱ امن کے کھلے معاہدے ۲ جنگ اور امن میں سمندروں پر سفر کی مکمل آزادی ۳ تجارتی رُکاوٹیں ختم کرنا ۴ قومی اسلحہ جات کو اندرونِ ملک ضروریات کے مطابق زیادہ سے زیادہ گھٹانا ۵ نوآبادیاتی دعوؤں کا آزادانہ، کھلے دماغ اور غیرجانبداری کے ساتھ تصفیہ کرنا ۶ تمام روسی علاقے سے انخلأ ۷ بلجیم کے تمام علاقے سے انخلأ ۸ تمام فرانسیسی علاقے کو آزاد کروانا اور السیس لورین واپس دلوانا ۹ اٹلی کی سرحدوں میں قومیتوں کی مناسبت سے تبدیلیاں کرنا ۱۰ آسٹریاہنگری کے عوام کو خودمختار ترقی کا موقع فراہم کرنا ۱۱ رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو سے انخلأ ۱۲ عثمانی سلطنت کے ترک حصوں سے اُن کی خودمختاری کی یقین دہانی کرنا ۱۳ خودمختار پولش ریاستوں کا قیام جنہیں سمندر تک رسائی حاصل ہو ۱۴ آزادی اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے اقوام کی ایک انجمن قائم کرنا تقریر کی بازگشت اقبال نے سنی۔ کچھ عرصہ بعد اُن سے کہلوانے والی تھی: امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے اور اِس کی وجہ سے شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتاہے۔ صدر وِلسن کے ۱۴ نکات ۸ جنوری ۱۹۱۸ء [صدارتی خطبے سے اقتباس] We entered this war because violations of right had occurred which touched us to the quick and made the life of our own people impossible unless they were corrected and the world secure once for all against their recurrence. What we demand in this war, therefore, is nothing peculiar to ourselves. It is that the world be made fit and safe to live in; and particularly that it be made safe for every peace-loving nation which, like our own, wishes to live its own life, determine its own institutions, be assured of justice and fair dealing by the other peoples of the world as against force and selfish aggression. All the peoples of the world are in effect partners in this interest, and for our own part we see very clearly that unless justice be done to others it will not be done to us. The program of the world's peace, therefore, is our program; and that program, the only possible program, as we see it, is this: I. Open covenants of peace, openly arrived at, after which there shall be no private international understandings of any kind but diplomacy shall proceed always frankly and in the public view. II. Absolute freedom of navigation upon the seas, outside territorial waters, alike in peace and in war, except as the seas may be closed in whole or in part by international action for the enforcement of international covenants. III. The removal, so far as possible, of all economic barriers and the establishment of an equality of trade conditions among all the nations consenting to the peace and associating themselves for its maintenance. IV. Adequate guarantees given and taken that national armaments will be reduced to the lowest point consistent with domestic safety. V. A free, open-minded, and absolutely impartial adjustment of all colonial claims, based upon a strict observance of the principle that in determining all such questions of sovereignty the interests of the populations concerned must have equal weight with the equitable claims of the government whose title is to be determined. VI. The evacuation of all Russian territory and such a settlement of all questions affecting Russia as will secure the best and freest cooperation of the other nations of the world in obtaining for her an unhampered and unembarrassed opportunity for the independent determination of her own political development and national policy and assure her of a sincere welcome into the society of free nations under institutions of her own choosing; and, more than a welcome, assistance also of every kind that she may need and may herself desire. The treatment accorded Russia by her sister nations in the months to come will be the acid test of their good will, of their comprehension of her needs as distinguished from their own interests, and of their intelligent and unselfish sympathy. VII. Belgium, the whole world will agree, must be evacuated and restored, without any attempt to limit the sovereignty which she enjoys in common with all other free nations. No other single act will serve as this will serve to restore confidence among the nations in the laws which they have themselves set and determined for the government of their relations with one another. Without this healing act the whole structure and validity of international law is forever impaired. VIII. All French territory should be freed and the invaded portions restored, and the wrong done to France by Prussia in 1871 in the matter of Alsace-Lorraine, which has unsettled the peace of the world for nearly fifty years, should be righted, in order that peace may once more be made secure in the interest of all. IX. A readjustment of the frontiers of Italy should be effected along clearly recognizable lines of nationality. X. The peoples of Austria-Hungary, whose place among the nations we wish to see safeguarded and assured, should be accorded the freest opportunity to autonomous development. XI. Rumania, Serbia, and Montenegro should be evacuated; occupied territories restored; Serbia accorded free and secure access to the sea; and the relations of the several Balkan states to one another determined by friendly counsel along historically established lines of allegiance and nationality; and international guarantees of the political and economic independence and territorial integrity of the several Balkan states should be entered into. XII. The Turkish portion of the present Ottoman Empire should be assured a secure sovereignty, but the other nationalities which are now under Turkish rule should be assured an undoubted security of life and an absolutely unmolested opportunity of autonomous development, and the Dardanelles should be permanently opened as a free passage to the ships and commerce of all nations under international guarantees. XIII. An independent Polish state should be erected which should include the territories inhabited by indisputably Polish populations, which should be assured a free and secure access to the sea, and whose political and economic independence and territorial integrity should be guaranteed by international covenant. XIV. A general association of nations must be formed under specific covenants for the purpose of affording mutual guarantees of political independence and territorial integrity to great and small states alike. ۸۹ آخر۱۱ جنوری کو ایک طویل خط بظاہر کافی سوچ سمجھ کر حسن نظامی کے جواب میں لکھا کہ اگرچہ ابھی تک اپنے خیالات پر قائم ہیں مگر ایک تو شاہ سلیمان پھلواری اور اکبرؔ الٰہ آبادی کے کہنے سے اور دوسرے اِس وجہ سے کہ یہ بحث اخبارات کے لیے موزوں نہیں بلکہ عوام تو کیا خواص کو بھی اس سے دلچسپی نہیں بہت مدت سے ان موضوعات پر ایک سطر بھی نہیں لکھی۔ ذاتی دلچسپی کے لیے مطالعہ جاری ہے۔ ’’مجھے ہمیشہ اس بات کا تعجب رہا کہ آپ اور آپ کے احباب اس اختلاف کی وجہ سے مجھے کیوں دشمن ِ تصوف سمجھتے ہیں؟‘‘ اقبال نے لکھا، ’’یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں بلکہ حضراتِ صوفیہ میں ایک عرصے سے موجود ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ انہیں تو ظفر علی خاں سے بھی اختلاف ہے اور انہیں باز رکھنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگر حسن نظامی کو اقبال جیسے گہرے دوست سے بدگمانی تھی تو براہِ راست دریافت کرتے ورنہ لوگ باتیں اڑایا ہی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں والے واقعے کا ذکر کیا جس میں کسی نے اقبال سے کہا تھا کہ حسن نظامی نے مشہور کر رکھا ہے کہ اقبال نے اپنی ٹوپی اُن کے قدموں پر رکھ کر معافی ہے۔ ’’اگر آپ چاہیں تو یہ خط شائع کر سکتے ہیں۔‘‘ ۹۰ محمد اکبر منیر اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے کے طالبعلم تھے۔ انہوں نے اقبال پر نظم لکھ کر انہیں بھیجی۔ ۱۲ جنوری کو اقبال نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ مشق جاری رکھی اور غوروفکر کی عادت ڈالی تو کامیاب ہوں گے۔ ’’شعر کا منبع و ماخذ شاعر کا دماغ نہیں اُس کی روح ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’اگرچہ تخیل کی بے پایاں وسعتوں سے شاعر کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ۹۱ خلیفہ عبدالحکیم نوجوان تھے۔ فلسفہ میں ایم اے کیا تھا۔ جنوری کے مخزن میں صفحہ۲۱ پر اُن کی نظم ’پیغامِ عمل‘ شائع ہوئی۔ طرزِ بیان اقبال سے ملتا جلتا تھا۔ عوام کے بارے میں رویّہ قدرے مختلف تھا: جنس نایاب جو ہو قابلِ بازار نہ ہو مجمعِ عام کبھی تیرا خریدار نہ ہو ۹۲ اکبر شاہ نجیب آبادی کا پوسٹ کارڈ آیا۔ مستقل طور پر لاہور میں قیام کر رہے تھے۔ ’’کبھی کبھی ضرور تشریف لایا کیجئے،‘‘ اقبال نے ۱۵ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’محبت و الفت رسائل کی محتاج نہیں بلکہ ظاہری زیارت سے بھی آزاد ہے۔ اس کے لیے نگاہوں کا ایک نکتے پر جمے رہنا کافی ہے۔‘‘ ۹۳ سید ناظرالحسن اڈیٹر ذخیرہ کے خط سے کبھی کبھی کشن پرشاد کی خیریت معلوم ہو جایاکرتی تھی۔۵۷ ۹۴ کشن پرشاد کی خاموشی اُس خط کے جواب سے ٹوٹی جو اقبال نے پچھلے مہینے ظفر علی خاں کے اخبار میں ان کی غزل پڑھ کر لکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ اخبار والوں نے بلکہ شاید خود ظفر نے غزل کی اصلاح کر دی تھی جس پر سرکار ناراض تھے۔ اقبال پر بھی کچھ شبہہ سا تھا کہ تصوف کے خلاف مضامین کے نئے سلسلے کے پیچھے ان کا ہاتھ نہ ہو۔ اقبال نے حسن نظامی سے جو وضاحت کی تھی وہی ۲۰ جنوری کو کشن پرشاد سے دہرا ئی۔ پہلے بھی اپنے اختلاف کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی اگر حسن نظامی نے اسرارِ خودی کی مخالفت شروع نہ کی ہوتی، ’’چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا اس ملک کے لوگوں کے لیے مفید ہے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہوگا اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ کسی قسم کے بحث و مباحثے کی مطلق ضرورت نہ تھی نہ بحث کرنا میرا شعار ہے بلکہ جہاں کوئی بحث ہو رہی ہو وہاں سے گریز کرتا ہوں۔‘‘ ’’حیدری صاحب تو اقبال کو بلاتے بلاتے رہ گئے،‘‘ اقبال نے بتایا کہ اکبر حیدری کی طرف سے یونیورسٹی کے کاغذات مشورے کے لیے اور مولوی عبدالحق کی طرف سے علمی اصطلاحات کی طویل فہرستیں نظرِ ثانی کے لیے آجاتی ہیں، ’’گویا ان بزرگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اقبال کو کوئی اور کام نہیں۔ ترجمہ کرنے والوں کو معقول تنخواہیں دے کر بلایا ہے تو یہ کام بھی انہیں سے لینا چاہئے۔ اصل میں یہی حصہ ان کے کام کا مشکل ہے۔‘‘ ۹۵ ہفت روزہ خطیب میں حسن نظامی نے اپنے مضمون ’جناب اقبال و حسن نظامی‘ میں اعلان کیا کہ گزشتہ ایام میں اقبال کے اور ان کے درمیان تصوف میں اختلاف واقع ہوا تھا جس میں اکبرؔ الٰہ آبادی نے دونوں کو روکا۔ ’’میں حضرت اکبر کی ذات کو اپنا مرشدِ معنوی تصور کرتا ہوں اس لیے اس گفتگو سے دستبردار ہو گیا اور خلقت کی اس شہرت کو برداشت کرتا رہا کہ حسن نظامی اقبال سے علمی بحث نہ کر سکا کیونکہ بدنامی بہتر تھی اپنے رہنمائے روح کی عدم تعمیلِ ارشاد سے۔‘‘ ۹۶ علی گڑھ سے کالج کے سیکرٹری نواب محمد اسحاق خاں کا خط آیا کہ حضور نظام آتے ہیں۔اقبال آ کر قصیدہ پڑھ دیں۔ بیماری کی وجہ سے نہ جا سکے۔۵۸ ۹۷ طے ہوا کہ اقبال الٰہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے کا زبانی امتحان لیں گے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی سے ملاقات کا سوچ کر خوش ہو گئے۔ ۵۹ ۹۸ ۳۰ جنوری کی رات کو خواب میں دیکھا کہ کشن پرشاد کی طرف سے شاہی خریطے جیسا کوئی خط آیا ہے۔۶۰ ۹۹ ۳۱ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ۶۱ ۱۰۰ یکم فروری کو پروفیسر نکلسن کا خط آیا۔ اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی اجازت چاہتے تھے۔ مثنوی کا ایک نسخہ بھی درکار تھا۔ نایاب تھی۔ کسی سے لے کر پڑھی تھی۔اقبال کے دوست فقیر سید نجم الدین کے لڑکے وحیدالدین کا بیان ہے کہ اُس روز اُن کے والد اقبال کے پاس گئے تو اقبال کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ اپنی قوم جس کے لیے ’اسرارِ خودی‘ لکھی اُس نے قدر نہ کی مگر ولایت والے ترجمہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اُن کے لیے نہیں لکھی گئی۔۶۲ اقبال کے پاس کوئی کاپی نہیں بچی تھی۔ یاد آیا کہ بیس جلدیں کشن پرشاد کو بھیجی تھیں۔ خواب والے خط کا مضمون ذہن سے اتر چکا تھا مگر اُسے حقیقت تصور کر کے جواب لکھ دیا، ’’شاد کی طرف سے اقبال کو شاہی خریطہ آئے یہ بات خالی از معنی نہیں۔ انتظار شرط ہے اور اللہ کی رحمت ہمارے خیالوں سے وسیع تر ہے۔‘‘ نکلسن والے خط کا ذکر کر کے مثنوی کی اگر کوئی کاپی رہ گئی ہو اور سرکار کو اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ بھی منگوائی۔ ’رموزِ بیخودی‘ اسی مہینے یا اگلے مہینے شائع ہونے والی تھی۔ ’’تیسرے حصے کا بھی آغاز ہو گیا ہے،‘‘انہوں نے لکھا۔ ’’یہ ایک قسم کی نئی منطق الطیر ہو گی۔‘‘ شیخ فریدالدین عطار کی منطق الطیر پرندوں کی کہانی تھی جو اپنے بادشاہ کی تلاش میں نکلے تھے۔ اُس کا نام سیمرغ تھا اور اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سات وادیوں سے گزر کر صرف تیس پرندے منزل پر پہنچے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی روح کے سامنے آئینہ رکھا تھا۔ سیمرغ کی آواز جو سنائی دی وہ ہر پرندے کے حلق سے نکل رہی تھی۔ فارسی میں ’’سی‘‘ کا مطلب تیس اور ’’مرغ‘‘ کا مطلب پرندہ ہے۔ سیمرغ کا مطلب تیس پرندے: بیک وقت ہر شخص اپنی خودی دریافت کرے تو اجتماعی خودی ظاہر ہو گی۔ بعض شارحین نے منطق الطیر کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ خودی کو خدا میں فنا کر دیا جائے۔ گویا سیمرغ حقیقتِ مطلقہ یعنی خدا کا استعارہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اسے اجتماعی خودی کا استعارہ سمجھتے تھے۔ مستقبل کی تاریخ جسے لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، ایک نئی قسم کی منطق الطیر یونہی بن سکتی تھی کہ دکھایا جاتا کہ قوم کن منزلوں سے گزر کر اجتماعی خودی تک پہنچے گی، کتنی منزلیں طے ہو چکی ہیں اور کون کون سی باقی ہیں۔ انہی دنوں کسی وقت ’اَسرارِ خودی‘ کے انگریزی ترجمے کے لیے نکلسن کو طویل نوٹ لکھ کر بھیجا۔ اُس میں بھی یہی خیالات جھلک رہے تھے۔ تان اِسی پر ٹوٹی تھی کہ اِنسانیت مجموعی طور پر بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک ایسا معاشرہ ہو گا جہاں بیک وقت ہر فرد اپنی خودی سے آگاہ اور اپنی جگہ منفرد ہو گا۔ البتہ ’اسرارِ خودی‘ کا موضوع ملت نہیں بلکہ فرد تھا۔ نوٹ میں اجتماعی خودی کا تذکرہ نہ ہو سکتا تھا۔ ۱۰۱ ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے میں خودی کی فلسفیانہ وضاحت کی کوشش اختصار کے سبب ناکام رہی تھی۔ نکلسن کو جواب لکھتے ہوئے موقع ملا۔ انگریزی میں وضاحت کر دی: ۱ خودی شعور کا وہ نکتہ ہے جو تمام انسانی تخیلات و جذبات کو روشنی میں لاتا ہے۔ ۲ بعض صوفیوں اور فلسفیوں کے نزدیک اس کا وجود محض واہمہ ہے۔اقبال ایسا نہیں سمجھتے۔ ۲ خودی کائنات کی بنیادی حقیقت ہے۔ وجودِ عمومی (universal life) کچھ نہیں بلکہ زندگی کی تمام صورتیں منفرد ہیں۔ خدا بھی ایک خودی ہے اور سب سے منفرد ہے۔ ۳ کائنات بہت سی خودیوں کا اجتماع ہے۔ وہ اپنے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ایک بے ترتیب کائنات کو ترتیب میں لانے کے عمل کا حصہ بنتی ہیں۔ ہم اِس عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ۴ کائنات میں نئی خودیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اِس طرح یہ کائنات مکمل نہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ (یہ تصور انگلستان میں رائج نوہیگلین NeoHegelian فلسفے اور بعض صوفیوں کے تصورِ حیات کے برعکس ہے)۔ ۵ پس زندگی کا مقصد خودی کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ اسے فنا کر دینا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تخلقوا باخلاق اللّٰہ (اپنے آپ میں اللہ کے اخلاق پیدا کرو)۔ ۶ مادہ جو فطرت (Nature) کی صورت میں سامنے آتا ہے، خودی کے خدا تک پہنچنے میں رُکاوٹ ہے۔ حل یہ نہیں کہ مادے سے منہ موڑ لیاجائے (جیسا کہ اقبال کے خیال میں افلاطون اور بعض صوفیوں نے درس دیا)۔ مادے کو تسخیر کرنا ہے۔اِسی میں خودی کی آزادی ہے۔ ۷ انسان میں خودی کا ظہور شخصیت کی صورت میں ہوتا ہے جو ایک قسم کے تناؤ کا نام ہے۔ جو چیز اُس تناؤ کو کم کرے بری ہے، جو بڑھائے وہ اچھی۔ ابدی زندگی کا حصول بھی اِسی میں ہے۔ ۸ شخصیت کی آزادی کے ساتھ زمان و مکان کا مسئلہ: وقت کو لمحوں میں تقسیم کر کے ہم اُسے ایک طرح سے مکان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اپنی روح میں جھانکیں تو وقت اصل میں ہماری زندگی ہے۔ یہ ہماری موجودہ شخصیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ۹ خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے۔ عشق سے مراد جذب کرنے اور سمو لینے کی خواہش ہے۔ انتہائی صورت اقدار اور مقاصد کی تخلیق کرنا اور اُنکے فروغ کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ مانگنے سے یعنی ذاتی کوشش کے بغیر کچھ حاصل کرنے سے خودی ضعیف ہوتی ہے۔ لڑکا باپ کی جائیداد کا وارث بنے تو بھکاری ہے اور جو دوسروں کے افکار سوچے وہ بھی بھکاری ہے۔ انفرادیت کے حصول میں خودی اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی کے مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ نیابتِ الٰہی اِس دنیا میں انسانی ترقی کا انتہائی درجہ ہے۔ اسے مکمل کرنے والا شخص مکمل ترین خودی ہے، انسانیت کا حاصل ہے، جسمانی و ذہنی زندگی کا بہترین مظہر ہے کہ ہماری دماغی زندگی کا افتراق اُس میں ہم آہنگی اختیار کرتا ہے۔ آج وہ محض ایک آئیڈیل ہے مگر انسانیت کے ارتقأ کا رُخ ایک آئیڈیل نسل کی تخلیق کی طرف ہے جس کے تمام افراد کم و بیش منفرد ہوں گے۔ چنانچہ زمین پر خدا کی حکومت سے مراد وہ جمہوریت ہے جس کا ہر شخص کم و بیش منفرد ہواور صدارت وہ کر رہا ہو جس سے زیادہ منفرد شخص دنیا میں ممکن نہیں۔ نیٹشے نے اپنے تخیل میں اِس آئیڈیل نسل کی جھلک دیکھی مگر خدا پر ایمان نہ رکھنے اور اعلیٰ طبقے کو برتر سمجھنے کی وجہ سے اُس کا تصور ناقص رہا۔ انگریز قارئین کی سہولت کے لیے اقبال نے پروفیسر ایف سی بریڈلے کے حوالے سے آغاز کیا۔ انگریز فلسفی تھا جس کے بھائی اے سی بریڈلے نے شیکسپئر کے المیہ کرداروں پر لیکچر دے کر بھی شہرت حاصل کی تھی۔ میک ٹیگرٹ، برگساں اور وِلڈن کار (Wildon Carr) کے حوالے بھی دیے۔ [Notes by Iqbal for R. A. Nicholson] 'That experience should take place in finite centres and should wear the form of finite this-ness is in the end inexplicable.' These are the words of Prof. Bradley. But starting with these inexplicable centres of experience, he ends in a unity which he calls Absolute and in which the finite centres lose their finiteness and distinctness. According to him, therefore, the finite centre is only an appearance. The test of reality, in his opinion is all inclusiveness; and since all finiteness is 'infected with relativity,' it follows that the latter is a mere illusion. To my mind, this inexplicable finite centre of experience is the fundamental fact of the universe. All life is individual; there is no such thing as universal life. God himself is an individual: He is the most unique individual. The universe, as Dr. McTaggart says, is an association of individuals; but we must add that the orderliness and adjustment which we find in this association is not eternally achieved and complete in itself. It is the result of instinctive or conscious effort. We are gradually travelling from chaos to cosmos and are helpers in this achievement. Nor are the members of the association fixed; new members are ever coming to birth to co operate in the great task. Thus the universe is not a completed act: it is still in the course of formation. There can be no complete truth about the universe, for the universe has not yet become 'whole.' The process of creation is still going on, and man too takes his share in it, inasmuch as he helps to bring order into at least a portion of the chaos. The Quran indicates the possibility of other creators than God. (Quran, ch. 23. v. 14: "Blessed is God, the best of those who create.") Obviously this view of man and the universe is opposed to that of the English Neo Hegelians as well as to all forms of pantheistic Sufism which regard absorption in a universal life or soul as the final aim and salvation of man. The moral and religious ideal of man is not self-negation but self-affirmation, and he attains to this ideal by becoming more and more individual, more and more unique. The Prophet said, 'Takhallaqu bi akhlaq Allah,' 'Create in yourselves the attributes of God.' Thus man becomes unique by becoming more and more like the most unique Individual. What then is life? It is individual: its highest form, so far, is the ego (khudi) in which the individual becomes a self-contained exclusive centre. Physically as well as spiritually man is a self-contained centre, but he is not yet a complete individual. The greater his distance from God, the less his individuality. He who comes nearest to God is the completest person. Not that he is finally absorbed in God. On the contrary, he absorbs God into himself. The true person not only absorbs the world of matter by mastering it; he absorbs God Himself into his ego by assimilating Divine attributes. Life is a forward assimilative movement. It removes all obstructions in its march by assimilating them. Its essence is the continual creation of desires and ideals, and for the purpose of its preservation and expansion it has invented or developed out of itself certain instruments, e.g., senses, intellect, etc., which help it to assimilate obstructions. The greatest obstacle in the way of life is matter, Nature; yet Nature is not evil, since it enables the inner powers of life to unfold themselves. The ego attains to freedom by the removal of all observations in its way. It is partly free, partly determined, and reaches fuller freedom by approaching the Individual, who is most free - God. In one word, life is an endeavour for freedom. The ego and continuation of personality In man the centre of life becomes an ego or person. Personality is a state of tension and can continue only if that state is maintained. If the state of tension is not maintained, relaxation will ensue. Since personality, or the state of tension, is the most valuable achievement of man, he should see that he does not revert to a state of relaxation. That which tends to maintain the state of tension tends to make us immortal. Thus the idea of personality gives us a standard of value: it settles the problem of good and evil. That which fortifies personality is good, that which weakens it is bad. Art, religion, and ethics must be judged from the stand point of personality. My criticism of Plato is directed against those philosophical systems which hold up death rather than life as their ideal-systems which ignore the greatest obstruction to life, namely, matter, and teach us to run away from it instead of absorbing it. As in connexion with the question of the freedom of the ego we have to face the problem of matter, similarly in connexion with its immortality we have to face the problem of time. Bergson has taught us that time is not an infinite line (in the spatial sense of the word 'line') through which we must pass whether we wish it or not. This idea of time is adulterated. Pure time has no length. Personal immorality is an aspiration: you can have it if you make an effort to achieve it. It depends on our adopting, in this life modes of thought and activity which tend to maintain the state of tension. Buddhism, Persian Sufism and allied forms of ethics will not serve our purpose. But they are not wholly useless, because after periods of great activity we need opiates, narcotics, for some time. These forms of thought and action are like nights in the days of life. Thus, if our activity is directed towards the maintenance of a state of tension, the shock of death is not likely to affect it. After death there may be an interval of relaxation, as the Quran speaks of a barzakh, or intermediate state, which, in the case of some individuals, will last until the Day of Resurrection (Quran, ch. 23, v. 102). Only those egos will survive this state of relaxation who have taken good care during the present life. Although life abhors repetition in its evolution, yet on Bergson's principles the resurrection of the body too, as Wildon Carr says, is quite possible. By breaking up time into moments we spatialise it and then find difficulty in getting over it. The true nature of time is reached when we look into our deeper self. Real time is life itself which can preserve itself by maintaining that particular state of tension (personality) which it has so far achieved. We are subject to time so long as we look upon time as something spatial. Spatialised time is a fetter which life has forged for itself in order to assimilate the present environment. In reality we are timeless, and it is possible to realise our timelessness even in this life. This revelation, however, can be momentary only. The education of the ego The ego is fortified by love. This word is used in a very wide sense and means the desire to assimilate, to absorb. Its highest form is the creation of values and ideals and the endeavour to realise them. Love individualises the lover as well as the beloved. The effort to realise the most unique individuality individualises the seeker and implies the individuality of the sought, for nothing else would satisfy the nature of the seeker. As love fortifies the ego, asking weakens it. All that is achieved without personal effort comes under asking. The son of a rich man who inherits his father's wealth is an 'asker,' or beggar; so is every one who thinks the thoughts of others. Thus, in order to fortify the ego we should cultivate love, i.e. the power of assimilative action, and avoid all forms of 'asking, i.e. inaction. The lesson of assimilative action is given by the life of the Prophet, at least to a Mohammedan. In another part of the poem I have hinted at the general principles of Muslim ethics and have tried to reveal their meaning in connexion with the idea of personality. The ego in its movement towards uniqueness has to pass through three stages: (a) Obedience to the Law (b) Self control, which is the highest form of self consciousness or ego hood (c) Divine vicegerency This divine vicegerency is the third and last stage of human development on earth. The vicegerent is the vicegerent of God on earth. He is the completest ego, the goal of humanity, the acme of life both in mind and body; in him the discord of our mental life becomes a harmony. This highest power is united in him with the highest knowledge. In his life, thought and action, instinct and reason, become one. He is the last fruit of the tree of humanity, and all the trials of a painful evolution are justified because he is to come at the end. He is the real ruler of mankind; his kingdom is the kingdom of God on earth. Out of the richness of his nature he lavishes the wealth of life on others, and brings them nearer and nearer to himself. The more we advance in evolution, the nearer we get to him. In approaching him we are raising ourselves in the scale of life. The development of humanity both in mind and body is a condition precedent to his birth. For the present he is a mere ideal; but the evolution of humanity is tending towards the production of an ideal race of more or less unique individuals who will become his fitting parents. Thus the Kingdom of God on earth means the democracy of more or less unique individuals, presided over by the most unique individual possible on this earth. Nietzsche had a glimpse of this ideal race, but his atheism and aristocratic prejudices marred his whole conception.۶۳ ۱۰۲ ۱۰ فروری کو معزول خلیفہ عبد الحمید ترکی میں فوت ہو گئے۔ ۱۰۳ ظفر علی خاں کے شروع کیے ہوئے سلسلے سے اقبال نے لاتعلقی ظاہر کی تھی مگر جس نے اسے صوفی پرستی کے خلاف جہاد سمجھ کر ظفر علی خاں کو نئے دَور کا غزنوی قرار دیا وہ آغا حشر کاشمیری تھے۔ نعرۂ گم گشتہ آغا حشر کاشمیری اِک واقفِ رموزِ جلی و خفی بزرگ بیٹھے ہوئے تھے حلقۂ خاصانِ ذات میں کندھوں پہ زلف، زلف میں رُوئے نظرفروز جس طرح آفتاب نکل آئے رات میں وہ ہلکی ہلکی موجِ تبسُّم کی لرزشیں جُنبش ہو جیسے چشمۂ آبِ حیات میں سُلجھا رہی تھیں عقل کو نطق آفرینیاں لب شانہ کش تھے، گیسوئے ذات و صفات میں گاہے سرِ کشودِ معمّائے زندگی گاہے تھا غور، مسئلۂِ کائنات میں گاہے تھا امر و نہی پہ، اِک خطبۂ بلیغ گاہے تھے محو عقدۂ بعدالممات میں گاہے تھے زیرِ جرح، اُصولِ معاشرت گاہے تھا اِشتباہ، حصولِ نجات میں اِتنے میں اِک مرید نے، با صد نیاز و عجز کی عرض، اور ٹپک پڑے آنسو بھی سات میں اے مہبطِ مکارم و اے مصدرِ فیوض ہلچل سی پڑ گئی ہے تری ذُرّیات میں محمودؔ بت شکن تھا، تو صوفی شکن ظفرؔ تیشہ تھا اُس کے پاس، قلم اِس کے ہات میں پھر آ رہی ہے نعرۂ گم گشتہ کی صدا لاہور میں وہ غُل ہے، جو تھا سومنات میں مخزن، فروری ۱۹۱۸ئ۶۴ ۱۰۴ فروری کے مخزن میں مولانا گرامی کی بیگم کی غزل شائع ہوئی۔ چھ اشعار تھے۔ عشق میں یاس بھی ہے یاس میں ارمان بھی ہے عشق میں کفر بھی ہے کفر میں ایمان بھی ہے کیا دلآویز لکھی ترکِ گرامی نے غزل سخنِ عشق ہے مشکل بھی ہے آسان بھی ہے اقبال بیگم ترکؔ، مخزن، فروری ۱۹۱۸ء ان دنوں گرامی مقدمے کے خوف سے رُوپوش تھے۔ صرف بہت قریبی دوست جانتے تھے کہ دہلی میں نواب سراج الدین خان سائلؔ کے گھر میں ہیں۔ مقدمہ بہن سے تھا۔ گھر کی ملکیت پر جھگڑا تھا۔ عقیدت مندحیران تھے۔ اقبال کے سامنے بھی اظہار کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ گرامی بہن سے صلح کر لیتے تو بہتر تھا۔ اقبال بیگم ترکؔ کا خط اقبال کو آیا۔ چاہتی تھیں کہ مکان کے قبضے کے سلسلے میں اقبال بھی گواہی دیںکہ ایک دفعہ وہ اور شیخ عبدالقادرمکان پر آئے تھے اور دعوت کھائی تھی۔ اقبال کے خیال میں یہ گواہی مفید نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر اصرار ہو تو پھر اُنہیں جالندھر بلوانے کی بجائے کمیشن کے ذریعے لاہور ہی میں گواہی لے لی جائے۔ تفصیل کے ساتھ لکھ دیا۔۶۵ ۱۰۵ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ کسی فقیر صاحب کا ذکرتھا جن کے بارے میںاقبال پہلے ہی کسی شیخ صاحب سے سن چکے تھے اور دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ خواجہ دل محمد کے کسی مضمون اور نظم کا تذکرہ بھی تھا۔ ۹ مارچ کو نیازالدین کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے گرامی کی بیوی والے خط کا ذکر بھی کیا کہ معلوم نہیں ان کو ملا یا نہ ملا۔ خواجہ دل محمد کا مضمون یا نظم اقبال کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ۱۰۶ مارچ میں شیخ نورمحمد لاہور میں اقبال کے پاس ٹھہرے۔۶۶ ۱۰۷ مارچ کے وسط میں اقبال دہلی اور الٰہ آباد جانے والے تھے جب وہاں سے اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا کہ طاعون پھیلی ہوئی ہے۔ شیخ نورمحمد نے خط دیکھ کر اقبال کو جانے سے منع کردیا۔۶۷ ۱۰۸ ۲۰مارچ کو نیازالدین خاں کو خط لکھا۔غالباً نواب ذوالفقار علی خاں کے بارے میں پوچھا تھا جو اقبال نے لکھا، ’’نواب صاحب جاتی دفعہ مجھ سے کہہ گئے تھے کہ ۲۲ مارچ کو واپس لاہور آجائیں گے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ کسی اور جگہ جانے والے نہیں ہیں۔ ۲۸ مارچ کو ان کے ایک مقدمے کی تاریخ لدھیانہ میں ہے۔‘‘ ۱۰۹ لائڈ جارج کے اصرار پر ٹائمز اور دوسرے اخبارات کے مالک لارڈ نارتھ کلف نے پروپیگنڈا کا شعبہ سنبھال لیا۔ خاص اُنہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اُنہوں نے جرمن افواج پر بموں کے علاوہ ایسے پرچے گرانے کا انتظام شروع کر دیا جن میں ہراساں کرنے والی سچی جھوٹی خبریں درج ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے پرچے چھاپے جانے لگے۔ ۱۱۰ کشن پرشاد کا خط آیا۔ بچوں سمیت بیمار ہوئے تھے۔ اقبال فوراً جواب نہ دے سکے۔۶۸ ۱۱۱ پچھلے برس کی طرح اس دفعہ بھی لاہور میں سردیاں دیر تک رہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتے تک بارشیں بھی رہیں اور لوگ کمروں میں لحاف لے کر سوتے رہے۔ پنجاب میں بعض جگہوں پر بیماری پھیل رہی تھی۔۶۹ ۱۱۲ حسن نظامی ایک روز کے لیے لاہور آئے تھے۔ ملاقات ہوئی مگر وہ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اس لیے زیادہ باتیں نہ ہو سکیں۔۷۰ میں اور تو نہ سلیقہ مجھ میںکلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوئہ آزری تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری گِلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ’ہَری ہَری‘ نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے وہی فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری کرم اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری۷۱ ایک نئے رجسٹر کے پہلے صفحے پر اِس غزل کے بارہ اشعار لکھے گئے۔ ۱۱۳ ٹوٹ کر آئینہ سکھلا گیا اَسرارِ حیات آبرو چاہیے تو کر سختیٔ خارا پیدا۷۲ ۱۱۴ پچھلے برس کی یکم اپریل سے اس مارچ کے اختتام تک اقبال کی کُل آمدنی چار ہزار دو سو پچیس (۴۲۲۵) روپے ہوئی تھی۔ ایک سو دس (۱۱۰) روپے ٹیکس بنتا تھا۔۷۳ ۱۱۵ اِیسٹر سنڈے ۳۱ مارچ کو تھا۔ انجمن حمایت اسلام عوام کا اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ کئی پرانے کارکن علیحدہ ہو گئے تھے۔ سالانہ جلسے میں اقبال نے غزل پڑھی، ’’نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا‘‘۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے بیرسٹری چھوڑ کر اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میاں محمد شفیع نے اعلان کیا۔ ’’مسلمانوں کے دل میں اثر کا ایک طوفان اٹھا کہ زبانِ قلم اس کی تصویر کھینچنے سے قاصر ہے،‘‘ مخزن کے جوائنٹ ایڈیٹر دیوبند کے پڑھے ہوئے مولانا تاجور نجیب آبادی کا بیان ہے۔ ’’نعرہ ہائے تحسین کی ایک لہر تھی کہ امڈی چلی آ رہی تھی۔‘‘ یہ اُس منزل کی جانب پہلا قدم تھا جہاں سے ایک دن میاں بشیر کو پوری قوم کی ترجمانی کرنے والے الفاظ پیش کرنے تھے: ’’ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘! وہ منزل دُور تھی۔ جو چیز جلسہ گاہ سے بلند ہو کر برصغیر کے افق پر چھا گئی وہ ’موجِ زمزم‘ تھی۔ آغا حشر کاشمیری کی نعتیہ نظم تھی۔اقبال کی طرح حشر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فیض کو ملّت کے وجود میں تلاش کرتے تھے۔ ’’بجا طور پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اردو میں ایسی بلندپایہ نظم رُبع صدی سے نہیں لکھی گئی،‘‘ مولانا تاجور نے سوچا۔ ’’میں اِس یقین پر ثابت قدم ہوں کہ آغا حشر اپنے وقت کا عُرفی ہے۔ وہ ہندوستان کا دُوسرا ٹیگور ہے۔ وہ اِس صدی کا ملکُ الشعرأ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔‘‘ مولانا تاجورلاشعوری یا شعوری طور پر اِقبال کا مقام کم کر بیٹھے مگر حقیقت تھی کہ ’موجِ زمزم‘ کے بعض اَشعار اپنی مثال آپ تھے۔ معراج کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جبریل کا دل اِس سفر میں ساتھ دینے کے شوق میں شہید ہو گیا اور اُس کی تمنا کے زخم کا دہانہ وہ راستہ ہے جہاں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے پرواز فرماتے ہیں۔۷۴ موجِ زمزم آغا حشر کاشمیری آسماں ہے محفلِ ہستی میں پروانہ مرا کہکشاں میری صراحی چاند پیمانہ مرا ہر نفس سے بربطِ گیتی پہ ہوں مضراب زن اِضطرابِ برق ہے اِک رقصِ مستانہ مرا ساغرِ ہستی میں ہوں مَیں ارتعاشِ موجِ نور جلوہ زارِ زندگی ہے مجھ سے میخانہ مرا بارشِ مستی کے جلووں سے ہے فردوس آفریں ہے شرابِ نور سے شاداب ویرانہ مرا نکہتِ صہبائے مستی سے ہے تعمیرِ حیات دہر میں اِک موجِ رنگ و بو ہے کاشانہ مرا دولتِ صبحِ قِدم ہوں مایۂ شامِ حُدوث گلشنِ جنّت تو اے رضوں ہے بیعانہ مرا جُرعۂ جامِ میٔ گلرنگ ہے ایک ایک حرف بزمِ کُن کو مست کر دیتا ہے افسانہ مرا شعلہ آشامِ محبت، زآتشِ دیرینہ ام ساقیم در یثرب و خمخانہ اش در سینہ ام جلوہ گہ دردِ چراغِ خلوتِ الہام ہوں میں امانت دارِ سوزِ سینۂ اسلام ہوں ہے بھری جس میں شرابِ خندۂ صبحِ ازل میں کفِ روحُ القدس پر وہ چھلکتا جام ہوں ظلمتِ ہستی چُرا لائی ہے جیبِ نُور سے دولتِ گم کردۂ چرخِ زمرّدفام ہوں میری عظمت کی کہانی ہے حدیثِ کائنات حاصلِ افسانۂ اوراقِ صبح و شام ہوں میرے دم سے عنبر آگیں ہے مشامِ روزگار دہر میں نکہت فروشِ طُرّۃٔ الہام ہوں لے کے آیا ہوں نویدِ کوثر آشامی یہاں ساقیٔ خمخانۂ بطحا کا میں پیغام ہوں آ تجھے بھی مست کر دوں نغمہائے عشق سے سُن کہ گلبانگِ نواپردازیٔ ایّام ہوں می طپد صد جلوۂ شاداب در جانم ہنوز تشنۂ ذوقِ تماشا ہست طوفانم ہنوز آج اُس کی آستاں بوسی کا مجھ کو ناز ہے آسماں محفل میں جس کی فرشِ پاانداز ہے میں غلام اُس کا ہوں جس آقا کا نامِ پرجلال دفترِ کونین کا سررشتۂ آغاز ہے اے مہِ یثرب! سُنا دے مژدۂ لاتقنطوا بیکسیٔ شرمِ عصیاں گوش برآواز ہے تو پیامِ آخری قرآں کلامِ آخری! اِک تتّمہ! اور اِک شرحِ کتابِ راز ہے ہے بھری دریوزۂ رُخ سے ترے کشکولِ طُور شعلۂ سینا گدائے جلوہ گاہِ ناز ہے کس قدر نظّارہ پرور جلوۂ معراج تھا آج تک شوقِ لقا میں چشمِ انجم باز ہے ہے دلِ جبریل شوقِ ہمعنانی کا شہید دامنِ زخمِ تمنّا جادۂ پرواز ہے برقِ حُسنِ تو ہمیں ساماں زخشک و تر گذاشت از متاعِ شوق - در دل مُشتِ خاکستر گذاشت اِک سکوتِ یاس تھا دُنیائے ظلمت کار میں سو رہی تھی صبح آغوشِ شبِ پندار میں تو نے آ کر شب پرستانِ چمن کے واسطے کی سحر پیدا گلستانِ خزاں آثار میں بہہ گیا سُوئے فنا خود اپنی طغیانی میں کُفر آ گیا سیلاب موجِ رشتۂ زُنّار میں کعبۂ وحدت کے آگے جُھک گئی تعمیرِ شرک ہو گئے بیتاب سجدے جَبہۂِ دیوار میں رُوح نے خالق سے کی تجدیدِ پیمانِ الست نغمۂ ماضی ہوا پیدا شکستہ تار میں دل کی کھیتی لہلہا اُٹھی تری تکبیر سے تھا نہاں طوفانِ شادابی لبِ گفتار میں پرتوِ رُخ سے ترے اے نوبہارِ کائنات! شمعِ گُل روشن ہے! ہر ویراں سرائے خار میں تا بدَورِ آخری از دستِ تو ساغر گرفت ایں کہن میخانہ را کیفیّتِ دیگر گرفت اے کہ حجِّ عاشقاں طوفِ تجلّی گاہِ تو صبحِ خندانِ شبِ یثرب رُخِ دلخواہِ تو لمعۂ از خاکِ کویت بُردہ مہرش نام کرد در جبینِ چرخ تابد سجدۂ درگاہِ تو ذرّہ ہایش حسنِ یوسف قیمتِ خود گفتہ اند ہے چہ ارزان ست جلوہ در تجلّی گاہِ تو سطوتِ توحید نقدِ شرکِ را قیمت شکست سِکّہ زد بر قلبِ کثرت ضربِ الّااللہ ِ تو شوکتِ موسیٰ علمدارِ ورودِ پرجلال عظمتِ عیسیٰ نقیبِ مرکبِ ذیجاہِ تو قُدسیاں را علمِ اوّل قصّۂ ذکرِ جمیل خاکیاں را درسِ آخر ذاتِ حق آگاہِ تو دہر را نقشِ کفِ پایت طرازِ زندگی نبضِ گیتی را رمِ خُوں موجِ گردِ راہِ تو یک شعاع انداختی و ہستیم پُرنور شد ذرّہ ام بالید و حیرتخانۂ صد طُور شد الصّلوٰۃ اے ما تہیدستانِ محشر را کفیل! السلام اے یومِ پرسش حسبنا نعم الوکیل الصّلوٰۃ اے دردِ عصیاں را دوائے جاں نواز! السلام اے آتشِ جاں را نویدِ سلسبیل الصّلوٰۃ اے از تو روشن بزمِ توریت و زبور! السلام اے از تو گلشن جیبِ موسیٰ و خلیل! الصّلوٰۃ اے آیۂ تقدیس را برہانِ صدق! السلام اے نسخۂ توحید را شرحِ جلیل الصّلوٰۃ اے طَرِّقوْا گویاں براہت قدسیاں! السلام اے مروحہ جنباں ببزمت جبرئیل! الصّلوٰۃ اے محوِ شوقت خستگانِ شرق و غرب! السلام اے در فراقت گریہ ہائے گنگ و نیل! الصّلوٰۃ اے چشمِ مہرت بندگیّم را صلہ! السلام اے کیفِ دردت عشق را اجرِ جمیل! بینوایانہ بدرگاہِ تو سر افگندہ ایم! یا بران و یابخواں تو خواجۂ ما بندہ ایم! دُعا اے خدا دے زورِ دستِ خالدؓ و حیدرؓ ہمیں پھر اُلٹنا ہے صفِ کفر و درِ خیبر ہمیں مست تھی جس کے نشہ سے روحِ سلمانؓ و بلالؓ ہاں پلا دے پھر وُہی صہبائے کیف آور ہمیں دل صنم خانہ بنا ہے! یادِ غیراللہ سے بُت بھی اب کہنے لگے مسلم نما کافر ہمیں المدد اے نعرۂ اللّٰہُ اکبر المدد بتکدے کو پھر بنانا ہے خدا کا گھر ہمیں تیری رحمت دیتی جاتی ہو تسلّی ساتھ ساتھ لے چلے جب شرمساری جانبِ محشر ہمیں ڈگمگاتے ہیں گرے جاتے ہیں تیرے ناتواں اے تری رحمت کے صدقے تھام لے بڑھ کر ہمیں تیرے دَر کو چھوڑ کر ہم بینوا جائیں کہاں یا بتا دے اَور کوئی اپنے جیسا گھر ہمیں دُوسروں کو زور و زَر دے عیش دے آرام دے اور ہمیں اِس دولتِ دنیا سے صرف اسلام دے۷۵ ۱۱۶ میری پارکر فولیٹ (Mary Parker Follett) ۳ ستمبر ۱۸۶۸ء کو امریکی ریاست میسا چوسٹس میں پیدا ہوئی تھیں۔ اداروں کی تنظیم کے حوالے سے ان کا کام ایک سند بنتا جاتا رہا تھا۔ اس برس ان کی کتاب نئی ریاست (The New State) شائع ہوئی جس کی بازگشت اگلے چند برس میں اقبال تک بھی پہنچنے والی تھی۔ فولیٹ نے مغربی جمہوریت کو پرانی جمہوریت قرار دیتے ہوئے ایک نئی جمہوریت کا خواب پیش کیا جس میں سیاسی جماعتیں نہ ہوں۔ جس کا مقصد پوری قوم میں فکر و نظر کا اتحاد پیدا کرنا ہو۔ ان کے نزدیک فرد اور معاشرے میں کوئی تضاد نہ تھا بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ The New State by Mary Parker Follett [Excerpt, p.156] The enthusiasts of [new] democracy to-day are those who have caught sight of a great spiritual unity which is supported by the most vital trend in philosophical thought and by the latest biologists and social psychologists. It is, above all, what we have learnt of the psychical processes of association which makes us believe in democracy. Democracy is every one building the single life, not my life and others, not the individual and the state, but my life bound up with others, the individual which is the state, the state which is the individual. 'When a man's eye shall be single'-Do we quite know yet what that means? Democracy is the fullest possible acceptance of the single life. ۱۱۷ یکم اپریل کو ظفر علی خاں نے ستارۂ صبح چھوڑ دیا۔ حیدرآباد دکن کے دارالترجمہ میں ملازمت ملی تھی۔ پنجاب کے صوفیوں بالخصوص پیر جماعت علی شاہ نے انگریز حکام سے شکایات کی تھیں۔ ممکن ہے حکام نے حیدرآباد کی حکومت کو اِشارہ کیا ہو کہ ظفر کو پنجاب سے ہٹائے۔۷۶ ’’نہایت قابل آدمی ہیں اور اُن کا ذہن مثل برق کے تیز ہے،‘‘ اقبال نے ۱۰ اپریل کو کشن پرشاد کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے ظفر کے بارے میں لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ان کی علمی قابلیت سے ریاست کو بہت فائدہ ہو گا۔‘‘ مثنوی کا دوسرا حصہ چھپ کر تیار ہو چکا تھا۔ کچھ کاپیاں جلد باندھنے کو جلدگر کے پاس بھجوا دی گئیں۔ باب۶ گوئٹے کی درس گاہ اپریل ۱۹۱۸ء سے نومبر ۱۹۲۰ء ۱ مثنوی رموز بیخودی یعنی اَسرارِ حَیاتِ ملّیۂ اِسلامیہ از ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم۔ اے۔ بیرسٹر ایٹ لأ لاہور باہتمام حکیم فقیر محمدؐ صاحب چشتی نظامی در یونین سٹیم پریس لاہور طبع گردید لالہ دیوان چند پرنٹر (بار اول تعداد ۱۴۰۰) دیباچہ یہ مثنوی کسی طویل الذیل دیباچہ کی محتاج نہیں۔ تاہم اس کے مقاصد کی ایک مختصر تشریح ضروری ہے۔ جس طرح حیاتِ افراد میں جلبِ منفعت، دفعِ مضرت، تعیینِ عمل و ذوقِ حقائقِ عالیہ احساسِ نفس کے تدریجی نشو و نما اس کے تسلسل توسیع اور استحکام سے وابستہ ہے اُسی طرح ملل و اَقوام کے حیات کا راز بھی اسی احساس یا بالالفاظِ دیگر ’’قومی اَنا‘‘ کی حفاظت، تربیت اور استحکام میں مضمر ہے اور حیاتِ ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افرادِ قوم کسی آئینِ مسلّم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کے حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال کا تبائن و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لئے ایک قلبِ مشترک پیدا ہو جائے۔ افراد کی صورت میں احساسِ نفس کا تسلسل قوتِ حافظہ سے ہے۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے۔ گویا قومی تاریخ حیاتِ ملیہ کے لئے بمنزلہ قوتِ حافظہ کے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے ’’قومی اَنا‘‘ کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے۔ علم الحیات و عمرانیات کے اِسی نکتے کومدِّنظر رکھ کر میں نے ملّتِ اسلامیہ کی ہیئتِ ترکیبی اور اس کے مختلف اجزأ و عناصر پر نظر ڈالی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی حیات کا صحیح ادراک اِسی نقطۂ نگاہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ البتہ اِس ضمن میں ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی مختص الہیئت جماعت کا انحطاط زائل کرنے اور اُس کی زندگی مضبوط و محکم کرنے کے عملی اصول کیا ہیں۔ اس سوال کا مجمل جواب مثنوی کے دونوں حصّوں میں آ چکا ہے۔ مگر مفصّل جواب کے لئے ناظرین کو انتظار کرنا چاہئے اگر وقت نے مساعدت کی تو اِس مثنوی کا تیسرا حصہ اِسی سوال کا تفصیلی جواب ہو گا۔ اُستاذی حضرت قبلہ مولانا مولوی سید میر حسن صاحب دام فیضہم، پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ اور مولانا شیخ غلام قادر صاحب گرامی شاعرِ خاص حضور نظام دکن خلداللہ ملکہٗ و اجلالہ میرے شکریہ کے خاص طور پر مستحق ہیں کہ ان دونوں بزرگوں سے بعض اشعار کی زبان اور طرزِ بیان کے متعلق قابلِ قدر مشورہ ملا، علیٰ ہذاالقیاس اپنے احباب میر نیرنگ، میرزا اعجاز اور مولانا عمادی کا بھی سپاس گذار ہوں کہ بعض مطالب کی تحقیق میں ان سے بھی مدد ملی۔ ۲ ’رموزِ بیخودی‘ عمدہ سفید کاغذ پر چھپی تھی۔ سرورق کی چھپائی سرخ، سبز اور سیاہ تھی۔ قیمت چار روپے تھی۔جن دوستوں کو تحفۃً بھجوائی اُن میں کشن پرشاد، سید سلیمان ندوی اور محمد علی جوہرؔشامل تھے۔۱ ۳ ’’اقبال کی دوسری مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ اُس شاہراہ کی نشاندہی کرتی ہے جس کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام اُن کی پہلی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ نے کیا تھا،‘‘ محمد علی جوہرؔ نے بعد میں لکھا۔ ’’اب منزل مقصود کا پا لینا ایک اندھے کے لیے بھی دشوار نہ تھا۔‘‘۲ ایک نسخہ نظام حیدر آبا دکن کو بھی ارسال کیا گیا۔ اس کے ساتھ فارسی میں تہنیت کے سات اَشعار تھے کہ آپ کے دم سے ہندوستان کی شام ہمارے لیے صبح ہے۔ اِمکان ہے کہ یہ اَشعار فروری میں لکھے گئے ہوں جب نظام علیگڑھ آئے تھے اور بیماری کی وجہ سے اقبال نہ جا سکے تھے۔۳ ۴ ’رموزِ بیخودی‘ ظفر علی خاں [تبصرے سے اقتباس] لسانِ توحید، ترجمانِ حقیقت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی شاعرانہ سرگرمیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کا سلسلہ مدتِ مدید سے جاری ہے۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کو مبدٔ فیاض سے جو نکتہ رس و نکتہ سنج طبیعت اور جو فلسفیانہ و شاعرانہ دماغ عطا ہوا ہے، اگر سچ پوچھئے تو ابھی دنیا نے اُس کی اِس حد تک قدر و منزلت نہیں کی جس کا وہ حقیقت میں مستحق ہے۔ اس سے پیشتر ڈاکٹر صاحب کے اُردو ترانے دربارِ عام سے شہرت و قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں لیکن اب کچھ عرصہ سے علامہ ممدوح کی توجہ فارسی کی طرف منعطف ہوئی ہے اور اس میدان میں بھی آپ نے تخیل کے زبردست تازیانوں سے سمندِ فکر کو جیسے جیسے کاوے دئیے ہیں، ان کا اعتراف ہندوستانی تو کیا بڑے بڑے ماہر و مشاق ایرانی شہ سواروں کو بھی کرنا پڑے گا۔ ستارۂ صبح (حیدرآباد دکن)، ۱۷ اپریل ۱۹۱۸ئ۴ ۵ پرانے لاہور کے محلے تھڑیاں بھابھڑیاں کے مکان للی لاج میں رہنے والے خواجہ کریم بخش سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر وسطِ ہند کی کسی ریاست میں ملازم ہو گئے۔ ان کے بھائی خواجہ رحیم بخش مشرقی پنجاب میں رہنے لگے۔ للی لاج کی وہ ادبی محفلیں جن میں کسی زمانے میں اقبال بھی جایا کرتے تھے اس برس ختم ہو گئیں۔۵ ۶ جرمن شاعر گوئٹے نے ایران کے عشق میں مبتلا ہو کر دیوان لکھا تھا۔ ٹھیک سے معلوم نہیں کہ کب اقبال کو احساس ہوا کہ مشرق کی طرف سے گوئٹے کی محبت کا جواب دینا اُن کے حصے میں آیا ہے۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اسی برس کسی وقت یہ خیال آیا۔ نیا رجسٹر جس میں مارچ میں اُردو غزل لکھی تھی،اُسی کے شروع میں جرمن ادب کے حوالے سے چند نکات اور گوئٹے کے دیوان کے بارے میں ایک اور جرمن شاعر ہائنے کی ایک تحریر کے انگریزی ترجمے کا اقتباس درج ہوا جس کا ترجمہ اُردو میں یوں ہو سکتا تھا: ’’یہ ایک گلدستۂ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔۔۔ اِس دیوان سے اِس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے۔‘‘۶ تیسرے صفحے پر ایک عنوان لکھا: In Reply to Goethe's West-Ostlicher Divan نئی تصنیف کا آغاز تھا۔ نیا رجسٹر اُس مجموعے کی بیاض بن گیا جو دیوانِ گوئٹے کے جواب میں لکھا جا رہا تھا۔ ۷ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کو اُردو نصاب کی پانچ یا آٹھ کتابوں کی تصحیح کروانی تھی۔ چند مضامین بھی لکھوانے تھے۔ اقبال نے راشد الخیری کا نام تجویز کیا۔۷ ۸ ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن کا ایک دفعہ پھرخیال آیا۔حافظؔ والا باب نکال دیا اور اس کی جگہ شعر کی حقیقت اور اسلامی ادبیات کی اصلاح کے بارے میں ایک نیا باب لکھا: درحقیقتِ شعر و اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ۔ خیال تھا کہ بہت سی غلط فہمیاں دُور ہو جائیں گی اور اصل مطلب واضح ہو جائے گا۔دیباچہ مختصر ہونے کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث بنا تھا۔ اسے بھی نکال دیا۔۸ ۹ ۱۸ اپریل تھی۔ بمبئی کے پارسی سرمایہ دار سر ڈنشا پیٹٹ کی اٹھارہ سالہ لڑکی رتن بائی نے گھر چھوڑا، اسلام قبول کیا اور بیرسٹر محمد علی جناح سے شادی کر لی۔رتن بائی کا اسلامی نام مریم جناح تھا۔ ۱۰ روس کی بالشویک حکومت نے وہ خفیہ معاہدے شائع کر دیے جو روسی بادشاہوں نے یورپ کی دوسری طاقتوں کے ساتھ کیے تھے۔ ان میں برطانیہ کے ساتھ کیے ہوئے وہ معاہدے بھی شامل تھے جن کے مطابق عثمانی سلطنت کو ختم کر کے اُس کے ٹکڑے آپس میں تقسیم کرنے تھے۔ دوسری طرف حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ عثمانی سلطنت کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ ۱۱ اقبال اس دفعہ پنجاب یونیورسٹی کے بی اے فارسی پرچہ الف اور فلسفہ پرچہ ب کے ممتحن تھے۔ ایم اے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ اس میں ان کے ساتھ ایس سی رائے، این کے سین اور ڈاکٹر ڈبلیو وی ہیگ بھی شریک تھے۔۹ ۱۲ سید سلیمان ندوی ’اسرارِ خودی‘ کے اکثر اَشعار محمد علی جوہر کی زبانی سن چکے تھے۔ پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اب ’رموزِ بیخودی‘ ملی تو معارف کے لیے تبصرہ لکھنا شروع کیا۔ ۲۸ اپریل کواقبال کو مولانا ابوالکلام آزاد کا خط ملا۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی تعریف کی تھی۔ اُسی روز سید سلیمان ندوی کا خط آیا۔ مثنوی کو پسند کر کے رائے دی تھی۔ رسالہ صوفی میں اقبال کی کوئی نظم شائع ہوئی تھی جس پر شکایت کی تھی کہ ان کے رسالے معارف کو کیوں فراموش کیا۔ اقبال نے اُسی وقت سید سلیمان ندوی کو لکھاکہ شبلی کے بعد اُستاذالکل ہیں، ’’اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔ ‘‘صوفی نے کوئی پرانی پہلے سے چھپی ہوئی نظم شائع کر دی ہوگی ورنہ اقبال اسے معارف پر ترجیح نہیں دے سکتے، ’’معارف ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارتِ ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔ میں انشأاللہ آپ کے لیے کچھ لکھوں گا۔‘‘ ۱۳ دہلی میں وائسرائے کی وار کانفرنس ہو رہی تھی جس کا مقصد فوج میں ہندوستانی سپاہی بھرتی کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا تھا۔سیاسی رہنماؤں کو بلوایا گیا تھاتاکہ اُن سے وائسرائے کی حمایت میں قرارداد منظور کروائی جائے۔ محمد علی جناح نے متبادل قرارداد پیش کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ وہ برطانوی فوج میں ہندوستانی سپاہیوں کے لیے بھی ترقی کے وہی مواقع طلب کرتے تھے جو انگریزوں کو حاصل تھے۔وائسرائے نے اجازت نہ دی۔ اس پر جناح نے ٹیلی گرام کے ذریعے سخت الفاظ میں انکار کر دیا۔ ۳۰ اپریل کو گاندھی نے وار کانفرنس میں شامل ہو کر وائسرائے کی قرارداد کی مکمل تائید کر دی۔ اُنہوں نے سرکار سے تلک، اینی بیسنٹ اور علی برادران کو بھی کانفرنس میں مدعو کرنے کی درخواست کی تھی مگر تلک نے انکار کر دیا اور علی برادران کو حکومت نے آزاد نہ کیا۔ علی برادران کے نام سے منسوب ہونے پر گاندھی کا نام بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔۱۰ ۱۴ پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈوائر کے حکم پر جنگ میں حکومت کی امداد کے لیے یونیورسٹی ہال لاہور میں ایک ’’دربار‘‘ یعنی گورنر صاحب کی موجودگی سے سرفراز جلسہ منعقد کیا گیا۔ ’’اوڈوائر نے نواب ذوالفقار علی خاں کے ذریعے چچا جان سے دربار میں شامل ہونے اور جنگ کے متعلق ایک نظم پڑھنے کی فرمایش کی جسے ٹالنا ممکن نہ تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’میں اُن دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور ریواز ہاسٹل میں رہتا تھا۔ کالج کے کچھ طلبہ کے ساتھ میں بھی یہ درباری مشاعرہ سننے گیا تھا۔‘‘ پنجاب کا جواب اے تاجدارِ خطّۂ جنت نشانِ ہند روشن تجلّیوں سے تری خاورانِ ہند مُحکم ترے قلم سے نظامِ جہانِ ہند تیغِ جگرشگاف تری، پاسبانِ ہند ہنگامۂ وغا میں مرا سر قبول ہو اہلِ وفا کی نذرِ محقر قبول ہو تلوار تیری دہر میں نقّادِ خیر و شر بہروز، جنگ توز، جگرسوز، سینہ ور رایت تری سپاہ کا سرمایۂ ظفر آزادہ، پرکشادہ، پری زادہ، یم سپر سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے ذرّے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے آزادیِ زبان و قلم ہے اگر یہاں سامانِ صلح و دَیر و حرم ہے اگر یہاں تہذیبِ کاروبارِ اُمم ہے اگر یہاں خنجر میں تاب، تیغ میں دَم ہے اگر یہاں جو کچھ ہے عطائے شہِ محترم سے ہے آبادیٔ دیار ترے دم قدم سے ہے وقت آ گیا کہ گرم ہو میدانِ کارزار پنجاب ہے مخاطبِ پیغامِ شہریار اہلِ وفا کے جوہرِ پنہاں ہوں آشکار معمور ہو سپاہ سے پہنائے روزگار تاجر کا زَر ہو اور سپاہی کا زور ہو غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو دیکھے ہیں میں نے سیکڑوں ہنگامۂ نبرد صدیوں رہا ہوں میں اِسی وادی کا رہ نورد طفلِ صغیر بھی مرے جنگاہ میں ہیں مرد ہوتے ہیں اُن کے سامنے شیروں کے رنگ زرد میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل مرا اِس قول پر ہے شاہدِ عادل، عمل مرا ہندوستاں کی تیغ ہے فتّاحِ ہشت باب خونخوار، لالہ بار، جگردار، برق تاب بیباک، تابناک، گہرپاک، بے حجاب دل بند، ارجمند، سحرخند، سیم یاب یہ تیغِ دلنواز اگر بے نیام ہو دشمن کا سر ہو اور نہ سودائے خام ہو اہلِ وفا کا کام ہے دنیا میں سوز و ساز بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز سرمایۂ حقیقتِ کبریٰ ہے یہ مجاز سمجھو تو موت ایک مقامِ حیات ہے قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے اخلاص بے غرض ہے، صداقت بھی بے غرض خدمت بھی بے غرض ہے، اطاعت بھی بے غرض عہدِ وفا و مہر و محبت بھی بے غرض تختِ شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض لیکن خیالِ فطرتِ انساں ضرور ہے ہندوستاں پہ لطفِ نمایاں ضرور ہے جب تک چمن کی جلوۂ گل پر اَساس ہے جب تک فروغِ لالۂ احمر لباس ہے جب تک نسیمِ صبح عنادل کو راس ہے جب تک کلی کو قطرۂ شبنم کی پیاس ہے قائم رہے حکومتِ آئیں اِسی طرح دبتا رہے چکور سے شاہیں اِسی طرح ۱۵ ’’مجھے یاد ہے یونیورسٹی ہال والے مشاعرے کے بعد ایک دن [اسلامیہ کالج کے ریواز ہاسٹل میں] چودہری محمد حسین کے کمرے میں چچا جان کی نظم متذکرہ بالا پر گفتگو ہو رہی تھی،‘‘ اعجاز احمد ’پنجاب کا جواب‘ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ ’’ایک شریک طالب علم جن کا نام یاد نہیں آ رہا جو صوبۂ سرحد کے رہنے والے تھے اور بڑے انگریز دشمن تھے۔ چچا جان کی اس نظم کے پڑھے جانے پر بڑے پرجوش انداز میں اعتراض کر رہے تھے اور بیچارے چودہری صاحب کے لیے نظم کا جواز پیش کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنی عادت کے مطابق اپنی داڑھی کھجا رہے تھے جیسے وہاں سے نظم کا جواز تلاش کر رہے ہوں اور نظم کے بعض اشعار کے بین السطور مطالب بیان کر رہے تھے۔ مثلاً نظم کا ایک بند ہے: آزادیٔ زبان و قلم ہے اگر یہاں۔۔۔ [الخ]۔۔۔ چودہری صاحب کا کہنا تھا کہ شاعر نے استفہامیہ فقرہ ’ہے اگر یہاں‘ استعمال کر کے اصل میں ’آزادیٔ زبان و قلم‘ اور ’صلحِ دَیر و حرم‘ وغیرہ کے ملک میں فقدان کی طرف اِشارہ کیا ہے اور ’جو کچھ بھی عطائے شہِ محترم سے ہے‘ کہہ کر اِشارہ کیا ہے کہ ان کا فقدان حکومت کی سخت گیر اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں برسرِ پیکار رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے ہے۔ اِسی طرح ایک اور بند ہے: جب تک چمن میں جلوۂ گل کی اَساس ہے۔۔۔ [الخ]۔۔۔ چودہری صاحب کا کہنا تھا کہ چمن میں جلوۂ گل مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے پھر خزاں آ جاتی ہے۔ اِسی طرح لالۂ احمرلباس کا فروغ بھی وقتی ہوتا ہے اور گلِ لالہ جلد مرجھا جاتا ہے۔ نسیمِ صبح بھی مختصر عرصہ کے لیے چلتی ہے اور قطرۂ شبنم بھی پرتوِ خورشید سے جلد فنا ہو جاتا ہے۔ شاعر نے ’قائم رہے حکومت و آئیں اِسی طرح‘ کہہ کر دراصل اِشارہ کیا ہے کہ انگریز کی حکومت کی میعاد اَب تھوڑی رہ گئی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اِن اَشعار کی اِس شرح کو چودہری صاحب نے شاعر کی طرف منسوب نہیں کیا تھا بلکہ یہ دُور کی کوڑی اُن کی اپنی لائی ہوئی تھی جس سے معترض کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔‘‘۱۱ اس قسم کی بحثیں صرف کالج کے ہاسٹلوں میں نہیں ہو رہی تھیں۔ زمانے کا مزاج بدل رہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان سے محبت کا مطلب یہی سمجھا جاتا تھا کہ انگریز حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ کوئی ذاتی مفاد کے لیے انگریز کی وفاداری نباہتا تھا۔ کوئی قوم کی سلامتی کے لیے۔ اب وہ بات ختم ہو رہی تھی۔۱۲ ۱۶ ’رموزِ بیخودی‘ سید سلیمان ندوی [اقتباس] زبان کے لحاظ سے میں اقبال کو اُن شعرأ میں گنتا ہوں جو معنوی محاسن اور باطنی خوبیوں کے مقابلے میں الفاظ اور محاوروں کی ظاہری صحت کی پروا نہیں کرتے، لیکن حق یہ ہے کہ اِس لغزشِ مستانہ پر ہزاروں سنجیدہ اور متین رفتاریں قربان ہیں۔ مصرعوں کے دروبست اور فصل و وصل میں قصور ممکن ہے، لیکن یہ ناممکن ہے کہ جو مصرع ڈاکٹر اقبال کی زبان سے نکل جائے وہ تیر و نشتر بن کر سننے والوں کے دل و جگر میں نہ اُترے۔ شاید اس کا سبب یہی ہے کہ ڈاکٹر اقبال اپنے مخاطب کے احساسات پر مذہب، فلسفے، تصوّف اور شاعری ہر راہ سے حملہ کرتے ہیں اور اس لیے اختلافِ مذاق کے باوجود ان مختلف راہوں میں سے کسی ایک سے بھی بچ کر نکل نہیں سکتا۔ زیرِ تقریظ مثنوی میرے خیال میں زبان کے لحاظ سے ’اَسرارِ خودی‘ سے بہتر ہے۔ اور اصل معنی کے لحاظ سے دونوں میں یہ فرق ہے کہ اِس میں بظاہر سیاست بیشتر اور اُس میں مذہب کے عناصر زیادہ ہیں لیکن منزلِ مقصود ایک ہے۔۔۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر اقبال نے جو اَسرار و نکات اس میں حل کیے ہیں، اُن کی بنا پر یہ مثنوی نہ صرف شاعری اور فنِ قومیات کا ایک رسالہ ہے بلکہ ہمارے خیال میں جدید علمِ کلام کی ایک بہترین کتاب ہے۔ توحید کا ثبوت، رسالت کی ضرورت، قرآن پر ایمان رکھنے کا سبب اور قبلہ کی حاجت وغیرہ اعتقادی مسائل پر نہایت پراثر اور تشفی بخش دلائل اس کے اندر موجود ہیں۔ معارف، اپریل ۱۹۱۸ئ۱۳ ۱۰مئی کو معارف میں ’رموزِ بیخودی‘ پر سیلمان ندوی کا تبصرہ اقبال کی نظر سے گزارا۔ اُسی وقت شکریے کا خط لکھا اور درخواست کی کہ صحتِ الفاظ و محاورات کے متعلق جو غلطیاں نظر سے گزری ہوں وہ اگر کتاب کے صفحات ہی پر نوٹ کی تھیں تو کتاب بھجوا دیں یہاں سے دوسری ارسال کر دی جائے گی۔ ۱۷ اس ماہ لندن سے وکٹورین عہد کی چار مشہور شخصیات کے سوانحی خاکوں پر مشتمل کتاب The Eminent Victorians یعنی نامور وکٹورینز شائع ہوئی۔ مصنف لٹن اسٹریچی تھا۔ رئیس زادہ تھا۔ کیمبرج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ جنگ کے خلاف تھا۔ اسٹریچی کے خیال میںلاعلمی کسی مورخ کی سب سے بڑی اہلیت تھی۔ اچھی تاریخ صرف اُسی زمانے کے بارے میں لکھی جا سکتی تھی جس کے بارے میں کافی معلومات موجود نہ ہوں۔ تاریخ معلومات کو ترتیب دینے کا نہیں بلکہ ماضی کے بارے میں افسانے تراشنے کا فن تھا جنہیں حقیقت کے نام سے پیش کیا جا سکے۔ اسٹریچی بھی یہی کرنا چاہتا تھا مگر وکٹورین عہد کے بارے میں معلومات بہت وافر تھی۔ شخصی خاکے لکھنے پڑے۔ پادری میننگ، نرس فلورنس نائٹنگیل، ماہرِ تعلیم ٹامس آرنلڈ (اقبال کے استاد نہیں بلکہ میتھو آرنلڈ کے والد) اور جرنیل گارڈن کی شخصیات کو کمزور انسانوں کے رُوپ میں پیش کیا۔ جلے کٹے طنز پر خاکے کی عمارت اٹھاتے ہوئے تاریخی واقعات، گپ شپ اور قیاس آرائیوں کے رنگ روغن سے ایک خاکہ تیار کیا جوبالکل کسی افسانے جیسا تھا۔ دیباچے میں اسٹریچی نے لکھا کہ سوانح لکھنے کا طریقہ یہی ہے۔ دلکش اختصار ہرایسی بات سے گریز کرے جو توجہ کے لائق نہیں ہے اور ہر ایسی بات کو شامل کر لے جو توجہ کے لائق ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ توجہ کے لائق وہی بات ہو سکتی تھی جو اِنسان کو حقیر اور ذلیل مخلوق کے طور پر پیش کرے جس کی تمام کوششیں بیکار جاتی ہیں: It is not by the direct method of a scrupulous narration that the explorer of the past can hope to depict that singular epoch. If he is wise, he will adopt a subtler strategy. He will attack his subject in unexpected places; he will fall upon the flank, or the rear; he will shoot a sudden, revealing searchlight into obscure recesses, hitherto undivined. He will row out over that great ocean of material, and lower down into it, here and there, a little bucket, which will bring up to the light of day some characteristic specimen, from those far depths, to be examined with a careful curiosity. Guided by these considerations, I have written the ensuing studies. I have attempted, through the medium of biography, to present some Victorian visions to the modern eye. They are, in one sense, haphazard visions ... I hope, however, that the following pages may prove to be of interest from the strictly biographical, no less than from the historical point of view. Human beings are too important to be treated as mere symptoms of the past. They have a value which is independent of any temporal processes — which is eternal, and must be felt for its own sake. The art of biography seems to have fallen on evil times in England. We have had, it is true, a few masterpieces, but we have never had, like the French, a great biographical tradition... To preserve, for instance, a becoming brevity — a brevity which excludes everything that is redundant and nothing that is significant — that, surely, is the first duty of the biographer. The second, no less surely, is to maintain his own freedom of spirit. It is not his business to be complimentary; it is his business to lay bare the facts of the case, as he understands them. اسٹریچی کہہ رہا تھا کہ انسان میں آفاقیت ہے مگر اُس کے نزدیک آفاقیت کا مفہوم یہ تھا کہ شخصیت کو ماحول کی پیداوار بتایا جائے جو زمانے سے بلند ہو کر زمانے کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ کہہ رہا تھا کہ سچائی کی تلاش ہے مگر طے کر رکھا تھا کہ سچی بات وہی ہے جس سے ثابت ہو کہ زندگی سعیٔ لاحاصل ہے۔۱۴ ۱۸ معلوم ہوتا ہے کہ گرامی کو مثنوی شروع میں نہیں بھیجی جا سکی کیونکہ ان دنوںان کا پتہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ان کا خط آیا جس میں مثنوی کی تعریف تھی۔ نیازالدین خاں یا کسی اور کے پاس دیکھی ہو گی۔ شکایت تھی کہ اقبال گواہی دینے سے جی چرا رہے ہیں۔ ’’تعجب ہے آپ نے میرے عذرات سے یہ سمجھا کہ میں حق گوئی سے پہلو تہی کرتا ہوں،‘‘ اقبال نے فوراً ہی مثنوی کی ایک کاپی انہیں بھجواتے ہوئے جواب لکھا اور وضاحت کی کہ گواہی خواہ جالندھر میں لی جائے یا لاہور میں گرامی کے حق میں برابر ہو گی۔ ’’آپ کے ساتھ تو تعلقات ہیں جس آدمی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہ ہو میں اس کے لیے بھی حق گوئی کے لیے تیار ہوں انشأ اللہ۔‘‘ بہرحال اگر گرامی انہیں جالندھر جا نے کی تکلیف دینا ہی چاہتے تھے تو وہ تیار تھے۔۱۵ ۱۹ ۲۳ مئی کو ’’ہلاکِ جادوئے سامری‘‘ والی غزل سلیمان ندوی کو معارف میں شائع کرنے کے لیے بھجوا دی۔۱۶ ۲۰ فیصلہ ہوا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں اب فارسی کے ایم اے کا امتحان بھی ہوا کرے گا۔ اقبال سے کورس مرتب کرنے کے لیے کہا گیا۔ انہیں گرامی کا خیال بھی آیا مگر انہوں نے لاپرواہی میں کبھی کلام مرتب کر کے چھپوایا نہیں تھا سوائے ایک مثنوی کے کچھ حصے کے اور وہ بھی نجانے بازار میں تھا یا نہیں۔۱۷ ۲۱ آفتاب کو ہرمہینے جو پینتیس روپے ماہوار ملتے تھے انہوںنے اس میں اضافے کا مطالبہ کیا کہ پچاس روپیہ ماہوار کر کے دو سال کی رقم بارہ سو روپے ایک ساتھ دے دی جائے۔ اقبال نے انکار کر دیا۔ آفتاب نے شیخ گلاب دین وکیل کو بھی خط لکھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمام حالات سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب (اقبال) سے بات نہیں کریں گے۔ معاملہ سردار بیگم کے علم میں آیا تو اقبال کو بتائے بغیر اپنا زیور بیچ کر رقم ادا کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ شیخ نورمحمد کو خط لکھ دیا۔ ۲۲ کوئی کیپٹن منظور حسین تھے۔ انہوں نے اقبال کے انداز کی نظمیں لکھ کر مجموعہ مرتب کیا۔ اقبال کی طلبہ علی گڑھ کے نام لکھی ہوئی نظم کے پہلے شعر سے اس کا عنوان اخذ کر کے ’’پیامِ غربت‘‘ نام رکھا اور سرِ عنوان اقبال کا شعر بھی لکھ دیا: اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے غربت کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے اقبال کو مجموعہ خط کے ساتھ بھیجا تو ۷ جون کو انہوںنے شکریے کے خط میں وہ حکایت لکھی کہ جنید بغدادی ؒنے بیماری میں قرآن کی آیت پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لی تو خدا کی طرف سے ملامت ہوئی کہ ہمارا کلام اپنے نفس کی خاطر صرف کرتا ہے۔ ’’آج یہ حالت ہے کہ خدا کا کلام تو ایک طرف اپنا کلام بھی اپنے نفس کی خاطر صرف نہیں ہونا چاہئے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’سرِعنوان شعر ۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میرا ہے۔اس نظم میں بہت سے اغلاط چھپ گئے تھے۔‘‘ لکھا کہ دوسرے مصرعے میں غربت کی جگہ عشق ہے ورنہ شعر کا بحر درست نہیں رہتا۔ ’’میرا مقصود شاعری سے شاعری نہیں، بلکہ یہ کہ اوروں کے دلوں میں بھی وہی خیالات موجزن ہو جائیں جو میرے دل میں ہیں اور بس،‘‘ اقبال نے آخر میں لکھا۔ ۲۳ شیخ نور محمد کا خط سردار بیگم کے جواب میں آیا تو اقبال کی نظر سے بھی گزرا۔ سردار بیگم نے ساراماجرا کہہ دیا۔ بنام شیخ نور محمد لاہور ۹ جون ۱۹۱۸ء قبلۂ من السلام علیکم۔ آپ کا خط جو اعجاز کی چچی کے نام آیا ہے میں نے دیکھاہے اور اس نے اس خط کا مضمون بھی مجھے سنایا ہے جو اُس نے آپ کی خدمت میں تحریر کیا تھا۔ یہ اس کے دل کی وسعت اور فراخ حوصلگی کی دلیل ہے مگر یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ میں اس کا زیور لے کر ایک لڑکے کی تعلیم پر صرف کر دوں جس سے نہ اسے کچھ توقع ہو سکتی ہے نہ مجھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا زیور اس خیال سے نہیں دیتی کہ کل کو اسے اس کا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ محض اس غرض سے دیتی ہے کہ مجھ پر کوئی شخص حرف گیری نہ کرے لیکن اگر کوئی شخص مجھ پر حرف گیری کرتا ہے تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ کہ وہ شخص مجھ سے ناخوش ہے۔ برخلاف اس کے ناانصافی میں خدا و رسولؐ کی ناخوشی ہے جس کا برداشت کرنا میری طاقت سے باہر ہے۔ میں اور لوگوں کی حرف گیری آسانی سے برداشت کر سکتا ہوں خدا و رسول کی ناراضگی سے میرا دل کانپتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ دس سال کے عرصے میں بیس پچیس ہزار میرے ہاتھوں میں آیا ہے مگر یہ سب اپنے اپنے موقع پر مناسب طور پر خرچ ہوا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ تاہم اس وقت تک میں ایک عمدہ مکان کرائے پر نہیں لے سکا نہ مکان کے لیے فرنیچر اور سازوسامان خرید سکا ہوں۔ نہ عمدہ گھوڑاگاڑی خرید سکا ہوں۔ یہ سب لوازمات اس پیشے کے ہیں۔ اب میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ جس طرح ہو سکے یہ لوازمات بہم پہنچائے جائیں۔ اب حالات اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیںکہ ان کا بہم پہنچانا لازم اور ضرور ہے۔ میں نے اپنے دل میں عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل کرے تو اپنی نظم و نثر سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھاؤں گا کہ یہ ایک خداداد قوت ہے جسمیں میری محنت کو دخل نہیں۔ خلق اللہ کی خدمت میں اِسے صرف ہونا چاہئے۔ مگر ضرورت سے مجبور ہو کر مجھے اس عہد کے خلاف کرنا پڑا۔ باقی رہے وہ لوگ جو مجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ وہ اسے احسان نہیں جانتے بلکہ قرض تصور کرتے ہیں۔ میں نے ۳۵ روپیہ ماہوار اس کم بخت لڑکے کو دئیے تھے اور کالج کے اور لڑکوں سے اخراجات کے متعلق دریافت کر کے یہ رقم مقرر کی تھی مگر آج تک ہر شخص کے پاس یہی رونا رویا جاتا ہے کہ خرچ ناکافی ملتا ہے۔ ان کو مدد دینا نہ دینا برابر ہے۔ شیخ گلاب دین صاحب کو بھی اس نے خط لکھا تھا مگر انہوں نے اسے یہ جواب دیا ہے کہ حالات مجھے معلوم ہیں اس واسطے میں ڈاکٹر صاحب سے اس بارے میں گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ گزشتہ سالوں میں بھی وہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے۔ اگر آپ کے پاس ان کا بیان کروں تو آپ کو سخت تکلیف ہو گی لہٰذا اس تکلیف دہ داستان کو نظرانداز کرتا ہوں۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کے میں اسے مدد دیتا مگر اس وقت مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کی وجہ سے آمدنیاں قلیل ہو گئی ہیں اور یہ شکایت کچھ مجھی کو نہیں اوروں کو بھی ہے اور وہ پچاس روپیہ ماہوار اس طرح مانگتے ہیں جیسے میں مقروض ہوں اور وہ قرض خواہ۔ میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ کہیں ملازمت کر لے اور کچھ کمانے کے قابل ہو جائے کہ بی اے کے امتحانوں کی اب وہ وقعت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ میں نے تجربے سے دیکھا ہے کہ جو لڑکے انٹرنس یا ایف اے پاس کر کے ملازمت کرتے ہیں وہ بی اے ایم اے پاس کرنے والوں سے بہتر رہتے ہیں مگر اُس نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا اور کالج میں داخل ہونے کے لیے دہلی چلا گیا۔ پھر بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ نے جو کچھ اسے خط میں لکھا ہے بالکل ٹھیک ہے۔ یہی بات میرے دل میں بھی تھی اور یہ اس کے خط کا بہترین جواب ہے۔ بہتر ہے کہ اس کی والدہ اپنے نقرئی و طلائی سرمائے اس کی تعلیم پر خرچ کرے کم از کم اس کا وہ حصہ خرچ کر دے جو اُس نے میرے ماں باپ سے لیا ہے اپنے ماں باپ کا خرچ نہ کرے اور اگر کچھ عرصے بعد میرے ہاتھ میں روپیہ آ گیا تو میں اسے ایک مشت بارہ سو روپیہ دے دوں گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اپنی خیریت سے اطلاع دیں۔ محمد اقبال لاہور ۲۴ آفتاب اور شیخ عطا محمد میں کوئی رنجش پیدا ہوئی۔ معلوم نہیں تعلیم جاری رکھنے، جیب خرچ کے مسئلے پر یا کسی اور بات پر تھی مگر عطا محمد نے آفتاب کو معاف کر دیا۔ آفتاب پھر ناراض ہوئے اور کسی موقع پر اپنی پھوپھی یعنی اقبال کی بہن کریم بی بی سے کوئی دل دکھانے والی باتیں کیں۔۱۸ ۲۵ فقیر سید نجم الدین کے لڑکے وحید الدین نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگلستان جانے کی ضد کی۔ وحید الدین کا بیان ہے کہ والد نے اقبال سے مشورہ کیا۔ اقبال نے کہا کہ یہاں تعلیم مکمل کرنے سے پہلے انگلستان کی خاک چھاننا بے سود ہے۔۱۹ ۲۶ پنجاب یونیورسٹی ایم۔اے فارسی کا نیا نصاب چاہتی تھی۔ بنانے والوں میں اقبال بھی شامل تھے۔ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے فارسی شعرأ کا ایک پرچہ بھی ہو۔ اُس میں نئے شاعر بھی شامل ہوں۔۲۰ انہی دنوں گرامی کا خط آیا۔ بہن سے صلح کر لی تھی مگر اقبال سے شکایت تھی کہ گواہی دینے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بہرحال لاہور آئیں گے۔ اشعار بھیجے تھے کہ کوہکن فرہاد نے تو اپنی جانِ شیریں دے دی، اے عشقِ غیور اب شیریں کے شور کو فرہاد کے تیشے کی زبان دے : کوہکن خود جانِ شیریں داد اے عشقِ غیور شورِ شیریں را زبانِ تیشۂ فرہاد دِہ ’’اب شکوہ شکایت کیا ہوگی آپ نے کام تو وہی کیا جس کے لیے میں ابتدا سے مصر تھا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’گرامی سے پنجاب کے لوگوں کو محبت ہے بلکہ بعض لوگ جن میں میں خود بھی شامل ہوں اس کو ولی مانتے ہیں پھر اِس قسم کی مقدمہ بازی کو خلافِ توقع جان کر اُن کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ میری دلی کیفیت تو یہ ہے کہ ایسے معاملے میں روپیہ کا نقصان بھی برداشت کر جاؤں اور پرو ا نہ کروں۔ اِسی معیار کی عینک سے آپ کو بھی دیکھتا ہوں۔‘‘ اب گرامی کو بہن کے ساتھ حقیقی معنوں میں بھی صلح رکھنی چاہیے تھی۔ گواہی دینے سے اقبال نے کب انکار کیا تھا۔ گرامی کے لاہور آنے کے وعدے پر لاہور کی تمام آبادی میں کسی کو بھی اعتبار نہ تھا۔ اشعار خوب تھے اگر گرامی کی چھپی ہوئی مثنوی مل سکتی ہو تو اُسے نصاب میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اُس روز اکبرؔ الٰہ آبادی کے نام بھی ایک خط ڈاک میں ڈالا ہی تھا کہ ان کا ایک اور خط آگیا۔ شام کو لاہور میں رمضان کا چانددکھائی دیا۔ بارش نہ ہوئی تھی۔ گرمی زوروں پر تھی۔۲۱ ۲۷ محمد علی جناح نے حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ آئینی اصلاحات کو منظور کرنے سے پہلے شائع کر کے ہندوستانی رائے عامہ معلوم کی جائے۔ چنانچہ اس ماہ وزیرہند مانٹیگو اور وائسرائے چیمسفورڈ کی مشترکہ تجاویز شائع ہوئیں جن کی منظوری ابھی باقی تھی۔ ۲۸ ۱۶ جون کو ’’ہوم رُول ڈے‘‘ منایا گیا۔ ۲۹ آفتاب نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے سیکنڈ ڈویژن میں ایف اے پاس کر لیا۔ مزید پڑھنا چاہتے تھے۔۲۲ ۳۰ سید حسن ریاض بلند شہر کے چوبیس سالہ نوجوان تھے۔ سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس برس انگریزی صحافت میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا تھا مگر اُن کی ملاقات محمد علی کے دوست سید جالب دہلوی سے ہو گئی جو ہمدرد بند ہونے کے بعد ہمدم کے نام سے اخبار نکالنے لگے تھے۔ سید حسن ریاض نے انگریزی کی بجائے اُردو صحافت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔۲۳ ۳۱ بہت مدّت بعد کشن پرشاد کا خط آیا۔ بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ پچھلے خط اور ’رموزِ بیخودی‘ کا ذکر نہیں تھا نجانے یہ چیزیں ملی بھی تھیں یا ڈاک میں گم ہوگئی تھیں۔ اُسی روز اکبرؔ الٰہ آبادی کی طرف سے ایک اور خط بھی آگیا۔ نیا شوشہ چھوٹا تھا۔ نجانے کس حوالے سے حافظؔ اور تصوف کے بارے میں بات دوبارہ کھل گئی تھی۔باقی کسی پنڈت کشوری لعل کا ذکر تھا جنہیں اقبال اور اکبرؔ دونوں جانتے تھے اور کسی حوالے سے لکھا تھا کہ کعبے اور کاشی کے علاوہ کوئی اور مقام بھی ہے۔ ’’معاف کیجئے گا مجھے آپ کے خطوط سے یہ معلوم ہوا ہے (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کے صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظؔ کے متعلق لکھے گئے تھے،‘‘ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’باقی اشعار پر نظر شائد نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو اُن کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی تاکہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔ ‘‘ کعبہ اور کاشی والی بات کے حوالے سے لکھا، ’’آپ کے قلم و زبان سے یہ بات زیب نہیں دیتی۔ آپ کے نزدیک توکعبہ کے سوا کوئی اور مقام نہ ہونا چاہئے۔ یہی میرا بھی مذہب ہے۔‘‘وجہ یہ بتائی کہ اسلام کو سائنس سے نہیں بلکہ جغرافیائی قومیت سے خطرہ ہے جس کی وجہ سے ترکی، مصر اور ہندوستان میں مسلمان اپنی مذہبی قومیت کے اصول کے خلاف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’انشأ اللہ کل صبح کی نماز کے بعد دعا کروں گا،‘‘ اُسی روز کشن پرشادکے جواب میں اُن کی بیٹی کی بیماری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا۔ ’’بندۂ روسیاہ کبھی کبھی تہجد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اُس وقت عبادتِ الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے کیا عجب ہے کہ دعا قبول ہو جائے۔‘‘ ۳۲ تیر اور برچھی اور خنجر اور تلوار میری آرزو ہے،میرے ساتھ نہ آ کہ میں شبیر کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تمہارے جی میں جو کچھ آتا ہے ہم سے مانگ لو، میں نے عرض کی کہ مجھے تقدیر کو بے پردہ دیکھنے کی آرزو ہے۔ مجھے اپنے دن رات کی بس اِتنی خبر ہے: میں خواب بھول چکا ہوں اور تعبیر کا ارمان ہے! کدھر ہے وہ اِتراتی ہوئی نظر جو پہلی بار میرا دل لے گئی تھی۔ تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر کی تمنا ہے! غزل تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست با من میا کہ مسلکِ شبیرم آرزوست گفتند ہر چہ در دِلت آید زما بخواہ گفتم کہ بے حجابیٔ تقدیرم آرزوست از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدر خوابم زیاد رفتہ و تعبیرم آرزوست کُو آں نگاہِ ناز کہ اول دلم ربود عمرت دراز باد ہماں تیرم آرزوست جولائی ۱۹۱۸ئ۲۴ ۳۳ رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ (East And West) کے جولائی کے شمارے میں ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ پر عبدالرحمٰن بجنوری کا تبصرہ شائع ہوا۔ اقبال کو پسند آیا۔ مبصر نے مرزا غالب، مولانا حالی اور اقبال کو ہندوستان کے جدید اسلامی ادب کے ارکان قرار دیا تھا: ۱ غالب نے لوگوں کے دلوں میں ایسے شکوک پیدا کیے جو صحتمند فکر کی بنیاد فراہم کرتے تھے۔ یوں دہلی کی پرانی تہذیب فنا ہوئی اور انحطاط کا خاتمہ شروع ہوا۔ ۲ حالی نے جو غالب کے شاگرد تھے، پرانی تہذیب کی جگہ ایک نئی تعمیر کی بنیاد رکھی۔ اُن کی تخلیقی قوت میں اُداسی کے ساتھ ساتھ مسرّت بھی موجود تھی۔ اس لیے اُن کے بعد کی نسل کا شاعر مایوسی سے مکمل طور پر آزاد ہو کر خوداعتمادی کے ساتھ سامنے آیا۔ ۳ یہ اقبال تھے۔ انہوں نے حالی کی شروع کی ہوئی عمارت کو جس بنیاد پر اُٹھایا ہے وہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی ہے۔ اس کے کچھ اہم پہلوہیں: ۱ دَورِ حاضر کے غیرملکی عنصر پر قابو پانا جو ہندوستان کی فضا پر چھا رہا تھا۔ ۲ اسلامی روحانیت کی مدد سے اُس اَنانیت کو شکست دینا جو مادّی دَور کی پیداوار ہے۔ ۳ ادب کو نوجوانوں کے حوالے کر کے جوان کر دینا۔ ۴ اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر کا آغاز کرنا۔ یہ کام ’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ سے شروع ہوا ہے۔۲۵ ۳۴ اقبال کی مثنویات عبدالرحمٰن بجنوری [اقتباس کا ترجمہ] جب مثنویوں کا علمِ کلام ہر جگہ سمجھ میں آ جائے گا تو تمام اِسلامی دنیا میں وہ لہر چلے گی۔ جس کا نتیجہ نہایت شاندار ہے۔ اقبال ایک پیغمبر ہے۔ وہ اسلام کے شاندار اور بے نظیر زریں ماضی کا نظارہ کرتا ہے۔ اُس کی نظر مستقبل پر ہے۔ مگر مستقبل ایساہے جیسے اُس کے ہر طرف دُھند چھائی ہے اگرچہ دُھند گہری نہیں ہے۔ بعض دفعہ اِس ملک میں سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر مثنویوں کو اُردو کی بجائے فارسی میں لکھنے سے کیا فائدہ مرتب ہو گا۔ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو گاہے گاہے اور ایک مقصد کے ساتھ منصۂ شہود پر آتے ہیں اور اس کا پیغام تمام اسلامی دنیا کے لیے ہے۔ اس کی مثنویاں بچوں کے مدارس میں سعدی کی گلستان اور دہلی، کابل، طہران، قاہرہ، قازان، استنبول، مدینہ اور مکہ کی جامع مسجدوں کے منبروں پر مثنوی مولانا روم کی جگہ استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ مثنویاں بحرِ رمل مسدس مقصور میں لکھی گئی ہیں۔ بحرِ رمل میں یہ تبدیلی غزل اور مثنوی میں متداول ہے۔ مثنوی معنوی بھی اِسی بحر میں لکھی ہوئی ہے۔ پہلی مثنوی اسرارِ خودی زیادہ حقیقی ہے، دوسری رموزِ بیخودی زیادہ تخیلی ہے۔ رموز میں اگر تھوڑی سی حکایتیں اور ہو جاتیں تو دماغ پر اس کی بھی وہی حقیقی گرفت ہوتی جو اسرارِ خودی کی ہے۔ یہ کمی رموز کے نصف آخر میں خصوصاً بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ کوئی ایسا نقص نہیں جو مصنف دُور نہیں کر سکتا۔ اقبال نے فارسی ادب کے جھوٹے اور مصنوعی ادب القدما سے اصلی ادب القدما کی طرف رہنمائی کر دی ہے۔ صائب کے بعد کے شعرأ عہدِ زریں کی ایک غیرشعوری اور مدہم سی گونج بن کر رہ گئے تھے۔ اقبال کا پھر سے اساتذۂ قدیم کی روش اختیار کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ بیدل اور اس کے متبعین کی شاعری کے خلاف ہے جو رنگین پردوں میں لپٹی ہوئی ہے جس میں حسن و کشش تو ہے مگر قوت و عمل نہیں۔ اس کا طرزِ تحریر مولانا روم کا سا ہے لیکن الفاظ ایسے ہیں جیسے کسی مرصع تلوار کے دستہ میں موتی جڑے ہیں۔ باوجود اپنے اس عظیم الشان پیشرو کی تقلید کے اقبال یقینا بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ نوبیدار مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور اقبال کی شاعری نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے۔ اس نے ایرانی شاعری کی درماندہ رگوں میں خونِ تازہ دوڑایا ہے اور حسنِ صوری کے ساتھ قوتِ معنوی کے مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ مثنویوں کی زبان بہت پرشوکت ہے لیکن اس مردانگی کے باوجود اس میں لوچ اور لچک ہے۔ آج جب کہ فارسی زبان خود اپنے وطن میں اس قدر بدنما ہو گئی ہے۔ اقبال اس کے شباب کی یاد دلاتا ہے۔ فارسی ادب ایک خطرناک دَور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جب خود ایران میں ادبی انحطاط نمایاں ہے دوسری طرف ایک موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو ضرب لگائی ہے اور ایک نیا کوثر پھوٹ بہا ہے جو بنی اِسرائیل کے بارہ چشموں سے کسی طرح کم نہیں۔۲۶ ۳۵ ۲ جولائی کو میاں شاہ دین ہمایوںؔ فوت ہو گئے۔ کل اُن کی قبر پر بلبل روتی تھی اور کہتی تھی کہ اِس ویرانے میں بھی مجھے ایک آشنا مل گیا ہے مگر یہ بلبل اقبال تھے: دوش بر خاکِ ہمایوں بلبلے نالید و گفت اندریں ویرانہ ما ہم آشنائے داشتیم۲۷ اقبال نے دو روز بعد لوحِ مزا رکے لیے یہ شعر لکھ کر میاں شاہنواز کو پیش کیا۔ قطعۂ تاریخ نکالنے کی فکر باقی رہی۔ جسٹس شاہ دین کی جدائی کا اثر ایسا نہ تھا کہ اقبال کے دل یا مسلم معاشرے کے ضمیر سے جلد غائب ہوجاتا۔۲۸ ۳۶ ایک حور کو دُنیائے فانی کے بارے میں تجسس ہوا، جینے اور مرنے کا راز جاننے کے لیے بیتاب ہوئی اور ایک شاخ سے کلی کی صورت میں پیدا ہو کر مر گئی۔ پھول کی خوشبو اُسی کی نشانی ہے۔ ’بوئے گل‘ کے عنوان سے یہ خیال فارسی میں نظم ہوا۔۲۹ ۳۷ ۳ جولائی کو سلطان محمد پنجم فوت ہو گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے نئے سلطان اور مسلمانوں کے خلیفہ کا نام وحیدالدین تھا۔ ۳۸ ۱۱ جولائی کو ناظرالحسن کے خط سے معلوم ہوا کہ کشن پرشاد کا لڑکا کئی روز بخار میں مبتلا رہ کر فوت ہو گیا۔ ’’اقبال محض ایک دل رکھتا ہے جس کو آپ سے اخلاص ہے،‘‘ اُسی روز کشن پرشاد کو خط لکھا۔ ’’اِس دل کی ہمدردی پیش کرتا ہے۔‘‘ ۳۹ مادیات کی دنیا میں نیوٹن اور فطرت کی تاریخ میں ڈارون کی دریافتوں کی انتہا میکانیت (mechanism)پر ہوئی تھی۔ چنانچہ سمجھا گیا تھا کہ تمام مسائل دراصل طبیعیات ہی کے مسائل ہیں۔ زندگی، فکر، ارادہ، احساس اور ہر شے کی توجیہ جواہر (atoms) اور اُن کے خواص کی بنیاد پر ہو جائے گی۔ میکانیت کا تصور محض ایک طبیعیات کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا مگر فطرت کے ہر پہلو کی تشریح اسی کے ماتحت ہونے لگی تھی۔ حیاتیات (biology) کی سائینس میں اس تصور کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں جی بی ایس ہالڈین (J.B.S. Haldane) شامل تھے۔ عموماً ’’جیک‘‘ کہلاتے تھے۔ان کے بڑے بھائی لارڈ رچرڈ ہالڈین اس نظریے کے لیے مشہور تھے کہ حقیقت اور علم کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ جیک علم الحیات کا ابھرتا ہوا ستارہ تھے۔ عمر چھبیس برس تھی۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک رئیس خاندان سے تعلق تھاجو آکسفورڈ میں رہتا تھا۔ خدا کو نہیں مانتے تھے۔ مگرزندگی کے میکانکی تصور کی نفی کرتے تھے۔ اس ماہ لندن میں اسرٹوٹیلین سوسائٹی، برٹش سائیکالوجیکل سوسائٹی اور مائنڈ سوسائٹی کے مشترکہ سمپوزیم میں مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ حیات ایک ایسا مظہر ہے جس کی نہ تو کوئی نظیر ہے اور نہ جس کا میکانیاتی نقطۂ نظر سے تجزیہ ہی ممکن ہے: It is thus evident that although we find within the living body many phenomena which, so long as we do not look closely, can be interpreted satisfactorily as physical and chemical mechanism, there are side by side other phenomena [i.e. self-maintenance and reproduction] for which the possibility of such interpretation seems to be absent. The mechanists assume that the bodily mechanisms are so constructed as to maintain, repair, and reproduce themselves. In the long process of natural selection, mechanisms of this sort have, they suggest, been evolved gradually. ‘Let us examine this hypothesis. When we state an event in mechanical terms we state it as a necessary result of certain simple properties of separate parts which interact in the event. . . . The essence of the explanation or re-statement of the event is that after due investigation we have assumed that the parts interacting in the event have certain simple and definite properties, so that they always react in the same way under the same conditions. For a mechanical explanation the reacting parts must first be given. Unless an arrangement of parts with definite properties is given, it is meaningless to speak of mechanical explanation. To postulate the existence of a self-producing or self-maintaining mechanism is, thus, to postulate something to which no meaning can be attached. Meaningless terms are sometimes used by physiologists; but there is none so absolutely meaningless as the expression "mechanism of reproduction". Any mechanism there may be in the parent organism is absent in the process of reproduction, and must reconstitute itself at each generation, since the parent organism is reproduced from a mere tiny speck of its own body. There can be no mechanism of reproduction. The idea of a mechanism which is constantly maintaining or reproducing its own structure is self-contradictory. A mechanism which reproduced itself would be a mechanism without parts, and, therefore, not a mechanism. ۴۰ دُور اُفتادہ قصبے میں روس کا سابق شہنشاہ تاج و تخت سے محروم ہونے کے بعد اپنی سلامتی پر قناعت کر کے اہل ِ خاندان اور چند خدمت گزاروں کے ساتھ گزارا کر رہا تھا۔ قصبے والوں کو خوف محسوس ہوا کہ شہنشاہ کی حامی فوجیں قصبے کا رُخ نہ کر لیں۔ ماسکو والوں سے پوچھا گیا تو ہدایت ملی کہ خود ہی بندوبست کر لیں۔ ۱۶ جولائی کو شاہی مہمانوں کو بتایا گیا کہ انہیں کہیں اور لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ نئی جگہ ایک گودام تھی۔ ’’تمہارے رشتہ داروں نے تمہیں بچانے کی کوشش کی،‘‘ انہیں بتایا گیا۔ ’’وہ ناکام ہوئے اور اب ہم تمہیں گولی مارنے پر مجبور ہیں۔‘‘ مرنے والوں میں زارِ رُوس اور اُس کے خاندان کے تمام افراد کے علاوہ فیملی ڈاکٹر، دربان، باورچی، گھریلو ملازمہ اور پالتو کتا شامل تھے۔ گولی مارنے کے بعد سنگینوں سے کچل کر ختم کیا گیا۔ ۴۱ غمزدہ دل نے شاہ دین ہمایوں کی تاریخ وفات کے لیے جستجو کی تو آٹھ جنّتوں سے آواز آئی، ’’المومن‘‘۔ اس کے اعداد ۱۶۷ ہوتے تھے ۔ آٹھ سے ضرب دی جائے تو ۱۳۳۶برآمد ہوتا تھا جو ہجری سال تھا: چو سالِ وفاتِ ہمایوں دلِ حزیں می جست زہشت خلد ندایم رسید ’’المومن‘‘۳۰ تسلی نہ ہوئی تو خوش آواز بلبل نے بھی سالِ وفات تلاش کیا۔ چاروں طرف سے آواز آئی، ‘‘علامۂ فصیح‘‘۔ اس کے اعداد ۳۳۴ تھے مگر آواز چاروں طرف سے آئی تھی لہٰذا چار سے ضرب دینی تھی۔ ۱۳۳۶ہجری برآمد ہوتا: در گلستانِ دہر ہمایونِ نکتہ سنج آمد مثالِ شبنم و چوں بوئے گل رسید می جست عندلیبِ خوش آہنگ سالِ نوست ’’علامۂ فصیح‘‘ زہر چار سو شنید۳۱ ۴۲ ۱۹ جولائی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ان کے خیال میں اقبال کی بات میں تضاد تھا۔ ایک طرف خودی کی بات کرتے تھے اور دوسری طرف انسان کو سجدے میں گم ہوجانے کا درس دے رہے تھے۔اکبرؔ الٰہ آبادی نے کچھ آیتیں بھی لکھ کر بھیجی تھیں کہ دنیا محض عارضی ہے۔ ’’میری بدنصیبی یہ ہے کہ آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کو اب تک نہیں پڑھا،‘‘ اقبال نے ۲۰ جولائی کو جواب میں اپنے موقف کو ایک دفعہ پھرتفصیل سے بیان کیا کہ ان کے نزدیک سچی بیخودی اپنے آپ کو خدا کے احکام میں فنا کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ’’غرض یہ ہے کہ سلطنت ہو، امارت ہو، کچھ ہو، بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ یہ ذرائع ہیں اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے،‘‘ انہوں نے ’اسرارِ خودی‘ سے کچھ اور شعر درج کرتے ہوئے لکھا۔ ’’زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ مجھ پر عنائت فرمائیے، عنایت کیا رحم کیجئے اور اسرارِ خودی کو ایک دفعہ پڑھ جائیے۔ جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اُس نے آہ و فریاد کی اُسی طرح مجھ کو آپ کا اعتراض تکلیف دیتا ہے۔‘‘ پھر حسن نظامی کا خط آیا۔ فاتحہ جناب ِامیر میں بلاتے تھے۔ اقبال کی ایک بیوی کچھ عرصے سے بیمار تھیں لہٰذا لکھ دیا کہ وہ اچھی ہو گئیں تو آئیں گے۔سوچا کہ اب نہ جا سکے تو عدالتیں بند ہونے پر ضرور نظام الدین اولیا ٔ کی درگاہ پر ہو آئیں گے۔ اِس دفعہ پھر بہت گرمی پڑی تھی اور ابھی تک لاہور میں بارش بھی نہیں ہوئی تھی۔ برسات خالی جارہی تھی۔۳۲ ۴۳ ایک فارسی رباعی ہوئی کہ پھول نے کہا نوبہار کی زندگی اچھی ہے اور باغ کی ایک صبح زمانے سے بہتر ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی تجھے دستار کی زینت بنا لے کسی شاخ کی گود میں مر جانا ہی اچھا ہے: گل گفت کہ عیشِ نوبہارے خوشتر یک صبحِ چمن زروزگارے خوشتر زاں پیش کہ کس ترا بدستار زند مُردن بکنارِ شاخسارے خوشتر۳۳ ۴۴ پرانی بیاضوں سے فارسی کی بعض غزلیں دیوانِ گوئٹے کے جوابی مجموعے والی بیاض میں نقل کیں۔۳۴ ۴۵ ۲۴ جولائی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ فاتحہ جنابِ امیر کا ذکر کیا تھا۔ اُس روز مثنوی مولانا روم کے اس شعر پر اقبال کی نظر پڑی کہ ہر خیال کو دوسرا خیال اور ایک فکر کو دوسری فکر کھا جاتی ہے: ہر خیالے را خیالے مے خودر فکر ہم بر فکرِ دیگر مے چَرد محسوس ہوا کہ مولانا روم اس شعر میں اُس فلسفے کو نظم کر گئے تھے جسے مغرب میں بہت بعد میں جرمن فلسفی شوپنہار نے پیش کیا۔ شام کو ایک محفل میں دیر تک اکبرؔ الٰہ آبادی کے ایک شعر پر گفتگو ہوتی رہی جو اگرچہ کسی مشاعرے میں نہیں پڑھا گیا تھا مگر تمام شہر میں مشہور تھا۔ اس کا مصرع تھا: دل اُس کے ساتھ ہے کہ خدا جس کے ساتھ ہے ’’خواجہ حسن سے مجھے دلی محبت ہے،‘‘ اگلے روز اکبرؔ کے خط کے جواب میں لکھاکہ اختلافِ خیال جبکہ وہ کوئی ایسا اختلاف ہے بھی نہیں ان کے دل میں حسن نظامی کی جگہ کم نہیں کر سکتا۔ ’’وہ ایک نہایت محبوب آدمی ہیں اُن کو جان کر اُن سے محبت نہ رکھنا ممکن نہیں۔‘‘ پچھلی شام کی محفل والی گفتگو کا ذکر کیا اور لکھا کہ آج اس مصرع پر گفتگو رہے گی: بَن خاکِ راہ ناچ کیا کر ہوا کے ساتھ ’’آپ کے اکثر اشعار میں حقائقِ حیات اِس سادگی اور بے تکلفی سے منظوم ہوتے ہیں کہ شیکسپئر اور مولانا روم یاد آ جاتے ہیں۔‘‘ گل گفت والی فارسی رباعی بھی انہیں بھیجی۔ ۴۶ نیازالدین خاں کے لڑکے کو کبوتر رکھنے کا شوق تھا اورشیخ عمر بخش کے ہاتھوں اقبال کو کچھ کبوتر بھجوانے کی ٹھہری تھی۔ وہ ساتھ نہ لا سکے۔ ۴۷ ۲۶ جولائی کو نیازالدین خاں کا پوسٹ کارڈ ملا۔ کسی معاملے میں امیرالدین خاں کا ذکر تھا مگر تفصیل ہمیں معلوم نہیں۔گرامی کی طبیعت خراب ہوئی تھی مگر اب سنبھل گئی ہے۔ اقبال نے اُسی وقت جواب میں لکھا کہ وہ چند روز میں شائد ستمبر کے آخر تک سیالکوٹ جانے والے ہیں اس لیے کبوتر اکتوبر میں آئیں تو زیادہ بہتر ہے۔امیرالدین خاں کو لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ’’گرامی صاحب نے شائد ملک الموت کو کوئی رباعی کہہ کر ٹال دیا ہے اور کیا تعجب ہے کہ ہجو لکھنے کی دھمکی دے دی ہو۔‘‘ ۴۸ ڈاکٹر سید محمد حسین لاہور میں مشہور معالج تھے۔ اقبال کے گہرے دوست تھے۔ اُن کے بھائی سید نادر حسین فوج کے لیے بھرتی کا کام کرتے تھے۔ ۲۸ جولائی کو کسی نے حکومت کے خلاف سازش میں انہیں قتل کر دیا۔۳۵ ۴۹ یکم اگست کی رات سیالکوٹ سے شیخ عطامحمد کا تار آیا کہ جلد پہنچیں، والد صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ ابھی تین روز تک فراغت نہ تھی مگر جانے کا فیصلہ کر لیا جب اگلے روز اعجاز کا تارآیا جس میں لکھا ہوگا کہ شیخ نورمحمد کی طبیعت سنبھل گئی ہے کیونکہ اس کے جواب میں اقبال نے لکھا کہ وہ روانہ ہونے والے تھے مگراب ’’والد مکرم کی خدمت میں عرض کرنا کہ میں ۵ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر اُن کی خدمت میں پہنچوں گا۔ تم اسٹیشن پر آجانا۔‘‘ ۵۰ معلوم ہوتا ہے کہ اگست کے شروع میں سلیمان ندوی کا خط آیا۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی غلطیوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کچھ دساتیر کے بارے میں دریافت کیا تھا جو اورینٹل کالج کی لائبریری میں موجود تھے۔ اُن دنوں لائبریری بند تھی۔ ۳۶ ۵۱ کوئی عبدالرؤف تھے جو لاہور تشریف لائے اور چیف جج سے ملے۔ اقبال کا نام بھی حکومت کے سامنے تھا شائد چیف کورٹ میں کسی کرسی کے لیے اور اقبال سمجھتے تھے کہ بعض حکام مائل بھی ہیں مگر اقبال کو امید نہیں تھی اس لیے کسی سے نہیں ملے اور دوستوں کے مشورے کے باوجود شملہ جانے کی بجائے سیالکوٹ چلے آئے۔۳۷ ۵۲ خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد فضلی قریشی نے رازِ بیخودی کے عنوان سے اقبال کے جواب میں مثنوی لکھی۔ مطبع بلالی دہلی سے کسی فضل حسین نے شائع کی۔۳۸ اقبال نے افلاطون اور حافظ شیرازی کو ’’گوسفند‘‘ یعنی بھیڑ کہا تھا۔ پیرزادہ فضلی نے اقبال کو گدھا، دین فروش اور ملت فروش وغیرہ کے القاب سے نوازا۔ خودی کے اُس تصوّر پر بات نہ کی جو اقبال نے پیش کیا تھا۔ اس کے لغوی معنوں پر اعتراض کیاجن کا تعلق اقبال کی مثنوی سے نہ تھا۔ افلاطون کے نظریۂ اعیان پر اقبال کے اعتراض کا جواب اِس طرح دیا کہ شیخ شہاب الدین نے کشف کی حالت میں دیکھا کہ ارسطو بھی افلاطون کی تعریف کر رہا ہے۔۳۹ ۵۳ ایبٹ آباد کے میر وَلی اللہ نے دیوانِ حافظ کی اُردو شرح لسان الغیب لکھی تھی۔ اس برس چوتھی جلد شائع ہوئی۔ اقبال کی رائے تمہیدی الفاظ کے ساتھ درج کی گئی- ’’کلامِ حافظ کے متعلق اپنی اُس رائے کی تائید کرتے ہوئے جس کا اِظہار اُنہوں نے مثنوی اَسرارِ خودی میں کیا ہے، فرماتے ہیں:‘‘ تاہم آپ کا کام ایک ادبی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ اِس کے جو وِیو خواجہ حافظ کے کلام کا صوفیہ اور اُن کے اثر سے جمہور مسلمین نے لیا ہے وہ ایک ایسا وِیو ہے جس کے حق میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے- پھر یہ کہنے میں مجھے کیونکر تامل ہو سکتا ہے کہ آپ نے لسان الغیب نہایت جانفشانی اور عرقریزی سے لکھی ہے اور آپ کی تلاش ہر ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے کے نزدیک قابلِ داد ہے۔ آپ کا اسلوبِ بیان سلیس اور دلکش ہے اور بوجہ اُس عبور کے جو آپ کو فارسی اور عام لٹریچر پر ہے جو اَشعار اور اساتذہ کے آپ نے جابجا درج کیے ہیں اُن سے کتاب کی دلچسپی اور اُس کی ادبی قدر و قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔۴۰ ۵۴ اس برس اسلامیہ کالج کے فلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹر ہیگ انتقال کر گئے۔ فوری طور پر کوئی موزوں پروفیسر نہ ملا۔ اقبال نے کچھ عرصہ کے لیے طلبا کو فلسفہ پڑھانے کی ذمہ داری قبول کر لی۔۴۱ ۵۵ ’اَسرارِ خودی‘ کا دوسرا ایڈیشن تیار کرتے ہوئے افلاطون پر اعتراضات قائم رکھے۔ خواجہ حافظ پر اعتراضات کی بجائے شاعری کے اُصولوں پر پورا باب شامل کر دیا۔ قارئین ہندی اور ایرانی محبوب کی بجائے عربی ادب کی سلمیٰ سے دل لگائیں۔ شعر کی حقیقت اور اسلامی ادب کی اصلاح کے بارے میں آرزو کا داغ لگنے سے انسان میں جوش پیدا ہوتا ہے۔ آرزو کے چراغ سے اس مٹی میں آگ لگتی ہے۔ تمنا سے زندگی کے جام کو شراب ملتی ہے تو زندگی سرگرم اور تیزرفتار ہو جاتی ہے۔ زندگی محض تسخیر کا نام اور آرزو تسخیر کا نسخہ ہے۔ زندگی شکار کھیلتی ہے اور آرزو اُس کی کمند ہے۔ آرزو عشق کی طرف سے حسن کے لیے پیغام ہے۔ ہر لمحہ تمنا کیسے ابھرتی ہے؟ یہ زندگی کے نغمے کا اُتار چڑھاؤ ہے! جو شے بھی اچھی، دلکش اور خوبصورت ہے وہ طلب کے بیابان میں ہمارے سفر کا جواز ہے۔ اُس کی تصویر تمہارے دل پر نقش ہو جاتی ہے اور وہ تمہارے دل میں آرزوئیں جگاتی ہے۔ حسن آرزو کی بہار لاتا ہے۔اُس کے جلوے آرزو کو پروان چڑھاتے ہیں۔ شاعر کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہے۔ اُس کے طُور سے حسن کے انوار پھوٹتے ہیں۔ خوب اُس کی نگاہ سے خوب تر ہو جاتا ہے۔ اُس کے جادو سے فطرت زیادہ اچھی لگنے لگتی ہے۔ اُس کی آواز نے بلبل کو گانا سکھایا ہے۔ اُس کے غازے نے پھول کے رخسار کو رعنائی بخشی ہے۔ پروانے کے دل میں اُسی کا سوز ہے اور وہی عشق کے افسانوں کو رنگیں بناتا ہے۔ سمندر اور زمین اُس کے آب و گل میں پوشیدہ ہیں۔ اُس کے دل میں سیکڑوں تازہ جہاں چھپے ہوئے ہیں۔ اُس کے ذہن میں ایسے لالے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور ایسے نغمے ہیں جو کبھی سنے نہیں گئے۔ اُس کی سوچ چاند ستاروں کی ساتھی ہے، بدصورتی سے ناواقف اور خوبصورتی کو جنم دینے والی! وہ خضر ہے اور اُس کے ظلمات میں آبِ حیات ہے۔ اُس کے آنسو کائنات کو نئی زندگی دیتے ہیں۔ ہم کاہل، ناپختہ اور ناسمجھ ہیں۔ منزل کے راستے میں گرے پڑے ہیں۔ اس کی بلبل نغمے سنا رہی ہے اور ہمیں سفر پر آمادہ کرتی ہے تاکہ ہمیں زندگی کی جنت تک پہنچا دے اور ہماری زندگی کی قوس مکمل ہو کر دائرہ بن جائے۔ اُس کی آوازِ درا پر قافلے روانہ ہوتے ہیں اور اُسی کی بانسری کی آواز پر چلتے رہتے ہیں۔ وہ ہمارے باغ میں صبح کی ہوا کی طرح آتا ہے اور آہستگی سے لالہ و گل میں سما جاتا ہے۔ اُس کے چلنے سے زندگی اپنی قوت میں اضافہ کرتی ہے، اپنا محاسبہ کرتی اور بے چین ہوتی ہے۔ وہ دنیا والوں کو اپنے دسترخوان کی طرف بلاتا اور اپنی آگ کو ہوا کی طرح عام کر دیتا ہے۔ افسوس ہے اُس قوم پر جو اپنی موت کا سامان خود پیدا کرتی ہے۔ جس کا شاعر زندگی کے ذوق کا مخالف ہے۔ اُس کا آئینہ بدصورتی کو محبوب بناتا ہے۔ اُس کا شہد جگر کو چھلنی کر دیتا ہے۔ اُس کے بوسے سے پھول مرجھا جاتا ہے اور بلبل کے دل سے پرواز کا ذوق رخصت ہو جاتا ہے۔ اُس کی افیون تمہارے اعصاب کمزور کر دیتی ہے۔ اُس کے مضمون کی قیمت تمہیں اپنی زندگی سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ سرو سے رعنائی کا ذوق چھین لیتا ہے اور اُس کی سرد آہ شاہین کو چڑیا بنا دیتی ہے۔ وہ مچھلی ہے جو سینے سے اوپر انسان کی صورت میں ہے اور پانی میں بنات البحر کی طرح جہازرانوں کو بے راہ کر کے اُن کی کشتی غرق کر دیتا ہے۔ اُس کے نغمے دلوں سے استقلال چرا لیتے ہیں۔ اُس کے جادو سے تم موت کو زندگی سمجھنے لگتے ہو۔ وہ تمہاری روح سے جینے کی آرزو نکال کر تمہاری کان کو لعلِ سرخ سے محروم کر دیتا ہے۔ چونکہ وہ نفع کو نقصان قرار دیتا ہے اس لیے ہر ناخوب کو خوب کر دیتا ہے۔ وہ تمہیں وسوسوں کے سمندر میں ڈال کر عمل سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کے کلام سے دلوں کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔ اُس کے جام کی گردش پوری محفل کو بیمار کر دیتی ہے۔ اس کا بادل بجلی سے خالی ہے۔ اس کا باغ رنگ و بو کے سراب کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے حسن کو سچائی سے سروکار نہیں ہے۔ اس کے سمندر کے تمام موتی عیب دار ہیں۔ وہ نیند کو بیداری سے بہتر قرار دیتا ہے۔ اس کی سانسوں سے ہماری آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اس کی بلبل کے نغمے دلوں میں زہر بھر دیتے ہیں۔ اس کے پھولوں کے انبار میں سانپ سویا ہوا ہے۔ اُس کے خُم، مینا اور جام سے خدا محفوظ رکھے! اُس کی بہترین شراب سے خدا محفوظ رکھے! اے کہ تم اُس کی شراب پی کر گرے پڑے ہو، تمہاری صبح اُسی کی صراحی کے مشرق سے طلوع ہوئی ہے۔ اے کہ تمہارا دل اُس کے نغموں کی وجہ سے مردہ ہو چکا ہے، تمہیں کان کے راستے زہر دیا گیا ہے۔ اے کہ تمہارا انداز زوال کا ثبوت ہے کہ تمہارے ساز کے تار نغمہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے! تن آسانی کی وجہ سے تم اتنے کمزور ہو چکے ہو کہ دنیا میں مسلمان کے لیے باعثِ شرم ہو۔ تمہیں رگِ گل سے باندھا جا سکتا ہے اور بادِ صبا کے جھونکے سے زخمی کیا جا سکتا ہے! عشق تمہاری آہ و زاری سے رُسوا ہو گیا ہے۔ تمہاری مصوری سے اُس کی صورت بگڑ گئی ہے۔ تمہاری بیماری سے اُس کے رخسار زرد پڑ چکے ہیں۔ تمہاری بے حسی نے اُس کی تپش ختم کر دی ہے۔ تمہارے زخموں سے وہ چھلنی ہو چکا ہے۔ تمہاری کمزوری سے وہ کمزور پڑ چکا ہے۔ اب اُس کے پیالے میں صرف بچوں کی طرح رونا ہے۔ اُس کی کل پونجی آہیں بھرنے کی زحمت ہے۔ میخانوں کی بھیک سے وہ مست ہے اور دوسروں کے گھروں کے روشن دان سے جلوے چراتا ہے۔ وہ ناخوش، افسردہ اور آزردہ ہے۔ دربان کی مار پیٹ سے نیم جاں ہوا جا رہا ہے۔ غموں نے اُسے بانس کی طرح دبلا کر دیا ہے اور اُس کے لب پر ہمیشہ قسمت کی شکایتیں ہوتی ہیں۔ خوشامد اور کینہ اُس کے آئینے کا جوہر ہیں۔ کمزوری اُس کی جگری دوست ہے۔ وہ بدنصیب ہے، محتاج اور ناکام رہتا ہے اور ہمسائے کی نیند بھی غارت کرتا ہے۔ افسوس ہے ایسے عشق پر جس کی آگ بجھ چکی ہو، جو حرم میں پیدا ہوا اور بتخانے میں مرا! اے کہ تمہاری جیب میں شاعری کی دولت ہے، اُسے زندگی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو! روشن پہلو پر نظر رکھنے والی سوچ عمل کی پیشرو بنتی ہے جیسے بادل کے گرجنے سے پہلے بجلی کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ ادب میں نیک سوچ کی ضرورت ہے، اب عرب کی طرف لوٹنا چاہیے، عربی ادب کی معشوقہ سلمیٰ کو دل دینا چاہیے تاکہ کرد کی شام سے حجاز کی صبح پھوٹے! تم نے عجم کے چمن زاروں سے پھول چنے ہیں، ہندوستان اور ایران کی بہار دیکھی ہے، اب ذرا صحرائے عرب کی گرمی بھی چکھو، کھجور کی پرانی شراب بھی چکھ کر دیکھو! ذرا صحرا کی آغوش میں چھپ کر دیکھو، اپنے جسم کو صحرا کی ہوا کے حوالے کر کے دیکھو! بڑی مدت تک ریشمی لباس میں رہے ہو، اب ذرا کھردرا کپڑا پہننے کی عادت بھی ڈالو! تم نے صدیوں لالے کی پتیوں پر رقص کیا اور پھول کی طرح اپنے رخسار کو شبنم سے دھویا ہے، اب اپنے آپ کو تپتی ریت پرلاؤ اور زمزم کے چشمے میں ڈوب کر بھی دیکھو! بلبل کی طرح رونے کا ذوق کب تک؟ چمن زاروں میں نشیمن کب تک؟ اے کہ تمہاری قید میں آ کر ہما کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے، بلند پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانہ بناؤ، وہ آشیانہ کہ بجلی اور کڑک اُس کے ساتھ ہوں اور وہ عقابوں کے نشیمن سے بھی بلند ہو تاکہ تم زندگی کی کشمکش کے قابل ہو سکو! تمہارے جسم و جاں زندگی کی آگ سے جل اُٹھیں!۴۲ ۵۶ مثنوی اَسرارِ خودی یعنی حقائق حیاتِ فردیہ ڈاکٹر شیخ محمدؐ اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور بفرمائش شیخ مبارک علی، تاجر کتب اندرون لاہوری گیٹ لاہور دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جُستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست مولیٰنا جلال الدین رومیؔؒ ۴۳ ۷۸۶ دیباچہ اِس مثنوی کی پہلی ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ اِس دوسری ایڈیشن میں جو اَب ناظرین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے بعض بعض جگہ لفظی ترمیم ہے بعض جگہ اشعار کی ترکیب میں فرق ہے اور ایک آدھ جگہ تشریحِ مطالب کے لئے اشعار کا اضافہ ہے لیکن سب سے بڑی ترمیم یہ ہے کہ اِس ایڈیشن سے وہ اَشعار خارج کر دئیے گئے ہیں جو خواجہ حافظ پر لکھے گئے تھے۔ اگرچہ ان سے محض ایک ادبی نصب العین کی تنقید مقصود تھی اور خواجہ حافظ کی شخصیت سے کوئی سروکار نہ تھا تاہم اِس خیال سے کہ یہ طرزِ زبان اکثر احباب کو ناگوار ہے میں نے ان اشعار کو نکال کر ان کی جگہ نئے اشعار لکھ دئیے ہیں جن میں اُس اصول پر بحث کی ہے جس کی رُو سے میرے نزدیک کسی قوم کے لٹریچر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ پہلی ایڈیشن کے اُردو دیباچے کی اشاعت بھی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ محمدؐ اقبال ۵۷ دیباچے سے اگلے صفحے پر سب سے اوپر ’’ھُوْ‘‘ لکھا گیا تھا۔ اس کے نیچے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ ۔ پھر عنوان ’تمہید‘ کے بعد اَشعار سے پہلے نظیری نیشاپوری کا ’’منبر نہ شود دار کنم‘‘ والا شعر درج تھا۔ خواجہ حافظ والے اَشعار کے نکلنے پر متعلقہ باب کا عنوان بھی بدل گیا تھا: ’دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی کہ تصوف و ادبیات اقوامِ اسلامیہ از افکارِ او اثر ِعظیم پذیرفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ است و از تخیلاتِ او احتراز واجب است‘۔ وہ اَشعار بھی خارج ہوئے جن میں منصور حلاج کی تعریف کی گئی تھی۔فہرست اب بھی شامل نہ کی گئی۔ آخری باب کے خاتمے پر پہلے کی طرح ’’تمّت‘‘ لکھا گیا۔ ۱۳۳ صفحات تھے۔ پچھلی طرف کے سرورق کو صفحات میں شمار کرتے ہوئے ’’۱۳۴‘‘ درج تھا۔ نیچے وہی اعلان جو پہلے ایڈیشن پر بھی تھا: اطلاع (بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ئ) مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ لہٰذا کوئی صاحب قصدِ طبع نکریں۔ (مصنف) اس کے نیچے انگریزی میں اقبال کے دستخط تھے۔ بیرسٹر ایٹ لأ لاہور بھی انگریزی میں اپنے قلم سے لکھا تھا۔ یہ اڈیشن اسی برس کے نصف آخر میں کسی وقت شائع ہوا۔ طباعت راجپوت سٹیم پریس میں ہوئی تھی جس کے مالک سردار کرم سنگھ تھے۔۴۴ ۵۸ گوئٹے کا وطن نقصان اٹھا رہا تھا۔ اقبال نے آٹھ برس پہلے اپنی نوٹ بک میں لکھا تھا کہ جرمنی کی اصل تقدیر علوم کی تنظیم کرنا ہے۔ استعماری عزائم اسے تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ ہارتے ہوئے جرمنی کی روح نے جو شعلہ پیدا کیا وہ آسولڈ اسپنگلر کی کتاب تھی۔Untergang des Abendlandesیعنی زوالِ مغرب یا The Decline of the West کی پہلی جلد اِس برس موسمِ گرما میں شائع ہوئی۔ اسپنگلر نے دانشوروں کی اصطلاحات سے پیچھا چھڑایا۔ سیدھے سادے الفاظ میں لکھا کہ ہر تہذیب چار مدارج سے گزر کر ختم ہوتی تھی: ۱ بہار ۲ گرما ۳ خزاں ۴ سرما تاریخ میں آٹھ بڑی ثقافتیں نمودار ہوئی تھیں: ہندوستانی، بابلی، مصری، چینی، میکسیکن (مایا-ازٹک)، عرب (مجوسی)، کلاسیکی (یونانی و رومی) اور یورپی یعنی مغربی جس میں امریکہ بھی شامل تھا۔ ہر تہذیب کی ایک بنیادی علامت ہوا کرتی تھی۔ موجودہ مغربی تہذیب کی علامت فاؤسٹ کی روح تھی۔ لامحدود کی طرف پرواز کے لیے پر تولے ہوئے، یہ جانتے ہوئے کہ اُسے حاصل نہ کر سکے گی۔ اپنے مدارج پورے کر کے اَب اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسپنگلر نے اپنا فلسفۂ تاریخ گوئٹے اور نیٹشے سے اخذ کیا تھا۔ تاریخ کو تقدیر کا علم سمجھتا تھا۔ خامی یہ تھی کہ انسانی وحدت تک نہ پہنچا۔ باغ سے اُگنے والے درختوں کی طرح اُسے ہر ثقافت اپنی مٹی ہی سے غذا حاصل کر کے رنگ روپ دکھاتی نظر آئی۔ تہذیبوں کا ایک دوسرے سے سیکھنا اور مر کر دوبارہ پیدا ہونا اُس کی گرفت میں نہ آیا۔۴۵ ۵۹ اخبار وکیل امرتسر سے معلوم ہوا کہ کسی انگریزی اخبار نے مدینہ منورہ کی سخت توہین کی ہے۔۴۶ ۶۰ ۱۱ اگست کی شام سیالکوٹ میں شیخ نورمحمد کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کرتے ہوئے جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھاکہنے لگے، ’’معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے۔‘‘ اس خیال سے اتنے متاثر ہوئے کہ قریباً بیہوش ہو گئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ سیالکوٹ میں اکبرؔا لٰہ آبادی کا خط لاہور سے ہوتا ہوا پہنچا۔ لکھا تھا کہ لاکھ کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف۔مولوی ممتاز علی کے رسالے تہذیبِ نسواں سے ناراض تھے۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اگست کے آخر تک سیالکوٹ میں رہنے کا ارادہ ہے۔ پرسوں شام والا شیخ نورمحمد کا واقعہ لکھا، ’’یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرق سے ہی مل سکتے ہیں یورپ کی درسگاہوں میں ان کا نشان نہیں۔‘‘ سید ممتاز علی کا رسالہ تہذیبِ نسواں جسے اقبال تخریبِ نسواں سمجھتے تھے ، ’’اُس کا بہترین جواب خاموشی ہے۔ تردید کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ پرچہ قدیم اسلامی شعائر کو بنگاہِ حقارت دیکھتا ہے گو ابھی صاف لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘ اخبار وکیل والی خبر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’’کمزوروں کے پاس سوائے بددعا کے اور کیا ہے۔‘‘ ۶۱ کلکتہ کے مسلمان کوئی جلسہ کر رہے تھے۔ چھپا ہوا دعوتی خط اقبال کو بھی بھیجا۔ تیار ہو گئے مگر خط کا مضمون شیخ نور محمد کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ حکام غالباً یہ جلسہ بند کروا دیں گے۔ اقبال نے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔۴۷ ۶۲ سہ پہر کا وقت تھا۔ اقبال منزل میں میاں جی کے کمرے کے باہر تخت پوش پر میاں جی اور اقبال باتیں کر رہے تھے۔ قریب ہی باورچی خانہ میں عورتیں رات کے کھانے کے اہتمام میں مشغول تھیں۔ اقبال نے آواز دے کر اعجاز کو حقے کی چلم بھرنے کے لیے کہا۔چونکہ میاں جی کے لیے حقے کی چلم اعجاز کی والدہ یعنی اقبال کی ’’بھابھی جی‘‘ خود بھرتی تھیں، اس لیے اعجاز نے چولہے کے پاس جا کر چلم انہی کے حوالے کر دی۔ ’’اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’چچا جان دھاڑ رہے تھے، ’کمبخت احمق آدمی۔ میں نے چلم تمہیں بھرنے کو کہا تھا۔ تم نے چلم بھرنے کے لیے بھابھی جی کو دے دی ہے۔‘ میں تو اِس غیرمتوقع برہمیٔ مزاج کی وجہ نہ سمجھ کر مبہوت ہو گیا لیکن پھوپھی کریم بی بی ان کے برہم ہونے کی وجہ سمجھ کر بولیں، ’میاں جی کو اور کسی کی چلم بھری ہوئی پسند نہیں آتی۔‘ بارے اِس وضاحت سے میری صفائی ہو گئی اور چچا جان کا غصہ فرو ہو گیا۔ میں ڈانٹ کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد چچا جان غالباً تلافیٔ مافات کے لیے میرے کمرے میں تشریف لے آئے۔‘‘ اعجاز کا بیان ہے کہ اقبال نے کہا، ’’بھابھی جی میرے لڑکپن میں اِس گھر میں بیاہ کر آئی تھیں۔ میں شاید چوتھی جماعت میں تھا۔ انہوں نے مجھے بیٹوں کی طرح پالا اور میرے لیے وہ بے جی کی جگہ ہیں۔ میں اُن سے اپنے لیے حقہ کی چلم نہیں بھروا سکتا۔‘‘ اس کے بعد اقبال نے اپنے بچپن کا وہ واقعہ سنایا جب نیند میں چلتے ہوئے اسکول جانے کے لیے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے تھے۔۴۸ ۶۳ شیخ عبدالقادر کے تبصرہ ’رموزِ بیخودی‘ کو مخزن کے ستمبر ۱۹۱۸ء کے شمارے میں شائع کرتے ہوئے مدیر مولانا تاجور نجیب آبادی نے جو شذرہ لکھا اُس میں بھی ’’علامۂ اقبال‘‘ کی ترکیب موجود تھی جسے ظفر علی خاں ستارۂ صبح میں استعمال کرتے تھے۔ ممکن ہے اور لوگوں نے بھی اقبال کے لیے یہ لقب استعمال کرنا شروع کر دیا ہو۔ ’رموزِ بیخودی‘ از عبدالقادر [اقتباس] مخزن کے نامور بانی جناب شیخ عبدالقادر صاحب بی اے نے علامۂ اقبال کی مشہور مثنوی ’’رموز بیخودی‘‘ پر تنقید لکھی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ شیخ صاحب موصوف کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس قدر عرصے کے بعد مخزن کی طرف توجہ مبذول فرمائی یا علامۂ اقبال کے ممنون ہوں۔ جنہوں نے مثنوی لکھی۔۔۔ (تاجورؔ) اگر صرف دو مثنویوں کے ناموں کو سرسری طور سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حضرتِ اقبال نے اضداد کے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ نکتہ چینی زبانِ قلم سے بے اختیار نکلنے کو ہوتی ہے کہ پہلے تو ملّتِ اسلامی کو پیغام دیا کہ اس کا ہر فرد خودداری سیکھے اور حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد زیست کے میدان میں مردانہ کارزار کے لیے تیار ہو۔ اور پھر دوسری کتاب میں خود ہی خودی سے بیگانہ بن کر وہی بیخودی کا جادۂ فرسودہ اختیار کر لیا۔ لیکن جب ’’رموز بیخودی‘‘ کو غور سے پڑھیں تو یہ اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ اوّل تو یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مصنّف نے ’’رموز بیخودی‘‘ میں اُن اُصول سے بالکل انحراف نہیں کیا۔ جو ’’اسرار خودی‘‘ میں اصول زندگی قرار دئیے گئے تھے۔ اور دوسرے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں افراد کے لیے خودی اور خودداری ذریعۂ استواری ہے۔ وہیں افراد کا اپنی ہستی ہستیٔ قوم میں محو کر دینا اور اپنی انفرادی زندگی کے جزو کو قومی زندگی کے کُل میں شامل کر دینا قومی ترقی کے لیے لازم ہے اور اس کو بیخودی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا یہ وہ بیخودی ہے جو خودداری اور خودشناسی کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اور جو فرد و قوم دونوں کے لیے عین نفع ہے۔ اِس مثنوی میں یہ مضمون کس خوبی سے ادا ہوا ہے۔۔۔ مخزن، ستمبر ۱۹۱۸ء مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ از اِدارہ رسالہ صوفی [اقتباس] ہماری یہ رائے ہے کہ ہر ایک مدرسہ یا کالج کے فارسی کورس میں اِس مثنوی کو ضرور داخل کیا جائے۔ وہ اہلِ تصوّف صاحبِ دل جو مثنوی شریف [مثنوی مولانا روم]، دیوانِ حافظ وغیرہ سے لذّت حاصل کر چکے ہیں اب ’رموزِ بیخودی‘ سے درسِ عمل حاصل کریں۔ اِس میں اَنانیت کی تعلیم نہیں ہے بلکہ قومی اَنا کا راز بتایا گیا ہے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ تم اَنا بشر مثلکم کہنے والے کی اُمت ہو۔ اِس میں سمجھا دیا گیا ہے کہ علم الحیات اور عمرانیات کا دَرس کس طرح اور کہاں سے لینا چاہیے۔ حیاتِ ملیہ کی جلبِ منفعت، دفعِ مضرت کا تمام سامان فراہم کر دیا ہے۔ افرادِ قوم کو ایک آئینِ مسلم کے تحت میں لا کر یہ بتایا گیا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سعیٔ عمل کے ثمرات میں کس قدر جلی تبائن [ہے] اور تناقص نہ ہے۔ صوفی (منڈی بہأالدین)، ستمبر۱۹۱۸ء ۶۴ ۹ ستمبر کو سیالکوٹ سے لاہور واپس آئے مگر ترشی کے زیادہ استعمال سے دانت میں سخت درد ہو گیا جس نے کئی دن بے قرار رکھا۔ کلکتہ والا جلسہ واقعی حکام نے بند کروا یااور وہاں فسادات شروع ہو گئے۔۴۹ ۶۵ اخبار الخیل میں کسی کا ایک شعر پسند آیا کہ رات کو جب اس کی ہم آغوشی کی یاد آتی ہے تو میں خود اپنے آپ کو بھینچ کر فریاد کر لیتا ہوں: شب چو اندازِ ہم آغوشیِ اُو یاد کنم خویش را تنگ بر گیرم و فریاد کنم۵۰ ۶۶ معارف میں روس کے مسلمانوں کے بارے میں مضمون شائع ہوا۔اقبال نے سلیمان ندوی کو لکھا کہ مضمون کو علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع ہونا چاہیے۔ رموزِ بیخودی کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کی فرمائش دہرائی۔ دساتیر کے حوالے اکتوبر میں اورینٹل کالج کا کتب خانہ کھلنے کے بعد دستیاب ہو ئے تو بھیج دئیے جائیں گے۔۵۱ اسی یا کسی دوسرے شمارے میں کسی ہندو شاعر کا فارسی شعر نظر سے گزرا کہ تمہاری شرم سے باغ کا رنگ اس طرح اڑ رہا ہے کہ تارِ نظر سے ہوا میں گلدستے بندھ رہے ہیں: بسکہ از شرمِ تو در پرواز رنگِ گلشن است رشتۂ نظارہ بندد در ہوا گلدستہ را۵۲ ۱۴ ستمبر کوکلکتہ کے فسادات کی مزید خبریں نظر سے گزریں۔ اخبار زمانہ میں ’اسرارِ خودی‘ پر تبصرہ چھپا تھا۔ اس میں اکبرؔ الٰہ آبادی کے اشعار ’’جب علم ہی عاشقِ دنیا ہوا‘‘ کو اقبال نے کئی بار پڑھا۔ کسی دوسرے کا مصرع بھی جو اکبرؔ نے استعمال کیا تھا ’’یہ صلحِ کل فقیری فقر یا شاہی لطیفہ ہے‘‘ انہیں بہت پسند آیا۔ اُسی روز اکبرؔ کا خط بھی آگیا۔ ’’ابھی تو مسلمانوں کو اور ان کے لٹریچر کو آپ کی سخت ضرورت ہے،‘‘ اقبال نے فوراً جواب میں لکھا اور تفصیل سے اپنا حال بھی بیان کیا۔ عبدالرحمٰن بجنوری کے تبصرے کی تعریف کی کہ نہایت قابلیت سے لکھا ہے، اگراس کی کوئی کاپی مل گئی تو اکبرؔ کو بھیجیں گے۔ ۶۷ اسلامی دنیا کی پہلی پارلیمانی جمہوریت اُس کے وطن میں قائم ہوئی جس نے لیلیٰ مجنوں کی داستان لکھی تھی۔ ترکی کی مشرقی سرحدوں سے کچھ پرے آذربائیجان میں نظامی گنجوی کا مزار تھا۔ اِسی چھوٹی سی ریاست کے شہر باکو میں تیل کے ذخائر موجود تھے جن کی وجہ سے انگریزوں کی کوشش تھی کہ وہاں کے ارمنی اور رُوسی عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسا کر یہ ذخائر ترکوں کے قبضے میں جانے سے بچا لیے جائیں۔ ۱۵ ستمبر کو ترک وہاں پہنچ گئے۔ انگریزوں کے ارادے کامیاب نہ ہو سکے۔۵۳ ۶۸ سیرت النبیؐ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ سید سلیمان ندوی نے شبلی کے مسودے سے ترتیب دی تھی۔ ابتدائی زمانے سے موجودہ عہد تک سیرۃ کی تدوین جن مراحل سے گزری تھی ان کا گہرا تجزیہ موجود تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غزوات کے اختتام تک بیان کی گئی تھی۔ بقیہ سیرت اور اہم موضوعات پر بحث آئندہ جلدوں میں پیش ہونی تھی۔ کسی شبہے کے بغیر کہا جا سکتا تھا کہ سیرت النبیؐ کے موضوع پر ایسی جامع تحقیق اور فکرانگیز تجزیوں پر مشتمل کتاب دنیا کی کسی زبان اور تاریخ کے کسی عہد میں کبھی نہ لکھی گئی تھی۔ چالیس پینتالیس برس پہلے سر سید احمد خاں کی خطباتِ احمدیہؐ سے جو کام شروع ہوا اُس کی تکمیل تھی۔ شبلی نعمانی خود زندہ رہتے تو شاید کتاب کی صورت مزید بہتر ہوتی۔ شبلی نے دیباچے میں لکھا تھا کہ جن معجزات کا زمانہ معلوم ہے، مثلاً واقعۂ معراج، انہیں معجزات کی جلد میں علیحدہ لکھنے کی بجائے مسلسل سیرت کے واقعات ہی میں جگہ دے رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی تکمیل کی ہوئی جلد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں معراج کا ذکر ہی نہ ہوا اور اس موضوع کو کسی آیندہ جلد کے لیے اٹھا رکھا گیا جہاں علیحدہ سے معجزات پر بحث ہونی تھی۔ شبلی نے سیرت کے اہم واقعات کا تجزیہ اس طرح کیا تھا کہ اگر آج مسلمان اپنے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا چاہیں یا ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ رہنمائی کرے۔ نمایاں مثال مواخات کا بیان تھا۔ ہجرت کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ شبلی نے محض یہ واقعہ بیان نہیں کیا بلکہ اگر آیندہ کبھی ایک مسلمان معاشرہ یہی واقعہ دہرانا چاہے تو اُسے جن نکات کو سامنے رکھنا ہو گا شبلی نے واقعے کا تجزیہ کر کے وہ پیش کر دیے: ۱ انصار نے اِیثار سے کام لیا مگر مہاجرین نے بھی خودداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بلاوجہ اپنے مددگار بھائیوں پر بوجھ نہ بنے بلکہ محنت کر کے نئے شہر کی معیشت میں اپنا کردار نبھایا۔ ۲ مواخات کا رشتہ اگرچہ ایک عارضی ضرورت کے تحت قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے زیادہ وسیع پہلو بھی تھے۔ اس کے نتائج ملتِ اسلامیہ کے لیے بہت دُور رَس ثابت ہوئے۔ ۳ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ کسی شخص کو کسی کا بھائی بنائیں تو دونوں کے مزاج میں موافقت بھی موجود ہو۔ اِتنے کم عرصے میں اِتنے سارے لوگوں کے مزاجوں سے ایسی گہری واقفیت حاصل کر لینا شانِ نبوت کی خصوصیات ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ۶۹ اقبال کسی ضروری کام سے شملہ گئے جہاں سلیمان ندوی بھی آئے ہوئے تھے۔ ملاقات نہ ہو سکی۔ البتہ رات کو سید سلیمان ندوی کی مرتب کی ہوئی شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐمطالعے میں رہی۔۳۰ ستمبر کو لاہور واپس آگئے۔۵۴ ۷۰ دمشق کی سڑکوں پر عرب ترکوں کو ذبح کر رہے تھے۔ میجر لارنس بکتربند گاڑی میں گزرا تو ایک عرب نے اپنا عمامہ لہرا کر کہا، ’’دمشق آپ کو سلام کرتا ہے!‘‘ یکم اکتوبر تھی۔ لارنس کی رہنمائی میں شریفِ مکہ کے بیٹے فیصل نے ترکوں کو شکست دے کر دمشق فتح کیا تھا۔ فیصل کو شام کی بادشاہت کا لالچ دیا گیا تھا۔ وہاں سے کچھ دُور رِیاق میں جرمن جنرل وان سانڈرز اور برگیڈئر مصطفی کمال پاشا اپنے سپاہیوں کو عرب علاقوں سے سلامتی کے ساتھ واپس لے جانے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ ۷۱ سلیمان ندوی نے ’رموزِ بیخودی‘ کی لغزشیں تفصیل سے لکھ کر بھیجی تھیں۔۳ اکتوبر کو اُن کا شکریہ کرتے ہوئے اُن پر اپنی رائے اور سوالات بھی لکھے۔ اصولِ تشبیہ کے متعلق اقبال کا خیال تھا کہ بیدل اور غنی کشمیری کا طریقہ اگرچہ کتبِ بلاغت کے خلاف تھا مگر تخیل کے عمل کی رُو سے صحیح معلوم ہوتا تھا۔ جدید مغربی ادب میں بھی یہی روش چل رہی تھی۔ سلیمان ندوی نے جن تراکیب کو لغزش کہا تھا ان میں سے بعض کے استعمال کے بارے میں اساتذہ کے کلام میں مثالیں موجود تھیں۔ ’’اس خیال سے کہ آپ کا وقت ضائع ہو گا نظرانداز کرتا ہوں البتہ اگر آپ اجازت دیں تو لکھوں گا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو انتخاب نہیں کیں۔‘‘ بعض اعتراضات سمجھ میں نہیں آئے تھے، ان کی وضاحت چاہی۔ آخر میں لکھا، ’’بعض خیالات زمانۂ حال کے فلسفیانہ نقطۂ نظر کا نتیجہ ہیں ان کے ادا کرنے کے لیے قدیم فارسی اسلوبِ بیان سے مدد نہیں ملتی۔ بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے اس واسطے مجبوراً ترکیب اختراع کرنی پڑتی ہے جو ضروری ہے کہ اہلِ زبان کو ناگوار ہو کہ دل اس سے مانوس نہیں ہیں۔ بعض اشعار کے لکھنے میں تو مجھے اس قدر روحانی تکلیف ہوئی کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ کاش چند روز کے لیے آپ سے ملاقات ہوتی۔‘‘ ۷۲ ایسٹ اینڈ ویسٹ والوں نے مثنویوں پر بجنوری کے تبصرے کی کاپیاں الگ شائع کیں اور اُنہوں نے چند کاپیاں اقبال کو بھی ارسال کر دیں۔۵۵ ۷۳ گرامی نے ہوشیارپور کے کسی جاننے والے شیخ محمد اقبال کو اقبال کے پاس دستی خط کے ساتھ بھیجا کہ مراقبہ کریں کہ اِنہیں دکن کی خاک جذب کرے گی یا پنجاب کی۔کچھ اشعار بھی بھیجے۔ اُنہی دنوں نیازالدین خاں کے لڑکے کے بھیجے ہوئے کبوتر بھی پہنچ گئے۔ ۷۴ ۱۲ اکتوبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔لاہور میں بخار کی وبا کا ذکر سن کر وہ بھی پریشان ہوئے تھے اور گرامی بھی جو لاہورآنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ نیازالدین خاں نے شاید اقبال کو احتیاطاً کونین کے استعمال کا مشورہ بھی دیا۔ ’’گرامی مسلم ہے اور مسلم تودۂ خاک نہیں کہ خاک اُسے جذب کرے،‘‘ اُس روز اقبال نے گرامی کو اپنے مراقبے میں ہونے والا انکشاف لکھا جو ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کے فلسفے سے مختلف نہیں تھا۔ ’’یہ ایک قوۃِ نورانیہ ہے کہ جامع ہے جواہرِ موسویت و ابراہیمیت کی۔ آگ اِسے چھو جائے تو بَرد و سلام بن جائے۔ پانی اِس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ آسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکی کہ یہ دونوں ہستیاں اِس میں سمائی ہوئی ہیں۔‘‘ جو قوت متضاد خصوصیات کو جذب کر کے نباہ لیتی ہو اُس کی قوتِ حیات موت کو اپنے اندر جذب کر کے زندگی اور موت کا تفرقہ ختم کر چکی ہے۔ اس کی مثال میں خدا کے رسولؐ کا واقعہ لکھا کہ نضیر نامی ایک شخص ہجرت سے پہلے آپؐ کو تکلیف دیتا تھا۔ فتحِ مکہ کے بعد اس کے قتل کا حکم دیا اور حضرت علیؓ نے تعمیل کر دی۔ آپؐ کی آنکھ اس دردانگیز منظر سے متاثر نہ ہوئی مگر جب نضیرکی لڑکی روتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں دردانگیز اشعار پڑھتی ہوئی آئی تو آپ ؐ بھی رونے لگے یہاں تک کہ ہمدردی میں آہ بھری، نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا، ’’یہ فعل محمدالرسول اللہ کا ہے‘‘ اور پھر اپنی روتی ہوئی آنکھ پر انگلی رکھ کر کہا، ’’یہ فعل محمد بن عبداللہ کا ہے۔‘‘ اس کے بعد حکم فرمایا کہ کوئی شخص مکّہ میں قتل نہ کیا جائے گا۔ واقعہ درج کر کے لکھا کہ جس طرح مسلمان قہر اور محبت کے متضاد جذبات کو اپنے دل کی حرات سے تحلیل کر لیتا ہے اُسی طرح کائنات کی متضاد قوتوں کو بھی تحلیل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر وہ کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے، البتہ زمان و مکان کی دنیا میں صرف ایک ریگستان ہے جو اُسے جذب کر سکتا ہے کیونکہ کبھی خدا کے رسولؐ کے قدموں نے اس ریگستان کو چھوا تھا۔ اپنے ہم نام شیخ محمد اقبال کے بارے میں لکھا کہ وہ جب چاہیں آ سکتے ہیں اوراگر اقبال کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ مسلمانوں کا مال ہے۔ گرامی جب تک لاہور نہیں آئیں گے اشعار کی داد نہیں ملے گی۔’’بخار لاہور میں ہر سال ہوتا ہے۔ اب کے سال نسبتاً کم ہے۔‘‘ اس کے بعد نیازالدین خاں کو کبوتروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اگر مثنویوں پربجنوری کا تبصرہ نظر سے نہ گزرا ہو تو بتائیں تاکہ بھیج دیا جائے۔ ’’کونین کا استعمال میں نے کبھی نہیں کیا سوائے حالتِ بخار کے اورتب بھی نہایت کراہت کے ساتھ۔‘‘ ۷۵ گورنمنٹ کالج لاہور میں مزاحیہ شاعری کا مقابلہ ہوا۔ ایف اے کے طالب علم ریاض قریشی نے پنڈت ہری چند کی نظم کی پیروڈی سنائی: کہا تھوڑی سی مے پی لوں، کہا تھوڑی سی مے پی لو کہا قرآن کا ڈر ہے، کہا قرآن تو ہو گا کہا میں جھوٹ بھی بولوں، کہا تم جھوٹ بھی بولو کہا ایمان کا ڈر ہے، کہا ایمان تو ہو گا روایت ہے کہ اقبال صدارت کر رہے تھے اور ریاض قریشی کو بری شاعری (bad poetry) کا پہلا انعام دیا۔۵۶ ۷۶ بخار میں مبتلا ہوئے اور کئی دن رہے۔ سلیمان ندوی کا پہلے ایک خط اورپھر دوسرا موصول ہوا ۔ کئی دن جواب نہ دے سکے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خواب میں دیکھنے کے واقعے پر لکھا تھا کہ ان کے راستے سے مٹی چننا مبہم بات ہے جس سے مقصد واضح نہیں ہوتا۔ ایک جگہ لفظ ’’کلِمہ‘‘ کو اقبال نے کلْمہ کے وزن پر باندھا تھا جو عربی تلفظ کے اعتبار سے غلط تھا۔ اورنگزیب اور شیر والے قصے کے بعض اشعار پربھی انہیں زبان اور قوعد کی رُو سے کچھ اعتراض تھے۔کل ۱۹ مقامات پر لغزشوں کی نشاندہی کی تھی۔ اقبال کو خیال تھا کہ ٹیک چند بہارؔ کی اِبطالِ ضرورت میں انہوں نے پڑھا تھا کہ بہت سے الفاظ جن کو زیر زبر کے ساتھ اور بغیر دونوں طرح استادوں نے استعمال کیا ہے ان میں کلمہ بھی شامل ہے مگر یہ کتاب ان کے پاس لاہور میں موجود نہ تھی۔۵۷ ۷۷ ’’جس توجہ سے آپ نے تنقیدی خطوط لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی اس کے لیے نہایت شکرگزار ہوں،‘‘ بخار اترنے کے بعد ۲۳ اکتوبر کو سلیمان ندوی کو جواب میں لکھا اور جن لغزشوں کی انہوں نے نشاندہی کی تھی ان میں سے بعض پر بحث کی۔ صائبؔ اور مخلصؔ کاشی کے اشعار سے سند بھی دی۔ ۷۸ امرتسر سے پرچہ اہل حدیث نکلتا تھا۔ ۲۵ اکتوبر کی اشاعت میں اقبال کے بچپن کے دوست مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی نے لکھا کہ اقبال کی نظم ’صدیق‘ کا آخری مصرعہ خلافِ واقعہ ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اکرمؐ کے استفسار کرنے پر فرمایا تھا کہ گھر والوں کے لیے خدا اور اُس کے رسولؐ کا نام ہے جبکہ اقبال نے لکھا: ’’صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۔‘‘ یہ مصرعہ اصل قول کے مطابق ہو جائے اگر یوں کر دیا جائے: ’’صدیق کے لیے ہیں خدا و رسولؐ بس‘‘۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے مولانا صاحب کے اِس مصرع کو تو روایت کے مطابق صحیح تسلیم کیا،‘‘ محمد دین فوق کا بیان ہے۔ ’’لیکن فرمایا، ’مولوی صاحب یہی بات مجھے براہِ راست لکھ دیتے تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘‘۵۸ اورنگزیب والے قصے کے اشعار پر سلیمان ندوی نے جو لکھا تھا اس سے اسلامیہ کالج کے پروفیسر مولوی اصغر علی روحی کو اتفاق نہیں تھا مگر اِن کی پیش کی ہوئی اسناد سے اقبال کی تسلی نہیں ہوئی۔۵۹ ۷۹ لاہور میں انفلوئنزا کا ایسا زور ہوا تھا کہ ہر روز قریباً ڈھائی سو لوگ مر رہے تھے۔ لاعلاج مرض تھا۔ صحیح دوا دریافت نہیں ہوئی تھی اور پھر مریض سے ڈاکٹر کو لگنے والی بیماری تھی۔ عام طور پر جو دوائیں دی جاتی تھیں وہ بھی ملنا دشوار ہو گئیں۔ امرتسر میں بھی یہی کیفیت تھی۔ کہتے تھے دارچینی کا استعمال مفیدہے، روز تین چار بار قہوہ پینا چاہئے۔ مسلمان زیادہ شکار ہو رہے تھے۔ گورکن ملنا دشوار ہو گیا۔ ۸۰ نواب سر ذوالفقار علی خاں وبا سے بچنے شملہ چلے گئے۔ ۶۰ ۸۱ زمانہ (کانپور) میں’اُردو شاعری اور شعرائے حال‘ کے عنوان سے مدیر دیانرائن نگم کے مضامین کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی اور اقبال کوآسمانِ شاعری کے سب سے روشن ستارے قرار دیا تھا۔ اس میں شامل اکبرؔ کے بعض اشعار لاہور چیف کورٹ کے بار روم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے۔ انہی دنوں اقبال کو اکبرؔ کا خط بھی موصول ہوا مگر دو تین روز تک جواب نہ دے سکے۔ ’’خیر اچھا ریویو تھا مگر آپ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا،‘‘ اقبال نے ۲۸ اکتوبر کو خط کے جواب میں وبا کی تباہکاریوں کا ذکر کرنے کے بعد اخبار زمانہ والے تبصرے پر رائے دیتے ہوئے لکھا۔ ’’وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے کچھ اشعار پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا اور زندگی رہی تو انشأ اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔‘‘ معارف اور الخلیل والے دونوں فارسی اشعارخط میں بھیج دئیے۔ ۸۲ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی کے والد حافظ عطا محمد شیخ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ریاست مالیر کوٹلہ میں ملازم ہوئے تھے۔ اقبال نے سنا کہ ملازمت سے فارغ ہو کر گجرات چلے گئے ہیں۔۶۱ حافظ صاحب کے اکلوتے لڑکے غلام محمد انڈین میڈیکل سروس میں شامل ہو کر جنگ کے دوران فرانس میں رہے تھے۔ تین برس پہلے ایک فرانسیسی لڑکی ڈورس سے دوسری شادی کی تھی۔ بیماری ہی کی حالت میں وطن لوٹے تھے۔ راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال میں مقرر ہوئے۔۶۲ ۸۳ ۲۹ اکتوبر کو جالندھر سے نیازالدین خاں کا خط ملا۔ غالباً وہاں بھی وبا پھیلی تھی مگر ان کے یہاں خیریت تھی۔ اقبال نے اُسی وقت اپنے گھر میں بھی خیریت ہونے کی اطلاع نیازالدین خاں کے نام جواب میں لکھی اور لاہور میں وبا کی صورتحال ایک دفعہ پھر دہرائی۔ ’’اِس بیماری کے جراثیم تمام دنیا کی فضا میں پائے جاتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ اطبا اس کی تشخیص سے عاری ہیں۔‘‘ ۸۴ ’’اسناد حسب ِ وعدہ حاضر ہیں،‘‘ ۳۰ اکتوبر کو سلیمان ندوی کو لکھا اور ناصرؔ علی، صائبؔ، زلالیؔ، ظہوریؔ، ملا طغراؔ، بدیلؔ، معز فطرت اور رومیؔ کے علاوہ بہارِ عجم اور جواہرالترکیب سے اسناد پیش کیں۔ بعض مقامات پر سلیمان ندوی سے اتفاق کر کے اپنے اشعار میں ترمیم کر لی۔ خواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓکے راستے سے مٹی چننے کے بارے میں لکھا، ’’یہ واقعہ خواب کا ہے جو خواب میں دیکھا گیا بقیہ اسی طرح نظم کر دیا گیا۔‘‘ ۸۵ ترکی کے قریب سمندر میں برطانوی بحریہ کے جنگی جہاز میںبرطانیہ اور عثمانی سلطنت کے درمیان معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے۔ جہاز کا نام آگاممنون اُس یونانی سپہ سالار کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے قریباً تین ہزار سال پہلے ٹرائے فتح کیا تھا جو ترکی میں تھا۔ ترک اپنی سرزمین سے باہر تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائیں جن میں میسوپوٹیمیا، شام، فلسطین اور عرب شامل ہیں، درہ دانیال تمام بحری جہازوں کے لیے کھول دیا جائے اور ترکی کے اہم مقامات پر اتحادی افواج تعینات کی جائیں۔ انگریز اڈمرل کالتھروپ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ترک جلد سے جلد جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اِس لیے مجبوری کافائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔ ۳۰ اکتوبر کو عثمانی سلطنت کے وزیرِ بحریہ رؤف اُربے نے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ ’’انگریز ترک قوم کی تباہی نہیں چاہتے،‘‘ رؤف نے استنبول واپس پہنچ کر بیان دیا۔ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ دشمن کا ایک بھی سپاہی ہمارے استنبول میں قدم نہیں رکھے گا!‘‘ یکم نومبر کو برطانوی فوجیں موصل پر قبضے کے لیے بڑھیں جسے معاہدے کے لحاظ سے انگریزوں کے حوالے نہیں ہونا تھا۔ شہر میں موجود ترک افواج کے سالار نے احتجاج کیا۔ وزیراعظم عزت پاشا نے تار کے ذریعے حکم بھجوایا کہ شہر انگریزوں کے حوالے کر دیا جائے۔ ’’انگریز حکومت چاہتی تو ہمارے پورے ملک پر قبضہ کر سکتی تھی کیونکہ ہمارے پاس اُسے روکنے کے لیے کوئی افواج نہیں ہیں،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’پھر بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح انگریز اپنے ایک افسر کے ذریعے اُس وعدے سے مکر سکتے ہیں جو اُنہوں نے صرف دو دن پہلے کیا تھا!‘‘ ۸۶ نومبر کے آغاز تک لاہور میں انفلوئنزا کا زور کچھ کم ہو گیا۔ ۴ نومبر کو گرامی کا خط ملا۔ خیریت سے تھے مگر اقبال کے مراقبے والے خط کا ذکر نہیں تھا۔ ’’معلوم نہیں آپ تک پہنچا یا نہ پہنچا،‘‘ اقبال نے اُس روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’گرامی سالخوردہ ہے یعنی سالوں اور برسوں کو کھا جاتا ہے پھر بوڑھا کیونکر ہو سکتا ہے، بوڑھا تو وہ ہے جس کو سال اور برس کھا جائیں۔‘‘ ۸۷ نیازالدین خاں کے صاحبزادے کی طرف سے کبوتروں کے مزید دو جوڑے مل گئے۔۶۳ ۸۸ ۱۲ نومبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ اقبال نے اُسی روز جواب میں کبوتروں پر شکریہ ادا کیا۔ ’’انشأ اللہ ان کو حفاظت سے رکھا جائے گا اور اگر کبھی اپنے سے جدا کرنے کی ضرورت ہوئی تو آپ کی خدمت میں انہیں واپس بھیج دیا جائے گا،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’اِس عطیے کے لیے آپ کا شکریہ ہے اور مزید شکریہ اس وقت ادا کروں گا جب ان کے جوہر مجھ پر آشکار ہو جائیں گے۔‘‘ لاہور میں وبا کے بارے میں لکھا کہ اب زور نہیں رہا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مرض دُور ہو گیا۔ ۸۹ ۱۳ نومبر تھی۔ استنبول کے حیدرپاشا اسٹیشن پر جنوب سے آنے والی ریل گاڑی رکی۔ مصطفی کمال اترے۔ فوج سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ صرف ایک دوست انہیں لینے آیا۔ اسٹیشن کی خوبصورت عمارت جسے صرف دس برس پہلے جرمن معماروں نے تعمیر کیا تھا جنگ کے نشانات سے داغدار تھی۔ سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی سامنے بندرگاہ میں پچپن بحری جہازوں کا بیڑا داخل ہوتا دکھائی دیا۔ اتحادی طاقتوں کے جہاز تھے۔ روایت ہے کہ مصطفی کمال نے کہا، ’’جس طرح آئے ہیں اُسی طرح واپس جائیں گے۔‘‘۶۴ ۹۰ ۱۵ نومبر تھی۔ برطانیہ میں صبح کے گیارہ بجتے ہی گرجاؤں کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور لوگ خوشی کے عالم میں سڑکوں پر نکل آئے۔ کارخانے بند ہو گئے۔ شراب خانے کھل گئے۔ بادشاہ اور ملکہ کی سواری غیررسمی طور پر شہر میں آ نکلی۔ جھنڈے لہرائے جا رہے تھے اور فٹ پاتھوں پر خواتین اجنبی مردوں کے ساتھ جنسی عمل میں مصروف تھیں۔ بعد میں برطانوی مورخ نے لکھا، ’’یہ موت پر زندگی کی فتح منانے کا طریقہ تھا۔‘‘ مشرق کے ناول نگار نے کہا، ’’مستقبل سے مایوسی کی وجہ سے افزائش ِ نسل کی جبلت اُبھر آئی تھی۔‘‘جنگ ِعظیم ختم ہو چکی تھی۔ ۶۵ ۹۱ نواب ذوالفقار علی خاں بھی شملہ سے لاہور واپس آگئے۔۶۶ اس ماہ زمانہ (کانپور) میں دیانرائن نگم کا مضمون اقبال کے بارے میں تھا۔ اُردو شاعری اور شعرائے حال از دیانرائن نگم [اقتباس] اکبرؔمادی دنیا میں مجاز اور حقیقت، سچ اور جھوٹ میں جو تفاوت ہے اُس کی ہنسی اُڑا اُڑا کر قوم کو ہدایت کرتا ہے۔ جب وہ سنجیدہ ہوتا ہے تو فلسفۂ حیات کی باتیں بھی کرتا ہے، قلب کی وارداتیں بھی بیان کر جاتا ہے نہایت سلیس زبان اور مقبولِ عام پیرائے میں۔ اقبال بھی تارک الدنیا نہیں ہے اور نہ دنیا کو مایا اور ’’یتھیا‘‘ جانتا ہے مگر اس سے صرف اُس حد تک واسطہ رکھتا ہے جہاں تک کہ روح کے ایک عارضی قیام گاہ کی حیثیت سے اُس کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ حیاتِ ابدی کے مسائل اور تعمیراتِ روحانی کے مرحلے، زندگی اور موت کی کشمکش ہر وقت اُس کے دماغ میں چکر لگایا کرتی ہے۔ اکبر انسانوں کی حماقت پر ہنس دیتا ہے اور اپنی قوم کی ظاہرپرستی کا مضحکہ اڑاتے رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حقیقت سے ناآشنا مادی تعلیم کے بندے اور اُس کے ظاہرپرست ابنائے وطن اگر سنبھلیں گے تو مضحکہ سے ورنہ روحانیت ان میں مفقود ہو گئی ہے۔ خوفِ خدا ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے۔ نہ مذہب ان میں باقی ہے اور نہ ’’لوک لاج‘‘ ہی کا کوئی اثر ہے۔ عوام الناس کو ان خاصانِ خدا نے احمق اور اجہل سمجھ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی چیز کام دے سکتی ہے تو وہ مضحکہ ہے اور یہی اکبر کا زبردست آلہ ہے۔ اقبال کا خاصہ اشک ریزی ہے۔ اس کا خونِ دل آنکھوں سے براہِ راست ٹپکا کرتا ہے۔ جہاں اکبر قہقہہ لگاتا ہے وہاں اقبال اپنا دل پگھلا پگھلا کر آنسوؤں کی جھڑی لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات اقبال کی سوگواری تبسم کی بھی متحمل نہیں ہوتی اور شاید بھری محفل میں بھی وہ اُداس رہتا ہے۔ غم اُس کی روحانی غذا ہے۔ زمانہ (کانپور)، نومبر۱۹۱۸ئ۶۷ ۹۲ ۱۹ نومبر کو سرخوش کے تذکرے میں کشیدہ ام زجنوں ساغرے والے شعر نے ایک دفعہ پھر متاثر کیا۔ رات سیکڑوں دفعہ اس خیال سے دہرایا کہ شائد طبیعت شعر کہنے پر مائل ہو جائے مگر نہ ہوئی۔۶۸ ۹۳ ۲۰ نومبر کو گرامی کا خط ملا۔ فارسی غزل خوب تھی، بی بی حلیمہ ؓ کی کوئی روایت بھی نظم کی تھی جس پر اقبال روئے اور تقریباً بیہوش ہو گئے۔ طبیعت بھی شعر کہنے کی طرف مائل ہوئی۔ شائد اُسی روز’دنیائے عمل‘ کے عنوان سے چند شعر لکھے۔ اُس روز کلیاتِ سعدی میں سلیمان ندوی کے جواب کی ایک اور سند مل گئی۔ ’’جواب سے ہنوز محروم ہوں،‘‘ اُسی روز پچھلے خط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا اور سعدی والی سند کے علاہ رسولؐ اللہ سے بوصیری کو چادر ملنے کے بارے میں مولوی ذوالفقار علی دیوبندی کی شرح قصیدہ بردہ کا حوالہ دیا۔ ’’اگر آپ اِس طرح کلام ارسال فرماتے رہیں تو میں تھوڑے عرصے میںآپ کا مجموعہ تیار کر کے دنیا کے سامنے اِس بیش بہا خزانے کو پیش کر دوں گا،‘‘ گرامی کے اشعار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس زمانۂ انحطاط میں کسی مسلمان کا ایسا کلام ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ قوم میں زندگی کی قوتیں ابھی باقی ہیں۔‘‘سرخوش کے تذکرے والا شعر اور اپنے ’دنیائے عمل‘ والے اشعار بھی بھیج دیے: یہ شراب خانہ ہے اور یہاں سب کو کھلی دعوت ہے، یہاں پیالے کی گنجایش دیکھ کر شراب بانٹی جاتی ہے: ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا قسمتِ بادہ بہ اندازۂ جام است اینجا۶۹ ۹۴ اسلامیہ کالج کے فلسفے کے پروفیسر ہیگ چیچک کی بیماری میں فوت ہو گئے تھے۔ دو ماہ کے لیے اقبال کو فلسفہ پڑھانا پڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کالج جانے کی بجائے اقبال نے لڑکوں کو شام کے وقت اپنے گھر بلانا شروع کیا۔ پھر بھی مصروفیت بڑھ گئی۔ اکبر الٰہ آبادی کا خط آیا۔ انہیں جواب دینے کی بجائے ۲۷ نومبر کی شام فلسفے کے طلبہ کو اُن کا شعر سنانے پر قناعت کرنا پڑی۔ اگلی شام فتح کی خوشی میں کوئی جلسہ ہونے والا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک اور خط ملا۔ جواب لکھا۔ بنام اکبر الٰہ آبادی ۲۸ نومبر ۱۹۱۸ء مخدومی! السّلام علیکم نوازش نامہ مل گیا اور اس سے پیشتر بھی ایک خط ملا تھا۔ جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی جس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل معمول سے زیادہ مصروفیت ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر فلسفہ ڈاکٹر ہیگ چیچک کی بیماری سے دفعتہ انتقال کر گئے اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے اصرار پر دو ماہ کے لیے کالج کے ایم اے کی جماعت مجھ کو لینی پڑی۔ امید ہے دو ماہ تک نیا پروفیسر مل جائیگا۔ یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آجاتے ہیں۔ دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے اس میں ان کے لیکچر کے لیے کتب دیکھتا ہوں۔ لیکچر کیا ہیں، انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ ہے جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں ابھی کل شام ہی میں ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھا میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا حبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا ہے تل کر نظر بھی مجھ کو ملی ہے نپ کے سبحان اللہ! کیا خوب کہا ہے۔ جزاک اللہ بہرحال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جان حاضر ہے مگر راہِ خدا ملتی نہیں میں آپ کا مقصود خوب سمجھتا ہوں۔ سیدھے سادے الفاظ میں حقائق بیان کر دینا آپ کا خاص حصّہ ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ آپ کی رباعی اور شکریہ ہے کہ موت آجاتی ہے بہت عرصہ سے میں نے نوٹ کر رکھی ہے۔ بہت عرصہ سے کوئی شعر نہیں لکھا۔ مثنوی کا تیسرا حصّہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ دوشعر یاد آئے ہیں جو دو یا تین ماہ ہوئے لکھے ہیں عرض کرتا ہوں: در جہاں مانند جوئے کوہسار از نشیب و ہم فراز آگاہ شو یا مثال سیل بے زنہار خیز فارغ از پست و بلند راہ شو باقی خدا کے فضل و کرم سے خیرّیت ہے۔ بال بچّے سب یہیں ہیں اور الحمد للہ خیریت سے ہیں۔ آج ۲۸ نومبر ہے۔ فتح کی خوشی بہت بڑا جلسہ ہونے والا ہے۔ شاید شام کو میں بھی اس جلسے میں آوں۔ والسّلام امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور ۹۵ ایک پرندہ باغ کی سیر کر رہا تھا کہ اُسے کانٹا چبھ گیا۔ وہ چیخنے چلّانے اور باغ کی برائی کرنے لگا۔ دوسرے پرندے نے وہ کانٹا اپنی چونچ سے کھینچ کر نکال دیا۔ جرمن فلسفے کے تسلسل میں شوپنہار اور نیٹشے کے درمیان یہی رشتہ تھا۔ یہ خیال فارسی میں نظم ہوا اور دیوانِ گوئٹے کے جوابی مجموعے کی بیاض میں ’شوپنہار و نیٹشا‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔۷۰ ۹۶ ہائنے کو مخاطب کر کے بیاض میں نظم لکھی مگر پھر کسی وقت قلمزد کر دی۔۷۱ عرب لوک کہانیوں میں سَمَندَر ایک کیڑے کا نام تھا جو پانچ سو برس بعد آگ میں جل کر دوبارہ جنم لیتا تھا۔ گویا مغربی ادب کے فرضی پرندے فینکس کے مترادف تھا۔ زندگی کے لیے یہ استعارہ اقبال کے ذہن میں راسخ ہونے لگا۔ عالمِ تخیل میں کسی صاحبِ نظر سے پوچھا کہ ہم کیڑے کی طرح ہیں جو مٹی سے پیدا ہوتا ہے تو جواب ملا کہ ہم سَمَندَر ہیں۔ نظم کا عنوان ’زندگی‘ رکھ کر اسے بیاض میں درج کیا: گفتم کہ کرمک است و ز گِل سربروں زند گفتا کہ شعلہ زاد مثالِ سمندر است۷۲ ۹۷ محمد دین فوق کے رسالے طریقت سے بعض صوفی اور پیر ناراض ہو گئے تھے۔ اُن کا اِرادہ ہوا کہ اِسے بند کر دیں۔ ’’اقبال نے فرمایا کہ فضا کی تاریکی سے ڈرنا ٹھیک نہیں،‘‘ فوق کے شاگرد کا بیان ہے۔ ’’مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی اصلاح فی الحقیقت ثواب کا کام ہے۔ اگر اِس اثنأ میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو اے جہادِ اکبر سمجھنا چاہیے۔‘‘۷۳ ۹۸ سلیمان ندوی کا خط ملا۔ کوئی ترجمہ نظر ِ ثانی کے لیے بھیجا۔ کسی وجہ سے پریشان تھے جس کی تفصیل معلوم نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کوئی قومی معاملہ تھا۔ کچھ دل میں بھی تھا جس کی تکمیل کی صورت ہوتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لکھا تھا، میرے ساتھ خدا کامعاملہ عجیب ہے۔ ’’آپ کا یہ فقرہ۔۔۔ گویا تمام ملّت ِ مرحومہ کے احساسات کا ترجمان ہے،‘‘ اقبال نے ۲ دسمبر کو جواب میں لکھا اور کہا کہ جو قوم ایک مشن لے کر پیدا ہوئی ہے اس کی روحانی تربیت کے لیے دُکھ کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ بات جو ۱۹۱۰ء میں اپنی نوٹ بک میں لکھی تھی اب ترجمہ کر کے ’’ایک انگریز ادیب‘‘ کے حوالے سے خط میں درج کر دی کہ دُکھ دیوتاؤں کی ایک رحمت ِ عظیم ہے تاکہ انسان زندگی کے ہر پہلو کا مشاہدہ کر سکے۔ ’’آپ امّت ِ محمدیہ کے خاص افراد میں سے ہیں اور اس مامور من اللہ قوم کے خاص افراد کو ہی امرِالٰہی ودیعت کیا گیا ہے۔‘‘ مایوسی سے نکل کر اُمید والوں کی طرف آنے کی دعوت دی اور یہ شعر لکھا کہ زمانے نے دوبارہ نمرود کی آگ بھڑکائی ہے تاکہ مسلمان کی حقیقت بے نقاب ہو جائے: زمانہ باز بیفروخت آتشِ نمرود کہ بے نقاب شود جوہرِ مسلمانی۷۴ لکھا کہ ذاتی طور پر اُن سے ہمدردی ہے اور اُن کے الفاظ نے دل پر سوزوگداز کی کیفیت طاری کر دی ۔ ترجمے کی ادبی نقطۂ نگاہ سے داد دی مگر فلسفیانہ مقصد کے لیے اور الفاظ وضع کرنے کا مشورہ دیا۔ ۹۹ ۲ دسمبر کو گرامی کی ایک غزل جو کئی دفعہ ان کی زبان سے سن چکے تھے خط میں موصول ہوئی کہ میں پوشیدہ اور ظاہر ہوںجیسے شراب میں نشہ، ظاہر اور پوشیدہ ہوں جیسے کباب میں داغ، اس حکیمانہ نکتے کو پڑھ پڑھ کر جھوم رہا ہوں کہ موت میں خواب ہے اور خواب میںموت ہے: پنہانم و پیدایم کیفم بشراب اندر پیدایم و پنہانم داغم بکباب اندر رمزیست حکیمانہ می خوانم و می رقصم خوابست بمرگ اندر مرگ است بخواب اندر ’دنیائے عمل‘ کے ایک شعر میں گرامی نے تبدیلی تجویز کی تھی ۔ گرامی کی غزل میں جدید فلسفے کی کچھ باتیں ایسی خوبی سے نظم ہوتی دکھائی دیںکہ اگر ان کے مغربی معلم سنیں تو پھڑک اٹھیں، یہ فطرت کی آواز ہے جبکہ وہاں بس سوچ بچار ہی ہے۔ غزل کے دو اشعار اکبرؔ الٰہ آبادی کو لکھ کر بھیجے کہ ’’تنہاخوری نہ ہو۔‘‘ پھر گرامی کو جواب لکھاکہ غزل کیا ہے دفترِ معرفت ہے۔ اپنے مصرع کے بارے میں لکھا کہ گرامی کی رائے سے اتفاق نہیں کر سکتے مگر مصرع ابھی تک کھٹکتا ہے۔ ’’طبیعت حاضر ہو تو پھر غور کروں گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِس جگرکاوی کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے۔ اُن کے سامنے شعر بنا بنایا آتا ہے۔ وہ اس روحانی اور لطیف کرب سے آشنا نہیں ہو سکتے جس نے الفاظ کی ترتیب پیدا کی ہے۔ جہاں اچھا شعر دیکھو سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔ اچھے خیال کا پیدا کرنا اوروں کے لیے کفارہ ہوتا ہے۔‘‘ ۱۰۰ ’’پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر برطانوی ایمپائر میں آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہفت روزہ جشن منایا گیا تھا،‘‘ ایک طالب علم غلام جیلانی برق کا بیان ہے جو مولوی فاضل کی تعلیم کے لیے اُن دنوں لاہور میں تھے۔ ’’کشتی، کبڈی، نیزہ بازی، مفت تھیٹرز، جلسے اور مشاعرے۔۔۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ جشن کا آغاز ۹ دسمبر کو ہوا۔۷۵ ۱۰۱ دہلی میں آفتاب بیمار ہو گئے تھے۔ نجانے علاج کے لیے پیسے مانگے یا کچھ اور لکھ دیا کہ اقبال نے ۱۱ دسمبر کو ایک پوسٹ کارڈ شیخ نور محمد کو بھیجا جس کا مضمون معلوم نہیں ہے۔ انہی دنوں شیخ نورمحمد کی طرف سے اقبال کو بھی کوئی خط ملا جس کا جواب انہوں نے تفصیل سے دیا۔ بنام شیخ نور محمد لاہور ۱۲ دسمبر ۱۸ء قبلہ و کعبہ ام۔ السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ کل ایک کارڈ لکھ چکا ہوں۔ امید کہ ملاحظۂ عالی سے گزرا ہوگا۔ مجھے تو دہلی سے کبھی کوئی خط نہیں آیا اور نہ کسی پروفیسر نے مجھے اس کی بابت لکھا ہے نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ کم بخت دہلی سے مالیر کوٹلہ گیا یا نہ گیا۔ میں نے سنا تھا کہ حافظ صاحب ملازمت چھوڑ کر گجرات چلے گئے ہیں اور اب گجرات میں ہیں مگر یقینا یہ خبر بھی معلوم نہیں۔ میرے خیال میں آپ اُسے خط لکھیں اور تسلی دے دیں کہ بیماری سے گھبرانا نہ چاہئے اور موت سے ڈرنا نہ چاہئے اور شائد یہ اُس کے لیے بہتر ہو کہ اپنے علاج کے لیے چند روز کے لیے گجرات چلا جائے۔ اچھا ہو جائے تو پھر کالج چلا جائے۔ باقی رہا قصور اُس کا یا اُس کی والدہ کا سومیرے نزدیک کسی کا نہیں۔ امرِ الٰہی ہر طرح ہو جاتا ہے۔ قطعِ تعلق جو میں نے ان لوگوں سے کیا ہے اس کا مقصد سزا نہیں ہے اور نہ میں ان سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہوں۔ جتنا میرا حصہ موجودہ صورت کے پیدا کرنے میں ہے اُس کا مطلب صرف اِس قدر ہے کہ عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈنک نہیں کھاتا۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی عزت و آبرو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرے خواہ اس تدبیر کے اختیار کرنے میں کسی اور کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔ اس کم بخت کو دوسرا موقع اپنی اصلاح کا مل گیا تھا۔ بھائی صاحب نے اس کا قصور معاف کر دیا اور اُسی پہلے برتاؤ کا اس سے آغاز بھی کر دیا تھا مگر کم بخت نے پھر وہی شیوہ اختیار کر لیا اور میں نے سنا ہے کہ ہمشیرہ کریم بی بی کو اُس نے بہت دل آزار باتیں کہیں۔ کیا عجب کہ اس کی موجودہ مصیبت اُسی کی بددعا کا نتیجہ ہو۔ میری رائے میں کریم بی بی سے اُسے معافی مانگنی چاہئے اور خدا کے حضور میں توبہ کرنی چاہئے۔ باقی خیریت ہے۔ محمد اقبال لاہور ۱۰۲ نجم الغنی رامپوری کئی موضوعات پر کتابیں لکھ چکے تھے۔ اپنی کتاب اخبارالصنادید کی دو جلدیں اقبال کو بھیجیں۔ انہوں نے پہلی جلد کو خاص طور پر دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ ’’قومِ افغان کی اصلیت پر آپ نے خوب روشنی ڈالی ہے،‘‘ ۱۴ دسمبر کواقبال نے کتابوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے لکھا اور خیال ظاہر کیا کہ کشمیری غالباً اور افغان یقینا یہودی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قاضی احمد رضوانی نے جو بات ایک دفعہ کہی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور تجویز کیا کہ پشتو زبان کی تحقیق کی جائے تو بہت سے الفاظ عبرانی زبان کے ملیں گے جو یہودیوں کی تاریخی زبان تھی۔ ’’آپ کا طرزِ تحریر نہائت سادہ اور موثر ہے اور بحیثیتِ مجموعی آپ کی تصنیف تاریخ کا عمدہ نمونہ ہے۔‘‘ ۱۰۳ تلوک چند محروم اُردو میں شاعری کرتے تھے۔ لاہور آئے تو اِقبال سے ملے۔ شعر سنانے کی فرمائش کی تو اقبال نے کہا، ’’میرے بھائی صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور ساتھ کے کمرے میں تشریف فرما ہیں اور میں پاسِ ادب سے اُن کی موجودگی میں کلام نہیں سنا سکتا۔‘‘۷۶ ۱۰۴ مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمہ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بیاض کے نئے صفحے پر ’غالب اور گوئٹے‘ کا عنوان ڈال کر غالب کا ایک فارسی شعر لکھا تاکہ گوئٹے کے کسی شعر کا فارسی ترجمہ کر کے اس سے پہلے لکھ دیں اور دونوں شاعروں کے درمیان مکالمہ ہو جائے۔ ’برگساں اور بیدل‘ کا عنوان ڈال کر کچھ اشعار درج کیے۔ پھر دونوں نظمیں قلمزد ہوئیں مگر مرکزی خیال دل و دماغ میں بیٹھا رہا۔ جرمن شاعر شلر کی ایک نظم نے تحریک دی کہ فارسی میں صبحِ ازل کا نقشہ کھینچا جائے جب قدرت کی طرف سے قوموں کو وہ کردار تفویض ہو رہے تھے جو تاریخ میں انہیں ادا کرنے تھے: تمہیں کچھ معلوم ہے کہ زندگی بنانے والے نے فرانس کو رنگیں فکر، گرم دل اور خالص شراب عطا کی، رُوس قومی اتحاد کا سرمایہ لے گیا کہ اُس کا قہر پہاڑ کو بھی پارے کی طرح لرزا دیتا ہے، حکومت، سیاست اور تجارت انگلستاں کے سپرد ہوئی، جرمنی کو چشمِ حیران اور دلِ بیتاب عطا ہوئے، زمانے کے ساز سے آزادی کا نغمہ پیدا ہوتا رہے، اُس کے لیے جموریۂ امریکہ کے صدر کو مضراب دی، ہر کوئی خدا کے حضور سے اپنی فطرت کے مطابق لے گیا، ہمارے لیے کچھ نہ بچا اور اُس نے اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیا!۷۷ ۱۵ دسمبر کو سرکاری پبلسٹی کمیٹی کی طرف سے لاہور کے بریڈلا ہال میں فتح کی خوشی میں مشاعرہ منعقد ہوا۔گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈوائر تشریف لائے۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے صدارت کی۔نوجوان شاعروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ تلوک چند محروم نے قصیدہ پڑھا: چلی گلزارِ عالم میں نسیمِ فضلِ رحمانی فرو آخر ہوئی جنگ و جدل کی شعلہ افشانی دہلی سے بزرگ شعرأ سائل اور بیخود بھی آئے تھے۔ سائل نے ترنم سے نظم پڑھی: ہو گئیں سائل دعائیں تیری راتوں کی قبول نائب السلطان کے در تک رسائی ہو گئی اقبال کے کالج کے زمانے کے دوست چودہری شہاب الدین جن کی نظم ’پگڑی سنبھال او جٹا‘ نو دس برس پہلے مقبول ہوئی تھی، انہوں نے اس دفعہ اپنی پنجابی نظم میں محاورے ’’سو سنیار دی تے اِک لوہار دی‘‘ کو استعمال کیا۔ ’’ہجوم کی کثرت کی وجہ سے ہال میں بہت شور تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’چچا جان [اقبال] کے موجود ہونے کی وجہ سے لوگ اُن کو سننے کے مشتاق تھے اور ہر طرف سے اقبال اقبال کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے دیگر شعرأ کا کلام اچھی طرح نہ سنا جاتا تھا۔ لوگوں کے پیہم اصرار پر نواب ذوالفقار علی خاں صدرِ مشاعرہ نے اُن سے اپنا کلام سنانے کی استدعا کی۔ وہ کھڑے ہوئے تو ہال میں سکوت طاری ہو گیا۔‘‘۷۸ اقبال نے پہلے فارسی کی نظم ترنم سے سنائی: ہیچ می دانی کہ صورت بندِ ہستی با فرانس فکرِ رنگیں و دلِ گرم و شرابِ ناب داد رُوس را سرمایۂ جمعیّتِ ملّت ربود قہرِ اُو کوہِ گراں را لرزۂ سیماب داد ملک و تدبیر و تجارت را بہ انگلستاں سپرد جرمنی را چشمِ حیران و دلِ بیتاب داد تا بر انگیزد نوائے حرّیت از سازِ دہر صدرِ جمہوریۂ امریکہ را مضراب داد ہر کسے درخوردِ فطرت از جنابِ اُو ببرد بہرِ ما چیزے بہ بُود و خویش را با ما سپرد۷۹ اس کے بعد اُردو کی نظم ’شعاعِ آفتاب‘ بھی ترنم میں پیش کی۔ تلوک چند محروم کا بیان ہے، ’’علامہ نے دونوں نظمیں سٹیج پر ٹہل ٹہل کر زبانی سنائیں۔ آواز نہایت دلکش، پرسوز اور دلنشیں تھی۔ میں نے آج تک ایسا پرتاثیر نغمہ نہیں سنا۔ سناتے سناتے وہ ایک شعر بھول گئے۔ برابر سوچنے کے انداز میں کوئی آدھا منٹ ٹہلتے رہے اور پھر سر اُٹھا کر اگلا شعر اُسی لے میں ادا کر دیا۔ اُن کی خموشی کے دوران میں مکمل سناٹا چھایا رہا۔ اِس مشاعرے میں تین انعام بھی مقرر تھے۔ جج علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے مقابلے میں شامل ہونے والے شعرأ کی نظمیں اپنے مکان پر منگوا لیں اور چند روز میں فیصلہ دیا۔‘‘ پہلا انعام تلوک چند محروم کو ملا۔ دوسرا انعام بھی کسی ہندو شاعر کو اور تیسرا ایک مسلمان شاعر کو ملا۔۸۰ ۱۰۵ مغلیہ عہد کے فارسی شاعر مرزا عبدالقادر بیدل نے اپنی شاعری میں کئی جگہ یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ موت کے بعد جسم دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی تقدیر پر غور کرتے ہوئے اقبال کے قلم سے بھی پھول اور شبنم کے مکالمے میں یہی مضمون ادا ہو گیابلکہ اس میں وہ نظریہ بھی داخل ہو گیا جسے طاقتور قومیں کمزور قوموں کے حوصلے پست کرنے کے لیے رواج دیتی رہی تھیں کہ دریا سے گزرا ہوا پانی دریا میں واپس نہیں آ سکتا: ’آب کہ از جُو گذشت باز نیاید بجو‘۔ یہی اس فارسی نظم کا عنوان ٹھہرا مگر ظاہر ہے کہ اس نظم نے قلمزد ہی ہونا تھا۔ ہوئی اور اس کی بجائے’آزادی‘ کے عنوان سے ایک فارسی رباعی ہو گئی جس میں وہ مضمون ادا ہوا جو چھ برس پہلے نظم ’پھول‘ میں اُردو میں آیا تھا: نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیب گلو کر لے۸۱ ۱۰۶ فوق نے طریقتبند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کی جگہ ایک نیا رسالہ نظام جاری کرنا چاہتے تھے۔ خط کے ساتھ شاید طریقت کا آخری شمارہ بھیجا اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال (جرنل) کے بعض نمبروں کے بارے میں کچھ پوچھا۔ ’’میرے خیال میں تو آپ ’طریقت‘ ہی کو فروغ دیتے تو شائد حضور نظام تصوف کی اشاعت کا صلہ عطا فرماتے،‘‘ اقبال نے ۱۶ دسمبر کو جواب میں مبارک باد دینے کے بعد لکھا کہ رسالہ صوفی والے ’’محمد دین صاحب آپ سے بہتر نہیں ہیں صرف وہ آدمی معامہ فہم اور کارداں ہیں۔‘‘ خود بھی کچھ لکھنے کا وعدہ کیا اور جرنل کے بارے میں لکھا کہ اس کے بعض نمبر پنجاب پبلک لائبریری اور شائد یونیورسٹی لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ ’’حکیم محمد دین صاحب کئی روز سے نہیں ملے۔ خدا کرے کہ اچھے ہوں۔‘‘ ۱۰۷ پنجاب سے اُردو کی جتنی کتابیں شائع ہوتی تھیں وہ کئی صوبوں کی مجموعی اشاعت سے زیادہ تھیں۔ مولانا تاجور نجیب آبادی کو اَفسوس تھا کہ اُن میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ سوچتے تھے، ’’اُردو کورسوں کو دیکھئے تو گرامر محاورہ املا طریقہ استعمال وغیرہ کی غلطیوں سے پُر نظر آئیں گے۔ بچوں کی زبان پر اُن غلطیوں کا عالمِ طفلی میں مشق ہو جانا اُردو کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے؟بااستثنائے چند اخباروں اور رسالوں کی بھی یہی حالت ہے۔‘‘ اِسی خیال سے انجمن اربابِ علم وجود میں آئی۔ پنڈت برجموہن وتاتریہ کیفیؔ صدر تھے۔ مولانا تاجور سیکرٹری تھے۔ ۲۱ دسمبر کو بیرون موچی دروازہ باغ میں پہلا ’’علمی مشاعرہ‘‘ ہوا۔ حکیم فقیر محمد چشتی نظامی، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، منشی محمد الدین فوقؔ، خلیفہ عبدالحکیم ایم اے اور میاں بشیر احمد بھی آئے۔ نہیں معلوم اقبال کو بلایا نہیں گیا یا آنے پر تیار نہ ہوئے۔ سننے والے دو ہزار کے قریب تھے۔ سب سے پہلے دیال سنگھ اسکول کے بچوں نے مولانا تاجور کی نظم ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ سنائی جو اُسی ماہ مخزن میں شائع ہوئی تھی: ہندوستان بھر کی قومی زبان ہم ہیں نیند آئے جس کو سن کر وہ داستان ہم ہیں۸۲ ۱۰۸ بیس سالہ نوجوان سید شوکت حسین اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک مسلمان پروفیسر نے کلاس روم میں کہا، ’’قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بے نظیر سہی لیکن شیکسپیئر ، شیکسپیئر ہے۔‘‘ شوکت نے اُٹھ کر کہا، ’’سر! آپ کو قرآن مجید کی بے حرمتی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘ پروفیسر نے شوکت کو کمرے سے نکال دیا۔ انہوں نے دوسرے طلبہ کو بتایا اور کالج میں ہڑتال ہو گئی۔جن طلبہ نے اس ہڑتال میں حصہ لیا اُن میں سے دو کے نام نصر اللہ خاں عزیز اور حسن علی تھے۔ استاد کو معافی مانگنی پڑی۔۸۳ ۱۰۹ اودھ پنچنے اقبال کی کسی ابتدائی نظم پر جوکسی نے اجازت کے بغیر دوبارہ شائع کی تھی، اعتراضات کیے۔ غالباً یہ وہ نعت تھی جس میں یہ صوفیانہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ لفظ احد جو خدا کا نام ہے اُس میںمحمدؐ کے ’’م‘‘ کے اضافے سے احمد ؐبن جاتا ہے: نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر وہ بزمِ یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منہ کو چھپا چھپا کر بیس برس پرانی نظم تھی اور اصل مسودے کی نقل بھی اقبال کے پاس موجود نہیں تھی۔فوقؔ نے اودھ پنچ کا اعتراضات والا صفحہ خط کے ساتھ اقبال کو بھیجاجو کرسمس کی چھٹیوں میں بھی لاہور ہی میں تھے اور سردی کی وجہ سے کہیں باہر نہیں گئے تھے۔ ۲۸ دسمبر کواقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اس ابتدائی نظم میں بہت سی خامیاں ہیں ( اُن کے خیال میں نظم کی خامیاں نفسیاتی تھیں اور بعض مقامات پر خامیوں کا تعلق اظہارِ بیان سے تھا) مگر اعتراض کرنے والے نے انہیں چھوڑ کر صرف کتابت کی غلطیوں پر اعتراض کیا تھا۔ لوگ بغیر اجازت یہ نظم بار بار چھاپتے ہیں، ’’کم سے کم مجھے پروف ہی دِکھا لیا کریں۔‘‘۸۴ اُس روز لندن میں عام انتخابات ہوئے۔ خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا اگرچہ مردوں کے برابر نہیں یعنی عمر کا فرق رکھا گیا تھا۔ ۱۱۰ لائڈ جارج ایک دفعہ پھر وزیرِ اعظم ہو گئے۔ اُنہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا، ’’جرمنی کے لیموں کو اِس طرح نچوڑا جائے گا کہ پھوک بھی چٹخنے لگے!‘‘ جنگ ختم ہو گئی تھی مگر سر پر خون سوار تھا۔ دوسرا حصہ ۱۱۱ میاں نظام الدین کی بیوی کے بھانجے محمدالدین پچھلے برس میٹرک کرنے کے بعد فورمین کرسچین کالج یعنی ایف سی کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ تخلص شامل کر کے اب اُن کا نام محمد دین تاثیر تھا۔ اقبال کے پاس اکثر آنے لگے۔۸۵ ۱۱۲ ’ اسرارِ خودی‘ میں عشق کی مکمل تشریح اور ’رموزِ بیخودی‘ میں امام حسینؑ کے تذکرے میں عشق اور عقل کا مختصر سا مقابلہ جو کروایا تھا، وہ ایک مستقل موضوع بن کر اُبھرا۔بو علی سینا لیلیٰ کی اونٹنی کے اُڑائے ہوئے غبار میں گم ہو گئے اور تنکے کی طرح بھنور میں ہی رہ گئے۔ مولانا روم کے ہاتھ محمل کے پردے تک پہنچ گئے جس طرح دریا کی گہرائی میں اتر کر کوئی موتی حاصل کر لے ۔ حقیقت اگر سوز سے خالی ہو تو فلسفہ ہے۔ سوز میسر آئے تو شعر بن جاتی ہے۔ حکمت و شعر بو علی اندر غبارِ ناقہ گم دستِ رومی پردۂ محمل گرفت آں بہ گردابے چوں خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چوں سوز از دل گرفت۸۶ ۱۱۳ سنسان ساحل نے کہا، ’’میں بہت جی لیا مگر مجھے معلوم نہ ہوا کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں۔‘‘ متوالی لہر تیزی سے بڑھ کر بولی، ’’اگر چلتی رہوں تو میں ہوں، نہ چلوں تو نہیں۔‘‘ یہ جرمن شاعر ہائنا کی نظم ’سوالات‘ کا جواب تھا۔ ہائنا نے ساحل پر کھڑے نوجوان کو دکھایا تھا جو اپنی حقیقت کے بارے میں سوالات پر غور کر رہا تھا۔ لہروں کے ابدی شور اور بے نیاز ستاروں کی چمک کا ذکر کر کے ہائنا نے کہا تھا کہ صرف ایک بیوقوف ہی اپنے سوالات کے جواب کا انتظار کر رہا ہے۔ اقبال کی نظم میں وہ بیوقوف نوجوان ساحل بن گیا کہ اُس کی باطنی کیفیت بھی نباتات و جمادات سے مختلف نہ تھی۔ اقبال کی تبدیلیوں نے ہائنا کو پچھلی صدی سے نکال کر برگساں کے عہد میں زندہ کر دیا۔ زندگی کی گرہ صرف جوشِ عمل سے کھلتی ہے۔ زندگی و عمل ساحلِ افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موجِ زخودرفتۂ تیز خرامید و گفت ہستم اگر میروم گر نروم نیستم۸۷ خدا سے دعا مانگی کہ مرنے کے بعد اُن کی مٹی سے لالے کے چراغ پیدا ہوں تاکہ اُن کا صحرا اُن کے داغوں سے ہمیشہ روشن رہے۔ نظم فارسی میں تھی اور عنوان ’دُعا‘ تھا۔۸۸ ۱۱۴ اقبال پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے ڈین ہو گئے۔ پچھلے ڈین شادی لال تھے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے۔ سمجھا جاتا تھا کہ مسلمانوں سے تعصب رکھتے ہیں۔ کنورسین ماٹھور فیکلٹی کے سیکرٹری ہوئے۔۸۹ ۱۱۵ شریفِ مکہ حسین کا لڑکا فیصل پیرس میں تھا۔ عثمانیوں سے غداری کے صلے میں اتحادیوں نے عراق اور شام کی بادشاہت عطا کی تھی۔ ۳ جنوری ۱۹۱۹ء کو صیہونی تنظیم کے صدر شئیم ویزمین کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اگر اُس کے بعض مفادات کا خیال رکھا جائے تو فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام منظور ہے۔ ۱۱۶ اسلامیہ کالج کے طالب علم سید شوکت حسین نے اودھ پنچ کا شمارہ اقبال کو بھیجا۔ ۳ جنوری ۱۹۱۹ء کو اقبال نے انگریزی میں جواب میں لکھا کہ نظم بیس برس پہلے لکھی گئی تھی، مصنف کا ذہن اور زاویۂ نگاہ مسلسل بدلتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ اس ملک میں ادبی اخلاقیات موجود نہیں۔ بہرحال اعتراض کرنے والے نظم کی اصل خامیوں کو نہیں دیکھ سکے: Poetry is something more than the mere correctness of idioms and expressions. My ideals are different from the critic's literary ideals. Poetry plays only a subordinate role in my utterances, and it is not my ambition to be classed among the poets of the day.۹۰ ۱۱۷ سید شوکت حسین نے برسوں پہلے چھپنے والا نظم کا ابتدائی متن تلاش کیا۔ دوبارہ خط لکھاکہ کتابت کی غلطیوں کی طرف سے تسلی ہوئی اب اقبال اصل خامیاں بتا دیں۔ ’’کسی پرانی نظم کو ٹھیک کر کے نئے سانچے میں ڈھالنے کی نسبت نئی نظم کہہ لینا کہیں زیادہ آسان ہے،‘‘ ۶ جنوری کو اقبال نے انگریزی جواب میں شکریہ ادا کرنے کے بعدلکھا اور نظم کی اصل خامیوں کی طرف اشارہ بھی کیا۔ ’’لکھنوی تنقید نگاروں کو ابھی تنقید کے اصول سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ۱۱۸ زمانہ(کانپور) کے جنوری کے شمارے میں اقبال کا ’’صورت بندِ ہستی‘‘ والا قطعہ شائع ہوا۔عنوان تھا ’نصیبِ ما زجہان است بعد ہمتِ ما‘۔ ۹۱ ۱۱۹ وہ نسل جو اقبال کی شاعری کے آغاز کے وقت دنیا میں موجود نہ تھی اب اپنے طور پر عجیب عجیب ذرائع سے اقبال کو دریافت کر رہی تھی۔ ’’غالباً ۱۹۱۹ء کی ایک دوپہر تھی،‘‘ اُس زمانے کے ایک طالب علم سراج نظامی کا بیان ہے۔ ’’میں سکول سے آ کر، کھانا کھانے کے بعد، چارپائی پر لیٹا الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ داستان کے مطالعے میں غرق تھا۔ اتنے میں ہمارا نوکر عبدالکریم جسے ہم نے ایک یتیم خانے سے لیا تھا اور جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا، ہاتھ میں دستی پنکھا لیے کمرے میں داخل ہوا اور فرش پر لیٹ کر کسی نظم کے اشعار خالص مولویانہ انداز میں گنگنانے لگا۔یکایک اُس کی آواز بلند ہوئی۔ ’’تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا ’’مجھے یوں لگا جیسے آگ پہ تپتی ہوئی ہزاروں سوئیاں میری نس نس میں چبھ گئی ہوں۔‘‘ نوکر نے بتایا کہ شعر ڈاکٹر اقبال کے ترانے کا ہے اور پھر پورا ’ترانۂ ملی‘ جھوم جھوم کر سنایا۔ اس طرح سراج نے اقبال کا نام سنا۔ نوکر ہی کے بتانے پر اُسی وقت بھاگ کر مرغوب ایجنسی پہنچا اور ترانے کے علاوہ اقبال کی دوسری نظمیں ’شکوہ‘، ’جوابِ شکوہ‘، ’نالۂ یتیم‘، ’فریادِ اُمت‘، ’اکبری اقبال‘ اور ’تصویرِ درد‘ بھی خرید لایا۔ ’’میں کلامِ اقبال پڑھ کر مسحور ہو گیا،‘‘سراج کا بیان ہے۔ ’’اور حالت یہ ہو گئی کہ خلوت جلوت میں اُن کے اَشعار ترنم سے پڑھنے لگا۔‘‘ فارسی کے اُستاد مولوی احمد حسن کو معلوم ہوا تو سراج سے اکثر یہ نظمیں سننے لگے۔ کبھی کبھی رو پڑتے۔ پھر ’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کے باقاعدہ درس دینے لگے۔ سراج کی پھوپھی کے پاس مخزن کے پرانے شمارے موجود تھے۔ وہ ہاتھ لگے۔ ’’ایک دن مولوی احمد حسن پوچھنے لگے تم نے ڈاکٹر اقبال کو دیکھا ہے؟‘‘ سراج کا بیان ہے۔ ’’میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ وہ انارکلی میں عطرچند کپور تاجرانِ کتب کے مکان کی بالائی منزل پر رہتے ہیں۔ ان دنوں سول اینڈ ملٹری گزٹ، ٹریبون، زمیندار اور سیاست وغیرہ اخبارات شام کو شائع ہوا کرتے تھے۔ میں ہر روز شام کے وقت لوہاری دروازے کے باہر بابا غلام محمد اخبار فروش سے زمیندار خریدا کرتا تھا۔ ایک دن بابا غلام محمد سے عطرچند کپور والے مکان کا پتا پوچھ کر وہاں جا پہنچا۔ ایک شخص چھجے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہی ڈاکٹر اقبال ہیں۔ میں سامنے ایک تھڑے پر بیٹھ کر اُن کی طرف دیر تک ٹکٹکی باندھے تکتا رہا۔ اُس کے بعد میرا یہ روز کا معمول بن گیا۔‘‘۹۲ ۱۲۰ اقبال نے فوق کے رسالے کے لیے نظم لکھ دی۔’مکافاتِ عمل‘ کے نام سے کسی کے اس فارسی شعر پر تضمین کی تھی کہ شمع نے پروانے کو جلا دیا ہے مگر اپنے تیل میں خود بھی جل جائے گی۔ ۱۲۱ رُوس کے انقلاب سے دنیا میں کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں؟ ’ماتمِ زار‘ کے عنوان سے نظم لکھی جس میں زار، رُوس، فرانس، امریکہ، اٹلی، شاہ بلجیم، سرویا (سربیا)، رومانیہ، قیصرِ جرمنی، آسٹریا، ٹرکی (ترکی)، شاہِ یونان، ایران، ترکستان، افغانستان، ہندوستان، جاپان اور چین کے علاوہ اُن لوگوں کا ردِ عمل بھی دکھایا جو اپنے آپ کو کسی قوم کا حصہ کہنے کی بجائے انارکسٹ (لاقانونی) قرار دیتے تھے۔ ہر گروہ کے تاثرات فارسی کے کلاسیکی شعرأ کے کلام سے منتخب کسی نہ کسی شعر سے ظاہر کیے تھے۔ آخر میں زارِ روس کے کتبے کے لیے صفیری کا شعر چُنا تھا کہ ہائے میں مر گیا اور میرے پورے وطن میں میرا کوئی دوست بھی نہیں ہے کہ میرے مزار کے قریب کسی کے قدموں کے نشان بھی دکھائی نہیں دیتے: فغاں کہ مردم و یارے دریں دیارم نیست نشانِ پائے کسے بر سرِ مزارم نیست پھر کسی وقت یہ نظم قلمزد کر دی۔۹۳ ۱۲۲ ترکی کی حمایت میں جلسے پورے ہندوستان میں ہو رہے تھے۔ ’’کیا کسی نے ہندوستان کے عام مسلمانوں میں اتحادِ سلامی کا پروپیگنڈا کیا تھا؟‘‘ سید حسن ریاض نے بعد میں تجزیہ کیا۔ ’’ کیا کسی نے اُن کو یہ اُونچی سیاست سمجھائی تھی کہ خلافت کے خاتمے کے بعد اسلام کی مرکزیت ختم ہو جائے گی اور مسلمان امورِ عالم میں کسی متحدہ اقدامی عمل کے قابل نہ رہیں گے؟ نہیں۔۔۔ دو دو تین ورق کے چند اُردو اخبارات نکل رہے تھے، جن پر زمانۂ جنگ میں یہ پابندی عائد تھی کہ ان مسائل پر کچھ نہ لکھیں جو جنگ سے متعلق ہوں۔ ان کی استطاعت سے یہ باہر تھا کہ ترکوں کی اور خلافت کی حمایت میں دنیا کے مسلمانوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو مضطرب اور بے قرار کر دیں۔ کل مومن اخوۃ قرآن کا یہ سبق مسلمانوں کی فکر پر چھایا ہوا تھا۔ یہ ان کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ مسلمانوں کو مسلمان کے ساتھ ہمدردی ہونی چاہیے۔ جس اسلامی فکر کے تقاضے سے محمد علی، شوکت علی اور حسرت موہانی اپنی جانوں پر کھیلنے کے لیے آمادہ ہوئے، وہی ہر عام مسلمان کے دل میں کام کر رہی تھی۔‘‘ نعرۂ توحید عرف شیر کی گرج آغا حشر کاشمیری [اقتباس] بادشاہ سعیدہ تم زندہ ہو؟ سعیدہ جی ہاں! بادشاہ تم کس طرح بچیں؟ سعیدہ حضور کی دُعا سے! بادشاہ تمہیں کس نے بچایا؟ سعیدہ میرے خدا نے! بادشاہ کیا شیروں نے تمہیں کچھ نہ کہا؟ سعیدہ عالی جاہ! جب آپ کا ایک ادنیٰ غلام آپ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا تو یہ شیر جو میرے خدا کے بنائے ہیں کس طرح اُس کے حکم کے خلاف مجھے ستا سکتے ہیں؟ کیونکر مجھے کھا سکتے ہیں۔ بادشاہ تم نے اِن شیروں کے پنجروں میں رات کاٹی اور کیسے کٹی؟ سعیدہ جس طرح ایک بچہ آغوشِ مادر میں یا ایک تھکا مسافر منزل پر پہنچ کر بستر پر آرام سے اپنا وقت گزارتا ہے، اُسی طرح یہ شیر تمام رات اپنی آغوش میں مجھے لے کر میرا دل بہلاتے رہے اور چاروں طرف سے شکولے ہلاتے رہے۔ بادشاہ آخر شیر کس طرح پیش آئے؟ سعیدہ جس طرح ایک وفادار ملازم اپنے آقاسے، سعادتمند اولاد اپنے والدین سے، لائق شاگرد اُستاد سے۔ بادشاہ جب ہم نے شیروں کے پنجرے میں ڈالا ہو گا تو ایک مرتبہ ضرور گھبرائی ہو گی۔ سعیدہ بالکل نہیں! ہرگز نہیں۔ اُس خدائے برتر کے ماننے والے کبھی موت سے نہیں ڈرتے، کبھی دشمن کی پرواہ نہیں کرتے: آتشِ سوزاں کا ڈر اور شیر کا ہے خوف کیا نیزہ و شمشیر کا تِیر و تبر کا خوف کیا! اُس خدائے دوجہاں کا جس کے سر پر ہاتھ ہے وہ جہاں ہے اُس جگہ فتح و نصرت ساتھ ہے۹۴ ۱۲۳ جنوری کی کوئی تاریخ تھی جب لکھنؤ کے پلیٹ فارم نمبر وَن پر ہجوم جمع ہو گیا۔ محمد علی کو پولیس کے پہرے میں چھندواڑہ سے چند روز کے لیے اپنے شہر رامپور جانے کی اجازت ملی تھی۔ دیدار کے لیے جمع ہونے والوں میں لکھنؤ کے عالمِ دین مولانا عبدالباری فرنگی محلی بھی تھے اور مشہور تھا کہ نظربندی کے دوران علی برادران نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ عبدالماجد بھی تھے جنہوں نے چند روز پہلے ہی خط میں لکھا تھا، ’’سنا ہے آپ اس فرصتِ نظربندی میں قرآن رَٹ رہے ہیں، لیکن قوم میں بہت سے حافظ نبی بخش اور حافظ غلام رسول پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ضرورت تو اِس وقت کامریڈ کے ایڈیٹر کی ہے۔‘‘ پنجاب میل آ کر ٹھہری تو علی برادران اُترے اور مولانا عبدالباری کے پاؤں چھونے چاہے مگر وہ خود علی برادران کے پاؤں چھونا چاہتے تھے! اِس کشمکش سے نجات پانے کے بعد محمد علی نے فرمایش کی کہ کوئی اچھی تلاوت کرنے والا سورۂ یوسف کا تیسرا رکوع سنا دے: اے جیل کے دونوں رفیقو، یہ بتاؤ کہ الگ الگ معبود اچھے یا اکیلا اللہ سب پر غالب؟ تم اُسے چھوڑ کر صرف ناموں کی پوجا کرتے ہو جنہیں تم نے اور تمہارے بڑوں نے گھڑ رکھا ہے، اللہ نے تو کوئی دلیل ان کی اُتاری نہیں۔ حکومت تو سوائے اللہ کے اور کسی کی نہیں، حکم ہے کہ سوائے اُس کے کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین مگر اکثر لوگ اِس سے بے خبر ہیں! ’’کلامِ پاک کے بول خوش الحان قاری کے منہ سے نکل رہے ہیں اور محمد علی کی آنکھوں سے آنسو جاری،‘‘ عبدالماجد کا بیان ہے۔ ’’اِتنی دیر پلیٹ فارم پر نہ غل غپاڑہ، نہ شور و ہنگامہ۔ سب کے سب خاموشی کے ساتھ صورتِ تصویر۔ زمانہ یاد کر لیجیے کہ ۱۹۱۹ء کا تھا۔ سردی کا موسم۔ فرسٹ اور سیکنڈ کے مسافر کثرت سے انگریز۔ یہ سب اور انگریز حکام دونوں دُور کھڑے یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے ہیں! ریل چھوٹنے پر ہوئی، گھنٹی بجی اور قرأت موقوف۔ محمد علی کوئی بہتر سے بہتر تقریر کر ڈالتے، جب بھی شاید یہ سماں اِتنا موثر نہ بندھ سکتا!‘‘۹۵ ۱۲۴ ۲۶ جنوری کو نواب سر ذوالفقار علی خاں کے چھوٹے لڑکے خورشید کی سالگرہ تھی۔ ہر برس منائی جاتی تھی۔ اقبال شرکت کرتے تھے۔ اگر ان دنوں نواب سر ذوالفقار لاہور میں تھے تو سالگرہ ان کی کوٹھی زرفشاں میں منائی گئی ہو گی۔ اب خورشید دس برس کے تھے۔ گھر میں چھوٹے میاں کہلاتے تھے۔ واقعات ذہن میں آیندہ کے لیے محفوظ رہنے لگے تھے۔ ’’زرفشاں کی گراؤنڈ میں یوکلپٹس کے بہت سے درخت تھے اور ان میں سے گوند نکلا کرتی تھی،‘‘ خورشید نے بعد میں یاد کیا۔ ’’میں ان درختوں سے گوند کھرچ کھرچ کر روزانہ ڈبوں میں بھرا کرتا تھا۔ میری عمر اُس وقت دس سال ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب [اقبال] ہماری موٹر میں تشریف لاتے تھے۔ جمیل سنگھ ہمارے ڈرائیور کا نام تھا۔ ڈاکٹر صاحب موٹر سے اُترتے ہی پوچھتے کہ چھوٹے میاں کیا کر رہے ہو؟ میں جواباً کہتا ’گوند نکال رہا ہوں‘ تو وہ کہتے:ع چھوٹے میاں نے گوند نکالی درخت سے ’’تو میں کہتا کہ بس آپ کی شاعری ختم ہو گئی؟ فرماتے کہ ابھی تو ایک ہی مصرع ہوا ہے۔ روزانہ یہی کیفیت رہتی۔ میں کہتا کہ آپ کیسے شاعر ہیں کہ دوسرا مصرع نہیں لگا سکتے۔ ایک دن تشریف لائے تو کہنے لگے: چھوٹے میاں! آج ہم نے دوسرا مصرع بھی کہہ لیا ہے، سنو: چھوٹے میاں نے گوند نکالی درخت سے اور ہو گی ان کی شادی کسی نیک بخت سے‘‘۹۶ ۱۲۵ کشن پرشاد کا خط آیا۔ جواب لکھا مگر شائد ڈاک میں گم ہو گیا۔ ۹۷ ۱۲۶ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ مارچ میں غالباً انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں لاہور آنے والے تھے۔ لکھتے تھے کہ سنا ہے آپ نے وکالت چھوڑ دی ہے۔ ’’کیا خوب! آپ نے سنا کہ اقبال نے وکالت چھوڑ دی،‘‘ ۲۸ جنوری کو اقبال نے جواب میں لکھا۔ ’’شائد یہ بھی کسی نے کہا ہو کہ کسی جنگل میں کٹیا بنا لی ہے اور ہاؤ ہو کے نعرے بلند کر رہا ہے! بہرحال روزی کے لیے سب ڈھنگ ہیں، بیرسٹری چھوڑے گا تو کوئی اور ڈھنگ اختیار کرنا ہوگا۔ کسی نے خوب گپ اڑائی ہے معلوم نہیں اُس کا مقصد اِس خرافات سے کیا تھا؟‘‘ درخواست کی کہ مارچ میں گرامی کو بھی لاہور لے آئیں۔ ۱۲۷ فوقؔ کے رسالے نظام کا پہلا شمارہ فروری میں نکلا۔ اس میں اقبال کی نظم ’مکافاتِ عمل‘ شائع ہوئی۔۹۸ اس ماہ زمانہ (کانپور) میں ص۱۲۴ پر کسی بھولاناتھ کرنل آئی ایم ایس کا مراسلہ ’نصیبِ ما زجہاں شد بقدرِ قسمتِ ما‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اقبال کے ’’صورت بندِ ہستی‘‘ والے قطعے پر اعتراضات کیے تھے، مثلاً ایرانی فرانس کو فرنسہ کہتے ہیں مگر اقبال نے فرانس ہی لکھا۔ تجویز پیش کی تھی کہ اقبال کو صرف اُردو میں شعر کہنا چاہیے، فارسی اُن کے بس کی بات نہیں۔ اس کے بعد اقبال کے قطعے کو اصلاح اور ترمیم کے ساتھ دوبارہ پیش کیا۔ اٹلی اور یونان کو اتحادیوں کے آغوشِ ناز میں دیا اور زلفِ چین کو جاپان کے شانے پر بکھیرا۔۹۹ ۱۲۸ نواب ذوالفقار سے وعدہ کیا کہ فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں دہلی جائیں گے۔۱۰۰ ۱۲۹ غالب نے کہا تھا کہ جو بات سینے میں ہے وہ وعظ نہیں اُسے سولی پر کہہ سکتے ہیں مگر منبر پر نہیں کہہ سکتے: آں چیز کہ در سینہ نہاں است نہ وعظ است بر دار تواں گفت و بر منبر نتواں گفت بظاہر اسی سے متاثر ہو کر اقبال نے یہ شعر کہا کہ جس نکتے کو مسلمان سے کہہ سکتے ہیں نہ کافر سے اُس نے میرے دل سے صبر چھین کر میری روح میں ڈال دیا ہے: ضبط از دلِ من برد و فروریخت بجانم آن نکتہ کہ با مومن و کافر نتواں گفت ۱۳۰ نیازالدین خاں کے خط سے معلوم ہوا کہ گرامی جالندھر آگئے ہیں۔ کوئی مصرع لگایا تھا جسے اقبال نے بہت پسند کیا ۔ مفہوم یہ تھا کہ مسلمان کے پاس خدا کے سوا اور کیا ہے۔ ’’انشأ اللہ اِس کا حال عنقریب روشن ہو جائے گا،‘‘ ۵ فروری کو اقبال نے نیازالدین خاں کے جواب میں اس جملے کو دہراتے ہوئے لکھا۔ ’’آپ نے سنا ہے: الیس اللہ بکاف عبدہٗ (کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟)‘‘ ارادہ ظاہر کیا کہ دہلی کے سفر میں جالندھر بھی آئیں گے۔ غالب کے تتبع میں لکھا ہوا فارسی شعرگرامی سے اصلاح کروانے کو خط میں لکھ دیا۔ ۱۳۱ اقبال کے دوست ڈاکٹر محمد حسین نے اپنے بھائی سید نادر حسین کے کتبے کے لیے، جو پچھلے برس ۲۸ جولائی کو قتل ہوئے تھے، اشعار لکھ کر اقبال کو بھیجے تھے۔ اقبال نے دوسرے اشعار لکھ دیے۔ تاریخی مصرع الہامی تھا کہ کافر یزید نے سید کو قتل کر دیا: کشت سید را یزیدے کافرے ’’دل میں درد ہو تواس کے اظہار کا بہترین طریق شعر ہے، بھائی کے فراق نے آخر آپ کو شاعر بنا دیا،‘‘ ۷ فروری کو جواب دیتے ہوئے لکھا ۔ ’’مگر جو اشعار آپ نے کہے ہیں وہ سنگِ مزار کے لیے موزوں نہیں۔‘‘ اپنا کہا ہوا قطعہ بھجوا دیا۔۱۰۱ ۱۳۲ فرانس نے کھویا ہوا علاقہ واپس لے لیا۔ کھویا ہوا وقار واپس نہ آ سکتا تھا۔ فرانسیسی جنرل فرانچٹ ڈی اسپری کو ’’مشرق میں اتحادی افواج کے سالار‘‘ کا عہدہ ملا تو برطانوی افسر ہی نہیں بلکہ ہندوستانی سپاہی بھی منہ پھیر کر ہنسے۔کم سے کم وہ خود یہی محسوس کرتا تھا۔ ۸ فروری کو احساسِ کمتری کا شاہکار سفید گھوڑے پر گردن تان کر استنبول میں داخل ہوا۔ خلیفہ کے حامی سیاست دانوں نے راہ میں پلکیں پچھائیں۔ باقی ترکوں کے دل و دماغ میں آندھی چل گئی۔ کبھی سلطان محمد فاتح سفید گھوڑے پر بیٹھ کر اِسی شہر میں داخل ہوا تھا۔ تب شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ ترکی کے تعلیم یافتہ طبقے نے فرانس کو اخوت، مساوات اور آزادی کا علمبردار سمجھا تھا۔ کیا وہ صرف نعرے تھے جن کا مطلب فرانس کو معلوم نہ تھا؟ فرانس کا جھنڈا اُن کے معنی کی نفی کر رہا تھا۔ ترکوں پر قیامتیں گزری تھیں مگر دل مردہ رہے تھے۔ اپنے لہو سے خریدی ہوئی سرزمین پر یورپ کے گدھ کو سفید گھوڑے پر دیکھ کر زندہ ہو گئے۔ لب خاموش رہے مگر قوم بیدار ہو گئی۔ ۱۳۳ مردہ قوم کیسے زندہ ہوتی ہے؟ یہ ابراہیم کا راز ہے، آذر سے نہیں کہہ سکتے! نیازالدین خاں نے اقبال کے شعر پر فارسی میں کوئی شعر لکھا تھا جس کا دوسرا مصرع بالکل غالبؔکا چربہ ہو گیا تھا۔ اقبال کو بھیجے تو ۱۱ فروری کونشاندہی کرتے ہوئے اقبال کے ذہن میں نیا مصرع آگیا: ایں سرِّ خلیل است بآذر نتواں گفت دُوسرے مصرعے کی فرصت نہ تھی۔ نیازالدین خاں کو گرہ لگانے کی دعوت کے ساتھ مصرع پوسٹ کارڈ پر لکھ دیا۔ ۱۳۴ دو برس پہلے سر سڈنی رولیٹ کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ وہ ملک میں ہونے والی سازشوں کے بارے میں رپورٹ اور تجاویز پیش کرے۔ اَب پیش کیں۔ حکومت ہند نے دو مسودات مرکزی اسمبلی میں پیش کر دیے جن کا مقصد یہ تھا کہ جنگ ختم ہو جانے کے باوجود حکومت اور اُس کے کارکن کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر قید میں ڈال سکتے ہیں۔ ۱۳۵ نیازالدین خاں کا خط آیا تو مزید اشعار تھے اور کچھ اشعار گرامی کے جنہیں ۱۴ فروری کو اقبال نے جواب لکھتے ہوئے جواہرریزے قرار دیا۔ لکھا کہ گرامی غزل پوری کریں۔ اگر ہو سکے تو ایک دو ہفتے کے لیے لاہور آکر ساتھ دہلی چلیں۔ ’’آپ کے اشعار سے مجھے تعجب ہوا،‘‘ نیازالدین خاں کے اشعار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ ’’معلوم نہ تھا کہ آپ چھپے رستم ہیں۔‘‘قافیوں کی دو غلطیاں نکالیں۔ اگلے روز حکیم اجمل خاں لاہور آنے والے تھے۔ ’’نواب ذوالفقار علی خاں کے ہاں ان کا قیام ہوگا۔‘‘ اُسی روز پیرس میں ۲۷ اقوام کے نمائندوں نے امریکی صدر ولسن کے ۱۴ نکات پر دستخط کر کے جمعیت ِاقوام کی بنیاد رکھ دی۔ ۱۳۶ ۱۵ فروری کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس کی فیکلٹی کا اجلاس ہوا۔ ڈین کی حیثیت میں اقبال نے صدارت کی۔ سر شادی لعل اب بھی فیکلٹی کے رکن تھے مگر شامل نہ ہوئے۔۱۰۲ اُس رات لاہور میں بارش ہوئی اور سردی واپس آگئی ۔اگلے روز بھی پانی برس رہا تھا جب گرامی کا خط آیا۔ اقبال کے مصرعے پر گرہ لگا کر تصرفِ بیجا کی معافی مانگی تھی۔ دل ہارے ہوؤں سے قیامت کا قصہ نہیں کہہ سکتے، جلے ہوؤں سے نہرِ کوثر کی بات نہیں کر سکتے۔ بہت بڑی بات ہے، ابوجہل کی سمجھ میں کیا آئے گی، یہ ابراہیم کا راز ہے آذر سے نہیں کہہ سکتے۔ معانی پر نگاہ رکھنے والوں کی نظر میں اقبال نے پیغمبری کی ہے مگر انہیں پیغمبر نہیں کہہ سکتے: با دل شدگاں قصہ زمحشر نتواں گفت با سوختگاں حرف زکوثر نتواں گفت آں رمزِ جلیل است ابوجہل چہ فہمد آں سِرّ خلیل است بآذر نتواں گفت در دیدۂ معنی نگہاں حضرتِ اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت سرِّ خلیل پر جو گرہ لگائی تھی اس سے اقبال کی تسلی نہیں ہوئی مگر حرفِ کوثر والا مصرع پسند آیا۔ ’’اقبال بھی غزل ضرور لکھے گا مگر گرامی کی لطافت اور حلاوت کہاں سے لائے گا،‘‘ اقبال نے غزل پوری کرنے کی فرمائش کرتے ہوئے اُسی وقت لکھا۔ ’’عجیب و غریب مضامیں خیال میں آ رہے ہیں مگر ان کی تکمیل کے لیے فرصت اور وقت کہاں ہے۔‘‘ ۱۳۷ کہنے کو افغانستان آزاد تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ حکومت برطانیہ نے پابند کر رکھا تھا کہ برطانوی مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی بنائے۔ حکمراں امیر حبیب اللہ خاں جن کے نام پر اسلامیہ کالج میں حبیبیہ ہال کا نام رکھا گیا تھا، ۲۰ فروری کی رات قتل کر دیے گئے۔ اگلے روز اُن کے بھائی نصراللہ خاں نے حکومت کا دعویٰ کر دیا۔ حبیب اللہ کے بڑے لڑکے عنایت اللہ کی حمایت حاصل تھی۔ تیسرے لڑکے امان اللہ کابل کے گورنر تھے۔ خزانے پر قبضہ کر کے بغاوت کر دی۔ ۱۳۸ ۲۱ فروری کی صبح کشن پرشاد کا تار ملا۔ کسی سیتا رام کے بارے میں معلومات درکار تھیں۔ خیال تھا کہ کسی رسالے کے اڈیٹر ہیں۔ اقبال اس نام سے واقف نہ تھے مگر تار کا جواب دیا اور پھر اخبار دیشکے اڈیٹر لالہ دینا ناتھ کو بلا کر ان سے پوچھا۔ وہ بھی نہیں جانتے تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ لالہ سیتارام ایف اے تک تعلیم پائے ہوئے ہیں مگر امتحان پاس نہیں کیا، کھتری پتر نام کا اخبار نکالنا چاہتے ہیںمگر ابھی نکالا نہیں، اخبار بلیٹن کے اڈیٹر لالہ کانشی رام ان کے رشتہ دار ہیں اور ایک بھائی اننت رام بیرسٹر ہیں جن سے واقفیت نہیں تھی۔ ’’اگر مزید تحقیقات کی ضرورت ہو تو ارشاد فرمائیے اور تحقیق کی جائے گی،‘‘ اُسی روز خط میں کشن پرشاد کو لکھا۔ ۱۳۹ اعجاز اب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ ۱۴۰ ۲۲ فروری کو شیخ عطا محمد کا خط آیا۔ اُسی روز سیالکوٹ سے شیخ نور محمد کا پوسٹ کارڈآیاتو معلوم ہوا کہ بھابی جن کی طبیعت خراب تھی اب آرام سے ہیں۔ نور محمد مارچ میں لاہور آنا چاہتے تھے۔ اقبال کا فروری کی آخری تاریخ کو دہلی جانے کا ارادہ تھا۔ اُسی وقت کارڈ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اگر والد صاحب پہلے آ جائیں تو اِن کے جانے کے بعد بھی گھر میں رونق رہے۔ اعجاز یا علی بخش کو اُنہیں لانے بھیجا جا سکتا ہے اور اگر مارچ ہی میں آنا ہو تو اعجاز امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گا مگر علی بخش کو بھیج دیا جائے گا۔ ۱۴۱ ۲۴ فروری کو احمدآباد میں گاندھی کی اس تجویز پر دستخط کرنے والوں میں کہ رولیٹ ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ کیا جائے، مسلمان بھی شامل تھے: مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں، عباس طیب جی، مسٹر عمر سوہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا حسرت موہانی، سیٹھ یعقوب حسن اور چوہدری خلیق الزماں۔ ۱۴۲ نظم ’مکافاتِ عمل‘ کا متن موجود نہیں تھا۔ ۲۵ فروری کو فوقؔ سے اس کی کاپی منگوانے کے لیے رقعہ لکھا۔ ۱۴۳ خبر مشہور ہو رہی تھی کہ افغانستان کے حکمراں امیر حبیب اللہ کو کسی نے جلال آباد میں قتل کر دیا۔ ۲۵ فروری کو اخباروں میں بھی چھپ گیا۔۱۰۳ ۱۴۴ افغانستان کے حالات جس تیزی سے بدل رہے تھے اُس نے ہندوستان میں بیتابی کی ایک لہر ضرور پیدا کر دی تھی۔ ۲۸ فروری کو مقتول امیر حبیب اللہ خاں کے تیسرے لڑکے امان اللہ خاں حکومت پر قابض ہو گئے۔ چچا نصراللہ خاں جو ہفتہ بھر ہی حکومت کر پائے تھے گرفتار ہوئے۔ ۱۴۵ کشن پرشاد کا خط آیا۔ انہیں شائد اقبال کے پچھلے خطوط نہیں ملے تھے۔ اقبال نے ان کا ذکر کیا اور پھر ہمیشہ کی طرح تذکرہ کیا کہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں مگر حالات پرقدرت اِن کو ہے نہ اُن کو ہے۔ ’’امور کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں زمین پر محض ان کا اشتہار دیا جاتا ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ دہلی سے اگر حسن نظامی ساتھ ہو گئے تو شائد اجمیر بھی جائیں گے۔ ۱۴۶ وسیمہ مبارک نے ضد کر کے مختار بیگم سے پان لے کر کھا لیا۔ اقبال نے دیکھا تو پوچھا، ’’سیما! پان کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ وسیمہ نے بتایا کہ مختار بیگم نے دِیا ہے تو اقبال نے بیگم کو منع کر دیا اور بھتیجی سے بھی کہا کہ آیندہ پان مت کھائے۔ اگلے روز پھر وسیمہ نے بہت ضد کی تو مختار بیگم پان دینے پر مجبور ہو گئیں مگر کہا کہ اپنے چچا جان کے سامنے منہ صاف کر کے جائے۔ وسیمہ نے تولیے سے رگڑ رگڑ کر منہ صاف کیا مگر اقبال نے پہچان لیا اور ناراض ہوئے۔ وسیمہ نے کہا کہ چچی جان بھی تو کھاتی ہیں۔ ’’یہ سن کر چچا جان نے پیار سے مجھے گود میں بٹھا لیا،‘‘ وسیمہ کا بیان ہے۔ ’’بڑی محبت اور نرمی سے سمجھایا، ’دیکھو تم ابھی چھوٹی ہو اور تمہاری چچی بڑی ہیں، دوسرے اچھی بیٹیاں پان نہیں کھایا کرتیں۔‘ ‘‘ ۱۴۷ عید ہوئی۔ اقبال نے پھر وسیمہ سے کہا ہو گا، ’’سیما! تمہیں کتنے پریے عیدی دی جائے؟‘‘ اب سیما بہت جھینپتی تھیں کہ کبھی روپے کا تلفظ یوں بھی کیا کرتی تھیں۔ سردار بیگم نے منع کیا کہ اب تو وہ بڑی ہو چکی ہے، اُسے یوں تنگ نہ کیا جائے۔اقبال نے یہ مذاق ختم کر دیا۔۱۰۴ ۱۴۸ اقبال دہلی گئے۔ نواب صاحب لوہارو سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُنہوںنے شعر کی فرمائش کی توکہا کہ آپ کے سامنے شعر پڑھنا سؤ ادب ہے۔پھر بھی کچھ نہ کچھ شعر سنانے ہی پڑے۔۱۰۵ دو دفعہ خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضر بھی ہوئے جہاں حسن نظامی نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔۱۰۶ جالندھر نہ جا سکے کیونکہ حکیم اجمل خاں نے اصرار کر کے ایک دن زیادہ ٹھہرا لیا۔ ۷ مارچ کو غالباً لاہور کی عدالت میں کام تھا اس لیے واپس آگئے۔۱۰۷ ۱۴۹ ایک روایت ہے کہ اس برس یا پچھلے برس اقبال سرہند بھی گئے تھے اور شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضر ہو کر خدا سے دعا مانگی تھی کہ ایک بیٹا دے جسے وہ اپنی زندگی میں اعلیٰ تعلیم دلوا سکیں۔۱۰۸ ۱۵۰ زمانہ (کانپور) کے مارچ کے شمارے میں الہلال کے سب ایڈیٹر خواجہ عبدالواجد ندوی کا مضمون شائع ہوا۔ بھولاناتھ کرنل نے پچھلے ماہ اقبال کے ’’صورت بندِ ہستی‘‘ والے قطعے پر جو اعتراضات کیے تھے اُن کا جواب تھا۔ بھولاناتھ کے قطعے پر اعتراضات تھے۔عبدالواجد ندوی نے آنکھوں دیکھا واقعہ لکھا کہ ایرانی عالم پرفیسر محمد کاظم شیرازی ’اَسرارِ خودی‘ کے اشعار سنتے ہوئے جھوم رہے تھے اور کہتے تھے، ’’کاش یہ شاعر ایران میں پیدا ہوا ہوتا۔‘‘۱۰۹ ۱۵۱ ۹ مارچ تھی۔ فرانسیسی جنرل فرانچٹ نے چھتیس ترک افسروں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں سعید حلیم پاشا بھی شامل تھے۔گزشتہ روز خلیفہ کے بہنوئی وزیراعظم نے خلیفہ سے ایک ایسی دستاویز پر دستخط کروالیے تھے جو قوم کے محسنوں کو دشمنوں کے حوالے کرنے پر رضامندی کا اعلان تھی۔۱۱۰ ۱۵۲ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ گرامی کو تپ ہوئی تھی۔ ۱۳ مارچ کو جواب میں جالندھرنہ آسکنے کی وجہ بیان کی۔ ’’انشأ اللہ آپ سے جلد ملاقات ہو گی،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’گرامی صاحب کی تپ کوئی نئی بات نہیں، شاعروں کو قدرتی تپ ہوتی ہے۔‘‘ شاید نیازالدین نے کچھ اور شعار بھیجے تھے کیونکہ اقبال نے لکھا، ‘‘گرامی کی صحبت نیاز کو نظامی بنا دے گی۔‘‘ ۱۵۳ پچھلے برس جو معارف میں فارسی کے کسی ہندوشاعر کا شعر پسند آیا تھا وہ ۱۵ مارچ کو پھر نظر سے گزرا۔۱۱۱ ۱۵۴ گرامی کا خط آیا۔ غزل بھیجی تھی اور جالندھر بلاتے تھے۔ ’’کیا خوب! گرامی تواقبال کو پورا سال ٹالتا رہے اور اقبال ایک ہی خط سے آ جائے یہ کیونکر ممکن ہے،‘‘ ۱۶ مارچ کو جواب میں لکھا۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ شاعر جس قدر بلندنظر ہو گا اس قدر سادہ دل بھی ہو گا۔‘‘ چنانچہ پہلے گرامی آئیں پھر یہ جائیں گے۔ معارف میں جو ہندوفارسی شاعر کا شعر نظر سے گزرا تھا وہ گرامی کو لکھا۔ اُن کی غزل کی تعریف بھی کی، ’’گرامی خود بوڑھا مگر اُس کا فن جوان ہے: جب پیر ہو گئے ہیں تو یہ فن جواں ہوا‘‘ ۱۵۵ استنبول کی عیسائی آبادی نے اعلان کیا کہ وہ ترکی کے نہیں بلکہ یونان کے شہری ہیں۔ اپنے گھروں پر یونانی پرچم لہرائے۔ عثمانی پولیس، قوانین اور سرکاری محکموں سے بے تعلقی کو اپنے کلیسا کے ذریعے قانونی فیصلے میں بدلا۔ لارنس نے مغربی جمہوریت کو عرب کے صحراؤں میں دفن کیا تھا۔ سیکولراِزم کو استنبول کے عیسائیوں نے قیصر کے شہر میں قتل کیا۔ پانچ صدیاں پہلے یہیں سے یورپ کی نئی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ ۱۵۶ سردار بیگم نے چوزے نکلوائے تھے۔ ’’مرغی اپنے بچوں کی فوج کو لیے سارے گھر میں گھومتی پھرتی،‘‘ وسیمہ مبارک کا بیان ہے۔ ’’چچا جان اُس کو ’چوزہ بریگیڈ‘ کہا کرتے تھے۔‘‘ یہ فوج کبھی اُن کے کمرے میں جا نکلتی تو علی بخش کو پکارتے، ’’علی بخش! چوزہ بریگیڈ کی ڈیوٹی کسی دوسری طرف لگاؤ۔‘‘ صحن مشترک تھا اس لیے مرغی اپنے بچوں کے ساتھ برابر والے ہندوؤں کی طرف بھی جا نکلتی اور وہ برا مناتے۔ ایک دن اُن کے ملازم نے لپک کر ایک چوزہ پکڑا اور دونوں ٹانگیں مروڑ کر پھینک دیا۔ اُوپر بالاخانے کی کھڑکی سے اقبال دیکھ رہے تھے۔ گرجے تو وہ بھاگ گیا۔ علی بخش کو نیچے بھیجا لیکن چوزہ آیا تو مر چکا تھا۔ غصے سے سرخ ہو گئے، ایک موٹا سا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑا اور علی بخش سے کہا، ’’اِسی وقت اُس ظالم آدمی کو پکڑ کر لاؤ، میں اِسی طرح اُس کی ٹانگیں توڑوں گا۔۔۔ میں اُسے بتاؤں گا کہ بے زبان بھی تکلیف کا احساس رکھتے ہیں۔‘‘ ’’بڑی مشکل سے سردار چچی جان نے اُن کا غصہ ٹھنڈا کیا،‘‘ وسیمہ مبارک کا بیان ہے۔ ’’لیکن وہ پھر بھی سارا دن کھڑکی میں گھات لگا کر بیٹھے رہے کہ ہمسایوں کا ملازم نظر آئے تو اُس کی خبر لیں۔ وہ بیچارا ڈَر کے مارے وہاں سے ملازمت ہی چھوڑ گیا۔‘‘۱۱۲ ۱۵۷ اِتوار ۲۰ مارچ کو گاندھی کے اعلان کے مطابق رولیٹ بل کے خلاف ’’ہڑتال‘‘ اور احتجاج ہونے تھے مگر پھر اس کی تاریخ بدل کر ۶ اپریل تجویز ہوا تھا۔ دہلی والوں کو خبر نہ ہو سکی۔ جلوس نکلا اور پولیس نے گولی چلائی۔ ۱۵۸ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ ’دُنیائے عمل‘ کی زمین میں دو شعر لکھے تھے۔’’دونوں شعروں کا مضمون خوب ہے مگر بندش کھٹکتی ہے،‘‘ اقبال نے ۲۱ مارچ کو جواب میں لکھا اور حشو و زوائد کی نشاندہی کی۔ خوشی تھی کہ جالندھر کے افغانوں میں شاعری کا ذوق باقی تھا اور اپنے بزرگوں کی روایت کو زندہ رکھتے تھے، ’’میں پشتو نہیں جانتا ورنہ سرحد کی مارشل شاعری کو اُردو یا فارسی لباس پہنانے کی کوشش کرتا۔‘‘ ۱۵۹ ۲۳ مارچ تھی۔ اٹلی میں ایک نئی جماعت اور ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیاد رکھی گئی۔ جماعت کا نام’ ’فاشی ڈائی کومباٹی منٹو‘‘ یعنی فاشسٹ پارٹی تھا۔ اس کا بانی وہی مسولینی تھا جس نے جنگ کے شروع میں سوشلسٹوں سے علیحدہ ہو کر اخبار نکالنا شروع کیا تھا۔ کچھ روز پہلے معارف میں مولانا محمود حسن کا خط شائع ہوا جو مالٹا میں قید تھے۔ اُس روز اقبال نے سلیمان ندوی کو جن کی طرف سے عرصے سے کوئی خبر نہیں آئی تھی خط لکھ کر پوچھا کہ محمود حسن نے کون سی تاریخ کو خط لکھا تھا۔ ۱۶۰ سیتاپور میں محمد احمد خاں نام کے کوئی رئیس رہتے تھے جنہوں نے اپنے شاندار کتب خانے میں مشہور لوگوں کے آٹوگراف جمع کئے تھے اور ان سے خط و کتابت کا شوق بھی رکھتے تھے۔ اقبال کو بھی خط لکھ کر کوئی سوال پوچھے ہوں گے جن کا ۲۰ مارچ کو اقبال نے مختصر جواب دیا۔ ’’’محمل‘ کومیں مذکر لکھتا ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے اور اعلیٰ درجہ کے شعرأ کے خطوط شائع کرنا لٹریری اعتبار سے مفید ہے۔‘‘ ۱۶۱ کشن پرشاد کی مثنوی آئینۂ وحدت کے عنوان سے شائع ہو گئی۔ ایک پیکٹ خط کے ساتھ بھیجا۔ ’’اقبال سراپا سپاس ہے،‘‘ انہوں نے ۲۹ مارچ کو شکریے کا خط لکھا اور مثنوی کو زبان اور خیالات دونوں لحاظ سے پسند کیا۔ اسی مثنوی کے مسودے پر رائے دیتے ہوئے اقبال نے غالبؔ کا مصرعہ ’’بردار تواں گفت و برمنبر نتواں گفت‘‘ استعمال کیا تھا جو اَب تک ذہن میں اٹکا ہوا تھا اور اب اس کی جگہ اسی زمین میں اپنا سرِّ خلیل والا مصرع گردش کر رہا تھا۔ کشن پرشاد کو بھی لکھ بھیجا کہ اس پر اشعار لکھئے یا گرہ لگائیے۔ ’’مولانا اکبرؔ کی خدمت میں بھی لکھوں گا۔‘‘ ۱۶۲ ۳۱ مارچ تک پچھلے برس کی کُل آمدنی چار ہزار ایک سو تراسی (۴۱۸۳) روپے ہوئی تھی۔ ایک سو سات (۱۰۷) روپے انکم ٹیکس بنتا۔۱۱۳ ۱۶۳ ایک وید منتر کا ترجمہ اپنوں سے ہو اندیشہ نہ غیروں سے خطر ہو احباب سے کھٹکا ہو نہ اعدا سے حذر ہو روشن میرے سینے میں محبت کا شرر ہو دل خوف سے آزاد ہو بیباک نظر ہو پہلو میں مرے دل ہو میٔ آشامِ محبت ہر شے ہو مرے واسطے پیغامِ محبت زمانہ (کانپور)، اپریل ۱۹۱۹ئ۱۱۴ ۱۶۴ ۶ اپریل کو ملک بھر میں یومِ ستیہ گرہ منایا گیا۔ ہڑتال ہوئی، جلسے ہوئے اور جلوس نکلے۔ ۱۶۵ لاہور میں انارکلی سے عظیم الشان جلوس نکل رہا تھا۔ نوجوانوں نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں اور ’’رَولٹ بِل ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ’’ہم سب نے دریچوں سے اُس کا نظارہ کیا،‘‘ وسیمہ مبارک کا بیان ہے۔ ’’ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بازار میں پھر شور اُٹھا، ہم سب کھڑکیوں کی طرف لپکے تو ایسا دلفگار منظر نظر آیا کہ رُوح کانپ کانپ گئی۔ چند فوجی گاڑیاں جن میں خون میں لت پَت لاشیں بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں، آہستہ آہستہ بازار میں سے گزر رہی تھیں۔ ہر طرف شور تھا کہ جلوس پر گولی چل گئی۔۔۔ جدھر سے اِن شہیدوں کا جلوس گزرتا لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے۔‘‘ اقبال کا چہرہ غصے اور ضبط سے تمتما رہا تھا۔ سردار بیگم نے روتے ہوئے کہا، ’’ظالموں نے کتنی ماؤں کے لال موت کے گھاٹ اُتار دیے ہیں۔‘‘ ’’چچا جان [اقبال] خاموش سر جھکائے بیٹھے تھے،‘‘ وسیمہ مبارک کا بیان ہے۔ ’’آہستہ سے سر اُٹھا کر دلگیر لہجے اور گلوگیر آواز میں فرمایا، ’میرے مولا کو یہی منظور ہے، سرتابی کی مجال نہیں، وہ اِن شہدأ کی قربانیاں ضرور قبول کرے گا جنہوں نے عروسِ آزادی کی مانگ کے لیے اپنا گرم اور نوجوان خون پیش کیا ہے۔‘اِتنا کہا اور پھر سر جھکا لیا۔ اُس وقت اُن کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔‘‘۱۱۵ ۱۶۶ انسان جس نے تہذیب کے غازے سے چہرہ دمکایا، اپنی خباثت کو اُجلا کر کے ظاہر کیا، اپنا پنجہ ریشمی دستانے میں چھپا کر قلم سے فریب دینے والا بن گیا اور تلوار کمر سے کھول دی۔ اس ہوس پرست نے صلحِ عام کا بتخانہ بنایا اور چنگ اور بربط کی دُھنوں پر اُس کے گرد رقص کیا۔ جب جنگ نے اس کا پردہ چاک کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ نرا خون بہانے والا اور کھلم کھلا جھگڑالو ہی نکلا۔ نظم فارسی میں ہوئی۔ عنوان ’تہذیب‘ تھا۔۱۱۶ ۱۶۷ عرب زورِ عمل سے بُرائی کو مٹانے والا بنا تھا مگر عجم نے ضعفِ عمل کی وجہ سے کہا کہ برائی کا وجود ہی نہیں ہے: عرب از زورِ عمل قاتلِ اشرار آمد عجم از ضعفِ عمل گفت کہ شر پیدا نیست۱۱۷ ۱۶۸ وہ سخت کوش چیز کیا ہے جو سکندر کی طرح خضر کی محتاج ہونے کی بجائے پتھر سے پانی نکال لیتی ہے؟ آنسو بھری آنکھ کی نگاہ کی طرح اُجلی صورت والی کہ پانی میں ہے مگر جس کا دامن تر نہیں؟ جس کا مضمون ایک ہی چُست مصرعے میں مکمل ہے اور دوسرے مصرعے کا احسان نہیں لیتا؟ یہ پہیلی فارسی میں لکھی جس کا جواب تلوار تھا۔ نظم کا عنوان ’چیستانِ شمشیر‘ ہوا۔۱۱۸ جب طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ کیا اور ساحل پر اُترکر جہاز جلا دیے تو ساتھیوں نے کہا کہ یہ بات عقل اور شریعت دونوں کے خلاف ہے۔ تب طارق نے ہنس کر تلوار پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔‘‘۱۱۹ کم سے کم فارسی نظم ’الملک للہ‘ میں اقبال نے یہی لکھا اور تب ایک ہرن نے دوسرے سے کہا کہ صحرا میں شکاریوں نے گھات لگا رکھی ہے لہٰذا وہ کعبے میں جا کر رہے گا تاکہ جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ اگر زندگی کی تمنا ہے تو خطرات میں رہو کہ خطرہ ہمت اور سکون کا امتحان ہے۔ یہ مضمون فارسی نظم ’اگر خواہی حیات اندر خطر زی‘ میں بیان ہوا۔۱۲۰ ۱۶۹ ۱۰ اپریل کو اِستنبول میں ایک سابق ترک گورنر کو پھانسی دی گئی۔ فرانسیسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اُسے کورٹ مارشل نے ارمنیوں کے قتل ِ عام کا مجرم قرار دیا تھا۔ خلیفہ کے اشارے پر شیخ الاسلام نے بھی فتویٰ دیا۔ جنازے پر پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ ۱۷۰ ۱۱ اپریل کو امرتسر میں یومِ ستیہ گرہ منانے کا اعلان ہوا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے کانگریسی رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو خاموشی سے کسی نامعلوم مقام پر بھجوا دیا۔ شہر میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ فوج نے عوام کو اور عوام نے پانچ انگریزوں کو قتل کر دیا۔ اُسی روز لاہور، احمدآباد، بمبئی، ندیا اور کلکتہ میں ہنگامے ہوئے۔ ۱۷۱ لاہور میں فساد ہوا اور کچھ لوگ مارے گئے۔ پھر ۹ اپریل سے مکمل ہڑتال شروع ہوئی اور شہر میںقبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ عطامحمد کے نام ایک کارڈ لکھا مگر شبہ تھا کہ ہنگاموں کی وجہ سے ڈاک اور ریل کا نظام متاثر ہونے کی وجہ سے شائد پہنچ نہ سکے۔بھائی کے دُور ہونے سے اقبال کافی پریشان تھے اور سوچتے تھے کہ لکھ دیں پشاور چھوڑ کر گھر واپس آجائیں، جو تھوڑا بہت پاس تھا اُس پر مل جل کر گزارہ کر لیں گے۔۱۲۱ ۱۷۲ خدا نے انسان سے کہا، ’’میں نے دنیا کو ایک ہی مٹی اور پانی سے تخلیق کیا، تم نے ایران اور تاتار اور حبش بنا لیا۔ میں نے مٹی سے کھرا لوہا پیدا کیا، تم نے تلوار اور تیر اور بندوق گھڑ لی۔ چمن کے پودے کے لیے کلہاڑی ایجاد کی اور چہچہاتے پرندے کے لیے پنجرہ بنا لیا۔‘‘ انسان نے جواب دیا، ’’آپ نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ آپ نے مٹی پیدا کی، میں نے پیالہ گھڑا۔ آپ نے صحرا، پہاڑ اور جنگل تخلیق فرمائے، میں نے کیاری اور پھلواری اور باغ بنائے۔ میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ بناتا ہوں اور زہر سے تریاق نکالتا ہوں۔‘‘ محاورہ مابین خدا و انسان خدا جہاں را زیک آب و گل آفریدم تو ایران و تاتار و زُنگ آفریدی من از خاک پولادِ ناب آفریدم تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی تبر آفریدی نہالِ چمن را قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را انسان تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم۱۲۲ ’’نیٹشے نے نصرانیت پر ایسا زبردست حملہ کیا ہے کہ یہ مذہب اس حملے سے بمشکل جانبر ہو سکے گا،‘‘ اقبال نے اگلی نظم کے حاشیے میں لکھا۔ ’’نیٹشے کی تنقیدِ نصرانیت خالص اسلامی نکتۂ خیال سے ہے۔‘‘ نظم کا عنوان ’’نیٹشا‘‘ تھا۔ پڑھنے والوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ نیٹشا ایسا نمرود ہے جس کی آگ میں جل کر دیکھنا چاہیے۔ مرکزی خیال ایک حدیث سے ماخوذ تھا جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب شاعر امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں فرمایا تھا، ’’اُس کی زبان مسلمان اور دل کافر ہے۔‘‘ اقبال نے نیٹشا کے بارے میں لکھا کہ اُس کا دل مسلمان اور دماغ کافر ہے: قلبِ اُو مومن دماغش کافر است۱۲۳ ۱۷۳ فلسفی کو سیاستدان کے ساتھ ایک ہی ترازو میں مت تولو۔ اُس کی آنکھ سورج سے چندھیا کر اندھی ہو گئی ، اس کی آنکھ نم سے خالی ہے۔ وہ حق بات کے لیے کمزور دلیل تراشتا ہے اور یہ جھوٹی بات کے لیے مضبوط دلیل گھڑتا ہے۔ فلسفہ و سیاست فلسفی را با سیاست دان بیک میزاں مسنج چشمِ آں خورشید کورے دیدۂ ایں بے نمے آں تراشد قولِ حق را حجتِ نااُستوار ویں تراشد قولِ باطل را دلیلِ محکمے۱۲۴ ۱۷۴ سلیمان ندوی کا خط آیا۔ طلبہ علی گڑھ والی نظم جو اقبال نے ۱۹۰۶ء میں یورپ میں لکھی تھی اس کے آخری شعر کے بارے میں پوچھا تھا کہ بادہ کے لیے نارسا کا لفظ پہلے کہیں نہیں سنا، اس کی کیا سند ہے۔ شائد ۱۹۰۴ء کی منارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ والی غزل میں لفظ منار پر بھی تعجب ظاہر کیا تھا۔ ’’کیف ِ باطن میں بالخصوص آج کل صحو ہی کی ضرورت ہے،‘‘ ۳ اپریل کواقبال نے ابوالکلام آزادؔ کی رہائی پر شکر اَدا کرکے اُن کا پتہ پوچھتے ہوئے لکھا۔ ’’نبیٔ کریمؐ نے صحابہ کی تربیت اسی حال میں کی تھی۔ سُکر کی حالت عمل کی دشوارگذار منزل کو طے کر لینے کے بعد ہو تو مفید ہے باقی حالات میں اس کا اثر روح پر ایسا ہی ہے جیسا جسم پر افیون کا۔‘‘ بادۂ نارسا کی کوئی سند یاد نہیں تھی مگر منار صحیح تھا نہ کہ مینار۔ ’’یہ الفاظ اُس زمانہ کی نظموں میں واقع ہوئے ہیں جس زمانہ میں میں سمجھتا تھا کہ لٹریچر میں ہر طرح کی آزادی لے سکتے ہیں یہاں تک کہ بعض نظموں میں میں نے اصولِ بحر کا بھی خیال نہیں کیا اور ارادۃً،‘‘ انہوں نے لکھا۔ اردو نظموں کا ’’مجموعہ اب تک مرتب نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان تمام نظموں پر نظرِ ثانی کرنا چاہتا ہوں جس کے لیے فرصت نہیں ملتی۔‘‘ گرامی کی پنہانم و پیدایم والی غزل اِنہیں بھی بھیجی کہ پسند آئے تو معارف میں شائع کریں۔ ۱۷۵ ۱۳ اپریل تھی۔ امرتسر کی فضا میں منڈلاتے ہوئے ہوائی جہاز پرچے پھینک رہے تھے۔ شہر کے لوگوں کو خبردار کیا جا رہا تھا کہ جلسے میں نہ جائیں۔ یہ منظر وہ بچہ کبھی نہ بھلا سکا جس کا نام سعادت حسن منٹو تھا اور جس کی عمر اُس وقت سات برس تھی۔ جلسہ جلیانوالہ باغ میں ہوا۔ لوگ بڑی تعداد میں آئے۔ مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ آئرش نسل سے تعلق رکھنے والا برگیڈئر جنرل ڈائر موقع پر پہنچا۔ اُس کے سپاہیوں کی بندوقیں اُس وقت تک چلتی رہیں جب تک گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔مرنے والوں میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ ۱۸۵۷ء کی یاد تازہ ہو گئی۔ جلّیانوالہ باغ امرتسر ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک غافل نہ رہ جہان میں گردُوں کی چال سے سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اِس نہال سے۱۲۵ ۱۷۶ ’’دکانیں بند ہیں اور شہر میں قبرستان کی خموشی،‘‘ ۱۴ اپریل کو شیخ نور محمد کے نام پوسٹ کارڈ میں لکھا۔ ’’الحمدللہ کہ امرتسر وغیرہ کی طرح یہاں کوئی ایسا فساد نہیں ہوا۔‘‘عجیب بات ہے کہ لکھا کہ لاہور میں ہڑتال کو دوسرا دن ہے جبکہ پانچواں دن تھا اور اعجاز کے بارے میں لکھا کہ سیالکوٹ پہنچ گئے ہوں گے جبکہ لاہور ہی میں تھے۔ اقبال اُن دنوں خط لکھنے میں کافی محتاط ہو گئے تھے۔ خدشہ رہا ہو گا کہ خطوط سینسر کئے جا سکتے ہیں مگر پھر بھی اس غلط عبارت کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ گجرانولہ میں بھی فساد ہوا اور کوئی پل توڑ دیا گیا۔اقبال کو مقدمے کے لیے پٹیالہ جانا تھا مگر ریل کا سفر محفوظ نہ رہا تھا۔ تار دے دیا کہ ٹکٹ نہیں مل رہے۔ اعجاز کو پیغام بھیجا کہ ہاسٹل میں تکلیف ہوتی ہو گی وہ اقبال کے پاس آکر مطالعہ کر لیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔۱۲۶ ۱۷۷ ۱۵ اپریل کو شیخ عطا محمد کا خط آیا۔ سیالکوٹ پہنچ گئے تھے۔ خط اعجاز کو دکھانے بھجوایا۔ عطا محمد کو تفصیل سے حالات لکھے۔ ’’جب تک پورا اطمینان نہ ہو جائے کہ ریل کا انتظام درست ہے آپ لاہور کی طرف نہ آئیں،‘‘اقبال نے لکھا۔’’اِس وقت نظامِ عالم کا مطلع نہایت غبار آلود ہے اور معلوم نہیں کیا واقعات ظہورپذیر ہوں گے۔‘‘ اسی روز یا انہی دنوں مغربی دانشور کے نام فارسی نظم میں ایک پیغام لکھنا شروع کیا۔ عنوان تھا ’پیام‘: اے صبا میری طرف سے مغرب کے فلسفی سے کہنا کہ عقل جتنا پر کھولتی ہے پھنستی ہی چلی جاتی ہے!۱۲۷ ۱۷۸ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا۔ فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۱۸ اپریل کو لاہور میں مارشل لأ نافذ ہو گیا۔ ۱۷۹ ٹیگور نے ’’سر‘‘ کا خطاب حکومت کو واپس کر دیا۔ جلیانوالہ باغ کے سانحے کے خلاف احتجاج تھا۔ نوبل پرائز واپس کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ برطانوی حکومت نے نہیں بلکہ نوبل پرائز کمیٹی نے دیا تھا۔ ۱۸۰ ۲۰ اپریل کو اکبرؔ الٰہ آبادی کے خط کا جواب لکھا۔ ’’گاندھی صاحب کا خاموش مقابلہ یہاں تک رنگ لایا ہے کہ حکّام لاہور اور پنجاب کے دیگر مقامات میںمارشل لأ (آئینِ عسکری) کے اجرا پر مجبور ہو گئے ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے مگر یہ زمانہ گھر سے نکلنے کا نہیں ہے۔‘‘ جب گھر سے نکلنے کا زمانہ تھا تب بھی کم ہی نکلتے تھے، بہرحال سرِّخلیل والا مصرع اکبرؔ کو بھی بھیج دیا کہ کچھ ذہن میں آئے تو مطلع ارشاد فرمائیے۔ اُسی روز نیازالدین خاں کا خط ملا۔ فوراً جواب دیااور شائد اس خیال سے کہ اگر سینسر والے خط کھولیں تو اُن کے دل بھی باغ باغ ہو سکیں، لاہور میں مارشل لأ کے حوالے سے لکھا، ’’حکام اِس بات پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر امن پسند لوگوں کے لیے اس میں کوئی اندیشہ نہیں۔‘‘ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ اجلاس اس برس نہ ہو سکا۔ ۱۸۱ رامائنکو اُردو میں نظم کرنے کا ارادہ تھا۔ خیال تھا کہ مسیح جہانگیری کا تتبع کریں گے۔۱۲۸ ۱۸۲ کشن پرشاد کا خط ملا۔ ہندو قوم کے بارے میں کچھ خیالات کا اظہار کیا تھا جن سے اقبال کو بھی اتفاق ہوا۔ ’’جو مسائل انسان حل نہ کر سکے اب معلوم ہوتا ہے قدرت خود اُنہیں حل کرنا چاہتی ہے،‘‘ ۲۵ اپریل کو جواب دیتے ہوئے نہیں معلوم یہ اشارہ کشن پرشاد کی وزارت بحال ہونے کی امیدوں کے بارے میں لکھا یا انسانیت کے مستقبل کے بارے میں مگر ’’یہاں کے حالات ملاقات ہو تو عرض کروں۔ تحریر سے ادا نہیں ہو سکتے۔‘‘ امرتسر اور قصور کے بارے میں لکھا کہ جن لوگوں نے قانون ہاتھ میں لیا تھاان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مقدمہ چلایا جائے گا مگر حافظؔ کا شعر تسکین کا باعث ہے کہ تم غیب کے بھیدوں سے واقف نہیں ہو، غم مت کرو کچھ تماشے پردے کے پیچھے بھی ہوا کرتے ہیں: ہاں مشو نومید چوں واقف نہ ای از سِرِّ غیب باشد اندر پردہ بازی ہائے پنہاں غم مخور رامائنکواُردو میں لکھنے کے ارادے کا ذکر کر کے پوچھا کہ اگر مسیح جہانگیری کی فارسی میںمنظوم رامائن سرکار کے کتب خانے میں ہو تو کیا چند روز کے لیے مل سکتی ہے؟ ۱۸۳ سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کی طبیعت ناساز تھی۔ عطا محمد ملازمت پر واپس جا چکے تھے۔ اپریل کے آخر میںان کا پوسٹ کارڈ آیا۔شائد اُسی کے جواب میں اقبال نے لکھا کہ گر میوں میں چھٹی لیں۔ ۳۰ اپریل کو اقبال نے بھائی صاحب کی خیریت کی اطلاع دیتے ہوئے شیخ نورمحمد کی خیریت دریافت کی۔۱۲۹ ۱۸۴ آواں شریف میں قادریہ سلسلے کے بزرگ قاضی سلطان محمود رہتے تھے۔ ۲ مئی کو انتقال کر گئے۔ ایک روایت ہے کہ اقبال بھی لڑکپن ہی کے زمانے سے ان کے مرید تھے۔۱۳۰ ۱۸۵ افغانستان کے امیر امان اللہ خاں موقع سے فائدہ نہ اٹھاتے تو تاریخ معاف نہ کرتی۔ حکومت برطانیہ بیرونی طور پر روسی انقلاب کی وجہ سے دباؤ میں تھی۔ ہندوستان میں بغاوت جیسی فضا پھیلی ہوئی تھی۔ ۳ مئی کو افغان افواج نے قبائلی علاقوں پر حملہ کر دیا۔انگریزوں کے خلاف افغانستان کی تیسری جنگ کا آغاز تھا۔ ۱۸۶ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں سے صرف ایم اے فلسفہ کے چھٹے پرچے کے ممتحن تھے مگر تین برس بعد ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ ان کے پاس دوسری یونیورسٹیوں کے پرچے بھی ہوتے ہیں۔ امکان ہے کہ دوسری یونیورسٹیوں کے ساتھ یہ تعلق اب تک شروع ہو چکا ہو۔۱۳۱ ۱۸۷ شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈ ملا۔ اب ان کی طبیعت ٹھیک تھی۔ ۵ مئی کو اقبال نے اس کا مختصر جواب دیا۔ انہی دنوں اعجاز کے امتحانات کی تیاری کے بارے میں بھی کوئی خط لکھا جو دستیاب نہیں ہے۔ ۱۸۸ پیرس میں کانفرنس ہو رہی تھی۔ اٹلی نے ترکی میں اڈے بنا لیے تھے۔ دوسرے اتحادیوں کو تشویش لاحق ہو گئی۔ یونانیوں کو اِجازت دینا چاہتے تھے کہ ازمیر کو فوراً یونان میں شامل کر لیں۔ مشکل یہ تھی کہ صلح کے معاہدے کے تحت اتحادی ممالک نے ترکی سے وعدہ کیا تھا کہ ترکی کا کوئی حصہ خلیفہ سے نہیں چھینا جائے گا۔ سیاست دان عام طور پر تھوڑے بہت بدنیت ہوتے تھے مگر مکمل بدنیتی کی مثال لائڈ جارج کی صورت میں سامنے آئی۔ ۶ مئی کو یونان کے حق میں فیصلہ دیا۔ ۱۸۹ اقبال کی بہن کریم بی بی جو شیخ نورمحمد کی طرف سے خط لکھا کرتی تھیں اُن کی کسی عزیز سے اَن بن ہو گئی۔ سمجھتی تھیں کہ زیادتی اُسی کی طرف سے ہوئی ہے اس لیے شیخ نور محمد کی طرف سے اقبال کوپوسٹ کارڈ لکھتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے لکھ دیا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرے گا۔ ۱۹۰ عطا محمد کا تار آیا۔ خیریت سے تھے۔ ۱۰ مئی کو اُنہیںخط لکھا۔ اُس روز شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈبھی ملا۔ ’’دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ انصاف نہ کرے کیونکہ ہم اُس کے انصاف کے متحمل نہیں ہو سکتے،‘‘ اقبال نے جواب میں لکھا۔ ’’البتہ وہ ہم پر اپنا فضل و رحم کرے۔‘‘ ۱۹۱ جب سے امیر امان اللہ خاں افغانستان کے بادشاہ بنے تھے سرحدی علاقوں کا امن و امان خطرے میں پڑ گیا تھا۔ قبائلی علاقے کے جوانمردوں نے جہاد کا اعلان کر دیا تھا اور لنڈی کوتل پر اُن کا قبضہ ہو جانے کا خطرہ تھا اس لیے جنرل بیرٹ اپنی فوجیں اور ہوائی جہاز لے کر پہنچے ہوئے تھے اور پشاور میں کرفیو تھا۔ ۱۱ مئی کو سرکار کی فوجوں نے باغ کے علاقے میں قبائلی مجاہدین پر زبردست حملہ کیا۔ حالات بگڑ گئے۔ ۱۹۲ ۱۲ مئی کی صبح اقبال نے شیخ عطا محمد کو تار بھیجا۔ اس کے بعد اُن کے دو خطوط ۷ اور ۸ مئی کے لکھے ہوئے مل گئے ۔ افغانستان کے ساتھ جنگ چھڑنے کی وجہ سے خط دیر میں پہنچے تھے اور گرمیوں میں چھٹی بھی نہ مل سکتی تھی۔ ’’اعجاز کا پہلا پرچہ آج ہو گیا ہے اور اُس نے یہ پرچہ اچھا کر لیا ہے،‘‘ اُس روز اقبال نے شیخ نورمحمد کو خط میں لکھا۔ ۱۹۳ اعجاز کا اب تاریخ کا امتحان تھا جس کے بعد آٹھ روز کی فرصت۔ اقبال نے مشورہ دیا کہ وہ ان کے پاس آجائیں مگر وہ ہاسٹل میں رہنا پسند کرتے تھے۔ شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈ ملا اور پھر ۱۴ مئی کو عطامحمد کی خیریت کا تار بھی آیا مگر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا دو روز پہلے بھیجا ہوا تار اُنہیں نہیں ملا تھا۔ ’’وہاں پر سب طرح خیریت ہے،‘‘ اقبال نے اُس روز شیخ نورمحمد کوبھائی صاحب کی خبر دیتے ہوئے شائد سینسر کے خیال سے لکھا۔ ’’امید ہے کہ اس جنگ کا جلدخاتمہ ہو جائے گا کیونکہ سرکار انگریزی کی قوّت کے مقابلے میں افغان کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ ۱۹۴ قونیہ میں وہ خوبصورت باغ تھا جس کے احاطے میں مولانا روم کا جسم دفن کیا گیا تھا اور جہاں کسی دن اقبال کی قبر کی مٹی بھی دفن ہونی تھی۔ مگر مولانا روم کی روح کہاں تھی اور مستقبل کے بارے میں کیا دیکھ رہی تھی؟ اطالوی فوجیں قونیہ پر قابض ہو چکی تھیں۔ طرابلس کی جنگ سے اُنہوں نے یہ سبق سیکھا تھا کہ مسلمانوں سے دشمنی مہنگی پڑتی ہے لہٰذا اب مسلمانوں کو سمجھا رہے تھے کہ اُنہیں یونانیوں سے بچانے آئے ہیں۔ کیا مولانا روم پسند کرتے کہ ُان کے مقبرے کی نگرانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی بجائے عیسائی متعین ہو جائیں؟ عثمانی سلطنت کا شہزادہ عبدالرحمان جب اتحادی افواج سے مذاکرات کرنے نکلا تو قدرت نے اطالوی سپہ سالار سے اُس کی ملاقات کے لیے قونیہ کو پسند کیا۔ یہیں اطالوی سپہ سالار نے اِقرار کیا کہ اطالوی سپاہی ترکی میں مسلمانوں کو یونانیوں سے بچانے آئے ہیں۔ مذاکرات جاری تھے کہ ِازمیر میں یونانی افواج کے داخل ہونے کی اطلاع ملی۔ اُس روز ۱۵ مئی تھی۔ صوبے کے مرکزی شہر سمرنا میں جس نے سب سے پہلے یونانی افواج پر گولی چلائی وہ ایک صحافی حسن تحسین تھا۔ شہید ہو گیا۔ ترک فوجی خلیفہ کے حکم کے خلاف عوام میں اسلحہ تقسیم کر رہے تھے۔ عوام اپنے گھروں کو بچانے کے لیے ہتھیار لگا کر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور یونانیوں کے ہاتھوں مارے جا رہے تھے۔ مصطفی کمال پاشا کچھ اور دیکھ رہے تھے۔ ’’اگر دشمن سے یہاں آنے کی حماقت سرزد نہ ہوتی تو پوری قوم بے خبر سوتی رہ جاتی،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ترک فوج کے ہر دَستے میں بغاوت کا منصوبہ بن چکا تھا۔ برگیڈئر مصطفی کمال سے بڑے عہدوں والے بھی اُن کی قیادت تسلیم کر چکے تھے مگر خلیفہ اُس وقت تک بیخبر رہا جب تک مصطفیٰ کمال استنبول سے روانہ نہ ہو گئے۔ بندرگاہ پر موجود برطانوی افسروں نے بحری جہاز کی تلاشی لی۔ مصطفی کمال نے ساتھیوں سے کہا، ’’نادان نہیں جانتے کہ ہم اپنے ساتھ ہتھیار نہیں بلکہ یقیں محکم اور عزم لے جا رہے ہیں۔ ایک قوم کی آزادی سے محبت اور اُس کی خاطر لڑنے کے ارادے کو یہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف مادی قوت پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘۱۳۲ ۱۹۵ پروفیسر نکلسن کے خیال میں ’اَسرارِ خودی‘ کا دیباچہ خارج نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انگریزی میں ترجمہ کروایا۔ اِرادہ تھا انگریزی اڈیشن میں اسے شائع کریں گے۔ معلوم ہوا کہ وہ اسلامی شاعری اور تصوف کے موضوع پر کتاب بھی لکھ رہے تھے۔ اقبال کو خیال ہوا کہ شائد یہ کتاب ایک حد تک وہی کام دے جو وہ اپنی تاریخِ تصوف سے لینا چاہتے تھے جسے مکمل کرنے کا اب کوئی ارادہ نہ تھا۔۱۳۳ ۱۹۶ انہی دنوں آفتاب پرستی کے بارے میں کسی تحقیق کے بارے میں بھی کچھ معلوم ہوا جس سے خیال ہوا کہ عجمی تصوف کے چھپے ہوئے تانے بانے سامنے آ جائیں گے۔۱۳۴ ۱۹۷ مولانا اسلم جیراجپوری حیاتِ حافظ کے مصنف تھے۔ خواجہ حافظ شیرازی پر جو بحث ’اَسرارِ خودی‘ کی اشاعت کے بعد سامنے آئی تھی اُس میں حصہ نہ لیا۔ ان کی نظر میں وہ اُصولی بحث نہ تھی۔ ایک دوست نے پیرزادہ مظفر احمد فضلی کی مثنوی رازِ بیخودی انہیں دی تو قلم اُٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ طویل مضمون لکھا۔ کئی پہلوؤں پر بحث کی۔ ۱ احترامِ سلف: اچھی بات تھی کہ اقبال نے خواجہ حافظ والے اشعار نئے ایڈیشن سے نکال دیے تھے۔ ان اَشعار میں اس اصول کی خلاف ورزی کر بیٹھے تھے کہ قوم جن بزرگوں کو محترم سمجھتی ہو اُن کا نام ہمیشہ احترام کے ساتھ لینا چاہیے۔ ان اشعار نے ایک تلخ بحث کو جنم دیا (جس کا نقطۂ عروج پیرزادہ فضلی کی رازِ بیخودیتھی)، ورنہ حافظ شیرازی کی شاعری کے بارے میں ایسی آرأ پہلے بھی پائی جاتی تھیں۔ مولانا حالی نے بھی حیاتِ سعدی میں ایسی ہی رائے دی تھی۔تلخ بحثوں نے ’اَسرارِ خودی‘ کے اصل موضوع پر پردہ ڈال دیا جبکہ وہ مفید تھا۔ ۲ لسان الغیب: اقبال نے اُس اثر پر اعتراض کیا تھا جو حافظ کے کلام سے جذبات پر پڑتا تھا۔ حکیم طغرائی نے جواب میں جو رسالہ لسان الغیب لکھا اُس میں اِس پر کوئی بات نہ کی بلکہ حافظ کے شاعرانہ اور صوفیانہ کمالات ثابت کرنے پر زور صرف کیاجس کا بحث سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ حافظ کی تعریف میں شبلی نعمانی مرحوم کی شعرالعجم کے حوالے دیے جبکہ اسی شعرالعجم میں شبلی نے لکھا تھا، ’’افسوس ہے کہ [عمر] خیام خواجہ حافظ کی طرح صوفی نہ تھا ورنہ اُس کی شراب بھی شرابِ معرفت بن جاتی۔‘‘ ۳ حافظ و عرفی: عجیب بات ہے کہ حافظ شیرازی پر اعتراض کرنے کے بعد اقبال نے عرفی کو رہنماکے طور پر پیش کر دیا جبکہ دونوں کی برائیاں یکساں ہیں۔ اس کے علاوہ عرفی خود حافظ شیرازی کا عقیدتمند تھا۔ ۴ بحثِ خودی: اقبال نے تصوّرِ خودی اس لیے پیش کیا ہے تاکہ اُمّتِ اسلامیہ میں قوتِ عمل بحال کی جائے۔ ۵ بحثِ تصوّف: مسلمانوں میں قوتِ عمل مفقود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک بیرونی عنصر مذہبی رنگ میں آ کر مسلمانوں پر غالب ہو گیا۔ یہ بیرونی عنصر تصوّف تھا جبکہ اسلام ایک پیغامِ عمل ہے۔ ۶ مسئلہ عینیت: فلسفہ میں مسئلہ عینیت (Theory of Ideas) افلاطون نے پیش کیا تھا۔ تصوّف میں اس مسئلے نے ایک اور صورت اختیار کی۔ ’’ہمہ اوست‘‘ یعنی ’’سب وہی ہے‘‘ کہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا اور مخلوق کے درمیان فرق ہی ختم ہو گیا۔بعض صوفیوں نے لا اِلٰہ الااللہ کہنے کو شِرک قرار دے دیا۔ ۷ علم و عقیدت کی جنگ: اقبال اپنے علم اور بصیرت کی بنیاد پر صحیح مشورہ دے رہے ہیں مگر لوگ اپنی پرانی عادات اور بعض شخصیات کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ۸ تصوف اور اِسلام: اقبال کے بعض مخالفین کہتے ہیں کہ تصوف عین اسلام اور اسلام عین تصوف ہے۔ حقیقت میں ’’سرچشمۂ اسلام یعنی قرآن و حدیث تصوف کے لفظ تک سے نا آشنا ہیں۔ یہ لفظ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔‘‘ ۹ زوالِ شوکتِ اسلام: شوکتِ اسلام کے زوال کا اصل سبب اُس جمہوریت کا ختم ہونا تھا جسے اسلام لایا تھا۔ نتیجے میں (ا) استبدادی حکومت نے عوام کو غلام بنا دیا؛ (۲) ائمہ اور علمأپر پابندیاں لگیں؛ (۳) اِن عوامل نے مسلمانوں کو عمل کی آزادی سے محروم کیا؛ (۴) علمی تقلید نے فکری آزادی سے بھی محروم کر دیا؛ (۵) تصوف جو ایک بیرونی عنصر تھا اُس کے شامل ہو جانے سے جمود پیدا ہوا جس نے زوال کے اِن اسباب کو مزید تقویت دی۔ علاج یہی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کیا جائے۔ اقبال نے یہی دعوت دی ہے۔ مضمون اقبال کی نظر سے گزرا تو فارسی کا مصرع یاد آیا کہ اِس قحط الرجال میں ایک تمہی کو جوانمرد پایا ہے۔۱۳۵ تبصرہ ’اَسرارِ خودی مولانا اسلم جیراجپوری [اقتباس] اصلیت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی حکیمانہ طبیعت نے جب مسلمانوں کے تنزل کے اسباب و علل دریافت کرنے کی طرف توجہ کی تو یہ سراغ پایا کہ اُمّتِ اسلامیہ سے قوتِ عمل فنا ہو گئی اور جو عملی ولولہ اور جوش سلف میں تھا وہ خلف میں نہیں رہا اور چونکہ ترقی کا دارومدار عمل پر ہے اس لیے پھر اسی قوتِ عمل کو زندہ کر کے ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ اس قوتِ عمل کے احیأ کے لیے ضروری ہے کہ ہم کو اپنی ہستی کا بھی احساس ہو۔ اس نظریے کی تعلیم کے لیے انہوں نے یہ مثنوی لکھی ہے۔۔۔ اصل مرکزِ بحث یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہیں کہ مذہب اسلام ایک حقیقی پیغامِ عمل ہے۔ باوجود پیروِ اسلام ہونے کے موجودہ مسلمانوں میں جو جمود ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن پر ایک بیرونی عنصر مذہبی رنگ میں آ کر غالب ہو گیا ہے اور وہ تصوف ہے۔ اسی تصوف کے مسئلہ فنا اور نفس کُشی نے مسلمانوں کی قوتِ عمل کو باطل کر دیا ہے۔ کیونکہ تصوّف کا اثر تمام ادبیاتِ اسلامیہ میں ساری ہو گیا ہے اور ہر قوم کے ادبیات کا ایک تاریخی اثر اُس قوم کے جذبات اور قوائے نفسانیہ پر ہوتا ہے۔ اس لیے رفتہ رفتہ اس کے اثر سے ہماری قوتِ عمل جاتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مسئلہ نفیِ خودی کو بنی نوعِ انسان کی مغلوب قوموں نے ایجاد کیا ہے کہ اس تعلیم سے مخفی طور پر غالب قوموں کو کمزور بنائیں۔ یونان میں فلسفۂ اشراق اور ایران میں تصوّف پھیلا۔ اس وجہ سے ضمناً افلاطون اور حافظ کا بھی تذکرہ آیا۔۔۔ تمام مصلحوں اور پیشواؤں کو سب سے پہلی خطرناک منزل جو پیش آتی ہے وہ یہی علم و عقیدت کی جنگ ہے۔ مصلح دیدۂ تحقیق سے دیکھ کر ڈراتا ہے کہ اے قوم! جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اُسے پھینک دے کیونکہ یہ زہریلا سانپ ہے۔ مگر رسم پرست قوم کہتی ہے کہ نہیں، یہ تازیانہ ہے۔۔۔ اس جنگ کے ہزارہا تماشے دنیا دیکھ چکی ہے لیکن ابھی تک بدستور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک شخص علمی تحقیقات سے مفید اور صحیح خیالات قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ قوم اس کو جاہل، دشمنِ اسلام اور کافر بتاتی ہے۔ امام غزالی، ابن رشد اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کسی کی کتابیں جلائی جاتی ہیں، کوئی جلاوطن کیا جاتا ہے۔ کسی کو قیدخانے جانا پڑتا ہے۔ عقیدہ وہی صحیح ہے جس کی بنیاد علمِ یقینی پر ہو۔ النّاظر (لکھنؤ)۱۳۶ بنام مولانا اسلم جیراجپوری لاہور۔ ۱۷ مئی ۱۹۱۹ئ؁ مخدومی۔ السّلام علیکم آپ کا تبصرہ اسرارِ خودی پر رسالہ الناظر میں دیکھا ہے جس کے لیے میں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔ ’’دیدمت مردے دریں قحط الرجال‘‘ خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصود محض ایک لٹریری اُصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا اُن کے معتقدات سے سروکار نہ تھا۔ مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اُصول یہ ہو کہ حُسن حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرأ میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کے اشارے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی مثلاً گرفتم آنکہ بہشتم دہند بے طاعت قبول کردن و رفتن نہ شرطِ انصاف است لیکن اس مقابلے سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں۔ کیمبرج کے پرو فیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنوا ہیں کہ دیباچہ دوسری ایڈیشن سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا ہے۔ شاید انگریزی ایڈیشن کے ساتھ شائع کریں۔ پیرزادہ مظفرالدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اُس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوّف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری رُوح اُس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ پروفیسر نکلسن ’’اسلامی شاعری اور تصوف‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی۔ ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابنِ حزم کی ’’فہرست‘‘ میں ہے فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ مؤلف نے فرنچ زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ حسین کے اصلی معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے مسلمان منصور کی سزادہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابنِ حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لُطف یہ ہے کہ متقدمین صوفیہ قریباً سب کے سب منصور سے بیزار تھے۔ معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے۔ مذہب آفتاب پرستی کے متعلق جو تحقیق حال میں ہو رہی ہے اس سے اُمید ہوتی ہے کہ عجمی تصوّف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کو معلوم ہو جائے گی۔ مجھے اُمید ہے کہ اس طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکینِ قلب ہوئی۔ اس وجہ سے مجھے یہ چند سطور لکھنے کی جرأت ہوئی۔ اُمید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا مخلص محمدؐ اقبال لاہور، ۱۷ مئی ۱۹ئ؁ ۱۹۸ ۱۷ مئی کو عطامحمد کاتار آیا۔ خیریت سے تھے۔ انہی دنوں اقبال کی کوئی بہن بھی غالباً اپنی سسرال جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے لاہور ٹھہریں۔ اقبال نے اعجاز کے پرچوں کے لیے آیت کریمہ کا وِرد شروع کروا رکھا تھا۔ ۱۹۹ ۱۸ مئی تھی۔نظم ’پیام‘ کے لیے ایک نیا شعر وارد ہوا کہ عقل بجلی کو قابو میں کر لیتی ہے مگر عشق اُسے اپنے جگر پر سہتا ہے لہٰذا زیادہ بہادر ہے۔ غالباً اگلے روز نیازالدین خاں کا خط ملا۔ تازہ اشعار اصلاح کے لیے بھیجے تھے۔ اقبال نے جواب میں ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ گرامی کودکھائیں اور کل خود جو شعر کہا تھا وہ بھی گرامی کے لیے بھیجا۔شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈ ملا تھا، اُس روز اُس کے جواب میں دو کارڈ بھیجے۔ اُس روز ترکی کے دُورافتادہ شہر صمصون میں مصطفی کمال نے فوجی افسروں سے رابطہ کر کے انہیں صبر و تحمل کے ساتھ شہریوں کو منظم کرنے کی ہدایت دی۔ یہی دن تھا جسے ترک آئندہ اپنی جنگ ِ آزادی کی سالگرہ کے طور پر منانے والے تھے۔ اے صبا میری طرف سے مغرب کے فلسفی سے کہنا کہ عقل جتنا پر کھولتی ہے پھنستی ہی چلی جاتی ہے! عقل بجلی کو قابو میں کر لیتی ہے مگر عشق اُسے اپنے جگر پر سہتا ہے لہٰذا زیادہ بہادر ہے۔ آنکھ لالہ و گل کے رنگ کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی ورنہ جو کچھ رنگ کی اوٹ میں ہے وہ زیادہ ظاہر ہے۔ حیرت کی بات وہ نہیں کہ تم مسیحائی کا معجزہ رکھتے ہو بلکہ حیرت اِس پر ہے کہ تمہارے بیمار کی حالت بگڑتی ہی چلی جاتی ہے! علم و حکمت اگر اُس میں کتے کی صفات پیدا کر دیں تو پڑھا لکھا آدمی جانوروں سے بدتر ہے۔ اگر مالک غلام کی روزی مار کر عیش کر رہا ہے تو غلام زیادہ آزاد اور مالک زیادہ غلام ہے۔ پیام از من اے بادِ صبا گوے بدانائے فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بجگر می زند آں رام کند عشق از عقلِ فسوں پیشہ جگردار تر است چشم جز رنگِ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار تر است عجب آں نیست کہ اعجازِ مسیحا داری عجب این است کہ بیمارِ تو بیمار تر است علم و حکمت اگرش خوئے سگی باز دہد آدمی زادۂ دانا زدداں خوارتر است خواجہ را قیمتِ عیش است اگر مزدِ غلام بندہ آزادتر و خواجہ گرفتار تر است۱۳۷ ۲۰۰ اعجاز امتحان دے کر سیالکوٹ جا چکے تھے۔ افغانستان سے جنگ کا اتنا فائدہ ضرور ہوا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز کوئی آدمی سرحد سے آتا اور اقبال کو عطامحمد کی طرف سے دستی خط یا خیریت کی زبانی خبر مل جاتی تھی۔ اُنہی دنوں منشی طاہردین پشاور گئے۔ اقبال نے کسی کام سے عطامحمد کے پاس بھیجا ہوگا۔ ایک خط میں اعجاز سے اس کا ذکر بھی کیا مگر وہ خط موجود نہیں ہے۔۱۳۸ ۲۰۱ ۲۳ مئی تھی۔ استنبول میں سلطان احمد کی نیلی مسجد کے سامنے ہجوم جمع تھا اور ایک عورت خطاب کر رہی تھی۔ یہ خالدہ ادیب خانم تھیں جنہوں نے امریکی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پردہ نہیں کرتی تھیں۔ ترکوں کو آزادی کی خاطر لڑ مرنے کا درس دے رہی تھیں۔ مفتیوں کی نظر میں یہ عورتیں اسلام کی مجرم تھیں۔ پردہ چھوڑ کر گھروں سے نکلی تھیں۔ شیخ الاسلام کا فیصلہ تھا کہ جن مسیحی فوجوں کے ہاتھوں ترکی میں ہر روز سیکڑوں مسلمان عورتوںکی عزت اُن کے گھروں میں لوٹی جا رہی تھی اُن کی اطاعت کرنا بھی مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ ایک مولوی صاحب نے’’ انگلیس محب لیری جمعیت‘‘ یعنی انگریزدوست انجمن بھی بنائی تھی۔ ارکان بھرتی کرنے کا کام ایک پادری صاحب کے ذمے تھا۔ اپنے ملک کے مولویوں سے بعض اختلافات کے باوجود خالدہ ادیب خانم اِس نکتے پر اُن سے متفق تھیں کہ ترکی کو امریکہ کی نگرانی میں دے دیا جائے۔ اُن کے نزدیک آزادی کا یہی راستہ تھا۔ ۲۰۲ زمانہ(کانپور) کے جون کے شمارے میں بھولاناتھ کرنل کا مضمون ’مباحثہ‘ شائع ہوا۔ مارچ میں خواجہ عبدالواجد ندوی نے اُن کے اعتراضات کا جواب دیا تھا۔ یہ جواب الجواب تھا۔۱۳۹ ۲۰۳ ایک طرح سے انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کا حصہ تھا کہ اسکولوں میں طلبہ سے اورنگزیب عالمگیر پر تنقید کروائی جائے (لالہ رام پرشاد کی مترجمہ تاریخِ ہند میں بھی ہوئی تھی اگرچہ اقبال کا نام بطور شریک مصنف استعمال ہوا تھا)۔ کئی برس پہلے شبلی نعمانی کی عالمگیر پر ایک نظر اور پچھلے برس شائع ہونے والی اقبال کی ’رموزِ بیخودی‘ میں شیر اور شہنشاہ والی حکایت اس کے برعکس تھیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں، روشن خیال ہندو بھی متفق تھے۔ شہنشاہِ عالمگیر خلدآشیانی از پنڈت وتستہ پرشاد صاحب فداؔ بی اے تھرڈ ماسٹر دیال سنگھ ہائی سکول لاہور [اقتباس] سکولوں کے نصاب تعلیم میں جس دن سے تاریخِ ہند شامل ہوئی ہے۔ اُس دن سے خاندانِ مغلیہ کے سب سے زیادہ مقتدر اور صاحبِ شوکت شہنشاہ محی الدین اورنگزیب [کے ضمن] میں طرح طرح کی نازیبا باتیں کہنے اور سننے میں آ رہی ہیں۔ امتحانوں میں اکبر کے احسان گنواتے وقت سادہ لوح طالب علم دو تین نمبروں کی خاطر بہتیری ناگفتنی و ناشنیدنی باتیں شہنشاہ عالمگیر کے حق میں لکھتے ہیں۔ لیکن کسی کو خیال تک نہیں آتا کہ کہیں انصاف کا خون نہ ہوتا ہو۔ اور تو اور مسلمان طلبأ کو بھی اتنی وسعت نصیب نہیں ہوئی کہ اصل واقعات کو عدل و انصاف کی کسوٹی پر پرکھ کر تو دیکھیں۔ اُن کی خودداری اور غیرت کے جذبات نے بھی اس بات کا تقاضا نہ کیا۔ کہ جس بادشاہ نے بڑی عالی حوصلگی سے مال کو صدقۂ جان اور جان کو صدقۂ ایمان کر کے دکھا دیا۔ اُس پر بہتان باندھنے والوں کی کچھ تو روک تھام کی جائے۔۔۔ مخزن، جون ۱۹۱۹ء ۲۰۴ ہندوؤں کے مقدس دھاگے زُنّار میں تسبیح کا دانہ پرونا سیکھو اور اگر تمہاری نظر ایک کو دو دیکھنے والی ہے تو نہ دیکھنا سیکھو: دانۂ سبحہ بہ زنار کشیدن آموز گر نگاہِ تو دوبین است ندیدن آموز آٹھ اشعار کی فارسی غزل بیاض میں درج ہوئی۔۱۴۰ ۲۰۵ ۶ جون کو عطامحمد کے دو خطوط آئے۔ اقبال پرچے جانچنے میں مصروف تھے اور خیال تھا کہ جون کے آخر تک فرصت ملے گی۔اعجاز کا کوئی خط آیا جس میں ملازمت کے بارے میں مشورہ مانگا تھا۔ ایک رشتہ دارلڑکا ظفر کوئٹہ سے میٹرک کے امتحان میں پاس ہو کرلاہور آیا تھا ، ۸ جون کو نِت اور وہاں سے سیالکوٹ جانے والا تھا۔ دو مہینے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ اقبال نے مشورہ دیا کہ ابھی کتابیں نہ خریدے۔ شیخ نورمحمد کا کارڈ ملا اور ۷ جون کو اقبال نے اس کا جواب دیا۔ ۲۰۶ ظفر جا چکا تھا۔ ۹ جون کو شیخ نورمحمد کا خط ملا۔ اقبال نے اُسی وقت جواب میں لکھا کہ جون کے آخر تک سیالکوٹ آئیں گے۔ فرصت بھی ہو جائے گی اور ریل کے سفر کی مشکلات بھی کم ہو چکی ہوں گی۔ افغانستان سے جنگ کی وجہ سے ریل گاڑیاں فوجی ضروریات کے لیے استعمال ہورہی تھیں۔ شہریوں کو مشکل سے جگہ ملتی تھی۔ ۲۰۷ ۱۱ جون کو اعجاز کے نام انگریزی میں لکھا کہ ابھی سے ملازمت کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ بی اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد یونیورسٹی پچاس روپیہ ماہانہ پر کلرک رکھ سکتی تھی مگرایم اے کا امتحان دینے کی اجازت نہ ملتی۔ شعبۂ تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسری بہتر رہے گی۔ ’’جب تم ایم اے پاس کر لو گے تو میں سرکارِ ہند میں تمہاری ملازمت کے لیے کوشش کر سکتا ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اگر تمہیں کوئی ملازمت نہ ملی تو میں کسی نہ کسی طرح ایم اے کی پڑھائی کے اخراجات کی کفالت کر لوں گا۔‘‘ ۲۰۸ اقبال کو محسوس ہو رہا تھا جیسے لاہور میں ایسی گرمی پہلے کبھی نہ پڑی ہو۔بارش کے آثار بھی نہیں تھے۔ ابھی تک پرچے جانچنے سے فرصت نہیں ملی تھی۔ مختار بیگم لدھیانے میں اپنے میکے گئی ہوئی تھیں اور جون کے آخر تک آنے والی تھیں۔اس کے بعد سیالکوٹ جانے کا ارادہ تھاجس کے انتظامات اس سال زیادہ مشکل معلوم ہو رہے تھے۔ جولائی میں کچھ مقدمے بھی تھے جنہیں کسی دوسرے کے سپرد کرنا چاہتے تھے مگر یہ بھی خیال آتا کہ اس کے بعد اگلے دو مہینے عدالتیں بند ہوں گی گویا تین مہینے بیکاری میں گزریں گے۔ علی بخش اور دوسرا ملازم اپنے اپنے گاؤں جانا چاہتے تھے مگر لاہور میں اقبال اوربیویوں کی غیرموجودگی میں کسی کا گھر پر ہونا ضروری تھا۔ لاہور سے بھی نوکر مل جاتا مگر اعتبار کا ہونا ضروری تھا اس لیے علی بخش نے ہشیارپور خط لکھا۔ افغانستان سے جنگ کی وجہ سے ریل گاڑیاں ابھی تک فوجی ضروریات کے لیے مخصوص تھیں اور شہریوں کو جگہ مشکل سے ملتی تھی۔ بہنوئی کرم الٰہی کے موٹر بھی منگوائے جا سکتے تھے مگر اقبال کا خیال تھا کہ اس طرح کرم الٰہی کو کرائے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ افغانستان سے صلح ہونے کے آثار تھے چنانچہ شائد ریل ہی سے سفر کرنا ممکن ہو جاتا۔ نواب ذوالفقار علی خان کا موٹر جس پر کبھی اقبال نے نظم لکھی تھی اب پرانا ہو چکا تھا۔ لمبے سفر کے قابل نہیںتھا۔۱۴۱ ۲۰۹ عطامحمد کی طرف سے ایک خط ملا مگر شیخ نورمحمد اور اعجاز کی طرف سے خطوط کے جواب نہیں آئے تھے۔ ۱۷ جون کو شیخ نورمحمد کو خط لکھا۔ ۲۱۰ ۲۰ جون کو شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈ ملا۔ اسی وقت جواب میں سیالکوٹ کے سفر کی تیاریاں اور مشکلات درج کیں، ’’جہاں ایک دفعہ گھر بن جائے وہاں سے اٹھنے کے لیے سو انتظام کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ۲۱۱ پٹیالہ کے ایک پیرزادہ خاندان کا مقدمہ تمام ریاست میں مشہور ہو رہا تھا۔ اقبال کوبھی اگلے مہینے کی ۲۴ تاریخ کو وہاں ہوناتھا۔ سوچا سیالکوٹ ہو کر وہاں چلے جائیں گے۔ ۲۶جون کی صبح مستری نوردین سیالکوٹ سے آیا تو معلوم ہوا کہ سیالکوٹ سے وزیرآباد تک ریل کا سفر آسان تھا مگر اُس کے راستے میں بہت مشکل ہوتی تھی۔ پرمٹ لینا پڑتا تھا اور پھر بھی ضروری نہ تھا کہ ریل میں جگہ ملے۔ اُسی روز اعجاز کوخط لکھا کہ تحقیق کر کے بتائے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر اقبال پٹیالہ والا کام نمٹانے کے بعد ہی سیالکوٹ آئیں گے۔ بات درست نکلی یا نہیں مگر اقبال اُس مہینے سیالکوٹ نہ گئے اور روانگی کی تاریخ ۲۹ جولائی مقرر کی۔۱۴۲ ۲۱۲ ۲۸ جون تھی۔ فرانس میں سہ پہر کے چار بجنے میں دس منٹ رہتے تھے جب ورسیلز کے محل میں جرمنی کے دو نمائندوں نے ۲۰۰ صفحات کے اُس معاہدے پر دستخط کیے جس کے مطابق عالمی جنگ کی پوری ذمہ داری جرمنی پر عائد ہوتی تھی جس کے تاوان میں اُسے نہ صرف اپنے ملک کا بہت سا علاقہ اتحادیوں کے حوالے کرنا تھا بلکہ وہ بھاری رقوم بھی ادا کرنا تھیں جن کا تعین اتحادی بعد میں اپنی مرضی سے کرتے رہیں گے۔ خونی صلح نامہ دیکھ کر لائڈ جارج بھی پکارے تھے کہ ایسی صلح زیادہ سے زیادہ پچیس برس میں ایک نئی جنگ چھیڑ دے گی جس کی قیمت پچھلی جنگ سے تین گنا زیادہ ہو گی۔فرانس کے وزیراعظم خوش تھے۔فرمائش پوری ہو رہی تھی۔ جرمنی کی سڑکوں پر فرانس کے پرچم جلائے جا رہے تھے، امریکی صدر کو گالیاں نصیب ہو رہی تھیں اور جمعیت اقوام کو رہزنوں کی انجمن قرار دیا گیا تھا۔ اس بے قرار ہجوم میں ایک ناکام مصور کا نام اڈولف ہٹلر تھا۔ ۲۱۳ خاندان میں کوئی شادی تھی۔ بارات کے ساتھ اعجاز بھی لاہور آئے۔۱۴۳ ۲۱۴ منشی طاہردین دوبارہ پشاور گئے ہوئے تھے اور ۹ جولائی کو آنے والے تھے۔ انہی دنوں عطامحمد کا خط بھی آیا۔ نواب ذوالفقار علی خاں شملہ میں تھے اور لاہور میں اُن کا کوئی آدمی موجود نہیں تھا اِس لیے امید نہیں تھی کہ موٹر مرمت ہوا ہوگا مگر ۸ جولائی کو اقبال نے انہیں خط لکھ کر دریافت کر لیا۔ اُسی روز اعجاز کو بھی خط لکھا کہ احتیاطاً کرم الٰہی کے موٹر کی بات کر لے۔ لاہور سے سیالکوٹ گجرانوالے کے راستے تین چار گھنٹے کا سفر تھامگر بہتر تھا کہ پٹرول وہیں سے خرید لیا جاتا کہ لاہور میں شائد مشکل سے ملتا یا مہنگا ملتا۔ سفر میں صرف اقبال اور اُن کی دو بیویاں ہی نہ ہوتے۔ ’’معلوم نہیں بھائی کرم الٰہی کے موٹر میں کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں،‘ ‘اُنہوں نے لکھا۔ ’’تین آدمی تو ہم ہوں گے۔ دو نوکر یعنی کھانا پکانے والی عورت اور اُس کی لڑکی۔ اِن سب کے علاوہ تم اور موٹر ہانکنے والا۔ کُل سات آدمی ہوئے۔ دو تین ٹرنک اسباب بھی ہوگا۔ غرضکہ تم یہ سب امور پہلے دیکھ کر مجھے مطلع کرو کہ آیا موٹر میں اِس قدر وُسعت ہے۔ اگر ہو تو جب میں لکھوں تم موٹر لے کر آجانا۔‘‘ ۲۱۵ شیخ نورمحمد کا خط آیا۔ ’’یہ خدا کا فضل ہے کہ آپ کی زندگی میں یہ خوشی نصیب ہوئی،‘‘ ۱۰ جولائی کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے پچھلے دنوں خاندان میں ہونے والی شادی کے حوالے سے لکھا۔ ۲۱۶ ۱۵ جولائی کی شام لاہور میں بی اے کا نتیجہ نکلا۔ اعجاز پاس ہو گئے تھے۔۱۴۴ ۲۱۷ اقبال نے عطامحمد کو لکھا کہ ایل ایل بی کے بہت سے فائدے ہیں لہٰذا اعجاز کو اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ ’’وکیل کا کام اگر بہت نہ بھی چلے تو دو ڈھائی سو روپے ماہوار کما لیتا ہے،‘‘ ۱۶ جولائی کو شیخ نورمحمد کواور ان کے ذریعے بھابھی صاحبہ کو اعجاز کی کامیابی پر مبارکباددیتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس میں کچھ شک نہیں کہ پہلے چند سال محنت کرنی پڑتی ہے اور انتظار کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اِس لیے اس پر غور کر نے کے بعد مجھے لکھئے کہ اس کی طبیعت کا میلان کدھر ہے۔‘‘ لأ کالج کے پرنسپل لالہ کنور سین ایم اے بیرسٹر سے بھی اعجاز کا ذکر کیا۔۱۴۵ ۲۱۸ ۲۴ جولائی کو جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین کی صدارت میں ہوا۔اگلے برس انجمن حمایت اسلام سالانہ جلسے کے ساتھ ایجوکیشنل کانفرنس بھی کرنا چاہتی تھی۔ مقصد پنجاب کے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر غور کرنا اور تجاویز پر عملدرآمد کرنا تھا۔اس کے لیے اکیس رکنی سب کمیٹی بنی۔ خلیفہ شجاع الدین سیکرٹری اور میاں بشیر احمد جوائنٹ سیکرٹری ہوئے۔ اقبال کا نام ارکان میں شامل کیا گیا۔۱۴۶ اُس روز وہ پٹیالہ میں مقدمہ نمٹا رہے ہوں گے۔ دو روز بعد لاہور پہنچے اور شیخ نور محمد کو لکھا، ’’آج صبح واپس آگیا ہوں۔ اب ۲۸ جولائی کو لاہور میں ایک مقدمہ ہے۔ اُس سے فارغ ہو کر انشأ اللہ ۳۰ جولائی کو حاضرِ خدمت ہونے کا قصد ہے۔‘‘ اعجاز اُن کا تار ملنے پر موٹر لے کر آجائے۔ ۲۱۹ لاہور میں بارش ہوئی تھی۔ ہوا کی تپش کم ہوگئی۔ عطامحمد کا خط آیا جس سے معلوم ہوا کہ پشاور میں بھی تھوڑی سی بارش ہوئی ہے مگر یہ معلوم نہ ہوا کہ اعجاز کے مستقبل کے بارے میں اُنہیں اقبال کی رائے سے اتفاق ہے یا نہیں۔ اقبال کے بعض دوستوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اعجاز ایل ایل بی کرکے فائدے میں رہیں گے۔ ’’نہ یہ معلوم ہوا ہے کہ اعجاز کی رائے کیا ہے،‘‘ ۳۰ جولائی کو اقبال نے شیخ نورمحمد کے ایک پوسٹ کارڈ کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ سیالکوٹ روانگی کی تاریخ اب شائد ۳ اگست ٹھہری تھی۔ غالباً طے ہوا کہ لاہور سے وزیرآباد کا سفر ریل میں کریں گے اور اعجاز موٹر وزیرآباد لے آئیں گے تاکہ وہاں سے آگے موٹر میں جا سکیں۔ ۲۲۰ بڑی سعی سفارش سے ریل میں سیالکوٹ تک سیٹ ریزرو ہو گئی۔ ۲ اگست کو اعجاز کو تار دیا کہ موٹر نہ لائیں۔ اہل و عیال سمیت اسٹیشن پر پہنچے مگر عین وقت پر ریل والوں نے جواب دے دیا کہ فوجی افسروں کے آ جانے کی وجہ سے ریل میں جگہ نہیں مل سکتی۔ ’’چنانچہ رات کے ایک بجے میں مع عیال سٹیشن سے واپس آیا اور اس قدر روحانی اور جسمانی تکلیف ہوئی کہ بیان میں نہیں آسکتی،‘‘ اگلے روز اعجاز کو خط میں لکھا۔ ’’یہ تکلیف اِس قدر ہمّت شکن ہے کہ اب ریلوے سفر کی دوبارہ ہمّت مجھ میں باقی نہیں ہے۔ جب بارش تھم جائے اور سڑک وغیرہ ٹھیک ہو جائے تو موٹر لے آنا۔‘‘ اُس روز ایک مقدمہ ملا جس میں معقول فیس حاصل ہوئی۔۱۴۷ اُس روز حکومت پنجاب نے حسبِ معمول انجمن حمایت اسلام کے نام چٹھی لکھی کہ امپیریل لجسلیٹو کونسل میں پنجاب کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے اپنی طرف سے تین نام پیش کرے۔۱۴۸ ۲۲۱ شیخ نورمحمد کا پوسٹ کارڈ آیا۔ ۷ اگست کو اعجاز کا خط ملا۔ ایل ایل بی کرنے کی بجائے بی ٹی کر کے ٹیچر بننے کے بارے میں پوچھا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت نہ کریں تب بھی عمدہ ملازمت ملنے میں سہولت ہوگی۔ وکالت کرنا چاہیں تو اقبال سکھا سکتے ہیں۔ گھر میں قانونی کتب خانہ جمع ہو رہا ہے۔ اُس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تین سال کی وکالت کے بعد اعجاز ہائی کورٹ کے وکیل بن سکتے تھے۔ ’’اُس وقت اگر حالات مساعدت کریں تو تم کو دو سال کے لیے ولایت بھیج دیا جائے گا جہاں سے بآسانی بیرسٹر بن کر آسکو گے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’لیکن اگر تمہاری طبیعت اِس سے نفور ہے تو پھر بی ٹی پرمیں امتحان ایم اے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ ۲۲۲ ۸ اگست تھی۔ راولپنڈی میں افغانستان اور برطانوی حکومتِ ہند کے درمیان مذاکرات مکمل ہوئے۔ چھ ماہ کی عارضی صلح ہو گئی۔ افغانستان قبائلی علاقوں سے پیچھے ہٹ گیا۔ وہ سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کہتے تھے، برقرار ہی۔ برطانیہ نے اِسے فتح سمجھا۔ امیر امان اللہ کے لیے آزادی کی جانب پہلا قدم تھا۔ ۲۲۳ لالے کے پھول نے کہا: میں وہ شعلہ ہوں جو ازل کی صبح عشق کے آغوش میں بلبل اور پروانے کے ظاہر ہونے سے پہلے تڑپ رہا تھا۔ میں سورج سے بڑھا ہوا ہوں اور ہر ذرے میں سمایا ہوا۔ آسمان نے اپنی چنگاری میری آگ سے پیدا کی۔ میں نے چمن کے سینے میں سانس کی طرح گھر کر رکھا تھا۔ ایک نازک شاخ نے مجھے مٹی میں سے نم کی طرح کھینچ لیا۔ اُس نے میرا سوز ضبط کر لیا اور بولی، ’’اِک ذرا میرے پہلو میں ٹھہر جاؤ۔‘‘ لیکن میرے ستم زدہ دل کو قرار نہ آیا۔ شاخ کی تنگنائے میں اس نے بہت پیچ و تاب کھایا یہاں تک کہ میرا جوہر رنگ و بو کی جلوہ گاہ تک آ پہنچا۔ شبنم نے میرے راستے میں آبدار موتی بکھیرے، صبح کھلکھلائی اور بادِ صبا نے میرے گرد پھیرے لگائے۔ بلبل نے گلاب سے سنا کہ میرا سوز اُچک لیا گیا ہے۔ اُس نے شکوہ کیا اور بولی کہ زندگی کا لباس مہنگا مول لیا۔ سینہ چاک کیے ہوئے میں سورج کا احسان اُٹھا رہا ہوں۔ کاش یہ میری آگ کوپھر سے بھڑکا دے۔۱۴۹ ’اَسرارِ خودی‘ کے آخر میں اقبال نے اپنے آپ کو لالۂ صحرا سے تشبیہہ دی تھی۔ اب یہی استعارہ اُن کے ذہن میں مسلمان قوم کی علامت بن چکا تھا اور یہ نظم اس استعارے کی مکمل ترین وضاحت پیش کر رہی تھی۔ لالہ آں شعلہ ام کہ صبحِ ازل در کنارِ عشق پیش از نمودِ بلبل و پروانہ می تپد افزوں ترم زمہر و بہر ذرہ تن زنم گردوں شرارِ خویش زتابِ من آفرید در سینۂ چمن چو نفس کردم آشیاں یک شاخِ نازک از تہِ خاکم چو نم کشید سوزم ربود و گفت یکے در برم بایست لیکن دلِ ستم زدۂ من نیارمید در تنگنائے شاخ بسے پیچ و تاب خورد تا جوہرم بہ جلوہ گہِ رنگ و بو رسید شبنم براہِ من گہرِ آبدار ریخت خندید صبح و بادِ صبا گردِ من وزید بلبل زگل شنید کہ سوزم ربودہ اند نالید و گفت جامۂ ہستی گراں خرید واکردہ سینہ منتِ خورشید می کشم آیا بود کہ باز برانگیزد آتشم ۲۲۴ اقبال کی ایک بیوی کئی دنوں سے بیمار تھیں۔بازوؤں پر گرمی دانے نکلے تھے جن میں پانی پڑگیا اور بڑھ کر پھوڑے بن گئے۔ پھر اقبال کو پیچش ہو گئی۔۱۵۰ ۲۲۵ ۱۰ اگست کوامپیریل کونسل کی ممبری کے لیے تجویز کرنے کو پانچ نام انجمن کے سامنے تھے۔ حکومت پنجاب نے صرف تین نام مانگے تھے۔ شیخ علی محمد کی صدارت میں جنرل کونسل کے اجلاس میں اکثریتِ رائے سے اقبال، مولوی انشأ اللہ خاں انشا اور میاں فضل حسین کے نام حکومت کو تجویز کرنے کے لیے منتخب ہوئے۔ بقیہ دو نام ملک عمر حیات خاں اور میاں حق نواز کے تھے۔۱۵۱ ۲۲۶ برسات میں مرض بڑھ سکتا تھا اس لیے ۱۱ اگست کی صبح اقبال نے پیچش کا ٹیکہ لگوا لیا۔ اُس روز شیخ نورمحمد ، اعجاز اور عطا محمد کے خطوط آئے۔ طاہردین پھر پشاور بھیجے جانے والے تھے مگر عطامحمد نے لکھا کہ ضرورت نہیں۔ وہ خود سیالکوٹ جائیں گے۔ ’’غلام محمد کا میرے پاس مبلغ چار سو روپیہ ہے تم اُن کو وہاں سے دے دو ،‘‘ انہوں نے فوراً اعجاز کو جواب لکھتے ہوئے اپنے بہنوئی کے بارے میں ہدائت دی۔’’والد مکرم کی خدمت میں آداب عرض۔‘‘ افغانستان سے صلح ہو جانے کی وجہ سے اُمید تھی کہ َاب عطا محمد کو ایک دو ہفتے کی چھٹی مل سکے گی۔ اُنہوں نے شائد کچھ چیزیں سیالکوٹ بھجوائی تھیں جن میں اقبال کے لیے کشمیرے کا کپڑا بھی تھا۔ بنام شیخ اعجاز احمد برخوردار اعجاز طال عمرہ‘ کل میں نے تمہیں خط لکھا تھا مگر ایک دو باتیں بھول گیا۔ (۱) کشمیرے کا سوٹ تم بنا لو فی الحال مجھے ضرورت نہیں۔ (۲) قانون کے متعلق جو مشورہ تم کو دیا گیا اُس میں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اِس میں کوئی مجبوری نہیں۔ اگر تمہاری طبیعت خود اس فیصلے پر صاد کرے تو اس پر عمل کرنا چاہئے ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔ بصورتِ دیگر ایم اے میں داخل ہو سکتے ہو۔ (۳) یہ بات دریافت طلب ہے کہ جب موٹر تم وزیرآباد لائے تھے تو کیا سڑک کی خرابی کی وجہ سے موٹر کو کوئی نقصان پہنچ گیا تھا؟ اگر ایسا ہوا تو کیا نقصان ہوا؟باقی خیریت ہے۔ والد مکرم کی خدمت میں آداب عرض کردیں۔ والسلام محمد اقبال لاہور ۱۲ اگست ۱۹۱۹ء ۲۲۷ اگلے روز کشمیرے کے سوٹ کے بارے میں ایک اور بات یاد آگئی۔ ’’بھائی صاحب نے لکھا تھا کہ کشمیرے کے کوٹ کے لیے استر سیالکوٹ سے خرید نہ کرنا، وہیں سے بھیجا جائے گا،‘‘ اعجاز کو لکھا۔ ’’میں پھر گاڑی ریزرو کروانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اُمید ہے دو تین روز تک ہو جائے گی۔‘‘ نیازالدین خاں کا خط ملا جنہوں نے کوئی تازہ غزل بھیجی تھی۔ پیچش کی وجہ سے جواب نہ دے سکے۔ ۲۲۸ ۱۴ اور ۱۵ اگست کی درمیانی رات تھی۔ محمد علی جناح اپنی بیگم کے ساتھ لندن میں تھے۔ وہ مسلم لیگ کے وفد کے قائد کے طور پر لائڈ جارج کو اِس بات پر آمادہ کرنے آئے تھے کہ پیرس میں ہونے والی امن کانفرنس میں ہندوستان کی نمایندگی کرنے والوں میں کم سے کم ایک مسلمان ضرور شامل ہو۔ انصاف کی بات تھی کیونکہ اتحادیوں کی فتح میں ہندوستانی مسلمان سپاہیوں کا بہت ہاتھ تھا۔ لائڈ جارج نے گول مول سا جواب دے کر ٹال دیا تھا۔ وائسرائے نے پہلے ہی لندن والوں کو لکھ بھیجا تھا کہ جناح ہندوستان میں انگریزی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ بیگم کے ساتھ لندن میں تھیٹر دیکھ رہے تھے جب اچانک بیگم کو لے کر ہسپتال کی طرف دوڑنا پڑا۔ آدھی رات کے کچھ دیر بعد اُن کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ ۱۴ اور ۱۵ اگست کی درمیانی رات تھی۔ ۲۲۹ ۱۶ اگست تک اقبال تندرست ہو چکے تھے اور وہ بیوی بھی جنہیں گرمی دانے نکلے تھے۔ اُس روز شیخ نورمحمد کے نام ایک خط ڈاک ڈالنے کے بعد اُن کا خط ملاجس میں طبیعت پوچھی تھی۔ اعجاز اور عطامحمد کے خط بھی ملے۔ ’’ٹیکا محض احتیاطاً لگوایا تھا کہ پیچش طویل نہ ہو جائے،‘‘ اعجاز کو جواب دیتے ہوئے شیخ نورمحمد کے لیے پیغام بھجوایا۔ ۲۳۰ اقبال کسی کوٹھی میں منتقل ہونا چاہتے تھے۔ تلاش جاری تھی مگر ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی تھی۔جو کوٹھیاں پسند تھیں ان کے مالک ہندو تھے جو قدرتی طور پر ہندو کرایہ داروں کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک مسلمان نے وعدہ کیا مگر بعد میں بدعہدی کر کے جو بقول اقبال ’’آج کل کے مسلمانوں کا عام شیوہ ہے‘‘ کوٹھی کسی اور کو دے دی۔۱۵۲ ۲۳۱ علی بخش لاہور میں نہیں تھا۔ اعجاز کا بستر شائد ہاسٹل کے کسی دوست کے پاس تھا۔ اقبال نے دوسرے ملازم کو بھیجا مگر جس لڑکے نے بستر لیا تھا وہ موجود نہیں تھا۔ ساتھیوںنے اعجاز کی غیرموجودگی میں بستر دینے سے انکار کیا۔۱۵۳ ۲۳۲ ہندوستان ریویو میں تصوف اور تناسخ کے موضوع پر کوئی مضمون نظر سے گزرا۔۱۵۴ ۲۳۳ دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہو گئی تھی۔ ۲۰ اگست کو اعجاز کا خط ملاتو انہوں نے بھی وہاں ملازمت کی کوشش کرنے کے بارے میں اقبال کی رائے معلوم کی اور لکھا کہ قانون میں دلچسپی نہیں ہے۔ شیخ نورمحمد کے کسی خط کا حوالہ بھی دیا جواعجاز کے مستقبل کے بارے میں اقبال کو لکھا گیا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت جواب میں لکھا کہ اگر قانون کی طرف رجحان نہیں ہے تو ایم اے میں داخل ہو جائیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا خیال ہے تو فارسی اور اُردو میں مہارت پیدا کرنی چاہئے اور تاریخ میں بھی کوئی اوریجنل کام کرنے کے عربی نہ سہی تو فارسی کے بغیر کام چلانا مشکل ہے۔ ’’میں ابھی سیالکوٹ آنے کے لیے چند روز کا اور انتظار کروں گا،‘‘ آخر میں لکھا۔ ’’اگر گاڑی مل گئی تو ضرور آؤں گا۔ بارش پھر ہو رہی ہے۔‘‘ ۲۳۴ اعجاز کا خط آیا۔ شیخ نورمحمد کی طبیعت خراب تھی۔ اعجاز نے سب بزرگوں کی رائے ایل ایل بی کی طرف دیکھ کر اسی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ ’’مگر تم تو کہتے تھے کہ طبیعت ہی اِدھر راغب نہیں،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب میں لکھا۔ ’’میجارٹی کی رائے طبیعت میں رغبت پیدا نہیں کر سکتی۔ بہرحال اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے تو بہتر ہے۔‘‘ لا کالج میں دو سو سے زیادہ طلبہ داخل نہیں کئے جاتے تھے۔ اعجاز کو مشورہ دیا کہ پرنسپل لالہ کنور سین ایم اے بیرسٹر کے نام فوراً داخلے کی عرضی لکھ دیں۔ وقت پر یہ بھی اُنہیں خط لکھ دیں گے۔جب تک اقبال کو کوٹھی نہ ملے اعجاز لا کالج ہاسٹل یا مسلم ہاسٹل میں رہنے کا بندوبست کریں جس کے بارے میں یہ مرزا یعقوب بیگ کو لکھ دیں گے۔ شیخ نور محمد کو کھانے کے لیے ساگودانہ، بلکہ اراروٹ دیا جائے۔ ’’انشأ اللہ میں بھی دو چار روز تک حاضر ہوں گا،‘‘ اپنے بارے میں لکھا۔ ’’گاڑی کے ریزرو کرانے کی بھی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘ ۲۳۵ شیخ نورمحمد کا خط آیا۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ ۲۶ اگست کو اقبال کا ارادہ تھا کہ گاڑی میں سیٹ کے لیے باقاعدہ درخواست دیں گے۔ ’’امید ہے کہ تین دن میں گاڑی ملے گی،‘‘ اُس روز انہوں نے شیخ نورمحمد کولکھا۔ اُسی روز معارف میں تصوف اور تناسخ یعنی دوسرے جنم کے عقیدے کے بارے میں کوئی مضمون نظر سے گزرا۔ غالباً وہی مضمون تھا جو پہلے ہندوستان ریویو میں بھی دیکھ چکے تھے۔ اس کے ساتھ وہی سبزے کی طرح بار بار پیدا ہونے والا شعر درج تھا اور سلیمان ندوی نے لکھا تھا کہ یہ رومی کا ہے۔ ’’مثنوی کبھی شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر ایک قابلِ اعتبار بزرگ نے قریباً چار سال ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے اور نہ مثنوی میں ہے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت سلیمان ندوی کو خط میں لکھا۔ اگر مثنوی کے کسی ایڈیشن میں یہ شعر نظر سے گزرا ہو تو مہربانی کر کے ایڈیشن اور صفحہ کا حوالہ دے کر ممنون فرمائیے۔‘‘ اُن کے خیال میں علمی اعتبار سے اس مضمون کی وقعت کچھ بھی نہیں تھی۔ ۲۳۶ نیازالدین خاں کے صاحبزادے نے جو کبوتر بھجوائے تھے ان میں سے ایک جوڑا اپنے انڈے توڑ دیتا تھا اور دوسرے کبوتروں کے نیچے بھی اس کے انڈے رکھے جائیں تو بچے نہیں نکلتے تھے۔ دوسرے جوڑے میں سے نَر کمزور تھا۔ امید نہیں تھی کہ دیر تک زندہ رہے۔ اس جوڑے نے تین بچے دئے مگردو جو بہت اچھا اُڑتے تھے شکاری جانوروں کا شکار ہو گئے۔ اقبال نے لدھیانے بھی لکھا اور شاہجہانپور سے بھی کبوتر منگوانے کا بندوبست کرنے لگے۔ ۲۳۷ ۲۹ اگست کی صبح شیخ نورمحمد کا کارڈ اور اعجاز کا خط ملا۔امتیاز بیمار تھے۔ اعجاز نے لالہ کنورسین کے نام خط ابھی نہیں لکھا تھا کہ پہلے فارم پُر کر لیں۔ ’’ہر معاملے میں اپنی رائے کو دخل نہ دیا کرو،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب دیتے ہوئے اصرار کیا کہ لالہ کنور سین کو خط لکھ دیا جائے کیونکہ عرصہ ہوا اُن سے اعجاز کا ذکر کر چکے ہیں۔ نئی کتابیں خریدنے کے لیے بھی لکھا کیونکہ اپنی کتابوں کی اقبال کو خود ضرورت رہتی تھی۔ البتہ ڈائس اور البرٹ اور ریٹیگن کی جورسپروڈنس شائد سیالکوٹ کی کتابوں میں مل جائیں۔ پالک وغیرہ کے نئے ایڈیشن بہتر ہوں گے۔ ’’مجھے تعجب ہے کہ تم ہسٹری کے طالبعلم ہو اور تمہیں قانون سے رغبت نہیں کہ ان دونوں علوم کا نہائت گہرا تعلق ہے۔ بہرحال جب تم قانون پڑھو گے تو مجھے امیدہے تم کو اس سے رغبت ہو جائے گی۔‘‘ اُسی روز کتابوں میں ڈائس مل گئی۔ ’’البرٹ وہاں تلاش کرو،‘‘ اقبال نے دوسرے خط میں لکھا۔ ’’امتیاز کے لیے دوائی کل بذریعہ پارسل روانہ ہو گی۔‘‘ اُس روز کسی کرنل اسٹیفنسن سے بھی کبوتروں کے رنگ کے بارے میںگفتگو ہوئی۔ کرنل صاحب نے چند کتابوں کے نام دینے کا وعدہ بھی کیا۔ اقبال کو یاد آیا کہ نیازالدین خاں کے صاحبزادے نے ایک دفعہ فیروزپور کے کسی آدمی کا ذکر کیا تھا جو کبوتروں کو مستقل رنگ دے سکتا تھا کہ ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوتا رہے۔۱۵۵ ۲۳۸ علم کی ہجو کرنا چاہتے تھے۔۱۵۶ ۲۳۹ ۳۰ اگست کو نیازالدین کے خط کا جواب لکھنے کا خیال آیا مگر میز پر دیکھا تو خط موجود نہیں تھا۔ ’’تعجب ہے کہ آپ غزل تو مولوی گرامی صاحب کی صحبت میں لکھیں اور اصلاح کے لیے مجھ سے ارشاد ہو،‘‘ انہوں نے نیازالدین کو لکھا۔ ’’یہ تو ایسا ہی ہے جیسے اصفہان میں رہنا اور سرمہ ہندوستان سے خرید کرنا۔ آپ نیاز ہیں مگر گرامی صاحب کی صحبت ہے تو تمام جہان کے شعرأ سے بے نیاز۔‘‘ گرامی سے کہلوایا کہ علم کی ہجو میں کوئی شعر فرمائیے، ’’مگر صوفیانہ رنگ میں نہ ہو یعنی العلم حجاب الاکبر کا رنگ نہ ہو۔‘‘ اس کا مقصد یہ رہا ہوگا کہ جو نظم خود لکھنا چاہتے تھے اس کے لیے ذہن پر راستے کھل جائیں۔ ۲۴۰ عطامحمد کا خط آیا۔ وہ اتوار کو دس روز کے لیے پشاور سے سیالکوٹ جا رہے تھے۔اُن سے ملنا ضروری تھا۔ سوچا اس دفعہ بیویوں کے بغیر جانے کی کوشش کریں شائد کامیابی ہو جائے۔اچھی خبر یہ تھی کہ دو تین روز میں لاہور سے آدھی رات کو چلنے والی ریل کا تعلق وزیرآباد سے سیالکوٹ جانے والی گاڑی کے ساتھ ہونے والا تھا۔ ۳ ستمبر کو اعجاز کا خط آیا تو لکھا کہ اتوار کوجائیں گے یا ایک دو روز بعد آدھی رات والی گاڑی سے، ’’میل میں تو آج کل کسی کو جگہ نہیں ملتی رات کی گاڑی میں ہی آنا ہو گا کیونکہ بھائی صاحب کے کپڑوں کا ٹرنک بھی ساتھ لانا ہے۔‘‘۱۵۷ ۲۴۱ وحید احمد مسعود بدایونی مضطرب مزاج کے نوجوان تھے۔مارچ میں اپنے شہر سے نقیب کے نام سے رسالہ نکالا تھاجو مزاحیہ مضامین کی وجہ سے مقبول ہونے لگا تھا۔ ’’بغیر جانے پہچانے میں نے ڈاکٹر اقبال سے استدعا کی کہ اپنے کلام سے اس رسالہ کو شرف بخشیں،‘‘ وحید کا بیان ہے۔۱۵۸ ۲۴۲ ۱۱ ستمبر تھی۔ ترکی کے شہر سیواس میں اُس مجلس کا آخری دن تھا جو گزشتہ ایک ہفتے سے مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترکی کی آزادی کے منشور کو حتمی شکل دینے کے لیے مل رہی تھی۔ خلیفہ کے وزیراعظم نے اناطولیہ میں اپنے ہرکاروں کو اِشارہ کیا تھا کہ کردوں کی مدد سے مجلس پر حملہ کر کے مصطفی کمال کو قتل کر دیں۔ کردوں اور ترکوں کے وہ نسلی اختلافات جنہیںختم کرنے کی مصطفی کمال نے کوشش کی تھی، دوبارہ اُبھر آئے تھے۔ اُس روز مجلس نے مصطفی کمال کا نیا روپ دیکھا۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ مجلس کی طرف سے تمام کمانڈروں اور گورنروں کو حکم دیتے ہیں کہ استنبول کی حکومت سے تعلقات ختم کر دیں کیونکہ وہ عوام کے اصل نمائندوں کے پیغامات خلیفہ تک نہیں پہنچنے دے رہی ہے۔ بغاوت کا اعلان تھا۔ مجلس پہلے ہی نیا منشور منظور کر چکی تھی جس میں صرف ایک بات مصطفیٰ کمال کی مرضی کے خلاف تھی۔ روشن خیالوں کی اکثریت نے مجبور کر دیا تھا کہ امریکہ سے جمعیت اقوام کے تحت ترکی کو اپنے مینڈیٹ میں لینے کی درخواست کی جائے۔ ۲۴۳ ہماری طرف سے اُس آگ کے بنے تُرک سے کہنا کہ تم نے ایک نگاہ سے تمنا کا پورا شہر پھونک ڈالا۔ جو دل دردمند ہے وہ اِس بھید کو جان لے گا کہ میں نے اگرچہ توبہ کا اعلان کیا مگر پیالہ نہیں توڑا۔ اے بلبل میں نے سو بار تجھے اُس کی وفا کا حال سنایا، تو پھر اُس بے وفا کو سینے سے لگا لیتی ہے! از ما بگو سلامے آں ترکِ تندخو را کاتش زد از نگاہے یک شہرِ آرزو را ایں نکتہ را شناسد آں دل کہ دردمند است من گرچہ توبہ گفتم نشکستہ ام سبو را اے بلبل از وفایش صد بار با تو گفتم تو در کنار گیری باز ایں رمیدہ بو را بیاض میں چھ اشعار کی غزل لکھی گئی۔ پھر تراش خراش اور اضافے ہوئے۔۱۵۹ ۲۴۴ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ غزلیں بھیجی تھیں اور گرامی پریہ مصیبت آئی تھی کہ شاید حیدرآباد والوں نے اس وجہ سے ان کی پنشن بند کرنی چاہی تھی کہ حیدرآباد سے دُور رہتے ہیں۔ ’’انشأ اللہ اب لاہور بلانے کے لیے بھی یہی نسخہ استعمال کیا جائے گا،‘‘ اقبال نے لکھا اور اضافہ کیا کہ سید علی امام سے کہیں گے اگر گرامی لاہور نہ آئے تو اُس کی پنشن بند کر دی جائے۔ نیازالدین کی غزلوں میں سے ایک کا مطلع پسند تھا۔ باقی اشعار دوبارہ لکھنے چاہئے تھے۔ ان کے صاحبزادے کے بھیجے ہوئے کبوتروں کی خرابیاں بیان کر کے فرمائش کی کہ اگر ممکن ہو تو چند بچوں کے جوڑے بھیج دیے جائیں اور فیروزپورمیں جو آدمی کبوتروں کو مستقل رنگ دیتا ہے اس کا پتہ کیا ہے۔ نظم ’پیام‘ کے تین اشعار اُس روز رسالہ نقیب (بدایوں) کے اڈیٹر وحید احمد مسعود بدایونی کو بھیج دیے۔ ۲۴۵ ’میخانۂ فرنگ‘ کے عنوان سے فارسی نظم لکھ کر اپنے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کیا مگر یہ فیصلہ سنایا کہ فرنگ کا جلوہ موسیٰ سے اور اُس کی آگ ابراہیم سے محروم ہے اور اُس کی عقل عشق کی پونجی کو غارت کرنے والی ہے۔ اس میخانے کے رِند کو لغزشِ مستانہ نصیب نہیں۔۱۶۰ ۲۴۶ ایک انسان نے کسی پرندے کو طیارے کے بارے میں بتایا تو پرندے نے جواب میں شیخ سعدی کا شعر پڑھا جس کا مفہوم تھا کہ کیا تم نے زمین کے معاملات سلجھا لیے ہیں جو آسمان کی طرف بھی دوڑ پڑے ہو؟ اقبال نے نظم فارسی میں لکھی اور عنوان ’طیارہ‘ رکھا۔۱۶۱ ۲۴۷ معلوم ہوتا ہے اس دفعہ واقعی سیالکوٹ چلے گئے۔۱۶۲ ۲۴۸ اعجاز نے بچپن میں قرآن ختم تو کیا تھا مگر قرأت کی مشق نہ تھی۔ اقبال کی تاکید پر کہ کسی حافظ سے پھر قرآن دہرایا جائے، سیالکوٹ کے ایک نوجوان نابینا حافظ سے درس لینے لگے جو مسجد میں امام تھے۔ انگریزی دان نوجوانوں کو قرآن پڑھانے کا جذبہ رکھتے تھے۔ اقبال کا کلام سننے کے شوقین بھی تھے۔ اقبال سیالکوٹ آئے تو حافظ نے اعجاز سے کہا، ’’کدی سانوں وی بزرگاں دیاں زیارتاں کراؤ ناں‘‘ (کبھی ہمیں بھی بزرگوں کی زیارت کروائیے ناں)۔ اعجاز نے اقبال سے ذکر کیا تو اُنہوں نے حافظ صاحب کو بلانے کی بجائے قرآن کے احترام میں خود حافظ کے پاس حاضر ہونے کو ترجیح دی۔ حافظ صاحب نابینا ہونے کی وجہ سے نئے ملاقاتی کے چہرے، ہاتھوں اور بازوؤں پر ہاتھ پھیر کر اُس کی شناخت کرتے تھے۔ اقبال کے ساتھ بھی یہی کیا۔گفتگو کے بعد جیب سے ایک پاکٹ بک نکالی جس میں شاگردوں کے نام درج کیے ہوئے تھے۔ ’’جس طرح معصوم بچہ اپنا کھلونا ہر ایک کو دکھا کر خوش ہوتا ہے، اسی بھولپن اور سادگی کے ساتھ حافظ صاحب نے اپنی پاکٹ بک جھٹ سے نکال کر علامہ کے ہاتھ میں دے دی کہ دیکھیے، کتنے انگریزی پڑھے لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ اقبال نے کہا، ’’حافظ صاحب! آپ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ اِس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا۔‘‘ حافظ صاحب نے خوش ہو کر جواب دیا، ’’اَسی تے چھلڑاں ای دیندے آں، گِریاں تے تُسی دیندے او ناں!‘‘ (ہم تو چھلکے ہی دیتے ہیں، مغز تو آپ دیتے ہیں)۔۱۶۳ ۲۴۹ اعجاز سے روایت ہے کہ سیالکوٹ کے پہلوان لعل دین ملنے کے لیے آئے تو اقبال نے اعجاز کو اُن کے سپرد کیا اور تاکید کی کہ روزانہ اکھاڑے جا کر کسرت کریں۔۱۶۴ ۲۵۰ عید الاضحیٰ آئی تو کشن پرشاد کا عید کارڈ موصول ہوا۔ اقبال ایک دفعہ پھر افواہیں سن رہے تھے کہ حیدرآباد میں نام پر غور کیا جا رہا ہے۔۱۶۵ ۲۵۱ رسالہ زمانہ (کانپور) کے شمارے میں کشن پرشاد کی نظم نظر سے گزری۔۱۶۶ ۲۵۲ ’کلماتِ اکبراعظم‘ کے عنوان سے کچھ متفرق اشعار لکھے جن میں حکمت کی باتیں تھیں۔بیاض میں اِدھر اُدھر لکھے ہوئے بعض چھوٹے قطعات بھی یہاں وہاں سے کاٹ کر اِس صفحے پر لکھ دیے۔ بعد میں کبھی اس کا عنوان بدل کر ’خردہ‘ ہوا۔۱۶۷ ۲۵۳ دو شعر ہوگئے کہ قیامت کے روز برہمن نے خدا سے کہا زندگی چنگاری کی رمق سے زیادہ نہ تھی مگر آپ برا نہ مانیں تو میں کہوں کہ بُت آدمیوں سے زیادہ پائیدار رہے: با یزداں روزِ محشر برہمن گفت فروغِ زندگی تابِ شرر بود ولیکن گر نہ رنجی با تو گویم صنم از آدمی پایندہ تر بود۱۶۸ ۲۵۴ سلیمان ندوی کا خط آیا رکھا تھا۔ کسی شعر کے بارے میں بتایا تھایا پوچھا تھا کہ محمود شبستری کی گلشنِ راز کا ہے۔ ۲۵۵ ۱۷ ستمبر کو کشن پرشاد کے عیدکارڈ کا شکریہ ادا کیا اور برہمن گفت والے اشعار بھیج دیے اور سلیمان ندوی کو خط لکھا۔ وہ شعر گلشنِ راز کا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ بحر مختلف تھی۔ ۲۵۶ کالج کھلنے والے تھے۔ کسی رشتہ دار غلام محمد کالڑکا میڈیکل کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ اس کے بارے میں کوئی خط اقبال نے شیخ نورمحمد کو لکھا۔۱۶۹ اعجاز کو بھی لأ کالج میں پڑھنے آنا تھا اور معلوم ہوتا ہے گھر کی کچھ عورتیں بھی اُن کے ساتھ لاہور آ رہی تھیں۔یہاں ریلوے اسٹیشن سے معلوم ہوا کہ سیٹ ریزرو کروانے کے لیے سیالکوٹ اسٹیشن ماسٹر کے نام لکھیں۔ ’’امید ہے کہ اِس عرضی سے گاڑی آپ کے لیے ریزرو ہو جائے گی اور صرف عورتیں اس میں بیٹھ سکیں گی،‘‘ انہوں نے اسٹیشن ماسٹر کے نام خط لکھ کر اعجاز کو بھیجتے ہوئے لکھا۔’’صبح ۳۰ ستمبر کو آپ وہاں سے چلیں۔‘‘ ۲۵۷ تصویر کے مسئلے پر سیلمان ندوی نے غالباً معارف میں کوئی مضمون لکھا جو اقبال کو پسند آیا۔۱۷۰ ۲۵۸ ۲۲ ستمبر کو لکھنؤ میں سر ابراہیم ہارون جعفر کی صدارت میں آل انڈیا مسلم کانفرنس نے ترکی کی حمایت میں بہت بڑا جلسہ منعقد کیا۔طے پایا کہ آل انڈیا سینٹرل خلافت کمیٹی قائم کی جائے جس کا مرکز بمبئی میں ہو۔۱۷۱ ۲۵۹ خلافت کے بارے میں آغا خاں نے لندن وفد طلب کیا تھا۔ اقبال کے خیال میں کچھ فائدہ نہ ہونا تھا۔ برطانوی حکومت شائد مصطفیٰ کمال کی قوت کم کرنا چاہتی تھی۔ ۲۷ ستمبر کی رات زکام کی وجہ سے نہ سو سکے ۔ فارسی میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ مجھے ٹوٹنے سے اتنی شرم نہیں آتی جتنی مرہم مانگنے سے آتی ہے۔ اسی خیال کو ذہن میں رکھ کر خلافت والے وفد کے بارے میں تین شعر ہو گئے۔ آخر میں اصل فارسی شعر کو ایک لفظی تبدیلی کے ساتھ شامل کر کے تضمین بنا دی: بہت آزمایا ہے غیروں کو تُو نے مگر آج ہے وقتِ خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی ’’مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘ سر میں درد کی وجہ سے طبیعت پر زیادہ زور نہ دے سکے اور مزید شعر نہ ہوئے۔ اگلے روز سلیمان ندوی کو معارف کے لیے بھیج دیے۔ ’’واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارہ پر ناچتے چلے جاتے ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے۔‘‘ اشعار کا عنوان سلیمان ندوی تجویز کردیں۔ پسند نہ ہوں یا رسالے کے لیے نا مناسب ہوں تو واپس بھیج دیں۔ ۲۶۰ پچھلے پانچ برسوں سے نظام حیدر آباد دکن خود ہی دیوان اور وزیر بنے ہوئے تھے۔ نئے آئین کے بعد ضروری ہوا کہ وہ ان امور میں دخل نہ دیں۔ برطانوی ہند سے سر سید علی امام کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہ وزیراعظم بنے۔۱۷۲ اقبال نے سنا کہ کشن پرشاد کو ’’اَخِّ معظم‘‘ یعنی بڑا بھائی کہتے تھے۔۱۷۳ ۲۶۱ ۶ اکتوبر کی شام کشن پرشاد کا خط ملا۔ ’’نہ خود آتے ہو نہ مجھے بلاتے ہو،‘‘ انہوں نے لکھا تھا اور حیدرآباد میں سر علی امام کے کرسی سنبھالنے کا ذکر کیا تھا۔ مثنوی خمارِ شاد کی کچھ کاپیاں بھجوائی تھیں جو اقبال کے پاس بیٹھے دوستوں میں اُسی وقت تقسیم ہو گئیں۔ اگلے روز عدالتوں کی چھٹیاں ختم ہوئیں۔ ’’موسمِ سرما کا آغاز ہے،‘‘ اُس روز اقبال نے کشن پرشاد کو مثنوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ ’’لاہور میں چہل پہل ہے اور رونق شروع ہو رہی ہے۔ کالج طلبہ سے معمور ہو گئے۔ بازاروں میں طلبہ کے جھنڈ پھر نظر آنے لگے۔‘‘ گرمیوں کی چھٹیوں کے بارے میں لکھا کہ کشمیر جانے کا ارادہ تھا مگر یارانِ طریقت جمع نہ ہو سکے۔ نجانے یہ ارادہ کب ہوا تھا۔ حیدرآباد جانے کے متعلق لکھا کہ ایک مدّت سے ظہورِامام کے منتظر تھے: کبھی اے حقیقتِ منتَظَر نظر آ لباسِ مجاز میں اب سرکار ظہورِ امام یعنی حیدرآباد میں سر علی امام کے آنے کی خبر دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ اقبال کے حاضر ہونے کا سامان بھی ہو جائے۔ ۲۶۲ ۹ اکتوبر کو کسی میرہدایت اللہ کا خط آیا۔ ممکن ہے میڈیکل کالج سے رہے ہوں۔ کالج اور اسکول کا داخلہ بند ہو چکا تھا۔ غلام محمد کے لڑکے کو اسلامیہ کالج کے سوا کہیں جگہ نہیں مل سکتی تھی ۔ اقبال نے غالباً اعجاز سے بھی اس کے بارے میں بات کی اور شیخ نورمحمد کو خط لکھ دیا، ’’ایک برس انتظار کرنا ہو گا اگر وہ میڈیکل اسکول میں داخل ہونا چاہتا ہے۔‘‘ ۲۶۳ سلیمان ندوی کا خط ملا۔ خلافت والے اشعار کے لیے غالباً ’دریوزۂ خلافت‘ کا عنوان تجویز کیا تھا جو اقبال کو پسند آیا۔ اقبال کی اردو شاعری پر تبصرہ بھی کرنا چاہتے تھے مگر کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ پہلے مجموعہ چھپ جائے۔ بنام ایما Lahore (India) 10th Oct. 1919 My dear Frl. Wegenast, The terrible war is now over; and I have an opportunity to write to you after four long years. Your country has passed through a great ordeal; and I hope she will soon make up the losses caused by the war. During all this time I have been anxious about you and your relations especially about your brothers. Please write to me soon and let me know all about yourself and your brothers. The people of Germany was called upon to make great sacrifice indeed; Please excuse me for writing this letter in English; for I would gladly put you to the trouble of getting it translated by somebody rather than shock your ears by my wrong and clumsy German. Kindly also let me know of Frau. Prof. at Heidelberg. Have you ever heard of Herr Reiner? Where is he and what is he doing? Yours sincerely, Muhammad Iqbal Barrister-at-Law Lahore۱۷۴ ۲۶۴ کئی برس کے بعد ایما کے نام خط لکھا تھا اگرچہ انگریزی میں تھا۔بظاہر رسمی معلوم ہوتا ہے مگر محض اتفاق تو نہیں ہو سکتا کہ اُسی روز سلیمان ندوی کو خبر دی کہ گوئٹے کے جواب میں کتاب لکھ رہے ہیں۔ کیا جرمنی کی یادیں تازہ ہو گئی تھیں؟ سلیمان ندوی کے نام خط میں سوائے یاجوج ماجوج پر مضمون لکھنے کی فرمائش اور ایک آدھ دوسری بات کے جو کچھ تھا وہ ایما کے نام خط میں بھی لکھا جا سکتا تھا۔ ذہن میں ایک ہی مضمون تھا۔ دو خطوط میں تقسیم ہو گیا۔ بنام سید سلیمان ندوی مخدومی۔ السلام علیکم نوازش نامہ ملا۔ عنوان جو آپ نے تجویز فرمایا ہے ٹھیک ہے۔ تبصرہ کے متعلق میں بھی یہی مشورہ دوں گاکہ میرا مجموعہ شائع ہو لے تو لکھئے۔ فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں جس کا قریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے۔ کچھ نظمیں فارسی میں ہوں گی کچھ اردو میں۔ کلام کا بہت سا حصہ نظرِثانی کا محتاج ہے لیکن اور مشاغل اِتنی فرصت نہیں چھوڑتے کہ اِدھر توجہ کر سکوں تاہم جو کچھ ممکن ہے کرتا ہوں۔ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمحِ نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔ اِس بات کو مدِّنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں اُن کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں اِس واسطے کہ آرٹ (فن) غائت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔ جرمنی کے دو بڑے شاعر بیرسٹر تھے یعنی گوئٹے اور اوہلنڈ۔ گوئٹے تھوڑے دن پریکٹس کر کے ویمر کی ریاست کا تعلیمی مشیر بن گیا اور اس طرح فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کا اُسے پورا موقع مل گیا۔ اوہلنڈ تمام عمر مقدمات پر بحث کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت تھوڑی نظمیں لکھ سکا اور وہ کمال پورے طور پر نشوونما نہ پا سکا جو اُس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ موجودہ حالات میں میرے افکار اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی تنقید کے لیے سیدسلیمان کا دل و دماغ صرف ہو لیکن اگر احباب مصر ہیں تو یہی بہتر ہے کہ مجموعہ کا انتظار کیا جائے۔ اس کے علاوہ میں اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگزشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہائت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اِس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں اِس تحریر سے اُن میں بہت انقلاب پیدا ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص۔ محمد اقبال کاش ’’یاجوج ماجوج‘‘ پر آپ کوئی مضمون لکھتے۔ یہ امر تحقیق کا محتاج ہے۔ محمد اقبال ۲۶۵ محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے دیکھیے ہوتا ہے کس کس کی تمنّاؤں کا خون حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز ٹل نہیں سکتا ’’وقد کنتم بہٰ تستعجلون‘‘ ’’کھل گئے‘‘ یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام چشمِ مسلم دیکھ لے تفسیرِ حرفِ ’’ینسلون‘‘۱۷۵ ۲۶۶ جاگیردار اور مزارع میں بحث ہو رہی تھی کہ زمین کس کی ہے۔ اقبال نے زمین سے پوچھا۔ اُس نے کہا: مالک ہے یا مزارعِ شوریدہ حال ہے جو زیرِ آسماں ہے وہ دھرتی کا مال ہے۱۷۶ کارخانے کا ہے مالک مردکِ ناکردہ کار عیش کا پُتلا ہے، محنت ہے اُسے ناسازگار حکمِ حق ہے لَیْسَ لِلْاِنسَانِ اِلّا مَاسَعیٰ کھائے کیوں مزدُور کی محنت کا پھل سرمایہ دار۱۷۷ ۲۶۷ حیدرآباد (دکن) سے شمس العلمأ خان بہادر عزیز جنگ نے اپنا دیوان اقبال کو ارسال کیا۔۱۷۸ ۲۶۸ پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اورئینٹل اسٹڈیز کا اجلاس ۱۳ اور ۱۴ اکتوبر کو شام ۵ بجے یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں ہوا۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ اقبال نے صدارت کی۔ کے ایم میترا، مولوی محمد حسین اور مولوی صدرالدین بھی آئے۔ ایجنڈا پورا نہ ہو سکا۔ بقیہ اجلاس ۲۰ اکتوبر شام ۵ بجے اقبال کے گھر ہونا طے پایا۔۱۷۹ ۱۴ اکتوبر کو جالندھر سے نیازالدین خاں کا پوسٹ کارڈ موصول ہوا تو اقبال نے حیدرآباد والے عزیز جنگ کے دیوان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ شاید گرامی جانتے ہوں۔ نومبر یا دسمبر میں خود جالندھر آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اُسی روز نیازالدین خاں کا ایک اور خط ملا جس میں گرامی کی تازہ غزل تھی۔ نظام حیدرآباد کے دربار سے گرامی کو وظیفہ پہنچنے میں دیر ہوئی تھی۔ مالی پریشانی کا شکار تھے چنانچہ کہا تھا کہ ہمارے گناہ اور ہمارے پروردگار کی رحمت، نہ اِن کی کوئی انتہا ہے اور نہ اُس کی: عصیانِ ما و رحمتِ پروردگارِ ما ایں را نہایتے است نہ آں را نہایتے اقبال پر ایسا اثر ہوا کہ گرامی دیکھتے تو نہ صرف اقبال کی ولایت کے قائل ہو جاتے بلکہ اپنی ولایت میں بھی شک نہ رہتا۔ ’’خواجہ حافظ تو ایک طرف، مجھے یقین ہے فارسی لٹریچر میں اِس پائے کا شعر کم نکلے گا،‘‘ اقبال نے نیازالدین خاں کے نام دوسرا خط لکھا۔ ’’انسان کی بے نہایتی کا ثبوت دیا ہے مگر اِس انداز سے کہ موحد کی رُوح فدا ہو جائے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ ایک معنی میں انسان بھی بے نہایت ہے اور یہی صداقت مسئلۂ وحدت الوجود میں ہے۔‘‘ پانچ روز بعد نیازالدین خاں کا جواب آیا کہ اقبال کے خطوط کو محفوظ رکھتے ہیں۔ گرامی کے شعر میں اقبال نے جو مطلب نکالا ہے، گرامی کے خیال میں اُس شعر کا وہ مطلب نہیں۔ ’’یہ کچھ ضروری نہیں کہ صاحبِ الہام اپنی بلاغت سے بھی آگاہ ہو،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’اگر گرامی صاحب کے خیال میں وہ معانی نہ تھے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اُن کے الفاظ میں تو موجود ہیں۔‘‘ حسن نظامی کی اتالیق خطوط نویسی کو یاد کر کے لکھا، ’’مجھے یہ سُن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہو،ا جب اُنہوں نے میرے بعض خطوط شائع کر دیے تو مجھے بہت پریشانی ہوئی کیونکہ خطوط ہمیشہ عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور اُن کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی۔ عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کر دیتی ہے جس کو پرائیویٹ خطوط میں معاف کر سکتے ہیں مگر اشاعت اُن کی نظرِ ثانی کے بغیر نہ ہونی چاہیے۔ اِس کے علاوہ پرائیویٹ خطوط کے طرزِ بیان میں خصوصیت کے ساتھ لاپروا ہ ہوں۔ امید ہے، آپ میرے خطوط کو اشاعت کے خیال سے محفوظ نہ رکھتے ہوں گے۔‘‘ ۲۶۹ ۲۰ اکتوبر کو شام ۵ بجے اقبال کے گھر پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس کی فیکلٹی کے بورڈ آف اورئینٹل اسٹڈیز کا اجلاس ہوا جو چھ روز قبل ادھورا رہ گیا تھا۔ آیندہ تین برس کے امتحانات کے بارے میں سفارشات ہوئیں: ۱ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات- آرٹس فیکلٹی: (ا) عربی، فارسی، اُردو ۱۹۲۱ء والے ۲ بی۔اے کے امتحانات: (ا) عربی-۱۹۲۱ء والا نصاب؛ (ب) عربی آنرز- مجوزہ نصاب اورئینٹل فیکلٹی کو بھیجا جا چکا تھا؛ (ج) فارسی- ۱۹۲۱ء والا نصاب؛ (د) فارسی آنرز- ۱۹۲۱ء والا نصاب ۳ ایم اے کے امتحانات: (ا) عربی-عربی آنرز کورس برائے بی۔اے کی حتمی منظوری کے بعد غور کیا جانا تھا؛ ۴ ایف۔او۔ایل، بی۔او۔ایل، ایم۔او۔ایل کے امتحانات: ۱۹۲۱ء والا نصاب ۵ مولوی کے امتحانات: ۱۹۲۱ء والا نصاب ۶ مولوی عالم کے امتحانات (پنجابء یونیورسٹی کیلنڈر صفحہ ۳۹۴ برائے ۱۹۲۱ئ): دوسرے پرچے (ادبیات) میں تاریخ یمینی کی جگہ سیرت رسولؐ از ابن ہشام رکھی جائے ۷ مولوی فاضل کے امتحانات (پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ص۳۹۵ برائے ۱۹۲۱ئ): پانچویں پرچے میں’’ قانون‘‘ کی جگہ’’ قانون اور روایات‘‘ پڑھیں، اور نصاب میں مؤطا امام مالک، شرح اور نخبۃ الفکر کا اضافہ ہو ۸ منشی، منشی عالم کے امتحانات: وہی جو ۱۹۲۱ء میں ہیں ۹ منشی فاضل کے امتحانات (پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر ص۴۰۲ برائے ۱۹۲۱ئ): (الف) دوسرے پرچے میں انشائے ابوالفضل دفتر۱، ۲ کی جگہ انشائے ابوالفضل دفتر۱،۳ رکھیں اور سہ نثر ظہوری کی جگہ مقاماتِ حمیدی؛(ب) چوتھے پرچے میں فلسفۂ اخلاقیات کی جگہ تاریخ اور فلسفۂ اخلاقیات پڑھیں اور نصاب میں جہاں کشائے نادری (نفسِ مضمون کی حد تک) کااضافہ کریں ۱۰ ادیب، عالم اور فاضل اُردو: وہی جو ۱۹۲۱ء میں ہیں ۱۱ ادیب اور عالم پشتو: وہی جو ۱۹۲۱ء میں ہیں لکھنؤ سے آل انڈیا شیعہ کانفرنس کی نصابات کے بارے میں سفارشات موصول ہوئی تھیں۔ طے پایا کہ ان پر غور کرنے کے لیے اجلاس بلایا جائے۔ مولوی مومن علی اور علامہ عبدالعلی تہرانی کو بھی مدعو کیا جائے۔ ممتحن حضرات کی رپورٹوں پر غور کیا گیا۔ کاروائی کی ضرورت نہ تھی۔ بی۔اے اور ایف۔اے میں فیل ہونے والوں کے بارے میں رجسٹرار نے نوٹ بھیجا تھا۔ اجلاس میں سفارش کی گئی کہ ان کے لیے عربی کے پرانے نصاب سے متبادل پرچہ ترتیب دیا جائے۔۱۸۰ ۲۷۰ ظفر علی خاں واپس آ گئے۔ حیدرآباد دکن کی ملازمت برقرار تھی۔ لاہور میں رہ کر کام کرنے کی اجازت ملی تھی۔ پس پردہ کہانی جو آہستہ آہستہ پھیل کر ایک دن ظاہر ہونے والی تھی، کچھ اور تھی۔ خواجہ حسن نظامی نے دہلی کے چیف کمشنر سے مخبری کی تھی کہ ظفر نظامِ دکن کو ’’پان اِسلام اِزم‘‘ کے سبق پڑھا رہے ہیں۔۱۸۱ ۲۷۱ ۲۹ اکتوبر کو شام ۵ بجے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز برائے عربی، فارسی وغیرہ کا اجلاس ہوا۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ اقبال نے صدارت کی۔ کے ایم میترا اور مولوی صدرالدین کے علاوہ مولوی مومن علی بھی موجود تھے۔ ۲۰ اکتوبر کے فیصلے کے مطابق مدعو کیے گئے تھے۔ ایجنڈا مکمل نہ ہو سکا۔ بقیہ اجلاس ۳ نومبر کی شام ۵ بجے اقبال کے گھر ہوا۔اس میں صرف اقبال، ایم محمد شفیع اور مولوی صدرالدین شریک ہوئے۔ دونوں اجلاسوں کی کاروائی اکٹھی لکھی گئی۔ ۱ اضافی ورنیکلر پرچہ برائے انٹرمیڈیٹ امتحان: (الف) حصہ اول کے لیے یہ تحریریں بطور نمونۂ اسلوب تجویز کی گئیں: خیالستان از سجاد حیدر؛ اُردوئے معلیٰ؛ مضامینِ سر سید؛ آبِ حیات۔ (ب) حصہ دوم غالب کے بعد کے ادب پر عام سوالات پر مشتمل ہو گا۔ ۲ بی۔ اے آنرز عربی کا نصاب فیکلٹی نے واپس بھیج دیا تھا۔نئی تجاویز ترتیب دی گئیں: (الف) شاعری- زہیر اور طرافہ کے معلقے؛ عنترہ کا دیوان؛ دیوانِ متنبی قافیہ دال تک۔ (ب) عام نثر- مختار العقید ۲؛ (ج) مذہبی نثر- قرآن مجید آخری جز مع تفسیر جلالی؛ مؤطا امام مالک نصف اول؛ (د) ادب کی تاریخ اور خلفأ کی تاریخ- نکلسن کی عربوں کی لٹریری ہسٹری؛ الفخری فصل الثانی سے۔ (ہ) زبان اور گرامر- نکلسن کی عربی گرامر؛ عروض کے عام اصول؛ تلخیص المفتاح؛ مضمون وغیرہ میں عربی کے اَن دیکھے پیراگرافوں کا ترجمہ، عربی زبان و ادب کے متعلق انگریزی مضمون کا عربی میں ترجمہ اور اُردو مضمون ۳ ایم اے عربی کا نصاب ۱۹۲۲ء کے لیے: (الف) پہلا پرچہ- حماسہ کے پہلے دو باب؛ دیوانِ عابد؛ دیوانِ امیر؛ دیوانِ طفیل (سر چارلس لائل والا ایڈیشن، ای جے گب میموریل سیریز)۔ (ب) دوسرا پرچہ - الکامل ازالمبرد (باب الخوارج صرف ص۱۱۹ سے ۱۸۳ مصری ایڈیشن)؛ فتوح البلدان از بلاذری؛ کتاب الشعرأ از ابن قتیبہ (ڈی گوجے ایڈیشن ص۱تا۱۱۵)؛ فتوح الفسان از جرجی زیدان؛ (ج) تیسرا پرچہ- تفسیر بیضاوی کی سورہ بقر؛ صحیح البخاری، کتاب الادب اور کتاب الرقاق(سوالات مذہبی کی بجائے ادبی ہوں گے)۔ (د) عربی زبان و گرامر کے مختصر اصول؛ مختصر المعانی؛ محیط الدائرہ؛ (ہ) نکلسن کی عربوں کی ادبی تاریخ؛ (و) تاریخ و ادب اللغات از زید کا تیسرا اور چوتھا حصہ؛ (ز) چھٹا پرچہ- پہلے کی طرح۔۱۸۲ ۲۷۲ سندیلہ میں محمد عبدالعلی ستائیس سالہ نوجوان تھے۔ شوقؔ تخلص کرتے تھے۔ انہیں سوجھی کہ کئی بڑے شاعروں کی شاگردی بذریعہ ڈاک اختیار کر کے سب سے اصلاح لی جائے مگر ایک شاعر کو معلوم نہ ہو کہ یہ دوسرے سے بھی اصلاح لیتے ہیں۔ اقبال کو بھی خط لکھا اور غزل اصلاح کے لیے بھیجی۔ ’’میں اِس رنگ کی شاعری سے بے بہرہ ہوں، اِس واسطے آپ کی تعمیلِ ارشاد سے قاصر ہوںِ‘‘ اقبال نے ۴ نومبر کو دو سطروں میں جواب دیا۔ ’’بظاہر کوئی غلطی اِس میں نظر نہیں آئی۔‘‘ ۲۷۳ سائنس میں انقلاب آیا۔ کائنات کا نیا نظریہ پیش ہو گیا۔ نیوٹن کے افکار کی تردید ہو گئی۔ یہ تاثر اُس طویل مضمون سے ملتا تھا جو لندن کے اخبار ٹائمز میں ۷ نومبر کو شائع ہوا۔ ایک نیا نام دنیا کے سامنے آیا جسے پہلے صرف ماہرین ہی جانتے تھے۔ اکثر جھکی اور خبطی سمجھتے رہے تھے۔ یہ جرمن یہودی البرٹ آئن سٹائن تھا۔ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ سورج کی کششِ ثقل عدسے کا کام کرتی ہے۔ ستاروں کی روشنی کو منعکس کرتی ہے جس کی وجہ سے ستارے وہاں دکھائی نہیں دیتے جہاں ہیں۔ اس برس ۲۹ مئی کو سورج گرہن کے دوران سائنس دانوں نے مشاہدہ کر لیا۔ واقعی ستارے اپنی اپنی جگہوں سے ہٹے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اب ۷ نومبر کو ٹائمز اخبار کے طویل مضمون کی اشاعت سے آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) دنیا بھر میں بحث کا موضوع بننا شروع ہوا۔ اقبال کے مطالعے میں بھی آنے والا تھا۔ ۲۶۵ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط دہلی سے آیا۔ معلوم ہوا کہ دسمبر کے آخر تک وہیں رہیں گے۔ فقیر سید نجم الدین کے لڑکے کی شادی دہلی کے کسی خاندان میں طے پائی تھی۔ اصرار کیا کہ اقبال ساتھ چلیں۔ اقبال نے اکبر سے ملاقات کے خیال سے حامی بھر لی۔۱۸۳ ۲۷۴ سی آئی ڈی کے سپرنٹنڈنٹ خان صاحب شیخ عبدالعزیز انجمن حمایت اسلام کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ انجمن کی تباہ حالی کے پیش نظر عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ ان کی بجائے اقبال کو یہ ذمہ داری دی جائے۔ انہی دنوں خلافت کا کوئی جلسہ انجمن کے زیراہتمام ہوا۔ اقبال نے بھی شرکت کی۔ ’’سیکرٹری شپ کے لیے میں کوئی کوشش نہیں کر رہا،‘‘ ۹ نومبر کو نیازالدین خاں نے اپنے کسی دوست کے اشعار بھیجے تو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا۔ ’’میں نے بعض معززین سے وعدہ کیا ہے کہ اگر عبدالعزیز صاحب مستعفی ہو جائیں تو میں یہ کام اپنے ذمہ لے لوں گا۔۔۔ خدا تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ مقصود جاہ طلبی اور نام و نمود نہیں۔‘‘ نیازالدین خاں کے دوست کے اِن مصرعوں کی تعریف کی: اپنی ہستی کے ہم سوالی ہیں اور: ہو اثر کیا حروف خالی ہیں ۲۷۵ ابوالکلام آزادؔکی تذکرہ شائع ہوئی۔ دیباچے میں مولوی فضل الدین نے لکھا کہ اقبال کی مثنویاں تحریکِ الہلال ہی کی آوازِ بازگشت ہیںورنہ پہلے اقبال کے عقائد کا حال کچھ اور تھا!۱۸۴ بنام سید سلیمان ندوی لاہور ۱۰ نومبر مخدومی۔ السلام علیکم۔ کئی دنوں سے آپ کو خط لکھنے کا قصد کر رہا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مؤکلین وکلأ کے پاس جب مقدمات کی پیشی کے لیے آتے ہیں تو اُن میں سے بعض پھل پھول یا مٹھائی کی صورت میں ہدیہ لے آتے ہیں۔ یہ ہدایا فیس مقررہ کے علاوہ ہوتے ہیں اور وہ لوگ اپنی خوشی سے لاتے ہیں۔ کیا یہ مال مسلمان کے لیے حلال ہے؟ مولانا ابوالکلام کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہوگا۔ بہت دلچسپ کتاب ہے، مگر دیباچہ میں مولوی فضل الدین لکھتے ہیں کہ ’اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی آوازِ بازگشت ہیں۔‘ شاید اُن کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے اِن مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں اُن کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ اِس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر انگریزی و اُردو موجود ہیں جو غالباً مولوی صاحب کے پیشِ نظر نہ تھیں۔ بہرحال اِس کا کچھ افسوس نہیں کہ اُنہوں نے ایسا لکھا۔ مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری البتہ اِس بات سے مجھے رنج ہوا کہ اُن کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا، تحریک الہلال نے اُسے مسلمان کیا۔ اُن کی عبارت سے ایسا مترشح ہوتا ہے۔ ممکن ہے اُن کا مقصود یہ نہ ہو۔ میرے دل میں مولانا ابوالکلام کی بڑی عزّت ہے اور اُن کی تحریک سے ہمدردی مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اَوروں کی دل آزاری کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے اُن میں اور مثنویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ معلوم نہیں اُنہوں نے کیا سنا تھا اور سنی سنائی باتوں پر اعتبار کر کے ایسا جملہ لکھنا جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں کسی طرح ان لوگوں کے شایانِ شان نہیں جو اصلاح کے علم بردار ہوں۔ مجھے معلوم نہیں مولوی فضل الدین صاحب کہاں ہیں ورنہ یہ موخرالذکر شکایت براہِ راست اُن سے کرتا۔ اگر آپ سے اُن کی ملاقات ہو تو میری شکایت اُن تک پہنچائیے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام۔ آپ کا خادم محمدؐ اقبال۔ لاہور ۲۷۶ کوئی وفد وائسرائے کے پاس گیا۔ وائسرائے کے جواب سے اقبال کو خیال آیا کہ اسمبلی میں چھُوت چھات پر باقاعدہ بل پیش کرنا چاہیے جس میں اُن لوگوں کے لیے سزا مقرر کی جائے جو کسی کو کنویں سے اس لیے پانی لینے سے روکتے ہیں کہ وہ اچھوت ہے یا اُسے مندر میں جانے سے روکتے ہیں یا اُسے چھونے سے گریز کرتے ہیں۔ غلام بھیک نیرنگ کولکھا اور۱۳ نومبر کو مولانا محمد علی کو بھی انگریزی میں لکھا: ’’اِس قسم کے قانون کے بارے میں مختلف فرقوں کا رویہ دلچسپی کا موجب ہو گا جن کے نمائندے اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں۔‘‘ ۲۷۷ ۱۷ نومبر کو حیدرآباد میں نیا آئین بنا۔ کابینہ وجود میں آئی جس کا نام ’’بابِ حکومت‘‘ رکھا گیا۔ سات وزیر شامل تھے۔ صدرالمہام کہلاتے تھے۔ ان کے علاوہ وزیراعظم تھا جو اَب صدرِاعظم کہلایا۔ یہ سر سید علی امام تھے۔نظام کی طرف سے موئیدالملک کا خطاب ملا تھا۔۱۸۵ ۲۷۸ انہی دنوں اقبال بخار میں مبتلا ہوئے۔ بدایوں کے نقیب والے وحید احمد مسعود کا ایک اور خط ملا جس کا کچھ دن جواب نہ دے سکے۔ طبیعت میں افاقہ ہوا تو ۱۸ نومبر کو لکھا، ’’پہلے خط میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس کا جواب جلدی دیا جائے۔ دوسرا خط ملا تو میں بخار کی وجہ سے صاحبِ فراش تھا۔ اب کچھ افاقہ ہے۔‘‘ شعر بھیجنے سے معذرت کر لی۔ ۲۷۹ ۱۹ نومبر تھی۔ واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کا اجلاس تھا۔ فیصلہ ہوا کہ امریکہ جمعیت اقوام کی رکنیت اختیار نہ کرے۔ امریکہ کے صدر کی تجویز پر قائم ہونے والی انجمن اُس کی اپنی قوم کی شمولیت سے محروم رہی۔ ترکی میں اُن روشن خیالوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا جو امریکہ کو اپنی تقدیر کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ ۲۸۰ ۲۰ نومبر کو شام ۵ بجے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں اورینٹل آرٹس کی فیکلٹی کا اجلاس ہوا۔ ڈین کی حیثیت میں اقبال صدارت کر رہے تھے۔انہیں ملا کر تیس ارکان موجود تھے۔ ان میں جسٹس شادی لال، چودھری شہاب الدین، کنورسین ماٹھور، میاں فضل حسین، ایم محمد شفیع، چودھری ظفراللہ خاں اور ہیڈماسٹر محمد دین شامل تھے۔ پندرہ ہندو تھے اور ایک انگریز خاتون مس ایل۔ ایم سٹریٹفورڈ بھی شامل تھیں۔ سنسکرت کے نصاب میں شامل دو کتابوں کے بعض حصے فحش پائے گئے تھے۔ تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے علاوہ بھی زیادہ تر سنسکرت اور ہندی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاسوں کی منظورکردہ سفارشات پر بحث ہوتی رہی۔ ایجنڈے کے باقی نکات پر غور کرنے کا وقت نہ رہا۔ ملتوی ہوئے۔۱۸۶ اگلی شام ۵ بجے سینیٹ ہال ہی میں فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز برائے عربی، فارسی وغیرہ کا اجلاس ہوا۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ اقبال نے صدارت کی۔ کے ایم مترا اور مولوی صدرالدین بھی موجود تھے۔ قاضی فضل الحق شریکِ کار بنائے گئے تھے۔۱۳ اکتوبر والے اجلاس میں جو فارسی کا نیا نصاب تجویز ہوا تھا وہ کچھ ترمیمات کے ساتھ اِس اجلاس میں منظور کیا گیا۔۱۸۷ ۲۸۱ عبدالعلی شوقؔ سندیلوی نے پیچھا نہ چھوڑا۔ ایک اور غزل بھیجی۔ ’’زبان کی اصلاح تو میں کیا دوں گا۔ خیالات ماشأ اللہ خوب ہیں،‘‘ اقبال نے انہیں لکھا۔۱۸۸ سندیلوی کے شوق میں کمی نہ ہوئی: جز خواب نہیں وعدۂ باطل کی حقیقت جز وہم نہیں موجۂ طوفانِ تمنّا اِس دفعہ اقبال نے بتایا کہ شعر کا مضمون پرانا اور مبتذل ہے۔ ’’باقی اشعار میں تازگی پائی جاتی ہے۔‘‘۱۸۹ ۲۸۲ اکبر الٰہ آبادی کی طبیعت خراب تھی۔ دہلی سے جلدی واپس جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔۱۹۰ بنام وحید احمد مسعود بدایونی لاہور ۲۷ نومبر ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم نوازش نامہ مل گیا ہے۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ خُدا کے فضل و کرم سے اب بالکل اچھا ہوں۔ میری زندگی میں کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں جو اَوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے۔ ہاں خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت مل گئی تو لکھوں گا۔ فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے۔ مولانا اکبر کا خط مجھے دہلی سے آیا تھا۔ اگر وہ کچھ روز وہاں ٹھہرتے تو میں ان کی زیارت کے لیے آ جاتا۔ مخلص محمد اقبال ۲۸۳ اِس دفعہ عبدالعلی شوقؔ سندیلوی نے فارسی میں نعتیہ غزل بھیجی۔’’حُسن ِ اعتقاد کی داد دیتا ہوں۔ زبان میں فارسیت کی شان نہیں ہے،‘‘ اقبال نے لکھا مگر ایک شعر کی تعریف کی۔ شاعر نے کہا تھا کہ جو کچھ بظاہر قید ِ تعین میں جکڑا ہوا ہے وہ بھی باطن کی سلطنت میں غیرمحدود ہے : ہمہ غیرمحدود در ملکِ باطن بظاہر بقیدِ تعین اسیرے۱۹۱ ۲۸۴ ۲۴ نومبر کو دہلی میں خلافت کانفرنس کا پہلا اجلاس ہوا۔ آنریبل فضل الحق نے صدارت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خلافت کے مسئلے پر ہندوستان کے غیرمسلموں کی حمایت حاصل کی جائے۔ ہندو بھی شریک تھے۔ ان میں گاندھی، پنڈت موتی لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالوی شامل تھے۔دو روز بعد ۲۶ نومبر کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی تجویز پر علمأ کا جلسہ ہوا۔ جمعیۃ العلمائے ہند کے نام سے ان کی تنظیم قائم ہوئی۔ کفایت اللہ صدر اور مولوی احمد سعید سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ’’سیاسی مقاصد کے لیے علمأ کی ایک الگ اور مستقل انجمن ہو، اگر مولانا عبدالباری کا یہی خیال تھا تو اچھا نہ تھا،‘‘ سید حسن ریاض نے بعد میں کہا۔ ’’مگر غالباً یہ نہیں تھا۔ وہ ملت کی اصلاح کے لیے علمأ کی تنظیم چاہتے ہوں گے۔‘‘۱۹۲ حکومت جشنِ صلح کی تیاریاں کر رہی تھی۔ مسلمانوں کے زخموں پر نمک لگ رہا تھا۔ جنہیں خلافت کانفرنس سے تعلق نہ ہو وہ بھی مضطرب تھے۔ ۳۰ نومبر کو تین بجے بعد دوپہر لاہور کے باغ بیرون موچی دروازہ میں مسلمانوں کا عام جلسہ میاں فضل حسین کی صدارت میں ہوا تو اقبال بھی آئے۔ کہتے تھے، ’’پولیٹکل جلسوں میں کبھی شریک نہیں ہوا کرتا۔ اُس جلسے میں اِس واسطے شریک ہوا کہ ایک بہت بڑا مذہبی مسئلہ زیربحث تھا۔‘‘۱۹۳ تاج الدین تاج صاحب نے پردرد نظم پڑھی۔ میاں فضل حسین کے کہنے پر اِقبال نے قرارداد پیش کی: مسلمانانِ لاہور اِس جلسے میں اُس عظیم الشان پریشانی اور بیچینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنتِ عثمانیہ اور خلیفۃ المسلمین کے متعلق قابلِ اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے۔ اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم برطانیہ نے جنوری ۱۹۱۸ء میں تمام اِسلامی دنیا سے ٹرکی کے متعلق کیے تھے، اور پیرس کی صلح کانفرنس کو اُن اصولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو پریذیڈنٹ وِلسن نے اپنے اعلانوں میں قائم کیے تھے اور جن کی بنا پر اِس عظیم جنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ اور باصرارِ تمام درخواست کرتے ہیں کہ جن اصولوں پر اتحادیوں نے اپنی عیسائی اور مفتوحہ سلطنتوں سے قرارداد کی ہے، انہی اصولوں پر مسلمان سلطنتوں سے بھی صلح سرانجام پانی چاہیے اور سلطنتِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارتاً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔ ’’مسلمانو!‘‘ قرارداد پیش کرنے کے بعد اقبال نے مجمع کو مخاطب کیا۔ ’’تم کو یاد رہے جب عرب میں نبی آخرالزماںؐ پیدا ہوئے، اُس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی۔ قسطنطنیہ میں قیصر کی سختی یورپ کی قوموں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔ اُس وقت یہ اَمر واضح کیا گیا کہ خدائی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت نہ کی جائے۔ تمہارا مذہبی عقیدہ ہے کہ انسان کو آزادی ملنی چاہیے۔ آج وہ قوم دوسری قوموں کے سامنے یہی کہہ رہی ہے کہ جن اصولوں کا اعلان کر کے میں نے بنی نوعِ انسان سے فیصلہ کیا تھا، انہی اصولوں کو میرے ساتھ بھی برتا جائے۔ ہو گا تو وہی جو قرآن کریم میں نبی آخرالزماں فرما گئے ہیں، مگر اَسباب کا ترک کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ ہم کیوں کسی بندے کے سامنے شکایت کریں۔ ہمیں خدا کے سامنے شکایت کرنی چاہیے۔ خوشامد، منت یا مانگے سے کبھی کچھ نہیں ملا۔ خدا کے سوا اور کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں۔ یاد رکھو کہ جو قوم ایک بڑا مقصود لے کر پیدا ہوئی ہے، وہ یونہی نہیں مِٹ سکتی۔ بادشاہیاں مِٹ رہی ہیں۔ انسان نے اپنے فطری حقوق کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ تمہاری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ’’پریزیڈنٹ وِلسن نے چودہ اُصول قائم کیے ہیں جن کے مطابق عالمگیر جنگ کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ ہر ایک قوم اپنے معاملے کو خود فیصل کر لیا کرے۔ ہماری سرکار نے بارہا اِس بات کا اعلان کیا کہ ہم حق، انصاف اور صداقت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہماری جنگ اِس لیے ہے کہ بین الاَقوامی معاہدے قائم رکھے جائیں۔ چھوٹی قوموں کو بڑی قومیں ہڑپ نہ کر جائیں۔ ہم بھی یہی کہتے تھے [کذا: ہیں؟] کہ ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے اور اُن کو پامال نہ کیا جائے۔‘‘ میاں شاہنواز، آغا محمد صفدر وکیل سیالکوٹ، مولوی غلام محی الدین قصوری، میاں حق نواز، مولوی محبوب عالم اور چودھری شہاب الدین نے قرارداد کے حق میں تقریریں کیں۔ منظور ہوئی۔۱۹۴ بظاہر اِسی جلسے کے بارے میں اُس زمانے کے طالب علم غلام جیلانی برق کا بیان ہے کہ وہ بھی موقع پر موجود تھے اور اقبال نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا: ’’امیرِ محفل اور حاضرینِ کرام! قرآن مقدّس کا ایک اعجاز اس کا اختصار ہے کہ لمبی سے لمبی بات کو چند الفاظ یا اِشاروں میں کہہ جاتا ہے۔ لیکن ایک مقام پر اللہ نے اِس اصول کو توڑ دیا ہے اور ایک چھوٹی سی بات کو سمجھانے کے لیے ایک ہی آیت دو دفعہ نازل فرمائی ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے: ان مع العسر یسرأ و ان مع العسر یسرأ(بے شک دکھ کے ساتھ سکھ ہے اور بے شک دکھ کے ساتھ سکھ ہے)۔ میں اسے تکرار نہیں کہتا بلکہ ایک پیش گوئی سمجھتا ہوں، جس میں ملّتِ اسلامیہ کو دو دکھوں اور دو سکھوں کی خبر دی گئی تھی۔ ہماری تاریخ کا پہلا دُکھ ۱۲۵۸ء میں قلمرو عباسیہ پر تاتاری حملہ تھا۔ جس نے سات دن میں ۹ لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ بغداد کی ۳۲ لائبریریوں کی لاکھوں کتابیں دجلہ میں پھینک دی گئی تھیں اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت ختم کر دی گئی تھی۔ تقریباً چالیس سال بعد یہی تاتاری مسلمان ہو گئے اور اقوامِ عالم میں مسلمانوں کو دوبارہ ایک باعزّت مقام مل گیا۔ ’’ہماری تاریخ کا دوسرا عُسر دولتِ عثمانیہ کا زوال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اِس عسر کے بعد بھی ہمیں ایک یسر نصیب ہو گا۔ اس کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس وقت کہنا مشکل ہے۔ بہرحال میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں: ’’جو ہنس رہا ہے وہ ہنس چکے گا، جو رو رہا ہے وہ رو چکے گا سکونِ دل سے خدا خدا کر، جو ہو رہا ہے وہ ہو چکے گا‘‘۱۹۵ ۲۸۵ ’’ہر ایک قوم اپنے معاملے کو خود فیصل کر لیا کرے،‘‘ اقبال نے امریکی صدر وِلسن کے چودہ نکات میں سے ایک نکتہ بیان کیا تھا۔ اِسے حقِ خود اِرادیت کہتے تھے۔ اِس کی اہمیت ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یوں بھی تھی کہ وہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ ایک علیحدہ ’’قوم‘‘ سمجھے گئے تھے۔ کیا اُنہیں ہندوؤں سے علیحدہ بھی یہ حق حاصل ہے؟ کانگریس ابھی تک مسلمانوں سے یہی کہتی آئی تھی کہ اپنی پہلے سے موجود جداگانہ قومی حیثیت کو ہندوستانی قوم کے نئے تصور میں ضم کر دیں۔ صدر وِلسن کے چودہ نکات وہ تاریخی موڑ نظر آتے ہیں جس کے بعد کانگریس کو یہ کہنے کی ضرورت پیش آنے والی تھی کہ مسلمانوں کی علیحدہ قومی حیثیت کبھی تھی ہی نہیں۔ ۲۸۶ کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ پھول کی خوشبو نے پہلے آپ ہی چمن کی راہ دکھائی ورنہ بلبل کو کیا خبر تھی کہ باغ بھی ہے۔ اقبال نے فارسی میں ’خطاب بہ انگلستاں‘ کے عنوان سے نظم لکھی کہ مشرق کے رہنے والے صدیوں سے اپنی قسمت پر صبر شکر کرنے کے عادی تھے۔ مغرب کی صراحی سے شراب چکھ کر انہیں بھی اپنے حقوق کے لیے شور و غوغا کرنے کا جوش آیا ہے تو ساقی کو چاہیے کہ مستوں کی شورش سے رنجیدہ نہ ہو بلکہ ذرا سوچے کہ یہ سارا ہنگامہ کس نے برپا کیا ہے۔ آخر میں فارسی شاعر کا وہی شعر لکھ دیا۔۱۹۶ لیکن مغربی جمہوریت کی جڑیں قدیم رومہ کے اُسی استعمار سے برآمد ہوئی تھیں جسے کبھی اسلام نے دنیا سے مٹایا تھا۔ فارسی ہی میں ایک اور مختصر نظم ہوئی جس کا عنوان پہلے ’جمہوریت و سلطنت‘ رکھا، پھر اسے کاٹ کر ’جمہوریت و شہنشاہیت‘ کر رہے تھے کہ ’جمہوریت و قیصریت‘ کی ترکیب ذہن میں آئی۔ اس میں یہ لطیف اشارہ موجود تھا کہ دورِ حاضر کی مغربی جمہوریت کے پردے میں قدیم زمانے کی قیصریت ہی کی روح کارفرما ہے۔ ذومعنی بات یہ تھی کہ موجودہ جرمنی کا بادشاہ بھی قیصر کہلاتا رہا تھا اور جمہوریت کا مخالف سمجھا گیا تھا۔۱۹۷ ۲۸۷ انگریز فلسفی میک ٹیگرٹ جو کیمبرج میں اقبال کے مقالے کے نگران رہے تھے، اُن کے ساتھ اقبال کی خط کتابت جاری تھی۔ اس معاملے میں اقبال سے متفق تھے کہ کائنات واہمہ نہیں ہے۔ دسمبر میں کسی خط میں لکھا: I agree with you, as you know, in regarding quite untenable the view that finite beings are adjectives of the Absolute. Whatever they are, it is quite certain to me that they are not that.۱۹۸ ۲۸۸ ۴ دسمبر تھی۔ انجمن حمایت اسلام کے کچھ ارکان سی آئی ڈی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ شیخ عبدالعزیز کے مکان پر پہنچے۔ ان میں نواب سر ذوالفقار علی خاں، مولوی رحیم بخش شاہین اور کپتان نواب مبارز خاں ٹوانہ شامل تھے۔ شیخ عبدالعزیز کو آگاہ کیا کہ انجمن کے جنرل کونسل کے اجلاس نے ان کی بجائے ڈاکٹر محمد اقبال کو جوائنٹ سیکرٹری بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ استعفیٰ درکار ہے۔ شیخ عبدالعزیز نے انکار کیا۔ انہیں ایک یادداشت دکھائی گئی جس میں کونسل کے اراکین کی بڑی تعداد نے ان سے سبکدوش ہونے کی درخواست کر کے دستخط ثبت کیے تھے۔ استعفیٰ مل گیا۔۱۹۹ ۲۸۹ ۵ دسمبر تھی۔ فرانسیسی سیاست داں پائیکوٹ جس نے فلسطین میں یہودی ریاست کا منصوبہ بنایا تھا، سیواس میں مصطفی کمال کے سامنے موجود تھا۔ فرانس میں انتخابات ہونے والے تھے۔ حکومت کسی بڑے نقصان کے لیے تیار نہیں تھی۔آرمنی سپاہیوں کو ترک علاقوں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ ترکی کی آزادی تسلیم کی جا سکتی تھی اگر مصطفی کمال بعض حصوں میں فرانس کے تجارتی مفادات کا خیال رکھنے پر تیار ہوںاور فرانسیسی افواج پر حملے نہ کروائیں۔ ۲۹۰ شیخ عطا محمد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ پھوڑے نکل آئے تھے۔ وجہ شائد خون کی خرابی تھی۔ اقبال نے لاہور میں مولوی میر حسن کے لڑکے ڈاکٹر علی نقی سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پھوڑوں پر جونکیں نہ لگوائی جائیں۔ جو دوا وہ دیں گے خون کے لیے بھی مفید ہو گی۔اقبال نے سوچا کہ اعجاز سیالکوٹ جائیں تو مرچ اور تمباکو کے ساتھ دوا بھی بھجوا دی جائے گی۔۲۰۰ ۲۹۱ چھوٹی بہن کریم بی بی نے خواب میں دُنیائے اسلام کی حالت تباہ دیکھی۔ نورمحمد نے اچھی تعبیر پیش کی۔ کریم بی بی نے اقبال کو خبر دی۔ ’’میرا عقیدہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نئی زندگی عطا فرمائے گا اور جس قوم نے آج تک اُس کے دین کی حفاظت کی ہے اُس کو ذلیل اور رُسوا نہ کرے گا،‘‘ اقبال نے ۸ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’مسلمان کی بہترین تلوار دُعا ہے سو اِسی سے کام لینا چاہیے۔ ہر وقت دعا کرنا چاہیے اور نبی ٔ کریم پر درودبھیجنا چاہیے۔۔۔میں جو اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صَرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی میں کوئی خدمت کر سکتا اور جب مجھے خیال آتا ہے کہ والد مکرم مجھے دینی علوم پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور بھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اِس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی تو بھی وقت کے حالات نے اُس راہ پر چلنے نہ دیا۔بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ہوا اور مجھ سے بھی جو کچھ ہو سکا میں نے کیا۔‘‘ شیخ عطا محمدکے پھوڑوں کے سلسلے میں ڈاکٹر علی نقی کا مشورہ بھی لکھ بھیجا۔ شام ۵ بجے یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں اورینٹل آرٹس فیکلٹی کا اجلاس تھا۔ حسب معمول اقبال نے صدارت کی۔ انہیں ملا کر اکیس ارکان موجود تھے۔ اگلے برس کے لیے انتخاب ہوا۔ ایک دفعہ پھر اقبال ڈین اور کنور سین ماٹھور سیکرٹری ہوئے۔ سنسکرت کے بورڈ آف اسٹڈیز کی بقیہ سفارشات پر بحث جو ۲۰ نومبر والے اجلاس میں مکمل نہ ہو سکی تھی اب مکمل ہوئی۔ عربی اور فارسی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے ۱۳، ۱۴ اور ۲۰ اکتوبر والے اجلاسوں کی سفارشات پر فیصلہ ہوا۔ پنجابی بورڈ آف اسٹڈیز کی کاروائی نامکمل تھی اور طبع کروا کے فیکلٹی کے ارکان میں تقسیم نہ کروائی گئی تھی۔ واپس ہوئی۔۲۰۱ ۲۹۲ اکبر الٰہ آبادی دہلی میں حسن نظامی کے مکان ’’رین بسیرا‘‘ میں مقیم تھے۔ اقبال کے ایک عزیز فقیر محمد کے لڑکے کی بارات بھی دسمبر کے آخر میں دہلی ہی جانے والی تھی۔ امرتسر میں مسلم لیگ اور کانگریس کے جلسوں کے لیے اقبال سے رلیشنز کمیٹی کی صدارت کرنے کو کہا گیا تو منع کر دیا۔۲۰۲ ۲۹۳ ۱۴ دسمبر کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ اگلے روز جواب لکھا، ’’آپ کی زیارت کو بہت دل چاہتا ہے۔‘‘ نیازالدین کو خط لکھ کر پوچھا کہ کیا دسمبر کی تعطیلات میں جالندھر ہی میں ہوں گے۔ دہلی کے راستے میں جالندھر بھی تو پڑتا تھا۔ اُس رات جشن صلح کے سلسلے میں سرکاری عمارتوں پر چراغاں ہونے والا تھا۔ سردی کا خوب زور تھا۔ ۲۹۴ فقیر محمد کے لڑکے کی بارات ۲۳ تاریخ کو بھٹنڈہ والی لائن سے روانہ ہونی تھی جس کے راستے میں جالندھر کا اسٹیشن نہیں آتا تھا۔ نیازالدین اور گرامی سے ملاقات واپسی پر ہو سکتی تھی البتہ اکبر کی طبیعت ناساز تھی اور وہ اس سے پہلے ہی دہلی سے واپس جانے والے تھے۔ ’’۲۵، ۲۶ اور ۲۷ کو آپ جالندھر میں نہ ہوں تو اطلاعی کارڈ لکھیں،‘‘ اقبال نے ۱۹ دسمبر کو نیازالدین کو خط لکھا۔ ’’آپ کو اسٹیشن پر آنے کی ضرورت نہیں۔ میں سیدھا امیرالدین خاں کی کوٹھی پر پہنچوں گا۔ آپ ان کو مطلع کر دیں کہ وہ ۲۵ یا ۲۶ کو کسی وقت میرا انتظار کریں۔ مولوی گرامی صاحب سے بھی کہہ دیجیے گا۔‘‘ ۲۹۵ ۲۳ دسمبر کو سردی اور بارش غضب کی تھی۔ ہائی کورٹ میں گوجرانوالہ کی مرحومہ مسماۃ عمر بی بی کی جائیداد کا مقدمہ پیش تھا جو وہ انجمن حمایت اسلام کو پیش کر گئی تھیں۔ انجمن کی طرف سے اقبال اور میاں فضل حسین وکالت کی۔ مقدمہ ساڑھے گیارہ بجے شروع ہو کر ساڑھے تین بجے ختم ہوا۔ رات فقیر محمد کی بارات کی روانگی تھی مگر انہیں واپسی کے لیے ریزرویشن نہ مل سکی۔ اس موسم میں سفر اور پھر واپسی پر بغیر ریزرویشن والے رَش کا خیال کر کے اقبال کو ہول آگیا۔ ’’انشأ اللہ پھر کبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا،‘‘ نیازالدین کو دو روز بعد لکھا۔ شیخ عطا محمد کو لکھا، ’’اندیشہ تھا کہ کوئی تکلیف نہ ہو جائے۔‘‘ عطا محمد تعطیلات میں سیالکوٹ آئے ہوئے تھے اور اعجاز بھی اُن کے پاس پہنچ چکے تھے۔ ۲۹۶ چھوٹی سی پہاڑی کے قریب پرانے قلعے کی دیواروں میں گھرا ہوا قصبہ تھا۔ باہر چھ سات جدید طرز کی عمارتیں تھیں۔استبول سے دُور تھا۔ نام انقرہ تھا۔ ۲۷ دسمبر کو مصطفی کمال پہنچے اور مستقل قیام کے لیے اسے پسند کر لیا۔ ۲۹۷ اُس ماہ شائع ہونے والی کتاب The Economic Consequences of Peaceیعنی امن کے اقتصادی نتائج ہاتھوں ہاتھ لی گئی تھی۔برطانوی ماہرِ اقتصادیات جوہن مینارڈ کیٹس (John Maynard Keynes)نے لکھی تھی۔ معاہدۂ ورسیلز سے پیدا ہونے والے خطرات کا تجزیہ کیا تھا۔ سیاسی رہنماؤں کے بارے میںجلا کٹا طنز کتاب کی مقبولیت میں اضافے کا باعث ہوا۔ ۲۹۸ مونٹیگو چیمزفورڈ اصلاحات منظور ہوئیں اور ملک معظم کی طرف سے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان ہوا۔ ۲۹۹ اس برس شائع ہونے والی ایک کتاب جو کبھی اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئی، یہ ہے: C. A. Richardson. Spiritual Pluralism in Recent Philosophy. Cambridge University Press, London۲۰۳ ۳۰۰ اقبال دہلی نہ جا سکے تھے۔ پھر امرتسر کیوں نہ پہنچتے جہاں مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس ہو رہے تھے۔ خبر آئی تھی کہ علی برادران آزاد ہوئے ہیں اور رامپور کی بجائے وہیں آ رہے ہیں۔ ’’اِس جلسے میں شمولیت کے لیے ہمیں بھی دعوت دی گئی اور نواب سر ذوالفقار علی خاں، اقبال اور میں نواب صاحب۔۔۔ کی موٹر میں امرتسر کی جانب روانہ ہوئے،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’راستے میں ہم باتیں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک اقبال پر متذکرہ کیفیت طاری ہونے لگی [یعنی ایک معنی خیز سکوت گویا کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں]۔ انہیں خاموش پا کر نواب صاحب نے ان کی جانب دیکھا تو وہ کسی اور ہی دھن میں نظر آئے۔ اِس پر وہ مجھ سے کہنے لگے: ’لو بھئی یہاں تو فکرِ شعر ہو رہی ہے۔‘ اور ہم پھر اپنی گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ چند ساعت بعد اقبال چونکے اور ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمانے لگے: ’ہاں صاحب اب کہیے کیا اِرشاد ہے!‘ معلوم ہوا۔۔۔ اَشعار۔۔۔ ابھی ابھی موزوں ہوئے ہیں۔‘‘۲۰۴ ’’مسلم لیگ کا اجلاس منڈوہ کنھیا لال میں ہوا،‘‘ عبدالمجید سالک کا بیان ہے جو شامل تھے۔ دوسرے نوجوانوں میں امرتسر کے بیس سالہ صوفی غلام مصطفیٰ بھی تھے جو تبسم تخلص کرتے تھے۔ خالصہ کالج میں بی اے کے طالب علم تھے۔ شعر و شاعری اور دوستوں کے چکر میں پڑ کر کتاب اور معلم سے بھاگے پھرتے تھے۔۲۰۵ جالندھر سے مولانا گرامی کا اُنیس سالہ شاگرد بھی آیا ہوا تھا جسے مولانا گرامی نے نصیحت کی تھی، ’’میاں تقلید نہ کرو۔ اپنے قلب کو چِیرو۔ اپنی ذات کو باہر لاؤ۔‘‘ خلافت کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا گیا تھا۔ حفیظؔ تخلص تھا۔ ’’مجھے خوب یاد ہے، یوں گویا کل کی بات ہو،‘‘ حفیظ جالندھری نے پچاس پچپن برس بعد بیان کیا۔ ’’یہ بھی یاد ہے کہ چودھری شہاب الدین کسی سے کہہ رہے تھے: ’تمہیں کیا معلوم ڈاکٹر اقبال کو کس مشکل سے لایا گیا ہے!‘‘‘۲۰۶ علی برادران پنڈال میں داخل ہوئے۔ اقبال نے انہیں مخاطب کر کے وہ اَشعار پڑھے جو راستے میں وارد ہوئے تھے۔ آخری شعر خواجہ حافظ کا تھا کہ چیلوں کوّوں کو کوئی قید نہیں کرتا، یہ سعادت صرف شہباز اور شاہین کے لیے ہوتی ہے۔ اسیری ہے اسیری اعتباراَفزا جو ہو فطرت بلند قطرۂ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند مشکِ ازفر چیز کیا ہے؟ اک لہو کی بوند ہے! مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند ’’شہپرِ زاغ و زغن در بندِقید و صید نیست ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اَند‘‘ محمد علی نے بیساختہ اقبال کو گلے لگا لیا۔ جلسے میں دوسرے شاعروں نے بھی نظمیں پڑھیں۔ فیصلہ ہوا کہ خلافت فنڈ قائم کیا جائے، اس میں دس لاکھ روپیہ جمع کیا جائے اور برطانوی حکومت سے ملاقات کے لیے ۱۵ جنوری تک ایک وفد انگلستان بھیج دیا جائے۔ اقبال کی نظر میں یہ تجویز مسلمانوں کے وقار کے لیے نقصان دہ تھی مگر معلوم نہیں کہ اگر اجلاس میں شریک ہوئے تو اظہارِ خیال کیا یا نہیں۔ ’’جلسے کے اختتام پر میں نے ہجوم میں داخل ہو کر۔۔۔ اقبال سے ہاتھ ملایا،‘‘ حفیظ جالندھری کا بیان ہے۔ ’’ڈاکٹر [سیف الدین] کچلو نے۔۔۔ اقبال سے کہا: ’یہ ہمارا شاعر ہے۔ اس میں آگ بھری ہے۔‘۔۔۔ اقبال نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا، مسکرائے اور فرمایا، ’اچھا ہے۔‘‘‘ ۲۰۷ مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے دونوں بھائیوں کو ’’مولانا‘‘ کی اعزازی ڈگری باقاعدہ طور پر فرنگی محل یا اس کے مدرسہ نظامیہ سے عطا کی۔ وہ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی ہو گئے۔ کانگریس کے جلسے میں بھی گئے۔ عبدالماجد دریابادی کا بیان ہے، ’’کانگرس کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ جب چہرے پر داڑھیاں رکھائے ہوئے، ٹوپیوں پر نشانِ ہلال لگائے ہوئے اور زبانوں سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے اِن دونوں بھائیوں نے کانگرس کے پنڈال میں قدم رکھا تو ساتھ میں [مسلمانوں کا] ایک لاؤ لشکر بھی تھااور-’علی‘ برادران کا نام ذہن میں رہے- ’یا علی‘ کے نعروں سے ملک کا ملک گونج اُٹھا!‘‘ ۲۰۸ ظفر علی خاں کی نظربندی ختم ہو چکی تھی۔ موجود تھے۔۲۰۹ تیسرا حصہ ۳۰۱ ’’خلافت کمیٹی قائم ہوئی اور اس کا نظام تمام ملک میں پھیل گیا،‘‘ سید حسن ریاض کا بیان ہے۔ ’’کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جہاں خلافت کمیٹی موجود نہ تھی۔۔۔ کانگریس بڑی عظیم اور بہت قدیم رہی ہو لیکن عوامی پیمانے پر تنظیم کے اعتبار سے خلافت کمیٹی کے مقابلے میں اس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ سچ یہ ہے کہ عوامی پیمانے پر تنظیم میں کانگریس کو سب سے بڑی مدد خلافت کمیٹی ہی سے ملی۔۔۔ خلافت کی حفاظت کرنے کے لیے مسلمانوں میں سے آدمی فوج در فوج نکلے۔ کوئی گھر ایسا نہیں رہا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی خلافت کا کارکن نہ ہو۔ جوان، بوڑھے، عورتیں اور بچے جذبات و خیالات میں سب خلافتی تھے۔ خلافت کے سرمائے میں ہر جیب سے روپیہ آتا تھا۔‘‘۲۱۰ ۳۰۲ قرینِ مصلحت ہے چند سجدے قبلہ رُو کر لوں مگر اِس باب میں پہلے بُتوں سے گفتگو کر لوں حفیظ جالندھری۲۱۱ ۳۰۳ اقبال کو ایک گمنام خط ملا۔ لکھا تھا کہ نبی کریمؐ کے دربار میں اقبال کا ایک خاص مقام ہے جس کا علم اقبال کو بھی نہیں ہے۔ ایک وظیفہ درج تھا جسے پڑھ کر وہ یہ مقام معلوم کر سکتے تھے۔ خط گمنام تھا۔ توجہ نہ تھی۔ اندازہ نہ ہوا کہ یہ خط عنقریب زندگی کے ایک نئے رُخ کی طرف رہنمائی کرے گا۔۲۱۲ ۳۰۴ لاہور میں کوئی ڈاکٹر محمد حسین تھے۔ اقبال کا خیال تھا کہ گرامی کو اُن سے علاج کروانا چاہیے۔ شیخ محمد عمر سے معلوم ہوا کہ گرامی علاج کے لیے لاہور آئے ہوئے بھی ہیں مگر پھر یہ خبر غلط نکلی۔ ۴ جنوری ۱۹۲۰ء کو گرامی کو خط لکھنے بیٹھ گئے۔۲۱۳ ’’شاعرانہ کمال نے آپ کی قوتِ ارادی کو کمزور کر دیا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’تخیل کی قیمت عزم و اِرادہ ہے، جو شاعر کو اَدا کرنی پڑتی ہے۔ باقی توفیقِ الٰہی ہو تو کچھ مشکل نہیں۔ تمام وہ چیزیں جو شکر پیدا کرنے والی ہوں یک قلم چھوڑ دینی چاہئیں اور چند روز نعمائے دنیا کی طرف سے مستغنی ہو جانا چاہیے۔ میرے جہاد کو دیکھیے کہ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک دفعہ کھاتا ہوں اور تمام ثقیل اور دیرہضم چیزوں سے پرہیز کرتا ہوں۔ امید کہ آپ بھی ایسا کریں گے۔‘‘ ۳۰۵ سر سید احمد خاں کے پوتے راس مسعود کلکتہ یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے اُردو کے امتحان کے لیے درسی کتاب ترتیب دے رہے تھے۔ اقبال کی نظمیں ’ایک آرزو‘ اور ’ایک پرندے کی فریاد‘ شامل کیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اقبال کو لکھا۔ اقبال نے نظمیں خود بھیجیں۔ راس مسعود کی نصابِ اُردونظامی پریس بدایوں میں شائع ہوا۔ سالِ اشاعت معلوم نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً اسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی نے انٹرنس کے امتحان کے لیے نصابِ اُردوہی کے نام سے جو درسی کتاب شائع کی اُس میں ’ایک آرزو‘ راس مسعود کی کتاب سے ہی لی۔ ’نیا شوالہ‘ بھی شامل کی جو مخزن میں ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ ہندومسلم اتحاد کی نئی فضا کے حسبِ حال معلوم ہوتی تھی۔۲۱۴ ۲۹۸ اقبال اب ایک نسل سے اگلی نسل کو منتقل ہو رہے تھے۔’’غالباً ۱۹۲۰ء میں جب میں اُنّاؤ (اودھ) کے سرکاری ہائی سکول کی آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا میں نے اپنے بزرگ عموی خان بہادر قاضی نذیر احمد قدوائی۔۔۔ وکیل و سپیشل مجسٹریٹ کے کتب خانہ میں مخزن کی پرانی جلدوں میں اقبال کو دریافت کیا،‘‘ ایک طالب علم جلیل احمد قدوائی کا بیان ہے۔ ’’اقبال قومی شاعری کے سالار اور سرآمد شعرائے جدید تسلیم کیے جا چکے تھے۔ اُن سے عشق کرنا فیشن بھی ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں بھی پہلی ہی نظر میں ان کا شہید ہو گیا۔‘‘۲۱۵ ۳۰۶ امرتسر سے حکیم فیروزالدین طغرائی شاگردوں کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم بھی ساتھ تھے۔ ’’اس محفل میں شفأ الملک حکیم فقیر محمد چشتی اور چند دوسرے احباب شریک تھے،‘‘ صوفی تبسم کے ایک عقیدتمند کا بیان ہے۔ ’’اُس زمانے میں [صوفی تبسم] خالصہ کالج امرتسر کے طالب علم تھے اور [اقبال] سے باقاعدہ متعارف نہ تھے۔‘‘۲۱۶ ۳۰۷ اس دفعہ لاہور میں خوب سردی پڑی تھی مگر پھر بھی رونق نظر آ رہی تھی۔۲۱۷ گوجرانوالہ کی مرحومہ کی جائیداد کا فیصلہ ہائی کورٹ نے انجمن حمایت اسلام کے حق میں دیا تھا۔ ۱۱ جنوری کو مولوی فضل الدین نائب صدر انجمن کی صدارت میں جنرل کونسل کے اجلاس نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر اقبال اور میاں فضل حسین کا شکریہ ادا کیا جائے۔۲۱۸ ۳۰۸ ۱۲ جنوری تھی۔ استنبول میں نئی پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس تھا۔ انتخابات میں مصطفی کمال بھی ارض روم سے منتخب ہوئے تھے مگراجلاس میں آنے کی بجائے انقرہ میں رہنا پسند کیا تھا۔ پارلیمنٹ میں ان کے حامیوں کی اکثریت ہی تھی کیونکہ قوم نے انہی کو زیادہ ووٹ دیے تھے۔ وزیر ِ داخلہ نے امیر المومنین سلطان وحیدالدین کی تقریر پڑھ کر سنائی۔ ازمیر پر یونانیوں کے قبضے کی مذمت کی تھی۔ قوم سے متحد رہنے کی درخواست تھی۔۲۱۹ ۳۰۹ علی برادران کی رہائی کے موقع پر کہی جانے والی نظم اقبال نے کہکشاں اور نقیب کو بھجوائی۔ کہکشاں مولوی سید ممتاز علی کا رسالہ تھا۔ چھوٹے صاحبزادے سید امتیاز علی تاج مدیر تھے۔ اُس میں نظم فوراً شائع ہو گئی۔ نقیب میں رسالہ کہکشاں کے بارے میں بیس صفحے کا تنقیدی مضمون شائع ہوا۔ مولوی ممتاز علی صاحب کی عادت تھی کہ کہکشاں میں دوسرے رسالوں پر تنقید شائع کرتے تھے۔ نقیب پر بھی کی تھی۔ اُس کے مدیر وحید احمد مسعود بدایونی نے جواب نہ دیا۔اتفاق سے مسوری کے پہاڑ پر دونوں کی ملاقات ہوئی۔ ’’اُنہوں نے اصرار کیا کہ میں کہکشاں پر تبصرہ کروں،‘‘ وحید کا بیان ہے۔ ’’حالانکہ میرا عذر یہ تھا کہ آپ جیسے کہنہ مشق ادیب کے رسالہ پر میرا تنقید کرنا میری جرأت سے باہر ہے اور میں اسے گستاخی سمجھتا ہوں۔‘‘ اِصرار بڑھا تو وحید نے کہکشاں کے گزشتہ چھ شمارے اٹھائے اور ہرشمارے میں دوسرے رسالوں کی جن خامیوں پر تنقید کی گئی تھی وہی خامی کہکشاں کے اُسی پرچے میں دکھا دی۔ ’’سید امتیاز علی صاحب ایڈیٹر کہکشاں کو ناگواری و ناراضی ہوئی،‘‘ وحید کا بیان ہے۔ ’’چنانچہ ڈاکٹر اقبال صاحب نے بھی مجھے لکھا کہ اتنے صفحوں پر تنقید لکھ کر ناظرینِ نقیب کی میں نے حق تلفی کی ہے۔ جواب میں میں نے اپنی مجبوری کا اظہار کر کے طوالت پر اُن سے معافی طلب کی۔ مگر یہ تنقید اپنی قسم کی جدید تنقید تھی جس سے سب رسالوں کو دلچسپی ہوئی۔‘‘۲۲۰ ۳۱۰ ۱۹ جنوری کو ایک وفد وائسرائے سے ملا۔ مولانا محمد علی، گاندھی، مسلم لیگ کے سیکرٹری ظہور احمد، حکیم اجمل خاں، حسرت موہانی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، راجہ صاحب محمودآباد، مولانا ابولکلام آزاد، مولانا سید سلیمان ندوی، مفتی کفایت اللہ، سیٹھ چھوٹانی، مولانا عبدالماجد بدایونی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا ثنأ اللہ امرتسری، آغا محمد اشرف قزلباش، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور الٰہ آباد کے اخبار انڈیپنڈنٹ کے مدیر سید حسین شامل تھے۔ محمد علی جناح اور موتی لال نہرو شامل نہ ہو سکے مگر تار کے ذریعے اتفاق رائے ظاہر کیا۔ سپاس نامہ مولانا محمد علی نے لکھا تھا۔ اسے پیش کرنے کے بعد وفد نے کہا، ’’اگر حکومت برطانیہ نے اپنے تمام وعدے حرف بحرف پورے نہ کیے تو اس کو ایسا سخت اخلاقی دھکا لگے گا کہ بڑے سے بڑے زرخیز علاقے اور عظیم ترین سیاسی نفعے سے اس کی تلافی نہ ہو سکے گی اور پھر اخلاقی وقار کی بربادی اس وجہ سے اس کو اور بھی زیادہ گراں گزرے گی کہ اُس اعلان شاہی کی قلعی کھل جائے گی جو حضور والا کے پیش رَو وائسرائے نے ترکیہ سے جنگ شروع ہونے پر کیا تھا۔‘‘ وائسرائے کے جواب سے انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔۲۲۱ ۳۱۱ اقبال کے ’دریوزۂ خلافت‘ والے اَشعار معارف میں شائع ہو گئے۔ مولانا محمد علی نے پھبتی کو اپنی طرف منسوب کیا مگر اُسے اقبال کی قومی غیرت کا تقاضا سمجھ کر برا نہ مانا۔ ویسے بھی یہ اشعار وفدِ خلافت سے ایک اصولی اختلاف ظاہر کرتے تھے۔ جب لکھے گئے تھے تو وفد میں علی برادران کی شمولیت کا اعلان بھی نہ ہوا تھا بلکہ وہ نظربند تھے۔۲۲۲ ۳۱۲ گوئٹے نے اپنے زمانے میں جن نوجوانوں کو متاثر کیا اُن میں انگلستان کا شاعر لارڈ بائرن بھی شامل تھا جس کی طویل نظم ڈان ژوان نے اُس زمانے کی نئی نسل کے دل و دماغ کو بہت متاثر کیا۔ دل پھینک اور سخت بدنام آدمی تھا۔ گوئٹے پر تنقید بھی کی اور گوئٹے نے جواب میں یہ بھی کہا کہ بائرن اپنی بچکانہ طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ پھر بھی وہ رومانویت جسے جرمن شاعروں نے یورپ میں متعارف کروایا تھا اور جس میں ایران کے اثرات شامل تھے،انہیں انگریزقوم تک پہنچانے والوں میں ورڈزورتھ، کولرج، شیلے اور کیٹس کے ساتھ بائرن کا نام بھی نمایاں تھا۔ جوانی ہی میں مر گیا: اگر چمن کی مٹی پر اُس کے جام میں سے کچھ ٹپک جائے تو زمین سے لالہ و گل کی طرح شعلہ اُگے! مثالِ لالہ و گل شعلہ از زمیں روید اگر بہ خاکِ گلستاں تراود از جامش اقبال نے فارسی میں نظم لکھی جس کا عنوان ’بائرن‘ تھا۔ پانچ اشعار تھے۔۲۲۳ ۳۱۳ مہاراجہ رنجیت سنگھ جو ایک آنکھ سے محروم تھا، اُس نے ایک طویل قامت میراثی سے کہا کہ تم آہستہ آہستہ پیدا ہوئے اِسی لیے کھنچ کر لمبے ہو گئے۔ میراثی نے جواب دیا کہ میرے پاس زندگی گزارنے کا سامان نہیں تھا اس لیے پیدا ہونے میں تردد ہوا مگر آپ اِتنے جوش و خروش سے دنیا میں وارد ہوئے کہ جلدی میں ایک آنکھ بھول آئے۔ یہ ایک مشہور لطیفہ تھا۔ اقبال نے فارسی میں نظم کر دیا:’رنجیت سنگھ و مطربِ درازقامت‘۔ رنجیت سکھ تھا لیکن ایک روایت کے مطابق اقبال کے دادا نے بھی سکھوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اقبال کے دوست نواب ذوالفقار علی خاں نے انگریزی میں رنجیت سنگھ کی سوانح بھی لکھی تھی۔۲۲۴ ۳۱۴ وحید احمد مسعود بدایونی کو مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خاں نے آمادہ کیا تھا کہ دہلی سے تحریکِ خلافت کے لیے روزنامہ نکالیں جسے قاضی عبدالغفار ایڈٹ کریں گے۔ پریس خریدنے لاہور آئے مگر اقبال سے ملاقات نہ ہو سکی۔ روزنامہ صباح چند روز میں دہلی سے شروع ہوا اور تین روز بعد حکومت کی سختی کے نتیجے میں بند ہو گیا۔ اس دوران وحید ذاتی رسالہ نقیب بھی بند کر بیٹھے تھے۔۲۲۵ ۳۱۵ اقبال نے خلافت کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر سنا کہ گرامی اس بات پر اُن سے ناراض ہو گئے ہیں۔۲۲۶ ۳۱۶ نئے دستور کے مطابق ایک ’’اپر چیمبر‘‘ بھی بن رہا تھا۔ نیازالدین خاں نے اقبال کو لکھا کہ کسی نے ’’مہندرا منڈل‘‘ نام تجویز کیا ہے۔۲۲۷ ’’تعجب ہے کہ وہ اِندرسبھا کو نظرانداز کر گئے،‘‘ ۱۱ فروری کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا۔ ’’انگلستان میں آپ کو معلوم ہے کہ دو ہوس [house]ہیں یعنی ہوس آف کامنز اور ہوس آف لارڈز۔ ہندوستان کے دو ہوسوں کو مجلسِ عمومی اور مجلسِ خصوصی کہہ سکتے ہیں یا مجلسِ عوام اور مجلسِ خواص۔ بہتر تو یہ ہے کہ انگریزی نام رکھے جائیں، کیونکہ دوغلا نام ایسا مشکل سے نکل سکے گا جو سب کو پسند ہو۔ ایرانیوں نے پارلیمنٹ کا ترجمہ مجلس ہی کیا ہے۔‘‘ گرامی کے نام بھی سلام بھیجا۔ ’’سنا ہے وہ مجھ پر ناراض ہیں کہ میں نے خلافت کمیٹی سے کیوں استعفیٰ دے دیا۔ وہ لاہور آئیں تو اُن کو حالات سے آگاہ کروں۔ جس طرح یہ کمیٹی قائم کی گئی اور جو کچھ اس کے ممبروں کا مقصد تھا، اس کے اعتبار سے تو اس کمیٹی کا وجود میری رائے میں مسلمانوں کے لیے خطرناک تھا۔‘‘۲۲۸ ۳۱۷ اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الیکشن، ممبری، کونسل، وزارت بنائے خوب آزادی نے پھندے میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رَندے۲۲۹ ۳۱۸ سیالکوٹ سے ایک دھسہ اور کوئی سوٹ کیس بھجوائے گئے۔ ’’اب آسمان صاف اور سردی بھی بہت کم ہو گئی ہے،‘‘ اقبال نے وصولیابی کی خبر عطا محمد کو دیتے ہوئے ۱۶ فروری کو خط میں لکھا۔۲۳۰ ۳۱۹ ۱۷ فروری تھی۔ استنبول کی منتخب پارلیمنٹ نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آزادی کا وہ منشور منظور کر لیا جسے پچھلے برس سیواس میں مصطفی کمال کی انجمن نے پیش کیا تھا۔۲۳۱ ۳۲۰ بالشویک طاقتوں کے خلاف لڑنے والے باغی روسیوں کی مدد کو نوّے ہزار فوجی آئے تھے ۔ اُن کا تعلق فرانس، پولینڈ، جاپان، برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ یونان سے بھی تھا۔ ۲۲ فروری تک اُن کی شکست یقینی ہو چکی تھی۔ یونانی، روس کو دشمن بنا بیٹھے تھے۔ اب صرف تین چھوٹی ریاستیں روس اور ترکی کے درمیان حائل تھیں: جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان۔ ان پر قبضہ ہونے سے روس اور ترکی کی سرحدیں مل جاتیں اور پھر کون جانے یونان کی دشمنی روس کو ترکی کا دوست بنا دیتی!۲۳۲ ۳۲۱ ہندوستان کے شمال مشرق میں صوبہ بہار کے صدرمقام پٹنہ کے قریب آرہ تھا جہاں ۱۸۵۷ء میں ’’باغیوں‘‘ اور انگریزوں کے درمیان زبردست معرکہ ہوا تھا۔فروری میں اقبال کسی مقدمے کے سلسلے میں یہاں آئے۔۲۳۳ مقدمے کی تفصیلات معلوم نہیں مگر واپسی پر دہلی بھی گئے اور مٹکاف ہاؤس میں ٹھہرے۔ ۳ مارچ کو اعجاز کو انگریزی میں واپسی کی اطلا ع کا خط بھیجا ہی تھا کہ لاہور سے مرزا جلال الدین کا خط ملا۔ دو روز بعد پہنچ رہے تھے اور اقبال کو بھی کسی پروبیٹ کیس کے لیے۷ تاریخ تک رُکنے کی ہدایت کی تھی۔ ’’لہٰذا چچی کو بتا دو کہ مجھے یہاں روک لیا گیا ہے،‘‘ اقبال نے اعجاز کو فوراً ہی دوبارہ انگریزی میں لکھا۔ ’’شاید تمہاری چچی کو (قیامِ دہلی کے) اِس اِمکان کا پہلے سے کچھ اندازہ ہو گا۔‘‘ اعجاز کی چچی سے مراد سردار بیگم تھیں۔۲۳۴ ۳۲۲ واپسی توقع سے ایک روز پہلے ہوگئی۔ گھر میں شیخ عطا محمد کا ایک خط ان کا منتظر تھا جو ۲۵ فروری کو لکھا گیا تھا۔ بنام شیخ عطا محمد لاہور، ۶ مارچ ۱۹۲۰ء برادر مکرم السلام علیکم میں آج مع الخیر واپس آ گیا ہوں۔ امید ہے کہ گھر میں ہر طرح خیریت ہو گی۔ آپ کا ۲۵ فروری کا لکھا ہوا خط مل گیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ آفتاب نے آپ کو خط لکھا ہو گا۔ میرا اِرادہ تو یہ تھا کہ حافظ صاحب سے اس بارے میں خط کتابت کی جاتی۔ اگر وہ چاہیں تو میں ان کی لڑکی کا حق مہر ادا کرنے کو تیار ہوں۔ اپنے ذمے ماہواری رقم رکھنی ٹھیک نہیں معلوم ہوتی۔ بہرحال اگر یہی خیال ہے کہ اس کو ماہواری تنخواہ دے دی جائے تو میں حاضر ہوں کہ اس کو تیس روپیہ مہینہ دے دیا کروں بشرطیکہ میرے والدین کے ساتھ اور کوئی تعلق ان کا نہ رہے اور نہ وہ مجھے کبھی خط وغیرہ لکھیں۔ جس قدر وہ اپنے والدین کے ہاں رہی ہے اس کی تنخواہ کی وہ کسی طرح مستحق نہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی اور باوجود ہمارے روکنے کے سیالکوٹ میں نہ رہی لیکن میں وہ رقم بھی دے دوں گا۔ اگر مندرجہ بالا شرط پر وہ قائم رہیں۔ میرے خیال میں تو آپ حافظ صاحب کو اِس بارے میں خط لکھیں تاکہ کوئی قابل عمل فیصلہ ہو جائے اور آیندہ کے لیے اس خلش سے رہائی ہو۔ باقی شرعی قطع تعلق کا طریق اور اُس کا علاج انشأ اللہ ہو جائے گا۔ مختصر طور پر میرا اِرادہ یہ ہے (۱) اگر وہ حقِ مہر لینا چاہے تو پھر شرعی طور پر قطع تعلق ہو جائے (۲) اگر وہ ایسا کرنا پسند نہ کرے تو میں اُسے تیس روپے ماہوار جب تک میں زندہ ہوں دے دیا کروں گا جتنا عرصہ وہ اپنے والدین کے ہاں رہی ہے اُس کے الاؤنس کی وہ مستحق نہ ہو گی کیونکہ وہ خود چلی گئی تھی۔ میرے خیال میں یہ معاملہ کسی تیسرے آدمی کی وساطت سے طے ہونا چاہیے۔ والسلام والد مکرم کی خدمت میں آداب محمدؐ اقبال ۳۲۳ ۷ مارچ کو امیر فیصل عراق کے ساتھ شام کا بادشاہ بھی بن گیا۔ شام فرانس کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیا۔ شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رِندِ لم یزل رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام رنگ اِک پل میں بدل جاتا ہے یہ نیلی رواق حضرتِ کرزن کو اَب فکرِ مداوا ہے ضرور حکم برداری کے معدے میں ہے دردِ لایطاق وفد ہندُستاں سے کرتے ہیں سر آغا خاں طلب کیا یہ چُورن ہے پئے ہضمِ فلسطین و عراق؟۲۳۵ ۳۲۴ سنا کہ گرامی نے رخصت کی توسیع کروا لی ہے اور مزید کچھ عرصہ حیدرآباد (دکن) جانے کی بجائے ہوشیارپور اور جالندھر ہی میں رہیں گے۔۹ مارچ کو نیازالدین خاں کے نام خط لکھتے ہوئے اس کا بھی تذکرہ کیا۔ ’’چیمبر آف پرنسز کے واسطے میرے خیال میں ایوانِ خاص موزوں ہے۔ یا ایوانِ امرا۔ لیکن مقدم الذکر موزوں تر ہے اگر پہلے چیمبر کو ایوانِ عوام کہا جائے۔ ایوانِ اول و ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر نام یا تو بالکل فارسی ہونا چاہیے یا بالکل ہندی ۔ شترگربہ کچھ نہ ہو گا اور کسی کو پسند بھی نہ ہو گا۔‘‘ ۳۲۵ ۱۵ مارچ کی رات تھی۔ استنبول میں برطانوی فوجیں حرکت میں آئیں۔ اہم فوجی عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔ جن ترک سپاہیوں نے مزاحمت کی وہ مارے گئے۔ قوم پسند ترک سپاہی اور صحافی گرفتارکر لیے گئے۔انہیں جلاوطن کر کے مالٹا کے جزیرے میں رکھنا تھا۔کس قانون کے تحت؟ لائڈ جارج کو اِس کی فکر نہ تھی۔ مصطفی کمال نے پہلے اپنے ماتحتوں کو پیغام بھجوایا کہ ملک بھر میں عیسائیوں کی حفاظت کی جائے تاکہ بے قابو ہجوم استنبول پر مسیحی قبضے کا بدلہ بے گناہوں سے نہ لے۔ پھر اتحادی طاقتوں کے پاس احتجاج بھجوایا۔ آخر میں قوم کے سامنے اعلان کیا کہ جو سلطنت کبھی عثمانی بادشاہوں نے قائم کی تھی اب ختم ہو چکی۔ حکومت ترک قوم کے ہاتھ میں واپس آ گئی ہے۔ سلطان محمد فاتح نے جس قسطنطنیہ پر قبضہ کیا تھا وہ استنبول بن کر مسیحیوں کے قبضے میں واپس جا چکا تھا۔ عثمانی سلطنت اپنے پرانے حریفوں یعنی یورپ کے عیسائیوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی تھی۔ ۳۲۶ نیازالدین خاں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی اولاد کے بارے میں پوچھا۔ اقبال نے البستانی کی دائرۃ المعارف سے ایک عربی عبارت نقل کر کے ۱۸ مارچ کو خط میں بھیجی۔ ’’مقصود مندرجہ بالا عبارت کا یہ ہے کہ خالدؓ کی اولاد سے المہاجر عبدالرحمٰن اور خالد ابن المہاجر، ان کے پوتے، مشہور ہوئے ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’الزبیر ابن ابکار کہتے ہیں کہ سلسلہ اولاد خالد ابن ولید کا منقطع ہو گیا۔آپ کے سوال کا جواب اس میں آ جاتا ہے۔ ابن خلکان نہیں دیکھ سکا لیکن سب سے زیادہ معتبر طبقات ابن سعد ہے۔‘‘ ۳۲۷ مولانا محمد علی، سید حسن مدیر انڈیپنڈنٹ اخبار، مولانا سید سلیمان ندوی اور حسن محمد حیات پر مبنی وفد لندن میں تھا جہاں مشیر حسین قدوائی، محمد شعیب قریشی اور عبدالرحمٰن صدیقی بھی شامل ہو گئے تھے۔ ۱۹ مارچ کو ہندوستان میں یومِ خلافت منایا گیا اور پورے برصغیر میں مکمل ہڑتال رہی۔ اُسی روز لندن کی ڈاؤننگ اسٹریٹ پر وزرائے اعظم کے روایتی مکان میں وفد کی پوری بات سننے کے بعد وزیراعظم لائڈ جارج نے اِرشاد فرمایا، ’’آپ لوگوں نے اپنا مدعا بڑی وضاحت اور احتیاط کے ساتھ بیان کر دیا ہے مگر ہم اِس معاملے میں اُس سے مختلف اصول اختیار نہیں کر سکتے جو ہم نے اُن مسیحی قوموں کے معاملے میں اختیار کیے ہیں جن کے خلاف ہم جنگ لڑ رہے تھے۔‘‘ مولانا محمد علی حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ جس قوم کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا اُس کا وزیراعظم کس بے حیائی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے۔ کل ہی استنبول کی پارلیمنٹ نے لائڈ جارج کی بدعہدی پر شدید احتجاج کے بعد اپنے آپ کو غیرمعینہ مدت کے لیے برخواست کر دیا تھا۔ ۳۲۸ خلافت وفد فرانس میں تھا۔ سید سلیمان ندوی کا بیان ہے، ’’پیرس میں جب ہماری ملاقات ذکأ الملک سابق وزیرِ تعلیمات ایران اور علامہ عبدالوہاب قزوینی (مشہور ایرانی عالم اور صاحبِ قلم) سے ہوئی اور اُممِ اسلامیہ کی نشأۃ الثانیہ کا ذکر آیا تو ہم نے اقبال کے فلسفے کا ذکر کیا اور [مولانا] محمد علی نے ’رموزِ بیخودی‘ اور ’اسرارِ خودی‘ کا اپنا نسخہ اُن کے مطالعہ کو عنایت کیا۔ وہ دیکھ کر بیحد محظوظ ہوئے اور اُس وقت مجھے نظر آیا کہ [اقبال] کی فارسی زبان نے اُس کے دائرۂ اثر کو کتنا بڑھا دیا ہے۔‘‘۲۳۶ ۲۱ مارچ کو مولانا محمد علی نے پیرس میں تقریر کی۔ اس کے بعد انگلستان پہنچ گئے۔ لیبر پارٹی کے رہنماؤں سے بے تکلفانہ گفتگو رہتی تھی اگرچہ ریمزے میکڈانلڈ جن سے سات برس پہلے مولانا محمد علی کے روابط قائم ہوئے تھے، ملک سے باہر تھے۔ برنارڈ شا جنہیں اسلام سے دلچسپی اور مسلمانوں سے نفرت تھی، اُنہوں نے شکایت کی کہ اُنہیں دمشق کی جامع مسجد میں کسی نے گھسنے نہیں دیا۔ مولانا محمد علی نے کہا کہ اُن کے بوٹ میلے رہے ہوں گے۔ سید سلیمان ندوی نے کہا کہ مسجد میں تو وہ اب بھی داخل ہونے دیے جائیں گے لیکن اگر اِسلام میں داخل ہو گئے تو ممکن ہے کہ خلیفہ بھی بنا دیے جائیں۔ ’’برنارڈ شا اور خلیفہ!‘‘ محمد علی نے بعد میں کہا۔ ’’خود برنارڈ شا جیسے ہنسا دینے والے ادیب نے دل کھول کر ہنسنے سے مولانا کے اِس لطیفے کی داد دی۔‘‘ نجی محفلوں میں مولانا محمد علی نے یورپ اور انگلستان کے دانشوروں کو اقبال کی مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ کے باقاعدہ اقتباسات ترجمہ کر کر کے سنائے۔ تقریروں میں طنزومزاح ہوتا اور جذبات کی آنچ بھی مگر بنیادی نکات سوچ سمجھ کر مرتب کیے گئے تھے۔ اقبال کی ’رموزِ بیخودی‘ کے ساتھ ہم آہنگ تھے: ۱ ہم ترکی کی نمایندگی نہیں کر رہے بلکہ ہندوستان کے عوام کی طرف سے بھیجے گئے ہیں جن میں سات کروڑ مسلمان اور پچیس کروڑ ہندو، پارسی اور سکھ شامل ہیں۔ ہندوستان متحد ہو چکا ہے۔ خلافت کے مسئلے پر مسلمانوں کو ہندوستان کے غیرمسلموں کی تائید بھی حاصل ہے۔ ۲ خلافت مسلمانوں کا مرکزِ شخصی (پرسنل سنٹر) ہے۔ اِسے کلیسا کی طرح صرف روحانیت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ خلیفہ کے پاس اِتنا دنیاوی اقتدار ہونا چاہیے کہ نہ صرف اپنے وطن میں آزادانہ حکومت کرے بلکہ جزیرۃ العرب کا انتظام بھی سنبھال سکے۔ ۳ جزیرۃ العرب میں عرب کے علاوہ شام، عراق اور فلسطین کے علاقے شامل ہیں، مرکزِ محسوس (لوکل سنٹر) ہیں جنہیں غیرمسلموں کے تصرف سے محفوظ رکھنا مسلمانوں کے مذہب کا تقاضا ہے۔ وہاں کے عوام کو جمہوری حقوق حاصل ہونے چاہئیں مگر اُنہیں مرکزی خلافت سے علیحدہ کرنا یا غیرمسلم حکومتوں کے تسلط میں دینا مسلمانوں کو گوارا نہیں ہو سکتا۔ ۴ ہم آرمینیا کے عیسائیوں، فلسطین کے یہودیوں اور فلسطین، عراق اور شام کے عربوں کے جمہوری حقوق کی بھی تائید کرتے ہیں۔ ۵ ترکوں پر آرمینیا کے عیسائیوں کی نسل کشی کا اِلزام تحقیق طلب ہے۔ یہ امکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی اغراض کے تحت لگایا ہوا غلط اِلزام ہو۔ تحقیق کے لیے بین الاقوامی کمیشن بنایا جا سکتا ہے جس میںہندوستان سے غیرمسلم نمایندے بھی شریک ہوں جنہیں مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو گا۔ A People's Right to Live By Maulana Muhammad Ali [Excerpts from speech delivered at Essex Hall, London, on 23 March 1920] Our third claim is that the Holy Places, namely, the three Sacred Harems of Mecca [Makkah], Medina, and Jerusalem, and the Holy Shrines in Mesopotamia should remain in the custody and under the Wardenship of the Khalifa himself… But you will say, what of the Armenian massacres? Ladies and gentlemen, I do not in the least overlook them. How can we who hold a brief for Islam, the religion of peace and persuasion, overlook the horrors reported? But this question has a whole history behind it. Why is it that we never heard of these massacres in Armenia before the last quarter of the last century? Shall I tell you? It was because Czarist Russia was busy with massacre-mongering in other parts of Turkey - in the Balkans. It was only when the success of this great "camouflage" in the Balkans was achieved beyond the highest expectations of Czarist Russia, that they wanted a clear corridor from Petrograd to Peshawar, that Armenia was selected as the next stage on the journey. It is not sufficient to inquire into the fact of casualties. You must investigate when these "massacres" began, why they did not begin earlier, who was interested in their commencement, what intrigues went on inside and outside, whether peaceful subjects were slaughtered in cold blood or rebels dealt with as rebels are dealt with everywhere, whether an unarmed docile population was being exterminated by regular troops, or armed bodies of people were fighting among themselves on equal terms and a vendetta has been going on right to this day. Is it not true that the Armenians claimed representation in the Peace Conference because they were belligerents? Is it not even now being claimed for them that they assisted the Allies against their own Government and should be rewarded at its expense? Is it not true that these massacres are always heard of whenever any decision is about to be taken by the Allies with regard to territorial adjustment, and do they not occur just where capitalists see an excellent harbour and Imperialists find an excellent route by which military railway could traverse a difficult region? I have no desire to prejudge the issue. But we have claimed, and we claim now, that for the first time an inquiry should take place into the entire question, and that an impartial international commission should undertake it, and that the All-India Khilafat Conference should be adequately represented on this Commission. یورپ میں چالیس پینتالیس برس سے یہ شہرہ تھا کہ ترک حکومت آرمینیا کی عیسائی آبادی کی نسل ختم کرنے کے درپے ہیں۔ مولانا محمد علی نے بڑے لطیف پیرائے میں چبھتے ہوئے سوال اُٹھائے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ اِسی موقع پر کنٹربری کے پادری نے بوکھلا کر وہ بیان دیا ہو جو اَخبار میں چَھپ کر لاہور چیف کورٹ کے بار رُوم میں پہنچا اورمیاں شاہنواز نے اُسے پڑھ کر کہا کہ بِلّی چوہے کو پیغامِ اتحاد دیتی ہے۔ اقبال نے اُسی وقت اَشعار لکھ دیے: اخبار میں لکھتا ہے یہ لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہبِ اسلام سے عناد لیکن وہ ظلم ننگ ہے تہذیب کے لیے کرتے ہیں اَرمنوں پہ جو تُرکانِ بدنہاد مُسلم بھی ہوں حمایتِ حق میں ہمارے ساتھ مِٹ جائے تا جہاں سے بِنائے شر و فساد سن کر یہ بات خوب کہا شاہنواز نے بِلّی چوہے کو دیتی ہے پیغامِ اتّحاد۲۳۷ ۳۲۹ گرامی لاہور پہنچ گئے تھے۔ انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہونے والا تھا۔ ۳۳۰ ۲۹ مارچ کو لاہور میں مسلمانوں کا عام جلسہ ہوا۔ قرارداد پیش کردہ ظفر علی خاں مسلمانانِ لاہور کا یہ جلسہ ان سنگین بدعنوانیوں کو جو انجمن حمایت اسلام کی کارفرما جماعت کے بعض افراد سے سرزد ہو کر انجمن کے اغراض و مقاصد کو خطرناک نقصان پہنچا رہی ہیں، نہایت تشویش اور اضطراب کی نظر سے دیکھتا ہے اور بدرجہ مجبوری اپنے اس آخری اختیار کو کام میں لا کر جو انجمن حمایتِ اسلام کی امانت کے امین اعلیٰ ہونے کے لحاظ سے اس کو حاصل ہے، انجمن کے کارفرماؤں سے مطالبہ کرتا ہے کہ عہدہ داران مجلس نظم و نسق انجمن کے انتخاب آئندہ میں حسب ذیل حضرات کو جن پر قوم کا پورا اعتماد ہے، منتخب کرے۔ پریذیڈنٹ نواب ذوالفقار علی خاں جنرل سیکرٹریاں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، حاجی شمس الدین صدر مجلس انتظامیہ اسلامیہ کالج میاں فضل حسین عوام نے قرارداد منظور کی۔ دو روز بعد جنرل کونسل کا اجلاس نواب ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔ قرارداد کے مطابق عہدیدار منتخب کیے گئے۔۲۳۸ انجمن کا سالانہ اجلاس پچھلے برس نہ ہو سکا تھا۔ اب سابقہ معمول کے مطابق ایسٹر کی تعطیلات میں ہونے والا تھا۔ گرامی بھی لاہور آ کر اقبال کے پاس ٹھہرے۔ ۳۳۱ ۳۱ مارچ تک پچھلے برس کی کُل آمدنی گیارہ ہزار چھ سو نواسی (۱۱۶۸۹) روپے ہوئی۔ پانچ سو اڑتالیس (۵۴۸) روپے انکم ٹیکس بنتا تھا۔۲۳۹ ۳۳۲ ۲ اپریل کو انجمن کا پینتیسواں سالانہ جلسہ شروع ہوا۔ ظفر علی خاں بھی آئے ہوئے تھے۔ پہلے روز نواب ذوالفقار علی خاں نے صدارت کی۔ ’’صاحبان!‘‘ انہوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’میں انجمن کے عہدہ داروں کے جدید انتخاب کی بابت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دو دن ہوئے کہ انجمن کے صدر اور آنریری سیکرٹری کا سہ سالہ انتخاب ہوا ہے جو آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اس سے جو تبدیلیاں ہوئی ہیں خدا ان کو موجبِ برکت کرے اور وہ اہلِ اسلام کی ترقی اور بہبودی کا موجب ہوں۔ میں خود تو ناچیز ہوں مگر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب جو آنریری سیکرٹری ہوئے ہیں اور اُن کی نظیر ہندوستان بھر میں نہیں ملتی۔ ڈاکٹر صاحب میں جو طاقت اور علم ہے وہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنی لیاقت، اپنے بنی نوع انسان کی خدمت اور بہبودی میں صرف کریں۔ واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ تبدیلی ہونا ضروری تھی۔ اگر حالت ویسی بھی رہتی تو راستی کو فروغ نہ ہوتا۔ اس تبدیلی سے ظاہر ہو گیا کہ سچ بلند ہوتا ہے اور جھوٹ گرتا ہے۔‘‘۲۴۰ ایسٹر سنڈے ۴ اپریل کو تھا۔ صبح آٹھ بجے شروع ہونے والے اجلاس کی صدارت بھی نواب ذوالفقار علی خاں کر رہے تھے۔ حاضرین نے اقبال سے نظم سنانے کی درخواست کی تو اُنہوں نے اپنی بجائے گرامی کو پیش کیا۔ خیال ہے کہ گرامی نے نواب ذوالفقار علی خاں کے بارے میں بھی اشعار پڑھے۔ حکومت پنجاب نے نیا نصاب تعلیم متعارف کروایا تھا۔ حکیم احمد شجاع بی اے نے اپنی تقریر میں کہا کہ نواب ذوالفقار علی خاں اور اقبال کی سرکردگی میں انجمن کو جدید نصاب کے مطابق اضافی درسی کتب ترتیب دینی چاہئیں۔ ’’بعد ازاں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لأ آنریری جنرل سکرٹری انجمن حمایت اسلام نے اشعار پڑھ کر حاضرین کو محظوظ کیا،‘‘ انجمن کی روداد میں لکھا گیا۔نظموں کے نام ’ارتقا‘ اور ’مردِ آزاد‘ تھے۔۲۴۱ ڈھائی بجے دوپہر ایک اور اجلاس منشی الہ یار خاں صاحب منصف درجہ اول لاہور کی صدارت میں شروع ہوا۔ اقبال نے کنٹربری کے پادری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اَشعار پڑھے۔ ۳۳۳ ۵ اپریل کو پیسہ اخبار میں اقبال کی نظم ’ارتقا‘ شائع ہوئی۔ گزشتہ روز انجمن کے اجلاس میں پڑھی گئی تھی۔ اُس روز قونیہ میں مصطفی کمال پاشا کی طرف سے ایک کرنل پہنچے اور تمام فوجی افسروں سے کہا کہ وہ استنبول کی حکومت کی بجائے مصطفی کمال کی اطاعت قبول کر لیں۔ اُنہوں نے مان لیا۔ مولانا روم کے شہر میں فیصلہ ہوا کہ ترکی کے قوم پسندوں میں مصطفی کمال کے سوا کوئی اور رہنما نہ ہو گا۔۲۴۲ ۳۳۴ اقبال کے ملازموں میں سے مہر الٰہی، جس کی تنخواہ آٹھ روپے ماہوار اور کھانا تھی، ہوشیارپور سے واپس آیا تھا لیکن پھر چلا گیا۔ اب اُس کے بھائی اُسے اپنے پاس روک رہے تھے۔ اقبال کو نئے ملازم کی تلاش تھی۔ شیخ عطا محمدکا خط موصول ہوا۔ اعجاز کے لیے رشتے کی تلاش تھی۔ چاہتے تھے کہ سیالکوٹ ہی میں طے ہو جائے۔ اقبال اس رائے سے متفق تھے مگر ۷ اپریل کو جواب میں یہ بھی لکھا، ’’اگر سیالکوٹ میں موزوں جگہ نہ ملے تو مجبوراً کسی اور جگہ تلاش کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ سیالکوٹ کو مقدّم سمجھنے سے غیرموزوں جگہ پر قناعت کی جائے۔ اس امر کے علاوہ آپ کو اور لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتے بھی کرنے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ تعلّقات کا دائرہ وسیع ہو۔‘‘ نوکر کی تلاش کا تذکرہ بھی کیا۔ ’’اگر سیالکوٹ سے کوئی آدمی ایسا مل جائے جس پر اعتبار ہو سکے تو بہت عمدہ بات ہے۔ احموں سے پوچھیے وہ کہیں سے پیدا کر دے گا۔ کام کچھ نہیں ہے صرف مکان کو صاف رکھنا اور حاضرباشی۔‘‘ ۳۳۵ اکبر شاہ نجیب آبادی غالباً اپریل کے شروع میں اقبال کے گھر آئے مگریہ موجود نہ تھے۔ غالباً کوئی پیغام چھوڑ گئے یا بعد میں خط لکھا جس کا مختصر جواب دیتے ہوئے ۸ اپریل کو اقبال نے لکھا، ’’تالیف و اشاعت کی طرف انشأ اللہ خاص توجہ ہو گی اور آپ سے بھی ضرور کام لوں گا۔ افسوس ہے آپ جب تشریف لائے میں مکان پر موجود نہ تھا۔‘‘ ۳۳۶ ۱۰ اپریل کو گرامی رخصت ہوئے اور اقبال نیازالدین خاں کو خط لکھنے بیٹھ گئے جس میں فرمایش تھی کہ دو جوڑے کبوتر بھیج دیں۔ خط پورا نہیں ہوا تھا کہ گرامی واپس آ گئے۔ کہہ رہے تھے کہ دوپہر کی گاڑی سے جائیں گے۔ ۳۳۷ اتحادیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ قوم پسندوں کو سزا دی جائے۔ ۱۱ اپریل کو خلیفہ کے اشارے پر شیخ الاسلام نے فتویٰ دیا کہ تمام قوم پسند کافر ہیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ اُنہیں قتل کر دیں۔ ترک جو کسی اور حربے سے زیر نہ ہو سکتے تھے، فتوے سے چکرا گئے۔ کئی مقامات پر مصطفی کمال کے سپاہیوں کے خلاف بغاوت ہوئی۔ ترکی کی حفاظت کرنے والے ترکوں ہی کے ہاتھوں ہلاک ہونے لگے۔۲۴۳ ۳۳۸ ۱۵ اپریل کو گرامی کا خط ملا جس میں فارسی کا ایک شعر لکھا تھا جو غالباً ان کا اپنا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ لیلیٰ اور مجنوں نے ایک ہی ورق سے سبق پڑھے تھے مگر یہ کیا بات ہے کہ ایک دیوانہ ہو گیا اور دوسری سمجھدار ہوئی جاتی ہے۔۲۴۴ بنام نیازالدین خاں لاہور، ۱۶ اپریل ۱۹۲۰ء مخدومی! السلام علیکم آپ کا نواز ش نامہ ملا ہے جس کے لیے سپاس گزار ہوں۔ کبوتروں کے واسطے میں نے ماسٹر رحمت اللہ، ڈرائنگ ماسٹر اسلامیہ ہائی اسکول، جالندھر کو لکھا ہے۔ اگر وہ عنقریب آنے والے ہوئے تو اُن کے ہم دست روانہ فرما دیجیے گا اور اگر مجھے معلوم ہوا کہ وہ عنقریب آنے والے نہیں ہیں تو پھر میں آپ کے بلانے پر اپنا آدمی یہاں سے ارسال کر دوں گا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ کے کبوتروں کے برابر میرے تجربے میں کوئی نسل کبوتروں کی نہیں آئی۔ میں نے لدھیانہ، ملتان، سیالکوٹ، گجرات، شاہجہاں پور سے کبوتر منگوائے مگر اتنی تعداد اچھے کبوتروں کی کسی نسل میں جمع نہیں، جتنی کہ آپ کے کبوتروں میں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ ظاہری شکل خوبصورت اور اس کے اُڑان اور کھیل۔ گرامی صاحب یہاں کئی روز رہے اور خوب شعرخوانی ہوتی رہی۔ مگر وہ کچھ بیمار ہو گئے، جس میں اُن کے وہم نے اور بھی اضافہ کر دیا۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کو دکھلایا گیا اگر وہ ٹھہرتے تو اُن کا باقاعدہ علاج کرایا جاتا۔ جالندھر اور ہوشیارپور کی نسبت تو اُن کے قدردانوں کی تعداد لاہور میں زیادہ ہے۔ پھر معلوم نہیں وہ کیوں جلد اُداس ہو جاتے ہیں۔ کل اُن کا خط آیا تھا، جس میں انہوں نے ایک شعر نہایت مزے کا لکھا تھا۔ اس ضیافتِ روحانی میں آپ کو بھی شریک کرتا ہوں سبق از یک ورق لیلیٰ و مجنوں را، چہ حال است ایں یکے دیوانہ می گردد یکے فرزانہ می خیزد مخلص محمدؐ اقبال ۳۳۹ نیازالدین خاں کو کسی کے لیے رشتے کی تلاش تھی۔ اقبال نے کسی کی لڑکی کا ذکر کیا جس کے نانا اور والد کو وہ جانتے تھے۔ ان دونوں کی تنہا وارث وہ لڑکی تھی۔ سنا تھا کہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہوئی ہے اور چونکہ والد خوش شکل آدمی تھا لہٰذا امکان تھا کہ لڑکی بھی اچھی شکل صورت رکھتی ہو گی۔۲۴۵ ۳۴۰ ۱۸ اپریل کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقامی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اراکین کا انتخاب کرنے والی سب کمیٹی کے سیکرٹری بھی مقرر ہوئے۔۲۴۶ ۳۴۱ کوئی پروفیسر محمد اکبر منیر تھے جن کا خط بحرین سے آیا۔ غالباً عربی سیکھنے بیروت جانا چاہتے تھے۔ فلسفے کی کچھ کتابوں کے نام بھی پوچھے تھے۔ اقبال نے ۲۱ اپریل کو جواب میں لکھا کہ عربی سیکھنے کے لیے مصر زیادہ بہتر ہے۔ فلسفے کی کچھ کتابوں کے نام بھی لکھے ۔ اقبال کے جاننے والے کوئی شیرازی صاحب بحرین میں تھے۔ اُن کے نام سلام بھی بھیجا۔ ’’امید کہ مقتضیاتِ زمانہ سے اُدھر کے لوگ باخبر ہوتے جائیں گے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر ایام لائے۔‘‘ اُس روز اتوار تھی۔ کشمیر سے کوئی نوجوان آیا اور اقبال سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ انہیں دیکھا تو کچھ کہے سنے بغیر زار و قطار رونے لگا۔ وہ سمجھے کہ ضرورت مند ہے لیکن حال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے، اور بیحد عجیب و غریب ہے۔۲۴۷ میاں جی سے مشورہ کرنا بہتر تھا۔ مگر پہلے انجمن حمایت اسلام کی سب کمیٹی کا اجلاس تھا جو اُس روز اقبال ہی کے گھر پر ہونا تھا۔ مختلف کمیٹیوں کے اراکین کا انتخاب کیا گیا اور اقبال نے کاروائیوں پر دستخط کیے۔۲۴۸ بنام نور محمد لاہور، ۲۳ اپریل قبلہ و کعبہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ قریباً چار ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھے ایک گمنام خط ملا جس کا مضمون یہ تھا کہ نبی کریم کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو کچھ علم نہیں اگر تم فلاں وظیفہ پڑھا کرو تو تم کو بھی اس کا علم ہو جائے گا۔ وہ وظیفہ خط میں درج تھا۔ میں نے اس خیال سے کہ وہ گمنام تھا اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی۔ اب وہ خط میرے پاس نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ ردّی میں مل ملا کر کہاں چلا گیا۔ پرسوں کا ذکر ہے کہ کشمیر سے ایک پیرزادہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا۔ اس کی عمر قریب تیس پینتیس سال کی ہو گی۔ شکل سے شرافت کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ گفتگو سے ہشیار، سمجھدار اور پڑھا لکھا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے مجھ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا۔ میں نے سمجھا کہ شاید مصیبت زدہ ہے اور مجھ سے کوئی مدد مانگتا ہے۔ استفسار حال کیا تو کہنے لگا کہ کسی مدد کی ضرورت نہیں مجھ پر خدا کا بڑا فضل ہے۔ میرے بزرگوں نے خدا کی ملازمت کی۔ اب میں اُن کی پنشن کھا رہا ہوں۔ رونے کی وجہ خوشی ہے نہ غم۔ مفصل کیفیت پوچھنے پر اُس نے کہا کہ نوگام میں جو میرا گاؤں سری نگر کے قریب ہے۔ میں نے عالمِ کشف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربار دیکھا۔ صف نماز کے لیے کھڑی ہوئی تو حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ محفل میں نہیں تھا۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کو بلانے کے واسطے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی ڈاڑھی منڈی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا مع اُن بزرگ کے صفِ نماز میں داخل ہو کر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سے پہلے میں آپ کی شکل سے واقف نہ تھا نہ نام معلوم تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ مولوی نجم الدین صاحب ہیں جن کے پاس جا کر میں نے یہ سارا قصّہ بیان کیا تو اُنہوں نے آپ کی بہت تعریف کی۔ وہ آپ کو آپ کی تحریروں کے ذریعہ جانتے ہیں گو انہوں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ اُس دن سے میں نے ارادہ کیا کہ لاہور جا کر آپ سے ملوں گا۔ سو محض آپ کی ملاقات کی خاطر میں نے کشمیر سے سفر کیا ہے اور آپ کو دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا اِس وسطے آیا کہ مجھ پر میرے کشف کی تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل آپ کی میں نے حالتِ کشف میں دیکھی اس سے سرِ مو فرق نہ تھا۔ اس ماجرا کو سن کر مجھ کو معاً وہ گمنام خط یاد آیا جس کا ذکر میں نے اس خط کے ابتدا میں کیا ہے۔ مجھے سخت ندامت ہو رہی ہے اور روح سخت کرب و اضطراب کی حالت میں ہے کہ میں نے کیوں وہ خط ضائع کر دیا۔ اب مجھ کو وہ وظیفہ یاد نہیں جو اُس خط میں لکھا تھا۔ آپ مہربانی کر کے اس مشکل کا کوئی علاج بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب کہتے تھے کہ آپ کے متعلق میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے بالکل صحیح ہے کیونکہ میرے اعمال تو اِس قابل نہیں ہیں۔ ایسا فضل ضرور ہے کہ دعا کا ہی نتیجہ ہو لیکن اگر حقیقت میں پیرزادہ صاحب کا کشف صحیح ہے تو میرے لیے لاعلمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے اس کا یا تو کوئی علاج بتائیے یا مزید دعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ بھائی صاحب کا خط مل گیا تھا۔ کل پرسوں سے امتحانات کے پرچے آئیں گے۔ ان کو ختم کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ [محمدؐ اقبال] ۳۴۲ سارے ترکی میں تلاوت اور ذبیحہ کے ساتھ مصطفیٰ کمال پاشا کی قومی اسمبلی کا خیرمقدم ہوا تھا۔ مساجد میں خطبے دیے گئے تھے۔ پھر بھی شیخ الاسلام کے فتوے کا کچھ اثر باقی رہا۔ خانہ جنگی جاری تھی۔ ۲۳ اپریل کو مصطفیٰ کمال پاشا نے انقرہ میں گرانڈ نیشنل اسمبلی کا افتتاح کیا تو اسمبلی کے تین سو منتخب نمائندوں میں سے صرف ایک سو بیس شرکت کے لیے پہنچ پائے تھے۔ پاشا نے طویل تقریر میں بتایا کہ جمہور کے منتخب نمایندوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات تفویض کرنا اسلام کے عین مطابق ہے۔ انقرہ کی گرینڈ اسمبلی جسے جمہور نے منتخب کیا ہے، قانون بنانے کے علاوہ انتظامی اختیارات بھی رکھے گی۔ اکثریت نے تائید کی۔ ۳۴۳ ۲۵ اپریل کو ظفر علی خاں کا روزنامہ زمیندار دوبارہ جاری ہو گیا۔۲۴۹ ۳۴۴ اٹلی میں سان ریمو ایک پرفضا مقام تھا۔ یہاں جمعیت اقوام کی کانفرنس تھی۔ صرف برطانیہ، اٹلی اور فرانس کے وزرائے اعظم اور جاپان کا سفیر شریک ہوئے۔ ہفتے بھر میں تمام فیصلے ہو گئے۔ ۲۶ اپریل تک ترکی کے ٹکڑے بانٹے جا چکے تھے۔ شام کا علاقہ فرانس کے مینڈیٹ میں دیا گیا حالانکہ برطانیہ نے وہاں امیر فیصل کو بادشاہ بنایا تھا۔ اس کے بدلے میں فرانس نے میسوپوٹیمیا پر برطانوی مینڈیٹ تسلیم کر لیا۔ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جا رہی تھی۔ ۳۴۵ رُوسی افواج آذربائیجان کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی مطالبہ کر رہی تھی کہ حکومت اُس کے حوالے کر دی جائے کیونکہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کے حملے کا خطرہ ہے اور رُوسی تو صرف ترکوں کی مدد کرنے آئے ہیں۔ آزاد مسلمان ریاست کے صدر نے پارلیمنٹ سے اپیل کی کہ حکومت کمیونسٹوں کے حوالے نہ کی جائے کیونکہ وہ اُسے روسی سلطنت میں ضم کر دیں گے۔ ۲۸ اپریل کو حکومت کمیونسٹوں کے حوالے کر دی گئی۔ اُسی روز آذربائیجان روسی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اسلامی دنیا کی پہلی پارلیمانی جمہوریت ختم ہو گئی۔۲۵۰ اُس شام ساڑھے چھ بجے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز برائے عربی فارسی وغیرہ کا اجلاس اقبال کے گھر پر تھا۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ اقبال نے صدارت کی۔ ڈاکٹر محمد صدرالدین بھی موجود تھے۔ ایم نجم الدین اور ایم محمد دین کو شریکِ کار بنایا گیا تھا۔ مولوی کالج لاہور کے ہیڈماسٹر کی درخواست موصول ہوئی تھی کہ شرح متعالی اور بو علی سینا کی اشارات بازار میں دستیاب نہیں۔ یہ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۲۲ء کے امتحان کے نصاب میں داخل تھیں۔ فیصلہ ہوا کہ مکمل کتابوں کی بجائے شرح متعالی میں سے صرف تصورات کا حصہ نصاب میں رکھا جائے اور حمداللہ (تصدیقات) کا اضافہ کیا جائے۔ اشارات میں سے منطق والا حصہ چھوڑ دیا جائے۔۲۵۱ ۳۴۶ انقرہ سوشلسٹ پروپیگنڈہ کی زد میں تھا۔ کئی منچلے سرخ ٹائیاں باندھنے لگے تھے۔ ایک دوسرے سے کہتے سنائی دیتے تھے، ’’ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ ہم کیوں نہیں کمیونزم اختیار کر کے اپنے عوام کو نئی روح اور نیا جذبہ فراہم کر دیتے؟‘‘ یکم مئی کو ملک میں یشیل اُردو یعنی سبز فوج بھی وجود میں آگئی جو کارل مارکس کے نظریات کی روشنی میں اسلام کی تشریح کرنے کا عزم رکھتی تھی۔ اُسی روز خلیفہ کے وزیرِ اعظم کی طرف سے مصطفی کمال پاشا اور اُن کے ساتھیوں کے لیے سزائے موت کا حکم بھی جاری ہوا۔ ساتھیوں میں خالدہ ادیب خانم اور اُن کا شوہر شامل تھے۔۲۵۲ ۳۴۷ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں فارسی کا پرچہ مرتب کر رہے تھے۔ بی اے کے کسی پرچے، ایم اے فلسفہ کے چوتھے پرچے اور ایل ایل بی کے دوسرے پرچے کے لیے بھی وہ ممتحن تھے۔۲۵۳ ۳۴۸ اقبال کے پاس اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی کوئی کاپی نہیں بچی تھی۔ لاہور کے کتب فروش راما کرشنا سے کہا کہ لندن سے منگوا دیں۔ ۳۴۹ شیخ عمر بخش نے نیازالدین خاں کے کسی مضمون کا ذکر کیا جو خلافت کے موضوع پر تھا۔ نیازالدین کے بھیجے ہوئے کبوتر بھی موصول ہو چکے تھے۔ ادھر کنج پورہ سے نواب ابراہیم خاںنے چند سفید کبوتر بھیجے تھے۔ اقبال کا کہنا تھا، ’’چونکہ بھیجنے والا بانیٔ کعبہ کا ہم نام ہے اس واسطے میں ان کبوتروں کو کبوترانِ حرم کا خطاب دیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل کے کبوترانِ حرم پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘۲۵۴ کسی فارسی استاد کے ایک شعر پر ایک اور شعر لگا کر شریفِ حرم کو خطاب کیا- مجھ دل جلے کی طرف سے حرم کے کہہ دو کہ جنگل میں تو آزادی کا سانس لیتا ہے اور اب گلستان کی تلاش ہے مگر مجھے بری قسمت سے ڈر ہے کہ صیاد کے گھر جا نکلے گا: با مرغِ حرم از من دل سوختہ فرما اے آنکہ بصحرا نفس آزاد برآری جویائے گلستانی و از طالعِ گمراہ ترسم کہ سر از خانۂ صیاد برآری۲۵۵ ۱۱ مئی کو نیازالدین خاں کے نام خط میں ان تمام باتوں کا تذکرہ کیا۔ ۳۵۰ پھر صبح کے ستارے کو مخاطب کر کے کہاکہ تم ہماری دنیا سے شائد اس لیے تیزی سے گزر جاتے ہو کہ ہماری نیند سے بیزار ہو۔ ہم نے غفلت کی وجہ سے راستہ گم کر دیا ہے اور تم بیدار آتے ہو، بیدار جاتے ہو! یہ چار مصرعے بھی بیاض میں درج ہوئے۔۲۵۶ اس کے بعد علم کی ہجو لکھنا شروع کی جس کا ارادہ اگست میں گرامی سے ظاہر کیا تھا۔۲۵۷ ۳۵۱ علم نے کہا، ’’میری نگاہ زمین اور آسمان دونوں کی رازدار ہے۔ زمانہ میرے پھندے میں پھنسا ہوا ہے۔ خداوند نے میری آنکھیں اِس رخ پر کھولیں، مجھے آسمان کے اُدھر سے کیا کام ہے؟میرے ساز سے سیکڑوں نغمے ٹپکتے ہیں اور میں اپنا ہر راز بازار میں پھینک آتا ہوں۔‘‘ عقل نے ایک دن دل سے یہی کہا تھا جسے دل کے جواب کے ساتھ اقبال نے ’عقل و دل‘ کے عنوان سے اُردو میں نظم کیا تھا۔ وہ اٹھارہ برس پہلے کی بات تھی۔ آج عشق نے جواب دیا،’’تمہارے شعبدے سے دریا شعلہ زار ہے۔ ہوا آگ چھوڑتی ہے اور زہریلی ہو گئی۔ جب تم میرے دوست تھے، نور تھے۔ مجھ سے الگ ہو کر اَب تمہارا نور بھی نار ہے۔تم نے خلوت خانۂ لاہوت میں جنم لیا لیکن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے۔‘‘ عشق کہتا رہا، ’’آؤ اِس خاکداں کو گلزار بنا دو۔ بوڑھی دنیا کو پھر سے جوان کر دو۔ آؤ میرے دل سے ایک ذرہ حاصل کر کے آسمان کے نیچے ہمیشہ کی جنت بنا دو۔ ہم ازل کے ساتھی ایک ہی نغمے کا اُتار چڑھاؤ ہیں۔‘‘ نظم فارسی میں تھی۔ عنوان ’محاورہ عشق و علم‘ تھا۔۲۵۸ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد رباعیوں کی آمد اُس طرح ہوئی جیسے اولے برستے ہیں۔ بیس پچیس تو صرف بیاض کے اگلے صفحے پر لکھی گئیں۔ اس کے علاوہ بھی نجانے کتنی کس کس روز نازل ہوتی رہیں۔ علم اور عشق کا مکالمہ جو نظم کیا تھا اُس کے اَن گنت پہلو جو کسی تشریح سے روشنی میں نہیں لائے جا سکتے تھے اِن رباعیوں میں پوری طرح ظاہر ہو کر کھل گئے: مسلمانو! میرے دل میں ایک بھید ہے جو جبرئیل کی روح سے زیادہ روشن ہے۔ میں اُسے آزر کی سی فطرت رکھنے والوں سے چھپا کر رکھتا ہوں کیونکہ یہ خیل اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ مسلماناں مرا حرفے است در دل کہ روشن تر زجانِ جبرئیل است نہانش دارم از آزر نہاداں کہ ایں سرّے ز اَسرارِ خلیل است۲۵۹ ۳۵۲ فرانسیسی فلسفی اگسٹس کومٹ (Augustus Comte) اُس مکتبِ فکر کا نمایندہ تھا جسے اثباتیت (Positivism) کہتے تھے اور جو ترکی کے نوجوانوں میں بھی مقبول ہوا تھا۔ اقبال نے اس کی تہہ میں جھانکا تو کومٹ یہ کہتا نظر آیا: جیسا کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے، ’’آدم کی اولاد ایک دوسرے کی اعضا ہے۔‘‘ پس اگر دماغ سوجھ بوجھ پیدا کرنے والا ہے تو یہ فطرت کا قانون ہے اور پاؤں زمین پر گھسٹنے والا ہے تو یہ بھی فطرت کے مطابق ہے۔ اقبال نے ایک مزدور سے کومٹ کو جواب دلوایا: اے فلسفی تو مجھے فلسفے سے فریب دے رہا ہے کہ یہ پرانا طلسم ٹوٹ نہیں سکتا؟ کچے تانبے کو سونے کی چادر میں لپیٹ کر بیچتا ہے؟ مجھے راضی برضا ہونے کی تعلیم دیتا ہے؟ میری آبنائے سمندر کو اَسیر کرتی ہے۔ میرا تیشہ پتھر سے دُودھ کی نہر نکالتا ہے۔ اے دانا! تو نے کوہکن کا حق پرویز کو دے دیا جس نے کوئی سختی نہیں جھیلی؟ عقل کے زور سے غلط کو صحیح مت بنا! تُو خضر کو سراب کے جال میں نہیں لا سکتا۔ سرمایہ دار دھرتی کا بوجھ ہے۔ اُسے سونے اور کھانے کے سوا کوئی کام نہیں۔ کیا تُو جانتا نہیں کہ یہ ناکارہ چور ہے جبکہ دنیا کی خوشحالی محنت کی وجہ سے ہے؟ اِس کے جرم کے واسطے عذر لایا ہے! تُو نے اِس عقل و دانش پر فریب کھایا ہے! فارسی نظم کا عنوان ’محاورہ مابین حکیم فرنسوی اگسٹس کومٹ و مردِ مزدور‘ رکھا۔ علم کی ہجو جیسی لکھنا چاہتے تھے وہ شاید اب ہو گئی۔۲۶۰ ۳۵۳ برگساں بھی کومٹ کی طرح فرانسیسی تھا اور اقبال سمجھتے تھے کہ وہ بھی انسان کو محض ایک حیوان سے زیادہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اُس کی فکر بھی خودی کی قوت سے محروم تھی لیکن اُس نے وجدان کی اہمیت کو جس طرح ظاہر کیا تھا اُس سے یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ یورپ کا تھکا ہارا مایوسی کا مارا ذہن آنے والے سنہرے زمانے کی جھلک دیکھنے کی ادھوری سی کوشش ضرور کر رہا ہے۔۲۶۱ برگساں کے پیغام کو اقبال کی نظر سے دیکھا جاتا تو وہ کچھ یوں ہوسکتا تھا : خود کو چنگاری کی طرح شعلے سے جدا مت کرو تاکہ تم پر زندگی کا بھید کھل سکے! نظارے کے لیے اپنائیت کی نگاہ حاصل کرو تاکہ اپنے ہی وطن میں پردیسیوں کی طرح نہ رہو۔ تم نے جو نقش باندھا ہے وہ سب وہمِ باطل ہے۔ وہ عقل حاصل کرو جو دل کی تربیت یافتہ ہو۔ پیغامِ برگساں تا بر تو آشکار شود رازِ زندگی خود را جدا زشعلہ مثالِ شرر مکن بہرِ نظارہ جز نگہِ آشنا میار در مرزوبومِ خود چو غریباں گذر مکن نقشے کہ بستہ ای ہمہ اوہامِ باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است۲۶۲ اِس سے ملتی جلتی بات اُنیس بیس برس پہلے اقبال نے اُردو میں کہی تھی: گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اِسے بار بار دیکھ کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ البتہ برگساں کی فکر اُس معاملے میں کمزور تھی جو مذہب سے قریب ہونے کی وجہ سے اقبال کو مفت میسر تھا: آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستیٔ ناپائیدار دیکھ ۳۵۴ ۱۴مئی کو معاہدۂ سیورے ہندوستان میں شائع ہو گیا۔ ۳۵۵ حکومت پنجاب نے نصاب میں تبدیلی کی تھی۔ ۱۶ مئی کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین، نائب صدر کی صدارت میں ہوا۔ پراونشل ایجوکیشنل کانفرنس کے قیام اور مکمل منصوبے کی تیاری کے لیے چار رکنی کمیٹی تشکیل پائی جس میں اقبال شامل تھے۔۲۶۳ ۳۵۶ مدت سے اقبال کے اشعار شائع نہ ہوئے تھے۔ عرشی امرتسری نے فارسی میں احتجاج کیا۔ شائع ہوا۔ اقبال نے پڑھا اور تڑپ اٹھے ۔ پانچ اشعار کا قطعہ فارسی میں لکھا کہ یہ مت سمجھو کہ میرا جام ٹوٹ گیا ہے۔ ساقیٔ حجازؐ کے کرم سے سینے میں وہ آہ موجود ہے جو صرف مستانوں کے دل سے اٹھتی ہے۔ البتہ پیرِ میکدہ کی نصیحت ہے کہ آسمان کی شعبدہ بازی کے پیشِ نظر خاموشی سے پیو۔ اشعار زمیندار اخبار کو بھیجے۔ظفر علی خاں نے اُردو میں اپنی طرف سے تبصرہ بھی ساتھ ہی شائع کیا۔ عرشی کے بزرگ دوست حکیم فیروزالدین طغرائی نے، جنہوں نے کبھی اقبال کے اعتراضات کے جواب میں حافظ کے کارآمد اَشعار کی طرف توجہ دلائی تھی، یہ تینوں نظمیں پڑھ کر فارسی میں اپنی طرف سے کچھ اشعار لکھ کر زمیندار کو بھیج دیے۔۲۶۴ اقبال نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قصیدہ لکھنا شروع کیا کہ آپؐ کے آستانے کے لیے عجم سے ایسا سجدۂ شوق لایا ہوں جو میری پیشانی میں خون ہو چکا ہے۔ اس پرانے کافر کے ہاتھ میں لَا کی تلوار دیجیے اور پھر دنیا میں میری اِلّا کا تماشا ملاحظہ فرمائیے: بہرِ نذرِ آستانت از عجم آوردہ اَم سجدۂ شوقے کہ خوں گردید در سیمائے من تیغِ لا در پنجۂ ایں کافرِ دیرینہ دہ باز بنگر در جہاں ہنگامۂ اِلّائے من ۱۸ اپریل کو نیازالدین خاں کو خط میں قصیدے کے دو اَشعار بھیجے۔ ۳۵۷ ۲۱ مئی کو شام کا وقت تھا۔ اقبال نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ نیازالدین خاں کا خط ملا۔ معلوم ہوا کہ بیمار ہیں۔ جس رشتے کا ذکر اقبال نے کیا تھا اُس کی مزید تفصیلات دریافت کی تھیں۔ اقبال نے جلدی میں ایک خط گھسیٹ دیا، ’’اِس واسطے کہ روزہ کی وجہ سے طبیعت پریشان ہے اور شام کا وقت قریب ہے۔‘‘۲۶۵ ۳۵۸ ترکی کے جنوب میں وہ علاقے جنہیں معاہدے کی رُو سے آزاد رہنا تھا مگر جن پر فرانسیسی فوجوں نے پھر بھی قبضہ کر لیا تھا، واپس لیے جا رہے تھے۔ ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے قریب پانچ سو فرانسیسی فوجی تنہا رہ گئے۔مدد پہنچنے کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔میجر کو خبر ملی کہ پندرہ ہزار ترک حریت پسند اُس علاقے میں موجود ہیں جو مصطفی کمال کے ’’بے ضابطہ‘‘ سپاہی ہیں۔ دل ٹوٹ گیا۔ واپسی کی ٹھانی۔ دو پہاڑی توپوں، ۱۳ مشین گنوں اور ۸۰۰ سے زیادہ رائفلوں سے لیس یہ فرانسیسی دستہ پہاڑوں میں سفر کر رہا تھا۔ ۲۸ مئی کو مقامی لوگوں کی چھوٹی سی ٹولی نے روکا۔ بمشکل چالیس افراد تھے۔ کچھ رائفلیں تھیں، باقیوں نے پرندے مارنے والی بندوقیں اُٹھائی ہوئی تھیں۔ فرانسیسی دستے نے ہتھیار ڈال دیے۔ فرانسیسی حکومت کی سمجھ میں نہ آیاکہ زمین پھٹے تو اُس میں سمائے یا آسمان پر اُٹھائے جانے کی دعا مانگے۔ ترکی سے بیس دن کی جنگ بندی کی درخواست کی۔ مصطفی کمال نے منظور کر لی۔ رُوس چونک اُٹھا کیونکہ فرانس مشترکہ دشمن تھا۔ جنگ بندی سے پہلے رُوس کو اعتماد میں کیوں نہ لیا؟ جواب واضح تھا۔ شام کے عرب قبائل کی طرف سے مسیحی طاقتوں نے آنکھیں پھیررکھی تھیں۔ ترکی کے ساتھ بیس دن کی جنگ بندی کا مطلب تھا کہ اِتنے دن فرانسیسی صرف عربوں کو ماریں گے۔ ۳۵۹ ۲ جون کو الٰہ آباد میں ہندو آل پارٹیز کانفرنس نے گاندھی کی عدم تعاون کی تجویز باضابطہ منظور کرنے کا اعلان کیا۔ ۳۶۰ اعجاز احمد بی اے کا امتحان دے کر سیالکوٹ آئے تھے۔ ایک نوجوان شاہنواز جو لاہور سے ایم بی بی ایس کا امتحان دے کر آئے تھے، مطب میں زیادہ تر فارغ بیٹھے رہتے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا اور خوشخط تھے۔ اعجاز نے اقبال کا جو کلام جمع کر رکھا تھا ایک بیاض میںخوشخط لکھوانا شروع کیا۔ ’’طے پایا کہ پہلے اردو غزلیات، اُن کے بعد فارسی کلام، جو بہت زیادہ نہ تھا۔ اُس کے بعد وہ کلام جو اکبرؔ الٰہ آبادی۔۔۔ کے رنگ میں تھا اور سب سے آخر میں نظمیں درج کی جائیں،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’چنانچہ ہر روز میں اور ڈاکٹر شاہنواز بہت سا وقت اس کام میں صرف کرتے۔‘‘۲۶۶ ۳۶۱ بنام شیخ نور محمد لاہور، ۳ جون۱۹۲۰ء قبلہ و کعبہ السلام علیکم آپ کا والانامہ ملا۔ الحمدللہ کہ آپ کی صحت اچھی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دیر تک آپ کا سایہ ہمارے سر پر رکھے گا۔ بھائی صاحب نے اس سے پہلے کسی خط میں آپ کے انتظامِ خوراک وغیرہ کے بارے میں لکھا تھا، یہ طریق بہت اچھا ہے اور اسی کو دستور العمل بنانا چاہیے۔ میں نے یورپ کے مشہور حکیم کی کتاب میں دیکھاہے کہ جو شخص ہر روز دہی کی لسّی پیا کرے اُس کی عمر بڑھتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کے جسم میں ایسے جراثیم ہیں جو قاطع حیات ہیں اور دہی کی لسّی ان جراثیم کے لیے بمنزلہ زہر کے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے رہنے والے لوگ شہریوں کی نسبتاً عموماً طویل العمر اور تندرست ہیں۔ علی بخش نے کل مجھے بتایا کہ اس کی چچی کی لمبی عمر ہوئی اور آخر عمر میں اس کا گذران زیادہ تر لسّی پر تھی۔ تُرش لسّی تو شاید آپ کے لیے مفید نہ ہو کہ آپ کا گلا خراب ہے۔ البتہ میٹھے دہی کی لسّی اگر صبح شام پی جائے تو شاید مفید ہو اس کا تجربہ بھی کرنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ کوئی اچھا مکان رہنے کو نہیں ملتا۔ موجودہ مکان میں جوان لوگ تو بہ آسایش رہ سکتے ہیں بوڑھوں کو تکلیف ہے ورنہ میری خواہش تھی کہ سال کا زیادہ حصہ آپ میرے پاس بسر کیا کرتے۔ ذرا ریل کا انتظام ٹھیک ہو جائے تو انشأ اللہ آپ کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوں گا۔ ڈاکٹر عبداللطیف نے آپ کے دانت بنائے تھے۔ اگر وہ خراب ہو گئے ہوں تو اُن کو ڈاک سے بھیج دیجیے گا پھر مرمّت کرا دیے جائیں گے اور اگر وہ قابل مرمّت بھی نہ ہوں تو لکھیے ڈاکٹر عبداللطیف کو سیالکوٹ بھیج دوں گا کہ وہاں جا کر آپ کے دانت بنا دے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ گھر سے سب آپ کی خدمت میں آداب لکھواتی ہیں۔ روحانی کیفیات کا سب سے بڑا ممد و معاون یہی کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس بات کا ثبوت ہے۔ میں خود اپنی زندگی کم از کم کھانے پینے کے متعلق اسی طریق پر ڈھال رہا ہوں۔ دنیا کے حالات اور عام لوگوں کے حالات ایسے ہی ہیں اُن کی طرف توجہ نہ کرنا چاہیے۔ عام لوگوں کی نگاہ بہت تنگ ہے۔ اُن میں سے بیشتر محض حیوانوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اسی واسطے مولانا روم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چراغ لے کے تمام شہر میں پھرا کہ کوئی انسان نظر آئے مگر نظر نہ آیا۔ اور موجودہ زمانہ تو روحانیت کے اعتبار سے بالکل تہی دست ہے۔ اسی وسطے اخلاص محبت و مروّت و یکجہتی کا نام و نشان نہیں رہا۔ آدمی آدمی کا خون پینے والا اور قوم قوم کی دشمن ہے۔ یہ زمانہ انتہائی تاریکی کا ہے لیکن تاریکی کا انجام سفید ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ جلد اپنا فضل کرے اور بنی نوع انسان کو پھر ایک دفعہ نورِ محمدی عطا کرے۔ بغیر کسی بڑی شخصیت کے اس دنیا کی نجات نظر نہیں آتی۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ خدا کا فضل ہے۔ غلام رسول بیمار تھا۔ کل میں نے اُس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فیروزپور تار دیا تھا مگر تاحال جواب نہیں آیا۔ آج کل تار بھی دیر میں پہنچتے ہیں۔ والسلام محمدؐ اقبال لاہور ۳۶۲ آسٹریا ہنگری کی وہ سلطنت جس نے اپنے ولی عہد کے قتل پر ایک دنیا سے جنگ مول لی تھی کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اُس کی جگہ صرف ہنگری بچا تھا جس نے ۴ جون کو فرانس میں ورسائی کے محل میں اُس معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے تحت آسٹریاہنگری سلطنت کے کئی علاقے دوسرے ملکوں کو دے دیے گئے اور کچھ نئے ملک بنائے گئے جن کی بنیاد صدر ولسن کے چودہ نکات والا حق ِخود ارادیت تھا۔ نئی وجود میں آنے والی ریاستوں میں چیکوسلواکیہ اور یوگوسلاویا شامل تھیں۔ ۳۶۳ لندن میں نکلسن نے ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ مکمل کر لیا جو تیار ہو کر چھپنے چلا گیا۔ نکلسن نے اس پر لیکچر دینے شروع کیے جن کی خبر اقبال تک بھی پہنچی۔۲۶۷ ۳۵۹ ۷ جون کو پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کا اجلاس تھا۔ ڈین کی حیثیت میں اقبال نے صدارت کی۔ کنورسین ماٹھور سیکرٹری کی حیثیت میں موجود تھے۔ سب ملا کر ۲۳ ارکان تھے جن میں اس دفعہ نواب ذوالفقار علی خاں اور خواجہ دل محمد بھی شامل تھے۔پنجابی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاس کی کاروائی پر غور کر کے تجاویز منظور کی گئیں۔۲۶۸ ۳۶۴ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی کانفرنس ہونے والی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو نمایندہ منتخب کیا۔ کانفرنس جولائی کی چھٹیوں میں کلکتہ یا الٰہ آباد میں ہونی تھی۔۲۶۹ ۳۶۵ ۹ جون کو سردار جوگندر سنگھ آئے۔ ایسٹ اینڈ ویسٹ کے مدیر ہو گئے تھے اور لکھنؤ جا رہے تھے۔ وعدہ کیا کہ وہاں سے آم بھجوائیں گے اور بھجواتے رہیں گے۔۲۷۰ ۳۶۶ سر سید علی امام نے بطور صدرِاعظم حیدرآباد دکن ظفر علی خاں کو لکھا کہ انہیں ریاست کی خدمات سے برخواست کیا جاتا ہے۔ ترجمہ کرنے کا وظیفہ ۶۲۵ روپے ماہوار اور صاحبزادے اختر علی خاں کے لیے ۲۰۰ روپے ماہوار کا عطیہ موقوف ہوئے: بذریعہ فرمان مصدرہ ۲۷ شوال ۱۳۳۶ھ میری گورنمنٹ کے صیغۂ ترجمہ کے ملازم ظفر علی خاں صاحب ساکن لاہور کو اپنے وطن میں رہ کر اپنی خدمت کا کام سرانجام دینے کی اجازت اِس شرط سے دی گئی تھی کہ وہ کسی قسم کے پولیٹیکل معاملے میں کوئی دخل نہ دیں۔ مگر اب پایا جاتا ہے کہ نہ صرف انہوں نے اپنے ترجمے کے کام میں بیجا غفلت کی بلکہ ملازمت کی شرط کے خلاف انہوں نے اعلانیہ طور پر پنجاب کی پولیٹیکل کاروائیوں میں نمایاں حصہ لیا ہے کہ ظفر علی خاں صاحب فوراً ملازمتِ سرکارِ اعلیٰ سے موقوف کیے جائیں۔۲۷۱ ۱۰ جون کو ظفر علی خاں نے زمیندارکے اداریے میں لکھا کہ نظام دکن سے فرمان اُسی مغربی قوت نے جاری کروایا ہو گا جنہوں نے خلیفۃ المسلمین سے ترکی کے محبانِ وطن کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کروایا تھا۔ نظام دکن علم و فن کے سرپرست ہیں۔ اِسلام کے دردمند ہیں۔ صرف مجبور ہیں۔ رہے ظفر علی خاں سو وہ آٹھ سو روپے تو کیا اپنی زندگی بھی خلافت کے کام پر قربان کر سکتے ہیں، ’’جب اسلام کے گھر ہی کو آگ لگ رہی ہو تو ہم پہلے اس آگ کو بجھائیں یا تاریخِ انگلستان کا ترجمہ کیا کریں۔‘‘ اعلیٰ حضرت نظام الملک کا جدید فرمان اور مدیرِ زمیندار کی برطرفی کا حکم ظفر علی خاں [اقتباس] ۔۔۔اِس قسم کے فرامین ہم کو اور ہم جیسے لاکھوں نیازمندوں کو، جو حضرت تاجدارِ دکن کی دولت کے دعاگو ہیں، دولتِ آصفیہ کے سلوکِ وظیفہ خوری سے خارج کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس جاں نثارانہ محبت، اس فداکارانہ عقیدت اور اس غیرمتزلزل ارادت کو ہمارے دل سے نکال دینے پر ہرگز قدرت نہیں رکھتے، جو ہمیں میر عثمان علی خاں کی ذاتِ گرامی سے وابستہ کیے ہوئے ہے۔۔۔ بہرحال برطرف کیے جانے کے باوجود ہم اپنے آپ کو اعلیٰ حضرت تاج دارِ دکن کا دِرم خریدہ غلام سمجھتے ہیں اور صلہ کی توقع یا کسی انعام کی خواہش کے بغیر وقت نکال کر ترجمہ کا کام برابر انجام دیتے رہیں گے۔ زمیندار (لاہور)، ۱۰ جون ۱۹۱۹ئ۲۷۲ ۳۶۷ لاہور میں گرمی زوروں پر تھی مگر اقبال کا ذہن اُس ہانڈی کی طرف تھا جو وسط ایشیا میں اُبل رہی تھی۔ عظیم روسی مصنف ٹالسٹائی جس کا انتقال دس برس قبل ہوا تھا، اُس نے کسی جگہ لکھا تھا کہ لالۂ آتش نژاد منگولین قوم سے پیدا ہو گا اور اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ ’’اب یہ معلوم نہیں کہ اس کا خروج یا ظہور کب ہو گا اور وہ اس وقت روس میں ہے یا وسط ایشیا میں یا شام میں،‘‘ اقبال سوچ رہے تھے۔ لالۂ آتش نژاد یعنی لالے کا پھول جو سورج سے حرارت لے کر بظاہر پھول ہوتے ہوئے بھی اپنے باطن میں شعلے جیسی گرمی پیدا کر لیتا ہے؟ یہ خیال اقبال کے دل و دماغ کی سرگزشت میں ایک مستقل موضوع بن گیا جس سے پھر کبھی اُن کی شاعری کا پیچھا نہ چھوٹ سکا- شام کی مٹی کو پھر مسلمان کے خون سے سیراب کیا گیا ہے تاکہ وہاں سے پھر لالۂ آتش نژاد پیدا ہو: تا بروید لالۂ آتش نژاد از خاکِ شام باز سیرابش زخونابِ مسلماں کردہ اند۲۷۳ ۳۶۸ نیازالدین خاں نے اقبال کے جالندھر نہ آنے پر مذاقاً لکھا کہ لندن اور برلن کا سفرتو کر لیا تھا (حقیقتاً اقبال طالب علمی کے زمانے میں برلن نہیں بلکہ میونخ گئے تھے)۔ جو رشتہ اقبال نے تجویز کیا تھا اُس کے بارے میں نیازالدین خاں نے نسل کا کوئی سوال اُٹھایا کہ خود افغان تھے۔ ’’انسانوں کو خدا نے قبائل میں تقسیم کیا۔ اس واسطے کہ ان کی شناخت کی جا سکے،‘‘ اقبال نے ۱۰ جون کو جواب میں لکھا۔ ’’نہ اس واسطے کہ یہ امتیاز سلسلہ ازدواج میں ممد و معاون ہو۔‘‘ ساتھ میں اپنا ایک فارسی شعر بھی درج کر دیا جس کا مطلب تھا کہ اپنے آپ کو ترک اور افغان سمجھ کر تم نے اپنی اصل حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے۔ غیر ممالک کے سفر کے بارے میں لکھا کہ وہ تحصیلِ علم کے لیے تھے۔ ’’اگر وہی اَمر اَب بھی محرّک ہو تو اقبال افریقہ کے ریگستان طے کرنے کو تیار ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھیے کہ جالندھر نہ آئے گا۔ آموں کی کشش علم سے کچھ کم نہیں۔‘‘ ۳۶۹ ۲۲ جون کو یونان نے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پیش قدمی کی۔ ازمیر کے شمال اور مشرق میں پھیلنے لگے۔ خلیفہ نے قوم میں پھوٹ ڈال رکھی تھی۔ پہلے ہی ہلے میں بہت سے ترک مارے گئے۔ لائڈ جارج سے اجازت مل چکی تھی۔ اُس شام ساڑھے پانچ بجے پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کی میٹنگ یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں ہوئی۔ کنورسین ماٹھور کی عدم موجودگی میں ایم محمد شفیع نے ایکٹنگ سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔ اقبال نے صدارت کی۔ کل بیس ارکان موجود تھے۔ ۲۸ اپریل کو اقبال کے گھر پر بورڈ آف اسٹڈیز برائے عربی فارسی وغیرہ کے اجلاس میں جو کاروائی ہوئی تھی اُس پر غور کر کے مولوی فاضل برائے ۱۹۲۱ء اور ۱۹۲۲ء کے نصاب میں تجویز کی گئی تبدیلیاں منظور کر لی گئیں۔۲۷۴ ۳۷۰ ۲۶ جون کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۲۷۵ ۳۷۱ اسکاربراانگلستان کے شمال میں خوبصورت ساحل پرآباد شہر تھا جہاں پچھلی صدی میں ودرنگ ہائٹس کی مصنفہ ایملی برانٹے نے ٹی بی سے وفات پائی تھی اور اَب وہاں گرانڈ ہوٹل تھا جو یورپ میں سب سے بڑا تھا۔ یہیں لیبر پارٹی کا بیسواں سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ خلافت وفد میں سے مولانا محمد علی اور ابوقاسم اُن دنوں گلاسگو میں تھے۔ ’’ساری رات اور آدھا دن سفر کر کے اور کئی جگہ گاڑی بدلنے کے باعث اپنی نیند حرام کر کے اسکاربرا پہنچے جہاں حزبِ عمال [لیبر پارٹی] کا سالانہ جلسہ تھا،‘‘محمد علی کا بیان ہے۔ ’’اُن لوگوں نے کہا کہ اب تو پروگرام طے ہو چکا ہے، تاہم مسٹر ریمزے میکڈانلڈ سیکرٹری ہیں۔ ان کو اختیار ہے کہ اگر چاہیں تو پروگرام میں اب بھی وقت نکال لیں۔۔۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس شخص نے کس تلخی کے ساتھ مجھے جواب دیا۔ ایک منٹ رکنا اُس کو گوارا نہ تھا۔ راستہ چلتے چلتے فرمایا کہ ’ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ ہمارا پروگرام یوں ہی پُر ہے۔ اِس لیے وقت نکالنا مشکل ہے۔‘ مجھے اِس انکار سے سخت رنج ہوا، مگر رنج کے علاوہ میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب مجھے اس انکار کا اصلی سبب معلوم ہوا۔ اِس لیے کہ آپ سے رہا نہ گیا اور آپ نے اُسی وقت فرمایا کہ ’تم نے تو مجھے بالکل ہی بھلا دیا۔ تم مجھ سے آج ملتے ہو، اِتنے دن سے کہاں تھے۔‘ میں نے کہا کہ میں لندن سے ایک عرصے سے باہر تھا اور چونکہ وہ بھی اس وقت لندن میں نہ تھے جب ہم لوگ شروع شروع ہندوستان سے آئے تھے اور پارلیمنٹ والوں ہی سے ملنا اُس وقت سب سے زیادہ ضروری تھا۔ اس لیے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اِس پر فرمایا، ’تم ان ناکارہ لوگوں کے پاس گئے اور مجھے بالکل ہی بھلائے رکھا۔ آج مجھے یاد فرمایا۔ میں تمہارے لیے بالکل وقت نہیں نکال سکتا۔‘ جو شخص ایک دن برطانیہ کا وزیراعظم ہونے والا تھا وہ اِس قدر کم ظرف اور تنگ دل!‘‘ ۲ جولائی کو بعض دوسرے ہمدردوں کی وجہ سے محمد علی کو پانچ منٹ خطاب کرنے کی اجازت ملی۔ وہ شروع ہوئے تو سننے والوں کو اِتنا محظوظ کیا کہ صدر کی گھنٹی تین بار بجے مگر ہر بار سننے والے چلا چلا کر کہتے رہے کہ ابھی اور سننا ہے۔ پانچ منٹ بیس میں بدل گئے۔ ۳۷۲ ہے قوم جسم، سلطنت اُس میں ہے مثلِ رُوح جب یہ نہیں تو قوم نہیں بلکہ لاش ہے زمانہ (کانپور)، جولائی ۱۹۲۰ئ۲۷۶ ۳۷۳ ’نیٹشا‘ کے عنوان سے فارسی میں مزید دو اشعار لکھے کہ سستیٔ عناصر انساں سے اُس کا دل تڑپا تو اُس نے ایک بہتر پیکر تراشا مگر مغرب کے لیے نیٹشے کی فکر ایسی ہی ہے جیسے شیشہ گر کی دکان میں دیوانہ آ نکلے۔۲۷۷ ۳۷۴ The Secrets of the Self: a Moslem Poet's Interpretation of Vitalism Reynold A. Nicholson [Excerpt] It has been said of Iqbal that "he is a man of his age and a man in advance of his age. He is also a man in disagreement with his age." We cannot regard his ideas as representative of any section of his co-religionists. They involve a radical change in the ordinary Moslem's view of life, and their real importance does not lie in the possibility that such a change may be nearer than most people think likely. Apart from this, the ideas themselves are striking enough to deserve attention... Iqbal has drunk deep of European literature, his philosophy owes much to Nietzsche and Bergson, and his poetry often reminds us of Shelley; yet after all he thinks and feels as a Moslem, and just for this reason his influence on the younger generation of Indian Moslems is likely to be great. "His name", says one of them, "is the synonym of promise and prophecy. He has come amongst us as a Messiah and has stirred the dead with life." It remains to be seen in what direction the awakened ones will march… Obviously, his doctrine of the Self can be adapted to other ends than those which he has in view. The Asrar-i-Khudi will certainly be drawn into the service of an intellectual and political movement, whose leaders do not agree with Iqbal when he declares that the Moslem's heart has no country except Islam. The Quest (London), July 1920, Volume XI, No.4, pp.433-451۲۷۸ ۳۷۵ برطانیہ کا دشمن کون ہے؟ اسکویتھ یا لائیڈ جاج ظفر علی خاں [اقتباس] اپنے بے سروپا مضمون میں احرار ترک، مسلمانانِ ہند، اعضائے مجلسِ خلافت اور مسٹر محمد علی پر جو سوقیانہ آوازے ’’انگلش مین‘‘ [اخبار] نے کسے ہیں، وہ کچھ نئے نہیں۔ اِس قسم کی صلیبی پھبتیوں نے پہلے بھی ہمارے کانوں میں ناسور ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ آئے دن ہم کو سُنایا جاتاہے کہ مصطفیٰ کمال پاشا اور اُن کے رفقأ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ زمیندار (لاہور)، ۴ جولائی ۱۹۲۰ئ۲۷۹ یتیم خانے کے لیے زمین کی ضرورت تھی۔ اُس روز انجمن حمایت اسلام کے نائب صدر مولوی فضل الدین کی صدارت میں جنرل کونسل کے اجلاس میں چھ رکنی سب کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اقبال بھی رکن بنے۔۲۸۰ ۳۷۶ اعجاز سیالکوٹ سے واپس آ گئے۔ معلوم ہوا وہاں بارش ہو چکی ہے۔ ۷ جولائی کی رات لاہور میں بھی گرمی ذرا کم رہی اور اگلے روز بادل دیکھا گیا مگر برسا نہیں۔ ’’یہاں بھی بارش کا انتظار ہے،‘‘ اگلے روز اقبال نے شیخ عطا محمد کو لکھا۔ ۳۷۷ اُس روز یونانی افواج برسا میں داخل ہو گئیں۔ یہ ازمیر کا اہم شہر اور عثمانی سلطنت کا پہلا دار الحکومت تھا۔ ترک قوم پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ انقرہ میں اسمبلی کے پلیٹ فارم کے پیچھے سیاہ پردہ لٹکا دیا گیا تاکہ وہ اِس غم کی یاد دلاتا رہے۔ ۳۷۸ جارجیا کی عیسائی ریاست کے جنوب میں ترکی تھا۔ مغرب میں بحرِ اسود اور شمال میں روس تھا۔ مشرق میں آذربائیجان تھا اور وہ بھی روس کا حصہ بن چکا تھا۔ جنوب مشرق میں آرمینیا کی عیسائی ریاست تھی جس کی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ جنگ رہی تھی۔ مصطفی کمال کے افسروں نے اپنی کچھ فوج وہاں بھیج کر وہاں کے مسلمانوں میں بھی زندگی کی روح بیدار کر دی۔ جارجیا میں برطانیہ اور فرانس کی جو تھوڑی بہت فوجیں موجود تھیںاُن کے لیے خشکی کے راستے بند ہو چکے تھے۔ ۹ جولائی کو سمندری راستے سے رُخصت ہو گئیں۔ بے بسی کا مقام تھا کیونکہ جمعیت اقوام نے برطانیہ کو اِس ریاست کا مینڈیٹ دیا تھا۔ ۳۷۹ آفتاب نے بی اے کا امتحان فلسفہ میں آنرز اور معاشیات بطور اختیاری مضمون کے فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ اب مزید تعلیم کے لیے انگلستان جانا چاہتے تھے جس کے اخراجات اٹھانے پر اقبال کبھی تیار نہ ہوتے۔۲۸۱ ۳۸۰ دانت میں درد تھا۔ مسوڑھا پھول گیا تھا۔ عرفی کی غزل ذہن میں آئی جو ذرا کمزور تھی اس لیے اس پر غزل کہنے کی ہمت ہو گئی۔ فارسی میں شعر ہوا جس کا مقصود یہ تھا کہ تیرے پاس وقت کا لازوال خزانہ ہے پھر غنچہ کی عمر اگر تھوڑی سی زیادہ کر دے تو اس میں کوئی کمی نہ ہو گی: کم نہ شود خزانۂ مدتِ بے نہایتست یک دو نفس زیادہ کن غنچۂ نیم باز را ڈاکٹر کے نشتر نے مسوڑھے کی تکلیف سے آرام دیا مگر شعر کی طرف سے اطمینان نہ ہوا۔ اُس کی ترکیب فلسفیانہ تھی، شاعرانہ نہ تھی۔ آخر مولوی میر حسن اور گرامی کی آرأ لینے کے لیے روانہ کر دیا۔۲۸۲ ۳۸۱ عبدالعزیز بیرسٹر کے والد مولوی الٰہی بخش کا انتقال ہو گیا۔ گرامی کے دوستوں میں سے تھے۔ عبدالعزیز کا خیال تھا کہ گرامی تعزیت کے لیے لاہور آئیں گے۔۲۸۳ ۳۸۲ جولائی کے وسط میں سندھی مہاجرین کا قافلہ لاہور ریلوے اسٹیشن سے گزرا۔ افغانستان جا رہا تھا۔ جان محمد جونیجو بیرسٹر قیادت کر رہے تھے۔ ’’۔۔۔نظارہ بڑا رقت انگیز تھا،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’لوگ ہزاروں کی تعداد میں اسٹیشن پر اُن کے استقبال کو حاضر تھے۔ اہلِ لاہور نے بڑے جوش سے اُن کا خیرمقدم کیا۔‘‘۲۸۴ ۳۸۳ فقیر سید نجم الدین نے گرامی کے لیے چاول بندھوائے تھے مگر ریل میں باربرداری بند تھی۔ اقبال سے دریافت کیا کہ کہاں بھجوائے جائیں۔ اقبال نے ۱۲ جولائی کو گرامی کو خط لکھا۔ جواب آیا، ’’وہ چاول اپنے پاس گرامی کی امانت رکھیے۔ گرامی چند روز تک خدمت میں حاضر ہو گا۔‘‘ ۳۸۴ اقبال نے غزل میں سے وہ شعر کاٹ دیا جو مولوی میر حسن اور گرامی کو بھیجا تھا۔ اس کی جگہ دوسرا شعر لکھ کر غزل مکمل کر لی: اٹھ اور ساز میں چھپے ہوؤں کو بے نقاب کر دے۔ خوش نوا پرندوں کو نئے نغمے یاد کروا دے! ایک برہمن نے غزنوی سے کہا، میری کرامت دیکھ کہ تو نے بت پاش پاش کر دیا مگر ایاز کا بندہ بن گیا! راہرووں کے خون سے بنا ہوا راستہ موسمِ بہار میں لالے کے تختے کی طرح ہے کہ یہ وہ ناز ہے جو نیاز کے قافلے کی رہنمائی کرتا ہے! اے وہ کہ دوسروں کو دکھانے کے لیے طویل سجدے کرتے ہو، تمہارا سجدہ کافروں کے دلوں میں بھی احتجاج پیدا کرتا ہے! عقل نے تو عشق کی پونجی کی قیمت کم لگائی ہے مگر میں آہِ جگر گداز کو تختِ جمشید کے عوض بھی نہ دوں! خلوت میں چھپے ہوئے صاحبِ اَسرار لوگوں سے مجھ بے زباں کی طرف سے کہہ دینا کہ تم نے جو بات نہیں کہی تھی وہ اَب بچوں کی زبان تک پہنچ گئی ہے! خیز و نقاب بر کشا پردگیانِ ساز را نغمۂ تازہ یاد دہ مرغِ نواطراز را برہمنے با غزنوی گفت کرامتم بنگر تو کہ صنم شکستہ ای بندہ شدی ایاز را جادہ زخونِ رہرواں تختۂ لالہ در بہار ناز کہ راہ می زند قافلۂ نیاز را سجدۂ تو برآورد از دلِ کافراں خروش اے کہ دراز تر کنی پیشِ کساں نماز را گرچہ متاعِ عشق را عقل بہائے کم نہد من نہ دہم بہ تختِ جم آہِ جگر گداز را ’’حرف نگفتۂ شما بر لبِ کودکاں رسید‘‘ از من بے زباں بگو خلوتیانِ راز را۲۸۵ ۳۸۵ تم مجھ سے زندگی کا سبق لو تو میں تمہیں ایک چھپا ہوا نکتہ بتاؤں کہ اگر تمہارے جسم میں روح نہیں ہے تو تم مردہ ہو اور اگر روح ہے تو مر نہیں سکتے۔ تُرا یک نکتۂ سربستہ گویم اگر درسِ حیات از من بگیری بمیری گر بہ تن جانے ندارد وگر جانے بہ تن داری نمیری جولائی کے وسط میں یہ رباعی ہوئی۔۲۸۶ ۳۸۶ ارادہ ہو رہا تھا کہ اگست میں کشمیر جائیں۔۲۸۷ ۳۸۷ ۱۸ جولائی کو مولانا شوکت علی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ مولانا محمد علی جوہر نے انگلستان کے کسی پبلک ڈنر میں جہاں ایرانی، ترک اور عرب موجود تھے، تقریر کرتے ہوئے ’اسرارِ خودی‘ کے اشعار سنائے تو وہ لوگ حیران رہ گئے۔ اس کی تفصیل بمبئی کرانیکل میں بھی شائع ہوئی تھی۔۲۸۸ ۳۸۸ کوئی شیخ اکمل فاخر آبادی تھے۔ سجادہ نشین تھے۔ گرامی نے ان کے بارے میں رباعی لکھی جو اقبال کو بہت پسند آئی۔۲۸۹ ۳۸۹ گرامی کا خط آیا۔ ۱۹ جولائی کو انہیں طویل جواب لکھتے ہوئے رباعی کے ساتھ غزل بھی ارسال کی۔ ’’بس اتنے ہی شعر تھے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’مقطع لکھنے کی عادت ہی نہیں۔‘‘۲۹۰ ۳۹۰ یورپی فلسفیوں کے درمیان مکالمہ لکھنا چاہتے تھے۔ لاک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تو لالہ اپنا جام خالی لے کر باغ میں آیا تھا جسے صبح نے سورج کی شراب سے لبریز کیا۔ لائیٹنیر کا موقف کیا ہو گا اور کانٹ کیا کہے گا؟ مگر یہ نظم جس کا عنوان ’حکمأ‘ رکھا تھا، قلمزد ہوئی اور غالباً کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھی گئی۔۲۹۱ ۳۹۱ ۲۲ جولائی کو استنبول کے یلدیز محل میں خلیفہ کی شاہی مجلس اُن مطالبات پر غور کر رہی تھی جنہیں قبول کرنے کے لیے اتحادی طاقتوں کی طرف سے پانچ دن کی مہلت باقی تھی: - پانچ برس بعد ازمیر کے عوام اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ انہیں یونان میں شامل ہونا ہے یا نہیں ( ظاہر تھا کہ اس عرصے میں یونانی وہاں کی مسلمان آبادی کو ختم کر کے عیسائیوں کو وہاں آباد کر چکے ہوں گے) - صدر ولسن آرمینیا کی سرحدوں کا تعین کریں گے (وہ ہمیشہ سے ترکی کا زیادہ سے زیادہ علاقہ آرمینیا کے سپرد کرنا چاہتے تھے) - کردوں نے خودمختاری کا مطالبہ کیا تو جمعیت اقوام فیصلہ کرے گی (ظاہر تھا کہ کرد یہ مطالبہ ضرور کریں گے۔ خلیفہ خود ہی اُنہیں ترکوں کے خلاف اُکسا بیٹھا تھا) - اناطولیہ کے بعض علاقوں پر سلطان کا قبضہ رہے گا مگر وہ نہیں جو فرانس یا اٹلی کو تفویض ہوئے ہیں - سلطان کے قبضے میں رہنے والے علاقوں میں بھی یورپی اقوام کے افراد کو نسلی برتری کی بنیاد پر مراعات حاصل ہوں گی - استنبول پر سلطان کا قبضہ صرف نام کو ہو گا۔ انتظام اتحادیوں کے سپرد ہو گا عثمانی سلطان کے لیے وہی انجام پیش کیا جا رہا تھا جو پچھلی صدی کے ہندوستان میں مغلوں کا ہوا تھا۔خلیفہ کی شاہی مجلس آمادہ ہو گئی۔ ۳۹۲ امیر فیصل کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ترکوں سے غداری کے صلے میں شام جو اُس کی جھولی میں ڈالا گیا تھا وہاں فرانس قبضہ کر رہا تھا اور برطانوی آقاؤں نے منہ پھیر لیا تھا۔ مایوس ہو کر خود ہی ہمت کی۔ فرانسیسی سپاہی جو ترکی میں اپنا مذاق اُڑوا چکے تھے، شیر ہو گئے۔ فیصل نے منہ کی کھائی۔ ۲۴ جولائی کو فرانسیسی فوجیں دمشق میں داخل ہو گئیں۔ ۳۹۳ جمہوریت کی مغربی صورت پر ایک اور اعتراض صادر کیا: تم اچھوتے معنی کی دولت نیچ فطرت لوگوں میں تلاش کرتے ہو۔ چیونٹیوں میں سلیمان کی طبیعت کی براقی نہیں آتی۔ جمہوریت سے بھاگ کر کسی پختہ کار کے غلام ہو جاؤ کیونکہ دو سو گدھوں کے بھیجے سے ایک انسان کی فکر پیدا نہیں ہوتی۔ جمہوریت متاعِ معنیٔ بیگانہ از دُوں فطرتاں جوئی زموراں شوخیٔ طبعِ سلیمانی نمی آید گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید۲۹۲ ۳۹۴ ’’مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا،‘‘ سید حسن ریاض کا بیان ہے۔ ’’اِسی جولائی میں انہوں نے ہجرت کی تحریک شروع کر دی اور سندھ میں اس کا بڑا زور تھا۔ کچاگڑھی واقع صوبہ سرحد میں مہاجرین اور فوج کے درمیان سخت تصادم ہوا جس سے مسلمانوں کا جوش بہت بڑھا۔ تخمیناً ۱۸ ہزار آدمی اپنا مال و متاع اور جائیدادیں بیچ کر افغانستان کی طرف روانہ ہو گئے تھے مگر افغانستان نے جلد ہی اپنی سرحد میں مہاجرین کا داخلہ بند کر دیا اور سخت نقصانِ جان و مال کے ساتھ یہ تحریک ختم ہو گئی۔‘‘۲۹۳ ۳۹۵ یکم اگست تھی۔ خلافت کمیٹی نے ملک بھر میں ہڑتال کروائی تھی۔ گاندھی نے اپنے تمغے حکومت کو واپس کیے اور تحریک عدم تعاون کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اُس روز لوک مانیا گنگا دھر تلک فوت ہو گئے۔ ۳۹۶ رات بہار کی گھٹا رو رو کے پکاری کہ زندگی مسلسل رونے کے سوا کچھ نہیں۔ تیزرفتار بجلی چمکی اور بولی، ’’تم نے غلط سمجھا۔ یہ تو پل بھر کی ہنسی ہے۔‘‘ میں نہیں جانتا کہ یہ خبر باغ میں کون لے گیا مگر اَب پھول اور شبنم کے درمیان گفتگو چھڑی ہوئی ہے۔ شبنم کہہ رہی ہے: مجھ سے کہا گیا کہ ماہ و پروین کی بلندی سے اُترو، مشکلات کا مقابلہ کرو اور ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے مل جاؤ، موج سے الجھو، نیا نقش ابھارو، چمکتا ہوا موتی بن کر نکلو۔ میں نے دریا سے ہم آغوشی کی موج مول نہ لی اور وہ شراب نہ چکھی جو اپنی سدھ بدھ بھلا دے، میں اپنے آپ سے دُور نہ بھاگی، ساری دنیا سے کٹ گئی اور لالے پر اُتری۔ فارسی میں دو نظمیں ’زندگی‘ اور ’شبنم‘ ہوئی تھیں اور پھر تیسری نظم ’حیاتِ جاوید‘: یہ مت سمجھو کہ شراب بنانے والے کا کام ختم ہو گیا کہ ابھی تو کتنی ہی شرابیں انگور کی رگوں میں پوشیدہ ہیں! گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است۲۹۴ ۳۹۷ زمیندار پھرجاری ہو چکا تھا۔ ان دنوں ظفر علی خاں نے خلافت کی حمایت میں ایک نظم لکھی جس کا ایک شعر ضرب المثل بن گیا: نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۲۹۵ ۳۹۸ پروفیسر براؤن کی تاریخ ادبیات ایران (History of Persian Literature)، جس کی پہلی جلد پر تبصرہ کرنے سے اقبال نے تیرہ چودہ برس پہلے کیمبرج کے زمانے میں اس لیے انکار کر دیا تھا کہ ان کے خیال میں یہ کتاب ایران کے خلاف یورپی استعمار کی سازش کا حصہ تھی، اُس کی تیسری جلد شائع ہو کر آئی۔ اقبال کی نظر سے بھی گزری۔ ۳۹۹ پروفیسر محمد اکبر منیر کا خط موصول ہوا۔ ایران جا رہے تھے۔ اقبال کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ تاریخِ تصوّف لکھنے کے لیے یا دوسرے لفظوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے میں جو خاکہ بنایا تھا اُسے مکمل کرنے میں جن کتابوں کی ضرورت ہے اور جن کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام ادھورا رہ گیا تھا اُن میں سے بعض اَب ہاتھ آ سکتی ہیں۔ بنام پروفیسر محمد اکبر منیر لاہور، ۴ اگست ۱۹۲۰ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے بڑی مسرّت ہوئی کہ آپ ایران جانے والے ہیں۔ شیراز فارسیوں کے کلچر کا مرکز ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہاں آپ کا قیام آپ کے لیے بہت مفید ہو گا۔ حال کی ایرانی شاعری میں کچھ نہیں۔ البتہ اس قوم کی بیداری کے شواہد کے طور پر اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ علاوہ اس کے زبان کی تحصیل کے لیے بھی مفید ہے۔ ایرانی شاعری کا تو قاآنی پر خاتمہ ہو گیا۔ خالص فلسفہ میں اگر کتابیں آپ کو مل جائیں تو انہیں جمع کرتے جائیے۔ قلمی ہوں یا مطبوعہ۔ تصوّف کی کتب کا جمع کرنا بھی مفید ہو گا۔ حال کے ایرانی حکمأ میں ہادی سبزواری مشہور ہیں۔ ان کی کتاب اسرار الحکم میری نظر سے گزری ہے محض افلاطونیت کا چربہ ہے اور بس۔ حال کے دیگر حکمأ میں سے اگر کسی کی تصنیفات آپ کے ہاتھ آ جائیں تو غنیمت ہے۔ فلسفے اور تصوّف کی کتابوں پر اگر خرچ ہو تو پرواہ نہ کیجیے۔ اس میں مجھے بھی شریک سمجھئے۔ البتہ کتاب خریدنے میں احتیاط لازم ہے۔ کیونکہ نوّے فیصد کتابوں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لوگ نام کی وجہ سے خرید لیتے ہیں۔ ایک کتاب غالباً ’’لطائف غیبی‘‘ نام ایران میں شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر براؤن نے لٹریری ہسٹری میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب اُن اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے جو شیعہ حضرات نے وقتاً فوقتاً خواجہ حافظ پر کیے ہیں۔ اگر کہیں دستیاب ہو جائے تو میرے لیے خرید کر بھیج دیجیے۔ یونانیوں کے فلسفے پر حال ہی میں ایک نہایت عمدہ چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے۔ A Critical History of Greek Philosophy by W. T. Stace اسے ضرور پڑھیے۔ میکمیلن سے ملے گی۔ اس سے زیادہ صاف اور واضح کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گذری۔ بعد کا یورپین فلسفہ سمجھنے میں اس سے بڑی مدد ملے گی۔ اَسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس وقت پریس میں ہے۔ غالباً سردیوں میں شائع ہو گا۔ پروفیسر نکلسن کا خط آیا تھا۔ انہوں نے وہاں کی لٹریری سوسائٹیوں میں اس کتاب پر متعدد لیکچر دیے ہیں جس کی وجہ سے اس نئے فلسفے کا وہاں بڑا چرچا ہے۔ اب میں گوئٹے کے ’’دیوان‘‘ کے جواب میں ایک فارسی دیوان لکھ رہا ہوں۔ جس کا ایک تہائی حصہ لکھ چکا ہوں۔ اسرارِ خودی کا ترجمہ یورپ کی اور زبانوں میں بھی ہو جائے تو تعجب نہیں۔ میں نے سنا ہے فرانس میں بھی اس کا چرچا ہے۔ یہ غالباً پروفیسر نکلسن کے لیکچروں کی وجہ سے ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دیوان کا ترجمہ بھی ضرور ہو گا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ (مسلمان) افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی (اور ممکن ہے کہ زیادہ) جا چکا ہو گا۔ محمدؐ اقبال ۴۰۰ سیرت النبیؐکی دوسری جلد شبلی نعمانی کے مسودے کی مدد سے سید سلیمان ندوی کی ترتیب دی ہوئی اُس برس شائع ہو گئی۔ ۴۰۱ ۱۹ اگست کو انقرہ کی اسمبلی نے معاہدۂ سیورے پر ترکی کی طرف سے دستخط کرنے والوں کو غدار قرار دیا۔ عثمانی نمایندوں نے ذلت کی اس دستاویز پر دس روز قبل فرانس میں پیرس کے قریب سیورے کے مقام پر دستخط کیے تھے اور دستخط کرنے والوں میں ’فلسفی‘ شاعر رضا توفیق بھی شامل تھا جو اُس ادب کا نمائندہ تھا جسے روشن خیال ترکوں نے فرانس سے درآمد کیا تھا۔ ۲۹۶ ۴۰۲ ہندوستان میں نئی کونسلوں کا افتتاح کرنے کے لئے پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد کو آنا تھا۔ موجودہ حالات میں خطرہ تھا کہ ہندوستان والے ان کی بے عزتی کریں گے اس لیے اگست میں اُن کی بجائے بادشاہ کے چچا ڈیوک آف کناٹ نے قدم رنجہ فرمایا۔ ۴۰۳ جواں سال نقاد ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری انتقال کر گئے تھے۔ ۲ ستمبر کو اقبال نے ان کے والد مولوی نور الاسلام کو بجنوری کے مزار کے کتبے کے لیے فارسی رباعی بھیجی جس کا مفہوم تھا کہ میرا دل جسم و جاں کا بھید جاننے والا ہے اس لیے یہ مت سمجھنا کہ موت مجھ پر بھاری ہے، اگر ایک دنیا نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو کیا غم ہے کہ اب بھی میرے ضمیر میں سیکڑوں عالم پوشیدہ ہیں: دلِ من رازدانِ جسم و جان است نہ پنداری اجل بر من گران است چہ غم گر یک جہاں گم شد زچشمم ہنوز اندر ضمیرم صد جہان است ۴۰۴ ۶ ستمبر کو کلکتہ میں جمعیت علمائے ہند کا اجلاس ہوا۔ دیوبند، لکھنو، بدایوں، دہلی اور پنجاب کے تمام مکاتب فکر کے علما ٔ موجود تھے۔ سب نے ترک موالات کے فیصلے پر اتفاقِ رائے کیا۔۲۹۷ ۴۰۵ ترک اتحادی قوتوں سے آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے مگر اُن کے بعض ہم قوم اِس جدوجہد کے بعد ملنے والی آزادی کو پہلے ہی روس کی غلامی میں بدلنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ ۱۰ اگست کو آزربائیجان کے شہر باکو میں ترک کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا صدر مصطفی صوفی ترکی روانہ ہو گیا۔ ۴۰۶ اورنگزیب عالمگیر کو معلوم ہوا کہ اُس کا ایک لڑکا اُس کی موت کی دعا مانگا کرتا ہے۔ عالمگیر نے اُسے خط لکھا کہ خدائے قدیم نے بہت کچھ دیکھا ہے مگر یعقوب کے رونے سے بیقرار ہوا نہ امام حسین کی شہادت پر اُس کے سینے سے آہ نکلی تو پھر یہ مت سمجھنا کہ وہ پرانا شکاری تمہاری دعا کے جال میں آ پھنسے گا۔ یہ اقبال کی نظم ’نامۂ عالمگیر‘ کا مضمون تھا۔ فارسی میں تھی۔۲۹۸ صدر ولسن کے چودہ نکات اپنی جگہ مگر جب ایک بطخ نے کہا کہ خضر کے دربار سے فرمان جاری ہو اہے کہ سمندر آزاد ہو گیا ہے تو مگرمچھ سن کر بولا، ’’جہاں چاہے جاؤ مگر ہم سے بیخبر مت رہنا!‘‘ فارسی کی اس نظم کا عنوان ’ولسن صدر جمہوریہ امریکائی‘ رکھا۔۲۹۹ جنت میں مولانا روم کی ملاقات گوئٹے سے ہوئی۔ گوئٹے نے اپنے ڈرامے فاؤسٹ کی دونوں جلدیں سنا دیں: شیطان نے خدا کے سامنے دعویٰ کیا کہ جرمن حکیم فاؤسٹ کو بہکا سکتا ہے یا نہیں۔ فاؤسٹ اپنی روحانی طاقت میں مزید ترقی کے امکان سے مایوس ہو چلا تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان نے اُس کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا کہ وہ اُسے تمام علوم سکھائے گا جن کی بدولت آسائشیں میسر آ سکیں لیکن اگر کوئی گزرتا ہوا لمحہ فاؤسٹ کو اِتنا پسند آیا کہ وہ اُس لمحے کے ٹھہر جانے کی خواہش کر بیٹھے تو شیطان اُس کی روح کا حق دار بن جائے گا۔ فاؤسٹ نے طرح طرح کی لذت حاصل کی مگر کامیابیاں اُسے مہنگی پڑیں۔ اُس کی محبوبہ افسوس ناک حالات سے دوچار ہو کر خودکشی کر بیٹھی اگرچہ خدا کی مہربانی نے اُس کی روح کو پھر بھی جہنم سے روک لیا۔ فاؤسٹ نے قدیم یونان کی ہیلن آف ٹرائے کا دیدار کرنے کے بعد سمندری تجارت کو فروغ دیا مگر یہ تجارت طاقتور قوموں کی لوٹ کھسوٹ میں تبدیل ہو گئی اور کمزور قومیں نو آبادیاتی طاقتوں کی شکار بن گئیں۔ تب فاؤسٹ نے ایک نئے نظام کا نقشہ مرتب کیا جہاں کوئی کسی کا محکوم نہ ہو۔ اس نظام کا تصور اِتنا دلفریب تھاکہ وہ کہہ بیٹھا کہ اگر کبھی یہ لمحہ آیا تو وہ اُس سے کہے گا کہ ٹھہر جاؤ۔ شیطان نے فاؤسٹ کی روح پر اپنا دعویٰ پیش کیا مگر دعویٰ مسترد ہو گیا کیونکہ فاؤسٹ نے وہ جملہ کسی سچ مچ میں گزرتے ہوئے لمحے سے نہ کہا تھا بلکہ آنے والے وقت کا تصور کر کے اُس کے بارے میں صرف ایک خیال ظاہر کیا تھا۔ مولانا روم نے جنت میں گوئٹے کی زبانی یہ قصہ سن کر اپنا شعر پڑھا کہ جو بھی نیک بخت اور باطن سے آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ چالاکی ابلیس سے اور عشق آدم سے ہے: داند آں کو نیک بخت و محرم است زیرکی زابلیس و عشق از آدم است اقبال نے نظم کا عنوان ’جلال و گوئٹے‘ رکھا۔ فارسی میں تھی۔۳۰۰ ۴۰۷ گورکھپور سے علامہ کیفی چریاکوٹی نے جو رسالہ سبحان کے اڈیٹر بھی تھے، اقبال کو ایک نظم بھیجی جس کے ایک شعر نے اقبال کو نجانے کس عالم میں پہنچا دیا: پہچانتا نہیں ہے مجھ آستاں نشیں کو تو نے جو ساتھ چھوڑا اے داغِ جبہہ سائی ۲۱ ستمبر کو مولانا کے نام خط لکھا، ’’آپ کے خاندان سے ایک عالم فیض یاب ہے اور ہو رہا ہے آپ ہمارے رہنما ہیں۔۔۔‘‘ ۴۰۸ شاہ اسد الرحمٰن قدسی نے غالباً گل حسن شاہ قادری کے بارے میں کچھ پوچھا تھا، جو پانی پت میں غوث علی شاہ قلندر کے جانشین تھے۔ ایک برس پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اقبال نے ۲۴ ستمبر کو جوابی خط کے ذریعے اطلاع دی۔ ۴۰۹ محمود طرزی جو افغان حکومت کے اہم رکن اور وہاں کی علمی اور تدریسی زندگی کی روح و رواں تھے، ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ لاہور سے گزرنے والے تھے۔ انجمن حمایت اسلام نے سپاس نامہ دینے کا انتظام کیا۔ مسودہ زیرِ تکمیل تھا کہ معلوم ہوا وہ نہیں آ سکتے۔۳۰۱ ۴۱۰ سیتاپور کے حاجی محمد احمد خاں کا خط پھر آیا۔ پوچھا تھا کہ فارسی یا عربی کے الفاظ جو اُردو میں اپنے اصل معانی کے علاوہ کسی دوسرے معانی میں استعمال ہوتے ہیں کیا ان میں بھی اضافت اور عطف کا استعمال درست ہے؟ ۲۸ ستمبر کو اقبال نے جواب لکھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اُردو میں فارسی کے صدہا الفاظ داخل ہو گئے اسی طرح اضافت و واؤِ عطف بھی آئی۔ گو اضافت اور عطف کا استعمال صرف ان الفاظ تک محدود ہے جو فارسی ہوں یا عربی ہوں فارسی الاصل یا عربی الاصل ہوں، ہندی الفاظ میں درست نہیں۔‘‘ ۴۱۱ خان بہادر شیخ نصیرالدین جو اپنی خدمات کی وجہ سے انجمن حمایت اسلام کے آنریری لائف پریزیڈنٹ تھے، انتقال کر گئے۔ ۳ اکتوبر کو جنرل کونسل کے اجلاس میں آنریری جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر اقبال نے تعزیتی قرارداد پیش کی۔ اسلامیہ ہائی اسکول بیرون بھاٹی گیٹ کی عمارت میں یادگاری کتبہ لگانے کا فیصلہ بھی ہوا۔ بلڈنگ کمیٹی، اسکولز کمیٹی، ابتدائی تعلیم تالیف ا طبع کمیٹی، یتیم خانہ کمیٹی اور کالج کمیٹی کے امور بھی پیش ہوئے۔۳۰۲ ۴۱۲ خلافت وفد کے ساتھ سید سلیمان ندوی وطن واپس آ چکے تھے۔ واپسی کے سفر میں چند یہودی بھی ہمسفر تھے۔ ’’جب اُن کو معلوم ہوا کہ مجھ کو عبرانی سے بھی کچھ ذوق ہے تو عبرانی میں چھپی ہوئی ایک کتاب میرے سامنے پیش کی اور کہا کہ یہ تمہارے وطن کا تحفہ ہے،‘‘ سید سلیمان ندوی کا بیان ہے۔ یہ ٹیگور کے مجموعۂ کلام گارڈنرکا عبرانی میں ترجمہ تھا۔ سید سلیمان ندوی نے بعد میں لکھا، ’’یہ دیکھ کر کس قدر تعجب ہوا کہ عبرانی سی مردہ زبان بھی ٹیگور کی شاعری سے زندہ کی جا رہی ہے۔‘‘ عربی میں بھی ٹیگور کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا۔۳۰۳ بنام سید سلیمان ندوی لاہور، ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۰ء مخدومی۔ السلام علیکم مراجعت مع الخیر مبارک۔ آپ نے بڑا کام کیا ہے جس کا صلہ قوم کی طرف سے شکرگزاری کی صورت میں مل رہا ہے اور دربارِ نبوی سے نہ معلوم کس صورت میں عطا ہو گا۔ وزرائے انگلستان کا جواب وہی ہے جو اِن حالات میں ہمیشہ دیا گیا ہے۔ ’’انومن لبشرین مثلنا و قومھا لناعابدون‘‘[کیا ہم ایمان لے آئیں ایسے دو شخصوں پر جو جو ہماری ہی طرح ہیں اور ان کی قوم ہمارے زیرِ حکم ہے!] تاہم مجھے یقین ہے کہ ہندی وفد کا سفرِ یورپ بڑے اہم نتائج پیدا کرے گا۔ امید کہ آپ کی صحت اچھی ہو گی۔ مخلص محمدؐ اقبال ۴۱۳ عبدالماجد دریابادی، گاندھی سے متاثر ہو کر روحانیت کی طرف آگئے تھے۔ ’’اب میں نہ ملحد رہا تھا، نہ معاندِ اسلام،‘‘ عبدالماجد کا بیان ہے۔ ’’مادیت سے تمام تر روحانیت کی طرف منتقل ہو آیا تھا اور اِس انتقالِ فکر میں خود گاندھی جی کی تعلیمات کا بھی ایک حد تک دخل تھا اور پختہ مسلمان اگر نہیں تو نیم مسلمان سے زائد تو اُس وقت تک ضرور ہو چکا تھا۔ اور قرآن مجید کو اگر لفظاً و حرفاً نہیں تو کم از کم معناً و مفہوماً تو کلامِ الٰہی بہرحال ماننے لگا تھا۔‘‘ وہ تنہا نہیں تھے۔ گاندھی نے مسلمان نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو متاثر کیا تھا۔ مگر کیا یہ اسلام میں ایک نئی طرح کی بنیاد تھی کہ پختہ مسلمان، نیم مسلمان اور اُس سے کچھ زیادہ مسلمان کی پیمایش اُس طرح کی جائے جیسے کالج کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن، سیکنڈ ڈویژن اور تھرڈ ڈویژن ہوتے تھے؟ پرانی طرز کے بعض علمأمسلمانوں پر کفر کے فتوے لگایا کرتے تھے۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اِسلام کی طرف راغب ہوئے تو مسلمانوں کو مذہب میں پاس اور فیل کرنے لگے۔ اقبال نے کہہ دیا تھا کہ یہ فصل کسی کام کی نہیں مگر مولانا محمد علی جانتے تھے کہ اِسی سے کام چلانا ہے۔ گاندھی کے ساتھ لکھنؤ پہنچے تو اِنسانوں کا سمندر اسٹیشن کے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔ ’’گاندھی کی جے‘‘ کے ساتھ ’’محمد علی شوکت علی کی جَے‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے اور ہندوؤں کی زبانوں سے بھی ’’اللہ اکبر‘‘ سنائی دے رہا تھا۔ مولانا محمد علی نے اصرار کیا کہ بگھی میں گاندھی کے برابر نہیں بلکہ باہر کوچوان کے پاس بیٹھیں گے۔ اگلے روز ریل کے ڈبے میں گاندھی کے ساتھ ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی کے علاوہ عبدالماجد دریابادی بھی تھے۔ کلکتہ کے انگریزی رسالے ماڈرن ریویومیں چھپا ہوا اپنا مضمون ’ستیاگرہ اور اسلام‘ گاندھی کو دکھانا چاہتے تھے جو ڈبے میں آتے ہی برتھ پر لیٹ کر سو گئے تھے۔ ’’وہ پرچہ مولانا [محمد علی] نے ہاتھ میں لے لیا،‘‘ عبدالماجد کا بیان ہے۔ ’’مضمون کی چند ہی سطر پڑھ، اُس کے اصل منشأ یعنی قرآنی عقیدۂ صبر اور گاندھوی عقیدۂ ستیاگرہ کے اتحاد کو پا کر پرچہ تو بند کر دیا اور اُس کے اصل موضوع پر بحث شروع فرما دی۔ مولانا اپنی ذات و شخصیت کو گاندھی جی میں فنا کیے ہوئے تھے لیکن عین اِس خوش عقیدگی اور بقول مخالفین کے ’گاندھی پرستی‘ کے زمانہ میں بھی اپنے عقائدِ اسلامی پر بالکل پختہ اور گاندھوی فلسفہ سے غیرمتاثر تھے۔۔۔ بہرحال میں عرض کرتا رہا کہ قرآن کا اصلی وعدہ اپنے پیرووں سے روحانی حکومت یا مسیحیوں کی اصطلاح میں آسمانی بادشاہت کا ہے۔ اور وہ فرما رہے تھے کہ نہیں، اسلام اس مادی دنیا میں بھی پوری طرح حکمران اور غالب رہنا چاہتا ہے۔‘‘ گاندھی کچھ سوتے، کچھ جاگتے بحث کے کچھ حصے سن رہے تھے۔ بعض دفعہ مسکرائے۔ ’’اچھا یہ بتائیے،‘‘ عبدالماجد نے محمد علی سے پوچھا۔ ’’ایک طرف ملک روم کی سلطنت ہو اور دُوسری طرف مولانائے روم کی شخصیت اور آپ کو حقِ انتخاب حاصل ہو تو آپ انتخاب کس کا کریں گے؟ میں تو سلطنت پر لات مار دُوں گا۔‘‘ ابوالکلام نے کہا، ’’ہرگز نہیں۔ ہم ملک و سلطنت کو لیں گے۔‘‘ مولانا محمد علی نے فوراً اضافہ کیا، ’’بیشک۔ اور یہ اِس لیے کہ جب سلطنت اِسلامی ہو گئی تو وہ خود ہی مولانا کی سی شخصیتیں پیدا کرتی رہے گی۔‘‘۳۰۴ ۴۱۴ کیا برصغیر کے مسلمانوں کو گاندھی کے ترکِ موالات یعنی عدم تعاون کے پروگرام پر عمل کرنا چاہیے؟ اقبال کی نظر میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے معاملات صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی پہلو بھی رکھتے تھے۔ ان میں حتمی فیصلے کا اختیار صرف کسی ایسی ہستی کو ہو سکتا تھا جس کے حکم پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہو۔ شریعت کی اصطلاح میں ایسی ہستی ’’امام‘‘ کہلاتی تھی۔ اسماعیلیوں کے سوا باقی مسلمانوں کے نزدیک ایسی کوئی شخصیت جسے یہ درجہ دیا جا سکے فی الحال دنیا کے سامنے نہ تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد نے کہہ دیا کہ خلافت کمیٹی کا فیصلہ واجب الاطاعت ہے مگر اقبال متفق نہ تھے۔ اقبال کے خیال میں اُس وقت صرف اُسی فیصلے کی تعمیل ہر مسلمان پر لازم ہو سکتی تھی جس پر تمام مسلمان خود متفق ہو جائیں۔یہ اتفاقِ رائے علمائے دین کے ذریعے عمل میں لایا جا سکتا تھا جنہیں عوام کا اعتماد حاصل تھا۔ شرط یہ تھی کہ ہر مکتبِ فکر کے علمأ یعنی صوفی، سنّی، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ وغیرہ ایک جگہ جمع ہو کر بحث کریں جس طرح پارلیمنٹ میں ہوتی ہے۔ مسئلے کے دنیاوی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے انہیں وکلأ اور ماہرین کی مدد حاصل ہو جو سوال پوچھنے کے مجاز بھی ہوں اگرچہ بحث میں حصہ نہ لیں۔ پھر علمأ کی اکثریت جس فیصلے کی تائید کرے اُس کی پابندی تمام مسلمانوں پر لازم ہوتی (جن میں بقیہ علمأ بھی شامل ہوتے)۔ اس اجتماعی رائے میں اپنی انفرادی خودی ’’فنا‘‘ کر کے ملّت کے افراد حقیقی ’’بیخودی‘‘ حاصل کر سکتے تھے۔ اس قسم کے اجتماع کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ وقت بھی درکار ہوتا۔ چنانچہ خلافت کمیٹی اس کی بجائے فرداً فرداً فتوے لے رہی تھی۔ جو سوال پوچھے جاتے وہ اکثر اوقات پوری صورت حال کو عالمِ دین کے سامنے پیش نہیں کر پاتے تھے۔ محارب (یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ) اور غیرمحارب کفار کے درمیان کیا فرق ہے؟ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے جو ملت کی امانت ہیں، وہ سرکاری امداد لینے سے انکار کر یں تو ملت کے مفادات کی خلاف ورزی تو نہ ہو گی؟ اِس قسم کی دو ٹوک باتوں کی بجائے عموماً یہ پوچھ لیا جاتا کہ آیا مسلمانوں کے لیے اسلام کے دشمنوں سے تعاون کرنا درست ہے یا نہیں۔ جواب ہوتا کہ ہرگز نہیں۔ سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ کسی ایک عالمِ دین کا فتویٰ صرف اُسی کی رائے کا درجہ رکھتا تھا۔ خواہ اُس کا مرتبہ کتنا ہی بلند ہو، اُس کی اطاعت مسلمانوں پر لازم قرار نہیں دی جا سکتی تھی (اسلام پروہت پرستی کا مخالف تھا)۔ جلدبازی میں یہ فرق مٹ گیا۔ علمأ کی انفرادی رائے کو وہ درجہ دلوانے کی کوشش کر ڈالی گئی جو اِسلام کے مطابق صرف اجماع یعنی تمام علمأ کی متفقہ رائے کو حاصل تھا۔ علمأ میں سے جنہیں ایک دوسرے کو مرتد اور کافر کہنے کا شوق تھا اُنہیں بھی موقع ملا۔ کہہ دیتے کہ جو مسلمان اِس رائے کے خلاف کریں وہ مذہب سے دشمنی کے مرتکب ہیں، اُن سے باقی مسلمان قطع تعلق کریں اور جو علمأ اس رائے کے خلاف ہیں وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہوں۔ سیاسی کارکن اپنے حریفوں کے خلاف ایسے فتووں کو ہَوا دیتے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی نئی نسل میں ایسے افراد کی کمی نہ تھی جن کی نظر میں اسلام فرسودہ اور علمائے کرام غیراہم تھے۔ انہیں دوبارہ علمائے کرام سے قریب لانے اور ملت کے تعلیم یافتہ حصے کو باقی تمام حصوں سے دوبارہ مربوط کرنے کا کام بھی علمأ کی اُس کانفرنس کے ذریعے خودبخود ہو جاتا جس کا خاکہ اقبال کے ذہن میں آ رہا تھا۔۳۰۵ ۴۱۵ دُور کے رشتہ داروں میں سے ایک گھرانے میں اعجاز کا رشتہ بھیجا گیا مگر وہ لوگ احمدی تھے۔ شرط رکھی کہ اعجاز بیعت کریں۔ رشتہ نہ ہو سکا۔۳۰۶ ۴۱۶ ۱۷ اکتوبر کو اتوار تھی۔ سیالکوٹ سے اعجاز کا خط آیا کہ عطا محمد سخت بیمار پڑ گئے ہیں۔ اگلے روز کے مقدمات کا انتظام نہیں ہو سکتا تھا لہٰذا اقبال نے فیصلہ کیا کہ منگل کی شام سیالکوٹ جائیں گے۔ اعجاز کو کارڈ لکھ کر اطلاع دی۔ آخر میں لکھا، ’’اگر یہ کارڈ تم کو سوم وار یا منگل کے روز صبح تم کو مل جائے اور بھائی صاحب کی حالت بھی رُو بہ ترقی ہو تو مجھے بذریعہ تار مطلع کر دینا تاکہ اطمینان ہو جائے۔‘‘ اُس روز تاشقند میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بعض اشتراکیوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی۔ اگلے روز ترکی میں مصطفی کمال پاشا کے حکم پر ترک کمیونسٹ پارٹی قائم کی گئی اور ’’مغربی محاذ کے کمانڈر کے نام‘‘ ایک تار کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ تمام سوشلسٹ جماعتیں اس جماعت میں مدغم کی جا رہی ہیں۔ آئندہ اس پارٹی کی اجازت کے بغیر ملک میں کوئی سوشلسٹ سرگرمی غیرقانونی سمجھی جائے گی۔ کمیونزم کے نام پر پھیلنے والے ذہنی انتشار کو قابو میں کرنے کے لیے مصطفی کمال نے یہ اقدام کیا تھا۔ دشمن کو اُس کے اپنے حربے سے زیر کرنا اُن کا خاص طریق کار تھا۔۳۰۷ ۴۱۷ روایت ہے کہ اقبال کے محلے میں ایک صاحب اکبر خاں جوتوں کی دکان کرتے تھے۔ اقبال ان کے لڑکے کی شادی میں گئے۔ عام رواج کے مطابق مجرا ہوا۔ گانے والی نے داغ کی غزل چھیڑی جس کی ردیف نظر آئے، گھر آئے تھی۔ اقبال نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک پرزے پر شعر لکھ کر اُسے بھجوا دیا جسے اُس نے غزل کے ساتھ پڑھ ڈالا: ہے میری زباں پر یہ دعا چور ہو ایسا اکبر کی دکاں پر نہ کوئی شور نظر آئے ’’محفل بے اختیار ہنس پڑی اور اکبر خاں بہت خفیف ہوئے،‘‘ خواجہ برکت علی کا بیان ہے جو اقبال کے جاننے والوں میں سے تھے اور محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔۳۰۸ ۴۱۸ ہندوستان میں پہلی دفعہ عام انتخابات ہونے والے تھے۔ ووٹر کے لیے کالج کی ڈگری یا چیمبر آف کامرس کی رکنیت، جائیداد اور آمدنی وغیرہ کی شرائط تھیں۔ پوری آبادی میں سے دس فیصد کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ کانگریس نے عدم تعاون کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کیا تھا۔ اُمید نہ تھی کہ نومبر میں انتخابات کے موقع پر زیادہ لوگ ووٹ دیں گے۔ مگر مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کے تحت ہونے والے نئے تجربے نے بعض نوجوانوں کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کیا تھا۔ ’’ووٹ حاصل کرنے کے لیے دعوتوں، جلسوںاور پارٹیوں کے ہنگامے شروع ہو چکے تھے،‘‘ اقبال کے دوست فقیر سید نجم الدین کے لڑکے وحیدالدین کا بیان ہے۔ ’’کہیں جلسے، کہیں چائے کی دعوتیں، کسی جگہ کوئی اور دلچسپ پروگرام! ووٹروں کو پھانسنے کے لئے دام ہم رنگِ زمیں بچھائے جا رہے تھے، ہندوستان کے لئے سیاست و جمہوریت کی دنیا کا یہ پہلا تجربہ تھا، وہ جو کسی کا قول ہے کہ ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے-تو اس لذّت نے بھی انتخابات کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی پیدا کر دی تھی۔‘‘ کسی نے مصرعہ موزوں کر دیا: ووٹ حاضر ہے اگر چائے کی پیالی مل جائے وحیدالدین کا بیان ہے کہ مصرعہ مشہور ہو گیا اور جب اقبال کے سامنے دہرایا گیا تو اُنہوں نے ایک گانے والی اقبال بیگم عرف بالی کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو اُن دنوں لاہور کے رؤسا بالخصوص نوجوانوں میں خاصی مشہور تھی، برجستہ یہ مصرعے اضافہ کر دیے: چلبلی، شوخ، طرحدار، نرالی مل جائے نوجواں مرتے ہیں جس پر وہی ’’بالی‘‘ مل جائے۳۰۹ اِسی مغنیہ کی شہرت کے زمانے میں کبھی شیخ عطا محمد کسی محفل میں شریک ہوئے جہاں یہ مغنیہ موجود تھی۔ فقیر سید نجم الدین بھی تھے۔ عطا محمد کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ’’یہ اقبال کے بھائی ہیں۔‘‘ سننے والے محظوظ ہوئے۔۳۱۰ ۴۱۹ ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا ہم تو فقیر تھے ہی ہمارا تو کام تھا سیکھیں سلیقہ اب امرأ بھی سوال کا۳۱۱ ۴۲۰ سرمایہ دارتیار تھا کہ دُنیا اور آخرت کی نعمتیں اُس کے اور مزدور کے درمیان برابر تقسیم ہوجائیں: فولاد کے کارخانے کا شور شرابہ میرا اور کلیسا کے باجے کی مدھر دھن تیری، جس پر حاکم ٹیکس لگاتا ہے وہ پیڑ میرا اور جنت کا باغ، سدرۃ المنتہیٰ اور طوبیٰ تیرے، یہ کڑوا پانی میرا جو سر چٹخا دیتا ہے اور آدم اور حوا کی شرابِ طہور تیری، مرغابی، تیتر اور کبوتر میرے اور ہما کا سایہ اور عنقا کے پر تیرے، یہ زمین اور جو کچھ اِس میں ہے وہ میرااور زمین سے عرش معلی تک سب کچھ تیرا! نظم فارسی میں تھی، ’قسمت نامۂ سرمایہ دار و مزدور‘۔۳۱۲ ۴۲۱ نواب سر ذوالفقار علی خاں کونسل آف اسٹیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے منتخب کیا تھا۔ ۳۱۳ ۴۲۲ نواب احمد یار خاں کی شادی ہوئی تو اقبال نے بیاض میں فارسی کے دو شعر لکھے مگر پھر کسی وقت قلمزد کر دیے۔۳۱۴ ۴۲۳ ۱۸ اکتوبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ اسلامیہ کالج کے ہوسٹل کی توسیع کے لیے زمین خریدنی تھی۔ اقبال نے قرارداد پیش کی کہ گراؤنڈ کا تین کنال حصہ فروخت کر کے نئی زمین خریدی جائے۔ اکثریت کی رائے اس کے خلاف تھی۔ فیصلہ ہوا کہ انجمن کے سرمائے سے نئی زمین خریدی جائے۔۳۱۵ ۴۲۴ گاندھی وفد کے ساتھ لاہورمیں تھے۔ سرلا دیوی چودھرانی کے یہاں ٹھہرے تھے۔ مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی اور ابوالکلام آزاد مولوی غلام محی الدین وکیل کے مکان پر ٹھہرے۔ ۲۰ اکتوبر کو مولانا محمد علی نے عظیم الشان جلسے سے خطاب کر کے شہریوں کو آمادہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے اُٹھا لیں۔شام کو وفد نے انجمن حمایت اسلام کے کچھ سربرآوردہ ارکان کو مشورے کے لیے بلایا۔ سر ذوالفقار نہیں گئے مگر شیخ عبدالقادر اور چودھری شہاب الدین میٹنگ میں شریک ہوئے۔ مولانا شوکت علی اور اُن کے ساتھیوں نے تجویز پیش کی کہ اگلے روز انجمن کی جنرل کونسل کی میٹنگ بلائی جائے تاکہ اسلامیہ کالج کا یونیورسٹی سے الحاق ختم کر کے وہ گرانٹ ترک کر دی جائے جو کالج کو حکومت کی طرف سے ملتی ہے۔ چودہری شہاب الدین اس تجویز کے خلاف تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال جنرل سیکرٹری ہیں لہٰذا اُن کی غیرموجودگی میں میٹنگ بلانے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ’’اس پر اُسی وقت موٹر بھیج کر اقبال کو بلوایا گیا،‘‘ میاں محمد شفیع نے شیخ عبدالقادر سے روداد سن کر اپنی ڈائری میں انگریزی میں لکھا۔’’اقبال نے بتایا کہ اگلے روز میٹنگ بلانا تو کسی طرح ممکن نہیں ہے اس لیے کہ مفصلات کے ارکان کو اس مختصر وقت میں اطلاع نہیں کی جا سکتی۔ اس پر یہ تجویز کیا گیا کہ صرف مقامی ارکان کی میٹنگ بلائی جائے۔ اقبال نے کہا صرف ایک رات میں شہر کے تمام ممبروں پر بھی نوٹس کی تعمیل نہیں کرائی جا سکتی۔ اس صورت میں ان حضرات نے خود اس کی ذمہ داری لی۔ چنانچہ اقبال کے دستخطوں سے ایک نوٹس تیار کر کے انہیں دے دیا گیا۔‘‘۳۱۶ اگلے روز اسلامیہ کالج کے کمرے اور دالان بھر گئے۔ انجمن کی جنرل کونسل کے پچاس میں سے بائیس مقامی ارکان آئے۔ عام شہری اور طلبہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ابوالکلام آزاد نے قرآن کی آیت پڑھ کر فتویٰ دیا کہ کوئی مسلمان برٹش حکومت سے تعاون نہیں کر سکتا۔ شیخ عبدالقادر نے مخالفت کی۔ مجمع نے مداخلت کی مگر انہوں نے اپنی بات مکمل کی۔ مولانا محمد علی نے اقبال کی رائے دریافت کی۔ ’’اقبال نے کہا کہ فتوے کی موجودگی میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے اور انہوں نے ترکِ موالات کی تجویز کو جنرل کونسل کی میٹنگ میں رکھے جانے کے خیال سے اتفاق کیا،‘‘ میاں محمد شفیع نے شیخ عبدالقادر سے سن کر اپنی ڈائری میں لکھا۔ انجمن کے صدر نواب ذوالفقار علی خاں نے بھی اتفاق کیا۔ مجمع نے ’’منظور ہے‘‘ کا شور بلند کیا، مولانا محمد علی نے نواب ذوالفقار کو سینے سے لگایا اور منہ چوما۔شیخ عبدالقادر نے ووٹ لینے پر اصرار کیا لیکن صرف اُن کے اور محبوب عالم کے ووٹ ترکِ موالات کے خلاف تھے، انیس ووٹ حق میں تھے اور مولوی فضل الدین ووٹ دیے بغیر چلے گئے تھے۔ اقبال، نواب سر ذوالفقار، چودہری شہاب الدین اور دوسرے ارکان کے دستخطوں کے ساتھ دستاویز قلم بند ہوئی کہ انجمن کی جنرل کونسل میں منظوری کے لیے پیش کی جائے: ا۔ سرکار سے تیس ہزار سالانہ امدا نہ لی جائے جواسلامیہ کالج کو ملتی ہے اور اس قدر مالی بوجھ قوم اٹھائے۔ ب۔اگر طلبا نے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا تو کالج کا الحاق یونیورسٹی سے نہ رہے۔ یہ صرف ان تجاویز کو جنرل کونسل کے سامنے پیش کرنے کی قرارداد تھی۔ اخبارات نے یوں خبر لگائی جیسے تجاویز منظور کر لی گئی ہیں۔ اقبال نے علی گڑھ یونیورسٹی کے آنریری سیکرٹری کو تار دے دیا کہ جو کچھ اخباروں میں لکھا گیا وہ بالکل غلط ہے۔۳۱۷ اسلامیہ کالج کے پروفیسر مولوی حاکم علی بی اے نے فتویٰ دے دیا، ’’یونیورسٹی کے ساتھ الحاق جاری رکھنا اور سرکاری امداد لینا جائز ہے۔‘‘ کالج کے پرنسپل ہنری مارٹن بھی حکومت سے تعاون کے حق میں تھے۔ طلبہ میں ان کے خلاف بغاوت پھیلنے لگی۔ چھٹیوں کا اعلان کر کے کالج بند کر دیا گیا۔۳۱۸ ۴۲۵ مولانا عبدالقادر قصوری جن کے لڑکے مولانا محمد علی قصوری دس برس پہلے گورنمنٹ کالج میں اقبال کے شاگرد رہ چکے تھے، قصور میں وکالت کرتے تھے۔ اقبال کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ترکِ موالات کے جوش میں وکالت چھوڑ دی۔ ’’قومی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا تو اکثر سیاسی گفتگو کے سلسلے میں ڈاکٹر [اقبال]صاحب سے ملتے رہتے تھے،‘‘ ان کے لڑکے مولانا محمد علی قصوری کا بیان ہے۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی ان کی رائے کو وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے۔‘‘۳۱۹ ۴۲۶ ۲۷ اکتوبر کو فوق کی دو کتابوں کا پیکٹ ملا۔ غالباً ان کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ تاریخ حریت اسلام بھی لکھی جا چکی ہے۔’رموزِ بیخودی‘ کے مطابق حریت یعنی آزادی مسلم قومیت کے بنیادی مقاصد میں شامل تھی۔ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا، ’’یہ کتاب لاجواب ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تازیانے کا کام دے گی۔ آپ بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس کا اجر خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے ملے گا۔‘‘۳۲۰ ۴۲۷ ۲۸ اکتوبر کو نیازالدین خاں کے نام خط میں اقبال نے تحریکِ خلافت کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا۔ اُس روز ظفر علی خاں کو پانچ سال قیدِ سخت کی سزا سنائی گئی۔ ۱۵ ستمبر کو گرفتار ہوئے تھے۔۳۲۱ ۴۲۸ سیموئیل الگزانڈر یہودی انگریز فلسفی تھا۔ دو تین برس پہلے یونیورسٹی آف گلاسگو میں گفورڈ لیکچرز میں انسان اور خدا کو موضوع بنایا تھا۔ اس برس یہ لیکچرز زمان، مکان اورخدا (Space, Time and Diety) کے عنوان سے شائع ہوئے: Deity is thus the next higher empirical quality to mind, which the universe is engaged in bringing to birth. That the universe is pregnant with such a quality, we are speculatively assured. What that quality is we cannot know, for we can neither enjoy nor still less contemplate it. Our human altars still are raised to the Unknown God. If we could know what Deity is, how it feels to be Divine, we should first have to become as Gods.۳۲۲ الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ (Alfred North Whitehead) انگریز ریاضی دان تھے۔فلسفی بن گئے۔ اُن کی کتاب تصورِ فطرت (The Concept of Nature) اُس برس شائع ہوئی۔ مادے کے قدیم نظریے کو قطعی طور پر ناقابلِ تسلیم ثابت کر دیا جس کی رُو سے انسانی ادراکات فریبِ نظر تھے جن کے بارے میں یہ کہنا مشکل تھا کہ ان سے فی الواقعہ فطرت کی ترجمانی ہو رہی ہے۔ وائٹ ہیڈ نے کہا کہ اِس نظریے کی رُو سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ رنگ، آواز وغیرہ فطرت کے اجزا نہیں بلکہ داخلی کیفیات ہیں اور جو کچھ آنکھ اور کان میں داخل ہوتا ہے وہ رنگ اور آواز نہیں بلکہ غیرمرئی ایتھر کی موجیں یا اَن سنی آواز کی لہریں ہیں۔ اگر یہ سمجھنا ہے کہ طبیعیات یعنی فزکس کی بدولت سچ مچ اُن اشیأ کا ٹھیک ٹھیک اور مرتب و منظم علم حاصل ہو رہا ہے جن کا ادراک حواس کے ذریعے کیا جاتا ہے تو چاہیے کہ مادے کے روایتی نظریے سے دستبردار ہو جائیں ورنہ حواس کی وہ شہادت جس پر تنہا اہلِ طبیعیات کے مشاہدات اور تجربات کا دارومدار ہے، دیکھنے والے کے تاثرات سے آگے نہیں بڑھتی۔ روایتی نظریہ فطرت اور دیکھنے والے کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے جسے عبور کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ کسی ایسی سمجھ میں نہ آنے والی چیز کا تصور کیا جائے جو مکانِ مطلق (absolute space) میں اِس طرح رکھی ہوئی ہے جیسے خالی برتن میں کوئی چیز رکھی ہو اور کسی قسم کے تصادم کی وجہ سے ہمارا احساس بن جاتی ہے۔ یہ مفروضہ بجائے خود مشکوک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عالمِ فطرت کا ایک حصہ ’’خواب‘‘ ہے اور دوسرا محض ’’اندازہ‘‘۔ انگریز ہئیت داں آرتھر اسٹینلے ایڈنگٹن (Arthur Stanley Eddington) کی تازہ تصنیف مکان، زمان اور کششِ ثقل (Space, Time and Gravitation: An Outline of the General Relativity Theory) سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ کسی ہمیشہ رہنے والی حقیقت کے ساتھ اس ظاہری دنیا کے تعلق میں سائینس کو بھی دلچسپی تھی: We have a world ofpoint-events with their primary interval- relations. Out of these an unlimited number of more complicated relations and qualities can be built up mathematically, describing various features of the state ofthe world. These exist in nature in the same sense as an unlimited number of walks exist on an open moor. But the existence is, as it were, latent unless someone gives significance to the walk by following it; and in the same way the existence of any one of these qualities ofthe world only acquires significance above its fellows ifa mind singles it out for recognition. Mind filters out matter from the meaningless jumble of qualities, as the prism filters out the colours of the rainbow from the chaotic pulsations of white light. Mind exalts the permanent and ignores the transitory; and it appears from the mathematical study ofrelations that the only way in which mind can achieve her object is by picking out one particular quality as the permanent substance ofthe perceptual world, partitioning a perceptual time and space for it to be permanent in, and, as a necessary consequence of this Hobson’s choice, the laws of gravitation and mechanics and geometry have to be obeyed. Is it too much to say that the mind’s search for permanence has created the world of physics? فرانسیسی دانشور لوئی رانگیر (Louis Rougier) انے سائینس کی نئی دریافتوں کے فلسفیانہ پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے حال ہی میں لکھا تھا، ’’اب تو کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں جو تغیرات رونما ہوتے ہیں، یک بیک جست لگانے ہی سے ہوتے ہیں، بتدریج نہیں ہوتے کہ ہمیں ان کا اداراک نہ ہوسکے۔۔۔ کسی بھی طبیعی نظام میں ان حالتوں کی تعداد جو اپنی جگہ واضح اور نمایاں ہیں، متناہی ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن دو مختلف اور یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی حالتوں کے درمیان کائنات چونکہ ساکن رہتی ہے، لہٰذا اس اثنا میں زمانہ بھی معطل ہو جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ زمانے کا وجود بھی مسلسل نہیں، یعنی اس کا بھی ایک ’جوہر‘ ہے۔‘‘ طبیعیات یعنی فزکس اپنے بنیادی تصورات کی تنقید سے خود ہی اُس بُت کو توڑ رہی تھی جسے اُس نے تراشا تھا۔ وہ اختیاری روش جس نے گویا سائنس کو مذہب کے خلاف بغاوت پر مجبور کیا تھا بالآخر مادے ہی کے خلاف بغاوت پر اُتر آئی تھی۔ اشیأ وہ داخلی کیفیات نہ رہیں جو مادے جیسی سمجھ میں نہ آنے والی چیز کی بدولت ذہن میں پیدا ہوتی تھیں۔ حقیقی مظاہر اور عالمِ فطرت کا تار و پود بن گئیں جو بالکل ویسی انسانی علم میں آتی تھیں جیسے خارج میں بالواقعہ اُن کا وجود تھا۔ یہ تصور اُن نتائج سے بہت قریب تھا جن پر اِقبال کے تصورِ خودی کی بنیاد تھی۔۳۲۳ ۴۲۹ ستارے آپس میں کہہ رہے تھے: ہم سمندر میں ہیں اور کنارہ اوجھل ہے۔ ہماری سرشت میں مسافرت رکھی گئی ہے لیکن اس قافلے کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اگر ستارے جیسے تھے ویسے ہی ہیں تو اِس ہمیشہ کی چمک دمک سے کیا حاصل ہے؟ ہم زمانے کے پھندے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اچھا وہ ہے جو وجود سے محروم ہے۔ یہ بوجھ کوئی نہیں برداشت کر سکتا۔ ہمارے ہونے سے ہمیشہ کا نہ ہونا اچھا۔ مجھے یہ آسمانی فضا اچھی نہیں لگتی۔ اس بلندی سے دنیا کی پستی بہتر! انسان کے کیا کہنے جس کی جان کو کہیں قرار نہیں ہے۔ وہ زمانے کے تیزرفتار گھوڑے پر سوار ہے۔ زندگی کی قبا اُس کے جسم پر سجتی ہے کیونکہ وہ نت نئی چیزیں گھڑنے اور نئے نئے کام کرنے والا ہے۔ افکارِ انجم ۱ شنیدم کوکبے با کوکبے گفت کہ در بحریم و پیدا ساحلے نیست سفر اندر سرشتِ ما نہادند ولے ایں کارواں بے منزلے نیست ۲ اگر انجم ہمانستی کہ بود است ازیں دیرینہ تابی ہا چہ سود است گرفتارِ کمندِ روزگاریم خوشا آنکس کہ محرومِ وجود است ۳ کس ایں بارِ گراں را برنتابد ز بود ما نبود جاوداں بہ فضائے نیلگونم خوش نیاید ز اوجش پستیٔ آں خاکداں بہ ۴ خنک انساں کہ جانش بیقرار است سوارِ راہوارِ روزگار است قبائے زندگی بر قامتش راست کہ او نو آفرین و تازہ کار است۳۲۴ اقبال نے یہ نظم فارسی میں لکھی۔ عنوان ’افکارِ انجم‘ تھا۔ جس انسان پر یہ ستارے رشک کر رہے تھے، موجودہ زمانے میں اُس کی روح صرف مشرقی ادب میں ظاہر ہو سکتی تھی۔ مغرب کے ادیب تو ویسی ہی باتیں کر رہے تھے جیسی ستارے اپنے بارے میں کہہ رہے تھے: ’’ہم زمانے کے پھندے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اچھا وہ ہے جو وجود سے محروم ہے!