اِقبال دَرمیانی دَور ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء تک خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان نوٹ: یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جو اقبال سائبر لائبریری کے لیے ۲۱۰۴ء میں تیار کیا گیا۔ پہلا ایڈیشن اقبال اکادمی پاکستان سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ ©جملہ حقوق بنام حمزہ خرم محفوظ ہیں کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر، رات کو چھپ جائے یا دن کو سرعام چلے پھرے، برابر ہے: اُس کے آگے اور پیچھے نگہبان ہیں جو اللہ کے حکم سے اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ کسی قوم کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو نہیں بدلتی اور اللہ جب کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ پھر نہیں سکتی اور خدا کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ ترجمہ سورۃ۱۳: رعد۔ آیات۱۱-۱۰ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائیِ تدبیر دیکھ! اقبال، ’خضرِ راہ‘ (۱۹۲۲ئ) سازِ خاموشم نوائے دیگرے دارم ہنوز آنکہ بازم پردہ گرداند پئے آنم برید (اقبال) ٭ سازِ خاموش ہوں مگر ابھی ایک نغمہ مجھ میں باقی ہے۔ جودوبارہ میرا پردہ اٹھا دے، مجھے اُس کے پاس لے چلو۔ پہلی بات اب دریائے ایون پر دُھوپ چمک رہی ہے۔ کنارے پر وہ گِرجا ہے جہاں شیکسپیئر کی قبر ہے۔ ابھی ابھی وہیں سے نکلا ہوں (گِرجے سے، قبر سے نہیں- جہاں تک میرا خیال ہے)۔ علامہ اقبال نے شیکسپیئر کے بارے میں کہا تھا کہ اگر ہم اُسے ڈھونڈنے نکلیں تو سورج کو اپنی ہی روشنی میں چھُپا ہوا پائیں گے۔ آج صبح راستے میں یہ منظر بھی زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ ایسی کہر چھائی ہوئی تھی جو اپنے یہاں نہیں دیکھی جا سکتی۔ زمین سے آسمان تک صرف ایک چمکیلا غبارتھا۔ اُسی میں کہیں ذرا زیادہ چمک تھی تو شبہ ہوا کہ شاید آسمان کے اُسی حصے میں سورج چھپا ہوا ہو: ’’تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا‘‘! یہ کتاب بہت دنوں سے مکمل پڑی تھی۔ صرف ’پہلی بات‘ لکھنا باقی تھی۔ چاہتا تھا کہ یہ دو صفحے شیکسپیئر کے مزار پر بیٹھ کر لکھوں۔ وجہ یہ تھی کہ اتفاق سے چند ماہ سے کوونٹری میں مقیم ہوں جو شیکسپیئر کے قصبے اسٹرَیٹ فورڈ سے بہت قریب ہے اور اِس کتاب میں علامہ اقبال اور شیکسپیئر کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ ایسی چیزیں پیش کی جا رہی ہیں جو پچھلے ۹۶ برس سے عوام و خواص کی نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ جس بنچ پر بیٹھا ہوں وہ زیادہ پرانی نہیں (یعنی صرف تیس پینتیس برس پرانی ہے)۔ البتہ دریا کا کنارہ وہی ہے جہاں شیکسپیئر خود بھی آیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہ سطور جو آپ پڑھ رہے ہیں، اُسی مقام پر لکھی جا رہی ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے ممکن ہے کبھی شیکسپیئر نے اپنے ذہن میں کسی ڈرامے کا پلاٹ یا مکالمہ ترتیب دیا ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ کر بہت خوشی ہو رہی ہے اور آپ کو بھی اِس میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ قوموں کے عروج و زوال کی طرح اُن کے باہمی تعلقات کی کہانی بھی بڑی پُراَسرار ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب جس عرصے پر محیط ہے یعنی ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۲ء کا زمانہ، خواہ آپ اُس زمانے کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں، خواہ سب کچھ جانتے ہوں، بہرحال یہی محسوس کریں گے جیسے کچھ بالکل نئی باتیں پہلی دفعہ آپ کے سامنے آ رہی ہیں اور یہ کیفیت آخری صفحے تک برقرار رہے گی۔ سلسلے کی دونوں سابقہ کتابوں کی طرح یہ بھی اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے۔ اُس نقطے سے شروع ہوتی ہے جب مشرق بالخصوص اسلامی مشرق زوال کے پست ترین درجے پر پہنچ چکا تھا اور یورپ عروج کی انتہا پر تھا۔ صرف نَو برس بعد جہاں یہ کتاب ختم ہوتی ہے وہاں آپ دونوں کو برعکس پائیں گے یعنی مغرب کے زوال اور مشرق کے عروج کا منظر دکھائی دے گا۔ یہ کیسے ہوا؟ نو برس کی تسبیح ِ روز و شب کو دانہ دانہ شمار کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ اِس سوال کا جواب اخذ کر سکیں۔ البتہ دوسرا سوال جو کتاب کے آخر میں بہت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اُبھرے گا اُس کا جواب اِس کتاب میں نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کہ اگر یورپ کے زوال اور مشرق کے عروج کا آغاز اِتنا عرصہ پہلے ہو چکا تھا تو ہمیں آج بھی اُس کے برعکس کیوں دکھائی دیتا ہے؟ سلسلے کی بقیہ کتابیں ضرور اِسی سوال کے جواب میں ہوں گی۔ فی الحال صرف یہی اضافہ کرنا ہے کہ شیکسپیئر کے مزار کی زیارت کروانے والے ڈیوڈ صاحب جو بہت زندہ دل بزرگ ہیں، آپ سب کو سلام کہہ رہے ہیں۔ خرم علی شفیق اسٹرَیٹ فورڈ اَپون ایون khurramsdesk@gmail.com فہرس ہَر اِک مقام سے آگے گُزر گیا مہ ِ نو باب ۱ خودی کا نشیمن ۹ باب ۲ ماں کا مزار ۱۳۲ باب ۳ نظام الدین اولیأ کی بستی ۱۵۴ باب ۴ ملت کا دربار ۲۵۹ باب ۵ تقدیر کی محفل ۳۰۷ باب۶ گوئٹے کی درس گاہ ۳۷۵ باب ۷ آبِ حیات کا چشمہ ۵۸۸ باب ۸ سمرنا ۷۳۱ باب ۹ خواجہ حافظ کا میخانہ ۷۷۷ ضمیمہ ۱ اقبال کی بیاضیں ۸۱۱ ضمیمہ۲ اقبال کی تصانیف ۸۲۶ ضمیمہ۳ ترکِ موالات ۸۳۱ ضمیمہ۴ مغرب کے بارے میں ۸۳۹ حاشیے ۸۵۲ کتابیں ۹۳۹ باب ۱ خودی کا نشیمن جنوری۱۹۱۴ء سے جون ۱۹۱۵ء ۱ یکم جنوری ۱۹۱۴ء تھی۔ برطانوی سیاستداں لائڈ جارج نے کہا کہ دنیا کو ایک بڑی جنگ کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ۲ صبح غیبی آواز نے یہ خوشخبری میرے کانوں تک پہنچائی کہ شاہ شجاع کا زمانہ ہے، شراب کھل کر پیو! مزہ تو یہ ہے کہ نظر رکھنے والے کنارہ کشی اختیار کر لیں کہ منہ میں ہزار باتیں ہوں اور لب خاموش! بادشاہ کی رائے تجلی کے نور کا گھر ہوتی ہے۔ اُس سے قریب ہونے کی آرزو کر رہے ہو تونیت صاف رکھو۔ اُس کے جلال کی تسبیح کو ہی اپنے دل کا وظیفہ بنا لو کہ دل کے کان سروش کا پیغام سنتے ہیں! اُمورِ سلطنت کے رموز بادشاہ جانتے ہیں۔ اے حافظ! تم ایک گوشہ نشیں فقیر ہو، اِس جھگڑے میں مت پڑو۔ سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش کہ دورِ شاہ شجاع است مے دلیر بنوش شد آنکہ اہل نظر بر کنارہ می رفتم ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش محلِ نورِ تجلی است رائے انورِ شاہ چو قربِ او طلبی در صفائے نیت کوش بجز ثنائے جلالش مساز وردِ ضمیر کہ ہست گوشِ دلش محرمِ پیامِ سروش رموزِ مصلحتِ ملک خسرواں دانند گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش ۳ جب سے مولانا جلال الدین رومی دکھائی دیے تھے اقبال کی طبیعت فارسی میں شعر کہنے پر مائل رہنے لگی تھی۔ روزگار کے لیے بیرسٹری کرنی پڑتی۔ شعر کہنے کی فرصت صرف اتوار کو ملتی ورنہ رات بھر جاگنا پڑتا۔ جو کچھ سمجھانا چاہتے تھے اُس کا آغاز ’’خودی‘‘ کے موضوع سے کرنا تھا۔ اس لفظ کے مروجہ معانی میں غرور، تکبر، خودغرضی ، انانیت پرستی اور ہر چیز کو صرف اپنی نظر سے دیکھنے کے منفی رویے اور خودداری، غیرت، عزتِ نفس اور کسی کے سامنے سر نہ جھکانے جیسے مثبت رویے دونوں شامل تھے۔ اقبال ان میں سے صرف مثبت رویوں کی تائید کرتے تھے مگر خودی سے اُن کا اصل مطلب کچھ اور تھا۔ خودی کے دوسرے معانی احساسِ نفس اور تعیینِ ذات کے تھے یعنی ’’میں‘‘ ہونے کا احساس اور شعور۔ یہ شعورِ ذات کہاں سے آیا اور کیوں ہے، اس کی تربیت کیسے کرنی چاہیے، اسے خودغرضی سے روک کر عزتِ نفس اور ملت کی تعمیر کے لیے کس طرح استعمال کیا جائے؟ اقبال اِن باتوں سے شروع کرنا چاہتے تھے۔ ۴ مولانا جلال الدین رومی از شیخ عبدالقادر [اقتباس] ۲۸ سال کی عمر تک مولانا نے نہایت زہد و ورع اور احکامِ شریعت کی پابندی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ سماع سے بھی نفرت رکھتے تھے۔ سنتِ نبوی کی پیروی میں عمامہ زیبِ سر اور کھلی آستینوں کی عبا استعمال کرتے تھے لیکن ۶۴۲؁ھ میں جبکہ مولانا کی عمر ۳۸ سال کی تھی حضرت شمس تبریز کی ملاقات نے مولانا کی زندگی میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ سماع اب انکی زندگی کا جزوِ لازمی ہو گیا۔ یہانتک کہ پہلی مرتبہ مولانا کے ہمراہ شیخ صلاح الدین زرکوب کے جنازہ کے آگے اور بعد میں خود مولانا کے جنازے کے آگے قوالوں کی ٹولیاں حافظوں اور قاریوں کے ساتھ شریک ہوئیں۔ سلسلہ وعظ و درس بالکل مسدود ہو گیا۔ عمامہ کی جگہ دودھیا رنگ کی پگڑی نے لی اور ایک خاص طرز کی عبا کا استعمال شروع ہوا۔ مولانا کے خادموں اور مریدوں کو یہ باتیں باگوار گزریں اور اُن کی گستاخیوں کے باعث شمس تبریز مولانا سے دو مرتبہ عارضی طور پر جدا ہو گئے۔ جس کا مولانا کو ناقابلِ برداشت صدمہ ہوا اور عزلت گزینی و ترکِ ملاقات و تکلم پر نوبت آ گئی لیکن ۶۴۴؁ھ یا ۶۴۵؁ھ میں حضرت شمس تبریز کے شہید یا غائب ہو جانے کا یقین ہو جانے پر شیخ صلاح الدین زرکوب اور خلیفہ حسام الدین چلپی کو مولانا کے ہمراز و مقرب بننے کا شرف نصیب ہوا جس سے مولانا کو بہت تسکین حاصل رہی خصوصاً موخرالذکر بزرگ جن کو منصبِ خلافت بھی عطا ہوا۔۔۔ مخزن، جنوری ۱۹۱۴ء ۵ مثنوی کا آغاز تین برس پہلے والد صاحب کی فرمایش سے ہوا تھا کہ بو علی قلندر کی پیروی میں کچھ لکھا جائے مگر مولانا روم خودبخود پورے منصوبے پر چھا گئے۔ اَب غالب کی طرح اقبال بھی اپنی پہلی فارسی مثنوی کواُنہی کے تذکرے سے شروع کر رہے تھے۔ غالب ہی کی طرح دعویٰ تھا کہ جو باغ مستقبل میں پیدا ہونے والے ہیں وہ دامن میں موجود ہیں۔ لکھنے بیٹھے تو وقت کا تصور غالب آ گیا۔ ۶ ’’الوقتُ سیف،‘‘ امام شافعی نے فرمایا تھا۔ یعنی وقت تلوار ہے۔ ابن الوقت اُسے کہتے تھے جو دُنیاوی فائدے کے لیے اپنے آپ کو بدلنے پر تیار رہے مگر جس کے ہاتھ میں وقت کی تلوار ہو وہ ’’ابوالوقت‘‘ کیا ہوتا ہو گا؟ پہلے اُردو کی بیاض میں فہرست بنائی تھی۔ اب نئی نوٹ بک کھول کر نئے سرے سے بنائی۔۱ مگر نظم کا مرکزی خیال قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ پچھلی بیاض میں جو موضوعات اور اشعار لکھے تھے اُن میں سے کچھ نئی فہرست میں شامل کیے۔ ۲ شاید یہی مرحلہ تھا جب ایک خیال جو کچھ مدت سے ذہن میں گردش کر رہا تھا کسی گوشے سے نکل کر سامنے آ گیا۔ یہ جرمن فلسفی نیٹشے کو جواب دینے کا خیال تھا۔ ۷ اَنارکلی والے تین منزلہ فلیٹ کی نچلی منزل پر اِقبال کی گِگ یعنی گھوڑا گاڑی بندھی ہوتی۔، گھوڑے کا اصطبل اور سائیس کے رہنے کی جگہ بھی یہیں تھی۔ ایک گائے بھی پال رکھی تھی۔ دوسری منزل پر خود گھر والوں کے ساتھ رہتے تھے۔ درمیانی کمرے میں آتش دان کے اوپر ان کے دوست حکیم فقیر محمد چشتی کے ہاتھ سے خوشخط لکھا ہوا سجع خوبصورت فریم میں پڑا ہوتا: دارد اُمیدِ شفاعت ز محمدؐ اقبال بالائی منزل پر چوبارے اور باورچی خانہ تھا۔ صحن برابر والے مکان سے مشترک تھا جہاں کوئی ہندو گھرانہ رہتا تھا۔گھر والوں میں بیگمات مختار بیگم اور سردار بیگم، چھوٹی بہن کریم بی جن کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی اور بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی چھوٹی لڑکیاں عنایت اور وسیمہ شامل تھیں۔ وسیمہ کی عمر دو ڈھائی برس تھی۔ عنایت چار پانچ برس کی تھیں۔ ذہنوں پر چچا جان کے شب و روز کے نقوش بیٹھنے لگے تھے۔ شام کے فارغ اَوقات میں گھر کی مستورات کے ساتھ لوڈو کھیلتے یا چھت پر کبوتر اُڑاتے تھے۔ وسیمہ نے دیکھا کہ چچا جان خوش رہنے اور سب کو خوش رکھنے والے ہیں۔ اُنہیں پیار سے ’’سیما‘‘ کہتے اور پیٹھ پر بٹھا کر گھوڑا بنتے۔ کھانے کی چیز گھر میں تیار ہو یا باہر سے آئے، ملازمین کو بھی دیتے۔ ۳ کبوتروں کا شوق ابھی تک تھا۔ ’’ایک بڑا سا کمرہ نما پنجرہ بنوا رکھا تھا جس میں قسم قسم کے کبوتر بھرے رہتے اور سارا دِن غٹرغوں غٹرغوں کا شور مچایا کرتے،‘‘ وسیمہ نے بعد میں کہا۔ ’’بچپن میں مَیں گھنٹوں پنجرے کے پاس بیٹھی ان کا تماشا دیکھنے میں مصروف رہا کرتی تھی اور اُن کو دانا دُنکا ڈالا کرتی تھی۔‘‘ مختار بیگم کی بلّی ابھی تک اُن کے ساتھ تھی۔ ’’وہ بڑے پیار سے اُس کو گود میں لیے بیٹھی پان چبایا کرتیں یا سرَوتے سے چھالیہ کی ڈلیاں کاٹتی رہتیں،‘‘ وسیمہ کا بیان ہے۔ اقبال اُسے ’’مختار کی بے زبان بیٹی‘‘ کہہ کر بیگم کو چھیڑا کرتے تھے۔ سردار بیگم نے طوطا، مینا اور چند مرغیاں پال رکھی تھیں۔ طوطا بولنے والا تھا۔ اس کی باتیں دلچسپی سے سنتے اور سیٹی بجا کر بلاتے۔ مَینا زیادہ باتیں بنانے والی تھی۔ اُسے ناپسند کرتے اور ’’چغل خور‘‘ کہتے۔۴ سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بستر کے ایک طرف لیٹتے۔ کچھ دیر تک ایک پاؤں ہلتا رہتا۔ جونہی وہ رُکتا، خوفناک قسم کے خراٹوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ’’رات کو سارے گھر میں چچا جان کے خراٹے گونجا کرتے اور سب اپنے اپنے بستروں میں دُبکے ہوئے اُن کے بلند و بالا خراٹے سُنا کرتے،‘‘ وسیمہ نے بعد میں بتایا۔ علی بخش صبح کی نماز کے لیے جائے نماز اور وضو کے پانی کا اہتمام کر کے سوتا۔ صبح سویرے ہی بیدار ہو جاتے۔ اول وقت میں نماز اَدا کر کے بڑی خوش اِلحانی کے ساتھ تلاوت کرنے لگتے۔۵ ۸ پچھلی صدی میں یورپ نے سائنس کی سچائی کو تسلیم کیا توخدا کے وجود سے انکار کر بیٹھا۔ ساتھ ہی رُوح اور وقت کا انکار بھی کرنا پڑا۔ جرمنی کے مجذوب فلسفی نیٹشے نے یہی کیا۔ پندرہ برس پہلے جب وہ جرمنی میں پاگل قرار دیے جانے کے بعد آخری سانسیں لے رہا تھا، بمبئی کے تحقیقی رسالے میں انسانِ کامل کے تصور پر اقبال کا مقالہ شامل ہوا تھا۔ اُس وقت نیٹشے سے واقف نہ تھے۔اب مثنوی ایک مسلمان کی طرف سے نیٹشے کا جواب بھی ہو سکتی تھی۔ ایک دفعہ پھر فہرست بننا شروع ہوئی۔ انسان کی تکمیل کے تین مدارج شامل ہوئے: ۱ اُشتری (یعنی اونٹ ہونا) ۲ شتربانی (یعنی اونٹ پر سوار ہونے کے قابل ہونا) ۳ جہاں بانی (یعنی دنیا کو اپنے اشارے پر چلانے کے قابل ہونا) سوات کے بزرگ اخوند کے بارے میں غالباً اقبال نے اپنی طرف سے حکایت بنائی کہ ہرات سے ایک نوجوان دشمنوں میں گھرے ہونے کی فریاد لے کر آیا تو آپ نے اُسے خود کو مضبوط بنانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی موجودگی سے انسان کی صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔ حکایت سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ظاہری طاقت ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل قوت اخلاقی ہے۔ قوم کی زندگی کا انحصار اپنی مخصوص روایات کو اپنائے رکھنے پر ہے، اقبال کا خیال تھا۔ ملک گیری کی خاطر جنگ کرنا مسلمان پر حرام ہے اور وقت ایک تلوار ہے۔ اب پھر نئی فہرست بنی۔۶ ۹ میں نے آسمان کے اعصاب کی حرکت دیکھ لی اور چاند کی رگوں میں گردش کرتا ہوا لہو مجھے نظر آگیا! کئی راتیں میری آنکھ انسان کے لیے روتی رہی تب کہیں جا کر میں زندگی کے اسرار سے پردہ اٹھاسکا۔ میں وہ قلم ہوں جس نے اپنی فطرت کی بلندی سے نو آسمانوں کے راز صحراؤں میں بکھیر دیے ہیں۔ میں ممکنات کے کارخانے کے باطن سے تقویمِ زندگی کا راز کشید کر کے لایا ہوں تاکہ قطرہ سمندر کے برابر ہو جائے اور ذرہ نشو و نما پا کر صحرا بن جائے! ’تعلی بہ تمہید‘ کا عنوان ڈال کر فارسی میں پانچ اشعار لکھے۔ حرکت اعصاب گردوں دیدہ ام در رگِ مہ دورۂ خوں دیدہ ام بہر انساں چشم من شبہا گریست تا دریدم پردۂ اسرارِ زیست خامہ ام از ہمتِ فکرِ بلند رازِ ایں نہ پردہ در صحرا فگند بر کشیدم سرِ تقویمِ حیات از درونِ کارگاہِ ممکنات قطرہ تا ہم پایۂ دریا شود ذرہ از بالیدگی صحرا شود صفحے کے کنارے پر کچھ اور فکر آرائی ہوئی۔ اَشعار میں کانٹ چھانٹ ہوئی۔ پھر یہ سبھی اشعار کاٹ ڈالے اور اگلے صفحے پر صرف ’تمہید‘ کا عنوان ڈال کر طویل باب لکھنا شروع کیا۔ پچھلے برس والے کچھ اشعار اور ۱۹۱۱ء والے مصرعے ’’نالہ را اندازِ نو ایجاد کن‘‘ وغیرہ بھی اس سلسلے میں کھپ گئے اور سلسلہ وہیں سے جڑ گیا۔ زبردست آمد ہوئی ہو گی۔ پھر بھی کانٹ چھانٹ ہوئی، تب کسی وقت وہ صورت نکلی جس سے مطمئن ہوئے۔ اب یہ بالکل نئی چیز تھی جو مشرق یا مغرب کے ادب اور فلسفے میں پہلے موجود نہ تھی۔۷ تمہید [ترجمہ] جب دنیا کو روشن کرنے والے سورج نے رات کا راستہ کاٹا تو میر ا رونا گلاب کے منہ پر چھڑکاؤ بن گیا۔ میرے آنسو نے نرگس کی آنکھ سے نیند دھوئی اور میرے ہنگامے سے سبزہ بیدار ہو گیا۔ میرے نغمے کے سوز نے شبنم کی نمی کھینچی، قطرہ ٹپکایا اور آنسو بنا لیا۔ باغباں نے میرے زورِ کلام کو آزمایا، ایک مصرعہ بوکر تلوار کاشت کر لی! اور پھر میرے آنسو کے بیج کے سوا باغ میں کچھ اور نہ بویا: میری فریاد کے تانے کو باغ کے بانے سے ملا دیا! میں ذرہ ہوں مگر روشنی بخشنے والا سورج میری ایک آن ہے کہ سو صبحیں میرے گریبان میں ہیں! میری خاک اُس پیالے سے زیادہ روشن ہے جس میں شہنشاہ جمشید دنیا کے حالات دیکھا کرتا تھا کہ یہ تو اُن سے بھی واقف ہے جو ابھی رونما نہیں ہوئے، میری فکر نے اُس ہرن کو شکار کے تھیلے میں ڈالا ہے جو ابھی عدم سے باہر نہ نکلا تھا، جو سبزہ ابھی پیدا نہیں ہوا وہ میرے گلشن کی زینت ہے اور جو پھول اَبھی شاخ سے پھوٹا نہ تھا وہ میرے دامن میں ہے! میں نے دُنیا کی رگ کے تار کو مضراب سے چھیڑ کر نغمہ و سرود کی محفل برہم کر دی ہے۔ چونکہ میری فطرت کے عود کی صدا انوکھی ہے اس لیے میرے ہم نشیں میرے نغمے سے آشنا نہیں، میں آج کے کان سے بے نیاز ہوں کہ میں آنے والے کل کے شاعر کی آواز ہوں! میرا دَور اَسرار سے واقف نہیں۔ میرا یوسف اِس بازار کے لیے نہیں، میں پرانے دوستوں سے نااُمید ہوں اور میرا طور کسی کلیم کے انتظار میں جلتا ہے۔ میرا شعر کسی دوسرے جہان کی آواز ہے، یہ گھنٹی کسی اور کارواں کے لیے ہے! کتنے ہی شاعر ہیں کہ مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں، اپنی آنکھ بند کرتے ہیں تو ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں، اپنے مزار کی خاک سے پھول کی طرح اُگ کر عدم سے واپس آ جاتے ہیں! اگرچہ اس صحرا سے اور بھی کارواں گزرے مگر وہ اونٹنی کے قدموں کی چاپ کی طرح خاموشی سے چلے گئے۔ میں عاشق ہوں، فریاد میرا ایمان ہے اور قیامت کا شور میرے نقیبوں میں سے ہے۔ اگرچہ میرا نغمہ تار کی ہمت سے زیادہ ہے مگر میں اپنے ساز کے ٹوٹ جانے سے نہیں ڈرتا۔ قطرہ میرے سیلاب سے بیگانہ رہے تو بہتر ہے- بہتر ہے کہ صرف قلزم ہی اس کے طوفان سے دیوانہ ہو! میرا سمندر کسی ندی میں نہیں سما سکتا کہ میرے طوفان کے لیے کئی سمندروں کی ضرورت ہے، وہ کلی میرے ابرِ بہار کی مستحق نہیں جو اپنے زور سے باغ نہ بن سکی۔ میری روح میں بجلیاں سو رہی ہیں، میری تگ و تاز کے لیے کوہ و صحرا ہی مناسب ہیں۔ تم اگر صحرا ہو تو میرے سمندر کو اپنی گرفت میں لے لو، اگر تم سینا ہو تو میری بجلی قبول کرو! آبِ حیات کا چشمہ مجھے بخشا گیااور مجھے زندگی کے راز سے آگاہ کیا گیا ہے۔ کسی نے وہ راز بیان نہیں کیا جو میں بیان کرنے جا رہا ہوں، کسی نے فکر کے موتی اُس طرح نہیں پروئے جس طرح میں پرونے جا رہا ہوں۔ اگر تم ہمیشہ کی عیش کا راز جاننا چاہتے ہو تو آؤ، اگر تم زمین اور آسمان دونوں حاصل کرنا چاہتے ہو تو آؤ! بزرگ آسمان نے مجھے یہ راز بتائے ہیں جنہیں دوستوں سے چھپانا مناسب نہیں ہے۔ اے ساقی! اُٹھ اور جام میں وہ شراب ڈال دے جو دل سے زمانے کا دکھ مٹا ڈالے: وہ بہتی ہوئی آگ جس کی اصل زمزم سے ہے کہ اگر اس کا طلب گار بھکاری ہو تب بھی بادشاہ ہے! جو سوچ کو مزید تیز کرتی ہے، دیکھنے والی آنکھ کو زیادہ دیکھنے والا بناتی ہے، تنکے کو پہاڑ کی حیثیت اور لومڑی کو شیروں کی قوت عطا کرتی ہے، مٹی کو ثریا کی بلندی اور قطرے کو سمندر کی وسعت بخشتی ہے، خاموشی کو شورشِ محشر میں بدل کر چکور کے پنجے کو شہباز کے لہو سے سرخ کرتی ہے! اٹھ اور میرے جام میں خالص شراب ڈال کر میری فکر کی رات کو مہتاب عطا کر دے تاکہ میں نظارے کے شوق کو بیتابی کا ذوق دے کر بھٹکے ہوؤں کو منزل کی طرف لے جاؤں، ایک نئی آرزو سے واقف ہو کر ایک تازہ جستجو کے راستے پر چل نکلوں، اہلِ ذوق کی آنکھوں کی پتلی بنوں بلکہ آواز بن کر دنیا کے کان میں گم ہو جاؤں! اپنے آنسوؤں کو شامل کر کے میں نے شاعری کی قدر و قیمت بڑھائی ہے۔ پیرِ رومی کے فیض سے میں اسرارِ علوم کی بند کتاب دوبارہ کھول کر سنانے لگا ہوں، اُن کی روح اَن گنت شعلوں کی سرمایہ دار ہے جبکہ میں چنگاری کی طرح پل بھر کی چمک ہوں۔ میں اُن کی آواز کی گرمی سے جل اُٹھا ہوں۔ میں نے اُن کے ساز سے نغمے اکٹھے کیے ہیں۔ جلتی شمع نے مجھ پروانے پر شبخوں مارا ہے، گویا شراب نے خود میرے پیمانے پر شبخون مارا! پیرِ رومی نے مٹی کو اِکسیر بنا دیا: میرے غبار سے کئی جلوے تعمیر کر دیے۔ ذرے نے بیاباں کی خاک سے رختِ سفر باندھا تاکہ سورج کی شعاع کو گرفت میں لے لے: میں ایک موج ہوں جو اُس سمندر میں قرار پاؤں گا تاکہ ایک چمکدار موتی حاصل کر لوں۔ میں ان کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں، میری زندگی انہی کی سانسوں سے ہے! رات میرا دل فریاد پر مائل تھا اور میری ’’یا رب!‘‘ خاموشی کو آباد کر رہی تھی، میں دنیا کے غم کا شکوہ اور اپنے پیمانے کے خالی ہونے پر افسوس کر رہا تھا۔ میری نگاہ اتنی بیچین ہوئی کہ بالآخر پرواز کی قوت کھو کر نیند میں ڈوب گئی۔ تب وہ بزرگ ظاہر ہوئے جن کی فطرت سچائی ہے اور جنہوں نے فارسی میں قرآن لکھا۔ فرمایا، ’’اے عاشقوں کے دیوانے، عشق کی خالص شراب سے ایک گھونٹ بھرو، اپنے جگر میں قیامت کا ہنگامہ برپا کر کے صراحی کو اپنے سر پر توڑو اور اپنی آنکھوں میں نشتر چبھو لو، تاکہ تمہاری ہنسی سیکڑوں فریادوں کا سامان ہو جائے اور خون کے آنسوؤں میں جگر کے ٹکڑے شامل ہوں! کب تک کلی کی طرح خاموش رہو گے، پھول کی طرح اپنی خوشبو عام کر دو! سونف کے دانے کی طرح تمہارے پاس بھی ایک ہنگامہ ہے اس لیے اپنے محمل کو آگ کے کنارے پر باندھو! کارواں کی گھنٹی کی طرح اپنے جسم کے ذرے ذرے سے فریاد پیدا کرو! تم آگ ہو، دنیا کی محفل کو روشن کرو اور دوسروں کو بھی اپنے سوز کی تپش عطا کرو! شراب کی موج بن کر صراحی کا لباس پہنو اور شراب بیچنے والے بزرگ کے راز ظاہر کر دو! فکر کے آئینے کے لیے پتھر بن کر اُسے سرِ بازار پھوڑ دو۔ بانسری کی طرح اُس کھیت کا پیغام سناؤ جو اُس کی اصل ہے اور قیس کے پاس لیلیٰ کے شہر سے پیغام لے کر جاؤ! نالے کے لیے ایک نیا انداز ایجاد کرکے بزم کو ہائے اور ہو سے آباد کرو! اُٹھو اور ہر زندہ کو نئی روح عطا کرو، اپنے ’’قم با اذنِ اللہ‘‘ سے زندوں کو مزید زندہ کر دو! اٹھو ، نئے راستے پر قدم رکھو اور پرانے جنون کو سروں سے نکال دو! گفتار کی لذت سے آشنا ہو جاؤ، اے کارواں کی گھنٹی! بیدار ہو جاؤ!‘‘ اس گفتگو نے مجھے آگ سے بھر دیا ، میں ہنگاموں سے آباد بانسری بن گیا، نغمے کی طرح اپنے تار سے نکلا، سماعت کے لیے جنت سجائی، خودی کے راز سے پردہ اُٹھایا اور خودی کے معجزے ظاہر کرنا شروع کر دیے! اس مثنوی کا مقصد شاعری نہیں ہے: بت پرستی اور بت گری اس کا مقصد نہیں ہے۔ میں ہندی ہوں اور فارسی سے واقف نہیں: ہلال کی طرح میرا پیمانہ خالی ہے! مجھ سے حسنِ بیان مت مانگو، یزد اور اصفہان کا ذائقہ مت مانگو! اگرچہ ہندی بھی مٹھاس میں شکر ہے مگر فارسی کا طرزِ گفتار زیادہ میٹھا ہے۔ میری فکر اُس کے جلوے سے مسحور ہوئی تو میرا قلم طور کے درخت کی شاخ بن گیا۔ اے سمجھ دار شخص! صراحی پر نکتہ چینی مت کرو بلکہ اس کی شراب سے لطف اٹھانے کا ذوق پیدا کرو! ۱۰ گزشتہ شاعری کے تقریباً سبھی استعارے اکٹھے ہو رہے تھے۔ پیغام واضح تھا مگر شفاف الفاظ کے پیچھے تہ در تہ تلمیحات کا سمندر تھا۔ کنارہ نہ تھا۔ ۱۱ کیمبرج ماڈرن ہسٹری آف انڈیا لکھی جا رہی تھی۔ بنگالی ادب پر مضمون لکھنے کے لیے رابندرناتھ ٹیگور کا نام تجویز ہوا۔ اُردو ادب کی تاریخ کے لیے کونسل سیکرٹری آف اسٹیٹ کے رکن سر تھیوڈور ماریسن نے اقبال سے کہا۔۸ ۱۲ بڑے بھائی شیخ عطامحمد ریٹائرمنٹ کے بعد نئی ملازمت کی تلاش میں تھے۔ حیدرآباد دکن کے چیف انجینئر اور سپرنٹنڈنگ انجینئر کو درخواستیں بھجوائیں۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے اپنے بیٹے عثمان شاد کا نوحہ لکھ کر اقبال کو بھیجا۔۲۳ جنوری کو اقبال نے اُن سے اُن کی کتابوں کی فہرست منگوائی تاکہ کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے اردو ادب والے باب میں اُن کا ذکر کریں اور درخواست کی کہ شیخ عطامحمد کی ملازمت کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ۱۳ ۲۹ جنوری کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیزکا اجلاس ہوا۔اقبال تین برس سے اس کے رکن تھے۔ اجلاس کے کنوینر وہی تھے۔ پچھلے ماہ جو فارسی کا بی۔اے کا نصاب منظور ہوا تھا اُس کی توثیق بھی ایجنڈا پر تھی۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں نے صدارت کی۔ پروفیسر کے ایم مترا اور مولوی محمد حسین بھی شامل ہوئے۔ کاروائی اقبال نے حسبِ قاعدہ انگریزی میں لکھی: ۱ فارسی کے میٹرک کے نصاب برائے ۱۹۱۶ء کے لیے بورڈ گنجینۂ خرد کی بجائے سرمایۂ خرد کی سفارش کرتا ہے۔ ۲ ۱۹۱۷ء کے میٹرک کے نصابات: فارسی، عربی، اُردو، پشتو-وہی جو ۱۹۱۶ء میں ہوں ۳ اورئینٹل [آرٹس] فیکلٹی کے ۱۲ دسمبر ۱۹۱۳ء کے منظورکردہ ریزولیوشن کے مدِ نظر فارسی کا بی۔اے کا نصاب مندرجہ ذیل طریق پر تشکیل دیا گیا: ۱ بی۔اے کا مکمل کورس بشمول گنجِ دانش جو پہلے حذف کر دی گئی تھی۔ ۲ اخلاقِ جلالی پہلے کی طرح محمد اقبال: کنوینر توثیق کی گئی: ایم۔شاہ دین (چیرمین)۹ ۱۴ پچھلے برس شائع ہونے والی تاریخِ ہند جسے لالہ رام پرشاد نے انگریزی سے ترجمہ کر کے اقبال کا نام بھی شریک مصنف کے طور پر درج کیا تھا، اس برس ریاست حیدرآباد دکن میں امتحان السنہ شرقیہ کے نصاب میں شامل ہوئی۔ جس کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اُس میں دارالعلوم کالج کے پرنسپل مولوی حمیدالدین فراہی اور مہتمم تعلیمات اورنگ آباد مولوی عبدالحق شامل تھے۔۱۰ ۱۵ چرچا تھا کہ پچھلے برس آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوستان کے لیے’’ حکومت خود اختیاری‘‘ حاصل کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر کانگریس کے ساتھ اتحاد کا راستہ پیدا کر لیا ہے جس کے صدر بھوپندر ناتھ باسو نے کہا، ’’اگر ماضی میں اِس کے متعلق کوئی غلط فہمی تھی تو ہم کو چاہیے کہ اُس کو بھول جائیں۔‘‘ اُن دنوں اقبال اُردو میں شعر کہتے تو وہ عموماً اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں ہوتے۔ مزاحیہ حکایت نظم کی کہ اونٹ نے رسی تڑا کر گائے کی محفل میں قدم رکھا تو گائے کو حیرت ہوئے۔ اونٹ نے شرما کر اظہارِ عشق کیا اور کہا کہ آقا بھی چاہتا ہے کہ ہم آپس میں مل جل کر رہیں۔ طنز کے پردے میں اقبال بتا گئے کہ برطانوی حکومت کی خواہش تھی کہ مسلمان جداگانہ قومیت کے احساس کو بھلا کر ہندوستانی قومیت کے تصوّر کو قبول کر لیں جو مغرب سے درآمد ہوا تھا۔۱۱ ۱۶ ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا رخصت ہوا دلوں سے خیالِ معاد بھی قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی پوچھو تو وقف کرنے کو ہے جائیداد بھی۱۲ ۱۷ خودی سے مراد شعور کا وہ نقطہ تھا جس سے بقیہ وجود روشن ہوتا تھا یعنی ’’میں‘‘۔ اِس کی تین قسمیں تھیں: ۱ خودی مطلق یعنی خدا جسے کسی نے نہیں بنایا تھا اور جو سب کا خالق تھا ۲ اجتماعی خودی جسے سر سید احمد خاں نے ’’سب انسانوں کی روح‘‘ کہا تھا ۳ انفرادی خودی یعنی فرد فرد اپنی قوم کے ساتھ تعلق کو پہچان کر خدا سے قوت حاصل کر سکتا تھا۔ اس کے لیے سب سے پہلے خودی کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت تھی۔ توحید کا مطلب یہ تھا کہ کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور بظاہر نظر آنے والے تضادات بھی ایک ہی خودی نے پیدا کیے ہیں۔ یہ کائنات ایک نظام کے تحت چل رہی ہے اور جس طرح ایک فرد اپنی روحانی تربیت کرتا ہے اُسی طرح پوری انسانیت کی روحانی تربیت ہو رہی ہے تاکہ خدا کا وعدہ پورا ہو جائے: زندگی کا وجود خودی کے آثار میں سے ہے۔ تم جو کچھ دیکھتے ہو خودی کے اَسرار میں سے ہے۔ جب خودی نے اپنے آپ کو بیدار کیا تو یہ جہان پیدا ہوا جس کا ہمیں علم ہے۔ اُس کی ذات میں سیکڑوں جہاں پوشیدہ ہیں اِس لیے اُس کا غیر بھی اُس کے اثبات ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔۱۳ ۱۸ اِس موضوع نے طبیعت میں عجیب جوش پیدا کیا تھا۔ انہی صفحات میں سے کسی کے کنارے پر ’آرزو سرچشمۂ حیات‘ لکھا تاکہ بعد میں اسے علیحدہ باب بنا دیں جو خاکے میں پہلے سے درج تھا۔ حاشیے پر شعروں کا اضافہ ہوتا رہا: علم کا مقصد معلومات اکٹھی کرنا نہیں بلکہ یہ زندگی کے شعلے کو روشن رکھنے کا بہانہ ہے، وغیرہ۔ آمد بھی ایسی ہوئی کہ زیادہ کانٹ چھانٹ کی ضرورت نہ پڑی۔ صرف اضافے ہوئے۔ باب مکمل تھا: ’آرزو سرچشمۂ حیات۔‘۱۴ ۱۹ سند تو لیجیے لڑکوں کے کام آئے گی وہ مہربان ہیں اب پھر رہیں، رہیں نہ رہیں۱۵ ۲۰ انساں نے سیکڑوں جم و دارا کیے پسند کچلا اُسے جنہوں نے عذابوں کے بوجھ سے دریائے ہست و بود کی رفتار ہے وہی دبتی ہے موجِ آب حبابوں کے بوجھ سے؟۱۶ ۲۱ نظامی گنجوی نے انسانی تاریخ کو آنحضورؐ سے محبت کرنے اور آپؐ سے بغض رکھنے کے رویوں میں تقسیم کر کے قوموں کے عروج و زوال کا نظام سمجھایا تھا۔ مولانا عبدالرحمان جامی جو خود بہت بڑے شاعر ہونے کے علاوہ مشرق میں ادب کے سب سے بڑے نقاد گزرے تھے اور جنہوں نے مولانا روم کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ اُن کی مثنوی فارسی میں قرآن ہے (’’مثنویِ مولویِ معنوی، ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘)، یہ فرما گئے تھے کہ آنحضورؐ کتابِ کائنات کا دیباچہ ہیں، سارا جہاں غلام ہے اور صرف آپؐ ہی آقا ہیں: نسخۂ کونین را دیباجہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست ’’ملا جامی کی نظم اور نثر میری خامیوں کا علاج ہے،‘‘ اقبال نے فارسی مثنوی میں لکھا۔ ’’میں اُن کے اندازِ بیاں پر قربان ہو چکا ہوں۔‘‘ جامی کا نعتیہ شعر جو برسوں اقبال کی روح پر نقش رہ کر اٹھارہ برس بعد ’’لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب‘‘ کے الفاظ میں ظاہر ہونے والا تھا یہاں اُس باب کا حصہ بن گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ عشق و محبت سے خودی مضبوط ہوتی تھی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عشق کا پیمانہ تھی۔ مولانا روم والے خواب کے فوراً بعد جن اَشعار کی آمد ہوئی تھی اور جو پچھلے برس حسن نظامی کے رسالے میں ’اسرارِ خودی‘ کے عنوان سے شائع ہو چکے تھے، اُن میں سے نعتیہ اشعار بھی اس باب میں شامل ہو گئے۔ چار برس پہلے اسی مثنوی کو اُردو میں لکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ’نورِ محمدیؐ‘ کے بیان سے آغاز کیا تھا۔ ’’تمام انسانوں کی روح‘‘ جس کے حقیقی ہونے کا پہلا ثبوت مسلمان قوم تھی، اُس کا نورِ محمدیؐ کے ساتھ ایک خاص تعلق تھا۔ عشقِ رسول کے بارے میں اشعار ’استحکامِ خودی‘ کے عنوان سے درج ہوئے: ہم رسول اللہؐ کے دل میں چھپا ہوا راز تھے،آپؐ نے نعرۂ بے باکانہ بلند فرمایا اور ہم ظاہر ہو گئے!۱۷ ۲۲ سر سید علی امام کا تعلق پٹنہ سے تھا۔ بیرسٹر تھے اور مسلمانوں کے مقبول رہنما تھے۔ وائسرائے کی کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ اقبال کی رائے تھی کہ بہت سمجھدار اور تعلقات کو نباہنے والے آدمی ہیں۔ عام زندگی میں بے تکلف انداز رکھتے ہیں۔ اُن کی سادگی دلکش ہے۔۱۸ بہرحال کسی وقت ’ڈیڈیکشن‘ کا عنوان ڈال کر سولہ اشعار لکھے۔ پھر اُن میں ایک شعر کا اضافہ ہوا۔ تمہید سے پہلے ’تعلی‘ میں لکھے ہوئے اشعار وہاں سے کاٹ کر یہاں لائے گئے۔ پھر کبھی مزید کانٹ چھانٹ ہوئی اور پندرہ اشعار رہ گئے: اے امام، اے بلند نسب رکھنے والے سید! آپ کا خاندان عرب کے اشراف کا فخر ہے! میں آپ کے جدِ امجد کی غلامی سے زندہ ہوں اور دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں۔۱۹ ۲۳ بختِ مسلم کی شبِ تار سے ڈرتی ہے سحر تیرگی میں ہے یہ شب دیدۂ آہو کی طرح ہے اندھیرے میں فقط مولوی صاحب کی نمود بن کے شمس العلما چمکے ہیں جگنو کی طرح۲۰ ۲۴ اقبال کے ایک دوست میر صاحب کے دوست مارچ میں انگلستان روانہ ہونا چاہتے تھے۔ میر صاحب نے مدد کے لیے اقبال کو خط لکھا ۔ اقبال کسی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے جس کے سیکرٹری کو انہوں نے ۱۰ فرووی کو لکھا کہ اگر قواعد و ضوابط کی کچھ کاپیاں دستیاب ہوں تو بھجوا دیں۔اُسی روز میر صاحب کو خط میں ضروری ہدایات تحریر کرنے کے بعد لکھا، ’’سفر کے کوائف وغیرہ کے سلسلے میں میری معلومات بہت پرانی ہو چکی ہیں۔‘‘ خیال ہے کہ یہ میر صاحب ڈیرہ اسماعیل خاں کے سردار احمد خاںتھے۔ ۲۵ ’’حضرت زین العابدینؓ جو سادات کے آدم ہیں، جن کے سجدوں نے زمین کی گود پھولوں سے بھر دی ہے۔۔۔‘‘ دو صفحے خالی چھوڑ کر فارسی مثنوی کے اشعار لکھے جا رہے تھے۔ سات اشعار ہوئے۔ کاٹ دیے۔۲۱ اس کے بعد امام حسینؓ اور مسلم بن عقیل کے درمیان مکالمہ لکھنے کی داغ بیل ڈالی مگر اسے بھی مکمل نہ کیا۔ یہ مضمون مثنوی کے دوسرے حصے کے لیے زیادہ موزوں معلوم ہوتا تھا جس کا خیال ابھی سے ذہن میں موجود تھا۔ ملت کے مفہوم کو چھوڑ کر دوبارہ اصل خاکے کی طرف متوجہ ہوئے۔ اگلا باب لکھا کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہوتی ہے۔ خواب کے بعد کہے گئے اشعار میں سے کچھ یہاں بھی کام آئے۔ اس کے بعد وہ حکایت لکھنا شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ خودی کی نفی کرنا اور اسے مٹانے کا درس دینا محکوم قوموں کا مخصوص حربہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ فاتح قوموں کو کمزور کر کے انتقام لیتی ہیں۔۲۲ کسی جنگل میں کچھ بھیڑیں بڑے مزے سے زندگی گزارتی تھیں لیکن پھر شیروں کا ایک قبیلہ وہاں آ نکلا جس نے اُن کی زندگی اجیرن کر دی۔ بالآخر ایک بوڑھی بھیڑ نے شیروں کو مخاطب کر کے طویل وعظ کیا: اے جھوٹو! اے شریرو! تمہیں اُس دن کی خبر نہیں جسے سخت منحوس کہا گیا ہے۔ میں روحانی قوت رکھتی ہوں۔ میں شیروں کے لیے خدا کی طرف سے بھیجی گئی ہوں۔ میں اندھی آنکھوں کے لیے روشنی کا پیغام لائی ہوں، میں شریعت دے کر بھیجی گئی ہوں۔ برے کاموں سے توبہ کرو، اے گھاٹے کی سوچ رکھنے والو! فائدے کی بات سوچو! جو بھی غضبناک اور طاقت ور ہو وہ بدبخت ہے، زندگی خودی کو مٹانے سے پختہ ہوتی ہے۔ اگر سمجھدار ہو تو اپنے آپ سے غافل ہو جاؤ۔ جو نہیں ہوا، وہ دیوانہ ہے۔ آنکھ، کان اور ہونٹ بند کر لو تاکہ تمہاری فکر آسمانوں تک پہنچ سکے! یہ نکات شیروں کے دل میں بیٹھ گئے۔ محنت مشقت سے تھک چکے تھے۔ شکار ترک کیا۔ ناخن جھڑ گئے اور دانت کمزور ہو گئے۔ اسے تہذیب قرار دینے لگے۔ ۲۶ جب ایرانی شعرأ کی وطن سے زیادہ ہندوستان میں قدر ہونے لگی تو ہمدان سے ابوطالب کلیم بھی آیا اور شاہجہاں نے اُسے تیموری خاندان کی منظوم تاریخ لکھنے کے لیے کشمیر بھجوا دیا۔ بعد میں اُس کی غزلوں پر میر تقی میر نے بھی تضمین کی تھی۔ اب اقبال نے کی: خوب ہے تجھ کو شعارِ صاحبِ یثربؐ کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں سات اشعار کی نظم کو ابوطالب کلیم کے شعر پر ختم کیا، ’’جس سے سرکشی اختیار کی تھی پھر اُسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔ جہاں سے شعلہ بن کر اُٹھے تھے پھر وہیں بیٹھ جاؤ‘‘: ’’سرکشی با ہر کہ کردی رامِ او باید شدن شعلہ ساں از ہر کجا برخاستیٔ آنجا نشیں‘‘۲۳ ۲۷ نیٹشے نے محنت کشوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ اقبال کے نزدیک محنت کشی ایک اعلیٰ صفت تھی۔ قانون کی اطاعت اور صبر و شکر کا نام تھا۔ اس کی شاعرانہ علامت اُونٹ تھا۔ اس مقام کو ’’اُشتری‘‘ کا نام دیا مگر جدید تعلیم اونٹ کی خوبی کی بجائے اُس کی حیوانی جبلت زیادہ واضح کر رہی تھی۔ علاج یہ تھا کہ اگلے مقام کی طرف بڑھیں۔ اپنے نفس کے اونٹ کی باگ ڈور سنبھالیں۔ یہ ’’شتربانی‘‘ کا مقام تھا۔ اُشتری اور شتربانی کے بعد جہانبانی کا مقام آتا۔ چھیننے اور کھانے کا نام نہیں بلکہ پچھلے دونوں مدارج سے گزرنے کا روحانی نتیجہ تھا۔خدا کے قانون کو دنیا میں رائج کرنے کی قوت اعلیٰ اخلاق سے پیدا ہوتی تھی۔۲۴ ۲۸ عہد کہن میں اور تھے اقسام خوف کے ملّا کا، محتسب کا، خدا کا، نبی کا ڈر دو خوف رہ گئے ہیں ہمارے زمانے میں مضمون نگار بیوی کا، سی آئی ڈی کا ڈر ۲۵ کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں ردِ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں۲۶ ۲۹ حضرت علیؓ سوئے ہوئے تھے۔ فرش کی مٹی آپ کے جسم سے لپٹی تھی۔ آنحضورؐ نے دیکھا تو فرمایا، ’’اُٹھو، ابوتراب!‘‘ تراب کا مطلب مٹی تھا اور’’ابو‘‘ کے تین معانی لیے جا سکتے تھے: ۱ نسبت کے لیے کہتے تھے۔ ان معانی میں ابوتراب کا مطلب ’’مٹی والا‘‘ ہو گا۔ اس لقب کے عام طور پر یہی معانی لیے جاتے تھے۔ ۲ باپ کو کہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ابوتراب کے یہ معانی نہیں لیے جا سکتے تھے کیونکہ حضرت علیؓ کے کسی بیٹے کا نام تراب نہیں تھا۔ ۳ آقا کو بھی کہتے تھے۔ ان معانی میں ابوتراب کا مطلب ’’مٹی کا مالک‘‘ ہو سکتا تھا۔ اقبال یہ معانی لے رہے تھے۔ مٹی پر غالب آنے کا مطلب اپنے وجود کے جسمانی پہلوؤں پرقابو پانا تھا۔ اس کی جتنی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں اسلامی ادب میں حضرت علیؓ اُن سب کی علامت تھے: ۱ غیرمعمولی جسمانی قوت حاصل کرنا اپنے جسم پر قابو پانے کی پہلی صورت ہو سکتی تھی۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ قلعۂ خیبر کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ پھینکا۔ ۲ دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ جسمانی وجود کی سطح سے اتنا بلند ہو جائیں کہ جسم کا احساس ہی نہ رہے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ پاؤں میں تیر پیوست ہوا تو نماز کی حالت میں اُسے نکالا گیا اور خبر نہ ہوئی کیونکہ نماز میں اتنے محو تھے۔ ۳ تیسری صورت جسمانی وجود کے علاوہ اپنے دل و دماغ کی سطح سے بھی بلند ہو جانا تھی۔ مولانا روم نے یہ بات اُس مشہور واقعے کی مدد سے سمجھائی تھی کہ کسی جنگ کے دوران حضرت علیؓ ایک کافر کی جان لینے والے تھے جب اُس نے آپؐ کے منہ پر تھوک دیا تو آپؐ نے اُسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جنگ خدا کے لیے تھی، اب اپنی توہین پر غصہ آیا ہے تو قتل جائز نہیں۔ ۴ چوتھی صورت مادی ذرائع کے استعمال میں مہارت ہو سکتی تھی۔ حضرت علیؓ کی تلوار ذولفقاربھی فتح اور غلبے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ۵ انتہائی صورت یہ تھی کہ کائنات کے مظاہر پر یہاں تک کہ گزرتے ہوئے وقت پر بھی قابو پایا جائے۔ حضرت علیؓ سے یہ معجزہ بھی منسوب تھا کہ عصر کی نماز قضا ہو گئی تو آپؐ کے اشارے پر سورج واپس لوٹ آیا۔ خودی باطنی طور پر خدا سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اپنے وجود کی جسمانی کیفیات پر غالب آنے والا خدا کی طاقت میں سے حصہ لے سکتا تھا یعنی ’’ابوتراب‘‘ بننے والا ’’یداللہ‘‘ بھی بن جاتا تھا۔ مدتوں پہلے کہی ہوئی ایک غزل کے پہلے اور آخری شعر میں جو بات کہی تھی وہ اُس باب کے نو تمہیدی اشعار کا مضمون بن گئی جو حضرت علیؓ کے ناموں کے اسرار کے بارے میں تھا۔ میں تو کچھ اور ہو گیا جب سے تیری محفل میں باریابی ہے پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال یہ گنہگار بوترابی ہے در شرح اسرارِ اسمائے حضرت علیؓ [اقتباس کا ترجمہ] وہ اولین مسلمان، بہادروں کے سردار علیؓ! عشق کے لیے ایمان کا سامان علیؓ! آپ کو دین کی طاقت کہا گیا اور آپؓ کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے۔ رسولؐ اللہ نے آپ کا لقب بوتراب رکھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپؓ کو یداللہ فرمایا۔ جو بھی زندگی کے رموز سے واقف ہے اُسے معلوم ہے کہ حضرت علیؓ کے ناموں کا راز کیا ہے۔۲۷ ۳۰ ہرات کے نوجوان کا قصہ لکھا۔ دشمنوں کے ہاتھوں پریشان ہو کر اخوندِ سوات کی خدمت میں حاضر ہواتھا۔ اخوند نے کہا، ’’پتھر اپنے آپ کو شیشہ سمجھ لے تو شیشہ بن کر ٹوٹنے لگتا ہے۔ تم کب تک اپنے آپ کو مٹی اور پانی سمجھتے رہو گے؟ اپنی مٹی میں سے شعلۂ سینائی پیدا کرو!دشمن کا وجود تمہارے بازار کی رونق ہے کہ تمہارے پوشیدہ امکانات کو نیند سے بیدار کرتا ہے۔ ہمت جواں ہو تو راستے کی مشکل پانی کی طرح بہہ جاتی ہے کہ سیل کے سامنے نشیب اور فراز کیا شے ہیں!‘‘۲۸ ۳۱ وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے مہذب ہے تو اے عاشق قدم باہر نہ دھر حد سے نہ جرات ہے نہ خنجر ہے تو قصدِ خودکشی کیسا یہ مانا دردِ ناکامی گیا تیرا گزر حد سے کہا میں نے کہ اے جانِ جہاں کچھ نقد دِلوا دو کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے۲۹ ۳۲ ہرات کے نوجوان والی حکایت کے آخر میں لکھا، ’’میں کہانیوں کے ذریعے چھپی ہوئی باتیں کھول رہا ہوں اور اپنے کلام کے زور سے کلیوں کو پھول بنا رہا ہوں‘‘: شرح راز از داستانہا می کنم غنچہ از زورِ نفس وا می کنم کئی برس پہلے ’ایک پرندہ اور جگنو‘ میں جب کسی پرندے نے جگنو کو نگلنا چاہا تو جگنو نے اُسے وحدت الوجود کا پیغام دیا تھا۔ اب کسی پرندے نے الماس کے چمکدار ٹکڑے کو پانی سمجھ کر چونچ ماری تو الماس نے جو جواب دیا اُس میںعرب کی رجزیہ شاعری کا رنگ جھلک رہا تھا: الماس نے کہا، اے اسیرِ ہوس! اپنے ہوس کی چونچ مجھ پر تیز مت کرو! میں پانی کا قطرہ نہیں، ساقی نہیں، میں دوسروں کی خاطرنہیں جیتا۔ دیوانے ہوئے ہو جو مجھے چوٹ لگانے کا ارادہ ہے؟ تمہیں اپنے آپ کو ظاہر کرنے والی زندگی سے پالا نہیں پڑا! میری چمک پرندوں کی چونچ توڑ دیتی ہے۔ انسان بھی مجھے نگلے تو مر جاتا ہے۔۳۰ پرندے نے شبنم کے ایک قطرے سے اپنی پیاس بجھائی اور اقبال نے قاری سے پوچھا کہ وہ پانی کا قطرہ ہے یا قیمتی پتھر ہے؟ الماس کی قوت کی طرح اُس کا حسن بھی مضبوطی ہی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اُس کے اجزا آپس میں سختی سے جڑے ہوتے ہیں تو روشنی کو منعکس کرتے ہیں۔ ڈھیلے ڈھالے ہوں تو یہی پتھر کوئلہ بن جاتا ہے جس میں روشنی جذب ہوجاتی ہے اور چمک پیدا نہیں ہوتی۔ منصور حلاج نے کہا، ’’انا الحق‘‘ یعنی میں ہی حق ہوں۔ اُس کا مطلب کیا تھا؟ اگر تم منصور حلاج کی طرح اپنے آپ کو نگاہ میں رکھنے والے بن جاؤ تو ذاتِ حق کی طرح آئینِ فطرت سے بلند ہو سکتے ہو۔ مضمون کے سوز نے منصور کی کتاب جلا ڈالی۔ جلوے نے بے حجاب ہو کر کوہِ طُور کو جلا ڈالا۔ اُس کی روح نے جسم سے نکل کر آسمان پر دھاوا بولا۔ اُس کی آواز موت سے بے نیاز ہو گئی۔ جب اُس کے نعرے کے لیے ہونٹوں سے ادا ہونے کی صورت نہ رہی تو لہو بن کر ٹپک پڑا۔ اپنی ذات کا اثبات کر کے اپنے آپ کو حاصل کر لو۔ اپنے پارے کو باندھ کر چاندی بن جاؤ۔ خودی کے تار سے نغمہ پیدا کرو۔ خودی کے اَسرار ظاہر کر دو۔ ۳۱ ۳۳ پچھلے برس جولائی کے زمانہ (کانپور) میں کسی ’’نقاد لکھنوی‘‘ نے اُردو رسالوں کے حصۂ نظم کی خبر لی تھی۔ اقبال کی پرانی نظم ’موجِ دریا‘ جو پچھلے برس جون میں انسان (امرتسر) میں دوبارہ چھپی تھی، زَد میں آ گئی۔ فروری کے مخزن میں ’تنقیدِ نقاد‘ کے عنوان سے کسی نے اِقبال کا دِفاع کیا: ’’یہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نقادانِ سخن سمجھتے ہیں۔ اور اپنے زعم میں فنِ شعر کے والی وارث ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ کسی اچھے لکھنے والے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ جہاں کسی کا اچھا کلام کوئی کتاب یا پارۂ نظم مقبول ہوا اور اُنہوں نے اپنی تنقید یا یہ کہئے اصلاح کی تیز چُھری لے کر اُس کی صورت بگاڑنی شروع کر دی۔ تعریض و تنسیخ گویا ان کے مذہب کا اسمِ اعظم ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نمونہ ان کے سامنے کیا ہے۔۔۔‘‘ ۳۴ کوئی ڈاکٹر عظیم الدین تھے۔ فروری میں اقبال نے اُن سے ہشیارپور والے بیرسٹر شیخ عبدالعزیز کی کتاب کا ذکر کیا۔ اُسی روز عبدالعزیز بھی ملے مگر اقبال اُن کی ملاقات ڈاکٹر عظیم الدین سے نہ کروا سکے۔۳۲ ۳۵ ہوشیارپور کے زنانہ جوتوں کی جوڑی چاہیے تھی۔ ۲۱ فروری کو شیخ عبدالعزیز کو لکھا جو اُن دنوں بیمار تھے۔’’اگر خوبصورت مل جائے تو براہِ کرم لکھئے کہ اس کی قیمت کیا ہو گی؟‘‘۳۳ ۳۶ تیس برس پہلے لاہور کے بعض خداترس مسلمانوں نے محسوس کیا تھا کہ اسلام کی حمایت کا طریقہ نادار مسلمانوں کو سر چھپانے کی جگہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا ہے۔ تب اُن سفیدپوش بزرگوں نے گلیوں میں آواز لگا کر گھروں میں بیٹھی عورتوں سے بھیک مانگی۔ ایک ایک کٹوری آٹا جمع کر کے وہ سرمایہ فراہم کیا جس کی بدولت آج ایک کالج، چار مردانہ اسکول، ایک زنانہ اسکول، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ یتیم خانے اور بے سہارا عورتوں کے لیے دارُالامان قائم تھے۔ ماہنامہ حمایت اسلام چھپتا تھا۔ اِیسٹر کی تعطیلات میں سالانہ جلسہ ہوتا تھا۔ ۲۲ فروری کو انجمن کی جنرل کونسل کا اجلاس خان بہادر نواب فتح محمد علی خاں کی صدرات میں منعقد ہوا۔ اقبال بھی شریک ہوئے۔ کالج کمیٹی، اشاعت اسلام کمیٹی اور پنجاب ایجوکیشنل کانفرنس کمیٹی میں اقبال کی رکنیت کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔توسیع کی گئی۔۳۴ ۳۷ اقبال نے مزاج جو پوچھا تو شیخ نے موزوں کیا یہ شعر زبانِ سلیس میں نیلام خرقہ چندۂ ٹرکی کے واسطے عمامہ رہنِ مدرسہ لڑکوں کی فیس میں۳۵ ۳۸ ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر حاصل ہوا یہی، نہ بچے مار پیٹ سے مغرب میں ہے جہازِ بیاباں شتر کا نام ترکوں نے کام کچھ نہ لیا اِس ’’فلیٹ‘‘ سے۳۶ ۳۹ بلقان کی خونریز جنگ ختم ہونے پر خلافت عثمانیہ اور بلغاریہ میں سفارتی تعلقات بحال ہو چکے تھے۔ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں فینسی ڈریس بال ہونے والا تھا جہاں بادشاہ فرڈیننڈ بھی آنے والاتھا۔ عثمانی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اتاشی کا نام مصطفیٰ کمال تھا۔ عمر تینتیس برس تھی اوردل و دماغ میں ایسے خواب سمائے ہوئے تھے جن سے کوئی واقف نہ ہو سکتا تھا۔ استنبول کے فوجی عجائب گھر کو لکھا کہ ینی چری دستے کی فوجی وردی بھجوائی جائے جو کبھی عثمانی شہنشاہوں کے وفادار عیسائی محافظوں کا دستہ ہوتا تھا۔ پچھلی صدی کا عجیب و غریب لباس پہن کر ایسی رنگین محفل میں جانا حوصلے کا کام تھا مگر مصطفی کمال چاہتے تھے کہ مہمان سوال پوچھیں تو عثمانی سلطنت کی فوجی طاقت اور شاندار فتوحات کا تذکرہ چھڑ جائے۔۳۷ ۴۰ ۱۴۵۳ء میں ۲۹ مئی کو عثمانی شہنشاہ محمد ثانی سفید گھوڑے پر بیٹھ کر بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ میں داخل ہوا۔ اُس کی عمر صرف اکیس برس تھی۔تاریخ نے اُسے سلطان محمد فاتح کا لقب دیا۔ کہتے تھے کہ وہ قسطنطنیہ میں داخل ہوا تو کئی گھروں کے باہر ہلال کے نشان دیکھے۔ بتایا گیا کہ ۳۶۰ قبل مسیح میں مقدونیہ کے حکمراں فیلقوس ثانی نے حملہ کیا اور ناکام رہا تو یہاں کے لوگوں نے برکت کے خیال سے یہ نشان اپنایا (اُسی فیلقوس کے بیٹے کو تاریخ سکندر اعظم کے نام سے جانتی تھی)۔ہلال بڑھنے کے امکانات کی علامت تھا جسے مزید نمایاں کرنے کے لیے سلطان نے ستارے کا اضافہ کیا۔ہلال مسلمانوں کا قومی نشان بن گیا۔ یوں یورپ کی وہ پرانی تہذیب ختم ہوئی جس کے بارے میں اقبال کا خیال تھا، ’’عقلی پہلو سے اس کو دیکھیے تو اس تہذیب میں آزادانہ تحقیقات کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔‘‘عثمانی فاتح کے ہاتھوں شکست یورپ کی نئی زندگی بنی۔ یہ نشاۃ الثانیہ کا آغاز تھا۔ موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاداُن اصولوں پر قائم ہوئی جو قرآن سے اخذ کیے گئے تھے۔ یہ خیالات جو تین برس قبل نظم ’شکوہ‘ سنانے سے پہلے لیکچر دیتے ہوئے ظاہر کیے تھے اب امام شافعی والے باب ’الوقتُ سیف‘ کے اشعار میں ڈھل گئے۔ ۴۱ علی گڑھ میں اولڈبوائز ایسوسی ایشن کا جلسہ ہونے والا تھا۔شوکت علی نے اقبال کو دعوت دی۔اقبال کے ذہن میں حافظ کا شعر گونجا کہ ہمارے ناقص عشق سے یار کا حسن بے نیاز ہے۔ حسین چہرے کو آب و رنگ اور خال و خط کی کیا ضرورت ہے۔ زعشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مستغنی است بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را حافظؔ شیرازی بنام شوکت علی بھائی شوکت!اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفانِ بدتمیزی کے زمانے میں گھر کی چاردیواری کو کشتیٔ نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہلِ دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو میں ایک عرصہ سے خداگڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔ علی گڑھ والوں سے میرا سلام کہیے۔ مجھے ان سے غائبانہ محبت ہے۔ اور اس قدر کہ ملاقاتِ ظاہری سے اس میں کچھ اضافہ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ یہ چند اشعار میری طرف سے ان کی خدمت میں عرض کر دیجیے۔ والسلام کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا تمدن آفریں خلاقِ آئینِ جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا سماں ’’الفقر فخری‘‘ کا رہا شانِ امارت میں ’’بآب رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را‘‘ گدائی میں بھی وہ اللہ ولے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیّارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھے نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبأ کی جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ’’غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن کہ نورِ دیدہ اَش روشن کند چشمِ زلیخا را‘‘۳۸ آخری شعر شاہجہاں کے زمانے کے شاعر غنی کشمیری کا تھا جو اپنے گھر میں تالالگا کر بیٹھتا تھا اور باہر جاتے ہوئے کھول دیتا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ ہی کو گھر کی سب سے قیمتی چیز سمجھتا تھا جس کے مقابلے میں دوسری چیزوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔ شعر کا مطلب تھا کہ اے غنی، کنعاں کے بزرگ یعقوب کی بدقسمتی دیکھو کہ اُن کی نگاہوں کے کھوئے ہوئے نور سے زلیخا اپنی آنکھیں سینک رہی ہے۔ ۴۲ ۶ مارچ کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ خیریت سے تھے۔ شاید اسی موقع پر اقبال کی طبیعت چمکی اور یہ اشعار ہوئے: شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں مفت میں کالج کے لڑکے اُن سے بدظن ہو گئے وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے۳۹ ۴۳ ممکن نہیں ہے ایک ہی بازار میں چلیں ہم سکے اور دھات کے وہ اور دھات کے مخلوط انتخاب سے ہے ناامید ہند پابند یاں کے ووٹ بھی ہیں چھوت چھات کے۴۰ ۴۴ ’’اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‘‘ غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا کیوں اے جنابِ شیخ سنا آپ نے بھی کچھ کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دَیر کیا ہم پوچھتے ہیں مسلمِ عاشق مزاج سے اُلفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بَیر کیا۴۱ ۴۵ چار برس پہلے انگریزی نوٹ بک میں درج کیا تھا کہ قومیت کے نئے مغربی تصور سے سرشار ہو کر ہندو اپنی اصل سے دُور نکلا جا رہا ہے۔ مثنوی میں ہندو قارئین کو بھی پیغام دیا۔ بنارس میں ایک معزز برہمن رہتا تھا جس کے ذہن میں عرفان و آگہی کے سمندر موجزن تھے مگر زندگی کا راز اُس کی سمجھ میں نہ آیا تو ایک شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ نے جو کچھ کہا وہ اُس اقبال کا اپنے ہم وطن ہندوؤں سے خطاب تھا جس نے کبھی ’نیا شوالہ‘ لکھی تھی: اگر قوم کی زندگی اتحاد سے ہے تو کفر بھی اتحاد کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ تم جو کفرمیں بھی پورے نہیں ہو، دل کے حریم کا طواف کرنے کے قابل نہیں۔ ہم دونوں ہی تسلیم و رضا کے راستے سے دُور ہیں: تم آذر سے اور میں ابراہیم سے دُور ہوں۔ ہمارا قیس لیلیٰ کے محمل کا دیوانہ ہوا نہ عاشقی کے جنون میں پورا اُتر سکا! جب وجود میں خودی کی شمع ہی بجھ گئی تو پھر آسمانوں کی پیمائش کرنے والی فکر سے کیا حاصل ہے!۴۲ ۴۶ کشن پرشاد کے لاہور آنے کی خبر تھی۔ نواب ذوالفقار علی خاں کے مشورے سے اقبال نے انہیں نواب صاحب کے محل میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیا۔ پھر کھتری کانفرنس والوں سے معلوم ہوا کہ کشن پرشاد نہیں آئیں گے۔ ۴۷ کشن پرشاد کو خط لکھنے میںتاخیر کر دی تھی۔ ۷ مارچ کو اُن کا خط ملا تو جواب میں طویل عذر پیش کرنا پڑا کہ وقت جس چیز کو چھوتا ہے وہ پرانی ہو جاتی ہے مگر دل اس اثر سے آزاد ہے۔ شاد کا نقش اقبال کے دل پر ہے لہٰذا اُن کی یاد پرانی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ’’اگرچہ خدا کے فضل و کرم سے ایسا بے نیاز دل رکھتا ہوں کہ خود اللہ میاں بھی اس پر رشک کریں مگر کبھی کبھی یہ دل بھی افکارِ دنیا سے عاجز آ ہی جاتا ہے۔‘‘ عرفی شیرازی نے کہا تھا کہ مدعی کی گرفت سے تو نکل آیا ہوں مگر اب اپنی طبعِ سلیم کے پھندے میں تڑپ رہا ہوں: در تابم از شکنجۂ طبعِ سلیمِ خویش ’’فارسی مثنوی کے اشعار ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اس مثنوی کو میں اپنی زندگی کا مقصد تصور کرتا ہوں۔ میں مر جاؤں گا۔ یہ زندہ رہنے والی چیز ہے۔‘‘ ہندوؤں کو مخاطب کر کے جو اشعار لکھے تھے وہ شاد کو بھیج دیے۔ ۴۳ ۴۸ گنگا اور ہمالہ کا مکالمہ لکھا مگر آمد میں وہ زور نہ تھا جو گزشتہ کئی ماہ دستیاب رہا تھا۔ کبھی بیچ میں خالی جگہ چھوڑی۔ کبھی لکیریں کھینچ کر اُسے پر کیا۔ مصرعے کھینچ کھینچ کر لائے جا رہے تھے۔ ہمالہ جو تیرہ برس پہلے اقبال کی معرکۃ الآرا نظم کا عنوان تھا اب مسلمان قوم کی علامت بن گیا۔ گنگا جس کے کنارے آبا و اجداد کے لشکراُترے تھے اَب ہندو قوم کی علامت ٹھہری۔ اُس نے ہمالہ کو طعنہ دیا کہ خدا نے تمہیں آسمان کا ہمراز بنایامگر تمہارے پاؤں کو حرکت سے محروم رکھا۔ ہمالہ نے کہا: اے کہ تمہاری وسعت میرا آئینہ ہے، تم جیسے سیکڑوں دریا میرے سینے میں موجود ہیں۔ یہ گھومنے پھرنے کا شوق فنا کا سامان ہے۔ جو بھی اپنے آپ سے نکلا وہ فنا کا نوالہ ہے۔ تم اپنے مقام کو نہیں پہچان پائی۔ بیوقوف، تم اپنے نقصان پر فخر کر رہی ہو! تم جس نے آسمان کے پہلو سے جنم لیا ہے، تم سے بہتر تو وہ ساحل ہے جو اپنی جگہ بچھا ہوا ہے۔ تم نے اپنی زندگی سمندر کی نذرکی ہے۔ اپنی جان خود ہی رہزن کو پیش کر دی ہے۔ باغ میں پھول کی طرح خوددار بنو۔ اپنی خوشبو پھیلانے کے لیے پھول توڑنے والے کے پیچھے مت دوڑو!۴۴ تیس برس پہلے جب برصغیر کے مسلمان اپنی بکھری ہوئی قوتوں کو سمیٹنے پر توجہ کر رہے تھے، سرکردہ ہندوؤں کی توجہ اپنی تہذیب کو مغرب میں مقبول بنانے پر تھی۔ ’’بہرِ نشرِ بو پئے گلچیں مرو‘‘ یعنی ’’ اپنی خوشبو پھیلانے کے لیے پھول توڑنے والے کے پیچھے مت دوڑو‘‘ سے غالباً اقبال نے اِن باتوں کی طرف بھی اِشارہ کیا تھا۔ ۴۹ تعلیمِ مغربی ہے بہت جرات آفریں پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ۴۵ ۵۰ تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟ دفعِ مرض کے واسطے پل پیش کیجیے! تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے! بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل پیش کیجیے!‘‘۴۶ ۵۱ مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں۴۷ ۵۲ مارچ یا اپریل میںسیالکوٹ میں والدہ امام بی بی بیمار پڑیں۔ مرض نے طول پکڑا۔ اقبال کا دل بے چین رہنے لگا۔’’چچا جان نے علاج کے لیے لاہور چلنے کو کہا،‘‘ اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’لیکن وہ گھر چھوڑنے پر رضامند نہ ہوئیں۔‘‘۴۸ ۵۳ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے فارسی امتحانات کے پرچہ الف کے صدرممتحن تھے۔ تین برس پہلے رائج ہونے والی نئی شرح کے مطابق ایک کاپی جانچنے کا معاوضہ ۱۲ آنہ تھا۔ بی اے کے فارسی پرچہ الف اور بی اے آنرز کے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ پرچہ جانچنے کی شرح ۴ آنہ فی کاپی تھی۔۴۹ ۵۴ سردیوں میں کرسمس اور موسمِ بہار میں اِیسٹر عیسائیوں کی عیدیں تھیں۔ انگریز حکمرانوں کی دنیاوی شان و شوکت مذہبی رنگ میں ڈوب کر نمودار ہوتی تھی۔ مسلمانوں نے کرسمس کی تعطیلات میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسوں کی روایت ڈالی تھی۔ پنجاب میں ایسٹر کی تعطیلات میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہوتا تھا۔ پنجاب کے باہر سے بھی لوگ آتے تھے۔ اِس دفعہ اِیسٹر سنڈے ۱۲ اپریل کو تھا۔ جلسہ دو روز پہلے شروع ہو کر اِیسٹر کے دن تک جاری رہنا تھا۔ چودہ برس پہلے اسی جلسے کے ذریعے اقبال کی شاعری کی شہرت کا آغاز ہوا تھا۔ اس دفعہ والدہ کی بیماری اور فارسی مثنوی مکمل کرنے کی مصروفیت کی وجہ سے اقبال نے کوئی خاص نظم لکھنے سے معذرت کر لی۔ زیادہ اِصرار ہوا تو کچھ مزاحیہ قطعات سپردِ قلم کر دیے۔ جلسہ اسلامیہ کالج کے میدان میں اُس ہال کے سامنے ہوا جسے امیرِ افغانستان حبیب اللہ کے نام پر حبیبیہ ہال کا نام دیا گیا تھا۔ جس نشست میں اقبال شعر پڑھنے آئے اُس کی صدارت نواب سر ذوالفقار علی خاں کر رہے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تقریر میں کہا، ’’اگر یہی اقبال ولایت میں ہوتا تو اس کی قدر و منزلت شیکسپئر سے بھی بڑھی ہوتی مگر افسوس کہ ہمارے اہلِ ملک اس کی قابلیتِ تامہ سے کم آشنا ہیں۔ اس کی دُنیوی زندگی کے بعد معلوم ہو گا کہ اقبال کیا چیز تھا۔‘‘ اقبال نے ’عجمی تصوف اور اِسلام‘ پر لیکچر دیا: اِس مروجہ تصوّف کو اسلام کے سادہ قواعد اور عربی روحِ دین سے کوئی علاقہ نہیں اور اس کا بنیادی ستم یہ ہے کہ یہ ’’خودی‘‘ کو تباہ کرتا ہے حالانکہ خودی ہی ایک ایسی چیز ہے جو افراد و اقوام کی زندگی کی ضامن اور انسان کو بلندترین مادی و روحانی مدارج پر پہنچانے کی کفیل ہے۔۵۰ پچھلے برس کی طرح اِس دفعہ بھی مثنوی کے کچھ اَشعار پڑھے۔ اُردو کلام کے لیے اصرار ہوا تو اس کے بعد کچھ مزاحیہ قطعات سنائے۔ان کا عنوان مذاقاً ’رگڑا‘ رکھا تھا۔ ’’یہ چند پکوڑے ہیں جو پبلک کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتا ہوں،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’بعض تازے اور بعض تو ان میں چوبیس گھنٹے کے تلے ہوئے ہیں مگر بعد ان پکوڑوں کے ایک تر لقمہ بھی ہو گا۔‘‘ تر لقمے سے مراد شاید ’’کبھی اے نوجواں مسلم‘‘ والی نظم تھی جو شوکت علی کو بھیجی تھی۔ ایک روایت ہے کہ جلسے میں وہ بھی سنائی۔۵۱ ۵۵ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ روشِ مغربی ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوشمند غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی آتا ہے اب وہ دَور کہ اولاد کے عوض کونسل کی ممبری کے لئے ووٹ چاہے گی مشرق و مغرب ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے واں کنٹر سب بلوریں ہیں، یاں ایک پرانا مٹکا ہے اس دَور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو قائم اپنی راہ پر ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے اے شیخ و برہمن سنتے ہو، کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں گردوں نے کتنی بلندی سے اِن قوموں کو دے پٹکا ہے یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبت قائم تھا یا بحث میں اُردو ہندی ہے، یا قربانی یا جھٹکا ہے۵۲ ۵۶ کشن پرشاد کا خط ملا۔ کچھ نکات پر اقبال کی مدد مانگی تھی۔ ’’کاش آپ امسال پنجاب آتے تو اس معاملے پر زبانی گفتگو ہوتی،‘‘ اقبال نے ۲۲ اپریل کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’جو عمل میرے ذہن میں ہے وہ سفر کا مقتضی ہے اور علاوہ اس کے صبر و استقلال کا۔ہندوستان کی آب و ہوا اس کے ناموافق ہے۔‘‘ مرزا جلال الدین کا سلام بھی پہنچایا، ’’وہ آپ کو خود مفصل خط لکھیں گے۔‘‘۵۳ ۵۷ ۲۹ اپریل کو زمیندار اخبار میں بھی انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھے ہوئے اقبال کے مزاحیہ قطعات میں سے تین شائع ہوئے: ’’لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی‘‘، ’’یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوشمند‘‘ اور ’’ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے‘‘۔۵۴ ۵۸ اقبال کی شاعری کی کوئی باقاعدہ کتاب اب تک شائع نہ ہوئی تھی۔ جلسوں میں سنائی جانے والی نظمیں کتابچوں کی صورت میں شائع ہو کر بکتی تھیں۔ عام طور پر فضل الٰہی مرغوب رقم کتابت کر کے خود شائع کرتے تھے۔ انجمن کے جلسے والے مزاحیہ قطعات بھی شائع کیے۔ دیباچہ خواجہ حسن نظامی سے لکھوایا۔ اکبری اقبال دیباچہ از خواجہ حسن نظامی [اقتباس] لاہور میں سیالکوٹ کے رہنے والے ایک آدمی رہتے ہیں جن کا نام اقبال ہے۔ وہ ڈاکٹر ہے اور بیرسٹر ہے اور پی ایچ ڈی ہے۔ وہ شعر گاتے، شعر بجاتے اور موقع پاتے ہیں تو شعر پیدا بھی کر لیتے ہیں۔۔۔ میں نے پروفیسر اقبال کو بھی دیکھا ہے اور ڈاکٹر اقبال کو بھی۔ سیالکوٹی اقبال کو بھی اور لاہوری اقبال کو بھی۔ یورپین اقبال کو بھی دیکھا ہے اور لندنی اقبال کو بھی، مگر آدمی کبھی نہیں پایا۔ وہ ازل سے حیوان ہیں اور حیاتِ ابدی کے نشان ہیں۔ ہندوستان کے لوگ حیوان کے لفظ کو مکروہ جانتے ہیں مگر میں اس لفظ میں وہ جان پاتا ہوں جو ہند کے کسی انسان میں نہیں۔ برسات میں مکھیاں اور پروانے دونوں پیدا ہوتے ہیں اور دونوں جاندار کہلاتے ہیں مگر ایک آدمی کو ستاتا ہے اور مگسِ بے حیا کا نام پاتا ہے اور دوسرا شمع کے رُخ پر قربان ہو جاتا ہے اور غیرت ڈھونڈنے والوں کو صبح کے وقت اپنی لاش دکھا کر رُلاتا ہے۔ اقبال بھی ایک پروانہ ہے جو اَن دیکھی شمع کا پروانہ ہے۔ مکھیاں اُس کے اشعار کو مٹھاس سمجھ کر چاٹتی ہیں اور پروانے شمع سمجھ کر قربان ہونے آتے ہیں۔ اقبال ہمیشہ آسمان پر اڑتے ہیں۔ زمین پر کبھی آنا ہوتا ہے تو اُس زمین میں جو آسمان سے زیادہ دُور نہیں ہوتی ہے اِس لیے وہ لوگ جن کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ اقبال کہاں ہیں؟ ہم اُن تک کیونکر پہنچیں؟ ایک دن بھری سبھا کے اندر اقبال زمین پر آئے اور چند جملے اُن کی زبان میں سنائے جو زمانے کی زبان کہلاتے ہیں جن کا نام اکبر ہے جو الٰہ آباد میں بیٹھ کر اللہ کی آبادیاں بساتے ہیں ۔۔۔ اکبر کی ہر بات زمین آسمان کو ایک کر دیتی ہے۔۔۔ اقبال نے اکبر کی زبان میں جو کچھ لکھا ہے وہ اکبری اقبال ہے۔۔۔ مجھ سے کہتے ہیں کہ اِس نظم پر وہ لکھوں جسے انگریزی میں ’’ریویو‘‘ کہتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں بہتے ہوئے دریا کی روانی کو اِس کی کیا ضرورت ہے کہ دوسرا اُس کے تیز بہاؤ کی حقیقت پر لیکچر دے۔۔۔۵۵ ۵۹ خواجہ حسن نظامی کبھی کبھی نثر میں ایسی بات لکھ جاتے جس پر اقبال کی نظم بھی حیران رہ جائے۔ ایک بیقرار فقیر کو مراقبے میں دکھایا۔ اُس کی سوچ کو مریخ پہنچایا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی کسی کی جدائی میں آہیں بھر رہی تھی۔ مریخ میں شبِ فرقت بقلم حسن نظامی [اقتباس] لڑکی نے ایک عالیشان قصر کی جانب اِشارہ کیا۔ فکرِ فقیر اُس کے اندر داخل ہو گیا۔ اور دیکھا خالی محل ہے اور دیواروں میں دُوربینیں لگی ہوئی ہیں۔ اُس نے ایک دُوربین کو دیکھا تو زمین اور اُس کی آبادیاں نظر آئیں۔ دوسری کو دیکھا تو مشتری کی بستیاں سامنے تھیں۔ تیسری کو دیکھا تو ایک لوح رکھی تھی۔ جس پر لکھا تھا۔ خدا نے بیشمار سورج پیدا کئے ہیں۔ ہر سورج کے ساتھ زمین، مریخ، مشتری، زہرہ، قمر وغیرہ سیارے ہیں اور ہر سیارہ میں جن و انس، حیوان و چرند، پہاڑ و دریا ہیں۔ نیک و بد ہیں۔ آدم و نوح و ابراہیم و عیسیٰ و موسیٰ و محمدؐ ہیں (علیہم السلام) اور سب میں محبت کا رشتہ قائم ہے۔ کیونکہ محبت ہی ہر چیز کی ابتدا ہے۔ محبت ہی اُس چیز کی زندگانی ہے۔ اور محبت ہی پر اُس کا انجام ہے۔ محبت کے لئے خدا نے ان بیشمار سورجوں کو پیدا کیا اور اُن کے ساتھ سیارے اور سیاروں میں مخلوقات پیدا کی۔ کیونکہ خدا کو مہجور کی آہ و بکأ میں لطف آتا ہے۔ وہ وصال نصیب عاشق کیا [کذا: کی] ہم آغوشی سے بھی مسرور ہوتا ہے۔ اِسی واسطے اُس نے اپنے حسن کے جلووں کو معشوق کے رُخسار اور رفتار و گفتار میں بکھیر دیا ہے۔ اس لوح کو دیکھ کر چوتھی دُوربین کو دیکھا۔ اُس کے اندر ایک ایسی چیز تھی کہ فکرِ فقیر کی آنکھیں گھبرا گئیں۔ اور باقیماندہ دُوربینوں کے دیکھے بغیر یہ کہتی ہوئی اور نعرہ مارتی ہوئی نکل آئی۔ کہ اب نہ کر پردہ۔ کہ او پردہ نشیں دیکھ لیا مخزن، اپریل ۱۹۱۴ئ۵۶ ۶۰ حکیم نورالدین جو مرزا غلام احمدقادیانی کے جانشین ہوئے تھے، ۱۳ مارچ کو قادیان میں فوت ہو چکے تھے۔ مرزا غلام احمد کے بڑے لڑکے مرزا سلطان احمد نے احمدیت قبول ہی نہیں کی تھی۔ لاہور میں رہتے تھے اور انجمن حمایت اسلام کے حامی تھے۔ایک اور لڑکے مرزا بشیرالدین محمود احمد اَب جانشین ہوئے تھے۔ جماعتِ احمدیہ کے ایک گروہ کے نزدیک مرزا غلام احمد صرف مجدد تھے، حقیقی معنوں میں نبی نہیں تھے۔ اِس گروہ کو مرزا بشیرالدین سے اختلاف تھا۔ گروہ کے رہنما احمدی عالم محمد علی لاہوری تھے۔ ۲ مئی کو انہوں نے لاہور میں احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام قائم کی۔ لاہوری جماعت یا لاہوری گروپ کہلائی۔ ۶۱ اقبال کے گورنمنٹ کالج کے زمانے کے دوست محمد دین فوق کا شوقِ اشاعت ابھی تک جوان تھا۔ اقبال کہتے تھے کہ کوئی ایسا رسالہ جاری کریں جس سے صوفیوں کی اصلاح ہو سکے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مردہ دل بنا دیا ہے۔ فوق مصروفیت کا عذر پیش کرتے تھے۔ ’’میں نے یہ بھی کہا کہ یہ طبقہ بہت ہوشیار اور جہاں گرد ہے،‘‘ فوق کا بیان ہے۔ ’’ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے فرمایا: ’۔۔۔دیکھو، مولانا روم کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ ایک طرف مولوی اور واعظ، شریعت کے مسائل بیان کرتے تھے اور دوسری طرف مولانا روم اپنی مثنوی کا وعظ لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ مثنوی میں بھی وہی باتیں ہوتی تھیں جو دوسرے واعظ سنایا کرتے تھے۔ لیکن مولوی کے وعظوں میں جہاں قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تھا، لوگوں کی جمعیت کم ہوتی تھی اور مولانا روم کی مثنوی کے وعظ میں صدہا لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مولانا نے وہ اصلاحی رنگ اختیار کیا جس کو لوگ جلد قبول کر سکتے تھے۔ انہوں نے عوام کا مذاق تاڑ لیا تھا اور وہ اُسی مذاق کے موافق کتاب و سنت کے مسائل بیان کرتے تھے۔۔۔‘‘ فوق غور کرنے لگے۔ ان کے والد صوفی مزاج تھے۔ امدا د کا وعدہ کیا۔ رسالے کا نام طریقت تجویز ہوا۔ پہلے شمارے کے لیے فوق نے اقبال سے مکالمہ کیا اور جوابات لکھ کر احتیاطاً نظرِ ثانی بھی کروا لیے۔۵۷ ۶۲ کشن پرشاد کے گھر لڑکا ہوا تھا۔ اُنہوں نے اقبال کو اطلاع بھجوا کر تاریخی نام کی فرمائش کی اور غالباً اپنی ایک غزل بھی ارسال کی۔ ’’عالم پناہ مہاراجہ عالمگیر پرشاد،‘‘ ۶ جون کو اقبال نے تاریخی نام تجویز کیا جس کے عدد ۱۳۳۴ھ نکلتے تھے۔ ’’ماشااللہ خوب غزل لکھی ہے۔‘‘۵۸ ۶۳ کسی وقت جرمنی سے ایما ویگے ناست کا خط موصول ہوا جس کا جواب اقبال کئی دنوں بعد بھی انگریزی ہی میں دے سکے۔ بنام ایما Lahore 7th June 1914 My dear Frl. Wegenast, I was most happy to receive your letter some time ago. Unfortunately I was not able to attend to it earlier owing to ill health. It is a pity that I cannot write to you in your beautiful German tongue which, I am sorry to say, I have forgotten except that I can read and understand the letters of my German friends. The other day I was reading Heine, and I thought of the happy days when we read the poet together at Frau Professors' in Heidelberg. Good old Lady! I suppose she is alright. Please remember me to her if you happen to see her. I should like very much to know what you are doing now, and what are your plans if any. I may come to Europe next year. But there is no knowing; all depends on circumstances. If I do come at all I shall certainly visit old Germany and see you once more at Heidelberg or Heilbornn whence we shall together make a pilgrimage to the scared grave of the great master Goethe. Although I never had the pleasure to meet your brother and sisters yet I should like you to remember me to them. Yours sincerely Mohammad Iqbal۶۲ ۶۴ وسیمہ نے دیکھا کہ آم، چچا جان کی کمزوری تھے۔ گرمیوں میں سہارن پور، الٰہ آباد اور دلی وغیرہ سے بعض دوست بھجواتے یا خود منگوا کر تقریباً ہر روز کھاتے اور کھلاتے۔ کبھی کبھی کہتے، ’’قدرت نے میووں کو ترقی دے کر انگور بنائے اور اَنگوروں میں جو کمی رہ گئی تھی وہ آموں کی تخلیق میں پوری کر دی۔‘‘بیماری میں بھی آم سے پرہیز نہ کر سکتے تھے۔ اُن کا قول تھا،’’پرہیز کا میں قائل نہیں۔‘‘۵۹ البتہ آم وہ زیادہ پسند تھے جن میں رَس زیادہ ہو مگر سردار بیگم مالدہ آم پسند کرتی تھیں لہٰذا گھر میں زیادہ تر مالدہ ہی آتا۔۶۰ اعجاز احمد کا بیان ہے، ’’جب آموں کی پیٹی کھلتی تو علی بخش سے کہتے کہ سب سے اچھا آم چن کر مجھے دو۔ وہ جب اپنی پسند کے مطابق آم منتخب کر کے۔۔۔ دیتا تو۔۔۔ کہتے کہ اِس آم کو تم کھا لو۔‘‘۶۱ ۶۵ ۱۷ جون تھی۔ ہندوستان میں مذہبی انتہاپسندی کے بانی بال گنگا دھر تلک جنہیں ان کے ماننے والے ’’لوک مانیا‘‘ یعنی عوامی رہنما کہتے تھے، بغاوت کے جرم میں سات برس برما میں جلاوطن رہنے کے بعد وطن واپس پہنچے۔ اب مسلم دشمنی چھوڑ کر بمبئی کے اُس مسلمان بیرسٹر کے گرویدہ ہو چکے تھے جس نے سات برس پہلے عدالت میں یہ کہہ کر اُن کا دفاع کیا تھا کہ اپنے وطن میں اپنے ہی وطن کی آزادی کا مطالبہ کرنے کو بغاوت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ بیرسٹر محمد علی جناح تھے جو اَب ہندوستان کے سیاسی افق کا رَوشن ستارہ بن چکے تھے۔ ۶۶ ۲۳ جون کو اقبال کے بیٹے آفتاب کی سالگرہ تھی جو اَب کالج میں پڑھتے تھے۔ شیخ عطا محمد کے بڑے لڑکے شیخ اعجاز احمد نے میٹرک کا امتحان دے رکھا تھا۔ اُس روز نتیجہ نکلا۔ اگلے روز اقبال کو معلوم ہوا تو یونیورسٹی گئے۔اعجاز کے ۲۴۰ نمبر تھے یعنی تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے۔ گھر آئے تو اعجاز کا کارڈ میز پر رکھا تھا۔ غالباً پچھلے روز ہی خبر سیالکوٹ پہنچ گئی تھی۔ اقبال نے تار دینے کا ارادہ ترک کر کے خط لکھا کہ سیالکوٹ ہی میں رہ کر اسکاچ مشن کالج میں داخلہ لیں۔ ایف اے کے لیے مضامین منتخب کر کے اقبال کو بتا دیں۔ ’’تمہارا بچپن کا زمانہ اب گزر گیا ہے،‘‘ اُس روز اقبال نے اعجاز کو لکھا۔ ’’کالج کے لڑکے جنٹلمین سمجھے جاتے ہیں نہ کہ لڑکے۔ یہ مرحلہ ایف اے کا مشکل ہے۔ شروع ہی سے توجہ اور بلاناغہ کام کرنا چاہئے۔ تین گھنٹے ہر روز پڑھائی کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ باقاعدہ ہو۔ ایف اے میں کم از کم تم کو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہونا چاہئے۔ بی اے کے واسطے تم کو گورنمنٹ کالج میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘شیخ عطا محمد، نورمحمد اور امام بی بی کو بھی مبارک باد بھجوائی۔ پانچ روز بعد ’مسلمان اور تعلیمِ جدید‘ کے موضوع پر آٹھ شعر لکھ کر اُنہیں فارسی شاعر ملک قمی کے اِس شعر پر ختم کیا کہ میں پاؤں سے کانٹا نکالنے لگا اور محمل میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک لمحے کو غافل ہو کر سو برس دُور ہو گیا: رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دُور شد۶۳ ۶۷ ۲۸ جون تھی۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیو میں صبح کے پونے دس بجے تھے۔ اُنیس سالہ نوجوان گاوریلو پرنسیپ نے ابھی ابھی ایک کیفے میں بیٹھ کر سینڈوچ ختم کیا تھا۔ کھلی چھت والی ڈبل فینٹم گاڑی کو اُس طرف آتے دیکھ کر چونک اُٹھا۔ گاڑی میں آسٹریا ہنگری کا ولی عہد اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ گاوریلو کے ایک ساتھی نے تیس چالیس منٹ پہلے اِسی گاڑی پر دستی بم پھینکا تھا مگر ناکام رہا تھا اور پھر گاوریلو کو اطلاع ملی تھی کہ گاڑی کا راستہ بدل دیا گیا ہے۔ لیکن شاید ڈرائیور کو یہ بات نہیں بتائی گئی تھی لہٰذا اب پولیس کی حفاظتی گاڑی نئے راستے پرتھی اور ولی عہد کی گاڑی تنہا اِدھر آ نکلی تھی۔ ڈرائیور کو غلطی کا احساس ہوا۔ بریک لگائی۔ واپس موڑنے کی کوشش میں گیئر پھنس گیا۔ گاوریلو بڑی تیزی سے گاڑی کے قریب پہنچ کر سیمی آٹومیٹک براؤننگ پستول نکال چکا تھا۔گولی شہزادے کی گردن میں لگی۔ ’’خدا کی پناہ! تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ شہزادی نے کہا اور عین اُسی وقت گاوریلو نے سرائیو کے گورنر پر بھی گولی چلائی۔ نشانہ چوکا اور گولی شہزادی کے پیٹ میں لگی۔ ’’صوفی ڈئر! صوفی ڈئر! مت جاؤ۔ ہمارے بچوں کی خاطر زندہ رہو۔‘‘ یہ شہزادے کے آخری الفاظ تھے۔چند منٹ بعد دونوں ختم ہو چکے تھے۔یہ اُس محبت کا انجام تھا جس کی خاطر آسٹریاہنگری کے شہزادے نے اپنے باپ کے شاہی ارادوں سے ٹکرا کر شادی کی تھی۔ بے قابو ہجوم نے گاوریلو کے ہاتھ سے پستول چھین لیا تھا۔ اُس نے زہر کی ایک گولی پہلے سے اپنے پاس رکھی ہوئی تھی مگر ایکسپائرڈ تھی۔ خودکشی نہ کر سکا۔ زندہ رہاتاکہ دیکھ سکے کہ اُس نے کس چیز کا آغاز کر دیا ہے۔ قتل بوسنیا میں ہوا تھا مگر ذمہ داری سربیا کی ایک دہشت گرد تنظیم پر عائد کی گئی۔آسٹریاہنگری کی سڑکوں پر نکل کر نوجوان جنگ کا مطالبہ کرنے اور سربیا کے جھنڈے جلانے لگے۔ روم میں پوپ پائیس دہم خبر سن کر بیہوش ہو گئے۔ لندن میں خونی سرخیاں لگانے کے شوقین اخبار ٹائمز نے لکھا، ’’دنیا کے ضمیر میں ہلچل مچ گئی ہے۔‘‘ ایک اور اخبار نے لکھا کہ یورپ پر بجلی کڑکی ہے۔‘‘گاوریلو کے پستول سے نکلنے والی گولی نے اُس چیز کو یقینی بنا دیا تھا جسے بعد کی نسلیں پہلی جنگ عظیم کہنے والی تھیں۔ ۶۸ ہم نے جو کانٹے بوئے تھے اُن سے کھجور حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے جو اُون بٹی تھی اُس سے مخمل نہیں بنا سکتے: خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم سعدی شیرازی اب کہیں سے نیا بیج لائیں اور پھر سے بوئیں کیونکہ جو کچھ پہلے بویا اُس کی فصل توشرمندگی سے کاٹ نہیں سکتے: تخم دیگر بکف آریم و بکاریم زنو کانچہ کشتیم زخجلت نتواں کرد درو ملا عرشی کوے اور چیل کے پروں کو باندھ کر اُنہیں کوئی قید نہیں کرتا۔ یہ سعادت صرف شہباز اور شاہین کی قسمت میں ہوتی ہے: شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اند خواجہ حافظ شیرازی اگر خضر کا ساتھی بننے کا شوق ہے تو آبِ حیات کی طرح سکندر کی نگاہوں سے چھپ جاؤ: گرت ہواست کہ باخضر ہم نشیں باشی نہاں زچشم سکندر چو آبِ حیواں باش خواجہ حافظ شیرازی اب ہمیں ہوش کہاں کہ باغباں سے پوچھیں بلبل نے کیا کہا، پھول نے کیا سنا اور باغ کی ہوا نے کیا کیا: اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد جس نے انگور کے دانے سے پانی نکال کر شراب بنائی اُس نے ستارہ توڑا اور آفتاب بنا دیا: مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازد ستارہ می شکنند آفتاب می سازند اے پروانے! تم نے محفل کی شمع سے یہ گرمی حاصل کی۔ دل میں سوز رکھتے ہو تو میری طرح اپنی آگ میں جلو: تو اے پروانہ ایں گرمی زشمع محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری فیضی فیاضی سننے والوں میں ذوق کی کمی دیکھتے ہو تو اپنی آواز زیادہ اونچی کر دو۔ محمل کا بوجھ زیادہ ہے تو حدی کی لَے تیز کر دو: نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی عرفی شیرازی شمع اپنے آپ کو محفل میں پگھلا دیتی ہے لیکن ہمارا نور پتھر میں چھپی آگ کی طرح نظروں سے اوجھل ہی اچھا لگتا ہے: شمع خود را می گدازد درمیان انجمن نورِ ما چوں آتشِ سنگ از نظر پنہاں خوش است میر رضی دانش لیلیٰ بیاباں ہی میں جلوہ گر ہو تو بہتر ہے کہ شہر کی تنگی صحرائی حسن کی تاب نہیں لا سکتی: ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیاباں جلوہ گر باشد ندارد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی مرزا صائب سرو ایک ہی مصرعے میں خزاں کی قید سے آزاد ہو گیا۔ تم بھی زندۂ جاوید ہو سکتے ہو اگر موزوں ہو جاؤ: سرو با یک مصرع از قیدِ خزاں آزاد شد زندۂ جاوید میگردی اگر موزوں شوی مرزا صائب ہر کمال کے ساتھ تھوڑی سی دیوانگی بھی ضروری ہے۔ تم عقل کل بھی بن گئے ہو تو جنون سے خالی مت رہو: با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش است ہرچند عقلِ کل شدہ ای بے جنوں مباش میرزا بیدل مجھے اپنے جسم کی ہڈیاں ٹوٹنے سے اتنی شرم نہیں آتی جتنی دوسروں کے آگے مرہم کے لیے ہاتھ پھیلانے سے: مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی تم نے ہم سے وفا سیکھی مگر اُسے دوسروں کے کام میں لائے۔ ہم سے موتی لے کر دوسروں پر نثار کر دیے: وفا آموختی از ما، بکارِ دیگراں کردی ربودی گوہرے از ما، نثارِ دیگراں کردی انیسی شاملو۶۴ ۶۹ بنام گرامی لاہور-۱۳ جولائی ۱۹۱۴ء جناب مولانا گرامی! آپ کہاں ہیں؟ حیدرآباد میں ہیں یا عدم آباد میں؟ اگر عدم آباد میں ہیں تو مجھے مطلع کیجیے کہ میں آپ کو تعزیت نامہ لکھوں۔ صدیاں گزر گئیں کہیں آپ کا کلام دیکھنے میں نہیں آیا۔ کبھی کبھی چند اشعار بھیج دیا کرو تو کون سی بڑی بات ہے۔ میں تو اب بوجہ مشاغل منصبہ کے تارک الشعر ہوں۔ ہاں کبھی فرصت ملتی ہے تو فارسی اساتذہ کے اشعار پڑھ کر مزا اُٹھا لیتا ہوں۔ میری شاعری گھٹ کر اب اسی قدر رہ گئی ہے کہ َاوروں کے اشعار پڑھ لوں۔ گذشتہ سال ایک مثنوی فارسی لکھنی شروع کی تھی۔ ہنوز ختم نہیں ہوئی۔ اور اس کے اختتام کی امید بھی نہیں۔ خیالات کے اعتبار سے مشرقی اور مغربی لٹریچر میں یہ مثنوی بالکل نئی ہے، لیکن آپ سے ملاقات ہو تو آپ کو اس کے اشعار سناؤں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے سن کر خوش ہوں گے۔ کہیے ادھر آنے کا کب تک قصد ہے؟ میں ایک عرصہ سے آپ کا منتظر ہوں۔ خدارا جلد آئیے۔ سب سے بڑا کام تو یہ ہے کہ آ کر میری مثنوی سنیے اور اس میں مشورہ دیجیے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اُمید ہے کہ بابا گرامی اچھا ہو گا اور نئے نکاح کی فکر میں اپنے آپ کو نہ گھلاتا ہو گا۔ گھر میں میری طرف سے سلام کہہ دیجیے۔ خط کا جواب جلد لکھیے اور نیز یہ کہ اپنے اشعار بھی بھیجیے۔ میری مراد تازہ افکار سے ہے۔ آپ کا خادم محمد اقبال، لاہور ۷۰ اِس بار لاہور میںبارش ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ بادل دکھائی دے جاتے تھے۔ ۷۱ کشن پرشاد کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ اقبال نے اخبار میں خبر پڑھ کر تعزیت نامہ بھیجا۔ جواب نہ آیا۔ ۶۵ ۷۲ اکبری اقبال پر اعتراضات ہو رہے تھے: ۱ اقبال نے اکبرؔ الٰہ آبادی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے ۲ یہ اقبال کا رنگ نہیں ہے اعتراضات اکبر الٰہ آبادی تک پہنچے۔ انہوں نے رسالہ نقاد کو جواب بھجوایا۔ ۱۶ جولائی کو ان کا خط اقبال کو بھی ملا۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ انہیں مرتے دم تک پیرومرشد تصور کرتے رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اقبال کواِس طرح برا کہے کہ اکبر کی بڑائی کا پہلو نکل آئے تو رنج نہیں۔ خوشی ہو گی۔ ’’کسی شاعر کی داد دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اگر داد دینے والا شاعر ہو تو جس کو داد دینا مقصود ہو اس کے رنگ میں شعر لکھے یا بالفاظِ دیگر اس کا تتبع کرے اور اس کی فوقیت کا عتراف کرے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ان کے پاس نقاد نہیں آتا تھا اس لیے فرمائش کی کہ خط شائع ہو جائے تو رسالے کی کاپی اُنہیں بھجوا ئیں۔ ۷۳ آسٹریا ہنگری نے مطالبہ کیا تھا کہ سربیا میں قتل کی تحقیق آسٹریا ہنگری کے افسروں کے سپرد کی جائے ورنہ اُس کی فوجیں سربیا پر حملہ کر دیں گی۔ زارِ روس نے للکارا کہ اُس صورت میں روسی فوجیں خود آسٹریا ہنگری پر حملہ کریں گی۔ جرمنی کے قیصر ولیم نے کہا کہ ایسا ہوا تو وہ روس پر حملہ کر دے گا اور اگر فرانس نے ساتھ نہ دیا تو اُس پر بھی حملہ ہو گا۔ اس کے لیے جرمن فوجوں کو بلجیئم سے گزرنا پڑتا اور ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بلجیئم کی حفاظت کرنے کا پابند تھا۔ ۲۸ جولائی کو آسٹریا ہنگری نے سربیا پر حملہ کر دیا۔ ۷۴ دو بحری جنگی جہاز جن کی پوری قیمت عثمانی سلطنت برطانیہ کو پہلے ادا کر چکی تھی اب تقریباً تیار تھے۔محب وطن وزیر چرچل نے ہنگامی حالات کے تحت اُنہیں برطانوی بحریہ میں شامل کر لیا۔ عثمانی حکومت کو پیغام بھیجا گیا کہ جب تک جہاز برطانیہ کے استعمال میں تھے ایک ہزار پونڈ روزانہ کرایہ ادا کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ عثمانی جنگ میں غیرجانبدار رہیں۔ ۲ اگست کو عثمانی ریاست نے جرمنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے مطابق اگر رُوس نے سربیا اور آسٹریاہنگری کے جھگڑے میں دخل دیا اور جرمنی کوجنگ میں شامل ہونا پڑا تو عثمانی ریاست جرمنی کا ساتھ دے گی۔ روس پچھلے روز مداخلت کر چکا تھا۔ معاہدے کا اصل مطلب یہ تھا کہ عثمانی ریاست جرمنی کی طرف سے جنگ میں شامل ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم سعید حلیم پاشا نے دستخط کیے جو جمال الدین افغانی کے بہت بڑے پیروکار تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ خلیفہ اور قیصر ولیم کو ایک ماہ میں دستخط کرنے تھے۔ استنبول میں اتحادی طاقتوں کے سفیروں سے معاہدہ اِس خوبصورتی سے چُھپایا گیا کہ جرمن بھی حیران رہ گئے۔۶۶ ۷۵ تہذیب حاضر کی گرمی سے مسلمان بھبھوکا بن کر بھڑک اُٹھے تھے مگر رقابت، خودفراموشی، ناشکیبائی اور ہوسناکی بھی اس تہذیب کے جلو میں آ رہی تھیں۔ اقبال نے سات اشعار لکھ کر فیضی کے شعر پر نظم کو ختم کر دیا: تو اے پروانہ ایں گرمی زشمع محفلے داری چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری۶۷ ۷۶ اگست میں محمد دین فوق کے رسالے طریقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ لکھنے والوں میں ابوالاعجاز حضرت احسان شاہجہانپوری، خواجہ حسن نظامی دہلوی، لسان العصر اکبر الٰہ آبادی، مہاراجہ کشن پرشاد، خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی اور اقبال کے بازارِ حکیماں کے زمانے کے دوست خان احمد حسین خاں بھی تھے۔ اقبال کے ساتھ فوق نے جو مکالمہ کیا تھا وہ بھی رسالے میں شامل تھا۔۶۸ مکالمہ [اقتباس] فوق: صوفیوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا؟ اقبال: اہلِ تصوف خصوصاً ہندوستان کے صوفیائے عظام نے اسلام کو وہ رونق بخشی اور بجائے تیر و تلوار کے محض حسنِ عمل اور اخلاقِ محمدی کے ذریعے اس کی وہ اشاعت کی کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوںمیں چھ کروڑ یقینا ان ہی بزرگوں کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں۔ فوق: عُرس کی رسم کب سے جاری ہے؟ اقبال: عرب اور دیگر ممالکِ اسلامیہ کی تو خبر نہیں لیکن ہندوستان کے عرسوں کے متعلق یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں چونکہ جاترا کی رسم عرصۂ دراز سے چلی آتی ہے اور وہ دُور دراز ممالک سے بعض خاص تیرتھوں کی جاترا کے لیے جایا کرتے تھے، اس لیے جب وہ رفتہ رفتہ مشرّف بہ اسلام ہونے لگے، تو اُن کو اِسلام سے مانوس کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے گئے جو اُن کے مذہبی شعائر سے کسی قدر مشابہ تھے۔ یہ میرا قیاس ہے، یقین نہیں ہے۔ فوق: عرس کا مقصد کیاہے؟ اقبال: عرس کا مقصد تو دراصل یہ ہے کہ جس بزرگ کا عرس ہو، اُس کے سبق آموز حالات بیان کیے جائیں اور لوگوں کو اُس کے اچھے عمل کی تقلید و پیروی کی ترغیب دی جائے لیکن افسوس ہے کہ موجودہ عرسوں کا بیشتر حصہ اپنے اصلی مقصد سے دُور ہٹ چکا ہے اور محض بے خبر[ی] ہے۔ فوق: صوفی لوگ موجودہ زمانے کی جدوجہد میں ہمارے لیے کس طرح مفید ہو سکتے ہیں؟ اقبال: اہلِ تصوف، خصوصاً ان بزرگوں کا جو صاحبِ اثر ہیں اور اپنے عقیدت مندوں کا بہت بڑا حلقہ رکھتے ہیں، یہ نہایت ضروری فرض ہے کہ وہ اپنے معتقدوں اور ارادت مندوں کو اپنے اثر میں رکھیں اور اُن کی زندگی کو مذہبی اور اخلاقی پہلو سے ایک کامیاب زندگی بنا دیں۔ سوشل ترقی کے لیے جدوجہد کرنا بھی ایک قسم کی بیداری ہے اور یہ بیداری جب کبھی ہو گی، حضرات صوفیأ کے پاک نفوس ہی سے ہو گی۔ فوق: اولیأ کی کرامتوں کے متعلق کیا خیال ہے؟ اقبال: میں کرامتوں کا قائل ہوں اور میرا خیال ہے کہ وہ پاک نفوس، جن کو اللہ تعالیٰ نے خاص دل اور دماغ عطا کیا ہے اور جو تزکیۂ نفس میں صاحبِ کمال ہیں، تیر از کماں جستہ اور آب از جُو رفتہ واپس لا سکتے ہیں: اولیأ را ہست قدرت از الٰہ تیرِ جستہ باز گرداند زراہ فوق: قبروں پر جانا چاہیے یا نہیں؟ اقبال: اگر مراد اِس سے قبرپرستی ہے، یعنی صاحبانِ قبور سے حاجات طلب کی جائیں جس طرح خدا کو حاضر جان کر کی جاتی ہیں، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں بلکہ اس کو سخت گناہ سمجھتا ہوں۔ اور اگر قبروں پر جانے سے مطلب فاتحہ پڑھنا، عبرت حاصل کرنا اور موت کو یاد کرنا ہے، تو میرے نزدیک اس میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ ایسا ضرور ہونا چاہیے۔ اِس کے علاوہ اِس بات کا بھی قائل ہوں کہ قبرستانوں پر خصوصاً کسی صاحبِ دل کے مزار پر جانے سے صفائیِ باطن بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ فوق: پیر کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اقبال: پیر یا مرشد کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان کوئی صحیح اور کامل راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ روحانی فائدہ تو ان بزرگوں سے صرف ان ہی لوگوں کو ہو گا جو اہلِ دل ہیں، جن کے دل میں درد ہے، جن کے قلب میں گرمی اور جن کی روح میں تڑپ ہے، لیکن کم سے کم اخلاقی فائدہ تو ہر مرید حاصل کر سکتا ہے۔ پیر صاحب کی صحبت سے (بشرطیکہ پیر دکانداری نہ کرتا ہو) ہر مرید اپنا اخلاق سنوار سکتا ہے۔ اور جس کا اخلاق درست ہے، جس کے افعال ٹھیک ہیں اور جس کے اعمال، اعمالِ حسنہ کہے جاتے ہیں اُس سے بڑھ کر اور کون بہترین انسان ہو سکتا ہے۔ ۷۷ شیخ عبدالقادر مصروف رہتے تھے۔ سر سید احمد خاں کی ادبی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے تیرہ برس پہلے جو مخزن جاری کیا تھا اُس کے لیے بھی کم ہی وقت نکال سکتے۔ ریٹائرڈ تحصیلدار غلام رسول نے مخزن کی ملکیت حاصل کر کے اسے نئی زندگی دینی چاہی۔ اگست کے شمارے سے مخزن کا ’’نیا دَور‘‘ شروع ہو رہا تھا۔ عبدالقادر ’’آنریری ایڈیٹر‘‘ ہوئے۔ پہلے صرف حصہ نظم اور حصہ نثر ہوتا تھا۔ اَب علمی، ادبی، معاشرتی وغیرہ الگ حصے ہوئے۔ مرزا سلطان احمد جو مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے مگر احمدیت قبول نہیں کی تھی اور انجمن حمایت اسلام کے حامی تھے، ان دنوں لندن گئے ہوئے تھے۔ اقبال کی مزاحیہ شاعری پر جو اعتراضات ہو رہے تھے اُس کا جواب لکھ کر بھیجا۔ حضرت اقبال کا طرزِ جدید سلطان احمد از لنڈن [اقتباس] یہاں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب شاعر فنِ شاعری کے کمالات کی حد تک رفتہ رفتہ پہنچ جاتا ہے تو چونکہ کمالات کا مرکز نقطۂ انتہائی ایک ہی ہوتا ہے، اس واسطے حدودِ کمالات اور اظہارِ کمالات میں ایک حد تک توافق اور تناسب پایا جاتا ہے۔ اور بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اہلِ کمال یا دونوں شاعروں کے کلام میں ایک توارد یا ایک تناسب ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ دونوں اہلِ کمال یا دونوں شاعر ایک ہی نقطۂ خیال یا ایک ہی نقطۂ بخت سے مناظر اور واقعات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں۔ انتہائی نقطہ خیال یا نقطہ بخت ان حالات میں حضرت اکبر اور حضرت اقبال کو ایک ہی مذاق اور ایک ہی دُھن کا مشاق ظاہر اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دیکھو مختلف زمانوں اور مختلف مذاقوں کے صوفیائے کرام کے کلام میں کس قدر یگانگت اور مناسبت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اُن میں بظاہر کوئی آشنائی اور تواصل نہیں ہوتا۔ مخزن، اگست ۱۹۱۴ ۷۸ ۳ اگست سے لاہور میں عدالتیں بند ہوئیں۔ ۷۹ ۴ اگست تھی۔ لندن میں رات کے ساڑھے دس بجے تھے ۔ بکنگھم پیلس میں شاہ جارج پنجم ایک وزیر اور دو درباریوں کے ساتھ موجود تھے۔ فیصلہ ہوا کہ رات گیارہ بجے جرمنی سے جنگ شروع ہو جائے گی جس نے بلجیئم پر حملہ کر کے برطانیہ کے الٹی میٹم کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اگلی صبح وائسرائے لارڈ ہارڈنگ نے ہندوستان والوں سے پوچھے بغیر ہندوستان کی طرف سے بھی جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۸۰ اقبال کو شملہ جانا تھا۔ وسیمہ نے دیکھا کہ سفر سے گھبراتے ہیں۔ کئی روز پہلے ہی سے ہدایات دینے لگتے۔ بار بار گاڑی کا وقت معلوم کرواتے، سامان وغیرہ کے متعلق دریافت کرتے۔ کوشش کرتے کہ رات کی گاڑی میں جگہ ملے۔۶۹ جنگ چھڑنے کی خبر اِقبال نے شملہ کے راستے میں سنی ہو گی۔ برطانوی سیاست دانوں کا خیال تھا کہ جنگ چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ اقبال کا خیال کچھ اور تھا۔ ۸۱ لاہور میں حضرت میاں میر کا مزار اور خانقاہ مشہور جگہ تھی۔ تاج محل بنانے والا شاہجہاں بھی آپ کے مریدوں میں سے تھا۔ کہتے تھے کہ کبھی دکن پر حملہ کرنے سے پہلے حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ایک غریب مرید نے آکر ایک سکہ شیخ کو نذرانے کے طورپر پیش کیا۔ میاں میر ولی [اقتباس کا ترجمہ] شیخ نے کہا، اس پر ہمارے سلطان کا حق ہے جو بادشاہی کے لباس میں بھکاری ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں پر حکومت کرنے والا ہمارا بادشاہ سب لوگوں سے زیادہ مفلس ہے۔ اُس کی نظریں دوسروں کے دسترخوان پر گڑی ہیں۔ اس کی بھوک ساری دنیا کو راکھ کرنے والی ہے۔ قحط اور طاعون اس کی تلوار کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ اُس کی تعمیر سے ایک دنیا ویرانہ بن چکی ہے۔ اس کی غربت، مفلسی اور کمزوروں پر ظلم سے عوام فریاد کرتے ہیں۔ اس کی شان و شوکت دنیا والوں کی دشمن ہے۔ بنی نوعِ انساں ایک قافلہ اور وہ لٹیرا ہے۔ اپنے خودفریب تخیل اور کچی سوچ کی وجہ سے وہ لوٹ مار کو فتح کا نام دیتا ہے۔ اس کی تلوار سے اس کا اپنا لشکر بھی اور دشمن کی فوج بھی دو ٹکڑے ہو جاتی ہے۔ فقیر کی بھوک صرف اُس کی جان کے لیے آگ ہے۔ بادشاہ کی بھوک ملک اور قوم کو فنا کر دیتی ہے۔ جس نے بھی غیراللہ کے لیے اپنا خنجر نکالا اُس کا پھل اپنے ہی سینے میں اُترا۔ حفاظتی معاہدے حفاظت کے خیال سے کیے جاتے تھے مگر یورپی ریاستوں نے ایسے معاہدے کر رکھے تھے کہ دو چھوٹی سی ریاستوں کی جھڑپ نے پورے یورپ کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا تھا۔ ساتھ ہی باقی دنیا بھی برباد ہو رہی تھی۔ میاں میر کے حوالے سے اقبال نے جو بات لکھی تھی اُس کے معانی بہت وسیع تھے۔ ۸۲ شیطان نے لیڈر سے کہا، مجھے خوشی ہے کہ تمہارے روز و شب ہوس میں گزرتے ہیں۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے مگر میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی تم صدرِ محفل رہو گے۔ جہنم والوں کی سرداری بھی تمہیں عطا کر دی گئی ہے! پانچ اشعار کے فارسی قطعے میں یہ چھوٹی سی حکایت جسے اقبال نے غالباً کہیں شائع نہیں کروایا، اُس کردار کی آمد تھی جسے بعد میں اُن کی شاعری میں نمایاں حیثیت حاصل ہونی تھی۔ ابلیس کے بارے میں منصور حلاج نے بھی بہت کچھ لکھا تھا۔۷۰ ۸۳ اقبال شملہ میں تھے جب سیالکوٹ سے اطلاع ملی کہ اِمام بی بی کی طبیعت بگڑی ہے۔ وہاں پہنچے۔ عید سیالکوٹ ہی میں گزری۔ کشن پرشاد کی طرف سے بھیجا ہوا عیدمبارک کا تار ملا جو لاہور کے پتے سے ری ڈائرکٹ کیا گیا تھا۔ جوابی خط لکھا مگر اُس کا جواب نہیں آیا۔ ۸۴ سیالکوٹ میں عبدالحکیم سیالکوٹی کے مزار پر ضرور جاتے تھے جس کے برابر شاہجہاں کے زمانے کا تالاب تھا۔ مولوی سید میر حسن سے بھی ملاقات ہوئی ہو گی جنہیں سب شاہ جی کہتے تھے۔ مثنوی کا ذکر بھی کیا ہو گا۔ ’’[اقبال] بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بھی جب کبھی شاہ صاحب سے ملاقات کے لیے آتے تو دوزانو ہو کر بڑے باادب اُن کی خدمت میں بیٹھتے اور انتہائی توجہ کے ساتھ اُن کی نصیحتیں سنتے،‘‘ اقبال کے اسکول کے زمانے کے ساتھی پروفیسر محمد دین بھٹی نے بعد میں کہا۔ ’’اگر شاہ صاحب کوئی سوال کرتے تو اُس کا مختصر ترین جواب دے کر شاہ صاحب کو گفتگو کا زیاہ موقع دیتے۔‘‘۷۱ شاہ جی اب ستر برس کے ہو چکے تھے مگر صحت برقرار تھی۔ ہر صبح اپنے والدین اور اُس بہن کی قبر پر جاتے جس سے وعدہ کیا تھا کہ ہر روز قبر پر آیا کریں گے۔ جمعرات کے روز مرحوم دوستوں کی قبر پر بھی جاتے جن میں شیخ اللہ داد شامل تھے۔۷۲ کالج میں بدستور عربی پڑھا رہے تھے۔ گھر سے نکلتے تو مختلف فاصلوں پر شاگردوں کے ٹولے کھڑے ہوتے جو راستے میں باری باری درس لیتے جاتے۔ ’’بعض اوقات جب کوئی شعر بہ طور نظیر پڑھنا ہوتا تو چلتے چلتے ٹھہر جاتے اور شعر پڑھتے،‘‘ ان کے شاگرد مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی کا بیان ہے۔ شہر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بازار سے گزرے۔ کوئی شخص سبزی فروش کو کھوٹا روپیہ دینے پر مصر تھا کہ اپنے پاس سے گھڑ کر تو نہیں لایا ہے۔ سبزی فروش نے کہا، ’’اچھا مولوی صاحب سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ شاہ جی نے روپے والے سے کہا، ’’یہ روپیہ آپ کی غفلت سے آپ کے پاس آیا۔ آپ کو دیکھ کر لینا چاہیے تھا۔ اب آپ اسے دانستہ دوسرے کو دینا چاہتے ہیں، یہ گناہ ہے۔‘‘۷۳ شاہ جی کے ایک شاگرد ظفر اقبال لاہور سے آئے۔ ان کے اُستاد نے کسی طالب علم کی سفارش کی تھی کہ اچھے نمبر دیے جائیں۔ شاہ جی نے فرمایا، ’’یہ لوگ دین اور دنیا کو الگ سمجھتے ہیں۔ اُن سے کہہ دیجیے کہ پیغام مل گیا ہے، میں خوب غور کروں گا۔ پھر پرچہ دیکھوں گا۔ اگر گنجائش ہوئی تو ضرور نمبر دوں گا۔ لیکن مولانا رُوم کے قول کے مطابق لقمہ ہی دیا جا سکتا ہے، حلق بنا کر نہیں دیا جا سکتا۔ یونیورسٹی سے جو ہمارا معاہدہ ہے اُس کی پابندی نہ ہو تو جو کچھ ملتا ہے وہ حلال نہ رہے، حرام ہو جائے۔‘‘ ۷۴ اِنہی ظفر اقبال نے مسجد سے نکل کر احتراماً شاہ جی کا جوتا اٹھا لیا اور لے کر چلے کہ مسجد کے باہر انہیں پہنا دیں تو شاہ جی نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’یہ میرا جوتا ہے۔‘‘ کسی کا معمولی احسان بھی گوارا نہ تھا۔ منجھلے لڑکے سید محمد تقی اکثر کہتے کہ ملازمت چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ سابقہ شاگرد جمشید راٹھور نے تائید کی تو شاہ جی نے ہاتھ اوپر اٹھایا اور کہا، ’’میں اس ہاتھ کو اوپر رکھنا چاہتا ہوں۔ میری آرزو ہے کہ یہ اِسی طرح رہے۔ نیچے نہ ہو اور کسی کے سامنے نہ پھیلے۔‘‘۷۵ ۸۵ اعجاز احمد نے گھر میں سن رکھا تھا کہ میاں جی یعنی شیخ نور محمد کو اسمِ اعظم معلوم ہے جو اُنہوں نے اقبال کو سکھا دیا ہے۔ اعجاز سے روایت ہے کہ اقبال سیالکوٹ آئے تو اعجاز نے پاؤں دباتے ہوئے پوچھ لیا۔ اقبال نے کہا، ’’یہ بات تم میاں جی ہی سے پوچھنا۔‘‘ میاں جی سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا، ’’مجھے جادو منتر اور ٹونے ٹوٹکے جیسا کوئی اسمِ اعظم معلوم نہیں ہے کہ اُس کے پڑھتے ہی کچھ سے کچھ ہو جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ سے دعا مشکلوں کو حل کرتی ہے۔ اِس لیے دعا ہی اسمِ اعظم ہے۔۔۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی اچھی صفات ہیں، جن کے ذریعے سے اُس سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ مثلاً صحت کے لیے ’’یا شافی‘‘۔ رزق کی کشائش کے لیے ’’یا رزّاق‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی اسمائے حسنہ پکارنے سے مشکلیں حل ہوتی ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ الفاظ صرف زبان ہی سے نہیں، دل سے بھی نکلیں۔ اور دل اللہ تعالیٰ کی اُس صفت پر یقین بھی رکھتا ہو۔۔۔ قبولیتِ دعا کا ایک نسخہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر دعا سے قبل اور بعد حضور سرورِ کائناتؐ پر درود بھیجیں۔ کیونکہ درود سے بڑھ کر اور کوئی ’اسمِ اعظم‘ نہیں اور تمہارے چچا کو میں نے اسی ’اسمِ اعظم‘ کی تلقین کی ہے۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر میاں جی نے اعجاز سے کہا، ’’اسمأ الٰہی میں یا حی یا قیوم کا ورد بکثرت کرنا چاہیے۔ اقبال کو بھی میں نے اسی کی تاکید کی ہے۔‘‘۷۶ ۸۶ شیخ عطا محمد نے ڈاکٹر میر حیدر کی دکان پر لال سوداگر کو دیکھا۔ نام تو اُن کا بھی حیدر ہی تھا لیکن بے جی نے انہیں مذاقاً یہ نام دیا ہوا تھا کیونکہ مہینوں کے لیے شہر سے غائب ہو جاتے اور مشہور تھا کہ جواہرات کی تجارت کے لیے ریاستوں میں جاتے ہیں لیکن مالی حالت کچھ زیادہ نہیں تھی۔غالباً میاں جی کی کسی خالہ کے ناطے دُور کے رشتہ دار تھے۔ شیعہ تھے۔ محرم کے دنوں میں تعزیہ اور ذوالجناح کے جلوس کے ساتھ پروقار انداز میں آہستہ آہستہ سینہ کوبی کرتے تھے۔ اس وقت کہہ رہے تھے کہ اقبال تفضیلی عقیدہ رکھتا ہے: ہے اُس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا تفضیلِ علی ہم نے سنی اس کی زبانی اُس رات میاں جی، شیخ عطا محمد اور اقبال چھت پر اپنے اپنے بستر پر لیٹے، اور اعجاز احمد اور دوسرے لڑکوں نے اُنہیں مٹھیاں بھرنے کی ذمہ داری سنبھالی تو شیخ عطا محمد نے لال سوداگر کی بات دہرائی۔ اعجاز کا بیان ہے، ’’چچا جان نے کہا لال سوداگر کو ممکن ہے جواہرات کی پرکھ ہو لیکن معلوم ہوتا ہے شعر کی سمجھ بالکل نہیں۔ اگر ہوتی تو سمجھ جاتے کہ اِس شعر میں بلکہ نظم کے اِس حصہ میں جس میں یہ شعر ہے، میں نے اپنے متعلق دوسروں کے خیالات بیان کیے ہیں نہ کہ اپنے۔ مزید کہا کہ رسولِ مقبولؐ کے اہلِ بیت کے ساتھ محبت تو ہر مسلمان کا جزوِ ایمان ہونا چاہیے اور مجھے اُن سے محبت میں شدّت کا بھی اعتراف ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ خلفائے راشدین میں ایک کو دوسرے پر فضیلت کا عقیدہ رکھوں۔‘‘۷۷ ۸۷ اعجاز کا بیان ہے کہ اس برس رات کی مجلسوں میں فارسی مثنوی کا تذکرہ ہوتا رہا جسے اقبال اُن دنوں لکھ رہے تھے۔ عجمی تصوف اور ایرانی شعرأ پر تنقید کرتے تھے کہ انہوں نے شعائرِ اسلامی پر چوٹیں کی ہیں۔۷۸ ۸۸ سیالکوٹ سے گھر کی خواتین کے ساتھ ہی واپس آئے ہوں گے۔ ’’اگر کبھی چچی جان اور میں بھی ان کے ہمراہ ہوتیں تو اُن کی پریشانی دیدنی ہوتی،‘‘ وسیمہ نے بعد میں بتایا۔ ’’یوں محسوس ہوتا کہ اُن کے ساتھ کوئی بہت بڑا خزانہ ہے جس پر ڈاکا پڑ جانے کا ڈَر اُنہیں چَین نہیں لینے دے رہا۔‘‘۷۹ ۸۹ لاہور واپس آکر ۲۸ اگست کو کشن پرشاد کے نام جواب لکھا جس میں اُس خط کا ذکر کیا جو کچھ دن پہلے لکھا تھا مگر جس کا جواب نہیں آیا تھا۔ ’’یورپ میں ایک خوفناک جنگ ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔ ’’کیا عجب کہ یہ وہی جنگ ہو جس کا ذکر پرانی کتبِ مقدّسہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو امن نصیب کرے اور اہل دنیا کو توفیق دے کہ وہ مادیات سے مغلوب ہو کر روحانیت سے غافل نہ ہو جائیں۔‘‘ جرمنی سے جنگ کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ ایما کو خط نہیں لکھ سکتے تھے۔ ۹۰ جہاں بانی کے تحت جو شعر لکھے تھے وہ اپنی خودی سے واقف ہونے والے شخص کی خصوصیات تھیں۔ اب کچھ خیالات جو مدت سے ذہن میں آوارہ تھے ‘تعلی مردِ خود آگاہ‘ کے باب میں ڈھل گئے۔ سوچا کہ یہ خودی سے واقف ہونے والے شخص کا ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب ہو گا [ترجمہ]:۸۰ کیا تم جلال الدین رومی کے قصے سے واقف ہو جو حلب میں درس دیا کرتے تھے؟ ان کے پاؤں میں عقلی دلائل کی زنجیر تھی، کشتی عقل کے ظلمات میں پھنسی ہوئی تھی، موسیٰ تھے مگر عشق کے طورِ سینا سے بیگانے، عشق اور اُس کے جنون سے بیخبر تھے۔ تشکیک اور اشراق پر درس دیتے اور فلسفے کے موتی پروتے تھے، مشائیں کے اقوال کی گتھیاں سلجھاتے اورفکر ہر چھپے ہوئے نکتے کو واضح کرتی۔ اردگرد کتابوں کے ڈھیر اور زبان پر کتابوں کے اسرار کی شرحیں رہتی تھیں۔ حضرت شیخ کمال الدین جنیدی کے حکم پر پیرِ تبریز، جلال الدین کے مکتب کی طرف روانہ ہوئے۔ فرمایا، ’’یہ شور اور قیل و قال کیا ہے؟ یہ قیاس، وہم اور استدلال کیسا ہے؟‘‘ ملا جلال نے کہا، ’’نادان، خاموش رہو! دانشوروں کے مقالات کا مذاق مت اڑاؤ۔ میرے مکتب سے باہر نکل جاؤ۔ اس قیل و قال سے تمہیں کیا کام! ہماری گفتگو جو تمہاری سمجھ سے بلند ہے، ذہن کے شیشے کو روشن کرتی ہے!‘‘ ملّا جلال کی گفتگو نے شمس تبریز کے سوز میں اضافہ کیا اور اُن کی روح کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کی نگاہ کی بجلی زمین پر گری تو اس کی حرارت سے مٹی شعلہ بن گئی، دل کی آگ نے شعور کے آشیاں کو جلا ڈالا۔ اُس فلسفی کی کتاب جل کر خاک ہو گئی! وہ جو عشق کے اعجاز سے بیگانہ اور اس کے ساز کے نغموں سے ناواقف تھے، بولے، ’’یہ آگ کہاں سے بھڑکی ہے جس نے فلسفیوں کی کتابیں خاک کر ڈالی ہیں۔‘‘ شیخ نے فرمایا، ’’اے زنار باندھنے والے مسلمان! یہ ذوق اور حال کی باتیں ہیں، تمہیں ان سے کیا کام! ہمارا حال تمہاری فکر سے بلند ہے کہ ہمارا شعلہ تانبے کو سونا بنانے والی سرخ کیمیا ہے!‘‘ تم نے فلسفے کی برف کو اپنا سرمایہ بنایا ہے اس لیے تمہاری سوچ کے بادل سے صرف اولے برستے ہیں، اپنے خس و خاشاک سے آگ روشن کرو، اپنی مٹی سے شعلہ تخلیق کرو۔ مسلمان کا علم سوزِ دل سے تکمیل پاتا ہے کہ اسلام کا مطلب ہر غروب ہونے والی چیز کو چھوڑنا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غروب ہونے والوں کی قید سے آزادی پائی تو پھر آگ کے شعلوں میں بھی محفوظ رہے۔ ۹۱ دیکھئے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک شیشۂ دیں کے عوض جام و سبو لیتا ہے ہے مداوائے جنوں نشترِ تعلیمِ جدید میرا سرجن رگِ ملّت سے لہو لیتا ہے۸۱ ۹۲ دونوں بیویاں باری باری بیمار ہو گئیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو ایک بار پھر سیالکوٹ جانا پڑا۔ ۳ ستمبر کو بیویوں کی طبیعت بہتر ہوئی تو واپس آئے۔۸۲ ۹۳ حیدرآباد دکن سے کشن پرشاد کی نگرانی میں کوئی رسالہ تزکِ عثمانیہ جاری ہوا تھا۔ ۵ ستمبر کو کشن پرشاد کے خط کے ساتھ اقبال کو موصول ہوا۔اقبال نے رسالے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اس کی سرپرستی میں نکل رہا ہے جو سارے ہندوستان میں فن کی پرورش کرنے کے لیے مشہور ہے ، جس کے شعر سمجھنے اور شعر کہنے کے ذوق کو علمی دنیا تسلیم کر چکی ہے مگر رسالہ اتنا مختصر نہیں ہونا چاہئے۔ ’’کوشش ہو کہ حیدرآباد کے علمی حلقوں میں اس کی وساطت سے جدید مذاق پیدا ہو اور نئی پود کے ہونہار لکھنے والے وہاں کی پبلک سے اور علی العموم ہندوستان کی پبلک سے روشناس ہو جائیں۔ پالٹیکس سے اسے مطلق سروکار نہ ہو، محض ادبی رسالہ ہو۔‘‘ اکبرؔ کے رنگ میں کہے ہوئے دو نوں اشعار بھی خط میں درج کیے۔۸۳ ۹۴ ۶ ستمبر کو ایک مقدمے کے سلسلے میں پٹیالہ گئے ۔ اگلے روز امیر خسرو کے عرس پر دہلی پہنچے۔ خیال تھا کہ گوالیار کے راجہ کی توجہ حاصل ہو سکتی ہے مگر وہ یورپ کے سفر کی تیاریوںمیں مصروف تھے۔ گوالیار کے سفر کا ارادہ ترک کر دیا یا اگر گئے تو ناکام پھرے۔۸۴ ۹۵ دہلی کے کوچہ چیلان کی ایک شاندار عمارت میں محمد علی کا دفتر تھا جہاں سے وہ ہمدرد اور کامریڈ نکالا کرتے تھے۔ ’’ڈرائنگ روم کچھ انگریزی اور کچھ ترکی وضع کے بیش قیمت فرنیچر سے آراستہ،‘‘ ایک ملاقاتی کا بیان ہے۔ ’’کوچ اور کرسیاں، گدے اور قالین، اور دیوار تصویروں سے مرصع۔‘‘ موسیقی کی طرح مصوری سے بھی محمد علی کو خاص دلچسپی تھی اس لیے دیواروں پر مغربی مصوروں کے شاہکار ٹنگے تھے۔ البتہ سڑک پار کے اوسط درجے کے مکان میں اپنی قیام گاہ سادہ اور اسلامی طرز پر سجائی تھی۔۸۵ ’’لندن ٹائمز نے ’چوائس آف دی ٹرکس‘ (ترکوں کی پسند) کے عنوان سے ایک مقالہ افتتاحیہ شائع کیا جس میں ترکوں کو اچھی خاصی دھمکی دی گئی تھی،‘‘ محمد علی نے ۱۴ برس بعد لکھا۔ ’’میں نے جب اس مضمون کو پڑھا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ترک اس قدر تلخ و ترش لہجے میں لکھے ہوئے مضمون کو پڑھ کر برطانیہ کے خلاف جنگ پر آمادہ نہ ہو جائیں اور چونکہ میں اس جنگِ عمومی میں ترکوں کی شرکت کو ترکوں اور عام طور پر مسلمانوں اور بالخصوص مسلمانانِ ہندوستان کے لیے مضر سمجھتا تھا، اس لیے میں مجبور ہو گیا کہ ایک بار پھر کوشش کروں کہ ترکوں کو اِس جنگ میں شرکت سے باز رکھوں۔۔۔ اس کے باعث ۲۶ ستمبر ۱۹۱۴ء کا کامریڈ اس تاریخ کے کئی دن بعد ہی نکل سکا مگر میں نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔‘‘ مسلسل چالیس گھنٹوں میں لکھا ہوا انگریزی مضمون اُنیس کالموں پرپھیل گیا۔ تعارف کے بعد پندرہ حصے تھے: اسٹراسبرگ اور سالونیکا۔ سالونیکا کیا کہتا ہے؟۔ ترکی کا ’’ریخ لینڈ‘‘۔ ترکوں کے لیے موقع۔ تنبیہ کرنے والے۔ ترک اور رُوس۔ ترک اور فرانس۔ ترکی، انگلستان اور مصر۔ قانون اور اخلاقیات کا ایک مسئلہ۔ ترکوں کو کیا کرنا چاہیے؟۔ احتیاط۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ انگلستان کو کیا کرنا چاہیے؟۔ ضمیر اور جرأت کا امتحان۔ رشوت کی ضرورت نہیں! The Choice of the Turks By Muhammad Ali, Editor Comrade Caution We are not unappreciative of the temptations and trials of the Turks; but even here a word of caution must be uttered. They must not be lured by the blandishments of those opposed to England and her Allies. They must remember that "War is Deceit." We desire from the bottom of our heart that this may be the last of the wars, and that human intelligence and human sense of justice may never know such constantly recurring eclipses. But we are bound to admit that as things are today there are some things worse than war. We shall not, therefore, pretend to believe that the Turks must have peace at any price. They must beware of entering into a quarrel, but once in it they must not come out of it till the claims both of honor and self-interest are satisfied. God knows they will have enough occasions to fight, for they have to contend against numerous army corps of prejudice and passion. That is all the more reason that they should fight only their own battles and not those of another. At present the fear is that they may be led into the firing line in a quarrel only outwardly their own. The Turks are not wanting in gratitude. In fact, few nations could equal the Turk in those characteristics which have extorted for him even from his enemies the title of "The Only Gentleman in Eastern Europe." To quote the old Arab saying mentioned by Gibbon, their women know not how to grant favors and their men know not how to refuse. Every Indian whom we know who has had any relations with them is loud in praises of their courtesy, which is as natural to the peasant as to the prince. But if courtesy is one of their qualities, they also possess the defects of that great quality. In matters of business they are imposed upon, and often imposed upon knowing that they are being imposed upon. Now nothing is a more serious business than war in which a nation can destroy in a month in the way of life, energies and resources what it had taken a generation to build. The Turk knows not what fear is, but life can be valueless only to those in the lowest scale of humanity. It is a rich treasure and a divine gift which we are not permitted by our Maker to squander. We must learn in war even more than in peace the importance and value of economy in human life. As regards material resources the Turks have never had even so much as could balance their peace requirements. All these considerations point in the way in the direction of peace. This is not all. Almost every other great nation of Europe has had peace for a generation or more. Even Russia with her immense resources did not find herself equal to a second world war three years after her first in which she had to fight only a small island kingdom. She has launched this new enterprise no less than a decade after her last war. France, Austria and Germany have each enjoyed nearly half a century of peace. England has not fought in a continental war for a century, and her little war against two little peasant states of South Africa, which was enough to prostrate her for many years after, was fought no less than fifteen years ago. Servia [Serbia] and Montenegro alone are fighting soon after their last war. But only a child could believe that they are paying their own way. Turkey must therefore proclaim a moratorium against her warlike instincts and her clamant revenge. But if she cannot do so, and must enter this terrible business, let her make sure that the quarrel is her own, that her good nature and courtesy are not being imposed upon, and that she is not hatching a cuckoo's egg believing all the time that it is her own. ۹۶ ’’ماہِ صیام میں بڑا اہتمام کیا جاتا تھا،‘‘ وسیمہ مبارک نے بعد میں یاد کیا۔ ’’چچی جان [سردار بیگم] بڑی پکی روزہ دار تھیں، خواہ کچھ بھی ہو روزہ کبھی قضا نہ کرتیں۔‘‘۸۶ ۹۷ ۲ اکتوبر کو کشن پرشاد کی طرف سے ریاست پٹیالہ کے سکھوں کے کسی مسئلے پرایک خط کے اردو اور انگریزی مسودے موصول ہوئے۔ ہدایت تھی کہ اقبال نہیں لے کر سردار گورنام سنگھ کے پاس جائیں۔ کوئی افسر رہے ہوں گے۔ ’’اگر سردار گورنام سنگھ صاحب سے آپ کا تعارف نہیں ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ آپ کی طرف سے میرا یہ خط لے کر جانا غیرموزوں اور بعید از مصلحت ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ مشورہ دیا کہ کشن پرشاد اپنے خیالات شائع کرواکر اس کی کاپیاں سردار گورنام سنگھ ، لالہ چمن لال صاحب جوڈیشل سیکرٹری ریاست اور مہاراجہ پٹیالہ کے پاس بھیجیں۔ ’’علاوہ اس کے عام طور پر اخباروں میں بھی اس مضمون کی اشاعت ہو جائے تو بہتر ہے۔ اس سے سکھ پبلک اور امرائے ریاست پٹیالہ کو آپ کے خیالات کا علم ہو جائے گا۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے کسی مجذوب کو اقبال اور کشن پرشاد ’’اللہ اکبر‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اقبال نے لکھا کہ وہ کئی دن سے نظر نہیں آئے۔ ۸۷ آیندہ کشن پرشاد کے نام اقبال کے خطوط میں روحانی حوالوں اور مجذوبوں کے تذکرے کی بھرمار رہی۔ بعض حوالے ایسے تھے کہ آج انہیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے روحانی استعاروں کی آڑ میں سیاسی اُتار چڑھاؤ بالخصوص ریاست حیدرآباد سے وابستہ کشن پرشاد کے معاملات کے بارے میں خفیہ اشاروں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ بعید از قیاس نہیں۔ ۹۸ اکتوبر کے آغاز میں عدالتیں دوبارہ کھل گئیں۔ سر اکبر حیدری اقبال کو حیدرآباد بلا رہے تھے۔ کام میں حرج اور سفر کے اخراجات کے خیال سے نہ جا سکے۔۸۸ ۹۹ ۱۲ اکتوبر کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس کی فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کے اجلاس میں بورڈ کے صدر جسٹس شاہ دین ہمایوں، پروفیسر کے ایم مترا، مولوی محمد حسین اور ڈاکٹر عظیم الدین کے ساتھ اقبال بھی شریک تھے۔ کنوینر تھے۔ انگریزی میں کاروائی انہی نے لکھی ہو گی اگرچہ دستخط نہ ہوئے: ۱ بورڈ نے ۱۹۱۷ء کے نصابات پر غور کیا۔ مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئیں: آرٹس کے امتحانات: ۱ میٹرک: (ا) عربی پہلے کی طرح۔ (ب) فارسی پرانے کی جگہ نیا نصاب۔ (ج) اُردو: (۱) نظرِ ثانی شدہ اُردو نصاب؛ (۲) منہاجِ قواعد۔ (د) پشتو جیساکہ پہلے تھا۔ ۲ انٹرمیڈیٹ: (ا) عربی، فارسی- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) [اُردو] (ا) مراۃ العروس از مولوی نذیر احمد؛ (۲) رباعیاتِ حالی۔ ۳ بی۔اے (ا) عربی عام اور امتیازی جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) فارسی عام اخلاقِ جلالی کی جگہ انٹروڈکشن ٹو پرشین لٹریچر از جے واعظ لال، امتیازی-جیسا کہ پہلے تھا۔ ۴ ایم۔اے: (ا) پرچہ پہلا، تیسرا اور چھٹا- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) دوسرا پرچہ تفسیرِ جلالین کی جگہ تفسیرِ بیضاوی۔ سورۂ بقرہ (ج) چوتھا پرچہ۔ فلسفۃاللغویہ کی جگہ گرامر آف سیمیٹک لینگویج از رائٹ۔(د) پانچواں پرچہ-الدّرالمنثور کی جگہ الشعر والشعرا از ابن قتیبہ ڈی گوجر ایڈیشن صفحہ ۱۵۰-۱ مشرقی علوم کے امتحانات عربی: (ا) مولوی- جیسا کہ پہلے تھا۔ (ب) مولوی عالم -جیسا کہ پہلے تھا۔ (ج) مولوی فاضل- پہلا پرچہ ادب (۱) مقاماتِ حریری، پہلے ۲۵ مقامات؛ (۲) تفسیرِ بیضاوی سورۂ بقرہ کو دیوانِ حالی کی جگہ رکھیں۔۸۹ کشن پرشاد نے اقبال کو لکھا تھا کہ اپنی روحانی قوت سے اُنہیں لاہور کھینچ لیں۔پنجاب کے بزرگوں سے فیض اٹھانا چاہتے تھے۔ اُس روزجواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ ُروحانی قوت کا سرچشمہ تو کشن پرشاد خود ہیں۔ یہ قوت اسی کے پاس ہو سکتی ہے جو اَمارت میں درویشی کرتا ہو۔۹۰ ۱۰۰ غالباً لاہور کے کوئی مجذوب ’’سائیں رب‘‘ نام کے بھی تھے جنہیں کشن پرشاد نے اقبال کے ہاتھ پیغام بھجوایا۔ اُنہوں نے جواب میں قرآنی آیت کا وہ ٹکڑا پڑھا جس کا مطلب ہے کہ مایوس مت ہو، لاتقنطو۱۔۹۱ ۱۰۱ کشن پرشاد کی طرف سے عید کی مبارک باد کا تار اور اُس کے بعد منظوم عیدکارڈ ملا۔ اقبال جواب نہ دے سکے۔۹۲ ۱۰۲ ۲۹ اکتوبر کو رمضان کی آخری تاریخ تھی۔ عثمانی بحری بیڑا کسی اعلان جنگ کے بغیر روسی بندرگاہوں پر پہنچا اور کئی جہاز تباہ کر دیے۔ عثمانی سلطنت نے اپنے وزیرِ اعظم سعید حلیم پاشا کو بھی خبر نہیں دی تھی۔ اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اِس نازک وقت میں ان سے زیادہ قابل ِاعتماد کوئی نہ تھا۔ سلطان کے اصرار پر استعفیٰ واپس لینا پڑا۔ رُوس سے معذرت کر کے اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا وعدہ کیا گیا۔ ۲ نومبر کو اُس نے عثمانی سلطنت کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ۱۰۳ ۳ نومبر کو برطانیہ اور عثمانی سلطنت کے درمیان جنگ کا باقاعدہ اعلان ہو گیا۔ اُس روز ہندوستان میں کامریڈ اور ہمدرد کی ضمانت ضبط ہوئی اور کامریڈ بند کر دیا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے قیدخانے کی دعا مانگی تھی۔ محمد علی کے حق میں اُن کا ۲۶ ستمبر والا اِداریہ ’چوائس آف دی ٹرکس‘ ایسی ہی دُعا ثابت ہوا۔ اخبار کی ضمانت کے سلسلے میں لاہور آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں اپنے بھائی شوکت علی سمیت اقبال کے گھر ہی ٹھہرتے تھے۔ ’’کامریڈ کی ضمانت کے مقدمے میں جب مجھے متعدد مرتبہ لاہور جانا پڑا تو میں نے اُن کی زبان سے اُن کی مثنوی کے بعض حصے سنے تھے جب کہ وہ لکھی جا رہی تھی،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ اُس وقت نہیں جانتے تھے کہ مقدموں کا سلسلہ اگلے برس طویل نظربندی پر ختم ہوگا۔۹۳ رہرو تھا راہِ عشق کا منزل کو پا لیا اب اور کیا نشاں مری لوحِ مزار دے ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے محمد علی ’’جوہرؔ‘‘ ۱۰۴ انگلستان میں بائیں بازو کے ہفتہ وار نیو اسٹیٹسمین (New Statesman)کے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ محمد علی نے بغاوت کی نہیں بلکہ حکومت سے وفاداری کی ترغیب دی تھی۔ ’’جب سے جنگِ عمومی چھڑی تھی اُس وقت سے کامریڈ کے تمام پرچوں کو لفظ بہ لفظ پڑھ کر میری ایسی تعریف کی تھی اور حکومت کو اِس طرح لتاڑا تھا کہ کامریڈ کا بند کیا جانا بھی کچھ زیادہ محسوس نہ ہوا،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’حقیقتاً یہ تبصرہ کرنے والا برطانیہ کا ایک مشہور صحیفہ نگار میرے خیالات کو بھی خوب سمجھ گیا تھا۔ صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے، ملک و ملت کی خدمت ہے۔‘‘ ۱۰۵ پچھلے برس حسن نظامی نے اپنے رسالے میں اقبال کی مثنوی کے کچھ اشعار شائع کرتے ہوئے اس کا عنوان ’اسرارِ خودی‘ تجویز کیا تھا۔ شیخ عبدالقادر نے اسرارِ حیات، پیامِ نو، آئینِ نو اور پیامِ سروش تجویز کیے۔ آخری نام اقبال کو زیادہ پسند آیا۔ خواجہ حافظؔشیرازی کے شعر سے ماخوذ تھا: بجز ثنائے جلالش مساز وردِ ضمیر کہ ہست گوشِ دلش محرمِ پیامِ سروش غالبؔ نے بھی شائد اِسی شعر کو ذہن میں رکھ کر کہا تھا: آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے ۱۰۶ بے جی یعنی اقبال کی والدہ امام بی بی کی طبیعت نازک تھی۔ نومبر کے شروع میں کسی وقت گھر کا انتظام بڑی بہو یعنی شیخ عطامحمد کی بیوی مہتاب بیگم کے سپرد کیا جنہیں سب اقبال کے دیے ہوئے لقب ’’بھابھی جی‘‘ سے پکارتے تھے۔ لکڑی کا صندوق جس میں اپنی قیمتی چیزیں رکھتی تھیں اُس کی چابی بھی انہی کے سپرد کی۔ ۹ نومبر کو فوت ہو گئیں۔ ’’بے جی کی وفات کے دن کے واقعات اب تک آنکھوں کے سامنے ہیں،‘‘ قریباً ستر سال بعد اعجاز احمد نے لکھا۔ ’’بے جی کا جسدِ بیجان میاں جی [شیخ نور محمد] کے ہاتھوں تیار کیے ہوئے کفن میں لپٹا ہوا بڑے کمرے میں ایک چارپائی پر رکھا ہے۔ گھر میں مستورات کا ہجوم ہے۔ میاں جی صبر و رضا کا نقشہ بنے مستورات کو جزع فزع کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ ابا جان اپنے کمرے میں بچوں کی طرح رو رہے ہیں۔ چچا جان حزن و ملال لیکن ضبط و تحمل کی تصویر بنے انہیں تسلیاں دے رہے ہیں۔ رخصت کا وقت آ گیا ہے۔ بے جی کے جواں سال عزیز نعش کو اُٹھا کر گھر سے باہر لے جانے کے لیے اندر آگئے ہیں۔ ایک کہرام بپا ہو گیا ہے۔ بے جی کی بیٹیاں اور بہوئیں شدتِ غم سے بے حال میاں جی کے ڈر سے بے آواز آنسو بہا رہی ہیں اور حسرت سے اس پیارے چہرے کو دیکھ رہی ہیں جو پھر کبھی نظر نہ آئے گا۔ بے جی کی منہ بولی بیٹیاں نعش سے لپٹی جا رہی ہیں اور اِس ہنگامے میں پندرہ سولہ سال کا ایک دُبلا پتلا لڑکا جسے بے جی نے ڈھیروں پیار دیا تھا، اُن کے قدموں سے لپٹا بلک رہا ہے۔ جیسے وہ اُنہیں گھر سے جانے نہ دے گا۔‘‘۹۴ ۱۰۷ ۱۱ نومبر کو بے جی کا سوئم تھا۔ اقبال نے کشن پرشاد کو خط لکھ کر عیدکارڈ وغیرہ کے موصول ہونے کی خبر دی، ’’مگر امسال میرے لیے عید محرم کا حکم رکھتی تھی۔ ‘‘سائیں رب کا پیغام دینے کا پہلے موقع نہ ملا تھا۔ اب خط میں ذکر کیا۔۹۵ اُس روز استنبول میں عثمانی ریاست کی طرف سے اتحادی طاقتوں کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ ۱۰۸ نوجوان عبدالمجید سالک تعزیت کے لیے آئے۔ ’’[اقبال] دیر تک مرحومہ کی خوبیاں بیان کر کے آبدیدہ ہوتے رہے،‘‘ سالک کا بیان ہے۔ ’’فرمانے لگے: جب میں سیالکوٹ جاتا تھا اور والدہ شگفتہ ہو کر فرماتی تھیں ’میرا بالی آ گیا‘ تو میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک ننھا سا بچہ سمجھنے لگتا۔ افسوس شباب میں یہ لمحۂ طفلی اب کبھی نصیب نہ ہو گا۔‘‘۹۶ ۱۰۹ اخبارشیرِ پنجاب نے کشن پرشاد کی پریم پچیسی پر اداریہ لکھا جو شاید اقبال کی نظر سے بھی گزرا۔۹۷ ۱۱۰ لندن میں محسوس کیا جانے لگا تھا کہ جنگ جلد ختم نہ ہو گی۔ یورپ میں خندقوں کا جال بچھا تھا۔ دونوں طرف کے سپاہی اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے کے تھک جانے کا انتظار کرتے۔ اگلے وقتوں کے قلعے آسمانوں کی طرف سر اُٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ نئے زمانے کے قلعے زمیں دوز تھے۔ سمندروں کی حکمراں برطانیہ کی شاہی بحریہ تھی۔ اُس کے لیے جرمنوں نے نیا خطرہ پیداکیا۔ آبدوزوں نے جہاز غرق کرنے شروع کر دیے تھے۔ سوڈان کے فاتح اور ہندوستان میں برطانوی افواج کے سابق سپہ سالار، ہوریشیو کچنر نے جنگ شروع ہوتے ہی مصر میں اپنی سرگرمیوں سے توجہ ہٹا کر سیکرٹری آف وار بننا قبول کر لیا تھا۔ انگلستان کی گلیوں میں پوسٹر آویزاں تھے جن پر لارڈ کچنر انگلی اٹھائے کہہ رہا ہوتا، ’’اپنے وطن کو درکار ہو تم!‘‘ (Your country needs you) اصل میں اُس کا وطن صرف اپنے نوجوانوں کی قربانی نہیں مانگ رہا۔ محکوم ممالک سے بھی سپاہی درکار تھے۔ ان میں سب سے اہم ہندوستان تھا۔ ۱۱۱ تھکی ہوئی انگریز قوم کو طویل جنگ کے لیے ہمت دلانے والی چیزوں میں شاعری کی وہ کتاب شامل تھی جو حال ہی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا نام ۱۹۱۴ (’’1914‘‘) تھا۔ مصنف نوجوان شاعر رُوپرٹ بروک تھا : The Soldier By Rupert Brooke If I should die, think only this of me: That there's some corner of a foreign field That is for ever England. There shall be In that rich earth a richer dust concealed; A dust whom England bore, shaped, made aware, Gave, once, her flowers to love, her ways to roam, A body of England's, breathing English air, Washed by the rivers, blest by suns of home. And think, this heart, all evil shed away, A pulse in the eternal mind, no less Gives somewhere back the thoughts by England given; Her sights and sounds; dreams happy as her day; And laughter, learnt of friends; and gentleness, In hearts at peace, under an English heaven. یہ چھوٹی سی نظم وطن کی ایسی محبت کا مکمل شاہکار تھی جس کی بنیاد رُوح نہیں صرف جسم ہو۔ یورپ کی عظیم جنگ کے لیے مناسب تھی۔ ۱۱۲ لکھنؤ سے ۲۶۸ کلومیٹر مشرق کی طرف اعظم گڑھ میں گیارہ بیگہ زمین پر شبلی نعمانی کے مرحوم باپ کا وہ باغ اور دو بنگلے تھے جن سے یہ عمر بھر بھاگتے رہے تھے مگر جہاں اب دارالمصنفین بنایا تھا۔ ایک پاؤں پہلے ضائع ہوا تھا، اب صحت بھی گر چکی تھی مگر سیرۃ النبیؐ کے لیے فکرمند تھے۔ ایک جلد مکمل اور بقیہ جلدوں کے خاکے لکھ چکے۔ اس کے لیے بیگم صاحبہ بھوپال کی طرف سے دو سو روپے ماہوار کا وظیفہ نئے ادارے کی طرف منتقل کروا چکے تھے۔ چند ماہ پہلے سیرت کا دیباچہ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال میںشائع کروایا تو دیوبند کے علمائے کرام نے اُس کے خلاف مضمون چھپوا کر مفت تقسیم کیا تھا۔ ۱۷ نومبر کی صبح مولانا حمید الدین اور سید سلیمان ندوی اُن کا تار ملنے پر اعظم گڑھ پہنچ کر اُن کے سامنے کھڑے تھے۔ شبلی نے نقاہت سے کہا، ’’سیرت! سیرت! سیرت!‘‘ پھر انگلی کے اِشارے سے لکھنے کا اشارہ کیا اور کہا، ’’سب کام چھوڑ کے۔‘‘ شام کو ڈاکٹر نے کہا، ’’دماغ کے سوا باقی تمام اعضا معطل ہو چکے ہیں۔ اب تدبیر بے سُود ہے۔‘‘ اگلی صبح ساڑھے آٹھ بجے شبلی فوت ہوگئے۔۹۸ ۱۱۳ اکبر الٰہ آبادی نے اقبال کی والدہ کی تاریخِ وفات ’’رحلتِ مخدومہ‘‘ سے نکالی جس کے اعداد ۱۳۳۳ بنتے تھے جو امام بی بی کی وفات کا ہجری سال تھا۔ اسے نظم کر دیا: حضرتِ اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ حق آگاہی، یہ خوش گوئی، یہ ذوقِ معرفت یہ طریقِ دوستی، خوداریٔ باتمکنت اس کی شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے باخدا تھے، اہلِ دل تھے، صاحبِ اَسرار تھے جلوہ گر اُن میں انہی کا ہے یہ فیضِ تربیت ہے ثمر اُس باغ کا یہ طبعِ عالی منزلت مادرِ مرحومۂ اقبال جنت کو گئیں چشم تر ہے آنسوؤں سے، قلب ہے اندوہ گیں روکنا مشکل ہے آہ و زاری و فریاد کو نعمتِ عظمیٰ ہے ماں کی زندگی اولاد کو اکبرؔ اِس غم میں شریکِ حضرتِ اقبالؔ ہے سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات رحلتِ مخدومہ سے پیدا ہے تاریخِ وفات اکبرؔ الٰہ آبادی ۱۱۴ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی فارسی مثنوی اُنہی دنوں مکمل ہوئی جب دل ماں کی وفات سے افسردہ تھا۔ پہلے سے بنائے ہوئے خاکے کے مطابق آخری باب میں خدا سے خطاب کیا۔۹۹ خاتمہ و دُعا [ترجمہ] اے کہ آپ دنیا کے وجود میں جان کی طرح ہیں۔ آپ ہماری جاں ہوتے ہوئے بھی ہم سے گریز کرتے ہیں۔ زندگی کے ساز میں نغمہ آپ ہی کے فیض سے ہے۔ آپ کے راستے میں آنے والی موت پر زندگی بھی رشک کرتی ہے۔ ایک بار پھر ہمارے ناشاد دلوں کی تسکین بن جائیے۔ ایک بار پھر ہمارے سینوں میں آباد ہو جائیے۔ ایک بار پھر ہم سے ہمارے نام و نمود کی قربانی طلب کیجیے اور ہم کچے عاشقوں کو پختہ بنا دیجیے۔ ہمیں مقدر سے بہت شکوہ ہے کہ آپ کی قیمت ہماری استطاعت سے زیادہ ہے۔ ناداروں سے اپنا خوبصورت چہرہ مت چھپائیے۔ سلمانؓ اور بلالؓ جیسا عشق سستے داموں فروخت کر دیجیے۔ جن میں نیند نہ ہو وہ آنکھیں اور جسے سکون نہ ہو وہ دل عطا کیجیے۔ ایک بار پھر ہمیں پارے جیسی فطرت عطا کر دیجیے۔ اپنی روشن نشانیوں میں سے کوئی نشانی دکھائیے تاکہ دشمنوں کی گردنیں جھک جائیں۔ اس گھاس کی پتی کو آتش فشاں پہاڑ بنا دیجیے۔ ہماری آگ سے ماسواللہ کو راکھ کروا ڈالیے۔ قوم نے وحدت کا رشتہ توڑ دیا ہے اس لیے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ ہم دنیا میں ستاروں کی طرح بکھر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھی بھی ہیں اور واقف بھی نہیں ہیں۔ ان بکھرے ہوئے اوراق کی پھر شیرازہ بندی کر دیجیے۔ محبت کا دستور پھر سے جاری کر دیجیے۔ پھر وہی خدمت ہمارے سپرد کر دیجیے۔ اپنا کام اپنے عاشقوں کے سپرد کر دیجیے۔ مسافروں کو تسلیم و رضا کی منزل عطا کیجیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی قوت عطا کر دیجیے۔ لا کی دلچسپی اور الااللہ کی رمز سے عشق کو آگاہ کر دیجیے! میں جو شمع کی مانند دوسروں کے لیے جلتا اور اپنی بزم کو رونا سکھاتا ہوں، یارب! مجھے وہ آنسو عطا کیجیے جو دل کو روشن، بے قرار اور مضطرب کر کے کاہلی کو ختم کر ڈالے۔ میں اُسے باغ میں بو کر آگ کاشت کروں جو لالے کی قبا سے بھی بڑھ جائے! میرا دل ماضی کا گرویدہ اور نگاہ مستقبل پر ہے۔ میں اپنی انجمن میں تنہا ہوں۔ ’’ہر کوئی اپنے انداز میں میرا ساتھی بنا لیکن کوئی میری روح کے راز سے واقف نہ ہوا۔‘‘ یارب! دنیا میں میرا ہم راز کہاں ہے؟ میں طور کا درخت ہوں مگر میرا کلیم کہاں ہے؟ میں ظالم ہوں اور اپنے آپ پر بڑے ستم کیے ہیںمگر میں نے اپنے پہلو میں شعلے کی پرورش بھی کی ہے، وہ شعلہ جو ہوش کے سرمایے کو غارت کرنے والا ہے۔ اُس نے ہوش کے دامن میں آگ لگائی ہے، عقل کو دیوانگی سکھائی اور علم کے سرمائے کو راکھ کر دیا ہے۔ اُس کے سوز سے سورج آسمان پر پہنچا ہے اور بجلیاں ہمیشہ اُس کے طواف میں رہتی ہیں۔ میری آنکھیں شبنم کی طرح مسلسل روئی ہیں تب کہیں جا کر مجھے یہ چھپی ہوئی آگ ملی ہے۔ میں نے شمع کو کھل کر جلنا سکھایا ہے اور خود دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر جلتا رہا ہوں۔ آخر میرے ہر بن مو سے شعلے پھوٹ پڑے اور میری فکر کی رگ رگ سے آگ ٹپکنے لگی۔ میری بلبل نے چنگاریوں کو دانوں کی طرح چن کر ایک آتش مزاج نغمہ تخلیق کیا۔ میرے زمانے کے سینے میں دل نہیں ہے۔ مجنوں تڑپ رہا ہے کہ محمل خالی ہے۔ شمع کے لیے تنہا جلنا آسان نہیں مگر آہ! میرے پروانوں میں سے کوئی بھی کام کا نہیں۔ کسی غم گسار کا انتظار آخر کب تک؟ کسی رازدار کی جستجو آخر کب تک؟ اے کہ چاند ستارے آپ کے چہرے سے روشنی پاتے ہیں، میری روح سے اپنی روشنی واپس لے لیجیے! میرے سینے سے یہ امانت واپس لے لیجیے اور میرے آئینے سے یہ جوہر نکال لیجیے جو کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، یا مجھے ایک ہمدمِ دیرنہ عطا کیجیے! دنیا کو جلا دینے کے قابل میرے عشق کو آئینہ عطا کیجیے! سمندر میں موج سے موج گلے ملتی ہے کہ ساتھی کے ساتھ لہرانا ہی موج کی فطرت ہے، آسمان پر ستارہ، ستارے کا ہمراز ہے اور چاند نے شب کے زانو پر سر رکھا ہوا ہے، دن بھی سانولی رات کے پہلو میں رہتا ہے اور آج آنے والی کل سے ہم آغوش ہے، ہر ندی کا وجود کسی دوسری ندی میں اور ہوا کی موج خوشبو میں کھو جاتی ہے، ہر ویرانے کے گوشے میں رقص ہو رہا ہے، دیوانہ دیوانے کے ساتھ مل کر رقص کر رہا ہے، آپ اگرچہ اپنی ذات میں یکتا ہیں مگر آپ نے بھی تو اپنے لیے ایک دنیا سجا رکھی ہے! اور میں لالۂ صحرا کی طرح بھری محفل میں تنہا ہوں! میں آ پ کے کرم سے ایک مہربان ساتھی چاہتا ہوں جو میری فطرت کے رموز سے واقف ہو! ایک دیوانہ ساتھی جو سمجھدار ہو اور ظاہر کی فکر سے بے پروا ہو تاکہ میں اپنا جنون اُس کے حوالے کر کے اُس کے دل میں اپنا چہرہ دیکھوں، اپنی خاک سے اُس کا پیکر تراشوں۔ اُس کے لیے صنم بھی بن جاؤں اور بچاری بھی!۱۰۰ ۱۱۵ ’’اپنی خاک سے اُس کا پیکر تراشوں،‘‘ اقبال نے اپنے متوقع شاگرد کے لیے کہا جسے اپنا رہنما بھی بنانا چاہتے تھے۔ انگریز شاعر رُوپرٹ بروک چاہتا تھا کہ اُس کی مٹی کسی اجنبی سرزمین میں دفن ہو تو وہاں انگریزی تہذیب کے گُل کھلائے۔ ایک جیسی تمناؤں میں کتنا فرق تھا! ۱۱۶ مثنوی مکمل ہوئی مگر مطمئن نہ ہوئے۔ پچھلی پوری زندگی میں چار پانچ نظموں سے زیادہ فارسی میں نہ کہی تھیں۔ چاہتے تھے کسی استاد کو دکھائیں۔ گرامی لاہور آ جاتے تو بہتر تھا ورنہ لکھنؤ جا کر خواجہ عزیزالدین عزیز لکھنوی کو دکھانے کا ارادہ تھا۔۱۰۱ ۱۱۷ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوںؔ کے لڑکے میاں بشیر احمد لندن سے بیرسٹری کی سند لے کر واپس آئے تھے۔ اُن کے تایازاد بھائی میاں شاہ دین اقبال کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ ان کی بے تکلف صحبت میں میاں بشیر جیسے متین نوعمر کے لیے گنجایش نہ تھی۔ ’’جب میں نے سال دو سال بیرسٹری اختیار کرنے کی کوشش کی تو لاہور کے چیف کورٹ کے بار روم میں مجھے اکثر اقبال کو دیکھنے اور بعض دفعہ ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا،‘‘ میاں بشیر احمد کا بیان ہے۔ ’’میرے دل میں اُن کی بیحد عزت تھی۔ میں اُن کو اِتنا بڑا اور اپنے آپ کو اِتنا چھوٹا سمجھتا تھا کہ اُن سے باتیں کرنے کی بھی مجھے جرأت نہ ہوتی تھی۔ دُور ہی دُور سے دیکھ کر گویا اُن کی پرستش کیا کرتا۔‘‘۱۰۲ ۱۱۸ ۲۳ نومبر کو کشن پرشاد کا خط ملا جس میں اقبال کو والدہ کی وفات پر تسلی دی گئی تھی۔ دو نظمیں رائے لینے کو بھیجی تھیں اور سائیں رب کے بارے میں بھی رائے مانگی تھی۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۲۳ نومبر ۱۹۱۴ء سرکارِ والا تسلیم۔ آپ کا تسلی نامہ ابھی ملا جس کے لیے میں آپ کا نہایت سپاس گزار ہوں۔ آہ! انسان اپنی کمزوری کو چھپانے میں کس قدر طاق ہے۔ بے بسی کا نام صبر رکھتا ہے اور پھر اس صبر کو اپنی ہمت اور استقلال کی طرف منسوب کرتا ہے مگر اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ’ ’موت کا انتظار ہے دنیا‘‘۔ موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں۔کیا خوب کہا ہے کسی استاد نے: ہلاک شیشۂ در خوں نشستۂ خویشم کہ آخرین نقش عذر خواہیٔ سنگ است آپ کو بھی گزشتہ ایام میں اسی قسم کے صدمات کا سامنا ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہم کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا کرے۔ گزشتہ چھ ماہ سے دل کی حالت نہایت بے اطمینانی کی ہے۔ کوئی شعر نہیں لکھ سکا ورنہ ضرور آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ ہاں فارسی مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ مطمئن ہو جاؤں تو اس کے چھپوانے کی فکر کروں۔ آپ کی دونوں نظمیں ماشأ اللہ نہایت اچھی ہیں۔ ان کو ضرور شائع کیجیے۔ پنجاب کے اخبار شیرِ پنجاب نے آپ کی پریم پچیسی پر ایک لیٹر لکھا تھا۔ امید ہے کہ ملاحظے سے گزرا ہوگا۔ خواجہ سلیم اللہ کی آمد مبارک ہو۔ لاتقنطوا کہنے والے اپنے مواعید کے سچے ہیں۔ یقین ہے کہ آپ کے ساتھ بھی وعدہ پورا کریں گے۔ نظر فرمائیے کہ دنیا میں حالات و واقعات کتنی جلدی بدل رہے ہیں۔ اِس زمانے کے دس سال گزشتہ زمانے کی ایک صدی کے برابر ہیں۔ گویا عصرِ حاضر کی رفتار عصرِ قدیم سے دس گنا بڑھ گئی ہے۔ راکبش را می شناسد پختہ کار تیز تر گردد سمندِ روزگار پنجاب کی سیر کا قصد ہو تو اس کے لیے موسمِ سرما ہی مناسب و موزوں ہے۔ پچھلے سال آپ موسمِ گرما میں تشریف لائے تھے۔ وہ موسم موزوں نہ تھا۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے دعا کے۔ آپ کا مخلص محمدؐ اقبال، لاہور فارسی شعر کا مطلب تھا کہ تجربہ کار سوار کا گھوڑا بھی اُسے پہچان لیتا ہے چنانچہ وقت زیادہ تیز دوڑتا جا رہا ہے۔ ۱۱۹ شاد کی طرف سے خط کا جواب نہیں ملا تھا۔ ۵ دسمبر کو یاددہانی کا مختصر خط بھیجا ہی تھا کہ اصل جواب آ گیا۔۱۰۳ ۱۲۰ اخباروں میں خبر آئی کہ حیدرآباد دکن کی وزارت پھر تبدیل ہوئی۔ اکبر الٰہ آبادی کے خط سے معلوم ہوا کہ حسن نظامی بھی وہاں کی سیر کو نکلے ہیں۔ ۱۰۴ مثنوی مکمل ہونے پر طبیعت آہستہ آہستہ اُردو کی طرف مائل ہونے لگی تھی۔ پرانے دوست شیخ عبدالقادر نے محسوس کیا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ اشہبِ قلم جو فارسی کے میدان میں گامزن ہے، اُس کی باگ کسی قدر تکلف کے ساتھ اُردو کی طرف موڑی جا رہی ہے۔‘‘۱۰۵ ۱۱ دسمبر کو’شعاعِ آفتاب‘ لکھی۔ منظرنامہ مثنوی کی تمہید کے ابتدائی اشعار سے ماخوذ تھا: راہِ شب چوں مہرِ عالم تاب زد۔ شعاعِ آفتاب صبح جب میری نگہ سودائیِ نظارہ تھی آسماں پر اک شعاعِ آفتاب آوارہ تھی میں نے پوچھا اس کرن سے ’’اے سراپا اضطراب! تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ؟‘‘ ’’خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جائوں گی میں رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلائوں گی میں تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟‘‘ ۱۱ دسمبر ۱۹۱۴ئ۱۰۶ ۱۲۱ جاننے والوں میں اقبال، مرزا جلال الدین، نواب ذوالفقار علی خاں کی دوستی ضرب المثل تھی۔ اکثر نواب ذوالفقار علی خاں کی کوٹھی ’’زرفشاں‘‘ میں مل بیٹھتے۔ ۱۳ دسمبر کی شام اقبال وہیں تھے جب عرفی شیرازی کے تخیل کے سامنے بو علی سینا کا علم و حکمت اور حکیم ابو نصر فارابی کی حیرت انگیز ذکاوت اُسی طرح راکھ کا ڈھیر ہو گئیں جیسے شمس تبزیر کے آنے پر مولانا روم کی کتابیں اور مولانا روم کے آنے پر اقبال کی کیمبرج اور جرمنی کی ڈگریاں جل گئی تھیں۔ عرفی کی قبر سے، جو نہیں معلوم پرانے لاہور کی خواب ناک گلیوں یا نجف ِ اشرف میں رُوحوں کے دربارِ عالی شان میں تھی، صدا آئی کہ سننے والوں میں ذوق کی کمی دیکھتے ہو تو اپنی آواز تیز کردو۔ محمل بھاری ہے تو حدی کی لَے تیز کر دو! عرفی محل ایسا کیا تعمیر عرفیؔ کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانۂ سیناؔ و فارابیؔ فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا کہ رخصت ہوگئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی صدا تربت سے آئی ’’شکوۂ اہل جہاں کم گو نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی‘‘ ۱۰۷ ۱۲۲ ۶ادسمبر کو اکبر الٰہ آبادی کو خط لکھا مگرایک شعر کی تعریف کرنا بھول گئے جو اُن دنوں ذہن پر سوار تھا۔ بنام اکبر الٰہ آبادی لاہور ۱۷ دسمبر ۱۴ء مخدومی! السلام علیکم کل خط لکھ چکا ہوں۔ مگر آپ کے اس شعر کی داد دینا بھول گیا: جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں سبحان اللہ! کس قدر باریک اور گہرا شعر ہے۔ ہیگل جس کو جرمنی والے افلاطون سے بڑا فلسفی تصور کرتے ہیں اور تخیل کے اعتبار سے حقیقت میں ہے بھی افلاطون سے بڑا۔ اس کا تمام فلسفہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ آپ نے ہیگل کے سمندر کو ایک قطرہ میں بند کر دیایا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔ ہیگل لکھتا ہے کہ اصولِ تناقص ہستیٔ محدود کی زندگی کا راز ہے اور ہستیِ مطلق کی زندگی میں تمام قسم کے تناقص جو ہستیِ محدود کا خاصہ ہیں، گداختہ ہو کر آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔ کیمبرج کی تاریخ ہندوستان کے لیے جو مضمون اُردو لٹریچر پر مجھے لکھنا ہے، اُس میں اس شعر کا ضرور ذکر کروں گا۔ اسی رنگ کے فلسفیانہ اشعار اور بھی لکھیے کہ خود بھی لذت اٹھاؤں اور اوروں کو بھی اس لذت میں شریک کروں۔ آج مہاراجہ کشن پرشاد کا خط آیا تھا۔ معلوم ہوا کہ خواجہ نظامی حیدرآباد سے اورنگ آباد چلے گئے۔ خلدآباد کی زیارت مقصود ہو گی۔ میں بھی وہاں گیا تھا اور عالمگیر علیہ الرحمۃ کے مزار پاک پر حاضر ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی بھی ساتھ تھے۔ کہنے لگے، قنات کے اندر نہ جاؤں گا (مزار کے اردگرد قنات تھی) کہ میری ڈاڑھی غیرمشروع ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال۱۰۸ ۱۷ دسمبر ہی کو کشن پرشاد کو بھی جواب دیا۔ ’’خط لکھ چکنے کے بعد آپ کا خط مل گیا،‘‘ اپنے شکایت نامے اور اُن کے پچھلے خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس واسطے نئی اُردو کی اصطلاح میں حرفِ شکائت واپس لیتا ہوں۔‘‘ وزارتوں کی تبدیلی کے حوالے سے لکھا کہ امیر مینائیؔ کے اصول پر عمل کرنا چاہئے: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منھ سے کچھ نہ بول آنکھ آئنے کی پیدا کر دہن تصویر کا۱۰۹ ظفر علی خاں پچھلے دو برسوں میں ہندوستان کی انگریز حکومت کے ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں آ چکے تھے۔ پچھلے برس گرفتاری سے بچنے کے لیے لندن چلے گئے تھے۔ اس برس اکتوبر میں واپس آئے تھے۔ اب دسمبر میں وزیرآباد کے قریب آبائی قصبے کرم آباد میں نظربند کر دیے گئے۔ ان کا روزنامہ زمیندار بدستور مولانا عبداللہ العمادی اور وجاہت حسین جھنجھانوی مرتب کرتے رہے۔ ۱۲۳ دل اس طرح بجھ جائے کہ دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینے اور دنیا میں بڑھنے کی خواہش تک باقی نہ رہے تو عرفی کی بجائے خواجہ حافظ شیرازی کے نغموں میں زیادہ سکون محسوس کر سکتا تھا۔ والدہ کے غم نے اقبال کے دل کی یہی کیفیت کر دی تھی: اگر خضر کا ساتھی بننے کا شوق ہے تو آبِ حیات کی طرح سکندر کی نگاہوں سے چھپ جاؤ! منہ میں ہزار باتیں دبی ہوں اور لب خاموش! بادشاہ کی رائے تجلی کے نور کا گھر ہوتی ہے۔ اُس سے قریب ہونے کی خواہش کر رہے ہو تونیت صاف رکھو۔ خالص شراب لے کر میٹھے نغموں کے ساتھ پیو۔ اے حافظ! تم ایک گوشہ نشیں فقیر ہو، اِس جھگڑے میں مت پڑو۔ ۱۸ دسمبر کو بیاض میں جو نظم لکھی اُس میں وہ باتیں کہیں جو مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ حافظ کے میخانے کا چھوٹا سا نمونہ تھی۔ ایک خط کے جواب میں ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز حصول جاہ ہے وابستۂ مذاق تلاش ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریاپاش یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش ہوائے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش ’’گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشیں باشی نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش‘‘ تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال رضاے خواجہ طلب کن قباے رنگیں پوش مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش پرانے طرزِ سخن میں ہزار مشکل ہے نئے اُصول سے خالی ہے فکر کی آغوش مزا تو یہ ہے کہ یوں زیرِ آسماں رہیے ’’ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش‘‘ یہی اصول ہے سرمایۂ سکون و حیات ’’گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش‘‘ مگر ’’خروش‘‘ پہ مائل ہے تو تو بسم اللہ ’’بگیر بادۂ صافی، ببانگ چنگ بنوش‘‘ شریکِ بزمِ امیر و وزیر و سلطاں ہو لڑا کے توڑ دے سنگِ ہوس سے شیشۂ ہوش پیامِ مرشدِ شیراز بھی مگر سن لے کہ ہے یہ سرِ نہاں خانۂ ضمیرِ سروش ’’محلِ نورِ تجلی ست رائے انورِ شاہ چو قربِ او طلبی در صفائے نیت کوش‘‘ ۱۸ دسمبر ۱۹۱۴ء پوری نظم حافظ کی اُس غزل کی بازگشت تھی جس کا آغاز یوں ہوتا تھا کہ صبح غیبی آواز نے یہ خوشخبری میرے کانوں تک پہنچائی کہ شاہ شجاع کا زمانہ ہے، شراب کھل کر پیو! سات برس پہلے بھی اقبال کے دل و دماغ میں یہی صدا گونجی ہو گی جب کہا تھا، زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا!۱۱۰ ۱۲۴ بیاض میں اسی نظم کے دوسرے صفحے کے مقابل ایک نامکمل تاریخی نظم کے چودہ مصرعے ملتے ہیں۔ کسی عبداللہ اور زبیر کا مکالمہ جو آغا حشر کے تھیٹر کے انداز میں لکھا گیا۔ بعض مصرعوں میں ’جوابِ شکوہ‘ کی بازگشت تھی: تو صاحبِ شمشیر جہانگیر نہیں کیا ۱۲۵ کرسمس کی تعطیلات میں امام بی بی کے چہلم کے لیے سیالکوٹ چلے گئے۔۱۱۱ ۱۲۶ میری سرمستی پر حیران مت ہو کہ شراب خانے کے بوڑھے پیر نے خواجہ حافظ شیرازی کی رندی کی قبا میرے جسم پر سجا دی ہے۔ اے صبا! ہمارا پیغام حافظ کے شہر تک پہنچا دے کہ وہاں کی خاک نے نکتہ وروں کی نگاہوں کو روشنی بخشی: عجب مدار زسرمستیم کہ پیرِ مغاں قبائے رندیِ حافظؔ بقامتِ من دوخت صبا بہ مولدِ حافظؔ پیامِ ما برساں کہ چشمِ نکتہ وراں خاکِ آں دیار افروخت اقبال کی فارسی غزل حافظؔ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ چھ اشعار تھے۔۱۱۲ ۱۲۷ شراب لاؤ کہ آسمان ہمارے موافق ہو گیا۔ نغمے ٹہنیوں سے کلیاں بن کر پھوٹنے لگے۔ میں امامِ حرم کے کم پینے کی یاد میں پیتا ہوں جنہوں نے ہمراز دوستوں کی صحبت کے بغیر کبھی نہ چکھی۔ تمہارے وحشی نے دُوئی کے نقش کو اپنے مزاج کی لوح سے اس طرح مٹایا کہ پھر خیال کے آہو سے بھی بدکنے لگا! اُس پختہ کار کا قبیلہ پھلتا پھولتا رہے جس نے کہاامید کی جھلک زندگی کے راستے کا چراغ ہے! نغمہ یاروں کے حوصلے سے زیادہ بلند ہے اس لیے میں وہاں غزل سرا ہوا جہاں کوئی سننے والا نہ تھا۔ اقبال کی آگ سے تم بھی ایک شعلہ لے لو کہ فلسفے کادرس دیتا رہا اور عاشقی اختیار کر لی۔۱۱۳ ۱۲۸ بے جی کے لکڑی کے صندوق میں سے بھابھی جی کو جو قیمتی چیزیں ملیں ان میں اقبال کی تعلیمی اسناد بھی تھیں۔ اقبال سے کہا کہ لے جائیں۔ ’’[اقبال] نے فرمایا مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے پاس ہی رہنے دیں،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔۱۱۴ ۱۲۹ سیالکوٹ سے واپسی کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ کشن پرشاد کا خط ملا۔ ایک نظم ’ست بچن‘ بھیج کر مشورہ مانگا تھاجبکہ اسی خیال کو پہلے کئی بار استعمال کر چکے تھے۔ اپنے رسالے تزکِ عثمانیہ کے لیے اشعار بھی منگوائے تھے۔ اقبال نے لاہورپہنچ کر ۲۸ دسمبر کو جواب لکھا۔ شاد کی نظم اچھی تھی مگر ایک ہی خیال کو بار بار دہرانے میں اکثر ٹھوکر لگتی ہے۔ ’’پڑھنے والا بھی ممکن ہے کہ تکرار کو کسی اور وجہ پر محمول کرے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’لیکن اگر اشاعت مطلوب ہو تو اس میں جو ’شخصی عنصر‘ ہے اُسے نکال ڈالیے اور باقی اشعار پر نظرِ ثانی فرما لیجئے کیونکہ بعض بعض جگہ کچھ الفاظ کھٹکتے ہیں۔‘‘ شخصی عنصر سے مراد personal element تھا۔ اردو میں یہ ترکیب خود وضع کی تھی۔ چھ اشعار والی فارسی غزل رسالے کے لیے بھجوا دی، ’’زیادہ کیا عرض کروں بجز اس کے کہ زندہ ہوں۔‘‘۱۱۵ ۱۳۰ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Rudolf Eucken (edited and translated by Meyrick Booth). Collected Essays of Rundolf Eucken. T. Fisher Unwin, London Hans Driech. The Problems of Individuality. Macmillan, London Alphonse Mingana and Agnes Smith Lewis. Leaves from Three Ancient "Qurans" "Possibly pre-Othmanic" with a list of their Variants. Cambridge University Press Treitachke; translated by Adam L. Gowans. Selection from Treitachke's Lectures on Politics Gowans & Gray, London Aliotta; translated by Agnes McCaskill. The Idealistic Reaction Against Science. Macmillan, London ۱۳۱ اس بار مسلم لیگ سالانہ اجلاس کا اہتمام نہ کر سکی تھی۔ ۱۳۲ پانی پت میں محلہ سادات کے سادہ سے مکان میں ستاسی برس کے مولانا الطاف حسین حالی بیمار پڑے تھے۔ اپنی عربی اور فارسی تحریروں کا مجموعہ جسے پچھلے چند برسوں میں مرتب کیا تھا ابھی شائع نہیں کروا سکے تھے۔ دماغ کے اعصاب پر اثر تھا۔ کوئی بات کرتا تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک ہی لاپاتے۔ جواب دماغ سے زبان پر آنے تک اعصاب جواب دے جاتے۔ ۳۱ دسمبر کو اِنتقال کر گئے۔ پانی پت میں ایک عرصہ بعد شیعہ اور سنی عوام نے اکٹھے کسی کی نمازِ جنازہ پڑھی۔ بو علی قلندر جن کی مثنوی کے نمونے پر اقبال نے اپنی مثنوی لکھنی شروع کی تھی، اُن کی درگاہ کے صحن میں مسجد کے حوض کے کنارے حالی کو دفن کیا گیا۔ اِسی صحن میں کبھی امیر خسرو نے قلندر کو راضی کرنے کے لیے اُس سعدی شیرازی کا کلام گایا ہو گا جس کی سوانح لکھ کر حالی نے اُردو کو نئی طرز عطا کی تھی۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر اِس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں حالیؔ نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اَب آئے ہو وقتِ صبح رہے رات بھر کہاں مولانا الطاف حسین حالیؔ دوسراحصہ ۱۳۳ یکم جنوری کو حکومت کی طرف سے خطابات کا اعلان ہوتا تھا۔دو برس قبل نوبل پرائز جیتنے والے بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کو اِس برس نائٹ ہڈ عطا ہوا۔ اب وہ سر رابندر کہلوا سکتے تھے۔ خواجہ حسن نظامی بھی نئے سال کے آغاز پر خطابات دیتے تھے۔ جنوری ۱۹۱۵ء کے طریقت میں خبر چھپی کہ اقبال کو ’’سرّالوصال‘‘ اور محمد دین فوق کو ’’وحدتی‘‘ کا خطاب دیا ہے۔۱۱۶ ۱۳۴ شبلی و حالی مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا دیوان جزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد تیرے سرودِ رفتہ کے نغمے علومِ نو تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد مردان کار، ڈھونڈ کے اسبابِ حادثات کرتے ہیں چارئہ ستمِ چرخِ لاجورد پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرنیہ رازدار کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد مسلم مرے کلام سے بے تاب ہوگیا غماز ہوگئی غم پنہاں کی آہ سرد کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد شبلیؔ کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں حالیؔ بھی ہوگیا سوئے فردوس رہ نورد ’’اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد‘‘۱۱۷ شبلی کے شاگرد سید سلیمان ندوی اُن کے دارُالمصنفین کو نئی بنیادوں پر اُستوار کررہے تھے۔ اقبال، اکبرؔ الٰہ آبادی، عمادالملک عمادی، حبیب الرحمان شیروانی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولوی عبدالحق سے رابطہ تھا۔۱۱۸ ۱۳۵ گرامی نے غزل بھجوائی کہ آنکھ سے دل کے دروازے تک ہر ذرہ راز فاش کر رہا ہے۔ بنام گرامی لاہور۔ ۱۸ جنوری ۱۵ء جناب بابائے گرامی سلمہ! آپ کا خط ابھی ملا جس کو پڑھ کر مجھے بہت مسرت ہوئی اور غزل سبحان اللہ آپ تو اس ولایت کے تاجدار ہیں۔ زدیدہ تا درِ دل ذرہ ذرہ۔۔۔ الخ سبحان اللہ کیا بات پیدا کی ہے۔ حافظ کی روح گرامی کو دعا دیتی ہو گی! تمام غزل مرصع ہے۔ جزاک اللہ۔ مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ آپ تشریف لائیں تو دکھا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کروں مگر فروری مارچ تو محض وعدۂ معشوقانہ معلوم ہوتا ہے۔ گرامی سے حیدرآباد نہیں چھوٹ سکتا۔ کاش میں خود حیدرآباد پہنچ سکوں مگر یہ بات اپنے بس کی نہیں، نہ یہاں کے حالات و مشاغل سفر کی اجازت دیتے ہیں نہ حیدرآباد کافی زور کے ساتھ کشش کرتا ہے۔ آپ کی دعائے نیم شبی کو بھی معلوم ہوتا ہے، آسماں تک رسائی نہیں۔ حیدری صاحب خواہش مند ہیں کہ میں وہاں آؤں۔ مگر ان کی خواہش کو دائرہ عمل میں لانے کے اسباب نہیں۔ میں خود قدرت کے ہاتھوں میں ایک بے حس ہستی کی طرح ہوں، جدھر لے جائے گی چلا جاؤں گا۔ سعی و کوشش میرے مذہب میں کفر نہیں تو گناہ ضرور ہے۔ بہرحال کچھ وہاں کے حالات لکھیے۔ حیدری صاحب سے کبھی کبھی ضرور ملا کیجیے۔ بڑی خوبی کے آدمی ہیں اور ماسٹر غلام محی الدین صاحب بھی نہایت ہوشیار اور اپنے فرائض کے ادا کرنے میں چست ہیں۔ میرا ان کو سلام کہیے۔ اُردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہوتا جاتا ہوں۔ فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اُردو میں نکال نہیں سکتا۔ چند اشعار عرض کرتا ہوں: بیار بادہ کہ گردوں بکامِ ما گردید مثال غنچہ نواہا زشاخسار دمید خورم بیادِ تنک نوشیِ امامِ حرم کہ جز بصحبتِ یارانِ رازداں نہ چشید چناں زنقشِ دوئی شست لوحِ خاطر خویش کہ وحشیٔ تو ہم از آہوئے خیال رمید فزوں قبیلۂ آں پختہ کار باد کہ گفت چراغِ راہ حیات است جلوۂ امید نوا زحوصلۂ دوستاں بلند تر است غزل سرا شدم آنجا کہ ہیچ کس نشنید تو ہم ز آتشِ اقبال شعلۂ بردار کہ درسِ فلسفہ می داد و عاشقی ورزید محمد اقبال اور کیا لکھوں خط کا جواب جلد لکھیے اور مفصل حالات سے آگاہ کیجیے۔ اس غزل کو بہ نظرِ اصلاح ملاحظہ فرمائیے۔ ۱۳۶ نہیں معلوم کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے لیے اردو ادب پرجو باب لکھنے والے تھے اُس کا کیا ہوا۔ پھر اس کا تذکرہ سننے میں نہیں آتا۔۱۱۹ ۱۳۷ اخباروں میں خبر آئی کہ نظام حیدرآباد نے وائسرائے سے ملاقات کی۔ اقبال کا خیال تھا کہ حیدرآباد کی وزارت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہو گی۔ یہ خبر بھی چھپی کہ سر سید علی امام کے وزیرحیدرآباد ہونے کے امکانات ہیں۔ پھر تردید شائع ہوئی۔ مثنوی کا انتساب علی امام کے نام کرنے کا خیال اگر پہلے سے موجود نہیں تھا تو اَب آیا ہو گا۔ بیاض کے شروع میں تعلی کے جو اشعار تھے اُنہیں انتساب میں شامل کرنے کاسوچتے ہوئے اُس صفحے کے کنارے پر ’’اے امام اے سیدِ والا نسب‘‘ لکھ کر کچھ مصرعے نکالنے کی کوشش کی۔ اُس وقت نہ بن پڑے۔۱۲۰ ۱۳۸ کشن پرشاد کی طرف سے دو خطوط موصول ہوئے۔ دریافت کیا تھا کہ پچھلے خط میں شخصی عنصر سے اقبال کی کیا مراد تھی اور اپنی کتاب پریم پچیسی کے حوالے سے کوئی فرمائش بھی کی تھی۔ وہ کتاب اقبال کو میز پر نہیں ملی چنانچہ ایک اور کاپی کی درخواست کی۔ ’’شخصی عنصر سے مراد وہ اشعار ہیں جن میں مصنف کے ذاتی حالات و اکتسابِ فیوض کا اشارہ ہے یا ذکر ہے،‘‘ اقبال نے ۱۹ جنوری کولکھا۔ ’’میں نے یہ لفظ خود وضع کیا تھا، اردو زبان میں مروج نہیں ہے۔‘‘ ۱۳۹ اسماعیل میرٹھی درسی کتابیں لکھا کرتے تھے۔اپنی ’قواعد ِ اُردو‘ کے دو حصے اقبال کو بھجوا کر رائے مانگی۔ ۲۵ جنوری کو اقبال نے لکھا کہ اردو زبان میں اپنی طرز کی پہلی کتاب ہے جس سے بہتر شائد بچوں کے لیے پہلے نہیں لکھی گئی۔ انگریزی گرامر سے مماثلت جو خودبخود پیدا ہو گئی ہے وہ انگریزی پڑھنے والے طلبہ کے لیے اور بھی آسانی پیدا کر دے گی۔ ’’تنقیحات جو آپ نے قائم کی ہیں اور مجھ سے رائے دریافت کی ہے اس کی نسبت عرض ہے کہ مجھے اس قدر فرصت نہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھ سکوں اور نہ میں اس پر خامہ فرسائی کرنے کا اہل ہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ۱۴۰ ۲۷ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ گرامی کے شعر نے انہیں بھی تڑپایا تھا۔۱۲۱ ۱۴۱ گرامی نے لکھا کہ قدرت سامان پیدا کر رہی ہے۔ شاید اقبال کے حیدرآباد آنے یا وہاں روزگار پانے کے سامان مراد تھے۔ مزید اشعار بھی بھیجے : تمام خندہ بگریند و گریہ می خندید بر آسمانِ تصرّف چہ برق و بارانند ’’سبحان اللہ!‘‘ اقبال نے ۲۸ جنوری کو لکھا۔ ’’آج ہندوستان میں کون ہے جو یہ تبرّک لکھ سکتا ہے۔۔۔ آج ایران میں بھی ایسا سحرطراز نہ ہو گا۔ زندہ باش اے پیرِ کہن۔ ‘‘ حافظؔ کے رنگ کی غزل جو پہلے کشن پرشاد کے رسالے کو بھجوا چکے تھے گرامی کوبھی بھجوائی، ’’اس خیال سے نہیں کہ اپنے اشعار سناؤں بلکہ اس خیال سے کہ شائد آپ کو تحریک ہو اور آپ سے نئے اشعار سنوں۔۔۔‘‘ گرامی کی رائے بھی دریافت کی کہ کیا ان کے نزدیک ممکن ہے کہ کشن پرشاد پھر مدارالمہام ہو جائیں؟ ۱۴۲ عشق والے نعتیہ باب کے دو اشعار، ملا جامی کے شعر سمیت حسن نظامی کے دوست ملّا واحدی کوارسال کر کے لکھا کہ مثنوی جلدشائع ہو گی۔۱۲۲ ۱۴۳ ۲ فروری کی رات تھی۔ سولہ ہزار ترک سپاہیوں نے سوئز کنال پر حملہ کیا۔مقصد برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان آسان راستے کو بند کرنا تھا۔ وزیرِ بحریہ جمال پاشا خود قیادت کر رہے تھے۔ خیال تھا کہ مصر کے مسلمان انگریز حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ایسا نہ ہوا۔تین ہزار ترک سپاہی مارے گئے۔ جن برطانوی فوجوں نے حملہ ناکام بنایا وہ زیادہ تر ہندوستانیوں پر مشتمل تھیں۔ ۱۴۴ ایک نئی نوٹ بک کے سرورق پر ’پیامِ سروش‘ اور ’’در فروری ۱۹۱۵ء اتمام یافت‘‘ لکھا یعنی فروری ۱۹۱۵ء میں ختم ہوئی۔بیاض سے مثنوی کو نوٹ بک میں نقل کر کے مسودہ بنانا شروع کیا: ۱ تمہید، جسے ’شرر تمہید باشد نالہ آتش نوایاں را‘ کا عنوان دیا ۲ ’در بیان حقیقت خودی‘، یہ عنوان لکھ کر کاٹ دیا ۳ ’در معنی ایں کہ اصل خودی در آرزو مخفی است و تسلسل حیات بر تسلسل آرزو انحصار دارد‘ ۴ ’در معنی ایں کہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد‘ ۵ ’در معنی ایں کہ قوت خودی از سوال ضعیف می گردد‘ ۶ ’در بیان خصائص مرد خودآگاہ‘، یہ نیا باب ’جہاں بانی‘ کے باب کے کچھ شعروں کے ساتھ ’تعلی مرد خود آگاہ‘والے اشعار اکٹھے کر کے بنایا ۷ ’در بیان اینکہ کمال انسانی را سہ مراحل است و مرحلہ اول را ’’اشتری‘‘ نامیدہ اند‘ مگر پھر کاٹ کر اِس کی بجائے ’حکایت در معنی کہ مسئلہ نفی خودی۔۔‘ والا عنوان درج کیا۱۲۳ ۱۴۵ حسن نظامی کے دیے ہوئے خطاب ’’سرّالوصال‘‘ کے لیے ۶ فروری کو شکریہ ادا کرتے ہوئے اقبال نے لکھا، ’’وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی ہے اب قریباً تیّار ہے اور پریس جانے کو ہے۔ اُس کے لیے بھی کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے۔‘‘ دو برس پہلے حسن نظامی کے دیے ہوئے عنوان ’اسرارِ خودی‘ اور اب شیخ عبدالقادر کے دیے ہوئے عنوانات کے علاوہ بھی غور کرنا چاہتے تھے۔۱۲۴ ۱۴۶ ۷ فروری کے رسالہ خطیب میں وہ خط اور نعتیہ اشعار شائع ہوئے جو اقبال نے ملّا واحدی کو بھیجے تھے۔ ۱۴۷ اس دفعہ محمد علی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ حیدرآباد کی وزارت مسٹر گلینسی کو دی جا رہی ہے۔ سرسید علی امام کو ان کا نائب بننے کی پیشکش کی گئی تھی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ اقبال کو خبر درست نہ لگی۔۱۲۵ ۱۴۸ سر اکبر حیدری کے متعلق کوئی افسوسناک خبر سنی جس سے دل پر بہت بوجھ پڑا۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ خبر کیا تھی۔۱۲۶ ۱۴۹ اقبال کی بڑی بہن فاطمہ بی بی لاہور میں اقبال کے گھر ٹھہری ہوئی تھیں۔ سب سے چھوٹا لڑکا فضل حق بھی ساتھ تھا جس کی عمر سولہ سترہ برس تھی۔ ایک رات اُس نے ضد کی کہ وہ اقبال کے کمرے میں سوئے گا۔ اقبال کی اجازت سے اُس کی چارپائی بھی وہیں ڈال دی گئی۔ ۱۲۷ ۱۵۰ اقبال کے کسی بھانجے نے علی بخش کو گالی دے دی۔ ’’اُس پر سخت ناراض ہوئے،‘‘ علی بخش کا بیان ہے۔ ’’بلکہ اُسے پیٹا بھی۔‘‘۱۲۸ ۱۵۱ ۱۵ فروری کو گوپال کرشن گوکھلے فوت ہو گئے۔ ۱۵۲ مدّت سے گردے میں درد نہیں ہوا تھا ۔ فروری میں دورہ پڑا۔ کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکے۔۱۲۹ ۱۵۳ ۲۱ فروری کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ وہ خیرت سے تھے۔ ’’الحمداللہ میں بھی خدا کے فضل و کرم سے اب اچھا ہوں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’دَورہ جاتا رہا میں باقی رہ گیا۔‘‘ شاد کو بہت سے لوگ مبارک باد دینے لگے تھے حالانکہ دوبارہ مدارالمہام بننے کی ابھی صرف افواہ تھی۔ ’’مبارکباد کی آوازیں تو آنے لگیں اصلی مبارکباد میں بھی دیر نہیں،‘‘ اقبال نے بھی لکھ دیا۔ ’’کچھ عرصہ ہوا میں نے [حیدری صاحب] کے متعلق ایک نہائت افسوسناک خبر سنی تھی جو خدا کرے کہ غلط ہو۔ بوجہ اُس تعلق کے جو مجھ کو اُن سے ہے یہ خبر سن کر مجھے سخت تردّد ہوا تھا مگر بعد میں کچھ معلوم نہ ہوا کہ حیدری صاحب کہاں ہیں اور کس اشغال میں۔‘‘ ۱۵۴ امام بی بی کی وفات کے بعد شیخ نور محمد بہت اداس رہنے لگے تھے۔ ’’ایک دن مجھے کاغذ قلم لانے کو کہا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’فرمایا جو کچھ میں لکھاؤں لکھتے جاؤ اور اُسے چچا [اقبال] کو بھیج دو۔ میں سمجھا شاید چچا جان کو خط لکھوائیں گے۔ میں لکھنے بیٹھا تو اُنہوں نے سوچ سوچ کر شعر لکھوانے شروع کر دیے۔ دو یا تین نشستوں میں کچھ شعر لکھوائے۔‘‘ ان میں سے ایک اعجاز کو یاد رہ گیا: یہ تنہا زندگی پیری میں نصف الموت ہوتی ہے نہ کوئی ہم سخن اپنا نہ کوئی رازداں اپنا۱۳۰ ۱۵۵ مثنوی کا مسودہ جو صاف کرنا شروع کیا تھا ترک کر دیا۔ نئی تبدیلیاں بیاض ہی میں ہونے لگیں۔۱۳۱ ایک فرضی کردار بنایا۔ اُس کا نام میرنجات نقش بند رکھا۔ ’’مردِ خود آگاہ‘‘ کی طرف سے ہندوستان کے مسلمانوں کے نام جو پیغام لکھا تھا اب وہ میر نجات کا پیغام بن گیا: میر نجات نقشبند کی نصیحت جو اُنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تحریر فرمائی!۱۳۲ گویا میر نجات اپنی خودی سے واقف یعنی مردِ خودآگاہ تھا۔ اِس نام کے پردے میں اقبال خود تھے۔ پچھلے برس والی بیاض کی فہرست دوم میں کئی جگہوں پر تبدیلی کر کے اسے ایک نئی صورت دی: ۱ تمہید ۲ حقیقتِ خودی ۳ احساسِ خودی در آرزوست ۴ خودی از محبت محکم است ۵ خودی از سوال ضعیف می گردد ۶ حکایت در معنی ایں کہ مسئلہ نفی خودی الخ ۷ مدارجِ کمال انسانی اول اشتری دوم اشتربانی سوم جہاں بانی (خصائص مرد خودآگاہ) ۸ در شرح اسرارِ علی مرتضیٰ ۹ حکایت نوجوان ہرات کہ پیش اخوندِ سوات رفت ۱۰ حکایت در معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوص ملیہ است ۱۱ مقصدِ حیاتِ مسلم ۱۲ اندرز میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرمودہ است (اے کہ مثلِ گل زگِل بالیدۂ) ۱۳ الوقت سیف ۱۴ دعا ۱۵۶ مثنوی کی بیاض میں فہرست کے سامنے والا صفحہ خالی چھوڑ کر نئی فہرست بنانی شروع کی۔اُشتری، شتربانی اور جہاں بانی کو تکمیلِ انسانی کے مدارج قرار دینے کی بجائے اب تکمیلِ خودی کے مراحل قرار دیا۔۱۳۳ ’’شرر تمہیدِ نالہ آتش نوایاں را‘‘ یعنی آواز میں مولانا روم کی بانسری کی طرح آگ بھری ہو تو تمہید چنگاری سے کم نہیں ہوتی، یہ بات ذہن میں اٹک گئی تھی۔ اس کے بعد ایک اور نکتہ لکھا، پھر دونوں کو کاٹ کر نئے سرے سے لکھا۔ کئی جگہ اٹکے اور کئی نکتے کاٹے۔ آخر فہرست کی یہ صورت بنی: ۱ ’’شرر تمہید آتش نوایاں را‘‘ ۲ حیات خودی از جلوۂ تعینات است و تسلسل حیات تعینات بر استحکامِ خودی انحصار دارد ۳ در بیانِ اینکہ اصل حیات در تخلیق و تولیدِ مقاصد است ۴ در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد ۵ در بیان اینکہ خودی از سوال ضعیف می گردد ۶ حکایت دریں معنی کہ مسئلہ نفیٔ خودی از مخترعات اقوامِ مغلوبہ بنی نوع انسان است کہ بایں طریقِ مخفی اخلاق اقوامِ غالبہ را ضعیف می سازند ۷ در بیانِ اینکہ کمالِ انسانی را سہ مراحل است۔ مرحلۂ اول را اشتری و مرحلۂ دوم را اشتربانی و مرحلۂ سوم را جہاں بانی نامیدہ اند ۸ در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰؓ ۹ حکایت نوجوانِ ہرات: ۱ طائرِ تشنہ و قطرۂ شبنم ۲ حکایت الماس و زغال ۱۰ حکایت دریں معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوصہ ملیہ است ۱۱ در بیانِ اینکہ مقصد حیات مسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرک او جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است ۱۲ اندرر میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانانِ ہندوستان رقم فرموداست ۱۳ الوقت سیف ۱۴ دعا ۱۵۷ ایک نئی نوٹ بک میں مسودہ بنانا شروع کیا۔’پیشکش‘ کی سرخی کے نیچے ’بحضور سید علی امام مد ظلہ العالی‘ لکھ کر پندرہ اشعار درج کیے جن میں تعلی والے اشعار بھی شامل کر لیے گئے۔ اس کے بعد جلی حروف میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھ کر ’تمہید‘ کا عنوان ڈالا اور ایک ایک کر کے ابواب لکھنے لگے۔ ترتیب اور عنوانات وہی رہے جو بیاض میں مکمل ہونے والی آخری فہرست میں تھے۔۱۳۴ ۱۵۸ ’در شرح اسرار اسمائے علی مرتضیٰؓ‘ والے باب سے آگے بھی ترتیب وہی رہی مگر عنوانات بدلے تھے: ٭ حکایت نوجوانے از ہرات کہ پیش اخوند سوات رفتہ از ستم اعدا فریاد کرد ٭ حکایت طائرے کہ از تشنگی بے تاب بود ٭ حکایت الماس و زغال ٭ مکالمہ گنگا و ہمالہ دریں معنی کہ تسلسل حیات ملیہ از محکم گرفتن روایات مخصوصہ ملیہ می باشد ٭ در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم اعلائے کلمۃ اللہ است و جہاد اگر محرک و جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است ٭ اندرز میر نجات نقشبند کہ برائے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است ٭ الوقت سیف ٭ دعا یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسودہ کب مکمل ہوا ۔ بہرحال مثنوی تیار تھی۔ گرامی یا خواجہ عزیز ایک نظر ڈال لیتے تو اشاعت کا اہتمام کیا جاتا۔ ۱۵۹ دہلی جانے کا ارادہ تھا۔ سر سید علی امام سے بھی ملاقات کرنی تھی، غالباً انتساب کی اجازت لینے کے لیے۔ یہ بھی پوچھنا تھا کہ کیا واقعی حیدرآباد میں نائب وزیر بننے سے انکار کر دیا؟ ۱۶۰ ۱۰ مارچ کو میر رضیؔ دانش کا ایک شعر نظر سے گزرا جس نے بہت لطف دیا کہ میں ساقی سے شراب لے کر خود پینے کی بجائے انگور کی بیل کی جڑوں میں ڈال رہا ہوںگویا اپنی فکر نہیں، میخانے کی بنیاد رکھ رہا ہوں: زساقی بادہ می گیرم بپائے تاک می ریزم ندارم فکرِ خود، میخانہ را آباد می سازم ۱۳۵ ۱۶۱ ۱۱ مارچ کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ انہوں نے اکبر حیدری کے بارے میں کوئی افسوسناک خبرنہیں سنی تھی۔ اقبال کو تسلی ہوئی کہ پھر خبر غلط رہی ہو گی۔ ’’جنابِ احدیّت کو ایک دفعہ اُس کی ایک شاعرانہ بات پسند آ گئی تھی،‘‘ اقبال نے جواب دیتے ہوئے اپنا اور خدا کا کوئی معاملہ تحریر کیا۔ ’’استفسار فرماتے تھے کہ تُو تو گناہ اور ہر قسم کے فِسق و فجور کا دلدادہ تھا پھر تُو نے اُسے ترک کیوں کر دیا حالانکہ قواے بھی ابھی اچھے خاصے تھے؟ بندۂ قدیم نے عرض کیا کہ شیطان کی نجات کی خاطر۔ اب اَوروں کو بھی یہی پیام دیتا ہوں کہ گناہ چھوڑ دو اِس واسطے کہ بیچارے ابلیس کی نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی انسان گناہ نہ کرے اور اِس طرح وہ راندۂ درگاہ اپنے بہکانے میں ناکام ہو کر آخرکار کامیاب ہو جائے۔ قصہ مختصر یہ بے تکلفی امید دلاتی ہے کہ اپنے بندے کی بے نیازی کا پاس کر کے اپنی بے نیازی سے کام نہ لیں گے۔‘‘۱۳۶ ۱۶۲ اقبال کی جو نظمیں عوام کی دلچسپی کے لیے شائع ہوتی تھیں اُن میں مرغوب ایجنسی لاہور سے شائع ہونے والے کتابچے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ کتابت ایجنسی کے مالک منشی فضل الٰہی مرغوب رقم کرتے تھے۔ انہیں مثنوی کی کتابت کے لیے منتخب کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال گرامی کو مثنوی نہ دکھا سکے۔ خواجہ عزیز سے مشورہ کرنے لکھنؤ بھی نہ گئے۔ ۱۳۷ ۱۶۳ بعض پڑھنے والے سمجھے ہوں گے کہ اُردو نظموں کا مجموعہ شائع ہونے والا ہے لیکن محمد دین فوق کے اخبار نے مثنوی کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ ڈاکٹر اقبال کے مجموعۂ کلام کی اشاعت کا انتظام [اخبار کشمیری لاہور، ۱۴ مارچ ۱۹۱۵ء کی ایک خبر] اکثر احباب ڈاکٹر محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ کا کلام منگوانے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے اب لکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مجموعۂ کلام کو، جس میں ان کی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ نظمیں شامل ہیں، نظرِ ثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد اپنے ہی اہتمام میں چھپوانے کا انتظام فرما رہے ہیں۔ چنانچہ کتابت شروع ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ دو ماہ تک مجموعہ ٔ مذکور کا نفیس و نادر ایڈیشن پبلک کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا۔ ڈاکٹر اقبال کا کلام کسی تعریف و توصیف کا محتاج نہیں ہے، آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ ان کے نام ہی میں ایک کشش ہے، جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہ انسان کے پاک ترین قومی و مذہبی جذبات کے چمنستان میں مصروف رہ کر وہ نقش و نگار پیش کرتے ہیں کہ عقل دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ کبھی وہ ’’نالۂ یتیم‘‘ بن کر رلاتے ہیں، کبھی پیغامِ سروش کی صورت میں جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں، کبھی ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے پردے میں وہ راز و نیاز ظاہر کرتے ہیں کہ ’’کراماً کاتبین را ہم خبر نیست‘‘ کا مقولہ صادق آتا ہے۔۱۳۸ ۱۶۴ دو برس پہلے خواجہ حسن نظامی اپنے رسالے میں مثنوی کے کچھ بند شائع کر چکے تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں بھی اقبال نے اقتباسات پڑھ کر سنائے تھے۔ ممکن ہے ’’مطبوعہ‘‘ نظموں سے فوق کی یہی مراد ہو۔ ۱۶۵ حکیم فقیر محمد چشتی جن کے ہاتھ کا لکھا ہوا سجع اقبال نے آتشدان کے اوپر سجا رکھا تھا، انہوں نے پچھلے برس نہ صرف آغا حشر اور اُن کی بیگم کو اپنے گھر ٹھہرا کر آغا حشر کی بیگم کا علاج کیا تھا بلکہ حشر کی بعض نظمیں بڑے شوق سے کتابت کر کے شائع بھی کروائی تھیں۔ اقبال نے مثنوی کے بعض حصے آغا حشر کوضرور سنائے تھے لہٰذا ممکن ہے کہ حکیم صاحب سے بھی مشورہ ہوتا رہا ہو۔ بہرحال اب مثنوی کی اشاعت کا اہتمام حکیم صاحب نے اپنے ذمے لے لیا۔ ۱۶۶ سِرُّ الوصال ڈاکٹر اقبال از خواجہ حسن نظامی ڈاکٹر اقبال مسلمانوں کے نہیں بلکہ کُل ہندوستان کے قومی شاعر ہیں۔ اگر آپ کے خیالات رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح انگریزی میں ترجمہ ہو کر یورپ میں شائع ہوتے تو یقینا اہلِ یورپ بھی انہی کو ہندوستان کا ملکی شاعر تصوّر کرتے۔ اقبال کی نظموں میں موجودہ سیاست کی ہلچل سے پہلے ان تمام اَسرار کی جھلک نظر آ جاتی ہے جو آج کل لوگوں کا طرزِ عمل ہے۔ مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ بجائے اس کے کہ اقبال اپنی شاعرانہ حیثیت کو منتہائے کمال تک پہنچاتے وہ ایک بیرسٹر بن گئے جہاں ان کو قانونی تخیلات کے کنویں میں اپنے شاعرانہ سمندر برباد کرنے پڑتے ہیں۔ اس زمانہ میں ان کی خاموشی بالکل حق بجانب ہے اور دُوسروں کی تقلید کے قابل ہے مگر خدا کرے کہ نہ وہ ہمیشہ خاموش رہیں اور نہ بیرسٹر۔ خطیب(دہلی)، ۲۲ مارچ ۱۹۱۵ئ۱۳۹ ۱۶۷ انجمن حمایت اسلام ایک امانت تھی مگر مسلمان عوام محسوس کر رہے تھے کہ بعض افراد اِس پر ’’قابض‘‘ ہو گئے ہیں۔ ایسٹر ۴ اپریل کو آ رہا تھا۔ انجمن کا سالانہ جلسہ ہونا تھالیکن مولوی احمد دین سے پروگرام کمیٹی کے اجلاس کی کیفیت اقبال کو معلوم ہوئی تو کہہ دیا کہ اس برس شرکت نہیں کریں گے اور نظم بھی نہ سنائیں گے۔۱۴۰ ۱۶۸ کشن پرشاد نے اقبال کو پریم پچیسی کی کاپیاں بھجوا دیں مگر تزکِ عثمانیہ شاید اُن کے کسی اہلکار کی غلطی کی وجہ سے وی پی پارسل کے طور پر پہنچا اور واپس ہوا۔ اقبال کے منشی کو قانونی رسالوں کے علاوہ کوئی رسالہ بذریعہ وی پی وصول کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کشن پرشاد نے اگلے خط میں ہَردوار کے سفر کی اطلاع دی۔ فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۱۶۹ معلوم نہیں اقبال حیران ہوئے یا ناراض جب انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے پروگرام میں اپنا نام بھی پایا۔ کئی روز پہلے منع کر چکے تھے مگر انجمن کے کسی کارپرداز نے ان کے نام کو استعمال کرنا چاہا ہو گا۔ ڈاکٹر محمد اقبال اور جلسۂ انجمن حمایت اسلام لاہور [اخبار کشمیری لاہور، ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء کی ایک خبر] انجمن کے سالانہ جلسے کا پروگرام کسی دوسری جگہ درج کیا جاتا ہے جس میں ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ اپنے نام کے متعلق لکھتے ہیں: ’’میں نے ابھی انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسے کا پروگرام دیکھا ہے، جس میں میرا نام بھی درج ہے۔ جب مجھے اس سے کئی دن پیشتر پروگرام کمیٹی کے اجلاس کی کیفیت مولوی احمد دین صاحب پلیڈر سے معلوم ہوئی تو میں نے اُسی روز پروگرام سیکرٹری صاحبان کی خدمت میں عرض کر دیا تھا کہ میں سالانہ جلسے میں نظم پڑھنے کی غرض سے شامل نہیں ہو سکتا، اِس واسطے مہربانی کر کے میرا نام درجِ پروگرام نہ فرمایا جائے۔ باوجود اِس کے میرا نام پروگرام میں شائع کر دیا گیا ہے۔ چونکہ اِس سے پیشتر میرا نام کئی پروگراموں میں بغیر میری اطلاع اور اِجازت کے شائع کر دیا جاتا ہے، جس سے پبلک کو غلط فہمی ہوتی ہے، لہذا بذریعہ اِس خط کے میں یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ کارپردازانِ انجمن نے میرا نام بغیر میری اجازت کے شائع کر دیا ہے۔ میں اِمسال انجمن کے لیے کوئی نظم نہیں لکھ سکا اور نہ جلسے میں شریک ہو سکتا ہوں۔‘‘ ابھی خدا جانے قابضانِ انجمن کی مہربانیوں سے اور کیا کچھ ہونے والا ہے۔۱۴۱ ۱۷۰ ۲۸ مارچ کو کشن پرشاد کے خط کا جواب بھی دیا۔ ۱۷۱ مرزا جلال الدین کو ریاست گوالیار میں ملازمت مل گئی۔۱۴۲ ۱۷۲ کشن پرشاد کی پانچ بیویوں میں سے جو مسلمان سیدزادی تھی اس کا ایک لڑکا خواجہ نصراللہ تھا۔ اس کی رسمِ بسم اللہ مسلمانوں کے رواج کے مطابق ادا ہوئی۔ اِس دفعہ کشن پرشاد کا خط آیا تو اقبال کو معلوم ہوا کہ ہَردوار کا سفر نہیں کر رہے۔ ’’آپ آزادی کی تلاش میں حیدرآباد سے باہر جاتے ہیں مگر کوئی آپ کو چھوڑے بھی،‘‘ اقبال نے ۱۲ اپریل کو لکھا۔ ’’ہم تو اِسی خیال سے اپنے جذبِ دل سے بھی کام نہیں لیتے کہ ایسا نہ ہو جذبِ دل کو شرمسار ہونا پڑے۔‘‘ غالباً کشن پرشاد نے لاہور کے کسی پیرصاحب کے بارے میں پوچھا تھا۔ ’’شاہ صاحب بھی آج کل لاہور سے باہر ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’کوئی مرید اُنہیں بھگا لے گیا۔‘‘۱۴۳ ۱۷۳ سفینۂ اُردولکھنؤ سے شائع ہوئی۔ مولوی محمد اسماعیل نے ڈی پی آئی آگرہ اور اودھ کے حکم سے اسکولوں کی ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے ترتیب دی تھی۔ اقبال کی نظم ’ایک پرندے کی فریاد‘ شامل تھا: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ۱۴۴ ۱۷۴ اِس دفعہ بھی اقبال پنجاب یونیورسٹی کے لیے بی اے اور ایم اے فلسفہ کے پرچے جانچ رہے تھے۔ گرمی سے گھبرا کر کشمیر جانا چاہتے تھے کہ اب تک صرف اس کے قریب کے مناظر دیکھے تھے مگر کبھی وہاں گئے نہیں تھے۔ پرچے جانچنے کی مصروفیت اب بھی لاہور سے نکلنے نہیں دے رہی تھی۔ ۱۴۵ ضیا ٔالدین لکھنے لکھانے کا شوق رکھنے والے طالب علم تھے اور بی اے کا امتحان دے چکے تھے۔ خواجہ حسن نظامی نے ان کے نام میں برنی کا اضافہ کر دیا تھا کیونکہ ضیأالدین برنی نام کے مشہور مورخ خواجہ نظام الدین اولیأ کے زمانے میں گزرے تھے۔یہ حسن نظامی کا تعارفی خط لے کر اقبال سے ملاقات کرنے پہنچے۔ اپنی کتاب اخباراللغات کا انتساب ان کے نام کرنے کی اجازت چاہتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اقبال بی اے کے فلسفے کے پرچے جانچ رہے ہیں تورول نمبر پیش کر دیا۔ اقبال ناراض ہوئے۔ ملاقات ختم ہو گئی۔ ۱۷۵ ضیا ٔالدین برنی نے خط لکھ کر اپنی کتاب کا انتساب اُن کے نام کرنے کی اجازت چاہی۔ افسوس ظاہر کیا کہ رول نمبر پیش کرنے کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اقبال نے انتساب قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے ۱۷ اپریل کو لکھا کہ اِس قسم کا نام و نمود پسند نہیں کرتے۔ ’’تعجب ہے کہ اُس واقعہ کو آپ کشیدگیٔ تعلقات سے تعبیر فرماتے ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِس واقعہ سے پہلے میرے آپ کے کوئی تعلقات نہیں تھے اور میں نے اس موقع پر جو کچھ عرض کیا تھا اُس میں مَیں اخلاقی اعتبار سے بالکل حق بجانب تھا۔ اِس کو آپ بخوبی سمجھتے تھے اور یقینا اب بھی سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اور معاملہ ہوتا یا اب ہو تو میں ہر طرح آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں۔‘‘۱۴۶ ۱۷۶ برنی نے ایک اور خط لکھ کر اصرارکیا کہ اقبال ان کی کتاب کا انتساب قبول کر لیں۔رول نمبر والے واقعے کا دوبارہ ذکر کر کے شائد یہ لکھا کہ اقبال کے ذہن پر اُس واقعے کا ناخوشگوار اثر معلوم ہوتا ہے۔ ۲۰ اپریل کو دوبارہ جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ اگر انتساب سے برنی کو کوئی مالی فائدہ پہنچنے کا امکان ہوتا تو اقبال منع نہ کرتے، ’’مگر جہاں تک میں سوچتا ہوں اس کا یہ اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ مجھے اخباری دنیا یا اخبارنویسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر چونکہ آپ مصر ہیں اس لیے میں اپنا پہلا خط واپس لیتا ہوں اور یہ عرض کرتا ہوں کہ میں کتاب دیکھ کر اِس امر کا فیصلہ کروں گا۔لیکن آپ مجھ سے عہد کریں کہ اگر کتاب دیکھ کرمیں نے اجازت نہ دی تو آپ اس سے ناراض نہ ہوں گے۔ اُس واقعے کا کوئی اثر میرے دل پر نہ تھا اور نہ اب ہے۔ آپ بلاتکلف جب چاہیں میرے غریب خانے پر تشریف لائیں۔‘‘ ۱۷۷ ۲۳ اپریل کو شیکسپئر کی برسی تھی اور وہ برطانوی جہاز یونانی سمندروں سے گزر رہا تھا جس کے کیبن میں شاعر رُوپرٹ بروک بیمار پڑا تھا۔ مچھر کے کاٹنے سے جسم میں زہر بھر چکا تھا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے فوت ہو گیا۔ رات گیارہ بجے اُسے یونان کے جزیرے اسکائروس میں زیتون کے درختوں کے جھنڈ میں دفن کر کے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ اُنہیں گیلی پولی پر حملہ کرنا تھا۔ گیلی پولی، عثمانی ترکی میں چھوٹا سا جزیرہ نما تھا۔ یہاںسے اتحادی فوجیں آسانی کے ساتھ استنبول پر حملہ کر سکتی تھیں، جو کبھی قسطنطنیہ تھا اور جسے دوبارہ حاصل کرنا یورپ کے لیے ایک حسین تصور تھا۔یہاں جو ترک اور جرمن دستے تعینات تھے اُن میں لفٹننٹ کرنل مصطفی کمال بھی موجود تھے جنہوں نے پچھلے برس ینی چری کا قدیم لباس پہن کر بلغاریہ کے فینسی ڈریس بال میں حصہ لیا تھا۔ ۲۵ اپریل کو اتحادی فوجیں گیلی پولی کے ساحل پر ٹھیک اُسی جگہ اُتریں جس کا اندازہ مصطفی کمال نے پہلے سے لگا رکھا تھا۔ اگلی صبح مصطفیٰ کمال نے اپنی ڈویژن کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ خود سب سے پہلے دشمن کے قریب جا پہنچے۔ کسی اور ڈویژن کے سپاہی میدان چھوڑ کر واپس آ رہے تھے۔ اُن کے پاس گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ سامنے والی پہاڑی سے دشمن بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ ’’میں نے اُنہیں حکم دیا کہ سنگینیں لگائیں اور زمین پر لیٹ جائیں،‘‘ مصطفیٰ کمال کا بیان ہے۔ ’’اُنہوں نے ایسا کیا تو دشمن بھی لیٹ گیا۔ یوں ہم نے مہلت حاصل کر لی۔‘‘ اپنی ڈویژن پہنچی تو مصطفی کمال نے اُس سے کہا۔ ’’میں تمہیں حملے کا حکم نہیں دے رہا۔ میں تمہیں مرنے کا حکم دے رہا ہوں۔ جب تک ہم مریں گے، دوسرے یونٹ اور کمانڈر ہماری جگہ لینے پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘ ’’وہ حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی انیسویں ڈویژن کے ساتھ جنگ میں کود پڑا اور دشمن کو واپس ساحل تک دھکیل آیا،‘‘ جرمن جرنیل وان سانڈرز نے مصطفی کمال کے بارے میں لکھا۔ البتہ خود مصطفیٰ کمال جنگ میں ترکی کی شمولیت سے مطمئن نہ تھے۔ اعلانِ جنگ سے تقریباً دو ماہ قبل ستمبر میں، جب وہ ابھی بلغاریہ ہی میں تعینات تھے، ایک دوست کو خط میں لکھا تھا، ’’ہم نے مقصد متعین کیے بغیر ہی فوجوں کی نقل و حرکت شروع کر دی ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ واضح نہیں ہے کہ ہمارا رُخ کس طرف ہو گا۔ ایک بڑی فوج کو زیادہ عرصہ بے حرکت رکھنا بہت مشکل ہے۔ جرمنی کی پوزیشن کو فوجی نقطہ ٔ نظرسے دیکھتے ہوئے مجھے بالکل یقین نہیں ہے کہ جرمن یہ جنگ جیتیں گے۔‘‘۱۴۷ ۱۷۸ ۲۶ اپریل کو لندن میں برطانیہ، فرانس اور روس نے اٹلی کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا کہ آسٹریا کا کچھ حصہ اُسے ملے گا۔ تب اٹلی جنگ میں شامل ہوا۔ وہاں جو لوگ پہلے سے کوشش کر رہے تھے کہ جنگ میں حصہ لیا جائے اُن میں اسکول کا ایک سابق استاد بھی شامل تھا جو اَب اپنا اخبار نکال رہا تھا۔ اُس کا نام بنیٹو مسولینی تھا۔ ۱۷۹ لاہور گرمی سے تنور بنا ہوا تھا۔ اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں اقبال کو بخار ہوا۔ کشن پرشاد کا خط آیا جس میں لکھا تھا، ’’خدا کے لیے جلد بلوائیے۔‘‘ بہت دن جواب نہ دے سکے۔۱۴۸ ۱۸۰ ’’عرصہ ہوا میں نے دو چار خطوط آپ کی خدمت میں لکھے مگر آپ کے تساہل نے ایک کا جواب نہ دیا،‘‘ ۵ مئی کو گرامی کے نام لکھا۔ ’’عصائے پیر تو مدت ہوئی محوِ خواب ہے اب معلوم ہوتا ہے خود پیر بھی خواب میں ہیں۔‘‘ مثنوی ختم ہونے کی اطلاع دے کر کہا کہ اب اس کی اشاعت کا اہتمام درپیش ہے۔ دیباچے کے چند اشعار بھیجے کہ اصلاح کی نظر سے دیکھے جائیں۔ اُسی روز کشن پرشاد کو بھی خط لکھا۔ ’’خدا کے لیے وہیں قیام فرمائیے اور لیل و نہار کا رنگ چشم ِعبرت سے ملاحظہ فرمائیے۔ واقعی سرکار عالم ملکوت میں عالی کے ہم سبق تھے اسی واسطے تو میری عرض ہے کہ شاد عالی ہے ان شأ اللہ ایسا ہی ہو گا۔ یہی اقبال کی دعا ہے۔‘‘۱۴۹ ۱۸۱ ۷ مئی تھی۔دوپہر کے سوا دو بجنے والے تھے۔ برطانیہ کا عظیم الشان بحری جہاز لوسیطانیہ سمندر کا سینہ چیرتا ہوا واپس آ رہا تھا۔ یہ جنگی جہاز نہ تھا بلکہ اس میں مختلف ممالک کے مسافر سوار تھے۔ کنیڈا کا ایک صحافی عرشے پر کسی دوست سے باتیں کر رہا تھا جب اُسے کچھ دُور پانی میں ایک خوفناک چیز دکھائی دی۔ کسی آبدوز کا منارہ تھا۔ ساتھ ہی پانی میں کھنچی ہوئی موت کی لکیر پر نظر پڑی جو آبدوز سے چھوڑے گئے تارپیڈو کا نشان دے رہی تھی۔ دھماکہ زوردار تھا۔ جہاز آگے کی طرف جھکا اور اس کے کچھ ٹکڑے فضا میں بلند ہوئے۔ نیچے ڈائننگ ہال میں کھانا کھانے کے بعد وقت گزاری کرنے والے مسافروں نے بھی اسے سنا اور وہ دوسرا دھماکہ بھی جس کے بائیس منٹ بعد جہاز پانی کی لہروں میں غائب ہو چکا تھا۔ دو ہزار کے قریب افراد میں سے صرف چھ سو اپنی جانیں بچا سکے ۔ مرنے والوں میں ایک مشہور امریکی کروڑپتی اور امریکی صدر کے کچھ دوست شامل تھے۔نیویارک سے جرمن زبان میں شائع ہونے والے اخباروں نے عوام کو یاد دلایا کہ جرمن سفیر نے اُنہیں کچھ ہی عرصہ پہلے لوسیطانیہ میں سفر کرنے سے منع کیا تھا۔ پانچ روز بعد انگلستان میں بلوہ ہوا۔جرمن ناموں والی دکانیں جلائی گئیں۔ پولیس نے بچانے کی کوشش کی تو پتھر کھا کر زخمی ہوئی۔ کئی تنظیموں کا مطالبہ تھا کہ جرمن نسل کے برطانوی شہریوں سے بھی انتقام لیا جائے۔ ۱۸۲ ۱۶ مئی کو محمد علی اور شوکت علی ایک دُوردراز قصبے میں نظربند کر دیے گئے۔ حکومت نے کوئی وجہ نہ بتائی۔۱۵۰ ۱۸۳ یونانی فاتح سکندراعظم نے ایشیا کی عظیم سلطنت فتح کی مگر دنیاوی طاقت کی حد یہیں تک تھی۔ حضرت بلال ایک معمولی غلام تھے مگر جو اذان کبھی اُن کی زبان سے ادا ہوئی آج بھی فضا میں گونجتی تھی۔ بادشاہوں کو بھی تعمیل کرنی پڑتی تھی۔ سکندر مغربی حکمرانوں اور حضرت بلال حبشی ہندوستان کی مسلمان قوم کی علامت ہو سکتے تھے کہ حضرت بلال بھی کالے تھے اور غلام بھی: اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے؟ رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے!۱۵۱ ۱۸۴ مئی کے دوسرے حصے میں کشن پرشاد کے کسی اہلکار سے ملاقات ہوئی۔ مضطرؔ تخلص تھا اور دکن جا رہے تھے۔۱۵۲ ۱۸۵ اس دفعہ کشن پرشاد نے خط ظریفانہ انداز میں لکھا تھا۔ غالباً تین شادیوں کو اقبال کے بخار کی وجہ بتایا۔ ’’چوکڑہ ہانکنے سے تو بخار دفع ہوتا ہے بلکہ ہر قسم کے دُکھ درد سے نجات ملتی ہے،‘‘ اقبال نے ۲۱ مئی کو جواب لکھتے ہوئے اپنے آپ کو تین بیویوں کی رعائت سے صاحبِ تثلیث اور کشن پرشاد کو پانچ بیویوں رکھنے کی وجہ سے پنج تنی قرار دیا۔ ’’اگر یہ امر باعثِ امراض ہوتا تو قائلینِ پنج تن کو صاحبانِ تثلیث سے زیادہ موقع شکایت کا ہوتا۔‘‘ کشمیر کے مناظر کی تعریف بھی کی جہاں جانے کی حسرت لیے بیٹھے تھے۔ ’’ہر قدم پر قدرت کی دلفریبیاں نظر آتی ہیں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اگر سرکار وہاں کی سیر کریں تو پنج تنی مذہب کو چھوڑ کر ضرور شش امامی ہو جائیں۔ زیا دہ کیا عرض کروں۔‘‘ ۱۸۶ برنی کی کتاب اچھی تھی۔ ’’اُردوخوانوں کے لیے بالخصوص اس قسم کی کتاب کی ضرورت تھی،‘‘ اقبال نے ۲۲ مئی کو اُنہیں خط میں لکھا۔ ’’اگر آپ اس کتاب کے ڈیڈیکیشن سے مجھے معزز کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گا۔‘‘ ۱۸۷ ۲۳ مئی کو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس شمس العلمأ مولوی عبدالحکیم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کالج کمیٹی میں اقبال کی رکنیت کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ توسیع کی گئی۔۱۵۳ ۱۸۸ لارڈ نارتھ کلف کئی اخباروں کے مالک تھے۔ ڈیلی میل میں لارڈ کچنر کے بارے میں لکھا تھا کہ ناقص گولے فراہم کرنے کی وجہ سے سپاہیوں کی زندگیاں ضائع ہونے کے ذمہ دار تھے۔ برطانوی عوام کچنر کو قومی ہیرو تسلیم کر چکے تھے۔ ڈیلی میل کی خرید کم ہو گئی اور اسٹاک ایکسچینج کے ڈیڑھ ہزار ارکان نے اخبار کے خلاف قرارداد منظور کر کے رسمی طور پر اُس کی کاپیاں جلائیں۔ وزیراعظم ایسکوئیتھ نے بھی اخبار کی مذمت کی۔ دنیا کی سلامتی داؤ پر لگی تھی مگر برطانوی سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ سے باز نہ رہ سکیں۔ ایسکوئیتھ کے حریف لائڈ جارج نے ہاتھ دکھایا۔ حکمراں جماعت مشترکہ حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی۔ کابینہ میں ’منسٹر آف میونیشن‘ کا عہدہ تشکیل دیا گیا۔ ۲۵ مئی کو اُس پر لائڈ جارج فائز ہوئے۔ لارڈ کرُو نے سیکرٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا یعنی ’’وزیرِ ہند‘‘ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اُن کی جگہ آسٹن چیمبرلین اس پر فائز ہوئے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ ایک بٹالین کے لیے دو مشین گنیں کافی ہوتی ہیں۔ کچنر کے خیال میں چار بھی کام آ سکتی تھیںمگر اس سے زیادہ بیکار تھیں۔ لائڈ جارج نے اسلحہ بنانے والوں کو حکم دیا، ’’کچنر کی بتائی ہوئی تعداد لو۔ اُس کا مربع نکالو۔ اُسے دو سے ضرب دو۔پھر برکت حاصل کرنے کے لیے دوگنا کر دو۔‘‘ یہ تعداد چونسٹھ تھی۔ اسلحے کی اُس دوڑ کا آغاز تھا جو بعد میں بھی جاری رہنے والی تھی۔ ۱۸۹ مئی کے آخر یا جون کے شروع میں پرچوں کا کام ختم ہو گیا۔ کشمیر سے شہزادی بمبا دلیپ سنگھ کا دعوت نامہ بذریعہ تار آیا مگر سردار جوگندر سنگھ جن کے ساتھ جانا تھا شملے میں بیمار ہو گئے۔۱۵۴ ۱۹۰ تین برس پہلے شکاگو سے شروع ہونے والے ماہنامے پوئٹری (Poetry)کا مقصد یہ تھا کہ اچھی اور بری شاعری کا فیصلہ معاشرے کی بجائے پیشہ ور نقادوں سے کروایا جائے۔ اس برس جون کے شمارے میں ایک نیا امریکی شاعر متعارف کروایا گیا جو برطانیہ کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ اُس کا نام ٹی ایس ایلیٹ تھا۔ نظم کا عنوان ’دی لوو سونگ آف جے الفریڈ پروفروک‘ تھا۔ اقبال کی مثنوی جو ابھی شائع نہ ہوئی تھی اُس کا آغاز اِس دعوے سے ہوتا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اُن کی بات ضرور سنی جائے گی کیونکہ وہ مستقبل کے شاعر کی آواز ہیں۔ ایلیٹ کی نظم کے آغاز میں دانتے کے جہنم نامے کے ایک کردار کا مکالمہ درج تھا کہ مجھے یقین ہے کہ میری آواز جہنم سے باہر کبھی نہ پہنچے گی۔ اقبال کی مثنوی ایک روشن صبح سے شروع ہوتی تھی۔ ایلیٹ کی نظم کا پس منظر ایک منحوس شام تھی۔ اقبال کی شاعری کے تمام استعارے جوانی اور شباب سے تعلق رکھتے تھے۔ ایلیٹ کی نظم کا مرکزی کردار وقت سے پہلے بوڑھا ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں میں جو فرق تھا اُسے اہلِ ذوق محسوس کر سکتے تھے۔ اگر مشرق میں اقبال کی مثنوی اور مغرب میں ایلیٹ کی نظم مقبول ہو جاتیں توپھر مشرق اور مغرب کی راہیں جدا تھیں۔ The Love Song of J. Alfred Prufrock By T. S. Eliot [Excerpt] Let us go then, you and I, When the evening is spread out against the sky Like a patient etherized upon a table; Let us go, through certain half-deserted streets, The muttering retreats Of restless nights in one-night cheap hotels And sawdust restaurants with oyster-shells: Streets that follow like a tedious argument Of insidious intent To lead you to an overwhelming question... Oh, do not ask, "What is it?" Let us go and make our visit. In the room the women come and go Talking of Michelangelo. ۱۹۱ مثنوی کی کتابت مکمل ہو چکی تھی۔ سید علی امام سے اجازت لی جا چکی تھی۔ ’پیشکش‘ کے ساتھ ’’با اجازت جناب ممدوح‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ عنوان بالآخر وہی پسند آیا جو دو برس پہلے حسن نظامی کے رسالے میں مثنوی کے اولین اشعار کے ساتھ چھپا تھا: ’اسرارِ خودی‘۔ کتابت شدہ نسخے میں رد و بدل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تقریباً ہر باب میں کانٹ چھانٹ ہوئی۔ پیشکش کے اشعار میں کافی ترمیم ہوئی۔ تعداد بڑھ کر اُنیس ہو گئی۔ ’تمہید‘ کا ایک شعر کاٹا۔ بعض مصرعوں میں ترمیم کی۔ نئے اشعار شامل ہوئے۔ حقیقتِ خودی والے باب میں بہت زیادہ کانٹ چھانٹ ہوئی۔ نئے اشعار میں شیخ فرید الدین عطار کی تیسری وادی ’’معرفت‘‘ اور چوتھی وادی ’’استغنا‘‘ کے اثرات صاف دکھائی دے رہے تھے: خودی نے اپنے آپ کو اپنا غیر سمجھ کر کائنات میں کشمکش کا بیج بویا ہے! اپنے آپ ہی سے غیروں کے وجود پیدا کرتی ہے تاکہ مقابلے کی لذت میں اضافہ ہو، ان میں سے بعضوں کو اپنی قوتِ بازو سے فنا کر دیتی ہے تاکہ اپنی طاقت سے آگاہ ہو جائے۔ اس کی خودفریبیاں اور پھول کی طرح اپنے لہو سے وضو کرنا ہی زندگی کی اصل ہے۔ ایک پھول کے لیے سیکڑوں باغوں کا خون اور ایک نغمے کے لیے سیکڑوں فریادیں کرتی ہے۔ ایک آسمان کی خاطر سیکڑوں ہلال اور ایک حرف کے لیے سیکڑوں اندازِ بیان لاتی ہے۔ اس فضول خرچی اور سنگدلی کا جواز باطنی حسن کی تخلیق اور تکمیل ہے!۱۵۵ ۱۹۲ آرزو یعنی ’’تخلیق و تولید مقاصد‘‘ والے باب میں اب بھی کوئی کانٹ چھانٹ نہ کرنی پڑی۔ صرف دو شعروں کا اضافہ ہوا: آرزو ہی اس جہانِ رنگ و بو کی جان ہے کہ ہر شے کی فطرت میں آرزو پوشیدہ ہے۔ اپنے دل میں آرزو کو زندہ رکھوتاکہ تمہارا جسم تمہاری قبر نہ بن جائے۔۱۵۶ ۱۹۳ عشق و محبت والے نعتیہ باب میں بھی آخری وقت تک تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ امام زین العابدین کے بارے میں متروک اشعار میں سے جو حضرت علی کے باب میں شامل کیا تھا اُسے اب آنحضورؐ کے بارے میں کر دیا: طور موجے از غبارِ خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش حضرت علی کے باب سے ایک اور شعر نکال کر آنحضورؐ کے بارے میں کیا گیا: ابد کا عرصہ آپؐ کی ایک آن سے بھی کم ہے، ابد نے آپؐ ہی کی ذات سے اپنی ابدیت پائی ہے۔ آخر میں ایک نئے بند کا اضافہ ہواجس میں مسلمانوں کی بیکسی کا تذکرہ تین برس پہلے والی اُردو نظم ’حضور رسالتمابؐ میں‘ کی یاد دلاتا تھا: ایک غزوے کے بعد حاتم طائی کی بیٹی قید ہو کر آنحضورؐ کے سامنے اس حال میں لائی گئی کہ سر پر چادر نہ تھی تو آپ نے اپنی چادر سے اُس کا سر ڈھانپ دیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اُس بے کس لڑکی سے بھی زیادہ مدد کے محتاج تھے اور آخرت کی طرح دنیا میں بھی آپؐ ہی کی شفاعت کا آسرا تھا۔ ۱۹۴ تین مراحل والے باب کے عنوان میں ’’کمالِ انسانی‘‘ کے الفاظ کاٹ کر اُنہیں ’’تربیت خودی‘‘ کر دیا۔ کمالِ انسانی سے عام طور پر ذہن قدرت کے کاموں کی طرف جاتا تھا۔ انسانِ کامل کی اصطلاح بھی ذہن میں آتی تھی۔ سب کے ساتھ مخصوص تصورات وابستہ تھے جن سے اقبال درگزر کر رہے تھے۔ مناسب تھا کہ اصطلاح نئی ہوتی۔تینوں مراحل کے نام بھی بدل گئے: ٭ اُشتری کی بجائے اطاعت ٭ شتربانی کی بجائے ضبطِ نفس ٭ جہاں بانی کی بجائے نیابتِ الٰہی ۱۹۵ ’مرحلہ اول اطاعت‘ میں اضافہ ہوا: ستارہ بھی کسی آئین کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ہی منزل کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ سبزے کا دین اُگنا ہے جس پر قائم رہ کر وہ اُگتا ہے اور ترک کر کے قدموں تلے روندا جاتا ہے۔ لالے کا قانون ہمیشہ چلنا ہے اس لیے اُس کی رگوں میں خون جوش مارتا رہتا ہے۔ وصال کے قانون سے قطرہ دریا اور ذرہ صحرا بنتا ہے۔ ہر شے کا باطن کسی آئین سے طاقت ور ہے تو پھر تم اس چیز سے بے خبر کیوں جا رہے ہو؟ اے پرانے دستور سے آزاد ہو جانے والے، اپنے پاؤں میں پھر وہ چاندی کی بیڑیاں ڈال لو۔۱۵۷ ’مرحلہ دوم ضبط نفس‘ کے پہلے شعر میں بھی ترمیم ہوئی: تمہارا نفس اونٹ کی طرح اپنی پرورش میں لگا رہتا ہے۔ خودپرست ہے، اپنے آپ پر حاوی اور بغاوت پر آمادہ ہے۔۱۵۸ ’مرحلہ سوم نیابت الٰہی‘ کے آخری چار اشعار کاٹ دیے۔ ان میں سے ایک تو معمولی تبدیلی کے ساتھ آخری شعر بنا، آخری شعر یہاں سے نکل کر عشق و محبت والے نعتیہ باب کے آخر میں سجا مگر دو اشعار ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہو ئے جن کی قسمت میں آٹھ برس بعد اُردو ترجمے کی صورت میں طلوع ہو کر مشہور ہونا تھا: سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۱۵۹ اس حصے کا اختتام دوبارہ لکھا گیا۔ دو اَشعار ’الوقت سیف‘ والے باب سے نکل کر آگئے، ایک شعر میں ترمیم کر کے اُس کی جگہ بدلی۔ باقی نئے اشعار تھے: ہماری کلی دامن میں گلستاں سمیٹے ہوئے ہے۔ ہماری آنکھوں میں آنے والے کل کی روشنی ہے۔ ہمارے آج کی راکھ میں ہمارے آنے والے کل کا وہ شعلہ دبا ہوا ہے جو دنیا میں آگ لگا سکتا ہے۔ اے زمانے کی سواری کے شہسوار، آجا! اے کہ تو اِمکان کی آنکھ کا نور ہے، آ جا!۱۶۰ ۱۹۶ ’پیشکش‘ میں سے جو اشعار نکالے تھے وہ حضرت علی کے باب کی تمہید میں بعض نئے اشعار کے ساتھ شامل کر کے نئی ترتیب بنائی: وہ اولین مسلمان، بہادروں کے سردار علیؓ! عشق کے لیے ایمان کا سامان علیؓ! میں آپؓ کے خاندان کی محبت سے زندہ اور دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں! میں نرگس ہوں اور نظارے میں کھویا ہوا ہوں، آپؓ کے باغ میں خوشبو کی طرح بے قرار پھر رہا ہوں! اگر میری خاک سے زمزم پھوٹ رہا ہے تو آپؓ کی وجہ سے ہے! اگر میری شاخ سے شراب ٹپک رہی ہے تو آپؓ کی وجہ سے ہے! میں خاک ہوں مگر آپؓ کے کرم سے آئینہ بن گیا ہوں اور میرا سینہ اتنا شفاف ہو گیا ہے کہ اس میں آواز کو دیکھا جا سکتا ہے! پیغمبرؐ خدا آپؓ کے چہرے سے فال لیتے تھے۔ آپؓ کے شکوہ سے ملتِ اسلامیہ نے عزت حاصل کی۔ آپ کو دین کی طاقت کہا گیا اور آپؓ کے خاندان سے کائنات کو قانون ملا ہے۔ رسولؐ اللہ نے آپ کا لقب بوتراب رکھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ کو یداللہ فرمایا۔ جو بھی زندگی کے رموز سے واقف ہے اُسے معلوم ہے کہ حضرت علیؓ کے ناموں کا راز کیا ہے۔۱۶۱ ۱۹۷ حکایت میں جس نوجوان کو سوات کے اخوند کے پاس حاضر ہوتے دکھایا تھا، اُس کا تعلق ہرات کی بجائے مرو سے کر دیا۔ بزرگ کے پیغام کے آخری مصرعے ’’مثل حق جبار شو، قہار شو‘‘ کو بدل کر ’’مرد حق شو، حامل اسرار شو‘‘ کر دیا یعنی ’’مردِ حق بنو اور اَسرار کے جاننے والے بن جاؤ!‘‘ اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ پیغام سوات کے اخوند کی بجائے ’’حضرت شیخ مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ‘‘ سے منسوب کر دیا جنہیں داتا گنج بخش کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ لاہور میں مزار تھا۔ آپ کی شان میں بعض اشعار ’الوقت سیف‘ والے باب سے لیے، باقی نئے تھے۔ حضرت علی ہجویری جو قوموں کے بزرگ ہیں، جن کا مزار خواجہ معین الدین چشتی کے لیے حرم کی مانند ہے کہ وہ بھی وہاں تشریف لائے، جو پہاڑوں کی رکاوٹیں نظرانداز کر کے آئے اور ہندوستان کی سرزمین میں سجدے کا بیج بویا، آپ کے جمال سے حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ واپس آ گیا۔ آپ کی تلوار سے سچائی کا بول بالا ہوا۔ آپ اُم الکتاب کی عزت کے پاسبان تھے۔آپ کی نگاہ سے باطل کا گھر برباد ہوا۔ آپ کے دم سے خاکِ پنجاب زندہ ہوئی۔ ہماری صبح آپ کے سورج سے زندہ ہوئی۔ آپ عاشق بھی تھے اور عشق کے تیزرفتار قاصد بھی تھے۔ آپ کی جبین سے عشق کے اسرار ظاہر ہوتے تھے۔ میں آپ کے کمال کی ایک داستان سناتا ہوں۔ ایک کلی میں باغ سمونے کی کوشش کرتا ہوں۔۱۶۲ فرضی کردار میر نجات نقشبند کے لیے ایک لقب کا اضافہ بھی کیا: بابائے صحرائی! ’الوقت سیف‘ میں سے سلطان محمد فاتح والے اشعار نکال دیے۔ ’’عہدِ فاروق از جلالش تازہ شد‘‘ کے جلال کو جمال سے بدل کر شیخ علی ہجویری والے باب میں اُن کی شان میں رکھ دیا جہاں فاتح کی تلوار کی بجائے صوفی کی آواز حق کا بول بالا کر رہی تھی (کشف المحجوب میں داتا صاحب نے لکھا بھی تھا، ’’ہندو کے دل پر محمود کی تلوار سے زیادہ صوفی کی محبت کا اثر ہے‘‘)۔ تبدیلی معنی خیز تھی۔ سلطان محمد فاتح کے رخصت ہو جانے پر مثنوی میں کسی بادشاہ کی تعریف شامل نہ رہی۔اب بادشاہوں کا تذکرہ صرف اِس حوالے سے تھا کہ کسی روحانی شخصیت نے اُن کے سامنے سر اُٹھایا۔ تب بھی وہ گمنام تھے، صرف روحانی ہستیوں کے نام لیے گئے تھے۔ مثنوی کے موجودہ عنوان ’اسرارِ خودی‘کے لحاظ سے مناسب بھی تھا کیونکہ خودی کا راز یہی ہو سکتا تھا کہ فقیر کے سامنے بادشاہ کانپنے لگیں۔ سلطان محمد فاتح کے بارے میں جو لکھا تھا کہ اُن کی تلوار فتح کی دعا پر آمین تھی جس نے شاہی خاندانوں کے سلسلے کاٹے اور اُنہوں نے ایک نئے زمانے کا آغاز کیا، وہ اشعار عشق و محبت والے باب میں آنحضورؐ کے بارے میں کر دیے۔ ’الوقت سیف‘ کے آخری دو شعر ’نیابت الٰہی‘ کے حصے میں آئے۔ ۱۹۸ وقت کے بارے میں نیا نکتہ بیان کیا جو پورا بند بن گیا: تم نے وقت کو ایک سیدھی لکیر سمجھ کر اپنی مٹی میں اندھیرے کا بیج بویا ہے اس لیے تمہاری سوچ نے زمانے کی طوالت کو دن اور رات کے پیمانے سے ناپا ہے۔ اس دھاگے کو تم نے اپنے گلے کا زنّار بنایا اور بتوں کی طرح جھوٹ کو فروغ دینے والے ہو گئے۔ تم کیمیا تھے، مٹی بن گئے۔ خدا کا راز پیدا ہوئے تھے، باطل ہو گئے۔ مسلمان ہو؟ اس زنار سے آزاد ہو جاؤ! آزادوں کی قوم کی محفل میں شمع بن جاؤ! تم کہ وقت کی اصلیت سے آگاہ نہیں ہو، ہمیشہ کی زندگی سے آگاہ نہیں! کب تک روز و شب میں قید رہو گے! وقت کی رمز آنحضورؐ کے اس قول سے سمجھو، ’’مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا وقت میسر ہے جو کسی نبی یا خاص فرشتے کو حاصل نہیں۔‘‘ چیزیں وقت کی رفتار سے پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی وقت کے اسرار میں سے ایک راز ہے۔ وقت سورج کی گردش کا نام نہیں ہے کہ وقت ہمیشہ رہنے والا ہے اور سورج ہمیشہ رہنے والا نہیں! وقت خوشی بھی ہے اور غم بھی، عید بھی اور عاشورہ بھی ہے۔ وقت چاند اور سورج کی روشنی کا راز ہے۔ تم نے زمان کو بھی مکان کی طرح بچھا کر ماضی اور مستقبل کو علیحدہ کر دیا ہے۔ اے کہ خوشبو کی طرح اپنے باغ سے نکل گئے ہو، تم نے اپنے ہاتھ سے اپنے لیے پنجرہ تعمیر کیا ہے۔ ہمارا وقت جس کی ابتدا ہے نہ انتہا، وہ ہمارے باطن کی کیاری سے پھوٹتا ہے، زندہ اپنی اصل کو پہچان کر زیادہ زندہ ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی صبح سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے۔ زندگی زمانے سے اور زمانہ زندگی سے ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا، ’’وقت کو برا مت کہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’میں ہی زمانہ ہوں۔‘‘‘۱۶۳ ۱۹۹ ہماری عقل، عمل کی اغراض پوری کرنے کے لیے اسباب اور علل میں تمیز کرتی ہے، یہ جادوگر ہم سے زندگی کا لطف چھین لیتی ہے۔ اس کا جام ہمیں جمشید کی شان سے محروم کر دیتا ہے۔ جب ہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں تو نقل و حرکت ہمیں سکون دکھائی دیتے ہیں۔ عقل کی فطرت اجزا کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ اس کے آئینے میں سمندر بھی شبنم ہے۔ وہ ہمیں حققیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ ہمارے کھیت کو دانوں کا انبار بنا دیتی ہے۔ اُس نے شعلے کو چنگاریوں میں تقسیم کر دیا۔ ہوش کو اَجزا کی پرستش سکھائی۔ وقت کے باب میں یہ اشعار لکھنے کے بعد محسوس ہوا کہ انہیں حقیقت خودی میں ہونا چاہیے۔ دل کی طرح عقل بھی خودی ہی سے جنم لیتی ہے تاکہ خودی عالمِ اسباب کو تسخیر کر سکے۔ بعض اشعار منسوخ ہوئے۔ باقی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’اصلِ نظام عالم‘ والے باب میں گئے۔۱۶۴ ۲۰۰ بعض ابواب کے عنوانات بھی بدلے: ٭ ’پیشکش‘ کا عنوان بدل کر ’تقدمہ‘ کر دیا ٭ حیاتِ خودی والے باب کا عنوان ’دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسل حیات تعینات وجود بر استحکام خودی انحصار دارد ‘ہو گیا ٭ مقاصد والے باب کا عنوان ’در بیان اینکہ حیاتِ خودی از تخلیق و تولید مقاصد است‘ ہوا ٭ تین مراحل والے باب کا عنوان ہو گیا: ’در بیان اینکہ تربیت خودی را سہ مراحل است۔ مرحلہ اول را اطاعت و مرحلہ دوم را ضبط نفس و مرحلہ سوم را نیابت الٰہی نامیدہ اند ٭ نوجوان والی حکایت کا عنوان ہو گیا: ’حکایت نوجوانے از مرو کہ پیش حضرت شیخ مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ آمدہ از ستمِ اعدا فریاد کرد‘ ٭ شیخ وبرہمن والے عنوان کے شروع کے الفاظ یوں ہوئے: ’حکایت شیخ و برہمن و مکالمہ گنگا و ہمالہ در معنی ایں کہ۔۔۔‘ ٭ میر نجات نقشبند والے باب کے عنوان میں اُس کے نام کے ساتھ ’’المعروف بہ بابائے صحرائی‘‘ کا اضافہ کیا ٭ الوقت سیف ۲۰۱ اس بارے میں کہ افلاطونِ یونانی اور حافظ شیرازی جن کے افکار سے مسلمان قوموں کے تصوف اور ادب نے گہرا اثر قبول کیا ہے، بھیڑوں کے مسلک پر کاربند تھے اور اُن کے تخیلات سے بچنا ضروری ہے رہبانیت کا بانی فلسفی افلاطون، پرانی بھیڑوں کے گروہ سے تھا۔ اس کا گھوڑا فلسفے کی تاریکی میں گم ہے اور زندگی کے کوہستان میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ وہ قیاسی علوم سے اس قدر مسحور ہوا کہ ہاتھ، آنکھ اور کان پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔ کہا کہ زندگی کا راز مرنے میں ہے۔ شمع کے لیے بجھنے میں سو جلوے چھپے ہوئے ہیں! وہ ہمارے افکار پر چھایا ہوا ہے۔ اس کا پیالہ بے ہوش کر کے دنیا چھین لیتا ہے۔ انسان کے لباس میں بھیڑ ہے مگر صوفی کی روح پر پوری طرح سوار ہے۔ اُس نے اپنی عقل کو آسمانوں میں دوڑایا اور اسباب کی دنیا کو محض افسانہ قرار دیا۔ اس کا کام زندگی کے اجزا کو بکھیرنا اور زندگی کی خوبصورت ٹہنی کاٹ دینا ہے۔ افلاطون کی سوچ نے نقصان کو فائدہ بتایا۔ اُس کے فلسفے نے موجود کو غیرموجود قرار دیا۔ اس کی فطرت سو گئی اور خواب دیکھنے لگی۔ تب اس کے ہوش کی آنکھ نے بھی سراب تعمیر کر لیے۔ وہ ذوقِ عمل سے اس حد تک محروم تھا کہ اس کی روح عدم کی گرویدہ تھی، وہ زندگی کے ہنگامے کا منکر ہوا اور ایسے اعیان کا خالق بن بیٹھا جن کا خارج سے کوئی تعلق نہ تھا: زندہ روح کو عالمِ امکان پسند آتا ہے۔ مردہ دل کو اعیان کی دنیا پسند آتی ہے! اس کا ہرن چلنے کے لطف سے بے بہرہ ہے۔ اس کے چکور پر ہلنے کی لذت حرام ہے! اس کی شبنم پرواز کی طاقت سے محروم ہے۔ اس کے پرندے کا سینہ سانسوں سے محروم ہے۔ اُس کا دانہ اُگنے کا ذوق نہیں رکھتا۔ اُس کا پروانہ تڑپ سے واقف نہیں۔ ہمارے راہب کے لیے فرار کے سوا چارہ نہ تھا کہ وہ اس دنیا کے ہنگامے کی تاب لانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ بجھے ہوئے شعلے کی حرارت سے دل لگایا اور اپنی افیونی دنیا کا خاکہ تیار کیا، اپنے نشیمن سے آسمان کی طرف پرواز کی مگر پھر نشیمن کی طرف واپس نہ پہنچا۔ اب تک آسمان کے پیالے میں گم ہے مگر معلوم نہیں تلچھٹ ہے کہ سرپوش ہے! اس کی مستی سے قومیں زہرآلود ہوئی ہیں، سوئی ہیں اور ذوقِ عمل سے محروم ہو گئی ہیں۔ خواجہ حافظ شیرازی سے بھی ہوشیار رہو جو تمہیں جام پیش کرتا ہے۔ اُس کے جام میں موت کا زہر بھرا ہوا ہے! اُس کے ہنگاموں کے عوض اُس کی پرہیز کا خرقہ ساقی کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ اُس کے بازار میں شراب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شراب کے دو ہی پیالوں میں اُس کی پگڑی کھل کر بکھر گئی ہے۔ نشے میں دھت ہو کر وہ اپنے آپ کو قارون کا وارث سمجھ بیٹھتا ہے! اُس کی سلطنت میں مفتی شراب کی صراحی لیے گھوم رہا ہے اور محتسب شراب خانے کے بوڑھے کا احسان مند ہے۔ اُس نے شراب کے رنگ کی مانند جام کا طواف کیا۔ رباب، چنگ اور بانسری سے فریاد طلب کی۔ عیش و مستی کے رموز میں کامل ہے۔ شراب کی مستی سے اُس کا دل خون ہو کر پھولوں میں اٹکا ہوا ہے۔ ساغر اور ساقی کے شغل پیش کرتا ہے۔ رِندوں کی محفل اور مے باقی پیش کرتا ہے۔ قافلے کی گھنٹی کی طرح بجتا ہی رہتا ہے کہ جسے منزل پر پہنچ کر بھی سکون نہیں! محبت میں فرہاد کی پیروی بھی کی اور لب پر فریاد بھی سجائی، مگر پہاڑوں میں آہوں کے بیج ہی بوئے۔ خسرو کا مقابلہ کرنے کی طاقت اُس میں نہ تھی۔ مسلمان ہے مگر اُس کا ایمان زُنار باندھے ہوئے ہے۔ اُس کا دین محبوب کی پلکوں کی نذر ہو گیا ہے۔ غلامی کی شراب سے اتنا مست ہے کہ خواجہ ہو کر بھی خواجگی سے محروم ہے! وہ بھیڑ ہے اور نغمے سکھاتا ہے۔ عشوہ طرازی اور ناز و ادا سکھاتا ہے۔ اُس کی دلربائی زہر کے سوا کچھ نہیں۔ اُس کی نگاہ فن کو صرف غارت ہی کر سکتی ہے۔ کمزوری کو توانائی کا نام دیا۔ اُس کے ساز نے اقوام کو گمراہ کیا۔ یونان کی بھیڑ کی نسبت یہ زیادہ چالاک ہے۔ اس کے عود کا پردہ حجابِ اکبر ہے۔ اُس کے ساز کا نغمہ زوال کی دلیل ہے۔ اُس کی آوازِ غیب زوال کی وحی لاتی ہے! ہوشیار ہو جاؤ کہ جو صراحی تمہارے ہاتھ میں ہے اُس میں حشیش بھری ہوئی ہے، جیسے حسن بن صباح کے مریدوں کو پلائی جاتی تھی۔ تخیل سے ایک جنت ضرور تعمیر کی گئی ہے مگر تمہیں موت کا خواہشمند بنادیا گیا ہے۔ وہ تیرانداز جو دل سے گرمی چھین لے اُس کا تیر موت کو خوبصورت بنا دیتا ہے، جیسے باغ میںبیٹھا ہوا زہریلا سانپ اپنے شکار کو پہلے بیہوش کر دے۔ اُس کی نگاہ کے جادو سے عشق خودکشی بن جاتا ہے۔ اسے ختم کرنا مشکل ہے کہ آستین کا سانپ ہے! حافظ جس کے اندازِ بیاں میں جادو ہے اُس کا تعلق شیراز سے تھا۔ عرفی جس کی زبان نشتر ہے وہ بھی شیراز سے تھا۔ اِس نے ملک خودی میں اپنے آپ کو زندہ کیا اور وہ رکناباد کے دریا کے کنارے مر گیا۔ یہ بہادروں کی ہمت پر عاشق ہے اور وہ زندگی کی رمز سے بے خبر ہے۔ اِس کی شاعری اگر کھیت ہے جس میں ستارے اُگتے ہیں تو اُس کی آنکھ آنسوؤں سے لبریز ہے۔ قیامت کے دن اگر رحم کہے، ’’عرفی! جنت، فردوس اور عمدہ لباس لے لو!‘‘ اُس کی غیرت ایسی حوروں پر ہنس دے اور ایسی جنت ٹھکرا دے! ہنگامے پیدا کرنے والے عرفی سے شراب لو۔زندہ ہو؟ تو پھر حافظ کی محبت سے باز رہو! اس منتر پڑھنے والے نے ہم سے زندگی چھین لی ہے۔ اس کے جام نے ہمیں جمشید کی شان سے محروم کر دیا ہے۔ اُس کی محفل غیرت مندوں کی جگہ نہیں ہے۔ اُس کا پیالہ آزاد لوگوں کے قابل نہیں ہے۔ حافظ کی محفل سے بے نیاز ہو کر گزر جاؤ۔ خدا ہمیں بھیڑوں سے بچائے، خدا بچائے!۱۶۵ ۲۰۲ بو علی قلندر نے مثنوی وحدت الوجود میں کہا تھا: خودشناسی در جہاں عرفاں بود! عارفِ خود عارفِ سبحاں بود! کشف دانی چیست؟ عالی ہمتی! مردِ رہ نبود بجز زورِ خودی! صوفیاں چوں عارفِ خویش آمدند در خودیِ خویشتن پیش آمدند۱۶۶ اقبال نے ایک باب کا اضافہ کیا، ’’اِس بارے میں کہ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جائے تو نظامِ عالم کی ظاہری اور باطنی قوتوں پر حکومت کرتی ہے۔‘‘ بو علی قلندر کا واقعہ نظم کیا جب ان کے ایک مرید کو گورنر کے چوبدار نے سرِبازار پیٹا۔ قلندر نے سلطان غیاث الدین تغلق کو خط لکھا کہ اس گورنر کو بدل دے ورنہ وہ بادشاہ بدل دیں گے: اس خدارسیدہ بندے کے مکتوب نے بادشاہ کے جسم پر لرزہ طاری کر دیا۔ اُس کے رگ و ریشے میں مصیبت کی لہر دوڑ گئی۔ ڈوبتے سورج کی طرح رنگ زرد پڑ گیا۔ حاکم کے لیے زنجیر کا حلقہ منگوایا۔ قلندر سے اس قصور کی معافی مانگنا چاہی۔ امیر خسرو جو شیریں زباں اور رنگیں بیاں تھے، جن کے نغمے کائنات کے باطن سے جنم لیتے تھے، جن کی فطرت چاند کی طرح روشن تھی، اُنہیں اس سفارت کے لیے منتخب کیا۔ قلندر کے حضور ساز بجایا تو نغمے کی آواز سے آپ کی روح کے شیشے کو پگھلا دیا۔ وہ سلطنت جو پہاڑ کی طرح مضبوط تھی ایک نغمے کی بخشیش تھی! درویشوں کے دل کو زخمی مت کرو۔ اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں مت ڈالو۔ ۲۰۳ غلام محمد طُور جو مخزن میں لکھتے تھے، شعر کہتے تھے اور اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں انگریزی پڑھاتے تھے، لاہور آئے۔ اقبال سے ملاقات ہوئی تو اعجاز کا ذکر ہوا۔ طور کو اعجاز میں ادبی رجحان دکھائی دیتا تھا مگر انگریزی میں ذخیرۂ الفاظ کم رکھتے تھے، ریاضی میں برا حال تھا اور گھومنے پھرنے کی عادت زیادہ تھی۔ بنام شیخ عطا محمد لاہور ۱۲ جون ۱۹۱۵ء برادر مکرم۔ السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا۔ الحمد للہ کہ گھر میں سب طرح خیریت ہے۔ پروفیسر طور یہاں بھی آئے تھے۔ میں نے ان سے اعجاز کے متعلق دریافت کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اُس کا مذاق لٹریری ہے۔ عام طور پر وہ اُس کی ذہانت کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا دماغ نہایت صاف و روشن ہے مگر جو نقص انہوں نے بیان کیے وہ بھی لکھتا ہوں۔ ۱ طرز تحریر انگریزی میں اچھا ہے مگر الفاظ بہت نہیں جانتا اور ہجا عموماً غلط لکھتا ہے۔ ۲ ریاضی میں کمزور ہے یہاں تک کہ ایف اے میں اس مضمون میں پاس ہو جائے تو غنیمت ہے۔ ۳ پھرتا بہت ہے۔ بیٹھنے سے اسے نفرت معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں نقص نمبر ۳ پہلے دو نقصوں کا ذمہ دار ہے۔ اگر بیٹھنے کی عادت ہو گی تو پڑھنے کی عادت بھی پیدا ہو گی اور اگر پڑھنے کی عادت ہو گئی تو الفاظ بھی بہت سے آ جائیں گے اور ہجے بھی صحیح ہو جائیں گے۔ ہجا درست کرنے کا ایک ہی طریق ہے اور یہ کہ کثرت سے مطالعہ ہو اور ہر لفظ جو نہ آتا ہو اس کے معانی ڈکشنری میں دیکھے جائیں اور اس کا ہجا ذہن نشین کیا جائے۔ جو شخص ایک اجنبی زبان سیکھتا ہے اور ڈکشنری دیکھنے میں کوتاہی کرتا ہے وہ کبھی اس زبان کو سیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کو کم از کم چار گھنٹہ روز علاوہ کالج کے اوقات کے پڑھنا چاہیے۔ انگریزی ناول پڑھنا مفید ہے کہ دلچسپی کی دلچسپی ہے اور زبان بھی سیکھ لی جاتی ہے۔ ریاضی کی طرف ابھی سے خاص توجہ چاہیے ورنہ امتحان میں کامیابی موہوم ہے۔ والسلام محمد اقبال ۲۰۴ ۱۸ جون کو کشن پرشاد کا خط ملا۔ ’’اب لاہور کی حرارت ہے اور میں،‘‘ اقبال نے اگلے روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’ستمبر میں یہاں سے نکلنا ہو تو ہو۔‘‘ کشن پرشاد آزادی اور قید کی بات کرتے رہتے تھے۔ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی سے پابندیٔ قیود کی فضیلت پر دو اشعار لکھ کر بھیج دیے۔ نظام حیدرآباد کے شملہ آنے کی خبر پڑھی تھی۔ اُس کا ذکر کرتے ہوئے حافظؔشیرازی کے مصرعے میں ترمیم کی کہ اپنی سلطنت کے معاملات بادشاہ خود ہی جانتے ہیں: رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند ۲۰۵ شاکر صدیقی جنہیں اقبال نے کبھی مشورہ دیا تھا کہ شاعری کے چکر میں نہ پڑیں اب گوجرانوالہ میونسپل کمیٹی میں اوورسیئر تھے۔ مخزن والے شیخ نذر محمد بھی ڈپٹی انسپکٹر مدارس کی ملازمت سے ریٹائر ہو کر وہیں رہتے تھے۔ شاکر صدیقی نے اقبال سے اُردو دیوان کے بارے میں دریافت کیا۔ ۲۲ جون کو اُنہیں جواب دیتے ہوئے لکھا کہ دیوان مرتب کرنے کی فرصت نہیں مل سکی: ’’یہ [فارسی] مثنوی ایک نہایت مشکل کام تھا۔ الحمداللہ کہ باوجود مشاغلِ دیگر کے میں اس کام کو انجام تک پہنچا سکا۔‘‘ ۲۰۶ دیباچہ اسرارِ خودی یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات مستنیر ہوتے ہیں۔ یہ پراسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیرمحدود کیفتیوں کی شیرازہ بند ہے۔ یہ ’’خودی‘‘ یا ’’اَنا‘‘ یا ’’میں‘‘ جو اپنے عمل کے رُو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رُو سے مضمر ہے جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتی کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور پر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریبِ تخیل یا دروغِ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے؟ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرزِ عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہو گی جس کے حکمأ و علمأ نے کسی نہ کسی صورت میں اِس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لیے دماغ سوزی نہ کی ہو۔ مگر اِس سوال کا جواب افراد و اقوام کی دماغی قابلیت پر اِس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدرکہ اُن کی افتادِ طبیعت پر، مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اُتار دینے کا نام نجات ہے۔ مغربی اقوام کا عملی مذاق ان کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی تھی۔ ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات و نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قوم کے موشگاف حکمأ نے قوتِ عمل کی حقیقت پر نہایت دقیق بحث کی ہے۔ اور بالآخر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اَنا کی حیات کا یہ مشہود تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے عمل سے متعین ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ اِنسانی اَنا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گزشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں اور جب تک یہ قانونِ عمل اپنا کام کرتا رہے گا وہی نتائج پیدا ہوتے رہیں گے۔ اُنیسویں صدی کے مشہور جرمن شاعر گوئٹے کا ہیرو فوسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ کلام کی جگہ لفظ عمل پڑھتا ہے (’’ابتدا میں کلام تھا کلام خدا کے اور کلام ہی خدا تھا‘‘) تو حقیقت میں اُس کی دقیقہ رَس نگاہ اسی نکتے کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکمأ نے صدیوں پہلے دیکھ لیا تھا۔ اس عجیب و غریب طریق پر ہندو حکمأ نے تقدیر کی مطلق العنانی اور انسانی حریت اور بالفاظ دیگر جبر و اختیار کی گتھی کو سلجھایا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدّت طرازی داد و تحسین کی مستحق ہے اور بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرأت کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جب اَنا کی تعیین عمل سے ہے تو اَنا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ترکِ عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اور ملّی پہلو سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضی تھا کہ کوئی مجدّد پیدا ہو جو ترکِ عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔ بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اِس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترکِ کلّی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے۔ بلکہ ترکِ عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دلبستگی نہ ہو۔ سری کرشن اور سری رام نُوج بھی اسی طریقے پر چلے مگر اَفسوس ہے کہ جس عروسِ معنی کو سری کرشن اور سری رام نُوج بے نقاب کرنا چاہتے تھے سری شنکر کے منطقی طلسم نے اُسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم اُن کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔ مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک اَنا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے مگر مسئلہ اَنا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس نقطۂ خیال سے سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اُسی نقطۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔ شیخ اکبر کے علم و فضل اور اُن کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو جس کے وہ انتھک مفسّر تھے اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا۔ اوحدالدین کرمانی اور فخرالدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعرأ اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے جزو اور کل کا دشوارگذار فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کر کے ’’رگِ چراغ‘‘ میں ’’خونِ آفتاب‘‘ کا اور ’’شرارِ سنگ‘‘ میں ’’جلوۂ طُور‘‘ کا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔ مختصر یہ کہ ہندو حکمأ نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا۔ مگر ایرانی شعرأ نے اس مسئلہ کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخرکار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔ علمأ قوم میں سب سے پہلے غالباً ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ اور حکمأ میں واحد محمود نے اسلامی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ مگر افسوس ہے کہ واحد محمود کی تصانیف آج ناپید ہیں۔ ملّا محسن فانی کشمیری نے اپنی کتاب ’’دبستانِ مذاہب‘‘ میں اس حکیم کا تھوڑا سا تذکرہ لکھا ہے جس سے اس کے خیالات کا پورا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شعرأ میں شیخ علی حزین نے یہ کہہ کر کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ حقیقتِ حال سے آگاہ تھے، مگر باوجود اِس بات کے ان کا کلام شاہد ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ان حالات میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ ہندوستان میں اسلامی تخیل اپنے عملی ذوق کو محفوظ رکھ سکتا۔ مرزا بیدل علیہ الرحمۃ لذتِ سکون کے اِس قدر دلدادہ ہیں کہ ان کو جنبشِ نگاہ تک گوارا نہیں: نزاکت ہا است در آغوشِ میناخانۂ حیرت مژہ برہم مزن تانشکنی رنگِ تماشا را اور امیر مینائی مرحوم یہ تعلیم دیتے ہیں: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منہ سے کچھ نہ بول آنکھ آئینے کی پیدا کر دہن تصویر کا مغربی اقوام اپنی قوتِ عمل کی وجہ سے تمام اقوامِ عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اَسرارِ زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کے ادبیات و تخیلات اہلِ مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں، اگرچہ مغرب کے فلسفۂ جدید کی ابتدأ ہالینڈ کے اسرائیلی فلسفی کے نظامِ وحدت الوجود سے ہوتی ہے، لیکن مغرب کی طبائع پر رنگِ عمل غالب تھا۔ مسئلہ وحدت الوجود کا یہ طلسم جس کو ریاضیات کے طریقِ استدلال سے پختہ کیا گیا تھا دیر تک قائم نہ رہ سکتا تھا۔ سب سے پہلے جرمنی میں انسانی اَنأ کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا اور رفتہ رفتہ فلاسفۂ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان کے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم کے اثر سے آزاد ہو گئے۔ جس طرح رنگ و بو وغیرہ کے لیے مختص حواس ہیں اسی طرح انسانوں میں ایک اور حاسّہ بھی ہے جس کو ’’حسِ واقعات‘‘ کہنا چاہیے۔ ہماری زندگی واقعاتِ گرد و پیش کے مشاہدہ کرنے اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر عمل پیرا ہونے پر منحصر ہے مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قوت سے کام لیتے ہیں جسے میں نے حسِ واقعات کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے؟ نظامِ قدرت کے پراَسرار بطن سے واقعات پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر بیکنؔ سے پہلے کون جانتا تھا کہ یہ واقعاتِ حاضرہ جن کو نظریات کے دلدادہ فلسفی اپنے تخیل کی بلندی سے بہ نگاہِ حیرت دیکھتے ہیں اپنے اندر حقائق و معارف کا ایک گنج گراں مایہ پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ انگریزی قوم کی عملی نکتہ رَسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں ’’حسِ واقعات‘‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ’’دماغ یافتہ‘‘ فلسفیانہ نظام جو واقعاتِ متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، انگلستان کی سرزمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ پس حکمائے انگلستان کی تحریریں ادبیاتِ عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اِس قابل ہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظرِ ثانی کریں۔ یہ ہے ایک مختصر خاکہ اُس مسئلے کی تاریخ کا جو اس نظم کا موضوع ہے۔ میں نے اس دقیق مسئلے کو فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد کر کے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس کی حقیقت کو سمجھنے اور غور کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ اِس دیباچے سے اس نظم کی تفسیر مقصود نہیں محض ان لوگوں کو نشانِ راہ بتلانا مقصود ہے جو پہلے سے اس عسیرالفہم حقیقت کی دقتوں سے آشنا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سطورِ بالا سے کسی حد تک یہ مطلب نکل آئے گا۔ شاعرانہ پہلو سے اس نظم کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذتِ حیات ’’انا‘‘ کی انفرادی حیثیت اس کے اثبات استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے، یہ نکتہ حیات ما بعدالموت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک تمہید کے کام دے گا۔ ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعیینِ ذات ہے۔ مرکب لفظ بیخودی میں بھی اس کا یہی مفہوم ہے اور غالباً محسن تاثیر کے اِس شعر میں لفظ خودی کے یہی معنی ہیں؎ ’’غریقِ قلزمِ وحدت دَم از خودی نزند بود محال کشیدن میانِ آبِ نفس‘‘ محمدؐ اقبال۱۶۷ ۲۰۷ ’اسرارِ خودی‘ میں فہرست مضامین شامل نہ کی گئی۔ آخری باب کے خاتمے پر ’’تمّت‘‘ لکھا گیا۔ ۱۶۸ ۲۰۸ پھولوں کی شہزادی کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرّم کو بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو ۲۴ جون ۱۹۱۵ء لاہور۱۶۹ باب ۲ ماں کا مزار جولائی سے اگست ۱۹۱۵ء ۱ سیالکوٹ میں شیخ عطا محمد نے امام بی بی کی پختہ قبر بنوائی تھی۔ برابر میں دو قبروں کی جگہ خالی رکھوائی: ایک میاں جی کے لیے اور دوسری اپنے لیے۔امام بی بی کے مزار کے کتبے پر اکبرؔ الٰہ آبادی کا بھیجا ہوا قطعہ تاریخ وفات درج ہوا:۱ مادرِ مرحومۂ اقبال رفت سوئے جنت از جہانِ بے ثبات گفت اکبرؔ با دلِ پردردوغم رحلتِ مخدومہ تاریخِ وفات ۲ سر سید احمد خاں کا مقصد ملت کی تعمیر تھا۔ جدید تعلیم محض اس کی تیاری تھی۔ نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی تو مقصد نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہی بات ہوئی جو ملک قمی نے کہی تھی کہ کانٹا پاؤں سے نکالنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا۔ ایک لمحے کی غفلت نے سو برس کے لیے راستے سے ہٹا دیا۔ ۲۸ جون کو اقبال نے ’مسلمان اور تعلیمِ جدید‘ کے عنوان سے اِس خیال کو نظم کیا۔۲ تین روز بعد مرزا صائب کے فارسی شعر پر اُردو میں نظم لکھی۔ کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا نوا اِس باغ میں بلبل کو ہے سامانِ رسوائی۳ ۳ جسٹس دین محمد کے چھوٹے بھائی حیدر محمد ریلوے میں کلرک تھے اور بابو کہلاتے تھے۔ ایک شام محمد دین فوق کے ساتھ سیر کرتے ہوئے اقبال کے مکان پر پہنچے۔ ’’وہاں مولوی محمد انشأ اللہ خاں مالک و مدیر اخبار وطن بھی موجود تھے،‘‘ فوق کا بیان ہے۔ ’’کچھ باتیں ابتدائے اسلام کے متعلق ہو رہی تھیں۔ مولوی صاحب اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلام میں ایسی کشش نہ تھی کہ لوگ خودبخود اس طرف کھنچے آتے۔ اگر کشش حقیقی ہوتی تو ابتدا ہی میں بعض لوگ مرتد نہ ہو جاتے اور نہ لوگوں میں نبی بننے کی جرأت ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب واقعات و دلائل سے مولوی صاحب کے ان اعتراضات کی تردید کرتے تھے۔ آخر جب مولوی صاحب نے یہ کہا کہ چونکہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کی حمایت لازم ہے اور یہی کچھ اخبار میں کرنا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب نہیں ہو سکتا، تو ڈاکٹر صاحب کو اس پر سخت طیش آیا۔ مولانا سے کہا، ’اگر آپ اِس وقت یہاں سے تشریف لے جائیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ میں اِس وقت غصے سے کانپ رہا ہوں۔ شاید مجھ سے کوئی گستاخی ہو جائے۔ غضب خدا کا ایک ایسا شخص جو اپنے اخبار میں روزوں کے فضائل اور ماہ رمضان کی برکات پر مضامین لکھتا ہے اور خود ایک بھی روزہ نہیں رکھتا، بلکہ دفتر میں ڈٹ کر حقہ پیتا ہے، وہ اگر اُس کو عالمگیر مذہب نہیں کہتا تو کون سے تعجب کی بات ہے۔‘ غرض مولوی صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔‘‘۴ ۴ چالیس برس قبل جب سر سید احمد خاں، علی گڑھ میں اسکول کی بنیاد رکھ رہے تھے، اونچے طبقے نے سید کے مذہبی افکار کی بجائے مولویوں کی روایتی تعبیروں کو نصاب میں رکھنے پر اِصرار کیا۔ روایتی باتیں جدید خیالات کے سامنے بند نہ باندھ سکیں۔ عبدالحق جنہوں نے بارہ برس قبل علی گڑھ میں انجمن ترقی اُردو کی بنیاد رکھی تھی، قوم کے عام افراد کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہمیت سے آگاہ نہ تھے۔ ’’افسوس ہے کہ انجمن ترقی اردو اپنی طرف سے شائع کردہ کتابوں کا کافی اشتہار نہیں دیتی،‘‘ محمد علی کو شکایت تھی۔ ’’اسے چاہیے کہ اگر کسی کتاب پر ایک ہزار روپے صرف کرے تو کم از کم دو سو پچاس اس کے متعلق اشتہاروں پر بھی صرف کرے، اخبار والے اس کے ساتھ ضرور رعایت کریں گے۔ میں نے خود ہمدرد میں یہی کیا تھا مگر خود انجمن کے کارکن اس معاملہ میں تساہل برتتے تھے۔‘‘۵ ممکن ہے تساہل کے پیچھے یہ سوچ کارفرما رہی ہو کہ عوام کو عمدہ کتابوں سے سروکار نہیں ہو سکتا۔ عبدالماجد دریابادی، ایم اے نہ کر سکے مگر بی اے تک فلسفہ پڑھ کر ملحد ہو گئے تھے۔ سائیکالوجی آف لیڈرشپ(Psychology of Leadership) کے عنوان سے انگریزی میں کتاب لکھی۔ دکھایا کہ عوام صحیح فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ رسول اکرمؐ کے بارے میں اُن عیسائی مشنریوں کی تائید کی جن کے نزدیک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ میٹھی زبان سے کام لینے والے دُنیاوی رہنما تھے۔ لندن کا بہت بڑا اشاعتی ادارہ ٹی فشر اینڈ اَنوِن (T. Fisher & Unwin) بڑے پیمانے پر یہ کتاب شائع کرنے والا تھا۔۶ ۵ مذہب اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی کانپتا ہوں پڑھ کے میں افسانہ اسرائیل کا ڈر ہے غفلت سے نہ ہو تیرا مقدر بھی وہی ’’سرو با یک مصرع از قیدِ خزاں آزاد شد زندۂ جاوید میگردی اگر موزوں شوی‘‘ ۲ جولائی ۱۹۱۵ئ۷ فارسی شعرأ کے کلام پر تضمینیں لکھی جا رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ نمرود کا شعلہ دنیا میں جل رہا ہے مگر آپ کا سوز کیوں نگاہوں سے چھپ گیا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ظاہر کی تسخیر کا شوق ہو تو ابراہیم کی نگاہ پیدا کرو ورنہ زمانے کی نگاہوں سے چھپے رہو۔۸ جدید تعلیم میں اِس ابراہیمی نظر کو پیدا کرنے کا سامان نہیں تھا۔ اس کے اثرات آیندہ نسلوں تک دکھائی دے رہے تھے۔ ۹ تہذیب صرف عقل کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی دیوانگی بھی زندگی کا حصہ تھی۔۱۰ جدید تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اپنے آپ کو باقی معاشرے سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں پرواز سے محروم پرندوں کی طرح تھے۔ افلاطون کے پھینکے ہوئے دانے دنکے کو راستے کی خاک سے اُٹھانے پر مجبورتھے۔ اُس مسلمان قوم کے احوال سے بے خبر تھے جو آزاد پرندوں کی طرح فضاؤں میں رزق تلاش کرنا چاہتی تھی۔ پرندوں کا باہمی ’مکالمہ‘ اس مہینے سات اشعار کی چھوٹی سی نظم کی صورت میں نمودار ہوا۔ آگے چل کر اقبال کی شاعری کی اہم ترین علامت کو جنم دینے والا تھا: شاہین، جس کے کچھ حوالے مثنوی میں بھی آ چکے تھے!۱۱ شعور جسم کی قید سے آزاد ہو کر اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر پہنچا تو صدا آئی کہ کعبے کو نئی نسل کے تعلیم یافتہ مسلمانوں سے شکایت ہے کہ اپنی قوم سے کٹ کر غیر کے ہاتھوں میں بکنے والی چیز بن گئے۔ فارسی شاعر انیسی شاملو کی بات ان نوجوان پر پوری اترتی ہے: وفا آموختی از ما، بکارِ دیگراں کردی ربودی گوہرے از ما نثارِ دیگراں کردی ۱۲ ۶ شیخ سعدی شیرازی کی بہترین سوانح مولانا حالی نے لکھی تھی۔ جنت میں دونوں کی ملاقات ہوئی تو سعدی نے ہندوستان کے مسلمانوں کا حال پوچھا جو صدیوں تک اُن کی لکھی ہوئی گلستان اور بوستان سے تعلیم کا آغاز کرتے رہے تھے۔ حالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہا کہ آنحضورؐ کے سامنے مت کہیے گا کہ قوم کی غیبت نہ ہو ورنہ ہماری حالت آپ کے اس شعر کے مطابق ہے: خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم ’فردوس میں ایک مکالمہ‘ میں اقبال کو بہت سے مصرعے بار بار کاٹ کر دوبارہ لکھنے پڑے۔۱۳ ۷ ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے ہے لازوال دَورِ خزاں اس کے واسطے کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے ہے تیرے گلستاں میں بھی عہدِ خزاں کا دور خالی ہے جیبِ گل زر کامل عیار سے جو نغمہ زن تھے خلوتِ اوراق میں طیور رخصت ہوئے ترے شجرِ سایہ دار سے شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو ناآشنا ہے قاعدئہ روزگار سے ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ! تیسرے شعر میں ’’دَورِ خزاں‘‘ آیا تھا۔ وہ ’’عہدِ خزاں‘‘ ہوا۔ آخری شعر میں ’’رابطۂ پائیدار‘‘ لکھا تھا۔ پھر اسے ’’رابطۂ استوار‘‘ بنایا۔ غالب نے بھی کہا تھا کہ وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے۔ ۸ اسلام کی نظر سے تاریخ کو دیکھتے تو وہ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی۔ جنگ یرموک میں ایک نوجوان آنحضورؐ کے دیدار کے شوق میں سب سے پہلے جنگ پر جانے کی اجازت لینے آیا تو حضرت ابو عبیدہ جراح کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا کہ شہادت کے بعد آنحضورؐ کی خدمت میں پہنچ کر صحابہ کی طرف سے کہنا: ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضورؐ نے ۱۴ ۹ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا جواب پا کر شاکر صدیقی کی ہمت بڑھ گئی کیونکہ اُنہوں نے ایک نظم اصلاح کے لیے بھیج دی۔ غیرضروری الفاظ کی بھرمار تھی اور بعض محاورے غلط تھے مثلاً سر کی بجائے دل میں سودا ہونے کا ذکر تھا۔ بعض الفاظ مثلاً ’’تعاقب‘‘، ’’چونکہ‘‘ وغیرہ اقبال کے نزدیک شعری زبان کے لیے مناسب نہ تھے۔ مرکب کی عنان بھی اقبال کو کھٹک رہی تھی۔ عام طور پر مرکب کی زمام اور شتر کی عنان سننے میں آتا تھا۔ ایک مصرعے میں ’’ہ‘‘ تقطیع سے گر رہی تھی۔ شاکر نے فارسی مثنوی کے بارے میںبھی دریافت کیاتھا۔’’مثنوی کا دیباچہ کسی قدر پیامات کے سمجھنے میں مُمّد ہوگا،‘‘ اقبال نے ۶ جولائی کو لکھا۔ ’’وہاں لفظ خودی کی بھی تشریح ہے۔آپ کی نظم اچھی ہے مگر اس میں بہت سے نقائص ہیں۔ میں نے اُن پر نشان کر دئیے ہیں۔ اصلاح کی فرصت نہیں رکھتا۔ ماسٹر نذر محمد کو دکھائیے۔۔۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ نظم طویل ہے۔‘‘ ۱۰ جولائی کے دُوسرے ہفتے میں اقبال کی بیویوں میں سے کوئی بیمار ہو گئیں۔پریشان رہے۔ کشن پرشاد کا خط ملا۔ انہوں نے شادی کے معاملے میں تثلیث سے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ۱۳ جولائی کو مومن استرآبادی کا ایک شعر ذہن پر طاری ہو گیا جسے اگلے روز تک شاید سیکڑوں باردہرایا کہ تم جو کہتے ہو کہ عشق کو ہجر کے درد کی دوا بنایا گیا ہے، کاش یہ بتا دو کہ ہجر کا علاج کیا ہے : اے کہ گوئی عشق را درمانِ ہجراں کردہ اند کاش می گفتی کہ ہجراں را چہ درماں کردہ اند ۱۴ جولائی کو کشن پرشاد کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ رعایا اپنے بادشاہوں کے مذہب پر چلتی ہے۔۱۵ ۱۱ دھنپت رائے جنہوں نے کبھی منشی پریم چند کے نام سے مخزن میں بھی افسانے لکھے تھے اب نیا مجموعہ شائع کروانے چلے تھے۔ کشن پرشاد کی کتاب پریم پچیسی کا ہم نام تھا۔ اقبال سے رائے مانگی ہو گی کیونکہ اقبال نے اسے اردو ادب میں نہایت قابلِ قدر اضافہ بتاتے ہوئے لکھا، ’’چھوٹے چھوٹے نتیجہ خیز افسانے جدید لٹریچر کی اختراع ہیں۔ میرے خیال میں آپ پہلے شخص ہیں جس نے اس دقیق راز کو سمجھا ہے اور سمجھ کر اس سے اہلِ ملک کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ان کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف انسانی فطرت کے اَسرار سے خوب واقف ہے اور اپنے مشاہدات ایک دلکش زبان میں ادا کر سکتا ہے۔‘‘۱۶ ۱۲ جنگ شروع ہونے کے بعد ہمدرد کی اشاعت دس ہزار کے قریب جا پہنچی تھی۔ اب حکومت نے اُس پر سنسر بٹھا دیا۔ ۱۳ جماعت علی شاہ مشہور پیر تھے۔ اقبال انہیں اُس وقت سے جانتے تھے جب وہ گدی نشین نہیں ہوئے تھے۔ اقبال سے روایت ہے کہ ایک بار بنگلور میں پیر صاحب کی وجہ سے بہت بڑا فساد ہونے والا تھا جب وہاں کے مسلمانوں نے اقبال کو خط لکھا کہ وہ اُن کے حالات کسی رعایت کے بغیر لکھ کر بھیج دیں۔ تب مسئلہ سلجھا اور پیرصاحب اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے۔ ۱۷ ۱۴ محمد دین فوق کا رسالہ طریقت صوفیوں میں مقبول ہو رہا تھا۔ اشاعت دو ہزار تک پہنچی تھی۔۱۸ بنام محمد دین فوق ڈیر فوقؔ السلام علیکم۔ کیا آپ آج کل لاہور میں ہیں یا میراکدال میں؟ ایک دفعہ آپ نے کشمیری میگزین میں میرے حالات شائع کئے تھے اگر اُس نمبر کی کوئی کاپی آپ کے پاس رہ گئی ہو تو ارسال فرمائیے پھر واپس کر دی جائے گی۔ اگر پاس نہ ہو تو کہیں سے منگوا دیجئے۔ زیادہ کیا عرض کروں، آپ کبھی ملتے ہی نہیں۔ اب تو پیرِ طریقت بھی بن گئے ۔ خدا کرے کہ جلد حافظ جماعت علی شاہ صاحب کی طرح آپ کے ورودِ کشمیر کے متعلق اطلاعیں شائع ہوا کریں۔ والسلام۔ اس کارڈ کا جواب جلد ملے۔ آپ کا خادم محمد اقبال لاہور ۲۳ جولائی ۱۹۱۵ء دوسرا حصہ ۱۵ شاکر صدیقی کے مرکب کی عنان کو زمام سے بدلوانے کے بعد دل میں شبہ پیدا ہواتھا۔ فارسی کی لغات میں جستجو کی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ کے زمانے کے مشہور فارسی دان لالہ ٹیک چند بہارؔ کی لغت بہارِ عجممیں دیکھا کہ زمام کا لفظ مرکب کے ساتھ بھی آ سکتا تھا۔ سند نہ دی گئی تھی مگر لالہ جی کے بیان پر سند کے بغیر بھی اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ ۱۶ عید مبارک کے ساتھ شاکر صدیقی نے ہلالِ عید پر اپنی نظم اصلاح کے لیے بھیجی۔ ’’الفاظ کے اعتبار سے اس نظم میں کوئی خامی نہیں ہے معانی کے اعتبار سے البتہ بعض شعر قابلِ اعتراض ہیں،‘‘ اقبال نے ۱۳ اگست کو مختصر سی رائے بھیجی۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ جو فارسی ترکیبیں آپ استعمال کرتے ہیں ان کا مطلب اچھی طرح سے نہیں سمجھتے۔ والسلام، آپ کو بھی عیدمبارک ہو۔‘‘ غالباً اگلے روز ۱۴ اگست کو اُنہیں اپنے بارے میں شاکر صدیقی کی نظم موصول ہوئی: یعنی مدہوشوں کو تو آمادۂ پیکار کر اقبال کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ ’’یہ آنسو خوشی کے نہ تھے بلکہ تاسف کے،‘‘ اگلے روز شاکر کوایک اور خط میں لکھا۔ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے ظن کو جو میری نسبت ہے صحیح ثابت کرے اور مجھ کو اِن باتوں کی توفیق عنایت کرے جن کا آپ ذکر کرتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو بھی اجرِ جزیل عطا کرے۔‘‘ پھر بھی مدہوشوں کو جنگ پر لے جانا مضحکہ خیز بات تھی،’’اِس مصرعے میں پیکار کا لفظ ٹھیک نہیں ہے یوں کہہ سکتے ہیں: یعنی اپنی محفلِ بیہوش (یامدہوش) کو ہشیار کر‘‘ نظم کی باقی خامیاں دوچار بار پڑھنے سے واضح ہو سکتی تھیں مگر نظم کو شائع نہ کیا جائے۔ ’’میرے لیے پرائیویٹ شرمندگی کافی ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اس کے علاوہ یہ آپ کے پرائیویٹ تاثرات ہیں پبلک کا ان سے آگاہ ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد زمام اور عنان کے بارے میں اپنی غلطی کا ذکر کیا۔ ’’یہ اس واسطے لکھتا ہوں کہ آپ اُس غلطی میں مبتلا نہ رہیں جو میری لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘‘ ۱۷ ۱۹ اگست کو اقبال نے علی گڑھ کالج کی ٹرسٹی شپ سے استعفیٰ دے دیا۔’’میں بوجہ علالت کبھی اجلاس میں حاضر نہیں ہو سکا اور نہ دیگر فرائض کو ادا کر سکا ہوں جو ٹرسٹی شپ سے متعلق ہیں،‘‘ کالج کے سیکرٹری نواب محمد اسحٰق خاں کے نام استعفے میں لکھا۔’’اِن حالات میں پنجاب سے کسی مفید آدمی کا انتخاب کرنا اچھا ہوگا۔‘‘ ۱۸ شاکر صدیقی نے کوئی نظم اصلاح کے بعد دوبارہ بھیجی۔شاید وہی جو اقبال کی تعریف میں لکھی گئی تھی۔ ’’یہ نظم ویسی ہے جیسی پہلے تھی،‘‘ اقبال نے۲۲ اگست کو خط کی پشت پر لکھا۔ ’’مضمون یعنی موضوع انتخاب کرنے میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ بعض اشعار ایسے ہیں کہ ان کے پڑھنے سے ہنسی آتی ہے اور مصنف کی نسبت اچھا خیال دل میں نہیں بیٹھتا۔ والسلام۔ مجھے فرصت کم ہوتی ہے اس واسطے پے درپے خطوط کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔‘‘ ۱۹ سینسر کی پابندیوں نے اخبار ہمدرد کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ اُس مہینے بند ہو گیا۔ ۲۰ نظام حیدرآباد شملہ آ ئے تھے۔ افواہ گرم تھی کہ حکومت نے انگریز وزیراعظم رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رد کر دیا۔ شملے سے دوستوں نے اقبال کو بھی خط لکھے مگر یہ دوسری الجھنوں میں گرفتار تھے۔ سید علی بلگرامی مرحوم کا خاندان حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ لڑکی کی شادی ہونے والی تھی۔ مسز بلگرامی نے مدعو کیا تھا مگر دُوردراز سفر کرنا اختیار میں نہ تھا۔ بیوی کی طبیعت ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ طبیعت پر سخت بوجھ پڑا۔ کشن پرشاد کا خط آیا تو کئی دن دھرا رہا۔۱۹ ۲۱ ’’ممکن ہوتا تو عرض کرتا کہ کس طرح لاہور میں بیٹھا شملہ کی باتیں سنتا ہوں،‘‘ آخر ۳۰ اگست کو کشن پرشاد کا دل بڑھاتے ہوئے لکھا۔ ’’میرے کان وحدت الوجود کا مراقبہ رکھتے ہیں اس واسطے جہاں کہیں کوئی آواز ہو میرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اسباب نہایت عمدگی سے جمع ہو رہے ہیں اور ان کے مجموعی اثر کے ظہور کا وقت بھی قریب ہے۔ میں تو وہ آدمی ہوں کہ وقت سے پہلے کسی چیز کی خواہش و آرزو نہیں کرتا۔ معلوم نہیں اس بارے میں آپ کا خیال یا طرزِ عمل کیا ہے؟‘‘ ۲۲ والدہ مرحومہ کی یاد میں ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں ہے شکست انجام غنچے کا سبو گلزار میں سبزۂ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں نغمۂ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں نغمہ رہ جاتا ہے، لُطف زیروبم رہتا نہیں علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں جانتا ہوں آہ، میں آلام انسانی کا راز ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز میرے لب پر قصۂ نیرنگی دوراں نہیں دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں پر تری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے گریۂ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہربار کے علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آئوں گا! تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزّت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر! کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں! کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے! قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں اک متاع دیدئہ تر کے سوا کچھ بھی نہیں ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دَور بھی ہیں پس نہ پردئہ گردوں ابھی دَور اور بھی سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں زندگی محبوب ایسی دیدئہ قدرت میں ہے ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا اس روش کا کیا اثر ہے ہیئت تعمیر پر یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو آہ سیماب پریشاں، انجم گردوں فروز شوخ یہ چنگاریاں، ممنون شب ہے جن کا سوز عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے خودنمائی، خودفزائی کے لیے مجبور ہے سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا دل مگر غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے حلقۂ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے وقت کے افسوں سے تھمتا نالئہ ماتم نہیں وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں سر پہ آجاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں اشک پیہم دیدئہ انساں سے ہوتے ہیں رواں ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے خون دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے آدمی تاب شکیبائی سے گو محروم ہے اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے ق جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح لالۂ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے سینکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے سازگار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے بند اول و دوئم: نظامِ عالم کے قوانین اٹل ہیں۔ قوانینِ فطرت کی محکم زنجیر میں ہر شے جکڑی ہوئی اور مجبور ہے۔ اِس واسطے جب انسان کو اِس عالمگیر مجبوری کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے مصائب پر نالاں نہیں ہوتا بلکہ آنسوؤں کا سرچشمہ خشک ہو جاتا ہے۔ عالِم کا دل گویا الماس کا ٹکڑا ہے جس میں علم کی روشنی تو ہے مگر ساتھ ہی اس میں سختی بھی پیدا ہو جاتی ہے اور سوز و گداز رخصت ہو جاتا ہے۔ بند سوئم: شاعر اگرچہ حکمت سے متاثر ہونے کے باعث رونے سے قاصر ہے تاہم محض تصویر کا نظارہ ہی اُس کے خوابیدہ تاثرات کو جگا دیتا ہے۔ بند چہارم: تاثر کی فضیلت عقل پر۔ ماں کی تصویر ایّامِ طفلی کی یاد دلاتی ہے۔ بند پنجم: ماں کے احسانوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ بند ششم: دنیا میں موت کی عمومیت اور کثرت۔ ہر جگہ اس کی حکمرانی ہے۔ کوئی مقام ایسا نہیں جہاں یہ انسانی تمناؤں کا خون نہ کرتی ہو۔ مگر یہ دنیا جہاں موت کی اتنی کثرت ہے محض امتحان گاہ ہے اور کبھی نہ کبھی یہ امتحان ضرور ختم ہو جائے گا۔ بند ہفتم: زندگی کبھی فنا نہیں ہو سکتی اور خود موت کی کثرت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کو فنا نہیں۔ قدرت اگر پیکرِ جسمانی کو توڑ دیتی ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ قدرت ظالم ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ قدرت کو اِس بات پر کامل اعتماد ہے کہ وہ ہزاروں اچھے سے اچھے پیکر اور جسم بنا سکتی ہے۔ اس بات کو ہوا اور بلبلے کی مثال سے واضح کیا ہے۔ بند ششم: رات کے تارے جو اپنی چمک دمک کے لیے تاریکی کے محتاج ہیں اور جو محض روشنی کی چنگاریاں ہیں اُن کی عمر اِس قدر لمبی ہے کہ انسانی عقل اِس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے۔ پھر انسان جو قدرت کا روشن ترین ستارہ ہے کیا ایک عارضی زندگی رکھتا ہے اور روشنی کی آسمانی چنگاریوں سے بھی گیا گزرا ہے؟ نہیں اُس کی عمر ستاروں کی عمر سے بدرجہا زیادہ ہے۔ یہ ایک نہ بجھنے والا چراغ ہے۔ بند نہم: پھول کے بیج کی مثال سے قبر سے دوبارہ اُٹھنے کو واضح کرتا ہے اور اس کے امکان پر استدلال کرتا ہے۔ بند دہم: آدمی اگر کچھ وقت کے بعد اپنے مصائب اور غم کو بھول جاتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وقت میں کوئی پوشیدہ قوت ہے جس سے وہ انسانی غموں کو فنا کر دیتا ہے۔ ہم جو مرنے والوں کو فراموش کر دیتے ہیں تو یہ فراموشی وقت کے گزر جانے کا اثر نہیں بلکہ ہماری فطرت میں ایک احساس مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو فنا نہیں ہوتا۔ اس لطیف احساس کی وجہ سے ہمارا غم دُور ہو جاتا ہے۔ پس گزرے ہوئے عزیزوں کی طرف سے بے پرواہی اور گونہ غفلت روح کے اِس مخفی احساس کی وجہ سے ہے کہ ہمارے عزیز زندہ موجود ہیں۔ اگر وہ حقیقت میں فنا ہو چکے ہوتے تو یقینا ہمارا غم کبھی ختم نہ ہوتا۔ گویا اِس بند میں اور اس سے پہلے کے بندوں میں چار باتوں سے حیات بعد الموت کا استدلال کیا ہے۔ ۱۔ موت کی عمومیت و کثرت سے ۲۔ رات کے تاروں سے ۳۔ پھول کے بیج سے ۴۔ انسان کی ظاہری فراموشی سے جو عام لوگوں کے نزدیک مرورِ زمانہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بند یازدہم: عالم فلسفہ حیات اور دعائیہ اشعار محمدؐ اقبال ۲۰ ۲۳ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کاتب سے خوشخط لکھوا کر آخری دو صفحوں پر میاں جی کے لیے ہر بند کا مرکزی خیال اپنے قلم سے لکھا اور سیالکوٹ بھجوا دیا۔۲۱ تیسرا حصہ ۲۴ ۳ ستمبر کو سلطنت ِعثمانیہ نے کچھ سرحدی علاقہ دے کر پرانے دشمن بلغاریہ کو بھی جنگ میں اپنے ساتھ ملا لیا۔ ۲۵ ۸ ستمبر کو سرخوش ؔ کے کلمات الشعرأ میں ایک ایرانی شاعر ملا محمد سعید اعجاز کا شعر نظر سے گزراکہ میں نے جنون سے ایک ایسا پیالہ بھرا ہے کہ اب ہوش نہیں رہا۔ شراب بیچنے والے کے ساتھ پھر میرا کوئی معاملہ نہیں ہوا: کشیدہ ام زجنوں ساغرے کہ ہوش نماند دگر معاملہ با پیرِ مے فروش نماند لکھ کر اکبرؔ الٰہ آبادی کو بھیج دیا کہ وہ بھی اس شعر کی لذت یا دُکھ میں شریک ہو جائیں۔۲۲ ۲۶ کشن پرشاد نے شبہ ظاہر کیا کہ کہیں اقبال سیاستدان تونہیں بننے والے۔۹ ستمبر کو خط ملتے ہی اقبال نے جواب میں کلمات الشعرأ والا شعراُنہیں بھیجتے ہوئے لکھا، ’’میرے عریضے کا کچھ حصہ پولٹیکل رنگ میں رنگین تھا تو اس میں تردد کی کوئی بات نہیں۔ آپ مطمئن رہیں اقبال کبھی پولٹیشن نہیں بنے گا۔ وہ تو ایک راز کی بات تھی جس کا کھل جانا شاید یقینی ہے۔ بہرحال آپ کا اصول بہتر ہے یعنی سکوت۔‘‘ اس کے بعد مزاحاً لکھا کہ جس زمانے میں زندہ تھے یا دل زندہ تھے، تجربے نے سکھایا تھا کہ جس معشوق سے زیادہ محبت ہو اُس سے اصولاً زیادہ بے اعتنائی کرنی چاہیے چنانچہ ایک رسالہ اجرالسکوت نامی لکھا تھا کہ تماش بینوں کے کام آئے اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتا تھا۔ ’’مگر اب اُس کا نشان باقی نہیں کہ وہ محرکات نہیں جو اس کی تصنیف کا باعث ہوئے۔ غرض کہ سکوت بڑی اچھی چیز ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کام دیتی ہے۔‘‘ عین اُس وقت یونین اسٹیم پریس میںمثنوی طباعت کے آخری مراحل سے گزر رہی تھی۔ سرورق دو رنگوں میں علیحدہ چھَپ رہا تھا۔کتابیں عام طور پر جلد کے بغیر تیار ہوتی تھیں۔ پھر وقتاً فوقتاً تھوڑی تھوڑی تعداد میں کچھ نسخوں پر جلد بندھوائی جاتی رہتی جس پر کتاب کا نام اور کبھی کبھی مصنف کا نام بھی کندہ کروایا جاتا یا کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر چسپاں کر دیا جاتا۔ جلد پر باقاعدہ طباعت کرنے کا رواج نہ تھا۔ گردپوش بھی عام نہ ہوئے تھے۔ ۲۷ اگلے برس ولیم شیکسپئر کی وفات کو تین سو برس پورے ہو رہے تھے۔ سر اِسرائیل گولانکز دنیا بھر کے شاعروں کے خراج تحسین پر مبنی کتاب ترتیب دے رہے تھے: Book of Homage to Shakespeareپانچ برس پہلے اقبال نے بیاض میں جو نظم ادھوری چھوڑی تھی اُسے مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ۲۸ خیال کیا جاتا ہے کہ ۱۲ ستمبر کو مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کے اولین نسخے شائع ہو کر پریس سے نکلے۔ یہ اُس دَور کا باقاعدہ آغاز تھا جسے بعد میں اقبال کی الہامی شاعری کہا گیا اور جسے تئیس برس بعد اُن کی وفات کے ساتھ ہی آخری شعری تصنیف کی اشاعت پر ختم ہونا تھا۔۲۳ باب ۳ نظام الدین اولیأ کی بستی ستمبر ۱۹۱۵ء سے اگست ۱۹۱۶ء جملہ حقوق محفوظ اِن من الشعر لحکمۃ مثنوی اَسرارِ خودی از ڈاکٹر شیخ محمدؐ اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور باہتمام حکیم فقیر محمدؐ صاحب چشتی نظامی در یونین اسٹیم پریس لاہور طبع کردید بار اول تعداد ۵۰۰ ۱ کتاب کا سائز ۱۲x ۱۵ سینٹی میٹر تھا۔ سرورق کی عبارت سبز تھی جس کے حاشیے پر سرخ پھول پتیوں کی بیل تھی۔ ہر صفحے پر چھ اَشعار تھے۔ ابتدائی بارہ صفحات کے علاوہ ۱۵۵ صفحے تھے۔ پچھلی طرف کے سرورق پر درج تھا: اطلاع (بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ئ) مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ لہٰذا کوئی صاحب قصدِ طبع نکریں۔ مصنف بقلم مرغوب رقم مینجر مرغوب ایجنسی لاہور ۲ مولانا روم سے پچاس برس پہلے نظامی گنجوی نے اسلامی تصورِ خدا کے پانچ اجزأ کے بارے میں علیحدہ علیحدہ مثنوی لکھی تھی۔پہلی مثنوی کے آغاز میں کہا کہ اُس میں فقر اور شاہی کا سرمایہ اِکٹھا ہے اور خدا کے راز چُھپے ہیں: مایۂ فقر و شاہی در اُو مخزنِ اَسرارِ الٰہی در اُو صدیوں بعد اقبال نے یہی دعویٰ کیا تھا۔ نظامی کی پہلی مثنوی کا نام مخزنُ الاَسرار تھا۔ اقبال کا کلام پہلے مخزن میں چھپا۔ اَب ’اَسرارِ خودی‘ کے نام سے سامنے آیا تھا۔ حق کہہ حق ہی نے قوموں کو اُبھارا اقبالؔ حق ہے سینے میں ترے مخزنِ اَسرار ہے تُو۱ ۳ اقبال کا پیغام بیخودی تھا۔ اُسے پیش کرنے سے پہلے ’اَسرارِ خودی‘ اِس لیے ضروری تھی کہ عام طور پر حقیقت سے فرار کی کیفیت کوبیخودی سمجھا جاتا تھا۔ اس کی ایک قسم وہ تھی جو غنائیہ شاعری کے پڑھنے سے پیدا ہوتی تھی۔ نشے جیسی کیفیت کہ کچھ دیر کے لیے انسان اپنے آپ کو بھول جاتا۔ بعض صورتوں میں مفید بھی ہوتی۔ بیخودی کی دوسری قسم جو ہندو جوگیوں اور دوسرے مذاہب کے صوفیوں میں سے بعض کو پسند تھی یعنی اپنے آپ کو خدا کی ذات میں فنا کرنا، وہ تمام مذہب اور اَخلاق کی جڑ کاٹتی تھی۔ سچی بیخودی اپنے آپ کو خدا کی ذات میں نہیں بلکہ اُس کے احکام میں فنا کرنے سے پیدا ہوتی تھی۔ اِنسان اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو چھوڑ کر اُن احکامات کا اِس طرح پابند ہو جائے کہ نتائج کی پروا نہ رہے۔ اپنی ذات کو قوم کے وجود میں ’’فنا‘‘ کرنا اس کی عملی صورت تھی۔ یہ بات سمجھانے کے لیے پہلے ’اَسرارِ خودی‘ لکھنی ضروری تھی۔ اب دوسرا حصہ لکھا جانا تھا۔۲ ۴ ۱۲ ستمبر کو’اَسرارِ خودی‘ کشن پرشاد کو معذرت کے ساتھ بھیجی، ’’ اس کی چھپائی وغیرہ کچھ دلکش نہیں۔ مگر اس خیال سے کہ میں زیادہ روپیہ اس کی اشاعت پر خرچ کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا۔۔۔‘‘ نواب سر ذوالفقار علی خاں کے نزدیک یہ مثنوی ایک نئے ادب کی بنیاد تھی۔ نئے طریقِ تربیت کا آغاز تھی: The poem forms a unique piece of literary art. It establishes a new system of character-training. It formulates a philosophy which will produce saviours of a misguided world. What flavours and forces do we not find mingled in it? It has fire and courage which make the soul restless. It directs thought into new channels. It inspires self-confidence in palsied wills to climb ice and frowning heights.۳ ۵ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ ’اسرارِ خودی‘ کا ایک نسخہ اقبال نے اپنے والد کی خدمت میں بھیجا۔ وہ عام طور پر صبح کے وقت بڑے شوق سے پڑھنے لگے۔۴ ۶ گورنمنٹ کالج کے زمانے کے دوست میر غلام بھیک نیرنگ جو اَب لاہور سے باہر رہتے تھے، انہیں بھی ’اَسرارِ خودی‘ بھیجی گئی۔ ’’اس سے پہلے میں آگاہ نہ تھا کہ اِس قسم کی کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے۔ اس میں تصوف اور خواجہ حافظ پر جو سخت گیری کی گئی ہے، وہ مجھ کو ناگوار گزری اور میں نے اقبال کو ایک طومارِ اختلاف لکھ کر بھیجا اور اُس خط میں یہ بھی لکھا کہ میں اِس بارے میں مفصل مضمون لکھ کر شائع کروں گا۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ ابھی آپ اِشاعت کے لیے کچھ نہ لکھیں، پہلے مجھ سے بالمشافہ مبادلۂ خیالات ہو جائے، پھر اگر آپ ضروری سمجھیں تو اپنے خیالات کو لکھ کر شائع کر سکتے ہیں۔ اِس ضمن میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ میں نے اِس [کذا؟] مرتبہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خیالات قائم کئے ہیں۔ اِس سے میں متنبہ ہوا اور میں نے اپنی تنقید کو لکھ کر شائع کرنے کا اِرادہ ترک کر دیا۔ البتہ وقتاً فوقتاً خطوط میں اور زبانی اقبال سے مذاکرہ ہوتا رہا۔‘‘۵ ۷ اسلامیہ کالج کے علاوہ لڑکیوںکے دو پرائمری اسکول اور لڑکوں کے لیے دو ہائی اسکول انجمن حمایت اسلام کے تحت چل رہے تھے۔ ۱۵ ستمبر کو لڑکوں کے لیے تیسرے اسکول کا افتتاح ہوا۔ موچی دروازے کے باہر ایک کرائے کی کوٹھی میں مڈل اسکول کھولا گیا تھا۔ زیادہ موزوں جگہ کی تلاش جاری رہی۔۶ ۸ مرزا سلطان احمد جنہوں نے پچھلے برس اگست میں لندن سے اقبال کی حمایت میں مضمون مخزن کو بھجوایا تھا، واپس آ چکے تھے۔ ضلع روہتک میں سونی پت میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ اقبال نے فرمائش کی تو ’اَسرارِ خودی‘ پر تبصرہ لکھنے کی حامی بھر لی۔۷ ۹ نظربندی کے عالم میں محمد علی کا بیشتر وقت قرآن شریف پڑھنے میں صرف ہوتا۔ ’’میری پہلی زندگی اور بعد کی زندگی میں علاوہ بیشتر پابندیٔ احکامِ شریعت کے بس اِس قدر فرق ہے کہ پہلے میں اسلام سے کم واقف تھا اور ایک معنی میں اس پر بڑی حد تک ایمان بالغیب تھا،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’اور جب سے نظربندی کے زمانے میں، میں نے قرآن کریم پہلی بار شروع سے آخر تک بامعنی اور سمجھ کر پڑھا میں سمجھتا ہوں (اِس سے زیادہ دعویٰ کیا کروں؟) کہ میں اسلام کے جوہر اور اُس کی روح کو سمجھ گیا ہوں۔‘‘۸ ستمبر میں اقبال کی طرف سے چھوٹا سا پارسل موصول ہوا۔ اس میں ’اسرارِ خودی‘تھی۔ ’’اگر کسی نے اقبال سے عقیدت رکھنے میں مجھ سے برابری کی بلکہ مجھ سے بازی لے گیا وہ میرے بھائی [شوکت علی] تھے،‘‘ محمد علی کا بیان ہے۔ ’’لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اِس دفعہ اقبال نے اپنی مثنوی فارسی میں لکھی ہے جس کے لئے انہیں اور مجھے اُس فارسی کی تحصیل کو تازہ کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے برسوں پیشتر اپنے لال داڑھی والے ملا صاحب سے رامپور کے مکتب میں کی تھی تو انہوں نے زور شور کے ساتھ اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ بہرحال ہم نے اقبال کی اسرارِ خودی پڑھنی شروع کی اور بتدریج ان کا غصہ فرو ہونے لگا۔۔۔ ’’جونہی ابتدائی باب ختم ہوا جس میں انہوں نے اپنے فلسفہ کا موضوع پیش کیا ہے اور اپنے مشرقی مطالعہ کنندگان کے آگے پرانی اصطلاحات کے نئے معنوں کی وضاحت کی ہے۔۔۔ ہم نے محسوس کیا کہ مرمر کی مورتوں میں بھی زندگی کا سیلِ آتش دوڑنے لگا ہے۔۔۔ ’’اسلامی ادبیات میں یہ چیز عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے معنے خدا کو کائنات کا حاکمِ مطلق تسلیم کرنا اور اس کی مرضی کے آگے اپنی گردن جھکا دینا ہیں۔ لیکن ہمارے مقتدایانِ دین کی نظر میں یہ بات اتنی معمولی تھی کہ وہ اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھتے تھے اور ہم اِس کی کنہہ سے بالکلیہ لاعلم ہونے کے باوجود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ گویا پوری طرح واقف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی اور ضرورت تھی کہ نئی قوت اور پورے زور کے ساتھ اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے۔۔۔‘‘۹ ۱۰ ایک انگوٹھی میں یہ کرامت تھی کہ جس کے پاس ہوتی وہ خدا اور بندوں کی نظروں میں محبوب ہو جاتا۔ پشت در پشت منتقل ہوتے ہوئے یہ ایسے شخص کے پاس پہنچی جس کے تین لڑکے تھے۔ اس نے دو نقلیں تیار کروائیں اور ہر لڑکے کو ایک ایک انگوٹھی دے دی۔ باپ کی موت کے بعد ہر لڑکے نے دعویٰ کیا کہ اصل انگوٹھی اُسی کے پاس ہے۔ کسی دانا نے کہا کہ اصل اور نقل کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں انگوٹھیاں نقلی ہوں اور اصل انگوٹھی پہلے کبھی کھو گئی ہو۔ اب جسے یہ معلوم کرنا ہے کہ اُس کی انگوٹھی اصلی ہے یا نہیں اُسے چاہیے کہ ایسی زندگی بسر کرے کہ خدا اور بندوں کی نظروں میں محبوب ہو جائے بجائے انگوٹھی سے توقع کرنے کے کہ وہ اُسے ایسا بنا دے گی۔ یہ کہانی یورپی ادب میں صدیوں سے موجود تھی۔ اٹھارہویں صدی کے جرمن ڈرامہ نگار نقاد گاٹہلڈ افرام لیسنگ (۱۷۸۱-۱۷۲۹) (Gotthold Lessing) نے اپنے ڈرامے عقلمند ناتھن(Nathan der Weise) (۱۷۷۹) میں مذہب کے بارے میں اپنا تصور واضح کرنے کے لیے اسے استعمال کیا: ’’اگر تم تینوں نے اپنی اپنی انگوٹھیاں اپنے باپ کے ہاتھوں سے وصول کی ہیں تو تم میں سے ہر ایک کو اپنی انگوٹھی کو اصل سمجھنا چاہیے۔ جان لینا چاہیے کہ باپ کو تم تینوں سے محبت ہے۔‘‘ لیسنگ کے ڈرامے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے یروشلم میں رہنے والا ایک یہودی سفر سے واپس آتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عیسائی ٹمپلر نائٹ نے اُس کی بچی کو آگ میں جلنے سے بچایا اگرچہ اُس عیسائی کو یہودیوں سے نفرت تھی۔ اَب عیسائی کو یہودی کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہودی پر اِلزام لگتا ہے کہ لڑکی اُس کی اپنی نہیں بلکہ کسی عیسائی کی ہے جسے اُس نے پالا اور اُس کا مذہب بدل ڈالا۔ مقدمہ سلطان کے سامنے پیش ہوتا ہے جو نائٹ ٹمپلر کے ساتھ لڑکی کی شادی کرنے کے لیے یہودی سے اجازت طلب کرتا ہے۔ تب یہودی انکشاف کرتا ہے کہ نائٹ ٹمپلر اُس لڑکی کا حقیقی بھائی ہے۔ دونوں بہن بھائیوں کا باپ سلطان کا مرحوم بھائی تھا جس نے ایک عیسائی عورت سے شادی کر کے جرمن نام اختیار کیا۔ یوں اُس لڑکی کی صورت میں جس کا بھائی عیسائی، سرپرست یہودی اور چچا مسلمان ہے، تینوں مذاہب وہی انگوٹھیاں بن جاتے ہیں جن کی کہانی کبھی یہودی نے سلطان کو سنائی تھی۔ لیسنگ جرمنی میں اُس رجحان کا نمایندہ تھا جسے آگے چل کر روشن خیالی (Enlightenment) کا نام دیا گیا۔ اُس نے جرمنی میں شیکسپئر کے سنجیدہ مطالعے کو فروغ دیا۔ جرمن ڈرامے کو فرانسیسی ادب کی روایت سے اور مذہب کو کلیسا کے تسلط سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔ فری میسن تحریک سے تعلق رکھتا تھا جو اُنہی ٹمپلر نائٹوں کی جانشین سمجھی جاتی تھی جن کا تذکرہ لیسنگ کے ڈرامے میں تھا۔ اُس کے ادبی نظریات نے جرمن قوم میں خوداعتمادی پیدا کی۔ بعد میں گوئٹے اور ہائنے جیسی ہستیاں ظاہر ہوئیں۔ اگلی صدی میں اس کہانی نے بڑی تبدیلیوں کے ساتھ یہودی فرانسیسی موسیقار فرامنٹل آلیوی (Fromental Halevy) کے ۱۸۳۵ء کے اوپرا لاژویو (Le Juive) اور انگریز ڈرامہ نگار ولیم ٹامس منکریف (William Thomas Moncrieff)کے ڈرامے دی جیویس (The Jewess) کی صورت اختیار کی۔ اِس کا محلِ وقوع سلطان صلاح الدین کے یروشلم سے قرونِ وسطیٰ کا یورپ ہو گیا۔ فلسفیانہ مباحث نکل گئے ۔ پلاٹ زیادہ چست مگر کردار بیجان ہو گئے۔ محبت کرنے والوں کی موت پر کہانی کا انجام دکھایا گیا۔ آغا حشر کاشمیری نے بظاہر منکریف کے ڈرامے سے پلاٹ لے کر یہودی کی لڑکی لکھا۔اُن جیسے وسیع مطالعہ رکھنے والے عالم سے بعید نہ تھا کہ لَیسنگ کے ڈرامے سے بھی واقف رہے ہوں۔ پھر بھی لَیسنگ کی روشن خیالی کے مقابلے میں اسلامی مزاج کا فرق اِس بات میں تھا کہ مستند صوفیا کے نزدیک مذاہب کے اختلافات کی مثال یوں تھی کہ اندھیرے کمرے میں بہت سے لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔اندھیرے کی وجہ سے الگ الگ سمتوں میں رُخ کیے ہوئے ہیں۔ جب روشنی ہو گی تو سب اپنی سمتیں بدل کر ایک ہی رخ کر لیں گے سوائے اُس کے جو پہلے ہی سے اُسی سمت میں تھا۔ اسلام میں مذہبی رواداری کی بنیاد تشکیک کی بجائے توحید پر تھی۔ یہی بات آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے میں ظاہر ہو گئی۔ ۱۰ کہانی کو قرونِ وسطیٰ کے یورپ سے اُٹھا کر رومن سلطنت کے عہد میں لے گئے جب خدائے واحد کی بجائے رومن دیوتاؤں کی پرستش کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ یوں تقابلِ مذاہب کی فلسفیانہ بحث کی بجائے شرک اور توحید کی کشمکش ڈرامے کا اصل مسئلہ بن گئی۔ حشر نے کرداروں میں جان ڈال دی۔ انجام طربیہ کر دیا جو اِس کہانی کے لحاظ سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا تھا۔ لیسنگ اور منکریف نے شیکسپئر کے اثرات کو اپنے اپنے زمانے کے تماشائیوں کے مزاج اور ضروریات کے مطابق اخذ کیا تھا۔ حشر نے بھی اپنے تماشائیوں کا لحاظ کیا۔ جنگ عظیم کے زمانے کے برصغیر کے مسلمانوں کا اضطراب جس کے اظہار پر برطانوی حکومت نے پہرے لگائے ہوئے تھے، ڈرامے کے پردے میں ظاہر ہو گیا۔ یہودی کی لڑکی آغا حشر کاشمیری [۱:۳ سے اقتباس] منادی والے کا آنا منادی والا اے باشندگانِ روم! تم کو تاجدارِ دینی کونسل کا حکم ڈھنڈورے کی بلند آواز کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ کل چونکہ رومی دیوتاؤں کا مقدس دن ہے اس لیے روم کے قانون کے مطابق ہر جگہ جشنِ عام ہو، ہر صحبت میں ہنگامۂ بادہ و جام ہو۔ تین شبانہ روز تک تعطیل ہو، ہر کام میں التوا ہو، دھندے میں ڈھیل ہو۔ جو شاہی کونسل کے خلاف عمل میں لائے گا، وہ روم کے قانون کے مطابق زندہ آگ میں جلایا جائے گا۔ ایک شخص اجی میاں منادی والے! یہ تو کہو کہ تین دن تک تمام کاروبار بند رکھنے کا حکم صرف دیوتا کی پیاری قوم یعنی رومن لوگوں کے لیے ہے یا پارسی، عیسائی، یہودی سب کو تین دن کی مدت قابلِ احترام ہے؟ منادی والا سب کے لیے۔ جو لوگ رومی دیوتاؤں کو نہیں مانتے اُن کے لیے بھی۔ وہی شخص مگر جو لوگ دیوتاؤں کو مانتے ہی نہیں وہ کیونکر جشن منائیں گے؟ منادی والا نہ منائیں گے تو رومن قوم کے دشمن قرار دے کر زندہ جلائے جائیں گے۔ سب کا جانا، رومن افسروں کا داخل ہونا کینشش آج کے دن یہ شور و شر کیسا، عین عبادت میں یہ ضرر کیسا؟ ایک سردار عالی جاہ! یہ اُسی لایعنی عبرانی کا کارنامہ ہے۔ کینشش کیا ڈھنڈورے کی آواز اُس کے مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں سے ہو کر اُس کے کان تک نہیں پہنچی؟ کیا اُس نے ہمارے شہنشاہ اور ہماری مذہبی کونسل کا حکم نہیں سنا؟ دوسرا سردار نہیں حضور! ضرور سنا ہو گامگر یہ کمترین یہودی ہمارے رومن دیوتاؤں سے قلبی خصومت رکھتے ہیںاس لیے ہمارے کسی حکم کی پروا نہیں کرتے۔ کینشش اَن دیکھے خدا پر بھروسا رکھنے والے کافر کی یہ حرکت! ہم سے اور ہمارے مذہبی حکم سے یہ نفرت! جاؤ اور اُسے ڈاڑھی سے پکڑ کر منہ پر تھوکتے ہوئے یہاں لے آؤ۔ عذرا یہودی کو پکڑ کر لانا سردار۱ کرو سجدہ! عذرا کسے سجدہ؟ سردار [کینشش کی طرف اشارہ کر کے] اِس عالی شان کو۔ عذرا اس فانی انسان کو؟ ہم سجدہ کرتے ہیں اپنے سبحان کو: ٹکڑے مرے اُڑ جائیں، یہ ڈر کر نہ جھکے گا آگے کسی انسان کے یہ سر نہ جھکے گا سردار۲ آگے بڑھ اور جھک ان قدموں کے آگے۔ عذرا جھکوں؟ کس کے آگے؟ ان قدموں کے آگے جن قدموں نے اس سر سے بھی زیادہ سفید اور بوڑھے سروں کو ٹھوکریں ماری ہیں؟ جنہوں نے اپنی جوانی کی ضربوں سے مظلوم قوم کے سینوں کی ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں؟ نہیں، میں کبھی نہیں جھکوں گا: قیامتیں ہوں کہ آفتیں ہوں، جہان جائے کہ جان جائے مگر یہ ممکن نہیں ہے ہرگز کہ اُس کے بندے کی آن جائے اُسی کی چوکھٹ پہ ہو گا سجدہ جدھر وہ ہو گا اُدھر جھکے گا بجز خدا کے کسی کے آگے نہ دل جھکا ہے نہ سر جھکے گا کینشش مفسد باغی! ہماری رسموں اور مذہبی تہواروں کے ساتھ اعلانیہ نفرت کا اظہار کرنا اور پھر دنیا کے سامنے اپنی بے گناہی آشکار کرنا!ذلیلو! اگر ہم جانتے تو تمہیں آزادی اور زندگی کبھی نہ بخشتے۔ عذرا اِس ملکِ روم میں آزادی اور زندگی! یہ دونوں کہاں ہیں؟ ہماری قوم کے لیے یہ دونوں چیزیں کسی قیمت پر نہیں مل سکتیں۔ تم میں رحم، انصاف اور ایمانداری کہاں ہے؟ ہماری زندگی کے لیے قدم قدم پر ذلّت ہے، شرمندگی ہے: شجرِ زیست کے چُن چُن کے ثمر توڑے ہیں تم نے دل توڑے ہیں سب کے کہ جگر توڑے ہیں ایسے ظالم ہو کہ تم نے کوئی دو چار نہیں سینکڑوں لاکھوں ہی اللہ کے گھر توڑے ہیں کینشش صاحبو! سنیں تم نے باتیں خصومت کی؟ یہ سراسر توہین ہے رومن حکومت کی۔ عذرا اگر رحم نہ ہو تو حکومت کس کام کی، بے انصاف کی بہادری ہے بے نام کی۔ تم نے اگلے وقتوں میں ہماری قوم پر جو جو ظلم ڈھائے ہیں وہ اِس دل پر خون کے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں: ہمارے سر پہ ہزاروں ستم ڈھائے گئے ہمارے جھونپڑے توڑے گئے، جلائے گئے تمہی ہو جو کہ ہمیشہ ہمیں ستائے گئے ہمی ہیں جو کہ تمہارے ستم اٹھائے گئے سردار یہ ہمارے دیوتاؤں کا سخت دشمن ہے۔ عذرا نہ ہم کسی کے دشمن نہ بدخواہ تم اپنی راہ لو اور ہم اپنی راہ ہر ایک اپنے مذہب کا دُوربین خود ہے عیسیٰ بدینِ خود ہے، موسیٰ بدینِ خود ہے سردار ہمارا خدا یہاں ہے مگر تمہارا خدا کہاں ہے؟ عذرا ہمارا خدا یہاں ہے، وہاں ہے۔ محیطِ زمیں، مدارِ آسماں ہے۔ سردار خدا اگر ظاہر نہیں، برملا نہیں تو کچھ نہیں۔ عذرا خدا ہی سے خدائی ساری، خدا نہیں تو کچھ نہیں۔۱۱ ۱۱ روایت ہے کہ قریباً اسی زمانے میں سرحد یا مغربی پنجاب کے ایک پیر صاحب نے حکومتِ برطانیہ سے زمین حاصل کرنے کے لیے اقبال سے گورنر کے نام درخواست لکھوانا چاہی۔ اقبال نے انہیں روک دیا کہ زمین اللہ کی ملکیت ہے، پھر انگریز سے کیوں مانگی جائے۔ کچھ دن بعد پیر صاحب کے کچھ مریدوں نے جو فوج میں تھے اپنے کمانڈر انچیف سے کہا۔ انہوں نے گورنر سے کہا۔ پیر صاحب کو بغیر مانگے زمین مل گئی۔۱۲ ۱۲ اکبرؔ الٰہ آبادی کی طرف سے بھی ’اَسرارِ خودی‘ پر پسندیدگی ظاہر ہوئی۔ ۱۳ ۱۳ ستمبرمیں کسی وقت اقبال سیالکوٹ گئے۔ ایک بھانجا جو غالباً اُن دنوں ساتھ ہی رہتا تھا، گھر پر اکیلا رہ گیا۔ ۱۴ اقبال کی لڑکی معراج بیگم کی عمر انیس برس تھی۔ گجرات میں اپنی والدہ کریم بی بی کے ساتھ رہتی تھیں۔ گلے کے خنازیر کا مرض ہو گیا۔ نانا حافظ عطا محمد سرجن تھے۔ انہوں نے دو مرتبہ آپریشن کر کے متاثرہ غدود نکالے۔یقین ہوا کہ مرض لاعلاج ہے تو معراج بیگم نے اصرار کیا کہ آخری وقت ددھیال کے پاس گزارنا چاہتی ہیں۔ کریم بی بی انہیں سیالکوٹ لے آئیں۔ ۱۴ ہوشیارپور میں ایک عمررسیدہ اَن پڑھ حکیم بہت مشہور تھا جسے سب ’’بابا‘‘ کہتے تھے۔ ایک دفعہ علی بخش اُسے بھی لے آیا۔ ۱۵ ’’مجھے یاد ہے اُنہیں سفید رنگ کا بدبودار کاڈ لیور آئیل پینا پڑتا تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’وہ روزانہ صبح بڑی کراہت لیکن بڑی باقاعدگی سے اُسے پیتی تھیں۔۔۔ ‘‘ اگر معراج بیگم ستمبر تک سیالکوٹ آ چکی تھیں تو اِس دفعہ اقبال کی ملاقات ان سے اور پہلی بیوی کریم بی بی سے بھی ہوئی ہوگی۔۱۶ ۱۵ وفاداروں کی تین قسمیں تھیں۔ کچھ خوشامد کرتے۔ کچھ کسی فائدے کے لیے ساتھ دیتے۔ کچھ جان دینے پر تیار ہوتے۔ پانچ اَشعار کے فارسی قطعے میں یہ بات لکھی۔۱۷ ۱۶ سید بشیر احمد ایک احمدی شناسا میر اِنعام اللہ کے ساتھ اقبال منزل آئے۔ کافی دیر احمدیت کے بارے میں گفتگو رہی۔ اقبال نے مرزا بشیر الدین محمود کی تازہ تصنیف حقیقۃ النبوۃ کی ترتیب کی تعریف کی۔ اُس کے دلائل پر بات کرنے سے گریز کیا کیونکہ اُن کے نزدیک رسول اللہ ؐ کے بعدکوئی نبی نہیں آ سکتا تھا۔۱۸ ۱۷ شیخ نور محمد کو خاص طور پر ’’حقیقتِ منتظَر ‘‘ والی غزل بہت پسند تھی۔ پڑھتے ہوئے رونے لگتے۔ عفوِ بندہ نواز والے شعر پر بار بار کہتے، ’’جو اَماں ملی تو کہاں ملی!‘‘ عنایت اور سیمہ مبارک ’’اَماں‘‘ کو ’’ماں‘‘ سمجھتیں اور حیران ہوتی رہتیں۔ وسیمہ نے اقبال سے پوچھاکہ میاں جی اپنی والدہ کو اِتنا زیادہ کیوں یاد کرتے ہیں؟ ’’چچا جان میرے اِس معصومانہ اِستفسار سے بہت محظوظ ہوئے،‘‘ ان کا بیان ہے۔ ’’ہنستے ہوئے فرمایا،’یہ بات ابھی تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے، جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو تمہیں خودبخود معلوم ہو جائے گا کہ میاں جی اپنی ’’ماں‘‘ کو اِس قدر کیوں یاد کرتے ہیں۔‘‘‘۱۹ ۱۸ منڈی بہأالدین سے رسالہ صوفی نکلتا تھا۔ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ اُس میں اقبال کی نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ شائع ہو گئی۔ اقبال نے اعجاز کو بلا کر جواب طلب کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اقبال نے قلم دوات منگوا کر صوفی والوں کے نام نوٹس لکھا اور اعجاز کو دیا کہ ڈاک میں ڈال آئے۔ واپس آ کر اعجاز نے رسالے میں چھپی ہوئی نظم پڑھنا شروع کی تو بعض اشعار غیرمانوس لگے۔ گھر میں موجود نظم سے موازنہ کیا تو پورے نَو اَشعار مختلف تھے۔ اقبال کو بتایا۔ ’’وہ بہت متعجب ہوئے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’فرمایا، ’پھر تو نظم کسی طرح میرے ہاں سے اُڑائی گئی ہے۔‘ سنا ہے صوفی والوں نے بعد میں منّت سماجت کر کے چچا جان کو درگزر کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔‘‘۲۰ ۱۹ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر جنگل میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک شیر اُدھر آ نکلا۔ عالمگیر پر حملہ آور ہوا۔ عالمگیر نے تلوار نکالی اور نماز توڑے بغیر شیر کو ہلاک کر کے نماز پوری کی۔ اقبال کو اِس سے غرض نہ تھی کہ یہ واقعہ تاریخی طور پر درست ہے یا نہیں۔ سچی بیخودی، جو اپنے آپ کو خدا کے احکام میں فنا کرنے سے حاصل ہوتی تھی، اُسے سمجھانے کے لیے یہ واقعہ ایک مناسب تخیل فراہم کرتا تھا۔ لہٰذا ’اَسرارِ خودی‘کے دوسرے حصے کو لکھنے کی ابتدا اِسی سے ہوئی۔ ’پیامِ سروش‘ والی بیاض کا زیادہ حصہ خالی پڑا تھا۔ اُس میں اَشعار لکھے جانے لگے: شہنشاہ عالمگیر جس کا مقام آسمانوں کے برابر ہے، جو تیموری خاندان کے لیے فقر کا باعث ہے، اُس کے دم سے مسلمانوں کے وقار میں اضافہ ہوا اور پیغمبر کی شریعت کا احترام قائم ہوا۔ کفر اور دین کی جنگ میں وہ ہمارے ترکش کا آخری تیر تھا۔۔۔ شاہِ عالمگیر گردوں آستاں اعتبارِ دودمانِ گورگاں پایۂ اسلامیاں برتر ازو احترامِ شرعِ پیمبر ازو درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ مارا خدنگِ آخریں۲۱ ۲۰ مولانا رُوم نے کہا تھا، میں نے سات سو ستر روپ بدلے ہیں اور سبزے کی طرح بار بار پیدا ہوا ہوں: ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام کسی نے جس کا اقبال کافی اعتبار کرتے تھے کہا کہ یہ شعر رومیؔ کا نہیں ہے۔ اقبال کی نظر سے بھی مثنوی میں یہ شعر نہیں گزرا تھا۔ مولانا روم کے کلیات کا وہ حصہ بھی نہ پڑھا ہو گا جس میں یہ مصرعے موجود تھے۔۲۲ ۲۱ اُس برس کسی وقت شیخ عطا محمد نے اقبال منزل کے ساتھ والی دکان خریدی اور اُس پر سہ منزل عمارت تعمیر کر کے اُسے بھی اقبال منزل میں شامل کر لیا۔ ۲۳ ۲۲ مسلم یونیورسٹی سر سید کا خواب تھی۔ چھ برس پہلے یہ مطالبہ مسلمانوں کی تحریک کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے جو اپنی سینیٹ کے انتخاب اور نصاب سازی میں آزاد ہو۔ حکومت نے ایسی شرائط پیش کر دیں جن کے تحت یونیورسٹی بعض معاملات میں حکومت کی پابند رہتی۔ مسلمانوں کو قبول نہ ہوا مگر اِس برس ہندوؤں نے ہندو یونیورسٹی کے لیے یہی شرائط قبول کر لیں۔ انگریزوں کو بہانہ مل گیا۔ ۲۵ ستمبر کو صاف جواب دیا کہ حکومت مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کے وفد سے بات کرنے پر بھی آمادہ نہ ہو گی جب تک مسلمان وہی شرائط قبول نہ کر لیں جن پر ہندو یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے۔۲۴ ۲۳ اقبال سیالکوٹ سے واپس آئے تو بھانجے کے ساتھ ایک اجنبی خاتون کو دیکھا۔ معلوم ہوا کہ کشمیر کے کسی اچھے ہندو گھرانے کی خاتون ہیں جنہیں اِغوا کر کے بازارِ حسن پہنچا دیا گیا تھا۔ وہاں اقبال کے بھانجے سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مصیبت سے نجات دلاتے ہوئے نکاح کر لیا۔ اقبال کی غیرموجودگی میں معاملہ پولیس تک پہنچا تھا مگر قانون نے عورت کا ساتھ دیا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت دونوں کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا اور پھر کبھی اُن کی صورت دیکھنا پسند نہ کی۔ ’’وہ خاتون۔۔۔ آخر دم تک اپنے خاوند کی فرمانبردار رہیں،‘‘ خاندان والوں کا بیان ہے۔۲۵ ۲۴ کشن پرشاد نے ’اسرارِ خودی‘ کو پسند کرتے ہوئے بیس کتابیں بذریعہ وی پی منگوائیں۔ شاید تبصرہ کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ ۳۰ ستمبر کو اقبال نے انہیں لکھاکہ دوسرا حصہ معانی کے اعتبار سے زیادہ لطیف ہو گا۔ ’’ اگر لٹریری مشاغل اِس ملک میں بطور ایک پیشے کے اختیار کئے جا سکتے تو میں اپنے موجودہ کاروبار کو بمع اس کی تمام دلچسپیوں اور امیدوں کے خیرباد کہہ دیتا۔‘‘ بیس کاپیاں اُسی روز روانہ کر دیں مگر وی پی پارسل کرنے کو گناہِ کبیرہ جانا۔ ’’اگر ضرورت ہو تو مزید نسخے بھی حاضرِ خدمت ہوں گے۔‘‘ ۲۵ کشمیر میں رہنے والے منشی سراج الدین جن کی بھیجی ہوئی انگوٹھیوں نے کسی زمانے میں اقبال کو فارسی میں چند اشعار کہنے پر مائل کیا تھا، اُنہوں نے ’اَسرارِ خودی‘ پڑھ کر اقبال کو جو خط لکھا وہ اس قابل تھا کہ اقبال نے اُسے پڑھنے کے بعد زمیندار کے اڈیٹر مولوی عمادی کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اپنے تبصرے میں اس سے بھی مدد لے لیں۔۲۶ بنام منشی سراج الدین لاہور ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی۔ السلام علیکم آپ کا نواش نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ الحمداللہ کہ آپ کو مثنوی پسند آئی۔ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں ہیں جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرۂ شعرأ میں پیدا کرتی۔ بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوقِ شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شعر کہنے والا اور تصنیف کی شدید تکلیف اُسے اٹھانی نہیں پڑتی۔ یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی مگر اِس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے۔ موجودہ مشاغل وقت نہیں چھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میں زمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے کام بڑھ ہی جاتا ہے۔ لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہو گا جس کے مضامین میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حصہ اِس حصہ سے زیادہ لطیف ہو گا۔ کم از کم مطالب کے اعتبار سے، گو زبان اور تخیل کے اعتبار سے میں نہیں کہہ سکتا کہ کیسا ہو گا۔ یہ بات طبیعت کے رنگ پر منحصر ہے جو اپنے اختیار کی بات نہیں۔ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض و غائت سے آشنائی نہیں۔ ان کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلعم کے منھ سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ انشأ اللہ دوسرے حصے میں دکھاؤں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور صحابہ کرام کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف حامی ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال ۲۶ ۹ اکتوبر کو قادیان کے اخبار الفضلمیں میر اِنعام اللہ نے سیالکوٹ کی ستمبر میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے یہ بیان شائع کیا کہ سید بشیر احمد کے پوچھنے پر اقبال نے کہا کہ قادیانی جماعت حق پر ہے مگر مجھے ہمدردی لاہور والوں سے ہے۔ اس کے علاوہ کتاب حقیقۃ النبوۃ کی تعریف میں اقبال کی رائے بھی درج کی۔ ۲۷ اقبال کو اس مضمون کے بارے میں تب معلوم ہوا جب لوگوں نے اُن سے پوچھنا شروع کیا۔ بالکل یاد نہیں تھا کہ وہ باتیں کہی ہوں جو انعام اللہ نے اُن سے منسوب کی تھیں۔ تردید شائع کروانے سے پہلے سید بشیر احمد کو خط لکھنا مناسب سمجھا جوہشیارپور میں تھے۔ ۲۷ زمیندارکے اسسٹنٹ اڈیٹر مولوی عمادی نے منشی سراج الدین کا خط شائع کر دیا۔ انہوں نے اقبال سے شکایت کی۔ ۱۴ اکتوبر کو اقبال نے معذرت کے خط میں لکھا کہ ایسا غلطی سے ہوا جس کی ذمہ داری کچھ ان پر اور کچھ زمیندار کے عملے پر تھی جسے معلوم نہ تھا کہ خط اشاعت کے لیے نہیں بلکہ مولوی عمادی کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا۔ ۲۸ سیالکوٹ میں اقبال کی لڑکی معراج بیگم کا آخری وقت قریب تھا۔ دادی کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ ۱۷ اکتوبر کو فوت ہو گئیں۔ شیخ عطا محمد نے انہیں امام بی بی کے برابر والی اُس قبر میں دفن کر دیا جو اپنے لیے تیار کروائی تھی۔۲۸ ۲۹ اقبال کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ان کی طبیعت خراب تھی۔ پچھلے دنوں شیعیت کے بارے میں کوئی مضمون بھی لکھا تھا۔ خط میں کسی انیس احمد کی بات چھیڑی تھی جن سے اقبال واقف تھے اور تعلیمِ قرآن پر اُن کے متنازعہ رسالے کو پسند بھی کرتے تھے۔ اُن کی کتاب معراج الدین کا ذکر تھا۔ اقبال کے واعظِ قرآن بننے کی کوئی بات تھی۔ اقبال نے ۱۸ اکتوبر کو جواب میں لکھا کہ واعظِ قرآن بننے کی صلاحیت تو اُن میں نہیں ہے مگر قرآن کے مطالعے سے اپنا اطمینان بڑھتا جاتا ہے۔ ’’آپ کے خطوط سے مجھے نہائت فائدہ ہوتا ہے اور مزید فکر کی راہ کھلتی ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت لوگوں کو اُن سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔‘‘ امامت کے بارے میں اقبال نے خیال ظاہر کیا کہ موجودہ زمانے میں جبکہ مذہبی حقائق کا معیار عقل ہے، امامت معاشرے کو انتشار سے محفوظ رکھ سکتی ہے مگر اس میں ایک نقص ہے، ’’وہ یہ کہ عوام کو مجتہدین سے تعلق رہتاہے اور قرآن سے تعلق کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل کوئی تعلق نہیں رہتا۔‘‘اکبر کے مضمون کا فقرہ نقل کیا کہ مذہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے۔ ’’یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لیے یہی خیال محرّک ہوا۔ میں گزشتہ دس سال سے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔‘‘ ایک غزل اکبرؔ کوبھیجی، ’’مدت ہوئی چند شعر فارسی کے لکھے تھے عرض کرتا ہوں۔‘‘ ۳۰ کسی انجمن، غالباً انجمن حمایت اسلام کے کام کے لیے بیرسٹر عبدالعزیز اقبال کو کہیں بلانا چاہتے تھے۔ بیوی کی طبیعت اب تک ٹھیک نہ ہوئی تھی اس لیے نہ جا سکے۔ ’’مجھے یقین ہے کہ یہ عذر آپ کے نزدیک خاصا وزنی ہو گا۔۔۔ اور اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ انجمن کے معاملات سے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے،‘‘ انہوں نے ۱۹ اکتوبر کو انگریزی میں لکھا۔’’میں نے اسے اُن لوگوں پر چھوڑ دیا ہے جو اسے زیادہ اچھی طرح چلا سکتے ہیں۔‘‘ ۳۱ وہی نگاہ جو رکھتی ہے مست رِندوں کو غضب یہ ہے کہ کبھی محتسب بھی ہوتی ہے اکبرؔ الٰہ آبادی بنام اکبرؔ الٰہ آبادی لاہور ۲۵ اکتوبر ۱۵ء مخدومی! السلام علیکم نوازش نامہ ملا۔ دونوں اشعار لاجواب ہیں: فطرت کی زباں جس کو سمجھو سبحان اللہ! یہ طرز اور معنی آفرینی خاص آپ کے لیے ہے۔ کوئی دوسرا یہاں مجالِ دم زدن نہیں رکھتا اور دوسرا شعر: غضب یہ ہے کہ کبھی محتسب بھی ہوتی ہے کئی دفعہ پڑھ چکا ہوں۔ اس کا لطف کم ہونے میں نہیں آیا۔ کبھی موقع ہوتا ہے تو دل کا دُکھڑا آپ کے پاس روتا ہوں۔ یہاں لاہور میں ضروریاتِ اسلامی سے ایک متنفس بھی آگاہ نہیں۔ یہاں انجمن اور کالج اور فکرِ مناصب کے سوا اور کچھ نہیں۔ پنجاب میں علمأ کا پیدا ہونا بند ہو گیا ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے کوئی خاص مدد نہ کی تو آئندہ بیس سال نہائت خطرناک نظر آتے ہیں۔ صوفیا کی دکانیں ہیں مگر وہاں سیرتِ اسلامی کی متاع نہیں بکتی۔ کئی صدیوں سے علمأ اور صوفیأ میں طاقت کے لیے جنگ رہی جس میں آخرکار صوفیا غالب آئے۔ یہاں تک کہ اب برائے نام علمأ جو باقی ہیں وہ بھی جب تک کسی نہ کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں ہردلعزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علمأ کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدّد الفِ ثانی، عالمگیر اور مولیٰنا اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ ِ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے۔ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں صرف ایک بیچین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خداداد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آپ کا خادم محمد اقبال ۳۲ ’ہرن منارہ‘ وہ نظم تھی جو شاکر صدیقی نے اس دفعہ بھیجی تھی۔ اقبال نے اکتوبر میں کسی وقت اشعار کی خامیوں پر نشان لگا کرایک خط کے ساتھ نظم واپس کی۔ چند فارسی شعرأ کے نام لیے جن کا کلام پڑھنے سے فائدہ ہو سکتا تھا۔ حافظؔ شیرازی کا نام نمایاں طور پر غائب تھا۔ ۳۳ ’اسرارِ خودی‘ کے بعض پیکٹ ڈاک میں گم ہو گئے۔ اقبال کو خدشہ ہوا کہ کہیں کشن پرشاد کو بھیجی ہوئی بیس جلدوں کا بھی یہی حشر نہ ہوا ہو۔ ایک مدّت سے اُن کا خط بھی نہیں آیا تھا۔ ۲ نومبر کو یاددہانی کروائی۔ ۳۴ زمانہ (کانپور) کے نومبر کے شمارے میں اقبال کی ایک پرانی غزل شائع ہوئی: سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں ۳۵ ۱۲ نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کا الہلال دوبارہ جاری ہوا جو پچھلے برس بند ہوا تھا۔ پہلے صفحے پر اقبال کی نظم ’عرفی‘ تھی جو پچھلے برس ۱۳ دسمبر کو کہی گئی تھی۔ ۲۹ ۳۶ ہوشیارپور سے سید بشیر احمد کا جواب آیا۔ ’’میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کوئی سوال آپ سے نہیں کیا تھا،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’میر انعام اللہ صاحب سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ عادتاً مبالغہ آمیز باتیں کرنے کا عادی ہے۔ پوری گفتگو نہ کبھی اُس کی کسی نے سمجھی ہے اور نہ ہی وہ خود بیچارا سمجھ سکتا ہے۔ ایک فقرہ سے کئی کئی نتائج اخذ کیا کرتے ہیں۔ انہیں معذور سمجھنا چاہئے۔‘‘ اقبال نے ۱۳ نومبر کو جماعت احمدیہ لاہور کے ہفت روزہ پیغامِ صلح کے اڈیٹر کے نام خط لکھا۔ سید بشیر احمد کے خط کا اقتباس نقل کرکے لکھا، ’’افسوس ہے کہ میر انعام اللہ صاحب نے میرے الفاظ کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہو۔ ایک شخص جو کسی خاص فریق سے تعلق رکھتا ہو وہ قدرتی طور پر اَوروں کی گفتگو سے وہی الفاظ و مطالب یاد رکھتا ہے جو اُس کے مفیدِ مطلب ہوں اور سیاقِ الفاظ فراموش کر جاتا ہے۔ اِتنی بات ضرور ہے کہ میں نے کتاب حقیقۃ النبوۃ کی بہ لحاظ اس کی ترتیب کے تعریف کی تھی مگر اس کے دلائل پر رائے دینے کا مجھے حق حاصل نہیں کیونکہ اختلافِ سلسلۂ احمدیہ کے متعلق وہی شخص رائے دے سکتا ہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک غیراحمدی مسلمان جو رسول اللہ صلعم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل نہ ہو وہ کس طرح یہ بات کہہ سکتا ہے کہ عقائد کے لحاظ سے قادیان والے سچے ہیں۔‘‘۳۰ کشن پرشاد کے دو خط موصول ہوئے تھے۔ کسی پریشانی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اُس روز اقبال نے لکھا، ’’مفصل کیفیت سے آگاہی چاہتا ہوں۔۔۔ اگر نامناسب نہ ہو تو مطلع فرمائیے، اِس عرصے میں ہمہ تن دعا ہوں۔‘‘ ۳۷ لاہور کے عربی کے پروفیسر محمد شفیع ان دنوں کیمبرج میں پروفیسر براؤن کی نگرانی میں تحقیق کر رہے تھے۔ انہیں ’اَسرارِ خودی‘ کا ایک نسخہ موصول ہوا۔ وہ اُنہوں نے میاں فضل حسین کے بھائی میاں افضل حسین کو دیا جو گورنمنٹ کالج میں اقبال کے شاگرد رہ چکے تھے اور اُن دنوں کیمبرج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ’’جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور طاقت ور قومیں اپنے غلبہ و استیلا کے جنگ و جدل میں مصروف تھیں،‘‘ میاں افضل کا بیان ہے۔ ’’فوق البشر (Superman) کا جرمن فلسفہ ہمارے ہاں ایک عام موضوعِ بحث تھا۔ میں نے ’اَسرارِ خودی‘ کو بڑی دلچسپی سے پڑھا اور میں اس کتاب سے بیحد متاثر ہوا۔‘‘۳۱ ۳۸ ’اَسرارِ خودی‘ [تبصرے سے اقتباس] مدعائے اسلام یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی چھپی ہوئی قوتوں کے اثر سے آگاہ ہو۔ ان سے کام لینا سیکھے اور ان ثغور و حدود کے اندر رہ کر کام کرے جو قانونِ قدرت و قرآن مجید نے مقرر کر دیے ہیں۔ یہی چیز تھی جس کو ہم اب تک بھولے ہوئے تھے اور اسی بھول جانے کا نتیجہ ہمارا موجودہ تنزل و انحطاط ہے اور یہی بھولا ہوا سبق ہے جسے ڈاکٹر اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ کے ذریعہ سے ہم کو پھر یاد دلایا ہے۔ ہم نے اِس مثنوی پر مفصل تبصرہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے حقائق و معارف اِتنے وسیع ہیں کہ حقِ تبصرہ ادا ہو سکتا ہی نہیں۔۔۔ غرض یہ کہ یہ کتاب قرآن کریم کی سچی اور اصلی تفسیر ہے اور ہم اس سے زائد اِس پاک ترین مثنوی کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی یہ ایک مقدس شرح ہے جس کا پڑھنا اور جس پر عمل کرنا ہر ایک انسان کا سب سے پہلا فرض ہونا چاہئے۔ زمیندار (لاہور)، ۲۰ نومبر ۱۹۱۷ئ۳۲ ۳۹ ایک یہودی بادشاہ کے وزیر نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کر کے عیسائیوں میں مقبولیت حاصل کی۔ پھر صلیب کے ذریعے اپنا خاتمہ کروا کر اُن کے دلوں میں مستقل مقام بنا لیا۔ مرنے سے پہلے عیسائیوں کے بارہ سرداروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقات کر کے اُن میں سے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہی جانشین ہو گا۔ ہر ایک کو انجیل کی مختلف تفسیر دی تھی۔ وزیر کی موت کے بعد ہر سردار خلوصِ نیت سے دعویٰ کرنے لگا کہ وہ جانشین ہے۔ انجیل کی جو تفسیر اُس کے پاس ہے وہی درست ہے۔پھوٹ پڑ گئی۔ ایک فرقہ محفوظ رہا۔ یہ انجیل میں آنحضورؐ کے بارے میں پیشین گوئی پڑھ کر آپؐ پر غائبانہ درود بھیجتا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ نہیں بلکہ مولانا روم کی مثنوی کی حکایت تھی۔ خواجہ حسن نظامی کے دوست سید محمد شاہ ذوقی کو ’اَسرارِ خودی‘ پڑھ کر یاد آئی ہو گی کیونکہ اُن کے خیال میں اقبال نے مکّار وَزیر جیسا کام کیا تھا۔ مثنویٔ اقبال از سید محمد شاہ ذوقی [اقتباس] میں ایک جدیدترین حملے کی طرف ناظرین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو مذہب کی حمایت کی آڑ میں مذہب کی رُوح پر ہوا ہے۔ میرا اِشارہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ (لاہور) کی اُس مثنوی کی جانب ہے جو اُنہوں نے حال میں شائع کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کی نیت پر حملہ کرنے کا سرِدست مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔ ممکن ہے کہ اُن کی یہ غلطی چند غلط فہمیوں یا ناقص معلومات کا نتیجہ ہو اور حق تعالیٰ کی عنایت سے یہ نقص آگے چل کر دُور ہو جائے۔ یَھدِی اللّٰہُ لِنُورِہ مَن یَشَائُ ط (سورۂ نور رُکوع ۵) راہ دکھلاتا ہے اللہ اپنے نُور کی طرف جسے چاہتا ہے۔ لیکن اِس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ مثنوی ’اَسرارِ خودی‘ میں آزارِ خودی کی جن تیوروں سے حمایت کی گئی ہے وہ باعتبار اپنے نتائج کے ایک حملہ ہے جو اِسلام پر اِسلام ہی کی آڑ میں ہوا ہے۔ عوام الناس میں عموماً اور انگریزی داں طبقہ میں خصوصاً نہ معلوم کیوں اقبال کو دلداۂ تصوّف ہونے کی شہرت حاصل ہے۔۔۔ خطیب (دہلی)، ۳۰ نومبر ۱۹۱۵ئ۳۳ ۴۰ حسن نظامی کے شاگرد ضیأالدین برنی نے تصوف کے موضوع پر کوئی کتاب لکھ کر اقبال سے نظرِ ثانی کی درخواست کی تھی۔ ۳۰ نومبر کو اِقبال نے جواب دیتے ہوئے برنی کو لکھا، ’’مجھے تصوف سے معمولی واقفیت ہے اور وہ بھی سطحی۔ اِس کام کے لیے موزوں ترین آدمی خواجہ حسن نظامی ہیں۔‘‘ تصوف پر بہت سی کتابیں موجود تھیں جنہیں پڑھنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوا تھا۔ تصوف کی تاریخ کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو دکھائے کہ اِس کا تعلق اسلام سے ہے یا نہیں۔ ۳۴ ۴۱ سائیں رب سے ملاقات ہوئی تو اقبال نے کشن پرشاد کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے کہا رب ہمیشہ شاد کے ساتھ ہے، وہ مطمئن رہیں۔ ۳۵ ۴۲ دسمبر میں پھر بخار اور نزلہ نے آ گھیرا۔کشن پرشاد کا خط ملا جس میں انہوں نے موسمِ سرما میں پنجاب کے سفر کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر اقبال جواب نہ دے سکے۔ ۱۳تاریخ کو پیغامِ صلحمیں کشن پرشاد کی کوئی نظم اقبال کی نظر سے گزری۔ ’’میں نے اسی کو نیم ملاقات تصور کر لیا،‘‘ انہوں نے دو دن بعد کشن پرشاد کو خط میں لکھا اور سائیں رب کا پیغام دینے کے بعد لکھا۔ ’’پنجاب کے لیے سردیوں کا موسم سفر کے لیے خوب ہے۔ فروری کا مہینہ خاص کر اچھا ہے۔‘‘ ۴۳ استنبول کے ایک محل میں معزول خلیفہ سلطان عبد الحمید نظربند تھے جن کی معزولی پر ۱۹۰۹ء میں اقبال نے کہا تھا: چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا مصطفیٰ کمال گیلی پولی میں دشمن کی یلغار ناکام بنا کر واپس آئے تو اُن کا قیام بھی اِسی محل میں ہوا۔ شہر میں ایک اور محل کے قریب وہ چھوٹا سا گھر تھا جو مصطفی کمال نے اپنی والدہ زبیدہ خانم کو لے کر دیا تھا جہاں وہ اُن کی بہن مقبولہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ جس طرح اقبال کے والد اُنہیں مذہبی تعلیم دلوانا چاہتے تھے اُسی طرح مصطفی کمال کی والدہ بھی یہی چاہتی تھیں مگر سات آٹھ برس کے تھے جب والد فوت ہو گئے۔ زبیدہ خانم کی عمر ستائیس برس تھی۔ گزربسر کا اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ دوسری شادی کر لیں۔ دوسرے شوہر کے پہلے سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیںجن میں سے بعض مصطفی کمال سے عمر میں بڑے تھے۔ مصطفی کمال ایک رشتہ دار کے گھر منتقل ہو گئے لیکن بعد میں سوتیلے باپ کے آخری دنوں میں اُس کی مدد بھی کی۔ ایک اور جانب سلطان احمد کی نیلی مسجد کے قریب روایتی قسم کے مکان میں فقری خانم رہتی تھیں۔ عمر اٹھارہ برس تھی۔ مصطفی کمال کے سوتیلے باپ کی بھتیجی تھیں۔ روایتی ماحول میں بھی پیانو بجانے اور جدید تہذیب کے بعض دوسرے لوازمات سے آگاہی حاصل کی تھی۔ دو برس قبل ملاقات ہوئی تھی۔ پھر جب موقع ملتا دونوں اکٹھے وقت گزارتے۔ سوتیلے باپ سے تعلق میںاپنائیت اور بیگانگی کی جو بھی کشمکش رہی ہو، وہ فقری سے تعلقات میں منتقل ہو سکتی تھی۔ ان کی ماں جیسا مشرقی مزاج رکھتی تھیں جس کی وجہ سے اِس پر بھی اعتراض نہ تھا کہ مصطفی کمال کو جب ضرورت نہ ہو تو اُنہیں نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بچپن میں ماں جس پرانی تہذیب کی علامت تھیں اُسے مصطفی کمال جتنی وقعت دیتے فقری کو بھی اُتنی ہی وقعت دیتے ہوں گے۔جس طرح وہ خود مغربی تہذیب سے زندگی کا لطف اُٹھانا جانتے تھے اُسی طرح فقری بھی پیانو بجانے اور خود اُن کے ساتھ وقت گزارنے کی شوقین تھیں۔ ۴۴ لاشعور کی تہوں میں چھپے ہوئے رجحانات ذہن کو متاثر کر سکتے تھے مگر خودی ان سے بلند بھی ہو سکتی تھی۔ اس کے لیے اجتماعی خودی کے سامنے اپنی انفرادی خودی مٹانے کی ضرورت تھی۔ ۴۵ ’’مثنوی اسرارِ خودی مصنفۂ ڈاکٹر اقبال صاحب جس میں مصنف نے کہا ہے کہ اپنی خودی کو مٹانے والا فلسفہ جس کا مشرق پر بہت بُرا اثر ہوا، صحیح نہیں۔ خودی کو بڑھانا چاہیے،‘‘ اکبرؔ الٰہ آبادی نے ۱۸ دسمبر کو عبدالماجد دریابادی کے نام خط میں لکھا۔ ’’مثنوی کی نسبت کچھ زیادہ کہنا نہ چاہیے۔‘‘۳۶ ۴۶ شبلی نعمانی کی الغزالی کا نیا اڈیشن شائع ہوا۔ اُن کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے دیباچے میں سر سید احمد خاں کو ہندوستان میں مسلمانوں کی اصلاحی تحریک کا سب سے بڑا قائد اور شبلی مرحوم کو اُن کی فوج کا بہت بڑا پہلوان قرار دیا۔۳۷ ۴۷ ۲۰ دسمبر کو خواجہ کمال الدین سے ملاقات ہوئی جنہوںنے چار برس پہلے شاعری چھوڑ کر سائنس کی طرف متوجہ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ لاہوری گروپ کے احمدی تھے۔ انگلستان میں تبلیغ کرتے تھے۔ کشن پرشاد کاذکر ہواجن کی غزل ’’دل چہ فروشم‘‘ ذخیرہ رسالے میں انہی دنوں اقبال کی نظر سے گزری تھی۔ کوئی مسٹر المالطیفی انڈین سول سرونٹ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ واپس آرہے تھے۔۳۸ اگلے روز کشن پرشاد کا خط ملا تو اقبال نے جواب دیتے ہوئے المالطیفی کے بارے میں دریافت کیا۔ فارسی غزل کے بارے میں لکھا کہ کشن پرشاد سادگی اور معصومیت کے ساتھ پتے کی بات کہہ جاتے ہیں جس کا چرچا عالمِ بالا میں رہنے والوں میں بھی ہو رہا ہے مگر ’’وہاں کی ایک پارٹی آپ کی موئد ہے اور آپ کے الفاظ کی مختلف تعبیر کرتی ہے۔