‘‘ امریکہ کا مقبول رسالہ ڈائل (Dial) جو ۱۸۴۰ء میں شروع ہوا تھا ، اب دو سرمایہ دار اُسے خرید کر خالص ’’ادبی میگزین‘‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آئرلینڈ کے شاعرڈبلیو بی ییٹس نے ایک نظم پچھلے برس لکھی تھی جو پہلی دفعہ اِسی میں نومبر میں شائع ہوئی۔ اور شائد یہی زمانہ تھا جب اقبال ’افکارِ انجم‘ لکھ رہے تھے۔۳۲۵ ییٹس نے محسوس کیا کہ چیزیں مرکز سے جدا ہو رہی ہیں۔ لاقانونیت دنیا پر چھا رہی ہے۔ نیک لوگ یقین سے محروم ہیں۔ بُرے لوگوں کے دلوں میں شدّتِ جذبات ہے۔ حضرت عیسیٰ کی واپسی کا وقت قریب معلوم ہوا لیکن پھر اجتماعی شعور کے پردے پر صحرا نظر آیا۔ شیر کے دھڑ اور انسانی سر والا حیوان جنسی عمل میں سرگرم تھا۔ اطراف میں بدصورت صحرائی پرندے جمع تھے۔ اجتماعی شعور دوبارہ تاریکی میں ڈوب گیا مگر اَب ییٹس کو یقین ہو گیا تھا کہ بیت اللحم جہاں قریباً دو ہزار برس قبل حضرت عیسیٰ نے جنم لیا تھا، اِس دفعہ وہاں سے کوئی مسیحا نہیں بلکہ خونی عفریت پیدا ہونے والا ہے۔۳۲۶ یہ خوف کی لہر دو برس پہلے اسپنگلر نے جرمنی میں محسوس کروائی تھی۔ پچھلے برس انگریزی کے مشہور ادیب ایچ جی ویلز کی آؤٹ لائن آف ہسٹری (Outline of the History of the World)تین قسطوں میں شائع ہوئی اور مجلد ایڈیشن اِسی برس آیا تھا۔ اُس میں نظریہ پیش ہوا کہ ماضی میں تمام تہذیبیں روایت پر قائم تھیں مگر جدید تہذیب نے روایت کو ختم کر دیا۔ اَب ہم ایک بے ترتیب دنیا کے باشندے ہیں: The old civilizations created tradition and lived by tradition. To-day the power of tradition is destroyed. The body of our state is civilization still, but its spirit is the spirit of the nomadic world.۳۲۷ ویلز کے تصورِ تاریخ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی قابلِ فخر جگہ نہ تھی۔ اُس کی نظر میں آپ ؐ کو حضرت عیسیٰ ؑ یا گوتم بدھ ہی نہیں بلکہ ایرانی مفکر مانی کے برابر بھی جگہ نہ دی جا سکتی تھی۔ اُس نے اعتراف کیا تھا کہ آنحضورؐ کی عظمت تسلیم کرنے سے وہ پوراتصورِ تاریخ منہدم ہو جائے گا جسے اِس کتاب میں پیش کیا جا رہا تھا۔ قرآنی آیات کے نمونے کے لیے اُس نے لاہوری احمدی گروپ کے مولوی محمد علی کا انگریزی ترجمہ استعمال کیا جو ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا تھا۔۳۲۸ ۴۳۰ لندن کے علمی حلقوں میںییٹس کی نظم اور ’اَسرارَ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ ایک ساتھ پہنچا۔ اسپنگلر اور ویلز کی فکر کے اندھیروں میں دیکھا ہوا ییٹس کا خواب اقبال کے احساس سے بہت مختلف تھا جنہوں نے بارہ برس قبل بڑی خوشی کے ساتھ اعلان کیا تھا: نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شعر پھر ہوشیار ہو گا The Second Coming W. B. Yeats Turning and turning in the widening gyre The falcon cannot hear the falconer; Things fall apart; the centre cannot hold; Mere anarchy is loosed upon the world, The blood-dimmed tide is loosed, and everywhere The ceremony of innocence is drowned; The best lack all conviction, while the worst Are full of passionate intensity. Surely some revelation is at hand; Surely the Second Coming is at hand. The Second Coming! Hardly are those words out When a vast image out of Spiritus Mundi Troubles my sight: a waste of desert sand; A shape with lion body and the head of a man, A gaze blank and pitiless as the sun, Is moving its slow thighs, while all about it Wind shadows of the indignant desert birds. The darkness drops again but now I know That twenty centuries of stony sleep Were vexed to nightmare by a rocking cradle, And what rough beast, its hour come round at last, Slouches towards Bethlehem to be born? The Dial (Chicago, USA), November 1920 The Secets of the Self Dr. Muhammad Iqbal Translated from the original Persian with introduction and notes by R. A. Nicholson Printed by McMillan & Co. Distributed by Luzac & Co. [Excerpt] From the East my dawn arrived and routed Night, A fresh dew settled on the rose of the world. I am waiting for the votaries that rise at dawn; Oh, happy they who shall worship my fire! I have no need of the ear of To-day, I am the voice of the poet of To-morrow. My own age does not understand my deep meanings, My Joseph is not for this market. I despair of my old companions, My Sinai burns for sake of the Moses who is coming. باب۷ آبِ حیات کا چشمہ نومبر ۱۹۲۰ء سے اپریل ۱۹۲۲ء The Secrets of the Self (Asrar-i-Khudi) A Philosophical Poem by Sheikh Muhammad Iqbal of Lahore Translated from the Original Persian with Introduction and Notes by Reynold A. Nocholson, Litt.D., LL.D. Lecturer on Persian in the University of Cambridge MacMillan and Co., Limited St. Martin's Street, London 1920 ۱ لوز ڈکنسن نے جمعیتِ اقوام کا خواب دیکھنے میں حصہ لیا تھا۔ ’اسرارِ خودی‘ کا ترجمہ پڑھ کر محسوس کیا کہ ییٹس نے اپنے کشف میں جس عفریت کو دیکھا وہ اقبال کا اسلام ہے۔ ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ اقبال کوخط لکھا۔ مثنوی پر تبصرہ لکھ کر لندن کے جریدے دی نیشن کو بھجوایا۔۱ ای ایم فورسٹر تین برس پہلے ہندوستان سے راس مسعود کی محبت لے کر واپس ہوئے تھے۔ ناول نگار کی تیزنگاہ نے بھانپ لیا تھاکہ ٹیگورکو ہندوستان میں اُس وقت پہچانا گیا جب مغرب نے پذیرائی کر کے نوبل پرائز دیا مگر اقبال اپنے بل پر مقبول ہوئے۔ البتہ فورسٹر اِس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال نے نیٹشے کے افکار اپنے نام سے پیش کیے ہیں۔ اقبال کی اُردو نظموں سے ذرا واقف تھے مگر معلومات نہ رکھتے تھے۔ خیال کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے لکھا کہ اقبال پہلے اسلامی قومیت کی بات کرتے تھے اور ’ترانۂ مسلم‘ جیسی نظمیں لکھا کرتے تھے کہ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔ اب ہندومسلم اتحاد کی لہر چلی ہے تو ’نیا شوالہ‘ جیسی نظمیں لکھنی شروع کی ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ ہندوستان ہمارا۔تبصرہ لکھ کر جریدہ اتھینیئم کو بھجوایا جس نے گیارہ برس پہلے اقبال کے میٹافزکس والے مقالے کی اِشاعت پر اِس بات کا برا منایا تھا کہ اقبال نے تصوّف کے بارے میں مغربی دانشوروں کی رائے سے اختلاف کیا۔۲ اَسرارِ خودی کا ترجمہ ای جی براؤن کے ہاتھوں میں بھی پہنچا۔ برسوں پہلے اُن کی ہسٹری آف پرشین لٹریچر پر تبصرہ کرنے سے اقبال نے اِس لیے انکار کیا تھا کہ اقبال کے خیال میں وہ کتاب ایرانیوں میں وطنیت کا محدود تصوّر رائج کر کے اُس عالمگیر جذبے سے محروم کرنے کی سازش تھی جو فردوسی اور نظامی کا ورثہ تھا۔ براؤن نے مختصر سا تبصرہ لکھ کر جرنل آف دی رائل ایشیاٹک سوسائٹی کو بھجوایا۔۳ ۲ ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں اقبال نے انگریز قوم کی حسِ واقعہ کی تعریف کی تھی۔ عظیم جنگ نے مزاج بدل دیے تھے۔ انگلستان کے نئے علمی رجحانات سے ظاہر تھا کہ دانشور اُس چیز سے محروم ہو چلے ہیں جس کی اقبال نے تعریف کی تھی۔۴ ہندوستان میں ٹیگور اُس حلقے کی نمایندگی کر رہے تھے جس کا ادبی نصب العین مغربی دانشوروں سے داد وصول کرنا تھا۔ اُردو پر بھی اثر پڑا۔ مخزن کا زوال اس کی نشانی تھا۔ علمی معیار بلند کرنے کے چکر میں برباد ہورہا تھا۔ عوام کی بات اور تھی۔ مشرقی معاشرہ مجموعی طور پر بیداری کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پانچ برس پہلے جب ’اسرارِ خودی‘ پہلی بار شائع ہوئی تھی، وہ کوئی اور زمانہ معلوم ہوتا تھا۔ فضا بدل چکی تھی۔ نئی فضا میں اقبال نے کچھ تجربے کیے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعے اُن علمی اصطلاحات سے خالی تھے جنہیں عام طور پر عظیم شاعری کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔ اِن سادہ گیتوں کو صرف ایک چیز اہم بناتی تھی۔ وہ حسِ واقعہ تھی۔ ۳ اُٹھو کہ بہار کی گھٹا نے پربت پربت جنگل جنگل خیمہ تانا! نغموں میں مگن بلبل طوطی، تیتر اور مینا نہر کے کنارے گلاب اور لالے کی بھرمار دیکھنے والی آنکھ لاؤ اُٹھو کہ بہار کی گھٹا نے پربت پربت جنگل جنگل خیمہ تانا! اُٹھو کہ باغوں اور سبزہ زاروں میں پھولوں کا قافلہ آ پہنچا! بہار کی ہوا چلی پرندوں نے نغمے گھڑے لالے نے گریبان پھاڑا حُسن نے تازہ پھول چنا عشق نے نیا غم مول لیا اُٹھو کہ باغوں اور سبزہ زاروں میں پھولوں کا قافلہ آ پہنچا! بلبلیں چہکار میں مگن، فاختائیں کوکو میں مست! چمن اپنے ہی لہو کی ترنگ میں ہے تم جو گم صم بیٹھے ہو عقل و ہوش کی بندش توڑ ڈالو حقیقت کی شراب پیو تانیں اڑاؤ، خود کو پھولوں میں ڈھانپ لو بلبلیں چہکار میں مگن، فاختائیں کوکو میں مست! اپنے حجرے سے باہر نکلو، جنگل کا کونا پکڑو! ندی کے کنارے بیٹھو چلتے ہوئے پانی کو دیکھو نازوں کی بنی نرگس بہار کے دل کا ٹکڑا اُس کا ماتھا چومو اپنے حجرے سے باہر نکلو، جنگل کا کونا پکڑو! دل کی آنکھ کھولو، اے ظاہر سے انجان! قطار اندر قطار لالے کے پھول شعلوں کی صدری بر میں ڈالے ان کے جگر پر ٹپکتی ہوئی صبح کے آنسو کی شبنم دیکھو، شفق میں ستارے دل کی آنکھ کھولو، اے ظاہر سے انجان! چمن کی مٹی نے فاش کر دیا کائنات کے دل کا راز! صفات کی آنکھ مچولی ذات کی جلوہ پاشیاں جسے تم زندگی جانتے ہو جسے تم موت کہتے ہو کسی کو بھی ثبات نہیں چمن کی مٹی نے فاش کر دیا کائنات کے دل کا راز! فصلِ بہار خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار مست ترنّم ہزار طوطی و درّاج و سار بر طرفِ جویبار کشتِ گل و لالہ زار چشمِ تماشا بیار خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار خیز کہ در باغ و راغ قافلۂ گل رسید باد بہاراں وزید مرغ نوا آفرید لالہ گریباں درید حسن گلِ تازہ چید عشق غمِ نو خرید خیز کہ در باغ و راغ قافلۂ گل رسید بلبلگان در صفیر، صلصلگان در خروش خونِ چمن گرم جوش اے کہ نشینی خموش در شکن آئین ہوش بادۂ معنی بنوش نغمہ سرا گل بپوش بلبلگان در صفیر، صلصلگان در خروش حجرہ نشینی گذار گوشۂ صحرا گزیں بر لبِ جوئے نشیں آبِ رواں را ببیں نرگسِ ناز آفریں لختِ دلِ فرودیں بوسہ زنش بر جبیں حجرہ نشینی گذار گوشۂ صحرا گزیں دیدۂ معنی کشا، اے ز عیاں بیخبر لالہ کمر در کمر نیمۂ آتش بہ بر می چکدش بر جگر شبنمِ اشکِ سحر در شفق انجم نگر دیدۂ معنی کشا، اے ز عیاں بیخبر خاکِ چمن وانمود، رازِ دلِ کائنات بود و نبودِ صفات جلوہ گریہائے ذات آنچہ تو دانی حیات آنچہ تو خوانی ممات ہیچ ندارد ثبات خاکِ چمن وا نمود، رازِ دلِ کائنات ’فصلِ بہار‘ کے چھ بند بیاض میں پہلے کسی اور ترتیب میں لکھے گئے۔ پھر ان پر نمبر ڈال کر نئی ترتیب بنائی گئی۔۵ ۴ عبدالرحمان چغتائی کی عمر اکیس برس تھی۔ اپنے چچا بابا میراں شاہ نقاش سے مسجد وزیر خاں میں نقاشی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ مصوری زیادہ تر خود ہی سیکھی۔ اُس برس لاہور میں اُن کی تصویروں کی نمایش ہوئی۔ مغلیہ طرز کو نئے مزاج سے ہم آہنگ کر کے اُبھرتے ہوئے مشرق کے تقاضے نبھائے ۔ عوام و خواص کے دلوں میں اُتر گئے۔ ممکن ہے اقبال بھی دیکھنے گئے ہوں۔ عبدالرحمان کے چھوٹے بھائی عبداللہ چغتائی اقبال کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔۶ ۵ عطا محمدکو ڈسکے یا کامل پور کے کسی گھرانے کی ایک اچھی لڑکی کے بارے میں اطلاع ملی۔ اقبال کے جاننے والوں میں حاجی شمس الدین ان لوگوں کو خط لکھ سکتے تھے۔ وہ کشمیر گئے ہوئے تھے۔ ۱۰ نومبر کو آنے والے تھے۔ عطا محمد کو ایک گائے کی ضرورت بھی تھی۔ بنام عطا محمد لاہور، ۳ نومبر ۱۹۲۰ء برادر مکرّم السلام علیکم والانامہ مل گیا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ حاجی شمس الدین کشمیر گئے ہوئے ہیں۔ ۱۰ نومبر کو آئیں گے۔ اُن سے خط لکھواؤں گا۔ اتنے عرصے میں آپ لڑکی کے متعلق زیادہ تحقیق کر لیں۔ اگر ممکن ہو کیونکہ آپ نے لکھا ہے ہمیں لڑکی اچھی بتائی جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا علم لڑکی کے متعلق محض شنید ہے۔ اس سے زیادہ تحقیق مطلوب ہے۔ کیا لڑکی ڈسکے میں ہے یا کامل پور میں؟ بہرحال اگر حاجی صاحب جلد نہ آئے یا اُن کو خط لکھنے میں عذر ہوا تو اس اثنا میں کوئی اور دوست اُن کا تلاش کروں گا جو اُن کو خط لکھے یہ بھی نہ ہوا تو پھر خود لکھوں گا۔ گائے میں آپ کے لیے منٹگمری سے منگواؤں گا۔ اگر نہ آئی تو اپنی گائے بھیج دوں گا۔ ابھی اس کے بچہ دینے میں دو تین ماہ باقی ہیں۔ بچہ دینے کے بعد ارسال کروں گا۔ والد مکرّم کی خدمت میں آداب۔ والسلام محمدؐ اقبال ۶ ہوشیارپور کے شیخ نصیرالدین جن کے داد اور چچا سکھوں کے زمانے میں کشمیر کے گورنر رہے تھے اور جو خود لاہور منتقل ہوئے تھے، انتقال کر گئے۔ ان کے کتب خانے سے طالب آملی کے دیوان کا ایک قدیم خوشخط نسخہ نکلا جس کی خبر اقبال تک پہنچی تو انہیں بھی اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔۷ ۷ یہ عقل جو کائنات پھونک ڈالے، عشق ہی کا ایک بیباک جلوہ ہے اور اُسی سے دُنیا کو چمکانے کا ڈھنگ سیکھتی ہے۔ رومی کی تڑپ سے لے کر فارابی کی حیرت تک ساری کیفیات عشق ہی سے پیدا ہوئی ہیں۔ میں یہ نشاط آور حرف دہراتا ہوں اور رقص کرتا ہوں: ایں حرفِ نشاط آور می گویم و می رقصم چار اشعار کی فارسی نظم کا عنوان ’عشق‘ تھا۔ بیاض میں درج ہوئی۔۸ ۸ شیخ سعدی کی ایک غزل پر گرامی نے غزل لکھی تھی۔ اقبال نے بھی لکھی: آؤ کہ پھول جیسے چہرے والے ساقی نے ساز پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور بہار کی ہوا سے چمن ارژنگ کی تصویر جیسا ہو رہا ہے! مٹی کی اِس پرانی سرائے سے باہر نکلو کہ عاشقوں کا جہان تو اُن کی مٹھی سے پیدا ہوتا ہے۔ میری اور تمہاری منزل آسمان کے پرے ہے جس کی راہ میں سورج ایک سنگِ میل ہے۔ بیا کہ ساقیٔ گل چہرہ دست بر چنگ است چمن زبادِ بہاراں چو نقشِ ارژنگ است بر آ زکہنہ سرائے کہ ریختند زخاک جہانِ دل شدگاں آفریدۂ چنگ است بلند تر زسپہر است منزلِ من و تو براہِ قافلہ خورشید میلِ فرسنگ است۹ ۹ علی بخش ہوشیارپور سے واپس آیا تو گرامی کی بیگم کی طرف سے، جو اقبال کی ہم نام تھیں، اقبال کی بیگم کے لیے کوئی تحفہ لایا۔ ۷ نومبر کو اقبال نے گرامی کے نام خط لکھ کر شکریہ ادا کیا اور تازہ غزل کے کچھ اَشعار بھیجے۔ ۱۰ اسلامیہ کالج کے پروفیسر مولوی حاکم علی نے پنجاب یونیورسٹی سے الحاق جاری رکھنے کے حق میں جو فتویٰ دیا تھا اُس کی تائید میں وہ بریلی سے مولوی احمد رضاخاں بریلوی کا فتویٰ لے آئے تھے۔ چاہتے تھے کہ مولوی اصغر علی روحی بھی اس پر دستخط کر دیں۔ مشکل یہ تھی کہ بریلوی صاحب کے فتوے میں مولانا اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندی علمأ کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ میاں فضل حسین چاہتے تھے کہ حکومت سے تعاون کیا جائے۔ اپنے دستی خط کے ساتھ مولوی حاکم علی کو دوبارہ بریلوی صاحب کی خدمت میں بھیجا کہ فتوے میں سے دوسرے علمأ کی تکفیر والا حصہ نکال دیجیے۔ اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ وہ سب مرتد ہیں۔۱۰ بہرحال پرنسپل ہنری مارٹن نے کالج کھول دیا۔ باغی طلبہ میں سے آٹھ کو کالج چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ان میں مولوی میر حسن کے بھتیجے سید نذیر نیازی بھی شامل تھے۔ سب نے انکار کر دیا۔ پرنسپل مارٹن نے کالج کمیٹی کی منظوری سے انہیں معطل کیا اور دھکے دلوا کر نکال باہر کیا۔ ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ نظام الدین نے احتجاجاً استعفیٰ پیش کر دیا۔ کالج میں ہڑتال ہو گئی۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ پرنسپل مارٹن کو کالج سے علیحدہ کیا جائے۔ کالج پھر بند ہو گیا۔۱۱ ’’لاہور میں کانگریس کے کارکنوں کی خاص توجہ اسلامیہ کالج کی طرف مبذول تھی،‘‘ خواجہ عبدالحمید کا بیان ہے جو طالب علمی کے زمانے میں اقبال کو دُور سے دیکھا کرتے تھے اور اَب اسلامیہ کالج میں پڑھاتے تھے۔ چند پروفیسروں کے ساتھ اقبال کے گھر گئے۔ ’’[اقبال] حسبِ عادت آرام کرسی پر بیٹھے تھے، حقہ پاس تھا،‘‘ عبدالحمید کا بیان ہے۔ ’’ڈیڑھ دو گھنٹوں تک تحریک عدم تعاون کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابھی اُنہوں نے اِس تحریک کی ضرورت اور صحت کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی۔ گاندھی جی کی اُنہوں نے بہت تعریف کی اور جو کام وہ ہندو قوم کی بہتری کے لئے کر رہے تھے، اُسے مدِنظر رکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ کوئی تعجب نہ ہو گا، اگر ہندوؤں کی آیندہ نسلیں اُنہیں اوتار تسلیم کر لیں۔ ہم لوگوں نے دریافت کیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ظریفانہ انداز میں فرمایا ’جس قدر کام کالج میں ہو سکتا ہے، کرتے جاؤ، ہاں بھئی یہ ڈر ہے کہ کالج ٹوٹ نہ جائے اور آپ لوگوں کو روزگار کی زحمت اٹھانی پڑے، سو میرا مشورہ یہ ہے کہ ایک وقت کا کھانا کاٹ دو، میں نے بھی یہ شروع کیا ہے، اور میری صحت پر اِس کا اثر بہت اچھا پڑا ہے۔‘ اِس پر قہقہہ پڑا اور ہم لوگ واپس آئے۔‘‘۱۲ ۱۱ ۱۴ نومبر کو یونان میں نئے انتخابات ہوئے اور ترکوں کا دشمن وزیراعظم وینی زیلوس ہار گیا۔۱۳ ۱۲ اُس روز انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔ بعض اراکین جو بھاری بھرکم مصروفیات کی وجہ سے پہلے جنرل کونسل کے اجلاس میں شامل نہ ہوئے تھے، اب ہوئے۔ ان کے علاوہ ڈھائی تین سو دیگر مسلمان بھی جمع تھے۔ اقبال نے رپورٹ پڑھی۔ ’’اِس عرصے میں ہمارے پاس متعدد فتوے موصول ہو چکے ہیں جن میں علمائے ہند کا ایک فتویٰ ہے جس پر انتالیس علمائے کرام کے دستخط ہیں،‘‘ اخبار نے بعد میں اقبال کا بیان نقل کیا۔ ’’علمائے فرنگی محل، علمائے دہلی، علمائے مدرسہ الٰہیات کانپور کے فتوے بھی موصول ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن صاحب کا فتویٰ بھی پہنچا ہے۔ یہ سب فتوے عدم تعاون کے حق میں ہیں۔ میں نے پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ کو لکھا تھا لیکن ان کی طرف سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ عدم تعاون کے خلاف جو فتوے میرے پاس موصول ہوئے ان میں ایک فتویٰ تو حاکم علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج کا ہے، دوسرا فتویٰ مولانا صغر علی روحیؔ کا ہے جس میں انہوں نے عدم تعاون کی تو تائید کی ہے لیکن سکولوں اور کالجوں کے متعلق لکھا ہے کہ جب تک کوئی اپنا انتظام نہ ہو جائے لڑکوں کو ان مدارس سے اٹھانا درست نہیں۔‘‘ میاں فضل حسین نے تجویز پیش کی کہ اسلامیہ کالج کا پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ الحاق قائم رکھا جائے۔ مولوی فضل الدین نے تائید کی۔ اقبال اور بعض دوسرے اراکین کے پیشِ نظر مسئلے کا مذہبی پہلو بھی تھا لیکن اقبال نے تجویز پیش کی کہ کونسل اس پر بحث تو کر سکتی ہے کہ یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کا اثر کالج کی تعلیم کے لیے اچھا ہے یا نہیں۔ مولوی محی الدین وکیل جنہوں نے پچھلے ماہ علی برادران کی میزبانی کی تھی، بحث کرنا چاہتے تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے جو میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، اجازت نہ دی۔ وجہ یہ تھی کہ فوراً ہی مولوی ابراہیم سیالکوٹی نے تجویز پیش کر دی کہ انجمن اپنے طور پر علمأ کی کانفرنس بلائے۔ علمأ کی مدد کے لیے حالاتِ حاضرہ سے واقف لوگ مہیا کیے جائیں البتہ انہیں علمأ کی بحث میں رائے دینے کا حق نہ ہو۔ علمأ کی کثرتِ رائے سے فیصلہ ہو۔ اقبال اِسی کے حق میں تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے مخالفت کی۔ جمعیت علمائے ہند کا اجلاس دہلی میں ہونے والا تھا جس میںا نجمن کا وفد بھی شریک ہو سکتا تھا۔ پھر علیحدہ کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت تھی جس کے لیے وقت اور پیسہ موجود بھی نہ تھا؟ بحث ہونے لگی۔کونسل کے بہت سے اراکین کو جمعیت علمائے ہند پر اعتماد نہیں تھا۔ یوں میاں فضل حسین کی تجویز مباحثے سے بچ گئی۔ ووٹ دینے کا وقت آیا۔ اقبال، حاجی شمس الدین اور مولوی عبدالقادر قصوری سمیت اکیس ارکان نے ووٹ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ اُن کی رائے تھی، ’’مسئلہ زیرِ بحث کا ایک نہایت اہم مذہبی پہلو ہے جس کا فیصلہ علمأ سے استفتا کیے بغیر ایک ایسی انجمن کے لیے ناممکن ہے جو انجمن حمایت اسلام کے نام سے موسوم ہو۔‘‘ اکثریت میاں صاحب کی طرف پائی گئی۔ فیصلہ ہوا کہ اسلامیہ کالج کا پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ الحاق قائم رہے اور اور سرکاری امداد وصول کی جاتی رہے۔۱۴ ۱۳ ۱۵ نومبر تھی۔ امرتسر میں سکھوں کی مقدس زیارت گاہوں کے جھرمٹ میں اَکال تخت تھا۔ تین سو سال پہلے یہاں گرو ہرگوبند صاحب اپنے پیروؤں کو ہدایت دیا کرتے تھے۔ اب سکھوں کے گردوارے پیشہ وَر مہنتوں کے قبضے میں تھے۔ انہوں نے اپنے فائدے کے لیے ایسی رسومات جاری کر رکھی تھیں جنہیں سکھ مت کے بانی گرو نانک کی توحید سے دُور کا تعلق بھی نہ تھا۔ سکھوں کے نزدیک یہ رسومات شرک اور بدعت تھیں۔ دو روز پہلے حکومت نے چھتیس سکھوں پر مبنی کمیٹی بنائی تھی کہ امرتسر کی مقدس زیارت گاہوں کا انتظام سنبھالے۔ سکھوں کے اُس عظیم اِجتماع نے جو آج اَکال تخت کے گرد جمع تھا اس کمیٹی کو نامنظور کر کے ۱۷۵ سکھوں پر مبنی اپنی کمیٹی بنائی۔ نانک قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یکدانہ کی! آہ! بدقسمت رہے آوازِ حق سے بیخبر غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا شمعِ حق سے جو منوّر ہو یہ وہ محفل نہ تھی بارشِ رحمت ہوئی، لیکن زمیں قابل نہ تھی آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے برہمن سرشار ہے اب تک میٔ پندار میں شمعِ گوتم جل رہی ہے محفلِ اغیار میں بتکدہ پھر بعد مدّت کے مگر روشن ہوا نُورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہوا پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے!۱۵ ۱۴ اُس روز انجمن حمایت اسلام کی میٹنگ کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی۔ زمیندار پڑھ کر اقبال نے وضاحت کی ضرورت محسوس کی۔ اُسی شام کسی دوست نے بریلوی صاحب کے فتوے والا واقعہ بھی انہیں سنایا۔ رات اقبال نے زمیندارکے مدیر کے نام طویل مراسلہ لکھا۔ پہلے میٹنگ کی رُودادبیان کی۔ پھر وہ خیالات پیش کیے جو اِس ہنگامہ خیز موضوع پر اُن کی اصل رائے کو سمجھنے میں مدد دے سکتے تھے۔ بنام مدیر روزنامہ زمیندار [اقتباس] فی الحال تو میرے نزدیک یہی راہ کھلی ہے اور یہی راہ شریعت کی رُو سے بھی انسب و اَولیٰ ہے کہ حضرات علمأ ایک جگہ جمع ہو کر ہر قسم کا اعتراض سننے اور پورے بحث و مباحثے کے بعد مسلمانوں کے لیے ترکِ موالات کا ایک پروگرام مرتب کریں۔ اس جمعیت میں حضرات مشائخ، بڑے بڑے حنفی علمأ اور اگر ضروری ہو تو شیعہ اور اہلِ حدیث علمأ بھی جن کے علم و تقویٰ پر قوم کو اعتماد ہو، طلب کیے جائیں۔ میرے خیال میں ایسے حضرات کا انتخاب کوئی مشکل امر نہیں۔ مسلمان وکلأ بھی اِس بحث میں شریک ہو کر کم از کم سائل کی حیثیت سے مدد دیں۔ حضرات علمأ کے لیے بھی یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو رفع کر کے اُمتِ مرحومہ پر اپنا کھویا ہوا اِقتدار پھر حاصل کریں۔ خدا تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کر دیے ہیں کہ یہ بھٹکا ہوا آہو پھر خودبخود حرم کی طرف آ رہا ہے۔ قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز ایسے حالات قوموں کی زندگی میں شاذ ہی پیدا ہوا کرتے ہیں اور اگر اِن حالات سے حضرات مشائخ و علمأ نے فائدہ نہ اٹھایا اور مسلمانوں کی رہنمائی کر کے ان کو اپنے بچھڑے ہوئے محبوب یعنی شریعتِ حقہ اسلامیہ سے نہ ملایا تو اِس ملک میں مسلمانوں کا بحیثیت ایک مذہبی جماعت کے خاتمہ تصوّر کرنا چاہیے اور وہ مسلمانانِ ہند کی اس ہلاکت کے لیے قیامت کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اگر اس کانفرنس میں علمأ کے انتخاب اور اس کے مجموعی عمل میں دیانت و امانت سے کام لیا گیا تو مسلمانانِ ہند کی زندگی میں وہ عظیم اور روحانی انقلاب پیدا ہو گا، جس کے لیے شاہ ولی اللہ کی روح تڑپتی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ اِس تجویز کو عمل میں لانے کے لیے وقت اور روپیہ کی ضرورت ہے لیکن ایسے اہم مسئلے کے تصفیہ کے لیے وقت اور روپے کا سوال خارج از بحث ہے۔ اراکین جنرل کونسل نے تو یہ سلامتی کی راہ اختیار نہیں کی اور حمایت اسلام کہلا کر بے دردی سے اسلام کو نظرانداز کر دیا ہے لیکن مسلمانانِ پنجاب میں سے میری التماس ہے کہ وہ اس کام کو توکل بخدا اپنے ذمہ لیں اور لاہور یا باہر کے مسلمانوں میں سے کوئی اللہ کا بندہ اور نبی امّی کا عاشق ایسا نکلے کہ اس کانفرنس کا تمام خرچ اپنے ذمے لے لے۔۱۶ ۱۵ اگلی صبح یعنی ۱۶ نومبر کو اقبال کا خط زمیندارکے تیسرے صفحے پر شائع ہوا۔ شام کو لاہور کے مسلمانوں کا عام جلسہ ہوا۔ چار قراردادیں منظور ہوئیں: ۱۔ یہ جلسہ عام ان ممبرانِ انجمن کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے جنہوں نے ۱۴ نومبر کے جلسہ میں الحاق قائم رکھنے کے حق میں رائے دی اور مطالبہ کرتا ہے کہ شرعِ اسلام کے مطابق الحاق کا فیصلہ کیا جائے۔ ب۔اُن ممبران کی تعریف کرتا ہے جنہوں نے جلسہ میں صدائے حق بلند کی۔ ج۔ پرنسپل کی اس کاروائی کو ناراضگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس نے تیس طلبہ کو بورڈنگ ہاؤس سے نکال دیا اور سِول اخبار میں عدم تعاون کے خلاف چٹھی لکھی۔ د۔ مسٹر ہنری مارٹن کو کالج سے علیحدہ کیا جائے کیونکہ وہ ایک مسلم کالج کے سربراہ بننے کے قابل نہیں۔ اُسی روز دہلی دروازے کے باہر دوسرے جلسے میں وفد ترتیب دیا گیا کہ کالج کونسل کے سیکرٹری فضل حسین سے پرنسپل مارٹن کے بارے میں بازپرس کرے۔ اگلے روز وفد پہلے اقبال کے پاس پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کالج کونسل کا اندرونی معاملہ ہے اور جنرل سیکرٹری کے طور پر وہ اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن ذاتی طور پر پرنسپل مارٹن کی حرکت کو سخت ناروا خیال کرتے تھے۔ چنانچہ وفد جب وفد میاں فضل حسین کے پاس پہنچا تو اقبال کی طرف سے اُن کے نام ایک خط حاصل کر چکا تھا جس میں اقبال نے ذاتی حیثیت میں میاں صاحب سے کہا تھا کہ پرنسپل کے معاملے میں مناسب کاروائی کریں۔ میاں صاحب نے انکار کر دیا۔۱۷ ۱۶ کوہِ اَرارت کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں ترکی کی ہو چکی تھیں۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی واپسی کے بعد آرمینیوں کے لیے ترکی سے لڑنا مشکل ہو گیا تھا۔ ۱۸ نومبر کو اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ جن مسلمان علاقوں پر قبضہ کیا تھا واپس کر دیے۔ ۱۷ خوبصورت ساحلوں پر قیامت برپا تھی۔ ہندوستان کے جنوب مغرب میں ملابار میں اُن عرب تاجروں کی اولادیں آباد تھیں جو سب سے پہلے ہندوستان میں اسلام کا پیغام لائے تھے۔ اِن ’’موپلوں‘‘ نے بھی خلافت کی حمایت میں اجلاس کیے تھے اگرچہ حکومت نے خلافت کمیٹیوں کی طرف سے کسی پیغام کے یہاں آنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ پولیس کی فائرنگ سے چار سو موپلے شہید ہوئے۔ جب تارگھر نے یہ خبر صوبے سے باہر بھیجنے سے انکار کیا تو موپلے تنگ آگئے۔ ’’انہوں نے تار کاٹ دیے، ریل کی پٹریاں اکھاڑ دیں، سرکاری افسروں کو قتل کیا، جیل سے قیدیوں کو آزاد کیا، ہتھیار لوٹ لیے، شراب کی دکانیں جلا دیں، کچہریاں لوٹیں، پل توڑے اور ٹولیاں بنا کر حکومت کے مقابلے میں جنگ کرنے لگے،‘‘ سید حسن ریاض کا بیان ہے۔ بعضوں نے خطاب یافتہ مسلمانوں پر گوروں کی طرفداری کا الزام لگا کر اُن کی پٹائی کی اور کچھ انتہاپسندوں نے تین ہندو خاندانوں کو زبردستی مسلمان کر دیا۔ حکومت نے اِسے فرقہ وارانہ فساد قرار دینے کی کوشش کی مگر کانگریس اعلان کر چکی تھی کہ موپلوں نے ہندوؤں کے خلاف نہیں بلکہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کی ہے۔ ہزاروں موپلے قید اور ہزاروں قتل ہوئے۔ گھر اور فصلیں جلائی گئیں۔ بہت سے کالے پانی بھیجے گئے۔ ۱۹ نومبر کو ۷۰ موپلے ایک مال گاڑی میں دم گھٹنے سے بھی ہلاک ہو گئے۔ لاہور میں انجمن حمایت اسلام نے یتیم خانے کے دروازے دُور دراز کے ان بچوں کے لیے کھول دیے جن کے والدین اس ہنگامے میں شہید ہوئے تھے۔۱۸ ۱۸ حکیم سید رحمت اللہ شاہ جو موچی دروازے میں رہتے تھے اور انجمن حمایت اسلام کی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے علاوہ پیری مریدی بھی کرتے تھے، غالباً اپنے مرید خان بہادر رسول بخش مغل ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر حکومت سندھ کی دعوت پر جیکب آباد گئے ہوئے تھے۔ اُن کا خط آیا۔ ۲۲ نومبر کو اقبال نے جواب دیتے ہوئے بیاض میں لکھی ہوئی نظم ’حیاتِ جاوید‘ کا ایک شعر تحریر کر دیا کہ یہ مت سمجھو شراب بنانے والے کا کام ختم ہو گیا ہے کیونکہ نجانے کتنی شراب انگور کی بیل میں پوشیدہ ہے جسے ابھی پیا نہیں گیا: گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است۱۹ ۱۹ حکومت نے اِس برس علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کی حیثیت دے دی تھی۔ جنہیں دلچسپی ہو سکتی تھی وہ تو عدم تعاون کی وجہ سے دلچسپی ہی نہ لے رہے تھے۔ وہ تمام شرائط دھری کی دھری رہ گئیں جو مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جاتی تھیں۔ سر سید احمد خاں اور اُن کے صاحبزادے سید محمود نے یونیورسٹی کے لیے جو منصوبہ نصف صدی قبل تیار کیا تھا وہ بھی کسی طاق پر رکھ کر فراموش کر دیا گیا۔ عدم تعاون میں کمی نہ آئی۔ پچھلے ماہ کی پچیس تاریخ کو گاندھی نے یونیورسٹی کا دَورہ کیا۔ اسٹوڈنٹس یونین کی پہلی تاحیات رکنیت انہیں دی گئی۔ چار روز بعد اُن کے حامیوں نے علی گڑھ ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ’’قومی یونیورسٹی‘‘ قائم کر دی۔ شیخ محمود الحسن نے جلسے کی صدارت کی۔ محمد علی جوہرؔ نے تاریخ کی کچھ کلاسیں پڑھائیں۔ عام طور پر ’رموزِ بیخودی‘ کی تشریح کرتے تھے۔ ۲۷ نومبر کو اقبال کو گاندھی کا خط موصول ہوا۔ اقبال سے درخواست کی تھی کہ قومی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔ دو دن بعد جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ تجویز قبول نہیں کر سکتے۔ سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضروری تھی۔ اس میں ہندوستان کے مسلمان دوسری ملّتوں سے پیچھے تھے لہٰذا انہیں ادب اور فلسفہ کی نہیں بلکہ تکنیکی تعلیم کی ضرورت تھی۔ تعلیمی مسئلے کا حل شریعت سے تلاش کرنا ضروری تھا۔ اقبال پہلے بھی کہہ چکے تھے۔ بنام گاندھی Thank you so much for your letter which I received the day before yesterday. I regret very much my inability to respond to the call of those for whom I have the highest respect, for reasons which need and perhaps cannot be mentioned at present. While I am a strong supporter of National Education I do not think I possess all the necessary qualifications for the guidance of a University which requires a man who would steer the infant institution through all the struggles and rivalries likely to arise in the earliest stages of its life. And I am, by nature, a peacetime worker. There is one further point. Situated as we are, political independence must be preceded by Economic independence and in this respect the Muslims of India are far behind other communities of this country. Their principal need is not Literature and Philosophy but Technical Education which would make them economically independent. And it is on this latter form of education that they should, for the present, focus all their energies. The gentlemen responsible for the creation of the new University of Aligarh will be well advised if they make it an institution devoted mainly to the technical side of Natural Science supplemented by such religious education as may be considered necessary. There is no doubt that in view of the events that have happened in the Muslim world - especially with regard to Arabia and the Holy places - the Mussulmans of India will consider themselves justified in adopting some form of Non-cooperation, but the religious aspect of the question of education is, to my mind, still obscure, and I have already published proposals for a thorough discussion of the whole question. I am afraid I am not an expert on the Shari'a, but it is my conviction that in connection with the question of education the law of Islam cannot fail to give us a suitable line of action under our present limitation. Hope you are doing well.۲۰ ’’’شکوہ‘، ’جوابِ شکوہ‘، ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کا مصنف اور ٹیکنولاجیکل انسٹی ٹیوٹ کا نسخہ؟‘‘ مولانا محمد علی نے بعد میں لکھا۔ ’’یہ اِس سے بھی زیادہ تعجب انگیز شے تھی کہ ڈاکٹر انصاری صاحب اپنے کسی مریض سے کہتے کہ ’جاؤ، نوناچماری سے جھاڑ پھونک کرا لو، اس طرح بچ سکتے ہو ورنہ بس اب تمہارا خاتمہ ہے۔‘‘‘ وہ اقبال کو ’’اقبال مرحوم‘‘ کہنے لگے!۲۱ ۲۰ کانگریس کا جلسہ امرتسر میں تھا۔ اقبال بھی دو روز جاتے رہے۔ شام کو لاہور واپس آ جاتے تھے۔ ’’کانگریس کا جلسہ اس زور سے ہوا کہ اس سے پہلے آج تک نہیں ہوا۔ اور نہ امید ہے کہ ایسا جلسہ کبھی پھر ہو،‘‘ اُن کا بیان تھا۔۲۲ ۲۱ والد صاحب کا پوسٹ کارڈ ملا۔ کسی مرزا صاحب کی کتاب کی شرح لکھنے کی فرمائش کی تھی (ممکن ہے اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہوں)۔ اقبال نے یکم دسمبر کو جواب میں لکھا، ’’مرزا صاحب کی کتاب اچھی ہے مگر شرح لکھنے والے کا دل ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ مصنف کا۔‘‘ ۲۲ انگریز فلسفی میک ٹیگرٹ جو کیمبرج میں اقبال کے مقالے کے نگران تھے یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے کہ وحدت الوجود کے بارے میں اقبال کے خیالات وہ نہیں رہے جو پندرہ برس پہلے تھے۔ اقبال کو خط میں لکھا: I am writing to tell you with how much pleasure I have been reading your poems. Have you not changed your position very much? Surely in the days when we used to talk philosophy together you were much more of a Pantheistic and mystic. For my own part I adhere to my own belief that selves are the ultimate reality, but as to their true content and their true good my position is, as it was, that that is to be found in eternity and not in time, and in love rather than action. Perhaps, however, the difference is largely a question of emphasis - we each lay most weight on our own country needs. I dare say you are right when you say that India is too contemplative. But I am sure that England - and all Europe - is not contemplative enough. That is a lesson that we sought to learn from you - and no doubt we have something to teach in return.۲۳ ۲۳ بنام نیازالدین خاں مخدومی! السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ لیکن اس کا جواب لکھنا کارے دارد۔ بہت طویل ہو گا۔ فرصت مل گئی تو لکھوں گا۔ ورنہ اس وقت کا منتظر رہوں گا جب میں جالندھر آؤں یا آپ لاہور تشریف لاویں۔ انجمن کی سیکرٹری شپ سے میں نے استعفیٰ ضرور دیا تھا مگر کام اب تک کر رہا ہوں اور جب تک استعفیٰ منظور نہ ہو، کرتا رہوں گا۔ امید کہ عوام کی حالتِ جنوں اب زیادہ دیر تک نہیں رہے گی۔ تعلیم میں عدم تعاون کرنے کایہ طریقہ نہ تھا، جو بعض لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ اگر عدم تعاون کو شرعی فرض بھی تسلیم کر لیا جائے تو طریقِ کار میرے نزدیک شریعت اسلامیہ کی سپرٹ کے مخالف ہے۔ اس پر مفصل گفتگو زبانی ہو گی اور احکامِ شریعت جو میری سمجھ میں آئے ہیں، عرض کروں گا۔ زمیندار میں آپ نے میرا مضمون ملاحظہ کیا ہو گا۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ کی صحت اب اچھی ہے۔ انشأ اللہ کمزوری بھی رفتہ رفتہ دُور ہو جائے گی۔ مخلص محمدؐ اقبال، لاہور ۳ دسمبر ۱۹۲۰ء ۲۴ ۵ دسمبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا ہنگامی اجلاس نواب ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔اقبال نے پچھلے اجلاس کے بارے میں، جو ۱۴ نومبر کو ہوا تھا اور جس کے بارے میں وضاحت وہ زمیندارکے نام مراسلے میں کر چکے تھے، کہا کہ اُس اجلاس میں الحاق برقرار رکھنے کے متعلق جس طریق سے رائیں لی گئیں وہ طریقہ قطعاً غیرآئینی تھا۔ پرنسپل ہنری مارٹن اور پروفیسر حاکم علی کو اسلامیہ کالج سے موقوف کر دیا گیا۔ ’’کیونکہ انہوں نے بعض بیہودہ تحریریں اور فتویٰ شائع کر کے انجمن کے قواعد کی خلاف ورزی کی تھی،‘‘ روزنامہ زمیندارنے اپنے قارئین پر واضح کیا۔۲۴ ۲۵ رُوس اور ترکی کے درمیان صرف آرمینیا کے وہ بچے کھچے علاقے حائل تھے جو عیسائیوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے ترکی سے الگ تھے۔ ۶ دسمبر کو رُوسی فوجیںغریبوں کے لیے سرخ وعدوں اور بھاری اسلحے کے ساتھ پہنچیں اور آرمینیا کو رُوس میں شامل کر لیا۔ رُوسی سرحد ترکی سے مل گئی۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۲۰ء میں امریکی ادبی جریدے دی لٹل ری ویو (The Little Review)میں جیمز جوائس کے ناول یولیسس کی آخری قسط شائع ہوئی۔ The Secrets of the Self (Asrar-i-Khudi) E. M. Forster [Excerpt] It is significant of Empire that we should wait so long for a translation from Iqbal, the writer who has been for the last ten years such a tremendous name among our fellow-citizens, the Moslems of India. They respond to him as do Hindus to Tagore, and with greater propriety, for Tagore was little noticed outside Bengal until he went to Europe and gained the Nobel prize, whereas Iqbal has won his vast kingdom without help from the West. Lahore, Delhi, Aligarh, Lucknow, Bhopal, Hyderabad, regard him as a profound thinker and a sublime poet. Will London confirm their verdict? …The Secrets of the Self, the Persian poem under review,… is addressed to Moslems only, is philosophic, separatist; on its literary side it depends upon classical Persian; and though there are non-Moslem elements in it they do not come from Hinduism: no, from a very different quarter. For Iqbal completed his education in Europe; he has degrees from Cambridge and Munich, and keeps in touch with Western philosophy. And like other of his compatriots he has been influenced by Nietzsche; he tries to find, in that rather shaky ideal of the Superman, a guide through the intricacy of conduct… Two modifications, and only two, have to be made: he condemns the Nietzsche who is an aristocract, and an atheist; his Superman is permitted to spring from any class of society, and is obliged to believe in God. The Athanaeum (London), December 10, 1920. pp.803-804۲۵ شذرات سید سلیمان ندوی مشرقی لٹریچر کے ہواخواہ بالعموم اور ڈاکٹر اقبال کے کلام کے مداح بالخصوص اس خبر کو سن کر خوش ہوں گے کہ اُن کی مشہور فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ لندن میں چھَپ کر شائع ہو گیا ہے۔ مترجم کیمبرج یونیورسٹی کے ممتاز مستشرق پروفیسر نکلسن ہیں جو اِسلامی ادبیات و تصوّف پر متعدد تصانیف کے مصنف ہیں اور عربی و فارسی کی چند نادر و بیش بہا کتابیں ایڈٹ کر چکے ہیں۔ اس ترجمے پر اُنہوں نے بکثرت حواشی دیے ہیں اور ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔ ’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘ دو بار اس پر نوٹ لکھ چکا ہے جو علمی حلقوں میں کتاب کی اہمیت و مقبولیت کی ایک واضح دلیل ہے۔ سطور ھذا کی تحریر کے وقت تک کتاب ہندوستان نہیں پہنچی ہے۔ معارف، دسمبر ۱۹۲۰ئ۲۶ ۲۷ بنام ڈاکٹر سیف الدین کچلو لاہور ۱۰ دسمبر ۱۹۲۰ء ڈئیر ڈاکٹر کچلوؔ بعض ممبران کونسل انجمن کی طرف سے ریکوازی ایشن (مطالبہ) مجھے اس وقت شفاعت اللہ صاحب سے موصول ہو گئی ہے۔ اب انشأ اللہ مسئلہ الحاق کونسل کے سامنے پھر پیش ہو جائے گا اور اس بات کی پوری کوشش کی جائے گی کہ انجمن اپنے فیصلہ میں علمأ سے استصواب کرے۔ جہاں تک ممکن ہو گا جلد کونسل کا اجلاس منعقد کر کے یہ ریکوازی ایشن (مطالبہ) پیش کی جائے گی۔ تافیصلہ میری رائے میں کالج کھول دینا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی اس سے اتفاق ہو گا۔ موجودہ حالات میں غالباً یہ سب سے بہتر طریقِ عمل ہے۔ مہربانی کر کے اپنی رائے سے مطلع فرما کر ممنون فرمایے۔ والسّلام مخلص محمد اقبال اگلے روز اسلامیہ کالج دوبارہ کھل گیا۔۲۷ ۲۸ آئرلینڈ میں تشدد کی لہر اُٹھی تھی۔ ۱۱ دسمبر کو برطانوی حکومت نے مارشل لأ لگا دیا۔ ۲۹ اقبال محسوس کر رہے تھے کہ فارسی مجموعہ مکمل ہونے کے قریب ہے۔ کچھ نظموں پر نظرِ ثانی کی ضرورت تھی۔ بعض دوستوں نے پیشکش کی کہ اسے نہایت عمدہ کاغذ پر چھپوانے کے اخراجات برداشت کرنے پر تیار ہیں۔ اقبال کا دل نہ مانا۔۲۸ ۳۰ ۱۷ دسمبر کو ہفت روزہ الراعی (لاہور) کے صفحات ۱۱-۱۰ پراُس خط کا اقتباس شائع ہوا جو اقبال نے مدیر زمیندار کے نام نومبر میں لکھا تھا۔۲۹ ۳۱ ضیأالدین برنی نے خط میں لکھا کہ ان کی مدّت سے خواہش ہے کہ اقبال اپنی اُردو نظموں کا مجموعہ شائع کروائیں۔ ’’افسوس ہے کہ آپ کی مدّت کی خواہش پوری نہیں کر سکتا،‘‘ اقبال نے ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء کو جواب میں لکھا۔ ۳۲ سید سلیمان ندوی کی لکھی ہوئی اُم المومنین بی بی عائشہ صدیقہؓ کی سوانح سیرت عائشہ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اقبال کو موصول ہوئی۔ ۲۳ دسمبر کو شکریے کا خط لکھا۔ ’’یہ ہدیۂ سلیمانی نہیں سرمۂ سلیمانی ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اس کتاب کو پڑھنے سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔ خدا تعالیٰ جزائے خیر دے۔ یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ ’حمیرا‘ والی سب حدیثیں موضوعات ہیں۔‘‘ ۳۳ لوز ڈکنسن نے اقبال کو خط لکھا۔ شکایت کی کہ اقبال نے ’اَسرارِ خودی‘ میں مادی طاقت کے حصول کو زندگی کا مقصد قرار دیا ہے۔۳۰ اقبال نے محسوس کیا ڈکنسن اسلام کے عروج سے خوفزدہ ہیں۔ تبصرہ جو نیشنمیں شائع ہوا اُس میں بھی یہی خوف جھلک رہا تھا۔ The Secrets of the Self (Asrar-i-Khudi) L. Dickinson [Excerpt] At the conclusion of his Outline of the History of the World, Mr. Wells, with his shrewd sense of the true proportions of things, challenges the assumptions of the assured predominance of the West over the East. He points out how brief is the period of Western ascendency, and reminds us that whereas, we, for three centuries, have learned nothing from the East, they, for at least a century, have been learning everything from us. They are not naturally gifted. They are more modest and more acquisitive. Why should they not, in quiet a near future, reverse the process? From this point of view, Mr. Iqbal's book is something of a portent… Quite clearly Mr. Iqbal desires and looks forward to a Holy War, and that a war of arms… And if the East gets going to recover by arms a free and united Islam, it will not stop till it has either conquered the world or failed in that attempt. In either case there will not be much left of Mr. Iqbal's philosophy among his co-religionists. We said that such a poem was a portent, and so it is. The Western world has just shown by an example that would convince any but the blind (but all men are blind) that war means the destruction of civilization in all its aspects, and particularly in all those higher ones which are Mr. Iqbal's concern. The West, apparently, is refusing to learn the lesson. And some wistful Westerners, hopeless of their own countrymen, are turning once more to look for a star in the East. What do they find? Not the star of Bethlehem, but this blood-red planet. If this book be prophetic, the last hope seems taken away. The East, if it arms, may indeed end by conquering the West. But if so, it will conquer no salvation for mankind. The old bloody duel will swing backwards and forwards across the distracted and tortured world. And that is all. Is this really Mr. Iqbal's last word? The Nation (London), December 24, 1920. p.458۳۱ ۳۴ دسمبر میں کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کانفرنس کے سالانہ اجلاس ناگپور میں منعقد ہوئے۔ جناح کے جواب میں تقریر کرنے کے لیے گاندھی نے مولانا محمد علی کو اِشارہ کیا۔ اس کے بعد جناح نے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کرنا بھی بے سُود سمجھا۔ بعد میں مسلم لیگ سے تو وَابستہ رہے مگر کانگریس کی طرف کبھی واپس نہ آئے۔ ۳۵ ایبٹ آباد سے آئے ہوئے طالب علم شیر بہادر خاں ایک دن اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مولانا عبداللہ قصوری کی رہنمائی میں اقبال سے ملنے پہنچے۔ اُن کی روایت ہے کہ اقبال گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب کے پوچھنے پر کہا، ’’مولوی صاحب مدّت سے ایک انجمن بنانے کی فکر میں ہوں۔‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا کہ دیر کس بات کی ہے تو اقبال نے جواب دیا، ’’کیا کروں انجمن کے لیے موزوں ارکان نہیں ملتے۔ باوجود اِتنی تلاش اور فکر کے اب تک صرف ایک ہی رکن مل سکا ہے۔ دوسرے کی تلاش ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے رکن کے بارے میں دریافت کیا تو اقبال نے کہا، ’’وہ رکن تو میں خود ہی ہوں۔‘‘۳۲ ۳۶ ’’سیالکوٹ میں کانگریس اور خلافت تحریکوں کا بڑا زور تھا،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’ترک موالات کی تحریک چل رہی تھی۔ سکولوں کا الحاق یونیورسٹی سے توڑ کر قومی سکول بنانے پر زور دیا جا رہا تھا۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی مختار احمد سکول میں پڑھتا تھا۔ ابا جان کا خیال تھا کہ اسے لاہور کے کسی سکول میں داخل کروا دیا جائے۔ انہوں نے چچا جان کو لکھا۔‘‘ اقبال نے ۳۰ دسمبر کو جوابی خط میں مشورہ دیا کہ اپریل تک انتظار کریں۔ ’’گو سکول لاہور کے بھی بہت خراب ہیں اور لڑکوں کی آوارگی کے ممد۔‘‘ ۳۷ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: W. T. Stace. A Critical History of Greek Philosophy. Macmillan, London S. Alexander. Space, Time and Deity (Vol. 1&2). Macmillan, London J. Arthur Thomson. The System of Animate Nature. Williams and Norgate, London Prabhu Dutt Shastri. Elementary Psychology. Longman's Green, London J. Alexander Gunn. Bergson and His Philosophy. Methuen, London S. Radha Krishnan. The Reign of Religion in Contemporary Philosophy. Macmillan, London G. K. Nariman. Literary History of Sanskrit Buddhism. D. B. Taraporevala F. W. Westaway. Science and Theology: Their Common Aims and Methods. Blackie, London H. Wilson Carr. The General Principles of Relativity. Macmillan, London Moritz Schlick; translated by Henry L. Brose. Space and Time in Contemporary Physics: an introduction to relativity and gravitation. The Clarendon Press, Oxford J. Arthur Thomson. The System of Animate Nature; Volume 2. Williams & Norgate, London Gustaye Geley; translated by Stanley De Brath. From the Unconscious to the Conscious. William Collins, Glasgow. H. G. Wells. The Undying Fire. Cassell, London ان کے علاوہ اگلے برس جولائی میں یہ کتاب اقبال کے پاس پہنچی: Albert Einstein; translated by Robert W. Lawson. Relativity: the Special and the General Theory. Metheun, London اگلے برس ستمبر میں یہ کتاب اقبال کے پاس پہنچی: Edwin E. Slosson. Easy Lessons in Einstein. George Routledge, London۳۳ ۳۸ اِسی برس ایمل لڈوِگ کی لکھی ہوئی گوئٹے کی سوانح جرمن زبان میں شائع ہوئی۔ لڈوِگ شخصیت کے انسانی پہلوؤں پر زور دیتا تھا۔ کچھ رنگ آمیزی بھی کرتا تھا۔ کتاب دلکش ہو جاتی تھی۔ اسٹریچی کے برعکس لڈوِگ ہیرو کو ہیرو ہی کے طور پر پیش کرتا تھا۔۳۴ ۳۹ پچھلی بار مسجد کانپور کے سلسلے میں انگلستان آنے پر بھی مولانا محمد علی کو پریس کٹنگ ایجنسیوں کا تجربہ ہوا تھا جو نسبتاً کم خرچ پر خاص خاص موضوعات پر بہت سے اخبارات کے تراشے فراہم کر دیتی تھیں۔ ’’اس دفعہ بھی ایک ایسی ہی اجنسی سے واسطہ پڑا،‘‘ مولانا محمد علی کا بیان ہے۔ ’’اور تھوڑے ہی صرف سے برطانیہ کے جراید و رسائل کے سیکڑوں اقتباسات وصول ہوتے رہے۔‘‘چنانچہ وطن واپس آ کر بھی برطانوی خبر رساں ایجنسی سے رابطہ قائم تھا۔۳۵ ’’ہندوستان میں بہت ہی کم ایسے جریدہ نگار ہوں گے جو مجھ سے زیادہ برطانوی پریس سے واقف ہوں،‘‘ بعد میں اُنہوں نے کہا۔ ’’ان کے متعلق میرے کم سے کم پندرہ بیس برس کے تجربے نے مجھ پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ’نیوز پیپرز‘ ہرگز نہیں ہوتے، روزانہ جراید بھی ہفتے وار جراید کی طرح حقیقۃً’ویوز پیپرز‘ ہوتے ہیں اور جو’نیوز‘ یعنی خبریں بھی ان ’اخباروں‘ میں شایع ہوتی رہتی ہیں وہ بھی دراصل مالکوں اور اڈیٹروں کی ’ویوز‘ یا آرأ ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہی خبریں ان اخبارات میں شایع کی جاتی ہیں جن کا اخبار بیں طبقے پر وہی اثر پڑے جو اخبارات کے مالک اور اڈیٹر اس پر ڈالنا چاہتے ہیں الا ماشا ٔ اللہ اور جن واقعات کی اطلاع کا اخبار بیں طبقے پر ان کے نزدیک برا اثر پڑے گا ان کو درجِ اخبار ہی نہیں کیا جاتا اور کتمانِ حق [سچائی کو چھپانے] ہی پر اکتفا نہیں ہوتا بلکہ تلبیس الحق بالباطل [سچ کے ساتھ جھوٹ کی ملاوٹ] بھی برابر جاری رہتی ہے اور زیادہ تر اسی کے ذریعے سے اخبار بیں طبقے کی رہنمائی کی جاتی رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر اخبارات ایک خبر رساں ایجنسی ہرگز نہیں، سب کے سب پروپیگنڈے کی ایجنسی ہیں۔‘‘۳۶ دوسرا حصہ ۴۰ ’اَسرارِ خودی‘ کا ترجمہ ہندوستان پہنچ گیا۔ بمبئی اور کلکتہ کے عام انگریزی کتب فروشوں سے مل سکتا تھا۔ قیمت سات شلنگ چھ پنس تھی۔ The Secrets of the Self (Asrar-i-Khudi) E. G. Browne [Excerpt] Muhammad Iqbal came some fifteen years ago to pursue his philosophical studies at Cambridge and Munich, and in 1908 published his valuable dissertation on the development of metaphysics in Persia. He has since then evolved a philosophy of his own, which, as Dr. Nicholson says (p.x.), "owes much to Nietzsche and Bergson" and very little to the Neo-Platonism and their Eastern successors. Yet it is by no means a Western philosophy, rather a philosophical Pan-Islamism, designed to cure the ills of quietism, self-suppression, and pantheism, which, according to the author's view, have emasculated the adherents of the once virile doctrine of the Arabian Prophet… The book is not remarkable in itself, but may, as Dr. Nicholson implies, have far-reaching effects on Muslim thought and character, while the English prose rendering has all the grace and felicity which we are accustomed to expect from the translator. The Journal of the Royal Asiatic Society (London), 1921, pp.146-147 بنام شیخ نور محمد لاہور ۳ جنوری ۱۹۲۱ء قبلہ و کعبہ السلام علیکم اعجاز کی زبانی آپ کا پیغام پہنچا ہے جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت اداس رہتی ہے۔ کئی سال ہوئے میں نے ایک کتاب یورپ میں خریدی تھی مگر آج تک اس کے پڑھنے کی نوبت نہ آئی تھی۔ ان تعطیلوں میں اسے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا آغاز اور اختتام یہ فقرہ ہے۔ ’’میری کوئی چیز نہیں اور میرے لیے تمام اشیأ کا وجودو عدم برابر ہے۔‘‘ یہ ساری کتاب اسی جملے کی تشریح ہے اور حقیقت میں بہت خوب ہے۔ حقیقی شخصیت یہی ہے کہ انسان اپنی اصلی حقیقت کا خیال کر کے تمام تعلقات سے آزاد ہو جائے یعنی بالاتر ہو جائے۔ نبی کریمؐ کی زندگی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔ ان سے زیادہ اپنے عزیزوں سے محبت کرنے والا بلکہ ساری دنیا کو اپنا عزیز جاننے والا اور کون ہو گا؟ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا تھا۔ جب آپ کو نہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کون ہے اور ابوبکر کون ہے نہ یہ کہ محمدؐ کون ہے۔ ہمارے صوفیا نے اس کو فنا سے تعبیر کیا ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ شخصیت یا خودی کا کمال ہے اُسے فنا نہیں کہنا چاہئے اور انسانی حیات کی یہی کیفیت حیات ما بعدالموت کی تیاری ہے۔ لیکن آپ اِس نکتے کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ہمارے عزیزوں میں آپس میں جب بگاڑ ہو جاتا ہے تو ہم جو ان کی صلح و آشتی میں خوش ہوتے ہیں ان کا بگاڑ دیکھ کر رنجیدہ اور پریشان ہوتے ہیں۔ جب اسی قسم کا بگاڑ اور لوگوں میں ہو جو عام معنوں میں ہمارے عزیز یا رشتہ دار نہیں ہیں تو ہم کو کوئی رنج نہیں ہوتا۔ اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ جو آدمی انسانی زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہے اُسے معلوم ہے کہ تمام بنی نوع انسان آپس میں عزیز و رشتہ دار ہیں کیونکہ حیاتِ انسانی کی جڑ ایک ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ چند آدمیوں کے بگاڑ سے جن کو ہم خاص طور پر اپنا رشتہ دار کہتے ہیں ہم کو رنج ہوتا ہے اور باقی لوگوں کے بگاڑ سے ہم پر کچھ اثر نہیں ہوتا حالانکہ عزیز تو حقیقت میں وہ بھی ہیں؟ انسان اِس فطری میلان سے مجبور ہوتا ہے کہ جو آدمی خون کے اعتبار سے ہمارے قریب تر ہیں ان کو اپنا رشتہ دار کہتا ہے اور جو دُور ہیں ان سے بے تعلق ہو جاتا ہے حالانکہ خون اور زندگی میں قُرب اور بُعد، نزدیکی اور دُوری کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تعلقات کی وجہ سے جو پریشانی ہم کو لاحق ہوتی ہے اس کی بنا اصل میں ناانصافی پر ہے۔ ناانصافی یہ کہ بعض افراد کو قربِ خونی کی وجہ سے قریب جاننا اور بعض کو بُعدِ خونی کی وجہ سے بعید جاننا حالانکہ زندگی کی حقیقت قرب و بُعد سے مُعرّا ہے۔ کامل انسان تمام عالم کے لیے رحمت ہے بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ کامل انسان تعلقات سے بالاتر ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ بھی خیریت سے ہوں گے۔ بھائی صاحب کی خدمت میں آداب۔ اَسرارِ خودی کا ترجمہ انگریزی میں ہو گیا ہے۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ جب یہ کتاب ہندوستان میں شائع ہوئی تو یہاں کے صوفیا نے اس پر اعتراض کیا کہ کتاب کا مصنف مسلمانوں کو مغربی خیالات سکھاتا ہے اور ان کو فرنگیت کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ مغرب والے مترجم نے دیباچے میں یہ لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک زبردست آواز ہے جو مسلمانوں کو محمدؐ اور قرآن کی طرف بلاتی ہے اور اس آواز میں صداقت کی آگ ایسی ہے کہ ہم اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ محمدؐ اقبال ۴۱ اعجاز کے ایک دوست مشتاق نے ان کی بیاض میں اقبال کی نظمیں دیکھیں تو انہیں شائع کرنا چاہا۔ اعجاز نے اقبال سے اجازت طلب کی۔ ۱۰ جنوری کو اقبال نے انگریزی میں ممانعت کا خط لکھا۔ ’’یہ سب سے اہم نظمیں ہیں اور میں پہلے ہی اپنی نظموں کا مجموعہ اشاعت کے لیے مرتب کر رہا ہوں۔‘‘ ۴۲ ذوالفقار گنج اُس سرائے کا نام تھا جو نواب سر ذوالفقار علی خاں نے اس برس لدھیانہ میں تعمیر کروائی۔اقبال نے مصرعۂ تاریخ نکالا کہ زمین پر جنت آباد کر دی ہے: ’’بر زمیں خلدِ بریں آراستند۔‘‘ ۱۹۲۱ء اعداد نکلتے تھے جو عیسوی سال تھا۔ تین مصرعوں کا اضافہ کر کے نظم کیا۔۳۷ سرائے کے بڑے دروازے پر کندہ کروائی گئی۔۳۸ ۴۳ ۲۰ جنوری کو انقرہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی نے نیا آئین منظور کیا۔ مصطفی کمال پاشا پہلے کی طرح اسمبلی کے صدر رہے مگر وزیراعظم کے عہدے کا اضافہ ہوا ۔ کسی سلطان کی بجائے اسمبلی اپنی مرضی سے مقرر کر سکتی تھی۔ اسمبلی کا پہلا فرض شریعت کا نفاذ قرار پایا۔ اقتدارِ اعلیٰ بادشاہ کی بجائے قوم کی طرف منتقل ہوگیا۔۳۹ ’’ہمیں فخر ہے کہ ہم کسی اور جیسے نہیں ہیں، ہم اپنے جیسے ہیں،‘‘ مصطفی کمال کہتے تھے مگر یہ بات سمجھ میں کیسے آتی جب نئی زندگی کو مغربی حوالوں کے بغیر دیکھنے کا چلن شروع نہیں ہوا تھا۔ نوجوان شاعر ناظم حکمت آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے آیا تو اُس نے سرخ اسکارف باندھا ہوا تھا اور اُس کا پسندیدہ شاعر بودلئر تھا۔ ’’بعض نوجوان شاعروں نے ایسی نظمیں لکھنے کا چلن اپنایا ہے جن کا کوئی موضوع نہ ہو،‘‘ مصطفی کمال نے ناظم سے کہا۔ ’’تمہیں میری نصیحت ہے کہ مقصدی شاعری کرنا۔‘‘ناظم کے پاس دل کہاں تھا جو اثر لیتا۔ وہ تو رُوس کو دے دیا تھا۔ خود بھی جانے والا تھا۔۴۰ ۴۴ موٹر بوٹ سمندر میں کچھ دُور پہنچی تو مصطفی صوفی کو اندازہ ہوا کہ انہیں ترکی سے جلاوطن کیا جا رہا ہے۔ احتجاج کرنے پر اُنہیں اور اُن کے ساتھیوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ شہر کی ایک تقریب میں جو لوگ اُن کے منتظر تھے اُن میں روس کا قونصل بھی شامل تھا۔ ترک کمیونسٹوں میں مصطفی صوفی سے بڑا نام کوئی نہ تھا۔ لینن اُنہیں انقلابِ روس سے پہلے سے جانتا تھا۔ روس کو پیغام مل گیا۔ ترکی کو رُوسی ہتھیار آزادی کے لیے درکار تھے، غلامی کے لیے نہیں۔۴۱ ۴۵ ابو الاعلیٰ مودودی انیس برس کے نوجوان تھے۔ سمرنا میں یونانی مظالمکتاب شائع ہوئی۔ انہوں نے ترجمہ کی تھی۔۴۲ ۴۶ اقبال نے ’اَسرارِ خودی‘ کے انگریزی ترجمے کے بارے میں فورسٹر، ڈکنسن اور براؤن کے تبصرے دیکھے۔ اُنہیں اپنے اِس خیال کی تصدیق سمجھا کہ’’یورپ کے پڑھے لکھے آدمیوں میں اُمید نہیں کہ یہ کتاب مقبول ہو کیونکہ زندگی کے اعتبار سے وہ ممالک خود پیری کی منزل تک پہنچنے کو ہیں۔ نوجوان ملکوں پر اِس کا اثر یقینی ہے یا ایسی اقوام پر جن کو خدا تعالیٰ نئی زندگی عطا کرے۔‘‘۴۳ ۴۷ پروفیسر شفیع کے نام ’اَسرارِ خودی‘ کے مترجم آر اے نکلسن کا کوئی خط آیا تھا اور غالباً اُسی خط سے اقبال کو یہ معلوم ہوا تھا کہ پچاس تبصرے انگلستان اور امریکہ کے اخباروں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اقبال کی نظر سے ابھی تک صرف یہی تین گزرے تھے جن کی روشنی میں مغرب میں ’اسرارِ خودی‘ کی قبولیت کے بارے میں کوئی اچھی امید قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ ’’ہاں یہ ضرور ہے کہ اِس کی اشاعت ایک اور کتاب کے لیے جو میں لکھ رہا ہوں، زمین تیار کرے گی،‘‘ انہوں نے ۲۱ جنوری کو نیازالدین خاں کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ اِشارہ اُس مجموعے کی طرف تھا جو گوئٹے کے حوالے سے مرتب کر رہے تھے۔ ’’اُس کا یورپ میں مقبول ہونا بہت ممکن ہے۔ گو ہندوستان میں شاید وہ بھی قبول نہ ہو۔ بہرحال یہ محض قیاسات ہیں۔ قلوب کے حال کا سوائے خدا کے اور کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔‘‘ کبوتروں نے بچے دیے تھے مگر ان میں بہت سے شاہین نے ضائع کر دیے۔خط میں نیازالدین خاں کو اس کی اطلاع بھی دی۔ اچھی خبر یہ تھی کہ مارچ میں خود نیازالدین خاں لاہور آنے والے تھے، غالباً انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں شرکت کے لیے۔ ۴۸ ۲۳ جنوری کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔ سالانہ جلسے کے لیے چودہ رکنی کمیٹی اور کانفرنس کے لیے دس رکنی کمیٹی بنی۔ اقبال دونوں میں شامل تھے۔ ایک عام اعلان انجمن کے ماہوار رسالے حمایت اسلام کے جنوری اور فروری کے شماروں میں اشاعت کے لیے جاری ہوا۔۴۴ [اعلانِ عام] انجمن کی جنرل کونسل کے اجلاس منعقدہ ۲۳ جنوری ۱۹۲۱ء میں قرار پایا ہے کہ انجمن کا سالانہ جلسہ حسب معمول ایسٹر کی تعطیلات میں ۲۴ سے ۲۶ مارچ تک انعقاد پذیر ہو۔ چونکہ ان ایّام میں موسم معتدل اور خوشگوار ہو گا۔ توقع کامل ہے کہ خیرخواہانِ ملتے و معانینِ انجمن بتعدادِ کثیر شامل ہو کر کارکنانِ انجمن کی عزّت افزائی کا موجب ہوں گے اور جلسہ کو ہر ایک پہلو سے کامیاب کر کے خادمانِ قوم کارپردازانِ انجمن کی شکرگزاری کے علاوہ بارگاہِ خداوندی سے اجرِ جزیل کے مستحق ہوں گے۔ کمیٹی جو اس کے اہتمام کے لیے مقرر کی گئی ہے گو ہر طرح سے مقدور بھر سعی کرے گی کہ جلسہ بارونق، شاندار اور کامیاب ہو مگر ان کوششوں کا بارآور اور مثمر نتائج ہونا زیادہ تر افرادِ ملّت کی توجہ، ایثار اور امداد پر موقوف اور منحصر ہے۔ یتیم خانہ کی عمارت کے لیے جس کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس ہو رہی ہے مگر ابھی تک اس کے لیے کچھ نہیں ہو سکا۔ زمین کے خریدنے کا انتظام ہو رہا ہے اور یقین ہے کہ عنقریب اراضی مطلوبہ کے خریدنے کا بندوبست ہو جائے گا۔ اس کے لیے رقم خطیر کی ضرورت پڑے گی جس کا مہّیا کرنا سوائے برادرانِ اسلام کے اور کسی کا کام اور فرض نہیں۔ ایک لاکھ روپیہ کم از کم تو زمین کی قیمت کے لیے بکار ہو گا۔ پھر مکان کی تعمیر کے مصارف کا سوال آتا ہے۔ اس کے واسطے جس قدر روپے کی ضرورت ہے وہ اکابرِ ملّت سے مخفی نہیں۔ قوم کے یتیموں کے لیے پناہ کی جگہ مہیّا کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثواب اور اجر ہو سکتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والا اپنے لیے بہشت میں محل بنواتا ہے اور نعمائے الٰہی کے حصول کا حقدار ہوتا ہے۔ پس اگر قوم بہشت کا وارث بننے کی خواہشمند ہے اور اس کی تمنّا اور آرزو ہے کہ اسے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی معیّت کی نعمت حاصل ہو تو آگے بڑھے اور اپنے لیے بے مادروپدر اور بے یارومددگار بچّوں کے رہنے کے لیے ایک موزوں عمارت بنا دے۔ وَمَا عَلَینَا اِلّاالبَلَاغ یہ قرارداد بھی ہوئی ہے کہ سالانہ جلسہ کے بعد ۲۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد ہو۔ اس ضرورت کی انجام دہی کے واسطے ایسے صاحبان کی جو ہر ایک طرح سے اس کام کے اہل اور تعلیمی امور سے باخبر ہیں ایک کمیٹی مقرر کی گئی ہے۔ اس کے لائق سکرٹری ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب ایم۔اے بیرسٹر ایٹ لأ عنقریب ذاتی طور پر کانفرنس کے مقاصد سے برادرانِ اسلام کو بذریعہ اخبارات اطلاع دیں گے۔ یقین ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی معاملات میں دلچسپی لینے والے احباب ان کی صدا پر لبیک کہیں گے اور اس اہم کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں گے اور ثابت کر دکھائیں گے کہ واقعی ان کو اپنی قوم کی تعلیم کے متعلق تردّد ہے۔ محمد اقبال شمس الدین سکرٹریاں انجمن ۴۹ اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ کے مترجم پروفیسر آر اے نکلسن کے نام تفصیل سے خط لکھا۔ اس پر ۲۴ جنوری کی تاریخ ڈالی گئی لیکن ممکن ہے کہ اتنا طویل اور مفصل خط ایک دن سے زیادہ عرصے میں مکمل ہوا ہو۔ واضح الفاظ میں اِس بات پر زور دیا کہ اُن کا فلسفہ نیٹشے سے متاثر نہیں ہے۔ بالکل صاف الفاظ میں دعویٰ کیا کہ ’اَسرارِ خودی‘ کا فلسفہ مسلمان صوفیا اور حکما کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے۔ اس کی بنیاد انسانِ کامل کے اسلامی تصور پر ہے جو نیٹشے کے فوقُ الانسان یعنی سپرمین سے بالکل الگ چیز ہے۔ انگریز قارئین کی سہولت کے لیے تجویز کیا کہ وہ اُن کے افکار کو سمجھنے کے لیے اُن کا موازنہ نیٹشے کی بجائے انگریز فلسفی الگزانڈر سے کریں جس کے گلاسگو والے خطبات پچھلے برس شائع ہوئے تھے۔ ساتھ ہی الگزانڈر کے افکار سے اپنے افکار کا فرق بھی ظاہر کر دیا۔ فورسٹر نظموں کی تاریخِ تالیف سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اقبال کے ذہنی ارتقأ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے تھے، اُس کی طرف اِشارہ کیا۔ لوز ڈکنسن کے اعتراضات کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے نکلسن سے درخواست کی کہ یہ خط اُنہیں بھی دکھایا جائے۔ اِس ضمن میں واضح کیا کہ روحانی قوت کے قائل ہیں مگر مادی طاقت پر یقین نہیں رکھتے۔ حق و صداقت کے لیے کبھی کبھی جنگ بھی لڑنی پڑتی ہے اور یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امن کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے محض معاہدے کافی نہیں بلکہ ایک موثر شخصیت کی ضرورت بھی ہے (وہ زمانہ جب دنیا میں جنگیں بالکل ختم ہو جائیں، اقبال کے خیال میں ابھی بہت دُور تھا)۔ اِس سلسلے میں میکنزی کے افکار کا حوالہ دے کر اُس کی کتاب تعارفِ سماجیات Introduction to Sociology) (سے اقتباسات بھی پیش کیے۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ڈکنسن کے اعتراضات کی تہہ میں غالباً اِسلام کا خوف چھپا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی اقبال کی یہ پیش گوئی تھی کہ آیندہ زمانے میں اِسلام کا کردار ملک گیری اور کشورکشائی کی صورت میں نہیں بلکہ انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت کی صورت میں ظاہر ہو گا تاکہ ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھی جا سکے جو تعصبات اور نسل پرستی سے بلند ہو کر پوری انسانیت کو ایک خاندان کی طرح اکٹھا کر دے۔ بنام نکلسن [اقتباس] Mr. Dickinson further remarks that while my philosophy is universal, my application of it is particular and exclusive. This is in a sense true. The humanitarian ideal is always universal in poetry and philosophy; but if you make it an effective ideal and work it out in actual life, you must start, not with poets and philosophers, but with a society exclusive, in the sense of having a creed and a well-defined outline, but ever enlarging its limits by example and persuasion. Such a society, according to my belief, is Islam. This society has so far proved itself a most successful opponent of the race-idea, which is probably the hardest barrier in the way of the humanitarian ideal. Renan was wrong when he said that science is the greatest enemy of Islam. No, it is the race-idea which is the greatest enemy of Islam - in fact of all humanity; and it is the duty of all lovers of mankind to stand in revolt against this dreadful invention of the Devil. Since I find that the idea of nationality - based on race or territory - is making headway in the world of Islam, and since I fear that the Muslims, losing sight of their own ideal of a universal humanity, are being lured by the idea of a territorial nationality, I feel it is my duty, as a Muslim and as a lover of all men, to remind them of their true function in the evolution of mankind. Tribal and national organization on the lines of race or territory are only a temporary phase in the unfolding and upbringing of collective life, and as such I have no quarrel with them; but I condemn them in the strongest possible terms when they are regarded as the ultimate expression of the life of mankind. While I have the greatest love for Islam, it is in view of practical and not patriotic considerations, as Mr. Dickinson thinks, that I am compelled to start with a specific society (e.g. Islam) which, among the societies of the world, happens to be the only one suitable to my purpose. Nor is the spirit of Islam so exclusive as Mr. Dickinson thinks. In the interests of a universal unification of mankind the Quran ignores their minor differences and says: "Come let us unite on what is common to us all." I am afraid the old European idea of a blood-thirsty Islam is still lingering in the mind of Dr. Dickinson. All men and not Muslims alone are meant for the kingdom of God on earth, provided they say good-bye to their idols of race and nationality, and treat one another as personalities. Leagues, mandates, treaties, like the one described by Mr. Keynes, and imperialisms, however draped in democracy, can never bring salvation to mankind. The salvation of man lies in absolute equality and freedom of all. We stand in need of a thorough overhauling of the uses of science which have brought so much misery to mankind, and of a total abandonment of what may be called esoteric politics, which is ever planning the ruin of less clever or weaker races. That Muslim peoples have fought and conquered like other peoples, and that some of their leaders have screened their personal ambition behind the veil of religion, I do not deny; but I am absolutely sure that territorial conquest was no part of the original programme of Islam. As a matter of fact I consider it a great loss that the progress of Islam as a conquering faith stultified the growth of those germs of an economic and democratic organization of society, which I find scattered up and down the pages of the Quran and the traditions of the Prophet. No doubt the Muslims succeeded in building a great empire, but thereby they largely repaganized their political ideals and lost sight of some of the most important potentialities of their faith. Islam certainly aims at absorption. This absorption, however, is to be achieved, not by territorial conquest, but by the simplicity of its teaching, its appeal to the common sense of mankind, and its aversion from abstruse metaphysical dogma. That Islam can succeed by its inherent force is sufficiently clear from the Muslim missionary work in China, where it has won millions of adherents without the help of any political power. I hope that more than twenty years' study of the world's thought has given me sufficient training to judge things impartially. The object of my Persian poems is not to make out a case for Islam; my aim is simply to discover a universal social reconstruction, and in this endeavour I find it philosophically impossible to ignore a social system which exists with the express object of doing away with all the distinctions of caste, rank and race, and which, while keeping a watchful eye on the affairs of this world, fosters a spirit of the unworldliness so absolutely essential to man in his relations with his neighbours. This is what Europe lacks, and this is what she can still learn from us. ۵۰ نکلسن کے نام خط میں اقبال نے لکھا تھاکہ برگساں کا تصورِ زمان بھی صوفیوں کے لیے نئی چیز نہیں لیکن اقبال کے پاس وقت نہیں کہ ان موضوعات پر تفصیل سے لکھ کر دکھا سکیں کہ فکرِ انسانی پوری انسانیت کو ایک کنبہ ثابت کرتی ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد ہی وقت نکال کر انگریزی میں وہ مقالہ لکھنا شروع کیا ہو جس میں دکھانا تھا کہ برگساں کی فکر کے پانچ بنیادی نکات مغلیہ عہد کے فارسی شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کے کلام میں دریافت کیے جا سکتے تھے: ۱ عقل حقیقت کی سطح کو چھو سکتی ہے مگر اُس کی گہرائی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ ۲ حقیقت کے ادراک کا صحیح راستہ وجدان ہے مگر یہ صوفیانہ مشاہدہ کی کوئی قسم نہیں بلکہ فکر کی ایک زیادہ گہری قسم کا نام ہے۔ ۳ اِس وجدان سے یہ کشف ہوتا ہے کہ حرکت ہی ہر طرح کی زندگی کا جوہر ہے۔ ۴ اِس کے باوجود ہمیں اپنے اطراف میں ساکت چیزیں اِس لیے نظر آتی ہیں کہ جبلت زندگی کو آگے بڑھنے پر اُکساتی ہے تو ذہانت اسے واپس بھی کھینچتی رہتی ہے۔ ۵ موت کے بعد جسم دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ بیدل اور برگساں میں تمام دلچسپی کے باوجود اِقبال کے نزدیک ان دونوں کے افکار کے بعض پہلو اِسلام سے متصادم تھے۔ مقالے کے آخری حصے میں اقبال نے دونوں پر تنقید کی۔ کسی وجہ سے یہ مقالہ انہوں نے کبھی شائع نہ کروایا ۔ ایک روایت ہے کہ بیدل کے کلام کا انتخاب بھی کیا تھا۔۴۵ Bedil in the Light of Bergson [Excerpt] It may, however, be remarked that Bergson's view of human intelligence takes no account of the task that it has accomplished in the sphere of Religion, art and ethics. This argument in support of the spatialiazation of spirit as determined by biological considerations seems to take for granted that all the needs of man are fulfilled by a practical knowledge of matter, and it is this uncritical assumption which is obviously responsible for the low and inadequate view of man that he takes. It is not the experience of the engineer alone but the entire experience of man as man that could give us a complete revelation of the function of human intelligence. In his analysis of human knowledge Kant followed exactly the same procedure i.e. he assumed without criticism a certain function of the mind, yet we find Bergson accusing him of wrongly stating the problem and thus prejudicing the solution of it from the very beginning. As a matter of fact the whole argument which he directs against Kant applies with equal force to his own procedure. Bergson's argument is plausible only if we regard man as a piece of living matter which has continually to insert itself in an unfavourable environment working for its decay and dissolution. The history of man, however, shows that he is something more than the brute and his needs are sometimes such that he can easily sacrifice the matter in him for the satisfaction of those needs. But Bergson will probably reply to this contention that the so called higher demands of man are met by the intuitive vision. It is here that Bergson and Bedil come into real touch and it is, therefore, our chief concern to examine this claim of intuition. In the system of Bergson (I am using the word system carelessly; as a matter of fact Bergson's philosophy is not a system) intelligence is a kind of original sin, the commission of which resulted in giving life a distorted view of itself; and in order to see itself as it is, life must revert to its pre-intelligence state and put itself by a kind of regress, into the animal or plant consciousness or perhaps lower down into protozoa consciousness where materiality reduces itself to almost vanishing point. Is such a regress possible to a form of life which has developed intelligence and clothed itself into matter? It would perhaps be possible to forms nearest to the original impulse of life, surely it is not possible to man who by developing a highly complex organism stands higher up in the scale of evolution. But assuming that we can, by an effort of sympathy, put ourselves just at the point where materiality emerges, what does this act of sympathy bring us? In Bergson's system all that it gives us is a mere hypothesis which we have subsequently to corroborate by an empirical study of the facts of Evolution. Thus understood it is nothing more than the flash of genius which sometimes suggests a theory when only a few facts are immediately before us. Bergson himself tells us that this intuition comes to us by a long and systematic contact with reality in all its concrete windings. It seems to me that Bergson's intuition is not at all necessary to his system and may easily be detached from it without injuring his main thesis which, on careful analysis, reveals itself as a kind of empiricism with a hue of Idealism not likely to last long. However, I have no objection to intuition in the sense of supplying us with workable hypotheses; the trouble begins when it is set up as a vision which would satisfy all the demands of our nature. With Bedil intuition is not so much as a source of knowledge as a mode of salvation from the storm and stress of life. Our poet appears to identify the Absolute psychic movement with God and proposes to transcend the painful limitations of a narrow individuality by a sink into the Absolute. Obviously if intuition brings us salvation from the pains of life and sends us back to our truest life; the highest task must be to make an effort and to turn this momentary dip into the Absolute into a permanent state. And what if intuitive vision becomes permanent? Does this super conscious state mean the satisfaction of all our inner longings? Does it satisfy the whole of our complex personality? Action, knowledge, beauty and to a certain extent even the pleasures of sense - all constitute the demands of our personality. Does the intuitive state open up to us new vistas for our multifarious activity? Does a prolonged or permanent intuitive state mean anything more than an absolute cessation of individual consciousness which, far from satisfying the needs of a complex personality destroys the very condition of these needs? To appeal to such a state is only another way of saying that the so-called higher demands of man are false and the only way to get rid of these false aspirations is to destroy the conditions of life which generates them in us. Such a view of human personality is simply revolting and amounts to nothing more than a philosophically reasoned out counsel of suicide to those whom the ills of life have driven to despair. But perhaps you will say the intuitive state does not destroy our individuality, it only expands its limits and transforms it into a much wider consciousness. Yes, perhaps it does expand us, but it expands us to breaking point and robs us of the entire meaning of our life in as much as the supposed expansion is neither rational nor aesthetic nor active.۴۶ ۵۱ شیخ عطا محمد کو جھنگ میں ملازمت ملنے کی امید بندھی تھی مگر پوری نہ ہوئی۔ آنا جانا بیکار ہو گیا۔۴۷ ۵۲ ’’میری سالگرہ ہر سال منائی جاتی تھی،‘‘ نواب سر ذوالفقار علی خاں کے چھوٹے لڑکے خورشید عرف چھوٹے میاں کا بیان ہے۔ ’’ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب [اقبال] دیر تک بیٹھے رہے۔ پھر فرمایا، ’جمیل سنگھ سے کہو موٹر لائے۔ اب ہم جاتے ہیں۔‘ میرے والد صاحب نے فرمایا ’ٹھیریے! جلدی کیا ہے؟‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’اچھا ذرا ٹھہر کر چلے جائیں گے۔‘ اور یہ شعر پڑھا: غنیمت ہے نواب صاحب کی محفل گھڑی بھر میں اِس جا نہ ہم ہیں نہ تم ہو‘‘۴۸ ۵۳ لاہور کے ہندو کالجوں میں عدم تعاون کا زور بڑھ رہا تھا۔ اقبال کی گائے نے بچہ دیا مگر بیمار پڑ گئی۔ شیخ عطا محمد کا خط ملا تو ۲۸ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا، ’’آپ کو اَب اگر ملازمت کا خیال ہو بھی تو سوائے سیالکوٹ کے اور جگہ کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ انشأ اللہ خودبخود سامان ان کے پورا ہونے کے نکل آئیں گے۔ آپ اطمینان فرمائیں۔ مجھے تو اُس کی ذات پر بھروسہ ہے۔ اس واسطے اگرچہ مجھ کو بھی ویسا ہی احساس ہے جیسا کہ آپ کو تاہم طبیعت فکرمند نہیں ہوتی۔‘‘ ’اَسرارِ خودی‘ کے انگریزی ترجمے کے حوالے سے لکھا، ’’جو کچھ ہندوستان میں ہوا وہاں بھی ہو رہا ہے۔‘‘ ۵۴ پچھلی صدی میں بھی بغاوت کی چنگاری میرٹھ سے پھوٹی تھی۔ پچھلے برس ۶ ستمبر کو جمعیت علمائے ہند نے ترکِ موالات کے حق میں جو فتویٰ دیا تھا اب یہاں سے کتابی صورت میں شائع ہو گیا۔ ۵۵ مولانا محمد علی (جوہرؔ) نے اقبال کو ’’اقبال مرحوم‘‘ کہنے کے باوجود محبت اور قدردانی میں کمی نہ آنے دی تھی۔ علیگڑھ کے جامعہ ملیہ میں تاریخ پڑھاتے تو مطالعۂ اقبال کی کلاس بن جاتی۔ کلامِ اقبال کا اُن سے بہتر شارح کوئی نہ تھا۔ ’’مولانا محمد علی لکچر کے دوران میں اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کے اشعار کی توضیح کرتے،‘‘ ایک طالب علم یوسف حسین خاں کا بیان ہے۔ ’’لڑکے ہیں کہ نوٹ لکھ رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مولانا نے جو فرمایا اُس میں سے کچھ رہ جائے۔ لفظ بہ لفظ نقل کرنے کی کوشش کرتے ۔۔۔ مولانا محمد علی کا بولتے بولتے گلا پڑ جاتا اور کبھی کبھی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔‘‘۴۹ ۵۶ مدراس سے کسی عبدالجمیل بنگلوری نے غالباً انگریزی میں خط لکھ کر ’اَسرارِ خودی‘ کے متعلق دریافت کیا تھا اور اقبال کی تصویر مانگی تھی۔ ۲ فروری کو اقبال نے کتاب، مترجم اور ناشر کا نام لکھ کر بھیجا۔ ’’میرے پاس اِس وقت کوئی تصویر نہیں ہے لیکن آپ کو یاد رکھوں گا جب دستیاب ہو گی،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ۵۷ ۱۷ فروری کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی محمد انشأ اللہ خاں مدیر اخبار وطن کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔ اسلامیہ کالج ہوسٹل کی توسیع کے لیے زمین خریدنے والی کمیٹی کی طرف سے رپورٹ پیش کی۔ بالاتفاق منظور ہوئی۔ چھ رکنی سب کمیٹی کو جس میں اقبال بھی شامل تھے، زمین خریدنے کا اختیار دیا گیا۔۵۰ ۵۸ جموں سے کوئی فوجداری مقدمہ ملا مگر تاریخ ۱۸ مارچ کی تھی اور یہ اقبال کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے وسط اپریل کی تاریخ کی درخواست کی۔ ۵۹ برطانیہ، اٹلی، فرانس، یونان اور ترکی کے نمائندے شامل تھے اور کانفرنس لائڈ جارج نے بلائی تھی مگر اُس کی پریشانی کی انتہا نہ رہی جب استنبول کی غلام حکومت کے وزیراعظم توفیق پاشا کے علاوہ مصطفی کمال کے نمائندے بھی سینٹ جیمز پیلس پہنچ گئے۔ اُنہیں اٹلی نے چپکے سے دعوت نامہ بھیج دیا تھا۔فرانس کی طرح اٹلی کو بھی اپنے تجارتی مفادات کی فکر تھی اور ترکی کا مستقبل خلیفہ کی بجائے مصطفی کمال کے ہاتھ میں جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ کانفرنس میں لائڈ جارج کو اپنے خواب خاک میں ملتے نظر آئے۔ یونان مطالبہ کر رہا تھا کہ جن علاقوں پر اُس نے قبضہ کیا ہے وہ اُسی کے پاس رہیں مگر کانفرنس میں وہ تنہا رہ گیا۔ اٹلی اور فرانس کے نمائندے ہی نہیں بلکہ خود برطانیہ کے سرکاری حلقے اب ترکی سے جنگ کو وقت کی بربادی سمجھ رہے تھے۔ بے بسی کے عالم میں لائڈ جارج نے مصطفیٰ کمال پاشا کے خلاف کردارکُشی کی وہ مہم شروع کی جو بعد میں بھی کسی نہ کسی صورت جاری رہنے والی تھی۔ ۶۰ شملہ کا ایک مقدمہ مل گیا تھا جس کی تاریخ وسط اپریل کی تھی۔ اس کے بعد ہی جموں سے تار آیا کہ اُن کی فرمایش کے مطابق جموں والے مقدمے کی تاریخ وسط اپریل میں مقرر کر دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اب یہ بھی ممکن نہ تھا کیونکہ انہی تاریخوں میں شملہ جانا تھا۔ جموں کے چیف منسٹر ریاست سے جا رہے تھے اور مہاراجہ نئی اصلاحات نافذ کرنے والے تھے۔ ’’اگر چیف منسٹر کی جگہ سردار جوگندر سنگھ چلے گئے تو خوب ہو گا،‘‘ اقبال نے سوچا۔ ’’معاملات پر بہت غور و فکر کرنے کے بعد بھی آخر انہیں تقدیر کے ہی سپرد کرنا پڑتا ہے۔ انسانی علم و عقل ذرا ذرا سی بات میں اپنی کمزوری اور عجز کا معترف ہے۔‘‘۵۱ ۶۱ ڈاکٹر اقبال کی اسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ سید سلیمان ندوی [اقتباس] ہم مشرقیوں کی غلامانہ دماغی نفسیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ہم اپنے انمول جواہرات کی قدر اُس وقت جانتے ہیں جب ہمارے آقایانِ یورپ اُس کو ہمارے خزانے سے منتقل کر کے اُس سے اپنی دکان سجاتے ہیں اور ہم تماشائی بن کر اُن کو دیکھتے ہیں اور اُس وقت اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں۔۔۔ اقبال کی زبان غالباً بیس برس سے ہندوستان میں زمزمہ پرداز ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے کان اُس کی سامعہ نوازی سے بہت کچھ لذت گیر ہوئے ہیں لیکن اب تک اُس کی قدردانی کا کافی صلہ مصنف کو ہم نے اَدا نہیں کیا۔۔۔ اب جبکہ انگریزی قالب اُس نے اختیار کر لیا ہے تو یکایک اُس کی وقعت مشرقی غلاموں کے لیے چارچاند ہو جائے گی اور ایران و افغانستان و ترکستان کے اہلِ دماغ و اربابِ فکر اُس کی حقیقت کے طلب گار ہوں گے اور نوجوان ہندوستانی بھی اپنی قدرشناسی کے معیار کو اَب اور بھی زیادہ بلند کرے گا۔۔۔ افسوس ہے کہ مترجم نے نظم کا ترجمہ نثر میں کیا ہے۔ اِس سے ڈر ہے کہ شاعری کی لطافت دُور ہو کر یہ مثنوی دوسری زبانوں میں فلسفے کی کوئی بوجھل کتاب نہ بن جائے۔ معارف، مارچ ۱۹۲۱ئ۵۲ ۶۲ ۹ مارچ کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس خان بہادر شیخ امیر علی کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۵۳ ۶۳ لندن سے مس بک کا خط آیا جنہوں نے کبھی اقبال اور عطیہ فیضی کی ملاقات کروائی تھی۔ معلوم ہوا کہ آفتاب تعلیم کے لیے لندن پہنچے ہوئے ہیں اور بیمار پڑ گئے ہیں۔ غالباً مس بک کی سفارش سے روپیہ منگوانا چاہتے تھے۔ اقبال نے انکار کر دیا۔ ’’جو بیماری اُسے ہے وہ بھی اس کی بداعمالی اور بیباکی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے،‘‘ اُن کا خیال تھا۔۵۴ ۶۴ اقبال کی پہلی بیوی کے بھائی ڈاکٹر غلام محمد شیخ جو راولپنڈی ملٹری ہسپتال میں مقرر تھے، بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اٹھائیس برس عمر ہوئی تھی۔ اپنے والد ڈاکٹر عطا محمد شیخ کے اکلوتے لڑکے تھے۔ وہ غمگین رہنے لگے۔ مرحوم کی دوسری بیوی ڈورس جو فرانسیسی لڑکی تھی اور چھ برس پہلے فرانس میں جس کے ساتھ شادی ہوئی تھی، واپس چلی گئی۔ ’’میم اُن کا سارا روپیہ لے گئی،‘‘ مرحوم کے بہنوئی خواجہ فیروزالدین بیرسٹر کا بیان ہے۔ ’’پندرہ بیس ہزار روپے ڈاکٹر عطامحمد نے بھی دیے۔‘‘۵۵ ۶۵ مولانا گرامی لاہورپہنچے اور معمول کے مطابق اقبال کے پاس ٹھہرے۔۵۶ ۶۶ جموں سے جس فوجداری مقدمے کی پیشکش ہوئی تھی اُس کے ملزم کشمیر میں تھے یا پھر یہ کسی اور مقدمے کے ملزم تھے جن کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی اور ۱۰ مارچ کو اُن کی طرف سے خط ملا کہ ریاست سے درخواست کی جائے کہ مقدمہ سری نگر میں ہو۔ موکل اقبال کو آنے کا خرچ ادا کرنے پر بھی تیار تھے۔۵۷ غالباًاُسی روز شیخ عطا محمد کا خط ملا۔ اقبال کا خیال تھا کہ اعجاز کی منگنی طے ہو چکی ہو گی مگر اُس کے بارے میں خط میں کوئی اطلاع نہ تھی۔ البتہ یہ معلوم ہوا کہ آفتاب نے شیخ نور محمد کو بھی خط لکھا تھا۔ ’’اُس مردود نے مجھے تو خط لکھنے کی جرأت نہیں کی۔ نہ معلوم والد مکرم کو کیوں خط لکھا،‘‘ اقبال نے اُس روز شیخ عطا محمد کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’ہم کو تو اُس کے ولایت جانے کی بھی اطلاع نہیں۔ حافظ صاحب کو اطلاع ہو گی یا انہوں نے اُسے خرچ کا یقین دلایا ہو گا۔ آج کل تو ولایت اُسی کو جانا چاہیے جس کے پاس بالکل فضول روپیہ ہو۔‘‘ اس کے بعد مس بک کے خط کا تذکرہ بھی کیا اور آفتاب کے بارے میں اپنے خیالات بھی درج کیے۔ ’’جو طریق اُس نے اختیار کیا ہے یہ نیا نہیں بلکہ اُس کی پرانی چال ہے۔۔۔‘‘ ’’دنیا میں پھر بیچینی کے آثار پدیدار ہیں۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے،‘‘ یہ خیال اِس طرح دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا کہ یہاں بھی اِدھر اُدھر کی باتوں کے درمیان قلم سے نکل گیا۔ پھر اعجاز کی منگنی کے بارے میں استفسار کیا اور لکھا کہ اُس کے کپڑوں کے لیے روپیہ بھیج دیں گے۔ ۶۷ ۱۳ مارچ کو محمد دین فوق کی تاریخ حریت اسلامپر اقبال نے رائے لکھی۔ ’’دلیری اور بیباکی سے اعلانِ حق کرنا گزشتہ مسلمانوں کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو تھا، مگر افسوس کہ عصرِ حاضر کے عام مسلمان تو تاریخِ اسلامی سے بالکل بے بہرہ ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اچھے اچھے تعلیم یافتہ موٹے موٹے واقعات سے بھی بیخبر ہیں۔ ان حالات میں فوق صاحب کی تصنیف پنجاب کے اسلامی لٹریچر میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلمان خاندان اس بیش بہا کتاب کے مطالعے سے محروم نہ رہے گا۔ اسلامی اسکولوں اور کالجوں کے کتب خانے خاص طور پر اس کے مطالعے کی طرف توجہ کریں۔ اس زمانے میں جبکہ جمہوریت کی روح ہندوستان میں نشو و نما پا رہی ہے، دیگر اہلِ ملک کے لیے بھی یہ کتاب سبق آموز ہو گی۔‘‘۵۸ ۶۸ ۱۶ مارچ کو رُوس کے ساتھ ترکی کا پہلا معاہدہ ہوا۔ مصطفی کمال کو دس ملین طلائی روبل دینے پر آمادہ تھے۔ اسلحہ بھی جلد بھجوانے کا وعدہ تھا۔ اس کے بدلے جارجیا کی وہ بندرگاہ روس کو واپس کر دی گئی جس پر پانچ روز قبل ترکوں نے شائد صرف اِس لیے قبضہ کیا تھا کہ معاہدے میں واپس کرنے کے کام آئے۔ لندن والی کانفرنس کے معاہدے امیدافزا نہ تھے۔ تجارتی مراعات کے بدلے میں فرانس اور اٹلی کافی علاقے واپس کرنے پر آمادہ ہوئے تھے مگر تمام علاقے نہیں۔ مصطفی کمال نے فیصلہ کیا کہ ان معاہدوں کو اسمبلی سے منظور کروانے کی بجائے ان کی حتمی منظوری ٹالتے رہیں یہاں تک کہ اُن کے سپاہی خود ہی باقی علاقے بھی واپس حاصل کر لیں۔ اس دوران لوگ اِن معاہدوں کے بارے میں سنتے رہیں اور جانتے رہیں کہ دُنیا کی حکومتیں اب استنبول کے خلیفہ کی بجائے اُن سے بات کرنے لگی ہیں۔ ۶۹ فارسی میں غزل کے کچھ اشعار نازل ہوئے۔ گرامی کو سنائے۔ یہ الہامی غزل قرار پائی: جو جنگ پر آمادہ ہوں، ان کی طبیعت میں ایک بہانہ سوز دل اور ایک بہانہ ساز نگاہ کیا ناز و نیاز پیدا کر سکیں گے! زستیز آشنایاں چہ نیاز و ناز خیزد دلکے بہانہ سوزے، نگہے بہانہ سازے معلوم ہوتا ہے کہ انہی دنوں گرامی نے مراقبے میں کچھ دیکھا جس پر اُنہیں اعتبار نہ ہوا مگر اقبال نے اسے نسبتاً زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ پھر گرامی کی بیگم کی بیماری کی اطلاع موصول ہوئی اور وہ واپس چلے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی شہزادی دلیپ سنگھ جو اُن سے ملنا چاہتی تھیں، شائد اِس لیے کہ شاعروں کو اپنے سامنے بٹھانا بادشاہوں کی رسم تھی اور بادشاہت ہاتھ سے نکلنے کے بعد شاہزادوں اور شاہزادیوں کو اِسی میں کچھ تسکین مل جاتی ہو گی، گرامی اُن کے لیے بھی نہ ٹھہر سکے۔ بعد میں شہزادی نے اقبال کو پیغام بھیجا کہ گرامی صاحب ملے بغیر کیوں واپس چلے گئے۔۵۹ گرامی کے جانے کے بعد ’’اِلہامی غزل‘‘ کا ایک اور شعر ’’القأ‘‘ ہوا مگر کچھ دن ’’خرّاد‘‘ پر پڑا رہا (الہامی اشعار میں بھی قطع برید کی ضرورت پڑ جاتی تھی)۔ ۷۰ ۲۳ مارچ کو سردار امراؤ سنگھ اقبال سے ملنے آئے۔ اگلے روز شملہ جانے والے تھے۔۶۰ ۷۱ گرامی شاید ہوشیارپور پہنچ کر بھی اقبال کی غزل ہی پر غور کرتے رہے۔ خط لکھا تو اُس میں غزل کے بعض اشعار میں ترمیم کے مشورے شامل تھے۔ بہرحال حیدرآباد جانے کا اِرادہ کر بیٹھے تھے اور یہ سمجھ کر جا رہے تھے کہ غالباً اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو گرامی کی روح حیدرآباد میں قبض کرنے کا حکم دیا ہے۔ ’’گرامی پرانا آدمی ہے، سال خوردہ ہے،‘‘ انہوں نے لکھا تھا۔ ’’جوہرِ محبت گرامی کے دلِ دردمنزل میں بہت ہے۔ اِسی جوہرِ محبت کا تقاضا تھا کہ گرامی نے اقبال کو دیکھ لیا مگر ایک حسرت رہی، وہ یہ کہ ہائی کورٹ کی ججی پر جلوہ افروز نہ دیکھا۔ ہاں قلم روئیِ معانی میں گورنر کی کرسی پر جلوہ فرما دیکھتا ہوں اور یہی ابدی عہدۂ جلیلہ ہے۔۔۔ فرمائیے الہام کا کیا حال ہے؟ وہ غزل پوری ہوئی؟ ہو گئی ہو گی، مگر گرامی اِس قابل نہیں کہ اُس کو وہ الہام آمیز کلام بھیجا جائے۔‘‘ ۲۴ مارچ کو اقبال نے گرامی کو جواب لکھا۔ ’’الحمدللہ کہ آپ مع الخیر پہنچ گئے۔ بیگم صاحبہ کو بھی صحت ہو گئی۔ اصل میں وہ مراقبہ میرا نہ تھا آپ کا تھا آپ نے اس پر اعتبار نہ کیا میں نے اعتبار کر لیا۔ بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ آپ کے تردّد کا خاتمہ ہوا۔ اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو کوئی فکر و تردّد نہیں ہوتا بلکہ افکار نزدیک نہیں پھٹکتے۔۔۔ الہامی غزل ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ نمازے والا شعر اِس طرح پر لکھنے کا حکم ہوا ہے۔۔۔‘‘اس کے بعد غزل کے کچھ اور اشعار لکھے اور گرامی کے مشوروں پر بحث کی۔ اُس روز انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ شروع ہوا اور تین روز جاری رہا۔ ایسٹر ۲۷ مارچ کو تھا۔ اُس روز ایجوکیشنل کانفرنس ہوئی۔ ۷۲ ۳۱ مارچ تک پچھلے برس کی کُل آمدنی پیشہ ورانہ اخراجات منہا کرنے کے بعد آٹھ ہزار چھ سو نواسی (۸۶۸۹) روپے تھی۔ پہلی دفعہ وکالت کے علاوہ یونیورسٹیوں کی آمدنی بھی شامل ہوئی جو ایک ہزار چار سو سرسٹھ (۱۴۶۷) روپے تھی۔ دو سو اکہتر روپے آٹھ آنہ (۸/۲۷۱) انکم ٹیکس بنتا۔۶۱ ۷۳ Poet-Philosopher! یہ لفظ جس کا اُردو مترادف ’’فلسفی شاعر‘‘ ہو سکتا تھا، اقبال کے لیے پہلی دفعہ کب استعمال ہوا؟ مدراس سے شائع ہونے والے انڈین ریویو (Indian Review) کے شمارہ برائے ۱۹۲۲ئ-۱۹۲۱ء میںصفحہ۱۵۶-۱۵۵ پر ایم نعیم الرحمٰن کا مضمون اَسرارِ خودی کے انگریزی ترجمے کے بارے میں شائع ہواتو وہاں اقبال کے لیے یہ لقب موجود تھا۔۶۲ مضمون میں حیرت ظاہر کی گئی کہ مولانا روم کے اشعار اور سر سید علی امام سے اِنتساب ترجمے سے خارج کر دیے گئے تھے۔ باقی ترجمہ خوب تھا مگر لفظی ہونے کی وجہ سے بعض جگہ بوجھل اور بدنما ہو گیا تھا۔ کہیں کہیں نکلسن نے فارسی کے عام الفاظ کے معانی سمجھنے میں بھی ایسی غلطیاںکی تھیں کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ اُن کی سمجھ داری نے غیرضروری مداخلت بھی کی تھی۔ نظم میں انسانِ کامل کا ذکر ہوا تو حاشیے میں اپنی طرف سے لکھ دیا کہ مراد حضرت عیسیٰ رہے ہوں گے۔ Asrar-i-Khudi or the Secrets of the Self M. Naimur Rahman [Excerpt] The learned translator has doubtlessly laid the Moslem world and especially Moslem India under a deep debt of gratitude by thus facilitating the spread of the unique thought and charming ideas of the poet-philosopher who will be a poet of an unique personality for many long years to come as he is to-day… As is the case with all kinds of translations from one language to another, it will be only a bootless errand to search for the same sweetness, charm, touch and that vibrating thrill in the English form which one finds in the original Persian. Yet the learned translator has doubtlessly succeeded in his efforts… There are only a few exceptions to this. Indian Review (Madras), 1921-22, pp.156-158 ۷۴ بملازمانِ سلطاں خبرے دہم زرازے کہ جہاں تواں گرفتن زنوائے دلگدازے بمتاعِ خود چہ نازی کہ بشہرِ درمدمنداں دلِ غزنوی نیرزد بہ تبسمِ ایازے ہمہ نازِ بے نیازی ہمہ سازِ بے نوائی دلِ شاہ لرزہ گیرد زگدائے بے نیازے زستیز آشنایاں چہ نیاز و ناز خیزد دلکے بہانہ سوزے نگہے بہانہ سازے رہِ دَیر تختۂ گل زجبینِ سجدہ ریزم کہ نیازِ من نگنجد بدو رکعتِ نمازے زتغافلِ تو خامم برہِ تو ناتمامم من و جانِ نیم سوزے، تو و چشمِ نیم بازے نواب سر ذوالفقار علی خاں کا ذہن ’اَسرارِ خودی‘ کی اُس حکایت کی طرف گیا جس میں بو علی قلندر کے پیغام نے بادشاہ پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ اُس نے امیر خسرو کو بھیج کر اُن کی موسیقی کے ذریعے اپنی وہ سلطنت واپس خریدی جسے گورنر کی سخت گیری نے داؤ پر لگا دیا تھا۔ قلندر روحانیت کی وجہ سے بادشاہوں کو معزول کرنے کی طاقت رکھتے ہوں گے۔ عوام کی اجتماعی قوّت کا اکٹھے ہو جانا کسی قلندر کی روحانی قوت جیسا ہی تھا۔گاندھی بے سر و سامان تھے لیکن حکمرانوں پر لرزہ طاری کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی خاں کے خیال میں اقبال کی یہ غزل حکمرانوں اور اُن کے گماشتوں کے لیے مشورہ تھی۔ دنیا بھر میں بیچینی پھیلی تھی جس کا علاج صرف عوام کے ساتھ نرم برتاؤ تھا۔ بادشاہ نے امیر خسرو کے نغمے کے ذریعے اپنی بادشاہت بو علی قلندر سے واپس حاصل کی۔ آج کے حکمرانوں کو عوام کی اجتماعی قوت کے سامنے نیازمندی سے کام لینے کی ضرورت تھی۔۶۳ ۷۵ اقبال کی گائے کے بچھڑے کو پاگل کتے نے کاٹ کھایا۔ زہر کا اثر زائل کرنے کے لیے اُسے جو ملازم دَوا کھلانے لگا ایک روز بچھڑے نے اُس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔ پاگل کتے کے کاٹے کا علاج صرف کسولی کے پہاڑ پر ہوتا تھا۔ اِقبال نے فوراً ملازم کو وہاں بھجوا دیا اور تمام اخراجات خود برداشت کیے۔۶۴ ۷۶ مولانا محمد علی کے کامریڈ اور ہمدرد کے ساتھی شیخ غلام محمد طُور فوت ہو چکے تھے۔ اس برس نسیم ایجنسی دہلی نے کلامِ طُور شائع کیا۔ اقبال کی رائے درج تھی: کلامِ طُور میری نظر سے گزرا۔ بہت اچھا کلام ہے۔ طُور مرحوم ایک ہونہار شاعر تھے مگر افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی۔ بہرحال جو کچھ اُنہوں نے لکھا، بہت اچھا لکھا۔ کاش ان کو اپنے مجموعۂ کلام پر نظرِ ثانی کی مہلت مل سکتی۔۶۵ ۷۷ جموں والا مقدمہ کشمیر میں مقرر نہ ہو سکا۔ ۱۸ اپریل کو اقبال شملہ میں ہوتے اس لیے مقدمہ واپس ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اعجاز امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ انہیں غالباً منگنی کے کپڑوں کے لیے ساٹھ روپے دیے اور سو روپے عطا محمد کو بیمہ کے ذریعے بھجوائے۔ ۷۸ اقبال نے کسی سے سنا کہ گرامی شکایت کر تے ہیں کہ جب وہ اقبال کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے تو اقبال نے اُن کے بعض خطوط جان بوجھ کر اُن تک نہیں پہنچائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر سے آنے والے خطوط کا تذکرہ تھا اور گرامی کی شکایت کا پس منظر یہ تھا کہ شائد اقبال کو خدشہ ہو کہ گرامی کو بیوی کی بیماری کی اطلاع ہو گئی تو فوراً واپس چلے جائیں گے اور اقبال اپنے فارسی اشعار میں اُن سے بالمشافہ اصلاح لینے سے محروم رہ جائیں گے۔ بہرحال انہی دنوں گرامی کا خط آیا۔ ظہوری اور عرفی کے اشعار میں کچھ تصرف کیے تھے جن پر غالباً خواب میں آ کر ظہوری نے گرامی کے ہاتھ چومے تھے اور عرفی نے ڈرایا دھمکایا تھا۔ظہوری کے شعر میں تصرف کر کے جو خیال پیش کیا تھا وہ مولانا روم بھی پیش کر چکے تھے مگر گرامی کا تصرف اقبال کو پسند آیا۔ عرفی کے شعر میں گرامی کا تصرف ان کے خیال میں کچھ زیادہ جچا نہیں تھا لہٰذا ظہوری کا انصاف اور عرفی کا عتاب دونوں ہی حق بجانب تھے! ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو مجھ پر یہ بدظنی ہوئی ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط عمداً آپ تک نہیں پہنچائے،‘‘ ۳۱ مارچ کو گرامی کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’افسوس ہے کہ گرامی کے بے لوث قلب میں ایسے خیالات کی بھی گنجائش ہے۔ میں ایسا کرنے کو گناہ عظیم جانتا ہوں۔‘‘ ۷۹ ۲ اپریل کو لارڈ چیمسفورڈ کی جگہ لارڈ رِیڈنگ دائسرائے بنے۔ ۸۰ اعجاز کی منگنی جہاں ہونے والی تھی وہاں کسی وجہ سے بات بن نہ سکی۔ سیالکوٹ میں کوئی چراغ دین تھے جو غالباً تجارت کے سلسلے میں افغانستان آتے جاتے رہتے تھے۔ عطا محمد کو اعجاز کے رشتے کے لیے ان کی لڑکی کا خیال آیا تھا۔ ۳ اپریل کو اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ سیالکوٹ سے باہر بھی تلاش کرنا چاہیے۔ ’’چراغ دین کو میں جانتا ہوں وہ بھلا مانس آدمی ہے مگر اُس کی اوقات کا انداز موزوں نہ تھا۔ ہاں لڑکیاں اس کی ضرور اچھی ہوں گی۔ شاید اب اُس نے افغانستان آنا جانا چھوڑ دیا ہے اور کپڑے کا روزگار شروع کر دیا ہے۔ بہرحال بہت جلد ایسے معاملے کا طے کرنا درست نہیں جب تک تلاش و تجسس پورے طور پر نہ کر لیا جائے۔ خدانخواستہ آپ میں یا آپ کے لڑکے میں کوئی نقص نہیں۔ اچھی جگہ مل سکنے کی توقع ہے بشرطیکہ سیالکوٹ سے باہر بھی آپ کو خیال ہو۔۔۔‘‘ ۸۱ شیخ عبدالقادر جج ہو گئے۔ اگلے مہینے کے وسط سے کام شروع ہونا تھا۔۶۶ ۸۲ اپریل کے وسط میں اقبال نواب ارشاد علی خاں کے مقدمے کے لیے شملہ گئے۔۶۷ ۸۳ میونسپل انتخابات ہوئے۔ لاہور میں خلافت کمیٹی کے نامزد کردہ ممبروں کو بہت کامیابی ہوئی۔ سیالکوٹ میں شیخ عطا محمد بھی سرگرم رہے جس میں رشتہ داروں کرم الٰہی اور فضل حق نے کافی مدد کی۔۶۸ ۸۴ ’’وہاں کام خدا کے فضل سے اچھا ہو گیا،‘‘ نواب ارشاد علی خاں کے شملہ والے مقدمے کے بارے میں اقبال کا خیال تھا۔ بحث ۴، ۵ اور ۷ مئی کو ہونی تھی مگر اُس کے لیے اِن کی ضرورت نہ تھی۔ ۲۲ اپریل تک لاہور واپس آ گئے۔۶۹ ۸۵ اکبرؔ الٰہ آبادی کے قلم سے غالباً اقبال کے افکار پر کچھ تنقید شائع ہوئی۔ نیازالدین خاں نے اقبال کو لکھا اور یہ بھی دریافت کیا کہ ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ کہاں سے ملے گا۔ اقبال نے میکملن کلکتہ کا پتہ بتاتے ہوئے ۲۳ اپریل کو جواب لکھا، ’’مولانا اکبر کی تنقید میں نے بھی دیکھی ہے۔ ہمدمِ دیرینہ ہیں۔ اِس واسطے مجھے یاد کر لیتے ہیں۔‘‘ ۸۶ خلیفہ نے ترکوں اور کردوں کے درمیان جو پھوٹ ڈالی تھی وہ سنگین صورت اختیار کر گئی تھی۔ کردوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اُن کی الگ ریاست قائم کی جائے اور یہ مطالبہ ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب ترکی کا وجود ہی خطرے میں پڑا ہوا تھا۔ مصطفی کمال کردوں کے زیادہ سے زیادہ سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنے کے بعد بچے کھچے باغیوں کے خلاف فوجی اقدامات کا حکم دے چکے تھے۔ ۲۴ اپریل کو کردوں کی بغاوت سختی سے کچل دی گئی۔ ۸۷ ۲۴ اپریل کو شیخ عطا محمد کو خط لکھ کر شملہ سے واپسی کی اطلاع دی۔ دُوسرا ملازم ابھی تک نہیں ملا تھا۔ کوئی پرانا ملازم خدادا د ان دنوں راولپنڈی میں تھا۔ اُسے وہاں خط لکھا۔ شیخ عطا محمد کا خط آیا تو ۲۷ اپریل کو جوابی خط لکھتے ہوئے انہیں بھی یاددہانی کروائی، ’’شاید سیالکوٹ سے کوئی معتبر آدمی مل جائے۔ احموں نے ایک دفعہ ایک آدمی کا پتہ بتلایا تھا۔۔۔‘‘ ۸۸ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے ایل ایل بی کے امتحانات میں نئے گروپ کے دوسرے پرچے کے ممتحن تھے۔۷۰ ۸۹ اپریل کے آخر میں پٹیالہ جانا ہوا۔ مئی کے شروع میں واپس آ گئے۔۷۱ عطا محمد کا خط ملا۔ ’’طاہر دین آپ کی خدمت میں روپیہ ارسال کر دے گا،‘‘ ۲ مئی کو انہیں لکھا۔ ’’اس میں سے پندرہ روپیہ ہمشیرہ کو دے دیجیے۔‘‘ اُس روز حیدرآباد دکن میں صحیفہ میں تاریخِ ہند کے خلاف مضمون چھپا جو پانچ برس قبل اقبال اور لالہ رام پرشاد کے ناموں سے شائع ہوئی تھی۔ حال ہی میں ریاست میں میٹریکولیشن کے نصاب میں شامل کی گئی تھی۔ صحیفہ کے مضمون میں اس کے بعض حصے قابلِ اعتراض قرار دیے گئے۔ خصوصاً جہاں ریاست کے حکمراں خاندانِ آصفیہ کے سابقہ حکمرانوں کے بارے میں لب و لہجہ غیرمناسب پایا گیا، مثلاً ’’نظام الملک صوبہ دارِ دکن خودمختار بادشاہ بن بیٹھا۔‘‘۷۲ ۹۰ اِس دفعہ لاہور میں گرمی ذرا جلد ہی زور پکڑ گئی تھی۔ اقبال کے پاس یونیورسٹی کے امتحانی پرچوں کا کام تھا۔ بیرسٹری کا کام بھی ان دنوں کچھ زیادہ تھا جس میں اقبال کا خیال تھا کہ ضلع جہلم کا کام انہوں نے زیادہ اچھا کیا تھا۔۷۳ اعجاز کے امتحانات شروع ہو چکے تھے۔ ۵ مئی کو شیخ نور محمد کا خط ملا جو غالباً اقبال کی بہن کریم بی سے لکھوایا گیا ہو گا۔ طبیعت کچھ علیل تھی۔ ’’باداموں کی کھیر آپ کے لیے بڑی مفید ہے،‘‘ اقبال نے ۵ مئی کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’پھر آپ نے اُسے کیوں ترک کر دیا۔‘‘ ۹۱ ۸ مئی کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین،وکیل ہائی کورٹ نائب صدر انجمن کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۷۴ ۹۲ شیخ عطا محمد کا خط ملا۔ شیخ نور محمد کی طبیعت بحال ہو گئی تھی۔ غالباً اسی خط سے معلوم ہوا کہ ان کے چھوٹے لڑکے امتیاز بھی لاہور آئے تھے مگر اقبال کو اُن کے آنے کی اطلاع نہ ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے شیخ عطا محمد نے لاہور سے کچھ سامان منگوایا تھا جس کے بارے میں اقبال نے ۹ مئی کے جوابی خط میں لکھا، ’’اعجاز کا امتحان ابھی تین چار روز میں ختم ہو جائے گا۔ اُس کے ہمدست تمام چیزیں ارسالِ خدمت ہوں گی۔ ایک گھی کا کنستر بھی اُس کے ہاتھ مرسل ہو گا۔ اُس کے پاس اسباب بہت ہے۔ اگر امتیاز پھر آیا تو اُس کے ہاتھ بھیج دیا جائے گا۔۔۔‘‘ ۹۳ ایل ایل بی کے امتحانات ختم ہوئے اور اعجاز سیالکوٹ چلے گئے۔ شیخ عطا محمد نے جن چیزوں کی فہرست اقبال کو بھجوائی تھی اُن میں سے بعض چیزیں اور گھی کا کنستر بھی اُن کے ساتھ گیا ہو گا۔ سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد کا خط موصول ہوا جس میں اعجاز کے روزگار کے بارے میں فکر ظاہر کی گئی تھی۔ پھر اعجاز کا خط بھی اسی موضوع کے بارے میں موصول ہو ا۔۷۵ بنام شیخ اعجاز احمد لاہور ۱۰ جون ۱۹۲۱ء برخوردار اعجاز طال عمرہٗ تمہارا خط مل گیا ہے۔ نتیجہ جون کے آخر میں غالباًنکل جائے گا۔ تم اس وقت تک انتظار کرو اور دیوانی اور فوجداری ضابطہ کا خوب مطالعہ کرو۔ جولائی اور اگست لاہور رہ کر تھوڑا بہت کام سیکھ لو۔ بعد میں تم کو کسی جگہ بھیجا جائے گا۔ مجھے پہلے سے اِس بات کی فکر ہے۔ خیال ہے کہ شاید تمہارے لیے چکوال (ضلع جہلم) کی سب ڈویژن اچھی ہو۔ اتفاق سے وہاں کے سب ڈویژن افسر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور منصف تینوں مسلمان ہیں اور تینوں میرے احباب میں سے ہیں۔ علاوہ اس کے جہلم کے ضلع کا کام میں نے خصوصیت سے اچھا کیا ہے۔ میرے جاننے والے لوگ بھی وہاں ہوں گے یعنی مقدمہ باز جماعت میں۔ مگر یہ فیصلہ آخری نہیں۔ ابھی دیگر احباب سے مشورہ کرنا باقی ہے جن کی اِس معاملے میں مجھ سے زیادہ صائب رائے ہے۔ چکوال بھی خطوط لکھ دریافت کروں گا۔ بھائی صاحب کا خط بھی آیا تھا۔ مضمون واحد ہے۔ والد مکرم کی خدمت میں آداب عرض ہو۔ محمدؐ اقبال ۹۴ بیالیس برس قبل اونچے طبقے کے نوجوانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے مولانا حالی نے کہا تھا: کتاب اور معلم سے پھرتے ہیں بھاگے مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے امرتسر کے نوجوان طالب علم صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کوتجربہ ہوا جب فیروزالدین طغرائی کی شاگردی اور عرشی امرتسری کی دوستی میں شعر و شاعری کے چسکے نے بی اے میں فیل کروا دیا۔ اب لاہور آ کر ایف سی کالج میں داخلہ لیا تھا۔ کبھی کبھی اقبال سے ملاقات کے لیے آنے لگے۔۷۶ ۹۵ خلیفہ نے ترکی کے جن نامور مسلمانوں کو انگریزوں کے حوالے کیا تھا اُنہیں مالٹا کی قید سے واپس لانے کے لیے مذاکرات چل رہے تھے مگر اَب مصطفی کمال نے بھی کچھ انگریز پکڑ لیے تھے۔ باقاعدہ معاہدے کا انتظار کرنے کی بجائے انگریزوں نے کچھ ترکوں کو واپس بھیج کر اپنے بعض قیدی چھڑا لیے۔ واپس آنے والوں میں ضیا گوکآلپ شامل تھے، جن سے بڑاشاعر اور فلسفی سلطنت عثمانیہ کے آخری زمانے میں کوئی اور نہ تھا۔۷۷ اُس ماہ برطانوی مورخ ٹوائن بی نے استنبول سے ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں یونانیوں کے ہاتھوں ترکوں پر ہونے والے مظالم بے نقاب کیے۔ اس کے صلے میں کنگز کالج لندن میں یونانی ادبیات کی چئر جس پر وہ فائز تھے اُن کے ہاتھ سے نکل گئی کیونکہ اُس کے اخراجات یونانی جہازراں کمپنیاں فراہم کرتی تھیں۔ یورپی یونیورسٹیاں اُن سرمایہ داروں کے مفادات کی پابند تھیں جن سے امداد وصول کرتی تھیں۔۷۸ ۹۶ امیر امان اللہ خاں نے مئی میں روس کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ برطانوی حکومت سے ۱۹۱۹ء میں صرف عارضی جنگ بندی ہوئی تھی مگر امان اللہ خاں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی حکومتوں کے ساتھ آزادانہ تعلقات استوار کرلیے تھے۔ اِس برس حتمی فیصلے کا وقت آیا تو برطانیہ کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ افغانستان کی خارجہ پالیسی کو حسبِ دستور پابند رکھے۔ احمد شاہ ابدالی نے ۱۷۴۷ء میں افغانستان کی ریاست قائم کی تھی۔ امیر امان اللہ خاں نے اسے دوبارہ آزادی دلوائی۔ اُن کے حربے مصطفی کمال سے مماثلت رکھتے تھے۔ ۹۷ سراج الدین خاں جن کی بھیجی ہوئی انگوٹھیوں کے شکریے میں اقبال نے پہلے پہل فارسی کے کچھ شعر لکھے تھے، ریاست کشمیر کے انگریز ریزیڈنٹ کے میر منشی تھے۔ ان کے سسر شیخ محمد بخش کشمیر کے رئیس تھے مگر اَب کچھ عرصے سے مالی نقصانات کا سامنا کر رہے تھے۔ نیشنل بنک سری نگر نے ان کے اور ایک دوسرے سیٹھ، کریم بخش، کے خلاف عدالت سے ڈگری جاری کروائی۔ دونوں سیٹھ صاحبان کی جائیداد نیلام کر دی گئی۔ منشی سراج الدین کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے لاہور سے اقبال اور مولوی احمد دین وکیل کو مقدمے کے لیے آنے کی دعوت دی۔۷۹ ۹۸ نیازالدین خاں کا پوسٹ کارڈ ملا۔ غالباً کسی فتح نامہ تیموری کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ تزک تیموری کا ترجمہ مولوی انشأ اللہ خاں نے کیا تھا مگر مورخین کا خیال تھا کہ وہ امیر تیمور کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ ابن عرب شاہ نے امیر تیمور کی تاریخ لکھی تھی جس میں، اقبال کے خیال کے مطابق، دل کھول کر گالیاں دی تھیں۔ ۷ جون کو اقبال نے نیازالدین خاں کو یہ سب معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا، ’’تزک پڑھنے کا شوق ہو تو بابری بہترین کتاب ہے۔‘‘ ۹۹ ضلع گجرات میں جلال پور جٹاں میں کوئی ماسٹر طالع محمد تھے۔ انہوں نے اقبال کو خط لکھا، ’’جب الفاظ عربی یا فارسی سے اُردو میں منتقل ہوتے ہیں تو بعض اوقات اُردو میں آن کر تلفظ بدل جاتا ہے مثلاً عربی میں شَفَقَت ہے لیکن اُردو میں شَفْقَتْ صحیح ہے مگر بعض باریک بیں اور نفاست پسند حضرات اصلی زبان کے تلفظ کو اُردو میں خواہ مخواہ ٹھونسنے پر اُدھار کھائے ہوئے ہیں۔ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ اس کے ساتھ ایک فہرست اُن الفاظ کی درج تھی جن کا صحیح تلفظ معلوم کرنا چاہتے تھے۔ بنام ماسٹر طالع محمد مکرم بندہ! السلام علیکم۔ جس قسم کی تحقیقِ زبان آپ کو مطلوب ہے افسوس کہ میں اُس میں آپ کی کوئی امداد نہیں کر سکتا۔ غالباً لکھنؤ سے ایک آدھ رسالہ اِس قسم کا شائع ہوتا ہے۔ مگر مجھے نام معلوم نہیں۔ اس بارے میں آپ مرزا یاس عظیم آبادی ایڈیٹر کار ِ امروز لکھنو اور مرزا عزیز لکھنوی اشرف منزل لکھنؤ سے خط کتابت کریں۔ وہ آپ کو بہتر مشورہ دے سکیں گے۔ میں آپ کی قدر و منزلت کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اور ایسے مقام پر آپ کو صحیح اُردو کا ذوق ہے۔ ۱۸ جون ۱۹۲۱ئ محمدؐ اقبال، لاہور ۱۰۰ فرانس میں بھی حکومت بدل چکی تھی۔ مصطفی کمال نے نئی حکومت کو تجارتی مراعات دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ۲۱ جون کو فرانسیسی فوجیں بحرِ اَسوَد کی ترکی بندرگاہ زنگل ڈاک سے ہٹ گئیں۔۸۰ ۱۰۱ ’’ہر بات جو آئرلینڈ سے تعلق رکھتی ہے اُس کی گونج سلطنت کے دُور افتادہ حصوں تک سنی جاتی ہے،‘‘ شاہ جارج پنجم نے کہا۔ اُن کی آواز میں اُداسی کی جھلک محسوس کی جا سکتی تھی۔ ۲۲ جون تھی اور وہ شمالی آئرلینڈ کی پارلیمنٹ کا افتتاح کر رہے تھے جس سے کوئی بھی خوش نہ تھا۔ جنوب کے کیتھولک پورے آئرلینڈ کو متحد دیکھنا چاہتے تھے اور شمال کے پروٹسنٹ علیحدہ پارلیمنٹ کی بجائے برطانوی حکومت ہی میں زیادہ اثر رسوخ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ۱۰۲ ایل ایل بی کا نتیجہ نکلا۔ اعجاز پاس ہو گئے تھے۔۸۱ ۱۰۳ طالب علم شجاع ناموس نے اُس برس ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے اقبال کے پاس آتے رہتے تھے۔ اُن کا بیان ہے کہ اقبال نے اُن سے کہا کہ گزشتہ زمانے کے مسلمانوں کے سائینسی کارناموں پر تحقیق کریں اور اِس کے لیے علی گڑھ سے فارسی اور عربی سیکھیں۔۸۲ ۱۰۴ جون کے آخر میں اقبال اور مولوی احمد دین وکیل دو ہفتے کے لیے کشمیر روانہ ہوئے۔ اقبال کے منشی طاہرالدین بھی ساتھ تھے۔ خیال ہے کہ راولپنڈی سے وہ راستہ اختیار کیا ہو گا جو مری، کوہالہ اور مظفرآباد سے ہوتا ہوا سری نگر پہنچتا تھا۔ ۲۰۰ میل لمبی سڑک تھی۔ ٹھوس پہیوں والی گاڑی چلتی تھی جس پر پہاڑی سفر ذرا تکلیف دہ ہو جاتا تھا۔ لاری اڈوں کے ٹھیکے ایمپیریل کیرنگ کمپنی اور این وی ہری رام اینڈ برادرز وغیرہ کمپنیوں کے پاس تھے۔ تانگہ کمپنی بھی چلتی تھی۔ عام طور پر سفر کے درمیان کسی مقام پر قیام بھی کرنا پڑتا تھا۔ راستے کے پہاڑ سرسبز تھے۔ سفرکا بڑا حصہ دریائے جہلم کے کنارے تھا جو نیچے وادی میں بہتا جاتا تھا۔۸۳ ۱۰۵ سری نگر میں منشی سراج الدین نے خوب تواضع کی۔ جھیل ڈَل میں علیحدہ علیحدہ ہاؤس بوٹوں میں اقبال اور مولوی احمد دین کا قیام تھا۔ یہ جھیل آٹھ کلومیٹر لمبی اور چار کلومیٹر چوڑی تھی۔ مشرق میں نشاط باغ اور شالیمار باغ وغیرہ تھے۔۸۴ دہر کی شانِ بقا خطّۂ کشمیر میں دیکھ باغِ جنّت کی ہوا خطّۂ کشمیر میں دیکھ ذرّے ذرّے میں ہے اِک حُسن کا طُوفان بپا جوش میں لُطفِ خدا خطّۂ کشمیر میں دیکھ۸۵ ۱۰۶ کشمیر میں منزل کر و، پہاڑ اور ٹیلے اور وادیاں دیکھو! عالم عالم ہریالی دیکھو، چمن چمن لالے کے پھول! موج موج بسنت کی ہوا، فوج فوج بہار کے پرندے، زوج زوج فاختہ اور مینا انار کے پیڑ پر دیکھو! تاکہ اس کی سج دھج پر فتنہ باز آسمان کی آنکھ نہ پڑے زمین کے منہ پر بندھی ہوئی نسترن کی نقاب دیکھو! لالہ زمین سے پھوٹا، موج ندی میں تڑپی: مٹی کو شرر شرر دیکھو، پانی کو شکن شکن دیکھو! ستار پہ مضراب، پیالے میں شراب انڈیلو، بہار کے قافلے کو انجمن انجمن دیکھو! دہکتے روپ، اُجلے بر والی کامنی برہمن بچی اُس کی صورت پر نگاہ کرو پھر اپنے آپ کو دیکھو! کشمیر رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں ببیں لالہ چمن چمن نگر بادِ بہار موج موج مرغِ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج بر سرِ ناروَن نگر تا نفتد بہ زینتش چشمِ سپہرِ فتنہ باز بستہ بہ چہرۂ زمین برقعِ نسترن نگر لالہ زخاک بر دمید موج بہ آبِ جو تپید خاک شرر شرر ببیں آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساز زن بادہ بساتگیں بریز قافلۂ بہار را انجمن انجمن نگر دخترکے برہمنے لالہ رُخے سمن برے چشم بروے او کشا باز بخویشتن نگر۸۶ ۱۰۷ ۳۰ جون کو شنگھائی میں لڑکیوں کے ایک اسکول میں کچھ سرپھروں نے اکٹھے ہو کر سرمایہ دار طبقے کو تہس نہس کرنے کا عزم کیا۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑ گئی۔ اجلاس میں ایک لائبریری اسسٹنٹ اور پرائمری اسکول کا اُستاد بھی شامل تھا۔ اُس کا نام ماؤزے تنگ تھا۔ ۱۰۸ مصطفیٰ صغیر ایک ہندوستانی مسلمان تھا جس پر الزام تھا کہ انگریز حکومت نے اُسے مصطفی کمال پاشا کے قتل کے لیے بھیجا تھا۔ تفتیش کے دوران اُس نے بتایا کہ وہ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں کے قتل میں بھی ملوث تھا۔ اُس کے لیے رحم کی درخواست کرنے والوں میں بادشاہ جارج پنجم بھی شامل تھا۔ مصطفی کمال نے درخواست رد کر دی۔ پھانسی ہو گئی۔۸۷ افغانستان میں مصطفی صغیر کے اعترافات کا ردِ عمل ہوا۔ انگریزوں سے بیزاری بڑھ گئی۔ ۱۰۹ ۸ جولائی تھی۔ کراچی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس تھا۔ پانچ سو علمأ کا فتویٰ پڑھ کر سنایا گیا۔ اس کی روشنی میں مولانا محمد علی نے قرارداد پیش کی کہ مسلمانوں کے لیے برطانوی فوج کی نوکری یا اس میں بھرتی میں مدد دینا حرام ہو چکا ہے اور اگر انگریزوں نے انگورہ کی حکومت (یعنی مصطفیٰ کمال پاشا کے ساتھیوں) سے جنگ کی تو ہندوستان کے مسلمان سول نافرمانی کر کے مکمل آزادی کا پرچم بلند کر دیں گے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری اور سوامی شنکر اچاریہ نے تائید کی۔ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا شوکت علی نے تقاریر کیں اور پیر غلام مجدد سرہندی نے سندھی میں قرارداد کا ترجمہ پیش کیا۔ ۱۱۰ تحریکِ خلافت کے ساتھ ہی اقبال کے ایک پرانے مضمون کو اچانک نئی زندگی مل گئی۔ یہ 'Political Thought in Islam' تھا جو ۱۹۰۸ء میں لندن میں سوشیالوجیکل ریویو میں شائع ہوا تھا۔ نواب ذوالفقار علی خاں کے پرائیویٹ سیکرٹری چودھری محمد حسین نے بڑی محنت سے ایک اچھا ترجمہ تیار کیا جو زمیندار میں شائع ہو گیا۔۸۸ ۱۱۱ سری نگر میں سیٹھ صاحبان کا مقدمہ سیشن جج اے ڈی حکیم کی عدالت میں تھا۔ بمبئی کے پارسی تھے۔۸۹ ۱۱۲ سری نگر میں کسی ایڈوُکیٹ خواجہ اسداللہ سے بھی اقبال کی دوستانہ ملاقات ہوئی۔۹۰ ۱۱۳ رحمان راہ ایک کشمیری مسلمان تھا جس پر قتل کا الزام تھا۔ چونکہ فیصلہ ہندو مہاراجہ کے ہاتھ میں تھا لہٰذا یہ معاملہ ہندومسلم سوال بن گیا۔ جو لوگ رحمان راہ کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے تھے اُن میں ایک منشی اسداللہ بھی تھے جنہوں نے سری نگر میں اقبال کی موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں مقدمے میں وکیل کر لیا۔ مقدمہ مہاراجہ کے سامنے پیش ہوا۔ اقبال نے کوشش کی کہ مہاراجہ اُن کے کشمیر میں قیام کے دوران ہی فیصلہ سنا دیں کیونکہ اقبال واپس چلے گئے تو پھر اُنہیں بلانے کا خرچ مؤکل نہ اُٹھا سکیں گے۔ منشی اسداللہ نے کوشش کی کہ فیصلہ مؤخر ہو جائے کیونکہ ایک کونسل بننے والی تھی اور اُن کا خیال تھا کہ وہاں فیصلہ رحمان راہ کے حق میں ہو گا۔بالآخر فیصلہ مؤخر ہو گیا۔۹۱ ۱۱۴ کشمیر کے دو اہلِ قلم محمد عمر اور نور الٰہی جو سترہ اٹھارہ برس قبل لاہور میں اقبال کو دیکھ چکے تھے، کشمیر میں دوبارہ ملے۔ محمد عمر سے روایت ہے کہ ان کے اصرار پر اقبال نے ان دونوں اور مولوی احمد دین کے ساتھ شکارے یعنی ہلکی کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کی۔ واپسی ہوئی تو دونوں وقت مل رہے تھے۔ اقبال نے فارسی میں دو شعر کہے: شام کے وقت ڈَل کا منظر دیکھو، شعلے کو پانی کے نیچے آشیانہ دے دیا گیا ہے! اپنے جسم سے سفر کا گرد و غبار دھونے کے لیے سورج ڈَل کے پانی میں غوطہ لگا رہا ہے! تماشائے ڈَل کُن بہ ہنگامِ شام دہد شعلہ را آشیاں زیرِ آب بشوید زتن تا غبارِ سفر زند غوطہ در آبِ ڈَل آفتاب قریب سے ایک شکارا گزرا جس میں دو تین بچے اقبال کی نظم گا رہے تھے: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ’’اِس غیرشعوری استقبال نے ایک کیفیت پیدا کر دی جس کے سرور میں حضرت علامہ نے بھی حصہ لیا اور بیان کیا کہ کس طرح یہ نظم شائع ہوئی اور کس طرح ایک ادبی طوفان بپا ہوا مگر یہ پتہ نہ چلا کہ یہ نظم کس نے شائع کرائی،‘‘ محمد عمر سے روایت ہے۔ ’’منشی نور الٰہی نے میری طرف دیکھا اور میں کچھ کھو سا گیا۔ مگر ظالم نے بتا ہی دیا کہ یہ کارستانی میری تھی۔ سب ہنس پڑے اور حضرتِ علامہ بھی اس میں شریکِ غالب تھے۔‘‘۹۲ ۱۱۵ شہنشاہ جہانگیر جس کے لاہور کے باہر راوی کے کنارے مقبرے پر اقبال کی خوبصورت شامیں گزرا کرتی تھیں اور جسے اقبال نے سولہ برس پہلے نظم ’کنارِ راوی‘ میں ’’شہسوارِ چغتائی‘‘ کہا تھا، کشمیر کا عاشق تھا۔ جھیل ڈل کے کنارے شالیمار باغ اُسی نے بنوایا تھا اور وہاں اپنا شعر لکھوایا تھا کہ اگر دنیا میں جنت ہے تو یہیں ہے: اگر فردوس بر روئے زمیں است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است یہ شعر اقبال کے مزاج سے بہت قریب تھا۔ شالیمار باغ سے سواتین کلومیٹر دُور نشاط باغ تھا جو جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کے بھائی آصف خاں نے بنوایا تھا۔ اقبال یہاں تھے جب غالباً جہانگیر کے شعر نے دل وماغ میں تحریک پیدا کی۔ فارسی میں ’ساقی نامہ‘ ہو گیا۔ کیا سماں ہے، کیسی بہار ہے! سبزہ زار سے ستاروں کا گچھا اُگا! بہار کی رُت سے زمین چکور کے پنکھ کی طرح آبشار فواروں کے ذریعے سے ہیرے برسا رہی ہے! نظر نہیں لپٹتی مگر لالہ و گل کے بیچ ہوا نہیں لوٹتی مگر سبزہ زار پر! تم نے ندی کے کنارے کلی کو بناؤ سنگھار کرتے دیکھا؟ کیا حسین محبوب، کیسی شیشہ دکھانے والی! کیسی مدہر لے ہے، کیسی دل کھینچنے والی آواز ہے جو پیڑوں بھرے چھپاؤ سے آرہی ہے! بدن میں روح، روح میں آرزو جی اٹھتی ہے مینا کی آواز سے، بلبل کی چہکار سے! اونچائی پر بسیرا کرنے والے پرندے کی آوازیں نہر کے نغمے سے گھل مل گئیں! تو کہے کہ خدا نے بہشت بریں کو پہاڑوں کے دامن میں لا اُتارا ہے! تاکہ اُس کی رحمت آدمی زادوں کو انتظار کے عذاب سے چھٹکارا عطا کر دے۔ اس گلستان میں اگر نہ چاہوں تو کیا چاہوں شراب، کتاب، رباب، حسین محبوب! تیرے صدقے جاؤں اے چاند ایسی پیشانی والے ساقی ہمارے بزرگوں کی کوئی نشانی لے آ، پیالے میں وہ شراب انڈیل جو روح کو نور کی طرح روشن کر دے، آگ کی طرح پھونک ڈالے! میری بانجھ مٹی سے لالے کے پھول اُگا دے، میری مشتِ خاک میں سے ایک جنت چُن دے! کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ کاشغر سے کاشان تک ہر خطے سے وہی ایک آواز بلند ہو رہی ہے! قوموں کی آنکھ سے وہ کھرا آنسو گرا جس کی تاثیر کانٹے میں سے پھول اُگاتی ہے! کشمیری، جسے غلامی کی لت پڑ چکی ہے، قبرکے پتھر سے بت تراش رہا ہے۔ اس کا ضمیر بلند خیال سے خالی، خودی سے انجان، خود سے شرمسار! اس کی محنت سے حاکم ریشمی قبا پہنتا ہے اس کے تن کا نصیب، ایک تار تار لباس! نہ اس کی آنکھ میں نگاہ کی روشنی نہ اس کے سینے میں ایک بے قرار دل! کشمیری پر اُس شراب کی ایک بوند چھڑک کہ اس کی راکھ کوئی چنگاری پیدا کرے! ساقی نامہ (در نشاط باغ کشمیر نوشتہ شد) خوشا روزگارے خوشا نوبہارے نجومِ پرن رُست از مرغزارے زمین از بہاراں چو بال تذروے زفوّارہ الماس بار آبشارے نپیچد نگہ جز کہ در لالہ و گل نغلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زارے لب جو خود آرائی غنچہ دیدی چہ زیبا نگارے چہ آئینہ دارے چہ شیریں نوائے چہ دلکش صدائے کہ می آید از خلوتِ شاخسارے بتن جاں بجاں آرزو زندہ گردد ز آواے سارے ز بانگِ ہزارے نوا ہاے مرغِ بلند آشیانے در آمیخت با نغمۂ جویبارے تو گوئی کہ یزداں بہشتِ بریں را نہاد است در دامنِ کوہسارے کہ تا رحمتش آدمی زادگاں را رہا سازد از محنتِ انتظارے چہ خواہم دریں گلستاں گر نخواہم شرابے، کتابے، ربابے، نگارے سرت گردم اے ساقیٔ ماہ سیما بیار از نیاگانِ ما یادگارے بہ ساغر فرو ریز آبے کہ جاں را فروزد چو نورے بسوزد چو نارے شقایق برویاں زخاکِ نژندم بہشتے فرو چیں بہ مشتِ غبارے نبینی کہ از کاشغر تا بہ کاشاں ہماں یک نوا بالد از ہر دیارے ز چشمِ اُمم ریخت آں اشکِ نابے کہ تاثیرِ او گل دماند زخارے کشیری کہ با بندگی خو گرفتہ بُتے می تراشد ز سنگِ مزارے ضمیرش تہی از خیالِ بلندے خودی ناشناسے زخود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنتِ او نصیبِ تنش جامۂ تارتارے نہ در دیدۂ او فروغِ نگاہے نہ در سینۂ او دلِ بیقرارے از آں مے فشاں قطرۂ برکشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے۹۳ ۱۱۶ کشمیر میں اقبال کو دوبارہ نقرس کی تکلیف ہو گئی۔ ایک ٹانگ درد کی وجہ سے قریباً بیکار ہو گئی۔۹۴ ۱۱۷ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اور احمد دین کو سیٹھ صاحب کے مقدمے کا فیصلہ ہونے سے پہلے واپس آنا تھا۔ جس روز منشی سراج الدین سے رخصت ہوئے، اُسی شام ۵ بجے تک راولپنڈی پہنچے۔ ایک گھنٹے بعد اُنہیں اسٹیشن سے لاہور جانے کے لیے ریل گاڑی میں جگہ مل گئی۔ سفر کے دوران دونوں دوست زیادہ تر منشی سراج الدین کی مہمان نوازی کا تذکرہ کرتے رہے۔۹۵ لاہور میں شدید گرمی تھی۔ ابھی تک بارش کے آثار بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔۹۶ گرامی کے ملنے والے کسی اقبال کے ہم نام شیخ محمد اقبال کی طرف سے، جو بی اے اور ایل ایل بی تھے، اقبال کو کارڈ موصول ہوا۔ ہوشیارپور آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ کارڈ گم ہو گیا اور پتہ یاد نہ رہا۔ جواب نہ دے سکے۔۹۷ ۱۱۸ اقبال کا خیال تھا کہ منشی سراج الدین کے سسر کے مقدمے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہو گا مگر پھر سیٹھ کریم بخش کا خط موصول ہوا۔ جج صاحب بہادرنے رُخصت سے واپس آ کر فیصلہ سنانا طے کیا تھا۔۹۸ ۱۱ جولائی کو اقبال نے ٹانگ کے درد کا علاج شروع کروایا اور اُسی روز منشی سراج الدین کو خط بھی لکھا۔ ’’آپ سیٹھ صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اگر وہ اشتہارِ نیلام جو پنڈت جانکی ناتھ نے پیش کیا ہے، مسل پر نہیں ہے تو اُس کا کچھ اثر نہ ہونا چاہئے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ وہ مسلمان کی آخری اُمید ہے۔ سیٹھ صاحب اور بڑے شیخ صاحب سے کہئے کہ درود شریف پڑھنے سے غفلت نہ کریں۔ اِس زمانے میں مسلمانوں کے لیے یہ بات خاص کر حلّالِ مشکلات ہے۔‘‘ اُس روز زمیندار میں گرامی کی غزل دیکھی۔ اگلے روز اُنہیں خط لکھتے ہوئے اپنے ہم نام شیخ محمد اقبال، بی اے ایل ایل بی کے نام معذرت بھی بھجوائی۔ ۱۱۹ اس کے بعد زُکام ہوا اور تین چار دن رہا۔ ایک رات ہلکا سا بخار بھی ہو گیا۔ سیالکوٹ میں مولوی میر حسن بھی بیمار تھے اور اُن کی کوئی رقم یونیورسٹی کی طرف سے بھیجی جانی تھی۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بھجوائی جا چکی ہے۔۹۹ بارش ابھی تک نہیں ہوئی تھی اور گرمی بدستور تھی۔ شیخ عطا محمد کا کارڈ ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی بیمار ہوئے تھے مگر اَب آرام تھا۔ کسی احمد شاہ کا خط ان کے پاس محفوظ نہیں رہا تھا، مگر اس معاملے کی تفصیل معلوم نہیں۔ ’’اُمید ہے کہ جناب قبلہ شاہ صاحب کو بھی بالکل آرام ہو گیا ہو گا،‘‘ اقبال نے ۱۷ جولائی کو شیخ عطا محمد کو کارڈ کا جواب دیتے ہوئے مولوی میر حسن کے حوالے سے لکھا۔ ’’ان کے روپیہ یونیورسٹی دفتر کی طرف سے بھیج دیے گئے ہیں۔ ذکی شاہ صاحب سے کہہ دیجیے گا اور میری طرف سے شاہ صاحب کی خیریت آپ خود جا کر پوچھیے۔اگر احمد شاہ کا خط محفوظ نہیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘ ۱۲۰ مولوی احمد دین وکیل شائد کشمیر کے سفر میں اقبال سے خاص طور پر متاثر ہوئے کیونکہ واپس آ کر انہوں نے ایک ضخیم کتاب اقبال کی شاعری پر لکھنا شروع کی۔ کتاب کا نام اقبالتھا اور اس میں اقبال کی بہت سی اردو نظمیں اکٹھی کی گئی تھیں۔ اپنی سادگی اور محبت کے جوش میں اقبال کو اِس کی خبر نہ کی۔ ۱۲۱ وہ فوجی نہیں تھے۔ پھر بھی انہیں ملک کے دُور دراز علاقوں سے اَنقرہ بلایا گیا تھا اور مصطفی کمال پاشا اُن سے خطاب کر رہے تھے۔ ’’آپ کا کام نئی نسل کو ایسی ثقافت سکھانا ہے جو پاک ہو پرانے توہمات، باہر کے خیالات اور ایسے تمام اثرات سے، خواہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، جو ہماری سرشت سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘‘ یہ قوم کے اساتذہ تھے۔۱۰۰ ۱۲۲ مولوی میر حسن کا خط آیا۔ خیریت سے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا پیغام انہیں شیخ عطا محمد سے مل گیا تھا اور یہ خط اُسی کے جواب میں تھا۔۱۰۱ ۱۲۳ مکّہ کے حاکم شریف حسین نے مسلمانوں کے ساتھ جو غدّاری کی تھی اُس کے بارے میں اعمال لکھنے والے فرشتے سے کہا کہ یہ گناہ شیطان کے کھاتے میں لکھا جائے کیونکہ اُسی کے بہکانے سے سرزد ہوا تھا۔ اِس پر شیطان کہنے لگا، ’’میرا بھی کیا گناہ ہے؟ میں خود انگلستان کے وزیرِ اعظم کے بہکانے میں آ گیا تھا!‘‘۱۰۲ ۱۹ جولائی کی رات یہ خیال فارسی قطعے کی صورت میں ذہن میں آیا۔ لکھ لیا۔ غالباً اگلے روز گرامی کا خط ملا جس میں ان کی رباعیاں تھیں اور شاید اقبال کی عیادت کی خواہش بھی ظاہر کی گئی تھی۔ ’’میری خبر کے لیے آپ آ چکے،‘‘ اقبال نے اُس روز جواب میں لکھا۔ ’’اگر میں لاہور میں مرا اور آپ اُس وقت میاں میر میں ہوئے تو میں اپنے ورثأ کو وصیّت کر جاؤںگا کہ مولانا گرامی کو اطلاع نہ دی جائے تاکہ اُن کو سفر کی تکلیف نہ ہو۔‘‘ اُن کی رباعیوں کی داد دی اور شریفِ مکّہ والا اپنا قطعہ بھی بھیجا۔ ’’ملاحظہ فرمائیے مگر کسی کو سنایے نہیں کہ اس کی اشاعت ممنوع ہے۔‘‘ اگلے روز بادل چھا گئے۔ بارش تو نہیں ہوئی مگر پچھلے دو دِنوں کی نسبت گرمی کم رہی۔ عطا محمد کا کارڈ موصول ہوا۔ کسی رقم کے متعلق لکھا تھا کہ اعجاز کو دے دی جائے۔ ’’بہت بہتر ہے،‘‘ اقبال نے اُس روز جواب لکھا۔ ’’اطمینان فرمائیں۔۔۔ اسرارِ خودی پر انگلستان اور امریکہ کے اخباروں میں ریویو عجیب و غریب شائع ہو رہے ہیں۔ دیکھیں جرمنی اور دیگر ممالک اس کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں۔‘‘ ۱۲۴ آئین سٹائین کی کتاب Relativity کا انگریزی ترجمہ جو پچھلے برس شائع ہوا تھا اقبال کو مل گیا۔ دستخط کر کے جولائی ۱۹۲۱ء کی تاریخ درج کی۔۱۰۳ ۱۲۵ کشمیر میں سیشن جج اے ڈی حکیم صاحب نے (غالباً رخصت سے واپس آ کر) سیٹھ کریم بخش کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ سیٹھ صاحب نے اس کی نقل اقبال کو بھیجی۔ منشی سراج الدین بیمار پڑ گئے تھے۔ بنام منشی سراج الدین مخدومی منشی صاحب السلام علیکم۔ آپ کی علالت کی خبر معلوم کر کے تردّد ہے۔اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ نقل فیصلہ سیٹھ کریم بخش صاحب مل گئی ہے اور میں نے فیصلہ بہ غور پڑھا ہے۔ دفعہ ۴۷ کے متعلق جج صاحب بہادر نے جو کچھ لکھا ہے میری رائے میں غلط ہے۔ ہائی کورٹ میں اس کی چارہ جوئی ہو سکتی ہے لیکن اگر عدالت ہائی کورٹ اِس امر میں ہم سے متفق ہو اور واقعات پر متفق نہ ہو تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں اِس واسطے زیادہ ضروری امر واقعات کے متعلق ہے۔ واقعات کے متعلق یہ عرض ہے کہ جج صاحب نے وہی بات لکھی ہے اور اپنے فیصلے کو اُسی بات پر مبنی کیا ہے جس کا احساس ہمیں پہلے ہی تھا یعنی یہ بات کہ واقعات اور بے ضابطگیوں سے ڈگری دار کی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی۔ میں یہ تمام باتیں پہلے ہی عرض کر دی تھیں۔ سب سے بڑی کمزوری اِس مقدمہ میں یہی ہے۔ مجھے امید نہیں کہ ہائی کورٹ، جہاں تک بے ضابطگیوں اور غلطیوں کا تعلق ہے، اے ڈی حکیم صاحب سے مختلف تجویز کرے۔ شیخ صاحبان اپنی جگہ سوچ لیں اور اس تمام زیرباری کا اندازہ کر لیں جو اپیل وغیرہ کا نتیجہ ہو گی۔ اگر معمولی مالیت کا مقدمہ ہوتا تو مضائقہ نہ تھا۔ مقدمہ کی مالیت بھی بڑی ہے اور اخراجات وکلأ وغیرہ بھی اسی حیثیت سے ہوں گے۔ غرض ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر آخری فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی زیرباری میں اور اضافہ ہو۔ وجوہاتِ اپیل دو چار روز تک لکھ کر اَرسالِ خدمت کر دوں گا۔ اگر آپ کی مرضی ہو تو آپ اپیل دائر کر دیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ چند ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے اِس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہو سکا مگر خدا تعالیٰ کی درگاہ سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ صورت نہیں تو اللہ تعالیٰ سیٹھ صاحبان کے لیے کوئی اور صورت پیدا کر دے گا۔ سیٹھ صاحبان کی خدمت میں السلام علیکم۔ مخلص محمدؐ اقبال لاہور ۱۳ اگست ۱۹۲۱ء ۱۲۶ ۱۴ اگست کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین وکیل ہائی کورٹ نائب صدر انجمن کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۱۰۴ ۱۲۷ ۲۵ اگست کو امریکہ کے اخبار نیو ایج (New Age) میں ’اسرارِ خودی‘ کے بارے میں مضمون شائع ہوا۔ امریکی مصنف ہربرٹ رِیڈ (Herbert Reed) نے لکھا تھا۔مایوسی کے ادب کے بڑھتے ہوئے طوفان سے بیزار تھے۔ اقبال کے فلسفے میں جمہوریت کی حقیقی روح کی توانائی محسوس کی تھی۔ امریکی شاعر والٹ وٹمین کے بارے میں انگریز ناول نگار ڈی ایچ لارنس کا مضمون پڑھا تو یہ بتانے کو دل چاہا کہ جو توانائی کبھی والٹ وٹمین کی شاعری نے فراہم کی تھی وہ دَورِ حاضر میں صرف اقبال ہی کے یہاں ملتی ہے۔ مضمون کبھی ہندوستان پہنچ کر نواب سر ذوالفقار علی خاں اور اقبال کی نظروں سے بھی گزرا: But subject to these elucidations, this ideal of Whitman's is a critical ideal of workability, of direct use. Applying it to here and now, I can think of only one living poet who in any way sustains the test, and almost necessarily he is not of our race and creed. I mean Muhammad Iqbal whose poem Asrar-i-Khudi, 'The Secrets of the Self', has recently been translated from the original Persian by Dr. Reynold Nicholson and published by Messrs. Macmillan. Whilst our native poetasters were rhyming to their intimate coteries about cats and corn-crakes and other homely or unusual variations of a Keatsian theme, there was written and published in Lahore this poem, which, we are told, has taken by storm the younger generation of Indian Moslems. 'Iqbal,' writes one of them, 'has come amongst us as a Messiah and has stirred the dead with life.' And what catch-penny nostrum, you will ask, has thus appealed to the covetous hearts of the market place, you will then be told, as I tell you now, that no nostrum, neither of the Jingo nor of the salvationist, has wrought this wonder, but a poem that crystallizes in its beauty the most essential phases of modern philosophy, making a unity of faith out of a multiplicity of ideas, a universal inspiration out of the esoteric logic of the schools.۱۰۵ ۱۲۸ ۲۷ اگست کو حیدرآباد دکن میں اقبال اور لالہ رام پرشاد کے نام سے شائع ہونے والی تاریخ ہند پر رائے دیتے ہوئے حبیب الرحمٰن شیروانی صدرالصدور صدریار جنگ نے شبہ ظاہر کیا کہ اس کتاب کی تالیف میں اقبال واقعی شامل بھی رہے یا صرف ان کا نام استعمال کیا گیا، ’’حالانکہ نہ اُوس کے لٹریچر میں نہ اُوس کے مطالب میں وہ زندہ دلی یا زندگی ہے جو اقبال کا حصہ ہے۔‘‘۱۰۶ ۱۲۹ اگست کے آخر میں تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے شملہ گئے، غالباً نواب ذوالفقار علی خاں کے پاس۔ ’’وہاں جاتے ہی طبیعت اور بگڑ گئی،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ۱۰۷ بدایوں سے نقیب دوبارہ نکلنے لگا تھا۔ اقبال کو وحیداحمد مسعود بدایونی کا خط ملا۔ اقبال کی شاعری اور موجودہ بیداری میں اُن کے حصے کی تعریف کی تھی۔ یہ بھی لکھا تھا کہ اقبال کے ایک شعر پر کچھ لکھنا چاہتے ہیں گویا وہ شعر اُن کے پاس اقبال کی امانت ہے۔ ’’آپ کا حسنِ ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے،‘‘ اقبال نے ۳۰ اگست کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’حقیقت میں میں نے جو کچھ لکھا ہے اُس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں۔ اور نہ کبھی میں نے seriously اِس طرف توجہ کی ہے۔ بہرحال آپ کی عنایت کا شکرگذار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں۔ مقصود تو بیداری سے تھا اگر بیداریٔ ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اِس کا ملال نہیں۔ لیکن آپ کے اِس ریمارک سے مجھے بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اِس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابوالکلام آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اِشارہ کیا ہے اُن سے میرے خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے۔ لیکن اگر کسی کو بھی اِس کا احساس نہ ہو تو مجھے اِس کا رنج نہیں۔ کیونکہ اِس معاملہ میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔‘‘ اقبال کے ایک شعر کی نسبت جو کچھ وحیداحمد نے لکھا تھا اُس کے بارے میں اقبال نے لکھا، ’’معلوم نہیں کونسا شعر آپ کے پاس امانت ہے۔ بہتر ہے چھاپ دیجیے۔‘‘ ۱۳۰ وحید احمد مسعود کے پاس جو شعر تھا وہ انہوں نے لکھ بھیجا۔ ’’اِس شعر میں کیا رکھا ہے،‘‘ اقبال نے ۷ ستمبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اگر آپ کو مضمون ہی لکھنے کی زحمت گوارا کرنا ہے تو ایک رباعی حاضر کرتا ہوں۔‘‘ رباعی فارسی میں تھی اور اُس کا مفہوم تھا کہ اے بچوں جیسا مزاج رکھنے والے، اپنی تربیت کرو کہ تم مسلمان زادے ہو۔ نسب کا فخر چھوڑ دو۔ اگر عرب رنگ و نسل پر غرور کرتا ہے تو عرب کو بھی چھوڑ دو۔ ’ ’اِس زمانے میں سب سے بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’تیرہ برس ہوئے۔۔۔‘‘ اور یہ لکھتے ہوئے اُن کے ذہن میں یورپ سے واپسی کا سال یعنی ۱۹۰۸ء رہا ہو گا جب اُن کا فلسفے کا مقالہ بھی شائع ہوا تھا لیکن جس واقعے کا تذکرہ کرنے جا رہے تھے، غور کرنے پر وہ اُس سے بھی دو برس پہلے کا نظر آیا۔ ’’تیرہ‘‘ کو کاٹ کر ’’پندرہ‘‘ کر دیا۔ ’’پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اِس کا احساس کیا۔ اُس وقت میں یورپ میں تھا اور اِس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آپ و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگذشت قلم بند کروں گا۔ جس سے مجھے یقین [ہے] بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ اُس دن سے جب یہ احساس مجھے ہوا آج تک برابر اپنی تحریروں میں یہ ہی خیال میرا مطمحِ نظر رہا ہے۔ معلوم نہیں میری تحریروں نے اور لوگوں پر اَثر کیا یا نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اِس خیال نے میری زندگی پر حیرت انگیز اثر کیا ہے۔‘‘ ۱۳۱ آئن سٹائن کے افکار کی آسان تشریح پر پچھلے برس شائع ہونے والی کتاب Easy Lessons in Einstein اقبال کے پاس پہنچی۔ دستخط کر کے ستمبر ۱۹۲۱ء کی تاریخ درج کی۔۱۰۸ ۱۳۲ قریباً دو برس ہو چلے تھے کہ اقبال کے نام ہر خط میں اکبرؔ الٰہ آبادی خالقِ حقیقی سے ملنے کی خواہش کا ذکر کرتے تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اقبال نے اُن کے نام خط میں یہ جملے کب لکھے، ’’آپ کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ نہایت پرمعنی اور مفید ہوتے ہیں۔ اُن کو جمع کر لینا چاہیے تاکہ آیندہ نسلیں اُن سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ بڑی ضرورت ہے کہ ایک منشی کاغذ اور قلم دوات لے کر آپ کے پاس ہر وقت بیٹھے اور جو بات آپ فرمائیں اُسے نوٹ کر لے۔ اگر میں الٰہ آباد میں قیام کر سکتا تو آپ کے لیے وہ کام کرتا جو باسویل Boswell نے ڈاکٹر جانسن Dr. Johnson کے لیے کیا تھا۔‘‘ ۹ ستمبر کو الٰہ آباد میں اکبرؔ کا انتقال ہوا۔ اقبال کو تین روز بعد زمیندار سے معلوم ہوا۔ اُسی وقت اکبرؔ کے لڑکے سید عشرت حسین کو ایک تار بھیجا: HEARTFELT SYMPATHY. INDIA LOSES A GREAT PERSONALITY. IQBAL اس کے بعد تفصیلی خط لکھنے بیٹھ گئے۔ بنام سیّد عشرت حسین لاہور ۱۲ ستمبر ۲۱ء مخدومی۔ السلام علیکم ابھی زمیندار سے آپ کے والد بزرگوار اور میرے مرشد(معنوی) کے انتقال پرملال کی خبر معلوم ہوئی۔ اناللہ ا انا الیہ راجعون۔ اِس بات کا ہمیشہ قلق رہے گا کہ اُن سے آخری ملاقات نہ ہو سکی۔ میں اور میرے ایک دوست قصد کر رہے تھے کہ ذرا گرمی کم ہو جائے تو اُن کی زیارت کے لیے الٰہ آباد کا سفر کریں۔ انہوں نے اپنے آخری خط میں مجھے لکھا بھی تھا کہ امسال ضرور ملنا۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ خطوط میں نہیں سما سکتیں۔ میری بدنصیبی ہے کہ میں ان کے آخری دیدار سے محروم رہا۔ ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں میں مرحوم کی شخصیت قریباً ہر حیثیت سے بے نظیر تھی۔ اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رَس ہستی پیدا نہیں ہوئی۔ اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی قوم کے ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ فطرت ایسی ہستیاں پیدا کرنے میں بڑی بخیل ہے۔ زمانہ سیکڑوں سال گردش کھاتا رہتا ہے جب جا کے ایک اکبرؔ اُسے ہاتھ آتا ہے۔ کاش اِس انسان کا معنوی فیض اس بدقسمت ملک اور اس کی بدقسمت قوم کے لیے کچھ عرصے اور جاری رہتا۔ خدا تعالیٰ اپنے حبیبؐ کے صدقے اُن کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ میں نے ابھی ایک تار بھی آپ کو دِیا ہے۔ مخلص محمدؐ اقبال ۱۳۳ تین ہزار سال پہلے یونانیوں نے تحمل، برداشت اور دُوراندیشی سے کام لے کر ٹرائے فتح کیا تھا۔ جنرل پاپولاس جسے اس فتح کو دُہرانے کا کام سپرد ہوا تھا اُس میں انہی صفات کی کمی تھی۔ بھاری اسلحے کی مدد سے اُس کی فوجوں نے ازمیر سے باہر نکل کر ترکی کے نئے علاقے فتح کر لیے تھے مگر انہیں واپس لینے کے لیے ترکوں نے جس طرح زور لگایا تھا اُس کی وجہ سے جنرل پاپولاس بد دل ہو چکا تھا۔ ۱۳ ستمبر کو اُس نے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا۔ اُسی روز مصطفی کمال نے عام پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ اتحادی طاقتوں کے ساتھ امن کا معاہدہ ختم ہو چکا تھا اور اب صرف وہی دوست تھا جو دوستی کا تقاصا نبھائے۔دشمن کی پیش قدمی رک گئی مگر ابھی پورے ازمیر سمیت ملک کا بہت بڑا حصہ اُس کے قبضے میں تھا۔ ۱۳۴ ۱۴ ستمبر تھی۔ مولانا محمد علی آسام سے مدراس جا رہے تھے۔ والٹیر کے اسٹیشن پر گرفتار کر لیے گئے۔ جولائی کی قرارداد کے حوالے سے اُن کے خلاف وہی الزام تھا جو کبھی بہادر شاہ ظفر پر عائد کیا گیا تھا۔ انگریز فوج کے ہندوستانی سپاہیوں کو حکومت کے خلاف اُکسایا اور بغاوت کی۔ ان کے ساتھ مولانا شوکت علی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا نثار احمد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجدد اور سوامی شنکر اچاریہ بھی گرفتار ہوئے۔ ہندوستان میں کہرام مچ گیا۔ ۱۳۵ گرامی کے ملنے والے شیخ محمد اقبال ایل ایل بی یا کوئی اور صاحب اقبال محمد کسی خوشی کی تقریب میں اقبال کو ہوشیارپور بلا رہے تھے۔۱۰۹ گرامی نے اپنے خط میں ایک شعر یا پھر صرف دوسرا مصرع بھیجا جس کا مفہوم تھا، ہمارا انجام جیبِ آرزو کا خالی ہونا ہے: آخرِما جیبِ تمنا تہی! اقبال کی طبیعت اکبر الٰہ آبادی کے انتقال کی وجہ سے پہلے ہی افسردہ ہو رہی تھی۔ اس مصرع نے بیہوش ہی کر دیا۔ حواس بحال ہوئے تو دل چاہا کہ ہوشیارپور کی دعوت قبول کر لیں لیکن کسی خوشی کی تقریب میں شامل ہونے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی۔ گرامی کا خط زمیندار میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ ’’اکبر مرحوم بے نظیر آدمی تھے،‘‘ ۱۶ ستمبر کو گرامی کے نام خط میں لکھا۔ ’’وہ اپنے رنگ کے پہلے اور آخری شاعر تھے مگر شاعری کو چھوڑ کر اُن کا پایہ روحانیت میں کم بلند نہ تھا۔ اس بات کی خبر شاید ان کے عزیزوں کو بھی نہ تھی۔ یوں تو کئی سالوں سے ان کے وقت کا بیشتر حصہ قرآن پڑھنے میں گزرتا تھا اور ان کی زندگی رفیقِ اعلیٰ سے ملنے کے لیے ایک تڑپ تھی مگر گذشتہ دو سال سے تو وہ موت کے بہت متمنی تھے۔ کوئی خط ایسا مشکل سے ہو گا جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار نہ کیا ہو۔ ایک انگریزی مصنف لکھتا ہے کہ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے زندگی سے محبت زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ طویل العمری سے عروسِ حیات سے ہمارا اختلاط بڑھتا رہتا ہے اور اختلاط کا نتیجہ اُنس ہے۔بہرحال وجہ کچھ بھی ہو میں نے تو یہ کلیہ مولانا اکبر مرحوم کی صورت میں کچھ صحیح نہ پایا۔ خدا اُن کو غریقِ رحمت کرے۔ مسلمانانِ ہند کو اپنے اِس نقصان کا شاید پورا پورا احساس نہیں ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد تعزیتی قطعہ لکھتے ہوئے گرامی نے اِن خیالات کو بھی سامنے رکھا کیونکہ اُنہوں نے جو قطعہ لکھا اُس کا مفہوم تھا کہ اکبر کی جگرسوز موت کے بارے میں کیا کہوں، قضا کے قلم نے اُن کے دفتر پر خط کھینچ دیا مگر واہ اکبر، اور مرحبا اُن کے جانے پر کہ جا رہے تھے اور اللہ اکبر کہہ رہے تھے: زمرگِ جگرسوزِ اکبر چہ گویم کہ کلکِ قضا خط کشیدش بدفتر خوشا اکبر و مرحبا رفتنِ اُو کہ می رفت و می گفت اللہ اکبر اقبال کے ذہن میں بھی کچھ خیالات ایک فارسی قطعے کی صورت میں آئے: افسوس کہ اکبر نے دنیا سے رختِ سفر باندھا، جس کی زندگی حق کی روشن دلیل تھی، طُور معنی کی چوٹی پر وہ کلیم اور دَورِ حاضر کے بتخانے میں وہ خلیل تھے۔ کارواں کے لیے اُن کی نوائے سحرگاہی سفر کا علان کرنے والی اذان اور سفر کی گھنٹی کا پیغام تھی۔ اُنہوں نے دلوں سے لات اور عزیٰ نکال پھینکے تھے اور روح میں سلسبیل پیدا کر دی تھی۔ اُن کا دماغ عشق و مستی سے تربیت یافتہ تھا اور اُن کے دل کی پرورش جبرئیل نے کی تھی! دریغا کہ رخت از جہاں بست اکبر حیاتش بہ حق بود روشن دلیلے سرِ ذروۂ طورِ معنی کلیمے بہ بتخانۂ دَورِ حاضر خلیلے نواے سحرگاہِ او کارواں را اذانِ دراے پیامِ رحیلے زِدلہا برافگندۂ لات و عزیٰ بجاں باکشانندۂ سلسبیلے دماغش ادب خوردۂ عشق و مستی دلش پرورش دادۂ جبرئیلے۱۱۰ ۱۳۶ ۱۸ ستمبر کا سورج افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں ایک نئی اُمنگ لے کر طلوع ہوا۔ محمد بن عبدالکریم خطابی مراکش کی اُس نئی نسل کے نمایندہ تھے جس نے یورپ کو تہذیب کا معیار سمجھتے ہوئے ایک قدامت پسند اِسلام پر قناعت کرنا سیکھا تھا لیکن پچھلے برس انہوں نے اسپین کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ جدید ترین اسلحے کے مقابلے میں نہتے مجاہدین کی کوئی حیثیت نہ تھی مگر عبدالکریم نے ایسے چکر دیے کہ اسپین کی فوج بے بس ہو گئی۔ چند ہفتے پہلے صرف ایک محاذ پر اسپین کے بیس ہزار سپاہی مارے گئے تھے۔ بیس ہزار رائفلیں، چار سو مشین گنیں اور ۱۲۹ توپیں مجاہدین کے قبضے میں آئی تھیں۔ماسکو میں ایک اکتیس برس کا ویتنامی جو اپنے وطن کو فرانس کے قبضے سے نکالنے کے لیے کمیونزم سیکھنے آیا ہوا تھا، یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ عبدالکریم کے حربے شاید کبھی ویتنام کے کام بھی آئیں۔ اُس نوجوان کا نام ہو چی تھا۔ایسے ہی خیالات چین میں پیکنگ یونیورسٹی کے اٹھائیس سالہ لائبریرین کے ذہن میں پیدا ہوئے جو چین کو یورپی تسلط سے آزاد کروانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اُس کا نام ماؤزے تنگ تھا۔ فتح کے بعد عبدالکریم نے اعلان کیا کہ مراکش کے علاقے ریف میں آزاد جمہوری حکومت قائم کریں گے۔ جمہوریۂ ریف صرف یورپی طاقتوں ہی سے نہیں بلکہ مراکش کے غدار سلطان سے بھی آزاد ہو گی جو یورپ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی تھا۔ اَب ۱۸ ستمبر کو نئی مملکت وجود میں آ گئی۔ ۱۳۷ ۱۹ ستمبر کو مصطفی کمال پاشا نے وہ اعلان کیا جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ ترک کسی ایسی زمین پر قبضہ نہیں چاہتے جو ترکی کا حصہ نہ ہو۔ صرف آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ اتحادی طاقتیں یہ بات نہیں سمجھتیں ورنہ اُن کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے۔ ۱۴۵۳ء میں جس عثمانی قوم نے یورپ کو وہ راہ دکھائی تھی جس پر یورپ اب تک چل رہا تھا، آج اُسی کے رہنما نے اعلان کر دیا تھا کہ ملک گیری کا زمانہ ختم ہوا۔ تقریر ختم ہوتے ہی اسمبلی نے مصطفی کمال پاشا کو غازی کا خطاب دے دیا۔ ’’غازی پاشا‘‘ کہلانے لگے۔ ۱۳۸ سہارنپور میں ایک شاعر نیاز احمد رہتے تھے اور اقبال تخلص کرتے تھے۔ اُنہوں نے نظم لکھی اور فوراً مشہور ہو گئی۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو از اقبال سہارنپوری بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی جان بیٹا خلافت پہ دے دو بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا کلمہ پڑھ کر خلافت پہ مرنا پورے اس امتحاں میں گزرنا جان بیٹا خلافت پہ دے دو ہوتے میرے اگر سات بیٹے کرتی سب کو خلافت پہ صدقے ہیں یہی دینِ احمد کے رستے جان بیٹا خلافت پہ دے دو کالے پانی خوشی ہو کے جانا سجدۂ شکر میں سر جھکانا میں پڑھوں گی خدا کا دُگانا جان بیٹا خلافت پہ دے دو دین و دنیا میں پاؤ گے عزت سب کہیں گے شہیدِ خلافت اے محمد علی اور شوکت جان بیٹا خلافت پہ دے دو حشر میں حشر برپا کروں گی پیشِ حق تم کو لے کے چلوں گی اس حکومت پہ دعویٰ کروں گی جان بیٹا خلافت پہ دے دو اقبال سہارنپوری کے ہم عصر نور سہارنپوری نے اس کے جواب میں نظم کا پہلا شعر لے کر ایک نظم لکھی مگر نہ وہ شہرت حاصل کر سکی نہ اُس کے جواب الجواب میں لکھی ہوئی اقبال سہارنپوری کی دوسری نظم اتنی مشہور ہوئی۔ ’’کچھ وقت کا اثر، کچھ جذبات کی صداقت، کچھ نظم کی دردانگیز دھن،‘‘ اُس زمانے کے ایک نوجوان نے ستاون برس بعد بیان کیا۔ ’’نظم کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج سالہاسال کی گردِ گمنامی کے باوصف اس کے اکثر بند نغمگی اور تازگی کا ملا جلا تاثر دیتے ہیں۔‘‘۱۱۱ ۱۳۹ ۲۵ ستمبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین وکیل ہائی کورٹ نائب صدر انجمن کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۱۱۲ ۱۴۰ عبدالماجد دریابادی اب مولانا ہو چکے تھے۔ معارف میں سید سلیمان ندوی کے ساتھ شریک ایڈیٹر تھے۔ ستمبر کے شمارے میں ڈکنسن کے تبصرۂ ’اسرارِ خودی‘ کا ترجمہ شائع ہوا۔ ایک جملہ اقبال کو کھٹکا: ’’اقبال اُن تمام فلسفیوں کے دشمن ہیں جو ہستی واجب الوجوب کو تسلیم کرتے ہیں۔‘‘۱۱۳ خیال گزرا کہ یہ جملہ اصل انگریزی عبارت میں نہیں تھا مگر رسالہ نیشنکے جس شمارے میں وہ تبصرہ شائع ہوا تھا اَب وہ پاس نہ تھا۔ ۵ اکتوبر کو سید سلیمان ندوی کو لکھا کہ ایک دو روز کے لیے نیشن کا شمارہ بھجوا دیں۔ ’’مقصود یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں ترجمہ میں سہو تو نہیں ہو گیا،‘‘ اُنہوں نے لکھا اور پھر ایک مسئلے کے متعلق دریافت کیا جس پر کچھ عرصے سے آئین اسٹائن کے حوالے سے غور کر رہے تھے: ’’کیا حکمائے اسلام میں سے کسی نے زمان و مکان کی حقیقت پر بھی بحث کی ہے؟‘‘ ۱۴۱ رُوس صرف یہ جاننے کا انتظار کر رہا تھا کہ یونانیوں کے مقابلے میں ترکی باقی رہنے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں۔ ۱۳ اکتوبر کو اُس نے ترکی کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کیا جس میں جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان کے ساتھ ترکی کی سرحدیں طے ہو گئیں۔۱۱۴ ۱۴۲ اقبال محسوس کر رہے تھے، ’’طبیعت میں وہ چستی و چالاکی باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔‘‘۱۱۵ سوچتے تھے کہ اُس بیماری کا اثر ہے جو کشمیر میں عود کر آئی تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی وفات کے صدمے کا اثر بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ حالات رُوح کو کسی نئی منزل کی طرف لے جا رہے ہوں۔ حقیقت کی کسی نئی جہت کا انکشاف، کوئی عظیم الشان تخیل! اس سال کے شروع میں گمنام خط کے ملنے اور اُس کے بعد کشمیر کے پیرزادے کی آمد کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کسی خاص مقام کی جو بات چلی تھی اُس کی بقیہ تفصیلات دستیاب نہیں لیکن ممکن ہے کہ کچھ اور چیزیں بھی سامنے آئی ہوں ۔ ان دنوں کسی صاحبِ نظر بزرگ سے ملاقات کی طلب میں ایک نئی شدّت پیدا ہو گئی۔ والد صاحب کے ذریعے قادریہ سلسلے میں بیعت کر رکھی تھی مگر کہتے تھے، ’’بعض وجوہ سے تجدیدِ بیعت کی ضرورت پیش آئی ہے۔‘‘۱۱۶ حکیم اجمل خاں دہلوی سے سنا تھا کہ ناگپور میں ایک بزرگ مولانا تاج الدین ہیں۔ لاہور کے ایک دوست بھی ان کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ اقبال کو معلوم ہوا کہ مولانا تاج الدین ناگوری چشتی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجذوب تھے مگر اقبال کا خیال تھا، ’’آج کل زمانہ بھی مجاذیب کا ہے۔‘‘ ۱۱۷ چوبیس گھنٹے میں بیشتر حصہ مجذوبانہ کیفیت طاری رہتی ہے مگر رات کے دو بجے کے بعد سے صبح تک ان کے فیضان کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ’’اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد ہے،‘‘ اقبال کا بیان تھا۔ ’’دیکھیے کب لاہور کی زنجیروں سے خلاصی ملتی ہے۔‘‘ ۱۱۸ ۱۴۳ پنجاب میں مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبار نہیں تھا۔ چند نوجوانوں نے تحریکِ خلافت کے جوش میں لاہور سے مسلم آؤٹ لُک نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اقبال کی رگِ ظرافت پھڑکی: ہند کی کیا پوچھتے ہو اے حسینانِ فرنگ دل گراں، ہمت سبک، ووٹر فزوں روزی تُنک لُک وِدن کا حکم تھا اِس بندۂ اللہ کو اب یہ سنتے ہیں نکلنے کو ہے مسلم آؤٹ لُک کیا عجب پہلے ہی لیڈر میں یہ کر دے آشکار کس طرح آیا کو لے کر اُڑ گیا صاحب کا کُک قافیہ اِک اور بھی اچھا تھا لیکن کیا کریں کر دیا متروک دلی کے زباں دانوں نے ٹُک ختم تھا مرحوم اکبر ہی پہ یہ رنگِ سخن ہر سخنور کی یہاں طبعِ رواں جاتی ہے رُک ۱۴۴ اکتوبر کے شروع میں ایک مقامی اخبار میں کشن پرشاد کا ایک مضمون حالاتِ حاضرہ پر دیکھنے میں آیا۔ انہیں خط لکھنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ان کی طرف سے خط موصول ہوگیا۔ ۱۹۰۲ء میں اقبال نے گایتری کا ترجمہ ’آفتاب‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ نہیں معلوم پہلے کشن پرشاد کی نظر سے گزرا تھا یا نہیں مگر اَب اُس کی تعریف کی تھی۔ ’’افسوس کہ سنسکرت الفاظ کی موسیقیت اُردو زبان میں منتقل نہیں ہو سکتی،‘‘ اقبال نے ۱۱ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’بہرحال غالباً اصل کا مفہوم اس میں آ گیا ہے۔ زمانے نے مساعدت کی تو ’گیتا‘ کا اُردو ترجمہ کرنے کا قصد ہے۔ فیضی کا فارسی ترجمہ تو حضور کی نظر سے ضرور گذرا ہو گا۔ فیضی کے کمال میں کس کو شک ہو سکتا ہے مگر اس ترجمے میں اُس نے ’گیتا‘ کے مضامین اور اُس کے اندازِ بیان کے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا۔ بلکہ میرا تو یقین ہے کہ فیضی ’گیتا‘ کی رُوح سے نا آشنا رہا۔‘‘ بابا تاج الدین ناگوری کا تذکرہ بھی کیا اور لکھا، ’’حیدرآباد میں کوئی مولوی یا منشی محمد اسمٰعیل صاحب اُن کے پیر بھائی ہیں۔‘‘ اقبال کو نظام کا ایک شعر پسند آیا تھا: ’’ملنا تو بہت دُور نشاں تک نہیں پایا‘‘۔ اس کے حوالے سے لکھا، ’’میرے دل پر بہت اثر کیا۔ ان کے کلام کی فطری سادگی سے ان کے فطری جوہر پر روشنی پڑتی ہے۔‘‘ ۱۴۵ کوئی منورالدین تھے جن کے مقدمے کی کچی پیشی ۱۲ اکتوبر کو تھی اور ملتوی ہو گئی۔ ان کا کچھ تعلق نیرنگ سے بھی تھا مگر اِس کے علاوہ تفصیلات معلوم نہیں۔ نیرنگ کا ایک خط ملا تو معلوم ہوا کہ کوئی پیرزادہ ابراہیم حنیف بھی اقبال سے مراسلت کرنا چاہتے تھے۔ ۱۳ اکتوبر کو اقبال نے منورالدین کی کچی پیشی کے التوا کی اطلاع نیرنگ کو دیتے ہوئے پیرزادہ صاحب کے حوالے سے لکھا، ’’بڑی خوشی سے وہ مراسلت کریں۔‘‘ نیرنگ نے خط پیرزادہ صاحب کو بھیج دیا: ’’لیجیے سلسلہ جنبانی ہو گئی۔ اب آپ براہ راست مراسلت کر کے معاملہ طے کر لیں۔‘‘۱۱۹ ۱۵۵ ۱۵ اکتوبر کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے بمبئی سے بیان جاری کیا کہ اَب کسی ہندوستانی کے لیے سرکاری نوکری میں رہنا مناسب نہیں۔ ۱۵۶ شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر نئی مسجد تعمیر ہوئی۔ ’’المسجد الاقصیٰ فگن الذّی بارکہ‘‘ سے اقبال نے ۱۳۴۰برآمد کیا جو ہجری سال تھا۔ فارسی کے چار مصرعوں میں نظم کر دیا۔۱۲۰ ۱۵۷ آغا حشر کاشمیری نے نیا تجربہ کیا۔ہندوستان کے عنوان سے ڈرامہ لکھا ۔ تینوں ایکٹ الگ الگ اَدوار میں رکھے: شرون کمار: ایودھیا کے راجہ دسرتھ اندھیرے میں آواز سن کر نشانہ لگاتے تھے۔ جنگل میں آواز سن کر ہاتھی کا گمان ہوا۔ تیر کھا کر جو مرا وہ بوڑھے والدین کا بچہ شرون کمار تھا۔ راجہ دسرتھ آگے چل کر رامچندرجی کے باپ بنے۔ جس طرح شرون کمار کے والدین کو بیٹے کی جدائی برداشت کرنی پڑی تھی، انہیں بھی کرنی پڑی۔ آج: رام داس کا لڑکا پربھا انگلستان سے قانون کی تعلیم حاصل کر کے واپس آیا تو دیسی ماحول ایک آنکھ نہ بھایا۔ گھر کو حقارت سے ٹھکرا کر ہوٹل میں جاٹھہرا۔ وہاں ایک انگریز نے اُس کی موجودگی پر برا مانا۔ بِل استطاعت سے زیادہ بڑھا تو ہوٹل والے نے پولیس کے حوالے کیا۔ دیسی بیوی نے مردانہ رُوپ بھر کر رقم ادا کر کے چُھڑایا۔ آنکھیں کھلیں۔ دیسی لباس پہن کر جگہ جگہ غریبوں کی حمایت میں تقریر کرنے کو زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اکبر: مسلمانوں کے دَورِ حکومت میں جب ہمایوں سلطنت کھو کر ہندوستان سے جا رہا تھا، صحرا میں ایک برہمن نے پانی پلا کر اُس کی جان بچائی۔ تب اکبر پیدا ہوا۔ اکبر نے ہندوستان فتح کیا تو اُسی برہمن نے التجا کی کہ گائے کی قربانی پر پابندی لگائی جائے۔ اکبر نے لگا دی۔ تین مختلف اَدوار کی کہانیوں میں کیا ربط تھا؟ اِس پر غور کرنے والے کم تھے۔ پڑھے لکھے ذہن یورپ کے اُس نئے ادب کی پیروی کی طرف مائل تھے جو عروج سے نہیں بلکہ زوال سے پیدا ہوا تھا۔ مخزنکی ملکیت مولوی ظہور الدین کے پاس تھی۔ شیخ عبدالقادر صرف سرپرست تھے۔ رسالہ اپنی مقبولیت کھو بیٹھا تھا۔ ظہور الدین یہی سوچ سکے کہ اُسے زیادہ علمی اور سنجیدہ بنا دیں۔ بڑے سائز پر شائع ہو۔ قیمت زیادہ ہو۔ سید حامد حسن بیدل شاہجہانپوری کو مدیر بنایا تھا۔ ابوالبیان کہلاتے تھے۔ ان کا خیال تھا، ’’جس ادب کی بنیادِ تعمیر محض ہنگامۂ شباب کے کیف و تخیل پر مبنی ہوتی ہے اُس کی عمر بھی ولولۂ ہنگامی کی طرح کم اور ناپائیدار ہوتی ہے۔‘‘ مگر کسی نہ کسی قسم کا کیف و تخیل ہی تو اِکیس برس پہلے مخزن کی مقبولیت کی وجہ بنا تھا۔ ابوالبیان کی ادارت میں جو مواد پیش کیا جا رہا تھا وہ بھی کس حد تک اُن کے بتائے ہوئے معیار پر پورا اُترتا تھا؟ سید احمد شاہ بخاری پڑھے لکھے نوجوان تھے۔ اُن کا افسانہ فرانسیسی سے ماخوذ تھا۔ قلمی نام اختیار کیاہوا تھا، ’’پطرس‘‘۔ صید و صیّاد از ’’پطرس‘‘ [اقتباس] یُولؔ مایوس ہو کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ سیوین آہستہ آہستہ فرش پر سے اٹھا۔ خاتون نے پوچھا۔ ’’میرے اچھے صاحب مجھے ایک بات بتا دیجئے۔ آپ نے مجھ پر گولی کیوں نہ چلائی۔‘‘؟ ’’تم میرے عشق کی سچائی کا ثبوت مانگتی تھیں۔ میں یہی کر سکتا تھا کہ تمہارے لئے جان دے دوں۔ افسوس وہ بھی نہ ہوا۔‘‘ خاتون نے بڑی ملائمت سے کہا۔ ’’یہ آپ کیا جانیں۔‘‘؟ اور پھر خاموش ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد بولی۔ ’’میرا نام ونؔسینز ہے۔ میں ملکہ کی درباریوں میں سے ہوں۔ کیا آپ اتنی تکلیف گوارا کر سکتے ہیں کہ کل دوپہر کے بعد ورسیلز میں آ کر مجھ سے ملیں۔ میں آپ کے شعر آپ کے منہ سے سنوں گی۔ اور پھر-‘‘ ’’اور پھر کیا۔‘‘؟ ’’اور پھر میرے شاعر ہم ستاروں کی باتیں کریں گے۔‘‘ شاعر نے پوچھا۔ ’’ان نیلے ستاروں کی جو اس وقت مجھ پر چمک رہے ہیں؟۔‘‘ خاتون نے نوجوان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کہا ’’یونہی سہی۔‘‘ (ماخوذ از فرانسہ) مخزن، اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۵۸ یونانیوں کے پیچھے ہٹتے ہی فرانسیسی نمائندے سمجھوتہ کرنے پہنچ گئے تھے۔ اُنہیں اپنے مفادات کھو بیٹھنے کا ڈر تھا۔ ۲۰ اکتوبر کو مصطفی کمال نے جو اَب غازی پاشا تھے، ترکی کے وہ علاقے واپس لیے جن پر فرانس نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا اور صرف ایک شہر رہنے دیا۔ اتفاق سے یہ اسکندرون تھا جس پر فرانسیسی پیش قدمی کے وقت غازی پاشا نے محض برگیڈئر ہوتے ہوئے بھی مزاحمت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب فرانس کے بہت سے تجارتی مفادات منظور کیے مگر یہ وعدہ بھی لیا کہ فرانس زائد اسلحہ سستے داموں ترکی کے ہاتھ بیچ دے گا۔ جنگ عظیم میں یورپی ممالک اپنی بساط سے زیادہ اسلحہ بنا بیٹھے تھے جسے اَب اونے پونے داموں بیچنا چاہتے تھے۔ بیچارہ فرانس جس نے سب سے زیادہ نقصان اُٹھایا تھا، زیادہ بے چین تھا۔۱۲۱ ۱۵۹ تھیٹر میں بلوہ ہوگیا ۔ہنگامہ کرنے والے روم کے دانشور تھے جو ابھی ابھی لوئیگی پراندلو کا ڈرامہ دیکھ کر پہلے خود اُٹھے تھے اور پھر اُن کے ہاتھ اُٹھ گئے۔ادبِ عالیہ میں ڈرامے کے مقام کا تعین کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی مگر جب نقادوں کے سب سے زیادہ غضب ناک گروہ نے اُس طرف دھاوا بولا جہاں ڈرامہ نگار اپنی نوجوان لڑکی کے ساتھ موجود تھا تو ڈرامے کے ادبی مقام کے علاوہ اور بھی بہت کچھ خطرے میں پڑ گیا۔ ڈرامہ نگار کو اپنی لڑکی سمیت وہاں سے دوڑ کر نکل جانے کے سوا کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ ڈرامے کا عنوان تھا، چھ کردار ایک مصنف کی تلاش میں۔ ۱۶۰ عورت کا پیار آغا حشر کاشمیری [اقتباس] عزیز کل یہ آفتاب گُل ہو جائے گا۔ فریدہ پھر میری زندگی؟ عزیز میں چلتا ہوں۔ فریدہ کہاں؟ عزیز اِس مقدمہ میں اپنے محسن کو چھوڑ آیا ہوں اور آٹھ یوم کا وعدہ کر کے آیا ہوں۔ اب تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں، وہ تیرا مددگار ہے اور میرا آخری وقت۔ فریدہ پیارے!(غش کھا کر گر جانا) ملازم آپ میری اِس بچی پر رحم کیجیے۔ آپ کیوں جا رہے ہیں؟ عزیز میری ضمانت دی ہوئی ہے میں ضرور جاؤں گا۔ شرافت سے بعید ہے جاتا ہوں کس حسرت و اندوہ کے ساتھ۔ ۱۶۱ ۲۴ اکتوبر کو کراچی کے خالقدینا ہال میں علی برادران اور ساتھی ملزموں پر بغاوت کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ ملزموں نے جج کی تعظیم میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ مقدمے کی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جج نے پوچھا کہ اپنے خلاف پیش ہونے والے گواہ سے کچھ پوچھنا ہے تو مولانا محمد علی نے گواہ سے اُس کے بال بچوں کی خیریت پوچھ لی۔ مقدمے کی کاروائی جتنے روز جاری رہی، مولانا محمد علی کی وجہ سے عدالت میں وقفے وقفے سے قہقہے سنائی دیتے رہے۔ آخر میں انہوں نے عدالت میں بیان دینا شروع کیا۔ یہودی کی لڑکی کے عذرا یہودی اور رومن افسروں والا منظر انگریزی میں اسٹیج ہوتا تو اُس میں یہی ڈرامائیت ہوتی۔ مولانا محمد علی کا بیان وہ ڈرامہ تھا جو تاریخ کے پردے پر اسٹیج ہوا تاکہ قوم کبھی بھلا نہ سکے: Gentlemen, I think I am going to take as much time as I can. So it is necessary to tell you beforehand that if I intended to defend myself or my friends and to escape from transportation for life or the gallows or the jail - I don't know what the judge has in store for me - it would have been absolutely unpardonable. No, gentlemen, for that purpose I would not have wasted a single moment of your time or mine. I do not want any defence. I have no defence to offer. And there is no need for defence, for it is not we who are on trial. It is the Government itself that is on trial. It is the judge himself who is on trial. It is the whole system of public prosecutions, the entire provisions of the law that are on trial. It is not a question of my defence. It is a very clear issue, and I thanked the Government in the lower Court, because for the first time it came out into the open and gave us a chance of having a decision on a very clear-cut and pointed issue. Is God's law for a British subject to be more important or the King's law - a man's law? Call him His Majesty or His Imperial Majesty - exalt him as much as you like - show all obedience to him, show him all the loyalty you can, pay him all the respect, entertain even superstitions about him if you like but the question is: is this respect or are these superstitions going to stand even for the slightest moment in the way of loyalty which every human being owes to God? Gentlemen, I think not for my own sake, nor for the sake of my co-accused, but I think for you. It is a misfortune that there is not a single Muslim among you. Three of you are Christians, and two are Hindus. But that does not matter at all. I am speaking to human beings. I am speaking mostly to Indians. I do not know whether all of you are Indians, perhaps one of you is not though he too may have his domicile in India and may have come to regard India, although an Englishman, as his home, and may therefore be regarded as an Indian. I am therefore speaking to a majority of you at least who come from a country which is imbued with the spirit of religion and which is traditionally a spiritual country and which has striven through the ages for the exaltation of the spirit against the flesh.۱۲۲ ۱۶۲ اقبال کے خط کے جواب میں کشن پرشاد نے اپنا ناگپور کا سفرنامہ بھیج دیا۔ اس کا دوسرا عنوان آنکھ والا آنکھ والے کی تلاش میںتھا۔ اس میں بابا تاج الدین ناگوری کا تذکرہ بھی تھا۔ اقبال نے بڑی دلچسپی سے پڑھا مگر ۲۷ اکتوبر کو پیچش ہو گئی۔ بہرحال اُسی روز خواجہ حسن نظامی کو خط لکھا کہ کیا وہ ناگپور چل سکتے ہیں؟ کشن پرشاد کو شکریے کا خط بھی لکھا۔۱۲۳ ۱۶۳ ۲۸ اکتوبر کو بریلی میں مولانا احمد رضا خاں انتقال کر گئے۔ ۱۶۴ ۳۰ اکتوبر کو کراچی میں مقدمہ ختم ہوا۔ جیوری کے پانچوں ارکان کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ملزم بے گناہ ہیں۔ جج نے سوامی شنکر اچاریہ کے سوا باقی تمام ملزموں کو دو دو برس کی قید ِبامشقت کی سزا سنائی۔ سوامی جی عزت کے ساتھ بری ہو گئے۔ ۱۶۵ ۳۱ اکتوبر کو انقرہ کی اسمبلی نے مصطفی کمال کی سپہ سالاری میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی۔۱۲۴ ۱۶۶ ۲ نومبر کو برطانیہ نے ترکی سے اپنے قیدی واپس لینے اور مالٹا کی قید سے بقیہ عثمانی اکابرین کو بھی رہا کرنے کا باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ ان میں سے اکثر پر اَرمنیوں کے خلاف جنگی جرائم کا الزام تھا مگر اب خود یورپ میں خیالات بدل رہے تھے۔ یونانیوں کے ہاتھوں ترکوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں پہنچنے لگی تھیں۔۱۲۵ ۱۶۷ نواب ذوالفقار علی خاں نے کوشش کی کہ چودھری محمد حسین کو سرکاری ملازمت دلوا دیں۔ ناکام رہے۔۱۲۶ ۱۶۸ علی برادران کے جیل جانے کا ردِ عمل ہوا۔ ’’پولیس اور فوج کی نوکری کرنا حرام ہے‘‘ ایک عام نعرہ بن گیا۔ دیواروں پر لکھا جاتا۔ گلیوں میں پکارا جاتا۔ تھانوں کے سامنے اس کا اعلان کیا جاتا۔ حکومت کس کس کو گرفتار کرتی! گاندھی جی نے علی برادران کے بارے میں کہا، ’’اُنہوں نے اہلِ ملک پر ایسا اثر ڈالا ہے کہ کسی اور ہندوستانی نے اپنی زندگی میں اُن پر اِس طرح کا اثر نہیں ڈالا۔ مسلمان ان کے نام پر فریفتہ ہیں۔ اور لاکھوں ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوںمیں ان کے لیے محبت کی جگہ ہے۔‘‘ عبدالماجد دریاآبادی کا بیان ہے، ’’اُدھر محمد علی جیل گئے اور ادھر بچے بچے کی زبان پر ’کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی‘ کا ترانہ آ گیا۔‘‘ یہ بھی اقبالؔ سہارنپوری کی نظم تھی۔۱۲۷ کراچی کے قیدی اقبال سہارنپوری کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو آبرو حق کے رستے پہ دے دی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو ہے سزا بے گناہوں نے پائی آج ہوتی ہے تم سے جدائی سارے ہندو مسلمان بھائی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو قید سے ہم جو جیتے بچیں گے بھائیو تم سے پھر آ ملیں گے صبر سے شکر سے ہم رہیں گے ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو تم ہمیں یاد کر کے نہ رونا آنسوؤں سے نہ دامن بھگونا مل کے سوراج کا بیچ بونا ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو بات قرآن کی جو سنائی یہ سزا اُس کے بدلے میں پائی مل کے سب دو خدا کی دہائی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو بات ہم نے کہی تھی جو سچی اس کے بدلے میں پیسیں گے چکی کس کی تقدیر ہم سے ہے اچھی ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو ہائے دینِ محمدؐ کے خادم ہائے سچی شریعت کے عالم کافروں کے بنے آج مجرم ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو ہیں مسلمان سب جان کھوتے آسماں پر فرشتے ہیں روتے صبر کر لیں بڑے اور چھوٹے ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو کچھ نہیں بال بچوں کا غم ہے پر خلافت کا ہم کو الم ہے بس اِسی واسطے چشم نم ہے ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو ہم اگر یاد بچوں کو آئیں آپ چھاتی سے ہم کو لگائیں پیاری اماں یہ رونے نہ پائیں ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو جرم ہم نے بس اِتنا کیا تھا دینِ احمد کا فتویٰ دیا تھا کیا حکومت کا اس میں برا تھا ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو ۱۶۹ اقبال سہارنپوری کے شاگرد یٰسین اُن کا کلام جلسوں وغیرہ میں پڑھتے اور کچھ اضافہ بھی کر دیتے تھے جو عموماً وزن سے خارج ہوتا: ہے سلام آخری یہ ہمارا کرو ’’یٰسین‘‘ تم آشکارا قید میں اب کریں گے گذارا ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو کسی غیرمعروف شاعر نے بھی طبع آزمائی کی: تم کو دُودھ اور حلوہ مبارک تم کو بسکٹ و مکھن مبارک ہم کو کچی ہی روٹی مبارک ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو۱۲۸ ۱۷۰ اس برس لاہور میں جمعیت علمائے ہند کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ مصور عبدالرحمٰن چغتائی کے چھوٹے بھائی عبداللہ چغتائی نے اقبال کا تعارف مولانا انور شاہ کشمیری سے کروایا۔۱۲۹ ۱۷۱ نومبر کے مخزن میں اقبال کی غزل شائع ہوئی۔۱۳۰ ۱۷۲ ۷ نومبر کو دہلی کے اجلاس میں کانگریس کمیٹی نے صوبوں کو سِول نافرمانی کرنے کا اختیار دے دیا۔ ۱۷۳ ’’اوپر کے طبقوں میں کوشش کی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ کو جو اَب کانگریس کا دُم چھلا بن کر اپنی ہستی گم کر چکی تھی، از سرِ نَو زندہ کر کے آئینی طور طریقے اختیار کیے جائیں،‘‘ عبدالمجید سالک کا بیان ہے۔ چنانچہ سر آغا خان اور مشیر حسین قدوائی ایک طرف خلافت کی حمایت میں بیان دے رہے تھے اور دوسری طرف مسٹر محمد علی جناح کی وساطت سے مسلم لیگ کے احیا کا اہتمام بھی کر رہے تھے۔‘‘۱۳۱ صدائے لیگ لندن کے چرخِ نادرہ فن سے پہاڑ پر اُترے مسیح بن کے محمد علی جناح نکلے گی تن سے تو کہ رہے گی ہمیں بتا اے جان بر لب آمدہ اب تیری کیا صلاح دل سے خیالِ دشت و بیاباں نکال دے مجنوں کے واسطے ہے یہی جادۂ فلاح آغا امام اور محمد علی ہے باب اِس دین میں ہے ترکِ سوادِ حرم مباح بشریٰ لکم کہ منتظرِ ما رسیدہ است یعنی حجابِ ’’غیبتِ کبریٰ‘‘ دریدہ است زمیندار(لاہور)، ۹ نومبر۱۹۲۱ئ۱۳۲ ۱۷۴ چٹان کمزوروں کی جدوجہد کے سامنے نہیں آتی۔ خلال دانتوں کے درمیان محفوظ جگہیں تلاش کر ہی لیتا ہے۔ گاندھی سے ایک روز یہ کہتے تھے مالوی کمزور کی کمند ہے دنیا میں نارسا نازک یہ سلطنت صفتِ برگِ گل نہیں لے جائے گلستاں سے اُڑا کر جسے صبا گاڑھا اِدھر ہے زیبِ بدن اور زِرہ اُدھر صرصر کی راہ گذار میں کیا عرض ہو بھلا پِس کر ملے گا گردِ رہِ روزگار میں دانہ جو آسیا سے ہوا قوّت آزما بولا یہ بات سن کے کمالِ وقار سے وہ مردِ پختہ کار و حق اندیش و باصفا خارا حریفِ سعیٔ ضعیفاں نمی شود صد کوچہ ایست در بُنِ دنداں خلال را زمیندار(لاہور)، ۱۳ نومبر۱۹۲۱ئ۱۳۳ ۱۷۵ بمبئی میں ۱۷ نومبر کو پرنس آف ویلز کے استبقال میں زبردست بلوہ ہوا ۔ تین چار روز جاری رہ کر مشکلوں سے ختم ہوا۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ ہلاک اور چار سو کے قریب زخمی ہوئے۔ گاندھی نے عوام کے گناہ کے کفارے میں پانچ روز فاقہ کیا اور کہا، ’’سوراج کی بُو سے میرے نتھنے پھٹے جاتے ہیں۔‘‘۱۳۴ ۱۷۶ ۲۲ نومبر کو طے پایا کہ انگریز اور افغان ایک دوسرے کو پہلے سے خبردار کیے بغیر مشترکہ سرحدوں پر کوئی سرگرمی نہیں کریں گے اور افغانستان، روس کو غزنی، جلال آباد اور قندھار کے علاقوں میں سفارتخانے کھولنے کی اجازت نہیں دے گا۔ برطانیہ اور افغانستان نے معاہدے پر دستخط کیے اور دونوں کے درمیان امن قائم ہوا۔ ۱۷۷ ۲۸ نومبر کو سید سلیمان ندوی کا پوسٹ کارڈ ملا۔ کسی کتاب کا تذکرہ کیا تھا جس کا غالباً قلمی نسخہ بانکی پور میں موجود تھا۔ ممکن ہے کہ کتاب مسلمان صوفیأ اور حکمأ کے افکار میں حقیقتِ زمان کے مسئلے سے متعلق ہو جس کے بارے میں اقبال نے کچھ عرصہ پہلے استفسار کیا تھا۔ بہرحال اقبال نے اُسی وقت جواب لکھتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا کتاب عاریتہ مل سکتی ہے؟ ۱۷۸ اس برس ظفر برادرس لاہور نے روایاتِ اسلامکے نام سے اُردو نظموں کا مجموعہ شائع کیا۔ اقبال کی نظم ’صدیقؓ‘ بھی شامل تھی۔۱۳۵ ۱۷۹ ۴ دسمبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین وکیل ہائی کورٹ نائب صدر انجمن کی صدارت میں ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔۱۳۶ ۱۸۰ ’’میرے دشتِ جنون میں جبریل ایک معمولی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ! یزداں پر کمند ڈال!‘‘ یہ خیال غالباً اُنہی دنوں فارسی کے ایک شعر میں ڈھلا۔غزل ہو گئی جسے کاغذ پر لکھ کر رکھ لیا گیا۔۱۳۷ ۱۸۱ ترکی کی آیندہ زندگی میں اسلام جو کردار اَدا کر سکتا تھا اُسے ترک قوم کو سمجھانے کی سب سے زیادہ اہلیت اُس دردمند دل میں تھی جو سعید حلیم پاشا کے سینے میں دھڑکتا تھا۔ کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے وزیراعظم تھے۔ پھر خلیفہ نے گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا۔ مالٹا میں قید رہے۔ اب وہاں سے چھوٹ چکے تھے۔ خلیفہ نے استنبول واپس آنے کی اجازت نہ دی۔صقلیہ میں تھے جسے تیرہ برس پہلے اقبال نے تہذیبِ حجازی کا مزار کہا تھا۔ ۶ دسمبر کو شہید کر دیے گئے۔ قاتلوں کا تعلق اَرمنی دہشت گرد تنظیم سے تھا۔ اُس رات طویل بحث کے بعد آئرلینڈ کی تقدیر کا فیصلہ بھی ہوا۔ شمال مشرق میں کچھ پروٹسنٹ علاقے جو برطانیہ کے ساتھ رہنے پر تیار تھے وہ الگ ہو گئے اور بقیہ آئرلینڈ کو ڈومینین کا درجہ دے دیا گیا جہاں عوام اپنی مرضی سے پارلیمنٹ منتخب کر سکتے تھے، ٹیکس جمع کر سکتے تھے، فوج اور نیوی رکھ سکتے تھے مگر برطانیہ کے چار فوجی اڈوں کو برداشت کرنے پر بھی مجبور تھے۔ سرحدی علاقوں کا فیصلہ ایک باؤنڈری کمیشن کے ذریعے بعد میں ہونا تھا۔ تقسیم مذہب کے حوالے سے ہوئی تھی۔ ۱۸۲ جسٹس شاہ دین ہمایوںؔ مرحوم کے لڑکے میاں بشیر احمد والد کی یاد میں ہمایوںکے نام سے رسالہ نکالنا چاہتے تھے۔ اقبال کے پاس آ کر نظم کی فرمایش کی۔ میاں بشیر کا بیان ہے کہ اقبال نے ’’سن کر کہا کہ تم رسالہ کیا نکالتے ہو اُردو کے رسالے تو نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں، تم اُردو لٹریچر کے لیے کوئی اور زیادہ مفید کام کرو۔ میں نے پوچھا تو فرمایا کہ تم فرانسیسی زبان سے واقف ہو گارساں دتاسی کی تصانیف کو اُردو میں منتقل کر دو۔ مگر میرے دماغ میں رسالے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ نظم کے لیے میں نے اصرار کیا تو (پنجابی میں) کہا ’ویکھو۔‘ ۔۔۔ چند ہی روز بعد اُنہوں نے والد مرحوم پر اپنی نظم ’ہمایوں‘ بھائی شاہنواز کے ذریعے سے مجھے ہمایوں کے پہلے نمبر میں اشاعت کے لیے بھیجی۔‘‘۱۳۸ ہمایوں (مسٹر جسٹسں شاہ دین مرحوم ) اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغِ انجمن افروز تھی گرچہ تھا تیرا تن خاکی نزار و دردمند تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا شعلۂ گردوں نورد اک مشت خاکستر میں تھا موت کی لیکن دلِ دانا کو کچھ پروا نہیں شب کی خاموشی میں جز ہنگامۂ فردا نہیں موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شامِ زندگی، صبح دوام زندگی۱۳۹ ۱۸۳ محمد حسین آزاد کے پوتے آغا طاہر کو اپنے دادا کی غیرمطبوعہ تحریروں کی اشاعت کا خیال آیا۔ بستے میں سے کچھ کاغذ نکلے جن کے بارے میں معلوم ہواکہ یہ فارسی شعرا کا ایک تذکرہ ہے جسے محمد حسین آزاد نے لکھا تھا اور بعض احباب کو علم تھا مگر دیکھا کسی نے نہیں تھا۔ اس کا عنوان نگارستانِ فارس تھا۔ کچھ باب تاریخی ترتیب کے خلاف تھے۔ کچھ شاعر بھی شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔ آغا طاہر کو خیال آیا کہ کم سے کم ابواب کی ترتیب ہی درست کر دی جائے اور ان کے اپنے الفاظ میں، ’’میں نے اس کے متعلق حضور ڈاکٹر اقبال سے مشورہ لینا چاہا لیکن ان حضرت نے ایک ہی جملہ سے میرامنہ کیل دیا کہ جس طرح مولانا نے لکھا ہے بغیر کسی تبدیلی کے حرف بحرف چھپوا دو۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے نزدیک صرف عبارت ہی نہیں بلکہ ترتیب بھی کتاب کا حصہ ہوتی تھی۔۱۴۰ ۱۸۴ ۸ دسمبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا جس میں اقبال کی ایک غزل کے ایک شعر کے پہلے مصرع کا مطلب دریافت کیا گیا تھا۔ اتفاق سے یہ وہی غزل تھی جو پچھلے ماہ مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ بنام نیازالدین خاں لاہور، ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء مخدومی! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ میں اس شعر کا مطلب آپ کو نہ بتاؤں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دوسرا مصرع سمجھتے ہیں۔ جس کو دوسرا مصرع آتا ہے۔ اُسے پہلا بھی آتا ہے۔ اپنی طبیعت کو ٹٹولیے۔ وہاں اس کا مطلب مل جائے گا۔ پوری غزل مخزن کے گزشتہ نمبر میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے اشعار تمام یاد نہیں، کہیں لکھے رکھے ہیں۔ تلاش کی ہمت نہیں۔ مخزن کا وہ نمبر منگوا لیجیے۔ مولوی گرامی صاحب کی خدمت میں آداب عرض کیجیے۔ سردار اُمراؤ سنگھ شملہ بلا رہے ہیں۔ یہاں سے احباب کی ایک جماعت کرسمس کی تعطیلیں گزارنے کے لیے شملہ جانے کا قصد کر رہی ہے۔ اگر مولانا گرامی دسمبر میں لاہور آ جائیں تو میرے لیے لاہور کی سرد آب و ہوا میں تھوڑی سی حرارت پیدا ہو جائے۔ ان کی خاطر شملہ کی صحبت ترک کر دوں گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ آپ کے کبوتر بہت اچھے ہیں۔ مگر افسوس کہ زمانۂ حال کی مغربی تہذیب سے بہت متأثر معلوم ہوتے ہیں۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ بچوں کی پرورش سے بہت بیزار ہیں۔ والسلام۔ مولانا گرامی کی خدمت میں آداب عرض۔ ان کو یہ شعر سنائیے۔ در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ محمدؐ اقبال ۱۸۵ شیخ نور محمد کے لیے کستوری کے نافے کا آرڈر دیا۔۱۴۱ ۱۸۶ ۱۲ دسمبر کو نیازالدین خاں کے چھوٹے بھائی امیرالدین خاں سے ملاقات ہوئی۔ لاہور آئے ہوئے تھے۔۱۴۲ ۱۸۷ ۱۳ دسمبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ انہوں نے مصرع کا مفہوم ٹھیک سمجھا تھا۔ ’’تختۂ گل کوئی محاورہ نہیں،‘‘ اقبال نے اُسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’تختۂ گل سے تختۂ گل ہی مراد ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جبینِ سجدہ ریز کی وجہ سے دَیر کی راہ تختۂ گل بن گئی ہے۔ فارسی والے سجدے کو پھول سے تشبیہ دیتے ہیں۔‘‘ اُس رات لاہور میں بہت سے لوگ تحریک عدم تعاون کے سلسلے میں گرفتار ہوئے۔ کلکتہ سے جو خبریں آ رہی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ وہاں قیامت برپا ہے۔۱۴۳ اُن دنوں اعجاز کے رشتے کی بات امرتسر میں چل رہی تھی جہاں سے اقبال کو چار پانچ روز میں مفصل حالات معلوم ہونے کی توقع تھی۔ اقبال نے کسی ملک محمد دین کو بھی کرنال خط لکھا تھا لیکن وہ شاید کرنال میں نہیں تھے۔ اگلی صبح غالباً کسی دوسرے پتے پر دوبارہ خط لکھا۔لیکن شیخ عطا محمد کا کارڈ ملا جس سے معلوم ہوا کہ وہ اعجاز کا رشتہ کہیں اور کرنا چاہتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اعجاز بھی تحریکِ خلافت میں حصہ لینا چاہتے تھے۔۱۴۴ اقبال نے اُسی روز جواب لکھا۔ ’’اگر اعجاز آپ کی رائے سے اتفاق کر گیا تو بہتر ورنہ امرتسر میں سلسلہ جنبانی رکھی جائے گی،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اعجاز کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے پھر ملک کی تحریکوں میں شامل ہو۔ خلافت کا کام کرنے سے میں اُسے روکتا نہیں کیونکہ یہ بات قلب کی حالت پر منحصر ہے البتہ پہلے اپنے کام میں پختہ ہو جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ خلافت کمیٹیوں کے بعض ممبر ہر جگہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتے وہ بظاہر جوشیلے مسلمان معلوم ہوتے ہیں لیکن درباطن اخوان الشیاطین ہیں اسی وجہ سے میں نے خلافت کمیٹی کے سیکرٹری شپ سے استعفا دے دیا تھا۔ اس استعفے کے وجوہ اِس قابل نہ تھے کہ پبلک کے سامنے پیش کیے جاتے لیکن اگر پیش کیے جا سکتے تو لوگوں کو سخت حیرت ہوتی۔ بہرحال اعجاز خود سمجھدار ہے۔‘‘ شیخ نور محمد کے لیے کستوری کے نافے کا آرڈر دے چکے تھے۔ اس کا تذکرہ کیا اور لکھا، ’’ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ کستوری افیون میں کس طرح ملائی جائے۔‘‘ ۱۸۸ نیازالدین خاں کے مشورے پر ’’بدو رکعتِ نمازے‘‘ والے شعر کا پہلا مصرع بدل دیا کہ کبھی بتوں کی بندگی کرتا ہوں، کبھی پیرِ میخانہ کی زیارت کرتا ہوں: گہے بندۂ بتانم، گہے زائرِ مغانم۔ اُن کا پوسٹ کارڈ ملا تو ۱۶ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے یہ اطلاع بھی دی۔ ’’مولانا گرامی کب تک جالندھر کی سیر کریں گے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’وہاں رہنے کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہاں کے لوگ ان کے زیادہ مشتاق ہیں اور ہر روز اُن کے متعلق استفسارات رہتے ہیں۔‘‘ غالباً نیازالدین یا گرامی نے وہ غزل دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کا ایک شعر ’’ہمتِ مردانہ‘‘ والا پچھلے خط میں اقبال نے درج کیا تھا۔ ’’کاغذ مل گیا تو نقل کر کے بھیج دوں گا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ۱۸۹ علی برادران کی طرح مصطفیٰ کمال پاشا بھی اب برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں رہنے لگے تھے۔ فرنگ کی بجلی سے ترکی کا درخت بارآور ہو گیا تھا۔ بولہبی، ظہورِ مصطفویؐ کے لیے بہانہ ثابت ہوتی ہے۔ اس قسم کی باتیں آٹھ برس پہلے ۱۹۱۳ء میں آغا حشر کاشمیری نے ’شکریۂ یورپ‘ میں کہی تھیں اور اَب اقبال کے دل و دماغ میں گردش کر رہی تھیں: نہالِ ترک زبرقِ فرنگ باآورد ظہورِ مصطفوی را بہانہ بولہبی است۱۴۵ یہ شعر خواجہ حافظ شیرازی کی تضمین میں تھا۔ اس پر ظہوری نے بھی غزل کہی تھی مگر اقبال کے خیال میں خواجہ حافظ کی غزل سب سے بڑھی ہوئی تھی۔۱۴۶ ۱۹۰ ایک عجیب خیال ذہن میں آیا۔ اگر بندے کو خدا ہونے کا موقع مل بھی جائے تو یہ گھاٹے کا سَودا ہو گا۔ خدائی کے تمام جبروت کے عوض بھی بندگی فروخت مت کرو! بندگی با ہمہ جبروتِ خدائی مفروش۱۴۷ خیال تھا کہ اِس مصرع پر مزید اشعار لکھ کر بہت عجیب و غریب مضمون پیدا کریں گے مگر لفظ ’’ہمہ‘‘ (بمعنی ’’تمام‘‘) کھٹکتا تھا۔ گرامی کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔۱۴۸ ۱۹۱ گرامی نے میاں بشیر احمد کے رسالے ہمایوں کے لیے غزل بھیجی۔ اقبال نے محسوس کیا کہ چونکہ اسی زمین میں ایک غزل قوالوں میں مقبول ہے لہٰذا اس کے بعض پہلوؤں پر کوئی اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ وہ نکات نوٹ کر لیے اور غزل میاں بشیر کو دینے کی بجائے انہیں صرف بتا دیا کہ گرامی نے اُن کے لیے غزل ارسال کی ہے۔ البتہ غزل کے مقطع کے بارے میں کوئی عجیب و غریب روحانی تجربہ ہوا۔ اقبال نے محسوس کیا کہ یہ مقطع بارگاہِ رسالتؐ میں مقبول ہوا ہے۔ ۲۴ دسمبر کو اس کی تفصیل خط میں لکھنے والے تھے مگر پھر رُک گئے۔ اگلے روز گرامی کا خط ملا۔ فوراً جواب لکھنے بیٹھ گئے اور غزل کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیا۔ ’’اگر آپ کو مجھ سے اتفاق نہ ہو تو اِسی طرح رہنے دیجیے کیونکہ آپ کا مذاق زیادہ معتبر ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’مقطع کی نسبت تو میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ بارگاہِ نبوی میں مقبول ہوا۔ مفصل کیفیت اس بات کی کل آپ کی خدمت میں لکھنے کو تھا کہ کسی قوت نے روک دیا۔ دل کہنے لگا کہ خط میں اِس امر کا انکشاف نامناسب ہے۔ یہ حقیقت نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہے۔ انشأ اللہ بالمشافہ عرض کروں گا۔‘‘ اِس کے ساتھ ہی غزل واپس بھجوا دی تاکہ گرامی نظرِ ثانی کر سکیں۔ اپنا نہالِ ترک والا شعر بھی ارسال کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اِسی خط کے ساتھ کسی علیحدہ کاغذ پر ’’بندگی با ہمہ جبروتِ خدائی مفروش‘‘ والا مصرع بھی ارسال کر کے رائے طلب کی۔۱۴۹ ۱۹۲ اُس روز پرنس آف ویلز کلکتہ تشریف لائے تھے۔ ایسی مکمل ہڑتال ہوئی کہ قصابوں نے نے بھی دکانیں بند رکھیں اور کرسمس کے موقع پر انگریزوں کو گوشت کی فراہمی مسئلہ بن گئی۔۱۵۰ ۱۹۳ انجمن حمایت اسلام کے تحت چلنے والا لڑکوں کے لیے چوتھا اسکول جسے چار برس قبل مڈل اسکول بنایا گیا تھا اس برس کسی وقت ہائی اسکول ہو گیا۔۱۵۱ ۱۹۴ یہ بات قریب قریب یقینی ہے کہ ان دنوں نظامی گنجوی کا اسکندرنامہ دوبارہ اقبال کی نظر سے گزر رہا ہو گا یا پھر اُن کے ذہن میں دہرایا جا رہا ہو گا کیونکہ صرف چند ماہ بعد وہ اُردو میں اپنی اب تک کی سب سے زیادہ معرکۃ الآرأ نظم کہنے والے تھے جس کا مرکزی کردار نظامی کے اسکندرنامہ میں بھی موجود تھا: حضرت خضر علیہ السلام۔۱۵۲ ۱۹۵ مقام، عراق اور خراسان ایرانی موسیقی کی اصطلاحات تھیں جن کے حوالے سے اقبال کے دل میں کچھ عجیب باتیں پیدا ہوئیں: ہماری زندگی کی شاخ میں نمی ہماری پیاس کی وجہ سے ہی ہے لہٰذا آبِ حیات کے چشمے کی تلاش طلب کے ادھورے ہونے کی دلیل ہے! اے مقام پہچاننے والے، عراق اور خراسان کی راہ چل کہ عربی ساز کے آہنگ سے میرا دل بجھ گیا ہے! ہمارے قافلے کی متاع حجازیوں نے لُوٹ لی مگر زباں نہ کھول کہ ہمارا محبوبؐ عربی ہے! مجھ سے اونچے آہنگ کی توقع مت رکھو کہ میرے چمن میں ابھی نغمہ مدھم ہے اور مسکراہٹ لبوں میں دبی ہوئی ہے! دل کی بات کس سے کہوں اور کیا علاج کروں کہ آہ بے اثر ہے اور نگاہ اُٹھانا ادب کے خلاف ہے! یہ خیالات دل میں کچھ اِس طرح جمع ہوئے کہ ’’ظہورِ مصطفویؐ‘‘ والے شعر کے وزن میں موزوں ہو کر غزل بن گئے مگر اِن میں ایسے استعارے اور اِشارے موجود تھے جنہیں آہستہ آہستہ اقبال کے دل پر بے نقاب ہو کر اُن کی آیندہ معرکۃ آلارأ نظموں کا سامان پیدا کرنا تھا: بشاخِ زندگیٔ ما نمی زتشنہ لبی است تلاشِ چشمۂ حیواں دلیلِ کم طلبی است رہِ عراق و خراساں زن اے مقام شناس دلم گرفتہ زآہنگ بربطِ عربی است متاعِ قافلۂ ما حجازیاں بردند ولے زباں نہ کشائی کہ یارِ ما عربی است زمن نوائے بلندے مجو کہ در چمنم ہنوز زمزمہ پست است و خندہ زیرِ لبی است حدیثِ دل بہ کہ گویم چہ چارہ بر گیرم کہ آہ بے اثر است و نگاہ بے ادبی است۱۵۳ ۱۹۶ کوئی سردار ایوب خاں مرحوم تھے جن کا تعلق کابل کے شاہی خاندان سے تھا۔ ان کے جانشین عبدالقادر آفندی اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ ملنے آئے تو گرامی کا ایک شعر جو ’’دیرینہ غلامی‘‘ کے بارے میں تھا، بہت پسند کیا اور نقل کر کے لے گئے۔۱۵۴ ۱۹۷ مرزا جلال الدین کااِرادہ ہوا کہ گرامی کو لینے جالندھر جائیں مگر اقبال نے روک دیا کہ سردی میں سفر گرامی کو ناگوار ہو گا۔ ’’علاوہ اِس کے مرزا صاحب کو مایوسی سے بچانا مقصود تھا،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔۱۵۵ ۱۹۸ ۲۹ دسمبر کو گرامی کا جواب آیا۔ ظہورِ مصطفویؐ والا شعر پسند کیا تھا۔ اپنی غزل کے بارے میں لکھا تھا کہ اُس میں خامی تھی تو اقبال اپنی طرف سے اصلاح کر کے میاں بشیر احمد کے حوالے کر دیتے، گرامی کوکوئی اعتراض نہ ہوتا۔ ایک رباعی بھی بھیجی تھی جس کا مفہوم تھا کہ خودی سے بیخودی تک پہنچنا آسان ہے مگر بیخودی سے خود تک پہنچو تو یہ حضوری ہے۔ اقبال نے جو مضمون مثنوی کے دو حصوں میں بیان کیا تھا، گرامی کی رباعی میں اُس کا خلاصہ ہو گیا۔ ’’واہ کیا خوب کہی کہ غزل ٹھیک کر کے کیوں نہ بھیج دی!‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ ’’کل کو یہ کہو گے کہ خاکم بدہن مولانا نظامی کے سکندرنامے کی اصلاح کر کے بھیج دو۔‘‘ ظہورِ مصطفویؐ والی غزل کے بقیہ اشعار بھی ارسال کیے اور فرمائش کی کہ اگر اِس زمین میں پہلے ہی نہ لکھ چکے ہوں تو ضرور لکھ کر اپنے اشعار بھی ارسال کریں۔ ’’بندگی با ہمہ جبروتِ خدائی مفروش‘‘ کے بارے میں گرامی نے اپنی رائے نہیں بھیجی تھی۔ یاددہانی کروائی۔ اُس رات چارپائی پر لیٹے تھے کہ طبیعت پھر اُس شعر کی طرف متوجہ ہو گئی کہ مجھ سے اونچے آہنگ کی توقع مت رکھو کہ میرے چمن میں ابھی نغمہ مدھم ہے اور مسکراہٹ لبوں میں دبی ہوئی ہے! یہ احساس جس کا آغاز اُس زمانے میں یوں ہو رہا تھا آیندہ کئی برسوں تک اقبال کے دل و دماغ پر چھایا ہوا نظر آتا رہا: ملتِ اسلامیہ پر دوبارہ شباب آرہا تھا اور وہ اب اپنی تاریخ کے جس دَور میں داخل ہو رہی تھی وہ عشق میں ڈوبا ہوا ایک گیت معلوم ہوتا لیکن اقبال اگر اس گیت کا سب سے اونچا سُر تھے تو ملت ابھی تک ایک مدھم سُر میں ہی تھی۔ اُس رات اِس خیال کا ہیولیٰ جو تصوّر میں آیا اُس میں سے یہ صورت پیدا ہوئی کہ غزل کو موسیقی کے ساتھ گاؤ اور سُر کو دھیما کر لو کیونکہ ابھی چمن کے پرندوں کا نالہ بھی زیرِ لب ہے: غزل بہ زمزمہ خواں پردہ پست تر گرداں ہنوز نالۂ مرغاں نواے زیرلبی است مقام، عراق ا ور خراساں والا شعرغزل سے نکال دیا کہ ہندوستان میں اِن اصطلاحات کو سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔۱۵۶ اُس روز گرامی کو خط لکھتے ہوئے رُباعی کی داد دینا بھول گئے تھے لہٰذا اگلے روز ایک اور خط لکھا۔ ’’سبحان اللہ ایک نہایت طویل و عریض مضمون کو آپ نے ایک مصرع میں نظم کر دیا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’سلطان ابولخیر کی رُوح بھی تڑپ اُٹھی ہو گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کی یہ رباعیاں بھی کہیں آپ کی لاپروائی کی نذر نہ ہو جائیں مہربانی کر کے اُن کو لکھتے جائیے اور محفوظ رکھیے۔‘‘ غزل کے جس شعر کی پچھلی رات ایک نئی صورت بنی تھی وہ دوبارہ درج کیا اور نئی صورت بھی پیش کی۔ پھر لکھا، ’’اِن اشعار میں سے جو آپ کو ناپسند ہو کاٹ دیجیے۔‘‘ ۱۹۹ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Miguel Unamuno (translated by J. E. Crawford Flitch). The Tragic Sense of Life in Man and in Peoples. Macmillan, London Bernard Bosanquet. Meeting of Extremes in Contemporary Philosophy. Macmillan, London Louis Rougier (translated by Morton Masius). Philosophy and the New Physics: "an essay on the relativity theory of quanta". George Routledge, London Henry P. Manning, ed.. The Fourth Dimension Simply Explained: a collation of essays selected from those submitted in Scientific America's Prize Competition Tabari Ali; translated by A. Mingana. The Book of Religion and Empire: a semi-official defence and exposition of Islam written by Order at the court and with the assistance of the Caliph Mutawakkil (AD 847-861) William Marris. Civil Government for Indian Students. S. C. Sanial, Calcutta Viscount Haldane. The Reign of Relativity. John Murray, London Mosztowski; translated by Henry L. Brose. Einstein the Searcher, his work explained from dialogues with Einstein. Methuen, London Harry Schmidt; translated by Karl Wichmann. Relativity and the Universe: a popular introduction into Einstein's theory of space and time. Methuen, London J. H. Thirring; translated by Rhoda A.B. Russell. The Ideas of Einstein's Theory: the theory of relativity in simple language. Methuen, London Edward G. Browne. Arabian Medicine. University Press, Cambridge ان کے علاوہ اس برس شائع ہونے والا پوران سنگھ کا انگریزی نظموں کا مجموعہ اگلے برس فروری میں اقبال کو پیش کیا گیا: Puran Singh. The Sisters of the Spinning Wheel and other Sikh Poems original and translated. J. M. Dent, London حیدرآباد دکن کے سر احمد حسین نواب امین جنگ کی اسلام کے بارے میں انگریزی میںاس برس شائع ہونے والی کتاب کئی برس بعد اقبال کو مصنف کی طرف سے پیش کی گئی: Ahmad Hussain (Amin Jang), edited by Mohammad Hussain. Notes on Islam by Sir Ahmad Hussain "Nawab Amin Jang". Government Central Press, Hyderabad Deccan۱۵۷ ۲۰۰ احمدآباد میں کانگریس نے گاندھی کو وہ تمام اختیارات منتقل کر دیے جو کانگریس کو حاصل تھے۔ انہوں نے اُن رضاکاروں کے لیے عہدنامہ ترتیب دیا جنہیں خلافت کانفرنس بھرتی کر رہی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کی پیش کی ہوئی ہندوستان کے لیے مکمل آزادی کے مطالبے کی قرارداد کی مخالفت کی جس کے بارے میں اِتنی بدمزگی ہو چکی تھی کہ علیحدگی میں حسرت نے گاندھی سے کہہ دیا تھا، ’’مہاتما جی میں جانتا ہوں کہ آپ صرف ڈومینین اسٹیٹس چاہتے ہیں تاکہ انگریزوں کی سنگینوں کے زور سے مسلمانوں پر حکومت کریں۔ میں مسلمانوں کو چکی کے دو پاٹوں کے بیچ میں ہرگز نہ پسنے دوں گا۔‘‘۱۵۸ ’’مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم کامل آزادی کی حمایت کریں بلکہ یہ فیصلہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اُس کی صورت کیا ہو گی،‘‘ حسرت نے احمدآباد ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا۔ ’’استثنیٰ کی چند صورتوں کو چھوڑ کر مسلمان عام طور پر ہندوؤں کی عددی برتری سے خوفزدہ ہیں اور کامل آزادی کی بجائے کسی قسم کی اسکیمیں قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔۔۔ اگرچہ ہندوستان میں مسلمان ایک اقلیت ہیں مگر قدرت نے اس کی تلافی بھی کر دی ہے۔ مسلمان تمام صوبوں میں اقلیت نہیں ہیں۔ بعض صوبوں مثلاً کشمیر، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور آسام میں مسلمان تعداد میں ہندوؤں سے زیادہ ہیں۔‘‘ اگر بعض صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے تو کیا نتیجہ نکالا جا سکتا تھا؟ نو برس بعد اِسی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جو بات اقبال کی زبانی بلند آہنگ میں اورفکری لوازمات کے ساتھ اَدا ہونے والی تھی، کیا وہی مولانا حسرت موہانی نے دبی زبان سے کہہ دی تھی؟ ۲۰۱ تہِ دام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا جو فغاں دِلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیرِ لبی رہی ترا جلوہ کچھ بھی تسلّیِ دلِ ناصبور نہ کر سکا وہی گریۂ سحری رہا، وہی آہِ نیم شبی رہی نہ خدا رہا، نہ صنم رہے، نہ رقیبِ دَیر و حرم رہے نہ رہی کہیں اسدُاللّہی، نہ کہیں ابولہبی رہی مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہیدِ ذوقِ وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی۱۵۹ تیسرا حصہ ۲۰۲ مولانا حسرت موہانی کے خطبۂ صدارت پر بظاہر مراکش کے غازی عبدالکریم کا اثر دکھائی دے رہا تھا۔ عبدالکریم نے رِیف کو مراکش سے علیحدہ کر کے اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں پر نظر کر کے مولانا کے دل میں بھی ایسی ہی حسرت جنم لے رہی تھی۔ کچھ گوریلا جنگ کے خواب تھے۔ گرفتار ہوئے۔ ۲۰۳ اقبال ۱۹۲۲ء کے لیے بھی پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے ڈین منتخب ہوئے۔لالہ رگھو بردیال ایم۔اے، ایم۔او۔ایل سیکرٹری ہوئے۔۱۶۰ ۲۰۴ انجمن حمایت اسلام کا مردانہ یتیم خانہ نواں کوٹ کے قریب ملتان روڈ پر موضع پکی ٹھٹھی کی اراضی میں خریدی گئی ایک عمارت میں منتقل ہو چکا تھا۔ ۱۹۲۲ء کے شروع میں وہیں کرائے کی ایک کوٹھی میں انجمن حمایت اسلام کا پانچواں مڈل اسکول کھولا گیا جس میں یتیم خانے کے ۱۴۱ لڑکوں کے علاوہ قریبی دیہاتوں کے طلبہ بھی داخل ہوئے۔۱۶۱ ۲۰۵ ظہورِ مصطفوی والی غزل کا ایک اور شعر ہوا جس سے وہ مکمل ہو گئی: میرے معانی کو ہندوستان اور عجم کی کسوٹی پر مت پرکھو کہ اِس موتی کی اصل تو گریۂ نیم شبی ہے! مسنج معنیِ من در عیارِ ہند و عجم کہ اصلِ ایں گہر از گریہ ہائے نیم شبی است۱۶۲ ۲۰۶ نواب سر ذوالفقار علی خاں لاہور میں تھے۔ اکثر پوچھتے کہ گرامی کب آئیں گے۔ اقبال نے تنگ آ کر کہہ دیا، ’’مولانا گرامی مجھ سے ناراض ہیں، اِس واسطے اِمسال تشریف نہیں لائے۔‘‘ ۲۰۷ ۵ جنوری ۱۹۲۲ء کو گرامی کا خط ملا۔ اقبال کی غزل پسند آئی تھی۔ اپنے کچھ اَشعار بھی بھیجے۔ ایک شعر نے تو اقبال کو اِس طرح تڑپایا کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اُن کے حسبِ حال تھا کہ ہم نے عقل کی کتاب کا ایک ایک ورق پڑھ ڈالا، حیلہ فروشی اور مدعا طلبی کے سوا کچھ نہیں: کتابِ عقل ورق در ورق فرو خواندیم تمام حیلہ فروشی و مدعا طلبی است۱۶۳ بقیہ اشعار میں کچھ اور بھی اِسی موضوع پر تھے۔ اقبال اُسی وقت جواب لکھنے بیٹھ گئے۔ ’’مضمون میرے حسبِ حال تھا، تمام عمر کتابوں کی ورق گردانی میں گزری اور آخر یہ معلوم ہوا کہ کتاب حیلہ فروشی اور مدعاطلبی کے سوا کچھ نہیں،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’عقل اس سے بڑھتی ہے مگر دل روشن نہیں ہوتا۔‘‘ گرامی کے مزید دو اشعار نقل کر کے لکھا، ’’سبحان اللہ! سبحان اللہ! آپ کے ایک ایک مصرع میں سو سو بوتل کا نشہ ہے، اِسی واسطے تو گرامی پیرِ مغاں ہے۔‘‘ لاہور میں جو لوگ گرامی سے ملنا چاہتے تھے اور جن میں خود اقبال بھی شامل تھے، اُن کا تذکرہ کر کے لکھا، ’’خدا جانے زندگی کب تک ہے، کچھ عرصہ کے لیے آ جائیے تاکہ میں بھی آپ کی صحبت سے مستفیض ہو جاؤں۔ یہ صحبتیں کسی زمانے میں تاریخ کے ورق بن جائیں گی۔‘‘ ’’بندگی با ہمہ جبروتِ خدائی مفروش‘‘ کے متعلق دوبارہ استفسار کیا۔ ’’اس کی اصلاح کیجیے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’میں اس مصرع سے ایک عجیب و غریب مضمون پیدا کروں گا۔ لفظ ہمہ کھٹکتا ہے۔اگر آپ کے خیال میں ’ہمہ‘ لفظ قابلِ اعتراض نہیں ہے تو پھر میں پہلا مصرع لکھوں گا۔‘‘ اگلے ہی روز علی بخش کو ہوشیارپور جانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ اقبال نے اِس خیال سے روک لیا کہ شائد گرامی اُس کے ہمراہ آنے کا فیصلہ کر لیں۔ ’’مہربانی کر کے بواپسی ڈاک مطلع فرمائیے کہ آپ کا کیا فیصلہ ہے،‘‘ گرامی کو لکھا۔ ’’اگر آپ آئیں تو میں اُسے جالندھر ٹھہرنے اور آپ کے لانے کے متعلق ضروری ہدایات دے کر یہاں سے چلنے کی اجازت دوں۔‘‘۱۶۴ ۲۰۸ کوئی شیخ عطااللہ تھے، زاویہ نشیں بزرگ تھے جن کے عزیز عتیق اللہ سے اقبال کی ملاقات تقریباً روزانہ ہوتی تھی۔ شیخ صاحب نے اقبال کو تعریفی خط لکھا۔ مولوی میر حسن یا کوئی اور بزرگ جو اقبال سے قریب تھے، انہیں کسی بات کی مبارک باد بھیجی۔ ۶ جنوری کو جواب دیتے ہوئے اقبال کو حاذق گیلانی کا ایک فارسی شعر یاد آیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ میرا دل کسی چیز سے نہیں بہلتا۔ ’’اگرچہ نمائشی چیزوں سے میرا دل گریز کرتا ہے اور میرے قلب کی کیفیت یہ ہے،‘‘ اُنہوں نے شعر نقل کرتے ہوئے لکھا۔ ’’ بوجہ تعلقاتِ دیرینہ آپ کے خط نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا جس کے لیے میں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔ حضرت قبلہ گاہی کی خدمت میں آپ کی مبارک باد پہنچا دُوں گا۔۔۔ اُمید کہ مزاج بخیر ہو گا اور زاویہ نشینی کی وجہ سے قرآن کریم پر غور و خوض کرنے [کا] بہتر موقع آپ کو ملتا ہو گا۔‘‘ ۲۰۹ نواب ذوالفقار علی خاں آٹھ دس روز کے لیے دہلی جانے والے تھے اور شدت سے چاہتے تھے کہ گرامی اُن کی روانگی سے پہلے لاہور آئیں تاکہ ملاقات ہو سکے۔ بنام گرامی ڈیر مولانا گرامی۔ السلام علیکم! علی بخش آج صبح ّ(۱۰ جنوری ۲۲ء منگل) ہوشیارپور روانہ ہو گیا۔ چوں کہ نواب صاحب کا تقاضا ہے کہ آپ ان کے دہلی جانے سے پہلے تشریف لائیں، اِس واسطے میںنے اُسے تاکید کر دی ہے کہ وہ ہوشیارپور صرف ایک روز ٹھہرے۔ لہٰذا علی بخش ۱۱ جنوری یعنی بدھ کی شام کو آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گا۔ ۱۲ جنوری یعنی جمعرات کے روز آپ وہاں سے سوار ہو جائیں۔ علی بخش کو میں نے ہدایات دے دی ہیں۔ اُمید کہ خدا تعالیٰ آپ کو سفر کی توفیق عطا فرمائے گا۔ والسلام! محمدؐ اقبال، لاہور بدیدن کارڈ ہذا آپ سفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ کارڈ اِسی واسطے لکھا ہے کہ شاعر کی نازک طبیعت پر سفر کی فوری تیاری ناگوار نہ گزرے۔ محمدؐ اقبال ۲۱۰ اقبال کے دوست شیخ اصغر علی کمشنر ہو کر ملتان چلے گئے۔ کچہری میں اقبال کی ملاقات سر علی امام کے چھوٹے بھائی حسن امام سے ہوئی۔ ایک مقدمہ کے لیے آئے تھے۔ خیال آیا کہ گرامی ملاقات کر لیں تو شاید اِن کے اثر رسوخ سے کچھ فائدہ اٹھا سکیں۔۱۶۵ اُسی روز گرامی کا خط ملا۔ لکھا تھا، ’’گرامی سفید ریش ہے۔ غزالانِ معانی کو دام میں نہیں لا سکتا۔ ممکن ہے ریشِ سفید سے دم کرتی ہوں۔ چند روز صبر کیجیے۔ خضاب سے ریش دلریش کا منہ کالا کروں گا پھر غزل لکھوں گا۔‘‘ یہ بات شاید مذاقاً کہی تھی ورنہ اقبال کے اُس شعر نے، جس میں کہا گیا تھا کہ حجازیوں نے ہمارا قافلہ لوٹ لیا مگر خاموش رہو کیونکہ ہمارا محبوبؐ عربی ہے، گرامی کو بیخود کیا تھا اور اُنہوں نے بھی اس پیرایے میں کچھ اشعار نکالے تھے کہ میں دل کی بات نگاہ کی زبان سے کہہ رہا ہوں کہ ہماری زبان فارسی ہے اور ہمارا محبوبؐ عربی ہے: حدیثِ دل بہ زبانِ نگاہ می گویم زبانِ ما عجمی و حبیبِ ما عربی است گرامی کا کہنا تھا، ’’بہت ہاتھ پیر مارتا ہوں کہ آپ کی تقلید کروں، نہیں کر سکتا۔‘‘ لیکن اس شعر کے پہلے مصرع نے اقبال کے دل میں گھر کر لیا۔ اپنے مصرع ’’بندگی با ہمہ جبروتِ خدائی مفروش‘‘ میں جو لفظ ’’ہمہ‘‘ اقبال کو کھٹکتا تھا اور جس کے بارے میں کئی دفعہ استفسار کر چکے تھے، اُس کے بارے بھی گرامی نے بالآخر رائے دے دی۔ ’’اِس مصرع میں لفظ ہمہ، مصرع کی جان ہے،‘‘ گرامی نے لکھا تھا۔ اقبال نے پہلا مصرع نہیں لکھا تھا مگر گرامی نے معراج کے بارے میں ایک مصرع لکھ کر شعر مکمل کر دیا۔ اقبال نے اُسی وقت جوابی خط لکھا جس پر تاریخ ڈالنا بھول گئے۔ ۲۱۱ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی جس رسالے عبرت کے مدیر تھے اُس کے مینجر محمد ادریس تھے۔ اقبال نے ۱۲ جنوری کو اُنہیں ایک فارسی رباعی بھیجی جو گوئٹے والے مجموعے کے لیے تحریر کی تھی کہ اے مسلمانو! میرے دل میں ایک ایسی بات ہے جو جبرئیل کی روح سے زیادہ روشن ہے۔۔۔ ۲۱۲ گرامی غالباً ۱۲ جنوری ہی کو پہنچ گئے۔ اقبال کا خیال تھا کہ بیگم انہیں جلد واپس بلانے کے لیے پھر بیماری کا تار بھیجیں گی۔۱۶۶ بہرحال گرامی کے آنے سے شعرگوئی کی خوب تحریک ہوئی۔ گوئٹے کے جواب میں مرتب ہونے والے مجموعے کے لیے کافی چیزیں لکھی گئی ہوں گی۔ ۲۱۳ بنام نیازالدین خاں مخدومی! السلام علیکم آپ کے دونوں خط مل گئے ہیں۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مبارک ہو۔ اِس زمانے میں یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔ دوسری رَویا کا بھی یہی مفہوم ہے۔ قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب، محمدیؐ نسبت پیدا کرے۔ اس نسبتِ محمدیہؐ کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معانی بھی آتے ہوں۔ خلوص و محبت کے ساتھ محض قرأت کافی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ نبیٔ کریم زندہ ہیں اور اِس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اِس زمانے میں تو اِس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہو گا۔ اِس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ اُمید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مولانا گرامی لاہور میں تشریف رکھتے ہیں۔ کبوتر موجود ہیں، مگر مشکلوں سے بچّے پالتے ہیں۔ بڑی دیر کے بعد ایک جوڑے نے بچوں کی پرورش کی ہے۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبال لاہور ۲۱۴ ۱۵ جنوری کو نواب ذوالفقار علی خاں دہلی چلے گئے۔ آٹھ دس روز بعد واپسی تھی۔۱۶۷ ۲۱۵ تحریک عدم تعاون کی وجہ سے وکیلوں کا کاروبار ٹھپ تھا۔ اعجاز کو خبر ملی کہ سرکاری ملازمت مل سکتی ہے اگر اقبال کسی ڈارلنگ صاحب سے سفارش کر دیں۔ ’’انگریز اِن دنوں میں صرف اُنہی لوگوں کو ملازمت دیتے ہیں جنہوں نے زمانہ جنگ میں کوئی خدمات کی ہوں۔ بہرحال کوشش کرنا ضرور ہے،‘‘ اقبال نے ۱۷ جنوری کو اعجاز کے خط کے جواب میں لکھا۔ ’’میں ڈارلنگ صاحب سے خود بھی کہوں گا اور نواب صاحب سے بھی کہلواؤں گا۔ وہ پرسوں دہلی گئے ہیں آٹھ دس روز کے بعد آئیں گے پھر اُن سے مشورہ کرنے کے بعد تم کو لکھوں گا۔ تم مجھے پھر یاد دلانا۔ باقی رہا پیشہ وکالت سو موجودہ حالت میں تو جو تم کہتے ہو ٹھیک ہے۔ علاوہ اس کے اس پیشے میں ابتدا میں بہت سی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے مگر آیندہ زمانے میں اس پیشے کے بہت سے امکانات ہیں بشرطیکہ مزید اصلاحات گورنمنٹ نے منظور کر لیں۔‘‘ ایک دو روز میں ہی اعجاز کی طرف سے ایک اور خط موصول ہوا جس میں مزید بیتابی کا اظہار تھا۔ بنام شیخ اعجاز احمد برخوردار اعجاز طال عمرہٗ تمہارا خط مل گیا ہے۔ تم بیشک کوشش کرو۔ مسٹر مارٹن اور ولز صاحب سے بھی سندات حاصل کر لو اور جب وقت آئے تو ایک تحریری عرضی دے دینا جس میں تمہارے ابا جان کی خدمات کا بھی ذکر ہو۔ وہ عرضی تم میرے پاس بھیج دینا میں اپنے سفارشی خط کے ساتھ ڈارلنگ صاحب کے پاس بھیجوں گا۔ وہ میرے انگلستان کے زمانہ کے واقف کار ہیں اور میری بہت عزت کرتے ہیں مگر ملازمت وغیرہ کے معاملے میں انگریزوں کی واقفیت وغیرہ پر اعتماد کرنا ٹھیک نہیں۔ سعی پورے طور پر کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو آج کل کسی قدر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ وقت دُور نہیں جب اِس شک میں ہمارے ہم وطن بھی انگریزوں کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اِس وقت تو بالعموم اُنہی مسلمانوں کو ملازمت کے لیے پسند کیا جاتا ہے (خاص کر اعلیٰ ملازمتوں کے لیے) جن کی اِسلامیت حکومت کے خیال میں کمزور ہو اور اِس کمزوری کا نام وُسعتِ خیال یا لبرلزم رکھا جاتا ہے۔ باقی رہی وکالت سو یہ اللہ پر توکل رکھنے والوں کا پیشہ ہے۔ اگر کسی مہینے میں آمدنی نہ ہو تو ابتدا میں سخت گھبراہٹ ہوتی ہے مگر رفتہ رفتہ اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے پرانے اور مشہور کام کرنے والوں کو بھی گاہے گاہے یہ تجربہ ہو جایا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ رازق ہے۔ ایک دو ماہ کام نہ آئے تو تیسرے مہینے کسر نکال دیا کرتا ہے۔ تم محنت کرتے جاؤ خواہ کام آئے نہ آئے کتابیں قانون کی پڑھتے رہو۔ خاص کر پنجاب ریکارڈ۔ جب کام آنا شروع ہو گا تو پڑھنے کی فرصت نہ ہو گی۔ مگر گھبراؤ نہیں کام ضرور آئے گا۔ والد مکرم کی خدمت میں آداب عرض کرنا۔ مولوی گرامی صاحب ان کو سلام کہتے ہیں۔ محمدؐ اقبال لاہور ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ء ۲۱۶ اطلاع آئی کہ گرامی کی بیگم کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ گرامی نے رختِ سفرباندھا۔ اقبال کو اپنے کسی فارسی شعر کے لیے سند درکار تھی، وہ واپس جا کر بھجوانے کا وعدہ کیا۔ انہیں رخصت کرتے کرتے اقبال نے مزید دو اشعار سنا ڈالے جو تازہ وارد ہوئے تھے اور ابھی غزل باقی تھی۔ گرامی پھر بھی نہ ٹھہرے، چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد شعرگوئی کی تحریک کم ہو گئی مگر پھر بھی اُس غزل میں کچھ اضافہ ہو گیا جس کے دو شعر گرامی کو رخصت کے وقت سنائے تھے۔ گرامی کا وہ شعر بھی ذہن میں چکراتا رہا کہ ہم نے عقل کی کتاب کا ایک ایک ورق پڑھ ڈالا، حیلہ فروشی اور مدعا طلبی کے سوا کچھ نہیں۔۱۶۸ ۲۱۷ ۲۳ جنوری کو شام ساڑھے پانچ بجے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں عربی فارسی وغیرہ کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس ہوا۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ اقبال نے صدارت کی۔ قاضی فضل حق اور مولوی محمد حسین بھی موجود تھے۔ ایم او ایل کے لیے ممتحنین کے نام تجویز کیے گئے: پرچہ ۱، ۲ مولوی میر حسن مرے کالج سیالکوٹ پرچہ ۳، ۴ مولوی اصغر علی روحی، اسلامیہ کالج لاہور پرچہ ۵،۶ مولوی حسین، فورمین کرسچین کالج لاہور سنڈیکیٹ نے ۳ فروری کو منظوری دینی تھی۔ ۱۶۹ ۲۱۸ نیازالدین خاں نے اقبال کی اِس بات پر کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں، اُس واقعے کا حوالہ لکھ بھیجا جب آنحضورؐ کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے قرآن کی آیت پڑھی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حوالہ تھا۔ ۲۴ جنوری کو اقبال نے خط میں وضاحت کی کہ پچھلے خط میں اُن کی مراد جسمانی زندگی نہیں تھی، ’’’زندگی‘ سے مراد زندگی بجسدِ عنصری نہیں۔‘‘ ۲۱۹ ۲۵ جنوری کی صبح مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے مرزا سلطان احمد جنہوں نے اپنے آنجہانی باپ کا مذہب قبول نہیں کیا اور جن سے اقبال کے مراسم تھے، کسی سے یہ سن کر کہ گرامی آئے ہوئے ہیں،ملاقات کے لیے چلے آئے۔ گرامی کہاں تھے کہ انہیں ملتے۔ اُن کے جانے کے بعد اقبال گرامی کو خط لکھنے ہی والے تھے کہ گرامی کا خط موصول ہو گیا۔ غالباً اسی میں ایک غزل بھی اخبار میں اشاعت کے لیے ارسال کی تھی جس کے ایک شعر نے اقبال کو بیچین کر دیا کہ جو کچھ دیکھا اور پڑھا تھا سب فراموش ہو گیا سوائے تمہارے جسے دیکھا نہیں ہے مگر پھر بھی ضمیر میں موجود ہو: ہر دیدہ و خواندہ شد فراموش اِلّا تو ندیدہ در ضمیری ’’سبحان اللہ! ثم سبحان اللہ! یہ غزل تو مخزن میں شائع ہونی چاہیے یا کسی اور رسالے میں ۔ اخبار اِس کے قابل نہیں،‘‘ اقبال نے اُسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’’یک شعرِ دلآویزے‘ کی سند کا منتظر ہوں ضرور تلاش کیجیے ورنہ ایسا اچھا شعر ہاتھ سے جائے گا۔‘‘ تازہ غزل کے مزید اشعار جو وارد ہوئے تھے، وہ بھی بھیجے کہ یہ مت سمجھو کہ ہماری مٹی ازل کے دن گوندھی گئی تھی، ہم تو ابھی تک وجود کے ضمیر میں ایک تخیل ہیں: گماں مبر کہ سرشتند در ازل گِلِ ما کہ ما ہنوز خیالیم در ضمیرِ وجود ۲۲۰ پرفیسر محمد اکبر منیر ایران پہنچے ہوئے تھے۔ ان کا ایک خط ملا مگر اقبال جواب نہ دے سکے۔ پھر کسی وقت عصرِ آزادی میں، جو غالباً کوئی رسالہ تھا، ان کی دو نظمیں بھی نظر سے گزریں۔دلآویز معلوم ہوئیں۔ اقبال کا خیال تھا کہ ایران کا قیام اکبر منیر کے لیے مفید ثابت ہو گا اور اُن کی زبان مزید شستہ ہو جائے گی۔۱۷۰ ۲۲۱ انگریزی کورسوں میں مضامین کا تنوع اقبال کو دلچسپ لگتا تھا۔ چاہتے تھے کہ فارسی کے ذریعے بھی جدید خیالات اور احساسات طلبأ تک پہنچیں۔ ایران کے جدید شعرأ کی نظموں کی تلاش تھی مگر سیاسی نظمیں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے یا شاید اس کی اجازت ہی نہ ملتی۔ ایک کتاب سفینۂ طالبیکے بارے میں سنا کہ بہت اچھی ہے مگر ہندوستان میں دستیاب نہ تھی۔ ملّا صدرالدین شیرازی کی کتاب شرح ہدایت الحکمۃہاتھ لگی۔ مطالعہ شروع کر دیا۔ خیال آیا کہ اگر وقت مل جائے تو اس موضوع پر بھی کچھ لکھیں۔۱۷۱ ۲۲۲ ۲۷ جنوری کو ڈارلنگ صاحب کی بیوی کا رقعہ ملا۔ ۵ فروری کو لنچ کی دعوت دے رہی تھیں۔ اقبال کو بھی بلایا تھا۔۱۷۲ اگلے روز اقبال کی کوئی بہن سیالکوٹ سے آنے والی تھیں۔ رات گئے تک انتظار رہا۔ صبح اعجاز کا خط ملا تو معلوم ہوا کہ ارادہ بدل گیا تھا۔ اعجاز نے کسی میر افضل علی کا خط بھی اقبال کو بھجوایا تھا جو ملازمت کے حصول میں اعجاز کے کام آ سکتا تھا۔ ’’اگر اُس روز اور لوگ وہاں نہ ہوئے تو میں ڈارلنگ صاحب سے زبانی کہوں گا ورنہ بعد میں تمہارے لیے اُن کو خط لکھوں گا،‘‘ اقبال نے اُسی روز اعجاز کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’وِلز صاحب کو خط لکھ کر سارٹیفکیٹ لے لو یا ایک روز آ کر اُن سے مل لو۔ میں اپنا خط تمہاری عرضی کے ہمراہ بھیجوں گا جس میں سب حالات لکھ دوں گا اور یہ بھی دریافت کر لوں گا کہ اگر وہ تم کو دیکھنا چاہیں تو اطلاع دیں۔‘‘اس کے ساتھ میر افضل علی کا خط بھی واپس بھیج دیا کہ شاید اعجاز کو ضرورت پڑے۔ ۲۲۳ ۳۰ جنوری کو ایران سے پروفیسر محمد اکبر منیر کا خط ملا۔ انہوں نے ملّا صدرالدین شیرازی کی تفسیرِ قرآن اقبال کے لیے روانہ کی تھی اور اُمید تھی کہ چند روز میں پہنچ جائے گی۔ اقبال سے فلسفے اور منطق کی کچھ کتابوں کے نام بھی مانگے تھے جن کا مطالعہ مفید ہو۔ ’’یہ چیز عجیب و غریب ہو گی،‘‘ اقبال نے اُسی وقت خط لکھ کر ملّا صدرالدین شیرازی کی تفسیرِ قرآن کے لیے شکریہ ادا کیا۔ عصرِ آزادی میں اکبر منیر کی جو نظمیں شائع ہوئی تھیں ان کی بھی تعریف کی اور انٹرنس کے لیے جو فارسی کورس مرتب کرنے کا خیال ذہن میں تھا اُس کی کچھ تفصیل لکھ کر سفینۂ طالبی کا تذکرہ بھی کیا۔ ’’یہ کتاب یا کوئی اور کتاب اِسی قسم کی مل جائے تو خوب ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’غرض کہ آپ یہاں کے انٹرنس کے طلبأ کی ضروریات کو سمجھتے ہیں۔‘‘ ’’یہاں کے حالات بدستور ہیں،‘‘ انہوں نے خط میں لکھا۔ ’’عدمِ تعاون روزافزوں ہے اور گورنمنٹ تشدّد پر آمادہ ہے۔ زمانہ حال کی طبیعت میں ہیجان و اضطراب ہے۔ معلوم نہیں باطنِ فطرت میں کیا کیا اَسرار ہیں جو ظہورپذیر ہوں گے۔‘‘ دوسرے صفحے پر انگریزی میں فلسفے کی تین کتابوں کے نام لکھے کیونکہ شاید اکبر منیر نے حسبِ معمول اِس سلسلے میں رہنمائی طلب کی تھی۔ ’’لاجک کی فی الحال آپ کو ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ۲۲۴ معاہدۂ سیورے کی رُو سے فلسطن اور شام کے مقدس مقامات کے لیے مسلمان، عیسائی اور یہودی ارکان پر مشتمل جو کمیشن بننا تھا، حکومتِ برطانیہ نے اقبال کو بھی اُس میںشامل ہونے کی دعوت دی مگر کمیشن کے اجلاس یروشلم کے مقام پر ہونے تھے جس کے لیے اگلے دو تین برس میں کئی دفعہ ملک سے باہر جانا پڑتا۔ یہ شاہی کمیشن ہوتا اور شاہی کمیشن کے ارکان کو سوائے اخراجاتِ سفر کے اور کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ اقبال کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ کمیشن کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے اتنے روز ملک سے باہر رہنے میں وکالت کے کام کا جو نقصان ہوتا کیا وہ اُسے اُٹھا سکتے تھے؟۱۷۳ ۲۲۵ کشمیر میں رحمان راہ کی زندگی کا فیصلہ ہونے والا تھا مگر وہ کونسل ابھی تک نہ بن سکی تھی جس کے بارے میں منشی اسداللہ کو اُمید تھی کہ وہاں فیصلہ مسلمان کے حق میں ہو گا۔منشی صاحب سمجھ رہے تھے کہ اس صورت میں اقبال اُسی فیس میں جو جولائی میں انہیں دی گئی تھی، دوبارہ کشمیر کا سفر کر کے مقدمے میں مزید بحث کر سکیں گے مگر یہ ممکن نہ تھا اور اِقبال نے واضح بھی کر دیا تھا۔ منشی اسداللہ کی ہدایت پر اقبال نے اپنی بحث کے تفصیلی نوٹ کشمیر ہائی کورٹ کے جج لالہ کنور سین کو بھیج دیے جو مولوی میر حسن کے چہیتے شاگرد اور اقبال کے دوست تھے۔ ۱۷۴ ۲۲۶ آئرلینڈ کے ادیب جیمز جوائس کے ناول یولیسس (Ulysses) پر برطانیہ اور امریکہ میںفحاشی کی وجہ سے پابندی تھی۔ ۲ فروری کو پیرس سے شائع ہو گیا۔ اقبال کے دوست اور مخزن کے بانی و سابق مدیر شیخ عبدالقادر نے بعد میں اِس کے بارے میں لکھا: اِس کی ٹکنیک بالکل وہی ہے جس میں ہم اور آپ دن رات سوچا کرتے ہیں۔ ہماری اندرونی ہستی کے مکمل اظہار کے لیے شعور اور لاشعور دونوں کی تحریکات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ اور پھر نفسِ شعور میں آنے والے خیالات بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کا ہم بے کھٹکے سوسائٹی کے سامنے اظہار کر سکتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نفسِ شعور میں گھومتے تو ہیں لیکن ’’سماجی تعصبات‘‘ کے خوف کی وجہ سے ان کو زبان پر نہیں لاتے۔ ’’جس وقت نظر پڑتی ہے اُس شوخ پر تسکین‘‘ تو وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے کہ ’’کیا کہیے کہ کیا کیا مرے جی میں نہیں آتا۔‘‘ وہ اِس کی تشریح نہیں کرتا کہ اُس کے جی میں کیا کیا آتا ہے، اس لیے کہ وہ سوسائٹی کے ممنوعات کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے۔ جائس [جوائس] کی ٹکنیک کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نفسِ شعور میں گھومنے والے تمام خیالات کو، قطعِ نظر اِس سے کہ وہ سوسائٹی کے سامنے قابلِ ذکر ہوں یا نہ، اُسی انداز میں بیان کرتا ہے جس میں کہ اُس کا کردار سوچتا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک خاص واقعے کو بیان کرنا شروع کرتا ہے اور کچھ آگے چل کر اُس سے وابستہ لاشعوری تلازمات کو بیان کرنے لگتا ہے جن کا بظاہر نفسِ مضمون سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ بیسیوں صفحات ایک لمحے کو دُوسرے سے جدا کر دیتے ہیں، لیکن اِس ’’تُک بندی‘‘ کے باوجود پلاٹ میں ایک خاص قسم کا ربط پایا جاتا ہے۔ [یولیسس] کی اشاعت سے دنیائے ادب میں ایک ہنگامہ پبا ہو گیا ہے۔ پہلے پہل انگلستان میں اس کی اشاعت ممنوع قرار دی گئی۔۔۔ نقادوں کی ایک جماعت نے اس تصنیف کو انسانیت کی توہین قرار دیا تو دوسری جماعت نے اسے نوعِ انسانی کے لیے ایک ’’صحت بخش مسہل‘‘ ٹھہرا کر اس کا خیرمقدم کیا۔۱۷۵ ۲۲۷ اقبال، مولانا تاج الدین ناگوری کے پاس نہ جا سکے تھے البتہ مراقبے کے ذریعے پیغام بھیجا۔ اس کی مکمل تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔۱۷۶ ۲۲۸ نواب سر ذوالفقار علی خاں چند روز کے لیے لاہور آئے تھے۔ واپس دہلی چلے گئے۔ کچھ روز بعد پھر آنا تھا۔۱۷۷ ۲۲۹ ولی عہدِ سلطنت فروری کے آخر میں لاہور آنے والے تھے۔ استقبال کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کشن پرشاد کا خط ملا تو ۳ فروری کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا، ’’مولانا شاہ تاج الدین کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا البتہ پیغام مراقبے کے ذریعے بھیجا ہے مگر اقبال کے طلیفون کی مشین ناقص ہے دیکھیں پیغام وہاں پہنچتا بھی ہے یا نہیں۔‘‘ ٹیلی فون سے مراد یہی روحانی پیغام رسانی تھی جس کا اُن دنوں سہارا لیا تھا۔ اُس روز پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں عربی فارسی وغیرہ کے بورڈ کے گیارہ روز پہلے والے اجلاس کی تجاویز کے مطابق مولوی میر حسن، مولوی اصغر علی روحی اور مولوی محمد حسین کو ایم۔او۔ایل کا ممتحن مقرر کیا گیا۔۱۷۸ ۲۳۰ ۴ فروری تھی۔ یو پی کے شمال میں گوتم بدھ کی جائے پیدائش کے قریب چَوری چَورا کے چھوٹے سے قصبے میں عدم تشدد والوں کی خاصی بڑی تعداد پولیس پر پتھراؤ کر رہی تھی۔ پولیس نے گولی چلائی، تین آدمی مرے اور باقی ہجوم نے دھاوا بول دیا۔ پولیس کے بائیس کانسٹیبلوں کو بھاگ کر تھانے میں پناہ لینا پڑی۔ ہجوم نے تھانے کو باہر سے بند کر کے آگ لگا دی۔اِس عدم تشدد میں جل کر مرنے والوں میں علاقے کا صوبیدار بھی شامل تھا۔ ۲۳۱ گاندھی نے چَوری چَورا کے واقعے کو خدا کی طرف سے تحریک بند کرنے کا اِشارہ قرار دیا۔ کانگریس اُنہیں اختیاردے چکی تھی۔ اُن کے حکم پر ستیہ گرہ کی تحریک فوراً بند کر دی گئی اور اُنہوں نے کفارے کے طور پر پانچ دن فاقہ کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۳۲ ۶ فروری کو سردار امراؤ سنگھ بیوی بچوں سمیت شملہ سے آ گئے۔ دو ماہ قیام کرنے کا اِرادہ تھا۔ غالباً اُسی روز گرامی کا خط ملا جس کا اقبال کو شدّت سے انتظار تھا تاکہ ’’یک شعر دلآویزے‘‘ کی سند اور غزل کے تازہ اشعار پر گرامی کی رائے معلوم ہو سکے مگر خط میں دونوں چیزیں موجود نہ تھیں۔ گرامی کے ایک دوست سید صفدر علی شاہ کو اپنے کسی افسر سے کام نکلوانے میں سفارش درکار تھی، گرامی نے اُس سلسلے میں مدد مانگی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خاں سے کہہ سکتے ہیں ورنہ کالرا اسٹیٹ کے جاگیردار ملک عمر حیات خاں ٹوانہ جو پنجاب کے مشہور رئیس اور برطانوی فوج میں اعزازی عہدے پر فائز تھے، اُن کی سفارش حاصل کرنے کی ضرورت بھی پیش آ سکتی تھی۔ ’’بڑے آدمیوں سے کام لینے کے دو طریقے ہیں،‘‘ اقبال نے ۶ فروری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اول یہ کہ جب نواب صاحب اور شاہ صاحب کے افسر لاہور میں ہوں تو آپ خود مع شاہ صاحب یہاں تشریف لے آویں اور اپنی موجودگی میں نواب صاحب کو افسر مذکور کے پاس بھیجیں۔ اس کام میں، میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گا۔ دوم یہ کہ آپ نواب صاحب کو بذریعہ خطوط یاددہانی کرواتے رہیں مگر جہاں تک مجھ کو تجربہ ہے مقدم الذکر طریقہ ہی درست ہے۔۔۔‘‘ ملک عمر حیات ٹوانہ سے کام لینے کے لیے بھی اقبال نے یہی طریقہ تجویز کیا۔ البتہ گرامی پہلے ہی سے بددل نہ ہو جائیں، اِس لیے جو بات اُس وقت نہ لکھی وہ یہ تھی کہ صفدر کا معاملہ کچھ ایسا تھا جس میں کامیابی کی اُمید کم تھی۔ اس کے علاوہ وہ معاملہ ایسے لوگوں سے تھا، ’’جن سے مسلمانوں کو زمانۂ حال میں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔ اگر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اُن کے شر سے ہی محفوظ رکھے تو غنیمت سمجھنا چاہیے۔‘‘۱۷۹ اقبال نے اُس خط میں یہ بات نہ لکھی مگر یہ اِشارہ کن لوگوں کی طرف تھا؟ وثوق کے ساتھ کسی کا نام نہیں لیا جا سکتا مگر گیارہ برس پہلے ’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ والے لیکچر میں، سات برس قبل اپنی بہت سی مختصر نظموں میں اور اُس کے بعد بھی مختلف مواقع پر اقبال اِس بات کی نشاندہی کرتے رہے تھے کہ جدید تعلیم نے مسلمانوں کی ایک پوری نسل کو اِسلامی ادبیات کی روح سے دُور کر کے اور مغربی افکار سے مسلسل متاثر کر کے عملاً غیرمسلم بنا دیا ہے خواہ نام اور عقیدے کے لحاظ سے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ بدقسمتی سے اب مسلم معاشرے کی باگ ڈور اِنہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی کیونکہ تعلیم یافتہ طبقے میں اقبال، علی برادران اور نواب ذوالفقار جیسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جنہیں سرسید اور اُن کے رفقأ کے اَثر نے بچا لیا تھا۔ ’’آپ کی موجودگی کا اثر اور ہے اور آپ کے خطوط کا اثر اور بلکہ آپ کی موجودگی شاید آپ کے شعر سے بھی زیادہ موثر ہو،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’دنیا کے معاملات میں شاعر کا وجود اُس کے کلام سے زیادہ ضروری ہے۔۔۔ مرزا جلال الدین سلامِ شوق کہتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ مولانا گرامی پھر کب تشریف لائیں گے؟‘‘ غزل پر مفصل تنقید اور ’’یک شعرِ دلآویزے‘‘ کی سند کی یاددہانی کروائی۔ ۲۳۳ ۸ فروری کو شہزادی بمبا دلیپ سنگھ کے ساتھ چائے پی۔ غالباً سردار اُمراؤ سنگھ ساتھ لے گئے جن کے ساتھ دیر تک شعربازی ہوتی رہی اور گرامی کا تذکرہ بھی ہوا۔ ان دنوں نواب ذوالفقار علی خاں بھی آئے ہوئے تھے لہٰذا امکان ہے کہ وہ بھی اس محفل میں شریک رہے ہوں گے۔۱۸۰ ۲۳۴ اگلے روز اقبال نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کمیشن میں شامل نہیں ہو سکتے۔ البتہ اُن کا خیال تھا کہ ابھی مزید اصرار کیا جائے گا۔۱۸۱ غالباً اُسی روز گرامی نے ’’یک شعرِ دلآویزے‘‘ کی سند بھیجی مگر اقبال کی تسلی نہ ہوئی۔ بنام گرامی لاہور ۹ فروری ۱۹۲۲ء ڈیر مولانا گرامی السلام علیکم والانامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مہربانی کر کے غزل کے تمام اَشعار پر اعتراض لکھیے تاکہ میں پورے طور پر مستفید ہو سکوں۔ آپ نے صرف ایک شعر کی تعریف کر دی اور باقی اَشعار چھوڑ گئے۔ میں چاہتا ہوں اُن پر اعتراض کیجیے۔ آپ کے کسی شعر میں اگر کوئی بات مجھے کھٹکے تو میں بلاتکلف عرض کر دیا کرتا ہوں۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مجھے تو تعریف سے اس قدر خوشی نہیں ہوتی جس قدر اعتراض سے کیوں کہ اعتراض کی تنقید سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ گرامی کا جسم جہان سے رخصت ہو سکتا ہے مگر گرامی اس جہان میں رہے گا۔ وہ ایک زندہ ہستی ہے، اُسے فنا نہیں ہے۔ ترکوں کے ساتھ اتحادیوں کا جو عہدنامہ ہوا تھا اُس کی رُو سے مقاماتِ مقدسہ فلسطین و شام کے لیے ایک کمیشن مقرر ہونے والی ہے جس کے ممبر مسلمان، عیسائی اور یہود ہوں گے۔ گورنمنٹ نے مجھ سے دریافت کیا کہ آیا میں اس کمیشن کا ممبر بننا قبول کر سکتا ہوں۔ اس کمیشن کے اجلاس مقام یروشلم میں ہوں گے اور دو تین سال میں متعدد بار یہاں سے یروشلم جانا پڑے گا۔ بعد کامل غور آج میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ گورنمنٹ کی خدمت میں بھی آج جواب لکھ دیا جائے گا۔ انکار کے وجوہ مفصل پھر عرض کروں گا۔ جب ملاقات ہو گی۔ خط میں لکھنا مناسب نہیں ہے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ سردار اُمراؤ سنگھ تشریف لے آئے ہیں۔ کل دیر تک آپ کا تذکرہ رہا اور شعربازی ہوتی رہی۔ آپ کب تک لاہور آنے کا قصد کر رہے ہیں۔ سند جو آپ نے لکھی ہے ٹھیک معلوم ہوتی ہے مگر حق بات یہ ہے کہ ابھی میرا اطمینان نہیں ہوا۔ ایک شعر اور تلاش کر لیجیے۔ نظیری کے مصرع سے آپ کا مصرع کوسوں آگے ہے اور باقی اشعار بھی لاجواب ہیں۔ غزل تمام کر کے ارسال فرمائیے۔ اِسی واسطے تو میں کہا کرتا ہوں کہ گرامی جہانگیری بہار کا آخری پھول ہے جو ذرا دیر کے بعد شاخ سے پھوٹا۔ افسوس کہ آج خانخاناں نہ ہوئے کہ اُن کو معلوم ہوتا کہ خاکِ پنجاب شیراز و نیشاپور سے کسی طرح کم نہیں۔ بھلا یہ مطلع کیسا ہے: نگارِ من کہ جمالش چناں دلآویز است ستیزہ خوے و جفاجوے و فتنہ انگیز است خط جلدی میں لکھا گیا معاف فرمائیے۔ آپ کا مخلص محمدؐ اقبال غزل کی تنقید کے لیے تاکید مزید ہے محمدؐ اقبال ۲۳۵ اُسی روز یا اگلے روز نیازالدین خاں کے خط سے معلوم ہوا کہ گرامی ۲۱ فروری کو لاہور آئیں گے۔ ’’اگر واقع میں آپ کا قصد لاہور کا ہو تو علی بخش کو جالندھر بھیج دوں کہ آپ کو لے آئے،‘‘ اقبال نے ۱۰ فروری کو گرامی کو خط میں لکھا۔ ’’اُس کے جانے سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ ابھی تشریف لے آئیں اور سردی کے باقی ایام یہیں بسر کیجیے۔ نواب صاحب آج دہلی جائیں گے اور دو چار روز کے بعد پھر تشریف واپس لائیں گے۔‘‘ ۲۳۶ اقبال نے کمیشن میں شامل ہونے سے معذرت حکومت کو بھجوا دی۔ البتہ نیازالدین خاں کا خیال تھا کہ اقبال کو کمیشن میں ضرور شامل ہونا چاہیے تھا۔۱۸۲ ۲۳۷ ۱۷ فروری کو گرامی کا خط ملا۔ مولانا جامی کے ایک شعر سے ’’صدنالۂ شبگیرے‘‘ پر قیاس کیا تھا۔ ’’پرائی زبان میں قیاس نہیں چل سکتا،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ ’’اِس کے لیے بھی سند نکالنی ہو گی۔‘‘ خیال تھا کہ اگر واقعی یروشلم جانا پڑا تو روانگی سے پہلے جالندھر جا کر گرامی سے پھر ملیں گے۔۱۸۳ ۲۳۸ اقبال نے مراقبے کی صورت میں بابا تاج الدین ناگوری کو جو پیغام بھیجا تھا اُس کا جواب موصول نہ ہوا مگر ایک اور جگہ سے بھی ایسے ہی پیغام کی توقع تھی۔۱۸۴ ۲۳۹ ۱۹ فروری کو مولوی فضل الدین کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ انجمن کے زیرِ اہتمام چلنے والے پرائمری اسکولوں کے اخراجات، سرکاری گرانٹ اور نئے مدارس کھولنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی۔ اس میں اقبال، خواجہ دل محمد، مولوی احمد دین وکیل، شیخ نیاز علی، مولوی انشأ اللہ خاں، مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر محمد دین شامل تھے۔۱۸۵ اس روز انگریزی میں نظمیں لکھنے والے سکھ شاعر پوران سنگھ نے پچھلے برس شائع ہونے والے اپنی نظموں کے مجموعے پر اقبال کو پیش کرنے کے لیے دستخط کیے۔ یہ کتاب اقبال کے مجموعے میں شامل ہوئی: The Sisters of the Spinning Wheel and other Sikh Poems original and translated. ۲۴۰ ۲۰ فروری کو اقبال نے حکومت کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ وہ معاہدۂ سیورے کے تحت قائم ہونے والے فلسطین کمیشن میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ۲۴۱ پچھلے خط میں اقبال نے کشن پرشاد کو صرف اپنے بیرونِ ملک سفر کے امکان کی اطلاع دی تھی، تفصیل نہ لکھی تھی۔ انہوں نے خط میں خیال ظاہر کیا کہ حج و زیارت کے لیے سفر کرنا چاہتے ہوں گے۔ اقبال نے ۲۲ فروری کو کمیشن کا پس منظر تحریر کرتے ہوئے لکھا، ’’چونکہ میں دولت مند آدمی نہیں اور یہ کام قریباً دو برس جاری رہے گا اور اجلاس کے لیے ہر سال فلسطین جانا پڑے گا، اِس واسطے مجبوراً بادلِ نخواستہ مجھے انکار کرنا پڑا۔ سید حسن امام بھی ایک ایسے ہی کمیشن پر گئے تھے مگر وہ وسائلِ مالی کے اعتبار سے اس کام کو نبھا سکتے تھے۔ میرے حالات مختلف ہیں۔ مجھ سے ایک بہت بڑی مالی قربانی کے بغیر، جس کا میں حالاتِ موجودہ میں متحمّل نہیں ہو سکتا، یہ کام نہیں ہو سکتا۔ سرکار نے فراستِ باطنی سے معلوم کر لیا کہ حج و زیارت کے لیے سفر ہے۔ حج کے لیے نہیں تو زیارت کے لیے ضرور ہے مگر افسوس کہ میں اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔‘‘ ۲۴۲ ملّا صدرا کی تفسیر پہنچ گئی جو پروفیسر محمد اکبر منیر نے ایران سے بھجوائی تھی۔ ’’بعض مقامات تو خوب ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی اُس کا پایہ تفاسیر میں بہت کم ہے،‘‘ اقبال نے پڑھ کر خیال قائم کیا۔۱۸۶ ۲۴۳ ۱۹۲۲ء میں کسی وقت ماسکو میں اُس شخص کا انتقال ہو گیا جس نے وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں وہی کام کیا تھاجو برصغیر میں سر سید احمد خاں نے کیا تھا۔ یہ مفتی عالم جان بارودی تھے، جن کے ورثے پر روس کی عوامی سلطنت پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مسلم اسٹینڈرڈ لندن نے مفتی صاحب کے حالات شائع کیے۔ ’’حال کے رُوسی علمأ کے بعض تصانیف احیأ اِسلام کے متعلق اگر دستیاب ہو جائیں تو اُن کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہونا چاہیے،‘‘ اقبال نے سوچا۔۱۸۷ ۲۴۴ ۲۸ فروری کو مصر میں برطانوی ہائی کمشنر نے اعلان کیا کہ مصر آزاد ہو گیا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ حکومتِ برطانیہ سلطان فواد کو ’’کنگ فواد‘‘کہنے پر تیار ہو گئی ہے۔ سوئز کنال پر اب بھی برطانیہ کا قبضہ تھا جس نے صرف مصر اور سوڈان کی حفاظت کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ مصر میں یورپی طاقتوں کے تجارتی مفادات اور مصر کے عیسائیوں کے معاملات بھی اپنے ذمے رکھے تھے۔ یہ مصر کی آزادی نہیں بلکہ غلامی کا اعلان تھا۔ جمہوری حکومت کا خواب دیکھنے والی قوم پر بادشاہ مسلط کرنے کے سوا انگریزوں نے اور کچھ بھی نہ کیا تھا۔ ۲۴۵ یکم مارچ کو انقرہ کی اسمبلی کے تیسرے سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے کہا، ’’کسان جس کی وجہ سے اصل پیداوار ہوتی ہے وہی ترکی کا حقیقی مالک اور آقا ہے۔‘‘۱۸۸ ۲۴۶ مولوی میر حسن کے چہیتے شاگرد اور اقبال کے دوست لالہ کنور سین جو کشمیر ہائی کورٹ کے جج تھے اور جنہیں منشی اسداللہ کے کہنے پر اقبال نے رحمان راہ کے مقدمے میں اپنی بحث کے نوٹ بھجوائے تھے،لاہور آئے۔ اقبال نے اُن سے مقدمے کا تفصیل سے ذکر کیا۔ کنورسین نے تصدیق کی کہ اقبال کے بھیجے ہوئے نوٹ مقدمے کی مثل پر موجود ہیں۔ اقبال نے کہ اگر مقدمے جموں میں سنا جائے تو وہ مزید فیس لیے بغیر وہاں آ کر بحث کر سکیں گے۔۱۸۹ ۲۴۷ مارچ کے دوسرے ہفتے میں اقبال کے پاؤں میں درد ہوا۔ مکان سے نیچے اُترنا محال ہو گیا۔۱۹۰ ۲۴۸ پیرزادہ غلام احمد کشمیری جن کا تخلص مہجور تھا، شعرائے کشمیر کا تذکرہ ترتیب دے رہے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اقبال سے بھی اس سلسلے میں مواد طلب کیا۔ بنام مہجورکاشمیری لاہور ۱۲ مارچ ۱۹۲۲ء مکرم بندہ السلام علیکم یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیں۔ میں کئی سالوں سے اسے لکھنے کی تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس کسی نے ادھر توجہ نہ کی۔ آپ کے ارادوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے۔ افسوس ہے کشمیر کا لٹریچر تباہ ہو گیا۔ اس تباہی کا باعث زیادہ تر سکھوں کی حکومت اور موجودہ حکومت کی لاپروائی اور نیز مسلمانِ کشمیر کی غفلت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وادی کشمیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اب بھی موجودہ لٹریچر کی تلاش و حفاظت کے لیے ایک سوسائٹی بنا لیں؟ ہاں شعرائے کشمیر لکھتے وقت مولانا شبلی کی شعرالعجم آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ محض حروفِ تہجی کی ترتیب سے شعرأ کا حال لکھ دینا کافی نہ ہو گا۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعر کی تاریخ لکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بارآور ہو گی اور اگر کبھی خود کشمیر میں یونیورسٹی بن گئی تو فارسی زبان کے نصاب میں اس کا کورس میں ہونا یقینی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے امید ہے کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ میرے پاس کوئی سالہ تذکرہ شعرا کے لیے نہیں ہے ورنہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ والسلام محمدؐ اقبال لاہور ۲۴۹ ۱۳ مارچ کو گاندھی گرفتار کر لیے گئے۔ چھ برس سادہ قید کی سزا ہوئی یعنی مشقت نہ کروائی جائے جیسے علی برادران سے کروائی جا رہی تھی۔ ۲۵۰ اقبال کے پاؤں کے دردمیں کچھ کمی ہوئی تھی۔ نیازالدین خاں نے خط لکھ کر مشورہ دیا کہ صبح کی سیر کا معمول بنا لیں۔ اقبال نے ۱۸ مارچ کو جواب دیتے ہوئے لکھا، ’’اب کے اچھا ہو لوں تو سیرِ سحرگاہی کا التزام کروں گا۔‘‘ ۲۵۱ ۱۹ مارچ کو لارڈ مونٹیگو کی بجائے لارڈ پیل وزیرِ ہند کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۲۵۲ پیرس میں فرانس، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ مل رہے تھے۔ ترکی سے خلیفہ کے وزیرِ خارجہ کے علاوہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کا وزیرِ خارجہ بھی آیا تھا۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے ایک مراسلہ لندن بھیجا جس میں صاف صاف کہا کہ یونان کو ترکی سے نکل جانا چاہیے اور استنبول بھی ترکی کو واپس ملنا چاہیے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ بھی کانفرنس میں شامل تھے۔ اُن کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ اتفاق سے یہ سیکرٹری خارجہ وہی لارڈ کرزن تھے جو کبھی ہندوستان کے سب سے زیادہ شان و شوکت والے وائسرائے رہ چکے تھے۔ تب میں اور اب کتنا فرق تھا، یہ واضح ہو رہا تھا۔۱۹۱ ۲۵۳ کیا برلن کی وہ پراَسرار عورت گمشدہ روسی شہزادی انیسٹیزیا ہے؟ یہ سوال اُس ماہ بین الاقوامی اخبارات میں گردش کرنے لگا۔ ۱۹۱۸ء میں جب بالشویک جیالوں نے زار روس کے خاندان کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا تو سمجھا گیا تھا کہ اُن میں اٹھارہ سالہ شہزادی انیسٹیزیا بھی شامل رہی ہو گی۔ اب جرمنی میں ایک عورت نے جسے کچھ عرصہ پہلے اینا اینڈرسن کے نام سے جانا جاتا تھا، دعویٰ کیا تھا کہ وہ شہزادی انیسٹیزیا ہے ۔ پراَسرار حالات میں اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یورپ میں ایک معمہ پیدا ہو گیا۔ ۲۵۴ پاؤں کے درد کا انگریزی علاج ترک کر دیا۔ ۲۲ مارچ کو دہلی سے حکیم اجمل خاں کی دوا آئی جسے اگلے روز استعمال کرنا شروع کیا۔۱۹۲ اُسی روز گرامی کا خط ملا جس میں سید صفدر علی شاہ کے معاملے یا کسی اور سلسلے میں اقبال سے کوئی کام کہا تھا۔ ’’آپ مستجاب الدعوات ہیں میرے لیے خاص اوقات میں دعا فرمائیے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب دیتے ہوئے اپنی بیماری کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’باقی جو کچھ آپ نے لکھا ہے اُس سے مجھے کوئی تعلق نہیں، وہ سلسلہ اَب اور لوگوں کے سپرد ہے تاہم اگر میں اچھا ہوتا اور کہیں جا آ سکتا تو آپ کے ارشاد کی ضرور تعمیل کرتا۔‘‘ ۲۵۵ پیرس والی کانفرنس سے کچھ نتیجہ نکلنے کی امید تھی تو ۲۶ مارچ کو ختم ہو گئی۔ اتحادی طاقتوں نے اپنی تجاویز شائع کر دیں جن کے مطابق معاہدۂ سیورے میں صرف معمولی تبدیلی گوارا تھی۔ باقی ذلت ترک قوم کو قبول کرنا چاہیے تھی۔ خلیفہ راضی تھے مگر انقرہ کا جواب کچھ اور تھا۔ انقرہ کی اسمبلی اُس ماہ غازی پاشا کی سپہ سالاری میں پھر تین ماہ کی توسیع کر چکی تھی۔۱۹۳ ۲۵۶ میاں ریاض الدین لاہور کے ایک رئیس تھے۔ انہوں نے گرامی کو لاہور آنے کی دعوت دی۔ انجمن حمایت اسلام والے بھی سالانہ جلسے کے لیے بلا رہے تھے مگر گرامی نے دونوں کو اِنکار کر دیا۔۱۹۴ ۲۵۷ جالندھر کے سادات میں سے کوئی سید عبدالقادر تھے۔ انہوں نے صفدر شاہ کی عرضی کا مسودہ اقبال کو دکھایا۔ اقبال نے کچھ مشورہ دیا۔۱۹۵ ۲۵۸ ۳۱ مارچ تک پچھلے برس کی کُل آمدنی پیشہ ورانہ اخراجات نکال کر دس ہزار چوراسی (۱۰۰۸۴) روپے تھی۔ اس میں وکالت کی آمدنی (۹۸۸۰) اور یونیورسٹیوں کے معاوضے (۱۴۸۹) کے علاوہ پہلی دفعہ کتابوں سے رائلٹی شامل تھی۔ یہ ’اسرارِ خودی‘ سے حاصل ہونے والا بتیس (۳۲) روپے کا منافع تھا۔ پانچ سو تئیس (۵۲۳) روپے انکم ٹیکس بنتا تھا۔۱۹۶ ۲۵۹ حکیم اجمل خاں کی دوا سے بھی کم فائدہ ہوا تھا۔ درد بحال تھا۔ یکم اپریل کو بمبئی سے کسی عرب کا خط موصول ہوا جو ’اسرارِ خودی‘ کو عربی میں ترجمہ کرنا چاہتا تھا۔ اُسی روز گورداسپور سے ایک حکیم صاحب کسی سے اقبال کی بیماری کا ذکر سن کر خودبخود پہنچے اور دَوا دے گئے۔۱۹۷ ’’مجھے یقین ہے کہ اِس دوا سے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ جن اجزا سے یہ مرکب ہے ان میں ایک اخلاص بھی ہے جو ان حکیم صاحب کو خودبخود میرے مکان تک لے آیا،‘‘ اقبال نے اگلے روز گرامی کو خط میں لکھا اور تجویز دی کہ وہ میاں ریاض الدین اور انجمن حمایت اسلام کی دعوت قبول کر کے لاہور آ جائیں۔ ۲۶۰ شاہجہاں کی لڑکی اور مغلیہ تاریخ کی نامور ہستی جہاں آرأ بیگم کے بارے میں مغلیہ عہد کے یورپی سیاحوں نے اَفواہیں پھیلائی تھیں جنہیں بعد میں آنے والے انگریز مورخین نے تاریخ کا درجہ دے دیا۔ اب ضیأ الدین برنی نے جہان آرأ بیگم کی مفصل سوانح لکھی اور یورپی مصنفین کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی تردید کی۔ یہ کتاب اقبال کو بھیج کر اُن سے اُن کے نثری مضامین کی فرمائش بھی کی مگر اقبال کئی روز تک جواب نہ دے سکے۔۱۹۸ ۲۶۱ فقیر سید نجم الدین لاہور سے باہر جاتے ہوئے اپنے لڑکے وحیدالدین کو ہدایت کر گئے تھے کہ پڑھنے میں جی نہیں لگتا تو کم از کم ہر روز اقبال کے پاس جا کر ضرور بیٹھیں۔ وحیدالدین یہ وعدہ پورا نہ کر سکے۔ ان کا بیان ہے کہ اُن کے والد واپس آئے تو اُنہیں ساتھ لے کر اقبال کے پاس پہنچے اور کہا، ’’اقبال میں جاتے ہوئے اسے ہدایت کر گیا تھا کہ ہر روز تمہارے پاس آیا کرے لیکن اب معلوم ہوا کہ یہ نالائق ایک دفعہ بھی تمہارے پاس نہیں پہنچا۔‘‘ وحیدالدین کا بیان ہے کہ اس پر اقبال نے کہا، ’’بھئی فقیر جو کام باپ نے نہ کیا ہو وہ بیٹا کیوں کرے۔‘‘۱۹۹ ۲۶۲ جو شخص ہزاروں سال سے زندہ ہو اُس کی گفتگو کا انداز کیا ہو گا؟ اقبال چاہتے تھے کہ خضر کے مکالمے میں ایک تجربہ کار انسان کی جھلک دکھائی دے۔ ’’اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوشِ بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جنابِ خضر کے اندازِ طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا،‘‘ اُن کا بیان تھا۔ ’’یہ بند اَب کسی اور نظم کا حصہ بن جائیں گے۔‘‘۲۰۰ ۲۶۳ سورۂ کہف میں تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جسے حضورِ خداوندی سے خاص علم عطا ہوا تھا۔ دونوں اس شرط پر ساتھ چلے کہ حضرت موسیٰ ؑکوئی اعتراض نہ کریں گے۔ اللہ کے بندے نے اُس کشتی کا تختہ توڑا جس میں وہ سفر کر رہے تھے، ایک بستی سے گزرتے ہوئے ایک کمسن بچے کو جان سے مار ڈالا اور ایک برے لوگوں کی بستی میں کسی گرتی ہوئی دیوار کو بغیر معاضے کے مضبوط کر دیا۔ تینوں مواقع پر حضرت موسیٰ ؑ خاموش نہ رہ سکے تو بندۂ خدا نے کہا کہ اب راستے الگ ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کہ آگے ایک بادشاہ کی عملداری تھی جو اچھی کشتیاں ضبط کر لیتا تھا۔ وہ کمسن بچہ نیک والدین کی اولاد تھا مگر بڑا ہو کر اُنہیں دُکھ دینے والا تھا۔ برے لوگوں کی بستی میں اُس دیوار کے نیچے کسی نیک آدمی نے اپنے بچوں کے لیے خزانہ دفن کیا تھا۔ وہ مر گیا اور یتیم بچے کمسن تھے۔ دیوار گرتی تو برے لوگ اُن کا ورثہ چھین لیتے۔یہ کام اپنی خواہش سے نہیں بلکہ خدا کے حکم سے کیے تھے۔ قرآن میں اُس بندۂ خدا کا نام نہیں بتایا گیا تھا۔ مفسرین اُسے خضر کہتے تھے۔ صوفیوں نے خضر کو اُن لوگوں کا رہنما بتایا جنہیں کسی کی رہنمائی میسر نہیں آتی۔ عوام میں مشہور ہوا کہ خضر زندہ ہیں۔ کوئی مسافر راستہ بھٹک جائے تو رہنمائی کرتے ہیں۔ محمود غزنوی کے عہد میں عظیم شاعر فردوسی کی نگاہوں نے قوموں کی تقدیر پر نگاہ ڈالی تو خضر کے کردار کو وُسعت دے کر آبِ حیات کا قصہ شاہنامہ میں شامل کر دیا۔ اسے ذوالقرنین بادشاہ کے عہد میں رکھ دیا جس کا تذکرہ اسی سورۂ کہف میں آیا تھا۔ بعض مفسر ذوالقرنین کو یونانی فاتح سکندراعظم کی تاریخی شخصیت قرار دے چکے تھے۔ فردوسی نے اُسے ایرانیوں کا محبوب بنایا۔ مستقبل کی عظمت کو ماضی کی تلخیوں کے گہن سے نکالا۔ ’’اسکندر ذوالقرنین‘‘ کو چشمۂ حیواں یعنی زندگی کے چشمے کی تلاش تھی جس میں آبِ حیات تھا جسے پی کر ہمیشہ کی زندگی ملتی تھی۔ چشمہ ایک اندھیرے دیس میں تھا جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی تھی۔ ایک رہنما کو ساتھ لے کر نکلا تو خود نہ پہنچ سکا مگر رہنما چشمے تک پہنچ گیا۔ ہمیشہ کی زندگی پائی۔ اُسی رہنما کا نام خضر تھا۔ دو سو برس بعد نظامی گنجوی چار مثنویوں میں فقر و شاہی کے راز بیان کر چکے تو انسانی تاریخ کی انتہائی منزلوں کی نشاندہی کے لیے ’’اسکندر ذوالقرنین‘‘ کو مرکزی کردار بنایا۔ فردوسی نے جن اَسرار کو کوزے میں بند کر کے شاہنامہ لکھا تھا، نظامی نے اسکندرنامہ میں انہیں دیکھنے والوں کے لیے ظاہر کر دیا۔ روم، یونان، مصر، عرب، ایران، ترکستان، چین اور ہندوستان کے تہذیبی عناصر کی آمیزش سے ایسا مرقع تیار کیا جس میں ساری انسانیت یکجا تھی۔۲۰۱ ۲۶۴ چاندنی رات تھی۔ دریا سو رہا تھا۔ خضر نمودار ہوئے۔ اقبال سے کہا کہ دل کی آنکھ سے دیکھنے پر دنیا کی تقدیر صاف دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کے دل میں وہ قیامت برپا ہو گئی جس کے بعد مردے زندہ کیے جاتے ہیں۔ ایک اقبال مر گیا۔ دوسرا پیدا ہوا۔ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا: صحرانوردی، زندگی، سلطنت، سرمایہ و محنت اور دنیائے اسلام۔ خضر نے جواب دیے: ۱ آبِ حیات اِستعارہ ہے۔ ہمیشہ کی زندگی کا راز یہی ہے کہ حرکت کبھی نہ تھمے۔ جب رُک گئے ، وہی موت ہے۔ اِسی لیے خضر صحراؤں میں رہتے ہیں۔ ۲ زندگی کو قومی مقاصد کے سوا کسی اور پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا۔ موجودہ زمانے میں مشرق مر کر دوبارہ پیدا ہو رہا ہے۔ اِسے روزِ حساب سمجھنا چاہیے۔ جو آج اور ابھی نامۂ اعمال پیش نہ کر سکا اُسے پھر موقع نہ ملے گا۔ ۳ فرد کی طرح تہذیبیں بھی مر کر دوبارہ پیدا ہوتی ہیں۔ اُن کی حیات بعد الموت اِسی دنیا میں واقع ہوتی ہے تاکہ عقیدۂ آخرت کی دلیل بن سکے۔ مغربی استعمار روما کی اُسی سلطنت کا نیا جنم ہے جسے کبھی اِسلام نے ختم کیا تھا۔ خطرہ یہ ہے کہ پانچ سو برس کی طبیعی عمر پوری کرنے کے بعد یہ مغربی استعمار مشرق کا ہمدرد بن کر اپنی زندگی میں غیرقدرتی توسیع کرنا چاہے گا۔ نیا مشرق ابھی کمسن ہے۔ دھوکہ کھا سکتا ہے۔ ۴۔ انقلابِ رُوس دنیا میں مزدور کی حکومت کا پیغام لایا ہے۔ آخرت کی جنت سے مایوس ہو کر دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتا ہے جہاں کوئی شخص محتاج نہ ہو۔ لیکن محنت کش اور غریب طبقے کے افراد کے باطن میں بھی تجلی اور نور موجود ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اُن کی نجات صرف پڑھے لکھوں کے عطاکردہ اقتصادی مساوات کے نظریوں میں ہے۔ اِشتراکیت کے نام پر نئی قسم کی سرمایہ داری کو جنم دینے کی بجائے عوام کی خودی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ۵۔ مسلمانوں کی حکومتیں مٹ رہی ہیں۔ اِس مصیبت کے زمانے میں اسلام کے دامن میں پناہ لینی چاہیے کیونکہ حکومتیں واپس نہ آئیں گی مگر دنیائے اسلام مر کر دوبارہ پیدا ہو جائے گی۔ جس طرح سَمَندر کیڑا پانچ سو برس بعد آگ میں جل کر دوبارہ پیدا ہوتا ہے، اُسی طرح انسانی تہذیب کا حال ہے۔ البتہ مشرق نجات نہ پائے گا جب تک عالمِ اسلام متحد نہیں ہو جاتا۔ یہ اتحاد نئی زندگی میں ہو گا جس کے لیے پہلے موت سے گزرنا ضروری تھا، سو گزرے۔ پھر سے جی اُٹھنے کا لمحہ آ گیا ہے۔ دُنیائے اسلام کل نہیں بلکہ آج ہی دوبارہ عروج حاصل کرے گی۔ پوری دنیا کی آزادی کا جو خواب اسلام نے دیکھا تھا اُس کی تعبیر کل نہیں بلکہ آج سامنے آئے گی۔ بظاہر کوئی اَسباب نظر نہ آتے ہوں مگر تقدیر کے راز کچھ اور ہوتے ہیں۔ اُن کا تعلق اللہ کے وعدے سے ہے۔ اقبال نے بظاہر یہ نظم نقرس کے شدید دَرد کے دوران لکھی۔ اُردو میں تھی۔ عنوان ’خضرِ راہ‘ تھا۔ اصل امتحان یہ تھا کہ خضر کا مکالمہ خضر ہی کی زبان معلوم ہو۔ سادہ الفاظ میں معانی کا ایک ایسا دریا موجیں مارے کہ سننے والے کو خضر کی بصیرت کا ہیبت ناک جلال محسوس ہو جائے۔ مولانا حالی عمر بھر خون جلا کر اُردو شاعری میں سادگی کا وہ رنگ بھر گئے تھے جو موجودہ زمانے میں مغرب کو بھی میسر نہ تھا۔ باقی کمی اقبال نے خود پوری کی۔ اگر کوئی ’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ سے واقف نہ بھی ہوتا تو اقبال کی فارسی مثنوی کے اُن دونوں حصوں میں بیان کیا ہوا پورا فلسفہ اِس اُردو نظم سے اخذ کر سکتا تھا بشرطیکہ قوم کی محبت دل میں رکھتا ہو۔ اقبال کئی برسوں سے محسوس کر رہے تھے کہ دنیا کی آیندہ تقدیر اُن پر بے حجاب ہو گئی ہے۔ اِس بات کو عوام پر ظاہر کرنے کی بہترین صورت یہی تھی کہ نظم میں دکھایا جائے کہ خضر نے اقبال کو اپنے راز بتا دیے ہیں۔۲۰۲ خِضرِراہ شاعر ساحلِ دریا پہ مَیں اک رات تھا محوِ نظر گوشۂ دل میں چُھپائے اک جہانِ اضطراب شب سکُوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سَیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شِیرخوار موجِ مُضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجمِ کم ضَو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضَر جس کی پِیری میں ہے مانندِ سَحر رنگِ شباب کَہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرارِ ازل! چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب دل میں یہ سُن کر بَپا ہنگامۂ محشر ہُوا میں شہیدِ جُستجو تھا، یوں سخن گُستر ہُوا اے تری چشمِ جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش ’کشتیِ مسکین‘ و ’جانِ پاک‘ و ’دیوارِ یتیم‘ علمِ مُوسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تُو صحرا نَورد زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک نوجواں اقوامِ نَو دولت کے ہیں پَیرایہ پوش گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ نائونوش بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ خاک و خُوں میں مِل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے! جوابِ خِضر صحرا نَوردی کیوں تعجّب ہے مری صحرا نَوردی پر تجھے یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل اے رہینِ خانہ تُو نے وہ سماں دیکھا نہیں گُونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہُو کا بے پروا خرام وہ حضَر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و مِیل وہ نمودِ اخترِ سیماب پا ہنگامِ صُبح یا نمایاں بامِ گردُوں سے جبینِ جبرئیلؑ وہ سکُوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہُوئی چشمِ جہاں بینِ خلیلؑ اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں اہلِ ایماں جس طرح جنّت میں گِردِ سلسبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تُو زنجیریِ کِشت و نخیل پُختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بیخبر رازِ دوامِ زندگی زندگی برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے سرِّ آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پُوچھ جُوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی بندگی میں گَھٹ کے رہ جاتی ہے اک جُوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قُوّتِ تسخیر سے گرچہ اک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی قلزمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانندِ حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی خام ہے جب تک تو ہے مٹّی کا اک انبار تُو پُختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پُھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قُوّتِ پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے سُوئے گردُوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے! سلطنت آبتائوں تُجھ کو رمز آیۂ ’اِنَّ الْمُلُوْک‘ سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادُوگری خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز دیکھتی ہے حلقہء گردن میں سازِ دلبری خُونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی مُوسیٰ طلسمِ سامری سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری از غلامی فطرتِ آزاد را رُسوا مکُن تا تراشی خواجہ ے از برہَمن کافر تری ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طِبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں! یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری اس سرابِ رنگ و بو کو گُلِستاں سمجھا ہے تُو آہ اے ناداں! قفَس کو آشیاں سمجھا ہے تُو سرمایہ ومحنت بندئہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خِضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخِ آہُو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دستِ دولت آفریں کو مزد یوں مِلتی رہی اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات ساحرِ المُوط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش اور تُو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نبات نسل، قومیّت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چُن چُن کے بنائے مُسکِرات کَٹ مَرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے سُکرکی لذّت میں تُو لُٹوا گیا نقدِ حیات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی اندازہے مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے ہمّتِ عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غُنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیش قِصّۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہُوا آسماں! ڈُوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دُوریِ جنّت سے روتی چشمِ آدم کب تلک باغبانِ چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار زخمِ گُل کے واسطے تدبیرِ مرہم کب تلک کرمکِ ناداں! طوافِ شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلّی زار میں آباد ہو دُنیائے اِسلام کیا سُناتا ہے مجھے تُرک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیلؑ خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ہوگئی رُسوا زمانے میں کُلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس وہ میٔ سرکش حرارت جس کی ہے مِینا گداز حکمتِ مغرب سے مِلّت کی یہ کیفیّت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہُو مُضطرب ہے تُو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز گُفت رومیؔ ’’ہر بِناے کُہنہ کآباداں کنند‘‘ می ندانی ’’اوّل آں بنیاد را ویراں کنند‘‘ ’’مُلک ہاتھوں سے گیا مِلّت کی آنکھیں کُھل گئیں‘‘ حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست مُورِ بے پر! حاجتے پیشِ سلیمانے مبر ربط و ضبطِ مِلّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو مُلک و دولت ہے فقط حِفظِ حرم کا اِک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر جو کرے گا امتیازِ رنگ و خُوں، مِٹ جائے گا تُرکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گُہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مُقّدم ہوگئی اُڑ گیا دُنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہگزر تا خلافت کی بِنا دُنیا میں ہو پھر اُستوار لا کہیں سے ڈُھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہُشیار باش اے گرفتارِ ابُوبکرؓ و علیؓ ہُشیار باش عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چُکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تُو نے دیکھا سطوَتِ رفتارِ دریا کا عروج موجِ مُضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حُریّت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تُو اُس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پِیر، دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دَور کی دُھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردُوں کے پاس سامنے تقدیر کے رُسوائیِ تدبیر دیکھ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیشِ نظر، ’لاَیُخْلِفُ المِیعَاد‘ دار۲۰۳ ۲۶۵ اِیسٹر سنڈے ۱۶ اپریل کو آ رہا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں سالانہ جلسے کا پروگرام اخباروں کو بھیجا گیا۔ چودہری شہاب الدین مسدس حالی کا پنجابی ترجمہ پیش کرنے والے تھے۔ علاوہ دوسری نظموں، لیکچروں، تقریروں اور وعظوں کے: ’’۔۔۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم۔اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء کو اتوار کی شام کے آٹھ بجے بعد نماز مغرب ایک اُردو نظم ’خضر راہ‘ پڑھیں گے۔۔۔‘‘ ۱۱ اور ۱۲ اپریل کو پیسہ اخبار میں شائع ہوا۔ ۲۶۶ بنام ضیأ الدین برنی لاہور ۱۲ اپریل ۱۹۲۲ء مکرم بندہ السلام علیکم میں بوجہ عارضۂ نقرس کئی روز سے صاحبِ فراش ہوں اس واسطے آپ کے خط کا جواب نہ لکھ سکا۔ آپ نے جہاں آرأ بیگم کی سوانح عمری بہت اچھی لکھی ہے۔ اس کی زندگی واقعی ایک نیک مسلم عورت کا نمونہ ہے۔ علالت کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ معاف فرمائیے۔ میرے نثر کے مضامین صرف چند ایک ہیں اور وہ بھی محفوظ نہیں۔ والسلام محمدؐ اقبال ۲۶۷ ۱۶ اپریل تھی۔ ایسٹر سنڈے تھا اور انجمن حمایت اسلام کے جلسے کا آخری دن۔ مغرب کے بعد جلسے میں اقبال کی نظم سننے کے لیے قریباً بیس ہزار لوگ جمع ہوئے۔۲۰۴ ’خضرِ راہ‘ پہلے سے شائع نہیں کروائی گئی تھی۔خواجہ عبدالحمید جو اُس وقت اسلامیہ کالج میں پروفیسر تھے، کہتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے اقبال نے گاؤتکیے کے سہارے بیٹھ کر نظم سنائی۔ ترنم سے سنا رہے تھے۔۲۰۵ ایک روایت ہے کہ اقبال نے نظم زبانی سنائی۔ ’’بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰؐ‘‘ والے شعر پر پہنچ کر رونا شروع کیا اور جب ’’ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو‘‘ پر پہنچے تو مجمع بھی رو رہا تھا۔۲۰۶ ہزارہ کے نوجوان شیربہادر پنی جو جلسے میں موجود تھے، اُن کا بیان ہے، ’’جب اقبال نظم کے اِس مصرع ’ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ‘ پر پہنچے تو۔۔۔ اپنی ٹوپی نیچے پھینک دی۔ اُس لمحے مجمعے کا جوش و خروش انتہا کو پہنچ گیا اور ایک حد تک بے قابو ہو گیا۔‘‘۲۰۷ ’’راقم الحروف اِس جلسے میں موجود تھا،‘‘ عبدالمجید سالک نے بعد میں لکھا۔ ’’اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلوبِ بیان کا جمال پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کر رہے تھے۔‘‘۲۰۸ باب ۸ سمرنا اپریل سے ستمبر ۱۹۲۲ء ۱ رباعیات بہ تتبع بابا طاہر عریاں ہمدانی یہ عنوان اقبال نے ایک نئے رجسٹر میں درج کیا۔ اِدھر اُدھر لکھی ہوئی رباعیاں بھی یہاں جمع کرنے لگے۔ اکیاون (۵۱) ہو گئیں۔ میرا دل باطن کی آنکھ سے روشن ہے۔ میری آنکھ خون کے آنسوؤں سے دنیا دیکھتی ہے۔ خدا کرے وہ شخص زندگی کے بھید سے اور بھی بیگانہ رہے جو عشق کو پاگل پن کہتا ہے۔ دلِ من روشن از سوزِ درون است جہاں بیں چشمِ من از اشکِ خون است زرمزِ زندگی بیگانہ تر باد کسے کو عشق را گوید جنون است۱ ۲ ’خضرِ راہ‘ کے آخر میں جو پیش گوئی تھی اُس پر دُوسروں نے بھی یقین کیا ہو گا مگر نواب سر ذوالفقار علی خاں یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اِس سے پہلے بھی ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ میں اقبال نے جو پیش گوئی کی تھی وہ پوری ہوئی ہے۔ ’’موجودہ عالمگیر اضطراب کا راز یہ ہے کہ عوام راستبازی اور سچائی کی ایک نئی روح کے لیے بیتاب ہیں،‘‘ ذوالفقار علی خاں کا خیال تھا۔ ’’جمہور کی اِ س پیہم پکار پر وہ رُوح ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہے اور ایسی قوموں کے لیے نئی تقدیریں تشکیل دے رہی ہے جو مدتوں سے ناخوشگوار حالات کی شکار رہی ہیں۔‘‘ پلٹ کر دیکھتے تو چھ مرحلے واضح دکھائی دیتے تھے: ۱ اورنگزیب کے بعد معاشرہ بانجھ ہو گیا۔ میر تقی میر اور مرزا غالب جیسے عظیم تخلیقی ذہن نمودار ہوئے لیکن معاشرے کا ادبی ذوق پست رہا۔ ۲ انگریزوں نے ہندوستان میں قدم جمائے تو بظاہر جمود کا زمانہ تھا۔ جمود کے پیچھے نئی تخلیقی قوت پروان چڑھ رہی تھی۔ ۳ سر سید احمد خاں کے ساتھ معاشرے کی یہ قوّت ظاہر ہوئی۔ علم و ادب کے میکدوں کے دروازے توڑ کر ہر شخص نئی شراب سے مست ہوا۔ بعضوں کو سید نے بچا لیا مگر ایک نیا طبقہ بھی وجود میں آیا جس کے سر میں علم کا غرور تھا، جس کی نظر میں قوم کی وقعت نہ تھی اور جس کے نزدیک مذہب کا عملی زندگی سے تعلق نہ تھا۔ ۴ مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس مدو جزر اسلام لکھ کر وہ اسلامی تاریخ جو پہلے صرف خواص کے علم میں تھی، عوام کی دسترس میں دے دی۔ مذہب کا عملی پہلو واضح ہو گیا۔ ۵ اکبرؔ الٰہ آبادی نے طنز و مزاح کے پیرائے میں نئی تہذیب پر چوٹ کر کے عوام کی عزتِ نفس بحال کر دی۔ ۶ اب عوام کے دل و دماغ میں ایک فلسفی شاعر کی طلب خودبخود پیدا ہوئی۔ اقبال نے پوری کر دی۔ اِسی لیے وہ شخصیت نہ تھے۔ تاریخی واقعہ بن گئے تھے۔ تقدیر کی طرح اُن کے اثرات بھی رفتہ رفتہ ظاہر ہونے تھے۔ صدیاں درکار تھیں۔ اقبال کی انکساری اُن کے لیے نہیں قوم کے لیے مصیبت تھی۔ جنگ عظیم کے دوران گورے صحافی ہندوستان میں مارے مارے پھرتے تھے کہ سرکردہ ہندوستانیوں کے نام دریافت کر کے امریکہ اور یورپ میں بیچیں۔ رابندرناتھ ٹیگور تو جنگ سے بھی دو برس پہلے اپنی نظموں کے انگریزی ترجمے لے کر خود ہی لندن دوڑے گئے تھے۔ اِس قسم کے فائدے اُٹھانا اقبال کو پسند نہ تھا۔ ’اَسرارِ خودی‘ نے انگلستان کے علمی حلقوں میں جو متنازع شہرت حاصل کی وہ دنیا بھر میں مشہور ہو جانے کا موقع تھا۔ اقبال نے جانے دیا۔ ذوالفقار علی خاں کے دل کی گہرائیوں سے آواز اُٹھی کہ اگر اَب بھی بیرونی دنیا اقبال سے واقف نہ ہوئی تو اِنسانی تہذیب میں جھول واقع ہو جائے گا۔ انگریزی میں مختصر کتاب لکھنا شروع کی: The supreme object of Iqbal's philosophy is the production of the typical or ideal man by a rigorous training of the human faculties. This system seeks to work from within to without. It aims at transforming character and thus transforming the world. The value of this conception is immeasurable for the type - man, whose development is strongly influenced by religious sentiment, will bring a message for a new greatness of man which has not been surpassed in the adumberated past. In contradistinction to Nietzsche's Superman who mocks at religion and springs exclusively from the aristocratic stock to ride roughshod over the demos, Iqbal's Perfect Man is adorned with the attributes even of God.۲ ۳ اُمراؤ سنگھ شیرگل نے ذوالفقار علی خاں کی کتاب کے لیے اقبال کے اَشعار کا ترجمہ کیا۔ اقبال کی بعض نظموں کو اقبال ہی کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے نیا انکشاف ہوا۔ مشرقی شاعری میں رائج الفاظ اور تصوّرات کو اقبال نے نئے معانی دیے تھے۔ اُن نقادانِ فن کی نظر میں مشکل ہی سے آسکتے تھے جو مروّجہ معانی سے زیادہ مانوس تھے۔۳ ۴ گرچہ تو زندانیٔ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ اے مسلماں ہر گھڑی پیشِ نظر آیۂ لایُخْلِفُ الْمِیْعَاد رکھ یہ ’’لسان العصر‘‘ کا پیغام ہے ’’اِنَّ وَعدَاللّٰہِ حَقُٗ یاد رکھ‘‘۴ ۵ پچھلی صدی میں جن بزرگوں نے انجمن حمایت اسلام قائم کی تھی اُن میں سے حاجی میر شمس الدین ابھی زندہ تھے۔ ان کے لڑکے میر رحمت اللہ ہمایوں، کابل میں امیر امان اللہ خاں کے سیکرٹری تھے۔ حاجی شمس الدین نے امان اللہ خاں کی شان میں نظم لکھی۔ اقبال نے نظرِ ثانی کی۔۵ ۶ رحمان راہ کا مقدمہ جموں کی بجائے کشمیر میں سنا گیا۔ لالہ کنورسین نے جو فیصلہ دیااُس کے مطابق رحمان راہ پھانسی سے بچ گیا۔ البتہ قید کی سزا ہوئی۔ اقبال نے سنا کہ اب منشی اسداللہ گورنمنٹ آف انڈیا میں لالہ کنورسین کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں مگر جہاں تک اقبال کو معلوم تھا مہاراجہ کی طرف سے اگر کسی کو پھانسی کاحکم ہو تو اُس کی اپیل گورنمنٹ آف انڈیا میں ہوتی تھی مگر قید کی سزا کی اپیل نہیں ہوتی تھی۔۶ ۷ کیا اللہ تعالیٰ کو دیکھا جا سکتاہے؟ اگلے وقتوں میں علمِ کلام کے بعض ماہرین نے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ممکن ہے۔ اقبال اس بحث کو تفصیل سے دیکھنا چاہتے تھے۔۷ ۸ کیا دُوسرا جنم ہو سکتا ہے؟ شہاب الدین سہروردی مقتول جنہیں شیخِ اشراق بھی کہا جاتا تھا اور جنہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی، اقبال کے خیال میں تناسخ یعنی ایک روح کے دوسرے جسم میں منتقل ہو جانے کے قائل تھے۔ اِس کے علاوہ بروز کا عقیدہ تھا جسے ابن عربی اور بعض دوسرے صوفیوں نے پیش کیا تھا۔ اِس کی ایک تشریح یوں کی جاتی تھی کہ کسی پیغمبر یا بزرگ کی حقیقت کسی دوسرے انسان کی شخصیت میں ظاہر ہو سکتی تھی۔ مغلیہ دَور کے آخر میں دہلی میں یہ بحث چھڑی تھی کہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی دوسری ہستی کے پیدا ہونے کا امکان کائنات میں موجود ہے؟ مرزا غالب کو جب اِس بحث میں گھسیٹا گیا تو انہوں نے ایک فارسی مثنوی لکھی جس میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کئی دنیائیں پیدا کر سکتا ہے اور ہر دنیا میں رحمتہ للعالمینؐ بھی ضرور ہوں گے: ہر کجا ہنگامۂ عالم بود رحمتہ للعالمینے ہم بود البتہ غالب نے اپنی مثنوی میں لکھا تھا کہ اِس کے باوجود خاتم النبیینؐ ایک ہی ہوں گے۔ ’’حال کے بعض ہیئت دان کہتے ہیں کہ بعض سیّاروں میں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے،‘‘ اقبال سوچ رہے تھے۔ ’’اگر ایسا ہو تو رحمتہ للعالمین کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے۔ اس صورت میں کم از کم محمدیّت کے لیے تناسخ یا بروز لازم آتا ہے۔ شیخ اشراق تناسخ کے ایک شکل میں قائل تھے۔ اُن کے اِس عقیدے کی وجہ یہی تو نہ تھی؟‘‘۸ ۹ دردِ نقرس سے کچھ افاقہ ہوا۔ ۲۰ اپریل کو منشی سراج الدین کے نام خط میں رحمان راہ کے مقدمے کے حالات بیان کیے۔ ’’اِس سے غرض یہ ہے کہ اگر رحمان راہ کے وارثوں کا اِرادہ اپیل کرنے کا مصمّم ہو تو میں بغیر کسی مزید فیس کے اُن کی اپیل لکھ دوں گا،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’اس صورت میں آپ ان سے کہہ دیں کہ میری بحث کے مفصل نوٹ اور دیگر کاغذات بھیج دیں۔‘‘ اُسی روز خدا کو دیکھنے کے امکان اور تناسخ و بروز کے متعلق اپنے سوالات سید سلیمان ندوی کو بھیج دیے: ’’ایک عرصہ سے آپ کو خط لکھنے کا قصد کر رہا تھا۔ دو باتیں دریافت طلب ہیں۔‘‘ نظم ’خضرِ راہ‘ کے فوراً بعد اِن سوالات پر غور کرنا معنی خیز تھا۔ ذہن کس نئی منزل کی طرف گامزن تھا؟ ۱۰ پچھلی صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دعویٰٔ نبوت کے حق میں علم الکلام اورتصوّف کے جن نکات سے دلائل پیش کیے تھے اُن میں بُروز کا عقیدہ بھی شامل تھا۔ اقبال کا رجحان مولوی میر حسن کی تربیت اور سر سید احمد خاں کے اثرات کی وجہ سے اُس راستے سے بالکل الگ تھا جو احمدیت کی طرف سے ہو کر گزرتا تھا لہٰذا ممکن ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں علم الکلام اور تصوف پر بہت کچھ لکھنے کے باوجود اقبال کو بُروز جیسے نظریات پر اُن پہلوؤں سے غور کرنے کا موقع نہ ملا ہو جو اَب سامنے آ رہے تھے۔ یہ اُن کی فکری زندگی کے اُس مرحلے کا آغاز تھا جس کے اختتام پر احمدیت کی مکمل اور واضح تردید سامنے آنے والی تھی۔ ساتھ ہی اُس ’’نئے علم الکلام‘‘ کی تکمیل ہونی تھی جس کی بنیاد ’رموزِ بیخودی‘ میں رکھی گئی تھی۔ ۱۱ اقبال نے محسوس کیا کہ مقام، عراق اور خراسان والا شعر جسے دسمبر میں ظہورِ مصطفوی والی غزل سے اِس لیے نکال دیا تھا کہ ایرانی موسیقی کی ان اصطلاحات سے ہندوستان میں بہت کم لوگ واقف تھے، اگر اُس میں کچھ تبدیلی کی جائے تو ایک نظم میں استعمال ہو سکتا ہے۔ مخاطب وہ تھے جو یورپ میں تبلیغ کرنے کو اِسلام کی خدمت سمجھتے تھے: زمانے نے پھر سے نمرود کی آگ بھڑکا دی تاکہ مسلمانی کا جوہر ظاہر ہو جائے! آؤ جگر کے داغ پر سے پردہ اٹھا دیں کہ سورج عریانی سے جہانگیر ہواہے۔ تم نے فرنگی دلبروں کے سامنے ہزاروں نکتے بیان کیے، بتوں کو اپنی دلیلوں سے موم کر دیا، اب حجازی کو سلیمیٰ کے شہر کی خبر دو۔ تورانی کے دل میں شوق کی چنگاریاں چھٹکاؤ۔ اے سُروں کی پہچان رکھنے والے عراق اور خراسان کے راگ الاپ کر عجمیوں کی محفل میں غزل خوانی کو تازہ کرو۔ ایک زمانہ ہو گیا کہ کسی زخمہ ور کے انتظار میں ہے۔ کتنے ہی نغمے تھے جو افغانی ساز میں لہو ہو گئے! تم اہل ہوس میں عشق کی بات کیا بیان کر رہے ہو۔ چیونٹی کی آنکھ میں سلیمانی سرمہ مت ڈالو۔ بہ مبلغ اسلام در فرنگستان زمانہ باز برافروخت آتش نمرود کہ آشکار شود جوہر مسلمانی بیا کہ پردہ ز داغ جگر بر اندازیم کہ آفتاب جہانگیر شد ز عریانی ہزار نکتہ زدی پیش دلبران فرنگ گداختی صنماں را بہ علم بُرہانی خبر ز شہرِ سلیمیٰ بدہ حجازی را شرار شوق فشاں در ضمیر تورانی رہ عراق و خراسان زن اے مقام شناس بہ بزم اعجمیاں تازہ کن غزل خوانی بسے گذشت کہ در انتظار زخمہ وریست چہ نغمہ ہا کہ نہ خوں شد بہ ساز افغانی حدیث عشق بہ اہل ہوس چہ میگوئی بہ چشم مور مکش سرمۂ سلیمانی۹ ۱۲ نئی بیاض میں ’عرضِ حال بہ جنابِ رسالت مآب‘ کا عنوان ڈالا اور وہ اشعار درج کیے جو کچھ عرصہ قبل عرشی امرتسری والے سلسلے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہے تھے کہ اِس پرانے کافر کے ہاتھ میں لا کی تلوار دیجیے اور پھر دُنیا میں میرے اِلّا کا ہنگامہ دیکھیے!۱۰ ۱۳ ۲۲ اپریل کو زمیندارکے لیے چند اشعار سپردِ ڈاک کیے۔ پھر خیال آیا تو اخبار کے منیجر شفاعت اللہ خاں کے لیے ’اتحاد‘ کا آخری شعر لکھ بھیجا: مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے بدری مسجد سے نکلتا نہیں ضدّی ہے مسیتا ۱۴ ۲۴ اپریل کو بجنور کے اخبار الخلیلمیں اقبال کے کچھ فارسی اشعار شائع ہوئے جن میں گرامی کے ایک نعتیہ شعر کی وضاحت کی گئی تھی۔۱۱ ۱۵ مئی کی ایک رات تھی۔ لاہور میں شاہ عالمی دروازے کے باہر ہندوؤں کے نئے بنے ہوئے مندر کے برابر میں بلدیہ کے ایک خالی پلاٹ پر مسلمانوں کی بڑی تعداد مصروفِ عمل تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مندر کے ساتھ ہی مسجد بھی ضرور ہونی چاہئے، لہٰذا صبح ہونے سے پہلے دو دکانیں اور اُس کے اوپر مسجد کی عمارت مکمل ہو گئی۔ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا تو نام و نسب کا حجازی ہے، پر دل کا حجازی بن نہ سکا تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں، پر کیا لذّت اُس رونے میں جب خونِ جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا۱۲ ۱۶ ’خضرِ راہ‘چھوٹی تقطیع میں اقبال کے منشی طاہرالدین نے اقبال کے پتے ہی سے شائع کی۔۱۳ ۱۷ سید صفدر علی شاہ کے معاملے میں اقبال نے چودھری خوشی محمد کو کشمیر خط لکھا۔ وہاں سے جواب نہ آیا تھا کہ صفدر خود لاہور پہنچ گئے۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے مدد کی۔ اسی دوران گرامی نے اس سلسلے میں اقبال کو مزید ایک خط لکھا جس کا اقبال فوراً جواب نہ دے سکے۔ صفدر شاہ کا کام نہ ہو سکا۔ وہ واپس گئے تو اقبال نے اُن کے ہاتھ نیازالدین خاں کے لیے ’خضرِ راہ‘ کی ایک کاپی بھجوائی۔۱۴ ۱۸ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے لیے بی اے فارسی کا پرچہ الف ترتیب دے رہے تھے۔ آنرز فلسفہ پرچہ ب ، ایم اے فارسی کے دوسرے پرچے اور ایم اے فلسفہ کے چوتھے اور پانچویں پرچے کے ممتحن بھی تھے۔آخری پرچہ فلسفۂ مذہب کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ دوسری یونیورسٹیوں کے پرچے بھی تھے جن کی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ سردار جوگندر سنگھ اصرار کر رہے تھے کہ جولائی یا اگست میں اُن کے ساتھ کوئٹہ کے راستے ایران چلیں۔۱۵ ۱۹ جاننے والوں میں کوئی منور تھے۔ انکم ٹیکس کلکٹر مقرر ہوئے تھے۔ ڈارلنگ صاحب نے موقوف کر دیا۔۱۶ ۲۰ ایران کے ساسانی شہنشاہ نوشیروانِ عادل کی نسل سے ایک خاندان مشرقی پنجاب میں کرنال میں آباد تھا۔ کچھ جائیداد متحدہ صوبہ جات (یو پی) میں مظفرنگر میں بھی تھی۔ رکن الدولہ نواب رستم علی خاں شمشیر جنگ بہادر کی وفات کے بعد ان کے لڑکے سجاد علی خاں اور رشتہ دار عمر دراز خاں کے درمیان جائیداد کے معاملے میں کسی تصفیے کی نوبت آئی۔کمشنر نے نواب سر ذوالفقار علی خاں، نواب محمد حیات خاں نون اور ایک ہندو دپٹی کمشنر کو ثالث مقرر کر دیا۔ اقبال کے دوست مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ عمردراز خاں نے اقبال کو دو سو روپے روزانہ فیس پر وکیل کیا۔ سجاد علی خاں نے مرزا جلال الدین کو ایک سو پچاس روپے روزانہ پر وکیل کیا۔ نواب سر ذوالفقار کی تجویز پر سب اکٹھے روانہ ہوئے۔ کرنال میں اخترلونی ہاؤس (Ochter Lony House) میں ٹھہرائے گئے۔ ’’ہم آپس میں فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے تمام مہمان سجاد علی خاں کے ہاں ٹھہریں گے، پھر عمر دراز خاں کے ہاں،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’میرے لیے اور ڈاکٹر صاحب کے لیے الگ الگ کمرے تھے۔ پنچوں نے اپنے بستر الگ کمروں میں لگائے۔ بریک فاسٹ کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب بولے کہ بھئی میز کی ترتیب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کسی لیڈی کا ہاتھ ہے۔‘‘ گھر میں واقعی ایک انگریز ہاؤس کیپر موجود تھی جس کا نام غالباً مسز مورٹیمر (Mrs. Mortimer) تھا۔ نواب سجاد علی خاں کے چھوٹے بھائی جن کی شادی عمردراز خاں کی لڑکی جہانگیرہ بیگم کے ساتھ ہوئی تھی، اِسی برس آکسفورڈ کی قانون کی ڈگری اور اِنر ٹمپل کی بیرسٹری کے ساتھ یہ ہاؤس کیپر لے کر انگلستان سے واپس آئے تھے۔ اُن کا نام لیاقت علی خاں تھا۔ چھبیس برس کے نوجوان تھے مگر ملنے والے فوراً ہی ان کے نفیس ذوق، پختہ کردار اور مضبوط قوتِ ارادی کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ لیاقت علی خاں اقبال کے موکل کے داماد اور فریقِ ثانی کے بھائی تھے، خود بیرسٹری کی سند کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری اور مشرقی و مغربی موسیقی کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور اِقبال اُنہی کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اگر لیاقت اُن دنوں کرنال سے باہر نہیں گئے ہوئے تھے تو ضرور اِقبال سے ملاقات ہوئی ہو گی مگر اُس کا حال معلوم نہیں۔ ’’ہم نے اپنے فریقوں کے کاغذات دیکھے اور بات چیت کے لیے تیار ہو گئے،‘‘ مرزا جلال الدین کا بیان ہے۔ ’’چنانچہ چھٹے ساتویں روز دونوں فریقوں میں مصالحت ہو گئی۔‘‘۱۷ ۲۱ پروفیسر محمد اکبر منیر کی فارسی نظم اخبار استخر میں شائع ہوئی جو اقبال کی نظر سے گزرا۔۱۸ ۲۲ ۸ مئی یا اس کے آس پاس کی کسی تاریخ میں پروفیسر محمد اکبر منیر کا خط ایران سے آیا۔ فوراً جواب دیا۔ پہلی دفعہ اُس مجموعے کا عنوان لکھا جو گوئٹے کے جواب میں لکھا جا رہا تھا: پیامِ مشرق۔ بنام پروفیسر محمد اکبر منیر ڈیر مسٹر منیر السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اخبار استخر جس میں آپ کی نظم شائع ہوئی ملاحظہ سے گزرا۔ آپ کی زبان صفائی میں بہت ترقی کر رہی ہے۔ اللّہم زِد فزد! خیالات کے لیے طبیعت پر زور دینا چاہیے۔ مطالبِ جلیلہ کی مشرقی نظم کو بہت ضرورت ہے۔ حکیم سنائی اور مولانا روم کو زیرِ نظر رکھنا چاہیے۔ اِس قسم کے لوگ اقوام و ملل کی زندگی کا اصلی راز ہیں۔ اگر یہی لوگ غلط راستے پر پڑ جائیں تو اقوام کی ممات بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ مولانا روم کے تو اَسرار و حقائق زندۂ جاوید ہیں حکیم سنائی سے طرزِ اَدا سیکھنا چاہیے۔ کیونکہ مطالبِ عالیہ کے ادا کرنے میں اُن سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیں رکھا۔ ایرانی اخبارات میں اس قسم کی نظمیں شائع کیا کیجیے۔ مغربی اور وسطی ایشیا کی مسلمان قومیں اگر متحد ہو گئیں تو بچ جائیں گی۔ مضامینِ اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میرا مذہبی عقیدہ یہی ہے کہ اتّحاد ہو گا اور دنیا پھر ایک دفعہ جلالِ اسلامی کا نظارہ دیکھے گی۔ ہندوستان میں بظاہر مہاتما گاندھی کی گرفتاری کے بعد امن و سکون ہے مگر قلوب کا ہیجان حیرت انگیز ہے۔ اِتنے عرصے میں اتنا انقلاب تاریخِ اُمَم میں بے نظیر ہے۔ ہم لوگ جو انقلاب سے خود متاثّر ہیں، اس کی عظمت اور اہمیت کو اس قدر محسوس نہیں کرتے۔ آیندہ نسلیں اس کی تاریخ پڑھ کر حیرت میں ڈوب جائیں گی۔ ایشیا کی مسلمان اقوام کی حرکت بھی کم حیرت انگیز نہیں۔ کیا عجب کہ اس نئی بیداری کو ایک نظر دیکھنے کے لیے میں بھی جولائی یا اگست کے مہینے میں ایران جا نکلوں۔ میرے ایک دوست سردار جوگندر سنگھ ایڈیٹر، ایسٹ اینڈ ویسٹ، اصرار کر رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ کوئٹے کے راستے ایران چلوں۔ اگر ممکن ہو سکا تو ضرور اُن کا ساتھ دوں گا۔ اِس دفعہ مجھے دردِ نقرس (گوٹ) کی وجہ سے سخت تکلیف رہی۔ کامل دو ماہ چارپائی سے اُتر نہیں سکا۔ چونکہ میری فطرت کو ایران سے ایک خاص نسبت ہے ممکن ہے وہاں کی آب و ہوا کا اچھا اثر مجھ پر ہو۔ ’’سفینۂ طالبی‘‘ میں نے یہاں تلاش کی، افسوس نہ مل سکی۔ آپ کو نثر کی جو عمدہ کتب مل سکیں بھیج دیجیے۔ نظم نہ ملے تو نہ سہی۔ نثر کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر حکایات کی کوئی عمدہ کتاب ہو تو وہ بھی ارسال کیجیے۔ یعنی ایسی کتاب جس میں چھوٹی چھوٹی حکایات لطیف اور معنی خیز ہوں۔ مُلّا صدرا کی تفسیر بھی پہنچ گئی تھی۔ بعض مقامات تو خوب ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی اُس کا پایہ تفاسیر میں بہت کم ہے۔ اُردو نظم ’خضر راہ‘ جو میں نے حال میں لکھی ہے ارسال خدمت کروں گا۔ گوئٹے کے دیوان کے جواب میں ’’پیامِ مشرق‘‘ میں نے لکھی ہے جو قریب الاختتام ہے۔ امید ہے کہ اس سال کے اختتام سے پہلے شائع ہو جائے گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ فارسی کتب جہاں تک ممکن ہو جلد اَرسال کیجیے۔ مخلص محمدؐ اقبال ۲۳ پچھلی صدی کے آغاز میں جب فرانسیسی شہنشاہ نپولین یورپ کے اُفق پر چھا رہا تھا، گوئٹے نے جرمنی کے نوجوانوں کی بیچینی دیکھتے ہوئے ان کو پیغام دیا تھا: ’’فن میں اب بھی صداقت ہے۔ اس کا سہارا لو۔‘‘ ’’اِس وقت اِسلامی دنیا کی وہی حالت ہے جو نپولین کے وقت میں جرمنی کی تھی،‘‘ اقبال سوچ رہے تھے۔ ’’اور میرا پیغام بھی مسلمان نوجوانوں کے لیے وہی ہے جو جرمنی کے پیغمبری شاعر نے دیا تھا۔ صرف اِس قدر فرق ہے کہ میں نے آرٹ کی جگہ لفظ ریلیجن رکھ دیا ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔ آرٹ میں اطمینان ضرور ہے مگر قوّت نہیں ہے۔ مذہب میں اطمینان اور قوت دونوں چیزیں ہیں۔‘‘۱۹ ۲۴ ۱۰ مئی کی شام ساڑھے چھ بجے اقبال کے گھر پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے عربی فارسی وغیرہ کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے صدارت کی۔ ایم محمد شفیع کنوینر تھے۔ کے ایم میترا اور قاضی فضل حق بھی موجود تھے۔ آیندہ برس کے منشی فاضل کے امتحان کے بارے میں ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کی ایک چٹھی پر غورکیا گیا۔۲۰ ۲۵ پہلی بیوی کریم بی بی کا خط آیا۔ چاہتی تھیں کہ اقبال ہر ماہ جو تیس روپے بھجواتے ہیں، وہ رقم اگلے پانچ برسوں کی پیشگی اَدا کر دیں۔ یہ رقم اٹھارہ سو روپے بنتی تھی اور غالباً آفتاب کے انگلستان کے اخراجات کے لیے منگوائی جا رہی تھی۔ اقبال نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ امید تھی کہ جواب نہ ملنے اور رقم موصول نہ ہونے پر کریم بی بی اپنا حق مہر طلب کریں گی جسے ادا کرکے شرعی علیحدگی یعنی طلاق ممکن ہو گی۔۲۱ ۲۶ شیخ عطا محمد کے خط سے معلوم ہوا کہ اعجاز کو گیارہ روز میں دو دفعہ اختلاج کی شکایت ہوئی ہے۔ بائیسکل کی سواری کرتے تھے۔۱۲ مئی کو اقبال نے اعجاز کے نام خط میں لکھا، ’’تم کو چاہیے کہ بائی سیکل کی سواری کچھ دنوں کے لیے بالکل ترک کر دو اور اب تو تمہیں شاید اس کی ضرورت بھی نہ پڑے۔ اس کے علاوہ تم اپنا مفصل حال کہو تو میں تمہارے لیے یہاں سے کوئی نسخہ تجویز کراؤں۔ کسی عمدہ ٹانک کا استعمال ضروری ہو گا۔ اِس قسم کی شکایت مجھے بھی زمانہ طالب علمی میں تھی۔ گھبرانا نہیں چاہیے۔‘‘ ۲۷ ۱۳ مئی کو شام ساڑھے پانچ بجے پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کا اجلاس ہوا۔ ڈین کی حیثیت میں اقبال نے صدارت کی۔ سنسکرت اور ہندی، اور پنجابی کے بورڈوں کی کاروائیوں پر غور کر کے تجاویز منظور کی گئیں۔تین روز پہلے عربی فارسی وغیرہ کے بارڈ کے اجلاس میں جو تجویز پیش ہوئی تھی، منظور ہوئی۔۲۲ ۲۸ ’خضرِ راہ‘سید سلیمان ندوی تک نہیں پہنچی تھی۔ ’’ہمارے لاہور کے ایک دوست غلام جیلانی صاحب نے اپنے وجد و شوق کے عالم میں اس نظم کی ہم سے تقریب کی اور ہمارے سامنے اُس ذوق و اثر کی تصویر کھینچی جو اُس نظم کے پڑھتے وقت متکلم اور مخاطب دونوں پر طاری تھا۔‘‘۲۳ خط میں اقبال نے خدا کو دیکھنے کے بارے میں جو سوالات ندوی کو بھیجے تھے اُن سے وہ سمجھے تھے کہ اقبال فلسفیانہ بحث کرنا چاہتے ہیں۔ جواب دیتے ہوئے ندوی نے ’خضرِ راہ‘ کو معارفمیں شائع کرنے کی اجازت بھی طلب کی۔ ’’رُویتِ باری کے متعلق جو استفسار میں نے آپ سے کیا تھا اُس کا مقصود فلسفیانہ تحقیق نہ تھی،‘‘ اقبال نے ۱۴ مئی کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’خیال تھا کہ شاید اِس بحث میں کوئی بات ایسی نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز نظریۂ نور پر کچھ روشنی پڑے۔ اِس خیال کو ابنِ رشد کے ایک رسالہ سے تقویت ہوئی جس میں اُنہوں نے ابوالمعالی کے رسالہ سے ایک فقرہ اقتباس کیا ہے۔ ابوالمعالی کا خیال آئن سٹائن سے بہت ملتا جلتا ہے، گو مقدم الذکر کے ہاں یہ بات محض ایک قیاس ہے اور موخرالذکر نے اُسے علمِ ریاضی کی رُو سے ثابت کر دیا ہے۔‘‘ ’خضرِ راہ‘ کی کوئی کاپی موجود ہوئی تو بھجوا دیں گے مگر شاید ساری نظم کا معارف میں چھپنا ٹھیک نہ ہو، ’’اگر کوئی بند آپ کو پسند آ جائے تو چھاپ دیجیے گا۔‘‘ کشمیر سے چودھری خوشی محمد کا خط آیا تھا۔ سید صفدر علی شاہ کے معاملے میں وہ بھی کچھ نہ کر سکتے تھے۔ اُس روز اقبال نے گرامی کو وہ خط بھیجتے ہوئے لکھا، ’’افسوس ہے کہ سید صفدر علی شاہ صاحب کا کام نہ ہو سکا مگر نواب صاحب نے تو اپنا فرض پوری طرح ادا کیا، اُن سے کوئی شکایت نہیں۔‘‘ ۲۹ ۱۵ مئی کو نیازالدین خاں کا خط دوبارہ آیا۔ ’خضرِ راہ‘ ابھی تک نہ ملی تھی۔ فارسی کے اشعار بھیجے تھے۔ اصلاح چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ لکھا تھا کہ گرامی کو ’خضرِ راہ‘ پسند نہیں آئی اور اُن کے خیال میں اس کے تمام اشعار بے لطف تھے اور بعض غلط! اقبال نے فوراً جواب دیا اور بتایا کہ سید صفدر علی شاہ کے ہاتھ نظم کی ایک کاپی ارسال کی تھی۔ ’’آپ کے فارسی کے اشعار ماشأ اللہ بہت اچھے ہیں،‘‘ انُہوں نے لکھا۔ ’’فارسی اشعار کی اصلاح مولوی صاحب سے لیجیے۔‘‘ معلوم نہیں مولوی صاحب سے کون بزرگ مراد تھے۔۲۴ اُس روز شملہ میں اُمراؤ سنگھ شیرگل نے اقبال کے بارے میں نواب ذوالفقار علی خاں کی کتاب کا مقدمہ لکھا۔ اقبال کا موضوع نہ ماضی ہے نہ حال بلکہ مستقبل کے شاعر ہیں۔ پڑھنے والے اپنے ظرف کے مطابق ہی فیض حاصل کر سکتے ہیں۔ حالیہ نظموں میں اسلامی رنگ سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دائرہ محدود ہو گیا۔ مذہبی اور فلسفیانہ تصور کو انسانی معاشرے کی تنظیم اور ترقی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ ہندو معاشرے کی تاریخ میں بھگوت گیتا کے ذریعے شری کرشن نے بھی تو یہی فرض ادا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مذہبی اور فلسفیانہ تصورات معاشرے کی تنظیم اور ترقی سے بے نیاز ہو جائیں تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔ سکھ دوست کے تصوّرات انگریز نقادوں سے کتنے مختلف تھے! Foreword Sir Zulfiqar Ali Khan has tried in this paper to throw some light on the springs of Iqbal's genius as a poet and a thinker, who through his powerful expression draws the attention of the world to those constructive principles which underlie religion - Islam in this case particularly. To try to fathom the depths of genius is a profitable task for the individual, but as hopeless as fathoming nature. Unlike the platitudes of the common mind it does not yield to anyone, but presents a vista of vision which unfolds with the progress of the race. The poet writes not for the past or even for the present, but for the coming age, and therein lies the possibility of his partial or fuller achievement. We skim the surface of the deep and take our fill. To speak of the real value of Iqbal's poetry would be to scandalize the current notions. To do this with some restraint of enthusiasm is difficult but necessary. So far as his aesthetic value is concerned, for those who are endowed with some redefined feeling for the charm for real beauty and harmony of words which have at the same time something to convey, touch with Iqbal's verse can be likened to one thing only, the feeling of sublimated and purified love. It is akin to reading the highest masters of Persian verse. Besides, his verse contains the concentrated mass of thought which characterizes other masters of Persian verse who do not possess the aesthetic charm developed to that degree which we find for example in Hafiz. He combines idea with beauty of expression which one hardly finds in his precursors who represent either one or other quality in its excellence but who lack necessarily that something modern which preeminently belongs to him. As to the constructive idea which he has tried to represent in his longer Persian poems, it is an attempt, and a very legitimate one, to prevent the premature broadening of the mystic sense of religious feeling which leads to seeming toleration but hides indifference towards duty, and neutralizes and destroys the function of religion by trying to pour into unworthy vessels the elixir of experience which they cannot possibly contain. Men talk and profess things which they do not understand, and thus misinterpret, leading to chaos and decay and absence of that strength which characterizes real faith and belief based on living experience, and thus help the disintegration of the social organism which religious feeling alone can hold together and help forward to progress. In this, his work is akin to that which the Bhagwad Gita essayed to accomplish for Brahmanism, and which consisted in the application of the religio-philosophical idea to the maintenance and progress of human society from which it had been divorced and the neglect of which resulted in its disintegration. What looks like a narrowing tendency in these later poems is nothing but an attempt at wedding together of these two and bringing about a union between them. The poet had seen long ago the chaos which materialism has engendered in Europe and the world, but which at first seemed to be the forerunner of progress. He aims at eliminating the weakness of undefined mysticism on the one hand and the still worse disintegrating tendency of materialism on the other. Read in this sense, as it seems to me these poems are meant, they are of universal application, though apparently addressed merely to the Islamic world. While reading one of these poems with the poet, I have been struck with the wealth and terseness of constructive ideas which escape one in a cursory reading due to the association of the words with their older significance. He is enriching the content of idea in the words which his poetical genius has so appropriately selected for their phonetic harmony, in a manner which reveals the truly creative nature of his work. The future ages will read more sense into these words and expressions as we find in other languages which have not remained stationary, and the future generations will understand them better than we do now. In this consists the value of his work as a man who has ploughed up the soil of race ideas in their language, adding fresher significance to words, as we find in the works of F. W. Bain who has enriched the content of word and phrase in English language by adding to them the significance of classic India which they hitherto lacked. With the same grace and absence of awkwardness Iqbal has been handling the Persian and Urdu tongues. The word-harmony and beauty of Hafiz is wedded to the wealth and terseness of a Rumi, which had a happy combination in Saadi, but this is more for the fact of its modernism. And yet Saadi does not touch Hafiz aesthetically, which Iqbal seems surely to do in the ode; and though in the more serious style of the longer poems the aesthetic level cannot be naturally kept up to his odes, in Iqbal you find a Rumi soaring above the halting and laboured style of the latter in which beauty does not keep pace with ideas, and where a certain amount of word-padding is to be found which one so happily misses in Iqbal. This is a thing which no translation can show in the case of Iqbal or any real poet - while the translations from the mediocre poets will sometimes sound better than the original - for, as has become a truism, only a poet can translate a poet, and that is hardly ever necessary. Often at the house of my friend Sir Zulfiqar have I seen Iqbal enveloped in that blue haze which has become the accompaniment of the genial and magnetic atmosphere thrilling with subtle poetic vibrations which require no stretch of imagination to feel. Converse at such times has ceased through the touch of that spirit which precedes his song. There must be some dull spirits who would remain unaffected, but I find it hard to imagine any existing at such times. The pure and sparkling ambrosia of the gods flows and is demanded again and again, and one feels a wish to share it with other kindred spirits. Partly from these impulses and partly from a desire to light up, though momentarily, an edifice which seldom sees unconventional lights, arose the impulse to write this paper in the breast of my friend, and it may be hoped that though some windows may be closed still, this glow might get in through different chinks, "and steal in through another way," as Hafiz says. The other day I found one of his verses inscribed in a most unexpected place, and no mean street wall too. I could not help smiling at the ways of life, and I hope I have not smiled for the last time in this matter. All credit to my friend. In the present instance the labor has been strenuous and prolonged, though no burden, I am sure. "The inebriate camel carries lightly," as Saadi says, and still more so on the way to Hijaz, as in this instance. And this to my mind symbolizes the work, with its poetical wine and the direction to which the caravan happens to be moving. Umrao Singh Sher Gil Simla: 15 May 1922۲۵ ۳۰ بنام گرامی لاہور ۱۶ مئی ۲۲ء ڈیر مولانا گرامی السلام علیکم کل نیازالدین خاں صاحب کا خط آیا جس سے معلوم ہوا کہ نظم ’خضرِ راہ‘ آپ کو پسند نہیں اور آپ کی رائے میں اس کے تمام اشعار بے لطف ہیں اور بعض غلط، غلط اشعار کے متعلق تو میں فی الحال عرض نہیں کرتا۔ آپ مجھے اغلاط سے آگاہ فرمائیں گے تو عرض کروں گا۔ باقی آپ کے اعتراض کا پہلا حصہ صحیح ہے مگر یہ اعتراض گرامی کے شایانِ شان نہیں۔ اگر کوئی اور آدمی یہ اعتراض کرتا تو مضائقہ نہ تھا۔ یہ اعتراض منصور کے لیے شبلی کا پھول ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس نظم کا بیشتر حصہ خضر کی زبان سے ادا ہوا ہے اور خضر کی شخصیت ایک خاص قسم کی شخصیت ہے۔ وہ عمرِ دوام کی وجہ سے سب سے زیادہ تجربہ کار آدمی ہے اور تجربہ کار آدمی کا یہ خاصّہ ہے کہ اُس کی قوتِ متخیلہ کم ہوتی ہے اور اُس کی نظر حقائق پر جمی رہتی ہے۔ اس کے کلام میں اگر تخیل کی رنگینی ہو تو وہ فرضِ رہنمائی کے ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ پس اُس کے کلام میں پختگی اور حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ تخّیل۔ اور خاص کر اس حالت میں جب کہ اس سے ایسے معاملات میں رہنمائی طلب کی جائے جن کا تعلق سیاسیات اور اِقتصادیات سے ہو۔ قرآن شریف کی سورہ کہف پڑھیے اور حضرت موسیٰؑ اور خضرؑ کے قصے کو ملاحظہ فرمائیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے خضر کی اِس خصوصیت کو کس خوبی سے ملحوظ رکھا ہے۔ ایک سطحی نظر سے دیکھنے والا آدمی تو کشتی توڑنے اور ایک بچے کو قتل کر ڈالنے یا ایک یتیم کی دیوار کو گرا دینے میں کوئی غیرمعمولی بات نہ دیکھے گا اور شعریت تو اِس تمام قصے میں مطلق نہیں۔ لیکن غور کرنے پر خضر کے افعال کی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ خضر کی طرف جو کلام منسوب کیا جائے اُس میں رنگینی پیدا کی جا سکتی ہے۔ مگر وہ خضر کا کلام نہ رہے گا بلکہ عرفی یا نظیری کا کلام ہو گا۔ اور بالغ نظر اہلِ فن تخیل کی اس رنگینی کو بہ نگاہِ استحسان نہ دیکھیں گے۔ ان رموز اور اسرار کو آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ نیازالدین خاں صاحب نے آپ کا عتراض سمجھنے میں مزید غلطی کی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ کل پرسوں ایک خط ارسال کر چکا ہوں۔ افسوس کہ صفدر علی شاہ صاحب کے لیے کوئی تدبیر نہ ہو سکی۔ محمدؐ اقبال۲۶ ۳۱ ۱۷ مئی کو عبرت کے مدیر اکبر شاہ نجیب آبادی کا خط ملا۔ اُن کی لڑکی کا انتقال ہو گیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کی کاہلی اور جمود کی شکایت بھی لکھی تھی۔ اقبال نے فوراً جواب دیتے ہوئے لکھا کہ وہ اُن کا خط حاجی شمس الدین کی خدمت میں بھیج دیں گے جو انجمن کے امور کو دیکھ رہے تھے، اقبال تو ایک عرصہ ہوا مستعفی ہو چکے تھے۔ ’’صحت پر اعتماد نہیں رہا مشاغل کم کر رہا ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’’عبرت‘ بڑا مفید کام کر رہا ہے۔ مسلمان بیدار ہو رہے ہیں۔ انشأ اللہ آپ کا پرچہ ضرور چمکے گا۔ آپ کی لڑکی کے انتقال سے افسوس ہوا۔ خدا تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحومہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔‘‘ گرامی کا خط موصول ہوا تو معلوم ہوا کہ نیازالدین خاں نے ’خضرِ راہ‘ کے متعلق اُن کی رائے سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اقبال ابھی تک امتحانی پرچے جانچنے میں مصروف تھے اس لیے جواب نہ دے سکے۔ اس کے بعد گرامی کا ایک اور خط آیا مگر اُس کا بھی فوراً جواب نہ دیا جا سکا۔ ۳۲ ۱۹ مئی کو لاہور میں نواب سر ذوالفقار علی خاں نے اقبال کے بارے میں اپنی کتاب کا دیباچہ تحریر کیا۔ Author's Preface My chief object in writing this brief review of some poems written by Muhammad Iqbal of Lahore is to unveil his charming personality to the gaze of Europe and America. His extreme modesty in refusing permission to publish his poems has not allowed his fascinating muse to enter the paraphernalia of Western mind. That one of India's worthiest sons possessing a force of intellect which has initiated potential movements in the world of thought should have so long remained unknown to the world outside the continent of India is a distinct and positive loss to the progress of civilization. If the Peacock Throne is the pride of Persia, and the lustrous Koh-i-Noor the glory of the British Crown, Iqbal would surely adorn the court of the muses in any country. The spirit of his thought constitutes the evangel of the future, especially for disintegrated societies. It lays the foundations of the renewed greatness of demoralized peoples. He comes therefore with an elixir for exhausted nations and a warning for aggressive Imperialism. As a Moslem poet his belief in the illimitable resources of human nature is such that he gives the tidings of boundless development of the individual. The human soul being an atom of energy is according to his philosophy capable of widest expansion, provided it loyally submits to a moral discipline which he expounds in his Persian poems. His poems have profoundly stirred the soul of the people in India. The entire nation had lapsed into deep slumber, and there seemed little left to labour on behalf of moral progress. For several decades a contempt for religion was, in the circles of highest culture, regarded as an almost essential index of the liberal mind. It is not easy to explain how the soul of the nation had decayed under the influence of self-seeking pettimindedness. The poet awakened lofty feelings, aroused pride in the motherland, and set the people dreaming about the greatness of their destiny. The youth of the country realized that paltriness was the grave of all greatness. They like the poet determined not to adapt themselves to the world, but to mould the world in accordance with their own will. In conclusion I wish to acknowledge with sincere admiration and affection the work of translation of Urdu poems which my friend Sardar Umrao Singh did for me. Quotations from the Persian poem Asrar-i-Khudi are taken from Dr. Nicholson's translation of that poem. I am sensible of numerous defects in the treatment of this literary subject, but I hope that my venture will encourage a true scholar to accomplish what I have only essayed as a novice. Zulfiqar Ali Khan Lahore: 19 May 1922۲۷ ۳۳ اعجاز کا خط ملا۔ معلوم ہوا کہ صحت کی کوئی خاص خرابی نہیں ہے۔ اعجاز کے اختلاج کے بارے میں اقبال کو ترددّ ہو رہا تھا، دُور ہوا۔ ۲۱ مئی کو جواب لکھتے ہوئے مولانا روم کا وہ شعر ایک دفعہ پھر دہرا دیا جس کا مطلب تھا کہ رزق خدا سے مانگو، انسانوں سے نہیں اور مستی بھی اُسی سے مانگو، شراب اور بھنگ سے نہیں: رزق از وے جو مجو از زید و عمر مستی از وے جو مجو از بنگ و خمر ’’تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور ہر قسم کا فکر دل سے نکال دینا چاہیے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’خدا تعالیٰ کارساز ہے اور انسان کا فکر ہی اُس کے لیے باعثِ آزار ہے۔ بالفرض اگر تم کو اپنی موجودہ مہم میں کامیابی نہ ہوئی تو بھی کیا۔ خدا تعالیٰ رزق کا کوئی اور سامان پیدا کر دے گا۔ اس میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ غرض یہ ہے کہ انسان کو اپنی صحت کی حالت کے مطابق اپنے فرائض کی ادا میں کوتاہی نہ کرنا چاہیے اور نتائج خدا کے سپرد کر دینے چاہیے۔‘‘ ۳۴ جولائی میں شملہ جانے کا ارادہ تھا۔ اُمید تھی کہ وہاں کی آب و ہوا سے فائدہ ہو۔ حسبِ معمول نواب ذوالفقار علی خاں کی کوٹھی میں ٹھہرتے اور واپسی پر جالندھر میں گرامی اور نیازالدین خاں سے بھی ملاقات کرتے ہوئے آتے۔۲۸ امتحانی پرچوں کا کام ابھی مزید پندرہ بیس روز جاری رہنا تھا مگر ۲۴ مئی کو گرامی کو خط لکھا۔ ’’جو کچھ آپ نے لکھا ہے اُس کے متعلق آپ کو اطمینان دِلانے کی ضرورت نہیں، ‘‘اقبال نے گرامی کی اُن وضاحتوں کے حوالے سے تسلی دی جو وہ ’خضرِ راہ‘ کے بارے میں ایک غلط تنقید اپنی طرف منسوب ہو جانے پر کر رہے تھے۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ اقبال کے نزدیک آپ کا فرمودہ وحی و الہام ہے نہ کسی اور کا۔ بلکہ آپ کے خط سے تو میرے خیال کی تائید ہوئی۔ میں نے آپ کو لکھا بھی تھاکہ یہ اعتراض آپ کا نہیں ہو سکتا۔ سننے والے کی غلطی ہو گی۔ سو ایسا ہی ثابت ہوا۔ اگر کوئی شخص دنیا میں ایسا موجود ہے، جس کو گرامی کی نیّت اور نیک نفسی میں شبہ ہے تو وہ اقبال کے نزدیک کافر ہے۔ میں تو آپ کو ولی سمجھتا ہوں آپ کس خیال میں ہیں۔‘‘ ۳۵ عید ہوئی۔ اقبال وسیمہ سے کہتے، ’’سیما! تمہیں کتنے پریے عیدی دی جائے؟‘‘ اب وہ جھینپتی تھیں کہ کبھی روپے کا تلفظ یوں بھی کیا کرتی تھیں۔ سردار بیگم نے منع کیا کہ اب تو وہ بڑی ہو چکی ہے، اُسے یوں تنگ نہ کیا جائے۔اقبال نے یہ مذاق ختم کر دیا۔۲۹ ۳۶ ’خضرِ راہ‘ نوٹ از سید سلیمان ندوی [اقتباس] ڈاکٹر اقبال کی یہ نظم گو جوشِ بیان میں ان کی پچھلی نظموں سے کم ہے لیکن اُسی نسبت سے تعقید اور فارسیت میں بھی کمی ہے۔ ان کی شاعری کا اصلی جوہر فلسفے اور تخیل کی مصالحانہ آمیزش ہے اور اُن کی یہ خصوصیت اِس نظم میں بھی نمایاں ہے۔۔۔ہم کو اِس نظم کے جس شعر نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ یہ تھا: لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ڈاکٹر اقبال کی یہ نظم ایسی ہے کہ اس کی شرح لکھنی چاہیے۔ ذیل میں ہم اس نظم کے چند منتخب اشعار اور بند نقل کرتے ہیں۔ شائقین کو چاہیے کہ اصل نظم منگوا کر مطالعہ کریں۔ معارف، مئی ۱۹۲۲ء اس کے بعد خوشخبری تھی کہ اقبال نے گوئٹے کے جواب میں فارسی مجموعۂ کلام لکھا ہے۔ ’خضرِ راہ‘ کے منتخب اشعار تھے۔ اسی شمارے میں مفتی عالم جان بارودی کے بارے میں مضمون تھا جن کے حالات کچھ عرصہ پہلے مسلم اسٹینڈرڈ( لندن) میں شائع ہوئے تھے۔ ان دنوں اقبال کا ذہن بھی مفتی عالم جان بارودی کی طرف جا رہا تھا۔ سید سلیمان ندوی کو خط لکھنے ہی والے تھے کہ ۲۹ مئی کو معارف کا تازہ شمارہ نظر سے گزرا۔ اُسی روز سید سلیمان ندوی کو خط لکھ کر زبردست مبارک باد پیش کی۔ ’’جوشِ بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا صحیح ہے مگر یہ نقص اس نظم کے لیے ضروری تھا (کم از کم میرے خیال میں)،‘‘ اقبال نے وضاحت کی۔ ’’جناب خضر کی پختہ کاری ان کا تجربہ اور واقعات و حوادثِ عالم پر اُن کی نظر ان سب باتوں کے علاوہ ان کا اندازِ طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ ‘‘ ۳۷ اُس ماہ انقرہ کی اسمبلی نے غازی پاشا کی سپہ سالاری میں پھر تین ماہ کی توسیع کر دی۔۳۰ ۳۸ بنام شیخ اعجاز احمد لاہور ۸ جون ۲۲ء برخوردار اعجاز طال عمرہٗ بعد دعا کے واضح ہو مجھے اِس بات کا سخت افسوس تھا کہ زندگی کی دوڑ میں داخل ہوتے ہی تمہیں خرابیٔ صحت کا سامنا ہوا جس کی وجہ سے تم کو اپنے پروگرام میں تبدیلی کرنی پڑی۔ مگر گھبرانا نہ چاہیے۔ انشأاللہ تمہاری صحت جلد اچھی ہو جائے گی۔ زندگی کو باقاعدہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور جوانی کی قوت سے یہ فائدہ اٹھانا چاہیے کہ صحت دیر تک قائم رہے۔ میرے نزدیک صحت جسمانی و روحانی کی سب سے بڑی ضامن مذہبی زندگی ہے میں نے تم کو لکھا بھی تھا کہ قرآن پڑھا کرو اور جہاں تک ممکن ہو نماز میں بھی باقاعدہ ہو جاؤ تو سبحان اللہ مگر قرآن پڑھنے پر میں زیادہ اصرار کرتا ہوں کہ اس کے پڑھنے کے فوائد میرے تجربے میں آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنا اکسیر ہے۔ سیالکوٹ میں تو صرف دو آدمی ہیں جن کی زندگی اور صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے یعنی تمہارے دادا اور شاہ صاحب۔ کبھی کبھی شاہ صاحب کی خدمت میں چلے جایا کرو۔ کیا اچھا ہو کہ صبح ہر روز اُن کے ساتھ پھرنے کے لیے چلے جایا کرو۔ یہ باتیں بظاہر معمولی ہیں مگر کچھ عرصے کے بعد ان کے فوائد تم کو خودبخود معلوم ہو جائیں گے۔ باقی جہاں تک ممکن ہو زندگی کو سادہ بنانے کی کوشش کرو۔ تم نے مجھ سے مسواک کے متعلق سوال کیا تھا۔ میری مراد اس سے دیسی مسواک تھی نہ انگریزی طرز کے منجن۔ یورپ کی بنی ہوئی چیز خوب صورت ضرور ہوتی ہے مگر اس میں ایک اخلاقی زہر ہوتا ہے جس کا اثر آج کے مادّی طبیعت رکھنے والے انسان فوراً محسوس نہیں کر سکتے۔ میں نے بھائی صاحب کو لکھا تھا کہ اگر اعجاز چاہے تو سیالکوٹ سے چند روز کے لیے لاہور آ جائے یہاں کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ تم تسلی رکھو مجھے یقین ہے کہ زندگی میں ذرا سی باقاعدگی تمہاری صحت کو اچھا کر دے گی۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ والسلام محمدؐ اقبال ۳۹ مولوی میر حسن نے ایم او ایل کے پرچے جانچے تھے جن کے نمبروں میں کوئی دریافت طلب بات نکل آئی تھی۔ لاہور میں کسی مولوی حسین کو اِن پرچوں کو دیکھنا تھا۔ اقبال نے شاہ صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ بھیجا مگر جواب نہ آیا۔ ’’یہاں مولوی حسین ان کے پرچوں کا انتظار کرتے رہے،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’آخر میں نے اُن سے کہا کہ وہ خود سیالکوٹ تشریف لے جائیں اور نمبروں کا مقابلہ کر لیں۔‘‘۳۱ ۴۰ اقبال نے جس ہمالہ کی شان میں کبھی قصیدہ لکھا تھا اُس کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر کبھی کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔ ۱۲ جون کو برطانوی کوہ پیما جارج میلوری چھبیس ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچا مگر آگے نہ جا سکا۔ ہمالہ تسخیر نہ ہوا۔ ۴۱ ۱۲ جون کو شیخ عطا محمد کو خط لکھا جو دستیاب نہیں ہے۔ اگلے روز امتیاز کسی کام سے لاہور پہنچے۔ اُس روز پہلی بیوی کریم بی بی کاایک اور خط آیا۔ لکھا تھا کہ اگر پانچ سال کی ماہانہ رقم پیشگی ادا نہیں کرتے تو حق مہر دے دیں۔ اقبال نے جواب دینے سے پہلے مہر کا کاغذ (غالباً نکاح نامہ) دوبارہ دیکھ لینا مناسب سمجھا۔ ’’غالباً گھر میں ہو گا،‘‘ انہوں نے اُسی روز شیخ عطا محمد کو تفصیل بتاتے ہوئے لکھا۔ ’’ایک نقل اس کی ضرور وہاں ہو گی اور ایک حافظ صاحب کے پاس۔ پیشتر اِس کے کہ میں اُن کو اِس خط کا جواب دوں میں کاغذ مہر کا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اِس واسطے آپ مہربانی کر کے وہ کاغذ بذریعہ رجسٹری بحفاظت نام میرے بھیج دیجیے۔‘‘ حافظ صاحب سے مراد کریم بی بی کے والد حافظ عطا محمد تھے جن سے ساری خاندانی ناچاقی کے باوجود اقبال کے مراسم ابھی تک احترام اور مروت پر اُستوار تھے۔ ۴۲ اعجاز احمد انکم ٹیکس افسر مقرر ہو کر پشاور سے ٹریننگ لے آئے تھے اور ایک عیسائی افسر کے تعصب کی شکایت کرتے تھے۔ شیخ عطا محمد کا خط اقبال کو ملا جس میں میاں فضلِ حسین سے کوئی کام تھا، اعجاز کی ملازمت یا کسی اور سلسلے میں۔ اقبال نے وہ خط میاں فضلِ حسین کو شملہ بھیج دیا۔ اِرادہ تھاکہ جولائی میں خود بھی گفتگو کر لیں گے۔۳۲ اسی خط کے ساتھ یا ایک آدھ روز میں اعجاز نے جو خط لکھا اُس میں غالباً یہ خبر تھی کہ گھر میں اقبال کی پہلی شادی کے کاغذات ملنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ بہرحال ۱۵ مئی کو اعجاز کے خط کا جواب دینے سے پہلے اقبال مہر کے کاغذ کے لیے گجرات میں اپنی سسرال والوں لکھ چکے تھے۔ ’’امید ہے تمہاری صحت جلد اچھی ہو جائے گی اور جو تکلیف تم کو پشاور جانے آنے میں ہوئی ہے وہ بعد کی کامیابی سے نسیاً منسیّا ہو جائے گی،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’تلخ تجربات سے گھبرانا نہ چاہیے۔ زندگی پر اُن کا بھی restraining influence ہوتا ہے۔ اگرچہ پہلے ان کی تلخی کا احساس ہوتا ہے اور روح کو ایذا پہنچتی ہے تاہم بعد میں اُن کا فائدہ معلوم ہو جاتا ہے اور انسان اِس بات کے لیے شکرگزار ہوتا ہے کہ اُس کو اِس قسم کے تجربات ہوئے۔‘‘ اس کے بعد اطلاع دی کہ شیخ عطا محمد کا خط میاں فضلِ حسین کو بھجوا دیا گیا ہے، مہر کے کاغذ کے لیے گجرات والوں کو لکھ دیا ہے اور مولوی حسین صاحب سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ پرچوں کے سلسلے میں خود سیالکوٹ تشریف لے جا کر مولوی میر حسن سے ملاقات کر آئیں۔ ۴۳ گرامی کا خط ملا جس میں ایک تازہ غزل شامل تھی کہ ہم نے پردہ چاک کرنے والے سے درپردہ سازباز کر رکھی ہے: درپردہ با پردہ در ساختیم مصروفیت کی وجہ سے اقبال اُس وقت جواب نہ دے سکے۔۳۳ ۴۴ نظیری نیشاپوری کی ایک غزل نظر سے گزری۔ پوری غزل خوب تھی مگر ایک مصرع ذہن سے چپک کر رہ گیا کہ جو بھی قتل نہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں ہے: کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست۳۴ ایک شعر اِسی زمین میں وارد ہوا کہ بات کہنے کا کمال یہ ہے کہ کھل کر بات نہ کہی جائے، اِس لیے تنہائی کا ذوق رکھنے والوں کی گفتگو صرف اشاروں کنایوں میں ہوتی ہے: برہنہ حرف نگفتن کمالِ گویائی است حدیثِ خلوتیاں جز بہ رمز و ایما نیست۳۵ ۴۵ ۲۲ جون کو گرامی کے اُس خط کا جواب دیا جو کئی دنوں سے آیا رکھا تھا اور غالباً ازراہِ تفنن اسے یوں شروع کیا، ’’بخدمتِ اقدس حضرت گرامی مدظلہٗ العالی استاد حضور نظام خلداللہ ملکہٗ‘‘! غزل کی تعریف کی، نظیری کے جس شعر نے دل و دماغ پر قبضہ کر رکھا تھا وہ بھی لکھا اور اُس وزن میں جو شعر وارد ہوا تھا وہ بھی لکھ کر پوچھا کہ کیا کبھی گرامی نے بھی اس پر غزل لکھی ہے؟ ’’آپ تو لاہورآنے کا قصد رکھتے تھے۔ میں تو اِس گرمی میں آپ کو دعوت دیتے ہوئے ڈرتا ہوں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ہاں جب میں ’پیغمبری‘ کا دعویٰ کروں گا تو آپ کو بیعت کے لیے بلاؤں گا۔ آج کل پیغمبری کا اِدعا تو عام ہو چکا ہے۔ خدائی کا دعویٰ کرنا چاہیے۔‘‘ پیغمبری کے دعوے کے تذکرے میں احمدیت کی تحریک پر طنز چھپا ہواتھا، معلوم ہوتا تھا کہ عقیدۂ بروز اور تناسخ پر تحقیق، اور عالمِ اسلام میں زندگی کی نئی لہر اِقبال کو اِس تحریک کے بارے میں دوبارہ تنقیدی نگاہ سے غور کرنے پر آمادہ کر رہی تھی۔ میں اپنی ذات کو دیکھنے میں یوں کھو گیا ہوں کہ محبوب کا جلوہ سارے زمانے پر چھا گیا ہے اور مجھے دیکھنے کی فرصت نہیں! اگرچہ فسادی عقل نے ایک لشکر جمع کر لیا ہے مگر تم دل گرفتہ مت ہو کہ عشق بھی تنہا نہیں ہے! یہ خیالات نظیری والی غزل کی زمین میں وارد ہو رہے تھے: نظر بہ خویش چناں بستہ اَم کہ جلوۂ دوست جہاں گرفت و مرا فرصتِ تماشا نیست اگرچہ عقلِ فسوں پیشہ لشکرے انگیخت تو دِل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست۳۶ ۴۶ ۲۴ جون کو ہوشیارپور کے تحصیل دار سے ملاقات ہوئی۔ وہی مولوی صاحب جن سے فارسی اشعار میں اصلاح لینے کا مشورہ اقبال نے نیازالدین خاں کو دیا تھا، اُن کے متعلق تحصیل دار کا خیال تھا کہ انہیں نواب سراج الدین سائلؔ دہلوی کے داماد مرزا عبدالرب نے، جو سیشن جج تھے، گرامی کا دیوانہ بنا رکھا ہے۔۳۷ ۴۷ نظیری کی ایک اور غزل تھی، مستانہ بھی سازد، دیوانہ می سازد۔ اقبال کے دل نے کہا، اے باغباں اقبال سے کہہ دے کہ وہ چمن سے رخصت ہو جائے کہ اِس جادوبیاں نے ہمیں پھولوں سے بیگانہ کر دیا ہے: بگو اے باغباں اقبال را رخت از چمن بندد کہ ایں جادوبیاں ما را زگل بیگانہ می سازد۳۸ ۴۸ ۲۲ جون والے خط کے جواب میں جالندھر کے محلہ عالی کی شمس منزل سے گرامی کی زبانی یہ خوشخبری موصول ہوئی، ’’ملّا نظیری نے آپ کو اپنا جانشین انتخاب کیا ہے۔‘‘ مزید تاکید تھی کہ یہ پیغام ’’نظیری کی رُوح کے اِشارے سے لکھا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ گرامی کے کچھ اشعار بھی تھے کہ بندہ وہ نہیں جو بندگی سے آزاد ہو جائے بلکہ وہ ہے جو بندگی میں آزاد ہو جائے: بندہ آں نیست کہ از بندگی آزاد آمد بندہ آں است کہ در بندگی آزاد آمد اس کے بعد ۲۶ جون کو کشن پرشاد کا خط آیا تو اقبال نے اُسی وقت یہ شعر اُنہیں بھی لکھ بھیجا کہ اِس کا وِرد کرنا چاہیے اور گرامی کو لکھا، ’’اِس سے بہتر شعر َاب اِس زمین میں نہ نکل سکے گا۔ خاص کر آزاد کا قافیہ ختم ہو گیا۔‘‘ گرامی نے جو اِقبال کو نظیری کی جانشینی کی خوشخبری دی تھی اُس کا شکریہ ادا کیا، ’’آپ کے الفاظ میرے لیے نہایت حوصلہ افزا ہیں۔‘‘۳۹ ۴۹ اعجاز کا کام چل نکلا تھا مگر شیخ نور محمد کو پھوڑا نکل آیا۔ اِس عمر میں نشتر لگوانا مشکل کام تھا مگر شیخ عطا محمد نے دیر نہ ہونے دی تھی۔ اقبال کو بھی کارڈ لکھ کر اطلاع دی۔ انہی دنوں مولوی میر حسن کے لڑکے سید ذکی شاہ لاہور آئے تو اقبال کو اُن کی زبانی بھی والد صاحب کی طبیعت کے بارے میں خبر ملی۔ ملتان سے آم آنے والے تھے مگر معلوم ہوا کہ جن صاحب نے بھجوانے تھے وہ ڈلہوزی چلے گئے ہیں۔ آخر لاہور میں دستیاب ملتانی آموں میں سے کچھ لے کر ذکی شاہ کے ہمراہ شیخ عطا محمد کو بھجوائے۔ ’’اس سے بہتر دیسی آم لاہور میں نہیں ہیں۔ گو ان میں رَس تھوڑا ہے،‘‘ اقبال کا خیال تھا۔۴۰ ۵۰ بیجاپور کے قیدخانے میں مولانا محمد علی نے نعتیہ نظم لکھی تھی جو کسی طرح لکھنؤ کے فرنگی محل پہنچی اور وہاں سے پورے ملک میں مشہور ہو گئی۔۴۱ تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں اُن سے خلوت میں ملاقاتیں ہر لحظہ تشفی ہے، ہر آن تسلی ہے ہر وقت ہے دلجوئی، ہر دم ہیں مداراتیں کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں ہر روز یہی چرچے، ہر رات یہی باتیں معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت اِک فاسق و فاجر میں اور ایسی کراماتیں بے مایہ ہیں ہم لیکن شاید وہ بلا بھیجیں بھیجی ہیں درُودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں مولانا محمد علی ’’جوہر‘‘ؔ ۵۱ حیدرآباد میں بگل کنٹا میں ایک ایس ہاشمی تھے جن کی معرفت ایس حبیب احمد نے اقبال سے اسلامی تہذیب کے بارے میں کسی ڈاکٹر لوسی کے افکار پر اُن کی رائے دریافت کی۔ ۱۰ جولائی کو اقبال نے انگریزی میں جواب دیا: ۱ ایک طالب علم کو چاہیے کہ کچھ عرصہ حتمی رائے قائم کیے بغیر مطالعہ کرتا رہے (خود اقبال نے بھی کسی زمانے میں یہی طریقہ اختیار کیا تھا)۔ ۲ براؤن کی تاریخ ادبیات ایران، نکلسن کی تصوف اور عربی شاعری کے بارے میں تصنیف اور خود اقبال کامابعدالطبیعیات والا مقالہ جو ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا تھا، تصوف کے موضوع پر مغربی نقطۂ نظر سے تحقیق کے لیے اہم حوالے بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم تہذیب کے بارے میں جرمن زبان میں وون کریمر (Von Kremer) یا نویل ڈیکے (Noeldeke)کی تصانیف، خصوصاً وون کریمر کی کتاب مسلم کلچر کی تاریخ دیکھی جا سکتی تھیں۔ ۳ پھر بھی سچ یہ تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب ایک عجیب و غریب کرشمہ تھی اور یورپی محققین اِس کے صرف بیرونی پہلوؤں پر ہی نظر ڈال سکے تھے۔ یوں اِس تہذیب کی تاریخ ابھی لکھی ہی نہیں گئی تھی۔ ۴ تصوف میں ایسے افکار بھی شامل ہوئے جو اس کی اصل کے منافی تھے اور مسلمان یونانی فلسفے کے پھیر میں بھی پڑے مگر وہ اس منزل سے بہت جلد آگے نکل گئے۔ انہوں نے آزادانہ تحقیق اور استقرائی منظق کی بنیاد رکھی اور اِس میں صحتمند تصوف کا بھی حصہ تھا۔۴۲ نیازالدین خاں نے اپنے کسی دوست کے لیے، جنہیں عرق النسأ کی بیماری تھی، گورداسپوری حکیم کا وہ نسخہ طلب کیا جس سے اقبال کو آرام آیا تھا۔ اُس روز نیازالدین خاں کو مختصر جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا، ’’مجھے نقرس کی بیماری تھی۔ آپ کے دوست کو عرق النسأ ہے۔ وہ اور چیز ہے اور اُس کا علاج نقرس کے علاج سے بالکل مختلف ہے۔‘‘۴۳ اُس روز شیخ عطا محمد کو خط بھی لکھا۔ ’’بہت اچھا ہوا کہ آپ نے پھوڑے کی طرف جلد توجہ کر دی ورنہ ممکن ہے زیادہ تکلیف اُن کو ہوتی،‘‘ والد صاحب کے حوالے سے لکھا۔ آموں کا تذکرہ بھی کیا جو ذکی شاہ کے ہاتھ اُنہیں بھجوائے تھے اور اعجاز کے لیے لکھا، ’’یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ اعجاز کا کام چل نکلا ہے۔ آپ اُس سے کہہ دیں کہ وہ محنت کرتا رہے اور کام سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر ے۔ جب وہ اچھی طرح سے تجربہ حاصل کر لے گا تو ممکن ہے کوئی پبلک پراسیکیوٹری کی جگہ نکل آئے۔ میں اس کے لیے کوشش کروں گا۔ پبلک پراسیکیوٹری سے اور بھی اچھی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں لیکن کام جتنا بھی ہو تندہی اور توجہ سے کرے۔ حکام سے بھی جو وہاں ہوں رسوخ رکھے۔‘‘ ۵۲ جولائی میں آفتاب نے لندن یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان فلسفہ میں آنرز اور سماجیات بطور ذیلی مضمون کے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔۴۴ ۵۳ اعجاز لاہور آئے تو اقبال انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ ’’اعجاز تو بہت دبلا معلوم ہوتا ہے،‘‘ انہوں نے سوچا۔ ’’اس کی چستی میں بھی نسبتاً کمی ہے اور چہرے سے فکر و تردّد کے آثار پائے جاتے ہیں۔‘‘ حال ہی میں فضول خرچی پر باپ سے کچھ ڈانٹ بھی پڑی تھی حالانکہ اگر اعجاز میں واقعی فضول خرچی کی عادت تھی تو باپ ہی سے ورثے میں پائی ہو گی۔ اقبال نے سوچا کہ اِس ڈانٹ پھٹکار کا بوجھ بھی اعجاز کی طبیعت پر ہوا ہو گا۔ مظفرگڑھ سے آم آئے ہوئے تھے۔ اعجاز رخصت ہونے لگے تو ان میں سے کچھ اُن کے ہاتھ سیالکوٹ بھجوائے۔ ریل گاڑی رخصت ہوئی تو اسٹیشن ہی سے آم کی ایک اور ٹوکری ملی جس پر اقبال کو افسوس ہوا کہ پہلے ملتی تو سیالکوٹ بھجوائی جاتی۔۴۵ ۵۴ اقبال تین برس کے لیے انجمن حمایت اسلام کے آنریری جنرل سیکرٹری منتخب کیے گئے تھے۔ میعاد اگلے برس ختم ہونی تھی مگر استعفیٰ دے دیا۔۴۶ ۵۵ ۲۵ جولائی کو غازی مصطفیٰ کمال پاشا مولانا روم کے شہر قونیہ میں تھے۔ بظاہر وہ وہاں برطانوی جرنیل ٹاؤنسنڈ سے ملنے گئے تھے جس نے لائڈ جارج کی پالیسی کے برخلاف ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات کی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ اصل مقصد محاذ کا جائزہ لینا تھا۔ پچھلے برس یونانی آگے بڑھے تھے اور ترکوں نے صرف اپنا دفاع کیا تھا۔ اس برس یونانیوں پر حملہ کر کے اُنہیں ترکی سے باہر نکالنا تھا۔ غازی پاشا جانتے تھے کہ جنرل پاپولاس کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے۔۴۷ ۵۶ انجمن حمایت اسلام سے وفد اقبال کے پاس آیا۔ مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین اور سید محمد شاہ اس میں شامل تھے۔ چاہتے تھے کہ اقبال انجمن کے ساتھ تعلق برقرار رکھیں۔ ہو سکے تو استعفیٰ واپس لے لیں۔ اقبال نے استعفیٰ واپس نہ لیا۔ ویسے انجمن کے کام آنے کو تیار تھے۔۴۸ ۵۷ ۲۶جولائی کی شام اقبال شملہ کے لیے روانہ ہونے والے تھے جہاں اُن کا قیام نواب ذوالفقار کی کوٹھی نوبہار میں ہوتا۔ مظفرگڑھ کے کچھ آم گھر میں چھوڑ کر کچھ لدھیانے میں مختار بیگم کے گھر والوں کو دیتے ہوئے جانے کااِرادہ تھا۔ اُس روز شیخ عطا محمد کو خط لکھا جس میں اعجاز کی صحت کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ ’’میرے دل پر اِن باتوں نے بڑا اثر کیاہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ممکن ہے کہ اُس کے دل پر اور باتوں کے علاوہ آپ کی ناخوشی کا بھی اثر ہو۔ آپ اُس کی صحت کی فکر کریں اور اُس کو تسلّی دیں کہ انشأ اللہ اُس کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی بہتر صورت نکلے گی۔ فی الحال اُس کو اپنا کام سیکھنے کی طرف پوری توجہ دینی چاہیے۔ اگر مقدمات نہ بھی آئیں تب بھی قانونی کتب کا مطالعہ کرتا رہے۔ وکیل کی زندگی میں وہ وقت نہایت بیش قیمت ہے جب اُس کو کوئی کام نہ آیا ہو کیونکہ ان اوقات میں وہ مطالعہ کر سکتا ہے جو اُن دنوں میں اُس کے کام آئے گا جب لوگ اپنے معاملات اُس کے سپرد کرنے لگیں گے۔ دو تین سال تکلیف کے ہیں پھر میں بھی انشأاللہ اُس کے لیے کوشش کروں گا اور اگر آپ کے دل میں اُس کی طرف سے کوئی ناخوشی ہو تو اُس کو دُور کر دیں۔ اگر فضول خرچی کا عیب اُس میں ہے بھی تو میرے نزدیک یہ عیب بدچلنی سے بہتر ہے اور الحمدللہ کہ یہ موخرالذکر عیب اُس میں نہیں۔ یہی غنیمت ہے۔ آپ اپنے تمام معاملات خدا کے سپرد کر کے اپنے قلب کو افکار سے فارغ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ غیرمتوقع سامان کر دے گا۔‘‘ ۵۸ اقبال شملہ میں تھے اور قریباً یقینی طور پر نواب ذوالفقار علی خاں کی کوٹھی نوبہار میں قیام رکھتے تھے۔ لاہور میں شیخ عبدالقادر کے زیرِ صدارت انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ آنریری جنرل سیکرٹری کے عہدے سے اقبال کا استعفیٰ منظور ہوا۔ سابقہ خدمات پر شکریے کی قرارداد ہوئی۔ اقبال سے درخواست کرنے کی ٹھہری کہ وہ کونسل کے اس بیان کی تصدیق کر دیں کہ آیندہ بھی انجمن سے تعلق برقرار رکھیں گے۔۴۹ ۵۹ اس زمانے میں شملہ میں کھنچی ہوئی اقبال کی کئی تصویریں موجود ہیں۔ ممکن ہے نواب سر ذوالفقار علی خاں نے اہتمام کیا ہو تاکہ ان میں سے کوئی ایک کتاب میں شامل کر لی جائے۔ ایک تصویر میں اقبال کرسی پر بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔پیچھے نواب سر ذوالفقار اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے۔ تصویر کتاب کے لیے بہت موزوں تھی۔۵۰ ایک گروپ فوٹو میں اقبال، ہز ایکسی لینسی سردار عبدالقدوس خاں اور نواب سر ذوالفقار علی خاں اکٹھے بیٹھے تھے۔ پچھلی صف میں نواب سر ذوالفقار کے لڑکے رشید اور خورشید کھڑے تھے۔ ایک تصویر باقاعدہ پورٹریٹ تھی۔ اقبال نے انگریزی لباس پہن رکھا تھا۔ آنکھوں پر گول عینک تھی۔ لیکن ایک اور پورٹریٹ جو سائیڈپوز تھی، اُس میں دائیں آنکھ کی بینائی نہ ہونے کی وجہ سے بایاں رُخ کیمرے کے سامنے کیا تھا اور شال اوڑھ رکھی تھی۔ تصویر کھینچنے والے کو جس کا نام بھی محفوظ نہ رہا شائد معلوم نہ رہا ہو کہ بالآخر یہ انسانی تاریخ کی مشہورترین تصویروں میں شمار ہو گی جسے اَن گنت طالب علم، شوقیہ فنکار اور پیشہ ور مصور بار بار بناتے رہیں گے۔ ۶۰ کانگریس کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں اقبال کی جو رائے تھی وہ فارسی کے شاعر میر رضی دانشؔ کے اس شعر سے بخوبی واضح ہو سکتی تھی کہ وفادار قیدیوں نے حقِ نمک یوں ادا کیا ہے کہ قید سے نکل کر بھی صیاد کے گھر کے درخت پر ہی آشیاں بنایا : نمک شناس اسیراں چوں از قفس رفتند بہ نخلِ خانۂ صیاد آشیاں بستند نوبہار شملہ میں قیام کے دوران ’سوراج‘ کا عنوان ڈال کر اِس شعر کی تضمین میں پانچ اشعار لکھے مگر بعد میں کسی وقت انہیں قلمزد کر دیا۔۵۱ ۶۱ اعصاب جواب دے جائیں تو عقل بھی کام نہیں کرتی۔ جنرل پاپولاس نے یونانی فوجوں کو استنبول پر حملے کا حکم دے دیا۔ برطانیہ اور فرانس اپنی فوجوں کو حکم دینے پر مجبور ہو گئے کہ اگر استنبول پر حملہ ہو تو یونانیوں کا مقابلہ کیا جائے۔ یونانی رُک گئے اور لندن میں اُن کا حمایتی لائڈ جارج تنہا رہ گیا۔ ۶۲ ۴ اگست تھی۔ وسط ایشیا کے چھوٹے سے گاؤں آبِ دریا میں اسّی مجاہدوں کے ساتھ وہ مجاہد عیدِ قرباں منا رہا تھا جس کا نام سن کر مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں۔ ترکی کے سابق وزیراعظم انور پاشا کا غازی مصطفیٰ کمال پاشا کے ساتھ اتفاقِ رائے نہ ہو سکا تھا مگر پورے وسطِ ایشیا پر محیط اِسلامی ترک ریاست کا خواب دل میں زندہ تھا۔ بالشویک رُوس کی نظروں میں کھٹکتے تھے۔ رُوسی افواج نے گاؤں پر حملہ کیا۔ جلدی میں انور کے ساتھ صرف پچیس سپاہی گھوڑوں پر سوار ہو کر سامنے آ سکے۔ انور نے جیب سے قرآن نکال کر ہاتھ میں لیا اور جھپٹے۔ گولی سینے میں دل سے ذرا اوپر لگی۔ لاش ملی تو سرد اُنگلیوں میں قرآن بدستور موجود تھا۔ اُن کی شہادت کے بارے میں جو مختلف بیانات سامنے آئے اُن میں سے یہی زیادہ مشہور ہوا۔ ۶۳ ’’شملہ میں آفتاب دیکھنے کو ترس گیا،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’اِس کے علاوہ اندیشہ تھا کہ ہوا کی رطوبت کی وجہ سے نقرس عود نہ کر آئے۔‘‘ اپنے آپ کو مستقل مریض سمجھنے لگے۔۵۲ کسی وجہ سے اُس مشہورفارسی شعر کے شاعر کا نام معلوم کرنے کی ضرورت پڑی جس کا مفہوم تھا کہ خدا والے خدا نہیں ہوتے مگر خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔ بنام سید سلیمان ندوی شملہ، نوبہار ۳ اگست ۱۹۲۲ء مخدومی السلام علیکم میں کچھ دنوں کے لیے شملہ میں قیام پذیر ہوں، نقرس کے دورہ کی وجہ سے صحت اچھی نہیں رہی۔ مردانِ خدا، خدا نباشد لیکن زخدا جدا نباشد کس کا شعر ہے؟ ایک امر کے لیے اس کی تحقیق ضروری ہے۔ ممکن ہے آپ کی نظر سے کسی تذکرہ میں یہ شعر گذرا ہو۔ عام طور پر مشہور ہے۔ میں روز اور شملہ میں ہوں، اگر آپ جلد جواب دیں تو مندرجہ بالا پتے پر خط لکھیں۔ اور اگر کچھ دنوں بعد خط لکھنا ہو تو لاہور کے پتہ پر تحریر فرمائیں۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبال، بیرسٹر لاہور ۶۴ عرفی کی زمین میں اقبال کی غزل سے تحریک پا کر مولانا گرامی نے آٹھ ماہ پہلے جو غزل کہی تھی اُس کا ایک مصرع تھا کہ میں دل کی بات نگاہ کی زبان سے کہہ رہا ہوں: حدیثِ دل بہ زبانِ نگاہ می گویم اس شعر کا پس منظر عشقِ رسول تھا یعنی محبوبؐ کی زبان عربی ہے جو ہمیں نہیں آتی اس لیے نگاہ کی زبان سے دل کا پیغام کہنا پڑتا ہے۔ اقبال نے یہی مصرع اور غالباً یہی خیال لے کر بارہ تیرہ اشعار لکھے جن میں قطع برید کے بعد نو اَشعار کی بڑی دلکش غزل نکل آئی۔ کوئی چاہے تو عشقِ مجازی کی کیفیات کا لطف محسوس کرے اور چاہے تو آنحضورؐ کے رشتے سے ملت کے عشق کا اظہار سمجھے: اِس بہانے اس محفل میں کوئی اپنا ڈھونڈتا ہوں۔ میں غزل چھیڑ کے دوست کا پیغام سناتا ہوں۔ ایسی تنہائی میں جہاں گفتگو حجاب بن جاتی ہے، میں دل کی بات نگاہ کی زبان سے کہہ رہا ہوں۔ تمہارے چہرے پر پڑنے کے لیے اسے پاک کر رہا ہوں۔ نگاہ شوق کو آنسوؤں کی سوت میں دھو رہا ہوں! اگرچہ کلی کی طرح میرے کام میں گرہ پڑی ہوئی ہے مگر سورج کی جلوہ گاہ کی لگن مجھے مٹی میں سے کھینچتی ہے۔ موج کی طرح میرے وجود کی ساخت بے پروا طغیانی سے ہے۔ یہ مت سمجھو کہ میں اس سمندر میں کسی کنارے کی تلاش میں ہوں۔ اُس کے اور میرے بیچ آنکھ اور نظر کا تعلق ہے کہ انتہائی دوری میں بھی میں اُس کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری آنکھ کے پردے پر اُس نے ایک اور ہی دنیا کی تصویر کھینچ دی۔ میں ایک زبردست شعبدہ باز کے ہاتھوں میں جادو کے اثر میں ہوں۔ اُس کے بند گنبد میں نہیں سمایا۔ میں بوڑھے آسمان کے لیے جیسے پہلو کا کانٹا ہوں۔ پرواز کی لذت مجھے آشیانے میں نہیں ٹکنے دیتی۔ کبھی پھولوں کی ٹہنی پر ہوں کبھی ندی کے کنارے پر! غزل بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم غزل سرایم و پیغامِ آشنا گویم بخلوتے کہ سخن می شود حجاب آنجا حدیث دل بہ زبانِ نگاہ می گویم پئے نظارۂ روئے تو می کنم پاکش نگاہِ شوق بہ جوئے سرشک می شویم چو غنچہ گرچہ بکارم گرہ زنند ولے ز شوقِ جلوہ گہِ آفتاب می رویم چو موج سازِ وجودم ز سیلِ بے پرواست گماں مبر کہ دریں بحر ساحلے جویم میانۂ من و اُو ربطِ دیدہ و نظر است کہ در نہایتِ دُوری ہمیشہ با اویم کشید نقشِ جہانے بہ پردۂ چشمم ز دستِ شعبدہ بازے اسیرِ جادویم درونِ گنبدِ در بستہ اش نگنجیدم من آسمانِ کہن را چو خارِ پہلویم بہ آشیاں نہ نشینم ز لذّتِ پرواز گہے بہ شاخ گُلم گاہ بر لبِ جویم۵۳ ۶۵ مرزا غالب نے کہا تھا: وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حُسن غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا لڑکپن ہی سے اقبال کی شاعری میں یہ خیال مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا رہا۔ اب پھر ہوا کہ مجھے اپنی دیکھنے والی آنکھ سے کچھ اور ہی شکایت ہے اور وہ یہ کہ جونہی آپ جلوہ گر ہوتے ہیں میری نظر آڑ بن جاتی ہے: مرا ز دیدۂ بینا شکایتِ دگر است کہ چوں بجلوہ در آئی، حجابِ من نظر است۵۴ ۶۶ نجانے وہ صوفی کون تھا اور اُس نے کیا کہا جس کے جواب میں اقبال کو غزل کہنی پڑی کہ دل کی بات ظاہر کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا کیونکہ منزلِ لیلیٰ کی خاطر صحرا کی گرمی برداشت کا حوصلہ تم میں ہے نہ مجھ میں ہے۔ ہم کھوئے ہوئے یوسف کا نام اَبھی نہیں لے سکتے کہ زلیخا کی طرح بھرے دربار میں اپنے جھوٹ کا اعتراف کرنے کا حوصلہ تم میں ہے نہ مجھ میں ہے: ہوسِ منزلِ لیلیٰ نہ تو داری و نہ من جگرِ گرمیٔ صحرا نہ تو داری و نہ من دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت تپشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری و نہ من بیاض میں آٹھ نَو اشعار درج ہوئے جن میں قطع برید ہوئی۔ عنوان درج ہوا، ’بہ یکے از صوفیہ نوشتہ شد‘ یعنی ایک صوفی کو مخاطب کر کے لکھی گئی۔۵۵ ۶۷ شملہ سے بخیریت روانہ ہوئے۔ خیال تھا کہ شاید ستمبر میں دوبارہ آئیں۔ دُوسری بیوی مختار بیگم کے گھر والوں سے ملاقات کے لیے لدھیانہ ٹھہرے۔ مظفرگڑھ کے آم تو شاید جاتے ہوئے ہی دیتے گئے ہوں گے۔ یہاں ایک دو روز ہی ٹھہرے تھے کہ نقرس کی تکلیف ہو گئی۔اُسی شام لاہور چلے آئے مگر مختار بیگم لدھیانہ ہی میں ٹھہر گئیں۔ لاہور میں سیالکوٹ سے پہنچی ہوئی شیخ عطا محمد کی بیماری کی خبر منتظر تھی لہٰذا چند گھنٹے بعد سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔ ۵۶ وہاں پہنچنے کے دو تین دن بعد پھر نقرس کے درد میں مبتلا ہوئے۔ ’’یہ تکلیف ان کے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں تھی اور اتنی سخت تھی کہ چلنا پھرنا تو درکنار اُن کے لیے زمین پر پاؤں رکھنا بھی دشوار تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’سیالکوٹ میں اُن دنوں چوٹی کے ڈاکٹر کشن چند تھے۔ وہ مقامی کانگریس کمیٹی کے سربراہ تھے۔ چونکہ میں بھی خلافت کمیٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا تھااس لیے مجھے جانتے تھے۔ میں انہیں لانے کے لیے اُن کے مطب گیا۔ اس شام کو رام تلائی میں کانگریس کا ایک پبلک جلسہ تھا اور وہ اس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ چچا جان کی علالت کا سنا تو میرے ساتھ آ گئے۔ معائنہ کے بعد دوائی تجویز کی۔ پینے کے لیے ایک مکسچر اور ٹکور کے لیے ایک لوشن۔ ہدایت کی کہ لِنٹ (lint ) کی گدّی بنا کر لوشن میں تر کر کے ماؤف مقام پر رکھی جائے اور اُسے کسی وقت خشک نہ ہونے دیا جائے۔‘‘ ڈاکٹر کشن چند کے ساتھ جا کر اعجاز دوائیاں لے آئے۔ سردار بیگم کے ساتھ مل کر لِنٹ کی گدی لوشن میں تر کر کے انگوٹھے پر ٹکور کرتے رہے۔ آدھی رات کے بعد درد میں کمی ہوئی تو اقبال کو نیند آئی۔ پچھلے پہر خراٹے بھی لینے لگے۔ بھابھی جی تخت پوش پر تہجد پڑھ کر فارغ ہوئیں تو اشارے سے سردار بیگم کو بلا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ انہیں کی چارپائی پر لیٹ گئیں۔ کچھ دیر بعد گھر کے سامنے والی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی تو وضو کرنے غسل خانے چلی گئیں۔ اقبال بیدار ہوئے۔ دیکھا کہ اعجاز اُن کے پیر کے انگوٹھے پر گدی رکھے ہوئے ہیں۔ ’’پوچھا اذان ہو گئی؟‘‘ اعجا زکا بیان ہے۔ ’’میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہا تم نماز کے لیے نہیں گئے۔۔۔ اس غفلت کا اعتراف اُن سے کرنے میں تامل ہوا۔ بات ٹالنے کے لیے کہا جو کچھ کر رہا ہوں۔ یہ بھی تو عبادت ہی ہے۔ انہوں نے فرمایا، ’نہیں نماز کو اولیت حاصل ہے۔ درد میں اب تخفیف ہے تم اُٹھ کر نماز ادا کرو۔‘‘‘ گرمیوں کی وجہ سے رات کو سونے کا انتظام تیسری منزل کی چھت پر تھا۔ ’’شام ہوئی تو انہیں چھت پر لے جانے کا مرحلہ پیش آیا،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’وہ ماشأ اللہ بھرے جسم کے تھے۔ گھر کے مردوں میں دو ضعیفُ العمر بزرگ [اقبال کے والد اور بڑے بھائی] اور راقم الحروف ایک نحیف الجثہ ۲۳ سالہ نوجوان۔ تینوں انہیں پیٹھ کر اُٹھا کر سیڑھیاں چڑھنے سے معذور تھے۔ بڑے پھوپھا کرم الٰہی کے چھوٹے بیٹے بھائی فضل حق مرحوم سروقد کسرتی جوان تھے۔ سینڈو کی ورزشیں کرنا ان کا روز کا معمول تھا۔ چچا جان کو اپنی پیٹھ پر لاد کر چھت پر لے جانے کی سعادت ان کے حصہ میں آئی۔ دَوا کے متواتر استعمال سے دو تین روز میں اِس قابل ہوئے کہ بھانجے فضل الٰہی کو کمر پر اُٹھا کر نہ لے جانا پڑے۔ سہارے سے صبح اندر چلے جاتے اور شام کو باہر آ جاتے۔ ۵۷ قریباً ایک ہفتے میں شکایت رفع ہوئی۔ نیازالدین خاں کا خط سیالکوٹ پہنچا تو ۱۷ اگست کو انہیں جواب دیا۔ ’’جالندھر میں مولوی گرامی صاحب کی خدمت میں ٹھہرنے کا قصد تھا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’مگر نقرس کی شکایت نے مجھے رستے میں ٹھہرنے نہ دیا۔ اندیشہ تھا کہ اگر شکایت زیادہ ہو گئی تو مولوی صاحب کے لیے باعثِ زحمت بن جاؤں گا۔‘‘ اُسی روز بمبئی کے سردار ایم بی احمد کو بھی جواب دیا جو تعلیم حاصل کرنے جرمنی جانا چاہتے تھے اور اِقبال سے معلومات حاصل کرنا چاہی تھیں۔ اقبال نے لکھا کہ جرمنی کے متعلق اُن کی معلومات تیرہ برس پرانی ہیں جس کے بعد وہاں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ ۶۸ فرہاد کے غم اور پرویز کی عشرت کی کہانی دہرانے کے لیے ہرزمانے میں ایک نئے ڈھنگ کی ضرورت پڑتی ہے: بہر زمانہ باسلوبِ تازہ می گویند حکایتِ غمِ فرہاد و عشرتِ پرویز۵۸ ۶۹ میں کل رات مغرب کے میخانے کی سیر کرنے گیا اور ایک رِند کی شوخ بات میرا دل لے گئی۔ اُس نے کہا یہ کلیسا نہیں کہ تمہیں یہاں حسین دوشیزاؤں کی محفل اور راگ رنگ کی مجلس ملے۔ یہ مغرب کا میخانہ ہے جس کی شراب کی تاثیر یہ ہے کہ جسے برا جانا جائے وہی اچھا دکھائی دیتا ہے!۵۹ غالباً اس کے ساتھ ہی ذہن اُن جرمن شاعروں کی طرف گیا جنہوں نے مغرب کے اس میخانے میں حقیقت کی شمع جلانے کی کوشش کی تھی۔ بیاض میں ’شِلر‘ کا عنوان ڈال کر لکھا کہ اُس کا دلکش کلام زندگی بخشتا ہے لیکن اُس کی نظموں میں سب سے بہتر نظم اُس کی اپنی زندگی ہے: حیات افزا کلامِ دلربایش حیاتش بہترینِ نظمہایش لیکن پھر اسے قلمزد کر دیا۔۶۰ ۷۰ اعجاز کے رشتے کی بات پکی ہو چکی تھی۔ سردار بیگم نے اُن کی والدہ سے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ دلہن کے لیے پاؤں کا کوئی سونے کا زیور تیار کروانا چاہتے ہیں۔ ’’رات کو جب سب لوگ سونے کے لیے چھت پر اپنی چارپائیوںپر لیٹ گئے تو ابا جان نے پوچھا،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’چچا جان نے کہا، بے جی کی وفات سے تین چار سال پہلے کی بات ہے۔ میں تعطیلات میں گھر آیا ہوا تھا۔ ایک دن بے جی کی مجلس میں ساتھ کے محلے کے کسی تاجر گھرانے کی ایک شادی کا ذکر ہو رہا تھا۔ کسی نے کہا لڑکے والوں نے دلہن کو علاوہ اور زیورات کے سونے کے پازیب پہنائے ہیں۔ اعجاز بے جی کے پاس ہی لیٹا ہوا تھا۔ بے جی نے اُسے پیار کرتے ہوئے کہا اس کی شادی ہو گی تو میں بھی اس کی دلہن کو سونے کے پازیب پہناؤں گی۔‘‘ اقبال چاہتے تھے ماں کی اس خواہش کو پورا کریں۔ شیخ عطا محمد کا خیال تھا کہ ماں نے ایسے ہی لاڈ میں یہ بات کہہ دی ہو گی ورنہ وہ حیثیت سے بڑھ کر کچھ کرنے کی عادی نہ تھیں (اور یہ عادت اقبال میں بھی آئی تھی)۔ معاملہ میاں جی کے سامنے پیش ہوا۔ ’’اُنہوں نے کہا کہ جو جذبہ اِس ارادے کا محرک ہے وہ تو قابلِ قدر ہے لیکن اس ارادے پر عمل کرنا ہمارے حالات میں اَسراف ہو گا اور اَسراف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔‘‘۶۱ ۷۱ دہلی میں نواب سر ذوالفقار کے سیکرٹری چودھری محمد حسین کے بعض دوستوں کے درمیان بحث ٹھن گئی۔ اقبال کی ۱۹۰۳ء کی نظم ’ابرِ گہربار‘ کا شعر تھا: یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علی شیعوں کا ہائے کس ڈھنگ سے اچھوں کو بُرا کہتے ہیں بعض دوستوں کا خیال تھا کہ یہ اعتقادات کی بحث ہے اور بعض کے خیال میں فرقہ بندی کی مخالفت کی گئی تھی۔ میر خورشید احمد، محمد حسین کے جاننے والے اور محکمہ امورِ خارجہ میں ملازم تھے۔ انہوں نے اقبال کو سیالکوٹ خط لکھا۔ ’’دوسری پارٹی کا خیال صحیح ہے،‘‘ اقبال نے ۲۵ اگست کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اعتقادات کی بحث نہیں بلکہ فرقہ بندی کی بحث ہے۔ بعض اسلامی فرقے (خاصۃً احمدی) مسیحؑ و علی مرتضیٰ کو نصاریٰ کا خدا اور شیعوں کا علیؓ کہہ کر گالیاں دے لیتے ہیں۔ خود مرزا صاحب مرحوم اور اُن کے مرید مولوی عبدالکریم نے شیعوں کی تردید میں یہی افسوسناک طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘۶۲ شیخ عطا محمد ابھی پوری طرح صحت یاب نہ ہوئے تھے مگر اقبال اب زیادہ دن سیالکوٹ میں نہ رک سکتے تھے۔ اگست کے آخر میں عدالت کی تعطیلات ختم ہو رہی تھیں۔ لاہور پہنچ کر روزگار کی فکر کرنی ضروری تھی۔ چلتے چلتے عطا محمد کو کوئی نسخہ غالباً روحانی علاج کا بتایا جس کی بنیاد اقبال کے خیال میں کسی ایسے انکشاف پر تھی، ’’جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے قلبِ انسانی کے متعلق مجھ کو عطا فرمایا ہے۔‘‘۶۳ ۷۲ وحید بدایونی نے طنز و مزاح کے ساتھ مضمون لکھا۔ کلامِ اقبال کے مطالعے کی مستقل بنیاد بننے کے لائق تھا۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال: آبِ حیات کے دَورِ حاضر کا جرعۂ تیز از وحید احمد مسعود بدایونی [اقتباس] اقبال کا مذہب اِسلام ہے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیںاور دُنیا انہیں مسلمان جانتی ہے مگر ’’تذکرہ‘‘ کا دیباچہ نگار خواہ مخواہ شبہ پیدا کرتا ہے: ڈاکٹر اقبال کے مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے اُس کے مقابلے میں اب اُن کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی فی الحقیقت الہلال کی صدائے بازگشت ہیں۔ ہم نے بہت غور کیا اور تجسس بھی مگر معلوم نہ ہوا کہ پچھلے حال سے کیا مراد ہے؟ کیا اقبال کسی زمانے میں اعلانیہ لامذہب، آریہ یا عیسائی رہ چکے ہیں؟ اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اُن کی نشو و نما بطور مسلمان کے ہوئی۔۔۔ مثنویوں میں اقبال نے ایک حرف بھی زائد نہیں لکھا ہے۔ وہی ’’شمع و شاعر‘‘ اور ’’ترانہ‘‘ [’ترانۂ ملی‘] والا مضمون ہے اور یہ دونوں نظمیں الہلال کے وجود سے بہت ہی پیشتر کی ہیں۔ اقبال کی شاعری و حکمت کے متعلق ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب مغربی تعلیم کا ثمرہ ہے۔ لیکن ہم کیا اور ہمارا سمجھنا کیا۔ ہم تو وہی سمجھتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں۔ ہم پڑھتے وہی ہیں جو لندن والے لکھتے ہیں۔ لندن والے بند بند اَلفاظ میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف نے ہمارے یہاں سے سرقہ کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ لندن والے کس قدر صحیح کہتے ہیں۔ جھوٹ کا تو شبہہ نہیں کیا جا سکتا مگر ان کی ’’حکمتِ عملی‘‘ حقانیت کو نیچا ضرور دکھا دیتی ہے۔ وہ ہر بڑی شخصیت کے اجداد کا نام اپنے شجرے میں شامل کر کے کوئی نہ کوئی رشتہ پیدا کر ہی لیتے ہیں اور پھر منوا بھی لیتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ ایمڈن جہاز کے کارناموں نے جب حیران کر دیا تو اس کے جرمن کپتان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ اس کپتان کا تعلق کئی پشت پہلے کس انگریزی خاندان سے تھا۔ لندن والوں نے کس کس طرح اقبال کو اپنا بنانا چاہا ہے اس کی تفصیل کے لیے اگر انگریزی اخبار و رسائل دسترس میں نہ ہوں تو معارف میں ان مضامین کا ترجمہ ملاحظہ فرما لیجیے۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ اقبال اگر اپنی مثنوی کے چند اَشعار نکال دے تاکہ چند خشک دماغ والے فضول بحث نہ کر سکیں تو اُس کو نوبل پرائز عطا کر دیا جائے گا۔ یہ وہی شریفانہ انعام ہے جو ٹیگور کو مل چکا ہے۔ اور جس کو حاصل کرنے کے بعد ٹیگور اِتنے بڑے آدمی ہوئے ہیں۔ اور اقبال محض ایک مثنوی کا انگریزی میں ترجمہ ہو جانے کے بعد اِتنی بڑی شخصیت سمجھا گیا ہے کہ نوبل پرائز ہاتھ باندھے ہوئے پیچھے پیچھے پھرتا ہے کہ خدارا مجھے قبول کر لیا جائے۔ یورپ کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ اقبال مسلمان ہے اور مسلمان یورپ کے عیسائیوں کی طرح اپنے مذہب سے لاپرواہ نہیں ہوا کرتے تو ممکن ہے کہ یورپ صحیح طور پر سمجھے کہ اقبال کون ہے۔ اُس سے پہلے جس طرح بھی سمجھے گا غلط سمجھے گا۔ اور چونکہ ہم یورپ کی جاوبیجا تقلید کرنے کے عادی ہیں اس لیے ہم بھی اقبال کا مفہوم نہ سمجھ سکیں گے۔ نقیب، اگست-ستمبر ۱۹۲۲ء ۷۳ یوسف سلیم چشتی بیس بائیس برس کے نوجوان تھے۔ کانپور میں تھے۔ نانا حاجی ریاض الدین نے ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے ایڈیشن کا نسخہ بھیجا۔ پڑھا مگر سمجھ میں نہ آیا۔ اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور اِقبال سے بے نیاز ہو گئے۔ اُس وقت احساس نہ تھا کہ آگے چل کر تقدیر انہیں کلامِ اقبال کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے کے طور پر شہرت دے گی۔۶۴ ۷۴ A Theory of Monads Outlines of the Philosophy of the Principles of Relativity by W. Wildon Carr ...the progress of biological science, following its own line of investigation, has suggested, and brought increasing certainty to the suggestion, that the intellect is itself a product of evolution. The study of instinctive action, and of purposive action generally, tends increasingly to confirm it. But if intellect is a product of evolution the whole mechanistic concept of the nature and origin of life is absurd, and the principle which science has adopted must clearly be revised. We have only to state it to see the self-contradiction. How can the intellect, a mode of apprehending reality, be itself an evolution of something which only exists as an abstraction of that mode of apprehending, which is the intellect? If intellect is an evolution of life, then the concept of the life which can evolve intellect as a particular mode of apprehending reality must be the concept of a more concrete activity than that of any abstract mechanical movement which the intellect can present to itself by analysing its apprehended content. And yet further, if the intellect be a product of the evolution of life, it is not absolute but relative to the activity of the life which has evolved it; how then, in such case, can science exclude the subjective aspect of the knowing and build on the objective presentation as an absolute? Clearly the biological sciences necessitate a reconsideration of the scientific principle.۶۵ ۷۴ ۳۱ اگست کو ایک دیہاتی مکان کے صحن میں تین آدمی بیل گاڑی کے چھکڑے سے ٹیک لگائے ترکی کی تقدیر کا فیصلہ کر رہے تھے۔ غازی مصطفیٰ کمال پاشا، عصمت اِنونو اور فوزی پاشا تھے۔ فوزی کا خیال تھا کہ کچھ فوج شمال میں بھیجی جائے۔ عصمت کا خیال تھا کہ پوری فوج کو بھاگنے والے یونانی سپاہیوں کے پیچھے بھیجیں تاکہ اِسی دفعہ فیصلہ ہو جائے۔ ’’سپاہیو! تمہاری منزل بحیرۂ روم ہے۔ آگے بڑھو!‘‘غازی پاشا نے حکم دیا۔ بحیرۂ روم ڈھائی سو میل دُور تھا۔۶۶ ۷۵ ۳ ستمبر تھی۔ڈھائی ہزار یونانی سپاہی پہاڑی سے اُترے تو اندازہ ہوا کہ چاروں طرف سے گھیرے جا چکے ہیں۔ اُن کے ساتھ دو جرنیل تھے۔ دونوں نے ایک ترک کپتان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ قیدیوں کو غازی مصطفیٰ کمال پاشا کے ہیڈکوارٹر پہنچایا گیا تو ہونٹ ُسوج چکے تھے۔ عصمت اِنونو نے انہیں چائے پیش کی جسے وہ پی نہ سکے۔ ’’آپ خوب لڑے مگر تقدیر ہمارے ساتھ تھی،‘‘ عصمت نے اُن سے کہا اور پھر اپنی کمر سے پیٹی اور تلوار باندھ کر قیدیوں کو غازی پاشا کے سامنے باقاعدہ پیش کیا۔اُنہوں نے جرنیلوں کو کافی اور سگار پیش کیے۔ ایک قیدی جرنیل نے درخواست کی کہ اُس کے گھر والوں کو خبر دے دی جائے۔ جنگ صرف آٹھ دن پہلے شروع ہوئی تھی۔ ختم ہو چکی تھی۔۶۷ اتحادی طاقتوں کو سمجھنے میں مشکل ہوئی کہ کیا ہوا ہے۔ جب سمجھے تو غازی پاشا کو مذاکرات کا پیغام بھجوایا۔ ۵ ستمبر کو اُنہوں نے جواب دیا کہ ترک فوج اِزمیر واپس لے چکی ہے۔ مذاکرات صرف ترکی کے اُن علاقوں کے بارے میں ہوں گے جو اَبھی تک غیرملکیوں کے قبضے میں ہیں۔۶۸ اگلے روز۶ ستمبر تھی۔ انقرہ کی اسمبلی سے سیاہ پردہ ہٹا دیا گیا جو برسا پر یونانی قبضے کے بعد لٹکایا گیا تھا۔غم دُور ہو چکا تھا۔۶۹ ۷۶ جب تک یونانی اِزمیر میں رہے، مظالم ڈھاتے رہے۔ جو مسلمان بھاگے تھے اب واپس آ کر عیسائیوں سے انتقام لینے لگے۔ غازی پاشا کے سپاہی امن قائم رکھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر مشکل تھا۔ ’’یہ نتیجہ تھا،‘‘ ایک برطانوی ماہر نے بعد میں لکھا۔ ’’اُس حکمت عملی کا جو لائڈ جارج نے ایک ایسے علاقے کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے اختیار کی جو اکتوبر ۱۹۱۸ء میں امن کا معاہدہ ہونے تک عثمانیوں کے زیرِ سایہ کافی امن و امان میں رہا تھا!‘‘ ۱۰ ستمبر کو غازی پاشا اِزمیر کے سب سے بڑے شہر میں داخل ہوئے۔ اُس کا نام سمرنا تھا۔ خوبصورت بندرگاہ تھی اور سامنے بحیرۂ روم کا پانی اُن کے حوصلے کی داد دے رہا تھا۔۷۰ ۷۷ مولانا محمد علی بیجاپور کے جیل خانے میں تھے اور اُنہیں اِس بات کا افسوس تھا کہ اقبال نے اس تحریک میں ان کا ساتھ نہ دیا۔ ان کا بیان ہے، ’’اُن کے سیکڑوں اشعار جو مجھے یاد تھے جب کبھی بیجاپور کے جیل خانے میں زبان پر بھی آ جاتے تھے تو قلب پر وہی اثر ہوتا جو کسی ایسے خاندان والوں کے قلب پر ہوتا جن کی ایک چہیتی لڑکی کسی شرمناک فعل کے ارتکاب کے باعث گھر سے نکل گئی ہو اور اُنہوں نے خاندانی عزت و آبرو کی تباہی کے باعث اُسے دل سے بھلانے کی کوشش کی ہو اور اتفاقیہ اُس کے اوڑھنے یا پہننے کی کوئی چیز نکل آئے اور یکایک ان کی نظر اُس پر پڑ جائے۔۔۔‘‘۷۱ انہیں اخبار نہیں دیے جاتے تھے۔ایک روز جیل کے باہر بچوں کے کھیلنے کا شور سن رہے تھے جب غالباً کھیل میں کسی قسم کی جیت ہونے پر بچوں نے خوشی کے نعرے لگائے۔ مولانا محمد علی کے کانوں میں پڑے تو دل اچانک ترکی کے حالات کی طرف پلٹا ۔ حیرت انگیز بات تھی کہ عرصہ سے ترکی کے حالات کی کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود دل نے خودبخود انہیں بتا دیا کہ غازی پاشا جیت گئے ہیں۔ ’’قلب پر کچھ ایسے اثرات وقتاً فوقتاً وارد ہوتے رہتے تھے کہ بہت سے واقعات جن کا مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا، شعروں کی صورت میں ازخود میرے قلم سے نکل کر مجھ پر ظاہر ہو گئے،‘‘ اُن کا بیان ہے۔ ’’انہیں واقعات میں سے مصطفیٰ کمال پاشا کی کامیابی تھی جس کا پتا میرے دل نے بیجاپور کی جیل کے باہر چند بچوں کی خوشی کے نعروں سے لگایا حالانکہ ان کی باتوں کی آواز مجھ تک نہ آتی تھی اور اُن کی خوشی کے نعرے غالباً اِس فتح مبین سے بالکل غیرمتعلق تھے۔‘‘ اُسی وقت اُن کے قلم سے یہ شعر نکل پڑا: آئی نہ ہو زنداں میں خبر موسمِ گل کی سننا تو ذرا شورِ عنادل تو نہیں یہ‘‘۷۲ ۷۸ عالم میں آج دُھوم ہے فتحِ مبین کی سن لی خدا نے قیدیٔ گوشہ نشین کی ہے نامِ مصطفیٰ کی یہ برکت کہ پھر خدا یوں جَڑ جما رہا ہے محمدؐ کے دِین کی مولانا محمد علی ’’جوہرؔ‘‘۷۳ باب ۹ حافظ کا میخانہ ستمبر سے دسمبر۱۹۲۲ء در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ! اقبال A Voice from the East or The Poetry of Iqbal by Zulfiqar Ali Khan, Kt., C.S.I. of Malerkotla Vice-Chairman of the Council of State, India; Fellow of the Punjab University; Vice-President of the Punjab Historical Society; President, Anjuman-i-Himayat-i-Islam, Lahore; and author of the Lives of Sher Shah Suri and Maharajah Ranjit Singh. 1922 Lahore The Mercantile Electric Press, Ry. Road Price Rupee one ۱ سمرنا میں پہلی رات غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے ساحل کے قریب گزاری ۔ سمندر میں اتنی لاشیں پھینکی جا چکی تھیں کہ تعفن کی وجہ سے سونا مشکل ہو گیا۔ اگلے روز شہر کے کسی اور گوشے میں گھر تلاش کرنا پڑا۔ تب لطیفہ خانم سے ملاقات ہوئی۔ لطیفہ کی عمر چوبیس برس تھی۔ ان کے والد معمر عشاقی زادہ، سمرنا کے ایک امیر تاجر، یونانی حملے کے موقع پر اپنے خاندان سمیت فرانس چلے گئے تھے۔ وہاں لطیفہ قانون کی تعلیم لینے لگیں مگر پچھلے برس یونانیوں کی پہلی شکست کے بعد ہی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ترکی واپس آ گئیں۔اب اپنی بوڑھی دادی کے ساتھ اُس محل نما گھر میں رہتی تھیں جو خاندانی جائیداد کا حصہ تھا۔ غازی پاشا قیام گاہ کی تلاش میں پہنچے تو لطیفہ ہی نے اِستقبال کیا۔ متاثر ہوئے مگر اُس رات کہیں اور ٹھہرے۔۱ ۲ میکلوڈ روڈ پر مرزا جلال الدین کی کوٹھی کے قریب ایک کوٹھی کرایے پر خالی تھی۔ پرانی تھی مگر ساتھ انیکسی بھی تھی۔ احاطہ وسیع تھا۔ برابر میں رتن سنیما تھا۔ مرزا جلال کا بیان ہے کہ اقبال نے ان کے کہنے پر انارکلی والے فلیٹ سے اِس کوٹھی میں منتقل ہونا قبول کیا۔۲ کوٹھی کی مالکہ ایک ہندو بیوہ تھی جس کے دو لڑکے تھے۔ غالباً ستمبر میں کسی وقت اقبال نے ایک سو ستر روپیہ ماہوار پر یہ کوٹھی کرایے پر لے لی۔ منتقل ہونے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔۳ ۳ حاجی میر شمس الدین کابل پہنچے۔ امیر امان اللہ خاں کے حضور اپنی وہ فارسی نظم پڑھی جس پر اقبال نے نظرِ ثانی کی تھی۔ ۴ ۴ اقبال کی پہلی بیوی کے والد عطا محمد شیخ جوان بیٹے کی موت کے بعد غمگین رہنے لگے تھے۔ ۱۴ ستمبر کو اپنے شہر گجرات میں فوت ہو گئے۔۵ ۵ اِس برس کسی وقت برطانیہ کی حکومتِ ہند نے اقبال کو نائٹ ہڈ یعنی ’’سر‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا اعلان یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو ہونا تھا۔قاعدے کے مطابق پہلے اقبال کی رضامندی معلوم کی گئی ہو گی تاکہ بعد میں ان کے انکار کی وجہ سے حکومت کو شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے۔ ’’یہ بھی بتا دوں کہ ڈاکٹر [اقبال] صاحب کو ’سر‘ کا خطاب کیسے ملا،‘‘ اقبال کے شاگرد اور ہم زلف خواجہ فیروزالدین کا بیان ہے جو اُس وقت بیرسٹر بن چکے تھے۔ ’’ہم ہائی کورٹ کے بار رُوم میں بیٹھے تھے۔ گورنر [یعنی لفٹننٹ گورنر پنجاب سر میکلگن] کی چٹھی ڈاکٹر صاحب کے نام آئی کہ کھانا میرے ساتھ کھائیے۔ سر شفیع سے ڈاکٹر صاحب نے مشورہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ضرور جانا چاہیے۔ یہ دعوت پرائیویٹ ہے، پبلک نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب دعوت میں شریک ہوئے۔ وہاں لنڈن ٹائمزکا نامہ نگار بھی موجود تھا۔ وہ ایشیا کا دَورہ کر کے آیا تھا۔ اُس نے بتایا کہ میں لاہور نہیں آنا چاہتا تھا۔ صرف آپ [اقبال] کو دیکھنے کے لیے آیا ہوں۔ میں ایران کے وزیرِ تعلیمات سے ملا تھا تو اُس نے آپ کی مثنوی ’اَسرارِ خودی‘ کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ اس مثنوی نے وسط ایشیا میں بیداری پیدا کر دی ہے۔ کابل کے وزیرِ تعلیمات سے ملا تو اُس کے پاس بھی آپ کی مثنوی دیکھی۔ وہاں سے لاہور کا قصد کیا۔ گورنر سے آپ کا ذکر آیا تو اُنہوں نے کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو کھانے پر بلا کر ملاقات کروا دیتا ہوں۔ اِس تقریب میں گورنر صاحب کو خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی خطاب ملنا چاہیے۔‘‘۶ ایک اور روایت کے مطابق اقبال نے اس موقع پر گورنر میکلیگن سے مولوی میر حسن کے لیے شمس العلمأ کے خطاب کی سفارش بھی کی۔ گورنر نے پوچھا کہ مولوی میر حسن نے کون کون سی تصانیف لکھی ہیں۔ اقبال نے جواب دیا، ’’میں اُن کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں۔‘‘۷ مرزا جلال الدین نے بعد میں لکھا، ’’خطاب ملنے سے کچھ عرصہ پیشتر انگلستان کا ایک مشہور اخبارنویس، جو ادبی دنیا میں کافی شہرت رکھتا تھا، ممالکِ اسلامی کی سیر سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کامہمان ہوا، اُسے ترکی سے لے کر افغانستان تک جس اسلامی قلم رو سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب [اقبال] کا نام ہر جگہ سننے میں آیا تھا۔ لاہور پہنچتے ہی اس نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر اربابِ حکومت چونکہ ہمارے ادبی مشاہیر سے بیخبر اور اُن کے کارناموں سے ناآشنا ہوتے ہیں اس لیے کچھ تعجب نہیں اگر گورنر پنجاب اقبال کی عظمت سے ناواقف نکلے۔ تاہم اخبار نویس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں چائے پر مدعو کر کے اُسے اُن کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع بہم پہنچائے۔ اِس پر ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی، مگراُن کی مثال تو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی سی تھی۔ کہنے لگے: ’کون جائے، پاؤں کے انگوٹھے میں کئی دن سے درد ہے، گورنمنٹ ہاؤس تک جانے میں نہ جانے تکلیف کس قدر بڑھ جائے۔‘ میں نے اصرار کیا کہ وہ ضرور جائیں، پہلے تو وہ اپنی ضد پر اڑے رہے مگر بعد میں چلنے کے لیے تیار ہو گئے اور میں انہیں اپنی گاڑی میں سوار کر کے خود گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچا کر آیا۔ واپسی پر وہ سیدھے میرے ہاں تشریف لائے اور متذکرہ بالا واقعہ [یعنی انگریز اخبارنویس کا مشاہدہ] من و عن سنایا۔ اس کے چند دن بعد ہی گورنمنٹ کی طرف سے آپ کے روبرو ’خان بہادر‘ کے خطاب کی تجویز پیش کی گئی جسے آپ نے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد ’شمس العلمأ‘ کی تجویز ہوئی، اُسے بھی آپ نے رد کر دیا، بالآخر ’نائٹ ہُڈ‘ کی تجویز ہوئی۔ اس کے قبول کرنے میں بھی آپ کو تامل تھا لیکن نواب سر ذوالفقار علی خاں کے اصرار پر وہ اس پر رضامند ہو گئے۔‘‘۸ نواب سر ذوالفقار کے لڑکے خورشید کا بیان ہے، ’’پنجاب کے گورنر میکلگن صاحب سے والد [نواب سر ذوالفقار] کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ رابند ناتھ ٹیگور کو ’سر‘ کا خطاب مل چکا تھا۔ والد نے میکلگن صاحب سے کہا کہ اقبال اس زمانے کا بہت بڑا شاعر ہے، اُسے بھی خطاب دیا جائے۔ اس نے ’خان بہادر‘ کا خطاب تجویز کیا مگر والد نے کہا کہ یہ اقبال کی توہین ہے۔ پھر اُس نے کہا کہ ہم ’شمس العلما‘ کا خطاب دیتے ہیں۔ والد نے کہا کہ یہ بھی مناسب نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو کہا کہ یہ خطاب میرے استاد کو ملنا چاہیے۔ آخر والد کے اصرار پر اُن [اقبال] کے لیے ’نائٹ ہُڈ‘ تجویز ہوئی۔‘‘۹ خواجہ فیروزالدین یہ بھی کہتے ہیں، ’’سر شادی لال اُس زمانے میں چیف جسٹس ہو گئے تھے۔ اُن کے کان میں کہیں سے بھنک پڑ گئی کہ گورنمنٹ ڈاکٹر صاحب کو خطاب دینا چاہتی ہے۔ اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بلا کر کہا کہ آپ بہت کام کرتے ہیں۔ ہم سے نہیں ملتے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ’خان بہادر‘ کا خطاب مل جانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب خموش رہے۔‘‘۱۰ ۶ زمیندارکا دفتر دہلی دروازے کے باہر جہازی بلڈنگ میں تھا۔ اخبار کے مالک مولانا ظفر علی خاں اور مدیر عبدالمجید سالک جیل میں تھے۔ انتظام شفاعت اللہ خاں کے ہاتھ میں تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں میکش بھی عملے میں تھے اور ایک نیا صحافی جو کچھ عرصہ پہلے شامل ہوا تھا اُس کا نام غلام رسول مہر تھا۔ ایک شام شفاعت اللہ خاں، میکش اور مہر ٹہلتے ہوئے دہلی دروازے سے بھی ذرا آگے نکل گئے۔ وہاں چودھری محمد حسین سے ملاقات ہو گئی۔ اُن کے ساتھ واپس آتے ہوئے باغ سے گزرے تو شفاعت اللہ خاں نے چودھری محمد حسین سے اقبال کے ایسے اشعار کی فرمایش کی جو کہیں چھپے نہ ہوں۔ اُنہوں نے غزل کے چار اشعار سنائے: یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دُور وصالِ بحر ابھی تو دریا میں گھبرا بھی گئی دفتر واپس پہنچ کر شفاعت اللہ خاں کے کہنے پر مہر نے یادداشت سے وہ اشعار لکھ دیے۔ اگلے روز اخبار میں شائع ہوئے اور اُسی دوپہر چودھری محمد حسین نے زمیندارکے دفتر پہنچ کر مہر سے پوچھا، ’’تم نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘‘ مہر نے بتایا کہ صرف ایک دفعہ سن کر یاد کر لیے تھے تو چودھری محمد حسین نے کہا، ’’چلو میرے ساتھ، تم نے میرے لیے ایک مصیبت پیدا کر دی ہے۔‘‘ جب مہر کو معلوم ہوا کہ اقبال کے گھر چلنا ہے جنہیں بغیر اجازت اشعار کی اشاعت پسند نہیں آئی تو گھبرا گئے۔ ’’میں چودھری صاحب کے ساتھ ان کی بارگاہ میں پہنچا،‘‘ مہر کا بیان ہے۔ ’’میرا دل کانپ رہا تھا۔ چودھری صاحب نے کہا، ’لیجیے جناب، میں ’’مجرم‘‘ کو لے آیا ہوں۔‘ حضرت [اقبال] نے پوچھا: ’آپ نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘ میں نے پورا واقعہ سنا دیا۔ فرمایا: ’آپ سچ کہتے ہیں؟‘ میں نے عرض کیا کہ ’اچھا شعر ایک مرتبہ سن لوں، تو نہیں بھولتا۔ آپ چاہیں تو اور شعر سنا کر امتحان لے لیں۔‘ فرمایا: ’یہ حافظہ تو بڑا خطرناک ہے۔‘ بس اِس پر معاملہ ختم ہو گیا۔اُس دن سے عقیدت و نیاز کا جو رشتہ اُستوار ہوا وہ اُن کی وفات تک بدستور قائم رہا۔‘‘۱۱ ۷ لوہارو کے نواب علأالدین احمد خاں جو غالب کے دوست اور شاگرد تھے، اُن کے صاحبزادے نواب امیرالدین احمد خاں اپنے بڑے لڑکے کے حق میں ریاست سے دستبردار ہو چکے تھے۔ اَب سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ اکبر شاہ نجیب آبادی نے اپنے رسالے عبرتمیں ان پر مضمون لکھا۔ اسی شمارے میں ایک مضمون حضرت ابو بکر صدیقؓ پر بھی شامل تھا۔ ’’امیر خاں پر آپ نے خوب مضمون لکھا،‘‘ ۲۲ ستمبر کو اقبال نے اُنہیں خط میں داد دی۔ ’’خدائے تعالیٰ اُس کے جانشینوں کو بھی ہدایت دے کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے سے دست کش ہو جائیں۔ صدیق رضی اللہ عنہ پر بھی خوب مضمون لکھا گیا ہے۔ میں نے اُن کی زندگی کے تمام واقعات ایک شعر میں بند کر دیے ہیں۔‘‘ ’رموزِ بیخودی‘ میں سے خلاصۂ مضامین والے باب سے وہ شعر درج تھا جس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُن کی ہمت ملت کی کھیتی کے لیے ابر کی طرح ہے۔ وہ اسلام، غار ، بدر اور قبر میں آنحضورؐ کے ثانی رہے: ہمتِ او کِشتِ اسلام را چو ابر ثانیٔ اسلام و غار و بدر و قبر ۸ فرانس اور اٹلی نے اپنی فوجیں ترکی کے مقبوضہ علاقوں سے استنبول واپس بلوائیں۔ برطانیہ تنہا رہ گیا۔ لارڈ کرزن پیرس پہنچا جہاں کلیمنشو کی وزارت ختم ہو چکی تھی۔ نئے وزیراعظم نے اِتنا سخت جواب دیا کہ کرزن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۲۳ ستمبر کو فرانس، اٹلی اور برطانیہ نے غازی پاشا کو نئے مذاکرات کی دعوت دے دی۔ترکی کے تمام علاقے واپس کرنے پر تیار تھے۔ معاہدے کے بعد اِستنبول بھی مل سکتا تھا۔ ۹ خواجہ حسن نظامی نے بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لیے آسان قاعدہ مرتب کیا تھا اور اُس کے بارے میں اکابرین کی آرأ جمع کر رہے تھے۔ ’’جناب خواجہ صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ،‘‘ اقبال نے ۲۷ ستمبر کو خواجہ حسن نظامی کو خط لکھا اور یہ معلوم نہیں کہ قاعدہ انہیں حسن نظامی نے خود بھجوایا تھا یا کسی اور نے بھیجا تھا۔ ’’قرآن آسان قاعدہ بظاہر خوب معلوم ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ تجربات میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ کیا آپ نے اپنے بچوں میں سے کسی کو اِس قاعدے کے مطابق قرآن شریف پڑھایا ہے؟ اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اور مسلمان بھی اِس قاعدہ سے مستفید ہوں گے۔ میں نے خود کبھی بچوں کو قرآن شریف نہیں پڑھایا۔ اس وسطے ان مشکلات سے ناواقف ہوں جو اُستادوں کو پیش آیا کرتی ہیں۔‘‘ ۱۰ سرمایہ و محنت کی آویزش کے بارے میں فارسی میں ’کارکن و کارفرما‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھنی چاہی مگر پھر اسے قلمزد کر دیا۔۱۲ پھر اِس مسئلے کو ہیگل کے فلسفے کی روشنی میں حل کرنے لگے۔ اُس کے خیال کی وسعت کے آگے کائنات اپنی تنگ دامانی پر شرم سے سمٹ گئی مگر اُس کے سمندر میں عقل کی کشتی طوفان میں پھنس بھی گئی۔ جس طرح مولانا روم کی مثنوی کی پہلی حکایت میں حکیموں سے تنگ آ نے کے بعد بادشاہ پر اچانک نیند کا غلبہ ہوا تھا اور سو جانے پر خواب میں اُسے مرشدِ کامل کا دیدار نصیب ہوا، اُسی طرح اقبال پر بھی نیند نے جادو پھونکا اور انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ شوق کی نگاہ خوب تیز ہو گئی اور مولانا روم نے صورت دکھائی: وہ سورج جس کے نور سے روم اور شام کا افق نورانی! اندھیری دنیا میں اُس کا شعلہ بیاباں میں راستہ دکھانے والا چراغ! وہ جن کے حرف سے لالے کے سرخ پھولوں کی طرح معنی اُگتے ہیں، مجھ سے فرمانے لگے، ’’کیا سوئے پڑے ہو، بیدار ہو جاؤ! سراب میں کشتی چلا رہے ہو؟‘‘ اس کے بعد مولانا روم نے اپنا ایک شعر پڑھا کہ عقل کی رہنمائی میں عشق کی راہ چل رہے ہو؟ چراغ لے کر آفتاب ڈھونڈ رہے ہو؟ بہ خرد راہِ عشق می پوئی؟ بہ چراغ آفتاب می جوئی؟ اقبال نے یہ مضمون ’جلال و ہیگل‘ کے عنوان سے فارسی میں نظم کیا۔ ہیگل سے چھٹکارہ ہو گیا۔ پھر کبھی ’ہیگل‘ کے عنوان سے ایک اور فارسی نظم لکھی جس میں کہا کہ ہیگل کا فلسفہ عقلی ہے جسے محسوس کا وصال نصیب نہیں ہوا۔ اُس کی آسمانوں پر پرواز کرنے والی فکر ایسی مرغی کی طرح ہے جو مرغے کے بغیر مستی کے زور سے انڈا بنائے!۱۳ ۱۱ عجم کے بتکدے کی چمک دمک میرے سوز و گداز کو نہیں پہنچتی کہ محمدِ عربیؐ نے ایک نگاہ میں میرا حجاز فتح کر لیا ہے: تب و تاب بتکدۂ عجم نرسد بسوز و گداز من کہ بیک نگاہ محمدّؐ عربی گرفت حجاز من۱۴ ۱۲ آئینے کی صورت دوسروں کے حسن پر حیران مت رہ جاؤ۔ آنکھ اور دل سے غیروں کا خیال دھو ڈالو۔ حرم کے پرندوں کے نالے سے آگ لو اور وہ آشیانہ جلا ڈالو جو تم نے دُوسروں کے پیڑ پر بنایا۔ دنیا میں اپنے پر کھولنا سیکھو کیونکہ دوسروں کے پروں سے اڑا نہیں جا سکتا! اے تاتار کے صحراؤں میں مشک کی خوشبو پھیلانے والو! خبردار ہو جاؤ کہ افرنگ دوسروں کے ہرن سے نافہ چوروں کی طرح لے اُڑتا ہے! مثل آئینہ مشو محو جمالِ دگراں از دل و دیدہ فرو شوے خیالِ دگراں آتش از نالۂ مرغانِ حرم گیر و بسوز آشیانے کہ نہادی بہ نہالِ دگراں در جہاں بال و پرِ خویش کشودن آموز کہ پریدن نتواں با پر و بالِ دگراں حذر اے مشک فشانانِ تتاری کہ فرنگ نافہ دُزدانہ رباید زغزالِ دگراں۱۵ ۱۳ اقبال نے کہا تھا کہ دَورِ زوال میں حافظ کی شاعری مضر ہو سکتی ہے۔ مگر اَب تو مشرق کا زوال عروج میں بدل چکا تھا۔ پھر میخانۂ حافظ کے دروازے کیوں نہ کھول دیے جاتے۔ غزلوں کی خاصی آمد رہی اور قریباً سبھی خواجہ حافظ شیرازی کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ آ جاؤ کہ دیوانی بلبل گانے میں مگن ہے۔ گُلِ لالہ دُلہن کی طرح سراپا کرشمہ و ناز ہے! بیا کہ بلبلِ شوریدہ نغمہ پرداز است عروسِ لالہ سراپا کرشمہ و ناز است۱۶ ۱۴ برِّصغیر میں جگہ جگہ جلسے ہو رہے تھے اور جشن منائے جا رہے تھے۔ سمرنا کی فتح کیا تھی، دنیا میں ایک سرے سے دوسرے تک مسلمانوں نے یوں محسوس کیا جیسے زمین، زمین نہ رہی ہو اور آسمان، آسمان نہ رہا ہو۔ دو سو برس وہ اِس بات کے عادی رہے تھے کہ ہر میدان میں شکست کھائیں، چھوٹی موٹی کامیابیوں سے دل بہلائیں جن میں سے ہر ایک کے بعد بڑی بڑی ناکامیاں ان کی منتظر ہوں اور بالآخر اپنے آپ کو تسلی دیں کہ حالات ان کے خلاف سہی، خدا ضرور اُنہی کے ساتھ ہو گا۔ وہم چپکے سے کان میں آ کر پوچھے کہ خدا ساتھ ہے تو مدد کیوں نہیں کرتا؟ وہم کی یہ سرگوشی کہیں دماغ تک نہ پہنچے، اِس لیے اِسے جلدی سے دل میں چھپا لیں۔ دو سو برس کی یہ کیفیت اچانک پل بھر میں ختم ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟ سمجھ میں نہ آیا مگر محسوس ہو گیا۔ ٭ مزید کسی جنگ کے بغیر ترکوں کا قبضہ اُن کے تمام علاقوں پر منظور کر لیا گیا ہے۔ ٭ رُوس کی اندھیرنگری میں بھی ایک مسلمان وزیرِ خارجہ مقرر ہوا ہے جس کا نام قرہ خاں ہے۔ ٭ روس کا حکمراں لینن رخصت پر چلا گیا ہے اور نیا حکمراں مسلمان ہے جس کا نام محمد ستالین ہے۔ ٭ ایشیا اپنی الگ جمعیتِ اَقوام بنائے گا۔ یہ خبریں اخبارات میں گردش کر رہی تھیں جن میں سے کچھ درست اور بعض محض افواہیں تھیں۔ بنام شیخ عطا محمد لاہور ۲۸ ستمبر ۲۲ء برادرِ مکرم السلام علیکم اعجاز کے خط سے معلوم ہوا کہ مسہل کے بعد بخار رُک گیا ہے۔ الحمدللہ میں آپ کے لیے دعا کر رہا ہوں۔ انشأ اللہ آپ کی صحت ضرور اچھی ہو جائے گی۔ میں نے جو نسخہ آپ کو بتایا تھا اُس پر ضرور روزانہ عمل کیے جائیے۔ اس کی بنا محض فلسفیانہ خیالات پر نہیں بلکہ اُس انکشاف پر ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے قلبِ انسانی کے متعلق مجھ کو عطا فرمایا ہے۔ اگر بعض خیالات آپ کو افسردہ کر رہے ہیں تو اُن کو یک قلم دل سے نکال دینا چاہیے۔ خدا تعالیٰ آپ کی تمام مشکلات رفع کر دے گا اور برکت نازل کرے گا۔ اگر آپ زندگی سے دل برداشتہ بھی ہوں تو محض اِس خیال سے کہ اسلام پر بہت اچھا زمانہ عنقریب آنے والا ہے۔ اپنی صحت کی طرف توجہ کیجیے تاکہ آپ اپنی آنکھوں سے اُس زمانے کا کچھ حصہ دیکھ لیں۔ آج چودہ یا شاید پندرہ سال ہو گئے جب مجھ کو اس زمانے کا احساس انگلستان کی سرزمین پر ہوا تھا۔ اُس وقت سے آج تک یہی دعا رہی ہے کہ بارِ الٰہا اُس وقت تک مجھے زندہ رکھ یہاں تک کہ اپنی بعض پرائیویٹ مشکلات کے متعلق بھی میں نے شاذ ہی دعا مانگی ہو گی۔ آپ نے اخباروں میں پڑھ لیا ہو گا کہ ترکوں کا قبضہ بغیر جنگ کے اپنے تمام ممالک پر ہو گیا ہے۔ آبناؤں پر اُن کا اقتدار تسلیم کر لیا گیا ہے البتہ یہ اقتدار بعض شرائط کا پابند ہو گا جس کا فیصلہ مجلس اقوام کرے گی۔ ترکستان کی جمہوریت کو بھی روس کی گورنمنٹ نے تسلیم کر لیا ہے۔ اس کے صدر غازی انور پاشا ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ معنی خیز خبر یہ ہے کہ رُوس کی سلطنت کا صدر اب ایک مسلمان محمد ستالین نام ہے، لے نن جو پہلے صدر تھا بوجہ علالت رخصت پر چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ روسی گورنمنٹ کا وزیرِ خارجہ بھی ایک مسلمان مقرّر ہوا ہے جس کا نام قرہ خان ہے۔ اِن تمام واقعات سے انگریزی پولیٹکل حلقوں میں بہت اضطراب پیدا ہو گیا ہے اور ان سب باتوں پر طرّہ یہ ہے کہ ایشیا میں ایک لیگ اقوام کی قائم ہونے والی ہے جس کے متعلق افغانی اور روسی گورنمنٹ کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ سب اخباروں کی خبریں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حقیقت ان سے بھی زیادہ ہے۔ غالباً اب مسلمان ایشیا کا فرض ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں چندہ جمع کر کے کابل اور قسطنطنیہ کو بذریعہ ریل ملا دیا جائے اور یہ ریل اُن تمام اِسلامی ریاستوں سے ہو کر گزرے جو رُوس کے انقلاب سے آزاد ہوئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تجویز ضرور عمل میں آئے گی۔ باقی خدا کا فضل و کرم ہے۔ جو واقعات رونما ہوئے ہیں انہوں نے قرآنی حقائق پر مہر لگا دی ہے کہ حقیقت میں کوئی کمزور یا طاقتور نہیں جس کو اللہ چاہتا ہے طاقتور بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آن کی آن میں تباہ کر دیتا ہے۔ والد مکرم کی خدمت میں آداب عرض ہو۔ محمدؐ اقبال لاہور ۱۵ ۲ اکتوبر کو غازی پاشا اَنقرہ واپس آئے۔ صدیوں بعد ترک قوم کو ایک فاتح کا استقبال کرنا نصیب ہوا۔ سلطان محمد فاتح اور سلیمان عالیشان کی فتوحات نے عثمانی سلطنت کی سرحدیں پھیلائی تھیں۔ نئے رہنما نے دُنیا کی تاریخ میں سلطنتوں کا دَور ختم ہونے کا اعلان کیا۔۱۷ ۱۶ اقبال نے فتحِ سمرنا کی تاریخ نکالی: ’’اسمِ اعظم مصطفیٰ‘‘۔ اس کے اعداد ۱۳۴۱ تھے جو ہجری تقویم کا موجودہ سال تھا۔ ابراہیم کی شاخ کے لیے زندگی کی نمی مصطفیٰ ہے اور اُس کی فتح کا سال ’’اسمِ اعظم مصطفیٰ‘‘ ہے۔ یہ خیالات ایک شعر میں ڈھل گئے: شاخِ ابراہیم را نم مصطفیٰ سالِ فتحش ’’اسمِ اعظم مصطفیٰ‘‘۱۸ ۱۷ واقعی لگتا تھا جیسے نظیری کی رُوح اقبال پر مسلط ہو۔ نظیری کی ایک اور غزل پر غزل ہوئی کہ امیر تیمور کا ساز ٹوٹ گیا مگر اُس کی آواز باقی ہے اور اب وہ سمرقند کے دوسرے ساز سے برآمد ہو گی: چنگِ تیموری شکست آہنگِ تیموری بجاست سربروں می آرد از سازِ سمرقندے دگر ۳ اکتوبر کو گرامی کو خط لکھنے بیٹھے مگر پھر کوئی ضروری کام آن پڑا۔ اگلے روز ایک نوجوان گرامی کا پیغام لایا۔ اُس کے جاتے ہی کاغذ قلم سنبھالا۔ ’’اب آپ آئیں گے تو آپ کو زیادہ آسائش رہے گی،‘‘ انہیں نئی کوٹھی کی خبر دیتے ہوئے لکھا۔ ’’کیا ہوشیارپور میں اکیلے بیٹھے ہو! نہ آپ کا وہاں کوئی قدردان نہ آپ کے مطالبِ عالیہ کو سمجھنے والا۔ نظیری کی غزل پر ایک اور غزل لکھی تھی، جس کا آخری شعر لکھتا ہوں۔ آپ لاہور تشریف لائیں گے تو غزل عرض کروں گا۔‘‘ اس کے ساتھ چنگِ تیموری والا شعر اور فتح سمرنا کے مادۂ تاریخ والا شعر بھیج دیا۔ ۱۸ گرامی کے پاؤں میں بھی درد ہوا تھا۔ سمجھے کہ انہیں بھی نقرس ہوا ہے۔ بہرحال، اقبال کی بھیجی ہوئی فتح سمرنا کی تاریخ پر دو مصرعوں کا اضافہ کیا کہ ابراہیم کی شاخ کے لیے زندگی کی نمی مصطفیٰ ہے اور مہدیٔ آخرالزماں بھی مصطفیٰ ہے، اے بیخبر! تاریخ فتح سن لے۔ اقبال نے کہا، ’’اسمِ اعظم مصطفیٰ‘‘: شاخِ ابراہیم را نم مصطفیٰ مہدیٔ آخر زماں ہم مصطفیٰ گوش کن اے بیخبر تاریخِ فتح گفت اقبال ’’اسمِ اعظم مصطفیٰ‘‘ تاریخ فتح اِس خبر کے ساتھ اقبال کو بھجوا دی کہ خود بھی دردِ نقرس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اقبال فوراً خط کا جواب نہ دے سکے۔۱۹ ۱۹ نواب سر ذوالفقار علی خاں ان دنوں لاہور میں تھے۔۲۰ ۲۰ چار برس حیدرآباد دکن کے صدرِ اعظم رہنے کے بعد موئید الملک سر علی امام رخصت ہوئے۔ پہلے خالصہ سماچار میں اور پھر ۱۱ اکتوبر کو پیسہ اخبار میں خبر آئی کہ نظام حیدرآباد نے ان کی جگہ کشن پرشاد کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’کچھ عرصہ ہوا عرض کیا تھا کہ خاکسار نے جو پیغام مولانا شاہ تاج الدین صاحب کی خدمت میں بھیجا تھا اُس کا جواب سرکارِ والا کی خدمت میں پہلے پہنچے گا،‘‘ اقبال نے ۱۱ اکتوبر کو کشن پرشاد کے نام خط میں لکھا۔ ’’اخباروں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ مطلوبہ جواب سرکارِ عالی تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن اقبال حضور سے سننے کا مشتاق ہے۔ تصدیق ہو جائے تو مزید عرض کروں گا۔‘‘ اُس روز گرامی کے خط کا جواب بھی دیا۔ ’’خدا نہ کرے آپ کو نقرس ہو،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’یہ بڑا کم بخت درد ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ہر دوست کو بلکہ تمام دنیا کو اِس دُکھ سے محفوظ رکھے۔ مصطفیٰ کمال پاشا کی تاریخِ فتح پر مصرع ایزاد کر کے آپ نے مادہ تاریخ کو چار چاند لگا دیے۔‘‘ اس کے بعد کشن پرشاد کی وزارت کی خبر کا تذکرہ کرتے ہوئے نجانے کیوں خالصہ سماچار کا نام خالصہ ایڈوکیٹ لکھا (ممکن ہے یہ اخبار اقبال کی نظر سے نہ گزرا ہو اور صرف حوالہ ہی سنا ہو جس میں غلط نام لیا گیا ہو)۔ ’’کیا آپ اخبار پڑھا کرتے ہیں؟‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’آپ کو معلوم ہے اسلامی دنیا کا رُخ کدھر ہے اور دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ آپ کا قلب ضمیرِ کائنات کا جاننے والا ہے۔ کچھ مکاشفہ ہو تو مجھے بھی مطلع کیجیے گا۔‘‘ ۲۱ ۱۴ اکتوبر کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس مولوی فضل الدین کی صدارت میں ہوا۔ اقبال کی رکنیت کی تجدید کی گئی۔ انجمن کا اصرار تھا کہ اقبال تعلق ختم نہ کریں۔۲۱ ۲۲ بعض لوگ کسی سرسبز درخت کے نیچے جا بیٹھیں تو درخت جل جائے۔ لائڈ جارج کے بارے میں ٹوری پارٹی کے اسٹینلے بالڈون کی رائے کچھ ایسی ہی تھی۔ ۱۹ اکتوبر کو لندن کے کارلٹن کلب میں ٹوری پارٹی کے ارکان جمع ہوئے۔ بالڈوِن نے توجہ دلائی کہ لائڈ جارج نے پہلے لبرل پارٹی میں شامل ہو کر اُسے تباہ کیا تھا، اب ٹوری پارٹی کو سیاسی موت کی دہلیز پر پہنچائے ہوئے تھے۔ شام ہونے سے پہلے لائڈ جارج وزیراعظم نہ رہے۔انگلستان کے نئے وزیر اعظم کا نام اینڈریو بونار لا تھا۔ ۲۳ مسٹر جنکنس بدایوں میں جج تھے۔ مشرقی علوم میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کتابیں تبصرے کے لیے ان کے پاس آتیں تو وحید احمد مسعود بدایونی سے تبصرہ لکھواتے اور کچھ رد و بدل کر کے اپنے نام سے انگریزی اخبار پانیر (Pioneer) میں شائع کروا دیتے۔ نکلسن کی ترجمہ کی ہوئی ’اَسرارِ خودی‘ بھی ان کے پاس پہنچ کر وحید کے پاس پہنچی تو وحید نے تبصرہ لکھتے ہوئے مثنوی کے اشعار سے ترکِ موالات کی تائید کر دی۔ جنکنس صاحب نے تبصرہ دیکھا تو تعریف کی۔ ’’اب میں نے بغیر حقیقتِ حال بتائے ہوئے ڈاکٹر اقبال کو مطلع کیا کہ مثنوی کے انگریزی ترجمہ پر میں نے ریویو لکھا ہے جو جنکنس صاحب کے نام سے چھَپے گا اور اس کو دیکھ کر آپ پھڑک اُٹھیں گے،‘‘ وحید کا بیان ہے۔ ’’ریویو جو چھپا تو بالکل برعکس تھا اور اس میں حکومت کی تائید ڈاکٹر اقبال کے کلام سے ثابت کی تھی۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی حماقت و ندامت کا اظہار کیا۔ جواب میں لکھا کہ تم اپنا ریویو مجھے بھیج دو۔ میں کسی سفر پر آمادہ تھا لہٰذا مینجرسے کہا کہ معذرت کے ساتھ وہ ریویو ڈاکٹر صاحب کو بھیج دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔پھر نقیب قطعی بند ہو گیا اور میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ رہا اور میری سیاسی و ادبی زندگی ختم ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہ ہونے پائی۔‘‘۲۲ ۲۴ اُسی برس اشپینگلر کی زوالِ مغربکی دوسری جلد شائع ہوئی۔ چار برس قبل پہلی جلد میں جو نظریات پیش کیے تھے اور مغرب میں مقبول ہوئے تھے وہ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ گئے۔ مشرق بالخصوص اسلام کے بارے میں ایک نیا رویہ مغرب میں جنم لینے لگا۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ سو برس میں بالخصوص گوئٹے کے اثرات کی وجہ سے یہ بات تسلیم کی جانے لگی تھی کہ جدید مغربی تہذیب کے مثبت پہلو اِسلامی تہذیب بالخصوص عربوں کے اثرات سے وجود میں آئے۔ اشپینگلر نے تردید کی۔ اُس کے نزدیک ہر ثقافت محض اپنے علاقے اور نسل کے اثرات سے پیدا ہوتی تھی، اُس کا اپنا نقطۂ نظر ہوتا تھا اور ہر شے کو اُسی نقطۂ نظر سے دیکھتی تھی جسے دوسری تہذیبوں کے افراد سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مغربی تہذیب یعنی تہذیبِ حاضر کلاسیکیت یعنی یونانیت کی مخالف تھی اور عملی ذوق رکھتی تھی۔ عربی ثقافت کے بارے میں دو باب لکھے۔ ایشیائی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔ اسلام کے بارے میں معلومات ناقص تھیں۔ یہودیت، قدیم کلدانی مذہب، زرتشتیت اور ابتدائی عیسائیت کے ساتھ اسلام کو بھی مجوسی مذاہب میں شمار کیا۔’ ’پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کا لبِ لباب مجوسی ہی تو ہے۔۔۔ خدا ایک ہے، وہی اصولِ خیر ہے، باقی سب یا تو بے بس ہیں یا محض شر‘‘۔ اشپینگلر نے آمدِ مسیح اور آمدِ مہدی کے تصور میں مجوسی مذاہب کا بنیادی عقیدہ بھی اسلام میں موجود پایا۔ اُمید اور توقع مجوسی تہذیب و ثقافت کی مستقل کیفیت تھی - زرتشت کے نازائیدہ بیٹوں کے ظہور کا مسلسل انتظار، خواہ کوئی مسیح ہو یا انجیل چہارم کا فارقلیط۔ ابن خلدون نے جو ثابت کیا تھا کہ آمدِ مسیح اور آمدِ مہدی سے متعلق تمام احادیث فرضی ہیں، اُس بات سے اشپینگلر واقف نہ تھا۔ اُس کے نزدیک اسلام خودی کی مکمل نفی کرتا تھا۔ اقبال نے بعد میں انگریزی میں خیال ظاہر کیا: افسوس یہ ہے کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، اشپینگلر نے اِن دونوں ابواب میں یہ سمجھنے کی مطلق کوشش نہیں کی کہ بحیثیت ایک مذہبی تحریک اسلام کی ماہیت کیا ہے، نہ یہ کہ وہ کیا سرگرمیاں تھیں جن کا اس کی بدولت تہذیب و ثقافت کی دنیا میں آغاز ہوا۔۔۔ تہذیبِ حاضر کے بارے میں تو ہمیں اشپینگلر کے نقطۂ نظر سے پورا اتفاق ہے لیکن۔۔۔ عصرِ حاضر کی روش اگر یونانیت کے منافی ہے تو اِس کی ابتدا دراصل اُس بغاوت سے ہوئی جو عالمِ اسلام نے فکرِ یونان کے خلاف کی۔ مگر اشپینگلر اِس بات کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے؟ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تہذیبِ حاضر کی مخالفِ یونانیت روح سچ مچ ان اثرات کا نتیجہ ہے جو اِس نے اپنی پیشرَو [اسلامی عرب] تہذیب سے قبول کیے تو تہذیبوں۔۔۔ کے متعلق اشپینگلر کا دعویٰ ہی غلط ٹھہرے گا۔۔۔ اشپینگلر کا یہی اضطراب کہ وہ اپنے اِس دعوے کو کسی نہ کسی طرح صحیح ثابت کر سکے، اِس امر کا باعث ہوا کہ بہ حیثیت ایک ثقافتی تحریک اُس نے اسلام کو بڑی ہی غلط اور فاسد نگاہوں سے دیکھا۔۔۔ چنانچہ زمانے ہی کی بحث میں اسلامی افکار کے متعلق اشپینگلر کی بیخبری کا جو عالم ہے نیر محسوسات و مدرکات کے ایک آزاد اور بااختیار مرکز کے طور پر خودی کا اظہار اِسلام کے مذہبی مشاہدات اور واردات میں جس طرح ہوا اُس کے بارے میں اُس کے خیالات کو دیکھ کر ہمارے تعجب اور حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ بجائے اس کے کہ زمانے کی ابتدا اور انتہا کے بارے میں اشپینگلر اسلامی افکار اور واردات کی تاریخ پر نظر رکھتا، اُس نے اِس مسئلے میں اپنے فیصلوں کی بنیاد عوام میں گردش کرنے والے معتقدات پر رکھی۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ اسلام کی مفروضہ تقدیرپرستی کے ثبوت میں اشپینگلر ایسا پڑھا لکھا اور فاضل انسان بعض مشرقی اقوال اور ضرب الامثال کو، مثلاً زمانے کی کروٹ یا ’’ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے‘‘ بطور دلائل پیش کرتا ہے! ۔۔۔اشپینگلر کہتا ہے، ’ ’پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کا لبِ لباب مجوسی ہی تو ہے۔‘‘ ۔۔۔یہاں جو بات یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ کہ مجوسی بہرحال باطل دیوتاؤں کے وجود کا قائل تھا، یہ دوسری بات ہے کہ اُسے ان کی عبادت سے انکار تھا۔ لیکن اسلام نے تو باطل دیوتاؤں کا وجود ہی تسلیم نہیں کیا۔ نہ اشپینگلر یہ سمجھا نہ اسلام کے اصولِ ختمِ نبوت کی تہذیبی قدر و قیمت اُس پر واضح ہو سکی۔۔۔ یہ اُصول مسلسل انتظار کی اُس مجوسی روش کے خلاف جس سے تاریخ کا ایک غلط نظریہ قائم ہو جاتا ہے، ایک نفسیاتی روک بھی ہے۔ دراصل ابن خلدون نے تاریخ کا جو نظریہ قائم کیا وہ اُس کی حقیقی روح کو خوب سمجھ گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے اِسی نوع کے ایک اسلامی عقیدے کی تنقید سے جس نے مسلمانوں میں گویا مجوسی خیالات کے زیرِ اثر سر اُٹھایا تھا، ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا کہ اور نہیں تو کم از کم ان نتائج ہی کے اعتبار سے جو بلحاظ نفسیات اس سے مترتب ہوتے ہیں، اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔۲۳ بہرحال اشپینگلر کے لحاظ سے مغربی تہذیب اپنی طبعی عمر پوری کر کے ’’موسمِ سرما‘‘ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اُسے شاید خبر نہ رہی ہو مگر مشرق میں بہار آ رہی تھی۔ بہار کا تصور ٹی ایس ایلیٹ کے لیے تکلیف دِہ تھا۔ اکتوبر میں ایلیٹ نے ذاتی رسالے کرائٹیرین(Criterion) میں اپنی طویل نظم’ ویسٹ لینڈ‘ (The Waste Land) شائع کی۔ The Waste Land I. The Burial of the Dead [Excerpt] April is the cruellest month, breeding Lilacs out of the dead land, mixing Memory and desire, stirring Dull roots with spring rain. Winter kept us warm, covering Earth in forgetful snow, feeding A little life with dried tubers. اُس ماہ تئیس سالہ امریکی صحافی ارنسٹ ہیمنگوے استنبول پہنچا اور ترکی سے یونانیوں کے انخلا کے بارے میں روزنامچے لکھے۔ وہی ترکی جو مشرقی اقوام بالخصوص مسلمانوں کے لیے ایک نئے خواب کی دنیا بن گیا تھا، امریکی نوجوان کو ایک بے ہنگم بھول بھلیاں نظر آ رہا تھا جہاں مساجد کے مینارے گندے سندے تھے، ہر سفیدی مٹیالی تھی اور سڑکوں پر کتّوں کے پاؤں رکھنے سے گردوغبار کے بادل اُٹھتے تھے۔ ۲۵ ایلیٹ اور ہیمنگوے کے محسوسات سے کتنے مختلف وہ جذبات تھے جو دُنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں جوش مار رہے تھے۔ اقبال کی بیتاب روح سے نغموں میں ڈھل کر نکل رہے تھے۔ ۲۶ ۲۴ اکتوبر کو میاں محمد شفیع سے معلوم ہوا کہ ابھی کشن پرشاد کو صدراعظم بنانے کا آخری فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ علی گڑھ میں سر اکبر حیدری سے یہ بات معلوم ہوئی تھی۔۲۴ دیر سے معلوم ہوئی۔اقبال کشن پرشاد کی صدارت کی تاریخ چار مصرعوں میں غالباً پہلے ہی نظم کر چکے تھے: ’’جانِ سلطاں سر کشن پرشاد گفت‘‘۲۵ پھر کشن پرشاد کا خط بھی ملا۔ ’’بہرحال اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے اُمید ہے کہ حسبِ مراد ہو،‘‘ اقبال نے ۲۶ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’دکن میں سوائے شادؔ کے اور ہے کون؟ رات پھر ایک اور پیغام حضرت تاج کی خدمتِ بابرکت میں بھیجا گیا ہے۔‘‘ ۲۷ اُن کی تعداد چوبیس ہزار تھی، سب نے سیاہ قمیصیں پہن رکھی تھیں اوررُوم میں داخل ہو کر بادشاہ کے محل کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔ یہ بینٹو مسولینی کے جیالے تھے۔ کئی مہینوں سے اٹلی میں اودھم مچایا ہوا تھا۔ جنگ کے بعد مستقبل سے مایوسی نے اِن کے جرائم کو سہارا دیا تھا۔ بادشاہ سلامت ڈر گئے۔ مسولینی کو پیغام بھجوایا۔ وہ میلان میں بیٹھا تھا تاکہ بغاوت ناکام ہوتو اپنی جان بچا کر سوئٹزر لینڈ بھاگ جائے۔ فاتحانہ شان سے روم میں داخل ہوا۔۳۰ اکتوبرتھی۔ مسولینی اٹلی کا ڈکٹیٹر اور فاشزم سرکاری نظریہ بن چکا تھا۔ ۲۸ یکم نومبر ۱۹۲۲ء کو ترک اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے وضاحت کی کہ ۱۶ مارچ ۱۹۲۰ء کو استنبول پر اتحادیوں کے قبضے سے خلیفہ کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔اب چونکہ ترک قوم اتحادیوں سے یہ حکومت واپس لے چکی تھی لہٰذا سیاسی فیصلوں کا اختیار صرف قوم کو تھا جس کی نمایندہ انقرہ کی یہ اسمبلی تھی۔ چار روز بعد انقرہ کے نمائندے نے استنبول میں تمام عثمانی وزارتیں ختم کر دیں۔ ڈیڑھ ہزار برس تک دارالحکومت رہنے کے بعد اَب یہ شہر ترکی کا صوبہ قرار پایا۔ خلیفہ کے وزیراعظم توفیق پاشا ایک روز پہلے استعفیٰ دے چکے تھے۔ یورپی طاقتوں کی یہ آخری اُمید بھی ختم ہو گئی کہ امن مذاکرات میں خلیفہ کو لالچ دے کر ترکی کو خرید لیں گے۔ ۲۹ ’’جس وقت عیسائی اسپین میں مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے جنگ کر رہے تھے، دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی طاقتور حکومتیں موجود تھیں۔ خود ہندوستان میں بھی،‘‘تحریکِ خلافت کے نوجوان صحافی سید حسن ریاض نے بعد میں لکھا۔ ’’مگر اُن میں سے کسی کو اِسلامی اخوت کے تعلق کی بنا پر اسپین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا خیال پیدا نہیں ہوا، اور انہوں نے لاپروائی کے ساتھ اسپین کے مسلمانوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر ان کو اس کی یہ سزا ملی کہ پرتگیزوں کے طاقتور بیڑے نے ان پر سمندر کے راستے بند کر دیے۔ مغربی افریقہ سے جزائر فلپین تک کسی جگہ پرتگیزوں کے مظالم سے مسلمانوں کو پناہ نہ تھی۔۔۔ دنیا کی کوئی قوم صرف مقامی مفاد و مقاصد میں منہمک رہ کر عظمت حاصل نہیں کر سکتی اور اس صورت میں تو ہرگز نہیں کہ وہ ملت کی حیثیت سے عالمگیر ہو جیسے کہ مسلمان ہیں۔۔۔ تحریک خلافت کی مبادیات جنگ طرابلس کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔ اس تحریک سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے حکومت کے مقابلے میں اپنے دعووں پر اصرار کرنا سیکھا، ان میں سیاسی فکر پیدا ہوئی، ان کے مذہبی تصورات بیدار ہوئے، غیرممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ان کے روابط قائم ہوئے اور بیرونی ممالک میں ان کا وقار بڑھا۔ اُردو زبان ہندوستان کے بعیدترین گوشوں میں بولی اور سمجھی جانے لگی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے درمیان اس سے رشتہ اخوت استوار ہو گیا۔۔۔‘‘۲۶ اقبال صہبائی [اقتباس] اقبال کے نزدیک زندگی ایک مرکّب ہے کہ اس میں سے معمولی سے معمولی جزو کو بھی الگ کر لیا جائے تو ناقص اور غیرمکمل رہ جاتی ہے۔ زندگی نہ تو سراپا شادمانی و کامرانی ہے اور نہ ہی سراسر مایوسی و نامرادی، رنج اور راحت زندگی کے اجزا ہیں اور چونکہ دُنیا سراپا تغیّر ہے اِس لیے کبھی زندگی ہمیں فردوسِ بریں کا نقشہ دکھاتی ہے اور کبھی مایوسی و حرماں نصیبی کے دل شکن مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن حقیقت شناس آنکھیں خوب جانتی ہیں۔۔۔ چند کوتاہ اندیش انسان جن میں قدامت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مندرجہ بالا تحریر سے اختلاف کریں گے۔ لیکن زمانہ ان لکیر کے فقیروں سے کوسوں آگے نکل آیا ہے اور آج ان کی آواز گویا نقارخانے میں طوطی کی صدا ہے۔ ضلع جگت اور صنعتِ ایہام کے شیدائی آج بھی کرۂ ارض پر دیکھنے میں آتے ہیں۔ صنائع بدائع کو شاعری کی روح سمجھنے والے ابھی تک اِس بیسویں صدی میں بھی موجود ہیں، مگر صبح ہو چکی ہے۔ نور خاور سے پھوٹ کر آسمان کے گوشے گوشے پر پھیل چکا ہے۔ سحر کی دلفریب اور تازگی سے لبریز روشنی پیغامِ بیداری سنا رہی ہے، افسوس ہے اُن پر جو اَب تک نشۂ غفلت میں سرشار ہیں، آفتابِ حقیقت پوری شان سے نکل چکا ہے، زمین اور آسمان کے تاریک سے تاریک گوشے منوّر ہو چکے ہیں۔ افسوس ہے اُن آنکھوں پر جو اَب بھی نہ دیکھیں۔ ہزار داستان، نومبر۱۹۲۲ء ۳۰ نئی کوٹھی میں ڈرائنگ روم کے برابر چھوٹا کمرہ اقبال نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ ’’اُن کے سونے کے کمرے میں ایک بڑی میز پر بیشمار کتابیں بکھری رہتی تھیں،‘‘ وسیمہ مبارک نے بعد میں یاد کیا۔ ’’اگر کبھی اُن کو الماری میں ترتیب سے رکھنے کی کوشش کی جاتی تو منع فرماتے۔ اُن کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی۔ دیواریں گرد و غبار سے اَٹی ہوتیں، بستر اُن کی دھوتی اور بنیان کی طرح میلا ہو جاتا مگر اُنہیں خود سے بدلوانے کا خیال کبھی نہ آتا۔‘‘۲۷ حکیم فقیر محمد چشتی کے ہاتھ کا لکھا ہوا سجع جو انارکلی والے فلیٹ میں آتشدان کے اوپر پڑا ہوتا تھایہاں نہ سجایا جا سکا۔ ’’فریم شدہ سجع میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں دیکھنا مجھے یاد نہیں،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’نہ معلوم کون لے گیا۔‘‘۲۸ مرزا جلال الدین کا بیان ہے، ’’میں نے اُن سے مکان کی آرائش کے لیے کہا کہ وہ اس کے مردانہ کمروں کو ڈرائنگ اور ڈائننگ کی صورت میں تقسیم کر دیں، مگر اس پر اُنہوں نے یہی فرمایا کہ وہ کسی قسم کے بے معنی تکلفات میں الجھنا نہیں چاہتے۔۔۔ نشست کے کمرے کی کیفیت یہ تھی کہ فرش پر قالین بچھا رہتا اور کرسیاں دیوار کے ساتھ چاروں طرف لگی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب [اقبال] خود فرش پر تشریف رکھتے اور ملاقاتی بھی اکثر فرش ہی پر بیٹھتے۔ کمرہ میں داخل ہونے سے قبل ایک برآمدہ تھا جس میں کرسیاں بچھی رہتیں۔ ایامِ سرما میں ڈاکٹر صاحب دھوپ میں بیٹھنے کی نیت سے برآمدہ میں تشریف رکھتے۔ برآمدہ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی پڑی رہتی۔۔۔ میں نے اُن سے کہا کہ وہ صبح کے وقت سیر کو نکلا کریں۔ چند روز تو وہ میرے ساتھ گئے، ایک دن تنگ آ کر کہنے لگے کہ: ’یہ روز روز کا جھنجھٹ کچھ ٹھیک نہیں، کبھی کبھار چلنا ہوا کرے تو ایک بات بھی ہے، ہر روز کون نکلے۔‘‘۲۹ ۳۱ ’’میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تھے تو عموماً برآمدے میں بیٹھتے،‘‘ غلام رسول مہر کا بیان ہے۔ ’’سردیاں آتیں تو سرِ شام ہی خواب گاہ کے پلنگ پر تشریف فرما ہو جاتے۔ دُھسّا کندھوں پر ہوتا، لحاف سینے تک اوڑھ کر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا لیتے۔‘‘۳۰ ۳۲ زمیندار کے نوجوان صحافی عبدالمجید سالک ترکِ موالات کے جرم میں ایک سال کی قید کاٹ کر واپس آئے۔ اقبال سے ملاقات کے لیے انارکلی روانہ ہوئے۔ احباب نے نیا پتہ بتایا۔ ’’میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میکلوڈ روڈ سے اندر جا کر ایک فرسودہ مکان ہے اور دائیں ہاتھ اس مکان کا چھوٹا سا ضمیمہ بھی ہے،‘‘ سالک کا بیان ہے۔ ’’یہاں علی بخش بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کر اچھل پڑا اور جھٹ علامہ کو اطلاع دی۔ میں اسی ’ضمیمے‘ کے ایک کمرے میں جس کو علامہ نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا، داخل ہوا ہی تھا کہ علامہ اپنے معمول کے خلاف اٹھ کر لپکے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ مجھ سے جیل کی زندگی کی تفصیلات دریافت کیں اور یہ سن کر کہ وہاں صبح سے شام تک ایک ضبط و نظم کی شدید پابندی کرنی پڑتی ہے، فرمایا: ’الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر کا غالباً یہی مطلب ہے؛ جس طرح قیدی ہر کام مقررہ وقت پر انجام دیتا ہے، محنت مشقت میں مصروف رہتا ہے اور روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا جھوٹا پہن کر خدا کا شکر کرتا ہے اور ہمیشہ نیک نامی کے ساتھ جیل سے نجات پانے کی دعائیں کرتا ہے، اسی طرح مومن دنیا میں پابندی، محنت، سادگی، فرض شناسی کی زندگی بسر کرتا ہے، تعیش سے مجتنب رہتا ہے اور آبرو کے ساتھ اس تیرہ خاک داں سے رخصت ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں حاضر ہونے کا خواہاں رہتا ہے۔ کافر کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔‘ ’’کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے اسی قسم کی بصیرت افروز باتیں ہوتی رہیں۔ پھر میں نے عرض کیا ’حضرت! کیا لاہور میں اس سے بہتر کوٹھی نہ ملتی تھی؟ یہ تو بہت ہی پرانی ہے۔‘ ہنس کر فرمانے لگے ’جی ہاں! یہ تو صرف میری دعاؤں ہی کے سہارے کھڑی ہے، ورنہ اس میں قائم رہنے کی کوئی بات باقی نہیں۔‘‘‘۳۱ ۳۳ کوٹھی کے پیچھے دیال سنگھ کالج کا گراؤنڈ تھا۔ شام کے وقت کالج کے لڑکے وہاں کھیلتے تو فُٹ بال یا کرکٹ کا گیند اُچھل کر کوٹھی کے صحن میں آ گرتا۔ سردار بیگم نے اقبال سے کہا کہ پرنسپل سے شکایت کریں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ بچوں کو آزادی سے کھیلنے دینا بہتر ہے کیونکہ یہ اچھی بات ہے کہ قوم کے نونہال غلط قسم کے مشاغل چھوڑ کر صحتمند کھیلوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔۳۲ ۳۴ دیال سنگھ کالج کی گراؤنڈ میں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ گیند کوٹھی کے صحن میں آ کر سردار بیگم کے بازو پر اِس زور سے لگا کہ چوٹ کا نشان پڑ گیا۔ اُنہوں نے اقبال سے پھر شکایت کی لیکن اُنہوں نے کہا، ’’ملک و قوم کے لیے تو لوگ بڑی بڑی قربانیاں دیا کرتے ہیں، تمہیں تو ذرا سا گیند ہی لگا ہے۔‘‘۳۳ ۳۵ کشن پرشاد کا خط آیا۔ پھر اقبال کے جواب دینے سے پہلے ایک اور خط ملا۔ انہیں کچھ تامل تھا اور فی الحال احتیاط سے کام لینا چاہتے تھے۔ ’’بابا تاج کے پیغام سے میری مراد معشوقِ کامرانی کا خیال ہے،‘‘ اقبال نے ۱۱ نومبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’جب سرکار کو یہ پیغام موصول ہو تو دربارِ تاج میں تشریف لے جائیے۔‘‘ ۳۶ ۱۵ نومبر کو برطانیہ میں لوگوں نے ہیڈفون لگا کروہ آوازیں سنیں جو اُن کے سامنے رکھے ہوئے ڈبوں میں سے آ رہی تھیں۔ یہ خبریں تھیں جو اطالوی موجد مارکونی کے ایجاد کیے ہوئے ریڈیو کے ذریعے نشر کی جا رہی تھیں۔ حکومت نے نئی کمپنی قائم کی تھی۔ نام برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن اور مخفف بی بی سی تھا۔ ۳۷ صبح کی روشنی پوری طرح نہیں پھیلی تھی جب خلیفہ کے محل سے دو برطانوی ایمبولنسیں برآمد ہو کر بندرگاہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ ان میں خلیفہ اپنے ایک لڑکے، چند درباریوں اور کچھ ملازموں کے ساتھ چھپے ہوئے تھے۔ مشتعل عوام سے جان کا خطرہ تھا۔ برطانوی نیوی کے جہاز ملایا پر سوار کیا گیا جو انہیں لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ ۱۷ نومبر تھی۔ فتویٰ جاری ہوا کہ خلیفہ کا عہدہ خالی ہو گیا ہے۔ چچازاد بھائی اور ولی عہد عبدالمجید کو اسمبلی نے نیا خلیفہ تسلیم کر لیا۔۳۴ ۳۸ سوئٹزرلینڈ میں جھیل جنیوا کے کنارے لوزان کا خوبصورت شہر تھا۔ ۲۰ نومبر کو یہاں برطانیہ، فرانس، اٹلی، یونان اور ترکی کے نمائندے معاہدۂ سیورے کو ختم کرنے اکٹھے ہوئے۔ عصمت انونو ترکی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ۳۹ کوئی مولوی سید ابراہیم، حیدرآباد (دکن) جا رہے تھے۔ اقبال سے درخواست کی کہ کشن پرشاد کے نام معرفی نامہ لکھ دیں۔ ’’آدمی ہوشیار ہیں اور قابل،‘‘ اقبال نے ۲۲ نومبر کو رُقعے میں لکھا۔ ’’فارسی کی لیاقت عمدہ ہے اور انگریزی بی اے تک پڑھی ہے۔‘‘ ۴۰ ۲۹ نومبر کو مصر میں یورپی مہم آزماؤں نے فرعون توتنخ آمون کا مقبرہ دریافت کیا۔ وطن کو خدا سمجھنے والے مغرب کو اُن پرانی تہذیبوں سے خاص دلچسپی تھی جن کی بنیاد شرک پر ہو۔ ۴۱ صغرا ہمایوں مرزا، صباؔ کے تخلص سے شعر کہتی تھیں اور بیرسٹر سید ہمایوں مرزا کی بیوی تھیں جو خود بھی شاعر تھے۔ صغرا بیگم حیدرآباد دکن کی اولین خواتین میں سے تھیں جنہوں نے پردہ ترک کیا۔ پانچ برس قبل انہوں نے انجمن خواتین دکن قائم کی تھی جو بیواؤں کی مالی امداد کرتی اور غریب لڑکیوں کی شادی کے اخراجات میں بھی مدد فراہم کرتی۔ رسالہ النسأ کی ادارت بھی کرتی تھیں جس کی ایک کاپی نومبر میں اقبال کو بھیجی۔ بنام صغرا بیگم ہمایوں مرزا لاہور ۲۸ نومبر ۱۹۲۲ء مکرمہ تسلیم رسالہ النسأ کے لیے نہایت سپاس گذار ہوں۔ بہت اچھا رسالہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مطالعہ مسلمان عورتوں کے لیے بہت سبق آموز ہو گا۔ میں کچھ مدت سے اُردو میں بہت کم لکھتا ہوں۔ لیکن اگر کچھ اُردو اَشعار ہو گئے تو بھیج دوں گا۔ تسلیم۔ محمدؐ اقبال ۴۲ اقبال، مرزا جلال الدین ، نواب ذوالفقار علی خاں اور شیخ اصغر علی اکثر نواب سرذوالفقار کی لاہور والی کوٹھی زرافشاں میں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ اب نواب صاحب زیادہ وقت لاہور سے باہر رہتے اور اصغر علی بھی ڈپٹی کمشنر ہو کر ملتان جا چکے تھے مگر چاروں کی دوستی کی شہرت برقرار تھی۔ گرامی نے رباعی لکھی کہ چاند، چاندنی رات، آفتاب اور سحر- اقبال، جلال، ذوالفقار اور اصغر! ایک جذبہ، ایک ضمیر، ایک دل اور ایک جان ہیں اگرچہ ستارے کی نگاہ میں چار دوست ہیں: ماہ و شبِ ماہ و آفتاب ست و سحر اقبال و جلال و ذوالفقار و اصغر یک جذبہ و یک ضمیر و یکدل یک جاں در چشمِ ستارہ چار یارند مگر اقبال کو رُباعی پسند آئی۔ اِرادہ تھا کہ طبیعت ٹھیک ہو تو نواب ذوالفقار کو سنائیں گے۔۳۵ ۴۳ میں نے دنیا میں تنہائی اختیار کی، افلاطون اور فارابی سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا، کسی سے نظر کی بھیک نہیں مانگی اور دنیا کو دیکھا تو اپنی ہی آنکھ سے دیکھا: میانِ آب و گل خلوت گزیدم زافلاطون و فارابی بریدم نہ کردم از کسے دریوزۂ چشم جہاں را جز بچشمِ خود ندیدم۳۶ ۴۴ ملک ابوالمحمود ہدایت اللہ سہروردی نے فلسفہ اور معجزہ کے عنوان سے کتاب لکھی اور معلوم ہوتا ہے کہ اقبال سے رائے طلب کی۔ ’’آپ کی کتاب فلسفہ اور معجزہ نہایت مفید اور دل چسپ ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’جن لوگوں کو اِس مسئلے سے دلچسپی ہے مجھے یقین ہے کہ وہ اِس کتاب کو شوق سے پڑھیں گے اور اِس مضمون سے مستفیض ہوں گے۔‘‘۳۷ ۴۵ الناظر(لکھنؤ) میں مرزا احسان احمد بی اے، ایل ایل بی کا مضمون ’ڈاکٹر اقبال‘ شائع ہوا۔ ’’بیمارانِ لکھنؤ‘‘ کی خبر لی تھی جن کے یہاں جوش، احساس اور سچائی مفقود تھی مگر اقبال کی زبان پر اعتراض کرنے سے باز نہ آتے تھے حالانکہ اقبال نے وہ طلب پوری کی تھی جو حالی اور اکبر کے اثرات سے قوم میں اجتماعی طور پر پیدا ہوئی تھی (نواب سر ذوالفقار علی خاں کی اے وائس فرام دی ایسٹنظر سے گزری ہو گی)۔ اقبال کی نمایاں خصوصیات دو تھیں: ۱ احساس: ’’جو کچھ لکھتے ہیں، خود اُس کو محسوس کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام سر تا پا جوش اور اثر سے لبریز ہوتا ہے۔‘‘ ۲ ہمہ گیری: ’’علاوہ قومی ہونے کے اقبال کا احساس ایک ہمہ گیر احساس ہے۔‘‘ اسلاف کے گزشتہ جاہ و جلال (’صقلیہ‘)، جوشِ غیرت (’دریوزۂ خلافت‘)، ذوقِ جہاد (ـ’فاطمہ بنت عبداللہ‘)، حبِّ وطن (’تصویرِ درد‘) اور مناظر قدرت (’شعاعِ آفتاب‘) وغیرہ پر بھی محیط ہے۔ ڈاکٹر اقبال از مرزا احسان احمد بی اے، ایل ایل بی [اقتباس] اقبال نے دنیائے شاعری میں جو غیرمعمولی قبولِ عام حاصل کیا ہے ، وہ محتاجِ اظہار نہیں۔ یورپ کے ادبی حلقوں میں بھی وہ کافی طور پر روشناس ہو چکا ہے، اور اکثر مغربی رسائل میں اُس کے کلام پر تنقیدیں بھی شائع ہو چکی ہیں، تاہم کچھ مخالف بھی ہیں جو اُسے وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، جس کا دراصل وہ مستحق ہے۔ اُن کا خاص اعتراض زبان کے متعلق ہے، یعنی اکثر غلط محاورے باندھ جاتے ہیں، اکثر الفاظ ثقیل اور ترکیبیں نامانوس ہوتی ہیں،بعض اوقات مفہوم میں تعقید پیدا ہوجاتی ہے، یہ اعتراض بے شبہہ ایک حد تک صحیح ہے، ڈاکٹر اقبال کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں ہیں، اس لیے ان سے غلطیوں کا سرزد ہونا بالکل ممکن ہے، نہ صرف ممکن ہے، بلکہ اکثر جوش میں زبان کی غلطیاں ان سے ہو جاتی ہیں، لیکن اس قسم کی جزئی فروگذاشتوں کی بنا پر اُن کے محاسن شاعری پر پردہ ڈال دینا سخت ناانصافی ہے، بلکہ ہمارے نزدیک ان کے کلام میں محاسن اس کثرت سے موجود ہیں، کہ اُن کے معائب پر خودبخود پردہ پڑ جاتا ہے، لیکن میرا یہ دعویٰ نہیں، کہ ان کا کلام بالکل کمزوریوں سے پاک ہے۔ الناظر(لکھنؤ)۳۸ ۴۶ علی گڑھ سے خواجہ منظور حسین کا خط ملا۔ علیگڑھ میگزین کی ادارت کر رہے تھے۔ کانووکیشن کے موقع پر خاص نمبر نکل رہا تھاجس میں اقبال کا کلام اور دستخطی تصویر شائع کرنا چاہتے تھے۔ سید سجاد حیدر یلدرم یونیورسٹی کے رجسٹرار ہو گئے تھے۔ ان سے بھی کہا تھا کہ اقبال کو خط لکھیں۔ اقبال نے خواجہ منظور کے خط کے خالی حصے پر یلدرم کے نام خط لکھا اور پشت پر نظم ’تنہائی‘ نقل کر دی۔۳۹ ۴۷ دسمبر کا آغاز تھا۔ اقبال کا خیال تھا کہ اُن دنوں لاہور میں عجیب موسم ہے، ’’دوپہر کو گرمی اور رات کو خوب سردی۔‘‘۴۰ چنانچہ نزلہ اور کھانسی کی تکلیف ہوئی۔کشن پرشاد نے اپنی اولاد میں سے کسی کی شادی کا دعوت نامہ بھیجا۔ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جواب دینے میں چند روز لگے۔ ’’لاہور سے حیدرآباد بہت دُور ہے،‘‘ دسمبر کے پہلے ہفتے میں کسی وقت اُنہوں نے معذرت کرتے ہوئے لکھا۔ ’’خدائے تعالیٰ آپ کو دیر تک زندہ رکھے اور تمام آرزوئیں بر آئیں۔‘‘ ۹ دسمبر کو ہلکا سا بخار بھی ہو گیا۔ رات کو ایک مشکل زمین میں شعر وارِد ہوا کہ اُس کے فراق کے داغ سے میرے دل میں بھی ایک چمن ہے، اے لالۂ صحرائی! مجھے تجھ سے کچھ بات کرنی ہے: از داغِ فراقِ اُو در دل چمنے دارم اے لالۂ صحرائی با تو سخنے دارم۴۱ اگلی صبح جالندھر کے رحیم بخش وکیل سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ گرامی لاہور آنے والے تھے کہ یہ خبر سن کر اُن کی بیگم صاحبہ کو غش آ گیا۔ البتہ اقبال کے گھر والوں کے لیے ریوڑیاں بھجوائی تھیں۔۴۲ اُسی روز گرامی کا خط بھی ملا جس میں مزید کچھ رباعیاں درج تھیں۔ ’’مولانا ابو سعید ابوالخیر کی روح فردوسِ بریں میں ان کی داد دے رہی ہے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب دیتے ہوئے داد پیش کی۔ ’’اِن کو کسی سفینے میں جمع رکھنا چاہیے اور آپ کی زندگی میں کم از کم یہ رباعیات چھَپ جائیں تو غنیمت ہے۔‘‘ خط لکھتے لکھتے مشکل زمین میں ایک اور مصرع ذہن میں آ گیا کہ میرا کوئی دوست ہے نہ انجمن: نے ہم نفسے دارم، نے انجمنے دارم۔ اِسے درج کر کے لکھا، ’’بس میری شاعری اب اِسی قسم کی باقی ہے۔‘‘ ۴۸ اقبال کا خط ملا تو نظم ’تنہائی‘ پڑھتے ہی یلدرم نے خواجہ منظور حسین کو اپنے دفتر بلوا بھیجا۔ ’’کہنے کو تو یہ دفتر تھا مگر اس کی فضا شعر و ادب کے چرچوں سے معمور رہتی تھی،‘‘ خواجہ منظور کا بیان ہے۔ ’’سجاد صاحب کا اپنے خاص مرتعش انداز میں، رُک رُک کر، چٹخارے لے لے کر ہر بند کا بار بار پڑھنا، خود بھی جھومنا اور اپنا تاثر مجھ پر بھی طاری کرنا، یہ عالم اب بھی میری نظروں میں پھرتا ہے اور دل پر نقش ہے،‘‘ کئی برس بعد خواجہ منظور نے لکھا۔۴۳ ۴۹ سولہ سترہ برس قبل ندوہ میں علامہ شبلی نعمانی جن طلبہ پر خاص توجہ فرمایا کرتے تھے اُن میں سید سلیمان ندوی کے علاوہ عبدالسلام بھی شامل تھے جو اَب مولانا عبدالسلام ندوی کہلاتے تھے۔ دہلی سے میر خورشید احمد نے اُن کی دو کتابیں اقبال کو بھجوائیں اور درخواست کی کہ کرسمس کی چھٹیوں میں دہلی آئیں تاکہ مولانا سے ملاقات بھی ہو جائے۔ ’’کبھی اے حقیقتِ منتظَر ‘‘ والی غزل بھی مانگی۔ ۱۳ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے کتابوں کا شکریہ ادا کیا اور غزل کے کچھ اشعار بھیجے۔ ’’کرسمس کے دنوں میں دلّی آنے کی اُمید نہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’البتہ فروری میں ممکن ہے۔‘‘ ’’تیغِ لا‘‘ والے اشعار جو آنحضورؐ کو مخاطب کر کے لکھے تھے، مولانا کے ملاحظے کے لیے بھجوائے۔۴۴ ۵۰ نیازالدین خاں کا خط ملا۔ دسمبر میں علی گڑھ کانفرنس کے لیے علی گڑھ بلاتے تھے۔ ۱۶ دسمبر کو اقبال نے معذرت لکھی، ’’سردی کا موسم [ہے] اور مجھے اس موسم میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ علی گڑھ کانفرنس ایک مدت سے مر چکی ہے۔ حبیب الرحمٰن خاں شروانی اُسے زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ۵۱ اقبال نے مزاحاً کہا تھا کہ شاید مُسلم آؤٹ لُک میں صاحب لوگوں کے مسلمان ملازموں کے سکینڈل پڑھنے کو ملا کریں گے مگر مسلمان نوجوانوں کے نکالے ہوئے اِس اخبار میں اقبال کا انگریزی مضمون 'Political Thought in Islam' شائع ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ایک عمدہ ترجمہ چودھری محمد حسین کے قلم سے نکلا ہوا زمیندارمیں شائع ہوا تھا مگر اصل متن چونکہ لندن کے سوشیالوجیکل ریویومیں ۱۹۰۸ء میں چھپا تھا لہٰذا وہ برصغیر میں عام طور پر دستیاب نہ تھا۔ اب ہو گیا۔۴۵ غالباًاسی موقعے پر پیسہ اخبارنے اس مضمون کا ترجمہ شائع کیا۔ اقبال نے محسوس کیا کہ اِس میں کافی اغلاط ہیں مگر محمد دین فوق کو خیال آیا کہ اسے پمفلٹ کی صورت میں شائع کرنا چاہیے۔ فوق اُن دنوں شبابِ کشمیر کے عنوان سے کشمیر کے بادشاہ زین الدین بڈشاہ کی تاریخ مرتب کر رہے تھے جس کے زمانے کو کشمیر کی تاریخ میں سنہرا دَور کہا جاتا تھا۔ مسالہ جمع کرنے بھوپال گئے تھے۔ اقبال کے حالاتِ زندگی بھی شائع کرنا چاہتے تھے۔ اُنہی دنوں فوق کے لڑکے ظفر احسن کا انتقال ہو گیا۔ صدمہ سخت تھا جس نے فوق جیسے ہمت والے کو بھی دل گرفتہ کر دیا ہو گا مگر اُن کے شوقِ عمل کو شاید قیامت بھی نہ روک سکتی تھی۔ ۵۲ ۱۹ دسمبر کو اقبال کو فوق کا خط ملا۔ ’’آپ کا خط ابھی ملا ہے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اللہ تعالیٰ صبرِ جمیل عطا فرمائے۔‘‘ فوق کا خط پڑھ کر اقبال کو مولوی عبداللہ غزنوی کا واقعہ یاد آیا تھا جو حدیث کا درس دے رہے تھے کہ بیٹے کے قتل کی خبر ملی۔ ایک منٹ خاموش رہے۔ پھر طلبا کو مخاطب کر کے فارسی میں کہا، ’’ہم اُس کی رضا پر راضی ہیں۔ آؤ اپنا کام کریں۔‘‘ ’’یہ کہہ کر پھر درس میں مصروف ہو گئے،‘‘ اقبال نے خط میں واقعہ درج کرتے ہوئے لکھا۔ ’’مخلص مسلمان اپنے مصائب کو بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔شبابِ کشمیر ضرور لکھیے بہت مفید کتاب ہو گی۔ اِس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کے لوگوں میں خودداری کی روح پیدا کی جائے۔‘‘ پنڈت شیونرائن کا تذکرہ بھی کیا جن سے مدد مل سکتی تھی اور کشمیر کی پرانی تاریخ راج ترنگنی، جس کی فوق کو ضرورت تھی، وہ بھی شاید اُن کے پاس مل جاتی۔ ’’’اسلام میں سیاست‘ ۱۴ سال ہوئے انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا یعنی ۱۹۰۸ء میں جب ترکی میں انقلاب ہو رہا تھا جس کا نتیجہ آخرکار ۱۹۰۹ء میں عبدالحمید خاں کی معزولی ہوا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’یہ مضمون لندن کے سوشیالوجیکل ریویو میں شائع ہوا تھا۔ پیسہ اخبار نے اس کا ترجمہ بہت غلط شائع کیا ہے۔ صحیح ترجمہ زمیندار میں شائع ہوا تھا۔ یہ ترجمہ چودھری محمد حسین صاحب ایم۔اے سیکرٹری نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب نے کیا تھا۔ معتبر ہے۔ اگر آپ چھاپنا چاہیں تو بڑی خوشی سے پمفلٹ فارم میں شائع کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ چودھری صاحب سے بھی اجازت لے لیں تو بہتر ہے۔ وہ ایک آدھ روز کے لیے سیالکوٹ جانے والے ہیں وہاں سے جنوری کے شروع میں واپس آئیں گے۔ان کو اجازت دینے میں مجھے یقین ہے تامّل نہ ہو گا۔‘‘ اُسی روز نیازالدین خاں کا خط ملا۔ مالیر کوٹلہ میں ججی کے لیے اقبال کی مدد مانگی تھی۔ تصویر کی فرمائش بھی کی تھی تاکہ کسی نمایاں جگہ آویزاں کر سکیں۔ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ باقاعدہ عرضی لکھیں جس پر اقبال خود اور نواب ذوالفقار علی خاں سمیت بعض بارسوخ لوگوں سے سفارش لکھوا دیں گے۔ ’’نواب مالیر کوٹلہ سے مجھے بھی واقفیت ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ذوالفقار علی خاں صاحب سے نواب مالیر کوٹلہ کے مراسم بہت اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کی عرضی پر سفارش لکھنے سے دریغ نہ کریں گے اور اگر سفارش کے علاوہ پرائیویٹ خط بھی انہوں نے لکھ دیا تو ازیں چہ بہتر۔‘‘ تصویر خط کے ساتھ بھیج دی مگر لکھا، ’’اِس میں تامل ہے کہ اُسے کسی نمایاں جگہ پر لٹکایا جائے۔ میں بڑے بڑے مجمعوں میں محض اِس لیے نہیں جایا کرتا کہ لوگ دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں وہ اقبال آیا۔ مجھے اِس قسم کی شہرت سے بہت اُلجھن ہوتی ہے۔‘‘ ۵۳ کشن پرشاد کا خط آیا۔ اولاد میں سے ایک کی شادی تو کر چکے تھے جس کا دعوت نامہ دسمبر کے شروع میں اقبال کو بھیجا تھا۔ اب لڑکیوں کے لیے رشتے درکار تھے مگر حیدرآباد کے طبقۂ اُمرأ کے لڑکوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر تسلی نہ ہوتی تھی۔ ’’پنجاب کی حالت حیدرآباد سے نسبتاً بہتر ہے،‘‘ اقبال نے ۲۹ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’صاحبزادیوں کے متعلق اگر ضروری کوائف سے مجھے آگاہی ہو جائے تو شاید میں کوئی مفید مشورہ عرض کر سکوں۔‘‘ ۵۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں، یہ ہیں: Rudolf Steiner (translated by Mrs. R. F. Alfred Noernle). The Philosophy of Spiritual Activity: A Modern Philosophy of Life Developed by Scientific Methods. G.P. Putnam, London Henry Jones. A Faith that Inquires: the Gifford Lectures delivered in the University of Glasgow in the years 1920 and 1921. Macmillan, London Giovanni Gentile; translated by H. Wildon Carr. The Theory of Mind As Pure Act. Macmillan, London Charles Nordmann; translated by Hoseph McCabe. Einstein and the Universe. T. Fisher Unwin, London۴۶ ۵۵ ترکی کے حالات مسلمانوں کے تخیل کو مہمیز کر رہے تھے۔ امرتسر والے غلام قادر فرخ کے ڈرامے خنجرِ ہلال کے سرورق پر تحریر تھا: جملہ حقوق محفوظ ایک دلچسپ معرکۃ الآرا تاریخی ڈراما خنجرِ ہلال جس میں جنگِ عظیم یورپ کے عبرتناک انجام، اتحادیوں کے عالمگیر اقتدار، سلطنتِ عثمانیہ کی حالتِ نزع، حکومتِ قسطنطنیہ کی بے بسی، یونان کی سفاکانہ دستبرد، غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی اعجازنما خداداد شجاعت وسیاست، ترکانِ احرار کے عدیم المثل جوشِ ملّی، لشکرِ اسلام کی بے نظیر فتوحات، ولایتِ سمرنا پر شجاعانہ قبضہ، درِ دانیال کی طرف فاتحانہ پیش قدمی، تھریس، ادرنہ اور قسطنطنیہ کی واپسی، سلطنت ٹرکی کے سابق اقتدار کی بحالی، کے سبق آموز اور دردانگیز واقعات نہایت موثر اور دل آویز پیرایہ میں قلمبند کر کے جدید ٹرکی کے نشوونما کی تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔ مصنّفہ منشی غلام قادر صاحب فرخ امرتسری ملنے کا پتہ: مینجر دارُ الاشاعت امرتسر قیمت فی جلد عہ/ روزبازار الیکٹرک پریس ۔۔۔امرتسر میں شیخ عبدالعزیز پرنٹر کے اہتمام سے چھپا ڈرامے کے بارے میں اقبال کی رائے بھی شائع ہوئی: ’’خنجرِ ہلال‘‘ اور ڈاکٹر اقبال جناب ڈاکٹر شیخ محمدؐ اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لا لاہور تحریر فرماتے ہیں: ڈرامہ بہت دلچسپ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اِسے شوق سے پڑھیں گے۔ ڈرامے کا نام نہایت موزوں ہے، جسکے لئے فرّخ صاحب کو خصوصیّت سے داد دیتا ہوں۔۴۷ ۵۶ آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ترکی حور دسمبر ۱۹۲۲ء میں لکھا گیا۔ گھریلو کہانی کے پردے میں نئی ترک ریاست کے وجود میں آنے کی حکایت بیان ہو گئی۔ ترک رئیس زادے عارف کی فضول خرچی اور عاقبت نااندیشی میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کی تصویر جھلکتی تھی۔ عثمانی سلطنت کی طرح عارف بھی برے حلیفوں کے ساتھ ربط ضبط بڑھا کر بتدریج قلاش ہو جاتا ہے۔ اُس کی وفاشعار بیوی رشیدہ اور ملازم ایاز قدامت پسند طبقے کے نمایندہ تھے جو اَب بھی اپنے معاشرے کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔ نئی امنگیں رشیدہ کے بھائی اَنور کے کردار میں مجسم ہو رہی تھیں۔اُسے عرب میں جنگ کے دوران قدامت پسند بہن کو دشمنوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے محاذ چھوڑ کر واپس استنبول آنا پڑتا ہے (جس طرح ترک سپاہی وطن کی سلامتی کے لیے عرب سے دستبردار ہوئے تھے)۔ یہ نیا معاشرہ اور نیا زمانہ جو ترک سرفروشوں کی ہمت سے پیدا ہو رہا تھا اِس کی روح مغربی تعلیم حاصل کرنے والے روشن خیالوں کی بجائے غریب، سادہ اور معصوم عوام میں ظاہر ہو رہی تھی۔ پھول بیچ کر گزارہ کرنے والی غریب اور خوددار لیلیٰ ان کی نمایندہ تھی۔ مغرب زدہ طبقے کی چمک دمک سے بے نیاز ہو کر عوام کے ساتھ عہدِ وفا اُستوار کرنے ہی میں ترکی کی نئی قیادت کی سلامتی تھی: ’’حُسن، نیکی، عصمت اور خودداری، اِن چاروں کو الگ الگ نام سے پکارنے کے بدلے اگر ایک نام سے پکارنا ہو تو وہ نام صرف لیلیٰ ہے۔ کتنی شریف اور کتنی دلفریب۔‘‘۴۸ ۵۷ معزول عثمانی خلیفہ سلطان وحیدالدین مکہ پہنچ کر سلطان حسین کے مہمان ہوئے۔ وہاں سے ترکی کی جمہوری حکومت کے خلاف طویل مراسلہ شائع کروایا جس میں غازی مصطفیٰ کمال پاشا اور اُن کے ساتھیوں پر سخت تنقید کی۔ مصطفیٰ کمال کے خلاف کسی مسلمان کی طرف سے اُٹھنے والی یہ پہلی بلند آواز تھی۔ ۵۸ مثنوی کے دونوں حصے’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘اب تک الگ الگ شائع ہوئے تھے۔ دوبارہ چھاپنے کی نوبت آئی تو پوری کتاب یکجا کر کے ایک ہی جلد میں شائع کی گئی۔ کئی اشعار حذف، بعض حصوں میں ترمیم اور نئے اَشعار کا اضافہ جن میں سب سے اہم ایک بند تھا۔ امام شافعی والے باب میں تصوّرِ وقت کے حوالے سے شامل کیا گیا تھا۔ اَلوقتُ سیف [نئے اَشعار کا ترجمہ] میں تمہیں موتی جیسا روشن نکتہ بتاتا ہوں تاکہ تم آزاد اور غلام کی پہچان کر سکو۔ غلام رات اور دن کے چکر میں کھویا ہوا ہوتا ہے اور زندہ کے دل میں رات اور دن گم ہوجاتے ہیں۔ غلام دنوں سے کفن بنتا ہے، دن اور رات کو اوڑھ کر گم ہو جاتا ہے، آزاد اپنے آپ کو مٹی سے باہر نکالتا اور زمانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ غلام، پرندے کی طرح صبح اور شام کے جال میں گرفتار رہتا ہے۔ پرواز کی لذت اُس کی روح پر حرام ہوتی ہے۔ آزاد کے پرعزم سینے میں وقت کی گردش قید ہو جاتی ہے۔ غلام کی فطرت یہ ہے کہ وہ حاصل کی ہوئی چیز کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ اُس کی روح کے واردات میں کوئی ندرت نہیں ہوتی۔ اس کی سست فطرت اُسے ایک ہی مقام پر رکھتی ہے۔ اس کی صبح اور شام کے نغمے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ہر لمحے ایک نئی چیز پیدا کرنا آزاد کا کام ہے۔ اُس کے تار ہمیشہ ایک نیا نغمہ سناتے ہیں۔ اُس کی فطرت ویرانے کی عادی نہیں ہے، اس کا راستہ پرکار کی گردش نہیں ہے۔ غلام کے لیے دن محض زنجیر ہیں اور اُس کے لب پر تقدیر کی شکایت کے سوا کچھ نہیں۔ آزاد کی ہمت سے تقدیر بھی مشورہ لیتی ہے۔ زمانے کے واقعات اس کے ہاتھوں سرانجام پاتے ہیں۔ ماضی اور مستقبل اس کے حال میں ہوتے ہیں اور دیر اُس کی جلدی میں ہوتی ہے۔ یہ بات کہی نہیں جا سکتی۔ یہ نکتہ سمجھا نہیں جا سکتا۔ میں نے بات کہی تو ہے مگر معانی کے سامنے الفاظ شرمندہ ہو رہے ہیں۔ معنی کو شکایت ہے کہ مجھے الفاظ سے کیا کام، جب زندہ معانی الفاظ میں ڈھلتے ہیں تو مر جاتے ہیں۔ تمہاری سانس سے اُن کی آگ بجھ جاتی ہے۔ غیب اور حضور کا نکتہ دل میں ہے۔ وقت اور زمانے کا نکتہ دل میں ہے۔ وقت کے ساز میں خاموش نغمہ ہے۔ اپنے دل میں اُتر جاؤ تاکہ وقت کا راز دیکھ پاؤ!۴۹ ۵۸ سنگلاخ چٹانوں سے گھرا ہوا ایک دریا کے کنارے آباد ’’گیا‘‘ (Gaya)، صوبہ بہار کا ایک اہم شہر تھا جہاں ۲۶ سے ۳۱ دسمبر تک کانگریس کا ۳۶واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ صدارت کرنے والے بنگال کے مشہور رہنما چترنجن داس تھے جو مسلمانوں اور ہندوؤں میں یکساں مقبول تھے۔ داس نے اپنے خطبۂ صدارت میں نہ صرف مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی پرزور تائید کی بلکہ اسے ہندوستان کی ترقی کے لیے بہت اہم قرار دیا۔ انہوں نے میری پارکر فولیٹ کی کتاب نئی ریاست (۱۹۱۸) کے اقتباسات بھی اپنے خطبے میں شامل کیے۔ داس نے ہندوستان کے لیے ایک نیا نظام پیش کیا جس کی بنیادی پانچ نکات پر تھی: ۱ مقامی مراکز کی تشکیل کم و بیش اُسی طرح جیسے ہندوستان کا قدیم دیہی نظام ہوا کرتا تھا۔ ۲ ان دیہی مراکز کے باہمی ربط کے ذریعے بڑے گروپوں کی نشو و نما۔ ۳ وحدت عطا کرنے والی ایک ریاست جو چھوٹے پیمانے پر نشو و نما کا نتیجہ ہو۔ ۴ دیہی مراکز اور بڑے گروپ عملاً خودمختار ہوں۔ ۵ بقایا اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہوں لیکن صرف خصوصی حالات میں استعمال کیے جائیں تاکہ مقامی مراکز کی عملی خودمختاری بھی برقرار رہے اور مرکزی حکومت ایک سچی وحدت عطا کرنے والی ریاست میں بھی تبدیل ہو سکے۔ مرکزی حکومت کا عام کردار صرف مشورہ دینے کی حد تک ہونا چاہیے۔ داس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے ایشیا کے اتحاد کو لازمی قرار دیا ۔ اس مقصد کے لیے اسلامی دنیا کے اتحاد کی اہمیت بھی تسلیم کی۔ انہوں نے فرد، معاشرہ اور انسانیت کے درمیان ایک حیاتیاتی تعلق کی نشاندہی کی۔یہ خطبۂ صدارت اُسی روحانی اصول کا سیاسی روپ تھا جسے اقبال نے اسرار و رموز میں پیش کیا تھا۔ Freedom Through Disobedience Presidential Address delivered by C. R. Das 37th Annual Session of the Indian National Congress Gaya, December 26-31, 1922 [Excerpt] The institutions that exist to-day have made machines of men. No Government will be successful, no true Government is possible which does not rest on the individual. “Up to the present moment,” says the gifted authoress of the New State, “we have never seen the individual yet. The search for him has been the whole long striving of our Anglo-Saxon history. We sought to improve the method of representation and failed to find him. We sought to reach him by extending the suffrage to every man and then to every woman and yet he eludes us. Direct Government now seeks the individual.” In another place the same writer says; “Thus group organisation releases us from the domination of mere numbers, thus democracy transcends time and space. It can never be understood except as a spiritual force. Majority rule rests on numbers; democracy rests on the well-grounded assumption that society is not a collection of units, but a network of human relations. Democracy is not worked out at the polling booths, it is the bringing forth of a genuine collective will, one to which every single being must contribute the whole of his complex life, as one which every single being must express the whole of it at one point. Thus the essence of democracy is creating. The technique of democracy is group organization.” According to this school of thought no living state is possible without the development and the extension of the individual self. The State itself is no static unit. Nor is it an arbitrary creation. “It is a process; a continual self-modification to express its different stages of growth in which each and all must be so flexible that continual change of form is twin fellow of continual growth.” This can only be realised when there is a clear perception that individuals and groups and the nation stand in no antithesis. The integration of all these into one conscious whole means and must necessarily mean the integration of the wills of individuals into the common and collective will of the entire nation. The general trend of European thought has not accepted the ideal of this new democracy. But the present problems which are agitating Europe seem to offer no other solution. I have very little doubt that this ideal which appears to many practical politicians as impracticable will be accepted as the real ideal at no distant future. “There is little yet,” I again quote from the same author, “that is practical in practical politics.” The fact is that all the progressive movements in Europe have suffered because of the want of a really spiritual basis and it is refreshing to find that this writer has seized upon it. So to those who think that the neighbourhood group is puny to serve as a real foundation of self-Government, she says, “is our daily life profane and only so far as we rise out of it do we approach the sacred life? Then no wonder politics are what they have become. But this is not the creed of men to-day; we believe in the sacredness of life; we believe that divinity is for ever incarnating in humanity, and so we believe in Humanity and the common daily life of all men.” ضمیمہ۱ اِقبال کی بیاضیں علامہ اقبال میوزیم (جاوید منزل) لاہور میں اقبال کی قلمی بیاضیں اور مسودات موجود ہیں جن کی فوٹوکاپی اقبال اکادمی پاکستان (لاہور) کی لائبریری میں دستیاب ہے۔ ان میںسے جن بیاضوں کا ذکر حواشی میں کیا جا رہا ہے اُن کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔ ۱ دوسری بیاض ۲ تیسری بیاض ۳ بیاض ’اسرار خودی‘ ۴ مسودہ ’پیام سروش‘ ۵ مسودہ ’اسرار خودی‘ ۶ کتابت ’اسرار خودی‘ (منسوخ) ۷ مسودہ ’رموز بیخودی‘ ۸ بیاض پیام مشرق ۹ بیاض متفرقات ۱۔ دوسری بیاض علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.195 ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۱۱ میں کسی وقت اقبال نے اس بیاض میں اپنی نظمیں اکٹھا کرنی شروع کیں مگر ۱۹۱۲ء تک نئی نظمیں پچھلی بیاض ہی میں درج ہوتی رہیں اور صاف کرنے کے بعد انہیں یہاں درج کیا گیا۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ سے نئی نظموں کے لیے بھی یہی بیاض استعمال ہونے لگی۔ اُس نظم کا زمانہ فروری ۱۹۱۲ء ہے۔ نظم کاعنوان پہلا مصرعہ بانگِ درا میں عنوان پھر بادِبہار آئی اقبال غزل خواں ہو غزلیات (حصہ سوئم) منظور شکایت کا نرالا مجھے ڈھب ہے × شکوہ کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں شکوہ قطعہ کل ملا مجھ سے جو اقبال تو پوچھا میں نے نصیحت شمع اور شاعر دوش می گفتم بشمعِ منزلِ ویرانِ خویش شمع اور شاعر جوابِ شکوہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے جوابِ شکوہ اس کے بعد ایک صفحے پر مندرجہ ذیل عنوانات قائم کیے گئے ہیں: ۱۔ خطاب بخود ۲۔ حقیقتِ خودی ۳۔ زندگی، موت ۴۔ استحکامِ خودی ۵۔ نیک و بد ۶۔ مابعدالموت یہ گویا ’اسرارِ خودی‘ کی ابتدا ہے۔ سات صفحے ’اسرارِ خودی‘ کے اسی بیاض میں مندرجہ بالا ترتیب کے مطابق درج ہیں جن کے درمیان شاید بعد میں لکھنے کے لیے خالی صفحے بھی چھوڑے گئے ہیں۔ ان کے بعد دو اُردو نظمیں بلاعنوان ہیں۔ یہ بانگِ درا میں شامل نہیں کی گئیں۔ پہلے مصرعے بالترتیب یہ ہیں: ۱۔ کہا یہ ایک مرے مہرباں نے کل مجھ سے ۲۔ عجیب چیز ہے مغرب کی زندگی جس سے ۲۔ تیسری بیاض علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمارAIM.1997.214 ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ۱۹۱۳ میں کسی وقت اقبال نے اس بیاض میں نظمیں اکٹھی کرنا شروع کیں۔ عنوان اور تاریخ پہلا مصرعہ کتاب اور مطبوعہ عنوان × کشیدہ ام زجنوں ساغرے کہ جوش نماند پیام مشرق: مے باقی ×:۱۹۱۳ رہیلہ کس قدر ظا؛م جفاجو کینہ پرور تھا بانگ درا: غلام قادر رہیلہ × دیکھیے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک بانگ درا: ظریفانہ × بخت مسلم کی شب تار سے ڈرتی ہے سحر × غزل: ۱۹۱۳ئ پردہ چہرے سے اُٹھا انجمن آرائی کر بانگ درا: حصہ سوم غزلیات × ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں بانگ درا: ظریفانہ × ووٹوں پہ منحصر نہیں کونسل کی ممبری × × ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں بانگ درا: ظریفانہ × کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست بانگ درا: ظریفانہ شعاعِ آفتاب: ۱۱ دسمبر ۱۹۱۴ئ صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی بانگ درا: شعاعِ آفتاب ×: ۱۹۱۴ء گفت با لیڈر حضرت شیطاں کہ خوشم × × لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی بانگ درا: ظریفانہ × ’’اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‘‘ بانگ درا: ظریفانہ × ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے بانگ درا: ظریفانہ بلال: مئی ۱۹۱۵ئ لکھا ہے ایک مغربیٔ حق شناس نے بانگ درا: بلال تہذیب حاضر: ۱۹۱۴ئ حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں بانگ درا: تہذیب حاضر مسلمان اور تعلیم جدید: ۲۸ جون ۱۹۱۵ئ مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر بانگ درا: مسلمان اور تعلیم جدید تضمین بر شعر صائب: یکم جولائی ۱۹۱۵ئ کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا بانگ درا: تضمین بر شعر صائب پھولوں کی شہزادی: ۲۴ جولائی ۱۹۱۵ئ کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں بانگ درا: پھولوں کی شہزادی تضمین بر شعر ابوطالب کلیم خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس بانگ درا: تضمین بر شعر ابوطالب کلیم مذہب: ۲ جولائی ۱۹۱۵ئ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر بانگ درا: مذہب جنگ یرموک کا ایک واقعہ صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند بانگ درا: جنگ یرموک کا ایک واقعہ کفر و اسلام ایک دن اقبال نے پوچھا کلیم طور سے بانگ درا: کفر و اسلام تعلیم اور اس کے نتائج خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر بانگ درا: تعلیم اور اس کے نتائج مذہب: جولائی ۱۹۱۵ئ تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ بانگ درا: مذہب تضمین بر شعر انیسی شاملو ہمیشہ صورت باد سحر آوار ہ رہتا ہوں بانگ درا: تضمین بر شعر انیسی شاملو فردوس میں ایک مکالمہ: جولائی ۱۵ئ ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز بانگ درا: فردوس میں ایک مکالمہ × ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ بانگ درا: ’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘ ایک مکالمہ: جولائی ۱۵ئ اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے بانگ درا: ایک مکالمہ × پرانے طرز عمل میں ہزار مشکل ہے بانگ درا: قرب سلطاں عبداللہ و زبیر زبیر: میداں میں جوانان حجازی ہیں صف آرا الخ × × کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے بانگ درا: خطاب با جوانان اسلام ایک خط کے جواب میں: ۱۸ دسمبر ۱۴ئ ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز بانگ درا: ایک خط کے جواب میں × دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہو گی بانگ درا: ظریفانہ × انساں نے سیکڑوں جم و دارا کیے پسند × ×: دسمبر ۱۹۱۴ء سیالکوٹ خوش آں کہ رخت خود از شعلہ می سوخت پیام مشرق: مے باقی ×: [ایضاً؟] بیار بادہ کہ گردوں بکامِ ما گردید پیام مشرق: مے باقی × گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن بانگ درا: ظریفانہ × مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں بانگ درا: ظریفانہ × عہد کہن میں اور تھے اقسام خوف کے × × ممکن نہیں ہے ایک ہی بازار میں چلیں × × یوں مسئلہ زبان کا حضرت نے حل کیا × × فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ بانگ درا: ظریفانہ عرفی: ۱۳ دسمبر ۱۹۱۴ئ محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے بانگ درا: عرفی × ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر بانگ درا: ظریفانہ × وہ مس بولی ارادہ خوش کشی کا جب کیا میں نے بانگ درا: ظریفانہ × ہر قوم پائے بند رسوم و قیود ہے × × اقبال نے مزاج جو پوچھا تو شیخ نے × × ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا بانگ درا: ظریفانہ شبلی و حالی: ۱۹۱۴ئ مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا بانگ درا: شبلی و حالی × جناب شیخ کو پلواؤ خاص لندن کی × × تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ بانگ درا: ظریفانہ × یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوشمند بانگ درا: ظریفانہ × شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں بانگ درا: ظریفانہ × تعلیم مغربی ہے بہت جرات آفریں بانگ درا: ظریفانہ × وفاداران سہ قسم انداز بدانی × × ہر محکمے میں عہدے تقسیم ہوں برابر × والدہ مرحومہ کی یاد میں: اگست ۱۹۱۵ئ ذرہ ذرہ دہر کا زندانیٔ تقدیر ہے بانگ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں میدان جنگ ہر ذات کانپتی تھی پس پردہ صفات × ۳۔ بیاض ’اسرارِ خودی‘ علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.210 ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۱۳ء کے اواخر یا ۱۹۱۴ء کے شروع میں کسی وقت اقبال نے اس بیاض میں ’اسرارِ خودی‘ لکھنا شروع کی جو مندرجہ ذیل مراحل سے گزرچکی تھی: ٭ ۱۹۱۰ء میں کچھ اردو اشعار اور ’’نغمہ را اندازِ نو ایجاد کن‘‘ والے فارسی اشعار ٭ ۱۹۱۳ء کے موسمِ سرما والے خواب کے بعد لکھے گئے اشعار جو رسالہ توحید میں شائع ہوئے ٭ دوسری بیاض کے آخر میں سات موضوعات کی فہرست اور چند اشعار ان مراحل کے بعد ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے باقاعدہ متن کا آغاز اِس بیاض کے ساتھ ہوا۔ بیاض ’پیام سروش‘، مسودہ ’اسرارِ خودی‘ اور منسوخ شدہ کتابت کے بعد یہ پہلے اڈیشن اور دوسرے اڈیشن سے ہوتی ہوئی اسرار و رموز کے یکجا اڈیشن میں اپنی حتمی شکل کو پہنچی ۔ عنوان پہلا مصرعہ اسرار و رموز میں عنوان فہرست اول امام شافعی می گویند ’’الوقت سیف‘‘ فہرست فہرست دوم ۱۔ تمہید فہرست فہرست سوم شرر تمہید باشد نالہ آتش نوایاں را فہرست تعلی بہ تمہید حرکت اعصاب گردوں دیدہ ام انتساب (منسوخ) حقیقت خودی پیکر ہستی ز آثار خودی است در بیان اینکہ اصل نظام عالم۔۔۔ ڈیڈیکشن اے امام سید والا نسب انتساب (منسوخ) [بقیہ حقیقتِ خودی] نالہ شد در سینہ بلبل تپید در بیان اینکہ اصل نظام عالم۔۔۔ آرزو سرچشمۂ حیات دل زنور آرزو گیرد حیات در بیان اینکہ حیاتِ خودی۔۔۔ استحکامِ خودی نقطۂ نورے کہ نام او خودیست در بیان اینکہ خودی از عشق۔۔۔ x آدم سادات زین العابدین x مسلم با حسین اے برادر گرچہ دُور اَز ماستی x سوال منافی خودی است با تو گویم قصہ روشن دلے x [اسی صفحے پر] سوال اے فراہم کردہ از شیراں خراج در بیان اینکہ خودی از سوال۔۔۔ شیرہا و گوسفنداں (نفی خودی) آں شنیدستی کہ در عہدِ قدیم حکایت دریں معنی کہ نفی خودی۔۔۔ x ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں مرحلہ دوم ضبط نفس جہاں بانی گر شتربانی جہاں بانی کنی مرحلہ سوم نیابت الٰہی الماس و زغال x حکایت الماس و زغال ہر کہ بوتراب است یداللہ می شود مسلم اول شہ مرداں علی در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰؓ حکایت نوجوانے از سوات در پیش اخوند رفت نوجوانے از قہستانِ ہرات حکایت نوجوانے از مرو۔۔۔ حکایت طائر تشنہ و قطرۂ شبنم طائرے از تشنگی بے تاب بود حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود حکایت نوجوانِ ہرات از حقیقت باز بکشائم درے حکایت الماس و زغال الوقت سیف سبز بادا خاکِ پاک شافعی الوقت سیف شیخ و برہمن۔ گنگا و ہمالہ در بنارس برہمندے محترم حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگا و ہمالہ۔۔۔ حیات مسلم اعلائے کلمۃ اللہ۔۔۔ حضرت شیخ میانمیر ولی در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم۔۔۔ تعلی۔ مردِ خود آگاہ اے کہ مثل گل زگل بالیدہ اندرز میر نجات نقشبند فقرأ و واعظین پیر ما پیر از بیاض موشدند اندرز میر نجات نقشبند حکایت آن شنیدستی کہ مولانائے روم اندرز میر نجات نقشبند اشتری اشتربانی جہانبانی خدمت و محنت شعار اشتر است در بیان اینکہ تربیت خودی را۔۔۔ اشتربانی ایں وجود خاکی تو اشتراست مرحلہ دوم ضبط نفس خاتمہ و دعا اے چو جاں اندر وجودِ عالمی دعا ۴۔ مسودہ ’پیامِ سروش‘ علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.201 ہے۔یہاں مثنوی کا نام ’پیامِ سروش‘ درج ہے (بعد میں کسی وقت ’اسرارِ خودی‘ ہوا)۔ پہلے صفحے پر درج ہے، ’’در فروری ۱۹۱۵ تمام یافت‘‘۔ اس میں "separate" کی سرخی کے بعد تمام اشعار ’رموزِ بیخودی‘ کے درج ہیں۔ عنوان پہلا مصرعہ اسرار و رموز میں عنوان فہرست مضامین تمہید فہرست x تمہید فہرست شرر تمہید باشد نالہ آتش نوایاں را راہِ شب چوں مہرعالم تاب زد تمہید در بیان حقیقت خودی پیکر ہستی زآثار خودی است در بیان اینکہ اصل نظام عالم۔۔۔ در معنی ایں کہ اصل خودی در آرزو۔۔۔ دل زسوز آرزو گیرد حیات در بیان اینکہ حیات خودی از تخلیق۔۔۔ در معنی ایں کہ خودی از عشق و محبت۔۔۔ نقطۂ نورے کہ نامِ او خودی است در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت۔۔۔ در معنی ایں کہ قوت خودی از سوال۔۔۔ اے فراہم کردہ از شیراں خراج در بیان اینکہ خودی از سوال۔۔۔ در بیان خصائص مرد خود آگاہ مرد خود آگاہ زآیات حق است مرحلۂ سوم نیابت الٰہی x پیشکش بحضور ملت اسلامیہ [فہرست رموز بیخودی] در بیان ایں کہ کمال انسانی را۔۔۔ x در بیان اینکہ تربیت خودی را۔۔۔ حکایت در معنی کہ مسئلہ نفی خودی۔۔۔ x حکایت در معنی کہ مسئلہ نفی خودی۔۔۔ Separate حکایت عالمگیر و شیر شاہ عالمگیر گردوں آستاں حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیرؒ حکایت در معنیٔ حریت و مساوات بود معمارے زاقلیمِ خجند حکایت سلطان مراد و معمار۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ یاس و بیم۔۔۔ قوتِ ایماں حیات افزایدت در معنیٔ ایں کہ یاس و بیم۔۔۔ ۲۔ رسالت تارکِ آفل براہیمِ خلیل رکنِ دوم رسالت توحید ہیچ می دانی کہ ہارون الرشید اللہ الصمد اسرار سورۂ اخلاص اینکہ در صد سینہ پیچد یک نفس خلاصۂ مطالب مثنوی [قل ھو اللہ احد] اللہ الصمد گر بہ اللہ ُ الصمد دل بستۂ اللہ ُ الصمد لم یلد ولم یولد قومِ تو از رنگ و خوں بالاتراست لم یلد ولم یولد ولم یکن لہٗ کفواً احد رشتۂ با لم یولد باید قوی ولم یکن لہٗ کفواً احد x [دو مصرعے، پڑھے نہیں جا سکے] x حفظِ روایات و سرگزشتِ ملیہ طفلکے را دیدی اے بالغ نظر در معنیٔ ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ ملت از اختلاط۔۔۔ از چہ روبربستہ ربطِ مردم است سر معنیٔ ایں کہ ملت از اختلاط۔۔۔ رکن اول توحید ملتِ بیضا تن و جاں لا الٰہ رکن اول توحید آئینِ اسلامیہ قرآن ملتے را رفت چوں آئیں زدست در معنیٔ ایں کہ نظامِ ملت۔۔۔ بیت الحرام مرکزِ جماعتِ اسلامیہ می کشایم عقدہ از کارِ حیات در معنیٔ ایں کہ حیاتِ ملیہ مرکز۔۔۔ امومت و ملت نغمہ خیز از زخمۂ زن سازِ مرد در معنیٔ ایں کہ بقائے نوع۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ سیدۃ النسأ۔۔۔ مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز در معنیٔ ایں کہ سیدۃ النسأ۔۔۔ سرِ واقعۂ کربلا ہر کہ پیماں با ھوالموجود بست معنیٔ حریتِ اسلامیہ۔۔۔ x از پئے قومے زخود نامحرمے پیشکش بحضورِ ملتِ اسلامیہ [فہرست] پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ x [فہرست- قلمزد] [قلمزد] x عرض حال بحضور رحمۃ اللعالمین اے ظہورِ تو شبابِ زندگی عرض حال مصنف بحضور۔۔۔ در معنی ایںکہ کمالِ تربیتِ مردِ مسلم۔۔۔ سائلے مثلِ قضاے مبرمے در معنیٔ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ کمالِ تربیتِ امتِ محمدیہ۔۔۔ علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست در معنیٔ ایں کہ پختگیٔ سیرت۔۔۔ نصب العینِ ملیہ با تو آموزم زبانِ کائنات در معنیٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی۔۔۔ (۲) از پئے قومے زخود نامحرمے پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ۔۔۔ پیشکش بحضور ملت اسلامیہ (۱) اے ترا حق زبدۂ اقوام کرد پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ۔۔۔ [فہرست] تمہید ربطِ فرد و ملت x [فہرست-قلمزد] [قلمزد] x [فہرست] ملت از اختلاطِ افراد۔۔۔ x x نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے [بانگِ درا] ساقی Epitaph on A Rehman's tomb گماں مبر کہ انجامِ تو خس خاشاک است x x ہست ایں مے کدہ و دعوت عام است اینجا [پیام مشرق: ۔دنیائے عمل] ۵۔ مسودہ ’اسرارِ خودی‘ علامہ اقبال میوزیم میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.208 ہے۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیاد مسودہ ’پیامِ سروش‘ رہا ہو گا فروری ۱۹۱۵ء میں یا اُس کے بعد تیار کرنا شروع کیا گیا ہو گا۔ عنوان پہلا مصرعہ اسرار و رموز میں عنوان [فہرست مضامین] پیشکش فہرست پیشکش اے امام اے سید والانسب x تمہید راہ شب چوں مہر عالم تاب زد تمہید در بیان اینکہ حیات خودی از۔۔۔ پیکر ہستی زآثار خودی است در بیان اینکہ اصل نظام عالم۔۔۔ در بیان اینکہ اصل حیات۔۔۔ زندگانی را بقا از مدعاست در بیان اینکہ حیات خودی۔۔۔ در بیان اینکہ خودی از عشق۔۔۔ نقطہ نورے کہ نام او خودی است در بیان اینکہ خودی از عشق۔۔۔ در بیان اینکہ قوت خودی ازسوال۔۔۔ اے فراہم کردہ از شیراں خراج در بیان اینکہ خودی از سوال۔۔۔ حکایت دریں معنی کہ مسئلہ نفی۔۔۔ آں شنیدستی کہ در عہد قدیم حکایت دریں معنی کہ مسئلہ نفی۔۔۔ مرحلہ اول اشتری خدمت و محنت شعار اُشتر است مرحلہ اول اطاعت مرحلہ دوم اشتربانی ایں وجود خای تو اُشتر است مرحلہ دوم ضبط نفس مرحلہ سوئم جہانبانی گر شتربانی جہاں بانی کنی مرحلہ سوم نیابت الٰہی در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیؓ مسلم اول شہِ مرداں علی در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیؓ حکایت نوجوانے از ہرات۔۔۔ نوجوانے از قہستانِ ہرات حکایت نوجوانے از مرو۔۔۔ حکایت طائرے کہ از تشنگی۔۔۔ طائرے از تشنگی بے تاب بود حکایت طائرے کہ از تشنگی۔۔۔ حکایت الماس و زغال از حقیقت باز بکشائم درے حکایت الماس و زغال مکالمہ گنگا و ہمالہ دریں معنی۔۔۔ در بنارس برہمندے محترم حکایت شیخ و برہمن و۔۔۔ در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم۔۔۔ قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دہ در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم۔۔۔ اندرز میر نجات نقشبند اے کہ مثل گل زگل بالیدۂ اندرز میر نجات نقشبند۔۔۔ الوقت سیف سبز بادا خاک پاک شافعی الوقت سیف دعا اے چو جاں اندر وجود عالمی دعا ۶۔ کتابت ’اسرارِ خودی‘ (منسوخ) علامہ اقبال میوزیم میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.215 ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فروری ۱۹۱۵ء کے بعد اور ستمبر ۱۹۱۵ء میں اشاعت سے پہلے کبھی تیار ہوئی ہو گی لیکن اس میں بھی اقبال نے تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی ۔ ساتھ ہی بو علی قلندر والی حکایت اور افلاطون و حافظ کے بارے میں اشعار کا اضافہ بھی ہواجو مسودے کے آخر میں ہاتھ سے لکھے گئے۔ کتابت شدہ متن کی ترتیب مسودہ ’اسرار خودی‘ کے مطابق ہے۔ ۷۔ مسودہ ’رموزِ بیخودی‘ علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.211 ہے۔ مثنوی کا اولین نقش بیاض ’پیامِ سروش‘ ہی میں درج ہو چکا تھا۔ یہ صاف شدہ مسودہ تھا اگرچہ اس میں بھی ترمیم ہوئی۔ جنگِ عظیم اول کی وجہ سے سینسر عائد تھا لہٰذا یہ اقبال کا واحد مسودہ تھا جسے اشاعت سے پہلے سینسر سے منظور کروانا پڑا۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۱۷ء کو عبدالعزیز صاحب نے محکمے کی طرف سے اس پر دستخط کیے۔ عنوان پہلا مصرعہ اسرار و رموز میں عنوان [سرورق] مثنوی رموز بیخودی x فہرست مضامین فہرست مضامین x پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ اے ترا حق زبدۂ اقوام کرد پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ تمہید در معنیٔ ربطِ فرد و ملّت فرد را ربطِ جماعت رحمت است تمہید در معنیٔ ربطِ فرد و ملّت در معنیٔ ایں کہ ملّت از اختلاط۔۔۔ از چہ رو بر بستہ ربطِ مردم است در معنیٔ ایں کہ ملّت از اختلاط۔۔۔ ارکانِ اساسی ملیہ اسلامیہ [رکنِ اول توحید] ارکانِ اساسی ملیہ اسلامیہ در معنیٔ ایں کہ یاس و حزن۔۔۔ مرگ را ساماں زقطعِ آرزوست در معنیٔ ایں کہ یاس و حزن۔۔۔ [بشمول] محاورہ تیر و شمشیر حکایت شہنشاہ عالمگیر ؒ و شیر شاہِ عالمگیر گردوں آستاں حکایتِ شیر و شہنشاہ عالمگیرؒ رکنِ دوم رسالت تارکِ آفل براہیمِ خلیل رکنِ دوم رسالت حکایت بو عبید و جابان در معنی۔۔۔ شد اسیرِ مسلمے اندر نبرد حکایت بو عبید و جابان در معنی۔۔۔ حکایت سلطان مراد و معمار در معنیٔ۔۔۔ بود معمارے زاقلیمِ خجند حکایت سلطان مراد و معمار در معنیٔ۔۔۔ در معنیٔ حریتِ اسلامیہ و سرِّ حادثہ۔۔۔ ہر کہ پیماں با ھو الموجود بست در معنیٔ حریتِ اسلامیہ و سرِّ حادثہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ چوں ملتِ محمدیہ۔۔۔ جوہرِ ما با مقامے بستہ نیست در معنیٔ ایں کہ چوں ملتِ محمدیہ۔۔۔ [بشمول] در معنی ایں کہ وطن اساسِ ملت نیست در معنیٔ ایں کہ ملتِ محمدیہ نہایت۔۔۔ در بہاراں جوشِ بلبل دیدۂ در معنیٔ ایں کہ ملتِ محمدیہ نہایت۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ نظامِ ملت۔۔۔ ملتے را رفت چوں آئیں زدست در معنیٔ ایں کہ نظام ملت۔۔۔ [بشمول] در معنی ایں کہ در زمانۂ انحطاط۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ پختگیٔ حیاتِ ملیہ۔۔۔ در شریعت معنیٔ دیگر مجو در معنیٔ ایں کہ پختگیٔ حیاتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملیہ۔۔۔ سائلے مثلِ قضاے مبرمے در معنیٔ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ حیاتِ ملیہ مرکزِ مشہود۔۔۔می کشایم عقدہ از کارِ حیات در معنیٔ ایں کہ حیاتِ ملیہ مرکزِ محسوس۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی۔۔۔ با تو آموزم زبانِ کائنات در معنیٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ۔۔۔ کودکے را دیدی اے بالغ نظر در معنیٔ ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ توسیعِ حیاتِ ملیہ۔۔۔ اے کہ با نادیدہ پیماں بستۂ در معنیٔ ایں کہ توسیعِ حیاتِ ملیہ۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ بقاے نوع۔۔۔ نغمہ خیزاز زخمۂ زن سازِ مرد در معنیٔ ایں کہ بقاے نوع۔۔۔ در معنیٔ ایں کہ سیدۃ النسأ۔۔۔ مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز در معنیٔ ایں کہ سیدۃ النسأ۔۔۔ [بشمول] خطاب بہ مخدّراتِ اسلام خلاصۂ مطالبِ مثنوی۔۔۔ [قل ھو اللہ احد] خلاصۂ مطالبِ مثنوی۔۔۔ اللہ الصمد گر بہ اللہ الصمد دل بستۂ اللہ الصمد لم یلد ولم یولد قومِ تو از رنگ و خوں بالاتر است لم یلد ولم یولد ولم یکن لہٗ کفواً احد مسلمِ چشم از جہاں بر بستہ چیست؟ ولم یکن لہٗ کفواً احد عرضِ حالِ مصنف بحضور۔۔۔ اے ظہورِ تو شبابِ زندگی عرضِ حالِ مصنف بحضور۔۔۔ ۸۔ بیاض پیامِ مشرق علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.213 ہے۔ بڑے سائز کے رجسٹرکی صورت میں ہے۔ پہلے صفحے پر گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے بارے میں ہائنے کے تبصرے سے اقتباس انگریزی میں درج ہے اور مزید کچھ حوالے ہیں۔ دوسرے صفحے پر دو اُردو غزلیں ہیں جن میں سے ایک پر مارچ ۱۹۱۸ء اور دوسری پر مارچ، جولائی ۱۹۱۸ء درج ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مارچ ۱۹۱۸ء میں رجسٹر شروع ہوا۔ جولائی تک اس میں کچھ نہ لکھا گیا۔ پھر دوسری غزل مکمل ہوئی۔ انہی دنوں گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے جواب میں مجموعۂ کلام لکھنے کے ارادے پر عمل یوں شروع ہوا کہ اگلے صفحے پر انگریزی میں عنوان ڈالا گیا۔ فارسی غزلیات و منظومات کا اندراج شروع ہوا جن میں سے پہلی پر جولائی ۱۹۱۸ء کی تاریخ ہے۔ ممکن ہے کہ پہلا صفحہ اس وقت تک خالی رہا ہو۔ ہائنے کی رائے اور حوالے اس کے بعد درج ہوئے ہوں۔ عنوان پہلا مصرعہ پیامِ مشرق میں عنوان Heine on Goethe's... x x [مارچ ۱۹۱۸ئ] نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا [بانگِ درا:] ’میں اور تو‘ [مارچ، جولائی ۱۹۱۸ئ] ٹوٹ کر آئینہ سکھلا گیا اسرارِ حیات x غزل [جولائی ۱۹۱۸ئ] تیر و سنانم و خنجر و شمشیرم آرزوست میٔ باقی عشق آں حرفِ دل فروز کہ راز است و راز نیست انسان [قلمزد] بوئے گل حورے بکنجِ گلشنِ جنت تپید و گفت بوئے گل دنیائے عمل ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا دنیائے عمل غزل خوش آنکہ رختِ خرد را زشعلہ می سوخت میٔ باقی غزل بیار بادہ کہ گردوں بکامِ ما گردید میٔ باقی غزل آشنا ہر خار را از قصۂ ما ساختی میٔ باقی To Heine [قلمزد] x شوپن ہار و نیٹشا مرغے زآشیانہ بسیرِ چمن پرید شوپن ہار و نیٹشا زندگی پرسیدم از بلند نگاہے حیات چیست زندگی غالب اور گوئٹے [قلمزد] تا بادۂ حیات شود پشت دار تر x برگساں [قلمزد] دلِ تو رفت بخویش اندرون و باز آمد تقسیمِ ازل ہیچ می دانی کہ صورت بندِ ہستی با فرانس x آب کہ بجو گذشت باز نیاید بجو [قلمزد] شبنمِ بیدار دل بگل گفت یک سحر رباعی (آزادی) [قلمزد] گل گفت کہ عیشِ نوبہارے خوشتر خردہ حکمت و شعر بو علی اندر غبارِ ناقہ گم حکمت و شعر زندگی و عمل ساحلِ افتادہ گفت زندگی و عمل x [قلمزد] در جہاں مانندِ جوئے کوہسار دعا اے کہ از خمخانۂ فطرت بجامم ریختی دعا ماتمِ زارؔ [قلمزد] x تہذیب انساں کہ رخ زغازۂ تہذیب بر فروخت تہذیب غزل در جہانِ دل، دَورِ قمر پیدا نیست میٔ باقی چیستانِ شمشیر آں سخت کوش چیست کہ گیرد زآب سنگ چیستانِ شمشیر الملک للہ طارق چو بر کنارۂ اندلس سفینہ سوخت الملک للہ ’’اگر خواہی حیات اندر خطر زی‘‘ غزالے با غزالے دردِ دل گفت اگر خواہی حیات۔۔۔ خدا: جہاں را زیک آب و گل آفریدم محاورہ مابین خدا و انسان نیٹشا گر نوا خواہی زپیشِ او گریز نیٹشا فلسفہ و سیاسیات فلسفی را با سیاست داں بیک میزاں مسنج فلسفہ و سیاست پیام [وسط اپریل ۱۹۱۹ئ] از من اے بادِ صبا گوئے بدانائے فرنگ پیام غزل دانۂ سبحہ بزنار کشیدن آموز میٔ باقی لالہ آن شعلہ ام کہ صبحِ ازل در کنارِ عشق لالہ غزل از ما بگو سلامے آں ترکِ تندخو را میٔ باقی میخانۂ فرنگ یادِ ایامے کہ بودم در خمستانِ فرنگ میخانۂ فرنگ طیارہ سرِ شاخِ گل طائرے یک سحر طیارہ [قلمزد] کلماتِ اکبر اعظم چشم را بینائی افزاید سہ چیز خردہ خطاب بہ انگلستان مشرقی بادہ چشیدہ است زمینائے فرنگ خطاب بہ انگلستان جمہوریت و قیصریت ہوس اندر سرشتِ ما نہادند بائیرن مثالِ لالہ و گل شعلہ از زمیں روید بائرن رنجیت سنگھ و مطربِ دراز قامت رنجیت گفت از رہِ شوخی بمطربے x پیغام با ’’مرغِ حرم‘‘ از منِ دل سوختہ فرما (۱۴) گذشتی تیزگام اے اخترِ صبح محاورہ عشق و علم نگاہم رازدارِ ہفت و چار است محاورہ علم و عشق عشق زافسونِ تو دریا شعلہ زار است عشق (۲۸) زمرغانِ چمن نا آشنایم لالۂ طور (۲۹) جہاں یارب چہ خوش ہنگامہ دارد لالۂ طور (۳۰) سکندر با خضر خوش نکتہ گفت لالۂ طور (۳۱) صریرِ کیقباد اکلیلِ جم خاک لالۂ طور (۳۲) اگر در مشتِ خاکِ تو نہادند لالۂ طور (۳۳) دمادم نقشہائے تازہ ریزد لالۂ طور (۳۴) عقابِ دوربیں جوئینہ را گفت لالۂ طور (16) ترا اے تازہ پرواز آفریدند لالۂ طور (17) چہ لذت یارب اندر ہست و بود است لالۂ طور (18) شنیدم در عدم پروانہ می گفت لالۂ طور (19) [قلمزد] نہ تنہا از پئے یکدم شگفتہ لالۂ طور (20) مسلماناں! مرا حرفے است در دل لالۂ طور (41) بکوئش رہ سپاری اے دل اے دل لالۂ طور (22) بگردوں فکرِ تو دارد رسائی لالۂ طور (23) سحر در شاخسارِ بوستانے لالۂ طور (۲۴) ترا یک نکتۂ سربستہ گویم لالۂ طور (۲۵) بہل افسانہ آں پا چراغے لالۂ طور (۲۶) ترا از خویشتن بیگانہ سازد لالۂ طور (۲۷) زیاں بینی زسیرِ بوستانم لالۂ طور (۳۴) برہمن شیخ را روزے چہ خوش گفت لالۂ طور محاورہ مابین حکیم فرنسوی۔۔۔ ’’بنی آدم اعضائے یک دگرند‘‘ محاورہ مابین حکیم فرنسوی۔۔۔ پیغام برگساں تا بر تو آشکار شود رازِ زندگی پیغامِ برگساں (24) [قلمزد] بگوشم آمد از خاکِ مزارے لالۂ طور بجوابِ عرشی دانی کہ چیست شیوۂ می خوارۂ کہن x نیٹشہ از سستیٔ عناصرِ انساں دلش تپید نیٹشا غزل خیز و نقاب بر کشا پردگیانِ ساز را میٔ باقی حکمأ لاک: ساغرش را سحر از بادۂ خورشید افروخت حکمأ جمہوریت متاعِ معنیٔ بیگانہ از دُوں فطرتاں جوئی؟ جمہوریت زندگی شبے زار نالید ابرِ بہار زندگی شبنم گفتند فرود آئے از موجِ مہ و پرویز شبنم حیاتِ جاوید گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں حیاتِ جاوید نامۂ عالمگیر بیکے از فرزندانش۔۔۔ ندانی کہ یزادنِ دیرینہ بود نامۂ عالمگیر بیکے از ۔۔۔ ولسن صدر جمہوریہ امریکائی ہمی گفتند ماہ رخاں سرودے آزادیٔ بحر جلال و گوئٹے نکتہ دانِ المنی را در اِرم جلال و گوئٹے قسمت نامۂ سرمایہ دار و مزدور غوغائے کارخانۂ آہنگری زمن قسمت نامۂ سرمایہ دار۔۔۔ اشعارے کہ بر کتخدائیِ نواب احمد یار خاں [قلمزد]از قراں دہ ہر دو انجم را فروغِ تازۂ x افکارِ انجم شنیدم کوکبے با کوکبے گفت افکارِ انجم فصلِ بہار خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابرِ بہار فصلِ بہار عشق عقلے کہ جہاں سوزد یک جلوۂ بیباکش عشق غزل بیا کہ ساقیٔ گل چہرہ دست بر چنگ است میٔ باقی ۹۔ بیاض متفرقات علامہ اقبال میوزیم کے کیٹلاگ میں اس کا نمبر شمار AIM.1977.227 ہے۔ اس میں متفرق منظومات درج ہیں۔ عنوان پہلا مصرعہ [مطبوعہ کتاب میں] عنوان [’رباعیات بہ تتبع بابا طاہر عریاں ہمدانی‘ کا عنوان لکھ کر کاٹا گیا ہے۔ اس کے تحت نمبروار رُباعیات درج ہیں:] (۱) دلِ من روشن از نورِ درون است [پیامِ مشرق] لالۂ طور x بباغاں بادِ فروردیں دہد عشق [پیامِ مشرق] لالۂ طور x عقاباں را بہائے کم نہد عشق [پیامِ مشرق] لالۂ طور x بہ برگِ لالہ رنگِ کم آمیزیٔ عشق [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۲) [قلمزد] [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳) نہ ہرکس از محبت مایہ دار است [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴) دریں گلشن پریشاں مثلِ بویم [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۵) جہاں مُشتِ گِل و دل حاصلِ اوست [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۶) سحر می گفت بلبل باغباں را [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۵۲) شہیدِ نازِ اُو بزمِ وجود است [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۵۳) من ازِ بود و بنودِ خود خموشم [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۵) بگو جبریل را از من پیامے [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۶) ہمائے علم تا اُفتد بدامت [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۷) خضر با چہرۂ تو پردہ ہا بافت [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۸) دِلت می لرزد از اندیشۂ مرگ [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۹) زپیوندِ تن و جانم چہ پُرسی [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۵۰) مرا فرمود پیرِ نکتہ دانے [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۵۱) زرازی معنیٔ قرآن چہ پُرسی [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۷) جہانِ ما کہ نابوداست بودش [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۸) نوائے عشق را ساز است آدم [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۹) نہ من انجام و نیَ آغاز جویم [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۱۰) دِلا نارائیِ پروانہ تاکے [پیامِ مشرق] لالۂ طور x تنے پیدا کن از مُشتِ غبارے [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۱۱) شنیدم کرمکِ شب تاب می گفت [پیامِ مشرق] لالۂ طور (12) زآب و گِل خدا خوش پیکرے ساخت [پیامِ مشرق] لالۂ طور (13) بیزداں روزِ محشر برہمن گفت [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۳) خرد اندر سرِ ہر کس نہادند [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۴) گدائے جلوہ رفتی برسرِ طُور [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳۵) چو ذوقِ نغمہ ام در جلوت آرد [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳۶) چہ می پُرسی میانِ سینہ دل چیست [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳۷) خرد گفت اُو بچشم اندر نگنجد [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳۸) کنشت و مسجد و بتخانہ و دَیر [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۳۹) نہ پیوستم دریں بستاں سرا دِل [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۰) بخود باز آورد رندِ کہن را [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۱) سفالم را میٔ اُو جامِ جم کرد [پیامِ مشرق] لالۂ طور (۴۲) خرد زنجیریٔ امروز و دوش است [پیامِ مشرق] لالۂ طور بہ مبلغِ اسلام در فرنگستاں زمانہ باز بر افروخت آتشِ نمرود [پیامِ مشرق] بہ مبلغِ اسلام۔۔۔ عرضِ حال بہ جناب رسالت مآب [قلمزد]شعلہ در آغوش دارد عشقِ بے پروائے من x ’’سواراج‘‘ تضمین بر شعر میررضی دانش۔۔۔[قلمزد] شبے بر می کدہ پیرِ کلیسیا می گفت x غزل بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم [پیامِ مشرق] میٔ باقی خرقۂ آں برزخ لا بنیان [مسافر] مناجات شوریدہ در ویرانۂ غزنی لالہ بہرِ یک شعاعِ آفتاب [مسافر] مناجات شوریدہ۔۔۔ بر مزارِ شہنشاہ بابر بیا کہ سازِ فرنگ از نوا بر اُفتاد است [مسافر] بر مزار شہنشاہ بابر بہ حضور اعلیحضرت شہید قصرِ سلطانی کہ نامش دلکشا است [مسافر] مسافر وارد می شود۔۔۔ بر مزارِ سلطان محمود خیزد از دل نالہ ہا بے اختیار [مسافر]بر مزار سلطان محمود۔۔۔ غزل مرا زدیدۂ بینا شکایتِ دگر است [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل بیکے از صوفیہ نوشتہ شد ہوسِ منزلِ لیلا نہ تو داری و نہ من [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل می تراشد فکرِ ما ہر دم خداوندے دگر [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل دلیلِ منزلِ شوقم بدمامنم آویز [پیامِ مشرق] میٔ باقی خراباتِ فرنگ دوش رفتم بتماشائے خراباتِ فرنگ [پیامِ مشرق] خراباتِ فرنگ شلر [قلمزد] حیات افزا پیامِ دلربایش x کارکن و کارفرما [قلمزد] بندگیاں را بند ہا از پا گسست جلال و ہیگل می کشودم بشبے بناخنِ فکر جلال و ہیگل سفر بغزنی و زیارت مزار حکیم سنائی سینہ بکشادم بآں بادے کہ پار [مسافر] سفر بہ غزنی۔۔۔ روح حکیم سنائی از بہشت بریں۔۔۔ رازدانِ خیر و شر گشتم زفقر [مسافر] روح حکیم سنائی۔۔۔ خطاب بہ ظاہر شاہ اے قبائے پادشاہی بر تو راست [مسافر] خطاب بپادشاہِ اسلام۔۔۔ غزل در طلبش دل طپید دَیر و حرم آفرید [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل تب و تابِ بتکدۂ عجم نرسد بسوز و گدازِ من [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل مثلِ آئینہ مجو محوِ جمالِ دگراں [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل مے مغانہ کہ بر عاقلاں شکست آورد غزل نہ تو اندر حرم گنجی نہ در بتخانہ می آئی [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل سطوت از کوہ ستانند و بکاہے بخشند [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل سوزِ سخن زنالۂ مستانۂ دل است [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل خواجۂ نیست کہ چوں بندہ پرستارش نیست [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل جہانِ عشق نہ میری نہ سروری داند [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل بیا کہ بلبلِ شوریدہ نغمہ پرداز است [پیامِ مشرق] میٔ باقی سرودِ انجم خاکِ خموش در خروش [پیامِ مشرق] غزل عرب از سرشکِ خونم ہمہ لالہ زار بادا [پیامِ مشرق] میٔ باقی غزل خاکیم و تندسیر مثالِ ستارہ ایم [پیامِ مشرق] میٔ باقی نغمہ ساربان ناقۂ سیارِ من [پیامِ مسرق] حدی غزل اگرچہ زیبِ سرش افسر و کلاہے نیست [پیامِ مشرق] میٔ باقی شبنم گفت کہ ہنگامۂ مرغانِ سحر چیست؟ [پیامِ مشرق] شبنم کرمکِ شب تاب یک ذرہ بے مایہ متاعِ نفس اندوخت [پیامِ مشرق] کرمکِ شب تاب غزل سرکوش از بادۂ تو خم شکنے نیست کہ نیست [پیامِ مشرق] میٔ باقی x [قلمزد] نظرِ تو ہمہ تقصیر و خرد کوتاہی [پیامِ مشرق] میٔ باقی پیام از من اے بادِ صبا بگوئے بدانائے فرنگ [پیامِ مشرق] پیام غزل نظرِ تو ہمہ تقصیر و خرد کوتاہی [پیامِ مشرق] x ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار [بالِ جبریل] ساقی نامہ مسافر (در سیرِ افغانستان) نادرِ افغاں شہِ درویش خو [مسافر] خطاب بہ اقوامِ سرحد اے زخود پوشیدہ خود را بازیاب [مسافر] مسافر وارد می شود بہ شہرِ کابل۔۔۔ شہرِ کابل خطۂ جنت نظیر [مسافر] ضمیمہ۲ تصانیفِ اقبال کے ابتدائی ایڈیشن ’اَسرارِ خودی‘ کا پہلا ایڈیشن (۱۹۱۵) ’اسرارِ خودی‘ میں فہرستِ مضامین شامل نہ تھی۔ دیباچہ، [صفحہ الف سے ل تک] پیشکش بحضور سر سیّد علی امام مدظلّہ العالی، ۱ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: تمہید، ۵ دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسلِ حیاتِ تعیناتِ وجود بر استحکامِ خودی انحصار دارد، ۲۰ دربیان اینکہ حیاتِ خودی از تخلیق و تولیدِ مقاصد است، ۲۸ دربیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد، ۳۳ دربیان اینکہ خودی از سُوال ضعیف می گردد، ۴۳ در بیان اینکہ چوں خودی از عشق و محبت محکم می گرددقوائے ظاہرہ و مخفیۂ نظامِ عالم را مسخّر می سازد، ۴۸ حکایت دریں معنی کہ مسئلۂ نفی خودی از مخترعاتِ اقوامِ مغلوبۂ بنی نوع انسان است کہ بایں طریقِ مخفی اخلاق اقوام غالبہ را ضعیف می سازند، ۵۳ دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی و حافظ شیرازی کہ تصوف و ادبیات اقوامِ اسلامیہ از تخیلات ایشاں اثر عظیم پذیرفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ اند ا از ایشاں احتراز واجب است، ۶۲ در بیان اینکہ تربیت خودی را سہ مراحل است۔ مرحلہ اول را اطاعت و مرحلہ دوم را ضبط نفس و مرحلہ سوم را نیابت الٰہی نامیدہ اند، ۷۳ مرحلۂ اول اطاعت، ۷۳ مرحلۂ دوم ضبطِ نفس، ۷۷ مرحلۂ سوم نیابتِ الٰہی، ۸۱ در شرحِ اَسرارِ اَسمائے علی مرتضیٰؓ، ۸۷ حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سیّد مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آمدہ از ستمِ اعدا فریاد کرد، ۹۷ حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود، ۱۰۳ حکایت الماس و زُغال، ۱۰۸ حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگا و ہمالہ در معنی ایں کہ تسلسلِ حیاتِ ملّیہ از محکم گرفتن روایاتِ مخصوصہ ملّیہ می باشد، ۱۱۲ دربیان اینکہ مقصدِ حیاتِ مُسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرّک او جوع الارض باشد در مذہبِ اسلام حرام است، ۱۲۰ اندرز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کہ برائے مسلمانانِ ہندوستاں رقم فرمودہ است، ۱۲۷ الوقتُ سیف، ۱۴۰ دُعا، ۱۴۸ ’رموزِ بیخودی‘ (۱۹۱۸) ’رموزِ بیخودی‘ میں بھی فہرستِ مضامین شامل نہ تھی۔ دیباچہ [بلا شمار] پیشکش بحضور ملّتِ اسلامیہ [صفحہ الف سے و] بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: تمہید در معنیٔ فرد و مِلّت، ۱ در معنیٔ ایں کہ ملّت از اختلاطِ افراد پیدا می شود و تکمیلِ تربیتِ اُو از نبوّت است، ۶ ارکانِ اَساسیِ ملّیہ اسلامیہ، ۱۱ رُکنِ اوَّل توحید، ۱۱ در معنیٔ ایں کہ یاس و حزن و خوف اُمّ الخبائث است و قاطعِ حیات و توحید ازالۂ ایں امراضِ خبیثہ می کند، ۱۷ حکایت شیر و شہنشاہِ عالمگیر رحمۃُ اللہ علیہ، ۲۳ رُکنِ دوم رسالت، ۲۷ حکایت بوعبید و جابان در معنیِٔ اخوّتِ اسلامِیّہ، ۳۴ حکایت سُلطان مراد و معمار در معنیِٔ مساواتِ اسلامیّہ، ۳۶ در معنیِٔ حُرّیتِ اسلامیّہ و سِرِّ حادثۂ کربلا، ۳۹ در معنیٔ ایں کہ چوں ملتِ محمدؐیّہ موسّس بر توحید و رِسالت است پس نہایتِ مکانی ندارد، ۴۵ در معنیِٔ ایں کہ ملّتِ محمدیہؐ نہایتِ زمانی ہم ندارد کہ دوامِ ایں ملّتِ شریفہ موعود است، ۵۱ در معنیٔ ایں کہ نظامِ ملّت غیر از آئین صورت نہ بندد و آئینِ ملّتِ محمدؐیّہ قرآن است، ۵۸ در معنیِٔ ایں کہ پختگی ِ سیرتِ مِلّیہ از اتّباعِ آئین ِ الٰہیّہ است، ۶۵ در معنیِ ایں کہ حُسنِ سیرتِ ملّیہ از تادُّب بآدابِ محمدؐیّہ است، ۷۱ در معنیِٔ ایں کہ حیاتِ ملّیہ مرکزِ مشہود می خواہد و مرکزِ ملّتِ اسلامیّہ بَیتُ الحرام است، ۷۷ در معنیِٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی از محکم گرفتن نصب العین ملّیہ است و نصب العین اُمّتِ محمدؐیّہ حفظ و نشرِ توحید است، ۸۲ در معنی ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ ایں است کہ ملت مثلِ فرد احساسِ خودی پیدا کند و تولید و تکمیلِ ایں احساس از حفظِ روایاتِ ملیہ ممکن گردد در معنیِٔ ایں کہ توسیعِ حیاتِ ملّیہ از تسخیرِ قوائے نظامِ عالم است، ۹۰ در معنیِٔ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اصل اسلام است، ۱۰۳ در معنیِٔ ایں کہ سیّدۃ النسأ فاطمۃ الزہرااسوۂ کاملہ ایست برائے نسا ِ ٔ اِسلام، ۱۰۸ خلاصہ مطالبِ مثنوی در تفسیرِ سُورۂ اخلاص، ۱۱۳ قل ہو اللہ ُاحد، ۱۱۳ اللہ ُ الصّمد، ۱۱۶ لم یلد ولم یولد، ۱۲۳ ولم یکن لہٗ کفواً احد، ۱۲۷ عرضِ حالِ مُصنّف بحضور رحمۃُ الّلعالمین، ۱۳۱ ’اَسرارِ خودی‘ کا دُوسرا ایڈیشن (۱۹۱۸) ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن میں بھی فہرستِ مضامین شامل نہ تھی۔ دیباچہ،۱ [دی شیخ با چراغ۔۔۔]، ۲ پیشکش بحضور سر سیّد علی امام مدظلّہ العالی، ۳ ھُو/ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم/ تمہید، ۵ [شروع میں نظیری کے شعر کے اضافے کے ساتھ: ’’نیست در خشکِ ترو بیشۂ من کوتاہی۔۔۔‘‘] دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسلِ حیاتِ تعیناتِ وجود بر استحکامِ خودی انحصار دارد، ۱۸ دربیان اینکہ حیاتِ خودی از تخلیق و تولیدِ مقاصد است، ۲۴ دربیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد، ۲۸ دربیان اینکہ خودی از سُوال ضعیف می گردد، ۳۶ در بیان اینکہ چوں خودی از عشق و محبت محکم می گرددقوائے ظاہرہ و مخفیۂ نظامِ عالم را مسخّر می سازد، ۴۰ حکایت دریں معنی کہ مسئلۂ نفی خودی از مخترعاتِ اقوامِ مغلوبۂ بنی نوع انسان است کہ بایں طریقِ مخفی اخلاق اقوام غالبہ را ضعیف می سازند، ۴۴ دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی کہ تصوف و ادبیات اقوامِ اسلامیہ از اَفکارِ اُو اثرِ عظیم پذیرفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ است و از تخیلاتِ او احتراز واجب است، ۵۱ در حقیقت شعر و اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ، ۵۵ در بیان اینکہ تربیت خودی را سہ مراحل است۔ مرحلۂ اوّل را اطاعت و مرحلۂ دوم را ضبطِ نفس و مرحلۂ سوم را نیابت الٓھی نامیدہ اند، ۶۵ مرحلۂ اول اطاعت، ۶۵ مرحلۂ دوم ضبطِ نفس، ۶۸ مرحلۂ سوم نیابتِ الٓھی، ۷۱ در شرحِ اَسرارِ اَسمائے علی مرتضیٰؓ، ۷۷ حکایتِ نوجوانے از مرو کہ پیشِ حضرت سیّد مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ آمدہ از ستمِ اعدا فریاد کرد، ۸۵ حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود، ۹۰ حکایت الماس و زغال، ۹۳ حکایت شیخ و برہمن و مکالمۂ گنگا و ہمالہ در معنی اینکہ تسلسلِ حیاتِ ملّیہ از محکم گرفتن روایاتِ مخصوصۂ ملّیّہ می باشد، ۹۶ دربیان اینکہ مقصدِ حیاتِ مُسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرّک او جوع الارض باشد در مذہبِ اسلام حرام است، ۱۰۳ اندرز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کہ برائے مسلمانانِ ہندوستاں رقم فرمودہ است، ۱۰۹ الوقتُ سیف، ۱۲۰ دُعا، ۱۲۷ اطلاع، ۱۲۴ ضمیمہ۳ ترکِ موالات کے بارے میں اقبال کا موقف مخدومی جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار، السلام علیکم! آج کے ’’زمیندار‘‘ میں جنرل کونسل انجمن حمایت اسلام لاہور منعقدہ ۱۴ نومبر کی کاروائی پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے، اُس میں ایک آدھ فروگذاشت ہو گئی ہے۔ جس کا ازالہ عام مسلمانوں کی آگاہی کے لیے ضروری ہے لہذا یہ چند سطور لکھتا ہوں۔ مہربانی کر کے اپنے اخبار میں درج فرما کر مجھے ممنون کیجیے۔ اراکین کونسل کے سامنے تین تجاویز تھیں۔ (۱) اسلامیہ کالج لاہور کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے جاری رکھا جائے۔ محرّک میاں فضل حسین صاحب سیکرٹری کالج۔ موید مولوی فضل الدین صاحب وائس پریذیڈنٹ انجمن۔ (۲) انجمن حمایت اسلام لاہور اپنے طور پر علمأ پنجاب و ہندوستان کی ایک کانفرنس کرے جس میں حالاتِ حاضرہ سے واقف کار لوگ بطور مشیر کام کریں تاکہ حضرات علمأ مسائل متنازعہ فیہ کے ہر پہلو پر پوری بحث و تمحیص کے بعد نتائج پر پہنچیں۔ علمأ کی اِس بحث میں مشیروں کو رائے دینے کا کوئی حق نہ ہو گا اور فیصلہ کثرتِ آرأ سے ہو گا۔ اختتامِ کانفرنس تک اسلامیہ کالج کا الحاق یونیورسٹی سے قائم رہے۔ محرّک مولوی ابراہیم سیالکوٹی۔ (۳) جمعیت علمأ کا اجلاس دہلی میں عنقریب ہونے والا ہے، ان کے فتوے کا انتظار کیا جائے اور چند حضرات انجمن کی طرف سے بطور وفد اِس جلسے کی بحث و مباحثہ میں شریک ہوں۔ محرک ڈاکٹر کچلوؔ۔ پہلی تجویز میں قطعاً کوئی مباحثہ نہیں ہوا۔ نہ مذہبی نقطہ خیال سے نہ تعلیمی نقطہ نگاہ سے۔ اس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ اگر ارکان کونسل مذہبی نقطہ نگاہ سے اِس تجویز پر بحث مباحثہ نہیں کر سکتے، تو تعلیمی نقطہ نگاہ سے اس پر معقول و مدلل بحث ہو سکتی ہے۔ عدم تعاون یا ترکِ موالات سے قطع نظر کر کے بھی تعلیم کو ’’نیشنلائز‘‘ کرنے کے دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ مولوی غلام محی الدین صاحب نے بھی جلسہ سے اجازت بحث کی چاہی مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اجازت نہ دی۔ اصل بات یہ ہے کہ میاں صاحب کی تجویز کے فوراً بعد دوسری اور تیسری تجاویز پیش کر دی گئیں اور بحث انہیں تجاویز پر ہوتی رہی۔ بہرحال تجویز اوّل پر ووٹ لیے گئے جن کا نتیجہ یہ ہے کہ کثرت آرأ میاں فضل حسین کی تجویز کے حق میں تھی۔ ۲۱ ممبروں نے جن میں مولوی عبدالقادر صاحب قصوری، حاجی شمس الدین صاحب اور خاکسار شامل تھے ووٹ دینے سے اِس بنا پر اِنکار کیا کہ ان ممبروں کی رائے میں معاملہ زیرِ بحث کا ایک نہایت اہم مذہبی پہلو ہے جس کا فیصلہ علمأ سے استفتا کیے بغیر ایک ایسی انجمن کے لیے ناممکن ہے جو انجمن حمایتِ اسلام کے نام سے موسوم ہو۔ پہلی تجویز کے فیصلہ ہو جانے پر باقی دو تجاویز پر ووٹ لینا ضروری نہ سمجھا گیا۔ مذکورہ بالا ۲۱ ممبران میں سے بعض ڈاکٹر کچلو صاحب کی تجویز کے موید تھے اور بعض مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کے موید تھے۔ میری رائے یہ تھی کہ مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کے مطابق انجمن خود علمأ کی ایک کانفرنس مدعو کرے تاکہ اِس نازک مسئلے کے ہر پہلو پر پوری بحث ہو سکے۔ جو فتوے دفترِ انجمن میں موصول ہوئے ہیں ان کو حضرات علمأ سے فرداً فرداً حاصل کیا گیا ہے اور نیز بعض نہایت ضروری سوالات ان سے پوچھے ہی نہیں گئے۔ مثلاً حضرت مولانا محمود الحسن صاحب کے فتویٰ میں الحاق کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ اِسی طرح مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کی خانقاہ کا فتویٰ یا مضمون ترکِ موالات کے مسئلے پر ایک عام بحث ہے جس میں استفتا بھی درج نہیں۔ علیٰ ہذا القیاس علمائے سندھ کے فتوے میں زرِ امداد یا الحاق کے متعلق کوئی سوال حضرت علمأ سے نہیں کیا گیا۔ کفار سے ترکِ موالات مسلمانوں کے لیے کوئی نیا حکم نہیں اور اِس سے کسی مسلمان کو اِنکار نہیں ہو سکتا۔ ہاں اس کے مدارج اور جزویات مختلف ہیں۔ کفار محارب ہوں تو ان کے لیے اور احکام ہیں۔ غیرمحارب ہوں تو ان کے لیے اور احکام ہیں۔ اِس فرق کو کسی فتوے میں نمایاں نہیں کیا گیا جس سے میرے خیال میں سخت غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے۔ مثلاً آج شام ہی میں نے ایک دوست سے سنا کہ پروفیسر حاکم علی صاحب اسلامیہ کالج نے اپنے فتوے کی تصدیق میں مولوی احمد رضا صاحب بریلوی سے ایک فتویٰ حاصل کیا ہے۔ پروفیسر صاحب خود بریلی تشریف لے گئے تھے۔ لاہور واپس آنے پر اُنہوں نے مولوی اصغر علی روحیؔ سے استدعا کی کہ وہ بھی مولوی احمد رضا صاحب کے فتویٰ پر دستخط کریں لیکن چونکہ حضرات دیوبند مولوی اشرف علی تھانوی پر اس فتوے میں سب و دشتم کیا گیا تھا اس واسطے مولوی اشرف علی [کذا: مولوی اصغر علی] صاحب نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ حاکم علی صاحب آنریبل میاں فضل حسین سے ایک دستی خط لے کر پھر مولوی احمد رضا صاحب کی خدمت میں پہنچے اور ان سے التماس کی کہ میاں صاحب فرماتے ہیں کہ علمائے دیوبند وغیرہ پر جو لَے دے آپ نے اپنے فتوے میں کی ہے، اسے فتوے سے نکال ڈالیے، لیکن مولوی صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور میاں صاحب کے خط کے جواب میں کہا کہ وہ سب لوگ مرتد ہیں۔ میرے دوست نے یہ فتویٰ خود پڑھا ہے اور مولوی احمد رضا صاحب کا وہ خط بھی دیکھا ہے جو مولوی صاحب موصوف نے میاں صاحب کے جواب میں لکھا ہے۔ خیر یہ تو جزوی اُمور تھے۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ آیا اِس فتوے میں محارب و غیرمحارب کفار کا امتیاز رکھا گیا تھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب تک ضروری سوالات ہی نہ کیے جائیں تو مفتی کا کیا قصور ہے۔ اِس امتیاز کے علاوہ بعض نہایت اہم اقتصادی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا پوچھنا مفتی سے ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک پورا نظامِ عمل مرتب ہو اور ہر خیال کے مسلمان پر اتمامِ حجّت ہو سکے۔ غرض یہ کہ جس طرح مفتی کے لیے علم و تقویٰ کے ضروری شرائط ہیں اسی طرح مفتی کے علم سے مستفیض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سائل نکتہ رَس، معاملہ فہم اور زیرک ہو۔ بالخصوص ایک ایسے معاملے میں جس کا اثر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہو، پوری چھان بین اور تحقیق و تدقیق ضروری ہے اور اس تحقیق و تدقیق کے لیے بھی وہی راہ اختیار کرنی چاہیے جو شریعتِ حقہ نے بتائی ہے۔ فرداً فرداً فتویٰ لینے سے کبھی کام نہ نکلے گا۔ اس وقت مسلمانوں کی بدنصیبی سے اِس ملک میں یا اور اِسلامی ممالک میں کوئی واجب الطاعۃ امام موجود نہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ واجب الطاعۃ امام نہ ہونے کی صورت میں خلافت کمیٹی کا فتویٰ واجب الطاعۃ ہے۔ میں نے ان کے دلائل نہیں سنے۔ اس وقت تک مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں۔ ممکن ہے ان کے دلائل سننے کے بعد میری رائے بدل جائے۔ فی الحال تو میرے نزدیک یہی راہ کھلی ہے اور یہی راہ شریعت کی رُو سے بھی انسب و اُولیٰ ہے کہ حضرات علمأ ایک جگہ جمع ہو کر ہر قسم کا اعتراض سننے اور پورے بحث و مباحثے کے بعد مسلمانوں کے لیے ترکِ موالات کا ایک پروگرام مرتب کریں۔ اس جمعیت میں حضرات مشائخ، بڑے بڑے حنفی علمأ اور اگر ضروری ہو تو شیعہ اور اہلِ حدیث علمأ بھی جن کے علم و تقویٰ پر قوم کو اعتماد ہو، طلب کیے جائیں۔ میرے خیال میں ایسے حضرات کا انتخاب کوئی مشکل امر نہیں۔ مسلمان وکلأ بھی اِس بحث میں شریک ہو کر کم از کم سائل کی حیثیت سے مدد دیں۔ حضرات علمأ کے لیے بھی یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو رفع کر کے اُمتِ مرحومہ پر اپنا کھویا ہوا اِقتدار پھر حاصل کریں۔ خدا تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کر دیے ہیں کہ یہ بھٹکا ہوا آہو پھر خودبخود حرم کی طرف آ رہا ہے۔ قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز ایسے حالات قوموں کی زندگی میں شاذ ہی پیدا ہوا کرتے ہیں اور اگر اِن حالات سے حضرات مشائخ و علمأ نے فائدہ نہ اٹھایا اور مسلمانوں کی رہنمائی کر کے ان کو اپنے بچھڑے ہوئے محبوب یعنی شریعتِ حقہ اسلامیہ سے نہ ملایا تو اِس ملک میں مسلمانوں کا بحیثیت ایک مذہبی جماعت کے خاتمہ تصوّر کرنا چاہیے اور وہ مسلمانانِ ہند کی اس ہلاکت کے لیے قیامت کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اگر اس کانفرنس میں علمأ کے انتخاب اور اس کے مجموعی عمل میں دیانت و امانت سے کام لیا گیا تو مسلمانانِ ہند کی زندگی میں وہ عظیم اور روحانی انقلاب پیدا ہو گا، جس کے لیے شاہ ولی اللہ کی روح تڑپتی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ اِس تجویز کو عمل میں لانے کے لیے وقت اور روپیہ کی ضرورت ہے لیکن ایسے اہم مسئلے کے تصفیہ کے لیے وقت اور روپے کا سوال خارج از بحث ہے۔ اراکین جنرل کونسل نے تو یہ سلامتی کی راہ اختیار نہیں کی اور حمایت اسلام کہلا کر بے دردی سے اسلام کو نظرانداز کر دیا ہے لیکن مسلمانانِ پنجاب سے میری التماس ہے کہ وہ اس کام کو توکل بخدا اپنے ذمہ لیں اور لاہور یا باہر کے مسلمانوں میں سے کوئی اللہ کا بندہ اور نبیٔ امّی کا عاشق ایسا نکلے کہ اس کانفرنس کا تمام خرچ اپنے ذمے لے لے۔ اُس کا یہ خرچ بیکار نہ جائے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں اس پر فلاح و برکت کے دروازے کھول دے گا اور آخرت میں وہ اس کی بارگاہ میں باریاب ہو گا جس کی آستان بوسی کو دنیا کے عظیم شہنشاہوں نے اپنا طغرائے امتیاز تصور کیا ہے۔ شاید آپ کے بعض ناظرین کے دل میں یہ خیال گزرے کہ جب جمعیت علمأ کا جلسہ دہلی میں عنقریب ہونے والا ہے تو ایسی کا نفرنس قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر کچلوؔ صاحب کی تجویز میں سرِ دست کسی خرچ اور دِقت کی ضرورت نہیں لیکن جب جنرل کونسل میں ان تجاویز پر بحث ہو رہی تھی تو بعض صاحبان کی گفتگو سے مترشح ہوتا تھا کہ وہ دہلی کی کانفرنس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس بنأ پر کہ یہ کانفرنس ایک خاص خیال کے علمأ کا مجموعہ ہو گی۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اس خیال کے اور بھی مسلمان ہیں اور میں مولوی ابراہیم صاحب کی تجویز کی اس بنأ پر تائید کرتا ہوں کہ کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شک و ظن کا نہ رہے اور ایک ایسی کانفرنس قائم کی جائے جس کا فتویٰ ہر خیال کے مسلمانوں کے لیے حجّت ہو اور کسی کو بھی کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حالاتِ حاضرہ محض ایک سیاسی مفہوم رکھتے ہیں اور پختہ کارانِ سیاست ہی اس کے فیصلہ کے اہل ہیں اور مسندنشینانِ پیغمبر کو ان حالات سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ میری رائے ناقص میں ایک خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں جو حقائق و تاریخِ اسلامیہ اور شریعتِ حقہ کے مقاصد کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ہے۔ قومی زندگی کی کوئی حالت ایسی نہیں جس پر فقہائے اسلام نے حیرت انگیز چھان بین نہ کی ہو۔ اگر مسلمان اس خدا کے دیے ہوئے قانون سے فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کی بدنصیبی ہے۔ شارع اُمّی (بَابِی اَنتَ و اُمِّی) نے تو وہ اصول بتائے ہیں کہ ان کی ہمہ گیری کے سامنے حال کے مغربی فقہا کا تفقہ جس پر ہمارے وکیلوں اور بیرسٹروں کو ناز ہے ایک طفلِ مکتب کی ابجدخوانی نظر آتا ہے۔ رسالتِ محمدیہ کا مقصد صرف یہی نہیں کہ بندوں کو اپنے رب سے ملائے بلکہ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندوں کو اس چار عناصر کی دنیا میں رہنے اور انفرادی و ملّی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک مکمل آئین بھی عطا فرمائے اور یہ آئین خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت تک مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے۔ اس سے مستفید ہونے کے لیے قوتِ استدلال اور پاکیزگیٔ عمل کی ضرورت ہے اور ان اوصاف کی متاعِ گراں مایہ ابھی تک بکلّی مفقود نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے نہ مسٹر گاندھی کی زندگی اسوۂ حسنہ ہے نہ کسی انسان کا بنایا ہوا ہدایت نامہ ان کے لیے دلیلِ راہ ہو سکتا ہے۔ ان کو اپنے ہر فعل کے لیے خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں نظامِ کار تلاش کرنا چاہیے اور جو نظامِ کار ان دو مواخذ سے ملے اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اس بات کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہیے کہ ان کا نظامِ عمل مسٹر گاندھی کے پروگرام کے مطابق ہے یا اس سے مختلف ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس وقت جو معاملات زیرِ بحث ہیں محض سیاسی ہیں وہ جمعیت اسلامیہ کی ہئیت اور اس کے مقاصد سے بالکل بے خبر ہیں۔ اسلام کے نزدیک مسلمان کا کوئی فعل انفرادی ہو یا اجتماعی مذہب کی ہمہ گیری سے آزاد نہیں اور برخلاف دیگر مذاہب کے اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے لیے احکام وضع کیے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے عقیدے کی رُو سے انفرادی، ملّی اور بین الملّلی قانون کا اصل الاصول الہامِ الٰہی پر مبنی ہے اور اِسلام [کذا: مسلمان] کا ہر فعل اگر اس کا محرک اللہ اور رسول کی رضاجوئی ہے تو وہی قربِ الٰہی کا باعث ہے۔ خواہ اس کا اثر فاعل کی اپنی ذات پر پڑتا ہو خواہ دیگر اقوام پر۔ وہ سیاست جو مذہب سے معرّا ہو ضلالت و گمراہی ہے اور وہ مذہب جو اپنے احکام میں تمام ضروریاتِ انسانی کو ملحوظ نہیں رکھتا ایک قسم کی ناقص رہبانیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض مغربی خیالات ایک نامحسوس زہر کی طرح ہمارے دماغوں میں سرایت کر گئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مذہب کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ اکثر تعلیم یافتہ نوجوان بے تحاشا اس خیال کا اظہار کرتے ہیں اور قوم کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ یہ خیال کم از کم اسلام کے لیے زہر قاتل ہے۔ لطف یہ ہے کہ خود یورپ کے حکما جو اس خیال کے بانی ہیں اور جن سے ہمارے نوجوانوں نے یہ سبق سیکھا ہے اب اس ہیبت ناک جنگ کے بعدجو اسی شیطانی اصول کا نتیجہ تھی اس خیال کی صحت میں متامّل نظر آتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اراکین انجمن حمایت اسلام نے بھی معاملات زیر بحث کے فیصلہ میں اسی اصول پر عمل کیا ہے۔ مجھے ان سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے کیوں فیصلہ کرنے سے پیشتر فقہائے اسلام سے استصواب نہیں کیا۔ اگر تمام حالات کو سننے کے بعد فقہائے اسلام کی یہی رائے ہو کہ الحاق قائم رکھا جائے تو میں بھی نہایت خوشی کے ساتھ اراکین انجمن کا ہم نوا ہوں۔ قطع نظر اس کے کہ انہوں نے اپنا ایک اہم مذہبی فرض ادا نہیں کیا۔ میری رائے ناقص میں اس سوال کے مذہبی پہلو کو نظرانداز کر دینے سے اراکین کونسل نے خود انجمن کے لیے ایک زندگی اور موت کا سوال پیدا کر دیا ہے۔ میں نے آپ کے اخبار کی بہت سی جگہ لے لی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ فراخدلی سے مجھے معاف فرمائیں گے۔ اب میں اس طویل خط کو اِس دُعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو اور اپنے حبیبِ پاک کے صدقے میں ان کی تمام مشکلات کا خاتمہ کرے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۱۵-نومبر ۱۹۲۰ء [ماخذ: محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶: اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۱۰۳-۹۸] ضمیمہ۴ مغرب کے بارے میں ہمارے رویے بنام نکلسن Lahore 24th January 1921 My dear Dr. Nicholson, I was very glad to learn from your letter to Shafi that your translation of the Asrar-i-Khudi had been favorably received and excited much attention in England. Some of the English reviewers, however, have been misled by the superficial resemblance of some of my ideas to those of Nietzsche. The view of the writer in the Athenaeum is largely affected by some mistakes of fact for which, however, the writer does not seem to be responsible. But I am sure if he had known some of the dates of the publication of my Urdu poems referred to in his review, he would have certainly taken a totally different view of the growth of my literary activity. Nor does he rightly understand my idea of the Perfect Man which he confounds with the German thinker's Superman. I wrote on the Sufi doctrine of the Perfect Man more than twenty years ago, long before I had read or heard anything of Nietzsche. This was then published in the Indian Antiquary, and later in 1908 formed part of my Persian Metaphysics. The English reader ought to approach this idea not through the German thinker, but through an English thinker of great merit - I mean Alexander - whose Gifford lectures, delivered at Glasgow, were published last year. His chapter on Deity and God (Chapter I, Book IV, p. 341, Vol. II) is worth reading. On page 347, he says: "Deity is thus the next higher empirical quality to mind, which the universe is engaged in bringing to birth. That the universe is pregnant with such a quality, we are speculatively assured. What that quality is we cannot know, for we can neither enjoy nor still less contemplate it. Our human altars still are raised to the Unknown God. If we could know what Deity is, how it feels to be Divine, we should first have to become as Gods." Alexander's thought is much bolder than mine. I believe there is a Divine tendency in the universe, but this tendency will eventually find its complete expression in a higher man, not in a God subject to Time, as Alexander implies in his discussion of the subject. I do not agree with Alexander's view of God, but it is clear that my idea of the Perfect Man will lose much of its outlandishness in the eyes of the English reader if he approaches it through the ideas of a thinker of his own country. But it is Mr. Dickinson's review which interested me most, and I want to make a few remarks on it. Kindly pass on this letter to him; I am sure he will be interested to know what I think of his review. (1) Mr. Dickinson thinks, as I understand from his private letter to me, that I have deified physical force in the poem. I am afraid he is mistaken in his view. I believe in the power of the spirit, not brute force. When a people is called to a righteous war, it is, according to my belief, their duty to obey the call, but I condemn all wars of conquest (the story of Mianmir and the Emperor of India). Mr Dickinson, however, is quite right when he says that war is destructive, whether it is waged in the interest of Truth and Justice, or in the interests of conquest and exploitation. It must be put an end to in any case. We have seen, however, that Treaties, Leagues, Arbitrations and Conferences cannot put an end to it. Even if we secure these in a more effective manner than before, ambitious nations will substitute more peaceful forms of the exploitation of races supposed to be less favoured or less civilised. The truth is that we stand in need of a living personality to solve our social problems, to settle our disputes, and to place international morality on a sure basis. How very true are the last two paragraphs of Professor Mackenzie's Introduction to Social Philosophy: "There can be no ideal society without ideal man: and for production of these we require not only insight but a motive power; fire as well as light. Perhaps, a philosophic understanding of our social problems is not even the chief want of our time. We need prophets as well as teachers, men like Carlyle or Ruskin or Tolstoy, who are able to add for us a new severity to conscience or a new breadth to duty. Perhaps we want a new Christ... It has been well said that the prophet of our time must be a man of the world, and not merely a voice in the wilderness. For indeed the wilderness of the present is in the streets of our crowded cities, and in the midst of the incessant war by which we are trying to make our way upwards. It is there that the prophet must be. "Or perhaps our chief want is rather for the poet of the new age than for its prophet-or for one who should be poet and prophet in one. Our poets of recent generations have taught us the love of nature, and enabled us to see in it the revelation of the Divine. We still look for one who shall show us with the same clearness the presence of the Divine in the human.... We still need one who shall be fully and in all seriousness what Heine playfully called himself a "Ritter von dem Heiligen Geish," one who shall teach us to see the working out of our highest ideals in the everyday life of the world, and to find in devotion to the advancement of that life, not merely a sphere for an ascetic self-sacrifice, but a supreme object in the pursuit of which all thoughts, all passions, all delights may receive their highest development and satisfaction." It is in the light of above thoughts that I want the British public to read my description of the ideal man. It is not our treaties and arbitrations which will put an end to the internecine wars of the human family. (2) Mr Dickinson further refers to my 'Be hard'. This is based on the view of Reality that I have taken in the poem. According to my belief, Reality is a collection of individualities tending to become a harmonious whole through conflict which must inevitably lead to mutual adjustment. This conflict is a necessity in the interests of the evolution of higher forms of life, and of personal immortality. Nietzsche did not believe in personal immortality. To those desiring it, he ruthlessly says, "Do you wish to be a Perpetual burden on the shoulders of time?" He was led to say this because he had a wrong notion of time, and never tried to grapple with the ethical issue involved in the question of time. On the other hand, I look upon immortality as the highest aspiration of man on which he should focus all his energies, and consequently I recognize the need of all forms of activity, including conflict, which tends to make the human person more and more stable. And for the same consideration, I condemn speculative mysticism and inactive quietism. My interest in conflict is mainly ethical and not political whereas Nietzsche's was probably only political. Modern physical science has taught us that the atom of material-energy has achieved its present form through thousands of years of evolution. Yet it is unstable and can be made to disappear. The same is the case with the atom of mind-energy, i.e., the human person. It has achieved its present form through ions of incessant effort and conflict; yet, in spite of all this, its instability is clear from the various phenomena of mental pathology. If it has to continue intact it cannot ignore the lessons learnt from its past career, and will require the same or similar forces to maintain its stability which it has availed of before. It is possible that in its onward march nature may modify or eliminate altogether some of the forces (e.g., conflict in the way of mutual wars) that have so far determined and helped its evolution, and introduce new forces hitherto unknown to mankind to secure its stability. But, I confess, I am not an idealist in this matter and believe this time to be very distant. I am afraid mankind will not for a very long time to come, learn the lesson that the Great European War has taught them. Thus it is clear that my purpose in recognizing the need of conflict is mainly ethical. Mr. Dickinson has unfortunately altogether ignored this aspect of the "Be hard". (3) Mr. Dickinson further remarks that while my philosophy is universal my application of it is particular and exclusive. This is in a sense true. The humanitarian ideal is always universal in poetry and philosophy, but if you make it an effective ideal and work it out in actual life, you must start, not with poets and philosophers, but with a society exclusive in the sense of having a creed and well-defined outline, but ever enlarging its limits by example and persuasion. Such a society, according to my belief, is Islam. This society has so far proved itself a more successful opponent of the race-idea which is probably the hardest barrier in the way of the humanitarian ideal. Renan was wrong when he said that science was the greatest enemy of Islam. No, it is the race idea which is the greatest enemy of Islam - in fact, of all humanity, and it is the duty of all lovers of mankind to stand in revolt against this dreadful invention of the devil. Since I find that the idea of nationality based on race or territory is making headway in the world of Islam, and since I fear that the Muslims, losing sight of their own ideal of a universal humanity, are being lured by the idea of a territorial nationality, I feel it is my duty as a Muslim and as a lover of all mankind, to remind them of their true function in the evolution of mankind. Tribal or national organizations on the lines of race or territory are only temporary phases in the enfoldment and upbringing of collective life, and as such I have no quarrel with them; but I condemn them in the strongest possible terms when they are regarded as the ultimate expression of the life of mankind. While I have the greatest love for Islam, it is in view of practical and not patriotic considerations, as Mr. Dickinson thinks, that I am compelled to start with a specific society (e.g., Islam) which among the societies of the world, happens to be the only one suitable to my purpose. Nor is the spirit of Islam so exclusive as Mr. Dickinson thinks. In the interests of a universal unification of mankind the Quran ignores their minor differences and says, "Come, let us unite on what is common to us all !" (iii. 64). I am afraid the old European idea of a blood-thirsty Islam is still lingering in the mind of Mr. Dickinson. All men and not Muslims alone are meant for the Kingdom of God on earth, provided they say good-bye to their idols of race and nationality, and treat one another as personalities. Leagues, mandates, treaties, like the one described by Mr. Keynes and Imperialisms, however draped in democracy, can never bring salvation to mankind. The salvation of man lies in absolute equality and freedom of all. We Stand in need of a thorough overhauling of the aims of science which has brought so much misery to mankind and of a total abandonment of what may be called esoteric politics which is ever Planning the ruin of less clever or weaker races. That Muslim peoples have fought and conquered like other peoples, and that some of their leaders have screened their personal ambition behind the veil of religion, I do not deny; but I am absolutely sure that territorial conquest was no part of the original programme of Islam. As a matter of fact, I consider it a great loss that the progress of Islam as a conquering faith stultifed the growth of those germs of an economic and democratic organization of society which I find scattered up and down the pages of the Quran and the traditions of the Prophet. No doubt, the Muslims succeeded in building a great empire, but thereby they largely repaganized their political ideals, and lost sight of some of the most important potentialities of their faith. Islam certainly aims at absorption. This absorption, however, is to be achieved not by territorial conquest but by the simplicity of its teaching, its appeal to the common sense of mankind and its aversion to abstruse metaphysical dogma. That Islam can succeed by its inherent force is sufficiently clear from the Muslim missionary work in China, where it has won millions of adherents without the help of any political power. I hope more than twenty years' long study of the world's thought has given me sufficient training to judge things impartially. The object of my Persian poems is not to make out a case for Islam; my aim is simply to discover a universal social reconstruction, and in this endeavour, I find it philosophically impossible to ignore a social system which exists with the express object of doing away with all the distinctions of caste, rank and race; and which, while keeping a watchful eye on the affairs of this world, fosters a spirit of unworldliness so absolutely essential to man in his relations with his neighbours. This is what Europe lacks and this is what she can still learn from us. One word more. In my notes which now form part of your Introduction to Asrar-i-Khudi, I deliberately explained my position in reference to Western thinkers, as I thought this would facilitate the understanding of my views in England. I could have easily explained myself in the light of the Quran and Muslim Sufis and thinkers, e.g., Ibn Arabi and Iraqi (Pantheism), Wahid Mahmud (Reality as a Plurality), Al-Jili (the idea of the Perfect Man) and Mujaddid Sarhindi (the human person in relation to the Divine Person). As a matter of fact, I did so explain myself in my Hindustani Introduction to the first edition of the Asrar. I claim that the philosophy of the Asrar is a direct development out of the experience and speculation of old Muslim Sufis and thinkers. Even Bergson's idea of time is not quite foreign to Sufis. The Quran is certainly not a book of metaphysics, but it takes a definite view of the life and destiny of man, which must eventually rest on propositions of a metaphysical import. A statement by a modern Muslim student of philosophy of such propositions, especially when it is done in the light of religious experience and philosophy invoked by that great book, is not putting new wine in old bottles. It is only a restatement of the old in the light of the new. It is unfortunate that the history of Muslim thought is so little known in the West. I wish I had time to write an extensive book on the subject to show to the Western student of philosophy how philosophic thinking makes the whole world kin. Yours sincerely Muhammad Iqbal ڈاکٹر شیخ محمد اقبال آبِ حیات کے دَورِ حاضر کا جرعۂ تیز وحید احمد مسعود بدایونی اقبال کے کلام سے یقینا ہر کس و ناکس آشنا ہے اس لئے ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ عام تذکرہ نویسوں کے تتبع میں لکھیں ’’اقبال تخلص، شیخ محمد اقبال نام‘‘ لاہور اگرچہ آپ کا مولد ہے مگر بجائے اس کے کہ پنجاب جیسی تنگ جگہ میں آپ اپنے آپ کو محدود کریں، عالی ہمتی یہ ہے کہ سارے جہان کو اپنا وطن بتاتے ہیں۔ جب آپ اِس عالمِ فانی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے تو مبدأ فیاض نے طبعِ موزوں، فکرِ رسا، علوِ تخیل، درد اور اثر زادِ راہ کے طور پر آپ کے ساتھ کر دئے۔ مذہب پرست والدین کے بابرکت ہاتھوں نے وہ تمام جوہر جو ایک مسلمان کے لئے ضروری ہیں آپ کو گھٹی میں ڈال کر پلائے اور مشرق و مغرب کے علوم نے آپ پر عقل کے دروازے کھول دئے چنانچہ آپ ایک زبردست شاعر بھی ہیں اور لاثانی ڈاکٹر بھی۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سب سے پہلے کسی جنگ میں بطور مالِ غنیمت کے زریں و نقرئی، سیاہ و سرخ، چھوٹے اور بڑے حروف آپ کے ہاتھ آئے تھے اور اُسی وقت سے یہ شوق ترقی کر گیا۔ اس نامعلوم جنگ کی جب تحقیق کی گئی جس میں یہ مالِ غنیمت ہاتھ لگا تو ایک عجیب واقعہ معلوم ہوا۔ یعنی یہ کہ انگریزوں اور اتحادیوں سے بہت پہلے جناب ڈاکٹر صاحب نے جرمنی کو فتح کر لیا تھا۔ اور اس فتح کی غیرفانی یادگار جو جرمن یونیورسٹیوں میں قائم کی گئی تھی باوجودیکہ اتحادیوں نے جرمنی کو تاخت و تاراج کر دیا ہے، اب بھی باقی اور قائم ہے۔ جہاں آپ ’’مرثیہ گو شاعر‘‘ اور ’’نوحہ خواں فلسفی‘‘ ہیں وہاں نہایت تعجب ہے کہ آپ ایک ’’بلیغ نکتہ سنج‘‘ اور ’’نغزگو ظریف‘‘ بھی ہیں۔ جب ڈاکٹری آمیز شاعری سے یا شاعری آمیز ڈاکٹری سے جی بھر جاتا ہے تو کبھی کبھی فکاہات سے جی بہلا لیتے ہیں۔ لیکن ہمیں معاف کیا جائے کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کے رونے میں جتنا لطف آتا ہے (مسکرانا تو اور بات ہے) کِھل کِھلا کر ہنسنے میں اتنا لطف نہیں آتا۔ بذلہ سنجی کے سلسلہ ہی میں ہمیں بہ صیغۂ راز یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جب سکوتِ فلسفہ و بُکا سے شاعری کا وقت نہ ہو تو موقع پر آپ ’’حاضر جواب منطق‘‘ سے بھی خوب کام لے سکتے ہیں، ولایت میں ایک ناکتخدا میم صاحبہ، مذہبِ عیسوی آپ کے سامنے پیش کیا کرتی تھیں اور نئے نئے پیرایہ سے تبلیغ و تلقین کی خدمات بجا لاتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتداً تو اس مبحث سے ’’پہلو تہی‘‘ کی لیکن جب میم صاحبہ نے زیادہ چھیڑا تو ڈاکٹر صاحب کو اُنہیں نہایت سنجیدگی سے سمجھانا پڑا کہ ’’دینِ عیسوی نجات کے لئے چاہے کافی ہو یا نہو لیکن اُس متاہل زندگی کے لئے (جس کے متمنی یورپ کے جوان مرد و زن عموماً اور مس صاحبہ خصوصاً رہتی تھیں) کسی طرح رہنما اور قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت مسیح جنہیں دو پشت سے شادی کا مطلق تجربہ نہ تھا کسی طرح اِس بارے میں رہنمائی نہیں کر سکتے‘‘ سنا ہے کہ یہی لطیفہ مذہبِ عیسوی کی طرف سے مس صاحبہ کی بددلی کا دیباچہ ثابت ہوا۔ نہ آپ میر تقی میر مرحوم کی طرح مطلقاً نازک مزاج ہیں اور نہ سودا کی طرح بالکل آتش مزاج۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں کے امتزاج سے ایک نیا مرکب تیار کیا ہے جس کی وجہ سے آپ کبھی کبھی اللہ میاں سے بھی شکوہ کر دیا کرتے ہیں۔ یہ ’’تابِ سخن‘‘ غالباً مرزا غالب کی گرم گفتاری سے ماخوذ ہے۔ مرزا صاحب بھی مناجات کے اثنأ میں الحاح و زاری کرتے کرتے بھڑک اُٹھتے ہیں کہ دل از غصہ خوں شد نہفتن چہ سود چو ناگفتہ دانی بگفتن چہ سود اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے ولایت میں جا کر جادو بھی سیکھا ہے۔ ہم اس کے قائل نہیں کہ اُنہیں جادو آتا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور اِس اعتبار سے جادوگر نہیں ہو سکتے لیکن وہ کمال جس پر لوگوں کو جادو کا شبہ ہوتا ہے انہوں نے ولایت میں جا کر نہیں سیکھا ہے بلکہ ولایت جانے سے پہلے یہیں سیکھ چکے تھے۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر وہ کمال جس پر جادُو کا دھوکہ ہوتا ہے انہوں نے ولایت میں سیکھا ہوتا تو وہ اپنی مثنویاں فارسی کے بجائے انگریزی [میں] لکھتے۔ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ اقبال نے شاعری کا اشتہار دینے کے لیے ڈاکٹری حاصل کی اور دوسرا فریق اس کے برعکس کہتا ہے کہ ڈاکٹری کو ہردلعزیز بنانے کے لئے شاعری اختیار کی ہے۔ ہم آخرالذکر فریق کے ہم زبان ہیں۔ اقبال کا مذہب اِسلام ہے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیںاور دُنیا انہیں مسلمان جانتی ہے مگر ’’تذکرہ‘‘ کا دیباچہ نگار خواہ مخواہ شبہ پیدا کرتا ہے: ڈاکٹر اقبال کے مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے اُس کے مقابلے میں اب اُن کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی فی الحقیقت الہلال کی صدائے بازگشت ہیں۔ ہم نے بہت غور کیا اور تجسس بھی مگر معلوم نہ ہوا کہ پچھلے حال سے کیا مراد ہے؟ کیا اقبال کسی زمانے میں اعلانیہ لامذہب، آریہ یا عیسائی رہ چکے ہیں؟ اِس کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اُن کی نشو و نما بطور مسلمان کے ہوئی جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں۔ از پدر تا نامِ تو آموختم آتشِ ایں آرزو افروختم اور اب تو تذکرہ کا دیباچہ نگار بھی (چاہے الہلال ہی کے اثر سے ہوں) اُن کے مسلمان ہونے کا قائل ہے۔ اِس درمیانی خلأ میں بھی وہ مسلمان ہی رہے ہوں گے۔ رہیں اُن کی لغزشیں تو ایسا کون ہے جس کا پاؤں کبھی کبھی پھسلا نہ ہو۔ برسات کے طوفان میں نہ سہی، گرمی جاڑے کے خشک موسم میں پھسلا ہو گا۔ فرق اِتنا ہے کہ ہم اور آپ اپنے عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں اور اقبال اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔ ہیچ کس بے دامنِ تر نیست اما دیگراں باز می پوشند و ما در آفتاب افگندہ ایم تذکرہ کے دیباچہ نگار کا دُوسرا فقرہ بھی مغالطہ دہ ہے۔ مثنویوں میں اقبال نے ایک حرف بھی زائد نہیں لکھا ہے۔ وہی ’شمع و شاعر‘ اور ’ترانہ‘ والا مضمون ہے اور دونوں نظمیں الہلال کے وجود سے بہت ہی پیشتر کی ہیں۔ اقبال کی شاعری و حکمت کے متعلق ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب مغربی تعلیم کا ثمرہ ہے۔ لیکن ہم کیا اور ہمارا سمجھنا کیا۔ ہم تو وہی سمجھتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں۔ ہم پڑھتے وہی ہیں جو لندن والے لکھتے ہیں۔ لندن والے بند بند اَلفاظ میں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف نے ہمارے یہاں سے سرقہ کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ لندن والے کس قدر صحیح کہتے ہیں۔ جھوٹ کا تو شبہہ نہیں کیا جا سکتا مگر ان کی ’’حکمتِ عملی‘‘ حقانیت کو نیچا ضرور دکھا دیتی ہے۔ وہ ہر بڑی شخصیت کے اجداد کا نام اپنے شجرے میں شامل کر کے کوئی نہ کوئی رشتہ پیدا کر ہی لیتے ہیں اور پھر منوا بھی لیتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ ایمڈن جہاز کے کارناموں نے جب حیران کر دیا تو اس کے جرمن کپتان کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ اس کپتان کا تعلق کئی پشت پہلے کسی انگریزی خاندان سے تھا۔ لندن والوں نے کس کس طرح اقبال کو اپنا بنانا چاہا ہے اس کی تفصیل کے لیے اگر انگریزی اخبار و رسائل دسترس میں نہ ہوں تو معارف میں ان مضامین کا ترجمہ ملاحظہ فرما لیجیے۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ اقبال اگر اپنی مثنوی کے چند اَشعار نکال دے تاکہ چند خشک دماغ والے فضول بحث نہ کر سکیں تو اُس کو نوبل پرائز عطا کر دیا جائے گا۔ یہ وہی شریفانہ انعام ہے جو ٹیگور کو مل چکا ہے۔ اور جس کو حاصل کرنے کے بعد ٹیگور اِتنے بڑے آدمی ہوئے ہیں۔ اور اقبال محض ایک مثنوی کا انگریزی میں ترجمہ ہو جانے کے بعد اِتنی بڑی شخصیت سمجھا گیا ہے کہ نوبل پرائز ہاتھ باندھے ہوئے پیچھے پیچھے پھرتا ہے کہ خدارا مجھے قبول کر لیا جائے۔ یورپ کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ اقبال مسلمان ہے اور مسلمان یورپ کے عیسائیوں کی طرح اپنے مذہب سے لاپرواہ نہیں ہوا کرتے تو ممکن ہے کہ یورپ صحیح طور پر سمجھے کہ اقبال کون ہے۔ اُس سے پہلے جس طرح بھی سمجھے گا غلط سمجھے گا۔ اور چونکہ ہم یورپ کی جاوبیجا تقلید کرنے کے عادی ہیں اس لیے ہم بھی اقبال کا مفہوم نہ سمجھ سکیں گے۔ تقلید کے متعلق اقبال نے بھی آنسو بہائے ہیں ملاحظہ ہو۔ عقلِ تو زنجیریٔ افکارِ غیر در گلوئے تو نفس از تارِ غیر بر زبانت گفتگوہا مستعار در دلِ تو آرزوہا مستعار بادہ می گیری بجام از دیگراں جام ہم گیری بوام از دیگراں لَستَ مِنّی گویدت مولائے ما وائے ما اے وائے ما اے وائے ما یورپ کو اقبال کے خیالات کا سلسلہ نہیں معلوم اِس وجہ سے اور بھی اقبال کا مفہوم یورپ کی سمجھ میں نہیں آتا۔ عام غلطی یہ ہے کہ ’نیا شوالہ‘ آخری نظم سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ ڈاکٹری آمیز شاعری کے سلسلہ کی پہلی کڑی ہے اور اِس نظم کے بعد اِصلاحِ قوم کا جو راستہ اُنہوں نے اختیار کیا وہ مستقل ہے اور اَب تک قائم ہے۔ جان بُل کا یہ خیال کہ ’’ان کا ماخذ ہندو مذہب نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے؛‘‘ ثبوت ہے کہ وہ اقبال کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا ’’کچھ اور ہی ہے‘‘ سے مدعا صاف طور پر انگلستان یا عیسائیت ہے۔ مگر اس وجہ سے کہ کہیں جرمنی سے پھر جنگ نہ چھڑ جائے تردید کے طور پر کہتا ہے کہ ’’اقبال کی تعلیم کی تکمیل یورپ میں ہوئی۔ ان کے پاس اعلیٰ ڈگریاں کیمبرج اور میونخ یونیورسٹیوں کی ہیں۔ فلسفہ مغرب کے عالم ہیں۔ اپنے دوسرے معاصرین کی طرح وہ بھی نٹشے سے متاثر ہوئے ہیں۔ نٹشے نے جو فوق الانسان کا ناصاف تخیل پیش کیا ہے اس کی رہنمائی میں اقبال بھی منازلِ حیات طے کرنا چاہتے ہیں اور ایک مردِ میدان کا انتظار کرتے ہیں۔ نٹشے امارتِ نسلی کا قائل ہے اور خدا کا منکر۔ اقبال وجودِ باری کے قائل ہیں اور نسل یا نسب کے منکر۔ اس اختلاف کے بعد اقبال اور نٹشے میں کوئی فرق نہیں رہتا گویا اقبال نے قرآن شریف اور نٹشے میں تطبیق دے کر اور نٹشے کو محض ہستیٔ باری کا قایل بنا کر یہ نتیجہ نکالا ہے۔‘‘ (رسالہ معارف)۔ نٹشے اور اقبال کے اِس معمولی سے اختلاف کی مثال میں اِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ بابر نے ہندوستان بزورِ شمشیر فتح کیا اور انگریز نے ہندوستان پر بذریعہ تجارت تسلط جمایا۔ اِس اختلاف کے بعد بابر اور انگریز دونوں کے فاتحِ ہندوستان ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ جرمنی کا فلاسفر نٹشے مسئلہ ارتقا کو تسلیم کر کے کسی جگہ آرام نہیں لینا چاہتا۔ یہاں تک کہ کمال کی بھی حد مقرر نہیں کرنی چاہتا۔ بلکہ کمال کا بھی سلسلہ لامتناہی فرض کر کے ’’فوق الانسان‘‘ پیدا کرتا ہے۔ اور بلبلِ ہندوستان اقبال ’’انسانِ کامل‘‘ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصدِ حیات اور نمونۂ زندگی سمجھتا ہے۔ یہی بات درحقیقت مندرجہ بالا سطور میں جان بُل نے لکھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح فوق الانسان نٹشے کی ایجاد ہے کیا اسی طرح ’’انسانِ کامل‘‘ بھی نعوذ باللہ من ذالک حضرت اقبال کی ایجاد ہے؟ یا خدائے واحد کی قدرتِ کاملہ کا بہترین کرشمہ ہے؟ جس کو نٹشے بھی اُس زمانے کا فوق الانسان تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ جان بُل کے قول کے مطابق اقبال اپنے آپ کو موجود کہلوانے کا خیال بھی کریں تو نواب سے لے کر دن بھر مزدوری کرنے والے تک ہر مسلمان کو حق ہے کہ جس طرح اس کا جی چاہے اُن سے جواب طلب کرے۔ نٹشے کے تخیل کو ناصاف بتانے کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اُس نے حضرت عیسیٰ کو کسی زمانے کا بھی فوقُ الانسان تسلیم نہیں کیا ہے۔ بہرحال اس کے متعلق جب اقبال سے عرض کیا گیا کہ آپ نے سنا بھی کہ یورپ آپ کے خیالات و عقائد کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے تو بے اختیار رو پڑا اور حضورِ نبوی میں فریاد گذرانی کہ داستانے گفتم از یارانِ نجد نگہتے آوردم از بستانِ عجم گفت بر ما بند و افسونِ فرنگ ہست غوغایش زقانونِ فرنگ گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بہ حرفم غیرِ قرآں مضمر است پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را زخارم پاک کن روزِ محشر خوار و رُسوا کُن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کُن مرا غرض اقبال کی شاعری کا ہر ایک دل پر سکّہ بیٹھا ہوا ہے بلکہ اس سکہ کا غیر سکّوں سے ایک بڑی قیمت پر تبادلہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے خیال پڑتا ہے کہ زبان کے متعلق اُردوئے معلی اور مخزن میں اکثر بحثیں ہوئی ہیں اور ان میں تعصب سے شاید دل کھول کر کام لیا گیا ہے۔ اقبال کی زبان اگر ٹکسالی نہ ہو تو اثر کے لحاظ سے ’’مکمل‘‘ ضرور ہے۔ شروع کے کلام میں اکثر نامانوس ترکیبیں عیب جُو نگاہ کو مل سکتی ہیںیا ایک آدھ جگہ تذکیر و تانیث کا جھگڑا پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن زمانہ ما بعد کے کلام میں اِس قسم کا سُقم بھی نہیں اور نہ یہ باتیں اِس قابل ہیں کہ قابلِ گرفت سمجھی جائیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ باوجود دہلوی یا لکھنوی نہ ہونے کے یا صاف صاف کہا جائے تو باوجود پنجابی ہونے کے اقبال اس قدر دلآویز، صاف اور منجھی ہوئی زبان کس طرح لکھتا ہے۔ اُردو سے گذر کر فارسی کو شائد اِس لئے اختیار کیا ہے کہ اس میں الٓہیات و فلسفہ کے مسائل ادا کرنے کی قابلیت ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بھی مقصد ہو سکتا ہے کہ ہندوستان سے باہر دوسرے اِسلامی ممالک میں بھی اس کے خیالات کی نشر و اِشاعت ہو سکے۔ اُردو کے شعرا فارسی میں لکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے چہ جائیکہ کمال حاصل کرنا۔ جس طرح یہ حیرت ہوتی ہے کہ پنجاب میں بیٹھ کر دہلی اور لکھنؤ کی زبان کہاں سے پائی اُسی طرح یہ حیرت بھی ہوتی ہے کہ ہندوستان میں رہ کر طہران و اصفہان کی زبان کہاں سے اُڑائی۔ یہ بات چونکہ محیر العقول ہے اِسی وجہ سے شبہ کیا جاتا ہے کہ اقبال شاعر و ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ساحر بھی ہے مگر جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں یہ غلط ہے۔ بلکہ یہ اثر ہے قبولیتِ دعا کا کہ:- میں بلبلِ نالاں ہوں اِک اُجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے نقیب، اگست-ستمبر ۱۹۲۲ء [ماخذ: ڈاکٹر تحسین فراقی (۱۹۹۲)، ص۹۳-۸۳] حاشیے نوٹ: مکاتیبِ اقبال کے حوالوں کا اندراج حواشی میں علیحدہ سے نہیں کیا گیا کیونکہ وہ تمام مظفر حسین برنی کی کلیات مکاتیب اقبالمیں تاریخی ترتیب میں با آسانی دستیاب ہیں۔ صرف جہاں کسی مکتوب کا ماخذ کوئی اور ہے اُس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ باب۱: خودی کا نشیمن ۱۔ یہ فہرست کچھ یوں ہے: ۱ امام شافعی می گویند ’’الوقت سیف‘‘ ۲ ابو الوقت نہ ابن الوقت ۳ محاسبۂ نقدِ ایام کردن ضرور است ۴ پیرہا پیر از بیاضِ مو شدند سخر ہائے کودکانِ کو شدند ۵ دشمن حقیقت میں دوست ہے کیونکہ دشمن کی موجودگی سے قوت انسانی کے ممکنات ظہور میں آتے اور فروغ پاتے ہیں ۶ سجادہ نشینان و صوفیان دکاندار ۷ حقیقت لا الٰہ الااللّٰہ لاconfrontation = ۸ حق پرستی۔ خودپرستی ۹ بوتراب و یَداللّٰہ ۱۰ نصیحت شیخ احمد بدری با پسر خویش ۱۱ مسئلۂ نفی خودی از اختراعات اقوام مغلوبہ است اگلے صفحے پر کسی وقت کچھ لکیریں کھینچیں گئیں۔ کسی جلی قلم سے خطِ شکستہ میں بعض الفاظ لکھے: درس ورطہ، محمد، لوح۔ ۲۔ اپنے آپ سے خطاب، حقیقتِ خودی اور استحکامِ خودی وغیرہ کو نئی فہرست میں شامل کیا۔ وہ نکتہ بھی شامل کیا کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ ۳۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، وسیمہ مبارک کی متعدد روایات سے یہ بیان ترتیب دیا گیا ہے۔ ۴۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۰۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ ۵۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، وسیمہ مبارک کی متعدد روایات سے یہ بیان ترتیب دیا گیا ہے۔ ۶۔ یہ فہرست کچھ یوں ہے: ۱ تمہید ۲ حقیقتِ خودی ۳ احساسِ خودی در آرزوست ۴ حکایت در معنی ایں کہ مسئلہ نفی خودی الخ ۵ مدارجِ کمال انسانی اول اشتری دوم اشتربانی سوم جہاں بانی (خصائص مردِ خودآگاہ) ۶ در شرح اسرارِ علی مرتضیٰ ۷ حکایت نوجوان ہرات کہ پیش اخوندِ سوات رفت ۸ مقصد حیات مسلم ۹ حکایت در معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوص ملیہ است ۱۰ الوقت سیف ۱۱ دعا ۷۔ ’اَسرارِ خودی‘ کی جدت و ندرت کا دعویٰ اقبال نے خود تمہید میں کیا ہے جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ کتابت (منسوخ) میں ترمیم کرتے ہوئے جو تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر جون ۱۹۱۵ء کے واقعات میں ہے۔ ۸۔ مکتوب بنام شاد، ۲۳ جنوری ۱۹۱۴ئ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پرعمل درآمد نہ ہو سکا۔ ۹۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۹۸-۹۷ ۱۰۔ اقبال ریویو(حیدرآباد دکن) اپریل جون ۱۹۸۴، ص۳۔ یہ بات کہ کتاب طبعزاد نہیں بلکہ ترجمہ تھی، کتاب کے دیباچے سے ظاہر ہوتی ہے جو بشیر احمد ڈار (۱۹۶۷) میں نقل ہوا ہے۔ ۱۱۔ تیسری بیاض میں قطعہ درج ہے اور بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۱۲۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۱۳۔ بیاض اسرار خودی۔ یہاں صرف چند فارسی اشعار کا صرف ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ۱۴۔ اولین نقش جو بیاض میں درج ہے، اُس میں کانٹ چھانٹ بہت کم ہے البتہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل اشعار کی تعداد تیرہ تھی جو صفحے کے بیچ میں درج ہوئے اور بقیہ اشعار اضافوں کی صورت میں اردگرد لکھے گئے۔ ۱۵۔ پانچ اشعار کا قطعہ تیسری بیاض میں درج ہے۔ پہلا مصرع ہے: دلیلِ مہر و وفا اِس سے بڑھ کے کیا ہو گی۔ زمانہ معلوم نہیں۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۱۶۔ تیسری بیاض میں ’’دلیلِ مہر و وفا۔۔۔‘‘ والے قطعے کے نیچے درج ہے۔ متروک ہے۔ ۱۷۔ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق۔ بعد میں تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر جون ۱۹۱۵ء کے واقعات میں ہے۔ ۱۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء ۱۹۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۲۰۔ یہ متروک قطعہ تیسری بیاض میں درج ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۲۱۔ ان میں سے ایک شعر جس کا مطلب تھا، ’’کوہِ طور آپ کے گھر کی دھول کی ایک موج ہے کہ آپ کا گھر خانۂ کعبہ کے لیے طواف کرنے کا مقام ہے،‘‘ مسودے میں حضرت علی کی شان میں لکھے جانے والے باب میں اور کتابت کے بعد ہونے والی ترمیمات میں بالآخر عشق و محبت والے نعتیہ باب میں شامل ہوا۔ ۲۲۔ بیاض اسرار خودی۔ اگلی سطور میں مسودہ اسرار خودی سے ایک اقتباس کا صرف ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ۲۳۔ تیسری بیاض میں درج ہے اور بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ میں نے اندازے سے اور تسلسلِ بیاں کے لیے یہاں رکھا ہے۔ ۲۴۔ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق۔ بعد میں تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر جون ۱۹۱۵ء کے واقعات میں ہے۔ ۲۵۔ تیسری بیاض کا ایک متروک قطعہ۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۲۶۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ بانگ درا کے ’ظریفانہ‘ حصے میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۲۷۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ کتابت (منسوخ) میں ترمیم کرتے ہوئے جو تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر جون ۱۹۱۵ء کے واقعات میں ہے۔ ۲۸۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ کتابت (منسوخ) میں ترمیم کرتے ہوئے جو تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر جون ۱۹۱۵ء کے واقعات میں ہے۔ ۲۹۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۳۰۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ حتمی متن میں بھی اشعار کی صورت یہی رہی۔ ۳۱۔ یہ ترجمہ مسودے اور کتابت (منسوخ) کے مطابق ہے۔ اصل فارسی اشعار یوں ہیں: صورت منصور اگر خودبیں شوی ہمچو حق بالاتر از آئیں شوی سوز مضموں دفتر منصور سوخت جلوہ رقصید و متاع طور سوخت رفت از تن روح گردوں تاز او از اجل بیگانہ ماند آوازِ او نعرہ اش در لب چو گویائی ندید سربروں از قطرۂ خونش کشید خویش را دریاب از ایجاب خویش سیم شو از بستن سیماب خویش نغمۂ پیدا کن از تار خودی آشکارا ساز اَسرارِ خودی ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے اڈیشن (۱۹۱۵) میں بھی یہ اَشعار شامل تھے۔ دوسرے اڈیشن (۱۹۱۸) میں ان میں سے پہلے چار شعر جو منصور کے بارے میں تھے، وہ نکالے گئے۔ گویا اقبال ’اسرارِ خودی‘ کی اشاعت تک منصور حلاج کو خودی کی علامت ہی سمجھتے تھے اور بعد کی تصانیف میں بھی اسی طرح پیش کیا۔ صرف ۱۹۱۶ء اور ۱۹۱۷ء میں تاریخِ تصوف لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے تھوڑی مدت کے لیے برگشتہ ہوئے (میں نے اس کا تجزیہ اُس عرصے کے واقعات میں پیش کیا ہے)۔ ۳۲۔ مکتوب بنام شیخ عبدالعزیز (انگریزی) ۲۱ فروری ۱۹۱۴ء ۳۳۔ مکتوب بنام شیخ عبدالعزیز (انگریزی) ۲۱فروری ۱۹۱۴ء ۳۴۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۵۴ اور ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۳۵۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۳۶۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۳۷۔ یہ محفل ۱۱ مئی کو منعقد ہوئی۔Andrew Mango (1999) ۳۸۔ مولانا شوکت علی کے نام مکتوب۔ تاریخ معلوم نہیں مگر ۱۹۱۴ء کا معلوم ہوتا ہے۔ ۳۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۷ مارچ ۱۹۱۴ء ۴۰۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ متروک ہے۔ ۴۱۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ بانگ درا کے ’ظریفانہ‘ حصے میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۴۲۔ یہ ترجمہ مسودے اور منسوخ کتابت کے مطابق ہے۔ ۴۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۷ مارچ ۱۹۱۴ء ۴۴۔ بیاض کے مطابق ۔ ۴۵۔ چار اشعار کا قطعہ تیسری بیاض میں درج ہے۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۴۶۔ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۴۷۔ تیسری بیاض میں درج ہے اور بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ بیاض میں دوسرا شعر قلمزد کے موجودہ صورت دی گئی ہے۔ ۴۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵) ۴۹۔ ڈاکٹر حسن اختر ملک (۱۹۸۸)، ص۱۲۸، ۱۳۰۔ ان کے ماخذ پنجاب گزٹ کے مختلف شمارے ہیں۔ ۵۰۔ امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص۱۴۰ پر غلام رسول کا بیان بحوالہ مجلہ اقبال، بزمِ اقبال اکتوبر ۱۹۵۳ئ، ص۶۵۔ غلام رسول مہر نے اسے ’اسرارِ خودی‘ کی اشاعت سے چند ماہ پیشتر کا جلسہ بتایا ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ ۱۹۱۵ء کے سالانہ جلسے میں اقبال شریک نہ ہوئے تھے۔ ۵۱۔ غلام رسول مہر (مطالب بانگ درا، ص۲۲۹) کا بیان ہے کہ ’خطاب بہ نوجوانان اسلام‘ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ۱۹۱۴ء میں بعض متفرق چیزوں کے ساتھ پڑھی گئی۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵) لکھتے ہیں کہ ’اسرار خودی‘ کے اشعار اور خودی کے فلسفے کی وضاحت بھی ہوئی۔ یہ قرین قیاس ہے کیونکہ پچھلے برس بھی مثنوی کے اشعار سنائے تھے لیکن سالک کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ اس برس جلسے میں اقبال، گرامی اور نواب ذوالفقار علی خان اکٹھے داخل ہوئے کیونکہ اقبال کے خطوط سے یہی لگتا ہے کہ ۱۹۱۴ء کے اوائل میں گرامی لاہور نہیں آ سکے تھے۔ دیگر تفصیلات اکبری اقبالکے متن کے بعض حصوں سے لی گئی ہیں جو رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵) میں شامل ہیں، ص۴۵۳-۴۳۹ ۵۲۔ تیسری بیاض میں ’مشرق و مغرب‘ کے عنوان سے درج ہے۔ بانگ درا کے ’ظریفانہ‘ حصے میں عنوان کے بغیر شامل ہے۔ ۵۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۲ اپریل ۱۹۱۴ء ۵۴۔ اس کا حوالہ مخزن اگست ۱۹۱۴ء میں مرزا سلطان احمد کے مضمون ’حضرت اقبال کا طرزِ جدید‘ میں موجود ہے۔ ۵۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۴۳۹-۴۳۷ ۵۶۔ اس ٹکڑے کا موازنہ جاویدنامہ (۱۹۳۲) کے ’فلکِ مریخ‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ ۵۷۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲ئ)، ص۲۸۱-۲۷۹۔ فوق کے شاگرد سے مراد محمد عبداللہ قریشی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں یہ روایت بیان کی ہے۔ ۵۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۶ جون ۱۹۱۴ء ۵۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۲۸۔ وسیمہ مبارک کی روایت ہے۔ ۶۰۔ مالدہ آم والی بات شیخ عطا محمد کے نام خط ۱۹۲۲ء میں اقبال نے خود لکھی ہے۔ ۶۱۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۱۷۷-۱۷۶ ۶۲۔ خط کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے: لاہور ۷ جون ۱۹۱۴ء مائی ڈئر فرالائن ویگے ناست کچھ عرصہ ہوا مجھے آپ کا خط ملا تھا جسے پا کر مجھے بیحد خوشی ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے بیماری کی وجہ سے میں اس سے پہلے اس کا جواب نہیں دے سکا۔ افسوس ہے کہ میں آپ کی خوبصورت جرمن زبان میں خط نہیں لکھ سکتا ہوں جو مجھے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب میں بھول چکا ہوں سوائے اس کے کہ میں اپنے جرمن احباب کے خطوط پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں۔ چند روز ہوئے میں ہائنے کو پڑھ رہا تھا اور مجھے وہ خوشگوار دن یاد آگئے جب ہائیڈلبرگ میں محترمہ پروفیسر صاحبہ کے یہاں ہم دونوں اس کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ وہ کیا اچھی خاتون تھیں! امید ہے کہ خیریت سے ہوں گی۔ اگر ان سے کہیں ملاقات ہو تو میرا سلام کہئے گا۔ مجھے یہ جاننے کا بڑا اشتیاق ہے کہ آپ ان دنوں کیا کر رہی ہیں اور آپ کے ارادے کیا ہیں (اگر کچھ ہیں تو)۔ ہو سکتا ہے کہ میں اگلے سال یورپ آؤں لیکن یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر میں واقعی یورپ آیا تو ضرور جرمنی کا بھی پھر سفر کروں گا اور آپ سے دوبارہ ملنے ہائیڈلبرگ یا ہائیل برون آؤں گا جہاں سے ہم دونوں ایک ساتھ اس عظیم فنکار گوئٹے کے مقدس مزار کی زیارت کو جائیں گے۔ مجھے آپ کے بھائی اور بہنوں سے ملنے کا شرف تو حاصل نہیں ہوا تھا مگر اُن سے میرا سلام ضرور کہئے گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۶۳۔ تیسری بیاض میں نظم پر ۲۸ جون ۱۹۱۴ء کی تاریخ درج ہے۔ بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ ۶۴۔ یہ تمام فارسی اشعار وہ ہیں جن کی اُس زمانے یعنی آیندہ چند برس میں اقبال نے تضمین کی۔ اقبال کی تضمین کی ہوئی نظمیں اپنی اپنی جگہ پر پیش کی جائیں گی۔ ۶۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۵ ستمبر ۱۹۱۴ء ۶۶۔ Mango, Andrew (1999), pp.133-4 ۶۷۔ تیسری بیاض میں نظم پر ۱۹۱۴ء درج ہے۔ نظم بانگ درا حصہ سوم میں ’تہذیب حاضر‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ شعر کا ترجمہ جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا گیا ہے۔ ۶۸۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۲۸۷-۲۸۰ ۶۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۲۴۔ وسیمہ مبارک کی روایت ہے۔ ۷۰۔ تیسری بیاض میں درج ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۷۱۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۱۳۷۔ انہوں نے پروفیسر بھٹی سے سن کر درج کیا۔ ۷۲۔ عبداللہ چغتائی (روایات اقبال)، ص۶۳، پروفیسر محمد دین بھٹی کا بیان ہے۔ ۷۳۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۴۵-۴۴، مولوی سید میر حسن کے لڑکے سید ذکی شاہ کی روایت ہے۔ ۷۴۔ عبداللہ چغتائی(روایاتِ اقبال)، ص۵۷-۵۶، مولوی ظفر اقبال کی روایت ہے۔ ۷۵۔ عبداللہ چغتائی(روایاتِ اقبال)، ص۵۳، مولوی ظفر اقبال کی روایت ہے۔ ۷۶۔ روایت فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴) کی ہے، ص۱۲۸-۱۲۷ ۷۷۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۴۳-۱۴۲ ۷۸۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۱۶۳-۱۶۲ ۷۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۲۴۔ وسیمہ مبارک کی روایت ہے۔ ۸۰۔ بیاض اسرار خودی میں فہرست دوم میں جہاں بانی کے ساتھ قوسین میں ’’خصائص مرد خود آگاہ‘‘ لکھا گیا گویا جہانبانی کرنے والا شخص ’’مردِ خودآگاہ‘‘ ہوتا ہے۔ آگے چل کر اسی بیاض میں ایک باب پر ’تعلی مردِ خود آگاہ‘ کا عنوان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے جہانبانی والے مردِ خود آگاہ کا خطاب بنانے کا ارادہ تھا۔ بعد میں یہ اشعار بابائے صحرائی کے فرضی کردار سے منسوب کیے۔ اُس کردار کا نام پہلی دفعہ فہرست دوم کی کانٹ چھانٹ میں ملتا ہے جو غالباً مثنوی مکمل ہونے سے ذرا پہلے ہوئی (میں نے اس نظر ثانی کو نومبر ۱۹۱۴ء کے واقعات میں رکھا ہے جو محض اندازہ ہے)۔ ۸۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ ستمبر ۱۹۱۴ء ۸۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ ستمبر ۱۹۱۴ء ۸۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ ستمبر ۱۹۱۴ء ۸۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ ستمبر ۱۹۱۴ء اور ۲ اکتوبر ۱۹۱۴ء ۸۵۔ یہ ملاقاتی مولانا عبدالماجد دریابادی ہیں۔ انہی کا بیان ہے کہ دفتر اور گھر کے درمیان سڑک حائل تھی ورنہ محمد علی نے ایک ہی مکان بتایا ہے (سید محمد شاہ قادری [۱۹۹۸] ص۱۵۲) ۸۶۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۳۹۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے، ’’چچا جان [اقبال] بھی اپنی جوانی میں بڑے پکے روزہ دار تھے۔‘‘ ۸۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲ اکتوبر ۱۹۱۴ء ۸۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۴ء ۸۹۔ ملک حسن اختر (۱۸۸۸)، ص۱۰۰-۹۸۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۱۵ئ، ص۷۰۴ ہے۔ ۹۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۴ء ۹۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ نومبر ۱۹۱۴ء ۹۲۔ عید ۲۹ اکتوبر کے لگ بھگ ہوئی۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ نومبر ۱۹۱۴ء ۹۳۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۵۳ ۹۴۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص۴۵، ص۱۷۹ ۹۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ نومبر ۱۹۱۴ء ۹۶۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۸۶-۸۵ ۹۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء ۹۸۔ ایس ایم اکرام (یادگارِ شبلی)، آخری باب ’وفات‘ ۹۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء ۱۰۰۔ یہ ترجمہ حتمی شکل کے مطابق ہے جو بیاض میں درج اولیں نقش سے زیادہ مختلف نہیں البتہ بیاض میں کچھ اور اشعار اور زائد مصرعے بھی درج ہیں۔ اس حصے میں کانٹ چھانٹ کم ہوئی ہے۔ ۱۰۱۔ گرامی سے لاہور آنے کا تقاضا اس کے بعد خطوط میں ہوتا رہا۔ عزیز لکھنوی کا تذکرہ بھی ایک خط میں ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ ۱۰۲۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۴۶-۴۵، میاں بشیر احمد کا مضمون ’اقبال کی یاد میں‘ ۱۰۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ دسمبر ۱۹۱۴ء ۱۰۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۷ دسمبر ۱۹۱۴ء ۱۰۵۔ دیباچہ بانگ درا ۱۰۶۔ تیسری بیاض میں اس نظم کے متن کے ساتھ ۱۱ دسمبر ۱۹۱۴ء درج ہے۔ ۱۰۷۔ تیسری بیاض میں اس پر ’’۱۳ دسمبر ۱۹۱۴ء شام مکان نواب ذوالفقار علی خاں صاحب‘‘ درج ہے۔ پانچویں اور چھٹے شعروں میں ترمیم کے بعد موجودہ صورت برآمد ہوئی ہے، مثلاً چھٹا شعر پہلے یوں لکھا گیا ہے: نہ ہو محفل میں حس باقی تو لطف نغمہ ریزی کیا گراں ظلمت پرستوں پر ہے سورج کی جہاں تابی ۱۰۸۔ ۱۶ دسمبر والا مکتوب دستیاب نہیں ہے۔ اس کا ذکر مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی ۱۷ دسمبر ۱۹۱۴ میں ہے۔ ۱۰۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۷ دسمبر ۱۹۱۴ء ۱۱۰۔تیسری بیاض میں نظم پر ۱۸ دسمبر ۱۴ء کی تاریخ درج ہے۔ بانگ درا میں دوسرا بند ’قربِ سلطاں‘ کے عنوان سے علیحدہ نظم بنا۔ ۱۱۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ء ۱۱۲۔ تیسری بیاض میں اس پر دسمبر ۱۹۱۴ء سیالکوٹ درج ہے۔ اقبال کرسمس کی چھٹیوں پر سیالکوٹ گئے تھے۔ واپسی پر ۲۸ دسمبر کو کشن پرشاد کے نام خط میں اقبال نے یہ غزل اُن کے رسالے تزکِ عثمانیہکے لیے بھیجی۔ پیام مشرق میں ترامیم کے ساتھ شامل ہوئی۔ ۱۱۳۔ تیسری بیاض میں یہ اُس غزل کے نیچے لکھی گئی جس پر ’’دسمبر ۱۹۱۴ء سیالکوٹ‘‘ درج ہے۔ اسی موقع پر کہی گئی ہو گی۔ گرامی کو ۱۸ جنوری ۱۹۱۵ء کے خط میں لکھ بھیجی۔ تیسرے شعر کی تنسیخ، مقطع سے پہلے ایک شعر کے اضافے اور مقطع کے پہلے مصرعے میں تبدیلی کے ساتھ پیامِ مشرق میں شامل ہوئی۔ ترجمے میں احمد جاوید کے ترجمۂ پیامِ مشرقکو سامنے رکھا گیا ہے۔ ۱۱۴۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۷۹ ۱۱۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ئ۔ ’’شخصی عنصر‘‘ کی وضاحت مکتوب جنوری ۱۹۱۵ء میں۔ ۱۱۶۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۲۹۳ ۱۱۷۔ تیسری بیاض میں ’شبلی و حالی‘ پر ۱۹۱۴ء درج ہے جس کا مطلب ہے کہ حالی کی وفات کی خبر ملنے کے بعد جلد ہی کہی گئی ہو گی۔ بیاض میں اس پر کچھ قطع برید کر کے موجودہ صورت نکالی گئی ہے۔ بانگ درا میں شامل ہے۔ ۱۱۸۔ اختر راہی (۱۹۷۸)، ص۱۹-۱۸۔ انہوں نے مکتوباتِ سلیمان حصہ اول، ص۳۸ سے سلیمان ندوی کے مکتوب ۹ فروری ۱۹۱۵ء کا حوالہ دیا گیا ہے۔ نیز ضمیمہ ۱ میں سید سلیمان ندوی کے وہ شذرات شامل ہیں جو ۱۹۲۷ء میں معارف میں شائع ہوئے، جن میں انہوں نے کہا کہ اقبال سے ان کی مراسلت ۱۹۱۴ء سے شروع ہوئی۔ امکان ہے کہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد دارُ المصنفین کے امور کے سلسلے میں یہ مراسلت شروع ہوئی ہو گی۔ دستیاب خطوط ۱۹۱۶ء سے شروع ہوتے ہیں۔ ۱۱۹۔ اس کا ذکر صرف ۱۹۱۴ء کے دو خطوط میں ہے جو اوپر گزر چکے ہیں یعنی کشن پرشاد کے نام اور اکبرؔالٰہ آبادی کے نام دسمبر ۱۹۱۴ء کا خط۔ ۱۲۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۹ جنوری ۱۹۱۵ء اور بنام گرامی ۲۸ جنوری ۱۹۱۵ء میں سید علی امام کے بارے میں متضاد خبروں کا تذکرہ ہے۔ اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال نے مثنوی کا انتساب اُن کے نام کرنے کا فیصلہ کب کیا مگر میرا اندازہ ہے کہ مثنوی ختم ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کیونکہ بیاض ’اسرارِ خودی‘ میں انتساب یا ڈیڈیکشن کے عنوانات موجود نہیں بلکہ اس کی بجائے تعلی کے کچھ اشعار ہیں جن کے صرف کنارے پر علی امام کے بارے میں ایک شعر لکھ کر طبع آزمائی کی کوشش کی گئی ہے جیسے وہ بعد کا اضافہ ہو۔ ۱۲۱۔ مکتوب بنام گرامی ۲۸ جنوری ۱۹۱۵ء ۱۲۲۔ مکتوب بنام ملا واحدی۔ تاریخ معلوم نہیں مگر اوائل ۱۹۱۵ء کا معلوم ہوتا ہے۔ ۱۲۳۔ میں نے اسے ’بیاض پیامِ سروش‘ کا نام دیا ہے کیونکہ سرورق پر یہی عنوان درج ہے۔ ۱۲۴۔ مکتوب بنام حسن نظامی، ۶ فروری ۱۹۱۵ء ۱۲۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱مارچ ۱۹۱۵ء ۱۲۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۱ فروری ۱۹۱۵ء ۱۲۷۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۸۵-۸۴۔ مصنف نے فضلِ حق صاحب سے سن کر لکھا ہے۔ اس بیان میں فضل حق مزید بتاتے ہیں: ’’پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کمرے میں دو آدمی کسی دقیق مسئلے پر آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ ماموں جان کی آواز تو میں نے پہچان لی لیکن دوسری آواز میرے لیے بالکل اجنبی تھی۔ میں متجسس ہو کر اُٹھا اور ایک دم کمرے میں روشنی کر دی۔ روشنی ہوتے ہی آوازیں بند ہو گئیں۔ ماموں جان اپنے پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے، دھسّا اُن کے گرد لپٹا ہوا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے اپنے حال میں مست تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے انہیں آواز دی اور پوچھا کہ آپ تو اکیلے بیٹھے ہیں لیکن ابھی ابھی تو آپ کسی سے باتیں کر رہے تھے، وہ کون تھے؟ ماموں جان نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں اور میری طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا، ’یہ تمہارے سمجھنے کی بات نہیں، چلو سو جاؤ!‘ اُن کی آواز میں اُس وقت اِس قدر رُعب اور دبدبہ تھا کہ میں جلدی سے روشنی بند کر کے بستر میں گھس گیا اور پھر صبح تک مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔‘‘ ۱۲۸۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۳۱ ۱۲۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۱ فروری ۱۹۱۵ء اور ۱۱ مارچ ۱۹۱۵ء ۱۳۰۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص ۲۶-۲۵ ۱۳۱۔ مسودہ پیام سروش میں کچھ ابواب بڑے اہتمام کے ساتھ خوشخط لکھنے کے بعد اچانک سلسلہ منقطع ہے اور ایک علیحدہ نوٹ بک میں پورا مسودہ خوشخط لکھا ہوا ہے۔ اس سے میں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ پہلا مسودہ (جسے میں نے مسودہ پیام سروش کا نام دیا ہے) کہیں گم ہو گیا یا ترک کر دیا گیا۔ بعد میں اسی کے بقیہ صفحوں کو ’رموزِ بیخودی‘ کی اولین بیاض کے طور پر استعمال کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گم ہوا تو کچھ عرصہ بعد مل بھی گیا۔ البتہ اس میں کہیں میر نجات نقش بند بابائے صحرائی کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ اُس کے اشعار بھی مردِ خود آگاہ کے حصے میں رکھے ہوئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بابائے صحرائی کا کردار اِس بیاض کو ترک کرنے کے بعد اختراع کیا گیا اور پچھلے برس والی بیاض جس میں شروع میں یہ کردار موجود نہیں تھا بعد میں اس کا نام فہرستوں کی قطع برید کرتے ہوئے اُس میں شامل کیا۔ ۱۳۲۔ پیاض’ اسرارِ خودی‘ کی فہرست اول میں بابائے صحرائی کا نام درج نہیں۔ فہرست دوم میں یہ صرف بعد میں کیے جانے والے اضافوں میں ملتا ہے۔ ۱۳۳۔ مدارج ایک خاص اصطلاح تھی جو کسی چیز کی قدرتی نشو و نما کے لیے استعمال ہوتی تھی، مثلاً چاند کا گھٹنا اور بڑھنا اُس کے مدارج سے تعلق رکھتا تھا۔پھر اس لفظ میں ایک چیز کی دوسرے پر فوقیت کا تاثر بھی موجود تھا، مثلاً کوئی چیز کسی نچلے درجے پر ہوتی اور دوسری چیز بلند تر درجے پر سمجھی جاتی۔ اس کے برعکس مراحل میں عموماً اتفاقات اور انسان کے اپنے اختیار کا عنصر شامل ہوتا تھا، مثلاً بچہ جن ادوار سے گزر کر بڑا ہوتا وہ اُس کی تربیت کے مراحل کہلاتے تھے۔ اسی لحاظ سے اس میں فوقیت کا پہلو بھی کم نمایاں ہوتا، مثلاً اچھی تربیت کے ابتدائی مراحل بھی معمولی تربیت کے ترقی یافتہ مراحل سے بہتر ہو سکتے تھے۔ ۱۳۴۔ مسودہ ’اسرارِ خودی‘۔ آٹھویں باب تک عنوانات بیاض کی آخری فہرست کے مطابق ہیں۔ بعد کے عنوانات میں جو تبدیلیاں ہوئیں اُن کا ذکر آگے آئے گا۔ ۱۳۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ مارچ ۱۹۱۵ء ۱۳۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ مارچ ۱۹۱۵ئ۔ برسوں بعد کہے ہوئے بال جبریل کے شعر پر اِس خط کی روشنی میں غور کیا جا سکتا ہے: وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی ۱۳۷۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (۱۹۹۲/۲۰۰۱)۔ اعجاز احمد نے اپنی کتاب (۱۹۸۵)، ص۱۴۸-۱۴۷ میں چودہری ظفراللہ کی زبانی یہ روایت بیان کی ہے کہ ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے لیے کاغذ اقبال کے دوست چودہری شہاب الدین نے پیش کیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے میں کہیں غلطی ہوئی ہے کیونکہ اگر چودہری شہاب الدین سے تحفۃً وصول کیا ہوا کاغذ استعمال کیا جاتا تو قرینِ قیاس تھا کہ کتاب میں کہیں ان کا شکریہ بھی ادا ہوتا۔ اس کے علاوہ اقبال نے چند برس بعد اُردو مجموعے کی اشاعت کے حوالے سے ایک خط میں لکھا ہے کہ بعض دوست اس کے مصارف برداشت کرنے پر تیار ہیں لیکن اقبال کو گوارا نہیں۔ چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ چودہری شہاب الدین نے دیرینہ مراسم اور قومی مفاد کے پیشِ نظر کاغذ کی پیشکش کی ہو مگر اقبال اسے قبول نہ کر سکے ہوں۔ اعجاز احمد کی روایت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ۱۹۲۲ء کے لگ بھگ جب پیام مشرق زیرِ ترتیب تھا، اقبال جھنگ یا لائل پور کے سفر میں چودہری ظفراللہ اور شیخ عبدالقادر کے ہمسفر تھے۔ اشعار سنائے جن میں امیرِ افغانستان کے نام پیشکش کے وہ اشعار شامل تھے جن میں گوئٹے کے ساتھ اپنا موازنہ کر کے اپنی ناقدری کا گلہ کیا ہے۔ اس پر چودہری ظفراللہ نے استدعا کی کہ کتاب کی اشاعتِ اول کے لیے کاغذ پیش کرنے کی سعادت انہیں عطا کی جائے۔ ’’علامہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا تم جاٹوں کو میری شاعری سے کچھ مناسبت معلوم ہوتی ہے۔ ’اسرارِ خودی‘ کے پہلے ایڈیشن کے لیے کاغذ شہاب الدین نے پیش کیا تھا۔ اب پیام مشرق کے پہلے ایڈیشن کے لیے کاغذ تم پیش کر رہے ہو۔‘‘ اس روایت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ چودہری ظفراللہ نے پیام مشرق کے لیے کاغذ کی پیشکش کی، یہ نہیں کہا گیا کہ اقبال نے وہ پیشکش قبول بھی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ورنہ اس کا تذکرہ بھی کیا جاتا۔ ممکن ہے کہ ’’کاغذ شہاب الدین نے پیش کیا تھا‘‘ کہنے سے اقبال کی مراد صرف چودہری شہاب الدین کی پیشکش ہو نہ کہ اپنا قبول کرنا یا پھر انہوں نے یہ بات زیادہ واضح الفاظ میں کہی ہو اور چودہری ظفراللہ یا اعجاز احمد کو سننے میں غلطی لگی ہو۔ ۱۳۸۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۲۶۱ ۱۳۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۶-۲۵ ۱۴۰۔ ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء میں شائع ہونے والی وضاحت ۱۴۱۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۲۶۲-۲۶۱ ۱۴۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۲ اپریل ۱۹۱۵ء ۱۴۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۲ پاریل ۱۹۱۵ء ۱۴۴۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۵۸۔ کتاب ان کی نظر سے گزری ہے۔ ۱۴۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد، ۲۱ مئی ۱۹۱۵ئ۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹکے مختلف شمارے ہیں۔ ۱۴۶۔ مکتوب بنام ضیأالدین برنی۱۷ اپریل ۱۹۱۵ء ۱۴۷۔ مصطفیٰ کمال نے خط میں اس کی تفصیل یوں بیان کی تھی، ’’سچ ہے کہ جرمنوں نے مضبوط قلعے برق رفتاری سے سر کر لیے ہیں اور پیرس کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر روسی کارپایتھینوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جرمنوں کے آسٹروی حلیفوں پر زبردست دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس طرح جرمنوں کو اپنی افواج کا ایک حصہ آسٹرویوں کی مدد کے لیے وقف کرنا پڑے گا۔ یہ دیکھ کر فرانسیسی جوابی حملہ کریں گے اور اور جرمنوں پر دباؤ ڈالیں گے۔ تب جرمنوں کو آسٹریا کے محاذ سے اپنے دستے واپس بلانے پڑیں گے۔ چونکہ کوئی فوج جو جنگ میں اس طرح آگے پیچھے پلٹتی رہے اُس کا انجام برا ہوتا ہے اس لیے مجھے جنگ کے نتائج کے بارے میں کافی شبہ ہے۔‘‘شروع ہی سے اُن کا خیال تھا کہ جنگ طویل ہو گی۔ ۱۴۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ مئی ۱۹۱۵ء ۱۴۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۵ مئی ۱۹۱۵ء ۱۵۰۔ سید محمد شاہ قادری (۱۹۹۸)۔ مولانا محمد علی جوہر کا اپنا مضمون ہے۔ ۱۵۱۔ تیسری بیاض میں درج ہے اور بانگ درا حصہ سوم میں ’بلال‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ پانچ پانچ اشعار کے دو بند ہیں۔ ۱۵۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۱ مئی ۱۹۱۵ء ۱۵۳۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۵۴ اور ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۱۵۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۹ جون ۱۹۱۵ء ۱۵۵۔ مکتوب بنام شاکر صدیقی ۲۲ جون ۱۹۱۵ء میں ذکر ہے کہ مثنوی کی کتابت ہو چکی ہے۔ میں نے فرض کیا ہے کہ یہ وہی کتابت ہے جو ’’منسوخ‘‘ ہوئی۔ چونکہ اس میں بہت سی ترمیمات ہیں جن کی وجہ سے نئی کتابت کی ضرورت پیش آئی لہٰذا یہ ترمیمات ۲۲ جون کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی ہوں گئی کیونکہ ۱۲ ستمبر تک مثنوی نئی کتابت کے ساتھ شائع ہو چکی تھی۔ ۱۵۶۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘ (منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۵۷۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘(منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۵۸۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘ (منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۵۹۔ منسوخ فارسی اشعار یہ تھے: اے بخود پوشیدہ خود را وانما حاصل از صدیق کن صدق و صفا از عمر انصاف و از عثماں حیا جرأت از مولا علی مرتضیٰ ۱۶۰۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘(منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۶۱۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘(منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۶۲۔ یہ ترجمہ کتابت ’اسرار خودی‘ (منسوخ) کے مطابق ہے۔ ۱۶۳۔ یہ تمام تبدیلیاں منسوخ کتابت میں کی گئیں۔ ۱۶۴۔ یہ اشعار منسوخ کتابت میں ص۹۶ پر (’الوقت سیف‘ والے باب میں) کنارے پر اضافہ کر کے کاٹے گئے ہیں۔ عقل ما از بہر اسباب عمل میکند تمیز اسباب و علل ایں فسوں خواں زندگی از ما ربود جام او شانِ جمی از ما ربود گرد و پیش خویش چوں بینیم ما نقل و حرکت را سکوں بینیم ما فطرت عقلش باجزا توام است بحر در آئینہ او شبنم است از حقیقت چشم را بیگانہ ساخت خرمن ما را ہجوم دانہ ساخت در شرر ہا شعلہ را تقسیم کرد جز پرستی ہوش را تعلیم کرد ۱۶۵۔ افلاطون اور حافظ والا باب بیاض اور مسودوں میں نہیں ہے۔ کتابت ’اسرار خودی‘(منسوخ) کے موقع پر اضافہ کیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے اڈیشن میں صرف افلاطون والے اشعار رہنے دیے گئے اور خواجہ حافظ شیرازی والے اشعار نکال دیے گئے۔ وہ اشعار یہ ہیں: ہوشیار از حافظ صہباگسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار رہن ساقی خرقہ پرہیز او می علاج ہول رستاخیز او نیست غیر از بادہ در بازار او از دو جام آشفتہ شد دستار او چوں خراب از بادۂ گلگوں شود مایہ دار حشمت قاروں شود مفتی اقلیم او مینابدوش محتسب ممنون پیر مے فروش طوف ساغر کرد مثل رنگِ مے خواست فغاں از رباب و چنگ و نے در رموز عیش و مستی کاملے از خمے خوں در دلے پا در گلے رفت و شغل ساغر و ساقی گذاشت بزم رندان و مے باقی گذاشت چوں جرس صد نالۂ رُسوا کشید عیش ہم در منزلِ جاناں ندید در محبت پیروِ فرہاد بود بر لب او شعلہ فریاد بود تخم نخل آہ در کہسار کاشت طاقت پیکار با خسرو نداشت مسلم و ایمان او زُناردار رفتہ اندر دینش از مژگان یار آنچناں مست شراب بندگی است خواجہ و محروم ذوق خواجگی است گوسفند است و نوا آموخت است عشوہ و ناز و ادا آموخت است دلربائیہائے او زہر است و بس چشم او غارت گرِ ہنر است و بس ضعف را نامِ توانائی دہد ساز او اقوام را اغوا کند از بز یونان زیں زیرک تر است پردہ عودش حجاب اکبر است نغمہ بنگش دلیل انحطاط ہاتف او جبرئیل انحطاط بگذر از جامش کہ در مینائے خویش چوں مریدان حسن دارد حشیش از تخیل جنتے پیدا کند مر ترا بر نیستی شیدا کند ناوک اندازے کہ تاب از دل برد ناوک او مرگ را شیریں کند مار گلزارے کہ دارد زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب عشق با سحر نگاہش خودکشی است کشتنش مشکل کہ مار خانگی است حافظ جادو بیاں شیرازی است عرفیٔ نشترزباں شیرازی است ایں قتیلِ ہمتِ مردانۂ آں زرمزِ زندگی بیگانۂ بیتِ ایں گر مرز انجم خوشۂ چشم آں از اشک دارد توشۂ روز محشر رحم اگر گوید بگیر عرفیا فردوس و حور آو حریر غیرتِ او خندہ بر حوراں زند پشت پا بر جنت الماویٰ زند بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زندۂ؟ از محبت حافظ گریز ایں فسوں خواں زندگی از ما ربود جامِ او شانِ جمی از ما ربود محفل او درخورِ ابرار نیست ساغر او قابل احرار نیست بے نیاز از محفل حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الحذر اسے لکھنے کے دوران کچھ قطع برید ہوئی۔ مندرجہ بالا اشعار میں سے بہت سے اصل صفحے کے کناروں پر لکھے گئے۔ ’’چوں مریدانِ حسن دارد حشیش‘‘ پہلے ’’ہم چو اسمٰعیلیاں دارد حشیش‘‘ لکھا گیا تھا۔ ’’ایں فسوں خواں‘‘ والا شعر ’الوقت سیف‘ کے کنارے پر اُن اشعار میں درج ہوا تھا جو عقل کے بارے میں تھے اور جن میں سے اکثر ’اصل نظام عالم‘ میں شامل ہوئے۔ ۱۶۶۔ اِن اَشعار کی طرف اقبال کی بڑی بہن طالع بی بی کے پوتے اور بھتیجی وسیمہ مبارک صاحبہ کے شوہر نظیر صوفی نے تصنیف نورِ خودیکے دیباچے میں توجہ دلائی ہے: ’’جنابِ قلندر کے اَشعار کی روشنی میں یہ کہنا حقیقت ہے کہ علامہ مرحوم نے اپنا فلسفۂ خودی مغربی مفکرین سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ صوفیائے اِسلام کی طرح تخلقو با خلاق اللّٰہ کے اِسلامی نظریۂ حیات پرور سے مستفید ہو کر مجوّز کیا تھا۔‘‘ میرا ماخذ نظیر صوفی کے صاحبزادے خالد نظیر صوفی کی تصنیف (۱۹۷۱)، ص۸۹-۸۷ ہے۔ ۱۶۷۔ دیباچہ اُردو ہی میں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دیباچہ ۵ مئی اور ۶ جولائی کے درمیان کسی وقت لکھا گیا۔ زیادہ امکان ہے کہ جون کے اواخر میں لکھا گیا ہو۔ اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ ۵ مئی کو گرامی کے نام خط میں تمہید کے اشعار کو ’دیباچہ‘ کہا جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اُس وقت تک نثر میں دیباچہ لکھنے کا خیال نہ آیا ہو۔ منسوخ کتابت جس کا مکمل ہونا میں نے جون ۱۹۱۵ء میں فرض کیا ہے اُس میں بھی دیباچہ شامل نہیں ہے۔ ۶ جولائی کو شاکر صدیقی کے نام خط میں پہلی دفعہ نثری دیباچے کا ذکر ہوا جب کہا کہ اس سے بھی خودی کا مفہوم بہت کچھ واضح ہو گا۔ ۱۶۸۔ ’اسرارِ خودی‘ کا پہلا ایڈیشن لاہور میں اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں موجود ہے اور میرے پیشِ نظر رہا ہے۔ ۱۶۹۔ تیسری بیاض میں اس پر ۲۴ جون ۱۵ء کی تاریخ کے ساتھ ’’لاہور‘‘ درج ہے۔ بانگِ درا میں بھی شامل ہے۔ باب ۲: ماں کا مزار ۱۔ زندہ رود، ص۲۰۶، نیز اعجاز احمد (۱۹۸۵) ۲۔ ’مسلمان اور تعلیمِ جدید‘ ۲۸ جون ۳۔ تیسری بیاض میں اس پر یکم جولائی ۱۹۱۵ء کی تاریخ ہے۔ بانگِ درا میں ’تضمین بر شعرِ صائب‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ آخری شعر کا ترجمہ جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا گیا ہے۔ ۴۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۱۲۹-۱۲۸۔ ۵۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶) ۶۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶) ۷۔ تیسری بیاض میں اس پر ۲ جولائی ۱۵ء کی تاریخ درج ہے۔ بانگ درا میں صرف پہلے تین اشعار شامل کیے گئے۔ ۸۔ ’کفر و اسلام‘ کے عنوان سے یہ نظم بانگ درا میں شامل ہے۔ تیسری بیاض میں درج ہے مگر زمانہ معلوم نہیں۔میر رضی دانش کے شعر کی تضمین ہے جسے ترجمے کے ساتھ جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ ۹۔ ’تعلیم اور اُس کے نتائج‘ ملا عرشی کے جس شعر کی تضمین ہے وہ ترجمے سمیت جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ نظم تیسری بیاض میں درج ہے اور بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۱۰۔ ’مذہب‘ میرزا بیدل کے شعر کی تضمین ہے جس پر تیسری بیاض میں جولائی ۱۹۱۵ء درج ہے۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ فارسی شعر ترجمے سمیت جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ ۱۱۔ نظم ‘مکالمہ‘ پر تیسری بیاض میں جولائی ۱۵ء درج ہے۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۱۲۔ ’تضمین بر شعر انیسی شاملو‘ بانگِ درا میں کافی پہلے کی نظموں کے ساتھ رکھی گئی ہے مگر تیسری بیاض میں ۱۹۱۴ء اور ۱۹۱۵ء کی نظموں کے درمیان درج ہوئی ہے۔ زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے نفسِ مضمون کے لیے یہاں رکھی ہے۔ فارسی شعر کا ترجمہ جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں پیش کیا گیا ہے۔ ۱۳۔ ’فردوس میں ایک مکالمہ‘ پر تیسری بیاض میں جولائی ۱۵ء درج ہے۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ فارسی شعر کا ترجمہ جون ۱۹۱۴ء کے واقعات میں درج کیا جا چکا ہے۔ ۱۴۔ تیسری بیاض میں نظم ’جنگ یرموک کا ایک واقعہ‘ پر جولائی ۱۹۱۵ء درج ہے۔ بانگ درا میں شامل ہے۔ ۱۵۔ مطلب یہ تھا کہ ہندوستان پر عیسائیوں کی حکومت تھی جن کا عقیدہ تثلیث تھا۔ اقبال نے تین شادیاں کی تھیں۔ ۱۶۔ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال (جلد اول) ص ۳۹۹۔ خط کی تاریخ معلوم نہیں مگر جولائی اگست ۱۹۱۵ء کا سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر میں منشی پریم چند کی پریم پچیسی کا اشتہار الناظر(لکھنؤ) میں شائع ہوا تو اقبال کی رائے بھی شامل تھی۔ ۱۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۵ جنوری ۱۹۱۶ئ۔ معلوم نہیں یہ واقعہ کب کا ہے۔ ۱۸۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۲۸۸ ۱۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۳۰ اگست ۱۹۱۵ء ۲۰۔ نظم بانگِ درا حصہ سوم میں شامل ہے۔ خلاصہ اقبال کا اپنا لکھا ہوا ہے۔ روزگارِ فقیر اور مظلوم اقبال میں شامل ہے۔ ۲۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۳۸-۳۷ ۲۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۹ ستمبر۱۹۱۵ء ۲۳۔ ’اسرارِ خودی‘ کی اشاعت کی تاریخ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے (۱۹۸۲) متعین کی ہے۔ باب۳: نظام الدین اولیأ کی بستی ۱۔ چھ اشعار کی غزل جو باقیاتِ اقبال میں ’خطاب بہ مسلم‘ کے عنوان سے شامل ہے، یہ اُس کا آخری شعر ہے۔ ۲۔ مکتوب بنام اکبرؔ الٰہ آبادی ۲۰ جولائی ۱۹۱۸ء ۳۔ Nawab Sir Zulfiqar Ali Khan (1922), p.30 ۴۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۱۶۳ ۵۔ ’اقبال کے بعض حالات‘ از میر غلام بھیک نیرنگ۔ مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ، ص۱۴ ۶۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۳۷ ۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد، ۳۰ ستمبر ۱۹۱۵ئ۔ محمد اسماعیل پانی پتی (اقبال، اکتوبر ۱۹۶۷) نے لکھا ہے کہ تبصرہ لکھتے وقت مرزا سلطان احمد سونی پت ضلع روہتک میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ ۸۔ سید محمد شاہ قادری، ص۴۶۔ مولانا محمد علی جوہر کا مضمون ۹۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص۲۰۶-۲۰۵ پر مولانا محمد علی جوہر کی تحریر کا انگریزی ترجمہ احمد اللہ خاں ایم اے کے قلم سے۔ ۱۰۔ یہ مثال مولانا جلال الدین رومی کے ملفوظات فیہ مافیہ میں پیش کی گئی ہے جسے ۱۹۲۸ء میں عبدالماجد دریا آبادی نے شائع کیا تھا وراس سے پہلے نکلسن اور شبلی جیسے محققین کی بھی اس تک رسائی نہ تھی۔ چنانچہ میں نے یہاں مولانا روم کا حوالہ نہیں دیا مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ مثال مستند صوفیائے کرام کے عام مسلک کے عین مطابق ہے۔ اس لیے یہاں عمومی انداز میں پیش کر دی ہے۔ میرے سامنے فیہ مافیہ کا ترجمہ عبدالرشید تبسم (۱۹۸۷) ہے جس میں ص۵۹-۵۸ پر یہ مسئلہ مع مثال کے پیش کیا گیا ہے۔ ۱۱۔ عشرت رحمانی(۲۰۰۲)، ص۱۴۳-۱۳۹ ۱۲۔ فضل کریم خاں درانی نے اقبال کی زبانی یہ واقعہ یوں روایت کیا ہے: جنگ سے غالباً پہلے یا شاید جنگ کے دنوں کا واقعہ ہے۔ پنجاب گورنمنٹ انہار پر مربعہ جات تقسیم کر رہی تھی۔ میں اُن دنوں انارکلی میں رہا کرتا تھا۔ ایک دن مغربی پنجاب کے ایک پیر صاحب تشریف لائے۔ عموماً آیا کرتے تھے۔ شریف آدمی تھے اور میری ان کی دیرینہ ملاقات تھی۔ (ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے ان پیر صاحب کا نام و مقام بھی بتایا۔ مگر مجھے یاد نہیں رہا) کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک درخواست لکھ دیں کہ مجھے بھی کچھ مربعے دیے جائیں۔ میں نے کہا۔ یہ بھی آپ نے دریافت کر لیا ہے کہ زمین کس کی ہے؟ پیر صاحب میرے سوال سے کچھ پریشان سے ہو گئے اور جلدی میں کہنے لگے۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا۔ پہلے آپ یہ دریافت کر آئیں کہ زمین کس کی ہے۔ پھر میں درخواست لکھ دوں گا۔ چنانچہ پیر صاحب چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آئے اور کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ کا سوال سمجھ میں نہیں آیا۔ زمین گورنمنٹ دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمین گورنمنٹ کی اپنی ہی ہو گی۔ میں نے کہا۔ شاہ صاحب ایک کتاب ہے بہت پرانی۔ اس کو لوگ قرآن کہتے ہیں۔ ایک شخص ہمارے یہاں سے دُور ملک عرب میں ہوا ہے۔ اس کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھا۔ یہ کتاب اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ زمین خدا کی ہے۔ اب آپ فرمائیں تو میں اللہ تعالیٰ کے نام چٹھی لکھ دیتا ہوں۔ پیر صاحب کے سینے میں ایمان کی روشنی باقی تھی۔ وہ بے حد متاثر ہوئے۔ رو پڑے اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب! کوئی درخواست نہ لکھیں۔ میں زمین کے لئے انگریز سے درخواست نہیں کروں گا۔ اتفاق سے پیر صاحب کو دلّی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں فوج میں ان کے بہت سے مرید تھے۔ انہوں نے پیر صاحب کی ضیافت کی۔ جس میں اپنے افسروں کو بھی بلایا جن میں کمانڈر ان چیف بھی تھا۔ کھانے کے بعد یکایک ایک مرید نے اُٹھ کر تقریر کی کہ ہم سب لوگ ان پیر صاحب کے مرید ہیں۔ ہمارے پیر صاحب کو زمین ملنی چاہئیے کیونکہ ان کے لنگر کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ فوجی افسر سادہ لوح ہوتے ہیں اور ان کو اپنے سپاہیوں کی مدارات کا بہت خیال ہوتا ہے۔ قصہ مختصر کمانڈر ان چیف نے اپنے طور پر سر مائیکل اوڈوائر لیفٹننٹ گورنر پنجاب کو لکھا اور پیر صاحب کو دس مربعہ زمین بغیر درخواست کے مل گئی۔ یہی واقعہ عبدالرشید طارق نے بھی اپنے مضمون ’مئے شبانہ‘ مشمولہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۲۷۱-۱۷۰ میں اقبال ہی کی زبانی لکھا ہے مگر تفصیلات میں خاصا فرق ہے: جن دنوں میری رہائش انارکلی میں تھی تو ایک سرحدی پیر چند مریدوں کی معیت میں آئے اور کہا کہ وہاں سرحد میں ہمارے مریدوں کا سال کے سال اجتماع ہوا کرتا ہے؛ ایک تو جگہ تنگ ہے اور دوسرے اشیائے خوردنی کم ملتی ہیں، آپ گورنر بہادر کی طرف ایک درخواست لکھ دیں کہ ہمیں اس مقام پر چند مربع اراضی مرحمت فرمائیں کہ کاشت سے آمدنی کی صورت بھی بن جائے۔ پیر صاحب میرے پرانے دوست تھے، مجھے یہ سن کر صدمہ ہوا، کہا پیر صاحب آپ سید ہیں، سیدِ کونینؐ کی اولاد سے ہیں جس نے غیر کے سامنے کبھی دستِ سوال دراز نہ کیا۔ آپ زمین انگریز سے مانگتے ہیں، جس کا اس پر کوئی حق نہیں، آپ اُس سے کیوں نہیں مانگتے جو ارض و سما کا مالک ہے۔ اس وقت تو پیر صاحب برہم ہو کر چل دیے، لیکن یہ الفاظ میری زبان سے کچھ ایسے درد سے نکلے تھے کہ بغیر اثر کیے نہ رہے۔ دوسرے روز پیر صاحب اکیلے آئے آنکھوں میں آنسو تھے، کہنے لگے کل مریدوں کی موجودگی میں مجھے آپ کے الفاظ گراں گزرے، لیکن جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے سچ فرمایا تھا۔ میں اب ایسی دریوزہ گری نہ کروں گا۔ اُن کے چلے جانے کے کوئی ہفتہ عشرہ بعد مجھے اُن کا تار موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ زمین مل گئی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہوئی کہ پیر صاحب جب دہلی گئے تو اُن کے بے شمار فوجی مریدوں نے اُن کا تعارف کمانڈر اِن چیف سے کرایا۔ سپاہیوں کو خوش کرنے کے لیے اُس نے اُن سے پوچھا کہ تمہارے پیر صاحب کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو کہو۔ مریدوں نے زمین کی احتیاج ظاہر کی تو کمانڈر اِن چیف نے اُسی وقت سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کو خط لکھا اور زمین دِلوا دی۔ ۱۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۳۰ ستمبر۱۹۱۵ء ۱۴۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۰۴ ۱۵۔ عبداللہ چغتائی (روایات اقبال)، ص۷۵، علی بخش کی روایت ہے۔ ۱۶۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۰۴ ۱۷۔ باقیات اقبالمیں اس قطعے کا عنوان ’وفادارانِ سہ قسم‘ ہے۔ سنہ ۱۹۱۵ء درج ہے۔ تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ ۱۸۔ مکتوب بنام اڈیٹر پیغامِ صلح۔ ۱۳ نومبر ۱۹۱۵ء ۱۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۳۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۲۰۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۴۶)، ص۱۳۸-۱۳۷ ۲۱۔ مسودہ پیامِ سروش کے ابتدائی صفحوں کے بعد ’رموزِ بیخودی‘ کا نقشِ اول درج ہے۔ اُس کا آغاز اِسی باب سے ہوتا ہے۔ بیاض اسرار و رموز میں ’رموزِ بیخودی‘ کی ترتیب کچھ اور ہے۔ ۲۲۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی ۲۶ اگست ۱۹۱۹ء ۲۳۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۷۳ ۲۴۔ مخزن اپریل ۱۹۱۶ء میں (نواب) محمد اسحٰق خاں کا مضمون ’مسلم یونیورسٹی‘، ص۳۸-۲۵ ۲۵۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۱۴۵-۱۴۴۔ انہوں نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے سن کر واقعہ اُنہی کے الفاظ میں لکھا ہے۔ خاتون کے بارے میں خالد نظیر صوفی نے اپنی رائے بھی یہی درج کی ہے اور ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی زندہ رُودمیں اسی قسم کی رائے ظاہر کی ہے۔ ۲۶۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء ۲۷۔ ۱۳ نومبر ۱۹۱۵ء مکتوب بنام اڈیٹر پیغامِ صلح ۲۸۔ زندہ رود جلد دوم ص۱۶۴، اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۰۵۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۸۹ پر اقبال کے شاگرد اور ہم زلف بیرسٹر فیروزالدین کا بیان درج ہے کہ معراج بیگم کی وفات اپنے گجرات میں اپنے نانہال میں ہوئی مگر عموماً اِس بیان کو یادداشت کی غلطی سمجھا گیا ہے کیونکہ اقبال کے باقی خاندان والوں سے یہی روایت ہے کہ وفات سیالکوٹ میں ہوئی۔ ۲۹۔ امجد سلیم علوی (۹۸۸ا)، ص۱۰۲ میں مولانا غلام رسول مہر کی تحریر ۳۰۔ مکتوب بنام اڈیٹر پیغامِ صلح۔ ۱۳ نومبر ۱۹۱۵ء ۔ اس میں سید بشیر احمد کے خط کا اقتباس شامل ہے جو ۲۹ اکتوبر کو ہشیارپور سے لکھا گیا تھا۔ ۳۱۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۶۲ ۳۲۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۷۷ ۳۳۔ میرا ماخذ ڈاکٹر تحسین فراقی (۱۹۹۲) ص۳۸۲-۳۸۱ ہے ۳۴۔ مکتوب بنام ضیأالدین برنی۳۰ نومبر ۱۹۱۵ء ۳۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۵ دسمبر ۱۹۱۵ء ۳۶۔ اکبر حیدری کشمیری (غیرمطبوعہ)، ص۲۴۔ ان کا ماخذ طالب الٰہ آبادی کی کتاب اکبر الٰہ آبادی ص۳۳۸ ہے۔ ۳۷۔ یہ دیباچہ ایک مضمون کے طور پر معارف اگست ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا جہاں مندرجہ اقتباس ص۱۴ پر تھا۔ وہاں سے شیخ محمد اکرام نے یادگارِ شبلی ص۸-۷ میں اقتباس نقل کیا۔ میرا ماخذ وہی ہے۔ ۳۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۱ دسمبر ۱۹۱۵ء ۳۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء ۴۰۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار (۱۹۷۸ئ)، ص۷۰ ۴۱۔ تحسین فراقی (۱۹۹۲) نیز عبداللہ قریشی (اقبال، اکتوبر۱۹۵۳ء ص۷۶-۷۵) ۴۲۔ اقبال کا مضمون ’اَسرارِ خودی اور تصوف‘ مطبوعہ وکیل امرتسر ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء بحوالہ مقالاتِ اقبال ۴۳۔ مکتوب بنام فوق ۲۳دسمبر ۱۹۱۵ ۴۴۔ اقبال کا مضمون ’اَسرارِ خودی اور تصوف‘ مطبوعہ وکیل امرتسر ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء بحوالہ مقالاتِ اقبال ۴۵۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۲۹۵-۲۹۴ ۴۶۔ Muhammad Siddique (1983) ۴۷۔ ’معرکہ اسرار خودی‘ از محمد عبداللہ قریشی، مجلہ اقبال (اکتوبر ۱۹۵۳)، ص۷۷-۷۶ ۴۸۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۱۳۴ ۴۹۔ تحسین فراقی(۱۹۹۲) ۵۰۔ صحیح تلبیس ابلیسمرتبہ علی حسن علی عبدالحمید اور مترجمہ سلیم اللّٰہ زمان مطبوعہ دارُالابلاغ، ص۴۴-۴۳۔ اقبال کے پیش نظر جو مطبع مجتبائی دہلی سے شائع کیا ہوا ترجمہ تھا وہ مجھے دستیاب نہیں ہو سکا۔ ۵۱۔ نظم ’صدیقؓ‘ بانگ درامیں شامل ہے۔ کسی بیاض میں نہیں ملی۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۵۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۵ جنوری۱۹۱۶ء ۵۳۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹ حصہ سوم مورخہ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء ص۷۲-۲۷۱ ہے ۵۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۵ جنوری۱۹۱۶ء ۵۵۔ بیاض پیامِ سروش ۵۶۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۷۲۔ یوسف سلیم چشتی نے بظاہر ۲۲ جولائی ۱۹۴۲ء کے نوائے وقتسے شرح اسرار و رموز میں خط نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء کے خطیب دہلی میں شائع ہوا تھا۔ رحیم بخش شاہین نے لکھا ہے، ’’تلاش پر معلوم ہوا کہ اول تو ۱۵ جنوری کو خطیب شائع ہی نہیں ہوا۔ ۱۴ جنوری کے شمارہ میں یہ خط درج نہیں۔ شاید ۷ جنوری کے شمارہ میں ہو جو دستیاب نہیں ہو سکا۔‘‘ ۵۷۔ بیاض پیام سروش۔ بعد میں یہ باب کچھ ترمیم کے ساتھ ’رموزِ بیخودی‘ میں شامل ہوا۔ ۵۸۔ بیاض پیام سروش۔ بعد میں یہ باب کچھ ترمیم کے ساتھ ’رموزِ بیخودی‘ میں شامل ہوا۔ ۵۹۔ بیاض پیامِ سروش۔ یہ ابواب ’رموزِ بیخودی‘ میں خلاصۂ مثنوی کے تحت استعمال ہوئے۔ ۶۰۔ مقالات اقبال ’اسرار خودی اور تصوف‘ ۶۱۔ مکتوبات بنام اکبر الٰہ آبادی ۲۷ جنوری اور ۴ فروری ۱۹۱۶ء ۶۲۔ مکتوب بنام اسلم جیراجپوری ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء ۶۳۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۰۔ انہوں نے دوسرا مصرعہ ’’پہلوانی ان میں، ان میں بانکپن‘‘ لکھا ہے۔ دوسری جگہوں پر وہ صورت ہے جو میں نے نقل کی ہے۔ ۶۴۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۰-۷۸ ۶۵۔ مکتوب بنام اکبر۲۷ جنوری۱۹۱۶ء ۶۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۳۰ جنوری۱۹۱۶ء ۶۷۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۹۱-۹۰ ۶۸۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۱۴ ۶۹۔ تاریخ تصوف، مرتبہ صابر کلوروی، ص۲۹-۲۸۔ نیز اقبال نے وضاحت کی: ’’[علم باطن] کی دلچسپی کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ اس کے غرائب نے اقوامِ عالم کے بعض بہترین دل و دماغ رکھنے والے آدمیوں کو اپنی طرف کھینچا ہے اور عوام کے تخیلات پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے۔ کیونکہ اگر ان تمام علوم کو جن کا مجموعی نام علمِ باطن ہے، ایک کرّہ سے مثال دی جائے تو اس کا قطب شمالی اعلیٰ درجہ کی فلسفیانہ موشگافی ہے اور اُس کا قطب جنوبی ذلیل ترین توہم پرستی۔ لیکن اِس دیباچے میں ہم اِس کرۂ علوم کے قطب شمالی پر ہی نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اس کی حقیقت سے آگاہ ہو کر یہ اندازہ کر سکیں کہ تصوف اور اِسلام کا آپس میں کیا تعلق ہے اور یہ تحریک مسلمانوں میں کیونکر پیدا ہوئی اور اِس کا ارتقأ کس طرح ہوا۔ ایک نکتہ فہم آدمی جب مسلمانوں کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو سب سے زیادہ حیرت انگیز بات جو اُسے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ قریباً ہر زمانے اور ہر اِسلامی ملک میں محققینِ اسلام کے ایک گروہ نے جن کو ’علمائے ظاہر‘ کا حقارت آمیز خطاب دیا گیا ہے۔ تحریک تصوف سے اختلاف کیا ہے اور اس کے سلسلہ تعلیم کو غیراسلامی قرار دیا ہے۔‘‘ ۷۰۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۹۱۔ لکھا ہے، ’’۲۹ جنوری کے ’وکیل‘ میں کسی نقاد نے مقولاتِ مثنوی پر رائے زنی کی۔‘‘ ۷۱۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۹۱ ۷۲۔ حسن نظامی کا مضمون مجھے نہیں مل سکا۔ اقبال نے اسی عنوان سے اِس کا جواب دیا تھا جو ۹ فروری ۱۹۱۶ء کو وکیل (امرتسر) میں شائع ہوا اور اَب مقالاتِ اقبال میں شامل ہے۔ میری معلومات کا ذریعہ یہی ہے۔ عبداللہ قریشی نے مضمون ’معرکہ اسرارِ خودی‘ (مجلہ اقبال اکتوبر ۱۹۵۳ئ) میں بھی خلاصہ دیا ہے جو اقبال کے مضمون سے ماخوذ لگتا ہے۔ ۷۳۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۰۔ انہوں نے دوسرا مصرعہ ’’پہلوانی ان میں، ان میں بانکپن‘‘ لکھا ہے۔ دوسری جگہوں پر وہ صورت ہے جو میں نے نقل کی ہے۔ ۷۴۔ نظم ص۶۶ پر شائع ہوئی۔ جلی حروف میں ’’عالیجناب محمدؐ اقبال صاحب۔اقبالؔ‘‘ درج ہے۔ اس کے نیچے ذیلی عنوان کے طور پر لکھا ہے: ’’شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا۔‘‘ اس کے بعد نظم کے سات اشعار درج ہیں۔ ۷۵۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۴۶، میاں بشیر احمد کا مضمون ’اقبال کی یاد میں‘ ۷۶۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی، ص۳۲-۳۱ ۷۷۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۵-۸۳ ۷۸۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار (۱۹۷۸ئ)، ص۷۱ ۷۹۔ مقالاتِ اقبال ۸۰۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی، ص۴۰ ۸۱۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی ص۵۸-۵۷ ۸۲۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی ص۵۷-۵۶ ۸۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۳ فروری۱۹۱۶ء ۸۴۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۳ مارچ۱۹۱۶ء ۸۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ ۲۳فروری ۱۹۱۷ء ۸۶۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹ حصہ سوم مورخہ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء ص۷۲-۲۷۱ ہے ۸۷۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۷۹۔ قریشی نے مضمون کا عنوان نہیں دیا اور حوالہ یوں لکھا ہے ’’خطیب ۱۴ و ۲۲ فروری ۱۹۱۶ئ‘‘۔ لگتا ہے یہ مضمون دو قسطوں میں خطیبکے علیحدہ علیحدہ شماروں میں شائع ہوا۔ ۸۸۔ تاریخِ تصوف مرتبہ صابر کلوروی، ص۷۷، ۹۰ ۸۹۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۹۱ ۹۰۔ تحسین فراقی(۱۹۹۲) ۹۱۔ اقبال کا جواب ان کے مضمون ’اسرارِ خودی اور تصوف‘ مطبوعہ وکیل(امرتسر) ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء سے لیا گیا ہے۔ ۱۹۱۶ء کے موسمِ گرما میں جب اقبال کے والد نے اُنہیں حافظ کی مخالفت سے دستبردار ہونے پر قائل کر لیا (جیسا کہ اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے) تو بہت جلد اقبال کے کلام میں حافظ کے بعض اشعار یوں استعمال ہونے لگے کہ برصغیر کی آیندہ نسل کی اکثریت جو براہِ راست دیوانِ حافظ سے متعارف نہ ہوئی اُس کے لیے وہی اشعار حافظ کا تعارف بن گئے۔ مثال کے طور پر بانگِ درا (۱۹۲۴) کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ (۱۹۲۳) حافظؔ کے اس شعر پر ختم ہوتی ہے: بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرحِ نو دراندازیم یہ شعر شیخ مشیر حسین قدوائی نے اپنے مضمون مطبوعہ طریقت اپریل ۱۹۱۶ء میں اقبال کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے پیش کیا تھا۔ بالِ جبریل کی نظم ’نپولین کے مزار پر‘ کا خاتمہ حافظ کے اس شعر پر ہوتا ہے: عاقبت منزلِ ما وادیٔ خموشان است حالیا غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سرگذشتمیں لکھا ہے کہ اقبال کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وہ یہ شعر پیش کرتے تھے۔ ۹۲۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’نوادرِ اقبال‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۱۲۳)۔ عبداللہ قریشی نے لکھا ہے، ’’نواب صاحب کی طبیعت شاید علیل تھی یا اور کوئی وجہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذوری ظاہر کی۔ اقبال نے بھی کہلا بھیجا کہ میں تو نواب ذوالفقار علی خاں کی صدارت ہی میں نظم پڑھوں گا۔‘‘ یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے۔ اقبال کی نظم کا اعلان انجمن کے پروگرام میں پہلے سے شائع ہوتا تھا اور اقبال اس معاملے میں کسی لاپروائی کا سختی سے نوٹس لیتے تھے (دیکھیے مارچ ۱۹۱۵ء کے واقعات)۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۵۹میں نواب سر ذوالفقار علی خاں کے لڑکے نوابزادہ خورشید علی خاں نے مصرعہ ’’اقبال ذوالفقار سے آتا ہے ہاتھ میں‘‘ منشی دل محمد سے منسوب کیا ہے مگر نوابزادہ خورشید کی عمر ۱۹۱۶ء میں صرف سات برس تھی اور اُن کا اپنا بیان ہے کہ انہیں ۱۹۱۹ء کے بعد کے واقعات یاد ہیں۔ ۹۳۔ کتاب کی ایک فوٹوکاپی اقبال اکادمی لاہور کے کتب خانے میں موجود ہے۔ میری نظر سے گزری ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے میری کتاب Shakespeare According to Iqbal ۹۴۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۶۳-۲۶۲۔ میاں افضل حسین کا اصل مضمون انگریزی میں ہے۔ ۹۵۔ بشیر احمد ڈار (۱۹۶۷)، ص۱۴ ۹۶۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۶۔ ان کا ماخذ انجمن کی جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۹۷۔ حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۶۔ ان کا ماخذ انجمن کی جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۹۸۔ یہ قطعہ بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۹۹۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹکے مختلف شمارے ہیں۔ ۱۰۰۔ مکتوب بنام سراج الدین پال۱۰ جولائی۱۹۱۶ء ۱۰۱۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۶ ۱۰۲۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۸ جولائی۱۹۱۶ء ۱۰۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۸ جولائی۱۹۱۶ء ۱۰۴۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی، ص۹۴ ۱۰۵۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۱۶-۱۴ ۱۰۶۔ مکتوب بنام شیخ نور محمد ۹ جون ۱۹۱۸ء ۱۰۷۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۲۹-۲۷ ۱۰۸۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص ۲۳۔ وسیمہ مبارک کی روایت ہے۔ ۱۰۹۔ احمد حسین قریشی قلعداری کا مضمون ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۲۵۴) ۱۱۰۔ اس کے ساتھ ایک فارسی شعر لکھ کر اقبال نے تضمین کی۔ ’خطاب بہ شریفِ حرم‘ کے عنوان سے باقیات اقبال، ص۲۵۷ پر موجود ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۱۱۱۔ باقیات اقبالص۴۶۸ پر تین اشعار کا مزاحیہ قطعہ ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۱۱۲۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں، ۲۷ جون ۱۹۱۷ء ۱۱۳۔ احمد حسین قریشی قلعداری کا مضمون ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۲۵۴) ۱۱۴۔ مکتوب بنام فصیح اللہ کاظمی۱۰ جولائی۱۹۱۶ء ۱۱۵۔ احمد حسین قریشی قلعداری کا مضمون ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۲۵۴) ۱۱۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۱۷۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۹۰۔ نیز مکتوب اقبال بنام نیازالدین خاں ۸ جولائی ۱۹۱۶ء ۱۱۸۔ تاریخ تصوف مرتبہ کلوروی ص۱۰۳ نیز مقالات اقبال ’تصوف وجودیہ‘ ۱۱۹۔ تاریخ تصوف،مرتبہ صابر کلوروی ص۲۷ ۱۲۰۔ تاریخ تصوف مرتبہ صابر کلوروی ص۲۷ ۱۲۱۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۔ نیز مقالات اقبال ’تصوف وجودیہ‘۸ جولائی ۱۹۱۶ء ۱۲۲۔ تاریخِ اشاعت معلوم نہیں اور متن بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس کا حوالہ مضمون کے دوسرے حصے میں ہے جو وکیل (امرتسر) میں ۱۳ دسمبر ۱۹۱۶ء کو شائع ہوا۔ میرا خیال ہے کہ پہلا حصہ بھی اسی اخبار میں شائع ہوا ہو گا اور جولائی میں کسی وقت یا پھر اوائل اگست میں شائع ہونا زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ مضمون لکھنا ۸ جولائی سے پہلے شروع کر دیا تھا اور اگست میں سیالکوٹ کے قریب گاؤں میں تنہائی میں وقت گزارنے کے بعد ذہن مثنوی کے دوسرے حصے کی طرف زیادہ مائل ہو گیا تھا۔ چنانچہ امکان ہے کہ اگست کے بعد چند ماہ تک توجہ اس طرف واپس نہ آئی ہو۔ ۱۲۳۔ فوق (۱۹۸۸)، ص۱۵۶-۱۵۵ ۱۲۴۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۳-۸۲۔ نیز احمد حسین قریشی قلعداری کا مضمون ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ۲۴۲)۔ ۲۴ جولائی کو یہ سراج الاخبار (جہلم) میں بھی شائع ہوئی۔ ۱۲۵۔ مکتوب بنام سراج الدین پال۱۹ جولائی۱۹۱۶ء ۱۲۶۔ مکتوب بنام سراج الدین پال۱۹ جولائی۱۹۱۶ء ۱۲۷۔ مکتوب بنام سراج الدین پال۱۹ جولائی۱۹۱۶ء ۱۲۸۔ احمد حسین قریشی قلعداری کا مضمون ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۲۴۳) ۱۲۹۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۲)، ص۳۰-۲۹ ۱۳۰۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء ۱۳۱۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۳۱۹ ۱۳۲۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۱۶ ۱۳۳۔ مکتوب بنام محمد مبین عباسی کیفیؔ چریاکوٹی۱۲ اگست ۱۹۱۶ء ۱۳۴۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء ۱۳۵۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۳۳-۳۲ اور ۶۱۔ ۱۳۶۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۱۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ بات صرف حافظؔ پر اشعارکی نہیں تھی بلکہ منفی اور مثبت نقطۂ نظر کے درمیان انتخاب کرنے کا سوال بھی تھا۔ جب فیصلہ کر لیا تو پھر تاریخِ تصوف کو مکمل کرنا بھی بیکار تھا۔ چنانچہ اسے ترک کرنے کا فیصلہ خواہ اُسی وقت نہ کیا ہو مگر اب اُس کی طرف سے توجہ ہٹتی گئی۔ ۱۳۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۳۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ اس نظم کی تکمیل کئی سال بعد فارسی میں ’’بندگی نامہ‘‘ کی صورت میں ہوئی جسے زبورِ عجم میں شامل کیا۔ ۱۳۹۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۱ ۱۴۰۔ بیاض ’پیامِ سروش‘۔ یہ باب ترمیم اور اضافے کے بعد ’رموزِ بیخودی‘ میں کمالِ حیاتِ ملیہ والا باب بنا۔ ۱۴۱۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء ۱۴۲۔ عبدالماجد جنہیں اقبال نے غلطی سے ماجد علی لکھااُن کی کتاب اقبال کی نظر سے نہیں گزری تھی اور برنی کے خط سے جملہ بھی واضح نہیں ہو سکا تھا۔’’محمد علی صاحب کے شعر میں سن چکا ہوں۔ آپ نے اُن کو اپنے خط میں نقل کرنے کی زحمت کی اِس کے لیے شکرگزار ہوں۔‘‘ ۱۴۳۔ انگریزی اقتباس اقبال نے تشکیلِ جدید چھٹے خطبے میں نقل کیا ہے۔ اس سے پہلے اجماع کے بارے میں اغنائیدیز کی جو رائے درج ہوئی ہے اُس کی وضاحت یہ ہے کہ کتاب مارچ ۱۹۲۳ء میں عبداللہ چغتائی نے اقبال کو پیش کی۔ کچھ عرصے بعد دسمبر ۱۹۲۴ء میں اقبال نے اجتہاد کے موضوع پر مقالہ پیش کیا جو بعد میں ترقی یافتہ صورت میں تشکیلِ جدید کا چھٹا لیکچر بنا۔ اُس میں اقبال نے اجماع کے بارے میں مصنف کے عجیب و غریب بیان کی تردید کی اور وہ وضاحت پیش کی جسے میں نے سید نذید نیازی کے ترجمۂ خطبات سے الفاظ مستعار لے کر اپنے طور پر درج کیا ہے۔ اقبال کی رائے کا اصل انگریزی متن درجِ ذیل ہے: Can Ijma repeal the Quran? It is unnecessary to raise this question before a Muslim audience, but I consider it necessary to do so in view of a very misleading statement by a European critic in a book called Mohammedan Theories of Finance – published by the Columbia University. The author of this book says, without citing any authority, that according to some Hanafi and Mu‘tazilah writers the Ijma‘ can repeal the Quran. There is not the slightest justification for such a statement in the legal literature of Islam. Not even a tradition of the Prophet can have any such effect. It seems to me that the author is misled by the word Naskh in the writings of our early doctors to whom, as Imam Shatibi points out in Al-Muwafiqat, vol. iii, p. 65, this word, when used in discussions relating to the Ijma‘ of the companions, meant only the power to extend or limit the application of a Quranic rule of law, and not the power to repeal or supersede it by another rule of law. And even in the exercise of this power the legal theory, as Amidi – a Shafii doctor of law who died about the middle of the seventh century, and whose work is recently published in Egypt – tells us, is that the companions must have been in possession of a Shari‘ah value (Hukm) entitling them to such a limitation or extension. (Lecture VI, The Reconstruction of Religious Thought in Islam) ۱۴۴۔ بیاض پیام سروش میں پانچ فہرستیں درج ہیں۔ ان میں سے تین جو انگریزی کی طرف سے شروع میں درج ہیں، ابتدائی معلوم ہوتی ہیں۔ بقیہ دو جو درمیان میں درج ہیں وہ ترقی یافتہ شکل معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں خانۂ کعبہ اور قرآن والے ابواب بھی شامل کیے گئے ہیں جو مکتوب ۲۸ جون ۱۹۱۷ء کے مطابق اقبال کے ذہن میں ۲۶ جون کو آئے تھے۔ چنانچہ وہ فہرستیں جون کے اواخر یا اُس کے بعد بنی ہوں گی۔ متروک فہرستوں میں سے تیسری یہاں نقل کی گئی ہے۔ پہلی اور دوسری ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی ہیں۔ ان میں سے دوسری کے مندرجات یہ ہیں: ۱ ملت از اختلاطِ افراد پیدا می شود ۲ اعتبارِ باہمی اتحادِ افراد را محکم کند(عالمگیر و ملّائے مکتب) ۳ ارکانِ اساسی ملتِ اسلامیہ ۱ توحید ۲ رسالت (ختمِ رسالت) ۳ حریت ۴ مساوات (۷، ۸) حکایت در تشریحِ حریت و مساوات ۹ اسباب تسلسلِ حیاتِ ملیہ اسلامیہ ۱ اتباعِ شریعتِ محمدیہ ۲ حفظِ سرگشتِ ملیہ ۳ اخلاقِ محمدیہ ۴ تسخیرِ قوائے نظامِ عالم ۵ نصب العین ٭ ملتِ محمدیہ نہایتِ مکانی ندارد ٭ ملتِ محمدیہ نہایتِ زمانی ندارد ۱۰ ربطِ فرد و جماعت ۱۱ انحراف از روایاتِ ملیہ بہ ہلاکت می انجامد ۱۴۵۔ ’اقبال کے بعض حالات‘ از میر غلام بھیک نیرنگ۔ مجلہ اقبال، اکتوبر ۱۹۵۷ئ، ص۱۴ ۱۴۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء باب۴: ملت کا دربار ۱۔ جوگندر سنگھ کا بیان ڈی وِٹ نے اپنی کتاب دی اویکننگ آف انڈیا میں شائع کیا جو اگلے برس شائع ہوئی۔ ۱۹۱۷ء کے آخر کے واقعات میں مزید تفصیل ہے۔ ۲۔ اسرارورموزمیں ’رموزِ بیخودی‘ ۳۔ اقبال کے یہاں ان تینوں میں سے کسی تصنیف کا براہِ راست حوالہ نہیں ملتا۔ البتہ ان کی تحریروں میں کئی نکات بالواسطہ طور پر اِن تصانیف کی طرف اِشارہ کرتے ہیں خواہ محض اتفاق سمجھا جائے یا واقفیت: ۱ ۱۹۰۴ء میں علم الاقتصادکے دیباچے میں اقبال نے لکھا کہ موجودہ دَور میں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا غربت اور محتاجی معاشرے سے ختم ہو سکتی ہیں مگر جواب بڑی حد تک علمِ اخلاق سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال نے کوئی حوالہ نہیں دیا مگر چرنشفسکی اُن ادیبوں میں سے تھا جنہوں نے یہ سوال اُٹھایا تھا اور جواب لیو ٹالسٹائی نے دیا تھا۔ ۲ ۱۹۲۲ء میں نظم ’خضرِ راہ‘ میں خضر سے انقلابِ روس پر تبصرہ کرواتے ہوئے کہلوایا: توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دوریٔ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک چرنشفسکی کے ناول کا مرکزی خیال یہی تھا۔ اس میں ایک جنتِ ارضی کا تصور بھی موجود تھا جو خالص مادی بنیادوں پر اُستوار تھی۔ ۳ چرنشفسکی کی جنتِ ارضی روحانیت کی نفی کر کے حاصل ہوتی تھی۔ اقبال نے جاویدنامہکے فلکِ مریخ پر ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا جو روح اور مادے کی ثنویت کو مٹانے سے قائم ہوتی تھی۔ ۴ اقبال کی آٹھویں شعری تصنیف پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق (۱۹۳۷) تھی۔ غور کیا جائے کہ تین روسی تصانیف کا عنوان یہی تھا جن میں لینن کا وہ پمفلٹ شامل تھا جسے اُس کے منشور کی حیثیت حاصل تھی۔ اقبال کی مثنوی کا عنوان گویا اسی روسی عنوان کا ترجمہ تھا مگر اس میں ’’اے اقوامِ شرق‘‘ کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ کمیونسٹ روس کو بہرحال ایک مغربی قوت سمجھتے تھے اور مشرق کو علیحدہ محاذِ عمل قائم کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ ۴۔ افضل حق قرشی (۲۰۱۰)، ص۱۷۔ یہ محمدالدین دراصل محمد دین تاثیر ہیں (۱۹۱۸ء کے واقعات میں دوبارہ تذکرہ ہے جب انہوں نے تاثیر کا تخلص اختیار کیا)۔ ۵۔ Muhammad Siddiq (1983) ۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء ۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۱ ستمبر۱۹۱۶ء ۸۔ بانگِ درا میں اقبال نے دوسرا مصرع یوں لکھا ہے: جو قائم اپنی راہ پر ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے ۹۔ عبداللہ چغتائی (روایات اقبال) ۱۰۔ بیاض پیام سروش ۱۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ ۵ جنوری ۱۹۱۷ء ۱۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۷۹-۳۷۷ ۱۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۳۱اکتوبر۱۹۱۶ء ۱۴۔ مکتوب بنام فوق ۶ مارچ ۱۹۱۷ء ۱۵۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۳۹، ۵۷، ۶۲-۶۰ اِس کے بعد ’اسرارِ خودی میں سے میرنجات نقشبند عرف بابائے صحرائی کی نصیحت میں سے بیالیس اشعار نقل کر ڈالے جن میں مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات کا واقعہ بھی شامل تھا اور یہ تنبیہ بھی کہ خواہ کتے کے پیٹ سے خوشبو تلاش کرو مگر موجودہ علوم سے عشق کا سوز اور سچائی کی لذت طلب کرنے کی حماقت مت کرنا۔ ’’لکھنے بیٹھا تھا خط، مگر لکھ گیا اقبال کی مثنوی شریف،‘‘ محمد علی نے اقتباس کے بعد درج کیا۔ ’’مگر چونکہ بحیثیت ادب کے اس کا پایہ میری نثر سے اُتنا ہی اونچا ہے، جتنا کہ زمین سے آسمان کا، اور آپ باوجود فلسفی ہونے کے ادب کو استدلال پر مرجح سمجھتے ہیں، اس لیے اسرارِخودی کا یہ حصہ نقل کر دیا گیا۔ امید ہے کہ تشفی ہو گئی ہو گی۔‘‘ ۱۶۔ عشرت رحمانی، جلد اول، ص۲۹۔ انہوں نے اپنے ماخذ کا حوالہ نہیں دیا۔ ۱۷۔ مقالات اقبال ۱۸۔ Muhammad Siddiq (1983) ۱۹۔ سید محمد شاہ قادری (۱۹۹۸)، ص۲۶۷-۲۶۰۔ مولانا محمد علی جوہر کا اپنا مضمون ہے۔ ۲۰۔ یہ قول ’رموزِ بیخودی‘ میں آئینِ الٰہیہ والے باب میں بھی نظم ہوا۔ ایک اور قول کے ساتھ اقبال نے اسے مضمون 'Islam and Mysticism' میں شرر کے ترجمے سے نقل کیا۔ مضمون کا اقتباس اور حوالہ جولائی کے واقعات میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ۲۱۔ بیاض ’پیامِ سروش‘۔ ’رموزِ بیخودی‘ میں اس باب کے عنوان میں ترمیم ہوئی۔ ۲۲۔ بیاض ’پیامِ سروش‘ ۲۳۔ بیاض ’پیامِ سروش‘ ۲۴۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۳۶ ۲۵۔ مکتوب بنام الف دین۹ جنوری۱۹۱۷ء ۲۶۔ غزل ص۷۹-۷۸ پر ہے۔ جلی حروف میں ’’حضرت نوح ناروی‘‘ کی سرخی ہے۔ غزل کے نیچے قوسین میں نوحؔ ناروی درج ہے۔ ۲۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۷ فروری ۱۹۱۷ء ۲۸۔ مکتوب بنام گرامی۱۲ اور ۱۹ فروری۱۹۱۷ء ۲۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۔ ۲۳ فروری ۱۹۱۷ء ۳۰۔ مکتوب بنام فصیح اللہ کاظمی۲۳ فروری۱۹۱۷ء ۳۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۳فروری۱۹۱۷ء ۳۲۔ ’میں اور تو‘ بانگ درامیں شامل ہے۔ کسی بیاض میں نہیں مل سکی۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۳۳۔ مکتوب بنام خان نیازالدین خان، ۲ مارچ ۱۹۱۷ئ۔ تقریظِ موعودہ کا ذکر گرامی کے نام خطوط میں ۲۱ مئی ۱۹۱۷ء سے شروع ہوتا ہے۔ نیز نیازالدین خاں کے نام مکتوب ۲۷ نومبر ۱۹۱۷ء ۳۴۔ مکتوب بنام منشی فوق۔ ۶ مارچ ۱۹۱۷ء ۳۵۔ مکتوب بنام خان نیازالدین خان، ۲ مارچ ۱۹۱۷ء ۳۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ مارچ۱۹۱۷ء ۳۷۔ مکتوب بنام خان نیازالدین خان، ۲ مارچ ۱۹۱۷ء ۳۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ مارچ۱۹۱۷ء ۳۹۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۲۷ ۴۰۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۲۲-۱۲۱ ۴۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ۱۳۸-۱۳۷ ۴۲۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ مارچ۱۹۱۷ء ۴۳۔ مارچ ۱۹۱۷ء میں لکھے گئے متعدد خطوط میں ذکر ہے۔ ۴۴۔ مکتوب بنام گرامی میں محمد دین کو کشن پرشاد کے جواب کا حوالہ موجود ہے۔ ۴۵۔ علم الاقتصادکی تاریخِ اشاعت کے حوالے سے مزید تفصیلات اور مباحث ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب (۲۰۰۱/۱۹۸۲)میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ۴۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۱ مارچ ۱۹۱۷ء اور مکتوب بنام گرامی ۲۲ مارچ ۱۹۱۷ء ۴۷۔ صحیفہ (۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۵ ۴۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۰اپریل ۱۹۱۷ء اور مکتوب بنام گرامی ۱۸ اگست ۱۹۱۷ء ۴۹۔ بانگ دراحصہ سوم میں شامل ہے۔ وہاں دس اشعار ہیں۔ ۵۰۔ مکتوب بنام گرامی ۷ مئی ۱۹۱۷ء ۵۱۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۸۶۔ ۵۲۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’نوادرِ اقبال‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۱۲۳)۔ عبداللہ قریشی نے لکھا ہے، ’’نواب صاحب کی طبیعت شاید علیل تھی یا اور کوئی وجہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذوری ظاہر کی۔ اقبال نے بھی کہلا بھیجا کہ میں تو نواب ذوالفقار علی خاں کی صدارت ہی میں نظم پڑھوں گا۔‘‘ یہ بات کم سے کم اس انداز میں قرینِ قیاس نہیں۔ اقبال کی نظم کا اعلان انجمن کے پروگرام میں پہلے ہی سے شائع ہو جاتا تھا اور اقبال اس معاملے میں کسی لاپروائی کا سختی سے نوٹس لیتے تھے (دیکھیے مارچ ۱۹۱۵ء کے واقعات)۔ ۵۳۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص۸۶۔ اُس برس کے اجلاس کی روداد مصنف کو دستیاب نہیں ہو سکی۔ انہوں نے بظاہر پیسہ اخبار کے ۲ اپریل کے شمارے میں انجمن کے اجلاس کے پروگرام کے حوالے سے درج کیا ہے۔ گرامی نے نواب ذوالفقار علی خاں کے بارے میں فارسی کے اشعار اس جلسے میں پڑھے یا کسی اور جلسے میں؟ معلوم ہوتا ہے گرامی اس دفعہ نہیں آئے کیونکہ چند روز بعد ۱۷ اپریل کو اقبال نے انہیں لکھا کہ والد صاحب ہر روز یاد کرتے ہیں، جلد آئیے۔ ۵۴۔ مکتوب بنام گرامی ۱۷ اپریل ۱۹۱۷ء ۵۵۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹ کے مختلف شمارے ہیں۔ ۵۶۔ مجلہ علم و آگہی گورنمنٹ نیشنل کالج ۱۹۷۸ء کراچی کے ص۱۲۷-۱۲۶ پر مضمون ’ادارۂ کامریڈ‘ میں عبدالماجد دریابادی کی کتاب محمد علی - ذاتی ڈائری کے چند اوراق (۱۹۵۴) حصہ اول ص۷۳ کے حوالے سے۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۴۹ پر سید محمد علی جعفری پرنسپل اسلامیہ کالج سے روایت ہے کہ نیو ایرا اخبار کے مالک راجہ صاحب محمودآباد تھے۔ ۵۷۔ مجلہ علم و آگہیگورنمنٹ نیشنل کالج ۱۹۷۸ء کراچی کے ص۱۲۷ پر مضمون ’ادارۂ کامریڈ‘ میں ضیاالدین برنی کے ایک بیان کے طور پر لیکن مکمل حوالہ نہیں دیا گیا۔ ۵۸۔ مکتوب بنام گرامی ۳ مئی ۱۹۱۷ء ۵۹۔ بیاض ’پیامِ سروش‘ میں اشعار موجود ہیں۔ ’رموز بیخودی‘ میں شامل ہوئے۔ ۳ مئی کو گرامی کے نام خط میں ذکر ہے۔ ۶۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۹ مئی۱۹۱۷ء ۶۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۹ مئی۱۹۱۷ء ۶۲۔ مکتوب بنام فوق۸ جون۱۹۱۷ء ۶۳۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء ۶۴۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء اور مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ء ۶۵۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء ۶۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۲۷ جون ۱۹۱۷ ۶۷۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء ۶۸۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء ۶۹۔ مکتوب بنام گرامی۲۸ جون۱۹۱۷ء ۷۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۳۰ جون۱۹۱۷ء ۷۱۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۴۵، سید محمد علی جعفری کی روایت ہے۔ ۷۲۔ بانگ درا میں شامل ہے۔ کسی بیاض میں نہیں مل سکی۔ زمانہ معلوم نہیں۔ باب۵: تقدیر کی محفل ۱۔ عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال اکتوبر۱۹۵۳)، ص۸۱۔ یہ اشعار اکبر نے حسن نظامی کو ۳۰ جون ۱۹۱۷ء کو بھیجے۔ چند روز بعد شائع ہوئے ہوں گے۔ ۲۔ میں نے یہ نتیجہ مکتوب بنام ایس حبیب احمد ۲۰ جولائی ۱۹۲۲ء کی روشنی میں اقبال کے خیالات کے ارتقأ کا جائزہ لیتے ہوئے اخذ کیا ہے۔ ۳۔ مثال کے طور پر دیکھیے مکتوب بنام ایس حیب احمد ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء اور دیباچہ تشکیل جدید ۴۔ دیکھیے تتمہ ۶۔ مکتوب بنام گرامی، ۳ جولائی اور ۷ جولائی ۱۹۱۷ء ۷۔ صفحہ ۱۱-۱ پر شائع ہوئی۔ آخر میں ’’باقی آئندہ‘‘ درج ہے مگر اگلے شمارے میں دوسری قسط موجود نہیں۔ وہ پہلی دفعہ مخزن میں جنوری ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ ۸۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal. ۹۔ مکتوبات بنام گرامی ۶ جولائی اور ۱۶ جولائی ۱۹۱۷ء ۱۰۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۹۶-۹۵، خواجہ فیروزالدین بیرسٹر ایٹ لأ کی روایت ہے ۱۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۷ جولائی۱۹۱۷ء ۱۲۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal, p.176 عبداللہ قریشی (مجلہ اقبال، اپریل ۱۹۵۴ئ، ص۶۱-۶۰) نے لکھا ہے کہ مضمون ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ء کو شائع ہوا۔ رزاقی نے ۲۸ جولائی اسلامی جمہوریت والے شذرے کی اشاعت کی تاریخ بتائی ہے۔ ۱۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۷ جولائی ۱۹۱۷ء ۱۴۔ مکتوب بنام گرامی۷ اگست۱۹۱۷ء ۱۵۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal, p.178 ۱۶۔ باقیات اقبال، ص۲۷۲ ۱۷۔ مکتوب بنام گرامی۷ اگست۱۹۱۷ء ۱۸۔ مکتوب بنام گرامی۷ اگست۱۹۱۷ء ۱۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۴ اگست ۱۹۱۷ء سے اندازہ ہوتا ہے۔ ۲۰۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal. ۲۱۔ مکتوب بنام گرامی ۷ اگست ۱۹۱۷ء ۲۲۔ نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۲۱ ۲۳۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۷۶ ۲۴۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal. ۲۵۔ مکتوب بنام گرامی ۲۲ اگست ۱۹۱۷ء ۲۶۔ ’’بیس اگست کا اعلان‘‘ مشہور ہے۔ اقتباس کا ترجمہ سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷) سے لیا گیا ہے۔ ۲۷۔ مجلہ علم و آگہی گورنمنٹ نیشنل کالج ۱۹۷۸ء کراچی کے ص۱۲۸ پر مضمون ’ادارۂ کامریڈ‘ میں ضیاالدین برنی کی کتاب عظمتِ رفتہ (۱۹۶۱) کے حوالے سے۔ ۲۸۔ مکتوب بنام گرامی۳ ستمبر۱۹۱۷ء ۲۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ ستمبر۱۹۱۷ء ۳۰۔ مکتوب بنام گرامی ۱۶ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۳۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ اکتوبر۱۹۱۷ء ۳۲۔ سالک کا بیان اُن کی کتاب یارانِ کہن سے لے کر جعفر بلوچ نے اپنی کتاب (۱۹۹۵) ص۲۲ میں شامل کیا ہے۔ سالک نے لکھا ہے کہ یہ اشعار ’اسرارِ خودی‘ کے ہیں جو درست نہیں کیونکہ یہ اشعار ’رموزِ بیخودی‘ میں شامل ہوئے۔ ۳۳۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۲۴۹-۲۴۷۔ اِس باب میں ستارۂ صبحسے جو اِقتباسات شامل کیے گئے ہیں اُن کا ماخذ یہی کتاب ہے۔ ۳۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۷ اکتوبر۱۹۱۷ء ۳۵۔ مکتوب بنام گرامی ۱۶ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۳۶۔ مکتوب بنام حسن نظامی ۱۱ جنوری ۱۹۱۸ء اور بنام کشن پرشاد ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ء ۳۷۔ مکتوب بنام گرامی۶ اکتوبر۱۹۱۷ء ۳۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۷ اکتوبر۱۹۱۷ء اور بنام گرامی ۱۱ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۳۹۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۴ نومبر ۱۹۱۷ء ۴۰۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۶۔ ان کا ماخذ انجمن کی جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۴۱۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۲۵۸ ۴۲۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۲۳۔ یہ بیان ظفر علی خاں نے ستارۂ صبح کی اشاعت ۱۵ نومبر ۱۹۱۷ء میں شائع کیا۔ ۴۳۔ رفیع الدین ہاشمی (۲۰۰۱/۱۹۹۲)، ص۹۷ نیز مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۷ نومبر ۱۹۱۷ء ۴۴۔ یہ فہرست مضامین مسودے کے مطابق ہے۔ مطبوعہ پہلے ایڈیشن میں فہرست شامل نہ تھی۔ مندرجات میں معمولی سا فرق تھا۔ ملاحظہ کیجیے ضمیمہ ۴۵۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۲۸ ۴۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۰ جنوری ۱۹۱۸ء ۴۷۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر (۱۰۰۲/۱۹۹۲)، ص۹۷ ۴۸۔ مکتوب بنام گرامی۲۷دسمبر ۱۹۱۷ء ۴۹۔ مکتوب بنام گرامی۲۷دسمبر۱۹۱۷ء ۵۰۔ نیازالدین خاں۲۷دسمبر۱۹۱۷ء ۵۱۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۷دسمبر ۱۹۱۷ء میں ہے کہ ’’انشأ اللہ آج کاتب کے حوالے کی جائے گی۔‘‘ طبع شدہ مثنوی پر اہتمام اشاعت کے سلسلے میں حکیم فقیر محمد چشتی کا نام درج ہے۔ ۵۲۔ مکتوب بنام خواجہ حسن نظامی ۱۱ جنوری ۱۹۱۸ء ۵۳۔ Shahid Hussain Razzaqi (1979/2003). Discourses of Iqbal. ۵۴۔ Muhammad Siddique (1983) ۵۵۔ مکتوب بنام مولوی نجم الغنی رامپوری ۱۴ دسمبر ۱۹۱۸ئ۔ معلوم نہیں واقعہ کب کا ہے۔ ۵۶۔ مکتوب بنام خواجہ حسن نظامی ۱۱ جنوری ۱۹۱۸ء ۵۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم فروری ۱۹۱۸ء ۵۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم فروری ۱۹۱۸ء ۵۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم فروری ۱۹۱۸ء ۶۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم فروری ۱۹۱۸ء ۶۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد یکم فروری ۱۹۱۸ء ۶۲۔ نکلسن کے خط کی تاریخ کشن پرشاد کے نام اقبال کے مکتوب یکم فروری ۱۹۱۸ء سے معلوم ہوتی ہے۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰) نے ص۳۵ پر اپنے والد سے جو روایت بیان کی ہے اُس میں اقبال کا مکالمہ واوین میں درج کیا ہے جو یوں ہے، ’’مجھے اس بات پر رونا آ گیا کہ جس قوم کے دل میں احساسِ خودی پیدا کرنے کے لئے میں یہ کتاب لکھی تھی وہ نہ تو پوری طرح اس کا مطلب سمجھ سکتی ہے اور نہ اس کی قدر کر سکتی ہے۔ دوسری طرف ولایت والوں کا یہ حال ہے کہ وہ میرے پیغام کو اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ کتاب میں نے ان کے لئے نہیں لکھی۔‘‘ فقیر سید وحیدالدین نے لڑکپن میں والد کی زبانی سنی ہوئی بات تیس بتیس برس بعد سپردِ قلم کی لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہے کیونکہ نہ یہ الفاظ اقبال کے معلوم ہوتے ہیں نہ یہ مفہوم اقبال کا ہو سکتا ہے۔ اقبال کے اُس زمانے کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہ خوش فہمی بالکل نہیں تھی کہ نکلسن اِس نیت سے کتاب کا ترجمہ کر رہے ہیں کہ برطانوی قوم میں اقبال کا پیغام عام ہو یا یورپ میں اس پیغام کے مقبول ہونے کا کوئی امکان ہے۔ بخوبی سمجھتے تھے کہ مستشرقین اسلامی دنیا کے بارے میں اس لیے واقفیت رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ واقفیت یورپی استعمار قائم رکھنے میں کام آئے۔ اسلامی علوم کی کتابیں جو یورپ میں ترجمہ ہوتی تھیں وہ عموماً ماہرین تک محدود رہتی تھیں جو سبق حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ تنقیدی نظر سے پڑھتے تھے۔ ۶۳۔ اقبال کا یہ طویل نوٹ نکلسن نے ’اسرارِ خودی‘ کے انگریزی ترجمے کے تعارف میں شامل کیا۔ دیکھیے The Secrets of the Self by R. A. Nicholson (tr) (1920) ۶۴۔ نظم مخزن، فروری ۱۹۱۸ء میں ص۳۲ پر شائع ہوئی۔ اقبال کا شعر ذہن میں رکھیے جو برسوں بعد ’ذوق و شوق‘ (۱۹۳۱ئ) میں لکھا گیا (نظم بالِ جبریل میں ہے جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی): کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات ۶۵۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۹ مارچ ۱۹۱۸ء ۶۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۲۰مارچ ۱۹۱۸ء ۶۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۹ مارچ ۱۹۱۷ء ۶۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۰ اپریل ۱۹۱۸ء ۶۹۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۰ اپریل ۱۹۱۸ء ۷۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۰ اپریل ۱۹۱۸ء ۷۱۔ بیاض پیام مشرق میں اس اُردو نظم کے بارہ اشعار درج ہیں۔ دو اشعار قلمزد ہیں۔ ان پر ’’مارچ 1918 ‘‘ لکھا ہے۔ بانگِ درا حصہ سوم میں نو اشعار بعنوان ’میں اور تو‘ شامل کیے گئے۔ شیخ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ۱۹۱۸ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی (روزگارِ فقیر) ۷۲۔ سات اشعار کی یہ غزل بیاض پیام مشرق میں ہے۔ اس پر ’’مارچ، جولائی 1918 ‘‘ درج ہے۔ متروک ہے۔ ۷۳۔ صحیفہ (۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۵ ۷۴۔ مخزن، مئی ۱۹۱۸ء ص۲-۱۔ عشرت رحمانی نے آغا حشر کے ڈراموں کی جلد اول، ص۳۷ میں لکھا ہے کہ کتابچے کی صورت میں نظم کی اشاعت کے لیے کتابت حکیم فقیر محمد چشتی نے اپنے قلم سے کی۔ ۷۵۔ میں نے نظم کا متن مخزن مئی ۱۹۱۸ء ہی سے لیا ہے۔ ۷۶۔ نظیر حسنین زیدی باب۶: گوئٹے کی درس گاہ ۱۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی۲۸اپریل۱۹۱۸ء ۲۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۵۴ ۳۔ باقیات اقبال، ص۲۱۳۔ تحسین سروری نے مضمون ’اقبال کی دو نظمیں اور اُن کا پس منظر‘ (صحیفہ اقبال نمبر، ص۶۶-۶۱) میں یہی نتیجہ اخذ کر کے دکھایا ہے کہ اس قصیدے کے بارے میں بعض مصنفین کی یہ روایت درست نہیں کہ ۱۹۲۹ء میں نظام سے ملاقات کے وقت سنایا گیا یا اُس موقع پر ’رموزِ بیخودی‘ پیش کی گئی۔ ۴۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۷۷ ۵۔ خواجہ کریم بخش کے لڑکے خواجہ عبدالوحید کا بیان ہے۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۹۰ ۶۔ بیاض پیام مشرق کے شروع میں یہ اقتباس انگریزی میں درج ہے۔ پیامِ مشرق کے دیباچے کے شروع میں اقبال نے اس کا ترجمہ اُردو میں کیا جو یہاں درج کیا گیا ہے۔ ۷۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۶۲۔ ان کا ماخذ صادق الخیری کا مضمون ’ٹکسٹ بک کمیٹی پنجاب کا کام‘ ہے جو ماہنامہ عصمت(کراچی) کے سالگرہ نمبر جولائی ۱۹۶۴ء میں ص۱۷۶-۱۷۵ پر شائع ہوا۔ ۸۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ئ، مکتوب بنام سلیمان ندوی، مکتوب بنام اکبر الٰہ آبادی ۱۱ جون ۱۹۱۸ء ، مکتوب بنام اسلم جیراجپوری ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء ۹۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹکے مختلف شمارے ہیں۔ ۱۰۔ گاندھی جی کی سوانح عمریوں میں یہ معلومات آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے۔ اپریل کے اواخر میں حکومت کے ساتھ اُن کی خط کتابت بھی جو عام طور دستیاب ہے اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ ۱۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۲۳-۱۲۱ ۱۲۔ سید نذیر نیازی (۱۹۷۱)، ص۲۳-۲۲ پر ہے کہ ۴ جنوری ۱۹۳۸ء کو اقبال نے سید نذیر نیازی سے کہا، ’’ایک دَور دَورِ وفاداری تھا۔ اس دور میں بھی قوم کا وجود ان افراد سے خالی نہیں تھا جو دل سے حکومت کے وفادار تھے۔ بایں ہمہ ان کے دل میں مسلمانوں کا درد تھا اور وہ سچے دل سے ملت کے بہی خواہ تھے۔۔۔ جس طرح آج آزادی اور استقلال کی صدائیں عام ہو رہی ہیں ایسے ہی ایک زمانہ تھا کہ بجز وفاداری کے کوئی دوسرا لفظ سننے میں نہیں آتا تھا۔‘‘ ۱۳۔ احمد راہی (۱۹۷۸)۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ معارف کا پرچہ دیر سے نکلا کیونکہ اپریل کے شروع میں سید سلیمان ندوی نے ’رموزِ بیخودی‘ پر اپنی رائے خط میں اقبال کو بھیجی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت تک تبصرہ نہ لکھا تھا جو اپریل کے شمارے میں شائع ہوا۔ ۱۴۔ اسٹریچی کا طرزِ سوانح نگاری بہت مقبول ہوا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تاریخی شخصیات کو اِس انداز میں دیکھنے کی وجہ سے اقبال جیسے مفکرین کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنا مشکل ہو گئے کیونکہ تاریخی شخصیات کے بارے میںتصور ہی بدل گیا۔ ۱۵۔ گرامی کے نام اقبال کا ایک خط جس پر تاریخ نہیں ہے۔ عام طور پر دسمبر ۱۹۱۷ء کا سمجھا جاتا ہے مگر یہ ’رموزِ بیخودی‘ کی اشاعت اپریل ۱۹۱۸ء کے قریب کا ہونا چاہیے۔ ۱۶۔ حرم کو اہلِ حرم سے گلے کا مضمون اس فارسی شعر سے ملتا جلتا ہے جو جامی کے مطلع سے متاثر ہو کر لکھا تھا اور جس میں صنم کو ہندوزادوں سے شکائت تھی۔ ۱۷۔ مکتوب بنام گرامی ۱۰ جون ۱۹۱۸ء ۱۸۔ شیخ نورمحمد کے نام اقبال کے خط ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء میں اس بارے میں کچھ اشارے ملتے ہیں (خط کا متن اپنی جگہ پر شامل کیا جا رہا ہے)۔ اِس پر روشنی ڈالتے ہوئے آفتاب اقبال کی بیگم نے حامد جلالی کی کتاب کے دوسرے ایڈیشن (۱۹۹۶) کی تمہید میں ص۲۹-۲۸ پر لکھا ہے: ’’شیخ عطا محمد اپنی لڑکی کی شادی آفتاب اقبال سے کرنا چاہتے تھے اور اپنی دامادی میں لے کر انہیں بالکل غلام بنانا چاہتے تھے۔ اس شادی سے آفتاب اقبال نے انکار کر دیا تھا۔ بس یہ گستاخی کی تھی۔‘‘ اس سے پہلے تاراچرن رستوگی اور پروفیسر ایوب صابر نے بعض دُور از قیاس نتائج اخذ کیے تھے جن پر بیگم آفتاب اقبال نے متذکرہ تحریر میں محاکمہ کیا۔ رستوگی اور ڈاکٹر صابر کے بیانات کے متعلقہ اقتباسات بھی شامل کیے۔ معاملہ کچھ یوں ہے: ۱ ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء کو اقبال نے آفتاب اور والدۂ آفتاب سے قطع تعلق کرنے کے حوالے سے اپنے والد شیخ نور محمد کو لکھا: ’’ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی عزت و آبرو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرے خواہ اس تدبیر کے اختیار کرنے میں کسی اور کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ۲ جنوری-جون ۱۹۸۸ء کی اشاعت (اقبال نمبر) میں رسالہ شاعر(بمبئی)، ص۷۵ پر تاراچرن رستوگی نے لکھا: ’’آفتاب اقبال سے میرے کچھ تعلقات تھے۔ آفتاب نے یہ مجھ سے کہا تھا کہ ان کے والد ماجد کو اپنی نئی بیوی پر شک ہو گیا تھا اور اسی شک سے مجبور ہو کر آفتاب کو گھربدر کیا گیا۔‘‘ ۳ ۱۹۹۳ء میں جنگ پبلشرز لاہور سے شائع ہونے والی کتاب اقبال دشمنی ایک مطالعہ میں مصنف پروفیسر ایوب صابر نے ص۱۳۱ پر لکھا: ’’[آفتاب اقبال] اپنی دوسری (سوتیلی) ماں سردار بیگم سے کوئی ایسی بدتمیزی کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے لیے اپنی عزت و آبرو بچانے کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ آفتاب اقبال اس وقت (۱۹۱۸ئ) بیس برس کے تھے، سردار بیگم چوبیس برس کی تھی۔ آبرو کا تعلق سردار بیگم ہی سے ہو سکتا ہے۔‘‘ ۴ اپریل ۱۹۹۶ء میں سید حامد جلالی کی کتاب علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیویکے دوسرے ترمیم شدہ ایڈیشن (تقسیم کنندہ مکتبۂ دانیال، کراچی)، ص۳۸-۲۱ میں رستوگی اور ڈاکٹر صابر کی پیش کردہ روایت کی تردید میں دلائل پیش کیے مگر ساتھ ہی یہ شبہ ظاہر کر دیا کہ شاید یہ روایت سردار بیگم نے خود گھڑی ہو: ’’ہاں اگر سردار بیگم نے اقبال کو یہ بتایا ہو۔ تو اور بات ہے۔ سب دنیا جانتی ہے کہ سوتیلی مائیں اپنی سوتن اور اس کی اولاد سے کیا کیا ریشہ دوانیاں کر سکتی ہیں خاوند کی نظروں سے گرانے کے لیے۔ کیسے کیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔۔۔‘‘ (ص۲۸)۔ گویا رستوگی نے قیاس کیا کہ اقبال کو آفتاب پر سردار بیگم کے حوالے سے ناگوار شبہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے آفتاب کو گھر سے نکال دیا۔ یہ قیاس بے بنیاد ہے کیونکہ اگر آفتاب ’’گھربدر‘‘ ہوئے تھے تو وہ اقبال کے ۹ جون ۱۹۱۸ء والے خط سے پہلے ہو چکے تھے۔ اس خط میں صاف تصریح موجود ہے کہ سردار بیگم اقبال کو بتائے بغیر اپنا زیور بیچ کر آفتاب کی مدد کرنا چاہتی تھیں جسے اقبال، سردار بیگم ’’کے دل کی وسعت اور فراخ حوصلگی کی دلیل‘‘ قرار دے رہے تھے کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا زیور۔۔۔ محض اس غرض سے دیتی ہے کہ مجھ پر کوئی شخص حرف گیری نہ کرے۔‘‘ خاکم بدہن اگر کوئی مکروہ شبہ (جس قسم کا رستوگی نے قیاس کرنے کی کوشش کی ہے) اقبال کے ذہن میں ہوتا تو سردار بیگم یوں خفیہ طور پر آفتاب کی مدد کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں نہ اقبال اِس پر اُن کی تعریف کر سکتے تھے۔ چنانچہ اگر آفتاب نے بھی اس قسم کی کوئی بات رستوگی سے کہی تو غلط کہی لیکن چونکہ رستوگی کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے کہ آفتاب نے واقعی ایسی بات کہی تھی لہٰذا محض رستوگی کی سند پر ایک ناپسندیدہ قول آفتاب سے منسوب کرنے سے بہترہے کہ دروغ بر گردنِ راوی ہی رہنے دیا جائے اور قول کی ذمہ داری آفتاب کی بجائے رستوگی پر رکھی جائے۔ یہی دلیل پروفیسر صابر کے پیش کردہ قیاس کی تردید میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے مگر ’’عزت و آبرو بچانے‘‘ کا حوالہ جسے اُنہوں نے بنیاد بنایا ہے اِس معاملے کے چند ماہ بعد یعنی ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء کے خط میں ملتا ہے لہٰذا علیحدہ بحث کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بیگم آفتاب اقبال نے متذکرہ بالا تحریر میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ جملہ ہائے معترضہ کی وجہ سے کہیں کہیں غیرمربوط ہو گئے ہیں مگر اُن کے دو بنیادی نکات وزن رکھتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’عزت و آبرو بچانے‘‘ کا مطلب صرف وہی نہیں ہوا کرتا جو پروفیسر صابر نے سمجھا۔ بیگم آفتاب اقبال لکھتی ہیں: ’’عزت و آبرو اور چیزوں میں بھی ہوتی ہے۔ جب شیخ عطا محمد کو جیل کی سزا ہوئی تھی [۱۹۰۴ء میں ایک جھوٹے الزام کے تحت] اُس وقت بھی اقبال کی عزت و آبرو کا سوال پیدا ہوا۔‘‘ یہ درست ہے کہ ذرا تلاش کرنے پر اقبال کے مکتوبات ہی میں کئی مثالیں مل جائیں گی کہ وہ ’’عزت و آبرو‘‘ کے الفاظ کو خاصے وسیع معانی میں استعمال کرنے کے عادی تھے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صابر نے صرف ایک جملے کو ذہن میں رکھا، پہلے اور بعد کی سطور کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔ اقبال کے اپنے الفاظ سے پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ چچا اور پھوپھی کے ساتھ آفتاب کے رویے کو اُنہوں نے غیرمناسب جانا تھا اور پوری بات اُسی واقعے سے متعلق تھی: باقی رہا قصور اُس کا یا اُس کی والدہ کا سومیرے نزدیک کسی کا نہیں۔ امرِ الٰہی ہر طرح ہو جاتا ہے۔ قطعِ تعلق جو میں نے ان لوگوں سے کیا ہے اس کا مقصد سزا نہیں ہے اور نہ میں ان سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہوں۔ جتنا میرا حصہ موجودہ صورت کے پیدا کرنے میں ہے اُس کا مطلب صرف اِس قدر ہے کہ عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈنک نہیں کھاتا۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی عزت و آبرو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرے خواہ اس تدبیر کے اختیار کرنے میں کسی اور کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔ اس کم بخت کو دوسرا موقع اپنی اصلاح کا مل گیا تھا۔ بھائی صاحب نے اس کا قصور معاف کر دیا اور اُسی پہلے برتاؤ کا اس سے آغاز بھی کر دیا تھا مگر کم بخت نے پھر وہی شیوہ اختیار کر لیا اور میں نے سنا ہے کہ ہمشیرہ کریم بی بی کو اُس نے بہت دل آزار باتیں کہیں۔ کیا عجب کہ اس کی موجودہ مصیبت اُسی کی بددعا کا نتیجہ ہو۔ میری رائے میں کریم بی بی سے اُسے معافی مانگنی چاہئے۔۔۔[پورے خط کا متن ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء کے ذیل میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے]۔ جہاں تک اُس امکان کا تعلق ہے جو خود بیگم آفتاب اقبال کی تحریر سے پیدا ہو سکتا ہے یعنی سردار بیگم نے آفتاب پر جھوٹا الزام لگایا ہو، اُس کی تردید میں وہی بات کافی ہے جو رستوگی کے قیاس کے رَد میں پیش کی گئی ہے۔ جون ۱۹۱۸ء میں سردار بیگم اپنے سُسر یعنی اقبال کے والد شیخ نور محمد کے ذریعے اپنا زیور بیچ کر آفتاب کی مدد کر نے کی کوشش کر چکی تھیں، یہ بات اقبال کے علم میں آ چکی تھی اور وہ اس کی تعریف کر چکے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک طرف سردار بیگم اِس نوعیت کا کوئی الزام آفتاب پر لگاتیں، دوسری طرف الزام لگانے سے پہلے یا بعد خفیہ طریقے پر آفتاب کی مالی اعانت اپنے سسر ہی کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتیں اور پھر اقبال اُن کی تعریف کر رہے ہوتے؟ محض قیاسات کی بنیاد پر ذہنی گھوڑے دوڑانے کی یہ پوری کاوش ہی افسوسناک ہے، صرف اس لیے نہیں کہ ہم اقبال کی عزت کرتے ہیں بلکہ اِس لیے بھی کہ اِس معاملے میں کوئی بھی الزام لگاتے ہوئے عام سمجھ بوجھ سے اِس طرح گریز کی گئی ہے کہ طبیعت کو سخت ناگواری محسوس ہوتی ہے اور آخر میں پروفیسر صابر جیسے دانشور کو بیگم آفتاب اقبال کے اِس قسم کے جملے سہنے پڑتے ہیں: ’’ایوب صابر کے گندے ذہن میں گندے خیالات آئے۔ ان کے تبصرہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ انسان کی شکل میں ایک شیطان ہے۔ جس کے دماغ میں صحیح اور انصاف کی بات نہیں آ سکتی۔۔۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایوب صابر کا کوئی ضمیر نہیں ہے اور حقیقت تک پہنچنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ (ص۲۵،۳۱) ۱۹۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۳۶/۱۹۵۰)، ص۳۰ ۲۰۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم مورخہ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء ص۷۲-۲۷۱ ہے ۲۱۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ جون ۱۹۱۸ ۲۲۔ اقبال ریویو(حیدرآباد دکن) اپریل جولائی ۱۹۸۴، ص۴۹ ۲۳۔ سید حسن ریاض نے تحریک خلافت اور تحریک پاکستان میں ایک صحافی کی حیثیت سے حصہ لیا۔ انہوں نے پاکستان ناگزیر تھا (۷۰/۱۹۶۷) بھی تصنیف کی۔ ۲۴۔ بیاض پیامِ مشرقمیں ’’جولائی ۱۹۱۸؁ئ‘‘ کی تاریخ کے ساتھ دس اشعار درج ہیں۔ چار اَشعار قلمزد ہیں۔ پیامِ مشرق میں ’میٔ باقی‘ کے حصے میں چھ اشعار شامل کیے گئے۔ میں نے اُردو ترجمہ احمد جاوید (۲۰۰۰)، ص۲۷۹ سے لیا ہے۔ ۲۵۔ مکتوب بنام اکبر ۱۴ ستمبر ۱۹۱۸ئ۔ رفیع الدین ہاشمی (۲۰۰۱/۱۹۹۲)، ص۹۶۔ عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب چند یادیں، چند تاثراتمیںصفحہ ۴۷ پر اقبال سے یہ قول منسوب کیا ہے، ’’’اسرارِ خودی‘ پر عبدالرحمٰن بجنوری کا مضمون پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ ’رموزِ بیخودی‘ کا لکھا جانا بیحد ضروری ہے۔‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے توجہ دلائی ہے کہ یہ قول درست نہیں ہو سکتا کیونکہ بجنوری کا مضمون مثنوی کے دونوں حصوں کی اشاعت کے بعد شائع ہوا تھا اور اُس میں دونوں حصوں پر بحث کی گئی تھی۔ ۲۶۔ حق نواز (اقبال اور لذتِ پیکار)، ص۱۴۹-۱۳۸ ۲۷۔ باقیات اقبال، ص۴۸۸ ۲۸۔ اس کا ایک لطیف اِشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ بانگِ درا (۱۹۲۴) میں نظم ’ہمایوں‘ کو ’خضرِ راہ‘ سے بالکل پہلے رکھا گیا ہے اور نظم ’ہمایوں‘ کا آخری شعر (’’موت کو سمجھے ہیں غافل۔۔۔‘‘) گویا ’خضرِ راہ‘ کی تمہید بن جاتا ہے جو حیاتِ دوام کی جستجو سے متعلق ہے، جیسے اِسی دوست کی موت ’’شاعر‘‘ کو خضر کے روبرو لے آئی ہو۔ ۲۹۔ بیاض پیامِ مشرقمیں ’’۱۹۱۸ئ‘‘ کے تحت درج ہے۔ پیامِ مشرق میں شامل ہے۔ ۳۰۔ باقیات اقبال، ص۴۸۸ ۳۱۔ باقیات اقبال، ص۴۸۹-۴۸۸۔ ابوللیث صدیقی (۱۹۷۷) میں میاں بشیر احمد کے مضمون ’اقبال کی یاد میں‘ (۱۹۳۹ئ) میں لکھا ہے کہ یہ اشعار جسٹس شاہ دین ہمایوں کی قبر کے کتبے پر کندہ ہوئے۔ ۳۲۔ مکتوب بنام اکبر ۲۵ جولائی ۱۹۱۸ء ۳۳۔ مکتوب بنام اکبر، ۲۵جولائی ۱۹۱۸ء ۳۴۔ بیاض پیام مشرق ۳۵۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۱۹۰ ۳۶۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی ستمبر ۱۹۱۸ ۳۷۔ مکتوب بنام اکبر۱۳اگست۱۹۱۸ء ۳۸۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر (۲۰۰۱/۱۹۹۲)، ص۸۴ ۳۹۔ دیکھیے مولانا اسلم جیراجپوری کا تبصرہ مئی ۱۹۱۹ء کے واقعات میں۔ ۴۰۔ پروفیسر بشیر احمد سوز( اِقبال اور ہزارہ)، ص۶۹ ۴۱۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): ص۵۴ ۴۲۔ اسرارورموزکے باب ’اصلاح ادبیات اسلامیہ‘ کا ترجمہ ہے۔ ۴۳۔ یہ تین اشعار مثنوی کے دوسرے ایڈیشن کے شروع میں درج ہوئے۔ ۴۴۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر (۲۰۰۱/۱۹۹۲)، ص۸۶، ۵۴۸۔ ’اسرارِ خودی‘ کا دوسرا ایڈیشن لاہور میں اقبال اکادمی پاکستان کی لائبریری میں موجود ہے اور میرے پیشِ نظر رہا ہے۔ سرورق موجود نہیں۔ ۴۵۔ اقبال نے اسپنگلر کے افکار پر براہِ راست تبصرہ The Reconstruction of Religious Thought in Islam (1930-34) بالخصوص پانچویں خطبے میں کیا ہے۔ اس کا تذکرہ چوتھی کتاب اقبال، دَورِ عروج میں ۱۹۲۹-۱۹۲۸ کے واقعات میں آئے گا۔ پیامِ مشرق کے دیباچے میں اقبال نے انحطاطِ مغرب پر جو خیالات ظاہر کیے اور نظم ’پیام‘ کے تفصیلی متن میں جو پیغام مغربی دانشور کو دیا اُسے اِس قسم کے تمام ہمعصر افکار کے بارے میں اقبال کا بالواسطہ مجمل تبصرہ سمجھا جا سکتا ہے (اس کا تذکرہ بھی چوتھی کتاب میں ۱۹۲۳ء کے واقعات میں کیا جائے گا)۔ اسپنگلر کے افکار کا ابن خلدون کے ساتھ موازنہ ایک دلچسپ مطالعے کا موضوع بن سکتا ہے۔ ۴۶۔ مکتوب بنام اکبرالٰہ آبادی ۱۳اگست۱۹۱۸ء ۴۷۔ مکتوب بنام اکبر۱۴ ستمبر۱۹۱۸ء ۴۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵ئ)، ص۶۹-۶۸ ۴۹۔ مکتوب بنام اکبر۱۴ ستمبر۱۹۱۸ء ۵۰۔ مکتوب بنام اکبر۲۸اکتوبر۱۹۱۸ء ۵۱۔ اس خط کی تاریخ صابر کلوروی نے ’’لاہور ۸ ستمبر ۱۹۱۸ئ‘‘ متعین کی ہے جو درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اکبر الٰہ آبادی کے نام ۱۴ ستمبر کے خط میں اقبال لکھتے ہیں کہ وہ ۹ ستمبر کو لاہور واپس آئے تھے۔ ۵۲۔ ۲۸اکتوبر ۱۹۱۸ء مکتوب بنام اکبر ۵۳۔ Mango, p.178 ۵۴۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی۳اکتوبر ۱۹۱۸ئ۔ نیازالدین خاں کے نام خط ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء میں درج ہے کہ ۳۰ ستمبر کو لاہور واپس آئے تھے مگر یہ نہیں لکھا کہ کہاں سے واپس آئے تھے۔ شملہ ہی سے آئے ہوں گے۔ ۵۵۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء ۵۶۔ فقیر سید وحید الدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۱۹۰-۱۸۹ ۵۷۔ مکتوبات بنام سلیمان ندوی ۲۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء اور ۳۰اکتوبر۱۹۱۸ء ۵۸۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۱۳۴ ۵۹۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی۳۰اکتوبر۱۹۱۸ء ۶۰۔ مکتوب بنام گرامی ۲۰ نومبر۱۹۱۸ء ۶۱۔ مکتوب بنام شیخ نور محمد ۱۲ دسمبر ۱۹۱۸ء ۶۲۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین (۱۹۸۶)، ص۱۷۵-۱۷۴ ۶۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۲ نومبر ۱۹۱۸ء ۶۴۔ Mango, p.195-6 ۶۵۔ برطانوی مورخ اے جی پی ٹیلر ہے۔ مشرق کے ناول نگار سے مراد ابن صفی (۱۹۸۰-۱۹۲۸) ہیں۔ ۶۶۔ مکتوب بنام گرامی ۲۰ نومبر۱۹۱۸ء ۶۷۔ میرا ماخذ تحسین حسین فراقی (۱۹۹۲) ہے۔ ۶۸۔ مکتوب بنام گرامی ۲۰ نومبر۱۹۱۸ء ۶۹۔ بیاض پیامِ مشرق میں اس کا عنوان ’دنیائے عمل‘ ہے اور مکتوبات میں بھی اقبال نے یہی عنوان استعمال کیا ہے مگر پیامِ مشرق میں ’جہانِ عمل‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ میں نے یہاں احمد جاوید (۲۰۰۰) کا ترجمہ استعمال کیا ہے۔ ۷۰۔ بیاض پیام مشرق ۷۱۔ بیاض پیام مشرق ۷۲۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں بھی شامل ہے۔ یہی بات قریباً چار برس بعد ’خضرِ راہ‘ میں خضر کی زبانی بھی سنوائی: اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر دیکھ! ۷۳۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۳۰۰ ۷۴۔ قریباً چار برس بعد یہی خیال اُردو نظم ’خضرِ راہ‘ میں یوں نظم ہوا: آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟ ۷۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۹۵۔ غلام جیلانی برق بعد میں نامور ادیب اور مفکر ہوئے۔ ان کی کتابیں دو اسلام، دو قرآن وغیرہ بہت مقبول اور مشہور ہیں۔ ۷۶۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۸-۱۹۷۱)، پیش لفظ از مولانا غلام رسول مہر، ص[قدیم:۲۱] زمانہ معلوم نہیں۔ ۷۷۔ بیاض پیامِ مشرق۔ متروک قطعہ ہے مگر خاصا مشہور ہے اور کئی کتابوں میں نقل ہو چکا ہے۔ بیاض میں اس کا عنوان ’تقسیمِ ازل‘ ہے اور وضاحت موجود ہے کہ شلر کی نظم سے مجوزہ ("suggested") ہے مگر پھر پوری نظم قلمزد کر دی گئی ہے۔ ۷۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۲۴نیز فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۷۰-۶۹ ۷۹۔ باقیات اقبال، ص۲۳۷ ۸۰۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۷۰-۶۹۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۹۰ لکھتے ہیں کہ وہ بھی موجود تھے۔ ۸۱۔ بیاض پیام مشرق۔ رباعی بھی بیاض میں قلمزد ہے مگر پیامِ مشرق کے حصے ’خردہ‘ میں شامل ہوئی۔ ۸۲۔ مخزن جنوری ۱۹۱۹ء میں مولانا تاجور کا مضمون ’انجمن ارباب علم‘۔ نظم ‘ہندوتسانی بچوں کا گیت‘ مخزن دسمبر ۱۹۱۸ء میں ص۵۶ پر درج ہے۔ میں نے صرف پہلا شعر نقل کیا ہے۔ ۸۳۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۵۸-۱۵۱ ۸۴۔ اصل خامیوں کی طرف اشارہ سید شوکت حسین کے نام خط ۶ جنوری ۱۹۱۹ء میں ہے۔ ۸۵۔ افضل حق قرشی (۲۰۱۰)، ص۱۷ ۸۶۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں بھی شامل ہوئی۔ ۸۷۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں بھی شامل ہے۔ ۸۸۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۸۹۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۸ مارچ ۱۹۱۹ء ص۴۷۳ ہے۔ ۹۰۔ Rahim Bakhsh Shaheen, p.28 ۹۱۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۴۲۰۔ ۹۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۲۲۲-۲۲۰۔ سراج نظامی بعد میں نامور ادیب ہوئے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر بھی رہے۔ ۹۳۔ بیاض پیام مشرق۔ ۹۴۔ سید حسن ریاض کی تحریر کا اقتباس سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷)، ص۸۵-۸۴ سے ہے۔ آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے نعرۂ توحید (۱۹۱۹) کا اقتباس ڈاکٹر مسز شمیم ملک (۱۹۸۶)، ص۳۰۲-۳۰۱ سے لیا گیا ہے۔ ۹۵۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۷۰-۶۹ ۹۶۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۵۵۔ نوابزادہ خورشید علی خاں کی روایت ہے۔ ۹۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۶ فروری ۱۹۱۸ء میں حوالہ ہے۔ ۹۸۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۳۰۱ ۹۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۴۲۱-۴۲۰۔ ۱۰۰۔ مکتوب بنام نیازالدین احمد خاں۵ فروری۱۹۱۹ء ۱۰۰۔ مکتوب نیز فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۱۹۰ ۱۰۱۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۸ مارچ۱۹۱۹ء ص۴۷۳ ہے۔ ۱۰۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۶فروری۱۹۱۸ء ۱۰۴۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۰۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ ۱۰۵۔ مکتوب بنام گرامی ۱۶ مارچ ۱۹۱۸ء ۱۰۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۹ مارچ ۱۹۱۹ء ۱۰۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۱۳مارچ۱۹۱۸ء ۱۰۸۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۵۲-۵۱ ۱۰۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۴۲۵-۴۲۴ ۱۱۰۔ Mango, p.206 ۱۱۱۔ مکتوب بنام گرامی ۱۶ مارچ ۱۹۱۸ء ۱۱۲۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۹ اور ۳۵-۳۴ ۱۱۳۔ صحیفہ (۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۵ ۱۱۴۔ باقیات اقبال، ص۲۲۱ ۱۱۵۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۵۷-۵۶۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ ۱۱۶۔ بیاض پیامِ مشرق۔ نظم پیامِ مشرقمیں بھی شامل ہوئی۔ ۱۱۷۔ بیاض پیامِ مشرقمیں اس غزل کے سات اشعار درج ہیں۔ پیامِ مشرقمیں صرف چار شامل کیے گئے۔ یہاں جو شعر نقل ہوا ہے وہ پیامِ مشرقمیں شامل نہیں۔ ۱۱۸۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیامِ مشرقمیں شامل ہے۔ ۱۱۹۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ۱۲۰۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۱۲۱۔ مکتوب بنام عطامحمد۱۵اپریل ۱۹۱۹ء ۱۲۲۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیامِ مشرق میں شامل ہے۔ ۱۲۳۔ یہ نظم بیاض میں ’محاورہ مابین خدا و اِنسان‘ کے فوراً بعد درج ہوئی۔ شاید دونوں ایک ہی ذہنی رَو کے تحت لکھی گئی ہوں۔ ۱۲۴۔ فلسفہ و سیاست۔ بیاض پیام مشرق ۱۲۵۔ باقیات اقبال، ص۲۳۸ ۱۲۶۔ مکتوب بنام عطامحمد۱۵اپریل۱۹۱۹ء ۱۲۷۔ بیاض پیام مشرق میں نظم کا ایک بند موجود ہے اور وسط اپریل ۱۹۱۹ء درج ہے۔ پیام مشرقکے پہلے ایڈیشن میں نظم صرف اسی بند پر مشتمل تھی (دوسرے ایڈیشن میں تعاد نو ہو گئی)۔ البتہ اس کا دوسرا شعر ۱۹ مئی ۱۹۱۹ء کو نیازالدین خاں کے نام خط میں درج کرتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ ایک روز پہلے تخلیق ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بند کی بنیاد وسط اپریل میں پڑی، دوسرا شعر ۱۸ مئی کو وارد ہوا اور بقیہ اشعار اُن کے بعد۔ میں نے یہی صورت حال فرض کر کے بقیہ اشعار ۱۸ مئی اور اس کے بعد درج کیے ہیں۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ پورا بند ۱۸ مئی یا اُس کے بعد لکھا گیا ہو اور بیاض میں اس پر تاریخ بعد میں حافظے کی مدد سے غلط درج ہو گئی ہو۔ ۱۲۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۲۵اپریل۱۹۱۹ء ۱۲۹۔ گرما میں چھٹیوں کی تجویز کا ذکر مکتوب بنام شیخ نور محمد ۱۲ مئی ۱۹۱۹ء ۱۳۰۔ محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۲)، ص۲۸۷ ۱۳۱۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۰۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹکے مختلف شمارے ہیں۔ نیز مکتوب بنام گرامی ۲۴ مئی ۱۹۲۲ء ۱۳۲۔ Mango, p.218-219 غالباً یہ قول اُس وقت تک ترکی کے سوا کسی زبان میں دستیاب نہ رہا ہو گا مگر عجیب بات ہے کہ چار برس بعد ’طلوع اسلام‘ کے نام سے مصطفی کمال کی فتح کا قصیدہ لکھتے ہوئے اقبال نے مصطفیٰ کمال کے اِسی قول کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا: یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ۱۳۳۔ مکتوب بنام اسلم جیراجپوری ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء ۱۳۴۔ مکتوب بنام اسلم جیراجپوری ۱۷ مئی ۱۹۱۹ء ۱۳۵۔ مکتوب بنام مولانا اسلم جیراجپوری، ۱۵ مئی ۱۹۱۹ء ۱۳۶۔ حق نواز (اقبال اور لذّتِ پیکار)، ص۱۷۲-۱۵۰ پر مضمون نقل کیا گیا ہے۔ مصنف کا ماخذ سید وقار عظیم کی مرتبہ اقبال معاصرین کی نظر میں ہے۔ ۱۳۷۔ بیاض پیامِ مشرق۔ نظم ’پیام‘ پیام مشرق میں شامل ہوئی مگر تبدیلیوں کے ساتھ۔ آخری دو اَشعار بھی نکال دیے گئے اور کبھی نہ ہوئے۔ ۱۳۸۔ مکتوب بنام اعجازاحمد۸ جولائی۱۹۱۹ئ۔ مکتوب بنام شیخ نورمحمد ۱۰ جولائی ۱۹۱۹ء ۱۳۹۔ تحسین فراقی (۱۹۹۲) ۱۴۰۔ بیاض پیام مشرق۔ ایک شعر لکھ کر غالباً اسی وقت قلمزد کیا گیا (چونکہ اس کا قافیہ آخری شعر میں لے لیا گیا اس لیے خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ہی یہ شعر ترک کر دیا گیا ہو)۔ ۱۴۱۔ مکتوب بنام شیخ نورمحمد ۲۰ جون ۱۹۱۹ء ۱۴۲۔ پٹیالہ والے مقدمے کی وضاحت مکتوب بنام نورمحمد۲۶جولائی۱۹۱۹ء میں ہے۔ ۱۴۳۔ مکتوب بنام نورمحمد۱۰ جولائی۱۹۱۹ء ۱۴۴۔ مکتوب بنام نورمحمد۲۶جولائی۱۹۱۹ء ۱۴۵۔ لالہ کنورسین سے ذکر کرنے کا تذکرہ مکتوب بنام اعجاز احمد ۲۹ اگست (اول) میں ہے۔ ۱۴۶۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۶۔ ان کا ماخذ انجمن کی جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۱۴۷۔ مقدمے کا ذکر مکتوب بنام اعجازاحمد ۷اگست ۱۹۱۹ء ۱۴۸۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۷۔ ان کا ماخذ جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۱۴۹۔ نظم ’لالہ‘ بیاض پیام مشرقمیں موجود ہے اور پیام مشرقمیں بھی شامل کی گئی۔ یہ ترجمہ معمولی تغیر کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۱۵۰۔ مکتوب ۱۱ اگست ۱۹۱۹ء ۱۵۱۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۷۔ ان کا ماخذ جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۱۵۲۔ مکتوب بنام اعجاز احمد ۱۵۳۔ مکتوب بنام اعجاز احمد ۱۵۴۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی ۲۶ اگست ۱۹۱۹ء ۱۵۵۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۴ستمبر ۱۹۱۹ء ۱۵۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خان۳۰اگست۱۹۱۹ء ۱۵۷۔ اعجاز احمد نے اپنی کتاب (۱۹۸۵)، ص۱۴۰-۱۳۹ میں لکھا ہے کہ اس برس یعنی ۱۹۱۹ء میں اقبال گرمیوں کی تعطیلات میں سیالکوٹ آئے تو اعجاز نے بھوک ہڑتال کے ذریعے اقبال کا یہ فیصلہ بدلنے کی کوشش کی کیونکہ اعجاز ایم اے کرنا چاہتے تھے جبکہ اقبال نے ان کے لیے ایل ایل بی کی تجویز پیش کی تھی۔ دن بھر اعجاز بھوکے رہے، رات کو ان کی والدہ نے چپکے سے کھانا ان کے کمرے کے باہر رکھ دیا جسے انہوں نے چھُپ کر کھا لیا اور جب اگلی صبح ناشتے کے بعد اقبال اُن سے بات چیت کرنے آئے تو خالی برتن دیکھ کر ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ اعجاز اپنی بھوک ہڑتال میں ثابت قدم نہیں رہ پائے۔ پھر بھی اس خیال سے کہ اعجاز خفت محسوس نہ کریں، انہوں نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد اعجاز کی والدہ سے کہا، بھابھی جی۔ آج ناشتہ میں پوریاں بڑی مزے دار تھیں۔ اعجاز کو بھی کھلائیں۔ اس نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ یہ روایت بیان کرنے سے اعجاز احمد کا مقصود یہ بتانا تھا کہ ’’کل سے میرے کچھ نہ کھانے کی بات انہوں نے صرف میری خفّت مٹانے اور مجھے یہ باور کروانے کے لیے کہی تھی کہ انہیں کل رات میرے کھانا کھا لینے کا کوئی علم نہیں۔‘‘ یہ تو بالکل درست ہے کہ اس قسم کی چشم پوشی اُس زمانے کے سمجھدار بزرگوں کی طبیعت کا حصہ ہوتی تھی لیکن اِس روایت کو اعجاز احمد کی تعلیم کے بارے میں اقبال کے فیصلے سے متعلق سمجھنے اور ۱۹۱۹ء کے موسمِ گرما میں وقوع پذیر ماننے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ گزشتہ دو تین ماہ میں اقبال نے اعجاز کی آیندہ تعلیم کے حوالے سے جتنے بھی خطوط لکھے ہیں اُن میں اپنی رائے کے حق میں دلائل دینے کے باوجود فیصلہ اعجاز احمد ہی کی مرضی پر چھوڑا تھا۔ اس لحاظ سے تو اعجاز احمد کو بھوک ہڑتال کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ اعجاز نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب اگلی صبح اقبال ان کے کمرے میں آئے تو آتے ہی کہا، ’’یہ تم گاندھی کے چیلے کب سے بنے ہو۔‘‘ ہندوستان میں گاندھی کی شہرت اور بالخصوص اُن کی بھوک ہڑتالیں ۱۹۱۹ء کے موسمِ گرم کے بعد کی باتیں ہیں۔ ممکن ہے اس قسم کی کوئی بھوک ہڑتال اعجاز احمد نے واقعی کی ہو اور اقبال نے اُسی چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہو جو یہاں بیان ہوئی مگر اُس صورت میں قرینِ قیاس ہے کہ یہ واقعہ ایک دو برس بعد پیش آیا ہو گا اور اس کا تعلق اعجاز کی آیندہ تعلیم سے نہیں بلکہ کسی اور معاملے (مثلاً شادی کے سلسلے میں اپنی کسی پسند ناپسند؟) سے رہا ہو گا۔ ساٹھ ستر برس بعد واقعہ تحریر کرتے ہوئے بعض تفصیلات کے بارے میں یادداشت کا دھوکہ دے جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ ۱۵۸۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۷۰۔ نیز مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی ۱۷ستمبر ۱۹۱۹ئ۔ ۱۵۹۔ بیاض پیام مشرق۔ غزل پیامِ مشرقمیں بھی موجود ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۱۶۰۔ بیاض پیامِ مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ۱۶۱۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ۱۶۲۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی۱۷ستمبر۱۹۱۹ء ۱۶۳۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۱۷۹-۱۷۷ ۱۶۴۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۱۵۷ ۱۶۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۷ستمبر۱۹۱۹ء ۱۶۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۷ستمبر ۱۹۱۹ء ۱۶۷۔ بیاض پیام مشرق۔ اس صفحے کے اکثر اشعار پیام مشرق کے حصے ’خردہ‘ میں شامل ہوئے۔ یہ دلچسپ اور کسی قدر تعجب انگیز بات ہے کہ اقبال پہلے اس حصے کو اکبراعظم سے منسوب کرنا چاہتے تھے۔ ۱۶۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد۱۷ستمبر۱۹۱۹ء ۱۶۹۔ مکتوب بنام نورمحمد۹اکتوبر۱۹۱۹ء ۱۷۰۔ مکتوب بنام سلیمان ندوی۲۷ستمبر۱۹۱۹ء ۱۷۱۔ سید حسن ریاض ۷۰/۱۹۶۷، ص۸۵ ۱۷۲۔ تحسین سروری کا مضمون ’اقبال کی دو نظمیں اور اُن کا پس منظر‘ (صحیفہ اقبال نمبر)۔ ۱۷۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۷ اکتوبر ۱۹۱۹ء ۱۷۴۔ متن کا ماخذ ڈاکٹر سعید اختر درانی (۱۹۸۵)، ص۲۶۷ ہے۔ ترجمہ مندرجہ ذیل ہے: لاہور (ہندوستان) ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء مائی ڈئر فرالائین ویگے ناسٹ آخر وہ ہولناک جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور چار سال کی طویل خاموشی کے بعد مجھے دوبارہ آپ کو خط لکھنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ آپ کا ملک ایک عظیم آزمائش سے گزرا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جلد ہی وہ اُن نقصانات کو پورا کر سکے گا جو اس جنگ میں اسے پہنچے ہیں۔ اس تمام عرصے میں مَمجھے آپ کے اور آپ کے عزیزوں خاص طور پر آپ کے بھائیوں کی خیریت کے بارے میں بڑی تشویش رہی ہے۔ براہِ کرم جلد از جلد مجھے اپنے بھائیوں کے حالات کے بارے میں تفصیل سے لکھئے۔ جرمن قوم کو واقعی بہت بڑی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔ میں یہ خط انگریزی میں لکھنے پر بہت معذرت چاہتا ہوں مگر اپنی غکط سلط اور بھونڈی جرمن سے آپ کی سمع خراشی کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ آپ کو ترجمہ کروانے کی زحمت دوں۔ براہِ کرم ہائیڈل برگ والی پروفیسر صاحبہ کے بارے میں بھی اطلاع دیجئے۔ کیا آپ کو جناب رائنر کی بھی کوئی خیرخبر ملتی رہتی ہے؟ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ آپ کا مخلص محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لأ لاہور ۱۷۵۔ بانگ درا کے حصہ ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۱۷۶۔ بانگِ درا کے حصہ ’ظریفانہ‘ میں چار اَشعار کا مزاحیہ قطعہ ہے۔ ۱۷۷۔ بانگ درا کے حصہ ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۱۷۸۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں، ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء ۱۷۹۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۷۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۲۰ء ص۷۷۴-۷۷۳ ہے۔ ۱۸۰۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص ۱۱۱-۱۰۹۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۲۰ء ص۷۷۴-۷۷۳ ہے۔ ۱۸۱۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۳۳ ۱۸۲۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص ۱۱۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۲۰ء ص۷۷۵-۷۷۴ ہے۔ ۱۸۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۹نومبر۱۹۱۹ء ۱۸۴۔ مسعود احمد بدایونی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ سب سے پہلے انہوں نے اقبال کی توجہ تذکرہ کے دیباچے کے اِس پہلو کی طرف مبذول کروائی۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ اصل مقصد تعلیم ہے، وہ کسی نام سے ہو بہتر ہے۔ تاریخ میں اگر اُن کا نام نہ آئے تو مضائقہ نہیں۔ (دیکھیے رحیم بخش شاہین، اوراقِ گم گشتہ، ص۱۷۰)۔ یہ درست ہے کہ اقبال اور وحید احمد مسعود کے درمیان یہ خط کتابت ہوئی مگر وہ اگست ۱۹۲۱ء کی بات ہے۔ اقبال اس سے پہلے ہی ۱۰ نومبر کو سید سلیمان ندوی کے نام خط میں شکایت کر چکے تھے مگر غالباً وحید احمد مسعود کو اِس کا علم نہ تھا۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۱۰۵-۱۰۴ لکھتے ہیں: ’’انہیں دنوں کا ذکر ہے ایک دن راقم خدمت میں حاضر تھا۔ علامہ [اقبال] خاموش بیٹھے تھے لیکن غصے کے آثار چہرے سے ظاہر تھے۔ ایک دم فرمایا ’سالک صاحب! دیکھیے مولوی ابوالکلام نے جو ’تذکرہ‘ لکھا ہے اُس کے دیباچے میں کوئی صاحب مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ اقبال پہلے کافر تھا۔ ’الہلال‘ نے اس کو مسلمان بنایا۔‘ میں یہ سن کر چونکا۔ تذکرہ میں نے پڑھا تو تھا لیکن اس کے دیباچے پر محض سرسری نظر ڈالی تھی۔ حضرت علامہ نے خود ہی ’تذکرہ‘ میری طرف بڑھایا۔ میں نے دیباچہ نکال کر پڑھا۔۔۔ راقم نے عرض کیا کہ مولوی فضل الدین احمد نے حقیقتاً غلط لکھا۔ ان کو آپ کے مسلک و مذہب کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں۔ انہیں لکھنے پڑھنے سے کیا سروکار۔ وہ تو مطبع ’الہلال‘ کے مہتمم تھے۔ اس کے بعد راقم نے چند ایسے فقرے کہے جن سے مقصود یہ تھا کہ علامہ کے دل میں مولانا ابوالکلام کے متعلق کوئی کدورت باقی نہ رہے۔ خدا جانے یہ مقصود حاصل ہوا یا نہیں۔‘‘ ۱۸۵۔ تحسین سروری کا مضمون ’اقبال کی دو نظمیں اور اُن کا پس منظر‘ (صحیفہ اقبال نمبر)۔ ۱۸۶۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۵-۱۰۲۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۱۸ء [کذا: ۱۹۲۰؟] ص۷۷۲-۷۷۰ ہے۔ ۱۸۷۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۵-۱۰۲۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۱۸ء [کذا: ۱۹۲۰؟] ص۷۷۶ ہے۔ ۱۸۸۔ خط پر تاریخ نہیں ہے۔ عام طور پر نومبر ۱۹۱۹ء کا شمار کیا جاتا ہے۔ ۱۸۹۔ خط پر تاریخ نہیں ہے۔ عام طور پر نومبر ۱۹۱۹ء کا شمار کیا جاتا ہے۔ ۱۹۰۔ مکتوب بنام وحید احمد مسعود بدایونی، ۲۷ نومبر ۱۹۱۹ء ۱۹۱۔ خط پر تاریخ نہیں ہے۔ عام طور پر نومبر ۱۹۱۹ء کا شمار کیا جاتا ہے۔ ۱۹۲۔ سید حسن ریاض ۷۰/۱۹۶۷، ص۸۶ ۱۹۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۹ دسمبر ۱۹۱۹ئ۔ جلسے کی بقیہ کاروائی کی تفصیلات اخبار کشمیری لاہور کی ۷ دسمبر ۱۹۱۹ء کی خبر سے ماخوذ ہیں جو ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۲۶۵-۲۶۳ میں نقل ہوئی ہے۔ ۱۹۴۔ اخبار کشمیریلاہور کی ۷ دسمبر ۱۹۱۹ء کی خبر سے ماخوذ جو ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۲۶۵-۲۶۳ میں نقل ہوئی ہے۔ ۱۹۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۹۰-۱۸۹ ۱۹۶۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ۱۹۷۔ بیاض پیام مشرق۔ اشعار میں تراش خراش ہوئی اور پھر یہ پیام مشرقمیں نظم ’موسیو لینن و قیصر ولیم‘ میں قیصر ولیم کا مکالمہ بنے۔ ان اشعار میں جو خیالات ظاہر کیے گئے وہ اُردو میں متعدد جگہوں پر الگ الگ ظاہر ہوئے، مثلاً ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نطام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری (بانگِ درا: ’خضرِ راہ‘) زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی (بال جبریل) مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی ہی پہ ہے جس کی نظر (ارمغانِ حجاز: ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘) ۱۹۸۔ Latif Ahmad Sherwani (1944/1977), p.180 میں اقبال کا مضمون 'McTaggart's Philosophy' ۱۹۹۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۵۵ ۲۰۰۔ مکتوب بنام کریم بی بی ۸ دسمبر ۱۹۱۹ء ۲۰۱۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۰۸-۱۰۵۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۵ جون ۱۹۲۰ء ص۷۷۲-۷۷۰ ہے۔ ۲۰۲۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۹ دسمبر ۱۹۱۹ء ۲۰۳۔ Muhammad Siddiq (1983) ۲۰۴۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۱۷، مرزا جلال الدین بیرسٹر کا مضمون ’میرا اقبال‘ ۲۰۵۔ نثار احمد قریشی (۱۹۸۳)، ص۸، ۱۔ ۲۰۶۔ محمد منور، پروفیسر(۱۹۷۲)، ص۱۶۶ ۲۰۷۔ محمد منور، پروفیسر(۱۹۷۲)، ص۱۶۵ ۲۰۸۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۷۵۔ ۲۰۹۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۳۶ ۲۱۰۔ سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷)، ص۱۰۰ ۲۱۱۔ یہ غزل حفیظ جالندھری کے اولین مجموعۂ کلام نغمہ زار میں موجود ہے۔ وہاں اس کی تاریخ ۱۹۲۰ء درج ہے۔ ۲۱۲۔ مکتوب بنام شیخ نور محمد ۲۳ اپریل ۱۹۲۱ء ۲۱۳۔ مکتوب بنام گرامی ۴ جنوری ۱۹۲۰ء ۲۱۴۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۶۳-۱۵۹۔ دونوں کتابیں ان کی نظر سے گزری ہیں۔ ۲۱۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۵ ۲۱۶۔ صوفی تبسم کے یہ عقیدتمند نثار احمد قریشی ہیں۔ ان کی کتاب (۱۹۸۳)، ص۹-۸ سے یہ روایت لی گئی ہے۔ ۱۹۲۰ء کا واقعہ ہے۔ ۲۱۷۔ مکتوب بنام گرامی ۴ جنوری ۱۹۲۰ء ۲۱۸۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۵۸ ۲۱۹۔ Mango, p.266 ۲۲۰۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۷۱-۱۷۰۔ وحید احمد مسعود بدایونی کا بیان ہے، ’’علی برادران کی رہائی پر جو قطعہ شاہین والا لکھا تھا وہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی بھیج دیا تھا۔ اور کہکشاں کو بھی۔ کہکشاں میں وہ پہلے شائع ہوا اور نقیب میں بعد کو لہٰذا امتیاز صاحب نے اپنے اگلے پرچے میں کچھ اس قسم کا اشارہ کیا تھا کہ نقیب نے کہکشاں سے نقل کیا ہے۔‘‘ ۲۲۱۔ سید حسن ریاض( ۷۰/۱۹۶۷)، ص۸۹-۸۸ ۲۲۲۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۸۸ پر جوہر کے مضمون ’میرا استاد اقبال‘ ہمدرد ۱۴ اگست ۱۹۲۷ء کے حوالے سے۔ اشعار ۲۷ ستمبر ۱۹۱۸ء کو لکھے گئے تھے جب مولانا محمد علی وفد کے قائد منتخب نہ ہوئے تھے۔ ۲۲۳۔ بیاض پیام مشرق۔ بیاض میں یہ نظم قلمزد ہے مگر پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۲۲۴۔ بیاض پیام مشرق میں یہ نظم درج ہے۔ پانچ اشعار ہیں۔ پیام مشرق میں شامل نہ کی گئی۔ ۲۲۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۷۲-۱۷۱ ۲۲۶۔ مکتوب بنام نیازلدین خاں۱۱فروری۱۹۲۰ء ۲۲۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۱ فروری ۱۹۲۰ء ۲۲۸۔ یہ معلوم نہیں کہ کون سی خلافت کمیٹی تھی۔ ۲۲۹۔ یہ قطعہ تیسری بیاض میں درج ہے اور بانگ درا میں بھی شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۲۳۰۔ مکتوب بنام عطامحمد ۱۶فروری ۱۹۲۰ء ۲۳۱۔ Mango (1999), p.269 ۲۳۲۔ Mango (1999), p.287 ۲۳۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۹مارچ۱۹۲۰ء ۲۳۴۔ مکتوب بنام اعجازاحمد (انگریزی)۳مارچ۱۹۲۰ء ۲۳۵۔ بانگ درا کے حصہ ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ ۲۳۶۔ سید سلیمان ندوی کا مضمون ’ڈاکٹر اقبال کی اسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ‘ مطبوعہ معارفمارچ ۱۹۲۱ء مشمولہ احمد راہی (۱۹۷۸)، ص۴۰۔ ۲۳۷۔ باقیات اقبال، ص۴۶۰۔ ۲۳۸۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۵۶-۵۵ ۲۳۹۔ صحیفہ (۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۵ ۲۴۰۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۵۶ ۲۴۱۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)۔ نظم کا متن باب۴ کے آخر میں پیش کیا جا چکا ہے۔ مولانا ظفر علی خاں کی شرکت کا تذکرہ جعفر بلوچ (۱۹۹۵) نے کیا ہے۔ ۲۴۲۔ Mango, p.273 ۲۴۳۔ Mango, p.275 ۲۴۴۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۶ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۴۵۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں۲۱ مئی ۱۹۲۰ء ۲۴۶۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۴۷۔ مکتوب بنام شیخ نور محمد ۲۳ اپریل ۱۹۲۰ئ۔ اپنی تاریخ کے حساب سے یہ پورا خط اپنی جگہ پر درج کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ ۲۴۸۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۵۹۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۴۹۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۳۶ ۲۵۰۔ Mango, p.279 ۲۵۱۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۱۸-۱۱۷۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۴ دسمبر ۱۹۲۰ء ص۱۸۰۷ ہے۔ ۲۵۲۔ Mango, p.279 ۲۵۳۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹ کے مختلف شمارے ہیں۔ ۲۵۴۔ مکتوب بنام خان نیازالدین خاں، ۱۱ مئی ۱۹۲۰ء ۲۵۵۔ بیاض پیام مشرق ۔ نظم پیام مشرق میں بھی موجود ہے۔ ۲۵۶۔ بیاض پیام مشرق ۲۵۷۔ بیاض پیام مشرق میں اس مقام پر ’محاورہ عشق علم‘ موجود ہے مگر یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کس ماہ لکھی گئی ہو گی۔ میں نے محض قارئین کی سہولت کے لیے اسے ۱۹۱۹ء کے اواخر میں رکھا ہے۔ ۲۵۸۔ بیاض پیام مشرق۔ پیام مشرق میں یہ ’محاورہ علم و عشق‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ میں نے یہاں احمد جاوید (۲۰۰۰) کا ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ۲۵۹۔ بیاض پیام مشرق۔ رباعی پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۲۶۰۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۲۶۱۔ برگساں پر تنقید اقبال نے اپنے غیرمطبوعہ مضمون 'Bedil in the Light of Bergson' میں کی(مرتبہ ڈاکٹر تحسین فراقی ۲۰۰۱/۱۹۸۲)۔ اس کا اقتباس میں نے ۱۹۲۱ء کے واقعات کے ذیل میں شامل کیا ہے (اگرچہ اس مضمون کی صحیح تاریخ کا تعین مشکل ہے)۔ اس کے علاوہ پیام مشرق کا دیباچہ اور ضربِ کلیم کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘ بھی پیشِ نظر رکھی جائے بمع Reconstruction والے خطبات کے۔ ۲۶۲۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۲۶۳۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۵۹، ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۶۴۔ ذوالفقار احمد تابش (۱۹۷۷)، ۱۲۷-۱۲۳۔ اقبال کے اشعار بیاض پیام مشرق میں بھی موجود ہیں۔ ۲۶۵۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۱مئی ۱۹۲۰ء ۲۶۶۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۲۱۷-۲۱۶ ۲۶۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۰ جون ۱۹۲۰ء ۲۶۸۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۲۱-۱۱۹۔ ان کا ماخذپنجاب گزٹحصہ سوم ۲۴ دسمبر ۱۹۲۰ئ، ص۱۸۰۸-۱۸۰۷ ہے۔ ۲۶۹۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۰ جون ۱۹۲۰ء ۲۷۰۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۰ جون ۱۹۲۰ء ۲۷۱۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۳۵-۱۳۴ ۲۷۲۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۹۵)، ص۱۴۳-۱۴۲ ۲۷۳۔ مکتوب ۲۷۴۔ ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۱۸-۱۱۶۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم ۲۴ دسمبر ۱۹۲۰ء ص۱۸۰۶ ہے۔ ۲۷۵۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۷۶۔ باقیات ص۲۶۵-۲۶۴ پر سات اَشعار کا قطعہ درج ہے۔ ۲۷۷۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۲۷۸۔ Riffat Hassan (1977) ۲۷۹۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۹۵) ۲۸۰۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۵۹، ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۸۱۔ اقبال ریویو (حیدرآباد دکن) اپریل جون ۱۹۸۴، ص۴۹ ۲۸۲۔ مکتوب بنام گرامی۔ خط جولائی میں لکھا گیا مگر تاریخ درج نہیں ہے۔ عموماً اسے ۱۹ جولائی سے پہلے کا سمجھا گیا ہے۔ ۲۸۳۔ مکتوب بنام گرامی ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۴۔ مکتوب بنام گرامی ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۵۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۶۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۷۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۸۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۸۹۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۹۰۔ مکتوب بنام گرامی ۱۹ جولائی ۱۹۲۰ء ۲۹۱۔ بیاض پیام مشرقمیں نظم کا نقشِ اول ادھورا اور قلمزد ہے۔ پیامِ مشرقمیں زیادہ مکمل نظم ’حکمأ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ ۲۹۲۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۲۹۳۔ سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷)، ص۱۰۳ ۲۹۴۔ بیاض پیام مشرق۔ تینوں نظمیں پیام مشرقمیں شامل ہوئیں۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۲۹۵۔ جعفر بلوچ (۱۹۹۵)، ص۱۸۵ ۲۹۶۔ Mango (1999), p.285 ۲۹۷۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۳۸ ۲۹۸۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ۲۹۹۔ بیاض پیام مشرقمیں پانچ اشعار کی نظم ہے۔ پیام مشرقمیں صرف دو اشعار ’آزادیٔ بحر‘ کے عنوان سے شامل کیے گئے۔ ۳۰۰۔ بیاض پیامِ مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۳۰۱۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۶۰ ۳۰۲۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۶۰-۵۹ ۳۰۳۔ سید سلیمان ندوی کا مضمون ’ڈاکٹر اقبال کی اسرارِ خودی کا انگریزی ترجمہ‘۔ میرا ماخذ احمد راہی (۱۹۷۸)، ص۴۰-۳۹ ہے۔ ۳۰۴۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۸۰-۷۹۔ مولانا عبدالماجد نے اِس رائے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ابوالکلام اور محمد علی کے درمیان اُس وقت بھی نقطۂ نظر کا جو فرق تھا اُس کی پوری جھلک اُن کے جوابوں میں نظر آ رہی ہے۔ محمد علی کے ہاں مادی غلبہ، روحانی غلبے سے الگ اور کوئی مستقل وجود رکھتا ہی نہ تھا۔‘‘ ۳۰۵۔ اکتوبر ۱۹۲۰ء سے شروع کر کے اگلے چند ماہ تک کئی مکتوبات میں اقبال نے یہ نکات متفرق طور پر پیش کیے اور پورا خاکہ روزنامہ زمیندارکے مدیر کے نام خط محررہ ۱۵ نومبر ۱۹۲۰ء میں واضح کیا جو اگلے روز زمیندار کے صفحہ۳ پر شائع ہوا۔ کتاب کے آخر میں یہ خط ضمیمہ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ میرا ماخذ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام) ہے جہاں یہ خط بظاہر زمیندار کے شمارے ہی سے نقل کیا گیا ہے۔ ۳۰۶۔ اعجاز احمد نے اپنی کتاب (۱۹۸۵)، ص۱۸۸ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ۳۰۷۔ Mango (1999), p.293 ۳۰۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۸۲، خواجہ برکت علی (ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر جنرل) کی روایت ہے۔ ۳۰۹۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۱۰۲-۱۰۱ ۳۱۰۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۹۹ ۳۱۱۔ بانگ درا حصہ سوم میں ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۳۱۲۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۳۱۳۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’نوادرِ اقبال‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۱۱۷)۔ ۳۱۴۔ بیاض پیام مشرق ۳۱۵۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۶۱ ۳۱۶۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۳۶-۳۵ ۳۱۷۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۳۸-۳۶ ۳۱۸۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۶۱۔ نیز مکتوب بنام نیازالدین خاں، ۲۸ اکتوبر ۱۹۲۰ء ۳۱۹۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۷۴، مولانا محمد علی قصوری ایم اے (کینٹب) کی روایت ہے ۳۲۰۔ مکتوب بنام فوق ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۰ء ۳۲۱۔ ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی (۱۹۸۵)، ص۱۳۶، ۱۵۲ ۳۲۲۔ یہ اقتباس اقبال نے نکلسن کے نام اپنے خط مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء میں نقل کیا۔ اقبال کے خط کے مکمل متن کے لیے دیکھیے ضمیمہ ۳۲۳۔ وائٹ ہیڈ کی کتاب میں پیش کیے ہوئے تصور کا یہ خلاصہ اقبال نے تشکیلِ جدید کے دوسرے خطبے میں پیش کیا جو ۱۹۲۷ء سے ۱۹۲۸ء کے دوران تیار کیا گیا تھا۔ میں نے بعض الفاظ و تراکیب سید نذیر نیازی کے ترجمے سے مستعار لی ہیں۔ اقبال نے جن الفاظ میں اس بحث کا خلاصہ کیا وہ درجِ ذیل ہیں: In our own times Professor Whitehead– an eminent mathematician and scientist– has conclusively shown that the traditional theory of materialism is wholly untenable. It is obvious that, on the theory, colours, sounds, etc., are subjective states only, and form no part of Nature. What enters the eye and the ear is not colour or sound, but invisible ether waves and inaudible air waves. Nature is not what we know her to be; our perceptions are illusions and cannot be regarded as genuine disclosures of Nature, which, according to the theory, is bifurcated into mental impressions, on the one hand, and the unverifiable, imperceptible entities producing these impressions, on the other. If physics constitutes a really coherent and genuine knowledge of perceptively known objects, the traditional theory of matter must be rejected for the obvious reason that it reduces the evidence of our senses, on which alone the physicist, as observer and experimenter, must rely, to the mere impressions of the observer’s mind. Between Nature and the observer of Nature, the theory creates a gulf which he is compelled to bridge over by resorting to the doubtful hypothesis of an imperceptible something, occupying an absolute space like a thing in a receptacle and causing our sensation by some kind of impact. In the words of Professor Whitehead, the theory reduces one-half of Nature to a “dream” and the other half to a “conjecture”. Thus physics, finding it necessary to criticize its own foundations, has eventually found reason to break its own idol, and the empirical attitude which appeared to necessitate scientific materialism has finally ended in a revolt against matter. Since objects, then, are not subjective states caused by something imperceptible called matter, they are genuine phenomena which constitute the very substance of Nature and which we know as they are in Nature. (Lecture II, The Reconstruction of Religious Thought in Islam) ۳۲۴۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۳۲۵۔ میں نے یہ اندازہ اِس بنیاد پر لگایا ہے کہ بیاض پیامِ مشرقمیں ’افکارِ انجم‘ کے صرف دو صفحے بعد وہ غزل ہے جو اقبال نے ۷ نومبر ۱۹۲۰ء کو مولانا گرامی کو خط میں بھیجی اور لکھا کہ حال ہی میں آمد ہوئی ہے۔ بہرحال یہ محض ایک قیاس ہے۔ ۳۲۶۔ ییٹس اور اقبال کے تفصیلی موازنے کے لیے میری کتاب The Beast and the Lion (2007) ملاحظہ کیجیے۔ ۳۲۷۔ H. G. Wells (1920), p.502 ۳۲۸۔ ظہورِ اسلام کا بیان ایچ جی ویلز نے آؤٹ لائن آف ہسٹری (محولہ بالا) میں ص۲۷۰-۲۶۳ پرکیا ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں ایک منفی رائے پیش کرنے کے بعد (جسے دہرانا مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا)، وہ آپؐ کی طرف اِشارہ کرکے لکھتا ہے: "...and it would throw all our history out of proportion if, out of an insincere deference to the possible Moslem reader, we were to present him [i.e. the Prophet] in any other light." مولوی محمد علی لاہوری جن کے ترجمۂ قرآن سے ویلز نے اقتباسات پیش کیے، وہ احمدی عقائد رکھتے تھے اور لاہوری گروپ کے بانی تھے (دیکھیے ۱۹۱۴ء کے واقعات)۔ انگریزی ترجمۂ قرآن ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا۔ جدید تعلیم حاصل کیے ہوئے مسلمان نوجوانوں میں سے بعضوں میں مقبول ہوا کیونکہ عموماً معجزات کا انکار کر کے عقلی تاویلیں پیش کی گئی تھیں۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کے اُستاد مولوی میر حسن کی رائے مندرجہ ذیل واقعے سے معلوم ہوتی ہے جسے عبدالواحد نے روایت کیا ہے جو ۱۹۱۷ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے تھے: اُن دنوں میں مولوی محمد علی [لاہوری] صاحب کا قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا، میں نے سوچا کہ مولوی [میر حسن] صاحب سے یہی کیوں نہ پوچھ لیا جائے کہ آپ معجزات کی استدلالی تاویل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن جب وہ فارغ بیٹھے تھے میں لرزتا کانپتا اُن کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام عرض کیا، ادھر سے کچھ جواب نہ ملا۔ میں خاموش بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے، کہو بھئی کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آج کل میں مولوی احمد علی صاحب کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں، اس کے پڑھنے سے میرے ذہن میں ہیجان سا پیدا ہو گیا ہے۔ آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ معجزات کی حقیقت پر کچھ روشنی ڈالیں۔ ’’تو یعنی تم نیچری ہو گئے ہو۔ نکل جاؤ یہاں سے، تمہارا کیا کام ہے یہاں، جاؤ محمد علی [لاہوری] کے پاس، نکل جاؤ۔‘‘ میں گھبرایا تو بہت، لیکن دل کڑا کر کے خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پسیجے اور کہنے لگے کہ آج فرصت نہیں، کل آنا۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۸۵-۱۸۴ باب۷: آبِ حیات کا چشمہ ۱۔ دیکھیے لوز ڈکنسن کے تبصرے سے اقتباس ، جو ۲۴ دسمبر ۱۹۲۰ء کے واقعے کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ ۲۔ دیکھیے فورسٹر کے تبصرے سے اقتباس، جو ۱۰ دسمبر ۱۹۲۰ء کے واقعے کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ ۳۔ دیکھیے ای جی براؤن کے تبصرے سے اقتباس، جو ۱۹۲۱ء کے واقعات کے آغاز میں درج کیا گیا ہے۔ ۴۔ یہ اقبال کی رائے ہے جس کا اظہار انہوں نے پیام مشرق(۱۹۲۳) کے دیباچے میں کیا۔ ۵۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے اور میں نے اسی کی ترتیب یہاں استعمال کی ہے۔ یہ ترتیب بیاض میں نمبر لگا کر ظاہر کی گئی ہے ورنہ بیاض میں بندوں کی اصل ترتیب موجودہ نمبروں کے لحاظ سے یوں تھی: ۱، ۴، ۲، ۵، ۳، ۶۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۶۔ عبداللہ چغتائی روایاتِ اقبال اور اقبال کی صحبت میںجیسی تصانیف کے مصنف ہیں۔ عبدالرحمٰن چغتائی ’’مصورِ مشرق‘‘ کہلائے۔ اقبال نے ان کے مرقع پر دیباچہ بھی لکھا۔ ۷۔ مکتوب بنام گرامی ۷ نومبر ۱۹۲۰ء ۸۔ بیاض پیام مشرق۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۹۔ بیاض پیام مشرق۔ غزل پیام مشرق میں بھی شامل ہے۔ مکتوب بنام گرامی ۷ نومبر ۱۹۲۰ء میں اس کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۔ مراسلہ بنام ایڈیٹر زمیندار مطبوعہ ۱۵ نومبر ۱۹۲۰ء مشمولہ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۱۰۰۔ اقبال نے یہ واقعہ ۱۵ ستمبر کو ایک دوست سے سنا جس نے وہ فتویٰ اور خط دیکھے تھے۔ ۱۱۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۶۲-۶۱ ۱۲۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص۵۵ پر خواجہ عبدالحمید کا بیان۔ اسی کتاب میں ص۲۴۵ پر خانصاحب محمد مشتاق علی خاں کے مضمون میں گاندھی جی کے متعلق اقبال کی مندرجہ ذیل رائے بھی موجود ہے لیکن چونکہ خانصاحب نے اپنا ماخذ درج نہیں کیااور مضمون کے دوسرے حصوں میں بعض تاریخی غلطیاں موجود ہیں (مثلاً ’اسرارِ خودی‘ کو ۱۹۲۰ء میں زیرِ تکمیل بتایا ہے، پیامِ مشرق پر نکلسن کے تبصرے کو آرنلڈ سے منسوب کیا ہے، وغیرہ) لہٰذا مندرجہ ذیل بیان کو متن کی بجائے یہاں حواشی میں پیش کیا جا رہا ہے: میا را بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و باموجش درآویز حیاتِ جاوداں اندر ستیز است اِن اشعار کی شانِ نزول یہ ہے۔ کہ ۱۹۲۱-۱۹۲۰ میں جب تحریکِ خلافت اور کانگریس اپنے شباب پر تھی۔ کلکتہ کے ایک انگریزی اخبار ’’جان بل‘‘ میں ایک کارٹون شائع ہوا۔ جس میں ایک حسین عورت کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے ’’مادرِ ہند‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ اس کے آگے دوسری تصویر تھی جس پر ’’مسٹر گاندھی‘‘ لکھا تھا۔ یہ عورت آنکھیں بند کئے گاندھی جی کے پیچھے تھی۔ اور گاندھی سے آگے سمندر اور چٹان تھی۔ تصور یہ پیش کیا گیا تھا۔ کہ بھارت ماتا اندھادھند مہاتما گاندھی کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا ہے۔ کہ یا تو وہ سمندر میں غرق ہو جائے۔ یا چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے۔ اخبار ’’زمیندار‘‘ کے ایک رکنِ ادارہ نے یہ تصویر علّامہ مرحوم [اقبال] کو دکھائی اسے دیکھ کر آپ نے مذکورۂ بالا دو شعر موزوں کئے۔ اور فرمایا کہ اسی تصویر کے ساتھ اُنہیں ’’زمیندار‘‘ میں شائع کر دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ۱۳۔ Mango (1999), p.307 ۱۴۔ ابتدا میں اقبال کی رپورٹ کا اقتباس روزنامہ زمیندار ۱۶ نومبر۱۹۲۰ء سے بذریعہ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۹۷ ماخوذ ہے۔ مکتوب بنام ایڈیٹر زمیندار مطبوعہ ۱۵ نومبر ۱۹۲۰ء مشمولہ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۹۹-۹۸ ۱۵۔ یہ نظم بانگِ درا حصہ سوم میں شامل ہے لہٰذا ۱۹۰۸ء اور ۱۹۲۴ء کے درمیان کبھی لکھی گئی ہو گی۔ میں نے تسلسلِ بیان کے لیے یہاں رکھی ہے۔ شیخ اعجاز احمد کی بیاض سے اس نظم کے تین متروک اشعار فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴)، ص۳۳۸ پر نقل ہوئے ہیں جو نظم کے آخر میں تھے: تیرے پیمانے میں اے ساقی شرابِ ناب تھی تیری شخصیت نے کھینچا ہر دلِ آگاہ کو اپنے میدانوں میں جب رزمِ ممالک عام تھی زندگی تیری سراپا صلح کا پیغام تھی ہند کے بتخانے میں تو کعبے کا معمار تھا کتنا باطل سوز تیرا شعلۂ گفتار تھا یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مخزن میں فروری ۱۹۱۸ء میں مولانا تاجوری نجیب آبادی کی نظم ’سراپائے رُوحانیت گورو نانکؒ‘ شائع ہوئی تھی۔ عین ممکن ہے کہ اقبال کی نظم اُس سے ذرا پہلے یا بعد لکھی گئی ہو۔ مولانا تاجورؔ کی نظم میں بھی گرو نانک کی توحید پرستی پر زور دیا گیا تھا۔ ان کا موازنہ سلطان محمود غزنوی سے کر کے ان کی برتری دکھائی گئی تھی: تُو نے بت توڑے مگر دل اہلِ بُت کا جوڑ کر کعبۂ دل ڈھا دیا محمود نے بُت توڑ کر ۱۶۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۱۰۳-۹۸ ۱۷۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۶۳-۶۲۔ ان کا ماخذ روزنامہ پیسہ اخبار ۲۰ نومبر ۱۹۲۰ء ہے۔ لاہور کے مسلمانوں کے جلسۂ عام کی قراردادوں میں ’’۱۴ اکتوبر‘‘ لکھا گیا ہے جو کتابت کی غلطی ہے۔ یہ احتجاج ۱۴ نومبر والی میٹنگ کے خلاف تھا۔ ۱۸۔ انجمن حمایت اسلام کے تعاون کا حوالہ محمد حنیف شاہد نے ص۳۹ پر دیا ہے۔ ۱۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۴۹ ۲۰۔ ترجمہ حسبِ ذیل ہے: آپ کے گرامی نامہ کا بہت بہت شکریہ جو مجھے پرسوں موصول ہوا۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر جن کا ذکر ضروری نہیں اور شاید اس وقت ممکن بھی نہیں ہے۔ ان حضرات کی آواز پر جن کی میرے دل میںبڑی عزت ہے، لبیک کہنا میرے لیے مشکل ہے۔ اگرچہ میں قومی تعلیم کے شدید حامیوں میں سے ہوں۔ لیکن ایک تو یونیورسٹی کی رہنمائی کے لیے مجھ میں وہ صلاحیتیں نہیں ہیں جو مختلف کشمکشوں اور رقابتوں کی صورت میں عموماً ابتدائی مراحل میں پیدا ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ فطری طورپر میں پرسکون حالات میں کام کر سکتا ہوں۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ہم جن حالات سے دو چار ہیں ان میں سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضروری ہے اور معاشی اعتبار سے ہندوستانی مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر انھیں ادب اور فلسفہ کی نہیں بلکہ تکنیکی تعلیم کی ضرورت ہے اور اس قسم کی تعلیم پر ان حضرات کو اپنی تمام تر کوششیں مرکوز کرنی چاہئیں۔ جن حضرات نے جامعہ ملیہ قائم کی ہے انھیں چاہیے کہ اس نئے ادارے میں خصوصی طور پر طبیعی علم کے ساتھ ساتھ تکنیکی پہلوئوں پر بھی زور دیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کریں جن کو وہ مناسب سمجھتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام بالخصوص عرب ملکوں اور مقدس مقامات میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کے پیش نظر ہندوستانی مسلمان کسی نہ کسی قسم کا عدم تعاون اختیار کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ لیکن تعلیم کا مذہبی پہلو میرے ذہن میں ہنوز غیر واضح ہے اور میں نے پورے مسئلہ پر بحث و مباحثہ کے لیے اپنی تجاویز شائع کر دی ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں شریعت کا ماہر نہیں ہوں لیکن میرا عقیدہ ہے کہ جہاں تک تعلیم کا سوال ہے موجودہ مجبوریوں کے تحت فقہ اسلامی ہماری مناسب رہنمائی کرنے سے معذور نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ مع الخیر ہوں گے۔ ۲۱۔ ابوسلمان شاہجہان پوری (۱۹۹۳)، ص ۸۹، جوہرؔ کے مضمون ’میرا استاد اقبال‘ ہمدرد ۱۴ اگست ۱۹۲۷ء کے حوالے سے ۲۲۔ مکتوب بنام شیخ نور محمد یکم دسمبر ۱۹۲۰ء ۲۳۔ Latif Ahmad Sherwani (1944/1977), p.180-181 میں اقبال کا مضمون 'McTaggart's Philosophy' ۲۴۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۹۶، ۱۸۵۔ ان کے ماخذ انجمن کی قلمی روداد اور روزنامہ زمیندار ۸ دسمبر۱۹۲۰ء ہیں۔ ۲۵۔ Riffat Hassan (1977) ۲۶۔ احمد راہی (۱۹۲۰)، ص۳۸-۳۷ ۲۷۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۰۵-۱۰۴۔ ان کا ماخذ روزنامہ زمیندار ۱۲ دسمبر۱۹۲۰، ص۳ ہے۔ ڈاکٹر کچلو نے اُسی روز اقبال کو جواب دیا جس کا متن یہاں اس طرح درج ہے: ’’آپ کا خط مورخہ ۱۰ دسمبر موصول ہوا۔ مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ مسئلہ الحاق کونسل کے سامنے پھر پیش کرنے والے ہیں۔ آپ اس بات کا وعدہ فرماتے ہیں کہ کونسل کا اجلاس جلد منعقد کیا جائے گا اور انجمن اپنے فیصلہ میں علمأ سے بھی استصواب کرے گی۔ اب چونکہ بموجب آپ کے خط کے انجمن بموجب احکام شرعی اس امر کا فیصلہ کرے گی اور مجھے بعض ممبران انجمن سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کے دل میں ایمانداری کے ساتھ چند شکوک مذہبی امور کے متعلق ہیں اور وہ ایسی حالت میں وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ان کے شکوک رفع ہو گئے تو وہ بھی مذہب و قوم کا ساتھ دیں گے۔ ان حالات میں گو میری قطعی رائے ہے کہ فتویٰ جمعیت العلمأ ناطق ہے اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ممبران انجمن کو ایک موقع دینے کے لیے [۔۔۔؟] ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ بہت جلد اپنے مذہبی شکوک رفع کر کے احکامِ الٰہی کے مطابق آخری فیصلہ کر دیں گے اور قوم اور ملک کو مزید پریشانی سے بچائیں گے۔‘‘ ۲۸۔ مکتوب بنام ضیاالدین برنی ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء ۲۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۰۴ بحوالہ محمد حنیف شاہد ’علامہ اقبال کی پانچ غیرمدون تحریریں‘ مطبوعہ صحیفہ اقبال نمبر ۳۰۔ ڈکنسن کے خط کا تذکرہ اقبال نے نکلسن کے نام اپنے مکتوب مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء میں کیا ہے۔ ڈکنسن کے خط کی تاریخ معلوم نہیں۔ ۳۱۔ Riffat Hassan (1977) ۳۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۹۸-۹۷ ۳۳۔ Muhammad Siddiq (1983) ۳۴۔ ایمل لڈوگ کی مشہورترین کتاب نپولین کی سوانح ہے۔ اقبال اسے پسند کرتے تھے۔ لٹن اسٹریچی ناپسند کرتا تھا۔ ۳۵۔ ’میرا استاد اقبال‘، ہمدرد ۱۴ اگست ۱۹۲۷۔ حوالہ ابو سلمان شاہجہان پوری (۱۹۹۳)، ص۸۵ ۳۶۔ ’میرا استاد اقبال‘، ہمدرد ۱۴ اگست ۱۹۲۷۔ حوالہ ابو سلمان شاہجہان پوری )۱۹۹۳)، ص۸۵ ۳۷۔ باقیات اقبال ص۴۹۰ ۳۸۔ محمد عبداللہ قریشی کا مضمون ’نوادرِ اقبال‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۱۲۴)۔ ۳۹۔ Mango (1999), pp.301-2 ۴۰۔ Mango (1999), p.203 ۴۱۔ Mango (1999), p.303 ۴۲۔ مخزنمئی ۱۹۲۱ء میں ’شذرات‘ کے تحت مدیر کی طرف سے معذرت شائع ہوئی ہے کہ بعض کتابیں موصول ہوئیں مگر اُن پر تبصرہ نہیں ہو سکا۔ ان میں اس کتاب کا حوالہ موجود ہے۔ نام ’’ابوالعلا مودودی‘‘ درج ہے۔ مودودی صاحب کا نام بعد میں جس طرح لکھا گیا وہ ’’ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ ہے۔ ممکن ہے مخزنمیں غلطی سے مختلف لکھا گیا ہو۔ ۴۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں، ۲۱ جنوری ۱۹۲۱ء ۴۴۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۶۴، ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۴۵۔ کلامِ بیدل کے انتخاب کی روایت ڈاکٹر حمید احمد خاں نے اپنے مضمون ’علامہ اقبال سے ایک ملاقات‘ میں اقبال کی زبانی بیان کی ہے، مشمولہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۵۴ ۴۶۔ ڈاکٹر تحسین فراقی (۲۰۰۳/۱۹۸۸) ۴۷۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۸ جنوری ۱۹۲۱ء ۴۸۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۵۵۔ نوابزادہ خورشید علی خاں کی روایت ہے۔ ۴۹۔ ابوسلمان شاہجہانپوری (۱۹۹۳)، ص۵۵ ۵۰۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۶۵، ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۵۱۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء ۵۲۔ احمد راہی (۱۹۷۸)، ص۴۱-۳۸ ۵۳۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۵۴۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد، ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء ۵۵۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین (۱۹۸۶)، ص۱۷۵-۱۷۴۔ خواجہ فیروزالدین بیرسٹر کا بیان عبداللہ چغتائی (روایات اقبال)، ص۹۶ پر درج ہے۔ ۵۶۔ دیکھیے مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء ۵۷۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء ۵۸۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، حاشیہ ص۲۲۵-۲۲۴ ۵۹۔ مکتوب بنام گرامی ۳۱ مارچ ۱۹۲۱ء ۶۰۔ مکتوب بنام گرامی ۳۱ مارچ ۱۹۲۱ء ۶۱۔ صحیفہ (۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۵ ۶۲۔ میرا ماخذ Riffat Hassan (1977), pp.292-300 ہے۔ وہاں مضمون کے آخر میں انڈین ریویو کے ساتھ "1921,22" درج ہے جس سے میںنے ’’1921-22‘‘ سمجھا ہے۔ ۶۳۔ Zulfiqar Ali Khan (1922), p.22 ۶۴۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۳۱۔ وسیمہ بیگم کی روایت۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۶۵۔ بشیر احمد ڈار (۱۹۶۷)، ص۳ ۶۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۳ اپریل ۱۹۲۱ء ۶۷۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۴ اپریل ۱۹۲۱ء ۶۸۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۹ مئی ۱۹۲۱ء ۶۹۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۴ اپریل ۱۹۲۱ء ۷۰۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۳۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹکے مختلف شمارے ہیں۔ ۷۱۔ مکتوب بنام عطامحمد ۲ مئی ۱۹۲۱ء ۷۲۔ مکتوبات بنام شیخ نور محمد ۵ مئی ۱۹۲۱ء اور شیخ اعجاز احمد ۱۰ جون ۱۹۲۱ء ۷۳۔ اقبال ریویو(حیدرآباد دکن)، اپریل جون ۱۹۸۴، ص۲، ۵ ۷۴۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۷۵۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۰ جون ۱۹۲۱ء ۷۶۔ نثار احمد قریشی (۱۹۸۳)، ص۹، ۱ ۷۷۔ ضیا گوکآلپ کا فلسفہ: نسل پرستی نہیں بلکہ قوم کی روح سے رابطے کا ذریعہ تلاش کرنے کی جستجو تھی۔ خدا نے انسانیت کو قبیلوں اور اقوام میں تقسیم کیا ہے تو اِس میں کیا مصلحت ہے؟ ضیا گوکآلپ کا فلسفہ اِسی سوال کا جواب فراہم کرتا تھا۔ ۷۸۔ Mango (1999), p.329 ۷۹۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء اور فٹ نوٹ کلیات مکاتیب اقبال جلد دوم ۸۰۔ Mango (1999), p.312 ۸۱۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۱۰۶ ۸۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۸۰-۳۷۹ ۸۳۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۔ سفر کے راستے کی تفصیل ظفر حسین ظفر (اقبالیات جولائی-ستمبر ۲۰۱۰ئ) ص۱۰۵ سے ماخوذ ہیں۔ ۸۴۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ئ۔ جھیل کی تفصیل ظفر حسین ظفر (اقبالیاتجولائی-ستمبر ۲۰۱۰ئ) ص۱۱۵ سے ماخوذ ہے۔ ۸۵۔ باقیات اقبال، ص۲۷۰ ۸۶۔ ترجمہ معمولی تغیر کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۸۷۔ Mango, p.313 ۸۸۔ مکتوب بنام محمد دین فوق ۱۹ دسمبر ۱۹۲۲ئ۔ ترجمے کی اشاعت کی صحیح تاریخ معلوم نہیں البتہ چودھری محمد حسین والے ترجمے کو محمد دین فوق نے ۱۹۲۲ء کے آخر میں کتابچے کی صورت میں شائع کروایا۔ ۸۹۔ عبداللہ قریشی (۱۹۶۷)، ص۲۱۱ ۹۰۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ئ۔ ۹۱۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء ۹۲۔ محمد عمر کا بیان اُن کے جاننے والے صاحبزادہ سید ظفر ہاشمی (ساہیوال) نے ایک مضمون میں درج کیا۔ مشمولہ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۲۱-۳۲۰ ۹۳۔ نظم پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تغیر کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۹۴۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۹۵۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۹۶۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۹۷۔ مکتوب بنام گرامی ۱۲ جولائی ۱۹۲۱ء ۹۸۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین، ۱۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۹۹۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۷ جولائی ۱۹۲۱ء ۱۰۰۔ Mango (1999), p.314 ۱۰۱۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۱ جولائی ۱۹۲۱ء ۱۰۲۔ مکتوب بنام گرامی ۲۰ جولائی ۱۹۲۱ء ۱۰۳۔ Muhammad Siddiq (1983) ۱۰۴۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۱۰۵۔ یہ اقتباس نواب سر ذوالفقار علی خاں کی کتاب (۱۹۲۲) میں موجود ہے۔ پورے مضمون کا ترجمہ ڈاکٹر سلیم اختر (۱۹۷۸)، ص۱۱۱ سے ۱۲۰ پر ملاحظہ فرمائیے۔ عبداللہ قریشی (۱۹۶۷)، ص۵۱ پر چودھری محمد حسین کے مضمون میں ہربرٹ رِیڈ کے مضمون کی تاریخِ اشاعت ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء بتائی گئی ہے۔ ۱۰۶۔ اقبال ریویو(حیدرآباد دکن)، اپریل جون ۱۹۸۴ئ، ص۳۔ مصنف کا ماخذ آرکائیوز میں محفوظ سرکاری دستاویزات ہیں۔ ۱۰۷۔ مکتوب بنام وحید مسعود بدایونی ۳۰ اگست ۱۹۲۱ء ۱۰۸۔ Muhammad Siddiq (1983) ۱۰۹۔ مکتوب بنام گرامی ۱۶ ستمبر ۱۹۲۱ء ۱۱۰۔ باقیاتِ اقبال ۱۱۱۔ بیان پروفیسر خواجہ اسرار احمد کا ہے جو اُنہوں نے اپنے مضمون ’تحریکِ خلافت کی چند نایاب اور غیرمطبوعہ نظمیں‘ میں تحریر کیا۔ مضمون مجلہ علم و آگہی ۱۹۷۸ء گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میں ص ۲۳۶-۲۲۳ پر شائع ہوا۔ وہاں بیان کا پہلا ٹکڑا واوین میں درج ہے لہٰذا کسی دوسرے کا حوالہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نظم کے شاعر کی شناخت متنازعہ ہے لیکن پروفیسر احمد نے اپنے مضمون میں مختلف شواہد سے ثابت کیا ہے کہ یہ اقبال سہارنپوری کی نظم تھی۔ میں نے نظم کا متن بھی وہیں سے لیا ہے۔ ۱۱۲۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۱۱۳۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۵ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۱۴۔ Mango (1999), pp.326-7 ۱۱۵۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۱۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۱۷۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۱۸۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۱۹۔ مکتوب بنام نیرنگ ۱۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۲۰۔ باقیات اقبال، ص۴۹۰ ۱۲۱۔ Mango (1999), p.237 ۱۲۲۔ ۱۲۳۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۱ء ۱۲۴۔ Mango (1999), 332 ۱۲۵۔ Mango (1999), pp.328-9 ۱۲۶۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۷ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۲۷۔ پروفیسر خواجہ اسرار احمد نے اپنے مضمون ’تحریکِ خلافت کی چند نایاب اور غیرمطبوعہ نظمیں‘ میں عبدالماجد دریابادی کا بیان نقل کیا ہے۔ مضمون مجلہ علم و آگہی ۱۹۷۸ء گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میں ص ۲۳۶-۲۲۳ پر شائع ہوا۔ میں نے نظم کا متن اور یٰسین کے بارے میں معلومات بھی وہیں سے لی ہیں۔ ۱۲۸۔ سات اشعار پر مشتمل غیرمعروف شاعر کی نظم مجلہ علم و آگہی۱۹۷۸ء گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میں ص ۲۳۷ پر ادارتی نوٹ بعنوان ’کراچی کے قیدی‘ میں شہاب الدین انصاری کے مضمون ’محمد علی اور مقدمہ کراچی‘ ماہنامہ آج کل(دہلی) کے مولانا محمد علی نمبر دسمبر ۱۹۷۸ء ص۶۱ کے حوالے سے شائع ہوئی ہے۔ ۱۲۹۔ اختر راہی کا مضمون ’ڈاکٹر اقبال اور مولانا انور شاہ کشمیری‘ (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول، ص۲۸۲-۲۸۱)۔ اس میں مزید لکھا ہے (ص۲۸۵) کہ رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے بعد ’’شہر [لاہور] میں دفعہ ۱۴۴ نافذ رہتی تھی اور سیاسی جلسے مسجد میں ہوتے تھے۔ حکومتِ برطانیہ نے شاہی مسجد بند کر دی تھی۔ مسجد کی مسندِ خطابت خالی ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر [اقبال] صاحب کے ذہن میں اِس منصب کے لیے موزوں ترین آدمی [مولانا انور] شاہ [کشمیری] صاحب ہی تھے۔‘‘ ۱۳۰۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں، ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۳۱۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۱۱۱ ۱۳۲۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵) ۱۳۳۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۱۱۲ ۱۳۴۔ سید حسن ریاض (۷۹/۱۹۶۷)، ص۱۱۶ ۱۳۵۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۳ ۱۳۶۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶): اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۱۸۵۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۱۳۷۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء میں یہ فارسی شعر نیازالدین کے توسط سے گرامی کو بھجوایا ہے۔ مکتوب مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۲۱ء میں بتایا ہے کہ غزل کسی کاغذ پر لکھ کر رکھی ہوئی ہے۔ ۱۳۸۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۴۷-۴۶، میاں بشیر احمد کا مضمون ’اقبال کی یاد میں‘ ۱۳۹۔ بانگ درا حصہ سوم میں شامل ہے۔قلمی متن اُس بیاض میں درج ہے جس میں زیادہ تر زبور عجم کی منظومات ہیں۔ اس پر۳ دسمبر ۲۱ء کی تاریخ درج ہے۔ بیاض کی تفصیل اقبال: دورِ عروج کے ضمیمے میں ملاحظہ فرمایے۔ ۱۴۰۔ چنانچہ نگارستانِ فارس اُسی ترتیب میں شائع ہوئی ۔ یہ واقعہ کتاب کے آخر میں عرضِ کیفیت کے باب میں خود آغا طاہر نے لکھا ہے۔ دیکھیے آزاد، محمد حسین (۱۹۲۲)ص۲۳۶ ۱۴۱۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۴ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۲۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۳ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۳۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۴ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۴۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۴ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۵۔ مکتوبات بنام گرامی ۲۵ اور ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غزل انہی دنوں تکمیل پا رہی تھی۔ ۱۴۶۔ مکتوب بنام گرامی ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۷۔ مکتوبات بنام گرامی مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء اور ۵ جنوری ۱۹۲۲ء میں یہ مصرع درج ہے اور اقبال نے با اصرار گرامی سے اس پر رائے مانگی ہے۔ یہ مصرع پیامِ مشرق کی نظم ’بندگی‘ میں استعمال ہوا۔ یہ خیال کلامِ اقبال میں اور بھی کئی جگہ آیا، مثلاً بال جبریلمیں ’’مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی‘‘۔ یہاں بندے کو ’’جبروتِ خدائی‘‘ کی حرص میں اپنے مقامِ بندگی کو فراموش کرنے سے روکا جا رہا تھا اور بالآخر یہی خیال ضربِ کلیم کی نظم ’مومن‘ میں اِس انتہا تک پہنچا کہ ’’جبروت‘‘ بھی مقامِ بندگی کے عناصر میں سے ایک عنصر بن گیا: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ۱۴۸۔ دیکھیے مکتوبات بنام گرامی ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء اور ۵ جنوری ۱۹۲۱ء ۱۴۹۔ یہ مصرع خط میں درج نہیں ہے مگر اس کے بعد دو خطوط مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء اور ۵ جنوری ۱۹۲۲ء میں گرامی سے اس کے متعلق استفسار کیا ہے، جس کی وجہ سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ مصرع اِسی خط کے ساتھ علیحدہ کاغذ پر بھیجا گیا ہو گا۔ خط کے ساتھ گرامی کی غزل بھی اقبال کی آرأ کے ساتھ ملفوف تھی، ممکن ہے اُسی کاغذ کے کسی کونے میں یہ مصرع بھی لکھ کر رائے طلب کی گئی ہو۔ ۱۵۰۔ سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷)، ص۱۱۸ ۱۵۱۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۳۶ ۱۵۲۔ اشارہ ہے اقبال کی نظم ’خضرِ راہ‘ کی طرف جو اپریل ۱۹۲۲ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی گئی۔ گرامی کے نام ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء کے خط میں بھی اسکندرنامہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۱۵۳۔ یہ اشعار مکتوب بنام گرامی مورخہ ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء میں درج ہیں اور کچھ ترمیم کے بعد پوری غزل پیامِ مشرقمیں شائع ہوئی۔ ۱۵۴۔ مکتوب بنام گرامی ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۵۵۔ مکتوب بنام گرامی ۲۹ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۵۶۔ مکتوب بنام گرامی ۳۰ دسمبر ۱۹۲۱ء ۱۵۷۔ Muhammad Siddiq (1983) ص۵۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد حسین نواب امین جنگ کی کتاب Notes on Islam مصنف کے دستخط کے ساتھ ۱۹۲۹ء میں اقبال کو پیش کی گئی۔ ۱۵۸۔ سید حسن ریاض (۷۰/۱۹۶۷)، ص۱۱۹۔ حسن ریاض نے لکھا ہے کہ یہ بات حسرت موہانی نے انہیں خود بتائی تھی۔ ۱۵۹۔ اِس غزل کا زمانہ معلوم نہیں مگر بانگِ درامیں حصہ سوئم کی غزلیات میں شامل ہے لہٰذا ۱۹۰۸ء کے بعد کی ہے۔ اس کے استعارے دسمبر ۱۹۲۱ء میں لکھی جانے والی ’’ظہورِ مصطفویؐ‘‘ والی غزل سے بہت قریب ہیں جس کی وجہ سے اِسے یہاں رکھا ہے۔ ۱۶۰۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۲۱ پر فیکلٹی کے اجلاس منعقدہ ۱۳مئی ۱۹۲۲ء کی روداد میں اقبال کا تذکرہ ڈین کی حیثیت میں ہوا ہے۔ ڈاکٹر اختر نے یہ نہیں بتایا کہ ۱۹۲۱ء میں بھی اقبال ڈین تھے یا نہیں۔ ۱۶۱۔ محمد حنیف شاہد (اقبال اور انجمن حمایت اسلام)، ص۳۶۔ مصنف نے اسے انجمن کا چوتھا مڈل ہائی اسکول شمار کیا ہے لیکن اس سے قبل ۱۹۱۷ء میں انجمن کے پرائمری اسکول کو ترقی دے کر مڈل اور ۱۹۲۱ء میں ہائی اسکول بنایا جا چکا تھا اس لیے میں نے اسے پانچواں شمار کیا۔ ۱۶۲۔ مکتوب بنام گرامی ۵ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۳۔ مکتوب بنام گرامی ۵ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۴۔ مکتوب بنام گرامی ۶ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۵۔ مکتوب بنام گرامی، جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۶۔ دیکھیے مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۴ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۷۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۷ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۶۸۔ دیکھیے مکتوب بنام نیازالدین خاں ۲۴ جنوری ۱۹۲۲ء اور مکتوب بنام گرامی ۲۵ جنوری ۱۹۲۲ئ۔ گرامی کی روانگی کی تاریخ معلوم نہیں مگر اقبال نے نیازالدین کے نام ۲۴ جنوری کے خط میں لکھا ہے کہ گرامی چند روز رہ کر واپس تشریف لے گئے۔ ۱۶۹۔ ڈاکٹر حسن اختر ملک (۱۹۸۸) ۱۷۰۔ مکتوب بنام پروفیسر محمد اکبر منیر ۳۰ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۷۱۔ مکتوب بنام پروفیسر محمد اکبر منیر ۳۰ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۷۲۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۲۸ جنوری ۱۹۲۲ء ۱۷۳۔ دیکھیے مکتوب بنام گرامی ۹ فروری ۱۹۲۲ء اور مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۲ فروری ۱۹۲۲ء ۱۷۴۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۷۵۔ شیخ عبدالقادر کا مضمون ’ہماری شاعری کا ایک نیا میلان (اشاریت اور ابہام)‘ جو ماہنامہ نگار شمارہ جنوری و فروری ۱۹۵۰ء ص۱۱۷-۱۰۵ پر شائع ہوا۔ میرا ماخذ محمد حنیف شاہد (۱۹۸۶: مقالاتِ عبدالقادر)، ص۳۴۲-۳۴۱ ہے۔ ۱۷۶۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۳ فروری ۱۹۲۲ء ۱۷۷۔ دیکھیے مکتوب اقبال بنام گرامی ۶ فروری ۱۹۲۲ئ۔ وہاں نواب صاحب کی دہلی واپسی کی تاریخ ۸ فروری درج ہے مگر خط ۶ فروری کا ہے۔ اگر خط کی تاریخ درست ہے (اور یہ درست ہی معلوم ہوتی ہے) تو پھر نواب صاحب کی واپسی کی تاریخ لکھنے میں سہو ہوا ہو گا۔ اُن کی آمد اور واپسی ۶ فروری سے پہلے کا واقعہ ہونا چاہیے۔ ۱۷۸۔ ڈاکٹر حسن اختر ملک (۱۹۸۸) ۱۷۹۔ مکتوب بنام گرامی ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء ۱۸۰۔ مکتوبات بنام گرامی ۹ فروری، ۱۰ فروری ۱۹۲۲ء ۱۸۱۔ مکتوب بنام گرامی ۹ فروری ۱۹۲۲ء ۱۸۲۔ مکتوب بنام گرامی ۱۷ فروری ۱۹۲۲ء ۱۸۳۔ مکتوب بنام گرامی ۱۷ فروری ۱۹۲۲ء ۱۸۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۲ فروری ۱۹۲۲ء ۱۸۵۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۷۔ ان کا ماخذ جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ کمیٹی میں شامل مولوی عبدالحق، بابائے اُردو نہیں بلکہ کوئی اور صاحب ہیں۔ ۱۸۶۔ تفسیر کے پہنچنے کی صحیح تاریخ معلوم نہیں۔ مکتوب بنام اکبر منیر (اندازاً ۸ مئی ۱۹۲۲ئ) میں تذکرہ ہے کہ پہنچ گئی تھی اور اقبال رائے قائم کر چکے تھے۔ ۱۸۷۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء ۱۸۸۔ Mango (1999), p.334 ۱۸۹۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۹۰۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۸ مارچ ۱۹۲۲ء اور مکتوب بنام گرامی ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء ۱۹۱۔ Mango (1999), p.336 ۱۹۲۔ مکتوب بنام گرامی ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء ۱۹۳۔ Mango (1999), p.333, 336 ۱۹۴۔ مکتوب بنام گرامی ۲ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۹۵۔ مکتوب بنام گرامی ۲ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۹۶۔ صحیفہ(۱۹۷۳) میں صفدر محمود کا مضمون، ص۱۶ ۱۹۷۔ مکتوب بنام گرامی ۲ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۹۸۔ مکتوب بنام ضیأ الدین برنی ۱۲ اپریل ۱۹۲۲ء ۱۹۹۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۳۱-۳۰۔ انہوں نے اپنے والد فقیر سید نجم الدین سے ایک اور روایت بھی بیان کی ہے جسے عموماً نظم ’خضرِ راہ‘ کی تصنیف سے متعلق سمجھا گیا ہے لیکن یہ روایت جس طرح بیان ہوئی ہے اُس کی وجہ سے اس کے تمام حصوں کو قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ وحیدالدین نے لکھا ہے کہ ایک شام ان کے والد (فقیر سید نجم الدین) اقبال کے پاس سے واپس آئے تو یہ قصہ سنایا کہ گزشتہ روز اقبال کسی بزرگ کے پاس جانا چاہتے تھے جن کی شہرت سنی تھی کہ روشن ضمیر ہیں اور داتا صاحب کے مزار پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اقبال اُن سے ایک سوال کا جواب پوچھنا چاہتے تھے۔ وحیدالدین کی روایت کے مطابق اقبال ہی کے الفاظ میں وہ سوال یہ تھا، ’’جب مسلمانوں سے یہ وعدۂ ایزدی ہے کہ وہ اقوامِ عالم میں سرفراز اور سربلند ہوں گے تو آج کل یہ قوم اتنی ذلیل و خوار کیوں ہے؟‘‘ اُس روز جانے میں تساہل ہو گیا تو اگلے روز کا ارادہ ہوا لیکن اگلی صبح فقیر سید نجم الدین کے پہنچنے سے پہلے ہی ایک بزرگ اقبال کے پاس آ کر خاموش کھڑے ہو گئے اور اقبال کے پوچھنے پر کہا، ’’ہاں تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے۔ میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں۔‘‘ اس کے بعد مثنوی کا مشہور شعر پڑھا جسے وحیدالدین نے یوں نقل کیا ہے: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند تو ندانی اول آں تعمیر را ویراں کنند وحیدالدین نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ سن کر اقبال کی جو کیفیت ہوئی وہ اقبال ہی کے الفاظ میں یوں ہے، ’’کچھ پوچھو نہیں کہ مجھ پر کیا گزر گئی۔ چند لمحوں کے لئے مجھے قطعی اپنے گردوپیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کے لئے دوبارہ نظر اٹھائی لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔‘‘ وحیدالدین کہتے ہیں کہ ان کے والد نے یہ قصہ ان کے دوست عاشق حسین بٹالوی کو بھی سنایا اور جب انہوں نے کسی کا حوالہ دیے بغیر اقبال سے تصدیق چاہی تو انہوں نے کہا، ’’تمہیں یہ واقعہ فقیر نجم الدین سے معلوم ہوا ہو گا۔ کیونکہ یہ میں نے صرف انہیں کو سنایا تھا۔‘‘ اول تو فقیر وحید الدین مولانا روم کا شعر غلط لکھ گئے ہیں۔ یہ اس شعر کی تصرف شدہ صورت ہے جو اقبال نے ’خضرِ راہ‘ میں استعمال کی ورنہ مولانا روم کا اصل شعر یوں ہے: ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند اول آں تعمیر را ویراں کنند یہ غلطی محض وحیدالدین کی بے دھیانی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اقبال سے جو سوال منسوب کیا گیا ہے وہ جن الفاظ میں بیان ہوا ہے کم سے کم اُن الفاظ میں اقبال کا سوال معلوم نہیں ہوتا۔ اقبال نے یکم جولائی ۱۹۱۷ء کو مولانا گرامی کو جو خط لکھا تھا اور اُس کے بعد بھی مسلسل جس طرح عالمِ اسلام کے مستقبل سے آگاہی کا دعویٰ کرتے رہے تھے اُس کے ساتھ یہ بات میل نہیں کھاتی۔ ممکن ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو اور کسی بزرگ سے اقبال کی ملاقات بھی ہوئی ہو جسے بیان کرنے میں کہیں بعض تفصیلات غلط ہو گئی ہوں۔ ۲۰۰۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء ۲۰۱۔ میں نے نظامی گنجوی کی پانچ مثنویوں( خمسہ)کی تشریح فکرِ اقبال کی روشنی میں کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے میری کتاب Shakespeare According to Iqbal (2010) ۔ ۲۰۲۔ مثال کے طَور پر دیکھیے اقبال کا مکتوب بنام گرامی یکم جولائی ۱۹۱۷ء ۲۰۳۔ نظم بانگِ درا میں شامل ہے۔ ۲۰۴۔ غلام رسول مہر (مطالب بانگ درا) ۲۰۵۔ غلام دستگیر رشید (۱۹۴۴)، ص۵۴-۵۳، پروفیسر خواجہ عبدالحمید کا مضمون ’اقبال کے علمی جواہرریزے‘ ۲۰۶۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۸۸ ان کا ماخذ پیسہ اخبار ۲ مئی ۱۹۲۲ء اور طاہر فاروقی (سیرت اقبال)، ص۱۴۹ ہے۔ ۲۰۷۔ صابر کلوروی نے اپنے مضمون ’اقبال اور ہزارہ‘ مشمولہ پروفیسر بشیر احمد سوزؔ، ص۱۷ پر شیر بہادر پنی سے ملاقات مورخہ ۱۱ نومبر ۱۹۷۸ء کے حوالے سے شیربہادر پنی کی زبانی یہ روایت بیان کی ہے۔ ۲۰۸۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۱۱۰ باب۸: سمرنا ۱۔ بیاض متفرقات۔ رباعی پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۲۔ دیکھیے Zulfiqar Ali Khan (1922) ’’وہ اقبال آیا‘‘ پر ناگواری کا تذکرہ اقبال نے مکتاب بنام نیازالدین خاں دسمبر ۱۹۲۲ء میں کیا ہے۔ ۳۔ دیکھیے اُمراؤ سنگھ کا لکھا ہوا مقدمہ، ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء کے واقعات میں۔ ۴۔ بانگ دراحصہ سوم (غزلیات) میں شامل ہے۔ ۵۔ محمد دین فوق کا بیان ہے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۱۴۹۔ فوق نے لکھا ہے، ’’اقبال پیشہ ور شاعر نہ تھے کہ شاگردوں کا جمگھٹا ہر وقت ساتھ رکھتے۔ نہ ان کو شاگرد بنانے کا شوق تھا۔ تاہم بعض احباب ان سے مشورہ ضرور لیا کرتے تھے۔ ان میں رائے بہادر پنڈت شیونرائن شمیم اور چودھری محمد حسین بھی تھے اور حاجی میر شمس الدین مرحوم بھی، جو انجمن حمایت اسلام لاہور کے سیکریٹری تھے۔‘‘ ۶۔ مکتوب بنام منشی سراج الدین ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء ۷۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء ۸۔ آزادانہ تحقیق کے بعد اقبال بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دونوں عقائد یعنی تناسخ اور بروز نفسیاتی طور پر بے بنیاد ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے اقبال کے وہ مضامین جو اُنہوں نے ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں احمدیت کی تردید میں لکھے۔ ۹۔ بیاض متفرقات۔ نظم پیام مشرق میں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ ۱۰۔ بیاض متفرقات میں آٹھ اشعار درج ہیں۔ یہ اشعار مکتوب بنام میر خورشید احمد ۱۳ دسمبر ۱۹۲۲ء میں مولانا عبدالسلام ندوی کو بھیجوائے گئے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اُس سے کافی عرصہ پہلے لکھے گئے، کیونکہ وہاں درج ہے، ’’حضور سرورِ کائنات کو مخاطب کر کے چند اشعار میں نے لکھے تھے۔۔۔‘‘ ۱۱۔ عبداللہ قریشی (۱۹۶۷)، ص۲۴۔ گرامی کا شعر یہ تھا: ماہ را بر فلک دو نیم کند فقر را ترکمانیٔ ہم ہست ۱۲۔ نظم بانگ درا کے حصے ’ظریفانہ‘ میں شامل ہے۔قلمی متن اُس بیاض میں درج ہے جس میں زیادہ تر زبور عجم کی منظومات ہیں۔ اس پر ۲۲ اپریل ۲۲ء کی تاریخ درج ہے۔ بیاض کی تفصیل اقبال: دورِ عروج کے ضمیمے میں ملاحظہ فرمایے۔ ۱۳۔ احمد راہی (۱۹۷۸)، ص۶۲۔ نیز مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء ۱۴۔ مکتوبات بنام گرامی ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء اور بنام نیازالدین خاں ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء ۱۵۔ مکتوب بنام اکبر منیر (اندازاً ۸ مئی ۱۹۲۲ئ) ۱۶۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۲۱ مئی ۱۹۲۲ء ۱۷۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۴۰-۱۳۹، مرزا جلال الدین کی روایت ہے۔ ۱۸۔ مکتوب بنام اکبر منیر (اندازاً ۸ مئی ۱۹۲۲ئ) ۱۹۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۵ جون ۱۹۲۲ئ۔ ایک لفظی تغیر کیا گیا ہے یعنی واوین میں جو جملہ درج ہے، اُس میں ’’وہی ہے جو اُس نے دیا تھا‘‘ کی بجائے ’’وہی ہے جو جرمنی کے پیغمبر شاعر نے دیا تھا‘‘ کیونکہ گوئٹے کے لیے ’’جرمنی کے مشہور پیغمبری شاعر‘‘ کے الفاظ اقبال نے اِسی مکتوب میں اِس سے پہلے والے جملے میں درج کیے ہیں۔ ۲۰۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۲۳۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم الف ۷ جولائی ۱۹۲۲ء ص۲۲۷ ہے۔ ۲۱۔ مکتوبات بنام شیخ عطا محمد ۱۳ جون ۱۹۲۲ء اور بنام شیخ اعجاز احمد ۱۵ جون ۱۹۲۲ء ۲۲۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۲۲-۱۲۱۔ ان کا ماخذ پنجاب گزٹحصہ سوم الف ۷ جولائی ۱۹۲۲، ص۲۲۵ ہے۔ ۲۳۔ سید سلیمان ندوی کا مضمون ’خضرِ راہ‘ مطبوعہ معارف مئی ۱۹۲۲ء مشمولہ احمد راہی (۱۹۷۸)، ص۶۲ ۲۴۔ ’’مولوی صاحب‘‘ کا تذکرہ گرامی کے نام خط مورخہ میں بھی ہے۔ ۲۵۔ Zulfiqar Ali Khan (1922) ۲۶۔ اُس زمانے میں عام سننے والوں نے ’خضرِ راہ‘ کے اشعار کے ’’بے لطف‘‘ ہونے کی توجیہہ جس طرح کی ہو گی اُس کا اندازہ مولانا غلام رسول مہر کی اُس بات سے ہوتا ہے جو اُنہوں نے بعد میں گرامی کے نام اقبال کا خط دریافت ہونے پر ایک تحریر میں لکھی تھی اور امجد سلیم علوی (۱۹۸۸)، ص۱۲۷-۱۲۶ میں شامل ہے: حضرت علامہ مرحوم و مغفور نے بیان کردہ اعتراض کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا، اُسے معاملے کا صرف ایک پہلو سمجھنا چاہیے اور اجمال یا کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے مرحوم نے اسی پر اِکتفا فرمایا لیکن ’خضرِ راہ‘ کے بعد حضرت کے بیشتر اُردو اَشعار اسی وضع و اسلوب کے رہے جو بہ ظاہر اعتراض کا موجب بنا تھا۔ پھر کیا ان کے سلسلے میں محض اِتنا ہی جواب اطمینان بخش سمجھا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔ جن کی نظر حقیقی شعریت پر ہو یا جو اقبال کے مقامِ شعرگوئی سے کچھ بھی آگاہی رکھتا ہو وہ ایسے خیال کو ایک لمحے کے لیے بھی دل میں جگہ نہیں دے سکتا۔ حقیقی شاعر کا مقصد اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے کہ قوم ہی کو نہیں عالمِ انسانیت کو صحیح راستے کی دعوت دے، غلط روی سے روکے، انحراف سے باز رکھے، ٹھوکروں سے بچائے، دوسروں کے گمراہ کن طور طریقوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ کر دے، اُس کا یہ مقصد نہیں ہو سکتا کہ محض تخیل کی رنگینیوں سے دلربا تصویروں کی صفیں آراستہ کرتا جائے، جو ہر آیند و روند کی نظریں بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیں، لیکن نہ کسی کے دل میں عزم و ہمت کے چراغ روشن کر سکیں۔ نہ کسی کے فہم و بصیرت کو جِلا دے سکیں۔ نہ خواب کے ماتوں کو جگا سکیں۔ نہ احساسِ زیاں سے بہرہ مندی بخش سکیں اور نہ کسی کو مطلوب منزل پر پہنچا سکیں۔ ۲۷۔ Zulfiqar Ali Khan (1922) ۲۸۔ مکتوب بنام گرامی ۲۴ مئی ۱۹۲۲ء ۲۹۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۱۶۔ والدہ وسیمہ مبارک کی روایت بیان کی ہے۔ زمانہ معلوم نہیں۔ ۳۰۔ Mango (1999), p.333 ۳۱۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۵ جون ۱۹۲۲ء ۳۲۔ مکتوب بنام شیخ اعجاز احمد ۱۵ جون ۱۹۲۲ئ۔ نیز فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۴) ۳۳۔ مکتوب بنام گرامی ۲۲ جون ۱۹۲۲ء ۳۴۔ مکتوب بنام گرامی ۲۲ جون ۱۹۲۲ء ۳۵۔ مکتوب بنام گرامی ۲۲ جون ۱۹۲۲ء ۳۶۔ مکتوب بنام گرامی ۲۶ جون ۱۹۲۲ء ۳۷۔ مکتوب بنام گرامی ۲۶ جون ۱۹۲۲ء ۳۸۔ مکتوب بنام گرامی ۲۶ جون ۱۹۲۲ء ۳۹۔ مکتوب بنام گرامی ۲۶ جون ۱۹۲۲ء اور حواشی کلیات مکاتیب اقبالجلد دوم، ص۳۷۷ ۴۰۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء ۴۱۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۹۸-۹۷ ۴۲۔ مکتوب بنام ایس حبیب احمد ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء ۴۳۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۰ جولائی ۱۹۲۲ء ۴۴۔ اقبال ریویو(حیدرآباد دکن) اپریل جون ۱۹۸۴، ص۴۹ ۴۵۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۶ جولائی ۱۹۲۲ء ۴۶۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۶۵ اور ص۱۷۸۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کی تاریخ ۳۱ جولائی لکھی ہے مگر یہ تاریخ اُس اجلاس کی ہے جس میں اقبال کے استعفیٰ پر غور کیا گیا تھا۔ استعفیٰ چند روز پہلے ہی دیا گیا ہوگا۔ ۴۷۔ Mango (1999), p.338 ۴۸۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۷۔ ان کا ماخذ جنرل کونسل کی قلمی روداد ہے۔ ۴۹۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۸۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۵۰۔ یہ تصویر نواب سر ذوالفقار کی کتاب کے ساتھ شائع ہوئی۔ میری کتاب Iqbal: an Illustrated Biography (2006) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ۵۱۔ بیاض متفرقات۔ ۵۲۔ مکتوب بنام میر خورشید احمد ۲۵ اگست ۱۹۲۲ء ۵۳۔ بیاض متفرقات۔ غزل پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ترجمہ معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا ہے۔ ۵۴۔ بیاض پیامِ مشرق۔ غزل پیامِ مشرقمیں شامل ہے۔ ۵۵۔ بیاض متفرقات۔ غزل میں آٹھ نو اشعار درج ہیں جن کی قطع برید ہوئی ہے۔ چھ اشعار کی غزل پیامِ مشرقمیں شامل ہے۔ ۵۶۔ مکتوب بنام نیازالدین خاں ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء ۵۷۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۱۹-۱۱۷۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے، ’’دو ایک دن یہ کیفیت رہی کہ صبح ان کی چارپائی کو اُٹھا کر کمرے میں لے جاتے اور شام کو باہر چھت پر لے آتے۔ اگرچہ اُن [اقبال] کا بستر دانستہ ایک ہلکی چارپائی پر کیا تھا پھر بھی میرے اور چچی سردار کے لیے صبح شام کا یہ عمل خاصا دشوار ہوتا۔ ایک دن ابا جان [شیخ عطا محمد] نے ہاتھ بٹانا چاہا تو کمر کا درد لے کر بیٹھ گئے۔‘‘ یہ بات اُس بات سے مطابقت نہیں رکھتی جو انہوں نے شروع میں لکھی ہے کہ اقبال کو اُن کے بھانجے فضل حق کمر پر اُٹھا کر چھت پر لے جاتے اور واپس لاتے تھے۔ ۵۸۔ بیاض متفرقات۔ غزل پیامِ مشرقمیں شامل ہے۔ ۵۹۔ بیاض متفرقات۔ یہ چند مصرعوں کا ترجمہ ہے جو معمولی تبدیلی کے ساتھ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے لیا گیا ہے۔ پوری نظم پیام مشرقمیں ’خراباتِ فرنگ‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ ۶۰۔ بیاض متفرقات۔ ۶۱۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۴۷-۴۶ ۶۲۔ اس کے بعد اگلا دستیاب خط ۲۲ ستمبر ۱۹۲۲ء کا ہے جو لاہور سے لکھا گیا ہے۔ اگست کے آخر میں چھٹیاں ختم ہونے پر لاہور واپس آئے ہوں گے۔ ۶۳۔ مکتوب بنام شیخ عطا محمد ۲۸ ستمبر ۱۹۲۲ء ۶۴۔ فقیر سید وحیدالدین (۱۹۶۳/۱۹۵۰)، ص۱۷۶-۱۷۵ ۶۵۔ یہ اقتباس علامہ اقبال نے تشکیلِ جدید کے دوسرے خطبے میںاستعمال کیا۔ ۶۶۔ Mango (1999), pp.341-2 ۶۷۔ Mango (1999), p.342 ۶۸۔ Mango (1999), p.344 ۶۹۔ Mango (1999), p.344 ۷۰۔ Mango (1999), p.345-349 ۷۱۔ ابوسلمان شاہجہان پوری (۱۹۹۳)، ص ۹۰، جوہرؔ کے مضمون ’میرا استاد اقبال‘ ہمدرد۱۴ اگست ۱۹۲۷ء کے حوالے سے ۷۲۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۱۰۰-۹۹ اور سید محمد شاہ قادری (۱۹۹۸) ۷۳۔ عبدالماجد دریابادی (۲۰۰۱/۱۹۵۶)، ص۱۰۰-۹۹ باب۹: حافظ کا میخانہ ۱۔ Mango (1999), p.349-50 ۲۔ ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۰۳۔ مرزا جلال الدین کا مضمون ’میرا اقبال‘ ۳۔ مکتوب بنام گرامی ۴ اکتوبر ۱۹۲۲ء ۴۔ محمد دین فوق کا بیان ہے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ قریشی (۱۹۸۸)، ص۱۵۰ ۵۔ Rahim Bakhsh Shaheen, p.81 ۶۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۹۴-۹۳، خواجہ فیروزالدین بیرسٹر ایٹ لأ کی روایت ہے۔ ۷۔ یہ روایت فقیر سید وحیدالدین کی ہے جو اُنہوں نے روزگارِ فقیر جلد اول (۱۹۵۲) میں درج کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب وہ خطاب کی مبارک باد دینے اقبال کے پاس گئے (جو ۱۹۲۳ء کے اوائل کی بات رہی ہو گی) تو اقبال نے خود یہ واقعات اُن سے بیان کیے کہ پہلے جسٹس سر شادی لال نے اقبال سے کہا کہ وہ خان صاحب کے خطاب کے لیے ان کا نام حکومت کو تجویز کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال نے انکار کر دیا۔ چند روز بعد شادی لال نے ملاقات کے لیے بلوایا تو اقبال نے پیغام بھجوایا کہ خطاب کے بارے میں مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ بقیہ واقعات فقیر سید وحیدالدین نے کچھ اقبال کی اور کچھ اپنی زبانی یوں بیان کیے ہیں: اِس واقعہ کو کچھ دن گزرے تھے کہ میکلگن صاحب گورنر پنجاب نے مجھے [یعنی اقبال کو] بلا بھیجا۔ بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے آئیے آپ کو اپنے ایک دوست سے ملواؤں۔ ایک انگریز انہیں دنوں لاہور آیا تھا۔ وہ گورنمنٹ ہاؤس میں ٹھہرا تھا۔ اور مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کے متعلق میری رائے بھی معلوم کرنا چاہتا تھا۔ غرض خاصی دیر تک صحبت رہی۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ گورنر صاحب نے کہا ہے مجھ سے ملتے ہوئے جائیں؛ میں اُن کے کمرہ میں گیا۔ تو انہوں نے کہا۔ اقبال! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ گورنمنٹ نے تمہاری ادبی خدمات کا اعتراف کرنے میں تساہل روا رکھا ہے: میں اس وقت خطابات کی سفارش کر رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ ’’نائٹ ہُڈ‘‘ کے لئے تمہاری سفارش کی جائے؛ لیکن اس سے قبل معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؛۔۔۔ ڈاکٹر صاحب [یعنی اقبال]نے فرمایا۔ اسلام سماجی امتیازات social distinctions کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا لیکن اگر میرا یہ انکار گورنمنٹ کے جذبات مجروح کرنے کا باعث ہو تو مجھے تامّل نہیں؛ میرے اس جواب سے میکلیگن صاحب کے چہرے پر مسرّت جھلکنے لگی۔ گورنر پنجاب ڈاکٹر صاحب کے خطاب کے بارے میں گفتگو کر چکے تو کہنے لگے [’’]شمس العلمأ کے خطاب کے سلسلہ میں اِس دفعہ پنجاب کی باری ہے۔ میں نے چند سرکردہ مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ موزوں نام تجویز کریں۔ اگر تمہارے ذہن میں کوئی مناسب نام ہو تو بتاؤ‘‘! میں نے کہا۔ اِس شرط پر بتاتا ہوں۔ کہ اس کے بعد کسی اور نام پر غور نہ کیا جائے؛ میکلگن صاحب نے اس اقرار سے پہلے کچھ تامّل کیا۔ اور پھر کہا۔ اچھا تم نام بتاؤ۔ میں [یعنی اقبال] نے اپنے اُستاد مولوی سیّد میر حسن پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ کا نام لیا۔ میکلگن صاحب فرمانے لگے اس سے قبل یہ نام نہیں سنا؛ اچھا یہ بتائیے کہ انہوں نے کون کونسی کتابیں تصنیف کی ہیں؟ ڈاکٹر صاحب [یعنی اقبال] نے جواب دیا۔ کہ انہوں نے کوئی کتاب تو تصنیف نہیں کی۔ لیکن میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں جسے گھر بلا کر ’’سر‘‘ کے خطاب کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب گورنر پنجاب سے رخصت ہوئے اور چند قدم جا کر پھر واپس آ گئے، اور کہا ایک شرط بھول گیا ہوں کہ اگر شمس العلمأ کے خطاب کی سفارش منظور ہو جائے تو میرے ضعیف العمر اُستاد کو یہ سند لینے کے لئے سیالکوٹ سے لاہور آنے کی زحمت نہ دی جائے۔ ۸۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۰۸-۱۰۷، مرزا جلال الدین بیرسٹر کا مضمون ’میرا اقبال‘ ۹۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۱۵۸، نوابزادہ خورشید علی خاں (فرزند نواب سر ذوالفقار علی خاں) کی روایت ہے ۱۰۔ عبداللہ چغتائی (روایاتِ اقبال)، ص۹۴، خواجہ فیروزالدین بیرسٹر ایٹ لأ کی روایت ہے۔ ان کے مطابق ’’اس کے چند دن بعد ’سر‘ کے خطاب کا اعلان ہو گیا۔ ۱۱۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۳۴۷-۳۴۵ ۱۲۔ بیاض متفرقات۔ ۱۳۔ ’جلال و ہیگل‘ بیاض متفرقات میں شامل ہے۔ ترجمہ احمد جاوید (۲۰۰۰) سے معمولی تبدیلی کے ساتھ لیا گیا ہے۔ یہ نظم اور ’ہیگل‘ دونوں پیام مشرق میں شامل ہیں۔ ۱۴۔ بیاض متفرقات میں اس غزل کے تین اشعار درج ہیں۔ غزل پیام مشرقمیں شامل ہے۔ ۱۵۔ بیاض متفرقات میں اس غزل کے چھ اشعار درج ہیں۔ پیامِ مشرقمیں پانچ شامل ہوئے (یہاں پیش کیے گئے اشعار میں سے تیسرا شعر پیام مشرق میں شامل نہیں)۔ ۱۶۔ بیاض متفرقات ۱۷۔ Mango (1999), pp. 353 and 362 ۱۸۔ مکتوب بنام گرامی ۳ اکتوبر ۱۹۲۲ء ۱۹۔ کلیات مکاتیب اقبال، فٹ نوٹ ص۳۹۴ ۲۰۔ مکتوب بنام گرامی ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۲ء ۲۱۔ محمد حنیف شاہد (۱۹۷۶)، ص۱۷۸۔ ان کا ماخذ انجمن کی قلمی روداد ہے۔ ۲۲۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۱۷۳-۱۷۲ ۲۳۔ اشپینگلر کے بارے میں یہ خیالات اقبال نے The Reconstruction of Religious Thought in Islam (1930-34) کے چوتھے اور پانچویں خطبات میں ظاہر کیے۔ یہ خطبات ۱۹۲۷ء سے ۱۹۲۹ء کے عرصے میں تیار ہوئے۔ جو اقتباس محذوفات کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے اُس کا اصل انگریزی متن درجِ ذیل ہے: It now remains to eradicate a grave misunderstanding created by Spengler’s widely read book, The Decline of the West. His two chapters devoted to the problem of Arabian culture constitute a most important contribution to the cultural history of Asia. They are, however, based on a complete misconception of the nature of Islam as a religious movement, and of the cultural activity which it initiated. Spengler’s main thesis is that each culture is a specific organism, having no point of contact with cultures that historically precede or follow it. Indeed, according to him, each culture has its own peculiar way of looking at things which is entirely inaccessible to men belonging to a different culture. In his anxiety to prove this thesis he marshals an overwhelming array of facts and interpretations to show that the spirit of European culture is through and through anti-classical. And this anti-classical spirit of European culture is entirely due to the specific genius of Europe, and not to any inspiration she may have received from the culture of Islam which, according to Spengler, is thoroughly “Magian” in spirit and character. Spengler’s view of the spirit of modern culture is, in my opinion, perfectly correct. I have, however, tried to show in these lectures that the anti-classical spirit of the modern world has really arisen out of the revolt of Islam against Greek thought. It is obvious that such a view cannot be acceptable to Spengler; for, if it is possible to show that the anti-classical spirit of modern culture is due to the inspiration which it received from the culture immediately preceding it, the whole argument of Spengler regarding the complete mutual independence of cultural growths would collapse. I am afraid Spengler’s anxiety to establish this thesis has completely perverted his vision of Islam as a cultural movement. By the expression “Magian culture” Spengler means the common culture associated with what he calls “Magian group of religions”, i.e. Judaism, ancient Chaldean religion, early Christianity, Zoroas-trianism, and Islam. That a Magian crust has grown over Islam, I do not deny. Indeed my main purpose in these lectures has been to secure a vision of the spirit of Islam as emancipated from its Magian overlayings which, in my opinion, have misled Spengler. His ignorance of Muslim thought on the problem of time, as well as of the way in which the “I”, as a free centre of experience, has found expression in the religious experience of Islam, is simply appalling. Instead of seeking light from the history of Muslim thought and experience, he prefers to base his judgement on vulgar beliefs as to the beginning and end of time. Just imagine a man of overwhelming learning finding support for the supposed fatalism of Islam in such Eastern expressions and proverbs as the “vault of time”, and “everything has a time!” However, on the origin and growth of the concept of time in Islam, and on the human ego as a free power, I have said enough in these lectures. It is obvious that a full examination of Spengler’s view of Islam, and of the culture that grew out of it, will require a whole volume. In addition to what I have said before, I shall offer here one more observation of a general nature. 'The kernel of the prophetic teaching,' says Spengler, 'is already Magian. There is one God– be He called Yahweh, Ahuramazda, or Marduk-Baal– who is the principle of good, and all other deities are either impotent or evil. To this doctrine there attached itself the hope of a Messiah, very clear in Isaiah, but also bursting out everywhere during the next centuries, under pressure of an inner necessity. It is the basic idea of Magian religion, for it contains implicitly the conception of the world-historical struggle between Good and Evil, with the power of Evil prevailing in the middle period, and the Good finally triumphant on the Day of Judgement.' If this view of the prophetic teaching is meant to apply to Islam it is obviously a misrepresentation. The point to note is that the Magians admitted the existence of false gods; only they did not turn to worship them. Islam denies the very existence of false gods. In this connexion Spengler fails to appreciate the cultural value of the idea of the finality of prophethood in Islam. No doubt, one important feature of Magian culture is a perpetual attitude of expectation, a constant looking forward to the coming of Zoroaster’s unborn sons, the Messiah, or the Paraclete of the fourth gospel. I have already indicated the direction in which the student of Islam should seek the cultural meaning of the doctrine of finality in Islam. It may further be regarded as a psychological cure for the Magian attitude of constant expectation which tends to give a false view of history. Ibn Khaldun, seeing the spirit of his own view of history, has fully criticized and, I believe, finally demolished the alleged revelational basis in Islam of an idea similar, at least in its psychological effects, to the original Magian idea which had reappeared in Islam under the pressure of Magian thought. ۲۴۔ مکتوب بنام کشن پرشاد ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۲ء ۲۵۔ باقیاتِ اقبال۔ تحسین سروری نے مضمون ’اقبال کی دو نظمیں اور اُن کا پس منظر‘ (صحیفہ اقبال نمبر، ص۷۱-۶۶) میں اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ ۲۶۔ سید حسن ریاض ۷۰/۱۹۶۷، ص۸۵-۸۴ ۲۷۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۴۴۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا ہے۔ ۲۸۔ اعجاز احمد (۱۹۸۵)، ص۱۰۷ ۲۹۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی (۱۹۷۷)، ص۱۰۵-۱۰۳، مرزا جلال الدین کا مضمون ’میرا اقبال‘ ۳۰۔ خالد نظیر صوفی (۲۰۰۸-۱۹۷۱)، پیش لفظ از مولانا غلام رسول مہر، ص[قدیم:۲۳-۲۲] ۳۱۔ عبدالمجید سالک (۱۹۵۵)، ص۱۱۴۔ کوٹھی آج بھی اپنی جگہ کھڑی ہے۔ اب وہاں اقبال اکادمی پاکستان کا شعبۂ فروخت قائم ہے۔ ۳۲۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۶۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ ۳۳۔ خالد نظیر صوفی (۱۹۷۱)، ص۶۷-۶۶۔ مصنف نے اپنی والدہ وسیمہ مبارک سے روایت کیا۔ ۳۴۔ Mango (1999), p.365 ۳۵۔ مکتوب بنام گرامی ۱۰ دسمبر ۱۹۲۲ء اور فٹ نوٹ کلیات مکاتیب اقبالجلد دوم، ص۴۰۲ ۳۶۔ یہ رباعی مکتوب بنام گرامی ۱۰ دسمبر ۱۹۲۲ء میں درج ہے لہٰذا امکان ہے کہ شاید انہی دنوں لکھی گئی ہو۔ ۳۷۔ تاریخ معلوم نہیں اور نہ ہی اس خط کا مکمل متن دستیاب ہے۔ کلیات مکاتیب اقبالمیں اِسے ۱۹۲۲ء کے خطوط کے آخر میں بلاتاریخ شامل کیا گیا ہے۔ ۳۸۔ میرا ماخذ تحسین فراقی (۱۹۹۲) ہے۔ وہاں مضمون کی اشاعت کا ماہ و سال درج نہیں ہے۔ ۳۹۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۹۴-۹۳ ۴۰۔ مکتوب بنام کشن پرشاد، تاریخ ندارد، اندازاً دسمبر ۱۹۲۲ء ۴۱۔ مکتوب بنام گرامی ۱۰ دسمبر ۱۹۲۲ء ۴۲۔ مکتوب بنام گرامی ۱۰ دسمبر ۱۹۲۲ء ۴۳۔ رحیم بخش شاہین (۱۹۷۵)، ص۹۴ ۴۴۔ مکتوب بنام میر خورشید احمد ۱۳ دسمبر ۱۹۲۲ء ۴۵۔ مسلم آؤٹ لُکمیں اِس مضمون کی اشاعت کی صحیح تاریخ معلوم نہیں۔ اقبال نے محمد دین فوق کے نام خط مورخہ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۲ء میں لکھا ہے، ’’انگریزی اصل چند روز ہوئے مسلم آؤٹ لک میں چھپا تھا۔‘‘ ۴۶۔ Muhammad Siddiq (1983) ۴۷۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر (۱۹۸۸)، ص۱۶-۱۵ ۴۸۔ عشرت رحمانی (۲۰۰۴)، ص۲۱۲ ۴۹۔ اسرار و رموزکے باب ’الوقت سیف‘ کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ میرا اپنا ہے۔ کتابیں اقبال کی تصانیف اَسرارِ خودی (طبع اول)۔ ۱۹۱۵ اَسرار ِخودی (طبع دوم)۔ ۱۹۱۸ رموز بیخودی (طبع اول)۔ ۱۹۱۸ اَسرار و رموز۔ ۱۹۲۳ پیامِ مشرق (طبع اول)۔ ۱۹۲۳ بانگِ درا۔ ۱۹۲۴ The Reconstruction of Religious Thought in Islam. 1934. Oxford Univeristy Press. اقبال کی تحریریں جو دوسروں نے مرتب کیں بشیر احمد ڈار (مرتب)۔ ۱۹۶۷۔ اَنوارِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۷۷)، لاہور تحسین فراقی، ڈاکٹر (مترب)۔ ۱۹۸۸۔ مطالعۂ بیدل فکرِ برگساں کی روشنی میں۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۳)، لاہور صابر کلوروی (مرتب)۔ ۱۹۸۵۔ تاریخ تصوف۔ مکتبہ تعمیرِ انسانیت (۱۹۸۷)، لاہور مظفر حسین برنی : کلیات مکاتیب اقبال [چار جلدوں میں]۔ اُردو اکادمی، نئی دہلی عبدالواحد معینی، سید اور محمد عبداللہ قریشی (مرتبین)۔ باقیاتِ اقبال۔ ۱۹۶۶۔ آئینۂ ادب، لاہور Javid Iqbal, Dr. & Khurram Ali Shafique. 2006. Stray Reflections. Iqbal Academy Pakistan, Lahore Shahid Hussain Razzaqi. Discourses of Iqbal. 1979/2003. Iqbal Academy Pakistan, Lahore. Latif Ahmad Sherwani. 1944/1977. Speeches, Writings and Statements of Iqbal. Iqbal Academy Pakistan (1995), Lahore. اقبال کی تحریروں کے ترجمے سید نذیر نیازی۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ۔ بزمِ اقبال (۱۹۸۶)، لاہور احمد جاوید ۔ ۲۰۰۰۔ پیامِ مشرق۔ الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد R. A. Nicholson. 1920. The Secrets of the Self. MacMillan & Co. Ltd, London دیگر ماخذ ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر۔ ۱۹۷۷۔ ملفوظاتِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور۔ ابوسلمان شاہجہانپوری۔ ۱۹۹۳ئ۔ علامہ اقبال اور مولانا محمد علی۔ مکتبہ شاہد، کراچی احمد راہی۔ ۱۹۷۸ئ۔ اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں۔ بزمِ اقبال، لاہور اعجاز احمد، شیخ۔ ۱۹۸۵ئ۔ مظلوم اقبال۔ افضل حق قرشی (مرتب)۔ ۲۰۱۰ئ۔ اقبالیاتِ تاثیر۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور امجد سلیم علوی (مرتب)۔ ۱۹۸۸۔ اقبالیاتِ مہر۔ مہر سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور بشیر احمد سوزؔ، پروفیسر۔ اِقبال اور ہزارہ۔ سرحد اُردو اکیڈمی (قلندر آباد)، ایبٹ آباد تحسین فراقی، ڈاکٹر (مرتب)۔ ۱۹۹۲ئ۔ نقدِ اقبال حیاتِ اقبال میں۔ بزمِ اقبال، لاہور جعفر بلوچ۔ ۱۹۹۵ئ۔ اقبال اور ظفر علی خان۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور رحیم بخش شاہین (مرتب)۔ ۱۹۷۵۔ اوراقِ گم گشتہ (علامہ اقبال کے بارے میں غیرمدون تحریریں)۔ اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر۔ ۱۹۸۲۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۱)، لاہور جاوید اقبال، ڈاکٹر۔ زندہ رُود۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور حامد جلالی (دوسرا ترمیم شدہ ایڈیشن، ناشر بیگم آفتاب اقبال)۔ علامہ اقبال اور اُن کی پہلی بیوی یعنی والدۂ آفتاب اقبال۔ مکتبہ ٔ دانیال (تقسیم کنندہ: ۱۹۹۶)، کراچی۔ حسن اختر، ڈاکٹر ملک۔۱۹۸۸۔ اقبال ایک تحقیقی مطالعہ۔ یونیورسل بُکس، لاہور حسین آزاد، محمد۔۱۹۲۲۔ نگارستانِ فارس حسن ریاض، سید۔ ۷۰/۱۹۶۷۔ پاکستان ناگزیر تھا۔ حق نواز۔ اقبال اور لذّتِ پیکار۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور حنیف شاہد، محمد۔۱۹۷۶۔ اقبال اور انجمن حمایت اسلام۔ کتب خانہ انجمن حمایت اسلام، لاہور حنیف شاہد، محمد(مرتب)۔ ۱۹۸۶۔ مقالاتِ عبدالقادر۔ مجلس ترقی ادب، لاہور خالد نظیر صوفی۔۱۹۷۱ ۔ اقبال درون ِ خانہ۔ بزمِ اقبال (۱۹۸۳)، لاہور۔[ نظرثانی (اکادمی ایڈیشن) ۲۰۰۸، اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور خالد نظیر صوفی۔اقبال درون ِ خانہ (جلد دوم)۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید۔ ۱۹۸۶۔ اقبال کی ابتدائی زندگی۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور سلیم اختر، ڈاکٹر (مرتب)۔ ۱۹۷۸۔ اقبال ممدوحِ عالم۔ بزمِ اقبال۔ لاہور سعید اختر درانی۔ ۱۹۸۵۔ اقبال یورپ میں۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور عبدالرؤف عروج: رجال اقبال۔ نفیس اکیڈمی، کراچی۔ عبداللہ چغتائی۔ ۱۹۷۷۔ اقبال کی صحبت میں۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور عبداللہ چغتائی (مرتب)۔ ۱۹۷۷۔ روایاتِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۸۹)۔ لاہور عبداللہ قریشی (مرتب)۔ ۱۹۶۷۔ آئینۂ اقبال۔ آئینۂ ادب، لاہور عبداللہ قریشی ، محمد (مرتب)۔۱۹۸۸۔ تذکارِ اقبال۔ بزمِ اقبال، لاہور عبدالمجید سالک۔ ۱۹۵۵۔ ذکرِ اقبال۔ بزمِ اقبال (۱۹۸۳)، لاہور غلام دستگیر رشید ایم اے (عثمانیہ) (مرتب)۔ ۱۹۴۴۔ آثارِ اقبال۔ ادارۂ اشاعتِ اُردو، حیدرآباد (دکن) فقیر سید وحیدالدین۔ ۱۹۶۳/۱۹۵۰۔ روزگارِ فقیر جلد اول۔ آتش فشاں پبلی کیشنز (۱۹۸۸)۔ لاہور فقیر سید وحیدالدین۔ ۱۹۶۴۔ روزگارِ فقیر جلد دوم۔ مکتبہ تعمیرِ انسانیت (تاریخ ندارد)۔ لاہور محمد منور، پروفیسر۔ ۱۹۷۲۔ میزانِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نثار احمد قریشی (مرتب)۔ ۱۹۸۳۔ علامہ اقبال صوفی تبسم کی نظر میں۔ اقبال اکادمی پاکستان۔ لاہور نذیر نیازی، سید۔ ۱۹۷۱۔ اقبال کے حضور، نشستیں اور گفتگوئیں (ایک بیاضِ یادداشت)۔ اقبال اکادمی پاکستان (۲۰۰۰)، لاہور نذیر نیازی، سید۔ ۱۹۷۹۔ دانائے راز۔ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۸۸)۔ لاہور Zulfiqar Ali Khan Kt., CSI of Malerkotla. 1922. A Voice from the East. Iqbal Academy Pakistan (1982), Lahore Khurram Ali Shafique. 2006. Iqbal: an Illustrated Biography. Iqbal Academy Pakistan, Lahore Khurram Ali Shafique. 2007. The Beast and the Lion. Iqbal Academy Pakistan, Lahore Khurram Ali Shafique. 2010. Shakespeare According to Iqbal. Iqbal Academy Pakistan, Lahore Rahim Bakhsh Shaheen, ed. n.d. The Mementos of Iqbal. All-Pakistan Islamic Education Congress, Lahore. Riffat Hassan, ed. 1977. The Sword and the Sceptre (A collection of writings on Iqbal, dealing mainly with his life and poetical works). Iqbal Academy Pakistan, Lahore Muhammad Siddique: Descriptive Catalogue of Allama Iqbal's Personal Library. Iqbal Academy, Lahore جرائد اقبال۔ مجلہ بزم اقبال ، لاہور اکتوبر ۱۹۵۳ئ، ص۹۹-۶۴: محمد عبداللہ قریشی، ’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں: معرکۂ اَسرارِ خودی‘ (حصہ اول) اپریل ۱۹۵۴ئ، ص۶۷-۴۴: محمد عبداللہ قریشی، ’حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں: معرکۂ اَسرارِ خودی‘ (حصہ دوم) اکتوبر ۱۹۵۷ء : غلام بھیک نیرنگ، ’اقبال کے بعض حالات‘ اکتوبر ۱۹۶۷ء ص۳۹-۱: مرزا سلطان احمد: محمد اسماعیل پانی پتی: ’تبصرہ بر ’اَسرارِ خودی‘‘ اقبالیات ۔ مجلہ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور جولائی-ستمبر ۲۰۱۰ء ص۱۱۶-۱۰۱: ظفر حسین ظفر: ’اقبال- اجداد کے دیس میں‘ صحیفہ اکتوبر ۱۹۷۳ء (شمارہ ۵۶، اقبال نمبرحصہ اول) ص۵۱-۱۳: صفدر محمود، ’علامہ اقبال کا گوشوارۂ آمدنی (انکم ٹیکس ریکارڈ کی روشنی میں)‘ ص۷۱-۶۱: تحسین سروری، ’اقبال کی دو نظمیں اور اُن کا پس منظر‘ ص۱۸۸-۷۲: محمد عبداللہ قریشی، ’نوادرِ اقبال (اقبال کے پچاس غیرمطبوعہ خطوط) ص۲۴۵-۲۴۲: احمد حسین قریشی قلعداری، ’اقبال معاصرین کی نظر میں‘ ص۲۸۶-۲۸۱: احمد راہی، ’ڈاکٹر اقبال اور مولانا انور شاہ کشمیری‘ مخزن، لاہور جنوری ۱۹۱۴ء ص۶۳-۶۴: ایڈیٹر، ’مولانا جلال الدین رومی‘ فروری ۱۹۱۴ئ: ’تنقیدِ نقاد‘ اپریل ۱۹۱۴ء ص۳۹-۴۳: بقلم حسن نظامی، ’مریخ میں شبِ فرقت‘ اگست ۱۹۱۴ء ص۲-۱: فقیر غلام رسول تحصیلدار پنشنر مہتمم رسالہ مخزن لاہور، ’مخزن کا نیا دَور‘ ص۴۹-۳۹: سلطان احمد از لنڈن، ’حضرت اقبال کا طرزِ جدید‘ فروری ۱۹۱۶ء ص۶۶: عالیجناب محمدؐ اقبال صاحب۔اقبال،ؔ ’شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا‘ اپریل ۱۹۱۶ء ص۳۸-۲۵: محمدؐ اسحٰق خان آنریری اسکرٹری، ’مسلم یونیورسٹی‘ اپریل ۱۹۱۷ء ص۲۳: ترجمانِ حقیقت جناب ڈاکٹر اقبال ایم اے پی ایچ ڈی، ’شیکسپیئر‘ جولائی ۱۹۱۷ء ص۱۱-۱:[ ڈاکٹر اقبال]، ’قومی زندگی‘ [حصہ اول] اکتوبر ۱۹۱۷ء ص۳۵-۳۴: ایم اَسلم، ’مسکیٹیرز یا یارانِ وفاکیش‘ مئی ۱۹۱۸ء ص۲-۱: تاجورؔ، ’شذرات‘، ’تبصرہ‘ ستمبر ۱۹۱۸ء ص۱۵-۳: عبدالقادر، ’زموزِ بیخودی‘ فروری ۱۹۱۷ء ص۷۹-۷۸: نوحؔ ناروی، ’حضرت نوحؔ ناروی‘[کیوں اپنے دل کو موردِ رحمت کرے کوئی] جنوری ۱۹۱۸ء ص۲۱: خلیفہ عبدالحکیم۔ایم اے، ’پیغامِ عمل‘ فروری ۱۹۱۸ئ: اقبال بیگم ترکؔ [عشق میں یاس بھی ہے، یاس میں ارمان بھی ہے] دسمبر ۱۹۱۸ء ص۵۶: تاجورؔ، ’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ جنوری ۱۹۱۹ء ص۵۶-۵۳: [منجانب مدیر؟]، ’انجمن اربابِ علم‘ جون ۱۹۱۹ء ص: پنڈت وتستہ پرشاد فداؔ، ’شہنشاہِ عالمگیر خلد آشیانی‘ مئی ۱۹۲۱ء ص۵-۱: سید حامد حسین بیدل شاہجہانپوری، ’مخزن کا دَورِ جدید اور میں‘ ص۵: [منجانب مدیر؟] ’شذرات‘ اکتوبر ۱۹۲۱ء ص۲۳-۵: پطرس، ’صید و صیاد‘ علم و آگہی، مجلہ گورنمنٹ نیشنل کالج، کراچی (سالانہ) ۱۹۷۸ء اقبال ریویو، حیدرآباد دکن اپریل- جون ۱۹۸۴ عمومی حوالہ جات جن حقائق کا تعلق براہِ راست اقبال سے نہیں ہے اُن کے حوالے دینے سے عموماً گریز کیا ہے کیونکہ اُن میں سے بیشتر معلومات بنیادی نوعیت کی ہیں جو عام طور پر دستیاب ہیں۔ پھر یہ کتاب اقبال کے بارے میں ہے اور بقیہ معلومات صرف قارئین کی سہولت کے لیے پیش کی گئی ہیں لہٰذا جنہیں قبول نہ ہوں وہ رد بھی کر دیں تو خالص اقبال کی سوانح پر کیا اثر پڑے گا! تب بھی بعض مقامات پر مختلف وجوہات کی بنا پرمجھے ثانوی معلومات پر بھی حواشی میں حوالے دے کر بحث کرنا پڑی ہے۔ صرف ان حواشی میں ذکر کی جانے والی کتب کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ چونکہ ان کتابوں کا تعلق اقبال کی حیات و افکار سے نہیں ہے لہٰذا علیحدہ درج کی جا رہی ہیں۔ اکرام، ایس۔ ایم۔ یادگارِ شبلی۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ (۱۹۹۴)، لاہور شاہ قادری، سید محمد۔ ۱۹۹۸۔ مولانا محمد علی جوہر: آپ بیتی اور فکری مقالات۔ تخلیقات، لاہور شمیم ملک، ڈاکٹر مسز۔ ۱۹۸۶۔ آغا حشر کاشمیری حیات اور کارنامے۔ مجلس ترقیِ ادب، لاہور عبدالرشید تبسم۔ ۱۹۸۷۔ فیہ مافیہ۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور عبدالماجد دریابادی ۔۱۹۵۶۔ محمد علی-ذاتی ڈائری۔ طبع مکرر بطور مولانا محمد علی سیرت و افکار۔ ادارۂ علم و فن (۲۰۰۱)۔ لاہور عشرت رحمانی (مرتب)۔ ۱۹۸۷۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد اول: اسیرِ حرص، ٹھنڈی آگ۔ مجلس ترقیٔ ادب، لاہور عشرت رحمانی (مرتب)۔ ۲۰۰۲۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد چہارم: سفید خون، یہودی کی لڑکی، بن دیوی۔ مجلس ترقیٔ ادب، لاہور عشرت رحمانی (مرتب)۔ ۲۰۰۴۔ آغا حشر کے ڈرامے، جلد پنجم: آنکھ کا نشہ، ترکی حُور، رستم و سہراب۔ مجلس ترقیٔ ادب، لاہور نظیر حسنین زیدی، ڈاکٹر۔ ۱۹۸۵۔ مولانا ظفر علی خاں بطور صحافی۔ مکتبۂ اسلوب، کراچی۔ G. Allana. Our Freedom Fighters. Ferozesons, Lahore Andrew Mango (1999). Ataturk. John Murray (2000), London H. G. Wells (1920). The Outline of History. Garden City Publishing, Inc., Garden City, New York