‘‘ ۴۸ پنجاب میں کوئی گانے والی پیشہ ترک کر کے پردہ نشین ہو گئی تھی۔ اُس کا خط اقبال کو موصول ہوا کہ اُن کی شاعری سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ اُس کے ساتھ شادی کر لیں۔ مہذبانہ انکار کے سوا کیا کر سکتے تھے۔ ۳۹ ۴۹ اقبال نے فوق سے کوئی کتاب منگوائی مگر اِس خیال سے کہ وہ شیرانوالہ دروازے میں رہتے ہیں لکھ دیا کہ خود آنے کی بجائے کتاب ڈاک سے بھجوا دیں۔ انہوں نے اسے بے رخی سمجھ کر کارڈ میں دریافت کیا۔ اُس روز شائع ہونے والے کشمیری میگزین کے بارے میں بھی پوچھا جس میں’ڈاکٹر اقبال کی ایک نظم کا اثر‘ کے عنوان سے فوق نے لکھا تھا کہ بیگم صاحبہ بہاولپور نے ایک مقامی زنانہ اخبار کی اڈیٹر سے کہا کہ جب سے انہوں نے پرندے کی فریاد والی نظم پڑھی ہے تیتر، بٹیر اور چڑیوں کا کھانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ کسی پرندے کو پنجرے میں بند دیکھتی ہیں تو دل پر چوٹ لگتی ہے۔ فوق نے اپنی کتاب وجدانی نشترکے بارے میں بھی پوچھا جس میں ایسے واقعات درج تھے جب قرآن شریف کی کسی آیت یا عربی، فارسی، اُردو یا پنجابی کے کسی شعر کا کسی بزرگ پر کوئی خاص اثر ہوا۔ ’’کتاب جب آجائے تو ضرور ہمراہ لائیے بلکہ اس کے آنے میں دیر ہو تو بلا کتاب تشریف لائیں،‘‘اقبال نے کارڈ ملتے ہی ۲۱ دسمبر کو وضاحت کی۔وجدانی نشتر اور اُس روز کا کشمیری میگزین اقبال کی نظر سے نہیں گزرے تھے۔ ۵۰ لکھنے والے نے کشاف کا قلمی نام اختیار کر کے لکھا، ’’اقبال نے مثنوی اَسرارِ خودی کیا لکھی کہ اُس کے احباب و مخالفین میں معرکۂ کارزار گرم ہو گیا اور ملّتِ مرحومہ اپنے نازک وقت میں خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئی۔‘‘۴۰ ’اَسرارِ خودی‘ [کشاف کے مضمون سے اقتباس] خواجہ حسن نظامی صاحب مخالفت کے علمبردار ہیں اور یہ مخالفت وہ بہ حیثیت سیکریٹری آل انڈیا صوفی کانفرنس کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کو ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب اقبال نے مثنوی کا نمونہ ’توحید‘ میں شائع کروایا تھا، اُس وقت آپ نے اس کی کس قدر تعریف کی تھی، بلکہ اس کے اَزبر کر لینے کی آپ نے سفارش کی تھی۔ وہی خواجہ صاحب اَب اس کے مخالف ہو رہے ہیں۔ حافظ شیرازی کے متعلق اقبال نے بالکل درست لکھا ہے۔۔۔ قوم کے ارتقا میں شعرأ کا خاص حصہ ہوتا ہے۔ بائرن کے اَشعار نے یونان میں آگ لگا دی، فرانسیسی شعرأ نے انقلابِ فرانس میں نمایاں حصہ لیا۔ متنبی کے اشعار نے عربوں میں خاص روح پیدا کی۔ ہمارے برادرانِ وطن میں رابندرناتھ ٹیگور کے پاکیزہ اَشعار خاص اثر پیدا کر رہے ہیں۔ کیا اقبال اُن کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا؟ اقبال ہمارا بائرن ہے، ہمارا شیلے ہے، ہمارا متنبی ہے، ہمارا ٹیگور ہے اور ہمارا واحد قومی شاعر ہے جس کے کلام نے ارتقأ و احیائے اسلام میں نمایاں حصہ لیا ہے اور اَب مثنوی اَسرارِ خودی میں مسلمانوں کے آگے اُن کا دستور العمل پیش کیا ہے۔ اس بے قدری کے زمانہ میں مفید اشخاص کی جس قدر مٹی خراب ہو رہی ہے، وہ اور کسی کی نہ ہو گی۔ احمد شجاع نے خوب کہا ہے: تیری شمعِ شعر کا اقبال پروانہ ہوں میں تیری لیلائے سخن کا قیس دیوانہ ہوں میں وکیل (امرتسر)، ۲۲ دسمبر ۱۹۱۵ئ۴۱ ۵۱ شاید ۲۲ دسمبر ہی کی شام فوق وجدانی نشتر کے بغیر ملنے چلے آئے۔ ’’میرے دوست منشی محمد دین فوق۔۔۔ نے مجھ سے سوال کیا کہ تم نے حافظ پر کیوں اعتراض کیا ہے،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’اُس وقت فرصت کم تھی اور چونکہ مضمون طویل تھا، میں نے اُن کو کوئی جواب نہ دیا۔ عام مسائلِ تصوف پر گفتگو کرتا رہا۔‘‘۴۲ ۵۲ معلوم ہوتا ہے کہ وجدانی نشتر اگلے روز اقبال کو ملی اور اُنہوں نے اُسی روز دیکھ ڈالی۔ شاہجہاں کے زمانے میں لاہور میں میاں میر کے مرید اور شہزادہ داراشکوہ کے مرشد ملّا شاہ بدخشانی نے ایک شعر میں کہا کہ میں نے اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو پھر مجھے آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی کیا پروا ہے: پنجہ در پنجۂ خدا دارم من چہ پروائے مصطفیٰ دارم شہنشاہ شاہجہاں نے بازپرس کی تو ملّا نے کہا کہ رسالت کی توہین تو وہ کر سکتا ہے جو اپنے، مصطفیٰؐ ؐ اور خدا کے درمیان فرق کرتا ہو۔ خدا کے پنجے میں آپ بھی ہیں، میں بھی اور مصطفیٰؐ بھی، پھر پروا کس کی اور خوف کس بات کا! اقبال کو اَفسوس ہوا کہ فوق نے اِس بیہودہ واقعے کو چوتھے باب، ’تیر و نشتر‘ میں جگہ دی تھی۔۴۳ البتہ صفحہ ۹۴ پر اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں ایک واقعہ حافظ شیرازی کے اُس شعر کے حوالے سے درج تھا جس کا مطلب تھا کہ ہمیں نیک نامی کے کوچے میں جانے ہی نہیں دیاگیا، اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو ہماری تقدیر بدل دیجیے۔ اقبال نے محسوس کیا کہ یہاں فوق کے اِس سوال کا جواب موجود تھاکہ اقبال، حافظ شیرازی پر تنقید کیوں کر رہے ہیں۔ وجدانی نشتر از منشی محمد دین فوق [اقتباس از ص۹۴] اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے، جو بڑا متشدد بادشاہ تھا، ایک مرتبہ حکم دیا کہ اِتنی مدت کے اندر جتنی طوائفیں ہیں، سب نکاح کر لیں، ورنہ کشتی میں بھر کر سب کو دریابرد کر دوں گا۔ سینکڑوں نکاح ہو گئے مگر پھر ایک بڑی تعداد رہ گئی۔ چنانچہ ان کے ڈبونے کے لیے کشتیاں تیار ہوئیں اور صرف ایک دن باقی رہ گیا۔ یہ زمانہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تھا۔ ایک حسین نوجوان طوائف روزمرہ آپ کے سلام کو آیا کرتی تھی۔ آپ ورد و وظائف سے فارغ ہوتے، وہ طوائف سامنے آ کر دست بستہ کھڑی ہو جاتی۔ جب آپ نظر اُٹھاتے، وہ سلام کر کے چلی جاتی۔ آج جو وہ آئی تو بعد سلام عرض رساں ہوئی کہ آج خادمہ کا آخری سلام قبول ہو۔ آپ نے حقیقت دریافت فرمائی۔ جب تمام کیفیت بیان کر دی تو آپ نے اِرشاد فرمایا کہ حافظِ شیراز کا یہ شعر: دَر کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را تم سب یاد کر لو اور کل جب تمہیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآوازِ بلند اِس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان سب طوائفوں نے اِس شعر کو یاد کر لیا۔ جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش اِلحانی سے بڑے دردانگیز لہجے میں اِس شعر کو پڑھنا شروع کیا۔ جس نے یہ شعر سنا دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کان میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا سب کو چھوڑ دو۔۴۴ ۵۳ ’’وجدانی نشتر خوب ہے مگر تعجب ہے کہ شیخ ملّا کے ملحدانہ و زندیقانہ شعر۔۔۔ کو آپ اس کتاب میں جگہ دیتے ہیں اور پھر ملّاکی تشریح کس قدر بیہودہ ہے،‘‘ اقبال نے ۲۳ دسمبر کو فوق کو لکھا۔ ’’یہی وہ وحدت الوجود ہے جس پر خواجہ حسن نظامی اور اہلِ طریقت کو ناز ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے اور ہم غریب مسلمانوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔‘‘ دوسرے صفحے پر مختصر تبصرہ لکھ دیا کہ فوق تشہیر کے لیے استعمال کر لیں: مولوی محمدالدین فوق ایک صاحبِ ذوق آدمی ہیں۔ ان کی جدت پسند طبیعت ہمیشہ انوکھی باتوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک کتاب موسوم بہ ’وجدانی نشتر‘ لکھی ہے جس میں ایسے عربی، فارسی، اُردو، پنجابی اشعار جمع کر دیے ہیں جو تاریخی اعتبار سے ایک خاص اثر اور سوز و گداز کا باعث ہوئے ہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں ان کو بہت محنت کرنی پڑی ہو گی۔ مگر مولوی محمدالدین محنت سے گھبرانے والے نہیں۔ کتاب نہایت اچھی ہے اور دلچسپ۔ فوق صاحب کی تلاش قابلِ داد ہے اور انسانی قلب کی گوناگوں کیفیات پر روشنی ڈالتی ہے۔۴۵ ۵۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: William Temple. The Nature of Personality. Macmillan, London Harald Hoffding (translated by Alfred C. Mason). Modern Philosophers: Lectures delivered at the University of Copenhagen during the autumn of 1902 and lectures on Bergson delivered in 1913. Macmillan, London۴۶ ۵۵ کشافِ خودی از خواجہ حسن نظامی [اقتباس] حضرت اقبال کے کمالِ شاعری، سوز و گداز اور اُس اثر سے انکار کرنا جس نے مسلمانوں کی موجودہ نسل کو بیدار کیا، آفتاب کے وجود سے انکار کرنا ہے۔۔۔ اخبار توحید میں اس مثنوی [اَسرارِ خودی] کے چند اَشعار چھپے تھے۔ میں نے تمام و کمال مثنوی نہ دیکھی تھی۔ اگر اُن اشعار کی تعریف کی گئی تو میری موجودہ رائے پر اُ س کا اثر نہیں پڑ سکتا۔ وہ جزو کو دیکھ کر تھا، یہ کُل کو دیکھ کر ہے۔ مجھے کوئی بتائے اَسرارِ خودی چاہتی کیا ہے؟ یہ تو نہیں جس کا اِشارہ نادانستہ جناب کشاف کے قلم سے نکل گیا ہے یعنی ’’انقلابِ فرانس‘‘؟ فرانس میں شاعروں کی تحریک سے کیا ہوا تھا؟ ہولناک قتلِ عام، اہلِ مذہب کی خوں ریزی، عبادت خانوں کی پامالی! اسی انقلاب کا نتیجہ ہے کہ مذہب فرانس میں ناپید ہو گیا، خودپرستی نے قبضہ کر لیا اور فرانس نے خدا کو چھوڑ دیا۔ تو کیا اَسرارِ خودی یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان میں بھی مذہب کا وہی حشر ہو؟ ۔۔۔میں اقبال کی نیت پر حملہ نہیں کروں گا۔۔۔انہوں نے تو یہ مثنوی اپنی دانست میں مسلمانوں کے فائدہ کے لیے لکھی ہو گی مگر اِس سے سخت خطرے پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے اصول عقائد میں تزلزل پڑ جائے گا۔ دراصل یہ مثنوی اقبال کی نہیں بلکہ اقتضائے وقت کی لسانِ حال ہے۔ وقت کی خواہش ہے کہ مشرقی، مغربی بن جائیں۔۔۔ اگر وہ سچے ہیں کہ حافظ [شیرازی] کے کلام نے مسلمانوں کو کم ہمت بنا دیا ہے تو میں پوچھوں گا کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دنیائے مردار کی مذمت کی تھی اُس سے مسلمانوں کی ہمت نہ ٹوٹی؟ حضورؐ اور سب صحابہ دین کو مقدم اور دنیا کو موخر کہتے تھے۔ اُنہوں نے کیسی کیسی فتوحات کیں۔ اسرارِ خودی دنیا کو مقدم کہہ کر کیا دکھا سکے گی؟۔۔۔ اسرارِ خودی میں کن کن یورپین فلاسفروں کی روح ہے؟ وکیل (امرتسر)، ۲۹ دسمبر ۱۹۱۵ئ۴۷ صحت خراب تھی اس لیے اصل موضوع یعنی خودی اور بیخودی پر کچھ نہ لکھا۔ آیندہ لکھنے کا وعدہ تھا۔ ۵۶ اگلے روز کشن پرشاد اور خواجہ حسن نظامی کے خطوط موصول ہوئے۔ کشن پرشاد نے اقبال کے جواب نہ لکھنے کی شکائت کی تھی۔ ان کی بار بار کی بیماریوں کا ایسا حل تجویز کیا تھا جس پر وہ یہی کہہ سکتے کہ میں اپنے معاملات خدا کے حوالے کرتا ہوں، ورنہ میرا بے انتہا نشہ تو کئی سمندر مانگتا ہے۔ بقول نظیری نیشاپوری، جو میدان ِ جنگ کا آدمی نہ ہو وہ ہماری صفوں سے دُور رہے کہ جو قتل نہیں ہوا وہ ہمارے قبیلے سے نہیں۔ حسن نظامی کی بیماری پر افسوس کرنے کے بعد اقبال نے تصوف کے بارے میں اپنے خیالات تفصیل سے تحریر کئے۔ اُن کا آبائی اور فطری رجحان تصوف کی طرف تھا ۔ یورپ کے فلسفے نے جو مجموعی طور پر وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے اس رجحان کو مزید پختہ کر دیا۔ قرآن اور اسلامی تاریخ پر غور کرنے سے اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ رہبانیت صرف عیسائی مذہب ہی میں نہیں بلکہ ہر ثقافت میں پیدا ہوئی۔ ہر جگہ اس نے شریعت اور قانون کے اثر کو کم کرنا چاہا۔ ابنِ عربی ایک عظیم اسلامی حکیم کے طور پر قابلِ احترام تھے مگر اُنہوں نے قرآن کی جو تاویل کی تھی اُسے اقبال درست نہ سمجھتے تھے۔ مجدد الفِ ثانی کے افکار کے زیادہ قائل تھے۔ صوفیأ نے توحید اور وحدت کو ایک سمجھنے کی غلطی کی۔ توحید کی ضد شرک ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ توحید کوعقل کی بجائے حال سے ثابت کرنے کے لیے صوفیا نے حالتِ سکر اور وجدوحال دریافت کیا۔ ثابت کچھ نہیں ہوتا۔ وحدت کی ضد کثرت ہے جو کائنات میں موجود ہے۔ انکار کی ضرورت نہیں۔ تو پھر وحدت الوجود کا مقام محض دھوکا اور سراب تھا۔ کسی حقیقت کا انکشاف نہ کرتا تھا۔ اسے ثابت کرنے کی کوشش بھی بیکار تھی۔نجات کا انحصار بھی اور باتوں پر تھا۔قومی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ تھا۔ اُس رات کشن پرشاد کو خط لکھتے ہوئے اس خشک بحث کے بعد ذہن کو تروتازہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۳۰ دسمبر ۱۵ء سرکارِ والاتبار تسلیم۔ خادمِ درگاہِ عالیہ خاکسار اقبال تحریرِ احوال میں ضرور سست ہے مگر اُس کا دل عقیدت اور محبت اور اخلاص میں سست نہیں۔ اللہ تعالیٰ سرکار کو جزائے خیر دے کہ اِس سراپا قصور کو کبھی کبھی محبت سے یاد فرما لیتے ہیں۔ آج صبح والانامہ ملا تھا جس کو پڑھ کر ندامت بھی ہوئی اور مسرّت بھی۔ اِس والانامہ کے موصول ہونے سے پیشتر ایک عریضہ لکھ چکا تھا۔ امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظۂ اشرف سے گزر چکا ہو گا۔ میری صحت عام طور پر اچھی نہیں رہتی، کوئی نہ کوئی شکایت دامن گیر رہتی ہے۔ دوا پر مجھے چنداں اعتبار نہیں، ورزش سے گریز ہے۔ اِس واسطے یہ فیصلہ کر بیٹھا ہوں کہ چلو اگر مقررہ وقت سے کچھ عرصہ پہلے رخصت ہو گئے تو کیا مضائقہ ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ ورزش وغیرہ سے عمر میں اضافہ ہو گا مگر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ دس سال پہلے کیا اور پیچھے کیا، آخر رخصت ہونا ہے تو کیوں دوا اور ورزش کا دردِ سر خریدا جائے۔ سرکار نے جو نسخہ میرے لیے تجویز فرمایا ہے ضرور مفید ہوگا کیونکہ مجرّب ہے اور مجھے اس کے استعمال کی خواہش بھی بہت ہے مگر نری خواہش سے کام نہیں چلتا۔ استعمال کے وسائل ضروری ہیں اور وہ مفقود ورنہ یہ تو وہ چیز ہے کہ: خمارِ بیحدِ من بحرہا ہمی طلبم لنڈن میں ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟ میں نے کہا ہاں، تیسرا حصہ مسلمان ہوں۔ وہ حیران ہو کر بولے، ’’کس طرح؟‘‘ میں نے عرض کی کہ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں نماز، خوشبو اور عورت۔ مجھے اِن تینوں میں صرف ایک پسند ہے۔ مگر اِس تخیل کی داد دینی چاہئے کہ نبی کریمؐ نے عورت کا ذکر دو لطیف ترین چیزوں کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت نظامِ عالم کی خوشبو ہے اور قلب کی نماز۔ ایک مطربہ پنجاب میں رہتی ہے۔ میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں مگر سنا جاتا ہے کہ حُسن میں لاجواب ہے اور اپنے گزشتہ اعمال سے تائب ہو کر پردہ نشینی کی زندگی بسر کرتی ہے۔ چند روز ہوئے اس کا خط مجھے موصول ہوا کہ مجھ سے نکاح کر لو۔ تمہاری نظم کی وجہ سے تم سے غائبانہ پیار رکھتی ہوں اور میری توبہ کو ٹھکانے لگا دو۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ اِس کارِ خیر میں حصہ لوں مگر کمر میں طاقت ہی نری کافی نہیں، اس کے لیے دوسرے وسائل بھی ضروری ہیں۔ مجبوراً مہذبانہ انکار کرنا پڑا۔ اب بتائیے کہ آپ کا نسخہ کیسے استعمال میں آئے۔ مگر میں آپ کی ولائت کا قائل ہوں کہ آپ نے ایسے وقت میں یہ نسخہ تجویز فرمایا کہ مریض کی طبیعت خودبخود اُدھر مائل تھی۔ نسخہ مجھے دل سے پسند ہے مگر اس کو کسی اور وقت پر استعمال میں لاؤں گا جب حالات زیادہ مساعد ہوں گے۔ فی الحال سرکار کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ قادروتوانا سرکار کی تقلید کی توفیق عطا فرمائے کہ خماری شاہ کے مریدوں میں داخل ہو کر تثلیثی مذہب کو خیرباد کہہ کر پنج تنی ہو جاؤں۔ افوض امری الی اللّٰہکیا خوب فرمایا گیا ہے۔ اس سے طبیعت کا سکون اور اطمینان بڑھتا ہے۔ کسی انگریزی حکیم نے کیا خوب لکھا ہے: "The best way of getting a thing is in for getting it." اور یہ بات افوض امری الی اللّٰہکے وظیفے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ بہت رات جا چکی، بارہ بج گئے۔ اب سوتا ہوں اگر نیند آ گئی۔ پھر حاضر ہو کر باقی حالات عرض کروں گا۔ گریز از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست بندۂ درگاہ محمد اقبال ۵۷ ۳۱ دسمبر کو بمبئی کے ساحل پر وسیع و عریض شامیانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت بیرسٹر مظہرالحق کر رہے تھے جنہوں نے دو برس پہلے کانپور کے مقدمے میں مسلمانوں کی کامیاب وکالت کی تھی۔ اُنہوں نے بیرسٹرجناح کو اسٹیج پر آ کر وہ تجاویز پیش کرنے کی دعوت دی جن کی روشنی میں کانگریس کے ساتھ اتحاد ممکن تھا۔ حسرت موہانی جنہوں نے بارہ برس پہلے اقبال کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ غلط اُردو کا رواج ہونے سے بہتر ہے کہ پنجاب میں اُردو رائج ہی نہ ہو، مسلم لیگ کے رکن نہیں تھے مگر ٹکٹ خرید کر آئے ہوئے تھے۔ اُٹھے اور اعتراض کر دیا۔ حسرت موہانی کے ساتھ بعض قدیم خیال کے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور مظہرالحق کو مخاطب کر کے شور مچانے لگے، ’’تم مسلمان نہیں ہو!‘‘ اُن کا مطالبہ تھا کہ مسلم لیگ کے اجلاس میں صرف اُردو بولی جائے۔ دُوسرا حصہ ۵۸ دَورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد کیا زندگی جو دل میں کوئی آرزو نہ ہو رہتی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد ہے کس کے بل پہ حضرتِ جوہرؔ یہ رُوکشی ڈھونڈھیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد مولانا محمد علی ’’جوہرؔ‘‘ ۵۹ یکم جنوری کو صبح دس بجے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی تیسری نشست تاج ہوٹل بمبئی میں ہوئی۔ گزشتہ روز کے ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے صرف لیگ کے ارکان اور پریس کے نمایندوں کو شرکت کی اجازت دی گئی۔ بیرسٹر مظہرالحق نے علی برادران کی گرفتاری کے بارے میں قرارداد پیش کی جس میں حکومت سے مطالبہ ہوا کہ گرفتاری کی وجہ بتائے۔ محمد علی جناح نے لیگ کی طرف سے سیاسی پروگرام بنانے کے لیے کمیٹی بنانے کی قرارداد پیش کی جس میں پنجاب کے ارکان میں ظفر علی خاں شامل تھے۔۴۸ اُس روز وکیل (امرتسر) میں ’اَسرارِ خودی ‘کی حمایت میں مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر کرنے کی بجائے صرف ’’ایک مسلمان‘‘ لکھا تھا۔ بھوپال کی فرمانروا نواب سلطان جہاں بیگم کی طرف سے بھی حمایت ہوئی جن کی اِمداد سے شبلی نعمانی مرحوم کی سیرۃ النبیؐ پر کام ہو رہا تھا۔ الناظر (لکھنؤ) کے جنوری ۱۹۱۶ء کے شمارے میں نواب سلطان جہاں بیگم نے ’اَسرارِ خودی ‘ کے بارے میں لکھا، ’’دردمندانِ قوم پر اِس مثنوی کا مطالعہ واجب ہے۔‘‘ ’اَسرارِ خودی‘ [نواب سلطان جہاں بیگم کے مضمون سے اقتباس] باقی رہی اُس کی شاعرانہ حیثیت سو ڈاکٹر صاحب کے ذوقِ سلیم اور طبیعت داری میں کسے کلام ہو سکتا ہے اور اَب تو اُن کے توسنِ فکر نے کسی دوسرے ہی عالم کو اپنا جولاں گاہ بنانا چاہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِس طرح کی دلپذیر نظموں سے قوم کو فرسودہ خیالات کی بیڑیوں سے آزاد کر کے حکمتِ عملی کا دلدادہ بنائیں۔ خدا اُن کی مدد کرے اور قوم و ملک کو توفیق عطا فرمائے۔ ہم کو اِس سے پیشتر فارسی زبان پر ڈاکٹر صاحب کی قادر الکلامی کا کوئی بین ثبوت نہیں ملا تھا، اِس مثنوی کی برجستگیٔ بیان و بے تکلفیٔ زبان نے ثابت کر دیا کہ اُن کو فارسی پر بھی اُسی طرح اور اُسی قدر قدرت حاصل ہے جس قدر کہ اُردو پر۔ الناظر (لکھنؤ)، جنوری ۱۹۱۶ئ۴۹ ۶۰ ۱۲۰۱ء میں بغداد میں رمضان کی ایک رات ستاسی برس کے ایک بزرگ نے عربی میں اشعار پڑھے جن کا مفہوم تھا، ’’اے وہ ذات جو بہت بڑے گناہگاروں کو معاف کرنے والی ہے! تیرے حضور ایک ایسا گناہگار آ رہا ہے جسے اپنے گناہوں کی معافی مل جانے کی اُمید ہے۔ میں مہمان ہوں اور مہمان کے ساتھ اچھا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد فوت ہو گئے۔ یہ علامہ جمال الدین ابن جوزی تھے۔صوفیوں، حکیموں، فلسفیوں اور عام مسلمانوں پر سخت تنقید کرتے رہے تھے جس کا ہمیشہ رہنے والا نتیجہ ان کی کتاب تلبیس ابلیس تھی یعنی شیطانی ہتھکنڈے۔ علامہ ابن جوزی کی تنقید کی بنیاد اِس نکتے پر تھی کہ قرآن اور حدیث کے احکامات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور کسی قسم کی جدت پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ تلبیسِ ابلیس میں دو سو کے قریب صفحات صوفیوں کی مذمت میں لکھے گئے تھے جن میں صرف صوفیوں کے فلسفیانہ عقائد ہی نشانہ نہیں بنے تھے بلکہ حد سے زیادہ عبادت گزاری، وظیفے اور دنیاداری سے پرہیز کرنے کو بھی اِسلام کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ امام غزالی جیسے برگزیدہ عالمِ دین کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی گئی تھی کہ تصوف کے اثرات انہیں اسلام سے بہت دُور لے گئے اور اُن کی کتاب احیأالعلوم الدینمیں خرافات جمع ہو گئیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ دوسرے بزرگوں کے بارے میں ابن جوزی کی رائے کیا رہی ہو گی اور کس قسم کے الفاظ میں ظاہر ہوئی ہو گی۔ اقبال کے لیے ابن جوزی کی تقلید کرنا تو خیر ممکن ہی نہیں تھا، شاید یہ بھی سوچا ہو کہ اگر آج ابن جوزی ہوتے اور ’اَسرارِ خودی‘ اُن کی نظر سے گزرتی تو وہ اس میں بو علی قلندر کی کرامت، امیر خسرو کی موسیقی اور ایسے ہی دوسرے معاملات کے بارے میں نجانے کیا خیال کرتے۔ اِس کے باوجود اقبال کا خیال تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو تلبیسِ ابلیسکا یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ خواہ اِس تنقید کی زد میں اقبال خود بھی آتے ہوں مگر کم سے کم ذہنوں کے دریچے تو کھلیں گے، یہ تو معلوم ہو گا کہ تصوف کے جن مسائل کو عین اسلام سمجھ لیا گیا ہے وہ بعض بزرگوں کے نزدیک اسلام کی ضد تھے۔ منصور اور شبلی جیسے صاحبِ حال ہوں یا امام غزالی جیسے صاحبِ علم، ہمارے بزرگوں نے کسی کو بھی تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا۔ اسلامی ادبیات کا دامن اِتنا وسیع ہے کہ اس میں ہر قسم کے مسائل پر آزادانہ بحث کی گنجایش موجود ہے۔ تلبیس ابلیس علامہ جمال الدین ابن جوزی [ایک اقتباس کی تلخیص کا ترجمہ] یہ بات بھی ذہن نشین فرما لیں کہ فقر و محتاجی ایک مرض ہے۔ جو کوئی اِس مرض میں مبتلا ہو پھر اظہارِ صبر کرے اُسے بوجہ صبر ثواب ملے گا۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ مال ایک نعمت ہے اور نعمت شکریہ ادا کرنے کی محتاج ہے۔ مالدار آدمی اگر مال کے جائز استعمال میں اپنے آپ کو تھکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو نیک اُمور میں لگائے رکھتا ہے تو وہ ایک مفتی اور مجاہد کی مانند ہے اور ایک فقیر و کنگال ایک گوشہ نشین کی مثل ہے۔ ابو عبدالرحمٰن سلمی نے کتاب سنن الصوفیہ میں ان الفاظ کے ساتھ یہ باب باندھا ہے: ’’اس بات کا بیان کہ فقیر کا اپنی وراثت میں کوئی چیز چھوڑنا مکروہ ہے۔‘‘ پھر اس میں اہلِ صفہ میں سے ایک صحابی کی حدیث بیان کی ہے جو اپنے ترکہ میں دو دینار چھوڑ گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ’’یہ دو داغ ہیں۔‘‘ یہ اُس آدمی کی دلیل ہے جو حقیقتِ حال کو نہیں سمجھتا کیونکہ وہ فقیر صحابی تو فقرأ سے مزاحمت کے ساتھ مالِ صدقہ لیتا تھا اور جو اپنے پاس ہوتا تھا اُسے رکھ چھوڑتا تھا اس لیے نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا تھا، ’’یہ دو داغ ہیں۔‘‘ اگر صرف ترکہ چھوڑنا ہی مکروہ ہوتا تو رسول اللہؐ سیدنا سعدؓ سے یہ نہ فرماتے، ’’بلاشبہ تو اگر اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں ایسا کنگال چھوڑ جائے جو لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔‘‘اور پھر صحابۂ کرام میں سے کوئی بھی اپنے پیچھے کوئی چیز نہ چھوڑتا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا، ’’رسول اللہؐ نے صدقہ کرنے پر رغبت دلائی تو میں اپنا نصف مال لے آیا۔ رسول اکرمؐ نے دریافت کیا، ’تو نے اپنے اہل و عیال کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے؟‘ میں عرض کی، ’اِتنا ہی مال گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔‘ ‘‘رسول اللہؐ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔۵۰ ۶۱ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب سب مسلمان جنگ کے لیے چندہ فراہم کر رہے تھے اور حضرت عمرؓ بہت سے درہم لے کر آئے تو آنحضورؐ نے دریافت فرمایا تھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا تھا، نصف۔ اِتنے میں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بھی حاضر ہو کر ساز و سامان پیش کیا: بولے حضورؐ، چاہیے فکرِ عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار! پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۵۱ ۶۲ اقبال اپنی مثنوی کے دوسرے حصے کے لیے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے جمع کرنا چاہتے تھے۔ یہ دکھانا تھا کہ انصاف اسلامی معاشرے کے تصور میں ایک اہم عنصر ہے۔ خیال آیا کہ حیدرآباد کے گزشتہ نظام میر محبوب علی کے انصاف کا کوئی واقعہ ملے تو خوب ہو۔۵۲ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا۔ معلوم ہوا خوش و خرم ہیں۔ پھر ۳ جنوری کو کشن پرشاد کا خط ملا۔شکایت کر رہے تھے کہ اقبال کے خطوط کی تعداداُن کے خطوط سے کم ہے۔ ۴ جنوری کو پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس ہوا۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں صدارت کر رہے تھے۔ اس برس کنوینر ڈاکٹر عظیم الدین تھے۔ ایم ۔ او۔ ایل، ایف۔او۔ایل اور بی۔او۔ایل کے امتحانات کے لیے نصاب تیار کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اقبال کو اُس کا کنوینر بنانے کی تجویز ہوئی۔ اقبال نے صحت کی خرابی کا عذر پیش کر کے معذرت کی۔ ان کی تجویز پر کمیٹی کے کنوینر بھی ڈاکٹر عظیم الدین ہی بنے۔۵۳ اگلے روز کشن پرشاد کی اِس شکایت کے جواب میں کہ اقبال کے خطوط کی تعداد اُن کے خطوط سے کم ہے، اقبال نے لکھا، ’’اگر ایسا نہ ہوتا تو سرکار کی اقبال پروری کا ظہور کس طرح ہوتا؟‘‘ فرمائش کی کہ اگرنظام دکن نواب میر محبوب علی خاں کے عدل و انصاف کے بارے میں کوئی دلچسپ اور معنی خیز واقعہ معلوم ہو جسے حکایت کے طور پر لکھ سکتے ہوں تو بھیج دیں۔ ’’میں اُسے ایک خاص غرض کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو ایک وقت پر آپ کو معلوم ہو جائے گی۔‘‘۵۴ وہ خاص غرض مثنوی کا دُوسرا حصہ تھا۔ بالآخر خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ سے سلطان مراد کا وہ واقعہ استعمال ہوا جس کی طرف ۱۹۰۸ء میں ’اسلام میں سیاسی فکر‘ والے انگریزی مضمون میں بھی اشارہ کر چکے تھے۔ سلطان مراد نے خجند کے کسی معمار سے مسجد بنوائی۔ ایک دیوار ٹیڑھی نظر آئی تو معمار کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اُس نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ کر دیا۔ سلطان کو ملزم کی حیثیت میں پیش ہونا پڑا۔ قاضی نے فتویٰ دیا کہ سلطان کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ معمار نے معاف کر دیا۔ عثمانی تاریخ میں مراد نام کے کئی سلطان گزرے تھے۔ اقبال نے کبھی واضح نہ کیا کہ یہ واقعہ اُن میں سے کس کے بارے میں تھا۔ ضرورت بھی نہ تھی۔ اصل موضوع بادشاہ کی انصاف پروری نہیں بلکہ قرآن کی طاقت تھا۔ واقعے کی تاریخی صحت سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ بہرحال اسلامی تاریخ میں مطلق العنان بادشاہوں کو بھی کبھی نہ کبھی قرآن کے احترام پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔ اسلامی معاشرے میں قرآن کسی نہ کسی حیثیت میں ایک زندہ قوت رہا۔ بہرحال اس قرآن کا اپنا نصب العین مساوات اور حریت یعنی انسانوں کے درمیان برابری اور اُن کی آزادی تھا۔ مثنوی پیامِ سروش کا متروک مسودہ جو اَب دوسرے حصے کی بیاض بن گیا تھا، اُس میں یہ واقعہ لکھا گیا۔ کئی مصرعے قلمزد ہوئے۔ قاضی کے خطاب سے مطمئن نہ تھے۔ آخر اس کے بعض اشعار کاٹ کر حاشیے میں کچھ نئے اشعار لکھے۔ پھر ایک ایسے زبردست شعر کی آمد ہوئی کہ وہ سب اَشعار کٹ گئے۔ قاضی کی زبان سے کہلوایا کہ محکوم مسلمان آزاد سے کمتر نہیں، بادشاہ کا خون معمار کے خون سے زیادہ سرخ نہیں ہے۔ یہ شعر ذومعنی ہو گیا کیونکہ اب ہندوستان کے مسلمان ’’عبد مسلم‘‘ یعنی محکوم مسلمان تھے۔ ان کے لیے یہ شعر خاص معنویت رکھتا تھا: عبد مسلم کمتر از احرار نیست خونِ شہ رنگیں تر از معمار نیست۵۵ ۶۳ خیال کیا جاتا ہے کہ ۷ جنوری کے خطیب میں وہ خط شائع ہوا جو اقبال نے پچھلے برس ۳۰ دسمبر کو خواجہ حسن نظامی کو لکھا تھا۔۵۶ ۶۴ یاس، حزن اور بیم- یعنی اُداسی، غم اور مایوسی! یہ برائیوں کی جڑیں ہیں۔ یہ زندگی کے دشمن ہیں۔ توحید اِن کا خاتمہ کرتی ہے۔ اُس نکتے کی وضاحت کر رہے تھے جسے ۱۹۰۹ء کے انگریزی لیکچر، ’اسلام ایک سیاسی اور اخلاقی نصب العین‘ میں بیان کیا تھا کہ اسلامی تصورِ حیات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دنیا میں خوف موجود ہے مگر اس خوف پر قابو پانا چاہیے۔ اصل برائی خوف ہے۔ یہی ہمیں دوسروں سے بدظن کرتا ہے۔ اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ دنیا کی ہر برائی کی تہہ میں کسی نہ کسی قسم کا خوف ضرور چھپا ہوتا ہے۔ یہ باب مشکل سے مکمل ہوا۔ کانٹ چھانٹ کرنی پڑی۔ ممکن ہے کہ ’اَسرارِ خودی‘ پر اعتراضات کی وجہ سے ذہنی سکون غارت ہو گیاہو۔۵۷ ۶۵ مسلم قومیت کے بنیادی ارکان دو تھے۔ توحید پہلا رُکن تھی جو خوف اور مایوسی کا خاتمہ کرتی تھی۔ دوسرا رُکن رسالت تھی۔ یہ ہدایت کا دائرہ تھی کہ جو اِس میں آ گیا وہ محفوظ ہوا۔ جس طرح فرد خدا کے ساتھ تعلق سے زندہ تھا اُسی طرح ملت رسولِ پاکؐ کے ساتھ تعلق سے زندہ تھی۔ اِس رُکن پر ملت کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھی۔ تکمیل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ ہر کثرت وحدت کے بندھن سے زندہ ہے۔ مسلمانوں کی وحدت دینِ فطرت سے ہے۔ یہ دینِ فطرت ہم نے نبیؐ سے سیکھا ہے۔ حق کی راہ میں مشعل روشن کی ہے۔ یہ موتی آپؐ کے بے پایاں سمندر سے ہے۔ یہ آپؐ کا احسان ہے کہ ہم یکجان ہیں۔۵۸ ۶۶ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک سے کہا کہ بغداد میں آ کر حدیث کا درس دیں تاکہ خلیفہ بھی اُس میں شریک ہو سکے۔ امام مالک مدینہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے کہلا بھیجا ، ’’میں رسولِ پاکؐ کا غلام ہوں۔ان کا شہر چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ اقبال نے یہ واقعہ ملتِ اسلامیہ کے پہلے رکن توحید کی وضاحت کے لیے نظم کیا۔ بات بنی نہیں۔ ۶۷ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خواب میں دیکھا۔ اُن کے راستے کی خاک سے پھول چُنے۔ درخواست کی کہ ملّت کے دُکھ کا علاج تجویز فرمائیں۔ انہوں نے فرمایا، ’’تم کب تک ہوس کے قیدی بنے رہو گے۔ سورۂ اخلاص سے حرارت اور چمک حاصل کرو۔‘‘ مثنوی کے دوسرے حصے میں جو کچھ کہنا تھا، سورۂ اخلاص اُس کا خلاصہ بن گئی: قل ھو اللّٰہ احد (کہو کہ اللہ ایک ہے):مسلمان بھی ایک ہیں۔ رنگ، نسل، وطن اور دیگر امتیازات سے بلند ہیں۔ اللّٰہ الصمد(اللہ بے نیاز ہے): مسلمان کو بھی بے نیاز ہونا چاہیے۔ دوسروں کے سامنے اپنی ضرورتیں پیش نہیں کرنی چاہئیں۔ خلیفہ ہارون الرشید اور امام مالک کا واقعہ اس کی مثال تھا۔ لم یلد ولم یولد(نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اُس کی کوئی اولاد ہے): مسلمان کو بھی خون کے رشتے سے بلند ہونا چاہیے۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے کسی نے شجرۂ نسب پوچھا تو فرمایا، ’’سلمان ابن اسلام‘‘۔ ایک اور صحابی ابن مسعودؓ کے بھائی کا انتقال ہوا توصرف اِس بات کا افسوس کرتے تھے کہ وہ آنحضورؐ کی زیارت سے محروم ہو گیا (کیونکہ آنحضورؐ دنیا میں تشریف رکھتے تھے)۔ ولم یکن لہٗ کفواً احد(کوئی اُس کا ہمسر نہیں ، وہ یکتا ہے): مسلمان بھی دنیا میں بے مثال ہے کیونکہ اُس کے پاس قرآن ہے۔ رات میں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خواب میں دیکھا۔ اُن کے راستے کی خاک سے پھول چُنے۔ وہ جن کے احسانات ہمارے آقاؐ پر سب سے زیادہ تھے۔ جو ہمارے طُورِ سینا کے پہلے کلیم تھے۔ اُن کی ہمت ملّت کی کھیتی کے لیے بادل تھی۔ اسلام، غارِ ثور اور قبر میں آنحضورؐ کے ساتھ دوسرے وہی تھے۔ من شبے صدیق را دیدم بخواب گُل زخاکِ راہِ او چیدم بخواب آں امن الناس بر مولائے ما آں کلیمِ اولِ سینائے ما ہمّتِ او کشتِ ملّت را چو ابر ثانیٔ اسلام و غار و بدر و قبر۵۹ ۶۸ ۱۵ جنوری کو وکیل امرتسر میں اقبال کا طویل مراسلہ ’اَسرارِ خودی اور تصوف‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ معلوم نہیں یہ عنوان اقبال نے تجویز کیا تھا یا مدیر نے لیکن بہرحال بنیادی مقصد یہ دکھانا تھا کہ ’اَسرارِ خودی‘ میں تصوف کی مخالفت نہیں بلکہ اُس کی اصلاح کر کے معاشرے کے لیے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی گئی ہے: ۱ یہ شکایت کہ ’اسرارِ خودی‘ میں تصوّف کی مخالفت کی گئی ہے، اِسلامی لٹریچر سے لوگوں کی ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ۲ تصوف میںاسلامی عناصر کے ساتھ ساتھ غیراسلامی عناصر بھی شامل ہو گئے تھے۔ علامہ ابن جوزی نے تلبیس ابلیس کے ایک حصے میں اس کی وضاحت کی تھی اور یہ حصہ اب اُردو میں بھی دستیاب تھا۔ اقبال بھی تصوف کی تاریخ لکھ کر وضاحت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ۳ غیراِسلامی عناصر میں تین نمایاں مثالیں ایسی تھیں جن کے اقبال خود بھی کسی زمانے میں قائل رہے تھے (بالخصوص ۱۹۰۶ء سے پہلے): الف۔ مسئلہ قِدمِ ارواحِ کملا: اقبال کے خیال میں یہ مسئلہ افلاطون سے مستعار لیا گیا تھا، بو علی سینا اور ابونصر فارابی دونوں اِس مسئلے کے قائل تھے چنانچہ امام غزالی نے دنوں کو کافر قرار دیا تھا؛ مسلمانوں میں قبرپرستی کی بنیاد اِسی پر تھی۔ ب۔تنزلات ستّہ: اقبال کے نزدیک یہ مسئلہ پلوٹانیس سے مستعار لیا گیا تھا جو افلاطونیتِ جدیدہ کا بانی تھا اور اِسلام کے ابتدائی زمانے میں افلاطونیتِ جدیدہ کی ایک کتاب کو ارسطو کی کتاب سمجھ کر ترجمہ کرنے کی وجہ سے یہ مسئلہ مسلمان فلسفیوں میں رِواج پا گیا۔شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول اِس مسئلے کے قائل تھے (جنہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی)۔ ج۔ وحدت الوجود: یہ مندرجہ بالا نظریے کی تکمیل تھا، ’’یوں کہیے کہ عقلِ انسانی خودبخود تنزلاتِ ستّہ سے وحدت الوجود تک پہنچی ہے‘‘۔ ویداَنت یعنی ہندو فلسفہ بھی یہی وحدت الوجود تھا۔ مسلمانوں میں اس عقیدے کے ماننے والوں میں سے بعض اِسے ایک ’’حقیقتِ نفسِ امری‘‘ قرار دیتے تھے اور بعض محض ’’ایک کیفیتِ قلبی یا مقام‘‘۔ یہ مسئلہ اسلامی لٹریچر کا لازمی حصہ بن گیا اور اس کے ذمہ دار وہ صوفی شعرأ تھے جو اِس کی مدد سے پست اخلاق پیدا کرتے تھے یعنی ’’حقیقتِ انسانی ’گسستن‘ نہیں بلکہ ’پیوستن‘ ہے۔‘‘ مثلاً حسین گیلانی کے خیال میں انتہائے کمالِ روحِ انسانی اپنی شخصیت کو فنا کر دینا تھا۔ پنجابی زبان کے شاعر وحید خاں نے کسی ہندو جوگی کا مرید ہونے کے بعد شعر کہا کہ میں پٹھان تھا اور فوجوں کے منہ موڑ سکتا تھا مگر جب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیں ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا (یعنی معلوم ہوا ہے کہ ہر چیز میں خدا کا وجود ہے تو توڑنے میں تنکے کو دُکھ پہنچنے کا خیال پیدا ہوتا ہے)۔ ۴ جو مسلمان اِن غیراسلامی عقائد کو اِسلام کا حصہ سمجھ بیٹھے تھے، اقبال انہیں کافر نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ایسا کیاتھا۔ ۵ اقبال کا عقیدہ تھا، ’’خدائے تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظامِ عالم کا خالق ہے اور اُس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے جب وہ چاہے گا اِس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ ۶ فلسفیانہ مسائل کو تصوف سے خارج کر نے کے بعد وہ اصل تصوف بچتا تھا جس کے نمائندے حضرت علی ہجویری، نظام الدین اولیأ، بو علی قلندر، میاں میر اور ایسے ہی ہزاروں دیگر بزرگ تھے، ’’جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ہے اور جو اِس ذریعہ سے ذاتِ باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں۔‘‘ ’اَسرارِ خودی‘ میں اسی قسم کے بزرگوں کی حکایات اور اقوال سے دلائل پیش کیے گئے تھے۔ ۷ خواجہ حافظ شیرازی بلندپایہ شاعر تھے مگر اُن کی شاعری کا اثر ’’سکر‘‘ یعنی خواب آوری تھا جبکہ اسلام کا مقصود ’’صحو‘‘ یعنی بیداری تھا۔ لوگوں نے اُن کے اَشعار سے جو تصوف برآمد کیا وہ اقبال کے خیال میں حافظ کے پیشِ نظر نہیں تھا مگر بہرحال وہ تصوف بھی دلوں کو مردہ کرنے والا تھا جسے اولوالعزم صوفیأ کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ آخر میں خواجہ حافظ شیرازی کے شعر کے بارے اورنگزیب والا واقعہ فوق کی وجدانی نشتر سے نقل کر کے لطیفے کے طور پر لکھا، ’’منشی محمد دین فوق کو معلوم ہوکہ جو اُن کے نزدیک حافظؔ کا حسن ہے وہ میرے نقطۂ نظر سے اُس کا قبح ہے اور وہ یہ کہ مسئلہ تقدیر کی ایک ایسی غلط مگر دلآویز تعبیر سے حافظؔ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو جو آئینِ حقۂ شرعیۂ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو اِس بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا قلبی اعتبار سے اِس قدر ناتواں کر دیا کہ اُسے قوانینِ اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت ہی نہ رہی اور اگر عالمگیر دارا کے معاملے میں بھی ’بادشمناں مدارا‘ پر عمل کرتا تو ہندوستان میں شریعتِ اسلامیہ کی حکومت کبھی قائم نہ ہوتی۔‘‘۶۰ ۶۹ مثنوی کے دوسرے حصے کی طرف سے توجہ ہٹ گئی۔ تصوف کی تاریخ پر دیباچہ لکھنے کے لیے مواد جمع کرنے لگے۔ فرانس سے منصور حلاج کی کتاب الطواسین منگوانے کا بندوبست بھی کرنے لگے۔اپنی کتاب میں تلبیس ابلیس کے تصوف والے حصے کا ترجمہ بھی شائع کرنے کا ارادہ تھا۔ پوری کتاب کا ترجمہ مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا تھا۔ تصوف والے حصے کو دوبارہ شائع کرنے کے لیے مترجم سے اجازت لے لی۔۶۱ ۷۰ خان محمد نیاز الدین کا خط آیا۔ مثنوی پسند آئی تھی۔ افلاطونیتِ جدید کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے کسی رسالے کا ذکر کیا۔ ’’سید ولی اللہ شاہ صاحب کا رسالہ میں نے دیکھا ہے،‘‘اقبال نے ۱۹ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیراسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اِسے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اقبال کے نزدیک یہ یونانی فلسفے کی ایک بگڑی ہوئی صورت تھی جسے پلوٹائنس نے مذہب کی صورت میں پیش کیا۔ عیسائیت کی ابتدائی صدیوں میں یہ رومی دنیا میں مقبول تھا مگر اس کی آخری حامی ہپٹائیا نامی عورت کو ۴۱۵ء میں عیسائیوں ہی نے مصر میں بڑی بیدردی سے قتل کر دیا۔ بعد میں حرّان کے عیسائیوں کے ذریعے مسلمانوں میں بھی یہ مذہب پھیل گیا۔ پھر یہ ہوا کہ ایک کتاب کو اَرسطو کی مابعدالطبعیات سمجھ کر عربی میں ترجمہ کیا گیا اور صدیوں تک اِسے ارسطو ہی کی تصنیف سمجھا جاتا رہا مگر موجودہ عہد میں اٹلی کے پروفیسر تریچی نے ثابت کیا تھا کہ مسلمانوں میں رائج الٰہیاتِ ارسطو بھی دراصل پلوٹائنس ہی کی ایک تصنیف تھی۔ ’’تصوف کی عمارت اِسی یونانی بیہودگی پر تعمیر کی گئی،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ۷۱ زیورخ میں یورپ کے کئی ممالک سے نکالے ہوئے فنکار جمع تھے۔ رومانیہ کے شاعر ٹرسٹان زارا کو فخر تھا کہ کسی ترتیب کے بغیر یونہی الفاظ جوڑ دیتا ہے۔ اس شاعری کا نام تجویز کرنے کے لیے ڈکشنری کو درمیان میں سے کھولا اور ’ڈاڈا‘ فنونِ لطیفہ کی نئی تحریک کا نام قرار پایا۔ فرانس ہی میں بعض لکھنے پڑھنے والوں کو اسلامی تصوف میں نئے سرے سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ لوئی میسگنان [ماسینوں] (Louis Massignon) نے منصور حلاج کی کتاب الطواسین اپنے حواشی کے ساتھ شائع کی۔۶۲ ۷۲ خواجہ حسن نظامی نے آٹھ سوالات صوفیوں اور پیروں کو بھیجے تاکہ جوابات ’اَسرارِ خودی‘ کے خلاف استعمال ہوں۔ ڈاکٹر اقبال کے آٹھ سوال [خواجہ حسن نظامی کے قلم سے] ۱ کیا قرآن شریف عقیدۂ وحدت الوجود کا مخالف ہے؟ ۲ کیا توحید اور وحدت الوجود دو جداگانہ اشیأ ہیں؟ ۳ کیا اِسلام صرف انانیت مٹانے کو آیا ہے؟ ۴ تصوف کا انتہائی نتیجہ اور مقصود کیا ہے؟ ۵ کیا صحابۂ کرام میں کیف و سُکر مثل خواجہ حافظ شیرازی کے کسی میں نہ تھا؟ ۶ صوفیوں کی حالت، سلوک کے کسی مقام کو مفید ہے یا نہیں؟ ۷ کیا وحدت الوجود کسی مقام کا نام ہے اور اس مقام کے بعد کیا مقام ہے؟ کیا حضرت ابن عربی رحمۃ اللہ علہ نے اس کے بعد عدمِ محض تسلیم کیا ہے اور یہ مذہبی اُمور میں مفید ہے یا نہیں؟ ۸ کیا وحدت الوجود محض علمی مسئلہ ہے یا اس کو مذہب سے بھی کچھ تعلق ہے؟۶۳ ۷۳ ۲۱ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی نے حسن نظامی کو لکھا، ’’میں آپ کو مناسب اور محفوظ جگہ نہ پاؤں گا اگر آپ قرآن مجید سے مسئلہ وحدت الوجود کو ثابت کرنے کے لیے قلم اٹھائیں گے۔‘‘۶۴ اشاعت کی اجازت لینے کی غرض سے مزاحیہ قطعہ بھیجا جس کے آخری شعر کا مفہوم تھا کہ ویرانے کے ہر گوشے میں رقص ہو رہا ہے۔ دیوانہ دیوانے کے ساتھ مل کر رقص کر رہا ہے۔ ۷۴ حسن نظامی نجی خطوط میں اقبال سے کہتے تھے کہ نیت پر شبہ نہیں۔ اخباروں میں برعکس لکھ رہے تھے۔ عجیب سا ہیجانی تعلق برقرار تھا۔ ۶۵ اس دفعہ حسن نظامی کا خط آیا تو معلوم ہوا کہ کشن پرشاد مقدس مقامات کی سیر کرنے حیدرآباد سے نکل گئے ہیں۔ پنجاب کے سفر کا ارادہ معلوم نہیں ہوتا تھا جس پر اقبال ذرا پریشان ہوئے۔۶۶ ۷۵ ۲۴ جنوری کو سراج الاخبار (جہلم) میں ’ڈاکٹر اقبال کی کمزوریاں‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر کرنے کی بجائے ’’ایک مسلم فلاسفر و طبعی‘‘ لکھا تھا۔۶۷ ۷۶ ۲۶ جنوری کو ظفر علی خاں کی بیگم نے مجبوراً روزنامہ زمیندار بند کر دیا۔ ظفر علی خاں ابھی تک کرم آباد میں نظربند تھے۔۶۸ ۷۷ اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا۔ غالباً اِسی خط میں ورنہ انہی دنوں کسی اور خط میں اُنہوں نے اقبال کو لکھا تھا، ’’آپ کے مطمحِ نظر جو اَمر ہے اگر میں اُس کی قدر نہ کروں تو مسلمان نہیں۔‘‘ بہرحال انہیں تشویش تھی کہ اقبال اور حسن نظامی جیسے دوست کہ کبھی ہمزاد کہلاتے تھے اب اس طرح الجھے ہوئے تھے۔ ’’انشأ اللہ اختلافِ رائے کا اثر پرائیویٹ تعلقات پر نہ ہوگا،‘‘ اقبال نے ۲۷ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا اورحسن نظامی کی شکایت کی کہ خط میں کچھ اور لکھتے ہیں، اخبار میں کچھ اور، تصوف کی تاریخ اور قرآنی علوم و ادبیات سے بھی واقف نہیں ہیں۔ابنِ جوزی کی تحریراور اپنے دیباچے کا منصوبہ بھی بیان کیا، ’’رہبانیت کے متعلق جو آیہ شریفہ آپ کے خیال میں ہو ضرور لکھئے۔‘‘ ۷۸ ’’علم باطن جس کو اسلامی اصطلاح میں تصوف بھی کہتے ہیں ایک نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب چیز ہے،‘‘ اقبال لکھ رہے تھے۔ ’’اگرچہ عوام کے نزدیک تصوف محبتِ رسول کا دوسرا نام ہے اور اِسی وجہ سے لوگ صوفیوں اور عاملوں کی طرف جھکتے بھی ہیں۔ تاہم یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ سُنّی دنیا نے آخرِ کار یہ تسلیم کر لیا ہے کہ علمِ ظاہر اور علمِ باطن کا امتیاز واقعی اور حقیقی ہے۔ اور علمِ باطن، علمِ ظاہر سے بزرگ تر ہے۔ آج اگر سنّی دنیا میں کوئی اناالحق کہنے والا یا احکامِ شریعتِ حقہ کی پروا نہ کرنے والا پیدا ہو جائے تو غالباً مجذوب یا مراقی سمجھا جائے اور عام لوگ اُس سے مطلق بازپرس نہ کریں۔‘‘۶۹ یہ اُس کتاب کی ابتدا تھی جسے تاریخِ تصوف کے طور پر لکھا جا رہا تھا۔ آیندہ مطالعہ کرنے والوں کے لیے تصوف کا دیباچہ ثابت ہو۔ ۷۹ ۲۹جنوری کو وکیل (امرتسر) میں کسی نقاد کی تحریر ’اَسرارَ خودی‘ کے خلاف شائع ہوئی۔۷۰ ۸۰ ۳۰ جنوری کو لائل گزٹ (لاہور) میں ’اَسرارِ خودی‘ کی مخالفت میں مضمون شائع ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر نہ کیا تھا۔ ۷۱ اُس روز انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے اہتمام کے لیے کمیٹی بنی۔ اقبال اس میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ نواب ذوالفقار علی خاں، میاں محمد شفیع، حاجی شمس الدین، مولوی احمد دین، میاں فضل حسین، شیخ عبدالقادر، شیخ خیرالدین، منشی قادر بخش، خواجہ دل محمد، مولوی محبوب عالم اور چودہری شہاب الدین تھے۔ اُس روز خطیب میں’سِرِّ اَسرارِ خودی‘ کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی کا وہ مضمون شائع ہوا جس کا اقبال کو اِنتظار تھا۔ ’’اقبال نے مولانا روم کو خواب میں دیکھا،‘‘ حسن نظامی نے مضمون میں لکھا تھا۔ ’’اُن کی مثنوی کو بیداری میں نہ پڑھا- اگر وہ ایسا کرتے تو قرآن کے خلاف نہ چلتے بلکہ قرآن کے اصول کو [اپنی] مثنوی میں لکھتے۔‘‘ آیندہ شمارے میں مزید لکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے کہ حسن نظامی نے مثنوی کے اصل موضوع پر بحث کرنے کی بجائے پانچ وجوہات کی بنا پر اُسے غیرمعقول قرار دے دیا تھا: ۱ ’اَسرارِ خودی‘ میں خودی کی حفاظت میں جو کچھ تھا وہ کچھ انوکھا اور نرالا نہیں تھا بلکہ قرآن شریف کی تعلیمات سے بہت ہی کم تھا۔ ۲ دیباچے میں اقبال نے الزام لگایا تھا کہ قوم میں ترکِ خودی کا جذبہ وحدت الوجود کی تقلید کرنے والے صوفیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ خواجہ حسن نظامی کے نزدیک اقبال کا اصل مقصد صوفی تحریک کا دنیا سے مٹانا تھا جس میں کامیابی ناممکن تھی۔ ۳ حسن نظامی سمجھتے تھے کہ دیباچے میں اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے عقائد بدل کر یورپ کے فلسفیوں کی پیروی کریں۔ ۴ ’اَسرارِ خودی‘ میں خودداری کے ساتھ ساتھ مغربی خودغرضی کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ ۵ ’اَسرارِ خودی‘ نے حسن نظامی کی اپنی خودی کی توہین کی تھی (اِس لحاظ سے کہ وہ حافظ کے عقیدتمند تھے)۔ مضمون کا خاتمہ اکبر الٰہ آبادی کے اِس مصرعہ پر ہوا: خودی خدا سے جھکے بس یہی تصوف ہے اقبال نے سوچا کہ ’اَسرارِ خودی‘ اِسی مصرعے کی تفسیر تو ہے۔ حسن نظامی کیوں غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں؟ بہرحال اُس روز کشن پرشاد کو اجمیر کے پتے پر خط لکھ کر درخواست کی کہ پنجاب ضرور آئیں۔پھر جلد ہی حسن نظامی کے مضمون کا جواب لکھنے میں مصروف ہو گئے۔۷۲ ۸۱ اکبرؔ الٰہ آبادی کا وہ قطعہ شائع ہو گیا جو چند روز پہلے حسن نظامی کو خط میں بھیجا تھا۔ حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن از اکبرؔ الٰہ آبادی حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی اُن کی، اِن کا بانکپن جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آؤ گتھ جائیں خدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلّف ہی سہی ہاتھاپائی کو تصوّف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص۷۳ ۸۲ فروری کے شروع میں عثمانی وزیر اعظم سعید حلیم پاشا مستعفی ہو گئے۔ ۸۳ فروری کے مخزن میں اقبال کی پرانی نظم دوبارہ شائع ہوئی: ’’خدا سے حسن نے اِک روز یہ سوال کیا۔۔۔‘‘۷۴ ۸۴ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں کے صاحبزادے بیرسٹر میاں بشیر احمد کی نعت مخزن میں شائع ہوئی مگر میاں بشیر نے اپنا نام شائع نہ کروایا تھا: بیاباں کو بنایا غیرتِ خلدِ بریں تو نے چمن میں کر دیا ہر گل کو نکہت آفریں تو نے ــمیاں بشیر بار روم میں آئے تو اُن کے تایازاد بھائی میاں شاہنواز، اقبال کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اقبال نے دیکھ کر کہا، ’’آئیے مولانا بشیر!‘‘ ’’یہ سن کر مجھے بیحد شرم آئی،‘‘ میاں بشیر کا بیان ہے۔ ’’میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ بھائی شاہنواز نے کہا دیکھو تم نے مخزن میں جو گمنام ایک نعت بھیجی ہے وہ میں نے ڈاکٹر صاحب[اقبال] کو دکھا دی ہے۔ مخزن اُن کے ہاتھ میں تھا۔۔۔میرا دل بڑھانے کو ڈاکٹر صاحب نے بعض شعروں کی تعریف کی۔ کچھ یہ خیال ہو گا کہ آج کل کا کوئی یورپ زدہ نوجوان مذہب کا ذکر کرے تو اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔‘‘۷۵ ۸۵ ۴ فروری کو اقبال نے کشن پرشاد کے نام خط لکھا۔ اُسی روز اکبرؔ الٰہ آبادی کے خط کے جواب میں پھرحسن نظامی کی شکائت کی۔ شاہ اسماعیل شہید کے رسالے تقویۃ الایمان کی طرف توجہ دینے کا ارادہ بھی تھا مگر تاریخِ تصوف مکمل کرنے کے بعد، ’’فی الحال جو فرصت ملتی ہے وہ اِسی مضمون کی نذر ہو جاتی ہے۔۔۔ مثنوی کا دوسرا حصہ بھی ملتوی ہے مگر اس میں عالمگیر اورنگزیبؒ کے متعلق جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے ایک عرض کرتا ہوں۔‘‘ یہ لکھ کر وہ شعر درج کیا جس میں اورنگزیب کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر بتایا تھا: درمیانِ کارزارِ کفر و دیں ترکشِ ما را خدنگِ آخریں ’’آپ کا قطعہ حضرتِ اقبال اور خواجہ حسن بہت خوب رہا،‘‘ آخر میں لکھا۔ ’’صرف ایک بات ہے کہ خواجہ صاحب کو تو کبھی رقص اور سکر نصیب ہو جاتا ہو گا میں اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ ۸۶ ’’ایک اور بات کا واضح کر دینا ضروری ہے تاکہ ناظرین کو ہماری نسبت غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ مضمون کا مقصد صوفی تحریک کو دنیا سے مٹانے کا ہے،‘‘ اقبال نے تاریخِ تصوف میں لکھا۔ ’’تصوف کا لٹریچر نہایت وسیع ہے اور اس کے دائرے کے اندر مختلف الخیال مصنفین آباد ہیں جن میں بعض مخلص مسلمان ہیں۔ بعض محض اپنے الحاد اور زندقہ کو تصوف کی آڑ میں چھپاتے ہیں اور بعض نیک نیتی سے غیراِسلامی فلسفے کو فلسفۂ اسلامی تصور کرتے ہیں۔ ہم مختصر طور پر یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ نظری اور عملی پہلو سے وہ کون سا نصب العین ہے جس پر ہم معترض ہیں۔ بغیر اِس کے کہ تصوف کی کوئی جامع و مانع تعریف کی جائے جو ہمارے نزدیک ناممکن ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں۔ اول وہ گروہ جو شریعتِ حقۂ محمدیہ پر قائم ہے اور اُسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمالِ انسانی تصور کرتا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ جس نے اُس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی۔ جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے۔ جو سونے کے وقت سوتا ہے، جاگنے کے وقت جاگتا ہے، جنگ کے وقت میدانِ جنگ میں جاتا ہے، کام کے وقت کام کرتا ہے، آرام کے وقت آرام کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اپنے اعمال و افعال میں اُس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوعِ انسان کی نجات کا باعث ہوئی۔ اِس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اور یہی مقدس گروہ اصل میں صوفی کہلانے کا مستحق ہے۔ راقم الحروف اپنے آپ کو اِن مخلص بندوں کی خاکِ پا تصور کرتا ہے، اپنے جان و مال و عزت و آبرو اِن کے قدموں پر نثار کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام و آسائش پر ترجیح دیتا ہے۔ ’’دُوسرا گروہ وہ ہے جو شریعتِ اسلامیہ کو خواہ وہ اُس پر قائم بھی ہو محض ایک علمِ ظاہری تصور کرتا ہے۔ ایک طریقِ تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں ’عرفان‘ کہتا ہے۔ علم پر ترجیح دیتا ہے اور اس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گروہ میں مختلف الخیال لوگ ہیں مگر ایک عام مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس کی تشریح اور توضیح اِس مضمون کا مقصد ہے۔‘‘۷۶ ۸۷ ’اَسرارِ خودی‘ مولوی محمود علی ایم اے، پروفیسر رندھیر کالج، کپورتھلہ [اقتباس] ۔۔۔خدارا کوئی بتائے کہ نفس ِمثنوی میں اقبال کون سا خیال پیش کرتا ہے جو اِسلامی تعلیم کے خلاف یا کم از کم تصوف کے مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اقبال انسان کو اس کی اپنی قابلیت اور قدرت کی عطاکردہ نعمتوں سے باخبر ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ کیا یہ اِسلام یا تصوف کے خلاف ہے؟ اقبال اپنی قوتوں کو کسی رہنما کی ہدایت کے مطابق کام میں لانے کی نصیحت کرتا ہے۔ کیا یہ تصوف کا بنیادی مسئلہ نہیں؟ بلکہ میں کہتا ہوں کہ نفسِ مثنوی میں وہ کون سا خیال ہے جو وحدت الوجود کو مان کر بھی غلط کہا جائے؟۔۔۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے دیباچہ میں وحدت الوجود کے ذکر سے ناحق بحث و تکرار کا دروازہ کھولا۔ جذبۂ عمل کو تحریک دینا تھا تو جذبۂ عمل ہی کے ذکر سے شروع کیا جاتا۔ اس صورت میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہوتا اور سب اس کو خاموشی بلکہ مسرت کے ساتھ سنتے۔ وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے، دیباچہ جیسا تنگ میدان اور نظم کی خیالی فضا ایسے مسائل کو تفصیل دینے سے عاجز، اور مختصر اشارہ بالضرور غلط فہمی پیدا کرنے کا باعث ہے۔۷۷ ۸۸ ۹ فروری کو وکیل امرتسر میں ’سِرِّ اَسرارِ خودی‘ کے عنوان سے اقبال کا وہ مراسلہ شائع ہواجو خطیب میں ۳۱جنوری کو اِسی عنوان سے شائع ہونے والے حسن نظامی کے مضمون کے جواب میں تھا۔ حسن نظامی کے پانچوں اعتراضات کے جواب دے کر اور کچھ اپنی طرف سے لکھ کر اپنے مراسلے کو بھی اکبرؔ الٰہ آبادی ہی کے ایک شعر پر ختم کیا: ان میں باقی ہے کہاں خالدِ جانباز کا رَنگ دل پہ غالب ہے فقط حافظِ شیراز کا رَنگ۷۸ سِرِّ اَسرارِ خودی [اقبال کے مضمون سے اقتباس] میرا مذہب یہ ہے کہ اِسلام نے دین و دنیا کے فرائض کو یکجا کیا ہے اور اِس طرح بنی نوع انسان کے لیے ایک معتدل راہ قائم کی ہے۔ جہاں یہ سکھایا ہے کہ تمہارا مقصودِ اصلی کلمۃ اللہ ہے وہاں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ لاتنس نصیبک فی الدنیا (دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر)۔ ’’دنیا ہیچ است و کارِ دنیا ہمہ ہیچ‘‘ [دنیا پست ہے اور دنیا کے کام بھی پست ہیں] اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ صحیح اسلامی تعلیم یہ ہے جو شرح عقائدمیں چند الفاظ میں نہایت خوبی کے ساتھ بیان کی گئی ہے: ’’ترک الاسباب جہالت‘‘ یعنی اسبابِ دنیا کا ترک کرنا جہالت ہے ’’والاعتماد علیہا شرک‘‘، اور اُن پر اعتماد کرنا شرک ہے۔ پس جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت میں یہ کہتا ہوں کہ: از کلیدِ دیں درِ دنیا کشاد تو میرا مطلب اِس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہ نبی کریم نے دین کی وساطت سے دنیا میں حصہ لینا سکھایا، خدائے تعالیٰ نے مسلم کو ہدایت کی کہ لاتنس نصیبک فی الدنیا یعنی دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ پھر اُس حصے کو حاصل کرنے کا طریق بھی بتایا اور اُس کا نام شریعت ِ اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح خواجہ صاحب اسلام کی تعبیر فرماتے ہیں اُس طرح تو اسلام اور رہبانیت میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ ’’لارہبانیت فی الاسلام‘‘ جو مضمون میں لکھ رہا ہوں اُس سے ناظرین کو یہ سب باتیں معلوم ہوں گی اور اِس کے علاوہ اور کئی باتیں جو اِسلامی پبلک کے سامنے آج تک نہیں آئیں اور مجھے یقین ہے کہ خود خواجہ صاحب کو بھی اپنے اِس تصوف پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی اور اُن کو یہ معلوم ہو گا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ فلسفۂ حقۂ اسلامیہ ہے نہ کہ فلسفۂ مغربی۔ خواجہ صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ یورپ کا علمی مذہب تو وحدت الوجود ہے جس کے وہ حامی ہیں۔ میں تو اِس مذہب سے جو میرے نزدیک ایک قسم کی زندیقیت ہے تائب ہو کر خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہو چکا ہوں۔ وکیل (امرتسر)، ۹ فروری ۱۹۱۶ئ۷۹ ۸۹ یورپی ماہرین جو مشرق کے بارے میں تحقیق کر کے مستشرقین کہلاتے تھے عام طور پر قائل تھے کہ اسلامی تصوف مسلمانوں نے خود پیدا نہیں کیا۔ دوسری تہذیبوں بالخصوص ہندوؤں سے لیا۔ اقبال اختلاف کرتے تھے۔ آٹھ دس برس قبل کیمبرج والے مقالے میں بھی ظاہر کیا تھا۔ رسالہ اتھینئم کے تبصرہ نگار کی تنقید کا نشانہ بنے تھے۔ ’’ہمارے نزدیک تصوفِ اسلامیہ کی پیدائش کے اسباب تلاش کرنے کے لیے کسی خاص خارجی تحریک کی طرف جانے کی ضرورت نہیں،‘‘اب تاریخ تصوف کا پہلا باب مکمل کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اسلامی دنیا کے اندر وہ تمام اسباب موجود تھے جن کے مجموعی اثرات سے اِس قسم کے نصب العین کا پیدا ہونا اور بڑھنا ایک یقینی امر تھا۔ گو ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ اس کے ارتقأ میں غیراسلامی خیالات بھی ضرور موثر ہوئے ہیں۔‘‘۸۰ اقبال کے خیال میں اندرونی اسباب پانچ تھے: ۱ مسلمان فاتح قوم تھے اور فاتح اقوام اکثر مفتوحہ اقوام کے علوم و فنون سے واقفیت حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے ہندوستان، ایران، عراق و شام اور مصر میں مروج علوم و فنون سے واقفیت حاصل کی اور یونانی فلسفہ کا مطالعہ بھی کیا۔ ۲ اس کے نتیجے میں مذہبی حقائق کو فلسفے کی روشنی میں پرکھنے کی تحریک یعنی معتزلہ وجود میں آئی جن کی توحید اِسلام سے بہت دُور جا پڑی۔ اشاعرہ نے اس تحریک کی مخالفت کی اور علمی دلائل کے ذریعے اسلامی عقائد کی تشریح کی۔ بعض طبیعتیں اِس خشک منطقی بحث سے اِس نتیجے پر پہنچیں کہ عقل رہنمائی کر ہی نہیں سکتی اس لیے دوسرے ذرائع کی ضرورت ہے۔ ۳ افلاطونیتِ جدیدہ کے معلم شام اور مصر میں مسلمانوں کے زمانے تک موجود تھے۔ ۴ مسلمانوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے اسلامی دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں ہر قسم کی غیراسلامی تحریکیں بھی نشو و نما پاتی تھیں۔ ۵ بنو اُمیہ کے زمانے اور عباسیوں کے ابتدائی عہد کی خانہ جنگیوں، عیش پرستی اور تکلفات کے خلاف ردِ عمل بھی عوام میں پیدا ہوا۔ ۹۰ معلوم ہوا کہ اجمیر سے کشن پرشاد جمعے کے روز روانہ ہو چکے، اب متھرا میں قیام ہے۔ اقبال نے چاہا کہ مقدمات کا کچھ بندوبست کر کے کسی نہ کسی طرح راستے کے ریلوے اسٹیشن ہی پر حاضر ہو جائیں مگر یہ معلوم ہونا ضروری تھا کہ متھراسے سرکار کب روانہ ہونے والے ہیں۔باری باری دو تاربھیج ڈالے جن کے جواب میں وہاں سے بھی دو تار آئے۔ ۱۰ فروری کو اقبال نے خط میں وضاحت پیش کرکے لکھا، ’’یہی وجہ میرے اتنے استفسارات کی تھی جس سے سرکار کو اِس قدر زحمت ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ سرکار اُسی فراخدلی سے جو آپ کا خاصہ ہے یہ زحمت دہی معاف فرماویں گے۔‘‘ ۹۱ مسگنان (ماسینوں) کی مرتب کی ہوئی منصور حلاج کی کتاب الطواسیناقبال کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ صفحہ ۱۹۰ پر حواشی میں حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک قول درج تھا جسے اقبال نے اصل عربی عبارت میں نقل کر کے اُردو میں اُس کا ترجمہ کیا، ’’علم معرفت سے بلندتر، کامل تر اور جامع تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے، نہ معرفت۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے والذین اوتوالعلم درجات۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا تو کامل ترین اور اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ یعنی فرمایا کہ ’جان لے‘ کہ کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے اور یہ نہ فرمایا’پہچان لے‘ کیونکہ انسان کسی شے کی معرفت رکھ سکتا ہے حالانکہ ازروئے علم اُس پر احاطہ نہ کیا گیا ہو اور جب انسان کسی شے کا ازروئے علم احاطہ کر لیتا ہے تو یہی اُس شے کی معرفت ہے۔‘‘۸۱ ۹۲ ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اُن اصطلاحاتِ مذہبی کے بارے میں جو رسول اللہ صلعم کے عہدِ مبارک میں مروج تھیں، سخت غیرت و حمیّت رکھتے تھے،‘‘ اقبال نے تاریخِ تصوف میں لکھا۔ ’’چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے ایک شخص کو جس نے طوافِ کعبہ کرتے ہوئے ایک نئی مذہبی اصطلاح استعمال کی تھی، سخت تنبیہ کی اور فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلعم کی زندگی میں طواف کرتے ہوئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے تھے۔ باوجود اِن باتوں کے مسلمانوں نے صوفی اور تصوف کی نئی اصطلاحات کو گوارا کر لیا اور وجہ صرف یہ تھی کہ اُس ابتدائی زمانے میں تصوف کا مقصد اور مفہوم سوائے زہد و عبادت کے اور کچھ نہ تھا۔ لیکن جب تصوف نے حقائقِ فلسفہ کی طرف قدم بڑھایا اور اُن کو معلوم کرنے کا ایک فوقُ الادراک طریق نکالا تو علمائے وقت نے بجا طور پر اس کی مخالفت کی اور اگر علمائے اسلام ایسا نہ کرتے تو یقینا ایک بہت بڑے فرض کے اَدا کرنے سے قاصر رہتے۔ یہ انہی کی مساعیٔ جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ آج تھوڑا بہت اسلامی شعار اور اِسلامی علوم باقی ہیں۔ ورنہ اگر تمام مسلمان اِس عقیدے کے پابند ہو جاتے کہ عارف و معروف ایک ہی شے ہے تو وہ اِسلام جس پر ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تھے اور جس نے ہر ایسے تخیل سے منع کر دیا تھا جو اِنسان کے قوائے عملیہ کو کمزور و ناتواں کرنے والا ہو کب کا رخصت ہو چکا ہوتا اور بجائے اِس کے بیابانوں کی خاموشیوں اور پہاڑوں کی عزلتوں میں بیٹھنے والی رہبانیت رہ جاتی۔ ہم اِس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور مخلص بندوں پر کسی غیرمعلوم طریق پر سکینت نازل کرتا ہے جس سے اُن کی استقامت میں ترقی ہوتی ہے جو اُن کی صحبت میں بیٹھنے والوں پر ایک عجیب و غریب اور فوق الادراک دینی اثر ڈالتی ہے۔ جس سے اُن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں مقبول ہوتی ہیں۔ اور اُن کو کرامت اور خرقِ عادت کی توفیق ملتی ہے۔ مگر ہم یہ ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں کہ کتاب اللہ کی تعلیم کے خلاف ذاتِ باری، روحِ انسانی اور نظامِ عالم و معارف معلوم کرنے کا کوئی فوق الادراک ذریعہ تمام یا بعض انسانوں کی فطرت میں مخفی ہے یا کسی طریق سے پیدا ہو سکتا ہے۔ جس سے عارف و معروف کا حقیقی اتحاد یا خلقِ عالم کا راز معلوم ہو۔ پس ہماری رائے میں مسئلہ تنزلاتِ ستہ یا اِسی قسم کے دیگر مسائل جو عجمی تصوّف بطور حقائق کے پیش کرتا ہے۔ محض ایک فلسفہ ہیں۔ جن کی وقعت فلسفہ کے دیگر نظری نظاموں سے کسی طرح بڑھ کر نہیں ہے۔ یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ روحِ اطلاق سے حفیضِ تعین میں تنزل کرتا ہے اور مجمل سے مفصل ہو کر مدارجِ مقدوہ اور منازلِ تکترہ طے کرتا ہوا تعیّنِ جسدی تک پہنچتا ہے ہمارے نزدیک محض الحاد اور زندقہ ہے۔ یہی مذہب افلاطونیتِ جدید کے حامیوں کا تھا اور افسوس ہے کہ مروجہ تصوف کی اِسی پر عمارت اٹھائی گئی ہے۔ اگر یہ مان لیا جاتا کہ ہستی کے مختلف مدارج قدرتِ کاملہ کا ظہور ہیں تو کوئی ہرج نہ تھا۔ مگر رونا اِس بات کا ہے کہ اِن مسائل کو حقائقِ وجودی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی صداقتِ قطعیہ وجودیہ کو بدلائل و براہین ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض کہ علم و معرفت کا یہ امتیاز اور معرفت کی علم پر ترجیح ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نتائج نہایت دوررس ہیں۔ یہ امتیاز مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے اور عملی اعتبار سے ان تمام علوم حسیہ عقلیہ کا ناسخ ہے جن کی وساطت سے انسان نظامِ عالم کے قواے کو مسخر کر کے اِس زمان و مکان کی دنیا پر حکومت کرنا سیکھتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اِسی بنا پر۔۔۔ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے اِس کی مخالفت کی۔‘‘۸۲ فروری کے وسط تک تاریخِ تصوف کے دو باب لکھے جا چکے تھے۔اب منصور حلاج کی باری تھی۔۸۳ ۹۳ نیازالدین خاں کا ایک اور خط ملا۔ ۱۳ فروری کو اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ تصوف کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے متعلق ہے بہت مفید ہے مگر فلسفہ کا حصہ محض بیکار ہے کیونکہ دین کا علم صوفیوں سے نہیں بلکہ علمأ سے حاصل کرنا چاہیے۔ تصوف شریعت کا باطن ہی سہی لیکن اگر ظاہر قائم نہ رہا تو باطن کیسے باقی رہے گا؟ ’’مسلمانوں کی حالت آج بالکل ویسی ہے جیسے کہ اسلامی فتوحات ِ ہندوستان کے وقت ہندوؤں کی تھی یا اُن فتوحات کے اثر سے ہو گئی تھی،‘‘ انہوں نے لکھا۔ہندو قوم آنکھیں بند کر کے منو مہاراج کے شاستر منوسمرتی پر چلنے کی وجہ سے باقی رہ گئی تھی۔ یہودی قوم بھی اپنی شریعت کی حفاظت کرنے کی وجہ سے زندہ تھی ’’ورنہ اگر پہلا یہودی صوفی فیلو قوم کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا تو آج یہ قوم دیگر اقوام میں جذب ہو کر اپنی ہستی سے ہاتھ دھو چکی ہوتی۔‘‘ کچھ اور خط بھی لکھے۔ اِدھر اُدھر ہو گئے۔ نیازالدین خاں کا خط سر اکبر حیدری کی طرف روانہ ہوگیا۔۸۴ ۹۴ اس برس اقبال نے حیدرآباد کے محکمۂ تعلیم کی ہدائت پر بیت العلوم دکن کے لیے اسلامی تاریخ کے پرچے کے سوالات بھی بنائے۔ ۸۵ ۹۵ ۲۱ فروری کو ہنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کا اجلاس ہوا۔ ڈاکٹر عظیم الدین نے بی۔اے اور ایف۔اے کا نصاب بنایا تھا۔ اس پر غور کرنے کے لیے سب کمیٹی بنی۔ ڈاکٹر عظیم الدین، پروفیسر کے ایم مترا اور مولوی محمد حسین شامل تھے۔ اقبال صدر تھے۔۸۶ ۹۶ [شاہ محمد سلیمان پھلواری کا جواب] [اقتباس] اِس میں شک نہیں کہ وحدت الوجود ایک علمی مسئلہ ہے جس کو اصطلاح میں ربط الحادث بالقدیم کہتے ہیں اور تمام کتبِ الٰہیات میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ اسلامی سیر و سلوک اور مشاہدۂ انوار و تجلیات سے اس کا تعلق تو ضرور ہے مگر مدارِ نجات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ خطیب، ۱۴ -۲۲ فروری ۱۹۱۶ئ۸۷ بنام شاہ محمد سلیمان پھلواری [۲۲ فروری ۱۹۱۶ئ، لاہور] مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا! السلام علیکم آپ کا خط خطیب میں شائع ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ میری مثنوی اَسرارِ خودی آپ تک نہیں پہنچی۔ ارسالِ خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ خواجہ حسن نظامی نے جو اتہامات مجھ پر لگائے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ آپ نے جو خط شائع کیا ہے اس کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے اور میں شکرگذار ہوں کہ آپ نے خدالگتی بات کہی۔ شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کو فتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا دَرس ہمارے گھر رہا۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفلِ درس میں ہر روز شریک رہا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود ہی پڑھنے لگا اور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات تعلیمِ قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے ان کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ میں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا ہو۔ کئی سالوں تک میرا یہی خیال رہا ہے کہ میں غلطی پر ہوں مگر اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں۔ لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں۔ اس واسطے بذریعہ عریضہ آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ آپ ازراہِ عنایت و مکرمت چند اِشارات تسطیر فرماویں۔ میں ان اشارات کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر پڑھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا۔ اگر آپ ایسا ارشاد فرماویں تو میں مدت العمر آپ کا شکرگذار ہوں گا۔ تجلیٔ ذاتی کا ذکر کرتے ہوئے شیخِ اکبر فرماتے ہیں: ’’وما بعد ھذا التجلی الا العدم المحض فلاتطمع ولا تحب فی ان ترقی من ھذا الدرجۃ من التجلی الذاتی‘‘۔ اس میں شیخِ اکبر نے تجلیٔ ذاتی کو انتہائی مقام قرار دیا ہے اور اس کے بعد عدمِ محض۔ حضرت مجدد نے یہ ایک فقرہ ایک مکتوب میں نقل کیا ہے۔ میری کتابیں اس وقت لاہور میں موجود نہیں کہ صفحہ و مقام کا پتہ دے سکتا۔ میرا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ جن بزرگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے انہوں نے قرمطی تحریک سے افاضہ کیا۔ یہ خواجہ حسن نظامی صاحب کا بہتان ہے۔ بعض صوفیہ کی تحریروں اور علمائے قرمطی کی تحریروں میں مماثلت ہونا اور بات ہے۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ میں نے اپنی کسی تحریر میں کوئی سوالات نہیں کیے۔ خواجہ صاحب نے خود یہ تنقیحات قائم کی ہیں جو ان کے خیال میں میری تحریر سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ بات دیانت کے خلاف ہے کہ ان سوالوں کو جو خواجہ صاحب نے آپ کی خدمت میں ارسال کیے میری طرف منسوب کیا جائے اور اُن کا نام ڈاکٹر اقبال کے آٹھ سوال رکھا جائے۔ اُمید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اس عریضے کے جواب کا انتظار رہے گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐ اقبال ۹۷ کشن پرشاد کا تار آیا تو معلوم ہوا کہ خیریت کے ساتھ واپس حیدرآباد پہنچ گئے ہیں۔ ’’اب کے آپ کا سفر شمالی ہند مختصر رہا مگر ہوگا ضرور معنی خیز،‘‘ اقبال نے ۸ مارچ کو خط میں لکھا۔ ’’خدا جانے آپ کی نکتہ رس نگاہ نے حالات مشہودہ سے کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں گے۔‘‘ حافظ والے مضمون کا جواب نہیں آیا تھا لہٰذا اس کے بارے میں معلوم کیاکہ اگر پہنچا نہ ہو تویہ پھر لکھ دیں۔ ’’پنجاب کا حال بدستور ہے۔ گرمی کا آغاز ہے مگر یہ مارچ کے دن غنیمت ہیں۔ کوئی دن میں شگوفے پھوٹیں گے۔ بہار کی تیاری ہے، جنون پھر تازہ ہوں گے۔ میرا جنون جو کچھ عرصے سے مجھے فراموش کر چکا ہے کیا عجب کہ اس بہار میں عود کر آئے۔‘‘ یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر طبیعت راغب ہو تو مرزا عبدالقادر بیدل کا دیوان ایڈٹ کریں جس کے کئی قدیم نسخے حیدرآباد کے کتب خانوں میں مل سکتے تھے۔ اگر اس سے آسان کام کرنا ہو تو ولی سے پہلے کے دکنی شاعروں کا کلام جمع کریں جسے ضرور شائع ہونا چاہئے۔ ۹۸ ابلیس نے کہا، ’’میرا وقت اب پہلے سے زیادہ اچھا گزر رہا ہے کہ میں اُس کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے اُس کی طرف سے سونپی ہوئی خدمت بجا لاتا ہوں۔ اگر وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں ڈال دے تب بھی میں غیر کو سجدہ نہیں کروں گا۔۔۔ میں وہی ہوں جس نے ازل میں تجھے پہچانا ہے۔ میں انسان سے بہتر ہوں اور خدمت میں اُس سے قدیم ہوں۔‘‘ یہ مکالمے منصور حلاج نے لکھے تھے اور کہا تھا، ’’جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اُس نے اپنے آپ کو فنا کر کے اُس کی معرفت حاصل کر لی ہے تو اُس کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ فانی، باقی اور موجود کو کیسے پہچان سکتا ہے؟‘‘۸۸ اقبال کتاب الطواسین سے اپنی ضرورت کے اقتباسات نقل کر رہے تھے، منصور کی سوانح جمع کر رہے تھے اور تمام نکات اکٹھے کرتے جا رہے تھے لیکن پورا باب لکھنے کے لیے جن معلومات کی ضرورت تھی وہ دستیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ ۹۹ وکیل(امرتسر) میں ’تصوف‘ کے عنوان سے مضامین کا سلسلہ ظاہر ہوا۔ لکھنے والے نے نام ظاہر نہ کیا۔ اخبار لمعات (لاہور) میں حافظ شیرازی کی شاعری پر سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے لکھنے والے نے بھی نام ظاہر نہ کیا۔۸۹ ۱۰۰ سید سلیمان شاہ پھلواری نے ایک خط میں تصوف اور وحدت الوجود کی وضاحت پیش کی۔ ’’آپ کے مکتوبات نہائت دلچسپ ہیں اور حفاظت سے رکھنے کے قابل،‘‘ ۹ مارچ کوجواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا۔ ’’میں نے ان کو خود پڑھا ہے اور بیوی کو پڑھنے کے لیے دیا ہے۔‘‘ وحدت الوجود کے بارے میں شاہ پھلواری کے بعض خیالات سے اقبال کو اختلاف تھامگر سوچتے تھے کہ شائد تفصیل سے بات ہونے پر یہ اختلاف نہ رہے۔ ’’حقیقی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں،‘‘ اقبال نے اس بیعت کی طرف اشارہ کیا جو انہوں نے نوجوانی میں شیخ نور محمد کے ذریعے کی تھی۔ زیرِ تصنیف تاریخِ تصوف کے بارے میں لکھا، ’’یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے۔ میں صرف اِس قدر کام کر سکوں گا کہ جدید مذاق کے مطابق تنقید کی راہ دکھلا دُوں۔‘‘ ٹھیک اُسی روز لندن میں آئندہ صدیوں میں دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے والی خفیہ سازش ہو رہی تھی۔ سر مارک سائیکس، فرانسیسی سیاستداں جارجس پائیکاٹ کے ساتھ بیٹھے فیصلہ کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد فلسطین اور میسوپوٹیمیا انگلستان کے حصے میں آئیں گے۔ وہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا ملک بنانے دے گا۔ کچھ علاقہ عربوں کو دے کر اُن کا منہ بند کرے گا۔ شام کی سرزمین فرانس کے قبضے میں جانی تھی اور رُوس کی فرمائش پر قسطنطنیہ کو آزاد بندرگاہ بنانا طے پایا۔ مصر کی طرف سے پھر بھی خطرہ تھا۔ ۱۰۱ ۱۱ مارچ کو اتحادی افواج نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ مسلم دنیا کے لیے دردانگیز خبر تھی۔ یہ شہر تاریخ کے اُن پانچ سو برس کی علامت تھا جسے خلافت ِعباسیہ کہتے ہیں۔ ۱۰۲ ۱۳ مارچ کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ جواب نہ ملنے پر حیرت ظاہر کی تھی۔ ’’آپ کا خط غلطی سے حیدری صاحب کے لفافے میں پڑ گیا جس پر مجھے سخت افسوس ہے،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ ’’میں نے حیدری صاحب کی خدمت میں لکھ دیا ہے کہ وہ خط واپس ارسال کر دیں۔ واپس آنے پر ارسالِ خدمت کروں گا۔‘‘ ۱۰۳ شیخ مشیر حسین قدوائی فلسفۂ عشق کے مصنف تھے۔ لندن میں معلوم ہوا کہ اقبال نے حافظ پر اعتراض کیے ہیں۔ دیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ جو شعر نکلا اُس کا مفہوم تھا کہ تم سب کو ویسے نظر نہیں آ سکتے جیسے ہو کیونکہ ہر شخص اپنی نظر کے مطابق ہی سمجھتا ہے۔ ’اَسرارِ خودی-دیوانِ حافظ‘ [شیخ مشیر حسین قدوائی کے مضمون سے اقتباس] ترا چنانکہ توئی ہر نظر کجا بیند بقدرِ بینشِ خود ہر کسے کند اِدراک شعرِ مذکور لسان الغیب حافظ کی جانب سے جواب ہے اَسرارِ خودی کے اِس مصرع کا کہ: ’’الحذر از گوسفنداں الحذر‘‘ میں نے ’اَسرارِ خودی‘ پر بعض اخبارات میں اعتراضات دیکھے جن سے معلوم ہوا کہ حافظ علیہ الرحمۃ پر کیا بے ادبانہ اور طفلانہ اعتراض کیے گئے ہیں۔ میں نے مثنوی کی حمایت میں بھی مضمون دیکھے تھے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ میں بھی اِس بحث پر کچھ لکھوں۔ چونکہ مجھے حافظ علیہ الرحمۃ سے نہایت خوردسالی کے زمانہ سے ایک خاص عقیدت ہے اور جیسا میں نے ابھی اپنی حال کی تصنیف فلسفۂ عشق میں لکھا ہے! میں سمجھتا ہوں حافظ دنیا کے تنہا [؟] شاعر ہیں یا جیسا میں نے ایک لیکچر میں جو فارسی شاعری پر میں نے ایک علمی سوسائٹی میں کہا تھا دنیا کی کوئی اور زبان نہ کوئی اور ملک دوسرا حافظ پیدا کر سکتے ہیں۔ میرے قلب کو اس لغو اعتراض سے تکلیف ہوئی۔ میں نے ابھی یہ کہہ کر دیوانِ حافظ کھولا کہ جواب لکھوں تو وہ شعر نکلا جو اوپر رقم ہے۔ زمیندار (لاہور)، ۲۳ مارچ ۱۹۱۶ء ۱۰۴ اس دفعہ شاکر صدیقی نے غزل بھیجی تھی۔’’اضافت کی حالت میں اعلانِ نون غلط ہے کبھی نہ کرنا چاہئے،‘‘ اقبال نے ۲۴ مارچ کو جواب لکھا۔ ’’اتنے شعروں میں صرف دو شعر جن پر نشان کر دیا ہے اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ تلمذ سے مجھے معاف فرمائیے۔‘‘ غزل اچھی ہو یا بری مگر شاکر نے اقبال کی پیروی کی کوشش کی تھی۔ غنیمت شعر یہ تھے: کسی کامل سے رسم و راہ میری جان پیدا کر علاجِ خاطرِ ناکام کا سامان پیدا کر رقابت اے دلِ مضطر نہیں اچھی زلیخا سے ہزاروں جس میں یوسف ہوں تو وہ کنعان پیدا کر ۱۰۵ نیازالدین خاں کا خط آیا مگر کئی دن تک جواب نہ دے سکے۔ ’’الحمداللہ کہ جالندھر کے کتب خانے کے لیے اجازت ہو گئی،‘‘ ۲۶ مارچ کو مختصر جواب دیتے ہوئے لکھا مگر معلوم نہیں یہ کس معاملے کی طرف اشارہ تھا۔’’میں فرصت کے دنوں سے جناب کو مطلع کروں گا۔‘‘ ۱۰۶ مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں شیخ نور محمد بیمار ہو گئے۔ ۱۰۷ شیخ مشیر حسین قدوائی کا مضمون اپریل کے طریقت میں بھی شائع ہو گیا۔۹۰ ۱۰۸ مخالفت کرنے والوں میں امرتسر کے حکیم فیروزالدین طغرائی بھی تھے۔ لسان الغیب کے نام سے ایک رسالہ لکھ کر حافظ کے ایسے اَشعار پیش کیے جن میں سکر یعنی بیخودی کی بجائے صحو یعنی عمل پسندی کا پیغام تھا۔ اُن دنوں اقبال نے یہی سوچا، ’’بحیثیت مجموعی خواجہ حافظؔ کا اخلاقی نصب العین حالتِ سکر ہے نہ حالتِ صحو۔ اور کسی شاعر کی تنقید کے لیے اُس کے عام نصب العین ہی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔‘‘ ذہن کے کسی دوسرے حصے میں یہ امکان پیدا ہوا کہ حافظؔ کے بلندہمتی والے اَشعار کو عوام کے دل و دماغ پر نقش کر دیں کہ کم ہونے کے باوجود وہی اَشعار حاوی ہو جائیں۔ خیال کو شعور تک پہنچ کر قبول ہونے میں وقت لگنا تھا۔۹۱ ۱۰۹ کشن پرشاد نے پرانے فارسی شاعر راسخؔکی مثنوی شائع کروائی۔ انہی دنوں اقبال کو ایک خط لکھ کر ’اسرارِ خودی‘ کے متعلق شکوک و شبہات ظاہر کئے۔ اقبال نے ۳ اپریل کو جواب دیتے ہوئے تسلی دی کہ مثنوی کو سرسری نظر سے دیکھ کر جن دوستوں نے تعریف کر دی تھی اُن کی آرأ کو کہیں شائع نہیں کروایا گیا، ’’اِس خیال سے کہ بغور پڑھنے کے بعد ممکن ہے کہ اُن کی رائے تبدیل ہو جائے۔‘‘ ۱۱۰ ۴ اپریل کولارڈ ہارڈنگ کی جگہ لارڈ چیمسفورڈ وائسرائے بنے۔ ۱۱۱ ۱۴ اپریل کو کشن پرشاد کا ایک اور خط ملا جو ایک ہفتہ پہلے لکھا گیا تھا۔ ’’یہ مثنوی جس کا نام اسرارِ خودی ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے،‘‘ اقبال نے اُسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’قسم ہے خدائے واحد کی جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے میں نے یہ مثنوی ازخود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا میری روح کو چین نہ آئے گا۔۔۔ نہ حسن نظامی رہے گا نہ اقبال، یہ بیج جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے اُگے گا، ضرور اُگے گا اور علی الرغم مخالفت بارآور ہوگا، مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے الحمداللہ۔۔۔‘‘ درخواست کی کہ خط کا یہ تمام صفحہ پرائیویٹ ہے بہتر ہو گا کہ اسے پڑھنے کے بعد تلف کر دیا جائے۔ ۱۱۲ ایسٹر سنڈے ۲۳ اپریل کو تھا۔ روایت ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں اکٹھے آئے۔ محمد الدین فوقؔ کے چچا منشی غلام محمد خادم نے فی البدیہہ کہا: اقبال و ذوالفقار کا ہو کیوں نہ احترام تخت اور تاج دونوں انہی کے تو ہیں غلام اقبال ذوالفقار سے آتا ہے ہاتھ میں وابستہ ذوالفقار ہے اقبال سے مدام۹۲ ۱۱۳ اُس روز ولیم شیکسپیئر کی وفات کو تین سو برس ہوئے۔ انگلستان میں اُسے ’’عظیم ترین انگریز‘‘ قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن جس انداز میں اُسے خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا تھا اُس میں یہ احساس بالکل نہیں جھلکتا تھا کہ اِس عظیم ترین انگریز نے اپنے وقت میں اَن پڑھ اور غریب عوام کے سامنے اپنا فن پیش کیا۔ اپنے ڈرامے انہی سے پسند کروائے۔ پھر اُن کی پسند کو ملکہ کے دربار تک پہنچایا۔ جس کتاب میں اقبال کی نظم بھی شامل تھی، صرف تین روز قبل اُس کے دیباچے میں سر اِسرائیل گولانکز نے بیان کیا تھا کہ کس طرح شیکسپیئر کی تین سو سالہ برسی منانے کے لیے یونیورسٹیوں اور دانشوروں سے مشورے ہوئے۔ ایک تھیٹر قائم کرنے کی تجویز ہوئی- جو ظاہر ہے کہ شیکسپیئر کے زمانے کے اُس تھیٹر سے بہت مختلف ہوتا جہاں ایک عام آدمی کی پسند اور ناپسند پر دنیا کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہوا کرتا تھا (لیکن شیکسپیئر کے زمانے کا تھیٹرلاہور کی انجمن حمایت اسلام کے اُن جلسوں سے کس قدر مماثل تھا جہاں اب اقبال اپنی نظمیں پیش کرتے تھے)! یادگاری کتاب میں ایک سو چھیاسٹھ لکھنے والوں کی تحریریں شامل تھیں۔اقبال کی نظم سے بالکل پہلے سیلون کے دانشور آنند کمارسوامی کا مضمون اور رابندناتھ ٹیگور کی نظم شامل تھے۔اُس زمانے میں کوئی آنندکمارسوامی کے مضمون کا ترجمہ کر کے خطیب وغیرہ میں شائع کروا دیتا تو شایدیوں لگتا جیسے ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے کے رَد میں لکھا گیاہے۔ ٭ آنندکمارسوامی کے مطابق تہذیب کو صرف انسانی ہونا چاہیے تھا نہ کہ مقامی یا قومی (اقبال وحدتِ انسانی کے دعویدار ضرور تھے مگر تہذیب کی بنیاد ملّت پر رکھتے تھے) ٭ آنندکمار سوامی کے مطابق ایشیائی اور یورپی طبیعتوں میں فرق محسوس کرنا گزشتہ دہائیوں میں پیدا ہونے والی ایک غلط فہمی تھی جسے اب ختم ہو جانا چاہیے تھا (اقبال نے یورپی طبائع کی عملیت پسندی کے علاوہ اِس قسم کا تصور بھی پیش کیا تھا: ’’انگریزی قوم ۔۔۔ میں ـحسِ واقعاتـ‘ اور اقوامِ عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔‘‘) ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں افلاطون، شنکر، مولانا روم، بھگت کبیر اور نیٹشے وغیرہ ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے تھے (اقبال نے دبیاچے میں شنکر کی تعلیمات پر تنقید کی تھی اور مثنوی میں افلاطون کی پرزور مذمت کی تھی) ٭ آنندکمار سوامی کی تحریر سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ خودی کی نفی کرنا ہی تمام پیغمبروں اور مفکروں کا مشترکہ پیغام رہا ہے اور خودی وحدتِ انسانی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ مصنف نے اِس موضوع پر وِلیم بلیک کے مصرعے پیش کرتے ہوئے نفیٔ خودی کو تفرقہ سے آزادی کے مترادف سمجھا (اقبال نے نفیٔ خودی کے فلسفے کو گوسفندی قرار دے کر خودی کی حفاظت اور بقا پر زور دیا)۔ ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں خودی کی فنا ’’نجات‘‘ کے مترادف دکھائی دیتی تھی۔ فن کے نصب العین کو بیان کرنے کے لیے گوئٹے کے ڈرامے فاؤسٹ کے ایک کردار کا مکالمہ جرمن میں درج کیا گیا تھا کہ حُسن کی تعریف میں ہمیشہ گیت گائے گئے ہیں اور حُسن جس کے سامنے ظاہر ہو وہ اپنی خودی کھو بیٹھے (اقبال کے نزدیک فن کا مقصد خودی کی بقا تھا نہ کہ فنا)۔ ٭ آنندکمارسوامی نے نیکی، تلذذ، دولت اور نجاتِ اخروی (خودی کی فنا) کو شعر و فن کا حاصل بتایا تھا۔ فہرست میں نیکی بھی شامل تھی مگر ان کی تحریر میں تخلیقی شعور جس طرح خیر اور شر سے بے نیاز دکھائی دے رہا تھا وہ کس حد تک اقبال کے ’’اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ‘‘ کے تصور سے میل کھاتا جہاں خیر و شر کی جنگ میں شعرأ کے دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپر تھے؟ ٭ آنندکمارسوامی کی تحریر میں شری کرشن کے پیغام کا مقصد سکون نظر آتا تھا (اقبال نے شری کرشن کے پیغام کو حرکت و عمل کا دَرس قرار دیا تھا)۔ ٭ آنندکمارسوامی کے نزدیک خودی تفریق کا باعث تھی۔ انہوں نے اپنے مضمون کا عنوان ’’اخوتِ دانش‘‘ ('Intellectual Fraternity') رکھا تھا۔ اقبال بھی سمجھتے تھے کہ فکرِ انسانی کی مماثلت سے انسانیت کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوتا ہے مگر اُنہوں نے اِس وحدتِ انسانی کی بنیاد خودی کو بنایا تھا۔ عشق اور عمل کی راہ اختیار کی تھی۔ ٹیگور نے اپنی نظم میں شیکسپیئر سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ اے شاعر، اے سورج، تم انگلستان پر طلوع ہوئے ۔ اُس نے تمہیں اپنا لیا مگر پھر تم بلند ہو کر نصف النہار پر پہنچے۔ آسمانوں کے ہر حصے کو تم نے اپنا لیا۔ اس لیے اب صدیوں بعد ہندوستان کے سمندر کے کنارے ناریل کے درخت اپنی شاخیں آسمانوں کی طرف بلند کرتے ہوئے تمہاری تعریف میں گنگاتے ہیں۔ نظم بنگالی میں تھی۔کتاب میں اصل متن کے ساتھ ترجمہ بھی شامل تھا۔ 1916 A Book of Homage to Shakespeare Edited by Israel Gollancz, Litt.D., F.B.A. Honorary Secretary of the Shakespeare Tercentenary Committee Humphrey Milford Oxford University Press Preface [By Israel Gollancz; Excerpt] For years past — as far back as 1904 — many of us had been looking forward to the Shakespeare Tercentenary as the occasion for some fitting memorial to symbolize the intellectual fraternity of mankind in the universal homage accorded to the genius of the greatest Englishman... At a noteworthy meeting held in July 1914 of delegates nominated by many institutions, universities, societies, and other bodies, to consider the question of the observance of the Shakespeare Tercentenary, Lord Bryce as President of the British Academy presiding, it was unanimously resolved, on the motion of the American Ambassador, His Excellency W. H. Page, ' That the Tercentenary of the death of Shakespeare should be commemorated in a manner worthy of the veneration in which the memory of Shakespeare is held by the English-speaking peoples and by the world at large '. The delegates, representing the British Empire, the United States, and foreign countries, were constituted as a General Committee, and an Executive Committee was appointed, with Lord Plymouth as Chairman, and myself as Honorary Secretary. Then came the War; and the dream of the world's brotherhood to be demonstrated by its common and united commemoration of Shakespeare, with many another fond illusion, was rudely shattered. In face of sterner duties all such projects fell necessarily into abeyance. Some months ago, however, it was recognized (and the call came to us from many quarters at home and abroad) that not even under present conditions should the Shakespeare Tercentenary be allowed to pass unobserved, though the scope of our original programme would of necessity be modified, — though we could not hope to witness even the foundation of the proposed Shakespeare Theatre, nor to welcome, as we had anticipated, the many devotees of the poet who would have wished to participate in our Commemoration. We knew we should have our friends with us in spirit on the great occasion, ; and it seemed to me, in one way at least, possible to link their homage with ours, and to hand down to posterity a worthy Record of the widespread reverence for Shakespeare as shared with the English-speaking world by our Allies and Neutral States, namely, by the publication, in honour of the Tercentenary, of a Book of Homage to Shakespeare, with contributions in prose and verse, representing the ubiquity of the poet's mighty influence. Accordingly, encouraged by those whom I ventured to consult, and subsequently with the approval of the Tercentenary Committee, I took upon myself the responsible and onerous task, complicated by present conditions ; and the ready and generous co-operation of one hundred and sixty-six Homagers finds expression in the present volume. Time and space necessitated certain limitations; and it has not been possible to include many who would have been willing to join in our Homage, and whose tributes to the poet would have been valued by all Shakespearians. The original plan of the book fixed the maximum number of contributors at one hundred. It soon became clear that this would have to be increased, and that the British Empire alone could not well be represented by less than one hundred contributors, with some seventy more representing America, France, Italy, Greece, Spain and Spanish-speaking countries, Portugal, Roumania, Switzerland, Belgium, Holland, Iceland, Denmark, Sweden, Norway, Russia, Serbia, Poland, 'Jugoslavia', Finland, Japan, China, Persia, Armenia — to follow the arrangement of the book, where the nations are grouped by languages, namely, English, Romance, Dutch, Scandinavian, Slavonic, &c. These languages, however, do not exhaust the list, for from British subjects we have tributes, not only in the classic dead languages of antiquity, Greek, Latin, Hebrew, Sanskrit, but also in the living languages of Ireland, Wales, India (Bengalee, Urdu, and Burmese), Egypt (Arabic), and South Africa (the Bechuana dialect). It is indeed a long-drawn procession that is here presented; and before it is graciously ushered in by our honoured chieftain Mr. Thomas Hardy, it is my pleasant duty to record my profound thanks to him and to all those who have made it possible for the Book of Homage to come forth amid the throes of this world-travail... Intellectual Fraternity [By Ananda Coomaraswamy] 'To mark by some celebration the intellectual fraternity of mankind.' Alike to those who grieve for Europe in her hour of civil war, and to those who would offer tribute at the shrine of William Shakespeare, it must appear appropriate and significant to publish tokens of the brotherhood of man in art. For no one has been more distinguished than William Shakespeare, in his profound appreciation of the common humanity of an infinite variety of men. Civilization must henceforth be human rather than local or national, or it cannot exist. In a world of rapid communications it must be founded in the common purposes and intuitions of humanity, since in the absence of common motives there cannot be co-operation for agreed ends. In the decades lately passed - in terms of 'real duration', now so far behind us - it has, indeed, been fashionable to insist upon a supposed fundamental divergence of European and Asiatic character: and those who held this view were not entirely illogical in thinking the wide earth not wide enough for Europe and Asia to live side by side. For artificial barriers are very frail: and if either white or yellow 'peril' were in truth an essentially inhuman force, then whichever party believed itself to be the only human element must have desired the extermination, or at least the complete subordination, of the other. But the premises were false: the divergences of character are superficial, and the deeper we penetrate the more we discover an identity in the inner life of Europe and Asia. Can we, in fact, point to any elemental experience or to any ultimate goal of man which is not equally European and Asiatic? Does one not see that these are the same for all in all ages and continents? Who that has breathed the pure mountain air of the Upanishads, of Gautama, Sankara, Kabir, Rumi, and Laotse (I mention so far Asiatic prophets only) can be alien to those who have sat at the feet of Plato and Kant, Tauler, Behmen, Ruysbroeck, Whitman, Nietzsche, and Blake? The last named may well come to be regarded as the supreme prophet of a post-industrial age, and it is significant that one could not find in Asiatic scripture a more typically Asiatic purpose than is revealed in his passionate will to be delivered from the bondage of division: I will go down to self-annihilation and eternal death, Lest the Last Judgment come and find me unannihilate, And I be seiz'd and giv'n into the hands of my own Selfhood. But it is not only in Philosophy and Religion - Truth and Love - but also in Art that Europe and Asia are united: and from this triple likeness we may well infer that all men are alike in their divinity. Let us only notice here the singular agreement of Eastern and Western theories of Drama and Poetry, illustrating what has been said with special reference to the hero of our celebration: for the work of Shakespeare is in close accordance with Indian canons of Dramatic Art. 'I made this Drama', says the Creator, 'to accord with the movement of the world, whether at work or play, in peace or laughter, battle, lust, or slaughter - yielding the fruit of righteousness to those who are followers of a moral law, and pleasures to the followers of pleasure - informed with the diverse moods of the soul - following the order of the world and all its weal and woe. That which is not to be found herein is neither craft nor wisdom, nor any art, nor is it Union. That shall be Drama which affords a place of entertainment in the world, and a place of audience for the Vedas, for philosophy and for the sequence of events.' And poetry is justified to man inasmuch as it yields the Fourfold Fruit of Life - Virtue, Pleasure, Wealth, and Ultimate Salvation. The Western reader may inquire, 'How Ultimate Salvation?' and the answer can be found in Western scriptures: Von Schonheit ward von jeher viel gesungen, Wem sie erscheint, wird aus sich selbst entruckt. That is the common answer of the East and West, and it is justified by the disinterestedness of aesthetic contemplation, where the spirit is momentarily freed from the entanglement of good and evil. We read, for example, in the dramatic canon of Dhanamjaya: 'There is no theme, whether delightful or disgusting, cruel or gracious, high or low, obscure or plain, of fact or fancy, that may not be successfully employed to communicate aesthetic emotion.' We may also note the words of Chuang Tau, The mind of the Sage, being in repose, becomes the mirror of the universe, and compare them with those of Whitman, who avows himself not the poet of goodness only, but also the poet of wickedness. It is sometimes feared that the detachment of the Asiatic vision tends towards inaction. If this be partly true at the present moment, it arises from the fullness of the Asiatic experience, which still contrasts so markedly with European youth. If the everlasting conflict between order and chaos is for the present typically European, it is because spiritual wars no less than physical must be fought by those who are of military age. But the impetuosity of youth cannot completely compensate for the insight of age, and we must demand of a coming race that men should act with European energy, and think with Asiatic calm - the old ideal taught by Krishna upon the field of battle: Indifferent to pleasure and pain, to gain and loss, to conquest and defeat, thus make ready for the fight. . . As do the foolish, attached to works, so should the wise do, but without attachment, seeking to establish order in the world. Europe, too, in violent reaction from the anarchy of laissez-faire, is conscious of a will to the establishment of order in the world. But European progress has long remained in doubt, because of its lack of orientation - 'He only who knows whither he saileth, knows which is a fair or a foul wind for him.' It is significant that the discovery of Asia should coincide with the present hour of decision: for Asiatic thought again affirms the unity and interdependence of all life, at the moment when Europe begins to realize that the Fruit of Life is not easily attainable in a society based upon division. In honouring the genius of Shakespeare, then, we do not merely offer homage to the memory of an individual, but are witnesses to the intellectual fraternity of mankind: and it is that fraternity which assures us of the possibility of co-operation in a common task, the creation of a social order founded upon Union. Ananda Coomaraswamy Shakespeare [By Rabindranath Tagore] When by the far-away sea your fiery disk appeared from behind the unseen, O poet, O Sun, England's horizon felt you near her breast, and took you to be her own. She kissed your forehead, caught you in the arms of her forest branches, hid you behind her mist-mantle and watched you in the green sward where fairies love to play among meadow flowers. A few early birds sang your hymn of praise while the rest of the woodland choir were asleep. Then at the silent beckoning of the Eternal you rose higher and higher till you reached the mid-sky, making all quarters of heaven your own. Therefore at this moment, after the end of centuries, the palm groves by the Indian sea raise their tremulous branches to the sky murmuring your praise. Rabindranath Tagore. Calcutta. شیکسپئیر شفقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمۂ شام کو خاموشیٔ شام آئینہ برگِ گل آئینۂ عارضِ زیبائے بہار شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ حسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حسن دلِ انساں کو ترا حسنِ کلام آئینہ ہے ترے فکرِ فلک رَس سے کمالِ ہستی کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی؟ تجھ کو جب دیدۂ دیدارطلب نے ڈھونڈا تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا چشمِ عالم سے تو ہستی رہی مستور تری اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا حفظِ اَسرار کا فطرت کو ہے سَودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا کاتب مرغوب رقم Lahore. Mohammed Igval Urdu Tribute Translated To Shakespeare A Tribute from the East Translation by Sardar Jogundra Singh I The river's silent flow Mirrors the glory of the rosy dawn; The sunset-silence in the golden glow Mirrors the message of the evening song; The burgeoing leaf, after winter's sleep, Mirrors the rosy rapture of spring; The bridal-palanquin of crystal cup Reflects the virgin beauty of red wine' The rivers of endless Beauty Mirror the myriad coloured light of Truth; The great deeps of human heart Mirror the radiance from Beauty's Realm; And they enchanted verse in liquid notes Mirrors the great deep of human heart! II Under the flashing sunbeams of thy thought, Nature herself has found herself revealed In perfect glory in thy golden song; The conscious mistress of her treasured wealth! The eager eye in search of thy image Found thee enshrined within a veil of light, Like mighty monarch of night and day, That bathed in glory, seeing is not seen. Hid from the world's eye thou hast beheld The intricate workings of her inmost soul! The jealous mistress of deep mysteries Never again will suffer herself to bear A seer like thee who took her by surprise, Unveiled in starlighht and mellow moon.۹۳ ۱۱۴ اقبال کی نظم میں سات اشعار تھے۔ مصرعوں کی مجموعی تعداد ۱۴ بنتی تھی جو شیکسپیئر کے سانیٹ کے مطابق تھی۔ سانیٹ ہی کی طرح ان میں ایک خیال بتدریج ترقی کرتا تھا: ۱ فطرت میں متضاد چیزیں ایک دوسرے کا آئینہ بن جاتی ہیں جیسے آسمان پر موجود شفق کے لیے زمین پر رینگنے والے دریا کا خرام اور نغمۂ شام کے لیے خاموشیٔ شام آئینہ بنتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح تھیٹر جیسا پیشہ جسے بیحد شرمناک سمجھا جاتا تھا وہ شیکسپیئر کی ملکوتی فکر کے لیے آئینہ بن گیا۔ ۲ متضاد سے استفادہ کر کے فطرت جو چیز تخلیق کرتی ہے وہ خالق کے جوہر کا آئینہ بن جاتی ہے جیسے پھول کی پتی بہار کے حُسن کا اور شراب کا جام شراب کے حسن کا آئینہ بنتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح شیکسپیئر کے تخلیق کیے ہوئے شاہکار اُس کے جوہر کا آئینہ بن گئے۔ ۳ اب مجازی خالق کی تخلیق کی ہوئی چیز کا خالقِ حقیقی کے ساتھ تعلق سامنے آتا ہے۔ حق تعالیٰ کا آئینہ حُسن ہے جس میں ہمیں حق تعالیٰ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حُسن کا آئینہ دل ہے جس میں حُسن اپنی جھلک دیکھتا ہے (صرف انسانی دل ہی نہیں بلکہ کوئی بھی دل: ’’خاص انسان سے کچھ حُسن کا احساس نہیں‘‘)۔ البتہ انسانی دل کا امتیاز یہ ہے کہ فطرت کے حُسن کی بجائے شیکسپیئر کے کلام کا حُسن اِس کے لیے آئینہ ہے جس میں دل اپنی جھلک دیکھ سکتا ہے (یوں افلاطون کے اُس نظریے کی تردید ہوتی تھی جس کے مطابق ڈرامہ دُہرا حجاب تھا)۔ ۴ اگر یہ درست ہے تو پھر شیکسپیئر کی فکرِ فلک رَس کمالِ ہستی ہے۔ پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ خدا نے دنیا اِسی لیے تخلیق کی تھی کہ ایک روز شیکسپیئر کے ڈراموں کے لیے مسالہ فراہم ہو جائے؟اِس سوال کا جواب شیکسپیئر سے دریافت کرنے کو دل چاہتا ہے لہٰذا اب نظم کا انداز بدل جاتا ہے۔استعارے پس منظرمیں جا رہے ہیں۔ بلاواسطہ بات کہی جائے گی۔ ۵ جب ہم شیکسپیئر کو دیکھنے کی خواہش لے کر نکلے (شاید وہی سوال پوچھنے کے لیے جو پچھلے شعر میں اُٹھایا گیا) ، ہم نے سورج کو اپنی ہی روشنی میں چھپے ہوئے دیکھا۔ فرد کی خودی سورج کی مانند ہے۔ جو شخص اپنی خودی کو قوم یا انسانیت کی اجتماعی خودی میں گُم کر بیٹھے اُس کی خودی اُس سورج کی طرح ہے جو خود نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اُس کی روشنی ہر طرف بکھری ہوئی ہو۔ ۶ چنانچہ شیکسپیئر کی اپنی زندگی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی مگر وہ دنیا کو بے حجاب دیکھتا رہا۔ ۷ ظاہر ہے کہ ایسادیکھنے والا ایک اور پیدا ہو جائے تو پھر فطرت کا کوئی راز حجاب میں نہ رہے گا کیونکہ دوسرا دیکھنے والا پہلے کی بے حجابی کو اپنے لیے آئینہ بنا ڈالے گا۔ چونکہ فطرت اپنے بعض رازوں کو مخفی رکھتی ہے لہٰذا شیکسپیئر کے بعد وہ شیکسپیئر جیسا رازداں پھر کبھی پیدا نہ کرے گی۔ یہ محض شاعرانہ بات نہیں بلکہ نظم کے شروع میں فطرت کے جو قوانین پیش کیے گئے ہیں اُنہیں تسلیم کرنے پر یہ حقیقت ایک منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مشرق کا عظیم شاعر یہ بات اُس زمانے میں کہہ رہا تھا جب خود مغرب کے نمایندہ شعرأ اپنے آپ کو شیکسپیئر کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے پَر تول رہے تھے۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ شعوری یا غیرشعوری طَور پر اِقبال نے اِس نظم میں خودی کی بتدریج نشو و نما کے وہ سات مراحل پیش کر دیے تھے جنہیں وہ اپنے آیندہ شاہکاروں میں کئی مرتبہ مختلف انداز میں دہرانے والے تھے۔ ۱۱۵ ’’سر اِسرائیل نے مجھے اقبال کی نظم کا ایک ری پرنٹ دیا جسے میں نے فریم کروا لیا تھا،‘‘ شیکسپیئر والی نظم کے حوالے سے میاں افضل حسین کا بیان ہے جو اُن دنوں کیمبرج میں تھے۔۹۴ ۱۱۶ حیدرآباد دکن کے شاعر مولوی عبدالرؤف شوقؔکی نظم مرقع رحمت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپے کے بارے میں ذخیرہ پریس (حیدرآباد دکن) سے شائع ہوئی۔ تقریظ ترجمان الحقیقت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لأ، لاہور شوقؔ صاحب کی نظم میں نے دیکھی ہے۔ اس کے ہر شعر میں خلوص و محبت اور عقیدت کی جھلک ہے۔ خوشا وہ دل جو عشق نبوی کا نشیمن ہو۔ سید عبدالرؤف صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حبیبِ پاک کی محبت عطا فرمائی۔ میری نگہ میں ان کا ہر شعر قابلِ احترام ہے۔۹۵ ۱۱۷ آئرلینڈ کے حریت پسندوں نے ہوم رُول مسترد کر دیا تھا اور آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگ کے خاتمے کا انتظار کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انگریز کے وعدے پر اعتماد نہ تھا۔ ۲۸ اپریل کو ڈبلن کے قلعے میں انگریز محافظوں پر حملہ ہوا۔ عدالت کے ایک حصے کو آگ لگائی گئی۔ ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر آئرلینڈ کی آزادی کا اعلان ہوا اور ایک نیا پرچم بلند ہو گیا۔ شام تک ڈاکخانے کی سنگین دیواریں انگریز سپاہیوں کی گولیوں سے داغدار ہو چکی تھیں۔ گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ ۱۱۸ اُس روز حکومتِ پنجاب نے حسبِ معمول انجمن حمایت اسلام لاہور کو چٹھی بھیجی کہ امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پنجاب کی نمایندگی کرنے کے لیے تین مسلمان ممبروں کے نام تجویز کرے۔ ۹۶ ۱۱۹ اقبال، سر میاں محمد شفیع اور نواب ذوالفقار علی خاں: یہ تین نام تھے جو انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل نے ۷ مئی کو دہلی کی امپیریل لیجلسیٹو کونسل میں پنجاب کے مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے اپنی طرف سے تجویز کیے۔۹۷ ۱۲۰ ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں ووٹ تو مل جائیں گے پیسے بھی دلوائیں گے کیا میرزا غالب، خدا بخشے، بجا فرما گئے ’’ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا‘‘۹۸ ۱۲۱ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اُردو کے صدرممتحن تھے۔ بی اے فارسی پرچہ الف اور فلسفہ، اور ایم اے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ ۹۹ ۱۲۲ کشن پرشاد نے لکھا کہ اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ میں اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ حافظؔ کی شاعری زندگی کی قوتوں کو کمزور کرتی ہے۔ بنام کشن پرشاد لاہور ۱۰ مئی ۱۶ء سرکارِ والاتبار۔ تسلیم مع التعظیم۔ والانامہ مل گیا تھا۔ سرکار نے جو ارشاد فرمایا ہے بالکل صحیح ہے یعنی اس بات کے ثبوت میں میں نے مثنوی میں کچھ نہیں لکھا کہ جو کیفیت خواجہ حافظ اپنے ریڈر کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ قوتِ حیات کو ضعیف و ناتواں کرنے والی ہے۔ اِس دعوے کے ثبوت دو طرح سے دئے جا سکتے ہیں، فلسفیانہ اور شاعرانہ۔ مقدم الذکر قسم کا ثبوت اس مثنوی میں کوئی نہیں کیونکہ کتاب نظم ہے اور نظم میں فلسفیانہ ثبوت پیش نہیں کئے جاسکتے۔ اگر یہی مضمون نثر میں لکھا جا رہا ہوتا تو وہ تمام ثبوت لکھے جاتے۔ شاعرانہ ثبوت منطقی اعتبار سے ضرور نہیں کہ صحیح ہوں تاہم اس نکتۂ خیال سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ مثنوی میں جابجا موجود ہے۔ آپ مطالعہ فرمائیں گے تو معلوم ہو جائے گا۔ مسئلہ نہایت دقیق اور گہرا ہے اور چونکہ اس کا تعلق انسان کی موجودہ اور مابعدالموت کی زندگی سے ہے اس واسطے ہر ایک آدمی کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے۔ میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ نتیجہ بیشتراقوامِ مشرق کے موجودہ مذاق اور میلانِ طبیعت کے خلاف ہے لیکن مشرقِ قدیم کے حکمااس سے نآشنا نہیں ہیں اور یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ میں اس نتیجے پر پہنچنے میں فلاسفۂ مغرب سے متاثر ہوا ہوں۔ اگرچہ میں کوئی غیرمعمولی ذہانت و فطانت رکھنے والا آدمی نہیں ہوں اور نہ کوئی غیرمعمولی علم رکھتا ہوں تاہم عام لوگوں سے علم اور سمجھ کسی قدر زیادہ رکھتا ہوں، جب مجھ کو اِس نتیجے پر پہنچنے کے لیے بیس سال کی ضرورت ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ عام لوگ جو دنیا کی دماغی اور عملی تاریخ سے پورے واقف نہیں، تھوڑے غور و فکر سے اس کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ اعتراض کرنا دوسری بات ہے۔ کبھی ملاقات ہوئی تو مفصل عرض کرنے کی جرأت کروں گا۔ ستمبر میں لاہور کی انجمن حمایت اسلام کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن حیدرآباد کا قصد رکھتا ہے۔ اگر یہ ڈیپوٹیشن آیا تو ممکن ہے میں بھی ساتھ ہوں لیکن ڈیپوٹیشن کا روانہ ہونا ابھی قطعی طور پر فیصلہ نہیں ہوا۔ زیادہ کیا عرض کروںسوائے اس کے کہ سرکار کے لیے دست بدعا ہوں اور اطمینان کے ساتھ انقلاباتِ عالم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ کا خادمِ دیرینہ محمد اقبال ۱۲۳ آیندہ چھ ہفتوں تک کشن پرشاد نے اقبال کو خط لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ ۱۲۴ ۱۲ مئی کو امرتسر کے اڈووکیٹ غازی عبدالرحمٰن کوہلال کے نشان کی تاریخ کے بارے میں خط لکھا۔ ممکن ہے انہوںنے پوچھا ہوکیونکہ اقبال نے بھی تو خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا کہہ رکھا تھا۔ ’’نشانِ ہلال کی تاریخ میں اختلاف ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ یہ نشان نبیٔ کریمؐ اور صحابہ کے زمانے میں رائج نہ تھا۔ ممکن ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران صلاح الدین ایوبی نے شروع کیا ہو اگرچہ بعض مغربی مورخین کے خیال میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد عثمانی ترکوں نے شروع کیا۔ ایران کا نشان اور ہے مگر تمام سنّی دنیا اِسے اپنا نشان تصور کرتی ہے خواہ اس نشان کو پہلے پہل شروع کرنے والے نے چاند کو بڑھنے کی علامت سمجھ کر یہ نشان اختیار کیا ہو یا چاند سورج سے اپنا سلسلۂ نسب ملانے کے لیے۔ ’’مگر تمام امت کا اس پر صدیوں سے اجماع ہو چکا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’جن اسلامی قوموں کا نشان اور ہے وہ اس نشان پر کبھی معترض نہیں ہوئیں اور حدیثِ صحیح ہے کہ میری امّت کا اجماع ضلالت پر نہ ہو گا۔ اِس واسطے اس کو ضلالت تصور کرنا ٹھیک نہیں۔ واللہ اعلم۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اُمتِ مسلمہ کو ’’اسلامی قوموں‘‘ میں منقسم سمجھتے تھے جن میں سے ہر ایک کی رائے اپنی جگہ معتبر تھی۔ سب کی آرأ مل کر اُمتِ مسلمہ کی متفقہ رائے بنتی تھیں۔ ۱۲۵ امرتسرکے اڈووکیٹ سراج الدین پال اُن نوجوان مسلمانوں میں سے تھے جو اقبال کی حمایت میں تصوف کے خلاف مضامین لکھ رہے تھے۔ ۱۰۰ ۱۲۶ ۲۴ مئی کے خطیب میں اقبال کی غزل شائع ہوئی جو غالباً چار برس پہلے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں سنائی گئی تھی: کبھی اے حقیقتِ منتَظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں۱۰۱ ۱۲۷ یورپ میں امن کے خواب دیکھنے والوںمیں منیارڈ کینز بھی تھے۔ تجویز پیش کی تھی کہ جنگ کے بعد اقوام کی کوئی انجمن وجود میں آئے تو اُس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا جائے۔ ۲۷ مئی کو امریکی صدر وُڈرَو ولسن نے لیگ آف نیشنز کا تفصیلی خاکہ پیش کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور کمزور ریاستوں کی حفاظت کرنا ہو گا۔ ۱۲۸ کلکتہ کی مس گوہر جان کے گانے کے ریکارڈ لاہور میں بھی بجتے تھے۔ ’’لاہور میں گرمی کا زور ہے اور اس پر مس گوہر جان کا نغمۂ جگرسوز فضائے لاہور کی حدّت پر مستزاد ہے،‘‘ اقبال نے ۲۸ مئی کو کشن پرشاد کے نام لکھا۔ فکرمند تھے کیونکہ پچھلے خط کا جواب نہیں آیا تھا۔ ۱۲۹ کتابوں کی فراہمی میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ شیخ روزبہان بقلی کی کتاب شرحِ شطحیات تلاش کر رہے تھے جس میں وجودی صوفیا کی ایسی باتوں کی شرح کی گئی جو بظاہر شریعت کے خلاف دکھائی دیتی تھیں۔کتاب نہ ملی۔۱۰۲ معلوم ہوا لاہرپور (اودھ) میں قلندر صاحب نام کے کوئی بزرگ گزرے تھے جنہوں نے ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ کی تردید میں ایک مبسوط کتاب فارسی میں لکھی تھی۔ اُن کے سجادے میں اب تک محفوظ تھی۔اقبال نے سجادہ نشین کو خط لکھوایا مگر معلوم نہیں اس کا کوئی نتیجہ برامد ہوا یا نہیں۔۱۰۳ ۱۳۰ تاریخِ تصوف کے لیے جو نکات اکٹھے کیے جا رہے تھے اُن میں ’محی الدین ابن عربی، اسلام کی تھیاسوفی‘ کی سرخی ڈال کر فتوحاتِ مکیہ میں استعمال ہونے والی بعض اصطلاحات درج کیں اور لکھا، ’’یہ اصطلاحات عجیب و غریب۔ اگر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے سامنے یہ کتاب رکھی جائے تو اُن میں سے کوئی بھی اس کو نہ سمجھ سکے۔‘‘۱۰۴ ۱۳۱ ۷ جون تھی۔ برطانوی جہاز ہمپ شائر رُوس کی طرف بڑھا جا رہا تھا۔ سمندری لہروں کے نیچے بارودی سرنگ بچھی ہوئی تھی۔ دھماکہ ہوا تو جہاز پر سوار کوئی بھی شخص زندہ نہ بچا۔ مرنے والوں میں لارڈ کچنر بھی شامل تھا۔ اُس کی عمر چھیاسٹھ برس تھی۔ اقبال نے اُس کی موت کو درویش کا انتقام قرار دیا کیونکہ کچنر کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے سوڈان فتح کرنے کے بعد مہدی کی قبر سے ہڈیاں نکلوا کر دریا میں پھنکوا دی تھیں۔ اب کچنر کو خود قبر نصیب نہ ہوئی تھی۔ فرعون بھی دریا میں ڈوب کر مرا تھا۔ انگلستان میں سوگ منایا گیا۔ ۱۳۲ جنہیں اقبال اور کشن پرشاد ’’اللہ اکبر‘‘کہتے تھے اگر وہ کوئی مجذوب تھے تو ۱۴ جون کو اقبال کے پاس بیٹھے اُن کے ایک شعر کا مطلب پوچھ رہے تھے: نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں میں نے ہر ایک چیز میں دیکھا اُسے مکیں میں نے اقبال نے یہ شعر بارہ سال پہلے لکھا تھا۔ مجذوب نے کہا کہ مہاراجہ بھی اس پر غور کریں گے۔ کشن پرشاد نے گوہرجان والے خط کا جواب بھی نہیں دیا تھا، اب اقبال نے پھر یادہانی کروائی۔ اللہ اکبر کہنے لگے کہ مہاراجہ بہادر کو یہ بھی لکھ دو: جب تینوں ہووے علم اشیا ٔ ہر ہر چیز نوں کہیں خدا کاش کوئی جا کر حسن نظامی کو بتا آتا کہ اقبال کے قلم سے کیسی کیسی باتیں لکھوائی جا رہی تھیں! ۱۳۳ لاہور میں سہ پہر کے وقت آندھی چلی۔ انارکلی والے فلیٹ کی تیسری منزل پر سردار بیگم اور ملازمین صحن سے سامان اُٹھا اُٹھا کر اندر رکھنے لگے۔ چار پانچ سالہ وسیمہ بھی اپنی مَینا کا پنجرہ اندر لے گئیں۔ اتنے میں صحن کی دیوار کا کچھ حصہ گر پڑا۔ ڈر کے مارے وسیمہ کی چیخ نکل گئی اور اُنہوں نے روتے ہوئے کہا، ’’ہائے ہائے! میرے چچا جان اِینے پریے کتھوں لان گے؟‘‘ [میرے چچا جان اِتنے روپے کہاں سے لگائیں گے؟]۔ سردار بیگم ’’روپے‘‘ کو ’’پریے‘‘ سن کر محظوظ ہوئیں اور جب اقبال آئے تو وسیمہ کی نقل کر کے سنائی جس پر وہ جھینپ کر اندر کمرے میں جا چھپی۔ ’’آپ بچی کی بات کو مذاق میں نہ اُڑائیں بلکہ اس کے جذبے کی داد دیں کہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی اُسے دوسرے کی تکلیف کا کتنا احساس ہے،‘‘ اقبال نے کہا۔ پھر وسیمہ کر بلوا کر پیار سے سمجھایا کہ مکان کرائے کا ہے اِس لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ’’پریے‘‘ کا لفظ اُنہیں بھی دلچسپ لگا اور وسیمہ سے بات کرتے ہوئے وہ اِسے اکثر استعمال کرنے لگے جس پر وہ ہمیشہ جھینپ جاتیں۔۱۰۵ ۱۳۴ آفتاب نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کیا۔ اقبال کا مشورہ تھا کہ ملازمت کر لیں۔ وہ آگے پڑھنا چاہتے تھے۔ سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی چلے گئے۔ اقبال نے کالج کے لڑکوں سے اخراجات کا اندازہ کر کے ۳۵ روپیہ ماہوار خرچہ مقرر کر دیا۔ ۱۰۶ ۱۳۵ اقبال اپنے دوست فقیر سید نجم الدین کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ نجم الدین کے دوسرے لڑکے فقیر سید وحیدالدین کی عمر تیرہ چودہ برس کے قریب تھی۔ علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔ چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے۔ نجم الدین نے اقبال سے تعارف کروایا۔ وحیدالدین کا بیان ہے کہ اقبال نے اُن کے سر پر ہاتھ پھیر کر شفقت سے قریب بٹھا لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب [اقبال] نے مجھ سے کالج کے متعلق مختلف سوالات پوچھنا شروع کئے جن کا میں اَناپ شناپ دیتا رہا،‘‘ بعد میں اُنہوں نے لکھا۔ ’’اس لئے کہ خود میرے دل میں بہت سے سوالات پوچھنے کے لئے گدگدی ہو رہی تھی۔ ان دنوں لوگ انگلستان کے سفر کو عجب رشک اور استعجاب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوانوں کو تو دن رات انگلستان ہی کے خواب آیا کرتے۔ میری بھی بہت دنوں سے یہی کیفیت تھی۔۔۔ پے در پے کئی سوالات کر ڈالے وہ ہر ایک کا مسکرا کر جواب دیتے رہے۔ ضبط نہ ہو سکا تو میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’انگلستان پہنچ کر لوگ اپنے فرنگیانہ نام بنا لیتے ہیں۔ آپ کو بھی چاہئے تھا کہ اپنا نام A. K. Ball رکھ لیتے۔‘ ڈاکٹر صاحب نے بلاتامل جواب دیا۔ ’بھئی ہم نے تو نہیں کیا۔ لیکن تم ولایت جاؤ گے تو اِس نسخہ پر عمل کرنا۔ اور اپنا نام W. A. Heed رکھ لینا!‘ میں اس جواب سے کچھ لاجواب سا ہو گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد کسی بہانہ سے کھسک آیا۔‘‘۱۰۷ ۱۳۶ سردار بیگم کے بھائی عبدالغنی کی شادی ہوئی۔ اقبال کو جو کپڑے دیے گئے اُن میں سے ایک قمیص دکھاتے ہوئے سردار بیگم نے بتایا کہ یہ بوسکی ہے۔ اُس زمانے میں بوسکی کے کپڑے کا بہت چرچا تھا۔ حیران ہو کر کہا، ’’اچھا! تو یہ بوسکی ہے۔ لیکن اس میں کوئی خاص بات تو نظر نہیں آتی۔‘‘۱۰۸ ۱۳۷ ۱۹ جون کو جہلم کے سراج الاخبار میں مدیر مولوی فقیر محمد جہلمی نے اپنے مضمون ’ڈاکٹر محمد اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی پہلی قسط شائع کی۔۱۰۹ ۱۳۸ یہ سوال کئی ذہنوں میں پیدا ہوتا ہو گا کہ یورپ کے بعض دانشور اِسلامی تہذیب کا مطالعہ کرنے میں اپنی زندگیاں کیوں صرف کر دیتے ہیں؟ کیپٹن ٹی ای لارنس شائد اِس کا جواب دے سکتا۔ جنگ شروع ہونے پر وہ عربوں کے بارے میں بہت سی معلومات کے ساتھ عرب پہنچا اور خوب مقامی دوست بنائے تھے۔ آج اُس کی کوششوں کا پھل سب کے سامنے تھا۔ ۲۱ جون تھی۔مکہ کے عرب گورنر سید حسین نے عثمانی خلیفہ کے خلاف بغاوت کر کے بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ انوکھا واقعہ تھا۔ خلافت عباسیہ کے زمانے میں بھی مقامی بادشاہ خودمختار ہوئے تھے مگر خلیفہ کی تعظیم کرتے تھے۔ خودمختاری کی سند اُسی سے لیتے تھے خواہ شمشیر کے زور پر لیں۔ عربوں نے مسیحی طاقتوں سے سند لینا پسند کیا تھا۔ اقبال نے خبر سنی تو اُس ایرانی شاعر کا شعر ذہن میں گونجا جس نے پرندے کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ باغ کی تلاش میں صیّاد کے گھر جا پہنچے ہو: جویائے گلستانی و از طالعِ گمراہ ترسم کہ سر اَز خانۂ صیّاد برآری۱۱۰ ۱۳۹ آساں ہے اب تو ہندو و مسلم کا اتحاد کعبے کو پھر شریف نے بتخانہ کر دیا۱۱۱ ۱۴۰ کشن پرشاد کی خاموشی بے وجہ نہیں تھی۔آخر ۲۴ جون کو ان کا خط آیا تو کھلا کہ ان کے نزدیک اقبال نے ’اسرارِ خودی‘ میں مغربی فلسفہ بھرا ہے اور کشن پرشاد کے سوالات پر برا بھی مناتے ہیں۔ ’’میں نے کوئی نئی بات نہیں کی،‘‘ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھااور وہ باتیں دُہرا دیں جو اُن دنوں نہ جانے کتنی بار لکھ چکے تھے۔ تصوف کے مخالف نہیں، مگر وغیرہ وغیرہ۔’’آپ اپنے خیال پر قائم رہیں،‘‘ آخر میں لکھا۔ ’’میں نے چونکہ اِس خیال کو ہندوستان کی آئندہ نسلوں کے لیے مضر سمجھا ہے اس واسطے مجبوراً اِس سے اختلاف کیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی اگر دکن میں ہوں تو میری طرف سے سلام عرض کردیں۔‘‘ ۱۴۱ اُس برس اکبرؔ نے انہیں الٰہ آباد سے لنگڑا آم بھیجا۔ پارسل کی رسید اقبال نے اس طرح لکھی: اثر یہ ترے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا!۱۱۲ ۱۴۲ ۲۶ جون کو سراج الاخبار (جہلم) میں مولوی فقیر محمد جہلمی کے مضمون ’ڈاکٹر اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی دوسری قسط شائع ہوئی۔۱۱۳ ۱۴۳ علمِ ظاہر و باطن از ڈاکٹر شیخ محمد اقبال [اقتباس] احادیثِ صحیحہ میں کوئی ایسی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری جس سے یہ معلوم ہو کہ نبی کریمؐ نے علومِ رسالت میں سے کوئی خاص علم بعض صحابہ کو سکھایا اور بعض سے اُسے چُھپایا۔ بادی النظر میں بھی یہ بات خلافِ شانِ رسالتِ محمدیہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ آخری رسالت تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا حقیقت میں بعض جلیل القدر صحابہ کی توہین ہے۔ علاوہ اس کے ممکن نہیں کہ نصِ صحیح کے ہوتے ہوئے نبی کریمؐ نے علومِ رسالت میں سے بعض کو بعض سے چُھپایا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات و الھدی (۲: ۱۵۹) اِس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے کہ اگر علمِ باطن کا تعلق بیّنات اور ہدایت سے ہے تو معاذ اللہ، رسول اللہ صلعم اِس گروہِ صوفیہ کے عقیدے کے مطابق آیت مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہرحال چونکہ بارِ نبوت ان لوگوں پر ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ علم باطن علومِ رسالت میں سے ایک علم ہے جس کی تعلیم نبی کریمؐ نے صرف بعض صحابہ کو دی ہے اِس واسطے جو ثبوت اِن بزرگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اُس کا وزن کرنا ضروری ہے۔ چند سال ہوئے سیّد محمد فایق نظامی نیازی نے ایک رسالہ موسوم بہ تحقیق الحق فی الوجود المطلق لکھا تھا۔ اس رسالہ میں مسئلہ وحدت الوجود کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اُس کی تنقید تو ہم اور موقع پر کریں گے فی الحال ہم اُس روایت کا امتحان کرنا چاہتے جس کو انہوں نے عقیدۂ مذکور کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ نظامی صاحب وحدت الوجود کے دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کلمۂ توحید کے دو اجزا ہیں یعنی لا اِلہ الااللہ اور محمد رسول اللہ۔ پہلا جزو ظرف اور ماخذ ہے علمِ شریعت کا اور دُوسرا جزو ماخذ ہے علمِ تصوفِ وجودی کا، جس کو علمِ باطن بھی کہتے ہیں۔ اِس تشریح کے بعد صاحب موصوف حضرت ابوہریرہ کی مشہور روایت کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے:’’ عن ابی ھریرہ قال حفظُت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائین فا ما احد ھما۔۔۔الخ‘‘ (مشکٰوۃ بحوالہ بخاری) یعنی حضرت ابوہریرہ نے کہا کہ یاد رکھیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برتن یعنی دو طرح کے علم [لیے]، ایک علم کو تو میں نے پھیلایا اور دوسرا علم ہے کہ اگر میں اُسے پھیلاؤں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔‘‘ نظامی صاحب کی رائے میں دو برتنوں میں سے یا دو علموں سے ایک علم تو شریعت کا ہے جس کا ماخذ کلمۂ توحید کا جزوِ اول ہے اور دوسرا علم، علمِ تصوفِ وجودی یا علمِ باطن ہے جس کے ظاہر کرنے سے وہی انجام ہوتا ہے جو حسین بن منصور کا ہوا۔ اس روایت میں لفظ ’’ وعائین‘‘ سے دو مختلف اقسام کے مرتب و منظم علم مراد لینا محض زبردستی ہے۔ ’’وعا‘‘ کے معنی ابن اثیر نے نہایہ میں ظرف اور مجازاً محلِ علم کے لکھے ہیں۔ بس صاف اور سیدھے معنی اِس روایت کے یہ ہیں کہ دو قسم کی باتوں کی آگاہی حضرت ابوہریرہ کو نبی کریمؐ نے دی۔ ایک تو متفرق احکامِ دین جن کو انہوں نے رسول اللہ صلعم سے سُن کر عامہ مسلمین میں شائع کیا اور دوسری وہ باتیں جو اُنہوں نے خوف کے مارے شائع نہ کیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا باتیں تھیں جن کو ابوہریرہ نے خوفِ جان کی وجہ سے شائع نہیں کیا؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت ابوہریرہ کے دیگر اَقوال کو دیکھنا ضروری ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ’’اعوذ باللّٰہ من راس السنین و امارۃ الصبیان‘‘ یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں سن ۶۰ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت کے۔ حضرت ابوہریرہ جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں اَوروں کی نسبت زیادہ نبی کریم کی صحبت میں رہے۔ ان کو بعض وہ پیشگوئیاں بھی معلوم تھیں جو رسول اللہ صلعم نے مسلمانوں کی خانہ جنگیوں اور فتنوں کے متعلق کی تھیں جن کا ظہور عنقریب ہونے والا تھا۔ اور چونکہ ابوہریرہ کو ان جلیل القدر لوگوں سے جو بعد میں ان فتنوں میں نمایاں حصہ لینے والے تھے بصورت ان باتوں کا اعلان کر دینے کے جان کا اندیشہ تھا اِ س واسطے وہ کبھی صریحاً اِن باتوں کا ذکر نہ کرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی اشارۃً ذکر فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً ’’اعوذ باللّٰہ من راس السنین۔۔۔الخ‘‘ابن حجر عسقلانی فتح الباری (شرح بخاری) میں فرماتے ہیں (جلد۱-صفحہ۱۹۳): ومحل العلما الوعا الذی لم بینہ علی الاحادیث النبی فیھایتین اسامی امرا عالسو واحوالھم و زمنھم و قد کان ابوھریرہ یکتی عن بعضہ ولا بصرح بہ خوف علیہ نفسد منھم کفولہ اعوذ باللّٰہ من راس السنین و امارۃ الصبیان بشیر الی خلافۃ یزید بن معاویہ من الھجرۃ استعجاب اللّٰہ دعا ابی ھریرہ فمات قبلھا (ترجمہ) علمأ نے اُس وعا کا جس کو ابوہریرہ نے شائع نہیں کیا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں برے امرا ٔ کے نام، اُن کے احوال اور اُن کے زمانوں کے کوائف درج ہیں اور ابوہریرہ کنایۃً ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈر کے مارے ان کو مفصل نہ کہتے تھے۔ جیسے ان کا قول اعوذ باللّٰہ من راسہے اور اس میں اشارہ ہے یزید ابن معاویہ کی خلافت کی طرف کیونکہ یہ سن ۶۰ھ میں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ابوہریرہ کی دُعا قبول کر لی اور وہ خلافتِ یزید سے پہلے ہی رحلت کر گئے۔ وکیل (امرتسر)، ۲۸ جون ۱۹۱۶ء ۱۴۴ کوئی صوفی عبداللہ تھے جنہوںنے پہلے گالیوں کا طوفان اٹھایا۔ پھر’ مدہوشی بیخودی‘ کے عنوان سے ’اسرارِخودی‘ کے خلاف کتابچہ شائع کیا۔ الٰہ آباد سے ایک فصیح اللہ کاظمی نے اِس حوالے سے اقبال کو خط لکھا۔ ۱۱۴ ۱۴۵ ۳ جولائی کو فرانس میں صبح کے سات بجے تھے۔ دریائے سومے کے کنارے پندرہ میل تک خندقیں کھدی ہوئی تھیں۔ یہ جنگ ِعظیم کا سب سے بڑا محاذ تھا جہاں جرمن حملہ آوروں کے خلاف اٹھارہ ڈویژن فرانسیسی افواج کے ساتھ انگریز فوج کے چھبیس ڈویژن شامل ہو چکے تھے جو سب رضاکار تھے۔ سامنے کچھ دُور تک ’’نو مینز لینڈ‘‘ تھا یعنی خالی علاقہ تھا۔ اس کے دوسری طرف جرمن افواج خندقوں میں موجود تھی۔ انگریز افسر پہلے ہی ہلے میں جرمنوں کو کم سے کم کم چار ہزار گز پیچھے ہٹانا چاہتے تھے لہٰذا اتحادی سپاہیوں نے بہت بڑی تعداد میں دھاوا بولا۔ بھاری ساز و سامان کی وجہ سے قدم سست تھے مگر دل میں وطن پر قربان ہونے کی خواہش تھی جو بہت جلد پوری ہو گئی۔ دوپہر ہونے تک ہر طرف زخمی اور لاشے بکھرے ہوئے تھے۔ اتحادی رُک گئے اور جرمنوں نے بھی فائر روک دیا۔ اسٹریچر بردار بھیجے گئے جو میدان سے زخمیوں اور لاشوں کو ہٹا سکیں۔ شام چار بجے فائرنگ دوبارہ شروع ہوئی۔ یورپ کی تاریخ میں یہ بڑا اہم لمحہ تھا۔ اب دِلوں میں مایوسی بیٹھنے والی تھی۔ جرمن سیاستداں اور دانشور فریڈرک نائومن (Friedrich Naumann)نے حال ہی میں ایک مذہبی مکتوب(Brief über Religion) میںلکھا تھا، ’’ہمیں دنیا کا جو علم حاصل ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم ایک ایسے خدا کی ہستی کا اقرار کریں جو قادر اور توانا ہے اور موت و حیات کو یوں ساتھ ساتھ بھیجتا ہے جیسے سائے کے ساتھ روشنی۔ لیکن پھر ایک وحی اور ایک ایمان بھی ہے، جو ہماری نجات کا سرچشمہ ہے اور جس نے اسی قادر اور توانا خدا کو باپ کہا ہے۔ اب خدائے کائنات کا اتباع کیجیے تو بقا کی جنگ کا جواز ہے اور یسوع مسیح کے باپ کی خدمت کیجیے تو شفقت اور رحمت۔ حالانکہ خدا صرف ایک ہے، دو نہیں۔ لہٰذا دونوں کی ذات ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہے،مگر نجانے کہاں اور کس طرح‘‘۔ اُس روز سراج الاخبار (جہلم) میں مولوی فقیر محمد جہلمی کے مضمون ’ڈاکٹر اقبال اور خواجہ حافظ‘ کی آخری قسط شائع ہوئی۔۱۱۵ ۱۴۶ ۴ جولائی سے رمضان شروع ہوا مگر لاہور میں ابھی بارش نہ ہوئی تھی۔ لوگ تڑپ رہے تھے۔۱۱۶ ۱۴۷ فلسفۂ عشق کے مصنف شیخ مشیر حسین قدوائی نے اُسی مضمون پر اِکتفا نہ کی جو زمیندار میں ۲۳ مارچ کو شائع ہوا تھا۔ ’خودی اور رہبانیت‘ کے عنوان سے یہ بھی بتایا، ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ راہبوں کا ادب ملحوظ رکھا اور ان کی خاص تعظیم فرمائی۔۔۔‘‘ اس کا جواب امرتسر کے مولوی سراج الدین احمد پال ایم اے نے، جو لاہور ہائی کورٹ میں وکیل تھے، وکیل (امرتسر) کی اشاعت میں ’خودی اور رہبانیت‘ ہی کے عنوان سے دیا۔۱۱۷ ۱۴۸ اقبال نے تین روزے رکھے تھے کہ دردِ گردہ کے دورے کی ابتدا محسو س ہوئی۔ ذہن ایک صحابی حضرت عمران بن حصین کی روایت کی طرف گیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’میری امت میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے۔ پھر اُن کا جو اُن کے بعد متصل ہوں گے۔۔۔‘‘ حضرت عمران کہتے تھے کہ ٹھیک سے یاد نہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنے بعد دو پشتوں کا ذکر کیا یا تین پشتوں کا مگر بہرحال اُس کے بعد آپؐ نے فرمایا، ’’تمہارے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر طلب کے گواہی دیں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور امین نہ بنائے جائیں گے۔ وہ نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہ کریں گے اور یہ لوگ سمن ہوں گے۔‘‘ عام طور پر حدیث کی تشریح کرنے والے ’’سمن‘‘ سے تن پروری مراد لیتے تھے لہٰذا بعض ترجمہ کرنے والے اس لفظ کی جگہ ’’موٹا‘‘ لکھ دیتے تھے۔ اقبال سمجھتے تھے کہ عربی لغت میں کوئی سند موجود نہیں کہ یہ لفظ اس مطلب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ عربی میں سمن سے مراد بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔ راہبوں کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا۔ اقبال اِس نتیجے پر پہنچے کہ آنحضورؐ نے مسلمانوں میں رہبانیت کے فروغ کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ وجودی تصوف کی صورت میں پوری ہوئی۔۱۱۸ ۱۴۹ تاریخِ تصوف کا خاکہ کچھ یوں بنا: ۱ تصوف پر ایک تاریخی تبصرہ ۲ تصوف پر ایک نگاہ علم النفس [نفسیات] اور علم الحیات [بیالوجی] کے اعتبار سے ۳ تصوف اور اسلام ۴ تصوف اور ادبیاتِ اسلامیہ ۵ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی تصوف کے متعلق ۶ آیۂ قرآنی اور وحدت الوجود۱۱۹ گویا پہلے وہ تاریخی حقائق جنہیں چند ماہ قبل لکھنا شروع کیا تھا اور آخر میں قرآن و حدیث کی روشنی میں نئے نکات پیش کیے جانے تھے۔ پھر کچھ سوچ کر یہ ترتیب اُلٹ دی اور منصور حلاج پر علیحدہ باب بنانا بھی زیادہ مناسب معلوم ہوا: ۱ مسئلہ وحدت الوجود اور آیاتِ قرآنی و احادیثِ نبوی ۲ رسول اللہ صلعم کی پیش گوئی تصوف کے متعلق (السمن قاضی عیاض) مجمع البحرین داراشکوہ ۳ تصوف اور ادبیاتِ اسلامیہ ۴ تصوف پر ایک نگاہ علم النفس اور علم الحیات کے اعتبار سے ۵ منصور حلاج ۶ افلاطونیتِ جدید اور یونانی صوفیا ۷ تصوف پر ایک عام تاریخی تبصرہ ۸ مسلمانوں میں صوفی نصب العین پیدا ہونے کے اسباب ۹ تصوف اور شعائرِ اسلامیہ ۱۰ اسلام اور دنیا۱۲۰ ۱۵۰ سمن والی حدیث کے حوالے سے مضمون لکھنا شروع کیا۔ خیال تھا کہ بالکل نرالا ہو گا۔گردے کی تکلیف برقرار تھی۔ ۷ جولائی سے روزے چھوڑنے پڑے۔۱۲۱ نیازالدین خاں کا ایک اور خط آیا۔ سراج الدین پال کے مضامین کی تعریف کی تھی۔ ۸ جولائی کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے اپنے زیرِ تصنیف مضمون کے بارے میں بتایا، ’’آپ دیکھیں گے تو داد دیں گے۔‘‘ ۱۵۱ سمن والی حدیث پر مضمون کا پہلا حصہ ’تصوفِ وجودیہ‘ کے عنوان سے وکیل (امرتسر) میں شائع ہوا۔۱۲۲ ۱۵۲ سراج الدین پال کا خط آیا۔ ’’آپ کے مضامین نہایت اچھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقائقِ اسلامیہ کی سمجھ عطا کی ہے،‘‘ اقبال نے ۱۰ جولائی کو جواب دیتے ہوئے لکھا اور حافظؔ پر طویل مضمون لکھنے کی دعوت دی جس میں اس نکتے کو پیش کیا جائے کہ کسی مذہب یا قوم کے قانون میں باطنی معنی تلاش کرنا حقیقت میں اُس قانون کومسخ کر دینا ہوتا ہے۔مسلمانوں میں ایرانی اثرات کی وجہ سے ایسے ادب کی بنیاد پڑگئی کہ اچھی چیزوں کو برا اور بری چیزوں کواچھا سمجھنے لگے۔ ’’اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکیم سنائیؒ افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔‘‘ اُسی روز الٰہ آباد کے فصیح اللہ کاظمی کو جواب لکھا اورایک دفعہ پھر اپنے اِس خیال کو دہرانے پر مجبور ہوئے کہ وجودی تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ’’صوفی عبداللہ صاحب اس خیال کے اظہار سے قال سے حال میں آگئے مگر یہ ایک خاص علمی اور تاریخی بحث ہے جس میں تاریخ اور آثار سے مدد لینی چاہئے، گالیوں سے کام نہ چلے گا۔‘‘ ۱۵۳ میاں ملک محمد قادری، جہلم میں ٹھیکیدار تھے۔ کشمیری تھے۔ مثنوی لکھی جس میں اقبال کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر دردِ دل رکھتے ہو تو علاج تلاش مت کرو اور دل کے داغ ہی کو سب کچھ سمجھو، پراگندہ خیالات سے بچو اور شیطان کے فریب سے پناہ مانگو۔ محمد الدین فوق کو بھیجی کہ طریقت میں ضرور شائع کی جائے۔ فوق کا بیان ہے، ’’[اقبال نے] فرمایا، نظم ضرور چھاپو اور اگر مناسب سمجھو تو مجھے بھی دکھا لو۔ لیکن آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی اصلاح، خدا کی قسم! ایک تو ثواب کا کام ہے اور اگر اِس اثنا میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو یہ جہادِ اکبر کا کام دے گا۔‘‘۱۲۳ ڈاکٹر اقبال اور اُن کی نظم اسرارِ خودی متعلقہ حافظ شیراز کا جواب از میاں ملک محمد صاحب قادری ٹھیکیدار جہلم [اقتباس] دردِ دل داری اگر درماں مجو جز داغِ دل دگر ساماں مجو از خیالاتِ پریشاں درگزر الحذر از مکرِ شیطاں الحذر طریقت (لاہور)۱۲۴ ۱۵۴ فصیح اللہ کاظمی نے رسالہ پیامِ امید بھجوایا۔ شاید خود بھی کچھ لکھنا چاہتے تھے اور’ اسرارِ خودی‘ کی کاپی منگوائی تھی۔ رسالہ پہلے بھی اقبال کی نظر سے گزر چکا تھا اس لیے۱۴ جولائی کو واپس کرتے ہوئے بتایا کہ ’اسرارِ خودی‘ کی کوئی کاپی اب موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر دوستوں میں تقسیم ہوئی تھیں۔ ’’میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’شاعری میرے لیے ذریعۂ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔ آخر میں انسان ہوں اور مجھ سے غلطی ممکن کیا یقینی ہے، نہ ہمہ دانی کا دعویٰ ہے نہ زبان دانی کا۔‘‘ حافظؔ پر مضمون کے لیے کچھ اور چیزیں ذہن میں آئیں۔ پرسوں والے خط میں سراج الدین پال کو لکھنا بھول گئے تھے کہ مرزا محمد دارابی کی کتاب بھی دیکھی جائے۔ دس گیارہ برس پہلے طہران سے شائع ہوئی تھی۔ حافظؔ پر کیے گئے مختلف اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔ ’’میں نے اس کا ایک مطبوعہ نسخہ انگلستان میں دیکھا تھا،‘‘ اقبال نے اس روز سراج الدین پال کو ایک اور خط لکھ کر بتایا۔ ’’اُس وقت یہ معلوم نہ تھا کبھی اس کی ضرورت پیش آئے گی ورنہ نوٹ کر لیتا۔بہرحال میرا خیال ہے کہ بمبئی کے ایرانی کتب فروشوں سے مل جائے گی۔‘‘ کلارک نے حافظؔ کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا تھا کہ حافظ کے چچا نے ان سے کہا تھا کہ تمہارا کلام پڑھنے والوں پر دیوانگی اور لعنت نازل ہو گی اور قسطنطنیہ کے کچھ شیعوں کا اب تک عقیدہ ہے کہ حافظ کو پڑھنے والے آخر میں پاگل ہو جاتے ہیں۔’’تاریخی اعتبار سے اس کے کلام پر نظر ڈالنی ہو تو مولوی شبلیؔ کی شعرالعجم ملاحظہ کیجئے، غالباً اُس سے آپ واقف ہوںگے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’دیوانِ حافظؔ سے فال نکالنے کے دستور کے متعلق بھی عمدہ آگاہی کلارک کے دیباچے میں ملے گی۔‘‘اقبال کے خیال میں وہ حافظ اور تیمور کی ملاقات کا قصہ جو آتش کدہ کے مصنف نے بیان کیا تھا درست نہیں تھا کیونکہ حافظؔ تیمور کے سمرقند فتح کرنے سے چار سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ اس کے بعد اقبال نے خود بھی مرزادارابی کی کتاب کی تلاش شروع کر دی۔۱۲۵ ۱۵۵ ایک مشکل یہ تھی کہ حافظ کی صحیح غزلوں کا پتہ نہیں چلتا تھا کیونکہ دیوانِ حافظؔ کے بعض پرانے نسخوں میں ایسی غزلیں موجود تھیں جو خواجوکرمانی کے دیوان میں بھی پائی جاتی تھیں جو حافظؔ سے پہلے گزرے تھے اور خود حافظؔ نے اُن کی پیروی کا اعتراف کیا تھا۔۱۲۶ ۱۵۶ ۱۸ جولائی کو اقبال غالباً ہندوستان کے کسی صوفی مفسر کی کتاب دیکھ رہے تھے۔خلق الارض و السمٰوات فی ستہ ایام یعنی خدا نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا کہ ستہ ایام سے تنزلاتِ ستہ مراد ہیں۔ یہ سوچ کر طبیعت پر بہت بوجھ پڑا کہ عربی محاورے میں تو ایام تنزلات کے معانی میں آ ہی نہیں سکتا، افسوس کہ اس ملک سے عربی کا علم اٹھ گیا ہے۔ ۱۲۷ ۱۵۷ سراج الدین پال کا خط آیا تو معلوم ہوا کہ انہوںنے کلارک کے ترجمے کے لیے کتب فروش تھیکرے کو لکھا ہے۔ انہی دنوں روزوں کے بارے میں سراج الدین پال کا کوئی مضمون شائع ہوا جسے پڑھ کر اقبال کو بہت خوشی ہوئی۔ ’’آپ کے مضمون کا آخری فقرہ میں نے سب سے پہلے پڑھا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا آپ کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ بابِ افعال کا ایک خاصہ سلبِ ماخذ ہے،‘‘ ۱۹ جولائی کو اقبال نے خط میں لکھا۔ ’’یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی کہ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔‘‘کلارک کے ترجمے کے بارے میں اقبال نے مشورہ دیا کہ آرڈر منسوخ کر دیں کیونکہ بڑی کتاب ہے لہٰذا خاصی مہنگی ہو گی۔ اورینٹل کالج کی لائبریری میں دوسری مفید کتابوں کے ساتھ یہ بھی موجود تھی۔ کچھ جرمن کتابوں کے حوالے بھی دئے کہ اگر سراج الدین مضمون لکھنا چاہیں تو اقبال ان میں سے ایک کتاب کے مفید حصے کا ترجمہ کر دیں گے۔ مولانا اسلم جیراجپوری کی کتاب حیاتِ حافظؔ کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ اور کچھ نہیں تو ماخذ ہی معلوم ہو جائیں گے۔ ’’سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حافظؔ کی معاصرانہ تاریخ غور سے دیکھئے،‘‘ انہوں نے سراج الدین کو لکھا۔ ’’مسلمانوں کی ذہنی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے؟ مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا تھی؟ پھر اِن سب باتوں کی روشنی میں حافظؔ کے کلام کا مطالعہ کیجئے۔‘‘ وجودی تصوف کا پہلا شاعر عراقی تھا ’’جس نے لمعات میں فصوص الحکم محی الدین ابن عربی کی تعلیموں کو نظم کیا ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’فصوص میں جہاں تک مجھے معلوم ہے سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پر میں انشأ اللہ مفصل لکھوں گا۔ ‘‘ اگر حافظؔ کو صوفی مانا جائے تو وہ اقبال کے نزدیک وجودی تصوف کے آخری شاعر تھے۔ ’’یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نکتۂ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترکِ دنیا موجبِ تسکین۔ اِس ترکِ دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جو اُن کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھئے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنؤ کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا!‘‘ ۱۵۸ ۲۴ جولائی کو جہلم کے ٹھیکیدار ملک محمدکا منظوم جواب جو پہلے طریقت میں شائع ہوا تھا، سراج الاخبار میں بھی شائع ہو گیا۔۱۲۸ ۱۵۹ عبدالماجد دریابادی نے اپنی کتاب سائیکالوجی آف لیڈرشپ محمد علی کو چھندواڑہ بھجوائی تھی جسے پڑھ کر وہ سخت بیچین ہوئے۔ ۲۵ جولائی کو انگریزی میں عبارت، مغز، اجتماع، قیادت، نظائر اور پیغمبر خدا کے عنوانات ڈال کر طویل خط کے ذریعے نوجوان مصنف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ علمی موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ ایک عام قاری اُسے سمجھ سکے۔ ’’اجتماع کا مفہوم آپ کے ذہن میں بس ان بڑے بڑے جلسوں اور مظاہروں کے مترادف معلوم ہوتا ہے جو ہندوستان میں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں نہ کہ ان ’مجلسوں‘ اور ’کانفرنس‘ کا جہاں و امرھم شوریٰ بینہم کے ارشاد ربانی کی تعمیل ہوتی رہتی ہے اور جہاں آزادانہ بحث و مباحثہ نظر و فکر کے بعد ’اجتماع‘ کے فیصلے اکثر افراد کے فیصلوں سے زیادہ معقول اور اجتماع کا عمل بھی افراد کے عمل سے زیادہ منظم ہو جاتا ہے۔ آپ کے فحوائے تحریر سے ظاہر ہے کہ ’اجتماع‘ (بھِیڑ) کی حقارت آپ کے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے (خود یہ لفظ ہی تحقیرآمیز ہے۔ عربی لفظ ’جمعیۃ‘ اس سے کہیں بہتر ہے)۔ کیا میرا یہ خیال صحیح ہے کہ آپ ’اجتماع‘ کی تحقیر کر رہے ہیں یا یہ ہے کہ کہ آپ اپنے خیالات پوری طرح واضح نہیں کر سکے؟ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ مجھے اس طرف (بلکہ یوں کہیے کہ آج سے ۱۵ مہینہ قبل، نظربندی کے وقت تک) جمہور سے خوب خوب سابقے رہے اور ممکن ہے کہ آپ مجھے بھی ان عوام پسند زعیموں میں شمار کر رہے ہوں جو زبان سے تو عامۃ الناس کی بڑی تعریف کرتے رہتے ہیں مگر دل ہی دل میں ان عوام کو کالانعام اور چوپایہ سمجھتے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً میں جہاں تک اپنے جذبات اور خیالات کا اندازہ لگا سکا ہوں، میرے خیال میں نسبتاً سب سے بہتر بلکہ اکثر تو بہترین فیصلے جماعات ہی کے کیے ہوئے ہیں نہ کہ افراد کے۔ گو سرعتِ عمل کے لیے افراد ہی کی قیادت کی ضرورت ہے۔‘‘۱۲۹ ۱۶۰ عدالتیں بند ہونے والی تھیں۔ اقبال کاارادہ شملہ جاکر نواب ذوالفقار علی خاںکے پاس ٹھہرنے کا تھا مگر شیخ عطا محمد نے وعدہ لے لیا کہ اگست سیالکوٹ میں گزاریں۔۱۳۰ ۱۶۱ کوئی سعیداللہ تھے۔ آٹوگراف بک میں اقبال سے کچھ لکھنے کی فرمایش کی تو اقبال نے لکھا: دل ہے یک بین و یک اندیش تو پروا کیا ہے بے خطر دیدۂ بیتاب کو ہرجائی کر۱۳۱ ۱۶۲ ۳۱ جولائی کے قریب عید آئی۔ اقبال ابھی تک ’’پریے‘‘ والے واقعے کو بھولے نہیں تھے۔ وسیمہ سے کہا، ’’سیما! تمہیں کتنے پریے عیدی دی جائے؟‘‘۱۳۲ ۱۶۳ کوئی محمد مبین عباسی کیفیؔ چریاکوٹی تھے جنہوں نے العلم کے نام سے ایک رسالہ شائع کر کے اقبال کو بھجوایا تھا۔ ۱۲ اگست کو اقبال نے شکریے کے خط میں ایک مضمون ’الحیوانات فی القرآن‘ کی تعریف کی۔ ’’اِسی مضمون پر ایک مغربی مستشرق نے بھی لکھا ہے جس کا عنوان ہے، ’حیوانات کے نام سامی زبانوں میں۔‘مجھے یقین ہے کہ آپ کا رسالہ کامیاب ہو گا اور مسلمانوں کے لیے باعثِ برکت۔‘‘ ۱۳۳ اس خط پر مقام لاہور درج تھا۔ اگر یہ غلطی سے نہیں لکھا گیا تھا تو پھر اقبال ۱۲ اگست کے بعد ہی اہلِ خانہ کے ساتھ سیالکوٹ روانہ ہوئے ہوں گے۔ ۱۳۴ ۱۶۴ سیالکوٹ میں خواتین کی وہ محفلیں اب دوبارہ بحال ہو چکی ہوں گی جو کبھی امام بی بی کی صدارت میں ہوا کرتی تھیں۔ اقبال منزل کے تختوں والے کمرے میں گاؤتکیے سے ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ حقے کے کش لیتے ہوئے اقبال بھابی جی اور بہنوں سے خاندان اور محلے بھر کے قصے کہانیاں اور افواہیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سنتے اور سوالات بھی پوچھتے رہتے۔ بہنیں کریم بی بی اور زینب بی بی کسی مسئلے پر اُلجھ پڑتیں تو مسکراتے ہوئے اُن کی نوک جھونک سنتے رہتے۔ایک دفعہ پنجابی میں منظوم پہیلی بجھوائی جو کسی سے بوجھی نہ گئی کہ اس نوجوان کے کام عجیب ہیں، عورتوں کے گرد رہتا ہے، پگڑی نہیں ٹوپی پہنتا ہے اور پاؤں کے بغیر چلا جاتا ہے : ایس گبھرو دے کم کولّے رہندا رنّاں دے دولّے پگ نہ پہندا ٹوپی پاندا بِن پیراں تھیں ٹردا جاندا مراد سیدھا برقع تھا۔۱۳۵ ۱۶۵ سیالکوٹ میں اقبال اپنے والد کے ساتھ بیٹھے۔ ’اَسرارِ خودی‘ پر صوفیا کے حلقوں کی برہمی کا ذکر آیا۔اعجاز احمد کا بیان ہے، ’’چچا جان [اقبال] نے فرمایا۔ انہوں نے نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا، صرف عجمی تصوّف کی مخالفت کی ہے جو طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ افسوس ہے مسلمانوں پر عجمی اثرات اِس قدر غالب آ چکے ہیں کہ وہ زہر کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔ میاں جی نے۔۔ فرمایا اگر حافظ کے عقیدتمندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اصول کی تشریح کر دی جاتی تو اچھا تھا۔ اِس کے جواب میں چچا جان نے کہا یہ ’حافظ پرستی‘ بھی تو بت پرستی سے کم نہیں۔ میاں جی نے کہا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے بتوں کو بھی برا کہنے سے منع فرمایا ہے اس لیے مثنوی کے ان اشعار کو جن پر عقیدتمندانِ حافظ کو اعتراض ہے آیندہ ایڈیشن سے حذف کر دینا مناسب ہو گا۔ اس پر چچا جان نے جواباً کچھ نہ کہا۔ صرف مسکرا کر رہ گئے۔‘‘۱۳۶ دل چاہا کہ کچھ دن کہیں تنہائی میں جا بیٹھیں۔ ’’میں چاہتا تھا کہ کسی جگہ جہاں لوگ میرے جاننے والے نہ ہوں چلا جاؤں اور تھوڑے دنوں کے لیے آرام کروں،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔ ’’پہاڑ جانے کے لیے سامان موجود تھا مگر صرف اسی قدر کہ تنہا جا سکوں۔ تنہا جا کر ایک پرفضا مقام میں آرام کرنا اور اہل و عیال کو گرمی میں چھوڑ جانا بعید از مروّت معلوم ہوا اِس واسطے ایک گاؤں چلا گیا جہاں ویسی ہی گرمی تھی جیسی لاہور میں مگر آدمیوں کی آمدورفت زیادہ نہ تھی۔‘‘۱۳۷ تنہائی میسر آئی۔ مخالفین کی طرف سے طبیعت ہٹی۔ ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے حصے کی آمد شروع ہوئی۔ ایک نظم ’اقلیمِ خموشاں‘ کا خیال بھی ذہن میں آیا جس میں بتا سکیں کہ مردہ قومیں کس قسم کا ادب اور فن تخلیق کرتی ہیں۔ اسے اُردو میں لکھنے کا ارادہ تھا۔۱۳۸ ۱۶۶ اَشعار از اکبر الٰہ آبادی اے خواجہ حسن کرو نہ اقبال کو رَد قومی رکنوں کے نگہباں ہیں وہ بھی تم محو ہو حسن کی تجلی میں اگر ہیں دشمنِ فتنۂ رقیباں وہ بھی پریوں کے لیے جنوں ہے تم کو اگر دیووں کے لیے بنے سلیماں وہ بھی اکبرؔ نے یہ اشعار لکھ کر ۹ اگست کو حسن نظامی کو بھیجے تھے۔ اثر ہونے میں کچھ دن لگے بھی ہوں تو خواجہ حسن نظامی نے اکبرؔ کے ارشاد کے مطابق اقبال سے صلح کرنے کا اَرادہ تقریباً انہی دنوں کیا جب اقبال نے گاؤں کی تنہائی میں یہی فیصلہ کیا تھا۔۱۳۹ ۱۶۷ بچے کو فاصلوں کا احساس نہیں ہوتا۔ چاند کو گرفت میں لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔ ماں کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا۔ ہر چیز کو تجسس کے ساتھ دیکھتا ہے۔ حواس دنیا کا علم حاصل کرتے ہیں۔ تب ذہن واپس اپنی طرف پلٹتا ہے۔ ایک دن بچہ اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہہ کر پہچاننے لگتا ہے۔ ایک نئی قوم بھی بچے کی مانند ہوتی ہے۔ اے اپنے آپ سے بیخبر! تاریخ کیا ہے؟ کوئی داستان، قصہ یا افسانہ ہے؟ اس کے ذریعے تم اپنے آپ سے واقف ہوتے ہو۔ یہ تمہیں تجربہ کار اور سمجھدار بناتی ہے! یہ روح کے لیے حرارت ہے۔یہ ملت کے جسم کے لیے اعصاب کی طرح ہے۔ چیست تاریخ اے زخود بیگانۂ داستانے قصۂ افسانۂ؟ ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مردِ راہ کند روح را سرمایۂ تاب است ایں جسمِ ملّت را چو اعصاب است ایں ’حفظِ روایات و سرگزشتِ ملیہ‘ ایک باب ہو گیا۔۱۴۰ ۱۶۸ معاشرے پر جو عوامل اثرانداز ہوتے تھے، اُن سب کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ ایک نبی ہی ان سب کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ بارہ برس پہلے اپنے مضمون ’قومی زندگی‘ میں یہی بات لکھی تھی۔ اب وسعت اختیار کر کے ایک باب بن گئی، ’’اِس بارے میں کہ ملّت افراد کے میل جول سے جنم لیتی ہے۔‘‘ ملّت کی ابتدائی شکل قبیلہ تھا۔ پھر کوئی نبی آتا اور مشاہدۂ حق کی بنیاد پر معاشرے کی تراش خراش کرتا۔ تب قبیلہ قوم بن جاتا جسے عربی میں ملت کہتے تھے۔ توحید کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس کے بغیر کوئی معاشرہ قبیلے کی سطح سے بلند ہو کر ملت یا قوم کی سطح تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ۱۶۹ مرزا سلطان احمد، جن سے گزشتہ ستمبر میں اقبال نے ’اَسرارِ خودی‘ پر تبصرہ لکھنے کی درخواست کی تھی، سمجھتے تھے کہ مغربی اقوام بالخصوص انگریز ’’حسِّ واقعہ‘‘ کا ذوق مشرقی اقوام سے زیادہ رکھتے ہیں۔ ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے میں اقبال نے بھی یہی لکھا تھا۔ کیا جنگِ عظیم سے پیدا ہونے والی مایوسی انگریزوں کے مزاج کو بدل سکتی تھی؟ ممکن ہے کہ اقبال ابھی سے غور کرنے لگے ہوں۔ تبصرہ بر ’اَسرارِ خودی‘ مرزا سلطان احمد [اقتباس] ۔۔۔حضرت اقبال نے فلسفۂ خودی کا جس جامعیت سے ثبوت دیا ہے الحق وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ ایک ایک شعر دفترِ زندگی کی شرح اور مایۂ حیات کی تبلیغ اور مخزن ہے۔۔۔ زندگی خود آرزو یا مجموعۂ آرزو ہے۔ یہ آرزو کیا ہے؟ وہی خودی، خودنمائی اور خودشخصی جو حضرت اقبال کا وعظ ہے۔ جس شخص اور جس قوم کا کوئی مدعا اور کوئی تمنا نہ رہی، جس کی آتشِ آرزو بجھ گئی، جس کی شمعِ مدعا مدھم پڑ گئی وہ شخص اور وہ قوم ہی مردہ ہو گئی۔ جو زندہ قوم ہے۔ جو زندہ شخصیت ہے وہ [ضرور کوئی اعلیٰ] تمنا رکھتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں نیک اور امن پسند آرزوئیں متموج ہوتی ہیں۔ کسبِ فضائل، شانِ امتیازات کب حاصل ہوتی ہے؟ جب ہجومِ آرزو ہو۔ امتیاز کیا ہے؟ اپنی ذات۔ اور ذات کا تعین کیا ہے؟ احساس اور اِدراک۔ احساس اور اِدراک کیا ہے؟ خودی یا خوداری۔ حقیقی رنگ میں خودی سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ میں ہوں۔ دنیا میں میری بھی کوئی شخصیت ہے۔ اور یہ میرا فرض ہے کہ میں ایسا سمجھوں کیونکہ یہ خیال میرے دل میں ڈالا ہی نہیں گیا بلکہ میرا ایک حصہ اور جزوِ اعظم ہے۔ جب میں یہ سمجھتا ہوں اور اِس سمجھنے میں غلطی پر نہیں ہوں تو دوسرے الفاظ میں اِس کا یہ مطلب ہو گا کہ ’’میں اپنے اردگرد نظر کروں‘‘؛ ’’مشاہدہ اور تجربہ سے کام لوں‘‘؛ ’’نشیب و فراز سوچوں‘‘؛ ’’واقعات کا مطالعہ اُس حس کے ساتھ کروں جو مجھ میں رکھی گئی ہے‘‘؛ ’’اپنی شخصیت کو قائم رکھوں‘‘۔ ۔۔۔حضرت اقبال نے بعض اَشعار میں حضرت حافظ علیہ الرحمہ اور بعض خدام صوفیہ کی نسبت دردبھرے دل سے جو کچھ کہا ہے اُس کا منشا سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگ ضروریاتِ مسلّمہ کی طرف پرامن اور نیک طریقوں سے متوجہ ہوں۔ غور کرنے پر معلوم ہو جاوے گا کہ حضرت اقبال کا خطاب خدانخواستہ کسی نکتہ چینی [اور] معاندانہ جہت سے نہیں ہے، بلکہ محض خلوص اور ہمدردی کی راہ سے ہے۔ میری رائے میں حافظ علیہ الرحمہ بھی اُس خودی اور خودداری کے مخالف نہیں ہیں جس کا وعظ حضرت اقبال کر رہے ہیں۔ ۱۷۰ مولوی احمد دین کشمیر جانے والے تھے۔ ۲۹ اگست کے بعد اقبال لاہور آگئے کہ ان کے ساتھ کشمیر جا سکیں۔ احمد دین جا چکے تھے۔ ۱۴۱ ۱۷۱ منارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے اقبال کے ابتدائی دور کی غزل کے اس شعر کے بارے میں ضیأالدین برنی سے کسی نے کہا کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کے جواب میں کہا گیا تھا۔ اُنہوں نے خط لکھ کر اقبال سے دریافت کیا اور عبدالماجد دریابادی کی فلسفۂ اجتماع کا ایک جملہ بھیج کر تشریح بھی کروانا چاہی۔ محمد علی ’’جوہر‘‘ؔکے کچھ اشعار بھی اقبال کو بھیجے۔ ’’اِس غزل کو اُس قصے سے کوئی تعلق نہیں جو آپ نے سنا ہے،‘‘ اقبال نے ۳۱ اگست کو لکھا۔ ’’پیغامِ بیعت کے جواب میں جو نظم میں نے لکھی تھی وہ اور ہے۔ مدت ہوئی مخزن میں شائع ہوئی تھی۔‘‘ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کے واپس آنے کے بارے میں جو احادیث مشہور تھیں وہ ابنِ خلدون کی رائے میں تمام کمزور تھیں۔ ’’میں بھی اُن کا ہمنوا ہوں مگر اِس بات کا قائل ہوں کہ مسلمانوں میں کسی بڑی شخصیت کا ظہور ہوگا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’احادیث کی بنا پر نہیں بلکہ اور بنا پر میرا عقیدہ یہی ہے۔‘‘۱۴۲ ۱۷۲ امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے نکولس اغنائیدیز (Nicholas Aghnides) نے اسلام کے اقتصادی نظریات پر مقالہ لکھا تھا۔ اِس برس شائع ہوا: Mohammedan Theories of Finance ۔ لکھا کہ حنفیوں اور معتزلہ کے نزدیک اجماع سے قرآن مجید کے احکام بھی منسوخ ہو سکتے ہیں۔ کوئی سند پیش نہ کی۔ ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ بات ہی سرے سے غلط تھی۔غالباً لفظ ’’نسخ‘‘ سے غلط فہمی ہوئی تھی جسے فقہا نے استعمال تو کیا مگر امام شافعی نے موافقات میں وضاحت کر دی تھی کہ اجماعِ صحابہ کے سلسلے میں اس سے قرآن شریف کے کسی حکم کی توسیع کرنا یا اُسے محدود کرنا مراد ہے نہ کہ اُسے نظرانداز یا منسوخ کرنا۔ بعد میں آنے والے شافعی فقیہ آمدی نے مزید صراحت کی کہ صحابہؓ کے پاس ضرور کوئی حکم ہو گا جس کی بنا پر اُنہیں اس توسیع یا تحدید کا حق پہنچتا تھا۔ احادیث کی صحت اور عدم صحت متعین کرنے کے جو طریقے مسلمانوں میں رائج رہے تھے اُن کا جائزہ لے کر اغنائیدیز نے جو رائے قائم کی وہ یہ تھی: It must be said in conclusion that the preceding considerations represent only theoretical possibilities and that the question whether and how far these possibilities have become actualities is largely a matter of how far the actual circumstances offered inducements for making use of the possibilities. Doubtless, the latter, relatively speaking, were few and affected only a small proportion of the entire sunnah. It may therefore be said that . . . for the most part the collections of sunnah considered by the Moslems as canonical are genuine records of the rise and early growth of Islam.۱۴۳ ۱۷۳ بیاض کے بقیہ صفحے خالی رہنے دیے۔ انگریزی کی طرف سے شروع کرتے ہوئے چار صفحے خالی رکھ کرمضامین کی فہرست بنائی۔ اطمینان نہ ہوا۔ کاٹا اور دوبارہ فہرست بنائی۔اس میں بھی کانٹ چھانٹ کرنی پڑی۔ پھر اسے ترک کر کے تیسری فہرست بنائی: تمہید ربطِ فرد و ملت ۱ در معنی اینکہ ملت از اختلاطِ افراد پیدا می شود ۲ در معنی اینکہ حیات ملیہ اتحادِ تامہ است درمیانِ فرد و ملت ۳ ارکانِ اساسی ملیۂ اسلامیہ i توحید- کیفیتِ قلب است و ضامنِ اتحاد ۔ انجامِ حقیقی مبنی است بر کیفیتِ قلوب (ا) در معنی اینکہ خوف ام الخبائث است و قاطعِ حیات و توحید ازالۂ خوف می کند (ب) در معنی اینکہ توحید مساواتِ تمدنی را پیدا کند و مساوات جانِ تمدن است (ج) در معنی اینکہ توحید اصلِ حریت است۔ سِرِّ واقعۂ کربلا (مقابلۂ استبداد) (د) در معنی اینکہ توحید ضامن اعتبارِ باہمی است کہ اتحادِ ملیہ را می افزاید (عالمگیر و ملّائے مکتب) ii رسالت و سِرِّ ختمِ رسالت ۴ در معنیٔ اینکہ چوں ملتِ محمدیہ مبنی بر توحید و رسالت است پس نہایتِ مکانی ندارد ۵ در معنیٔ اینکہ زمانی ملتِ محمدیہ موعود است ۶ اسبابِ دوامِ حیاتِ ملیۂ اسلامیہ i اتباعِ شریعتِ محمدیہ ii اخلاقِ محمدیہ iii حفظِ روایاتِ ملیہ iv تسخیرِ قوائے نظام عالم v نصب العین ملیہ ۷ عرضِ حال بحضور رحمت اللعالمین۱۴۴ ۱۷۴ مسلمان قوم کے وجود کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ دنیا میں توحید کی ترویج کا ذریعہ بنے۔ توحید کا عملی پہلو اخوت، مساوات اور آزادی ہے چنانچہ یہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا مقصد تھا۔ تب سے دنیا میں یہ تصورات بتدریج فروغ پاتے رہے ہیں لیکن یہ بات سمجھنے کے لیے تاریخ سے واقفیت ضروری ہے کیونکہ تاریخ اجتماعی حافظے کی طرح ہوتی ہے۔ فرد کی خودی بنیادی طور پر حافظے کی مدد سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ اپنی تاریخ کو محفوظ کر کے قوم اجتماعی خودی حاصل کر سکتی ہے۔ اجتماعی زندگی کی معراج یہی ہے کہ قوم بھی فرد کی طرح ایک حقیقی خودی بن جائے۔ قومیت کا یہ اسلامی تصور تھا جسے اقبال مثنوی کے دوسرے حصے میں پیش کر رہے تھے۔ ۱۷۵ ’’جب اُنہوں نے رموزِ بیخودی [مثنوی کا دوسرا حصہ] لکھنے کا اِرادہ کیا تو پہلے سے اس کا ایک خاکہ لکھ کر چند احباب میں بغرض مشورہ بھیجا،‘‘ میر غلام بھیک نیرنگ کا بیان ہے۔ ’’ان میں راقم، مرزا اعجاز حسین مرحوم اعجاز دہلوی اور لسان العصر اکبر حسین الٰہ آبادی۔ تین نام تو مجھے یاد ہیں، شاید کسی اور کو بھی بھیجا ہو۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی رائے لکھ کر بھیج دی اور اُس کے بعد مثنوی رموزِ بیخودی لکھی گئی۔‘‘ نیرنگ سمجھتے تھے کہ یہ احتیاط اُس خط کتابت کا نتیجہ ہے جو ’اَسرارِ خودی‘ کے بعد اقبال کی اپنے دوستوں کے ساتھ ہوئی جن میں نیرنگ بھی شامل تھے۔۱۴۵ ۱۷۶ تاریخِ تصوف پر اُس مہینے کچھ نہ لکھ سکے۔۱۴۶ باب ۴ مِلّت کا دَربار ستمبر ۱۹۱۶ء سے جون ۱۹۱۷ء تک پہلا حصہ ۱ ڈی وِٹ میکنزی امریکی صحافی تھا۔ ہندوستان آیا تھا۔ ادب کے نئے رجحانات کے بارے میں جوگندر سنگھ سے گفتگو کی۔ اُنہوں نے انگریزی میں بیان لکھ دیا۔ دو جملے ٹیگور کے بارے میں اور دو صفحے اقبال کے بارے میں تھے۔ اقبال ہی کے شعر پر بات کو ختم کیا: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا۱ ۲ صبحِ ازل جب خدا نے مجھے پیدا کیا تو میرے عود کے ریشمی تاروں میں نالہ تڑپنے لگا، نالہ جو عشق کے راز فاش کرنے والا تھا۔ عشق کی حسرتِ اظہار کا خونبہا تھا۔ خاشاک کو آگ کی فطرت بخشی۔ مٹی کو پروانے کی شوخی عطا کر دی۔ لالے کی طرح عشق کے لیے بھی ایک ہی داغ کافی ہوتا ہے۔ اُس کے گریبان میں صرف ایک ہی نالے کا پھول ہوتا ہے۔ میں وہی ایک پھول تمہاری دستار میں آویزاں کررہا ہوں۔ تمہاری میٹھی نیند میں حشر برپا کر رہا ہوں تاکہ تمہاری خاک لالہ زار بن جائے۔ تمہاری سانس بہار کی ہوا بن جائے۔ یہ خیالات ’پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ‘ میں نظم ہوئے۔ مثنوی کے دوسرے حصے کا انتساب قوم کے نام تھا۔ چوں مرا صبحِ ازل حق آفرید نالہ در ابریشمِ عودم تپید نالۂ افشاگرِ اَسرارِ عشق خونبہائے حسرتِ گفتارِ عشق فطرتِ آتش دہد خاشاک را شوخیٔ پروانہ بخشد خاک را عشق را داغے مثالِ لالہ بس در گریبانش گُلِ یک نالہ بس من ہمیں یک گُل بدستارت زنم محشرے بر خوابِ سرشارت زنم تا زخاکت لالہ زار آید پدید از دمت بادِ بہار آید پدید۲ ۳ پیدائشی نام کچھ اور تھا۔ روسی سوشلسٹوں میں وِلادمیر لینن (Vladimir Lenin) کہلاتا تھا۔ کارل مارکس کے فلسفے کے علاوہ رُوسی مصنف چرنشفسکی کے ناول کیا کرنا چاہیے؟ (۱۸۶۳) کا اثر بھی تھا جس میں مادیت پرستی کی تعلیم اور دُنیاوی جنت کا تصوّر پیش کیا گیا تھا۔ لیو ٹالسٹائی نے اِسی عنوان سے کتاب لکھ کر اخلاقی تربیت پر زور دیا تھا۔ پندرہ برس پہلے لینن کے اپنے پمفلٹ کا عنوان بھی یہی تھا (فارسی میں عنوان کا ترجمہ ’’پس چہ باید کرد‘‘ ہو سکتا تھا)۔۳ لینن کے خیال میں سرمایے کی مساویانہ تقسیم ہونی چاہیے تھی۔ پہلے ریاست پر محنت کشوں کا قبضہ ضروری تھا۔ اُن کے بس کی بات نہ تھی جب تک تعلیم یافتہ طبقہ اُن کے ذہنوں میں اپنے افکار منتقل نہ کرتا۔ اِن مسائل پر رُوسی سوشلسٹ پارٹی تقسیم ہو ئی تھی۔ اکثریتی حصہ بالشویک کہلاتا۔لینن اُس کے ساتھ تھا۔ موجودہ جنگ میں لینن اپنے وطن کی شکست چاہتا تھا۔ بددلی پھیلے گی۔ انقلاب آئے گا۔ ابھی نہیں آیا تھا۔ اَب آ رہا تھا۔ ستمبر ۱۹۱۶ء تک روسی فوج کے کئی دستے لڑنے سے اِنکار کر چکے تھے۔ ۴ محمددین کی عمر پندرہ برس تھی۔والدین بارہ برس پہلے امرتسر کے قصبے اجنالہ میں فوت ہوئے تھے۔ محمد دین کی ذمہ داری خالہ نے اُٹھائی جو لاہور میں اقبال کے دوست اور خاندانی رئیس میاں نظام الدین کی بیگم تھیں۔ محمد دین اسلامیہ اسکول شیرانوالہ گیٹ میںپڑھتے تھے۔ شوخی اور ذہانت کی وجہ سے شعر و ادب میں دلچسپی ہو گئی تھی۔ ’’اُن دنوں اکبر و اقبال کا مقابلہ [یعنی موازنہ] ہوا کرتا تھا،‘‘ محمددین کا بیان ہے۔ ’’۔۔۔اقبال ہمارے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک دفعہ اُن کے سامنے جنبہ داری کے انداز میں اکبر کی مبالغہ آمیز تعریف کی تو اُنہوں نے میرے ذوقِ شعر کی تعریف کی۔ اس پر مجھے بڑی ندامت ہوئی۔‘‘۴ ۵ زمیندار بند ہوئے آٹھ ماہ ہو چکے تھے۔ اسسٹنٹ اڈیٹر مولانا عبداللہ العمادی حیدرآباد میں نوکری کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے ۲ ستمبر کو کشن پرشاد کوان کے بارے میں تعارفی خط لکھا، ’’میرے خیال میں ان سے بہتر آدمی سرکار کو نہ مل سکے گا۔ تنخواہ ان کو دو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ملتی رہی ہے۔ اگرسرکار کو ضرورت ہو اور ان کو پسند فرمائیں تو تنخواہ کے متعلق میں گفتگو کر لوں گا۔‘‘ ۶ سر اِسرائیل گولانکز کی مرتب کی ہوئی A Book of Homage to Shakespeareجس میں اقبال کی نظم شامل تھی، اقبال کو ملی۔ انہوں نے دستخط کر کے ۶ ستمبر ۱۹۱۶ء کی تاریخ درج کی۔۵ ۷ ۱۰ ستمبر کو ریذیڈنسی سے منشی سراج الدین کا خط آیا۔ معلوم ہواانہوں نے چودھری شہاب الدین کو جو غالباً ڈلہوزی میں ہیں، تار دیا ہے کہ اقبال کوساتھ لے کر چند روز کے لیے آ جائیں۔ ۶ ’اَسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن کے لیے کاغذ بھی اسی روز خریدا۔ ۷ ۸ ۱۱ ستمبر کو جالندھر سے نیازالدین خاں کا خط آیا۔شاہ ولی اللہ کی بات چھیڑی تھی۔ غزالی کے بارے میں دریافت کیا تھاکہ ہمہ اوست کے قائل تھے یا ہمہ از وست کے، شائد کسی رئیس کے خاندانی کتب خانے میں کچھ کتابیں دیکھنے کا ذکر بھی تھا۔ اقبال نے لکھا، ’’ انشأاللہ جالندھر ضرور حاضر ہوں گا۔ میاں مبارک علی کا متبنیٰ میرا موکل رہ چکا ہے اور اگر کتابیں اس کے پاس باقی ہیں تو ان کا دیکھنا کچھ مشکل نہیں اور اگر مشکل بھی ہو تو آپ کی موجودگی میں کون سی مشکل ہے جو حل نہ ہو۔‘‘ شاہ ولی اللہ کے بارے میں لکھا کہ خدا نے انہیں مغربی ہند کے ملحدوں کا جواب دینے اور اصلاح کرنے کے لیے مامور کیا تھا چنانچہ ان کی تصنیف فضیلت الشیخین بھی دیکھنی چاہئے۔ امام غزالی کے رجحان کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ دونوں طرف کی مشکلات خوب سمجھتے ہوں گے۔ جرمنی کا مشہور فلسفی لاٹسا اِس معاملے میں بالکل دوسرا غزالی ہے۔ اِسی لیے اُس کا فلسفہ مغرب میں مقبول نہ ہو سکا۔ منطقی اعتبار سے خداکے ہر چیز کو دیکھنے، سننے اور ہر چیز کا عین ہونے کو ایک ساتھ ثابت نہ کیا جا سکتا تھا۔ اِن میں سے کسی ایک ہی بات کو تسلیم کرنا چاہئے تھا۔ مگر یہ تمام مباحث بیکار تھے۔ مذہب کا مقصد عمل تھا نہ کہ انسان کے عقلی اور ذہنی تقاضوں کو پورا کرنا۔ قرآن کہتا تھا کہ میں نے تمہیں علم کا بہت ہی تھوڑا سا حصہ دیا ہے۔ آخر میں لکھا: اگر مذہب کا مقصود عقلی اور دماغی تقاضوں کو پورا کرنا ہو بھی جیسا کہ ہنود کے رِشیوں اور فلسفیوں نے خیال کیا ہے تو زمانہ حال کی خصوصیات کے اعتبار سے اس کو نظرانداز کرنا چاہئے۔ اِس وقت وہی قوم محفوظ رہے گی جو اپنی عملی روایات پر قائم رہ سکے گی: اِس دَور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو اپنی راہ پہ قائم ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے۸ ۹ ایک ایرانی عالم شیخ عبدالعلی طہرانی لاہور میں اقبال کے دوست سید محمد جعفری کے گھر ٹھہرے تھے۔ علمِ جفر میں کمال رکھتے تھے۔ شیعہ تھے مگر قرآن کے مطالب بتاتے تو لوگ حیران رہ جاتے۔ اقبال بھی ملنے جاتے تھے۔۹ ۱۰ کشن پرشاد کا خط آیا۔ شکایت کی تھی کہ اقبال ایک ماہ لاہور سے باہر رہے مگر حیدرآباد نہ آئے۔ یکم اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ مقصد سیاحت نہ تھا ورنہ آستانۂ شاد تک ضرور پہنچتے۔کیا اُن کے کتب خانے میں خواجو کرمانی کا دیوان موجود ہو گا؟ مثنوی کے دوسرے حصے اور’اقلیمِ خاموشاں‘ کا ذکر بھی کیا، ’’بس یہ دو باتیں میری تنہائی کی کائنات ہیں۔‘‘ ۱۱ خودی کی زندگی مقاصد کی تخلیق و تولید سے تھی۔ یہ بات فرد کی زندگی کے لیے بھی درست تھی جیسا کہ ’اَسرارِ خودی‘ میں لکھا تھا اور قوم کے لیے بھی درست تھی۔ ملتِ اسلامیہ کا اجتماعی مقصد، نصب العین یا آئیڈیل توحید کی نشر و اِشاعت تھا۔ دَورِ حاضر میں توحید کا دشمن سائنس نہیں بلکہ رنگ، نسل اور وطنیت کا وہ تصور تھا جس پر قومیت کے مغربی تصور کی بنیاد تھی۔ کبھی یہ بات اُردو نظم ’وطنیت بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘ میں بیان ہوئی تھی۔ اب مثنوی کے دوسرے حصے ’نصب العین ملیہ‘ کا باب بنی۔۱۰ ۱۲ حیدرآباد جانا چاہتے تھے۔ استخارہ کیا۔ اجازت نہ ملی۔۱۱ ۱۳ محمد شجاع ناموس گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی میں پڑھتے تھے۔ کالج میں مشاعرہ ہونے والا تھا۔ ایک شام طلبہ کی جماعت اپنی اپنی غزلیں لے کر اصلاح کے لیے پہنچی۔ شجاع ناموس کا بیان ہے کہ جب کوئی طالب علم غزل سناتا تو اقبال دوسرے طلبہ کو دعوت دیتے کہ وہ بھی رائے دیں۔ آخر میں اپنی رائے دیتے۔ ایک طالب علم دیوان آتمانند چھٹے شعر پر پہنچا تو اقبال نے کہا، ’’یار۔ او دوجا شعر ایس نال بدل لئو تے بہتر ہو جائے گا۔‘‘ ’’میرے دل نے مجھے کہا، اِس عظیم ہستی نے بڑا دماغ پایا ہے،‘‘ شجاع ناموس نے بعد میں بیان کیا۔ ’’چھٹے شعر پر نکتہ سنجی کرتے ہوئے دوسرے شعر کی اصلاح ہو رہی ہے۔ گویا قلب کے اندر دوسرا شعر ااَب بھی گھوم رہا ہے۔اور اُس کی اصلاح کر دی گئی ہے۔‘‘ آخر میں اقبال نے شجاع ناموس سے کہا کہ وہ کبھی کبھی آتے رہا کریں۔۱۲ ۱۴ کچھ عرصے سے اقبال کا معمول بن گیا تھا کہ صبح تین چار بجے اٹھ جاتے تھے اور پھر نہیں سوتے تھے سوائے اس کے کہ کبھی جانماز پر اونگھ جائیں۔۱۳ ۱۵ لاہور میں کتابوں کے کوئی تاجر منشی قمرالدین تھے۔اجازت کے بغیر اقبال کی اُردو نظمیں کتابی صورت میں شائع کر دیں۔ اقبال نے مقدمہ کرنا چاہا۔ ظفر علی خاں کے کہنے پر رک گئے۔۱۴ ۱۶ خط آیا تو معلوم ہوا کہ کشن پرشاد کے غالباً بیٹے کا انتقال ہوا تھا جن کا نام گویند پرشاد تھا۔’’کتنے رنج و قلق کی بات ہے کہ ایسا نوجوان اس دنیا سے ناشاد جائے،‘‘ اقبال نے ۳۱ اکتوبر کو تعزیت کرتے ہوئے لکھا۔ ’’لیکن گویند پرشاد باقی ہے اور یہ جدائی محض عارضی ہے۔‘‘ اس کے بعد اپنی والدہ مرحومہ والی نظم میں سے ایک شعر لکھا، لاہور آنے کی دعوت دی اور شیخ عبدالعلی طہرانی سے ملاقات کی تجویز بھی پیش کی۔ ۱۷ اورینٹل کالج کے شعبۂ فارسی میں جگہ خالی ہوئی۔ سنڈیکیٹ کے اراکین کی رائے میں سیدسلیمان ندوی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھے۔ بنام سید سلیمان ندوی لاہور یکم نومبر ۱۶ء مخدومی السلام علیکم اورئنٹل کالج لاہور میں ہیڈپرشین ٹیچر کی جگہ خالی ہوئی ہے۔ اس کی تنخواہ ایک سو بیس روپیہ ماہوار ہے۔ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس جگہ کو اپنے لیے پسند فرماتے ہیں؟ اگرایسا ہو تو آپ کے لیے سعی کی جائے۔ آپ کا لاہور میں رہنا پنجاب والوں کے لیے بیحد مفید ہوگا۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال بیرسٹر لاہور ۱۸ گرامی واپس ہشیارپور آ رہے تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں ان سے پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ ۵ نومبر کو اقبال نے ہشیارپور میں اپنے دوست بیرسٹر عبدالعزیز کو انگریزی میں لکھا کہ وہ گرامی کو چند روز لاہور آنے پر آمادہ کریں۔ ۱۹ برطانوی صحافی سر ویلنٹائن شیرول(Sir Valentine Chirol) دنیا بھر میں گھوم کر برطانوی استعمار کی بنیادیں مضبوط کرتے تھے۔ مڈل ایسٹ کی اصطلاح انہی کے دم سے رائج ہوئی تھی جسے اُردو میں مشرقِ وسطیٰ کہا جاتا تھا۔ چھ برس پہلے انڈین اَن ریسٹ(Indian Unrest)لکھ کر بتایا کہ ہندوستانی عوام جمہوریت اور آزادی کے اہل نہیں۔ اُس وقت بال گنگادھر تلک قید میں تھے۔ اب ہتکِ عزت کا مقدمہ کر کے شیرول کو دَھر لیا۔ شیرول نے عبدالماجد دریابادی کی کتاب کی تعریف کی۔ وہ خوش ہوئے۔ ۱۰ نومبر کو چھندواڑہ میں نظربند محمد علی نے عبدالماجد کو خط لکھا۔ سر ویلنٹائن شیرول ایک خبیث اور بدباطن شخص ہے۔ نہ معلوم اُس کی تعریف کی آپ نے کس طرح وقعت کی۔ وہ ہمارے لیے غلامی اور اپنے لیے خواجگی ہی کو پسند کرتا ہے۔ ابھی حال میں شملہ میں میرے ایک چغدصفت دوست جگندر سنگھ صاحب نے ان کے لکچر میں صدارتی تقریر کی تھی اور فرمایا تھا کہ ۲۰برس سے اُنہیں مشرق بلا رہا تھا، اُن کی مشرق کے حال پر یہ بڑی ہی نوازش ہوئی کہ تشریف لائے۔۔۔! مگر کاش ان کو ۴ہی سال پہلے مغرب بھی پکارتا اور وہ اُس کے حال پر بھی رحم فرماتے اور وطنِ مالوف کی طرف مراجعت فرماتے۔ مگر ان لوگوں کی صرف یہی سزا ہے کہ قانونِ قدرت ان کی خاطر بدل نہیں سکتا۔ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ غلامی کو دوسرے کے لیے پسند کرنا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے اپنی غلامی کا۔ اگر اجتماع ہمارے لیے برا سمجھا جاتا ہے تو کل کو خود ایسا کہنے والوں کے لیے برا سمجھا جائے گا۔ روما کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ تاریخ اسلام خود اس کی شاہد ہے۔۔۔ خدا نے ہم پر بڑا رحم فرمایا جو مسلمان کے گھر پیدا کیا۔ Heredity [وراثت] کا رجحان اسلام و توحید کی طرف، تربیت اسلام اور توحید کے دائرہ میں۔ اگر اس پر ہمارے فلسفہ نے ہماری امداد کی ہے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اسلام اور ایمان کو اور بھی تقویت ہو گئی اور عقل و نقل دونوں کی زد سے باہر ہو گئے۔ اب نہ ارسطو کا جادو چل سکتا ہے نہ کانٹ کا۔ لیکن اگر صرف استدلال ہی پھر بھروسہ ہے اور خود اپنی عقل پر اِس قدر زعم ہے کہ جو اس میں نہ سمائے وہ خدا نہیں اور جو اس میں نہ آئے وہ ایمان نہیں، تو اس کا جواب یہی ہے کہ ’پائے استدلالیاں چوبیں بود‘ [فلسفیوں کے پیر لکڑی کے ہوتے ہیں]۔۔۔ خواہ کسی طرح تفسیر کیجیے، مگر قرآن خود صاف کہہ چکا ہے کہ علم انسانی بہت ہی کم ہے۔ میں اس کا ضرور قائل ہوں کہ خواہ کسی قدر کم کیوں نہ ہو وہ خدا کی دین ہے اور ایمان کے بعد اُس کی بہترین دین، بلکہ اُس کے بغیر ایمان کمزور و ضعیف رہتا ہے۔ اس لیے اس کا پورا پورا استعمال کرنا چاہیے اور ایمان کے لیے علم کا پشتہ ایمان کو مستحکم کرنے والا ہوتا ہے، اِس لیے اس کے ذریعہ سے ایمان کا استحکام کرنا چاہیے۔ مگر زعمِ علم سے پرہیز ضروری ہے۔ خدا کی رحمت ہو اقبال پر خوب تعلیمِ مولانا روم کا اہتمام کر رہا ہے۔۱۵ ۲۰ سلیمان ندوی کا جواب آیا۔ اپنی غزل بھیجی تھی مگر ملازمت نہیں چاہتے تھے۔ ۱۲ نومبر کو اقبال نے لکھا کہ وہ جانتے تھے مگرسنڈیکیٹ کے اراکین کے اِصرار پر اور اس خیال سے کہ یوپی کے علمأسے پنجاب والوں کو جو فائدہ پہنچتا رہا ہے اس کا سلسلہ جاری رہے، اُنہوںنے لکھ دیا تھا۔شبلی کی زندگی میں کوشش کی تھی کہ وہ بھی پنجاب آ جائیں مگر یہاں کے رؤسا سرپرستی کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ ندوی کی غزل میں سے یہ شعر اقبالؔ کو زیادہ پسند آیا: ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگِ گلو میں ہے مشورہ دیا کہ شبلی کی طرح تاریخی نظمیں بھی لکھیں۔ ۲۱ شیخ عمربخش سے معلوم ہوا کہ گرامی ہشیارپورپہنچ گئے ہیں مگر سفر کی تھکان کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں۔ ۲۱ نومبر کو اقبال نے شیخ عبدالعزیز کو خط میں گرامی کے لیے یہ شعر بھجوایا: روشن دلوں کے وسطے نزدیک دُور کیا تھکتا نہیں ہے دُوریِ منزل سے آفتاب ۲۲ آغا حشر کاشمیری اور اُن کی بیگم ایک دفعہ پھر حکیم فقیر محمد چشتی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین برس پہلے بیگم کو حکیم صاحب کے علاج سے آرام آیا تھا۔ اب کم سن بیٹے کی موت کے بعد بیحد علیل ہو گئی تھیں۔ ۲۶ نومبر کو وفات پا گئیں۔ میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ’’نیک بخت!‘‘ اُردو کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار نے بیوی کی قبر پر کہا۔ ’’ایک دن حشر بھی اِسی قبرستان میں آئے گا اور تیرے پہلو ہی میں مدفون ہو گا۔‘‘ چھڑی سے قبر کے برابر میں نشان بنا کر حکیم فقیر محمد چشتی سے کہا، ’’حکیم! میں تمہیں یہ وصیت کیے دیتا ہوں۔ بھول نہ جانا۔‘‘۱۶ ۲۳ عبدالعلی طہرانی سے کشن پرشاد کا ذکر ہوا۔ انہوں نے دکن کے کسی امیر سے تذکرہ سن رکھا تھا۔ ۴ دسمبر کوکشن پرشاد کا خط آیا تو اقبال نے جواب لکھتے ہوئے عبدالعلی طہرانی کا ذکر کیا۔ لاہور میں سردی پڑ رہی تھی، کرسمس آ رہا تھا، علی گڑھ میں ایجوکیشنل کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور لکھنؤمیں مسلم لیگ اور کانگریس کے اُس مشترکہ اجلاس کی جس کا بہت چرچا تھا۔اقبال سردی کی وجہ سے کہیں نہیں گئے۔ ’’صاحبانِ تعلیم و سیاست تہیۂ سفر کر رہے ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ پنجاب میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان تھے۔ ’’انگلستان میں جنگ کی وجہ سے مرغی کی قیمت ایک روپیہ چار آنے اور ایک انڈہ چھ آنے کو بِکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اقوامِ عالم کو اِس مصیبت سے نجات دے۔‘‘ ۲۴ ۶ دسمبر کو کشن پرشاد کا خط آیاتو معلوم ہوا کہ نظام دکن کے ساتھ وہ بھی بمبئی گئے ہیں۔ نظام کے بمبئی جانے کی خبر اقبال نے اخبار میں پڑھی تھی مگر کشن پرشاد نظام کے اتنے قریب ہو گئے ہیں یہ معلوم نہ تھا۔ ’’امید کیفیتِ مستقل اور نااُمیدی عارضی ہے، ‘‘اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس کا ثبوت بھی انشأ اللہ مل جائے گا۔‘‘ پنجاب کے علاوہ اجمیر کے سفر کا مشورہ بھی دیا۔ ’’میں بھی ایک روز تخیلات کی ہوا پر اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔‘‘ ۲۵ لندن کے اخباروں نے وزیر اعظم ایسکوئتھ کے خلاف طوفان اُٹھایا تھا۔الزام تھا کہ جنگ میں پورا زور نہیں لگایا جا رہا۔ یہ شوشہ لارڈ نارتھ کلف نے چھوڑا تھا اور اس میں لائڈ جارج کا ہاتھ تھا۔ ۷ دسمبر کو ایسکوئتھ صاحب نے تنگ آ کر بادشاہ کی خدمت میں استعفیٰ پیش کیا اور اُسی شام شاہی اجازت سے لائڈ جارج وزیراعظم ہو گئے۔ ۲۶ ۱۳ دسمبر کو وکیل(امرتسر) میں اقبال کا مضمون ’تصوفِ وجودیہ‘ شائع ہوا۔اپنے اس موقف کی حمایت میں کہ آنحضورؐ نے لفظ سمن سے رہبانیت کی پیش گوئی کی تھی، اِقبال نے اِس قسط میں صرف لفظ کی لغوی بحث پر اکتفا کیا۔ اسناد کے حوالے دیے اور اِس رائے سے اختلاف کیا کہ مجازی معانی میں اس سے مراد تن آسانی لینے کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’کسی لفظ کے مجازی استعمال کی سند بھی لسانی اعتبار سے ضروری ہے،‘‘ اُنہوں نے لکھا۔۱۷ ۲۷ سنا تھا کہ حیدرآباد میں طاعون پھیلا ہے۔ بمبئی سے کشن پرشاد کا خط آیاتو ۱۷ دسمبر کو جواب دیتے ہوئے اس کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ ’’سرکار اگر اجمیر اور لاہورتشریف لائیں تو زہے سعادت، اقبال کو آستان بوسی کا موقع مل جائے گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اب تو آپ کی زیارت کو بہت عرصہ ہو گیا۔‘‘ ۲۸ کرسمس کی چھٹیوں میں اقبال لاہور ہی میں رکنے والے تھے اور شیخ عبدالقادربھی یہیں تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں بھی گرامی سے ملنا چاہتے تھے چنانچہ اقبال نے ۱۸ دسمبر کو گرامی کو دعوت دیتے ہوئے لکھا، ’’یہ خط صرف اقبال کی طرف سے نہ سمجھئے بلکہ اقبال و ذوالفقار و قادر کی طرف سے تصور کیجئے۔ بھلا جس کو اقبال و ذوالفقار خود دعوت دیں وہ کیونکر انکار کر سکتا ہے کہ تمام زمانہ اِن دو چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔‘‘ گرامی تنہا سفر نہ کرسکتے ہوں تو اقبال علی بخش کو بھیجنے پر تیار تھے، ’’انکار نہ ہو ورنہ ہمارا آپ کا کوئی یارانہ نہیں۔‘‘ایک غزل بھی اپنی حافظؔ کے رنگ والی غزل کی زمین میں لکھنے کی فرمائش کی تھی جسے خط میں نقل کرتے ہوئے وہ دونوں اشعار نکال دئے جن میں حافظؔ کا ذکر آتاتھا۔ ۲۹ اقبال اُس ’’کانگریس لیگ اسکیم‘‘سے خوش نہیں تھے جسے محمد علی جناح نے کانگریس کے ساتھ سمجھوتے کے لیے تیار کیا تھا اور جسے اس برس لکھنؤ میں کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ اپنے اپنے اجلاسوں میں منظور کرنے والی تھیں۔ مرکزی قانون ساز کونسل اور بمبئی کی صوبائی کونسل میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں محفوظ ہونی طے پائی تھیں۔ بنگال کی صوبائی کونسل میں ۴۰ فیصد، یوپی میں ۳۰ فیصد، بہار اور اڑیسہ میں ۲۵ فیصد اور سی پی اور مدراس میں ۱۵ فیصد نشستیں بھی ان کے لیے محفوظ ہونا تھیں جو ان اقلیتی صوبوں میں اُن کی آبادی کے تناسب سے ذرا زیادہ تھیں۔ اس کے بدلے میں مسلمانوں نے اپنے اکثریتی صوبے پنجاب کی کونسل میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کی بجائے صرف ۵۰ فیصد مخصوص نشستیں قبول کر لی تھیں۔ اقبال کے خیال میں مسلمانوں نے اکثریتی صوبے پنجاب میں اپنے آپ کو عملاً اقلیت میں بدل کر اچھا نہیں کیا تھا۔ اس کے بدلے میں اقلیتی صوبوں کی اسمبلیوں میں اُنہیں جو رعایات ملی تھیں اُن کی عملی اِفادیت کچھ نہیں تھی۔ ۳۰ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Edward Carpenter. The Art of Creation: Essays on the Self and Its Powers. Allen and Unwin, London Ernest Northoroft Merrington. The Problems of Personality: A Critical and Constructive Study in the Light of Recent Thought. Macmillan, London C. Snouk Hurgronje. Mohammadanism: Lectures on its Origins, its Religious and Political Growth and its Present State. Putmans, New York. Stephen Leacock. Moon Beams from the Larger Lunacy. John Lane, London Sir Israel Gollancz. A Book of Homage to Shakespeare. Humphrey Milford F.J.E. Woodbridge. The Purpose of History. Columbia University Press, New York۱۸ ۳۱ ۳۰ دسمبر تھی۔ قیصر باغ لکھنؤ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں سید وزیر حسن نے کہا: The present conditions compel us to go much deeper into the problems of the entire social regeneration of 70 million Muslims; of extricating them from the terrible poverty, degradation and backwardness into which they have fallen, giving them at least the rudiments of a civilised existence, and making them free citizens of a free land. We must realise that... unless such a change is soon made, the whole of this social structure must come down with a crash... It is the duty of all of us...to combine together to lay the foundations of a new structure... Let me tell you that building of such a social edifice will be more glorious, more humane and more just than the building of an empire. اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے بھی انگریزی میں کہا، ’’پورا ملک اپنی تقدیر کی آواز پر جاگ رہا ہے۔۔۔ملک بھر میں مقصدیت، اعتماد اور عزم کی ایک نئی روح اُتری ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ سے اور اپنے ماضی کی روایات سے بے وفائی کرتے اگر وہ اُس نئی اُمید میں پوری طرح شریک نہ ہوتے جو آج ہندوستان کے محب وطن بیٹوں کے دلوں میں موجزن ہے یا اگر وہ اپنے وطن کی پکار پر جواب نہ دیتے۔ اُن کی نگاہیں بھی اپنے ہندو ہموطنوں کی طرح مستقبل پر جمی ہیں۔‘‘ کانگریس لیگ اسکیم کو دونوں سیاسی جماعتوں نے منظور کر لیا تھا۔ تاریخ اِسے لکھنؤ پیکٹ یا میثاقِ لکھنؤ کے نام سے یاد کرنے والی تھی۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے حق کو کانگریس سے قبول کرواکے ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی اُس اجتماعی رائے کو دریافت کرنے کا ذریعہ دریافت کر لیا تھا جس کی خاطر تیس برس پہلے ۱۸۸۶ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس قائم ہوئی تھی۔ ۳۲ محمد علی (جوہر) کا خیال تھا کہ کسی خاص قسم کی تعلیم رائج کی جائے تو قریباً تیس برس بعد نتائج ظاہر ہوتے ہیں: ٭ ۱۸۵۷ء میں کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اور ۱۸۸۵ء میں ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل نے وطنیت کے مغربی تصور پر کانگریس کی بنیاد رکھی ٭ ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ کالج قائم ہوا اور ۱۹۰۶ء میں مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل مسلم لیگ کی بانی ہوئی۔۱۹ اس نظریے کو پھیلایا جاتا تو ۱۸۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام بھی ایک طرح کی غیررسمی تعلیم کا آغاز تھا جس کے ٹھیک تیس برس بعد میثاقِ لکھنؤ ہوا تھا۔ ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی تھی۔ اُس کے تیس برس بعد ۱۹۳۶ء میں کیا ہونے والا تھا؟ دُوسرا حصہ ۳۳ مولانا عبدالحلیم شرر نے رسالۃ الحکم الرفاعیہ کا ترجمہ کیا تھا۔ اس میں شیخ احمد رفاعی کے اقوال اقبال کی نظر سے گزرے، ’’خبردار! اہلِ عجم کی زیادتیوں سے دھوکا نہ کھانا کہ ان میں سے بعض حد سے گذر گئے ہیں۔‘‘۲۰ ملتِ اسلامیہ کی تربیت کا کمال شریعت پر عمل کرنا ہے۔ طریقت اور تصوف اگر شریعت کے خلاف ہو تو گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ موضوع ایک باب بن گیا، ’در معنی اینکہ کمالِ تربیتِ امتِ محمدیہ در اتباعِ شریعتِ اسلامیہ است و آنچہ طریقت نامیدہ اند اگر غیرِ شریعت است، ضلالت است‘۔۲۱ کوئی قوم اپنے آئین سے ہٹ کر زندہ نہ رہ سکتی تھی۔یہ لکھنے کے بعد ابن عربی پر تنقید کرنے کا خیال آیا تو صفحے کے کنارے پر کچھ شعر لکھے کہ شیخِ اکبر محی الدین ابن عربی نے عقل کا فریب کھایا: شیخِ اکبر چوں فریبِ عقل خورد۲۲ ۳۴ ابن عربی والے اشعار قلمزد کر دیے۔ صفحے کے دوسرے کنارے پر نئے اشعار لکھے کہ شریعت میں پوشیدہ معانی تلاش کرنا فضول تھا۔ موتی کے باطن میں بھی روشنی کے سوا کچھ نہیں ہوتا: در شریعت معنیٔ دیگر مجو غیرِ ضَو در باطنِ گوہر مجو۲۳ ۳۵ انجمن حمایت اسلام کے تحت قائم اسلامیہ پرائمری اسکول ۱۹۱۷ء میں کسی وقت مڈل اسکول بنا دیا گیا۔۲۴ ۳۶ کشن پرشاد کا خط آیا۔ معلوم ہوا وہ پیرجماعت علی شاہ کے پاس گئے تھے جو اُن کے ساتھ بے نیازی سے پیش آئے۔ شاید خط میں اقبال سے کچھ شکایت بھی کی گئی تھی کیونکہ ۵ جنوری کو جواب میں اقبال نے صفائی پیش کی کہ کشن پرشاد سے اُن کی عقیدت کسی غرض کی وجہ سے نہیں ہے۔ پیرجماعت علی شاہ کے بارے میں اقبال نے لکھا، ’’وہ بڑے ہشیار آدمی ہیں اور پیری مریدی کے فن کو خوب سمجھتے ہیں۔‘‘ ان کی بے نیازی بھی مصنوعی رہی ہو گی جس کا مطلب اقبال خوب سمجھتے تھے۔ ۳۷ جنوری میں مثنوی کا دُوسرا حصہ پانچ سو اَشعار تک پہنچ چکا تھا۔۲۵ ۳۸ مولوی الف دین کا خط ملا۔ شائد کسی میجر کمرون سے سفارش کروانا چاہتے تھے اور ایک غزل بھی ارسال کی تھی تاکہ اقبال اپنی رائے دیں۔ ۹ جنوری کو اقبال نے جواب میں لکھا کہ میجر کمرون سے ان کی واقفیت نہیں، ’’آپ کو معلوم ہے میں اس قسم کے رسوخ سے کوسوں بھاگتا ہوں۔‘‘ اشعار کی تعریف اور د وجگہ اصلاح کی۔ مثنوی کے دوسرے حصے میں سے ہجرت والے اشعار لکھ کر بھیجے، ’’مگر ہاتف کبھی دوچار ہوتے ہیں اور مجھے فرصت کم ہے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہو جائیں گے۔‘‘ ۳۹ خواجہ حسن نظامی نے کوئی رسالہبیوی کی تعلیم لکھا تھا۔ بنام خواجہ حسن نظامی لاہور ۲۶ جنوری ۱۹۱۷ء مخدومی خواجہ صاحب السلام علیکم۔ میں آپ کے اندازِ بیان کا عاشق ہوں اور مجھی پر کیا موقوف ہے، ہندوستانی دنیا میں کوئی دل ایسا نہیں جس کو آپ کے اعجازِ قلم نے مسخر نہ کر لیا ہو۔ پیش پا افتادہ چیزوں میں اخلاقی اور روحانی اَسرار دیکھنا اور اس کے ذریعے انسان کے عمیق مگر خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنا آپ کے کمال کا خاص جوہر ہے۔ اگر مجھ کو یقین ہوتا کہ ایسا اندازِ تحریر کوشش سے حاصل ہو سکتا ہے تو قافیہ پیمائی چھوڑ کر آپ کے مقلدّین میں داخل ہوتا۔ اُردو لکھنے والوں میں آپ کی روش سب سے نرالی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ نثرِ اُردو کے آیندہ مورخین آپ کی ادبی خدمات کا خاص طور پر اعتراف کریں گے۔ رسالہ ’’بیوی کی تعلیم‘‘ جو حال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے، نہایت دلچسپ اور مفید ہے۔ خصوصاً دمڑی والے سبق نے تو مجھے ہنسایا بھی اور رُلایا بھی۔ باقی سبق بھی نہایت اچھے اور کارآمد ہیں اور عام تمدنی، سیاسی و مذہبی مسائل کو سمجھانے کے لیے خط کتابت کا طریق بھی نہایت موزوں ہے۔ لڑکیوں کو اس سے بیحد فائدہ پہنچے گا۔ میں نے بھی یہ رسالہ گھر میں پڑھنے کے لیے دے دیا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کو خواجہ بانو کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اُن کی تحریک سے ایسا مفید رسالہ لکھا گیا۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبال ۴۰ ۲۷ اور ۲۸ جنوری کی درمیانی رات سر سید احمد خاں کے دوست اور مسلمان رہنما نواب وقار الملک فوت ہو گئے۔ اقبال نے تاریخِ وفات نکالی، ’’وقار الملک انجام بخیر‘‘۔ ۱۳۳۵ اعداد ہوتے تھے۔ ہجری سال تھا۔ ۴۱ اُستاد نوح ناروی نواب مرزا خاں داغ دہلوی مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے۔ الٰہ آباد کے قریبی قصبہ نارہ کے رہنے والے تھے۔ فروری کے مخزن میںاُن کی غزل اُسی زمین میں شائع ہوئی جس میں اقبال کی غزل مشہور تھی: ’’ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی‘‘۔۲۲ شعر تھے۔ کیوں اپنے دل کو موردِ رحمت کرے کوئی کوئی یہ چاہتا ہے محبت کرے کوئی منصور کو ملی ہے اسی پر سزائے موت کیا انکشافِ رازِ حقیقت کرے کوئی میں نے تو خیر عشق میں طوفاں اُٹھا دیا اے نوحؔ ظاہر اپنی کرامت کرے کوئی حضرت نوحؔ ناروی، مخزن فروری ۱۹۱۷ئ۲۶ ۴۲ ۶ فروری کو کچھ فرصت ملی۔ شریعت و طریقت والے باب کا صفحہ بھر چکا تھا۔ کسی طرح جگہ نکال کر ترچھی لکھائی میں فقہ کا ایک مسئلہ نظم کیا۔ اگر کوئی دشمن صلح کی امید میں اپنی پناہ گاہ ختم کر دے اور پھر صلح نہ ہو تو جب تک وہ دوبارہ پناہ گاہ نہ بنا لے اُس پر حملہ کرنا حرام تھا۔ اقبال کے نزدیک اِس حکم کا راز یہ تھا کہ خطروں میں جینا ہی زندگی ہے۔۲۷ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ کوئی سفارش تھی جسے انہوں نے ملتوی کر دیا تھا۔ اشرف علی تھانوی کوئی کتاب لکھ رہے تھے اُس کا ذکر تھا۔ ’’مولوی اشرف علی تھانوی جہاں تک مجھے معلوم ہے وحدت الوجود کے مسئلے سے اختلاف رکھتے ہیں،‘‘ اقبال نے ۷ فروری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔’’مجھے یقین ہے اُن کی کتاب عمدہ ہو گی۔‘‘ شاعری میںعموماً تصوف پر تکیہ کیا گیا تھا۔ اقبال فقہ کے مسائل نظم کرنے چلے تھے۔ جدت تھی۔ دو مصرعوں میں بعض الفاظ کھٹکتے بھی تھے۔ ۸ فروری کو اَشعار مولانا گرامی کو بھیج دیے۔ ’’بنظرِ اصلاح دیکھ کر واپس فرمائیے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’ہر روز کوئی نہ کوئی آدمی آپ کے متعلق دریافت کرتا ہے کہ مولانا گرامی لاہور تشریف لائے یا نہیں؟ افسوس ہے کہ مجھے ہر دفعہ نہیں کہنا پڑتا ہے۔‘‘ ۴۳ حیدرآباد دکن کی ہائی کورٹ کے جج سید ہاشم بلگرامی انتقال کر گئے تھے۔ میونسپل گزٹ لاہور نے اقبال کا نام تجویز کیا۔ کشن پرشاد پھر نظام کے ساتھ بمبئی جا رہے تھے۔ اس دفعہ وارنگل سے خط بھی آیا۔ اقبال نے اس خیال سے انہیں ججی کے بارے میں نہیں لکھا کہ اخبار سے خود ہی تجویز ان تک پہنچ جائے گی جس کی کاپیاں اب حیدرآباد کے بعض امرأ کو بھیجی جا رہی تھیں۔ ۲۸ ۴۴ گرامی کی طرف سے جواب جلدی آیا۔ جو مصرعے اقبال کو کھٹک رہے تھے ان میں سے ایک کی جگہ دوسرا بھیجا تھا۔ مطلب کا نہ تھا۔ اپنی ایک غزل بھی بھیجی تھی۔ ’’سبحان اللہ کیا عمدہ غزل ہے!‘‘اقبال نے ۱۲ فروری کو جواب دیا۔ ۴۵ اس دفعہ الٰہ آباد اور پنجاب دونوں یونیورسٹیوں کے ایم اے کے پرچوں کا کام ملا تھا۔ انہی دنوں حیدرآباد سے خط آیا کہ پچھلے سال کی طرح بیت العلوم دکن کے لیے اسلامی تاریخ کا پرچہ بنا دیں ۔ انکار کرنا پڑا۔۲۹ ۴۶ بیاض میں خالی چھوڑے ہوئے صفحات میں سے ایک پر ’سِرِّ واقعۂ کربلا‘ کا عنوان ڈالا۔ کربلا کے اَسرار لکھنے شروع کیے۔ جس کسی نے بھی ھو الموجود کے ساتھ پیمان باندھا، اُس کی گردن ہر بندھن سے آزاد ہو گئی۔ مومن عشق سے اور عشق مومن سے ہے۔ ہمارا ناممکن عشق کے لیے ممکن ہے۔ آزادی، عشق کے لیے آرامِ جاں ہے۔ آزادی اُس کے ناقے کے لیے سارباں ہے۔ جب میان سے لا کی تلوار نکالی تو اَربابِ باطل کی رگوں سے خون نچوڑ لیا۔ کیا تم نے سنا کہ جنگ کے موقع پر عشق نے ہوس پرور عقل کے ساتھ کیا کیا؟ وہ عاشقوں کے امام، سیدہ فاطمہ بتولؓ کے فرزند جو رسولِ پاکؐ کے باغ کے سروِ آزاد تھے، اُن کے لہو سے غیرتمند عشق سرخرو ہے۔ اِس مصرعے کی شوخی اُن کے مضمون سے ہے۔ اُن کی بلندمرتبت شخصیت اُمت میں یوں ہے جیسے قرآنِ پاک میں سورۂ اخلاص! حسین گرمیٔ محفل ہیں۔ ہم خاک کے پتلے ہیں، حسین ہمارا دل ہیں۔ ہر کہ پیماں با ھوالموجود بست گردنش از بندِ ہر معبود رست مومن از عشق است و عشق از مومن است عشق را ناممکنِ ما ممکن است عشق را آرامِ جاں حرّیت است ناقہ اش را سارباں حرّیت است تیغِ لا چوں از میاں بیروں کشید از رگِ اربابِ باطل خوں کشید آں شنیدستی کہ ہنگامِ نبرد عشق با عقلِ ہوس پرور چہ کرد آں امامِ عاشقاں پورِ بتول سروِ آزادے زبستانِ رسولؐ سرخ رُو عشقِ غیور از خونِ اُو شوخیٔ ایں مصرعہ از مضمونِ اُو درمیانِ امت آں کیواں جناب ہم چو حرفِ قل ھو اللّٰہ در کتاب گرمیٔ ہنگامۂ محفل حسین پیکرِ خاکیم و ما را دل حسین یہاں پہنچ کر ذہن رک گیا۔ کنارے پر عقل اور عشق کے بارے میں مزید کچھ اشعار درج ہوئے۔ عقل سبب اور دلیل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق، عمل کے میدان کا شہسوار ہے، وغیرہ: عقل در پیچاکِ اسباب و عمل عشق چوگاں بازِ میدانِ عمل امام حسین کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ برصغیر میں بالخصوص اُردو میں مرثیہ کے ضخیم مجموعے موجود تھے۔ مسلمانوں کے دَورِ زوال کی پیداوار تھے۔ کم سے کم اقبال انہیں انحطاط کے ادب کا نمونہ سمجھتے تھے۔ اس باب کے ذریعے آیندہ آنے والوں کو کربلا کے بارے میں لکھنے کے لیے شاید ایک نئی راہ مل جاتی۔ ۱۹ فروری کو گرامی کا خط آیا تو کربلا والے باب میں سے عقل اور عشق کے موازنے پر اشعار انہیں اصلاح کی غرض سے بھیجے۔ حیدرآباد کی ججی کے بارے میں لکھا کہ صورتحال کا علم نہیں مگروہاں کی حکومت حیدرآبادیوں کو چھوڑ کر باہر کے آدمی کوکیوں ترجیح دے گی۔ ’’حیدری صاحب کمزور آدمی ہیں،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’اگر وہ کوشش کریں تو ممکن ہے مگر اس معاملے میں میرا لکھنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ اُن کو لکھنے سے فائدے کی اُمید ہے تو ضرور لکھئے بلکہ جہاں کہیں اور بھی آپ کے خیال میں ضروری ہو لکھ ڈالیے۔‘‘ خط پڑھ کر چاک کر دیا جائے۔ ۴۷ معلوم ہوتا ہے کہ اردو نظموں کا مجموعہ شائع کرنے کا خیال بھی ان دنوں دوبارہ آیا۔ فرصت نہ تھی۔۳۰ ۴۸ ۲۲ فروری کو بمبئی سے کسی جوہری کا خط آیا جو کبھی اقبال کا ہم جماعت رہ چکا تھا۔ کشن پرشاد بمبئی میں تھے اور یہ چاہتا تھا کہ اقبال اُن سے تعارف کروا دیں۔ اقبال کو کشن پرشاد کا بمبئی کا پتہ معلوم نہیں تھا اس لیے خاموش رہ گئے۔۳۱ اُس روز لاہورمیں ہوائی جہاز اڑائے گئے۔ مرد اور عورتیں یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھنے سارادن چھتوں پر اور میدانوں میں کھڑے رہے۔ اگلے روز کشن پرشاد کا خط آیا۔ بمبئی میں تھے۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے ہم جماعت جوہری کا ذکر کیا، ’’ذہانتِ خداداد قوتِ ایجاد رکھتا ہے اور زیوروں کی ساخت میں کمال۔‘‘ لاہور میں ہوابازی کا ذکر کر کے اپنا شعر لکھا: فضا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے مرا جہاز ہے محرومِ بادباں پھر کیا۳۲ فصیح اللہ کاظمی نے نجانے کیا لکھا تھا کہ معاملہ کورٹ کچہری کی دھمکی تک پہنچا تھا۔ خط لکھ کر اقبال سے مشورہ مانگا۔ ’اسرارِ خودی‘ پر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے بھی کوئی بات لکھی۔ جواب میں اقبال نے اُس روز لکھا، ’’اعتراضات کا تعلق جہاں تک زبان سے ہے اُس کا جواب دینا آسانی سے ہو سکتا ہے مگر اُس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور باقی رہے مطالب سو زمانہ خود سمجھا دے گا۔‘‘ جس تحریر کی وجہ سے کوئی کاظمی پر لائبل کا مقدمہ کرنا چاہتا تھا وہ اقبال کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ’’آپ کے پاس پیامِ امید کی وہ اشاعت ہو تو بھیج دیجیے میں بڑی خوشی سے اپنے علم اور سمجھ کے مطابق رائے دوں گا۔‘‘ ۴۹ فروری میں کسی وقت گرامی لاہور آکراقبال کے پاس ٹھہرے۔’اسرارِخودی‘ کے دوسرے حصے کا نام ’رموزِ بیخودی‘ تجویز ہوا۔ خیال تھا کہ سال کے آخر تک ختم ہو جائے گا۔غالباً اِسی موقع پر گرامی نے کہا کہ ان کی تقریظ کے بغیر مثنوی شائع نہ کی جائے۔۳۳ ۵۰ حیدرآباد کے اخبار مخبر دکن میں خبر چھپی کہ ہائی کورٹ کی ججی کے سلسلے میں اقبال کا نام اکثر لیا جا رہا ہے۔۳۴ ۵۱ مخزن میں اقبال کی ایک پرانی غزل شائع ہوئی۔ نجانے کس نے بھیجی تھی۔۳۵ ۵۲ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ مخزن والی غزل پسند کی تھی۔ ’’میں لاہور میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں،‘‘ اقبال نے ۲ مارچ کو جواب میں لکھا۔ ’’مشاغلِ ضروری سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالمِ تخیل میں قرونِ اولیٰ کی سیر مگر خیال کیجئے جس زمانے کا تخیل اس قدر حسین و جمیل و روح افزا ہے وہ زمانہ خود کیسا ہوگا!‘‘ ۵۳ جس مجذوب کو اقبال اور کشن پرشاد اللہ اکبر کہتے تھے اس سے پھر ملاقات ہوئی۔کشن پرشاد کا تذکرہ ہوا۔ لاہور میں سلطان کی سرائے میں ایک مجذوبہ نے ان دنوں بہت لوگوں کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ اقبال کا ارادہ تھا کہ کسی روز وہاں بھی جائیں گے۔ ۳۶ ۵۴ ۳ مارچ کو گرامی ہوشیارپور واپس جانے والے تھے۔ معلوم نہیں گئے یا اقبال کسی بہانے کچھ اور دن روکنے میں کامیاب ہوئے۔۳۷ ۵۵ آفتاب دہلی میں سینٹ اسٹیفنز کالج میں پڑھ رہے تھے اور اقبال انہیں ہر ماہ ۳۵ روپے جیب خرچ بھیجتے تھے۔ آفتاب کھیل کود کی طرف زیادہ راغب تھے۔ اقبال نے سوچا انہیں کہیں مرید کروا دیں یا ان کی شادی کر دیں۔۳۸ اس برس شیخ عطا محمد کے لڑکے اعجاز احمد اسلامیہ کالج لاہور میں ایف اے کے سال دوم میں تھے۔ اقبال ۲۵ روپے ماہوار دیتے تھے۔۳۹ اعجاز ریواز ہاسٹل میں رہتے تھے۔ چودہری محمد حسین بھی مقیم تھے اور ایم اے کے طالب علم تھے یا امتحان دے چکے تھے۔ ان کے کمرے میں اقبال کے جن عقیدت مندوں کی محفلیں جمتی تھیں اُن میں سے ایک کا نام چودہری رحمت علی تھا۔ ’’یہ لوگ گاہے گاہے چچا جان سے ملنے جایا کرتے تھے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’میں اگرچہ اُن حضرات سے بہت جونیر تھا لیکن چچا جان کی قرابت کی وجہ سے چودہری محمد حسین کی مجھ پر نظرِ عنایت تھی اور مجھے بھی کبھی کبھی اُن کی مجلس میں ایک سامع کی حیثیت سے بیٹھنے کا موقعہ ملتا رہتا تھا۔ چودہری صاحب کے کمرے میں جو گفتگو ہوتی اُس سے مجھے اندازہ ہوا کہ چچا جان جو ایک زمانے میں ہندومسلم اتحاد کا ’اِک نیا شوالہ اِس دیس میں بنا دیں‘ اور ’آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملا دیں‘ کے پرجوش اور سرگرم داعی تھے اب برادرانِ وطن کے طرزِ عمل سے بددل ہو کر اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک مشترک قومیت کے طور پر سیاسی تحریک چلانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں اور اُن کے لیے اپنی قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا اور عالمِ اسلامی کے اتحاد کو اپنا نصب العین بنانا ضروری ہے۔‘‘۴۰ اعجاز کی انگشتِ شہادت پر تکلیف دہ پھنسی (وٹلو) نکلی تو اقبال نے علی بخش کو خیریت دریافت کرنے بھیجا۔ اُس نے واپس جا کر کیفیت بتائی تو ہاسٹل سے گھر بلوا لیا۔ دونوں بیگمات سیالکوٹ گئی ہوئی تھیں۔ رات کو علی بخش بھی جا چکا تھا جب اعجاز کو تکلیف سے بیخواب دیکھ کر اقبال نے خود ہی کسی لحاف یا توشک سے پرانی روئی نکال کر لالٹین پر گرم کر کے اعجاز کی انگلی پر ٹکور کی۔ صبح سویرے منشی طاہر دین سے مشورہ کیا جو اُسی احاطے میں رہتے تھے۔ وہ اعجاز کو ساتھ لے کر ڈاکٹر محمد حسین کے پاس گئے۔ اعجاز اِس خیال میں تھے کہ صرف سوئی چبھوئی جائے گی۔ ڈاکٹر نے انگلی کا آپریشن کر کے واپس بھیجا۔ چار پانچ دن اقبال کے گھر قیام رہا۔ روزانہ پٹی ہوتی رہی۔۴۱ ۵۶ ۵ مارچ کو اقبال بار روم میں تھے جب کشن پرشاد کا خط ملا۔ حیدرآباد واپس پہنچ گئے تھے اور کسی غرض سے اقبال اور ان کے بیٹے آفتاب کی تصویریں منگوائی تھیں۔ایک فارسی غزل بھیجی تھی جس کی ردیف شائد’’ کیستم من‘‘ تھی۔ اقبال نے بار روم میں پڑھ کر سنائی۔۴۲ ۵۷ منشی قمرالدین جنہوں نے اقبال کی نظمیں بغیر اجازت شائع کی تھیں مگر ظفر علی خاں کی سفارش پر اقبال نے قانونی چارہ جوئی نہیں کی تھی، فوق کی سفارش لائے کہ نظمیں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ ’’منشی قمرالدین جن کو آپ نے سفارشی خط دے کر بھیجا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ان کو اجازت دی جائے،‘‘ اقبال نے ۶ مارچ کو فوق کے نام خط لکھا اور پچھلے تجربے کا حوالہ دیا۔ ’’علاوہ اس کے یہ لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پرواہ نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح۔ اس کے بعد اعتراض مجھ پر ہوتے ہیں۔‘‘ فوق نے قمرالدین کے ہاتھ جو خط بھیجا تھا اس میں اودھ پنچ کے کسی پرچے میں اقبال کی شاعری پر کیے گئے اعتراضات کا ذکر بھی کیا ہوگا کیونکہ انہوں نے لکھا کہ وہ پرچہ تلاش کرنا چاہئے، ’’شائد اِن اعتراضوں میں کوئی کام کی بات ہو۔ لکھنؤ والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعر سمجھا ہے۔ حقیقت میں فنِ شاعری اِس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہو سکتا پھر میں کیونکر کامیاب ہو سکتا ہوں جسے روزی کمانے کے دھندے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ میرا مقصود گاہ گاہ نظم لکھنے سے صرف اِسی قدر ہے کہ چند مطالب جو میرے ذہن میں ہیں اُن کو مسلمانوں تک پہنچا دُوں اور بس۔‘‘ ۵۸ ’’امارت، عزت، آبرو، جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا،‘‘ اقبال نے ۷ مارچ کو کشن پرشاد کے خط اور غزل کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’کیا خوب ہو اگر سرکارِ عالی کا فارسی دیوان مرتّب ہو کر دیدہ افروزِ اہلِ بصیرت ہو۔‘‘ تصویروں کے بارے میں لکھا کہ ابھی کوئی پاس نہیں ہیں مگراپنی اور آفتاب کی نئی تصویریں بنوا کر روانہ کر دیں گے۔ آفتاب کے مزاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اُنہیں کہیں مرید کروانا یا ان کی شادی کرنا چاہتے ہیں ’’تاکہ اس کے ناز میں نیاز پیدا ہو جائے۔‘‘ ۵۹ انہی دنوں اقبال کو دردِ گردہ کا دورہ پڑا۔۴۳ ۶۰ ۱۶ مارچ کو رُوس میں زار نے تخت سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔ ۶۱ میونسپل گزٹ کے اڈیٹر منشی محمد دین نے صرف اخبار میں تجویز چھاپنے پر گریز نہیں کیا تھا بلکہ کشن پرشاد کو بھی لکھا تھا کہ اقبال کو حیدرآباد کی ججی کے لیے نامزد کریں۔ وہاں سے جواب آیا کہ اقبال سے بڑی عقیدت ہے اور جو کچھ ہو سکا کریں گے بلکہ چند روز میں سامنے بھی آجائے گا۔ ۱۸ مارچ کو منشی محمد دین یہ خط لے کر اقبال کے پاس آئے۔ اقبال کو دردِ گردہ سے کچھ افاقہ ہوا تھا۔ پوری طرح آرام نہ آیا تھا۔۴۴ ’’میں نے اب تک اپنے معاملات میں ذاتی کوشش کو بہت کم دخل دیا ہے، ہمیشہ اپنے آپ کو حالات پر چھوڑ دیا ہے اور نتیجے سے خواہ وہ کسی قسم کا ہو خدا کے فضل و کرم سے نہیں گھبرایا،‘‘ اقبال نے اُسی روز کشن پرشاد کولکھا۔ ’’دل میں یہ ضرور ہے کہ اگر خدا کی نگاہِ انتخاب نے مجھے حیدرآباد کے لیے چُنا ہے تو اتفاق سے یہ انتخاب میری مرضی کے بھی عین مطابق ہے گویا بالفاظِ دیگر بندہ و آقا کی رضا اس معاملے میںکُلّی طور پر ایک ہے۔‘‘ ’’آپ کی تصنیف اُردو زبان پر ایک احسانِ عظیم ہے،‘‘اُسی روز پروفیسر الیاس برنی کو جواب دیا۔ ’’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردوزبان میں علم اقتصاد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل۔‘‘ اُردو میں اس موضوع پر پہلی تصنیف توبارہ برس پہلے خود لکھی تھی۔ خط کا عکس موجود نہیں ہے ۔ برنی کی کتاب کو پہلی کامل کتاب قرار دیا ہوگا نہ کہ پہلی اور کامل مگر غالباً بعد میں نقل کرنے والوں سے غلطی ہوئی۔۴۵ ۶۲ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جائے تو کائنات کی ظاہری اور باطنی قوتوں پر حکومت کرتی ہے۔ یہ بات ’اسرارِ خودی‘ میں بیان ہوئی تھی۔ قوم کی زندگی کو وُسعت، فطرت کے عناصر کو تسخیر کرنے سے ملتی تھی۔ اس کے لیے سائنس ضروری تھی۔ یہ باب غالباً دردِ گردہ ہی کی حالت میں شروع کیا ۔ بیاض میں درج نہ ہوا۔ کسی علیحدہ کاغذ پر لکھا ہو گا۔ اپریل میں انجمن حمائت اسلام کا سالانہ جلسہ ہونے والا تھا۔ دردِگردہ کی وجہ سے کوئی نظم پڑھنے کا ارادہ نہ تھا۔ سوچا کہ اصرا ہوا تو کوئی پرانی نظم سنا دیں گے۔ گرامی جالندھر آنے والے تھے۔ اقبال کو بھی بلایا مگر اُن کے پاس طبیعت کی خرابی کا عذر موجود تھا۔زیادہ سے زیادہ سیالکوٹ تک جانے کا ارادہ تھا کیونکہ شیخ نورمحمد کی عمر اب سفر کو مشکل بنانے لگی تھی۔۴۶ نیازالدین خاں نے خط لکھ کر اُس نظم کے بارے میں پوچھا جو اقبال نے ۱۹۰۴ء میں ’بلال‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔۲۱ مارچ کو اقبال نے جواب دیا۔ اگلے روز گرامی کا خط ملا۔ ’’میری طبیعت ابھی تک روبراہ نہیں ہوئی لیکن پہلے کی نسبت بہت آرام ہے،‘‘ فوراً جواب دیتے ہوئے لکھا اور انہیں انجمن کے جلسے میں آنے کی دعوت دے کر کہا، ’’ایک آدھ شعر ذوالفقار علی خاں کے متعلق بھی لکھ ڈالیے۔ ذوالفقار کے نام میں ایک ذخیرہ مضمون کا ہے۔‘‘ محمد دین اور کشن پرشاد کی خط کتابت سے بھی آگاہ کیا۔ ’’مندرجہ ذیل اشعار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھئے،‘‘ تازہ اشعار میں سے دو نقل کرتے ہوئے لکھا جن میں ایک مصرعہ کھٹکتا تھا۔ ’’مضمون یہ ہے کہ دنیا کی قوتوں کو سمجھنا اور اُن کو قابو میں لانا چاہئے۔‘‘ ۶۳ ۳۱ مارچ کو اِنکم ٹیکس کا سال ختم ہوتا تھا۔ پچھلے برسوں میں اقبال کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ ٹیکس لگتا یا پھر ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یکم اپریل ۱۹۱۶ء سے ۳۱مارچ ۱۹۱۷ء تک آمدنی تین ہزار چھ سو روپے تھی۔ اقبال نے گوشوارہ داخل کیا۔چورانوے (۹۴) روپے ٹیکس بنتا تھا۔۴۷ ۶۴ اخبار میں اقبال کی حیدرآباد کی ججی کی خبر چھپ گئی۔ پنجاب کے موکل پریشان ہو گئے کہ جانے والے ہیں۔ نئے مقدمات ملنا مشکل ہو گیا۔۴۸ ۶۵ غزل نالہ ہے اے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنیٔ پیغام ابھی خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نوگرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی۴۹ یہ غزل اخبار پنجاب میں خاصی غلطیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔۵۰ ۶۶ ۶ اپریل کو امریکہ بھی جنگ میں شامل ہو گیا۔ ۶۷ کشن پرشاد نے حیدرآباد واپس پہنچ کر جواب دیاکہ انسان صرف تدبیر کر سکتا ہے۔ تقدیر اُوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ ’’اِس معاملے میں جس قدر تدابیر اقبال کے ذہن میں آسکتی ہیں اُن سب کا مرکز ایک وجود ہے جس کا نامِ گرامی شاد ہے، تدبیر اور تقدیر اِسی نام میں مخفی ہیں،‘‘ ۱۰ اپریل کو اقبال نے جواب دیاجب لاہور کے بازار بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں کے استقبال کو سجائے جا رہے تھے جو اگلے روز انجمن حمائت اسلام کے جلسے کی صدارت کرنے والے تھے اور لاہور پہنچ چکے تھے۔ ’’پھر اقبال انشا ٔاللہ العزیز ہر حال میں شاد ہے۔‘‘ ۶۸ ایسٹر سنڈے ۸ اپریل کو آ رہا تھا۔ ۲ اپریل کو پیسہ اخبارمیں انجمن حمایت اسلام کے بتیسویں سالانہ جلسے کا پروگرام شائع ہوا۔ ۶ سے ۸ اپریل تک ہو رہا تھا۔۵۱ کہتے ہیں کہ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں اکٹھے آئے۔ محمد الدین فوقؔ کے چچا منشی غلام محمد خادم نے فی البدیہہ کہا: اقبال و ذوالفقار کا ہو کیوں نہ احترام تخت اور تاج دونوں انہی کے تو ہیں غلام اقبال ذوالفقار سے آتا ہے ہاتھ میں وابستہ ذوالفقار ہے اقبال سے مدام۵۲ بہرحال پہلے روز اقبال نے نظم پڑھی جس کی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔۵۳ شیخ نور محمد غالباً جلسے میں شرکت ہی کے لیے لاہور آئے۔ چند روز ٹھہر گئے۔ امام بی بی اور اپنے والدین کی قبر پر ہر روز جانے کی عادت پوری نہ ہونے کی وجہ سے ذرا بے چین رہتے۔۵۴ ۶۹ مخبر دکن میں خبر چھپی کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام نظام حیدرآباد کے سامنے پیش کئے گئے جن میں ایک نام اقبال کا بھی تھا۔ ۱۵ اپریل کو اقبال نے احیتاطاً اپنے کوائف کشن پرشاد کو لکھ بھیجے۔ ججی کو فلسفے سے تعلق نہ سہی مگر انگلستان اور جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور پھر حکومت کی طرف سے بار بار گورنمنٹ کالج میں پڑھانے کی درخواست پر انکار کرنے کے ذکر میں کوئی حرج نہ تھا۔مسلم ریاست کی ہائی کورٹ میں شائد عربی کی سمجھ کام آسکتی چنانچہ ُاس زبان میں قابلیت اور لندن یونیورسٹی میں عارضی طور پر اُس کے پڑھانے کا ذکر کیا۔ پنجاب اور الٰہ آباد یونیورسٹیوں کا ممتحن ہونے کا ذکر بھی کیا۔ ’’علم الاقتصاد پر اُردو میں سب سے پہلی مستند کتاب میں نے لکھی۔ انگریزی میں چھوٹی تصانیف کے علاوہ ایک مفصل رسالہ فلسفۂ ایران پر بھی لکھا ہے جو انگلستان میں شائع ہوا تھا۔ میرے پاس اس وقت یہ کتابیں موجود نہیں ورنہ ارسالِ خدمت کرتا۔‘‘ باقی حالات سرکار پر بخوبی روشن تھے۔ البتہ ’’فقہِ اسلام میں اِس وقت ایک مفصل کتاب بزبانِ انگریزی زیرِ تصنیف ہے جس کے لیے میں نے مصروشام و عرب سے مسالہ جمع کیا ہے۔‘‘ یہ نیا انکشاف تھا۔ ممکن ہے کہ تاریخِ تصوف کے لیے جو مسالہ جمع کرنا شروع کیا تھا اُسی میں مزید تحقیقات شامل کر کے لکھنا چاہتے ہوں۔ اِس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ جس کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں اُس کی تاریخ لکھنے کی بجائے اُس پر کیوں نہ محنت کریں جسے فروغ دینا چاہتے ہیں یعنی اسلامی شریعت نئے زمانے کی روشنی کے لیے۔ ۷۰ اقبال اس برس پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اردو کے پرچہ الف کے ممتحن تھے۔ بی اے آنرز کے جنرل فلاسفی اور فارسی، اور ایم اے فلسفہ کے دو پرچوں کے ممتحن بھی تھے۔۵۵ ۷۱ ۱۷ اپریل کو گرامی کا خط ملا۔ انہوں نے بھی لکھا تھا کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی کے لیے چند نام نظام کے حضور پیش کئے گئے ہیں جن میں اقبال کا نام شامل ہے۔ ’’والد مکرم آپ کو کئی دفعہ یاد کر چکے ہیں بلکہ قریباً ہر روز یاد کرتے ہیں،‘‘ اقبال نے گرامی کو جلد آنے کی تاکید کرتے ہوئے لکھا اور پھر پوچھا کہ کیا انہیں مخبر دکن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ اقبال کا نام نظام کے حضور پیش کیا گیا ہے؟’’مگر مجھے بڑی پختہ امید نہیں کیونکہ جو لوگ وہاں کے ہیں اُن کو دوڑ دھوپ کا موقع بہت حاصل ہے اور مقامی اثرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ ۷۲ راجہ غلام حسین ضلع جہلم کے غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آٹھ نو برس سال پہلے اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیارپور میں ہیڈماسٹر ہوئے۔ پھر محمد علی جوہر کے کامریڈ میں سب اڈیٹر ہوئے۔ اخبار بند ہونے کے بعد کچھ روز لکھنؤ میں انڈین ڈیلی ٹیلی گراف سے منسلک رہے ۔ پھر وہیں سے اپنا ذاتی ہفت روزہ انگریزی میں نیو ایرا(The New Era) کے نام سے نکالنا شروع کیا۔ خاص لکھنے والوں میں اقبال شامل تھے۔۵۶ پہلا پرچہ سنیچر ۷ اپریل ۱۹۱۷ء کو شائع ہوا۔۵۷ Stray Thoughts [Excerpts] ٭ The result of all Philosophical thought is that absolute knowledge is an impossibility. The poet Browning turns this impossibility to ethical use by a very ingenious argument. The uncertainty of human knowledge, teaches the poet, is a necessary condition of moral growth, since complete knowledge will destroy the liberty of human choice. ٭ Literary criticism sometimes precedes the creation of a great Literature. We find Lessing on the very threshold of German Literature. ٭ Both Shakespeare and Goethe rethink the thought of Divine creation. There is, however, one important difference between them. The Realist Englishman rethinks the individual; the Idealist German, the Universal. Faust is a seeming individual only. In reality he is humanity individualised. ٭ As a plant growing on the bank of a stream heareth not the sweet silver-music which sustains it from beneath, so man, growing on the brink of Infinity listeneth not to the Divine undertone that maketh the life and harmony of his soul. ٭ Nations are born in the hearts of Poets; they prosper and die in the hands of politicians. ٭ No religious system can ignore the moral value of suffering. The error of the builders of Christianity was that they based their religion on the fact of suffering alone, and ignored the moral value of other factors. Yet such a religious system was a necessity to the European mind in order to supplement the beautiful but one-sided Hellenic Ideal. The Greek dream of life was certainly the best, as Goethe says; but it was wanting in the color-element of suffering which was supplied by Christianity. ٭ Life, like the arts of Poetry and Painting, is wholly expression. Contemplation without action is death. ٭ Matthew Arnold is a very precise poet. I like, however, an element of vagueness in poetry; since the vague appears profound to the emotions. ٭ At least in one respect sin is better than piety. There is an imaginative element in the former which is lacking in the latter. ٭ Suffering is a gift from the gods in order to make men see the whole of life. ٭ Self-control in individuals builds families, in communities it builds Empires. ٭ Power is more divine than truth. God is Power. Be ye, then, like your Father who is in heaven. ٭ The powerful man creates environment; the feeble have to adjust themselves to it. ٭ Matthew Arnold defines poetry as criticism of life. That life is criticism of poetry is equally true. ٭ The fate of the world has been principally decided by minorities. The history of Europe bears ample testimony to the truth of this proposition. It seems to me that there are psychological and physiological reasons why minorities should have been a powerful factor in the history of mankind. Character is the invisible force which determines the destinies of nations, and an intense character is not possible in a majority. It is a force, the more it is distributed the weaker it becomes. ٭ Our soul discovers itself when we come into contact with a great mind. It is not until I had realised the infinitude of Goethe's mind that I discovered the narrow breadth of my own. ٭ Belief is a great power. When I see that a proposition of mine is believed by another mind, my own conviction of its truth is hereby immensely increased. ٭ Hegel's system of Philosophy is an epic poem in prose. ٭ I have the highest respect for Aristotle. Not only because I (living in the 20th century) know him better than the oldest generations of my community, but also because of his vast influence on the entire thought of my people. The tinge, however, of ingratitude revealed in his criticism of Plato's doctrine of Ideas withholds me from giving him my fullest admiration. I do not deny the element of truth in his criticism, but I do detest the spirit in which he chooses to handle his master. ٭ A woman of superb beauty with a complete absence of self-consciousness is probably the most charming thing on God's Earth. ٭ Both God and the Devil give man opportunities only, leaving him to make use of those opportunities in the way he thinks best. ٭ God! I thank Thee for my birth in this world of rosy dawns, flame-clad sunsets and thick forests wherein the gloom of Nature's bygone nights rests in eternal slumber! ٭ Philosophy ages; Poetry rejuvenates. ٭ Science and Philosophy have limits, Art is boundless. ٭ The soul of Oscar Wilde is more Persian than English. The New Era (Lucknow), April 17, 1917 ۷۳ مخزن کے اپریل کے شمارے میں صفحہ۲۳ پر اقبال کی نظم ’شیکسپیئر‘ شائع ہوئی۔ پچھلے برس فروری میں ایک پرانی نظم کے ساتھ اقبال کا نام جو پیشہ ور شاعروں کی طرح ’’شیخ محمد اقبال صاحب۔اقبالؔ‘‘ لکھا گیا تھا، ممکن ہے کہ اقبال نے اُس پر برا منایا ہو کیونکہ اس دفعہ ’’ترجمانِ حقیقت جناب ڈاکٹر اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ ڈی‘‘ لکھا گیا۔ اقبال کو ترجمانِ حقیقت کا لقب پانچ برس پہلے خواجہ حسن نظامی نے دیا تھا۔ اب عام استعمال ہونے لگا تھا۔ ۷۴ بھوپال میں ایک مصنف محمد امین زبیری رہتے تھے۔ خواتین کے حقوق کے بارے میں اقبال کو خط لکھ کر دریافت کیا۔ ’’میری رائے میں اس بحث پر سب سے بہتر کتاب قرآنِ کریم ہے،‘‘ اقبال نے ۲۹ اپریل کو جواب میں لکھا۔ ’’تدبر شرط ہے، اُس میں تمام باتیں موجود ہیں بلکہ modern ego eugenics کے تمام مسائل بھی اُس میں موجود ہیں۔‘‘ اس کے بعد میری والسٹونکرافٹ جس کا نام وہ بھول گئے تھے اس کی کتاب A Vindication of the Rights of Women اور جان اسٹوارٹ مل کی کتاب On the Rioghts of Women کے حوالے دیے۔ ’’زمانہ حال کی سفریجٹ عورتوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔‘‘ ۷۵ شیخ نورمحمد پانچ روز بعد واپس جانے والے تھے۔ یکم مئی کو اقبال نے گرامی کو خط لکھ کر لاہور آنے کی پھر تاکید کی۔ ۷۶ گرامی نے اقبال کے اشعار میں کچھ اصلاح تجویز کی تھی جو سید بشیر حیدر نے اپنے خط میں لکھ کر بھیجیں۔ اقبال کو ان سے اتفاق نہیں تھا۔ کچھ وجوہات بشیر حیدر کو لکھ بھیجیں اور باقی گرامی سے تفصیلی ملاقات کے لیے اٹھا رکھیں۔۵۸ ۷۷ بیاض میں خلاصے کے حصے ’اللہ ُ الصمد‘ میں کنارے پر تازہ اشعارکا اضافہ کیا۔ جن مسلمان نوجوانوں نے اپنا لباس، زبان، خیالات اور فیشن تبدیل کر لیے تھے اُن سے خطاب کیا تھا۔۵۹ ۳ مئی کو اخبار دیش میں خبر پڑھی کہ کشن پرشاد بیمار ہیں۔ ’’گونہ تردّد ہے،‘‘ اُس وقت کشن پرشاد کو خط میں لکھا۔ ’’اقبال کو خبر خیریت سے مطلع کیا جائے۔‘‘ گرامی کا پوسٹ کارڈ بھی ملا۔ اُن کی بیگم بیمار تھیں۔ شیخ نور محمد نے اُسی وقت دعا کی۔ ’’میں بھی دست بدعا ہوں،‘‘ اقبال نے اسی روز گرامی کو خط میں لکھا۔ ’’مہربانی کر کے ان کی خبر خیریت سے بواپسی ڈاک مطلع فرمائیے۔‘‘ بشیر احمد والے خط کا ذکر کرنے کے بعد اپنے تازہ اشعار اصلاح کے لیے بھیجے۔ ۷۸ ۷ مئی کو گرامی کا خط آیا۔ اقبال بیگم ترکؔ ٹھیک ہو گئی تھیں۔اقبال نے گرامی کو لکھا کہ اب وہ خود لاہور آجائیں تو ان کا بھی علاج ہو جائے گا، ’’میرے ایک ڈاکٹر صاحب دوست ہیں جو دماغ کی بیماریوں میں خاص طور پر ماہر ہیں۔‘‘ گرامی نے بلبلِ شوریدہ والی غزل میں اصلاح تجویز کی تھی۔ اقبال نے اُس پر تبصرہ کر کے لکھا کہ عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل والا شعر رموزِ بیخودی میں امام حسین والے حصے کے اس شعر کا ترجمہ ہے: عقل در پیچاکِ اسباب و علل عشق چوگاں بازِ میدانِ عمل ’’شمارِ سحر و شام‘‘ کی جگہ ’’رہینِ سحر و شام‘‘ تجویز کیا تھا جس سے اقبال کو اتفاق نہ ہوا۔ ’’زندگی سحر و شام کی تعداد کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا معیار سعیٔ پیہم ہے،‘‘ اقبال نے اپنے شعر کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھا۔ ’’جب کوئی پوچھے فلاں آدمی کی عمر کتنی ہے تو جواب ملتا ہے اتنے سال یا اتنے مہینے، یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ جواب ایام یعنی سحر و شام کے شمار کا نتیجہ ہے۔‘‘ یہ وہی خیال تھا جسے ۱۹۱۰ء میں اپنی نوٹ بک میں بھی درج کر چکے تھے۔ ۷۹ یونیورسٹی کے پرچے جانچنے سے فرصت ہو گئی تھی اور خیال تھا کہ اب ’رموزِ بیخودی‘ مکمل کریں گے۔۶۰ ۸۰ ۱۸ مئی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا: زباں سے قلب پہ صوفی خدا کا نام لایا ہے یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے۶۱ ۸۱ کشن پرشاد کا خط آیا۔ معلوم ہوا خیریت سے ہیں اور ۱۴ اپریل کو کوئی خط لکھا تھا جو پہنچا نہیں۔ ’’گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا،‘‘ ۱۹ مئی کو جواب لکھتے ہوئے اقبال نے امام بخش ناسخ کا مصرعہ دہرایا۔ اُس برس لاہور میں مئی جون کی عام ناقابلِ برداشت لُو کی بجائے آسمان پر بادل چھائے رہتے تھے۔ صبح کے وقت خاصی سردی ہوتی تھی۔ ’’مغرب سے آفتاب نکلنے کا یہی مفہوم ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کا مطلع اور بلبلِ شوریدہ والی غزل کے تین اشعار کشن پرشاد کو بھیج دیے۔ ۸۲ ۲۰ مئی کو گرامی کے کسی عزیز نے کوئی عجیب و غریب بات اقبال سے کہی۔ ’’خط میں لکھنے کی نہیں ملاقات ہو گی تو عرض کروں گا، اتنا کہے دیتا ہوں کہ وہ بات آپ سے تعلق رکھتی ہے،‘‘اقبال نے اگلے روز گرامی کو لکھا جن کی طرف سے مدت ہوئی کوئی خط نہیں آیاتھا۔ اس کے بعد دریافت کیا کہ حیدرآباد سے کوئی خبر تو نہیں ملی۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی تقریظ کی یاددہانی کرو ا دی، ’’ایسا نہ ہو کہ آپ کی تقریظ کے لیے اس کی اشاعت کو روکنا پڑے۔‘‘ کسی اور خیال کے تحت ملا فِرِج اللہ ترشیزی کا وہ شعر بھی خط میں لکھا جس کا مطلب تھا کہ شراب بنانے والے نے جو انگور کا پانی بنایا ہے گویا ستارہ توڑ کر آفتاب بنا دیا ہے، ’’کیا اچھا شعر کسی استاد کا ہے‘‘: مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند آفتاب می سازند ۸۳ فوقؔ نے کشمیر کی سیر کرنے والوں کے لیے ایک رسالہ رہنمائے کشمیرلکھا تھا۔ اقبال اب تک کشمیر نہیں جا سکے تھے مگر رسالہ پسند آیا۔۶۲ ۸۴ ۸ جون کو فوقؔ کا خط ملا۔ ’اسرارِ خودی‘ منگوائی تھی۔ ’’کشمیر اور اہلِ کشمیر پر مختلف کتابیں لکھ کر آپ نے مسلمانوں پر اور اُن کے لٹریچر پر احسان کیا ہے البتہ کشامرہ کی قبر پرستی ایک ایسا مضمون ہے جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا،‘‘ اقبال نے اُسی وقت خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’اس طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘ فوقؔ کے رسالے رہنمائے کشمیر کی تعریف بھی کی اور بتایا کہ ’اسرارِ خودی‘ کی کوئی کاپی اب موجود نہیں ہے۔ مدتوں پہلے دوسرے اڈیشن کے لیے جو کاغذ خریدا تھا وہ نہ جانے کیا ہوا تھا کیونکہ فوقؔ کو لکھا، ’’ممکن ہے کہ دوسری ایڈیشن شائع ہو۔ ایسا ہوا تو سب سے پہلے ایک کاپی آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔‘‘ ۸۵ ترکی کا روایتی دشمن یونان جنگ میں شامل نہ ہوا۔ یونان کے بادشاہ قسطنطین کی ملکہ جرمن تھی ۔ اتحادی طاقتوں نے پہلے صرف دھمکیوں سے کام لیا مگر پھر یونانی بحری جہازوں کا راستہ روکنا شروع کر دیا۔ ۱۱ جون کو بادشاہ اپنے بیٹے کے حق میں تخت سے دست بردار ہو گیا اور متنازعہ طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم وینی زیلوس نے حکومت سنبھال لی۔ جنگ پر آمادہ تھا۔ ترکی کا سخت دشمن تھا۔ ۸۶ کشن پرشاد کا خط آیا۔ قرضہ چڑھ گیا تھا جس کا ذکر خط میں بھی کر دیا۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کی ججی والے معاملے کا کوئی ذکر نہ تھا البتہ اکبرؔ الٰہ آبادی کی زمین میں ایک مطلع لکھا تھا جو اقبال کوپسند آیا: شریعت کا طریقت کے لیے پیغام لایا ہے یہی اِک رازِ مخفی تھا جسے اسلام لایا ہے ۱۴ جون کو جواب میں لکھا کہ یہ شعر اکبرؔ کے مطلع سے کم نہیں۔ ’’ایک جہانِ معنی اس میں آباد ہے،‘‘انہوں نے لکھا۔ ’’آخر کیوں نہ ہو۔ اِن رموز کے جاننے والوں میں سرکارِعالی کا نمبر اوّل ہے۔ حیاتِ ملیہ کا راز اسی پیغام میں مخفی ہے۔ آپ نے خوب پہچانا۔‘‘ موسم کی عجیب حالت تھی کہ دوچار روز کی گرمی کے بعد کچھ بارش آ جاتی تھی اور ہوا میں کسی قدرخنکی پیدا کرجاتی تھی۔ موسمیات کے ماہرین بہت بارش کی پیشین گوئی کر تے تھے، ’’ہونی بھی چاہئے کہ خون کی بارش نے جو دھبّے چادرِ ہستی پر لگا دئیے ہیں وہ دُھل جائیں،‘‘ اقبال نے جنگِ عظیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔ کشن پرشاد کے مقروض ہونے کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ اُس فیاضی کا نتیجہ ہے جو انہیں بزرگوں سے میراث میںملی تھی۔ ’’اللہ تعالیٰ اس سے ضرور سبکدوش کرے گا۔‘‘ ۸۷ بشیرحیدر کو پوسٹ کارڈ بھیج کر فرمائش کی کہ گرامی کی خبر خیریت سے بھی آگاہ کریں مگر وہاں سے جواب نہیں آیا۔ شائد دورے پر تھے۔۶۳ ۸۸ انہی دنوں اورنگ آباد سے مولوی عبدالحق کا خط بھی آیا۔ اُس زمانے میں عبدالحق نے علمی اصطلاحات کی طویل فہرست اقبال کو بھیجی تھی کہ اُن کے اردو تراجم پر رائے دیں۔ ممکن ہے اسی خط میں بھیجی ہو۔۶۴ ۸۹ کوئی تاج محمد صاحب تھے جن سے اقبال کی خط کتابت تھی۔ ان سے معلوم ہوا کہ گرامی کی اہلیہ اقبال بیگم ترکؔ کی طبیعت اب ٹھیک ہے۔۶۵ ۹۰ جوانی کے زمانے کا وہ واقعہ نظم کیا جب گھر کے دروازے پر جم جانے والے ایک بھکاری پر چھڑی اُٹھائی تھی اور والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ یہ باب ’اخلاقِ محمدیہ‘ کے متعلق تھا۔ ایک مسلمان کی تربیت کا کمال یہ تھا کہ اُس کی سیرت و کردار آنحضورؐ کے رنگ میں رنگے جائیں۔ اب اُس عظیم الشان باب کی آمد ہوئی جو پوری کتاب کی جان بننے والا تھا۔ تراش خراش ہوئی اور نجانے کب تک ہوتی رہی۔ حتمی صورت جو کبھی سامنے آئی اُس کا عنوان ’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمین‘ تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کی کہ مجھ پر مغرب پرستی کا الزام لگایا گیا ہے۔ اگر میرے اشعار میں قرآن کے سوا کچھ ہے تو اپنی اُمت کو میرے شر سے محفوظ رکھیے اور قیامت کے دن مجھے اس سعادت سے محروم رکھیے کہ میں آپ کے قدم چوم سکوں۔ لیکن اگر میں نے قرآن کے معانی کو اپنے اشعار میں پرویا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ میرے عشق کو عمل سے ہم آہنگ کر دے۔ عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمین اے ظہورِ تو شبابِ زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی اے زمین از بارگاہت ارجمند آسمان از بوسۂ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب روئے تو ترک و تاجیک و عرب ہندوے تو از تو بالا پایۂ ایں کائنات فقر تو سرمایۂ ایں کائنات در جہان شمع حیات افروختی بندگان را خواجگی آموختی بے تو از نابودمندیہا خجل پیکرانِ ایں سراے آب و گل تا دم تو آتشے از گِل کشود تودہ ہاے خاک را آدم نمود ذرّہ دامن گیر مہر و ماہ شد یعنی از نیروے خویش آگاہ شد تا مرا افتاد بر رویت نظر از اب و ام گشتۂٖ محبوب تر عشق در من آتشے افروخت است فرصتش بادا کہ جانم سوخت است نالۂ مانندِ نے سامانِ من آں چراغ خانۂ ویرانِ من از غمِ پنہاں نگفتن مشکل است بادہ در مینا نہفتن مشکل است مسلم از سرِّ نبیؐ بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم بتخانہ شد از منات و لات و عزیّٰ و ہبل ہر یکے دارد بتے اندر بغل شیخِ ما از برہمن کافر تر است زانکہ او را سومنات اندر سر است رختِ ہستی از عرب برچیدۂِ در خُمستانِ عجم خوابیدۂِ شل ز برفابِ عجم اعضائے او سرد تر از اشکِ او صہبائے او ہمچو کافر از اجل ترسندۂ سینہ اش فارغ ز قلبِ زندۂ نعشش از پیشِ طبیباں بردہ ام در حضورِ مصطفیؐ آوردہ ام مردہ بود از آبِ حیواں گفتمش سرّے از اَسرارِ قرآں گفتمش داستانے گفتم از یارانِ نجد نکہتے آوردم از بستانِ نجد محفل از شمعِ نوا افروختم قوم را رمزِ حیات آموختم گفت بر ما بندد افسونِ فرنگ ہست غوغایش ز قانونِ فرنگ اے بصیری را رِدا بخشندۂِ بربطِ سلما مرا بخشندۂِ ذوقِ حق دہ ایں خطااندیش را اینکہ نشناسد متاعِ خویش را گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بحرفم غیر قرآن مضمر است اے فروغت صبحِ اعصار و دہور چشمِ تو بینندۂ ما فی الصّدور پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن ایں خیاباں را زخارم پاک کن تنگ کن رختِ حیات اندر برم اہلِ ملّت را نگہدار از شرم سبز کشتِ نابسامانم مکن بہرہ گیر از ابرِ نیسانم مکن خشک گرداں بادہ در انگورِ من زہر ریز اندر میٔ کافورِ من روزِ محشر خوار و رُسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا گر دُرِ اَسرارِ قرآں سفتہ ام با مسلماناں اگر حق گفتہ ام اے کہ از احسانِ تو ناکس کس است یک دعایت مزدِ گفتارم بس است عرض کن پیشِ خداے عزّوجل عشقِ من گردد ہم آغوشِ عمل دولتِ جانِ حزیں بخشندۂٖ بہرۂ از علمِ دیں بخشندۂٖ در عمل پایندہ تر گرداں مرا آبِ نیسانم گہر گرداں مرا رختِ جاں تا در جہاں آوردہ ام آرزوے دیگرے پروردہ ام ہمچو دل در سینہ ام آسودہ است محرم از صبحِ حیاتم بودہ است از پدر تا نامِ تو آموختم آتشِ ایں آرزو افروختم تا فلک دیرینہ تر سازد مرا در قمارِ زندگی بازد مرا آرزوئے من جواں تر می شود ایں کہن صہبا گراں تر می شود ایں تمنا زیرِ خاکم گوہر است در شبم تابِ ہمیں یک اختر است مدّتے با لالہ رویاں ساختم عشق با مرغولہ مویاں باختم بادہ ہا با ماہ سیمایاں زدم بر چراغِ عافیت داماں زدم برقہا رقصید گردِ حاصلم رہزناں بردند کالائے دلم ایں شراب از شیشۂ جانم نریخت ایں زرِ سارا زدامانم نریخت عقلِ آزر پیشہ ام زُنّار بست نقشِ او در کشورِ جانم نشست سالہا بودم گرفتارِ شکے از دماغِ خشکِ من لاینفکے حرفے از علم الیقین ناخواندۂِ در گمان آبادِ حکمت ماندۂِ ظلمتم از تابِ حق بیگانہ بود شامم از نورِ شفق بیگانہ بود ایں تمنا در دلم خوابیدہ ماند در صدف مثلِ گہر پوشیدہ ماند آخر از پیمانۂ چشمم چکید در ضمیرِ من نواہا آفرید اے ز یادِ غیرِ تو جانم تہی بر لبش آرم اگر فرماں دہی زندگی را از عمل ساماں نبود پس مرا ایں آرزو شایاں نبود شرم از اظہارِ او آید مرا شفقتِ تو جرأت افزاید مرا ہست شانِ رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز مسلمے از ماسوا بیگانۂ تا کجا زناّریٔ بتخانۂ حیف چوں او را سرآید روزگار پیکرش را دَیر گیرد در کنار از درت خیزد اگر اجزائے من وائے امروزم خوشا فرداے من فرّخا شھرے کہ تو بودی در آں اے خنک خاکے کہ آسودی در آں ’’مسکنِ یار است و شہرِ شاہِ من پیشِ عاشق ایں بود حُبُّ الوطن‘‘ کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایۂ دیوار بخش تا بیاساید دلِ بے تابِ من بستگی پیدا کند سیمابِ من با فلک گویم کہ آرامم نِگر دیدۂٖ آغازم، انجامم نِگر ۹۱ ۲۵ جون کو ’رموزِبیخودی‘ اپنے خیال میں ختم کر کے اس کے مضامین کی آخری ترتیب دینے بیٹھے تو خیال آیا کہ کتاب ختم نہیں ہوئی ہے۔ ’’یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دوتین ضروری مضامین باقی ہیں،‘‘ ان کا بیان ہے۔ یہ مضامین مسلمانوں کی قومی زندگی میں قرآن اور خانۂ کعبہ کی حیثیت سے متعلق تھے۔ ’’ایسے ایسے مضامین ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لیے موجبِ حیرت و مسرت ہوں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملّتِ اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے،‘‘ اقبال محسوس کر رہے تھے۔ ’’نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصولِ حقّہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرورِ ایّام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی۔‘‘۶۶ ۹۲ ۲۷ جون کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ تجویز کیا تھا کہ آم دردِ گردہ کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ باقی وہ بھی خیریت سے تھے اور گرامی بھی بلکہ گرامی جالندھر آنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ ’’کچھ عرصہ ہوا میں نے انہیں خط لکھا تھا مگر اُن کے لیے خط کا جواب لکھنا ایسا ہی ہے جیسے روس کا موجود حالت میں جرمنی سے لڑ سکنا،‘‘ اقبال نے اُسی وقت نیازالدین خاں کو جواب دیتے ہوئے لکھاکہ اگر ہو سکتا تو وہ خود ہشیارپور جا کر گرامی کی صحبت کا لطف اٹھاتے۔ ۹۳ عورت پر نسلِ انسانی کی بقا کا انحصار تھا۔ ملتِ اسلامیہ کے لیے ماں کا وجود اِس لیے بھی زیادہ اہم تھا کہ کسی جغرافیائی قومیت کی بجائے ایک نظریے پر قائم تھی۔ ہر نئی نسل کی تربیت اُس نظریے کی روشنی میں کرنا ضروری تھا۔ اُس کے بغیر ملت باقی نہ رہتی۔ چھ برس پہلے انگریزی نوٹ بک میں اور پھر ’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ والے انگریزی لیکچر میں اس کی وضاحت ہوئی تھی۔ اب ’امومت و ملت‘ ایک علیحدہ باب بن گیا۔ مسلمان خواتین کے لیے اسوۂ کاملہ بی بی فاطمۃ الزہرا ؓ تھیں۔ علیحدہ باب ہوا۔ ابھی مکمل نہ کر سکے۔۶۷ ۹۴ جھوٹے پیروں کے بارے میں کچھ اشعار تحریر کیے کہ عرس کو حج تصور کر کے گویا خانۂ کعبہ کی افادیت سے انکار کرتے ہیں اور ملتِ اسلامیہ کی جمعیت کو مجروح کرتے ہیں۔ ۶۸ ۹۵ ۲۸ جون کو فاطمۃ الزہرا والے اشعار میں سے دو شعر اور جھوٹے پیروں والے حصے کے کچھ شعر گرامی کو بھیجے۔ انہیں کشمیر کے سفر کی دعوت بھی دی کہ ممکن ہے خود بھی ساتھ چلیں۔ شاہجہاں کے زمانے کا فارسی شاعر غنی ؔ کشمیری اقبال کو کشمیری ہونے کے علاوہ اس وجہ سے بھی پسند تھا کہ مکان سے باہر جاتے ہوئے تالا کھول دیتا تھا اور جب اندر ہو تو تالا لگا لیتا تھا کہ گھر میں مجھ سے زیادہ قدروقیمت کی چیز اور کیا ہو گی جس کے لیے تالا لگایا جائے۔ اس کا ذکر کر کے لکھا کہ اس کی روح چاہتی ہو گی کہ گرامی جالندھری اس کے مزار پر آئیں۔۶۹ ۹۶ کوئی مجذوب جنہیں اقبال اور کشن پرشاد ایاک نعبدُ کہتے تھے فوت ہو گئے۔۷۰ ۹۷ کشن پرشاد کا خط آیا۔ کسی نے انہیں مشرک کہہ دیاتھا۔ اس کے جواب میں ایک فارسی مثنوی لکھ کر اصلاح کے لیے اقبال کو بھیجی اور تقریظ کی فرمائش کی۔ مجذوب ایاک نعبدُ سے دعا بھی کروانا چاہتے تھے۔ اقبال نے نظم شروع سے آخر تک پڑھ کر کہیں کہیں ترمیم کی اور صفحہ دس اور گیارہ کے بعض اشعار کے نیچے لکیر کھینچ دی جن کا شائع کروانا اُن کے خیال میں مناسب نہ تھا۔ شائد ان میں ’’شخصی عنصر‘‘ کچھ زیادہ ہو گیا ہو۔ چار اشعار کی تقریظ لکھی جس میں اُس حدیث کا حوالہ دیا کہ جس نے بھی لاالٰہ الاللہ کہا وہ جنت میں جائے گا خواہ یہ بات ابوذرؓ کو ناگوار گزرتی ہو۔ ’’ایاک نعبدُ تو کوچ کر گئے،‘‘ اقبال نے ۳۰ جون کو کشن پرشاد کے نام خط میں نظم کی تعریف اور ترمیم کی بحث کے بعد لکھا۔ ’’اب تو عرش کے قریب ہوں گے یا وہاں تک پہنچ گئے ہوں گے۔ ایک اور بزرگ لاہور کے قریب ہیں۔ ذرا بارش ہو تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر طالبِ دعا ہوں گا۔‘‘ ۹۸ ’’ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ مجھ سے فرمایا کہ اہلِ بیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات درکار ہیں،‘‘ اقبال کے دوست سید محمد علی جعفری کا بیان ہے جو لاہور میں اسلامیہ کالج میں پڑھاتے تھے۔ ’’میں نے اس سلسلے میں باقر داماد کی کتاب افق المبینکا حوالہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ انہوں [میر باقر داماد] نے اہلِ بیت کے کردار کو خوب پیش کیا ہے۔‘‘۷۱ ۹۹ امام حسین کے بارے میں ڈیڑھ شعر اور ذہن میں آیا۔ زندگی کے پہلو سے دو قوتیں سامنے آتی ہیں۔ موسیٰ فرعون کے مقابل اور حسین یزید کے مقابل ضرور آتے ہیں۔ سچ حسین کی قوت سے زندہ ہے۔ موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آیدپدید زندہ حق از قوتِ شبیری است بی بی فاطمہؓ کے بارے میں کوئی ایسا شعر لکھنا چاہتے کہ سو شعروں پر بھاری ہو مگر ذہن میں نہ آتا تھا۔ ایک بات سمجھ میں آئی کہ اگر احترام اور عزت رشتوں کی وجہ سے ہے (اور اقبال کے معاشرے میں عورتوں کا احترام عام طور پر اسی لحاظ سے کیا جاتا تھا)تو بی بی مریمؑ صرف حضرت عیسیٰؑ کی ماں ہیں مگر بی بی فاطمہ خدا کے رسولؐ کی بیٹی، شیرِ خداؓ کی بیوی اور حسن و حسین جیسے بیٹوں کی ماں ہیں۔اِس خیال کو نظم کیا۔ ۱۰۰ اَور تب ایک عجیب بات ہوئی۔ آیندہ صدیوں کے واقعات ذہن پر روشن ہونے لگے۔ حیران تھے کہ کس کس کو نوٹ کریں۔ اِرتقا ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی حیات شعلہ مزاج و غیور و شورانگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی سکوتِ شام سے تا نغمۂ سحرگاہی ہزار مرحلہ ہائے فعانِ نیم شبی کشا کشِ زم و گرما، تپ و تراش و خراش زخاکِ تیرہ دروں تابہ شیشۂ حلبی مقامِ بست و شکت و فشار و سوز و کشید میانِ قطرئہ نیسان و آتشِ عِنبی اِسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے رازِ تب و تابِ ملّتِ عربی ’’مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند‘‘۷۲ باب ۵ تقدیر کی محفل جولائی ۱۹۱۷ء سے اپریل ۱۹۱۸ء تک ۱ از اکبرؔ الٰہ آبادی عشق میں کیوں بیخودی مقصود ہے؟ حسن بیحد ہے، خودی محدود ہے منکشف ہو جائیں اَسرارِ خودی بیخودی کا بھی یہی دستور ہے۱ ۲ بنام گرامی لاہور۔ یکم جولائی ۱۷ء مخدومی جناب مولانا گرامی۔ السلام علیکم! نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ لاہور آنے کا قصد رکھتے ہیں، لیکن میرے مکان میں آسمان نظر نہیں آتا تو کیا مضائقہ ہے، آسمانوں کا بنانے والا تو اس مکان سے نظر آجاتا ہے۔ بہرحال آپ کو آسمان کا نظارہ مطلوب ہے تو اس کا انتظام آسانی سے ہو جائے گا۔ لاہور میں آخر ایسے مکان بھی ہیں جہاں سے آسمان دکھائی دیتا ہے۔ آپ تشریف لائیں تو ایک دو روز پہلے مطلع کریں۔ ایسا انتظام ہو جائے گا۔ دن بھر میرے پاس رہیے سونے کا انتظام وہاں کر دیا جائے گا۔ علی بخش رات کو آپ کی خدمت میں رہا کرے گا، مکان بھی قریب ہو گا۔ حیدرآباد والا معاملہ ابھی بدستور ہے یعنی اس میں خاموشی ہے۔ مہاراجہ کے خطوط آتے ہیں مگر ان میں کوئی اشارہ کنایہ اس بارے میں نہیں ہوتا۔ مجھے تو زیادہ تر خوشی اس وجہ سے ہے کہ آپ وہاں ہوں گے اور آپ کی صحبت میں مثنوی کی تکمیل میں آسانی ہو گی۔ دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے۔ مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصہ کا مضمون ہو گا ’’حیات مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصہ کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔ افسوس ہے فاطمہ زہرا کے مفصل حالات نہیں ملے۔ سیدہ خاتون زمانۂ حال کی مسلمان عورتوں کے لیے ایک اُسوۂ کاملہ ہے۔ مثنوی کے دوسرے حصہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ کوئی چبھتا ہوا شعر اب تک نہیں نکل سکا۔ فکر میں ہوں کہ کوئی شعر ایسا نکلے کہ مضمون کے اعتبار سے ایک سو شعر کے برابر ہو۔ ایسا گوہر نایاب ہاتھ آ گیا تو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ حضرت حسین کے متعلق جو اشعار لکھے تھے وہ آپ کو سنائے تھے۔ دیڑھ شعر اور ہے: موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید زندہ حق از قوتِ شبیری است دوسرے مصرع کے لیے بہت فکر کیا نہیں مل سکا۔ البتہ فاطمہ زہراؓکے متعلق ایک مضمون ذہن میں آیا ہے یعنی یہ کہ احترام و عزت اگر نسبتوں پر موقوف ہے تو مریم کو صرف ایک نسبت حاصل تھی یعنی یہ کہ وہ مسیح کی ماں تھی مگر فاطمہ: نورِ چشمِ رحمۃ اللعالمین آں امام اولین و آخرین آنکہ جاں در پیکر گیتی دمید روزگارِ تازہ آئیں آفرید زوجۂ آں تاجدار ھل اتیٰ مرتضیٰ مشکل کشا شیرِ خدا بادشاہ و کلبۂ ایوان او یک حسام و یک زرہ سامان او مادرِ آں کارواں سالارِ عشق رونق ہنگامۂ بازارِ عشق در نوائے زندگی سوز از حسینؓ اہلِ حق حریت آموز از حسینؓ یہ مصرع ’’رونق ہنگامۂ بازارِ عشق‘‘ کھٹکتا ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ نے مثنوی کی تقریظ کی بھی فکر کی ہے یا نہیں؟ بیگم گرامی صاحبہ کو آداب۔ والسلام! مخلص محمد اقبال ۳ نویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا۔ حرم شریف میں داخل ہوتے ہوئے ایک شخص نے دیکھا کہ پھٹے پرانے اور گندے کپڑے پہنے ایک شخص بھیک مانگ رہا ہے۔ اُس کے دل میں خیال آیا کہ ایسے لوگ دوسروں پر بوجھ ہیں۔ اُسی لمحے بھیک مانگنے والے نے اُس کی طرف دیکھا اور قرآن شریف کی آیت پڑھی جس کا مفہوم تھا، ’’جان لو کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، سو تم اُس سے ڈرو۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ شخص اپنے دل میں توبہ کرنے لگا اور خدا سے اپنے خیالات کی معافی چاہی۔ تب اُس بھکاری نے اُسے دوبارہ پکارا اور وہ آیت پڑھی جس کا مفہوم تھا، ’’وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، گناہ معاف کرتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘ بھکاری نے جس شخص کو راہ دکھائی وہ بغداد کے عالم ابوسعید احمد بن عیسیٰ الخرّاز تھے جن کے بارے میں علی ہجویری (داتا گنج بخش)نے کشف المحجوب میں لکھا تھا کہ فنا اور بقا کے اعتقادات پر سب سے پہلے انہی نے قلم اٹھایا۔ اُن کی کتاب الفَرَج تصوف کے موضوع پر پہلی کتاب تھی۔ اقبال اس کتاب سے پہلے بھی ضرور واقف رہے ہوں گے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں کبھی اس پر دوبارہ غور کرنے کا موقع ملا۔۲ خرّاز نے کہا تھا کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کو اُس کی متضاد صفات کے درمیان تطبیق کرکے پہچانا (جس طرح اقبال نے اپنی شخصیت کے تضادات کے درمیان خودی کی وحدت تلاش کر کے اپنے آپ کو پہچانا تھا)۔ اس کتاب کو تصوف کی ابتدا تسلیم کرتے ہوئے مرحلہ وار آگے بڑھنے سے تصوف کی پوری تاریخ بدل جاتی۔ سمجھا جا سکتا تھا کہ خرّاز کے نزدیک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ انسان کس طرح ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی متضاد صفات کے درمیان وحدت تلاش کرنے کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں اپنی شخصیت میں بھی وہ وحدت ہاتھ آ سکتی تھی جسے خرّاز جو کچھ بھی کہتے رہے ہوں، اقبال نے خودی کا نام دیا تھا۔۳ ۴ اقبال نے گرامی کے نام خط میں مستقبل کی تاریخ لکھنے کا ارادہ جو ظاہر کیا تھا اُس کا تعلق اِس بات سے بھی تھا کہ اقبال کے نزدیک شاعری محسوسات نہیں بلکہ مشاہدات کے اظہار کا ذریعہ تھی۔ یہ مشاہدات تحصیلِ حاصل نہ تھے۔ ہر دَور کے شاعر کے سامنے کچھ نئے مشاہدات آتے تھے جو دُوسروں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے۔ تیرہ برس پہلے یورپ جانے سے بھی ایک سال پیشتر ’تصویرِ درد‘ میں کہا تھا: سنے ہیں اہلِ محفل نے فسانے حال و ماضی کے مرے نالوں میں استقبال کی تفسیر ہوتی ہے اُس کے سات برس بعد ۱۹۱۱ء میں ’دعا‘ میں خدا سے کہا: محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے اگلے ہی برس ’شمع اور شاعر‘ میں شمع سے کہلوایا: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اُس کے چار برس بعد شائع ہونے والی ’اَسرارِ خودی‘ کی تمہید یہی تھی کہ مستقبل کے پھول اُن کی جھولی میں ہیں اور وہ آنے والے زمانے کے شاعر کی آواز ہیں: من نوائے شاعرِ فرداستم گویا اب جو مستقبل کے واقعات نگاہوں کے سامنے آ رہے تھے یہ نئی بات نہ تھی۔ سلسلہ پہلے سے جاری تھا۔ اب مزید واضح ہو گیا۔ اِسے لکھنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ اُس تحریر کو خاص وقت پر دُنیا کے سامنے آنا تھا جو شاید اُن کی موت کے بعد تھا۔ یہ اہتمام کیسے کیا جا سکتا تھا اور ہوا یا نہیں، علیحدہ سوال ہے۔۴ بہرحال ہر تصنیف میں دعویٰ دہرایا گیا۔ بقیہ زندگی میں جو کچھ کہا اُس میں سنائی دینے والا تھا: کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں آنے والے دَور کی دھندلی سی اِیک تصویر دیکھ حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے عکس اُس کا مرے آئینۂ ادراک میں ہے عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیرِ تقدیر خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نَو کی تصویر کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اِتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی ۵ دیوداس کا تعلق اونچی ذات کے ہندو زمیندار گھرانے سے تھا۔ شہر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر گاؤں کی لڑکی پاروتی سے محبت کی جو تجارت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ دیوداس کے ماں باپ اِس رشتے پر تیار نہ ہوائے۔ پاروَتی کی ماں نے پاروَتی کا رشتہ زیادہ دولتمند اور عمررسیدہ آدمی کے ساتھ کر دیا۔ پاروَتی گھر سے بھاگ کر دیوداس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی مگر دیوداس کمزور پڑ گیا۔ بعد میں آمادہ ہوا۔ تب پاروَتی نے انکار کر دیا مگر وعدہ لیا کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور واپس آئے گا۔ شہر جا کر دیوداس نے شراب کا سہارا لیا۔ طوائف چندرمکھی کو اُس سے محبت ہو گئی۔ بیمار پڑا۔واپس آیا۔ پاروَتی کے گھر کی دہلیز پر جان نکلی۔ گھر والوں نے پاروَتی کو دہلیز عبور کرنے سے روک دیا۔ یہ ناول سرت چندر چٹوپڑھیے نے سولہ برس پہلے لکھا تھا۔ اِس برس موسمِ گرما میں شائع ہوا۔ اس رومان میں نوجوانوں نے جس طرح کشش محسوس کی وہ صرف عجیب بات نہ تھی۔ پراَسرار بھی تھی۔ مولانا نظامی گنجوی کے قیس کی طرح دیوداس نے بھی محبت میں دنیا چھوڑی۔ قیس نے صحرا میں پڑاؤ ڈالا۔ دیوداس کے لیے شہر ہی صحرا تھا جہاں وہ اجنبی تھا۔ ۶ ۳ جولائی کو آنکھ کھلتے ہی ویسا شعر ذہن میں آیا جس کی فکرکئی دن سے تھی۔ بی بی فاطمہ کے بارے میں یہ کہہ کر کہ اُن کے آنسو عرش پر شبنم کی طرح برستے تھے واقعی ایک شعر کو سو شعروں کے برابر کیا جا سکتا تھا: گریۂ شب ہائے آں بالانشیں ہم چو شبنم ریخت بر عرشِ بریں البتہ اس میں بالانشیں کا لفظ کھٹک رہا تھا۔ ’’لیجئے آپ بھی کہیں گے کہ اس نے خطوں کا تانتا ہی باندھ دیا،‘‘ انہوں نے اُسی روز گرامی کو لکھا اور تازہ شعر درج کر دیا۔ ’’اب آپ جانیں اور آپ کا کام، میں نے مضمون پیدا کر دیا۔‘‘ بہرحال خط لکھنے کے بعد کسی وقت یا انہی دنوں میں اس شعر کی بہتر صورت نکل آئی یعنی یہ کہا جائے کہ حضرت جبریلؑ بی بی فاطمہ کے آنسو زمین سے چن لیتے تھے اور عرش پر شبنم کی طرح برساتے تھے: اشکِ اُو برچید جبریل از زمیں ہم چو شبنم ریخت بر عرشِ بریں اب فکر تھی کہ بی بی فاطمہ کے بارے میں عام طور پر جو روایات موجود تھیں وہ ذاتی اوصاف کے بارے میں تھیں مگر بیٹی، بیوی یا ماں کے طور پر بی بی فاطمہ کی زندگی اقبال کے پیشِ نظر تھی۔ اطاعت گزاری یا اولاد کی تربیت کے بارے میں کسی معنی خیز اور دل پر اثر کرنے والی روایت کی تلاش تھی۔۶ ۷ ۶ جولائی کو گرامی کا خط ملا۔ ان کی تجویز تھی کہ جب بی بی فاطمہؓ کے حسن اور حسین کی ماں ہونے کی نسبت بیان کریں تو لفظ مادر دونوں مصرعوں میں آئے۔ عرشِ بریں والے شعر میں بھی کوئی ترمیم کی تھی مگر اب اس کی ضرورت نہ تھی چنانچہ اقبال نے اسی وقت جواب میں شعر کی نئی صورت تحریر کر دی اور لکھا کہ واقعی لفظ مادر دونوں مصرعوں میں آنا چاہئے وہ اس نکتے کو خوب سمجھتے ہیں۔ دو اور اشعار لکھے، کشن پرشاد کی نظم کا ذکر کیا اور اپنی تقریظ گرامی کو بھی بھیجی، ’’اگر لاہور کا قصد حقیقت میں ہے تو آچکیے۔ یہاں سے جالندھر چلیں گے۔ وہاں آپ کو لنگڑا بھی مل جائے گا اور کالنگڑا بھی۔‘‘ کالنگڑا سے راگ مراد تھا۔ موسیقی کی محفل کی طرف اِشارہ معلوم ہوتا ہے۔ ۸ جولائی کے مخزن میںاقبال کے مضمون ’قومی زندگی‘ کی پہلی قسط دوبارہ شائع ہوئی۔ پہلی دفعہ اکتوبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔۷ ۹ حیدرآباد دکن سے سر اکبر حیدری کا خط آیا۔ پوچھا تھا کہ اگر وہاں قانون کی پروفیسری کرنی ہو مگر وکالت کرنے کی اجازت بھی ہو تواقبال کیا تنخواہ لیں گے۔ ۱۰ جولائی کو اقبال نے گرامی کو خط میں لکھا کہ حیدری صاحب کے ایک خط کے بارے میں مشورہ کرنا ہے۔ مضمون ان کے لاہور آنے پر بتائیں گے۔ ’’چونکہ توقع آپ کی تشریف آوری کی ہے اس واسطے زبانی مشورہ کروں گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اگر ارادہ آنے کا نہ ہو تو لکھئے۔‘‘ اس کے بعد اکبر حیدری کو خط لکھ کر پوچھا کہ وہ اگست میں بلانا چاہتے ہیں یا ستمبر میں اور بہتر ہو گا کہ سب باتیں وہیں آنے پرہوں۔ ۱۰ کوئی مولوی فرید احمد نظامی تھے جنہوں نے غالباً اقبال کی اردو نظموں کے بارے میں دریافت کیا۔ ’’افسوس ہے کہ مجموعہ ابھی تک تیار نہیں ہوا،‘‘ اقبال نے ۱۳ جولائی کو انہیں ایک سطر کا جواب بھیجا۔ ۱۱ امرأ القیس عرب کا مشہور شاعر تھا جو اِسلام سے قریباً چالیس برس پہلے گزرا تھا۔ آنحضورؐ نے اُس کے بارے میں فرمایا، ’’وہ شاعری میں سب سے بڑھا ہوا ہے اور جہنم کی طرف اُن کا رہنما۔‘‘ ایک اور مشرک شاعر عنترہ کا کلام آنحضورؐ کے سامنے پڑھا گیا تو آپؐ نے فرمایا، ’’کبھی کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اُس کی ملاقات کا شوق پیدا نہیں کیا لیکن سچ کہتا ہوں کہ اِس شعر کو لکھنے والے کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتا ہے۔‘‘جو شعر پڑھا گیا تھا اُس کا مفہوم تھا، ’’میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں رزقِ حلال کے قابل ہو سکوں۔‘‘ Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry History has preserved some of the criticisms of our Prophet on contemporary Arabian poetry. But two of these criticisms are most profitable to Indian Muslims whose literature has been chiefly the work of the period of their national decadence, and who are now in search of a new literary ideal. One of these criticisms indicates to us what should not be and the other what it should be. 1. Of the poet Imra-ul-Qais who flourished about 40 years before Islam, our Prophet is reported to have said: اشعرالشعرأ وقائدھم الی النار "He is the most poetic of all poets and their leader to Hell." Now what do we find in the poetry of Imra-ul-Qais? Sparkling wine, enervating sentiments and situations of love, heart-rending moans over ruins of habitations long swept away by stormy winds, superb pictures of the inspiring scenery of silent deserts - and all this is the choicest expression of old Arabia. Imra-ul-Qais appeals more to imagination than to will, and on the whole acts as a narcotic on the mind of the reader. The Prophet's criticism reveals this most important art-principle - that the good in art is not necessarily identical with good in life; it is possible for a poet to write fine poetry, and yet lead his society to Hell. The poet is essentially a seducer; woe to his people, if instead of making the trials of life look beautiful and attractive he embellishes decadence with all the glories of health and power, and seduces his people to extinction. Out of the richness of his nature he ought to lavish on others something of the super-abundance of life and power in him, and not steal away, thief-like, the little they already happen to possess. 2. Again the following verse of Antra of the tribe of Abs was read to our Prophet: و لقد ابیت علی المظوی واظنہ حتی انبل بہ کریم الکامل "Verily I pass through whole nights of toil to merit a livelihood worthy of an honourable man." ـThe Prophet whose mission was to glorify life and to beautify all its trials was immensely pleased, and said to his companions: "The praise of an Arabian has never kindled in me a desire to see him, but I tell you I do wish to meet the author of this verse." Imagine the man, a single look at whose face was a source of infinite bliss to the looker desiring to meet an infidel Arab for his verse! What is the secret of this unusual honor which the Prophet wished to give the poet? It is because the verse is so healthful and vitalizing, it is because the poet idealizes the pain of honourable labour. The Prophet's appreciation of this verse indicates to us another art-principle of great value - that art is subordinate to life, not superior to it. The ultimate end of all human activity is Life-glorious, powerful, exuberant. All human art must be subordinated to this final purpose and the value of everything must be determined in reference to its life-yielding capacity. The highest art is that which awakens our dormant will-force, and nerves us to face the trials of life manfully. All that brings drowsiness and makes us shut our eyes to reality around - on the mastery of which alone life depends - is a message of decay and death. These should be no opium-eating in Art. The dogma of Art for the sake of Art is a clever invention of decadence to cheat us out of life and power. Thus the Prophet's appreciation of Antra's verse gives us the ultimate principle for the proper evaluation of all arts. New Era (Lucknow), July 1917۸ ۱۲ اقبال نے گرامی کو لکھ دیا تھا کہ دونوں مصرعوں میں لفظ مادر استعمال کرنے کے نکتے کو خوب سمجھتے ہیں مگر جب شعر لکھنے بیٹھے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اُس وقت کیا سمجھے تھے۔ بہرحال اس اشارے سے فائدہ اٹھایا: مادرِ آں مرکزِ پرکارِ عشق مادرِ آں کارواں سالارِ عشق بعد کے اشعار میں اس رعائت سے امام حسنؓ اور امام حسینؓ دونوں کا ذکرکیا کہ ایسے بیٹوں سے جن کے اوصاف یہ ہیں ماں کی تربیت کا اندازہ کرنا چاہئیے کہ اس ماں کی آغوش میں کیا تاثیر تھی جس میں ایسے بچوں کی پرورش ہوئی۔ مگر اس بات کو سمیٹنے کے لیے کوئی مناسب شعر اُس وقت ذہن میں نہ آیا۔۹ ۱۳ علی بخش دوچار روز میں عید منانے ہشیارپور جانے والا تھا۔ انہی دنوں گرامی کا جواب آیاجس میں غالباً اکبر حیدری والے معاملے میں کوئی رائے تھی جو اقبال کو مناسب معلوم ہوئی۔ ۱۶ جولائی کو کشن پرشاد کو خط لکھ کر پوچھا کہ کیا تقریظ پسند آئی تھی؟ اکبر حیدری کی دعوت پر اگست یا ستمبر میں حیدرآباد آنے کے ارادے کا ذکر کیا۔ اکبر حیدری کی پیشکش کے بارے میں کچھ سوچ کر یہی فیصلہ کیا کہ کشن پرشاد کو خط میں نہ لکھیں اور ملاقات ہو تو زبانی مشورہ کریں۔ ’’چیف کورٹ لاہور بھی بند ہونے والا ہے اور میرا دل بھی چند روز کی آوارگی چاہتا ہے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’کیا سرکار بھی ان مہینوں میں حیدرآباد میں قیام فرما ہوں گے یا کہیں اور تشریف لے جانے کا قصد ہے۔‘‘ ’’چونکہ شائد مجھے اگست میں ہی حیدرآباد جانا پڑ جائے اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو چار روز کے لیے لاہور آجائیں،‘‘ اُسی روز گرامی کو لکھا اور کہا کہ علی بخش عید کے بعد لاہور واپس آئے تواُس کے ساتھ آ سکتے ہیں۔ بی بی فاطمہؓ کے بارے میں نئے اشعار بھیجے اور فرمائش کی کہ کوئی اشارہ دیں کہ کس طرح اس مضمون کو ایک شعر میں ادا کیاجائے کہ امام حسن ؓ اور امام حسینؓ کے اوصاف سے ان کی ماں کی تربیت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ ۱۴ ۱۷ جولائی کو آسٹن چیمبرلین کی جگہ ایڈوِن سیموئیل مونٹیگو وزیرِ ہند بنے۔ لبرل پارٹی اور یہودی مذہب سے تعلق تھا۔ ۱۵ محسوس ہو رہا تھا کہ عید پر علی بخش کی ضرورت رہے گی لہٰذا اُس کا ہشیارپور جانا عید کے بعد پر ٹھہرا۔ شیخ عمر بخش وکیل جو کانگریسی تھے اور ہر روز فجر کی نماز داتا گنج بخش کے مزار پر پڑھتے تھے ان کا بھتیجا عید کے بعد ہشیارپور سے واپس آنے والا تھا چنانچہ اقبال نے سوچا کہ گرامی اگر علی بخش کے ساتھ نہ آ سکیں تو اس کے ساتھ آسکتے ہیں۔ گرامی کا خط آیا تو انہوں نے کچھ چیزوں کی فرمائش کی تھی کہ لاہور سے خرید کر بھیج دی جائیں وہ قیمت ادا کردیں گے۔ ۱۹ جولائی کو جواب میں اقبال نے لکھا کہ چیزیں علی بخش کے ہاتھ بھیج دی جائیں گی اور جب وہ واپس آئے تو وہ بھی اس کے ساتھ آ سکتے ہیں یا شیخ عمر بخش کے بھتیجے کے ساتھ آ جائیں۔ ۱۶ ’’ایک لطیفہ بھی سن لیجیے،‘‘ اقبال کے شاگرد اور ہم زلف خواجہ فیروزالدین بیرسٹر کہتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے ایک ملازم گھر کے کام کاج کے لیے رکھا تھا۔ اُس کا نام عاشق تھا اور گجرات کا رہنے والا تھا۔ دو دن کام کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ پوچھا، ’بھائی کیا بات ہے؟‘ اس نے کہا ’یہاں کی ہر چیز نرالی ہے۔ دھوبی ہی کو لے لیجیے۔ آٹا کپڑا دو جب لے لیتا ہے، دو پیسے دو جب لے لیتا ہے، کچھ نہ دو جب لے لیتا ہے۔‘ ڈاکٹر صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور خصوصاً آخری فقرے کی بہت تعریف کی۔‘‘۱۰ ۱۷ اس برس لاہور میں گرمی دیر سے آئی مگر شدت کے ساتھ آئی۔ مئی کے درمیان تک جو بادل چھائے رہا کرتے تھے اب ان کا نشان نہیں تھا۔ وہ بہت سی بارش جس کی پیشین گوئی موسمیات کے ماہرین نے کی تھی کم سے کم لاہور پر ابھی تک نہ ہوئی تھی۔ ۱۱ ۱۸ Islam and Mysticism [Excerpt] Our birth as a society repudiating the ideas of race and language as principles of social reconstruction, was due only to our subjecting ourselves to a system of law believed to be Divine in its origin; yet the old Mystic frankly held and secretly preached it to be merely Phenomenal; nothing more than an outer husk of the real which is to be attained by means other than the Law of God. In most cases the observance of the Law, even though held to be Phenomenal, was retained to avoid social odium; but no student of Moslem thought and literature can deny that the tendency to ignore the Law - the only force holding together Moslem Society - was the direct consequence of a false Mysticism born of the heart and brain of Persia. The New Era (Lucknow), July, 1917۱۲ ۱۹ عید پر کشن پرشاد کی طرف سے عیدکارڈ ملا۔۱۳ عید کے بعد علی بخش ہشیارپور گیا تو گرامی کی منگوائی ہوئی چیزیں بھی اس کے ہاتھ بھجوا دیں۔۱۴ ۲۰ فوقؔ کی کتاب مشاہیرِ کشمیر غالباً ان کے ادارے کے کسی شخص نے بھیجی۔ ۲۶ جولائی کو اقبال نے جوابی رقعہ میں رسید سے مطلع کیا اور فوقؔ کو سلام بھیجا۔ ۲۱ کشن پرشاد نے کچھ تقریظیں اقبال کو بھیجیں۔ انہوں نے ۲۷ جولائی کویہ کہہ کر واپس کیا کہ ان میں بیرسٹرانہ اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔ نجانے کیا مطلب تھا۔ حیدرآباد کے سفر کے بارے میں لکھا کہ حیدری صاحب کے آنے پر کوئی تاریخ مقرر کرکے کشن پرشاد کو خبر دیں گے اور جس روز وہاں پہنچیں گے ’’اُسی روز آستانۂ شاد کا طواف ہو گا۔‘‘ جس سلسلے میں یہ سفر ہو رہا تھا اس کے بارے میں لکھا کہ وہیں پہنچ کر مشورہ کریں گے۔ ’’مجھے یقین ہے کہ سرکار اپنی جبلی فراست سے بہت حد تک معلوم کر گئے ہوں گے کہ کیا امر ہے،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’میری ذاتی قوتِ فیصلہ ناتواں ہے اس واسطے شاد کی رائے صحیح سے استمداد ضروری ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ بارش نہیں ہوئی، لاہور آتش کدۂ آذر بن رہا ہے مگر اِس آتش کدہ کا مصنف لطف اللہ نہیں بلکہ قہراللہ ہے۔‘‘ اِس جملے میں مشہور مصنف لطف اللہ کی تصنیف آتش کدہ کی طرف اشارہ تھا۔ آخر میں عیدکارڈ کا شکریہ اور گزشتہ عید سرکار کو بھی مبارک ہو کہہ کر لکھا، ’’میں روزے رکھتا ہوں مگر عید کے احساسِ مسرّت سے محروم۔‘‘ ۲۲ Muslim Democracy The Democracy of Europe - overshadowed by socialistic agitation and anarchical fear - originated mainly in the economic regeneration of European Societies. Nietzsche, however, abhors this "rule of the herd", and, hopeless of the plebeian he bases all higher culture on the cultivation and growth of an Aristocracy of Supermen. But is the plebeian so absolutely hopeless? The Democracy of Islam did not grow out of the extension of economic opportunity, it is a spiritual principle based on the assumption that every being is a centre of latent power the possibilities of which can be developed by cultivating a certain type of character. Out of the plebeian material Islam has formed men of the noblest type of life and Power. Is not, then, the Democracy of early Islam an experimental refutation of the ideas of Nietzsche? The New Era, July 28,1917۱۵ ۲۳ محمد علی جناح کے بارے میں سروجنی نائیڈو کی انگریزی کتاب ہندو مسلم اتحاد کا سفیر (An Ambassador of Hindu-Muslim Unity) شائع ہوئی۔ لقب مشہور ہو گیا۔ اُنہی دنوںنائیڈو کی انگریزی نظموں کی کتاب بھی چھپی تو بعض پڑھنے والوں نے سمجھا کہ رومانی نظمیں بھی جناح سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ سروجنی نائیڈو نے مجموعہ شکستہ پر (Broken Wing) اقبال کو بھی بھیجا۔ انہوں نے فارسی کے تین اشعار میں تاثرات کا اظہار کیا کہ اُٹھیے اور پر کھولیے کہ اس رنگ و خوشبو کی جلوہ گاہ میں پرواز سے بیزار ہونے والا پرندہ نہیں ہو سکتا۔ مرقع (لکھنؤ) میں اگست میں شائع ہوئے: خیز و پر زن کہ دریں جلوہ گہِ نکہت و رنگ طائرے نیست کہ پرواز گرانست اُو را۱۶ ۲۴ علی بخش واپس آگیا۔ گرامی کی خیریت کی خبر لایا انہیں ساتھ نہ لا سکا۔ ۱۷ ۲۵ اکبرحیدری سے طے ہوا کہ اقبال یکم ستمبر کو لاہور سے روانہ ہوں گے کیونکہ اگست کے دوسرے اور تیسرے ہفتے اکبر حیدری مدراس جانے والے تھے اور اگست کے تیسرے ہفتے وہاں سے واپسی تھی۔۱۸ ۲۶ معلوم ہوتا ہے کہ کشن پرشاد نے اقبال کو لکھا کہ وہ اکبر حیدری والے معاملے کی تفصیل سے انہیں آگاہ کریں اور اس کے جواب میں اقبال نے تفصیل لکھ بھیجی۔ یہ خط کتابت اگر ہوئی تو اب موجود نہیں ہے۔۱۹ ۲۷ Nietzsche and Jalal-ud-Din Rumi Comparisons, they say, are odious. I want, however, to draw your attention to a literary comparison which is exceedingly instructive and cannot be regarded as odious. Nietzsche and Maulana Jalal-ul-Din Rumi stand at the opposite pole of thought; but in the history of literature and thought it is the points of contact and departure which constitute centres of special interest. In spite of the enormous intellectual distance that lies between them these two great Poet-Philosophers seem to be in perfect agreement with regard to the practical bearing of their thought on life. Nietzsche saw the decadence of the human type around him, disclosed the subtle forces that had been working for it, and finally attempted to adumbrate the type of life adequate to the task of our planet. "Not how man is preserved, but how man is surpassed," was the keynote of Nietzsche's thought. The superb Rumi-born to the Moslem world at a time when enervating modes of life and thought, and an outwardly beautiful but inwardly devitalising literature had almost completely sucked up the blood of Moslem Asia and paved the way for an easy victory for the Tartar-was not less keenly alive than Nietzsche to the poverty of life, incompetence, inadequacy and decay of the social-body of which he formed a part and parcel. See with what unerring insight he describes the corroding disease of his society and suggests the ideal type of Moslem manhood: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود، جُستہ ایم ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست The New Era (Lucknow), August 1917۲۰ ۲۸ ۶ اگست کو مولانا جامی کے مطلع پر نظر پڑی کہ سونے کی بالیوں سے جس کے کان بھاری ہیں اُس پر جگر خوں کئے ہوئے عاشقوں کی آہ و فریاد کا کیا اثر ہو سکتا ہے: آن کہ از حلقہ ٔ زر گوش گران است اُو را چہ غم از نالۂ خونین جگران است اُو را بہت فکر کی کہ ایسا کوئی مطلع نکال سکیں مگر نہ ہو سکا البتہ اسی زمین میں دو فرد اشعار کہنے میں کامیاب ہوگئے کہ اگر بت کو بولنے کی طاقت مل جائے تو وہ بتائے گا کہ اسے ہندو بچوں سے کیا شکایت ہے۔ اے خدا! پھولوں کے لٹنے سے نرگس پرکیا گزر رہی ہے کہ اس کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں مگر ہاتھ شل ہو گئے ہیں: بازگوید صنم ار تابِ مقالش بخشند گلہ ہائے کہ ز ہندوپسران است اُو را یارب از غارتِ گل بردلِ نرگس چہ گزشت دستِ بے طاقت و چشمِ نگران است اُو را۲۱ ۲۹ گرامی کسی بات پر ناراض تھے جس کی تفصیل معلوم نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے چیزیں منگواتے ہوئے جو لکھا تھا کہ قمیت ادا کر دی جائے گی تو اُس میں اقبال کو بیگانگی محسوس ہوئی تھی اور عادت تھی کہ کوئی بے تکلف دوست تکلف برتے تو دکھاوے کی سردمہری سے پیش آ کر بدلہ لیں جس طرح انگلستان سے واپسی پر فوق کے ساتھ پہلی ملاقات میں کیا تھا۔ ’’اشیا کی قیمت کے لیے جو آپ نے لکھا ہے میں تسلیم کرتا ہوں کہ غلطی ہے مگر اس غلطی کے ذمہ دار آپ ہیں نہ میں،‘‘ اقبال نے ۷ اگست کو گرامی کی شکائت کے جواب میں لکھا۔ ’’اتنی یگانگت کے ہوتے ہوئے ایک دوست کو ایسا لکھنا ٹھیک نہ تھا۔‘‘ ۳۰ ۸ اگست کو ستارۂ صبح کا پہلا شمارہ نکلا۔۲۲ ظفر علی خاں نے کرم آباد میں نظربندی کی حالت میں سینسر کی نگرانی میں نکالا تھا۔ آنحضورؐ کے ادبی تبصرے کے بارے میں اقبال کا انگریزی مضمون جو جولائی میں نیو ایرا میں شائع ہوا تھا، اُس کا اُردو ترجمہ ’رسول اللہ صلعم شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘ کے عنوان سے شامل ہوا۔ اقبال کی مثنوی کے دوسرے حصے کے کچھ اشعار ترجمے کے ساتھ علیحدہ مضمون کی صورت میں شائع کیے۔ ھن لباس لکم و انتم لباس لھن (رموزِ بیخودی کا ایک باب) ظفر علی خاں [اقتباس] ۔۔۔ایک لباس وہ ہے جس کی بہترین شکل تن کی عریانی بتائی گئی ہے کہ ع یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں اُلٹا سیدھا۔ عربوں کی اصطلاح میں صنفِ لطیف کو بھی ’’لباس‘‘ کہتے تھے جس کی تلمیح رسمی لباس سے تو ظاہر ہی ہے۔ ’’تن کی عریانی‘‘ والا لباس بھی کچھ اسی پر پھبتا ہے اور فرزدق نے عبداللہ بن زبیر کے واقعہ میں اس بنا پر صنفِ لطیف کو ’’لباسِ عریانی‘‘ سے تشبیہ دی تھی۔ ترجمان اسلام لسان توحید [ڈاکٹر اقبال] نے مثنوی اسرار خودی کے دوسرے حصہ میں جو ہنوز زیرِ تالیف ہے، اس لباسِ لطیف کی جھالر میں نئے موتی ٹانکے ہیں اور جنسِ نازک سے نہایت حکیمانہ بحث کی ہے جس کے جستہ جستہ اقتباسات نذرِ اہلِ نظر ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ نغمہ کوش از زخمہ زن سازِ مرد از نیازِ او دوبالا نازِ مرد عورت ہی تو ہے جس کی وجہ سے مردوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور ان میں نغمہ سنجی کی شان آتی ہے۔۔۔ ستارۂ صبح (کرم آباد)، ۸ اگست ۱۹۱۷ئ۲۳ ۳۱ اقبال کے نزدیک جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ لامحدود کس طرح محدود ہو جاتا ہے۔ پھر خودساختہ تضادات کے امتزاج سے اپنے آپ کو دوبارہ حاصل کر لیتا ہے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی خواہ اس فلسفے سے واقف نہ رہے ہوں مگر ایک شعر میں یہی بات کہہ گئے تھے: جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں Touch of Hegelianism in Lisan-ul-Asr Akbar [Excerpt] The special feature of Akbar, however, is that in a few simple and well-chosen words he reveals to you not only the conflict, but also the cause (i.e. Limitation of the Limitless) which has generated it. And in the words عقل and عقیدہ he further suggests that this conflict is not limited to the material Plane (عنصر) only, but extends itself to the mental plane as well. In [Samuel] Alexander's well-known book Moral Order and Progress you will find how our ideas, ideals, beliefs and modes of life are constantly engaged in a quiet bloodless, fight, and how they displace, kill and absorb one another. The New Era (Lucknow), August 1917۲۴ ۳۲ ۱۴ اگست کو کشن پرشاد کی طرف سے رجسٹرڈ خط ملا۔ ان کی رائے میں قانون کی پروفیسری پرائیویٹ پریکٹس کے ساتھ ترقی کا زینہ تھی۔ حیدرآباد ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کی کرسی کے لیے امید دلائی تھی کہ شائد خالی ہو جائے۔ ’’اگر ایسا ہو جائے تو میں اُسے قانون کی پروفیسری اور پرائیویٹ پریکٹس پر ترجیح دوں گا،‘‘ اقبال نے اسی روز جواب دیتے ہوئے لکھا اور درخواست کی کہ اگر حیدری صاحب سے ملاقات ہو تو اگر مناسب خیال کریں تو اُن کی توجہ اس طرف دلائیں۔ ’’بہرحال یہ سب کچھ سرکار کی رائے پر منحصر ہے۔ اقبال خواہ لاہور میں خواہ حیدرآباد میں خواہ مرّیخ ستارے میں وہ غیرمحسوس روحانی پیوند جو اُس کو سرکار سے ہے انشأ اللہ العزیز قائم رہے گا۔ نہ وقت اسے دیرینہ کر سکتا ہے نہ تعلقات اسے کمزور کر سکتے ہیں۔‘‘ ۳۳ ۱۸ اگست کو شیخ عمر بخش سے معلوم ہوا کہ گرامی نے ہشیارپور میں مشہور کیا ہے کہ اقبال کو حیدرآباد میں ملازمت مل گئی ہے یا ملنے والی ہے۔’’ یہ خبر بالکل غلط ہے، مہربانی کر کے ایسی غلط اور بے سروپا بات کی تشہیر نہ کیجئے،‘‘ انہوں نے اُسی وقت گرامی کو خط لکھا اور بتایا کہ ایک دفعہ پہلے ظفر علی خاں کے ہاتھوں ایسی خبر مشہور ہونے سے ان کے کاروبار کا نقصان ہو چکا ہے۔ ۳۴ ’رکنِ اول توحید‘ والے باب کو دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ کوئی بھی قوم اپنے آئین سے ہٹ کر زندہ نہ رہ سکتی تھی۔ ملتِ اسلامیہ کا آئین قرآن تھا۔ انحطاط کے زمانے میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔ کم نظر عالموں کے اجتہاد سے بہتر اسلاف کی پیروی ہے۔ اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط زاجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر ’آئینِ اسلامیہ قرآں‘ ایک اور باب ہوا۔ ۳۵ زندگی میں ٹھہراؤ بھی دراصل کسی حرکت کا سامان ہی ہوتا ہے۔ ہر قوم کو ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی مرکز اُس کی نشو و نما کا ضامن ہوتا ہے۔ مسلم قوم کا مرکز کعبہ ہے (جس کی مرکزیت ۲۱ جون کو شریفِ مکہ کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی تھی)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل سے یروشلم چھن گیا تو وہ کہیں کے نہ رہے۔ مسلمان ایسے انجام سے بچنا چاہتا ہے تو اُسے نیازمندی پیدا کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کا کعبہ کے طواف سے متحد ہونا اور اس مرکزِ توحید کا قوم کے دل کی کیفیات کو ایک کر دینا ایک شعر میں ادا ہو گیا کہ کعبہ ایک سورج کی طرح ہے اور اس کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ملتِ بیضا ایک قفس کی مانند: ملّتِ بیضا زطوفش ہم نفس ہم چُو صبح آفتاب اندر قفس کعبہ کے طواف کا نظارہ اور مسلمانوں کا اس کا محافظ ہونا بھی اس استعارے میں چھپا ہوا تھا۔ لفظ بیضا کے برمحل استعمال پر بھی خوش تھے۔ اس باب کا عنوان ’بیت الحرام مرکزِ جماعتِ اسلامیہ‘تھا۔۲۵ ۳۶ ۲۰ اگست کو نئے وزیرِ ہند لارڈ مونٹیگو کی طرف سے بیان جاری ہوا، ’’ملک معظم کی حکومت کی یہ پالیسی ہے اور حکومت ہند اِس سے متفق ہے کہ ہر شعبے میں ہندوستانیوں کو ترقی کے ساتھ شریک کیا جائے اور حکومت خوداختیاری کی تنظیمات کو اس نظر سے بتدریج بڑھایا جائے کہ سلطنت برطانیہ کے جزو لاینفک کی حیثیت سے، رفتہ رفتہ ہندوستان میں ذمہ دار حکومت قائم ہو۔‘‘۲۶ ۳۷ گرامی کا خط آیا ۔لکھا تھا کہ اقبال کے حیدرآباد جانے سے دو روز پہلے تاج محمد کے ساتھ لاہور آ جائیں گے اور اس کے بارے میں شائد تاج محمد کو آمادہ بھی کر لیا تھا۔ اقبال نے بی بی فاطمہؓ والے نئے اشعار جو بھیجے تھے اُن میں رنگ اور شمیم کے الفاظ پر کوئی تبصرہ کیا تھا اور حیدرآباد کے بارے میں رائے دی تھی کہ اگر چیف جسٹس یا نظام کا چیف سیکرٹری بننے کا موقعہ ملے تو منظور کر لیں۔ ’’بھلا میں تو آپ کی طبیعت سے واقف ہوں اور آپ کی وعدہ خلافیوں کا عادی ہو چکا ہوں بیچارے تاج محمد نے آپ کا کیا قصور کیا ہے کہ اُس کو یہ امید دلا دی ہے کہ اکٹھے لاہور چلیں گے؟وہ بزرگ پہلے بھی آپ کے زخم خوردہ ہیں،‘‘ اقبال نے ۲۲ اگست کو گرامی کو لکھا۔’’خوب میرے حیدرآباد جانے سے دو روز پہلے آنے کا قصد ہے لیکن میں تو اپنے دل میں امید نہیں پیدا کرتا کیونکہ آپ نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ کون تاریخ جاؤں گا۔ بہرحال میں خود بتا دیتا ہوں۔ میں یہاں سے ۳۰ اگست کی رات کو جاؤں گا۔ خط آپ کا بڑے شوق سے کھولا تھا کہ کچھ اشعار کے متعلق ہو گا مگر دیکھا تو سوائے اس کے کہ رنگ و شمیم محاورہ ہیں اور کچھ نہ نکلا۔ یہ تومجھے بھی معلوم تھا آپ نے میری معلومات میں کیا اضافہ کیا؟‘‘ حیدری صاحب کے کسی خط کا تقاضا کیا جو گرامی کو آیا تھا اور انہوں نے بھیجنے کا اقبال سے وعدہ کیا تھا۔ کشن پرشاد کی رائے بتائی کہ انہیں بھی اتفاق ہے حالانکہ اُن سے گرامی کی رائے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ ’’اِس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نظام کا چیف سیکرٹری ہو تو گرامی وزیراعظم ہونے کے قابل ہے یا کم از کم معزول شدہ وزیر یا پیشکار۔‘‘ طوافِ کعبہ والا شعر خط میں لکھا، ’’اچھا ہو تو داد دیجئے۔‘‘ ۳۸ لکھنؤ میں نیو ایرا کے مالک اور مدیر راجہ غلام حسین بازار میں نکلے تھے۔ کسی بگڑے ہوئے گھوڑے نے ٹکر مار دی۔ ۲۵ اگست کو ہسپتال میں انتقال کر گئے۔۲۷ ابھی مرنا نہ تھا غلام حسین کوئی دن اور بھی جیے ہوتے محمد علی (جوہرؔ) ۳۹ گرامی کے بارے میں سنا تھا کہ جالندھر گئے ہیں مگر بابو رحمت اللہ کے مکان سے جہاں وہ ٹھہرتے تھے کہیں اور چلے گئے ہیں چنانچہ نیازالدین خاں کو لکھا مگر معلوم ہوا کہ گرامی بابو رحمت کے مکان ہی پر ہیں اور بہن مسماۃ فجاں فضل بی بی کے خلاف خاندانی مکان سے بے دخلی کا مقدمہ شروع کر رکھا ہے۔ خط آیا تو اس میں مثنوی کی تقریظ کے اشعارموجود تھے مگر اکبرحیدری کے خط کے بارے میں کہا تھا کہ اپنے ساتھ لاہور لائیں گے۔ شائد کچھ اشارہ کیا تھا کہ حیدرآباد میں جو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کرنے کا منصوبہ بن رہا ہے حیدری صاحب اس میں اقبال کی رائے لینا چاہتے ہیں۔ اقبال چوکنّے ہو گئے کہ کہیں ملازمت کی بات نکال کر حیدری صاحب صرف یونیورسٹی میں مشورے کی غرض سے اتنا لمبا سفر کروا رہے ہوں۔ سمجھتے تھے کہ یونیورسٹی قائم ہونے میں بہت عرصہ لگے گا بلکہ حیدرآباد میں ایک گروہ جس طرح اس کی مخالفت کر رہا تھا اُس کی وجہ سے شاید قائم ہی نہ ہو سکے۔ کشن پرشاد کے جذبِ دل کو ہٹا کر سوچ کے دروازے کھولے۔ چیف جسٹس کی کرسی تو خالی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر کبھی ہوئی بھی تو مناسب امیدوار ریاست ہی میں کم نہ ہوں گے۔ ایک گمنام خط حیدرآباد سے موصول ہوا کہ ہم تو دعا کر رہے ہیں مگر بعض آدمی جو بظاہر آپ کے دوست ہیں حقیقت میں آپ کے یہاں آنے پر خوش نہیں۔ لکھنے والا اکبر حیدری کا مخالف معلوم ہوتا تھا۔۲۸ ۲۹ اگست کی شام کو بخار آیا اور ایک دو روز بعد پیچش۔ ہفتہ بھر تکلیف میں مبتلا رہے۔ سفر ملتوی کرنا پڑا۔۲۹ ۴۰ ۳ستمبر کو گرامی کو خط لکھا کہ تقریظ خوب ہے مگر اشعاربہت کم ہیں اور مثنوی کے پہلے حصے کے لیے زیادہ موزوں ہوتے۔ ’’دوسرے حصے میں جو اب شائع ہوگا حیاتِ ملّیہ یعنی اجتماعی زندگی کے اصول پر بحث ہے اور خالص اسلامی نکتۂ خیال سے،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’میرا مقصدکچھ شاعری نہیں بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوںمیں وہ احساسِ ملّیہ پیدا ہو جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اِس قسم کے اشعار لکھنے سے غرض عبادت ہے کہ شہرت ہے۔ کیا عجب کہ نبیٔ کریمؐکو میری یہ کوشش پسند آ جائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعۂ نجات ہو جائے۔‘‘ حیدرآباد والے خط کو ساتھ لاہور لانے کے وعدے پر اقبال نے لکھا، ’’اس پیش گوئی کے لیے کہ گرامی لاہور کبھی نہ آئے گا کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں۔ جالندھر اور ہشیارپور کا ہر شیرخوار بچہ بلاتامل ایسی پیش گوئی کر سکتا ہے۔‘‘یونیورسٹی اور چیف ججی کے بارے میں اپنے خدشات ظاہر کر کے لکھا، ’’یونیورسٹی چلانے کے لیے آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمی وہاں پر موجود نہیں۔ جو آدمی وہاں پر موجود ہیں وہ اپنے ذاتی مفاد کی غرض سے اپنے سے قابل تر اور زیادہ کارکن آدمیوں کو حیدرآباد میں نہ گھسنے دیں گے۔‘‘گمنام خط کا بھی ذکر کیا۔ ’’بہرحال ایک مدّت سے اقبال اپنے سارے معاملات خدا کو سونپ چکا ہے اور اپنے آپ کو محض ایک لاش جانتا ہے جس کی حس و حرکت خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ ۴۱ ۷ ستمبر کو اکبر حیدری کو بیماری کا حال لکھ بھیجا۔ پھرکشن پرشاد کو لکھا، ’’ڈاکٹر صاحب ایک ہفتہ تک اجازت نہیں دیتے اور میں نے بھی صحت کے خیال سے یہ بہتر سمجھا ہے کہ سفرِ حیدرآباد ملتوی کر دوں یہاں تک کہ معاملۂ معلومہ خط کتابت سے طے ہو جائے سو آج حیدری صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا ہے اور جو مشورہ سرکار نے بکمالِ عنایت دیا تھا اُسی کے مطابق میرے عریضے کا مضمون ہے۔‘‘ سرکار کا مشورہ تو یہ تھا کہ ملازمت قبول کر لیں نجانے اکبر حیدری کے نام خط میں کیا لکھا تھا اور کیا سمجھ رہے تھے۔ اکبر حیدری کو خط ملا توانہوںنے کیا سوچا یہ معلوم نہیں۔ ۴۲ اکبر حیدری کا تار آیا۔چاہتے تھے کہ اقبال آئیں۔ اِنہوں نے تار دیا کہ ستمبر میں نہیںآسکتے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں آئیں گے۔ حیدرآباد سے اور خطوط بھی آئے۔ نہیں معلوم اُن میں کیا تھا مگر وہاں جانے کا شوق پہلے سے بھی کم ہو گیا۔۳۰ ۴۳ اکبر حیدری کا تار پھر آیا۔ روانگی کی تاریخ پوچھی تھی۔ اقبال نے جواب بھیجا کہ گیارہ اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ ۳۱ ۴۴ ظفر علی خاں کو لاہور آنے جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ منسوخ شدہ زمیندار کے دفتر میں ٹھہرے۔ ’’رات کا وقت تھا،‘‘روزنامہ زمیندار کے نوجوان صحافی عبدالمجید سالک کا بیان ہے۔ ’’دفتر کی چھت پر مولانا کے چند عقیدت مند اور دوست جمع تھے۔ ڈاکٹر اقبال بھی ملنے کے لیے آ گئے تھے۔ شعرخوانی اور لطیفہ بازی کا ہنگامہ تھا۔‘‘ سالک کے بیان کے مطابق یہاں اقبال نے وہ چند اشعار ترنم سے سنائے جو اورنگزیب کی شان میں فارسی میں لکھے تھے۔۳۲ ۴۵ اقبال کے لیے سب سے پہلے علامہ کا لقب کب استعمال ہوا؟ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال ستارۂ صبح کی ۲۰ ستمبر کی اشاعت میں یہ لقب موجود تھا۔ جواہرریزے حضرت علامہ اقبال کے بعض اشعار کی تفسیر ظفر علی خاں [اقتباس] لاہور آنے کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ گاہے ماہے لسان توحید علامہ اقبال سے نیاز حاصل ہو جاتا ہے اور ان کی حکیمانہ پھلجڑیاں طبیعت کے انقباض کو جو کثرتِ کار اور ہجومِ افکار کا نتیجہ ہے، مبدل بہ انشراح کر دیتی ہیں۔ دو ایک دن ہوئے علامہ ممدوح سے حسب معمول نیاز حاصل ہوا۔ ہم نے کہا کچھ تازہ فکر کی ہو تو فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مولانا جامی کے ایک مرصع مطلع پر ایک شعر وارد ہوا ہے سن لیجئے۔ پہلے آپ نے یہ مطلع پڑھا۔ آنکہ از حلقہ زر گوش گرانست او را چہ غم از نالہ خونیں جگرانست او را کون ہے جو اس بے مثل مطلع کر پڑھ کر سر نہ دھنے گا۔۔۔ کہ وہ شوخ بے پروا جس کے کانوں میں سونے کی بالیاں پڑی ہوئی ہیں کہ ان بالیوں کے بوجھ سے اس کے کان دہرے ہوئے جاتے ہیں (یا بارعایت معنوی بہرے ہوئے جاتے ہیں) ان خونیں جگر عشاق کی آہ و بکا کو کب خاطر میں لانے لگا تھا جو اس پر مٹے ہوئے ہیں اس لیے کہ اس کی بے نیازی کی کفیل اس کی گراں گوشی ہو چکی ہے۔ ۔۔۔اب اقبال کا شعر ملاحظہ ہو فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں۔ سر کند بت اگرش طاقتِ گفتار دہند گلہ ہائے کہ زہندو پسرانست اُو را اس میں توحید کا ایک نہایت ہی لطیف نکتہ مضمر ہے۔۔۔ کاشی اور سومنات کے صنم خانوں میں معبودانِ ہند کے سنگین ہونٹوں پر ازل سے سکوت کی جو مہر لگی ہوئی ہے اُس کا نقش ہزارہا سال ہوئے، عراق کے ایک ساحلی شہر کے بت کدہ میں بھی مرتسم تھا اور آذر کی صنعت گری نے اس کے ارتسام میں اپنا کمال دکھایا تھا۔ دینِ حنیف کا وہ وحیدالعصر موسس، لقبِ مسلم کا وہ سب سے پہلا حقدار، ابراہیمؑ جس پر خدا تعالیٰ کی سو سو رحمتیں ہوں، ایک دن صنم کدے میں گیا۔۔۔ ایک تبر لے کر تمام بتوں کا سر توڑ ڈالا اور صنم شکنی کی اولیت کا یہ شرف حاصل کرنے کے بعد تبر کو سب سے بڑے بت کے گلے میں ڈال دیا۔ جب پجاری آئے اور انہوں نے اپنے دیوتاؤں کی یہ حالت دیکھی تو ابراہیمؑ سے غضب ناک ہو کر پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ابراہیم نے تعریضِ منزہ کے اُس لہجے میں جو بعض دفعہ بلاغت کی جان ہوتا ہے اور جو مذہب کی تاریخ میں اِس موقع سے زیادہ کامیابی کے ساتھ کبھی نہیں برتا گیا، جواب دیا کہ مجھ انسان ضعیف البنیان سے کیا پوچھتے ہو اپنے اس سب سے بڑے خدا سے پوچھو، اگر اس میں نطق ہے تو بتا دے گا کہ بت شکن کون ہے؟ ۔۔۔ابراہیم نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ جن سنگین لعبتوں کو خود تمہارے ہاتھوں نے تراشا ہے اُن کو کیوں پوجتے ہو۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارے مصنوعات کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اُس کی پرستش کیوں نہیں کرتے؟ بت کو اگر طاقتِ گفتار دی جاتی تو وہ جناب خلیل اللہ کا ہم صفیر ہو کر یہی گلہ گزاری کرتا۔ اقبال کا شعر ایک کوزہ ہے جس میں توحید کا یہ دریا بھر دیا گیا ہے۔ فافہم ۲۰ ستمبر ۱۹۱۷ئ، ستارۂ صبح (کرم آباد)۳۳ ۴۶ ایک مقدمہ ملا جس کے لیے ۱۵ اکتوبر تک لاہور میں رکنے کی ضرورت تھی۔ اکبرحیدری کو خط لکھ دیا کہ اب ۱۵ اکتوبر کے بعد لاہور سے چلیں گے۔ ۳۴ ۴۷ اقبال کے شاگرد میاں محمد اسلم جنہیں چند برس پہلے اقبال نے مشورہ دیا تھا کہ نظم کی بجائے بامقصد افسانے لکھنے پر توجہ دیں، اَب ایم اسلم کے نام سے سامنے آئے تھے۔ مسکیٹیرز یا یارانِ وفاکیش [ایم اسلم کے ابتدائیے سے اقتباس] ۔۔۔یوں تو ہندوستان میں بھی ناول نویسی نے بہت کچھ رواج پا لیا ہے۔ اور بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے ناول نویس پیدا کئے ہیں۔ اور پھر اُردو زبان کی ملاحت اور لطافت کچھ ایسی چیز ہے کہ ناول خواہ کیسا ہی ہو طبیعت اس کے پڑھنے کو خواہ مخواہ للچا ہی جاتی ہے۔ کچھ ہندوستانی اہل قلم نے انگریزی زبان کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مگر ترجمہ میں بھی وہی طرز ہے جو خاص ہندوستانی مذاق ہے۔ عشق و الفت کی داستان میں میرے محترم ہموطن کچھ ایسی جولانی اور زورِ قلم دکھاتے ہیں کہ بس وہ ان ہی کا حق ہے۔ اور بدقسمتی سے لوگوں کا مذاق ہی کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ حسن و الفت کی فرضی داستان کے سوا اور کچھ پسند ہی نہیں۔ شکر ہے کہ چیدہ چیدہ اصحاب نے اس مذاق کے بدلنے کی خوب کوشش کی ہے اور جو کچھ اُن کے قلمِ گوہربار سے نکلا ہے اُس نے قبولیتِ عام کی سند حاصل کر لی ہے۔ یورپ میں ناول نویسی کا مذاق بھی ہے۔ اور یہ ایک بڑا فن بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا طرزِ تحریر بالکل نرالا ہے۔ زندگی کے ہر ایک پہلو کی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ تواریخی واقعات کو ناول کے پیرایہ میں پیش کیا جائے۔ زمانہ کے نشیب و فراز کا عکس اتارا جائے پڑھنے والے کی طبیعت میں وارفتگی اور بیخودی پیدا کر دی جائے۔ ہر ایک مصنف کا طرزِ تحریر دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے مگر افسوس ہندوستان والوں کو یہ بات بہت کم نصیب ہوتی ہے۔ آج جس ناول کا ترجمہ میں نے پیش کرنے کی جرأت کی ہے اس کے مصنف کا نامِ نامی الگزنڈر ڈیوماز [Alexander Dumas]ہے اور کتاب کا نام تھری مسکیٹیرز (Three Musketeers)ہے۔۔۔ مخزن، اکتوبر ۱۹۱۷ء ۴۸ حکومت نے اَب تک علی برادران کی گرفتاری کی وجہ نہ بتائی تھی۔ محمد علی جناح نے مرکزی قانون ساز کونسل میں سوال اُٹھایا۔ حکومت کو جواب دینا پڑا، ’’اُنہوں نے بادشاہ سلامت کے دشمنوں سے ہمدردی کا اظہار اور پرچار کیا تھا۔‘‘ پہلا موقع تھا کہ حکومت اس معاملے میں زبان کھولنے پر مجبور ہوئی تھی۔ الزام بے بنیاد تھا۔ عوام کی نظروں میں علی برادران کا مقام زیادہ بلند ہو گیا۔ ۴۹ پروفیسرصلاح الدین برنی شائد اردو شاعری کا انتخاب شائع کرنے والے تھے جس میں اقبال کی نظمیں شائع کرنے کی اجازت مانگی۔ ’’مجھے کیونکر اجازت میں تامل ہو سکتا ہے،‘‘ اقبال نے ۲ اکتوبر کو لکھا۔ ’’مگر آج کا زمانہ ہندوستان میں اور طرح کا ہے۔ اس کی نبض شناسی ضروری ہے۔ اگر آپ میری نظموں کے متعلق مجھ سے مشورہ کریں تو شائد بہتر ہوگا۔یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کے خیال میں کون سی نظمیں اس مجموعے میں آنی چاہئیں تورائے دے سکوں۔‘‘ ۵۰ معلوم ہوا کہ گرامی ایک دفعہ پھر جالندھر آئے ہوئے ہیں۔۳۵ ۵۱ عیدالاضحی پر کشن پرشاد کی طرف سے عیدکارڈ ملا جس کا اقبال فوراً جواب نہ دے سکے۔ ۵۲ ظفر علی خاں نے ستم ڈھایا۔ عنوان فارسی میں تھا جس کا مطلب تھا کہ ہمیں ابن عربی کی فصوص الحکم پر نہیں بلکہ شریعت کے نصوص پر توجہ کرنی چاہیے۔ یہ مجدد الف ثانی ؒ کا قول تھا۔ ما را نص باید نہ فص ظفر علی خاں [اقتباس] ابن عربی پر اگر علامہ اقبال نے یا ہمیں نے نکتہ چینی کی ہوتی تو جناب خواجہ حسن نظامی کی طریقت مابی کو ہم پر بگڑنے کا پورا حق حاصل تھا کہ یہ نااہل ان رمزوں کو کیا جانیں۔ اسی طرح اگر علمائے امت کی طرف سے فصوص الحکم پر اعتراض ہوں تو جناب خواجہ صاحب ابرو پر بھی بل ڈال سکتے ہیں اور فرما سکتے ہیں کہ عالمِ ظاہر جدا ہے اور عالمِ باطن الگ ہے۔ شریعت کی سطحی آنکھ، طریقت کے عمیق غوامض تک نہیں پہنچ سکتی۔ یہ عتاب ہمارے سرآنکھوں پر۔ لیکن کیا فرمائیں گے جناب خواجہ حسن نظامی خود اُن صوفیائے کرام کے باب میں جنہوں نے محی الدین ابن عربی کے عقائد سے علانیہ بیزاری کااظہار کیا ہے اور ایسے سخت اور درشت الفاظ میں صاحبِ فصوص الحکم پر جرح کی ہے کہ ہم نے تو اُس کا دسواں حصہ بھی نہیں لکھا؟ ۳ اکتوبر، ستارۂ صبح (کرم آباد) ۵۳ اقبال کا بیان ہے کہ انہوں نے ظفر علی خاں سے کہا کہ ستارۂ صبح میں تصوف والی بحث نتیجہ خیز نہیں اور اس سے عوام ہی کو نہیں بلکہ خواص کو بھی دلچسپی نہیں ہے۔ ظفر علی خاں نہیںمانے۔۳۶ جواہرریزے رموزِ بیخودی کے بعض اشعار کی تفسیر ظفر علی خاں [اقتباس] ۔۔۔مولانا جامی نے بھی اس خیال کو اپنے رنگ میں خوب ظاہر کیا ہے۔ بندہ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست لیکن اقبال کی پروازِ تخیل زیادہ بلند ہے۔ جامیؒ نے محض ایک حقیقت بیان کر دی تھی کہ عشق ذات کو نہیں پوچھا کرتا اور نسب کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ اقبال نے اس حقیقت کا ثبوت بھی دیا ہے اور بتایا ہے کہ عشق کے روئے دل آرام کو مشاطۂ نسب کی کیوں حاجت نہیں اور ثبوت کیسا لطیف ہے کہ نسب کا تعلق تو صرف کالبدِ خاکی سے ہے جو بے اعتبارِ محض ہے لیکن عشق پیوندِ جان ہے جو حقیقتِ اصلی ہے۔ پھر اس کا رشتہ نسب کے مقابلہ میں کیوں نہ استوار تر ہو۔ ستارۂ صبح، ۴ اکتوبر ۱۹۱۷ء ۵۴ ۵ اکتوبر کو اکبر حیدری کا خط آیا کہ ممکن ہو سکے تونومبر میں آئیں۔ نومبر میں فرصت نہیں تھی۔ حیدرآباد جانے کاارادہ ہی ختم کر دیا۔ ۳۷ ۵۵ شیخ نورمحمد تین روز بعدکچھ دنوں کے لیے لاہور آنے والے تھے جب ۶ اکتوبر کو اقبال کو گرامی کا خط ملا۔اسی روز جواب لکھتے ہوئے حیدرآباد نہ جانے کی مختصر روداداور اپنے شبہات کا اشارہ دیا، ’’مفصل گفتگو آپ سے اس وقت کروں گا جب آپ لاہور تشریف لاویں گے۔‘‘ شیخ نور محمد کے گرامی سے ملنے کے شوق کا ایک دفعہ پھر ذکر کر کے کہا، ’’اگر آپ اُن سے ملنے کے لیے دوچار یوم کے لیے آجائیں تو بہت اچھا ہو۔‘‘ اسی روز کشن پرشاد کو عید کارڈ کا شکریہ اور حیدرآباد جانے کا ارادہ ملتوی ہونے کے بارے میں گول مول سا خط لکھا، ’’غرض کہ اقبال کی عید ابھی نہیں آئی کیونکہ یہ تو اس روز آئے گی جب آستانۂ شاد پر اس کا گزر ہو گا۔‘‘ اکبر حیدری کو بھی لکھ دیا کہ عدالتیں کھل جانے کی وجہ سے طویل سفر کرنے میں آمدنی کا نقصان ہے۔ اس کے بعدکافی عرصہ اکبر حیدری کا کوئی خط نہیں آیا۔۳۸ ۵۶ کشن پرشاد کا خط بھی پہنچ گیا اور شائد انہوں نے بھی حیدرآباد آنے کی تاکید کی تھی۔ جہاندیدہ تھے، جانتے تھے کہ کچھ نہ کچھ دوڑدھوپ کئے بغیر کامیابی حاصل ہونا محال ہے۔ ’’سرکار نے جو کچھ لکھا ہے بالکل بجا اور درست ہے لیکن گرما کی تعطیلوں میںحیدرآباد کا سفر آسان تھا اور اب یہ سفر تقریباً دو ہزار روپیہ کے نقصان کا مترادف ہے،‘‘ اقبال نے ۷ اکتوبر کو جواب دیتے ہوئے اکبرحیدری اور اپنے درمیان سفر کی تاریخیںتبدیل ہونے کی پوری تفصیل لکھ دی۔ یہ بھی لکھا کہ اکبر حیدری نے ملازمت کی کوئی خاص اُمید دلائی نہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یونیورسٹی پر مشورہ کرنے اور’’محض تفنّن ِ طبع کے لیے‘‘ بلاتے ہیں۔ اس کے بعد کشن پرشاد کی طرف سے بھی بہت عرصہ کوئی خط نہیں آیا۔ ۵۷ بظاہر کچھ لگتا ہے کہ اقبال ہی نے پہلے اکبر حیدری کو منع کیا تھا کہ ملازمت کی تفصیل خط میں نہ لکھیں۔ زبانی آ کر پوچھ لیں گے۔ بعد میں ناراض ہو گئے کہ کوئی خاص امید دلائے بغیر سفر کیوں کروا رہے ہیں۔ ۵۸ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے انگریز ایسے ڈرے تھے کہ عدالتیں بھی ہندوستانیوں کے آپس کے جھگڑوں میں اُن کے رسم و رواج کا خیال رکھتی تھیں۔ گرامی کے دوست سید صفدر علی شاہ بھی کسی ایسے ہی مقدمے میں الجھے ہوئے تھے چنانچہ اقبال کو خط لکھ کر معلوم کیا کہ ان کے معاملے میں رواج کیا کہتا ہے۔ ’’رواج ہر ضلع بلکہ ہر گاؤں کا مختلف ہوتا ہے،‘‘ اقبال نے ۱۱ اکتوبر کو گرامی کے نام خط میں لکھا کہ سید صفدر نے جو رقعہ لکھا ہے اس سے ان کا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ ’’البتہ بعض بعض جگہوں اور قبائل کے رواج کے متعلق چیف کورٹ نے فیصلہ جات کر دئے ہیں وہ اُن کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔‘‘ پنجاب کے عام رواج پر سب سے مستند کتاب جسٹس ریٹیگن کی تھی جن کے نام پر لاہور کی ریٹیگن روڈ تھی۔ اس کی قیمت سولہ روپیہ درج کر کے اقبال نے لکھا کہ اُن کے خیال میں صفدر شاہ کو اس سے فائدہ نہ ہو گا بلکہ انہیں کسی وکیل سے مشورہ کرنا چاہئے کہ ان کے ضلع یا قصبے کے رواج کے متعلق چیف کورٹ کا کوئی فیصلہ پہلے سے موجود تو نہیں ہے۔’’اگر فیصلہ موجود نہ ہوا توپھر فیصلہ فریقین کی شہادتِ زبانی و تحریری پر ہو گا۔‘‘ ۵۹ کسی موقعے پر گرامی نے اقبال کو کوئی گولیاں دی تھیں۔ ۱۳ اکتوبر کو اقبال نے انہیں استعمال کرنے کا طریقہ اور پرہیز کے بارے میں دریافت کیا۔ ۶۰ ’رموزِ بیخودی‘ ختم ہونے میں چند اشعار کی کسر تھی۔ آمد ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔۳۹ ۶۱ خط انگریزی میں ٹائپ کیا ہوا تھا۔ سیکرٹری خارجہ نے دستخط کر دیے۔ مشرقِ وسطیٰ کا امن مدّتوں کے لیے خطرے میں پڑ گیا۔ Foreign Office, November 2nd, 1917. Dear Lord Rothschild, I have much pleasure in conveying to you, on behalf of His Majesty's Government, the following declaration of sympathy with Jewish Zionist aspirations which has been submitted to, and approved by, the Cabinet: "His Majesty's Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object, it being clearly understood that nothing shall be done which may prejudice the civil and religious rights of existing non-Jewish communities in Palestine, or the rights and political status enjoyed by Jews in any other country". I should be grateful if you would bring this declaration to the knowledge of the Zionist Federation. Yours sincerely Arthur James Balfour یعنی مفہوم یہ تھا: دفتر ِ خارجہ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء ڈئر لارڈ روتھس چائلڈ، میں بہت مسرت کے ساتھ ملک معظم کی حکومت کی طرف سے یہودی صیہونی امنگوں سے ہمدردی کا مندرجہ ذیل اعلان آپ تک پہنچا رہا ہوں جو کابینہ کے سامنے پیش ہو کر اُس کی طرف سے منظور ہوا: ’’ملک معظم کی حکومت یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک قومی آبادی کے قیام کی حمایت کرتی ہے اور اور اس مقصد کے حصول میں مدد کرنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں صرف کرے گی واضح طور پر یہ سمجھ کر کہ کوئی ایسی چیز نہ کی جائے گی جس کی وجہ سے فلسطین میں اِس وقت موجود غیریہودی برادریوں کے شہری اور مذہبی یا کسی دوسرے ملک میں اِس وقت یہودیوں کو حاصل شدہ حقوق اور سیاسی حیثیت منفی طور پر متاثر ہوتے ہوں۔‘‘ میں شکرگزار ہوں گا اگر آپ یہ اعلان صیہونی وفاق کے علم میں لے آئیں۔ آپ کا مخلص آرتھر جیمز بالفور کابینہ میں بحث ہوئی تھی۔ مشکل یہ تھی کہ شریف ِ مکہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کا علاقہ ترکوں سے لے کر عربوں کے حوالے کیا جائے گا اور اِسی لالچ میں عرب ترکوں کا خون بہانے پر آمادہ ہوئے تھے۔ بہرحال فاتح اقوام ہارنے والی قوم کے اُن غداروں پر ترس نہیں کھاتیں جن کی وجہ سے فتح نصیب ہوئی ہو۔ شریف ِمکہ اِسلام کا غدار تھا۔ ۶۲ ۴ نومبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ اُنہوں نے ’اسرارِ خودی‘ کے بارے میں کسی پنڈت چھجو رام کی رائے کا ذکر کیا تھا۔ اقبال نے اُسی وقت جواب لکھا۔ چونکہ گرامی نے وعدہ کیا تھا کہ محرم میں آئیں گے لہٰذا گرامی پر عربی کا محاورہ چست کر دیا کہ کوفہ والوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ محرم میں وعدہ خلافی کی رعایت سے انہیں کوفی قرار دیا۔ ’ ’الکوفی لایوفی،‘‘ اقبال نے لکھاکہ گرامی تو امامِ غائب ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں اِس غیبتِ صغریٰ کا زمانہ کب ختم ہو گا۔ پنڈت چھجو رام کی رائے کے بارے میں کہا کہ انہیں تعجب نہیں ہواکیونکہ ہر شخص ہر کتاب سے وہی بات سمجھتا ہے جس کا تقاضا اُس کا ذہن کرتا ہے۔ ’’سیاسیات مسلمانوں میں کوئی علیحدہ شے نہیں بلکہ خالص مذہبی نکتۂ خیال سے کچھ شے ہی نہیں اور اگر کچھ ہے تو مذہب کی لونڈی ہے۔‘‘ ’رموزِ بیخودی‘ کے بارے میں لکھا کہ سال کے آخر سے پہلے ختم ہو جائے گی۔ اس سے ’اسرارِ خودی‘ پر کافی روشنی پڑے گی اوراس کی بہت سی غلط تشریحات ختم جائیں گی۔ ’’اسلامیnationalism کی حقیقت اس سے واضح ہو گی اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ یا خودستائی نہیں کہ اِس رنگ کی کوئی نظم یا نثر اسلامی لٹریچر میں آج تک نہیں لکھی گئی۔‘‘ ۶۳ ۷ نومبر تھی۔ روس برف کی آغوش میں تھا۔ بالشویک انقلابیوں کے مسلح گروہ سڑکوں پر نکلے۔ ریلوے اسٹیشنوں، پوسٹ آفسوں، ٹیلی فون ایکسچینجوں اور بینکوں پر قبضہ کرنے کے بعد بحری جہاز آرورا پر بھی سرخ جھنڈا لہرایا۔ دارالحکومت پیٹروگراڈ کے موسمِ سرما کے محل میں عبوری حکومت کے وزرأ جمع تھے۔ خواتین کی بٹالین اور کیڈٹوں کا دستہ پہرا دے رہا تھا۔ سامنے دریائے نیوا میں سرخ جھنڈے والا بحری جہاز نمودار ہوا۔ گولے دیوار سے ٹکرائے تو وزیروں نے ہتھیار ڈال دیے اور سرخ محافظ محل میں داخل ہو گئے۔ انقلاب آ چکا تھا۔ ۶۴ ۱۱ نومبر کو پیسہ اخبار والے مولوی محبوب عالم کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا۔ لاہور میں اعلیٰ پیمانہ پر ایک اسلامی اور دینی مدرسہ قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ سب کمیٹی بنی۔ اس کے ارکان اقبال، مولوی احمد دین وکیل، مولوی فضل الدین، شمس العلمأ مولوی عبدالحکیم، مولوی ثنأ اللہ امرتسری، مولوی محبوب عالم، مولوی احمد بابا اور حاجی شمس الدین تھے۔۴۰ اُس روز اتوار تھی۔ ظفرعلی خاںلاہور میں تھے۔ غالباً اسی موقع پر اقبال نے تذکرہ کیا کہ سمرقند کے کسی صوفی بزرگ ابواللیث نے ایک قرآن تصنیف فرمایا تھا جس میں وہ آیات درج کی تھیں جو اُن کے خیال میں معراج کی رات آنحضورؐ پر نازل ہوئی تھیں مگر قرآن شریف میں شامل نہ تھیں اور نہ ہی عوام کے علم میں تھیں۔ ایک نسخہ لاہور کی اورینٹل لائبریری میں موجود تھا۔ بعد میں ظفر نے لکھا، ’’علامہ اقبال نے اس پر تبصرہ کرنا شروع کیا تھا اور اگر یہ دل کشا تبصرہ شائع ہو جاتا تو مسلمانوں کو معلوم ہو جاتا کہ مکی و مدنی قرآن کی زبان اور سمرقندی قرآن کی زبان میں کیسے کیسے مزے کے فرق ہیں۔ لیکن ہندوستان بھر کے اربابِ طریقت نے اُس زمانہ میں ستارۂ صبح کی قائم کی ہوئی تحریک کے اور میرے خلاف جو اعلانِ جنگ کر رکھا تھا، غالباً اُس کے شور و غوغا سے متاثر ہو کر علامہ ممدوح نے اپنے تبصرہ کی اشاعت کا قصد ملتوی کر دیا۔‘‘ ۴۱ شام کو نواب ذوالفقار علی خاں، ظفر کو ساتھ لے کر جہانگیر کے مقبرے پر گئے۔ ’’علامہ اقبال بھی ساتھ تھے،‘‘ ظفر کا بیان ہے۔ ’’سرو و شمشاد اور سبزہ و گل کی بہار تو وہی ہے جو یہ چرخِ فیرزہ گوں صدیوں پہلے دکھا چکا ہے بلکہ لارڈ کرزن کی فیاضانہ آثارپرستی کے صدقہ میں گلگشت کی فضا شاید پہلے سے بھی زیادہ پررونق ہے لیکن اس گنبد کو دیکھ کر جس میں جہانگیر ابن اکبر محوِ آرام ہے، دل میں ہزاروں عبرت اندوز حسرتوں کا ہجوم ہو گیا۔ علامہ اقبال نے اُس وقت سوز و گداز کے لہجے میں مولائے روم کی ایک غزل پڑھی جس کے یہ تین اشعار ہمیں وجد میں لے آئے۔۔۔‘‘ وہی اشعار تھے جو نیو ایرا میں یٹشے اور رومی والے مضمون میں بھی درج کیے تھے۔ مفہوم یہ تھا: کل شیخ چراغ لے کر شہر کا چکر لگا رہا تھاکہ میں بھوتوں اور جانوروں سے بیزار ہوں ، مجھے انسان چاہیے۔ ان بودے اور کم ہمت ہمراہیوں سے میرا دل بجھ گیا۔ مجھے تو اﷲ کے شیر اور رُستم کی آرزو ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں ملتا ، ہم ڈھونڈ چکے ہیں۔ وہ بولا کہ جو نہیں ملتا وہی تو میری آرزو ہے۔ واپسی مغرب کے بعد ہوئی۔ ظفر علی خاں نے بستر پر لیٹنے کے بعد نظم ’تصویرِ آرزو‘ موزوں کی: میری جاں پر چھائی جاتی ہے فنا کی آرزو اور زباں پر آئے جاتی ہے بقا کی آرزو۴۲ ۶۵ سلیمان ندوی کا خط آیا۔ اقبال نے اسے قوتِ روح اور اطمینانِ قلب کا باعث پایا۔ ’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوفِ وجودی سرزمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے،‘‘ انہوں نے ۱۳ نومبر کوسلیمان ندوی کے کام کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیتے ہوئے لکھا اور اخبار وکیل امرتسر میں اپنے اُن مضامین کی طرف توجہ دلائی جن میں تصوف کو فتنۂ سمن قرار دیا تھا۔ ’’افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور علالت کی وجہ سے میں ان مضامین کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔‘‘ ۶۶ ۱۵ نومبر کو پیرس میں ایمل درخائم کا انتقال ہو گیا۔ جدید عمرانیات کا بانی تھا۔ فرد اور معاشرے کے باہمی تعلق کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ ۶۷ ’رموزِ بیخودی‘ ۱۳ اور ۱۷ نومبر کے درمیان کسی وقت مکمل ہوئی۔ اقبال نے صاف نقل بنانا شروع کی۔ سینسر کو بھی دکھانی تھی۔ جنگ کی وجہ سے بے اجازت نہیں چھاپ سکتے تھے۔۴۳ رموزِ بیخودی یعنی اَسرارِ حیاتِ ملیہ اسلامیہ فہرستِ مضامین پیشکش بحضور ملتِ اسلامیہ ۱ تمہید در معنیٔ ربط فرد و جماعت ۲ در معنیٔ ایں کہ ملّت از اختلاطِ افراد پیدا می شود و تکمیلِ تربیتِ اُو از نبوّت است ۳ ارکانِ اَساسیِ ملّیہ اسلامیہ؛ رُکنِ اوَّل توحید ۴ در معنیٔ ایں کہ یاس و حزن و خوف اُمّ الخبائث است و قاطعِ حیات و توحید ازالۂ ایں امراضِ خبیثہ می کند ۵ حکایت شہنشاہِ عالمگیر رحمۃُ اللہ علیہ و شیر ۶ رُکنِ دوم رسالت ۷ حکایت بوعبید و جابان ۸ حکایت سُلطان مراد و معمار ۹ در معنیِٔ حُرّیتِ اسلامیّہ و سِرِّ حادثۂ کربلا ۱۰ در معنیٔ ایں کہ چوں ملتِ محمدؐیّہ موسّس بر توحید و رِسالت است پس نہایتِ مکانی ندار ۱۱ در معنیِٔ ایں کہ ملّتِ محمدیہؐ نہایتِ زمانی ہم ندارد کہ دوامِ ایں ملّتِ شریفہ موعود است ۱۲ در معنیٔ ایں کہ نظامِ ملّت غیر از آئین صورت نہ بندد و آئینِ ملّتِ محمدؐیّہ قرآن است ۱۳ در معنیِٔ ایں کہ پختگی ِ سیرتِ مِلّیہ از اتّباعِ آئین است ۱۴ در معنیِ ایں کہ حُسنِ سیرتِ ملّیہ از تادُّب بآدابِ رسول است ۱۵ در معنیِٔ ایں کہ حیاتِ ملّیہ مرکزِ مشہود می خواہد و مرکزِ ملّتِ اسلامیّہ بَیتُ الحرام است ۱۶ در معنیِٔ ایں کہ جمعیتِ حقیقی از محکم گرفتن نصب العین ملّیہ است و نصب العین اُمّتِ محمدؐیّہ حفظ و نشرِ توحید است ۱۷ در معنی ایں کہ کمالِ حیاتِ ملیہ ایں است کہ ملت مثلِ فرد احساسِ خودی پیدا کند و تولید و تکمیلِ ایں احساس از حفظِ روایاتِ ملیہ ممکن گردد ۱۸ در معنیِٔ ایں کہ توسیعِ حیاتِ ملّیہ از تسخیرِ قوائے نظامِ عالم است ۱۹ در معنیِٔ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اصل اسلام است ۲۰ در معنیِٔ ایں کہ سیّدۃ النسأ فاطمۃ الزہرااسوۂ کاملہ ایست برائے نسا ِ ٔ اِسلام ۲۱ خلاصہ مطالبِ مثنوی در تفسیرِ سُورۂ اخلاص ۲۲ عرضِ حالِ مُصنّف بحضور رحمۃُ الّلعالمین۴۴ ۶۸ اقبال کے کبوتروں میں ایک مدینہ سے بھی آیا تھا۔ ۲۰ نومبر کو ایک بلّی نے اُسے شکار کر لیا۔ دو روز بعد ظفر علی خاں نے تعزیتی نظم کہی۔۴۵ ۶۹ ۲۷ نومبر کو نیازالدین خاں کو خط لکھ کر بتایا کہ ’رموزِ بیخودی‘ چند روز میں پریس کو دے دی جائے گی لہٰذا پندرہ روز میں گرامی سے تقریظ لکھوا دی جائے۔ وہ مقدمے کے چکر میں کہیں چھپے ہوئے تھے اور ان کا ٹھیک پتہ معلوم نہ ہو رہا تھا اس لیے نیازالدین خاں کو زحمت دینی پڑی تھی۔ ۷۰ تقریظ تو نہیں آئی مگر گرامی نے مقدمے کے سلسلے میں مشورہ مانگا۔ جالندھر میں اقبال کے دوست لالہ شوچرن داس اور شاگرد پنڈت کیول کرشن بیرسٹر ایٹ لأ کے نام خطوط کی فرمائش بھی کی۔ نومبر کی کسی تاریخ کو اقبال نے ان دونوں کے نام خطوط لکھتے ہوئے گرامی کو اطلاع دی اور خیال ظاہر کیا کہ جو حالات لکھے ہیں اُن کی روشنی میں مقدمے کا فیصلہ حق میں ہونا چاہئے۔ مزید کچھ سوال پوچھے اور کاغذات کی ایک نقل منگوائی۔ اکبرحیدری کے مفصل خط کا آج تک گرامی نے تفصیل سے ذکر نہیں کیا تھا۔ ’’وہ خط اگر آپ نے تلف نہ کیا ہو تو بھیج دیجئے،‘‘ اقبال نے پس ِ تحریر لکھا۔ ۷۱ ۳ دسمبر کو عثمانی افواج کے ہیڈ کوارٹر سے تمام یونٹوں کو اطلاع ملی کہ بالشویک رُوس جنگ سے باز آیا۔ مشرقی محاذ پر جنگ رُک گئی ہے۔ خلافت عثمانیہ اور جرمنی کی وہ افواج جو مشرقی سرحدوں پر روس سے لڑ رہی تھیںاب اُنہیں واپس بلوا کر اتحادی طاقتوں کے خلاف بھیجا جا سکتا تھا۔ ۷۲ بیرسٹر کیول کرشن کا خط آیا کہ وہ گرامی کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے تھے مگر وہاں نہ گرامی آئے تھے نہ مسماۃ فجاں فضل بی بی۔ مقدمہ اب ۹ جنوری ۱۹۱۸ء کو پیش ہوگا۔ ۸ دسمبر کو اقبال نے گرامی کو خط لکھا کہ وہ بیرسٹر کے پاس جائیں اور تمام حالات سے انہیں آگاہ کریں۔ بہن کا پتہ بھی دیں کیونکہ اُس پر اب تک سمن کی تعمیل نہیں ہوئی ہے۔ ۷۳ یروشلم جو مسلمانوں کے لیے بیت المقدس تھا، اُسے بچانے کی کوشش میں ترک تنہا رہ گئے تھے۔ عرب، دشمنوں کے ساتھ تھے۔ ۹ دسمبر کو انگریز فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں۔ ’’کون جانتا ہے کہ یہ زبردست فتح تاریخ کے کسی بھی اور سنگ ِ میل کے برابر شاندار ہو جائے،‘‘ یہودیوں کے سب سے بڑے پروہت نے کہا۔ عربوں نے اگر سنا تو مطلب نہ سمجھے۔ یورپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ۷۴ گرامی کا خط آیا۔ مقدمے کے بارے میں اقبال کی طلب کی ہوئی معلومات کے علاوہ اپنی بیوی اقبال بیگم ترکؔ کے اشعار بھیجے تھے۔حیدرآباد والے خط کے حوالے سے کچھ نہ لکھا تھا۔ ۱۲ دسمبر کو جواب میں اقبال نے انہیں بیرسٹر کیول کرشن سے ملنے کی تاکید کی۔ ’’وہ میرے دوست بھی ہیں اور شاگرد بھی اور شعر کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور نہائت محبت کرنے والا دل اس پر مستزاد،‘‘ انہوں نے لکھا اور پھر حیدرآباد والے خط کے بارے میں پوچھا۔ ’’تھوڑے سے حالات تو حیدرآباد کے لکھنے چاہئیں جو آپ کو خط سے معلوم ہوئے ہیں۔‘‘ گرامی سے درخواست کی کہ فارسی کا کوئی نہایت شگفتہ مصرع لکھیں کہ طبیعت رواں ہو جائے۔ بہت دنوں سے شعر نہیں کہا تھا۔ ۷۵ مدعیانِ تصوف سے دوٹوک فیصلہ (خواجہ حسن نظامی کا مطبوعہ گشتی خط بصیغہ راز) ظفر علی خاں [اقتباس] باوجود اُن تحریرات کے جو ہمارے خلاف اور ہمارے معزز دوست علامہ اقبال کے فضائل کی تنقیص میں خطیب اور کشمیری اور وکیل میں مختلف پیرایوں اور مختلف طریقوں سے شائع کرائی جاتی رہی ہیں، ہم جناب خواجہ حسن نظامی اور اُن کے گرامی قدر یارانِ طریقت کے باب میں اس سوظن کو گناہ سمجھتے ہیں کہ وہ علانیہ اختلافِ رائے کے علاوہ کوئی ایسا باطنی سازوباز ہمارے خلاف کریں گے جو صرف چھوٹی طبیعت والے بزرگوں ہی کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جناب خواجہ صاحب خدا کے فضل سے ہاتھ میں ایک گلریز قلم اور اس قلم میں بہارآفریں قدرت رکھتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے لکھا ہے جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں یا جو کچھ ہم بشرطِ زندگی لکھیں گے، اس کا ابطال یا تخطیہ بہت ہی آسان ہے، اگر اس میں باطل کی آمیزش یا خطا کا لوث ہو۔ پھر کیوں نہیں جناب خواجہ صاحب و شرکأ سامنے آ کر ہمیں ہماری مزعومہ خطاکاریوں اور بدکرداریوں پر ٹوکتے ہیں اور کیوں نہیں علیٰ روس الاشہاد ہمیں ہدایت اور رشد کے صراطِ مستقیم پر ڈالتے ہیں؟ ستارۂ صبح (کرم آباد)، ۱۳ دسمبر ۱۹۱۷ء ۷۶ ستارۂ صبح میں کشن پرشاد کی غزل اقبال کی نظر سے گزری۔ ’’اِسی کو نصف ملاقات تصور کیا گیا،‘‘ ۱۹ دسمبر کو مختصر سے خط میں کشن پرشاد کو لکھا اور درخواست کی کہ خیریت سے مطلع کریں کیونکہ انہوں نے عرصے سے خط نہیں لکھا تھا۔ ۷۷ اکبر حیدری کی طرف سے کبھی کبھی یونیورسٹی کے کاغذات آ جاتے تھے کہ اقبال لاہور ہی سے مشورہ لکھ دیں۔۴۶ ۷۸ گرامی کا خط ملا۔ اپنی غزل بھیجی تھی کہ اُس فتنہ کار آنکھ کی ستم ظریفی مت پوچھو جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو امتحان کا ذوق بخشتی ہے: ستم ظریفیِ آن چشمِ فتنہ مست مپرس کہ با شکستہ دلان ذوقِ امتحان بخشد ۷۹ ۲۵ دسمبر کو کرسمس منایا جا رہا تھا۔ سینسر کے محکمے کے عبدالعزیز صاحب نے چھٹی کے دن بھی کام کیا کیونکہ ’رموزِ بیخودی‘ کے مسودے کے ہر صفحے پر مختصر دستخط کرنے کے بعد آخری صفحے پر پورے دستخط کرتے ہوئے جو تاریخ ڈالی وہ اِسی دن کی تھی۔خیال کیا جاتا ہے کہ سینسر نے کوئی شعر نہیں کاٹا۔ مسودے میں جو اشعار قلمزد ہوئے وہ اقبال نے خود ہی کسی وجہ سے کاٹے ہوں گے۔۴۷ اُس روز شیخ نور محمد لاہور آ کر کچھ دنوں کے لیے اقبال کے پاس ٹھہرے۔۴۸ ۸۰ ۲۶ دسمبر کو نیازالدین خاں کا خط آیا۔ جالندھر بلا رہے تھے۔اُسی روز شیخ عمر بخش سے ملاقات ہوئی جن کے ذریعے اقبال نے نیازالدین خاں سے کہلوا دیا کہ والد صاحب کے لاہور آنے کی وجہ سے وہ جالندھر نہ جا سکیں گے۔۴۹ اُسی روز ’رموزِ بیخودی‘ سینسر سے واپس آگئی۔۵۰ ۸۱ ’’گرامی عمر میں بڑھتا ہے مگر اس کا دل جوان رہتا ہے،‘‘ ۲۷ دسمبر کو گرامی کو اُن کی غزل کی تعریف میں لکھا۔ اُسی روز نیازالدین خاں کے نام الگ خط لکھ کر معذرت کی۔ ’’گاؤں کی زندگی واقعی قابلِ رشک ہے اور اگر جالندھر کے افغانوں میں کچھ اپنے قومی و ملّی خصائل ابھی تک محفوظ ہیں تواِسی زندگی کی وجہ سے۔ مگر گنّے کی کھیر سے یارانِ ہمدم کی صحبت شیریں تر ہے اور اس میں صرف اس قدر نقص ہے کہ ہر وقت میسر نہیں آتی۔‘‘ غالباً اُسی روز ’رموزِ بیخودی‘ کاتب پرویں رقم کے حوالے کی گئی۔ اشاعت کا اہتمام اِس دفعہ بھی حکیم فقیر محمد چشتی ہی کرنے والے تھے۔۵۱ ۸۲ میر غلام بھیک نیرنگ نے حسن نظامی کو خط لکھ کر وضاحت کی کہ ستارۂ صبح کے مضامین میں اقبال کا ہاتھ نہیں ہے۔حسن نظامی نے اقبال کو خط لکھ کر معذرت پیش کی۔۵۲ ۸۳ The Awakening of India by De Wit Mackenzie [Excerpt from quotation by Jogendra Singh] A great poet has arisen in the Punjab whose poems are consecrated to the ideas of new time. Iqbal has initiated a new era in Urdu poetry. He combines the imaginative philosophy of the East with ardent aspirations of the West. Like Moses he smote the rock, and fresh streams of poetry have leapt out in response, on whose swift and translucent surface we can hardly breathe. He does not sing of self-effacement, but holds forth self-affirmation as essential to self-preservation. The life value of self-affirmation he illustrates in a poem of great dignity and grace, 'A thirsty bird mistakes a diamond for a drop of water, but it cannot make it a source of life to itself. It sips the soft morning dew from the painted petals of flowers which lose their own brief existence in the yielding. The coal in essence is the same as a diamond, and yet coal feeds the flaming furnace while the diamond adorns the crown.' In a poem of keen, strong, rousing power he draws the moral that self-affirmation is the key to self-preservation. Iqbal in this poem has broken away entirely from the canons of accepted opinion. He is the precursor of great events in the domain of literature. He is the poet of reality, close to the very truth of things, in contradistinction to metaphysics and mere sentiment. His force, anger, even his gloom and freedom from mystic reticence, make him a spirit of power. His ambition is to set the heart burning like a candle, to be consumed and yet in the very process of burning to illuminate the path for the unseeing eye. He plunges into the whirlpool of thoughts, hopes and passions, joys and sorrows, and brings forth into life, with unshackled freedom, truth, and favour, ideas, so silent so long, of religious, social and political well-being. Iqbal, Tagore, and others are precursors of a new movement. What India will make of it? What will the new movement make of the new literature? It is not for me to prophesy. The words of Iqbal ring clear: 'The world will witness when from my heart springs the storm of expression; My silence conceals the seed of aspiration.'۵۳ ۸۴ اس برس شائع ہونے والی کتابیں جو کبھی اقبال کے ذخیرۂ کتب میں شامل ہوئیں یہ ہیں: Sir Ananda Acharya. Brahmadarsanam or Intuition of the Absolute: "Being an Introduction to the Study of Hindu Philosophy". Macmillan, London محمد نجم الغنی نجمی۔ بحرالفصاحت۔ نولکشور، لکھنؤ ان کے علاوہ میکملن لندن والوں نے بھی اپنی دو کتابیں "Specimen for Considerration" کی مہر لگا کر اقبال کو بھجوائیں۔ درسی کتب کے طور پر منظور کروانا چاہتے ہوں گے۔۵۴ ۸۵ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں ہو رہا تھا۔ صدارت کے لیے محمد علی جوہر کا نام تجویز ہوا تھا جو سیکڑوں میل دُور نظربند تھے۔ کرسی پر اُن کی تصویر رکھ دی گئی۔ دوسرا حصہ ۸۶ کوئی قاضی امیر احمد شاہ رضوانی تھے۔ افغان تھے۔ ایک دن اقبال سے کہا کہ قدیم فارسی میں لفظ ’’فُغ‘‘ بت کے معانی میں آیا ہے اور لفظ افغان کے شروع میں الف نفی کا اشارہ کرتا ہے گویا معلوم ہوتا ہے کہ افغان جب پہلے پہل ایران میں آباد ہوئے تو بت پرست نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ نام دیا گیا۔ اس سے خیال ہوتا تھا کہ افغان یہودی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۵۵ ۸۷ خواجہ حسن نظامی کے خط کا ابھی تک جواب نہ دے سکے تھے۔ اُنہی دنوں کسی نے اقبال سے کہا کہ حسن نظامی نے مشہور کر رکھا ہے کہ اقبال نے اپنی ٹوپی ہمارے قدموں پر رکھ کر ہم سے معافی مانگی ہے اور آئندہ کے لیے توبہ کی ہے۔ ’’میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنّت ہے اقبال ان کے قدموں پر ٹوپی تو کیا سر رکھنے کو تیار ہے اوراُن کی صحبت کے ایک لحظہ کو دُنیاکی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتالیکن جو بات خواجہ حسن نظامی کی طرف منسوب کرتے ہو تو اُس کے لغو ہونے میں کوئی شبہ نہیں،‘‘ اقبال کا بیان ہے۔۵۶ ۸۸ ۸ جنوری ۱۹۱۸ء تھی۔ امریکہ میں صدر ووڈرو وِلسن نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنے ملک کے جنگی مقاصد چودہ نکات کی صورت میں پیش کیے: ۱ امن کے کھلے معاہدے ۲ جنگ اور امن میں سمندروں پر سفر کی مکمل آزادی ۳ تجارتی رُکاوٹیں ختم کرنا ۴ قومی اسلحہ جات کو اندرونِ ملک ضروریات کے مطابق زیادہ سے زیادہ گھٹانا ۵ نوآبادیاتی دعوؤں کا آزادانہ، کھلے دماغ اور غیرجانبداری کے ساتھ تصفیہ کرنا ۶ تمام روسی علاقے سے انخلأ ۷ بلجیم کے تمام علاقے سے انخلأ ۸ تمام فرانسیسی علاقے کو آزاد کروانا اور السیس لورین واپس دلوانا ۹ اٹلی کی سرحدوں میں قومیتوں کی مناسبت سے تبدیلیاں کرنا ۱۰ آسٹریاہنگری کے عوام کو خودمختار ترقی کا موقع فراہم کرنا ۱۱ رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو سے انخلأ ۱۲ عثمانی سلطنت کے ترک حصوں سے اُن کی خودمختاری کی یقین دہانی کرنا ۱۳ خودمختار پولش ریاستوں کا قیام جنہیں سمندر تک رسائی حاصل ہو ۱۴ آزادی اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے اقوام کی ایک انجمن قائم کرنا تقریر کی بازگشت اقبال نے سنی۔ کچھ عرصہ بعد اُن سے کہلوانے والی تھی: امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے اور اِس کی وجہ سے شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتاہے۔ صدر وِلسن کے ۱۴ نکات ۸ جنوری ۱۹۱۸ء [صدارتی خطبے سے اقتباس] We entered this war because violations of right had occurred which touched us to the quick and made the life of our own people impossible unless they were corrected and the world secure once for all against their recurrence. What we demand in this war, therefore, is nothing peculiar to ourselves. It is that the world be made fit and safe to live in; and particularly that it be made safe for every peace-loving nation which, like our own, wishes to live its own life, determine its own institutions, be assured of justice and fair dealing by the other peoples of the world as against force and selfish aggression. All the peoples of the world are in effect partners in this interest, and for our own part we see very clearly that unless justice be done to others it will not be done to us. The program of the world's peace, therefore, is our program; and that program, the only possible program, as we see it, is this: I. Open covenants of peace, openly arrived at, after which there shall be no private international understandings of any kind but diplomacy shall proceed always frankly and in the public view. II. Absolute freedom of navigation upon the seas, outside territorial waters, alike in peace and in war, except as the seas may be closed in whole or in part by international action for the enforcement of international covenants. III. The removal, so far as possible, of all economic barriers and the establishment of an equality of trade conditions among all the nations consenting to the peace and associating themselves for its maintenance. IV. Adequate guarantees given and taken that national armaments will be reduced to the lowest point consistent with domestic safety. V. A free, open-minded, and absolutely impartial adjustment of all colonial claims, based upon a strict observance of the principle that in determining all such questions of sovereignty the interests of the populations concerned must have equal weight with the equitable claims of the government whose title is to be determined. VI. The evacuation of all Russian territory and such a settlement of all questions affecting Russia as will secure the best and freest cooperation of the other nations of the world in obtaining for her an unhampered and unembarrassed opportunity for the independent determination of her own political development and national policy and assure her of a sincere welcome into the society of free nations under institutions of her own choosing; and, more than a welcome, assistance also of every kind that she may need and may herself desire. The treatment accorded Russia by her sister nations in the months to come will be the acid test of their good will, of their comprehension of her needs as distinguished from their own interests, and of their intelligent and unselfish sympathy. VII. Belgium, the whole world will agree, must be evacuated and restored, without any attempt to limit the sovereignty which she enjoys in common with all other free nations. No other single act will serve as this will serve to restore confidence among the nations in the laws which they have themselves set and determined for the government of their relations with one another. Without this healing act the whole structure and validity of international law is forever impaired. VIII. All French territory should be freed and the invaded portions restored, and the wrong done to France by Prussia in 1871 in the matter of Alsace-Lorraine, which has unsettled the peace of the world for nearly fifty years, should be righted, in order that peace may once more be made secure in the interest of all. IX. A readjustment of the frontiers of Italy should be effected along clearly recognizable lines of nationality. X. The peoples of Austria-Hungary, whose place among the nations we wish to see safeguarded and assured, should be accorded the freest opportunity to autonomous development. XI. Rumania, Serbia, and Montenegro should be evacuated; occupied territories restored; Serbia accorded free and secure access to the sea; and the relations of the several Balkan states to one another determined by friendly counsel along historically established lines of allegiance and nationality; and international guarantees of the political and economic independence and territorial integrity of the several Balkan states should be entered into. XII. The Turkish portion of the present Ottoman Empire should be assured a secure sovereignty, but the other nationalities which are now under Turkish rule should be assured an undoubted security of life and an absolutely unmolested opportunity of autonomous development, and the Dardanelles should be permanently opened as a free passage to the ships and commerce of all nations under international guarantees. XIII. An independent Polish state should be erected which should include the territories inhabited by indisputably Polish populations, which should be assured a free and secure access to the sea, and whose political and economic independence and territorial integrity should be guaranteed by international covenant. XIV. A general association of nations must be formed under specific covenants for the purpose of affording mutual guarantees of political independence and territorial integrity to great and small states alike. ۸۹ آخر۱۱ جنوری کو ایک طویل خط بظاہر کافی سوچ سمجھ کر حسن نظامی کے جواب میں لکھا کہ اگرچہ ابھی تک اپنے خیالات پر قائم ہیں مگر ایک تو شاہ سلیمان پھلواری اور اکبرؔ الٰہ آبادی کے کہنے سے اور دوسرے اِس وجہ سے کہ یہ بحث اخبارات کے لیے موزوں نہیں بلکہ عوام تو کیا خواص کو بھی اس سے دلچسپی نہیں بہت مدت سے ان موضوعات پر ایک سطر بھی نہیں لکھی۔ ذاتی دلچسپی کے لیے مطالعہ جاری ہے۔ ’’مجھے ہمیشہ اس بات کا تعجب رہا کہ آپ اور آپ کے احباب اس اختلاف کی وجہ سے مجھے کیوں دشمن ِ تصوف سمجھتے ہیں؟‘‘ اقبال نے لکھا، ’’یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں بلکہ حضراتِ صوفیہ میں ایک عرصے سے موجود ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ انہیں تو ظفر علی خاں سے بھی اختلاف ہے اور انہیں باز رکھنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگر حسن نظامی کو اقبال جیسے گہرے دوست سے بدگمانی تھی تو براہِ راست دریافت کرتے ورنہ لوگ باتیں اڑایا ہی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں والے واقعے کا ذکر کیا جس میں کسی نے اقبال سے کہا تھا کہ حسن نظامی نے مشہور کر رکھا ہے کہ اقبال نے اپنی ٹوپی اُن کے قدموں پر رکھ کر معافی ہے۔ ’’اگر آپ چاہیں تو یہ خط شائع کر سکتے ہیں۔‘‘ ۹۰ محمد اکبر منیر اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے کے طالبعلم تھے۔ انہوں نے اقبال پر نظم لکھ کر انہیں بھیجی۔ ۱۲ جنوری کو اقبال نے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ مشق جاری رکھی اور غوروفکر کی عادت ڈالی تو کامیاب ہوں گے۔ ’’شعر کا منبع و ماخذ شاعر کا دماغ نہیں اُس کی روح ہے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’اگرچہ تخیل کی بے پایاں وسعتوں سے شاعر کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ۹۱ خلیفہ عبدالحکیم نوجوان تھے۔ فلسفہ میں ایم اے کیا تھا۔ جنوری کے مخزن میں صفحہ۲۱ پر اُن کی نظم ’پیغامِ عمل‘ شائع ہوئی۔ طرزِ بیان اقبال سے ملتا جلتا تھا۔ عوام کے بارے میں رویّہ قدرے مختلف تھا: جنس نایاب جو ہو قابلِ بازار نہ ہو مجمعِ عام کبھی تیرا خریدار نہ ہو ۹۲ اکبر شاہ نجیب آبادی کا پوسٹ کارڈ آیا۔ مستقل طور پر لاہور میں قیام کر رہے تھے۔ ’’کبھی کبھی ضرور تشریف لایا کیجئے،‘‘ اقبال نے ۱۵ جنوری کو جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’محبت و الفت رسائل کی محتاج نہیں بلکہ ظاہری زیارت سے بھی آزاد ہے۔ اس کے لیے نگاہوں کا ایک نکتے پر جمے رہنا کافی ہے۔‘‘ ۹۳ سید ناظرالحسن اڈیٹر ذخیرہ کے خط سے کبھی کبھی کشن پرشاد کی خیریت معلوم ہو جایاکرتی تھی۔۵۷ ۹۴ کشن پرشاد کی خاموشی اُس خط کے جواب سے ٹوٹی جو اقبال نے پچھلے مہینے ظفر علی خاں کے اخبار میں ان کی غزل پڑھ کر لکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ اخبار والوں نے بلکہ شاید خود ظفر نے غزل کی اصلاح کر دی تھی جس پر سرکار ناراض تھے۔ اقبال پر بھی کچھ شبہہ سا تھا کہ تصوف کے خلاف مضامین کے نئے سلسلے کے پیچھے ان کا ہاتھ نہ ہو۔ اقبال نے حسن نظامی سے جو وضاحت کی تھی وہی ۲۰ جنوری کو کشن پرشاد سے دہرا ئی۔ پہلے بھی اپنے اختلاف کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی اگر حسن نظامی نے اسرارِ خودی کی مخالفت شروع نہ کی ہوتی، ’’چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا اس ملک کے لوگوں کے لیے مفید ہے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہوگا اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ کسی قسم کے بحث و مباحثے کی مطلق ضرورت نہ تھی نہ بحث کرنا میرا شعار ہے بلکہ جہاں کوئی بحث ہو رہی ہو وہاں سے گریز کرتا ہوں۔‘‘ ’’حیدری صاحب تو اقبال کو بلاتے بلاتے رہ گئے،‘‘ اقبال نے بتایا کہ اکبر حیدری کی طرف سے یونیورسٹی کے کاغذات مشورے کے لیے اور مولوی عبدالحق کی طرف سے علمی اصطلاحات کی طویل فہرستیں نظرِ ثانی کے لیے آجاتی ہیں، ’’گویا ان بزرگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اقبال کو کوئی اور کام نہیں۔ ترجمہ کرنے والوں کو معقول تنخواہیں دے کر بلایا ہے تو یہ کام بھی انہیں سے لینا چاہئے۔ اصل میں یہی حصہ ان کے کام کا مشکل ہے۔‘‘ ۹۵ ہفت روزہ خطیب میں حسن نظامی نے اپنے مضمون ’جناب اقبال و حسن نظامی‘ میں اعلان کیا کہ گزشتہ ایام میں اقبال کے اور ان کے درمیان تصوف میں اختلاف واقع ہوا تھا جس میں اکبرؔ الٰہ آبادی نے دونوں کو روکا۔ ’’میں حضرت اکبر کی ذات کو اپنا مرشدِ معنوی تصور کرتا ہوں اس لیے اس گفتگو سے دستبردار ہو گیا اور خلقت کی اس شہرت کو برداشت کرتا رہا کہ حسن نظامی اقبال سے علمی بحث نہ کر سکا کیونکہ بدنامی بہتر تھی اپنے رہنمائے روح کی عدم تعمیلِ ارشاد سے۔‘‘ ۹۶ علی گڑھ سے کالج کے سیکرٹری نواب محمد اسحاق خاں کا خط آیا کہ حضور نظام آتے ہیں۔اقبال آ کر قصیدہ پڑھ دیں۔ بیماری کی وجہ سے نہ جا سکے۔۵۸ ۹۷ طے ہوا کہ اقبال الٰہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے کا زبانی امتحان لیں گے۔ اکبرؔ الٰہ آبادی سے ملاقات کا سوچ کر خوش ہو گئے۔ ۵۹ ۹۸ ۳۰ جنوری کی رات کو خواب میں دیکھا کہ کشن پرشاد کی طرف سے شاہی خریطے جیسا کوئی خط آیا ہے۔۶۰ ۹۹ ۳۱ جنوری کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ۶۱ ۱۰۰ یکم فروری کو پروفیسر نکلسن کا خط آیا۔ اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی اجازت چاہتے تھے۔ مثنوی کا ایک نسخہ بھی درکار تھا۔ نایاب تھی۔ کسی سے لے کر پڑھی تھی۔اقبال کے دوست فقیر سید نجم الدین کے لڑکے وحیدالدین کا بیان ہے کہ اُس روز اُن کے والد اقبال کے پاس گئے تو اقبال کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ اپنی قوم جس کے لیے ’اسرارِ خودی‘ لکھی اُس نے قدر نہ کی مگر ولایت والے ترجمہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اُن کے لیے نہیں لکھی گئی۔۶۲ اقبال کے پاس کوئی کاپی نہیں بچی تھی۔ یاد آیا کہ بیس جلدیں کشن پرشاد کو بھیجی تھیں۔ خواب والے خط کا مضمون ذہن سے اتر چکا تھا مگر اُسے حقیقت تصور کر کے جواب لکھ دیا، ’’شاد کی طرف سے اقبال کو شاہی خریطہ آئے یہ بات خالی از معنی نہیں۔ انتظار شرط ہے اور اللہ کی رحمت ہمارے خیالوں سے وسیع تر ہے۔‘‘ نکلسن والے خط کا ذکر کر کے مثنوی کی اگر کوئی کاپی رہ گئی ہو اور سرکار کو اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ بھی منگوائی۔ ’رموزِ بیخودی‘ اسی مہینے یا اگلے مہینے شائع ہونے والی تھی۔ ’’تیسرے حصے کا بھی آغاز ہو گیا ہے،‘‘انہوں نے لکھا۔ ’’یہ ایک قسم کی نئی منطق الطیر ہو گی۔‘‘ شیخ فریدالدین عطار کی منطق الطیر پرندوں کی کہانی تھی جو اپنے بادشاہ کی تلاش میں نکلے تھے۔ اُس کا نام سیمرغ تھا اور اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سات وادیوں سے گزر کر صرف تیس پرندے منزل پر پہنچے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی روح کے سامنے آئینہ رکھا تھا۔ سیمرغ کی آواز جو سنائی دی وہ ہر پرندے کے حلق سے نکل رہی تھی۔ فارسی میں ’’سی‘‘ کا مطلب تیس اور ’’مرغ‘‘ کا مطلب پرندہ ہے۔ سیمرغ کا مطلب تیس پرندے: بیک وقت ہر شخص اپنی خودی دریافت کرے تو اجتماعی خودی ظاہر ہو گی۔ بعض شارحین نے منطق الطیر کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ خودی کو خدا میں فنا کر دیا جائے۔ گویا سیمرغ حقیقتِ مطلقہ یعنی خدا کا استعارہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اسے اجتماعی خودی کا استعارہ سمجھتے تھے۔ مستقبل کی تاریخ جسے لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، ایک نئی قسم کی منطق الطیر یونہی بن سکتی تھی کہ دکھایا جاتا کہ قوم کن منزلوں سے گزر کر اجتماعی خودی تک پہنچے گی، کتنی منزلیں طے ہو چکی ہیں اور کون کون سی باقی ہیں۔ انہی دنوں کسی وقت ’اَسرارِ خودی‘ کے انگریزی ترجمے کے لیے نکلسن کو طویل نوٹ لکھ کر بھیجا۔ اُس میں بھی یہی خیالات جھلک رہے تھے۔ تان اِسی پر ٹوٹی تھی کہ اِنسانیت مجموعی طور پر بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے جو ایک ایسا معاشرہ ہو گا جہاں بیک وقت ہر فرد اپنی خودی سے آگاہ اور اپنی جگہ منفرد ہو گا۔ البتہ ’اسرارِ خودی‘ کا موضوع ملت نہیں بلکہ فرد تھا۔ نوٹ میں اجتماعی خودی کا تذکرہ نہ ہو سکتا تھا۔ ۱۰۱ ’اسرارِ خودی‘ کے دیباچے میں خودی کی فلسفیانہ وضاحت کی کوشش اختصار کے سبب ناکام رہی تھی۔ نکلسن کو جواب لکھتے ہوئے موقع ملا۔ انگریزی میں وضاحت کر دی: ۱ خودی شعور کا وہ نکتہ ہے جو تمام انسانی تخیلات و جذبات کو روشنی میں لاتا ہے۔ ۲ بعض صوفیوں اور فلسفیوں کے نزدیک اس کا وجود محض واہمہ ہے۔اقبال ایسا نہیں سمجھتے۔ ۲ خودی کائنات کی بنیادی حقیقت ہے۔ وجودِ عمومی (universal life) کچھ نہیں بلکہ زندگی کی تمام صورتیں منفرد ہیں۔ خدا بھی ایک خودی ہے اور سب سے منفرد ہے۔ ۳ کائنات بہت سی خودیوں کا اجتماع ہے۔ وہ اپنے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ایک بے ترتیب کائنات کو ترتیب میں لانے کے عمل کا حصہ بنتی ہیں۔ ہم اِس عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ ۴ کائنات میں نئی خودیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اِس طرح یہ کائنات مکمل نہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ (یہ تصور انگلستان میں رائج نوہیگلین NeoHegelian فلسفے اور بعض صوفیوں کے تصورِ حیات کے برعکس ہے)۔ ۵ پس زندگی کا مقصد خودی کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ اسے فنا کر دینا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تخلقوا باخلاق اللّٰہ (اپنے آپ میں اللہ کے اخلاق پیدا کرو)۔ ۶ مادہ جو فطرت (Nature) کی صورت میں سامنے آتا ہے، خودی کے خدا تک پہنچنے میں رُکاوٹ ہے۔ حل یہ نہیں کہ مادے سے منہ موڑ لیاجائے (جیسا کہ اقبال کے خیال میں افلاطون اور بعض صوفیوں نے درس دیا)۔ مادے کو تسخیر کرنا ہے۔اِسی میں خودی کی آزادی ہے۔ ۷ انسان میں خودی کا ظہور شخصیت کی صورت میں ہوتا ہے جو ایک قسم کے تناؤ کا نام ہے۔ جو چیز اُس تناؤ کو کم کرے بری ہے، جو بڑھائے وہ اچھی۔ ابدی زندگی کا حصول بھی اِسی میں ہے۔ ۸ شخصیت کی آزادی کے ساتھ زمان و مکان کا مسئلہ: وقت کو لمحوں میں تقسیم کر کے ہم اُسے ایک طرح سے مکان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اپنی روح میں جھانکیں تو وقت اصل میں ہماری زندگی ہے۔ یہ ہماری موجودہ شخصیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ۹ خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے۔ عشق سے مراد جذب کرنے اور سمو لینے کی خواہش ہے۔ انتہائی صورت اقدار اور مقاصد کی تخلیق کرنا اور اُنکے فروغ کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ مانگنے سے یعنی ذاتی کوشش کے بغیر کچھ حاصل کرنے سے خودی ضعیف ہوتی ہے۔ لڑکا باپ کی جائیداد کا وارث بنے تو بھکاری ہے اور جو دوسروں کے افکار سوچے وہ بھی بھکاری ہے۔ انفرادیت کے حصول میں خودی اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الٰہی کے مراحل سے گزرتی ہے۔ یہ نیابتِ الٰہی اِس دنیا میں انسانی ترقی کا انتہائی درجہ ہے۔ اسے مکمل کرنے والا شخص مکمل ترین خودی ہے، انسانیت کا حاصل ہے، جسمانی و ذہنی زندگی کا بہترین مظہر ہے کہ ہماری دماغی زندگی کا افتراق اُس میں ہم آہنگی اختیار کرتا ہے۔ آج وہ محض ایک آئیڈیل ہے مگر انسانیت کے ارتقأ کا رُخ ایک آئیڈیل نسل کی تخلیق کی طرف ہے جس کے تمام افراد کم و بیش منفرد ہوں گے۔ چنانچہ زمین پر خدا کی حکومت سے مراد وہ جمہوریت ہے جس کا ہر شخص کم و بیش منفرد ہواور صدارت وہ کر رہا ہو جس سے زیادہ منفرد شخص دنیا میں ممکن نہیں۔ نیٹشے نے اپنے تخیل میں اِس آئیڈیل نسل کی جھلک دیکھی مگر خدا پر ایمان نہ رکھنے اور اعلیٰ طبقے کو برتر سمجھنے کی وجہ سے اُس کا تصور ناقص رہا۔ انگریز قارئین کی سہولت کے لیے اقبال نے پروفیسر ایف سی بریڈلے کے حوالے سے آغاز کیا۔ انگریز فلسفی تھا جس کے بھائی اے سی بریڈلے نے شیکسپئر کے المیہ کرداروں پر لیکچر دے کر بھی شہرت حاصل کی تھی۔ میک ٹیگرٹ، برگساں اور وِلڈن کار (Wildon Carr) کے حوالے بھی دیے۔ [Notes by Iqbal for R. A. Nicholson] 'That experience should take place in finite centres and should wear the form of finite this-ness is in the end inexplicable.' These are the words of Prof. Bradley. But starting with these inexplicable centres of experience, he ends in a unity which he calls Absolute and in which the finite centres lose their finiteness and distinctness. According to him, therefore, the finite centre is only an appearance. The test of reality, in his opinion is all inclusiveness; and since all finiteness is 'infected with relativity,' it follows that the latter is a mere illusion. To my mind, this inexplicable finite centre of experience is the fundamental fact of the universe. All life is individual; there is no such thing as universal life. God himself is an individual: He is the most unique individual. The universe, as Dr. McTaggart says, is an association of individuals; but we must add that the orderliness and adjustment which we find in this association is not eternally achieved and complete in itself. It is the result of instinctive or conscious effort. We are gradually travelling from chaos to cosmos and are helpers in this achievement. Nor are the members of the association fixed; new members are ever coming to birth to co operate in the great task. Thus the universe is not a completed act: it is still in the course of formation. There can be no complete truth about the universe, for the universe has not yet become 'whole.' The process of creation is still going on, and man too takes his share in it, inasmuch as he helps to bring order into at least a portion of the chaos. The Quran indicates the possibility of other creators than God. (Quran, ch. 23. v. 14: "Blessed is God, the best of those who create.") Obviously this view of man and the universe is opposed to that of the English Neo Hegelians as well as to all forms of pantheistic Sufism which regard absorption in a universal life or soul as the final aim and salvation of man. The moral and religious ideal of man is not self-negation but self-affirmation, and he attains to this ideal by becoming more and more individual, more and more unique. The Prophet said, 'Takhallaqu bi akhlaq Allah,' 'Create in yourselves the attributes of God.' Thus man becomes unique by becoming more and more like the most unique Individual. What then is life? It is individual: its highest form, so far, is the ego (khudi) in which the individual becomes a self-contained exclusive centre. Physically as well as spiritually man is a self-contained centre, but he is not yet a complete individual. The greater his distance from God, the less his individuality. He who comes nearest to God is the completest person. Not that he is finally absorbed in God. On the contrary, he absorbs God into himself. The true person not only absorbs the world of matter by mastering it; he absorbs God Himself into his ego by assimilating Divine attributes. Life is a forward assimilative movement. It removes all obstructions in its march by assimilating them. Its essence is the continual creation of desires and ideals, and for the purpose of its preservation and expansion it has invented or developed out of itself certain instruments, e.g., senses, intellect, etc., which help it to assimilate obstructions. The greatest obstacle in the way of life is matter, Nature; yet Nature is not evil, since it enables the inner powers of life to unfold themselves. The ego attains to freedom by the removal of all observations in its way. It is partly free, partly determined, and reaches fuller freedom by approaching the Individual, who is most free - God. In one word, life is an endeavour for freedom. The ego and continuation of personality In man the centre of life becomes an ego or person. Personality is a state of tension and can continue only if that state is maintained. If the state of tension is not maintained, relaxation will ensue. Since personality, or the state of tension, is the most valuable achievement of man, he should see that he does not revert to a state of relaxation. That which tends to maintain the state of tension tends to make us immortal. Thus the idea of personality gives us a standard of value: it settles the problem of good and evil. That which fortifies personality is good, that which weakens it is bad. Art, religion, and ethics must be judged from the stand point of personality. My criticism of Plato is directed against those philosophical systems which hold up death rather than life as their ideal-systems which ignore the greatest obstruction to life, namely, matter, and teach us to run away from it instead of absorbing it. As in connexion with the question of the freedom of the ego we have to face the problem of matter, similarly in connexion with its immortality we have to face the problem of time. Bergson has taught us that time is not an infinite line (in the spatial sense of the word 'line') through which we must pass whether we wish it or not. This idea of time is adulterated. Pure time has no length. Personal immorality is an aspiration: you can have it if you make an effort to achieve it. It depends on our adopting, in this life modes of thought and activity which tend to maintain the state of tension. Buddhism, Persian Sufism and allied forms of ethics will not serve our purpose. But they are not wholly useless, because after periods of great activity we need opiates, narcotics, for some time. These forms of thought and action are like nights in the days of life. Thus, if our activity is directed towards the maintenance of a state of tension, the shock of death is not likely to affect it. After death there may be an interval of relaxation, as the Quran speaks of a barzakh, or intermediate state, which, in the case of some individuals, will last until the Day of Resurrection (Quran, ch. 23, v. 102). Only those egos will survive this state of relaxation who have taken good care during the present life. Although life abhors repetition in its evolution, yet on Bergson's principles the resurrection of the body too, as Wildon Carr says, is quite possible. By breaking up time into moments we spatialise it and then find difficulty in getting over it. The true nature of time is reached when we look into our deeper self. Real time is life itself which can preserve itself by maintaining that particular state of tension (personality) which it has so far achieved. We are subject to time so long as we look upon time as something spatial. Spatialised time is a fetter which life has forged for itself in order to assimilate the present environment. In reality we are timeless, and it is possible to realise our timelessness even in this life. This revelation, however, can be momentary only. The education of the ego The ego is fortified by love. This word is used in a very wide sense and means the desire to assimilate, to absorb. Its highest form is the creation of values and ideals and the endeavour to realise them. Love individualises the lover as well as the beloved. The effort to realise the most unique individuality individualises the seeker and implies the individuality of the sought, for nothing else would satisfy the nature of the seeker. As love fortifies the ego, asking weakens it. All that is achieved without personal effort comes under asking. The son of a rich man who inherits his father's wealth is an 'asker,' or beggar; so is every one who thinks the thoughts of others. Thus, in order to fortify the ego we should cultivate love, i.e. the power of assimilative action, and avoid all forms of 'asking, i.e. inaction. The lesson of assimilative action is given by the life of the Prophet, at least to a Mohammedan. In another part of the poem I have hinted at the general principles of Muslim ethics and have tried to reveal their meaning in connexion with the idea of personality. The ego in its movement towards uniqueness has to pass through three stages: (a) Obedience to the Law (b) Self control, which is the highest form of self consciousness or ego hood (c) Divine vicegerency This divine vicegerency is the third and last stage of human development on earth. The vicegerent is the vicegerent of God on earth. He is the completest ego, the goal of humanity, the acme of life both in mind and body; in him the discord of our mental life becomes a harmony. This highest power is united in him with the highest knowledge. In his life, thought and action, instinct and reason, become one. He is the last fruit of the tree of humanity, and all the trials of a painful evolution are justified because he is to come at the end. He is the real ruler of mankind; his kingdom is the kingdom of God on earth. Out of the richness of his nature he lavishes the wealth of life on others, and brings them nearer and nearer to himself. The more we advance in evolution, the nearer we get to him. In approaching him we are raising ourselves in the scale of life. The development of humanity both in mind and body is a condition precedent to his birth. For the present he is a mere ideal; but the evolution of humanity is tending towards the production of an ideal race of more or less unique individuals who will become his fitting parents. Thus the Kingdom of God on earth means the democracy of more or less unique individuals, presided over by the most unique individual possible on this earth. Nietzsche had a glimpse of this ideal race, but his atheism and aristocratic prejudices marred his whole conception.۶۳ ۱۰۲ ۱۰ فروری کو معزول خلیفہ عبد الحمید ترکی میں فوت ہو گئے۔ ۱۰۳ ظفر علی خاں کے شروع کیے ہوئے سلسلے سے اقبال نے لاتعلقی ظاہر کی تھی مگر جس نے اسے صوفی پرستی کے خلاف جہاد سمجھ کر ظفر علی خاں کو نئے دَور کا غزنوی قرار دیا وہ آغا حشر کاشمیری تھے۔ نعرۂ گم گشتہ آغا حشر کاشمیری اِک واقفِ رموزِ جلی و خفی بزرگ بیٹھے ہوئے تھے حلقۂ خاصانِ ذات میں کندھوں پہ زلف، زلف میں رُوئے نظرفروز جس طرح آفتاب نکل آئے رات میں وہ ہلکی ہلکی موجِ تبسُّم کی لرزشیں جُنبش ہو جیسے چشمۂ آبِ حیات میں سُلجھا رہی تھیں عقل کو نطق آفرینیاں لب شانہ کش تھے، گیسوئے ذات و صفات میں گاہے سرِ کشودِ معمّائے زندگی گاہے تھا غور، مسئلۂِ کائنات میں گاہے تھا امر و نہی پہ، اِک خطبۂ بلیغ گاہے تھے محو عقدۂ بعدالممات میں گاہے تھے زیرِ جرح، اُصولِ معاشرت گاہے تھا اِشتباہ، حصولِ نجات میں اِتنے میں اِک مرید نے، با صد نیاز و عجز کی عرض، اور ٹپک پڑے آنسو بھی سات میں اے مہبطِ مکارم و اے مصدرِ فیوض ہلچل سی پڑ گئی ہے تری ذُرّیات میں محمودؔ بت شکن تھا، تو صوفی شکن ظفرؔ تیشہ تھا اُس کے پاس، قلم اِس کے ہات میں پھر آ رہی ہے نعرۂ گم گشتہ کی صدا لاہور میں وہ غُل ہے، جو تھا سومنات میں مخزن، فروری ۱۹۱۸ئ۶۴ ۱۰۴ فروری کے مخزن میں مولانا گرامی کی بیگم کی غزل شائع ہوئی۔ چھ اشعار تھے۔ عشق میں یاس بھی ہے یاس میں ارمان بھی ہے عشق میں کفر بھی ہے کفر میں ایمان بھی ہے کیا دلآویز لکھی ترکِ گرامی نے غزل سخنِ عشق ہے مشکل بھی ہے آسان بھی ہے اقبال بیگم ترکؔ، مخزن، فروری ۱۹۱۸ء ان دنوں گرامی مقدمے کے خوف سے رُوپوش تھے۔ صرف بہت قریبی دوست جانتے تھے کہ دہلی میں نواب سراج الدین خان سائلؔ کے گھر میں ہیں۔ مقدمہ بہن سے تھا۔ گھر کی ملکیت پر جھگڑا تھا۔ عقیدت مندحیران تھے۔ اقبال کے سامنے بھی اظہار کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ گرامی بہن سے صلح کر لیتے تو بہتر تھا۔ اقبال بیگم ترکؔ کا خط اقبال کو آیا۔ چاہتی تھیں کہ مکان کے قبضے کے سلسلے میں اقبال بھی گواہی دیںکہ ایک دفعہ وہ اور شیخ عبدالقادرمکان پر آئے تھے اور دعوت کھائی تھی۔ اقبال کے خیال میں یہ گواہی مفید نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر اصرار ہو تو پھر اُنہیں جالندھر بلوانے کی بجائے کمیشن کے ذریعے لاہور ہی میں گواہی لے لی جائے۔ تفصیل کے ساتھ لکھ دیا۔۶۵ ۱۰۵ نیازالدین خاں کا خط آیا۔ کسی فقیر صاحب کا ذکرتھا جن کے بارے میںاقبال پہلے ہی کسی شیخ صاحب سے سن چکے تھے اور دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ خواجہ دل محمد کے کسی مضمون اور نظم کا تذکرہ بھی تھا۔ ۹ مارچ کو نیازالدین کو جواب دیتے ہوئے اقبال نے گرامی کی بیوی والے خط کا ذکر بھی کیا کہ معلوم نہیں ان کو ملا یا نہ ملا۔ خواجہ دل محمد کا مضمون یا نظم اقبال کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ۱۰۶ مارچ میں شیخ نورمحمد لاہور میں اقبال کے پاس ٹھہرے۔۶۶ ۱۰۷ مارچ کے وسط میں اقبال دہلی اور الٰہ آباد جانے والے تھے جب وہاں سے اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط آیا کہ طاعون پھیلی ہوئی ہے۔ شیخ نورمحمد نے خط دیکھ کر اقبال کو جانے سے منع کردیا۔۶۷ ۱۰۸ ۲۰مارچ کو نیازالدین خاں کو خط لکھا۔غالباً نواب ذوالفقار علی خاں کے بارے میں پوچھا تھا جو اقبال نے لکھا، ’’نواب صاحب جاتی دفعہ مجھ سے کہہ گئے تھے کہ ۲۲ مارچ کو واپس لاہور آجائیں گے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ کسی اور جگہ جانے والے نہیں ہیں۔ ۲۸ مارچ کو ان کے ایک مقدمے کی تاریخ لدھیانہ میں ہے۔‘‘ ۱۰۹ لائڈ جارج کے اصرار پر ٹائمز اور دوسرے اخبارات کے مالک لارڈ نارتھ کلف نے پروپیگنڈا کا شعبہ سنبھال لیا۔ خاص اُنہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ اُنہوں نے جرمن افواج پر بموں کے علاوہ ایسے پرچے گرانے کا انتظام شروع کر دیا جن میں ہراساں کرنے والی سچی جھوٹی خبریں درج ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسے پرچے چھاپے جانے لگے۔ ۱۱۰ کشن پرشاد کا خط آیا۔ بچوں سمیت بیمار ہوئے تھے۔ اقبال فوراً جواب نہ دے سکے۔۶۸ ۱۱۱ پچھلے برس کی طرح اس دفعہ بھی لاہور میں سردیاں دیر تک رہیں۔ اپریل کے پہلے ہفتے تک بارشیں بھی رہیں اور لوگ کمروں میں لحاف لے کر سوتے رہے۔ پنجاب میں بعض جگہوں پر بیماری پھیل رہی تھی۔۶۹ ۱۱۲ حسن نظامی ایک روز کے لیے لاہور آئے تھے۔ ملاقات ہوئی مگر وہ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اس لیے زیادہ باتیں نہ ہو سکیں۔۷۰ میں اور تو نہ سلیقہ مجھ میںکلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوئہ آزری تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری گِلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ’ہَری ہَری‘ نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے وہی فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری کرم اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری۷۱ ایک نئے رجسٹر کے پہلے صفحے پر اِس غزل کے بارہ اشعار لکھے گئے۔ ۱۱۳ ٹوٹ کر آئینہ سکھلا گیا اَسرارِ حیات آبرو چاہیے تو کر سختیٔ خارا پیدا۷۲ ۱۱۴ پچھلے برس کی یکم اپریل سے اس مارچ کے اختتام تک اقبال کی کُل آمدنی چار ہزار دو سو پچیس (۴۲۲۵) روپے ہوئی تھی۔ ایک سو دس (۱۱۰) روپے ٹیکس بنتا تھا۔۷۳ ۱۱۵ اِیسٹر سنڈے ۳۱ مارچ کو تھا۔ انجمن حمایت اسلام عوام کا اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ کئی پرانے کارکن علیحدہ ہو گئے تھے۔ سالانہ جلسے میں اقبال نے غزل پڑھی، ’’نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا‘‘۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے بیرسٹری چھوڑ کر اپنے آپ کو قوم کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میاں محمد شفیع نے اعلان کیا۔ ’’مسلمانوں کے دل میں اثر کا ایک طوفان اٹھا کہ زبانِ قلم اس کی تصویر کھینچنے سے قاصر ہے،‘‘ مخزن کے جوائنٹ ایڈیٹر دیوبند کے پڑھے ہوئے مولانا تاجور نجیب آبادی کا بیان ہے۔ ’’نعرہ ہائے تحسین کی ایک لہر تھی کہ امڈی چلی آ رہی تھی۔‘‘ یہ اُس منزل کی جانب پہلا قدم تھا جہاں سے ایک دن میاں بشیر کو پوری قوم کی ترجمانی کرنے والے الفاظ پیش کرنے تھے: ’’ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘! وہ منزل دُور تھی۔ جو چیز جلسہ گاہ سے بلند ہو کر برصغیر کے افق پر چھا گئی وہ ’موجِ زمزم‘ تھی۔ آغا حشر کاشمیری کی نعتیہ نظم تھی۔اقبال کی طرح حشر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فیض کو ملّت کے وجود میں تلاش کرتے تھے۔ ’’بجا طور پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اردو میں ایسی بلندپایہ نظم رُبع صدی سے نہیں لکھی گئی،‘‘ مولانا تاجور نے سوچا۔ ’’میں اِس یقین پر ثابت قدم ہوں کہ آغا حشر اپنے وقت کا عُرفی ہے۔ وہ ہندوستان کا دُوسرا ٹیگور ہے۔ وہ اِس صدی کا ملکُ الشعرأ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔‘‘ مولانا تاجورلاشعوری یا شعوری طور پر اِقبال کا مقام کم کر بیٹھے مگر حقیقت تھی کہ ’موجِ زمزم‘ کے بعض اَشعار اپنی مثال آپ تھے۔ معراج کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جبریل کا دل اِس سفر میں ساتھ دینے کے شوق میں شہید ہو گیا اور اُس کی تمنا کے زخم کا دہانہ وہ راستہ ہے جہاں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے پرواز فرماتے ہیں۔۷۴ موجِ زمزم آغا حشر کاشمیری آسماں ہے محفلِ ہستی میں پروانہ مرا کہکشاں میری صراحی چاند پیمانہ مرا ہر نفس سے بربطِ گیتی پہ ہوں مضراب زن اِضطرابِ برق ہے اِک رقصِ مستانہ مرا ساغرِ ہستی میں ہوں مَیں ارتعاشِ موجِ نور جلوہ زارِ زندگی ہے مجھ سے میخانہ مرا بارشِ مستی کے جلووں سے ہے فردوس آفریں ہے شرابِ نور سے شاداب ویرانہ مرا نکہتِ صہبائے مستی سے ہے تعمیرِ حیات دہر میں اِک موجِ رنگ و بو ہے کاشانہ مرا دولتِ صبحِ قِدم ہوں مایۂ شامِ حُدوث گلشنِ جنّت تو اے رضوں ہے بیعانہ مرا جُرعۂ جامِ میٔ گلرنگ ہے ایک ایک حرف بزمِ کُن کو مست کر دیتا ہے افسانہ مرا شعلہ آشامِ محبت، زآتشِ دیرینہ ام ساقیم در یثرب و خمخانہ اش در سینہ ام جلوہ گہ دردِ چراغِ خلوتِ الہام ہوں میں امانت دارِ سوزِ سینۂ اسلام ہوں ہے بھری جس میں شرابِ خندۂ صبحِ ازل میں کفِ روحُ القدس پر وہ چھلکتا جام ہوں ظلمتِ ہستی چُرا لائی ہے جیبِ نُور سے دولتِ گم کردۂ چرخِ زمرّدفام ہوں میری عظمت کی کہانی ہے حدیثِ کائنات حاصلِ افسانۂ اوراقِ صبح و شام ہوں میرے دم سے عنبر آگیں ہے مشامِ روزگار دہر میں نکہت فروشِ طُرّۃٔ الہام ہوں لے کے آیا ہوں نویدِ کوثر آشامی یہاں ساقیٔ خمخانۂ بطحا کا میں پیغام ہوں آ تجھے بھی مست کر دوں نغمہائے عشق سے سُن کہ گلبانگِ نواپردازیٔ ایّام ہوں می طپد صد جلوۂ شاداب در جانم ہنوز تشنۂ ذوقِ تماشا ہست طوفانم ہنوز آج اُس کی آستاں بوسی کا مجھ کو ناز ہے آسماں محفل میں جس کی فرشِ پاانداز ہے میں غلام اُس کا ہوں جس آقا کا نامِ پرجلال دفترِ کونین کا سررشتۂ آغاز ہے اے مہِ یثرب! سُنا دے مژدۂ لاتقنطوا بیکسیٔ شرمِ عصیاں گوش برآواز ہے تو پیامِ آخری قرآں کلامِ آخری! اِک تتّمہ! اور اِک شرحِ کتابِ راز ہے ہے بھری دریوزۂ رُخ سے ترے کشکولِ طُور شعلۂ سینا گدائے جلوہ گاہِ ناز ہے کس قدر نظّارہ پرور جلوۂ معراج تھا آج تک شوقِ لقا میں چشمِ انجم باز ہے ہے دلِ جبریل شوقِ ہمعنانی کا شہید دامنِ زخمِ تمنّا جادۂ پرواز ہے برقِ حُسنِ تو ہمیں ساماں زخشک و تر گذاشت از متاعِ شوق - در دل مُشتِ خاکستر گذاشت اِک سکوتِ یاس تھا دُنیائے ظلمت کار میں سو رہی تھی صبح آغوشِ شبِ پندار میں تو نے آ کر شب پرستانِ چمن کے واسطے کی سحر پیدا گلستانِ خزاں آثار میں بہہ گیا سُوئے فنا خود اپنی طغیانی میں کُفر آ گیا سیلاب موجِ رشتۂ زُنّار میں کعبۂ وحدت کے آگے جُھک گئی تعمیرِ شرک ہو گئے بیتاب سجدے جَبہۂِ دیوار میں رُوح نے خالق سے کی تجدیدِ پیمانِ الست نغمۂ ماضی ہوا پیدا شکستہ تار میں دل کی کھیتی لہلہا اُٹھی تری تکبیر سے تھا نہاں طوفانِ شادابی لبِ گفتار میں پرتوِ رُخ سے ترے اے نوبہارِ کائنات! شمعِ گُل روشن ہے! ہر ویراں سرائے خار میں تا بدَورِ آخری از دستِ تو ساغر گرفت ایں کہن میخانہ را کیفیّتِ دیگر گرفت اے کہ حجِّ عاشقاں طوفِ تجلّی گاہِ تو صبحِ خندانِ شبِ یثرب رُخِ دلخواہِ تو لمعۂ از خاکِ کویت بُردہ مہرش نام کرد در جبینِ چرخ تابد سجدۂ درگاہِ تو ذرّہ ہایش حسنِ یوسف قیمتِ خود گفتہ اند ہے چہ ارزان ست جلوہ در تجلّی گاہِ تو سطوتِ توحید نقدِ شرکِ را قیمت شکست سِکّہ زد بر قلبِ کثرت ضربِ الّااللہ ِ تو شوکتِ موسیٰ علمدارِ ورودِ پرجلال عظمتِ عیسیٰ نقیبِ مرکبِ ذیجاہِ تو قُدسیاں را علمِ اوّل قصّۂ ذکرِ جمیل خاکیاں را درسِ آخر ذاتِ حق آگاہِ تو دہر را نقشِ کفِ پایت طرازِ زندگی نبضِ گیتی را رمِ خُوں موجِ گردِ راہِ تو یک شعاع انداختی و ہستیم پُرنور شد ذرّہ ام بالید و حیرتخانۂ صد طُور شد الصّلوٰۃ اے ما تہیدستانِ محشر را کفیل! السلام اے یومِ پرسش حسبنا نعم الوکیل الصّلوٰۃ اے دردِ عصیاں را دوائے جاں نواز! السلام اے آتشِ جاں را نویدِ سلسبیل الصّلوٰۃ اے از تو روشن بزمِ توریت و زبور! السلام اے از تو گلشن جیبِ موسیٰ و خلیل! الصّلوٰۃ اے آیۂ تقدیس را برہانِ صدق! السلام اے نسخۂ توحید را شرحِ جلیل الصّلوٰۃ اے طَرِّقوْا گویاں براہت قدسیاں! السلام اے مروحہ جنباں ببزمت جبرئیل! الصّلوٰۃ اے محوِ شوقت خستگانِ شرق و غرب! السلام اے در فراقت گریہ ہائے گنگ و نیل! الصّلوٰۃ اے چشمِ مہرت بندگیّم را صلہ! السلام اے کیفِ دردت عشق را اجرِ جمیل! بینوایانہ بدرگاہِ تو سر افگندہ ایم! یا بران و یابخواں تو خواجۂ ما بندہ ایم! دُعا اے خدا دے زورِ دستِ خالدؓ و حیدرؓ ہمیں پھر اُلٹنا ہے صفِ کفر و درِ خیبر ہمیں مست تھی جس کے نشہ سے روحِ سلمانؓ و بلالؓ ہاں پلا دے پھر وُہی صہبائے کیف آور ہمیں دل صنم خانہ بنا ہے! یادِ غیراللہ سے بُت بھی اب کہنے لگے مسلم نما کافر ہمیں المدد اے نعرۂ اللّٰہُ اکبر المدد بتکدے کو پھر بنانا ہے خدا کا گھر ہمیں تیری رحمت دیتی جاتی ہو تسلّی ساتھ ساتھ لے چلے جب شرمساری جانبِ محشر ہمیں ڈگمگاتے ہیں گرے جاتے ہیں تیرے ناتواں اے تری رحمت کے صدقے تھام لے بڑھ کر ہمیں تیرے دَر کو چھوڑ کر ہم بینوا جائیں کہاں یا بتا دے اَور کوئی اپنے جیسا گھر ہمیں دُوسروں کو زور و زَر دے عیش دے آرام دے اور ہمیں اِس دولتِ دنیا سے صرف اسلام دے۷۵ ۱۱۶ میری پارکر فولیٹ (Mary Parker Follett) ۳ ستمبر ۱۸۶۸ء کو امریکی ریاست میسا چوسٹس میں پیدا ہوئی تھیں۔ اداروں کی تنظیم کے حوالے سے ان کا کام ایک سند بنتا جاتا رہا تھا۔ اس برس ان کی کتاب نئی ریاست (The New State) شائع ہوئی جس کی بازگشت اگلے چند برس میں اقبال تک بھی پہنچنے والی تھی۔ فولیٹ نے مغربی جمہوریت کو پرانی جمہوریت قرار دیتے ہوئے ایک نئی جمہوریت کا خواب پیش کیا جس میں سیاسی جماعتیں نہ ہوں۔ جس کا مقصد پوری قوم میں فکر و نظر کا اتحاد پیدا کرنا ہو۔ ان کے نزدیک فرد اور معاشرے میں کوئی تضاد نہ تھا بلکہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ The New State by Mary Parker Follett [Excerpt, p.156] The enthusiasts of [new] democracy to-day are those who have caught sight of a great spiritual unity which is supported by the most vital trend in philosophical thought and by the latest biologists and social psychologists. It is, above all, what we have learnt of the psychical processes of association which makes us believe in democracy. Democracy is every one building the single life, not my life and others, not the individual and the state, but my life bound up with others, the individual which is the state, the state which is the individual. 'When a man's eye shall be single'-Do we quite know yet what that means? Democracy is the fullest possible acceptance of the single life. ۱۱۷ یکم اپریل کو ظفر علی خاں نے ستارۂ صبح چھوڑ دیا۔ حیدرآباد دکن کے دارالترجمہ میں ملازمت ملی تھی۔ پنجاب کے صوفیوں بالخصوص پیر جماعت علی شاہ نے انگریز حکام سے شکایات کی تھیں۔ ممکن ہے حکام نے حیدرآباد کی حکومت کو اِشارہ کیا ہو کہ ظفر کو پنجاب سے ہٹائے۔۷۶ ’’نہایت قابل آدمی ہیں اور اُن کا ذہن مثل برق کے تیز ہے،‘‘ اقبال نے ۱۰ اپریل کو کشن پرشاد کے ایک خط کا جواب دیتے ہوئے ظفر کے بارے میں لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ ان کی علمی قابلیت سے ریاست کو بہت فائدہ ہو گا۔‘‘ مثنوی کا دوسرا حصہ چھپ کر تیار ہو چکا تھا۔ کچھ کاپیاں جلد باندھنے کو جلدگر کے پاس بھجوا دی گئیں۔ باب۶ گوئٹے کی درس گاہ اپریل ۱۹۱۸ء سے نومبر ۱۹۲۰ء ۱ مثنوی رموز بیخودی یعنی اَسرارِ حَیاتِ ملّیۂ اِسلامیہ از ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم۔ اے۔ بیرسٹر ایٹ لأ لاہور باہتمام حکیم فقیر محمدؐ صاحب چشتی نظامی در یونین سٹیم پریس لاہور طبع گردید لالہ دیوان چند پرنٹر (بار اول تعداد ۱۴۰۰) دیباچہ یہ مثنوی کسی طویل الذیل دیباچہ کی محتاج نہیں۔ تاہم اس کے مقاصد کی ایک مختصر تشریح ضروری ہے۔ جس طرح حیاتِ افراد میں جلبِ منفعت، دفعِ مضرت، تعیینِ عمل و ذوقِ حقائقِ عالیہ احساسِ نفس کے تدریجی نشو و نما اس کے تسلسل توسیع اور استحکام سے وابستہ ہے اُسی طرح ملل و اَقوام کے حیات کا راز بھی اسی احساس یا بالالفاظِ دیگر ’’قومی اَنا‘‘ کی حفاظت، تربیت اور استحکام میں مضمر ہے اور حیاتِ ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افرادِ قوم کسی آئینِ مسلّم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کے حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال کا تبائن و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لئے ایک قلبِ مشترک پیدا ہو جائے۔ افراد کی صورت میں احساسِ نفس کا تسلسل قوتِ حافظہ سے ہے۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے۔ گویا قومی تاریخ حیاتِ ملیہ کے لئے بمنزلہ قوتِ حافظہ کے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے ’’قومی اَنا‘‘ کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے۔ علم الحیات و عمرانیات کے اِسی نکتے کومدِّنظر رکھ کر میں نے ملّتِ اسلامیہ کی ہیئتِ ترکیبی اور اس کے مختلف اجزأ و عناصر پر نظر ڈالی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی حیات کا صحیح ادراک اِسی نقطۂ نگاہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ البتہ اِس ضمن میں ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی مختص الہیئت جماعت کا انحطاط زائل کرنے اور اُس کی زندگی مضبوط و محکم کرنے کے عملی اصول کیا ہیں۔ اس سوال کا مجمل جواب مثنوی کے دونوں حصّوں میں آ چکا ہے۔ مگر مفصّل جواب کے لئے ناظرین کو انتظار کرنا چاہئے اگر وقت نے مساعدت کی تو اِس مثنوی کا تیسرا حصہ اِسی سوال کا تفصیلی جواب ہو گا۔ اُستاذی حضرت قبلہ مولانا مولوی سید میر حسن صاحب دام فیضہم، پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ اور مولانا شیخ غلام قادر صاحب گرامی شاعرِ خاص حضور نظام دکن خلداللہ ملکہٗ و اجلالہ میرے شکریہ کے خاص طور پر مستحق ہیں کہ ان دونوں بزرگوں سے بعض اشعار کی زبان اور طرزِ بیان کے متعلق قابلِ قدر مشورہ ملا، علیٰ ہذاالقیاس اپنے احباب میر نیرنگ، میرزا اعجاز اور مولانا عمادی کا بھی سپاس گذار ہوں کہ بعض مطالب کی تحقیق میں ان سے بھی مدد ملی۔ ۲ ’رموزِ بیخودی‘ عمدہ سفید کاغذ پر چھپی تھی۔ سرورق کی چھپائی سرخ، سبز اور سیاہ تھی۔ قیمت چار روپے تھی۔جن دوستوں کو تحفۃً بھجوائی اُن میں کشن پرشاد، سید سلیمان ندوی اور محمد علی جوہرؔشامل تھے۔۱ ۳ ’’اقبال کی دوسری مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ اُس شاہراہ کی نشاندہی کرتی ہے جس کے لیے زمین ہموار کرنے کا کام اُن کی پہلی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ نے کیا تھا،‘‘ محمد علی جوہرؔ نے بعد میں لکھا۔ ’’اب منزل مقصود کا پا لینا ایک اندھے کے لیے بھی دشوار نہ تھا۔‘‘۲ ایک نسخہ نظام حیدر آبا دکن کو بھی ارسال کیا گیا۔ اس کے ساتھ فارسی میں تہنیت کے سات اَشعار تھے کہ آپ کے دم سے ہندوستان کی شام ہمارے لیے صبح ہے۔ اِمکان ہے کہ یہ اَشعار فروری میں لکھے گئے ہوں جب نظام علیگڑھ آئے تھے اور بیماری کی وجہ سے اقبال نہ جا سکے تھے۔۳ ۴ ’رموزِ بیخودی‘ ظفر علی خاں [تبصرے سے اقتباس] لسانِ توحید، ترجمانِ حقیقت ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی شاعرانہ سرگرمیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کا سلسلہ مدتِ مدید سے جاری ہے۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کو مبدٔ فیاض سے جو نکتہ رس و نکتہ سنج طبیعت اور جو فلسفیانہ و شاعرانہ دماغ عطا ہوا ہے، اگر سچ پوچھئے تو ابھی دنیا نے اُس کی اِس حد تک قدر و منزلت نہیں کی جس کا وہ حقیقت میں مستحق ہے۔ اس سے پیشتر ڈاکٹر صاحب کے اُردو ترانے دربارِ عام سے شہرت و قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں لیکن اب کچھ عرصہ سے علامہ ممدوح کی توجہ فارسی کی طرف منعطف ہوئی ہے اور اس میدان میں بھی آپ نے تخیل کے زبردست تازیانوں سے سمندِ فکر کو جیسے جیسے کاوے دئیے ہیں، ان کا اعتراف ہندوستانی تو کیا بڑے بڑے ماہر و مشاق ایرانی شہ سواروں کو بھی کرنا پڑے گا۔ ستارۂ صبح (حیدرآباد دکن)، ۱۷ اپریل ۱۹۱۸ئ۴ ۵ پرانے لاہور کے محلے تھڑیاں بھابھڑیاں کے مکان للی لاج میں رہنے والے خواجہ کریم بخش سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر وسطِ ہند کی کسی ریاست میں ملازم ہو گئے۔ ان کے بھائی خواجہ رحیم بخش مشرقی پنجاب میں رہنے لگے۔ للی لاج کی وہ ادبی محفلیں جن میں کسی زمانے میں اقبال بھی جایا کرتے تھے اس برس ختم ہو گئیں۔۵ ۶ جرمن شاعر گوئٹے نے ایران کے عشق میں مبتلا ہو کر دیوان لکھا تھا۔ ٹھیک سے معلوم نہیں کہ کب اقبال کو احساس ہوا کہ مشرق کی طرف سے گوئٹے کی محبت کا جواب دینا اُن کے حصے میں آیا ہے۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اسی برس کسی وقت یہ خیال آیا۔ نیا رجسٹر جس میں مارچ میں اُردو غزل لکھی تھی،اُسی کے شروع میں جرمن ادب کے حوالے سے چند نکات اور گوئٹے کے دیوان کے بارے میں ایک اور جرمن شاعر ہائنے کی ایک تحریر کے انگریزی ترجمے کا اقتباس درج ہوا جس کا ترجمہ اُردو میں یوں ہو سکتا تھا: ’’یہ ایک گلدستۂ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔۔۔ اِس دیوان سے اِس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے۔‘‘۶ تیسرے صفحے پر ایک عنوان لکھا: In Reply to Goethe's West-Ostlicher Divan نئی تصنیف کا آغاز تھا۔ نیا رجسٹر اُس مجموعے کی بیاض بن گیا جو دیوانِ گوئٹے کے جواب میں لکھا جا رہا تھا۔ ۷ پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کو اُردو نصاب کی پانچ یا آٹھ کتابوں کی تصحیح کروانی تھی۔ چند مضامین بھی لکھوانے تھے۔ اقبال نے راشد الخیری کا نام تجویز کیا۔۷ ۸ ’اسرارِ خودی‘ کے دوسرے اڈیشن کا ایک دفعہ پھرخیال آیا۔حافظؔ والا باب نکال دیا اور اس کی جگہ شعر کی حقیقت اور اسلامی ادبیات کی اصلاح کے بارے میں ایک نیا باب لکھا: درحقیقتِ شعر و اصلاحِ ادبیاتِ اسلامیہ۔ خیال تھا کہ بہت سی غلط فہمیاں دُور ہو جائیں گی اور اصل مطلب واضح ہو جائے گا۔دیباچہ مختصر ہونے کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث بنا تھا۔ اسے بھی نکال دیا۔۸ ۹ ۱۸ اپریل تھی۔ بمبئی کے پارسی سرمایہ دار سر ڈنشا پیٹٹ کی اٹھارہ سالہ لڑکی رتن بائی نے گھر چھوڑا، اسلام قبول کیا اور بیرسٹر محمد علی جناح سے شادی کر لی۔رتن بائی کا اسلامی نام مریم جناح تھا۔ ۱۰ روس کی بالشویک حکومت نے وہ خفیہ معاہدے شائع کر دیے جو روسی بادشاہوں نے یورپ کی دوسری طاقتوں کے ساتھ کیے تھے۔ ان میں برطانیہ کے ساتھ کیے ہوئے وہ معاہدے بھی شامل تھے جن کے مطابق عثمانی سلطنت کو ختم کر کے اُس کے ٹکڑے آپس میں تقسیم کرنے تھے۔ دوسری طرف حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ عثمانی سلطنت کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ ۱۱ اقبال اس دفعہ پنجاب یونیورسٹی کے بی اے فارسی پرچہ الف اور فلسفہ پرچہ ب کے ممتحن تھے۔ ایم اے فلسفہ کے ممتحن بھی تھے۔ اس میں ان کے ساتھ ایس سی رائے، این کے سین اور ڈاکٹر ڈبلیو وی ہیگ بھی شریک تھے۔۹ ۱۲ سید سلیمان ندوی ’اسرارِ خودی‘ کے اکثر اَشعار محمد علی جوہر کی زبانی سن چکے تھے۔ پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اب ’رموزِ بیخودی‘ ملی تو معارف کے لیے تبصرہ لکھنا شروع کیا۔ ۲۸ اپریل کواقبال کو مولانا ابوالکلام آزاد کا خط ملا۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی تعریف کی تھی۔ اُسی روز سید سلیمان ندوی کا خط آیا۔ مثنوی کو پسند کر کے رائے دی تھی۔ رسالہ صوفی میں اقبال کی کوئی نظم شائع ہوئی تھی جس پر شکایت کی تھی کہ ان کے رسالے معارف کو کیوں فراموش کیا۔ اقبال نے اُسی وقت سید سلیمان ندوی کو لکھاکہ شبلی کے بعد اُستاذالکل ہیں، ’’اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔ ‘‘صوفی نے کوئی پرانی پہلے سے چھپی ہوئی نظم شائع کر دی ہوگی ورنہ اقبال اسے معارف پر ترجیح نہیں دے سکتے، ’’معارف ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارتِ ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔ میں انشأاللہ آپ کے لیے کچھ لکھوں گا۔‘‘ ۱۳ دہلی میں وائسرائے کی وار کانفرنس ہو رہی تھی جس کا مقصد فوج میں ہندوستانی سپاہی بھرتی کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا تھا۔سیاسی رہنماؤں کو بلوایا گیا تھاتاکہ اُن سے وائسرائے کی حمایت میں قرارداد منظور کروائی جائے۔ محمد علی جناح نے متبادل قرارداد پیش کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ وہ برطانوی فوج میں ہندوستانی سپاہیوں کے لیے بھی ترقی کے وہی مواقع طلب کرتے تھے جو انگریزوں کو حاصل تھے۔وائسرائے نے اجازت نہ دی۔ اس پر جناح نے ٹیلی گرام کے ذریعے سخت الفاظ میں انکار کر دیا۔ ۳۰ اپریل کو گاندھی نے وار کانفرنس میں شامل ہو کر وائسرائے کی قرارداد کی مکمل تائید کر دی۔ اُنہوں نے سرکار سے تلک، اینی بیسنٹ اور علی برادران کو بھی کانفرنس میں مدعو کرنے کی درخواست کی تھی مگر تلک نے انکار کر دیا اور علی برادران کو حکومت نے آزاد نہ کیا۔ علی برادران کے نام سے منسوب ہونے پر گاندھی کا نام بھی زیادہ مشہور ہو گیا۔۱۰ ۱۴ پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈوائر کے حکم پر جنگ میں حکومت کی امداد کے لیے یونیورسٹی ہال لاہور میں ایک ’’دربار‘‘ یعنی گورنر صاحب کی موجودگی سے سرفراز جلسہ منعقد کیا گیا۔ ’’اوڈوائر نے نواب ذوالفقار علی خاں کے ذریعے چچا جان سے دربار میں شامل ہونے اور جنگ کے متعلق ایک نظم پڑھنے کی فرمایش کی جسے ٹالنا ممکن نہ تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’میں اُن دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور ریواز ہاسٹل میں رہتا تھا۔ کالج کے کچھ طلبہ کے ساتھ میں بھی یہ درباری مشاعرہ سننے گیا تھا۔‘‘ پنجاب کا جواب اے تاجدارِ خطّۂ جنت نشانِ ہند روشن تجلّیوں سے تری خاورانِ ہند مُحکم ترے قلم سے نظامِ جہانِ ہند تیغِ جگرشگاف تری، پاسبانِ ہند ہنگامۂ وغا میں مرا سر قبول ہو اہلِ وفا کی نذرِ محقر قبول ہو تلوار تیری دہر میں نقّادِ خیر و شر بہروز، جنگ توز، جگرسوز، سینہ ور رایت تری سپاہ کا سرمایۂ ظفر آزادہ، پرکشادہ، پری زادہ، یم سپر سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے ذرّے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے آزادیِ زبان و قلم ہے اگر یہاں سامانِ صلح و دَیر و حرم ہے اگر یہاں تہذیبِ کاروبارِ اُمم ہے اگر یہاں خنجر میں تاب، تیغ میں دَم ہے اگر یہاں جو کچھ ہے عطائے شہِ محترم سے ہے آبادیٔ دیار ترے دم قدم سے ہے وقت آ گیا کہ گرم ہو میدانِ کارزار پنجاب ہے مخاطبِ پیغامِ شہریار اہلِ وفا کے جوہرِ پنہاں ہوں آشکار معمور ہو سپاہ سے پہنائے روزگار تاجر کا زَر ہو اور سپاہی کا زور ہو غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو دیکھے ہیں میں نے سیکڑوں ہنگامۂ نبرد صدیوں رہا ہوں میں اِسی وادی کا رہ نورد طفلِ صغیر بھی مرے جنگاہ میں ہیں مرد ہوتے ہیں اُن کے سامنے شیروں کے رنگ زرد میں نخل ہوں وفا کا، محبت ہے پھل مرا اِس قول پر ہے شاہدِ عادل، عمل مرا ہندوستاں کی تیغ ہے فتّاحِ ہشت باب خونخوار، لالہ بار، جگردار، برق تاب بیباک، تابناک، گہرپاک، بے حجاب دل بند، ارجمند، سحرخند، سیم یاب یہ تیغِ دلنواز اگر بے نیام ہو دشمن کا سر ہو اور نہ سودائے خام ہو اہلِ وفا کا کام ہے دنیا میں سوز و ساز بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز سرمایۂ حقیقتِ کبریٰ ہے یہ مجاز سمجھو تو موت ایک مقامِ حیات ہے قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے اخلاص بے غرض ہے، صداقت بھی بے غرض خدمت بھی بے غرض ہے، اطاعت بھی بے غرض عہدِ وفا و مہر و محبت بھی بے غرض تختِ شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض لیکن خیالِ فطرتِ انساں ضرور ہے ہندوستاں پہ لطفِ نمایاں ضرور ہے جب تک چمن کی جلوۂ گل پر اَساس ہے جب تک فروغِ لالۂ احمر لباس ہے جب تک نسیمِ صبح عنادل کو راس ہے جب تک کلی کو قطرۂ شبنم کی پیاس ہے قائم رہے حکومتِ آئیں اِسی طرح دبتا رہے چکور سے شاہیں اِسی طرح ۱۵ ’’مجھے یاد ہے یونیورسٹی ہال والے مشاعرے کے بعد ایک دن [اسلامیہ کالج کے ریواز ہاسٹل میں] چودہری محمد حسین کے کمرے میں چچا جان کی نظم متذکرہ بالا پر گفتگو ہو رہی تھی،‘‘ اعجاز احمد ’پنجاب کا جواب‘ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ ’’ایک شریک طالب علم جن کا نام یاد نہیں آ رہا جو صوبۂ سرحد کے رہنے والے تھے اور بڑے انگریز دشمن تھے۔ چچا جان کی اس نظم کے پڑھے جانے پر بڑے پرجوش انداز میں اعتراض کر رہے تھے اور بیچارے چودہری صاحب کے لیے نظم کا جواز پیش کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنی عادت کے مطابق اپنی داڑھی کھجا رہے تھے جیسے وہاں سے نظم کا جواز تلاش کر رہے ہوں اور نظم کے بعض اشعار کے بین السطور مطالب بیان کر رہے تھے۔ مثلاً نظم کا ایک بند ہے: آزادیٔ زبان و قلم ہے اگر یہاں۔۔۔ [الخ]۔۔۔ چودہری صاحب کا کہنا تھا کہ شاعر نے استفہامیہ فقرہ ’ہے اگر یہاں‘ استعمال کر کے اصل میں ’آزادیٔ زبان و قلم‘ اور ’صلحِ دَیر و حرم‘ وغیرہ کے ملک میں فقدان کی طرف اِشارہ کیا ہے اور ’جو کچھ بھی عطائے شہِ محترم سے ہے‘ کہہ کر اِشارہ کیا ہے کہ ان کا فقدان حکومت کی سخت گیر اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں برسرِ پیکار رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے ہے۔ اِسی طرح ایک اور بند ہے: جب تک چمن میں جلوۂ گل کی اَساس ہے۔۔۔ [الخ]۔۔۔ چودہری صاحب کا کہنا تھا کہ چمن میں جلوۂ گل مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے پھر خزاں آ جاتی ہے۔ اِسی طرح لالۂ احمرلباس کا فروغ بھی وقتی ہوتا ہے اور گلِ لالہ جلد مرجھا جاتا ہے۔ نسیمِ صبح بھی مختصر عرصہ کے لیے چلتی ہے اور قطرۂ شبنم بھی پرتوِ خورشید سے جلد فنا ہو جاتا ہے۔ شاعر نے ’قائم رہے حکومت و آئیں اِسی طرح‘ کہہ کر دراصل اِشارہ کیا ہے کہ انگریز کی حکومت کی میعاد اَب تھوڑی رہ گئی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ اِن اَشعار کی اِس شرح کو چودہری صاحب نے شاعر کی طرف منسوب نہیں کیا تھا بلکہ یہ دُور کی کوڑی اُن کی اپنی لائی ہوئی تھی جس سے معترض کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔‘‘۱۱ اس قسم کی بحثیں صرف کالج کے ہاسٹلوں میں نہیں ہو رہی تھیں۔ زمانے کا مزاج بدل رہا تھا۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان سے محبت کا مطلب یہی سمجھا جاتا تھا کہ انگریز حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ کوئی ذاتی مفاد کے لیے انگریز کی وفاداری نباہتا تھا۔ کوئی قوم کی سلامتی کے لیے۔ اب وہ بات ختم ہو رہی تھی۔۱۲ ۱۶ ’رموزِ بیخودی‘ سید سلیمان ندوی [اقتباس] زبان کے لحاظ سے میں اقبال کو اُن شعرأ میں گنتا ہوں جو معنوی محاسن اور باطنی خوبیوں کے مقابلے میں الفاظ اور محاوروں کی ظاہری صحت کی پروا نہیں کرتے، لیکن حق یہ ہے کہ اِس لغزشِ مستانہ پر ہزاروں سنجیدہ اور متین رفتاریں قربان ہیں۔ مصرعوں کے دروبست اور فصل و وصل میں قصور ممکن ہے، لیکن یہ ناممکن ہے کہ جو مصرع ڈاکٹر اقبال کی زبان سے نکل جائے وہ تیر و نشتر بن کر سننے والوں کے دل و جگر میں نہ اُترے۔ شاید اس کا سبب یہی ہے کہ ڈاکٹر اقبال اپنے مخاطب کے احساسات پر مذہب، فلسفے، تصوّف اور شاعری ہر راہ سے حملہ کرتے ہیں اور اس لیے اختلافِ مذاق کے باوجود ان مختلف راہوں میں سے کسی ایک سے بھی بچ کر نکل نہیں سکتا۔ زیرِ تقریظ مثنوی میرے خیال میں زبان کے لحاظ سے ’اَسرارِ خودی‘ سے بہتر ہے۔ اور اصل معنی کے لحاظ سے دونوں میں یہ فرق ہے کہ اِس میں بظاہر سیاست بیشتر اور اُس میں مذہب کے عناصر زیادہ ہیں لیکن منزلِ مقصود ایک ہے۔۔۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر اقبال نے جو اَسرار و نکات اس میں حل کیے ہیں، اُن کی بنا پر یہ مثنوی نہ صرف شاعری اور فنِ قومیات کا ایک رسالہ ہے بلکہ ہمارے خیال میں جدید علمِ کلام کی ایک بہترین کتاب ہے۔ توحید کا ثبوت، رسالت کی ضرورت، قرآن پر ایمان رکھنے کا سبب اور قبلہ کی حاجت وغیرہ اعتقادی مسائل پر نہایت پراثر اور تشفی بخش دلائل اس کے اندر موجود ہیں۔ معارف، اپریل ۱۹۱۸ئ۱۳ ۱۰مئی کو معارف میں ’رموزِ بیخودی‘ پر سیلمان ندوی کا تبصرہ اقبال کی نظر سے گزارا۔ اُسی وقت شکریے کا خط لکھا اور درخواست کی کہ صحتِ الفاظ و محاورات کے متعلق جو غلطیاں نظر سے گزری ہوں وہ اگر کتاب کے صفحات ہی پر نوٹ کی تھیں تو کتاب بھجوا دیں یہاں سے دوسری ارسال کر دی جائے گی۔ ۱۷ اس ماہ لندن سے وکٹورین عہد کی چار مشہور شخصیات کے سوانحی خاکوں پر مشتمل کتاب The Eminent Victorians یعنی نامور وکٹورینز شائع ہوئی۔ مصنف لٹن اسٹریچی تھا۔ رئیس زادہ تھا۔ کیمبرج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ جنگ کے خلاف تھا۔ اسٹریچی کے خیال میںلاعلمی کسی مورخ کی سب سے بڑی اہلیت تھی۔ اچھی تاریخ صرف اُسی زمانے کے بارے میں لکھی جا سکتی تھی جس کے بارے میں کافی معلومات موجود نہ ہوں۔ تاریخ معلومات کو ترتیب دینے کا نہیں بلکہ ماضی کے بارے میں افسانے تراشنے کا فن تھا جنہیں حقیقت کے نام سے پیش کیا جا سکے۔ اسٹریچی بھی یہی کرنا چاہتا تھا مگر وکٹورین عہد کے بارے میں معلومات بہت وافر تھی۔ شخصی خاکے لکھنے پڑے۔ پادری میننگ، نرس فلورنس نائٹنگیل، ماہرِ تعلیم ٹامس آرنلڈ (اقبال کے استاد نہیں بلکہ میتھو آرنلڈ کے والد) اور جرنیل گارڈن کی شخصیات کو کمزور انسانوں کے رُوپ میں پیش کیا۔ جلے کٹے طنز پر خاکے کی عمارت اٹھاتے ہوئے تاریخی واقعات، گپ شپ اور قیاس آرائیوں کے رنگ روغن سے ایک خاکہ تیار کیا جوبالکل کسی افسانے جیسا تھا۔ دیباچے میں اسٹریچی نے لکھا کہ سوانح لکھنے کا طریقہ یہی ہے۔ دلکش اختصار ہرایسی بات سے گریز کرے جو توجہ کے لائق نہیں ہے اور ہر ایسی بات کو شامل کر لے جو توجہ کے لائق ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ توجہ کے لائق وہی بات ہو سکتی تھی جو اِنسان کو حقیر اور ذلیل مخلوق کے طور پر پیش کرے جس کی تمام کوششیں بیکار جاتی ہیں: It is not by the direct method of a scrupulous narration that the explorer of the past can hope to depict that singular epoch. If he is wise, he will adopt a subtler strategy. He will attack his subject in unexpected places; he will fall upon the flank, or the rear; he will shoot a sudden, revealing searchlight into obscure recesses, hitherto undivined. He will row out over that great ocean of material, and lower down into it, here and there, a little bucket, which will bring up to the light of day some characteristic specimen, from those far depths, to be examined with a careful curiosity. Guided by these considerations, I have written the ensuing studies. I have attempted, through the medium of biography, to present some Victorian visions to the modern eye. They are, in one sense, haphazard visions ... I hope, however, that the following pages may prove to be of interest from the strictly biographical, no less than from the historical point of view. Human beings are too important to be treated as mere symptoms of the past. They have a value which is independent of any temporal processes — which is eternal, and must be felt for its own sake. The art of biography seems to have fallen on evil times in England. We have had, it is true, a few masterpieces, but we have never had, like the French, a great biographical tradition... To preserve, for instance, a becoming brevity — a brevity which excludes everything that is redundant and nothing that is significant — that, surely, is the first duty of the biographer. The second, no less surely, is to maintain his own freedom of spirit. It is not his business to be complimentary; it is his business to lay bare the facts of the case, as he understands them. اسٹریچی کہہ رہا تھا کہ انسان میں آفاقیت ہے مگر اُس کے نزدیک آفاقیت کا مفہوم یہ تھا کہ شخصیت کو ماحول کی پیداوار بتایا جائے جو زمانے سے بلند ہو کر زمانے کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ کہہ رہا تھا کہ سچائی کی تلاش ہے مگر طے کر رکھا تھا کہ سچی بات وہی ہے جس سے ثابت ہو کہ زندگی سعیٔ لاحاصل ہے۔۱۴ ۱۸ معلوم ہوتا ہے کہ گرامی کو مثنوی شروع میں نہیں بھیجی جا سکی کیونکہ ان دنوںان کا پتہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ان کا خط آیا جس میں مثنوی کی تعریف تھی۔ نیازالدین خاں یا کسی اور کے پاس دیکھی ہو گی۔ شکایت تھی کہ اقبال گواہی دینے سے جی چرا رہے ہیں۔ ’’تعجب ہے آپ نے میرے عذرات سے یہ سمجھا کہ میں حق گوئی سے پہلو تہی کرتا ہوں،‘‘ اقبال نے فوراً ہی مثنوی کی ایک کاپی انہیں بھجواتے ہوئے جواب لکھا اور وضاحت کی کہ گواہی خواہ جالندھر میں لی جائے یا لاہور میں گرامی کے حق میں برابر ہو گی۔ ’’آپ کے ساتھ تو تعلقات ہیں جس آدمی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہ ہو میں اس کے لیے بھی حق گوئی کے لیے تیار ہوں انشأ اللہ۔‘‘ بہرحال اگر گرامی انہیں جالندھر جا نے کی تکلیف دینا ہی چاہتے تھے تو وہ تیار تھے۔۱۵ ۱۹ ۲۳ مئی کو ’’ہلاکِ جادوئے سامری‘‘ والی غزل سلیمان ندوی کو معارف میں شائع کرنے کے لیے بھجوا دی۔۱۶ ۲۰ فیصلہ ہوا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں اب فارسی کے ایم اے کا امتحان بھی ہوا کرے گا۔ اقبال سے کورس مرتب کرنے کے لیے کہا گیا۔ انہیں گرامی کا خیال بھی آیا مگر انہوں نے لاپرواہی میں کبھی کلام مرتب کر کے چھپوایا نہیں تھا سوائے ایک مثنوی کے کچھ حصے کے اور وہ بھی نجانے بازار میں تھا یا نہیں۔۱۷ ۲۱ آفتاب کو ہرمہینے جو پینتیس روپے ماہوار ملتے تھے انہوںنے اس میں اضافے کا مطالبہ کیا کہ پچاس روپیہ ماہوار کر کے دو سال کی رقم بارہ سو روپے ایک ساتھ دے دی جائے۔ اقبال نے انکار کر دیا۔ آفتاب نے شیخ گلاب دین وکیل کو بھی خط لکھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمام حالات سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب (اقبال) سے بات نہیں کریں گے۔ معاملہ سردار بیگم کے علم میں آیا تو اقبال کو بتائے بغیر اپنا زیور بیچ کر رقم ادا کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ شیخ نورمحمد کو خط لکھ دیا۔ ۲۲ کوئی کیپٹن منظور حسین تھے۔ انہوں نے اقبال کے انداز کی نظمیں لکھ کر مجموعہ مرتب کیا۔ اقبال کی طلبہ علی گڑھ کے نام لکھی ہوئی نظم کے پہلے شعر سے اس کا عنوان اخذ کر کے ’’پیامِ غربت‘‘ نام رکھا اور سرِ عنوان اقبال کا شعر بھی لکھ دیا: اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے غربت کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے اقبال کو مجموعہ خط کے ساتھ بھیجا تو ۷ جون کو انہوںنے شکریے کے خط میں وہ حکایت لکھی کہ جنید بغدادی ؒنے بیماری میں قرآن کی آیت پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لی تو خدا کی طرف سے ملامت ہوئی کہ ہمارا کلام اپنے نفس کی خاطر صرف کرتا ہے۔ ’’آج یہ حالت ہے کہ خدا کا کلام تو ایک طرف اپنا کلام بھی اپنے نفس کی خاطر صرف نہیں ہونا چاہئے،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’سرِعنوان شعر ۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میرا ہے۔اس نظم میں بہت سے اغلاط چھپ گئے تھے۔‘‘ لکھا کہ دوسرے مصرعے میں غربت کی جگہ عشق ہے ورنہ شعر کا بحر درست نہیں رہتا۔ ’’میرا مقصود شاعری سے شاعری نہیں، بلکہ یہ کہ اوروں کے دلوں میں بھی وہی خیالات موجزن ہو جائیں جو میرے دل میں ہیں اور بس،‘‘ اقبال نے آخر میں لکھا۔ ۲۳ شیخ نور محمد کا خط سردار بیگم کے جواب میں آیا تو اقبال کی نظر سے بھی گزرا۔ سردار بیگم نے ساراماجرا کہہ دیا۔ بنام شیخ نور محمد لاہور ۹ جون ۱۹۱۸ء قبلۂ من السلام علیکم۔ آپ کا خط جو اعجاز کی چچی کے نام آیا ہے میں نے دیکھاہے اور اس نے اس خط کا مضمون بھی مجھے سنایا ہے جو اُس نے آپ کی خدمت میں تحریر کیا تھا۔ یہ اس کے دل کی وسعت اور فراخ حوصلگی کی دلیل ہے مگر یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ میں اس کا زیور لے کر ایک لڑکے کی تعلیم پر صرف کر دوں جس سے نہ اسے کچھ توقع ہو سکتی ہے نہ مجھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا زیور اس خیال سے نہیں دیتی کہ کل کو اسے اس کا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ محض اس غرض سے دیتی ہے کہ مجھ پر کوئی شخص حرف گیری نہ کرے لیکن اگر کوئی شخص مجھ پر حرف گیری کرتا ہے تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ کہ وہ شخص مجھ سے ناخوش ہے۔ برخلاف اس کے ناانصافی میں خدا و رسولؐ کی ناخوشی ہے جس کا برداشت کرنا میری طاقت سے باہر ہے۔ میں اور لوگوں کی حرف گیری آسانی سے برداشت کر سکتا ہوں خدا و رسول کی ناراضگی سے میرا دل کانپتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ دس سال کے عرصے میں بیس پچیس ہزار میرے ہاتھوں میں آیا ہے مگر یہ سب اپنے اپنے موقع پر مناسب طور پر خرچ ہوا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ تاہم اس وقت تک میں ایک عمدہ مکان کرائے پر نہیں لے سکا نہ مکان کے لیے فرنیچر اور سازوسامان خرید سکا ہوں۔ نہ عمدہ گھوڑاگاڑی خرید سکا ہوں۔ یہ سب لوازمات اس پیشے کے ہیں۔ اب میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ جس طرح ہو سکے یہ لوازمات بہم پہنچائے جائیں۔ اب حالات اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیںکہ ان کا بہم پہنچانا لازم اور ضرور ہے۔ میں نے اپنے دل میں عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل کرے تو اپنی نظم و نثر سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھاؤں گا کہ یہ ایک خداداد قوت ہے جسمیں میری محنت کو دخل نہیں۔ خلق اللہ کی خدمت میں اِسے صرف ہونا چاہئے۔ مگر ضرورت سے مجبور ہو کر مجھے اس عہد کے خلاف کرنا پڑا۔ باقی رہے وہ لوگ جو مجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ وہ اسے احسان نہیں جانتے بلکہ قرض تصور کرتے ہیں۔ میں نے ۳۵ روپیہ ماہوار اس کم بخت لڑکے کو دئیے تھے اور کالج کے اور لڑکوں سے اخراجات کے متعلق دریافت کر کے یہ رقم مقرر کی تھی مگر آج تک ہر شخص کے پاس یہی رونا رویا جاتا ہے کہ خرچ ناکافی ملتا ہے۔ ان کو مدد دینا نہ دینا برابر ہے۔ شیخ گلاب دین صاحب کو بھی اس نے خط لکھا تھا مگر انہوں نے اسے یہ جواب دیا ہے کہ حالات مجھے معلوم ہیں اس واسطے میں ڈاکٹر صاحب سے اس بارے میں گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ گزشتہ سالوں میں بھی وہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے۔ اگر آپ کے پاس ان کا بیان کروں تو آپ کو سخت تکلیف ہو گی لہٰذا اس تکلیف دہ داستان کو نظرانداز کرتا ہوں۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کے میں اسے مدد دیتا مگر اس وقت مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کی وجہ سے آمدنیاں قلیل ہو گئی ہیں اور یہ شکایت کچھ مجھی کو نہیں اوروں کو بھی ہے اور وہ پچاس روپیہ ماہوار اس طرح مانگتے ہیں جیسے میں مقروض ہوں اور وہ قرض خواہ۔ میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ کہیں ملازمت کر لے اور کچھ کمانے کے قابل ہو جائے کہ بی اے کے امتحانوں کی اب وہ وقعت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ میں نے تجربے سے دیکھا ہے کہ جو لڑکے انٹرنس یا ایف اے پاس کر کے ملازمت کرتے ہیں وہ بی اے ایم اے پاس کرنے والوں سے بہتر رہتے ہیں مگر اُس نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا اور کالج میں داخل ہونے کے لیے دہلی چلا گیا۔ پھر بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ نے جو کچھ اسے خط میں لکھا ہے بالکل ٹھیک ہے۔ یہی بات میرے دل میں بھی تھی اور یہ اس کے خط کا بہترین جواب ہے۔ بہتر ہے کہ اس کی والدہ اپنے نقرئی و طلائی سرمائے اس کی تعلیم پر خرچ کرے کم از کم اس کا وہ حصہ خرچ کر دے جو اُس نے میرے ماں باپ سے لیا ہے اپنے ماں باپ کا خرچ نہ کرے اور اگر کچھ عرصے بعد میرے ہاتھ میں روپیہ آ گیا تو میں اسے ایک مشت بارہ سو روپیہ دے دوں گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اپنی خیریت سے اطلاع دیں۔ محمد اقبال لاہور ۲۴ آفتاب اور شیخ عطا محمد میں کوئی رنجش پیدا ہوئی۔ معلوم نہیں تعلیم جاری رکھنے، جیب خرچ کے مسئلے پر یا کسی اور بات پر تھی مگر عطا محمد نے آفتاب کو معاف کر دیا۔ آفتاب پھر ناراض ہوئے اور کسی موقع پر اپنی پھوپھی یعنی اقبال کی بہن کریم بی بی سے کوئی دل دکھانے والی باتیں کیں۔۱۸ ۲۵ فقیر سید نجم الدین کے لڑکے وحید الدین نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگلستان جانے کی ضد کی۔ وحید الدین کا بیان ہے کہ والد نے اقبال سے مشورہ کیا۔ اقبال نے کہا کہ یہاں تعلیم مکمل کرنے سے پہلے انگلستان کی خاک چھاننا بے سود ہے۔۱۹ ۲۶ پنجاب یونیورسٹی ایم۔اے فارسی کا نیا نصاب چاہتی تھی۔ بنانے والوں میں اقبال بھی شامل تھے۔ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے فارسی شعرأ کا ایک پرچہ بھی ہو۔ اُس میں نئے شاعر بھی شامل ہوں۔۲۰ انہی دنوں گرامی کا خط آیا۔ بہن سے صلح کر لی تھی مگر اقبال سے شکایت تھی کہ گواہی دینے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بہرحال لاہور آئیں گے۔ اشعار بھیجے تھے کہ کوہکن فرہاد نے تو اپنی جانِ شیریں دے دی، اے عشقِ غیور اب شیریں کے شور کو فرہاد کے تیشے کی زبان دے : کوہکن خود جانِ شیریں داد اے عشقِ غیور شورِ شیریں را زبانِ تیشۂ فرہاد دِہ ’’اب شکوہ شکایت کیا ہوگی آپ نے کام تو وہی کیا جس کے لیے میں ابتدا سے مصر تھا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’گرامی سے پنجاب کے لوگوں کو محبت ہے بلکہ بعض لوگ جن میں میں خود بھی شامل ہوں اس کو ولی مانتے ہیں پھر اِس قسم کی مقدمہ بازی کو خلافِ توقع جان کر اُن کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ میری دلی کیفیت تو یہ ہے کہ ایسے معاملے میں روپیہ کا نقصان بھی برداشت کر جاؤں اور پرو ا نہ کروں۔ اِسی معیار کی عینک سے آپ کو بھی دیکھتا ہوں۔‘‘ اب گرامی کو بہن کے ساتھ حقیقی معنوں میں بھی صلح رکھنی چاہیے تھی۔ گواہی دینے سے اقبال نے کب انکار کیا تھا۔ گرامی کے لاہور آنے کے وعدے پر لاہور کی تمام آبادی میں کسی کو بھی اعتبار نہ تھا۔ اشعار خوب تھے اگر گرامی کی چھپی ہوئی مثنوی مل سکتی ہو تو اُسے نصاب میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ اُس روز اکبرؔ الٰہ آبادی کے نام بھی ایک خط ڈاک میں ڈالا ہی تھا کہ ان کا ایک اور خط آگیا۔ شام کو لاہور میں رمضان کا چانددکھائی دیا۔ بارش نہ ہوئی تھی۔ گرمی زوروں پر تھی۔۲۱ ۲۷ محمد علی جناح نے حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ آئینی اصلاحات کو منظور کرنے سے پہلے شائع کر کے ہندوستانی رائے عامہ معلوم کی جائے۔ چنانچہ اس ماہ وزیرہند مانٹیگو اور وائسرائے چیمسفورڈ کی مشترکہ تجاویز شائع ہوئیں جن کی منظوری ابھی باقی تھی۔ ۲۸ ۱۶ جون کو ’’ہوم رُول ڈے‘‘ منایا گیا۔ ۲۹ آفتاب نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے سیکنڈ ڈویژن میں ایف اے پاس کر لیا۔ مزید پڑھنا چاہتے تھے۔۲۲ ۳۰ سید حسن ریاض بلند شہر کے چوبیس سالہ نوجوان تھے۔ سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس برس انگریزی صحافت میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا تھا مگر اُن کی ملاقات محمد علی کے دوست سید جالب دہلوی سے ہو گئی جو ہمدرد بند ہونے کے بعد ہمدم کے نام سے اخبار نکالنے لگے تھے۔ سید حسن ریاض نے انگریزی کی بجائے اُردو صحافت کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔۲۳ ۳۱ بہت مدّت بعد کشن پرشاد کا خط آیا۔ بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ پچھلے خط اور ’رموزِ بیخودی‘ کا ذکر نہیں تھا نجانے یہ چیزیں ملی بھی تھیں یا ڈاک میں گم ہوگئی تھیں۔ اُسی روز اکبرؔ الٰہ آبادی کی طرف سے ایک اور خط بھی آگیا۔ نیا شوشہ چھوٹا تھا۔ نجانے کس حوالے سے حافظؔ اور تصوف کے بارے میں بات دوبارہ کھل گئی تھی۔باقی کسی پنڈت کشوری لعل کا ذکر تھا جنہیں اقبال اور اکبرؔ دونوں جانتے تھے اور کسی حوالے سے لکھا تھا کہ کعبے اور کاشی کے علاوہ کوئی اور مقام بھی ہے۔ ’’معاف کیجئے گا مجھے آپ کے خطوط سے یہ معلوم ہوا ہے (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کے صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظؔ کے متعلق لکھے گئے تھے،‘‘ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’باقی اشعار پر نظر شائد نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو اُن کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی تاکہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔ ‘‘ کعبہ اور کاشی والی بات کے حوالے سے لکھا، ’’آپ کے قلم و زبان سے یہ بات زیب نہیں دیتی۔ آپ کے نزدیک توکعبہ کے سوا کوئی اور مقام نہ ہونا چاہئے۔ یہی میرا بھی مذہب ہے۔‘‘وجہ یہ بتائی کہ اسلام کو سائنس سے نہیں بلکہ جغرافیائی قومیت سے خطرہ ہے جس کی وجہ سے ترکی، مصر اور ہندوستان میں مسلمان اپنی مذہبی قومیت کے اصول کے خلاف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’انشأ اللہ کل صبح کی نماز کے بعد دعا کروں گا،‘‘ اُسی روز کشن پرشادکے جواب میں اُن کی بیٹی کی بیماری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا۔ ’’بندۂ روسیاہ کبھی کبھی تہجد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اُس وقت عبادتِ الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے کیا عجب ہے کہ دعا قبول ہو جائے۔‘‘ ۳۲ تیر اور برچھی اور خنجر اور تلوار میری آرزو ہے،میرے ساتھ نہ آ کہ میں شبیر کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تمہارے جی میں جو کچھ آتا ہے ہم سے مانگ لو، میں نے عرض کی کہ مجھے تقدیر کو بے پردہ دیکھنے کی آرزو ہے۔ مجھے اپنے دن رات کی بس اِتنی خبر ہے: میں خواب بھول چکا ہوں اور تعبیر کا ارمان ہے! کدھر ہے وہ اِتراتی ہوئی نظر جو پہلی بار میرا دل لے گئی تھی۔ تیری عمر دراز ہو مجھے اُسی تیر کی تمنا ہے! غزل تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست با من میا کہ مسلکِ شبیرم آرزوست گفتند ہر چہ در دِلت آید زما بخواہ گفتم کہ بے حجابیٔ تقدیرم آرزوست از روزگارِ خویش ندانم جز ایں قدر خوابم زیاد رفتہ و تعبیرم آرزوست کُو آں نگاہِ ناز کہ اول دلم ربود عمرت دراز باد ہماں تیرم آرزوست جولائی ۱۹۱۸ئ۲۴ ۳۳ رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ (East And West) کے جولائی کے شمارے میں ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ پر عبدالرحمٰن بجنوری کا تبصرہ شائع ہوا۔ اقبال کو پسند آیا۔ مبصر نے مرزا غالب، مولانا حالی اور اقبال کو ہندوستان کے جدید اسلامی ادب کے ارکان قرار دیا تھا: ۱ غالب نے لوگوں کے دلوں میں ایسے شکوک پیدا کیے جو صحتمند فکر کی بنیاد فراہم کرتے تھے۔ یوں دہلی کی پرانی تہذیب فنا ہوئی اور انحطاط کا خاتمہ شروع ہوا۔ ۲ حالی نے جو غالب کے شاگرد تھے، پرانی تہذیب کی جگہ ایک نئی تعمیر کی بنیاد رکھی۔ اُن کی تخلیقی قوت میں اُداسی کے ساتھ ساتھ مسرّت بھی موجود تھی۔ اس لیے اُن کے بعد کی نسل کا شاعر مایوسی سے مکمل طور پر آزاد ہو کر خوداعتمادی کے ساتھ سامنے آیا۔ ۳ یہ اقبال تھے۔ انہوں نے حالی کی شروع کی ہوئی عمارت کو جس بنیاد پر اُٹھایا ہے وہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی ہے۔ اس کے کچھ اہم پہلوہیں: ۱ دَورِ حاضر کے غیرملکی عنصر پر قابو پانا جو ہندوستان کی فضا پر چھا رہا تھا۔ ۲ اسلامی روحانیت کی مدد سے اُس اَنانیت کو شکست دینا جو مادّی دَور کی پیداوار ہے۔ ۳ ادب کو نوجوانوں کے حوالے کر کے جوان کر دینا۔ ۴ اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر کا آغاز کرنا۔ یہ کام ’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ سے شروع ہوا ہے۔۲۵ ۳۴ اقبال کی مثنویات عبدالرحمٰن بجنوری [اقتباس کا ترجمہ] جب مثنویوں کا علمِ کلام ہر جگہ سمجھ میں آ جائے گا تو تمام اِسلامی دنیا میں وہ لہر چلے گی۔ جس کا نتیجہ نہایت شاندار ہے۔ اقبال ایک پیغمبر ہے۔ وہ اسلام کے شاندار اور بے نظیر زریں ماضی کا نظارہ کرتا ہے۔ اُس کی نظر مستقبل پر ہے۔ مگر مستقبل ایساہے جیسے اُس کے ہر طرف دُھند چھائی ہے اگرچہ دُھند گہری نہیں ہے۔ بعض دفعہ اِس ملک میں سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر مثنویوں کو اُردو کی بجائے فارسی میں لکھنے سے کیا فائدہ مرتب ہو گا۔ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو گاہے گاہے اور ایک مقصد کے ساتھ منصۂ شہود پر آتے ہیں اور اس کا پیغام تمام اسلامی دنیا کے لیے ہے۔ اس کی مثنویاں بچوں کے مدارس میں سعدی کی گلستان اور دہلی، کابل، طہران، قاہرہ، قازان، استنبول، مدینہ اور مکہ کی جامع مسجدوں کے منبروں پر مثنوی مولانا روم کی جگہ استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ مثنویاں بحرِ رمل مسدس مقصور میں لکھی گئی ہیں۔ بحرِ رمل میں یہ تبدیلی غزل اور مثنوی میں متداول ہے۔ مثنوی معنوی بھی اِسی بحر میں لکھی ہوئی ہے۔ پہلی مثنوی اسرارِ خودی زیادہ حقیقی ہے، دوسری رموزِ بیخودی زیادہ تخیلی ہے۔ رموز میں اگر تھوڑی سی حکایتیں اور ہو جاتیں تو دماغ پر اس کی بھی وہی حقیقی گرفت ہوتی جو اسرارِ خودی کی ہے۔ یہ کمی رموز کے نصف آخر میں خصوصاً بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ کوئی ایسا نقص نہیں جو مصنف دُور نہیں کر سکتا۔ اقبال نے فارسی ادب کے جھوٹے اور مصنوعی ادب القدما سے اصلی ادب القدما کی طرف رہنمائی کر دی ہے۔ صائب کے بعد کے شعرأ عہدِ زریں کی ایک غیرشعوری اور مدہم سی گونج بن کر رہ گئے تھے۔ اقبال کا پھر سے اساتذۂ قدیم کی روش اختیار کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ بیدل اور اس کے متبعین کی شاعری کے خلاف ہے جو رنگین پردوں میں لپٹی ہوئی ہے جس میں حسن و کشش تو ہے مگر قوت و عمل نہیں۔ اس کا طرزِ تحریر مولانا روم کا سا ہے لیکن الفاظ ایسے ہیں جیسے کسی مرصع تلوار کے دستہ میں موتی جڑے ہیں۔ باوجود اپنے اس عظیم الشان پیشرو کی تقلید کے اقبال یقینا بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ نوبیدار مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور اقبال کی شاعری نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے۔ اس نے ایرانی شاعری کی درماندہ رگوں میں خونِ تازہ دوڑایا ہے اور حسنِ صوری کے ساتھ قوتِ معنوی کے مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ مثنویوں کی زبان بہت پرشوکت ہے لیکن اس مردانگی کے باوجود اس میں لوچ اور لچک ہے۔ آج جب کہ فارسی زبان خود اپنے وطن میں اس قدر بدنما ہو گئی ہے۔ اقبال اس کے شباب کی یاد دلاتا ہے۔ فارسی ادب ایک خطرناک دَور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جب خود ایران میں ادبی انحطاط نمایاں ہے دوسری طرف ایک موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو ضرب لگائی ہے اور ایک نیا کوثر پھوٹ بہا ہے جو بنی اِسرائیل کے بارہ چشموں سے کسی طرح کم نہیں۔۲۶ ۳۵ ۲ جولائی کو میاں شاہ دین ہمایوںؔ فوت ہو گئے۔ کل اُن کی قبر پر بلبل روتی تھی اور کہتی تھی کہ اِس ویرانے میں بھی مجھے ایک آشنا مل گیا ہے مگر یہ بلبل اقبال تھے: دوش بر خاکِ ہمایوں بلبلے نالید و گفت اندریں ویرانہ ما ہم آشنائے داشتیم۲۷ اقبال نے دو روز بعد لوحِ مزا رکے لیے یہ شعر لکھ کر میاں شاہنواز کو پیش کیا۔ قطعۂ تاریخ نکالنے کی فکر باقی رہی۔ جسٹس شاہ دین کی جدائی کا اثر ایسا نہ تھا کہ اقبال کے دل یا مسلم معاشرے کے ضمیر سے جلد غائب ہوجاتا۔۲۸ ۳۶ ایک حور کو دُنیائے فانی کے بارے میں تجسس ہوا، جینے اور مرنے کا راز جاننے کے لیے بیتاب ہوئی اور ایک شاخ سے کلی کی صورت میں پیدا ہو کر مر گئی۔ پھول کی خوشبو اُسی کی نشانی ہے۔ ’بوئے گل‘ کے عنوان سے یہ خیال فارسی میں نظم ہوا۔۲۹ ۳۷ ۳ جولائی کو سلطان محمد پنجم فوت ہو گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے نئے سلطان اور مسلمانوں کے خلیفہ کا نام وحیدالدین تھا۔ ۳۸ ۱۱ جولائی کو ناظرالحسن کے خط سے معلوم ہوا کہ کشن پرشاد کا لڑکا کئی روز بخار میں مبتلا رہ کر فوت ہو گیا۔ ’’اقبال محض ایک دل رکھتا ہے جس کو آپ سے اخلاص ہے،‘‘ اُسی روز کشن پرشاد کو خط لکھا۔ ’’اِس دل کی ہمدردی پیش کرتا ہے۔‘‘ ۳۹ مادیات کی دنیا میں نیوٹن اور فطرت کی تاریخ میں ڈارون کی دریافتوں کی انتہا میکانیت (mechanism)پر ہوئی تھی۔ چنانچہ سمجھا گیا تھا کہ تمام مسائل دراصل طبیعیات ہی کے مسائل ہیں۔ زندگی، فکر، ارادہ، احساس اور ہر شے کی توجیہ جواہر (atoms) اور اُن کے خواص کی بنیاد پر ہو جائے گی۔ میکانیت کا تصور محض ایک طبیعیات کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا مگر فطرت کے ہر پہلو کی تشریح اسی کے ماتحت ہونے لگی تھی۔ حیاتیات (biology) کی سائینس میں اس تصور کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں جی بی ایس ہالڈین (J.B.S. Haldane) شامل تھے۔ عموماً ’’جیک‘‘ کہلاتے تھے۔ان کے بڑے بھائی لارڈ رچرڈ ہالڈین اس نظریے کے لیے مشہور تھے کہ حقیقت اور علم کے بھی درجات ہوتے ہیں۔ جیک علم الحیات کا ابھرتا ہوا ستارہ تھے۔ عمر چھبیس برس تھی۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک رئیس خاندان سے تعلق تھاجو آکسفورڈ میں رہتا تھا۔ خدا کو نہیں مانتے تھے۔ مگرزندگی کے میکانکی تصور کی نفی کرتے تھے۔ اس ماہ لندن میں اسرٹوٹیلین سوسائٹی، برٹش سائیکالوجیکل سوسائٹی اور مائنڈ سوسائٹی کے مشترکہ سمپوزیم میں مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ حیات ایک ایسا مظہر ہے جس کی نہ تو کوئی نظیر ہے اور نہ جس کا میکانیاتی نقطۂ نظر سے تجزیہ ہی ممکن ہے: It is thus evident that although we find within the living body many phenomena which, so long as we do not look closely, can be interpreted satisfactorily as physical and chemical mechanism, there are side by side other phenomena [i.e. self-maintenance and reproduction] for which the possibility of such interpretation seems to be absent. The mechanists assume that the bodily mechanisms are so constructed as to maintain, repair, and reproduce themselves. In the long process of natural selection, mechanisms of this sort have, they suggest, been evolved gradually. ‘Let us examine this hypothesis. When we state an event in mechanical terms we state it as a necessary result of certain simple properties of separate parts which interact in the event. . . . The essence of the explanation or re-statement of the event is that after due investigation we have assumed that the parts interacting in the event have certain simple and definite properties, so that they always react in the same way under the same conditions. For a mechanical explanation the reacting parts must first be given. Unless an arrangement of parts with definite properties is given, it is meaningless to speak of mechanical explanation. To postulate the existence of a self-producing or self-maintaining mechanism is, thus, to postulate something to which no meaning can be attached. Meaningless terms are sometimes used by physiologists; but there is none so absolutely meaningless as the expression "mechanism of reproduction". Any mechanism there may be in the parent organism is absent in the process of reproduction, and must reconstitute itself at each generation, since the parent organism is reproduced from a mere tiny speck of its own body. There can be no mechanism of reproduction. The idea of a mechanism which is constantly maintaining or reproducing its own structure is self-contradictory. A mechanism which reproduced itself would be a mechanism without parts, and, therefore, not a mechanism. ۴۰ دُور اُفتادہ قصبے میں روس کا سابق شہنشاہ تاج و تخت سے محروم ہونے کے بعد اپنی سلامتی پر قناعت کر کے اہل ِ خاندان اور چند خدمت گزاروں کے ساتھ گزارا کر رہا تھا۔ قصبے والوں کو خوف محسوس ہوا کہ شہنشاہ کی حامی فوجیں قصبے کا رُخ نہ کر لیں۔ ماسکو والوں سے پوچھا گیا تو ہدایت ملی کہ خود ہی بندوبست کر لیں۔ ۱۶ جولائی کو شاہی مہمانوں کو بتایا گیا کہ انہیں کہیں اور لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ نئی جگہ ایک گودام تھی۔ ’’تمہارے رشتہ داروں نے تمہیں بچانے کی کوشش کی،‘‘ انہیں بتایا گیا۔ ’’وہ ناکام ہوئے اور اب ہم تمہیں گولی مارنے پر مجبور ہیں۔‘‘ مرنے والوں میں زارِ رُوس اور اُس کے خاندان کے تمام افراد کے علاوہ فیملی ڈاکٹر، دربان، باورچی، گھریلو ملازمہ اور پالتو کتا شامل تھے۔ گولی مارنے کے بعد سنگینوں سے کچل کر ختم کیا گیا۔ ۴۱ غمزدہ دل نے شاہ دین ہمایوں کی تاریخ وفات کے لیے جستجو کی تو آٹھ جنّتوں سے آواز آئی، ’’المومن‘‘۔ اس کے اعداد ۱۶۷ ہوتے تھے ۔ آٹھ سے ضرب دی جائے تو ۱۳۳۶برآمد ہوتا تھا جو ہجری سال تھا: چو سالِ وفاتِ ہمایوں دلِ حزیں می جست زہشت خلد ندایم رسید ’’المومن‘‘۳۰ تسلی نہ ہوئی تو خوش آواز بلبل نے بھی سالِ وفات تلاش کیا۔ چاروں طرف سے آواز آئی، ‘‘علامۂ فصیح‘‘۔ اس کے اعداد ۳۳۴ تھے مگر آواز چاروں طرف سے آئی تھی لہٰذا چار سے ضرب دینی تھی۔ ۱۳۳۶ہجری برآمد ہوتا: در گلستانِ دہر ہمایونِ نکتہ سنج آمد مثالِ شبنم و چوں بوئے گل رسید می جست عندلیبِ خوش آہنگ سالِ نوست ’’علامۂ فصیح‘‘ زہر چار سو شنید۳۱ ۴۲ ۱۹ جولائی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ ان کے خیال میں اقبال کی بات میں تضاد تھا۔ ایک طرف خودی کی بات کرتے تھے اور دوسری طرف انسان کو سجدے میں گم ہوجانے کا درس دے رہے تھے۔اکبرؔ الٰہ آبادی نے کچھ آیتیں بھی لکھ کر بھیجی تھیں کہ دنیا محض عارضی ہے۔ ’’میری بدنصیبی یہ ہے کہ آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کو اب تک نہیں پڑھا،‘‘ اقبال نے ۲۰ جولائی کو جواب میں اپنے موقف کو ایک دفعہ پھرتفصیل سے بیان کیا کہ ان کے نزدیک سچی بیخودی اپنے آپ کو خدا کے احکام میں فنا کرنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ ’’غرض یہ ہے کہ سلطنت ہو، امارت ہو، کچھ ہو، بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ یہ ذرائع ہیں اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے،‘‘ انہوں نے ’اسرارِ خودی‘ سے کچھ اور شعر درج کرتے ہوئے لکھا۔ ’’زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ مجھ پر عنائت فرمائیے، عنایت کیا رحم کیجئے اور اسرارِ خودی کو ایک دفعہ پڑھ جائیے۔ جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اُس نے آہ و فریاد کی اُسی طرح مجھ کو آپ کا اعتراض تکلیف دیتا ہے۔‘‘ پھر حسن نظامی کا خط آیا۔ فاتحہ جناب ِامیر میں بلاتے تھے۔ اقبال کی ایک بیوی کچھ عرصے سے بیمار تھیں لہٰذا لکھ دیا کہ وہ اچھی ہو گئیں تو آئیں گے۔سوچا کہ اب نہ جا سکے تو عدالتیں بند ہونے پر ضرور نظام الدین اولیا ٔ کی درگاہ پر ہو آئیں گے۔ اِس دفعہ پھر بہت گرمی پڑی تھی اور ابھی تک لاہور میں بارش بھی نہیں ہوئی تھی۔ برسات خالی جارہی تھی۔۳۲ ۴۳ ایک فارسی رباعی ہوئی کہ پھول نے کہا نوبہار کی زندگی اچھی ہے اور باغ کی ایک صبح زمانے سے بہتر ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی تجھے دستار کی زینت بنا لے کسی شاخ کی گود میں مر جانا ہی اچھا ہے: گل گفت کہ عیشِ نوبہارے خوشتر یک صبحِ چمن زروزگارے خوشتر زاں پیش کہ کس ترا بدستار زند مُردن بکنارِ شاخسارے خوشتر۳۳ ۴۴ پرانی بیاضوں سے فارسی کی بعض غزلیں دیوانِ گوئٹے کے جوابی مجموعے والی بیاض میں نقل کیں۔۳۴ ۴۵ ۲۴ جولائی کو اکبرؔ الٰہ آبادی کا خط ملا۔ فاتحہ جنابِ امیر کا ذکر کیا تھا۔ اُس روز مثنوی مولانا روم کے اس شعر پر اقبال کی نظر پڑی کہ ہر خیال کو دوسرا خیال اور ایک فکر کو دوسری فکر کھا جاتی ہے: ہر خیالے را خیالے مے خودر فکر ہم بر فکرِ دیگر مے چَرد محسوس ہوا کہ مولانا روم اس شعر میں اُس فلسفے کو نظم کر گئے تھے جسے مغرب میں بہت بعد میں جرمن فلسفی شوپنہار نے پیش کیا۔ شام کو ایک محفل میں دیر تک اکبرؔ الٰہ آبادی کے ایک شعر پر گفتگو ہوتی رہی جو اگرچہ کسی مشاعرے میں نہیں پڑھا گیا تھا مگر تمام شہر میں مشہور تھا۔ اس کا مصرع تھا: دل اُس کے ساتھ ہے کہ خدا جس کے ساتھ ہے ’’خواجہ حسن سے مجھے دلی محبت ہے،‘‘ اگلے روز اکبرؔ کے خط کے جواب میں لکھاکہ اختلافِ خیال جبکہ وہ کوئی ایسا اختلاف ہے بھی نہیں ان کے دل میں حسن نظامی کی جگہ کم نہیں کر سکتا۔ ’’وہ ایک نہایت محبوب آدمی ہیں اُن کو جان کر اُن سے محبت نہ رکھنا ممکن نہیں۔‘‘ پچھلی شام کی محفل والی گفتگو کا ذکر کیا اور لکھا کہ آج اس مصرع پر گفتگو رہے گی: بَن خاکِ راہ ناچ کیا کر ہوا کے ساتھ ’’آپ کے اکثر اشعار میں حقائقِ حیات اِس سادگی اور بے تکلفی سے منظوم ہوتے ہیں کہ شیکسپئر اور مولانا روم یاد آ جاتے ہیں۔‘‘ گل گفت والی فارسی رباعی بھی انہیں بھیجی۔ ۴۶ نیازالدین خاں کے لڑکے کو کبوتر رکھنے کا شوق تھا اورشیخ عمر بخش کے ہاتھوں اقبال کو کچھ کبوتر بھجوانے کی ٹھہری تھی۔ وہ ساتھ نہ لا سکے۔ ۴۷ ۲۶ جولائی کو نیازالدین خاں کا پوسٹ کارڈ ملا۔ کسی معاملے میں امیرالدین خاں کا ذکر تھا مگر تفصیل ہمیں معلوم نہیں۔گرامی کی طبیعت خراب ہوئی تھی مگر اب سنبھل گئی ہے۔ اقبال نے اُسی وقت جواب میں لکھا کہ وہ چند روز میں شائد ستمبر کے آخر تک سیالکوٹ جانے والے ہیں اس لیے کبوتر اکتوبر میں آئیں تو زیادہ بہتر ہے۔امیرالدین خاں کو لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، ’’گرامی صاحب نے شائد ملک الموت کو کوئی رباعی کہہ کر ٹال دیا ہے اور کیا تعجب ہے کہ ہجو لکھنے کی دھمکی دے دی ہو۔‘‘ ۴۸ ڈاکٹر سید محمد حسین لاہور میں مشہور معالج تھے۔ اقبال کے گہرے دوست تھے۔ اُن کے بھائی سید نادر حسین فوج کے لیے بھرتی کا کام کرتے تھے۔ ۲۸ جولائی کو کسی نے حکومت کے خلاف سازش میں انہیں قتل کر دیا۔۳۵ ۴۹ یکم اگست کی رات سیالکوٹ سے شیخ عطامحمد کا تار آیا کہ جلد پہنچیں، والد صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ ابھی تین روز تک فراغت نہ تھی مگر جانے کا فیصلہ کر لیا جب اگلے روز اعجاز کا تارآیا جس میں لکھا ہوگا کہ شیخ نورمحمد کی طبیعت سنبھل گئی ہے کیونکہ اس کے جواب میں اقبال نے لکھا کہ وہ روانہ ہونے والے تھے مگراب ’’والد مکرم کی خدمت میں عرض کرنا کہ میں ۵ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر اُن کی خدمت میں پہنچوں گا۔ تم اسٹیشن پر آجانا۔‘‘ ۵۰ معلوم ہوتا ہے کہ اگست کے شروع میں سلیمان ندوی کا خط آیا۔ ’رموزِ بیخودی‘ کی غلطیوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کچھ دساتیر کے بارے میں دریافت کیا تھا جو اورینٹل کالج کی لائبریری میں موجود تھے۔ اُن دنوں لائبریری بند تھی۔ ۳۶ ۵۱ کوئی عبدالرؤف تھے جو لاہور تشریف لائے اور چیف جج سے ملے۔ اقبال کا نام بھی حکومت کے سامنے تھا شائد چیف کورٹ میں کسی کرسی کے لیے اور اقبال سمجھتے تھے کہ بعض حکام مائل بھی ہیں مگر اقبال کو امید نہیں تھی اس لیے کسی سے نہیں ملے اور دوستوں کے مشورے کے باوجود شملہ جانے کی بجائے سیالکوٹ چلے آئے۔۳۷ ۵۲ خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد فضلی قریشی نے رازِ بیخودی کے عنوان سے اقبال کے جواب میں مثنوی لکھی۔ مطبع بلالی دہلی سے کسی فضل حسین نے شائع کی۔۳۸ اقبال نے افلاطون اور حافظ شیرازی کو ’’گوسفند‘‘ یعنی بھیڑ کہا تھا۔ پیرزادہ فضلی نے اقبال کو گدھا، دین فروش اور ملت فروش وغیرہ کے القاب سے نوازا۔ خودی کے اُس تصوّر پر بات نہ کی جو اقبال نے پیش کیا تھا۔ اس کے لغوی معنوں پر اعتراض کیاجن کا تعلق اقبال کی مثنوی سے نہ تھا۔ افلاطون کے نظریۂ اعیان پر اقبال کے اعتراض کا جواب اِس طرح دیا کہ شیخ شہاب الدین نے کشف کی حالت میں دیکھا کہ ارسطو بھی افلاطون کی تعریف کر رہا ہے۔۳۹ ۵۳ ایبٹ آباد کے میر وَلی اللہ نے دیوانِ حافظ کی اُردو شرح لسان الغیب لکھی تھی۔ اس برس چوتھی جلد شائع ہوئی۔ اقبال کی رائے تمہیدی الفاظ کے ساتھ درج کی گئی- ’’کلامِ حافظ کے متعلق اپنی اُس رائے کی تائید کرتے ہوئے جس کا اِظہار اُنہوں نے مثنوی اَسرارِ خودی میں کیا ہے، فرماتے ہیں:‘‘ تاہم آپ کا کام ایک ادبی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ اِس کے جو وِیو خواجہ حافظ کے کلام کا صوفیہ اور اُن کے اثر سے جمہور مسلمین نے لیا ہے وہ ایک ایسا وِیو ہے جس کے حق میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے- پھر یہ کہنے میں مجھے کیونکر تامل ہو سکتا ہے کہ آپ نے لسان الغیب نہایت جانفشانی اور عرقریزی سے لکھی ہے اور آپ کی تلاش ہر ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے کے نزدیک قابلِ داد ہے۔ آپ کا اسلوبِ بیان سلیس اور دلکش ہے اور بوجہ اُس عبور کے جو آپ کو فارسی اور عام لٹریچر پر ہے جو اَشعار اور اساتذہ کے آپ نے جابجا درج کیے ہیں اُن سے کتاب کی دلچسپی اور اُس کی ادبی قدر و قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔۴۰ ۵۴ اس برس اسلامیہ کالج کے فلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹر ہیگ انتقال کر گئے۔ فوری طور پر کوئی موزوں پروفیسر نہ ملا۔ اقبال نے کچھ عرصہ کے لیے طلبا کو فلسفہ پڑھانے کی ذمہ داری قبول کر لی۔۴۱ ۵۵ ’اَسرارِ خودی‘ کا دوسرا ایڈیشن تیار کرتے ہوئے افلاطون پر اعتراضات قائم رکھے۔ خواجہ حافظ پر اعتراضات کی بجائے شاعری کے اُصولوں پر پورا باب شامل کر دیا۔ قارئین ہندی اور ایرانی محبوب کی بجائے عربی ادب کی سلمیٰ سے دل لگائیں۔ شعر کی حقیقت اور اسلامی ادب کی اصلاح کے بارے میں آرزو کا داغ لگنے سے انسان میں جوش پیدا ہوتا ہے۔ آرزو کے چراغ سے اس مٹی میں آگ لگتی ہے۔ تمنا سے زندگی کے جام کو شراب ملتی ہے تو زندگی سرگرم اور تیزرفتار ہو جاتی ہے۔ زندگی محض تسخیر کا نام اور آرزو تسخیر کا نسخہ ہے۔ زندگی شکار کھیلتی ہے اور آرزو اُس کی کمند ہے۔ آرزو عشق کی طرف سے حسن کے لیے پیغام ہے۔ ہر لمحہ تمنا کیسے ابھرتی ہے؟ یہ زندگی کے نغمے کا اُتار چڑھاؤ ہے! جو شے بھی اچھی، دلکش اور خوبصورت ہے وہ طلب کے بیابان میں ہمارے سفر کا جواز ہے۔ اُس کی تصویر تمہارے دل پر نقش ہو جاتی ہے اور وہ تمہارے دل میں آرزوئیں جگاتی ہے۔ حسن آرزو کی بہار لاتا ہے۔اُس کے جلوے آرزو کو پروان چڑھاتے ہیں۔ شاعر کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہے۔ اُس کے طُور سے حسن کے انوار پھوٹتے ہیں۔ خوب اُس کی نگاہ سے خوب تر ہو جاتا ہے۔ اُس کے جادو سے فطرت زیادہ اچھی لگنے لگتی ہے۔ اُس کی آواز نے بلبل کو گانا سکھایا ہے۔ اُس کے غازے نے پھول کے رخسار کو رعنائی بخشی ہے۔ پروانے کے دل میں اُسی کا سوز ہے اور وہی عشق کے افسانوں کو رنگیں بناتا ہے۔ سمندر اور زمین اُس کے آب و گل میں پوشیدہ ہیں۔ اُس کے دل میں سیکڑوں تازہ جہاں چھپے ہوئے ہیں۔ اُس کے ذہن میں ایسے لالے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور ایسے نغمے ہیں جو کبھی سنے نہیں گئے۔ اُس کی سوچ چاند ستاروں کی ساتھی ہے، بدصورتی سے ناواقف اور خوبصورتی کو جنم دینے والی! وہ خضر ہے اور اُس کے ظلمات میں آبِ حیات ہے۔ اُس کے آنسو کائنات کو نئی زندگی دیتے ہیں۔ ہم کاہل، ناپختہ اور ناسمجھ ہیں۔ منزل کے راستے میں گرے پڑے ہیں۔ اس کی بلبل نغمے سنا رہی ہے اور ہمیں سفر پر آمادہ کرتی ہے تاکہ ہمیں زندگی کی جنت تک پہنچا دے اور ہماری زندگی کی قوس مکمل ہو کر دائرہ بن جائے۔ اُس کی آوازِ درا پر قافلے روانہ ہوتے ہیں اور اُسی کی بانسری کی آواز پر چلتے رہتے ہیں۔ وہ ہمارے باغ میں صبح کی ہوا کی طرح آتا ہے اور آہستگی سے لالہ و گل میں سما جاتا ہے۔ اُس کے چلنے سے زندگی اپنی قوت میں اضافہ کرتی ہے، اپنا محاسبہ کرتی اور بے چین ہوتی ہے۔ وہ دنیا والوں کو اپنے دسترخوان کی طرف بلاتا اور اپنی آگ کو ہوا کی طرح عام کر دیتا ہے۔ افسوس ہے اُس قوم پر جو اپنی موت کا سامان خود پیدا کرتی ہے۔ جس کا شاعر زندگی کے ذوق کا مخالف ہے۔ اُس کا آئینہ بدصورتی کو محبوب بناتا ہے۔ اُس کا شہد جگر کو چھلنی کر دیتا ہے۔ اُس کے بوسے سے پھول مرجھا جاتا ہے اور بلبل کے دل سے پرواز کا ذوق رخصت ہو جاتا ہے۔ اُس کی افیون تمہارے اعصاب کمزور کر دیتی ہے۔ اُس کے مضمون کی قیمت تمہیں اپنی زندگی سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ سرو سے رعنائی کا ذوق چھین لیتا ہے اور اُس کی سرد آہ شاہین کو چڑیا بنا دیتی ہے۔ وہ مچھلی ہے جو سینے سے اوپر انسان کی صورت میں ہے اور پانی میں بنات البحر کی طرح جہازرانوں کو بے راہ کر کے اُن کی کشتی غرق کر دیتا ہے۔ اُس کے نغمے دلوں سے استقلال چرا لیتے ہیں۔ اُس کے جادو سے تم موت کو زندگی سمجھنے لگتے ہو۔ وہ تمہاری روح سے جینے کی آرزو نکال کر تمہاری کان کو لعلِ سرخ سے محروم کر دیتا ہے۔ چونکہ وہ نفع کو نقصان قرار دیتا ہے اس لیے ہر ناخوب کو خوب کر دیتا ہے۔ وہ تمہیں وسوسوں کے سمندر میں ڈال کر عمل سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کے کلام سے دلوں کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔ اُس کے جام کی گردش پوری محفل کو بیمار کر دیتی ہے۔ اس کا بادل بجلی سے خالی ہے۔ اس کا باغ رنگ و بو کے سراب کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے حسن کو سچائی سے سروکار نہیں ہے۔ اس کے سمندر کے تمام موتی عیب دار ہیں۔ وہ نیند کو بیداری سے بہتر قرار دیتا ہے۔ اس کی سانسوں سے ہماری آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اس کی بلبل کے نغمے دلوں میں زہر بھر دیتے ہیں۔ اس کے پھولوں کے انبار میں سانپ سویا ہوا ہے۔ اُس کے خُم، مینا اور جام سے خدا محفوظ رکھے! اُس کی بہترین شراب سے خدا محفوظ رکھے! اے کہ تم اُس کی شراب پی کر گرے پڑے ہو، تمہاری صبح اُسی کی صراحی کے مشرق سے طلوع ہوئی ہے۔ اے کہ تمہارا دل اُس کے نغموں کی وجہ سے مردہ ہو چکا ہے، تمہیں کان کے راستے زہر دیا گیا ہے۔ اے کہ تمہارا انداز زوال کا ثبوت ہے کہ تمہارے ساز کے تار نغمہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے! تن آسانی کی وجہ سے تم اتنے کمزور ہو چکے ہو کہ دنیا میں مسلمان کے لیے باعثِ شرم ہو۔ تمہیں رگِ گل سے باندھا جا سکتا ہے اور بادِ صبا کے جھونکے سے زخمی کیا جا سکتا ہے! عشق تمہاری آہ و زاری سے رُسوا ہو گیا ہے۔ تمہاری مصوری سے اُس کی صورت بگڑ گئی ہے۔ تمہاری بیماری سے اُس کے رخسار زرد پڑ چکے ہیں۔ تمہاری بے حسی نے اُس کی تپش ختم کر دی ہے۔ تمہارے زخموں سے وہ چھلنی ہو چکا ہے۔ تمہاری کمزوری سے وہ کمزور پڑ چکا ہے۔ اب اُس کے پیالے میں صرف بچوں کی طرح رونا ہے۔ اُس کی کل پونجی آہیں بھرنے کی زحمت ہے۔ میخانوں کی بھیک سے وہ مست ہے اور دوسروں کے گھروں کے روشن دان سے جلوے چراتا ہے۔ وہ ناخوش، افسردہ اور آزردہ ہے۔ دربان کی مار پیٹ سے نیم جاں ہوا جا رہا ہے۔ غموں نے اُسے بانس کی طرح دبلا کر دیا ہے اور اُس کے لب پر ہمیشہ قسمت کی شکایتیں ہوتی ہیں۔ خوشامد اور کینہ اُس کے آئینے کا جوہر ہیں۔ کمزوری اُس کی جگری دوست ہے۔ وہ بدنصیب ہے، محتاج اور ناکام رہتا ہے اور ہمسائے کی نیند بھی غارت کرتا ہے۔ افسوس ہے ایسے عشق پر جس کی آگ بجھ چکی ہو، جو حرم میں پیدا ہوا اور بتخانے میں مرا! اے کہ تمہاری جیب میں شاعری کی دولت ہے، اُسے زندگی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو! روشن پہلو پر نظر رکھنے والی سوچ عمل کی پیشرو بنتی ہے جیسے بادل کے گرجنے سے پہلے بجلی کی چمک دکھائی دیتی ہے۔ ادب میں نیک سوچ کی ضرورت ہے، اب عرب کی طرف لوٹنا چاہیے، عربی ادب کی معشوقہ سلمیٰ کو دل دینا چاہیے تاکہ کرد کی شام سے حجاز کی صبح پھوٹے! تم نے عجم کے چمن زاروں سے پھول چنے ہیں، ہندوستان اور ایران کی بہار دیکھی ہے، اب ذرا صحرائے عرب کی گرمی بھی چکھو، کھجور کی پرانی شراب بھی چکھ کر دیکھو! ذرا صحرا کی آغوش میں چھپ کر دیکھو، اپنے جسم کو صحرا کی ہوا کے حوالے کر کے دیکھو! بڑی مدت تک ریشمی لباس میں رہے ہو، اب ذرا کھردرا کپڑا پہننے کی عادت بھی ڈالو! تم نے صدیوں لالے کی پتیوں پر رقص کیا اور پھول کی طرح اپنے رخسار کو شبنم سے دھویا ہے، اب اپنے آپ کو تپتی ریت پرلاؤ اور زمزم کے چشمے میں ڈوب کر بھی دیکھو! بلبل کی طرح رونے کا ذوق کب تک؟ چمن زاروں میں نشیمن کب تک؟ اے کہ تمہاری قید میں آ کر ہما کا مرتبہ بڑھ جاتا ہے، بلند پہاڑ کی چوٹیوں پر آشیانہ بناؤ، وہ آشیانہ کہ بجلی اور کڑک اُس کے ساتھ ہوں اور وہ عقابوں کے نشیمن سے بھی بلند ہو تاکہ تم زندگی کی کشمکش کے قابل ہو سکو! تمہارے جسم و جاں زندگی کی آگ سے جل اُٹھیں!۴۲ ۵۶ مثنوی اَسرارِ خودی یعنی حقائق حیاتِ فردیہ ڈاکٹر شیخ محمدؐ اقبال ایم۔اے۔پی۔ایچ۔ڈی بیرسٹر ایٹ لا لاہور بفرمائش شیخ مبارک علی، تاجر کتب اندرون لاہوری گیٹ لاہور دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جُستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست مولیٰنا جلال الدین رومیؔؒ ۴۳ ۷۸۶ دیباچہ اِس مثنوی کی پہلی ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ اِس دوسری ایڈیشن میں جو اَب ناظرین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے بعض بعض جگہ لفظی ترمیم ہے بعض جگہ اشعار کی ترکیب میں فرق ہے اور ایک آدھ جگہ تشریحِ مطالب کے لئے اشعار کا اضافہ ہے لیکن سب سے بڑی ترمیم یہ ہے کہ اِس ایڈیشن سے وہ اَشعار خارج کر دئیے گئے ہیں جو خواجہ حافظ پر لکھے گئے تھے۔ اگرچہ ان سے محض ایک ادبی نصب العین کی تنقید مقصود تھی اور خواجہ حافظ کی شخصیت سے کوئی سروکار نہ تھا تاہم اِس خیال سے کہ یہ طرزِ زبان اکثر احباب کو ناگوار ہے میں نے ان اشعار کو نکال کر ان کی جگہ نئے اشعار لکھ دئیے ہیں جن میں اُس اصول پر بحث کی ہے جس کی رُو سے میرے نزدیک کسی قوم کے لٹریچر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنا چاہئے۔ پہلی ایڈیشن کے اُردو دیباچے کی اشاعت بھی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ محمدؐ اقبال ۵۷ دیباچے سے اگلے صفحے پر سب سے اوپر ’’ھُوْ‘‘ لکھا گیا تھا۔ اس کے نیچے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ ۔ پھر عنوان ’تمہید‘ کے بعد اَشعار سے پہلے نظیری نیشاپوری کا ’’منبر نہ شود دار کنم‘‘ والا شعر درج تھا۔ خواجہ حافظ والے اَشعار کے نکلنے پر متعلقہ باب کا عنوان بھی بدل گیا تھا: ’دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی کہ تصوف و ادبیات اقوامِ اسلامیہ از افکارِ او اثر ِعظیم پذیرفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ است و از تخیلاتِ او احتراز واجب است‘۔ وہ اَشعار بھی خارج ہوئے جن میں منصور حلاج کی تعریف کی گئی تھی۔فہرست اب بھی شامل نہ کی گئی۔ آخری باب کے خاتمے پر پہلے کی طرح ’’تمّت‘‘ لکھا گیا۔ ۱۳۳ صفحات تھے۔ پچھلی طرف کے سرورق کو صفحات میں شمار کرتے ہوئے ’’۱۳۴‘‘ درج تھا۔ نیچے وہی اعلان جو پہلے ایڈیشن پر بھی تھا: اطلاع (بموجب ایکٹ ۱۹۱۴ء کاپی رائٹ مجریہ فروری ۱۹۱۴ئ) مثنوی ہٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ لہٰذا کوئی صاحب قصدِ طبع نکریں۔ (مصنف) اس کے نیچے انگریزی میں اقبال کے دستخط تھے۔ بیرسٹر ایٹ لأ لاہور بھی انگریزی میں اپنے قلم سے لکھا تھا۔ یہ اڈیشن اسی برس کے نصف آخر میں کسی وقت شائع ہوا۔ طباعت راجپوت سٹیم پریس میں ہوئی تھی جس کے مالک سردار کرم سنگھ تھے۔۴۴ ۵۸ گوئٹے کا وطن نقصان اٹھا رہا تھا۔ اقبال نے آٹھ برس پہلے اپنی نوٹ بک میں لکھا تھا کہ جرمنی کی اصل تقدیر علوم کی تنظیم کرنا ہے۔ استعماری عزائم اسے تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ ہارتے ہوئے جرمنی کی روح نے جو شعلہ پیدا کیا وہ آسولڈ اسپنگلر کی کتاب تھی۔Untergang des Abendlandesیعنی زوالِ مغرب یا The Decline of the West کی پہلی جلد اِس برس موسمِ گرما میں شائع ہوئی۔ اسپنگلر نے دانشوروں کی اصطلاحات سے پیچھا چھڑایا۔ سیدھے سادے الفاظ میں لکھا کہ ہر تہذیب چار مدارج سے گزر کر ختم ہوتی تھی: ۱ بہار ۲ گرما ۳ خزاں ۴ سرما تاریخ میں آٹھ بڑی ثقافتیں نمودار ہوئی تھیں: ہندوستانی، بابلی، مصری، چینی، میکسیکن (مایا-ازٹک)، عرب (مجوسی)، کلاسیکی (یونانی و رومی) اور یورپی یعنی مغربی جس میں امریکہ بھی شامل تھا۔ ہر تہذیب کی ایک بنیادی علامت ہوا کرتی تھی۔ موجودہ مغربی تہذیب کی علامت فاؤسٹ کی روح تھی۔ لامحدود کی طرف پرواز کے لیے پر تولے ہوئے، یہ جانتے ہوئے کہ اُسے حاصل نہ کر سکے گی۔ اپنے مدارج پورے کر کے اَب اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسپنگلر نے اپنا فلسفۂ تاریخ گوئٹے اور نیٹشے سے اخذ کیا تھا۔ تاریخ کو تقدیر کا علم سمجھتا تھا۔ خامی یہ تھی کہ انسانی وحدت تک نہ پہنچا۔ باغ سے اُگنے والے درختوں کی طرح اُسے ہر ثقافت اپنی مٹی ہی سے غذا حاصل کر کے رنگ روپ دکھاتی نظر آئی۔ تہذیبوں کا ایک دوسرے سے سیکھنا اور مر کر دوبارہ پیدا ہونا اُس کی گرفت میں نہ آیا۔۴۵ ۵۹ اخبار وکیل امرتسر سے معلوم ہوا کہ کسی انگریزی اخبار نے مدینہ منورہ کی سخت توہین کی ہے۔۴۶ ۶۰ ۱۱ اگست کی شام سیالکوٹ میں شیخ نورمحمد کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کرتے ہوئے جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھاکہنے لگے، ’’معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے۔‘‘ اس خیال سے اتنے متاثر ہوئے کہ قریباً بیہوش ہو گئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ سیالکوٹ میں اکبرؔا لٰہ آبادی کا خط لاہور سے ہوتا ہوا پہنچا۔ لکھا تھا کہ لاکھ کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف۔مولوی ممتاز علی کے رسالے تہذیبِ نسواں سے ناراض تھے۔ اقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اگست کے آخر تک سیالکوٹ میں رہنے کا ارادہ ہے۔ پرسوں شام والا شیخ نورمحمد کا واقعہ لکھا، ’’یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرق سے ہی مل سکتے ہیں یورپ کی درسگاہوں میں ان کا نشان نہیں۔‘‘ سید ممتاز علی کا رسالہ تہذیبِ نسواں جسے اقبال تخریبِ نسواں سمجھتے تھے ، ’’اُس کا بہترین جواب خاموشی ہے۔ تردید کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ پرچہ قدیم اسلامی شعائر کو بنگاہِ حقارت دیکھتا ہے گو ابھی صاف لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘ اخبار وکیل والی خبر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’’کمزوروں کے پاس سوائے بددعا کے اور کیا ہے۔‘‘ ۶۱ کلکتہ کے مسلمان کوئی جلسہ کر رہے تھے۔ چھپا ہوا دعوتی خط اقبال کو بھی بھیجا۔ تیار ہو گئے مگر خط کا مضمون شیخ نور محمد کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ حکام غالباً یہ جلسہ بند کروا دیں گے۔ اقبال نے جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔۴۷ ۶۲ سہ پہر کا وقت تھا۔ اقبال منزل میں میاں جی کے کمرے کے باہر تخت پوش پر میاں جی اور اقبال باتیں کر رہے تھے۔ قریب ہی باورچی خانہ میں عورتیں رات کے کھانے کے اہتمام میں مشغول تھیں۔ اقبال نے آواز دے کر اعجاز کو حقے کی چلم بھرنے کے لیے کہا۔چونکہ میاں جی کے لیے حقے کی چلم اعجاز کی والدہ یعنی اقبال کی ’’بھابھی جی‘‘ خود بھرتی تھیں، اس لیے اعجاز نے چولہے کے پاس جا کر چلم انہی کے حوالے کر دی۔ ’’اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے،‘‘ اعجاز کا بیان ہے۔ ’’چچا جان دھاڑ رہے تھے، ’کمبخت احمق آدمی۔ میں نے چلم تمہیں بھرنے کو کہا تھا۔ تم نے چلم بھرنے کے لیے بھابھی جی کو دے دی ہے۔‘ میں تو اِس غیرمتوقع برہمیٔ مزاج کی وجہ نہ سمجھ کر مبہوت ہو گیا لیکن پھوپھی کریم بی بی ان کے برہم ہونے کی وجہ سمجھ کر بولیں، ’میاں جی کو اور کسی کی چلم بھری ہوئی پسند نہیں آتی۔‘ بارے اِس وضاحت سے میری صفائی ہو گئی اور چچا جان کا غصہ فرو ہو گیا۔ میں ڈانٹ کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد چچا جان غالباً تلافیٔ مافات کے لیے میرے کمرے میں تشریف لے آئے۔‘‘ اعجاز کا بیان ہے کہ اقبال نے کہا، ’’بھابھی جی میرے لڑکپن میں اِس گھر میں بیاہ کر آئی تھیں۔ میں شاید چوتھی جماعت میں تھا۔ انہوں نے مجھے بیٹوں کی طرح پالا اور میرے لیے وہ بے جی کی جگہ ہیں۔ میں اُن سے اپنے لیے حقہ کی چلم نہیں بھروا سکتا۔‘‘ اس کے بعد اقبال نے اپنے بچپن کا وہ واقعہ سنایا جب نیند میں چلتے ہوئے اسکول جانے کے لیے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے تھے۔۴۸ ۶۳ شیخ عبدالقادر کے تبصرہ ’رموزِ بیخودی‘ کو مخزن کے ستمبر ۱۹۱۸ء کے شمارے میں شائع کرتے ہوئے مدیر مولانا تاجور نجیب آبادی نے جو شذرہ لکھا اُس میں بھی ’’علامۂ اقبال‘‘ کی ترکیب موجود تھی جسے ظفر علی خاں ستارۂ صبح میں استعمال کرتے تھے۔ ممکن ہے اور لوگوں نے بھی اقبال کے لیے یہ لقب استعمال کرنا شروع کر دیا ہو۔ ’رموزِ بیخودی‘ از عبدالقادر [اقتباس] مخزن کے نامور بانی جناب شیخ عبدالقادر صاحب بی اے نے علامۂ اقبال کی مشہور مثنوی ’’رموز بیخودی‘‘ پر تنقید لکھی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ شیخ صاحب موصوف کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس قدر عرصے کے بعد مخزن کی طرف توجہ مبذول فرمائی یا علامۂ اقبال کے ممنون ہوں۔ جنہوں نے مثنوی لکھی۔۔۔ (تاجورؔ) اگر صرف دو مثنویوں کے ناموں کو سرسری طور سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حضرتِ اقبال نے اضداد کے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ نکتہ چینی زبانِ قلم سے بے اختیار نکلنے کو ہوتی ہے کہ پہلے تو ملّتِ اسلامی کو پیغام دیا کہ اس کا ہر فرد خودداری سیکھے اور حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد زیست کے میدان میں مردانہ کارزار کے لیے تیار ہو۔ اور پھر دوسری کتاب میں خود ہی خودی سے بیگانہ بن کر وہی بیخودی کا جادۂ فرسودہ اختیار کر لیا۔ لیکن جب ’’رموز بیخودی‘‘ کو غور سے پڑھیں تو یہ اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ اوّل تو یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مصنّف نے ’’رموز بیخودی‘‘ میں اُن اُصول سے بالکل انحراف نہیں کیا۔ جو ’’اسرار خودی‘‘ میں اصول زندگی قرار دئیے گئے تھے۔ اور دوسرے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں افراد کے لیے خودی اور خودداری ذریعۂ استواری ہے۔ وہیں افراد کا اپنی ہستی ہستیٔ قوم میں محو کر دینا اور اپنی انفرادی زندگی کے جزو کو قومی زندگی کے کُل میں شامل کر دینا قومی ترقی کے لیے لازم ہے اور اس کو بیخودی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا یہ وہ بیخودی ہے جو خودداری اور خودشناسی کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ اور جو فرد و قوم دونوں کے لیے عین نفع ہے۔ اِس مثنوی میں یہ مضمون کس خوبی سے ادا ہوا ہے۔۔۔ مخزن، ستمبر ۱۹۱۸ء مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ از اِدارہ رسالہ صوفی [اقتباس] ہماری یہ رائے ہے کہ ہر ایک مدرسہ یا کالج کے فارسی کورس میں اِس مثنوی کو ضرور داخل کیا جائے۔ وہ اہلِ تصوّف صاحبِ دل جو مثنوی شریف [مثنوی مولانا روم]، دیوانِ حافظ وغیرہ سے لذّت حاصل کر چکے ہیں اب ’رموزِ بیخودی‘ سے درسِ عمل حاصل کریں۔ اِس میں اَنانیت کی تعلیم نہیں ہے بلکہ قومی اَنا کا راز بتایا گیا ہے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ تم اَنا بشر مثلکم کہنے والے کی اُمت ہو۔ اِس میں سمجھا دیا گیا ہے کہ علم الحیات اور عمرانیات کا دَرس کس طرح اور کہاں سے لینا چاہیے۔ حیاتِ ملیہ کی جلبِ منفعت، دفعِ مضرت کا تمام سامان فراہم کر دیا ہے۔ افرادِ قوم کو ایک آئینِ مسلم کے تحت میں لا کر یہ بتایا گیا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سعیٔ عمل کے ثمرات میں کس قدر جلی تبائن [ہے] اور تناقص نہ ہے۔ صوفی (منڈی بہأالدین)، ستمبر۱۹۱۸ء ۶۴ ۹ ستمبر کو سیالکوٹ سے لاہور واپس آئے مگر ترشی کے زیادہ استعمال سے دانت میں سخت درد ہو گیا جس نے کئی دن بے قرار رکھا۔ کلکتہ والا جلسہ واقعی حکام نے بند کروا یااور وہاں فسادات شروع ہو گئے۔۴۹ ۶۵ اخبار الخیل میں کسی کا ایک شعر پسند آیا کہ رات کو جب اس کی ہم آغوشی کی یاد آتی ہے تو میں خود اپنے آپ کو بھینچ کر فریاد کر لیتا ہوں: شب چو اندازِ ہم آغوشیِ اُو یاد کنم خویش را تنگ بر گیرم و فریاد کنم۵۰ ۶۶ معارف میں روس کے مسلمانوں کے بارے میں مضمون شائع ہوا۔اقبال نے سلیمان ندوی کو لکھا کہ مضمون کو علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع ہونا چاہیے۔ رموزِ بیخودی کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کی فرمائش دہرائی۔ دساتیر کے حوالے اکتوبر میں اورینٹل کالج کا کتب خانہ کھلنے کے بعد دستیاب ہو ئے تو بھیج دئیے جائیں گے۔۵۱ اسی یا کسی دوسرے شمارے میں کسی ہندو شاعر کا فارسی شعر نظر سے گزرا کہ تمہاری شرم سے باغ کا رنگ اس طرح اڑ رہا ہے کہ تارِ نظر سے ہوا میں گلدستے بندھ رہے ہیں: بسکہ از شرمِ تو در پرواز رنگِ گلشن است رشتۂ نظارہ بندد در ہوا گلدستہ را۵۲ ۱۴ ستمبر کوکلکتہ کے فسادات کی مزید خبریں نظر سے گزریں۔ اخبار زمانہ میں ’اسرارِ خودی‘ پر تبصرہ چھپا تھا۔ اس میں اکبرؔ الٰہ آبادی کے اشعار ’’جب علم ہی عاشقِ دنیا ہوا‘‘ کو اقبال نے کئی بار پڑھا۔ کسی دوسرے کا مصرع بھی جو اکبرؔ نے استعمال کیا تھا ’’یہ صلحِ کل فقیری فقر یا شاہی لطیفہ ہے‘‘ انہیں بہت پسند آیا۔ اُسی روز اکبرؔ کا خط بھی آگیا۔ ’’ابھی تو مسلمانوں کو اور ان کے لٹریچر کو آپ کی سخت ضرورت ہے،‘‘ اقبال نے فوراً جواب میں لکھا اور تفصیل سے اپنا حال بھی بیان کیا۔ عبدالرحمٰن بجنوری کے تبصرے کی تعریف کی کہ نہایت قابلیت سے لکھا ہے، اگراس کی کوئی کاپی مل گئی تو اکبرؔ کو بھیجیں گے۔ ۶۷ اسلامی دنیا کی پہلی پارلیمانی جمہوریت اُس کے وطن میں قائم ہوئی جس نے لیلیٰ مجنوں کی داستان لکھی تھی۔ ترکی کی مشرقی سرحدوں سے کچھ پرے آذربائیجان میں نظامی گنجوی کا مزار تھا۔ اِسی چھوٹی سی ریاست کے شہر باکو میں تیل کے ذخائر موجود تھے جن کی وجہ سے انگریزوں کی کوشش تھی کہ وہاں کے ارمنی اور رُوسی عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسا کر یہ ذخائر ترکوں کے قبضے میں جانے سے بچا لیے جائیں۔ ۱۵ ستمبر کو ترک وہاں پہنچ گئے۔ انگریزوں کے ارادے کامیاب نہ ہو سکے۔۵۳ ۶۸ سیرت النبیؐ کی پہلی جلد شائع ہوئی۔ سید سلیمان ندوی نے شبلی کے مسودے سے ترتیب دی تھی۔ ابتدائی زمانے سے موجودہ عہد تک سیرۃ کی تدوین جن مراحل سے گزری تھی ان کا گہرا تجزیہ موجود تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غزوات کے اختتام تک بیان کی گئی تھی۔ بقیہ سیرت اور اہم موضوعات پر بحث آئندہ جلدوں میں پیش ہونی تھی۔ کسی شبہے کے بغیر کہا جا سکتا تھا کہ سیرت النبیؐ کے موضوع پر ایسی جامع تحقیق اور فکرانگیز تجزیوں پر مشتمل کتاب دنیا کی کسی زبان اور تاریخ کے کسی عہد میں کبھی نہ لکھی گئی تھی۔ چالیس پینتالیس برس پہلے سر سید احمد خاں کی خطباتِ احمدیہؐ سے جو کام شروع ہوا اُس کی تکمیل تھی۔ شبلی نعمانی خود زندہ رہتے تو شاید کتاب کی صورت مزید بہتر ہوتی۔ شبلی نے دیباچے میں لکھا تھا کہ جن معجزات کا زمانہ معلوم ہے، مثلاً واقعۂ معراج، انہیں معجزات کی جلد میں علیحدہ لکھنے کی بجائے مسلسل سیرت کے واقعات ہی میں جگہ دے رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی کی تکمیل کی ہوئی جلد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں معراج کا ذکر ہی نہ ہوا اور اس موضوع کو کسی آیندہ جلد کے لیے اٹھا رکھا گیا جہاں علیحدہ سے معجزات پر بحث ہونی تھی۔ شبلی نے سیرت کے اہم واقعات کا تجزیہ اس طرح کیا تھا کہ اگر آج مسلمان اپنے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا چاہیں یا ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھنا چاہیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ رہنمائی کرے۔ نمایاں مثال مواخات کا بیان تھا۔ ہجرت کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ شبلی نے محض یہ واقعہ بیان نہیں کیا بلکہ اگر آیندہ کبھی ایک مسلمان معاشرہ یہی واقعہ دہرانا چاہے تو اُسے جن نکات کو سامنے رکھنا ہو گا شبلی نے واقعے کا تجزیہ کر کے وہ پیش کر دیے: ۱ انصار نے اِیثار سے کام لیا مگر مہاجرین نے بھی خودداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بلاوجہ اپنے مددگار بھائیوں پر بوجھ نہ بنے بلکہ محنت کر کے نئے شہر کی معیشت میں اپنا کردار نبھایا۔ ۲ مواخات کا رشتہ اگرچہ ایک عارضی ضرورت کے تحت قائم کیا گیا تھا لیکن اس کے زیادہ وسیع پہلو بھی تھے۔ اس کے نتائج ملتِ اسلامیہ کے لیے بہت دُور رَس ثابت ہوئے۔ ۳ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ رکھا کہ کسی شخص کو کسی کا بھائی بنائیں تو دونوں کے مزاج میں موافقت بھی موجود ہو۔ اِتنے کم عرصے میں اِتنے سارے لوگوں کے مزاجوں سے ایسی گہری واقفیت حاصل کر لینا شانِ نبوت کی خصوصیات ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ۶۹ اقبال کسی ضروری کام سے شملہ گئے جہاں سلیمان ندوی بھی آئے ہوئے تھے۔ ملاقات نہ ہو سکی۔ البتہ رات کو سید سلیمان ندوی کی مرتب کی ہوئی شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐمطالعے میں رہی۔۳۰ ستمبر کو لاہور واپس آگئے۔۵۴ ۷۰ دمشق کی سڑکوں پر عرب ترکوں کو ذبح کر رہے تھے۔ میجر لارنس بکتربند گاڑی میں گزرا تو ایک عرب نے اپنا عمامہ لہرا کر کہا، ’’دمشق آپ کو سلام کرتا ہے!‘‘ یکم اکتوبر تھی۔ لارنس کی رہنمائی میں شریفِ مکہ کے بیٹے فیصل نے ترکوں کو شکست دے کر دمشق فتح کیا تھا۔ فیصل کو شام کی بادشاہت کا لالچ دیا گیا تھا۔ وہاں سے کچھ دُور رِیاق میں جرمن جنرل وان سانڈرز اور برگیڈئر مصطفی کمال پاشا اپنے سپاہیوں کو عرب علاقوں سے سلامتی کے ساتھ واپس لے جانے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ ۷۱ سلیمان ندوی نے ’رموزِ بیخودی‘ کی لغزشیں تفصیل سے لکھ کر بھیجی تھیں۔۳ اکتوبر کو اُن کا شکریہ کرتے ہوئے اُن پر اپنی رائے اور سوالات بھی لکھے۔ اصولِ تشبیہ کے متعلق اقبال کا خیال تھا کہ بیدل اور غنی کشمیری کا طریقہ اگرچہ کتبِ بلاغت کے خلاف تھا مگر تخیل کے عمل کی رُو سے صحیح معلوم ہوتا تھا۔ جدید مغربی ادب میں بھی یہی روش چل رہی تھی۔ سلیمان ندوی نے جن تراکیب کو لغزش کہا تھا ان میں سے بعض کے استعمال کے بارے میں اساتذہ کے کلام میں مثالیں موجود تھیں۔ ’’اس خیال سے کہ آپ کا وقت ضائع ہو گا نظرانداز کرتا ہوں البتہ اگر آپ اجازت دیں تو لکھوں گا،‘‘ اقبال نے لکھا۔ ’’محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو انتخاب نہیں کیں۔‘‘ بعض اعتراضات سمجھ میں نہیں آئے تھے، ان کی وضاحت چاہی۔ آخر میں لکھا، ’’بعض خیالات زمانۂ حال کے فلسفیانہ نقطۂ نظر کا نتیجہ ہیں ان کے ادا کرنے کے لیے قدیم فارسی اسلوبِ بیان سے مدد نہیں ملتی۔ بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے اس واسطے مجبوراً ترکیب اختراع کرنی پڑتی ہے جو ضروری ہے کہ اہلِ زبان کو ناگوار ہو کہ دل اس سے مانوس نہیں ہیں۔ بعض اشعار کے لکھنے میں تو مجھے اس قدر روحانی تکلیف ہوئی کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ کاش چند روز کے لیے آپ سے ملاقات ہوتی۔‘‘ ۷۲ ایسٹ اینڈ ویسٹ والوں نے مثنویوں پر بجنوری کے تبصرے کی کاپیاں الگ شائع کیں اور اُنہوں نے چند کاپیاں اقبال کو بھی ارسال کر دیں۔۵۵ ۷۳ گرامی نے ہوشیارپور کے کسی جاننے والے شیخ محمد اقبال کو اقبال کے پاس دستی خط کے ساتھ بھیجا کہ مراقبہ کریں کہ اِنہیں دکن کی خاک جذب کرے گی یا پنجاب کی۔کچھ اشعار بھی بھیجے۔ اُنہی دنوں نیازالدین خاں کے لڑکے کے بھیجے ہوئے کبوتر بھی پہنچ گئے۔ ۷۴ ۱۲ اکتوبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔لاہور میں بخار کی وبا کا ذکر سن کر وہ بھی پریشان ہوئے تھے اور گرامی بھی جو لاہورآنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ نیازالدین خاں نے شاید اقبال کو احتیاطاً کونین کے استعمال کا مشورہ بھی دیا۔ ’’گرامی مسلم ہے اور مسلم تودۂ خاک نہیں کہ خاک اُسے جذب کرے،‘‘ اُس روز اقبال نے گرامی کو اپنے مراقبے میں ہونے والا انکشاف لکھا جو ’اسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کے فلسفے سے مختلف نہیں تھا۔ ’’یہ ایک قوۃِ نورانیہ ہے کہ جامع ہے جواہرِ موسویت و ابراہیمیت کی۔ آگ اِسے چھو جائے تو بَرد و سلام بن جائے۔ پانی اِس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ آسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکی کہ یہ دونوں ہستیاں اِس میں سمائی ہوئی ہیں۔‘‘ جو قوت متضاد خصوصیات کو جذب کر کے نباہ لیتی ہو اُس کی قوتِ حیات موت کو اپنے اندر جذب کر کے زندگی اور موت کا تفرقہ ختم کر چکی ہے۔ اس کی مثال میں خدا کے رسولؐ کا واقعہ لکھا کہ نضیر نامی ایک شخص ہجرت سے پہلے آپؐ کو تکلیف دیتا تھا۔ فتحِ مکہ کے بعد اس کے قتل کا حکم دیا اور حضرت علیؓ نے تعمیل کر دی۔ آپؐ کی آنکھ اس دردانگیز منظر سے متاثر نہ ہوئی مگر جب نضیرکی لڑکی روتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں دردانگیز اشعار پڑھتی ہوئی آئی تو آپ ؐ بھی رونے لگے یہاں تک کہ ہمدردی میں آہ بھری، نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا، ’’یہ فعل محمدالرسول اللہ کا ہے‘‘ اور پھر اپنی روتی ہوئی آنکھ پر انگلی رکھ کر کہا، ’’یہ فعل محمد بن عبداللہ کا ہے۔‘‘ اس کے بعد حکم فرمایا کہ کوئی شخص مکّہ میں قتل نہ کیا جائے گا۔ واقعہ درج کر کے لکھا کہ جس طرح مسلمان قہر اور محبت کے متضاد جذبات کو اپنے دل کی حرات سے تحلیل کر لیتا ہے اُسی طرح کائنات کی متضاد قوتوں کو بھی تحلیل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر وہ کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے، البتہ زمان و مکان کی دنیا میں صرف ایک ریگستان ہے جو اُسے جذب کر سکتا ہے کیونکہ کبھی خدا کے رسولؐ کے قدموں نے اس ریگستان کو چھوا تھا۔ اپنے ہم نام شیخ محمد اقبال کے بارے میں لکھا کہ وہ جب چاہیں آ سکتے ہیں اوراگر اقبال کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ مسلمانوں کا مال ہے۔ گرامی جب تک لاہور نہیں آئیں گے اشعار کی داد نہیں ملے گی۔’’بخار لاہور میں ہر سال ہوتا ہے۔ اب کے سال نسبتاً کم ہے۔‘‘ اس کے بعد نیازالدین خاں کو کبوتروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ اگر مثنویوں پربجنوری کا تبصرہ نظر سے نہ گزرا ہو تو بتائیں تاکہ بھیج دیا جائے۔ ’’کونین کا استعمال میں نے کبھی نہیں کیا سوائے حالتِ بخار کے اورتب بھی نہایت کراہت کے ساتھ۔‘‘ ۷۵ گورنمنٹ کالج لاہور میں مزاحیہ شاعری کا مقابلہ ہوا۔ ایف اے کے طالب علم ریاض قریشی نے پنڈت ہری چند کی نظم کی پیروڈی سنائی: کہا تھوڑی سی مے پی لوں، کہا تھوڑی سی مے پی لو کہا قرآن کا ڈر ہے، کہا قرآن تو ہو گا کہا میں جھوٹ بھی بولوں، کہا تم جھوٹ بھی بولو کہا ایمان کا ڈر ہے، کہا ایمان تو ہو گا روایت ہے کہ اقبال صدارت کر رہے تھے اور ریاض قریشی کو بری شاعری (bad poetry) کا پہلا انعام دیا۔۵۶ ۷۶ بخار میں مبتلا ہوئے اور کئی دن رہے۔ سلیمان ندوی کا پہلے ایک خط اورپھر دوسرا موصول ہوا ۔ کئی دن جواب نہ دے سکے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خواب میں دیکھنے کے واقعے پر لکھا تھا کہ ان کے راستے سے مٹی چننا مبہم بات ہے جس سے مقصد واضح نہیں ہوتا۔ ایک جگہ لفظ ’’کلِمہ‘‘ کو اقبال نے کلْمہ کے وزن پر باندھا تھا جو عربی تلفظ کے اعتبار سے غلط تھا۔ اورنگزیب اور شیر والے قصے کے بعض اشعار پربھی انہیں زبان اور قوعد کی رُو سے کچھ اعتراض تھے۔کل ۱۹ مقامات پر لغزشوں کی نشاندہی کی تھی۔ اقبال کو خیال تھا کہ ٹیک چند بہارؔ کی اِبطالِ ضرورت میں انہوں نے پڑھا تھا کہ بہت سے الفاظ جن کو زیر زبر کے ساتھ اور بغیر دونوں طرح استادوں نے استعمال کیا ہے ان میں کلمہ بھی شامل ہے مگر یہ کتاب ان کے پاس لاہور میں موجود نہ تھی۔۵۷ ۷۷ ’’جس توجہ سے آپ نے تنقیدی خطوط لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی اس کے لیے نہایت شکرگزار ہوں،‘‘ بخار اترنے کے بعد ۲۳ اکتوبر کو سلیمان ندوی کو جواب میں لکھا اور جن لغزشوں کی انہوں نے نشاندہی کی تھی ان میں سے بعض پر بحث کی۔ صائبؔ اور مخلصؔ کاشی کے اشعار سے سند بھی دی۔ ۷۸ امرتسر سے پرچہ اہل حدیث نکلتا تھا۔ ۲۵ اکتوبر کی اشاعت میں اقبال کے بچپن کے دوست مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی نے لکھا کہ اقبال کی نظم ’صدیق‘ کا آخری مصرعہ خلافِ واقعہ ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اکرمؐ کے استفسار کرنے پر فرمایا تھا کہ گھر والوں کے لیے خدا اور اُس کے رسولؐ کا نام ہے جبکہ اقبال نے لکھا: ’’صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس۔‘‘ یہ مصرعہ اصل قول کے مطابق ہو جائے اگر یوں کر دیا جائے: ’’صدیق کے لیے ہیں خدا و رسولؐ بس‘‘۔ ’’ڈاکٹر صاحب نے مولانا صاحب کے اِس مصرع کو تو روایت کے مطابق صحیح تسلیم کیا،‘‘ محمد دین فوق کا بیان ہے۔ ’’لیکن فرمایا، ’مولوی صاحب یہی بات مجھے براہِ راست لکھ دیتے تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘‘۵۸ اورنگزیب والے قصے کے اشعار پر سلیمان ندوی نے جو لکھا تھا اس سے اسلامیہ کالج کے پروفیسر مولوی اصغر علی روحی کو اتفاق نہیں تھا مگر اِن کی پیش کی ہوئی اسناد سے اقبال کی تسلی نہیں ہوئی۔۵۹ ۷۹ لاہور میں انفلوئنزا کا ایسا زور ہوا تھا کہ ہر روز قریباً ڈھائی سو لوگ مر رہے تھے۔ لاعلاج مرض تھا۔ صحیح دوا دریافت نہیں ہوئی تھی اور پھر مریض سے ڈاکٹر کو لگنے والی بیماری تھی۔ عام طور پر جو دوائیں دی جاتی تھیں وہ بھی ملنا دشوار ہو گئیں۔ امرتسر میں بھی یہی کیفیت تھی۔ کہتے تھے دارچینی کا استعمال مفیدہے، روز تین چار بار قہوہ پینا چاہئے۔ مسلمان زیادہ شکار ہو رہے تھے۔ گورکن ملنا دشوار ہو گیا۔ ۸۰ نواب سر ذوالفقار علی خاں وبا سے بچنے شملہ چلے گئے۔ ۶۰ ۸۱ زمانہ (کانپور) میں’اُردو شاعری اور شعرائے حال‘ کے عنوان سے مدیر دیانرائن نگم کے مضامین کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اکبرؔ الٰہ آبادی اور اقبال کوآسمانِ شاعری کے سب سے روشن ستارے قرار دیا تھا۔ اس میں شامل اکبرؔ کے بعض اشعار لاہور چیف کورٹ کے بار روم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے۔ انہی دنوں اقبال کو اکبرؔ کا خط بھی موصول ہوا مگر دو تین روز تک جواب نہ دے سکے۔ ’’خیر اچھا ریویو تھا مگر آپ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا،‘‘ اقبال نے ۲۸ اکتوبر کو خط کے جواب میں وبا کی تباہکاریوں کا ذکر کرنے کے بعد اخبار زمانہ والے تبصرے پر رائے دیتے ہوئے لکھا۔ ’’وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے کچھ اشعار پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا اور زندگی رہی تو انشأ اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔‘‘ معارف اور الخلیل والے دونوں فارسی اشعارخط میں بھیج دئیے۔ ۸۲ اقبال کی پہلی بیوی کریم بی بی کے والد حافظ عطا محمد شیخ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ریاست مالیر کوٹلہ میں ملازم ہوئے تھے۔ اقبال نے سنا کہ ملازمت سے فارغ ہو کر گجرات چلے گئے ہیں۔۶۱ حافظ صاحب کے اکلوتے لڑکے غلام محمد انڈین میڈیکل سروس میں شامل ہو کر جنگ کے دوران فرانس میں رہے تھے۔ تین برس پہلے ایک فرانسیسی لڑکی ڈورس سے دوسری شادی کی تھی۔ بیماری ہی کی حالت میں وطن لوٹے تھے۔ راولپنڈی کے ملٹری ہسپتال میں مقرر ہوئے۔۶۲ ۸۳ ۲۹ اکتوبر کو جالندھر سے نیازالدین خاں کا خط ملا۔ غالباً وہاں بھی وبا پھیلی تھی مگر ان کے یہاں خیریت تھی۔ اقبال نے اُسی وقت اپنے گھر میں بھی خیریت ہونے کی اطلاع نیازالدین خاں کے نام جواب میں لکھی اور لاہور میں وبا کی صورتحال ایک دفعہ پھر دہرائی۔ ’’اِس بیماری کے جراثیم تمام دنیا کی فضا میں پائے جاتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ اطبا اس کی تشخیص سے عاری ہیں۔‘‘ ۸۴ ’’اسناد حسب ِ وعدہ حاضر ہیں،‘‘ ۳۰ اکتوبر کو سلیمان ندوی کو لکھا اور ناصرؔ علی، صائبؔ، زلالیؔ، ظہوریؔ، ملا طغراؔ، بدیلؔ، معز فطرت اور رومیؔ کے علاوہ بہارِ عجم اور جواہرالترکیب سے اسناد پیش کیں۔ بعض مقامات پر سلیمان ندوی سے اتفاق کر کے اپنے اشعار میں ترمیم کر لی۔ خواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓکے راستے سے مٹی چننے کے بارے میں لکھا، ’’یہ واقعہ خواب کا ہے جو خواب میں دیکھا گیا بقیہ اسی طرح نظم کر دیا گیا۔‘‘ ۸۵ ترکی کے قریب سمندر میں برطانوی بحریہ کے جنگی جہاز میںبرطانیہ اور عثمانی سلطنت کے درمیان معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے۔ جہاز کا نام آگاممنون اُس یونانی سپہ سالار کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے قریباً تین ہزار سال پہلے ٹرائے فتح کیا تھا جو ترکی میں تھا۔ ترک اپنی سرزمین سے باہر تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائیں جن میں میسوپوٹیمیا، شام، فلسطین اور عرب شامل ہیں، درہ دانیال تمام بحری جہازوں کے لیے کھول دیا جائے اور ترکی کے اہم مقامات پر اتحادی افواج تعینات کی جائیں۔ انگریز اڈمرل کالتھروپ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ترک جلد سے جلد جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اِس لیے مجبوری کافائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔ ۳۰ اکتوبر کو عثمانی سلطنت کے وزیرِ بحریہ رؤف اُربے نے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ ’’انگریز ترک قوم کی تباہی نہیں چاہتے،‘‘ رؤف نے استنبول واپس پہنچ کر بیان دیا۔ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ دشمن کا ایک بھی سپاہی ہمارے استنبول میں قدم نہیں رکھے گا!‘‘ یکم نومبر کو برطانوی فوجیں موصل پر قبضے کے لیے بڑھیں جسے معاہدے کے لحاظ سے انگریزوں کے حوالے نہیں ہونا تھا۔ شہر میں موجود ترک افواج کے سالار نے احتجاج کیا۔ وزیراعظم عزت پاشا نے تار کے ذریعے حکم بھجوایا کہ شہر انگریزوں کے حوالے کر دیا جائے۔ ’’انگریز حکومت چاہتی تو ہمارے پورے ملک پر قبضہ کر سکتی تھی کیونکہ ہمارے پاس اُسے روکنے کے لیے کوئی افواج نہیں ہیں،‘‘ اُنہوں نے کہا۔ ’’پھر بھی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح انگریز اپنے ایک افسر کے ذریعے اُس وعدے سے مکر سکتے ہیں جو اُنہوں نے صرف دو دن پہلے کیا تھا!‘‘ ۸۶ نومبر کے آغاز تک لاہور میں انفلوئنزا کا زور کچھ کم ہو گیا۔ ۴ نومبر کو گرامی کا خط ملا۔ خیریت سے تھے مگر اقبال کے مراقبے والے خط کا ذکر نہیں تھا۔ ’’معلوم نہیں آپ تک پہنچا یا نہ پہنچا،‘‘ اقبال نے اُس روز جواب دیتے ہوئے لکھا۔ ’’گرامی سالخوردہ ہے یعنی سالوں اور برسوں کو کھا جاتا ہے پھر بوڑھا کیونکر ہو سکتا ہے، بوڑھا تو وہ ہے جس کو سال اور برس کھا جائیں۔‘‘ ۸۷ نیازالدین خاں کے صاحبزادے کی طرف سے کبوتروں کے مزید دو جوڑے مل گئے۔۶۳ ۸۸ ۱۲ نومبر کو نیازالدین خاں کا خط ملا۔ اقبال نے اُسی روز جواب میں کبوتروں پر شکریہ ادا کیا۔ ’’انشأ اللہ ان کو حفاظت سے رکھا جائے گا اور اگر کبھی اپنے سے جدا کرنے کی ضرورت ہوئی تو آپ کی خدمت میں انہیں واپس بھیج دیا جائے گا،‘‘ انہوںنے لکھا۔ ’’اِس عطیے کے لیے آپ کا شکریہ ہے اور مزید شکریہ اس وقت ادا کروں گا جب ان کے جوہر مجھ پر آشکار ہو جائیں گے۔‘‘ لاہور میں وبا کے بارے میں لکھا کہ اب زور نہیں رہا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مرض دُور ہو گیا۔ ۸۹ ۱۳ نومبر تھی۔ استنبول کے حیدرپاشا اسٹیشن پر جنوب سے آنے والی ریل گاڑی رکی۔ مصطفی کمال اترے۔ فوج سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ صرف ایک دوست انہیں لینے آیا۔ اسٹیشن کی خوبصورت عمارت جسے صرف دس برس پہلے جرمن معماروں نے تعمیر کیا تھا جنگ کے نشانات سے داغدار تھی۔ سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی سامنے بندرگاہ میں پچپن بحری جہازوں کا بیڑا داخل ہوتا دکھائی دیا۔ اتحادی طاقتوں کے جہاز تھے۔ روایت ہے کہ مصطفی کمال نے کہا، ’’جس طرح آئے ہیں اُسی طرح واپس جائیں گے۔‘‘۶۴ ۹۰ ۱۵ نومبر تھی۔ برطانیہ میں صبح کے گیارہ بجتے ہی گرجاؤں کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور لوگ خوشی کے عالم میں سڑکوں پر نکل آئے۔ کارخانے بند ہو گئے۔ شراب خانے کھل گئے۔ بادشاہ اور ملکہ کی سواری غیررسمی طور پر شہر میں آ نکلی۔ جھنڈے لہرائے جا رہے تھے اور فٹ پاتھوں پر خواتین اجنبی مردوں کے ساتھ جنسی عمل میں مصروف تھیں۔ بعد میں برطانوی مورخ نے لکھا، ’’یہ موت پر زندگی کی فتح منانے کا طریقہ تھا۔‘‘ مشرق کے ناول نگار نے کہا، ’’مستقبل سے مایوسی کی وجہ سے افزائش ِ نسل کی جبلت اُبھر آئی تھی۔‘‘جنگ ِعظیم ختم ہو چکی تھی۔ ۶۵ ۹۱ نواب ذوالفقار علی خاں بھی شملہ سے لاہور واپس آگئے۔۶۶ اس ماہ زمانہ (کانپور) میں دیانرائن نگم کا مضمون اقبال کے بارے میں تھا۔ اُردو شاعری اور شعرائے حال از دیانرائن نگم [اقتباس] اکبرؔمادی دنیا میں مجاز اور حقیقت، سچ اور جھوٹ میں جو تفاوت ہے اُس کی ہنسی اُڑا اُڑا کر قوم کو ہدایت کرتا ہے۔ جب وہ سنجیدہ ہوتا ہے تو فلسفۂ حیات کی باتیں بھی کرتا ہے، قلب کی وارداتیں بھی بیان کر جاتا ہے نہایت سلیس زبان اور مقبولِ عام پیرائے میں۔ اقبال بھی تارک الدنیا نہیں ہے اور نہ دنیا کو مایا اور ’’یتھیا‘‘ جانتا ہے مگر اس سے صرف اُس حد تک واسطہ رکھتا ہے جہاں تک کہ روح کے ایک عارضی قیام گاہ کی حیثیت سے اُس کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ حیاتِ ابدی کے مسائل اور تعمیراتِ روحانی کے مرحلے، زندگی اور موت کی کشمکش ہر وقت اُس کے دماغ میں چکر لگایا کرتی ہے۔ اکبر انسانوں کی حماقت پر ہنس دیتا ہے اور اپنی قوم کی ظاہرپرستی کا مضحکہ اڑاتے رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حقیقت سے ناآشنا مادی تعلیم کے بندے اور اُس کے ظاہرپرست ابنائے وطن اگر سنبھلیں گے تو مضحکہ سے ورنہ روحانیت ان میں مفقود ہو گئی ہے۔ خوفِ خدا ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے۔ نہ مذہب ان میں باقی ہے اور نہ ’’لوک لاج‘‘ ہی کا کوئی اثر ہے۔ عوام الناس کو ان خاصانِ خدا نے احمق اور اجہل سمجھ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی چیز کام دے سکتی ہے تو وہ مضحکہ ہے اور یہی اکبر کا زبردست آلہ ہے۔ اقبال کا خاصہ اشک ریزی ہے۔ اس کا خونِ دل آنکھوں سے براہِ راست ٹپکا کرتا ہے۔ جہاں اکبر قہقہہ لگاتا ہے وہاں اقبال اپنا دل پگھلا پگھلا کر آنسوؤں کی جھڑی لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات اقبال کی سوگواری تبسم کی بھی متحمل نہیں ہوتی اور شاید بھری محفل میں بھی وہ اُداس رہتا ہے۔ غم اُس کی روحانی غذا ہے۔ زمانہ (کانپور)، نومبر۱۹۱۸ئ۶۷ ۹۲ ۱۹ نومبر کو سرخوش کے تذکرے میں کشیدہ ام زجنوں ساغرے والے شعر نے ایک دفعہ پھر متاثر کیا۔ رات سیکڑوں دفعہ اس خیال سے دہرایا کہ شائد طبیعت شعر کہنے پر مائل ہو جائے مگر نہ ہوئی۔۶۸ ۹۳ ۲۰ نومبر کو گرامی کا خط ملا۔ فارسی غزل خوب تھی، بی بی حلیمہ ؓ کی کوئی روایت بھی نظم کی تھی جس پر اقبال روئے اور تقریباً بیہوش ہو گئے۔ طبیعت بھی شعر کہنے کی طرف مائل ہوئی۔ شائد اُسی روز’دنیائے عمل‘ کے عنوان سے چند شعر لکھے۔ اُس روز کلیاتِ سعدی میں سلیمان ندوی کے جواب کی ایک اور سند مل گئی۔ ’’جواب سے ہنوز محروم ہوں،‘‘ اُسی روز پچھلے خط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا اور سعدی والی سند کے علاہ رسولؐ اللہ سے بوصیری کو چادر ملنے کے بارے میں مولوی ذوالفقار علی دیوبندی کی شرح قصیدہ بردہ کا حوالہ دیا۔ ’’اگر آپ اِس طرح کلام ارسال فرماتے رہیں تو میں تھوڑے عرصے میںآپ کا مجموعہ تیار کر کے دنیا کے سامنے اِس بیش بہا خزانے کو پیش کر دوں گا،‘‘ گرامی کے اشعار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا۔ ’’اِس زمانۂ انحطاط میں کسی مسلمان کا ایسا کلام ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ قوم میں زندگی کی قوتیں ابھی باقی ہیں۔‘‘سرخوش کے تذکرے والا شعر اور اپنے ’دنیائے عمل‘ والے اشعار بھی بھیج دیے: یہ شراب خانہ ہے اور یہاں سب کو کھلی دعوت ہے، یہاں پیالے کی گنجایش دیکھ کر شراب بانٹی جاتی ہے: ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا قسمتِ بادہ بہ اندازۂ جام است اینجا۶۹ ۹۴ اسلامیہ کالج کے فلسفے کے پروفیسر ہیگ چیچک کی بیماری میں فوت ہو گئے تھے۔ دو ماہ کے لیے اقبال کو فلسفہ پڑھانا پڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کالج جانے کی بجائے اقبال نے لڑکوں کو شام کے وقت اپنے گھر بلانا شروع کیا۔ پھر بھی مصروفیت بڑھ گئی۔ اکبر الٰہ آبادی کا خط آیا۔ انہیں جواب دینے کی بجائے ۲۷ نومبر کی شام فلسفے کے طلبہ کو اُن کا شعر سنانے پر قناعت کرنا پڑی۔ اگلی شام فتح کی خوشی میں کوئی جلسہ ہونے والا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک اور خط ملا۔ جواب لکھا۔ بنام اکبر الٰہ آبادی ۲۸ نومبر ۱۹۱۸ء مخدومی! السّلام علیکم نوازش نامہ مل گیا اور اس سے پیشتر بھی ایک خط ملا تھا۔ جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی جس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل معمول سے زیادہ مصروفیت ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر فلسفہ ڈاکٹر ہیگ چیچک کی بیماری سے دفعتہ انتقال کر گئے اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے اصرار پر دو ماہ کے لیے کالج کے ایم اے کی جماعت مجھ کو لینی پڑی۔ امید ہے دو ماہ تک نیا پروفیسر مل جائیگا۔ یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آجاتے ہیں۔ دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے اس میں ان کے لیکچر کے لیے کتب دیکھتا ہوں۔ لیکچر کیا ہیں، انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ ہے جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں ابھی کل شام ہی میں ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھا میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا حبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا ہے تل کر نظر بھی مجھ کو ملی ہے نپ کے سبحان اللہ! کیا خوب کہا ہے۔ جزاک اللہ بہرحال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جان حاضر ہے مگر راہِ خدا ملتی نہیں میں آپ کا مقصود خوب سمجھتا ہوں۔ سیدھے سادے الفاظ میں حقائق بیان کر دینا آپ کا خاص حصّہ ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ آپ کی رباعی اور شکریہ ہے کہ موت آجاتی ہے بہت عرصہ سے میں نے نوٹ کر رکھی ہے۔ بہت عرصہ سے کوئی شعر نہیں لکھا۔ مثنوی کا تیسرا حصّہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ دوشعر یاد آئے ہیں جو دو یا تین ماہ ہوئے لکھے ہیں عرض کرتا ہوں: در جہاں مانند جوئے کوہسار از نشیب و ہم فراز آگاہ شو یا مثال سیل بے زنہار خیز فارغ از پست و بلند راہ شو باقی خدا کے فضل و کرم سے خیرّیت ہے۔ بال بچّے سب یہیں ہیں اور الحمد للہ خیریت سے ہیں۔ آج ۲۸ نومبر ہے۔ فتح کی خوشی بہت بڑا جلسہ ہونے والا ہے۔ شاید شام کو میں بھی اس جلسے میں آوں۔ والسّلام امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور ۹۵ ایک پرندہ باغ کی سیر کر رہا تھا کہ اُسے کانٹا چبھ گیا۔ وہ چیخنے چلّانے اور باغ کی برائی کرنے لگا۔ دوسرے پرندے نے وہ کانٹا اپنی چونچ سے کھینچ کر نکال دیا۔ جرمن فلسفے کے تسلسل میں شوپنہار اور نیٹشے کے درمیان یہی رشتہ تھا۔ یہ خیال فارسی میں نظم ہوا اور دیوانِ گوئٹے کے جوابی مجموعے کی بیاض میں ’شوپنہار و نیٹشا‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔۷۰ ۹۶ ہائنے کو مخاطب کر کے بیاض میں نظم لکھی مگر پھر کسی وقت قلمزد کر دی۔۷۱ عرب لوک کہانیوں میں سَمَندَر ایک کیڑے کا نام تھا جو پانچ سو برس بعد آگ میں جل کر دوبارہ جنم لیتا تھا۔ گویا مغربی ادب کے فرضی پرندے فینکس کے مترادف تھا۔ زندگی کے لیے یہ استعارہ اقبال کے ذہن میں راسخ ہونے لگا۔ عالمِ تخیل میں کسی صاحبِ نظر سے پوچھا کہ ہم کیڑے کی طرح ہیں جو مٹی سے پیدا ہوتا ہے تو جواب ملا کہ ہم سَمَندَر ہیں۔ نظم کا عنوان ’زندگی‘ رکھ کر اسے بیاض میں درج کیا: گفتم کہ کرمک است و ز گِل سربروں زند گفتا کہ شعلہ زاد مثالِ سمندر است۷۲ ۹۷ محمد دین فوق کے رسالے طریقت سے بعض صوفی اور پیر ناراض ہو گئے تھے۔ اُن کا اِرادہ ہوا کہ اِسے بند کر دیں۔ ’’اقبال نے فرمایا کہ فضا کی تاریکی سے ڈرنا ٹھیک نہیں،‘‘ فوق کے شاگرد کا بیان ہے۔ ’’مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ آج کل کے پیروں اور صوفیوں کی اصلاح فی الحقیقت ثواب کا کام ہے۔ اگر اِس اثنأ میں یہ رسالہ بند بھی ہو جائے تو اے جہادِ اکبر سمجھنا چاہیے۔‘‘۷۳ ۹۸ سلیمان ندوی کا خط ملا۔ کوئی ترجمہ نظر ِ ثانی کے لیے بھیجا۔ کسی وجہ سے پریشان تھے جس کی تفصیل معلوم نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کوئی قومی معاملہ تھا۔ کچھ دل میں بھی تھا جس کی تکمیل کی صورت ہوتی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ لکھا تھا، میرے ساتھ خدا کامعاملہ عجیب ہے۔ ’’آپ کا یہ فقرہ۔۔۔ گویا تمام ملّت ِ مرحومہ کے احساسات کا ترجمان ہے،‘‘ اقبال نے ۲ دسمبر کو جواب میں لکھا اور کہا کہ جو قوم ایک مشن لے کر پیدا ہوئی ہے اس کی روحانی تربیت کے لیے دُکھ کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ بات جو ۱۹۱۰ء میں اپنی نوٹ بک میں لکھی تھی اب ترجمہ کر کے ’’ایک انگریز ادیب‘‘ کے حوالے سے خط میں درج کر دی کہ دُکھ دیوتاؤں کی ایک رحمت ِ عظیم ہے تاکہ انسان زندگی کے ہر پہلو کا مشاہدہ کر سکے۔ ’’آپ امّت ِ محمدیہ کے خاص افراد میں سے ہیں اور اس مامور من اللہ قوم کے خاص افراد کو ہی امرِالٰہی ودیعت کیا گیا ہے۔‘‘ مایوسی سے نکل کر اُمید والوں کی طرف آنے کی دعوت دی اور یہ شعر لکھا کہ زمانے نے دوبارہ نمرود کی آگ بھڑکائی ہے تاکہ مسلمان کی حقیقت بے نقاب ہو جائے: زمانہ باز بیفروخت آتشِ نمرود کہ بے نقاب شود جوہرِ مسلمانی۷۴ لکھا کہ ذاتی طور پر اُن سے ہمدردی ہے اور اُن کے الفاظ نے دل پر سوزوگداز کی کیفیت طاری کر دی ۔ ترجمے کی ادبی نقطۂ نگاہ سے داد دی مگر فلسفیانہ مقصد کے لیے اور الفاظ وضع کرنے کا مشورہ دیا۔ ۹۹ ۲ دسمبر کو گرامی کی ایک غزل جو کئی دفعہ ان کی زبان سے سن چکے تھے خط میں موصول ہوئی کہ میں پوشیدہ اور ظاہر ہوںجیسے شراب میں نشہ، ظاہر اور پوشیدہ ہوں جیسے کباب میں داغ، اس حکیمانہ نکتے کو پڑھ پڑھ کر جھوم رہا ہوں کہ موت میں خواب ہے اور خواب میںموت ہے: پنہانم و پیدایم کیفم بشراب اندر پیدایم و پنہانم داغم بکباب اندر رمزیست حکیمانہ می خوانم و می رقصم خوابست بمرگ اندر مرگ است بخواب اندر ’دنیائے عمل‘ کے ایک شعر میں گرامی نے تبدیلی تجویز کی تھی ۔ گرامی کی غزل میں جدید فلسفے کی کچھ باتیں ایسی خوبی سے نظم ہوتی دکھائی دیںکہ اگر ان کے مغربی معلم سنیں تو پھڑک اٹھیں، یہ فطرت کی آواز ہے جبکہ وہاں بس سوچ بچار ہی ہے۔ غزل کے دو اشعار اکبرؔ الٰہ آبادی کو لکھ کر بھیجے کہ ’’تنہاخوری نہ ہو۔‘‘ پھر گرامی کو جواب لکھاکہ غزل کیا ہے دفترِ معرفت ہے۔ اپنے مصرع کے بارے میں لکھا کہ گرامی کی رائے سے اتفاق نہیں کر سکتے مگر مصرع ابھی تک کھٹکتا ہے۔ ’’طبیعت حاضر ہو تو پھر غور کروں گا،‘‘ انہوں نے لکھا۔ ’’اِس جگرکاوی کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے۔ اُن کے سامنے شعر بنا بنایا آتا ہے۔ وہ اس روحانی اور لطیف کرب سے آشنا نہیں ہو سکتے جس نے الفاظ کی ترتیب پیدا کی ہے۔ جہاں اچھا شعر دیکھو سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔ اچھے خیال کا پیدا کرنا اوروں کے لیے کفارہ ہوتا ہے۔‘‘ ۱۰۰ ’’پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر برطانوی ایمپائر میں آسٹریلیا سے کینیڈا تک ہفت روزہ جشن منایا گیا تھا،‘‘ ایک طالب علم غلام جیلانی برق کا بیان ہے جو مولوی فاضل کی تعلیم کے لیے اُن دنوں لاہور میں تھے۔ ’’کشتی، کبڈی، نیزہ بازی، مفت تھیٹرز، جلسے اور مشاعرے۔۔۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ جشن کا آغاز ۹ دسمبر کو ہوا۔۷۵ ۱۰۱ دہلی میں آفتاب بیمار ہو گئے تھے۔ نجانے علاج کے لیے پیسے مانگے یا کچھ اور لکھ دیا کہ اقبال نے ۱۱ دسمبر کو ایک پوسٹ کارڈ شیخ نور محمد کو بھیجا جس کا مضمون معلوم نہیں ہے۔ انہی دنوں شیخ نورمحمد کی طرف سے اقبال کو بھی کوئی خط ملا جس کا جواب انہوں نے تفصیل سے دیا۔ بنام شیخ نور محمد لاہور ۱۲ دسمبر ۱۸ء قبلہ و کعبہ ام۔ السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ کل ایک کارڈ لکھ چکا ہوں۔ امید کہ ملاحظۂ عالی سے گزرا ہوگا۔ مجھے تو دہلی سے کبھی کوئی خط نہیں آیا اور نہ کسی پروفیسر نے مجھے اس کی بابت لکھا ہے نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ کم بخت دہلی سے مالیر کوٹلہ گیا یا نہ گیا۔ میں نے سنا تھا کہ حافظ صاحب ملازمت چھوڑ کر گجرات چلے گئے ہیں اور اب گجرات میں ہیں مگر یقینا یہ خبر بھی معلوم نہیں۔ میرے خیال میں آپ اُسے خط لکھیں اور تسلی دے دیں کہ بیماری سے گھبرانا نہ چاہئے اور موت سے ڈرنا نہ چاہئے اور شائد یہ اُس کے لیے بہتر ہو کہ اپنے علاج کے لیے چند روز کے لیے گجرات چلا جائے۔ اچھا ہو جائے تو پھر کالج چلا جائے۔ باقی رہا قصور اُس کا یا اُس کی والدہ کا سومیرے نزدیک کسی کا نہیں۔ امرِ الٰہی ہر طرح ہو جاتا ہے۔ قطعِ تعلق جو میں نے ان لوگوں سے کیا ہے اس کا مقصد سزا نہیں ہے اور نہ میں ان سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہوں۔ جتنا میرا حصہ موجودہ صورت کے پیدا کرنے میں ہے اُس کا مطلب صرف اِس قدر ہے کہ عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو دفعہ ڈنک نہیں کھاتا۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی عزت و آبرو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرے خواہ اس تدبیر کے اختیار کرنے میں کسی اور کو تکلیف ہی کیوں نہ ہو۔ اس کم بخت کو دوسرا موقع اپنی اصلاح کا مل گیا تھا۔ بھائی صاحب نے اس کا قصور معاف کر دیا اور اُسی پہلے برتاؤ کا اس سے آغاز بھی کر دیا تھا مگر کم بخت نے پھر وہی شیوہ اختیار کر لیا اور میں نے سنا ہے کہ ہمشیرہ کریم بی بی کو اُس نے بہت دل آزار باتیں کہیں۔ کیا عجب کہ اس کی موجودہ مصیبت اُسی کی بددعا کا نتیجہ ہو۔ میری رائے میں کریم بی بی سے اُسے معافی مانگنی چاہئے اور خدا کے حضور میں توبہ کرنی چاہئے۔ باقی خیریت ہے۔ محمد اقبال لاہور ۱۰۲ نجم الغنی رامپوری کئی موضوعات پر کتابیں لکھ چکے تھے۔ اپنی کتاب اخبارالصنادید کی دو جلدیں اقبال کو بھیجیں۔ انہوں نے پہلی جلد کو خاص طور پر دلچسپی کے ساتھ پڑھا۔ ’’قومِ افغان کی اصلیت پر آپ نے خوب روشنی ڈالی ہے،‘‘ ۱۴ دسمبر کواقبال نے کتابوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے لکھا اور خیال ظاہر کیا کہ کشمیری غالباً اور افغان یقینا یہودی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ قاضی احمد رضوانی نے جو بات ایک دفعہ کہی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور تجویز کیا کہ پشتو زبان کی تحقیق کی جائے تو بہت سے الفاظ عبرانی زبان کے ملیں گے جو یہودیوں کی تاریخی زبان تھی۔ ’’آپ کا طرزِ تحریر نہائت سادہ اور موثر ہے اور بحیثیتِ مجموعی آپ کی تصنیف تاریخ کا عمدہ نمونہ ہے۔‘‘ ۱۰۳ تلوک چند محروم اُردو میں شاعری کرتے تھے۔ لاہور آئے تو اِقبال سے ملے۔ شعر سنانے کی فرمائش کی تو اقبال نے کہا، ’’میرے بھائی صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور ساتھ کے کمرے میں تشریف فرما ہیں اور میں پاسِ ادب سے اُن کی موجودگی میں کلام نہیں سنا سکتا۔‘‘۷۶ ۱۰۴ مشرق اور مغرب کے درمیان مکالمہ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بیاض کے نئے صفحے پر ’غالب اور گوئٹے‘ کا عنوان ڈال کر غالب کا ایک فارسی شعر لکھا تاکہ گوئٹے کے کسی شعر کا فارسی ترجمہ کر کے اس سے پہلے لکھ دیں اور دونوں شاعروں کے درمیان مکالمہ ہو جائے۔ ’برگساں اور بیدل‘ کا عنوان ڈال کر کچھ اشعار درج کیے۔ پھر دونوں نظمیں قلمزد ہوئیں مگر مرکزی خیال دل و دماغ میں بیٹھا رہا۔ جرمن شاعر شلر کی ایک نظم نے تحریک دی کہ فارسی میں صبحِ ازل کا نقشہ کھینچا جائے جب قدرت کی طرف سے قوموں کو وہ کردار تفویض ہو رہے تھے جو تاریخ میں انہیں ادا کرنے تھے: تمہیں کچھ معلوم ہے کہ زندگی بنانے والے نے فرانس کو رنگیں فکر، گرم دل اور خالص شراب عطا کی، رُوس قومی اتحاد کا سرمایہ لے گیا کہ اُس کا قہر پہاڑ کو بھی پارے کی طرح لرزا دیتا ہے، حکومت، سیاست اور تجارت انگلستاں کے سپرد ہوئی، جرمنی کو چشمِ حیران اور دلِ بیتاب عطا ہوئے، زمانے کے ساز سے آزادی کا نغمہ پیدا ہوتا رہے، اُس کے لیے جموریۂ امریکہ کے صدر کو مضراب دی، ہر کوئی خدا کے حضور سے اپنی فطرت کے مطابق لے گیا، ہمارے لیے کچھ نہ بچا اور اُس نے اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیا!۷۷ ۱۵ دسمبر کو سرکاری پبلسٹی کمیٹی کی طرف سے لاہور کے بریڈلا ہال میں فتح کی خوشی میں مشاعرہ منعقد ہوا۔گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈوائر تشریف لائے۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے صدارت کی۔نوجوان شاعروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ تلوک چند محروم نے قصیدہ پڑھا: چلی گلزارِ عالم میں نسیمِ فضلِ رحمانی فرو آخر ہوئی جنگ و جدل کی شعلہ افشانی دہلی سے بزرگ شعرأ سائل اور بیخود بھی آئے تھے۔ سائل نے ترنم سے نظم پڑھی: ہو گئیں سائل دعائیں تیری راتوں کی قبول نائب السلطان کے در تک رسائی ہو گئی اقبال کے کالج کے زمانے کے دوست چودہری شہاب الدین جن کی نظم ’پگڑی سنبھال او جٹا‘ نو دس برس پہلے مقبول ہوئی تھی، انہوں نے اس دفعہ اپنی پنجابی نظم میں محاورے ’’سو سنیار دی تے اِک لوہار دی‘‘ کو استعمال کیا۔ ’’ہجوم کی کثرت کی وجہ سے ہال میں بہت شور تھا،‘‘ اعجاز احمد کا بیان ہے۔ ’’چچا جان [اقبال] کے موجود ہونے کی وجہ سے لوگ اُن کو سننے کے مشتاق تھے اور ہر طرف سے اقبال اقبال کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے دیگر شعرأ کا کلام اچھی طرح نہ سنا جاتا تھا۔ لوگوں کے پیہم اصرار پر نواب ذوالفقار علی خاں صدرِ مشاعرہ نے اُن سے اپنا کلام سنانے کی استدعا کی۔ وہ کھڑے ہوئے تو ہال میں سکوت طاری ہو گیا۔‘‘۷۸ اقبال نے پہلے فارسی کی نظم ترنم سے سنائی: ہیچ می دانی کہ صورت بندِ ہستی با فرانس فکرِ رنگیں و دلِ گرم و شرابِ ناب داد رُوس را سرمایۂ جمعیّتِ ملّت ربود قہرِ اُو کوہِ گراں را لرزۂ سیماب داد ملک و تدبیر و تجارت را بہ انگلستاں سپرد جرمنی را چشمِ حیران و دلِ بیتاب داد تا بر انگیزد نوائے حرّیت از سازِ دہر صدرِ جمہوریۂ امریکہ را مضراب داد ہر کسے درخوردِ فطرت از جنابِ اُو ببرد بہرِ ما چیزے بہ بُود و خویش را با ما سپرد۷۹ اس کے بعد اُردو کی نظم ’شعاعِ آفتاب‘ بھی ترنم میں پیش کی۔ تلوک چند محروم کا بیان ہے، ’’علامہ نے دونوں نظمیں سٹیج پر ٹہل ٹہل کر زبانی سنائیں۔ آواز نہایت دلکش، پرسوز اور دلنشیں تھی۔ میں نے آج تک ایسا پرتاثیر نغمہ نہیں سنا۔ سناتے سناتے وہ ایک شعر بھول گئے۔ برابر سوچنے کے انداز میں کوئی آدھا منٹ ٹہلتے رہے اور پھر سر اُٹھا کر اگلا شعر اُسی لے میں ادا کر دیا۔ اُن کی خموشی کے دوران میں مکمل سناٹا چھایا رہا۔ اِس مشاعرے میں تین انعام بھی مقرر تھے۔ جج علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے مقابلے میں شامل ہونے والے شعرأ کی نظمیں اپنے مکان پر منگوا لیں اور چند روز میں فیصلہ دیا۔‘‘ پہلا انعام تلوک چند محروم کو ملا۔ دوسرا انعام بھی کسی ہندو شاعر کو اور تیسرا ایک مسلمان شاعر کو ملا۔۸۰ ۱۰۵ مغلیہ عہد کے فارسی شاعر مرزا عبدالقادر بیدل نے اپنی شاعری میں کئی جگہ یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ موت کے بعد جسم دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ قوموں کی تقدیر پر غور کرتے ہوئے اقبال کے قلم سے بھی پھول اور شبنم کے مکالمے میں یہی مضمون ادا ہو گیابلکہ اس میں وہ نظریہ بھی داخل ہو گیا جسے طاقتور قومیں کمزور قوموں کے حوصلے پست کرنے کے لیے رواج دیتی رہی تھیں کہ دریا سے گزرا ہوا پانی دریا میں واپس نہیں آ سکتا: ’آب کہ از جُو گذشت باز نیاید بجو‘۔ یہی اس فارسی نظم کا عنوان ٹھہرا مگر ظاہر ہے کہ اس نظم نے قلمزد ہی ہونا تھا۔ ہوئی اور اس کی بجائے’آزادی‘ کے عنوان سے ایک فارسی رباعی ہو گئی جس میں وہ مضمون ادا ہوا جو چھ برس پہلے نظم ’پھول‘ میں اُردو میں آیا تھا: نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیب گلو کر لے۸۱ ۱۰۶ فوق نے طریقتبند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کی جگہ ایک نیا رسالہ نظام جاری کرنا چاہتے تھے۔ خط کے ساتھ شاید طریقت کا آخری شمارہ بھیجا اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال (جرنل) کے بعض نمبروں کے بارے میں کچھ پوچھا۔ ’’میرے خیال میں تو آپ ’طریقت‘ ہی کو فروغ دیتے تو شائد حضور نظام تصوف کی اشاعت کا صلہ عطا فرماتے،‘‘ اقبال نے ۱۶ دسمبر کو جواب میں مبارک باد دینے کے بعد لکھا کہ رسالہ صوفی والے ’’محمد دین صاحب آپ سے بہتر نہیں ہیں صرف وہ آدمی معامہ فہم اور کارداں ہیں۔‘‘ خود بھی کچھ لکھنے کا وعدہ کیا اور جرنل کے بارے میں لکھا کہ اس کے بعض نمبر پنجاب پبلک لائبریری اور شائد یونیورسٹی لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ ’’حکیم محمد دین صاحب کئی روز سے نہیں ملے۔ خدا کرے کہ اچھے ہوں۔‘‘ ۱۰۷ پنجاب سے اُردو کی جتنی کتابیں شائع ہوتی تھیں وہ کئی صوبوں کی مجموعی اشاعت سے زیادہ تھیں۔ مولانا تاجور نجیب آبادی کو اَفسوس تھا کہ اُن میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ سوچتے تھے، ’’اُردو کورسوں کو دیکھئے تو گرامر محاورہ املا طریقہ استعمال وغیرہ کی غلطیوں سے پُر نظر آئیں گے۔ بچوں کی زبان پر اُن غلطیوں کا عالمِ طفلی میں مشق ہو جانا اُردو کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے؟بااستثنائے چند اخباروں اور رسالوں کی بھی یہی حالت ہے۔‘‘ اِسی خیال سے انجمن اربابِ علم وجود میں آئی۔ پنڈت برجموہن وتاتریہ کیفیؔ صدر تھے۔ مولانا تاجور سیکرٹری تھے۔ ۲۱ دسمبر کو بیرون موچی دروازہ باغ میں پہلا ’’علمی مشاعرہ‘‘ ہوا۔ حکیم فقیر محمد چشتی نظامی، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، منشی محمد الدین فوقؔ، خلیفہ عبدالحکیم ایم اے اور میاں بشیر احمد بھی آئے۔ نہیں معلوم اقبال کو بلایا نہیں گیا یا آنے پر تیار نہ ہوئے۔ سننے والے دو ہزار کے قریب تھے۔ سب سے پہلے دیال سنگھ اسکول کے بچوں نے مولانا تاجور کی نظم ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ سنائی جو اُسی ماہ مخزن میں شائع ہوئی تھی: ہندوستان بھر کی قومی زبان ہم ہیں نیند آئے جس کو سن کر وہ داستان ہم ہیں۸۲ ۱۰۸ بیس سالہ نوجوان سید شوکت حسین اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک مسلمان پروفیسر نے کلاس روم میں کہا، ’’قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بے نظیر سہی لیکن شیکسپیئر ، شیکسپیئر ہے۔‘‘ شوکت نے اُٹھ کر کہا، ’’سر! آپ کو قرآن مجید کی بے حرمتی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔‘‘ پروفیسر نے شوکت کو کمرے سے نکال دیا۔ انہوں نے دوسرے طلبہ کو بتایا اور کالج میں ہڑتال ہو گئی۔جن طلبہ نے اس ہڑتال میں حصہ لیا اُن میں سے دو کے نام نصر اللہ خاں عزیز اور حسن علی تھے۔ استاد کو معافی مانگنی پڑی۔۸۳ ۱۰۹ اودھ پنچنے اقبال کی کسی ابتدائی نظم پر جوکسی نے اجازت کے بغیر دوبارہ شائع کی تھی، اعتراضات کیے۔ غالباً یہ وہ نعت تھی جس میں یہ صوفیانہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ لفظ احد جو خدا کا نام ہے اُس میںمحمدؐ کے ’’م‘‘ کے اضافے سے احمد ؐبن جاتا ہے: نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم کو اٹھا کر وہ بزمِ یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منہ کو چھپا چھپا کر بیس برس پرانی نظم تھی اور اصل مسودے کی نقل بھی اقبال کے پاس موجود نہیں تھی۔فوقؔ نے اودھ پنچ کا اعتراضات والا صفحہ خط کے ساتھ اقبال کو بھیجاجو کرسمس کی چھٹیوں میں بھی لاہور ہی میں تھے اور سردی کی وجہ سے کہیں باہر نہیں گئے تھے۔ ۲۸ دسمبر کواقبال نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اس ابتدائی نظم میں بہت سی خامیاں ہیں ( اُن کے خیال میں نظم کی خامیاں نفسیاتی تھیں اور بعض مقامات پر خامیوں کا تعلق اظہارِ بیان سے تھا) مگر اعتراض کرنے والے نے انہیں چھوڑ کر صرف کتابت کی غلطیوں پر اعتراض کیا تھا۔ لوگ بغیر اجازت یہ نظم بار بار چھاپتے ہیں، ’’کم سے کم مجھے پروف ہی دِکھا لیا کریں۔‘‘۸۴ اُس روز لندن میں عام انتخابات ہوئے۔ خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا اگرچہ مردوں کے برابر نہیں یعنی عمر کا فرق رکھا گیا تھا۔ ۱۱۰ لائڈ جارج ایک دفعہ پھر وزیرِ اعظم ہو گئے۔ اُنہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا، ’’جرمنی کے لیموں کو اِس طرح نچوڑا جائے گا کہ پھوک بھی چٹخنے لگے!‘‘ جنگ ختم ہو گئی تھی مگر سر پر خون سوار تھا۔ دوسرا حصہ ۱۱۱ میاں نظام الدین کی بیوی کے بھانجے محمدالدین پچھلے برس میٹرک کرنے کے بعد فورمین کرسچین کالج یعنی ایف سی کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ تخلص شامل کر کے اب اُن کا نام محمد دین تاثیر تھا۔ اقبال کے پاس اکثر آنے لگے۔۸۵ ۱۱۲ ’ اسرارِ خودی‘ میں عشق کی مکمل تشریح اور ’رموزِ بیخودی‘ میں امام حسینؑ کے تذکرے میں عشق اور عقل کا مختصر سا مقابلہ جو کروایا تھا، وہ ایک مستقل موضوع بن کر اُبھرا۔بو علی سینا لیلیٰ کی اونٹنی کے اُڑائے ہوئے غبار میں گم ہو گئے اور تنکے کی طرح بھنور میں ہی رہ گئے۔ مولانا روم کے ہاتھ محمل کے پردے تک پہنچ گئے جس طرح دریا کی گہرائی میں اتر کر کوئی موتی حاصل کر لے ۔ حقیقت اگر سوز سے خالی ہو تو فلسفہ ہے۔ سوز میسر آئے تو شعر بن جاتی ہے۔ حکمت و شعر بو علی اندر غبارِ ناقہ گم دستِ رومی پردۂ محمل گرفت آں بہ گردابے چوں خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چوں سوز از دل گرفت۸۶ ۱۱۳ سنسان ساحل نے کہا، ’’میں بہت جی لیا مگر مجھے معلوم نہ ہوا کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں۔‘‘ متوالی لہر تیزی سے بڑھ کر بولی، ’’اگر چلتی رہوں تو میں ہوں، نہ چلوں تو نہیں۔‘‘ یہ جرمن شاعر ہائنا کی نظم ’سوالات‘ کا جواب تھا۔ ہائنا نے ساحل پر کھڑے نوجوان کو دکھایا تھا جو اپنی حقیقت کے بارے میں سوالات پر غور کر رہا تھا۔ لہروں کے ابدی شور اور بے نیاز ستاروں کی چمک کا ذکر کر کے ہائنا نے کہا تھا کہ صرف ایک بیوقوف ہی اپنے سوالات کے جواب کا انتظار کر رہا ہے۔ اقبال کی نظم میں وہ بیوقوف نوجوان ساحل بن گیا کہ اُس کی باطنی کیفیت بھی نباتات و جمادات سے مختلف نہ تھی۔ اقبال کی تبدیلیوں نے ہائنا کو پچھلی صدی سے نکال کر برگساں کے عہد میں زندہ کر دیا۔ زندگی کی گرہ صرف جوشِ عمل سے کھلتی ہے۔ زندگی و عمل ساحلِ افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موجِ زخودرفتۂ تیز خرامید و گفت ہستم اگر میروم گر نروم نیستم۸۷ خدا سے دعا مانگی کہ مرنے کے بعد اُن کی مٹی سے لالے کے چراغ پیدا ہوں تاکہ اُن کا صحرا اُن کے داغوں سے ہمیشہ روشن رہے۔ نظم فارسی میں تھی اور عنوان ’دُعا‘ تھا۔۸۸ ۱۱۴ اقبال پنجاب یونیورسٹی کی اورئینٹل آرٹس فیکلٹی کے ڈین ہو گئے۔ پچھلے ڈین شادی لال تھے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے۔ سمجھا جاتا تھا کہ مسلمانوں سے تعصب رکھتے ہیں۔ کنورسین ماٹھور فیکلٹی کے سیکرٹری ہوئے۔۸۹ ۱۱۵ شریفِ مکہ حسین کا لڑکا فیصل پیرس میں تھا۔ عثمانیوں سے غداری کے صلے میں اتحادیوں نے عراق اور شام کی بادشاہت عطا کی تھی۔ ۳ جنوری ۱۹۱۹ء کو صیہونی تنظیم کے صدر شئیم ویزمین کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اگر اُس کے بعض مفادات کا خیال رکھا جائے تو فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام منظور ہے۔ ۱۱۶ اسلامیہ کالج کے طالب علم سید شوکت حسین نے اودھ پنچ کا شمارہ اقبال کو بھیجا۔ ۳ جنوری ۱۹۱۹ء کو اقبال نے انگریزی میں جواب میں لکھا کہ نظم بیس برس پہلے لکھی گئی تھی، مصنف کا ذہن اور زاویۂ نگاہ مسلسل بدلتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ اس ملک میں ادبی اخلاقیات موجود نہیں۔ بہرحال اعتراض کرنے والے نظم کی اصل خامیوں کو نہیں دیکھ سکے: Poetry is something more than the mere correctness of idioms and expressions. My ideals are different from the critic's literary ideals. Poetry plays only a subordinate role in my utterances, and it is not my ambition to be classed among the poets of the day.۹۰ ۱۱۷ سید شوکت حسین نے برسوں پہلے چھپنے والا نظم کا ابتدائی متن تلاش کیا۔ دوبارہ خط لکھاکہ کتابت کی غلطیوں کی طرف سے تسلی ہوئی اب اقبال اصل خامیاں بتا دیں۔ ’’کسی پرانی نظم کو ٹھیک کر کے نئے سانچے میں ڈھالنے کی نسبت نئی نظم کہہ لینا کہیں زیادہ آسان ہے،‘‘ ۶ جنوری کو اقبال نے انگریزی جواب میں شکریہ ادا کرنے کے بعدلکھا اور نظم کی اصل خامیوں کی طرف اشارہ بھی کیا۔ ’’لکھنوی تنقید نگاروں کو ابھی تنقید کے اصول سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ۱۱۸ زمانہ(کانپور) کے جنوری کے شمارے میں اقبال کا ’’صورت بندِ ہستی‘‘ والا قطعہ شائع ہوا۔عنوان تھا ’نصیبِ ما زجہان است بعد ہمتِ ما‘۔ ۹۱ ۱۱۹ وہ نسل جو اقبال کی شاعری کے آغاز کے وقت دنیا میں موجود نہ تھی اب اپنے طور پر عجیب عجیب ذرائع سے اقبال کو دریافت کر رہی تھی۔ ’’غالباً ۱۹۱۹ء کی ایک دوپہر تھی،‘‘ اُس زمانے کے ایک طالب علم سراج نظامی کا بیان ہے۔ ’’میں سکول سے آ کر، کھانا کھانے کے بعد، چارپائی پر لیٹا الف لیلیٰ کی ایک دلچسپ داستان کے مطالعے میں غرق تھا۔ اتنے میں ہمارا نوکر عبدالکریم جسے ہم نے ایک یتیم خانے سے لیا تھا اور جو تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا، ہاتھ میں دستی پنکھا لیے کمرے میں داخل ہوا اور فرش پر لیٹ کر کسی نظم کے اشعار خالص مولویانہ انداز میں گنگنانے لگا۔یکایک اُس کی آواز بلند ہوئی۔ ’’تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا ’’مجھے یوں لگا جیسے آگ پہ تپتی ہوئی ہزاروں سوئیاں میری نس نس میں چبھ گئی ہوں۔‘‘ نوکر نے بتایا کہ شعر ڈاکٹر اقبال کے ترانے کا ہے اور پھر پورا ’ترانۂ ملی‘ جھوم جھوم کر سنایا۔ اس طرح سراج نے اقبال کا نام سنا۔ نوکر ہی کے بتانے پر اُسی وقت بھاگ کر مرغوب ایجنسی پہنچا اور ترانے کے علاوہ اقبال کی دوسری نظمیں ’شکوہ‘، ’جوابِ شکوہ‘، ’نالۂ یتیم‘، ’فریادِ اُمت‘، ’اکبری اقبال‘ اور ’تصویرِ درد‘ بھی خرید لایا۔ ’’میں کلامِ اقبال پڑھ کر مسحور ہو گیا،‘‘سراج کا بیان ہے۔ ’’اور حالت یہ ہو گئی کہ خلوت جلوت میں اُن کے اَشعار ترنم سے پڑھنے لگا۔‘‘ فارسی کے اُستاد مولوی احمد حسن کو معلوم ہوا تو سراج سے اکثر یہ نظمیں سننے لگے۔ کبھی کبھی رو پڑتے۔ پھر ’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ کے باقاعدہ درس دینے لگے۔ سراج کی پھوپھی کے پاس مخزن کے پرانے شمارے موجود تھے۔ وہ ہاتھ لگے۔ ’’ایک دن مولوی احمد حسن پوچھنے لگے تم نے ڈاکٹر اقبال کو دیکھا ہے؟‘‘ سراج کا بیان ہے۔ ’’میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے کہ وہ انارکلی میں عطرچند کپور تاجرانِ کتب کے مکان کی بالائی منزل پر رہتے ہیں۔ ان دنوں