واقعات کشمیر تاریخ کشمیر اعظمیٰ محمد اعظم دیدہ مری ترجمہ وحواشی ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی اقبال اکادمی پاکستان پیش گفتار (۱) محمد اعظم،تخلص اعظمی کا تعلق سر زمین کشمیر سے ہے۔وہ اپنے دور کے چند معروف صوفیا میں شمار ہوتے ہیں۔شاعری کے علاوہ انہوں نے تاریخ نگاری میں بھی نام پیدا کیا۔واقعات کشمیر میں انہوں نے اپنا نام اس طرح لکھا ہے ’’محمد اعظم ولد خیر الزمان خان‘‘ (صفحہ ۴)جب کہ پاکستان میں فارسی ادب کے مولف نے محمد شاہ ،مفتی سعادت،مرتب تاریخ اعظمیٰ(واقعات کشمیر) کے حوالہ سے اعظم کے والد کا نام خواجہ خیر الدین اور خطاب خیر الزمان خان لکھا ہے۔(جلد۳،صفحہ ۵۹۴) جو انہیں دوران ملازمت میں،عالم گیر کی طرف سے ان کی دیانت،لیاقت اور لطافت طبع کی بنا پر ملا تھا۔عالمگیر نے انہیں جاگیر کے طور پر چند گاؤں بھی دیئے تھے، خواجہخیر الزمان خان ملازمت سے فراغت کے بعد کشمیر لوٹ آئے،جہاں وہ ۱۱۶۵ /۱۷۵۲میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ محمد اعظم کی ولادت ۱۱۰۳/۱۶۹۱۔۲ میںبمقام سری نگر محلہ دیدہ مری میں ہوئی۔اسی بنا پر وہ دیدہ مری کہلاتے ہیں۔مختلف اساتذہ سے مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ منطق،ادب اور دینیات وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ان اساتذہ میں اخوند ملا عبید اللہ شہید، ملا ابو الحسن کاوہ داری، اور ملا عبد الرزاق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔جب انہیں شعر گوئی سے دلچسپی پیدا ہوئی تومیرزا نور الدین شارق کے سامنے زانوئے تلمیذ تہ کیا۔ اس کے علاوہ دوسرے شعراء عہد سے بھی فیض پذیر ہوئے۔ سولہ سترہ برس کی عمر میں روحانیت کی طرف توجہ ہوئی تو شیخ مراد تنگ کی مریدی اختیار کی۔واقعات کشمیر میں جہاں بھی کہیں مرشد کا ذکر آیا ہے۔ اعظمی نے بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ ان کا نام لیا ہے۔ اور تقریبا ہر مقام پر انہیں صنعت ابہام سے استفادہ کرتے ہوئے ،ان الفاظ سے یاد کیا ہے،’’مرشد مرادی‘‘(میرے مرشد،میری مراد) چھ برس ان کی خدمت میں رہے۔ ان کے علاوہ پانچ چھ ،دوسرے صوفیائے عصر سے بھی کسب فیض کیا۔ اس طرح تصوف ومعرفت کے رموز ونکات ان پر روشن ہوتے چلے گئے۔ واقعات کشمیر کے مرتب نے ان کی پاک سیرتی،جود وسخا اور خلوص کا ذکر بڑے اچھے پیرائے میں کیا ہے۔آخر میں ضعف گردہ کی بیماری نے انہیں آلیا۔ اور وہی ۱۱۷۹/۶۔۱۷۶۵میں ان کی موت کا باعث بنی۔عجیب بات ہے کہ اعظمی نے قبل از وقت اپنی تاریخ وفات اسی ’’ضعف گردہ‘‘ (۱۱۷۹) سے نکالی تھی،جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ نثر اور نظم میں کوئی آٹھ،نو تصنیفات ان سے یاد گار ہیں۔ جن میں سے ایک یہی واقعات کشمیر ہے۔جس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔واقعات کشمیر، عرف تاریخ کشمیر اعظمیٰ کشمیر کی سیاسی تاریخ کے علاوہ کشمیری یا کشمیر میں مقیم صوفیا اور شعراء کا بھی تذکرہ ہے۔اور اس ضمن میں اسے ایک اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔’’واقعات کشمیر‘‘ آغاز تحریر کے لحاظ سے تاریخی نام ہے۔ یعنی مصنف نے اسے ۱۷۳۵/۱۱۴۸ میں اسے لکھنا شروع کیا۔تاریخ اختتام جو خود مصنف نے شعر میں بیان کی ہے، ’’ترتیب ابولجنان ہے‘‘ جس سے۱۷۴۶/۱۱۵۹کا سن نکلتا ہے۔لیکن مطبوعہ کتابوں میں ۱۱۶۹ ہے جو درست نہیں ہے۔ پاکستان میں فارسی ادب(جلد سوم صفحہ ۵۹۶) تاریخ اختتام ۱۱۴۹ ہے۔ جو یقینا کمپوزنگ کی غلطی ہے۔آگے چل کر اسی کتاب میں سال اختتام ۱۱۶۰ دیا گیا ہے۔ اور یہ تاریخ ان الفاظ سے نکالی گئی ہے۔’’کہ زیب وزینت کشمیر ایں بود‘‘لیکن جیسا کہ مذکور ہوا ہے۔ اعظمیٰ نے خود جو تاریخ دی ہے۔ وہ ان دونوں سنین کی نفی کرتی ہے۔ اس کا شعر ہے۔ اگر پرسند تاریخش چساں یافت بگو ’’ترتیب ابواب الجناں‘‘ یافت (صفحہ۲۷۴) نیز مطبوعہ کتاب میں کہ ’’زیب وزینت کشمیر ایں بود‘‘ کی بجائے مصرعے کی صورت یہ ہے کہ ’’زیب وزینت کشمیر افزود‘‘ اور تاریخ سے اس مصرعے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کتاب کا آغاز حسب دستور حمد اور نعت سے ہوا ہے۔ اس کے بعد کتاب لکھنے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ شروع کا کچھ حصہ قدیم کشمیر کی تاریخ سے متعلق ہے۔اور کشمیر کی جغرافیائی صورت حال اور نباتات اور جمادات وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔خود صوفیا ہونے کے ناطے مصنف کے پیش نظر،جیسا کہ ترجمہ ہذا سے واضع ہو گا،تاریخ سے زیادہ صوفیا کے احوال رہے ہیں۔ صوفیا کا ذکر اعظمی نے بڑے ادب واحترام سے کیا ہے۔اور پھر ہر دور کے شعراء کا ذکر (مع انتخاب اشعار) بھی کیا ہے۔مصنف نے یہ انداز اختیار کرکے دراصل بر صغیر میں تاریخ نویسی کی روایات کو برقرار رکھا ہے۔اس لئے یہاں کی اکثر کتب تاریخ میں سیاسی حالات کے علاوہ علماء وفضلاء شعرا اور صوفیائے عہد کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ اس طرح واقعات کشمیر سے وہاں کی سیاسی تاریخ سے ہٹ کر شعر وتصوف کی بھی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔سیاسی تاریخ کے بیان میں مصنف نے موقع ومحل کے مطابق اپنے اشعار بھی کھپائے ہیں۔ کہیں کہیں کسی اور بڑے شاعر کا پورا شاعر یا ایک مصرع دے کرمتعلقہ صورت حال میںزور پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔مصنف نے ہر موضوع سے متعلق طرز تحریر اپنایا ہے۔ مثلا سیاسی تاریخ کے بیان میں سادہ زبان ہے۔ تصوف کے سلسلے میں بھاری بھر کم الفاظ واصطلاحات سے کام لیا ہے۔کہیں قرآنی آیات اور احادیث سے بھی استفادہ کیا ہے۔اسی طرح شعراء کے ذکر میں ادبی زبان بھی استعمال کی ہے۔تاہم بعض مقامات پرعربی کے ایسے غیر معروف الفاظ یا اصطلاحات کھپائی ہیں۔ جو اگر چہ مصنف کے علم وفضل کی تو غمازی کرتی ہیں، لیکن قاری کے لیے دقت پیدا کر دیتی ہے۔حالانکہ فارسی میں ان کے نعم البدل موجود اور عام فہم ہیں۔ افعال کے سلسلے میں بھی اکثر بے احتیاطی نظر آتی ہے۔مثلا فعل ماضی مطلق کے ساتھ فعل حال جوڑ دیا گیا ہے۔ کہیں معاملہ اس کے بر عکس ہے۔حالانکہ ایسے مقامات پر محل ایک ہی فعل کا ہے۔بعض مواقع پر فاعل اور مفعول کا تعین واضع نہ ہونے کے باعث عبارت سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔کئی ایک مقامات پر مکمل زمانہ دینے کی بجائے حالیہ ء تمام سے کام لیا ہے۔،جیسے کردہ است یا کردہ بود کی بجائے صرف کردہ لکھ کر جملہ مکمل کر دیا ہے۔کہیں کہیں شتر گربہ کا عیب بھی نظر آتا ہے۔ یعنی ایک ہی شخصیت کے بارے میں ایک جگہ واحد کا صیغہ استعمال کیا ہے تو دوسرے فقرے میں جمع کا صیغہ دے دیا ہے۔ بہر حال یہ چند چھوٹی چھوٹی فنی کوتاہیاں ہیں، جہاں تک اصل مواد کا تعلق ہے،اس کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ ۲ آج فارسی زبان،جس نے صدیوں تک برصغیر پر حکومت کی ہے، ’’آج گئی کہ کل گئی‘‘۔کے مقام پر کھڑی ہے۔اس زبان نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ ہماری تاریخ،تہذیب وثقافت،اخلاق،ہمارا دین اور سب سے بڑھ کر دو قومی نظریئے کا تصور سب اس کے مرہون منت ہیں۔ان باتوں کی وضاحت کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔صرف دو قومی نظریئے کے بارے میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کی مسلم دشمنی اور ان کے مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کی جو تفصیلات فارسی میں لکھی گئی ہیں۔عصری تاریخوں میں ملتی ہیں۔وہ کم ہی کسی دوسری کتب میں نظر آتی ہیں۔ان ماخذ کی اہمیت وافادیت کی بنا پر ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ انہیں فراموشی کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے انہیں اردو زبان میں ڈھال دیا جائے۔ تاکہ یہ عام قاری کی دسترس میں آجائے۔اسی جذبے نے راقم کو کتاب ’’واقعات کشمیر‘‘ کے اردو ترجمے پر آمادہ کیا۔ مجھے واقعات کشمیر کا جو مطبوعہ نسخہ میسر آیا،وہ مطبع محمدی لاہور میں ’’تاریخ کشمیر اعظمیٰ‘‘کے نام سے ۱۳۰۳ء میں چھپا تھا۔ یہ نسخہ اب نایاب ہے۔محب مکرم پروفیسر احسان الہیٰ سالک صاحب کے پاس یہ ایڈیشن تھا۔ان کی نوازش تھی کہ انہوں نے اس خستہ حال نسخے کی فوٹو کاپی کی اجازت دے دی۔ اس نسخے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں کیا نثر کیا اشعار سب مسلسل ترتیب میں لکھے گئے ہیں،یعنی ان میں نہ کوئی علامت گزاری ہے۔اور نہ کوئی پیرا گراف ہی شعر اور نثر کی صورت میں تحریر ہوئے ہیں، ایسی عبارت کا پڑھنا،گویا کسی قلمی نسخے کی ریڈنگ کرنا ہے۔علامت گزاری سے عاری اس مسلسل عبارت کے سبب اکثر مقامات پر’’روکو مت جانے دو‘‘ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔جس کے نتیجے میں یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ ’’روکو اور مت جانے دو‘‘ ہے کہ ’’ یا روکو مت‘‘اور جانے دو‘‘ ہے۔کتابت کی بے پناہ اغلاط اس پر ،مستزاد۔اس صورت حال نے مجھے چکرا کے رکھ دیا،بہر حال چونکہ کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اس لئے اسے صحیح طور پر اور دیانت داری سے انجام دینے کے لئے بے حد محنت کرنا پڑی۔بعض مرتبہ ایک ایک فقرے کو چار ،چار ،پانچ پانچ مرتبہ پڑھنا پڑا۔کوئی غیر معروف سالفظ سامنے آیا تو اس کے لئے عربی اور فارسی لغتوں سے رجوع کیا۔اسی طرح اسمائے رجال اور اشعار کی درستی کے لئے مختلف تذکروں،بالخصوص تذکرہ شعرای کشمیر، تالیف اصلح،متخلص بمیرزا ،بتصحیح وحواشی سید حسام الدین راشدی، لاہور کی چاروں جلدوں،پاکستان میں فارسی ادب مولفہ ڈاکٹرظہور الدین احمد کی پہلی چار جلدوں سے راج ترنگینی،ترجمہ فارسی اسلام آباد، اور شعراء کے نیز صوفیا کے بعض تذکروں سے مدد لینا پڑی۔بعض کوچوں اور محلوں کے اسما کے سلسلے میں دوستان عزیز پروفیسر ڈاکٹر یوسف بخاری صاحب،اور پروفیسر محمد اشرف قریشی صاحب سے مدد لی کہ یہ دونوں حضرات ماضی قریب میں کشمیر سے ہجرت کرکے آئے اور بڑی حد تک ان ناموں سے واقف ہیں۔ اس طرح راقم نے اس کتاب کا فارسی متن بھی گویا ایڈٹ کر لیا۔ ترجمہ کرتے وقت پوری کوشش کی ہے کہ وہ پوری طرح متن کے قریب ہو۔ کہیں کہیں مزید وضاحت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی خاطر بریکٹ میں دو ایک الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے۔بعض مقامات پر مصنف نے اپنے الفاظ دے کر بریکٹ میں ان کی وضاحت کردی ہے۔یا معنی دے دیے گئے ہیں۔ان الفاظ کے محض صوتی حسن کو برقرار رکھنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔مصنف نے جہاں بھی کہیں کسی کی وفات یا کسی واقعہ پر شعر میں کہی گئی تاریخ اعداد کے بغیر نقل کی ہے۔اور ایسا ہر جگہ ہوا ہے، وہاں راقم نے اس کے اعداد خود نکالے ہیں۔اور درج کر دیئے ہیں۔ نیز چونکہ ہم زیادہ تر سن عیسوی ہی سے آگاہ ہیں۔ اس لیے ہجری سنین کے ساتھ ساتھ عیسوی سنین بھی دیئے گئے ہیں۔تاکہ قاری کے لئے زمانے کے تعین میں آسانی ہو۔ پہلے خیال تھا کہ فارسی اشعار ترجمے کے بغیر جوں کے توں نقل کر دیئے جائیں۔لیکن یہ سوچ کر کہ فارسی سے نا آشنا قارئین ان سے لطف اندوز نہ ہو سکیں گے۔اصل متن دے کر ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے۔ تاکہ فارسی کا فہم اور ذوق وشوق رکھنے والے قارئین ان سے براہ راست لطف اٹھا سکیں۔شروع میں کتاب کے حواشی وتعلیقات کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔لیکن کتاب کی ضخامت بڑھنے کے خوف سے یہ کام ترک کر دیا،البتہ شروع کے چند ایک حواشی رہنے دیئے۔یہ ا س لئے کہ قاری کو راقم کی محنت واذیت کا پتا چل سکے۔ جو الفاظ سے پر متن کے پڑھنے میں اٹھانا پڑی۔ نیز اس لئے بھی کہ بعض مقامات پر اس کتاب کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ آخر میں ان محبان مکرم کا شکریہ،جنہوں نے مختلف مواقع پر میری مدد فرمائی۔ خواجہ حمید الدین یزدانی لاہور ۱۴ اگست ،۱۹۹۳ء تمہید ابداع اور ایجاد کے دفتر کے صفحات کی زینت اور عالم کون و فساد کے طبقات منظر کی پاکیزگی اور اس مالک ملک کے نام ہے۔جس کی ذات ابدی وازلی ہے۔اور اشیاء کی تعین و تعدیل اس ذات یگانہ کی ایک صفت ہے۔جس ذات کی ازلیت وابدیت کی تاریخ کا آغاز اور انجام سے مبرا ہے۔ وسیع سر سبز جنگل(زمین) اس کے فیض بہار سے ایک ارضی پھول ہے۔ خواہ وہ عرب ہے یا عجم۔خواہ کشمیر ہے یا بلخ۔نظم زفیضش بشگفد گلہائے اسرار زموزون مصرعی بی معنی خار کتاب قدرت او را بمعنی بود سرو خیابان یک الف بے ( اس کے فیض سے بھیدوں کے پھول کھلتے ہیں۔موزوں مصرع ہونے کی بنا پر اس میں کانٹے کے معنے ہی نہیں ہیں۔ باغ کا سرو حقیقت میں اس کی کتاب قدرت کا ایک حرف ابجد ہے )۔ نعمت وجود کے سمندروں سے سیراب ہونے اور ہستی کے افضال کی بہار سے سر سبز ہونے والے ساکنان کون مکان کی کیا بساط؟۔ جو وہ اس کا ذرہ بھی شکر وسپاس ادا کر سکیں۔جب کہ عالم علوی کے مقیم میں جو اس کی محفل انس کے باریاب اور مجلس قدس کے تماشائی ہیں۔اس کی ذات کے نشان کے ادراک کی خواہش میں بے اندازہ حیرت وسر کشتگی کا شکار ہیں۔ پھر اس کے بادیہء سلوک کے راہ رو (صوفیا) جو اس کے شہود وحدت میں زندہ ومردہ ہیں۔ اس کی حقیقت ذات کی تہ تک ہر گز پہنچ نہیں سکے۔ نظم در ہیچ پردہ نیست، نباشد ہوای تو عالم پر است ازتو وخالیست ثنائی تو ہر غنچہ رزا حمد تو جزویست در بغل ہر خاری کند بزبانی ثنای تو وزمشت خاک من چہ بود لائق نثار ہم از تو جان ستانم وسازم فدای تو غیر از نیاز وعجز کہ در درگہ تو نیست ایں مشت خاک تیرہ چہ دارد سزای تو ( کوئی بھی پردہ ایسا نہیں ہے۔ جس میں تیرا گزر نہ ہو۔تمام کائنات تجھ سے پر ہے۔پھر بھی تیری جگہ خالی ہے۔ (ہر کلی تیری حمد کا کتابچہ بغل میں رکھے ہوئے ہے۔ اور ہر کانٹا اپنی زبان سے تیری ثنا کر رہا ہے۔ = (مجھ خاک کی مٹھی کے پاس کیا ہے۔ جو تیری ذات پر نثار ہونے کے لائق ہو۔ میں نے جان تجھی سے پائی ہے اور تجھ پر ہی فدا کرتا ہوں)۔ = ( اس سیاہ خاک کی مٹھی میں (مصنف) کے پاس عجز ونیاز کے سوا جو تیری بارگاہ میں نہیں ہے۔اور کیا ہے؟۔ جو تیری شایان شان ہو)۔ نور کی خوش گوار ہوائیں اور فیض وسرور کی خوشبوئیں شہرستان ظہور کے سرور محتاجان نزدیک دور کے سرمایہ، آئینہ قدم کے جوہر، اور خزینہ کرم کے گوہر کے روضہ قدسیہ کی بارگاہ کی خاک بوسی کا آرزومندوں پر نچھاور ہوں۔ حضور ؐ فوج رسالت کے قافلہ سالار،فوج جلالت کے چلتے پھرتے آفتاب شاہد وھدت کے مصور، عالم کثرت (اس دنیا) کے ظہور کا وسیلہ عاجز وبے کس انسانوں کے سروں کا سایہ،اور کفر اندیش گردن کشوں کے سرشکن ہیں۔ بیت۔ محمدؐ کہ بے دعوی تخت وتاج زشاہان آفاق بستد خراج چہ گویم زباغ جمالش خبر چہ جویم زبحر کمالش خبر کہ خورشید برگ زبستان اوست فلک یک حبابے زعمان اوست =( محمدﷺ نے کسی تخت وتاج کے دعوی کے بغیر دنیا بھر کے بادشاہوں سے خراج وصول کیا)۔ میں حضور کے باغ جمال کا حال کیا بتاؤں۔حضورؐ کے بحر کمال کی کیا بات سناؤں)۔ =( اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آفتاب حضور ؐ کے باغ کا ایک پتا ہے۔ اور آسمان حضورؐ کے سمندر کا ایک بلبلا ہے۔) ہر صبح وشام مدینہ میں حضورؐ کے فیض کے حصول کی خاطر انوار خورشید لوٹنے والوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ ہر شام حضورؐ کے فراق میں خون جگر پینے والوں کے جوش سے کوچہ وبازار شفق آثار ہوتے ہیں۔عرض حال کی خاطر بڑے ہی اضطرار کے عالم میں یہ اشعار ورد زبان۔ بر ’’سریر لی مع اللہ‘‘ تا ابد سلطانی توئی در دیار قم فانذر صاحب توئی در گلستان ’’فاوحی‘‘ طیر خوش الحانی توئی قالب بے روح مارا درد والم جان توئی مخزن اسرار گنج علم القرآن توئی مطلع دیباچہ وانجم والرحمن توئی مرہمی نہ بر دل ریشم کہ دردوم بی دواست سینہ مجروح ما را تا ابد در مان توئی دلی مع اللہ کے تخت پر آپ ؐ ابد تک سلطان ہیں۔قم فانذر کے ملک میں آپؐ ہی صاحب فرمان ہیں۔ =( فاوحی کے گلستان میں آپؐ خوش الحان طائر ہیں۔دونوں عالم میں ہمارے ارواح سے خالی ڈھانچے کے لئے آپ ؐ جان ہیں)۔ = ( آپؐ ہی گنجینہ علم القرآن کے اسرار کے مخزن ہیں۔ سورہ والنجم والرحمن کے دیباچے کا مطلع آپؐ ہی ہیں )۔ آپؐ پر سلام ودرود ہو، اور آپؐ کی طیب وطاہر آل پر اہل بیت پر عزہ واقربا پر اور تمام صحابہ کرام پر بھی۔بالخصوص دین کے ان چار مضبوط ستونوں یعنی حضرات خلفائے راشدین پر۔کہ کمال اتحاد کے سبب ان میں باہم کوئی فرق نہ تھا۔اور انہوں نے غایت غیرت کی وجہ سے غیرت کاکا غین دور کر دیا۔اس دعوے کی تصدیق میں یہ اتفاق لائق توجہ ہے کہ چاروں خلفائے برحق کہ چشم کو نہیں ہیں کہ اسما کا آغاز حرف عین سے ہوتا ہے۔اس لئے کہ حضرت صدیق اکبر کا اصل اسم گرامی عبد اللہ ہے۔ اور جناب سرور اہل تحقیق (حضور نبی مکرم) کی طرف سے اس رفیق شفیق کا خطاب عتیق ہے۔ اور باقی تین حضرات گرامی کی عینیت بیان کی محتاج نہیں ہے۔ اشعار مصنف۔ ہمین چار تن نائب سرورند ہمین چار تن والی ملک دین ہمین چار تن خلق را رہبرند شدہ از حسد چشم اغیار کور کہ این چار تن عین یک دیگرند = ( یہی چار حضرات سرور کونین کے نائب ہیں۔یہی چار حضرات پیغمبر اکرم کے خاص ہیں )۔ = ( یہی چار حضرات ملک دین کے والی ہیں۔ یہی چار حضرات مخلوق کے رہبر ہیں )۔ =( حسد کے سبب غیروں کی آنکھ اندھی ہو گئی ۔کیونکہ یہ چاروں حضرات ایک دوسرے کی عین ہیں )۔ رضی اللہ عنھم ورضو عنہ (اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی)۔ نظم ای ابو بکر تو بر اوج خلافت آفتاب وی بدوران عمر اسلام راصد فتح باب کردہ قرآن ترا عثمان بخون دل خضاب در صف گردن کشان تیغ علی مالک رکاب تا قیامت بہر نور دیدہ ات دلہا کباب گر زمین وآسمان از دیدہ خون بارد رواست = ( اے ابو بکر آپ خلافت کی بلندی کے آفتاب ہیں۔جب کہ حضرت عمر کے زمانے میں اسلام کے لئے سینکڑوں در وا ہوئے۔(فتو حات) = ( حضورؐ آپ کے قرآن کو حضرت عثمان نے اپنے دل کے خون سے رنگا۔سرکشوں کی صف میں حضرت علی کی تلوار گردنیں اڑانے والی ہے )۔ =( قیامت تک آپ ( حضرت علی)کے نور دیدہ حضرت امام حسین ؓ کے غم میں دل کباب رہیں گے۔اس غم میں اگر زمین وآسمان خون کے آنسو روئیں تو یہ روا ہوگا )۔ اما بعد: یہ کتاب خالق قدیر کی عجائبات صنعت تصویر خانہ تقدیر کے اس حسین ترین نقش یعنی جنت نظیر بلدہ کشمیر کے احوال پر مبنی ہے۔جو متفقہ طور پر تمام ارباب سیاحت اور ارباب دانش کے نزدیک نزہت وصفا امنیت اور لطافت ہوا کے لحاظ سے دنیا کے اکثر بلاد سے ممتاز ،بلکہ بے مثل ہے۔گزشتہ زمانے میں ہندو مورخ اس کے صدی وار حالات لکھتے رہے۔ اور اس خدمت کے عوض سلاطین کے دربار سے وظائف حاصل کرتے رہے۔ان کی تواریخ (رازہ ترنگ سے موسوم ہیں)۔ (رازہ ترنگ ہندوؤں کی تاریخ کا نام ہے۔) جب کشمیر کے سلاطین کے احوال دگر گونی کا شکار ہوئے۔ اور ان مورخین کے وظیفے بند ہو گئے۔تو انہوں نے تاریخ نویسی سے ہاتھ اٹھا لیا۔اور بعض مسلمانوں نے ان کی تواریخ کے بعض حصے ترجمے کی صورت میں تحریر کیے،نیز اپنے اپنے زمانے کے حالات بھی اجمالی طور پر ان میں شامل کیے، جن میں سے ایک ملا حسین قاری علیہ الرحمہ نے ایک مختصر کتاب تالیف کی۔ ان کے بعد حیدر ملک جادوراہ نے احوال کشمیر لکھے۔لیکن اس نے اکثر مقامات پر اپنے ابا واجداد کے ذکر سے خودستائی کا ڈنکا بجایا۔ اور ضروری وقائع اور ادوار کی روداد کو نظر انداز کر دیا۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں بعض ارباب کمال نے پہلے سے لکھی ہوئی کتب کو پیش نظر رکھا۔اور اپنے عہد کے حالات کے اضافے کے ساتھ اس ضمن میں رسالہ بھی ترتیب دیا۔اس عہد کے قریب ایک ہندو نے بھی بڑے اختصار واجمال کے ساتھ ایک کتاب لکھی، چونکہ یہ کتابیں تفصیل کے ساتھ حضرات اہل کمال کے احوال پر مبنی نہ تھیں۔ اور ان صدیوں میں عجیب وغریب حوادث ووقائع رونما ہوئے۔اس لئے اس احقر امم یعنی محمد اعظم ولد خیر الزمان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ اس بلدہ دل پسند کے احوال پر چند ورق لکھے جائیں۔ جو ان تمام وقائع کی تفصیل پر مشتمل ہوں۔ جو ہر دور میں وقوع پذیر ہوئے۔ پھر ان وقائع کے ساتھ ساتھ ہر دور کے حضرات صوفیہ ،علما اور عرفا کا تذکرہ بھی شامل ہو۔ اور ان صدیوں کے دوران اس بلدہ میں واقع ہونے والے کلی امور بصورت ایجاز رقم کیے جائیں۔اس سے ہٹ کر قرون اخیر کے شعراء اور ارباب سخن کا بھی ذکر کیا جائے۔جو اس سے پہلے کسی بھی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔تاکہ حالات کا کھوج لگانے والے اور محققین کے لئے یہ ایک یاد گار ہو۔اور ارباب عبرت کے لئے ایک تذکار،چونکہ اس کتاب کا آغاز ۱۱۴۸ھجری/۔۶۔۱۷۳۵ میں ہوا۔ اس لئے اس کی تاریخ واقعات کشمیر کے نام سے نکلی،اور منہ المبد والبہ المعاد (آغاز کی جگہ بھی اسی سے ہے اور لوٹ کر جانے کی جگہ بھی اسی کی طرف ہے۔) کلام مصنف ہر مخزن فیض است بارات کشمیر تادور جہان باد ثبات کشمیر شد سال شروع واردات کشمیر با نام کتاب واقعات کشمیر = () فیض کے خزانے میں سے کشمیر کا حصہ ہے۔خدا کرے جب تک دور جہاں قائم رہے۔کشمیر قائم رہے۔) =( واردات کشمیر کی حامل کتاب کے شروع کا سال واقعات کشمیر(۱۱۴۸/۶۔۱۷۳۵) ٹھہرا۔ اس رسالے کا آغاز سکندر جاہ بادشاہ مملکت آرای سلطنت دارا خورشید کلاہ صاحبقرانی کا پرچم بلند کرنے والے کشور ستانی کا چراغ فروزاں کرنے والے عدل واحسان کے محبوب کے مصور تر دامنوں (خطا کاروں) کے گلشن کے طراوت بخش سلاطین ہفت کشور کے مرجع وملجا جواں بخت روشن اختر خاقان داد رسی اور چارہ سازی کے آسمان کے آفتاب فیض بخشی اور عاجز نوازی کے بحر محیط ابو الفتح ناصر الدین محمد شاہ بادشاہ غازی کے سعادت اقتران زمانے میں ہوا۔ خدا ان کے ملک و سلطنت کو مدام رکھے۔ان کی بخشش وسخاوت اور ان کے عدل واحسان سے دنیا والے مستفیض ہوں۔اور یہ دعا ہے ،جو رد نہ ہوگی۔اور اس میں مختلف انسانوں کے لیے بہتری ہے۔ کتاب کی ترتیب اس طرح ہے، مقدمہ اور تین قسم اور خاتمہ۔ مقدمہ : اس شہر کے احوال وصفات کے بیان میں ۔ قسم اول: قبل از اسلام حکمرانوں کے حالات،جنہوں نے اس ملک پر حکومت کی۔ قسم دوم: ظہور اسلام کے بعد ارباب سلطنت کے احوال جو کشمیر ہی سے اٹھے۔ قسم سوم : خاندان چغتائیہ (مغلیہ سلاطین کا ذکر جو اس شہر پر قابض ہوئے۔) خاتمہ :۔ بعض ان عجائب وغرائب کا بیان جو اس شہر کا خاصہ ہیں۔اللہ تعالیٰ اسے حادثات سے محفوظ رکھے۔ مقدمہ کشمیر کے احوال وصفات کا مختصر ذکر واضع رہے کہ کشمیر ایک وسطی علاقہ ہے۔ جو اقلیم چہارم کے وسط میں واقع ہے۔ کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے۔ جس کا عرض ۳۳ درجے اور ۵۴ دقیقہ ہے۔خط استوا سے اس کا عرض ۳۵ درجے اور جزائر خالدات سے اس کا طول ۱۰۵ درجے ہے۔اسی باعث اسے بلاد خراسان کا داخل سمجھا جاتا ہے۔اس ملک کا میدان طولانی صورت میں ہے۔ یہ تمام اطراف سے فلک بوس مضبوط پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔اس کا جنوبی کوہستان دلی کی جانب شمالی زمین بدخشان اور خراسان کی طرف ،اور اس کی مغربی جانب ایسے مواضع ہیں جو پکھل کے نام سے مشہور ہیں۔اور آج کل یہ افاغنہ کا محل اقامت ہیں۔اس کی مشرقی جانب اراضی تبت جاری ہو جاتی ہیں۔ اس علاقے کی ہموار زمین کا طول،مشرقی حد سے جانب مغرب تقریبا چالیس کوس ہے۔ جب کہ عرض جنوبی حد سے شمالی حد تک بیس کوس ہے۔ کوہسار کے درمیان واقع اس دشت ہموار میں ہزاروں قریئے آباد ہیں۔ جن میں میٹھے پانی کے چشمے، پانی، سبزہ اور لالہ زار بڑی شہرت کے حامل ہیں۔خیال ہے کہ اس تمام ولایت(ملک) میں،کوہستان،میدان وجنگل کے سوا،گزشتہ ادوار میں چند ہزار گاؤں عمارت اور زراعت کے مقام تھے۔پھر حوادث اور آفات سماوی کے نتیجے میں،جن کا ذکر اپنے اپنے مقام پر مختصر کیا جائے گا۔ بہت سے گاؤں مٹ گئے۔ اس دیار کی مصفا آب وہوا کا ایک گواہ یہ ہے کہ یہاں کے حسن ،منظر اور حسینوں کی لطافت خصلت فارس کے قدیم اساتذہ،شعر کی زبان میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے پہاڑوں پر، اس کے دشت میں بہت سی اقسام کے میوہ دار اور شکر بار درخت ہیں۔اس کے پھل بہت عمدہ اور اکثر مزاجوں کے موافق ہیں۔لیکن چونکہ اس کی آب و ہوا سرد ہے۔ اور یہاں بہت زیادہ برف پڑتی ہے۔ اس لئے یہاں بعض پھل مثلا سنگترہ، گنا، کھجور،شریفہ ،جامن اور فالسہ وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔اور قریب کے گرم علاقوں سے منگوائے جاتے ہیں۔اس میدان کے وسط میں مشرقی جانب سے ایک کوس کے فاصلے پر اور مغرب میں پہاڑ تک،سابقہ سلاطین کے زمانے میں ایک شہر بہت سی عمارات وآبادی کے لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔ شہر کے درمیان میں بغداد کی مانند ایک بہت بڑی نہر جاری ہے۔جس کے پانی کی مقدار بغداد کے دجلہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ اس بے حد وافر پانی کا آغاز ایک چشمے سے ہوتا ہے۔ جس کا منبع اصلی ویر ناگ ہے۔ جس کے پانی کی لطافت اور مٹھاس ارباب عقل ودانش کے نزدیک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ طالب کلیم کہتا ہے:۔ انتخابے کردہ ام از گرم وسرد روزگار اشک چشم خویش آب چشمہ ور ناک را = میں نے زمانے کے گرم اور سرد کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی اپنی آنکھوں کے آنسو اور ویر ناگ کا پانی (آنسو گرم اور ویر ناگ کا پانی سرد ہے۔) اس کے بعد بہت سے طویل سوتوں اور نزدیک ودور کے علاقوں اور پہاڑ پر سے بہنے والی ندیوں سے جدا ہو کر اس نہر میں جا ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ادوار میں اس نہر پر کوئی تیس کے قریب کشتیوں کے پل تھے۔اور راستہ کھلا تھا۔ان میں سے سات پل قدیم ایام سے سلاطین کشمیر کے دور اختتام تک یہاں کے صدر مقام سری نگر میں موجود تھے۔ یہ پانی کشمیر کی حدود سے گزرنے کے بعد پنجاب کے راستے اور اطراف پشاور سے ہوتا ہوا،ملتان کے اس طرف بہتا ہے۔ اور پھر مختلف دریاؤں میں مل کر سندھ میں جا گرتا ہے۔ ان سب کو دریائے سندھ کا نام دیا گیا ہے۔یہ سرزمین ٹھٹھہ سے سمندر کی طرف نکل جاتا ہے۔ حکمت خدا وندی کے وقائق میں سے ایک یہ ہے کہ اس صانع مطلق نے آیت (۴) ’’والقینا فیھا رواسی‘‘ ( اور ہم نے اس میں پہاڑ ڈال دیئے،مراد زمین پر پہاڑ پیدا کر دیے ) کے مطابق اس انتہائی غیر معمولی فراخ وکشادہ میدان کے گردا گرد مضبوط پہاڑوں کے محکم اور بلند قلعے اور باوقار کوہسار کا سلسلہ قائم کر دیا۔ جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگ دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے ہمیشہ محفوظ رہے۔اس کے بغیر کہ یہاں کے لوگ باہم متحد ومتفق ہوں،باہر والوں کے لئے اپنی کثرت سپاہ اورقوت اقتدار کے باوجود اس پر قبضہ کرنا ممکن نہیں، اس ولایت کے عام بڑے راستے تین ہیں۔ایک خراسان کی جانب اور یہ بڑا ہی دشوار گزار راستہ ہے۔ایک تو پرگنہ کویہامہ سے براستہ گلگت،بد خشاں پہنچتے ہیں۔اور دوسرا داردو (۵) کے راستہ سے جو دشوار تر بھی ہے۔اور قریب تر بھی۔ ساز وسامان اور اسباب وغیرہ جانوروں کی پیٹھ پر لاد کے لے جانا ممکن نہیں۔یہاں کے لوگ جو اس کام کے عادی ہو چکے ہیں۔سامان کندھوں پر رکھ کر ایسی جگہ پہنچا دیتے ہیں۔جہاں چارپایوں پر لادا جا سکے۔جو راستہ ہندوستان کی طرف جاتا ہے۔ وہ اسی ڈھنگ کا،بلکہ اس سے بھی زیادہ دشوار گزار ہے۔سلاطین کشمیر کے زمانے میں اور زیادہ تر مغلیہ بادشاہوں کے زمانہ تصرف میں یہ راستہ کسی قدر صاف اور ہموار ہو گیا۔جو راستہ تبت کی طرف واقع ہے۔ وہ ان دو راستوں سے زیادہ آسان ہے۔جب کی تبت کوچک کا راستہ صعوبت سے خالی نہیں ہے۔ یہ چند روزہ راہ ہے ،جس میں زہر کی خاصیت کی حامل گھاس بہت ہے۔سواروں کے لئے یہاں سے گزرنا دشوار ہے۔ کیونکہ جانور یہاں مر جاتے ہیں۔ یہ دونوں راستے کاشغر،ختن اور لاسہ کو جاتے ہیں۔ وہاں سے چین وماچین،ترکستان اور توران کو، جنوب اور مشرق کے مابین دکن کی طرف بھی ایک راستے کا ذکر کیا جاتا ہے۔لیکن وہ معمول اور معلوم نہیں ہے۔ اس مذکورہ حد بندی میں یہاں کی تمام ثبت شدہ اراضی کی چار اقسام ہیں۔زراعت یا تو آبی ہے یا للمی، یا تو باغ وگلزار ہیں۔یا پھلوں کے باغ،یا پھر تکونی ہموار میدان ہیں۔یا نسترن ولالہ اور ریحان اور بنفشہ اور قسم قسم کے پھول ہیں۔ ندیوں کے کنارے پہاڑ ہیں۔ رطوبت کی وجہ سے زمین کے اس حصے میں زراعت نہیں ہوتی۔اس جانب گلزار کی صورت میں اہل زمانہ کے لئے عشرت کدہ بنا ہوا ہے۔اور یہ خود اس کی لطافتوں میں سے ایک ہے۔ گرمیوں میں کشمیر کے موسم میں بڑی لطافت ہوتی ہے۔چنانچہ اکثر اوقات پنکھے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔مسلسل باد نسیم چلتی رہتی ہے۔ جس کے خوشبودار جھونکے ساکنوں کے دماغ کومعطر کر دیتے اور زندگی بخشتے ہیں۔یہاں کی حامل لطافت خوشبودار ہوائیں پیہم چلتی رہتی ہیں۔صبا کی نگہت،روح اللہ (حضرت عیسی علیہ السلام) کے دم کی مانند زندہ کرنے کی خاصیت رکھتی ہے۔بہار اور خزاں کے موسموں میں ان سے چمکیلے پتے گرتے ہیں۔ نغمہ سرا بلبلیں اور عندلیبیں زبان حال سے ’’من یحییٰ العظام وھی رمیم‘‘ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ،جب کہ وہ گل گئی ہوں گی)۔ پڑھنے میں مصروف۔ایران میں خاندان سامانیہ کے سلاطین کے ملازم اور قدیم شاعر عمارہ نے ،کہ تیسری صدی ہجری کا ہے،اس ضمن میں کہا ہے: بیت: جہان زبرف اگر چند گاہ سیمین بود زمرد آمدہ بگرفت جامی تودہ ء سیم نگار خانہ کشمیریان بوقت بہار بباغ کرد ہمہ نقش خویشتن تسلیم = دنیا اگر کچھ وقت کے لئے سیمیں (چاندی ایسی سفید ہو گئی تھی۔) زمرد یعنی سبزے نے آکر چاندی کے ڈھیر کی جگہ لے لی۔موسم بہار میں کشمیریوں کے نگار خانے نے اپنی تمام تصاویر باغ کے حوالے کر دیں ) ’’ ملا عرفی نے جو شعرائے متاخرین میں سے ہیں،اور جس کا ذکر آگے آئے گا، حسب حال کہا ہے: بیت: ہر سوختہ جائے کہ بہ کشمیر در آید گر مرغ کباب ست کہ با بال وپر آید (جو بھی سوختہ جان کشمیر آتا ہے، وہ اگر بھنا ہوا پرندہ بھی ہو تو بال وپر کے ساتھ آتا ہے۔) کسی سلطان کا شعر ہے: کشمیر مگو،رشک پری خانہ چین است القصہ بہشتیت کہ بروئے زمین است (کشمیر نہ کہو ،یہ تو چین کے پری خانے کے لئے باعث رشک ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ایک بہشت ہے، جو روئے زمین پر ہے۔) دنیا کے شعراء نے جو نظم ونثر میں اس شہر کی تعریف میں جو داستان طرازی کی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور شہر کی تعریف میں شاید اس کا عشر عیشر بھی بیان نہ کیاہو۔ سرما میں اس کا موسم نہایت معتدل اور کسی قسم کے مضرت اور اختلال سے پاک ہوتا ہے۔ چنانچہ کثرت برف باری کے باوجود پوستین پہننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی،بلکہ اس کی برودت،حرارت عزیزی اور طبعی مزاج کو باہر لے آتی ہے۔جب خورشید عالم تاب کی گرمی نہیں ہوتی۔اس وقت خالق کائنات کے اس منتخب شہر کے ساکنوں کو آتش بادہ کی ضرورت پڑتی ہے۔بیت: گردون غبار دارد وطبعم مشوش است امروز روز بادہء وخر گاہ آتش است (آسمان غبار آلود اور میری طبیعت پریشان ہے۔ آج کا دن شراب کا دن اور آگ کے خیمے کا دن ہے ۔) کشمیر میں ایسے دن کبھی کبھی ہوتے ہیں۔مولانا شرف الدین علی یزدی نے اگر چہ خود کشمیر نہیں دیکھا، تاہم اس نے اپنی تاریخ میں لوگوں سے سنے ہوئے اوصاف کشمیر تحریر کیے ہیں۔ میرزا حیدر جو کچھ عرصہ یہاں قابض رہا۔اور جس نے خود یہ ملک دیکھا تھا،یہاں کا آنکھوں دیکھا حال اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ اس میں سے کچھ اس کتاب میں نقل کیا جاتا ہے۔: اس کی بہار سے ’’فنفخت فیہ روحی‘‘ (میں نے اس میں اپنی روح پھونکی) کا مضمون ظاہر اور اس کی جاں فزا شمیم سے آیت ’’یخرج الحی من المیت‘‘ (جو مردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے۔) روشن ہے۔ اس کے صحرا کے سبزے نے چمن جنت کی تازگی چھین لی ہے۔اس کے اشجار کے شگوفوں سے گلستان ارم پژمردہ ہے۔ اس کے راستوں کی نہروں نے معجزات کے باغوں میں ’’تجری من تحتھا الانہار‘‘ (اس کے نیچے سے نہریں رواں ہیں۔) کی یاد دلا دی ہے۔ اور اس کے گلہائے آتشین ،آتش خلیل پر طعنہ زن ہیں۔ بیت: درین چمن چہ زنی طعنہ ام بخود روئی چنانکہ پرورشم میدہند میرویم ( مجھے تو اس چمن میں خود روئی کا کیا طعنہ دیتا ہے۔مجھے قضا وقدر جس طور پرورش کرتی ہے۔ میں اگ آتا ہوں۔ جو پھول باران رحمت سے سیراب ہوں، جو با عظمت زمین سے بغیر کسی وسیلہ کے سر باہر نکالتے ہوں۔اور ارباب عقل وشعور کی نظروں میں کھلتے ہوں۔ان کا اور باغبان کے کاشتہ پھولوں کا کیا مقابلہ؟۔ مصرع:۔ خود رستہ دیگر باشدو بر بستہ دگر گل (خود رو پھول کچھ اور ہی شے ہوتا ہے۔ اور پابند کچھ اور) گل سوری جس نے خار اغیار سے اپنی عصمت کا منہ پاک نہیں رکھا،اس کا کیا اعتبار؟۔ بیت:۔ بہر یک گل صد جفائی خارمی باید کشید چون بدل خار می خلد ناچار می باید کشید (ایک پھول کی خاطر کانٹے کی سینکڑوں جفائیں اٹھانا پڑتی ہیں۔جب دل میں کوئی کانٹا چبھ جائے ،تو مجبورا اسے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ خود بین نرگس پر کسی بھی صورت چشم اعتبار سے دیکھنا نہ چاہیئے کہ وہ اہل دانش وفہم کی نظر میں بے دردوں کی آنکھ کی مانند آنسوؤں سے عاری اور خالی جام کی مانند دکھائی دیتی ہے۔خود بنفشہ اس خجالت سے سر اٹھا نہیں سکتا ۔تاہم کسی باغ کے پھول آدمی کے خون جگر سے پرورش پاتے،اور پردہ عصمت کو تار تار کر دیتے ہیں۔وہ عفت کے غنچے سے باہر آکر ہر نااہل کے ہاتھوں سے ہر نا محرم کے ہاتھ میں آکر دست گردان ہونے لگتے ہیں۔ اور بے برگ ونوائی (بے سرو سامانی کے نتیجے میں) بے وفائی کے اوراق،مخلوق کے ہاتھ پاؤں میں گرا دیتے ہیں۔ رباعی: یک لالہ رخی کہ مہرافزاید نیست در مہر ووفا چنانکہ می باید، نیست در باغ زمانہ گل بسی ہست ولی آن گل کہ ازو بوی وفا آید،نیست (کوئی ایسا لالہ رخ کہ جو محبت بڑھائے ،نہیں ہے ،مہر ووفا میں جیسا ہونا چاہیئے۔نہیں ہے۔زمانے کے باغ میں پھول تو بے شمار ہیں ،لیکن ایسا پھول جس سے وفا کی خوشبو آئے نہیں ہے۔) اس کے پہاڑوں کی چوٹیوں نے کثرت سبزہ کے سبب اپنا سر افلاک تک پہنچا لیا ہے۔اس کے پہاڑوں کی وادیوں نے کثرت صفا کے سبب باغوں کے چمن سے اپنے پاؤں دامنلطافت میں پسار رکھے ہیں۔اور اس کے پہاڑ سے گرنے والے پانیوں کی لطافت نے دنیا بھر میں ایک غلغلہ بپا کر رکھا ہے۔ رباعی: آبش چوں گلاب ہر طرف گشتہ روان خاکش ز زمین جنت آوردہ نشان گلنار وی ست نار موسیٰ کلیم بادش بمثال نغمہ روح روان (اس کا پانی عرق گل کی مانند ہر طرف رواں ہے۔ اس کی خاک جنت کی زمین کی نشان دہی کرتی ہے۔اس کا گل انار حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی اس آگ کی صورت ہے،جو انہیں طور پر نظر آئی۔اس کی ہوا روح کی مہک کی طرح رواں ہے۔ مختصر یہ کہ باغ وصحرا اور جبال کی سر سبزہ ونزاہت کے لحاظ سے اور چاروں موسموں میں لطافت ہوا کے کمال اعتدال کی رو سے دنیا میں کہیں اور کشمیر جیسا خطہ نہ تو دیکھا گیا اور نہ ہی کسی سے ایسا سنا ہی گیا۔) بیت: در جست وجوی چون تو طے کردہ عالمی را مثل تو کس ندیدہ ونے از کسی شنیدہ ( تیرے ہم مثل کی تلاش میں دنیا چھان ماری۔لیکن ایسا نہ تو کسی نے دیکھا اور نہ کسی سے سنا۔ اس خطے کے شہر اور مضافات میں عالی شان عمارتیں کثرت سے ہیں،جو ساج کیلکڑی سے ہی بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کم ازکم پانچ منزلہ ہیں۔ اور ہر منزل ایسے ایسے دل کش اور انوکھے گھروں،حجروں،ایوانوں، دریچوں اور راستوں پر مشتمل ہے ،کہ اگر ان کو حیطہ تحریر میں لانے کی کوشش کی جائے تو ممکن نہ ہوگا۔باہر سے اس کا نظارہ کچھ اس طور ہے کہ جو کوئی بھی دیکھتا ہے، حیرت اور استعجاب سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔اور وہ اس کی ندرت وجدت میں کھو جاتا ہے۔ بہر حال اس کا اندرون اس کے بیرون جتنا نہیں ہے۔بازاروں اور کوچوں کے راستوں پر ترشے ہوئے پتھروں کے فرش بچھائے گئے ہیں۔ اہل حرفہ سبھی اپنے اپنے گھر کے کونے میں کام کرتے ہیں۔ شہر کی آبادی بڑے بڑے شہروں کی کثرت آبادی کے برابری کرتی ہے۔جہاں تک پھلوں کا تعلق ہے تو سیب ،ناشپاتی، بہ، توت، چیری، اور آلو بالو غرض تمام قسم کے پھل خوب ہوتے ہیں۔ دوسرے پھل جیسے انگور،انار،عناب، خوبانی، آڑو اور بیر ہیں۔ یہاں کے عجائب احوال میں سے ایک یہ ہے کہ کشمیر میں توت بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے۔چونکہ اس کے پتوں سے ریشم حاصل کرتے ہیں۔(مراد ریشم کے کیڑوں سے جو توت کے پتوں پر پلتے ہیں۔) اس لئے یہاں اس کا پھل کھانے کا دستور نہیں ہے، بلکہ اسے ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اس کا پھل اپنے موسم میں اس کثرت سے ہوتا ہے کہ اس کے خریدنے اور بیچنے کی یہاں کم ہی نوبت آتی ہے۔ باغ دار اور غیر باغ دار سب برابر ہیں۔ان کے باغوں میں دیوار نہیں ہوتی، اور کسی کو یہاں پھل توڑنے سے منع کرنے کی یہاں رسم ہی نہیں ہے۔ واضع ہو کہ یہاں تک میرزا حیدر کی تحریر تھی۔ اس زمانے میں پھلوں کی جو اقسام پیدا ہوتی تھیں۔ ان کے بارے میں اس نے لکھ دیا کہ کچھ پھل ایسے ہیں،جو میرزا کے زمانے میں یہاں نہ ہوتے تھے۔ سلطنت سلاطین تیموریہ (مغلوں) کے زمانے میں حکام بالخصوص ظفر خان کی کوششوں سے ہر قسم کے پھل یہاں پہنچے،اور اس کثرت سے ان کی پیدا وار ہوئی کہ انسان کی تو کیا بات اب جانوروں اور مواشی تک کے لئے میسر ہے۔ یہ جو میرزا نے توت سے ریشم حاصل کرنے کا لکھا ہے۔ تو یہ اب حکام کے ظلم کے نتیجے میں موقوف ہو چکا ہے۔اور وہ توت بھی جو کبھی کشمیر کا خاصہ تھا،اقسام توت کی کثرت کے باعث جو اس سے بہتر ہیں۔ ختم ہو کے رہ گیا ہے۔ قدیم طرز کی جن عمارات کے بارے میں میرزا نے لکھا ہے ۔وہ بالخصوص عمارات سلاطین اب پہلی حالت پر نہیں ہیں۔ میرزا کے زمانے میں پنساریوں کے بازار،عطاروں ،بزازوں اور صرافوں کے بازار (مارکیٹیں) بہت کم تھیں۔پھر صباغہ یعنی رنگ ریزوں کا بازار اس وقت مرتب اور الگ نہ تھا۔ بعد میں زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جدید طرز اختیار کرتا چلا گیا۔ نور اسلام کے ظہور اور پختہ احکام والے دین کے نتیجے میں بت خانوں کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا۔ البتہ موضع مارنند اور دو ایک دوسرے مقامات اہل فہم وشعور کی عبرت کے لئے چند ویران علامتیں ابھی تک موجود ہیں۔ اس شہر کے تمام عجائب وغرائب پرگنوں کی تفصیل کے ساتھ کتاب کے آخر میں تحریر ہوں گے ،انشا اللہ تعالیٰ۔ مختصر یہ کہ لطافت آب وہوا اور تازگی وصفا میں دنیا میں تمام آباد علاقوں کے مقابلے میں کشمیر کو جو خصوصیت حاصل ہے۔ وہ کسی اثبات کی محتاج نہیں ہے۔امن وآرام اور غلے کی فرا وانی بھی اسی طور تھی۔ اگر چہ خود یہاں کے لوگوں کے کفران نعمت کے باعث اب کچھ عرصے سے فتنہ وفساد کا دور دورہ ہے۔اور آرام وارزانی دونوں نے اس شہر سے اپنا بوریا بسترا باندھ لیا ہے۔ گویا معاملہ اس آیہ کریمہ کے مصداق ہو گیا ہے۔ وضرب اللہ ہے۔ ’’ اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالت عجیبیہ بیان فرماتے ہیں،کہ وہ بڑے امن واطمینان میں رہتے تھے، اور ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑے فراغت ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں۔سو انہوں نے خدا کی نعمت کی بے قدری کی،اس پر اللہ نے ان کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا۔ تاہم اس بے مثل خدائے رحیم کے فضل وکرم سے یہ امید واثق ہے کہ یہاں کے ساکنوں کیع عاقبت عفو ورحمت کردگار سے بہرہ ور ہو گی۔ جناب ابو الفقرا حضرت بابا نصیب نے جو اس شہر کے مشائخ عظام میں سے ہیں،چاروں خلفائے راشدین(رضوان اللہ علیھم اجمعین) کی منقبت میں ایک رسالہ لکھا ہے۔جس کے آغاز میں انہوں نے کسی تقریب سے اس شہر اور اس شہر کے ساکنوں کے احوال پر ایک رباعی تحریر فرمائی ہے۔جسے جناب شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین السہروردی قدس سرہ سے انہوں نے منسوب کیا ہے۔جو انشا اللہ حامل صداقت ہو گی۔مذکورہ رباعی یہ ہے:۔ رباعی کان الکشمیر لسا کینہا جنات عدن ھی للمومینن قد کتب اللہ علیٰ بابھا ساکنھا کان من الامنین (کشمیر اپنے ساکنوں کے لئے ایسے ہی ہے۔ جیسے مومنوں کے لئے بہشت بریں،اللہ تعالیٰ نے اس دروازے پر لکھ دیا ہے کہ اس کا باشندہ ہمیشہ امن وسلامتی میں رہے گا۔ اس صورت حال میں اہل کشمیر پروردگار کے فضل وکرم اور پیران بزرگوار کے دم سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ چونکہ کشمیر کے اجمالی حالات میں سے کسی قدر ہم نے بیان کر دیئے ہیں۔لہذا اب نوبت اس بات کی ہے۔کہ یہاں کے سلاطین کے ابتدائی حالات بطریق ایجاز رقم کیے جائیں، چونکہ یہاں کے ہندوراجاؤ ں کی حکومتیں مدتوں پہلے ختم ہو چکی ہیں،اور اب ان کے بارے میں لکھنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔اس لئے ان کے احوال انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔اسلام کی اشاعت کے بعد حالات تفصیل سے دیے گئے ہیں۔ جو وقائع غریب پر مشتمل ہیں۔بالخصوص ان حضرات سادات اور مشائخ کے احوال پر زیادہ توجہ کی گئی ہے۔ جو کشمیر میں علوم کی اشاعت کے بعد آئے۔ اور اس کتاب کے لکھنے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ قسمت اول اس صوبے کی آبادی کی ابتدا اور بعض راجاؤں کی سلطنت کا بیان جنہوں نے اس شہر پر حکومت کی۔ ہندو مورخین اور کار خانہ ہست وبود کے قلم کاروں نے اپنی تصانیف میں یوں بیان کیا ہے۔ کہ تعمیر سے پہلے کشمیر کا نام ستی سر تھا۔ستی ایک عورت کا نام ہے۔ اور سر بڑے حوض کو کہتے ہیں۔ گویا یہ پانی کی دنیا تھی، اور اس میں باہر نکلنے کی جگہ نہ تھی۔ پانی کے وسط میں جلد یہو نام کے ایک آدم خور دیو نے سکونت اختیار کرکے تسلط اور غلبے کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔وہ اس کے اطراف وجوانب میں گھومتا پھرتا،جہاں کہیں بھی کوئی چیز نظر آتی،اسے اٹھا لیتا،ڈکار جاتا اور تباہ کر دیتا۔کچھ عرصہ اسی طور گزر گیا۔اتفاق سے ایک موقع پر کشف نامی ایک عابد جو مارنج کا بیٹا اور اکثر ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق برہما کا پوتا ہے۔ عبادت گاہوں کی زیارت کے لئے جا رہا تھا۔دوران سفر جب وہ سمیر نامی پہاڑ پر پہنچا تو اس علاقے کو اس نے ویران پایا۔ اس نے اس کا سبب جاننے کے لئے تفتیش وتحقیق کی۔اطراف کے لوگوں نے اسے بتایا کہ ستی سر میں جلد یہو نام کا ایک دیو ہے۔ جو وہاں سے باہر نکل کر انسانوں کو مار ڈالتا اور ہلاک کر ڈالتا ہے۔کشف کو لوگوں کو یہ حال جان کر دکھ ہوا۔ اور اس نے ہزار برس تک موضع لومدن میں جو بہرہ پور کے نزدیک ایک مشہور جگہ ہے۔ عبادت کی، مہادیو کو کہ ہندوؤں کی اصطلاح میں پروردگار کو کہتے ہیں۔ اس کی عبادت وریاضت کی اس کثرت کے نتیجے میں رحم آگیا۔اور اس مہادیو نے اس سے اس کا مقصد ومدعا پوچھا۔کشف نے جلد یہو کے دفع شر کی ا ستدعا کی۔مہادیو نے بشن اور برہما کو جو مہادیو کے بااقتدار کارکن تھے، اس کے استحصال کے لئے بھیجا۔بشن نے سو برس تک جلد یہو سے جنگ کی۔لیکن شدت آب اور کثرت سیلاب کی وجہ سے وہ اس پر قابو نہ پا سکا۔آخر اس نے ایک طریقہ سوچا،اور وہ یہ کہ بارہ مولا کے نواح میں پہاڑ کا کچھ حصہ کاٹا اور پانی کی ایک بدرو تیار کی۔زمین ہموار ہو گئی اور یوں اس نے اس دیو پر غلبہ پا کر اسے مار ڈالا،ایک بہت وسیع جگہ پانی سے خالی ہو کر نمودار ہو گئی، جس کا نام کشب میر قرار دیا،کیونکہ میر کشب کی بیوی کا نام تھا۔یہی نام بعد میں زبانوں پر بگڑ کر کشمیر قرار پایا۔ اس کے بعد مذکورہ بشن نے ہندوستان کے اطراف سے برہمنوں کو یہاں لا کر آباد کیا۔اور یہاں زراعت وعمارت کی صورت پیدا کی۔ اور ہر قسم کی آبادی کی بنیاد رکھی۔ اکثر کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ حضرت نوح کے طوفان کے بعد پیدا ہوئی (ہمارے نبیؐ اور ان پر درود وسلام ہو۔)اس وقت سے پھر کشمیر تعمیر پذیر ہوتا چلا گیا۔ مختصر یہ کہ ان برہمنوں کے قبیلے اولاد اور،نسلیں وجود میں آگئیں اور وہ صاحب جمعیت بن گئے۔یہ لوگ اپنے طریقے کے مطابق ہمہ وقت اس خالق کائنات کی عبادت وریاضت میں مصروف رہتے اور اس دنیا اور اس کے عارضی فائدوں کی طرف راغب نہ ہوتے۔کسی شاعر نے ان کے مدعا کے مطابق کہا ہے:۔ سر گشتگان کوی بتان راتوئی مرار مقصد یکیست کعبہ روان را اگر صد اند (بتوں کے کوچہ میں بھٹکنے والوں کا مقصد تیری ہی ذات ہے۔ کعبہ جانے والوں کا مقصد ایک ہی ہے، خواہ تعداد میں وہ سو ہی ہوں۔) جب ان کی نسل اور آل اولاد بڑھی تو خلقت میں اضافہ ہونے لگا۔ تو لو لا السلطان الخ (اگر سلطان نہ ہو تو کچھ لوگ دوسروں کو کھا جائیں۔) کے مطابق ان لوگوں کو سردار کی ضرورت محسوس ہوئی جو ان کے جھگڑے وغیرہ نبٹا سکے۔بہت زیادہ صلاح مشورے اور اضافی قیل وقال کے بعد وہ متصل ہونے کی بنا پر راجہ جمو سے رجوع ہوئے۔راجہ نے اپنے بیٹے کو کشمیر میں متعین ا ور وہاں کا خود مختار حاکم بنا دیا۔ان کے پچپن افراد نے نسلا حکومت کی۔ ہندو تاریخ نویسوں نے ان پچپن افراد کے ادوار حکومت کی مدت ایک ہزار سات سوانیس برس لکھی ہے۔لیکن ان کے ناموں کا کسی بھی مسلمان یا ہندو مورخ نے ذکر نہیں کیا۔ ان کے بعد حکومت کوروں اور پانڈوں کو ملی جو اسی شہر کے باشندے تھے۔ ان کا زمانہ سلطنت انہی مورخوں کے بقول دوہزار تین سوسال تھا۔پانڈوں کے زمانے میں کشمیر کی آبادی میں بہت اضافہ ہوا۔ اور کوئی ان پر غالب نہ آسکا۔ چنانچہ ان کی قوت وشدت اور اقتدار کا چرچا آج بھی خاص وعام کی زبان پر ہے۔ان سے ایسے ایسے عجیب وغریب کارنامے سرزد ہوئے جو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ جب ان (پانڈوں) کا دور حکومت گزر گیا تو حکومت پھر دوسرے راجاؤں کو منتقل ہو گئی۔ان تاریخ نویسوں میں سے کسی نے بھی اس درمیانی زمانے میں راجاؤں کے نام قلم بند نہ کیے۔ کوروں اور پانڈوں کا تو ذکر ہی کیا،ان کے نام تو کسی بھی تاریخ میں مرقوم ومذکور نہیں ہیں۔ غرض جب حکومت مذکورہ راجاؤں میں سے راجہ اوگنند تک پہنچی تو اس کے بعد سے ان کے نام لکھے جانے لگے اور راجاؤں کے حالات کا آغاز راجہ اوگنند سے ہوا۔ اوگنند (الف پر پیش واؤ ساکن،کاف پر زبر نون پر زبر،دوسرا نون پہلے سے متصل اور دال موقوف) بعض کے نزدیک اس کا تعلق جمو کے راجاؤں سے تھا۔ جب کہ بعض ارباب تاریخ اسے متھرا کے راجاؤں میں جانتے ہیں،اور یہ متھرا اکبر آباد کے نزدیک ایک مشہور قریہ ہے۔ جب کشمیر میں پانڈوں کا دور ختم ہو گیا تو سردار اور عوام اس کی طرف گئے۔اسے اس کے مسکن سے باہر نکالا اور تخت پر بٹھا دیا۔ وہ بڑا دلیر تھا۔سترہ برس اس نے حکومت کی، جب متھرا جو اس وقت ہندوؤں کا پایہ تخت تھا۔ کا حاکم راجہ کرشن کی مدد کے لئے آگے بڑھا رو اوگنند نے چند روز تک تگ ودو کی،بہت سی لڑائیوں کے بعد وہ راجہ کرشن کے ہاتھوں مارا گیا۔ راجہ دمودر راجہ اوگنند کا بیٹا تھا۔ اہل کشمیر کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں باپ کی وفات پر اس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، اور ایک مدت تک اس نے حکومت کی، اور ہر طرف سرکشی کا پرچم بلند کیے رکھا۔ اکثر راجے اس کے تسلط وغلبے کے سبب دودلے ہو کر رہ گئے۔ آخر راجہ قندھار کی شادی کے موقعہ پر،راجہ کرشن کی ایما پر جادوگروں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ چونکہ اس کا کوئی لائق بیٹا نہ تھا۔اس لئے اسے ’’دمودر‘‘ کے مرنے کے بعد سری راجہ کرشن کے حکم پر دمودر کی رانی جسوتی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ جسوتی(جیم پر زبر س واؤ پر زبر اور تا کے نیچے زیر ساتھ یای کے ساتھ) اس نے حکومت کے امور لازم سر انجام دیئے۔اور مملکت کا کاروبار چلانے کی خاطر اس نے مردوں کے سے کام کیے۔چونکہ راجہ دمودر سے حاملہ تھی۔ مدت پوری ہونے کے بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ جس کا نام دیال کند رکھا۔جب وہ سن بلوغت کو پہنچا تو ارکان حکومت کے مشورے سے حکومت اس کے سپرد کر دی گئی۔ کچھ عرصہ اس نے نیک نامی سے گزارا اور اچھا نظم ونسق چلایا۔ اس کے آخری دور میں ہر طرف سے مفاد پرستوں نے سر کشی کا مظاہرہ کیا،اور فساد طول پکڑتا چلا گیا۔تاآنکہ وہ اسی شہر میں موجود بقیہ پانڈوں کے ایک گروہ کے ہاتھوں مارا گیا۔اس طبقے کا عہد سلطنت ختم ہوا۔ تو مقدر نے پھر یہاں رہنے والے تھوڑے بہت پانڈوں کا ساتھ دیا۔ چنانچہ ایک طویل مدت تک پانڈو نسل کے سینتیس افراد نے باری باری یہاں حکومت کا پرچم لہرایا۔ تاہم مورخین نے ان کے احوال لکھنے کی طرف توجہ نہیں کی۔یہاں تک کہ حکومت راجاؤں کے طبقے کے ایک فرد راجہ لوکو مل گئی۔ راجہ لو راجہ لو تخت نشین ہوا تو اس نے ظلم کا خاتمہ اور قلعہ لولو کو آباد کیا۔لولو کا تلفظ ہے۔ لام پر پیش اور دوسرے لام پر زبر ہے۔ یہ مشہور پرگنہ ہے کامراج میں،جس کی اس وقت خاصی شہرت تھی۔اور جو آباد تھا۔ لولو نے ایک عرصے تک حکومت ،رعیت پروری، عدل گستری میں زندگی بسر کرکے وفات پائی۔کہتے ہیں کہ اس کے دور میں بیس لاکھ اسی ہزار اور چار سوگھر تھے۔ راجہ کشن لو کا بیٹا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد تخت حکومت پر بیٹھا،لیکن اس نے جلد ہی ورق حکومت لپیٹا اور چلتا بنا۔ راجہ کلنگدر اس ’’کشن‘‘ کا بیٹا تخت نشین ہوا۔ کلنگدر (کاف،لام، گاف،نون، اور دال پر زبر ہے۔) نے کاکا پور اور کہر موہ کے شہر آباد کیے اور انہیں اپنا پایہ تخت بنایا۔ اس زمانے میں دونوں مقام مشہور اور اس کے بنا کردہ ہیں۔تھوڑی ہی مدت میں اس کا جام حیات لبریز ہو گیا۔اس کا بیٹا راجہ سندر (سین پر پیش، نون ساکن، دال پر زبر ،را ساکن) تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔اس نے اپنے عہد حکومت میں دو قصبے آباد کیے۔ایک موضع سومدا اور دوسرا شوروت،جو اس نے محتاجوں کے نام وقف کر دیئے۔عقل اور حسن کے زیور سے آراستہ ایک دختر کے سوا اس کی کوئی دوسری اولاد نہ تھی۔ اس لڑکی کے حسن وجمال اور دیگر کمالات کا چرچا دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔جب اس کے ان حالات کا شہرہ ایک جواہر فروش کی وساطت سے ایران وتوران تک پہنچا تو بہمن اسفند یار نے جو اس وقت ایران کا فرمانروا تھا۔ حکیم جامست کو اس لڑکی کے رشتے کے لئے بھیجا، راجہ سندر نے لڑکی کی مرضی معلوم کرکے اسے بڑے بڑے تحائف دے کر حکیم مذکور کے ہمراہ ایران روانہ کر دیا۔ بہمن اسفند یار نے اپنی منکوحہ کے ساتھ چند سال تک طبل عیش وعشرت بجایا۔آخر الامر بیوی کے دودھ بھائی لولو کی غداری اور غلبے کے نتیجے میں وہ اپنی مملکت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔چند برس بعد لولو بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ جب راجہ سندر کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا تو چونکہ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔اس لئے حکومت کسی اور جگہ منتقل ہو گئی۔راجہ کودھر کو حکومت کا تاج وتخت مل گیا۔ارباب تاریخ میں کسی نے بھی اس کے حسب ونسب کے بارے میں نہیں لکھا۔موجع استیل اور موضع گوہر پور،جو شوردو کے نام سے مشہور ہے۔ اسی کا آباد کردہ ہے۔اس نے یہ دونوں قریے فقرا کو عطا کر دیئے اور خود وفات پا گیا۔اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ بسرن راجگی کے تخت پر بیٹھا۔سرن ندی اسی نے نکلوائی اور پرگنہ آدون اسی کی بدولت آباد ہوا۔ ہے۔ اس کی نیک نامی اور رعایا پروری کے آثار ایک طویل مدت تک برقرار رہے۔ اس نے سلطنت کا زمانہ کسی شور وشر کے بغیر گزارا۔اور کمال نیک نامی کے ساتھ طبیعی موت مر گیا۔ راجہ بسنک بسرن کا بیٹا تھا۔ اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے بھی باپ کی طرح زندگی نیک نامی کے ساتھ بسر کی۔ پرگنہ کامراج میں اس نے دوقریے آباد کیے۔ دونوں کا نام ’’جانور‘‘ رکھا۔ اور راہی ملک عدم ہوا۔ جسنک (جیم اور نون پر زبر،کاف ساکن) قدیم زبان میں باپ کو کہتے ہیں۔بخش وسخاوت میں بے مثل تھا۔ راجہ شیخی نرائن اس جسنک کا بیٹا تھا۔باپ کے بعد اس کا قائم مقام ہوا۔ اس نے پرگنہ کوتہار میں موضع شوانکس اور پرگنہ وہی آباد کیے۔ اپنے عہد حکومت میں مملکت کا نظم ونسق چلاتے ہوئے مرگ طبیعی کا پہنچا اور عالم فانی سے کوچ کر گیا۔ راجہ اشوک شیحی کا بھتیجا اور شکون کا بیٹا تھا۔اس نے ملک پر قبضہ کیا۔ اور پھر موضع بکلپ اور پتوت آباد کیے اور قلعہ سیر تعمیر کیا۔مشہور ہے کہ اس زمانے میں وہاں چھ لاکھ گھر آباد تھے۔ چونکہ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ اور ہندو جماعتوں نے وہاں مختلف فرقے پھیلا رکھے تھے۔ اور ہر جگہ غلبہ پا رکھا تھا۔ اس لئے ولایت کشمیر کا بہت بڑا حصہ ویران ہو گیا۔ راجہ مذکور سرکشوں کے ہاتھوں عاجز آگیا،اور اس نے قلعہ لار میں گوشہ نشینی اختیار کی۔عبادت میں مصروف ہو گیا۔ شعر،کافر وترسا،جہود وگبر مع جملہ راہ رو سوی آن سلطان الخ (کافر،نصرانی، یہودی،آتش پرست،اور مجوسی سبھی کا رخ اس عظیم سلطان کی طرف ہے۔) راجہ حکوک راجہ اشوک کا بیٹا تھا۔کچھ عرصہ حکومت کرکے اس نے ظلم کا قلع قمع کر دیا۔اور کشمیر کا نئے سرے سے آبادی کا سامان کیا۔ وہ فن کیمیا گری اور دیگر علوم نادر سے آشنا تھا۔ حتیٰ کہ ایک گھنٹے میں کئی مواضع طے کرکے،بتوں کی پوجا کی خاطر بارہ مولہ پہنچ جاتا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کا دور پوری آزادی واختیار کے ساتھ گزارا۔ہندوستان کا کچھ علاقہ بھی اس نے تسخیر کیا۔اور وہاں سے اہل حرفہ کشمیر پہنچائے۔ اس کے عہد تک کشمیر میں ملکی کار خانوں کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ خدمات (Services) کے تعین کی ابتدا کی اختراع اسی نے کی۔ ایک خدمت اس نے ملکی امور کے لین دین کی خاطر مقرر کی جو دیوانی سے عبارت ہے۔دوسری خدمات بیت المال چلانے کی تھی، جو ’’خان سامان‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ تیسری اسلحے کی حفاظت سے متعلق تھی، جسے داروغہ قور خانہ کہا جاتا ہے۔چوتھی سپاہیوں کی سرداری کے لئے تھی۔ اس عہدے کا نام بخشی ہے۔پانچویں استصواب اور طلب مشورہ یعنی وزارات سے اور چھٹی خیرات کی تقسیم کے لئے کہ جسے آج کا ’’صدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ساتویں سپاہ کی پزیرائی اور ملاقات کرانے کے لئے،جسے نقیب کہتے ہیں۔ یہ راجہ درستی وراستی اور عدل وانصاف اور رعیت پروری میں بے مثل تھا۔ اس عورت کی حکایت جس نے اس سے صدقہ طلب کیا۔اس نے قبول کر لیا۔ وہ عورت دیوی کی صورت میں ظاہر ہوئی اور اس نے انسان کے گوشت کی خواہش کا اظہار کیا۔ راجہ آدمی کے قتل پر راضی نہ ہوا۔ اس نے خود کو دیوی کے سپرد کر دیا۔ دیوی نے اس کے صدق کی آزمائش کرکے اس خواہش سے ہاتھ اٹھا لیا،اور اسے خوش خبری دی، مشہور ہے کہ اکثر عبادت خانے اور بت خانے جو بڑی آرائش وتکلف کے ساتھ تعمیر ہوئے،اور ہندوؤں کی دیگر زیارت گاہیں اس کی تعمیر کر دہ ہیں۔ راجہ دمودر راجہ اشوک کی اولاد سے تھا۔ اب اس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی،اور اپنے زہد وعبادت کے باعث مشہور تھا۔کہتے ہیں کہ دو برہمنوں کا اس سے سامنا ہو گیا۔ انہوں نے اس سے کچھ طلب کیا۔ راجہ نے کہا جب تک میں بہت سے غسل کرکے واپس نہ آؤں،میں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا۔وہ بولے ہم دریائے بہت یہیں لے آتے ہیں۔ جلد ہی انہوں نے ایسا کر دکھایا۔وہ کیا دیکھتا ہے کہ دریائے بہت اس کے سامنے ہے۔ اس (راجہ) نے اس صورت حال کو تسلیم نہ کیا۔ اور کہا کہ بہت کا راستا تو بہت طویل ہے۔تم لوگوں نے کوئی جادو کا کرتب دکھایا ہے۔وہ بولے اگر تو واپس نہیں مڑے گا۔تو ہم تیرے حق میں بد دعا کریں گے۔اور تو سانپ کی شکل اختیار کرے گا۔ جان کے ڈر سے وہ راضی ہو گیا۔برہمن بولے ہم نے جو کچھ کہا ہے۔ وہ اسی صورت میں واپس ہو گا کہ جب کوئی شخص اشیا کے خواص اور دعاؤ ں کے بیان سے متعلق فلان کتاب ایک دن میں تمہارے سامنے پڑھ اور تمہیں سنا ڈالے،پھر تم انسان بن سکو گے ،ورنہ سانپ ہی کی صورت میں جہاں سے جاؤ گے۔ایسا کوئی بھی شخص میسر نہ ہو سکا، لہذا راجہ سانپ کی شکل اختیار کر گیا۔ پست وبلند جگہ پر شہر کے نزدیک واقع مشہور ٹیلا دمودر اودر اسی کا آباد کردہ ہے۔ کہتے ہیں کہ مذکورہ سانپ وہاں ہے، جو لوگوں کو کبھی کبھی نظر آتا ہے۔ دروغ بر گردن راوی واللہ اعلم۔ اس کے بعد تین بھائیوں نے شراکت میں حکو مت کی۔ راجہ اشک پر گنہ شکروہ اس کا آباد کردہ ہے۔ وہیں کا رہنے والا تھا۔ بعض نے شکروہ کی بجائے ذکروہ لکھا ہے۔ جو کہ ایک مشہور گاؤں ہے۔ جو شہر کے نزدیک واقع پر گنہ لار میں ہے۔ دوسرا راجہ رشک جس نے زہم پور آباد کیا جو اسی جگہ واقع تھا۔ تیسرا راجہ کشک، کانس پور اس کا مسکن تھا۔ اب یہ جگہ شہر کی بجائے تین مختلف گاؤں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔جب یہ تینوں راجہ باری باری ملک عدم کو سدھارے،تو ملک پر راجہ اب کن کا قبضہ ہو گیا۔اسے ابہ ملن بھی کہتے ہیں۔ پرگنہ بالکل میں قصبی ابہ پور اس کا آباد کیا ہوا ہے۔ اس کے زمانے میں چندر نامی ایک برہمن جو صاحب تصنیف تھا۔ہند سے یہاں وارد ہوا۔ اس نے یہاں کے برہمنوں کو دلیل وبرہان سے مرعوب کیا۔ اور وہ بت پرستی وغیرہ قسم کی اکثر عبادتوں میں حائل ہوا۔ راجہ ابہ کن کی وفات کے بعد اس کا دور بھی ختم ہو گیا۔ راجہ کشن راجہ کشن نامی ایک شخص نے جس کا تعلق دوسرے قبیلہ سے تھا،حکومت پر قبضہ کیا، وہ اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے والا تھا۔چونتیس برس تک ولایت کشمیر اس کے تصرف میں رہی۔ اس کے حسن نیت کے نتیجے میں رعایا کی زندگی خوش حال بسر ہوئی۔اس کے عدل وانصاف اور نیک بختی کی برکت سے اس کی نسل کے کئی افراد راجگی کے درجے کو پہنچے،جن کا ذکر اب آئے گا۔ اول راجہ پہکن جس نے تریپن سال چھ ماہ حکومت کی۔وہ ایک رعایا پرور ،منصف وعادل اور مروت واحسان کی کان تھا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ اندر جیت چھتیس برس تک ایک داد گستر کے طور پر حکمران رہا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ براون تیس برس تک ولایت کشمیر اور اطراف ہند پر متصرف رہا۔جب اس کی حکومت ختم ہوئی تو تاج حکومت اس کے بیٹے راجہ پہکن کو ملا۔ وہ با مروت اور صاحب سخن تھا۔علم موسیقی میں اسے بڑی مہارت تھی۔مختلف قسم کے علوم بالخصوص شعر وسخن میں مشغول رہتا۔اس کی مدت حکومت پینتیس برس تھی۔ وہ طبعی موت مرا۔اس کا بیٹا راجہ اندرائن اس کا قائم مقام ہوا۔ بڑا ظالم حکمران تھا۔ اس کے عہد میں ایک جادو گر نے طلسم بنایا، اور وہ یہ کہ وہ تو سب کو دیکھ لیتا تھا۔ لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ پاتا۔ چنانچہ وہ اس طرح لوگوں کے گھر میں گھس جاتا اور زنا کرکے نکل جاتا۔ جب اس کی خبر اس کے بھائی کو ملی، تو اس نے ہندو ؤں کے تمام عبادت خانے تباہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اور اس بے باک ناپاک سے حکومت چھین لی۔ ازاں بعد چھوٹا بیٹا راجہ بز اپنے بھائی کی معزولی کے بعد تخت نشین ہوا۔بز کا تلفظ اس طرح ہے۔ با پر پیش اور زا ساکن، یہ ملک کی آبادی میں مصروف ہوا۔ وہ قصبہ چکدر میں جو مراج کے اندر واقع ہے۔ رہتا تھا۔ یہ قصبہ اسی کا آباد کیا ہوا ہے۔پوشاک برہمن کی تزویج کا قضیہ جو چکدر سے چشمہ زیون کے قصبے تک پھیل گیا۔ پورے ملک کی بربادی کا باعث بنا۔ اور یوں اس کے دور میں ظلم وفساد اور بیداد کا دور دورہ ہوا۔ اس کی مدت حکومت انتالیس سال اور نو مہینے ہے۔ اس قضیہ کی کس قدر تفصیل حضرت ایشاں خلیفہ الرحمن کے ھالات میں زیون کے ذکر سے متعلق بیان ہو گی۔انشا اللہ۔ راجہ سدہ باپ کے حادثے کے وقت وہ ماں کے ہمراہ تھا۔ یہ لوگ موضع بجارا پہنچے اور حادثے سے بچ گئے۔ حادثے کے بعد لوگ جمع ہوئے اور اسے لے آئے۔اور انہوں نے اسے حکومت کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ اس نے اپنے باپ کے بر عکس احسان اور رعایا پروری پر ہمت صرف کی۔اس طرح اس کا نام لوگوں کے ورد زبان ہو گیا۔ساٹھ برس تک حکومت کرنے کے بعد کہیں غائب ہو گیا۔ اس کا پتا نہ چل سکا۔ راجہ آوت پلاس راجہ سدہ کا بیٹا تھا، باپ کے بعد حکومت اسے ملی، وہ باپ کے نقش قدم پر چلا اور سخاوت اور رعیت پروری میں کمال کو پہنچا۔ ہرن پور اس کا آباد کیا ہوا ہے۔ اب یہ مقام برنیل کے نام سے مشہور اور ایک معتبر موضع ہے۔ آوت نے تیس برس سات ماہ حکومت کی اور ملک عدم کو سدھارا۔ راجہ ہرن کل آوت پلاس کا بیٹا باپ کا جانشین بنا۔اس نے ساٹھ برس حکومت کی۔ راجہ بشکل ہرن کل کا بیٹا تھا۔ ساٹھ برس حکومت کی۔ اس نے ملک کی تعمیر اور آبادی پر ہمت اور وقت صرف کیا۔ راجہ مہر کل ہرن کل کا بیٹا تخت حکومت پر بیٹھا۔یہ خون ریز اور سفاک تھا۔ اس کے ہاتھوں مردوں اور عورتوں نے طرح طرح کے ظلم وستم سہے۔ کندکول ندی کھودتے وقت ایک پتھر نکل آیا۔ وہ کسی بھی طرح اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکا۔ایک معتبر آدمی نے کہا کہ اگر کوئی معصوم عورت اس پتھر پر ہاتھ رکھ دے ،تو وہ پتھر اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ بہت سی عورتوں نے اس پتھر پر ہاتھ رکھا، لیکن اسے نہ ہٹنا تھا اور نہ ہٹا۔ راجہ نے اس بہانے بھی بہت خون ریزی کی۔اور عورتوں پر عدم عصمت کی تہمت لگا کر انہیں آزار پہنچایا اور انہیں قتل کیا۔مورخین نے مقتولین کی تعداد بتانے میں مبالغے سے کام لیا ہے۔ القصہ بہت زیادہ خون ریزی کے بعد ایک کمہارن نے اس پتھر پر ہاتھ رکھ کر اسے ہٹا دیا،اور پانی جاری ہو گیا۔ اس سفاک کے ظلم وتعدی کی اقسام اس لائق نہیں اور اس درجے کی نہیں ہیں۔ کہ انہیں حیطہ تحریر میں لایا جائے۔آخر میں وہ تسخیر کی طرف مائل ہوا۔ تو ایک طریقے سے جو تاریخ میں مشہور ہوا ،وہ سکال دیت تک پہنچا اور کئی بلاد اور علاقے اس نے فتح کر لیے۔ واپسی کے وقت کوہستان میں اس پار ایک بلندی پر سے ایک ہاتھی کا پاؤں پھسل گیا۔گرتے وقت ہاتھی کچھ اس طور سے چنگھاڑا کہ راجہ کی طبیعت کو بھلا لگا۔ اس نے حکم دیا کہ اس بلندی پر سے سو ہاتھی باری باری گرائے جائیں۔ہاتھی گرنے پر وہ خوش ہو جاتا۔ وہ جگہ آج بھی ہستی ونج کے نام سے مشہور ہے۔ مخفی نہ رہے کہ کسی بھی ہندی مورخ نے راجہ ہرکل کے راجہ سنگال دوب کی صورت دیکھنے کی خاطر ہند جانے ،وہاں سے کشتی میں بیٹھنے اور جزائر کو اپنے تصرف میں لانے ،نیز وہاں کے راجہ کو قتل کرنے کے متعلق حکایت تحریر نہیں کی، یہ ایسا واقعہ ہے جو مبالغہ سے خالی نہیں ہے۔ آخر کار جب اس کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو وہ ایک شدید بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ علاج سے مایوس ہو کر اس نے آگ جلائی اور خود کو اس میں جلا ڈالا۔ اس کی مدت حکومت ستر برس ہے۔ فلعنتہ اللہ علی القوم الظالمین (اور ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو) آتش سوزاں نکند باسپند آنچہ کند دود دل درد مند (جلا دینے والی آگ،ہرمل کے دانے سے وہ سلوک نہیں کرتی جو کسی درد مند دل کی آہ ظالم کے ساتھ کرتی ہے۔) راجہ زنک اس کا بیٹا تھا، باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ اس نے باپ کے بر عکس عدل واحسان سے کام لیا۔اور نیکی اور داد گستری کا باب وا کیا۔نیز رعیت پروری کے مراتب میں اضافہ کیا۔ اس کے عہد حکومت میں بگوتی نام کی ایک جوگن کہیں سے آگئی۔وہ جادو اور ساحری کے فن میں بے مثال تھی۔ وہ کئی قسم کی ریاضتوں میں مشغول رہی۔ اس نے ارباب عداوت کے اکسانے پر اور سحر وجادو کے زور پر راجہ کا مال اڑا لیا۔ اور اس کے زن وفرزند کو جان سے مار ڈالا، اور ایک حاملہ عورت کے سوا کسی کو زندہ نہ چھوڑا،مورخین کے مطابق راجہ نے تریسٹھ برس حکومت کی۔ راجہ انند کنت راجہ زنک کی مذکورہ حاملہ بیوی سے پیدا ہوا۔ اس ولایت کی حکومت اس کے نام مقرر ہوئی۔ارکان حکومت کے مشورے سے اس نے امور سلطنت بادشاہت چلائے،اور تیس برس بادشاہی کی۔ راجہ کتا نند راجہ انند کنت کا بیٹا تھا۔ باپ کے بعد تخت سلطنت پر بیٹھا،کچھ عرصہ حکومت کرکے کوچ کر گیا۔ راجہ وس نند کتا نند کا بیٹا مسند حکومت پر متمکن ہوا۔مرد دانا تھا۔ اور داناؤں کی بڑی عزت وتکریم کرتا تھا۔ فنون علوم وزبان سنسکرت میں اسے بڑی دست رس تھی ۔باون برس حکومت کرکے ملک عدم کو سدھارا۔ راجہ بز اس (وس نند )کا بیٹا تھا۔باپ کے بعد اس کا قائم مقام ہوا۔ اور سلطنت اسے منتقل ہو گئی۔ساٹھ برس اس نے عدل واحسان کے ساتھ بسر کیے۔ راجہ اج بز کا بیٹا باپ کے بعد تخت پر بیٹھا۔ساٹھ برس تک رعیت پروری اور حکومت کرکے وفات پا گیا۔ راجہ کوما نند راجا اج کا بیٹا تھا۔ اس نے باپ کا تاج سر پر رکھا۔اس نے کئی ’’وھیڑے‘‘ عبادت خانے اور بت خانے تعمیر کروائے۔ان میں سے ایک مشہور وھیڑہ ایک پہاڑ پر بنوایا،جسے اب تخت سلیمان کہتے ہیں۔(ہمارے نبی پر اور حضرت سلیمان نبی پر درود سلام ہو۔)بعض اسلاف کی زبانی یہ سنا گیا ہے کہ حضرت سلیمان کے تخت کا ایک پایہ اس پہاڑ پر ہوتا تھا۔ اس لئے اس کا نام تخت سلیمان رکھا گیا۔جب کہ بعض کتابوں میں مرقوم ہے کہ حضرت سلیمان کا تخت اکثر اوقات خراسان کے پہاڑوں پر گردش کرتا رہتا تھا۔ اور کشمیر بھی داخل خراسان ہے۔ (اور اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔) مذکورہ بادشاہ نے ساٹھ برس اور ساٹھ روز ٹھاٹھ سے حکومت کی ،اور مر گیا۔ راجہ کوکرن کومانند کا بیٹا تخت حکومت پر بیٹھا۔اٹھاون برس حکومت کرکے وفات پا گیا۔چھتیس برس کامرانی وجہان بانی میں گزار کر دنیا سے گزرا۔ راجہ نرا نند کوکرن کا بیٹا باپ کا قائم مقام بنا۔چھتیس برس کامرانی وجہان بانی میں گزار کر دنیا سے گزر گیا۔ راجہ جد شیر ’’اندہ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔نرانند کا بیٹا اب بادشاہ بنا۔چوں کہ کور چشم تھا، اس لئے ہندی زبان میں اسے اندہ ’’اندھا‘‘ کہتے تھے۔ اپنی بد باطنی کے سبب اس نے ظلم وستم اور فسق وفجور کا بازار خوب گرم کر رکھا۔ اس کے ظاہر میں آنکھوں کی ذرا حیا نہ تھی۔ جب اس کا جورو ظلم حد سے بڑھ گیا،اور اطراف کے لوگوں نے اس کی ولایت پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے ارکان حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر کسی اور کو حاکم بنانے کا ارادہ کیا۔ جب اس کور چشم نے یہ سنا تو اپنے چند مقربوں کے ساتھ ہندوستان چلا گیا۔وہاں کے راجہ نے اسے پہچان لیا، اور قید میں ڈال دیا۔ جہاں وہ مر گیا۔ اس نے اڑتالیس سال حکومت کی تھی۔راجہ اگندہ سوم سے راجہ اندہ ’’اندھا‘‘ تک اکیس راجاؤں نے ایک ہزار چودہ برس حکومت کی۔ اس کور چشم کے شامت اعمال کے نتیجے میں(کہ وہ ظاہر اور باطن دونوں میں اندھا تھا۔) حکومت ان کی نسل کے ہاتھوں سے نکل گئی۔اور اہل کشمیر نے باہم طے کرکے راجہ بکر ما جیت کے اجداد میں سے بر نا بارت نامی ایک شخص کو ملک مالوہ سے لیا اور یہاں کی حکومت اس کے سپرد کر دی۔ راجہ برنا بارت اس نے بتیس سال حکومت کی،اور ملک کی آبادی ورعایا پروری پر توجہ مبذول کی۔اس نے راجہ اندھا کے دور کے ظلم وستم کی تاریکی کو عدل اور داد رسی کے نور میں بدل دیا۔ ایک مدت تک عام وخاص کو گونا گوں احسانات سے نوازتا رہا۔جب وہ رحلت کر گیا ،تو اس کا بیٹا راجہ جلوک تخت نشین ہوا۔ یہ عدل واحسان میں اپنے باپ سے بھی بڑھ گیا۔بائیس برس پوری طرح داد رسی میں گزار کر راہی ملک عدم ہوا۔ راجہ سنجر جلوک کے بیٹے نے باپ کے بعد حکومت پائی۔اپنی بیوی’’واک مشنا‘‘ کے ساتھ مل کر اس نے کچھ اس انداز میں رعیت پروری کی کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔اچانک ایک موقع پر جب فصلیں پکنے کے قریب تھیں بے موسمی شدید برف باری کے نتیجے میں بری طرح تباہ ہو گئیں،جس سے شہر میں بہت بڑا قحط پڑ گیا۔’’اور اکل البعض بعضھم‘‘(بعض نے اپنے بعضوں کو کھا لیا۔) کا مضمون عملی صورت اختیار کر گیا۔اہل شہر کا خرمن خرمن اندوہ (بہت زیادہ غم) اور انبار انبار غم راجہ نے اپنے اوپر لیا۔اس کے پاس ہزاروں نقد جنس اور لعل وجواہر کی صورت میں جو کچھ تھا،ضرورت مندوں میں بانٹ دیا، اس کے باوجود قحط میں کچھ کمی نہ ہوئی۔راجہ نے خود کو جلا ڈالنا چاہا، لیکن اس کی رانی مانع آئی۔ایک رات اسی پاک دامن رانی کے ساتھ مل کر اس نے کچھ اس قدر عجز وانکسار کے ساتھ دعا مانگی کہ تیر قبولیت کے نشانے پر بیٹھا،حدیث نبویﷺ کے مطابق ایک مضطرب کافر کی دعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر صبح ہر کسی کے سامنے دو کبوتر آ جاتے،اور جس طور پر لوگ چاہتے،اپنی بھوک مٹا لیتے۔پکاتے وقت غلے میں برکت ہو جاتی۔اور یوں ’’ان مع العسر یسرا‘‘ (بلا شبہ تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔) والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ بعض اور بھی عجیب وغریب استدراجات بیان کرتے ہیں،مثلا یہ کہ کسی جگہ اس نے درخت لگائے جو اسی وقت سر سبز ہو گئے۔ اور پھل دینے لگے۔ والعھدت علی الروات (دروغ بر گردن راوی) اس نے تیس برس حکومت کی، آخر اسے موت کا پروانہ مل گیا۔چونکہ اس کی کوئی اولاد نہ تھی، اس لئے اس کی جگہ راجہ سچی مل کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا گیا۔اس کا تعلق شہر کے اکابر زادوں سے تھا۔اور وہ بڑے بڑے راجاؤں کے خاندان سے تھا۔ راجہ مذکورہ کی نسل سے ہٹ کر راجہ سچی مل نے آٹھ برس حکومت کی۔اس کے بعدا س کا بیٹا راجہ بچندر اس کا جانشین ہوا۔ اس نے صدمت نامی ایک وزیر کو کسی خطا پر قید کر دیا۔اس کے حالات سے متعلق مورخوں نے ایک عجیب حکایت بیان کی ہے۔ چونکہ یہ داستان مبالغے اور غرائب سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے یہاں نقل کی جاتی ہے۔مذکورہ وزیر ہمیشہ یہی کہتا کہ تخت میرے مقدر میں ہے۔راجہ نے کچھ تو لوگوں کی چغلیوں کے باعث اور کچھ لوگوں کے بیانوں کے باعث(کیونکہ وہ کچھ اضافہ کرکے بات اس تک پہنچا تے تھے۔) بہانہ ڈھونڈا اور اس کا گھر بار ضبط کرکے اس وزیر کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ کچھ مدت وہ اسی طرح سولی پر لٹکا رہا۔اسی اثناء میں کوئی برہمن کہیں سے ادھر آنکلا، اس نے سولی پر لٹکے ہوئے وزیر کی پیشانی پر نگاہ ڈالی، اس(پیشانی) پر مرقوم تھا کہ وہ (وزیر) بادشاہ بنے گا۔ برہمن کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے۔ بہر حال کچھ عرصے بعد وہاں چند برہمن آئے۔ انہوں نے اس کے اعضا جمع کیے۔ ان میں سے جو بڑا تھا۔ اس نے دعا کی اور وہ زندہ ہو گیا۔اور رفتہ رفتہ اسے سلطنت مل گئی۔تاہم بعض اسباب کی بنا پر ہندوستان کے بعض تاریخ نویسوں نے اس داستان کو جھٹلاتے ہوئے لکھا ہے،کہ مذکورہ وزیر کے سولی پر مرنے کے بعد وہ راجہ کسی مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا،اور چونکہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی،اس لئے اعیان سلطنت نے مذکورہ وزیر کی اولاد میں سے کسی کو تخت پر بٹھا دیا ۔ جس کا نام راجہ اری رائے تھا۔اس نے لوگوں کے ساتھ بہت عدل واحسان اور اچھا سلوک کیا۔ اور ملکی مہمات حسن تدیبر اور راستی سے سر انجام دیں۔ کچھ عرصے بعد اس کے دل میں بادشاہت ترک کرنے کی آرزو پیدا ہوئی،اس نے ہرن کی کھال پہنی اور باہر نکل گیا۔ یہ تمام قصہ اصل تاریخ میں مذکور ہے۔ تاہم عقل کے اعتماد سے دور ہے۔ مختصر یہ کہ راجہ بچندر کی حکومت سینتیس برس تھی۔ اور راجہ تامات سے لے کر اس راجہ تک چھ افراد نے حکومت کی۔ اس کے بعد حکومت اندھے راجہ جد شیر کے پوتے کو ملی، جس کا نام گوپال دیپ تھا۔ اور جو میکہ واہن (کے لقب) سے مشہور تھا۔ راجہ میکواہن کشمیر کے مورخوں نے اس کے حالات میں عجیب وغریب امور کا ذکر کیا ہے۔مثلا یہ کہ اوائل حال میں وہ پریشان حالی اور بد بختی کے دشت میں سرگرداں تھا۔مسافری کی حالت میں اور بڑے ہی کرب کے ساتھ وہ ملک خطا پہنچ گیا۔ اس وقت راجہ خطا کی بیٹی کا جو حسن وجمال میں بلند آوازہ تھی، رشتہ لینے کے لئے دنیا بھر کے راجہ زادے وہاں جمع تھے۔اور ان کے سروں پر مرصع تاج تھے۔ پریشان حال راجہ میکواہن جوتوں کی صف میں نگرانی کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں زور کی بارش شروع ہو گئی،جس کے سبب سب لوگ فکر مند ہو گئے۔ اچانک بارش کے دروان ایک خاص قسم کے بادل نے راجہ میکواہن کے سر پر سایہ ڈال دیا۔جو حاضرین کے تعجب کا باعث بنا، خطا کے راجہ کی بیٹی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اس نے ان سب شہزادوں میں سے راجہ میکواہن کو پسند کر لیا۔ چنانچہ اس کے باپ کی سعی واہتمام سے وہ کشمیر کی حکومت اور راجگی سے سرفراز ہوا۔اس نے اپنے دور حکومت میں جانوروں کے مارنے پر پابندی عائد کی۔ اور شکاریوں اور قصابوں کے وظیفے مقرر کر دیئے۔ تاکہ وہ جانور مارنے یا شکار کرنے کا لالچ نہ کریں۔گویا اس نے اس شعر پر عمل کیا۔ شعر: ترک حیوانی بہ حیوانات جان بخشید است خویش را محروم میداری ازین دولت چرا (حیوانی ترک کرنا جانوروں کو جان عطا کرنا ہے،تو خود کو اس خوش بختی سے کیوں محروم رکھ رہا ہے۔) کہتے ہیں کہ راجہ نے ہندوستان کی تسخیر کا ارادہ کیا۔ چنانچہ سورت تک قابض ہو گیا۔ وہاں سے کشتیوں میں بیٹھ کر جزائر کا ارادہ کیا۔ چونتیس برس تک اس نے عدل واحسان کے ساتھ حکومت کی۔ بہت سے عجائب وغرائب ظہور میں لا کر ملک عدم کو سدھارا،مصنفوں نے اس کی ملک گیری اور بر وبحر کی مسافرت کے احوال لکھنے میں مبالغے سے کام لیا، جو قابل تحریر بلکہ لائق اعتماد نہیں ہے۔ دروغ ان کی گردن پر ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ سرب سین تخت نشین ہوا۔ اس نے تیس برس حکومت کی۔ اور اپنے باپ کی ساری مملکت زیرتسلط لا کر دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس راجہ کے دو بیٹے تھے، ایک ہرن راجہ، دوسرا پورن مان راجہ۔ راجہ ہرن تخت حکومت پر بیٹھا اور پورن مان نے وزارت سنبھال لی۔ ان کے درمیان عجیب وغریب باتیں وقوع پذیر ہوئیں۔ راجہ ہرن نے تیس برس حکومت کی اور مر گیا۔چونکہ راجہ ہرن کی نسل میں کوئی نہ رہا۔ اس لئے اہل کشمیر نے راجہ بکر ماجیت سے رجوع کیا۔ جو اس وقت اوجین اور مالوہ کا بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے آدمی بھیج کر کشمیر اپنے تسلط میں لے لیا۔ بہت عرصے بعد کشمیر کا جابر کنت نامی ایک برہمن راجہ بکرما جیت کی خدمت میں پہنچا،راجہ نے کچھ مدت بعد برہمن کو بتائے بغیر،حکومت کشمیر کا سر بمہر فرمان اس کے سپرد اور اسے رخصت کر دیا۔برہمن مغموم صورت لیے وطن پہنچا،اور قاصدوں کے دستور کے مطابق مذکورہ فرمان اہل شہر کو پہنچا دیا۔ جب اس کے مضمون سے لوگوں کو آگاہی ہوئی،تو وہ ہرہمن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تخت حکومت اس کے سپرد کیا۔اس نے ملک چلانے اور رعیت پروری میں بڑی خدمت کی۔ بکر ما جیت کی زندگی تک وہ حاکم رہا۔ جب اسکے مرنے کی خبر برہمن کو پہنچی تو وہ بنارس چلا گیا۔اگر چہ راجہ بکر ماجیت کے بیٹے راجہ پرور سین نے معذرت چاہی اور ملک اس کے حوالے کیا،لیکن وہ نہ مانا اور چلا گیا۔اس کی مدت حکومت چار سال نو ماہ تھی۔ پرورسین پور ما کا بیٹا سلطنت پر بیٹھا۔اس کی خواہش تھی کہ راجہ بکر ماجیت کے پائے تخت اوجین پر قبضہ کرلے۔ وہ اس ارادے سے چلا تھا کہ راجہ کے مرنے کی خبر پہنچی۔اس کے بعد اس نے کسی دوسرے علاقے کو فتح کیا۔اور پنجاب کو اپنے تصرف میں لا کر کشمیر چلا آیا۔دوتین برس بعد جب اس نے اپنی کثرت افواج دیکھی تو ایک بار پھر ہندوستان کی تسخیر کا ارادہ کیا۔ کئی راجاؤں پر تسلط پا کر اوجین اور مالوہ چلا گیا۔ جہاں اس نے بکرما جیت کا تخت حاصل کرنے کا سوچا۔ بیت: ہفت اقلیم اربگیرد پادشاہ ہم چنین در بند اقلیم دگر (کوئی بادشاہ سات اقلیموں یعنی پوری دنیا پر بھی قبضہ کر لے تو بھی وہ ایک اور اقلیم پر قبضے کا سوچنے لگتا ہے۔) وہاں جب اس نے اس کے بیٹے سیلاوت کو دشمنوں کے نرغے میں محبوس اور مغلوب پایا،تو مخالفوں پر تیر اور ترکش خالی کرکے اسے رہائی دلائی،اور اسے باپ کے تخت پر بٹھا دیا۔پھر شہر اس کے حوالے کرکے خود پایہ تخت کی تعمیر کے لئے وطن لوٹ گیا۔ہندو مورخوں نے لکھا ہے کہ ا س نے کسی غیبی اشارے پر کوہ ماران کے نواح میں ایک لکیر کھینچی ہوئی دیکھی،جس کی مسافت چار کوس تھی۔ اس نے حکم دیا کہ معمار وہاں آبادی اور عمارات وغیرہ کی بنا ڈالیں۔کہا جاتا ہے کہ اس نے چھتیس لاکھ گھر تعمیر کرائے۔امراء وزراء اور تمام لوگوں کی عمارات اس کے علاوہ تھیں۔ جن کا کوئی شمار نہ تھا، کہا جاتا ہے کہ اس کے عہد میں تعمیر وآبادی اور گھرو ں کی کثرت کے سبب کشمیر میں کوئی جگہ ایسی نظر نہ آتی تھی،اس لئے اس کا نام سری نگر رکھا۔ مسلسل حادثات اور کثرت آفات کے سبب ،بالخصوص واقعہ ’’ذو الجو‘‘ کے باعث جسے حیرت کا شکار قلم اپنے مقام پر تحریر کرے گا۔ اس کے اطراف کے اکثر علاقے ویرانی کا شکار ہو گئے۔ اور وہ معمورہ گویا بالکل تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ بیت: مستعار ست ملک ومال جہان نتوان کرد اعتماد بدان (دنیا کا ملک ومال ادھار یعنی عارضی وفانی ہے،اس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔) سری نگر نام کا نفیس شہر جو بار بار کی تعمیر کے بعد باقی رہ گیا۔ وہی شہر ہے جو آج معمور ومشہور ہے۔ یہ شہر مرکز حکومت ہے۔ اور دریائے بھٹ (دریائے جہلم کا پرانا نام) اسی کے وسط میں بہتا ہے۔ اگرچہ اس کے نواح کے علاقے منہدم ہو چکے ہیں۔ تاہم اصلی شہر اسی حالت میں ہے۔ قصہ مختصر مذکورہ مرکوزہ راجہ نے دریائے بھٹ کے سیلاب کو روکنے کی خاطر،جس نے اطراف سری نگر کو ویران کر دیا تھا۔ نادہ پور نامی ایک ویرانے میں بند بنوایا،اور ایک عظیم پل کی بھی بنیاد رکھی۔راجہ کی مدت سلطنت ساٹھ برس تھی۔جب اس کی زندگی کے دن پورے ہو گئے تو اس کا بیٹا راجہ جید شیر سریر آرائے سلطنت ہوا۔تینتیس برس نو ماہ حکومت کرکے راہی ملک عدم ہوا۔اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ لجمن تخت نشین ہوا۔ تین برس تک وہ ولایت کشمیر پر متصرف رہا۔ جب وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا،تو اس ولایت میں اس نے بھائی راجہ زیارت کی حکومت جاری کی تھی۔ اسے تحسر تر کہا جاتا تھا۔ بڑا ہی دلیر اور صاحب جود وسخا تھا۔ فرد: خرم از جود تو نان بر سر خوان دگران رزوی از ابر خوردہ گرچہ صدف در دریاست ( تیری سخاوت کے سبب روٹی دوسروں کے دسترخوان پر ترو تازہ ہے۔ سیپی اگر چہ ہے تو سمندر میں لیکن اپنی روزی بادلوں سے لیتی ہے۔) مریضوں کے لئے دار الشفا اسی کی اختراع ہے۔اس کے علاوہ بھی اس نے آثار خیر یاد گار چھوڑے، اس کی عمر سو برس کو پہنچ چکی تھی۔ واضع رہے کہ حضرت سید الاولین والاخرین (محمدﷺ)کا ظہور پر نور اسی کے زمانے میں ہوا۔ جب کہ ہجرت نبویﷺ جس سے عربی تقویم کا آغاز ہوا،راجہ کے زمانے سے دو سواٹھاون برس بعد ہوئی۔ جب راجہ کی عمر آخر کو پہنچی تو وہ اپنی رانی کے ساتھ لشکر کی معیت میں ایک غار میں چلا گیا۔اس کے بعد ان کا کوئی پتا نہ چلا، اپنی قوم میں عابد وزاہد تھا۔شعر: ہندو کہ زعشق بت پرستد ہر صبح دعای می فرستد (ہندو جو عشق کے سبب بت کی پوجا کرتا تھا،ہر صبح دعا بھیجتا ہے۔) اس کے بعد اس کا بیٹا راجہ بکرماوت سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس نے اللہ کی عام مخلوق اور تمام رعایا کے ساتھ پدرانہ شفقت ومحبت کا سلوک رکھا۔ اس نے خدا سے دعا کی کہ اس کے عہد میں کسی کی موت واقع نہ ہو۔ایسا ہی ہوا، (دروغ بر گردن راوی) اس کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کے حکم کے مطابق اس کی لاش کو جلایا گیا۔بعد میں جلی ہوئی لاش دریائے گنگا میں لے جا کر بہا دی گئی۔ گنگا نے اس کے جلے ہوئے اعضا پکڑ لیے اور وہ فضا میں چلا گیا۔اورا بھی تک فضا ہی میں ہے۔ واللہ اعلم (دروغ بر گردن راوی۔) بیت:۔ ہر چند قلزم عشق بریک ہوا ست دائم در ہر سر حبابے ازشوق اوہو ایست (اگر چہ عشق کا سمندر ہمیشہ ایک ہی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ہر بلبلے کے سر میں ان کی ہوا(آرزو ہے)) ۔ اس کی مدت حکومت بیالیس برس تھی۔ اس کے بعد اس کا بھائی راجہ بالا وت تخت نشین ہوا۔ اسے حبا نند یا جسا نند بھی کہتے ہیں۔آخر میں جب وہ فنون دانش سے بہرہ ور ہوا تو پناوت کے نام سے مشہور ہوا۔تھوڑی ہی مدت میں اس نے ولایت کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ملک ہند کی تسخیر کا ارادہ کیا۔جب وہ ہند کے راستے پر آنکلا،تو اس نے نناوے ہزار نو سو نو روپیہ جسے ہندی میں ایک کم ایک لاکھ کہتے ہیں ،خیرات کیا۔ خطا اور ختن کے علاقوں کی تسخیر کے ارادے کی خاطر اس نے لشکر کا جائزہ لیا۔تین لاکھ سوار اور پچیس ہزار گھوڑے موجود تھے۔ کسی بنا پر اس نے اپنا مذکورہ ارادہ ترک کر دیا۔ کامراج میں اس نے تاپر نام کی ایک آبادی تعمیر کی ،اور اسے اپنا پایہ تخت بنا لیا۔ بڑا آباد شہر تھا۔بارہ مولہ کی طرف ایک مشہور گاؤں ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے عہد حکومت میں کوئی سوداگر آیا،جس دن راجہ نے اس کی دعوت کی۔اس نے کہا چراغ اور شمع کے دھوئیں سے میرا سر دکھنے لگا ہے۔ اس کے بعد اس سوداگر نے راجہ کی ضیافت کی، اس نے شمع کی بجائے لعل شب چراغ (رات کو چمکنے والا موتی) مجلس میں لا کر پوری مسجد کو روشن کر دیا۔ اور اسباب سرور کی کثرت سے اس بزم میں اس نے عجب طرح نشاط کا ساماں کیا، نظم: ز ذوق تماشای آن بزم گاہ در آغوش مژگان نکنجد نگاہ رخ میکشاں غیرت لالہ زار کف ساقیان ابر خورشید بار ( اس بزم کے نظارے کے ذوق سے نگاہ پلکوں کی آغوش میں نہیں سماتی۔) میکشوں کے چہرے لالہ زار کے لیے باعث غیرت اور ساقیوں کا ہاتھ،جیسے خورشید برسانے والا بادل ہو۔) راجہ نے چاپلوسی سے اس سوداگر سے ایک کنیز حاصل کر لی، جس سے اس کے چار بیٹے ہوئے۔اس نے پچاس برس حکومت کی۔ اس کے زمانے میں عجیب وغریب واقعات رونما ہوئے،چونکہ ان واقعات کے بیان میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ اس لئے اس کتاب میں ان کا نقل کرنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ بہرحال راجہ ایک رعیت پرور اور احسان دوست انسان تھا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کا بڑا لڑکا راجہ چندر انند حاکم بنا۔ یہ راجہ بڑا محسن اور سخی تھا۔ اس کے عدل و انصاف اور رعایا پروری سے متعلق جو عجیب واقعات رونما ہوئے وہ اصل کتاب رازہ ترنگ میں مرقوم ہیں۔ چونکہ اکثر حکایات عقل کے معیار پر پوری نہیں اترتیں، اس لئے کلام کو طول دینے میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا۔ اس نے آٹھ سال آٹھ ماہ حکومت کر کے اس دنیا سے کوچ کیا۔ راجہ رماجیت جو اس کا بھائی تھا، اس کے بعد تخت پر بیٹھا۔ بڑا ستمگر اور ظالم تھا۔ کسی شدید مرض کا شکار ہو کر چل بسا۔ بیت بشارت دہ بمظلومان کہ ظالم چون چنار آخر قوی چون گشت افتد آتشی از خویش درجایش (مظلوموں کو خوشخبری دے کہ ظالم جب قوی ہو گیا تو آخر کار چنار کی مانند اپنی ہی آگ سے اپنی جگہ پر گر گیا) اب اس کا بھائی راجہ للتاوت تخت نشین ہوا۔ اس نے عدل و انصاف اور رعایا پروری کو فروغ دیا۔ لتہ پور کو، جو اس وقت ایک آباد سر زمین تھی، پایہ تخت بنایا اور اس کو خوب آباد کیا، نیز اس علاقے کو بھی تعمیر کیا جو اس کے بھائی نے ویران کر دیا تھا۔ ازاں بعد ہندوستان اور پنجاب کی طرف متوجہ ہوا۔ جہاں کہیں بھی کوئی راجہ اس کے مقابلے میں آیا اسے اس نے مغلوب و محکوم بنا لیا اور پھر دوسرے ملک کی طرف بڑھ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے گجرات کلاں، بندر سورت، بنادر دکن، بنگالہ اور سر اندایپ کو بھی تسخیر کیا تھا۔ پھر اس نے ولایت (ایران وغیرہ) کا رخ کیا اور والی بخارا سے جنگ کر کے غالب ہوا۔ یہاں سے خطا اور ختن گیا اور تبت کے راستے سے ہوتا ہوا کشمیر پہنچا۔ اس نے عمدہ عمارات بنوائیں۔ موضع پر سپوراسی کا تعمیر کردہ ہے۔ وہان اس نے چون گز لمبا پتھر کا ایک ستون کھڑا کیا۔ مختلف ملکوں سے بہت سے تحفے تحائف لایا تھا۔ ایک کیمیا گر سے شناسائی کے سبب اور اس سے مل کر وہ سونا بنایا کرتا جسے عمارات کی تعمیر اور لوازم سلطنت پر خرچ کرتا۔ہر عمارت پر ایک لاکھ تولے سے کم سونا خرچ نہ ہوتا۔ جب بنگالہ کے راجہ نے عمد شکنی کی تو اسے کشمیر لا کر اس نے مار ڈالا۔ راجہ بنگالہ کے آدمی فقیرانہ لباس پہن کر وہاں پہنچے اور سری نگر میں انہوں نے اقامت اختیار کر لی۔ کچھ مدت بعد انہوں نے راجہ کشمیر کا دست تصرف توڑ ڈالا، شہر کو آگ لگا دی اور بہت سے دیہات اجاڑ دئیے۔ عمر کے آخری حصے میں للتاوت ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ کشمیر کے شمال کی طرف نکل کر گوشہ گیر ہو گیا۔ وہاں سے اس نے پیغام بھجوایا کہ میں اب سلطنت اور حکمرانی کا خواہشمند نہیں ہوں، میرا کوئی ایک بیٹا تخت پر بیٹھ جائے۔ چنانچہ اس کے بڑے بیٹھے کوسانند نے حکومت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ للتاوت نے چھتیس برس سات ماہ حکومت کی۔ للتاوت کی موت کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر کا یہ کہنا ہے کہ اس نے انتہائی شرمندگی کے سبب خود کو زندہ جلا ڈالا۔ اس کے بیٹے نے، باپ کے ظلم سے جمع کئے ہوئے خزانے برے کاموں پر اڑا کر بارہ برس حکومت کی اور چل بسا۔ اس کے مرنے کے بعد پر بانند کا بیٹا شنکر نند تخت پر بیٹھا۔ اس نے سات سال حکومت کی۔ اس کے مرنے پر للتاونند کے بیٹے راجہ پرہسپت کو تخت و تاج مل گیا۔ وہ بارہ برس حاکم رہا۔ پھر راجہ احبانند کو سلطنت ملی۔ اس نے چار سال حکومت کی۔ سنکرانند کا بیٹا راجہ رستکاتین برس حکومت میں رہا اس کے بعد راجہ انند انند تخت پر بیٹھا یہ سب سے آخری کار کوتی راجہ تھا۔ اس نے دو برس حکومت کی۔ کارکوتیوں کے سات راجاؤں نے حکومت کی، کا مجموعی زمانہ حکومت، اول سے آخر تک، دو سو سال، پانچ ماہ اور بیس روز ہے اور یہ 229ہجری 843-4ء تک کا زمانہ ہے۔ ان کے بعد حکومت خماران کو منتقل ہو گئی۔ اس خاندان کا پہلا راجہ ادیت ورما بن سکھتونا اپنے وزیر سودرما کی کوشش سے تخت پر بیٹھا اور اس نے اپنے مخالفین کا قلع قمع کر دیا اور جنگی قواعد کا پورا پورا دھیان رکھا۔ نیز گذشتہ حکمرانوں کے خزانے اور سونے، چاندی، چینی اور تانبے کے برتن ٹکڑے ٹکڑے کر کے محتاجوں پر خرچ کر دئیے۔ ان برتنوں میں کھانا مکروہ سمجھتا تھا۔ اس کی مدت حکومت اٹھائیس برس، تین ماہ اور تین روز ہے۔ جب وہ مر گیا تو راجہ سو درماتخت کامرانی پر بیٹھا۔ تسخیر ممالک کے بعد اس نے خاصی فوج اکٹھی کر لی اور جب لشکر گاہ کا مسائنہ کیا تو ایک لاکھ سوار، نو لاکھ پیادہ فوج اور تین سو ہاتھی تھے۔ ومتور کے راستے سے کوچ کر کے گجرات سے دکن تک کے علاقے پر قابض ہو گیا اور پھر کشمیر واپس آ کر عمارات کی تعمیر میں مشغول ہو گیا۔ آخر میں وہ اپنی بدکاری کے سبب بدنام و رسوا ہوا۔ ایک جنگ میں ایک تیر اس کے سر پر آ کر لگا جس نے اس کا کام تمام کر دیا۔ بیت: ہر کہ بدی کرد و ببد یار شد او ببد خویش گرفتار شد (جس کسی نے برائی کی اور برے کے ساتھ یاری رکھی وہ اپنی ہی برائی میں گرفتار ہوا) اس کی مدت حکومت اٹھارہ برس سات ماہ اور انیس دن تھی۔ اس کے بعد سودر کا بیٹا راجہ گوپال ورما اس کا جانشین بنا۔ اس کا ایک وزیر پربا کردیو ظالم آدمی تھا۔ اس نے راجہ کے تمام خزانے اپنے آباد کردہ قصبے ماندہ پور بھجوا دئیے اور لکور نامی اپنے ایک عزیز کو، جسے اس نے شاہراج کا خطاب دے رکھا تھا، اس قصبے کا حاکم بنا دیا۔ شاہراج نے کسی کام کے بہانے اس پر قابو پا کر اسے دریا میں پھینک دیا جب وہ مر گیا، جب کہ راجہ صفرا کی بیماری سے مر گیا۔ اس نے دس برس حکومت کی۔ راجہ سکت جو اس کے منہ بولے بھائیوں میں سے تھا اور اس کا حقیقی بھائی نہ تھا، تخت نشین ہوا۔ اس نے صرف دس روز حکومت کی۔ پھر راجہ گوپال کی ماں رانی سنکدھا تخت پر بیٹھی۔ مزاج میں بگاڑ کے سبب وہ دو سال بعد حکومت سے الگ کر دی گئی۔ برمت درما کا بیٹا راجہ پار نہ حاکم بنا۔ وہ ایک برس حکومت کر کے اس دنیا سے کوث کر گیا۔ اب برمت کا بیٹا راجہ جکرورما باپ کی وصیت کے مطابق سلطنت پر قابض ہوا۔ ان دو بھائیوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ اس نے صرف دو ماہ حکومت کی۔ اس کے بعد برمت ہی کا بیٹا راجہ سودرما تخت نشین ہوا۔ چونکہ بد عمل تھا اس لئے حکومت سے الگ کر دیا گیا۔ اب برمت کا بیٹا راجہ جکر ورما دوسری مرتبہ حکومت میں آیا۔ اس نے سنگرام وانگر کو، جس کی وجہ سے اسے حکومت ملی تھی، بے گناہ مروا ڈالا۔ دانگریوں کے ایک گروہ نے مل کر اسے قتل کر دیا۔ بیت: برنقش پای مور با آہستگی خرام زنجیر فیل مست مکافات تازہ است (چیونٹی کے پاؤں کے نقش پر آہستگی سے ٹہل۔ مست ہاتھی کی زنجیر تازہ پاداش ہے) سودرما کی حکومت، اول تا آخر، دو سال دو ماہ اور جکر ورما کی تین برس تھی۔ اس کے بعد راجہ سنگر وردھن تخت حکومت پر بیٹھا۔ اس کی مدت حکومت تین سال تھی ۔ پھر راجہ پازنہ (پارتہ) کا بیٹا راجہ المت حکومت میں آیا۔ بے باک ا ور سفاک انسان تھا۔ بدن کے اجزا کی تحقیق کی خاطر اس نے کئی مرد و زن کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور اپنی تلوار کی تیزی آزمانے کے لئے لوگوں کو قتل کرتا رہا۔ غرض کئی قسم کے ظلم اس نے رعایا پر روا رکھے۔ اس کی مدت حکومت دو برس اور ایک ماہ تھی۔ پھر سودرما دوسری مرتبہ بر سر اقتدار آیا۔ اس مرتبہ وہ صرف ایک ماہ حکمران رہا۔ یہ خاندان خمار کا آخری بادشاہ ہے۔ اس خاندان کی مدت حکومت، جس میں گیارہ حکمران آئے، اسی برس اور چار ماہ بنتی ہے۔ ان کے بعد حکومت ایک دوسرے خاندان کو منتقل ہو گئی۔ راجہ جشن کردیو پربا کردیو کے بیٹے راجہ سودرما کا ایک مقرب تھا۔ برہمنوں کے توسط سے تاج و تخت کا مالک بنا۔ صاحب فراست اور اہل عدل و انصاف تھا۔ راہزنی اس کے دور میں اس حد تک ختم ہو گئی کہ دکاندار راتوں کو دکانیں کھلی رکھتے تھے اور مسافر اپنے مال و متاع کے ساتھ شاہراہوں اور گذرگاہوں میں امن و امان سے سفر کرتے۔ مقدمات کو نپٹانے اور معاملات کا فیصلہ کرنے سے متعلق اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں منقول ہیں۔ اس نے نو برس حکومت کی۔ جب اس نے اس غدار دنیا کی ناپائداری کے سبب حکموت چھوڑ دی تو رام دیو کے بیٹے زانت دیو کو اپنا ولی عہدبنایا۔ سلطنت سے اس کی معزولی کے بعد جشن دیو کے بیٹے راجہ سنگرام کو تخت حکومت ملا۔ اس کی مدت حکمرانی چھ ماہ سات روز تھی۔ اس کے بعد راجہ دیور دکنت حکومت میں آیا۔ اس نے ایک برس چار ماہ حکومت کی۔ اب بردگنت کا بیٹا راجہ کھم کنت اپنے باپ کا جانشین بنا۔ بدعملی کے باعث ایک موذی مرض کا شکار ہو کر بارہ مولہ میں وفات پا گیا اس کی مدت حکومت آٹھ برس چھ ماہ تھی۔ راجہ ائین باپ کی جگہ تخت و تاج کا مالک بنا۔ اس کا پایہ تخت لتہ پور تھا جو اس وقت آبادی اور عمارتوں کا شہر تھا۔ حکومت کا اختیار اس کی ماں ودا رانی (؟) کے ہاتھ میں تھا۔ جب شہر پر سبور سے ایک سردار بہت بڑے لشکر کے ساتھ رانی پر حملہ آور ہوا تو اس (راجہ) کے حکم سے رانی بہت سی فوج اور خزانہ لے کر پہنچ گئی اور اس نے نمایاں فتح حاصل کر لی۔ اس نے چودہ برس حکومت کی۔ آخر میں رانی نے شامت نفس سے مذکورہ بیٹے کو کچھ اس طرح ہلاک کیا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔ مصراع: وای فرزندی کزین سان خصم باشد مادرش (اس بیٹے کی حالت قابل افسوس ہے جس کی ماں اس انداز میں اس کی دشمن ہو) پھر اس کا بیٹا راجہ نندہ کنت باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ باپ اور رانی کے واقع کے نتیجے میں اس کا دل سرد ہو گیا اور اس نے آخرت کی بھلائی کی طرف توجہ کر لی۔ اس کی حکومت ایک سال ایک ماہ اور نو روز رہی۔ اس کے بعد اس کا بھائی پربھون تخت حکمرانی پر بیٹھا۔ کچھ مدت کے بعد وہ بھی رانی کے ہاتھوں مارا گیا۔ بیت: امی برادر مادر دہر ار خورد خونت مرنج چون ترا خون برادر ہمچو شیر مادر است (اے بھائی اگر مادر زمانہ تیرا خون پیتی ہے تو رنجیدہ نہ ہو، جب تیرے واسطے بھائی کا خون ماں کے دودھ کی طرح ہے) اس کی مدت حکومت دو سال تھی۔ ابہ من کا بیٹا راجہ بہمن تخت نشین ہوا۔ چار سال تین ماہ حکمران رہا، اس کے بعد رانی تخت نشین ہوئی۔ اس کا کرتا دھرتا وزیر نرسنگ رام جو مالی تھا جو اسی کا تربیت یافتہ تھا۔ اب امرا اور وزرا نے رانی کے بھتیجے بکرہ راجہ کو تخت پر بٹھایا۔ نرسنگ وزیر نے راجہ کو خفیہ طور پر مروا دیا اور دوبارہ قابض ہو گیا۔ راجہ راجور (راجوری کے راجہ؟) نے رانی کے خلاف بغاوت کر دی۔ رانی نے نرسنگ کی مدد سے راجوری کے راجہ پر غلبہ پا لیا اور اس کے بعد اپنے بھائی ادی راج کے بیٹے سنگراج کو ولی عہد بنا لیا۔ اس نے تیئس سال چھ ماہ حکومت کی۔ راجہ جشن کر سے رانی تک بارہ افراد نے چھ اور چار سال(؟) اور بیس روز حکومت کی۔ اس کے بعد ادی راج کا بیٹا راجہ سنگراج تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس نے نرسنگ رام کو اپنا وزیر بنا لیا۔ اس اثنا میں ہمیر نامی ایک ترک نے نرسنگ کے ساتھ جنگ کر کے راجہ کے ملک میں گڑ بڑ پھیلا دی۔ راجہ بد ہضمی کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کی حکومت چوبیس برس اور دو ماہ رہی۔ اس کے بعد سنگراج کا بیٹا ہراج باپ کا جانشین بنا۔ اس کی مہربانیوں سے لوگوں کو آسودگی ملی۔ اس نے بائیس برس حکومت کی۔ اس نے اپنے اور اطراف کے راجاؤں کے ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھا۔ اب ہراج کا بیٹا راجہ اننت باپ کا جانشین بنا۔ کسی وقت راجہ بلوھر کت آ گیا تھا۔ اس کا چچا بگرہ راج غالب تھا (؟)۔ بلوھر کت قابض ہو گیا۔ راجہ نے اپنی ماں کی مدد سے فوج کے ساتھ دشمن پر چڑھائی کر دی۔ ایک بھی آدمی بچ نہ سکا۔ جب اس نے فتح پا لی تو سکرانے کے طور پر چھیانوے کروڑ زر کشمیری عوام میں تقسیم کر دیا۔ اس نے تریپن برس حکومت کی۔ آخر میں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو کر تخت حکومت اپنے بیٹے گلسن کے حوالے کر دیا۔ وہ ایک مفلس آدمی تھا۔ اس نے کسی شخص کے خزانے پر قبضہ کر لیا۔ نگر کوٹ، سیالکوٹ اور نیلاب کو اس نے فتح کر لیا تھا۔ اس کے زمانے میں دریائے بھت کا پانی اس قدر جم گیا کہ فوج اس پر سے گذر جاتی۔ اس کی مدت حکومت چھبیس برس تھی۔ گلسن کا بیٹا راجہ اسکرس باپ کا جانشین بنا۔ اس نے محلہ تاشوان کو پاے تخت بنایا۔ نمی بل (؟) کا تعلق ایک اور سر زمین سے تھا، اس نے آ کر محلہ تاشوان کو آگ لگا دی۔ راجہ نے اپنی بیوی پر شہے کے سبب خود کو جلا ڈالا۔ اس نے کل بائیس روز حکومت کی۔ بعد ازاں گلسن ہی کا بیٹا راجہ ھرس تخت حکومت پر بیٹھا۔ اس نے محل کے چاروں طرف زنجیر کے ساتھ گھنٹے لٹکا دئیے تاکہ مظلوم اسے آ کر بجائیں اور وہ خود ان کی داد رسی کرے۔ اس کے دیوان خانے میں ہزاروں مشعلیں اور فانوس روشن رہتے۔ اس کی تین سو ساٹھ بیویاں تھیں۔ ہر رات ان میں سے ایک کے ساتھ صحبت کرتا۔ اس کی طبیعت میں بے پناہ سادگی اور بھولا پن تھا جس کی وجہ سے بعض فریب کار اور حیلہ ساز لوگوں نے اسے چکمہ دے کر مفلس کر دیا۔ بارہ برس حکومت کر کے چل بسا۔ راجہ باجل دانگریوں کے مشورے اور منظوی سے تخت نشین ہوا۔ اس نے بہت زیادہ رعایا پروری کی ایک دار الشفا تعمیر کیا، جہاں مریضوں کو دوائیں اور غذائیں مہیا کی جاتی تھیں۔۔۔ اس نے دس برس، چار ماہ اور دو روز حکومت کی۔ اس کے بعد اس کا محرر راجہ دوین جس نے وزارت کا قلمدان سنبھالا ہوا تھا، تخت نشین ہوا۔ اس نے راجہ باجل کو قاتل کروا دیا۔ راجہ باجل کے امرا میں سے ایک ککہ چند نامی امیر نے لار بالغار سے آ کر اسے مغلوب کیا اور یوں یہ فتنہ ختم ہو گیا۔ اس کی مدت حکومت ایک رات اور ایک دن کو محیط ہے۔ راجہ کے چھوٹے سوتیلے بھائی گل مل کا بیٹا راجہ اسس ککو چند کی کوشش سے تخت نشین ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک دن رات میں تین راجاؤں نے یلغار کر کے سلطنت کی طمع کی۔ راجہ باجل اور راجہ روکہ تو مارے گئے اور راجہ اسس کو حکومت مل گئی۔ چونکہ لوگوں کو اس کے بارے میں تردد تھا اس لئے وہ راجہ باجل کے حقیقی بھائی کو لوھر کت سے لے آئے۔ راجہ اسس نے استقامت سے کام لیا۔ بارہ مولہ کے نزدیک طرفین میں لڑائی ہوئی۔ ایک مدت تک یہ صورت حال رہی کہ کبھی ایک غالب آ جاتا تو کبھی دوسرا۔ آخر قرعہ حکومت راجہ ہرمس کے بیٹے راجہ بکھاجر کے نام پڑا۔ راجہ اسس نے اس کے ساتھ بھی لڑائی کی اور زبردست لڑائیوں کے بعد اس نے پھر حکومت حاصل کر لی، لیکن اب راجہ بکھاجر نے راجہ راجور کی مدد سے پھر غلبہ حاصل کر لیا اور راجہ اسس کو قتل کر دیا۔ اسی اثنا میں راجہ بکھاجر کو بھی ایک تیر آ کر لگا اور وہ مر گیا اور یوں کشمیر کی سلطنت اب راجہ جے سنگھ کو منتقل ہو گئی۔ یہی وہ شخص ہے جو زیہ سہم دیو کے نام سے مشہور ہے، فارسی (ایرانی) کی اکثر کتب تاریخ میں حکومت کشمیر کی ابتدا اس سے منسوب کی گئی ہے۔ مخفی نہ رہے کہ گلہن پنڈت نامی ایک برہمن نے ہندی زبان میں کشمیر کے راجاؤں کی تاریخ لکھی ہے جس کا نام اس نے ’’ رازہ ترنگی‘‘ رکھا۔ اس نے راجہ آگند سے ابتدا کر کے راجہ جے سنگھ تک کے زمانے کے راجاؤں کی تاریخ لکھی ہے جو تین ہزار، پانسو چھیانوے برسوں پر محیط ہے۔ یہ 535ہجری نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (مطابق 1140-41ئ) تک کے حالات پر مشتمل ہے۔ یہ زمانہ لد چکاتو نگر کوٹ میں راجہ وشرم چند نامی حکمران ہوا، وہ اپنی رعایا پروری، غریب نوازی، مسکین دوستی اور سپاہ شناسی میں بے مثل تھا۔ جب اس کے اس دنیا سے کوچ کرنے کے دن قریب آ گئے تو اس نے اپنے بیٹے ملچند کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا۔ اس کے رفقا اور مقربین نے اس کی بے پروائی اور گھٹیا پن کے پیش نظر ہند اور دہلی کے بادشاہ سے التجا کی اور اس طرح اس کے لیے بہت سی تکالیف کا سامان کیا۔ طرفین نے دلیرانہ جنگیں کیں۔ آخر ملچند نے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں عافیت دیکھی۔ اس کے بعد اس نے والی کشمیر زیہ سہم دیو عرف جے سنگھ سے رجوع کیا، جس سے اس کی مراسلت رہی تھی، اور پانچ سو سوار مع اہل و عیال، زیہ سہم دیو کے دربار میں پہنچ گیا۔ اس نے ملک مع مضافات اس کی جاگیر میں دے دیے اور سپہ سلاری اس کے سپرد کر دی۔ جب سہم دیو کے ساتھ جنگ کی خاطر ایران سے مغل آ پہنچے تو وہ ملچند کے ساتھ مل کر جنگ و جدال کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک رات ملچند لباس تبدیل کر کے مغلوں کے لشکر میں چلا گیا۔ ان کے سردار کے ٹھکانے پر پہنچ کر ایک خط اس کے سرہانے رکھ آیا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ: اے آسایش طلب غافل، سہم دیو کا سپہ سالار ملچند مسلح حالت میں تیرے سرہانے پہنچا، سپا بگری کے دستور کا پاس کرتے ہوئے اس نے تجھ پر رحم کھایا اور تجھے زندہ چھوڑ دیا اور لوٹ گیا۔ اس کا ملک تو کیونکر فتح کر سکے گا۔ اگر تو میری یہ نصیحت سن لے تو بہتر ورنہ گھوڑوں کے سم اور غیظ و غضب کی آتش سوزاں تیرے سرداروں کے سر پر کسی تردد کے بغیر تیار ہے۔ مغلوں کا سردار آگاہ ہو گیا، اس نے صلح کر لی اور لوٹ گیا۔ ملچند نے چھبیس برس گیارہ ماہ اور چھ روز حکومت کی۔ اس نے اقتدار میں ہونے کے باوصف راجہ (جے سنگھ) کے حقوق کا بڑی فرمانبرداری کے ساتھ خیال رکھا۔ حکومت اسی کے ہاتھ رکھی۔ راجہ زیہ سہم دیو نے 558(1163ھ) میں وفات پائی اگرچہ ملچند نے راجہ زیہ سہم دیو کے حقوق کا پاس کرتے ہوئے مملکت کا پرچم اس کے بیٹے پری مات کے نام لہرایا اور اقتدار و سلطنت اس کے سپرد کر دی لیکن جب راجہ کی وفات کی خبر اطراف میں پھیلی تو پکھلی، کشتواڑ، تبت اور جموں کے عوام نے مخالفت اختیار کی اور اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جوا گردن سے اتار پھینکا۔ اس صورت حال نے طبائع کو منفض کر دیا۔ 1128/563میں ملچند اس دار فانی سے کوچ کر گیا اور راجہ پری مات اپنی پست فطرتی کے ساتھ نو سال، چھ ماہ اور دس روز بادشاہت کر گیا۔ 560(؟) میں اس کا بیٹا ونتہ دیو تخت نشین ہوا اس نے نو برس اور دو روز حکومت کی اس کا پایہ تخت موضع ونتی پور تھا وہاں اس نے ڈیرے تعمیر کرائے جن کے آثار و علامات آج بھی ویرانی کے باوجود موجود ہیں اس نے 1181-2/577 میں اس دنیا سے کوچ کیا اس کا بیٹا بومہ دیو تخت سلطنت پر بیٹھا ضرورت کے تخت اس نے چند سال حکومت کی اس نے عوام کی مرضی کے خلاف جو اس کی جہالت کے ہاتھوں مصیبت میں گرفتار تھے نو سال چار ماہ اور سترہ روز حکومت کی اس کی جہالت کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز وہ کشتی پر سیر کو نکلا پانی میں اپنے چہرے کا عکس دیکھ کر ہنس دیا پانی میں بھی اس کے اس ہنسنے کا عکس ظاہر ہوا پھر اس نے اپنے چہرے پر طمانچہ مارا جس سے اس کی انگوٹھی انگلی سے نکل کر پانی میں گر گئی جب گھر پہنچا تو مقربوں نے اس سے استفسار کیا اس نے مذکورہ واقعہ سنایا اور بولا کہ میں نے وہاں پانی پر لکیر کھینچ دی ہے تاکہ وہاں سے انگوٹھی نکال لی جائے باقی اسی پر قیاس کر لو۔ 1192/588میں حیات فانی سے دامن چھڑا گیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے زیہ دیو نے تاج و تخت سنبھالا۔ اس کے وزیر نے تخت پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا۔ لون کے لوگوں نے جن کا تعلق ترک قبیلے الوس سے تھا۔ اس کی مدد کی۔ جس کے باعث وہ وزیر کے غلبے سے محفوظ رہا۔ جب اس نے برہمنوں کی خاطر داری کی اور انہیں اقتدار سے نوازا تو وہ اس اقتدار کے نشے میں تخت و تاج کا لالچ کرنے لگے۔ لون کے لوگوں نے متفق ہو کر غلبہ حاصل کیا اور برہمنوں کو ان کے اصل مقام پر پہنچا دیا اور ان کا اصل مقام گدائی تھا۔ زیہ دیو نے اٹھارہ برس تیرہ روز حکمرانی کی۔ 1207-8-604میں موت کے فرشتے نے اسے آ لیا۔ اب حس دیو کا بیٹا چکدیو تخت نشین ہوا۔ عام رعایا اس کے حسن سلوک سے خوش اور شاکر تھی۔ اس نے لوگوں کو اذیت پہچانے والے بعض سپاہیوں کی بیخ کنی کی۔ امرا اور سرداران لشکر کسی فاسد طمع کے سبب راجہ کو شہر سے باہر لے گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے وزیر کے سعی و کوشش اور اشارے سے واپس چلا گیا۔ اور حکم الٰہی سے مخالفوں پر غالب آ گیا۔ اور سب کو شکست دے کر اس نے بدستور سابق مملکت و حکومت کا کاروبار سنبھال لیا۔ داد و دہش میں شہرۂ آفاق تھا۔ تقدید کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دور کے ایک مشہور حکم پدم نے نمک حرامی سے کام لیتے ہوئے راجہ پر قابو پایا اور اسے زہر دے کر مار ڈالا۔ اس نے چار سال دو ماہ حکومت کی۔ 1221/618میں اس کی زندگی اختتام کو پہنچی۔ اور وہ دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کا بیٹا رازہ دیو اس کا جانشین ہوا۔ اس کے زمانے میں چندان خاندان کا گکچند ولد ملچند سپہ سالار تھا کتاب رازہ ترنگ میں خاندان چندان کے حالات اختصار سے دئیے گئے ہیں۔یہ لوگ حکومت وایالیت کشمیر کے مالک تھے۔ اور چند سال انہوں نے قناعت میں بسر کئے ہیں۔ مورخ نے انہیں تاریخ ’’ شاھنامہ‘‘ کے لائق نہ جانا۔ گکچند 1239-40-637میں فوت ہو گیا۔ اس کا بیٹا پلاد چند جانشین ہوا لیکن رازہ دیو پدم کے خوف سے قلعہ سلس میں جا کر پناہ گزین ہو گیا۔ پدم نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اور ایک مدت تک طرفین جنگ و جدال میں مصروف رہے۔ آخر ایک روز کوئی سوداگر ایک منقش پاپوش تحفہ کے طور پر پدم کے پاس لایا۔ وہ اسے دیکھنے میں مشغول تھا کہ اچانک ایک پیادے نے پیچھے سے آ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اور وہ جہنم رسید ہو گیا۔ اب راجہ خود مختار ہو گیا۔ اس نے اکثر سرکشوں کو اپنا مطیع و منقاد کر لیا۔ چنانچہ سرداران قوم وغیرہ اس کے عہد میں کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام کرتے تھے۔ اس اثنا میں گکچند کا بیٹا پلاد چند جو نگر کوٹ کا راجہ تھا۔ دشمنوں کے ہاتھوں تنگ آ کر والی کشمیر کے پاس پناہ کا طالب ہوا۔ لار کا پرگنہ اخراجات کے لیے اس کے نام مقرر کیا گیا پلاد چند روز بروز غلبہ حاصل کرتا چلا گیا۔ اور اس نے برہمنوں کے ساتھ موافقت کر لی جو راجہ کے ہاتھوں نالاں تھے۔ غرض راجہ نے تیئس برس اور چاہ ماہ حکومت کی اور 1243-4/641 میں دنیا سے کوچ کر گیا۔ پرگنہ دیو سر میں اس نے دو مقامات تعمیر کئے، ایک راجور اور دوسرا رجلو۔ اس کی کل مدت حکومت تیئس برس تین ماہ اور ستائیس روز ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا سنگرام دیو تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس کی حکومت کے زمانے میں پلاد چند نے زیادہ ہی اقتدار حاصل کر لیا اور سنگرام کے بھائی سوراج نے اسے بہلا پھسلا کر اپنے بھائی راجہ سنگرام کے قتل کا ارادہ کیا۔سنگرام اسی کے تعمیر کردہ ہیں۔ پلاد چند 1252/650میں قضائے الٰہی سے وفات پا گیا۔ اس کا بیٹا سنگرام چند حکمران بنا۔ اس کے ایک رشتے دار کلبن (کلن؟) نے سرکشی اختیارکرتے ہوئے شہر کو اجاڑ دیا اور راجہ پر غلبہ پا لیا۔ راجہ نے راجوری کے راجہ سے ’’ جو اس کا دوست تھا‘‘ امداد کی التجا کی اور اس کی حمایت سے خود مختار ہو گیا۔ اس کی مدت حکومت اٹھارہ سال اور دس روز ہے۔ 1259/657میں اجل نے اسے آ لیا۔اب اس کا فرزند راجہ رام دیو باپ کا جانشین بنا۔ اس نے باپ کے مخالفوں کو قتل کر ڈالا اور پرتھی راجہ نامی اپنے ایک مقرب کو وزیر بنا لیا۔ موضع تاپر اور دریائے لیدر کا کنارہ اسی کا تعمیر کردہ ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ جس کے سبب اس نے لچھمن نامی ایک برہمن لڑکے کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اسے اپنا ولی عہد مقرر کر کے دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس نے اکیس برس ایک ماہ اور بارہ روز حکومت کی۔ 1279-80/678میں اجل نے اسے آ لیا اور مذکورہ لجمن (لچھمن) اس کا قائم مقام ہوا، چونکہ وہ پست فطرت اور گدا طبع بلند پرواز تھا اس لئے امور سلطنت انجام نہ دے سکا۔ کحل نامی ایک ساحر، جو طلسم دان بھی تھا، کہیں سے شہر میں آ گیا، اس نے اس پر مختلف قسم کے طلسم کر کے پورے شہر پر قبضہ جما لیا اور اس کی بادشاہت میں خلل ڈال دیا۔ قطعہ: ھیج سودی نکند تربیت نا قابل گرچہ برتر نہی از خلق جہان مقدارش سبز و خرم نشود ازنم باران ہرگز خار خشکے کہ نشانی بسر دیوارش (نا اہل کی تربیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگرچہ تو اسے دنیا کی مخلوق سے بڑھ کر قدر و منزلت دے، وہ خشک کانٹا جسے تو دیوار کے اوپر بوئے گا وہ بارش کی نمی سے کبھی تروتازہ اور سبز نہ ہو گا) راجہ کی مدت حکومت تیرہ سال تین ماہ اور بارہ روز تھی۔ مذکورہ راجاؤں کے عہد میں سنگرام چند ولد پلاد چند، لشکر کا سرگروہ اور سردار تھا۔ اس نے 1286/685 میں اپنے بیٹے رام چند کو اپنا قائم مقام اور جانشین بنایا۔ 1292/291میں لچی دیو اس دنیائے بیقرار سے باہر چلا گیا، اور اس کا بیٹا سیہہ دیو، جو پرگنہ و چن پارہ کا سردار تھا، تخت حکومت پر بیٹھا۔ کہتے ہیں سنگرام چند پرگنہ لار سے یلغار کے لئے آیا۔ سری نگر میں (سیہہ دیو) نے اس کے سات جنگ کر کے اسے قتل کر دیا۔ بعد میں سیہہ دیو حاکم بنا اور اس نے کحل جادوگر کو شہر بدر کر دیا۔ اس کے زمانے میں کسی فاحشہ لڑکی کے گناہ کی سزا اس کے باپ کو قید کی صورت میں دی جاتی تھی اور ا س سے جرمانہ لیا جاتا تھا۔ ایک روز راجہ ایک مغنیہ اواکلے سے گانا سن رہا تھا۔ا س سے بہت خوش ہو کر کہنے لگا: مانگ، جو کچھ مانگنا چاہتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ مذکورہ بدعت ختم کر دیں۔ راجہ نے وہ بدعت (مذکورہ سزا) ختم کر دی۔ آخر آخر میں بد اعمالی کا شکار ہو گیا۔ اس کی مدت حکومت چودہ سال پانچ ماہ اور بیس روز تھی۔ اس نے 1305-6-705میں دنیا سے کوچ کیا۔ شہمیر کی کشمیر میں آمد اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا سیہہ دیو اس کی جگہ تخت نشین ہوا اس کا عہد سلطنت انیس برس تین ماہ اور پانچ روز ہے۔ اس کا سپیہ سالار رام چند تھا۔ اس کے عہد سلطنت میں شہمیر نامی ایک شخص کشمیر میں آیا۔ جو سلاطین سوادو کر کی اولاد میں سے تھا اور اب سلطان شمس الدین کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے کشمیر میں آنے کا سبب یہ تھا کہ اس کا دادا قور شاہ ایک صاحب کرامات اور خوارق عادات صوفی تھا، لوگ اس سے رجوع کرتے۔ ایک روز وہ کہنے لگا کہ مجھے رب جلیل کی طرف سے یہ الہام ہو اہے کہ تیرے (قور شاہ) بیٹے کے گھر شہمیر نامی ایک بچہ پیدا ہو گا جو ولایت کشمیر کا بادشاہ بنے گا، اور اس کی نسل سے چند افراد تخت پر بیٹھیں گے۔ چنانچہ شہمیر نے اپنے دادا کی کرامات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال سمیت بارہ مولہ میں آ کر سکونت اختیار کر لی۔ جب راجہ کو اس کی سکونت کی خبر ملی تو اس نے حکم صادر کیا کہ وہ قریہ دوارہ دبر میں سکونت اختیار کرے اور وہاں کے محصولات سے اپنے روز مرہ کے اخراجات پورے کرے۔ مصرع: عد و شود سبب رزق چون خدا خواہد (جب خدا چاہتا ہے تو دشمن رزق کا وسیلہ بن جاتا ہے ) جب سلاطین اسلام نے کشمیر میں باری باری حکومت کی، شہمیر ان کا جد ہے۔ ان کا ذکر اپنے اپنے مقام پر تفصیل سے لکھا جائے گا۔ نیز اسی راجہ کے عہد میں شنکی چک، جو چکوں کا جد تھا، کسی دوسرے علاقے سے اہل و عیال کے ساتھ کشمیر میں وارد ہوا اور اس نے وہیں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے نسب کے بارے میں عجیب حکایات بیان کی جاتی ہیں، جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ اللہ ہی کو اس کا علم ہے۔ اس راجہ کے زمانے میں جو بڑے بڑے واقعات ظہور پذیر ہوئے ان میں سے ایک رنتجو کی آمد ہے، جس نے تبت سے آ کر کشمیر میں ٹھکانا کیا۔ اس کے باپ کے دشمنوں نے اسے جلا وطن کر دیا تھا۔ اس ملک میں آ کر اس نے سپہ سالار رامچند سے التجا کی۔ رام چند نے پرگنہ لار کے علاقے میں گکنہ کیر میں اسے آباد کرنے کا حکم دیا۔ وہاں وہ ایک مدت تک گوشہ نشینی اور قناعت میں آسودہ رہا۔ دوسرا سب سے شدید حادثہ، جو اس وقت کشمیر اور اہل کشمیر پر نازل ہوا،اوہ زولجو کی آمد ہے۔ زولجو کا واقعہ ذوالقدر خان کے نام سے معروف ہے۔ چونکہ کشمیر کے لوگ کفر میں بہت ڈوبے ہوئے تھے اور انہوں نے حیا اور آدمیت کا راستہ ترک کر رکھا تھا، اس لئے آسمان سے ایک ناگہانی بلا نازل ہوئی، اور ولایت ترکستان سے زولجو نامی ایک ترک ستر ہزار شمشیر زن سواروں کے ساتھ، جو سفاکی اور خونریزی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، بارہ مولہ کے راستے وارد ہوا۔ بظاہر اس کا تعلق ہلاکو خان کے آدمیوں سے تھا۔ بیت: رفتار شان چو آتش و گفتار شان چو جنگ دیدار شان عقوبت و ادوار شان زفیر (ان کا کردار آگ کی صورت تھا اور ان کی گفتار جنگ کی مانند تھی۔ ان کو دیکھنا عقوبت تھا تو ان کا ادوار (؟) مصیبت و بلا) بارہ مولہ میں اس نے ٹھکانا کیا اور ملک گیری کی تدبیر کرنے لگا۔ اس کے دل میں ذرا رحم نہ تھا۔ اس علاقے کے لوگوں کے، کیا خرد و کلاں اور کیا زن و مرد سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ادھر راجہ اپنے وزرا کے ساتھ مل کر فکر و تدبیر اور تحیر میں کھویا ہوا تھا۔ جب انہیں کوئی چارہ نظر نہ آیا تو انہوں نے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں عافیت پائی۔ اکثر لوگ کشتواڑ اور تبت چلے گئے۔ مردود زوالجو نے آتے ہی حکم دیا کہ کسی تامل کے بغیر سب کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے، غلہ جلا دیا جائے، عمارتیں ڈھا دی جائیں اور تمام شہر کو نذر آتش کر دیا جائے۔ نظم: ز آواز اسپان و گرد سپاہ نہ خورشید تا بندہ روشن نہ ماہ بہ جنبش در آمد زمین و زمان تو گفتی بخواہد پرید آسمان (گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور فوج کی گرد کے باعث نہ تو تابناک سورج ہی روشن تھا اور نہ چاند ہی، زمین و زمان کچھ اس طرح ہل اٹھے جیسے آسمان اڑ جائے گا) یہاں کے ساکنوں کی آہ و فغاں ساتویں آسمان سے بھی گزر گئی۔ یہاں تک کہ بنی نوع انسان کا نام و نشان تک اس شہر سے مٹ گئی۔ ان لوگوں نے نباتات اور درختوں تک کی جڑیں کھود ڈالیں۔ وہ شہر جو صدیوں سے آباد اور معمور تھا اب غیر آباد، ویران اور امن و امان سے عاری شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ بیت: صورت (؟) جلال ملک جہان را گرفت صدمت سلطان قمر تیغ سیاست کشید (کے جلال؟ نے ملک دنیا کو فتح کیا۔ سلطان قہر کی چوٹ (؟) نے سزا کی تلوار سونتی) اس کے قہر و غضب کی آگ کی گرمی اس شہر کے سرد موسم سرما تک، جو آٹھ ماہ کا زمانہ بنتا ہے، شدت پر رہی ۔ جب موسم سرما نے شدت پکڑی اور ترکوں کو گرمی سے بچانے والا لباس اور ایسی اشیائے خوردنی نہ ملیں جن سے وہ اپنے آپ کو برقرار رکھ سکیں، تو انہیں واپسی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ انہوں نے قیدیوں سے براستہ کشمیر، ہندوستان کی طرف جانے کے راستے اور طریقے معلوم کیے۔ انہوں نے نکل کی راہ ترکوں کو بتائی جو پرونچ پہنچتی ہے۔ جب وہ پہاڑ کے قریب پہنچے تو ’’ ما اصابکم من مصیبتہ‘‘ 34الخ کے مطابق اور فرمان ’’ واتقو فتنتہ‘‘ الخ 35کے تحت آسمان گریہ پر اتر آیا۔ ادھر مکافات کے طور پر موسم کی ہوا شدت کے ساتھ چلنے لگی اور اولے اس کثرت سے پڑے کہ سارا لشکر برف میں دب کر ہلاک ہو گیا اور سب خاک کے ساتھ خاک ہو کر رہ گئے یہاں تک کہ ایک فرد بھی ایسا نہ بچا جو ان کی سرگزشت ہی بیان کر سکتا نظم: بہر تار موی سر بیگناہ ہزاران سر سروران شد تباہ بہر نیم جو نقرہ کان فتاد بسی خرمن زرگران شد تباہ (ہر ہر بال میں بے گناہ کا سر تھا۔ ہزاروں سرداروں کے سر تباہ ہو گئے۔ ہر آدھے جو میں کان کی چاندی پڑی، زرگروں کے بہت سے خرمن تباہ ہو گئے۔) شہر کے لوگ ان شیطانوں کی فنا ہونے کی خبر پا کر، اس امید میں کہ کچھ قبائل، عمارات اور کھیتیاں شاید بچ گئی ہوں، اطراف و جوانب سے آ گئے۔ سارے شہر کو انہوں نے ویران و تباہ پایا۔ کہیں بھی آبادی کا کوئی نشان تک نظر نہ آیا۔ایک مدت کے بعد ہزاروں میں سے کوئی ایک آ کر شہر میں ادھر ادھر قیام پذیر ہو گیا۔ غرض مدت مدید کے بعد شہر آباد ہوا۔ آخر زین العابدین عرف بڈ شاہ کے عہد سلطنت میں خاصا حصہ آباد ہو گیا اور یوسف شاہ کے زمانے تک تو بہت ہی آباد ہوا لیکن پھر بھی اپنی اصلی حالت پر نہ آ سکا۔ قصہ مختصر، زولجو کے واقعہ میں جو لوگ بھاگ گئے تھے ان میں رنتجو اور رامچند بھی تھے۔ جنہوں نے کشتواڑ کی طرف راہ فرار اختیار کی تھی۔ واپسی پر جو رنتجو نے دیکھا کہ خال خال لوگ چھوٹے چھوٹے قلعے بنا کر قابض ہو چکے ہیں اور کوئی ایک دوسرے کی اطاعت نہیں کر رہا تو اس نے ملک پر قبضہ کرنے کی ٹھانی جب اسے رامچند کی، جو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ شہر لار کے قلعہ میں پناہ گزین تھا، افواج وغیرہ بہت زیادہ نظر آئیں اور اسے محسوس ہوا کہ وہ اس طرح کامیاب نہ ہو گا تو اس نے حیلہ گری سے کام لیا۔ وہ مینا فروشوں کے پاس آیا اور مینائیں پنجرے میں ڈال کر قلعے کے اندر بھجوانا شروع کر دیں۔ ان پنجروں کے اندر وہ سامان جنگ رکھ دیتا۔ چنانچہ ایک روز اس نے کچھ فوجیوں کے ساتھ قابو پا کر رامچند کو مار ڈالا اور اس کے بیٹے راون چند کو اہل و ایال سمیت گرفتار کر کے ولایت کشمیر پر قابض ہو گیا اور 725ہجری 1325میں تخت پر بیٹھا۔ چونکہ شہر میں اجنبی تھا اس لیے اس نے مروت و نرمی اور مدارا سے کام لیا۔ رامچند کی بیٹی اور راون چند کی بہن کو وہ اپنے عقد نکاح میں لے آیا اور راون چند کو بہت سی مراعات دے کر اسے اپنے ساتھ متفق کر لیا۔ پھر اسے تبت سمیت پرگنہ لار بطور جاگیر کے عنایت کیا اور اسے اپنی فوج کا سردار بھی مقرر کر دیا، اس طرح اس کے ذہن سے اپنے باپ کے قتل کا دعویٰ و خیال محو کر دیا۔ ادھر سیسہ دیو، جو زولجو کے ہرج و مرج میں کشتواڑ کی طرف فرار کر گیا تھا، موروثی سلطنت کی امید میں واپس آ گیا۔ جب اس نے تقدیر کا رنگ اپنے مدعا کے برعکس دیکھا تو وہ رنتجو جسے اپنے سے ادنیٰ آدمی کی اطاعت پر مائل نہ ہو سکا، اور چونکہ اس میں مقابلے کی بھی ہمت نہ تھی اس لیے مجبوراً اسے راہ فرار اختیار کرنی پڑی اور پھر کشتواڑ چلا گیا۔ اس طرح رنتجو خود مختار بن کر تخت نشین ہو گیا۔ کشمیر میں اشاعت اسلام کا آغاز رنتجو کے زمانے تک کشمیر کو آباد ہوئے کچھ اوپر چار ہزار تین سو برس ہوتے ہیں۔ اس مدت کے حالات اس لیے مختصر دئیے ہیں کہ راقم کے نزدیک راجاؤں کے حالات کی تفصیل دینا اس خیال سے کہ وہ سب کفر میں مبتلا تھے اور ان کی قدیم رسومات شرع و اسلام کے شعار کے خلاف تھیں، اور یہ کہ اکثر حکایات کچھ زیادہ ہی مبالغہ کے ساتھ بیان ہوئی تھیں، اس قدر زیادہ فائدہ مند نہ تھا، لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی صرف مدت حکومت ہی پر اکتفا کیا گیا، تا آنکہ امر سلطنت کو رنتجو کے وجود سے آرائش ملی اور اس شہر میں آغاز اسلام کا زمانہ اسی کا عہد ہے۔ اگر دوسری تواریخ کے برعکس عنان قلم اس شہر کے سلاطین اور علما و سادات اور متقی مشائخ ایسے بزرگان دین کے حالات مفید شرح و بسط سے لکھنے پر مائل ہو تو یہ تاریخ نویسی کے فریضہ کی مراعات سے بعد نہیں ہے۔ واضح ہو کہ عہد رنتجو میں اگرچہ ملک کے تمام باشندے ایک ملت کفر سے وابستہ تھے، تاہم فرقوں کی تعداد اور اختلاف نیز مذاہب کی رنگا رنگی اور کثرت بہت تھی۔ ایک مذہب دوسرے مذہب و عقیدہ کا رد کرتا۔ رنتجو کو اس معاملے میں تردد رہا۔ ہر چند اس نے بہت غور و فکر کیا لیکن صحیح سمیت دکھانے والی ذہانت اور ٹھوس تدبیری کی بنا پر یہاں کا کوئی بھی دین اس کے پسند خاطرانہ ٹھہرا۔ اگرچہ ہر فرقے اور ہر مذہب کے لوگ ’’ کل حزب بما للیہم فرحون‘‘ کے مصداق اپنے مذہب و ملت کے دلائل بہت زیادہ حسن تاویلات اور ترغیب افزا تفصیلات کے ساتھ اس کے سامنے بیان کرتے لیکن اس کی ہمت عالی کو کچھ بھی پسند نہ آیا۔ وہ شب و روز ملل و ادیان کے بارے میں تحقیق و نصیحتیں کرتا رہا۔ اس غم سے اسے ایک لمحہ بھی آرام نہ ملا۔ آخر اس نے خالق کائنات کے حضور، مکرو ریا سے پاک دل کے ساتھ، دست دعا بلند کیا اور سچے دین کے حصول اور آئین مستقیم کے وصول پر سراپا خلوص والی ہمت سے کام لینے لگا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ ساری ساری رات سوز و گداز اور عجز و نیاز میں گزار دیتا، حتیٰ کہ دن چڑھ آتا۔ آخر اچانک ازلی سعادت کے حکم پر اس کے دل میں قضا و قدر نے یہ بات ڈال دی کہ صبح سویرے جو بھی پہلا شخص اسے نظر آئے یہ حیران طالب صادق اس کا دین و ملت اختیار کر لے۔ اس رات اس پر ایک عجیب کیفیت گزر گئی۔ وہ بڑے ہی شوق و شیفتگی کے ساتھ گویا یہ کلام گنگناتا رہا۔ نظم: یا رب امشب را نخواہد بود روز یا مگر شمع فلک رانیست سوز می بسوزم امشب از سودای عشق من ندارم طاقت غوقناے عشق (یا رب! آج کی رات ختم ہو کر دن نہیں چڑھے گا، یا شاید آسمان کی شمع میں تپش نہیں ہے۔ میں آج کی شب سوداے عشق سے جل رہا ہوں مجھ میں عشق کے غوغا کے طاقت نہیں ہے۔) صبح کے وقت وہ بارہ دری میں بیٹھا بڑی جاں کاہی کے ساتھ اللہ کے فضل و عنایت پر دل لگائے ہوئے تھا کہ وہاں سے قبلہ کی سمت اس کی پہلی نظر دریا کی جانب پڑی۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک عالی قدر اور فرشتہ صورت بزرگ پتھر کے مصلے پر، بڑے وقار کے ساتھ، بڑے ادب و احترام سے سنت دین مصطفویہ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بڑے نیاز سے نماز ادا کر رہا ہے۔ اسے یہ برگذیدہ طریقہ بہت پسند آیا۔ وہ اس بزرگوار سے ملاقات کا بیحد شائق و خواہاں ہو کر بے تامل عجلت کے ساتھ اس کی خدمت میں دوڑا۔ ادب آداب کے لوازم ادا کرنے کے بعد اس سے دین و آئین کی حقیقت پوچھی۔ ان حضرت نے ملت مصطفویہؑ کے بارے میں بیان کیا۔ اور شرع کی اساسی باتوں کی توضیح اور اصل و فرع سے متعلق ابتدائی امور مختصراً بیان کرنے کے بعد اسے دین اسلام کی تلقین کی اور پھر اس کی ترغیب کی خاطر حضرت سید البرکات، مضخر کائنات علیہ افضل الصلکوۃ والتسلیمات کے معجزوں کا ذکر کیا، یہاں تک کہ وہ صفائے سینہ اور پاکی اعتقاد کے ساتھ سعادت اسلام سے مشرف ہو گیا اور اسی لمحے اس نے اپنے اہل خانہ کو بھی اسی سعادت سے مشرف کر دیا۔ بیت: از افق مکرمت صبح سعادت دمید دعوت اسلام را وقت اجابت رسید (بزرگی کے افق سے خوش بختی کی صبح طلوع ہوئی۔ دعوت اسلام کی قبولیت کا وقت آ پہنچا) دوسرے روز راون چند، سلطنت کے سرداروں اور عامہ خلائق نے جوق در جوق، بزرگی کے اس پیشوا کے حق پرست ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو کر بزرگی کی خلعت پائی۔ کشمیر میں اسلام کی ابتدا کے بانی: جن حضرت نے ان لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا وہ ہیں قدوۃ الواصلین، امام العارفین، مروج الاسلام، کا سر الاصنام، حق آگاہ، مئوید الدین حضرت بابا بلبل شاہ قدس اللہ سرہ الاقدس، جو اپنے مرشد بزرگوار کے حکم پر، مشہور اور مسلسل جاری روایت کے مطابق، وطن سے نکل کر اسی وقت وہاں حاضر ہو گئے۔ بعض کتابوں میں یہ مرقوم ہے کہ وہ مرشد کے حکم پر اشاعت اسلام کی خاطر، اس دور سے پہلے ہی، سیہہ دیو کے عہد میں کشمیر میں اس امر عظیم کے منتظر تھے۔ بہرحال ان حضرت کے مرشد کے تعین میں اختلاف ہے۔ اکثر ارباب تواریخ ان حضرت کو حضرت شیخ الشیوخ شہاب الحق والملتہ والدین سہروردی قدس سرہ سے منسوب کرتے ہیں بلکہ انہیں ان حضرت کا بنیاد گزار جانتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں شاہ نعمت اللہ ولی کے متوسلین اور فرزندان معنوی میں سے لکھتے ہیں، جو (شاہ نعمت اللہ) حضرت شیخ الشیوخ (سہروردی) کے منسوبین اور مخصوصین میں سے تھے لیکن امتوں کا احقر راقم حروف محمد اعظم کہتا ہے کہ حضرت شیخ الشیوخ کی وفات کا سال، متفقہ طور پر 1234-35/632 ہے، جب کہ حضرت بابا بلبل شاہ کا کشمیر میں ظہور 1325/725 میں ہوا، اس طرح ایک سو تین سال کا درمیانی وقفہ ہے۔ اس لحاظ سے ان (بلبل) کا ان (سہروردی) سے بلا واسطہ توسل بظاہر بعید معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اسلام قبول کرنے کے بعد رنتجو اور اس کے پیروکاروں نے اپنے پیر بزرگوار کے حکم پر دریا کے کنارے ایک خانقاہ تعمیر کی۔ یہ کشمیر میں تعمیر ہونے والی پہلی خانقاہ ہے۔ پھر اس نے چند گاؤں، مطبخ کے اور دوسرے اخراجات کے لیے مقرر کر دیے۔ جب تک کشمیریوں کی بادشاہت قائم رہی یہاں سے بہت سے محتاج اور فقرا بہرہ ور ہوتے رہے اور وظیفہ خوار رہے۔ اسی وجہ سے آن جناب کے مدفن کے محلے کو بلبل لنگر کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی نماز جمعہ اور جماعت کی خاطر ایک جامع مسجد بنوائی جس میں وہ حاضر ہوتا۔ خود وہ اس جگہ رہتا تھا جہاں اب سید السادات حضرت میر ویسی کا مبارک مقبرہ ہے۔ وہاں اس کی ایک بہت اونچی اور پر تکلف حویلی تھی۔ اس گھر اور خانقاہ میں اس نے ’’ دیورہ کنی‘‘ نامی پتھر لگوائے۔ یہ پتھر آج بھی زمین کے نیچے سے نکلتے رہتے ہیں۔ موجودہ خانقاہ بظاہر دوسری مرتبہ کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد مذکورہ جامع مسجد جل گئی۔ اور اس جگہ چھوٹی مسجد تعمیر کی گئی، جس میں پہلی مسجد کے پتھر نمایاں ہیں۔ یہ مسجد رنتجو شاہ کے نام سے مشہور اور آج بھی آباد ہے۔ لوگ پانچ وقت اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ رنتجو کی مدت حکومت اڑھائی سال ہے۔ بعض کے نزدیک اس نے 1327/727 میں ’’ کل نفس ذائقہ الموت‘‘ 37؎ کا شربت پیا اور دار الفنا سے دار البقا کو سدھار گیا۔ کیا کہنے ہیں اس زندگی کے اور کیا کہنے ہیں اس رحلت کے کہ ’’ من سن سنتہ حسنتہ‘‘ 39؎کے بموجب دائمی ثواب اپنے ساتھ لے گیا اور سنت اسلام کی بنیاد اس شہر میں مستحکم کر کے اپنے خدا سے جا ملا۔ اس کی قبر خانقاہ کے جنوب کی جانب حضرت بابا کے مزار کے چبوترے سے باہر واقع ہے۔ حضرت شیخ الانام سراج الاسلام کے مختصر حالات واضح ہو کہ جناب حضرت بابا کو بعض نے تو شاہ بلبل سے موسوم کیا ہے اور بعض کے نزدیک ان کا نام شاہ بلال تھا۔ وہ ظاہر و باطن کے علوم و فنون کے عالم تھے۔ انہوں نے سیاحت بہت کی۔ ظاہر و باطن میں انہوں نے تجرد اختیار کیے رکھا۔ کہتے ہیں کہ ان کا اصلی نام سید شرف الدین ہے۔ اپنے وقت کے کامل ترین عارف اور تجرد توکل میں نادرہ روزگار تھے۔ مشہور ہے کہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حق تعالیٰ نے یہ قدرت عطا کی ہے کہ میں کسی خوراک اور اسباب زندگی کے بغیر زندگی بسر کروں، اور روح کا سلسلہ منقطع ہوئے بغیر میں اسی بدن کے ساتھ دار البقا کو کوچ کر جاؤں، اور ابد الاباد تک اسی بدن کی حفاظت کر سکتا ہوں، لیکن چونکہ یہ تینوں باتیں سنت نبویؐ کے موافق نہیں ہیں، اس لیے میں ان کا ارتکاب نہیں کرتا۔ سنت کی اطاعت و اقامت، میرے نزدیک، خلاف سنت ہزاروں کرامتوں اور عبارتوں سے افضل ہے۔ کھانے پینے اور اوقات کی پابندی کے معاملے میں حد سے زیادہ احتیاط سے کام لیتے۔ 1327/727 میں دار لجنان (جنتوں کے گھر) کو رحلت کر گئے۔ انہوں نے بڑے انکسار کے ساتھ اپنا مدفن اپنے رفیق مولانا احمد علامہ قدس سرہ کی قبر کے عقب میں مقرر کیا۔ حضرت بابا کے یہ حالات لکھتے وقت ان جناب کی تاریخ وصال اس احقر کے دل میں، کہ ان کی ہمسایگی میں پرورش پانے والوں میں سے ہے، القا ہوئی (اور وہ تاریخ ہے) ’’خاص الہ ‘‘ چونکہ آج تک کسی نے ان کی تاریخ نہیں کہی، اس لیے اپنی سعادت کی خاطر اور وسیلے اور شفاعت کے لیے میں نے یہ تاریخ رقم کر دی۔ تاریخ: سال تاریخ وصل حضرت شاہ بلبل قدس گفت خاص الہ (حضرت شاہ کے وصال کی تاریخ، بلبل قدس نے ’’ خاص اللہ‘‘ 727کہی) اللہ تعالیٰ ان سے پورے طور پر راضی ہو اور انہیں سب سے اچھی جزا سے نوازے۔ حضرت بابا بلبل کی قبر دریائے بھت کی جانب مشرق میں پتھر کی تربت پر واقع ہے اور مولانا کی قبر اس کے سامنے جبکہ قبور اصحاب اور بعض معتقد امرا وغیرہ کی قبریں مزار سے بلندی پر واقع ہیں۔ ان کے ملفوظات کا کچھ انتخاب۔ جب تک دل خالص اور زبان سالم، سالک کے رہنما نہ ہوں اس وقت تک اس راستے کے غول سے ایک منزل تک بھی پہنچنے نہیں دیتے۔ انہوں نے فرمایا کہ حرام سے اسی طرح دور رہنا چاہئے جس طرح کوہسار میں سانپ سے، اور شبہ سے بھاگنا چاہیے جس طرح بازار کے مردار سے (بھاگا جاتا ہے) حلال سے بس اسی قدر کھانا چاہیے جس قدر اضطراب میں بھوک دور کرنے کی خاطر مردار کھایا جاتا ہے۔ متقی جب تک بعض حلال اشیاء سے پرہیز نہ کرے وہ شبہ اور حرام سے بچ نہیں سکتا۔ حضرت شیخ مظہر کرامات اور بحر کمالات تھے۔ اظہار (کمالات) کی طرف کم ہی مائل ہوتے۔ تمام اہل کشمیر پر اس آفتاب ضمیر پیر کے حقوق ثابت و واجب ہیں، جن میں سے کچھ کا ادا کرنا اس طرح ہے کہ ان کے لیے دعا و فاتحہ پڑھیں۔ اور رینجن شاہ کو بھی جو اہل کشمیر میں اشاعت اسلام کا باعث بنا، اس کی اولیت کے باعث، فاتحہ اور نیکیوں سے یاد کریں۔ ’’ السابقون السابقون الئک المقربون‘‘ 41؎ بعض تاریخوں میں یہ آیا ہے کہ اس رینجن شاہ کو جناب بابا نے ’’ سلطان صدر الدین‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا تھا۔ واضح ہو کہ رینجن شاہ کے بعد اس کی منکوحہ رامچند کی بیٹی نے جس کا نام ’’ کوتہ رین‘‘ تھا سیہ دیو کے بھائی اودین کو جو زولجو کے خطرات میں فرار ہو گیا تھا، بڑی بستی سے طلب کر کے اس سے شادی کر لی اور حکمرانی اور رعیت پروری میں مصروف ہو گئی۔ اس نے دو آدمیوں کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا۔ ایک تو شہمیر کو جس کا اوپر ذکر آ چکا ہے اور دوسرے یجی بٹ کا کاپوری کو، جو اس زمانے کے سرداروں میں سے تھا۔ رینجو (گزا) کے بیٹے حیدر خان نے مذکورہ یجہ بٹ سے تربیت و پرورش پائی۔ انہی دنوں اور دن نامی ایک صاحب حشم و جاہ ترک ہیرہ پور کے راستے سے ولایت کشمیر میں داخل ہوا۔ اس نے یہاں کے حکام میں خلل ڈالا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کشمیر کے پرگنہ جات میں جس کسی کو موقع ہاتھ لگا اس نے خود مختار حکومت قائم کر لی تھی۔ کوتہ رین نے نیک اندیشی اور دور بینی کی بنا پر گنہ جات کے ایسے آزاد حکمرانوں کو خطوط لکھے کہ بے اتفاقی کی صورت میں دشمن سے ہزیمت بھی یقینی ہے اور یہ اہل و عیال کی بربادی اور بدنامی کا باعث بھی جیسا کہ کچھ ہی عرصہ قبل زولجو کے ہاتھوں بہت کچھ ہم پر بیت چکا ہے۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ باہم متفق ہو کر ہم مخالف قوم کو جنگ کے صدمے سے یہاں سے بھگا دیں۔ پھر جس طرح بھی زندگی بسر ہو، ٹھیک ہے وگرنہ تمام ملک کو فتنہ و فساد سے دو چار کرنا، خود کو ہلاکت میں ڈالنا اور اپنی آبرو گنوانا مردوں کا کام نہیں ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اطراف کے تمام قابضین پر گنہ جات کیا اوباش اور کیا شریف سبھی نے اس کی اس تجویز پر اتفاق کیا اور جنگ و جدال سے مذکورہ ترک کو زیر کر کے صلح کے ساتھ اس شہر سے باہر نکال دیا اور کوتہ رین، اودین دیو کو، جو اس ترک کی آمد پر بے حسی اور بے شرمی کے سبب فرار ہو گیا تھا، تبت سے واپس لے آئی، تاہم اب اسے وہ عزت و تمکین نہ ملی جو اسے اس سے پہلے حاصل تھی۔ اکثر امور مملکت شہمیز کے مشورے سے انجام پاتے تھے، خاص طور پر اسی ترک کے اخراج کے سلسلے میں شہمیر ایسے صاحب تدبیر نادرہ ہی کی صوبدید پر کوتہ رین کو کامیابی میسر آئی۔ مصراع: نہ ہر زن زنست و نہ ہر مرد مرد (نہ ہر عورت، عورت ہے اور نہ ہر مرد، مرد ہے) اس اثنا میں1341-4/742میں گردش فلک سے اودین کا جام حیات الٹ گیا۔ اس کی کل مدت حکومت پندرہ سال دو ماہ اور دو دن بنتی ہے اس کے بعد کوتہ رین اندر کوٹ کی طرف چلی گئی جہاں مذکورہ دونوں بھائیوں کے ساتھ مل کر بادشاہت کرتی رہی۔ اس دوران میں شہمیر کو اپنے جد بزرگوار کی بات یاد آئی اور اس نے ملک پر قبضے کا ارادہ کیا۔ ساتھ ہی اس نے کوتہ رین کو شادی کا پیغام دے دیا، لیکن چونکہ وہ اس کا کوکہ اور رضاعی بھائی تھا۔ اس لیے اس نے انکار کر دیا، جس پر شہمیر نے لشکر کشی کر دی اور مردان کار کو اپنے ساتھ ملا کر کوتہ رین کو اندر کوٹ میں محبوس کر دیا، جب کہ اس کا بھائی راون چند قضائے الٰہی سے وفات پا گیا۔ اس (شہمیر) نے یجہ بٹ کا کاپوری کو، جو صاحب جاہ و حشم تھا اور اطاعت قبول نہیں کر رہا تھا، جان سے مار ڈالا اور شہر میں داخل ہو گیا۔ چونکہ لوگ اس کے حسن سلوک سے خوش تھے اس لیے بے چون و چرا اس کے مطیع و منقاد ہو گئے۔ کوتہ رین بہت تھوڑے آدمیوں کے ساتھ اندر کوٹ میں رہ گئی۔ شہمیر نے اسے زبردستی نکاح پر راضی کر لیا۔ اس بے لطفی کے سبب، جو باعث غیرت و عبرت ہے، کوتہ رین کی موت واقع ہو گئی۔ مشہور ہے کہ صبح سویرے اس نے خود کو خنجر سے ہلاک کر ڈالا۔ بیت: از انقلاب زمانہ عجب مدار کہ چرخ ازین فسانہ ہزاران ہزار آرد یاد (زمانے کے انقلاب پر تعجب نہ کر کیونکہ آسمان کو اس قسم کے ہزاروں افسانے یاد ہیں) اور یہ بھی مشہورہے کہ مجلس عروسی میں آ کر، جو بڑی زیب و زینت سے آراستہ کی گئی تھی، اس نے اپنے پیٹ میں چھری گھونپ لی، اور آنتیں باہر نکال کر شہمیر کے سامنے پھینکتے ہوئے بولی کہ میری قبولیت یہ ہے، اور اسی لمحہ جاں بحق ہو گئی۔ واللہ اعلم اس وقت اس نے گویا زبان حال سے اس شاہ خاطب (شوہر، عورت کا آرزو مند) کو اس برمحل شعر کے ساتھ خطاب کیا۔ بیت: آن قدر باش کہ تا از سر جان بر خیزم چون بخم خانہ ام ای بندہ نواز آمدہ ای45؎ (اے بندہ نواز جب تو میرے خمخانہ میں آ گیا ہے تو اس قدر تو رک جا کہ میں اپنی جان قربان کر دوں) خالق قدیر کا برگزیدہ شہمیر بحکم خالق قدیر کسی تردد و تشویر کے بغیر 1342-3/743 میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس نے خود کو ’’ سلطان شمس الدین‘‘ کے الفاظ سے ملقب کیا۔ا س نے تین برس اور پانچ ماہ حکومت کی۔ وہ سلاطین کشمیر کا، جو دو سو برس سے زیادہ کا عرصہ استقلال و اتمام کے ساتھ کامران و کار فرما رہے اور جنہوں نے سلطنت کے بندوبست کے ساتھ ساتھ دین و ملت کی بھی ترویج کی، جد بزرگوار ہے 1346/747 میں ساقی اجل نے اسے شراب حسرت کا جام پلایا اور اس کے نفس نفیسہ نے ’’ ارجعی‘‘ کی آواز پر ’’ لبیک‘‘ کہتے ہوئے اپنے لاشے کو سلا دیا۔ اس کے دو بیٹے تھے ایک سلطان جمشید اور دوسرا سلطان علی شیر مشہور بہ سلطان علاء الدین۔ باپ کی وفات کے بعد جمشید تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس نے ابھی ایک سال دو ماہ حکومت کی تھی کہ اس کے بھائی علی شیر نے سرکشی اختیار کی اور دونوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ آخر زینہ پور کے مقام پر جہاں لڑائی شروع تھی، جمشید اپنے بھائی کے ہاتھوں مارا گیا۔ یہ واقعہ 1347/478 میں رونما ہوا۔ اس کے عہد سلطنت میں خلاص من، پلاسمن اور یاسمن نامی تین بھائی تھے جنہوں نے ظہور اسلام کے زمانے میں ریشیوں کی طرح ریاضت و مجاہدہ کے علم بلند کیے تھے۔ ان تینوں نے بہت زیادہ ریاضت و عبادت سے خود کو دوسرے صلحا سے ممتاز کر لیا تھا۔ تینوں میں بڑا خلاص من تھا۔ اس نے طویل عمر پائی۔ وہ کبھی حرص و ہوا کی راہ پر نہ چلا اس کی داڑھی کا ایک بھی بال سفید نہ ہوا۔ اس کے بعد پلاسمن تھا۔ا س کی عمر تین دن کے قریب (کذا) تھی۔ اس کے تھوڑے سے بال سفید ہوئے۔ اس نے اپنے بھائی کی طرح مستقیم الحال زندگی بسر کی۔ اس کے بعد یاسمن تھا۔ اس کے بال بھی سفید ہو گئے تھے اور اس کی عمر بھی کم رہی ایک مشہور قصے کے مطابق وہ نندی نام کی ایک رنڈی دام فریب میں پھنس گیا۔ بیت: این بار غم عشق کہ برداشتہ ایم حقا کہا گر کوہ بوداز کمر افند (غم عشق کا جو بوجھ ہم نے اٹھایا ہے، بخدا اگر پہاڑ بھی ہو تو اس بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹ جائے) آخر کار وہ تائب ہو گیا اور نندی کو بھی راہ حق پر لے آیا۔ سلطان علاء الدینجس کا نام علی شیر تھا، مذکورہ سال اپنے بھائی کو قتل کر کے تخت سلطنت پر کامیابی کے ساتھ بیٹھا۔ علاء الدین پورہ اس کا آباد کردہ ہے۔ چونکہ اسے باپ کی نسبت زیادہ مہلت نہ ملی، اس لیے اس نے اصلاح امور میں تیزی سے کام لیا اور شہر کی کسی حد تک تعمیر و آبادی بھی کی جو زولجو کے عہد میں ویران ہو گیا تھا۔ 1357/758 میں ایک بیماری سے وفات پا گیا۔ اس کی قبر محلہ علاء الدین پورہ میں ہے۔ جہاں اب گنتی کی چند قبریں رہ گئی ہیں۔ اس سے کوئی پانچ چھ گز کے فاصلے پر حمام کی بھٹی ہے اور محلے کی عام سرمائی مسجد ہے۔ یہ جگہ اب مقام حسرت اور جائے عبرت ہے۔ اس کی مدت حکومت بارہ سال اور آٹھ ماہ ہے ’’ کل نفس ذائقہ الموت‘‘ 46؎سن کر وہ اپنے اصلی مقام کو کوچ کر گیا۔ سلطان شہاب الدین سلطان علاء الدین کا بیٹا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد امرائے نامدار کے مشورے پر تخت نشین ہوا۔ تخت نشینی سے قبل، اپنے علی قدر باپ کے زمانے میں ایک مرتبہ شکار کی خاطر کسی جنگل میں گیا ہوا تھا۔ وہاں کسی مجذوب سے اس نے دودھ کے دو پیالے پیے اور سلطنت کی بشارت پائی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس مجذوبہ کے دو ساتھی تھے، ایک چندر دادا اور دوسرا شہ راول۔ اس مجذوبہ نے دونوں کو دستور کے مطابق دودھ کا حصہ دیا اور انہیں وزارت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس خبر کی صحت کی علامت یہ ہے کہ سلطان، جسے دودھ کا حصہ نہیں ملا،(بیٹے کے) گھر پہنچنے سے پہلے مر جائے گا۔ مختصر یہ کہ جب وہ عالی قدر باپ کی وفات کے بعد سریر سلطنت اور تخت بادشاہی پر بیٹھا اور وزارت کی ذمے داری اس نے دونوں رفیقوں کے سپرد کی تو امور ملکی کی تدبیر میں وہ اور شہ راول پیش پیش تھے۔ رسوم سلطنت کے اکثر امور اور باج و خراج کے مقدمات اسی کے مقرر کردہ ہیں جو مغلیہ سلاطین کے دور میں دو سال تک قائم رہے۔ واضح رہے کہ سلطان شہاب الدین نے کچھ اس طرح حکمرانی کی اور ضبط و ربط اور قلعوں اور شہروں کی فتح و تسخیر کچھ اس ڈھنگ سے کی کہ ماضی و حال کے مورخین نے اس خوف سے کہ کہیں ان پر مبالغہ آرائی کی تہمت نہ لگے، اس کی تحریر سے ہاتھ اٹھائے رکھا،ا ور اس کی تفصیل سے قلم کو روکے رکھا۔ اس کے دور میں جو انوکھے، نادر اور عجیب و غریب امور و واقعات ظہور پذیر ہوئے، ان کی بنا پر اس کا عہد عجائب روزگار اور غرائب زمانہ میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے انیس برس حکومت کی۔ پرگنہ جات میں ہونے والے انتشار و اختلال کی اصلاح کی اور سرکشوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اہل تاریخ کے مطابق جب اسے کشمیر کے نظم و نسق کے متعلق اطمینان ہو گیا تو وہ پچاس ہزار سوار اور پانچ لاکھ پیادہ فوج لے کر نعمان اور کابل پر قبضہ کیا اور بدخشاں کی تسخیر کی۔ وہاں سے وہ تبت کی طرف بڑھا جو اس وقت بادشاہ کاشغر کے قبضے میں تھا۔ بڑی بڑی جنگوں کے بعد، جن میں تخربہ کار آدمی کام آئے، وہ تبت کو اپنی کمند تصرف میں لے آیا۔ پھر کشتوار اور نگر کوٹ پر قبضہ کرتے ہوئے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا۔ ان دنوں فیروز شاہ دہلی کا بادشاہ تھا۔ اس نے لشکر کشی کرتے ہوئے سلطان کے ساتھ بڑی بڑی لڑائیاں لڑیں۔ دونوں طرف سے شجاعت و دلاوری کے اظہار میں کوئی کوتاہی نہ ہوئی۔ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے پر غالب نہ آ سکا۔ آخر اس امر پر صلح ہوئی کہ سرہند شریف سے لے کر کشمیر تک کا علاقہ سلطان شہاب الدین کے پاس اور اس طرف کا علاقہ فیروز شاہ کے قبضے میں رہے گا۔ اس صلح کے بعد سلطان کشمیر کو لوٹ گیا۔ اکثر مورخین نے یہ حکایت قلم بند کی ہے لیکن حالات فیروز شاہ پر مشتمل تاریخ دہلی کے مولف نے اس قصے کی طرف قطعاً اعتنا نہیں کی۔ بہرحال واپسی پر اس نے شہاب الدین پورہ کو اپنا پایہ تخت مقرر کیا، یہاں اس نے ایک بڑی جامع مسجد بنوائی، جس کی بنیاد ابھی تک قائم ہے، البتہ پائے تخت کے آثار میں سے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ سلطان نے بہت سے بت خانے منہدم کر دئیے اور بجبارہ کے بت خانے کو جو سب سے بڑا تھا، ویران کر کے کفر کی تذلیل کا سامان کای۔ 1378/780 میں اجل کے لشکر نے سلطان کے شہر ستان وجود پر حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں اس کی آرام گاہ دریائے بھٹ کے کنارے محلہ بلدیمر میں قائم ہوئی بعد میں سلطان زین العابدین کا مزار اس کے جوار میں تعمیر ہوا۔ شہاب الدین کی قبر پر ایک بلند گنبد تعمیر کیا گیا۔ اب لوگوں کی عمارات کی تعمیر کے سبب مزار کے تمام اطراف ان کے نیچے آ گئے ہیں اور گنبد کی جگہ کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اور گنبد کا ایک حصہ بھی گر چکا ہے۔ عارفہ کاملہ للہ مجذوبہ کا ذکر اس کا تعلق سلطان علاء الدین کے عہد سے ہے۔ شروع شروع میں وہ ایک شخص کے عقد نکاح میں مقید اور اہل و عیال کے جنجال میں گرفتار تھی۔ اسی اثنا میں جذبہ الٰہی اس پر طاری ہو گیا جس کی وجہ سے اس نے ترک دنیا اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ تک تو اس نے خفیہ طور پر ایسی زندگی بسر کی اور اس درد مند مجذوبہ کے کسی بھی عزیز اور رشتہ دار کو اس کے اس باطنی انقلاب کا علم نہ ہو سکا۔ اتفاق سے ایک روز پانی کا بھرا ہوا برتن اپنے شوریدہ سر پر رکھے گھر لا رہی تھی کہ اس کے شوہر نے جو کبھی کبھی اس کی حرکات پر نکتہ چینی کیا کرتا تھا، لکڑی سے وہ برتن توڑ ڈالا۔ پانی اس خانہ خراب مجذوبہ کے سر پر معلق ہو کر رہ گیا اور اسی نے اسی پانی سے گھر کے سارے برتن بھر لیے اور پانی صحرا میں پھینک دیا، جس سے ایک بہت بڑا تالاب بن گیا۔ اس حرکت سے اس کی شہرت ہو گئی۔ آخر خانہ داری سے اس نے منہ پھیر لیا اور لوگوں کی آنکھوں کا مرجع بن گئی۔ اس تنگ دلی سے اس نے صحرائے جنوں کا رخ کیا اور عریان و گریاں، برف و باراں میں، کچھ کھائے پئے بغیر اور دل بے تاب و چشم پر آب کے ساتھ، بیابان میں گھومنے پھرنے لگی۔ بیت: بے بدرقہ لطف چنین نتوان رفت زیرا کہ درین بادیہ باشد خطرے چند (لطف و کرم کی رہنمائی کے بغیر اس طرح چلا نہیں جا سکتا، کیونکہ اس بیابان میں کچھ خطرات ہیں) وہ سلطان شہاب الدین کے عہد میں دنیا سے کوچ کر گئی۔ اس مجذوبہ محبوبہ کی رحلت کی کیفیت مختلف بیان کی جاتی ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ جہاں اب بجبارہ کی جامع مسجد کا گوشہ ہے، اس جگہ اس کے انتقال کی گھڑی آ پہنچی سانس ختم ہوتے ہی اس کا بدن عنصری، روح کی مانند آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور ہوا میں ایک شعلہ سا چمک جانے کے سوا، وہاں موجود لوگوں کو، اور کچھ نظر نہ آیا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اور باتیں بیان کی جاتی ہیں۔(مثلاً یہ کہ اس موقع پر) اس نے مٹی کے دو برتن منگوائے اور کہا کہ ہم ابھی غائب ہو جائیں گے۔ پھر وہ دونوں برتن ایک دوسرے پر رکھے اور خود ان کے درمیان آ گئی۔ جب ایک برتن اٹھایا گیا تو وہ کہیں بھی نظر نہ آئی۔ ارباب تحقیق کے نزدیک حضرت قطب ربانی علی ثانی رضی اللہ عنہ کے ایام نزول میں اس کی موجودگی کا قصہ ثابت نہیں ہوا۔ دوسرے برکات و فیوضات، جنہوں نے سلطان شہاب الدین کے زمانے میں کشمیر کو شرف و افتخار بخشا، یہ ہیں کہ درگاہ ربانی کے مقرب اور عارف سبحانی جناب سید حسین سمنانی، سادات کرام کے دوسرے بزرگوں کے ہمراہ، جنہیں آنجناب سے پوری پوری قرابت تھی، حضرت علی ثانی کے حکم پر شاہ کی سیرت و ملت کے احوال اور راستے کی تحقیق کی خاطر کشمیر تشریف لائے۔ا س واقع کی کیفیت آئندہ صفحات میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کی جائے گی۔ سلطان قطب الدین سلطان شہاب الدین کا بھائی تھا۔ 48 1368-91/770؎ میں سریر آرائے سلطنت ہوا۔ اس نے مخلوق پر فتنہ و فساد کے دروازے بالکل بند کر دیے۔ اس نے اس مقام کو اپنا تخت قرار دیا۔ جو قطب الدین پورہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے مخلوق خدا کے ساتھ لطف و کرم اور احسان کی حقیقی بنیاد رکھی۔ شاہی مصروفیات کے باوصف وہ بہت سے علمی کمالات سے آراستہ تھا۔ اکثر شعر بھی کہتا۔ اس کے چند اشعار ای بگرد شمع رویت عالمی پروانہ ای وزلب شیرین تو شوریست در ہر خانہ ای من پحندین آشنائی می خورم خون جگر آشنارا حال اینست دای بر بیگانہ ای قطب مسکین گر گناہی میکند عیبش مکن عیب نبود گر گنا ہے می کند دیوانہ ای (اے کہ تیرے چہرے کی شمع کے گرد ایک دنیا پروانہ دار چکر کاٹ رہی ہے اور تیرے شیریں ہونٹوں کے ہاتھوں ہر ہر گھر میں شور برپا ہے۔ میں اس قدر آشنائی کے باوصف خون جگر پی رہا ہوں۔ جب آشنا کا یہ حال ہے تو بیگانے کی حالت تو قابل افسوس ہو گی۔ اگر مسکین قطب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کی برائی نہ کر، اگر کوئی دیوانہ کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ برائی نہیں ہے) اس نے سولہ برس تک حکومت کی۔ 1394/796 میں وہ طبعی موت مرا۔ اس کی آرام گاہ جامع مسجد کلاں کے قرب میں اور اس ندی کے نزدیک واقع ہے جسے اب یاجہ کہتے ہیں۔ یہ جگہ مزار شاہ قطب الدین کے نام سے بھی مشہور و معروف ہے۔ وہ سرکنڈے کے درمیان قبلہ رو مدفون ہے۔ اس کا احاطہ پتھر کا تھا۔ مزار کا بیشتر حصہ اب پامال ہو چکا ہے، سوائے اس کی قبر کے جو بلندی پر واقع ہے۔ اس کے مبارک زمانے میں جن خدائی برکات و عطیات خاص سے کشمیر نوازا گیا، ان میں عالی پناہ، نبوت انتساب، سیادت مرتبت، قطب الاولیا، محبوب سبحانی حضرت سید علی ہمدانی کی پر سعادت تشریف آوری ہے، اللہ ان کے مرقد کو منور فرمائے۔ انہوں نے 1379/781 میں کشمیر جنت نظیر میں نزول اجلال فرمایا۔ ان کے مقدم شریف کی تاریخ ’’ مقدم شریف او‘‘ (781) کے الفاظ سے نکلتی ہے۔ جناب حضرت سید محمد خاوری نے جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا، آنحضرت سید سادات کی تشریف آوری کے بارے میں مصری سے بھی زیادہ شیریں اشعار کہے ہیں۔ قطع: میر سید علی شہ ہمدان سیر اقلیم سعہ کردہ نکو شد مشرف ز مقدمش کشمیر اہل آن شہراز ہدایت جو سال تاریخ مقدم او را یابی از مقدم شریف او (آپ کی تشریف آوری سے کشمیر کو شرف حاصل ہوا۔ اس شہر کے لوگ ہدایت کی تلاش میں تھے آپ کی تشریف آوری کی تاریخ تجھے ’’ مقدم شریف او‘‘ (یعنی ان کا مقدم شریف ) میں ملے گی) یہ بات محض ہو چکی ہے کہ کوئی سات سو کے قریب رفقا، سادات اور خادم آنجناب کے ہمراہ تھے۔ اس ملک کے خاص و عام کی انہوں نے رشد و ہدایت سے رہنمائی کی۔ محلہ علاء الدین کی ایک سرائے میں، جو ان دنوں وہاں موجود تھی، جناب آنحضرت فروکش ہوئے۔ دریائے بھٹ کے کنارے پانچ وقتوں کے لیے انہوں نے ایک مربع چبوترا آراستہ کر رکھا تھا۔ جس پر نماز پڑھا کرتے۔ سلطان وقت پورے اخلاص و عقیدت کے ساتھ عالی مقام خدام کی خدمت میں حاضر ہوتا، ارادت و محبت کے آداب بجا لاتا، اور آنجناب سے پند و نصائح سن کر ان پر عمل پیرا ہوتا، چنانچہ اپنی لا علمی کے سبب اس نے جن دو بہنوں کو بیک وقت اپنے عقد نکاح میں لا رکھا تھا ان میں سے (ایک کا) نکاح نسخ کر دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں شریعت محمدیؐ کا علم ابھی کمتر پھیلا تھا، مسلمان بھی کم تھے اور اسلام و شریعت کے احکام ابھی بخوبی رائج نہ ہوئے تھے۔ خود سلطان کافروں کا لباس پہنا کرتا۔ اس نے حضرت سید کے امرونہی پر یہ سب کچھ ترک کر دیا۔ وہ آنحضرت کے نصائح و احکام دل و جان سے بجا لاتا۔ جناب سیادت دستگاہ، قطب الاولیا (علی ہمدانی) نے شاہ قطب الدین کو بڑے لطف و کرم سے کلاہ مبارک عطا فرمائی تھی۔ جسے سلطان نے بڑے ادب و احترام سے لے کر تعظیم و تکریم کے طور پر اپنے تاج میں رکھ لیا۔ اور یہ رسم اور برکت فتح شاہ کے آخر سلطنت تک ان کی اولاد میں قائم رہی۔ فتح شاہ نے وہ ٹوپی اپنے کفن میں رکھی اور اپنے عہد کے علامہ و عارف مولانا آنی کی خدمت میں لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ برکت اور سلطنت زیر زمین لے جا۔ اس کے بعد قطب الدین کی اولاد کی بادشاہت خلل کا شکار ہو گئی اور رفتہ رفتہ اس حد تک پہنچ گئی کہ قوم چک کو منتقل ہو گئی۔ یہ تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی۔ قدیم کتب تاریخ میں آنحضرت (علی ہمدانی) کے قدوم مبارک کی تاریخ 1379/781 اور واپس چلے جانے کی تاریخ 1384/786مذکور ہے، تاہم کوئی بھی اس امر کا قائل نہیں ہے کہ آنجناب نے پانچ چھ برس کشمیر میں توقف کیا ہو۔ لہٰذا عقل کا فیصلہ ان کے چند مرتبہ درود پر ٹھہرتا ہے۔ جیسا کہ مشہور ہے انہوں نے تین سال اس شہر کو اپنے مقدم مبارک سے نوازا۔ آنحضرت کی ربع مسکون (دنیا) کی تین مرتبہ سیاحت اس بات کی تائید کرتی ہے۔ قاضی ابراہیم ولد حمید الدین نے جو اس عہد کے قریب کا مورخ ہے، اپنی تاریخ میں یہ بات لکھی ہے۔ بہرحال چبوترے کے اوپر، جہاں اس وقت حجرہ خاص ہے، اکثر اوقات سکونت فرماتے۔ کہتے ہیں کہ حضرت وہاں ’’ تجلی ذات‘‘ سے مشرف تھے۔ جب اس شہر سے کوچ کا ارادہ ہوا تو سلطان قطب الدین کی التماس پر مولانا محمد قاری کو جو حضرت کے ہمراہ تھے وہیں اقامت کا حکم فرما دیا۔ جب پایہ تخت پہنچے تو ’’ یایھا النفس المطمئنۃ ارجعلی الی ربک ‘‘ کی آواز کانوں میں پڑ گئی اور ان کی ولایت بخش روح کا پرندہ عرش الٰہی کے سائے میں پرواز کر گیا۔ ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ 49؎1385/786ششم ذی الحجہ کو نزع کے وقت چونکہ زبان مبارک پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ تھے، اس لیے یہی الفاظ تاریخ رحلت ٹھہرے۔ شیخ محمد بسرا الشی نے جو اپنے وقت کے صلحا اور بلغا میں سے تھے، یہ تاریخ کہی۔ قطعہ تاریخ: مفخر عارفان شہ ہمدان کز دمش باغ معرفت بشگفت مظہر نور حق کہ رویش را عاقبت از جہانیان بنہفت عقل تاریخ سال رحلت او سید ما علی ثانی گفت (شاہ ہمدان عارفوں کے لیے باعث فخر تھے، جن کے دم سے معرفت کا باغ کھل اٹھا، آپ نور حق کے مظہر تھے جنہوں نے آخر کار اپنا چہرہ اہل دنیا سے چھپا لیا، عقل نے آپ کے سال رحلت کی تاریخ ’’ سید ما علی ثانی‘‘ (786ھ) بتائی۔ حضر کی میت کے دفن کے سلسلے میں کشمیر کے لوگوں، طواف کرنے والوں اور والی پکھلی سلطان محمد کے درمیان نزاع پیدا ہو گیا۔ ہر گروہ اپنے یہاں (دفنانے کا) خواہاں تھا غسل اور نماز جنازہ کے بعد شیخ قوام الدین بدخشی نے جو محرمان خاص اور خاص الخاص خادموں سے تھے، کہا کہ جو بھی جماعت تابوت مبارک اٹھا سکے وہ اپنی طرف لے جائے۔ ہر جماعت نے کوشش کی لیکن کوئی بھی اٹھا نہ سکی البتہ شیخ قوام الدین نے اکیلے ہی اٹھا لیا، لہٰذا خادم نعش مبارک کو سواد کبر اور کوہستان چرار کے راستے سے ختلان لے گئے اور پانچویں جمادی الاخری کو دفن کر دی اور یہ جگہ زیار ت گاہ عالم و عالمیاں بن گئی۔ اجازت کے وقت جو پرچم حضرت شیخ محمد از کافی سے تبرک کے طور پر حاصل کیا اور جو چند مرتبہ حرمین میں حضرت کے ساتھ پہنچا تھا، کشمیر میں سفر کے وقت لدی ماکری کے سپرد کر کے اسے (لدی کو) علمدار بنا دیا تھا۔ جب آنحضرت کی وفات ہوئی تو ملک دیوی گناہی، لدی ماکری سے مل کر وہ علم کشمیر لے آیا۔ انہوں نے یہ علم چبوترے کے اوپر رکھ دیا جہاں اب حجرہ خاص ہے۔ سلطان قطب الدین اور اکثر امرا وغیرہ اس کی زیارت کی خاطر اس چبوترے پر آتے رہتے۔ آنحضرت کا کتابخانہ سلطان کی التماس پر حضرت مولانا احمد کو بھجوا دیا گیا۔ آنحضرت کے ظاہری و باطنی کمالات ان کے مشہور کمالات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ خانقاہ معلیی کی کیفیت تعمیر کو ’’ ثمرات‘‘ میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس کتاب (تاریخ اعظمی) میں بھی اپنے اپنے مقام پر یہ کیفیت مرقوم ہو گی۔ جب سے یہ جگہ آنجناب کی پانچ وقتی عبادت گاہ بنی اس وقت سے وہ آباد اور زیارت گاہ خاص و عام ہے اور اب تک کئی مرتبہ اس کی تعمیر نو ہو چکی ہے اور اس شہر کی نادر عمارتوں میں سے ہے۔ بیت: بر زمینی کہ نشان کف پای تو بود سالھا سجدہ صاحب نظران خواہد بود (جس زمین پر تیرے پاؤں کے نشان ہونگے وہ برسوں اہل نظر کی سجدہ گاہ بنی رہے گی) حضرت میر کبیر کا نسب اس طرح ہے: جناب امیر کبیر ابن میر شہاب الدین ابن میر سید محمد ابن سید علی ابن سید یوسف ابن سید شرف الدین ابن سید محب اللہ ابن سید محمد ثانی ابن سید جعفر ابن سید عبداللہ ابن سید محمد اول ابن سید علی حسن ابن سید حسین ابن سید جعفر محمد ابن سید عبداللہ زاہد ابن سید حسین ابن امام ہمام زین العابدین بن علی الحسین السید الشہد رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ چونکہ اس کتاب کی تحریر کا اصلی مقصد حضرات سادات عظام اور مشائخ کرام کا ذکر ہے اس لیے مناسب یہ ہے کہ حتی المقدور ان کے ذکر سے اس سراپا صدق کتاب کو زینت بخشی جائے: رباعی: آن جمع کہ ہستند شہ و شاہ نشان غم خوارہ و غم خورندہ درویشان خواہی کہ کمال قدر ایشان دانی دریاب زحال خلفای ایشان (وہ جماعت یعنی وہ حضرات جو بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کو (تخت پر) بٹھانے والے ہیں، جو درویشوں کے غم خوار اور ہمدرد ہیں، اگر تو ان کے کمال قدر کے جاننے کا خواہاں ہے تو ان کے خلفا کے حال سے جان لے) سلطان کے زمانے میں جو عالی مقام حضرات سادات کشمیر میں مسند ہدایت کو زینت بخشنے والے تھے، ان کا ذکر اجمال کے طور پر کیا جاتا تھا۔ اس دور کے صوفیا مقرب بارگاہ ربانی حضرت میر سید حسین سامانی بعض نے انہیں سامانی کی بجائے سمنانی لکھا ہے۔ سمنان، ایران کا ایک شہر ہے۔ آپ کی اصل ہرات سے ہے۔ دگرگوں ملکی حالات کے سبب برصغیر کی طرف نکل آئے۔ ممکن ہے یہاں درود کے بعد انہوں نے دہلی کے نواح میں واقع سامانہ میں اقامت اختیار کر لی ہو جس کے سبب سامانی کہلائے، جس طرح کہ سادات سامانی مشہور ہیں۔ بہرحال سمنانی زیادہ معتبر روایت ہے۔ جناب سید حسین مذکورہ اور سید تاج الدین، حضرت سید علی ہمدانی کے والد ماجد حضرت میر شہاب الدین کے بھتیجے سید محمد کے بیٹے تھے۔ وہ حضرت علی عثمانی کے ایما پر کشمیر کے راستے اور حالات اور اس کے تعلقات کی تحقیق کے لیے سلطان شہاب الدین کے عہد سلطنت میں وارد کشمیر ہوئے۔ اور حضرت امیر کبیر خود غور میں ٹھہر گئے۔ جب جناب سید حسین کشمیر میں وارد ہوئے تو اپنے اہل و عیال اور بہت سے متعلقین کے ساتھ اس مقام پر پہنچ کر سکونت پذیر ہو گئے۔ مشہور ہے کہ کوہ پیر پنجال پر ان کا گھوڑا رک گیا تھا۔ چونکہ وہاں نتیجے اترنے اور پڑاؤ ڈالنے کی کوئی جگہ نہ تھی، اس لیے ’’ پیرپل‘‘ کے نام سے مشہور پتھر پر سوار ہو گئے اور اس پتھر کو تیز رفتار گھوڑے کی مانند دوڑانے لگے۔ جب دیکھا کہ اب وہ پتھر منزل طے کر کے پہنچ گیا ہے تو اس خوف سے کہ اس امر کی شہرت نہ ہو پتھر کو وہیں چھوڑ کر نیچے اتر آئے اور دریائے ویشو دروہی کے کنارے، جسے کولہ گام کہا جاتا ہے پہنچے۔ چونکہ وہاں کی فضا روح افزا اور صحرا دل کشا تھا اس لیے وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ حضرت امیر نے ان کے فرزند ارجمند حضرت سید حسن اور ان کے بھتیجے سید حیدر کو بھی ان کے پیچھے روانہ کیا تھا۔ جب انہوں نے کشمیر کو امیر تیمور کے تصرف سے خالی پایا تو حضرت امیر کو صورت احوال لکھ بھیجی، جس کے مطابق آنجناب، سیادت نشان ’’ سید امیر‘‘ بھی تشریف لے آئے۔ غرض جناب میر سید حسین موضع کولہ گام میں سکونت فرما ہوئے اور ایک دنیا کو انہوں نے اپنے ظاہری و باطنی فیوضات سے مستفیض فرمایا۔ پانی اور آگ آنحضرت تصرف و تسخیر میں تھے۔ ان سے بہت سی کرامات ظہور میں آئیں۔ شیخ المرتاضین (ریاضت کرنے والوں کے شیخ) حضرت شیخ نور الدین موضع کیموہ سے سلوک باطنی کی تحقیق اور معنوی فوائد کے حصول کی خاطر اکثر ان قطب الاقطاب (حسین) کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت سید کے آرام فرمانے کے سبب ملاقات میسر نہ آ سکی۔ چنانچہ انہوں نے آنجناب کی خوابگاہ پر نظر دوڑائی اور جواب پا کر چلے گئے۔ میر سید علی حیدر بھی کرامات اور پروردگار کے عطیات کے مظہر تھے۔ دونوں بزرگوار موضع کولہ گام میں آرام فرما ہیں۔ سیادت و ہدایت کی آرایش سید جلال الدین عطای: عالی مقام سادات میں سے اور جذبات و کرامات کے مظہر تھے۔ حضرت علی ثانی کے ہمراہ آ کر کشمیر کو زینت بخشی اپنا گھر بسا لینے کے سبب آنحضرت کی وفات کے بعد اسی شہر میں سکونت اختیار کی۔ چند سادات حضرات، اہل ارادیت اور اہل خانہ ان کے ہمراہ رہے۔ بارہ مولہ کے اطراف میں مضوع کے حامہ کے قریب پرگنہ کہاور پارہ کے موضع جہتر میں مدفون ہوئے۔ اکثر ارباب باطن کو اس مقام سے بہت سے فیوضات حاصل ہوئے ہیں۔ اصحاب حال کے پیشوا حضرت سید کمال: عالی شان سید تھے۔ حضرت امید کبیر کی ہمراہی میں تشریف لائے۔ صاحب کشف و کرامات اور قوی حالات کے مالک تھے۔ سید السادات کے حکم پر سلطان قطب الدین کو احکام شریعت کی تعلیم و تربیت دینے کی خاطر کشمیر ہی میں ٹھہر گئے۔ محلہ قطب الدین پورہ میں آسودہ خاک ہیں۔ اوتاد و ابدال کے پیشوا حضرت سید کمال ثانیـ: یہ بھی حضرت امیر کے ہمراہیوں میں سے تھے اور گھر بسا لینے کے باعث یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ موضع ناید کہی میں مدفون ہیں۔ ان کی درگاہ عجیب ہیبت اور فیض کی حامل ہے۔ ارباب یقین کے قطب حضرت سید جمال الدین محدث: حضرت امیر کے رفقا اور تربیت یافتہ حضرات میں سے ہے اور اپنے وقت کے علامہ اور پروردگار کے برگزیدہ تھے۔ سلطان قطب الدین کی التماس پر آداب دین کی تعلیم دینے کی خاطر انہیں حضرت امیر سے اس جنت نظیر شہر میں سکونت پذیر ہونے کی اجازت مل گئی اور یوں زندگی بھر دنیا والوں کو فیض سے نوازتے رہے۔ وفات کے بعد دریائے بھٹ کے کنارے کے قریب واقع محلہ آریوت میں آسودہ خاک ہوئے۔ دوسرے اکابر بھی وہیں مدفون ہیں۔ یہ جگہ فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضرت سید فیروز المعروف جلال الدین: علی ثانی کے رفقا میں سے تھے۔ حضرت امیر کے حکم پر کشمیر میں سکونت اختیار کر لی۔ بڑے بزرگ اور عالی مقام ہیں۔ دریائے بھٹ کے گھاٹ کے قریب پرگنہ وہو کے موضع سمپور میں، جہاں زعفران زار کی ابتدا ہوتی ہے، مقیم اور وہیں مدفون ہوئے۔ افتخارات کے مظہر اور عظمتوں کے مجموعہ سید محمد کاظم: حضرت امید کے رفقاء میں سے اور کمالات و ریاضیات کے مالک تھے۔ کرہ ارض میں گھوم لیا کرتے۔ حضرت امیر کی کتابیں ان کے سپرد ہوتیں۔ ایک موقع پر قصبہ پانپور میں حضرت امیر کو کتاب فتوحات کی ضرورت پڑی وہ کتاب طالقان میں رہ گئی تھی۔ سید مزکور نے سارا فاصلہ طے کر کے اسی لمحے وہ کتاب حاضر کر دی ۔ جب انہوں نے لتہ پور کے بت خانے کو جسے اس وقت شہرت حاصل تھی گرا دیا تو حضرت امیر کے حکم پر چھوٹے بڑوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ ان کا مدفن بھی وہیں ہے۔ عوام الناس میں سید قاضی کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت میر سید رکن الدین اور سید فخر الدین: دونوں بھائی اور صاحب تجرید و تفرید اور ظاہری و باطنی علوم کے جامع تھے۔ امیر کبیر کے حکم پر انہوں نے پرگنہ اولر کے موضع آون پورہ میں سکونت اختیار کر لی۔ مدفون بھی وہیں ہیں۔ بہت بڑے قطب سید محمد قریشی: حضرت امیر کے رفقا میں سے، بہت بڑے بزرگ اور صاحب احوال عالی تھے۔ حضرت امیر کے حکم پر انہوں نے بجارہ کا بتخانہ ڈھا دیا جو بڑا مزین اور آراستہ تھا اور جس پر بہت بڑی رقم اٹھی تھی۔ اس کے بڑے چھوٹے تین سو ساٹھ بت توڑ ڈالے اور وہاں بڑی جامع مسجد تعمیر کی۔ اسی مسجد کے متصل ان کا مقبرہ ہے۔ میر سید عزیز اللہ اور سید محمد مراد: یہ دونوں بھی آنجناب کے رفقا میں سے تھے اور ان (قریشی) کے جوار میں مدفون ہیں۔ اہل صفا پر مقبرے اور مسجد کی برکات مخفی نہیں ہیں۔ حضرت سید احمد قریشی: محمد قریشی کے بھتیجے ہیں۔ بڑے عالی ہمت اور قوت و قدرت کے مظہر تھے۔ پرگنہ شادرہ کے موضع لتر میں مدفون ہیں۔ اس کتاب (تاریخ اعظمی) کی تحریر سے گیارہ سال قبل راقم حروف نے موضع بجارہ میں حضرت سید محمد (کے مزار) کی زیارت کی تھی۔ جامع مسجد میں جہاں آنجناب کا آستانہ ہے، ایک سکوت طاری تھا۔ اپنے تعلق کی بنا پر راقم نے جب موضع لتر کا ارادہ کیا تو حضرت سید محمد کی طرف سے روحانی طور پر ایسا اشارہ بلکہ اطلاع ملی جو ان کے برادرانہ تعلق کے بارے میں تھی۔ جب راقم موضع لتر میں آستانے کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں کے ساکنوں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ سید محمد کے حقیقی بھائی ہیں۔ چند سال بعد راقم ایک مرتبہ پھر مذکورہ موضع میں وارد ہوا۔ وہیں ایک پریشان کن خبر سن کر جو کلی انتشار کا باعث تھی، دل تردد و اضطراب کا شکار ہوا۔ چنانچہ شہر جانے کی اجازت لینے کی خاطر حضرت سید کے آستانے پر حاضر ہوا۔ تھوڑی دیر بیٹھا (حضرت نے) اس تردد کے سلسلے میں مجھے بہت دلاسا دیا۔ چنانچہ اپنے خیال کے برعکس بات بخیر و خوبی ٹل گئی۔ اور دل کو کسی قسم کی تشویش لاحق نہ ہوئی۔ حالانکہ حاکم شہر ایک فریق تھا۔ تاہم اس میں اصرار کی قوت نہ رہی۔ اس پر اللہ کا شکر بجا ہے۔ مولانا پیر محمد قاری: کلام اللہ کے حافظ، سات قرائتوں کے ماہر اور علوم باطن و ظاہر کے جامع تھے۔ امیر کبیر کے حکم پر انہوں نے سلطان قطب الدین اور اہل شہر کی تعلیم کی خاطر کشمیر میں سکونت اختیار کر لی۔ سلطان قطب الدین کے مقبرے واقع محلہ لنگرتہ میں مدفون ہیں۔ اور ان کی قبر انوار و فیوض سے پر ہے۔ مظہر ایقان شیخ سلیمان کشمیر کے اکابر ہندوؤں میں سے تھے۔ شرکت نام تھا۔ ازلی شوق و ذوق کی رہنمائی میں مدرسۃ اسلام میں آ گئے، قرآن حفظ کیا اور اس خوف سے کہ کہیں اس کے اقربا وغیرہ کو معلوم نہ ہو جائے، سمرقند کی طرف فرار کر گئے۔ جہاں سے علوم سے بہرہ ور ہو کر کشمیر لوٹ آئے۔ پھر چچیرے بھائیوں کی عداوت کے سبب کولاب منتقل ہو گئے جہاں امیر کبیر کی خدمت سے مشرف ہوئے۔ ان کے وطن اور مسکن کا پوچھا گیا تو کشمیر کو باغ سلیمان کا نام دے کر عرض احوال کیا، اس طرح ان قطب الاقطاب کی جناب سے انہیں شیخ سلیمان کا نام دیا گیا۔ ان کا بیٹا شیخ احمد بھی جو ان کے ہمراہ تھا، مورد الطاف ٹھہرا اور تعلیم و تربیت پر فائز ہوا۔ مسجد جامع کے جوار میں سید محمد نورستانی کے مزار کے روبرو مدفون ہیں۔ شیخ احمد خوشخوان: شیخ سلیمان کے بیٹے تھے۔ اپنے کثیر الایقان والد کے ہمراہ چھوٹی عمر ہی میں امیر عالی شان کی خدمت کی سعادت سے بہرہ ور اور ظاہر و باطن کی تربیت پر فائز ہوئے۔ کشمیر میں آنحضرت (امیر کبیر) کے درود مسعود کے زمانے میں بڑے منظوم نظر عنایت و اکرام تھے۔ آنجناب کی کولاب کو واپسی پر خلافت سے سرفراز ہوئے اور ان کے والد شیخ سلیمان کی تربیت ان کے سپرد ہوئی۔ سلیمان اس وقت سفید ریش تھے۔ جب اس معاملے میں انہوں نے ان سیادت انتساب (امیر) سے عرض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سفید ریش خلافت کا موجب نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ تو عنایت حق کا ہے۔ غرض آنحضرت کی رحلت کے بعد شیخ احمد نے سجادۂ ارشاد اور جادۂ راست گفتاری میں استقامت اختیار کی۔ ایک دنیا کو اپنے فیض سے بہرہ ور فرمایا۔ چونکہ تلاوت قرآن کریم خوش الحانی سے کرتے تھے، اس لئے خوشخوان کے لقب سے مشہور ہوئے۔ سید محمد نورستانی کے مزار کے متصل اپنے والد بزرگوار کے جوار میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان دو مزادروں کے درمیان راہ عام ہے۔ آج کل حضرت سید کا مزار سڑک پر ظاہر اور نمایاں ہے جب کہ شیخ کا مقبرہ دیوار کی اوٹ میں ہے۔ حضرت سید بہاء الدین: موضع(؟) پرگنہ کروہن میں آسودۂ خاک ہیں۔ حضرت سید محمد سراج کہ سید محمد حصاری کے بھائی ہیں، محلہ نندیواری میں جسے اب نندہ پورہ کہتے ہیں، آسودہ ہیں۔ اس وقت یہ جگہ جزیدہ تھی۔ حضرت سید محمد بیہقی: صاحب کمال تھے۔ محلہ سکندر پورہ میں جو آج کل حسین شاہ امکون کے نام سے مشہور ہے، یعنی حسین شاہ کے صحن میں مدفون ہیں ان کا مقبرہ فیوضات کی جگہ ہے، دریائے مارگہ کے کنارے کے قرب میں ہے۔ آج کل اسے مشرب خواجگان کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ دوسراے سادات بھی اسی جگہ مدفون ہیں۔ یہ جگہ بیحد انوار و فیوض کی حامل ہے۔ حضرت میر سید محمد عین پوش قدیم: بعض انہیں آہن پوش کہتے ہیں محلہ کنہ کدل میں آسودہ ہیں۔ بزرگ تھے لیکن شہرت سے دور رہتے۔ حضرت سید بہاء الدئن: پرگنہ کروہن کے موضع دیدر میں آسودہ ہیں۔ سید حق آگاہ سید نعمت اللہ: حضرت امید کے رفقا میں سے تھے۔ قصبہ پانپور میں آسودہ ہیں۔ ان کا مقبرہ ولایت دستگاہ خواجہ مسعود کے مقبرے سے بلند تر ہے۔ ٭٭٭ حامی اسلام و مسلمین سلطان سکندر بت شکن سلطان قطب الدین کا بیٹا تھا باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا اس نے دین مبین کو تقویت پہنچائی اور اسلام کی ترویج کی۔ اس کی تاریخ جلوس ان اشعار میں کہی گئی ہے۔ تاریخ: شاہ عادل سکندر ثانی ۔۔۔۔ کہ ازو یافت سرفرازی تاج ملک روشن بنور شرع ازوست گرچہ بودہ ز کفر چون شب داج بہر تاریخ سال سلطنتش ۔۔۔ عقل گفتا بشرع دادہ رواج (شاہ عادل سکندر ثانی کی ذات سے تاج کو سرفرازی ملی۔ اس کی وجہ سے ملک، نور شرع سے منور ہوا، اگرچہ وہ یعنی ملک کفر کے سبب گھٹا ٹوپ اندھیرے والی رات کی مانند تھا۔ اس کی سلطنت کی تاریخ، عقل نے ان لفظوں میں بیان کی:’’ بشرع دادہ رواج‘‘ یعنی اس نے شرع کو رواج دیا) 796مطابق1394ء چونکہ اس عہد میں بقیہ کفار اور بہت سے بت خانے تھے، اس لئے سلطان زماں نے بہت سے بت خانے ویران کر دئیے۔ ایک جم غفیر کو حلقہ اسلام میں لے آیا۔ جس کسی نے اسلام قبول نہ کیا اس پر جزیہ لاگو کر دیا۔ اہل اسلام کو اس نے احسان و کرم سے نوازا۔ اس کے زمانے میں بہت سے علما، فضلا اور سادات کشمیر میں وارد ہوئے۔ وہ سب کے ساتھ بڑی تواضع سے پیش آیا اور سیادت و فضیلت کا اس نے بہت لحاظ اور خیال کیا۔ ان (علماء و سادات وغیرہ) میں سے اکثر کا ذکر اس کتاب میں آئے گا جو اس شہر میں متعارف اور جن کے مقبرے مشہور ہیں۔ ان سادات کی آمد کا سبب امیر تیمور کا تسلط تھا، جو ایران و توران کی تسخیر کے بعد تسخیر ہند کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ سلطان سکندر نے کمال خرمی اور تائید عقلی سے اپنے بیٹے شاہی خان المعروف زین العابدین کے ہاتھ ایک خط کے ساتھ بہت سے تحفے تحائف امیر کی بارگاہ میں بھجوائے، اور اس سے استدعا کی کہ وہ اس شہر کے سکہ و خطبہ کو قبول اور مقام خدمت کا تعین کرے۔ امیر تیمور کو اس کی یہ روش بہت پسند آئی اور جواب میں اس نے شہر کشمیر سلطان سکندر کے نام بحال رکھا اور ساتھ ہی فیل اور خلعت بھیج کر اسے نوازا۔ اکثر تواریخ میں اسی طرح مذکور ہوا ہے لیکن بعض تاریخوں بالخصوص امیر تیمور کے احوال پر مشتمل ظفر نامہ میں مرقوم ہے کہ سلطان سکندر کا بیٹا شاہی خان المعروف زین العابدین امیر تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اسے وہ سمرقند لے گیا اور شہر بند کر دیا۔ امیر تیمور کی وفات کے بعد اس کی خلاصی ہوئی۔ اللہ ہی کو صحیح علم ہے بہرحال سلطان سکندر کی مدت حکومت پچیس برس نو ماہ اور چھ دن ہے۔ آخر ’’ یایھا النفس المطمئنہ ارجعی‘‘ کی آواز سن کر آشیانہ عرش کو پرواز کر گیا۔ اس مزار (کے احاطے میں) جو اب زین العابدین سے منسوب ہے، اس کا مرقد بنا، بلکہ اس مزار کی تعمیر کا اصلی باعث بھی مذکورہ سلطان ہی کی قبر ہے۔ 1417/820میں فوت ہوا۔ شہر کے خاص و عام نے اس کی موت پر ماتم کیا۔ فصحا اور شعرا نے اس کے مرثیے اور تاریخ ہائے وفات کہہ کر دعا گوئی کا حق نبھایا۔ اس کتاب میں صرف مولانا احمد کے ایک قطعہ مرثیہ پر اکتفا کی جاتی ہے، قطعہ: کجاست شاہ سکندر کجاست میدانش در انتظار ہلاکند گوی چوگانش عجب کہ دیدہ شود گل شگفتہ در گلزار عجب کہ کبک خرامد بناز در کہسار عجب کہ باغ بختدد چو مردم غافل عجب کہ باغ نہ گرید بسان ابر بہار بآب دیدہ بشوئید ای مسلمانان زمین روضہ شہ را برامی استظہار درین مزار بخواہید ہرچہ می خواہید باعتقاد درست و درون بی انکار خدا شناس و پیمبر صفت سکندر شاہ کہ آفرین خدا بر روانش باد ہزار (کہاں ہے شاہ سکندر، کہاں ہے اس کا میدان، اس کی چوگان کے گیند ہلاکت (؟) کے انتظار میں ہیں۔ تعجب ہے کہ (اس موقع پر بھی)گلزار میں پھول کھلے ہوئے نظر آتے ہیں، تعجب ہے کہ کہسار میں چکور ناز سے ٹہل رہا ہے۔ تعجب ہے کہ باغ غافل لوگوں کی مانند ہنستا ہے، تعجب ہے کہ باغ ابر بہار کی مانند کیوں نہیں روتا۔ اے مسلمانو! حصول امداد کی خاطر شاہ کے روضہ کی زمین کو آنسوؤں سے دھو ڈالو۔ جو کچھ مانگنا ہے اس کے مزار میں مانگو، اور یہ درست اعتقاد اور انکار سے خالی باطن کے ساتھ ہو۔ سکندر شاہ، خدا شناس اور پیمبر صفت انسان تھا، اس پر خدا کی ہزاروں رحمتیں ہوں) یہ اشعار بھی مولانا ہی کے ہیں: ز ہجر شاہ دل ہر کہ ہست پر خون ست جگر ز درد کباب ست دیدہ جیحونست خدامی داند و شاہ جہان و روح شریف کہ حالت دل درویش بینوا چونست زدست دیدہ و دل خون ہمی خورم لیکن میان دیدہ و دل نیز دعوی خونست کسی کہ از غم و اندوہ شاہ غمگین نیست بہ نزد عقل من آن (بی) ثبات مجنونست گواہ جان منست اشک سرخ و چہرۂ زرد زمن مپرس کہ دردست غم دلت چونست اگرچہ غنچہ مرا ہست خندۂ برلب درون دل ہمہ خونست و ہیچ بیردنست (شاہ کے ہجر سے ہر کسی کا دل پر خون ہے، جگر درد کے ہاتھوں کباب ہے اور آنکھ دریائے جیحون بنی ہے۔ خدا جانتا ہے اور جہان کے بادشاہ اور روح شریف ہی کو علم ہے کہ اس بے نوا درویش کے دل کی کیا حالت ہے۔ میں دیدہ و دل کے ہاتھوں خون پی رہا ہوں لیکن دیدہ و دل کے درمیان بھی خون کا دعویٰ ہے۔ جو کوئی شاہ کے غم و اندوہ میں غمگین نہیں ہے وہ فانی شخص میری عقل کے مطابق پاگل ہے۔ مجھ سے یہ موت پوچھ کہ غم کے ہاتھوں تیرے دل کی کیا حالت ہے کہ میرا زرد چہرہ اور سرخ آنسو میری جان کے گواہ ہیں۔ اگرچہ میری کلی کے ہونٹوں پر بظاہر مسکراہٹ ہے لیکن میرا دل اندر سے سب خون ہے اور باہر کچھ نہیں) جو عالی درجات سادات سلطان سکندر کے عہد میں وارد کشمیر ہوئے، ان کی تفصیل اس طرح ہے: خاندان سیادت کے خلاصہ، مقرب ربانی حضرت میر محمد ہمدانی: حضرت امیر کبیر کے فرزند ارجمند تھے۔ بارہ برس کشمیر میں رہے، اور بدعتیں دور کرنے اور اشاعت اسلام میں مصروف رہے۔ سلطان نے آنجناب کی ہر طرح سے خدمت و اطاعت انجام دی۔ اس نے حضرت سید حسن کی باصفا بیٹی صالحہ و عابدہ سیدہ بی بی تاج سے ان کی نسبت کر دی۔ یہ زاہدہ سیدہ پانچ برس تک ان کے نکاح میں رہی، بعد میں فوت ہو گئی۔ وہ فتح کدل کے نزدیک ملک مسعود کے مزار سے بلندی مدفون ہے۔ سلطان نے وہاں اس کا مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس مقبرے کا مینار ابھی تک موجود ہے۔ اس کی وفات کے بعد ملک سیہہ بٹ (جو قبول اسلام کے بعد ملک سیف الدین کے لقب سے مشرف ہوا تھا) کی بیٹی بارعہ، میر کے حرم میں آ گئی ایک برس کے بعد وہ بھی قضائے الٰہی سے فوت ہو گئی۔ وہ موضع کو تہر میں حضرت میر کے بنا کردہ باغ والی جگہ میں مدفون اور ’’ دیدی باجی‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئی۔ مختصر یہ کہ حضرت میر سید محمد ہمدانی بائیس برس کی عمر میں اپنے تین سو رفقا اور خادموں کے ہمراہ اپنے مبارک قدموں سے وارد کشمیر ہوئے۔ سلطان نے کسی قسم کی تاخیر و تشویش کے بغیر آنجناب کے دامن ارشاد میں دست ارادت رکھ دیا، اور ملک سیہہ بٹ، جو اس وقت سلطان کا وزیر اور سپہ سالار تھا، خاص و عام کی ایک جماعت کے ہمراہ ان کی جناب میں حاضر اور مشرف بہ اسلام ہوا۔ حضرت سید نے سلطان کے لیے علم تصوف میں ایک رسالہ لکھا تھا جو ان کے لیے مفید ٹھہرا جب سلطان کی مجلس میں جناب حضرت سید محمد حصاری نے علمی بحث میں حضرت سید کے ساتھ معارضہ کیا تو رات کو حضرت امیر کبیر کی عنایت سے قدرت پا کرشمہ منطق؟ کی شرح کو سلطان کے نام پر تصنیف فرمایا۔ القصہ حضرت سید کی بابرکت تشریف آوری کے نتیجے میں سلطان نے بدعت کی تاریکیوں کو دور کرنے امیر پر پابندی، تمام برے کاموں پر سزا اور سنن نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کی ترویج و اشاعت میں اپنی سی کوشش کی، گویا اسی وقت اسلام ولایت کشمیر میں آ گیا۔ سلطان نے حضرت سید کے لیے چشمہ بون کے کنارے ایک خانقاہ تعمیر کرائی اور اس خانقاہ اور حضرت سید کے خادموں کے اخراجات کی خاطر موضع پتن کی جاگیر عطا کی۔ علاوہ ازیں وہاں مسجد کا صحن اتنا پاکیزہ صاف ستھرا، پھولوں سے بھرا ہوا اور اتنے مصفا پانی کا تالاب تھا کہ باغ ارم کا دھوکا ہوتا تھا۔ قوم چک سے پہلے محمد شاہ کے عہد تک موجود تھا۔ اس میں اتنی طراوت نہ رہی تھی بہرحال اکبر شاہ کے عہد تک باغ اور خانقاہ دونوں اصل حالت میں تھے۔ جب بادشاہان ہند نے تعمیرات کی طرح ڈالی، جس کی بنا پر مسجد کی بنیاد صحن عمارت میں آ گئی اور مسجد کے حوض کے کنارے لے گئے علاوہ ازیں اس چبوترے کے اوپر، جو حضرت میر کلاں قدس سرہ نے پانچ وقتی نماز کے لیے دریائے بھٹ کے کنارے آراستہ کیا تھا، ایک عالی خانقاہ تعمیر کی گئی۔ خانقاہ معلی کی تعمیر کی ابتدا 1396-798میں اور تکمیل 1397-799میں ہوئی۔ جناب سید محمد کے پاس ایک لعل بدخشاں تھا جو انہوں نے سلطان کو تبرکاً دے دیا اور اس بدلے میں انہوں نے اس سے تین پر گنوں کے تین گاؤں خادموں کے مصارف اور خانقاہ کے لوازمات کے لیے حاصل کر لیے۔ ایک گاؤں وحی جس کا تعلق پرگنہ شاورہ سے تھا، دوسرا نونہ ونے از پرگنہ مارتند، تیسرا نزال از پرگنہ اولر۔ اس کی تولیت کی خدمت مولانا سعید کے نام طے پائی۔ اس فیض پناہ خانقاہ کی تکمیل کے بعد مناسک حج ادا کرنے کی خاطر اس شہر سے انہوں نے کوچ کیا۔ سلطان سکندر نے کفار کی بہت سی عبادت گاہوں کی تخریب کی اور ایک دنیا کو اس نے مشرف بہ اسلام کیا۔ مشہور ہے کہ مسلمان ہونے والوں کے زنار کے تین بڑے بڑے ڈھیر جلائے گئے۔ جہاں کہیں کوئی بت خانہ تھا اسے اس نے ڈھا دیا ۔ 1398-9,801میں سکندر پورہ کا بت خانہ گرانے کے بعد وہاں مسجد جامع کی تعمیر کی اسے توفیق میسر آئی۔ اس کی تیاری میں اس نے بڑے ذوق و شوق اور اہتمام سے کام لیا۔ 372بڑے بڑے ستون بنوائے جن میں سے بتیس ستون مسجد کے چار طاق میں نصب کئے گئے۔ جن کا ارتفاع چالیس گز شرعی اور موٹائی چھ گز بتائی گئی ہے۔ جناب خواجہ صدر الدین خراسانی اور سید محمد یورستانی کے کہ دونوں بزرگوار فن معماری میں مہارت تامہ رکھتے تھے، دوسرے معماروں کے ساتھ مل کر تین سال کی مدت میں مکمل کی۔ بحسارہ کی جامع مسجد بھی سلطان ہی کی تعمیر کردہ ہے۔ سلطان نے حضرت میر محمد ہمدانی اور دوسرے سادات کے ایما پر بہت سی بدعتوں، خاص طور پر بانسری، سنکھ اور شہنائی (بجانے) کا شہر سے خاتمہ کیا۔ا س زمانے میں سلطان کے محل کے علاوہ اور کہیں ڈھول بجایا نہیں جاتا تھا، دوسرے آلات موسیقی کا تو ذکر ہی کیا، سب کا بجانا ممنوع تھا۔ تالاب کا بند اور شالن مرگ سے پرگنہ بہاک کی طرف کا علاقہ سلطان کی تعمیر کردہ ہے، جسے پہلے راجاؤں اور ہندوؤں کی کتابوں سے، جو مینار کی مانند ڈھیر کی صورت اختیار کر گئی تھیں، پر کیا گیا اور پھر اس پر مٹی ڈالی گئی، اور بند بنا دیا گیا۔ ان سادات کی تفصیل جو سلطان سکندر کے زمانے میں یا اس سے پہلے وارد کشمیر ہوئے اور سلطان کے عہد میں فوت ہوئے۔ مقرب حضرت باری حضرت سید محمد حصاری: آنجناب کا وطن موضع سامان ہے جو بلخ سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ چونکہ ان کے آبائے کرام حصار (قلعہ) میں آ کر سکونت پذیر ہو گئے تھے اس لیے حصاری مشہور ہو گئے۔ جناب حضرت امیر کبیر سے ان کی بہت قریبی رشتے داری تھی۔ باوقار اور عالی مقدار بزرگ تھے۔ جب انہوں نے کشمیر کو اپنے قدوم (آمد) سے مزین کیا تو سلطان کی التماس پر محلہ سکندرانہ میں سلطان کے محل کے سامنے سکونت اختیار کر لی۔ سلطان اکثر اس ارادت کی بنا پر جو اسے ان کے باپ دادا سے تھی، اکثر آنجناب کے در پر خدمت و ملازمت کا علم لہرایا کرتا۔ حضرت میر کی صغر سنی کے باعث جناب سید محمد حصاری کے دل میں، اس امر سے کدورت پیدا ہو گئی۔ بعض کتابوں میں مرقوم ہے کہ جب حضرت سید اس معاملے میں باطن کی طرف توجہ ہوئے تو انہوں نے حضرت میر محمد کی معنوی ترقیات معلوم کیں، جس سے ان پر یہ کھلا کہ حضرت علی ثانی کی عنایت و توجہ ان پر ہے۔ چنانچہ از رہ انصاف خود چل کر حضرت میر محمد کے پاس گئے اور تسلی و تصدیق کے بعد اپنی طرف سے بھی خط ارشاد انہیں عطا کر دیا۔ سید محمد حصاری اپنے زمانے میں مصدر حالات عجیبہ تھے۔ ایک روز لوگوں نے دیکھا کہ وہ سارا دن بیہوش پڑے رہے اور ان کی پوستین کے دامن و آستین سے پانی فراوانی سے ابل رہا تھا۔ اگرچہ لوگوں نے اس سلسلے میں ان سے استفسار کیا لیکن انہوں نے کسی پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا، تاہم جب اس راز کے افشا کے سلسلے میں لوگوں کی منت سماجت حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا ایک ارادت مند حجاز کے سفر پر جا رہا تھا۔ دریا میں طغیانی کے سبب کشتی تباہ ہو گئی۔ اس ارادت مند نے مجھ سے التجا کی، میں نے اس کشتی کی نجارت پر ہمت صرف کی۔ یہ پانی اس کشتی کا تھا جب وہ مرید آیا اور لوگوں نے اس سے پوچھا تو تاریخ حکایت اور اس واقعہ کی تاریخ میں مطابقت تھی۔ حضرت میر سید محمد حصاری نے شادی قطعاً نہ کی۔۔۔۔ محلہ نوہتہ میں آسودہ خاک ہیں۔ حضرت سید احمد سامانی بن سید کمال الدین ابن سید محمود: حضرت میر محمد کے رفقا اور اہل نسبت میں سے تھے ظاہر و باطن کے کمالات سے آراستہ تھے۔ فرائض کے بارے میں رسالہ شرح تنویر ان کا تحریر کردہ ہے۔ حقائق کے بیان میں انہوں نے بہت سے دقائق ظاہر کیے ہیں۔ فتح کدل کے نزدیک حضرت سید محمد خاوری کے مزار کے جوار میں آسودہ خاک ہیں۔ دوسرے سادات بھی اسی مقبرے میں مدفون ہیں۔ حضرت سید قاضی حسین شیرازی: شیراز کے قاضی تھے۔ اس وقت شیراز سلطان تیموریہ (تیمور) کے قبضے میں تھا اور وہاں کے لوگ اہلسنت تھے، اہل تشیع کو کوئی غلبہ حاصل نہ تھا۔ آنجناب، حضرت میر کے ساتھ کشمیر تشریف لائے۔ سلطان نے ان کی بہت عزت و تکریم کی۔ کشمیر میں بھی انہوں نے شرع شریف کے بہت سے احکام نافذ کیے۔ صاحب تصانیف تھے۔ جمع احادیث رتبہ کے سلسلے میں ایک رسالہ مرتب کیا، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ (یہ رسالہ) میر محمد کو دکھایا گیا۔ احادیث رتبہ کے بارے میں علماء کی بات مشہور ہے، لیکن بعض مشائخ اسے قبول نہیں کرتے۔ حضرت سید حسین کا مقبرہ دریا کے کنارے، فتح کدل سے بلند تر اور ایسی جگہ پر ہے جس کی پشت پر حضرت شاہ قاسم حقانی کا مقبرہ ہے۔ آج کل حضرت سید حسین لوگوں میں ’’ سید قاضی والے‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت سید محمد خاوری: ظاہری اور باطنی کمالات کے مالک تھے۔ ان کی کچھ تصانیف ہیں جن میں شرح لمعات اور خاور نامہ بھی ہیں۔ طبع موزوں بھی رکھتے اور شعر کہتے تھے۔ فتح کدل کے نزدیک سید احمد سامانی کے مزار کے برابر مدفون ہیں۔ حضرت قدوۃ الواصلین سید علاء الدینـ: عالی مرتبہ قطب مخدوم جہانیان سید جلال الدین بخاری کی اولاد سے ہیں۔ سلطان سکندر کے عہد میں اہل خانہ کے ہمراہ وارد کشمیر ہوئے اور اس گوشے میں اترے جو اب سکندر پورہ کے نام سے مشہور ہے ان کے چار عالی گوہر فرزند تھے 1سید فخر الدین، 2سید ضیاء الدین ’’ جوسید زیرک‘‘ کے نام سے مشہور ہیں،3سید تاج الدین اور 4 میر سید محمد سید علاء اپنی عمر مبارک کے آخری حصے میں سلطان کی التماس پر شہر چلے آئے اور محلہ سکندر پورہ میں گوشہ نشین ہو گئے، اور پھر وہیں مدفون ہوئے۔ مزار کلاں میں آسودہ ہیں۔ ان کے بعض فرزند بھی وہیں ہیں۔ سید ضیاء الدین پرگنہ پردہ کے موضع کاندھا میں دفن ہیں۔ سید فخر الدین جوانی ہی میں والد بزرگوار کی زندگی میں فوت ہو گئے۔ سید تاج الدین نے چونکہ شادی کر لی تھی اس لیے وہیں سکونت اختیار کر لی۔ پرگنہ پردہ کے موضع اسکندر پورہ میں سلطان کے حکم پر ان کے لیے سامان معیشت مقرر کیا گیا۔ وہاں گوشہ نشینی میں انہوں نے زندگی بسر کی۔ کھیتی باڑی کا کام خود کرتے اور اس طرح اہل و عیال کی روزی بہم پہنچاتے تھے۔ سلاطین اور اکابرین کے مرجع تھے۔ ان حضرات کے مزارات میں، بالخصوص گاؤں اسکندر پورہ میں عالی مرتبہ سادات کا ایک جم غفیر اور ان کے رفقا کا ایک جم کثیر آسودہ ہے، جن میں سے اکثر نامعلوم کی قبریں مشہور ہیں۔ شیخ (یا سید) جلال الدین بخاری: حضرت میر محمد کے رفقا میں سے تھے۔سادات اور علما کی ایک جماعت کے ہمراہ کشمیر تشریف لائے بہت بڑے بزرگ اور صاحب کمال تھے۔ سلاطین کے مزار میں مدفون ہیں۔ عارف عالی گوہر حضرت سید اکبرـ: بلند مرتبہ بزرگ، صاحب کشف اور کمالات عالیہ کے منبع تھے۔ محلہ تاشوان میں ہیں۔ محلہ تاشوان، تاشی بٹ نام کے ایک شخص سے منسوب ہے، جس کی دکان اس محلے میں تھی۔ یہ محلہ صاحب دکان کے نام سے مشہور ہوا، جس طرح محلہ شیری بٹ جو شیری بٹ کے نام سے موسوم ہے۔ اس زمانے میں بعض اکابر نے یوں فرمایا کہ: بیت: سید اکبر کہ ہر مسلمانے نام او نمازی گوید (سید اکبر وہ ذات ہیں کہ ہر مسلمان ان کا نام نماز میں لیتا ہے) ان کے رفقا وغیرہ میں سے چھ سات دوسرے ایسے سید حضرت مزار کے اطراف میں ہیں جو غیر مشہور ہیں، سوائے ان حضرات کے جن کا ذکر اس کتاب میں آئے گا۔ حضرت میر سید نور الدین: حضرت میر سید حسین سامانی کے بھانجے اور ارباب کشایش میں سے تھے۔ درماندہ لوگوں کی مشکلات حل کرتے۔ ان کا مقبرہ مشرق کی جانب متصل زینہ کدل، بازار کاغذ فروشاں میں اس خانقاہ کے سامنے واقع ہے، جو رنکہ مسجد کے نام سے مشہور ہے بہت بڑے بزرگ ہیں۔ حضرت سید شہاب الدین اور سید حضور اللہ: حضرت سید نور الدین کے مقبرے میں (مدفون) ہیں اور ان کے قرابت دار بھی تھے۔ حضرت سید حسین:ـ اس مقبرے کے نزدیک، ذرا زیادہ دور راستے سے درون کوچہ آسودہ ہیں۔ اب ان کی قبر خستہ حال ہو چکی ہے۔ حضرت سید محمد لورستانی: حضرت سید محمد ہمدانی کے رفقا میں سے ہیں۔ ایک مدت تک گلکاری پردے میں مستور رہے۔ جب سلطان سکندر علیہ الرحمتہ نے جامع مسجد کی تعمیر کا ارادہ کای اور استادان شہر اور معماران دہر نے اس کی بنیاد رکھ دی اور بنیاد کی تکمیل میں مصروف ہو گئے تو شمالی جانب کی ٹیڑھی دیوار کو وہ ہر چند بڑی کوشش کے ساتھ اٹھاتے، وہ پھر بیٹھ جاتی۔ آخر میر سید محمد دیوار کی چوڑائی پر چڑھے اور انہوں نے چونے اور اینٹ کا بندوبست کیا، تا آنکہ دیوار مضبوط ہوگئی۔ اس کے بعد وہ ایک مدت تک اس کام میں مشغول اور مزدوری اور اجرت کے بغیر کوشش کرتے رہے۔ اپنے خالص مال، از قسمے درم و دینار میں سے بھی محض رضائے خدا کی خاطر خرچ کرتے رہے۔ اس بنا پر لوگ یہ خیال کرتے کہ انہیں کوئی خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ الحق کہ خزانہ الٰہی رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ میر کی خدمت میں کسی حاجت مند نے اپنی کثرت عیا ل اور تنگی حال بیان کی۔ میر اس وقت مٹی گوندھ رہے تھے۔ اپنا مٹی آلودہ ہاتھ موڑ کر اس کے دامن میں چھڑک دیا اور بولے کہ گھر کے علاوہ اور کہیں (یہ دامن) نہ کھولنا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اسے پتا چلا کہ وہ مٹی کے ریزے نہیں بلکہ سونے کے ٹکڑے ہیں۔ 3ربیع الاخریٰ کو انہوں نے وصال پایا اور اپنے اصلی وطن کی طرف رحلت کر گئے۔ ان کا مقبرہ مبارکہ، محلہ جلد سازان کی جامع مسجد کے متصل واقع اور مرجع خاص و عام ہے۔ ان کے اور بھی کئی رفقا اور اقربا اس مزار میں مدفون ہیں۔ خواجہ صدر الدین خراسانی: اکابر اولیا میں سے تھے۔ پردے میں رہتے، معماری میں چونکہ انہیں مہارت حاصل تھی، اس لیے حضرت میر سید محمد کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر میں انہوں نے بڑی اعانت کی۔ محلہ زینہ کدل میں حضرت سید بدر الدین کے مزار کے سامنے راہ عام پر آسودہ خاک ہیں۔ چار دیواری اور مسجد پرانی تھی۔ آج کل مسجد بالکل خستہ حالت میں ہے اور چار دیواری کا ایک نشان رہ گیا ہے۔ حضرت سید حسین خوارزمی: میر محمد کے رفقا میں سے ہیں۔ آنجناب کے اشارے پر انہوں نے محلہ منوار کے بت خانہ اور معبد ہنود کو ویران کر دیا۔ یہ محلہ اس وقت جزیرہ تھا۔ وہیں گوشہ نشین ہو گئے اور علم و عمل میں فیض بخشی کرتے رہے ۔ تمام عمر تجرد اور ناکتخدائی میں بسر کی۔ سلطان سکندر قرآن کریم کا علم قوائد جاننے کی خاطر اکثر ان کی خدمات میں حاضر ہوتا۔ جب رحلت فرما گئے تو اسی جزیرے میں دفن ہوئے۔ آج کل یہ جزیرہ ایک وسیع محلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اس محلے میں ان کے بھائی کی اولاد موجود ہے۔ اس کا ذکر اپنی جگہ پر کیا جائے گا۔ سید السادات منبع البرکات سید محمد مدنی حضرت میر سید محمد ہمدانی قدس سرہ کے رفقا بلکہ ارباب نسبت میں سے تھے۔ حرمین شریفین سے واپسی کے وقت امیر تیمور کے ایک ایلچی کے ہمراہ سلطان سکندر کے زمانے میں جب اس طرف آئے تو ایک کوب و دل نشین گوشہ دیکھ کر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ تاہم اپنے بعض عہد نبھانے کی خاطر پھر ماوراء النہر تشریف لے گئے اور جلد ہی لوٹ آئے۔ محلہ راینواری میں اپنے اہل و عیال سمیت سکونت اختیار کی۔ سلطان ان کے عارفانہ احوال کا سن کر ان کی زیارت کے لیے گیا اور ب اسے ان کے کمالات کا علم ہوا تو اصرار کے ساتھ التماس کر کے انہیں اپنی جوار میں آ کر رہنے پر آمادہ کر لیا، وہاں انہوں نے ایک خانقاہ بنائی اور اسی اثنا میں رحلت فرما گئے۔ نوشہرہ کے قریب دفن ہوئے۔ شیخ العرفا شیخ بہاء الدین ان کی وصیت کے مطابق میت کے غسل اور تکفین کی خدمت بجا لائے۔ حضرت میر خاص و عام اور سلاطین و حکام کے مرجع تھے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ سلطان زین العابدین کے عہد میں پہلے پرگنہ بالکل کے موضع مالاموہ میں اقامت گزین ہوئے تھے۔ بعد میں سلطان کی التماس پر نوشہرہ میں آ کر آباد ہو گئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ آخری روایت زیادہ قرین صحت ہے۔ ان کے مقبرہ شریفہ کو قبولیت دعا کا مقام سمجھا جاتا تھا۔ علی مردان خان کے عہد تک تمام شہر کی زیارت گاہ تھا۔ لوگ ہجوم اور ازدھام کی صورت میں وہاں جاتے۔ بعد میں اس میں کمی آتی چلی گئی۔ یہ واقعہ اس کتاب میں کسی دوسری جگہ مرقوم ہو گا۔ کہتے ہیں کہ سلطان کی ایک ضیافت میں، جو حضرت میر کے اعزاز میں تھی، ایک ڈش جنگلی مرغابی کی بھی تھی۔ حضرت میر نے کھانے کی مجلس کے دوران میں فرمایا کہ مرغابی والی ڈش علیحدہ رکھی جائے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ان سے پوچھا گیا کہ اب کیا کیا جائے تو فرمایا کہ اسے مرغابی والے کے سپرد کر دیا جائے۔ جب مرغابی والے سے انہوں نے زور دے کر تحقیق حال کی تو اس نے بتایا کہ اس نے مردہ مرغابی پکائی تھی، اور وہ شرمندہ ہوا۔ بعض نے لکھا ہے کہ سلطان کے آدمیوں نے امتحان کی خاطر دانستہ ایسا کیا تھا۔ ماہ رجب میں حضرت سید کا وصال ہوا۔ کہتے ہیں کہ اپنی مسجد کی تعمیر میں حضرت سید نے بہت کوشش کی۔ اس کا طول و عرض قبلہ عالم یعنی بیت اللہ کے طول و عرض کے برابر درست رکھا، اسی لیے اس کی بار بار تجدید تعمیر کرتے رہے۔ حضرت سید محمد کرمانی: عالی مقام سادات میں سے تھے۔ سلطان سکندر کے زمانے میں تشریف فرمائے کشمیر ہوئے۔ اردو بازار کے متصل تاشوان میں مدفون ہیں۔ ان کا مزار فیوض و برکات کا مقام ہے۔ یہیں اخوند ملا نازک کا مزار واقع ہے۔ حضرت سید فخر الدین: بہت بڑے بزرگ تھے سلطان سکندر کے عہد آخر میں وارد ہوئے۔ پرگنہ جرات کے موضع نبوہ میں مدفون ہیں۔ ان کی اولاد میں سے بھی اکثر صاحب کمال پیدا ہوئے۔ حضرت سید محمد ژندہ پوش: صاحب استغراق عالی تھے۔ مزار سلاطین کے کونے میں مدفون ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ سید ضیاء الدین زیرک کے بیٹے تھے جو موضع کاندھا میں مدفون ہیں اور یہ سید علاء الدین بخاری کے فرزند ہیں، جیسا کہ ان کا ذکر ہو چکا ہے بلکہ نام بھی معلوم نہیں ہے۔ سید عبداللہ وغیرہ کہ سید کمال الدین کے بھائی ہیں، محلہ حجہ بل میں مدفون ہیں اس محلہ کے اطراف میں دوسرے سادات بھی ہیں جن کے حالات بلکہ نام تک بھی معلوم نہیں ہیں۔ مذکورہ سید کمال الدین کے بھائی حضرت سید عبداللہ وغیرہ محلہ اندر واری میں دفن ہیں۔ امام الخافقین مرشد الثقلین حضرت سید حسین معروف بہ منطقی: بیہق(ایران) کے اکابر سادات میں سے تھے، جنہوں نے سلطان سکندر کے زمانے میں کشمیر کو اپنے وجود مسعود سے آراستہ کیا۔ کمالات عالیہ کے مظہر تھے۔ ان کے دو عالی گوہر فرزند تھے، سید حسین اور سید محمد ایلن معروف بہ بابا ہیرولیسی۔ ان کاذکر آگے چل کر آئے گا۔ سید حسین کی قبر مزار سلاطین میں قبلہ رو واقع ہے۔ بابا کے زمانے میں جب ہند سے ایک لشکر دیار کشمیر کی تسخیر کے لیے بڑھا تو ان پر یہ تہمت لگائی گئی کہ یہ جماعت خفیہ طور پر ان سے محبت کرتی ہے۔ جب انہیں اس صورتحال کی خبر ہوئی تو وہ مخالف لشکر میں چلے گئے اور دشمن اور اس کے لشکروں کو نصیحت فرمائی۔ جب انہوں (لشکریوں) نے ان کی قدر نہ جانی تو سید علیہ رحمہ حکام کشمیر کو ساتھ لے کر اس فوج کو بھگانے کے لیے باطنی طور پر متوجہ ہوئے۔ اسی وقت کاٹنے والی بھڑوں نے اس فوج پر ایسا غلبہ پایا کہ جانب ہند فرار کو غنیمت جانتے ہوئے وہ لوٹ گئی۔ حضرت سید محمد افضل: قومی جذبہ اور معنوی کمالات کے مالک تھے۔ محلہ نوشہرہ میں حضرت سید محمد مدنی کے مزار کے نزدیک مدفون ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہاں ان کا مکان ہے اور قبر مبارک آستانہ شیخ بہاء الدین میں بر سر مقبرہ ہے اور صحیح بھی یہی ہے۔ حضرت سید حبیب اللہ: بہت بڑے عزیز ہیں۔ محلہ نوشہرہ میں مدفون ہیں، ان کی قبر مزار سید محمد مدنی سے کچھ فاصلے پر بالاتر ہے۔ ان کی مسجد ایک مدت تک آباد رہی اور اب بھی اپنی پہلی حالت پر ہے۔ حضرت سید محمد خلیل: صاحب مقام جلیل، بہت بڑے بزرگ اور عالی نسب ہیں۔ ان کی قبر موضع سدربل میں ہے اور مرجع خلائق ہے۔ حضرت سید علی اکبر ثانی: صاحب قرب سبحانی اور میدان مایہ سومہ میں مدفون ہیں۔ یہ جگہ زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ سید محمد علی، سید محمد علی اور سید محمد ولبی: تینوں بھائی ناوہ پور کے محلہ ہار اندر میں آسودۂ خاک ہیں۔ بہت بڑے بزرگ ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ حضرت سید محمد مدنی کے رفقا میں سے ہیں۔ یہ تمام سادات کرام، جن کے اسمائے گرامی کی تحریر سے ’’ عقیدت انتظام‘‘ قلم چہرہ افروز سعادت ہوا ہے، ان مشاہیر بزرگوں میں سے ہیں جو سلطان قطب الدین اور سلطان سکندر کے زمانے میں امیرین مکرمین کے ہمراہ یا پھر سیاحت اور گوشہ نشینی کے خیال سے کشمیر میں وارد اور سکونت پذیر ہوئے اور ان بزرگوں میں سے اکثر کے مزارات مشہور و معمور اور زائرین کا مرجع ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برکات سے ہمیں بہرہ ور فرمائے۔ ان بزرگوں کے علاوہ کچھ اور حضرات بھی ہیں جن کے اسما، ان کی گوشہ نشینی، ان کے خود کو مخفی رکھنے اور گردش ایام کے ہاتھوں ان کی قبور کے مٹ جانے کے سبب لوگوں کی زبان پر مذکور نہیں ہیں۔ ان کی تعداد بے حد و بیشمار ہے۔ مصراع: کشتہ در قرب حق انداکنون کم رضی اللہ عنہم۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے بزرگ ہیں جن کی تعداد ان کی اولاد وغیرہ کی صورت میں آنے والے ایام میں ظہور پذیر ہوئی یا وہ حضرات جو امن و امان کی خاطر، اس کے بعد اس شہر بہشت نشان میں ورود فرما ہوئے۔ ان حضرات کا ذکر حتی المقدور اسی عہد میں، تاریخ نویسی کے سیاق و سباق کے تحت، نیاز رقم قلم سے مرقوم ہو گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔ ٭٭٭ عہد سلطان علی و زین العابدین سلطان علی نے اپنے عالی گوہر باپ سلطان سکندر کی وفات کے بعد، ارباب حل و عقد کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں تاج سلطنت سر پر رکھا۔ چھ برس اور نو ماہ اس نے حکمرانی کی۔ جب عنایت ازلی کی راہنمائی اس کے شامل حال ہوئی تو دل میں ترک سلطنت کا خیال کر کے اس نے مناسک حج کا ارادہ کیا۔ چنانچہ 1423/827میں زمام اقتدار اپنے بھائی زین العابدین کو تفویض کر کے بیت اللہ قبلہ اہل اللہ کو روانہ ہو گیا۔ زین العابدین میں صغر سنی ہی سے رشد و ہدایت کے آثار نمایاں تھے۔ دوسرا بیٹا سلطان سکندر ہے۔ آغاز شباب ہی سے ملکی تدابیر کے سلسلے میں اپنی صائب رائے کے باعث پنے ہم عصروں میں ممتاز تھا۔ شاہزادگی کے زمانے میں اسے ’’ شاہی خان‘‘ کہا جاتا تھا۔ باپ کے حکم پر کشمیر کی سوغات اور باپ کی عرضداشت لے کر امیر تیمور کی خدمت میں پہنچا تھا۔ امیر تیمور اسے اپنے ہمراہ سمرقند لے گیا اور اسے شہر بند کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران میں امیر تیمور رحلت کر گیا اور شاہی خان رہائی پا کر کچھ عرصہ سمرقند میں ٹھہرا، جہاں اس نے بعض علوم و آداب کا اکتساب کیا۔ پھر وہاں سے وہ بعض اہل صنائع کو مثلاً کاغذ بنانے والے، صحاف (جلد ساز) زین ساز اور دایہ عورتیں جو وضع حمل کے موقع پر عورتوں کی خدمت کرتی ہیں، اپنے ساتھ کشمیر لے آیا۔ امور سلطنت میں اپنے پدر بزرگوار کی اعانت و رفاقت میں وہ اپنے ہم عصروں سے بازی لے گیا۔ جب اس کے بھائی کو سلطنت ملی تو سلطان نے اس کی اطاعت و فرمان پذیری اختیار کی۔ بھائی کی روانگی کے بعد وہ پوری خود مختاری کے ساتھ تخت نشین ہوا۔ مولانا نادری کشمیری نے جو مولانا احمد کشمیری کے بعد فصیح ترین شاعر تھے، اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ سلطان علی، جمو (جموں) پہنچا کیونکہ اس کی بیوی راجہ جمو کی بیٹی تھی۔ راجہ نے ترک سلطنت پر اسے ملامت کی اور حج پر جانے سے روکا اور اسے لشکر کشی پر اکسایا۔ چنانچہ اس کافر کے فریب و دغا میں آ کر سلطان علی فاسد ارادہ لئے پکلی کے راستے سے کشمیر کی طرف متوجہ ہوا۔ سلطان زین العابدین نے جب یہ وحشت اثر خبر سنی تو وہ پوری جمعیت کے ساتھ بارہ مولہ سے گذر کر پکلی کی طرف بڑھا۔ راستے میں دونوں فریقوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ و جدال کے بعد سلطان زین العابدین مظفر و منصور ٹھہرا۔ اس نے سلطان علی کو پکلی میں محبوس کر دیا جہاں وہ بعد میں وفات پا گیا۔ چونکہ کچھ بے بصیرت لوگ، جیسے کہ سلطان کے رضاعی بھائی تھے، اپنے غلبے اور تسلط کی بنا پر امور مملکت میں مداخلت کرتے تھے، اس لئے سلطان نے حسن تدبیر اور مختلف حیلوں سے اس وقت کے ان سرداروں جیسے بلمت زینہ، احمد زینہ، جند اول اور ملک مسعود ٹھاکور کو گرفتار کر کے نوشہرہ میں قتل کر دیا۔ مصراع: سرکشی با پادشاہان عاقبت محمود نیست (بادشاہوں کے ساتھ سرکشی کا انجام اچھا نہیں ہوتا) وہیں اس نے قصر عالی کی تعمیر کی اور اس جگہ کو مستقر حکومت بنایا۔ مذکورہ بالا محل دنیا کے عجائبات میں سے تھا۔ چنانچہ میرزا حیدر کاشغری نے جس نے وہ محل دیکھا تھا، اپنی تاریخ میں اس کے اوصاف لکھے ہیں۔ ملک اب کسی دوسرے کی مزاحمت کے بغیر پورے استقلال کے ساتھ، سلطان زین العابدین کے قبضے میں آ گیا۔ اس نے حسن نیت اور اہتمام کے ساتھ خود کو اس شہر کی آبادی و تعمیر میں مصروف رکھا۔ نیز شہر اور پرگنہ کی تزئین و تعمیر اور ترتیب اور ارباب ہنر کی پرورش میں مشغول ہو گیا۔ پھر وہ صنعتیں جو اس شہر میں نہ تھیں یا عربی و فارسی میں لکھی گئیں دینی کتب اس نے ممالک ایران و توران بالخصوص خراسان سے کہ کشمیر سے نزدیک تر تھا، بڑے اہتمام اور جدوجہد سے درآمد کیں۔ ارباب حرفت مثلاً جلد ساز، کاغذ ساز و غیر ہم کے لئے جنہیں وہ خود باہر سے اپنے ساتھ لایا تھا، مدد معاش کا سامان کر کے انہیں اپنی اپنی صنعت میں مشغول کر دیا۔ اگرچہ اسلام کی ترویج اور سنت نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید کے معاملے میں اسے باپ کی سی توفیق میسر نہ آئی، تاہم اشاعت علوم اور عالموں اور فصحا و بلغا نیز اہل حرفہ کے اعزاز اور رعیت پروری کے سلسلے میں اس نے اپنی ہمت کے مطابق کوشش کی۔ اس نے زولجو کے ظلم کا تدارک کرتے ہوئے اس اراضی کو آباد کیا جو اس وقت روبہ ویرانی تھی۔ نیز ایک مدت تک شہر اور پرگنوں کی سیر و سیاحت میں مصروف رہا۔ اکثر اطراف کو اس نے تسخیر کیا۔ آخر آخر میں لشکر کشی کرتا رہا اور خود شہر ہی میں رہا۔ اس کے عہد میں ہندو اور مسلمان بلکہ تمام مذاہب کے لوگ باہم بر سر نزاع رہتے تھے۔ اس نے سب کو ان کے مقام پر رکھا، بلکہ مقدموں کے فیصلے کے لئے وہ ہر مذہب سے ایک آدمی لیتا جو اپنے آئین کے مطابق فیصلہ دیتا اسی وجہ سے اسے ’’ بڈ شاہ‘‘ یعنی بڑا بادشاہ کہتے تھے۔ جہاں کہیں کسی بھی فرقے کے لوگ جمع ہوتے وہ وہاں پہنچ جاتا گویا وسیع مشرب تھا اور صلح کل کا خواہاں۔ قدیم میں تالاب اولر کی جگہ خشک تھی اور شہر آباد تھا۔ راجہ جو وہاں سکونت پذیر تھا، بہت زیادہ فسق و فجور اور ظلم روا رکھے ہوئے تھا۔ اس کے ساکن زیر آب تھے اور اس دور کے لوگوں کو نصیحتیں کرنے اور ان کی عدم اطاعت کے سلسلے میں ایک کمہار کا قصہ مشہور ہے، مورخوں نے اسے تحریر کیا ہے۔ وہاں ایک اونچا بت خانہ تھا جو پانی میں کمی کے وقت اور موسم سرما میں دور سے نظر آتا تھا۔ سلطان زین العابدین نے گجرات (والوں) کی مانند ایک بڑی سی کشتی بنوا کر ڈبو دیا ور اس کے اوپر روڑی اور مٹی ڈال کر اس جگہ کی سطح، زمین کے برابر کر دی اور وہاں عمارت اور مسجد بنا دی۔ اس کا نام اس نے لنک رکھا۔ا س جگہ کو آباد کرنے سے پہلے سلطان نے غوطہ خوروں کو حکم دیا کہ وہ اس میں داخل ہو کر بت خانے کے اندر سے دو زرین بت باہر نکال لائیں۔ چنانچہ یہ بت لنک پر صرف کیے گئے لنک کی عمارت کی تکمیل پر اس نے بہت بڑا جشن برپا کیا اور بہت زیادہ بخشش و سخاوت کی بہت سے شعرا نے اس ضمن میں قصائد لکھے اور تاریخیں کہیں ہیں، جن میں سے ایک تاریخ یہ ہے۔، این بقعہ چو بنیاد فلک محکم باد مشہور ترین زیب در عالم باد شہ زین بود عبادتا درو جشن کند پیوستہ چو تاریخ خودش ’’خرم باد‘‘ (1443-847) (یہ عمارت، خدا کرے کہ بنیاد فلک کی مانند محکم رہے۔ دنیا کی مشہور ترین سجاوٹ بن کر رہے شاہ زین عباد (؟) ہو تاکہ اس میں جشن منائے۔ وہ اپنی تاریخ کی طرح ہمیشہ خرم رہے) یہ تاریخ ابھی تک ایک پتھر پر منقش ہے۔ شاہ نے سویپور سے سپور یعنی صفا پور تک ایک بند تعمیر کروایا۔ اس کے لیے تاپر کے بتخانہ سے جو بڑا بت خانہ تھا، پتھر منگوا کر اس بند کی مضبوطی کا سامان کیا، اور راد و کام کو اس بند کی مرمت کے لیے وقف کر دیا۔ اس کے علاوہ اس نے ہر ہر پرگنہ بلکہ اکثر مواضع میں جہاں جہاں وہ سیر و شکار کے لیے جایا کرتا تھا، اپنے عارضی قیام کے لیے عمارت بنوائی۔ جملہ فتوحات میں سے جو سلطان زین العابدین کا خاصہ ہیں، بعض یہ تھیں کہ اس نے اطراف کی تسخیر پر کمر ہمت باندھی اور دونوں تبتوں کو جو اس کے بھائی کے زمانے میں ہاتھ سے نکل چکے تھے، پھر سے تسخیر کر لیا اور انہیں اپنے تصرف میں لے آیا۔ البتہ کاشغر کا بادشاہ اس کے قابو میں نہ آیا۔ اس (شاہ کاشغر) نے ایک لشکر عظیم تیار کیا اور بہت بڑی جمعیت اور رستم صفت دلیروں کے ساتھ کشمیر کی تسخیر کے لیے بڑھا۔ سلطان کو جیسے ہی اس کی خبر ملی وہ فوج اور جنگ کی تیاری کے لوازم مہیا کرنے میں مصروف ہو گیا۔ جب فوج کی نفری ریکارڈ کی گئی تو بیس ہزار سوار اور ایک لاکھ پیادہ فوج ریکارڈ ہوئی۔ حیدر ملک نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ اس لشکر کا سردار او تر رینہ چادرو اور اس کا دادا تھا۔ طرفین نے لڑائی کے لیے صفیں آراستہ کیں اورداد مردانگی دی۔ کشت و خون کا معرکہ چند روز جاری رہا۔ بیت: از فروغ تیغ، سوزان شد ہوای معرکہ وزتف سچا (؟) بجواش آمد زمین کار زار (تلواروں کی چمک سے میدان جنگ کی فضا تپ اٹھی اور سچا (؟) کی جھاگ سے کار زار کی زمین ابلنے لگی) آخر کار ’’ کم من فئتہ قلیلتہ غلبت فئتہ کثیرۃ بازن اللہ‘‘ کے مصداق سلطان غالب ہوا اور کاشغر کا بادشاہ ہزیمت اٹھا کر چلا گیا سلطان صفات حمیدہ سے متصف تھا۔ بڑی رعایت پروری کرتا۔ راتوں کو لباس بدل کر باہر نکل آتا تاکہ اپنے عمل کی اچھائی اور برائی کے بارے میں لوگوں کی رائے جانے۔ ہفت زینہ اسی کا آباد کردہ ہے۔ اسی طرح زینہ کوٹ، زینہ پور، زینہ پور، زینہ وت، زینہ کیر، زینہ کدل، زینہ لنک اور زینہ بازار اسی کے آباد اور تعمیر کردہ ہیں۔ زینہ کیر کے دشت میں اس نے بلند محل اور رفیع الشان مکان بنوائے۔ قسم قسم کے پھول اور پھل لگوا کر وہاں کچھ اس ڈھب سے آبادی اور طراوت پیدا کر دی کہ دوسرے ممالک میں ویسی دکھائی نہ دیتی تھی۔ چکوں کے عہد تک وہ اسی حالت میں تھی میرزا حیدر نے اپنی تاریخ میں اس کے اوصاف قلمبند کیے ہیں۔ نمازی چک کے عہد میں ایک دوسرے سے حسد کے باعث سب کچھ درہم برہم کر دیا گیا اور آگ لگادی گئی۔ ’’ اولادکم عوکم‘‘ اکے مطابق سلطان کو فقرا کی صحبت و خدمت بلکہ ان سے حاصل کردہ اذکار و افکار کی تعلیم کے نتیجے میں حق سبحانہ سے ایک تعلق خاص تھا اور وہ صفائے باطن سے آراستہ تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے منجھلے بیٹے کے دل میں برا ارادہ پیدا ہو گیا۔ ایک موقع پر جب سلطان اولر تالاب میں تھا، اس نے اس بیٹے سے کہا کہ میری تسبیح عبادت خانہ لنک میں رہ گئی ہے جلدی سے لے آ جب وہ گیا تو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ (بادشاہ) وہیں بیٹھا تسبیح میں مشغول ہے۔ بیٹا، باپ کے اس کمال سے آگاہ ہو کر اپنے اس ارادے سے باز آ گیا اور تائب ہوا۔ سلطان نے تالاب اولر کے منبع کے آگے، جو براری ننبل کے راستے سے دریائے بہت (جہلم) میں گرتا تھا، بند باندھا اور دیوار کھڑی کر دی اجھن کی آبادی کی خاطر ندی مار کر کھدائی کروائی۔ اس نے باون برس حکومت کی اور 1473-878میں دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اسے دریائے بھٹ کے کنارے واقع مزار میں قبلہ رو اور اپنے باپ کے بالمقابل آرام گاہ میسر آئی۔ ان عالی مرتبہ حضرات کا ذکر جو اس کے عہد میں بر سرکار رہے اور اس دنیا سے رحلت کر گئے۔ 1سب سے پہلے، قلت کی بنا پر، بعض فضلا کا ذکر کہ ان کے بارے میں بس اتنا کچھ ہی معلوم ہو سکا۔ 2پھر اس عہد کے سادات و مشائخ کا تذکرہ کہ طویل ہے، تحریر کیا جائے گا۔ پوشیدہ نہ رہے کہ سلطان زین العابدین کے عہد میں کشمیر میں بہت سے فضلا اور شعرا تھے، کیا اہل ایران وغیرہ اور کیا وہ جو اسی سراپا لطافت شہر میں پیدا ہوئے۔ چونکہ کسی نے ان کے بارے میں نہ لکھا اس لیے ان کے حالات مخفی رہ گئے۔ اس عدیم المثال بادشاہ کے زمانے کے ارباب کمال میں سے یہ حضرات قابل ذکر ہیں: ملا احمد: فصیح، عالم، شاعر، ظریف اور سلطان کا ندیم و مصاحب تھا۔ دستار کا شملہ پیشانی پر رکھتا۔ ایک روز سلطان نے جو خود صاحب طبع موزوں اور اس وقت بزم سجائے ہوئے تھا، مولانا کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا۔ بیت: شاخ پیشانی ملا احمد کشمیر بین گر ندیدستی تو در آفاق انسان شاخ دار (کشمیر کے ملا احمد کی پیشانی کا سینگ دیکھ لے اگر تو نے دنیا میں سینگ والا انسان نہیں دیکھا تو) مولانا نے سلطان کے جواب میں برجستہ کہا۔ بیت: شاخ پیشانی خدیو کرک واری داشتم تانیایم درمیان مادہ گاوان در شامہ (اے بادشاہ میرے پیشانی کے سینگ گینڈے کے سینگوں کی مانند تھے (ہیں) تاکہ میں گائیوں میں سے نہ سمجھا جاؤں) سلطان نے اس پر تحسین فرمائی اور انعام و اکرام سے نوازا۔ جب مولانا کو کسی خطا پر پکلی ’’ہزارہ‘‘ بھیجا گیا تو ایک مدت تک حیرت و استعجاب کے عالم میں سرگردان رہا۔ آخر کار یہ رباعی لکھ کر پکلی سے سلطان کی خدمت میں بھیجی، جس سے سلطان خوش ہو گیا اور مولانا کو واپس بلا لیا گیا نیز انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ رباعی یہ ہے: نے بہ نحوم ز مبتدا خبرے نے بمنطق ز جزووکل اثرے برمن این کسروجر چرا رانند احمد از غیر منصرف خوانند (نہ تو مجھے علم نحو کے مبتدا ہی کی کوئی شد بد ہے اور نہ منطق کے جزو کل ہی کا کوئی علم پھر یہ مجھ پر زیر اور زبر کس لیے چلائی جا رہی ہے۔ احمد کو ’’ غیر منصرف‘‘ پڑھتے ہیں) صاحب فضل و کمال، عالم تحریر اور متقی بے نظیر مولانا کبیر: سلطان کے استاد تھے۔ صغر سنی ہی میں ہرات چلے گئے اور تحصیل علوم کے بعد وہیں مقیم ہو گئے۔ سلطان نے انہیں اصرار کے ساتھ بلایا اور اپنے محل کے جوار ہی میں انہیں جگہ دے دی۔ سلطان نے شیخ الاسلام یعنی صدارت کا منصب، جو اس وقت تک اس شہر میں رائج نہ تھا، مولانا کو عطا کیا۔ اسی جگہ ایک مدرسہ تعمیر کیا اور طالب علموں کے وظائف کے لیے چند گاؤں وقف کر دیے۔ مولانا کا مقبرہ نوشہرہ میں مشہور و متبرک ہے۔ قاضی القضاۃ مولانا جمال: ان حضرات کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ وہاں سے ترک وطن کر کے خانقاہ امیریہ میں وظائف و اوراد میں مشغول رہے۔ اس مقولے کے مطابق کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے، ان کی وضاحت و کمالات بلاغت کی خبر رفتہ رفتہ سلطان تک پہنچ گئی۔ چنانچہ اس نے انہیں اپنے پاس بلایا اور مسلمانوں کی خدمت قضاء ان کے سپرد کی۔ مولانا فنون علوم سے آراستہ تھے۔ فیصلے دیانت کے ساتھ کرتے۔ یہ مولانا جمال الدین، مولانا ملا جمال الدین سیالکوٹی سے جو قبیلہ قاضیاں کے جد تھے جس (قبیلے) کا ذکر آگے آئے گا، الگ ایک دوسری شخصیت ہیں۔ ان مشہور اور معلوم سادات اور درویشوں کا ذکر جو سلطان ذین العابدین کے زمانے میں کشمیر میں تھے، یا اس دور میں رحلت فرما گئے یا پھر ایران و عرب سے آ کر کشمیر میں سکونت گزین ہو گئے۔ حضرت سید حسن منطقی: سید حسین منطقی کے بڑے بیٹے تھے، جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ فیوض الٰہی کے مظہر اور بیشمار کمالات کے سرچشمہ تھے۔ انہوں نے راہ باطن کی باریکیوں کے ساتھ علوم و معارف کو جمع کیا تھا۔ سیادت و ولایت کی مسند کے لیے باعث زیب و زینت تھے۔ ان کے عہد میں کسی کو بھی ان پر فوقیت حاصل نہ تھی۔ انہوں نے موضع دنتی پور میں جو اس وقت ایک آباد علاقہ تھا، علم رشد و ہدایت کی ترویج کی اور وہ مدفون بھی وہیں ہیں۔ ان کا مقبرہ شریف ایک مشہور زیارت گاہ ہے، جس کے فیوض و برکات اور جذبات کا چرچا طالبوں کی زبان پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت ان پر ہو۔ شیخ بہاء الدین گنج بخش کشمیری قدس سرہ عارف ربانی شاہ اسحاق ختلانی کے تربیت یافتہ ہیں۔ جب کہ شاہ (اسحاق) جناب قطب ربانی امیر کبیر علی ثانی کے خلیفہ اول و اعلیٰ اور مقامات و طریقت حقیقت کے تمام خلفا کے مرجع ہیں۔ حضرت بہاء الدین نے جب سلوک کی تمام منزلیں طے کر لیں اور تمام مراحل قطع کر لئے تو وہ جذبات کے غلبے اور احوال کے زور کے نتیجے میں ایک مدت تک عزلت و گمنامی کے پردے میں مسطور رہے۔ جب مخدوم عثمان معروف بہ ’’ بابا احی گنائی‘‘ کی آرزوئے طلب پوری ہو گئی تو انہوں (بابا) نے حرمین شریفین کے طواف کا ارادہ کیا، جہاں بہت سے اللہ والوں کے ساتھ ان کی صحبت رہی۔ وہ ہر جگہ تلاش و جستجو میں مصروف رہے تاکہ ولایت کا کوئی مقتدی اور ہدایت کا کوئی راہ دان انہیں مل جائے اور وہ انہیں خدا سے ملا دے اور ماسوا کے تعلق سے انہیں نجات دلا دے۔ چنانچہ کسی ابدال سے ان کی ملاقات ہو گئی، جن کا نام جناب شیخ ابو اسحاق شطاری تھا۔ شطاری نے بابا کو ان (شیخ بہاء الدین) کا پتا بتایا اور شیخ کے تمام احوال تفصیل سے بیان کیے۔ بابا عثمان تلاش میں سرگرداں اور یہ شعر پڑھتے ہوئے کشمیر پہنچے شعر:ـ پس ازین بدیدہ خواہم بطواف کویت آمد کہ بسود تابزانو قدمم بجست و جویت (اس کے بعد میں آنکھوں کے بل تیرے کوچے کے طواف کے لیے آؤں گا کیونکہ تیری جستجو میں میرے قدم زانو تک گھس گئے ہیں) جہاں انہیں شیخ کا سراغ مل گیا یعنی انہیں مرشد مل گیا، اس واقعے سے شیخ کی شہرت ہو گئی۔ مشہور ہے کہ سلوک و معرفت کی پر چلنے کے زمانے میں حضرت شیخ بہاء الدین رزق حلال کے حصول میں متفکر تھے۔ انہیں اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا کہ راستے میں جہاں کہیں بھی روٹی وغیرہ کے ٹکڑے دکھائی دیتے وہ انہیں اکٹھا کر لیتے او ردن بھر میں جتنے ٹکڑے اکٹھے ہوتے انہیں وہ دھو کر پاک کر لیتے اور اس طرح اپنی خوراک بہم پہنچا لیتے۔ ان کی شہرت کا ایک سبب اپنے روٹیاں پکانے والے بوڑھے خادم کا زندہ کرنا ہے۔ شیخ کے کمالات اور کرامات بہت ہیں، اور حکایات جذبات بے شمار۔ ایک رات حسب معمول سیر صحرا کی خاطر شہر سے چلے۔ چور گھات میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے اس خیال سے کہ شیخ کے پاس بہت مال و متاع ہو گا، انہیں شہید کر دیا۔ بادشاہ وقت سلطان زین العابدین کو اس واقعے کی خبر خواب میں معلوم ہوئی۔ اس نے تفتیش حال کی۔ شیخ نے اس سے پہلے کہیں یہ پیشین گوئی کر رکھی تھی کہ امر ناگزیر (موت) کے وقوع کے بعد ان کے پاؤں میں رسی ڈال کر انہیں کشاں کشاں لے جایا جائے گا لوگ اس سے پریشان اور فکر مند ہوئے تھے۔ کافی غور و خوض کے بعد ایک پالنا لایا گیا، اس میں ان کی مبارک نعش رکھی گئی اور اس پالنے کو رسی کے ساتھ کھینچا گیا، اس طرح یہ تابوت ان کے پر انوار مزار تک لے گئے۔ یہ واقعہ 1445/849میں رونما ہوا۔ جناب سید السادات حضرت سید محمد مدنی اور شیخ العرفا حضرت شیخ نور الدین سے شیخ کی خاصی صحبت رہی۔ جناب بابا عثمان کا کہنا ہے کہ جناب شیخ نور الدین جناب شیخ بہاء الدین کو اپنے ہم عصروں پر فائق جانتے تھے۔ شیخ کے فیوض و برکات آج بھی ان کے مقبرے سے ظاہر ہیں۔ آج کل ان کا بلند مزار بڑے بڑے سادات اور مشائخ ابرار کے مقبرں کے بقیع گلزار مزار کی طرح ہے، جس کا کسی قدر ذکر اس کتاب میں اپنے مقام پر آئے گا۔ حضرت سید بدر الدین زینہ کدلی: قدیم سادات میں سے اور محلہ زینہ کدل میں جانب مغرب مدفون ہیں۔ بلند مرتبہ قادریہ طبقے کے صوفی ہیں۔ راقم حروف کے ننھیال کے گھر کا صحن ان کے مزار کا مقام ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے ایک مدت تک قبر شریف ظاہر تھی۔ بعد میں حوادث روزگار اور زمانے کی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث مستور ہو گئی، تاہم کچھ عرصے سے، بعض احباب کی کوشش کے نتیجے میں، پھر ظاہر ہو گئی ہے۔ فیوض و برکات کی جگہ ہے۔ مجمع البحرین مطلع النیرین سید الخافقین 58؎ حضرت سید حسین قدس سرہ: معرف بہ بلاذر یا بلادرومی، سیادت اور ولایت کے مراتب کے جامع تھے۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں جناب بابا عثمان گنائی مکہ معظمہ میں خدمت بابرکت حضرت شیخ اسحاق شامی سے قطب السالکین حضرت شیخ بہاء الدین کے اوصاف سن رہے تھے، انہی دنوں خدمت حضرت سید السادات بھی مناسک حج ادا کرنے کے سلسلے میں اس مقدس بنیادمقام پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ بابا عثمان کے ہمراہ کشمیر تشریف لے آئے۔ وہ بڑی واضح نشانیوں کے مصدر اور احوال عالی کے مظہر تھے۔ دین و دنیا کے اکابر، اصفیا کے ان پیشوا کی جناب سے اپنی تمام ظاہری اور باطنی مہمات میں مدد کے خواہا ہوتے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا مرقد مطہر بڑے بڑے اولیا کا مرجع اور پناہ گاہ تھا اور اس درگاہ سے خاصان الٰہی کی مشکلات حل پذیر ہوتی تھیں، اوسط درجہ کے لوگوں اور عوام کا تو ذکر ہی کیا، کہ ان عالی مرتبہ حضرت کے بارے میں تو ان (عوام وغیرہ) کے عقیدے کا کچھ اور ہی رنگ ہے۔ جناب مخدوم الاولیا حضرت شیخ حمزہ تو کوئی بارہ برس تک مسلسل ان کے روضہ شریفہ کی زیارت اور بے شمار فیوض و فوائد حاصل کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے خلفا کی کتابوں میں ان باتوں کا اعتراف ہے اور اس بابت اشارے ملتے ہیں۔ آنجناب کی نسبت طریقت کی کیفیت اور سلسلے کا تعین پورے طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔ بعض انہیں شیخ اسحق شطاری سے منسوب کرتے ہیں اور اکثر حضرت شیخ بہاء الدین سے ان کے تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ جن دنوں یہ سراپا جرم و خطا راقم (مصنف) حضرت الیشان خلیفہ الرحمن قدس سرہ کی مخصوص عنایت کا منظور نظر تھا تو اپنی عدم لیاقت کے باوصف مجھے بعض راتوں کو اکثر حضرات کی روحانیت میں زیارت میسر آئی۔ انہی میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جن دنوں میں حضرت سید السادات کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ان کے روضہ مبارک کے اندرونی اطراف میں، بصورت کتاب، قادریہ شجرہ عالیہ بڑے پر تکلف اور خوبصورت انداز میں لکھا ہوا ہے۔ اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ مختصر یہ کہ یہ درگاہ خاص و عام کے لیے فیض بخش اور مختلف گروہوں کے لیے طواف گاہ ہے۔ ان کا وصال کرامت مثال لوگوں کی زبان پر 20رجب ہے۔ حضرت سید نور الدین زینہ کدلی: بظاہر سید بدر الدین کے بھتیجے ہیں۔ پرانے لوگوں سے سنا گیا ہے کہ دوسری قبر ان کی ہے۔ گردش زمانے کے سبب چھپ گئی تھی۔ اس دوران میں بعض اہل کشف کے اشارے پر جنہیں بار بار انتباہ ہوا تھا (وہ قبر) پھر ظاہر ہو گئی اور سنگ مزار پر قدیم خط میں لکھی ہوئی یہ رباعی پائی گئی: جامعیت کہ عقل آفرین می زندش صد بوسہ زشوق برجبین می زندش آن کوزہ گر دہر چنین جام لطیف می سازد و بازبر زمین می زندش (یہ ایک جام ہے جسے عقل آفرین کہتی ہے، شوق کے مارے سینکڑوں بوسے اس کی پیشانی کے لیتی ہے، زمانے کا وہ کوزہ گر اس قسم کا جام لطیف بناتا ہے اور پھر اسے زمین پر پٹخ دیتا ہے) دونوں مبارک قبریں فیوض و برکات کی سرچشمہ ہیں۔ وہاں چھوٹی سی قدیم مسجد بھی موجود ہے جسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ محرم راز عرف حضرت سید جانباز: اسرار الابزر کے مصنف نے ان کا اصلی نام سید محمد رفاعی لکھا ہے، جب کہ سید علی نے جو ان سادات کے قریب العہد ہیں، اپنی تاریخ میں ان کا مبارک نام سید محمد اصفہانی تحریر کیا ہے۔ ظاہری و باطنی علوم کے جامع اور صاحب ارشاد تھے۔ تجرید میں زندگی بسر کی۔ شروع شروع میں شہر میں رہے۔ جب خاص و عام لوگوں کا ہجوم ان کے اوقات شریفہ میں مخل ہونے لگا تو انہوں نے فراغت کی خاطر گوشہ گیری اختیار کر لی، اور بارہ مولہ تشریف لے گئے، جہاں اہل و عیال سمیت سکونت پذیر ہو گئے۔ راہ حق میں ظاہراً اور باطناً جان بازی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ سلطان زین العابدین نے ان کی معیشت کی خاطر چند گاؤں ان کے نام کر دیے۔ نیز گھوڑوں کے چارے کے لیے جانبا زپورہ کی چراگاہ بھی انہیں عنایت کر دی۔ اس وقت یہ چراگاہ ایک صحرا کی صورت میں تھی۔ بارہ مولہ میں اپنے پیروکاروں اور لواحقین کے ساتھ مدفون ہیں۔ ان کا کثیر الانوار مزار مرجع عالم ہے۔ اسلاف کی باتوں سے معلوم ہوا کہ ان کے مقبرے کے اطراف اہل ایران کی موجودگی سے کم ہی خالی ہوتے ہیں، یعنی ان کی کوئی نہ کوئی جماعت آتی ہی رہتی ہے۔ راقم حروف کو بھی ایک دو مرتبہ اس قسم کے امر کے وقوع پذیر ہونے کا پتا چلا ہے۔ حضرت سید ہلال: آسمان کمال کے بدر اور عظمت حال کے مالک ہیں۔ سادات کے دورہ فترت میں انہوں نے کشمیر کو اپنی تشریف آوری سے مزین کیا، اور لوگوں کو ظاہری اور باطنی فیوضات سے نوازا۔ ان کی باطنی نسبت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ان کا تعلق فرقہ کبرویہ سے تھا اور اکثر کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت خواجگان عالی شان کے طریقہ سے وابستہ تھے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ کسی واسطے کے بغیر حضرت خواجہ بزرگ بہاء الحق والدین شاہ نقشبند مشکل کشا قدس سرہ سے انہوں نے کسب فیض کیا۔ چونکہ عوام کی زبان پر خواجہ ہلال کے نام سے مشہور ہیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لفظ بھی ان کے نقشبندی ہونے کی واضح دلیل ہے۔ میں نے اپنے پیر بزرگوار سے بھی سنا ہے کہ جب بھی میں ان کی قبر مبارک پر توجہ سے بیٹھا ہوں نقشبندی نسبت غالب آ جاتی رہی۔ اس امر کا احتمال ہے کہ آغاز کار میں نقشبندی ہوں، جب وارد کشمیر ہوئے تو حضرت سید محمد ہمدانی سے علی کے خلفا کے ساتھ نسبت کبرویہ بھی حاص کر لی ہو۔ بہرحال مظہر فیوض تھے۔ پرگنہ سائر المواضع کے موضع اشم کے پائین آسودہ خاک ہیں۔ حاجت مند ان کی قبر کی برکات زیارت سے متعلق عجیب و غریب باتیں بیان کرتے ہیں۔ پیر تعلیم و صحبت جناب سید السادات سرچشمہ برکات سیدنا حضرت بابا میر محمد امین اویسی کا ذکر آنجناب کے احوال میں مرقوم نہ تھا۔ حضرت بابا حاجی ادہم: بعض نے انہیں ادہمی لکھا ہے۔ سلطان ابراہیم ادہم کے خاندان سے منسوب ہیں۔ اکابر وقت میں سے اور ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔ وطن سے نکل کر مناسک حج ادا کیے اور بعد میں کشمیر کو اپنے مبارک قدموں سے نوازا۔ حضرت شیخ بہاء الدین کے صحبت داروں میں سے تھے، جب کہ شیخ المشائخ شیخ نور الدین ان کے معاصر تھے۔ میر داری کے مقام پر جو شاعر داری کے نام سے مشہور اور اب شاہی قلعہ کے باہر ہے، مدفون ہیں۔ حضرت سید محمد امین منطقی بیہقی المعروف بہ بابا میر اویسی، حضرت سید حسین بہقی کے فرزند ارجمند اور نخل برومند کے ثمرہ ہیں۔ سادات زمانہ کے برگزیدہ، اس کام کے محرموں کے محتشم اصحاب طریقت کے منتخب اور ارباب سیادت کے پیشوا تھے، کرامات اور جذبات کے معاملے میں خوب جانے پہچانے اور مشہور ان کی تربت خاص و عام کی زیارت گاہ ہے۔ ظاہری اور باطنی علم کے بہت بڑے عالم تھے۔ ان کا آستانہ متبرکہ پر فیض اور بابرکت ہے۔ آنجناب کی مدح میں قدمائے نظم و نظر میں جو کچھ کہا ہے وہ بہت زیادہ ہے ان میں سے ایک یہ ہے، نظم: مدح بابای میر اویس کنم تازبان راست در دہان دارم ہست فرزند پیشوای رسل وصف اور بیحد و بیان دارم او ولی از رہ اویس شدہ خبراز پیرو از جوان دارم بے زن و بے ولد چو عیسیٰ بود یاد از پیر باستان دارم فاضل وقت بود و عارف دہر این سخن ہم ز ترجمان دارم (1جب تک میرے منہ میں زبان سیدھی ہے میں بابا میر اویس کی مدح کرتا رہوں گا۔ 2وہ رسولوں کے پیشوا کی اولاد سے ہیں۔ میں ان کا بہت زیادہ وصف بیان کرتا اور ذکر کرتا ہوں۔ 3وہ اویسی طریقہ سے ولی ہوئے اس کی خبر مجھے بوڑھوں اور جوانوں سے ملی ہے۔ 4وہ حضرت عیسیٰ ؑ کی مانند بیوی اور بچوں کے بغیر تھے۔ یہ بات مجھے قدیم بوڑھے سے معلوم ہوئی۔ 5وہ اپنے وقت کے فاضل اور زمانے کے عارف تھے۔ یہ بات بھی مجھے ترجمان سے معلوم ہوئی) اہل راز کے اس پیشوا کی بزرگی و ولایت کے آثار چھٹپنے ہی سے روشن اور نمایاں تھے اور فہم و فراست کی تیزی اور فطرت و فطانت کی بلندی میں اپنے عہد کے بے مثل ان کی گفتگو میں ملاحت تھی، لطف طبع اور حسن خلق شہدسے بھی زیادہ شیریں۔ غلبہ حال اور دولت بے زوال کے کمال کے باوجود کبھی کبھی شعر گوئی کی طرف بھی توجہ فرما لیتے۔ شعر میں بھی انکسار و نیاز مندی کا اظہار کرتے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا: شعر: گناہ ماز عدم گر نیا مدے بوجود وجود عفو تو در عالم عدم بودے (اگر عدم ہی سے ہمارا گناہ وجود میں نہ آتا تو تیری بخشش و عفو کا وجود عدم میں ہوتا) سلطان زین العابدین علیہ رحمتہ نے آنجناب کے اطوار محمودہ، اوضاع مقبولہ، اخلاق حسنہ اور خوے کریمانہ دیکھ کر ان کے والد ماجد سے التماس کر کے آنجناب کو فرزندی میں لے لیا اور ان کی پرورش و تربیت شروع کر دی۔ سلطان نے ارباب سیادت کے اس افتخار کی انتہائی عقل و فراست کی بنا پر بعض امور مملکت ان کے سپرد کرنا چاہے لیکن خورشید ضمیر حضرت میر قدس سرہ نے قبول ن کیا اور دنیوی اشغال سے کلی طور پر منہ پھیر لیا۔ کوہ مار ان کے نشیب میں، جسے میر داری یعنی باغ میر کہتے ہیں اور جو آنجناب سے ہے، گوشہ نشینی اختیار کر لی اور لوگوں سے میل ملاپ بالکل ختم کر دیا۔ اس زمانے میں انہوں نے اس ضمن میں ایک ترجیع بند کہا۔ اس عمدہ ترجیع بند کا کچھ حصہ یہ ہے۔ ترجیع بند: عاشقان ہمتے کہ کر دم ساز رخت بربستم از مقام نیاز عارفان رحمتی ز راہ کرم کہ ندارم بجز شما ہم راز واصلان جذبہ زعین رضا تاشوم باشما دمے دمساز حاضران التماس تکبیری کہ رہ سخت و منزلیست دراز رہ صدق و صفا گرفتم پیش میل مہر و وفا نمودم باز از مخالف ہمی کنم آہنگ تارسم با نوار راہ حجاز ہمچو شمعی، زجمع دلداران می روم، باہزار سوز و گداز مرکبم ہمت ست و عشق دلیل ہمر ہم آہ و نالہ ام دمساز بار ہجران و کار درد فراق کار خون خوردنم نشیب و فراز خاک پامی شمایم اے رندان چون کہ گردید بامن این آغاز شمہ می کنم بہ بند اخیر از مقامات خویشتن ابراز حالیا چون طریق در پیش ست کردم اطناب قصہ را ایجاز چونکہ این منزل اقامت نیست گوئیامی کنم ہمین آواز بعد ازیں ولیس ترک گفت و شنود کبخ کوہ و عبادت معبود (2) من کہ دراصل بودہ ام عنقا قلہ قاف داشتم ملجا این زمان من باصل خویش شوم کہ باصلت مرجع اشیا کنج وحدت قرار گاہ منت ز انکہ کنج ست گنج را ماوا آمدہ بر طریق مہمانی پنج روزی برین سپنج سرا میزبانان دہر را دیدم ہر یکی خود بسان اژدرہا نوش ند ہند غیر نیش بکس بے سم ذل نوالہ حلوا چون بدیدم براہ معنی نیست با دل خستہ گفتم اے شیدا کاب حیوان کس نسازم نوش گر بمیرم برنج استسقا گنج مقصود کائنات منم بردرت گرفتادہ ام چو گدا باتوام اتحاد روحانیست گرکند بخت یاوری بخدا کردہ ام عہد وبستہ ام پیمان کہ بہ توفیق ایزد دانا بعد ازین ویس ترک گفت و شنود کنج کوہ و عبادت معبود (3) آزمودم جہان و اہل جہان آنچہ بستند آشکار و نہنان ہمہ دربند خویشتن مشغول ہمہ درکار خویشتن حیران بے ترحم بحال غم زدہ نے تکلف بہ لطف یا احسان جملہ در قصد خون یک دگرند اوفتادہ چوموش در انبان کارشان نے بغیر کذابی بارشان نے بخلق جز بہتان درمیان شان ہر آنکہ کہتر تر سرور عصر و اعظم دوران نکنند التفات رنجوری ور دم عیسوی بود دم شان ہر کرا گرمی زسر بینند بر قدومش کنند سر قربان گربود کار سامری اورا می بدانند موسی عمران کس نگوید کہ این خران تاکی جان دہند از برای یک لب نان چون بہ بینند آشناے درش ہمچو سگ می براندش دربان روشنم گشت چون حقیقت حال امی دل و جان بگو بجان جہان بعد ازین دیس ترک گفت و شنود کنج کوہ و عبادت معبود (4) ننمودیم عجز خود باکس ننشتہ بخوان کس چو مگس بے طمع از در صغار و کبار بے خصومت بہر کس و ناکس نے امیدے ز کس ہوا خواہی نے ہرا سے ز کذب دون دو کس نے خیالی بہ کاروبار جہان نے حجابے بہ جستجوی عس بودہ قانع بطعمہ چو ہمامی نے پے لاشہ ماندہ چون کرگس ہر خدنگے کہ آمد از دوران بنمودہ بہ چشم من چون خس بہر ادراک معنی مصنوع شدہ سائر بہر طرف بہ ہوس من گرفتار آن چنان حالی کہ امیدم نبود غیر نفس چون یقین شد مراکہ خلق زبان بجفایم کشادہ ہمچو جرس گاہ گاہی گذر کند در دل کہ چہ خوردم چہ بردہ ام از کس من کہ شہباز حضرتم ہیہات چند باشم د گر بہ بند قفس بگسلم بند و بشکنم زنجیر باز رانم باستانہ فرس ہر کسے را بہ خویشتن کارے من و سودامی یار دارم و بس بعد ازیں دیس ترک گفت و شنود کنج کوہ و عبادت معبود (5) گنبودی چنین تنم بیمار ہمچو دل می شدم بجان بیزار از جمیع خلائق عالم تا ندیدے ز من کسے آثار گر کنم در خرابیش تعجیل بود از جملہ ذنوب کبار ز ان سبب ماندہ ام میان شما بہر نانی چنین بزاری زار آبرویم نماند از پی نان کاشکے خاک خورومی یا نار از دل من وقوف کس رانیست زانکہ دل نیست درمیان کنار اندر آنجا کہ کذب و بہتانست حسد و حرص و بخل کردہ قرار نیست آن دل کہ نزد اہل خرد بجز از گوشت پارہ بشمار من غلام دلم اگر دانی دل چہ باشد خزانہ اسرار دل مومن چو عرش رحمانست دل مرنجان بگفتمت زنہار نیست آن بہ کہ من شہید شوم یا بسوزم وجود را بہ شرار حالیا گر نشد میسر من می کنم فکر این بہ لیل و نہار کیس دغل دوستان دشمن خو چون بخواہند کشتنم بردار بعد زین ویس ترک گفت و شنود کنج کوہ و عبادت معبود ترجمہ: (1) 1عاشقو! کچھ ہمت (عطا ہو) کہ میں نے تیاری پکڑ لی، میں نے مقام نیاز سے بستر باندھ لیا ہے۔ 2عارفو! از راہ کرم کچھ رحمت کیجئے کہ تمہارے سوا میرا کوئی ہم راز نہیں ہے۔ 3 واصلو! (واصل بہق حضرات) عین رضا کا کچھ جذبہ عطا ہو تاکہ میں ایک لمحے کے لیے تمہارا دمساز بن جاؤں۔ 4حاضرین! ایک تکبیر کی التماس ہے، کیونکہ راستہ دشوار اور منزل دور ہے۔ 5 میں نے صدق و صفا کی راہ اختیار کر لی، پھر میں مہر وفا کی طرف مائل ہوا۔ 6 میں مخالف کے ساتھ موافقت کر رہا ہوں تاکہ میں نوار کے ساتھ راہ حجاز پہنچ لوں۔ 7میں دلداروں کی جماعت سے، شمع کی مانند ہزاروں سوز و گداز کے ساتھ جا رہا ہوں۔ 8 ہمت میری سواری اور عشق میرا رہنما ہے، میری ہمراہی آہ اور میرا رفیق نالہ ہے۔ 9 ہجر کا بوجھ اور درد فراق کا کام، نشیب و فراز (کے سبب) خون پینا کام ہے؟ 10 اے رندو! میں تمہاری خاک پا ہوں، اس لیے کہ میرے ساتھ ایسا آغاز ہو چکا ہے۔ 11 میں اپنے ’’ مقامات‘‘ کا کچھ حصہ اخیری بند میں ظاہر کرتا ہوں 12اب چونکہ سفر در پیش ہے اس لیے میں نے قصے کو طول دینے کی بجائے اختصار سے کام لیا ہے۔ 13 چونکہ یہ ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے، اس لیے یوں سمجھو کہ میں یہی آواز لگا رہا ہوں 14 اے دیس اس کے بعد سے سب گفتگو بحث مباحثہ بند، اب تو پہاڑ کا گوشہ اور اس معبود کی عبادت (ہی اپنا کام ہو گا) (2) 15میں کہ اصل میں عنقا تھا اور کوہ قاف کی چوٹی میرا ٹھکانا تھی 16اس لمحے میں اپنی اصل کی طرف جاتا ہوں کیونکہ ہر شے اپنی اصل کو لوٹتی ہے۔ 17 کنج وحدت میری قرار گاہ ہے، کیونکہ کنج گوشہ ہی گنج خزانے کا ٹھکانا ہوتا ہے۔ 18 یہاں اس عارضی سرا میں بطور مہمان کے پانچ روز کے لیے آیا ہوں۔ 19 میں نے زمانے کے میزبانوں کو دیکھا ہے، ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اژدہا کی صورت ہے۔ 20 ڈنک کے سوا کسی کو کوئی اور مشروب نہیں دیتے، حلوے کا نوالہ خواری کے زہر کے بغیر نہیں دیتے۔ 21جب میں نے دیکھا کہ یہ سب کچھ درست نہیں ہے تو میں نے زخمی دل سے کہا کہ اے دیوانے، 22 میں کسی کا آب حیاب بھی نہیں پیوں گا، خواہ میں شدت تشنگی سے مر ہی کیوں نہ جاؤں۔ 23 میں مقصود کائنات کا خزانہ ہوں، (آج) اگر میں تیرے دروازے پر گدا کی مانند پڑا ہوں (تو کیا ہوا) 24 مجھے تجھ سے روحانی اتحاد ہے، تو نے مجھ کو خود سے الگ کیونکر جانا؟ 25 میں نے خیر باد (الواداع) کہا اور پھر بولا کہ اگر بخت نے ساتھ دیا تو 26 میں نے عہد کر لیا اور پیمان باندھ لیا ہے کہ خدائے علیم کی توفیق سے 27 اس کے بعد سے اویس قیل و قال بند، پہاڑ کا گوشہ ہو گا اور اس سب کی عبادت (میرا مشغلہ ہو گا) (3) 28میں نے دنیا اور دنیا والوں کو آزما لیا، جو کچھ بھی ان کا ظاہر اور باطن ہے۔ 29 ہر کوئی اپنے ہی چکر میں الجھا ہوا ہے، ہر کوئی اپنے ہی کام میں حیران ہے۔ 30 انہیں کسی غم زدہ پر ترس نہیں آتا، نہ وہ کسی پر مہربانی یا احسان کرنے ہی کا تکلف کرتے ہیں۔ 31سبھی ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں، اس طرح پڑے ہوئے ہیں جس طرح چوہا چرم میں ہو۔ 32 دروغ گوئی کے سوا ان کا کوئی کام نہیں، ان کی دوستی لوگوں کے ساتھ صرف بہتان طرازی تک ہے۔ 33ان میں جو کوئی بھی چھوٹا ہے وہ (اتنا ہی) سرور عصر اور اعظم دوران بنتا ہے۔ 34 اگرچہ ان کی پھونک حضرت عیسیٰ ؑ کی سی (مسیحانہ) پھونک کیوں نہ ہو پھر بھی وہ کسی بیمار کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ 35 جس کسی سے شروع ہی میں گرمی دیکھتے ہیں اس کی آمد پر سر قربان کر دیتے ہیں۔ 36 اگرچہ اس شخص کا کام سامری والا ہی ہو، یہ لوگ اسے موسیٰ عمران (حضرت موسیٰ ؑ ) جاننے لگتے ہیں۔ 37 کوئی نہیں کہتا کہ یہ گدھے کب تک روٹی کے ایک کنارے (ٹکڑے) کے لیے جان دیتے رہیں گے۔ 38جب اسے دروازے سے آشنا پاتے ہیں تو دربان اسے کتے کی طرح دھتکار دیتا ہے۔ 39جب مجھ پر حقیقت حال روشن ہو گئی تو اے دل و جان، جان جہاں سے کہ دو کہ 40 اس کے بعد سے اے ویس سب قبل و قال بند، پہاڑ کا گوشہ ہو گا اور اس رب کی عبادت (میرا مشغلہ ہو گا) (4) 41ہم نے کسی کے ساتھ اپنے عجز کا اظہار نہیں کیا، نہ کسی کے دستر خوان ہی پر مکھی کی طرح بیٹھے ہیں۔ 42 ہم چھوٹے بڑوں سب کے در سے بے غرض رہے، ہر کس نو ناکس سے کوئی دشمنی نہیں رکھی۔ 43 نہ کسی سے بہی خواہی ہی کی امید رکھی اور نہ کسی گھٹیا کسے دروغ سے ہراساں ہوئے۔ 44 نہ کاروبار جہاں کا کوئی خیال رکھا، نہ داروغہ یا چوکیدار کی تلاش سے کوئی حجاب 45 ہما کی طرح ایک لقمے پر قناعت کیے رہے، گدھ کی مانند مردار کی تلاش میں نہیں رہے۔ 46 زمانے کی طرف سے جو بھی تیر آیا، میری آنکھوں میں وہ تنکا ہی دکھائی دیا۔ 47 بناوٹی مضامین پالینے کی خاطر سبھی ہر طرف ہوس سے پھرے 48 میں کچھ اس قسم کے حال میں گرفتار تھا کہ مجھے نفس کے سوا امید نہ تھی۔ 49 جب مجھے یقین ہو گیا کہ مخلوق نے مجھ پر سختی کی خاطر جرس کی مانند زبان کھولی ہے تو 50 کبھی کبھی میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ میں نے کسی کا کیا کھا لیا اور لے لیا ہے۔ 51 میں کہ دربار خداوندی کا شہباز ہوں، افسوس ہے، کب تک قفس میں پڑا رہوں گا۔ 52 میں بیڑی توڑ ڈالوں اور زنجیر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالوں، پھر آستانے کی طرف گھوڑا دوڑاؤں۔ 53 ہر کسی کو اپنے آپ سے کام ہے، میں ہوں اور محبوب کا جنون، اور بس 54 اس کے بعد سے اسے ویس سب قیل و قال بند،پہاڑ کا گوشہ ہو گا اور اس رب کی عبادت (میرا مشغلہ ہو گا) (5) 55 اگر میرا جسم اس قسم کا بیمار نہ ہوتا تو میں دل کی طرح جان سے (بھی) بیزار ہوتا 56تاکہ دنیا کی تمام مخلوقات میں سے کوئی بھی میری نشانی تک بھی نہ دیکھ پاتا 57 اگر میں اس کی ویرانی میں عجلت سے کام لیتا ہوں تو یہ بہت بڑا گناہ ہو گا 58 اسی باعث میں تم لوگوں میں ایک روٹی کی خاطر اس قدر ذلیل و خوار ہو گیا ہوں۔ 59 روٹی کی خاطر میری آبرو نہ رہی۔ کاش کہ میں یا تو مٹی پھانک لیتا یا آگ 60 کسی کو میرے دل کی خبر نہیں ہے، اس لیے کہ دل پہلو ہی میں نہیں ہے۔ 61اس جگہ کہ جہاں دروغ اور بہتان ہے اور حسد، حرص اور بخل کا دور دورہ ہے۔ 62 وہاں اہل خرد کے نزدیک وہ دل ہی نہیں ہے، اسے بس گوشت کا ایک ٹکڑا سمجھ۔ 63اگر تو سمجھے تو میں دل کا غلام ہوں، دل کیا چیز ہے؟ وہ اسرار کا خزانہ ہے۔ 64 مومن کا دل رحمان کے عرش کی مانند ہے۔ میں نے تجھ سے کہا کہ خبردار دل کو تکلیف نہ پہنچانا 65 یہ کوئی بری بات نہ ہو گی کہ میں شہید ہو جاؤں یا یہ کہ وجود کو شراروں سے جلا ڈالوں۔ 66 اب اگر یہ مجھے میسر نہیں آیا تو میں صبح و شام یہ سوچوں گا 67 کہ یہ فریب کار دوست، جن کی خصلت دشمن کی سی ہے، کب مجھے تختہ دار پر لٹکائیں گے۔ 68 اس کے بعد سے اے ویس سب قیل و قال بند، پہاڑ کا گوشہ ہو گا اور اس رب کی عبادت (میرا مشغلہ ہو گا) یہ شعر آنجناب کا ہے: ز ماسوای تو آنا نکہ فارغ بال اند بعالمے نہ فروشند ذوق تنہائی (جو لوگ تیرے ’’ ماسوا‘‘ سے بے نیاز ہو گئے ہیں وہ ذوق تنہائی کو ایک عالم کی قیمت پر بھی بیچنے کو تیار نہیں ہیں) گوشہ نشینی اور عزلت کے باوجود، اس بامروت و سخا سلطان کی مراعات کے باعث کبھی کبھی سال یا مہینے کے بعد اس سے ملاقات اور ہم نشینی کا اہتمام فرما لیتے اور سلطان کی مجلس کو اپنی سراپا کرامت تشریف آوری مزین کرتے۔ جب سلطان نے لنک جو اولر تالاب کے درمیان ہے کی تعمیر مکمل کر لی تو شکرانے کے طور پر اس نے اسباب عیش و مسرت اور آلات نشاط و عشرت مہیا کیے اور ایک جشن شاہانہ برپا کیا۔ اس نے جناب میر سے بھی اس سراپا سرور بزم میں شرکت کی التماس کی۔ سلطان کی سماجت اور مقربوں کے پر زور اصرار پر انہوں نے شرف حضوری ازرانی فرمایا اور بعض غیر شرعی امور مشاہدہ کیے۔غلبہ حال یا غیرت شریعت کے سبب میر دریا میں کود گئے۔ ہر چند ماہر غوطہ خوروں اور بڑے بڑے ملاحوں نے سعی و کوشش کی لیکن ان کا کچھ بھی پتا نہ چلا، جس کے نتیجے میں بادشاہ کے رنگ میں بھنگ پڑ گئی اور بزم طرب درہم برہم ہو گئی۔ وہ آزردہ طبع لیے اور غمگین ندیموں کے ساتھ شہر کی طرف لوٹا۔ راستے میں باغ شنگہ ریشنو ہار کے سامنے جو دریائے بھٹ کے کنارے واقع ہے اس نے دیکھا کہ حضرت میر قدس سرہ دریا کے کنارے اپنا خرقہ مبارک سی رہے ہیں اور ان کا نورانی چہرہ آفتاب کی مانند چمک رہا ہے، سبھی چھوٹے بڑے کشتی سے باہر کود کر ان کے پاؤں پڑ گئے اور نیاز مندی کا اظہار کرتے ہوئے چہرہ ان کی خاک پا پر رکھ دیا، پھر بڑے ہی عجز و انکسار کے ساتھ اصرار کرتے ہوئے انہیں کشتی میں لے آئے۔ جب محلہ پلحمر پہنچے تو جس جگہ رینجو شاہ کا گھر اور اس کے تعلقہ جات تھے اور جو اب حضرت میر کا مقبرہ ہے، وہاں بیٹھ گئے اور باقی زندگی وہیں عبادت میں بسر کی۔ انہوں نے کسی بھی وضیع و شریف سے التفات نہ فرماتا اور خود کو سرا سر استغراق ہی میں رکھا اور ہر چیز سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس عالی شان خانقاہ میں جو سلطان وقت نے موضع اشم میں آنجناب کے خادموں اور درویشوں کے لیے بڑی آرائش، نقش و نگار اور مضبوط دیواروں اور ستونوں کے ساتھ تعمیر کروائی تھی، آنجناب نے کچھ عرصہ اپنے بعض رفقا کے ساتھ خدائے بزرگ و برتر کی عبادت میں بسر کیا لیکن جب پورے طور پر گوشہ گیری اور عزلت نشینی کی طرف مائل ہوئے تو اس خانقاہ سے بھی توجہ ہٹا لی۔ جناب میر کا ایک دربان تھا جب کبھی وہ کہتا کہ ’’ میر یا خدا است‘‘ (میر خدا کے ساتھ ہیں) یعنی حدیث ’’ لی مع اللہ وقت لایحی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل‘‘ (ایک وقت اللہ کے ساتھ ایسا ہوتا ہے جب کوئی بھی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل اس میں دخیل نہیں ہوتا) تو اس وقت کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ ہوتی۔ جب وہ (دربان) یہ کہتا کہ ’’ میر با خدا دخودست‘‘ (میر خدا کے اور اپنے ساتھ ہیں) یعنی کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کر رہے ہیں تو لوگ آ جاتے اور میر کے پاس بیٹھ جاتے۔ اس عالی شان سید کے علوم ظاہری اور قرآن کی تعلیم میں استاد حضرت بابا حاجی ادہم ہیں، جب کہ صحبت و تعلیم کے پیر سید ہلال ہیں۔ ان دونوں بزرگوں کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ایک عید کے دن حضرت میر اپنے گھر کے صحن کے چبوترے پر تازہ اگے ہوئے سبزے پر تھوڑا سا پانی چھڑکا کر، بستر کے بغیر، کشمیر کے اشراف کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک دانشمند علم کے غرور میں بڑی کراہت سے اس تر سبزے پر خشک زانو رکھے بیٹھا تھا۔ اسی اثنا میں ایک مکھی اس کے منہ پر آبیٹھی۔ میر نے از راہ مزاح فرمایا مکھی کو فوراً اپنے سر سے اڑا دے ورنہ ہلاک کر ڈالے گی۔ وہ بولا: مکھی ہلاک نہیں کر سکتی میر نے فرمایا کہ تجھے علم نہیں ایک چھوٹے سے مچھر نے نمرود کے دماغ میں گھس کر اس کا کام تمام کر دیا تھا، یہاں ان کی مراد یہ تھی کہ ایک دنیا پرست متکبر عالم کی عاقبت نمرود کی سی ہے۔ جب کشمیر کے امرا نے حرص و ہوس کی خا طر سادات بیہقی کو جو سلطان وقت کے امور نپٹانے پر مامور تھے اپنے فتنہ و فساد کا نشانہ بنایا اور ان پر چڑھائی کر دی تو سلطان کے محل میں بے خبری کے عالم میں وہ سادات پر بھی ٹوٹ پڑے۔ حضر میرؒ کے خالو سید میرک میر مسمی سید حسین، جن کا تعلق سادات بیحق سے تھا۔ سلطان کی وزارت پر مامور تھے، امرائے کشمیر ان کی حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ اس ہلے میں انہیں ان کے بیٹوں اور اقربا کے ساتھ جن کی تعداد چودہ تھی سلطان کے محل میں بر سر ایوان شہید کر دیا گیا۔ ان سے قرابت کے سبب حضرت میر بابا میر ویس علیہ الرحمہ بھی انہی سادات کے ساتھ شہید ہو گئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ فسادیوں کا ایک گروہ رات کے وقت اس سید الابرار کے حجرے میں گھس گیا اور ان لوگوں نے آنجناب کو مجروح کر دیا۔ کہتے ہیں کہ اس حالت میں انہوں نے یہ مشہور اشعار لکھوائے: رباعی منم آن رند جہان گرد مسیحا نفسی کہ من این ہر دو جہان رانشمارم بخسی اگر از عشق توام سر برود گو برود ہر گز این سسر نہان تو نگویم بکسی (میں وہ مسیحا نفس جہان گرد رند ہوں جو ان دونوں جہانوں کو پرکاہ سے بھی کمتر سمجھتا ہے اگر تیرے عشق کی وجہ سے میرا سر جاتا ہے تو جائے میرا تیرا یہ سر نہاں ہر گز کسی سے نہ کہوں گا) نیز: من فارغم ز مصلحت اہل روزگار می دان یقین کہ کشتن من ہست بی گان اکنوان بیا و شعر بخوان بر مزار من تاروی ظالمان ستمگر شود سیاہ (میں اہل جہاں کی مصلحتوں سے بے نیاز ہوں۔ یقینی طور پر جان لے کہ میرا قتل کسی خطا کے بغیر ہے۔ اب تو آ اور میرے مزار پر شعر خوانی کر تاکہ ستمگر ظالموں کا چہرہ سیاہ ہو) انہوں نے قاتلوں کے اس ستم سے متعلق کوئی سوچ دل میں نہ آنے دی، کیونکہ وہ موحد تھے اور جو کچھ ان پر گزری اسے انہوں نے حق ہی کی جانب سے جانا، اور اس شہادت کو پروردگار کی طرف سے نعمت عظمیٰ خیال کیا۔ جب حاضرین نے ان سے ان کی قبر مبارک کے نشان کے تعین پر بیحد عاجزانہ اصرار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میری قبر کے لیے صبح غیب سے خود بخود کوئی چیز پہنچ جائے گی، تو لوگ دریا کے کنارے منتظر رہنا۔ چنانچہ لوگوں نے صبح سویرے دیکھا کہ صندل کا ایک تختہ دریا میں سے گزرا اور ان کے آستان فیض کے سامنے آ کر رک گیا۔ انہوں نے وہی تختہ اٹھا کر ان کی مبارک قبر پر رکھ دیا۔ یہ واقعہ آخر ماہ زی العقد 1484/889 میں رونما ہوا۔ شہید کشمیر (889) اس کی تاریخ ہے۔ ارباب باطن کو ان کی فیض آثار قبر سے جو فیوضات میسر آتے ہیں وہ کسی اور جگہ سے کم ہی سننے میں آئے ہیں۔ مخدوم العرفا حضرت شیخ حمزہ قدس سرہ، مدتوں مبادی سلوک میں اس آستانہ مبارک سے منسلک رہے، چنانچہ حضرت شیخ بابا داؤد خاکی نے اس سلسلے میں مفصل لکھا ہے۔ وہ کئی ایک حکایات جو مشائخ متاخرین سے بلا واسطہ سنی یا دیکھی گئیں، کثرت کے سبب ان کا یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں۔ آنجناب کے ایک مخلص نے بادشاہ کے وزیر سے جس کا نام ملا دولت تھا ایک قریہ اجارے پر لے رکھا تھا۔ اس نے مسلسل دو برس تک اس مخلص کو دست درازی کا نشانہ بنائے رکھا۔ آسمانی آفات کی چھوٹ دئیے بغیر وہ برسوں اس موضع کا لگان ا س سے وصول کرتا رہا۔ اس کے اس ظلم کے سبب وہ شخص خوشہ چینی پر مجبور ہو گیا۔ ایک رات اس نے قبر متبرک کے نزدیک جا کر عرض حال کی ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت میر اس سلسلے میں مخدوم شیخ حمزہ اور شیخ بہاء الدین کشمیری علیہم الرضوان کے ساتھ مشورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ظالم (وزیر) شیخ نور الدین علیہ الرحمتہ کا مرید ہے۔ چنانچہ وہ شیخ نور الدین علیہ رحمہ کے آستانے پر بھی پہنچے۔ شیخ نے ان حضرات کا استقبال کیا اور بولے میں اس ظالم کو تنبیہہ کروں گا۔ اگر اس نے تلافی کر دی تو بہتر ورنہ اس خانقاہ کی تکمیل کے بعد، جو وہ ہمارے آستانے پر تعمیر کر رہا ہے، اس پر ہر طرح کا مرض وارد کر دوں گا۔ ایک رات شیخ نے اس ظالم کے سینے پر عصائے غضب مار کر اسے اس حقیقت سے آگاہ کیا۔ دوسرے دن صبح مذکورہ وزیر ملا دولت نے حضرت امیر کے مخلص کو راضی و خوشنود کر لیا اور تہمت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس روضہ مقدسہ پر ظاہری جلال بھی تھا۔ جو کوئی بھی جھوٹی قسم کھاتا اسے فوراً ڈانٹ پلا دی جاتی۔ مولانا عنایت اللہ شال کی زبان سے یہ سنا گیا ہے کہ گزشتہ دور میں اگر کوئی اس راستے سے بے ادبی کے ساتھ گزرتا یا نام مبارک بے ادبانہ زبان پر لاتا تو فوراً اسی وقت اسے تنبیہہ ہو جاتی۔ گردش زمانہ سے جب دنیا میں فساد اور خرابی نے جڑ پکڑی اور بدعت و گمراہی عام ہو گئی تو یہ باطنی تنبیہہ و تادیب بھی مستور و موقوف ہو گئی۔ چونکہ حضرت سید ہلال کو اکثر لوگ نقشبندی خیال کرتے ہیں اور جناب حضرت میر بھی انہی سے منسوب ہیں، اس لیے یہاں اپنی ایک مشکل بیان کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر شب برات کا آخری پہر تھا جب راقم الحروف (مولف تاریخ) جو سید عالی جاہ کی فیض پناہ درگاہ کا ایک کمترین غلام ہے، اس تربت شریف کی زیارت سے مشرف ہوا جو اہل غربت (پردیسیوں) کا موا و ملجا اور اہل قربت کا کعبہ مقصود ہے، وہاں ایک لمحے کے لیے مجھ پر نیند اور بیداری کے درمیانی عالم کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ قبر مبارک پر نورانی خط میں یہ عبارت نقش ہے زبدہ دور مان ارجمندی میر محمد امین نقشبندی۔ اس عمدۃ الوسائل (وسیلوں کا سرگردہ) کے مناقب و فضائل اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ یہ عاجز و ناتواں اس کا معمولی سا حصہ بھی سپرد قلم کر سکے۔ ان بلند مقام سید کے فیض و احسان تمام لوگوں پر عام ہیں۔ اگر یہ ذرہ ناچیز اپنے آپ کو خاص کر مخصوص الطاف اور مشمول اعطاف نہ جانے تو بھی ان تمام ظاہری و باطنی فضیلتوں کے ہوتے ہوئے کسی قدر شکر ادا کرنے سے کیونکر عہد برآ ہو سکتا ہے اس فائض الانور مزار کے قریب سے مفارقت یعنی قرار کی نقل مکانی کے وقت (یہ چند) حسرت بار اشعار، اسلامی دستور کے مطابق، ان کی سراپا فتوح روح کو پیش کیے۔ اس کتاب میں ان کے اندراج کو مناسب سمجھتے ہوئے تحریر کر دیے: دوش دیدم نیم بسمل زائران چون طائران در طواف روضہ شاہ شہید ان نور جان پای کوبان بردرش چون قدسیان بر گرد عرش در ترنم از محبت ہمچو مرغان جنان گلشن نورست یا رب یا ہمہ بیت السرور یا چوہیت اللہ بہر طائفان دار الامان مرقد سلطان دین شاہ اویسی رتبہ است کز نسیم کوی او بگرفتہ دلہا بوی62؎ جان وارث جد معظم بود اندر اسم و رسم نام او سید امین، نور زمین، جان زمان داغ صحرای ارم ہر گل زمین در گہش باغ نور از طوف آن درگاہ، مہر خاوران از بر صدق اہل ایمان بر در او اشکبار صد سلام و صد ثنا کردہ بدل ورد زبان السلام اے سید عالی نسب فخر کرام اے اویسی مرتبت خورشید لوج احترام السلام اے گوہر درج سعادت شاہ دین السلام اے اختر برج سعادت السلام السلام اے آنکہ ز آبادی کرامت ہریکی ازرہ عزت مسلسل شد امام ابن الامام السلام اے قرۃ العین رسول کائنات السلام اے گوہر شاہوار زہراؓ السلام السلام اے غنچہ باغ علی مرتضیؓ کردہ ای داغ حسین را تازہ برما السلام السلام اے آنکہ بر گرد مزار انورت یافتہ قندیل دلہا چون کواکب انتظام السلام اے آنکہ بر گرد مزار انورت یافتہ قندیل دلہا چون کواکب انتظام السلام اے آنکہ بر گرد مزار انورت یافتہ قندیل دلہا چون کواکب انتظام السلام اے آنکہ سرمستان کویت رابحشر نیست جز بر عروہ و ثقامی فیضت اعتصام اے گل باغ کرامت اے در دریای جود شاہد بزم شہادت شاہ اقلیم شہود مظہر نور تجلی مرقد با فیض تست ذات پاکت بحر وجدان، عین انوار وجود وای بر دل گرنہ ماوای خیالت بودہ است صد زبان گردی زبانم گر نہ ورد گر تو بود باسیہ بختی و دل سختی ز روی افتقار افسرم خار حریمت بسترم خاک تو بود عمر خود اعظم بسر بردہ بزیر پای تو اعتبارش زین عبادت افتخارش زان سجود باد بر روح سراپا نورت از حق صد سلام بر روان پاک آبای عظامت صد درود 1کل شب میں نے شہیدوں کے بادشاہ اور نور جاں کے روضہ کے گرد زیارت کرنے والوں کو حالت طواف میں پرندوں کی طرح نیم بسمل دیکھا۔ 2 وہ لوگ ان کے در پر اسی طرح رقص کناں تھے جس طرح فرشتے عرش کے گرد ہوں۔ محبت کی وجہ سے وہ جنت کے پرندوں کی طرح نغمہ خواں تھے۔ 3 یا الٰہی (یہ روضہ) گلشن نور ہے یا سرا سر سرور کا گھر ہے، یا پھر کعبہ کی طرح، طواف کرنے والوں کے لئے، جائے پناہ ہے۔ 4یہ حضرت اویس قرنیؓ کے سے مرتبہ والے بادشاہ سلطان دین کا مرقد ہے، جس کے کوچے کی نسیم سے دلوں نے بولے جان پائی ہے۔ 5وہ نام اور طور طریقوں کے لحاظ سے اپنے جد اعلیٰ کے وارث تھے۔ ان کا نام سید امین تھا، وہ زمین کے نور اور زمانے کی جان تھے۔ 6 ان کی درگاہ کی ہر گل زمین، جنت کے صحرا کے لیے باعث رشک و حسد ہے۔ مشرق سے طلوع ہونے والا سورج اس درگاہ کے طواف کی بدولت نور کا باغ بن گیا ہے۔ 7 اہل ایمان ان کے در پر صدق و خلوص سے اشکبار ہیں۔ اور ان کے دل میں اور زبان پر سینکڑوں سلام اور سینکڑوں منقبتیں جاری ہیں۔ 8 اے عالی خاندان سید اور ارباب کرم کے لیے باعث فخر، اے حضرت اویس قرنی ایسے مرتبے والے اور احترام کی بلندی کے آفتاب آپ پر سلام۔ 9السلام، اے خوش بختی کی ڈبیا کے موتی، دین کے بادشاہ، السلام اے برج سعادت کے ستارے، السلام 10 السلام، سے وہ ذات کے آپ کے صاحب کرم آباد میں سے، عزت کی بنا پر، ہر کوئی امام ابن امام تھا۔ 11 السلام اے رسول کائنات ’’ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، السلام اے حضرت زہراؓ کے قیمتی موتی، السلام 12 السلام اے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے باغ کی کلی، آپ نے ہمارے لیے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غم پھر سے تازہ کر دیا، السلام۔ 13 السلام، اے وہ ذات کہ آپ کے منور مزار کے گرد دلوں کی قندیلیں، ستاروں کی مانند ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ 14 السلام، اے وہ ذات کہ آپ کے کوچے کے سرمستوں کے لیے قیامت میں آپ کے فیض کی مضبوط گرفت ہی سہارا ہے۔ 15 آپ کے باغ کرامت کے پھول اور بحر سخاوت کے موتی ہیں۔ آپ بزم شہادت کے شاہد یعنی محبوب ہیں اور اقلیم شہود کے بادشاہ ہیں۔ 16 آپ کا حامل فیض مرقد، نور تجلی کا مظہر ہے۔ آپ کی ذات پاک وجدان کا سمندر اور انوار وجود کا چشمہ ہے۔ 17 اس دل پر افسوس ہے جو آپ کے خیال کا مسکن نہ بنا ہو، اگر میری زبان آپ کا ذکر کرنے والی نہ ہوتی تو اس کے سینکڑوں ٹکڑے ہو جاتے۔ 18 سیاہ بختی اور دل سختی کے باوصف، فقر کی بدولت، آپ کی چار دیواری کا کانٹا میرے لیے تاج اور اس کی خاک میرا بستر تھی۔ 19 اعظم نے اپنی زندگی آپ کے پاؤں میں بسر کی۔ یہ بندگی اس کی ساکھ اور ان سجدوں پر اسے فخر ہے۔ 20 حق کی طرف سے آپ کی سراپا نور روح پر سینکڑوں سلام اور آپ کے عظیم آبا کی پاک ارواح پر سینکڑوں درود۔ حضرت سید حاجی مراد قدس سرہ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد ماجد سید فکر الدین عالم فانی سے کوچ کر گئے، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے چچا میر ضیاء الدین زیرک کے یہاں سے تربیت پائی اور مقامات عالیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور اصول و فروغ کے علوم میں حصول کمالات کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کو ’’اللہ تعالیٰ ان کے شرف و بزرگی میں اضافہ فرمائے ‘‘ روانہ ہوئے۔ وہاں انہوں نے شیخ ابو اسحاق رومی کی مریدی اختیار کی۔ ان کی خدمت میں انہوں نے بڑی جدوجہد اور سعی و کوشش سے کام لیا۔ یہ شیخ اسحاق سے مسلک شطاریہ سے وابستہ اکابر میں سے اور جذبات عالیہ نیز کرامات متوالیہ کے مالک تھے، بلکہ زمرہ ابدال سے ان کا تعلق تھا۔ حضرت مراد سلوک ’’ کی راہ طے کرنے‘‘ کے بعد رشد و ہدایت کی اجازت لے کر ایران کے راستے ماوراء النہر پہنچے اور خوارزم میں اس وقت کے حضرت کبرویہ کے خاندان کے سربراہ حضرت میر عبداللہ برزش آبادی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسب کمالات کر کے خلافت کا اجازت نامہ حاصل کیا۔ ازاں بعد پھر حرمین شریف چلے گئے۔ بیت: فراز و شیب رہ از رہروان گرم مپرس کہ پیش مرغ ہوا کوہ و دشت یکسانست (تیز چلنے والوں سے راستے کے نشیب و فراز کا مت پوچھ، کیونکہ فضا میں اڑنے والے پرندے کے لیے کوہ و دشت برابر ہیں) مختصر یہ کہ تین مرتبہ حرمین کی زیارت اور بعد میں اکثر بلاد کی سیاحت کرتے ہوئے وارد کشمیر ہوئے اور گوشہ نشینی کے ارادے سے نواحی کشمیر کی سیر پر نکلے۔ اس دوران میں قریہ کریر کے نزدیک انہیں ایک ویرانہ نظر آیا جو ہزار آبادیوں سے بہتر تھا۔ وہاں پانی نہ تھا، نماز کے وقت انہوں نے تلاش کیا لیکن خاصی جستجو کے بعد بھی اس کے آثار نظر نہ آئے، آخر ایک گوشے کی طرف نکل گئے، جہاں انہیں ایک نورانی شخصیت دکھائی دی، جس کی جبین سے ولایت کے آثار ہویدا اور جس کی پیشانی سے انوار ہدایت نمایاں تھے، انہوں نے اس شخص سے (پانی کے بارے میں) پوچھا۔ اس نے کہا کہ یہ سبز پودا جڑ سے اکھیڑ ڈال تاکہ صاف اور فیض بخش پانی ظاہر ہو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا جس کے نتیجے میں ایک چشمہ جاری ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے وضو وغیرہ کیا اور نماز ادا کی۔ اس وقت تک وہ مرد نورانی وہاں بیٹھا رہا۔ جب سید نماز سے فارغ ہوئے تو وہ ان کے نزدیک آیا اور بولا: سید حاجی مراد نے مراد پا لی کہ یہ اچھا گوشہ ہے، مبارک ہو۔ چونکہ ان کی یہ باہمی صحبت اچھی تھی اس لیے سید نے خیال کیا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں۔ چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کو دعا دی اور پھر خضر علیہ السلام غائب ہو گئے۔ جب میر (سید مراد) نے اس جگہ گوشہ نشینی اختیار کر لی تو اس منتخب گوشے کے لیے انہوں نے ایک دن کے بلکہ زیادہ پانی کے لیے پانی کی ندی بہا دی، یہاں تک کہ اس جگہ کو آباد کر دیا۔ اس ندی کو ندی بابل کہتے ہیں۔ اس زمانے میں شیخ بابا پم ریشی قدس سرہ کبھی کبھی حضرت سید کی خدمت میں پہنچا کرتے اور ان سے طریقت کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ بابا نے جب میر قدس سرہ کو شادی پر بہت زیادہ مائل پایا تو انہوں نے انہیں شادی سے روکا اور اس کا مشورہ نہ دیا۔ اس پر میر قدس سرہ گراں خاطر ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد بابا شیخ پم ریشی پھر میر کی خدمت میں پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایک لڑکے کو قرآن پڑھتے دیکھا۔ میر بولے: تمہارا انکار اس لڑکے سے تھا جو اس وقت قرآن پڑھ رہا ہے۔ شیخ قدس سرہ نے معذرت چاہی۔ میر قدس سرہ بولے: جو چیز کسی انسان میں ودیعت کی گئی ہے اس کے ظہور سے چھٹکارا نہیں ہے، وہ بہرحال وجود میں آ کر رہتی ہے۔ حضرت میر کا روضہ مبارک موضع کریری میں ایک مشہور قریہ ہے، اہل بیت کے ساتھ اور زیارت گاہ خاص و عام حضرت سید جیب کاسانی: کاسان (سین مہملہ، یعنی نقطوں کے بغیر) ماوراء النہر کا ایک مشہور شہر اور سمرقند کے نزدیک واقع ہے۔ یہاں کے سادات صحیح النسب ہیں جب کہ کاشان (شین منقوطہ کے ساتھ) ایران کا ایک شہر ہے، جہاں کے رہنے والوں کو کاشی کہتے ہیں۔ ظروف کاشی بھی وہیں کے ہیں۔ عالی قدر سید بزرگوار اپنے وطن مالوف سے کوچ کر کے کشمیر میں مقیم ہو گئے، جہاں وہ گوشہ نشینی کی اور خدا پرستی میں زندگی بسر کر رہے تھے کہتے ہیں کہ سادات کے واقعہ شہادت میں، حسب تقدیر وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ شیخ المشائخ حضرت شیخ بہاء الدین کے مزار میں اس کے شمالی گوشے میں مدفون ہیں۔ ان کا مرقد بے انتہا فیض کا مقام ہے۔ مدت العمر تجرید و تفرید میں اس جگہ وقت گزارا، بیشتر زندگی ساگ پات پر گزارا کرتے رہے۔ وقت رحلت وہیں دفن ہوئے۔ میر سید محمد منطقی علیہ الرحمہ ولی تقی حضرت بابا میر ویدی علیہ الرحمہ کے اقربا میں سے ہیں۔ دریائے بھت (جہلم) کے کنارے محلہ حچہ بل میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی قبر کسی کو معلوم نہ تھی۔ جب ایک موقع پر دریا کا کنارہ ٹوٹ گیا تو پانی ان کی قبر تک پہنچ گیا۔ کسی ہمسائے وک انہوں نے خواب میں فرمایا کہ میری قبر کا نشان یہ ہے کہ وہ بارش میں گیلی نہ ہو گی، وہاں سے میرا جسد باہر نکال لے۔ جب ان کا جسد مبارک قبر سے باہر نکالا گیا تو ان کے جسم اور کفن پر قدامت کا نشان تک نہ تھا اور ریش مبارک اپنی حالت ہی پر تھی، جیسے وہ ابھی ابھی سوئے ہوں، حالانکہ یہ واقعہ بہت برسوں کے بعد رونما ہوا۔ ان کی قدیم قبر سے متصل ایک اونچی مسجد ہے۔ اس مسجد کے صحن میں ان کا متبرک مقبرہ بنایا گیا۔ میر سید محمد حبیب سر خابی علیہ الرحمہ بیت: سرخروئی یافت از دی آفتاب دہر رابخشنار ان رو آب و تاب (آفتاب نے اس سے سرخ روئی پائی، اسی وجہ سے وہ یعنی سورج، زمانے کو آب و تاب عطا کرتا ہے) سرخاب، کوہستان تبریز کے بلاد میں سے ہے اور وہاں کے اکثر بزرگوں اور بڑے بڑے لوگوں کے مقبرے اسی قریے میں واقع ہیں۔ حضرت سید ظاہر کے اسلاف اسی جگہ مقیم تھے۔ اور وہیں انہوں نے مدتوں رشد و ہدایت کا پرچم بلند کیے رکھا۔ فی الجملہ جب حضرت سید ایران سے ہجرت کر کے کشمیر میں مقیم ہو گئے تو یہاں ان کے شب و روز خالق کی عبادت میں بسر ہونے لگے۔ جب وفات پا گئے تو انہیں محلہ کا وہ ڈارہ میں ندی مار کے کنارے دفنا دیا گیا۔ وہ حکام کی صحبت اور اغنیا کی آمد ورفت پر کبھی راضی نہ ہوئے۔ ان کا نور اشغال جمال کبھی کبھی صفت جلال سے پرتو ریز ہو جاتا۔ سالکوں کی تربیت اور طالبوں کی طرف توجہ میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ سلوک کے اسرار و قالق کے کشف میں وہ ایک بحر نا پیدا کنار تھے۔ ان کی منور صورت سے ان کے آثار تمکین و ہیبت ظاہر تھے۔ وصال کے بعد ان کی قبر شریف بھی طالبوں اور اہل سلوک کے لیے مظہر فیوض بن گئی اور اکثر لوگ تو ان کے مقدس احاطے میں بیٹھتے ہی متاثر ہوجاتے تھے۔ گزشتہ دور میں ان کا مبارک روضہ بہت زیادہ جلال کا مقام تھا۔ مشہور ہے کہ ایک رات ایک سیاہ بخت ان کے مزار کے احاطے میں سفید چادر سر پر تانے بے ادابی کے انداز میں سو گیا۔ لوگون نے اس کا سر تن سے جدا دیکھا۔ اکثر لوگ ان کے قہر سے ہراساں تھے۔ سید شہاب الدین، سید حضور اللہ اور سید حسین: تینوں بزرگ مسجد زینہ کدل میں سادات رنکہ کے قرب میں آسودہ خاک ہیں۔ حضرت سید موسیٰ، سید ذوالفقار، سید جعفر، سید افضل، سید معصوم، سید قاسم اور سید داؤد: یہ ساتوں بزرگوار ایک دوسرے کے بھائی اور چچا زاد ہیں۔ سبھی پرگنہ بانکل کے موضع پردہ میں ایک ہی روضہ میں آسودہ خاک ہیں۔ ان میں سے تین سیدوں کی قبریں ظاہر ہیں۔ باقی چار قبریں مستور اور گہری پڑی ہیں۔ اور سید عزیز جو بظاہر ان کے رفیق تھے، روضہ کے باہر دروازے کے قریب مدفون ہیں۔ اور سید قاسم بہت بڑے سید ہیں۔ وہ پرگنہ بانکل کے موضع نیلہ گام میں سید محمد بخاری پرگنہ بالکل کے موضع کرالہ پورہ میں مدفون ہیں اور سید خلیل بھی اسی پرگنے میں ہیں۔ سید جعفر سادات کے مشہور صاحب جذبہ و کرامات، موضع راولپورہ میں، سید محمد منطقی ثالی مجلہ تاشوان میں سید علی اکبر کے روضہ کے پائین، جو آج کل مزار ملافتو کے نام سے مشہور ہے، حضرت سید جلیل کاسانی، حضرت سید محمد، حضرت سید عمر، سید علی، حضرت سید کاظم، سید مراد، سید جعفر، سید ماد اور سید حسین محلہ بوزہ گراں سے محلہ حجہ بل تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آسودہ خاک ہیں۔ سید ذوالفقار، سید علی، سید عبداللہ، سید قاسم، سید حسین، سید ابراہیم، سید شاہنواز، سید اسحاق، سید اسمعیل اور سید فیروز نور باغ مکداز کے محلوں اور ان کے نواح میں مدفون ہیں ان حضرات کے ناموں کے سوا کسی بھی کتاب میں ان کے مولد و منشاء سے متعلق کچھ نہیں ملا۔فرو: نداغم ز آغاز و انجام شان مرا بر زبان بس بود نام شان (مجھے ان کے آغاز و انجام کی خبر نہیں۔ میری زبان پر ان کا صرف نام ہی ہے) ٭٭٭ ان مشائخ کا ذکر جو سلطان زین العابدین کے عہد میں ظاہر ہوئے اور اس زمانے میں رحلت پا گئے حضرت شیخ نور الدین: اللہ ان کی آرام گاہ کو منور فرمائے۔ بیحد شہرت کی وجہ سے ان کے احوال محتاج بیان نہیں ہیں۔ تیس برس کی عمر میں انہیں توبہ کی توفیق میسر آئی۔ اور انہوں نے رہبانیت سے، جو اس دور میں رواج پذیر تھی، منہ موڑ کر اسلامی شعار اپناتے ہوئے ریاضت و جانبازی کی راہ اختیار کی اور اس طرح وہ متقدمین اور متاخرین کی یادگار قرار پائے۔ ان کی نسبت طاہر و باطن کے لحاظ سے سراپا لطف و جمال اور ان کی ہمت ظاہراً اور باطناً پوری طرح محبوب ؐ ذوالجلال علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے وابستہ حضرت کشمیر کے ریشی فرقے کے سرگردہ ہیں۔ ریشمی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو زاہدوں اور عابدوں کے زمرے میں اور ریاضت میں زیادہ سخت اور اذیت کش ہو اور خود کو ازدواج و اولاد کے جھنجھٹ سے آزاد رکھے، ہر قسم کی آرزووں اور حرص و ہوس سے دور رہے، ملک و مال کا تو ذکر ہی کیا۔ ان حضرت کی باکمال ذات ان امور میں اس طبقے سے ممتاز و منفرد تھی۔ تقویٰ تو انتہا کو پہنچا ہو اتھا۔ شروع شروع میں حضرت شیخ کا معاملہ جذبہ الٰہی تھا، اسے ایک لامتناہی شعلے نے گھیر لیا، جس کے نتیجے میں نوبت آہ و نالہ تک پہنچی اور شیریں تصانیف پر توجہ ہوئی۔ چنانچہ تھوڑی سی ہمت ہی سے انہوں نے ظاہری حجابات، یعنی تعلقات زن و فرزند، اٹھا دیے۔ رباعی: آن کس کہ ترا شناخت جان راچہ کند فرزند و عیال و خانمان راچہ کند دیوانہ کہنی ہر دو جہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہان راچہ کند (جس نے تجھے پہچان لیا وہ جان کو کیا کرے، وہ فرزند و عیال اور گھر بار کو کیا کرے تو اسے دیوانہ کر کے دونوں جہان عطا کر دیتا ہے، تیرا دیوانہ دونوں جہانوں کو لے کر کیا کرے) بارہ برس تک پہاڑوں کی کھوہوں میں، ہر کسی سے دور تنہائی میں وقت گزارا۔ اس دوران میں کاسنی کے سوا ان کی کوئی اور خوراک نہ تھی۔ مزید بارہ برس وہ خوراک بھی ترک کر دی اور دودھ کے صرف ایک پیالے پر گزران رکھی۔ ساری عمر نفس کی خواہش پر نہ چلے۔ چونکہ دودھ کو بھی نفس پروری کی لذت کا سبب جانتے تھے، اس لیے اسے بھی چھوڑ دیا اور اڑھائی برس تک عام ندی کے کسی قدر پانی ہی پر گزارہ کیا۔ چھبیس برس تک روٹی اور اناج کو ہاتھ نہ لگایا۔ انتہائی شہرت کے باعث ایسی باتیں بیان سے مستغنی ہیں۔ ہاں: بیت: قوت جبریل از مطبخ نبود بود از دیدار خلاق ودود (حضرت جبرئیل کی قوت باورچی خانے یعنی اناج سے نہ تھی، وہ تو اس خالق ودود کے دیدار سے تھی) الغرض انہوں نے شیوہ ریشیاں کو، جو خلا صمن، پلاسمن اور یاسمن کے بعد پھٹ پھٹا چکا یعنی پرانا ہو چکا تھا، تجدید و تزئین سے سجا بنا کر پھر اسے کھڑا کر دیا۔ او رہمت، نفس کے قتل اور عنصری بدن کی توڑ پھوڑ پر لگائے رکھی۔ قول و فعل میں سنت نبویؐ کے اتباع کا پرچم بلند کئے رکھا۔ کئی مرتبہ مقرب سبحانی حضرت میر ہمدانی سے ملاقات کی۔ حضرت میر ان کے کمالات کے قائل ہو گئے اور انہوں نے ان کی تحسین فرمائی۔ اس وقت کے اکابر مثلاً میر سید حسین سامانی سے بہت دوستی رکھی، بلکہ ان کی ذات سے استفادہ بھی کیا۔ قرب و جوار میں ہونے کے سبب اکثر سید کی خدمت میں حاضر ہوتے، جب کہ حضرت شیخ بہاء الدین، شیخ سلطان پکلی اور بابا حاجی ادہم اور ان جیسے دوسرے حضرات کے پاس کہ ان کے ہم مرتبہ اور ہم عمر تھے، اکثر آمد و شد رہتی تھی۔ تاہم یہ جو زبان زد عوام ہے کہ اس قدوۃ الاخیار (نیک لوگوں کے پیشوا یعنی شیخ نور الدین) کا امیر عالی قدر حضرت علی ثانی سے کوئی تعلق تھا تو محققین کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں تھے جب مردان غیب ان پر توجہ کیا کرتے ان کی والدہ کو سلام کہتے اور ان سے انہیں عارفہ مجزوبہ للہ (للہ عارفہ) کی ولادت کی خوشخبری بھی ملی۔ اسرار الابرار کے مولف نے اس قدوۃ الکبار کی ولادت کا سال 1356/757 اور سال وفات 1405-6/808لکھا ہے، لیکن مشہور یہ ہے کہ انہوں نے 1438-9/842 میں رحلت فرمائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس وقت سن شریف تریسٹھ برس تھا۔ وقت نزع ان کے ایک مرید صادق بابا نصر الدین نے پوچھا: آپ کی کوئی آرزو ہے؟ بولے: ’’ حق‘‘ پھر بابا نے پوچھا کوئی مشروب پئیں گے؟ بولے: تمام عمر میں نے حق کی خاطر اسے ترک کیے رکھا، اس لمحے کیوں پئوں پھر ’’ حق‘‘ کہ کر جان تسلیم بحق کر دی۔ حضرت بابا زین الدین: ان کا تعلق کشتواڑ سے تھا ان کا نام زیا سنگ (سنگھ) تھا۔ اشارہ غیبی سے کشمیر آئے اور بابا بام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے، جنہیں حضرت شیخ کی خدمت کی بدولت ناموری ملی تھی۔ یہاں حضرت شیخ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ انہوں نے شیخ کے حکم پر غار عیش میں سکونت اختیار کی جو دیو او رپری کا مسکن تھی۔ اس جگہ انہوں نے بہت نفس کشی کی۔ چونکہ وہاں پانی نہ تھا اس لیے شیخ شمس الدین کی استدعا پر بابا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جہاں انہیں ایک درخت کے نیچے پانی کی بشارت ملی۔ وہ اس درخت کے نیچے گئے اور پانی کی ندی نکال لی۔ سلطان زین العابدین کے رنجیدہ خاطر ہونے کے سبب حضرت بابا زین الدین انتہائی برف کے زمانے میں تبت چلے گئے، جہاں انہوں نے ایک مردے کو زندہ کیا۔ جب سلطان نے جو اب بیمار تھا، کچھ زیادہ ہی خوشامد و عاجزی کی تو بابا کشمیر لوٹ آئے۔ بادشاہ کے صحتمند ہونے کے بعد اپنے ٹھکانے ہی پر رہے۔ جب ان کا اٹل وقت آ پہنچا تو وقت رحلت انہوں نے وصیت کی کہ مجھے غسل دے کر کفن پہنا دینا اور ایک تابوت میں رکھ چھوڑنا اور منتظر رہنا۔ تحقیق و جستجو کے بعد جب تابوت میں کوئی چیز نہ ملی تو، بیت: فانی و خود و بددست باقی این طرفہ کہ نیستند و بستند (اپنی ذات سے فاونی اور دوست مل کر صاحب بقا ہو گئے، یہ عجیب بات ہے کہ وہ نہیں ہیں اور ہیں بھی) حاضرین اور طالیبن نے غمناک نالے بلند کیے۔ انہیں خواب میں یہ حکم ملا کہ تابوت کی بجائے قبر کی جگہ درست کرو۔ ان کے خلفا اور طالبوں نے اشارہ غیبی سے اپنی قبروں کی جگہ، احاطے کے اوپر اس قبر کی پشت پر مقرر کی جو بابا کے تابوت کے روبرو ہے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہے اور بے پایاں رحمت ہو۔ حضرت بابا بام الدین: یہ برہمن تھے اور ان کا نام بومہ سادی تھا۔ ریاضت کے زور پر انہوں نے ’’ طی مکان‘‘ وغیرہ سے انسانی کمالات حاصل کیے۔ جب ان کی ہدایت کا وقت آ پہنچا تو حضرت شیخ نور الدین ان کی تربیت کے لئے گئے۔ گفتگو کے بعد بومہ سادی نے اپنا روحانی عروج آسمان پر دکھایا۔ شیخ نے اپنے نعلین کو اشارہ فرمایا۔ وہ بھی اس کی روح کے ساتھ اوپر پرواز کر گئے۔ بومہ سادی نے اسے دیکھا تو اس کے دل کا تالہ کھل گیا اور وہ اسلام لے آیا۔ اسلام لانے کے بعد ان کا نام بابا بام الدین رکھا گیا۔ آخر عمر تک بومہ زوہ میں، جو مجہ بون کے مقام سے بالاتر ہے، عبادت میں مصروف رہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بارہ برس تک جیے۔ ہمیشہ روزہ رکھا۔ روزہ پانی سے کھولتے اور پانی پتھر سے نکل آیا کرتا، جس کے سبب انہیں خادم کی محتاجی نہ رہتی۔ دیگ اور دیگدان سے انہیں کوئی رغبت نہ تھی۔ وقت آخر فرمایا کہ غسل و تکفین کا وعدہ میں نے بابا زین الدین سے لے رکھا تھا لیکن وہ اس وقت تبت میں ہیں، پھر اسی لمحے انہوں نے سانس روکی اور بابا زین الدین کو حاضر کر لیا اور خود رحلت فرما گئے۔ بومہ زوہ میں دفن ہوئے۔ ان کا مقبرہ خاص و عام کی زیارت گاہ اور فیض تمام کی محفل ہے۔ حضرت بابا لطیف الدین قدس سرہ: پرگنہ مردو ادون کے سردار زادون میں سے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کا نام لدی رینہ تھا۔ شیخ المشائخ نے انہیں لطیف الدین کے نام سے موسوم کیا، اور انہیں اپنی ارادت و خدمت سے نوازا۔ وہ اس راہ کے دلیروں اور درگاہ کے شیروں میں سے تھے۔ ان کی عجیب حالت تھی۔ لوگوں نے ترک دنیا ان سے سیکھی۔ اس راہ کے اکابرین ان کی ریاضات دیکھ کر غیرت کی آگ میں جل اٹھے۔ شیخ قدس سرہ نے پہلی ملاقات میں ان سے پوچھا کہ تیرا ارادہ کیا ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا مقصود آپ کا دیدار اور آپ کی دوستی ہے۔ شیخ بولے کہ دوست جب تک دوست کا کام نہ کرے اسے دوستی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ بابا نے پوچھا دوست کا کام کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا فرمان حق کی بجا آوری۔ پھر انہوں نے پوچھا: فرمان کیا ہے؟ شیخ نے کہا: فرمان یہ ہے کہ تو مسلمان ہو جا اور اپنے معبور کا بندہ بن جا۔ یہ بولے: میں مسلمان تو نہیں ہوتاالبتہ اپنے معبود کا بندہ بن جاتا ہوں۔ شیخ نے پوچھا: تیرا معبود کون ہے؟ بولے: صنم۔ بیت سر گشتگان کوی بتان را توئی مراد مقصد یکیست کعبہ رواں را اگر صد اند (بتوں کے کوچے میں سرگرداں لوگوں کی مراد تو یعنی خدا ہی ہے۔ کعبہ کو جانے والے اگر سو بھی ہیں تو ان سب کا مقصد ایک ہی ہے) شیخ بولے: کھاتا تو صمد کا ہے اور عبادت کرتا ہے صنم کی؟ اس پر انہوں نے ایک نعرہ مارا اور بیہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش میں آئے تو مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ ’’ جذبتہ من جذبات الحق نوازی عمل الثقلین‘‘ 63؎ کے مطابق سرداری اور اہل و عیال کو چھوڑ چھاڑ پوری تندہی سے ریاضت میں ڈٹ گئے۔ ایک روزان کا خادم۔ اپل ساگ سبز کہ دوسرے ساگوں کی نسبت انتہائی کڑوا ہوتا ہے، توڑ کر لایا اور اسے دھو کر بابا کے لیے ابال رہا تھا۔ بابا وضو کے لیے باہر نکلے تو انہیں مذکورہ ساگ باتیں کرتا سنائی دیا، جو کہہ رہا تھا کہ مجھے آگ پر مت رکھ کہ میں جاندار ہوں اور خدا کا ذکر کرتا ہوں۔ بابا رونے لگے اور انہوں نے خادم سے فرمایا کہ وہ خشک ساگ ابال لے۔ لوگوں کے کثرت سے متوجہ ہونے کے سبب بابا نے موضع پوشکر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور وہیں آباد ہو گئے اور اسی جگہ فوت ہوئے۔ ان کا مقبرہ مشہور مقابر میں سے ہے۔ حضرت بابا نصر الدین قدس سرہ: ابھی چھوٹے ہی تھے کہ کسی شدید بیماری نے آ لیا۔ جو کچھ کھاتے، نہ بچتا اور قے کر دیتے ان کے والدین ثروتمند تھے۔ انہوں نے بہت مال خرچ کیا لیکن بیماری دور نہ ہوئی۔ ایک روز بابا نے خواب میں ایک جماعت کو دیکھا۔ ان میں ایک شیخ مکرم اور پیر معظم موٹا کپڑا پہنے بیٹھے تھے۔ بابا نے کسی شخص سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اس نے کہا یہ ابدالوں کی جماعت ہے۔ پھر پوچھا: ان میں یہ بوڑھے آدمی کون ہیں؟ اس نے جواب دیا: یہ شیخ نور الدین ہیں جو کیموہ کے مقام پر گوشہ نشین ہیں اسی شخص سے انہیں مرض کے علاج کا پتہ چلا۔ بعد میں انہوں نے یہ ماجرا اپنے عزیزوں کو سنایا۔ چونکہ ان کی بیماری کی وجہ سے ان کے ماں باپ کی جیسے جان پر بنی ہوئی تھی، اس لیے وہ اسی روز انہیں شیخ قدس سرہ کی خدمت میں لے گئے۔ شیخ نے اسی وقت ان سے پوچھا کہ تیرے چہرے کی زردی کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے صورتحال بیان کی۔ پھر پوچھا: تیرا نام کیا ہے؟ اور کس لقب سے مشہور ہے؟ وہ بولے: میرا نام نصر ہے اور راوتر لقب کشمیری زبان میں راؤتر پہلوان کو کہتے ہیں۔ شیخ نے پوچھا: تو پہلوانی کر سکتا ہے؟ وہ بولے: اگرچہ کوئی پیر (بوڑھا) ہو میں اس سے کشتی کر سکتا ہوں۔ اب شیخ نے فرمایا کہ کھانا لایا جائے۔ جب کھانا آ گیا تو شیخ نے ان سے کہا: سیر ہو کر کھا۔ چنانچہ انہوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بڑے آرام سے ہضم کر لیا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی کھاتے رہے وہ من پسند بنتا گیا۔ پھر انہوں نے اپنے ماں باپ کو رخصت کیا اور کہا کہ مجھے میرا طبیب مل گیا ہے۔ چنانچہ ماں باپ کی ممانعت کے باوجود ساری عمر شیخ کی خدمت میں گزار دی اور خوب ریاضت کی اور شیخ کی خدمت و صحبت سے کبھی جدا نہ ہوئے۔ بابا، شیخ کے راز دار اور محل اسرار تھے۔ کشمیری میں کہے گئے اشعار میں کہ ان میں سراسر حکمت و اسرار کی باتیں ہیں، حضرت شیخ کاخطاب اکثر حالات میں ان سے ہے۔ حضرت بابا قیام الدین: حضرت شیخ نور الدین کے مریدوں میں سے ہیں۔ ان کے حکم پر پرگنہ دیوہ سر کے علاقے منزہ گام میں جو گوشہ خلوت اور خوش فضا تھا، گوشہ نشینی اختیار کی۔ یہاں ایک رواں چشمہ تھا۔ انہوں نے ریاضت و تقویٰ پر کمر ہمت باندھے رکھی۔ جنگل کی گھاس خوراک کے طور پر استعمال کرتے۔ انہوں نے بہت زیادہ نفس کشی کی، جس کے سبب ان کے چہرے پر کھال اور ہڈی ہی رہ گئی تھی۔ چشمے کے گرد جو درخت خشک ہو چکے تھے، وہ حکم الٰہی سے پھر سے پھوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے سبز ہو گئے۔ بابا اسی جگہ مدفون ہیں۔ بابا عثمان اوجب کنائیـ: اس شہر کے شرفا میں سے ہیں۔ اس زمانے میں لفظ گنائی کا معروف مطلب نوسنلہ تھا۔ مفتی سے لے کر پٹواری تک سب کا یہی لقب تھا۔ حضرت بابا بڑے بڑے لوگوں اور اصحاب کمال میں سے تھے۔ تحصیل علوم کے بعد خدا پرستی کے ذوق میں انہیں مرشد کی طلب ہوئی۔ چونکہ اس جگہ کسی نے انہیں کسی مرشد کا اتا پتا نہ بتایا اس لیے حرمین کی راہ لی۔ وہاں جناب حضرت مرشد آفاق (یعنی) شیخ اسحاق شطاری سے انہوں نے مقرب باری شیخ بہاء الدین گنج بخش کے اوصاف سنے۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے ترک مقصد کر کے اپنے مرشد کا اتا پتا تفصیل سے سنا، پھر مناسک حج ادا کر کے وطن کو دوڑے اور شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی شہرت کا باعث بنے۔ ان کی خدمت پر جان و دل سے کمر بستہ ہوئے اور قیود و رسوم سے بے نیاز ہو کر پورے طور پر راہ حق اختیار کی۔ اس دور کے مشائخ کی صحبت و خدمت میں بھی مسلسل حاضری دیتے رہے، جیسے حضرت شیخ نور الدین، حضرت بابا حاجی اوہم وغیرہ۔ جب فوت ہوئے تو سلاطین کے مقبرے میں، میرزا حیدر کاشغری کے مقبرے کے سامنے دفنائے گئے۔ حق تعالیٰ نے بابا عثمان کے خاندان کو علم و تقویٰ میں برکت دی۔ ان کے اکثر افراد خاندان کو علم و فضیلت سے سابقہ رہا۔ تاریخ کے سیاق کو برقرار رکھنے کی خاطران میں سے بعض کا ذکر اس کتاب میں متعلقہ مقام پر کیا جائے گا۔ حافظ فتح اللہ خوش خوان: بحر ایقان (یعنی) شیخ احمد خوشخوان کے خلف و خلیفہ تھے۔ جوانی ہی میں انوار سبحانی کے مظہر اور اسرار ربانی کے مورد ٹھہرے۔ بہت سے علوم عقیلہ و نعلیہ حاصل کیے اور اپنے وقت میں اپنے اسلاف کی سند کو عجب زیب و زینت بخشی۔ ارباب ارادت کو آداب طریقت بجا لانے کی ہدایت فرماتے۔ صاحب جمال و جلال تھے۔ معرفت و تصوف کے مذکورات میں انہیں دسترس حاصل تھی۔ یہ ان کے اقوال میں سے ہے کہ: لوگ کہتے ہیں فلاں شخص خدا سے دور ہو گیا ہے، یہ کفر محض ہے، خدا سے کوئی چیز دور نہیں ہے۔ ٭٭٭ (عہد حیدر شاہ و حسن شاہ) سلطان زین العابدین کا بیٹا حیدر شاہ باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے ایک سال دو ماہ تک حکومت کی۔ اس دوران میں اس نے باپ کے دور کی صورت حال بدل دی۔ اور اس کے قوانین تباہ کر دیے۔ اپنی اس شامت اعمال کے سبب ایک روز وہ عالم مستی میں کھڑکی سے نیچے گر گیا۔ اور اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ اس طرح جلد ہی وہ دنیا سے کوچ کر گیا۔ 1475-6/880میں حیدر شاہ کا بیٹا حسن شاہ بھائی؟ کے بعد تخت سلطنت پر بیٹھا۔ تن پروری اور نزاکت کے باعث اس نے سلطنت کے بڑے بڑے کاموں کی طرف توجہ نہ کی۔ اور عیش و عشرت میں پڑ کر علم موسیقی کی طرف راغب ہوا۔ اور یوں اپنی حکومت اپنے ہاتھوں تباہ کی۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزار دو سو ہندی قوال اس کے پاس ملازم تھے۔ اور رعایا و لشکر نیز سرحدوں کی حفاظت کا اس نے کوئی خیال نہ کیا۔ یہ شعر گویا اس کے مصداق حال ہے: کہ چون شہ شد خراب از آب انگور ولایت کی تواند داشت معمور (جب بادشاہ خود شراب کے ہاتھوں تباہ ہو گیا تو وہ ملک کو کیونکر آباد رکھ سکتا ہے) رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بہلول پورہ کے لوگوں نے جو بادشاہ کشمیر کو خراج دیا کرتے تھے، رو گردانی اختیار کر لی۔ فوج کا سربراہ تازی بت بہلول پورہ کی رعایا پر چڑھ دوڑا۔ دوسری طرف سے حاکم لاہور تاتار خان مقابلے میں نکلا۔ آخری تازی بت نے شالکوٹ پر چڑھائی کی۔ تاتار خان کشمیر کے ارادے سے چلاتھا لیکن رعب و خوف سے مغلوب ہو کر گاجی دار سے لوٹ گیا، تاہم اس نے بہلول پورہ پر قبضہ کر لیا۔ حسن شاہ کے زمانے میں بہت بڑی آگ لگ گئی۔ جس سے جامع مسجد جل گئی۔ بادشاہ نے اس کی از سر نو تعمیر کی طرف توجہ کی اور تین سال دو ماہ کے عرصے میں پہلے سے بھی زیادہ آراستگی کے ساتھ اسے تعمیر کیا۔ ’’ سلطان خانہ‘‘ کو بہت زیادہ نقش و نگار، خطوط اور دیواری کتبوں سے زینت بخشی۔ مسجد کی تعمیر کے بعد ایک مرتبہ پھر محلہ علاؤ الدین پورہ میں آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا۔ جس سے امیر یہ کبیریہ کی خانقاہ معلا جل گئی۔ سلطان نے اس کی تعمیر پر کمر ہمت باندھی۔ اس کے اطراف میں واقع لوگوں کے گھر خرید کر وہ جگہ خانقاہ کے صحن میں شامل کر دی، اور قاضی ابراہیم مورخ کے والد قاضی حمید الدین کو خانقاہ اور اس سے ملحقہ جا ہائے خیر کی تولیت سپرد کی۔ ملک احمد ایتو اس کا وزیر تھا۔ جب کہ چندان سنجر کی نسل سے رینہ اور ماکریوں میں سے احمد ماکری اس کے سپہ سالار تھے۔ ملک احمد ایتو نے محلہ دیدہ مر کے آخر میں پتھر کی ایک مسجد بنوائی اور اس سے متصل اپنے لیے پتھر کا ایک مزار بنوایا، جس میں وہ اب مدفون ہے، اور جو آج بھی معمور اور موجود ہے۔ سلطان حسن شاہ کے زمانے میں کشمیر میں ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہوا، اور وہ یہ کہ والی خراسان سلطان حسین میرزا کی طرف سے میر شمس عراقی بطور سفیر کشمیر آیا۔ وہ سلطان کی طرف سے ایک خط کے ساتھ سلطان کے لباس خاص سے ایک جانور کی کھال بھی لایا۔ اس نے بعض تحائف کی فرمائش بھی کی۔ انہی دنوں حسن شاہ کی وفات واقع ہو گی۔ اور میر شمس عراقی کو تقریباً آٹھ برس کا طویل عرصہ کشمیر میں رکنا پڑا۔ اگرچہ اس دوران میں اس نے اپنے فرقے کی طرف لوگوں کو راغب کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ لیکن کوئی صورت بن نہ پائی۔ بظاہر وہ شیخ السالکین حضرت بابا اسمعیل کے مریدوں میں شامل ہو گیا۔ لیکن اس نے بابا علی نجار کو، جو بابا اسمعیل کا مرید اور بے علم تھا، بہلا پھسلا کر باطل عقائد اس کے دل میں ڈال دیے۔ پھر اس نے مختلف حیلوں بہانوں سے کشمیر کے امرا میں عجیب نفاق ڈالا۔ آٹھ برس کے بعد، فتح شاہ کے زمانے میں، وہ پھر خراسان چلا گیا۔ جب سلطان حسین میرزا کو اس کی بد دیانتی اور خلل باطنی کا علم ہوا تو اس نے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا۔ اس بنا پر اس نے پھر کشمیر کا ارادہ کیا، جس کا ذکر اپنی جگہ پر کیا جائے گا۔ سلطان کا دور حکومت بارہ برس اور پانچ روز ہے۔ جن دنوں مسجد جامع تکمیل کے مراحل میں سے گذر رہی تھی، حسن شاہ کی وفات واقع ہو گئی۔ چھت اور دو طرف کی دیواریں ابھی نا مکمل تھیں۔ ملک ابراہیم ماکری کو، جو اس دور کے سرداروں میں سے تھا، اس کی تکمیل کی توفیق نصیب ہوئی۔ وہ (حسن شاہ) 1488/893میں اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ واضح رہے کہ حسن شاہ کے عہد کے آخر تک سلاطین کے امور سلطنت پورے ضبط و نظم اور استقلال و انتظام کے ساتھ انجام پاتے رہے، اور ان دو عیاش بادشاہوں کی بے پروائی کے باوجود کسی امیر نے اطاعت و انقیاد سے سرتابی نہیں کی تھی۔ جب حسن شاہ وفات پا گیا تو امرا اور سرداروں نے انحراف اور سرکشی اختیار کرنا شروع کی اور منافقت و مخالفت کی وادی میں قدم رکھنے لگے۔ بعض تو سلطان فتح (شاہ) کی طرف مائل ہو گئے اور بعض نے محمد شاہ کو اکسایا، جس کے نتیجے میں کشمیر کی مملکت پورے طور پر انتشار کا شکار ہو گئی۔ اس دوران میں میر شمس عراقی دوسری مرتبہ کشمیر آ گیا۔ قبیلہ چکان کے بعض امراء جو اس وقت خاندان سلاطین میں نوکری اور کوکلتاشی کے ربتوں پر فائز تھے، میر شمس کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے اور انہوں نے اس کا مذہب قبول کر لیا۔ یہ بات مذہب کی مخالفت پر بھی منتج ہوئی او ریوں امرا کے مابین عناد و دشمنی کی صورت پہلے سے بھی کہیں بڑھ گئی اور ہر کسی نے خیرہ سری اور فتنہ انگیزی کی راہ اختیار کی۔ چونکہ یہ واقعات آئندہ اوراق میں حیرت میں ڈوبے قلم سے تحریر پذیر ہونگے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ ان عالی مقام حضرات کے احوال، جنہوں نے سلطان زین العابدین کے عہد کے آخر سے فتح شاہ اور محمد شاہ کے عہد تک ہدایت و تقویٰ کی مسند کو زینت بخشی، ان اوراق کی تازگی کی باعث بنیں۔ کیونکہ اس کتاب کی تحریر کا اولین مقصد انہی حضرات کا ذکر ہے، اس کے بعد بادشاہوں کے حالات تفصیل اور اجمال کے ساتھ عبرت افزا قلم سے رقم ہونگے، بفضلہ تعالیٰ۔ اس دور کے صوفیائ: حضرت سید برخوردار: خاندان سادات کے شرفا میں سے ہیں۔ صوری و معنوی کمالات سے پر اور قرب الٰہی کی تجلیات اور جذبات قویہ سے آراستہ۔ ان کا وطن مبارک(؟) جب انہوں نے خطہ کشمیر کو اپنے قدوم (تشریف آوری) سے نوازا تو محلہ داندہ مزار میں سکونت اختیار کی، جو شہر کی آبادی کے آخر میں واقع ہے۔ یہ جگہ فیوض الٰہی کے جائے نزول تھی۔ انہوں نے لمبی عمر پائی۔ جب اس دنیا سے کوچ کر گئے تو سلطان وقت نے ان کے خادموں کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کرا دی۔ یہ خانقاہ ایک حادثے میں منہدم ہو گئی۔ بعد میں چکوں کے دور میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی جو ابھی تک اسی حالت و صورت میں موجود ہے۔ اور حضرت سید کا مقبرہ خانقاہ کے قریب ہے جو فیوض و برکات کا مرکز اور اہل مناجات کی زیارت گاہ ہے۔ آنحضرت سید کی اولاد آج بھی مذکورہ محلہ میں اقامت گزین ہے، اور ان کے اخلاف و احفاد، نسلاً بعد نسل، فقر و خدا پرستی کے مقام پر قائم ہے۔ بعض تو عرفان کے مرتبے تک پہنچے۔ شیخ شمس الدین بغدادی: صاحب حالات عالیہ انہوں نے سلطان زین العابدین کے زمانے میں کشمیر کو اپنی تشریف آوری سے آراستہ کیا۔ اور زینہ پورہ کے مقام پر جو ابھی تعمیر پذیر نہ ہوا تھا۔ سکونت اختیار کی اس کا سبب وہاں کی دل کشا فضا اور عمدہ ہوا تھی۔ ان کا باورچی خانہ بابرکت اور وسیع تھا ایک روز انہوں نے مولانا خاکی سے جو شیخ کے خادم خاص تھے۔ دیگدان کی تیاری کے وقت نمک لانے کو فرمایا۔ خاکی اسی وقت طی مکان کر کے رتنہ پہنچ گئے۔ اور نمک کا ایک بورا پیٹھ پر لاد کر پیر پنجال آ پہنچے۔ شدید بارش اور پانی کی کثرت کے سبب اسے عبور نہ کر سکے۔ اتنے میں شیخ وہاں حاضر ہو گئے۔ اور انہوں نے خاکی کو پانی میں سے گذار دیا۔ ابھی دیگدان ناپختہ تھا کہ نمک پہنچ گیا۔ دس گیارہ دنوں کا آمد و رفت کا راستہ انہوں نے ایک پل میں طے کر لیا۔ اور لوٹ گئے اس طرح انہوں نے ارباب ارادت و ریاضت میں ایک عجیب شور برپا کر دیا۔ شیخ کے حالات اور معاملات اسی قسم کے تھے۔ بڑے وسیع خلق اور شان عالی کے مالک تھے۔ جب اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو انہیں اسی مقام زینہ پورہ میں ان کے مریدوں اور معتقدوں کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔ سید جعفر: سادات کے اکابر میں سے اور صاحب مقامات عالی تھے۔ گوشہ نشینی سے انہیں بڑی رغبت تھی۔ اور ماسوا اللہ پر انہوں نے کبھی نظر نہ جمائی۔ جب رحلت فرما گئے تو موضع راولپورہ جو شہر سے کوئی دو میل باہر ہے۔ ان کی آرامگاہ ٹھہرا۔ ان کا مقبرہ زیارت گاہ خاص و عام اور محل فیض تمام ہے۔ پرگنہ پروہ کے موضع کرند میں بھی ایک مکان ان بزرگوار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ جسمانی اور روحانی مقاصد کے لئے ہو گا۔ ورنہ ان کی قبر راول پورہ ہی میں ہے۔ ٭٭٭ اس دور کے ریشی حضرات کا ذکر: بابا پم ریشی قدس سرہ: ان کا اصل مسکن جند نو کا قریہ تھا جو اطراف شہر اور مضافات لار میں سے ہے۔ بہت زیادہ مال و دولت کے مالک اور اہل شوکت نیز اس ملک کے سلطان کے وزیروں میں سے تھے۔ ان کی توبہ کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک روز انہوں نے شکار گاہ میں دیکھا کہ ہر چیونٹی ایک دانہ منہ میں لیے جا رہی ہے۔ وہ اسی وقت گھوڑے سے اتر آئے اور رات گئے تک اس نظارے میں کھوئے رہے ان کے دل میں آیا کہ یہ چیونٹیاں سردیوں کی خوراک کے لئے یہ ساری تگ و دو کر رہی ہیں۔ اور ہم ہیں کہ اس جہان کے لئے کوئی توشہ جمع نہیں کر رہے۔ چنانچہ انہوں نے منصب سے علیحدگی اختیار کر لی اور دنیا کو ٹھوکر مارتے ہوئے ہر چیز سے دل اٹھا لیا۔ اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ مصرع: تا نیاید پیک جذبہ، ترک دنیا کی شود (جب تک جذبے کا قاصد نہ آئے، ترک دنیا ممکن نہیں ہوتا) ایک مدت شیخ زین الدین قدس سرہ کی خدمت میں بسر کی۔ جب سلوک میں ان کے قدم جم گئے اور کشف احوال میں مصروف ہو گئے تو اجازت حاصل کر لی کہ پرگنہ بانکل کے کوہستان رینوہ میں گوشہ نشین ہو جائیں۔ کیونکہ وہ جگہ دیوستان تھی۔ وہ وہاں اونچی آواز سے اذان دیتے۔ دیو مقابلہ نہ کر سکے اور ان کے مطیع ہو گئے۔ اکثر نے اسلام قبول کر لیا۔ بابا جب تک زندہ رہے۔ وہیں مقیم رہے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ بابا شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ: ان کا اصلی وطن مرد کا پرگنہ ہے۔ جیسے ہی انہوں نے بابا بام الدین کے فیض رساں دامن کو دست ارادت سے تھاما۔ موضع کرو چلے گئے۔ اور وہاں عبادت الٰہی اور ریاضت جانکاہی میں مشغول ہو گئے۔ موتو اقبل ان تموتو641؎ کے عملی نمونہ بن گئے۔ انتہائی ریاضت کے سبب جب ان میں اٹھنے اور بیٹھنے کی طاقت نہ رہی تو بقیہ عمر تابوت میں بسر کر دی۔ حتی الامکان وہاں بھی عبادت کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا ایک مخلص ایک ملکی مہم کے سلسلے میں لشکر لے کر تبت کی طرف گیا۔ وہاں جو بھی تیرو تفنگ اس تک پہنچتا وہ زندہ دل رکھنے والے بابا کی گدڑی کے نام سے دور کر دیتا۔ اچانک اس کی ہلاکت کی خبر اس کے خاندان والوں کو پہنچی۔ا س کی بیوی بابا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے ان سے حقیقت حال بیان کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ زندہ ہے۔ میں اس کی بلاؤں کو دور کرنے والا بن گیا ہوں۔ اس کا اظہار کسی سے نہ کرنا۔ا س ناقص عقل عورت نے یہ بات ظاہر کر دی۔ بابا پرانے ٹھکانے سے پرگنہ دیوسر کے موضع نادیکام میں منتقل ہو گئے۔ جب وہ مخلص قدیم آیا اور اس نے بابا علیہ الرحمہ سے لوٹ چلنے کی التماس کی تو انہوں نے قبول نہ کیا۔ بابا کا مدفن اسی قریہ (نادیکام) میں ہے۔ اور خواص و عوام کی زیارت گاہ ہے۔ ایک روز میر ریشی موذن سے اذان دینے کو کہا۔ اس نے کہا ابھی وقت نہیں ہوا۔ انہوں نے ایک لحظہ باطن سے رجوع کرنے کے بعد اسے پھر اذان کی تاکید کی اس نے کہا اب وقت ہو گیا ہے کیونکہ اس لمحے فرشتہ جو آسمان پر موجود سفید پرندے کی صورت میں ہے۔ اذان کہہ رہا ہے۔ اس بات پر بابا علیہ الرحمہ کی تسلی ہو گئی اور ساتھ ہی اس کے باطنی حال کا بھی انہیں علم ہو گیا۔ شیخ پر باز قدس سرہ: ان کا تعلق سر زمین انجہ کے قریہ رازدین سے ہے۔ بارہ برس کے تھے جب سلطان المجاہدین شیخ نور الدین قدس سرہ کی خدمت میں پہنچنے کا شرف حاصل ہوا۔ جب ان کی پابوسی کو بڑھے تو فرمان ملا کہ شیخ عبدالطیف کی خدمت میں پہنچ، شیخ شریف اشعرار جو جاتر کام میں آسودہ خاک ہیں، ان کی صحبت میں تھے۔ تینوں بزرگوں کو حکم ہوا کہ وہ قریہ او تربل میں چو تربال کے مقام پر ٹھکانا کریں۔ چنانچہ ایک مدت تک وہ اس فیض انعام مقام پر مشغول حق رہے۔ وہ جنگلی گھاس سے افطار کرتے۔ جب شیخ عبداللطیف قدس سرہ پوشکر کے مقام پر چلے گئے تو شیخ شریف جا ترکام میں اور شیخ پرباز چوتربال میں بیٹھ گئے۔ ایک روز ان کی خوراک اپل ساگ شیخ عبداللطیف کے سامنے لائی گئی۔ ساگ سخت تھا۔ کیونکہ کم پکا ہوا لگتا تھا۔ وہ بولے ایسا کیوں کیا گیا۔ شیخ شریف نے جواب دیا کہ شیخ پرباز خشک ساگ لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں پکاؤ کا اثر کم ہے۔ شیخ پرباز بولے کہ میں سبز گیاہ سے تسبیح سنتا ہوں۔ اس لئے میں وہ نہیں پکاتا۔ بیت: ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لا شریک لا گوید (زمین سے جو بھی گھاس اگتی ہے۔و ہ خدا کی وحدت کا ذکر کرتی ہے۔ یعنی وہ معبود واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں) اور اگر میں اسے کاٹوں تو اس میں سے خون بہنے لگتا ہے۔ ایک روز شیخ نے کہا کہ ذرا دیکھو تو کہ وہ خود کیا کھاتا ہے۔ شیخ شریف نے فرمایا کہ میں دیکھ نہیں سکتا۔ کیونکہ شیخ پرباز صاحب غیرت ہیں۔ اس پر شیخ عبداللطیف نے خود یہ کام کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ ایسی گیاہ کھا رہے ہیں۔ جو خشک نہ تر ہے۔ اس کے بعد سے شیخ عبداللطیف نے بھی گیاہ سبز کھانا چھوڑ دیا اور انہیں خدمت نہ فرمائی اور بڑی غیرت سے کام لیا۔ انہیں (شیخ پرباز سے) کہا کہ وہ چوتربال میں جا بیٹھیں۔ چنانچہ انہوں نے چند برس چوتربال میں گذارے اور پھر باتربل چلے آئے۔ مشہور ہے کہ شیخ پرباز کے دو خادم تھے۔ سفید ڈاڑھی والے اور ان سے عمر میں بہت بڑے ایک روز انہوں نے شیخ کے خلاف امر قدم اٹھایا اور جنگل میں جا بیٹھے دوسرے دن وہ کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں کی ڈاڑھی زمین پر گر پڑی ہے۔ اور ایک بال بھی باقی نہیں بچا۔ چنانچہ پشیمانی کے عالم میں واپس آئے اور شیخ کے حضور توبہ تلا کی۔ شیخ نے ان دونوں کے لئے ایک حجرہ تجویز کیا۔ا س ایک حجرے میں دو قبریں بنائی گئیں اور جب تک وہ زندہ رہے۔ عبادت میں مشغول رہے۔ جب مر گئے تو ان دو قبروں میں مدفون ہو گئے۔ بابا رجب الدین: بابا بام الدین کے خلفا میں سے ہیں اسرار سے واقف تھے۔ اپنے تین بھائیوں کے ساتھ ایران سے آئے تھے۔ دوسرے دو (بھائیوں) فخر الدین اور شکر الدین نے کچھ عرصہ نوکری کے لباس میں بسر کیا۔ پھر بابا بام الدین کی صحبت و نظر کے نتیجے میں دنیا سے دستبردار ہو گئے۔ اور اپنے دل میں انہوں نے طلب الٰہی کا بیج بو لیا۔ بابا رجب الدین نے پرگنہ مازنند کے کوہ ناکہ نارن کے دامن میں گوشہ عزلت اختیار کیا اور اپنی روزی کا سامان کلام اللہ کی کتابت سے کیا۔ بابا نے بارہ ریشیوں کے ہمراہ آخری عمر تک اس مقام پر تجرید و غزید میں وقت بسر کیا۔ا ن کی خوابگاہ مذکورہ موضع کی بلندی پر واقع اور مرجع خاص و عام ہے۔ بابا حیدربت: بابا بام الدین کے خلفا میں سے ہیں۔ خدمت و ریاضت کے حقوق ادا کرنے کے بعد اہل سعادت کے مرشد کے فرمان پر پرگنہ لار کے موضع اکہال میں کہ ان کا وطن مالوف تھا۔ گوشہ خلوت اختیار کر گئے۔ بہت زیادہ ریاضت کی کوشش کی ان سے منسوب ایک بدکار عورت کا واقعہ مشہور ہے۔ اس عورت نے انہیں غیر شرعی فعل پر اکسایا اور انہوں نے اپنا عضو کاٹ ڈالا۔ اکہال کے قصبے میں مدفون ہیں۔ ان کے اصاب پاکیزہ فطرت تھے۔ بابا دریا دین: ایک طویل مدت تک شیخ زین الدین قدس سرہ کے مرید رہے۔ برسوں ان کی خدمت میں لگے رہے جب انہیں جانے کی اجازت مل گئی تو وہ سارے کشمیر میں گھومے پھرے۔ جب وہ شیخ فخر الدین کی خدمت میں جو پرگنہ بھاگ کے مقام زمل پر کرامات شاملہ اور مقامات کاملہ کے ساتھ بیٹھے تھے پہنچے تو ان سے مشورہ کیا کہ کہاں ٹھکانا کیا جائے شیخ فخر الدین قدس سرہ اٹھے تاکہ انہیں جگہ دکھائیں۔ دونوں بزرگ جنگل کی طرف چل پڑے۔ وہاں انہیں ایک غار نظر آیا۔ جو ان کے حسب خواہش تھا۔ چنانچہ شیخ دریا دین نے اس غار میں ٹھکانا کر لیا۔ ان کا حال ایسا تھا کہ ہفتہ کے اول روز ہی اپنی جگہ سے کودتے اور اس پہاڑ کی جس میں غار تھا۔ چوٹی پر خود کو چھپا لیتے اور کھانے پینے کے لئے کوئی بھی چیز ساتھ لے جاتے۔ چھ روز تک وہ کسی کو بھی نظر نہیں آتے۔ اور جمعہ کے روز لوگ انہیں اپنے ٹھکانے پر پاتے۔ اسی ہفتہ کی رات وہ افطار کرتے۔ ایک روز ان کی قیام گاہ میں لٹیرے گھس آئے۔ وہاں ان کی لیرلوں کو ریشیوں کا جو بھی مال اسباب نظر پڑا۔ اسے انہوں نے لوٹ لیا۔ جب انہوں نے جانا اور فقرا کا مال باہم تقسیم کرنا چاہا تو سبھی اندھے ہو گئے۔ اب وہ گرتے، پڑتے اورلڑھکتے لڑھکاتے ان کی خدمت میں پہنچے اور سارا سامان انہوں نے بابا کے خادموں کے سپرد کر دیا۔ اور ان کے پاؤں پڑ گئے۔ شیخ قدس سرہ نے اپنے کریمانہ خلق کی بنا پر انہیں معاف فرما دیا۔ اور ان کے لئے دعا کی جس سے ان کی بینائی لوٹ آئی اور انہوں نے رہزنی کا پیشہ ترک کر دیا۔ جب شیخ قدس سرہ چلہ کاٹنے کی نیت سے غار میں آئے تو انہوں نے وصیت کی کہ ان کے پاس کوئی نہیںآئے اور نہ کوئی انہیں دیکھے۔ جب وہ مدت مقررہ ختم ہو گئی تو خادم غار میں پہنچے۔ وہاں انہیں شیخ کے خرقہ و کلاہ کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔ خواب میں ان لوگوں نے شیخ کو کہتے سنا کہ اس غار میں ان کا مقبرہ بنا دیا جائے۔ ایسا ہی کیا گیا اب وہ مقبرہ خاص و عام کی زیارت گاہ ہے ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ بابا لدہ مل: پرگنہ کا مراج سے بابا زین الدین کی خدمت میں پہنچ کر تائب ہوئے۔ مرشد کے حکم پر شیوہ کی حدود میں شیرہ کوٹ کے مقام پر سخت قسم کی ریاضتیں کیں۔ اسی علاقے میں انہوں نے ساری عمر بسر کی۔ پرگنہ اک مراج کے موضع حدون میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کے خلفا بھی تھے۔ حضرت بابا شکر الدین: ان کا اصل مسکن پرگنہ ماجہامہ کا قریہ آرت تھا جب ان کے دل میں طلب کی آرزو پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنا تمام مال اسباب خدا کی راہ میں دے دیا۔ اور پیر کے طلبگار ہوئے یوں وہ شیخ زین الدین قدس سرہ کی خدمت میں پہنچ کر راہ عمل میں گامزن ہوئے۔ ماسوا اللہ سے انہوں نے قطع تعلق کر کے غیر حق سے چہرہ دھو لیا۔ (اللہ کے سوا سب سے تعلق ختم کر لیا) جب وہاں سے شیرہ کوٹ کے مقام پر تشریف لائے تو وہاں اپنی زندگی ہی میں انہوں نے ایک قبر تیار کروالی ایک دن کوئی دنیا دار شخص کسی سبب سے بھاگ کر اس قبر میں آ چھپا۔ اور صبح سے رات تک وہاں مخفی رہا۔ جب شیخ قدس سرہ کو اس صورت حال کی خبر ہوئی تو انہوں نے وصیت کی کہ انہیں اس قبر میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ اس میں ایک دنیا دار کے پاؤں آ گئے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ورسادی نام کا ایک آتش پرست تھا۔ جس نے رہبانیت اختیار کر رکھی تھی۔ وہ عجیب حالات اور مقامات غریبہ کا مالک تھا۔ا یک روز شہر میں واقع بڑی جامع مسجد کو آگ لگ گئی وہ برہمن (پہلے لفظ گبر، بمعنی آتش پرست استعمال ہوا ہے) اپنے مقام سے چشمے کا پانی لے کر کنارے پر پھینکنے لگا۔ جس سے آگ بجھ گئی لوگوں نے اسے دیکھا کہ وہ مسجد کی چھت پر کھڑا پانی پھینک رہا تھا۔ لیکن انہیں یہ نظر نہ آیا کہ وہ پانی لیتا کہاں سے ہے۔ اس لئے کہ اس کے ٹھکانے سے مسجد تک دس کوس کا فاصلہ تھا۔ جب وہ بابا شکر دین قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو شیخ نے اسے اپنی طرف آنے کی اجازت نہ دی۔ کیونکہ وہ گمنامی کی کمین گاہ سے انگشت نمائی کے جنگل کی طرف لپکا ہے۔ آخر بہت بات چیت کے بعد انہوں نے باہم گفتگو کی اور آخر توفیق خداوندی سے وہ ایمان لے آیا۔ اور واصلان حق میں شامل ہو گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ مسلمان تو ہو گیا تھا لیکن جب وہ لوٹا تو غار میں زندہ داخل ہوا۔ اس کے بعد کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ روایت ہے کہ ریکے ریشی قدس سرہ اپنے دور کے متقی اور شیخ بابا شکر الدین کے مرید تھے انہوں نے اپنے ایک ریشی کو کہیں بھیجا۔ اس نے چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور کشتی میں بیٹھ گیا جب یہ لوگ نال اولر میں پہنچے تو مچھلیاں پانی میں سے اچھل کر پاؤں میں آ گریں۔کشتی والوں نے یہ صورت حال دیکھی تو کچھ دیر انہوں نے صبر کیا۔ مچھلیاں پھر پانی میں کو دگئیں اور پھر ایک مچھلی اچھلی اور ایک ریشی کے پاؤں میں آ گری۔ ساتھیوں نے صبر نہ کیا انہوں نے وہ مچھلی پکڑی اور اسے بھون کر کھا گئے۔ اس کے بعد پھر ایسی صورت حال ہرگز نظر نہ آئی۔ جب یہ لوگ دوبارہ ریکے ، ریشی قدس سرہ کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے ان سب کا لباس تقویٰ اتروا دیا۔ اور بولے کہ شکموں کے مخالف اظہار کرنیو الوں کو دنیا دارانہ لباس نہ پہننا چاہیے۔ وہ ریشی جس کے پاؤں میں مچھلی آ گری تھی۔ وہ شیخ روپی ریشی تھا۔ بابا لولی حاجی: پرگنہ آوون کے موضع چکو کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے شادی کر رکھی تھی۔ وقت صحبت عورت کو وہ اچھے نہ لگے اور یوں خلع ہو گیا۔ اس صورت حال نے دنیا سے ان کا دل ٹھنڈا کر دیا۔ وہ اب کعبہ چلے گئے اور بارہ سال کی سیاحت کے بعد کشمیر لوٹ آئے۔ جہاں غیبی اشارے پر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہو گئے۔ اور باقی عمر انہیں کی خدمت و صحبت میں بسر کی۔ رحلت کے بعد اپنے پیر بزرگوار کے پہلو میں آستانہ چرار میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ اوتر تہکور: سردار زادہ تھے۔ اتفاق سے جنون کا شکار ہو گئے۔ شیخ زین الدین قدس سرہ نے کسی کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا۔ جب وہ (اوتر) شیخ قدس سرہ کے پاس پہنچے تو ہوس میں آ گئے۔ اور کام میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ مقامات ولایت کی راہ پا گئے۔ جب اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تو عیش کے مقام پر مدفون ہوئے۔ تہکوروں کے قبیلے کے جس آدمی نے سب سے پہلے کشمیر میں نزول کیا۔ وہ ملک حسن تھے جو ترک دنیا کر کے طریقت کی راہ پر چلے۔ وہ صاحب کشائش تھے اور ان کی تربت سے آج بھی اللہ والوں کے مشام میں ولایت کی خوشبو آتی ہے۔ ملک جلال تہکور بھی اسی قبیلے کے فرد تھے اور اس علاقے کے اکثر لوگ ان کی ولایت کے معترف اور ان کی کرامات و مقامات کے معتقد ہیں۔ خانقاہ کو جواری انہی کی تعمیر کردہ ہے۔ لچمہ خاتون: سلطان سکندر بت شکن کے ایک وزیر ملک سیف الدین کی دخر اور میر سید محمد ہمدانی قدس سرہ کی مرید تھیں۔ ایک والی کشمیر کے تحت آئیں اور پھر ملک جلال الدین کی زوجہ بن گئیں اور مذکورہ خانقاہ کے لئے انہوں نے سندلارسے کہ ایک خوش آب دریا ہے۔ ایک ندی نکلوائی اور اس فیض جاری سے خوش بختی و سعادت میں گوے سبقت لے گئیں۔ اور اسی بنا پر انہیں لچمی کول کے نام سے شہرت ملی۔ اسی ندی کا پانی مسجد جامع کے لئے بھی مشترک قرار دیا گیا۔ شیخ لدی کہطور شیخ نوری ریشی اور بابا لدی گنائی: شیخ عبداللطیف قدس سرہ کے مرید ہیں۔ شیخ لدی بارہ برس تک ان کی خدمت میں رہے۔ اس عرصے میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ افطار کس شے سے کرتے ہیں۔ آخر لوگوں نے دیکھا کہ وہ گرم خاکستر اور کھاری نمک سے روزہ کھولتے ہیں۔ لیکن یہ پتا نہ چل سکا کہ وہ اور کیا کھاتے ہیں۔ بابا لدی نے ریاضت اور مرشد کی خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ جب ان کی رحلت کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے وصیت کی کہ انہیں زندہ یال کے مقام پر دفن کیا جائے۔ لیکن خادموں نے ایک ریچھ کے غلبے کے خوف سے جو اس علاقے میں لوگوں کی قبریں کھودتا اور لاش نکال کر کھا جاتا تھا۔ انہیں مقام پوشکر میں دفن کر دیا۔ صبح جب وہاں فاتحہ پڑھنے لگے تو معلوم ہوا کہ قبر تو خالی ہے۔ سب حیران ہوئے، کچھ دیر بعد خبر آئی کہ زندہ پال کے مقام پر اسی کفن میں لپٹے پڑے ہیں۔ خادم وہیں پہنچ گئے۔ انہوں نے صورت حال دیکھی تو اپنی حرکت پر نادم ہوئے اور بابا کو وہیں دفن کر دیا۔ ان کی تربت مرجع عام اور فیض و فتوح کا مقام ہے۔ شیخ لچم ریشی: شیخ عبداللطیف کے مرید اور خادم تھے۔ جب کھانا تقسیم کرتے تو کھانے کا تھال کسی کے ہلائے، جلائے بغیر مجلس میں گھومتا۔ اس میں سے وہ فقرا کو کھانا دیتے۔ شیخ آدت ریشی: ان (شیخ لچم) کے مرید اور صاحب کشف و کرامات نیز اپنے وقت کے متقی تھے۔ شیخ نوری ریشی: مذکورہ شیخ شیخ عبداللطیف قدس سرہ کے مرید تھے۔ اپنی روزی کا سامان کھیتی باڑی سے کرتے۔ جو آمدنی ہوتی اسے پلوں اور سراؤں کی تعمیر پر خرچ کر دیتے۔ فقیروں اور مسکینوں میں خیرات کرتے۔ ایک روز ان کے ٹھکانے پر ساٹھ افراد آ گئے۔ شیخ قدس سرہ نے ہشت (8) سیری دیگچہ کھانے کا بھر کر ان میں تقسیم کیا۔ سبھی سیر ہو گئے اور دیگچہ اسی طرح کھانے سے بھرا رہا جب اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو بولے کہ اگر میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پوری دنای میں تقسیم کروں تو کھانا سب تک پہنچے۔ ایک روز وہ اپنے ٹھکانے پر موجود نہ تھے۔ اپنے گھر سے چند کوس دور تھے۔ چوروں کو موقع ملا۔ اور انہوں نے ان کا دھان کا صندوق اڑا لیا۔ شیخ قدس سرہ نے وہیں سے آواز دی۔ حاضرین نے ماجرا پوچھا۔ بولے چور دھان اڑا لے چلے ہیں۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو صورت حال ایسی ہی تھی۔ چوروں کے ہاتھ کچھ نہ لگا کیونکہ لوگ اس آواز ہی پر آ پہنچے تھے۔ شیخ لولے پورہ کنہ میں مدفون ہیں۔ حضرت بابا حنیف الدین قدس سرہ: بابا زین الدین قدس سرہ کے مرید تھے ایک مدت تک ان کی خدمت بجا لاتے رہے مرشد کی اجازت سے کوہ ماجہا مون کی پہاڑی دار راہ میں خلوت گزیں رہے۔ ایک عرصے تک کسی نے انہیں نہ دیکھا۔ کیونکہ وہ پنہاں و منور تھے۔ جب اہل اخلاص اور اس طرف کے لوگ بیحد اشتیاق کے سبب (ان کی تلاش میں) اس غار تک پہنچے تو وہ ایک قوی ہیکل اژدہا کی شکل میں سامنے آئے۔ لوگ ڈر کے مارے بھاگ آئے۔ چند روز کے بعد لوگ ان کے فیض آثار دیدار سے مشرف ہوئے۔ کئی برس اس پہاڑ میں مخفی رہے۔ ضرورت کے وقت چار پایوں کے کھانے والا چارا کھاتے۔ ان کی جلد ہاتھی کی کھال کی طرح کھردری ہو گئی تھی۔ جب دار البقا کو سدھارے تو اسی پہاڑ کی چوٹی پر مدفون ہوئے۔ ان کا مزار فیض و فتوح کا مقام ہے۔ شیخ نو روز ریشی: بابا رجب الدین کے مریدان خاص میں سے تھے۔ ان کا ظاہری جمال بہت تھا۔ ان کا قصہ دور و دراز تک مشہور ہے۔ بابا رجب الدین کی وفات کے بعد ان کے مریدوں کی تربیت کرتے رہے اور ان کے قائم مقام ہو گئے۔ صاحب کشف و ریاضت تھے۔ انہوں نے عجیب کام کیے۔ ایک مشہور کرامت کے ظہور کے بعد جو ایک قرضدار کی ضرورت پوری کرنے کے بارے میں تھی۔ انہوں نے سر سجدے میں رکھا اور جان دے دی۔ لوگوں نے اس امر کو ان کے قطب ہونے پر محمول کیا اور وہ اس کے چکر میں بھی گرفتار نہ تھے۔ یہ شیخ نو روز ریشی ان نو روز بابا سے ہٹ کر ہیں۔ جو موضع کہاک میں آسودہ خاک اور ان سے بہت بعد میں گذرے ہیں۔ شیخ ہردی ریشی: بابا رجب الدین کے مریدوں میں سے ہیں۔ جب کہ تربیت انہوں نے مذکورہ شیخ نو روز ریشی سے پائی۔ شیخ نوندی ریشی: ہردی ریشی کے مریدوں میں سے ہیں۔ انہوں نے پچاس برس تک چلہ کاٹا اور گوشہ نشینی اختیار کئے رکھی۔ کبھی عورتوں کا چہرہ نہ دیکھا۔ صاحب کمال اور علو حال کے مالک تھے۔ حضرت شیخ اسمعیل: حضرت حافظ فتح اللہ ولد شیخ احمد خوشحوان کے خلف و خلیفہ تھے۔ ان دونوں حضرات کا ذکر پہلے گذر چکا ہے۔ علوم ربانی کے عالم اور رموز سبحانی کے کاشف تھے۔ تقویٰ و خدا ترسی میں عجب مقام پر تھے۔ اپنے عہد میں کشمیر کے شیخ الاسلام اور کہتر و مہتر اور خرد و کلاں کی توجہ کا مرکز تھے۔ ان کی دو دو منزلہ دو بڑی خانقاہیں تھیں۔ ایک کوہ بار پربت کے دامن میں جہاں اب ان کا مقبرہ ہے اور دوسری ان کے آباؤ اجداد کی قبور کے برابر جامع مسجد سے متصل دونوں خانقاہیں آباد تھیں۔ درد اور او کرنے والے چار سو صوفی ہر روز خانقاہ میں موجود رہتے تھے۔ ہر روز کا وظیفہ انہیں انہی سے ملتا ۔ ان کے علاوہ پردیسی فقرا اور طالبان علم کثرت سے آتے جاتے رہتے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق ولایت ماوراء النہر اور ہرات سے ہوتا۔ یہ لوگ ان کی خانقاہ کے مطبخ سے روٹی کھاتے۔ شیخ کے مال اور زراعت بالخصوص انگور زار میں بہت برکت تھی۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر طالبین کی تربیت فرماتے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں دوسرے لوازم کے ساتھ، خانقاہ کے لئے وقف کر دیں۔ شیخ مذکور نے شمسی چک سے جو ان کا مرید صادق تھا۔ یہ عہد لے رکھا تھا کہ جب وہ وزیر بنے تو اہل اسلام کی اعانت کرے گا۔ اور بت و بت کدہ ڈھا دے گا۔ جب وہ ان کے مبارک دم سے حکومت میں آیا تو اس نے مذکورہ وصیت پر عمل کیا۔ اور شرع مبین کی بیحد ترویج کی۔ اس نے اپنے شیخ کے لئے بابا سید محمد لور ستانی کے قریب جہاں سے شیخ کے آباو واجداد کا بھی مدفن نزدیک ہے دو منزلہ خانقاہ تعمیر کرائی اور دونوں طرف کے حجرے اوپر اور نیچے آباد کیے۔ شیخ کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق کتب خانہ اور مطبخ بحال رکھا۔ انہوں نے اپنے بعض دیہات اور دوسرے ذرائع آمدنی خانقاہ کے لئے وقف کر دیے تھے۔ 1279-1090ء تک یہ خانقاہ قائم تھی بعد میں آگ لگنے سے جل گئی اس خانقاہ میں بہت سے اولیا نے خلوت اختیار کی۔ یہ شمسی چک حضرت شیخ بہاء الدین کے مزار جس کی تعمیر سلطان زین العابدین کے زمانے میں ہوئی تھی کے دروازے کے سامنے مدفون ہے۔ مزار سے باہر اینٹوں والی خانقاہ سے متصل دو قبریں، قبر کے پتھروں کے مقابل موجود ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اس کے بیٹوں اور بھائیوں کی قبریں ہیں۔ ٭٭٭ محمد شاہ ولد حسن شاہ 893ھ (1488ئ) میں تخت نشینی سے سرفراز ہوا۔ چونکہ وہ اس وقت صرف سات برس کا تھا۔ اس لئے اس کی صغر سنی کے پیش نظر ملک کی زمام اختیار سادات بیقی کے ہاتھوں میں دے دی گئی ان سادات نے اپنے علونسب اور خاندانی عظمت کے افتخار کے سبب امرائے کشمیر کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک روا رکھا۔ جس کے باعث امرائے کشمیر موقع کی تلاش میں رہے اور آخر انہوں نے شورش برپا کی اور دار الامارہ (دار الامرا) میں ان سادات کے دس افراد کو جن میں سب سے بڑا سید حسن تھا۔ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک عظیم فتنہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مزاجوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ اور لوگ سلطنت میں رخنہ اندازی کا سوچنے لگے۔ چنانچہ غلبہ پانے کی خواہش رکھنے والوں نے ہر گوشے سے فتنہ انگیزی اور شورش کا سر اٹھایا۔ نتیجتہ بعض امرا اور لشکر کے مشورے سے محمد شاہ دو سال سات ماہ کے بعد معزول ہو گیا۔ اور بعض معتمدوں کے ساتھ مل کر اس نے راہ فرار اختیار کی۔ اور کوہستان کے اطراف میں پہنچ گیا۔ فتح شاہ بن ادہم خان بن سلطان زین العابدین جو ان دنوں نوشہرہ کوہستان میں حاکم تھا، مفاد پرست لوگوں کے ایما پر، ملک سیف الدین کی اعانت و اتفاق سے اتوار کے روز تخت نشین ہوا۔ چونکہ تمام ملک کشمیر کی حکومت اس دور میں اس سے منطق تھی۔ ملک شمسی چک نے ملک سرنک رینہ اور ملک موسیٰ رینہ سے مل کر ملک سیف الدین کی مخالفت پر کمر باندھ لی۔ یہ مخالفت رفتہ رفتہ قتال پر منتج ہوئی۔ عین لڑائی میں ملک سیف الدین مارا گیا۔ ملک سرنک سواری سے اتر آیا۔ او رعوام کے ہجوم کے باعث خاک فنا میں غرق ہو گیا۔ا ور ملک موسیٰ بھی کاری زخموں کے سبب تھوڑی ہی دیر میں دشمن سے ملحق ہو گیا۔ جب دونوں ملکوں نے عدم کی راہ لی تو وزارت ملک شمسی چک کو مل گئی۔ لیکن جس طور ملک سیف الدین اپنے عدل و احسان کے باعث بے نظیر تھا۔ ویسا دور اس ملک میں پھر نہ آیا۔ نیز بادشاہ کے بے توجہی امرا بالخصوص میر سید محمد ملک ابراہیم ماکری ملک کا جی چک اور ملک عیدی رینہ کی جو مقربوں اور اہل اقتدار میں سے تھے۔ مخالف پر منتج ہوئی۔ ملک موسیٰ چادوری کے اکسانے پر اس جماعت اور شمسی چک کے مابین بڑی بڑی لڑائیاں ہوئی۔ میر شمس عراقی کے استقلال اور اس کے بہکانے پر کشمیری عوام میں مذہب سے انحراف کا ذکر: مخفی نہ رہے کہ فتح شاہ کے زمانے میں اور ملک موسیٰ رینہ کے تسلط کے دوران کشمیر میں جو عجیب و غریب اور مشکل واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ میر شمس عراقی کی آمد ہے۔ یہ شخص تقریباً حسن شاہ کے عہد میں سفیر کے طور پر اس شہر میں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ وہ کچھ عرصہ بظاہر صوفیوں اور شیخ اسماعیل گبردی قدس سرہ کے ولایت کے حامل متوسلین کے لباس میں ملت اسلام کے مروجین کے گروہ میں داخل ہو گیا۔ اس لئے کہ اس زمانے میں بت شکنی کا عام رواج تھا۔ اس نے جناب شیخ سے خاص ارادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بابا علی نجار سے کہ حضرت بابا اسمعیل کے مریدوں میں سے تھا۔ ربط معنوی پیدا کر لیا۔ پھر اس نجار کو اس نے بہکایا پھسلایا اس (عراقی) میں ظاہری آراستی اور وضعداری زبان و بیان کے لحاظ سے بڑی تھی۔ پھر وہ بعض عجیب و غریب علوم بھی جانتا تھا۔ا س بناء پر شاید حضرت بابا اسمعیل نے اپنے مریدوں سے کہہ رکھا ہو کہ وہ اس مغل سے نشست و برخاست رکھیں۔ سب سے زیادہ بابا علی کہ نادان محض تھا۔ اس سے صحبت رکھی۔ بلکہ وہ تو بظاہر و باطن اس سے مل گیا۔ اور اس بات سے غافل رہا کہ: از رہ مرو بظاہر ہموار مرد مان در خاکہای نرم بود دام بیشتر (لوگوں کے ظاہر کی ہمواری سے دھوکا مت کھا، کیونکہ نرم زمینوں میں جال زیادہ ہوتا ہے) اس کے باوصف شمس عراقی مسترد ہی رہا اور اسے کوئی پذیرائی نہ ملی۔ چنانچہ وہ پھر خراسان لوٹ گیا تھا۔ جب سلطان حسین کو اس کے باطنی خلل کا علم ہوا تو اس نے اسے ملازمت سے معزول کر دیا۔ اور یوں اس نے پھر کشمیر لوٹ آنے کا ارادہ کیا۔ روانگی سے قبل اس نے کشمیر کی صورت حال جاننے کے لئے اپنا کوئی آدمی وہاں بھیجا۔ اس شخص نے اسے خبر کر دی کہ بابا اسمعیل کبر سنی کو پہنچ گئے ہیں۔ اور انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بابا علی کی گرم بازاری ہے۔ شمس نے بابا علی کے نام خط لکھا کہ میں نے ترک دنیا کرنے کے بعد جناب حضرت سید محمد نور بخش سے خلافت پائی ہے۔ اور اب میں کشمیر آ رہا ہوں۔ بابا علی نے بڑے اہتمام اور جوش و جذبہ سے اس کی پذیرائی کی۔ اور اس پر کامل اعتقاد کرتے ہوئے اسے اپنی خانقاہ میں بٹھا دیا۔ بابا اپنے مرید اس کے حوالے کرتا جاتا۔ شمس نے سید محمد نور بخش سے اپنے تعلق کا ڈھونگ لوگوں کو فریب دینے کے لئے رچا رکھا تھا۔ یہ سید محمد نور بخش چند سلسلوں سے حضرت امیر کبیر علی ثانی کے خلفا میں سے تھے۔ عراقی نے جو خود کو ان سے منسوب کیا تو یہ محض اخترا ہے۔ ’’ سبحانک ہذا بہتان عظیم‘‘ جب عراقی نے اپنا بازار گرم کر لیا تو اکثر لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے لگا۔ رفتہ رفتہ خفیہ انداز میں اس نے مذہب تشیع کی اشاعت کی۔ بابا علی کی سعی و کوشش سے وہ کشمیر کے اکثر امراء کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس نے جدیبل میں دو منزلہ خانقاہ تعمیر کر کے اس میں سکونت اختیار کر لی۔ وہ خلوتیں اختیار کر کے سخت قسم کی ریاضتوں میں مشغول رہا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے بیت: از ریاضت پیشگان بد درون غافل مشو سنگ می ریزد فلاخن بر شکم چون می خورد (بدفطرت ریاضت پیشہ لوگوں سے غافل نہ رہ۔ گوپیا جب ٹکراتی ہے تو پیٹ پر پتھر گرا دیتی ہے۔ یعنی چلا دیتی ہے) اس نے سلطان کے ملازموں سے ربط پیدا کیا۔ اور لوگوں سے اپنی کرامات و خوارق ظاہر کرنے کے بہت وعدے کیے۔ اکثر سادہ دل لوگ اس کے فریب میں آ گئے۔ بیت: بوعدہ ہاے تو دل بستہ ام چہس ادہ دلم کہ آب خضر طمع دارم از سراب غلط (میں نے تیرے وعدوں سے دل لگا رکھا ہے۔ میں کیسا سادہ دل ہوں کہ میں غلط طور پر سراب سے آب حیات کی طمع کیے ہوئے ہوں) بہرحال محمد شاہ کی زندگی تک کسی کو اظہار و اشتہار کی قطعاً قدرت نہ تھی۔ وہ (عراقی) پوشیدہ طور پر تشیع کی اشاعت کے سلسلے میں کوشش کرتا رہا۔ بابا اسمعیل کے مخلص پیروکاروں کے ساتھ جس بھی شہر اور قریے تک اس کی رسائی ہوئی، اس نے وہاں کے لوگوں کو ان کے مذہب سے منحرف کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ خود سادہ دلوں اور نادانوں کو تعلیم دیتا۔ اسی اثنا میں ملک کا جی چک نے، جس کی ہمشیرہ محمد شاہ کے نکاح میں تھی اور مملکت کا اختیار اس کے پاس تھا، غازی خان کے ساتھ مل کر شمس عراقی کے یہاں آمد و رفت شروع کر دی، بلکہ اس نے عراقی کا مذہب بھی اختیار کر لیا۔ شمس عراقی نے دونوں کو اس بات پر تحریک کی کہ امیر یہ کبرویہ خانقاہ کو، جو ایک منزلہ ہے، گرا کر دو منزلہ بنانا چاہیے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے گرانے کے بعد وہ پھر اس کی تعمیر میں تاخیر کرائے اور اس بات کا موقع نہ آنے دے کہ وہ خانقاہ اس کی جدیبل (آج کل اسے زڈی بل کہتے ہیں مصنف) میں تعمیر کردہ خانقاہ کے برابر لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بنے۔ دونوں آدمی سلطنت کے مدار المہام تھے۔ انہوں نے محمد شاہ کو اس پر آمادہ کیا۔ بادشاہ نے صرف اس خیال سے کہ اسے دو منزلہ بنائے، خانقاہ معلیٰ کو گرا دیا۔ اس ارادے کے مطابق، جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، میر شمس عراقی اور کاجی چک اور غازی چک کے جو عراقی کے حلقہ ارادت میں آ چکے تھے، باطل خیال میں خانقاہ کی تعمیر کچھ عرصے کے لیے معرض التوا و تاخیر میں پڑی رہی، اور کسی نے بھی اس کی تعمیر کی طرف قطعاً توجہ نہ کی۔ تاآنکہ کا جی چک کی بہن کو جو محمد شاہ کی زوجہ تھی اور جس کا نام صالح ماجی تھا اور وہ بابا اسمعیل کی مریدنی بھی تھی، توفیق خداوندی اور تائید ایزدی سے غیرت آئی اور اس نے اپنے جہیز وغیرہ کی پرانی اشیاء اکٹھی کر کے انہیں فروخت کر دیا، اور اس طرح خانقاہ معلی کی تعمیر پر کمر ہمت باندھ لی اور دین کے مخالفوں کی کمر توڑ ڈالی۔ اس زمانے کے رائج سکے کے مطابق اس نے خانقاہ معلی کی تعمیر پر تین ہزار روپیہ اور ساٹھ ہزار تنکہ خرچ کیے اور اسے دو منزلہ بنا دیا۔ وہ خاتون بڑے ہی خلوص و عقیدت کے ساتھ اس خانقاہ کی تزئین و ترتیب میں مشغول رہی۔ جب عمارت تعمیر ہو گئی تو اس نے زینہ گیری پتو کے ایک ہزار دو سو کرتے، جنہیں اس دور میں ’’ زینہ جامہ‘‘ کہتے تھے، کارکنوں، معماروں اور ترکھانوں کو اور پانچ ہزار کلہ پوش پتو مزدوروں کو انعام کے طور پر دیے۔ شہر کے دس ہزار آدمیوں کو اس نے کھانے کی دعوت دی۔ چھت کے کنگرہ کا قلس رکھنے کے دن اس نے محمد شاہ کی مہر کے ساتھ وقف نامہ تیار کیا اور خانقاہ کی تولیت سید محمد بن سید علی کے سپرد کی جو اس وقت کے سادات سنی میں سے تھے۔ ومن دخلہ، کان آمنا (جو کوئی اس میں داخل ہوا وہ امن میں ہو گیا) اس کی تاریخ مکمل 66؎ ٹھری۔ جب چا دورہ ملکوں کا دادا ملک موسیٰ از راہ تقدیر شمس عراقی کی پیروی اختیار کرتے ہوئے اس کے مذہب میں شامل ہو گیا تو اس (عراقی) کی اور بھی گرم بازاری ہو گئی ۔ ملک موسیٰ کے حکم سے اسے جدیبل (زڈی بل) میں جگہ مل گئی۔ اور وہ اپنے مذہب کی اشاعت و ترویج میں مصروف ہو گیا۔ اس نے شیعہ مذہب سے متعلق احوط نامی ایک کتاب تصنیف اور شائع کی۔ بابا علی نے محلہ حسن آباد میں لوگوں کو بہکانے میں اپنی دکان خوب چمکائی اور بیشتر ترویج کا باعث بن کر ان دونوں نے غلبہ حاصل کر لیا۔ حسن آباد اور بابا پورہ وغیرہ کے تمام بابے مذکورہ بابا علی کی اولاد ہیں۔ اس کے بعد اپنے وقت میں بابا خلیل بابا طالب اور شیخ حسن جدیلی (زڈی بلی) نے ان کی تائید کی اور یوں یہ مذہب زیادہ پھیل گیا۔ اور اسے تبت تک پہنچا دیا گیا۔ اب ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ فتح شاہ کی یہ خواہش تھی کہ ملک کشمیر زین العابدین کی طرح ایک ہی شخص کے زیر اقتدار رہے۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر اس نے ملک ابراہیم اور بعض دوسرے امرا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اور 916ھ (1510ئ) میں کئی پل کاٹ کر جنگ و جدال کا آغاز کر دیا۔ یوں ان لوگوں نے مرنے والوں کے خون سے زمیں کو لالہ زار بنا دیا۔ بہت سی لڑائیوں او ربے شمار کار زار کے بعد سپہ سالار ی کا منصب ملک عثمان دار کو ملنا قرار پایا۔ دو ماہ کے بعد وانکران قبیلے کے سرداروں نے متفق ہو کر ملک کا جی چک جہانگیر بدر اور گدائی ملک پر غلبہ پا لیا۔ انہوں نے ان کے بعض آدمی مار ڈالے اور ملک عثمان کو محبوس کر دیا۔ جب کہ فتح شاہ نے راہ فرار اختیار کی۔ ایک ماہ کے بعد ملک ابراہیم ماگری فتح شاہ کو جو ہیرہ پور بھاگ گیا تھا۔ پوری جمعیت کے ساتھ واپس لے آیا۔ اسے دوبارہ تخت سلطنت پر بٹھایا خطبہ اور سکہ اس کے نام سے مزین کیا گیا۔ اس نے ایک برس غیر مستحکم حکومت کی۔ اس کے بعد محمد شاہ نے پھر سکندر اودی والی ہند سے مدد حاصل کی۔ ملک نصرت زینہ ملک کا جی چک اور ملک لوہر ماکری نے مقابلے میں آ کر داد مردانگی دی۔ اور فتح شاہ (؟) نے مقابلے کی تاب نہ لا کر کوہستان کا راستہ لیا۔ اور کوہستان ہی میں راہی ملک بقا ہوا۔ حضرت امیر کی وہ کلاہ مبارک جو انہوں نے سلطان قطب الدین کو عنایت کی تھی۔ اور اس عہد تک نسل در نسل سلاطین تخت نشینی کے روز پہنا کرتے تھے۔ اب فتح شاہ کے قبضے میں تھی۔ اور اس نے یہ وصیت کر دی تھی کہ اسے ان کے کفن میں رکھ دیاجائے۔ جب یہ بات حضرت بابا اسمعیل کے حلف اور خلیفہ شیخ المشائخ شیخ فتح اللہ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ اب سلطنت ان کے ہاتھوں سے گئی۔ بلا شبہ اس کے بعد اگر دو تین افراد کی بادشاہت کی بھی تو وہ غیر مستحکم رہی۔ تا آنکہ قبیلہ چکاں کو منتقل ہو گئی۔ جس کا ذکر اپنے مقام پر کیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ فتح شاہ کی نعش کشمیر لائی گئی۔ اور مقبرہ سلاطین میں دفنا دی گئی اور کشمیر کی سلطنت ہمعصروں کی مداخلت کے بغیر پورے استقلال کے ساتھ محمد شاہ کو مل گئی۔ تاہم چک قبیلے کے امرا جو رضاعت و چاکری کے مرتبے سے قرابت و امارت کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ تمام امور میں تسلط کا مظاہرہ کرتے تھے۔ چنانچہ 926ھ 1520/ء میں ملک کا جی چک نے اپنے بیٹے ملک مسعود کو پوری جمعیت کے ساتھ ملک جہانگیر کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا۔ جو اس دور کے امرا میں سے تھا۔ اور ان کے ساتھ بالادستی کا مظاہرہ کرتا تھا ۔ ملک لہر ما کری اور ملک ابدل نے قلعہ جیری اودر میں بہت زیادہ فوج کے ہمراہ ان سے جنگ کا آغاز کر دیا۔ آخر کشمیر کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ ملک ابدال کو جس کے پاس منصب حکومت تھا۔ دوسرا اس کے بھائی ملک لوہر کو تیسرا ملک علی کو اور چوتھا ریکی چک اور شیخ علی کو ملا۔ جو سردار لشکر تھا۔ ترک اور اس کا ذکر آتا ہے: اس نے کئی مرتبہ کشمیر والوں سے جنگ کی۔ آخر موسم خزاں میں ہندوستان چلا گیا۔ اور ملک علی نوشہرہ تک اس کے ہمراہ رہا۔ اس واقعے کا بیان اور اس ماجرا کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 938 (1531-2ئ) میں ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ جس نے کچھ عرصہ پہلے ہند کو تسخیر کیا تھا، کا فرزند میرزا کامران 67؎ اس دنیا سے رحلت کر گیا۔ جس کے سبب سکہ اور خطبہ نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ کے نام کا جاری ہوا۔ میرزا کامران نے ہمایوں بادشاہ سے اجازت لے کر کشمیر کی طرف توجہ کی۔ اس نے نوشہرہ میں رک کر محرم بیگ اور شیخ علی بیگ کو تیس ہزار سوار دے کر کشمیر روانہ کیا۔ چونکہ کشمیر امرا کے درمیان منقسم تھا۔ اس لئے کوئی بھی مقابلے کے لئے نہ نکلا۔ تا آنکہ یہ لوگ قلعہ جیرہ اودر میں آ کر فروکش ہو گئے۔ فتح و نصرت کا شہرہ ہند تک جا پہنچا۔ لوگوں نے (اس فتح کی) تاریخیں کہیں خود محرم بیگ نے یہ تاریخ کہی اور کامران میرزا کو بھجوا دی۔ بہ حکم پادشاہی کز حریمش بفہم آسان شود تفہیم فردوس سفر کردم بسوی شہر کشمیر کہ از خوبی دہد تعلیم فردوس چو کردم فتح نیم او بتاریخ خرد گفتار کہ ’’فتح نیم فردوش‘‘ (شاہی حکم سے کہ جس (بادشاہ) کی حریم سے فردوس ( کی صورت) کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔) میں نے کشمیر شہر کی طرف سفر کیا جو اپنے حسن و خوبی کی بنا پر فردوس کا پتا دیتا ہے (جب میں نے اس کا نصف حصہ فتح کر لیا تو عقل نے اس موقع کی تاریخ ان لفظوں سے نکالی:’’ فتح نیم فردوس‘‘ یعنی آدھے فردوس کی فتح (1531-2/938ئ) آخر کار امراے کشمیر جیرہ اودر سے موضع اتہ واجن آ گئے۔ ادھر محرم بیگ پوری جمعیت لے کر اتہ واجن میں جنگ و حرب کیلئے تیار ہو گیا۔ اب کشمیر کے امرا کوہ سلیمان کی طرف بڑھ گئے۔ سخت لڑائی کے بعد جب محرم بیگ مغلوب ہو گیا تو اس نے صلح کر کے ہندوستان واپس جانے کا ارادہ کیا۔ اس کے لوٹ جانے کے بعد کشمیر کے سپاہیوں نے ابھی پیٹیاں بھی نہیں کھولی تھیں کہ اچانک 939(1532ئ) میں سلطان سعید کاشغر سے آ کر خود تو تبت میں رک گیا۔ اور اپنے بیٹے اسکندر خان کو اس نے آگے روانہ کر دیا۔ وہ مقربوں کی ایک جماعت کے ساتھ جس کا سر کردہ اس (سعید) کا بھتیجا میرزا حیدر تھا۔ چار ہزار سوار لے کر موسم خزاں میں لار کے راستے محلات نوشہرہ پہنچا اور وہاں ٹھہر گیا۔ کشمیر کے سبھی امرا اس وقت قلعہ جیرہ اودر میں مقیم تھے۔ کاشغریوں نے فصل شتا (جاڑا) اور موسم سرما میں کامراج کا رخ کیا۔ اگرچہ امراے کشمیر ان کا تعاقب جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن کاشغریوں کے غلبے کے باعث شہر کے سبھی لوگ پہاڑوں اور جزیروں کی طرف نکل گئے۔ کئی ایک چھوٹے بڑے دہقان ترکوں کے ہاتھ اسیر ہوئے۔ کاشغریوں نے اپنے خیال میں سرسری فتح پا لی۔ اس موقع پر ایک شاعر نے یہ تاریخ کہہ کر سعید خان کے پاس بھجوا دی۔ تاریخ: الحمد للہ کان شاہ عادل سلطان سکندر خاقان دوران بر گرد اعدا در روز ہیجا قادر شد آن دم از لطف یزدان تاریخ فتحش الحق کہ این است روز چہارم از ماہ شعبان (الحمد للہ کہ وہ سلطان سکندر جو اپنے دور کا خاقان ہے۔ لڑائی کے دن دشمنوں پر اللہ کے کرم سے غالب آیا۔ بلاشبہ اس کی فتح کی تاریخ یہ ہے: ماہ شعبان کی چوتھی تاریخ) الغرض اس واقع کے بہت بہت سے لوگوں نے سردیوں کے دن بڑی اذیت و صعوبت ذلت و خواری اور بے قرای میں بسر کیے۔ جب بہار کے آثار نے زمین کو شادابی و تازگی کے جلوے سے آراستہ کیا تو کشمیر کے فوجی ترک لشکر کے مقابلے میں آ گئے۔ ملک محمد علی، محمد ملک ناجی چادرو، ملک حسین رینہ، اور ملک موسیٰ وغیرہ ہم میدان جنگ کی طرف بڑھے اور بہت زیادہ کار زار کے بعد وہ کاشغریوں کے لشکر پر غالب آ گئے۔ جب میرزا حیدر کا گھوڑا بے جان ہو گیا تو سبھی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے۔ علی بیگ تقریباً ہزار سوار میرزا حیدر کے دائیں جانب اور دو ہزار سوار اس کے بائیں جانب لے کر اپنے دلیروں کو تحریک و تہدید کرتا اور ان کے حوصلے بڑھاتا رہا، اس طرح اس نے جنگ کی آگ کو دوبارہ بھڑکا کر آخر دشمن پر غلبہ پا لیا۔ اہل کشمیر کے کوئی ایک ہزار چھ افراد اور بہت سے امرا مارے گئے، باقی لوگوں نے راہ گریز اختیار کی۔ اس صورت حال کے باوجود کشمیر کے امرا بڑی دلیری و جوانمردی سے میدان جنگ میں ڈٹے اور لڑتے رہے اور یوں کاشغریوں کو شکست ہوئی؟ امرا نے ان کا تعاقب نہ چھوڑا۔ بہار کے آخر میں فریقین میں صلح ہو گئی۔ کاشغریوں نے لار کے راستے سے تبت کی جانب رخ کیا۔ چونکہ سال کا بیشتر حصہ جنگ و جدال میں گذرا تھا، اور کسی قسم کی تعمیر و زراعت نہ ہوئی تھی، اس لیے غلہ گراں ہو گیا اور قحط و تنگ دستی کا اس حد تک غلبہ ہو گیا کہ باپ، بیٹے کے منہ سے اور ماں بیٹی کے ہاتھ سے لقمہ چھیننے لگی۔ لوگ بھوک سے مر گئے۔ بیت: قحط تاحدی کہ خلق از فرط بے قوتی چو شمع جسم خود را سوختی بر آتش و بردی بکار (قحط اس حد تک پہنچا کہ مخلوق رونی کی بیحد عدم دستیابی کے باعث، شمع کی مانند اپنے جسم کو آگ پر چلاتی اور کام میں لاتی) 1537-8/944 میں سلطان محمد شاہ فوت ہو گیا۔ شمس الدین شاہ: محمد شاہ کا بیٹا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد اسے خالق خیر و شر کے حکم سے سلطنت ملی۔ مملکت کے معاملات کا جی چک کے ہاتھوں میں رہے۔ یہ وہی کاجی چک ہے جس کی بہن محمد شاہ کے عقد میں تھی۔ یہ نامور دلاوروں میں سے تھا۔ وہ اکثر اوقات ہند کے حملہ آوروں کو بھگانے کے لیے کوہستان میں ٹھہرا رہتا۔ سرحد کا جی دارد جو کوہستان کی دشوار گزار سرحد ہے، کاجی کی وہاں اقامت کے سبب اس کے نام سے منسوب ہے۔ شمس الدین کو استحکام میسر نہ آیا۔ وہ ایک برس سے زیادہ نہ جیا 1533-4/940میں وہ عالم فانی سے کوچ کر گیا۔ اسمعیل شاہ بن محمد شاہ: بھائی کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں کاجی چک کی وساطت سے جو شمس عراقی کا مرید تھا، مذہب تشیع بیشتر رواج پذیر ہوا۔ کاجی چک کی بیٹی اسمعیل شاہ کے عقد میں تھی، اس لیے پہلے کی نسبت اب زیادہ اختیار و اقتدار اس کے پاس تھا۔ امور مذہب میں تعصب کی خاطر اس نے بہت بھاگ دوڑ کی۔ امرائے کشمیر میں اب پھر باہمی خصومت اور جھگڑے شروع ہو گئے۔ انہوں نے دیہات اور قصبات باہم تقسیم کر لئے۔ ماکری، چک، چادری اور ملک قبیلوں کے وہ افراد جو اس عہد میں ارباب اقتدار اور ملکی معاملات میں صاحبان اختیار تھے، ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور باہم برسر پیکار رہنے لگے۔ محلہ علاء الدین پورہ میں جو قلعہ کی صورت واقع ہے، نمایاں لڑائیاں لڑی گئیں۔ اسمعیل شاہ نے کچھ عرصہ عدم استحکام کے ساتھ گزارا اور جلد ہی فوت ہو گیا۔ ابراہیم شاہ بن اسمعیل شاہ: میرزا حیدر کی کشمیر میں آمد کے سبب اسے تخت پر بٹھایا گیا۔ پوشیدہ نہ رہے کہ ملک ابدال ماکری اور ریکی چک نے جو اپنے آباؤ اجداد کے دستور کے مطابق مذہب اہلسنت و جماعت پر قائم تھے اور جو تشیع کی طرف قطعاً مائل نہ ہوئے، اپنے بیٹے ہمایوں کے پاس لاہور بھیج دیے اور میر شمس عراقی کے پیروؤں کے تسلط اور مذہب تشیع کی اشاعت کے بارے میں مفصل لکھ بھیجا، بلکہ میر شمس کی تالیف ’’ احوط‘‘ دیگر عقائد کے ہمراہ اصل صورت میں پیش کر کے اس سے اصلاح احوال اور فوجیں کشمیر بھیجنے کی التماس کی۔ ہندوستان میں ہمایوں بادشاہ کی شکست اور شیر خان (سوری) کے غلبے کا واقعہ انہی دنوں پیش آیا تھا۔ ابدال ملک اور میرزا حیدر ہندوستان میں ہمایوں بادشاہ کے ملازموں میں سے تھے۔ ہمایوں بادشاہ نے میرزا کی اس ترغیب کو کہ کشمیر کی طرف بڑھا جائے، نہ سمجھا اور ٹھٹہ اور بھکر سے ہوتا ہوا ایران جا پہنچا۔ میرزا حیدر اپنی کوشش سے لاہور سے نکل کر چرہ ہار کے راستے کشمیر پہنچا۔ ملک کا جی چک اپنی جمعیت لے کر ہیرہ پور کے راستے سے ہندوستان چلا گیا، جب کہ ملک ابدال ماکری اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ ادھر کا جی ملک، شیر خان سے ملا اور اس سے اس نے کمک کی درخواست کی۔ شیر خان نے اسے خان خانان کے خطاب سے نوازا اور اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور اپنا لشکر اس کے ہمراہ بھیج دیا۔ اس کی واپسی تک میرزا حیدر نے کشمیر پر تسلط حاصل کر لیا اور اہل کشمیر کے ساتھ وہ اس قدر حسن سلوک سے پیش آیا کہ ہر شخص کو اس نے اپنا مطیع و منقاد بنا لیا۔ کاجی چک نے ہیرہ پور کے راستے سے شہر کا قصد کیا۔ میرزا اہل و عیال کے ساتھ اندر کول میں تھا۔ جب اسے کاجی چک کی آمد کا پتا چلا تو اس نے کاجی چک سے جنگ کے لیے ریکی چک اور ملک عیدی رینہ کے ہمراہ فوج ارسال کر دی۔ ایک مدت تک جنگ جاری رہی۔ دونوں طرف کے لوگ، جو زبردست دلیر اور سرداری کے اہل تھے، باہم لڑتے رہے، لیکن چونکہ تقدیر کا پنجہ تدبیر پر غالب ہے اس لیے امرائے کشمیر کی شجاعت و جلادت فتح کا باعث نہ بن سکی اور اس کا کوئی فائدہ ہوا، تا آنکہ نو روز چک تو مارا گیا اور کاجی چک کو شکست ہو گئی اور وہ پھر ہند چلا گیا۔ نازک شاہ بن فتح شاہ ملک عیدی رینہ کے توسط اور اس کے حسن سعی سے تخت نشین ہوا۔ بادشاہی تو اس کے نام کی تھی لیکن حقیقت میں سارا تسلط و تصرف میرزا حیدر کا تھا۔ اس میرزا نے نئے سرے سے اس شہر میں شعار اہلسنت کو رواج دیا۔ جدیبل کی خانقاہ کو اس نے آگ لگوا دی۔ شمس عراقی کی ہڈیاں نکلوا کر جلا دیں اور اس کے مقربے کو سارے شہر کا کوڑا خانہ بنا دیا۔ اس نے دس برس حکمرانی کی، نواحی شہر کو بڑے اچھے طریقے سے کنٹرول کیا اور تبت اور کوہستان کا بہت سا حصہ اپنے تصرف میں رکھا، نیز دشمنوں کے ہاتھ ضرب شمشیر سے کوتاہ کر دیے۔ اس نے علم کی ترویج، علما کی تربیت اور اسلام اور اہل اسلام کی تعظیم احسن طریقے سے کی۔ ملک عیدی رینہ، حسن دینہ، ملک محمد ناجی اور خواجہ حاجی اس کے زیر اطاعت تھے۔ اس نے اہل تشیع کو خاصی سرازنش کی اور میر شمس عراقی کے بیٹے دانیال کو جو میرزا کے خوف سے تبت خرد بھاگ گیا تھا، وہاں سے بلوا کر مار ڈالا، شیعوں کے شکلی نامی ایک پیر کا بند بند جدا کر دیا۔ یہ پیر ریشیوں اور زاہدوں کے لباس میں زندگی بسر کر رہا اور خود کو بابا علی کا مرید کہتا تھا۔ اس نے پہلے اس پیر کا دھان چھڑنے والے کولھو میں کوٹا، اس کے بعد اس کے جسد کو ذلت کے ساتھ جلا دیا اور جو اہل خدمات اور اعیان رفض سے منسوب و مشہور تھے انہیں بھی اس نے قتل کروا ڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا لوگوں کے دلوں میں، میرزا حیدر کے بارے میں کدورت اور وحشت پیدا ہو گئی اور زیادہ تر اہل تشیع دشمنی اور نزاع پر اتر آئے۔ ملک عیدی رینہ نے 1551/958میں میرزا کی مخالفت و منازعت کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں حسین ماکری اور خواجہ حاجی کے ساتھ عہد و پیمان باندھا کہ وہ مل کر نواحی کشمیر اور کوہستان میں لشکر کشی کریں۔ میرزا حیدر نے لشکر کشی کی اور ملک عیدی رینہ، حسین ماکری اور خواجہ حاجی کو حکم دیا کہ وہ اس (میرزا حیدر) کے بھتیجے میرزا بہادر کے ہمراہ اپنی فوج بھیج دیں تاکہ وہ کوہستان کا نظم و نسق چلائے۔ اس ضمن میں ان کے درمیان مخالفت پیدا ہو گئی۔ میرزا حیدر کے سرداران لشکر ملا قاسم اور ملا باقی جو تبت گئے ہوئے تھے، واپس آ کر مذکورہ فوج کے ساتھ مل گئے۔ معاملہ جنگ و قتال پر منتج ہوا اور دونوں فریقوں کے درمیان عجیب خونریزی ہوئی۔ عجب محاربہ صورت پذیر ہوا۔ میرزا حیدر کے آدمی ایک مدت تک ہاتھ پاؤں مارتے رہے، انہوں نے خوب جنگ لڑی اور داد مردانگی دی اور مردانگی ہی سے انہوں نے دشمن کو بھگانے کی کوشش کی۔ دونوں طرف سے فوجوں کی ایک کثیر تعداد ہلاک ہوئی، لیکن آخر کار میرزا حیدر کی فوج کو شکست ہوئی۔ اچھے اچھے سردار تباہ ہو گئے۔ ملا قاسم مارا گیا اور ملا باقی رہ فرار اختیار کر کے میرزا کا پاس چلا گیا۔ ملا عبداللہ بھی، جو میرزا کے سرداروں اور معتمدوں میں سے تھا اور شکست کھا کر قصبہ بارہ مولہ کے نزدیک ٹھہرا ہوا تھا، مارا گیا۔ میرزا کا دودھ شریک بھائی کشتوار پر قبضہ کرنے کے لیے گیا ہو اتھا۔ اسے راستے میں شکست ہوئی اور وہ ڈیڑھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مارا گیا۔ جب دوستوں کے دل کی زمین میں نفاق کا بیج پڑ گیا تو اس قسم کے حادثے رونما ہوئے۔ میرزا نے اپنے اہل و عیال اندر کوٹ چھوڑ کر امراری کشمیر پر شبخون مارنے کا ارادہ کیا۔ا س اثنا میں میرزا کے دل میں خدا جانے کیا بات آئی کہ وہ غنیم کی شاخ بندی کے لئے تن تنہا نکل آیا۔ ایک قصاب نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے تو چونکہ اسے کشمیری زبان ٹھیک بولنا نہیں آتی تھی، اس لئے قصاب کو یقین ہو گیا کہ وہ مغل ہے، چنانچہ اس سے کلہاڑا اٹھایا اور اس کے سر پر چلا دیا۔ اسی زخم سے درجہ شہادت پا کر عقبیٰ کو سدھارا۔ بعض لوگون کا کہنا ہے کہ وہ شبہ نفاق دور کرنے اور بلا سبب کی مخالفت مٹانے کی خاطر مدعیان آفاق سے ملنے گیا تھا۔ راستے میں اتفاق سے ایسا حادثہ پیش آ گیا۔ میرزا کے اہل و عیال اپنے تمام مال و متاع اور جمعیت کے ساتھ کاشغر روانہ ہو گئے تمام اہل کشمیر ان کی اعانت کی اس کی اس ناگہانی موت کی خبر اس کے مخالفین کے لیے فتح کا موجب بنی، بالخصوص اہل تشیع جنہیں اس نے مناسب سزا دی تھی، بہت مسرور ہوئے۔ میرزا مقبرۂ سلاطین میں جانب مغرب دریا کے کنارے مدفون ہے۔ یہ 1550/957 کا واقعہ ہے، جیسا کہ اس کی قبر کے کتبے پر کندہ اس قطعہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے: تاریخ: شہ گور گان میرزا حیدر آنکہ بملک شہادت زدہ کوس شاہی قضامی الٰہی چنین بود تاریخ ’’شدہ بہر وصلش قضامی الٰہی‘‘ 957 اب مزار کلاں مسجد کے قریب ہے۔۔۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خواجہ حاجی میرزا سے متوہم ہو کر خانپور میں خیمہ زن ہو گیا تھا۔ میرزا خواجہ کی تسلی خاطر کے لیے تنہا نکل کھڑا ہوا۔ جب وہ خیمے کے نیچے پہنچا تو قصاب نے اسے غنیم جان کر ایک ہی وار سے شہید کر دیا۔ والعلم عند اللہ (اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے) غازی چک اور گاجی چک کے بیٹے دولت چک نے میرزا کی نعش کی توہین کرنا چاہی اور اس کی قبر کو کوڑا خانہ بنانا چاہا۔ لیکن ابدال ماکری کے بیٹے سید محمد نے جس کی والدہ قبیلہ سادات سے تھی، ماکریوں کی ایک جمعیت اور اہل سنت و جماعت کے افراد کی فوج لی اور میرزا کی نعش اٹھا کر پانچ روز کے بعد مزار سلاطین میں دفن کر دی اور ایک ماہ، مذکورہ لوگوں کے ہمراہ میرزا کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اس طرح اس نے چکوں کے ہاتھ آگے بڑھنے سے روک دیے۔ اس نے میرزا کا مقبرہ محکم اور پتھر کا بنوایا۔ مذکورہ سید محمد کے عقد میں نازک شاہ کی ہمشیرہ تھی۔ غازی چک وغیرہ، نازک شاہ کی حمایت کے سبب، جب سید محمد پر ہاتھ نہ ڈال سکے تو وہ اندر کوٹ میں میرزا حیدر کے گھر کو تباہ کرنے کی خاطر، جہاں ابھی تک اس کے اہل و عیال مقیم تھے، فوج لے کر گئے۔ میرزا کی بیوی مردانہ وار جنگ کے لئے تیار ہو گئی۔ احمد ماکری کے بیٹوں نے جو سید محمد کے اقربا میں سے تھے، درمیان میں پڑ کر صلح کروا دی، چکوں کو وہاں سے ہٹایا اور میرزا کے قبیلے کو کاشغر روانہ کر دیا۔ مذکورہ میرزا حیدر، والی کاشغر سعید خان کا بھتیجا اور ظہیر الدین محمد بابر شاہ (بادشاہ؟) کا خالہ زاد تھا۔ رسمی و دینی علوم اور شعر و سخن سے بہت بہرہ ور تھا۔ مرزا کی تالیف ’’ تاریخ رشیدی‘‘ ایک قابل اعتماد اور نادر احوال پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے دور میں اہل شہر کو بہت سے فائدے پہنچے۔ اس نے بازاروں کے درمیان کاغذ گیر (منتشر کاغذوں کو یکجا کرنے والی چمٹی یا آلہ) آگ والے برتنوں میں جنہیں ’’ نارہ للو‘‘ کہتے ہیں، دھان خشک کرنے کی اختراع اور حمام وغیرہ ایسی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ ان کے علاوہ مفاد عامہ کی اور بھی بہت سی چیزیں اس سے منقول و منسوب ہیں۔ اگرچہ اس نے دس برس کشمیر میں حکمرانی کی لیکن اس نے سکہ و خطبہ سے والی کشمیر کا نام نہ نکلوا سکا، اس لئے کہ نازک شاہ بھی اہل سنت و جماعت میں سے تھا، اور اسی وجہ سے کسی نے بھی سکہ و خطبہ کی تدبریلی کی تجویز پیش نہ کی۔ نازک شاہ کے بعد آنے والے سلاطین کا معاملہ رفتہ رفتہ ضعف و عدم استحکام کا شکار ہوتا چلا گیا، جس کے نتیجے میں قبیلہ چک کے لوگ، جو ان کے خدمتگاروں میں سے تھے، غالب آ گئے، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ اب مناسب یہ ہے کہ سب سے پہلے عبرت آموز سطور تحریر میں لائی جائیں۔ اس مدت میں جو سادات اور بزرگ مسند ارشاد پر بیٹھے اور جن میں سے بعض کے بارے میں راقم کو علم ہے، ان کی تفصیل کچھ ا س طرح ہے: ٭٭٭ اس دور کے سادات حضرت سید احمار ان کا مسکن شریف شہر سے باہر پل دویارن ہے۔ جذبہ عالی کے مالک ہیں۔ ایک مدت تک مستور رہے۔ ان کا مقبرہ معلوم نہ تھا۔ حضرت شیخ داؤد بتہ مالو اپنے عہد میں ان کی قبر کے ظاہر ہونے اور ان کی شہرت کا باعث بنے۔ اب یہ مقام متقی لوگوں کا مرجع اور محل فیض ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ قبر شریف کی علامت ہرگز قبول نہیں کرتے تھے۔ بعض نے ان کا نام سید محمود بتایا ہے۔ واللہ العلم حضرت میر جمال الدین بخاری: عالی درجات سادات میں سے ہیں۔ قدوتہ الاقطاب (قطبوں کے پیشوا) حاجی عبدالوہاب کے مرید تھے جو خود چھ واسطوں سے جناب حضرت مخدوم جہانیاں تک پہنچتے ہیں۔ ولادت (ولایت؟) و سیادت میں عظیم شان کے مالک تھے۔ عہد سلاطین کے اواخر میں انہوں نے کشمیر کو اپنے قدموں سے آراستہ فرمایا اور ایک دنیا کو فیض ارشاد سے بہرہ ور کیا۔ حضرت مخدوم شیخ حمزہ کا انتساب ان کی جناب سے ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تشریف آوری کی غایت حضرت مخدوم کی تربیت تھی رشد و ارادت کے حقوق ادا کر کے پھر ہندوستان لوٹ گئے، جہاں انہوں نے دہلی میں رحلت فرمائی۔ ان کا متبرک مزار مشہور اور پر از نور ہے۔ حضرت سید نصیر الدین خانیاری: عالی شان سادات میں سے ہیں۔ پوشیدگی میں رہنے والوں کے زمرے میں تھے۔ ایک تقریب سے انہوں نے ظہور فرمایا۔ میر قدس سرہ کا مقبرہ محلہ خانیار میں فیوض انوار کی جائے نزول ہے۔ ان کے قریب ہی ایک قبر کا پتھر موجود تھا۔ عوام میں مشہور ہے کہ وہاں ایک ایسے پیغمبر آرام فرما ہیں جو زمانہ سابقہ میں کشمیر میں مبعوث ہوئے تھے۔ یہ جگہ ’’ مقام پیغمبر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ تاریخ کی ایک کتاب میں مذکور ایک حکایت نظر سے گذری جس میں کہا گیا ہے کہ ایک سلطان زادہ زہد و تقویٰ کی راہ پر چل نکلا۔ اس نے بہت زیادہ ریاضت و عبادت کی (جس کے نتیجے میں) وہ کشمیر کے لوگوں کی رسالت پر مبعوث ہوا۔ وہ کشمیر آیا اور لوگوں کے رشد و ہدایت میں مصروف ہو گیا۔ رحلت کے بعد وہ محلہ انزہ (انزی؟) مرہ میں آسودہ خاک ہوا۔ مذکورہ کتاب میں اس پیغمبر کا نام یوز آصف لکھا ہے۔ انزی مرہ (اور) خانیار متصل واقع ہیں۔ اکثر اصحاب کمال، خصوصاً راقم کے مرشد اور حضرت ملا عنایت اللہ شالی فرمایا کرتے تھے کہ زیارت کے وقت اس مکان سے نبوت کے فیوض و برکات ظاہر ہوتے ہیں۔ والعلم عند اللہ۔ بابا فتح اللہ: حضرت بابا اسمعیل کے فرزند ارجمند اور ظاہری اور باطنی طور پر انہی کے تربیت یافتہ ہیں ریاضات و کرامات کے مالک تھے۔ مخدوم شیخ حمزہ جیسے پیشوائے عارفاں ان کی خدمت سے بہرہ ور تھے۔ دین کے مخالفین، جو سید المرسلینؐ کے صحابہ کرام کے بارے میں بیحد سب و شتم سے کام لیتے تھے کے غلبے کے دنوں میں انہوں نے بڑی اذیت اٹھائی۔ انہوں نے اپنے تینوں عالی گوہر بیٹوں کے نام تینوں حضرات خلقا کے اسماء پر تبدیل کر دئیے اور یہ اس نیت سے کیا کہ بدلگام لوگوں کا رفض و دشنام ان کے انہی نیک نام بیٹوں کو پہنچے۔ آخر ان میں قوت برداشت نہ رہی اور وہ اپنے اہل بیت سمیت سیالکوٹ ہجرت کر گئے اور وہیں آباد ہو گئے۔ وہاں وہ مرجع خاص عام ٹھہرے اور شاہ فتح اللہ حقانی کے نام سے ملقب ہوئے۔ مولانا کمال الدین اور مولانا جمال الدین ایسے فاضل و کامل وعامل حضرات کی نسبت ان کی بیٹیوں سے سیالکوٹ ہی کے مقام پر عمل میں آئی۔ اس کا ذکر اپنے مقام پر ہو گا۔ مختصر یہ کہ شیخ نے وہیں وفات پائی۔ وہ مستجاب الدعوات تھے۔ اور ان کے سبھی بیٹھے صاحبان علم و تقویٰ ارباب فضل و کمال اور اصحاب صدق و صفا تھے۔ بعض (مورخین) اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت شیخ طبقہ چک کے ایک سلطان کی التماس پر پھر کشمیر مراجعت فرما گئے تھے۔ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ زیئی ریشی اور زونی ریشی: پرگنہ جرات (چرار) کے قریہ راجور کے رہنے والے دو بھائی تھے۔ ان میں خدا طلبی کی آرزو پیدا ہوئی اور وہ شیخ بولی حاجی کی جن کا ذکر پہلے گذر چکا ہے خدمت میں حاضر ہو کر باطل کی راہ سے مشغول کار ہوئے۔ ان میں سے ایک بھائی کے دل میں جنگل نشینی کی آرزو پیدا ہوئی۔ دوسرے بھائی نے اس سے کہا کہ جب تک ہم اپنی خواہشات دعار وغیرہ کو ترک نہ کریں۔ جنگل نشینہ بے فائدہ ہو گی۔ چنانچہ شیخ کے حکم سے ایک حصول علم میں مشغول ہو گیا۔ دوسرے نے کمال کی طرف قدم اٹھایا۔ اور دونوں کا معاملہ کمال کو پہنچا۔ زیئی ریشی کاشغریوں کے ہنگامے میں اپنے مرشد شیخ بولی حاجی کے گھوڑے کے پیچھے بھاگے جا رہے تھے کہ ایک ترک نے انہیں شہید کر دیا۔ ان کی نعش تین روز تک پڑی رہی اور ایک کتا اس کی نگہبانی کرتا رہا۔ آخر ان کے یاروں نے نعش وہاں سے اٹھا کر اس کی تجہیز و تکفین کی۔ زونی ریشی ان کے قائم مقام ہوئے۔ صاحب احوال تھے انہوں نے کسی آدمی کو نمک لانے کے لئے بھیجا۔ اس کا پاؤں پیر پنجال میں پھسلا اور وہ گر گیا زیئی ریشی نے رو پوشی کے عالم میں حاضر ہو کر اس کی دستگیری کی ۔ اس نے انجان پن میں اس شخص پر نفرین کی جس نے اسے بھیجا تھا اور لوٹ آیا حضرت نے اسے اس کی وہ نفرین اور گالیاں یاد دلائیں تو وہ منکر ہو گیا جب حضرت ریشی نے ساری صورتحال تفصیل سے بیان کر دی تو مذکورہ مزدور نے معذرت کی۔ زونی ریشی سے متعلق (بھی) ایسی کئی حکایات مذکور ہیں۔ جب رحلت فرمائی تو مقبرہ چرار میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ ننگ ریشی: سنکہ بی بی کے جو زاہدہ تھیں۔ عصمت پرست ترکش بردار تھے اور سنکہ ہی کی رہنمائی کی بدولت انہیں شیخ بابا شکر الدین ریشی کی خدمت میں ارادت حاصل ہوئی۔ نمایاں احوال کے مالک تھے۔ مذکورہ سنکہ بی بی کی وفات کے بعد بہتو کے مقام پر جو اس وقت غیر آباد اور درندوں چرندوں کا مسکن تھا۔ ان (سنکہ) کی گدی پر بیٹھے۔ انہوں نے دینوی اسباب کی بنیاد ہی کو اکھیڑ ڈالا اور کوئی بھی چیز پاس نہ رکھی۔ ہر چیز سے ہاتھ اٹھا لیا۔ حتیٰ کہ اپنا خرقہ بھی ایک سائل کو عطا کر دیا اور جسم پر بوریا رکھنے لگے۔ آخر تمام عمر وہیں بسر کی۔ درندوں چرندوں کو ان سے الفت و انس پیدا ہو گیا تھا۔ انہوں نے سب کو اپنا مطیع و منفقاد بنا لیا تھا۔ شام اور دوپہر کے وقت کھانے کا دستر خوان ان کے لئے بچھا دیتے۔ ہر جانور کسی دوسرے جانور کی مزاحمت کے بغیر اپنا حصہ وہاں سے اٹھا لیتا۔ شیخ نو روز میں جن کا ذکر آگے آئے گا تصرف و جذبہ (کی کیفیت پیدا ہونے) کے بعد انہیں اپنا قائم مقام بنا کر عالم فانی سے رحلت فرما گئے۔ وہیں دفن ہوئے۔ اور یہ مذکورہ سنکہ بی بی بھی معروف عارفہ اور زہد و ریاضت میں مردوں سے بڑھ کر تھیں۔ ان کے مقبرے کے نزدیک ایک جگہ ہے جو حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام (ہمارے نبی اکرم ؐ اور ان یعنی حضرت موسیٰ پر درود و سلام ہو) کی قبر کے طور پر مشہور ہے اور بزرگ حضرات اور صاحبان حال اس سے ظاہر ہونے والے فیوض و برکات کے بارے میں کئی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ مولانا رضی الدین: اپنے زمانے کے فضلا اور صاحبان دانش و ذکاء میں سے اور عقلی و نقلی علوم کے جامع تھے۔ عہد سلاطین کے آخر اور میرزا حیدر کے دور تسلط کے اوائل میں محلہ قطب الدین پورہ کے مدرسے میں مدرس تھے۔ اکثر علوم میں انہوں نے تالیفات کیں۔ ان کی بیٹی مولانا فیروز مفتی المعروف بہ ملا مچی گنائی کے عقد میں تھی۔ جب فوت ہوئے تو اکابر میں سے کسی نے تاریخ وفات کہی۔ تاریخ: میر در سجدہ جان سپرد بحق سنہ نہصد و پنجاہ و شش (میر نے 1549/956میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دی) لوگوں کی زبان پر یہ بات جاری ہے کہ جب مدرسے میں حافظ بصیر کی زبان سے یہ بات صادر ہوئی کہ شیعہ بھی ’’ منہ میں زبان رکھتے ہیں‘‘ تو تمام علماء مثلاً بابا داؤد خاکی اور ملا شمس الدین پال وغیرہ ہم نے اسے برا بھلا کہا اور ملا رضی الدین کے مدرسے میں آ گئے۔ اس کے بعد پھر وہ حافظ بصیر کے مدرسے میں نہیں گئے۔ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ میر داؤد علامہ دوار کی: بے نظیر دانش مند تھے۔ ان کا وطن ہرات ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایران میں تحصیل علوم کر کے کشمیر چلے آئے تھے۔ صحیح النسب سید تھے۔ سلطان زین العابدین کے مزار میں سلاطین کی قبور کی داہنی جانب دفن ہوئے۔ ان کی اولاد اپنے وقت میں اپنی اپنی باری پر سرگرم رہی۔ اور عملی استفادہ کے علاوہ تقویٰ و زہد اور صلاح سے آراستہ تھی اور ہے۔ مولانا کمال الدین: قاضی محمد میر علی کی اولاد بزرگ میں سے ہیں۔ اور قاضی محمد میر علی سارے قاضی طبقہ کے جد ہیں۔ ان مولانا نے جوانی میں عقلی و نقلی علوم حاصل کیے اور مولویت کے رتبے پر پہنچے۔ وہ شب و روز افادہ و افاضہ میں مشغول رہے۔ اپنے دور کے صاحبان کمال میں سے تھے۔ قاضی موسیٰ شہید کی مولانا سے قریبی رشتہ داری تھی بلکہ وہ ان کے بھتیجے تھے۔ خانیار کے قاضی زادے یعنی قاضی محسیتہ اور قاضی مقیمیہ اپنا انتساب مولانائے مذکور کے ساتھ درست کرتے ہیں۔ اور یہ مولانا ان مولانا کمال الدین کے علاوہ ہیں۔ جن کا ذکر نیز ملا جمال الدین کا تذکرہ اپنے موقع پر مرقوم ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ملا نونی گنائی: معروف بہ ملا ملیحی، مخدوم عثمان اجب گنائی کے پوتے ہیں۔ اکثر علام میں اپنے عہد کے کامل تھے۔ تحصیل علوم کے بعد طریق معنوی پر گامزن ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے اور مقامات عالیہ میں ترقی کی۔ زہد و تقوی میں عجب شان کے مالک تھے۔ کبھی غیر پر نظر نہ ڈالی محلہ قلا شپورہ میں دفن ہوئے۔ آج بھی ان کی مسجد اور خانقاہ سے فیض و فتوح کی خوشبوئیں سونگھی جا سکتی ہیں۔ مولوی ملا شنگرف گنائی: حضرت بابا عثمان اجب گنائی کی بیٹی کی اولاد میں سے اور ملا فیروز شہید مفتی کے چچا ہیں۔ ’’شنکر‘‘ یا تو شنکرف کا مرخم (جس کا آخری حرف گرا دیا گیا ہو) ہے یا پھر کشمیری لغت میں اس کے معنی شاعر کے ہیں، جیسا کہ شنکار موذوں اور تجنیس سے خالی کلام کو اور موزوں کلام یا یجیں کو رنگ کہتے ہیں، اور گنائی قوم کے دانا کو۔ القصہ ملا شنگرف گنائی اس دیار کے اعیان میں سے اور باوقار دانشمند تھے۔ عقلی اور نقلی علوم کی تحصیل کے بعد حرمین محترمین چلے گئے۔ جہاں زبیدۃ المتاخرین، خاتم المحتدثین (آخر میں آنے والے یا آخری دور کے علماء کا خلاصہ، جن پر آ کر محدثین کا سلسلہ ختم ہو گیا) شیخ ابن حجر کے ساتھ کچھ عرصہ ان کی صحبت رہی اور ان سے انہوں نے کسب فوائد کیا۔ چنانچہ مذکورہ اجازت نامہ (؟) جو سیرت نبویؐ کی حامل کتاب ’’ اسماء الرجال‘‘ کی پشت پر ابن حجر کے خط سے ہے، اور مذکورہ کتاب پوری کی پوری بابا شنگرف کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے، راقم حروف کے پاس ہے۔ بابا شنگرف راقم کے اجداد مادری میں سے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بابا نونی گنائی کی قبر سے متصل فلاشپورہ کے مزار میں مدفون ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برکات سے ہمیں عطا فرمائے۔ مولانا بصیر المعروف بہ ملا بابا: ماور زاد نابینا اور خدا داد استعداد کے مالک تھے۔ ماسویٰ سے آنکھ بند کر کے دنیا میں آئے۔ پرگنہ کا مراج سے شہر میں وارد ہوئے۔ بے پایاں علوم حاصل کیے۔ چھوٹی عمر ہی میں قرآن حفظ کیا۔ ظاہری بصارت سے محرومی کے باوجود قلبی بصیرت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ اپنے زمانے میں فضلا اور فقرا کے مرکز توجہ رہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی اور ان سے فیض او فتوح پائے تھے۔ 1539-40/946 میں فوت اور خندہ یون میں دفن ہوئے۔ حضرت شیخ صرفی نے ان کے مرثیہ میں چند اشعار کہے تھے جن کا آخری شعر یہ ہے: شعر: آن حافظ علم و ادب بودہ بصیر از فضل رب تاریخ فوتش زان سبب شد ’’عالم تفسیر دان‘‘ (فضل رب سے بصیر علم و ادب کے حافظ تھے۔ اسی لیے ان کی تاریخ وفات ’’ عالم تفسیر داں‘‘ ٹھہری) 946ھ ان کا مزار مبارک فیض و فتوح کا مقام ہے۔ اگرچہ بعض اکابر، جو اس وقت ان کے حلقہ تلمز میں تھے، جسے بابا داؤد خاکی اور ملا شمس الدین پال وغیرہ ہم، اس بات کی بنا پر جو اوپر لکھی جا چکی ہے، ان کی صحبت سے الگ ہو گئے تھے، پھر بھی ان (بصیر) کا دامن ہمت لوگوں کے قیاسات کی آلائش سے مبرا رہا۔ قاضی ابراہیم شرافت (یا شریعت) مرتبت قاضی میر علی کے پوتے ہیں جو اپنے اصلی وطن بخارا سے ہجرت کر کے کشمیر میں سکونت پذیر ہو گئے تھے، اور ان کی اولاد تھی۔ یہ قاضی ابراہیم، قاضی اسکندر کے فرزند ہیں۔ قاضی شہید یہ کے اکثر قبائل قاضی ابراہیم کی اولاد ہیں۔ (قاضی ابراہیم) متجر فاضل تھے۔ میرزا حیدر شہید مغفور کے عہد میں قاضی کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ چونکہ ان کے فتوے پر میرزا حیدر نے میر شمس الدین عراقی کے بیٹے بابا دانیال کو قتل کر دیا تھا، اس لیے اہل تشیع کے دل میں ان کے کینے نے گھر کر لیا جو رفتہ رفتہ عداوت کی صورت اختیار کر گیا اور یہ عداوت قاضی موسیٰ کے ساتھ عمل میں آئی، جس کا ذکر متعلقہ مقام پر ہو گا۔ مولانا محمد آنی کہتے ہیں کہ حضرت مولانا عبدالرحمن جامی کے شاگردوں اور تربیت یافتگان میں سے ہیں۔ دور سلاطین کے اواخر میں وارد کشمیر ہوئے اور یہاں لوگوں کو اپنے کمالات سے بہرہ ور کیا۔ حضرت شیخ یعقوب صرفی کے یہاں بھی ان کی آمد و شد اور ان سے صحبت رہی۔ عقلی و نقلی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ انہیں شاعری سے بھی شغف تھا۔ ہر قسم کے اشعار موزوں کر لیتے تھے۔ یہ کتاب لکھتے وقت ان کے طبع ذاد اشعار میں سے صرف یہ شعر یاد رہ گیا جو یہاں تحریر کیا جاتا ہے۔ فرد: عرق بشتہ ز پندم رخ نکوی ترا زمن مرنج کہ می خواہم آبروی ترا (میری نصیحت کے نتیجے میں پسینے نے تیرے حسین چہرے کو دھو ڈالا ہے۔ مجھ سے آزردہ نہ ہو کیونکہ میں تو تیری آب رو (چہرے کی چمک) کا خواہاں ہوں) جب انہوں نے رحلت فرمائی تو حضرت شیخ بہاء الدین کے مزار میں سر دروازہ دفن ہوئے، (پتھر کا اونچا فرش ہے جس کا مناسب طول و عرض ہے) حضرت سید محمد کرمانی: بہت بڑے بزرگ اور قومی جذبے کے مالک تھے۔ قلعہ کے اندر مغرب کی جانب آسودہ خاک ہیں۔ اب ان کی قبر شریف لوگوں کے گھروں کے اندر آ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ زیارت سے محروم ہیں۔ (یہ قبر) ایک مربع چبوترے کی صورت میں ہے۔ راقم حروف کو طریقت میں ان کے سلسلے کا پتا نہیں چل سکا۔ شاہ کالو: انہیں سید کالو بھی کہا جاتا ہے کہتے ہیں کی شیخ العرفا حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ کے خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ حالات عالیہ کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنے وجود مسعود سے کشمیر کو مزین فرمایا۔ ان کا فائز الانوار مزار مسجد عدالت سے بلندی پر اور اس رہگزر کے بائیں جانب ہے جہاں سے حضرت سید محمد مدنی کا آستانہ کوئی ایک تیر کی مار تک ہو گا۔ (ان کا مزار) فیض و فتوح کا مقام ہے۔ سادات پارسائیہ میں سے چند اکابر نے ملک کشمیر کو اپنے قدموں سے آراستہ کیا۔ ایک روایت کے مطابق وہ اہل سیادت میں سے اور سات بھائی تھے بعض ان کی سیادت کے قائل نہیں ہیں، تاہم ان کے زہد و درع اور صلاح و تقویٰ میں کمال کے بارے میں سبھی متفق اللفظ و معنی ہیں۔ ان کی پر نور قبور سے فیض و جذبہ اور فنا کے آثار ظاہر ہیں۔ ان کے نام نامی یہ ہیں۔۔۔۔۔۔ 68؎ ملک بلند اپنے سات عالی گوہر بھائی خدا پرستی کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے ریاضت و عبادت کا خوب حق ادا کیا اور تھوڑی ہی مدت میں عزلت ربانی سے فائز ہوئے۔ انہوں نے مختلف مقامات اپنے لیے منتخب کیے۔ وہ ان مقامات پر مدفون ہیں: ملک بلند قلعہ کوہ تارچہ پر جو پرگنہ شاورہ اور موضع اجہن میں واقع ہے۔۔۔۔۔ جب انہوں نے (؟) رحلت فرمائی تو حضرت شیخ بہاء الدین کے مزار میں دروازے کے نزدیک مدفون ہوئے۔ اس جگہ کا فرش پتھر کا اور طول و عرض کے ساتھ بلندی مناسب ہے۔ چکوں کی سلطنت کا آغاز حکام کی تواریخ کا سراغ لگانے اور سلاطین عظام کے حالات کی تحقیق کرنے والوں پر یہ روشن ہے کہ کشمیر جنت نظیر کی تعمیر کے ظہور کے زمانے سے شہمیر کی سلطنت کے آغاز تک راجاؤں کے تسلط کی بنا پر اگرچہ یہ مقام بیشتر آبادی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لیکن دین و آئین کی حقیقتوں کو ہر فرقہ اپنے اپنے خیال کے مطابق لوح دل پر رقم کر رہا تھا، اور ملکی امور و ضوابط کا بھی باقاعدہ اور لائق توجہ دھیان نہیں رکھا جا رہا تھا۔ زولجو کے ہنگامے اور اس کے آدمیوں کی تخریب کاری اور عہد رینجو کے انقضا کے بعد اس دلپزیر صوبے کی سلطنت سلطان شمس الدین معروف بہ شہمیر کے خاندان کے حصے میں آئی۔ خالق کائنات اور مالک الملک نے اقتدار و اعتبار کا کمال اس توفق شعار خاندان کو مرحمت فرمایا۔ خاص طور پر حضرت امیر کبیر کی تشریف آوری اور اس خاندان کی طرف سے آن جناب کی اطاعت و فرمان برداری نے ان لوگوں پر دنیوی خیر و برکت کے بیش از بیش دروازے کھول دیے۔ اگرچہ عہد سلطان شمس الدین کے آغاز سے لے کر نازک شاہ کے عہد تک چودہ پندرہ نیک اختر بادشاہ مملکت کا سہارا اور شان رہے اور انہوں نے مذہب اہلسنت و جماعت کی بہت ترویج و اشاعت کی لیکن سلطان فتح شاہ کی، جو حضرت امیر کبیر کی کلاہ اپنے ساتھ قبر میں لے گیا تھا، موت کے بعد سے اس خاندان کی سلطنت کا کاروبار روز بروز انتشار اور ضعف و زوال کا شکار ہوتا چلا گیا۔ یوں آہستہ آہستہ چک قبیلہ کے افراد نے، جو ان کے نوکر اور رضاعی بھائی تھے، غلبہ و اقتدار حاصل کر لیا جس سے امور سلطنت اور دین و ملت میں پورے طور پر رخنہ پڑ گیا۔ تاہم چکوں کا تسلط بھی، اپنی تمام تر غلبہ پرستی کے باوجود چالیس برس تک بھی نہ چل پایا۔ اس کا ذکر متعلقہ مقام پر ہو گا۔ خدائے ناصر کے فضل سے چکوں کی دولت و حکومت کے آغاز کی تمہید مخفی نہ رہے کہ جب ملک عیدی رینہ نے دولت و اقتدار کا پرچم بلند کیا، جیسا کہ گذشتہ اوراق میں تحریر ہو چکا ہے، تو اس نے چک قبیلہ کے افراد کو، بالخصوص ملک دولت چک، غازی خان اور علی خان کو، جو ملک کاجی چک کی وفات کے بعد پریشانی اور تنگی میں بسر کر رہے تھے، اپنی عنایات سے نوازا، اور سابقہ (رویے) کے برعکس محبت و تربیت کے لوازم بجا لایا۔ لیکن جب وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اصلی مرتبے کو پہنچے تو وہ ایام ماضی (میں رینہ کے سلوک) کو یاد کر کے اپنے اس عہد و پیمان اور قول و قرار سے پھر گئے جو انہوں نے ملک عیدی رینہ سے کیا تھا اور اس طرح مذکورہ ملک کی خرابی و اختلال میں مصروف ہو گئے، تاہم اس پر ان کا ہاتھ نہیں پڑا۔ مجبوراً ملک محمد ناجی سے جو حیدر ملک چادر روکا دادا ہے، انہوں نے موافقت کر لی۔ ملک نے بھی عیدی رینہ سے مخالفت کے باعث، جو میرزا حیدر کے زمانے میں بعض وجوہات کی بنا پر شروع ہوئی تھی اور جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، چکوں کے ساتھ نئے سرسے عہد و پیمان باندھے اور قدیم اور مضبوط قول و قرار کے ساتھ نئے رابطے قائم کیے اور یوں ان لوگوں نے ملک عیدی رینہ کے ملک کی تباہی کے لیے دشمنی کی کمر مضبوطی سے باندھ لی۔ یہ لوگ شہر کے پلوں کو کاٹ کر علاء الدین پورہ میں جو شہر کے ایک طرف اور قلعہ نما ہے، جا بیٹھے اور چکوں وغیرہ کی ایک جماعت نے خانقاہ امیریہ میں اجلاس کیا۔ اسی دوران میں ملک محمد ناجی کے بھائی نیک روز نے خانقاہ پر سے ایک پتھر اس جماعت پر پھینکا۔ وہ پتھر خطا ہو کر خانقاہ کے ستون سے جا ٹکرایا، جس کا نشان قدیم خانقاہ میں اس کے جلنے سے پہلے باقی تھا۔ اس برے کام کی سزا کے طور پر غیب سے ایک بندوق (گولی؟) نیک روز کے زانو پر آ کر لگی اور وہ گر کر مر گیا۔ ملک ناجی چکوں کے ساتھ مل کر عیدی رینہ کو آزار پہنچا رہے تھے۔ اس نے کوہستان کے راستے میں ہندوستان بھاگ جانے کا ارادہ کیا۔ جب وہ راول پورہ پہنچا تو انگور کے ایک درخت (بیل) کے نیچے سے گزرتے وقت انگو رکی لٹکی ہوئی شاخ اس کے گلے میں اٹک گئی اور وہ گھوڑے سے گر پڑا۔ جب اس نے اچھل کر دوبارہ گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی تو گھوڑے نے اسے دولتی ماری دی جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اور اس طرح اس نے میرزا حیدر کے ساتھ مخالفت و نفاق کی سزا پا لی۔ اسے اس کے باپ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ بیت: در جزای فعل بیتاب ست تیغ انتقام ہر کہ بد کردست بد بیند برای خویشتن (انتقال کی تلوار کسی فعل کی سزا دینے کے لیے بیتاب رہتی ہے۔ جس کسی نے برا کیا ہے وہ اس کا بدلہ برا ہی پائے گا) ان کا مزار محلہ دودہ مر میں ملک محمد ایتو کے مزار کے قریب ہے۔ دو مزاروں کے درمیان عام راستہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد گردش فلک اس بات کی مقتضی ہوئی کہ اس ملک کی حکومت اب خاندان چک کو منتقل ہو۔ چکوں کا نسب مخفی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ نور اسلام کے ظہور سے پیشتر راجاؤں کے دور میں لنگر چک نامی ایک شخص داردو کی سرحد سے ترک وطن کر کے اہل و عیال سمیت کشمیر آ گیا۔ اس کے نسب سے متعلق بہت زیادہ اختلاف ہے۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ قدیم زمانے میں ایک عورت داردو کے اطراف سے اس نہر پر آیا کرتی تھی جو اس سمت جاری ہے۔ پانی لینے کی خاطر وہ ہر روز اسے عبور کرتی۔ ایک روز ایک جند جن (؟) نے ایک اژدہا کی صورت اختیار کر کے اس عورت کے ساتھ انسانی فعل کا ارتکاب کیا اور اس طرح اسے اپنے قابو میں لے آیا۔ رفتہ رفتہ ان کی صحبت رو براہ ہو گئی۔ اس عورت کو اس بے پروا اژدہا سے حمل ٹھہر گیا۔ جس سے اپنے وقت پر بنی نوع انسان کے معمول کے برعکس ایک قوی ہیکل بیٹا پیدا ہوا۔ اس لڑکے میں قوت اور نشوونما کے آثار ظاہر ہوئے تو اپنے وقت پر اسے اپنے ہمعصروں پر قوت و توانائی میں زبردست غلبہ و تفوق حاصل ہو گیا اور یہ لنگر چک چھ سات واسطوں سے اس کی اولاد میں سے ہے۔ اس کی تمام پود قوت و توانائی اور زور بازو میں مشہور اور زبان زد خلائق عالم ہے۔ اس کے علاوہ بھی چکوں کے نسب کے بارے میں حکایات ملتی ہیں جنہیں بے فائدہ طول کلام کی بنا پر یہاں قلم زد کیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ مذکورہ لنگر چک، سلطان شمس الدین کے زمانے میں شاہی ملازموں میں شامل ہوا۔ سلطان زین الدین کے عہد کے آخر تک یہ خاندان نسلاً بعد نسل ملازمت و خدمت گاری میں بسر اوقات کرتا رہا۔ جب سلطان حیدر اور سلطان حسن کے بعد سلاطین کا معاملہ انتشار سے دو چار ہوا، تو ان (چکوں) نے اقتدار و استقلال حاصل کرکے سلاطین کے خاندان سے کچھ عرصہ تک رضاعی تعلق پیدا کر لیا۔ آخر ترقی کرتے کرتے وہ امارت و حکمرانی کے مرتبے اور امور ملکی میں مشاورت کے مقام تک پہنچ گئے۔ نازک شاہ کے عہد میں انہوں نے سلاطین کی بیٹیوں کی اولاد سے قرابت پیدا کر لی اور اپنی بیٹیاں سلاطین سے منسوب کیں۔ پھر وہ اس سے بھی آگے نکل گئے یعنی سلاطین کے فتور حال کی بنا پر وہ خود پایہ سلطنت پر متمکن ہو گئے۔ اکثر نے تو میر شمس اور اس کے پیروکاروں کے بہکاوے میں آ کر مذہب تشیع اختیار کر لیا اور بعض اہلسنت و جماعت ہی کے عقیدے پر قائم رہے۔ مشہور ہے کہ 1553/960میں چکوں کی ایک جماعت نے جن کے ابتدائی حالات کا کچھ حصہ تحریر ہو چکا ہے، ملک کشمیر کا میدان حکومت خالی پا کر سلاطین کے خاندان کی اطاعت و زیردستی سے منہ موڑ لیا اور اقتدار و استقلال کی آرزو کو، جو مدت سے ان کے دل سے چٹکیاں لے رہی تھی، لوح ظہور پر لکھ لیا۔ چونکہ سلاطین کی طرف سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا، اس لیے چکوں نے کسی تردو اور مزاحمت کے بغیر حکومت کا ڈنکا بجا دیا، اور پورے طور پر دولت و کامرانی کا پرچم لہرا دیا۔ انہوں نے اسمعیل شاہ کو، جو سلاطین کی اولاد سے باقی بچ رہا تھا، بظاہر تخت پر بٹھا دیا لیکن مملکت کی زمام اختیار دولت چک کے ہاتھ میں تھی، اور امور سلطنت وہی نمٹاتا تھا۔ دولت و سلطنت کے انقلاب کے آثار میں سے، جو سابقہ زمانوں میں بھی وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں، ایک عجیب و غریب قصہ ہے جو اس خالق اکبر کی منشا کے مطابق اس زمانے میں شہر میں واقع ہوا اور وہ یہ کہ ایک شدید اور تواتر کے ساتھ آنے والے زلزلے نے لوگوں کو ہلا کے رکھ دیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ قیامت کا زلزلہ ہو عمارتیں اپنے مکینوں کے ساتھ زمین میں دھنس گئیں۔ بہت کم لوگوں کو روشندان کے ذریعے بچنے کے مواقع میسر آئے۔ یہ ہلاکت خیز زلزلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا، جس کے دوران عجیب غریب واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ روایت کے مطابق پرگنہ مراج میں موضع بھبارہ کے سرے پر سدی مرک کے نزدیک دو گاؤں تھے حسن پورہ اور حسین پورہ، دونوں گاؤں بھٹ کے دو کناروں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے واقع تھے۔ آدھی رات کے وقت دونوں گاؤں کی آباد زمین نیچے دھنس گئی اور حسن پورہ کی بجائے حسین پورہ پورا اوپر آ گیا اور حسین پورہ کی جگہ حسن پورہ نمودار ہو گیا۔ چنانچہ آج بھی تبدیل زراعت کی کیفیت ان احوال پر دال ہے اور آج بھی یہ بات وہاں کے لوگوں میں مشہور ہے۔ اس واقعے کے بعد سلطنت کا انقلاب وقوع پذیر ہوا۔ قصہ کوتاہ ملک دولت چک قوت اور تیر اندازی میں اس مقام پر تھا۔ کہ اس کا تیر دو کوس تک پہنچتا تھا۔ ایک روز ایک لمبی لکڑی، جس کا طول چالیس گز اور گولائی دو گز تھی۔ اور سو آدمی اسے گھر کے اوپر کھینچ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر ملک کے سر پر آ رہی۔ ملک نے بڑی پھرتی سے اپنا بایاں ہاتھ مضبوطی سے زمین پر رکھا اور دائیں ہاتھ پر لکڑی کو تھام لیا اور ان آدمیوں کو حکم دیا کہ لکڑی کو رسے سے باندھ دیں۔ سب لوگوں نے دیکھا کہ اس کا بایاں ہاتھ زمین میں آدھا دھنس چکا تھا۔ پھر وہ دونوں ہاتھوں پر کھڑا ہوا (؟) اور دونوں کا آخری حصہ اس کے زانووں تک پہنچ رہا تھا۔ اور یہ بات تو ثابت ہے کہ دہلی میں شیر خان کی موجودگی میں اس نے کئی مرتبہ کوچے میں ہاتھی کو پکڑا اور اسے اپنے پاؤں میں مضبوطی سے جکڑ لیا۔ اگرچہ ہاتھی نے بہت زور لگایا لیکن وہ اپنی جگہ سے قدم نہ اٹھا سکا۔ اس کے حالات کچھ اسی قسم کے تھے۔ شجاعت و بے باکی میں بے مثل تھا۔ جب وہ اقتدار کے عروج پر تھا۔ تو اس نے اتفاقاً اپنی چچی سے عقد رچا لیا۔ اس بنا پر اس کے چچا زاد بھائیوں غازی خان، حسین خان اور علی خان کے دل اس کی طرف سے مکدر ہو گئے اور وہ اس فکر میں رہے کہ کب موقع ملے اور اس سے انتقام لیں۔ ایک روز تالاب ڈل (کشمیر میں ایک وسیع و عمیق تالاب) پر شکار کے لیے گیا ہوا تھا۔ اور اپنی افواج اس نے حسن آباد میں چھوڑ رکھی تھیں۔ مذکورہ جماعت کو موقع ہاتھ لگ گیا۔ ان لوگوں نے اس کے سامان پر قبضہ کر لیا اور اس کے آدمیوں کو جو قلیل تعداد میں تھے مار ڈالا جب یہ خبر ملک (دولت چک) تک پہنچی تو اس نے خود میں مقابلے کی تاب نہ پا کر راہ فرار اختیار کی۔ راستے میں وہ ایک گڈریے کے ہتھے چڑھ گیا۔ جس نے اسے پکڑ کر غازی خان کے حوالے کر دیا۔ غازی نے اس کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی اور اسے قید میں ڈال دیا۔ اس واقعے کے بعد1554/961میں اس سر زمین کی حکومت پورے استقلال کے ساتھ اور خاص و عام کے اتفاق سے حبیب شاہ کے نام مسلم ہو گئی۔ یہ حبیب شاہ، اسمعیل شاہ کا بیٹا اور اسماعیل غازی خان کا بھانجا تھا۔ جب اس (حبیب) میں انہوں نے اس کام کی کماحقہ، لیاقت و اہلیت یہ دیکھی تو 1555/962میں غازی خان کے بھائی علی خان نے حبیب کے سر سے تاج اتار کر اپنے بھائی کے سر پر رکھ دیا۔ یوں بادشاہی غازی خان کے نام سے طے پا گئی۔ کچھ اوپر دو سو بیس برس کے بعد سلطنت شاہ شمس الدین کے خاندان سے چکوں کو منتقل ہو گئی اور ملک کشمیر میں انقلاب ملک و ملت وقوع پذیر ہو گیا۔ غازی شاہ قبیلہ چک کا پہلا بادشاہ ہے۔ جو مذکورہ سال تخت نشین ہوا۔ اس نے اپنی حکومت کے زمانے میں کوہستان کے نواح کو مسخر کیا۔ کشمیر سے باہر نکل کر اس نے کوہستان کے ایک بڑے سردار کمال خان کی بیٹی سے عقد کیا۔ دونوں تبتوں کو اپنے تصرف میں لے آیا۔ پکلی، داردو اور گلگت کی راہ سے گزرتے ہوئے انہیں فتح کیا۔ پھر بارا مولہ کے راستے سے واپس آ کر حکمرانی اور رعیت پروری کرتا رہا۔ اس نے تشیع مذہب کی بہت ترویج کی کہ (1) اچانک شمس رینہ جو اس سے پہلے ملک دولت چک اعمی (؟) کی طرف سے بادشاہ عالم پناہ ہمایوں بادشاہ کے دربار میں گیا ہوا تھا۔ اور ۔۔۔۔ (2) ہمایوں بادشاہ ان دنوں چھت سے گر کر خلد بریں کو رحلت کر گیا تھا، بادشاہ کا منہ بولا بیٹا میرزا المعالی نونی کے راستے۔۔۔۔۔ ؟) شمس رینہ ایک عظیم لشکر لے کر غازی خان کی طرف بڑھتے ہوئے ایک اچانک موضع تپن پہنچ گیا۔ غازی خان نے بڑی تیزی سے موضع ہانجویرہ کی طرف لشکر کشی کی۔ دوسرے روز دریا سے گذر کر ایک طرف سے مغل لشکر اور دوسری طرف سے غازی خان کا لشکر جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ اگرچہ لشکر تھوڑا تھا لیکن خان کی ہمت و شجاعت اس سے بڑھ کر تھی۔ وہ جدھر بھی اسپ ہمت دوڑاتا کسی نہ کسی سردار کا سر تن سے جدا کر دیتا۔ (اس کے) شجاعت و کیش فدویت اندیش جوان آگے آگے تھے۔ اور بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ بیت: ہر یک بجای جامہ ء دیبا و جام مے در برفگندہ جوشن و برکف نہادہ جان (ہر ایک ریشمی لباس اور جام شراب کی بجائے پہلو میں زرہ پہنے ہوئے اور ہتھیلی پر جان رکھے ہوئے تھا۔ اس طرف سے مغل لشکر نے شمس رینہ کے ساتھ مل کے دلیری و بہادری کا بھرپور مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں دشمن راہ فرار اختیار کرنے لگا۔ آتش جنگ صبح سے شام تک بھڑکتی رہی۔ بظاہر غلبہ مغؒوں کا تھا (لیکن) اچانک مغل لشکر پر کچھ ایسا رعب بیٹھ گیا کہ وہ کوہستان کی طرف نکل گئے۔ شمس رینہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے مغلوں کے اخراج کی کوشش کی تاکہ کہیں پکڑے نہ جائیں۔ وہ اپنے اور مغلوں کے لوٹ جانے میں کوشاں رہا۔ میرزا ابو المعالی کی سلامتی میں اسے اپنی موت نظر آ رہی تھی اس لیے اس (میرزا) کی ہندوستان واپسی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں ایسا اتفاق ہوا کہ غازی خاں، مغل لشکر پر غالب آ گیا اور اس نے کوئی ایک ہزار سات سو کے قریب مغلوں کو شمسی رینہ سمیت گرفتار کر لیا، جب کہ میدان جنگ میں دونوں طرف سے تین چار ہزار آدمی کام آئے۔ آخر کار اس نے ان اسیر مغلوں کو تیغ بے دریغ سے قتل کر ڈالا۔ بعد ازاں (غازی خان) نے ملک شمسی رینہ کے بھائی امیر محمد اور حبیب چک سے جنگیں لڑیں۔ میر محمد کو اس پر غلبہ حاصل ہوا۔ لیکن غازی شاہ (خان) نے اپنے ہاتھی کی آڑ لے لی اور اگرچہ میر مذکور نے ضرب و حرب کے بہت سے ہتھیار استعمال کیے۔ پھر بھی غازی نے اس کا کوئی وار کامیاب نہ ہونے دیا۔ حبیب چک نے پھر عقب سے ہاتھی کے سامنے آ کر بہت وار کیے۔ آخر مجبور ہو کر اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ غازی خان کے ہاتھی نے اس کا تعاقب کر کے اس پر حملہ کر دیا گھوڑا پانی میں پھنس گیا ہاتھی مڑا اور اس نے سونڈ آگے بڑھائی۔ اس (حبیب چک) کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ اس لئے اس نے سونڈ پر اس زور سے کاٹا کہ ہاتھی بھاگ کھڑا ہوا۔ چونکہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا تھا۔ اس لئے اب اس کا گھوڑا مغلوب ہو گیا اور ہاتھی نے پیچھے سے آ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ اور وہ مٹی میں مل گیا غزی خان اس میدان جنگ سے فتح و نصرت کے ساتھ لوٹا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے بعض اپنوں ہی نے ہندوستان سے کمک حاصل کی اور نئے سرے سے ہنگامہ برپا کر دیا۔ غازی شاہ کو اس پر طیش آیا۔ اس نے فوری طور پر تیاری کی اور اپنے لشکر کے ساتھ ہیرہ پور کے مقام پر دشمن کو جا لیا۔ اس نے ’’ دوبنان ڈوم (؟)‘‘ کے گروہ کو جو اس شہر کی حفاظت و نگہبانی پر مامور تھا۔ حکم دیا کہ جو کوئی بھی مغلوں کے سر لائے اسے میری طرف سے فی سر ایک اشرفی ملے گی۔ چنانچہ کوئی پانچ چھ ہزار دوم (ڈوم؟) وہاں سے نکلے اور مغلوں پر پل پڑے۔ آناً فاناً انہوں نے غیبی تائید سے مغلوں کو کچھ اس طور مغلوب کیا کہ وہ شاہ کے پاس جھولیاں بھر بھر کے سر لاتے اور مقررہ رقم سے زیادہ انعام لے کر جاتے۔ اس مرتبہ سپاہیوں کے لڑانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ بیت: سری کہ گردن از امرت کشید، گردونش برآستان تو اینک کشاں کشاں آورد (جس سر نے تیرے حکم سے گردن، موڑی آسمان اسے اب تیرے آستانے پر کشاں کشاں لے آیا) آخر عہد میں عید گاہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس نے (اگر ایک طرف غازی شاہ کو ہلاکے رکھ دیا تو دوسری طرف) اس کی انتہائی عدل گری کی بھی مثال قائم کر دی۔ ہوا یوں کہ اس کے بیٹے حیدر خاں کے کسی ملازم نے کسی اجنبی کے چند عناب اٹھا لیے اور ابھی وہ انہیں منہ تک بھی نہیں لے گیا تھا کہ غازی شاہ کو اس کی خبر مل گئی۔ اس نے اس ملازم کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دے دیا۔ حیدر خان کو اس سے دکھ پہنچا اس نے باپ کی ملازمت ترک کر دی اور اپنے خالو محمد ملک کو جس نے اسے نصیحت کی تھی جان سے مار ڈالا اور خود سوار ہو کر جانے لگا تو اس کی ماں نے اسے قسم دے کر روک لیا۔ غازی شاہ کو ان باتوں پر طیش آ گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو عید گاہ میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ بعد میں وہ جب بھی کبھی عید گاہ کے راستے سے گذرتا اپنی آنکھیں بند کر لیتا لیکن اس قول ’’ اولا نا اکبادنا‘‘ (ہمارے بچے ہمارے جگر گوشے ہیں) کے مطابق اس کا جگر پارہ پارہ ہو گیا اور ایک شدید مرض نے اسے آ لیا۔ اس نے نو برس دو ماہ حکمرانی کی۔ جب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو گیا تو ا سنے قید میں اپنے بھائی حسین شاہ کو سلطنت و دولت و مملکت سونپ دی۔ اس عہد میں حضرت سید کمال جو صحیح النسب عمدہ سادات میں سے تھے۔ پرگنہ بہاگ کے موضع زوکرہ میں یا تو قضائے الٰہی سے یا پھر زہریلے شربت سے رحلت فرما گئے۔ حضرت سید حمید رینہ کو۔۔۔۔۔ غازی خان نے موضع ہاہنجویرہ شہید کر دیا۔ حسین شاہ حسین شاہ کو اپنے ماموں کی وفات کے بعد سلطنت کشمیر بلا شرکت غیرے مل گئی۔ ’’ خسرو عادل‘‘ (یعنی 1563-4/971) اس کی تاریخ تخت نشینی ہے۔ اس نے رعایا کے ساتھ احسان اور اس کی بھلائی کی روش اپنائی۔ وہ امور مملکت چادرہ کے ملکوں کے دادا ملک محمد ناجی المعروف بچی ملک کی تدبیر و مشاورت سے اور اس کے سپرد کر کے چلاتا رہا۔ پھر ایک دم اس نے مذہب تشیع کی ترویج شروع کر دی اور تمام عنان عزیمت مذہب کے تعصب و ثقید کی طرف موڑ دی۔ یوں وہ شیعہ لوگوں کو بہت آگے لے آیا۔ تاہم ان کے تمام تر غلبے کے باوصف شرعی خدمات پر اہل سنت و جماعت ہی کار فرما رہے۔ اس زمانے میں قاضی شہر قاضی حبیب اللہ جامع مسجد کے خطیب تھے ایک عجیب و غریب امر اور واقعہ در پیش آیا۔ جس کی کسی قدر تفصیل یوں ہے کہ حسین شاہ کے زمانے میں کسی یوسف نامی شخص نے نماز جمعہ کے بعد قاضی حبیب اللہ کے ساتھ بے ادبی کے سلوک کی جرات کی اور قاضی کی دستار ان کے سر سے اتار لی۔ اس کی اس حرکت پر لوگوں نے حسین شاہ کے ساتھ اظہار نفرت کیا۔ بظاہر قاضی کے حکم پر لوگوں نے مذکورہ یوسف کو مار ڈالا حسین شاہ نے مجمع عدالت میں دو بزرگوار مفتیوں ایک مولانا شمس الدین التماس اور دوسرے حضرت مولانا فیروز معروف بہ ملا سچی ولد بابا نونی گنائی علاشپوری جو حضرت بابا عثمان گنائی کی اولاد میں سے تھے سے یہ فتویٰ چاہا کہ جو کوئی بلا وجہ کسی کے قتل کا حکم دے۔ شرعی طور پر اس کی سزا کیا ہو گی؟ انہوں نے خالی ذہن لکھ کر دے دیا کہ یہ حکم کرنے والے کی گردن پر ہے (؟) مذکورہ یوسف کے وارثوں نے اسی تحریر کو حجت بنا کر دعویٰ کر دیا کہ مذکوہ یوسف مسجد کے باہر شمشیر بازی کر رہا تھا۔ جب غلطی سے اس کی تلوار قاضی کے دست (دستار؟) پر لگی اور ان کی دستار زمین پر گر پڑی۔ اس کی اسی خطا پر اسے قاضی کے حکم سے اور مفتیوں کے فتوے پر ناحق مار ڈالا گیا۔حسین شاہ نے اسی دعوے کی بنیاد پر دونوں بیگناہ مفتیون کو شہید کر ڈالا اس روز حسب اتفاق لوگ ایک خاص دن کی مناسبت سے جو اجتماع عامہ کا دن تھا۔ تالاب کی سیر کو گئے ہوئے تھے اور شہر خالی تھا۔ چنانچہ حسین شاہ نے لوگوں کے ہنگامے سے بے فکر ہو کر اور میدان خالی پا کر دونوں بزرگوار کو شہید کروا دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک فتنہ و فساد اور کینہ و عداوت کا شکار ہوا۔ میرزا مقیم، اکبر بادشاہ کے لیے حسین شاہ کی بیٹی لے کر ہندوستان روانہ ہو گیا۔ حسین شاہ عوام کی نفرین کے سبب کچھ ڈر سا گیا اور اپنے افعال سے نادم ہوا۔ چنانچہ اب اس نے ملک داری اور احسان کی راہ اختیار کی۔ نیز گذشتہ افعال کے تدارک کی بھی کوشش کی۔ بہرحال اپنے ایام سلطنت میں اس نے ایام عمر کو اپنے اعتقاد کے مطابق تقسیم کر رکھا تھا۔ ہفتے کا ہر روز وہ ایک گروہ کے ساتھ بسر کرتا۔ جمعہ اہل اسلام کے علماء کے ساتھ، ہفتہ برہمنوں اور پنڈتوں کے ساتھ، اتوار مشائخ و فقرا کے ساتھ، سوموار قاضی اور مفیتوں کے ساتھ، منگل وار سیر و شکار میں، بدھ فوجیوں اور تیر اندازوں کے ساتھ اور جمعرات اہل نشاط اور اہل محل کے ساتھ۔ ہر کسی کا انعام اس نے خزانوں سے نقدی اور جنس کی صورت میں معین و مقرر کر رکھا تھا۔ سلطنت کی مصروفیات کے باوجود کبھی کبھی فکر شعر بھی کر لیا کرتا۔ یہ شعر اس کا ہے: ممائل کردہ تیغ و بستہ خنجر، یار می آید دلا بر خیز و کاری کن کہ جان درکار می آید (تلوار لٹکائے اور خنجر باندھے ہوئے، محبوب آ رہا ہے۔ اے دل اٹھ او رکوئی کام کر۔ کیو جان کام آ رہی ہے) اور یہ شعر بھی اسی کا ہے۔ آن ترک آل پوش سوار سمند شد یاران حذر کنید کہ آتش بلند شد (وہ سرخ پوش ترک گھوڑے پر سوار ہو گیا دوستو بچ جاؤ کہ آگ بلند ہو گئی) اس دور میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک روز بادشاہ شکار کے لئے تالاب دتہ ناگیا ہوا تھا۔ اور ملک محمد ناجی کو اس نے کسی کام کے لئے بھیج رکھا تھا۔ خان زمان اور بہادر خان دونوں اپنی لیاقت اور شجاعت کی بنا پر بادشاہ کی خدمت میں بڑے اعتباری سمجھے جاتے تھے۔ یہ دونوں ملک کی گھات میں تھے۔ اس روز انہیں موقع مل گیا اور وہ ملک پر ٹوٹ پڑے۔ اتفاق سے ایک جماعتدار وہاں پہنچ گیا اور اس نے اسے ملک کو (قتل) ہونے سے بچا لیا۔ اسی روز بادشاہ کے حکم سے مذکورہ خان زمان اور بہادر خان کو مار ڈالا گیا۔ ’’ دو خون شد‘‘ ّ(1560-1/968) اس واقع کی تاریخ ہے۔ اس اثنا میں بادشاہ کا بیٹا ابراہیم خان چیچک کے مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ او ریہ بات مرض پھیلنے کا باعث بنی۔ بادشاہ نے اپنے چھوٹے بھائی علی خان کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ا ور یوں مملکت و حکومت اس کے سپرد ہو گئی۔ خود شاہ موضع زینہ پور چلا گیا۔ جو اپنی تازگی اور عمدہ آب و ہوا کی بنا پر گویا دارا سرور تھا۔ وہاں کچھ عرصہ رہ کر اس نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ واقعہ (1569-70/977) کا ہے۔ علی شاہ: 978(1570-1) میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس نے اپنے بھائی حسن خان کو جس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور خود کو لائق و فائق قرار دے کر حکومت کے کام چلا رہا تھا۔ سلطنت سے معزول کر کے قلعہ زینہ پور میں محبوس کر دیا۔ تین ماہ کے بعد حسن خان وفات پا گیا۔ علی شاہ نے عدل و احسان اور رعیت پروری میں بہت سعی و کوشش کی۔ اکثر اہل شہر کو راضی رکھا۔ اس دوران میں سلاطین کو نسل میں سے حاجی حیدر خان اور سلیم خان کہ نازک شاہ کے بیٹے تھے۔ ہندوستان کے امرا کی ایک جماعت کے ہمراہ آ کر علی شاہ کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہو گئے۔ گوہر خان اور محمد خان، سلیم شاہ وغیرہ کی گرفتاری پر مقرر ہوئے۔ محمد خان چونکہ گوہر خان کی نسبت زیادہ پھرتیلا تھا۔ اس لئے اس نے ان شاہوں میں ایک کو قید کر لیا۔ علی شاہ کو فتح حاصل ہوئی۔ کشتوار کی تسخیر کے لئے اس نے فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور آگے بڑھا۔ جب راجہ کشتوار راجا بہادر سنگھ نے خود کو کمزور پایا تو اس نے اپنی بہن جس کا نام شنکر دیو تھا۔ علی شاہ کے نواسے /پوتے یعقوب خان کے لئے بھجوا دی اور یوں صلح کی بنیاد رکھی۔ علاوہ ازیں اپنے اوپر سال بہ سال کا خراج خود ہی مقرر کر لیا۔ دوسری مرتبہ راجہ نے پھر سرکشی اختیار کی۔ اب اسماعیلگنائی اور حیدر چک کو بھیجا گیا۔ راجہ بہادر سنگھ نے بے چارگی کے سبب اپنے بھائی نارائن سنگھ کو علی شاہ کے پاس بھیجا اپنے جرائم کی معافی چاہی اور فتح خاتون نامی ایک عورت بھی علی شاہ کے پاس بھجوا دی۔ جو اسے مطلوب تھی۔ بادشاہ اسے اپنے عقد نکاح میں لے آیا اور یوں چپقلش و کشمکش موافقت میں بدل گئی۔ اس دور میں جو واقعات رونما ہوئے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ جلال الدین اکبر بادشاہ کے سفیر قاضی صدر الدین اور مولانا عشقی اس کی طرف سے پیغام لے کر علی شاہ کے پاس آئے اور سلطان سلیم (جہانگیر) کے لئے اس کی بھتیجی کا رشتہ مانگا۔ علی شاہ نے تواضع اور نیاز مندی کے طور پر اکبر بادشاہ کے نام کا سکہ اور خطبہ جاری کر دیا۔ اور مذکورہ لڑکی اور تحفے تحائف سفیروں کے ہمراہ ہندوستان روانہ کر دیے۔ یہ سفیر حقیقت میں جاسوس تھے۔ انہوں نے کشمیر کے راہ و رسم کا جائزہ لیا اور اکبر تک جا پہنچایا۔ دوسرا بہت بڑا سانحہ اس دور کا یہ ہے کہ قضائے رب متعال سے دھان کی فصل پکنے کے موقع پر ایسی بے وقت برف باری ہوئی کہ پرانے لوگوں میں سے کسی نے بھی پہلے اس قسم کی برف باری کی نشان دہی نہ کی۔ نتیجے میں کشمیر کا ملک قحط عظیم کا شکار ہو گیا۔ا ور وہ قحط اس حد تک تھا کہ آدمی کے گوشت کو حلال جان لیا گیا۔ چنانچہ لوگوں نے مردوں اور قحط زدگان کو بے تحاشا کھانا شروع کر دیا۔ بیت: قحط تاحدی کہ خلق از فرط بے قوتی چو شمع جسم خودرا سوختی بر آتش و بردی بکار (قحط اس حد تک تھا کہ لوگ خوراک کی قلت کے سبب اپنے جسم کو شمع کی طرح آگ پر جلاتے اور کام میں لاتے) بادشاہ نے اپنے بھرے ہوئے خزانے محتاجوں پر صرف کر دیے (دوسری طرف) شہر کے تمام وگوں کا غم و غصہ بادشاہ کے خلاف بڑھ گیا۔ دو سال اسی طرح گذر گئے۔ تیسرے برس ایک معروف مجذوب بزیتی شاہ جس کا تعلق چک قیلے سے تھا اور جس پر حضرت مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ کی نظر جذبے کے ساتھ پڑی تھی۔ اور اس کا ذکر آگے آئے گا۔ زیتو چک کے راستے میں بادشاہ سے ملا۔ شاہ نے اس سے پوچھا کہ یہ صورت حال کب تک رہے گی؟ مجذوب نے جواب دیا۔ جب تک تو زندہ ہے اس کے بعد ربیع کی فصل کسی قدر اچھی ہو گئی اور چوتھے برس لوگوں کو تنگ حالی سے نجات مل گئی۔ اگرچہ اس سے بادشاہ کو بڑی مسرت و شادمانی ہوئی۔ تاہم وہ مجذوب کی مذکورہ بات سے ہراساں تھا۔ چنانچہ جامع مسجد میں علما اور صلحا کی موجودگی میں وہ تائب ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ ایک روز عید گاہ میں چوگان کھیلنے میں مشغول تھا کہ ٹیڑھا ہوتے وقت اس کی آنتوں میں کوئی خلل واقع ہو گیا اورنے فوراً چوگان ہاتھ سے رکھ دی۔ گویا اسے زندگی فراموش ہو گئی اور وہ بڑی تیزی سے گھر کی طرف مڑا۔ جب وہ قدوۃ المشائخ حضرت بابا بلبل کے آستانے کے سامنے پہنچا تو اس کا بھائی ابدال چک خلاف معمول اس سے الگ ہو کر گھر چلا گیا۔ اور اپنے بھائی کی خبر کا منتظر رہا۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے یوسف شاہ کو تخت پر بٹھایا اور وفات پا گیا۔ یہ واقعہ 986ھ (1578ئ) میں پیش آیا۔ یوسف شاہ بن علی شاہ: 1578/986میں تخت نشین ہوا۔ عیش و عشرت اور ناو نوش کی طرف مائل تھا وقت کا زیادہ تر حصہ بزم نشاط و انبساط میں صرف کرتا۔ طبع موزوں کا مالک تھا۔ فارسی اور کشمیری میں شعر کہتا تھا۔ یہ شعر اس کا ہے۔ بیت: لیلیٰ جمازہ رابر مجنون بخود نراند زور کمند جذبہ معجز نمامی اوست (لیلیٰ ناقہ کو مجنون کی طرف خود نہیں ہانکتی۔ یہ تو اس کے معجزے ایسے جذبے کی کمند کا زور ہے) قصہ کوتاہ یوسف شاہ کی تخت نشینی سے ابدال خاں مغموم ہو گیا اور دور دراز کی فکر میں پڑ گیا۔ اس کے ندیموں نے اسے حرب و جنگ کا مشورہ دیا اور یہ کہ اس کی فوجیں پلوں کو خراب کرنے پر تیار ہیں۔ ابدال خان نے کسی کی بات نہ سنی اور کہا کہ میں اور علی شاہ یک جان و دو قالب تھے۔ آخر میں بھائی سے پہلے قبر میں آؤں گا۔ (جاؤں گا؟) پھر اس (ابدال) نے جہانگیر لون کے ہاتھ یوسف شاہ کو پیغام بھجوایا کہ اگر کوئی معاہدہ ہو جائے تو میں بھائی کی تجہیز و تکفین کے لئے پہنچوں۔ یوسف شاہ نے شیعوں کے مرشد بابا خلیل اور سید میرک خان اور محمد خان کے ہاتھ عہد نامہ بھجوا دیا۔ اور قسم کے ساتھ اس پیمان کو پختہ کیا کہ اگر ابدال خان اپنے بھائی کی تکفین و تدفین کے لئے آئے تو یوسف شاہ کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہو گی۔ ابدال خان نے یوسف شاہ کے ان تینوں مدار لمہام کو رخصت کیا اور عہد نامہ کے مطابق علی شاہ کی تدفین کا سامان کرنا چاہا۔ جب کہ اس کے امرا کی تدبیر اس کے برعکس تھی۔ اور انہوں نے مخالفت و انحراف کا تخم اچھی طرح بو دیا۔ یوسف شاہ نے جب اس مشورے کی روداد سنی تو باپ کی نعش تابوت کے تختے ہی پر چھوڑ کر وہ تخت و سلطنت کی فکر میں پڑ گیا۔ اور ابدال خان پر حملے کی خاطر سوار ہو گیا۔ جب ابدال خان کو اس کا علم ہوا تو وہ بھی تیار ہو کر گھر سے نکل آیا۔ اور نوبتہ میں زبردست لڑائی ہوئی۔ اسی دوران میں اچانک ایک گولی ابدال خان کے پہلو میں لگی۔ جب وہ پوری طرح متوجہ ہوا تو اسے دائیں جانب سید مبارک خان، اس کی متعین کردہ ایک فوج کے ساتھ نظر آیا۔ اس زخم کے باوجود وہ مست ہاتھی کی مانند اس فوج پر حملہ آور ہوا۔ اور اپنے ہی لشکر میں خلل ڈالتے ہوئے سامنے آ کر اس نے سید مبارک کو نیزہ کھینچ مارا۔ چونکہ سخت بندھا ہوا تھا اس لئے سید نے زور لگا کر اسے کھینچ لیا۔ا سی اثنا میں ابدال خان گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ قاضی موسیٰ شہید نے آ کر ابدال خان کو میدان جنگ سے اٹھایاا ور اسی روز دفن کر دیا۔ یوسف شاہ نے غم اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہنستے روتے اپنے دادا کے مقبرے میں باپ کی قبر کا بندوبست کیا اور اپنے نام کے خطبے اور سکے کا حکم دیا۔ تاہم اسے حکمرانی کے طور طریقے اختیار کرنے کی توفیق میسر نہ آئی۔ وہ اپنا زیادہ تر عورتوں اور قوتوں کے ساتھ بسر کرتا۔ حیدر چک علی خان نو روز چک اور شمسی چک کو پاورہ نے ایک دوسرے کے ساتھ عہد و پیمان باندھ اور سید مبارک کو موافق کر لیا۔ بابا خلیل کے گھر کے قریب نوکدل سے آگے پہنچ کر وہ آپس میں الجھ پڑے۔ دونوں طرف سے تین سو آدمی مارے گئے اور نجی ملک چادر ورہ کی جو ملک محمد ناجی کے نام سے مشہور ہے، بہت سی اولاد اسی لڑائی میں ماری گئی۔ یوسف شاہ نے جو اس وقت ذالدکر میں تھا۔ تاج و تخت اور شاہی چتر ملک محمد ناجی کے ہاتھ سید مبارک خان کو بھجوا دیا۔ اور خود ہندوستان کی طرف نکل گیا۔ ملک محمد ناجی کو بیٹوں کا بہت صدمہ پہنچا تھا۔ا سے دق نے آ لیا اور چالیس دن بعد وہ وفات پا گیا۔ سید مبارک خان: سید مبارک خان نے 1579/987میں کشمیر پر حکمرانی کا پرچم لہرایا اور یوسف شاہ کے تخت پر بیٹھا۔ اس کی مدت حکومت آٹھ ماہ اور پندرہ دن تھی۔ جب اس (مبارک) نے بھی بدسلوکی اور بے اعتدالی کی روش اپنا لی تو یوسف شاہ کے اشارے پر جو کوہستان میں چھپا ہوا تھا۔ شنکر چک حیدر چک اور شمسی چک کوپہ داری وغیرہ ہم نے باہمی مشورے کے بعد سید مبارک خان کی مخالفت و منازعت پر کمر ہمت باندھ لی اور ادھر یوسف شاہ کو بلانے کے لئے ایک آدمی بھیج دیا یوسف شاہ ابھی پہنچا بھی نہ تھا کہ حیدر چک اورلوہر (گوہر؟) چک نے شہر کے پلوں کو کاٹ کر زالد کر میں سامان جنگ کا اہتمام کیا اور لوہر (گوہر) چک کو تخت پر بٹھا دیا گیا سید مبارک خان چکوں کا حد سے زیادہ زیردست تھا۔ پھر یوسف شاہ کی مخالفت کے عہد و قرار میں بھی بے اختیاری اور ناچاری کے عالم میں شریک ہوا تھا۔ اس لئے وہ لڑائی سے دست بردار ہو گیا۔ اور تاج و تخت اور شاہی چتر بابا خلیل کے ہاتھ گوہر چک کے پاس بھجوا دیا اور خود بابا خلیل کے گھر چلا گیا۔ گوہر شاہ: یوسف شاہ کا چچیرا بھائی تھا۔ 1579/987میں اس نے حکمرانی کا پرچم لہرایا اور نصیبے کا ڈنکا بجایا۔ یوسف شاہ کشمیریوں پر بھروسا نہ کرتے ہوئے جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے دربار میں التجا لے کر گیا۔ جب وہ بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو شاہانہ عنایت و نوازش سے معزز و ممتاز ٹھہرا۔ لوہر؟ چک کی مدت حکومت ایک سال تھی۔ اس نے کچھ اس ڈھب سے عدل و احسان اور رعیت پروری کا مظاہرہ کیا کہ نوشیروان کے عدل کی یاد دلا دی۔ غلے کی ارزانی اس حد تک ہوئی کہ ایک خروار کہ (کاہ؟) جو اڑھائی من شاہجہانی بنتا ہے، ایک فلوس کی بکتی تھی۔ شہر کے باشندے فارغ البال اور مرفہ الحال زندگی دل جمعی کے ساتھ بسر کرتے تھے اور لہر مندو، جو آج بھی اس شہر میں متعارف ہے، اسی کے زمانے میں تھی یعنی بڑی روٹی جو چند کوڑیوں کے عوض بکتی تھی۔ یوسف شاہ کا وزیر محمد بہت (؟) بہلول پور میں ایک ہزار سوار اور پیادہ لے کر یوسف شاہ کا انتظار کر رہا تھا۔ جب ایک سال بعد یوسف شاہ لوٹتے ہوئے لاہور پہنچا اس کا وزیر اس کی خدمت میں پہنچا۔ یوسف شاہ نے حالات کی پریشانی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لاہور کے تاجروں سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور سوار اور پیادہ کی تعداد نو سو اور آٹھ سو کر کے وہ کشمیر کی طرف متوجہ ہوا اور کشمیر کے پرگنہ جات کے لوگوں کے نام اس نے احکام لکھے کہ میں کئی ہزار سوار اور پیادہ فوج بادشاہ (اکبر) کی طرف سے بطور کمک لے کر آیا ہوں۔ جو کوئی بھی اطاعت و فرمان برداری کے ساتھ میرے سامنے نہیں آئے گا سزا پائے گا۔ پرگنہ جات کے عوام اس کے اس نوشتہ کو خاطر میں نہ لائے۔ اور کوئی پروا نہ کی، الٹا انہوں نے راستے بند کر دیے اور انتظار میں رہنے لگے۔ یوسف شاہ، بہلول پور کے راستے سے پوری جمعیت کے ساتھ نیر پہنچا اور وہاں سے کشمیر روانہ ہو گیا۔ یوسف ڈار کے پاس گوہر شاہ کی طرف سے دو تین ہزار سوار اور پیادہ فوج نوشہرہ میں موجود تھی۔ یوسف شاہ کی آمد کا سن کر ڈر گیا اور مقابلہ کے بغیر ہی کشمیر پہنچ گیا۔ اس نے نامردی سے کام لیا اور گوہر شاہ کی ہزیمت کا باعث بنا۔ جب راجا بہادر راجا راجور نے دیکھا کہ یوسف ڈار کچھ کیے بغیر ہی کشمیر چلا گیا ہے، تو اس نے یوسف شاہ کے پاس آ کر اس کی اطاعت کر لی اور اپنے لوگوں کے ساتھ وہ یوسف شاہ کی فوج کا ہر اول بن گیا، جس پر وہ شاہانہ عنایات کا سزاوار ٹھہرا۔ جب یوسف شاہ ہیرہ پور پہنچا تو اس نے زمیندار نازک تکور کو ایک جماعت کے ساتھ براستہ سرو روانہ کیا۔ وہاں سے یوسف خان، یوسف شاہ کے لشکر سے آ ملا۔ یہ امر گوہر شاہ کی سستی کا سبب بنا۔ اس نے چرہ ہار کے راستے سے جاتے ہوئے سوپور کا پل خراب کر دیا اور کامراج پہنچ گیا۔ حیدر چک، جو اس وقت ہیرہ پور میں تھا، شہر چلا آیا اور گوہر شاہ سے مل گیا۔ انہوں نے دس ہزار سوار اور کوئی پچیس ہزار پیادہ فوج سوبیور روانہ کر دی۔ یوسف شاہ نے خود مقابلہ کرنے میں مصلحت نہ جانی اور وہ ہندوستان کی طرف فرار کرنے کی فکر میں یا تو پکلی میں تھا یا پھر پونج میں۔ اس دوران میں بابا خلیل، گوہر شاہ کی طرف سے یوسف شاہ کے نام پیغام لے ک آیا کہ وہ اپنے آپ کو برباد نہ کرے کہ بے کار میں مارا جائے گا۔ سوبیور کے باہر کسی جگہ اپنی جاگیر میں کوئی ٹھکانا اختیار کرے اور بادشاہت سے دست بردار ہو جائے۔ یوسف شاہ نے بابا خلیل کی بات قبول نہ کی اور اس امید پر کہ ’’ کم من فتۃ قلیلتہ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ‘‘ (اکثر ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی سے جماعت اللہ کے حکم سے کثرت والی جماعت پر غالب آ گئی) راتوں رات کات دلنو سے آگے نکل گیا۔ گوہر شاہ کے دو تین ہزار آدمیوں کے جو بھٹ کے کنارے موجود تھے، ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جب یوسف شاہ کی ساری فوج دریا سے گذر گئی تو گوہر شاہ کا ایک دلاور ابدال سیہ مقابلے میں آ گیا؟ دوسری طرف سے ملک حسن سامنے آ گیا۔ ایک دوسرے کو خوب کاری زخم لگائے گئے۔ آخر ہزیمت ابدال خان کا مقدر بنی۔ گوہر شاہ شکست کھا کر بھاگ گیا اور یوسف شاہ نے دوسری مرتبہ طبل شاہی بجاتے ہوئے سری نگر کا رخ کیا جو پایتخت تھا۔ جب وہ موضع ہارہ تت پہنچا تو گوہر شاہ ہر طرف سے اس کے راستے کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔آخر وہ (یوسف) موضع برتنہ تک پہنچ گیا۔ شہر کے لوگ جوق در جوق اور سری نگر کے عوام گروہ در گروہ، کیا چھوٹے اور بڑے اور کیا بوڑھے اور جوان سبھی اس کے استقبال کے لیے آنے لگے۔ اس سے قبل ملا محمد امین مستغنی، غیب اللسان (لسان الغیب؟( حافظ کے دیوان سے فال نکال چکا تھا اور یہ مصرع نکلا تھا: یوسف گم گشتہ باز آید بہ کنعان غم مخور (گم شدہ یوسف، کنعان میں واپس آ جائے گا، غم مت کر) اس نے ہر کسی کو اس کے حال کے مطابق قسم قسم کے انعام و اکرام سے نوازا، اور جو بھی مخالفین دستگیر و اسیر کر کے لائے گئے ان سب کی اس نے جان بخشی کر دی اور انہیں آزاد کر دیا۔ محمد بہت نے آ کر یہ اطلاع دی کہ گوہر شاہ، قاضی موسی کے گھر میں چھپا ہوا ہے۔ یوسف شاہ نے شریعت کا پاس کرتے ہوئے خواجہ سرا خواجہ ملک کو اس کی جاسوسی کے لیے بھیجا۔ اس نے بہت جستجو کی لیکن کچھ بھی پتا نہ چلا۔ آخر اس نے ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا تو معلوم ہوا کہ قاضی کی والدہ کے بغیر اور کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ایک تنگ و تاریک حجرے کی نشان دہی کی گئی۔ چنانچہ اسے وہاں سے کھینچ کر باہر نکالا گیا۔ بعد میں بادشاہ کے حکم سے اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔ بیت: قوۃ الظہر پشت او بشکست قرۃ العین کرد چشمش کور (پشت کی قوت نے اس کی کمر توڑ ڈالی۔ قرۃ العین (آنکھوں کی ٹھنڈک) نے اس کی آنکھیں اندھی کر دیں) فاعتبروایا اولی الابصار سواے صاحبان دانش عبرت پکڑو گوہر شاہ کے امرا جہاں جہاں سے بھی ہاتھ لگے انہیں گرفتار کر کے لایا گیا۔ بعض کی آنکھوں میں سلائیان پھیرنے کا حکم دیا گیا اور بعض کے اخراج کا۔ حیدر چک کچھ عرصہ تبت میں اور کچھ مدت کشتواڑ میں رہا۔ دوسری مرتبہ لٹیروں کی طرح ہاتھوں سے منہ چھپا کر وچھاؤنی سے گذرا (؟) آخر جب وہ عاجز آ گیا تو اس نے راجہ نان (مان؟) سنگھ حاکم لاہور سے رجوع کیا۔ اس نے اس کے لیے بہر اور نوشہرہ کی جاگیر مقرر کر دی، جہاں وہ مقیم ہو گیا۔ یوسف شاہ اب اپنی سابقہ روش کے برعکس قوالوں اور مطربوں کی طرف کچھ اتنا متوجہ نہ ہوا۔ تا آنکہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کی طرف سے مرزا طاہر چند شاہی افراد کے ساتھ ایلچی کے طور پر، یوسف شاہ کے پاس ایک فرمان لے کر پہنچا۔ فرمان کا مضمون یہ تھا کہ ’’ تو جب سے گیا ہے، اپنے شہر میں آرام کرتے ہوئے تو نے اپنے حالات ہم تک نہیں پہنچائے اور نہ تو خود ہی آیا ہے۔ اب برخلاف گذشتہ اس جانب روے اطاعت کر (اطاعت کر) ورنہ تو جانے‘‘ اس وجہ سے یوسف شاہ بہت زیادہ ہر اس کا شکار ہو گیا۔ مدبر لوگ سمجھ گئے کہ اکبر شاہ اس ملک کی تسخیر کا ارادہ کر رہا ہے۔ یوسف شاہ نے بد دل ہو کر اپنے چھوٹے بیٹے مرزا حیدر کو گرانبہا تحائف کے ساتھ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ا گرچہ وزراء اور امرا اس امر میں مانع ہوئے لیکن اس نے نہ مانا۔ ادھر جب کشمیر کے یہ تحائف جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کی نظر سے گذرے تو وہ اس ملک کا اور بھی شائق ہوا۔ ایک سال بعد اس (یوسف) نے اپنے بیٹے کو پھر بھیجا لیکن اس کا عذر قبول نہ ہوا اور آستان بوسی کا حکم صادر ہوا۔ اس وحشت اثر خبر سے اس کے ہاتھ پاؤں پہلے سے بھی زیادہ پھول گئے اس کے دل کو تشویش و وسواس نے گھیر لیا۔ اس نے پھر غدر معذرت کا طریقہ اختیار کیا اور کچھ مزید تحائف دے کر اپنے بڑے بیٹے یعقوب شاہ کو اکبر کی خدمت میں بھیجا۔ اس وجہ سے شہر کے لوگ بہت غمگین ہوئے۔ پرانے لوگوں نے یہ خبر دی تھی کہ چکوں کے زمانے میں کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یعقوب شاہ دو تین برساکبر شاہ کے پایہ تخت میں رہا، کسی نے بھی اس سے اعتنا نہ کی۔ ایک روز جلال الدین اکبر شاہ نے یعقوب شاہ کی موجودگی میں اپنے خواص سے کہا کہ یوسف خان ہماری بارگاہ سے سرفراز ہو کر عشرت میں بسر کر رہا ہے۔ ہم نے دو مرتبہ فرمان بھیجا۔ پہلے اس نے اپنے چھوٹے بیٹے اور پھر بڑے بیٹے کو بھیجا، لیکن خود اس نے عیش و عشرت کے گھر سے پاؤں باہر نہیں نکالے اور قدم بوسی کا ارادہ نہیں کیا۔ حکیم علی کو (اکبر کی طرف سے) حکم ہوا کہ ہمارا لشکر لاہور پہنچنے تک یوسف خان کو کشمیر سے لا کر آستان بوسی سے مشرف کیا جائے، اس کی طرف سے کوئی بھی حیلہ و عذر قبول نہ کیا جائے۔ جب یعقوب خان نے یہ خبر براہ راست سنی تو اس نے باپ کو لکھ بھیجا۔ یوسف شاہ نے وزراء سے مشورہ کیا۔ اس نے بد دلی سے کہا کہ اگر اکبر شاہ کا لشکر آ جائے تو اس شہر میں آب و علف تک بھی نہ رہے گا، بہتر یہی ہے کہ میں چلا جاتا ہوں۔ اس کی اس بات پر سب سے چھوٹے بڑوں، جوانوں اور بوڑھوں اور رہالی وموالی نے اس خیال کا اظہارکیا کہ زولجو کے حادثے کے بعد سے آج تک شہر اچھی طرح آباد نہیں ہو پایا، اب اگر بادشاہ (یعنی یوسف) شہر سے باہر چلا جاتا ہے اور غیروں کے گھوڑوں کے سم اس ملک میں آ کر پھر سے اس کی ویرانی کا باعث بنتے ہیں تو پھر قیامت تک یہ سنبھل نہ سکے گا۔ یوسف شاہ نے بظاہر انہیں دلاسا دیا، لیکن دل مں اس نے جانے کا ارادہ کر لیا۔ اسی اثنا میں خبر آئی کہ بادشاہ ہند، لاہور سے کابل کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ یعقوب روگردانی کرتے ہوئے کشمیر چلا آیا۔ وہ بڑی تیزی سے کوہ کاجداری سے گذرا اور حیدر چک کے ڈر سے کہ نوشہرہ وغیرہ اس کے تصرف میں تھا، ایک اور راستے سے راجور پہنچا۔ ادھر حکیم علی نوشہرہ میں خوف زدہ ہو گیا، حیدر چک نے اسے دلاسا دے کر کشمیر روانہ کر دیا۔ یعقوب شاہ، حکیم سے پہلے ہی سری نگر پہنچ گیا۔ اس کے باپ نے اسے محبوس کر دینا چاہا کہ اس نے ایسی حرکت کیوں کی جو اکبر بادشاہ کے مزاج کی برہمی کا باعث بنی؟ لیکن شفاعت کرنے والوں نے اسے اس امر سے باز رکھا، تاہم اس نے بیٹے کو سلام کرنے کی خاطر آنے کی اجازت نہ دی۔ ادھر حکیم آ پہنچا۔ (یوسف) نے خانپور میں حکیم کا استقبال کیا اور پورے اعزاز کے ساتھ اسے حویلی سید علی میں ٹھہرایا۔ دو ماہ تک اس کی خوب عزت و تکریم کی اور کہا میں یعقوب خان کو دست بستہ تمہارے ہمراہ بھیجوں گا۔ حکیم اصل بات سے آگاہ ہو گیا۔ اس نے (اکبر کو) لکھ بھیجا کہ یوسف خان کا سپاہیوں سے اختلاف ہے، اسے وہاں لانا ممکن نہیں۔ بادشاہ نے عرضداشت کے مضمون سے آگاہ ہو کر راجا بھگوان داس کو پچاس ہزار سوار اور پیادہ دے کر اٹک سے براستہ بارہ مولا روانہ کیا۔ یہ خبر یوسف شاہ تک پہنچ گئی۔ اس نے حکیم کو روانہ کر دیا اور خود کوئی چارہ ڈھونڈا اور پابوسی کا ارادہ کیا۔ کشمیر کے لوگوں اور خاص و عام علما و فضلا نے آ کر پھر التجا کی اور یوسف تک یہ بات پہنچائی کہ ہم مغلوں کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آئیں اور ہمیں مار کر لے جائیں۔ زولجو نے جو تباہی مچائی اس سے تمہارے (یوسف) جدویدر کی بدولت ہم نے نجات پائی اور ملک کی کچھ تعمیر ہوئی، اب پھر اسے تباہ کرنا بعید از انصاف ہو گا۔ صلاح کار یہ ہے کہ کوہستان پہنچ کر ہم ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے مغل لشکر کی عنان موڑ دیں گے۔ اس اثنا میں یہ خبر پہنچی کہ مغل لشکر پتہ درنگ پہنچ اور وجن و کہا درہ سے آگے نکل گیا ہے۔ یوسف شاہ شکار کے بہانے بارہ مولہ جا کر بیٹھ گیا اور اپنے لشکر کے تین گروہ بنا دیے۔ یوسف خان اور شمسی چک کو پہ وارہ میں، حسن ملک چادر، ہرا دل اور علم شیر خان ماکری وغیرہ ہم چند اول میں یعقوب شاہ دوسرے امرا اور سرداروں کے ہمراہ ایک طرف متوجہ ہو کر مغلوں کے ساتھ لڑائی کے لیے بڑھے۔ ایسی لڑائیاں ہوئیں کہ رستم داستان بھی ان پر رشک کرتا۔ اگر گیوپشن بھی وہاں حاضر ہوتے تو اس دار و گیر سے مارے حیرت و غیرت کے خون پیتے۔ مثنوی: چنان خون روان شد زوشت نبرد کہ چون سیل رفتہ زجا پامی مرد چکا چاک شمشیر برندہ فرق زمین را بدریای خون کردہ غرق سنان آتش کین بر افروختہ پر مرغ را در ہوا سوختہ میدان جنگ سے خون اس طرح رواں ہوا جیسے سیلاب کسی نرم زمین سے بہ نکلا ہو، سر کاٹنے والی تلوار کی تیز کاٹ نے زمین کو خون کے دریا میں ڈبو دیا، سنان نے ایسی آتش کین بھڑکائی کہ فضا میں پرندے کے پر جلا ڈالے سردیوں کے موسم اور غلے کی گرانی کے باوجود انہوں (سپاہ یوسف) نے اس دلیری و ثابت قدمی سے لڑائی لڑی کہ اجپوتیہ میں موجود مغل لشکر نے عبرت پکڑی۔ مغل لشکر اور کشمیر میں گرانی اس حد تک جا پہنچی۔ کہ اس جیسی (گرانی) کشمیر میں کم ہی کسی کو یاد ہو گی۔ کہتے ہیں کہ ایک سیر چاول کا بھاؤ دس روپے تک جا پہنچا اور لوگ گھوڑوں اور اونٹوں کے پیٹ چاک کر کے پانی پیتے۔ مولانا احمد نے اس واقعہ کے حسب حال لکھا ہے۔ نظم: گر نظر بر ہلال می کردند لب نانی خیال می کردند گردن خود دراز می کردند دہن آز باز می کردند (اگر ان کی نظر ہلال پر پڑتی تو وہ اسے روٹی کا ٹکڑا سمجھ لیتے، اپنی گردن دراز کرتے اور حرص کا منہ کھول لیتے) اکبر بادشاہ کو اس کی خبر ملی تو اس نے اپنا قاصد، جس کے ساتھ نامہ و پیغام (بر) بھی تھا، یوسف شاہ کی طرف بھیجا۔ اتفاق سے یہ دونوں ایلچی خط سمیت یعقوب شاہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس نے ان کے قتل کا حکم دینا چاہا لیکن یہ بات اس قاعدے سے بعید نظر آئی، چنانچہ انہیں اس نے باپ کی خدمت میں بھیج دیا، جس کی وجہ سے لوگوں میں بد دلی اور نا امیدی پھیل گئی۔ یوسف شاہ فکر تباہ کی بنا پر دل تنگ اور مجبور ہو کر مغلیہ لشکر سے مل گیا حالانکہ اس کے پاس پندرہ ہزار سوار، پچیس ہزار پیادہ اور سات ہزار بندوقچی تیار کھڑے تھے۔ اس سانحہ کے بعد یعقوب شاہ، بابا طالب اصفہانی کے ساتھ مل کر جو یعقوب شاہ کا پیر بابا اور ایک مدبر آدمی تھا، اپنی جگہ سے نہ ہلا اور جنگ پر ڈٹا رہا۔ اس نے مغل لشکر کا قافیہ اس حد تک تنگ کیا کہ وہ اپنی جان سے تنگ آ گئے۔ وہ ہاتھیوں اور گھوڑوں کے پیٹ چاک کر کے اپنے بیٹھنے کی جگہ بناتے اور غلے کی بجائے گھوڑے اور اونٹ کا گوشت کھاتے۔ مذکورہ راجا نے مجبور ہو کر یعقوب شاہ کے ساتھ صلح کی بنیاد رکھتے ہوئے فرار کی راہ اختیار کی اور واپسی کا طبل بجا دیا۔ جب وہ پکلی پہنچا تو اس نے یوسف شاہ کو گرفتار کر کے اکبر شاہ کے پاس پہنچا دیا۔ یہ واقعہ 1586/994کا ہے۔ یعقوب شاہ نے فتح و نصرت کے ساتھ پائے تخت کشمیر کا تصرف و استقرار پا لیا، حکومت کا تاج سر پر رکھا اور اپنے نام کا سکہ و خطبہ جاری کیا۔ اس نے ایک سال ایک سال چھ ماہ تک حکومت کی، لیکن وہ اچھی خصلت اور اخلاق حسنہ سے عاری تھا۔ اس کے سامنے کسی کی نہ چلتی تھی۔ یہاں تک کہ شریعت مرتبت، کمالات منزلت جناب قاضی موسیٰ شہید نے ابدال خان کو اپنے طور پر دفن کیا اور یوسف شاہ کے بارے میں اس نے نہ پوچھا تھا۔ دوسرے یہ کہ گوہر شاہ اس کے گھر میں پایا گیا اور اگرچہ قاضی کو اس کی کوئی خبر نہ تھی، پھر بھی قاضی سے انتقام لینے کے ارادے سے اس کے ساتھ مذہب کی بحث چھیڑ دی اور اپنے ارکان سلطنت کی رائے کے خلاف عمل کیا۔ اس بات کے باوجود کہ اہل تشیع کا شعار تقیہ کرتا ہے، وہ ازراہ غرور اور علانیہ قاضی سے بے ادبی کا مرتکب ہوا۔ قاضی کے سب مخلصین بالخصوص شمس چک کوپہ داری، ملک حسین چادر، علم شیر خان ماکری اور علی دار وغیرہ ایسے سردار، جو یعقوب شاہ کے ہمراہ اچہ دل کے چشمے پر گئے تھے، وہاں سے کوہستان کی راہ لیتے ہوئے ہیرہ پور جا ٹھہرے اور یعقوب شاہ کو ملامت کرتے رہے کہ اس نے اکبر شاہ جیسے حکمران کو طیش دلا کر شہر کے لوگوں کو ناراض کیا۔ اور اب وہ قاضی شہر کے ساتھ مذہب کی بات چھیڑ رہا ہے۔۔۔۔ ادھر قاضی نے سب نرم و گرم باتوں کا سلسلہ بند کر رکھا تھا، جب کہ یعقوب شاہ اس کے برعکس پیش آ رہا تھا۔ مذکورہ سرداروں نے ہندوستان جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن ملک حسین ان کے جانے میں مانع ہوا اور یہ طے پایا کہ جلد ہی پہنچ کر سری نگر پر قبضہ کر لیں گے اور جب تک یعقوب شاہ پہنچے، تخت پر قبضہ جما لیں گے۔ یعقوب شاہ نے یہ وحشت اثر خبر موضع نون پاک میں سنی۔ اس نے محمد بہت کو قید خانے سے رہا کر کے اس سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا کہ لشکر اتنی جلدی شہر نہیں پہنچ سکتا کہ وہ سری نگر پر قبضہ کر لیں۔ چنانچہ یعقوب شاہ تیزی سے سری نگر پہنچا اور نوبتہ میں فرد کش ہوا جو اس کی جائے سکونت تھی۔ شمس چک وغیرہ مغرب کی طرف سے آئے تھے۔ انہوں نے پل تباہ کر دیے اور جنگ کے لیے تیار کھڑے ہو گئے۔ سات شب و روز تک مقابلہ و مقاتلہ ہوا۔ آخر بابا خلیل اور شیخ جدیبلی کہ دونوں یعقوب شاہ کے پیر تھے، ثالث بنے اور صلح کی بنیاد رکھی اور یہ طے پایا کہ سوپور مع کامراج پر شمسی چک وغیرہ کا قبضہ ہو گا اور باقی سارا علاقہ یعقوب شاہ کے پاس رہے گا۔ اس تفیفے پر وہ سری نگر سے نکل سونپور کی طرف نکل گئے۔ لوگوں نے ان دونوں مذہبی رہنماؤں کو جو ہر مرتبہ نفاق و فتنہ کا باعث بن رہے تھے، مار ڈالنا چاہا لیکن ملک حسین چادر و مانع آیا۔ اس نے ان دونوں کو چند آدمیوں کے ہمراہ شہر بھیج دیا۔ جب دونوں پیروں نے اپنی سرگذشت نوجوان بادشاہ کے گوش گذار کی تو اس (یعقوب شاہ) نے طیش میں آکر لشکر انبوہ تیار کیا۔ شمس چک وغیرہ سری نگر کے لالچ میں پھر شہر آئے اور زیردست ہو کر رہ گئے۔ یعقوب شاہ نے پھر قاضی کے ساتھ مذہب کی بات چھیڑ دی اور علانیہ ترویج تشیع کرنے لگا۔ اور اس کام کے لیے اس نے ملاعین کو مقرر کیا۔۔۔۔ قاضی اسلام بادشاہ کی سختی سے نہ ڈرا اور خلاف سنت پر راضی نہ ہوا۔ بدبخت یعقوب نے امرا اور فضلا کے منع کرنے کے باوجود قاضی کو تخت شہادت پر بٹھا دیا، اور اس طرح اس کی دینی و دنیوی نیک نامی کا باعث بنا۔ کہتے ہیں کہ حضرت قاضی کے مبارک لاشے کو ہاتھی کی دم کے ساتھ باندھ کر شہر میں گھمایا گیا۔ جب قاضی کے گھر کے دروازے پر لاشہ پہنا تو ان کی والدہ نے باہر نکل کر اپنی چادر صدقے کے اندا زمیں لاشے کے گرد گھمائی اور شکر الٰہی بجا لائی کہ وہ راہ حق میں شہید ہوئے ہیں۔ جس روز جناب قاضی شہید کا واقعہ پیش آیا، اسی روز بجلی کی ایسی چمک اور کڑک ظاہر ہوئی کہ اکثر لوگ ڈر کے مارے بے جان ہو گئے، خاص طور پر بادشاہ کا وزیر علی دار تین چار مرد و زن کے ساتھ یعقوب شاہ کے گھر میں بجلی کی آگ سے جل گیا۔ جناب قاضی موسی، قاضی میر علی کی اولاد سے اور علمی و عملی کمالات کے فنون سے آراستہ ہیں۔ قاضی ابراہیم کے زمانے سے باپ دادا سے کشمیر کے عہدہ قاضی کا تعلق ان کے گھرانے سے چلا آ رہا تھا۔ ان کی اولاد میں بھی پروردگار نے علمی اور مالی و عرضی برکات باقی رکھیں۔ غرض قاضی کی شہادت کے بعد شہر کے لوگ یعقوب شاہ سے متنفر اور رعایا کہ دل اس سے برگشتہ ہو گئے اور اکثر بزرگ اس شہر سے کوچ کر گئے۔ حضرت بابا داؤد خاکی اپنے پیروں کی زیارت کے لیے ملتان چلے گئے، جب کہ جامع کمالات شیخ یعقوب صرفی دیگر اکابر، رؤسا اور فقرا کے ہمراہ اکبر بادشاہ کو آمادہ کرنے چلے گئے۔ انہوں نے بادشاہ کے ارکان سلطنت کشمیر کے تصرف و تسخیر کی بشارت دی اور باہم عہد و پیمان طے پائے۔ ان بزرگوں نے جو عہد و پیمان کیے، ان میں یہ امور بھی تھے کہ مذہب اور غلے کے معاملے میں حکام کی طرف سے کوئی انحراف نہ ہو۔ کنیز اور غلام کشمیر کے لوگوں سے نہ لیے جائیں، کشمیر کے لوگوں کے لیے روزی کا سامان کر کے ان کی خوشحالی کا باعث بنیں۔ ملکی امور میں قوت اور اقدار انہیں نہ دیں۔ وغیرہ وغیرہ غرض کئی ایک عہد و پیمان قرار پائے۔ ان باتوں اور پیمانو کے طے پا جانے کے بعد اکبر بادشاہ کے آدمی عزم جزم کے ساتھ کشمیر کی تسخیر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے آدمی متعین کئے گئے، جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آئے گی۔ مذکورہ ملا عینی فضول گو تھا۔ اس نے مشہور عارف حضرت مولانا عبدالرحمن جامی کے بارے میں بھی بے ادبی کا مظاہرہ کیا۔ بیت: حریفان بادہ ہا خوردند و رفتند تہی خمخانہ ہا کردند و رفتند (حریفوں نے شرابیں پیں اور چلے گئے، انہوں نے خمخانے خالی کر دیے اور چلے گئے) ملا عینی نے اس کا جواب لکھا، بیت: ہنوز آن ابر رحمت در فشانست می و میخانہ با مہر و نشانست درین دیر مسدس خم تہی نیست تہی گفتن بغیر ابلہی نیست (ابھی وہ ابر رحمت موتی بکھیرنے والا ہے۔ مے و میخانہ، مہر اور نشان کے ساتھ (موجود) ہے۔ اس مسدس دیر (چھ اطراف والا گرجا، مرادیہ دنیا۔۔۔۔۔۔ دائیں بائیں آگے پیچھے، اوپر نیچے) میں مٹکا خالی نہیں ہے۔ اسے خالی کہنا محض نادانی ہے) اس ابلہ بدبخت نے سوچے سمجھے بغیر تبرا خوانی کے لیے منہ کھول لیا۔ اسے یہ علم ہی نہیں کہ حضرت مولانا (حاجی) کی اس سے مراد انبیاء ائمہ اہلبیتؓ اور صحابہ کرامؓ کی پر فیض مجلس کا اختتام ہے، جس کی نظیر کا ظہور پذیر ہونا اس زمانے میں ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو ہر گروہ میں کیا اہل عرفان و اہل علم اور کیا سخن دانوں میں فیضان کا تفاوت پیدا ہو گیا ہے۔ بلا شبہ بعد میں آنے والے سابقہ حضرات کی مانند نہیں ہے۔ بلکہ اس تبراکی دریافت میں بھی کلام ہے، جیسا کہ اس نے کہا ہے ’’ می و میخانہ با مرو نشانست‘‘ گویا وہ اس بات کا معتقد ہے کہ سابقین بھی لاحقین کی مانند فیض سے محروم رہے ہیں۔ ٭٭٭ چغتائیہ تیموریہ (مغل) سلاطین کے تسخیر کشمیر سے متعلق ابتدائی واقعات کا ذکر..... اس گڑ بڑ، فتنہ و فساد اور خوف و رجا میں اکبر بادشاہ کی طرف سے محمد قاسم خان میر بحر تیس ہزار سوار لے کر راجور کے راستے سے آ ظاہر ہوا۔ امراے کشمیر سے حیدر چک ولد یوسف چک تک، نیز دیگر بزرگوں اور مشائخ کی ایک جماعت نے بالخصوص جناب جامع الکمالات، روشن نشانیوں کے مظہر، واصلین (باللہ) کے پیشوا حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہ ولد خواجہ حسن گنائی نے جو ہرمین شریفین سے مراجعت فرما ہوئے تھے، اس (قاسم) کی رہنمائی کی، جس کے نتیجے میں اس کے منزل پر پہنچنے تک یعقوب کو خبر نہ ہوئی۔ جب اسے اس امر سے آگاہی ہوئی تو وہ بے کراں لشکر لے کر ہیرہ پور کی طرف بڑھا۔ راستے میں بیحد تعصب کے سبب کشمیر کی فوج کے آدمی اپنے مقصد سے ہٹ کر قاسم خان کی طرف چل پڑے۔ یعقوب نے جب اپنی بازی مات ہوتے دیکھی تو اس نے کشتواڑ کی طرف فرار ہی میں مصلحت جانی۔۔۔۔ جب وہ پرگنہ برنگ پہنچا تو گنتی کے چند سپاہیوں کے سوا کہ ان کی حیثیت بھی در حقیقت گھاس پھونس کی سی تھی، اس کے ساتھ کوئی نہ رہا۔ دوسرے روز مغل لشکر بیرم کلہ پہنچ گیا او روہاں سے خان مذکور نے حضرت شیخ صرفی اور جی تواجی کو جو عمدہ کارکنوں میں سے تھا، لشکر کے ہمراہ کر دیا تاکہ وہ آگے پہنچ کر سری نگر پر قبضہ کریں۔ راستے میں حسن خان شتگی چرار تھا (؟) شمسی گنائی نے ازراہ حماقت، بہادر خان سے مل کر اسے محبوس کر دیا اس خیال سے کہ مغلیہ لشکر یہ خبر سن کر لوٹ جائے گا وہ ہیرو پور جا بیٹھا۔ زینہ شاہ کے بیٹے حسین شاہ کو تخت پر بٹحا دیا گیا اور دشمن سے وہ لوگ غافل ہو گئے۔ جی تو اجی نے خوش ہو کر ہیرہ پور کی راہ لی۔ اس کی پہلی منزل موضع یادر رہی۔ دوسرے روز وہ ہیرہ پور پہنچ گیا۔ حسین خان کو بادشاہ تو بنا دیا گیا، لیکن اس سے کئی صلاح کار نظر نہ آئی، چنانچہ بعد میں شمسی چک کو بادشاہ بنایا گیا۔ جب یہ خبر شہر پہنچی تو شمسی چک کے بڑے بیٹے ظفر خان نے جو ایک کٹر سنی اور حکومت کا آرزو مند تھا، دین و دولت کے تعصب کی بنا پر محلہ جدیبل کو آگ لگا دی اور دولت چک کی تعمیر کردہ خانقاہ جدیبل کو بھی نذر آتش کر دیا۔۔۔۔ اسی اثنا میں خبر ملی کہ مغلوں کے آدمی ہیرہ پور پہنچ گئے۔ یعقوب خان جو کشتواڑ گیا ہو اتھا، وہاں دھوپ (؟) نہ پا کر لوٹ آیا۔ پرگنہ برنگ میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اس کے باوجود کہ یعقوب خان اسی طرح متوجہ تھا، انہوں نے لڑائی چھیڑ دی۔ آخر اکبر شاہی فوجوں کو غلبہ حاصل ہوا۔ وہ لوگوں کو تتر بتر کر کے شہر میں داخل ہو گئیں۔ ’’ خیر مقدم‘‘ (1586/994) قاسم خان کے ورود کی تاریخ ہے۔ یوسف خان ایبہ خان، حسین خان اور حسین ملک چادر وغیر ہم کوئی سات آٹھ ہزار سوار اور پیادہ فوج لے کر کامراج چلے گئے، جہاں وہ موضع چندرہ کوٹ میں جمع ہوئے، جب کہ شمسی چک، سید مبارک کے بیٹے اور سید ابو المعالی تقریباً تین چار ہزار سوار اور آٹھ ہزار پیادہ فوج لے کر سویپور پہنچ گئے۔ مغل فوج کے آدمیوں نے فتنہ پرور لوگوں کے ڈر سے قدم شہر سے باہر نہ نکالا۔ تاآنکہ یعقوب نے چندرہ کوٹ سے سری نگر شہر پر شبخون مارا اور مغربی جانب کے اکثر گھروں کو جلا کر انہیں لوٹ لیا۔ اس نے قاسم خان کے گھر کو بھی نذر آتش کر دیا۔ اس کے لشکری اس کی اس حرکت سے اس خام طمعی کا شکار ہو گئے کہ کوئی بھی غنیم اب ان کے مقابل نہیں آ سکتا۔ یعقوب شاہ نے اپنے ایام کی بدبختی کو دعوت دینے کی خاطر ان لوگوں کو قتل کروا دیا جنہوں نے اس کے اپنے لشکر میں لڑائی کے مواقع پر ساتھ دیا تھا، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس کی فوج سے بدگمان ہو کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ یعقوب شاہ کو پورے طور پر ہزیمت ہوئی۔ حیدر چک جو قاسم خان کی قید میں تھا، قتل ہوا اور مغلیہ فوج کو قوت حاصل ہو گئی۔ یہ فوجی جہاں کہیں بھی کشمیر کے دلاوروں کا مجمع دیکھتے، ان کا قتل عام شروع کر دیتے۔ادھر لوگ شمسی چک پر ٹوٹ پڑے۔ وہ ایک مدت تک ثابت قدمی سے ڈٹا اور داد دلاوری دیتا رہا۔ مشہور ہے کہ، بیت: بہ تیغ و بچوب و بسنگ و بمشت ملک شمس چک شمت کس را بکشت (تلوار سے اور لکڑی سے، پتھر سے مکے سے ملک شمس چک نے ساٹھ آدمی مار ڈالے) دشمنوں کی کثرت کے باوجود وہ ان کے پنجے سے رہائی پا کر کوہستان کا مراج کے علاقے کرنادکہ کی طرف چلا گیا جو قلعے کی صورت میں الگ تھلگ واقع ہے۔ یعقوب شاہ نے امرا سے مشورے کے بعد راہ فرار اختیار کر کشتواڑ کا رخ کیا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کا اور اس کے باپ یوسف خان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ جب قرایوسف ترکمان کے بیٹے سلطان یعقوب بیگ ترکمان نے ایران سے فرار کیا تو اس موقع پر کسی نے شعر کہا تھا جو موجودہ اتفاقیہ مناسبت سے راقم کو ابھی ابھی یاد آیا ہے۔ بیت: نہا ز یوسف نشان دیدم نہا ز یعقوب آثاری عزیزان یوسف از گم شد، چہ شد یعقوب راباری (نہ تو یوسف ہی کا اتا پتا مجھے ملا اور نہ یعقوب ہی کے کوئی آثار ملے۔ عزیزو! اگر یوسف گم ہو گیا تو آخر یعقوب کو کیا ہوا) اکبر شاہ کے آدمیوں نے سردیوں کا موسم کشمیر میں پوری فراغت سے گذارا۔ اس دوران میں غنیم کا نام و نشان تک ظاہر نہ ہوا۔ یعقوب شاہ بہار کے موسم میں کشتواڑ سے پھر آ کر ایک گروہ کے ہمراہ کوہ الور پر اقامت گزیں ہو گیا۔ا دھر شمس چک کر ناد سے سوپور آ کر مقیم ہو گیا۔ دو ماہ اسی طرح گذر گئے۔ پھر یعقوب شاہ کھودہ دن میں شمسی چک کے نزدیک آ کر چرہ اودر میں فروکش ہو گیا۔ تآنکہ طرفین میں لڑائی چھڑ گئی ایک جم غفیر مارا گیا۔ یعقوب شاہ نے کوہ سلیمان پر اور شمسی چک نے قلعہ بانجک میں ٹھکانہ کیا۔ مغلوں کو شہر جن کے تصرف میں تھا اکٹھا کر کے دو گروہ بنائے گئے۔ ایک گروہم وضع پاندرتہن کے راستے سے اور دوسرا آدت کجی کے راستے سے یعقوب شاہ کے مقابل آ گیا۔ دونوں طرف کے دلاوروں نے دلیری اور قوت کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ایک جماعت اس لڑائی میں کام آئی۔ قریب تھا کہ مغلیہ فوج مغلوب ہو جاتی کہ اچانک یعقوب شاہ کی فوج کے سردار نو رنگ خان کی آنکھ میں غیب سے ایک تیر آ کر لگا، وہ گرا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ کشمیری لشکر کو شکست ہوئی اور قاسم خان فتح و نصرت کے ساتھ شہر لوٹ آیا۔ صبح مغلوں نے دیکھا کہ یعقوب شاہ کا شاہی خیمہ کھڑا ہے۔ انہیں شک گذرا اور انہوں نے شہر میں پاؤں جما لیے۔ یہاں تک کہ یعقوب شاہ نے شمسی چک کو لکھا اور ملک حسن چادر کو بھیج کر لڑائی پر آمادہ کیا۔د وسرے دن یعقوب شاہ بانجک میں شمسی چک کے پاس آیا اور اس کے لشکر کے ساتھ مل گیا۔ کوئی سات آٹھ ہزار سوار پر مشتمل مغلیہ فوج بانجک پہنچ گئی اور لڑائی کے لیے اس نے صفیں سیدھی کر لیں۔ یعقوب شاہ نے جب دیکھا کہ مغلیہ فوج غلبہ پا رہی ہے تو سید مبارک اور شمسی چک نے بیٹوں کو کمک کے طور پر بھیج دیا۔ کچھ دیر اس نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کیا لیکن پھر بھی اس (یعقوب شاہ) کی بازی سنبھل نہ سکی۔ اگرچہ اسے اپنے آدمیوں کی طرف سے استقامت کا پیغام ملتا رہا لیکن وہ مقابلے میں ٹھہر نہ سکا؟ تاہم ایک مدت تک وہ تحبوں مار مار کر مغلوں کو مالی و جانی نقصان پہنچاتا رہا۔ ادھر مغل بس جس کو پاتے اسے گرفتار کر لیتے۔ ایک عرصہ تک دونوں طرف سے صورت حال کچھ اس قسم کی رہی۔ حتیٰ کہ تیسری مرتبہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کو خبر ملی کہ مغلیہ لشکر شہر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اکبر بادشاہ نے مرزا سید یوسف خان رضوی کو محمد بہت جو سابق بادشاہ کشمیر کا وزہر رہا تھا، اور اہل تشیع کے پیر بابا خلیل کے ساتھ جو (بابا) یوسف شاہ کی رفاقت میں ہندوستان گیا اور اکبر شاہ کی چھاؤنی میں مقیم تھا، پچیس ہزار سوار دے کر کشمیر روانہ کیا۔ یعقوب نے یہ خبر سنی تو اپنے امرا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شمسی چک کا بھائی لدجو چک، یوسف خان کے مقابلے میں نکلے۔ ملک حسن نے کہا کہ لدجو چک بابا خلیل کے ساتھ جا ملے گا، لہٰذا شمسی چک تو ان (مغلوں) کے مقابل نکلے اور یعقوب خان اور قاسم خان کی طرف بڑھے۔ یعقوب شاہ نے یہ تجویز پسند کی اور لوہر چک کو بھیج دیا۔ اکبر بادشاہ کے آدمی، شاہراہ کے زمیندار بہرام نایک سے مل کر بہرام کلہ سے ہوتے ہوئے کنزبل کے راستے کشمیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب وہ ہیرہ پور پہنچے چکوں کے لشکر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اور وہ قلعہ بانجک سے باہر آکر تتر بتر ہو گئے۔ کشمیر کے امرا نے بابا خلیل اور محمد کی ہمراہی میں مرزا یوسف خان سے ملاقات کی اور دربار (اکبر) چلے گئے۔ تآنکہ مختلف قسم کی خبریں پہنچنے کے باعث جلال الدین اکبر بادشاہ نے اپنے نصرت اثر عساکر کے ساتھ بذات کشمیر کی طرف روانگی کو لازم جانا اور یوں وہ 1590/998میں جنت نظیر کشمیر دل پذیر میں ورود فرما ہوا۔ یعقوب شاہ مجبور ہو کر فتح مند لشکر میں پہنچا اور وہاں اس نے اپنا مطلب نکالا۔ اس نے ظل الٰہی (اکبر) کی جوتی سر پر باندھی اور دہلیز بوسی سے مشرف ہوا۔ اس طرح یہ خطہ سلاطین چغتائیہ کے قبضے میں آ گیا۔ اکبر بادشاہ نے خود بھی اصلاح فرمائی اور دیگر اہلکار مقرر کر کے چلا گیا، تاہم ایک مدت تک چک بغاوت کرتے رہے ہر طرف سے کوئی نہ کوئی سردار سر اٹھاتا رہتا۔ اسی دوران میں مرزا یادگار کا ہنگامہ آ پڑا۔ جناب ولایت اکتساب، پیشوائے عارقین شیخ بابا ولی قدس سرہ العالیٰ نے اس طرف متوجہ ہو کر رفع فساد فرمایا۔ اس قصے کا تذکرہ اپنے مقام پر تحریر ہو گا۔ الغرض ہر گوشے سے کوئی نہ کوئی چک شورش برپا کر دیتا اور بادشاہ کے آدمیوں میں تشویش دوڑا دیتا۔ چنانچہ نور الدین جہانگیر کی سلطنت کے وسط1612/1021تک یہ خطہ خلل سے خالی نہ تھا۔ا س کے بعد بادشاہ نے کشمیر کے حکام اور روسا کے اہتمام سے سعی و تردد کرتے ہوئے فساد اور بگاڑ کی اصلاح کر دی۔ اگر اس حکایت کا اجمال آئندہ اوراق پر موقوف کر کے فی الحال ان سادات و مشائخ اور علماء و شعرا کے حالات حیطہ تحریر میں لائے جائیں، جو مرزا حیدر اور چک قبیلہ کی حکومت کے آغاز سے سلاطین چغتائیہ (مغل) کی فتح و تسخیر کی ابتدا تک کشمیر میں تشریف فرمایا اس وقت انتقال کر چکے تھے، تو مناسب ہو گا۔ حضرت سید احمد کرمانی: کرمان سے تشریف لا کر ہندوستان میں آباد ہو گئے جب ایک موقع پر کوئی والی کشمیر اپنے چچیرے بھائیوں سے شکست کھا کر ہند چلا گیا تو اسے وہاں خادمان سیادت و ولایت کا سراغ ملا جو مستجاب الدعواۃ تھے۔ وہ عجز و زاری کے ساتھ اس سراپا بزرگوار (شخصیت) کی خدمت میں پہنچا اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنا مقصد و مدعا عرض کیا۔ جناب حضرت سید نے اس سے احکام شریعت کے اجرا اور رفض و بدعت کے آثار منانے کا عہد و قرار لے کر اسے اس مدعا کے حصول کی بشارت دی۔ اس کا مقصد پورا ہونے کے بعد، اس کی التماس پر وہ خود بھی کشمیر تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک آثار خلاف نمایاں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک تیر نشانے پر رکھ کر ہوا میں چھوڑا۔ اسی لمحے اس جھوٹے غدار نے اپنی جان ہار دی اور اس کا ٹھکانہ تنگ و تاریک گور ٹھہری۔ اس کے بعد حضرت سید نے اس دیار میں سکونت اختیار کی۔ ایک بڑے آدمی نے خادمیوں کے لیے محلہ نرورہ میں ایک خانقاہ تعمیر کروائی، اور والی ملک نے درگاہ کے وظائف کی خاطر تین ہزار بور سے اناج کے مقرر کیے جو چند ہی روز میں مطبخمیں صرف ہو گئے۔ جب انہوں نے باطنی چستی میں کچھ تفاوت محسوس کیا تو اپنے اختیار سے مذکورہ مدد لینے سے انکار کر دیا۔ اس دور کے اکثر بزرگ، مثلاً حضرت مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ، وغیرہ سید کی خدمت میں صحبت اور معنوی فوائد سے بہرہ ور ہوئے۔ جب (حضرت سید) نے رحلت فرمائی تو حضرت شیخ بہاء الدین کے مزار میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کا مبارک مرقد فیض و فتوح کا مقام ہے۔ مولانا قاضی حبیب اللہ: سید تھے خود تو ران کے خطہ سے آئے، بظاہر خوارزمی ہیں۔ کشمیر میں انہوں نے سکونت اختیار کی۔ حسین خان چک کے زمانے میں اس شہر کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے۔ انہوں نے مفید تالیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ جن میں سے ایک عقائد نصریتہ ملک نصرۃ الدین چک ہے جو اہلسنت و جماعت کے اصول پر فروع پر ہے۔ فارسی زبان میں ایک جامع رسالہ تالیف کیا جس میں امامت اور خلافت پر بڑی تفصیلی بحث ہے۔ مولانا مذکورہ رسالے میں اپنا نسب ملک العلما ہروی سے جن کا نام مولانا محمد تھا ملاتے ہیں۔ دروازہ مسجد سے متصل سلطان زین العابدین کے مزار میں مدفون ہیں۔ ملا فیروز مفتی: چہ گنائی کے نام سے معروف اور بابا نونی گنائی معروف بہ ملا ایلچی کے فرزند ہیں۔ جوانی میں سفر کے دوران حرمین پہنچے۔ واپس کے بعد۔۔۔۔ تحصیل علوم کیا اور چالیس روز خضر علیہ السلام سے تفسیر و حدیث کا مقابلہ کیا۔ اکبر بادشاہ کا استاد مخدوم الملک ان کا شاگرد بنا۔ جب کشمیر لوٹے، جو ان کا اصل وطن تھا، تو یہاں مفتی اعظم کے عہدے سے سرفراز ہوئے۔ انہوں نے احکام شرع بڑی دیانت سے جاری کے۔ انہیں حضرت مخدوم شیخ حمزہ سے روحانی ارادت تھی اور (ان سے) باطنی تعلیم بھی حاصل کی۔ چنانچہ حضرت شیخ بابا داؤد خاکی ’’ درد المریدین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مولوی فیروز اس کی فیروزی تلقین (تلقین کی کامیابی) سے جلد ہی انتاج نور کی بدولت خوش بخت ذکر گیر بن گیا ہے۔ حسین شاہ کے عہد میں رافصیوں کے ہاتھوں شہادت سے فائز ہوئے۔ کوہ ماران کے دامن میں ملا شاہ کی مسجد سنگین کے صحن کے رہٹ کے نزدیک دفن ہیں۔ ستر برس عمر پائی۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی تاریخ شہادت کے قریب کہی۔ جناب حضرت شیخ یعقوب صرفی نے اس ضمن میں یہ تاریخ فرمائی۔ تاریخ: از پی تاریخ آن در دین وحید (1565/6-973) گفت: ’’شداز بہر دین ملا شہید‘‘ (1565-6/973) (دین میں اس بے مثال شخصیت کی تاریخ یہ بنی کہ : ملا دین کی خاطر شہید ہوا) ان کے ایک فرزند ملا عبدالوہاب ایک دانشمند اور صاحب تالیفات تھے۔ معما، فنون اور علوم عجیبہ میں انہوں نے کتب لکھیں اور توفی کے حاشیہ شرح مواقف اور شرح شمسیہ پر حواشی بھی لکھے۔ ملا الماس گنائی: ملا یوسف نام تھا۔ کسی سلطان نے انہیں الماس کا خطاب دیا۔ ملا فیروز کے شاگرد تھے۔ خضر سے کئی مرتبہ ان کی ملاقات ہوئی۔ بعض علمی مشکلات کی تحقیق کی۔ وہ مفتی تھے ملا فیروز کے ساتھ ایک ہی جگہ درجہ شہادت کو پہنچے دونوں بزرگوار شہادت کا واقعہ حسین شاہ کے حالات میں قضیہ یوسف سندو کے ذیل میں مرقوم ہو چکا ہے۔ ملا جوہر گنائی: اس شہر کے شرفا میں سے تھے۔ عمر کا زیادہ تر حصہ تحصیل علم میں صرف کیا۔ مدرسہ سلطان قلب الدین کے جو ندی مارا کے مشرقی کنارے پر واقع مسجد صراف کدل سے متصل ہے، مدرس کے شاگرد تھے۔ آخری عمر میں حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ حج اسلام ادا کرنے کے بعد مکہ معظمہ کے اکابر اور جید علماء محدثین سے حدیث کی سند اور اجازت حاصل کی۔وہیں مولانا علی قاری کی بھی صحبت انہیں میسر آئی، بلکہ حضرت شیخ ابن حجر مکی کی خدمت میں بھی پہنچے اور ان سے معصن کی سند کی اجازت حاصل کی۔ جب کشمیر لوٹے گوشہ خلوت اختیار کیا اور عبادت و عزلت میں مشغول ہو گئے۔ رزق حلال کے لیے پشم کا کام اختیار کیا، وقت بڑی قناعت میں گذارا اور توکل و انزووا کو درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ دینی علوم کا درس بھی دیتے رہے۔ وباے عام کے واقعے میں 1617/1026 میں رحلت فرمائی، اللہ تعالیٰ ان پر وسیع رحمت فرمائے۔ ان کی بعض بڑی اولاد صوری اور باطنی کمال سے بہرہ ور ہوئی۔ ان کا مرزا حضرت آکوند ملا حسین خباز کے مقبرے کی مشرقی جانب ’’ کمال بے تکلفی‘‘ سے واقع ہے۔ کنکی ریشی، میری ریشی اور شیخ ریشی: تینوں روپی ریشی کے مرید تھے (شیخ ریشی) کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ریاضت میں ان کا ثانی نہ تھا۔ اپنے دور میں بے نظیر تھے۔ مرشد کی وفات کے بعد جادہ شریعت اور سجادہ طریقت پر استقامت اختیار کئے رکھی۔ خوب جیے اور خوب گذر گئے۔ سادات پارسائیہ: ان کے چند اکابر نے اپنی تشریف آوری سے خطہ کشمیر کو مزین فرمایا۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سات بھائی تھے۔ اہل سیادت میں سے بعض سیادت کے قابل نہیں ہے۔ تاہم ان کے کمال و رع و تقویٰ کے بارے میں سبھی اس بات پر یکزبان ہیں۔ کوہ ماران کے زیر دامن جانب جنوب، حضرت مخدوم شیخ حمزہ کے قرب میں ایک ہی جگہ آسودہ خاک ہیں۔ ان کے مبارک نام اس تفصیل سے ہیں: حضرت محبوب عالم، مخدوم عرفا سلطان شیخ حمزہ کشمیری قدس سرہ: آنجناب کا وطن پر گنہ کا مراج کا موضع تجر ہے۔ صرف صلاح و راستی کے ذوق کی بنا پر شہر چلے آئے۔ صغر سنی ہی میں خدا پرستی اور سلوک راہ حقیقت کی آرزو ان میں پیدا ہوئی۔ شب و روز ایسی عبادت و ریاضت اور قسم قسم کے وظائف و طاعت میں بسر کیے جن کے بارے میں اپنے وقت کے صالحین سے سن رکھا تھا۔ اکثر تربیت انہوں نے غیب سے خواب و معاملہ میں پاتے رہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اویسی تھے۔ جب حضرت سید جمال الدین بخاری قدس سترہ، اس شہر میں پہنچے تو (حمزہ) غیبی اشارے پر ان کی خدمت میں پہنچے۔ آنجناب نے ان کو خاص عنایات و الطاف سے نوازا۔ چھ ماہ تک سلوک کے آداب، جیسے کہ درکار تھے، حاصل کیے اور عظیم بشارتوں سے مشرف ہوئے۔ تھوڑی ہی مدت میں خدا داد قوت استعداد اور محنت سے انہوں نے ساتوں اطوار طے فرما لیے۔ مرشد کی واپسی کے بعد آنحضرت (مرشد) کی اجازت پر ورع و تقویٰ اور ارشاد کی مسند پر پوری استقامت کے ساتھ بیٹھے۔ عجیب حالات اور بخیب کمالات کے مصدر ٹھہرے۔ اس کے باوجود ریاضت و تقویٰ میں اور عبادت شاقہ کی پابندی میں ثابت قدم رہے۔ اکثر آلتی پالتی مارے تمام رات سانس روک کر گذارتے، جس کی وجہ سے ان کا سارا مغز مبارک گداز ہو چکا تھا۔ اندرونی حرارت اور باطنی سوز و درد کے سبب انہیں کبھی آرام میسر نہ آیا۔ شب و روز آہ و نالہ میں بسر کرتے۔ طالبین کے مسائل کے حل، درماندہ لوگوں کی چارہ سازی، طی مکان، احاطہ زمین و زمان، خواراق عادت اور جذبات و تصرفات میں اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ عالموں کے عالم اور فخر اولیا شیخ بابا داؤد خاکی نے، جو آنجناب کے اکمل اصحاب میں سے ہیں، لکھا ہے کہ حضرت شیخ مخدوم مرتبہ ابدالیت کے مالک تھے۔ آخر تمام سلسلوں کے مطابق عمل فرمایا کرتے۔ سلسلہ یسویہ کے حضرات کی طرف ذکر جہر کیا کرتے۔ اہل کمال کے ان پیشوا کے تفصیلی حالات مذکورہ عالموں کے عالم (خاکی) کی کتاب درد المریدین کے علاوہ ان کے دیگر خلفا کی کتب میں مذکور ہیں۔ یہاں تبرک و تیمن کے طور پر ورد المریدین سے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں۔ نظم: 1 سیر کردہ عالم ملکوت و ہم جبروت را باز در لاہوت مرغ جان او اسیر شدہ است 2 ہوش در دم خلوت اندر انجمن ہم حال اوست او مربی ہم بہ خلوت ہم بصحبت در شدہ است 3 سالہا شد رخصت ارشاد و بیعت یافت لیک محترز از شیخی و بابائی لنگر شدہ است 4 ہر سحر گہ بود غسلے لازمش در سالہا قلب و روح سر او زین روی مظہر شدہ است 5 نسبت صحبت قوی اور ابعیسی شد ازان کو بعصمت ہمچو عیسی زادہ از مادر شدہ است 6 توبہ و زہد و توکل ہم قناعت، خلق خوش کردہ او در عزلت از تووفیق حق از کر شدہ است 7 در توجہ رونہادہ صبر شیر ینش شدہ در مراقب ثابت و اندر رضا اشکر شدہ است 8 بمچنین در واقعہ ہر لحظہ از فضل خدا صحبنش با اولیاے اعظم و او قرشدہ است 9 کسب کرداز ہریکی کیفیت ذکر و دعا در رموز رہبری زین روی دانشور شدہ است 10 چون شود نار تجلیات عشقش شعلہ کش از مزاح و خندہ تسکین بخش این آذر شدہ است 11 زو کرامات از قبیل کشف قلب و کشف قبر درمیان مخلصان ہر لحظہ مستظہر شدہ است 12 ہم کراماتش زنوع نشر وقت وطی حرف ہمدمان مخلصش را تجربہ اکثر شدہ است 13 از سماع چنگ ونی کارہ ز روی منع شرع گرچہ ذکر اللہ شنواز تار واز مر مرشدہ است 14 از دعامی مستجابش بہ شدہ بسیار کور خاصہ آن کورے کہ آن فتح اللہ کاچر شدہ است 15 نیست در محفل حقائق گفتش راخصتش از حقائق پر اگر چون لجہ از خر شدہ است 16 ظاہرش خندان ولی گریان دلش از ترس حق ہمچو برگ بید لر زندہ تر از صر صر شدہ است 17 محضر ارشد شہ (؟) باصاحبش منت نداشت گاہ اکل از حفظ حقش عقدہ بر حنجر شدہ است 18 ناگہی گر خوردہ شد می اختیار او بقی در زمان از معدہ پاکش بہ بیرون بر شدہ است 19 خوردنش زین واقعات اکثر بوقت مخمصہ شاہد قولم تنش بنگر کہ چون لاغر شدہ است 1ان کی روح کے پرندے نے عالم ملکوت اور عالم جبروت کی سیر کی، پھر عالم لاہوت میں آ کر بہت سیر کی۔ 2ان کا حال ایسا ہے کہ ان کے دم میں بھی ہوش ہے اور انجمن میں بھی خلوت کی کیفیت ہے، وہ خلوت میں بھی اور صحبت میں بھی مربی؟ ( کے طور پر) داخل ہوئے ہیں۔ 3 برسوں ہوئے انہیں ارشاد و بیعت کی اجازت ملی تھی لیکن وہ شیخ اور لنگر کے بابا بننے سے محترز ہی رہے ہیں۔ 4 وہ برسوں صبح غسل لازما کرتے رہے، اسی وجہ سے ان کا قلب اور روح ستر پاک رہے ہیں۔ 5 حضرت عیسیٰ سے ان کی نسبت صحبت اس لیے قوی ہے کہ وہ بھی عصمت کے لحاظ سے عیسیٰ علیہ کی مانند ماں کے شکم سے پیدا ہوئے۔ 6 توبہ و زہد، توکل، قناعت اور خوش خلقی جیسی صفات کے وہ مالک تھے۔ گوشہ تنہائی میں توفیق حق سے انہوں نے بہت ذکر کیا۔ 7 توجہ باطنی میں معروفیت کے باعث ان کا صبر شیریں ہو گیا۔ مراقبوں میں وہ ثابت قدم رہے اور رضا میں بہت زیادہ شکر کرنے والے تھے۔ 8 اسی طرح واقعہ خواب میں بھی، خدا کے فضل سے ہر لحظہ بڑے بڑے اور با وقار اولیاء سے ان کی صحبت رہی۔ 9انہوں نے ہر کسی سے ذکر و دعا کی کیفیت حاصل کی، اسی وجہ سے وہ رہبری کے رموز میں دانشور بنے۔ 10 جب ان کے عشق کی تجلیات کی آتش شعلہ کش ہوتی ہے تو وہ اس آتش کو مزاح اور ہنسی سے ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔ 11 ان کی کشف قلب اور کشف قبر ایسی کرامات ان کے مخلصین کے سامنے ہر لحظہ رہتی ہیں۔ 12 ان کی نشر وقت اور ’’ طی حرف‘‘ قسم کی کرامات کا بھی ان کے مخلص ہمدموں کو اکثر تجربہ ہوا ہے۔ 13 شرعی ممانعت کی وجہ سے انہیں چنگ دنے کے سماع سے کراہت تھی، اگرچہ ذکر خدا کا سننا تار اور ممر ہی سے ہو۔ 14 ان کی قبولیت کی حامل دعا سے بہت سے اندھے اچھے ہو گئے، خاص طور پر وہ اندھا جو فتح اللہ کا چرنامی تھا۔ 15 ان کی یہ خضلت نہیں کہ وہ محفل میں حقائق بیان کرتے پھریں، اگرچہ وہ اذخر (ایک گھاس) کے ڈھیر کی مانند حقائق سے پر کیوں نہ ہوں۔ 16 ان کا ظاہر تو ہنستا ہوا ہے لیکن ان کا دل خدا کے خوف سے روتا رہتا ہے ان کی حالت بید کے اس پتے کی صورت ہوتی ہے جو باد صر صر سے لرزتا رہتا ہے۔ 17 محضر اگر۔۔۔ (؟) تو اس کے مالک کا احسان نہیں اٹھاتے، کیونکہ کھانے کے وقت حفظ حق کی بنا پر ان کے گلے میں گرہ پڑ جاتی ہے۔ 18 اگر اچانک بے اختیاری میں کچھ کھا لیا گیا تو وہ اسی وقت ان کے پاک معدے سے باہر آ گیا ہے۔ 19ان کا اس طرح کا کھانا پینا اکثر مخمصمے کے موقع پر ہوا ہے۔ میری اس بات کا گواہ، تو دیکھ لے، ان کا جسم کس قدر لاغر ہو چکا ہے) حضرت مخدوم عرفا کے کرامت مثال وصال کی تاریخ حضرت شیخ داؤد کے ان اشعار سے نکلتی ہے: شیخ حمزہ مرشد والا گہر فوت شد دربست و چارم از صفر رفت اکمل یافت فضل کردگار عاقبت درنہ صد دہشتاد و چار (بلند مرتبہ مرشد شیخ حمزہ صفر کی 24 کو وفات پا گئے۔ وہ کمال پا کر گئے اور آخر984 (23اپریل1576ئ) میں فضل کاردگار سے بہرہ ور ہوئے) نیز: عقل گفت از موت مرشد آہ می باید کشید (عقل نے کہا مرشد کی موت پر آہ بھرنا چاہیے) 984 ان باکمال مرشد کی تاریخ وصال سے متعلق شیخ داؤد خاکی قدس سرہ کی یہ واردات بھی مشہور ہیں؟ تاریخ پی تاریخ سال وصل مخدوم مناسب یافتم ’’مخدوم مرحوم‘‘ (مخدوم کے سال وصل کی تاریخ کے لیے مجھے یہ الفاظ مناسب لگے ’’ مخدوم مرحوم‘‘ رافضیوں نے آنجاب سے کمال بغض و عداوت کی بنا پر اپنی عقل کے مطابق بے ادبانہ تاریخ نکالی تھی، جسے سینوں نے بدل کر ’’ شیخنا پاک‘‘ کے الفاظ سے درست کر لیا۔ چونکہ یہ تاریخ فضاحت سے خالی تھی اس لیے راقم حروف نے آنحضرت کے حالات تحریر کرتے وقت انہی الفاظ میں تصحیف کرتے ہوئے یہ تاریخ کہی:’’ شیخ پاکان‘‘ حضرت مخدوم کے خلفا اصحاب فضل و کمال ہیں، ان میں سے چند کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ حضرت سید اسماعیل شامی: عظیم الشان سادات میں سے تھے۔ حضرات قادریہ کے سلسلہ عالیہ میں میر سید محمد قاری کے مرید ہیں۔ انہوں نے روم، شام اور ہند کی بہت سیاحت کی۔ جب کشمیر وارد ہوئے تو شیخ العلما بابا داؤد خاکی سے آشنا ہوئے۔ دونوں باہم ایک دوسرے کی صحبت میں رہے اور دونوں ایک دوسرے سے مستفید و مستفیض ہوئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے سلسلوں کی اجازت دی۔ جناب حضرت سید ورع و تقویٰ والے تھے اور طالبوں کی گتھیاں ناخن فیض سے سلجھاتے تھے۔ توحید و تفرید میں عجب قدم رکھتے تھے۔ سالک کے دل میں وہ کبھی ہستی کا بل نہ رہنے دیتے۔ بڑے بے تکلف تھے۔ اپنے آپ کو فقر و فاقہ سے آراستہ رکھتے۔ 1584/992 میں انہوں نے کشمیر کو اپنے ورود سے مزین فرمایا۔ یہاں حضرت شیخ بابا داؤد سے کسی طالب کی درخواست کی۔ انہوں نے عارفوں کے پیشوا حضرت میر نازک کو جو مخلصین میں سے تھے ان کے سپرد کر دیا؟ اس کا ذکر آئندہ صفحات میں میر نازک کے احوال میں مفصل مرقوم ہو گا۔ حضرت سید کہ عالی سند تھے، کشمیر میں کچھ عرصہ بسر کر کے لوٹ گئے۔ حضرت سید میرک میسر: اگرچہ بظاہر اویس تھے تاہم دست ارادت نعمت اللہ عصاری کے دامن سے، جو سادات باکملات میں سے تھے، وابستہ کر رکھا تھا اور ان کی صحبت سے مستفید بھی ہوئے۔ حضرت میر سید شمس الدین اندرابی کے فرزند ارجمند ہیں، جو خود میر سید ابراہیم بن میر سید احمد بن سید محمد کے بیٹے تھے۔ صغر سنی ہی میں خضر علیہ السلام کے وعظ و نصیحت سے جو انہوں نے خواب میں کیا تھا، ہوش میں آ گئے اور اس راہ کے طالب ہوئے۔ کشمیر کے امرا کی ملازمت ترک کر دی اور غائبانہ سید نعمت اللہ سے مراسلوں کے ذریعے معنوی تعلق پیدا کر لیا۔ چالیس برس تک ’’ صائما لدہر اور تارک حیوانات‘‘ رہے۔ سید الاولین و آخرین کے ایما پر میر سید عبداللہ بن میر سید حسین قمی کی بیٹی سے نکاح پڑھوایا۔ تین بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہو گئیں۔ ان کی والدہ ماجدہ میر سید فضل اللہ کی دختر ہیں، جو (فضل اللہ) موضع ونتی پورہ میں مدفون حضرت بابا میرویسی کے بھائی سید السادات میر سید حسین بیہقی کے بیٹے ہیں۔ حضرت سید اپنی اولاد و احفاد سمیت محلہ نوبتہ میں مدفون ہیں۔ ان کی اولاد میں سے بعض کا ذکر اس کتاب میں کیا جائے گا۔ حضرت پیر کی دختر، شیخ بابا داؤد خاکی کے گھر تھیں۔ حضرت ہردی ریشی بابا: مشہور ہے کہ ان کا تعلق لوہاروں کے قبیلے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ شیخ العرفا المرتاضین حضرت شیخ نور الدین نے ان صاحب کمال کے ظہور کی خبر سو برس پہلے دے دی تھی۔ آنجناب کو صغر سنی ہی میں خدا پرستی کا ذوق میسر آ گیا۔ ریشیوں کے طریقے میں مشغول ہوئے۔ اویسی تھے، بظاہر کسی سے نسبت ظاہر نہیں کی۔ ہمیشہ روزہ رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے۔ ساری عمر یونہی بسر کی۔ چھوٹی عمر ہی میں مظہر کرامات تھے۔ کہتے ہیں کہ مہمانوں کی بہت خدمت کیا کرتے۔ ایک روز ان کے گھر میں کوئی مہمان وارد ہوا۔ ان کی والدہ نے کہا کہ ایک مچھلی آئی ہوئی تھی، وہ چیل لے اڑی۔ حضرت ہردی بابا ریشی بولے: اگر قدرت نے مچھلی ہمارے لیے بھیجی تھی تو چیل کو کیوں ادھر کا رستہ دیا گیا، اور اگر یہ چیل کا حق تھا تو ہمیں کیوں بھیجی گئی۔ اس عالم میں چیل ایک مچھلی پکڑ کے لے آئی اور پوری کی پوری سامنے رکھ دی۔ اس قسم کی بہت سی باتیں ان سے ظہور میں آئیں۔ فرمایا کرتے کہ میری کشائش زیادہ تر پاس انفاس کے ذکر سے ہوئی ہے۔ بلاشبہ اس میں وہ راسخ قدم تھے۔ آخر جناب حضرت مخدوم العرفا شیخ حمزہ کی صحبت میں پہنچے اور کلی فوائد سے بہرہ ور ہوئے۔ مشہور ہے کہ ایک عمر کے بعد انہوں نے حضرت مخدوم کے اشارے پر گوشت کھایا اور ترقی کی طرف بڑھے، بلکہ حضرت مخدوم کو وسیلے سے سلسلہ سہروردیہ میں بھی داخل ہوئے اور پیروں کا شجرہ حاصل کیا۔ الغرض عجائب روزگار میں سے اور پروردگار کے فیوض کے نزول کی منزل تھے۔ ان یگانہ فرید سے بہت سے اسرار معرفت اور انوار توحید ظاہر ہوئے، نزی انبیائے عظام کی روحانیت سے بہت بامراد ہوئے۔ بہت بڑے صاحب و رع عالم حضرت شیخ بابا داؤد خاکی نے اپنی تصانیف میں ان کے کمالات و حکایات اور واردات سے متعلق بہت کچھ نظم و نثر کی صورت میں لکھا ہے جب فوت ہوئے تو قصبہ اسلام آباد میں مدفن میسر آیا۔ بابا داؤد نے ان کی عمر اور روز وفات کی تاریخ یوں فرمائی ہے۔ تاریخ: شیخ دین بود اندرین کشمیر اندر عہد خویش بہر فوتش ’’شیخ دین بود‘‘ آمدہ تاریخ سال اولین روزی مہ ذیقعدہ این سال بود ذکر گویان نیم شب رفتہ بوصل ذوالجلال بود باہفتاد سالش ہفت سال و چند ماہ سالہا می عمر او راگر شماری با ہلال (اس کشمیر میں وہ اپنے عہد کے شیخ دین تھے۔ ان کی وفات کی تاریخ کا سال ’’ شیخ دن بود‘‘ (1578/986) تھا۔ اس سال کے ماہ ذیقعدہ کی پہلی تاریخ تھی جب وہ ذکر کرتے ہوئے آدھی رات کے وقت خدائے ذوالجلال سے وصال کے لیے روانہ ہو گئے۔ اگر تو ان کی عمر کا حساب چاند سے کرے تو ان کی عمر ستتر برس (77) اور چند ماہ تھی۔ ان کا سراپا انوار مزار فیض و فتوحات کا مقام ہے۔ شیخ نور وز ریشی: سلطان وقت کے ملازموں میں سے اور قہر و شدت اور درشتی طبع کے باعث بدنام تھے۔ سلطان زور طلب مقامات پر انہیں مقرر کرتا۔ ایک روز سیر و شکار کے دوران میں ان کا گذر اس جنگل میں سے ہوا جہاں حضرت شیخ نیک ریشی کی سکونت تھی۔ اپنے ہمراہیوں کو دور چھوڑ کر خود ایک نا معلوم سی جگہ میں چھپ گئے، جہاں سے انہوں نے دیکھا کہ شیخ نے جنگلی جانوروں کے لئے دسترخوان بچھا رکھا ہے۔ اتفاق سے ایک ریچھ نے ایک گیڈر کے حصے پر قبضہ جما لیا۔ شیخ نیک ریشی نے ریچھ سے کہا’’ بظاہر تجھ پر ظالم نو روز کے یہاں سے گذرنے کا اثر ہو گیا ہے جو تو گیڈر پر دست درازی کر رہا ہے‘‘ شیخ نو روز نے یہ سنا تو لباس پھاڑ کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور یوں جذبہ الٰہی سے بہرہ ور ہوئے اور ترک کل اختیار کیا۔ شیخ (نیک ریشی) نے تمام رات ترک عادت سے متعلق کاموں سے ان کی آزمائش کی اور آخر شب باطنی تعلیم شروع کی۔ چند روز انہوں نے ان کے احوال کی تربیت فرمائی۔ انہیں اپنا قائم مقام کر کے وہ جلد وفات پا گئے۔ شیخ نو روز نے ایک مدت تک مرشد کی جگہ پر عمر بسر کی۔ جب حضرت مخدوم شیخ حمزہ کے ظہور کا آوازہ ان کے کانوں تک پہنچا تو مسند شیخ سے دست بردار ہو کر بقایا سلوک کے حصول کی خاطر حضرت مخدوم کی بارگاہ میں پہنچے اور خدمت واردات کا پالان اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ تھوڑی ہی مدت میں اپنے ہم عصروں میں انہیں برتری حاصل ہو گئی اور وہ حالات عجیب اور مقامات نجیب کے مالک بن گئے۔ بلا شبہ یہ بجا ہے کہ آنانکہ خاک رابنظر کیمیا کنند (وہ جو اپنی نظر سے خاک کو کیمیا بنا دیتے ہیں) مولانا خواجہ شمس الدین پال: زمانے کے عالموں کے عالم اور فضلائے شہر کے مرجع تھے۔ میرزا حیدر کے دور میں اپنی حق گوئی کے سبب علما میں صاحب امتیاز تھے۔ مرزا کے علما سے انہوں نے بحثیں کیں اور غالب آئے۔ خواجہ داؤد طوسیٰ کی جو شاگرد تھا، رہنمائی میں حضرت مخدوم کی خدمت میں پہنچے اور پہلی ہی صحبت، اس اندیشے کی بنا پر کارگر ہوئی جو آنجناب کے بستر اور لباس سے ان کے دل میں پیدا ہوا۔ توبہ پر مائل ہوئے اور اس پر استقامت اختیار کی! یوں واقف سلوک ہوئے۔ مرزا کی شہادت کے بعد ان میں یارانہ رہا اور انہوں نے حرمین کی راہ لی اور وہیں رحلت کر گئے اور وہیں دفن ہو گئے۔ حضرت مخدوم شیخ احمد قاری: محرم سبحانی شیخ عباس ملتانی کے واحد بیٹے ہیں، جو (عباس) سلسلہ سہروردیہ کے مشاہیر پیروں میں سے ہیں۔ اپنے آبائے کرام کے وسیلے سے انہوں نے اپنی نسبت شیخ اجل شیخ بہاء الدین ذکریاؓ سے ملائی ہے۔ مخدوم احمد بہت سیر و سیاحت کر کے حرمین پہنچے۔ حج سے فارغ ہو کر ولایت (ایران) کے راستے سے آئے اور لاہور میں جناب شیخ محمد سے قرات کی تعلیم حاصل کی۔ شیخ محمد اکثر علوم سے آگاہ اور سلسلہ قادریہ میں پیران راہ میں سے تھے اور لاہور کی جانب عنان عزیمت موڑی تھی ۔ خوراک اور لباس کے معاملے میں بے تکلفی سے کام لیتے تھے۔ لوگوں سے کم میل ملاپ کے باوجود طالبوں کو وقت پر فیض قرات پہنچاتے۔ جب جناب شیخ بابا داؤد، ملتان کی خانقاہوں کی زیارت کے لیے لاہور پہنچے تو مخدوم سے ملاقات پر مسرور ہوئے اور انہیں کشمیر کی طرف توجہ کرنے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ وہ وہاں اس موقع پر پہنچے جب غازی خان اپنے بعض مخالفوں کے ساتھ بر سر پیکار تھا، جو ہندوستان سے آ کر اس کے معاملات میں مداخلت کر رہے تھے۔ اس (غازی) نے مخدوم احمد سے توجہ اور مدد کی بھیک مانگی۔ ان کی دعا کا تیر قبولیت کے نشانے پر بیٹھا اور غازی خان فتح مند و منصور لوٹا۔ مخدوم نے اس کی نذر و نیاز اور ضیافت قبول نہ کی اور کہا کہ میں تمہارے شہر کے آب دوانہ ہی پر اکتفا کیے ہوئے ہوں اور اس قسم کے تکلفات سے معذوری کی بنا پر کسی دوسرے شہر کا رخ کر لوں گا۔ مخدوم کے حالات و برکات کے عجائب و غرائب بہت ہیں۔ پروردگار کے آثار (یعنی نشانیوں) کے مظہر تھے۔ جب رحلت فرمائی تو محلہ قطب الدین پورہ کے اس مقبرے میں جو آج کل ’’ مقام مخدومان‘‘ کے نام سے معروف ہے، آسودہ خاک ہوئے۔ ان دنوں بیگم کی مسجد سنگین جو نئی مسجد کے نام سے مشہور ہے، اس مقبرے سے متصل واقع ہے۔ ان کے بیٹے صاحب کمال تھے۔ ان میں سے بعض کا ذکر اپنی جگہ پر مرقوم ہو گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت شیخ بابا داود خاکی قدس سرہ: آنجناب کشمیر کے شرفا میں سے تھے علم ظاہر کمال تک حاصل کیا۔ جذبہ الٰہی کی بنا پر حضرت مخدوم عرفا کی خدمت میں فائز ہوئے اور خدمت و فدویت کا حق ادا کر دیا۔ فنانی الشیخ کے رابطے، ترک رسوم و عادات اور رفع ننگ و ناموس کو حد کمال تک پہنچا دیا۔ صاحب تصانیف عالیہ ہیں، جیسے: ورد المریدین، اور ستور السالکین کے نام سے اس کی شرح، قصیدہ جلالیہ اور رسالہ غسلیہ وغیرہ۔ نسبت ازدواج حضرت سید السادات سید میرک قدس سرہ کی جو اس دیار کے مسلم الثبوت سادات میں سے ہیں۔ باعفت دختر کے ساتھ میسر آئی۔ ان سے اولاد ہوئی پیر بزرگوار کے محرم اسرار تھے۔ دیگر مشائخ کے ساتھ بھی انہوں نے صحبت رکھی، مثلاً سید السادات میر سید احمد کرمانی، مولانا شیخ احمد مخدوم قاری، اور میر سید اسماعیل شامی، جن سے اجازت اور قادریہ خرقہ ملا، اسی طرح سند و خرقہ سہروردیہ، شیخ سے حاصل کیا۔ اپنے وقت میں بے نظیر صاحب علم و عمل تھے۔ انہوں نے امر معروف اور نہی و منکر بہت فرمایا، اور اکثر اس خاطر حرکت میں رہے۔ اپنے پیروں کی زیارت کے لیے کئی مرتبہ ملتان گئے اور وہاں زیارت گذشتگان کے بعد اسی جگہ کے احبا سے کسب فیض باطنی اور طریقیہ و خرقہ حاصل کر کے کشمیر لوٹ آئے۔ جب قاضی موسی، اہل تشیع کے ہاتھوں شہید ہو گئے تو بابا پھر ہندوستان چلے گئے۔ اور چکوں کے حق میں انہوں نے بد دعا کی اور لوگوں کو ان (چکوں) کی جڑ بنیاد اکھڑنے کی خوش خبری دی۔ بعد میں اکبر بادشاہ کے لشکر کے ہمراہ کشمیر مراجعت کی۔ راستے ہی میں تھے کہ فرض نے آ لیا چنانچہ اس سال کشمیر پہنچ کر رحلت کر گئے۔ ’’ بر در خیر مقدم‘‘ تاریخ رحلت ہے۔ ان کا مقبرہ پہلے اسلام آباد میں مقرر ہوا تھا، بعد میں صاحبان اخلاص نے شہر لا کر ان کے مرشد کے احاطہ قبرستان میں دفن کر دیا۔ فیض و برکات کے سرچشمہ تھے۔ راقم حروف کو اس کتاب کی تالیف کے زمانے میں حضرت بابا داؤد کے خط شریف میں مرقوم چند ورق ہاتھ لگے۔ چونکہ ان کا تحریر کرنا حسب حال ہے، اس لیے اس کتاب میں وہ نقل کیے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: یہ ایک ذکر ہے، مشتمل اس بات پر کہ 1585/993 میں سلطان محمد یوسف کی سلطنت کے مبارک دور میں اللہ تعالیٰ اسے بہت مبارک کرے، شہر کشمیر کے اللہ اسے آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے، قریہ وارہ پورہ میں صبح طلوع ہونے کے وقت ایک صالح مومن نماز کی تیاری کی خاطر وضو کرنے کے لیے ندی کنارے گیا ہوا تھا۔ وہاں اس نے ایک با وقار لباس والے معزز شخص کو دیکھا، جس نے ایک پاؤں پتھر پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا پاؤں پانی میں۔ بعد میں اس نے پہلا پاؤں بھی پانی پر رکھا اور چند قدم آگے چلا اور اس ناظر کی نظر سے غائب ہو گیا۔ اس دیکھنے والے نے یہ خیال کیا کہ وہ شخص شاید یہاں کسی کے ہاں مہمان آیا ہوا اور نماز کے لیے اس آبادی کی مسجد میں گیا ہو؟ میں بھی مسجد میں جاتا ہوں تاکہ اس کے ساتھ با جماعت نما زپڑھوں۔ جب وہ مسجد پہنچا تو وہ شخص اسے نظر نہ آیا، چنانچہ اس نے تنہا نماز ادا کی اور پھر اس جگہ چلا آیا جہاں اس نے اسے دیکھا تھا۔ وہاں اس نے کھوج لگایا تو دیکھا کہ جس پتھر پر اس عزیز کا قدم تھا وہ معطر ہو گیا ہے اور قدم کا نشان اس پتھر کے نیچے تک چلا گیا ہے۔ بعد اذاں اس نے اہل قریہ کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ سب لوگوں نے اس قدم گاہ کی خوشبو کو سونگھا اور قدم کا نشان دیکھا، اور آج بھی وہ نشان نمایاں ہے۔ دو صاحبان واقعہ (خواب) نے جن کے خوابوں کی سچائی اکثر تجربے میں آ چکی تھی، استخارہ کیا، یہ جاننے کے لیے کہ یہ قدم بزرگوار کن صاحب کا ہے۔ انہیں بشاورت ملی کہ وہ معزز ہستی حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تھی، جو اپنی قوت اعجاز سے روح اور بدن سمیت اس ملک میں سیر کی خاطر تشریف لائے تھے اور پتھر کا خوشبودار اور نشان زدہ ہونا حضور کے معجزے سے ہے۔ چنانچہ علمائے حدیث کو روایت ملی کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی وفات کے بعد آج بھی جسم اور روح کے ساتھ سیر کرنے کی قوت تصرف رکھتے ہیں۔ جسد و روح کے ساتھ زمین و آسمان کے جن حصوں میں بھی چاہتے ہیں سیر کر لیتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ یہاں تک حضرت بابا کی تحریر ہے جو ان کے خط شریف اور عبارت سے بعینہ نقل کی گئی ہے۔ راقم سطور محمد اعظم کہتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں کہ اس دور میں ظہور نبویؐ محض اس ملک کے امور کی اصلاح کی خاطر ہو جو چکوں کے تسلط کے سبب خرابی کو پہنچ چکے تھے۔ اس روداد کا قرینہ یہ ہے کہ اتفاق سے اسی سال سلطنت میں تبدیلی آئی اور وہ چکوں سے دوسروں کو منتقل ہو گئی۔ واللہ اعلم ٭٭٭ راست کردار و راست گفتار محی البلاد (شہروں کو زندہ کرنے والا) حضرت شیخ بابا والی: آنحضرت کا تعلق خراسان سے ہے۔ حضرت مخدوم اعلم (بہت بڑا عالم) شیخ حسین خوارزمی کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ تکمیل خلافت جناب شیخ محمد شریف حسین سے حاصل کی۔ عالی کمالات کے مظہر ٹھہرے۔ شیخ خلیل اللہ بدخشانی کی ہمراہی میں کئی اسلامی جنگیں لڑیں۔ 1590-1/999 میں کشمیر کو اپنے ورود سے آراستہ کیا اور خانقاہ معلیٰ میں سکونت فرمائی۔ یہاں کے خاص و عام کے مرجع ٹھہرے۔ کمال کا استغراق تھا، حتیٰ کہ اوقات نماز میں بلکہ اس کے ارکان میں بھی کسی دوسرے کی تحریک پر خبردار ہوتے۔ مرزا یادگار کے ہنگامے میں جب اہل کشمیر اور اکبر بادشاہ کے آدمیوں میں نفاق کے باعث فتنہ عظیم اٹھ کھڑا ہوا تھا، انہوں نے توجہ فرما کر جھگڑا چکا دیا۔ اسی قیضے میں دین و دولت کے مخالفوں نے شیخ کو زہریلا شربت پلا کر شہید کر دیا۔ یہ واقعہ صفر کی 15 تاریخ کو1592/1001میں پیش آیا۔ ’’ شیخ کامل‘‘ (1001) تاریخ واقعہ ہے۔ آنحضرت کے زمانہ ارشاد میں اکثر اکابر ان کی خدمت سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ہیں: جناب سراج الملت، موید الدین الرضی ہمارے شیخ اور ہمارے امام حضرت خواجہ محمد الباقی قدس سرہ، جنہوں نے اس عہد میں کشمیر کو اپنے درود سے مزین فرمایا۔ انہوں نے دو سال تک شیخ محدوح کی خدمت سے فیض صحبت کا اکتساب کیا۔ آنحضرت کا غلبہ استغرفاق طالبوں کے لیے استفادے کا باعث بنا۔ بہرحال شیخ خانقاہ علیہ امیریہ کے صحن کے فائض الانوار مزار میں آسودۂ خاک ہیں۔ اپنے وقت کے اکمل اولیا میں سے تھے۔ ایک بادشاہ نے آزمائش کی خاطر کسی زندہ آدمی کو مردے کے تابوت میں لٹا کر شیخ کو اس کا جنازہ پڑھنے کی زحمت دی۔ حضرت شیخ نے بار بار اور بتاکید جنازہ پڑھانے کی اجازت چاہی۔ پھر چار تکبیریں پڑھیں۔ اس زندہ شخص کو مردے کی صورت میں باہر نکالا گیا۔ یہ واقعہ خاص و عام کی زبان پر مشہور ہے۔ حضرت شیخ یعقوب صرفی: شیخ حسن گنائی عاصمی کے فرزند ہیں جو اکابر کشمیر میں سے تھے۔ 1522/928میں مبارک وجود میں آئے۔ چھوٹی عمر ہی سے ان کی فطانت، تیز فہمی اور بزرگی کے آثار ظاہر تھے۔ سات برس کی عمر میں حفظ قرآن کیا۔ حضرت مولانا جامی کے شاگرد مولانا محمد آنی کی خدمت سے استفادہ علوم کیا۔ا ستاد نے انہیں جامی ثانی کے خطابت سے نوازا۔ اس کے بعد مولانا الخریر (عالم) حضرت اخوند ملا بصیر کی جناب میں جو اپنے وقت کے عرفا اور علما میں سے تھے اور ان کا ذکر گذر چکا ہے، کسب علوم فرمایا۔ جاذبہ الٰہی سے، جس میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی روح مبارک کئی بار جلوہ گر ہوئی، ذوق خدا پرستی بہم پہنچایا۔ خانقاہ معلی میں متحیر تھے تو آنحضرت ؐ سے بشارت اور امر حاصل کیا۔ بہت بڑے عالم حضرت مخدوم شیخ حسین خوارزمی کی خدمت میسر آئی۔ بعد میں عازم ایران ہوئے۔ اس سلسلے میں والدین اور استاد کی شدید ممانعت نے کوئی اثر نہ کیا، بلکہ وہ بھی خواب میں جناب علی ثانی کی طرف سے مامور ہوئے صرفی بانہال کے راستے سے چار ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہو گئے۔ راستے میں ان کے ساتھیوں پر ان کے بہت سے عجائب و غرائب ظاہر ہوئے۔ جب سمرقند پہنچے، جو حضرت مخدوم کا وطن تھا تو آنجناب کے دروازے کے باہر بیٹھ گئے اور اندر جانے کی سعادت حاصل نہ کی۔ آنحضرت نے انہیں اس طرف سے بلا لیا اور نوازشات فرمائیں۔ سات خلفا، جو سات دروازوں پر متعین تھے، حاضر ہو گئے۔ دستور یہ تھا کہ طالبوں کو ان میں سے کسی ایک کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔ حضرت مخدوم نے فرمایا کہ اس جوان کا معاملہ الگ ہے، اس کی تربیت ہم خود کریں گے۔ وہ باطنی تعلیم کے بعد فرماتے کہ جنگل سے ایندھن لایا جائے۔ اسی اثنا میں شدید سردی کے دنوں میں چالیس روزہ خلوت کی روداد ہوئی۔ چلہ کشوں کا آب خانہ صاف کرتے رہے۔ کچھ عرصہ خدمت حضور میں رہ کر مجاہدے اور خدمت کا حق ادا کر دیا۔ والدین کی فرقت کے احساس کے پیش نظر رشد و ہدایت کی اجازت لے کر کشمیر روانہ ہو گئے۔ کشمیر پہنچتے ہی آنجناب پر ارشاد اور تصرف خداداد کے در کھل گئے۔ فوج فوج سالکین اور جوق جوق طالبین نے استفادے کی خاطر ان سے رجوع کیا۔ ایک دنیا جذبہ و سلوک میں ان کی خدمت و صحبت سے مستفید ہوئی۔ ایک مدت کے بعد آنحضرت پر مرشد آفاق کی خدمت کے حصول کے لیے سودا نے پھر غلبہ کیا۔ چنانچہ ہریم ملازمت کے احرام کا انہوںنے ارادہ باندھا۔ حضرت مخدوم کی حرمین کی طرف روانگی کی خبر سن کر انہوں نے کوچ کو غنیمت جانا اور خراسان کے راستے سے ہر دو کعبہ کی زیارت کے حصوں کے لیے چل پڑے۔ راستے میں اس عہد کے ابرار کی صحبت سے بڑی فتوحات حاصل کیں۔ مثلاً شیخ علی اوہی کی وساطت سے جو دو واسطوں سے شیخ ابوسعید تک پہنچتے ہیں شیخ ابوسعید معمر حبشی کا مصافحہ مشہد مقدس رضویہ کی زیارت‘ شاہ طماسب (طمہاس؟)صفوی کو نصیحت کے نتیجے میں جو اس کی ان سے ملاقات کے دوران انہوں نے اسے فرمائی ایرانی رافصیوں کے ہاتھوں سینوں کے قتل اور سب و شتم کا ختم ہونا‘ دوسری کرامات کا ظہور حرمین میں زبدے المحدیشن شیخ ابن حجر وغیرہ کی خدمت سے روایات مختلفہ میں احادیث کی سند کا حصول‘ بغداد میں آنحضرت امام الامت ابو حنیفہ کوفی سے جبہ مبارک پانا شیخ المشائخ سلیم چشتی کی صحبت اور ان سے ان کے طریقے کی اجاز ت اور دیگر عطیات جن کی تفصیل کتاب ’’ثمرات الاشجار‘‘ میں ہے اور اسی قسم کی ہزاروں خدائی رحمتوں اور مکرمتوں کے ساتھ کشمیر پہنچے۔ اس وقت یہاں کے حاکموں کی شورش کے سبب جنہوںنے مذہبی بگاڑ اورفساد سے ملک و سلطنت کو برباد کر کے رکھ دیا تھا کشمیر آفات و حوادث کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ حضرت ایشان نے اس طرف متوجہ ہو کر ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی کوشش مدد کی اور ملک اکبر بادشاہ کے آدمیوں کے سپرد فرما دیا۔ اور یعقوب خان چک ‘ جو اپنی سنگدلی کی وجہ سے غیر شرعی امور کا باعث بنا تھا‘ سزا پا گیا۔ آنحضرت نے اصلاح شہر کے سلسلے میں اطمینان کے بعد اپنے حفظ دل کے لیے پھر حرمین کا سفر اختیار فرمایا ۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد واپس آ گئے۔ تفسیر و حدیث اور فقہ کی جو کتابیں اس شہر میں نہ تھیں‘ وہ وہاں سے لیتے آئے۔ لوگوں کو مستفیض فرماتے ہوئے 1003/1595میں 12 ذیقعد (آخر اگست) جمعرات کی نماز عشا کے بعد رحلت فرما گئے۔ شیخ امم بود (1003)تاریخ وفات ہے۔ اس کے علاوہ ’’شیخ اہل مجد‘‘ ’’شیخ اوحد دین‘‘ ’’شیخ الباطن‘‘ ’’شیخ بکمال‘‘ اور ’’شیخ جمیل ‘‘ بھی تاریخاے وفات ہیں۔ آنحضرت کی تمام علوم میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں: تفسیر قرآن جو ان کے وسیع تبحر ار وسعت غور و فکر اور باریک بننی پر دال ہے۔ لیکن وہ اسے مکمل نہ کر پائے مسلک الاخیار‘ وامق و عذرا‘ لیلیٰ و مجنون‘‘ مغاذی النبوت اور مقامات مرشد‘ یہ پانچوں کتابیں حضرت مولانا عبدالرحمن جامی کے خمسہ کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ نیز مناسک حج‘ شرح صحیح بخاری قرآن کے آخری دو پاروں کی تفسیر توضیح اور تلویح کا حاشیہ ‘ روائح‘ شرح رباعیات اور رسالہ اذکار۔ آنجناب کے خلفا کی تعداد بہت ہے‘ جن کا ذکر اپنی جگہ پر ہو گا۔ حضرت خواجہ طاہر رفیق سہروردی اشائی قبیلہ کے سوداگروں میں سے تھے۔ تجارت کے پردہ میں خدا پرستی اورزہد و تقویٰ کی کوشش کرتے۔ ان کی شہرت کا باعث یہ واقعہ بنا کہ اتفاق سے ان کے والد خواجہ ابراہیم تجارت کے سلسلے میں لاہور گئے ہوئے تھے۔ وہاں انہوںنے کثیراسرور مطلع نور حضرت شیخ عبدالشکور کی جو حضڑت قطب الاولیاء شیخ بہاء الدین ذکریا کی اولاد میں سے تھے‘ خدمت میں پہنچ کر خاص عنایات مشاہدہ کیں۔ انہوںنے اپنے بعض بیمار فرزندوں کی صحت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ جناب شیخ نے شفا کی دعا کی اور خواجہ ابراہیم کے کہے چاہے بغیر خواجہ ابراہیم طاہر رفیق کو قبول فرما لیا ارو انہیں اپنے الطاف و عنایات کا مورد ٹھہرایا۔ نیز احکام طریقت آداب خلوت اور ان کے لیے بیعت کی اجازت پر مشتمل ایک خط ان (والد) کے حوالے سے کیا اور یہ طے پایا کہ وہ (عبدالشکور) ان (طاہر) کی مہم میں حاضر ہوں گے‘ قبل من قبل بلاعلت (قبول کر لیا کہ جس نے قبول کر لیا بغیر سبب کے) یہ خبر سن کر خواجہ بزرگوار نے بزازی کی دکان نہ چھوڑی اور رزق حلال کے حصول کے لیے حسب معمول بازار جاتے رہے۔ پھر حضرت خضر کے اشارے پر جنہوںنے انہیں حدیث شر البقاع اسواقھا (سب سے بری جگہیں اس کے بازار میں) یاد دلائی۔ انہوںنے دوکانداری چھوڑ دی اور زراعت اختیار کی۔ فقراکو نذر و نیاز دیتے رہے اور ریاضت کی بدولت کمالات اور عالی مقامات کی طرف بڑھے۔ عجائب روزگار میں سے تھے۔ فرشتوں ایسے اخلاق و اوضاع کے مالک تھے۔ جب رحلت فرما گئے تو اپنے پیچھے نمایاں اور قابل قدر خلفا اور فرزند چھوڑ گئے۔ ان میں سے چند کا ذکر کیا جائے گا۔ محلہ فتکدل میں آسودہ ہیں۔ مولانا دائود طوسی اپنے وقت کے شرما میں سے تھے۔ مولانا شمس الدین پال کی خدمت میں ظاہری علوم حاصل کیے۔ ازلی سعادت کی بنا پر حضرت مخدوم حمزہ کے خادموں کی فہرست میں شامل ہونے کی توفیق پائی اور سلوک کی منزلیں طے کرنے میں لگے ہیں اور آنجناب کے مقبولین میں شمار ہوئے۔ وہ کئی لوگوں کی ہدایت کا باعث اور وسیلہ بنے۔ اور اپنے استاد کی بھی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں جناب شیخ تک پہنچایا۔ ایک مدت تک ظاہری اور باطنی فائدہ پہنچانے میں مشغول رہے۔ حضرت میر سید مسافر حضرت میر احمد کرمانی کے فرزند ارجمند ہیں۔ نمایاں اور آراستہ مقامات و حالات کے مالک اور شرع تقویٰ میں اپنے والد ماجد کے قدم بہ قدم چلے۔ بظاہر اپنے والد بزرگوار ہی کے مقبرے کے ایک حصے میںآسودہ ہیں۔ سید جلال الدین (یا جمال الدین) حضرت سید احمد کرمانی کے خلفا میں سے ہیں۔ تصوف میں عجب قدرت کے مالک اور سلسلے کی ترویج کرنے والے تھے۔ وفات کے بعد حظیرہ علیہ میں آسودہ ہوئے۔ حضرت سید محمد عین پوش چکوں کے عہد کے اواخر میں انہوںنے کشمیر کو اپنے ورود سے مزین کیا چونکہ انہوں نے اغیار کی طرف دیکھنے سے اپنی ظاہر و باطن کی آنکھیں بند کر لی تھیں اور کسی بیگانے کی طرف قطعاً نہیں دیکھتے تھے اس لیے ’’عین پوش‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ کرامات عالیہ اور حالات سامیہ (بلند) ترک و خلوت نشینی میں انہوںنے زندگی بسر کی۔ ان کا مقبرہ شریفہ محلہ حول میں زیارت و تبرک کے لیے مشہور ہے۔ بابا مسعود سہروردی حضرت سید محمد کرمانی کے خلیفہ ہیں ۔ اس شہر کے اغنیا میں سے تھے۔ جاذبہ الٰہی کے باعث ان کے دل میں بہت زیادہ ذوق سلوک پید ا ہوا۔ شمس عراقی کو دیکھنے کی خاطر شہر سے نکلے۔ وہ (شمس) ابھی درویش لباس میں تھے۔ اپنے آپ کو بابا اسمعیل کے منسوبین میں سے جانتے تھے۔ اپنا مذہب تشیع لوگوں سے مخفی رکھ رہے تھے۔ راستے میں ایک آدمی سے ان (مسعود) کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ اصل معامے سے آگاہ ہوا‘ اس نے جدبیل جانے سے انہیں روکا اور حضڑت میر سید احمد کرمانی کی خدمت میں جانے کا مشورہ دیا جو محلہ بلبل نگر میں نزول فرمائے ہوئے تھے۔ ان کی خدمت میں پہنچتے ہی انہوں نے استخارہ کیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ سرور دینؐ و دنیا ایک کشتی میں جا رہے ہیں اور سہروردیہ مشائخ عظام اپنی گردنوں میں رسیاں ڈالے کشتی کھینچ رہے ہیں۔ اور وہ بھی مرشد کے حکم پر اپنی گردن میں رسی ڈالے کھے رہے ہیں۔ جب انہوںنے سید مرشد کو یہ خواب سنایا تو انہوںنے فرمایا کہ الحمد للہ تیری گردن میں رشد و ہدایت کی حبل متین (مضبوط رسی) ڈال دی گئی ہے۔ چنانچہ اسی روز انہوںنے مال و متاع سے ہاتھ اٹھا لیا اور راہ باطنی میں مشغول ہو گئے اور اس سلسلے میں اس حد تک پابندی کی کہ تھوڑی ہی مدت میں دنیا کے لیے باعث رشک بن گئے ان دنوں اس شہر میں رفض و تشیع رواج پذیر تھا۔ باباکی رہنمائی سے اکثر لوگ اس سے تائب ہو گئے اور بیٹھنے کا ااعادہ کرنے لگے۔ غرض انہوںنے دل وجان سے حضرت سید کی خدمت و ؤجانفشانی کی۔ بہرحال ارشاد کی اجازت نہیں انہیں حضرت میر سید مسافر مخدوم زادہ سے ملی اور خلیفوں کے خلیفہ سید جلال الدین کی صحبت میں بہت آمد و شد رکھی۔ دیگر بزرگوں مثلاً حضرت مخدوم شیخ حمزہ اور شیخ احمد قاری وغیرہ ہم سے بھی بہت ملاقاتیں کیں۔ حضرت مخدوم حمزہ اکثر ان کا ذکر خیر کرتے اور ان کی علو استداد کی خبر دیتے رہے۔ بابا مسعود نے نکاح کی سنت ادا کی جس سے صالح فرزند پیدا ہوئے جو سبھی اصحاب باطن تھے۔ ان کے خلفا بھی نمایاں مقام کے حامل تھے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ خواجہ ابراہیم کول ملارتی بے مثال دانشمند وںمیں سے تھے۔ ملا باقر نارہ للو ان کے شاگرد تھے۔ حضرت قدوے الواصلین سلطان مخدوم شیخ حمزہ کے مریدوںمیں سے تھے۔ ہر شے سے منہ موڑ کر عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ ٭٭٭ چند مجذوبوں کا ذکر جو اس دور میں منصہ عالم پر جلوہ فرما ے اسرار تھے غیبی شاہ اپنے وقت کے مجذوبوں میں سے تھے۔ بہت سے کشف کونیہ کے مالک تھے۔ گویا وہ ایک بے زنگ آئینہ تھے۔ حضرت مخدوم کے زمانے میں ظہور پذیر ہوئے ۔ بابا دائو د خاکی ایسے حضرات ان کی خدمت میں جایا کرتے تھے اور تحقیق اسرار فرمایا کرتے۔ 981/4-1573میں رحلت فرمائی۔ اپنے جانے(وفات) سے پہلے ہی اس کی خبر دے دی۔ اسلام آباد (جو کشمیر کے نواح میں ایک قصبہ ہے) میں حضرت ہردی ریشی کے مقبرے میں دفن ہوئے۔ زیتی شاہ چک قبیلہ سے ہیں مسعود چک کے بھائی۔ علی خان چک کے زمانے میں ملازمت کرتے تھے ایک موقع پر ریکی پورہ کے نواح میں‘ جو سوپور میں ایک پڑائو ہے‘ دوستوں کے ساتھ محفل جمائے ہوئے تھے۔ کہ آسمان سے بجلی گری اور ان کا خانہ ہستی بربا د کر دیا۔ کافی دیر تک بے حس و حرکت پڑے رہے۔ بہرحال جب ہوش میںآئے تو ننگ دھڑنگ چلنے لگے اور غیب کی باتیں ظاہر کرنے لگے۔ کہتے ہیں کہ حضرت مخدوم شیخ حمزہ کی خدمت میں ان کا آنا جانا تھا۔ اور ان کی صحبت سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ گزشتہ صفحات میں قحط کا جو ذکر علی شاہ کے احوال میں بیان ہوا ہے‘ وہ انہی سے منسوب ہے۔ ان کا جذبہ علی شاہ کے مرنے کا ظاہری سبب بنا تھا۔ زیتی شاہ کا مراج کے احسانات کے بارے میں مشہور ہیں۔ میاں مانگ شاہ عبدالرحمن نام تھا۔ عالم دوراں اور اعجوبہ زمان تھے۔ مجذوب ہو گئے۔ معرفت کی بلند باتیں کرتے اور صاف کشف کے مالک تھے۔ اوائل سلوک میں کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ جب نماز میں مصروف ہوتے تو بیل خود ہل چلاتے رہتے اور ذرا نہ رکتے۔ اس قسم کی باتیں ظاہر ہونے پر ان کو شہرت ملی۔ اپنے اوپر انہوںنے جذبہ و جنون کا خط کھینچ لیا۔ حضرت مخدوم کی جناب میں بڑے ہی ادب و نیاز مندی سے ننگے پائوں جاتے۔ کئی مرتبہ لوگوں نے ان کے اشارے پر شراب کو دودھ میں بدلتے دیکھا۔ سرمتی کی حالت سے بھی آگے نکل گئے تھے۔ رحلت کے بعد محلہ رانیواری میں آسودہ ہوئے۔ شاہ بدیع الدین عرف بادی شاہ مشہور الجذبہ مجذوبوں میں سے تھے۔ ان کی زبان تیز کاٹ والی تلوار کی حیثیت رکھتی تھی ۔ جذبے کے غلبے کے باوجود توحید معرفت کی باتیں کرتے اور پاک کیا کرتے۔ غیبی باتوں اور کلمات جذبات کے اظہار میں وہ گویا ایک حاکم تھے۔ قلعہ ملہ کواہ کے باہر آسودہ ہیں۔ وفات کے بعد بھی ان کی قبر سے جلال ٹپکا کرتا اور جو کوئی جھوٹی قسم کھاتا اسی وقت سزا پا لیتا۔ زندہ شاہ مجذوب عجیب شوریدگی کے مالک تھے۔ اس کے باوجود ہوش کے کام کرتے۔ جب کوئی ان سے ان کا حال احوال پوچھتا تو جانوروںکے حوال سے جواب دیتے۔ مثلاً کوے نے یوں کہا گدھ نے یوں خبر دی‘ بلبل نے اس طرح ظاہر کیا اور بلی نے یوں کہا۔ جو کچھ وہ کہتے وہ ظاہر ہو جاتا۔ رانیواری میں سورہ تنگ کے بالائی جانب آسودہ ہیں۔ ٭٭٭ شعرا اور سخندانوں کا ذکر (جو چکوں کے آغاز عہد سے مغلیہ بادشاہوں کی تسخیر کشمیر کے اوائل تک بزم کمال کے مسند آراء اور گلشن قیل و قال کے چمن آرا رہے) شاہ فتح اللہ ایرانی اور علامہ زمان و افاضل دوران تھے۔ کہتے ہیں کہ سید بھی تھے۔ ایران سے دکن آئے جہاں انہیں پورا پورا احترام ملا۔ اور جب وہاں سے اکبر بادشاہ کی خدمت میں پہنچے تو شاہی نوازشات سے بہرہ ور ہوئے اور دولت قرب و صحبت داری کے اعلیٰ مرتبوں اور عروج کی منزلت پر پہنچے۔ 997/9-1588میں جب بادشاہ کا لشکر کشمیر جنت نظیر میں تھا‘ تپ محرقہ میں مبتلا ہو گئے۔ چونکہ فن طبابت میں بڑے حاذق تھے اس لیے ہریسہ کھانے سے اس کا علاج کیا۔ اگرچہ حکیم علی جو شاہ کے شاگردوںمیں سے تھا اور حکمت و حزاقت کے علوم سے باخبر تھا۔ اور دربار کے دوسرے حاذق طبیبوں نے بھی اس سے منع کیا لیکن وہ نہ مانے اور یوں اجل کے فرشتے نے ان کا وقت کا گریبان پکڑا اور کشاں کشاں اصل ٹھکانے پر انہیں پہنچا دیا۔ اس پہاڑ پر مدفون ہیں جو تخت سلیمان کے نام سے مشہور ہے۔ گوشہ نشین اور فقر کے سرور سے خالی نہ تھے۔ اہل تشیع ان کے مقبرے کو جائے طواف اور جائے رجوع بنا لیا۔ میر ابوالفتح ملا عرفی شیرازی کاممدوح تھا‘ جس (عرفی) نے اس کی مدح میں عمدہ قصیدے لکھے ہیں۔ ان قصائد میں ایک مشہور قصیدہ وہ ہے جس کا ایک شعر یہ ہے بیت: میر ابوالفتح آنکہ لوح دانشش برسر افہام و اذہان می زنم شاہ فتح اللہ میرزا علی خان ولد محرم بیگ اس سے الگ شخصیت ہے۔ وہ ہمایوںکے امرا میں سے تھا۔ وہ (میر) طبع زیرت کا مالک اور شعر کا سلیقہ رکھتا تھا۔ 996/1588میں کشمیر میں اس رات قتل ہوا جب یوسف خان کشمیری کے بیٹے یعقوب خان نے میر بحر قاسم خان پر شبخون مارا تھا۔ صاحب دیوان ہے یہ شعر اس کا ہے: شام چواز چہرہ فگندی نقاب تاب نیا ورد و نشست آفتاب (شام نے جب چہرے سے نقاب اٹھا دیا تو سورج اس کی تاب نہ لا کر بیٹھ گیا) بابا طالب اصفہانی چکوں کے عہد حکومت میں وارد کشمیر ہوا۔ یہاں کے حکم سے اس نے آشنائی پیدا کی۔ چونکہ وہ فنون علم سے آراستہ اورانواع کمالات سے پیراستہ تھا اس لیے اسے یہاں بڑی پذیرائی ملی ۔ سلاطین کے قرب میں ہمعصروں کے ساتھ اس نے وقت بسر کیا۔ امر کے نزاع میں او ر مفاد پرستوں کے فتنوں میں اس نے مصالحت کی بڑی کوشش کی۔ اس قسم کی کچھ حکایات اور واقعات کا ذکر قلم عبرت رقم گزشتہ اوراق میں کر چکا ہے۔ اکبر بادشاہ کے سرداروںکے کشمیر پر تسلط کے زمانے تک وہ نکتہ سنجی کے چمن کا پیراستہ کرنے والا رہال جب فوت ہوا تو محلہ بابا پورہ میں واقعہ مزار بابا خلیل میں آسودہ خاک ہوا۔ فنون شعرمیں ماہر تھا۔ اس کی لطافت طبع اس کے حسن معنی سے ظاہر ہے۔ اس کا ذریعہ معاش معلوم نہیں۔ اس کے یہ چند اشعار یہاں درج کیے جاتے ہیں: از سری کوی تو دل بادیدہ ترمی رود شعلہ در دل نالہ برلب خاک برسری رود حرف شرح و درد دل گر آشنائی لب کنم خون زجیب دیدہ تادامان محشری رود شعلہ در پروانہ افتد بلبل آید در خروش گربگویم آنچہ مارا بے تو بر سرمی رود (تیرے کوچے سے ل دیدہ تر کے ساتھ جا رہا تھا۔ اس طرح کہ دل میں شعلہ لیے ہونٹوں پر نالہ لیے اور خاک سر پر ڈالے جا رہا تھا۔ اگر میں درد دل اور شرح حال کو ہونٹوں سے آشنا کر دوں (یعنی بیاں کر دوں) تو آنکھوں کے دامن سے محشر کے دامان تک خون چل پڑے۔ اگر میں اس (اذیت) کا ذکر کروںجو تیرے بغیر ہم پر گزر رہ ہے تو شعلہ پروانے پر جا پڑے اور بلبل چیخ اٹھے۔ نیز در حلقہ ما زمزمہ سور نبا شد ماغمز دگان را دل مسرور نبا شد بی روی تو بیر ون کنم ازدیدہ نظر را گرذوق تماشاہی تو منظور نباشد ویرانہ دل چون سر تعمیر ندارد بگذار کہ این غمکدہ معمور نباشد (ہمارے حلقے میں زمزمہ جشن نہیں ہوتا۔ ہم غم زدوں کا دل مسرورنہیں ہوتا۔ اگر تیرا نظارہ پیش نظر نہ ہو تو میں تیرے چہرے کے بغیر آنکھوں سے باہر نکال دوں۔ جب دل کے ویرانے کو تعمیر کا خیال نہیں تو پھر اس غمکدے کو آباد ہی نہ ہونے دے) مولانا میر علی اصحاب کمال اور شعرا ی باقیل و قال میں سے تھے۔ ایران سے کشمیر آئے جہاں انہیں حسین شاہ کا قرب میسر آیا۔ خط نستعلیق میں زمانے کے بے مثل (کاتب) تھے ۔ اس دور میں کسی نے ان جیسا خط نہیں لکھا۔ کبھی کبھی فکر شعر بھی کر لیا کرتے ۔ یہ کتاب لکھتے وقت ان کے یہ دو شعراد اشعار یاد آ گئے بیت: گل بدستم چہ نہی درکف من خار خوش ست این گل تازہ برآن گوشہ دستار خوش ست بیت: سبو سبو دہ و خم خم دل لوند مرا قدح چہ آب زند آتش بلند مرا (تو میرے ہاتھ میں پھول کس لیے رکھ رہا ہے‘ میرے ہاتھ میں کانٹا ہی اچھا ہے۔ یہ شگفتہ پھول اس دستار کے کونے میں بھلا لگتاہے۔ میرے رند دل کو صراحیاں اور مٹکے بھر بھر کر شراب دے‘ بھلا میری بھڑکی ہوئی آگ کو پیانہ کیا بجھائے گا) نوشہرہ کے اطراف میں۔ بوتہ کدل کے قریب جہاں اب علی مردان خان کا باغ ہے پتھر کی ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد انہی کی تعمیر کردہ ہے۔ بظاہر ان کا مسکن بلکہ مدفن اسی جگہ ہے اور یہ میر علی اس قدیم سے ایک الگ شخصیت ہیں جو خط نستعلیق کا اصل خالق اور مرزا بیگ کے عہد میں توران میں ظاہر ہوا تھا۔ چنانچہ یہ رباعی میر علی ثانی کے خط میں ہے شاید حال ہے رباعی۔ 14؎ مولانا نامی حسین خان چک کے شعرا اور مصاحبوں میں سے تھے فقیر اور گمنام بیخود۔ علم صرف سے بخوبی آگاہ تھے۔ اگرچہ جسمانی طور پر وہ کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھے۔ اور جسم میں خم آ چکاتھا پھر بھی ہمیشہ لالے کی طرح پیالے سے اور مدام جام کے ساتھ طرب کی بزم آرائی اور اہل سوز (شور؟) و شغب کی شوق افزائی کا سامان کرتے رہتے۔ تقاضائے مقام کے مطابق اس موقع پر یہ چند اشعار رقم ہوئے نظم: عروسیست مے‘ شادی آئین او کہ نتوان داد کا بین او بخاموش چہرہ زبانی دہد بفرتوت روزی جوانی دہد چو پیداست چون عود تن را گہر می آتش کہ پیدا کند شان ہنر (شراب ایک ایسی دلہن ہے شادی یعنی خوشی جس کا دستو ر ہے ؟ اور جس کا حق مہر رواں نہیں دیا جا سکتا) (خاموش چہرے کو وہ ایک زبان دے دیتی ہے اور بڈھے کھوسٹ کو جوانی سے نوازتی ہے)۔ یہ اشعار بھی انہی کے ہیں: ہرگز دلم بغیر تو مائل نمی شود وز دیدہ نقش روی تو زائل نمی شود از دور بت چہ باک کہ این بعد ظاہری اصلا میان ما و 15؎ تو ہائل نمی شود دستم بریدہ بادچہ کار آیدم بگور در گردن بتان چو حمائل نمی شود (میرا دل تیرے سوا اور کسی کی طرف مائل نہیںہوتا‘ اور آنکھوں سے تیرے چہرے کا نقش زائل نہیں ہوتا) (تیری دوری کا کیا خوف کہ ظاہری دوری ہم اور تم میں قطعا ہائل نہیں ہوتی) (جب یہ ہاتھ یعنی بازو بتوں کی گردن میں حمائل نہیں ہوتے ہیں تو اللہ کرے کٹ جائیں کیونکہ قبر میں یہ میرے کیا کام آئیں گے) ملانامی ثانی یہ بھی حسین شاہ کے عہد کے شعرامیں سے ہے۔ صحبت شاہ کی خاصی گستاخی و محرمی سے کا م لیتا۔ ایک مرتبہ اس نے عیدین کی دو خلعتوں کی بجائے گھوڑے کی درخواست اس انداز میں کی تھی اور بادشاہ کو لکھا تھا بیت: خلعت شاہی مرا اسپی رسد یا زین رسد بادشاہ نے جواب میں دوسرا مصرع اس طرح لکھ دیا: این چنپن کم فہم را نہ آن رسد نہ این رسد (مجھے خلعت شاہی کی صورت میں گھوڑا مے یا زین ملے۔ اس قسم کے کم فہم کو کو نہ تو وہ ملے اور نہ یہ ملے) مولانا مہری عہد علی شاہ کے شاعروںمیں سے ہے۔ استاد اور خوش فکر تھا۔ علمی فضائل سے بھی بہرہ ور تھا۔ امیر المومنین کی منقبت میں اس کا یہ شعر حافظے کے خزانے سے جلوہ گاہ تحریر میں آیا بیت: مرتضیٰؓ پادشہ مسند عالی نسبی ست آفتابیست کہ برج شرفش دوش نبیؐ ست (حضرت علی مرتضیٰؓ عالی نسبی کی مسند کے بادشاہ ہیں۔ آپ ایسے آفتاب ہیں جن کے شرف کا برج نبی اکرمؐ کا کندھا ہے)۔ مولانا محمد امین مستغنی ان کا مولد و وطن کشمیر ہے۔ اپنے بے حد سلیم ذہن اور طبع مستقیم کی بنا پر یوسف شاہ کے عہد میں ان کا پایہ اعتبار بہت بڑھا۔ زیور فضل و کمال سے آراستہ ہونے کے باوصف فکر شعر میں بھی مشغول رہتے۔ یہ اشعار ان کے ہیں: بسوزش عرق منت آتشی نبود تحملی کہ کرم راکنیم داغ کجاست جہاں زگم شدہ من اگر ہمہ خبرست سرو دلی کہ بگیرم ازو سراغ کجاست سیاہی شب مارا نیز (؟نبود) پر تومہر رخی کہ در رہ مامی نہد چراغ کجاست (احسا ن کے پسینے کی تپش سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں‘ ایسا تحمل کہاں ہے کہ جس سے ہم کرم کو جلا دیں۔ اگر یہ دنیا میرے گم شدہ (محبوب) کے بار ے میں سراسر خبر ہے تو پھر ایسا سر اور دل کہاں ہے کہ جس سے میں اس کا سراغ لگائوں) ہماری رات کی تاریکی کے لیے پرتو مہر نہ تھا‘ ایسا چہر ہ جو ہمارے راستے میں چراغ رکھے کہاں ہے)۔ نیز: درین چمن ہمہ بیگانہ ہم اند ولی ز بلبل سخنی آشنابگوش آمد برہمن گرد تو گردم رہ کفرم بنما کہ ز ایمان خودم شرم بسی می آید (اس چمن میں سبھی ایک دوسرے سے اجنبی ہیں‘ البتہ بلبل سے مجھے ایک آشنا کی آواز کانوں میںپڑی ہے)۔ (برہمن میں تیرے واری جائوں مجھے کفر کا راستہ بتا کیونکہ مجھے اپنے ایمان سے بہت شرم آتی ہے۔) اس کی یہ رباعی اس کے کمال قدرت اور لطافت طبع پر دال ہے رباعی: من خندہ نیم بطبع عاشق ناساز یا گریہ کہ ہر روی دوم چون غماز یا نالہ کہ سربگوش بیگانہ نہم من درد دلم ‘ خلوتی محرم راز (میں کسی عاشق ناساز کی طبع میں ہنسی نہیں ہوں‘ یا گریہ (نہیں ہوں) جو میں چہرے پر غماز کی مانند دوڑتا پھروں‘ میں نالہ بھی نہیں ہوں جو کسی اجنبی کے کانوں میں سر ٹھونسوں۔ میں تو درد دل ہوں یعنی ایسا خلوتی جو محرم راز ہے)۔ یہ رباعی بھی اسی کی ہے: ای سینہ زوسواس تو ام مارستان رگہائی وجودم زتوزنارستان عیسیٰ کدہ از چشم تو بیمارستان ناز تو بکائنات درکارستان (اے محبوب میرا سینہ تیرے خیال کے باعث سانپوں کا مسکن بنا ہوا ہے۔ میرے وجود کی رگیں تیری وجہ سے زناروں کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ تیری آنکھوں کے ہاتھوں عیسیٰ کدہ (حضرت عیسیٰ مسیحا تھے مردوں کو زندہ کرنے والے۔ کدہ معنی گھر) بیمارستان بنا ہوا ہے۔ تیرا ناز کائنات میں کارستان میں مصروف ہے)۔ اور یہ رباعی کشمیر کی تعریف میں کہی ہے؟ رباعی: دو شینہ بہ چشم دل نہان از مرم دیدم نہ بہشت بلکہ کشمیر دوم خاکی زعبیر و مشک آگندہ خمیر آبی زصفا وجود خود یافتہ گم (گزشتہ رات میں نے لوگوں سے چھپ کر چشم دل میں بہشت نہیں بلکہ دوسرا کشمیر دیکھا‘ اس کی خاک عبیر خوشبو سے تھی اور خمیر مشک سے پر تھا۔ اس کا پانی اتنا شفاف کہ اس کا وجود ہی گم تھا )محلہ آدت میں حضرت جلال الدین کے آستانے سے باہر مدفون ہیں۔ ٭٭٭ خاتمہ چکان غرض جب جنت نظیر ملک دلپذیر کی (خدا تعالیٰ اسے خرابی اور فنا سے محفوظ فرمائے ) سلطنت چک حکمرانوں کے جو کوئی تیس چالیس برس تک اس فردوس مثال پر متصرف رہے‘ مذہبی تعصب کی شامت سے اور لوگوں کے ان سے انحراف کے نتیجے میں دولت قاہرہ اکبری کے ارکان کو منتقل ہوئی اور محمد بن قاسم خان میر بحر کے نام سے حکومت کا تعلق ہوا تو کشمیر کی فوج چند گروہوں میں بٹ گئی۔ بعض کوتاہ اندیش فتنہ جو‘ فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے ارادے سے پہاڑوں اور قلعوں میں داخل ہو گئے اور بعض عاقبت اندیشوں نے ناظم (گورنر) کی اطاعت قبول کر لی۔ بعض نے دربار میں حاضر ہو کر منصب پائے‘ جب کہ بعض دیدہ و دانستہ سرکشتی اور فتنہ انگیزی کی راہ پر چل پڑے اور میرزا یادگار کا فتنہ اس کی مثال ہے۔ اس قصے میں کسی قدر تفصیل یہ ہے کہ جب اکبر بادشاہ کی واپسی کے بعد قاسم خان میر بحر کی جگہ کشمیر کی صوبہ داری پر مرزا یوسف خان کا تقرر ہوا جو اکبر شاہی قدیم امر ا میں سے تھا تو اس نے ایک برس تک ملکی امور ربط و ضبط نبھائے لیکن مفاد پرستوں کی شورش و سرکشی کا کوئی توڑ نہ کیا۔ جس کے نتیجے میں اسے دربار بلا لیا گیا‘ اور اس کی جگہ محمد قلی خان صوبہ دار مقرر ہوا قاضی نور الدین اور قاضی علی جو محالات اور تمام تعلقات خالصہ کے انتظام کے لیے مقرر ہوئے تھے ارباب خیانت کی مخالفت اور تنگی کی بنا پر‘ جنہیں (ارباب خیانت) محالات کے ٹھیکے کے نفع کے ظہور کی صورت میں آفات کا خدشہ تھا‘ اپنے سرکاری فرائض انجام دینے سے عاجز آ گئے۔ ان کی معاونت کے لیے دربار سے شیخ حسن بیگ کو متعین کیا گیا۔ مذکورہ شیخ نے کشمیر پہنچ کر یہ طے کیا کہ متعین سپاہیوں کا روزینہ نقد دے کر تمام محالات کا انتظام کیا جائے۔ یہ بات ان اعمال کے لیے ‘ جنہوں نے نفع اور روزینہ وغیرہ (محالات ہی)ٰ سے وابستہ کر رکھا تھا۔ تردد ار خلل کا باعث بنی اور اس طرح انہوںنے شورش برپا کر دی۔ مرزا یوسف خان کے بعض آدمیوںنے جو کشمیر میں رہ گئے تھے اس ضمن میں انہیں اکسایا اور مکروفریب میں پھنسا کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔ اور مرزا یادگار کو‘ جو مرزا یوسف خان کا عمرا د تھا تخت سلطنت پر بٹھا دیا۔ شاہی کارندے عجیب مخمصے کا شکار ہو گئے تاہم حضرت شیخ بابا والی قدس سرہ العالی کی توجہ سے جنہوںنے خود اس ہجوم میں قدم رنجہ فرمایا اس روز فتنہ دب گیا۔ آخر کار طرفنی ایک دوسرے کی گھات میں لگ گئے۔ مرزا یادگار سوپور چلا گیا جہاں سے اس نے فوج اکٹھی کی اور پھر شہر کے اطراف میں آ کر بازار سرکشی گرم کیا اور طفلانہ بادشاہی کے خیال کو اپنے شوریدہ سر میں جگہ دی نیز لوگوں کو مختلف قسم کے بے اعتبار اور ناپائیدار خطابوں اور منصوبوںسے نوازا۔ جس روز وہ کشمیر میں اس بہت بڑے کام میں مشغول ہوا‘ اکبر بادشاہ نے تائید غیبی سے لاہور سے کشمیر کی سیر کا ارادہ فرمایا۔ اپنے کوچ سے پہلے میر بخشی جناب امیر لامراشیخ فرید بخاری کو‘ جو صحیح النسب سادات اور پورے طورپر توفیق و احسان والے عظیم الشان امرا میں سے تھا‘ کشمیر روانہ کیا۔ مرزا یاد گار نے اپنے پیرو ان نابکار سے مل کر موسم سرما اور پہاڑی رستوںمیں بند ہو جانے کے خیال سے تنخواہوں پر اٹھنے والے احوال سے فارغ ہو کر اپنے پنداستقلال کے ساتھ مخالفت اور ممانعت کی ٹھانی۔ جب بادشاہ کے آدمی مغلوب ہو گئے تو مذکورہ حسن بیگ کسی نہ کسی طریقے سے اس شہر سے باہر نکل گیا باقی لوگوں میں سے کچھ تو قیدی بنا لیے گئے اور چند نے راہ فرار اختیار کر لی۔ اکبر بادشاہ کو جب راستے میں اچانک یہ خبر ملی تو اس نے زین خان کو کہ کو پکلی کے راستے سے صادق خان کو ایک مکمل فوج کے ہمراہ پنونچ کے راستے سے اور شیخ فرید بخشی کو بطریق یلغار براہ راست متعین کیا اور خود بھی لشکر منصور کے ہمراہ منزل بہ منزل طے کرتا رہا۔ چونکہ کشمیر کے خواص اور اس جنت نظیر کے عوام اور اس قسم کی حرکات سے خوش نہ تھے۔ اس لیے کہ وہ شیخ فرید کے استقبال کو دوڑے جو معدود ے چند (فوجیوں) کے ہمراہ دشمن پر دھاوا بولنے کی خاطر ار بڑے رعب و دبدبہ کے ساتھ ہیرہ پور کے قریب پہنچ چکا تھا۔ انہوںنے شیخ کو تقویت پہنچائی اور اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ادھر مرزا یوسف خان کے کچھ آدمی اپنے افعال سے شرمند ہ ہو کر مرزا یادگار کے تعاقب میں نکلے۔ وہ جنگ جدال کے بعد روپوش ہو چکا تھا۔ اس کا سراغ پا کر اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ چنانچہ اسے (یادگار) کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا اور اس کا سر لے جا کر بادشاہ کو دکھلایا گیا۔ بہت سے مفسدوں نے سزا پائی اور چھ نے راہ فرار اختیار کی۔ جب کہ بعض کی خطائیںمعاف کر دی گئیں۔ اب رہا یوسف شاہ اور قبیلہ چکان کے دوسرے سرداروں کا حال تو وہ یہ ہے کہ خاندان چغتائیہ (مغلیہ) کے امور سلطنت میں استقرار کے بعد‘ بہت سوں کو جو خواہس مند معلوم ہو ئے حضور فتح گنجور میں مخافظت میں رکھاگیا۔ ان میں سے ایک یوسف شاہ بھی تھا جو اپنے ملازموں کے ہمراہ تسخیر اکبری سے لے کر جہانگیری سلطنت کے اوال تک چوبیس برس دربار سے منسلک رہا۔ ان لوگوںنے عمدہ خدمات انجام دیں اور جاگیریں پائیں۔ ابیہ خان اور اس دایر کے کچھ اور دلاور بھی شاہ کے ہمراہ رہے ۔ شہزادہ خسرو کی جنگ میں جو بادشاہ سے روگرداں ہو گیا تھا یوسف خان اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے نمایاں قسم کے عجیب کارنامے دیکھنے میں آئے۔ جب بادشاہ نے لاہور فتح کر لیا تو یوسف خان عزا سے نوازا گیا اور شاہانہ عنایات اس کا مقدر بنیں۔ وہ شاہی کاموں میں جان فشانی کا مظاہرہ کرتا رہا تاآنکہ اس کا وقت مقرر آپہنچا اور وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔ یوسف خان کی اولاد اور اس کے ساتھیوںنے اپنے رفقا کے ہمراہ امرا کی سی زندگی بسر کی۔ آخر میں یہ لوگ اکبر آباد میں ایک طویل مدت ت متعین رہے۔ کچھ عرصہ برہان پور میں تنخواہ دار رہے۔ چنانچہ دونوں مقامات پر آج بھی ان کے خاندان کے لوگ آباد اور اپنی دلیری و شجاعت کی بنا پر مشہور ہیں اور انہوںنے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اب ہم پھر اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کشمیر کی تسخیر کے بعد اکبر بادشاہ نے راجہ ٹوڈر مل کو ناظم کی رفاقت امور خراج کے بندوبست اور دیگر ضوابط کی خاطر کشمیر ہی میں رہنے دیا۔ اس نے کوہ ماران پر شاہی قلعہ کی تعمیر کی۔ دولت خانہ جو اس کے درمیان واقع ہے 1006/8-1097میں مکمل ہوا۔ راجہ اور قاسم خان کی مدت حکومت تین برس تھی۔ یوسف خان کی مدت حکومت ایک سال تھی۔ کوہ مااران پرشمال کی جانب جو عمارت ہے وہ اس کی تعمیر کردہ ہے۔ اس کے بعد کشمیری نجار (بڑھئی) استالولو کے جسے بادشاہ کے سامنے بات کرنے کا یارا تھا اظہار پر بادشاہ برہم ہو ا اور یوسف خان کی جگہ محمد قلی خان سلطان کو صوبہ دار مقرر کیا گیا۔ اس نے چکوں کی جنہوںنے ہر طرف سے سرشورش اٹھا رکھا تھا بھڑکائی ہوئی آتش فساد بجھانے میں بہت کوشش کی۔ اس نے گیارہ برس نظم و نسق کے ساتھ گزارے۔ 1013/1204 میں قلی خان کی جگہ مرزا علی اکبر کو نظامت کشمیر سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے دور میں ایسا زبردست قحط پڑا جس سے پورے علاقے میںویرانی چھا گئی۔ اس زمانے کی یہ ویرانی اور اس دور کی حکایات آج تک یادگار کے طور پر باقی ہیں۔ اس نے دو برس حکمرانی کی۔ اس کی نظامت کے دوران میں بسال 1014/1605اکبر باداہ دنیا سے رحلت کر دیا۔ اکبر نے چونسٹھ سال عمر پائی اور باون برس ہندوستان پر حکومت کی۔ اس عرصے میں اس نے کئی شہر فتح کیے اور قواعد و ضوابط کا اجرا کیا۔ االف کشید ملائل زفوت اکبر بادشاہ اس کی تاریخ وفات ہے (اکبر شاہ کی وفا ت سے فرشتوں کو دکھ پہنچا۔ ) ملا مظہری کشمیری نے یہ تاریخ نکالی: پادشہ اکبر کہ پنجاہ و دو سال عدل او ظلم زحل سیمائی سوخت ہرکجار خش ز جنبش راند خسرو ان راچتر گردون سای سوخت ناگہان باد اجل برشمع خورد جامہ فانوس بزم آرای سوخت دولت شاہیش چون جاے کرم نعرہ زد گردون کہ خیز آنجائی سوخت مظہر از صاحبقران تاریخ جست گفت ازین حضرت (حسرت؟) دل چغتائی سوخت اکبر بادشاہ کے عدل نے باون برس زحل کی (منحوس) پیشانی رکھنے والے ظلم کو جلائے رکھا جہاں کہیں بھی اس کے گھوڑے کی نعل نے حرکت دی وہاں کے بادشاہوں کے آسمان تک پہنچنے والے چترجل کر رہ گئے اچانک باد اجل شمع سے ٹکرائی اور اس نے بزم کو آراستہ کرنے والے فانوس کا لباس جلا ڈالا اس کی دولت اشاہی نے جب بخشش کی بجائے آسمان سے کہا کہ اتھ تو اس نے وہ جگہ جلا دی(؟) مظہر ے صاحبقران سے تاریخ پوچھی تو اس نے کہا کہ اس موت سے چغتا کا دل جل گیا )۔ ٭٭٭ ان حضرات کا ذکر جو عہد اکبر شاہ کے آخر تک کشمیر میں زندہ تھے اور اس زمانے میں رحلت فرما گئے اہلہ ریشی بابا اپنے وقت کے ارباب ریاضت میں سے تھے۔ زبدۃ المرتاضین (ارباب ریاضت کے خلاصہ پیشوا) ہردی ریشی بابا کے تربیت یافتہ لوگوں میں سے تھے۔ دنیوں لذتوںاور داحتوں سے انہوںنے خود کو دور رکھا۔ نفس کشی اور طبیعت کی مخالفت پر دل پوری طرح جمائے رکھا عبادت و ریاضت کا حق ادا کر دیا ۔ وفات پانے کے بعد قصبہ بجبارہ میں حضرت سید السادات محمد قریشی کے احاطہ کے متصل دفن ہوئے رحمہ اللہ۔ مظہر فیض ذوالجلال اخوند ملا جمال اپنے زمانے کے دانشمند اور علامہ اسرار تھے۔ دینی علوم میں ایک عظیم الشان کے مالک تھے حصول علم میں بے حد مصروفیت کے ساتھ ساتھ خاطر مبارک کو اکثر سلوک معنوی کی منزلیںطے کرنے پر لگائے رہتے۔ روحانی ارادت انہوںنے بمقام شالکوٹ‘ عارف ربانی بابا فتح اللہ کی خدمت میں جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے درست کی۔ اور اپنی عمر عزیز کے شب و روز ظاہری اور باطنی علوم کے درس میں صرف فرماتے رہے۔ حضرت شیخ المشائخ شیخ نورالدین سے انہوںنے بظاہر کمتراخلاص کا مظاہرہ کیا۔ ایک رات عالم رویا میں وہ سرور عالمیان علیہ افضل الصلواۃالسلام کے دیدار سے مشرف ہوئے وہاں انہوںنے اپنے ایک عزیز کو دیکھا جو حضورؐ کے پہلو میں قریب ہی بیٹحھے ہوئے تھے۔ حضرت رسالت نے فرمایا: ایجمال یہ شیخ نور الدین ہے جو کام اسنے کیا ہے کوئی اس کی گرد کو نہیںپہنچ سکتا۔ لغرض دور کے بڑے بڑے مشائخ مثلاً بابا نصیب اور شیخ اسمعیل ایسے حضرات نے مولانا کی خدمت سے استفادہ کیا۔جسمانی لذات کی طرف انہوںنے کبھی توجہ نہ کی۔ گوشت کم کھایا ایک ڈھیلہ ڈھالا کرتہ پنہنتے اور چٹائی پر بیٹھے لیٹتے۔ کہتے ہیں کہ حضرت بابا فتح اللہ کی ایک دختر بھی ملا کے بڑے بھائی مولانا کمال الدین کی طرح ان (ملا) کے عقد میں تھی۔ جب مولانا فوت ہوئے تو کشمیر میں آسودہ خاک ہوئے۔ واللہ اعلم مطلع الانوار لایزال اخوند ملا کمال مولانا جلال کے بھائی ہیں۔ دقائق کو حل کرنے والے اور حقائق کا بہت کشف کرنے والے تھے علمی نسبت ان میں غالب تھی جس طرح ان کے بعالی قدر بھائی میں تقویٰ کی نسبت غالب تھی ۔ بہرحال اس کے باوصف وہ علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا مجموعہ تھے۔ معنوی واردات کے ساتھ ساتھ حضرت بابا فتح اللہ سے دامادی کا بھی تعلق تھا انہی کی صحبت میں باطنی راستہ طے کیا اس کے بعد حضڑت خواجہ عبد الشہید نقشبندی احراری کی خدمت بابرکت میں پہنچے‘ جو پروردگار کے مقرب حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کی باعظمت اولاد میں سے تھے۔ یہاں وہ کمالات سے بہرہ ور ہوئے۔ شالکوٹ(سیالکوٹ) اور لاہور میں انہوںںے افادہ دلوم کی مسند آراستہ کی اور ایک عالم ان کے فیض خدمت سے صاحب کمالی کو پہنچا ۔ مدرسہ داد (؟) میں ا ن کا فن درس اور حکایات مشہور اور ان کی کرامات زبانوںپر جاری ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے بھی اوائل حال میں انکی صحبت میں علوم صوریہ کا اکتساب کیا اور بہت سے علما مثلاً مولانا عبدالحکیم شالکوٹی‘ (سیالکوٹی) ان کی خدمت سے مستفید ہوئے ۔ جب ان کا مقررہ وقت آ پہنچا تو لاہورمیں رحلت فرما گئے ار وہیں 1017/1608میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کا تاریخ وصال اسی طرح ہے مصرع: ملحق حق قطب و تاج اولیا ملا کمال شیخ عبدالکریم کشمیر کے اہل حرفہ میں سے تھے توفیق الٰہی اور سعادت نامتناہی سے شیخ فتح اللہ کے مرید ہوگئے اور جذبے بے سرشار ہو کر اخفا میں زندگی بسر کرتے رہے۔ ارباب کشف میں سے تھے اخفائے حال اور خادنان کی روزی کے لی ہریشہ پکانے کا کام کرتے۔ ایک دیگ پکا کر فروخت کرتے تو دوسری دیگ فقرامیں تقسیم کر دیتے۔ قحط کے دنوںمیں جب وہ شدت اختیار کر گیا اور کثرت دعا اور استعغنا کے باوجود صورت حال میں کوئی بہتری نہ ہوئی تو کسی بڑی شخصیت نے خواب میں سرور کائنات کو دیکھا۔ حضور نے اس سلسلے میں شیخ عبدالکریم سے رجوع کرنے کو کہا۔ اس اشارے کے مطابق لوگ ان کی خدمت میں پہنچے اور بہت عاجزی اور منت کی ادھر انہوںنے دعا کی اورادھر قبول ہو گئی۔ یہ بات ان کی شہرت اور ان کے ظاہر ہو جانے کا باعث بنی۔ محلہ علاء الدین پورہ میں فتح کدل پر آسودہ خاک ہیں۔ حضرت میر محمد خلیفوں کے خلیفہ جناب حضرت شیخ یعقوب صرفی کے خلیفہ ہیں۔ انہوں (صرفی) نے اپنے دوسر ے سفر مٰں تمام اصحات کو اان کی تربیت کے حوالے سے فرمایا اور تمام احباب نے ان کی خدمت سے رجوع کیا۔ حضرت صرفی کے وصال کے بعد ان کے قائم مقائم بھی ہوئے۔ سال بھر میں ایک کرتے کے سوا کوئی اورلباس ان کے پاس نہ ہوتا۔ ابتدائے سلوک میں پوری شدت کے ساتھ مجاہدے پر کمر ہمت باندھے رکھی۔ اواخر میں والی پکلی کی استدعا پر کشمیر سے پکلی منتقل ہو گئے۔ وہاں کے سلطان نے ان کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کروائی۔ جب تک زندہ رہے رشد و ہدایت میںمشغول رہے۔ 14محرم 1015ھ (22مئی 1606ئ) کو رحلت فرمائی۔ حالات غریبہ اور ریاضیات عجیبہ کے مالک تھے۔ شیخ اسماعیل چشتی اس شہر کے سوداگر زادوں میں سے تھے۔ پہلے پہل تحصیل علوم میں مصروف ہوئے اور سفر اختیار کیا۔ کثیر البرکات مولانا جمال الدین کی خدمت میں جن کا ذکر گزر چکا ہے‘ حاضر ہو کر کسب فیض کیا۔ ان (جمال) کے صفائے احوال اور کمال ورع کی بہت تعریف کیا کرتے۔ آخر کار شیخ خدا آگاہ شیخ نور اللہ کی جو اکابر حضرات چشت میں سے تھے۔ صحبت اختیار کی اور ان کی خدمت میں ارادت کا اظہار کیا۔ یہاں سلوک کے مراتب طے کیے جناب میر عبدالحئی بلخٰ سے بھی اجازت پا کر سعادت و ارشاد کے ہم عنان کشمیر لوٹے جہاں عزلت اورخلوت نشینی اختیار کی۔ بہت استغراق میں رہتے اور سر کبھی اوپر نہ اٹھاتے۔ نہ کسی کی طرف توجہ ہی کرتے مسلسل بارہ برس ایک مدرسے میں رہے۔ اس مدرسے کے اوپر انگور کی ایک بیل تھی جو ہواں کے ساکنوں پر سایہ افگن رہتی ۔ ایک روز اس بیل سے اس برگزیدہ خدائے پاک کی کتاب پر پانی کا ایک قطرہ گرا۔ وہ حیران ہوئے حاضرین نے انہیں بیل اور اس کے سایے سے آگاہ کیا ۔ ان کا مقبرہ ملہکواہ (علہ کواہ) میں قاضی موسیٰ شہید کے مقبرے سے بالا تر اور مولانا جمال الدین کے مقبرے کے نزدیک سرراہ واقع ہے۔ اس کا احاطہ نہیں ہے بہت بابرکت ہے۔ شیخ محمد یوسف مانتجی تاجروں کے قبیلے میںسے تھے۔ عنایت ایزدی سے ہدایت پا کر جنات حضرت شیخ یعقوب صرفی کی ارادت حاصل کی اور راہ سلوک سے آشنا ہو کر حرمین کی راہ لی۔ انہوںنے بہت سے سفر کیے اور کئی ایک مشائخ سے ملاقات کی اور خدمت بجا لائے اور فیض سے بہرہ ور ہو کر کشمیر لوٹے جہاں قصبہ بارہ مولا میں سکونت اختیار کی اور وہیں 1011/3-1602میں رحلت فرمائی۔ ان کی تاریخ وفات ان الفاظ سے نکلتی ہے ’’اسود امجد مشائخ‘‘۔ خواجہ بہاء الدین محمد خوارزمی خوارزم کے رہنے والے تھے۔ حج کے ارادے سے سفر اختیار کیا۔ اس فرض کی ادائی کے بعدہندو ارد ہوئے۔ چونکہ مختلف فنون میںماہر تھے۔ اس لیے اکبر شاہ کے ندیموںمیں شامل کر لیے گئے۔ بعد میں جاذبہ الٰہی کی بنا پر انہوںنے ترک منصب کیا۔ اور 992/1584میں یہاں وارد اور محلہ بلدیمر میں سکونت پذیر ہوئے۔ حضرت میر سیداسعیل شامی کی مریدی اختیار کیا ارو بعدمیں ارادت کی بنا پر اہل و اعیال کو چھوڑ کر گائوں چلے گئے۔ جہاں 1002/1594 میں رحلت فرما گئے۔ شیخ روپی بابا ریشی بچپن ہی سے عجز و نیاز کے ساتھ ان کا ساز خالق بے نیاز کی بندگی کا ذوق رکھتے تھے۔ جذبہ الٰہی کی بناپر حضرت مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ کی خدمت میں پہنچے اور جس طرح انہوںنے آنجناب کو اپنی خلوت میں دیکھا تھا۔ انہیں ا س سے بڑھ کر پایا۔ اور مرید ہو گئے۔ تھوڑی ہی مدت میں بہت سی ترقیات سے بہرہ ور ہوئے۔ بہت زیادہ ریاضت کرنے والے تھے ایک سو بیس برس عمر پائیل۔ جس میں سے ایک سو نو برس مسلسل روزے رکھے رحلت کے دن بھی انہوںنے روزہ افطارنہیں کیا تھا۔ اور روزے ہی کی حالت میں رحلت کر گئے۔ ایک اونی خرقہ کے سوا اپنے پیچھے انہوںنے کچھ نہ چھوڑا۔ عالی ہمت تھے۔ محلہ ہبہ کدل ان کا مدفن ٹھہرا۔ یہ جگہ محل فیض اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ حضرت بابا نصیب ان کی خدمت میں بہت آتے جاتے رہے۔ اور ان سے بہت فوائد حاصل کیے۔ مولانا میر محمد افضل زمانے کے اشراف میں سے تھے۔ اور بہت سا علم رکھتے تھے۔ متجر اور دقیقہ رس تھے۔ بابا داور خاکی جیسے بزرگ ان کی شاگردی اختیار کرتے۔ عنایت خداوندی سے حضرت مخدوم شیخ حمزۃ کے مریدوں کی جماعت میں شمولیت سے بہرہ ور ہوئے اور سلوک کے ناپید امید ان میں دوڑے تھوڑی ہی مدت میں اپنے ہمعصروں پر فائق ٹھہرے اور خاصان الٰہی میں سے ہو گئے۔ (رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارے پر کہ حضورؐ نے انہیںخواب میں مورد الطاف ٹھہرایا تھا۔ ارو صبح کے وقت ا س کا اظہار کیے بغیر انہوںنے اپنے پیر بزرگوار سے اس کی تصدیق پا لی تھی۔ ان پیر کے حکم پر حرمین کی راہ لی ۔وہاں پہنچ کر بے شمار عنایات کا مشاہدہ کرتے ہوئے رحلت فرما گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔ رحمتہ اللہ رحمتہ واسعۃ (اللہ کی وسیع رحمت ہو ان پر)۔ خواجہ حسن قاری بلدیمر کے رہنے والے اور علوم سے بہرہ ور تھے۔ قرات کا اکتساب عبدالملک قادری کے ایک خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا۔ ہمیشہ درس دیتے رہے۔ جاذبہ الٰہی کے نتیجے میں حضرت مخدوم شیخ حمزہ کی خدمت میں پہنچے اور بیعت اور روحانی تعلیم سے مشر ف ہوئے۔ انہوںنے بہت مجاہدہ کیا۔ ترک اشغال کر کے پوری توجہ ہمت و یاد حق پر لگا دی۔ اکثر سرور دین و دنیا کی آپؐ پر افضل سلام و درود اور ثنا ہو۔ روحانیت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ اور مرجع عام بنے۔ آخری عمر میں پرگنہ زینہ کر کے مشہور موضوع شیوہ میں گوہ نشین ہو گئے۔ اور وہیں مدفون ہوئے۔ ان کا مقبرہ محل فیض اور زیارت گاہ اور خاص و عام کے لیے حلاوت بخش ہے۔ خواجہ اسحاق قاری خواجہ حسن کے بھائی ہیں۔ وہ بھی علم قرات سے اچھی طرح بہرہ ور تھے۔ دونوں بھائی ہمیشہ ارباب باطن کی صحبت کی طرف مائل رہے۔ دونوںنے ایک گرامی شخصیت شیخ احمد سے ملاقات کی۔ جو صاحب جزبہ وفتوح تھے۔ ان (احمد) سے انہوںنے عجیب و غریب باتیں دیکھیں اور فوائد حاصل کیے۔ اس کے بعد انہوںنے کچھ عرصہ مخدوم العرفا کے یہاں بار پایا۔ یہ خواجہ کسی ایک قلدنر سے بھی آشنا تھے۔ اس کے حکم سے وہ ایک ایسے شغل کے مرتکب ہوئے جس میں شرعاً کلام تھا۔ چنانچہ یہ حضرت مخدم کی خدمت میں پہنچے تو ان پر یہ صورت حال کشف ہو چکی تھی کہ اس لیے انہوںنے منع فرما دیا اور یوںانہوںنے اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی اور اس راستے کے صادقین میں سے ہو گئے۔ ایک روز ایک معمولی سی حرکت پر انہیں مرشد مخدوم کے حکم سے چند تازیانے لگائے گئے۔ ان کے حال میں چہرے پر ذرا سی بھی تبدیلی رونما نہ ہوئی اور انہوںنے قبول توبہ کی۔ بشارتوں سے افتخار حاصل کیا۔ انہوںنے بائیس برس شیوہ کے مقا م پر عزلت و گوشہ نشینی میں بسر کیے۔ آخر میں بے حد عشق و شوق کے سبب حرمین شریفین پہنچے مناسک حج ادا کرنے کے بعد ایک سال چھ ماہ تک رسول اللہ ؐ کے روضۃ مبارک کے قرب میں رہے۔ وہیں جان جان آٖفریں کے سپرد کر دی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ رحمت وسیع۔ شیخ حسن پرگنہ کہاوریارہ کے موضع چندہ پورہ کے رہنے والے اور حضرت مخدوم کے خاص مریدوںمیںسے تھے۔ فنا فی الشیخ کا مقام حاصل کر رکھا تھا اور شیخ کی بھی ان کے حال پر عنایت تھی۔ ہر کام میں ہر لمحہ پورے پورے اعتقاد کے ساتھ زبان پر بسم اللہ اور یا حضرت مخدوم کے الفاظ لاتے۔ اس وجہ سے انہوںنے کئی فوائد حاصل کیے۔ شیخ بہرام گورتنگی دنیا کے منجھے ہوئے لوگوں میں سے تھے۔ حضرت مخدوم کی خدمت میں انہیںسلوک کی توفیق ملی اور ہر چیز سے انہوںنے دل اٹھا لیا۔ اور دنیا کے معاملے میں پوری طرح سرد مہری حاصل کر لی۔ پیر کے حکم پر موضوع کو تنکو میں ٹبا اوتر کے سرچشمے پر جو کامراج کے آخر میں ہے سکونت اختیار کی اور گوشہ نشین ہو گئیل۔ مسعود چک ان کی خدمت کیا کرتا۔ یہ مسعود حضرت مخدوم کے ایک مخلص زتی شاہ مزوب کا بھائی تھا۔ وہیں انہوںنے گڑھا کھود لیا۔ نفس کشی میں اس نے عجیب و غریب کام دیکھنے میں آئے۔ زندگی کے اختتام تک مقامات طے کرنے میں سرگرم رہے اور اسی مقام پر رحلت فرمائی۔ شیخ حیدر لاری لوگوں میں میر حیدر کے نام سے مشہور ہیں۔ لیکن حضرت بابا داود مشکواتی نے جو اسی طبقے سے اور ان کے قریب العہد تھے اسرار الابرار میں ان کی سیادت کا اظہار نہیںکیا۔ حضرت مخدوم کے مریدوں میں سے اور کھلی کرامات و ریاضیات کے مالک تھے اکثر اوقات جن انکی خدمت سے مدد طلب کیا کرتے۔ اپنے پیروں کے احوال میں ان کی کچھ کتب ہیں۔ جنہیں بعض لوگ بے حد اعتقاد اور مبالغہ و اغراق پر محمول کرتے ہیں۔ اور علم اللہ کے پاس ہے جب فوت ہوئے تو انہیں پرگنہ لار کے ٹیلا مولہ میں دفن کیا گیا۔ شیخ بایزید شمناکی پرگنہ کے باشندے اور حضرت مخدوم کے مرید تھے۔ انہوںنے سیاحت بہت کی۔ حرمین بھی پہنچے۔ گوشہ نشین تھے۔ اس گوشے میں کوئی در اور دریچہ نہ تھا۔ ایک روز حضرت مخدوم کا گزر ان کی جھونپڑی س ہوا ان کی حالت دیکھ کر شاکر ہوئے۔ بعدمیں ایک مخلص نے اس جھونپڑی کے در و دریچہ کا اہتام کرنا چاہا۔ لیکن شیخ بایزید نے قبول نہ کیا اور کہا کہ حضرت مخدوم کی نظروں نے اسے اسی طرح بے درو دریچہ دیکھا ہے۔ اور انہوںنے اسے اسی انداز میںمنظورکیا ہے اور اس سلسلے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ لہٰذا میں ان کامنظوری کی مخالفت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ سبحان اللہ پیروں کی اطاعت اور ان کی نظر و خاطر کا خیال کرنا کس حدتک تھا۔ مریدوں کی طرف سے جانبازی کہاں تک ظاہر ہوتی تھی۔ مخدوم حاجی موسیٰ حضرت حاجی احمد قاری کے فرزند ارجمند ہیں۔ غرائب زمانہ میں سے اور حالات عجیبہ کے مالک تھے۔ قیود و رسوم سے آزاد (ہونے کے سبب ان کی) بنیاد ہستی برباد تھی۔ کبھی تو وہ جنگل کا رخ کر لیا کرتے اور کبھی خانقاہ میں رہنے پر آمادہ ہو جاتے۔ ایک مرتبہ لاہور چلے گئے جہاں ان مقبول الست کا سامنا ایک مست ہاتھی سے ہو گیا۔ انہوںنے ہاتھوں کی ضرب سے اسے بھگا دیا ۔ اس واقعے سے ان کی شہرت ہو گئی پھر وہ کشمیر لوٹ آئے۔ یہاں کچھ لوگوں کو مستفید فرما کر اللہ کو پیارے ہو گئے اور اپنے والد بزرگوار کے مقبرے میں آسودہ خاک ہوئے۔ مولانا شاہ دولت جاذبہ الٰہی کی بنا پر اس راہ چلے۔ بابا دائود خاکی کی خدمت میںارادت سے سرفراز ہوئے تاہم حضرت ہردی بابا ریشی کی ساتھ زیادہ نشست رکھتی‘ اور انہیں پیر صحبت جانا کرتے تھے۔ اکثر مغلوب حال ہو جاتے اور نعرے لگاتے مدت تک بیہوش رہتے مستقبل کے احوال بتایا کرتے۔ بیشتر عورتوں دلہنوںاور کنواریوں کے ساتھ بیٹھتے۔ حضرت ہردی بابا ریشی کا فرمانا تھا کہ روئی اور آگ ایک جگہ رکھی نہیںجا سکتی۔ انہوںریشی نے روئی میں تھوڑی سی آگ رکھ کر کر ان کی طرف بھجوائی۔ روئی کا کا ایک ذرہ تک بھی نہ جلا تھا۔ شیخ حاجی اوتر حضرت بابا دائود کے قدیم فرزندوں میں سے ہیں۔ سراپا زہد و تقویٰ تھے انہیں حرمین کی زیارت کی توفیق ملی۔ دن کے روزے اور تاریک راتوںمیں قیام کے ساتھ زندگی بسر کر تے رہے۔ سفر حج پر پیادہ گئے۔ سفر میں افطار نہ کرتے‘ نہ جاتے وقت نہ آتے وقت۔ جب لوٹے تو پرگنہ کروہن کی ایک آبادی اہو میں اقامت گزیں اور وہیں آسودہ ہوئے۔ مولانا قاضی محمد صالح مولانا قاضی موسیٰ کے خلف الصدق ہیں۔ کامل عامل و فقیہ تھے۔ تقویٰ میں ایک شان کے مالک تھے۔ ان کے والد بزرگوار کی شادت کے ساتھ ہی جب چکوں کی بنیاد سلطنت ڈھے گئی اور کشمیر مغل سلاطین کے ہاتھ میں آ گئی تو وراثت اور لیاقات کے استحقاق کی بناپر انہیںکشمیر کی قضا کا منصب دیا گیا جو انہوںنے طوعاً و کرہاً قبول کیا۔ اجرا احکام کے معاملے میں حتی المقدور شرعی طور پر اور عرفاً نیک نام تھے۔ تقویٰ کی مراعات اور ظاہری علوم کے افادہ (فائدہ پہنچانا) پر بھی دھیان دیتے۔ سیدہ عارفہ کاملہ حضرت بی بی بیگمان بٹ کے خوارج ولایت مرتبت‘ سیادت منزلت جناب حضرت سید میر خان سے شرف اندوز ہوئے۔ شیخ کنکی ریشی عین جوانی اور اسباب کامرانی میں زہد و خدا پرستی کا ذوق پایا اور ریشوں کا مسلک اختیار کیا ویسے اویسی تھے۔ آخر میں حضرت بابا دائود خاکی کی مریدی اختیار کر لی۔ ان کے پاس ایک گائے تھی۔ خادموں نے نمک کے حصول کے لیے اس گائے کو بیچ دیا اور گائے نے شیخ کے صومعہ پر کھڑے ہو کر عرض حال کیا شیخ نے خادموں کو گائے بیچنے سے منع فرما دیا اور پھر آخر عمر تک نمک کھانا چھوڑے رکھا۔ جانور کا گوشت ہرگز ہرگز نہ کھاتے ایک موقع پر بھنی ہوئی مچھلی تحفے کے طور پر لائی گئی اور اسے کھانے کے لیے ان بڑی منت سماجت کی گئی۔ کہنے لگے: نمک کا شک دور کرنے کی خاطر اسے پانی سے دھو ڈالو۔ جیسے ہی اس بھی ہوئی مچھلی کو پانی میں ڈالا گیا اس میں جان آ گئی اور وہ پانی میں چلی گئی۔ ان سے متعلق اس قسم کی بہت سی حکایات ہیں۔ پرگنہ بالکل کے موضع وانی گام میں آسودہ ہیں۔ 1007/9-1598میں دنیا سے کوچ کیا۔ ٭٭٭ نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ سلطان سلیم نا م تھا۔ سلطنت کے دعوے داروں سے نپٹ کر اس نے تاج و تخت کو زینت بخشی۔ جلال (الدین)محمد اکبر بادشاہ کشمیر کی تسخیر کے بعد سترہ برس تک جیا۔ اس جہانگیر بادشا ہ نے سیر و شکار کے لیے کئی مرتبہ کشمیر میںنزول اجلال فرمایا ۔ ا س نے رعیت پروری کے ساتھ ساتھ یہاں کی آباد ی قلعہ اور عمارات نیز قلعہ کے اندر اور تالاب کی جانب شاہی باغات‘ بالخصوص فیض بخش کی تعمیر و تربیت کی طرف توجہ دی اور چمہ سار کو آباد کیا لوگوں کو بہت سے منافع و فوائد پہنچائے۔ 1015/1606میں کہ بادشاہ کی تخت نشینی کادوسرا سال تھا نواب قلیح خان کو کشیمیر کا ناظم مقرر کیاگیا۔ اس نے تین برس تک یہاں حکومت کی شہر کے نظم و نسق ترویج اسلام اور رعایا پروری میں بے مثل تھا۔ جب وہ معزول ہوا تو 1019/1610میں یہاں کی صوبہ داری نواب قاسم کو تفویض ہوئی۔ اس ن تین سال حکمرانی کی۔ 1022/1613میں اس کی تبدیلی سے نواب صفدر خان ناظم بنا دیا گیا۔ دو برس کی مدت میں اس نے حتی المقدور خدا کی مخلوق کی بھلائی اور عدل کے لیے کام کیا۔ 1024/1615میں نواب احمد بیگ خان صوبہ دار بنا۔ اس نے تین برس تک جہاں تک اس سے ہو سکا رفاہ عامہ کے کام کیے اور عدل و احسان کی کوشش کی۔ اس زمانے میں خالق انام کی مرضی سے 1024/1615میں قہر الٰہی کی آگ اور بے پناہ شدید طوفان باد چلنا شروع ہوا۔ یعنی بلائے طوفان اور وبائے طاعون کے آثار نمایاں ہوئے۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ لوگوںنے اس آیت کریمہ کا مضمون زمانے کے صفات پر ملاحظہ کر لیا۔ یوم یفر المرمن اخیہ و الخ (اس روز آدمی اپنے بھائی سے اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے بھاگے گا۔ عبس آیت 34) ایک کے بعد دوسرے کی تکفین و تجہیز محال ہو گئی۔ حسن شال ایک متمول آدمی تھا۔ اس کا تمام اعزہ درجہ شہادت کو پہنچے۔ اس کے پاس بے شمار مویشی تھے۔ مالک کیعدم تصرف کے سبب وہ سب جنگل کو نکل گئے۔ یہ حادثہ چالیس روز تک جاری رہا۔ خان مذکور نے دو برس حکمرانی کی۔ 1027/1618 میں یہاں کی حکومت دلاور خان کو تفویض ہوئی ۔ لوگ ابھی تک سنبھلنے نہ تھے ۔ جبکہ اہل تشیع اپنے تعصب سے باز نہ آئے اور حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربا اور یاران خاص کو بے ادبی سے یاد کرتے اور دروازوں پر کچھ نہ کچھ لکھ جاتے چنانچہ قہر الٰہی کی باد سموم نے پھر اس علاقے کو آ لیا اورتقریباً دس بارہ ہزار گھر اس آگ کی نذر ہو گئے۔ سلطان سکندر بت شکن کی تعمیر کردہ وہ جامع مسجد کلاں بھی حادثے میں جل گئی۔ چونکہ جہانگیر بادشاہ ان دنو ںکشمیر آیا ہوا تھا۔ اس نے اس کی حفاظت کا پورا پورا اہتمام کر لیا۔ لیکن تقدیر اپنا کام کر گئی۔ حیدر ملک اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ سینوں نے خانقاہ جدیبل جلانے کی تہمت سے تعلق کی بناپر مجھ کو اور میرے خاندان کو جامع مسجد جلانے پر متہم کیا اور یہ بات بادشاہ تک پہنچا دی۔ اس وجہ سے بادشاہ کے حکم پر مسجد کی تعمیر کی ذمہ ان (حیدر وغیرہ) پر ڈال دی گئی چنانچہ اس کے باپ ملک محمد ناجی نے بہت زیادہ کوشش کر کے مسجدکو اس کی پہلی صورت ہی میں از سر نو تعمیر کرا دیا۔ اس تاریخ تک مسجد کی کئی مرتبہ تعمیر کا پتا ان چند اشعار سے چلتا ہے جو اس وقت کہے گئے۔ تاریخ: نخستین مسجد جامع زشہ اسکندر ثانی عمارت یافت و نگہ سوخت از تقدیر سبحانی دگر بارہ حسن شاہ آن کہ بوداز نسل پاک او شدبانی این مسجد ہم از توفیق ربانی ولیکن از دو جانب نے ستون آراستہ بی مقفش زابراہیم احمد ماکری شد راست تادانی زہجرت نصف و نہ بود تا دور محمد شاہ… کہ این جنت سراشد زینت دین مسلمانی بتاریخ ہزار و بیست ونہ از ہجرت سید بروز عید روزہ سوختہ در نوبت ثانی ملک حیدر رئیس الملک در عہد جہانگیری نہاز از نو بنایش باز روز عید قربانی چو تاریخ بنایش جست گفتا ہاتف غیبی نہاد از نواساسش بازگاہ عید قربانی (پہلے پہل جامع مسجد کی تعمیر شاہ اسکندر ثانی نے کی لیکن وہ تقدیر سبحانی سے جل گئی‘ دوسری مرتبہ توفیق ربانی سے حسن شاہ جو اس اسکندر کی پاک نسل سے تھا اس کی بانی بنا لیکن اس ک دونوں جانب اس نے نہ تو کوی ستون آراستہ کیا (بنایا) اور نہ اس کی چھت ہی بنوائی تجھے معلوم ہو کہ بعد میں ابراہیم احمد ماکری نے اسے ٹھیک ٹھاک کیا۔ یہ سال؛ 909 صدی ہجری 4-1503 تھا جب ی جنت سرا محمد شاہ کے دور میں دین مسلمان کی زینت بنی سید (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہجرت سے 1029/1620سال عید کے دن یہ مسجد دوسری مرتبہ جل گئی۔ ملک حیدر رئیس الملک نے جہانگیر کے عہد میں عید قربان کے دن نئے سرے سے اس کی بنا ڈالی۔ جب اس کی تاریخ تعمیر کے بارے میں سوچا گیا تو غیبی فرشتے نے کہا کہ نہاز از نو…(1049/1639) یعنی اس نے عید قربان کے موقع پر پھر اس کی اساس رکھی۔ دلاور خان چند برسوں تک وقت اور حال کے تقاضون کے مطابق مختلف اعمال و افعال انجام دیتا رہا اور جرات کا مظاہرہ کرتا رہا۔ بعد میںاسے معزول کر دیا گیا۔ 1029ھ میں بادشاہ بہار کے آغاز میں پنونچہ (پونچھ) ک راستے سے جسے حید رملک کے بھائی علی ملک نے موسم سرما میںصاف کرا دیا تھال لشکر کے ساتھ وارد کشمیر ہوا۔ اب ارادت خان کو صوبہ دار بنایا گیا دو برس تک اس سے جو کچھ ہو سکا اس نے کیا۔ ناوہ پوری کے نزدیک اس جگہ جیسے سونتی بتنیار کہتے ہیں اوراس کے ایک طرف مغرب کی جانب مقام قرش مرگ میں اس نے عمارت تعمیر کی ۔ اس کے جانب مشرق برجوں والا باغ اور پتھر کے پایوں والا زینہ بنوایا چونکہ اس زمانے میں عمارتوں کا کام لکڑی کا تھا اس لیے عمارت کی کھڑکیاں اس ڈبھ کی بنائی گئیںکہ کسی اور جگہ ویسی نہیںتھیں۔ کہتے ہیں کہ ا س بڑھئی کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ ایسی کھڑکیاں نہ بنا سکے۔ تاہم اس کو اس کا صلہ بہت دیا گیا۔ جب ا س کی حکومت کے دن پورے ہو گئے تو نواب اعتقاد خان 1032/1623کے اوال میں کشمیر آیا۔ اس کی حکمرانی کا زمانہ اس سارے ملک میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے پنونچہ کی فتح اس کے زمانے میں ہوئی اور پنونچ میں جامع مسجد کلاں کی تعمیر حیدر ملک کے اہتمام سے صورت پذیر ہوئی۔ قبیلہ چک کے کئی لوگ اس کے زمان میں مارے گئے۔ وہ جہاں کہیں بھی چکوں کی اقامت کی خبر پاتا اپنے آدمی وہاں بھیج کر متعین کر دیتا۔ ارو ان کے حبس اور قتل کا حکم دے دیتا۔ چکوں کو اس طرح لایا جاتا جس طرح چاولوں کے ڈھیر سے دانہ لایا جاتا ہے ۔ اس عہد میں چکوںکے قبیلے نے ملک گیری کی طمع سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اور ہو گم نام ہو کر عدم کی صورت اختیار کر گیا۔ ان لوگوں کی شجاعت و دلیری کا اظہار ترک کر دیا اور مزدوری و حمالی اور کھیتی باڑی کا پیشہ اپنا لیا۔ اعتقاد خان کے زمانے میں نور الدین جہانگیر بادشاہ 1035/6-1625میں واپس ہندوستان روانہ ہوا۔ پھر سال 1036/7-1626میں وارد کشمیر ہوا۔ اپنی تخت نشینی کے آغاز سے آخری وقت تک وہ سات مرتبہ کشمیر آیا اور ہرمرتبہ اس نے باغات کی ترتیب اور عمارات کی تعمیر کی طرف توجہ دی۔ آخری مرتبہ 27صفر 1037/7یا8اکتوبر 1667 کو کشمیر سے جانب ہند واپسی کے موقع پر اس نے سرامی جنگیرہتی قصبہ راجور میں رحلت کی۔ اس خطے کے لوگوں میں سے مذکورہ بادشاہ کی خدمت میں جو حضرات مقرب اور باریاب مجلس شاہی ہوئے ان میں افضل العلماء مولانا محمد رضا المشہوریہ حکیم دانا او ر کمالات کے حامل مولانا حبیب اللہ مہر عدل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ لشکر کے کار پردازوں میں سے میر تنگ میر شکار کو بھی سلام اور عرض کی اجازت حاصل تھی۔ نور جہاں بیگم کی التماس پر حیدر ملک چادورہ کو (بادشاہ) ہمیشہ خدمت پر مامور کرتا ہے اور اسے رئیس الملک چغتائی کے خطاب سے بھی نوازا۔ اس حیدر ملک نے ابتدا میں مہر النسا کی وساطت سے منصب پایا اور اپنے وطن سے زمینداری کی شرط پر متعین ہوا۔ جب وہ کشمیر بے نظیر پہنچا تو اس نے بعض امور کی انجام دہی میں اپنی سی کوشش کی۔ ندی لچمہ کول کی مرمت کی بھی سعی کی یہ ندی ملک جلال تہکور نے جامع مسجد مسجد کلاں اور ان علاقوں کے لوگوں کے لیے تعمیر کروائی تھی جہاں پائی میسر نہ تھا۔ پھر جدیبل اور وہاں کے لوگوں کی آبادی کے لیے بھی جو اس وقت تک خانہ ویراں تھے اس نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بابا شمس عراقی کی خانقاہ جسے دولت چک نے تعمیر کیا تھا اور جو حادثہ آتش میں جل گئی تھی اس (حیدر) کے باپ حسن ملک ابن محمد ملک نے از سر نو تعمیر کرایا تھا۔ مختصر یہ کہ اعتقاد خان نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اگرچہ بڑے مشکل کام انجام دیے خاص طور پر چکوں کا اس ن پوری طرح قلع و قمع کر دیا جو فساد اور بگاڑ کا مظہر تھے تاہم اس نے اس شہر میں کئی ایک بدعتیں پیدا کیں اور ظلم و تعدی سے کام لیا‘ بہت سے معاملات میں لوگوں کے آرام کا قافیہ تنگ کر دیا بہت سی اختراعات رعیت مزارع تو ایک طر ف شہریوں پر بھی لاگو کیںمثلاً سلامیانہ (حاکم کو سلام کرتے وقت پیش کرنا) رسوم اعمال مال پر بہت زیادہ ٹیکس وغیرہ گل زعفران کی بوائی اور اس کے چننے کے لیے اکثر اعیان کی ڈیوٹی لگانا اور دوسرے امور لوگوں کے پھلوں کے باغ ضبط کرنا اور ایس قسم کے دوسرے مشکل احکام اس نے کچھ اس طرح جاری کیے کہ لوگ اپنی زندگی سے تنگ آ گئے اور اس دیار سے فرار پر آمادہ ہو گئے۔ جب اس صورت حال کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو اس نے تخت نشینی کے آغاز ہی سے اس کی تبدیلی کا حکم صادر کر دیا اور اس کا مناسب تدارک کیا۔ جس کا ذکر آئندہ صفحات میں عبرت سے پر قلم سے یا جائے گا۔ ٭٭٭ ان حضرات کا ذکر جو عہد جہانگیری کے آغاز سے اس کی سلطنت کے آخری زمانے تک کشمیر میں جلوہ افروز رہے یا رحلت فرما گئے اہل شہود کے پیشوا خواجہ مسعود پانپوری تاجروں کے طبقے سے تھے۔ کاروبار میں انتہائی انہماک کے دوران طلب پروردگار کی توفیق حاصل ہوئی اور گھر سے دور ایک ویرانے میں چلے گئے اور تین ماہ جو چلہ کا دونیم ہے کسی کو آگاہ کیے بغیر گزار دیے ۔ حضرت خضر علیہ السلام کے اشارے پر حضرت بابا دائود خاکی کی ارادت کی طرف مائل ہو ئے۔ جب ان کی خدمت میں پہنچے تو سرگزشت اس طرف سے سنی پھر انہیں خلوت کا حکم دیا گیا۔ ان کی ملازمت میںزبدۃ العرفا ہردی ریشی بابا کی صحبت س یبھی فائر ہوئے۔ اور ان کی طرف سے بھی انہیں شیخ کی ملازمت کی تاکید کی گئی۔ انہوںنے جدوجہد سے کمالات سلوک کا اکتساب کیا اور باقی عمر اپنے وطن پانپور میں گزاری۔ زعفران کی فصل سے روزی کا سامان کیا۔ زراعت میںکمال احتیاط سے ہمت بروئے کار لاتے۔ اپنے وقت کے اصحاب کشایش سے ممتاز تھے فتوحات (نذرانے) کو فقرا پر صرف کرتے اور اپنے اہل خانہ کے اخراجات کے لیے ان میں سے قطعاً کچھ نہ رکھتے۔ کشف و اشراف ( ؟) میں وہ ایک نشانی تھے۔ انہوںنے 1021-1612میں رحلت فرمائی اور اپنے قصبہ پانپور میں آسودہ خاک ہوئے فیض و برکت بلکہ آثار جذبہ ان کے مقبرے سے ظاہر ہیں۔ انہوںنے اپنے پیچھے ممتا ز اولاد و خلفا چھوڑے جن کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ شیخ محمدلبیب حضرت مولانا شنگرف گنائی کے جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے خلف الصدق ہیں۔ خدا دانیکا جوہر اور الطاف ربانی کے مورد تھے۔ ظاہری اور باطنی تربیت اپنے والد ماجد سے پائی اور گویا حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی کی خدمت سے بھی رشد و ہدایت حاصل کی۔ اپنے والد ماجد کے قرب میں آسودہ خاک ہوئے۔ راقم حروف کے نانا شیخ محمد امین کے ساتویں جد ہیں۔ حضرت میر نازک قادری اس شہر کے شرفا میں سے اور مقتدائے دہر تھے۔ ان کا سلسلہ نسب قاضی میر علی تک پہنچتا ہے جو طبقہ قاضی شہیدیہ کے جد ہیں۔ حضرت مخدوم شیخ حمزہ کی صحبت میں پہنچے لیکن مریدی حضرت بابا دائو دخاکی کی اختیار کی۔ اس کے بعد ان کی تربیت عالی مرتبت سید میر اسمعیل شامی کے سپرد ہوئی۔ انہوںنے سلسلہ قادریہ کے طریقے کو بہت اچھی طرح اختیار کیا اور سید مذکور کے امر پر اس شہرمیں اس سلسلے کے مسند آرا ہوئے اور اس کے ضروری لوازم سامنے لا کر طریقہ جاری کیا۔ علم و عمل سے بہت زیادہ بہرور تھے۔ صاحب تمکین تھے۔ اور ای عظیم الشان انہوںنے حاصل کی تھی۔ لباس اور کھانے پینے کے معاملات میں خاصی احتیاط سے کام لیتے اور مستی لانے والے امور کے نزدیک کبھی نہ پھٹکتے تھے۔ مشہور ہے کہ اس وقت کے ایک بزرگ جو سماع میں مشغول اور اس کے سبب مشہورتھے۔ انہیں دیکھنے کے شوق سے آئے۔ انہوں (میر) نے ملاقات نہ کی اور گھر سے باہر نہ آئ۔ ان بزرگ نے ایک کاغذ پر لکھ کر بھیجا کہ ہم اشتیاق کی بنا پر جل گئے ہیں۔ میرنازک نے اس کاغذ کے پیچھے تحریر فرمایا کہ ہم جل گئے راکھ ہو گے اور ہوا میں اڑ گئے الغرض آں جناب ریاضیات میں فضولیا ت سے اجتناب میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے اور جمعہ اور جماعت کے بغیر حرکت نہ فرماتے۔ ایک مرید نے ان کی ضیافت کی التماس کی چونکہ اس کا بھائی جس کی شراکت تھی غائب تھا۔ اس لیے انہوںنے قبول نہ ی۔ ایک شخص اپنے باغ کا پھل لایا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ حلال(آمدنی سے) ہے انہوںنے نہ کھایا اور کہا کہ معلوم نہیں تو نے اس کا جائزہ خراج اور عشر ادا بھی کیا ہے یا نہیں۔ ان کے کمالات کے تما م حالات تحریر و تقریر میں نہیںسما سکتے اور ان کی کرامات و برکات حد سے باہر ہیں۔ سلسلہ قادریہ کی ترویج میں اس شہر میں ان کے گھرانے سے ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ ان کے بعض فرزندوںکاجو سجادہ نشین ہوئے ذکر اپنی جگہ کیا جائے گا 1022/1613میں ایک عجیب الخلقت اور غریب الہیت جانور لوگوںکی موجودگی میںجامع مسجد میں گھس آیا۔ اس نے مسجد کے چار ستونوں کے گرد چکر لگایا۔ اس کے تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت میر وفا ت پا گئے۔ اسی جانور نے پھر دو تین مرتبہ اسی ڈھنگ میں مسجد جامع کا مختلف جگہوں کا طواف کیا اور ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو گیا۔ ایک مرتبہ طاعون پھیلا اور دوسری مرتبہ قحط پڑ گیا۔ حضر ت میر کی تاریخ وصال تقیا تقیا (1022)کے الفاظ سے نکالی گئی ہے اللہ ان کے درجات بلندکرے اور ان کی برکات میں سے ہمیں حصہ دے۔ شیخ بابا عبداللہ حضرت بابا مسعود نروری کے فرزند ارجمند ہیں۔ علم و تقویٰ اور فقہ و اتقا میں اپنے وقت کے یگانہ تھے۔ مرجع خلائق اور منبع حقائق تھے۔ اور باکمال اولاد والے قلوب و قبور کا کشف گویا ان کے ہاتھ میں تھا۔ ان کی زوجہ تند خو اور جھگڑالو تھی۔ اس کے ہاتھوں میں انہوںنے بہت تکالیف اٹھائیں۔ اگرچہ لوگوں نے اسے چھوڑنے کی بہت تحریک کی لیکن وہ فرمایا کرتے کہ کسی دوسرے کا ہاتھ کیوں لگے۔ شیخ بابا حاجی حضرت بابا مسعود نروری کے فرزندارجمند ہیں۔ استعداد عالی کے مالک تھے۔ مرتبہ ارشاد کو پہنچے۔ کشف و کرامت وریاضت و استقامت میں عظیم شان رکھتے تھے۔ عبادت کے پہاڑ تھے۔ شیخ باباابراہیم یہ بھی بابا مسعود کے سعادت مند فرزند ہیں۔ بلند احوال اور احسن المقال کے مالک تھے۔ امر معروف و نہی منکر میںمصروف رہتے۔ مولانا شاہ گدائی ان کا مولد سوپور کے نواح میں موضع کر نکشون ہے۔ کسی وجہ سے شہر میں سکونت پذیر ہو گئے۔ ایک روز ان کا گزر حضرت شیخ احمد قادری مخدوم کی خانقاہم یں ہوا۔ حضرت مخدوم حاجی موسیٰ جن کا ذکرپہلے آ چکاہے۔ ظاہر ی و باطنی افادہ میں مشغول تھے۔ انہوںنے ان کی طرف بھی نظر کی۔ یہ متاثرہوئے اور ان کی صحبت اور خدمت کے لیے اپنے آپکو لازم جان لیا۔ دینی علو م کیلوازم کی تحصیل کے بعد انہیں باطنی اشغال کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ انہیںان میں لذت ملی اور انہوںنے باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہیں ایسی غیبی فتوحات میسرآئیں کہ وہ ہم عصروں پر فائق ہو گئے اورمرجع کائنات اور مشہورکرامات ٹھہرے۔ جب ہجوم خلائق بڑھ گیا تو خواجہ دائود ولی مجذوب ان کے پاس گئے اور انہیںملازمت کی کہ تو نے میری طرح دیوانگی میں کیوں نہ بسر کی اور اس قدر بھیڑ بھاڑ اور کثر ت آدمی قبول کر لی۔ وہ بوے کہ ابھی تو نے دیکھا کیا ہے۔ کل تو اس سے بھی زیادہ گرمی بازر ہو گی۔ جمعہ کا دن تھا اور انہوںنے ایک آدمی سے فرمایا کہ وہ خانقاہ کے کسی ایک طرف جگہ تیار کرے تاکہ مزید لوگوں کے کام آئے۔ دوسرے جمعہ انہوںنے ایوان کے نیچے اپنے چند آدمیوں سے بہت سے معارف و لطائف بیان کیے‘ اور آخر شب دریا کی طرف آ کر پھر سے وضو کیا۔ جب اپنے حجرے میں پہنچے تو خانقاہ چنی اور دنیا کو اس سے آگارہ کیا۔ ایک پہر دن گئے تک لوگ باہر حیران و پریشان رہے۔ دوپہرکے وقت 1024/1615میں جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ گدائے شام اقلیم ولایت تاریخ وفات ہے۔ خواجہ حبیب اللہ نوشہری تاجروں کے طبقے سے تھے۔ جب ان کے دل میں طلب حق کی آرزو جاگزیں ہوئی تو حضرت شیخ یعقوب صرفی کی جناب میں ارادت کی توفیق پائی۔ انہوںنے ہر چیز سے دل اٹھا لیا پورے طور پر امر حق کو اپنا لیا۔ مورد فتوحات ٹھہرے۔ حضرت ایشان (صرفی) کی غیر موجودگی میں آنجناب کے ایماپر حضرت میر محمد خلیفہ کے جن کا ذکر گزر چکا ہے فیض تربیت میں پہنچے۔ حضرت ایشاں کی واپسی پر پھر آنجناب سے مستفید اور خلافت سے بہرہ ور ہوئے۔ شوق استغراق تقیہ اور وجد و حال کے غلبے او ر شدت سماع کے باوجود انہوںنے کئی لوگوں کو رشد و ہدایت سے نوازا۔ جب شوق کا غلبہ آتا تو شعر گوئی میں مصروف ہو جاتے اور درد آمیز اور شعلہ انگیز غزلیںکہنے لگتے۔ کبھی کبھی مغلوبیت و استغراق کی بنا پر آتش درونی بجھانے کی خاطر نغمات و آلات سے بھی سماع فرماتے ان کا سارا دیوان سوز و گداز اور ناز و نیاز سے بھرا پڑا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: غزل ای کہ بہشت برین بی تو عذابم عذب آتش دوزخ ہمہ باتو گلا بم گلاب گرمی شوق چہ کرد نرمی ذوقت چہ کرد سینہ کبابم کباب دیدہ پر آبم پر آب بی تو نہ سرد و نہ گل بی تو نہ جام و نہ مل بی تو کدامست بی تو کدام آفتاب حبی بیچارہ بین اشک فشان برزمین کردہ زراعت چنین دست طعام و شراب (اے محبوب بہشت بریں تیرے بغیر میرے لیے عذاب ہے عذاب۔ تیرے ساتھ آتش دوزخ میرے لیے سراسر گلاب ہے گلاب۔ تیرے عش قکی گرمی نے کیا کیا تیرے ذوق کی نرمی نے کیا کیا۔ میرا سینہ کباب ہے کبب اور میری آنکھیں نمناک ہیںنمناک تیرے بغیر نہ تو سرووگل میں کوئی دلکشی ہے اور نہ جام و شراب میں‘ تیرے بغیر چاند کی کای حیثیت اور تیرے بغیر آفتاب کون ہے۔ بیچارے حبی (حبیب) کو دیکھ زمین پر اشک فشانی کر رہا ہے۔ اس نے اس طرح کی زراعت کی ہے اور یہی اس کا کھانا پینا ہے۔ ) انہوںنے اپنے بزرگوار مرشد کے احوال پر بھی نظم و نثر میں ایک کتاب تصینف کی ہے اور آنجناب کے حالات تحریر کیے ہیں۔ 1026/1617میں وبا کے دنوں میں رحلت فرمائی۔ ان کا آستانہ مبارک محلہ نوشہرہ میں اہل طواف کامرجع ہے۔ خواجہ دائود مجذوب اثنائے طلب میں جنون کا شکا ر ہو کر انہوںنے بے خودی و پوشیدگی کا در کھٹکھٹایا ورنہ در حقیقت عاقلوں میں سے تھے۔ جب وبا پھیلی اور ایک دنیا نے فنا کی راہ اختیار کی تو غیرت میں آ کر خواجہ حبیب اللہ نوشہری اور میریوسف قادری ولد میر نازک ببازی کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ دنیا کے بدلے ہم کیوں نہ خود کو فدا کردیں۔ یہ کہا اور اس وقت رحلت فرما گئے اور وبا ختم ہو گئی۔ بودہ کبر میںآسودہ ہوئے۔ میر یوسف قادری صاحب شرف حضرت میر نازک کے فرزند ہیں۔ ظاہر و باطن کے کمالات سے آراستہ تھے والد بزرگوار کی وفات کے بعد خلافت اور رشد و ہدایت کی مسند پر بیٹھے ۔ کوئی چار پانچ برس زندہ رہے۔ وبا کے زمانے میں 1027/1618میںرحلت فرما گئے۔ اپنے والد ماجد کے احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ محمد شریف المعروف شوک بابا غیبی واردات سے صاحب جذبہ ہوئے اہل بینش ن جنون پر محمول کیا اور حضرت خواجہ مسعود کی خدمت میں انہیں لے آئے۔ خواجہ نے انہیں حجرے میںبٹھا دیا۔ وہیں انہوںنے آرام پایا۔ رفتہ رفتہ حضڑت خواجہ سے باطنی تعلیم حاصل کی جس سے ان کا جذبہ اور قوی ہو گیا او روہ بے پروائی کی راہ پر چل پڑے تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہیںکئی کام رہے۔ وہ بلند آواز میں بات کرتے اور بہت احوال کا کشف کرتے رہتے۔ خواجہ نے اکثر اصحاب سے ان کے حوالے کیے۔ مرشد کی وفات کے بعد سات برس تک جیے اور 1027/1618میں رحلت کر گئے اپنے مرشد بزرگوار کے احاطے میں آسودہ ہوئے۔ مخدوم شیخ عباس‘ مخدوم شیخ عبداللہ اور مخدوم عبدالواحد حضرت مخدوم احمد قادری کے بیٹے اور علم و عمل میں اپنے بڑے بھائی حاجی موسیٰ کے قریب تھے۔ یہ سب اصحاب کشف اور صاحبان حالات عجیبہ تھے ۔ اپنے والد ماجد کے احاطے میں آسودہ ہیں۔ شیخ حاجی دائود بلخی حضرت بابا دائود خاکی کے خلفامیں سے ہیں۔ مناسک حج ادا کرنے کے بعد موضوع انچار کی ایک غار میں بیٹھ کر پروردگار کی عبادت میں مصروف ہو گئے۔ اصحاب ذوق و حال مٰ سے تھے ان کے گرد ایک بھیڑ رہتی تھی۔ بعد میں انہوںنے شادی کر لی او ر سنت کی برکت سے لوگوں کی مزاحمت سے انہیں نجات مل گئی۔ حضرت میر نازک ان کے حال سے آگاہ ہو کر ان کی دلجوئی کیا کرتے ۔ حضرت سید نعمت اللہ حصاری صاحب شرف حضرت میر نازک کے فرزند ہیں۔ ظاہر و باطن کے کمالات سے آراستہ تھے والد بزرگوار کی وفات کے بعد خلافت اور رشد و ہدایت کی مسند پر بیٹھے کوئی چار پانچ برس زندہ رہے۔ وبا کے زمانے میں 1027/1618میں رحلت فرما گئے۔ اپنے والد ماجد کے احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ محمد شریف المعروف شوک بابا غیبی واردات سے صاحب جذبہ ہوئے۔ اہل بینش نے جنون پر محمول کی اور حضرت خواجہ مسعود کی خدمت میں انہیں لے آئے۔ خواجہ نے انہیں حجرے میں بٹھا دیا وہیں انہوںنے آرام پایا۔ رفتہ رفتہ حضرت خواجہ سے باطنی تعلیم حاصل کی جس سے ان کا جذبہ اور قوی ہو گیا اور وہ بے پروائی کی راہ پر چل پڑے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ انہیںکئی کام رہے وہ بلند آواز میں بات کرتے واور بہت سے احوال کا کشف کرتے رہتے۔ خواجہ نے اکثر اصحاب ان کے حوالے کر دیے۔ مرشد کی وفات کے بعد سات برس تک جیے اور 1027/1618میں رحلت کر گئے ۔ اپنے مرشد بزرگوار کے احاطے میں آسودہ ہوئے۔ مخدوم شیخ عباس‘ مخدوم شیخ عبداللہ‘ اور مخدوم عبدالواحد حضرت مخدوم احمد قادریکے بیٹے اور علم و عمل میں اپنے بڑے بھائی موسیٰ کے قریب تھے۔ یہ سب اصحاب کشف اور صاحبان حالات عجیبہ تھے۔ اپنے والد ماجد کے احاطے میں آسودہ ہیں۔ شیخ حاجی دائود بلخی حضرت بابا دائود خاکی کے خلفامیں سے ہیں۔ مناسک حج ادا کرنے کے بعد موضوع انچار کی ایک غار میں بیٹھ کر پروردگار کی عبادت میں مصروف ہو گئے۔ اصحاب ذوق و حال مٰ سے تھے ان کے گرد ایک بھیڑ رہتی تھی۔ بعد میں انہوںنے شادی کر لی او ر سنت کی برکت سے لوگوں کی مزاحمت سے انہیں نجات مل گئی۔ حضرت میر نازک ان کے حال سے آگاہ ہو کر ان کی دلجوئی کیا کرتے ۔ حضرت سید نعمت اللہ حصاری چکوں کے اواخر عہد میں ہندوستان سے تشریف لا کر محلہ حجہ بل میں سکونت اختیار کی اکثر اوقات اوراد و اذکار اور پروردگار سے نسبت قلبی کے تحفظ میں مشغول رہتے ، کبھی کبھار وجد و سماع بھی کر لیا کرتے اور ارباب مال و مکنت اور حکام کی صحبت میں کبھی سر جھکا کر نہ رکھتے۔ کہتے ہیں کہ چند روز وہ دولت مند لوگوں کی ضیافت پر راضی رہے۔ اس دوران انہوںنے اپنے احوال میں بہت واضح تفاوت کا مشاہدہ کیا۔ فکر مند اور متحیر ہو کر اپنے حال کی اصلاح پر مائل ہو گئیل چونکہ اس زمانے میں حضرت میر نازک قادری کے کمالات کا چرچا پھیلا ہوا تھا۔ اس لیے انہوں نے بڑے ہی صدق دل سے حضرت میر کی زیارت کی۔ جناب میر نازک نے اپنے مقررہ کھانے میں سے جو عورتوں کی مزدوری کی رقم سے بنا تھا کچھ حصہ انہیں دیا۔ ایک لقمہ کھاتے ہی حالت قدیمہ پھر ا کے باطن کی راہ سے ظاہر ہو گئی۔ حضرت میر نے فرمایا کہ سید اپنے حال کے تحفظ سے خود خبردار ہونا اور ممنوعہ چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ وگرنہ میرا یہ لقمہ ہر کیس کوہر روز میسر نہیںہے۔ سید نعمت اللہ کی نشستگاہ حجتہ بل میں واقع اور زیارت گاہ و حامل برکات ہے۔ حضرت بابا حاجی کانجو قادری ان کے خلفا میں سے ہیں۔ شیخ محمد سعید حضرت بابا دائود خاکی کے سعات مند فرزند ہیں۔ ظاہر ی اور باطنی کمالات سے آراستہ اور صوری و معنوی فیوض سے پیراستہ تھے چونکہ حضرت ہردی بابا ریشی مالو کے منظور نظر تھے اس لیے رحلت کے وقت اسلام آباد کے لوگوں کی کوشش سے ریشہ مالو کے مقدس احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی اکثر اولاد باعظمت صاحب علم و تقوی و ورع تھی۔ حضرت شیخ محمد حضرت شیخ یعقوب صرفی کے متنبیٰ بھائی اور تربیت کردہ ہیں۔ سات بزرگوار بھائیوں میں سے حضرت شیخ حضرت صرفی کو بہت عزیز اور ان کے قریب تھے چھوٹی عمر میں ہی ان کی تربیت و عاطفت کے سایے میں رہے۔ حضرت شیخ ابراہیم حضر ت ایشان شیخ یعقوب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اپنی اعلیٰ استعداد اور خداداد ہمت کی بنا پر صاحب شہرت تھے بڑوںسے سنا ہے کہ ان کی صبیہ رضیہ ذکیہ جن کا نام عائشہ بی بی تھا حضرت شیخ حیدر کے عقد میں تھیں جو راقم حروف کے اجداد مادری میں سے ہیں اور مذکورہ بی بی اپنے وقت کی صالحات اور عابدات میں سے تھیں۔ ان کا مقبرہ پرگنہ دیوہ سر کے قریب اور شہرت یافتہ نیز زائر حضرات کا مرجع ہے۔ اسی گائوں میں ان کی متروکہ زمین کی آمدنی مرحومہ کے ورثا میں تقسیم ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ یعقوب ڈار مشہور قبیلہ ڈار کے فرد ہیں اور عالی کدل کے ڈار قبیلے کے لوگ ایک ایسے ڈار کی اولاد ہیں جوسلاطین کشمیر کے عہد میںاپنے زمانے کے بڑے لوگوں میں سے تھا اور جس کی دنیوی ساکھ بہت تھی۔ دریائے بھٹ کے کنارے واقع خانقاہ اس کے نام سے منسوب ہے۔ یہ خواجہ یعقوب عنفوان جوانی میں اور کمال کامرانی میں تھے جب خدا پرستی کے ذوق سے سرشار ہوئے ۔ حضرت شاہ قاسم حقانی قدس سرہ کی خدمت میں مرید ہوئے اور جذبہ پیدا کر لیا۔ ااسی دوران میں حضرت شاہ قاسم حقانی حرمین کے سفر پر روانہ ہوئے۔ انہوںنے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اتفاق سے بھرپور جوانی میں حضرت خواجہ یعقوب کی رحلت کا واقعہ کشمیر میںرونما ہو گیا جس سے بہت زیادہ غلغلہ مچ گیا۔ محلہ سازگراںمیں ان کا مقبرہ مشہور ہے۔ میر حمزہ کریری حضر ت سید جالے مراد (؟) کی اولاد مجاز میں سے ہیں۔ جب ان کے سعادت منزل دل میں طلب الٰہی پیدا ہوئی تو وہ حضرت ذیشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہ کی بابرکت خدمت میں پہنچے اور غفلت کے تالے کو پوری طرح توڑ ڈالا۔ آنجناب کی خدمت میں پابندی سے رہے۔ جب حضرت شیخ حرمین کے سفر پر روانہ ہوئے تو دوسروں کی طرح انہوںنے بھی میر محمد خلیفہ کی صحبت سے استفادہ کیا۔ شیخ ارباب کمال کے واقعہ وصال کے بعد آنحضرت کے حکم پر لوگوں کے رشد و ہدایت میں مصروف ہوئے۔ ظاہری علوم سے بھی کافی حد تک بہرور تھے۔ بہت سے لوگ ان کے فیضانفا س سے بامراد ہوئے‘ جن کا ذکر آگے آئے گا۔ انہوںںے حضرت ایشان (صرفی) کے احوال میں اور ان کے ساتھ ساتھ خلفا‘ اصحاب اور درویشوں کے بارے میں ایک مختصر رسالہ تحریر کیا اپنے وطن مالوف موضع کریری میں اپنے جدبزرگوار کے جوار میں آسودہ ہیں۔ 1026/1617میں رحلت فرمائی ۔ شیخ بابا والی کی خدمت سے بھی بہر اندوز ہوئے۔ خواجہ محمد یوسف مانتجو ثانی یہ بھی حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی کے اردتمندوں کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے‘ تاہم حقیقی تربیت خلفا کی خدمت میں پائی مجاہدات میں مشہور ہیں۔ جب انہوںنے رحلت فرمائی تو شہر سے باہر بجواری کے مقام پر کوہ تخت سلیمان کے درے میں دفن ہوئے۔ قبلہ کے اس طرف آخر میں سید محمد کا آستانہ ہے جس کی قبر شریف سے آثار جذبہ نمایاں ہیں۔ وہیں شیخ قاری بھی ہیں جو بہت متقی ہیں۔ شیخ موسیٰ بلدیمری کبروی علوم ضروریہ کی تحصیل کے بعد طلب الٰہی کا ذوق ان کے دامن گیر ہوا۔ انہوںنے کئی سفر کیے۔ حرمین بھی پہنچے اور حج ادا کیا۔ آخر الامر کشمیر میں حضرت شیخ بابا والی قدس سرہ العالی کی جناب سے متوسل ہوئے اور سلوک کے فوائد حاصل کیے۔ اسی اثنا میں شیخ حضرت رحلت فرما گئے۔ خواب میں حضرت ایشان کے ایمانپر ‘ شیخ حسین خوارزمی کے ایک بڑے خلیفہ حضرت شیخ خلیل اللہ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا۔ جب بلخ پہنچے تو آنجناب کی رحلت کا سن کر جو انہی دنوں واقع ہوئی تھی‘ حیران و مکدر ہوئے۔ پھر اس عالموں کے عالم کے الہام کی بدولت حضرت شیخ پایندہ ساکتری کی خدمت میں پہنچے‘ جو کہ کبرویہ کے طریقہ علیہ کے مسند نشین تھے۔ وہاں چند روز تک انہیں بات کرنے اور خطاب کی اجازت نہ ملی۔ جب انہوںنے استقامت سے کام لیا اور اظہار طلب کیا تو شیخ ان کے احوال کی طرف متوجہ ہوئے۔ تین برس ان کی خدمت یں بسر کیے اور طریقہ کے فوائد حاصل کیے پھر رشد و ہدایت کے اجازت لے کر کشمیرلوٹے اور بلدیمر میں سکونت اختیار کر کے ایک خانقاہ تعمیر کی اور طریقہ کے اجراہ میں مشغول ہو گئے۔ انہوںنے طویل عمر پائی اور شب و روز رب الارباب کی عبادت اور تربیت اصحاب میں گزارتے رہے۔ اپنے طریقہ (سلسلہ) کی بہت ترویج کی۔ اکثر ارباب ارادت رات کے آخری حصے میں زیارت کے لیے آتے اور اجتماع کی صورت میں بلکہ باجماعت تہجد کی نماز ان کے ساتھ کانقاہ میں پڑھتے اس وقت میں شہر میں یہ امر شیخ کا مخصوص اور نیا عمل تھا۔ کہتے ہیں کہ تہجد کے وقت سو سے بھی زیادہ افراد اان کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ انہوںنے 1026/1617میں رحلت فرمائی۔ روضہ حضرت شیخ بابا والی کی خانقاہ معلیٰ کے صحن میں اس چبوترے پر دفن ہوئے جو اب دوسرے مشائخ کا بھی احاطہ ہے۔ اللہ کی ان پر رحمت ہو ‘ وسیع رحمت۔ شیخ موسیٰ زہگیر حضرت خواجہ طاہر رفیق سہروردی کے تربیت یافتہ ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ یتیم تھے۔ ان کا ذوق ان میں پیدا ہوا۔ سب سے پہلے بابا کنکی ریشی کی خدمت میں پھر حضرت شیخ یعقوب صرفی کی جناب میں اور آخری بار حضرت خواجہ رفیق کی صحبت میں پہنچے اور وہیں انہیں استقامت میسر آئی اور مجاہدہ کے زور پر صاحب کشایش ہوکر اجازت بلکہ خلافت کے مرتبے تک پہنچے اور پیروں خی سنت پر قائم رہے۔ میر علی‘ مولانا حسن لنک‘ اور شیخ محمد شریف بھی شیخ کے خلفا میں سے تھے اور سبھی آراستہ اور ریاضت تقویٰ اور استقامت سے پیراستہ تھے۔ ان سب کا ذکر طول کلام کا باعث ہو گا۔ حضرت شاہ قاسم حقانی میر شمس الدین شامی کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت علی ثانی کے ہمراہ کشمیر آئے اور یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ شاہ ممدوح کو ملا قاسم کہا جاتا ہے۔ حاجی کے لفظ سے بھی مشہور تھے جب حضرت ایشاں کیک ایمان پر ‘ عین انکار اور ارادہ احتساب میں جذبہ سے سرشار ہوئے اور میر محمد خلیفہ کی خدمت میں پہنچے تو شاہ کے لفظ سے مخاطب ہوئے۔ مجاہدات میں اپنے ہم عصروں سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ حضرت ایشاں کی واپسی کے بعد آنجناب کی بیحد نظر عنایت کے مورد ٹھہرے۔ ایک دن ذکر کی گرمی سے ان کا لباس جل گیا اور ایک رات غسل کے بعد کہ ہر نماز کے وقت ان کی یہ عادت تھی۔ سردی کی شدت سے باعث ان کے مام مبارک بدن سے خون جاری ہو گیا۔ ایک منکر کی طرف انہوں نے قہر سے دیکھا تو وہ چل بسا۔ حضرت ایشاں کی وفات کے بعد ایک مدت تک سفر حج کیا اور بہت سی فتوحات حاصل کیں‘ جن میں سے یہ کچھ یہ ہیں: سلسلہ عالیہ قادریہ کی اجازت اور شیخ فیض اللہ قادری سے حضرت غوث الاعظم کا مبارک کرتا پانا اولیا کے پیشوا خواجہ دیوانہ صورتی سے جو خواجہ اسلام جوئباری کے کامل خلفا میں سے تھے نقشبندی سلسلہ کی اجازت اور شیخ سلیم فتحپوری سے تبرکات اور دیگر عنایات کے ساتھ طریقہ چشتیہ کی اجازت پا کر کشمیر پہنچے یہاں انہوںنے جوش رشد و ہدایت کو آسمان پر پہنچا دیا اور ایک دنیا کو تربیت و افادہ کی بدولت وجود کے موانع سے رہائی دلا دی۔ 1033/4-1623میں رحلت فرمائی۔ چالیسویں دؤن جیسا کہ انہوںنے خود فرمایا تھا‘ ان کی قبر مبارک سے ایک لوہار کی بھٹی کی نرکل اگی اور سبز ہو گئی اور وہ آج بھی ہے اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی کرامات ان سے منسوب و مشہور ہیں۔ شیخ مہدی علی سویپوری اپنے وقت کے برگزیدہ لوگوں میں سے تھے۔ علوم سے بہت زیادہ بہرور تھے۔ انہوںنے دہلی کا سفر کیا جہاں کئی مشائخ سے ملاقات کی اور حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی کی صحبت میں بھی پہنچے اور فوائد سے بہرہ ور ہوئے۔ جب کشمیر لوٹے تو قصبہ سویپور میں سکونت اخیتار کر لی۔ حضرت مجدد کے مکتوبات کی جلد دوم میں ایک مکتوب ان کے نام ہے جو تعزیت نامہ کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ سویپور میں شیخ کا مقبرہ مشہور ہے۔ حضرت بابا اسحاق حضرت شیخ مسعود نردری کے مریدوں بلکہ خلفا میں سے ہیں۔ حالات عالیہ اور کرامات بلند کے مالک تھے۔ مستجاب الدعوات کے طور پر شہر ت رکھتے تھے ۔ شیخ کے خلفا میں انہیں بہت امتیاز حاصل تھا۔ ریاضت اور ارادے سنت میں استقامت‘ مداومت اور شدت کی بنا پر زبان زد عقلا تھے۔ سید ریشی بابا کا ذکر اپنی جگہ پر آئے گا۔ ان کے مریدوں میں سے تھے۔ ملاجامی حاجی گنائی: محلہ لنکرتہ میں واقع مدرسہ سلطان قطب الدین کے مدرس حضرت شیخ یعقوب صرفی کے شاگرد اور ملاجیت میر عدل کے استاد تھے۔ اپنے وقت کے شرفا میں سے تھے۔ تحصیل علوم سے بہرہ ور ہوئے۔ ملا حاجی باندی مفتی شیخ یعقوب صرفی کے شاگرد اور اپنے وقت کے شرفا میں سے تھے۔ تحصیل علوم سے بہرہ وور ہوئے ۔ عمر کا بیشتر حصہ افادہ اور استفادہ میں گزار دیا۔ کنگین کے باندی (قبیلہ) بظاہر ان کی اولاد سے ہیں۔ شیخ بابا حسین شیخ عبدالکریم کے بیٹے اور اپنے والد ماجد کے مرید ہیں جن کا ذکر گزر چکا ہے ظاہری علوم سے بھی بہت بہرہ ور تھے۔ جب فقر اختیار کیا تو سب سے پورے طور پر ہاتھ اٹھا لیا۔ جس روز انہوںنے اپنے مسکن کو اپنا مقبرہ قرار دیا لوگوں میں چہ مگیوئیاں شروع ہو گئیں۔ انہوںنے کہا کہ میری وفات کے دن لوگوں کے لیے چلنا ممکن نہ ہو گا۔ جمعہ کے روز جب بارش پوری شدت سے شروع ہوئے اور اس کے سبب راستے بند ہو گئے وہ وفات پا گئے اور وہیں آسودہ ہوئے۔ لوگ بڑی مشکل سے وہاں پہنچے ان کا یہ قول کہ اگر ایک روز میں اپنی گوشہ نشینی سے باہر ا؟ٓیا تو چالیس روز بے آرامی میں گزرے۔ محرم راز آخون ملا حسین خباز سب سے پہلے مخدوم آفاق مولانا خواجہ اسحاق کی خدمت میں ارادت حاصل کی جن کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اور ظاہری اور باطنی کمالات کی تحصیل فرمائی۔ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حج کا سفر اختیار کیا۔ پھر خواجہ عبدالشہد کی جناب میںپہنچے جو مقرفب پروردگار حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کے احفاد میں سے تھے اور اس وقت ہندوستان میں تشریف فرما تھے اور آگرہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان سے انہوںنے خط کا مل اور فیض شامل حاصل کیا۔ اس طرح حضرات خواجگان عالیشان کی نسبت بہم پہنچائی‘ بلکہ دہلی میں مرشدنا (ہمارے مرشد) اور امامنا( ہمارے امام) حضرت خواجہ عبدالباقی کی جو عالیشان خواجگان کے لیے باعث افتخار ہیں سراپا برکت و سعادت کی حامل خدمت سے بھی بہرور ہوئے۔ غرض جب کشمیر لوٹے تو کمر ہمت پوری طرح شرع مبین کی ترویج اور بدعت کے حامل امور دور کرن پر باندھ لی ۔ اسی بنا پر حضرت خواجہ حبیب اللہ نوشہری سے جو اس زمانے میں سکر اور حال کے غلبے کے باعث سما ع اور صحبت قوال مٰں مشغول تھے کئی مرتبہ شدید مجادلہ و مناظر ہ کیا دونوں جانب سے حاکم وقت کے پاس مقدمے کی نوبت جا پہنچی۔ ہر مرتبہ شرعی دلائل کی قوت کی بنا پر مولانا ہی کو گلبہ میسر آتا رہا۔ یہ مولانا صاحب تصنیف ہیں جیسے ہدایت الاعمیٰ وغیرہ۔ اس رسالے میں سابق حضرات مثلاً شیخ فرید الدین عطار‘ مولانا جلال الدین رومی اور ان جیسے دوسرے حضرات کے حق میں لکھا ہے اور جواب وسوال بھی ہیں۔ ارباب فضل وصلاح میں سے ایک صاحب روایت کرتے ہیں کہ خواجہ محمد امین صوفی کہتے تھے کہ شیخ ابوالفقرا بابا نصیب‘ مولانا حیدر علامہ اور ان کے بیٹے خواجہ محمد افضل مولانا سے ملاقات کی خاطر جمعہ کی نماز کے بعد ملک جلال الدین کی تہکور مذکور کی خانقاہ میںپہنچے‘ میں اس وقت کم سن تھا اور بابا نصیب کی کفش برداردی کر رہا تھا میں دروازے کے قریب کھڑا تھا کہ آخوند ملا حسین ملا حیدر علامہ کی طرف آئے اور پوچھا کہ یہ حدیث کن صحابہ کی روایت کردہ ہے۔ خواجہ محبد افضل نے جاب میں سبقت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں ۔ اخوان نے ان کی طر ف اعتنا نہ کرتے ہوئے مولانا حیدر کی طرف توجہ کی۔ انہوںنے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تیسرے خلیفہ اس کے راوی ہیں۔ اخوند بولے اگر تم پہلے ایسا کہتے تو میں قبول کر لیتا۔ لیکن چونکہ اس لڑکے نے بتایا اس لیے مجھے تردد ہوا۔ اب یہ لازم ٹھہرا کہ خلیفہ ثالث کی جناب سے اس کی تحقیق کی جائے۔ خواجہ محمد امین کہتے ھتے کہ اسی عالم میں ایک گدڑی پوش شخص خانقاہ کے دروازے کے اندر داخل ہوا اور وسط میں آ کر بیٹھ گیا اور اخوند ملا حسین بابا نصیب اور مولانا حیدر علامیہ علیہ رحمہ تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوے اور انہوںنے اس قدسی مقام ہستی کے قدم مبارک پکڑ لیے۔ ان سب نے باہم کچھ کھسر پھسر کی۔ ھر وہ بزرگ اٹحے اور چل دیے اور خانقاہ کے درواازے سے میں (امین) نے بھی قدم مبارک تک ہاتھ برھا دیا۔ یہ بزرگ حضرت امیرالمومنین عثمان تھے واللہ اعلم راقم حروف نے یہ حکایت ایک عالم و صالح عزیز سے سنی ہے جس کا سلسلہ نسب ایک واسطے سے خواجہ محمد امین صوفی تک پہنچتا ہے ۔ انہوں (ملا حسین) نے سنہ (؟) میں وفات پائی۔ محلہ گوجوارہ میں ان کا مقبرہ ہے۔ فیروز شاہ مجذوب عجب جوش و استعنا کے مالک اور صاحب کشف قوی تھے۔ دلوں کو بہت فیض پہنچاتے ۔ ایک مرتبہ جہانگیر بادشاہ نے انہیں اپنے ساتھ کشتی میں بٹھا لیا اور ان کی جھول میں بہت سی اشرفیاں اور روپے ڈال دیے ۔ انہںنے سب دریامیں پھینک دیے اور نور جہاں بیگم کو بہت کوسنے دیے کہ ان کی تلیف کا وہ باعث بنی۔ اہل مطلب اور صاحبان حاجات کے ساتھ باتوں میں دوران میںمدعا کی خبر دے دیتے۔ خاص طور پر سالکوں کے گروہ کو نصیحت و موعظمت کے پردے می ںاشارہ مطلب صاف دے جاتے۔ بجسارہ میں آسودہ ہیں۔ شاہ یعقوب مجذوب بظاہر بعض حضرات کبرویہ سے تعلیم حاصل کی۔ رفتہ رفتہ ان کا معاملہ جذبے تک پہنچ گیا۔ ایک ہفتے ارو دس دس بارہ بارہ روز تک کچھ کھائے پیے بغیر ایک ہی جگہ پڑے رہتے اور اہ حاجت کے مقاصد کی خبر دیتے۔ ابتدائے طلب میں حضرت بابا مجنون سہروردی نے بظاہر علمی شغل ترک کرنے کا ارادہ کیا تھا ایک روز ان کا گزر ایک ایسے راستے سے ہوا جو شاہ یعقوب کی گزرگاہ تھا۔ پیشاب پر بیٹھ کر وہ (یعقوب) بابا کی طرف منہ کر کے بولے کہ تو کتاب و درس ترک کر کے بیٹھے ہوئے کیا کر رہا ہے۔ غیبی تنبیہہ پر کر وہ پھر درس میں مشغول ہو گئے ان کے تین تعویذوں کی حکایت مشہور ہے جو انہوںنے تین بے اولاد عورتوں کو دیے اور تینوںمیں سے ہر ایک کے یہاں ایک ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس نے طویل عمر پائی ارو اخروی و دنیوی بخت سے بہرہ ور ہوا‘ ایک خواجہ محمد افضل چرخی کی زوجہ کو‘ ایک امیر علی محمد قادری کی بیٹی کو جس سے شیک ابوالفتح اور ایک کسی بڑے آدمی کو۔ جب انہوں نے رحلت فرمائی تو حضرات مشائخ کے احاطے میں آرام فرما ہوئے جو خانقاہ معلیٰ میں اس چبوترے میں ہے جو حضرت والی کا مقبرہ ہے۔ خواجہ صادق سود اس شہر کے اکابر میں سے تھے۔ عمر کا بیشتر حصہ تحصیل علوم میں صرف کیا اور اہل علم کے مقتدر ٹھہرے ۔ پھر فقرا کی خدمت میں چلے آئے اور سالک ہوئے۔ انہوںنے مجدد الف ثانی سلطان شیخ احمد سرہندی کی صحبت بھی پائی۔ طبع موزوں کے مالک تھے۔ کبھی کبھی حال میں شور موزوں کر لیت۔ اصحاب کشایش میں سے تھے۔ حضرت مجدد کے دو ایک مکتوب ان کے نام ہیں۔ جب رحلت فرمائی تو وامت پورہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ مولانا ؍ ملا محمد رضا معروف بہ حکیم دانا۔ حضرت مولانا کمال الدین سیالکوٹی کے جن کا ذکر گزر چکا ہے۔ فرزند ارجمند ہیں۔ عقلی و نقلی علوم کے جامع تھے ۔ تحقیق و تدقیق کے فن میں مولویت کے درجے تک پہنچے ۔ جہانگیر بادشاہ نے ان کے کمالات کا شہرہ سن کر اپنی مجلس میں باریاب کیا جب سنی اور شیعہ کا امتحان و معارضہ ہوا تو اس میں مولانا علمائے اہل سنت کے سرگروہ تھے۔ ملا حبیب کی اعانت سے انہوںنے دوسرے علماء کو نادم کر دیا ۔ اپنے گھر واقع محلہ جمالعہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ ملا حبیب گنائی گنائی قبیلے سے ہیں ۔ تحصیل علوم کے بعد سلطانی چھائونی میں گئے جہاں کسی امیر سے ان کی شناسائی ہو گئی‘ اور رفتہ رفتہ جہانگیر بادشاہ کی صحبت میں جا پہنچے۔ دقائق علوم کی آزمائش بالخصوص شیعہ و سنی کی بحث میں اپنے اکثر عصروں سے فائق ٹھہرے۔ خط اور انشا کے جزئی کمالات کے بھی پوری طرح ماہر تھے۔ راقم حروف (اعظمی) نے تصوف کی کتاب مرصاد العباد ان کے ہاتھ لکھی ہوئی دیکھی ہے۔ ان کا عجیب نمکین‘ شیرین اور پختہ خط نستعلقین تھا کہ اول سے آخر تک دس ہزار اشعار ایک قلم سے لکھے ہیںَ قاضی ابوالقاسم ملا جمالی مولانا جمال الدین سیالکوٹی جن کا ذکر گزر چکا ہے۔ کے فرزند ہیں۔ فنون علم سے آراستہ اور متانت تمیز سے پیراستہ تھے۔ اکثر علوم انہوںنے اپنے والد بزرگوار اور عم عالی مقدار کی خدمت میں حاصل کیے اور دوسرے فضلا کی بھی خدمت میں پہنچے ان کا کہنا ہے کہ ایک دروز ایندھن لینے کی خاطر میں ایک آبادی میں گیا۔ میرے آدمیوں نے ایک بڑا درخت کاٹا ایک جن میرے والد کی خدمت میں آیا اور فریاد کی کہ والد بزرگوار نے ا س کام سے منع فرما دیا۔ یہ قاضی ابوالقاسم قاضی موسی شہید کے فرزند قاضی صالح کے ساتھ سمدھیانہ نسبت سے مشرف ہوئے اور کشمیر کے منصب قضا پر فائز ہوئے۔ دیانت اور مکمل احتیاط کے ساتھ معاملات طے کرتے جب رحلت فرمائی تو اپنے والد بزرگوار کے مقبرے میں آرام فرما ہوئے۔ ملا حبیب میر عدل محلہ لنکریہ میں سکونت پذٰر تھے۔ علوم دینی میں قاضی محمد یوسف کے جد پدری ملا حاجی گنائی قدس سرہ سے استفادہ کیا۔ علوم غربیہ اور فنون فضائل سے بہت زیادہ بہرور تھے ۔ سفر ہند میں انہوں نے بہت سے علوم حاصل کیے۔ وطن لوٹنے کے بعد میر عدل کے منصب پر فائز ہوئے اور قاضی موسیٰ شہید کے فرزند قاضی صالح کے ہمراہی میں عدالت میں مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے تفسیر کا درس بہت دیتے رہے اور سرر سے واپسی پر بہت سی تفاسیر اپنے ہمراہ لائے ملا ابوالفتح کلو‘ ملا طاہر کوجائی ‘ ملا یوسف خاموش‘ شیخہ میر چوتا جی اور ملا حیدر راریتو ان کے شاگرد تھے۔ ملا محمد طاہر صدر ان کے نواسے ہیں۔ ملا علی پستک علم معقول کے دانشمدن اور درمیانہ قد کے تھے۔ جہانگیر بادشاہ نے انہیں پستک کہا اور پھر اسی لقب سے ملقب ہوئے۔ حسن طبع کے بھی مالک تھے مصرع ’’وای پست و بلند ہمت کو‘‘ (افسوس ہمت کی پستی اور بلندی کہاں) ان کی تاریخ وفات ہے۔ (یعنی 1042/3-1632۔ خواجہ علی پنور انیواری جناب ملا شمس پال اور جامع کمالات شیخ یعقوب صرفی سے علوم حاصل کیے۔ قدوۃ الواصلین مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ کے مرید تھے۔ مرتبہ فضیلت کے باوصف تصوف کے معارف و دقائق سے بھی بہرہ ور تھے۔ اصحاب صفا و تقویٰ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اواسط عمر میں سفر اختیار کیا اور حڑمین محترمین کی زیارت سے مشرف ہوئے اور شیخ ابن حجر سے حدیث کی سند و اجازت لے کر کشمیر لوٹے۔ علوم نحوی کے افادہ میں اپنے اوقات صرف کیا کرتے تھے کہ اچانک ہم عصروں کی حالت سے رشک پدیا ہوا اور صلاح و تقویٰ میں زندگی بسر کرنے لگے۔ انہوںنے اپنے مسکن کے جوار میں رحلت فرمائی اور محلہ رانیواری میں دفن ہوئے۔ ان حضرات کے علاوہ بھی ریشوں میں بعض ریاضت کیش اور حقیقت اندیش مشائخ ہیں۔ اختصار کی خاطر ان کے صرف اسما قلمبند کیے جایت ہیں۔ نند ریشی‘ قدیم ہردی بابا ریشی‘ کے مرید تھے نتیجہ ریشی ‘ یم ریشی‘ بابا مرد آگاہ آدت ریشی مرید تھے لچم ریشی کے جن کا ذکر گزر چکا ہے۔ پسیت ریشی صاحب ریاضت اور مرید تھے بابا حنیف الدین کے ریکھا ریشی مرید تھے بابا شکریالدین کے ایک ایسے عزیز جو ریشیہ قدیم کے بقایا میں سے تھے صید ریشی و بہرام ریشی مرید تھے نوری ریشی کے۔ ان کے علاوہ اور بھی ریشی تھے جن میں سے ہر ایک کاذکر طوالت کا باعث ہو گا۔ بہرحال اس دور میں جو مشائخ سامنے آئے ان میں سے اکثر حضرت مخدوم شیخ حمزہ کے خاندان کا اور ان کے خلفا بالخصوص بابا دائود خاکی سے نسبت یافتہ ہیں جیسے یعقوب میر جن کا بایاں ہاتھ اور دایاں پائوں رافضیوںنے اپنے غلبے کے دوران تعصب کی بناپر کاٹ ڈالا تھا۔ اس کے بعد انہو ںنے ایک عمر کتابت و عبادت میں بسر کی۔ خواجہ زیں الدین جو زین الدین رانیواری سے الگ شخصیت ہیں۔ خواجہ یزید کسی مرض کی بناپر حضرت بابا نے ان کے پائوں دیکھنے کا حکم فرمایا۔ اسی حالت میں حج کو پہنچے اور وہاںمدفون ہوئے خواجہ دائود خاکی باہ مولی پرہیز ار اور متشرع تھے… بابا حاجی …خوشنویس… خواجہ زاہد… مولانا… کامراجی… زاہد پوری… محمد پارسا… شیخ اوتر عمادی شیخ خداردردی… بابا سیاہ پوش‘ خواجہ ارشان چیرہ باری۔ یہ دونوں عزیز صاحبان ذوق و شوق تھے شیخ حسین کو ٹہامی شوکہ ریشی جو کہ شوکہ بابا پہنوری سے جن کا ذکر گزر چکا ہے الگ شخصیت ہیں شیخ محمد ماری شیخ محمد صاحب تجرید و تفرید تھے خواجہ اللہ داد کاست صابر حاجی ابراہیم‘ خواجہ احمد سلوک ‘ شیخ ابراہیم بجساری ‘ جانباز شیخ حسن مجذوب ریشہ بابا۔ شیخ حیدر حضرت مولانا شنگرف گنائی کی بیٹی کی اولاد امجاد میں سے تھے۔ مولانا کا ذکر گزر چکا ہے۔ فنون علم سے آراستہ اور صلاح و تقویٰ سے پیراستہ تھے۔ شیخ ابوالعلا کے مقبرے میں جو حضرت بابا عثمان اوجب گنائی کے منسوبین سے متعلق ہیں دفن ہیں شیخ حیدر کے ورثا شیخ مذکور سے نسبت صوری کے بھی دعوے دار ہیں نیز کہتے ہیں کہ شیخ ابراہیم جن کا ذکر گزر چکا ہے‘ کی بیتی حضرت عائشہ بی بی ان کے عقد میں تھی اور راقم کے جد مادری شیخ محمد امین اور شیخ محمد شریک مشہوربہ خلیفہ ان کے فرزند ہیں۔ اس آبادی سے جو حضرت بی بی کا مسکن و معیشت ہے ۔ تعلق اور اس کے محصول پر تصرف ان کے صدق دعویٰ پر دال ہے۔ واللہ اعلم۔ ٭٭٭ ان شعراء اور ارباب سخن کا ذکر جو اکبر بادشاہ کے عہد سے دور جہانگیری کے آخر تک منصہ شہود پر رہے یا رحلت کر گئے ملا مظہری اہل کشمیر میں سے ہے۔ شیوہ سخن سرائی اور آداب شعر و شاعری میں مشہور شعرا میں سے تھا۔ عین عنفوان شباب میں جب اس نے رعونت کا لباس پہن رکھا تھا اور جوانی کی سپاہ کو ہوا و ہوس کی فوج کی مدد و اعنات میسر تھی‘ اس نے اس علاقے سے پائے ثبات اٹحایا اور ایران کی جانب چل پڑا۔ عراق اور خراسان کی سیر کی۔ محتشم کاشی اور اس دور کے دوسرے شعرا کے ساتھ نشست و برخاست رکھی اور اس کے بعد کہ اس نے ہوا ی مانند بہت سی منزلین طے کیں اور بادل کی طرح بہت سے مراحل کے گرد گھوما اس کے ضمیر پر جب وطن غالب آ گئی اور وہ کشمیر لوٹ آیا کچھ عرصہ کے بعد وہ بندگان خدا حضرت شاہنشاہ کی سف میں شامل ہو گیا۔ جب کشمیر افواج قاہرہ کے تصرف میں آ گیا تو ملا اس علاقے کے منصب میر بحر سے جو فیض آثٓر خطے کی انتہائی باعظمت مہمات میں سے تھے ممتاز و سرفراز ہوا… ااس کا دیوان چھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ اشعار اس کے واردات (قلبی) کے حامل ہیں: فدای آئینہ گردم کہ داستان مرا درون خانہ بہ گلگشت گلستان دارد مطہر بجان چوبی نصیبان می باش دز گل بنوای عندلیبان می باش بادیدنی از خوبی عالم می ساز مہمان نظارہ چو غریبان می باش اقبال حسن کار تراپیش می برد ورنہ صلاح کار ندانستہ ای کہ چیست ۱۔ میں آئینے کے قربان جائوں کہ میری داستان گھر کے اندرہی سے گلگشت کے لیے گلستان رکھے ہوئے ہے متعلقہ تذکروں ور منتخب التوایخ میں لفظ داستان ہی ہے جبکہ یہاں محل ’’دلستان‘‘ کا معلوم ہوتا ہے) ۲‘۳: اے مظہر دنیا میں تو بے نصیبون کی طرح رہ اور پھول کے معاملے میں بلبلوں کی نوا کی طرح دہ دیکھنے کے سلسلے میں خوبی عالم کے ساتھ موافقت کر اور اجنبیوں کی مانند نظارے کا مہمان رہ۔ ۴۔ حسن کی قبولیت تیرے کام کو آگے بڑھائے گی‘ ورنہ تجھے علم نہیں کہ صلاح کار کیا ہے)۔ سیری چنانکہ ابر نیارد بروگزشت عزمے چنانکہ اد نیار بدو رسید یہ اشعار بال فاصلہ (بلا انتخاب) لکھے جا رہے ہیں اور اس کی واردات کے حامل ہیں غزل: کو خلوتی کہ عزلت عنقابر آورم تابام آسمان در دنیا بر آورم چون کود کی کہ خوی وی از شیر واکند من دیدہ را ز ذوق تماشا برآورم چون نارسیدہ میوہ کہ بادش برافگند از دل بصنف بیخ تمنا برآورم خون شد دلی و خوشم کہ بہر جزورد رود تاکار عشقت از ہمہ اجزا بر آورم ہر صبح آتشی شوم و درخود اوفتم چون گل بہ خانہ سوزی غوغا برآورم لطفی نکردہ دہر ز دیانہ پرشدست حرفی نہ گفتہ شہر ز افسانہ پرشدست یک قطرہ از قرابہ ساقی فرو چکید چندین ہزار ساغر و پیمانہ پرشدست درخون خویش دست زداز غصہ مظہری کز شاخ سنبل تو کف شانہ پرشدست گل عذاران کہ لب از شکر شان نتوان بست ہیچ طرفی ز بہار و برشان نتوان بست چہ کشاید دل ازی مردم بیگانہ منش کاشنائی بدل کافر شان نتووان بست جام جمشید و دل مظہری آسان مشکن کہ دگر بارہ بیکدریگر شان نتواں بست غم ترک خوشی خویش گفتست امروز درخون خلافت طبع جفتست امروز شادی ز دلم چوگل شگفتست امروز یک لحظہ کسی نچیدہ مفتست امروز از شادی آن جامہ کہ دی پوشیدم چون چرخ بگرد خویش می گردیدم پامال بزرگیم فلک می شد و من در جامہ آسمان نمی گنجیدم در عشق باہ و نالہ ی باید زیست دل کردہ بغم حوالہ می باید زیست آمادہ کفن فگندہ در گردن جان کم مہلت تر زلالہ می باید زیست 1026/1617میں کشمیر میں فوت ہوا۔ ۱۔ سیریا گردش ایسی ہو کہ بادل اس پر سے نہ گزر سکے۔ عزم ایسا ہو کہ ہوا اس تک نہ پہنچ سکے۔ ۲۔ ایسی خلوت کہاں ہے کہ جس میں عنقا ایسی تنہائی پالوں اور آسمان کی چھت تک دنیا کا دروازہ نکال لوں۔ ۳۔ اس بچے کی طرح جس کی فطرت دودھ سے جنم لیتی ہے۔ میں آنکھوں کو ذوق تماشا سے وجود دیتا ہوں۔ ۴۔ اس خام پھل کی مانند‘ جسے ہوا گرا دیتی ہے‘ میں دل سے آرزو کا بیج سختی کے ساتھ باہر نکال دیتا ہوں۔ ۵۔ دل خون ہو گیا اور میں خوش ہوں کہ وہ ہر ہر جزو میں داخل ہو جائے گا اس طرح میںسب اجزا سے عشق کا کام لوں گا۔ ۶۔ ہر صبح میں آتش بنا جاتا ہوں اور اپنے آپ سے لپٹ پڑتا ہوں‘ پھول کی مانند میں اخانہ سوزی ک لی غوغا برپا کرتا ہوں۔ ۷۔ اس نے کوئی مہربانی نہیں کی (لیکن) زمانہ دیوانوں سے بھر گیا‘ اس نے کوئی بات نہیں کی لیکن شہر میں افسانے پھیل گئے۔ ۸۔ ساقی کی صراحٰ سے ایک قطرہ شراب ٹپکا لیکن ہزاروں ساغر اور پیمانے بھر گئے ہیں۔ ۹۔ مظہری نے غصے سے اپنے خون میںہاتھ مارا کیونکہ تیری سنبل کی شاخ سے یعنی زلفو سے کنگھی بھر گئی ہے۔ ۱۰۔ ان گل غداروں کی جن کی شکر سے ہونٹ بند نہیں کیے جا سکتے بہار اور میوے سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ 11۔ بیگانوں کی سی خو رکھنے والے ان لوگوں سے دل کا کشاد کیا ہو‘ ان کے کافر دل کے ساتھ تو آشنائی نہیں ہو سکتی۔ 12۔ تو جام جمشید اور مظہری کے دل کو یونہی نہ توڑ ڈال کر انہیں دوبارہ جوڑا نہ جا سکے گا۔ 13,14 ۔ آج غم نے اپنی خوشی ترک کر دی ہے ۔ آج وہ خلاف طبع خون میں مل گیا ہے۔ آج مسرت میرے دل سے پھول کر پھول کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔ کسی نے اسے ایک پل بھی نہیں چنا (حالانکہ) آج وہ مفت مل رہی ہے۔ 15,16۔ ل جو میں نے لباس پہنا تھا اس کی خوشی میں آسمان کی مانند اپنے گرد تھرجک رہا تھا آسمان میری عظمت کے پائوں تلے مسلا جا رہا تھا اورم یں جامہ آسمان یعنی آسمان کی وسعتوں میں سما نہیں رہا تھا۔ 17,18۔ عشق میں آہ و نالہ کے ساتھ جینا چاہیے‘ دل کو غم کے حوالے کر کے جینا چاہیے تیار کفن روح کی گردن میں ڈال کر لالہ سے بھی کم مہلت کی زندگی بسر کرنا چاہیے۔ ملا میر حسن علوم رسمی سے بہرہ ور تھا۔ مولانا میر علی سے خط نستعلیق کی تربیت لی۔ تھوڑی ہی مدت میں اس فن میں کمال حاصل کر لیا اور اپنے وقت کا بے نظیر ہو گیا۔ اس کا خط فخر کے ساتھ توران اور ایران لے جایا جاتا اور سلاطین لوح قبر وغیرہ لکھواتے ۔ ملا محمد مراد زرین قلم جو مشہور خوش نویسوں میں سے ہے اس کا شاگرد ہے بعض کے نزدیک ایک واسطہ سے (اس کا شاگرد ہے) واللہ اعلم۔ اوجی کشمیری اوج بلاغت و ہنر پروری کا آفتاب تھا۔ آصف خان جعفر کی حکومت میں اس کا نصیبہ پستی سے بلندی کی طرف بڑھا۔ اس نکتہ دان خان کی تبدیلی کے بعد جو بھی حاکم اس دیار میں آیا اوجی اس کے خوان بخشش و عطا سے بہرہ مند ہوتا رہا۔ خمخانہ معانی کے اس سبوکش نے ایک رنگین ساقی نامہ لکھا اور فکر پیشہ تخیل کے الماس سے مضامین کے تابناک موتی پروئے۔ کہتے ہیں کہ مولانا محمد صوفی نے جب اس کے ساقی نامہ کا یہ شعر سنا: مرا دامن خویش زنجیر شد مرا دست در آستین پیرشد (میرا دامن میری زنجیر بن گیا۔ میرا ہاتھ میری آستین ہی میں بوڑھا ہو گیا) تو اصناف انصٓف سے متصف وہ منصف بہت ہی محظوظ ہوا اور فرمایا کہ اگر یہ شعر میں سن لیتا تو اس میں ساقی نامہ کی نظم کرنے کا ارادہ نہ کرتا۔ 1034/1623 میں اوجی کی عمر کا ستارہ اوج حیات سے نشیب ممات کی طرف مائل ہو گیا۔ صاحب دیوان ہے چند اشعار : اوجی از بیگانہ بی تقریب می رنجیم ما دیدہ و دانستہ مارا آشنا تاراج کرد یہ چند اشعار مے خانہ معانی کے اس بادہ نوش کے ساقی نامہ سے ہیں مثنوی: لب از ہم بجز نالہ ننہادہ ام بماتم مگر توامان زادہ ام مرا شیشہ بردوش و باران سنگ نہ یارای رفتن نہ پای درنگ مرا دامن خویش زنجیر شد مرا دست در آصتین پیرشد اگر فی المثل حسن صد نو بہار بروید زروی زمین سبزہ زار نجبند فرپہلویش از سال و ماہ بگہوارہ چشم طفل نگاہ چنان در غمش یدہ خونبار شد کہ شب جالی خوابم جگر زار شد بیا ساقی آن راوق طاق را ضیا بخش خورشید ادراک را بدہ تابدانم کہ آن نوش لب چرامی گریزد زمن بی سبب نسیم سحر خاطر انگیز شد زسیمای گل آتشم تیز شد بیک نغمہ پردازی ارغنون دلم ازدہ گوش آید برون نمی بینم اوجی در آفاق جای سفر بایدم کرد زین تنگنائی ایضاً: اوجی چراغ عمر بافسانہ سو ختیم کاری نکردہ ایم و دمیدن گرفت صبح یہ اشعار بھی اسی کے ہیں: ہر سرکہ بستہ خم فتراک او بود دانم یقین کہ روز جزا سرخ روبود ٭٭٭ از بس خیال زلف تو در سینہ جا گرفت آہی کہ سرزند زدلم مشکبو گرفت ٭٭٭ نشستہ عکس جمالت جتان بخانہ چشم کہ کسب نورکند مہر ز آشیانہ چشم چو دیدہ باز کنم برزخ تواز حیرت کند نگاہ فراموش راہ خانہ چشم بیا کہ بی توہمی تابگردن اندر خون نشستہ مرغ نگاہم در آشیانہ چشم بجای سبہ شررہ دمدزخاک اوجی بہرکجا کہ برافشاندہ ایم دانہ چشم ٭٭٭ ابوالمظفر شہاب الدین صاحبقران ثانی شاہ جہان معروف بہ سلطان خرم جہانگیر بادشاہ کے وقت وہ حدود دکن میں تھا۔ آصف خان کے اہتمام اور حسن سعی سے بھائیوں کی بیخ کنی کے بعد 1037/8-1627میں تخت نشین ہوا۔ چونکہ اس نے رسوم کفر جو سابق رواج پائے ہوئے تھیں مٹا کر رکھ دیا۔ اس لیے زینت شرع (1037)تاریخ کہی گئی۔ اس نے کشمیر کا صوبہ اعتقاد خان کو بحا ل کر دیا۔ 1043/4-1633 میں ظفر خان اس صوبہ کا گورنر مقررہوا۔ 1044/5-1634میں جامع مسجد جو جل گئی تھی‘ سترہ برس بعد تیسری مرتبہ تکمیل کو پہنچی اس مرتبہ اس نے یہاں سات بر س حکمرانی کی۔ اس سال بادشاہ کشمیر کی جانب متوجہ ہوا۔ چندماہ اسنے سیر و شکار اور باغات بالخصوص شالامار باغ کی ترتیب و صفائی میں گزارے پھر واپس چلا گیا۔ اور فرح بخش اور فیض بخش کو باہم ملا دیا(؟) الغرض ظفر خان ایک عیاش اور خوش خلق آدمی تھا۔ باغ ظفر آباد میں موضع بریہ دارہ کے قرب میں ہے اور باغ گلشن جو پل تیتیان کے نزدیک ہے اس کے تعمیر کرد ہ ہیںَ اس نے کئی قسم کے میوہ دار درخت اور کئی طرح کے پھول بڑی تگ و دو کے بعد ایران سے لا کر مذکورہ باغوں میں لگوائے بالخصوص گل زنبق (چنپا) گل گلاب اور چیری پھل جو کشمیر میں نہ تھے اس کے عہد میں یہاں پہنچے۔ اعتقاد خانی دور کی اکثر سلطانی بدعتیں اور ظالمانہ مخترعات اس کے دور میں دور ہو گئیںَ زعفران کی بوائی وغیرہ سے متعلق حکم کسب منفعت اور بیگار اور تمام شرعی ممنوعات وغیرہ اس کی سعی و کوشش سے دور ہو گئیں۔ چنانچہ اس کے عرض کرنے پر ان بدعات کے ختم کرنے کا فرمان صادر ہوا جس کی نقل جامع مسجد کے دروازے کے اوپر لکھ دی گئی۔ یہ فرمان اس کے بعد کالنقش فی الحجر (پتھر پر لکیر) کی صورت اختیار کر گیا۔ ظفر خان کے عہد میں جو وقائع رونما ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی عمدہ کوشش سے تبت کا قلعہ سلطنت قاہرہ کی افواج کے ہاتھوں مسخ ہوا۔ وہاں کے زمیندار بمحل کو کشمیر لایا گیا اور فتحنامہ دربار کو بھیج دیا گیا۔ اس کے دور کے دیگر شدید واقعت مین سے ایک واقعہ اہل سنت اور اہل تشیع کا باہمی نزاع ہے۔ جس کی آگ کا آغاز موضع مائیہ صوفہ سے ہوا جہاں شہتوت کے بہت درخت تھے۔ لوگ شہتوت کھانے وہاں گئے ہوئے تھے او لوگوں کا ہجوم و ہنگامہ تھا۔ بوجوہ ان دو فرقوں میں نزاع پیدا ہو گیا۔ ایک فرقے نے غیر ذمے داری سے کا م لیتے ہوئے سب و شتم شروع کر دیا۔ مدعیوں نے قاضی محمد عارف کے والد قاضی ابوالقاسم کی خدمت میں وہ سب و شتم بیان کیے اور ملزموں کے نام شرعی وارنٹ جاری کیے۔ انہیںطلب کرنے کے سلسلے میں صوبہ دار کی طرف سے کسی قدر سستی برتی گئی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ شورش پر اتر آئے اور انہوںنے اس سستی کا ذمے دار قاضی کو ٹھہرایا۔ پھر خاص و عام سبھی نے ارباب شہود کے پیشوا حضرت ایشان خواجہ خاوند محمود قدس سرہ کی جو کشمیر میں سلسلہ نقشبندیہ کے اکابر میں سے تھے ولایت و شرافت مرتبت اور ہدایت منزلت جناب سے رجوع کیا۔ انہوںنے حاکم شرع اور ناظم صوبہ کو پیغام بھیجا۔ جب اہل سب وشتم کی تنبیہہ میں تاخیر ہوئی تو حضرت خواجہ ہفت چنار آ کر بیتھ گئے۔ نتیجتہً ناظم صوبہ نے حضرت خواجہ سے عاجزی اور انکسار سے کام لیتے ہوئے ان کی بڑی منت سماجت کی اور انہیں واپس لے آیا۔ بعد میں اس نے ملزموں کو سزا دلوائی۔ تاہم اس واقعہ کے سبب ظفر خان کے دل میں حضرت خواجہ کی عداوت و خصومت پیدا ہو گئی اور اس نے شکایت کے ضمن میں مبالغہ و تفاوت کے ساتھ دربار کو لکھ کر بھیجا۔ بادشاہ کی طرف سے خواجہ کی دربار طلبی کا حکم صادر ہوا۔ جیسے ہی یہ حکم ملا وہ خواجہ اپنے گھر سے نکلے اور ہفت چنار کو انہوںنے اپنی پہلی منزل قرار دی۔ شہر کے اکابر کی ایک جماعت ان کے ہمرکاب ہو گئی۔ شاہجہان آباد دہلی کے بزرگوں کی زیارت کے بعد سلطان کے حکم پر انہوں نیلاہور میں سکونت اخیتار کی۔ اور مرشد سالکین خواجہ معین الدین کو طریقے کی ترویج اور خانقاہ کے لیے بادشاہ کی اجازت کے بعد کشمیر بھیج دیا۔ 1050/1640میں مخدوم امام کی رحلت لاہور میں واقع ہوئی۔ ان کا مقبرہ وہیں ہے اور زیارت و تبرک کا محل ہے۔ جب حضرت خواجہ کا ذکر اتفاق سے ان صفحات پر آ ہی گیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے اگر اس کتاب کی تزئین کی خاطر ان کے کچھ احوال تحریر کیے جائیں بیت: لازم آمد چونکہ آمد نام او شرح کردم رمزے از انعام او (جب اس کا نام آ گیا تو لازم ٹھہرا کہ میں اس کی نعمتوں کے نکتے کی وضاحت کروں) مخفی نہ رہے کہ جناب مقرب بارگاہ معبود حضرت ایشان خواجہ خاوند محمود سادات بخارا کے اکابر میں سے ہیں ۔ ان کے والد بزرگوار میر سید شریف ہیں جن کا سلسلہ نسبت پانچ پشتوں سے حضڑت قطب الابرار خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔ جب حضرت ایشان (خاوند) کے دل میں بزمانہ شباب طلب کی شدید آرزو پیدا ہوئی تو وہ غیبی اشارے پر حضرت خواجہ محمد اسحاق وہ بیدی کی خدمت میں حاضر ہو ہوئے جو حضرت مخدوم اعظم خواجہ احمد کاشانی کے فرزند تھے اور باطنی راہ طے کرنے میں مشغول ہو گئے۔ درحقیقت جذبات روحانیت کے معاملے میں حضرت خواجہ بزرگ مشکل کشا رضی اللہ عنہ کان کے قائد راہ تھے تھوڑی ہی مدت میں وہ واردات نجیہ ے حالات عجیبہ سے بامراد ہوئے اور اس اپنے اکثر ہم عصروں سے برتر ٹھہرے۔ رفتہ رفتہ انہوںنے مقامات طے کرنے کا معاملہ اتنہا تک پہنچا دیا۔ پھر بخارا سے سفر اختیار کیا اور گجرات سے پہلے کشمیر پہنچے اور کچھ عرصہ رشد و ہدایت فرما کر ہندوستان کا رخ کیا۔ وہاں بھ انہوں نے لوگوں کو فیض پہنچایا اور پھر کشمیر لوٹ آئے جہاں انہوںنے اس محلے میں سکونت اختیار کیا جو اس وقت ان کی اولاد کا مسکن ہے۔ اور خانقاہ اور اس مکان کی اصل کشمیر کے بادشاہ حسین شاہ کا گھر بھی ہے۔ حضرت خواجہ کے خادموں کا تعلق اس خانقاہ سے ہو گیا۔ انہوںنے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر فرمائی تھی جب روز بروز رواج طریقہ اور اہل ارادت کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو انہوںنے ایک وسیع خانقاہ کا اردہ فرمایا۔ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں انہیں جناب نبوی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے بشارت ملی تھی اور جناب پیشوائے سادات منبع برکات حضرت میرویسی بابا دراشم کی خانقاہ کو جو بری ہی پرتکلف بنی ہوئی تھی اور آراستہ و پیراستہ تھی انہوںنے اسی حالت میں اٹحا کر اس کی جگہ نسب کر دیا تاکہ وہ ویرانے سے آبادی کی طرف منتقل ہو جائے‘ اور وہاں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی جو آج بھی موجود ہے۔ اس ضمن میں انہوںنے مفتیوں اور عالموں سے فتویٰ حاصل کیا تھا۔ غرض ظفر خان نے باغ ظفر آباد کو جو ٹیلا اور پشتہ تھا کچھ اس طرح آباد کیا کہ اس کا شمار کشمیر کے نوادر میں کیا گیا ۔ آب رواں آبشار فوارہ اور ندی اور پتھر کا چبوترا کچھ اس تازگی کے حامل تھے کہ لوگ ان کے نظارے کے لے جایا کرتے۔ ظفر خان کو 1050/1640کے آخر میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1051/1641میں شاہجہان بادشاہ کا چھوٹا بیٹا سلطان مراد بخش تخت حکومت پر بیٹھا۔ اس نے ایک برس تک کشمیر کی آب و ہوا سے لطف اٹھایا ۔ شاہ آباد کے زمینداروں سے جن کی کئی ایک لڑکیوں سے اس نے نکاح کر رکھا تھا اسس کا تعلق اس تہمت کا باعث بنا۔ چنانچہ جلد ہی اسے دربار طلب کر لیا گیا اور 1052/1642میں وہ دربار روانہ ہو گیا اب علی مردان خان اس صوبے کی حومت و نظامت سے سرفراز ہوا۔ وہ ایک برس تک یہاں کی آب و ہوا سے مستفید ہوتا رہا۔ جلدی ہی یعنی 1053/1643میں ظفر خان دوسری مرتبہ یہاں کا حاک بنا چار برس ت اس علاقے کا نظم و نسق اس سے متعلق رہا جب اس کی تبدیلی کی خبر پھیلی تو اس نے سفر ہند کا ارادہ کیا۔ اس کا نام احسن اللہ اور خطاب ظفر خان تھا۔ شعر اور غزل بھی احسن تخلص کرتا تھا۔ شاہجئہان کے خونین میں سے تھا۔ وہ جس طرف کا بھی عزم کرتا فتح و ظفر کا محبوب اپنے رخ سے پردہ اٹھا دیتا۔ سخندانی اور وجود و سخا میں اپنے ہمعصروں سے بازی لے گیا تھا۔ جب وہ کامل کا صوبہ دار تھا تو صائب تخلص کا شاعر ایران سے اسے ملنے کی خاطر کابل آیا اور اس نے خان کی مدحمیں ایک قصیدہ نظم کیا اور یہ شعر اسی قصیدے کا ہے ۔ شعر: خان توئی کز توزر برند بخوان خانی دیگران بیک خانی (صحیح معنوںمیں خان تو ہی ہے کہ لوگ خوان بھر بھر کر تجھ سے دولت لے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کی خانی صرف ایک خانی تک ہے۔ خانی : توران کا ایک چھوٹا سکہ) خان مذکور نے اس فصاحت شعار نکتہ دان کی بڑی آئو بھگت کی اور اسکی صحبت سے بہت محظوظ ہوا۔ اسے اس نے خاصے سازوسامان کے ساتھ روانہ کیا۔ رخصت کے وقت میرزا صاھب نے اس کی مدح میں ایک غزل کہی۔ جس کا مقطع یہ ہے۔ شعر: خانخانا نرم بیزم ورزم صائب دیدہ ام در شجا و در سخاوت چون ظفر خان تو نیست (اے صائب میں نے خانخاناں کو بزم ورزم میں دیکھا ہے۔ سخاوت اور شجاعت میں وہ تیرے ظفر خان جیسا نہیں ہے) یہ کتاب تحریر کرتے وقت ظفر خان کے دو ایک شعر حافظے کے خزانے سے املا کی بجائے ظہور تک پہنچے۔ رباعی: جہان جوان شدہ عقد بہار می بندد بہار پای چمن درنگار می بندد مسافران چمن نارسیدہ در کوچ اند شگوفہ می رود و شاخ بار می بندد (دنیا جوان ہو کر بہار کاسامنا کر رہی ہے‘ بہار چمن کے پائوں کو مہندی لگا رہی ہے۔ چمن کے مسافر نارسدہ ہی کوچ میں ہیں ۔ کلی جا رہی ہے اور شاخ پھل لا رہی ہے) کشمیر کی تعریف میں اس نے بہت سے اشعار کہے ہیں۔ مملکت پٹنہ کی صوبہ داری کے دوران 1073/3-1662میں اس نے ساقی اجل کے ہاتھوں موت کا جام پیا اور اس کی عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ 1057/1647میں تربیت خان یہاں کا ناظم مقرر ہوا۔ دو برس ت اس نے نظم و نسق اور بندوبست میں اپنے نام کی لاج رکھی۔ اگرچہ وہ خیر خواہ اور نیک اندیش تھا لیکن قضا راغلے کو بہت نقصان پہنچا جس کے نتیججے میں قحط پیدا ہوگیا۔ لوگوںنے رزق کی تنگی اور عشرت و بیچارگی کے سبب بہت الم اٹھائے اور قوت لایموت کے عدم حصول کے باعث وادی فنا کا رخ کرنے لگے۔ القصہ اس ملک کے لوگوں نے بہت سا مالی و جانی نقصان اٹھایا اور ایک مدت تک انہوںنے روٹیکا ٹکڑا اور طعام کا منہ نہ دیکھا۔ بادشاہ نے نہایت رعایا پروری سے اہل کشمیر کی غمخواری کی اور کوہستان کے اطراف میں مثلاً گجرات اور سیالکوٹ بلکہ لاہور تک سے کشمیری آبادی کے لیے غلے کی رسد کا سامان کیا اور اس کام کے لیے محصلین اور سزاول (وصول کرنے والے) مقرر کیے اور دربار میں بھی حکم جاری کیاکہ شاہزادے‘ بیگمات اور امرا بھی کشمیر کے ان غربا کو زیادہ تر خیرات دیں جو قحط کے مارے ہوئے دربار میں پہنچے تھے۔ بہرکیف لوگوںنے قحط کے نتیجے میں بہت زیادہ تکلیف اٹھائی جس کی وجہ سے صوبہ دار کی عزت و آبرو خاک میں جاتی رہی اور آخر اسے منتقل کر دیا گیا۔ اب حسن بیگ خان بطور صوبہ دار متعین ہوا۔ اس نے دو برس تک یہاں حکمرانی کی۔ نوشہرہ میں باغ تعمیر کروایا۔ حکومت کا زمانہ تابمقدور گزار کر دربار میں بلا لیاگیا۔ 1061/1651مٰں علی مردان خان دوسری مرتبہ یہاںکا صوبہ دار مقرر ہوا۔ اس بار اس نے سات برس حکومت کی۔ دوسرے تمام حکام کے مقابلے میں وہ زیادہ صاحب خزانہ تھا۔ بیشمار خرچ اخراجات کیے اور بہت سی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ اپنی رہائش گاہ کے لیے اس نے نوشہرہ کی طرف سربزی و طراوت کی حال حویلی بنائی جس میں ندی جاری کی۔ آبشار اور فوارہ نصب کیا۔ پرگنہ بہاگ میںتیل بل کے مقام پر اس نے ایک باغ کی بنیاد رکھی اور اس کے چاروں طرف پختہ دیوار سے احاطہ تعمیر یا۔ ایک بڑی ندی پہاڑ کے عقب سے کاٹ کر وہاں لایا‘ نیز برے بڑے حوض بھی اس باغ میں آراستہ کیے۔ اس باغ جیسا کوئی اور باغ کشمیر میں نہیں ہے یہ باغ میوہ دار درختوں چنار اور سفیدے کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ ا س کا حاصل اسنے مشہد مقدسیہ رضویہ (اس کے رہنے والوںپر تحیت و ثنا) کے نام وقف کر دیا تھا۔ اس گلستان کی گزر گاہ میں تیل بل کی ندی درمیان میں بہہ رہی ہے جس کے دونوں طرف مخملیں سبزہ ‘ میوہ دار درخت بید اور بید مشکل سرسبز ہیں۔ بہار کے دنوں میں اس ندی کا پانی کناروں تک بھرا ہوتا ہے جو ٹھنڈا اور گوارا ہے۔ بعض اوقات مریض اس پانی سے شفا پاتے ہیں۔ اور علیل صحت یاب ہوتے ہیں۔ کوہ پیر پنجال کے وسط میں اس نے ایک سرائے تعمیر کی اور درمیان سے بارہ مولہ کی راہ نکالی؟ نیز دونوں خا نام علی آباد رکھا۔پہاڑ کے نیچے کوہستانی راستوں کی مرمت کروائی جہاں جگہ جگہ ہلاکت کا خوف و خدشہ تھا۔ وہ سردیوںکے چھ ماہ لاہور میں کہ وہ بھی اس کی صوبہ داری میں تھا بسر کرتا اور گرمیوں کے چھ ماہ کشیمیر جنت نظیر میں منتقل ہو جاتا۔ اس کی اس آمدورفت پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ۔ بڑی شان و شوکت سے زندگی گزارتا۔ گھر اور باہر جاہ و حشم ے داد و کامرانیی دیتا۔ جس روز اس کا دربار ہوتا اس کے دائیں سرخ ٹوپیوں والے زرین لباس آدمی ہاتھوں میں عصا اور سونے چاندی کے گرز تھامے کھڑے رہتے وہ زربافت وغیرہ کے دستر خوان پر بیئٹھ کر سونے چاندی اور چینی و غوری کے برتنوںمیں کھانا کھاتا۔ علی مردان خان کے اس دور حکومت میں جو واقعات پیش آئے ان میں سے ایک واقعہ گورنر کے پیش کار مہادیو کے جلائے جانے کا ہے ‘ جو قحط غلہ کے دنوںمیں عام کے احتجاج و نالش کے دوران پیش آیا۔ اس احتجاج کی قیادت حاجہ بام نے کی۔ لہٰذا مذکورہ گورنر کی شکایت پر کشمیر کے سرکردہ لوگوں کو دربار میں طلب کیا گیا حضرت ولایت دستگاہ صاحب ارشاد میری محمد علی قادری بھی ان لوگوں میں شامل تھے اور وہ جلد لوٹ گئے۔ ملا یوسف کووسو صدر صوبہ کشمیر‘ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تھے۔ چونکہ وہ روشناس دربار تھے اس لیے شاہجہان بادشاہ نے اسے فتنے کی اصل وجہ ان سے دریافت کی اور کہا کہ کاوس تم کسراستے سے آئے ہو اور عوام اور مہادیو سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے۔ ملایوسف نے بتایا کہ میں پنوج کے راستے سے آیا ہوں ۔ انہوںنے ایک دوسرے سے اس ضمن میں سوا ل ازروئے دانائی یہ چاہا کہ ایسی تمہید سے کام لیا جائے جس کی وجہ سے طرفین عتاب کے سزاوار نہ ٹھہریں۔ چنانچہ وہ بولے کہ مہادیو کا کوئی گناہ ہے اورنہ عوام کا کوئی گناہ ۔ ابھی وہ توجیہ و تمہید بیان کرنے ہی لگے تھے کہ بادشاہ کو غصہ آ گیا کہنے لگا کہ ہر دو فریق کا گناہ نہیں ہے‘ بس گناہ تو میرا ہے کہ تجھ یسے آدمی سے بات کی اور ایک بدحواس کو قابل اعتمادجانتے ہوئے میں نے اسے مخاطب کیا واقعہ درست ہے کہ تو خواہ براستہ پنونج آیا ہے یا براستہ پنوج۔ اس شاہی عتاب کے نتیجے میں ملا عالم عقبیٰ کو سدھار گئے۔ 1068/8/1657میں علی مردان خان منتقل ہوا۔ او ر اس کی جگہ لشکر خان نے مسند حکومت سنبھالی ۔ اڑھائی برس تک اس نے سیر و شکار میں وقت گزارا۔ رعایا پروری اور شہر کی آبادی میں اس نے کوئی کوتاہی روا نہ رکھی۔ اس کے زمانے میں غلے کی ارزانی اس حد تک تھی کہ اڑھائی من شاہجہانی ایک مرغ کے عوض بکتا تھا۔ اس طرح مخلوق خدا کو بہت دلجمعی اور آرام مسیر آیا۔ پرگنہ بہاگ میں کول دل کے جانب شمال مٰں اس نے بلندی پر ایک باغ کی بنیاد رکھی اور ندی آبشار اور فوارے رواں کیے ہر جگہ شہرکے لوگوں کے لیے مرجع و سیرگاہ تھی۔ اس سال موسم سرما میں سال دریائے بھٹ (جہلم) اس حد تک جم گیا کہ باربردار گھوڑے بری آسانی سے برف پر سے گزرتے ہوئے دریا کے آرپار چلے جاتے۔ آخر اسی سال بادشاہ بلند اقبال ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب بہادر دکن کے علاقے میں ملکی امور کی خاطر جو امور داراشکوہ کی نالائقی کے باعث بگاڑ کا شکار ہو چکے تھے ہندوستان کی طرف متوجہ ہوئے اس کے بارے میں متعلقہ موقع پر لکھا جائے گا اگر اس مقام پر شاہجہان کے احوال کے متعلق کسی قدر اجمال سے لکھ دیا جائے تو یہ سیا ق سباق تاریخ نویسی سے ہٹ کر نہ ہو گا۔ ٭٭٭ ان حضرات کا ذکر جو عہد شاہجہانی کی ابتدا کے زمانے میں بقید حیات تھے یا ا س دور میں کشمیر میں رحلت فرما گئے حضرت ابوالفقرا بابا نصیب اس دیار کے مشاہر مشائخ میں سے ہیں۔ چھوٹی عمر میں ہی سے مختلف قسم کی ریاضتوں میں مشغول اور بزرگوں کی صحبت میں رہنے لگے اور اس طرح اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گئے۔ حضڑت شیخ بابا دائود خاکی کے نمایاں خلیفہ ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فقرا سے ملاقات کی۔ تمام عمر ترک لذات میں بسر کی‘ یہاں تک کہ گرما و سرما کے پھلوں اور ٹھنڈ ے پانی سے بھی اجتناب کیا۔ عالم باعمل اور مروج اہل علم تھے۔ مساکین ان کی خدمت میں بہت آتے رہتے۔ اپنے وت میں غریبوں اور بے چارگان کا ملجا و ماویٰ تھے ایک جگہ سکونت نہ فرماتے۔ ترک کل کے باوجود نقد و جنس سے اپنے فقرا پر مہربانی کرتے تھے۔ حضرت خضر سے ان کی اکثر صحبت رہتی ہمیشہ تجرد میں رہے تمام زندگی روز ے میں اور ترک حیوان میںبسرکی۔ شیخ کے اکثر مریدوں نے ان کے طے مکان اور تصرف اکوان (دنیائیں) اور اعانت غائبان کے واقعات دیکھے۔ ان لوگوں کی زبان پر بے گناہی کے سبب اس نے شیخ کے باطن سے التجا کی۔ وہ آدھی رات کے وقت مجلس میں حاضر ہوگئے۔ اسے وہاں سے اٹھایا اور اس کے ہمراہ چل پڑے۔ پہرے دار سوئے پڑے تھے۔ چنانچہ کسی کو بھی خبر نہ ہو سکی۔ تبت جانے کا بھی کچھ ایسا ہی باعث ہوا۔ وہاں کے راجا نے ان کے مرید کو قید کر رکھا تھا۔ کسی نہ کسی طرح اسے شیخ سے تنبیہہ ملی اور اس نے وہ آواز سن کر جس میں شیخ سے تشریف لاتے کی استدعا تھی قیدی کو رہا کر دیا۔ الغرض اکثر قصبوں اور پرگنوں میں مخلوق خدا کی رشد و ہدایت کے لیے تشریف لے جاتے اور وہاں قیام کرتے جہاں بھی جاتے مسجد کی بنیاد رکھتے اور شرعی احکام جاری فرماتے۔ آکر آخر میں شہر قصداً آ کر اپنے عہد کے مشائخ اور درویشوں سے ملاقات کی اور فرمایا کہ شاید پھر پہنچنا اورملاقات کرنا میسر نہ آئے۔ شہر سے قصبہ بحبارہ چلے گئے اور وہیں رحلت فرمائی۔ شہر کے لوگوں اور اخفا کی خواہش تھی کہ انہیں حضرت مخدوم کے قرب میں دفن کریں لیں بحبارہ کے لوگ غالب آ گئے۔ ان کی وفات 13محرم 1047/7جون 1637کو ہوئی ان کے شاگرد مولانا ملا حیدر عرگ علامہ چرخی نے وہو خیر الصالحین (1047)سے تاریخ نکالی۔ محمد مومن عرف (؟) شیخ مومن نے کہا کہ اضافی معنی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ وگرنہ دیکھنے میں یہ ایک مرصع ترکیب ہے۔ راقم حروف (اعظمی) کہتا ہے کہ اتفاق سے شیخ کے احوال پر مشتمل یہ صفحہ بھی 13 محرم الحرام ہی کو تحریر پذیر ہوا۔ شیخ شمس الدین بابا نصیب کے بھائی اور شیخ اسحاق کے مرید ہیں جو حضرت بابا مسعود نروری کے نمایاں خلیفہ تھے۔ ریاضت و استقامت میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور بے مثل تھے۔ عبادت حق اور معبد مطلق کی یاد سے کبھی غافل نہ رہے۔ اپنے عالی قدر بھائی کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک اپنے وجود مستعار کا طوق اپنی گردن میں ڈالے رکھا اور بڑی مدت تک رشد و ہدایت کا پرچم بلند کیے رکھا۔ جب اللہ کو پیارے ہوئے تو بحبارہ کے مقام پر بابا کے مقبرے میں انہیں آرام گاہ ملی۔ سیہ ریشی بابا مذکورہ شیخ اسحاق کے نمایاں اور صاحب کمال خلفا مٰں سے ہیں۔ جب انہوں نے فقر کے ناپیداکنار میدان میں قدم رکھا تو اس وقت حلاوت طاعت کی خاطر خود کو پیشہ زراعت میں مشغول رکھے ہوئے تھے اصحاب شوق میں سے تھے شبہائے دراز میں وہ عجز و نیاز کے ساتھ دل سوز و جان گداز نعرے بلند کیا کرتے اور اکثر اوقات حالت گری میں رہتے تھے۔ 1048/8-1637میں رحلت کی۔ پرگنہ بہاگ میں شالہ مار کے اطراف میں موضع دارا کے مقام پر دفن ہوئے۔ خواجہ زین الدین ڈار سوداگر زادہ تھے آتش طلب کا شعلہ ان کے باطن میں سے اٹھا۔ چنانچہ حضرت حبیب اللہ نوشہری کی خدمت میں پہنچے ۔ مراتب ولایت و عرفان اور مناصب کرامت و ایقان پر فائز ہوئے ۔ مرشد کی خدمت میں جان نثاری اور خاکساری سے عقیدت و اخلاص کا حق ادا کرتے رہے۔ مرشد کی خدمت میں جان نثاری اور خاکساری سے عقیدت و اخلاص کا حق اداکرتے رہے۔ کہتے ہیںکہ ایک روز عید گاہ کے راستے سے اس کا گزر ہوا۔ پیر حق آگاہ (کی خدمت میں) جا رہے تھے۔ راستے میں حضرت خضر علیہ السلام سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ انہوںنے بات چیت کا اشارہ کیا یہ راضی نہ ہوئے اور پیر کی خدمت میں دیر سے پہنچنے کا عذر پیش کیا تاہم اثنائے سلوک سے وہ کر کے جو ش و خروش میں کھو گئے اور قومی جذبہ و استغراق ان پر طاری ہو گیا۔ نغمہ ترانہ اور سماع عاشقانہ کی بنا پر وجد و حال ان کی طبیعت شریف پر غالب آ گیا۔ حضرت مولانا حسین خباز سے بھی جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اس معاملے میں بابا کے معرکے رہے۔ بہرحال خواجہ عین عال جوانی میں کہ کچھ اوپر چالیس برس کے تھے 1042/3-1632میں رحلت فرما گئے۔ اپنے مسکن واقع محلہ کاتل میں دفن ہوئے۔ ان کا مقبرہ مشہور اور فیوض سے معمور ہے۔ ان کی تاریخ وصال عارف خاص ہے۔ ملا حسین گنائی جامع مسجد کلاں کے قریب سکونت پذیر تھے۔ ملک جلال الدین تہکور کی خانقاہ میں درس دیا کرتے تھے۔ حضرت خواجہ حیدر علامہ نے بعض علوم ان سے حاصل کیے۔ حضرت خواجہ حیدر نتنو علامہ ان کے والد بزرگوار کا نام خواجہ فیروز تھا اور وہ حضرت خواجہ عبدالشہید احراری نقشبندی کے اراتمندوں میں سے تھے۔ ایک موقع پر انہوںنے حضرت خواجہ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ میری چار بیٹیاں ہیں۔ چونکہ بیٹا کوئی نہیں ہے اس لیے تنگ دل اور بڑا عیال دار ہوں۔ خواجہ نے دعا کی اور ایک عالی گوہر بیٹے کی بشارت دی۔ جب وطن کو لوٹے تو مقررہ مدت کے بعد جناب خواجہ حیدر کی ولادت ہوئی۔ سات برس ہی کی عمرمیں عبادات اور سنتیں اداکرنے لگے۔ اس وقت سے لے کر آکر عمرتک کوئی بھی فضیلت اور سنت ہاتے سے نہ جانے دی۔ شروع میں حضرت بابا نصیب کی خدمت میں تحصیل علوم کی پھر حضرت خواجہ مولانا جوہر کی بابرکت خدمت میںپہنچے ۔ ازاں بعد قدوۃ المتاخرین شیخ عبدالحق دہلوی کی پرار افادہ صحبت سے بہرہ ور ہوئے اور علم و عمل کے بلند مرتبوں رک پہنچے۔ اس طرح اپنے ہم عصروں میں فائق ٹھہرے۔ تجوید قرات سید انس و جان کی سنت کے التزام اور سیر علم و عرفان میں ایقان و ایمان کی برہان تھے ۔ اکثر اعمال پرہیز گاری کے ساتھ انجا م دیتے۔ حکام کی منت سماجت کے باوجود انہوںنے قضا کا منصب ہرگز قبول نہ کیا۔ اس سلسلے میں اکراہ کے خوف سے انہوںنے راہ فرار اختیار کی۔ وہ اپنے بیٹوں کے لیے بھی اس منصب کی تجویز کے حق میں نہ تھے۔ جب دوسرا ناظم آیا تو پھر وہ شہر چلے آئے۔ 1057/1647میں رحلت فرمائی ۔ خیر الوریٰ ان کی تاریخ رحلت ہے۔ اپنے اسلاف کے مزار میں آسودہ خاک ہیں۔ روضہ ومقبرہ کی تعمیر میں انہوںنے کسی قسم کے تکلف سے کام نہ لیا۔ باکمال اولاد پائی بعض کا ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ خواجہ عبداللہ غازی مختلف علوم سے آراستہ اور جید عالم تھے۔ علم طب ان کی (؟) خدمت میں حاصل کیا۔ کہتے ہیں کہ علم طب میں انہوںنے مفید تالیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ اور کشمیر میں علم طب اور اس کا عمل گویا انہی کا لایا ہوا ہے۔ ایک شاہجہانی امیر دانشمندانہ خان نے بھی اس علم کو اس شہر میں رواج دیا۔ اور اس کو پھیلایا۔ ملاحیدر اریتور علامہ دوراں اور اپنے وقت کے عالم بے نظیر تھے۔ برصغیر کے اکثر علماء و امرا نے علوم میں ان سے استفادہ کیا۔ ملا فاضل عالم دانشمند اور نکتہ داں تھے۔ جدل و بحث میں شہرت پائیل انہوں نے ملا حکیم سیالکوٹی کے اکثر حواشی کا رد لکھا۔ ملا عبدالرزاق بانڈی ملا فاضل کے بھانجے ہیں معقولات میں اپنے وقت کے بے نظیر عالم تھے۔ شرح تجدید پر انہوںنے لکھا ان کا کہنا تھا کہ میری تالیف ت ودانشمند بھی نہیں پڑھ سکتے‘ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ تحصیل علم کے بعد سفر کا اتفاق ہوا۔ شاہجہان بادشاہ نے کابل کے مدرسہ میں تدریس پر مامور کیا۔ کئی کئی راتیں محاکمات کا رد لکھتے رہے جس کے باعث خلل دماغ پیدا ہو گیا اپنے حلق پر چھری پھیر لی۔۔ تاہم شاگردوں نے زخم بند کر دیا۔ تدریس کابل سے استفیٰ دے کر کشمیر چلے آئے اور فوت ہو گئے کوجوار ی میں سکونت پذیر تھے۔ ملا حسن عرف شاہم بابا علوم میں ماہر و جید تھے۔ اخوند ملا یوسف گنائی فرماتے تھے کہ بعض ناظموں کی مجلس میں وہ خطہ علماء بنائے جاتے تھے۔ اور قاضی بیضاوی کی تفسیر اور ملا اعصام الدین محشی کی عبارات قرآن کی مانند فر فر پڑ ھ لیا کرتے نیز ملا عبدالحکیم کے اکثر مذکورات کا رد کرتے اور کبھی علمائے حاضر کی طرف توجہ نہ کرتے۔ حضرت حاجہ بابائی قادری قبیلہ کانجو سے تعلق تھا جو کشمیر کے تاجروں کا معروف طبقہ ہے۔ جب طلب کی خواہش نے ان کی شعلہ درونی کو ہوا دی تو انہوںنے سید حق آگاہ نعمت اللہ قادری کی خدمت میں واردات اخیتار کی۔ اور رتبہ ارشاد حاصل کیا۔ تقویٰ و پرہیز گاری اور ادائے سنت نبوی میں انہوںنے بھرپور کوشش کی۔ جس روز ان کی والدہ فو ت ہوئیں اس روز ان کو دفنانے کے بعد حرمین کی راہ لی اس وقت اسن کی عمر چھ برس تھی اور حرمین میں اقامت پر انہوںنے کمر باندھے رکھی۔ جب انہوںے چند برس محبوب ذولاجلال کے روضہ کی جاروب کشی میں گزار دیے تو ایک رات خواب میں جناب مقدسؐ کی طرف سے کشمیر لوٹ جانے اور ایک بہت بڑے کام کی سنت ادا کرنے یعنی شادی پر معمور ہوئے۔ انہٰںایک بیٹے عثمان کی ولادت کی خوشخبری بھی سنائی گئی۔ اس سراپا بشارت کے حامل اشارے پر وہ لوٹ آئے اور مذکورہ سنت ادا کی۔ جس سے حضرت بابا عثمان پیدا ہوئے۔ 1066/6-1655میں رحلت فرمائی۔ روز برا ت افتاد ستون دین تاریخ وفات ہے۔ محلہ بلبل نگر میں ایک عالی مقدار سید بزرگوار کے جوار میں دفن ہوئے۔ شیخ بابا علی حضرت خواجہ مسعود پانپوری کے نمایاں خلفا میں سے ہیں۔ تقویٰ اور ریاضت میں بے بدل اور وقار و تمکین نیز اسرار حقیقت کے اظہار میں ضڑب المثل تھے۔ دمظہر داقیق اور مطلع حقائق تھے۔ آخوند ملا شاہ ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ اس موقع پر بابا خانقاہ میں بوریے پر بیٹھے ہاتھ میں تسبیح لیے ہوئے تھے۔ آخوند کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ چونکہ آخوند ابھی کشمیری زبان سے آشنا نہ تھے اور بابا رلی فارسی بہت کم سمجھتے تھے‘ اس لیے انہوںنے کوئی توجہ نہ کی۔ آخوند اٹھے دروازہ کی طرف بڑھے ارو بلند آواز میں بولے کہ یہاں بوریے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بابا علی نے افسوس کرتے ہوئے دونوں ہاتھ ملے اور بولے کہ اگر اس میں معرفت و آشنائی کا ذرہ بھی ہوتا تو وہ یہاں حق دیکھتے بوریا نہ دیکھتے ۔ کہتے ہیں کہ آخوند واپس مڑ آئے۔ اور عذر معذرت کی ۔ 1059/1649میں رحلت فرمائی۔ مرشد کے احاطے میں دفن ہوئے۔ شیخ نیکر ریشی حضرت خواجہ مسعود پانپوری کے باکمال خلفا میں سے ہیں۔ دن کے روزے اور تاریک راتوںمیں قیام سے مانوس تھے ایک عرصے تک غار نشینی کی۔ اپنی روزی زعفران زاور سے محنت کر کے حاصل کرتے ۔ کھانے پینے اور لباس میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ۔ خواجہ عبدالرحیم مانتجو قاری سے جن کا ذکر آگے آئے گا۔ منقول ہے کہ راہ سلوک پر چلنے کے آغاز میں اپنے والد کے ملال کے باعث میں نے پانپور کی راہ لی اور نیکر ریشی کی خدمت میں پہنچ گیا وہ اس وت غار میں تھے۔ انہوںنے استفسار حال کیا۔ میں نے غار میں سکونت کی آرزو کا اظہار کیا۔ انہوںنے فرمایا خوش رہ میں چند روز کیلیے زعفران کی مزدوری پر جا رہا ہوں تو غار یمں بیٹھ اور میری اسی خورا ک پر کہ چاولوں کی کاک خشک ہے۔ قناعت کر۔ وہ خود چلے گئے اور مجھے غار میں اسی کام پر چھوڑ گئے۔ انہونںے چندروز کی جو قدم دی تھ وہ میں نے پوری کر دی ۔ ملک وملکوت کے کئی قسم کے انوار و اسرار مجھ پر ظاہر ہوئے ساتویںدن شہرسے کھیر لے کر پوچھتے پچھاتے تلاش کرتے میرے پاس پہنچ گئے۔ میں بے اختیار اس غار سے باہر آ گیا اس ارادے سے کہ یہ کھیر نیکر ریشی تپہنچا دوں جب میں اس جگہ قریب پہنچا تو اس سے پہلے کہ میری نظر ان پر پڑے وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ بقال زادہ آیا ہے تاکہ مجھے دھوکہ دے سکے میں نے آزمائش کی خاطر اسے غار میں بٹھا دیا۔ اب ہ اجازت کے بغیر گھر کی محبت میں اٹھ کر چلا آیا ہے۔ مجھ اس کے طعام شیریں کی کیا ضرورت ہے۔ جائے اپنے کام اور پیشے میں مشغول ہو جائے۔ کیونکہ اس سے یہ کام نہیں ہو سکتے۔ میں شرمندہ ہو کر لوٹا کہ پھر اسی غار میں جا بیٹھوں۔ جب میں غار کے منہ کے قریب پہنچا تو ایک خوفناک شیر نظر پڑا۔ جب میںغار سے گھر کی راہ لینے لگتا تو شیر غائب ہو جاتا اورجب میں پھر اس غار کی طرف بڑھنے لگتا تو شیر کھڑا اور آمادہ ہوتا۔ چنانچہ مایوس ہو کر میںنے گھر کی راہ لی نیکر ریشی کے متعلق اس قسم کی بہت سی حکایات مشہور ہیں۔ اغنیا اور اہل دنیا سے بہت دور رہتے۔ اسی وجہ سے اپنے پیر حضڑت شیخ نجم الدین یعنی سخی ریشی مالو سے ان کی ان بن رہتی تھی کہ وہ سعد اللہ خان وزیر کے مرشد ہو گئے تھے۔ جب فوت ہوئے تو پانپور کی طرف اسی مقام پر دفن ہوئے۔ رحمۃ اللہ رحمۃ وااسعۃ۔ شیخ اہلہ ریشی یہ بھی حضرت خواجہ مسعود کے خلفا میں سے ہیں۔ ریاضت اور کشف میں ایک علامت تھے۔ غیب سے ان کی صحبت رہتی تھی‘ اور ان سے خیر و شر کے متعلق روداد عالم کی خبریں سنا کرتے تھے۔ شنکر ریشی حضرت بابا نصیب کے مریدوں میں سے ہیں۔ صاحب ریاضات و مقامات تھے۔ اس راہ کے عجائب وغرائب ان پر کشف ہوئے اور انہوںنے ریشیوں کے اعمال شاقہ پر کمر ہمت باندھ لی اور غارنشین ہو گئے۔ جنوں اور درندوں سے انہیں الفت و محبت تھی۔ سختی کے دنوںمیں حضرات کی تائید و اعانات کو روبرو دیکھتے۔ حضرت بابا کی وفات و رحلت کے بارے میںانہوںنے بہت پہلے اطلاع دے دی تھی اور ان کے مقام عالی کا تعین بھی کر دیا تھا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو یہ اس کے بعد تین برس تک زندہ رہے۔ جب خود رحلت کر گئے تو غیبی اشارے کے مطابق‘ جو وہ سابقہ واقع دیکھ چکے تھے اسی عالی مقام روضہ میں دفن ہوئے۔ بابا شمس الدین نائک حضرت بابا نصیب کے خلفا میں سے ہیں۔ صغر سنی میں ہی حضرت بابا کی نظر سے راہ پر لگ گئے اور دنیا سے منہ موڑ لیا۔ حالات و جذبات کے مالک تھے۔ پرگنہ میں امر بالمعروف کی خاطر گئے ہوئے تھے‘ وہاں کے لوگوں نے غفلت برتی اور ان کی نصیحت قبول نہ کی۔ وہ جلال میں آ گئے جس کے سبب اس پرگنہ کے چشمے کا پانی خشک ہو گیا۔ جب لوگوںنے منت سماجت کی تو انہوںنے دعا کی جس سے چشمے میں پھر پانی آ گیا اور بہنے لگا۔ شیخ شمس الدین حضرت بابا نصیب کے ماں جائے بھائی ہیںَ عین جوانی ؤمیں تارک الدنیا ہو گئے۔ ریاضت بہت زیادہ کی۔ حضرت بابا کی خلافت کے لیے تبت گئے جہاں لوگ ان کے پا س آنے جانے لگے وحدت الشہود کے قائل و مائل تھے۔ شیخ دائود کوہنی یہ بھی حضر ت بابا نصیب کے مریدوںمیں سے ہیں۔ ایک عمر تجرید میں بسر کی اور بت شکنی کے امر معروف کو آخر تک پہنچایا۔ کشتواڑ کی پائیں آبادی کے کفر زار اور کشمیر کے درمیان ٹھکانا کیا اور اس آبادی سے کفر و بت پرستی کے طور طریقوں کو جڑ سے اکھیڑ ڈالا۔ وہیں دفن ہوئے۔ شیخ یوسف حضرت بابا نصیب کے خلفا میں سے ہیں۔ عالم اور صاحب تصانیف تھے۔ کئی قسم کے کشفوں کے مالک تھے۔ شیخ حاجی حسن حضرت بابا کے خلافا میں سے ہیں۔ اامام حضر ت بابا (؟) قرائت میں عجیب مہارت کے مالک تھے۔ تجرید میں عمر بسر کی جہاد اور حج اسلام پر عمل کیا۔ صاحب ایثار تھے اور فقرا اور مساکین کی خدمت دل و جان سے کرتے تھے۔ باب صالح موضع کوکواہ پرگنہ اجہہ کے رہنے والے تھے اور شیخ الفقراء کے خلفا میں سے ہیں۔ مذکورہ موضع کے غار میں بیٹھا کرتے اور قرآن کی کتابت کیا کرتے۔ اوائل سلوک میں گوشت ترک کر کے انڈا کھایا کرتے۔ شیخ ابوالفقرا نے ایک موقع پر اشارتاً چوٹ کرتے ہوئے کہا: بعض یار تو مرخ کو پر پنجوں سمیت کھا جاتے ہیں؟ چنانچہ اس دن سے انڈا کھانا بھی چھوڑ دیا سلطان دارا الشکوہ شکار… کو گیا ہو ا تھا۔ راستے مٰں وہ ان سے ملاقات کے لیے گیا۔ باابا نے کوئی اعتنا نہ کی۔ سلطان نے ترکی زبان میں اپنے ہمراہیو ں سے کہا کہ اس شخص نے نشہ کر رکھا ہے۔ انہوںنے فراست سے تاڑ لیا۔ بولے کی حیف ہے کہ اس شخص پر کہ جس نے کیف کر رکھا ہو اور صد حیف ہے اس پر جو بے کیف ہو۔ سلطان اس سے محظوظ ہوا اور اس نے زر سرخ و سفید کا ایک خوان پیش کرتے ہوئے اسے قبول کرنے کی استدعا کی۔ بابانے منت سماجت کے بعد تیس روپے اٹھالیے اور اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی حمائل خوان میں رکھ دی اور بولے میرے (ہاتھ سے لکھے ہوئے) قرآن کا ہدیہ بس یہی ہے۔ وہ رقم لے کر باقی واپس کر دی۔ شیخ صالح اور شیخ درویش یہ دونوں بھی حضرت بابا کے مریدوں میں سے ہیں۔ تقویٰ و پرہیز گاری میں بے نظیر تھے۔ یہ چند حضرات حضرت بابا غیب کے قریبی عہد میں رحلت کر گئے جو چند ان کے عہد میں سے ہٹ کر ہیں ان کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔ شیخ بابا طاہر حضرت خواجہ مسعود پانپوری کے خاندان سے ہیں۔ صاحب ریاضت و سخاوت اور ولایت و درایت کے مطلع تھے۔ خواجہ کی اولاد میں سے کم ہی کوئی ان کے مرتبے کا ہوا ہے۔ جد بزرگوار کے احاطے میں دفن ہوئے۔ مولانا یوسف ترکی بارگاہ معبود کے قرب حضرت خواجہ خاوند محمود نقشبندی کے مریدوں میں سے ہیں۔ صاحب ریاضت اور صاحب درد و ایثار تھے۔ نفس کشی اور عنصری بدن کی توڑ پھوڑ میں ان کا کوئی ہتما نہ تھا۔ اس بنا پر قبول دل اور بیحد ملامت کیا کرتے اور اس سے محظوظ ہوتے۔ اکثر اپنی خاص ضروریات میں سے فقرا کی ضرورت پوری کرتے راتوں کو غائب رہتے اور کوہساروں کی طرف یاروں کی اطلاع کے بغیر سینہ سوزاں اور دریدہ گریبان کے ساتھ وقت بسر کرتے۔ ان کا مقبرہ محلہ دیدہ مر میں ندی کے کنارے واقع ہے۔ بابا مجنون نروری ظاہری اور باطنی علو کے جامع تھے۔ مولانا جمال الدین کے خلف قاضی ابوالقاسم کے شاگرد تھے۔ مولانا جمال الدین سے بھی استفادہ کیا۔ ملا عبداللہ غازی سے طب کی تعلیم لی اور اسے اس شہر میں پھلانا حافظ محمد شریف کافی حکیم اور خواجہ عبدالرحیم نے انہی سے طب یونانی کا علم حاصل کیا۔ مختصر یہ کہ جناب باب مجنون نے حضرت بابا مسعود کے فرزند حضرت شیخ عبداللہ سہروردی کی خدمت میں سلوک راہ طریقت انجام تک پہنچایا اور یوں صاحب حالات عالی ہوئے۔ بے ریا اور بے تکلف تھے۔ مشائخ سے بہت ملاقاتیں کیں اور ان کی خدمت بجا لاتے رہے۔ خود کو انہوںنے مسلمانوں کے ضروری کاموں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اور محتاجوں کے امور نمٹانے کے لیے ہر جگہ آتے جاتے۔ کلمہ حق کے اجرا کے لیے کسیبھی ملامت کرنے والے سے خوف نہ کھاتے۔ ان حالات کے باوصف خاصے سوز و گداز اور عجز و نیاز سے بہرہ ور تھے۔ جب فوت ہوئے تو اپنے اسلاف کے مزار پر واقع نرورہ میں انہیںجگہ ملی۔ ان کی وفات حاجہ بابائے قادری کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ کے بعد ہوئی۔ اسی لیے دونوں بزرگوار کی تاریخ وفات ایک ہی اور ان الفاظ میں کی گئی ستون دین (1044/1656)۔ ملا علی الماس ملا الماس مفتی کے بھتیجے ملا جوہر نانت کے شاگرد اورشیخ ابوالفقراء بابا نصیب قدس سرہ کے مرید تھے۔ موضع اوکھنور پرگنہ بالکل میں دفن ہوئے۔ ملا حاجی طوسی دانشمند بے نظیر تھے۔ علوم غربیہ نجوم اور اصطرلاب میں ید بیضا کے مالک تھے۔ بعض علوم میں ملا جوہر نانت کے شاگرد اور حضرت ذیشان خواجہ خاوند محمود قدس سرہ کے مرید تھے۔ مولانا جمال کے مقبرے کے قریب مزار دانی واری میں مدفون ہیں۔ ملا یوسف کاوسو کشمیر میں علوم حاصل کیے۔ فن انشا میں ماہر تھے۔ شاہجہان کے دربار کے ایک مقرب کے ہمراہ کشمیر سے اس (بادشاہ) کے لشکر کے ساتھ ہندوستان روانہ ہوئیئ۔ اتفاق سے کوہستان پیر پنچال میں بادشاہ مذکور کے نام والی روم کا خط ملا بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کا جواب لکھا اور بھیج دیا جائے۔ شاہی منشی وہاں موجود نہ تھے۔ ملا یوسف کے مربی نے بادشاہ کو بتایا کہ میرے یہاں ایک کشمیری ملا ہے۔ چنانچہ انہیں (یوسف کو) حکم ہوا۔ انہوںنے جلد ہی خط کا جواب لکھا اور بڑے ایجاز و بلاغت اور ایہام میں لکھا۔ وہ جواب بادشاہ کی نظروں سے گزرا۔ بادشاہ نے منظور کر لیا ارو انہیں شاہی منشیوں میں شامل کر لیا۔ انہوںنے ہندوستان کے فضلا سے کئی مرتبہ مباحثہ کیا۔ اور اس طرح انہیں شہرت میسر آئی۔ پھر صدارت کے عہدے پر کشمیر آئے جہاں اہل علم کو جمع کرنے اور درس علوم میں مشغول رہنے لگے۔ جب علی مردان خان کی گورنری کے زمانے میں کشمیر قحط کا شکار ہوا اور گورنر کے دیوان پر جس کا نام مہادیو تھا ذخیرہ اندوزی کی تہمت لگی اور لوگوں نے عالم اضطرار میں اس کا گھر جلا ڈالا تو بادشاہ نے اس کی اطلاع ملنے پر ا س علاقے کے اعیان کو دربار میں بلوایا‘ ملا یوسف بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ بادشاہ نے ان سے اس فتنے کے بار ے مٰں استفسار کیا انہوںنے مذکورہ نجومی کے مطابق فنتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گناہ نہ تو عوام پر لازم آتا ہے اور نہ ناظم کے دیوان پر۔ بادشا ہ کو اس پر طیش آ گیا اورنتیجے پر ملا اسہال کی بیماری میں مبتلا ہو کر دہلی میں وفات پا گئے یہ واقعہ اس سے پہلے اوراق میں تفصیل سے لکھاجا چکا ہے۔ خواجہ عبداللہ باندی کشمیری کے اکابر میں سے تھے۔ ان کے والد خواجہ طالب جب شاہی دربار میں پہنچے تو قانو گوئی کی خدمت پر سرفراز ہو کر واپس چلے آئے۔ ان کے فرزند ارؤجمند ایک متقی اور حق آگاہ انسان تھے۔ اول اول حضرت بابا دائود خاکی کے مرید ہوئے۔ پھر جذبے کے باعث خڈا ئے ودود کے محبوب خواجہ خاوند محمود کے حضور نقشبندی طریقہ عالیہ میں صاحب ریاضت اور صاحب ذوق و احوال ہوئے۔ فوت ہونے پر اپنے محلے میں شاہی مدرسے کے نزدیک دفن ہوئے۔ ان کا مقبرہ مرجع خلائق ہے۔ ملا حسن کو جو انواع علوم میں انہیں شہرت حاصل تھی۔ تفسیر بیضاوی پر ان کے حواشی عالی نکات اور فوائد کے حامل ہیں۔ ملا باقر صباغ تحصیل علوم کی خاطر ایران گئے۔ اور وہاں کے فضلا سے استفادہ کیا۔ وہاں میر باقر داماد کے شاگرد ہوئے۔ علوم معقول میں اپنے دور کے بے مثل عالم تھے۔ محلہ کلاشپورہ میں واقع ان کی سکونت تھی۔ ملا باقر نارہ للو معقول میں ملا باقر صباغ کے شاگرد تھے۔ ہندوستان میں ملا عبدالحکیم اور پنجاب و پورب کے علما کے سات مناظرے کرتے ہوئے انہیںمغلوب کرلیتے۔ ملا یوسف چحک بے مثل دانشمند مفتی تھے۔ اکثر حضرت ایشان خواجہ خاوند محمود قدس سرہ کی صحبت سے بہرہ ور ہوتے۔ علم فقہ و تفسیر کے وقائق سے لوگوں کو مستفید کرتے کہتے ہیں عجیب واقعہ کے مالک تھے کہ کوئی بھی مباحثے اور مناظرے میں انہیںمغلوب نہیں کر سکتا تھا۔ ملا فاضل محرر اور کابل کے مدرس ملا عبدالرزاق ان کے کمال اور علامہ ہونے کے معترف تھے اوران سے جدل علمی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا بیٹا ملا عبدالنبی بھی بے نظیر فقد و دانشمند تھا۔ دستاویزات اور عدالتی امور میں ان جیسا ماہر مفتی کوئی نہ تھا۔ قاضی عبداللہ ملارتی ان کا لقب زہگیر تھا۔ شاہجہان بادشاہ کی سلطنت میں اولاً مولانا کمال الدین قاضی کے نبیرہ حکیم دانا کا بیٹا ابوالقاسم مفتی و قاضی تھی۔ وہ ابھی جوان تھا۔ دیوان عدالت کے دن ملا محمد طاہر تنگ نے صدر الصدور کے توسل سے بادشاہ کے حضور فتویٰ چاہا اور قاضی کی جانب القا کیا کہ ایک شخص نے قسم کھائی ہے کہ وہ روٹی نہیں کھائے گا۔ اتفاق سے وہ باہر آیا اور اپنے گھر میںبھوکا پہنچا۔ طاقچے پر ایک خوان تھا ۔ وہ بولا کہ اگر کوئی کھانے کی چیز ہے تو مجھے دے دیں۔ چونکہ گھر والوں وک علم تھا کہ وہ روٹی نہیںکھاتا اسلیے انہوںنے ایس کھانے کو نہ دی۔ اس نے قسم کھائی کہ جو کچھ اس خوان میں ہے اگر ہو نہ کھائے تو کذا و کذا (ایسا ویسا) ۔ جب خوان اٹھایا گیا تو اس میں روٹی تھی۔ دتو اب خائف (خائف؟ بمعنی متکبر خائف خوفزدہ؟) کیا کرے کہ وہ خانث (قسم توڑنے والا) نہ ٹھہرے۔ قاضٰ اس کا جواب نہ دے سکا۔ بادشاہ کی نظر ملا پر پڑی جو مفتی تھے اور جن کی ڈاڑھی سفید تھی ۔ اس (بادشاہ ) نے پوچھا کہ یہ بڈھا کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ وہ مفتی ہیں بادشاہ بولا آگے آ جائیے اور جواب دیجیے۔ انہوںنے جواب میں کہا کہ فتویٰ کے آداب یہ ہیں کہ کتاب دیکھ کر مسئلے کا جواب دیا جائے بادشاہ نے ان کی بات کو سراہا اور بولا ملا متدین ہے یہی شخص قاضی ہو گا۔ چنانچہ وہیں منصب اقضا انہیںتفویض کر دیا گیا۔ میر محمد باقر میر حمزہ کریری کے خلف الصدق ہیں استعداد عالی کے مالک تھے۔ والد بزرگوار کی خدمت میں اکتسابی معانی کیا حضرت میر محمد خلیفہ کی خدمت میںبھی بہرہ ور ہوئے۔ حضرت ایشاں شیخ یعقوب صرفی‘ قدست اسرار ہم ‘ کی خدمت میں بھی پہنچے اور آں حضرت (صرفی) کی کچھ عرصہ خدمت بھی کی۔ پکلی کی سیاحت میں وہ آنجناب کے ہمرکاب تھے بڑی قبولیت پائی۔ آکر سب سے منہ پھیر لیا اور حسن اعمال میں مشغول ہو گئے۔ اپنے آبائے کرام کے مقبرہ واقع موضع کریر میں آسودہ خاک ہوئے۔ ٭٭٭ شاہجہانی دور کے شعرا اور سخنوروں کا ذکر یہاں ان شعرا کاذکر مقصود ہے جو کشمیر میں سکونت پذیر رہے اور یہیںان کی وفات ہوئی۔ ان کا تعلق خواہ کشمیر سے تھا یا ہندوستان اور ایران سے اگرچہ اسدور میں یہاں شعرا کی بہت کثرت تھی۔ تاہم یہاں چند مشہور شعر ا کے حالات بیان کرنے پر ہی اکتفا کی گئی ہے۔ ملا ذہنی کشمیر کے نمایاں شعر ا میں سے ہے۔ اس فن میں کمال کے ساتھ ساتھ دینی علو م میں بھی بہرہ ور تھا‘ نیز تقویٰ کی طرف بھی گامزن رہا فن سخندانی میںکشمیر میں اپنے دور کا بے مثل تھا۔ہر وقت ارباب سخن کے ساتھ بزم آرائی ار محفل آرائی میں مصروف رہتا۔ اس نے چاروں خلفائے کرامؓ کی منقبت بڑی محبت سے کہی ہے اس نے چاروں خلفاؓ برحق کی منقبت میں چار طویل قصیدے لکھے ہیں۔ ان کا عنوان کلیہ عالم کی ایسی اشیا کی تعداد کے مطابق بہت عمدہ رکھا ہے جن میں سے اکثر کا عدد چارہے۔ یہ قصائد اس نے حضرت بابا نصٰب کو دکھائے اور ان سے تحسین و عنایات کامورد ٹحہرا اشعار: یار پیغمبرؐ نشاید برگزیدن جز چہار حجت آن بشنواز ذہنی کہ باشد یادگار از ملائک و کتب جز چار نگز یدست حق کین عدد مستحسن ست از روی معنی در شمار نہر خلدو رکن کعبہ اصل طبع و فصل سال بین چہار ست و چہار ست‘ و چہار ست و چہار (پیغمبرؐ کے یاروںؓ کا انتخاب چار کے سوا مناسب نہیں۔ اس کی دلیل ذہنی سے ن کر یہ یادگار (دلیل ) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور کتابوں میں سے صرف چار کو چنا کیونکہ گنتی میں معنی کے لحاظ سے یہ عدد اچھا ہے۔ جنت کی نہریں کعبہ کے ارکان طبع کی اصل اور سال کے موسم دیکھ یہ سب چار چار ہیں چار چار ہیں اور چار چار) حضرت عمر کی منقبت کا آغاز اس انداز سے کیا ہے شعر: مقبول شرعم تاشدم مردود مردودان دین یعنی نم مدحت گر فاروق امیرالمومنینؓ آن برتر از درک غبی داماد داماد نبیؐ قدوش چہ داند اجنبی گو از حسد درخون نشین (جب میں دین کے مردودوں کے نزدیک مردود قرار پایا تو میں مقبول شرع ٹھہرا‘ یعنی میں امیر المومنین حضرت فاروقؓ کا ملحتگر ہوں۔ وہ حضرت جو نبیؐ کے داماد کے داماد ہیں ان ؓ کے مقام کا ادراک کم عقل کے بس کا روگ نہیں ایک ناواقف انؓ کی قدر کیا جانے اس سے کہو وہ حسد کے مارے خون میں بیٹھے) یہ اشعار بھی اسی کے ہیں: خرم دل از نسیم گلستاں کس نیم روشن نظر ز شمع شبستان کس نیم دانشورم ز فیض دلی نکتہ دان خویش طفل طبانچہ خورد دبستان کس نیم کلکم ز نظم خود ہمہ شب بیت زد رقم سرگرم ز انتخاب ز دیوان کس نیم ہمت نمی فروشم و منت نمی خرم یعنی مراد دل طلب از خوان کس نیم مانند نکتہ سربگریبان نشستہ ام دست طمع دراز بدامان کس نیم ذہنی چو آستانہ مقیم در خودم لب تشنہ اجازت دربان کس نیم ٭٭٭ (رباعی): گربا تو کنم آرزوی دیدن گل آمادہ نگاہ بر پرستیدن گل آگہ کند از جنون من بلبل را چشمک زدن نرگس و خندیدن گل ٭٭٭ تاحرف غم تو کردہ ام گوش … شد ابجد شادیم فراموش از شوق تو زیر ہربن موست فوارہ اضطراب درجوش گر عاشق صادقی بدست آر جوشندہ دل و زبان خاموش پروانہ صفت بسوز و تن زن چون بلبل ہرزہ گوی مخروش آن دل کہ خریدہ ای بصد لطف اکنون بعتاب و ناز مفروش نیشی کہ زدست دوست باشد خوشترز ہزار چشمہ نوش ای حور بہشت ای زین پس از دوزخ دل مگیر سرپوش یعنی کہ ز آہ آتشینم اندیشہ کن و بمہر می کوش از نشہ جام عشق ساقی د بی دل گشت‘ ہوش ‘ بیہوش (۱۔ میں کسی کے گلستان کی نسیم سے خوش دل نہیں ہوں میں کسی کے شبستان کی شمع سے روشن نظر نہیں ہوں۔ 2۔ میں اپنے نکتہ داں دل کے فیض سے دانشور ہوں میںکسی کے مدرسے کا تھپڑ کھانے والا بچہ نہیںہوں۔ 3۔ میرے قلم نے میری اپنی نظم سے ساری رات اشعار تحریر کیے میں کسی کے دیوان کے انتخاب سے سرگرم نہیں ہوں۔ 4۔ میںہمت فروشی نہیں کرتا ار نہ منت خریدتا ہوں‘ یعنی میں کسی کے دستر خوان سے دل کی مرادمانگنے والا نہیں ہوں۔ 5۔ نکتہ کی مانند میں گریبان میں سر ڈالے بیٹھا ہوں‘ میں کسی کے دامن کی طرف پھیلا دست طمع نہیں ہوں۔ 6۔ ذہنی میں دہلیز کے مانند اپنے در کا مقیم ہوں۔ میں کسی کے دربان کی اجازت کا لب تشنہ نہیں ہوں۔ 7۔ اگر میںتیرے ساتھ پھولوں کو دیکھنے کی آرزو کروں تو نگاہ پھول کی پرستش پر آمادہ ہو جائے گا نرگس کی چشمک زنی اور پھول کا ہنسنا (کھلنا) بلبل کو میرے جنون سے آگاہ کر دے ۔ 8۔ جب سے میں نے تیرے غم کی بات کانوںمیں ڈالی ہے مجھے مسرت و شادمانی کی ابجد (الف ب) ہی بھول گئی ہے۔ 9۔ تیرے عشق کی وجہ سے میرے ہر ہر روئیں کے نچے اضطراب کا فوارہ ابل رہا ہے۔ 10۔ اگر تو عاشق صادق ہے تو جوش مارتا دل اور کاموش زبان مہیا کر۔ 11 ۔ پروانے کی طرح جل اٹھ اور خاموش رہ‘ بیہودہ گو بلبل کی مانند چیخ چلا نہیں۔ 12۔ وہ دل جو تو نے سینکڑوں مہربانیوں سے خریدا ہے اسے اب ناز و عتاب سے مت بیچ۔ 13۔ دوست کے ہاتھ سے لگنے والا نیش نوش (شہد) کے ہزاروں چشموں سے خوشتر ہے۔ 14,15۔ اے بہشت ایسے چہرے والی حور اس کے بعد سے دل کے دوزخ سے ڈھکنا مت اٹھا یعنی میری آتشیں آہوں سے بچ اور محبت کی کوشش کر۔ 16۔ اے ساقی عشق کے جام کے نشے سے دل بے دل ہو گیا اور ہوش بیہوش (ہوش جاتے رہے)۔ محلہ کنیزی کود کے متصل محلہ قاضی بابا میں اس کا ٹھکانا تھا۔ جا ن محمد جان قدسی اس کا وطن مشہد مقدس رضوی ہے۔ بعض اہم امور کی انجام دہی کے لیے ہند آیا تھا۔ اس کے کمال کی شہرت نے اسے مخفی نہ رہنے دیا۔ بادشاہ کی صحبت سے باریاب ہوا اورشاہجہانیدور کا ملک الشعرا بنا۔ صاحب قدرت شاعر تھا قصیدہ گوئی اور غزل پردازی میں اپنے معاصرین سے آگے نکل گیا تھا۔ ظفر نامہ شاہجہانی کو بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ مکمل کیا۔ جب اس نے دیکھا کہ عبداللہ خان بہادر فیروز جنگ کا نام شاہنامہ (ظفر نامہ) کی بحر میں نہیں سماتا تو اس نے حسن و تلاش سے (یہ نام) ادا کیا شعر: نہنگی کہ از غایت احتشام نہ گنجد بہ بحراز بزر گیش نام (وہ ایک ایسا مگرمچھ ہے کہ انتہائی حشمت کے باعث بزرگی و عظمت کی بنا پر اس کا نام بہر میں نہیںسماتا) ایک موقع پر بادشاہ کے حضور ایک عجیب و غریب اور کمیاب سفید ہاتھی پیش کیا گیا جوزروزیور سے آراستہ تھا۔ اس وقت قدسی بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے فوراً یہ رباعی کہہ کر پیش کی رباعی: برفیل سفیدش کہ مبیناد گزند شد شیفتہ ہر کس کہ نگاہی افگند چون شاہ جہان بروبرآمد گویی خورشید شد از سفیدہ صبح بلند (سفید ہاتھی پر کہ خدا کرے اسے گزند پہنچے ہر کسی نے شیفتگی کے عالم میں نگاہ ڈالی‘ جب شاہ جہاں ا س پر بیٹھ کر نکلا تو یوں لگا جیسے سورج صبح کی سفیدی سے بلندہوا ہو) اس پر اسے اچھے خاصے انعا م و اکرام سے نوازا گیا۔ کشمیر کی تعریف میں اور راستے کی صعوبت پر اس نے بہت عمدہ مثنوی کہی ہے اس کے چند اشعار یہ ہیں: بود قطع رہ کشمیر مشکل خلد موی کمر دردیدہ خار مگر زین راہ باریکت خبر نیست درین رہ چون گرہ برتار ماندہ ز بیم این رہ باریک خونخور کہ گام اول او ترک دنیاست گروہی دست از جانبرفشاندہ بحق نتوان رسید از راہ باطل رہ فقر از رہ کشمیر پیداست کہ گوپی کوہ را موی کمر نیست ازین رہ چون تو ان آسان گزشتن کہ گام اولست از جان گزشتن مسافر کی تواند زین بلا جست مگر لغریدن پا گیردش دست رہی ہمچون دم شمشیر باریک جہان در چشم رہ پیمایش تاریک رہی پیچیدہ تراز موی زنگی بہ تندی چون دم تیغ فرنگی زبس در رفتنش تدبیر کردہ فلک را فکر این رہ پیر کردہ ازین پیما نہای زندگی آہ کہ پری گردد از پیمیون راہ (1۔ کشمیر کا راستہ طے کرنا مشکل ہے باطل کی راہ سے حق تک نہیںپہنچا جا سکتا۔ 2۔ شاید تجھے اس باریک راستے کی خبر نہیں]جو تو کہتا ہے کہ پہاڑ کی کمر (اونچائی) کا بال نہیں ہے۔ 3۔ اس خونخوار باریک راستے کے ڈر سے کانٹ کی آنکھوں میں کمر کا بال کھٹکتا ہے۔ 4۔ ایک گروہ اپنی جان سے ہاتھ اٹھائے (جان سے بے نیاز) اس راستے میں اس طرح پڑا ہے جیسے تار پر گرہ ہو۔ 5 ۔ فقر کا راستہ کشمیر کے راستے سے نکلتا ہے کیونکہ اس میں پہلا قد م ہی ترک دنیا کا ہے۔ 6۔ اس راستے سے باسانی کیونکر گزرا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں پہلا قدم ہی جان سے گزرنے کا ہے۔ 7۔ مسافر بھلا اس بلا سے کیونکر چھٹکارا پا سکتا ہے؟ ہاں اس صورت میں (ایسا ممکن ہے کہ ) پائوں کی لغزش اس کا ہاتھ تھام لے۔ 8۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو تلوار کی دھار کی مانند باریک ہے۔ اس کو طے کرنے والی آنکھوں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ 9۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو حبشی کے بالوں سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے اور تیزی میں فرنگی کی تلوار کی دھار کی مانند ہے۔ 10 ۔ آسمان نے اس راستے پر چلنے کی بڑی تدبیریں کی ہیں چنانچہ اسی فکرنے اسے بوڑھا کر دیا۔ 11۔ زندگی کے ان پیمانوں پر افسوسہے کہ وہ راستہ طے کرنے سے بھر جاتے ہیں۔) کہتے ہیں کہ اس کمال اور ملک الشعرائی کے باوجود ایک روز وہ کسی مکتب دارملا کے سامنے اپنی ایک غز پڑھنے لگا جب وہ اس شعر پر پہنچا: ساقی بہ صبوحی قدری پیشتر از صبح برخیز کہ تا صبح شدن تاب نداریم (ساقی صبح کی شراب کے لیے صبح سے ذرا پہلے اتھ کیونکہ ہم میں اتنی تاب نہیں کہ صبح تک انتظار کریں)۔ تو ایک لڑکے نے جو وہاں بیٹھا سن رہاتھا کہا مولانا اگر ’’قدری‘‘ کے بجائے ’’نفسی‘‘ (ایک پل ایک سانس) کہا جائے تو صبح کی مناسبت سے یہ خوب رہے گا۔ حاجی نے تسلیم کر لیا اور اس بچے کی جودت طبع پر حیران رہ گیا۔ غزل نگہننت عشوہ گر و عربدہ سازست ہنوز چشم مخمور تو سرفتنہ نازست ہنوز تازہ شد دوستی مابخط تازہ تو ناز کن ناز کہ آغاز نیازست ہنوز خاک شد پیکر محمود ز تاثیر وفا دل او در شکن زلف ایازست ہنوز راہ نزدیک حرم سعی مرا باطل کرد لیک شادم کہ رہ عشق درازست ہنوز گرچہ نبود سرموی ز حقیقت خالی دل قدسی زپی عشق مجازست ہنوز ٭٭٭ زود کردم بہ من بی صبر داغ خویش را اول شب می کشد مفلس چراغ خویش را بازم نشتہ تامژہ در دل نگاہ کیست روزم سیاہ کردہ چشم سیاہ کیست دل دادن و سخن نشینن گناہ من دل بردن و گناہ نہ کردن گناہ کیست جوانی رفت و داغی ماند بر دل یادگار از وی چو آن سرخی کہ برناخن پس از رنگ حنا بندد اگر دستم و ہدروزی بجنب زاہد خود بین چو شمع آرم برون یک دستہ زنار از گریبانش باین قدر کہ ببالین من نہی قدمی مترس ہیچ کست مہربان نہ خواہد گفت عیش این باغ باندازہ یک تنگ دل ست کاش دل غنچہ شود تا دل مما بکشاید در چنین فصلی کہ بلبل مست و گلشن پر گلست گر ہمہ پیمانہ عمر ست خالی خوب نیست کجا تاب آورد پیش سرشک دیدہ فرسایم دواند ریشہ گر چون شمع مژگان تاکف پایم چو غنچہ گل صد برگ آسمان دو رنگ بصد برہنہ دہدیک قبا و آنہم تنگ (1۔ تیری نگاہ آج بھی عشوہ گر اور عربدہ خوہے‘ تیری مخمور آنکھیں ابھی تک ناز کے فتنے پر قائم ہیں۔ 2۔ تیرے تازہ خط (رخساروں پر اگانیا سبزہ) کے سب ہماری دوستی تازہ ہو گئی‘ تو ناز کرتا رہ کہ ابھی نیاز کا آغاز ہے۔ 3 وفا کی تاثیر کے نتیجے میں محمود غزنوی کاجسم خاک ہو گیا لیکن اس کا دل ابھی تک ایاز کی زلفوں کے شکن میں ہے۔ 4۔ حرم کے نزدیک راستے نے میری سعی کو باطل کر دیا۔ تاہم میں خوش ہوں کہ عشق کی راہ ابھی دور دراز ہے۔ 5۔ اگرچہ ہر ہر بال اور رواں حقیقت سے خالی نہیں ہے۔ پھر بھی قدسی کا دل ابھی تک عشق مجاز میں الجھا ہواہے۔ 6۔ مجھ بے صبر نے اپنا زخم جلد بہتر کر لیا۔ غریب آدمی سر شام ہی اپنا چراغ بجھادیتا ہے۔ 7۔ پھر دل میں پلکوں تک کس کینگاہ جاگزین ہے۔ کس کی چشم سیاہ نے میرا دن تاریک کیا ہوا ہے۔ 8۔ دل دینا اور بات نہ سننا میرا گناہ ہے دل لینا اور گناہ نہ کرنا کس کا گناہ ہے۔ 9۔ جوانی چلی گئی اور دل پر ایک داغ اس کی یادگار رہ گیا۔ اس سرخی کی طرح جو مہندی کے رنگ کے بعد ناخون پر رہ جاتی ہے۔ 10۔ اگر کسی روز مجھے خود بین زاہد کے پہلو میں (بیٹھنے کا) موقع مسیر آیا تو میں شمع کی مانند اس کے گریبان سے زنار کا ایک گچھا باہر نکال لوں گا۔ 11۔ تو میرے پالین پر صرف ا س قدر قدم رکھنے سے نہ ڈر کوئی بھی تجھے مہربان نہ کہے گا۔ 12 ا س باغ کا عیش ایک تنگ دل جتنا ہے۔ کاش دل غنچہ بن جائے تاکہ ہمارا دل کھل اٹھے۔ 13۔ ایسے موسم میں جب بلبل اور گلشن پھولوں سے پر ہے‘ اگر زندگی کا سار ا پیمانہ خالی ہے تو ٹھیک نہیں ہے۔ 14۔ اگر پلکیں شمع کی مانند میرے کف پا تک ریشہ دوڑا دیں تو بھی وہ میرے آنکھوں کو گھسان والے آنسوئوں کی تاب کہاں لا لا سکتی ہیں۔ 15۔ سیکڑوں پٹیوں والے پھول کی کلی کی مانند یہ دورنگا آسمان سیکڑوں برہنہ آدمیوں کو ایک قبا دیتا ہے اور وہ بھی تنگ) (رباعی) دنیا معشوق عاشق دین نشود شیدائی آن شیفتہ این نشود یار دل عارف نشود جلوہ دہر آئینہ زعکس کوہ سنگین نشود (رباعی) ہر کس کہ سخن ز قدر و مقدار کند کی حاجت خود تو اند اظہار کند خواہی ہنرت عیان شود پستی جو خورشید فرود آید و بس کار کند ایران میں ا س کا محمد باقر نامی ایک بیٹا تھا جو عین عالم شباب میں فوت ہو گیا۔ حاجی محمد جان کو اس کا اس قدر دکھ ہوا کہ اس نے ایران واپس جانے کا خیال ترک کر کے ہند ہی میں سکونت اختیار کر لی۔ آخر وہ کشمیر چلاآیا اور یہیں کا ہو رہا اور سخن طرازی و شاعری سے گزر بسر کی۔ اس نے کشمیر مین رحلت کی۔ کجن میں واقع خانقاہ سے متصل بلندی پر پل کے نزدیک چبوتر ے پر واقع مقبرہ شرعرا میں دفن ہے۔ ان شعرا کا زکر آگے آ رہا ہے ۔ طغرا خوش فکر اور معنی یاب شاعر اورمنشی طبیعت تھے۔ زیادہ تر اشا پردازی میں بسر اوقات کرتا۔ کشمیر اور اس کی راہ عبور کی تعریف میں اسنے ایک رسالہ لکھا اور سخنوری کا حق ادا کیا ہے ۔ اس کے اشعار بھی مضامین کی چاشنی سے خالی نہیں ہیں۔ اس کے چند اشعار: خوش آنست کہ بزم آرا نشینی برلب جوی خط پشت بست چشم قدح را گردد ابروی آبرومی رود از دست بامد شد غیر چون حباب از ہمہ جانت رہ کاشانہ بہ بند اس کے رقعات خیال بندی کے سلسلے میں اور باغ ‘ اقسام میوہ و گل نیز جام و مل (شراب) ارو ہر جزو کل کی تعریفات میں اربا ب خیال کے نزدیک اپنی دل پسندی کے سبب خاصے مشہور ہیں اس کے چند فقرے: ’’درخت آبی از بی آبی روی بہی ندیدہ‘‘ (آبی کے درخٹ نے پانی نہ ملنے کے سبب بہتری کا منہ نہ دیکھا) (آبی ایک پھل بہی بہتری اور ایک پھل کا نام) یہ رباعی اس کی ہے: کشمیر بود فصل خزان عالم نور برطالب فیض دیدنش ہست ضرور گوئی کہ درین باغ چمن سار قضا آوردہ نہال شعلہ از خرمن طور (کشمیر خزاں کے موسم میں روشنی کی دنیا بن جاتا ہے۔ طالب فیض کے لیے اس کادیکھنا ضروری ہے گویا قضا و قدر نے اس چمن سا باغ (جس میں بہت سے چمن ہوں) میں شعلے کا درخت طور کی فصل سے لا کر (یہاں اگا) دیا ہے۔ شاہزادہ سلطان مرادبخش کے ملازمین میں سے تھا۔ اس نے شاہزادہ کی مدح میں ایک قصیدہ کہا ہے جس کا آغاز اس شعر سے ہوتاہے: شعر: دارای عرش کو کہہ سلطان مراد بخش زینت فزای سلطنت اورنگ آسماں عمر کے آخر حصے میں میرزا ابوالقاسم دیوان مشہور بہ قاضی ردہ ککی تحریک پر اور اس کی رفاقت میں کشمیر چلا آیا اور ایک گوشہ تنہائی اختیار کر کے معنی سنجی میں مصروف ہو گیا۔ عجب صاحب استغنا تھا۔ محلہ رانیواری میں نابدیار کے گھاٹ کے نزدیک ایک دکان میں دیوانہ وار سکونت اختیار کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اے ’’شالہ با ماما صالح جراح‘‘ (؟) کہا جاتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو کجن میں واقع پل کی بلندی پر مقبرہ شعرا کے چبوترے پر دفن ہوا۔ محمد قلی سلیم شاہجہان کے دور میں ایران سے ہند آیا۔ اپنی خوش خیالی اور معنی یابی سے اس نے سخنوری کا حق ادا کر دیا۔ نواب اسلام خان وزیر اعظم کی ملازمت میں رہا اور عمدہ اور برجستہ اشعار اور فکر ہائے دست بستہ نصہ شہور پر لاتا رہا چند اشعار: چشم تو زبیماری خود بر سرنازست مژگان توہمچون شب بیمار درازست گدای کوئی خراباتم و غمم اینست کہ بادہ آتش سوزان و کاسہ چوبین است دل چوسد گرم زمی جلوہ معشوق کند ماہی موم باتش چوسد آب شود توان از دانہائی سبحہ دانست کہ دلہارا بدلہا ہست راہی ر تلاش سوختن چون کاغذ آتش داغہائی سینہ ام باہم بنجگ افتادہ است بستہ کمر کنم از قبضہ کمان او درکشتن منتیغش افتاد بیک پہلو بیماری چشمش را تعویذ چوبنویسند از پردہ چشم آرند خوبان ورق آہو بعیش آباد ہندوستان غم پیری نمی باشد کہ مو نتواند از شرم کمر ہاشد سفید آنجا کمتر نیم از قیصر و فغفور کہ من در ہندیسہ بختی خود شاہ سلیمم (1۔ تیری آنکھیں اپنی بیماری کے سبب ناز کر رہی ہیں تیری پلکیں بیمار کی رات کی مانند لمبی ہیں۔ 2۔ میں کوچہ خرابات کا گدا ہوں اور مجھے غم یہ ہے کہ شراب جلا دینے والی آگ ہے اورمیرا کاسہ لکڑی کا ہے۔ 3۔ دل جب شراب سے گرم ہو گیا تو معشوق کا جلوہ کرنے لگا۔ موم کی بنی ہوئی مچھلی جب آگ میں پہنچی تو پانی بن جاتی ہے۔ 4۔ تسبیح کے دانوں سے جانا جا سکتاہے کہ دلوں کو دلوں سے راہ ہوتی ہے۔ 5۔ چلنے کی جستجو میں میرے سینے کے داغ کاغذ آتش کی مانند باہم الجھ پڑے ہیں۔ 6۔ اس کی کمان نے میری دشمنی پر قبضہ سے کمر باند ھ رکھی ہے۔ میرے قتل کرنے میںاس کی تلوار ایک پہلو پر پڑی ہے ۔ یعنی کام تمام کرنے پر تلی ہے۔ 7۔ اس کی بیماری چشم کے لیے جب تعویذ لکاھ جاتا ہے تو حسین لوگ پردہ چشم سے ورق آہولے آتے ہیں۔ 8۔ ہندوستان کے عیش آباد میں بڑھاپے کا غم نہیں ہوتا کیونکہ (حسینوں کی)کمروں کی شرم سے بال وہاں سفید نہیں ہو سکتے ۔ 9۔ میں قیصر اور فغفور سے کم نہیںہوں کیونکہ میں اپنی سیاہ بختی کے ہند میں شاہ سلیم ہوں)۔ مثنوی قضا و قدر میں اسنے بڑے مضامین پیدا کیے ہیں اور عمدہ چمک والے گوہر ہائے معانی اس میں پروئے ہیں۔ یہ مثنوی اصحاب کمال کی زبان زد اور ارباب خیال کی سند ہے۔ بعض امرا کی ہمراہی میں کشمیر آیا۔ جب اس کی طبع سلیم مستقیم ہو گئی اور وہ رحلت کر گیا تو مذکورہ صفہ شعرا میں دفن ہوا۔ کلیم‘ موسوم بہ طالبا (طالب) اس کا مولد ہمدان ہے جو عراق کے شہر عجم کے شہروں میں سے ہے۔ شید اکا معاصر تھا۔ جب فردوش آشیانی (شاہجہان) نے محمد جان قدسی کو سونے میں تولا تو غیرت کے مارے کانپ اٹھا اور بہت رنجیدہ ہوا۔ کہنے لگا کہ کسی شخص کو خلق سے کھینچنا چاہیے عجیب بات ہے کہ اسے سونے نے کھینچا(تولا) گیا۔ اوائل حال میں وہ عندلیب سخںدانی آغاز جوانی میں شیراز گیا۔ رواج پذیر دانش و علوم سے پوری طرح بہرہ ور ہو کر ہندوستان چلا آیا۔ شروع میں ایک قصہ تک دکن اور ہندوستان کے دیگر ممالک کی سیر کرتا رہا آخر شاہجہانی دربا رمیں پہنچا اور ملازموں کی لڑی میں منسلک ہو گیا۔ بادشاہ نے اسے پادشاہ نامہ نظم میں لکھنے کے لیے کشمیر بھیج دیا وہ ابھی وہیں تھا کہ اس کے وجود کی لڑی ٹوٹ کر بکھر گئی اس کے اشعار: تاشد مژہ بی اشک فتاد از نظر من اکنون چہ کنم رشتہ کنم کہ وقتی گہری داشت دوست بہ ہیچم فروخت باہمہ یاری یار فروشی درین زمانہ ہمین ست میان غمگساران سوزم از غم چو آن کشتی کہ در دریا بسوزد کہ دل برجا تو اندداشت پیش چشم شہلایش کشد ذ آئینہ بیرون عکس را مژگان گیرایش مفلسان را کس نمی خواہد زمینا کن قیاس تاتہی شد دیگرش کس دست درگردن نکرد طبعی بہم رسان کہ بسازی بعالمی یا ہمتی کہ از سر عالم تو ان گزشت بدنامی حیات دو روزی بنود بیش آنہم کلیم با تو بگویم چسان گذشت یک روز صرف بستن دل شدباین و آن روز دگر بکندن دل زین و زان گذشت اس کی تاریخ وصال اس مصرع سے نکلتی ہے جو مولانا طاہر غنی نے موزوں کیا۔ اس مصرع والی غزل (قطعہ) یہ ہے: حیف کز دیوار این گلشن پرید طالبا آن بلبل باغ نعیم … رفت و آخر خامہی را از دست داد بی عصا طی کرد این رہ را کلیم اشک حسرت چون نمی ریزد قلم شد سخن از مردن طالب یتیم ہر دم از شوقش دل اہل سخن چون زبان خامہ می گردد دونیم عمر ہا دریار او زیر زمین خاک برسر کرد قدسی و سلیم عاقبت از اشتیاق یک دگر گشتہ اند این ہرسہ در یکجا مقیم گفت تاریخ وفات او غنی طور معنی بود روشن از کلیم (1061-1651) (1۔ جب پلکیں آنسوئوں سے خالی ہو گئیں تو وہ میری نظروں سے گر گئیں میں اب اس دھاگے کو کیا کروں جس میں کبھی موتی پروئے ہوئے تھے۔ 2. دوست نے دوستی کے باوجود مجھے مفت میں بیچ دیا اس زمانے میں یار فروشی یہی ہے۔ 3۔ میں غمگساروں میں غم کے ہاتھوں اس کشتی کی طرح جل رہا ہوں جو دریا میں جل رہی ہو۔ 4۔کون ہے جو اس کی نرگسی آنکھوں کے سامنے اپنے دل کو جمائے رکھے گا اس کی تو گیرا پلکیں آئینے سے عکس کو باہر کھینچ لاتی ہیں۔ 5۔ مفلسوں کو کوئی نہیں چاہتا‘ تو اس کا اندازہ صراحی سے کر لے‘ کہ جب وہ خالی ہو جاتی ہے تو کوئی بھی اس کی گردن میں ہاتھ نہیں رکھتا۔ 6۔ ایسی طبع بہم پہنچا جو ایک دنیا سے موافقت کر لے یا پھر ایسی ہمت (پیدا کر) کہ دنیا پر سے گزر ا جا سکے۔ 7,8۔ زندگی کی بدنامی دو دن سے زیادہ کی نہ تھی وہ بھی اے کلیم میں تجھے بتائوں خہ کس طرح گزرے ۔ ایک دن تو اس سے دل لگانے میں گزر گیا اور دوسرا دن اس سے اور اس سے دل اٹھانے میں بسر ہو گیا۔ 9۔ افسوس کہ اس گلشن کی دیوار سے باغ نعیم کا وہ بلبل یعنی طالبا (ابو طالب کلیم) اڑ گیا۔ 10۔ وہ چلا گیا اور آخر اس نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا۔ کلیم نے یہ راستہ عصا کے بغیر طے کیا۔ 11۔ قلم بھلا اشک حسرت کیوں نہ بہائے کہ طالب کے مرنے سے شاعری یتیم ہو گئی ہے۔ 12۔ اس کے عشق کے سبب اہل سخن کا دل ہر پل قلم کی زبان کی مانند دو نیم ہو رہا ہے۔ 13۔ مدتوں تک قدسی اور سلیم کی یاد میں زیر زمین سر پر خاک ڈالتے رہے۔ 14۔ آخر کار ایک دوسرے کا اشتیاق کے باعث یہ تینوں ایک جگہ مقیم ہو گئے۔ 15۔ غنی نے اس کی تاریخ وفات ان لفظوں میں نکالی طور معنی بود روشن از کلیم یعنی مضامین کا طور کلیم سے روشن تھا)۔ مقبرہ شعراء میں کہ طالبوں کا مسکن وہیں تھا دفن ہوا۔ شاہجہانی فیل جنگ پر اس نے خوب لکاھ ہے ۔ کشمیر کے اکثر باغات کے کتبے اس نے لکھے ہیں۔ میر الٰہی سادات ایران اور نوادر دوران میں سے تھا۔ جہانگیری عہد میں اسے نکتہ سنجی و سخندانی میں بھرپور شہر ت ملی اور وہ اس دریا صفت فیاض بادشاہ کے انعام و اکرام سے فیض یاب ہوتا رہا۔ جب تخت و تاج شاہجہانی وجود سے زینت و رواج پذیر ہوا تو میر نے گلشن کشمیر کی جانب عنان عزیمت و توجہ موڑ لی اور کشمیر جنت نظیر میں اقامت اختیار کر لی۔ پھر ایک مدت تک اس ہمیشہ بہار گلزار کی گلگشت میں مصروف رہا۔ جب صوبہ داری کی خلعت ظفر خان کو عطا ہوئی تو شاہجہان بادشاہ نے دیوان میں فرمایا کہ ظفر خان سے اس بات کی ضمانت لی جائے کہ وہ اہل کشمیر کو اپنی طرف سے خوش رکھے گا۔ میر الٰہی حاضر تھا اس نے فی البدیہہ کہا خدا ضامن رسولؐ و چار یار ش بادشاہ محظوظ ہوا اور ظفر خان سے عرض کیا کہ حک ہو کر میر الٰہی میر ا رفیق و امین ہو۔ اس کی یہ خواہش پوری کر دی گئی۔ چنانچہ وہ ظفر خان کے ہمراہ کشمیر آیا آخوند ملا شاہ نے فرمایا تھا کہ :شعر: پادشاہی راگزار و دوست آگاہی گزین چوں باگاہی رسیدی ہرچہ می خواہی گزین (بادشاہ کو چھوڑ اور دوست آگاہی اختیار کر۔ جب تو آگہی تک پہنچ جائے تو پھر جو تیرا دل چاہے وہ اختیار کر)۔ یہ شعر سونے کے پانی سے لکھا گیا۔ جب یہ شعر میر الٰہی تک پہنچا تو اس نے فی البدیہہ اس کے نیچے لکھا دیا: من نمی گویم گدایی یا شہنشاہی گزین خویش را بگرمین و دیگر ہرچہ می خواہی گزین (میںنہیںکہتا کہ گدائی اختیار کر یا شہنشاہی‘ تو اپنے آپ کو پسند کر لے اور پھر جو کچھ بھی تو چاہے اسے پسند کر لے) یہ امر آخوند ملا شاہ کے لیے رشک و غیر ت کا باعث بنا۔ جب میر الٰہی فوت ہوا تو حضرت شیخ بہاء گنج بخش کے مزارمیں ان کے مقبرے کے نزدیک جامع مغرب اسے دفن کیا گیا۔ اس کی قبر کے سرہانے ایک پتھر پر یہ شعر کندہ ہیں: میر الٰہی ملک ملک نظم بود در اقلیم سخن بی قرین سال وفاتش علیدم زعقل گفت بگور بود سخن آفرین (1063)ھ اس سے یہ واضح ہوا کہ ا سنے 1063/1653میں اس دنیا سے کوچ کیا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یہ اشعا ر اس کے ہیں:۔ یا الٰہی ز الٰہی توچہ پرسی در حشر آنچہ او کرد تو دیدی و چہ گفتن دارد (یا الٰہی تو حشر میں الٰہی سے کیا پوچھے گا‘ اس نے جو کچھ کای وہ تو نے دیکھ لای پھر کہنے کی کیا بات رہ گئی) چشمت از ہر گردشی با یار عہدی تازہ بست خط مشیکنت کتاب حسن را شیرازہ بست نشہ از تیغ او دارم کہ چاک سینہ ام چون خمار آلودہ نتواندلب از خمیازہ بست شب ہجران زبس لبریز کلفت گشتہ ام‘ ریزد چوگرداز دامن مژگان نگاہ حیرت آلودم چنان ارزمتاع زندگی را ی دہم از کف کہ گویا کاروان عمر می… زبس مارا (؟) ملا ندیمی کشیمر کے نمایاں شعرا میں سے ہے۔ شروع میں وہ فضائل کے اکتساب میں مشغول رہا۔ اپنی لطافت طبع کے اقتضا پر مولانا ذہنی کی خدمت میں پہنچا اور اپنے اشعار انہیں دکھائے۔ چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں اس کا شمار اس فن کے ارباب برگزیدہ میں ہونے لگا۔ اس کا نام ملا محمد صالح اور والد کا نام خواجہ علی پتوانی تھا۔ محلہ نوہتہ میں سکونت اخیتار کی تھی اور ندیم تخلص تھا۔ بہت اچھا پرگو شاعر تھا اس کے اشعار: از آہ سرد آتش داغم فرونشست باد بلا و زید چراغم فرو نشست گردی زچار سوی زمین جست برہوا برگشت در حریم دماغم فرو نشست افسردہ گشت بر مژہ لخت جگر مرا نم در فتیکہ بود چراغم فرونشست پامال دست برد خزان غمم ندیم خار و گلی کہ خاست رباغم فرونشست ٭٭٭ داغ دل بہ ز مداوای ہوس نتوان کرد چمن آرایی گلزار زخس نتوان کرد جذبہ ہمتی از عشق طلب نی ز ہوس سیر عنقابہ پر وبال مگس نتوان کرد خاطری درد گزین باید و جانی غمگین سخن عشق تو پیش ہمہ کس نتوان کرد نغمہ عیش ندارد اثر نالہ درد رو بسوی چمن از کنج قفس نتوان کرد اختر بدکہ بود گردش گردون چکند کلہ بنیاد ندیم از ہمہ کس نتوان کرد ٭٭٭ پیش مابا دانش و فرہنگ می باید نشست یک زبان و یکدم و یکرنگ می باید نشست جامی گرم خاک عاشق راکہ برخاکسترست نیستم سلطان کہ برادرنگ می باید نشست رنج می باید کشید و صبر می باید نمود لعل می باید شد و درسنگ می باید نشست کار پردازان دنیا رہزن دین آمدند دور ازین مردم بصد فرسنگ می باید نشست گرگل مقصد شگفتن آرزو داری ندیم غنچہ ساندرباغ ہم دل تنگ می باید نشست ٭٭٭ پروانہ گرد شمع شبستان کس نیم بلبل فراز شاخ گلستان کس نیم پامی ہوس بدست قناعت شکستہ ام دست طلب بدامن احسان کس نیم ہمت زبس کہ کرد مدد در معاش من باصد کرسنگی مگس خوان کس نیم از اشک و آہ خشک و تری شد میسرم بی آبرو در آرزوی نان کس نیم بی برگیم بہار ہزاران شگفتگی ست آشفتہ سر بحیرت سامان کس نیم دامان صلح کل برون آوردہ ام بدست سرپنجہ جدل بگریبان کس نیم مشکل کشاز دفتر فضل خودم ندیم طبع آزما ز دقت دیوان کس نیم دارغم نصیب سینہ افگار کس مباد این گل چراغ غمکدہ تارکس مباد بی نغمہ بلبل چمن از رونق او قند در سینہ بی فغان دل غمخوار کس مباد داغ دلم زدیدہ پذیرفت آب و رنگ این ابر غنچہ پرور گلزار کس مباد صحت در آرزوی دل اہل درد مرد این غم نصیبہ دل افگار کس مباد گرخود ز آفتاب قیامت تپد دلم منت پذیر سایہ دیوار کس مباد صد دل بدرد افگند از ہر سخن ندیم درکار شرخ ہجر تو گفتار کس مباد 1۔ تیری آنکھوں نے ہر گردش پر یار سے ایک نیا عہد باندھا‘ تیرے سیاہ خوشبودار خط نے کتاب حسن کی شیرازہ بندی کی 2۔ مجھے اس کی تلوار کا نشہ ہے کیونکہ میرے سینے کا چاک کسی خمار آلودہ کی مانند انگڑائی سے ہونٹ بند نہیںکر سکتا۔ 3۔ شب ہجراںمیں کلفت سے اس قدر بھر گیا ہوں کہ میری پلکوں کے دامن کے گرد کی مانند حیرت آلودہ نگاہ جھڑ رہی ہے۔ 4۔ میں زندگی کی متاع کی قیمت اس طرح ہاتھ سے دے رہا ہوں جیسے کاروان عمر… (کوئی لفظ چھپنے سے رہ گیا ہے)۔ ٭٭٭ (1۔ آہ سرد سے میرے زخم کی آگ بجھ گئی‘ مصیبت کی ہوا چلی اور میرا چراغ بجھ گیا۔ 2۔ زمین کے چاروں اطراف سے گرد ہوا میں اچھلی‘ وہ مڑی اور میرے دماغ کی چار دیواری میں بیٹھ گئی۔ 3۔ میرے جگر کا ٹکڑا پلکوں پر افسردہ ہو گیا‘ فتیے میں نمی تھی اس لیے میرا چراغ بجھ گیا۔ 4۔ ندیم میں غم کی خزاں کی دست برد کا پامال ہوں میرے باغ سے جو خار و گل اٹھے وہ بیٹھ گئے یعنی مرجھا گئے۔ 5. ۔ ہوس کے مداوا سے داغ دل کو اچھا نہیں کیا ؤجا سکتا۔ گلزار کی چمن آرائی خس سے نہیں کی جا سکتی۔ 6۔ ہمت کا جذبہ عشق طلب کر ہوس سے نہیں عنقا ایسی اڑان مکھی کے پروںؓ سے نہیں کی جا سکتی۔ 7۔ کوئی درد بھرادل اور غمگین جان ہو (تو پھر ٹھیک ہے) ورنہ عشق کی بات ہر کسی کے سامنے نہیں کی جا سکتی۔ 8۔ نغمہ عیش میں نالہ درد کا سا اچر نہیں ہے کنج قفس سے چمن کا رخ نہیںکیا جا سکتا۔ 9۔ جب ستارہ ہی برا ہو تو گردش فلک کیا کرے ندیم ہر کسی سے گلے کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ 10۔ ہمارے سامنے دانش و ادب کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ یک زبان و یک دل اور یک رنگ ہو کر بیٹھنا چاہیے۔ 11۔ عاشق کے لیے خاک کی گرم جگہ ہے جو خاکستر پر ہے‘ میں کوئی سلطان نہیں ہوں جو مجھے تخت پر بیٹھنا چاہیے۔ 12۔ رنج اٹھانا چاہیے اور صبر کرنا چاہیے لعل ہونا چاہیے اور پھتر میںبیٹحنا چاہیے۔ 13 دنیا کے کام سنوارنے والے دین کے راہ مار ثابت ہوئے‘ ان لوگوں سے سینکڑوں کوس دور بیٹھنا چاہیے۔ 14۔ اے ندیم اگر تجھے گل مقصد کے کھلنے کی آرزوہے تو پھر تجھے باغ میں کلی کی مانند تنگ دل بیٹھنا چاہیے۔ 15۔ میں کسی کے شبستان کی شمع کے گرد چکر کاٹنے والا پروانہ نہیں ہوںمیںکسی کے گلستان کی شاخ پر بیٹھنے والا بلبل نہیں ہوں۔ 16۔ میں نے قناعت کے ہاتھوں سے ہوس کے پائوں توڑ ڈالے ہیں‘ میں کسی کے دامن احساں میںدست طلب نہیں ہوں۔ 17۔ میری معاش میں ہمت نے میری بے حد مدد کی ہے میں سیکڑوں فاقوں کے باوجود کسی کے دستر خوان کی مکھی نہیں ہوں۔ 18۔ اشک تر اور آہ خشک مجھے میسر ہیں۔ میں کسیکی روٹی کی آرزو میں بے آبرو نہیں ہوں ۔ 19۔ میری بے مرگی (بے سروسامانی) ہزاروں تازگیوں کی بہار ہے‘ میں کسی کے سامان کی حسرت میں آشفتہ نہیںہوں۔ 20۔ میں نے ہاتھوں سے صلح کل کا دامن تھام رکھا ہے مین کسی کے گریبان میں جنگ و جدل کا سرپنجہ نہیںہوں۔ 21۔ اے ندیم میں اپنے دفتر فضل سے اپنی مشکل کشائی کرتاہوں میں کسی کے دیوان کی وقت سے طبع آزمائی کرنے والا نہیںہوں۔ 22۔ خدا کرے کہ میرے سینے کا داغ کسی کے زخمی سینے کے حصے میں نہ آئے‘ یہ پھول کسی کے تاریک غمکدے کا چراغ نہ بنے۔ 23۔ نغمے کے بغیر چمن کے بلبل کی رونق جاتی رہتی ہے‘ کسی کے بھی سینے میں غم خوار دل ‘ فغان کے بغیر نہ ہو۔ 24۔ میرے دل کے داغ نے آنکھوں سے آب و رنگ حاصل کیا خدا کرے یہ بادل کسی کے گلزار کا غنچہ پرور نہ ہو۔ 25۔ اہل درد کے دل کی آرزو میںصحت مر گئی خدا کرے یہ غم کسی ے زخمی دل کے حصے میں نہ آئے۔ 26۔ اگر میرا دل آفتاب قیامت سے بھی تپ جائے تو بھی خدا کرے کہ وہ کسی کے دیوار کے سائے کا ممنون احسان نہ ہو۔ 27۔ اے ندیم تیرے ہر سخن سے سیکڑوں دل درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ خدا کرے تیرے ہجر کی شرح کے لیے کسی کی گفتار درکار نہ ہو۔ نیست پروای کس از قید تلعق جستہ را ہر دو عالم گر خورد برہم چہ غم وارستہ را برسر مژگان من شد لخت لخت دل گرہ بستہ می دارند آری از گیاہ گلدستہ را عشق دردم داد از جان کاہیش آکہ نکرد بی کلید آری کسی نہ کشود قفل بستہ را بی غم عشقت کشاد کار دل صورت نسبت از خرد باید بریدن باجنون پیوستہ را عافیت را نیست رہ در بزم گاہ ما ندیم عشق ہم صحبت نخواہد با بلا نشتہ را (2) زفیض دل مژہ اشکبار گلریز است زتازہ رو یی این باغ خار گلریز است دلت زہیچ نوا و انشد چوگل ورنہ بنغمہ ہر چمنی را ہزار گلریز است چہ تار تار سبحہ در ایام گل چہ تار رباب نسیم صبح دم از تار گلریز است شگوفہ نیست کہ ریزد بخاک از سر تیغ کہ شاخ گل ز نسیم بہار گلریز است بیاد کاکل مشکین ندیم در ہر شب بجای اشک زچشمم خمار گلریز است (3) پوشیدہ راز بخٹ سیہ داشت داغ ما ہرگز نہ گشت پردہ در شب چراغ ما آرد بدست داغ دل آن دیدہ ور کہ او دارد بصارت گوہر شب چراغ ما درجست و جوی مانہ نہد مشفقی قدم آوارگی کجاست کہ گیرد سراغ ما بی غم نشاط دردل ما راہ نیافتہ است باہم نہد بہار و خزان رو بباغ ما در حرف راست خامہ ما خم کار نیست ہرگز خرام کج ننمودہ است زاغ ما در تنگنای د ہمہ مطلب میسر است فارغ نشین ندیم بکنج فراغ ما (4) رونق افزای کار خویشتم… چون ہنر مایہ دار خویشتنم اشک شوقم گرہ بمژگا نم غنچہ شاخسار خویشتنم تازہ دارم بگریہ غنچہ داغ آب و رنگ بہار خویشتنم رخ نیفروختم ببزم کسی شمع شبہائی تار خویشتنم سرزند نالہ از رگ جانم نغمہ پرداز تار خویشتنم زندگی روشنم نہ کر ندیم ورنہ شمع مزار خویشتنم (5) سرزلفت کہ بادل داد ربط آشفتہ حالی را ببویی عقدہ واکرد آرزوہائی خیالی را غمت ویرانہ دل را بدرد آباد چون گردد ولایت پیشہ معمور دستور است حالی را دل از خون جگر لبریز خواہم داشت در مجلس کہ اندازند مستان از نظر مینای خالی را ز اظہار زیان چون سود بدخوابیست دم درکش کہ بازرگان نمی سازدعیان نقصان مالی را ندیم از بیت ابرویت غزلخوان غزالانست کہ تضمین می کند اہل سخن مضمون عالی را (6) در کشور توکل غمناک شاد باشد حاصل چوشد تحمل بیداد داد باشد اسرار غیب دانی حل کن اگر توانی در سرنوشت خوانی باید سواد باشد تا دل دہم ہوس را غارت کند نفس را بردزد خانہ کس را کی اعتماد باشد در سینہ ہمہ تن افروز داز دم من این جا چراغ روشن از روی باد باشد از چشم بارت صد جو ریک اشارت آری برای غارت ترک اوستاد باشد از نفس و خصلت او دل کن ندیم یکسو باور مکن کہ بدخو نیکو نہاد باشد 1۔ جو شخص علائق دنیاوی سے رہائی پا گیا اسے کسی کی پروانہیں ہے اگر دونوں جہاں درہم برہم ہوجائیں تو آزد کو اس کا کیا غم۔ 2۔ میری پلکوں کے سرے پر دل کے ٹکڑے بندھ گئے ہاں گلدستے کو گیاہ سے باندھا کرتے ہیں۔ 3۔ عشق نے مجھے در ددیا لیکن ا س کے نتیجے میں ہونے والی جانکاہی کا کچھ نہ بتایا‘ طبیب بیمار پر دوا کی تلخی ظاہرنہیںکیا کرتا۔ 4۔ تیرے عشق کے غم کے بغیر دل کے کشاد کار (مسرت) کی کوئی صورت نہ بنی‘ ہاں بند تالے کوبھی کسی نے چابی کے بغیر نہیںکھولا 5۔ دانش اور دیوانگی کبھی باہم موافقت نہیںکرتیں۔ جنوں سے وابستہ شخص کو خرد سے کٹ جانا چاہیے۔ 6۔ اے ندیم عافیت کے لیے ہماری محفل میں کوئی جگہ نہییں ہے عشق بھی کسی ایسے سے صحبت کا خواہاں ہے جو بلا میں نہ بیٹھا ہو۔ (2) 1۔ دل کے فیض سے اشکبار پلکیں پھول گرانے والی بن گئی ہیں اس باغ کی تازگی کے سبب کانٹا بھی گلزار بن گیا ہے۔ 2۔ تیرا ہی دل کسی بھی نغمے سے پھول کی مانند نہ کھلا وگرنہ نغمے سے تو ہر چمن ہزاروں گلریز کا حامل بن جاتا ہے۔ 3 موسم گل میںکیا تسبیح کا تار اور کیا رباب کا تار‘ نسیم صبح تار تار سے پھول گرانے والی بنی ہیں۔ 4۔ شگونہ نہیںہے جو ٹوپی پر سے خاک پر بکھرے‘ کہ شاخ گل نسیم بہار کی وجہ سے گل ریز ہے۔ 5۔ مشکیں زلفوں کی یاد میں اے ندیم ہر رات میری آنکھیں آنسوئوں کے بجائے پھول گراتی ہیں۔ (3) 1 ۔ ہمارے داغ نے سیاہ بختی کے راز کو پوشیدہ رکھا ہمارا چراغ کبھی شب کا پردہ چاک کرنے والا نہ بنا۔ 2۔ وہی دیدہ ور داغ دل پیدا کر سکتا ہے جس میں ہمارے گوہر شب چراغ (رات کو روشن کرنے والا لعل) کی سی بصارت ہو۔ 3.. ۔ کوئی بھی مشفق ہماری تلاش میںقدم نہیں اٹھا رہا آوارگی کہاں ہے کہ ہمارا سراغ لگائے۔ 4۔ غم کے بغیر نشاط نے ہمارے دل میں راہ نہیںپائی۔ بہار اور خزاں مل کر ہمارے باغ کا رخ کرتے ہیں۔ 5۔ حرف راست میںہمارا قلم خام کار نہیں ہے‘ ہمارے کوے نے کبھی کج خرامی نہیں کی۔ 6۔ دل کی تنگ وادی میں ہر مراد میسر ہے۔ ندیم تو ہمارے گوشہ فراغ میں اطمینان سے بیٹھ۔ (4) 1۔ میں اپنے کام کی رونق بڑھانے والا ہوں ہنر کی مانند آپ ہی اپنا مال دار ہوں۔ 2۔ میں اشک شوق ہوں پلکوںمیںاٹکا ہوں ‘ میں آپ اپنی شاخسار کا غنچہ ہوں۔ 3۔ میںغنچہ داغ کو تازہ رکھتا ہوں‘ میں اپنی بہار آپ آب و رنگ ہوں۔ 4۔ میں نے کسی دوسرے کی بزم سے روشن چہرہ نہیںکیا میں اپنی تاریک راتوں کی شمع ہوں۔ 5۔ نالہ میری رگ و جاں سے سر اٹھاتا ہے میں اپنے تار کا نغمہ پرداز ہوں۔ 6۔ زندگی نے مجھے روشن نہ کیا ورنہ ندیم میں اپنے مزار کی شمع ہوں۔ (5) 1۔ تیری زلفوں نے دل کو آشفتہ حالی سے وابستہ کر کے خاص خوشبو سے خیالی آرزوئوں کا ایک عقدہ واکر دیا۔ 2۔ تیرا غم دل کے ویرانے کو درد سے کیسے 3۔ میں بزم میںدل کے خون جگرسے لبریز دیکھنے کا خواہاں ہوں کیونکہ مست لوگ خالی صراحی کو نظر سے گر ا دیتے ہیں۔ 4۔ نقصان کے اظہار کے لیے چونکہ بدخوابی کا نفع ہے اس لیے خاموش ہو جا کیونکہ تاجر اپنے مالی نقصان کو ظاہر نہیںکیا کرتا۔ 5۔ ندیم تیرے بیت ابرو سے غزالوں کا غزل خوان ہے۔ کیونکہ شاعر بلند مضمون کو تضمین کیا کرتا ہے۔ (6) 1۔ توکل کی مملکت میں غمناک خوش رہتا ہے۔ جب تحمل حاصل ٹھہرا تو پھر بیداد بھی داد بن جاتی ہے۔ 2۔ تو اسرار غیب جانتا ہے؟ توپھر اگر کر سکتا ہے تو حل کر دے تقدیر پڑھنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ 3۔ جب میںہوس کو دل دے دوں تو وہ نفس کو غارت کردے گی‘ بھلا گھر کے چور پر کس کو بھروسا ہوتا ہے۔ 4۔ میری پھونک سے دل سینے میں سارے جسم کو روشن کرتاہے‘ یہاں چراغ ہوا کے چہرے سے روشن ہوتا ہے۔ 5۔ تیری فتنے برسانے والی آنکھ سے ایک اشارہ سوستم کا حامل ہے ہاں غارت گری میں ترک ماہر ہوتاہے۔ 6۔ ندیم اس کی ذات اور خصلت سے دل اٹھا لے یہ مت یقین کر کہ بدخو نیک فطرت ہوتا ہے۔ (1) سازو از نالہ مرا فوج غم انگشت نما کہ سپہدار شود از علم انگشت نما آن زمان از دہن دوست دہدبوسی دست کہ وجود تو شود در عدم انگشت نما دستی از تیغ شود شہرہ و دستی ز قلم ای خوش آن دست کہ شداز کرم انگشت نما مہربانی کندت شہرہ عالم چون مہر کہ بدل جولی موریست جم انگشت نما حسن در موسم طفلی ز تو عالم افروخت آفتابی کہ شدی صبحدم انگشت نما گر ازین دست ندیم از توزند دستان سر می توان شدبہ حجاز و عجم انگشت نما فصیحی کشمیر کے مشہور شعرامیں سے ہے۔ عہد شاہجہان میں گلزار نخندانی کا چمن پیرا تھا۔ اس نے مولانا ندیم کی ندیمی اختیار کیے رکھی صاحب دیوان ہے۔ یہ چند اشعار اس کے افکار کا نتیجہ ہیں۔ غزل: (2) حسن پیرایہ دکان ہوس نتوان کرد شعلہ طور چراغ دل خس نتوان کرد طوطیان گر لب دریوزہ بحسرت بستند شکرستان ہمہ در کام مگس نتوان کرد چون حیا پردہ نشین شو کہ گل خوبی را دست فرسود نگاہ ہمہ کس نتوان کرد بال و پر سوز کہ تاثروت پروازی ہست بمراد دل خود سیر قفس نتوان کرد ہمہ تن بال شووتن پروازی گیر تکیہ برگرم روی ہای نفس نتوان کرد چہ طلسمیت فصیحی کہ زمیدان وفا پیش نتوان شدو رو باز بہ پس نتوان کرد (3) آشفتہ ترازماست بسی انجمن ما بی نور شود شمع طرب از لگن ما برناصیہ غنچہ ما نقش طرب نیست شرمندہ برون رفتہ نسیم از چمن ما نشگفتہ بماندیم بگلزار شہادت پاشیدہ مگر کردغمی در کفن ما از سوختن مانشود دہیچ تسلی خوش برسرلطف آمد پیمان شکن ما فہمی ندیم کے معاصرین میں سے ہے عالی فہم تھا مشاعرے میں فصیحی اور ذہنی کے ساتھ مقابلے کا علم لہراتا تھا۔ اس کے چند اشعار: غزل: (4) فکر سر زلف تو مرا بی سروپا کرد اندیشہ پابوس توام پشت دو تاکرد گفتم کہ بوصل تو رسم گر بودم عمر نی وصل میسر شدونی عمر وفا کرد دردا کہ ترامہر نیا موخت معلم در مکتب خوبی ہمہ تعلیم جفا کرد تارو برہ بادیہ عشق نہادیم صد گو نہ غم از ہر طرفی روی بما کرد فہمی نتوان رست ز اندیشہ خوبان زینگونہ کہ در دل غم این طائفہ جا کرد فطرتی فطرتی بھی ندیمی اور فصیحی کے ساتھیوںمیں سے ہے ۔ بظاہر ہو بھی ملا ذہنی کا شاگرد تھا۔ بلند فطرت کا مالک تھا۔ جب میرزا فطرت کشمیر آیا تو اس نے اس کے اشعار سنے تو کہنے لگا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اپنا تخلص فطرت نہ رکھتا۔ فطرتی کے چند اشعار: (5) از باغ و گل ہوای دماغم فرونشست پای ہوس بکیخ فراغم فرو نشست پرتو فگند عشق فروغ خرد نماند سربرزد آفتاب و چراغم فرونشست روشنی‘ گلسنی‘ مشتری اور مہری کے علاوہ اس دور میں اور بھی بلاغت نشان شعرا منصہ شہود پر تھے اختصار کی خاطر انہی چند شعرا کے ذکر پر اکتفا کی گئی ہے۔ بہرحال روشنی تخلص کے وہ شاعر ہیں۔ ان میں اسے ایک ہمدان کا ہرنے والا ہے جو شبستان معانی کے الفاظ کا روشنگر ہے یہ شعر اس کا ہے: (1) 1۔ فوج غم نالہ سے میری انگشت نمائی (شہرہ) کر رہی ہے کیونکہ سپہ سالار پرچم ہی سے انگشت نما (متعارف و مشہور) ہوتا ہے۔ 2۔ دوست کا منہ ا س وقت تیرے ہاتھوںکو بوسہ دیتا ہے ۔ جب تیرا وجود عدم میں انگشت نما (جس کی طرف اشارہ کیا جائے) ہوتا ہے۔ 3۔ ایک ہاتھ تلوار سے شہرت پاتا ہے تو ایک ہاتھ قلم سے وہ ہاتھ بڑا خوش بخت ہے جو کرم سے انگشت نما ہوتا ہے۔ 4۔ مہربانی تجھے مہر (سورج) کی طرح دنیامیں شہرت دے گی کیونکہ جم (حضرت سلیمان) چیونٹی کی دل جوئی ہی سے انگشت نما ہیں۔ 5۔ جس نے بچپن کے موسم میں نیا کو تجھ سے روشن کیا‘ اب تو آفتاب ہے جو صبحدم انگشت نما ہوا ہے۔ 6۔ اے ندیم اگر اس ہاتھ سے (اس طرح) تجھ سے دستان یعنی نغمے نکلتے رہے مراد تو اسی طرح شعر کہتا رہا تو ھر عرب و عجب میں تو انگشت نما (مشہور ہو سکتا ہے)۔ (2) 1۔ حسن کو ہوس کی دکان کا لباس و زینت نہیںبنایا جا سکتا طور کے شعلے کو خس (گھٹیا انسان) کے دل کا چراغ نہیں بنایا جا سکتا۔ 2۔ اگر طوطیوں نے حسرت کے باعث لب گدائی بند کر لیے ہیں تو مکھی کے حلق میں سارا شکر ستان نہیں ڈالا جا سکتا۔ 3۔ حیا کی مانند پردہ نشیں ہو جا کہ کیونکہ گل خوبی کو ہر کسی کی نگاہوں کا دست فرسودہ (ہاتھ میں ملا ہوا) نہیں کیا جا سکتا۔ 4۔ با ل وپر جلا ڈال‘ کیونکہ جب تک تجھ میں پرواز کی کچھ دولت ہے‘ دل کی مراد کے مطابق قفس کی سیر نہیںکی جا سکتی۔ 5۔ سراپس شہپر بن جا اور تن پرواز حاصل کر‘ نفس کی گرم رفتاری پر بھروسا نہیںکیا جا سکتا۔ 6۔ فصیحی یہ کیسا جادو ہے کہ وفا کے میدان سے نہ تو آگے جا یا جا سکتا ہے اور نہ واپس ہی مڑا جا سکتا ہے۔ (3) 1۔ ہماری انجمن ہم سے اور بھی زیادہ آشفتہ ہے ہمارے شمع دان سے شمع طرب بے نور ہو جاتی ہے۔ 2۔ ہمارے غنچے کی پیشانی پر طرب کا نقش نہیں ہے‘ نسیم ہمارے چمن سے شرمندہ ہو کر باہر نکل گئی۔ 3 ۔ ہم شہادت کے گلزار میں ان کھلے رہے ہمارے کفن میں شاید کوئی غم بکھری دیا گیا۔ 4۔ ہمارے جلنے سے کوئی تسلی نہیں ہوتی‘ ہمارا پیماں شکن (محبوب) کیا اچھا مہربانی پر آیا۔ (4) 1۔ تیری زلفوں کے فکر نے مجھے بے سروپا کر دیا‘ تیرے قدموں کو چومنے کی سوچ نے میری کمر دہری کر دی۔ 2 ۔ میں نے سوچا کہ اگر میری زندگی ہے تو مجھے وصل میسر آئے گا لیکن نہ وصل ہی میسر آیا اور نہ ہی زندگی ہی نے وفا کی 3۔ دکھ کی بات ہے کہ استاد نے تجھے محبت کی تعلیم نہ دی۔ ا س نے مکتب حسن میں تجھے صرف جفا کی تعلیم دی۔ 4۔ جب ہم نے بادیہ عشق کا رخ کیا تو سیکڑوں قسم کے غم ہماریطرف متوجہ ہو گئے۔ 5 ۔ فہمی حسینوں کے بارے میں سوچوں سے نجات نہیں پائی جا سکتی‘ اس لیے کہ اگر وہ اس گروہ کے غم نے کچھ عجب طرح سے دل میں جگہ پیدا کر لی ہے۔ (5) 1۔ باغ و گل سے میرے دماغ کی ہو ا بیٹھ گئی (باغ و گل کی خواہش نہ رہی) میرے پاس ہوس کنج فراغت میں بیٹھ گئے۔ 2۔ عشق نے اپنا جلوہ دکھایا تو خرد کی روشنی جاتی رہی۔ آفتاب طلوع ہوا اور میرا چراغ ماند پڑ گیا ۔ در بزم ازان بہ پہلوی خود جاوہد مرا تا راست سوی اونتوانم نگاہ کرد (وہ بزم میں مجھیے اس لیے اپنے پہلو مٰں جگہ دیتا ہے کہ اس کی طرف میں سیدھی نگاہ نہ کر سکوں)۔ مشتری کا تھوڑا سا ذکر کروں گا۔ مہری مشہد کا رہنے والا تھا۔ اس کا دل شاہدان معانی کی محبت کا مشہد اور اس کا کلام طبائع سخندانی کا پسندیدہ ہے۔ گلشنی: گلشن شیراز کے نغمہ سنج عنادل میں سے تھا۔ گل مقصود کی خوشبوئیں سونگھنے کی خاطر اس نے جنت نشان ہندوستان کے گلزار کی طرف توجہ کی (از تذکرہ صبح گلشن صفحہ 480فقیر اللہ) اللہ تعالیٰ اس فقیر اور اس کے والد کو بخشے۔ مشتری محلہ خندہ بون کے سادات میں سے اور ملا ذہنی کا شاگرد ہے۔ شاعری میں قدرت کاملہ کا مالک تھا۔ ٭٭٭ دور عالمگیر مختصر یہ کہ جن دنوں لشکر خان کشمیر کا نظام تھا‘ ظل سبحانی زینت بخش صاحبقرانی ابوالمظفر مٰ الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بہادر شاہ غازی نے بلاد دکن سے اٹھ کر بندوبست مملکت کا اراد کیا۔ ۔ اس نے اپنے بڑے بھائی داراالشکوہ کو چند ایک لڑائیوں کے بعد قتل کر دیا اور تخت سلطنت پر بیٹھ گیا۔ شاہجہان بادشاہ اکبر آباد (آگرہ) کے قلعہ میں محبوس ہوا اپنے بھائیوں محمد شجاع اور مراد بخش کو اس نے (عالمگیر) نے شکست دی۔ زیب اورنگ (و ) تان پادشہان (بادشاہوں کے تخت و تاج کے باعث زینت) ظل الحق (اس کی تخت نشینی کی ) تاریخ ہے۔ (1069/59-1658)لشکر خان ظل الٰہی عالمگیر شاہی کے حکم سے دربار میں طلب ہوا اور اس کی جگہ اعتقاد خان کو کشمیر کی نظامت گورنری سے سرفراز کیا گیا۔ 1071/1661میں خان مذکورہ کشمیر آیا۔ اس دوبرس یہاں حکومت کی مصراع ہر کر اپنج روز نوبت اوست (ہر کسی کی باری پانچ روز ہے)۔ عدل و احسان وہ اس حد تک کوشاں رہا کہ مقدمات خود نپٹاتا مدعی اور مدعا علیہ کو اپنے دربار میں طلب کرتال۔ اس نے کثرت سے دربان اور ڈیوڑھی بان نہ رکھے۔ علما و فضلا کی تعظیم و تکریم کرتا۔ خود بھی کتاب اور مسئلے سے واقف تھا۔ مشرق کی جانب ارادت خان کی عمارت و خانہ کے سامنے اس نے باغ اور عمارت تعمیر کی۔ جب دربار سے اسے بلاوا آیا تو 1073/3-1662میں دربار روان ہو گیا۔ واضح رہے کہ جب گزشتہ سلاطین کا دور نوبت سرعت و عجلت میں اختتام کو پہنچا تو وقائع نگار کے قلم نے ہر ایک نامدار سلطان کے عہد حکومت کے ذکر کے آخر میں کمالات کے حامل ان فضلا و شعرا اور مشائخ کے احوال تحریر کیے جو متعلقہ دورمیں موجود تھے۔ اب جب کہ عالم و اہل عالم نے تخت صاحبقران کے رونق افز ا کامگار و کامران باچاہ کے جلوس سے تازگی و شگفتگی پائی ہے تو علم و کمال و تقویٰ اس کے وجود مسعود کی بدولت از منہ گزشتہ کی نسبت کہیں زیادہ ترقی پر اور روز افزوں ہے۔ حق تعالیٰ نے اس عالی شان سلطان کو جس طرح علم و عمل میں بھرپور برکت عطا کی ہے اسی طرح اس کی طویل عمر فرصت حکومت اور وسعت مملکت کے بھی اہل عالم پر احسان کیا ہے۔ اس کے عہد میں ملک کے ہر ایک گوشے میں اہل کمال پیدا ہوئے۔ لازم ٹھہرا کہ قانون تاریخ نویسی کے تحفظ کی خاطر ہر پان سات برس یا زیادہ سے زیادہ د س برس کے (واقعات قلمبند کرنے کے لیے ) بعد اہل کمال کے احوال تحریر کیے جائیں۔ کہ اس کتاب کی بنیادی غائت یہی ہے۔ میر شاہ بابا حضرت میر سید میرک ملارتی کا پوتا بے نظیر دانشمند تھا۔ اس نے بعض علوم ملا باقر نارہ للو سے حاصل کیے۔ ہمیشہ دینی علوم کی تدریس میں مشغول رہا۔ عین جوانی میں وفات پا گیا۔ خواجہ مومن جیل متخلص بہ غازی۔ خواجہ ابوالقاسم جیل کا بیٹا ہے۔ جو یوسف خان کشمیری کا رفیق تھا۔ علم موسیقی میں اس کی تالیفات ہیں۔ اس خواجہ مومن نے علوم میں پہلے مولوی ملا جوہر نانت سے استفادہ کیا اور بعدمیں مولوی خواجہ حیدر چرخی سے۔ پھر ترک دنیا کر کے کسی مرشد کی تلاش میں سفر اختیار کیا۔ جمع ادا کر کے بامراد ہوا ارو جناب نبوت (مآب حضور) صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک سے بشارت پائی کہ تیرا مرشد تیرے وطن میںہے۔ چنانچہ وہاں سے وہ کشمیر آیا جہاں پر گنہ کامراج میں سیہ بابا ریشہ کی خدمت میں اس نے دل نے قرار پایا۔ دو ہفتے ان کی خدمت میں رہا۔ آخر کار ان سے جواب ملا کہ جس کی تمہیں بشارت دی گئی ہے وہ میں نہیںہوں۔ تیرا شیخ ابوالفقرا بابا نصیب ہے۔ اس بنا پر وہ ان (نصیب) کی خدمت میں پہنچا۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یوں وہ بلند درجے کو پہنچا۔ تاحیات ان کی خدمت میں رہا۔ جب وہ واصل بحق ہوئے تو اس نے پھر سفر اختیار کیا۔ بغداد پہنچا جہاں اس کی بہت پذیرائی ہوئی اور وہ طالبان الٰہی کا مرشد و مقتدا ہوا۔ اس کا بھائی خواجہ عبدالخالق حج سے فارغ ہو کر بغداد پہنچا اور اس سے ملاقی ہوا۔ چند روز اکٹھے رہے۔ جب حاجی عبدالخالق نے اس سے وطن واپس جانے کی اجازت چاہی تو اس نے وقت وداع فرمایا کہ اے حاجی عبدالخالق تو تاریخ یاد رکھ کہ اس سے خوشی ہوتی ہے۔ عالی طبع کا مالک تھا۔ چنانچہ شیخ ابوالفقرا کی تاریخ رحلت اس نے لکھی۔ ’’شیخ مومن‘‘ (1046/7-1636)۔ یہ اشعا راس کی واردات قلبی کے حامل ہیں: ای باد اوتر گر گزری در دیوہ سر از من خبری نیز بان دلبر بر کشمیری و فارسی اگر گوش نکرد ہندیش بگوی کہ ’’اوتر می اوتر در‘‘ (اے باد شمال اگر دیوہ سر میں تیرا گزر ہو تو اس دلبر کی طرف میری خبر بھی لیتی جائیو‘ اگر وہ کشمیری اور فارسی زبان پر توجہ نہ دے تو ہندی زبان میں اسے کہنا کہ ’’اوتر میر اوتر در‘‘۔ عمریست درین رشتہ پریشان گشتیم گفتم گران شویم و ارزان گشتیم در طالع ماکساد بازاری بود آئینہ فروش شہر کوران گشتیم (ایک مدت ہوئی کہ ہم اس دھاگے میں منتشر ہو گئے۔ میں نے سوچا کہ ہم گراں ہو جائیں لیکن ارزا ں ہو گئے‘ ہمارے مقدر میں کساد بازاری تھی‘ اس لیے ہم اندھوں کے شہر میں آئینہ فروش بن گئے)۔ ملا حاجی گنائی عرف رضوی۔ اکثر علو م میں مدرس تھا۔ اتفاق سے دربار میں پہنچا اور بادشاہ عالمگیر کی خدمت میں اس کی شاہزادگی کے دنوں میں باریاب ہوا۔ بادشاہ عالمگیر نے اس کی شاگردی اختیار کی۔ پھر وہ بادشاہ کے لشکر کے منصب قضاپر فائز ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ (اورنگ زیب) اورنگ آباد کا ناظم تھا۔ کہتے ہیں کہ جب اس (اورنگ زیب) نے شاہجہان کی بے پروائی اور داراشکوہ کی غیر شرعی حرکات پر بغاوت کا ارادہ کیا تو اس کے لیے اپنے لشکر کے علما سے فتویٰ چاہا تو سب نے متفقہ طو ر پر بغاوت کی تصدیق کر دی لیکن مذکورہ بالا ملا جی نے نہ کی اوروہ آشکارا الگ رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ بادشاہ کی طرف سے فسق و فجور کا اظہار واضح ہے تاہم بغاوت تو فتنے کا باعث ہے بالخصوص جب باپ مقابل ہو تو جائز نہیں۔ الغرض اس نے عدالت و حقانیت کا زیور سجا رکھا تھا۔ مولانا خواجہ محمد توبیگر مولانا جوہر ناننت کا شاگرد اور اکثر علوم میں صاحب استعداد تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت درس اور صرف و نحو میں بحث میں بسر ہوتا تھا۔ اکثر اہل علم نے یہ دو علوم ا س سے سیکھے۔ شیخ دائود المعروف بہ بٹہ مالو پل و دیار کے جوار میں ودیارن ونی کا رہنے والا تھا۔ مرد توانا تھا۔ تنہ سے نمک لا کر فروخت کرتا تھا۔ جب اس کے دل میں خدا طلبی پیدا ہوئی تو خواجہ یوسف کانجو کی خدمت یںارادت کے ساتھ پہنچا۔ خواجہ یوسف ایک پرہیز گار اور تقویٰ شعار انسان تھے اور ہو مزار بلہ کواۃ میں مدفون ہیں۔ ان کی وساطت سے وہ الدریشہ بابائے ہجراری کے دل آگاہ خدمت میں پہنچا۔ یہ بابا ارشاد دستگاہ حضرت ہروی بابا کے خلیفہ تھے۔ یہاں اس نے ان سے تربیت کے حقیقی معنی پائے۔ اگرچہ وہ ناخواندہ اور ظاہری علم سے بے بہرہ تھا تاہم وہ صاحب باطن ہو گیا علم لدنی سے بہرہ ور ہوااور معتبر حالا ت کا مالک ٹھہرا۔ اس نے صاحب احوال اصحاب اکٹھے کیے اور کرامات کونیہ کے اظہار کے باعث اسے عوام میں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یوں وہ مرجع خاص و عام ہوا۔ اس کے باوجود وہ حدیث مبارکہ اطلبو الزرق من خبایاسی الارض (زمین کے اندر سے اپنا رزق تلاش کرو) کے مطابق وہ زراعت سے اپنی روزی کا سامان کرتا اور کھیت سے گوڈی وغیرہ بذات خود کرتا۔ راقم حروف نے اپنے مرشد کی زبان سے اور آنجناب حضرت ولایت مرتبت لوزہ باباے پروانہ سے جو خلیفہ خاص تھے سنا کہ ہمارے پیر کشف و کراما ت میں شیخ حمزہ قدس سرہ سے کمتر نہ تھے‘ لیکن کسی نے بھی ان کے اھوال قلم بند نہ کیے۔ ایک روز مذکورہ لوزہ بابا کسی دے درپردہ حسب حال بتا رہے تھے کہ کسی درویش کو موضع مذکور میں رات کے وقت بٹہ مالو کی خدمت میں غسل کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ شدید سردہوا کے دن تھیے۔ حجہ کول ندی جم گئی تھی۔ درویش آخر پہر خود پر جبر کرتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچ گیا۔ اس نے برف توڑ کر کئی مرتبہ پانی جسم پر ڈالا جس کے سبب وہ گر کر بیہوش ہو گیا۔ کسی کو بھی اس صورت حال سے آگاہی نہ تھی۔ جب نماز کا وقت ہوا تو شیخ وہاں پہنچ گئے۔ شیخ نے اس درویش کے سر کو جنبش دی اور کہا کہ اس موقع پر جب تیمم جائز ہے تو انے آپ کو مارنا کیا ضرور ہے۔ جب اس نے دیکھا تو خود کو مسجد میں پایا ار اسے اس کی خبر نہ ہو سکی کہ اسے ندی کے کنارے سے وہاں کون ایا ہے۔ مرشد کے بارے میں کسی اور کی زبان سے انہوںنے اس قسم کی بات بتائی کہ ایک روز کسی شخص نے عاجزری سے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں شخص نے مجھے دھتکار دیا اور خدمت سے دور کر دیا ہے۔ آپ سے شفاعت کی توقع رکھتا ہوں۔ انہوںنے فرمایا بہتر جب وہ شخص چلا گیا تو کسی نے صورت حال کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوںنے فرمایا کہ فلاں ابدال تھا۔ اس نے اس شخص کو کھیتی کی نگہبانی پر یہاں مقرر کر رکھا تھا۔ مقررہ مدرت میں اس سے کچھ کوتاہی ہو گئی جس کے باعث اسے معزول کر دیا گیا اب وہ پھر چاہتا ہے کہ کام پر لگ جائے۔ ایک رقیق القلب مرد صالح نے بیان کیا کہ میں چودہ برس یا کچھ اوپر کا ہوں گا کہ جب میں حضرت بٹہ مالو کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ناگاہ ایک صوفی نما آدمی آیا۔ بٹہ مالو نے اسے دیکھا اور کہا کہ ایبہ کاک یعنی ابلیس آیا ہے۔ پھر وہ اس کی تعظیم بجا لائے اور بڑی فروتنی و انکسار کے ساتھ بولے کہ تیرے دمامن سے کب باہر ہوں ابھ تک میں تجھ سے خلاصی نہیں پا رہا جو کچھ تو مجھ پر وارد کررہا ہے میرے پاس اس کا کوئی چارہ نہیں کہ گنہگار ہوں ۔ زائر نے گوشہ چشم سے ناقل کو اشارہ کیا کہ سن کیا کہہ رہا ہے۔ بٹہ مالو بولے کہ وہ تو ایک نامراد آدمی ہے اسے کیا خبر تیرے سامنے تو بڑے بڑ ے لوگ عاجز ہیں۔ پھر اس نے بٹہ جیو کو نما ز ادا کرنے کا اشارہ کیا اور چلا گیا۔ ناقل (یعنی مرد صالح) نے بتایا کہ اس کی صورت کچھ اس طرح دکھائی دی جیسے اس کے چہرے سے آگ برس رہی ہو۔ ایک دن کسی آدمی نے ایک جن کے تصرف کے خلاف شیخ کی خدمت میںشکوہ کیا اور ان سے مدد چاہی۔ انہوںنے اس جن کو اپنی خدمت میں طلب فرمایا اورنرم و گرم نصیحت کی۔ پھر اس بیمار آدمی سے فرمایا کہ اسی آدمی نے تجھ پر تصرف کر رکھا تھا اب اسنے چھوڑ دیا ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگا تاکہ اسے پکڑ لے۔ جب دروازے پر پہنچا تو اسے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ ی دونوں واقعات ان کے روضہ کے ایوان میں پیش آئے۔ نہ مالو جیو کے تصرفات اور خوارق عادات کے بارے میں لوگوں کی زبانوں پر بے حد و حساب حکایات ہیں۔ 1070/60-1659میں رحلت فرمائی۔ اپنے مسکن میں دفن ہوئے۔ ان کا مقبرہ فیض و فتوح کا مقام ہے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے ایک مرید ملا محسن خوشنویس نے ان کی تاریخ وفات لکھنے کا خیال کیا۔ بٹہ مالو اسے خواب میں نظر آئے اور بولے فلانے تو کس لیے درد سری کاشکار ہے میری تاریخ وفات ’’ع غ‘‘ ہے یعنی 1070ھ۔ غرق بحر توحید الہ حضرت آخوند ملا شاہ شاہ محمد نام تھا۔ بدخشان کے رہنے والے تھے۔ چھوٹی ہی عمر یمں ان سے باطن کے علوم استعداد میں ظاہر تھے ۔ تحصیل قرآن کے دنوں میں علوم عربیہ اور شعر میں اپنے ہمعصروں کے گوے سبقت لے جانے کی خاطر غیر معمولی اہلیت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جب انہوںنے فقر اور ترک کی راہ اختیار کی تو بہت سفر کیے۔ آخر کار حضرت میان شاہ میر لاہوری قادری کی خدمت میں تربیت حاصل کی جو مجذوب نما محبوبوں میںسے تھے۔ وہ مدتوں قلندر وار سیاحت میںمصروف رہے۔ توحید کے معاملے میں وہ عجب سوز و گداز کے مالک تھے انہی حالات میں وہ کشمیر پہنچے اور کشمیر کے اس کوہ ماران کو اپنا معبد و مسکن بنایا ان کے شیخ ہونے کا شہرہ اور ان کی بزرگی کا آوازہ دور تک پھیل گیا۔ شاہزادہ دارا شاہ اور اس کی بیگم ارادت کے طور پر آئے اور انہوںنے بہت زیادہ مالی و بدنی خدمت کی۔ نیز گھر اور پتھر کی خانقاہ اور معروف ٹھکانوںکی تعمیر عمل میں لائے۔ جن دنوں وہ کوہ مارانمیں سکونت پذیر تھے ان کے بھائی ان کا اتاپتا پوچھتے کشمیر میں پہنچے۔ اتفاق سے وہ انہی کی خدمت میں سکونت پذیر تھے جب انہوںنے نام و نشان وطن اور آباواجداد کا بتایا تو ملا نے فرمیا کہ میں ہی وہ شاہ ہوں جسے اب ملا شاہ کہا جاتا ہے۔ بھائی اور دوسرے اقارب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح ان سے لپٹ گئے۔ اس کے بعد دوسرے اعزہ و اقربا نے وہاں آ کر پہاڑ کے دامن کو ٹھکانا بنا لیا۔ جناب اخوند نے مسند تحریک آراستہ کی اور کبھی شادی خانہ آبادی کا نہ سوچا۔ اس دور کے امرا و فضلا اور بعض مشائخ اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ موزوں طبع کے مالک تھے۔ انہوںنے وحدت کے سرور کثرت میں پایا۔ حقائق و معارف کے بیان میںتقریباً ایک لاکھ اشعار تصنیف کیے جو لطائف پر مبنی ہیں۔ کمال عرفان کے باوجود لطیفہ گوئی سے کبھی نہ چوکے۔ مشہور ہے کہ شاہجہان بادشاہ نے ان سے ملاقات سے قبل موسی خان صدر کو آزمائش کی خاطر ان کی خدمت میںبھیجا۔ جب وہ ان کی صحبت میں پہنچا تو ملا تعظیم و تکریم پر قطعاً راضی نہ ہوئے۔ خان مذکور نے یہ سمجھا کہ انہوںنے اسے نہیں پہچانا۔ چنانچہ وہ بولا کہ میںموسوی خان ہوں۔ ملا نے جواب دیا کہ ہم محمد ی ہیں ہم کسی موسوی اور عیسوی کو نہیں جانتے۔ اس قسم کی کئی حکایات اور لطائف ان سے منسوب و مشہور زبانوں پر مذکور ہیں۔ ملا بحر توحید میں غرق تھے اور کثرت موہومہ ان کے حال باطن پر مزاحم نہیں ہوتی تھی۔ ایک روز انہوںنے حوض کے کنارے لوگوں کی بھیر دیکھی۔ اس کا سبب پوچھا تو کسی نے بتایا کہ جناب بابا نصیب حضرت مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ کی زیارت کے لیے تشیرف لائے ہیں چونکہ ملا کو ایک مدت سے بابا نصیب سے ملنے کا شوق تھا۔ اس لیے عزیزوں نے بابا کو رغیب دلائی اور انہیں ان (ملا) کی خدمت میں لے آئے۔ دونوں میںمکالمہ و مذاکرہ ہوا۔ ملا نے پوچھا کہ یہ کثرت وحدت کی ضد ہے؟ بابا نے فرمایا کہ وحدت کثرت میں ہے۔ جب 1069/9-1658میں سلطنت کے تاج و تخت پر جہاںپناہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا قبضہ ہوا تو دارا شکوہ کے مخالفوں نے کوشش کر کے ملا کو بادشاہ کے حکم پر دربار میں طلب کر لیا۔ مجبوراً انہیں لاہور جانا پڑا جہاں وہ چند برس زندہ رہے۔ انہوںنے وہاںمسافروںکی سی زندگی بسر کی اور خوف و رجا میںان کا وقت گزرا۔ وہ فرمایا کرتے الحمد للہ میرا آغاز اور آخر پردیس میں گزرا جب دار فنا سے ان ی جدائی کا زمانہ آیا تو وہ متوجہ ہو کر پالکی میں بیٹحے ار مرشد کے مزار کے جوار میں انہوںنے مالکوں سے کچھ زمین خریدی اور یہ وصیت کہ میرا مدفن یہ جگہ ہو گی۔ پھر وہ بیمار ہو گئے شب رحلت وہ آخوند ملا محترم اورمیاں اسمعیل لاہور سے خواب میں ملے۔ اور انہیں انی وفات سے آگاہ کرتے ہوئے تکفین و تجہیز کی تاکید کی۔ یہ روایت راقم حروف نے براہ راست اپنے مرشدسے سنی کہ انہوںںے جناب حضرت میر محترم سے بالمشافہ سنی تھی۔ ملا نے اپنی تاریخ وفات نزع کے عالم میں خود کہی: داد در توحید ملا شاہ جان بلا شبہ تاریخ گوئی میں وہ اپنے وقت کے بے مثل تھے۔ آخوند کے چند اشعار درج ذیل ہیں یہ رباعی مشہور ہے: از علم نظر اگربا کسی خبراست قطع رہ یارش بہ پرشاہ پرست از ذکر و فکر جہان را اثرست قربان نظر شوم کہ کار دگرست (اے علم نظر سے کوئی باخبر ہے تو وہ محبوب کے کوچے کا راستہ شہپر سے یعنی تیزی سے طے کرتا ہے۔ ذکر و فکر ہی سے جہان پر اثر ہے میں اس نظر پر قربان جائوں جو کارگرہے۔ (کاردگر سے مفہوم واضح نہیں کتابت کی غلطی ہے) مقام فنا کے متعلق کہا ے غزل: شاہ جہان آفرین مرا برگرفت گفت تو بر خیز شاہ جاری توشد جای ما (شاہ جہان کو آفرین ہے کہ اس نے میری جگہ لے لی۔ اس نے کہا شاہ تو اٹھ جا تیری جگہ ہماری جگہ بن گئی ہے)۔ ملا صاحب دیوان و مثنویات ہیں۔ ان میں سے بیشتر توحید و معارف سے متعلق ہیں اور کچھ اپنے حالات سرگزشت سے متعلق موزوں کی ہیں۔ حضرت شیخ نجم الدین المعروف بیخی ریشہ بابا جناب عارف باللہ خواجہ مسعود پانپوری کے تربیت یافتگان میں سے ہیں۔ اصل میں ان کا تعلق گائوں سے تھا۔ کمال باطنی کے اکتساب اور سیر معنوی کے اتمام کے بعد موضع کہوشی پورہ میںسکونت فرمائی جو شاہ کوٹ کے دامن میں واقع ہے یہ شاہ کوٹ تخت سلیمان ہمارے نبیؐ اور ان (حضرت سلیمان) پر صلوۃ و سلام ہو کے نام سے معروف ہے۔ زندگی کے آخر تک شدید ریاضیات شاقہ میں مصروف رہے۔ تجرید و تفرید مسلسل روزے اور ترک لذات میں ثابت قدم رہے۔ ان کے جسم پر صرف ایک کرتہ ہوتا۔ بہت کم کھاتے کبھی دوسری مرتبہ سالن نہ مانگا۔ عزلت و گوشہ نشینی کی طرف بیحدمائل تھے۔ تاہم آخر میں تقدیر ربانی سے شاہجہانی رایات کے نزول کے دوران وزیر اعظم سعد اللہ خان کی آمد و رفت کے سبب انہیں بہت شہرت حاصل ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں اکثر لوگ ان کی خاطر شریف کے لیے اذیت او ر ضیاع وقت کا باعث بننے لگے۔ سعد اللہ خان نے رخصت کے دن ان سے نصیحت کی درخواست کی۔ چونکہ وہ فارسی سے ناآشنا تھے اس لیے فرمایا کہ سعد اللہ خان سے کہو کہ وہ اس قدر علم و کمال کے ہوتے ہوئے اس لایزال حقیقی مولا کا طالب نہ ہوا۔ مخلوق کی خدمت اختیار کرے۔ جناب بابا نے عوامی بھلائی کے جو کام کیے وہ کئی ایک ہیں۔ مثلاً بند قاضی زادہ جو اس کے بنانے والے کی وفات کے باعث نامکمل رہ گیا تھا ‘ اور اس کا کچھ حصہ پھسل کر لوگوں کی آمدورفت کے لیے رکاوٹ بن گیا تھا پھر ہر روز کیچڑ میں اضافہ ہو رہا تھا جناب بابا نے ایک کثیر رقم خرچ کر کے اس سارے بد پر سنگریزے ڈلوا کر اسے درست کردیا جس سے مسلمانوں اور عام مخلوقات کے لیے آسانی ہو گئی۔ راقم حروف نے اپنے مرشد کی زبان سے سنا کیہ جس روز وہ اپنے والد اور حقائق آگاہ خواجہ اسحاق ناوجو دکے ہمراہ انکی خدمت میں پہنچے تو وہ ایک کرتہ پہنے ہوئے تھے۔ سر پر ایک چوھٹی سی پگڑیتھی پائوںمیںنعلین تھے۔ وہ لاغر نظر آتے تھے۔ جب ان ے زندگی کے دن پورے ہو گئے تو 1072/2-1661میں وہ موضع مذکور میں دفن ہوئے۔ صائم الدھر ہمیشہ روزے رکھنے والے اور صاحب تجرید تھے۔ امکان سواری کے باوجود پیدل چلتے ۔ ان رپ اللہ کی رحمت ہو۔ بڑی بے تکلفی کے مالک تھے۔ عام ملاقات کے دنوں میں جب امرا اور وزرا ان کی خدمت میں آتے جاتے تو وہ دوستوں اور ہمسروں کے احوال ان سے بڑی غمخواری سے بیان کرتے۔ لیکن اپنے اعزہ کے لیے انہوںنے کبھی ذخیرے کی فکرنہ کی۔ ایک روز ان کی بہن نے آزمائش کے طورپر نذرانوں میں سے ایک اشرفی اپنے سر کی سنگار پٹی میں لپیٹ کر رکھ لی۔ اسی لمحے مذکورہ بہن کو درد شکم نے آ لیا اور اس نے وہ اشرفی بابا کو لوٹا دی۔ ان حالات کے باوجود حکام کی آمد و رفت کی تشویش کے سبب ان کے معاصرین اور ہمسر باتیں اور حکایتیںتراشتے (؟) لوگ تعویذ کی استدعا کرتے۔ چونکہ ناخواندہ تھے اس لیے اپنے نام کی ایک مہر بنوا رکھی اور یہ دعا لکھ رکھی تھی ’’یا خفی الالطاف نجنی مما یخاف‘‘ (پوشیدہ مہربانیاںفرمانے والے مجھے خوف والی شے سے بچا) یہی مہر تعویذ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے اور لوگوں کے کاغذات اور اسناد پر ثبت کرتے۔ راقم حروف نے وہ دیکھی اور اس کی زیارت کی ہے۔ حضرت میر محمد علی قادری حضرت میر نازک قادری کے فرزند ارجمند ہیں۔ تین عالی قدر بھائیوں میں سے چھوٹے تھے ۔ جناب میر محمد یوسف وبا کے زمانے میں اور عین جوانی کے عالم میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اور جناب میر احمد شاہ نے علمی شغل کی زیادتی پر سجادہ نشینی کو ترجیح دی تو جناب حضرت میر علی محمد اپنے اسلاف کرام کی جگہ قائم مقام ہوئے۔ وہ علم و عمل میں رب کریم کی نشانیوںمیں سے ایک نشانی تھے۔ انہوںنے قادریہ سلسلہ علیہ کی بہت ترویج کی۔ ا س شہر میں اس سلسلے کا ظہور ان کے انفاس شریفہ کی بدولت بہت ہوا۔ ان کی اولاد صاحب کرم تھی۔ حسن صورت و سیرت کے مالک تھے۔ بسا اوقات تصرفات کا بھی مظاہرہ کر دیتے۔ ج پر تمام احکام جاری فرماتے ذکر جہر (بلند آواز سے ذکر) کے دوران ان کے حلقے میں ایک عجیب جو ش و خروش دیکھنے میں آتا تھا۔ مولانا میر دائود وارگی کی عفت ماب دختر ان کے عقد میں تھی۔ انہوںنے رسوخ تمنا میں کبھی اولاد نرینہ کا تعویذ نہ لکھا۔ تاہم اصحاب کی ایک جماعت ان کی خدمت و صحبت میں ہی سے کمال کے درجات کی طرف بڑھی اور ان لوگوں نے ارشاد و ہدایت کی مسند کو مزین فرمایا۔ جناب میر عمر کے آخری حصے میں مہادیو دمی کے ہنگامے کے موقع پر جس کا قصہ علی مرانخان کے ذکر میں بیان ہو چکا ہے‘ شاہ جہاں آباد (دہلی) پہنچے۔ راستے میں سرہند کے مقام پر حضرت عروۃ الوثقی (مضبوط گرفت) شیخ محمد معصوم فاروقی کے ساتھ محبت و صحبت کا طریقہ اپنایا۔ آنجناب کے بشارت بھرے اشارے پر کل گیارہ روز پائے تخت میں رہ کر واپس کشمیر چلے آئے جہاں انہوںنے 1072/2-1661میں رحلت کی۔ چوتھے روز اصحاب ارادت نے آنجنات کے نام پر اہل شہر کو کھانا مہیا کرنے کی خاطر جامع مسجد میں ایک مجلس ضیافت ترتیب دی۔ اس موقع پر لوگوں کا اژدھام کچھ اس حد تک بڑھا کہ بھیڑ میں چار آدمی جاں بحق ہو گئے وہ (میر) اپنے والد بزرگوار کے بالمقابل دفن ہیں۔ گویا ان کے پہلو میں ان کو جگہ ملی ہے۔ ان پراللہ کی رحمت ہو‘ رحمت وسیع۔ میر محمد علی کے بعض خلفاکا ذکر اپنی جگہ پر مرقوم ہو گا۔ ٭٭٭ دور ابراہیم خان علی مردان خان کا بیٹا 1071/1-1660میں دربار کی طرف سے حکومت کشمیر پر متعین ہوا اس نے ایک برس حکومت کی (اس دور میں) مسجد سے متعلق اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان جھگڑا کھڑا ہوا۔ آخر مسجد اہل سنت کو مل گئی۔ جب نوبت آخر کو پہنچی تو اسے کسی دوسرے منصب پر لگا دیا گیا۔ بادشاہ دی پناہ عالمگیر نے اسی تاریخ کے نزدیک 1073/3-1662کے اوائل میں کشمیر کو اپنی تشریف آوری سے آراستہ کیا۔ جب علی آباد کے متصل پہاڑ کے درے میں آسمان کی سی شوکت والاہاتھی بدک گیا اور اس کے نتیجے میں فوج کے کئی آدمی ہلاک ہو گئے اور چند بیگمات اور پردہ نشین خواتین بھی تلف ہو گئیں تو اس حادثے سے بادشاہ کا مزاج مبارک ناخوش ہوا۔ چنانچہ اس ہمیشہ بہار گلشن کی صرف تین ماہ کی سیر کر کے وہ واپس چلا گیا۔ دور اسلام خان اب اسلام خان یہاں کا صوبہ دار مقرر ہوا۔ وہ 1074/4-1663ء میں ولایت کشمیر میں داخل ہوا۔ اس نے دوبر س تک یہاں حکومت کی اور اسلام کی ترویج میں کوشاں رہا۔ فضلا و علما سے اس کی صحبتیں رہیں۔ اپنے عہد میں اس نے عید گاہ میں مسجد مصلا تعمیر کی۔ اس کی پختہ دیوار اٹھائی اور اسے مسجد سے زیادہ وسیع اور چوب و حطب سے تعمیر کیا جو اس سے پیشتر اس نے بنائی تھی۔ اسے علی مسجد اس لیے کہا جاتاہے کہ سلطان زین العابدین کے ایک نواسے علی شاہ نے اسے اپنے عہد سلطنت میں اسے تعمیر کیا تھا۔ چنانچہ آج بھی یہ اسی نام سے مشہور ہے۔ مسجد کا صحن توت کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسلام خان نے اس کے پرانے تناوردرخت کاٹ کر اسے ہمور بنا دیا اور ایک چنار زار قرار دے دیا۔ عید گاہ میں جو ستون کھڑا ہے وہ بھی اسی کا تعمیر کردہ ہے۔ اسلام خان اہل سخن میں سے اور طبع موزوں کا مالک تھا والا تخلص سے شعر کہتا۔ اس کا اصل نام میر ضیاء الدین تھا۔ اس نے تمام عمر بادشاہ خدا آگاہ عالمگیر شاہ کی خدمت و رضا جوئی میں بسر کی اور عمدہ خدمات کا مورد ٹھہرا۔ شاہنشاہی عنایات سے وہ پنجہزاری امرا میں داخل ہوا۔ آبدار اشعار اور بلاغت شعار منظومات اس سے یادگار ہیں۔ یہ دو مشہور اشعار سخن فہم لوگوں کی زبان پر جاری ہیں: بی تو شامم تابروز ماشبیخون می زند مردم چشمم زگریہ غوطہ درخون می زند وسعتی پیدا کن ای صحرا کہ امشب از غمش لشکر آہ من ازدل خیمہ بیرون می زند (تیرے بغیر میری شام ہمارے دن تک شب خون مارتی ہے‘ میری آنکھوں کی پتلیاں گریہ کے سبب خون میں غوطہ زن ہیں اے صحرا تو خود میں وسعت پیدا کر‘ کیونکہ آج شب اس کے غم کے باعث میری آہ کا لشکر دل سے باہر خیمہ زن ہو رہا ہے۔) کشمیر کی صوبہ داری کے بعد وہ دارالحکومت اکبر آباد (آگرہ) کی نظامت سے سرفراز ہوا اور وہیں ملک بقا کو سدھا ر گیا اور صاحب معارف و ایقان میر محمد نعمان جو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے خلفامیں سے تھے کے احاطے میں دفن ہوا۔ غنی کشمیری نے اس کی تاریخ وفات ایک قطرے میں کہی ۔ اس میںمادہ تاریخ یہ ہے مرد اسلام خان والا جاہ (1074/4-1663)۔ دور سیف خان تربیت خان کا بیٹا 1074/6-1665میںنظامت کشمیر پر مقرر ہوا۔ اس نے تین برس حکومت کی وہ ایک خوفناک شخص اور ایک منتظم اور صاحب ضبط و نسق تھا۔ اس کے باوجود وہ پانچ اوقاد کی قید (نماز) بلکہ اور ازواازکار سے خالی نہ تھا۔ اراضٰ شہر کی پیمائش قصور فرامین اور طلبہ کا تغیر اور ترخیم اس کی بدعتوں میں سے ہیں۔ جب سیف خان ہیرہ پور میں داخل ہو ا تو وہاں کے زمینداروں اور منصب داروںنے اس کے حکم کے مطابق اجتماعی طورپر اس کا استقبال کیا وہ عجیب طمطراق سے شہر میں داخل ہوا۔ داد و دہش اور بہت کھانا کھلانا دوسروں کی نسبت حکام کا خاصہ تھا۔ اس کی ہیبت کے پیش نظر شہر کے منصب دار اور اکابر لاحول کہتے ہوئے چلے۔ ایک زخمی بدن ہندو کے دعسے پر اسنے برج دارا کے نیچے جو اس کا مسکن تھا خواجہ محمد صادق نقشبندی کو کھڑا کیا اوراس پر تازیانے برسانے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ وہ بے حس و حرکت ہو کر گر پڑا۔ جب اسے اس کے گھر پہنچایا گیا تو وہ رحلت کر گیا۔ سیف خان کے عہد میں کشمیر میںجو واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک تسخیر کلان ہے جہاں کا زمیندار دلدل محل مشرف بہ اسلام ہوا اور ا س نے بادشاہ کے نام کا خطبہ و سکہ جاری کیا۔ تبت میں مسجد تعمیر کی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مشیخت پناہ سراپا تقویٰ شیخ عبدالرشید چکنی نے حیدر ملک کے بیٹے حسین ملک چادروپر دشنام طرازی اور رفض کا دعویٰ کیا تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ شیخ مذکور آستانہ چرار کی طرف جا رہے تھے ملک چادورہ میں اپنے گھر کے دروازے پر موجود تھا۔ کسی بنا پر دونوں میں کچھ گفتگوہوئی اجو آخر جھگڑے پر منتج ہوئی اور دونوں باہم دست و گریبان ہوئے اسی کھینچا تانی میں ملک کی زبان سے سید انا علیہ الصلوۃ و السلام کے صحابہ کرام کی شان میں گستاخانہ الفاظ نکلے۔ شیخ عبدالرشید چکنی نے حاکم کے پاس اس سلسلے میں دعویٰ دائر کر دیا اور عدالت کے سربارہ نے اعلام کی استدعا کی۔ جب صوبہ دار نے اعیان شہر کے ایما پر کہ ان میں سے کئی ایک ملک کے قرابت دار اور اکثر ہمدم و ہم نشین تھے اور انہوںنے اس کی طرف داری کی تھی اس پر حد شرعی کے اجرا میں کچھ دیر کی اور روداد دربار کو لکھ بھیجی اس طرح وقائع نگار کے مطابق ساری کیفیت بادشاہ تک پہنچ گئی۔ تو بادشاہ نے طرفین کو طلب کر لیا۔ وہاں اگرچہ دربار کے بعض امرا نے جن اک تعلق شیعہ فرقے سے تھا اس ی حمایت و پاسداری کی لیکن ان کی پیش نہ چلی۔ بہت زیادہ بحث مباحثے کے بعد عدل پسند بادشاہ نے فوج کے قاضی کے حکم سے ملک کو قتل کر دیا اس واقعہ میں بعض اہل تشیع نے جرات کرتے ہوئے ا س شعر کو اپنے اتہام کاموجب گردانا: شد از ظلم بیداد قوم یزید حسینؓ ابن حیدرؓ دوبارہ شہید (قوم یزید کے ظلم و بیداد سے حسینؓ ابن حیدرؓ دوبارہ شہید ہو گئے) سیف خان نے ڈل تالاب کے کنارے جانب مغرب باغ سیف آباد آراستہ کیا۔ اس باغ کی بنیاد اس کے باپ کی تعمیر کردہ تھی اس نے اپنے عہد حکومت میں جوئے آب آبشار حوض اور فوارہ تعمیر کیا۔ جلد ہی اس کی حکومت کی جوئبار خشک ہو گئی اور اس کی تبدیلی نے اسے بدل کر رکھ دیا۔ دو ر مبارز خان مبارز خان 1088/1677میں یہاں کا صوبہ دار مقرر ہوا۔ اس نے کوئی تین برس حکومت کی سید اور صالح انسان تھا۔ صوبہ دار ہونے کے باوجود کفش پہنتا تھا اور جامع مسجد میں حاضر ہوتا تھا۔ اس کے سفرمیں بھی وسعت تھی‘ لیکن اس کے ہمراہی فریب کار تھے‘ جنہوںنے شرم و حیا کا پردہ چاک کر رکھا تھا اور بے باکی بلکہ ناپاکی سے لوگوں کے ساتھ سلوک کرتے اور چھوٹے بڑوں سب کے ساتھ اہانت و تذلیل سے پیش آتے‘ یہاں تک کہ ان سے ناحق کی خون ریزی بھی ہوئیل۔ انہی حالات کی بناپر مبارز خان نے اپنے عمل کے صفحے پر معزولی کا خط کھینچ لیا۔ مبارز خان کی نظامت کے ایام میں والی کاشغر عبداللہ خان نے اپنے بیٹے لولارس خان کی مخالفت کے سبب سلطنت چھوڑ دی اور حج کے ارادے سے کشمیر پہینچا۔ بادشاہ کے حک سے اس نے والی مذکور کی قدر دانی کی۔مبارز خان نے پچاس ہزار روپیہ اسے خزانہ کشمیر میںسے عطا کیا اور خواجہ صادق بدخشی اور دیگر ملازموں کے ہمراہ جو اس موقع پر دربار کی طرف سے مذکورہ والی کی مہمانداری کے لیے آیا ہوا تھا شاہی تحائف و انعامات اور لوازم عنایات از قسمے ملبوسات‘ سونے اور چاندی کے ظروف و آلات پہنچا کر اسے خاص مہمان کارتبہ دیا اور عبداللہ خان کی رفاقت میں دربار چلا آیا۔ دور سیف خان سیف خان دوسری مرتبہ نظامت کشمیر پر مقرر ہوا۔ اس نے باغ زیتہ نار میںنزول کیا پورے اہتمام کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ سیف خان نے قاضی عبدالرحیم کو منصوب کر کے اسے آزادی سے کام کرنے دیا۔ ملا محمد رضا کا بیٹا قاضی ابوالقاسم جسے د ل میںسیف خان کے خلاف اس کے سابقہ دور کے حوالے سے کدورت تھی‘ مبارز خان کی حمایت میں اس شہر سے باہر نکل گیا۔ اس مرتبہ سیف خان نے فصلوں کی بہتری کے لے بھرپور کوشش کی اور محمد آباد کی نئے سرے سے تعمیر کی۔ سیف خان کے عہد میں 3ماہ صفر 1080/2جولائی 1669کو زلزلے کا حادثہ پیش آیا۔ شام سے صبح تک کشمیر کی تمام عمارتیں پنگوڑے کی مانند جھولتی رہیں۔ تاہم کوئی خاص گزند نہیںپہنچا۔ اس کے عہد میں جو برکات رونما ہوئیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ اس کی حکومت کے زمانے میں جناب عارف امجد الصمد مرشدنا وسیلتنا الی اللہ (بہت بڑے عارف اللہ بے نیاز کے محبوب ہمارے مرشد اللہ کی طرف ہمارا وسیلہ) شیخ عبدالاحد سرہندی فاروقی نے کشمیر کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بڑے بھائی شیخ سعد الدین محمد بھ اپنے بیٹے میاں محمد قطب کے ساتھ ان کے ہمراہ تھے۔ چونکہ خان مذکور کو باپ دادا سے اس خاندان کے ساتھ حقیقی ارادت تھی بلکہ وہ خود تھی فائض الانوار مزار کا پروردہ تھا۔ اس لیے اس نے خدمت و عقیدت کا پورا پورا حق ادا کیا اس نے حضرت کو اپنے مسکن سے متصل آتشخانہ میں ٹھہرایا اور خود ہر روز ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور روز مرہ کی ہر طر ح کی ضرورتیںاورلوازم کمال حسن قدرت سے مہیا کرتا۔ بیشمار لوگ حضرت شیخ عبدالاحد کے حلقہ اردت سے شرف اندوز ہوئے بالخصوص کمالات منزلت حضر ت مرشدی (میرے مرشد) شیخ محمد مراد نے جو ترک دنیا کر کے دو برس سے صاحب کمال مرشد کی تلاش میں تھے ارادت و عنایت اور معنوی تعلق کا قرب حاصل کیا۔ نیز ان کی وساطت سے بعض فضلا مثلاً مولانا عبدالرشید زرگر علامہ مولانا محمد حیدر بج و غیر ہم حضرت ایشان (عبدالاحد) کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ اگرچہ انتہائی شہرت کے باعث آنحضرت کے حالات بیان کے محتاج نہیں ہیں پھر بھی راقم احقر نے کتاب اشجاد خلد ثمرات الاشجار وغیرہ میں کسی قدر لکھ دیے ہیں۔ اس کتاب میں چونکہ اس کا محل و موقع نہ تھا ا سلیے اتنے ذکر ہی پر اکتفا کی گئی۔ مختصر یہ کہ اس مرتبہ سیف خان نے دو برس حکومت کی پھر اسے تبدیل کر دیا گیا۔ اس نے منصب سے علیحدگی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ دور افتخار خان اس نے 1083-1672میںخلعت صوبہ داری پہنی چار برس حکومت کی حویلی میرزا محمد سلیم میں اس نے وقت بسر کیا ۔ ملا محمد پارسا کے مزار کے قریب جو مشہور مقبرہ متبرکہ ہے تعمیر شدہ مسجد اسی کی بنا کرد ہ ہے۔ بظاہر آتش عامہ کا واقعہ‘ جس نے جامع مسجد سمیت شہر کے اکثر حصے کو جلا ڈالا تھا افتخار خان کے زمانے میں پیش آیا۔ آگ کا آغاز کا وہ دارہ سے ہوا۔ ایک دنیا فنا کی بھینٹ چڑ ھ گئی اور اس وقت جامع مسجد بھی تیسری مرتبہ جلی تاہم بادشاہ اسلام کے حکم سے پھر تعمیر کر دی گئی۔ دور قوام الدین خان افتخار خان کے تغیر پر نظامت کشمری اس کے سپرد ہوئی۔ اس نے حویلی مرزا سلیم میں نزول کیا۔ وہ اکابر زادگان میں سے اور صدر ایران سے ہونے کے علاوہ خلیفہ سلطان کا بھائی تھا جو وہاں کے والی شاہ سلیمان کا وزیر تھا۔ وہ 1068/1675کے آخر میں کشمیر پہنچا۔ وہ ضابطہ دان اور عمی مسائل سے واقف تھا۔ ارباب گناہ کی تنبیہہ کے لیے تختہ کلاہ اس کی اختراع ہے۔ عیدگاہ کی طرف اس نے ایک باغ کی بنیاد ڈالی۔ ایک عمارت تعمیر کی خریدنے اور تعمیر کرنے میںاہل معاملہ کی رضا حاصل کی۔ دو برس سے زائد اس نے نظامت میں گزارے ۔ ایک مشہور روایت کے مطابق قوام الدین خان کے عہد کے آخر میں بہت بڑی آگ کا واقعہ پیش آیا جو آتش کا وہ دار کے نام سے مشہور ہے۔ شہر کا بیشتر حصہ فنا کی نظر ہو گیا۔ مذکورہ خان کے دور نظامت میں جناب خواجہ محمد شریف دہ بیدی اور خواجہ محمد صابر نے کہ حضرت خواجہ محمد اعظم مخدوم وہ بیدی کی اولاد سے ہیں۔ کشمیر میں شرف نزول فرمایا۔ یہ خواجہ محمد شریف حضرت خواجہ عبدالغفار کے بھائی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت مخدوم اعظم المعروف سید احمد کاشانی تک پہنچتا ہے ۔ بڑے فیاض عالی ہمت اور اکابر ایران میں سے تھے۔ ٭٭٭ اس چند سالہ دور کے بعض ارباب کمال کا ذکر ملا محمد امین گانی علاء الدین پوری اکثر علوم میں بابا مجنون کے شاگرد اور ان کے داماد تھے۔ ان کا بیٹا ملا مقیم گانی فنون فضال سے پوری طرح بہرور تھا۔ ملا عبدالنبی دیوانی بلدیمری مولانا جمال الدین کے بیٹے قاضی ابوالقاسم خواجہ حیدر چرخی‘ ملا محمد توبیگری اور ملا باقر نارہ للو کی خدمت میں کسب علوم کیا اور راہ سلوک و معرفت میں بامراد ٹھہرے اکثر اخوند ملا شاہ کے ہاں جاتے اور ان کی صحبت سے بہرور ہوتے۔ ملا رجب گنائی علاء الدین پوری بے مثل دانش مند اور حدیث مولوی حیدر علامہ کے شاگر د تھے۔ ان کا بیٹا حافظ یعقوب ایک فاضل و صالح انسان اور حافظ قرآن تھا۔ حضرت خواجہ محمد بزاز کشمیر کی تاجر برادری میں سے تھے۔ بزازی کا کاروبار اختیار کر رکھا تھا۔ اسی دوران میں طلب حقیقی کے جاذبہ نے ان کی دکانداری کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ولایت مرتبت حضرت شیخ موسیٰ کبروی کی خدمت میں کسی طرح پہنچے۔ ان کی خدمت سے کمالات طریقہ حاصل کیے اس حالت میں بھی ایک مدت تک لباس تجارت میں رہے۔ رفتہ رفتہ باطنی نسبت نے انہیںمغلوب کر لیا جس کے نتیجے میں انہوںنے ظاہری اشغال کے کارخانے کو ڈھا دیا اور پوری توجہ و ہمت سے معنوی امر پر لگا دی ار یوں اپنے معاصرین میں نمایاں فوقیت حاصل کر لی۔ انہوںنے اپنے مرشد بزرگوار کی خانقاہ میں جو محلہ کاتی اتہ میں واقع ہے ڈیرا جمایا اور اصحاب کی ایک جماعت کے ہمراہ ضبط اوقات اور چلہ کشی میں قدم استقامت مضبوطی کے ساتھ رکھا۔ اپنے وقت مین انہوںنے خانقاہ کی معموری کو شیخ بزرگوار( کے زمانے کی آبادی) سے کمتر نہ رکھا‘ اور مدار کا ر ریاضت و تقویٰ پر رکھا۔ جب ان کی رحلت ہوئی تو خانقہ معلی کے مزار میں اس چبوترے پر جہاں حضرات کبرویہ آرام فرما ہیں‘ حضرت شیخ بابا والی کے مقبرہ متبرکہ سے بلند تر دفن ہوئے۔ خواجہ محمد حسین راقم حروف کے دادا تھے۔ جناب خواجہ محمد مرقوم سے ارادت تھی۔ ان کی عقیدت کا نقش سینے کی لوح پر تحریر کرتے رہتے۔ یہ خواجہ محمد حسین ناخواندہ ہونے کے باوجود ورع و تقویٰ اور صدق و صفا میںمشہور ہیں اور ان کی دیانت اور امانت اور راستی کے بارے میں عجیب و غریب واقعات بہت زیادہ بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک شب وہ راقم حروف کے خواب میں آئے اور اس نسبت باطنی اور اذکار کی مشق کا انہوںنے ذکر کیا جو انہیںمرشد بزرگوار کی جانب سے حاصل ہوئی تھی۔ بلاششبہ ان کی اصلاح حال ان کی اولاد کے لیے برکات کثیرہ کا موجب بنی۔ حضر ت خواجہ معین الدین نقشبندی نسب و حسب سے (نقشبندی) مقرب درگاہ الٰہی‘ ولایت و ارشاد پناہی حضرت ایشان خواجہ خاوند محمود کے خلف الصدق اپنے والد امجد کے ہمراہ ہندوستان گئے ۔ جب حضرت خواجہ کلاں نے لاہور میں سکونت اختیار کی تو آنجناب علیہ کی ترویج اور خانقاہ کی آبادی کیلیے کشمیر کی سجادہ نشینی پر مامور ہوئے۔ اور ا س طرح انہوںنے شہر کو اپنے قدوم مبارک سے آراستہ فرمایا۔ انہوںنے واقعی تزین خانقاہ ترویج سلسلہ اور علم و علما کی تعظیم بہت کیل صفائے باطنی کے ساتھ ساتھ خاصے ظاہری حسن کے مالک تھے۔ حسن الوجہ اور احسن الا طلاق تھے چنانچہ جب ظل الٰہی نے ان کی مشکل و شمال دیکھی تو خوش ہوئے۔ اہل ایران نے مذہبی اختلاف کی بنا پر ان کی سفت سے زیادہ بڑھی ہوئی ڈاڑھی مبارک کے بارے میں پوچھا جو قابل گرفت ہے۔ علامی فقیہ مولانا عوض وجیہنے ان کے جواب نے بادشاہ کے حضور کہا کہ اہل تشیع کے برعکس حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ریش مبارک طویل و عریض تھی۔ علماء و فضلا حکام اور ارباب عدالت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتے وار کبھی دعوت پر بھی بلا لیتے۔ فضائل پناہ ملا محمد ظاہر خلف الصدق مولانا حیدر علامہ‘ جناب ملا ابوالفتح کلو ملا یوسف مدرس‘ ملا محمد ظاہر مفتی‘ ملا عبدالنبی‘ ملا شیخ احمد مفتی‘ اور دیگر فضلا ان کی خدمت یں آتے جاتے رہتے۔ انہوںنے علمائے وقت سے مل کر فتاوی نقشبندیہ تالیف کی اس کتاب کے علاوہ ان کی اور تالیفات بھی ہیں۔ اپنے والد بزرگوار کے احوال سے انہوںنے ایک تفصیلی رسالہ تالیف فرمایا۔ اپنا سلسلہ نسب وہ حضرت قطب ارشاد خواجہ علاء الدین عطا ر سے ملاتے ہیں جن کے عقد میں حضرت خواجہ بزرگ قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز کی دختر تھیں صاحب رشجات کی روایت کے مطابق جب کہ صاحب سلسلہ العارفین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت معینے اپنے دور میں رشحات کی اس روایت ارو اس کے ساتھ روایت کو مرجح کیا کہ خواجہ عبدالشہید حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہ کے کنیز زادہ تھے۔ انہوںنے رشیحات کے کئی نسخے منگوا کر تصحیح کی کہ سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت خواجہ خاوند محمود ابن حضرت میر سید شریف ابن حضرت خواجہ ضیا الدین میر محمد نقشبندی ابن خواجہ تاج الدین ابن خواجہ علاء الدین ابن خواجہ حسین خلف خواجہ علاء الدین۔ نیز وہ حضرت مولانا محمد قاضی سے جو حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم کے خلیفہ تھے اپنی سند ارشاد اس طریق سے ملاتے تھے۔ جناب خواجہ خاوند محمود خواجہ اسحاق کے خلیفہ تھے اور خواجہ اسحاق مولانا خواجگی کے خلف الصدق۔ انہوںنے مولانا لطف اللہ کے حضور تربیت پائی اور جو مخدوم اعظم خواجگی احمد کاشانی کے مرید ہیں وہ حضرت مولانا قاضی محمد کے خلیفہ ہیں۔ مولانا محمد قاضی خلیفہ ہیں حضرت قطب العرقا عبید اللہ احرار کے قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز ان کے والد کے وجو د شریف سے طریقہ نقشبندیہ نے اس صوبے میں رواج پایا ہے۔ خواجہ کلاں مرحوم کے صاحب معنی احباب اس صوبے میں بھی اور صوبہ لاہور میں بھی تھے جن میں سے لاہور ے حافظ خادم ایک مشہور آدمی تھے جو صاحب ظاہر و باطن تھے۔ ان کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جن کے اسما ان کی خانقاہ کے دیوارپر لکھے ہیںکچھ کے احوال حضرت خواجہ معین الدین نے مقامات میں تحریر کیے ہیں جب حضرت خواجہ معین الدین کی عمر ستر سے متجاوز ہوئی تو ان کا جسم مختلف عوارض کا شکا ر ہو گیا۔ ماہ محرم 1085اپریل 1674میںرحلت فرما گئے۔ فیض پناہ خانقاہ کے صحن میں انہوںنے آخر منزل اختیار کی۔ خواجہ کی زندگی ہی میں ان کے بیٹوں سفر آخرت پر روانہ ہو گئے تھے خاتون معظمہ بیگم صاحبہ یعنی حضرت خواجہ کی اہلیہ صفیہ نے جو صغر سن اور حیات تھیں خانقاہ کے آدمیوں کی کفالت اپنے ذمے لے لی اور آبادی میںمردوں کے سے کام کیے ۔ روضہ و خانقاہ کے عملہ اور خادموں نیز دوسرے وابستہ آدمیوں کے طعام کا نظام کچھ اس ڈھب سے فرمایا کہ اہل زمانہ کی یادگارکی صورت اختیار کر گیا۔ حاجی مصطفی رومی نقشبندی روم کے رہنے والے اور ایک سلسلے سے حضرت شیخ تاج مکی کے مرید ہیں جو قطب نفسی و آفاقی حضرت خواجہ عبدالباقی کے خلفا میں سے تھے۔ کشمیر میں سیاحت کی غرض سے اکیلے تشریف لائے ۔ کچھ عرصہ پل صرافان کے قرب میں مشغول عباد ت رہے۔ اس کے بعد این شاہ کے جو معروف مجذوب ہیں مقام سے متصل ایک باغ گھر اور ایک خانقاہ تعمیر فرمائی۔ عمر کے آخری حصے تک وہیں سکونت اختیار کی۔بڑے ہی صاحب ریاضت تھے۔ کئی کء راتیں پٹکا بالکل نہ کھولتے اسرار عمدہ سے آگاہ تھے۔ ان کے پیر کا نام خواجہ باقی یعنی ہے جو شیخ مغزالیہ (جس کی عزت کی گئی ہو) کے مرید تھے یہ بات راقم نے اپنے مرشد کی زبان سے اور انہوںنے براہ راست ان سے سنی بلاشبہ وہ صاحب جذبہ و تصرفات تھے لیکن طریقہ کی تعلیم انہوںنے کم ہی کسی کو دی اپنے دور کے لیے غنیمت تھے۔ جب اجل کا پیغام آیا تو اسی باغ میں دفن ہوئے رحمہ اللہ تعالیٰ۔ مولانا عبدالحکیم خواجہ عبدالکریم بانڈے بلدیمری کے بیٹے ۔ انہوںنے عقلی و نقلی فضایل کا اکتساب کیا ارباب استعداد میں سے تھے۔ توفیق الٰہی نے انہیں حضرت خواجہ معین الدین نقشبندی کی صحبت کی راہ رکھائی جہاں ان کی سراپا سعادت خدمت سے پوری طرح بہرہ ور ہوئے۔ حضرت خواجہ حبیب اللہ گانی جوانی میں خدا پرستی کا ذوق پیدا ہوا خواجہ یعقوب ڈٓر کی خدمت میں شامل سلسل ہوئے جب حضرت خواجہ یعقوب کی وفات ہوئی تو اسی دوران میں جنا ب حضرت شاہ قاسم حقانی حرمین کے سفر سے واپس آ گئے۔ انہوںنے خواجہ حبیب کو بڑے التفات سے طلب کیا اور بذات خواد ان کی تربیت کی۔ حسن سیرت اور حسن صورت کی بنا پر انہیں حضرت شاہ قاسم کی جناب میں پوری پوری قبولیت میسر آئی اور وہ آنجناب کے مقبولان خاص میں شمار ہوئے کمالات طریقت سے بہرہ ور ہوئے آنحضرت کی وفات کے بعد کمال استقامت سے لوازم طریقہ پر قائم رہے اور یوں مرتبہ ارشاد حاصل کیا۔ طویل عمر پائی صاحت تصرف تھے۔ آدمیوں ہی کی مانند جنوں کی بھی تعلیم و تربیت کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے لیے لاہور گئے جہاں حضرت میاںمیر کی جناب سے سلسلہ علیہ قادریہ کی سند حاصل کی۔ راقم حروف کی والدہ کی جدہ کو آنجنبات کی فراش کا شرف اورازدواج کی سعادت میسر آئی۔ وہ ان کے کمالاات عجیبہ سے متعلق حکایات غیربہ بیان کیا کرتی تھیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر کتاب ثمرات میں مرقوم ہے۔ آنجناب عصمت ماب بھی زندگی کے آخری دنوںتک عبادات و اذکار کی پوری طرح پابند رہیں۔ حضرت خواجہ حبیب اللہ کی وفات دو رجب 1084 اکتوبر 1673 کو ہوئی۔ محلہ قطب الدین پورہ میں اپنے گھر کے قریب دفن ہیں۔ زاہد بابا ناکامو جعفر شریف بابا ناکامو کے خلف الصد ق ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت شاہ حقانی کی خدمت میں پہنچے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں بھی تربیت پائی۔ حضرت شاہ کے سفر حجاز کے وقت اس شاہ کی تربیت دوسروں کی مانند پھر حضرت خواجہ قاسم کے سپرد ہوئی کسب فیض اور حصول رشد و ہدایت میں سرگرم رہے۔ مسلسل خدمت و ملازمت کے دوران ایک رات کے آخری حصے میں وہ یاروں کے ہمراہ تہجد کے ارادے سے خواجہ قاسم کی خدمت میں آ رہے تھے اور ان کے ہاتھ میں ایک چراغ تھا۔ ہوا چلی جس سے چراغ بجھ گیا زاہد بابا نے اپنی انگشت شہادت لعاب دہن سے تر کی اور اسے شمع کی مانند روشن کر دیال۔ خواجہ قاسم کے دروازے پر پہنچ کر وہ روشنی بند کر لی۔ جب خواجہ کی خدمت میں پہنچے تو انہوںنے فرمایا کہ جب تو اس قدرت کا مالک تھا تو تو نے ہوا کو چراغ کیوں گل کرنے دیا جس سے تیرا حال تو مخفی رہتا۔ مجھے علم ہے کہ اس شوخی کے سبب تو آگ میں جلے گا۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ عرصے کے بعد محلے میں آگ کا واقعہ پیش آیا جس میں زاہد بابا کا گھر بھی جل گیا والدہ کے حکم پر وہ صندوق باہر لانے کے لیے گئے۔ جہاں چھت پر سے جلتے ہوئے تختے بابا کے سر پر پڑے اوران کا خرمن ہستی فنا کا شکار ہو گیا۔ قلعہ کے باہر شاعر داری (مقبرہ شعرا) سے بالاتر مدفون ہیں رحمتہ اللہ رحمتہ واسعتہً۔ ٭٭٭ اس عہد کے چند فضلا و شعرا کا ذکر شیخ محمد حسن فانی کشمیر کے اکابر میں سے تھے۔ حضرت جامع کمالات شیخ یعقوب صرفی کے بھتیجوں میں سے ہے ۔ فن شعر میں اسے غلبہ حاصل ہوا اور علمی شہرت کی بناپر شاہزادہ دارا شکوہ کی مجلس میں باریابی میسر آئی یوں وہ صدارت کشمیر سے نوازا گیا۔ چھوٹے بڑوں کا مرجع تھا۔ شاگردان باکمال پیدا کیے۔ جب فوت ہوا تو 1082.1671میں اپنے گھر کے باہر صحن میں سید کے قرب میں دفن ہوا۔ اس کے آبدار اشعار میں سے یہ چند بیت درج کیے جاتے ہیں۔ فانی تخلص کرتا تھا۔ غزل: ازبسکہ دل ز دامن تر آب می خورد می می کند تصور اگر آب می خورد پیوستہ گرم و سرد جہان درپی ہم ست شب ہر کہ بادہ خورد سحر آب می خورد زاہد بسر زنش زچہ روتن نمی دہد نخلی کہ خم شود ز بتر آب می خورد مردان چوتر کنندلب از جوئے تیغ تیز نامرد ہم زجوی سپر آب می خورد در مجلس شراب دماغش نمی خورد فانی بجای بادہ مگر آب می خورد 1۔ دل دامن تر سے اس قدر پانی پیتا ہے کہ وہ اگر پانی بھی پیے تو اسے شراب ہی تصور کرتا ہے (یعنی دل کی تربیت آلودہ دامن سے اس قدر ہوئی ہے کہ …الخ 2۔ دنیا کا سردوگرم ہمیشہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے آتا جاتا ہے۔ رات کو جو کوئی بھی شراب پیتا ہے صبح کو وہ پانی پیتا ہے۔ 3 ۔ زاہد سرزنش پر کس لیے راضی نہیںہوتا‘ جو نخل کہ جھکتا ہے وہ کلہاڑے سے پانی پیتا ہے۔ 4۔ اگر دلیر لوگ تیز تلوار کی ندی سے ہونٹ تر کرتے ہیں تو نامرد بھی ڈھال کی ندی سے پانی پیتا ہے۔ 5 ۔ شراب کی محفل میں تو اس کا دماغ متاثر ہی نہیں ہوتا فانی شاید شراب کے بجائے پانی پیتا ہے۔ سرو ایستادہ بہ چو تو رفتارمی کنی طوطی خموش بہ چو تو گفتار می کنی کس دل باختیار بمہرت نمی دبد دامی نہادہ ای کہ گرفتار می کنی تو خود چہ فتنہ ای کہ بہ چشمان ترک مست تاراج عقل مردم ہشیار می کنی از دوستی کہ دارم و عبرت نمی برم خشم آیدم کہ چشم باغیار می کنی بادشمنان بصلحی و بادوستان بہ جنگ یاری نباشد این کہ باغیار می کنی 1۔ جب تو چلے تو اس وقت سرو کھڑا ہی اچھا ہے جب تو بات کرے تو اس وقت طوطی خاموش ہی اچھا ہے۔ 2۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے تیری محبت میں دل نہیں دیتا تو نے ہی کوئی ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ گرفتا ر کر لیتا ہے۔ 3۔ تو کیسا عجیب فتنہ ہے کہ اپنی مست ترک آنکھوں سے صاحبان ہوش و شعور کی عقل کو لوٹ لیتاہے۔ 4 مجھے اپنی اس دوستی پر (جو تجھ سے ہے) اور میں عبرت نہیںپکڑتا غصہ آتا ہے کہ تیری توجہ غیروں کی طرف ہے۔ 5۔ دشمنوں کے ساتھ تو صلح سے رہتا ہے او ر دوستوں کے ساتھ جنگ سے یہ تو یاری نہ ہوئی جو تو اغیار کے ساتھ کر رہا ہے۔ شیخ محسن کی تاریخ وفات ان الفاظ سے نکالی گئی رفتہ فانی بعالم باقی (1082)مرضی الموت میں اس نے توبہ و استغفار کی اوربہت زیادہ ندامت کی توفیق پائی۔ ملا محمد مراد زین قلم سوداگر زادہ تھا۔ خط نستعلیق کی طرف مائل ہوا۔ اس کی مشق میں اس نے خون جگر کھایا۔ ملا میر حیسن سے جو اس وقت عمدہ خوشنویسوں میں سے تھا اس نے اصلاح لینا شروع کی۔ چنانچہ تھوڑی ہی مدت میں اسے معاصرین پر فوقیت حاصل ہو گئی اور وہ یگانہ وقت ٹھہرا آقا رشید کے برعکس جو ان دنوں ایران میں طرز بادامی میں لکھا کرتا تھا اس نے طرز شلغمی اختیار کیا بلکہ ملا مراد کے کمال کا شہرہ شاہجہان تک پہنچا اور اس نے اسے دربار کے کتابہ نویسوں میں شامل کر لیا۔ چنانچہ اکثر شاہی عمارتوں دولت خانوں اور باغوں کے کتبے مولوی کے خط میں ہیں۔ الحق اس کی تحریر میں عجب سحر آفرینی اور نازکی اور شیرینی ہے جیسے کوئی تصویر ہے۔ بادشاہ کی جناب سے وہ زرین قلم کے خطاب سے مخاطب ہوا۔ ملا محسن شیرین قلم حسن خط میں وہ محمد مراد کا چھوٹا بھائی تھا ۔ بڑے بھائی کی موت کے بعد عمارات کے کتبوں کی تحریر کا جو کام باقی رہ گیا تھا ملا محسن نے اسے بڑی ہی نزاکت اور زیبائی صورت میں مکمل کیا بھائی کے سے طرز میں لکھتا تھا۔ صوری کمالات کے باوصف روحانی امور کی تحصیل کی طرف بھی مائل تھا اور اس ضمن میں ا س نے قدوۃ المرتاضین (ریاضت کرنے والوں کے پیشوا) شیخ دائود بٹہ مالو کی ارادت اختیار کر رکھی تھی۔ مولانا محمد طاہر غنی اشائی قبیلے کے فرد ہیں یہ (اشائی) کشمیر میں ایک معروف لقب ہے۔ طبع عالی کے مالک تھے۔ پایہ سخنوری کو انہوںنے درجہ کمال تک پہنچایا۔ اگر چہ وہ ملا محسن فانی کے شاگرد ہیں لیکن ارباب سخن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کشمیر سے بلکہ تمام اقلیم ہند سے ان جیسا خوش خیال نازک بند نہیں اٹھا۔ ان کا دیوان کہ سراپا انتخاب ہے میرزا محمد ولی ماہر نے ترتیب دیا۔ تاہم ان کے اکثر اشعار طرز ابہام (ایہام؟) میں ہیں لفظ ’’غنی‘‘ میں اکی شعر گوئی کی ابتدا اور تخلص پانے کی تاریخ ہے۔ ایک روز میں وہ ایک نیا مطلع کہہ کر شاہ ماہر کے سامنے پڑھ رہے تھے۔ بیت: بی چراغست اگر بزم خیال غم نیست مصرع ریختہ شمعی ست کہ در عالم نیست (اگر میری بزم خیال بے چراغ ہے تو غم نہیں کیونکہ ڈھالا ہو ا مصرع ایک ایسی شمع ہے جو دنیا میں نہیںہے)۔ شاہ نے ان کے طرز ایہام گوئی کے پیش نظر ان کے مذاق کرتے ہوئے کہا جو مصرع ریختہ (گرا ہوا) کہا ہو گا وہ شاید یہی ہو۔ دیوان غنی سے یہ چند اشعار میر معز موسوی کے انتخاب کردہ ہیں: فراغتی بہ نیستان بوریا دارم مباد راہ درین بیشہ شیر قایل را کند درہر قدم فریاد خلخال کہ حسن گل رخان پادر رکاب ست بادامن ترشدم بمحشر گفشند در آفتاب بنشین حسن سبزی بحظ سبز مرا کرداسیر دام ہمرنگ زمین بود گرفتار شدم می نواز دسازعیش آن دم کہ طامع یافت قوت باشد از پائے مگس مضراب تار عنکبوت برنداریم ز اشعار کسی مضمون را طبع نازک سخن کس نتواند برداشت جان بلب از ضعف نتواند رسید ما بزور ناتوانی زندہ ایم ز ضعت تن بجز نامی نماند آخر زمن باقی نگینی می نماید گرنند آئینہ در پیشم قلم تحریر کرد اس سینہ چاکم مگر حرفی کہ مکتوبم ز صد جا پارہ چون بال کبوتر شد میانی بانزاکت ہمچو موران دلستان دارد پر مورست شمشیری کہ برموی میان دارد چون آصتین ہمیشہ جبینم زچین پرست یعنی دلم زدست تو ای نازنین پرست می فرستدبہ پدر پیرہن خالی را یوسف از دولت حسن این ہمہ خود راگم گرد اثر برعکس بخشد سعی من از طالع واژون ز فریاد سپندم چشم بد از خواب بر خیزد چو خاتمی کہ برد سر بجیب موم فرو زدم چو بر در پستی بلند شد نامم دل بمردن نہ غنی کہ چوقامست گردیدہ خم بہراین خاتم نگینی نیست چون سنگ مزار جلوہ حسن تو آورد مرا برسر فکر تو حنا بستی و من معنی رنگین بستم یاران بردند شعر مارا افسوس کہ نام مانبردند رفیق اہل غفلت عاقبت از کار می ماند چویک پارفت دیگر پای از رفتار می ماند شیخ محسن فانی کی وفات کے آٹھ ماہ بعد بسال 1082/2-1671میں عین عالم جوانی میں وفات پا گئے ا کی تاریخ وفات یہ نکالی گئی: از فوت غنی گشتہ ہ و مہ غمگین ہر کس شدہ در ماتم او خانہ نشین تاریخ وفاتش ار بپرسند بگو پنہان شدہ گنج ہنری زیر زمین (غنی کی وفات سے سبھی چھوٹے بڑے غمگین ہوئے۔ ہر کوئی اس کے ماتم میں گھر بیٹھ گیا اگر اس کی تاریخ وفات پوچھی جائے تو کہ دو کہ ہنر کا خزانہ زمین میں چھپ گیا) کسی نے تعمیر (ایک ادبی اصطلاح جس کے مطابق مادہ تاریخ میں جتنے اعداد کی کمی ہو اسے کسی لفظ یا حرف یا فقرے کے اضافے سے پورا کیا جاتا ہے یہ کمی اس طرح پوری کی گئی کہ حسین معلوم ہو اور ا س میں عیب سمجھا جاتا ہے) میں س کی تاریخ کہی: پی سخں داد سخن داد غنی (سخن کی خاطر غنی نے سخن کا حق ادا کر دیا) خواجہ ہاشم دیوانی کشمیر شہر کے اعیان میں سے تھا۔ قانونگوئی کل کے شغل کے باوجود‘ جس سے وہ وابستہ تھا صٖائے طبع کی خاطر اس نے دل شعر و سخن سے لگا رکھا تھا۔ خوش فکر اور صاف ذہن کا مالک تھا۔ اس کے سارے کلام میں سے صرف ان اشعار پر ہی اکتفا کی جاتی ہے: کی زبیم خنجرت خواہد دلم یکسو گرفت ہمچو ابرو می توان تیغ ترابر رو گرفت کثرت حسن و صفا سر تا بسر آن رو گرفت خال جا خالی ندید و گوشہ ابرو گرفت (تیرے خنجر کے ڈر سے میرا دل کیونکہ یکسوئی پا سکے گا۔ ابرو کی طرح تیری تلوار کا وار چہرے پر روکا جا سکتا ہے۔ حسن و صفا کی کثرت نے اس چہر ے کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے تل کو جگہ نہ ملی تو اس نے گوشہ ابرو کو ٹھکانا بنا لیا)۔ یہ شعر بھی اسی کا ہے: یک ذرہ ز اختیار در دست تو نیست لیکن معقول فطرت پست تو نیست تدبیر چو کعبتین و تقدیر چو نقش در دست توہست لیک دردست تو نیست ( اختیار کا ایک ذرہ بھی تیرے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن تیری صفت پست معقول نہیں ہے تدبیر پانسوں کی طرح اور تقدیر چال کی مانند‘ تیرے ہاتھ میں ہے تو سہی لیکن تیرے ہاتھ میں نہیں ہے)۔ 1۔ ٹاٹ کے نیستان میں مجھے سکون و فرصت میسر ہے‘ خدا کرے کہ اس جنگل میں شیر قالی کا گزر نہ ہو۔ 2۔ ہر ہر قدم میں جھانجھن فریاد کرتی ہے کہ گل رخوں کا حسن پادر رکاب یعنی چلنے کا یا فنا ہونے کو ہے۔ 3۔ میں دامن تر (آلودہ دامنی) کے ساتھ محشر میں گیا ‘ مجھے کہاگیا کہ دھوپ میں بیٹھ۔ 4۔ ایک حسن سبز (نو خیز حسن) نے مجھے خط سبز سے اسیر کر لیا‘ جال زمین کے رنگ کا سا تھا اس لیے میں گرفتا رہو گیا۔ 5۔ جب لالچی کو خوراک میسر آجاتی ہے تو وہ اس لمحے ساز عیش بجانے لگتا ہے‘ مکڑی کے تار (ساز جالا) کے لیے مکھی کا پائوں مضرا ب کا کام دیتا ہے۔ 6۔ ہم دوسروں کے اشعار سے مضمون نہیںاٹھاتے نازک طبع کسی کی بات برداشت نہیں کر سکتی۔ 7۔ ضعف و توانائی کے سبب ہماری جان ہونٹوں تک نہیں پہنچ سکتی ہم ناتوانی کے زور پر زندہ ہیں۔ 8۔ جسم کی ناتوانی کے باعث میرے نام کے سوا اور کچھ میرا باقی نہیں بچا‘ اگر میرے سامنے آئینہ رکھا جائے تو (میرا جسم) ایک نگینہ دکھائی دیتا ہے۔ 9۔ قلم نے شاید میرے سینہ چاک سے کوئی بات لکھ دی ہے جو میرے خط سیکڑوں جگہوں سے کبوتر کے پروں کی مانند پھٹ گیا ہے۔ 10۔ محبوب کی کمر نزاکت میں چیونٹیوں کی مانند ہے جو تلوار نے بال ایسی کمر پر باندھ رکھی ہے وہ گویا چیونٹی کا پر ہے۔ 11۔ آستین کی طرح میری پیشانی ہمیشہ شکنوں سے بھری رہتی ہے۔ یعنی اے نازنین میرا دل تیرے ہاتھ سے بھر گیا ہے (یعنی تجھ سے تنگ آ گیا ) ہے۔ 12۔ یوسف (حضرت یوسفؑ) باپ کو خالی قمیض بھیج رہا ہے ل اس نے دولت حسن سے خود کو اس حد تک گم کر لیا ہے۔ 13۔ الٹے نصیب کے سبب میری کوشش الٹاہی اثر عطا کرتی ہے۔ میرے ہر مل کی فریاد سے چشم بد نیند سے بیدار ہو جاتی ہے۔ 14۔ اس مہریا انگوٹھی کی طرح جو موم کے دامن میں سر ڈال لیتی ہے میں نے جب پستی کا دروازہ جا کھٹکھٹایا تو میرا نام بلند ہو گیا۔ 15۔ اے غنی جب تیرا قد جھک گیا تو نے مرنے پر دل مائل کر لے‘ اس انگوٹھی کے لیے سنگ مزار ایسا کوئی نگینہ نہیں ہے۔ 16 ۔ تیرے حسن کے جلوے نے مجھے فکر سخن پر مائل کیا‘ تو نے حنا باندھی (مہندی لگائی) اور میں نے معنی رنگین باندھے (پیدا کیے)۔ 17۔ احباب ہمارے اشعار لے گئے لیکن افسو س کہ ہمارا نام نہ لے گئے۔ 18۔ اہل غفلت کا ساتھی آخر کام سے رہ جاتا ہے جب ایک پائوں چلا جائے تو دوسرے پائوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ قاضی محمد عارف قاضی ابوالقاسم کا فرزند اور مولانا جمال الدین کاپوتا ہے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ نصیبے کی یاوری سے شاہجہانی دور میں آگے آیا اور شاہی عنایات سے صاحب امتیاز ٹھہرا۔ سفارت ایران کے وقائع نگار کی حیثیت سے وہاں کے سلاطین کو حسن لطائف سے جوابدہ تھا۔ دنیوی مشاغل کے باوصف سخندانی سے پوری طرح بہرور تھا۔ اس کی تصدیق میں یہ رباعی اس صحیفے (تاریخ اعظمی) میں نقل کی گئی: خواہم ازین نشیب و پستی برہم وز ننگ خودی و خود پرستی برہم یک جرعہ ز جام نیستی نوش کنم از کشمکش خمار ہستی برہم نیز: نہ ازان دیرتربہ بخشد کام کہ دہد جلوہ کبریائی را زان توقف کند کہ دریابی ذوق دریوزہ گدائی را (وہ اس لیے دیر سے آرزو پوری نہیں کرتا کہ وہ اپنی کبریائی کی جلوہ نمائی کرے بلکہ اس لیے توقف کرتا ہے کہ تو خود میں بھیک مانگنے کا ذوق پیدا کر لے)۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ شیخ محمد معصوم کی جناب سے ایک مکتوب سے وہ سرفراز ہے ۔ وہ خط تیسری جلد میں مرقوم ہے۔ عنایت خان ظفر خان کا بیٹا جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے آشنا تخلص تھا سخنوری کے بھنور کا آشنا (تیراک) اور دریائے ہنر پروری کا سیاح تھا۔ کمال جو د و سخا سے اس نے بیگانہ و آشنا پر فیض و عطا کے دروازے کھلے رکھے۔ اپنی بلندی فطرت اور صفائے قریحت (ذوق) کی بنا پر زمانے کے خوانین میں صاحب امتیاز رہا۔ اواخر حال میں تجرد و ترک کے آثار اس کے دل پر حملہ آور ہوئے چنانچہ بے اختیار اس نے ترک منصب کیا اور بادشاہ عصر کی اجازت سے کشمیر چلا آیا۔ جہاں اس نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور ہر چیز سے ہاتھ اٹھا لیا۔ 1077/7-1666میں آشنا و بیگانہ کی صحبت سے دامن جھاڑ کر نہانخانہ عدم کا سفر اختیار کیا۔ صاحب دیوان ہے اس کے اشعار میں سے: بنشین بگوشہ اگر آزردہ ای زخلق پای شکستہ توبجائی نرفتہ است کہتے ہیں کہ اس موقع پر بادشاہ عالم پناہ نے صبحہ سخندانی کے اس آشنا(تیراک) کو سرمدبرہنہ کے اوضاع و اطوار کے جاننے کے لیے بھیجا۔ اس نے اسے سرمد کو معی روحانیت سے بیگانہ پا کر یہ شعرنظم کی لڑی میں پرو دیا اور اسس انجم سپاہ بادشاہ کو آگاہ کیا: برسرمد برہنہ کرامات تہمت ست کشفی کہ ظاہر است از و کشف عورت ست (عریاں سرمد سے کرامات کی توقع اس پر بہتان ہے۔ اس سے جو کشف (کھلنا کھولنا ‘ کرامت) ظاہر ہے وہ شرمگاہ کا کشف ہے) استغنا عبدالرسول نام تازہ گو شعرا کی لڑی میں پرویا ہوا تھال۔ کشمیر بے نظیر کا باشندہ ہے۔ اوائل حال میں امیر و وزیر اور غنی و فقیر سے استغنا برتتا اور ہمیشہ لوح خاطر پر قناعت اور بے طمعی کے الفاظ لکھتا رہا۔ آخر اس نے ہمت کا رخ اسباب دنیا کی تحصیل کی طرف موڑ دیا اور شاہجہان بادشاہ کے تیسرے بیٹے شجقاع کی خدمت میںپہنچا جہاں منصب و خدمت سے سرفراز ہوا۔ شاہ شجاع اس کی قابلیت و کاردانی سے واقف ہو کر اس کی تربیت کرنے لگا۔ جس زمانے میں شاہ مذکور نے اپنے نام کا سکہ جاری کر کے بنگالہ سے تسخیر ہندوستان کا پرچم بلندکیا۔ استغنا داروغگی توپخانہ کی خدمت پر مامور تھا۔ جب شجاع عالمگیری شجاعوں کے دست برد کے سبب مملکت بنگانہ ہاتھ سے دے بیٹھا اور دشت ناکامی میں آوارہ پھرنے لگا تو استغنا بے سروسامانی کے عالم میں اودھ شہر پہنچ گیا۔ ایک مدت تک ا س نے بغض امرا کی یکے بعد دیگرے نوکری کی اور آخڑ کارعازم دارالخلافہ ہوا۔ جہاں کلافت کے حامل تخت کے پایہ پر کھڑـے بعض منصب داروں کے وسیلہ سے وہ بادشاہ دین پناہ عالمگیر کی ملازمت سے شرفیاب ہوا اور پھر تمام ملازموں کی لڑی میں پرویا گیا۔ 1082/2-1671میں وہ اس سرائے ملال سے اس رباط بے زوال کو منتقل ہو گیا۔ اس کے اشعار میں سے: فلک چرا کمر احتساب می بندد سزای بادہ پرستان خمار خواہد داد (فلک کس کے لے احتساب پر کمر بستہ ہے بادہ خواروں کی سزا تو خمار ہو گا) ایک موقع پر اسے کوئی مہم درپیش آئی ہر چند اس نے کوشش کی اور تلاش و تردد میں رہا لیکن حضور سراپا نور کے باریافتگان میں سے کسی نے بھی اس کی حاجت روائی پر کمر ہمت نہ باندھی ار اس کی بات عرض اقدس تک نہ پہنچائی۔ آخر اس نے بختاور خان سے کہ دل و جان سے قدردان تھا التجا کی۔ اس نے خدیو جہان تک بات پہچنا دی اور ایک ہی توجہ سے اسے شاہد مقصود سے ہم آغوش کر دیا۔ اس موقع پر استغنا نے اس کے نام پر چند رباعیاں کہیں ان میں سے یہ رباعی فتور زدہ دل میں تھی: ای خان بلند قدر اکسیر سخن قربان زبامن تو خوانین زمن تاخاطر آشفتہ دلان جمع شود یکبار بگو حرف پریشان من (اے بلند قدر خان کہ تو اکسیر سخن ہے‘ زمانے بھر کے خوانین تیرے زمانے پر قربان اس خاطر کہ آشفتہ دلوں کو دل جمعی میسر آئے ذ را ایک مرتبہ میری پریشان کی بات کر دے)۔ محمد رفیع منشی اہل کشمیر میں سے ہے۔ نظم و نثر میں بلند طبع کا مالک تھا۔ لیکن حصول رزق کی خاطر اس نے فن انشا کو پیشہ بنا رکھا تھا۔ اسی بنا پر حکام کی ملازمت اختیار کر رکھی تھی۔ یہ رباعی اس کی ہے ۔ رباعی: در سایہ خویش جای آوارہ دہید در چارہ کار دل بہ بیچارہ دہید ہر چند کہ کفارہ ندارد نیکی نیکی ببدان کنید و کفارہ دہید (کسی بے ٹھکانے کو اپنے سایے میں جگہ دو۔ کسی بیچارے کا معاملہ سلجھانے کے لیے اس کی غمخواری کرو اگرچہ نیکی کا کوئی کفارہ نہیںہوتا۔ تاہم تم بروں کے ساتھ نیکی کر کے کفارہ ادا کردو)۔ جب شاعر تسلی نے بحر طویل میں ایل کشمیر کی ہجو کہی اور سیف خان ناظم کے دربار میں پڑھی تو خواجہ عنایت اللہ کو غیر ت آ گئی جوان دنوں کشمیر کا سربراہ تھا۔ چنانچہ ا س نے محمد رفیع منشی کو اسکا جواب لکھنے کا اشارہ کیا۔ اس صاحب قدرت و استطاعت نے ایک ہی ساعت اور اسی اسلوب میں اس کا جواب موزوں کر لیا اور اگلے دن سیف خان کی مجلس میں پڑھ دیااور تسلی کو ملزم بنا کر اس مجلس سے تو کیا اس شہر سے ہی بھگا دیا۔ چونکہ وہ جواب لطافت سے خالی نہ تھا اس لیے اس (رفیع) کے دیگر اششعار نقل کرنے سے اجتناب کیا گیا اور وہ بحر طویل تحریر کرنے پر اکتفا کی گئی ہ 1۔ لعنتہ اللہ بران تسلی کم اصل تبہ کار گنہگار کہ خود رابزبان دوسرلک آدم موزون سخندان سخن سنج بمہ آراستہ از فضل و بنر داد کہ گرپا بغشار ند بفر یاد بیارند جہان را۔ 2۔ لیک حیف است کہ اوقات چیننن مردم پاکیزہ و دانای نکورای خدا ترس حق اندیش کہ جز دکر خدا فکر ندارند شود صرف بسازند تراز خون سگی تیغ زیان را۔ 3 ۔ انچہ او در حق این طائفہ پاک زنا دانی و بلبختی خود گفت بمہ تہمت وبہتان و بمعہ کذب پریشان کہ جز ایش رسداز ایز د ممتعال درین سال بتہجیل نہ تاخیرکہ فرصت نبد خوب باین بی ادب و خیرہ سرو احمق و نادان۔ 4۔ تاجز ایش بود این دوسہ حروفی کہ بر آید زیان من آشفتہ و حیران زرہ خشم و غضب زانکہ چہ لائق کہ کند تسلی قلتاق و قرمساق و گدا خوی سیہ روی و بداندیش عجب ریش گوئی ابنائی زمان و سرگین خوردوگندہ کند کام و زیان را (1۔ اللہ کی لعنت ہو اس کم اصل تباہ کار گنہگار تسلی رپ جس نے خود کو دو تین لاکھ موزوں سخندان سخن سنج ار فضل وہنر سے پوری طرح آراستہ لوگوں کی زبان کے حوالے کر دیا‘ کہ اگر وہ ڈٹ جائیں تو ایک دنیا کو فریادد پرمجبور کر دیں۔ 2۔ لیکن افسوس کی با ت ہوگی کہ اگر ایسے پاکیزہ دانا اچھی رائے والے خدا ترس و حق اندیش لوگوں کے جن کو ذکر خدا اور کوئی فکر نہیں اوقات ضائع ہوں اور وہ اپنی تیغ زبان کو ایک کتے کے خون سے تر کریں۔ 3۔ جو کچھ اس نے اپنی نادانی و بدبختی کے سبب اس پاک جماعت کے بارے میں کہا وہ سب تہمت و بہتان ہے کذب پریشان ہے۔ جس کی سزا اسے خدائے متعال کی طرف سے اس سال جلد ہی تاخیر سے نہیں اس طرح ملے گی کہ اس بے ادب خیرہ سر او ر احمق و نادان کو بھاگنے کا موقع نہ مل پائے گا۔ 4۔ یہ دو تین الفاظ جو مجھ آشفتہ و حران کی زبان سے خشم و غضب کی صورت میں نکلے ہیں اس کی سزا ک لیے ہیں اس لیے کہ بھڑوا دیوث گدا فطرت بد اندیش اور عجب ریش تسلی کہیں ابنائے زمان کو برا بھلا کہنے کی عادت نہ بناتے اوریوں وہ گو کھائے اور اپنے کام و دہن کو گندہ کر لے۔ 5۔ کی رس طعن تو برمردم کشمیر کہ دارم خبر از حال تو وضع تو ای بے خبر از خویش کہ درعہد جوانی بمیان بغل مردم بیگانہ کلان گشتی و صدبار بکون تو زعشاق رسیدہ است کہ از کشمکش …نتوان بود کہ دنبالہ کسی در عقب اوست۔ 6۔ تابدانی کہ پدیدار شد از طلعت نحست اثر ریش کہ پشمی بنود بیش باین طرز زبد کاری و بدفعلی گروہی زعقب بود و تو درپیش خجل شو کہ زبی عصمتی خویش سبک باتہ ای عمر گران را ۔ آگ کے حادثے میں ایک آشنا کے لیے اس نے یہ اشعار کہے: از سوز خاطر تو وجودم بہ پیچ و تاب آبخا فتاد آتش و آبخا شد کباب وقتی کہ شعلہ از در و بام تو سر کشید پس آگہی نداد باین دیدہ پر آب سرچشمہ زیر ہرمژہ من ذخیرہ بود ازیک نگاہ خانہ آتش شدی خراب تااین خبر رسید بگوشم زسوز دل یک دم نگشت دیدہ من آشنا بخواب اماز سر نوشت کسی را گزیر نیست این حرف انتخاب نمودہ ز صد کتاب باد ملال را ندہی رہ بصحن دل آخر کند تلافی آتش ابو تراب 1۔ تیرے سوز خاطر کے باعث میرا وجود پیچ و تاب میں ہے۔ آگ وہا ں لگیہوی ہے اور میں یہاں بھن گیا۔ 2۔ جب شعلہ تیرے دروبام سے بلند ہوا تو اس دیدہ پر آب کو اطلاع کیوں نہ دی۔ 3۔ میری ہر ہر مژہ کے نیچے پانی کا چشمہ موجود تھا۔ ایک ہی نگاہ سے آگ کا گھر ویران ہو جاتا ۔ 4۔، جب یہ خبرمیرے کانوں تک پہنچی تو سوز دل سے میری آنکھیں ایک پل کے لیے بھی نیند سے آشنانہ ہوئیں۔ 5۔ بہرحال تقدیر کے لکھے سے مفر نہیں ہے یہ وہ بات ہے جو سیکڑوں کتابوں سے منتخب کی گئی ہے۔ 6۔ جس رات گھٹیا آسمان زندگی میں تلخی بھر دیتا ہے ا س رات چاندنی بام پر شعلے کا کام کرتی ہے۔ 7۔ باد ملال کو اپنے صحن دل کی طرف نہ چلنے دینا‘ آخر حضرت ابو تراب علی ؓ آغ کی تلافی کر دیں گے)۔ ٭٭٭ دور ابراہیم خان قوام الدین خان کے تصیر پر ابراہیم خان دوسری مرتبہ 1089/1678کے اوائل میں کشمیر کا صوبہ دار مقرر ہوا۔ ا سمرتبہ ابراہیم کے عہد میں کشمیر میں عجیب و غریب واقعات و حادثات رونما ہوئے۔ ایک حادثہ سیلاب ہے جس نے لوگوں کے گھر برباد کر دیے اور ایک دنیا کو خاک میں ملا دیا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کے گھر پانی میں کشتویںکی مانند لڑھکتے اور گرداب کی مانند سرگرداں رہے۔ بسا اوقات تو افراد خانہ بھی اس ہلاکت گاہ میں پھنسے رہے۔ طغیان بے حد (1094/1683)اس کی تاریخ ہے۔ دوسرا حادثہ زلزلہ ہے جو بڑی شدت نوعیت کا تھا اور جس کے مدت تک رہنے کے سبب لوگوں کے حالات دگرگوں رہے۔ یہ جانکاہ حادثہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک شہر کی تعمیر میں حائل رہا۔ اس کی وجہ سے اہل ثروت و وسعت بھی زلزلہ زدہ قرار دیے گئے ہیں اس دور کا ایک واقعہ تبت کلاں کے قلماق بقرہ کی آمد ہے۔ اس کے علاوہ تبت کے راجہ کی ابراہم خان کے توسط سے بادشاہ سے مدد کی درخواست اور اس مددکے لیے کابل کی افواج کا تعین‘ یہ فوج ابراہیم خا ن کے بیٹے فدای خان کی سرداری میں بھیجی گئی جب فدائے خان اور دوسرے خوانین نے قلماق کی فوج کو شکست دی اور تبت فتح کر لیا تو وہ کشمیر لوٹ آئے۔ تبت کے یرغمالیوں کے علاوہ وہ بہت سا مال غنیمت بھی ساتھ لائے اچانک فرقہ پرستی کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا جس کا باعث یہ بات ہوئی کہ کسی شخص عبدالشکور نے اپنے بیٹوں کے ساتھ ملکر کسی صادق نامی سنی کو اذیت پہنچائی۔ ان کی دشمنی طویل جھگڑا کا سبب بنی۔ اس جھگڑے کے دوران میں مذکورہ شیعہ لوگوں نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں غیر شرعی افعال کا ارتکاب کیا اور لائق مذمت باتیں کیں ۔اس کے باوصف کہ دعوے میں مذکورہ صادق کو شرعی طور پر کامیابی ہوئی اور وہ ابراہیم خان کی حمایت میں رہا‘ ھر بھی اس طرف سے قاضی محمد یوسف غیرت میں آ گیا اور عوام نے بہت شورش کی جس کے نتیجے میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ چونکہ ابراہیم خان نے مدعی علیہم کو اپنے گھر میں رکھا ہوا تھا عوام الناس نے حسن آباد کو آگ لگا دی ۔ اس حرکت پر فدائے خان کھل کر حسن آبا د کے لوگوں کے ہمراہ بارہ نکل آیا۔ اس طرف سے شہر کے لوگ اور کابل کے خوانین اپنی فوج کے ہمراہ مثلاً مرید خان اور الف خان میرزا مقیم وغیرہ کہ دونوں سنی تھے بعض منصب داروں کے ساتھ مل کر جن کے سرکردہ سرااپ شرافت اور مرتبت خواجہ محمد شریف دہ بیدی خواجہ محمد صابر میرزا سلیم اور میرزا حلیم بیگ کاشغری تھے۔ مقابلے پر آ گئے۔ طرفین کے کئی ایک آدمی قتل او ر بہت سے زخمی ہوئے۔ عوام نے بہت غلبہ کیا جس کے سبب معاملہ قاضی کے ہاتھ سے بھی نکل گیا ابراہیم خان نے خود کو بے بس پا کر عبداشکور وغیرہ کو جن پر سب و شتم کا دعویٰ تھا فوج کے حوالے کر دیا اور وہ چبوترہ میں محبوس کر دیے گئے۔ آخر کار مذکورہ شخص شکور کو دو بیٹوں اورایک داماد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ اس حادثے کے بعد قاضی نے صوبہ دار کے گھر آناجانا ترک کر دیااوراس کی معذرت کے باوجود قاضی اپنے گھر سے باہر نہ نکلا اورملامحمد طاہر مفتی اعظم کی اصلاح کا الٹا اثر ہوا اور لوگوں نے ان کے گھر کو بھی تاخت و مسمار کر دیا۔ اور شہر میں عوام کی شورش اور دست برد بہت بڑھ گئی اور ایک پیشوا بابا قاسم کو راستے میں پکڑ کر ذلت و ذخواری سے مار ڈالا گیا۔ فدای خان لوگوں کو تنبیہہ کرنے کی خاطر سوار ہو ا اور مذکورہ مرزا سلیم کے گھر کے سامنے مقابلہ چھڑ گیا۔ جس کے نتیجے میں میرزا ے مذکور اورکئی ایک افراد قتل ہوئے۔ اس اثنا میں مشیخت پناہ بقا بابا نے جو عرفان دستگاہ خواجہ حبیب اللہ نوشہری کی اولاد میں سے تھے لوگ اکٹھے کر کے ابراہیم خان کی حویلی کو آگ لگا دی۔ ناظم نے اپنی فوج بھیج کر بقا بابا قاضی اور وقائع نگار نیز رئوسائے شہر مثلاً خواجہ لالہ گانی خواجہ حاجی بانڈی اور خواجہ قاسم لنگر کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ شہر کے لوگوں کو طرفین سے زبردست رعب و ہرا س کا سامنا کرنا پڑا۔ جب یہ صورت حال کسی کمی بیشی کے بغیر بادشاہ عالمگیر تک پہنچی تو لاہور کا ناطم حفظ اللہ خان بادشاہ دین پرور داد گستر حق آگاہ‘ فراست و پیش بینی انتباہ‘ ظل اللہ کے حکم سے فی الفور کشمیر پہنچا اور ابراہیم خان معذول کر دیا گیا۔ وہ مذکورہ قیدیو ں کو ساتھ لے کر دربار روانہ ہو گیا۔ لاہور میں دربار کے حکم سے قیدی رہا ہو کر وطن کو لوٹ گئے سوائے قاضی کے جو خو د حضور پرنو ر گیا تھا۔ دربار پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد وہ رحلت کر گیا۔ یہ ہنگامہ کشمیر میں 1094/1683میں رونما ہوا۔ دور حفظ اللہ خان سعد اللہ خان کا بیٹا 1095/1684میں کشمیر پہنچا محلہ گلشن کی حویلی ظفر خان میں اس نے سکونت اختیار کی اور گزشتہ بگاڑ اور خرابی کی بہت اصلاح فرمائی۔ دو برس اس نے نظم و نسق حسن عمل اور احسان کے ساتھ لوگوں کی رضا چاہتے ہوئے بسر کیے۔ جب وہ دربار کی طرف س راجہ جموں کی تنبیہ پر مامو رہوا تو دیوان صوبہ ابوالفتح خان حفظ اللہ خان کی نیابت سے سرفراز ہوا۔ اس نے ایک برس کام چلایا پھر اس نیابت پر شیخ ابوالافتح نامی شخص کا تقرر ہوا جو حفظ اللہ خان کے رشتہ داروں میں سے تھا۔ اس نے ایک سال تک یہ عہدہ بڑی دیانتداری اور احتیاط سے نبھایا۔ اس کے عہد میں غلے کا قحط پڑا جس کے سبب لوگوں نے بہت تکلیف اٹھائی ۔ شیخ مذکور نے توجہ اور محنت سے کام کیا لیکن ارادہ خداوندی کے آگے اس کی پیش نہ چل سکی۔ ٭٭٭ ان مشائخ اور ارباب کمال کا ذکر جو ان دس برسوں میں جلوہ بخش ظہور رہے بابا دائود مشکواتی حکمت و معانی‘ بیان اور فقہ و حدیث کے علم میں خواجہ حیدر چرخی کے شاگرد تھے۔ انہوںنے بابا کو مشکواتی کا لقب دیا۔ حضرت شیخ ابوالفقراء بابانصیب قدس سرہ کے پہنچے ہوئے مرید اورسفر و حضڑ میں ان کے رفیق تھے۔ سلوک و مقامات کے متعلق انہوںنے عربی و فارسی کی کتابیں لکھیں ۔ کتاب اسرار الابرار کشمیر کے مشائخ و سادات عالی اورریشیوں کے احوال پر تالیف کی جبکہ اسرار الاشجار شیخ عطار قدس سرہ کی کتاب (مثنوی) منطق الطیر کی پیروی میں منظوم کی۔ وہ حضرت ایشان خواجہ خاوند محمود کی صحبت میں بھی پہنچے۔ اسرار الابرار میں شیخ ابو الفقرا کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہکہتے ہیں کہ شیخ ابوالفقرا قدس سرہ اور خواجہ مذکورہ خاوند کے درمیان ملاقامت کا وسیلہ تھا۔ بابا نے اس ملاقات کے مذکورات اور احادیث کی تطبیق کے متعلق کہ خواجہ نے سوال کیا اور بابا نے جواب دیا تفصیل سے تحریر کیا ہے۔ شیخ مومنان (1097/1686) ان کی تاریخ وفات ہے۔ ملا ابو الفتح گلو نے ان کی تاریخ یوں نکالی ہے: از پی حال وصال آن مراد و مقتدا بود بابا شیخ الاسلام آمداز غیبم ندا (اس مراد و مقتدا کے وصال کے بارے میں مجھے غیب سے آواز آئی کہ بابا شیخ الاسلام تھے (1097/1686)۔ طویل عمر پائی ۔ علماء و فقرا کی صحبت میں زندگی بسر کی۔ محلہ کندر پور نزد عبد کل میں آسودہ خاک ہوئے ان پراللہ کی رحمت ہو۔ وسیع رحمت۔ میر ہاشم منور آبادی معروف بہ منور آباد حضرت سید محمد منور حسین خوارزمی کے خاندان سے نسبت کی بنا پر مشہور ہیں۔ حضرت مولانا حیدر علامہ کی خدمت میں تحصیل علم فرمائی آنجناب نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ چھائونی کا سفر کیا۔ تدریس کی خدمت پائی۔ ایک عمر شغل علم اور تقویٰ میں بسر کی اسی برس سے زیادہ عمر پائی۔ 1097ھ میں فوت ہوئے۔ حضرت سید کے مزار میں آسودہ خاک ہیں۔ خواجہ قاسم ترمذی علوم سلوک کی تحصیل کے بعد لباس فقرمیںمناسک حج ادا کر کے بامراد ہوئے۔ سفر مبارک کے بعد سیاحت کی غرض سے کشمیر کے محلہ قطب الدین پورہ میں وارد ہوئے جہاں شیخ فانی سے ملاقات کی۔ جو اس وقت خانقاہ میں درس تفسیر دے رہے تھے۔ خواجہ ان کے حلقہ درس میں داخل ہوئے دوران درس انہوںخواجہ نے معانی کے نکات و لطائف بیان کیے شیخ ان سے خوش ہوئے اور انہیں اپنی دامادی میںقبول کر لیا۔ شیخ کی وفات کے بعد وہ کاشغر چلے گئے جہاں انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ وہاں سے پھر کشمیر لوٹ آئے اور بادشاہ ہند کے نوکر ہو گئے۔ صوبہ ٹھٹہ کی دیوانی پر مامور ہوئے کشمیر سے نکلے لیکن راستے ہی میں سفر آخرت اختیار کر گئے۔ ان کی لاش کشمیر لائی گئی اور فانی کی قبر سے متصل دفنا دی گئی۔ ملا افضل نتنو حضرت مولانا حیدر چرخی کے فرزند ارجمند ہیں۔ فضل و کمال اور ورع و تقویٰ میں ممتاز تھے ۔ والد بزرگوار کے بعد افادہ و تدریس پر کمر ہمت باندھے رکھی۔ وفات کے بعد والد بزرگوار کے قرب میں دفن ہوئے۔ عبدالرشید زرگر محمد افضل چرخی ملا سلطان مانتجی اور قاضٰ عبدالرحیم کے شاگرد نقلی و عقلی علوم میں صاحب استعداد فصیح زبان اور خوش بیان اور شیریں تحریر تھے۔ سنا ہے کہ سیف خان نے علمائے وقت کو کسی امتحان کی خاطر طلب کیا۔ جناب ملا ابوالفتح کلو اور ان کے علاوہ کچھ اور علماء باغ جہان می ںخان مذکور کے گھر گئے۔ خان شاہی برج میں بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ ان طالب علموںمیںسے کسی ایک کو حاضر کرو۔ سب سے پہلے یہی ملا عبدالرشید نکلے اور انہوںنے بلند آواز سے اس طرح تقریر کی کہ فوج کے اندر بیٹھے فضلا نے سنی۔ مباحثے سے فراغت کے بعد انہوںنے اس بات کا اظہار کیا کہ میںباہر والے علما کے ادنیٰ شاگردوں میں سے ہوں۔ خان مذکور نادم ہوا اور اس نے پھر کوی کو بھی حاضر ہونے کا حکم نہ دیا۔ ان ملا عبدالرشید نے بہت سیر علم کی آخری عمر میں سفر اختیار کیا اور عالمگیری لشکرمیں پہنچے اور برہانپور کے عہدہ قضا پر فائز ہوئے۔ باطنی شغل سے بھی خالی نہ تھے جناب میر علی قادری سے ارادت تھی اور ذکر و فکر کے سب اشغال انہی کی خدمت سے اکتساب کیے۔ حضرت میں محمد ا مین ڈار کشمیر کے تاجر طبقہ میں سے ہیں۔ لاہور جا کر شہزادہ کے یہاں دواسپ داغ کرنے پر نوکر ہوئے۔ باپ کا ترکہ فروخت کر دیا اور وہ سرمایہ فقرا پر خرچ کرتے رہے جب راہ حق کی طرف مائل ہوئے تو ملازمت ترک کر دی اور ہر شے سے ہاتھ اٹھالیا۔ اس سلسلے میں اللہ والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت میاں عبدالوہاب لاہور ی کے خاص الخاص یاروں میں ان کا شمار ہوا۔ کسب معانی میں اصحاب کے درمیان صاحب امتیاز ہوئے اور رتبے میں اکثرمعاصرین سے بڑھ گئے۔ کشمیر لوٹنے پر محلہ اندواری کے باتجیوں کے گھر میںمقیم ہوئے خواجہ آشنا فتح کدلی انہیںگھر لے گئے اور اپنے مسکن سے متصل ایک مسن انہیںپیش کیا۔ چند برس تک سردیوں کے موسم میں برابر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضریدیتے کسب فیوض کرتے اور خدمت و صحبت بجا لاتے رہے۔ یہ شیخ عبدالوہاب حضرت شیخ عثمان جلدنری کے خلفا میں سے تھے اور انہوںنے ان بزرگوار پر خاص توجہ رکھی۔ مختصر یہ کہ جناب میاںمحمدامین اپنے وقت کے بڑے بڑے اہل تمکین میں سے تھے ۔ حفظ نسطت میںسعی بلیغ فرمایا کرتے جس کی وجہ سے ان کے اکثر احوال سکوت و خلوت میں گزرتے ۔ آخر میں اہل کشمیر کیا علماء و فضلا اور کیا فقرا و اغنیاء سبھی نے بکثرت ان سے اپنی اپنی استعداد و استقامت کے مطابق ظاہری و باطنی فیض حاصل کیا۔ کئی کئی روز مریض رہتے۔ لوگوں کے ساتھ کم ہی صحبت رکھتے اگرچہ بعض اوقات زائرین اور دوسرے آنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاتے اور بلاشبہ انجمن میں بھی خلوت رہتی۔ اور اگر کوئی کلام میں سبقت یا مقصد کا اظہار بے وقت کرتا تو وہ حضرت مرشدی مرادی کی زبان سے کرتا۔ جو ان کے خاص محرموںمیں سے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک روز شہر کے چند سربرآوردہ فضلا ایک مسئلے کی تحقیق کے سلسلے میں آئے معاملہ بلند آوازی اور مذاکرے کی صورت اختیار کر گیا۔ حضرت کو ناگوار گزرا۔ فرمانے لگے یاروں نے اس جگہ کو مدرسہ قرار دے دیا ہے پھر وہ اٹھ کر خلوت میں جا کر بیٹھے علمی مذکورات میں یہ احتیاط تھی تو دوسرے مذکورات میں کہاں تک نہ ہو گی۔ سراپا تصرف تھے علما پر بہت شفقت کرتے اور مہربانیاں فرماتے۔ گفتگو میں بہت سے رموز و اشارات سے کام لیتے حقائق و معارف کے بیان میں اور اس کے درمیان اکثر جوش و خروش کے ساتھ مرشدی میرے مرشد مرادی کو مخاطب کر کے انہٰںدوسروں سے ممتاز کرتے اور ان سے بڑے امتیاز اور تخصیص کے ساتھ سلوک فرماتے۔ ان سے بے حد عام اور خاص صحبتیںرکھتے۔ کبھی کبھی وہ ان صحبتوں کا ذکر کرتے جو عالی درجات حضرات کے ساتھ رہیںوہ ہمیشہ شریعت اور طریقت پر قائم رہے غائت انصاف سے بدعت مٹانے والے تھے۔ میرے مرشد آنجناب مرادی فرماتے تھے کہ ایک روز رسالہ قطرات کے عین مطالعے کے دوران اسم ذات کے ذکر کی علامات کے بیان میں انہیںشبہہ بتایا گیا۔ انہوںنے قبول فرما لیا۔ ایس مجلس میں یاروں کے سامنے اس نسخہ مکلفہ سے وہ کلمہ انہوںنے کھرچوا دیا اور ہمارے اظہار کے مطابق اس کتاب کے حاشیے میں تحریر فرما دیا۔ مجلس ختم ہونے کے بعد تنہائی (مجھ سے) میں فرمایا کہ میں نے یہ بات غلط نہیں لکھی تھی۔ بلکہ اوائل میں جب طالبوں کے دلوں یں توجہ و تصرف کی نمود ہوئی تو ایسا ہی ظاہر ہواتھا اورہم نے بیاض میں لکھ لیا تھا۔ تیس بر س بعدیاروں نے اس بیاض سے نقل کر کے اس کتاب میں درج کر دیا تھا اب با ت وہی ہے جو تم نے کہی ہے۔ اکثر حالات میں وہ کارفرمائے غیرت تھے۔ کسی نے ان کے سمع شریف تک یہ بات پہنچائی کہ جناب آخوند ملا نازک فقر کو خود سے اور غنا کو ان (امین) سے منسوب کرتے ہیںانہوںنے فرمایا کہ میرے فقر و غنا کی حقیقت قیامت کے روز کھلے گی۔ کشف و کرامات کے اظہار سے پورا طورپر اجتناب کرتے۔ آخری دنوں میںانہو ںنے ظل سبحانی سے ملاقات کی تھی اور کچھ عرصہ آمد و رفت رکھی۔ بادشاہ دین پناہ ان کی صحبت سے خوش ہوا ایک راز اس نے پوچھا کہ کوئی کشف و کرامت بھی کبھی ظاہر کی ہے انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر کشف شرع شریف کے مطابق ہو تو وہی ہے ورنہ ناتمام۔ اغر ض اپنے دور میں کشمیر میں اپنے معاصرین ک درمیان بے مثل تھے۔ جب ان کی عمر شریف ستر برس سے بڑھی تو وہ بیمار ہو گئے چنانچہ بڑ ے ہی حضور آگاہی کے ساتھ 11رمضان 1092 اوائل ستمبر 1681کو ان کی روح فتوح عالم بلا کی طرف جلوہ پردراز ہو گئی۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ وسیع رحمت۔ احباب میں ایک صاحب کوان کی تاریخ رحلت کے بارے میں یہ مصرع الہام ہوا۔ یا ز دہم ماہ صوم رفت میان از جہاں(گیارھویں رمضان کو میاں جہاں سے گئے)ل۔ لالہ ملک نے جو ان کے اخلاصمندوں میں سے تھے ان کے انتقال کی تاریخ ان الفاظ میں نکالی تاریخ: عرش بود مسکن روح الامین( عرش روح الامین کا مسکن ہے) ایک نے کہا تاریخ: دل بیک مصرع سہ تاریخ وصال پیر گفت (دل نے ایک مصرع میں پیر کی تین تاریخ ہائے وصال کہیں شیخ واقف ذومعارف صاحب خلق و کرم شیخ واقف ’’ذو معارف‘‘ اور ’’صاحب خلق و کرم‘‘) کتاب ’’قطرات‘‘ اور رسالہ ضروریہ ان کی تصانیف ہیں۔ خواجہ محمد امین صوفی بلوغت سے قبل ہی حضرت بابانصیب رحمہ اللہ علیہ کی ملازمت گرامی میں پہنچے۔ وہ بارہ برس ک یتھے جب جناب بابا رحلت فرما گئے۔ خواجہ علما عصر کی ملازمت(صحبت) کے طفیل فضیلت سے آشنا ہوئے اوراس طرح راہ خدا کی طرف آئے۔ چند برس کنج تنہائی اختیار کیے رکھا اور وظائف و عبادات میں مصروف رہے تاآنکہ قبولیت بہم پہنچائی۔ لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ کچھ عرصہ کلووں کے گھر میں اورکچھ عرصہ محلہ کنگن میں بسر کیا۔ جب لوگوںمیں زیادہ مقبول ہوئے و خانہ مذکور سے جامع مسجد کے قرب میں چلے آئے اور گھر بسا کر بابا کی سنت کے مطابق دیہات میں توبہ بیعت کے لیے جانے لگے۔ دوسری شادی کرکے بیٹا بیٹی والے بن گئے۔ گھر سے خانقاہ شمسی چک تک جو حضرت مخدوم قدس سرہ کی نشستگاہ تھی پانچ وقت کی نما زکے لیے جایا کرتے ۔ اس وقت تک حضرت مخدوم رحمہ اللہ علیہ کی خلوت کاحجرہ جہاں وہ بیس بیس بر س سے زیادہ رہے موجو د تھا۔ خواجہ صاحب متشرع اور آداب سے آراستہ تھے حضرت مرشدی میرے مرشد مرادی فرماتے ہیں کہ ایک روزہم دونوں باہم جھیل ڈل کی سیر کو گئے۔ وہاں یہ ملاحظہ ہوا کہ وہ سارا دن دوزانو بیٹھ کر مقبول و معقول کے مذکورات میں مشغول رہے۔ دعوت اسما (ناموں کی دعا) میں بھی انہیں دسترس تھی۔ اور ان کے اعمال اثر اکھاتے تھے استخارے کا جواب بھی بتاتے۔ آخر اس روز جب قطبی مرشدی(میرے قطب میرے مرشد) حضرت شیخ عبدالاحد مدظلہ ہفت چنا ر آے ہیں خواجہ نے ان حضرت کی خدمت میں بیعت کی۔ اور مرشدی مرادی کے توسط سے ذکر قلبی وغیرہ حاصل کر لیا اور ان سے استمداد کر کے رخصت ہوئے۔ ان کے کچھ صالح اور ذاکر احباب بھی تھے ج کا ذکر کیا جاتا تھا مثلا بودی بایو حافظ دائود اور جناب کرم حافظ وغیرہ ہم؛۔ آخر میں ظاہری فقر سے فنا کی طرف آ گئے تھے کچھ تو چوری سے تلف ہو گیا(؟) اور کسی قدر ان کے بیٹے حبیب اللہ کو مل گیا۔ ار جب انہوںنے کل نفس ذائقہ الموت‘(ہر ذی حیات کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کا شربت چکھا تو ملہ کوہ میں جو کلووں کا تھا انہیں مدفن ملا۔ حضرت مرشدی مرادی کبھی کبھی ان کی قبرپر جایا کرتے اور بعض روحانی صحبتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ لوزہ بابا پکلی بازار پتو فروشاں کے رہنے والے اور بابا محمد علی پانپوری کے مرید ہیں۔ ان کی ایک عمر پانپور کی خانقاہ میں گزری تجرید و تفرید کی راہ میں قدم زن رہے۔ ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور گوشت سے اجتناب برتنے والے تھے۔ وہ اس وقت قلب اور غلبہ احوال کے مالک تھے کہ جب کبھی ان کی نظر حسین چہروں یا سبز ہ و گل و گلزارپر پڑ جاتی تو بے اختیار رونے لگتے اور ان ک آنکھوںسے آنسو رواں ہو جاتے۔ ہر ساعت دل گرم سے آہ سر دکھینچتے ۔ جن دنوں حضرت مرشدی شیخ عبدالاحد سرہندی کشمیر کو قدوم میمنت لزوم سے نوازتے وہ اکثر ان کی خدمت میں پہنچتے اور حضرت کے خادموں کی بڑی ہی پرتکلف دعوت کرتے ۔ راتوں کو ان کی خدمت میں رہتے اور ہمیشہ یہی طریق رہا حضرت ان کی دلداری فرمایا کرتے۔ جب ان کا وقت موعود آ پہنچا تو آب نالہ مار کے کنارے واقع مسجد کے قرب میں دفن ہوئے۔ ان کے احباب ان کے خوارق و کمالات بیان کرتے ہیں۔ مولانا خواجہ ابوالفتح کلو کشمیر کے شرفامیں سے ہیں۔ آغاز شباب میں تحصیل علوم کی توفیق میسر آئی۔ مولانا العلامہ خواجہ حیدر چرخی کی صحبت میں ظاہر ی و باطنی کمالات سے بہرہ ور ہوئے۔ عقل و نقلی علم کی شان کے باوصف درع و تقویٰ سے بھی بہت بہرہ ور تھے عبادت و قناعت میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے۔ فقہی مسائل حل کرنے میں اپنے وقت کے بے مثل تھے عمر کے آخری حصے میں کشمیر کی خدمت کا افتا کا تعلق ان کے وجود شریف سے ہوا۔ ان کی ایک تالیف کتاب سیف المابین ہے جو انہوںنے رد شیعہ میں لکھی ۔ اس کے علاوہ بھی ان کی تالیفات و تعلیقات ہیں ان کی تاریخ وفات اس شعر سے نکلتی ہے : خواجہ ابوالفتح باہزار کمال رفت اندر ہزار و یک صد سال حضرت آخوند ملا نازک تاشوانی ایک ناظم انسان تھے۔ ظاہری علم سے بہرہ ور تھے ملائوں کی طرح ملازمت کرتے تھے یہاں تک کہ جناب حاجی فتح محمد سیالکوٹی رحمتہ اللہ کشمیر وارد ہوئے ان کی خدمت سے تصر ف حاصل کیا۔ اور ہر شے سے منہ موڑ لیا۔ پھر راہ طلب پر چل کر طریقت میں استقامت پائی اور ترددات سے نکل گئے۔ حاجی مذکور ان کی تربیت کے لیے کئی مرتبہ کشمیر آئے اور مولانا بھی ان کی خدمت میں سیالکوٹ جاتے رہے۔ یوں حقیقی تربیت حاصل کر کے دائرہ فنا میں قدم رکھا۔ انہوںنے اہل استعداد و دوست بھی بہم پہنچائے۔ اوران کی تربیت ک طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے دلوں کو متاثر کیا جس کے نتیجے میں ان سے نادر تفرقات اور عجیب و غریب حالات رونما ہوتے رہے۔ کام میں سرگرم تھے۔ ان کی صحبت کا جو ش و خروش روز بروزبڑھتا گیا ۔ عین گرمی احوال میں ان کا بڑا بیٹا شیخ محمد باقر جو طالب وفقیر‘ سالک بے نظیر اور عالی حالات کا مالک تھا‘ اچانک وفات پا گیا۔ اس مصیبت سے ان کے حالات متغیر ہو گئے۔ اور طویل مرض نے انہیںگھیر لیا۔ وہ احباب کی طرف توجہ دینے اور تصرف سے عاجز رہ گئے۔ حضرت مرشدی مرادی یعنی (میرے مرشد میری مراد ان کا نام مراد بھی تھا) نے ان سے کئی مرتبہ ملاقات کی اور ان سے صحبت رکھی۔ وہ فرماتے تھے کہ ایک روز حقیقتوں کے شناسا صوفی محمود مغل کے گھر ان سے صحبت رہی۔ ان سے حدیث ’’الفقر فخری‘‘ (فقر میرا فخر ہے) اور حدیث کا الفقران یکون ’’کفر‘‘ مفلس کہیںکفر کے نزدیک نہ ہو جائے کے بارے میں پوچھا گیا ار اس کی مطابقت چاہی گئی ۔انہوںنے شافی جواب دیا۔ دوسرے دن اپنے والد کے حکم پر ان کے گھر گیا۔ انہوںنے اس قدر انکسار سے کام لیا جس طرح کوئی مرید اپنے پیر کے سامنے کرتا ہے۔ شیخ عبدالصمد کی لائی ہوئی کتاب نغمات (مولانا جامی کی مشہور کتاب نغمات الانس) پڑھنے کو فرمایا۔ اس دوران یہ ملاحظہ ہوا کہ وہ اپنے مریدوں کے ساتھ اس حد تک انکسار سے کام لیتے ہیں کہ جیسے وہ ان کے محتاج ہوں۔ الغرض وہ ایک خدا پرست عزیز اورنیت خالص کے مالک تھے۔ جب وہ رحمت حق سے جا ملے تو اپنے گھر کے قریب ہی ‘ تاشوان میں حضرت سید محمد منطقی قدس سرہ کے مزار میں دفن ہوئے۔ ان کے مخلصین نے ان کی قبر پر گنبد تعمیر کر دیا۔ جناب آخوند ملا نازک طبع موزوں بھی رکھتے تھے۔ ان کے یہ چند اشعار ‘ جو کتاب لکھتے وقت حافظہ کے خزانے سے باہر آئے تحریر کیے جاتے ہیں: ناز کی طرہ او نقد دل ما دزدید گرنہ دزدد چکند حال پریشان دارد (ناز کی اس کی زلفوںنے ہمارے دل کی نقدی چرا لی۔ اگر وہ نہ چرائے تو کیا کرے کہ اس کا حال پریشان ہے)۔ نیز: می وش بذکر جہر گرمرد صفی کزجہر شود نام تو در دہر صفی(؟) خود ذکر خفی زجہر پیدا گردد زانگونہ کہ از مشق جلی خط خفی (اگر تو باصفا آدمی ہے تو بلند آواز سے ذکر کی کوشش کر تاکہ کیونکہ بلند آواز سے تیرا نام دنیا میں بلند ہو گا اور یہ جو ذکر خفی (ہلکی آواز سے ذکر کرنا) ہے تو یہ خود ذکر جہرسے پیدا ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح خط خفی خط جلی سے نکلتا ہے)۔ یہ چند عربی اشعار بھی مولانا کی واردات قلبی کا نتیجہ ہیں: ترجمہ (1) تو ہمارا مطلوب و منظورہے تو ہمارا معبود اور ہمارا مقصود ہے۔ (2) ہم دنیا میں تیرے چہرے کے سوا کچھ نہیں دیکھتے‘ تو ہمارے لیے مشہور اور موجود ہے۔ (3) زاہدوں کا مذہب ان کے لیے قابل تعریف ہے عشا ق کا مذہب ہمارے لیے محمود ہے۔ (4) تحقیق نے تو آخرت میںدیدار کا وعدہ کیا ہے اور وہ (دیدار) کونین میں ہمارے لیے مشہور ہے۔ (5) عارفوں کے لیے عارض لازوال ہے نازکی ہمارے لیے سایہ پھیلا ہوا ہے۔ نیز: (1) بلاشبہ آج ہم ے محبوب کے انوار دیکھے جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (2)ہم ہمیشہ محبت کی شراب پیتے ہیں زاہدوں کے نصیب میں ایسی چیز کہاں۔ (3) ہم تیرے دربار میں حاضر ہو کر پکارتے ہیں۔ اے حیرت زدوں کو راہ دکھانے والے جو اب کی حاجت ہے۔ (4) پردیسی ناز کی تیرے گھر میں مر گیا۔ یا رحیم پردیسی کے احوال پر رحم فرما۔ حافظ صادق مجذوب حافظ قرآن تھے اور حضرت نازک قادری قدس سرہ کی مسجد کی خدمت ان کے سپرد تھی۔ ارادتمیر محمد علی قادری سے تھی۔ اتفاق سے ان کا دہلی جانا ہوا اجہاں وہ عالی حضرت شیخنا و سلیتنا (ہمارے شیخ اور ہمارے وسیلہ) کو اجہ عبدالباقی قدس سرہ کے فرزند مخدوم زادہ آفا ق قدوۃ الاولیا حضرت خواجہ عبید اللہ معروف بہ خواجہ خورد قدس سرہ کی بابرکت صحبت میں پہنچے اور شرف ارادت حاصل کیا‘ اور جذبہ پا کر وطن کی رخصت لی۔ یہاں ان کی بے پروائی کا در اور در شکر کا گھر کھل گیا۔ انہوںنے دنیاکو ایک تصرف سے ہمرنگ کر دیا۔ کبھی وہ ہوش میں بھی ہوتے۔ اس موقع پر احکام شرع کی پابندی کرتے۔ تاہم شرع کے اتباع میں ان میں بے قیدی اور بے پروائی کی حالت اس حد تک سرایت کر چکی تھی کہ اصلاح کی گنجائش نہ رہی تھی۔ ان کی واردات طبع کے نمونے: یک چند بی زینت و زیور گشیتم یک چندپی دانش و دفتر گشتیم در عہد شباب کویم حساب چون واقف ای جہاں ابتر گشتیم دست از ہمہ شتیم و قلندر گشتم نقشے ست بر آب انینک و دریاب (کچھ عرصہ ہم زینت و زیور کے پیچھے پھرے عہد شاب میں کچھ عرصہ ہم دانش و دفتر کے پیچھے پھرے حساب لگایا جب ہم اس جہاں ابتر سے باخبر ہو گئے تو پتا چلا کہ یہ تو پانی پر ایک نقش ہے چنانچہ ہم نے سب سے ہاتھ اٹھا لیا اور قلندر ہو گئے لو اب سمجھ لو) خواجہ محمد ہاشم ملوکہ شہر کے سوداگروںمیں سے ہیں۔ ایک مرتاض و جانباز اور ذوق و سماعی شخص تھے۔ اپنے احوال سے متعلق غیر مکرر اشعار کہا کرتے تھے۔ ان پانچ صوفیا میں سے ہیں جو وجد و حال میں مشہور تھے۔ کچھ عرصہ تجرد کی زندگی بسر کی پھر گھر بسا لیا۔ جناب آخوند ملا مہدی علی کبروی کے احباب میں سے ہیں۔ الحق کہ بلند نشاط کے مالک تھے۔ وجد کی حالت میں کچھ اس طرح کی حرکات کرتے اور آوازیں نکالتے کہ دوسرے بھی اس سے متاثر ہوتے ۔ علی شاہ پل کے قرب میں اپین وقف زمین پر بسیرا تھا اور از خود گھر اور خانقاہ کی تعمیر نہ کی تھی۔ جناب مرشدی مرادی فرماتے تھے کہ جن دنوں وہ شدت مرض میں مبتلا تھے میں شاہ محمد فضل قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ انکی عیادت کو گیا اسی وقف گھر میں بے ہوش پڑے تھے اور جواب و سوال کی ان میں طاقت نہ تھی۔ جب روح ان کے قفس بدن سے دارا لبقا کو پرواز کر گئی تو جوارہ میں جامع مسجد کے نزدیک دفن ہوئے شب قدر 1105/4-1693۔ خواجہ حسن تمل ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ور اور صلاح و تقویٰ میں معروف تھے۔ جناب بابا نصیب رحمۃ اللہ علیہ کے احباب میں سے ہیں بابا کے بعد ایک مدت تک زندہ رہے متاہل متوکل اور صاحبدل تھے۔ لوگ ان سے حالات عجیب منسو ب کرتے ہیں روشن شریعت کے امور کا بہت دھیان رکھتے۔ جب رحلت فرمائی تو پل تبتیان کے نزدیک مدفن ملا رحمہ اللہ رحمۃ واسعتہً۔ شیخ حسن لالو انہیںلالو اس لیے کہا جاتا ہے کہ مشہور قبیلہ لالو کی مسجد میںامام تھے؛ان کا اصل تعلق پرگنہ لار کے موضع اسن سے ہے۔ ان کے دادا خواجہ دائود عطار حضرت سید جمال الدین بخاری کے مرید او رحضرت مخدوم شیخ حمزہ قدس سرہ کے پیر تھے۔ ان کے والد بزاری کاکاروبار کرتے تھے۔ ایک موقع پر ہندوستان گئے۔ واپسی پر خانقاہ راجو رماجی میں رہ کر خدا طلبی کا ذوق پایا۔ چنانچہ حضرت بابا نصیب رحمتہ اللہ کی خدمت سے مشرف ہوئے ایک مدت تک ان کی خدمت میں تفرید وتججرید پر گامزن اور ان کی خدمت سے بہرہ ور ہوتے رہے۔ بہرحال بعد میں گھر بسا لیا۔ اس سے بابا کو ملال پہنچا اور شیخ بھی حجاب میں چلے گئے اور ان کی صحبت سے پیچھے ہٹ گئے۔ لالووں کے محلے میں وقف زمین پر حجرہ بنا کر محلہ کی امامت شروع کر دی۔ اس طرح ایک عمر بسر کی۔ بدعات اور ہنگامے کی طرف مائل نہ تھے۔ وظائف اور دعائوں میں مشغول رہ کر توکل کے ساتھ زندگی بسر کی مریدوں کی طرف سے جو تھوڑا بہت نذرانہ مل جاتا تھا۔ اسی پر قناعت کرتے۔ کبرسنی اور بڑھاپے کے باوجود آخوند ملا ابوالفتح کلو کے مدرسے میں جاتے اور مسائل سنتے کبھی دولتمر کے گوشہ میں جا کرعبادت کیا کرتے۔ ان کے مرید ان کی کرامات بیان کرتے ہیں جب ان کی رحلت کے دن آ پہنچے اور ان کی گرانما یہ عمر پوری ہوگئی تو سن ہزار … میں کوہ مار ان کی دامن اور حضرت مخدوم قدس سرہ کے روضہ کے قرب میں دفن ہوئے۔ ان کے کچھ عرصے بعد ان کے تینوں بھائی وفات پا کر اس دامن کوہ میں دفن ہوئے۔ یوسف بابا کے لیی بھی الگ مقبرہ تعمیر کیاگیا۔ اللہ ان سب پر رحمتہ فرمائے وسیع رحمت۔ عارف امی روپی ریشی موضع کوچہ مولہ میں رہتے تھے۔ یہ جگہ پرگنہ اولر میں ہے۔ ان کی زاد بوم اس موضع میں ایک کوس آگے ہے اور اس کانام موضع لورہ گام ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے انہیں ذوق طلب عنایت فرمایا تو انہوںنے خرقہ ترک کر کے بال بچوںکو رخصت د دی اور خود آبادی سے دور ایک جنگل میں ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ کبھی کبھی درویشوں کی خدمت میں بھی پہنچے ۔ حضرت بٹہ مالو جیو کی خدمت سے نظر و عنایت حاصل کی۔ ان کے حکم پر ہر شے سے منہ موڑ لیا۔ موضع کوچہ مولہ کی مسجد کے صحن میں ایک چشمہ تھا۔ وہاں اپنے ہاتھوں سے حجرہ تعمیر کیا۔ اس کے نیچے غسل خانہ بنا لیا او ر ثابت قدمی سے وہاں رہائش اختیار کر لی۔ ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور تارک گوشت تھے تفرید و قناعت پر گامزن رہے۔ اسی جگہ پچاس برس گزار دیے۔ ا س دوران میں کبھی کبھی ایک ماہ یا دو تین ماہ کے لیے جنگل میں بھی چلے جاتے اور واپس آ جاتے۔ وہاں ذرا سی چیز پر دن گزارتے اور قلل شے سے افطار کرتے۔ جب کہ ماضی میں وہ بہت کھایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے کشمیری زبان میں بھی ریشی شمنو کے نام سے مشہور رہے کبھی دو تین دن وجد وحال میں رہتے۔ اگرچہ وہ بظاہر بٹہ مالو اور دیگر مشائخ کی خدمت میں حاضرہوئے اور حضرت بابا نصیب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ملاقات کی اور ان اعزہ کی مجلس میں بیٹھے لیکن سلوک کی تعلیم و تربیت انہوںنے کسی سے نہیںلی۔ وہ اویسی تھے۔ ڈار نودریشہ بابا ان کا گائوں مذکورہ قریہ سے ایک کوس آگے ہے ۔ قدیم مشائخ میں سے اور جناب ہر دی ریشی بابا رحمہ اللہ علیہ کے ہم صحبت تھے۔ کچھ عرصہ تربیت پا کر ان کی اس حد تک ستائش کیا کرتے کہ انہیں حضرت شیخ نور الدین کے ہم پلہ سمجھتے۔ یہاں نودریشہ کی خوراق عادات میں سے ایک کرامت تحریر کی جاتی ہے۔ بابا انکی غذا کا دھیان رکھتے تھے۔ بعض عزیزوں کے بارے میں مذکور کے حضور نودریشہ بابو کی چغلی کھائی۔ جب یہ بات ان کے کانوں تک پہنچی تو بہار کے دنوں میں وہ بیس شعبان کو چلے کے ارادے سے گل سیب عنبری کی ایک شاخ لے کر حجرے میں بیٹھ گئے۔ اور بابائے مذکور سے فرمایا کہ حجرے کے دروازے کو باہر سے گیلی مٹی سے بند کر دو اورعرفہ کی شام اور دن سے عید کی صبح تک منتظر رہو۔ جس وقت بھی اندر سے آواز آئے دروازہ کھول دینا۔ عید کے دن صبح سویرے حجرے کے اندر سے آواز آئی چنانچہ خوشی خوشی دروازہ کھولا گیا نماز عید ادا کر کے کے بعد یا نماز سے پہلے بہت سے لوگ زیارت کے لیے آئے۔ بعض کو اخلاص اور بعض کو نفاق سے اس شاخ سے ایک ایک پکا ہوا۔ سیب بطور تبرک دیا جو موسم خزاں کے آخر میںہوتا ہے (یہ امر) منافقوں کے لیے تسلی اور صاحبان اخلاص کے لیے زیادہ یقین کا موجب ہوا۔ مہدی ریشہ باباے کاوری کاکا پوری جوانی میں ایام طلب کے دوران سرگرمی کے ساتھ طریقہ سیادت پناہ حقائق آگاہ میر محمد باقر نقشبندی سے حاصل کیا۔ میر مذکور کو موضع نیوہ کے لوگ ازراہ اخلاص وہاں لے گئے ۔ اسی موضع میں ان کی شادی ہوئی اور بال بچے پیدا ہوئے۔ ان کی اولاد اسگائوں میں رہتی ہے۔ بالخصوص ان کے بیٹے میر فاضل ایک مرد صالح تھے اور جناب مولوی ملا حیدر چرخی نے بھی ان سے تعلیم طریقت حاصل کی تھی۔ الغرض یہ مہدی ریشی مذکور پیر مرقوم (یعنی باقر) کے بعد چالیس برس تک مسجد کا کاپور میں رہے۔ کبھی کبھار شہر بھی آ جاتے۔ بیحد رقت قلب کے مالک تھے۔ ان کا اکثر وقت گریہ اور درد و سوز میں گزرتا۔ طویل عمر پائی۔ جب ان کا مقررہ وقت آپہنچا تو جسممانی تعلق قطع کر کے وہ دارا بقا کی طرف گامزن ہوئے اور روحانی ہو گئے۔ کچھ اوپر 1090/1679میں مسجد کے قرب میں دفن ہوئے۔ ان کی قبر پر ایک عمارت بنی عام رسم کے مطابق کئی بار ا س کی زیارت کی گئی۔ ان کے بڑے بھائی شیخ علی ریشہ بابا نے بھی مذکور سے تربیت پائی تھی اور قریہ کوئل میں ایک مدت تک دشوار ریاضات کے لوازم پورے کرتے رہے۔ مہدہ بابا بہت ریاضت کرنے والے اور میر مذکور کے اصحاب میں سے تھے۔ روح اللہ بیگ کے گھر میں رہتے تھے۔ وہیں رحلت کی۔ وہاں قریب ہی محلہ کوتہ پورہ میں احمد کدل کے نزدیک روح اللہ بیگ کی تعمیر کردہ خانقاہ میں انہیںمدفن ملا۔ برادر ریشی کی موت کے بعدموضع کویل جا کر تربیت بھی کرتے رہے اور چند روز وہاں خلوت میں بیٹھا کرتے۔ ریشی بابا کے اصحاب میں ایک شخص یعقوب تھے جن کا ٹھکانا محلہ جمالتہ میں تھا اور جو صالح ذاکر اور گوشہ نشین تھے۔ حضرت لالہ بابا شیخ نجم الدین ریشی کے بھانجے روحانی تربیت اپنے بزرگوار ماموں سے حاصل کی اور تھوڑی ہی مدت میں مقامات عالیہ کو پہنچ گئے شیخ نجم الدین کے وصال کے بعد ان کے قائم مقام ہوئے ریاضت و عبادت میںمرشد سے کمترنہ تھے۔ صائم الدہر (ہمیشہ روزہ رکھنے والے) قائل اللیل (راتوں کو کھڑے ہونے والے یعنی عبادت کرنے والے) صاحب تقویٰ و حالات مصدر حسنات اور مورد فتوحات تھے ۔ راقم حروف کے والد کے بچپن میں ان کی زبان میں لکنت ا س حد تک تھی کہ بات کرنا ان کے لیے دشوار تھی۔ انہیں لالہ بابا کی خدمت میں لے جایا گیا۔ انہوںنے فرمایا بچے کو دو تین ہفتے مسلسل لاتے رہو۔ پہلی مرتبہ گئے تو بابا نے اپنا بچا کھچا کھانا انہیںکھلایا۔ دوسری مرتبہ اسی طرح کیا۔ چنانچہ زبان کی لکنت بالکل ختم ہو گئی۔ باباکی بہت سی کرامات مشہور ہیں۔ 1105/4-1693میں موضع زوکرہ میں دفن ہوئے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو وسیع رحمت۔ شیخ محمد فاضل شاہمو قبیلے کے فرد ہیں۔ یہ قبیلہ مشہورہے۔ کوتہ یار میں مقیم تھے۔ عین جوانی اور کامرانی میںکے زمانے میں جناب مشیخت پناہ عارف بالا خواجہ محمد ہزار کے مرید ہوئے جو جناب شیخ موسیٰ کبروی کے خلیفہ تھے وہ ظاہری علوم کی تحصیل کے طرف بھی متوجہ رہے۔ کچھ عرصے بعد حرمین شریفین کی زیارت کو گئے اور اطراف ہند میں فقرا علما سے ملاقاتیں کیں۔ علامی ملا عوض وجییہ وجہی کی خدمت میں بھی جزو کشی کی۔ جب وطن لوٹے تو موضوع ہبک میں جھیل ڈل کے کنارے عبات میں مشغول ہو گئے۔ شادی کے بعد بچوں کی تعلیم کے ارادے سے شہر آ گئے‘ جہاں انہوںنے محلہ جندہ بون میں معروف آستانہ خدمت بابرکت حضرت ملہ بابا کے قریب گھر بنا لیا اورتاحیات وہاں توکل کی راہ پر گامزن رہے طریقت و شریعت کی بدعتوں اور مقلد شیخوں کی دکانداری کی طرف مائل نہ تھے۔ فان مع العسر یسرا ان معر العسر یسر (سورۃ الم نشرح آیا ت ۵،۶) اس بے شک تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے اور بے شک سختی کے ساتھ آصانی بھی ہے) کے جنگل میں زندگی بسر کی۔ مرید بھی بنائے۔ یبوست زدہ اور بناوٹ کے مارے ہوئے نہ تھے۔ ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور بشاش رہتے تاآنکہ اجل ان کی گریباں گیر ہو کسی اور خانقلہ ملہ بابا کے قرب میں دفن ہوئے۔ اللہ کی ا ن پر رحمت ہو وسیع رحمت۔ حضرت مرشدی مرادی فرماتے تھے کہ مرض اخیر میں میں ان کی عیادت کے لیے گیا۔ جب ان سے مرض اور طیب کا پوچھا گیا تو بولے طبیب کو میں درد سر نہیں دیتا۔ جو کچھ مولا کو منظور ہے وہی ہو گا۔ عزیز حسن خاتمہ کی دعا کریں۔ حاجی الحرمین حاجی بہرام بڑھئی پیشہ تھے۔ توفیق الٰہی سے بے پناہ ذوق سے سرشار ہوئے اور اس طرح جناب بابا نصیب کے اصحاب میں سے ہو گئے۔ صائم الدہر اور تارک گوشت تھے۔ موضع پہرو میں مقیم تھے ۔ تجربد و تجرید میںعجب کیفیت کے مالک تھے۔ فقہی مسائل کی تحقیق میں جناب اخوند ملا حسین سے جو ایک دانا اور تقوی شعار انسان اور حضرت بابا نصیب رحمۃ اللہ کے تربیت کردہ تھے۔ حاجی سے پہلے 1089/1627میں سر آخرت پر روانہ ہو گئے اور موضع مذکور میں دفن ہوئے مشیخت پناہ شیخ عبداللہ سلری کے دودھ شریک بھائی ہی غرض مذکورہ حاجی اخفائے ہال اور کشف و کرامات کی چھپانے کی بہت کوشش کرتے‘ لوگوں کے فتوح اور نذر و نیاز بہت کم قبو ل کرتے اور اپنے بھائی کی کمائی سے وہ کہ بھی بڑھئی تھا لقمہ کھا لیتے۔ کھانے پینے میں پوری احتیا ط سے کام لیتے ۔ حفظ اللہ خان پچاس روپے نذر کے طور پر لے کر گیا لیکن انہوںنے ہزار منت و سماجت کے بعد ایک روپیہ اٹھایا ۔ ریاضتوں کے باعث ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گئے تھے۔ سال کے بارہ مہینے لکڑی کی کھڑائوں پہن کر گزارے۔ غسل اور وضو ٹھنڈے پانی سے کرتے ان کے وضو کرنے کی جگہ پر ایک چشمہ نکل آیا تھا جس میں سردیوں میں گرم پانی آتا تھا۔ حضرت مرشدی اکثر حاجی کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔ انہوںنے بہت سی حکایات بیان کی ہیں۔ فرماتے تھے کہ ایک رات کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ وہ (میرے مرشد) ان سے ملاقات کر کے غفران پناہ شیخ احمد چاکلی کی زیارت کے لیے چلے گئے۔ واپسی پر پھر حاجی سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ راستے میں دوستوں نے معروف غذا مایری کی خواہش کی ہمارے وہاں پہنچتے ہی انہوںنے مایری ہمارے سامنے چن دی۔ نماز عشاکی امامت کے لیے کہا۔ چونکہ شام کا وقت تھا ا س لیے راسترے تھکاوٹ کا عذر کرکے تاخیر کر دی گئی بولے یہ وقت کی بات کر رہے ہیں آئو ہم پڑ ھ چلیں۔ صبح سے چاشت تک بہت کچھ رکھا گیا ہے کھانا کہے بغیر لے آئے۔ فرمایا حضڑت بابا مرحوم نے ایک روز ہدیے کا تربوز رد کر دیا تھا۔ اسی دن حضرت باباشکرالدین کی زیارت کو گئے۔ جب وہ پہاڑ پر چڑھے تو تربوز طلب کیا میں نے کہا یہ ے نتیجہ اس ہدیے کے رد کرنے کا۔ اصرار کے بعد بقیہ کھانا کھایا گیا۔ کہنے لگے کوئی یہاں سے سوپیو ر کی طرف گزرے گا۔ ایسا ہی ہوا۔ کلام اللہ کے غلاف کے لیے تین فلوس پیسے قبول کیے۔ کہنے لگے سوپیور سے کر پاس لا دٰں۔ میں نے وہ ٹکڑا پا س تھا وہ پیش کر دیا گیا کہ اس کا غلاف بنوا لیں۔ انہوںنے فوراً ایک تنکہ ایک سکہ نکال کر دے دیا کہ میںاسے کیا کروںل میں نے وہ ٹکڑا واپس لے لیا اور تنکہ ان کے حوالے کر دیا۔ کشتی تک ہمراہ آئے وہاں سے رخصت ہوئے۔ اور اس روٹی میں سے ایک روٹی ملاح کو دی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کے ہدیے قبول کیوں نہیں کرتے کہنے لگے مجھے ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ لو گ محتاجوں کو نہیںدیتے۔ میں نے کہا کہ آپ کا بھائی بھی تو محتاج ہے اور مسافروں کی خبر گیری کرتا ہے بولے میں اس کے لیے برکت کی دعا کرتاہوں اور ہم ان لوگوں کا یہ شبہ قبو ل نہیں کرتے اثنا میں انہوںنے اپنی چھوٹی سی چادر اپنے کندھے پر ڈالی۔ طول و عرض میں کمی کے سبب وہ ان کے کندھے پر نہ ٹکی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ ہدیہ قبول کر لیتے تو چادر لمبی ہوتی۔ انہوںنے اسی وقت چادر کھینچی اور دائیں طرف زور کے ساتھ بائیں طرف رکھ کے بولے یہ لو اب تو لمبی ہے۔ پیری و مریدی اور ارشاد میں قطعاً نہ کھلے تھے۔ انہوںنے امانت کسی کے سپرد نہ کی‘ الاماشاء اللہ لیکن جو کچھ اللہ چاہے شاذونادر چنانچہ آغاز حال میں لوگوں کے ڈر سے موضع ہٹ لنکو میںایک مدت تک مذکورہ آخوند ملا حسین کے پاس رہے‘ اور جو کوئی بھی ان سے توبہ و انابت کی استدعا کرتا وہ اسے آخوند کی طر ف اشار ہ کر دیتے۔ آخوند کی وفات کے بعدانہوننے اپنے مولد وہ بیرو میں سکونت اختیار کی۔ نیز حضرت مرشدی فرماتے تھے ک ایک روز سیادت پناہ شاہ محمد فاضل کی ہمراہی میں ہم ان کی زیارت کو گئے اور وہ فاضل حاجی کے کفن کے لیے سفید کپڑا لے کر گئے ہوئے تھے۔ اسے بھی ہم نے اپنی موجودگی میں قبول کروا لیا تھا۔ خدا معلوم انہوںنے اس کا کیا کیا۔ ایک روز کہنے لگے کہ خدائے تعالیٰ ا س کا ذکر بڑا ہو فرماتا ہے : اور آسمانوں میں تمہارا رزق ہے اور جو کچھ تم وعد ہ دیے گئے ہو تو جب طالبان علم اسے پڑھا کریں گے تو اور اس کے معنی سمجھے ہیں تو پھر حصول روزی میں اوقات نفسیہ کیوں ضائع کرتے ہیںان سے پوچھا گیا کہ حرمین شریفین کی زیارت کا باعث کیا تھا بولے کشمیر میں قحط پڑ گیا تھا‘ تنگ حالی کے سبب ہند چلا گیا اور وہاں سے مکان شریف تک پہنچ گیا۔ وگرنہ حج سے ہمیں کیا نسبت ۔ حاجی کہنے سے برا مانتے تھے۔ بہرام با کہنے سے خوش ہوتے تھے۔ جب کبھی کوئی ان سے دنیوی و اخروی امور طلب کرتا اور کرامت کا کہتا یا فاتحہ کی استعدا کرتا تو ان کا تکیہ کلا م ہوتا خڈا خوشنود ار یہ الفاظ دہرا کر اس سے اپنی جان چھڑا لیتے۔ جب ان کا وقت آ پہنچا تو مریض ہو گئے اور نوے برس کی عمر میں دارالبقا کو سدھارے کچھ اوپر 1100/1689مٰں۔ جس گائوں میںانہیں پہلے دفن کیا گیا تھا وہاں سے غرض مند لوگ اخلاص کے طور پر رات کے وقت نکال کر بڑی تکلیف کے بعد ان کی لاش اپنے گائوں لے گئے جو ان کے وطن سے تھوڑا سا دور اور موضع لوسہ پورہ کے نام سے موسوم ہے۔ وہاں بڑی وقت کے ساتھ ایک رات دن کے بعد دفن ہوئے۔ اور آج کل وہیں ان کا مزار مقام زیارت و تبرک ہے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو وسیع رحمت۔ خواجہ عبدالرحیم مانتجو سوداگر طبقے سے تھے۔ محلہ حمالبتہ سے تعلق تھا۔ جوانی میں راہ بانی کے طالب ہوئے۔ اس میں وہ ہر جگہ گئے آئے۔ ایسے ہی ایک لمحے میں نیکہ بابا ریشی پانپوری کی خدمت میں پہنچے جیسا کہ ان کے احوال میں رقم ہو چکا ہے۔ جناب میر محمد علی قادری کی مریدی اختیار کی اور ان کی صحبت میں راہ حق کی منزلیں طے فرماتے رہے؟ آخری عمر تک ثابت قدم رہے۔ شاہ ابوالحسن قادری کی جناب سے بھی بہر ور ہوئے۔ وہ ایک عارف متشرع ولی متورع شیخ خداآگاہ تھے۔ خدا پرست غربا دوست تکلف و تعین سے خالی عالی ہمت اور صاحب باطن تھے انہیں جو بھی آمدنی ہوتی محتاجوں کو دے دیتے دعامیں بھی انہیں دسترس تھی۔ امر معروف اور خلائق کی خیر خواہی بہت کرتے۔ چنانچہ جن دنوں خواجہ محمد امین صوفی کا رز (زر؟) چوری ہو گیا اور اس کی وجہ سے لوگوں سختی ہوئی تھی۔ وہ خود خواجہ مذکور کے پاس گئے اورانہیں کئی طرح کی وعظ و نصیحت کی۔ القصہ وہ ایک خوش گزاران اور قانع عزیز تھے۔ واقف احباب ان کی بہت سی کرامات کا ذکر کرتے ہیں۔ جب ان کی موروثی اجل آ پہنچی تو اپنے محلہ میں دفن ہوئے۔ وہ جگہ زیارت گاہ اور متبرک ہے اور علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ خواجہ حبیب اللہ لتو اصیل و نجیب حضرات میں سے تھے آخوند ملا ابو الفتح کلو کے شاگرد ہیں۔ باطنی تربیت میر محمد علی قادری کی صحبت شریف سے پائی اور دنیوی مشاغل سے منہ موڑ لیا۔ طلب کے دوران دوسری جگہوں پر بھی پہنچے۔ مشیخت کے باوجود طالب علمی اور سادہ وضعی ترک نہیں کی۔ فاضل تقویٰ شعار اور صاحب ارشاد تھے۔ خواجہ مذکور کی وفات 1105/4-1693کے لگ بھگ ہوئی اپنے گھر کے قریب دریائے بھٹ (جہلم) کے کنارے دفن ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد قبر میں رخنہ پیدا ہو گیا۔ آخر تیس برس بعد ان کے لاشے کو وہاں سے نکال کر سرراہ ایک گھر کے صحن میں پھر سے دفنا دیا گیا۔ تقوی شعار شیخ عبدالغفور غازی نوکر پیشہ اور مضبدار آدمی تھے۔ کچھ عرصہ بعد خدمات کی بے حاصلی سے ملول ہو کر قطب الاقطاب شیخ محمد معصوم سرہندی قدس سرہ کی جناب سے ذکر کی تعلیم لی؟ اور لطائف لامکانی کی سیر کے طریق سے بہرہ ور ہو کر ترک ملازمت کی اور وطن مالوف کو لوٹ آئے جہاں ریاضتوں میں انہیںسکون ملا کچھ عرصہ باغ قوتلنہ ملا شاہی میں اور کچھ عرصہ جچہ بل میں واقع گھر میں زندگی بسر کی۔ موزوں طبع کے مالک تھے اپنے حسب حال اشعار کہے اور اپنے وطن کے مشائخ کے ذکر میں بھی کچھ منظوم کیا۔ فصیح زبان میں عجیب و غریب باتیں اور نفیس لطائف بیان کرتے ۔ باطن فقر کے دوران میں چند برس تک ظاہری فقر بھی ان کے ہمراہ رہا آخر مرض الموت کے دنوں میں یاہو خواں کبوتر سامنے رکھے مشغول رہتے اور بار بار دارقنا سے داربقا کو اپنی منتقلی کا اظہار کرتے رہتے۔ چنانچہ انہی دنوں رحمت حق سے جا ملے۔ شیخ جلال کندہ کاری صاحب ذوق و شوق تھے عدم علم کے باوجود تصوف سے انہیں لگائو تھا اور (مرشد کی) تلاش میں تھے۔ حضرت مرشد من فرماتے تھے کہ ایک روز صوفی محمود نقشبندی کے گھر جناب اخوند ملا نازک سے ان دو حدیثوں میں تطابق سے متعلق پوچھا گیا : الفقر فخری (فقر مرا فخر ہے) اور کاد الفقران یکون کفراً (مفلس کہیں کفر کے نزدیک نہ ہو جائے) ۔ شیخ جلال بھی وہاں موجود تھے غیر ت میں آ کر بولے مجھ سے تم نے کیوںنہ پوچا بہرحال تمام عمر انہوںنے جلال نے فقر و توکل میں بسر کی۔ فقر کو غنا پر ترجیح دیتے تھے۔ جب موت کا پیغام آ گیا تو وہیں اپنے محلہ نندہ پورہ میں دفن ہوئے۔ بابا عبدالنبی کبروی بابا نازک کھے خلف درویش اور تقویٰ شعار آد می تھے۔ آخوند طریقت ملا مہدی علی نوشہری کی مریدی اختیار کی تھی۔ صاحب توکل اور صاحب جود و سخا تھے۔ آخوند کی بیٹی سے نکاح ہوا اورقلبی اشغال کے علاوہ اجازت طریقت بھی انہی سے حاصل کی۔ ایک اور عزیز کی خدمت سے بھی فوائد اٹھا کر اور بہرہ ور ہو کر صاحب اختیار ٹھہرے۔ خوش طبع‘ خوش لباس شیرین زبان اور صاحب شوق تھے۔ گل و گلزار اور باغ و صحرا سے انہیں لگائو تھا۔ سماع و رقص بھی کرتے۔ کتاب سے بھی آشنائی تھی۔ اس دور میں سلسلہ کبرویہ کے مشائخ میں سے کم ہی کوئی ان جیسا صاحب غیرت و تمکین تھا راقم حروف کی والدہ کے دادا شیخ محمد امین اپنی منکوحہ بیوی جو راقم کی والدہ کی دادی تھیں کے مریض ہونے کے بعد بابا عبدالنبی کی دونوں بھانجیوں کو ایک کی وفات کے بعد دوسری کو اپنے عقد میں لے آئے تھے اور ان سے بھی اولاد ہوئی تھی۔ بابا عبدالنبی خانقاہ کے قریب حضرات کبروی کے احاطے میں دفن ہیں۔ شیخ یعقوب سادی جناب بابا نصیب رحمتہ اللہ کے احباب میں سے ہیں۔ طریقت میں داخل ہونے سے پہلے قصہ خوانی اور طبل نوازی کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا۔ جب بابا کی ملاقات سے مشرف ہوئے اورطریقت کی طرف آئے تو کمر ریاضت کس کر باندھی۔ ہستی کی بنیاد گرا کر در مجاہدہ کو پوری جدوجہد سے کھٹکھٹایا معرفت کا لبالب جام چڑھایا اور صاحب احوال ہو کر جذبات بہم پہنچائے۔ شیخ دائود مشکوتی نے کتاب الاسرار میں لکھا ہے کہ میں نے شیخ یعقوب کو ایک گڑھے میں دیکھا لوگوںنے بتایا کہ وہ دس روز بلکہ زیادہ دنوں سے اس جگہ ہیں اور کوئی چیز نہیں کھا رہے۔ ایک روز وہ پیر پنچال کے زمینداروں کے گھر گئے۔ چونکہ رات بہت گزر چکی تھی۔ اس لیے کسی نے دروازہ ہ کھولا۔ شیخ دروازے کے باہر برف پر بیٹھ گئے اور صبح تک دل میں مشغول ہو کر سانس روکے رکھا۔ ان کے ذکر قلبی کی گرمی سے برف پانی اور زمیں خشک ہو گئی۔ تاہم چونکہ کتاب سے ان کی آشنائی نہ تھی اس لیے ان سے ایسے اعمال بھی سرزد ہو جاتے تھے جو شریعت کی قید میں نہیں آتے۔ عورتوں کا حسن دیکھتے اپنے پائوں میںجھانجھر باندھتے اور پرندے کا پر سر پر لگاتے۔ اگرچہ بابا انہین ان امور سے منع کرتے لیکن سب بے سود۔ جب موت کا پیغام آ پہنچا تو اسلام آباد کے قریب مکان رو دن میں دفن ہوئے۔ شیخ موہن برتہنی شیخ شریف برتہنی کے بھائی برتہنہ شہر کے قریب مغربی جانب ایک موضع ہے۔ دونوں بھائی مرتاض روزہ رکھنے والے اور تارکان گوشت تھے دونوںنے تفرید و تجرید او ر توکل کی راہ میں زندگی بسر کی۔ شرح کے معاملے میں بہت محتاط تھے ا س حد تک کہ ایک روز شیخ مومن نے اس وقت کے مفتی سے فتوی چاہا کہ ایک تختے کے نیچے ناپاک شاخیں جلائی گئی ہیں اس تختے پر نمازی نمازپڑھے یا نہ پڑے۔ شیخ شریف نماز جمعہ پڑھنے کے لیے اس گائوں سے شہر جایا کرتے تھے شیخ مومن نے اواخر میں شرہ آ کر گھر بسا لیا۔ ان کی اہلیہ ایک صالحہ اور قرآن نویس تھیںَ ان سے صالح اولاد پیدا ہوئی شیخ وہیں رحمت حق سے جا ملے۔ شریف بھائی بھی اسی جگہ آرام فرما ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ شیخ فیض اللہ زرگر طالب تھے۔ بظاہر اپے خرقہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ کشمیر میں رایات عالمگیری کے نزول کے دنوں میں فاضل خان… سلمان کے عزیزوں کے لیے زرگری کا کام کرتے تھے۔ وہاں سے کوئی شخص ان کی نیکی سے آگاہ ہو ا اور انہیں خواجہ عبداللہ قادری کا پتا دیا جو بطور ایک منصب دار لشکر کے ہمراہ رہ رہے تھے۔ جب تک بادشاہ اس شہر میں رہا شیخ فیض اس عزیز (خواجہ) کی خدمت میں برابر حاضر اور اپنی استعداد کے مطابق ان سے بہرہ ور ہوتے رہے بادشاہ کی واپسی پروہ اپنے مرشد کے ہمراہ چلے گئے۔ پھر راستے میں ہی وطن واپسی کی اجازت لے کر چلے آئے۔ اور گوشہ نشینی اختیار کی۔ اس عزیز سے طریقت کے جو اشغال و اطوار پائے تھے ان پر استقامت اختیار کی۔ تاآنکہ اثر توحید ان پر نقش ہو گیا اور امور سکریہ کے بارے میں ان سے بہت سی باتیں سرزد ہوئیں۔ اس کے باوجود انہوںنے طریقت کا اجرا کیا اور لوگوں کو فیض پہنچایا۔ کئی لوگ ان سے مستفید ہوئے۔ جب انہوںنے رحلت کی تو سنگین دروازہ کی طرف کوہ ماران کے دامن میں آرام فرما ہوئے۔ شیخ یوسف کموہ عرف گنائی ان کی زاد گاہ ناداگام ہے جو سویبوک سویپور کے جوار میں ہے۔ ایک روز حضرت بابا نصیب کے خلیفہ جناب حاجہ بابا ان (یوسف) کے باپ کے گھر جو ایک مشہور آدمی تھا ضیافت پر گئے۔ ان یوسف گنائی نے جو شادی شدہ تھے۔ اظہار طلب کیا اور اپنا وہ خواب بھی سنایا جو اس سے پہلے دیکھا تھا۔ بابا نے انہیںضافی ترغیب دلائی اورآتے جاتے رہنے کا حکم فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد ان کے مطابق کوہ ماران میں انہوںنے گوشہ گیری اختیار کر لی اور ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ اس کے بعد سابقہ جگہ سے بلند تر جگہ مشرق کی جانب تعمیر کی اور وہاں گڑھا کھود کر استقامت و صلاح کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے۔دفن بھی وہیں ہوئے ان کے علاوہ کچھ اور بھی ابرار زمانہ اپنے عہد میں منصہ ظہور پر آئے ۔ ان سب کا ذکر اس کتاب کی طوالت کا باعث ہو گا مختصراً جیسے آخوند ملا شاہ کے مرید خواجہ حسن بجے قادری۔ حضرت میر نازک کے نواسے میر حسن قادری اور ان کے خلف امجد مری محمد مومن شیخ آفتاب رانیواری صاحب ریاضات شیخ عبدالشکور شیخ عبدالرحیم دربیلی اور سیخ صادق تینوں شیخ نور محمد پروانہ کے خلیفہ تھے سونتی ریشہ بابا ساکن بنتہ چک علی ریشہ بابا جو بھائی تھے مہدی ریشا بابا کاکہ پوری کے عاشور بیگ منصب دار ساکن پل دویارن اصحاب حال و توحید میں سے تھے۔ خواجہ علی الماس جو حضرت بابا نصیب کے مرید اور صاحب ورع و تقوی تھے شیخ عبداللہ معروف بہ ابل بابا جو حضرت ملا محمد مہدی علی کبوری کے خلفا میں سے ہیں اور صاحب ذوق و شوق اور اہل ورع و تقویٰ تھے ؟ حضرت آخون ملا مہدی علی کبروی کے فرزند ارجمند تھے: جس طرح ان کی مسجد عدالت ایک فرقے کے قبضے سے دوسرے فرقے نے چھڑائی اسی طرح اس مبارک موقع پر ان سے گزارش کی گئی کہ وہ اسے اپنی تشریف آوری سے منور کریں۔ فوت ہونے کے بعد وہیں دفن ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات ہے شیخ کامل آداب دان (1064/1654)خواجہ یعقوب پلکی جو مرید تھے شاہ گدائی میر میرکی کے ‘ دونوں بزرگ ہر لحاظ سے صاحبان حال تھے بابا عبدالطیف ساکن مسجد عدالت ‘ صوفی محمود نقشبندی جو حضرات سرہند کے خلفا میں سے تھے حضرت عروۃ الوسقی کی نظر میں آئے اور حضرت شیخ عبداللہ کے حوالے سے آنحضرت کے پاس گئے قلعہ کے باہر آرام فرما ہیں۔ صاحب ریاضت و کشایش تھے علی شیخ ساکن کنہ موہ جو پوشیدہ ولیوں میں سے اور صاحب خدمت باطنی تھے حافظ عبداللہ فتحکدلی سہروردی جو صاحب جذبہ اور حضرات آخوند ملا طیب کہ صاحب جذبہ و کرامت و کشایش تھے اور 1105/4-1693میںفوت ہوئے اور انکے بھائی مہدی بابو کے خاص احباب میں سے تھے۔ مہدی اپنے مذکورہ باھائی کے مقبرے میں دفن ہیںجو فتحکدل پر واقع ہے۔ صاحب تقویٰ و ورع تھے۔ راقم حروف نے انہیں کئی مرتبہ دیکھا ہے صالح خان جو مجذوب کہ حالات عالیہ کے مصدر روشن کرامات کے مظہر اور کائنات کے متصرف تھے ’’فیض مطلق‘‘ (1069/9-1658)ان کی تاریخ رحلت ہے۔ خواجہ حسن تمل بوتہ کدلی کہ حضرت بابا نصیب کے مرید تھے شیخ احمد چاکلی شیخ موسیٰ تاشونی نقشبندی کہ حضرت آخوند ملا نازک کے مرید تھے۔ فیضہ بابا صراف کدالی‘ بابا طاہر کانی کہ شاہ صادق کے مرید تھے۔ اور ان کے جذبہ سے ترک دنیا کی ایک مدت ان کی خدمت کی اور ان کی خلافت پائی شیخ عبداللہ خان بابو نور اللہ خلف بابا مجنون اپنے وقت کے کاملوںمیںسے تھے ملا طاہر بوجواری کبروی جو حضرت شاہ قاسم حقانی کے مرید خواجہ اسحاق ناوجود کہ صاحب ورع و علم تھے۔ سب پنج تا اور وہ تنہا یکتا کاملان وقت میں سے تھے۔ انہوں نے سادات کے احوال میں کتاب لکھی ہے۔ میاں حضرت میر سید بابا ویسی کے روضہ کے عقب میں واقع مقبرے میں آرام فرما ہیں ؟ مولانا محمد شریف اور خلفا ملا محمد مراد کثیر العلم فضلا میں سے ہیں ملا محمد طاہر تنگ مفتی ملا عبدالنبی‘ عبدالنبی مفتی‘ مولانا عبداللہ کائوسی کہ عالم بے مثل اور مدقق (باریک بین) بے نظیر تھے اورعلمی کمالات کے باوجود فن انشا پر بھی انہیں دسترس تھی۔ مولانا عبداللہ گنائی ‘ مولانامحمد امین قاضی۔ مولانا عبدالرزاق ‘ اور جبلی مفتی ان کے علاوہ وہ مجذوب حضرات جو اس دور میں اپنے ہم عصروں میں پوری طرح ممتاز تھے جیسے بربری شاہ ساکن مایہ سومہ جنہوں نے شیخ نور محمد پروانہ سے تصرف حاصل کیا تھا‘ ریشی بابا مجذوب حسن شاہ‘ مومن شاہ اور پیر بادشاہ کہ سبھی صاحبان حالات اور اہل خوارق و کرامات تھے۔ ٭٭٭ حکام کشمیر بعداز 1100/9-1688 1100ء تک کے کشمیر کے علماء و فقرا اور شعرا کا ذکر بقدر حال اور بطریق اجمال بیان ہو چکا ہے۔ اب لازم ہے کہ ان حاکموں اور ناظموں کے حالات تحریر کیے جائیں جو اس سن کے بعد حکومت و نظامات پر مامور ہوئے۔ مظفر خان شایستہ خان کا بیٹا حفظ اللہ خان کے تغیر پر صوبہ کشمیر کے منصب نظامت سے سرفراز ہوا 1101/90-1689میں مقام خدمت پر پہنچال۔ اس نے بہت سے برے افعال کا ارتکاب کیا کئی ایک عجیب بدعات کو رواج دیا جسے چوتھائی‘ زردام داری اور شکار وغیرہ وصول کیا۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ بالا دستی اور کئی قسموں کے ظلم و تعدی سے کام لیا۔ اس نے دو ایک برس ایسے ہی اعمال میں بسر کیے تاآنکہ دین پرور داد گستر بادشاہ کی عدالت سے اسے بلا لیا گیا۔ اور وہ دین دنیا کی بدنامی لے کر اس شہر سے دوسرے شہر بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی ابونصر خان یہاں کا حاکم مقرر ہوا۔ وہ 1103/2-1691میںاس عہدے پر فائز ہوا۔ اس کے پہنچنے تک ابوالفتح خان دیوان نے نیابت کی ۔ ابونصر خان کا عہد بھی اس کے بھائی سے کمتر نہ تھا۔ مشہور ہے کہ چوتھائی کی بدعت ا س کے دور میں اس حد تک پہنچ گئی کہ ایک شخص نے کسی دوسرے شخص پر کلام اللہ کا دعویٰ کر دیا۔ اثبا ت حق کے بعد کلام اللہ مسترد ٹھہرا چوھائی کے عوض اس قرآن کے چند سپارے کاٹ کر سرکار میں داخل کر دیے گئے۔ جناب قدوۃ الاولیا شاہ محمد علی رضا سرہندی فاروقی نے اس کے عہد میں کشمیر کو اپنے قدموںسے مزین کیا۔ اس کے دور میں رستم مانتو کو سب و شتم کے جرم میں بابا کی شہادت پر قاضی عبدالکریم کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔ ابو نصر خان کے عہدکے اوائل میں یا اس سے پہلے ابوالفتح دیوان کی نیابت کے دنوں میں رمضان المبارک 1103ء میں یہاں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا ۔ اجمال اس واقعے کا یہ ہے کہ میر حسین نامی ایک سردار وارد کشمیر ہوکر کوہ تخت سلیمان کے نزدیک سکونت پذیر ہوا۔ اس جگہ ا س نے تکیہ قرار دے دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بتدریج وہاں خاص و عام کی آمد و رفت شروع ہو کر مستقل ہو گئی۔ رمضان کے مبارک مہینے میں چراغاں کی تقریب سے اس نے دل میں ہنگامہ آرائی کا سوچا۔ شہر کے اکثڑ لوگ اسیر کے خیا سے اس تقریب کا نظارہ کرنے کشتیوں میں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ لوگوں کا ایک ازدحام ہو گیا او ربہت سی کشتیاں وہاں جمع ہوگئیں اور لوگوںنے بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ نماز پشیین کے بعد اچانک یا دو بار ان کا ظہور اور رعد و برق کا غلبہ اس حد تک ہوا کہ پورے شہر میں ایک انتہائی تاریک رات کی سی تاریکی چھا گئی۔ اور یہ صورت حال خاصی دیر تک رہی۔ تآنکہ لوگوںنے غروب آفتاب کے خیال سے روزہ افطار کر لیا۔ اور بڑے ذوق شو ق کے ساتھ کھانے وغیرہ تناول کیے۔ دو تین گھڑیوںکے بعد یہ دوباران تھم گئی اور آفتاب عالم نمودار ہو گیا۔ سبھی خجالت و شرمندگی کا شکار ہوئے۔ اس امیر میں جو ندامت اٹھانا پڑی اس کا باعث اس متبدع کے فعل شنیع کا قرار دیا گیا۔ اس کے نوکروں اور پیروکاروں نے اس کی وجہ معیشت (زندگی گزارنے کا وظیفہ) مقرر کرنے کے بارے میں ایک محضر تیار کر کے حضور بادشاہ بھجوا رکھا تھا‘ اسی دوران میں اس کے اس فعل شنیع کی خبر بھی عرض اعلیٰ تک پہنچ گئی۔ دین پناہ حق آگاہ بادشاہ نے عقبت بینی سے کام لیتے ہوئے اس کے اخراج کا حکم صادر کر دیا۔ صوبہ کے نائب نے حکم سلطانی وصول کرتے ہی اپنے آدمی بھیج کر اسے شہر بدرکر دیا۔ سبحان اللہ کیسی نیک اندیشی او رکیسی داد رسی تھی اور کس حد تک شرع کا اہتمام و اجرا تھا۔ ابونصر خان نے تقریباً چھ برس نظامت کے فرائض ادا کیے۔ فاضل خان: ابونصر خان کے تبادلے پر فاضل خان نے حکومت کشمیر سے سرفرازی پائی۔ اس فاضل خان کا نام میرزا برہان تھا اور یہ بھتیجا تھا فاضل خان خان سامان کا جو آخر میں وزیر بھی ہو گیا تھا۔ خان مذکور 1297-8/1109 کے اوائل میں کشمیر پہنچا۔ اس نے بڑے ہی احسان اور فیض بخشی کا سلوک کیا۔ علما مشائخ کو بہت اعزاز دیا؟ اور اکثر ان کے پاس آ بیٹھتا۔ اس نے سابق حکام کے بدعات و ظلم دور کیے۔ اس کے دور میں سید کے روز عید گاہ جاتے وقت شہسوار بیگ، داروغہ شاہی توپخانہ اور خواجہ محمد طاہر دہ بیدی کے مابین سابقہ بغض و غبار کے سبب کچھ باتیں ہوئیں۔ خواجہ محمد طاہر نے شہسوار بیگ کو عید ملنے کے بہانے سواری ہی پر قتل کر ڈالا۔ اسی لمحے شہسوار بیگ کے بھائی مومن بیگ شیر نے خواجہ محمد طاہر کو بھی مار ڈالا۔ الغرض فاضل خان نے اپنے دور میں سب لوگوں کو خیرات وظائف اور دیگر احسانات سے بہرہ ور کیا۔ اس نے اکثر مقامات پر مسجدیں، مسافر خانے اور سرائیں تعمیر کرائیں۔ اس نے حد بندیاں بھی کیں۔ باغات کی بہت زیادہ تزئین و ترمیم کی۔ اہل کشمیر کے لیے مناسب تجویز کیے اور دربار سے سبھی کی منظوری مل گئی۔ اہل کشمیر کی عام منصب داری گویا اس کے عہد میں ہوئی۔ اس نے رعایا کی بھلائی کی خاطر صوبہ داری کے ان مداخل (آمدنی) میں نمایاں خسارے قبول کیے اور انہیں معاف کر دیا جنہیں سابقہ حکام نے محصولات میں داخل کر رکھا۔ جیسے غلک (متفرق آمدنی کی صندوقچی) کا محصول جو ساٹھ ہزار تنکہ تھا، اور دام داری دیگر امور جن کی بنا پر لوگوں سے رقمیں وصول کی جاتی تھیں، اس نے وہ سب موقوف کر دیے۔ سد ہفت چنار، اور وہاں کی سرائے نیز خانقاہ حسن آباد، چوکی لنگر، مدرسہ اور پتھر کی نئی مسجد سے متصل حمام اس کے تعمیر کردہ ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی مواضع اس کے باقیات صالحات میں سے ہیں۔ وہ اکثر جمعہ کے روز مسجد میں اور بزرگوں کے مزاروں پر جایا کرتا۔ اس نے تین برس چھ ماہ اسی طور پر گذار کر خود ہی استعفیٰ دے دیا اور دربار کو روانہ ہو گیا۔ خان مذکور کے عہد میں خدائی برکات و عنایات میں سے اس نا متناہی فیض کا نزول ہوا جس سے بلدہ کشمیر نے اختصاص پایا اور وہ ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والصلوۃ والسلام والتحیتہ کے موے مبارک کا درود مسعود، جسے سراپا شرافت و سعادت خواجہ نور الدین المعروف ایثری ورینجا پور نے بڑی تگ و دو کے بعد حاصل کیا تھا۔ جب خواجہ مذکور کی وفات دربار میں ہوئی تو یہ تبرک عالی مقدار اور خواجہ کی نعش کشمیر لائی گئی۔ راقم حروف اس وقت کوئی سات آٹھ برس کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان نور برسانے والے آثار کے پہنچنے پر مسلمان کس جان نثاری کے جذبے سے جوق در جوق اکٹھے ہو کر ذکر و درود میں مشغول رہے تھے۔ تمام زن و مرد بھی بھرپور اخلاص و محبت سے جوش میں آئے ہوئے تھے۔ اس کثیر الانوار موے مبارک کا جس جس کوچہ و بازار سے گذر ہوا وہاں آدمیوں کا گویا ایک ٹھاٹھیں مارتا سیلاب تھا۔ عالموں، فاضلوں، مشائخ اور فقرا سبھی بڑے ذوق و شوق سے اس بات کی سعی و کوشش کر رہے تھے کہ اس محمل مبارک کو، جس پر وہ صندوقچہ دھرا تھا، اپنے سر اور کندھوں پر اٹھا لیں اور ہزار تگ و دو اور مشکل کے بعد ان کی باری آتی تھی۔ قلندر بیگ نے جو اس وقت کا ایک آزاد منش شاعر تھا، اس واقع کی یہ تاریخ منظوم کی: محتاجان رابوقت حاجت طلبی موی مدوست یا رسولؐ عربی تاریخ نزول بایکی ہاتف گفت ’’کشمیر مدینہ شداز موے نبیؐ‘‘ (1699-1700/111) (حضورؐ آپ محتاجوں کو حاجت کے وقت طلب فرماتے ہیں۔ یا رسول عربی یہ مدد کا بال ہے، ہاتف نے کسی سے اس کی تاریخ و رود ان لفظوں میں کہی کہ حضورؐ کے موے مبارک سے کشمیر مدینہ بن گیا ہے) سبھی اصحاب کمال اور ارباب حال اس سراپا انوار تبرک کی برکات و فیوض کے قابل بلکہ متفق ہیں۔ راقم حروف نے سراپا سیادت و کمالات خواجہ نور الدین محمد آفتاب نقشبندی کی جو خواجگان عالی شان کے بقایا میں سے ہیں، فضائل و شرافت کے مرتبے والی زبان سے براہ راست سنا کہ جناب ولایت وارشاد پناہ صاحب حالات صوری و معنوی خواجہ احمد یسوی نے، جو اس تبرک کی زیارت کے بعد ایک مدت تک مراقبے میں رہے تھے، فرمایا کہ حضور مقدس و معلا نبی اکرمؐ تشریف لائے تھے، اور استفسار کے جواب میں حضورؐ نے اپنی وحی نشان زبان سے اس تبرک کی کیفیت یہ بتائی تھی کہ یہ دائیں طرف کے مبارک گیسو کا بال ہے۔ اس قسم کا حکایات بہت ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا کتاب کی طوالت کا باعث ہو گا۔ ٭٭٭ ابونصر کے ابتدائے عہد سے فاضل خان کے اواخر دور تک کے فضلا و مشائخ: اس عرصے میں جو فضلا و مشائخ افادہ و استفادہ کے بازار میں سرگرم تھے، ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ اگر ان کی مدت ظہور کے بیان میں کسی قدر کمی بیشی ہو جائے تو امید ہے فن تواریخ کے پیروکار معذرت قبول کریں گے۔ شیخہ میر چوتاجو: صاحب استعداد فاضل تھے۔ جناب خواجہ حیدر چرخی اور خواجہ محمد تو بیکر وغیر ہم سے استفادہ کیا۔طویل عمر پائی آخری عمر تک فقر و قناعت اور دینی علوم کی تدریس میں مشغول رہے۔ فاضلی نے ان کی تاریخ وصال یوں کہی ہے: آفتاب فضل شد زیر زمین سال فوتش آہ ’’شیخ العالمین‘‘ ’’ آہ ‘‘ حساب میں ہے، یہ بنے 1699-1700/111 مولانا محمد امین گانی بلدیمری: نکتہ دان علما میں سے تھے۔ اکثر علوم میں ان کی مفید تالیفات ہیں۔ بعض متد اول کتب پر انہوں نے حواشی لکھے۔ علم فرائض سے متعلق نشر و نظم میں مختصر رسائل تصنیف کیے اور اپنے اوقات شریفہ توکل و قناعت اور علوم کی تدریس و بحث میں گذارے۔ اکثر محقق علمائ، جیسے ملا عنایت اللہ شال اور ملا محمد حسن ان کے شاگرد تھے۔ آخری عمر میں اپنی دو بیٹیوں کے جہیز کی خاطر، جو حد بلوغ کو پہنچ چکی تھیں، ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ دونوں بیٹیوں نے غلطی سے کوئی زہریلی دوا پی لی اور مر گئیں۔ انہیں (مولانا کو) دہلی میں عالم خواب میں یہ بشارت دی گئی کہ ہم نے تیری مہم کی کفایت کر دی ہے، واپس کشمیر چلا جا اور علم کی تدریس میں مشغول ہو جا۔ (192) چنانچہ وہ ہند سے کشمیر لوٹ آئے، جہاں رمضان کی لیلتہ القدر میں رحمت حق سے جا ملے 1109اپریل1298میں ظرافت طبع سے خالی نہ تھے۔ مشہور ہے کہ جب قاضی عبدالکریم ہند کے سفر سے لوٹے اور کشمیر کا عہدۂ قضا لے کر آئے تو ملا محمد امین ان کی ملاقات کو گئے۔ طویل مفارقت کے سبب انہوں نے بظاہر نہ پہچانا لیکن پہچان لینے کے بعد معذرت کی۔ مولانا نے کہا کہ آپ معذور ہیں کیونکہ ’’ اذا جاء القضا عمی البصر‘‘ (جب قضا آ جاتی ہے تو نظر اندھی ہو جاتی ہے) خواجہ عبدالرزاق کبروی: حضرت خواجہ محمد بزاز کے فرزند ارجمند ہیں جو جناب حضرت شیخ موسیٰ کبروی کے خلفا میں سے تھے۔ عبادت اور خدا پرستی میں طویل عمر پائی اور محلہ پلمر میں واقع اپنے والد بزرگوار کی خانقاہ کو آباد رکھا۔ 1702-3/114میں رحلت فرمائی۔ چونکہ خانقاہ معلی کے صحن میں واقع اس خاندان کے خلفا کے مقبرے کے چبوترے پر جگہ نہ تھی، اس لیے انہیں ان کے اپنے مسکن میں دفنا دیا گیا۔ ’’مرشد کشمیر‘‘ (1702-3/114) تاریخ وفات ہے۔ ملا طاہر کوجائی: مولانا محمد حیدر چرخی کے خاندان سے علم حاصل کیا۔ تھوڑی ہی مدت میں ہمعصروں سے آگے نکل گئے۔ علمی شان کے ساتھ ساتھ ورع و تقویٰ سے بھی بہرہ ور تھے۔ قاضی محسن اندر واری: قاضی موسیٰ شہید کی اولاد میں سے اور خاندان علم و ادب سے ہیں۔ علم معقول و منقول میں اپنے معاصرین میں ممتاز تھے اور اکثر اوقات علم کی تدریس کرتے اور اس (علم) میں مشغول رہتے۔ بلند استعداد کی حامل طبع پائی تھی۔ ملا یوسف گنائی: گنائی قبیلے سے ہیں جو کشمیر کے مشہور قبائل میں سے ہے۔ کس قدر تحصیل علوم وطن میں کی۔ فرط شوق کے سبب سفراختیار کر کے صوبہ لاہور میں بعض گنائی فضلا کی خدمت میں پہنچے اور ان کی صحبت سے مستفید و بہرہ ور ہوئے، اس طرح ہم عصروں پر تفوق حاصل کر گئے۔ روشن کمالات کے ساتھ کشمیر واپس آئے اور یہاں افادہ و اضافہ میں سرگرم رہے۔1295-6/1107میں رحلت کی۔ ملا عبدالرحیم فضو: علوم رسمی سے ضرورت کے مطابق بہرہ ور ہو کر کشمیر سے نکلے رفتہ رفتہ دربار پہنچ کر شاہی ملازمت سے باریاب ہوئے اور ظل سبحانی کے حکم پر یکہ تاز خان نثار خان، میر تونک دربار کی تعلیم و تربیت سے روشناسی کا مرتبہ حاصل کیا۔ انہی دنوں خان مذکور کو ماوراء النہر کے والی عبدالعزیز خان کے پاس سفارت پر روانہ کیا گیا۔ مولوی بھی ان کے ہمراہ گئے۔ بقیتہ الاسلام بخارا پہنچے اور وہاں عالموں کے عالم سید ناو مخدومنا (ہمارے سردار اور ہمارے مخدوم) مولانا محمد شریف الکجکینہ کی خدمت میں وہاں کے بادشاہ کے حضور مباحثہ کیا اور بحث میں وہاں کے اکثر علماء پر غالب آئے۔ وہاں مولانا کی سرا سر افادہ کی حامل ذات کی خدمت سے ایک مدت تک بہرہ ور رہے۔ جب کشمیر واپس آئے تو حضرت خواجگان کی خانقاہ میں تدریس میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے 1695-6/1107 میں رحلت فرمائی۔ میر خدا داد: میر شمس الدین نوشہروی کے فرزند، عالی درجات سادات میں سے ہیں۔ جب ان کے حق منزل ’’ دل میں راہ حق کے سلوک کا ذوق جا گزیں ہوا تو وہ مولانا مہدی علی کبروی کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عبادت و خدا پرستی پر کمر ہمت باندھ لی، اور فقر و فاقہ کے ساتھ ساتھ ریاضات شاقہ عمل میں لائے۔ خلق معنوی کے ساتھ ساتھ کشادہ روئی اور صوری قبولیت کے بھی مالک تھے۔ ان کی بیٹی کی نسبت عقد سید محمد فاضل قادری سے ہوئی تھی۔ میر مذکور نے 1697-8/1109 میں رحلت فرمائی۔ اپنے گھر کے قریب جو نوشہرہ کے محلات میں سے ہے، دفن ہوئے۔ ان کی خانقاہ اور مسجد وہیں ہے۔‘‘ ملا عبدالشکور پتلو: اس شہر کے تاجروں میں سے تھے (دوران جوانی میں کہ کامرانی کا زمانہ ہوتا ہے، تحصیل میں مشغول ہوئے اور حضرت خواجہ حیدر چرخی کے اخلاق اور دیگر فضلا کی خدمت سے استفادہ کیا۔ تھوڑی ہی مدت میں علوم کی دقالیق و حقائق تک ان کی رسائی ہو گئی۔ اکثر منقولات کے درس میں مشغول رہتے۔ علمی کمالات کے ساتھ ساتھ صلاح و تقویٰ کے مراتب سے بھی آراستہ تھے۔ اکثر اعمال میں احتیاط سے کام لیتے۔ عالمگیر بادشاہ نے جو رقم علما میں تقسیم کرنے کے لیے کشمیر بھیجی تھی، اس پر انہوں نے ہمت سے کام کیا اور حصہ قطعاً قبول نہ کیا۔ 1700-1/1112 میں ہفتہ کے روز رحلت فرمائی۔ دور ابراہیم خان: فاضل خان کے استعفیٰ کے بعد ابراہیم خان تیسری مرتبہ نظامت کشمیر سے سرفراز ہوا۔ مشہور ہے کہ اثنائے راہ میں فاضل خان جارہا اور ابراہیم خان آ رہا تھا دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ وقائع نگار خواجہ علی اکبر وہاں موجود تھا۔ اس نے یہ شعر پڑھا: عید رمضان آمد و ماہ رمضان رفت صد شکر کہ این آمد و صد حیف کہ آن رفت (عید فطر آ گئی اور ماہ رمضان چلا گیا۔ صد شکر کہ یہ آ گئی اور صد افسوس کہ وہ چلا گیا) مختصر یہ ہے کہ اس مرتبہ ابراہیم خان نے رفاہ عوام اور رعایت رعیت کے کاموں میں بڑی کوشش کی۔ عوام الناس کو سابقہ دور کا تدارک کرتے ہوئے، خود سے راضی کیا اور شیعہ و سنی کی تخصیص میں ذرا اتفاوت نہ مرتا۔ اس کے دور میں تین واقعات رونما ہوئے۔ ایک تو پرگنہ کا مراج میں ایک ایسے شخص کا ظہور ہے جو صورت میں عالمگیر بادشاہ کے بھائی شاہ شجاع بہادر جیساتھا۔ جب اسے ابراہیم کے پاس لایا گیا تو اس نے اسے دیکھتے ہی جانے کی اجازت دے دی۔ وہ معمر اور بوڑھا تھا۔ کہتے ہیں ابراہیم خان نے اس کے اندیشے کے پیش نظر خود تجاہل سے کام لیا۔ دوسرا واقعہ والی کاشغر عبداللہ خان کے بھتیجے ارسلان خان کی آمد ہے، جو اپنے بیٹے کی بغاوت کے بعد دربار (مغلیہ) میں چلا آیا تھا۔ دین پرور بادشاہ کے حکم پر مذکورہ خان کاشعر کی تسخیر کے لیے 1701-2/1113میں کشمیر پہنچا۔ ’’ خان عالی شان ‘‘ (1113) اس کی تاریخ ورود ہے۔ جب (کسی وجہ سے) وہ ناظم سے ناراض ہوا تو ناظم نے اس بہت بڑی مہم پر نکلنے اور تسخیر کے سلسلے میں اس مختلف دشواریوں اور نظم و ضبط سے متعلق معذرت کے ساتھ ساتھ کاشغر کی قلت آمدنی کے بارے میں بادشاہ کو لکھ بھیجا اور یہ معاملہ موقوف کرا دیا۔ دستخط خاص کے ساتھ یہ جواب آیا کہ: مرد آخر بین مبارک بندہ الیت (آخرت کا دھیان رکھنے والا مبارک انسان ہے) اور ارسلان خان کابل کی افواج پر، کہ شاہ معظم بہادر شاہ فرماں روا تھے، متعین ہوا۔ تیسرے یہ کہ راجور کے رفع ہنگامہ کے بعد وہاں کے راجہ زادہ کو طلب کر کے اسے حلقہ اسلام میں لے آیا اور اس کا نام لطف اللہ رکھا۔ دیگر یہ کہ عبدالرزاق کے والد پریہت سید عبدالفتاح گوجر کو جس نے انہی دنوں شورش و سرکشی اختیار کر رکھی تھی، گرفتار کرنے کے بعد ذلت و خواری کے ساتھ مقید کر دیا۔ اس دور میں اس (ابراہیم خان) کی داد رسی اور ملکی امور میں رسائی سے متعلق کئی حکایات مشہور ہیں، جن کا بیان کرنا کتاب کی طوالت کا باعث ہو گا۔ مختصر یہ کہ ابراہیم خان نے کچھ اوپر پانچ برس یہاں حکمرانی کی۔ شاہزادہ بیدار بخت کے تغیر پر وہ احمد آباد کا ناظم مقرر ہوا اور اس کی جگہ کشمیر میں نوازش خان رومی کا تعین ہوا۔ اس کی نہابت مشرف خان مرحوم المشہور ملا اشرف کے سپرد ہوئی، جو صدر اور دیوان تھا اس نے پہنچنے میں بہت تاخیر کر دی۔ چونکہ موسم سرما کے آخری ایام تھے، اس لیے اس نے بارہ مولہ کا راستہ اختیار کیا۔ ابھی وہ شہر میں داخل بھی نہ ہوا تھا کہ بادشاہ حق پذیر عالمگیر کی رحلت کی خبر آ پہنچی اور سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔ چونکہ عبرت رقم قلم احوال نگاری میں بے اختیار ہے اور مناسب حال بھی یہی ہے کہ بادشاہ دین پناہ کے کچھ احوال تحریر کر دیے جائیں۔ ان (عالمگیر) کی ولادت 1618/1027میں ہوئی۔ ’’ آفتاب عالم تاب ‘‘ 1027تاریخ ولادت ہے۔ سن تمیز کی ابتدا ہی سے کمال رشد ، حسن تدبیر، شجاعت و دلیری، علم و صلاح، حق پرستی اور متانت رائے ان کی عالم آرا پیشانی سے ظاہر و ہویدا تھی۔ شاہزادگی کے زمانے میں انہوں نے ایسے ایسے کارہائے عمدہ انجام دئیے جن کا احاطہ کرنا عقل کے بس کی بات نہیں، جیسے تسخیر بلخ، فتح قندھار اور ممالک دکن کی اصلاح، جس پر کئی عالی قدر شاہزادے اور شجاعت شعار امرا متعین ہوئے اور وہ مدتوں وہاں زور و زر صرف کرنے کے باوجود معاملہ سلجھا نہ سکے اور مایوس ہو کر لوٹ آئے، انہوں (عالمگیر) نے رب العباد کی تائید یاوری بخت اور خدا داد عقل سے تھوڑی ہی توجہ کے ساتھ تمام مشکل امور کو بطریق احسن آسان فرما دیا۔ خاص و عام کی زبانوں پر مشہور اور کتاب ’’ ماثر عالمگیری‘‘ میں مذکور ہے کہ تسخیر بلخ کے موقع پر والی توران کے ساتھ اس کی فوجیں صفیں آراستہ کئے ڈٹی ہوئی تھیں۔ وقت ظہر (عالمگیر) ہاتھی سے اتر کر خیمہ میں گئے اور بڑے اطمینان حوصلہ کے ساتھ نماز ادا کی اللہ والوں کے پیشوا خواجہ عبدالغفار دہ بیدی نے یہ حکایات نقل کی ہیں جو نماز میں ان کے ساتھ تھے۔ ان (عالمگیر) کی اجنبی ملک میں (نماز کے دوران) کمال حضوری اور ثبات قلب پر اور وہ بھی شدید حرب و قتال کے وقت اور عالم جوانی کے باوصف، کہ اس وقت ان کی عمر شریف کوئی تیس برس ہو گی، وہ (خواجہ غفار) ایک مدت تک حیرانی اور تعجب کا اظہار فرماتے رہے۔ اس صورت حال کے معلوم ہونے پر والی توران چکرا کے رہ گیا اور صلح پر راضی ہو گیا۔ آیات بینات (روشن نشانیوں) کے اس مظہر (عالمگیر) سے متعلق اس قسم کی بہت سے حکایات ہیں۔ الغرض سن شریف اکتالیس کو پہنچا تھا جب وہ تخت سلطنت جلوس فرما ہوئے۔ خود اس کی تاریخ کہی: ’’ آفتاب عالمتاب‘‘ بھائیوں اور بعض فرزندوں سے نپٹ کر جو سرکش کا خیال رکھتے تھے اورانہیں صحیح طور پر تنبیہہ کرنے کے بعد انہوں نے امور سلطنت کی بنیاد بیشتر شریعت غرا کے احکام پر رکھی اور عدل و انصاف کی پوری پوری ترویج کی۔ قدیم بری بدعتوں کو مٹایا اور بڑی حد تک شرعی مقدمات وضع فرمائے۔ سلطنت عظمیٰ کے عروج کے وقت بھی زہد و تقویٰ پر کاربند ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ اور مذاکرہ اور راہ یقین کے وظائف سے کبھی فارغنہ رہے۔ اس دین پناہ بادشاہ کے خیر و برکات کے تمام آثار میں سے ایک ’’ فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی ترتیب ہے جو اس وقت کے تمام علماء کے اجماع سے اور بہت بڑی رقم کرچ کر کے تیار کی گئی۔ اس بے نظیر کتاب میں فقہی مسائل جمع کئے گئے ہیں اور اس نے اس ضمن میں تقریباً سبھی کو مستغنی کر دیا ہے۔ کوئی دو لاکھ روپیہ اس عظیم کتاب پر اٹھا۔ کچھ عرصہ تک کلام مجید کی کتابت سے اپنی روزی کا سامان کرتے رہے۔ آخر میں علما و امرا کی تجویز پر زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جدا کر کے اس کے حاصل سے اپنے کھانے پینے اور لباس کا بندوبست کیا۔ حیدر آباد اور سی پور کی تسخیر کے بعد ممالک دکن کے آخر تک قلع فتح کیے۔ کفار کے ساتھ جہاد فرمایا اور ہمیشہ شہادت کی آرزو کرتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں جب وہ اکانوے برس کے ہو چکے تھے، سلطنت کے ضوابط، امور ملت کی مراعات، زہد و تقویٰ کے اعمال اور مشائخ و علما کے احترام میں کوئی بھی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے۔ مقام شناسی اور قدر دانی کے ارادے سے سادات عظام، مشائخ کرام اور علما کے اعزاز و احترام کے تمام طور طریقے بروئے کار لاتے۔ دینی مراتب میں بہت ہی مضبوطی سے متصف تھے۔ امام اعظم ابو حنفیہ رضی اللہ عنہ کے مذہب حنیف (جس میں کوئی کجی نہ ہو)، (راست) کے مطابق فرض شدہ نمازیں اول وقت مسجد میں اور غیر مسجد میں باجماعت اور تمام سنتوں، نفلوں اور مستجات کے ساتھ، پورے خشوع و خضوع سے ادا کرتے۔ ہمیشہ وضو کے ساتھ کلمہ طیبہ کا ذکر کرتے اور اذکار اور ماثورہ دعاؤں میں رطب اللسان رہتے۔ دن کے وقت بالخصوص جمعرات، سوموار اور جمعہ کو روزہ سے رہتے اور نماز جمعہ عام مسلمانوں کے ساتھ جامع مسجد میں ادا کرتے۔ متبرک راتوں میں شب زندہ داری کرتے۔ انتہائی حق طلبی کے سبب راتوں کو دولت خانہ کی مسجد کے محراب میں اہل اللہ کے ساتھ نشست جماتے۔ خلوت میں مسند پر کبھی تکیہ نہ فرماتے۔ ہر سال شرعی زکوۃ اس رقم پر، جو باعظمت تخت نشینی سے قبل عدم شبہہ سے صرف خاص کے لیے میسر آئی تھی، پھر اس آمدنی پر جو ایام سلطنت میں دارالخلافہ کے کچھ مواضع الگ کرنے کے باعث اور دو تین نمک کی کانوں سے ہوتی، ادا کرتے۔ زکوۃ کی رقم حق داروں میں تقسیم کرتے۔ اپنے بال بچوں کا بھی حساب کر کے مستحقین تک پہنچا دیتے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں سنن تراویح اور کلام مجید فرقان حمید کا ختم جماعت کے ساتھ ادا کر کے آدھی رات صلحا اور فضلا کی جماعت کے ساتھ مشغول گفتگو رہتے۔ رمضان کے آخری دو عشرے مسجد میں معتکف رہتے۔ مناسک حج کی ادائیگی، کہ اس قدسی صفات دل کی انتہائی آرزو رہی، اگرچہ بعض موانع اور رکاوٹوں کے سبب ظاہری طور پر پردہ توقف میں رہی، تاہم اس کے تدراک میں حرمین محترمین کے نمازیوں کا اس قدر دھیان رکھتے کہ وہ گویا حجاب کبریٰ کی صورت ہو سکتا تھا۔ دوران سلطنت میں کبھی ہر سال اور کبھی دو تین سال بعد حرمین شریفین کے مجاوروں کے لیے بڑی بڑی رقمیں بجھواتے اور بہت سے لوگوں کو ان بقہ ہائے عظیم میں نہابت کے طور پر طواف و حج، سلام رسانی اور قرآن مجید جو اس حقائق آگاہ بادشاہ کے ہاتھ سے لکھا ہوا مدینہ منورہ میں موجود ہے کی تلاوت اور دیگر عبادات ادا کرنے کے لیے وظیفے دیے جاتے تھے۔ صبح پوری طرح طلوع ہونے کے بعد سے آنحضرت ہر قسم کے لہو و لعب اور مناہی سے اجتناب برتتے۔ انہوں نے انتہائی عفت نفس کے سبب سوائے ازواج محترمہ کے کسی سے مقاربت نہ کی، حالانکہ پایہ خلافت میں بزم آرایان نشاط اور نشاط افزایان بساط انبساط، جیسے مطربان خوش آواز اور سازندہ ہائے دلنواز موجود تھے۔ ہاں اوائل جلوس میں کبھی کبھی سامعہ افروز طرب (موسیقی) ہوا کرتے اور اس فن کی باریکیوں سے پوری طرح آگاہ تھے۔ تاہم (بعد میں) انتہائی ورع و پرہیز گاری کے سبب سماع موسیقی سے احتراز کلی کرنے لگے اور نغمہ سراؤں، گویوں اور مطربوں میں سے جو کوئی بھی تائب ہوتا اسے مدد معاش کی زمین سے روزینہ دے کر خوش کر دیتے، کہ حق سے واصل لوگوں نے نا مشروع لباس پہن رکھا تھا۔ انہوں (عالمگیر) نے سونے چاندی کے ظروف قطعاً استعمال نہ کیے اور نہ کبھی ان کی ’’قدس منزل‘‘ محفل میں ناشائستہ باتیں جیسے غیبت خبث اور جھوٹ سنی گئیں۔ سراپا سرور حضور کے استادگان کو یہ تلقین تھی کہ وقت عرض جس لفظ میں غیبت کا شائبہ ہو اسے اچھی عبارت میں بیان کیا کریں اور عدل و انصاف کے ایوان میں کشادہ پیشانی اور نرم خوئی کے ساتھ ہر روز دو تین مرتبہ اٹھ کر مدعیوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر بارگاہ معدلت میں آنے دیں۔ آنحضرت کی انتہائی توجہ کے سبب (مدعی) کسی خوف و ہراس کے شائبہ کے بغیر اپنا مدعا بیان کرتے۔ اگر ان سے بیان میں طوالت اور مبالغہ یا خارجی آواز سر زد ہو جاتی تو قطعاً ناراض نہ ہوتے۔ کئی مرتبہ حضور پر نور کے باریافتگان نے گستاخیوں سے منع کرنے کے متعلق خدمت اقداس میں عرض کیا۔ فرمایا کرتے کہ اس قسم کے کلمات سننے اور ایسے امور کے واقع پذیر ہونے سے نفس کو تحمل کا ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ آنحضرت سے کبھی کوئی ایسا امر سر زد نہ ہوا جو رفاہ عامہ سے خالی ہو۔ اہل فحاشی کو پایہ تخت سے باہر نکال دیا گیا، اور پورے ملک اور تمام ممالک محروسہ کے اطراف و اکناف میں اس حکم کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ تمام خواص و عوام پر احتساب کا عمل پوری طرح لاگو تھا۔ کبھی قوت غضب اور نفس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر کسی انسان کی زندگی کی بنیاد ڈھانے اور ویران کرنے کا حکم نہ فرماتے، اور کسی کو بھی اس کی جرات نہ تھی۔ آنحضرت کے سراپا فیض باطن کے طفیل ہندوستان کے بیشتر علاقے میں دین حنیف اور ملت میف (عظیم) نے اس قدر قوت و ترویج پائی کہ اس سے پہلے کسی بھی فرمانروا کے دور میں ایسی صورت نہ بن پائی۔ کفار کی تمام عبادت گاہیں اور ان شریروں کے بڑے بڑے بت خان، کہ عقل ظاہر اس قسم کے دشوار کاموں کی پیش رفت سے اندر ہی اندر متحیر تھی، ڈھا دئیے گئے اور ان کی جگہ عالیشان مسجدیں تعمیر کر دی گئیں۔ آنحضرت ان کفار کو، جو خوش بختی کی رہنمائی میں، شرف اسلام کے انوار کی خاطر ’’ ہدایت ظہور‘‘ حضور میں آتے، کلمہ طیبہ کی تلقین خود فرماتے اور انہیں خلعتوں اور دوسری عنایات سے بامراد کرتے۔ سلطنت کے درمیانی دور میں ہندوؤں سے جزیہ کا حصول روشن شریعت کے مطابق قرار پایا چنانچہ ممالک محرومہ میں اس پر عمل کیا گیا۔ اس قسم کی عجیب اچھی باتیں ہندوستان میں کسی بھی زمانے میں وقوع پذیر نہیں ہوئیں۔ خیرات و صدقات اور وظائف وغیرہ کے عمدہ کام اس قدر انجام دیے جاتے تھے کہ گذشتہ ملوک و سلاطین سے ان کا عشر عشیر (1/10) بھی نہ ہوا ہو گا۔ رمضان کے مبارک مہینے میں ساٹھ ہزار روپیہ اور دوسرے مہینوں میں اس سے کمتر رقم مستحقین میں بانٹ دی جاتی۔ پایہ تخت اور دوسرے شہروں میں کئی جگہوں پر عاجزوں اور مسکینوں کے لیے خوراک کا بندوبست تھا۔ جہاں کہیں مسافروں اور آنے جانے والوں کے عارضی قیام کی خاطر کوئی سرائے وغیرہ نہ تھی، وہاں سرائے بنائی گئی۔ ممالک محروسہ کی مساجد کی مرمت کا کام اور امام، موذن اور خطیب کا تعین فیض آثار سرکار کی طرف سے ہوتا، اور اس پر زر کثیر اور مبلغ خطیر خرچ آتا۔ اس وسیع مملکت کے تمام شہروں اور قصبوں میں فضلا اور مدرسین کو مناسب وظیفے دئیے جاتے۔ طالبان علم کے لیے، ہر کسی کے حسب حال اور استعداد کے مطابق، رقوم معیشت مقرر فرما رکھی تھیں۔ غلہ والوں اور دیگر سب اموال سے، بالخصوص تمباکو سے حاصل ہونے والا ٹیکس جس کی بہت بڑی رقم بنتی تھی، اور اس کا عملہ تمباکو چھپا کر لانے کے احتمال پر لوگوں کے ساتھ عجیب طرح کا ناروا سلوک کرتا تھا۔ تمام ممالک محروسہ میں مسلمانوں کو خاص طور پر معاف کر دیا اس کے علاوہ بعض دوسری رقوم جو لوگوں کے آباؤ اجداد کے ذمے تھیں عام رعایا کو معاف کر دیں جو سالانہ تیس لاکھ روپے سے زیادہ بنتی تھیں، پھر بڑے امرا کے اثاثوں کی ان کے اخلاف کو واگذاری، جن میں سرکار معلی کے کسی مطالبے کا عمل دخل نہ ہو، حالانکہ گذشتہ سلاطین کے دور میں شاہی پیش کار ان اثاثوں کو پوری طرح ضبط کر لیا کرتے تھے۔ اس فرشتہ صفت بادشاہ کے فیوض و برکات اور ملکات (لیاقتوں، اہلیتوں) کا ذکر کہاں تک تحریر میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ جو اس قدر لکھا گیا ہے تو یہ قطرہ ہے سمندر سے اور ذردہ ہے صحرا سے۔ اس ’’ معدلت انصاف‘‘ بادشاہ کے احسان و انصاف کی دو تین داستانیں یادگار کے طور پر رقم کی جاتی ہیں: جن دنوں بلند مرتبہ پرچم، افغانوں کی شورش دور کرنے کی خاطر حسن ابدال کی جانب لہرا رہے تھے، مستعد خان محمد ساقی تاریخ نویس بھی مقرب الخاقان بختاور خان کی رفاقت کے لیے لشکر میں موجود تھا۔ا س نے جو حکایت (اس موقع پر) لکھی ہے وہ اسی کے لفظوں میں یہاں تحریر کی جاتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ دو تین روز کے بعد جب باغ حسن ابدال سراپا کرامت ورود کے باعث دولت و بخت والے درختوں کا بہشت اور اقبال و افضال کے بہارستان کی صورت اختیار کر گیا تھا، راقم کے بعض آدمیوں نے شکوے کے انداز میں یہ بات بتائی کہ شاہی دولت خانہ کی دیوار کے نیچے ایک بڑھیا نے پن چکی لگا رکھی ہے اور وہ اس پانی سے چلتی ہے جو باغ سے نکل کر نالے میں جا ملتا ہے۔ چونکہ وہ جگہ عملہ آبداری کے اہتمام سے متعلق ہے، انہوں نے پشتہ لگا کر پانی بند کر دیا ہے، اس سے لوگوں کو آٹے کی بہم رسائی بھی متاثر ہوئی ہے اور اس بڑھیا کی روزی بھی بند ہو گئی ہے۔ بندے نے بے ارادہ یہ بات ’’ خان توفیق نشان‘‘ بختاور خان سے کر دی۔ جب وہ حضور پر نور میں گئے تو انہوں نے جناب اقدس سے وہ بات عرض کر دی۔ ’’ شفقت ترجمان، نمونہ رحمت رحمان ‘‘ زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے تم خود جا کر پانی کا راستہ کھول دو اور پابندی لگا دو کہ کوئی بھی اس بڑھیا کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔ چنانچہ حکم کے مطابق عمل کیا گیا۔ر ات کوئی ڈیڑھ پہر گذرنے کے بعد خان گھر آئے، اور حضرت کھانے پر بیٹھے۔ انہوں نے فضلائے کرام کے سرگروہ شیخ نظام، کہ وہ بھی باریاب حضرات میں سے تھے، کہ بیٹے شیخ ابو الخیر کو کھانے کے دو قاب اور پانچ چھ اشرفیاں دے کر فرمایا کہ بختاور خان کے پاس جا، اسے اس بڑھیا کہ گھر کا پتا ہے، وہ تیری رہنمائی کرے گا۔ اس ضعیفہ کو ہمارا سلام پہنچا اور ا س سے معذرت کر کہ تو ہماری ہمسایہ ہے، ہمارے آنے سے تجھے تکلیف پہنچی۔ ہمیں معاف کر دے۔ شیخ خان کے پاس آیا۔ پوچھتے پچھاتے پیادے کو پتا چل گیا کہ دوسرے پشتے پر ایک گاؤں واقع ہے، وہاں اس عورت کی جھونپڑی ہے آدھی رات کے وقت وہ شیخ کو لے گیا۔ دروازہ کھٹکھٹا کر بڑھیا کو جگایا اور معذرت و معافی کے مراتب بجا لائے گئے۔ اگلے روز دربار خان ناظم کو حکم ہوا کہ وہ پالکی بھیج کر اسے بلوا لائے اور محل میں بھیج دے۔ وہ بڑھیا ساری عمر پالکی میں نہ بیٹھی تھی اور نہ کبھی چاندی کا تکیہ ہی اس نے دیکھا تھا۔ بہرحال اسے لایا گیا۔ حضرت نے اس کے حالات پوچھے۔ اس نے عرض کیا کہ اس کی دو کنواری لڑکیاں اور دو ننے سر ننگے پاؤں بیٹے ہیں۔ اس کا شوہر بھی زندہ ہے۔ اسے دو سو روپیہ عطا کیا۔ دو راتیں وہ محل میں رہی وہ لوگوں کے لیے عجوبہ بن گئی۔ اس نے سب نقدی، زیور اور لباس حاصل کیا۔۔۔۔ چونکہ اس نے کسی سے سن لیا تھا کہ میری وجہ سے وہ بختاور خان تک پہنچی، اس لیے وہ میرے تنبو کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے کندے پر دو شالہ تھا، کناری والے دامن کی پیشواز جسم پر، سر پر زری کی چادر، کمخواب کی شلوار، جھولی اشرفیوں اور روپوں سے پر، سونے کے زیور سے بازو کئی جگہ سے خم کھایا ہوا اور آنکھیں آشوب کا شکار۔ میں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ وہ بولی میں وہ ہوں جو تیری اور تیرے خان کی بدولت اس دولت تک پہنچی۔ میں نے کہا مبارک ہو ۔ میں اسے خان کے پاس لے گیا انہوں نے بھی کچھ مہربانی کی دو تین روز کے بعد ناظر کو حکم ہوا کہ اس بڑھیا کو بیٹیوں سمیت لایا جائے۔ خواجہ سرا پالکیاں لے کر گئے اور انہیں لے آئے۔ اس مرتبہ ایک ہزار روپیہ کنیا دان (جہیز) مرحمت ہوا۔ محل کے لوگوں نے اس سے دو گنا نقد و زیور اور انواع پوشاک دیں او راس کے ساتھ اس نواح میں لگانے کے لیے ایک اور پن چکی عنایت ہوئی۔ ناظر کو اس بات پر مامور کیا گیا کہ وہا س کے لیے ہر قسم کے ٹیکس سے معافی اور تمام ممنوعات سے عدم مزاحمت کی اسناد تیار کر کے اسے پہنچا دے۔ طبیب اس کی آنکھوں کے علاج کے لیے اس کے گھر جاتا رہا۔ اس کے بعد اسے شہزادہ محمد سلطان، محمد اعظم، محمد اکبر اور اسعد خان ویلنکتوش کے گھر لے جایا گیا۔ وہ معزز دولمتندان معتبر میں شمار ہونے لگی اور اس نے لڑکیوں کی شادی بھی کر دی۔ اس کے ننگے بدن بیٹے زر بفت لباس پہننے لگے۔ اس کے شوہر میں جوانی کی سی ترنگ اور تاب و تواں آ گئی اور اس نے گاؤں والوں میں شیخ و پیشوا کا نام پایا۔ یہ قول کہ ’’ شباب لوٹ کر نہیں آتا‘‘ بلاشبہ درست سہی لیکن یہ یقینی مشاہدہ ہوا کہ زلیخا نام کی یہ بڑھیا، یوسف زماں کی بدولت پھر سے جوان ہو گئی۔ بلامبالغہ اس کے چہرے کی جھریاں صاف ہو گئیں اور اس میں چمک پیدا ہو گئی۔ اس کی آشوب زدہ آنکھوں میں روشنی آ گئی۔ ہاں ! دونوں عالم کے ثروتمندوں نے ٹھیک فرمایا ہے کہ بے دولتوں سے بھاگ، تیر کی مانند صاحبان دولت کے کوچ میں ٹھکانہ کر ۔ اختتام۔ مذکورہ مورخ، خان ہی نے تاریخ ماثر عالمگیری میں اس صورت حال پر لکھا ہے کہ جب دکن کے بعض قلعوں کی تسخیر کے موقع پر شدید بارشوں اور طغیانیوں کے باعث اکثر شاہی لشکر تلف ہو گیا تھا تو اسی حالت میں غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کی افواج غلہ رسد لے کر مدد کو پہنچی تھیں۔ یہ چار کوس کی منزلیں طے کرنے کے دوران میں، ایک جریب کی مسافت تک از ابتدا تا انتہا دو رویہ، غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کے لشکر کے دلیر، بادشاہوں کے بادشاہ، سلاطین زماں کے قبلہ (عالمگیر) کی آفتاب کا سا منظر رکھنے والی نظروں کے سامنے سے گزرے۔ خان مذکور نے محلہ کو اسلام پوری سپہ سالارون نے ہر قسم کے بہت سے نذرانے بھیجے تھے، ان سب میں سے صرف ایک خنجر کو شرف قبولیت ملا اور اس کا نام ’’ غازی بچہ‘‘ مقرر ہوا۔ اکثر تو پخانہ بحق سرکار والا ضبط ہو گیا۔ اور قضا کے سے دستخط والے حکم کے مطابق یہ روشن ضابطہ نافذ ہوا کہ امرا اس سے زیادہ توپخانہ نہ رکھا کریں۔ اس ضمن میں ارشاد کا سا مواد رکھنے والے حکم کے مطابق دستخط خاص کے ساتھ جو عبارت شاہزادہ بیدار بخت بہادر کو لکھی گئی، اس کو یہاں نقل کرنا عین مناسب ہو گا۔ خان فیروز جنگ نے جو ہفت ہزاری ہے اپنے گھر سے اسلحے کی جو نمائش کی ہے۔۔۔۔۔۔توپ، کچنال، شترنال (چھوٹی توپ اور گہور نال ۔۔۔۔ اور دوسرا بہت سا اسلحہ، کہ سرکار شاہی کی طرف سے مقرر کردہ حد سے ہٹ کر ہے اس کے پاس تھا: تم کیوں اس سے دو گنا پاتے ہو، پیسا ضائع کرتے ہو۔ بے مصرف صرف کر رہے ہو، شعر: آنچہ درکار بود ساختنش خود بازیست اند کی ماندہ (و) خواجہ غرہ ہنوز (؟) ہیچ کس نیست کہ در فکر دل خود بادشد عمر مردم ہمہ در فکر شکم فی گذردد (جو کچھ درکار ہو اسے اڑا دینا بھی خود فریبی ہے۔ تھوڑا سا رہ گیا ہے اور خواجہ ابھی تک ناتجربہ کار ہے (؟) کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو (تعمیر) دل کی فکر میں ہو۔ لوگوں کی ساری زندگی پیٹ کے فکر میں گذرتی ہے) عبارت ختم فرشتہ سیرت بادشاہ کا وصال 28ذیقعدہ کو جمعہ کے دن صبح کے وقت ہوا۔ حضرت سید زین الدین محمد زر بخش کے پر انوار مزار میں جو دولت آباد سے تین کوس کے فاصلے پر ہیں، آسودہ خاک ہیں۔ ان کی پر برکت عمر اکانوے برس اور تیرہ دن تھی۔ مدت سلطنت پچاس برس دو ماہ اور بیس روز۔ تاریخ:’’ آہ شدہ آفتاب زیر زمین‘‘ (افسوس آفتاب زیر زمین چلا گیا) اس کے علاوہ ’’ دخل الجنتہ‘‘ بھی تاریخ کہی گئی۔ ان پر اللہ کی وسیع رحمت ہو۔ 1706/1118 غالباً بیماری کے دنوں میں اس معدلت نشان بادشاہ کے حق کی ترجمان زبان پر یہ بات جاری ہوئی تھی کہ قبر پر ریحان کے پھول انہیں مرغوب ہیں۔ جب انہیں دفنایا جا رہا تھا اس وقت لوگوں کے ہجوم کے سبب مٹی کچھ کم ہو گئی۔ اس کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اسی اثنا میں ایک شخص ریحان کا گٹھڑا اٹھائے آ گیا۔ قبر میں جو تھوڑا سا سوراخ رہ گیا تھا اسے ریحان سے پر کر دیا گیا۔ ’’روح و ریحان و جنتہ نعیم‘‘ ان کی تاریخ وصال ٹھہری۔ اس داد گستر ستودہ صفات بادشاہ کے پانچ والا گہر بیٹے ہوئیـ: 1سلطان محمد 1639/1049میں پیدا ہوا۔ صاحب عزم و ہدایت تھا۔ بہت شجاعت و مردانگی کا مالک تھا۔ سلطنت کی ابتدا میں اس نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جب عالم مطاع (جس کی دنیا اطاعت کرے) بادشاہ نے سلطان شجاع کی جنگ میں مخالفت کی تو حکم سلطانی پر سلطان مراد بخش کے ہمراہ قلعہ گوالیار میں محبوس ہوا۔ کچھ مدت بعد اسے دربار میں طلب کیا گیا، لیکن راستے ہی میں قضائے الٰہی سے بعمر سینتیس برس، راہی ملک عدم ہوا۔ 2سلطان معظم شاہ، اس کا ذکر پورے طور پر الگ سے ہو گا۔ 3 محمد اعظم شاہ:1653/1063میں پیدا ہوا۔ والد بزرگوار کے دور میں ہدایت و اعتبار اور اقتدار کا مالک تھا۔ بادشاہ کو اس سے خاص محبت تھی۔ بادشاہ کی وفات کے بعد ممالک دکن میں تخت پر بیٹھا۔ شاہی لشکر اور دیگر بے پناہ افواج کے ساتھ حدود دکن سے سلطنت کی آرزو لیے اکبر آباد (آگرہ) آیا۔ حسب تقدیر وہ محاربہ سلطانی میں اپنے اکثر بیٹوں کے ہمراہ سلطانی معظم کے آدمیوں کے ہاتھوں قتل ہوا، حالانکہ اس نے دلیری و شجاعت اور معرکہ پیمائی کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا اور لشکر شکنی اور دشمن افگنی کے لوازم میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی تھی، تاہم قہر الٰہی کی ہوا دیر تک اس کی افواج پر چلنے کے سبب اس نے عظیم ہزیمت اٹھائی (اور مذکورہ انجام کو پہنچا) 4سلطان محمد اکبر 1656-1-1067میں پیدا ہوا۔ صغر سنی ہی میں آثار رشد اس سے ظاہر تھے۔ اجمیر کے راجاؤں کی مہم میں روگرداں ہوا؟ اور بادشاہی لشکر کے ساتھ کہ دونوں کے درمیان صرف ڈیڑھ کوس کا فاصلہ تھا، لڑائی پر پوری طرہ آمادہ ہوتے ہوئے بھی مقابلے کی تاب نہ لا کر راہ فرار اختیار کر گیا۔ بادشاہی افواج کے تعاقب کی بنا پر اس نے ایران کی راہ لی۔ شاہ سلیمان والی ایران کے حکم پر اس نے فراہ میں اقامت اختیار کی۔ وہیں بادشاہ کی وفات سے ایک سال قبل فوت اور آستان مشہد مقدسہ رضویہ میں آسودہ خاک ہوا۔ وفات سے پہلے دو ایک برس تک دربار میں عرضداشت بھجواتا رہا اور اپنی خطاؤں کی معافی کی استدعا کرتا رہا۔ اس کے جواب میں عفو کے وعدے کے ساتھ ساتھ بنگالہ کی صوبہ داری کی پیشکش بھی تحریری طور پر ہوئی، اس شرط پر کہ وہ ایران سے ہندوستان کی سرحد پر پہنچ جائے۔ لیکن انہی دنوں وہ رحلت کر گیا۔ یہ خبر بادشاہ تک پہنچی۔ انہوں نے ’’ انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھ کر فرمایا کہ ہندوستان کا بہت بڑا فتنہ دب گیا۔ پھر شکر کیا کہ وہ ملت اہلسنت و جماعت کے مذہب کے مخالفون کے ملک میں مرا۔ 5 سلطان محمد کام بخش 1666-7/1077 میں پیدا ہوا۔ تمام شہزادوں میں زیادہ غیرت والا تھا۔ حیدر آباد میں بادشاہ کی وفات کے بعد اس نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ تدبیر کی پھرتی اور تیز مزاجی کی بنا پر اس نے معمولی سے شبہے پر بھی اپنے بعض ارکان سلطنت کے قتل میں جرات سے کام لیا۔ حامیوں کی قلت کے باوجود، جن کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی وہ محمد معظم بہادر شاہ کی فوجوں کے مقابلے میں آ گیا جو صحرا کے ذروں اور سمندر کے قطروں سے بھی زیادہ تھیں، اور کمال بہادری و مردانگی سے لڑا۔ شجاعت اور جنگ کے لوازم ادا کرنے کے بعد بہت سے زخم کھا کر اور نیم جان ہو کر اسیر ہوا۔ بادشاہ کے پاس پہنچ کر فوت ہو گیا۔ ان کے علاوہ عالمگیر کے چند اور بیٹے بھی تھے چونکہ وہ سن تمیز کو نہ پہنچے اس لیے ان کے ذکر کی ضرورت نہ رہی۔ ٭٭٭ اہل کمال حضرات (جو1701-2/1113سے بہادر شاہ کی تخت نشینی تک کشمیر میں افادہ کی مسند پر بیٹحے اور اس دنیا سے رحلت کر گئے) حضرت خواجہ احمد یسوی نقشبندی: حضرت سلطان خواجہ احمد یسوی ترکستانہ قدس سرہ کی اولاد میں سے تھے۔ خوش اوقات عزیز اور اکابر منش تھے۔ جب تقدیر کے ہاتھوں وطن سے جدا ہوئے تو عرب کے اطراف و اکناف، بیت المقدس، شام اور بغداد وغیرہ کی سیاحت کرتے ہوئے ہندوستان کی طرف نکل آئے اور چلتے چلاتے دلپذیر کشمیر آ پہنچے۔ ان سب سفروں میں وہ اکثر تغرید و تجرید پر گامزن رہے۔ شروع شروع م؁ں کوہ ماران پر میرزا شیر بیگ ملا شاہی کے مزار میں وقت بسر کیا۔ چند سال بعد خواجہ نظام الدین احمد نقشبندی مرحوم کو ان کے سراپا کرامت احوال سے آگاہی ہوئی تو انہوں نے کود جا کر کوہ مار ان سے انہیں اتارا اور اپنی ہمسایگی میں ان کے رہنے کا بندوبست کیا۔ جب خواجہ نظام الدین رحمت حق سے جا ملے تو ان کے خلف الصدق خواجہ نور الدین محمد آفتاب نے کہ وہ خود فصائل و شرافت مرتبت اور کمالات منزلت ہیں اور آج حضرات خواجگاں عالیشان کے بقیہ اور ان کی مسند کے جانشین ہیں، پہلے سے زیادہ مہربانی کی اور نقشبندی طریقہ کے باطنی اشغال ان سے حاصل کیے۔ شہر کے لوگ بھی کسی قدر اس طریقت میں داخل ہو کر ہر باب میں ان سے استمداد کیا کرتے۔ جناب خواجہ اول سے آخر تک ایک ہی وضع اور تمکین پر رہے۔ عین تنہائی میں انہیں اوقات رجوع پر فضیلت نہ تھی اور ایام رجوع میں وقت تفرید کی مخالفت نہ تھی (مخالف نہ تھے؟) یعنی صحبت اور خلوت، فیوض و اثر میں یکساں تھیں۔ ان کی پیشانی سے بزرگی کی علامات ظاہر ہوتی تھیں اور ان کے کلام شریف سے فیض و جذبہ کے آثار نمایاں ہوتے۔ لوگوں کی تعلیم میں افراط سے کام نہ لیتے اور اہل رجوع کی پذیرائی میں مبالغہ نہ کرتے۔ بہرحال وہ بزرگوں کے اس قول کے مصداق تھے، بیت: تکلف گر نباشد خوش توان زیست تعلق گر نباشد خون توان مرد (اگر تکلف درمیان میں نہ ہو تو اچھی طرح جیا جا سکتا ہے اگر تعلق نہ ہو تو اچھے طریقے سے مرا جا سکت اہے) راقم حروف (اعظمی) کو صغر سنی کی بنا رپ خواجہ احمد کی صحبت کا شرف حاصل نہ ہوا، تاہم دو ایک مرتبہ سر راہ ان کے نور بار دیدار سے مشرف ہوا وہ عجیب انداز میں سوار ہو کر گذرتے۔ دوسرے خواجگان بھی ہمراہ ہوتے۔ لقمہ میں بہت احتیاط کرتے۔ جب دست اجل نے ان کا گریبان حیات پکڑ لیا تو 3 ذی الحجہ 1114 وسط اپریل 1703کو جمعہ کے دن وقت عصر رحلت فرما گئے۔ اولیا نے خواجگی کے خلاصہ خواجہ معین الدین نقشبندگی رحمتہ اللہ تعالیٰ، رحمتہ کے مرقد شریف کے باہر دفن ہوئے۔ مریدوں نے پتھر کی قبر اور لکڑی کا کٹہرا بنایا۔ ان کے عجیب و غریب حالات بیان کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ وہ حق کے مظہر تھے۔ ذات بابرکت، معارف آگاہ حاجی عبید اللہ البلخی جناب محرم راز خواجہ نیاز نقشبندی کے جو حضرت خواجہ احمد کے رفیق سفر تھے، رفقا میں سے تھے۔ انہوں نے خواجہ نیاز سے ان (خواجہ احمد) کے اوصا سنے تو ان سے ملاقات کے شوق میں کشمیر کے سفر کا ارادہ کیا۔ کشمیر پہنچ تو گئے لیکن خواجہ احمد کو نہ پایا۔ کچھ عرصہ وہیں سکونت اختیار کی۔ جناب خواجہ نیاز بھی اس سے پہلے اس شہر سے گذرے تھے اور ایک مدت تک انہوں نے یہاں قیام کیا تھا۔ صاحب تقوی شیخ عبدالرحیم قادری: حضرت میاں میر لاہوری قدس سرہ کے مریدوں میں سے ہیں۔ شروع ہی سے انہیں ظاہر و باطن سے آگاہی تھی لیکن انہوں نے اکثر اس امر کو خفیہ اور بچوں کی تعلیم اور کلام اللہ کی مکتب داری میں خود کو محفوظ رکھا۔سارا دن باطنی اشغال میں مصروف رہتے۔ مستقیم الاحوال بسر کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ بیعت اور تعلیم طریقت بھی دیتے رہے، لیکن یہ انداز عمومی نہ تھا۔ سراپا خدمت میاں محمد امین ڈار فرماتے تھے کہ شیخ عبدالرحیم نے خود کو قرآن کے لباس میں مستور رکھا، لیکن وہ آخر پردے سے باہر نکل آئے اور مشہور ہو گئے۔ خواجہ حسن بج کی خدمت میں تربیت پائی اور یہ خواجہ مذکور ملا شاہ کی خدمت سے بھی بہرہ ور ہوئے ہیں، بلکہ صحیح معنوں میں حق تربیت انہی کا ہے۔ الغرض شیخ مذکور صاحب کشائش اور مرتبہ ارشاد پر پہنچے تھے۔ انہوں نے طریقہ شریفہ قادریہ اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اور سہروردیہ میں بھی مرید بنائے۔ ان کے بیٹے طالب علم تھے۔ آخر میں فالج میں مبتلا ہو گئے۔ جب ان کی موت کا فرشتہ آ پہنچا تو 2 صفر المظفر1115وسط جون1703کو انہوں نے جان شیریں حق کے سپرد کر دی۔ حضرت خواجہ صدر الدین، معمار جامع مسجد کے آستانے کے قرب میں متعل زینہ کدل انہیں مدفن ملا۔ راقم حروف نے صغر سنی میں بعض امور کے سلسلے میں ان کی خدمت میں آمد و رفقت رکھی تھی اور ان کی بہت زیارت کر کے ان کی برکات نظر کا امیدوار رہا۔ حضرت شاہ محمد فاضل قادری: ان کا سلسلہ نسب قطب عالم شیخ سموات و ارضین حضرت غوث الاعظم تک پہنچتا ہے، اور وہ اس طرح شاہ محمدوح بن سید شرف الدین یحییٰ بن سید شہاب الدین احمد بن قاضی القضاۃ سید عماد الدین بن سید ابی صالح النصر بن سید تاج الدین عبدالرزاق بن غوث الاعظم رضوان اللہ تعالیٰ علیہ شروع میں وہ تفرید و تجربہ تک رہے، اس حد تک کہ نکاح اور پیدائش اولاد کا خطرہ ان کے خاطر مبارک پر گراں گذرتا۔ پھر آیہ کریمہ کا ’’ فنکحوا ما طالب لکم من النساء مثنیٰ و ثلث رباع‘‘ (اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو) اور عورتوں سے، جو تم کو پسند ہوں، نکاح کر و، دو دو عورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے۔۔۔۔۔۔۔سورۃ النساء آیہ3) کے مطابق انہوں نے شادی کر لی۔ کچھ اوپر1679/1090 میں کشمیر پہنچے۔ اہل و عیال، خادموں اور مسافروں سمیت کوئی سو افراد ان کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ گویا ارباب توکل کے مقتدا تھے کہ سو سے لے کر ہزار تک جو کچھ بھی ان تک پہنچتا اسی لمحے حاضرین کو پہنچا دیتے اور کبھی مقروض ہونے اور اولاد و ازواج کی تنگ حالی کے باوجود کوئی چیز ذخیرہ نہ کرتے۔ مسافروں اور آنے جانے والوں کی خوراک اور لباس سے باخبر رہ کر، وقت رخصت، مسافر کی منزلت اور مرتبہ کے مطابق اسے خرچ ادا کرنے کا دھیان ر کھتے اور جاہل و عالم وظیفہ خواروں کو اس طور برداشت فرماتے کہ زمانے کے لیے موجب درس ہوتا، یار، دوست، اہل حقوق اور دیگر لوگوں کی ایذا برداشت کرنے کا تو ذکر ہی کیا۔ حضرت مرشد مرادی کا ان سے دور کا تعلق تھا اور وہ (مرشد) ان کی بزرگی کے بارے میں عجیب و غریب حکایات فرمایا کرتے یہ کہ شاہ محمدوح کی تحریک پر ان کے باطنی حالات کا استفسار مرشد بحق کی جناب سے کیا گیا تھا۔ ان کے احوال کے مکاشفہ کے بعد یہ فقرے تحریر میں لائے: چند مرتبہ سیادت پناہ اور حقائق آگاہ شیخ محمد فاضل کے احوال شریف سے متعلق استفسار کیا گیا۔ اے مخدوم: ان کا تقویٰ و استقامت اور توکل ان کی بزرگی کا غماز ہے۔ اس کم علم سے معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے، لیکن چونکہ آپ کی طرف سے بار بار استفسار ہوا، اس لیے ان کے صحفہ باطن کی دوبارہ تفتیش و تحقیق کی گئی۔ چند باتیں سامنے آئیں۔ اول یہ کہ ان کے باطن کو طریقت کے کمالات عالی سے منور متجلی پایا اور فنائے وجود نیز وجودی صفات کی نفی واضح ہوئی۔ دوسرے یہ کہ فنائے نفس، جو مشائخ کرام کے نزدیک پورے طور پر معتبر ہے، منکشف ہوئی۔ تیسرے غوث الاعظم کی عنایت بلکہ ظاہری نسبت بھی ہویدا ہوئی۔ چوتھے یہ شعر ان کے حسب حال پایا۔ شعر: چون بدانستی کہ ظل کیستی فارغی گرمردی و گرزیستی (جب تجھے یہ پتا چل گیا کہ تو کس کا سایہ ہے تو پھر تو مرنے اور جینے کے چکر سے فارغ ہے) اور کچھ اور امور بھی تھے، لیکن لکھتے وقت انہوں نے وفا نہ کی یاد نہ رہے) واللہ اعلم۔ بہرحال یہ فقیر ان کی ترقی کے لیے دعا گو اور اپنے خاتمہ بالخیر کے لیے ان کی ذات سے دعا کا امیدوار ہے۔ ان کا کلام شریف ختم ہوا۔ جب حضرت مرشدی (میرے مرشد) تیسری مرتبہ اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں سر بلند پہنچے تو انہوں نے ان کے روبرو فرمایا کہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی روحانیت کے دوران میں ان کی نسبت ’’ یا ولدی‘‘ (اے میرے بیٹے) سنا گیا، جیسا کہ ذکر ہوا۔ واللہ اعلم۔ حضرت مرشدی فرماتے تھے کہ جناب شاہ ممدوح نے ایک روز فرمایا: کبھی کبھی میں ایسے حال میں ہوتا کہ کبر سنی کے باوجود میں اس شیر خوار بچے کی صورت میں ظاہر ہوتا جسے ہاتھوں میں اٹھایا جاتا ہے اور پھر اپنے پہلے وجود میں عود کر آتا، کبھی موسم سرما میں، پانی میں، دعاؤں میں مشغول ہوتا اور وہ گیلے کپڑے بدن پر خشک کیا کرتا، تجرید کے دنوں میں خوفناک راستوں سے تنہا گزرا کرتا اور خادم اور زن و فرزند کے تعلق کو کوہ قاف سمجھا کرتا۔ علی ہذا القیاس اپنے ماضی کے احوال بیان فرمایا کرتے۔ ان کی فروتنی، جو دو سخاوت اور فنا کے بارے میں کسی بیان کی ضرورت نہیں کہ وہ عیاں تھی۔ جب ان کی عمر مبارک ساٹھ سے متجاوز ہوئی تو ان کا جسم مرض اطوت میں مبتلا ہو گیا اور وہ دار البقا کو سدھار گئے۔ بدھ19جمادی الاولیٰ 1117وسط ستمبر1705ء کو دن کے آخری پہر قبر میں پہنچ گئے۔ سراپا ریاضت و تقویٰ بابا عبداللہ: ان کی جائے ولادت پرگنہ اولر کا موضوع لاری ماری ہے۔ جب خدا طلبی کا ذوق ان کے باطن کی آگ کو ہوا دینے والا ہوا تو وہ حضرت بابا نصیب کے خلیفہ حاجہ بابا کی خدمت میں پہنچے اور سلوک کے مراتب کو آگے بڑھایا۔ کہتے ہیں کہ صغر سنی میں انہوں نے حضرت بابا نصیب سے بھی ملاقات کی۔ وہ ایک درویش، آگاہ، طالب علم، مرتاض اور صاحب ذکر آدمی تھے اپنے مشائخ کی روشن روش پر شہر اور بستیوں کے گرد و نواح میں امر معروف کرتے اور مسجد وپل اور غسل خانہ کی تعمیر فرماتے، نیز مسئلہ کو ظاہر اور سنت کا افشا کرتے۔ وہ بستیوں کے کافروں کو حلقہ اسلام میں لاتے اور اسلام سے نیکی کی طرف لے جاتے۔ لوگ خواہش و آرزو کے ساتھ انہیں گاؤں سے گاؤں اور خانہ بخانہ لے جایا کرتے اور ان کے وعظ و نصیحت قبول کرتے۔ آخر میں صاحب جذبہ ہو گئے اور کبھی متغیر ہو جاتے اور شعر کی طرف کم آتے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ شہر کیوں نہیں آتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں طالب علم صورت لوگوں سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میری زبان سے کوئی شک و شبہ والا لفظ نہ نکل جائے۔ لوگ ان کی ذات سے منسوب تصرفات اور اظہار کرامات کا ذکر کرتے ہوں۔ اپنے وطن میں، پہاڑ کے دامن مکان کمل میں، چشمے کے اوپر انہوں نے ایک تکیہ بنا رکھا تھا۔ ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں رہے۔ وہ فرحت بخش اور مسرت افزا جگہ ہے۔ اسی طرح کئی قصبوں میں انہوں نے تصرفات کیے۔ وہ دین متین کے موبد (موید؟) تھے اور دین اسلام کی تائید کرتے۔ کچھ عرصہ بعد اسی جانب ان کی زندگی کے دن پورے ہو گئے۔ 1705/1117،میں انہوں نے ’’ کل نفس ذائقہ الموت‘‘ (ہر ذی حیات کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کا شربت چکھا اور عالم بقا کو سدھار گئے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو اور وسیع رحمت۔ ایبہ بائے رانیواری: حضرت بابا نصیب کے یاروں میں سے ہیں۔ جب بابا، ان کی کم عمری میں رحمت حق سے جا ملے تو انہوں نے جناب اوتر بابا کی خدمت میں تربیت پائی، جو جناب شیخ داؤد خاکی علیہ رحمہ کے خلیفہ تھے، پرگنہ کردہن میں آسودہ خاک ہیں۔ یہ ایبہ بائے اپنے مرشد کی وفات کے بعد ایک مدت تک زندہ رہے۔ تفرید و تجرید کی راہ اختیار کیے ہوئے انسان تھے۔ پاکیزگی، کیا لباس میں اور کیا مسکن میں، بیحد پسند کرتے تھے۔ ایک عرصہ اس وضع پر کمال خدا پرستی میں زندگی بسر کی۔ اس محلہ رانیواری میں مدفون ہیں۔ ان کے بھائی دولت بائے بھی ان کی طرح تھے۔ وہ جناب میر محمد علی قادری کے مرید ہوئے۔ وہ بھی وہیں دفن ہیں۔ ان ایبہ بائے کا ایک مرید، علی شیخ نام، پرگنہ رہے کے موضع اون کا رہنے والا تھا، جس کی عمر ستر سے متجاوز تھی۔ اس نے بھی تفرید و تجرید کی راہ میں قدم رکھا تھا۔ روزہ داری، ترک گوشت اور ضبط اوقات میں ثابت قدم تھا۔ حضرت مرشدی اس کے بارے میں کئی باتیں بتایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد1705/1117میں اس نے رحلت کی اور گھر کے صحن میں دفن ہوا۔ رحمت ہو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت۔ سراپا رپاضت و تقویٰ لالہ ریشی باباـ: اور ایبہ ریشی، عرف بتک، ساکن موضع کنہ موہ نیکہ ریشی بابا کے مرید ہیں جو جناب خواجہ مسعود پانپوری سے منسوب ہیں۔ ان کا تکیہ برشری؟ میں دریائے جہلم کے کنارے واقع اور زعفران والوں کا مرجع ہے۔ دونوں مردان صالح، عابد اور مرتاض تھے، نیز تجرید و تفرید کی راہ اختیار کیے ہوئے، تارک گوشت، مستقل روزہ دار، کم پوش اور کم خوراک تھے۔ ایک دن خواجہ علی سودان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پسندیدہ طور طریقے اس کے دل کو لگے۔ چنانچہ اس نے ان کی طریقت قبول کر کے ان کی پہلی ہی صحبت کے نتیجے میں زن و فرزند کو چھوڑ دیا اور پالے ہوس میں ان کی اطاعت کی، بیڑی ڈال لی۔ تالہ (لالہ) ریشی بابا نے اپنی زندگی اس گاؤں میں گذاری۔ جب انہوں نے اس دنیا سے کوچ کیا تو وہ ان کے بھائی ایبہ ریشی بابا کے ساتھ محلہ جچا بل میں آ گیا ور عمارت شنگ دیو خرید کر اس میں رہائش اختیار فرمائی اور تھوڑی بتہ راس پونجی پر، جو فقیری سے قبل اس کا حاصل روزگار تھا، توکل کرتے ہوئے ایک ہی گھر میں (مرشد کے ساتھ) اخلاص و مروت سے پیش آتا اور دیگر مریدانہ لوازم نیز ان کی مالی و جانی خدمت بھی بجا لاتا رہا۔ جب مرشد نے رحلت کی تو ان کے لیے پر تکلف مقبرہ تعمیر کروایا اور اس کے قرب میں پنجگانہ نماز کے لیے ایک مسجد بنائی۔ کوئی چالیس برس اس نے وہاں سکونت کی اور تفرید و تجرید کی راہ پر گامزن رہا۔ باطنی شغل میں بھی اس نے خود کو مصروف رکھا۔ کچھ عرصہ بعد رحلت پا کر اسی مقبرے میں آسودہ خاک ہو۔ اللہ کی رحمت ہو ان پر، وسیع رحمت۔ حضرت بابا عثمان قادری: آنجناب اپنے والد بزرگوار کے خلف و خلیفہ تھے، یعنی ولایت مرتبت حضرت بابا حاجی محمد قادری اور ان حاجہ بابا کے احوال پہلے مذکور ہو چکے ہیں۔ اب کچھ مزید حالات، سلسلہ سخن کا تسلسل قائم رکھنے کی خاطر لکھے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق کشمیر کے معروف تاجروں کے قبیلے کالجو سے تھا۔ صغر سنی ہی سے ان کا رحجان نیکی کی طرف تھا۔ انہوں نے ایک مدت تک شادی نہ کی۔ جب جناب سید سادات، سراپا فیض و برکات شاہ نعمت اللہ قادری نے کشمیر کو اپنے وجود شریف سے مزین کیا، تو جناب بابا حاجی محمد توفیق ایزدی سے ان حضرت کی مریدی کی لڑی میں پروئے گئے۔ یہ شاہ نعمت اللہ عظیم حضرت قادریہ میں سے تھے اور ظاہری و باطنی علم میں اپنے ہمعصروں سے بڑھ کر تھے۔ قطب الاولیا حضرت شیخ محمد معصوم سرہندی فاروقی قدس سرہ کے عروۃ الوسقی (مضبوط گرفت) مکاتب، جلد اول ان کے نام مرقوم ہیں۔ الغرض حاج بابا نے ان کی خدمت میں باطنی راہ کی منزلیں طے کیں۔ جب وہ ہندوستان واپس جانے لگے تو بابا کو خلافت سے سرفراز کر گئے۔ خلافت کے مرتبے کے باوجود اپنے آپ کو کبھی شیخ ظاہر نہ کیا، اور کام کاج اور پرہیز گاری کے ساتھ والدہ ماجدہ کی خدمت میں زندگی بسر کرتے رہے، انہیں حرمین محترمین اللہ ان کا شرف زیادہ کرے، کے طواف کی بڑی آرزو تھی، لیکن والدہ کی خدمت چھوڑ کر روانہ ہونے پر راضی نہ تھے۔ جس دن ان کی والدہ فوت ہو گئیں، انہیں دفنانے کے بعد وہ لوٹ کر گھر نہیں گئے بلکہ وہاں سے سیدھا، بڑے شوق و ذوق کے ساتھ، خانہ خدا کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر شریف ساٹھ برس کے قریب پہنچ چکی تھی۔ بیت اللہ الحرام کی زیارت کے بعد سیدا نام علیہ الصلوۃ والسلام کے سکون بخش مدینہ چلے گئے اور وہاں قیام پذیر ہو گئے۔ اکثر پاک لوگوں کے اس قبلہ میں (حضور اکرمؐ) کی خاک پاک پر اپنی ڈاڑھی سے جھاڑو دیتے۔ امت کے لیے پناہ کی حامل اس درگاہ کی طرف سے وہ اس بات پر مامور ہوئے کہ ’’ تجھے اپنے وطن جانا چاہیے‘‘ انہوں نے ظاہراً عرض کی کہ میری آرزو ہے کہ میں اپنی باقی عمر فائض الانوار کے قرب و جوار میں بسر کروں۔ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی وساطت سے بلند مرتبہ خطاب ہوا کہ ’’ تجھے وطن جا کر شادی کر لینا چاہیے۔ تیرے یہاں جو بیٹا پیدا ہو گا اس سے کئی کام ہیں۔ اس کا نام عثمان رکھنا‘‘ اس بنا پر وہ وطن لوٹ آئے اور شادی کر لی، جس سے سے یہ سعادت مند رج فرزند یعنی بابا عثمان وجود میں آئے۔ جب وہ (عثمان) سن بلوغ کو پہنچے تو ان کے والد بزرگوار رحلت فرما گئے۔ بابا عثمان تحصیل علم کاروبار اور صلاح و تقویٰ میں مشغول رہے۔ انہوں نے حضرت خواجہ حیدر چرخی کے فرزندوں اور شاگردوں خواجہ محمد طبیب چرخی اور خواجہ ابو الفتح کلو وغیرہ ہم کی خدمت میں استفادہ علوم کیا، جس سے علم و ورع اور پیری شرع میں ان کا رتبہ اپنے سب ہمعصروں سے بڑھ گیا۔ حق تعالیٰ نے ان کی عمر اور ظاہری و باطنی کمالات میں بڑی برکت دی۔ انہوں نے کبھی عیش کی زندگی اور نفسانی لذات سے دل نہ لگایا۔ جب شاہ محمد فاضل قادری کے بڑے بھائی حضرت شاہ ابو الحسن نے اس شہر میں نزول فرمایا تو جناب بابا نے ان کی ذات سے رجوع کیا، بلکہ رابطہ معنوی بھی حاصل کیا۔ کمال کی بے نفسی اور بے تعینی کے مالک تھے۔ ان کے زہد اور احتیاط کی حکایات کہاں تک لکھوں۔ ایک موقع پر راقم کے دادا خواجہ محمد اسحاق، جو اپنے وقت کے بڑے سخیوں اور پروردگار کے برگزیدہ حضرات میں سے تھے، بیمار پڑ گئے۔ تلقین استغفار کی خاطر جناب بابا عثمان کو لایا گیا۔ مجھے ان کی مبارک صورت یاد ہے۔ مجسم نور تھے۔ احادیث نبویؐ کا بیان جس انداز میں ان کی زبان سے ہوا، ان نے دلوں پر عجیب اثرکیا۔ حاضر ہونے کا حدیہ جب انہیں پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول نہ فرمایا اور کہا کہ ’’ میں تو صرف اس عزیز سے ملاقات کے ارادے سے آیا جو اپنے وقت کے صالحین میں سے ہے، (ہدیہ قبول کرنے سے) میری نیت خلل پذیر ہو گی۔‘‘ ان کا وصال جمادی الاخر1117 اکتوبر1705میں ہوا۔ بابا کی مرضی یہ تھی کہ انہیں بلبل لنگر کے محلہ قدیم میں والد بزرگوار کے قدموں میں دفن کیا جائے، لیکن جچہ بل کے لوگ راضی نہ ہوئے، پھر ان کا ایک بیٹا اور زوجہ بھی اسی طرف مائل ہوئے؟ چنانچہ وہیں جچہ بل میں انہیں دفنا دیا گیا۔ ان لوگوں کی اس جنایت پر انہی دنوں آگ کا واقعہ پیش آ گیا جس میں اہل محلہ کے گھر اور بابا کی زوجہ بھی جل گئیں اور مذکورہ بیٹا جان اور خانماں خراب ہوا۔ بابا اسمعیل قادری اجاریـ: ایک نا خواندہ آدمی تھے شروع میں خواجہ حبیب اللہ فتوکی ارادت اختیارکی، باطنی اشغال لیے اور ایک مدت تک ان کی خدمت و صحبت میں قلبی شغل میں سرگرم اور راہ معنوی میں تیز رو رہے۔ انہوں نے ریاضتوں کی بہت پابندی کی۔ آخر میں بعض وجوہ کی بنا پر وہاں سے کٹ کر مولانا العلامہ خواجہ ابو الفتح کلو کی خدمت میں چلے گئے اور ظاہری و باطنی استقامت کے ساتھ ان کی صحبت میں بیٹھ گئے۔ شرعی مسائل اور فقہی احکام کی بڑے ذوق و شوق سے تحقیق کرتے اور ان کے مطابق عمل فرماتے۔ تند کشف کے مالک تھے۔ جس جگہ وارد ہوتے اگر وہاں خوراک اور بچھونے میں کوئی شرعی خلل ہوتا تو انہیں القا اور الہام سے اس کی آگاہی ہو جاتی اور وہ ان چیزوں سے احتراز کرتے۔ ان کی زندگی اول تا آخر فقر و استغنا میں گذری۔ عالمگیری عہد کے آخر میں انہوں نے رحلت کی۔ موضع اچار میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ شیخ محمد مراد رفیقی: خواجہ رفیق سہروردی کی اولاد میں سے ہیں۔ باتمکین اور تقوی آئین آدمی تھے۔ انہوں نے علم ظاہر اور باطنی احوال میں خود کو مشغول رکھا۔ فقہ و حدیث کے علوم میں عالی رتبہ کے مالک تھے۔ ہر فن کی پسندیدہ کتب بڑے ہوش و تکلف سے لکھیں۔ دردو سوز سے بھی خالی نہ تھے۔ بڑھاپے سے پہلے ہی عالم شباب میں رحلت فرما گئے۔ لالہ بایو ہمدانی: پانپور سے واقع موضع چندہ ہارو کے باشندہ تھے۔ طلب خدا کا جذبہ پیدا ہوا تو زاہد بابا ماکامو کی خدمت میں پہنچے۔ سلوک معنوی میں مشغولیت اختیار کی۔ اس طرح صاحب کشائش ہوئے۔ ان کے نور برسانے والے دیدار سے فنا و نیستی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں صحبت اور وقت گذاری میں بہت ہی بے تکلف تھے۔ بہت سے لوگ ان کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور ہوئے اور اپنے مقام پر پہنچے۔ 1710/1122 میں رحلت کی اور اپنے مسکن میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ عبدالرشید جکنی قادری:ـ اپنے وقت کے صاحبان ریاضت میں سے تھے۔ خدا کی طلب میں ہندوستان کا سفر اختیار فرمایا اور شاہ بدر الدین قادری کی صحبت سے بہرہ ور ہوئے جو اکابر اولیا میں سے تھے۔ کشمیر واپس آنے کے بعد غاروں اور پہاڑوں میں خلوت و تنہائی اختیار کر کے فقر و فاقہ میں رہنے لگے اور اس طرح ریاضت کا حق ادا کر دیا۔ آخر میں شہر آ گئے اور قلعہ کے اندر گڑھا کھود کر اسے اپنا ٹھکانا بنا لیا اور ذکر و فکر نیز ہدایت خلائق میں وقت گذارنے لگے۔ ان حالات کے دوران حسین ملک چاد روکے واقعہ کے سبب جو سیف خان کے احوال میں بیان ہو چکا ہے، انہیں بھی دربار جانا پڑا۔ کوئی نوے برس عمر پائی 29 ذی الحجہ 1119 آخر مارچ1708 کو سفر آخرت فرمایا۔ اپنے بعض ایسے چھوڑ گئے جو صلاح و تقویٰ والے تھے۔ تقویٰ شعار میاں محمد ہاشم چشتی خانیاری رحمتہ اللہ علیہ: سوداگروں کی جماعت میں سے تھے۔ آغاز جوانی میں مسافرت اختیار کر کے پٹنہ پہنچے۔ وہاں سے حضرت میاں یحییٰ چشتی کشمیری کی سراپا برکت خدمت میں پہنچے، جو کوتوالوں کے قبیلے سے اور میاں حسین کے بیٹے تھے، اور ان کے مرید ہو گئے کہتے ہیں کہ یہ میاں حسین، بابا نصیب کی خدمت سے بھی مستفید ہوئے تھے، رحمتہ اللہ ایک روز ان کی زبان سے یہ اشارہ سنا کہ نصیب سے تیرے نصیب میں کچھ نہیں تو پٹنہ جا وہ (حسین) وہاں جا کر واپس آ گئے اور بابا کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے وہاں کوئی نہیں ملا۔ انہوں نے فرمایا تو دریا کے اس پار جاتا تو پا لیتا۔ دریا کے اس جانب پٹنہ ہے اور اس جانب حاجی پور۔ وہ پھر گئے اور حاجی پور میں شاہ تمکین نامی ایک شخص انہیں ملا۔ رد و قبول کی نظر کے بعد استقامت کا حکم دیا اور تربیت کی طرف توجہ کی اور روحانیت بخشتی۔ نیز شرعی نکاح کا حکم فرمایا۔ تو یہ میاں یحییٰ مذکور اس نکاح کا نتیجہ ہیں۔ القصہ میاں محمد ہاشم مدت مدید کے بعد خدمت پیر سے رخصت ہو کر اپنے وطن پہنچے اور خانیار میں رہائش اختیار کی۔ یہاں ان کا ذکر و اشغال میں استقامت اختیار کی جن پر وہ مامور ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد شادی کر کے بیٹوں بیٹیوں والے ہو گئے اور گھر اور خانقاہ تعمیر کی۔ نیکی اور علم میں اولاد کی رہنمائی فرمائی۔ ان کے احباب ان کی کرامات کا ذکر کرتے ہیں کیا کشمیر میں کیا پٹنہ میں۔جب موت کا قاصد ان تک آ پہنچا تو گھر کے قریب تعمیر کردہ احاطے میں انہیں مدفن ملا، 1706/1118میں۔ بابا یوسف درود: صحرائی لوگوں میں سے تھے۔ شہر میں سکونت اختیار کر کے اہل شہر کے ساتھ صحبت رکھی۔ بظاہر حضرت بابا مسعود پانیوری کے خاندان اور ان کے احباب سے نظر حاصل کی۔ رفتہ رفتہ جذب میں ڈوب گئے اور ان کے احوال دگرگوں ہو گئے۔ اکثر نماز ترک کر دیتے اور کبھی نماز میں افراط سے کام لیتے۔ ہر وقت مقررہ نمازوں سے زیادہ نمازیں ادا کرتے۔ لوگ انہیں سابقہ (نمازوں کی) قضا پر محمول کرتے کرامات بھی ان سے صادر ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کے محلے میں آگ لگ گئی۔ گھر کی چھت پر چڑھ کر دامن اٹھایا اور پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ جس جس طرف پیشاب کے قطرے پڑتے وہاں آگ بجھ جاتی۔ رحلت کے وقت دلہنوں کی طرح مبارکباد پر مشتمل چند نقش؟ خود موزوں کر کے حاضرین سے کہا کہ وہ اپنی شادی کی محفل کی طرح گائیں۔ بابا ادہم شاہ کے مقبرے میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکیم شاہ مجذوب: جوانی میں صاحب جذب ہوئے۔ ارد گرد کے محلوں میں سے ایک محلے میں سکونت اختیار کی۔ یہ محلہ حویلی میں سلیم کاشغری سے بلند تر واقع تھا۔ قوی جذبہ کے مالک تھے کبھی کبھی غرض مندوں کے اصرار پر مستقبل کے حالات بھی بتا دیا کرتے۔ ارباب عم اور اصحاب معنی سے ان کی صحبت ہوش میں رہ کر ہوتی۔ اکثر عام لوگوں سے اشاروں کنایوں میںباتیں کرتے اور ان کے بین السطور سے لوگ اپنا مدعا پا لیتے۔ 1705/1117 میں رحلت کی اور وہیں دفن ہوئے۔ یوسف شاہ مجذوبـ: مذکورات میں حکیم شاہ سے کمتر نہ تھے۔ اسی قریبی زمانے میں دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کے علاوہ اس دور میں کچھ اور مجذب بھی مصفہ شہود میں آئے۔ تاہم یہاں انہی چند کے ذکر پر اکتفا کی گئی ہے۔ اب بعض ارباب سخن کے حالا ت تحریر کیے جاتے ہیں۔ ٭٭٭ ارباب سخن محمد زمان نافع: ملا طاہر غنی کا بھائی ہے۔ صغر سنی میں شیخ محسن فانی کی صحبت میں پہنچا اور اپنے بڑے بھائی کی خدمت میں معافی سے بہرہ ور ہوا۔ آخری عمر تک شعرا کے مجموعہ ہائے کلام کی تدریس میں مشغول اور سخن گستری کے پرچم اڑاتا رہا۔ یہ کتاب لکھتے وقت اس کی واردات طبع کے حامل یہ چند شعر یاد رہے: 1 بگیر لذت دنیامی شور و شر زدہ را مزاج زہر بود نعمت نظر زدہ را 2 شنیدم از لب فوارہ این صدای بلند کہ گریہاست ثمر خندہ ہای برزدہ را 3 قدم ثمردہ گذار ای خیال بیہدہ گرد بخانہ دل ما راہ نیست سر زدہ را یہ بھی اسی کے اشعار ہیں: پیکرت راتا رو پود جامہ مسطری کنند جان فدا می زیبندت سر مزو پامی زینہدت می کشی و باز می پرسی شہید کیستی این غلط اندازی و بازی بمامی زینہدت ہمچو می از پردۂ زنبوی جام طبور چہرہ ساز یہامی رنگین از حنامی زیہدت پیر گشتی نافع اکنون ہالہ سان شب ناسحر خرمن ماہی در آغوش دوتامی زیہدت 1اس شور و شر کی ماری ہوئی دنیا کی لذت لے کیونکہ نظر لگی ہوئی نعمت کی خاصیت زہر کی ہوتی ہے (کتاب کے علاوہ تذکرہ شعرائے کشمیر از اصلح میں بھی ’’ بگیر‘‘ ہے جب کہ یہاں ’’ مگیر‘‘ بمعنی مت لے کا محل ہے) 2میں نے فوارہ کے لبوں سے یہ بلند صدا سنی کہ گریہ و زاری، زمین پر پٹکی ہوئی ہسیوں کا ثمر ہے۔ 3اے بیہودہ گردش کرنے والے خیال ذرا سنبھل کر قدم اٹھا، ہمارے دل کے گھر میں کسی سر پھرے کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ 4 تو میرے قتل کے لئے ٹہل رہا ہے، مرحبا، تجھے یہ زیب دیتا ہے، جان کو تجھ پر فدا ہونا زیب دیتا ہے اور سر کو تیرے پاؤں کی اجرت ہونا زیب دیتا ہے۔ 5تیرے پیکر کو لباس کا تار و پود سنوارتا ہے، شمیم گل سے تیار کردہ تہہ نما قبا (ایسی قبا جس کی تہہ میں جو کچھ ہو وہ نظر آ جائے) تجھے زیب دیتی ہے۔ 6 تو قتل کرتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ تو کس کا شہید ہے، تیری یہ غلط اندازی اور ہمارے ساتھ مذاق تجھے زیب دیتا ہے۔ 7 شراب کی مانند شیشے کے جام کے پردۂ زنبوی (ایک لے کا نام، ایک قسم کا خیمہ) سے حنا کے ساتھ تجھے رنگین چہرہ سازیاں سجتی ہیں۔ 8 نافع تو بوڑھا ہو گیا ہے۔ اب تو رات سے صبح تک ہالہ کی مانند کسی چاند کے ہالے کا تیری دہری آغوش میں ہونا تجھے سجے گا۔ میرزا دار اب جویا: ملا سامری کا بیٹا اور صاحب سخن اور معنی یاب تھا۔ فن شعر گوئی میں میرزا صائب کی پیروی کی۔ محمد سعید اشرف اور ملا علی رضا تجلی سے اس کی صحبتیں رہیں۔ یہ دونوں مذکورہ مشہور شاعر ابراہیم خان کے ہمراہ کشمیر آئے اور اس کے استادوں میں سے تھے۔ میرزا دار اب اپنے دور کے شعرا میں صاحب امتیاز تھا۔ وہ فصاحت سے پر دیوان کا مالک ہے۔ا س وقت اس کے یہ چند اشعار حافظے کی مدد سے تحریر کیے جاتے ہیں، قطعہ: عین دریاے وصالست بہر چشم زدن چون حباب آن کہ ہو ای تو بود در سر او می تو ان یافتن از نالہ قمری کہ مدام آتشی ہست نہان در تہ خاکستر او دل جویا نخورد زین غزل آرائی آب منقبت سنج بود خامہ مدحت گر او شاہ مردان جہان آنکہ زبان قلم زیں دو مطلع شدہ پیوستہ ثنا گستر او بدو عالم ندہم ذرۂ خاک در او عالم و ہرچہ درد جملہ بگرد سر او ہر کہ شد تاج سرش خاک در قنبر او بر فلک ناز کشد بلکہ ببالاتر او بعد قنبر ز غلامان علیؓ نتو انست کس نیارد وگرے بود جز او ہمسر او =جس کے سر میں تیرا سودا سمایا ہوا ہے وہ حباب کی مانند ہر آنکھ جھپکنے میں (یعنی ہر پل) دریائے وصال کی آنکھ ہے (دریائے وصال میں ڈوبا ہوا ہے) =قمری کے نالوں سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ اس کی خاکستر کے نیچے ایک آگ ہمیشہ چھپی رہتی ہے۔ =جویا کا دل اس غزل آرائی سے خوشی نہیں پاتا، اس کا مدحت گر قلم تو منقبت گو ہے۔ =دنیا کے دلیروں کے بادشاہ (مراد حضرت علیؓ) وہ ذات ہیں کہ میرے قلم کی زبان ان دو مطلعوں سے ان کی مسلسل مدح و منقبت میں مصروف ہے۔ =میں ان کی خاک در کے ایک ذرے کے عوض دونوں جہان بھی قبول نہ کروں، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب ان کے سر کے قربان =ان کے قنبرؓ کے دروازے کی خاک جس کسی کے سر کا تاج بنی وہ فخر میں آسمان بلکہ اس سے بھی بالاتر ہو گیا۔ =غلامان علیؓ میں قنبرؓ کے بعد کوئی بھی ان (قنبرؓ) کا سوائے خود ان کے ہمسر نہیں ہو سکتا۔ جب ابراہیم خان آخری مرتبہ ناظم کشمیر ہوا تو جویا کو اس کا بہت قرب میسر رہا۔ اس نے 1706/1118 میں سفر آخرت اختیار کیا۔ اس نے بعض اہل سنت اکابر کے مقام سے متعلق ایہام سے کام لے کر اس قسم کی شوخی کی تھی: بر سرش گل باد گرز آتشیں برتنش نار جہنم نور ماہ چنانچہ جب وہ فوت ہوا تو بعض سنی شعرا نے بھی اس کی تاریخ وفات میں اس کا جواب دیا اور یوں شوخی کی، تاریخ: ’’رافنی‘‘ تاریخ جو یابست و نقش بود کم چونکہ ’’گز‘‘ کردند اوراگشت تاریخش درست (118=27+1091) سو جس کا بدلہ ہو سکتا ہے اس کی شکایت کیا۔ اس کی وفات1707/119میں ہوئی۔ کامران بیگ گویا: میرزا داراب بیگ جویا کا بھائی ہے۔ مشہور ہے کہ ایران سے ایک شاعر آیا ہوا تھا۔ کامران بیگ اس سے بے ادبانہ ملا۔ وہ شاعر برداشت نہ کر سکا اور بولا لعنت ہے اس سامری 1؎ پر جس نے تجھ ایسے بچھڑے کو گویا (بولنے والا) کیا۔ پھر ایک صحبت میں ان دونوں بھائیوں سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس نے دونوں کے تخلص پوچھے۔ ایک نے کہا: جویا اور دوسرے نے کہا: گویا۔ جواب میں اس نے فرمایا: تم دونوں بھائیوں نے طالب کلیم2؎ کا تخلص آپس میں خوب تقسیم کر لیا ہے۔ کامران بیگ کے اشعار (متن میں کوئی شعر نہیں) لالہ ملک شہید: اہل کشمیر تھا اسی زمانے میں وہ بھی سخن گوئی کے راہ طے کر رہا تھا۔ تایخ نکالنے میں اسے خدا داد قدرت حاصل تھی، تاہم اس امر کو اس نے بہت ہی مبتذل بنا دیا، کیونکہ ہر کس و ناکس کے لیے وہ تہنیت اور تعزیت کی تاریخ کہہ دیتا، گویا اس کی تاریخ، بازار کی شے بن گئی تھی۔ شعر بھی برے نہیں کہتا تھا۔ حافظے کے خزانے سے اس کے یہ دو شعر تحریر کئے گئے، شعر: لام قدمن بالف قد تو ’’لا‘‘ شد یعنی کہ وجودم بو صال تو فناشد در آتشم نشستہ خموش از فراق دوست چون غنچہ ہای لالہ مرا سرمہ در گلوست اس نے ابراہیم خان کے عہد کے فتنے کی ’’ وہ مجلس‘‘ موزوں کی ہے۔ اپنے وقت کے صاحبان خوش طبع میں سے تھا۔ خواجہ ضیاء اللہ دیوانی: خواجہ ہاشم کا خلف الصدق ہے۔ اخلاق و اطوار میں اسے اپنے باپ پر برتری حاصل تھی۔ صاحب حسن طبع اور خوبی اوضاع کا مالک تھا۔ اکثر اوقات اہل سنت و جماعت کے فقرا کی خدمت میں کمر بستہ رہتا۔ کبھی کبھی شعر گوئی کی طرف بھی مائل ہوتا۔ یہ رباعی اس کی ہے: مردم بہ جنون زیکدگر در پیش اند خود را بہتر زغیر خود اندیش اند این بر خر خود نازو و آن برزرخویش این مردہ دلان زندہ بہ خبط خویش اند (لوگ جنون میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں لگے ہوئے ہیں، وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں یہ اپنے گدھے پر نازاں ہے تو وہ اپنی دولت پر، یہ مردہ دل اپنے اپنے خبط میں زندہ ہیں) جب اس کا وقت آ پہنچا تواس نے وصیت کی کہ اہل سنت و جماعت کے د ستور کے مطابق اس کی تجہیز و تکفین اور غسل کا بندوبست کیا جائے۔ چنانچہ اسی طریقے پر عمل ہوا۔ حاجی اسلم، سالم: ابدال بیت کا بیٹا ہے جو کشمیر کے ہندو اعیان میں سے تھا۔ا پنے دیگر تین بھائیوں سمیت شیخ محسن فانی کی خدمت میں جا کر مشرف بہ اسلام ہوا، اور انسانی کمالات کی تحصیل میں کمربستہ ہو گیا۔ آبدار اشعار کہنے میں اپنے ہم عصروں سے گوے سبقت لے گیا۔ ہندوستان پہنچا جہاں شاہزادہ عالی جاہ محمد اعظم شاہ کے ملازمین میں شامل ہو گیا۔ جنگ سلطانی کے بعد کشمیر واپس آ گیا اور یہاں آرام و سکون، ہمواری وضع اور سلامت طبع سے لوگوں کے دل مسخر کیے۔ اس نے شاہزادہ کے فیل جنگ پر بڑی ہی تلاش (مضامین) سے نظم کہی ہے۔ چونکہ ماثر عالمگیری کے مصنف نے وہ نظم پوری کی پوری نقل کر دی ہے۔ اس لیے اس کتاب میں، طوالت سے بچنے کے لیے، اسے درج کرنے سے احتراز کیا گیا ہے اور اس کی اس غزل پر، جو نعت میں ہے، اکتفا کیا جاتا ہے۔ یہ غزل اس کے روشن فکر کی واردات کا نمونہ ہے، غزل: بر اوج بردہ شرع تو دین قویم را پیوند کردہ لعل خط مستقیم را چون تاب مہ کہ مظہر انوار مہرشد نطق تو تازہ کردہ کلام قدیم را درشش جہت تبسم صبح ہدایت ست روشن نمودہ معنی خلق عظیم را ابر شفاعست کہ ہمہ بحر رحمت ست تفسیر کردہ آیہ عفو کریم را لطف تو بر سر ہمہ افراد کائنات قسمت نمودہ سایہ فیض عمیم را شاید بدل شود بہ ہوامی مدینہ اتؐ از خلد ہر سحر ملک آرد نسیم را از بسکہ در ازل شرف بیعت تو یافت پوشیدہ دست نور الٰہی کلیم را از امرو نہی شرع سینیت دو کعبہ است میزان عدل محشر امید و بیم را لطفت نجات سالم عاصی ست روز حشر باشد شفاعت تو شفا این سقیم را ان مذکورہ دو گروہوں کے علاوہ ایک اور گروہ کمال اور تکمیل کے تکیے کا سہارا لیے ہوئے تھا، جیسے حاجی حیدر جدیبلی، ملا فائق، ملا بینش، آذری، ملا ثابت، حاجی حیدر کا بیٹا حاجی بابا جو مغنی تخلص کرتا تھا، اور اپنے ہم عصروں میں لطف طبع اور حسن تلاش(مراد نئے نئے مضامین پیدا کرنا) کی بنا پر صاحب امتیاز تھا۔ اس نے قصہ کربلا کو بہت ہی خوب موزوں کیا ہے۔ اس میں سے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں: دل آتش ز جوش گریہ دریاست ز گوہر آب را درول گرہنا ست ہوا از دور او شد آتشین رنگ چمن از غنچہ بسریز دل تنگ چہ می پرسی ز خاک پاک طینت کہ دارد یک جہان گرد کدورت اگر سنگ است آتش دردل اوست وگر کوہ است وارد نالہ را دوست تو غافل داغ جانکاہی نداری فروغ شعلہ آہی نداری بر آ از پردہ ہمچون برق نالہ لباس شعلہ در برکن چو لالہ بہارستان داغ و سیل خون شو ز جوش گریہ طغیان جنون شو در اشکی کہ ریزی در عزایش جہان مغفرت باشد سزا یش بگوش دل سخن پرداز گشتم فروغ شعلہ پرواز گشتم کہ از باد بروت خصم خونخوار بود خاموش شمع نالہ زار ترادد آتش خاموش نالہ زبان داغست ہمچون برگ لالہ زدست فتنہ بیدار در خواب نمی گردد بگرد دیدہ ہا آب عیان گردیدہ در عہد ستمگر بجائے گل قتدا بر دامن تر چو طفل اشک در عالم بدیدم بجز مژگان سیہ پوشے ندیدم زبس پیچیدن برخصم بدخواہ چو داغ لالہ در خون شد آہ آہ فغان مانند دل درخون طسیدہ بجامی نالہ جان برلب رسیدہ 1 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرع نے دین حنیف کو بلندی پر پہنچا دیا، خط مستقیم سے لعل کو پیوند کر دیا (یا خط مستقیم کے لعل کو پیوند کر دیا؟) 2چاند کی روشنی کی مانند، جو آفتاب کے انوار کا مظہر بنی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک نے کلام قدیم کو تازہ کر دیا۔ 3 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق عظیم کے معنی کو اس طرح روشن فرمایا کہ پورے عالم میں صبح ہدایت مسکرا اٹھی۔ 4 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابر شفاعت نے ، کہ سراسر بحر رحمت ہے، عفو کریم کی آیت کی تفسیر کی ہے۔ 5 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم نے کائنات کے تمام افراد کے سروں پر فیض عام کا سایہ پھیلایا ہے۔ 6 اس خیال سے کہ شاید وہ (نسیم) مدینہ کی ہوا کا بدل بن جائے، فرشتہ ہر صبح خلد سے باد نسیم لے کر آتا ہے۔ 7 ازل میں حضرت کلیم (موسی ؑ) نے اس قدر آپ کی بیعت کا شرف حاصل کیا کہ نور خدا کے ہاتھنے انہیں (کلیم کو) چھپا لیا۔ 8 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرع مبیں کے امرو نہی کے دو کعبہ ہیں جو امید و بیم کے محشر کے میزان عدل ہیں۔ 9حشر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لطف و کرم سالم عاصی کی نجات کا باعث ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اس مریض کے لیے شفا ہو گی۔ ٭٭٭ 1آتش کا دل جوش گریہ کے باعث دریا ہے، گوہر کی وجہ سے پانی کے دل میں گرہیں ہیں۔ 2 فضا اس کے دھوئیں سے آتشیں رنگ ہے، چمن غنچہ لبریز سے دل تنگ ہے۔ 3توطینت (سرشت) کی خاک پاک کے بارے میں کیا پوچھتا ہے، اس میں تو کدورت یعنی آلودگی کی گرد کی ایک دنیا ہے (بہت ہے) 4 اگر پتھر ہے تو اس کے دل میں (اندر) آگ بھری ہے اور اگر پہاڑ ہے تو اسے نالہ پسند ہے۔ 5 اے غافل تو جانکاہی کے داغ سے محروم ہے، تجھ میں کسی آہ کے شعلے کی روشنی نہیں ہے۔ 6 تو نالہ کی بجلی کی طرح پردے سے باہر آ اور لالہ کی طرح شعلے کا لباس پہن۔ 7 تو داغ کا بہارستان اور خون کی تیز رو بن جا اور جوش گریہ سے جنون کا طغیان بن جا۔ 8 اس کے ماتم میں تو اشکوں کے جو موتی گرائے گا اس کی جزا جہان مغفرت ہو گا۔ 9 میں گوش دل سے سخن پرداز ہوا، میں پرواز کے شعلے کی روشنی بن گیا۔ 10 کہ خونخوار دشمن کی خنک ہوا (باد برودت بمعنی خشک ہوا، باد بروت بمعنی غرور، گھمنڈ، یہاں بروت ہی صحیح ہے برودت سے فاعل واضح نہیں ہے، یعنی خونخوار دشمن کے گھمنڈ کے ہاتھوں) سے نالہ زار کی شمع خاموش ہوتی ہے (بجھ جاتی ہے) 11 نالہ کی آتش خاموش ٹپک رہی ہے، زبان لالہ کی پتی کی طرح جلی ہوئی ہے۔ 12 نیند میں فتنہ بیدار کے ہاتھوں آنکھوں کے گرد پانی نہیں پھرتا۔ 13 ستمگر کے عہد میں عیاں ہو گیا کہ دامن تر پر گل کی بجائے فتادہ ہے (؟) 14 میں نے طفل اشک کی مانند دنیا میں دیکھا، مجھے پلکوں کے سوا کوئی سیاہ پوش نظر نہ آیا۔ 15 بدخواہ دشمن پر بیحد لپٹنے (؟) کے سبب کسی لالہ کے داغ کی طرح وہ خون میں (نہا) گیا، افسوس، افسوس 16 فغان، دل کی مانند خون میں تڑپ اٹھی، نالہ کی بجائے جان ہونٹوں پر آ گئی۔ مشہور ہے کہ جب ابراہیم خان آخری مرتبہ کشمیر آیا تو حاجی بابا، جو اس کا رفیق تھا، دربار چلا گیا اور ناظم کے ساتھ کشمیر نہ آیا۔ اس کے والد حاجی حیدر نے ملاقات کے موقع پر ابراہیم خان سے کہا کہ ’’ نواب اس مرتبہ بے معنی کشمیر آئے‘‘ اختصار سے کام لیتے ہوئے اسی پر اکتفا کی جاتی ہے اور اب سراپا سرعت قلم سلاطین کے حالات کی طرف توجہ فرماتا ہے۔ ٭٭٭ ابو النصر قطب الدین محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ بادشاہ عالمگیر کا دوسرا بیٹا ہے۔ اس کے حالات کی تفصیل مختصراً اس طرح ہے کہ وہ 1643/1053 میں پیدا ہوا۔ حفظ قرآن، قرات، فقہ و حدیث کے علوم اور بے نہایت انسانی کمالات سے پوری طرح بہرہ ور ہوا۔ عالمگیری سلطنت کے اوائل میں اس نے نمایاں کام کیے۔ لیکن جب وہ بلاد دکن کی تسخیر اور شاہ عباس ثانی کی خراسانؓ کی جانب حرکت کی مہم پر مامور ہوا تو کمال جاہ و اقبال کے باوصوف لافانی تقدیر کی بنا پر اپنے عاقبت اندیس (نا اندیش؟) رفقا کے فریب میں آ گیا اور حیدر آباد کی مہم کے دوران بادشاہ سے سرکشی کرتے ہوئے اس نے وہاں کے والی سے موافقت کرنے کی ٹھان لی۔ تاہم بادشاہ کے حسن تدبیر سے وہ قید ہوا اور چھ برس سے زیادہ کا عرصہ اذیت و مذلت کے ساتھ محبوس زنداں اور دیگر اولاد کے لیے تادیب کا باعث بنا رہا۔ قید سے رہائی کے بعد وہ کابل، پشاور، ملتان اور لاہور کی فرماں روائی پر مامور ہوا۔ کوئی دس برس اس نے ان حدود میں بسر کیے۔ جب اس نے پشاور میں بادشاہ کی وفات کی خبر سنی تو تیزی سے ہندوستان آ کر بادشاہ کے ایک دوسرے بیٹے شہزادہ عظیم الشان بہادر کے اہتمام میں بنگالہ کا خزانہ قابو کیا اور دربار کی طرف بڑھا۔ منعم خان دیوان کی، جو لاہور سے اکبر آباد (آگرہ) کی طرف بڑی تیز رفتاری سے بڑھا، خیر خواہی و حسن تدبیر سے بہت سا لشکر اکٹھا ہو گیا۔ ادھر سے محمد اعظم شاہ شاہی لشکر، اپنی افواج اور بیٹوں کے ساتھ جن میں سے ہر ایک بہادری سے رستم داستان کی نظیر تھا، عجیب قہر و جلال اور غرور سے نواحی اکبر آباد میں داخل ہوا۔ وہ اپنی قوت و اقتدار پر بہت نازاں تھا۔ اکبر آباد کے اطراف میں، دہرہ باغ کے قریب ’’ محاربہ ء سلاطین‘‘ شروع ہوا۔ اگرچہ بظاہر اعظم شاہ کا پلڑا بھاری تھا، تاہم دن کے آخری حصے میں بہادر شاہ کے لشکر والے رخ سے شدید ہوا چلنے لگی، جس سے اعظم شاہ کے آدمیوں کا معاملہ تلپٹ ہو کے رہ گیا۔ وہ جو بھی تیر و تفنگ دشمن کی جانب پھینکتے وہ الٹا انہیں آ کر لگتا۔ چنانچہ تھوڑی سی ہی دیر میں وہ فنا کا شکار ہو گئے اور فتح و نصرت شاہ عالم بہادر کے آدمیوں کا مقدر بنی۔ 18ربیع الاول کو اعظم شاہ عین لڑائی کے دوران میں بہت سے زخموں کے سبب راہی ملک عدم ہوا اور تخت و تاج نے محمد معظم شاہ عالم کے وجود مسعود سے زیب و زینت پائی۔ مذکورہ مہینے کی 19تاریخ کو جشن عام منایا گیا۔ شعرا اور فصحا نے عربی اور فارسی میں بہت سی تاریخیں موزوں کیں۔ ان میں سے ایک تاریخ جلوس کشمیر کے ایک عزیز فرد خواجہ لطف اللہ نے ان لفظوں میں نکالی، بادشاہ کو پیش کی اور مورد تحسین و انعام ٹھہرا: قدسیان تہنیت سال جلوس بشہ مرشد کامل گفتند عرصہ جشن شہنشاہی را محفل خلد مشا کل گفضد سال تاریخ ہمایوں و سعید ’’جشن شابنشہ عادل‘‘ گفتند (=فرشتوں نے مرشد کامل بادشاہ سے سال جلوس کی مبارکباد کہی۔ =جشن شہنشاہی کے میدان کو خلد کی ہم شکل محفل کہا گیا۔ =اس کی مبارک و خوش بخت تاریخ ان لفظوں میں کہی گئی ’’ جشن شاہنشاہ عادل‘‘ (یعنی 1119 مطابق1707) راقم حرف (اعظمی) نے ’’ شاہ باخبر‘‘ تاریخ نکالی۔(یہ تاریخ1111ھ بنتی ہے) بادشاہ نے اعظم شاہ کی اولاد اور نوکروں پر رحم فرماتے ہوئے سبھی کو لطف و کرم سے نوازا اور انہیں مطلق العنان چھوڑ دیا، اور سفر و حضر میں انہیں باریاب ملازمت رکھتا رہا۔ ملکی امور اور نظم و نسق درست کر کے دوسرے سال جلوس کے آخر میں وہ دکن کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے سلطان کام بخش کو، جو معدودے چند آدمیوں کے ہمراہ اس کے مقابلے میں آیا تھا، زخمی اور نیم مردہ کر کے قیدی بنا لیا اور پھر ممالک ہند کی طرف توجہ فرمائی۔ اس نے ان اندھے بدخصلت کفار بد کردار کے گروہ کی سرزنش کی جنہوں نے لاہور کے اطراف سے سرہند تک ہجوم کر کے قصبوں، بالخصوص سرہند کو تباہ کر دیا تھا اور ایک مدت تک گذر گاہیں اور راستے بند کر رکھے تھے۔ اس کے بعد وہ سیر کشمیر کے ارادے سے لاہور پہنچا۔ الغرض نواز ش خان نے جو اس وقت کشمیر کا صوبہ دار تھا اور بادشاہ کے پشاور سے گذرنے کے موقع پر منصب داروں سمیت خدمت شاہ میں پہنچنے پر مامور ہوا تھا، منصب داروں اور کوہستان کی مہمات پر اٹھنے والے خرچ کی کمی کا عذر کیا اور بادشاہ کے حضور حقیقت حال لکھ بھیجی۔ جواب آنے تک وہ شہر میں داخل ہونے پر قادر نہ ہوا اور وقت اس نے عید گاہ میں گذارا کچھ دیر بعد حکم ملنے پر وہ شہر میں داخل ہوا۔ ایک سال اس نے کشمیر کی صوبہ داری کی، پھر اسے تبدیل کر دیا گیا۔ خط ثلث اور شعر میں اسے عجب مہارت حاصل تھی۔ یہ شعر اس کا ہے:ـ دلم ربودۂ آن پنجہ ء نگارین است مخمسی کہ بدل ناخنم زند این است (میرا دل اس مہندی رنگے پنجے یعنی ہاتھ نے اڑایا ہوا ہے۔ وہ مخمس جو میرے دل پر ناخن چلاتی ہے، یہ ہے) دور جعفر خان: (اس کے بعد) جعفر خان کلاں (بڑا) کا بیٹا کشمیر کی صوبہ داری سے سرفراز ہوا۔ وہاں پہنچنے تک اس نے خواجہ عبداللہ دہ بیدی کو اپنا نائب مقرر کیے رکھا۔ جب وہ خود کشمیر پہنچا تو اس نے عدالت و انصاف کے دائرے سے خود کو باہر نکال لیا، اور لوگوں پر ظلم و تعدی کے بعض دروازے کھول دیے، اس کے دور کے چند ایک واقعات اس طرح ہیں۔ جعفر خان کے زمانے میں پکلی کے اطراف سے ایک عورت کشمیر آئی۔ اس نے محکمہ قضا میں ایک ایسی بات کے صادر ہونے کا اقرار کیا، جس پر اس کا قتل واجب تھا۔ اگرچہ عدالت کے عملے نے حد کی سزا مقرر کی لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور اسے قتل کر دیا گیا۔ اسی سال قاضی القضاۃ قاضی حیدر معروف بہ قاضی خان کی نعش کشمیر پہنچی اس کی وفات اسہال سے ہوئی۔ اس نے عالمگیری دور کے آخر اور بہادر شاہ کے اوائل عہد میں قضا کے عہدے پر پورے استقلال و اعتبار سے کام اور اس دوباری منصب کو انصرام عطا کیا۔ا سے باغ میں دفن کیا گیا۔ لوگوں نے جعفر خان کے آدمیوں کے جور و ستم سے تنگ آ کر اس کے بعض پیشکاروں کے گھر جلا دیے اور ان پر حملہ کیا۔ خان مذکور اکثر شراب کے نشے میں دھت رہتا۔ اس افراط مے نوشی کے سبب وہ بیمار رہنے لگا۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں اس کے نہال حکومت کو، جس کی عمر ایک برس تین ماہ رہی، موت کی صر صر خزاں نے جڑ سے اکھیڑ دیا، ’’ جان جعفر خان بہ جیم ‘‘ (1706/1118) اس کی تاریخ وفات ٹھہری۔ اس کی لاش امانت کے طور پر دفنائی گئی اور بعد میں اسے ہند لے گئے۔ دور عارف خان: شہر کے پیش کاروں نے (جعفر خان کی موت پر) عارف خان معروف بہ قاضی محمد فاروق، کہ عارف خان کلاں کا پوتا تھا، دیوانی کے تعلق سے صوبے کا نائب بنا دیا۔ دور ابراہیم خان: یہ اس وقت کابل اور پشاور کا ناظم تھا۔ اسے علی مروان خان کے خطاب سے نوازا اور جعفر خان کے انتقال پر چوتھی مرتبہ کشمیر کی صوبہ داری سے سرفراز کیا گیا۔ا س اثنا میں اس کی عمر کا ڈھول پھٹ گیا، آواز بیٹھ گئی اور ساز و سامان زندگی اس نے دوسری دنیا کو منتقل کر لیا اور مذکورہ عارف خان صوبہ داری کی نیابت کے فرائض انجام دیتا رہا۔ دور نواز ش خان: اب نوازش خان نے دوسری مرتبہ صوبہ داری کی خلعت پہنی۔ عارف خان، دیوان صوبہ، جو دربار معلی کی طرف سے خان مذکور کا نائب مقرر کیا گیا تھا، نظم و نسق میں مصروف ہو گیا۔ا س کی کمال دیانت اور حسن خدمت کے نتیجے میں عنایت سلطانی نے اسے امانت خان کے خطاب سے نوازا۔ 23ویں سال ہجری (یعنی 1123) کے اوائل میں صوبہ کی نظامت نوازش خان سے لے لی گئی۔ ان دو ایک سالوں میں جو واقعات ظہور پذیر ہوئے، ان میں سے ایک حادثہ سیلاب ہے، جس کا سبب کثرت باراں تھی۔ اس طغیانی سے کئی ایک گھر اور فصلیں اجڑ گئیں۔ سال کے آخر میں موسم گرما میں بازار صرافاں کے محلوں سے حادثہ آتش رونما ہوا، جس کی وجہ سے محلہ پلحمر اور اس کے اطراف تک کوئی بیس محلے، جو تیس چالیس ہزار گھروں پر مشتمل تھے، جل گئے ۔الغرض آب و آتش کے اس حادثے سے ایک دنیا پیوند خاک اور برباد ہو گئی۔ دور عنایت اللہ خان: یہ دربار میں خانسامان کے عہد پر تھا۔ اب اسے نظامت کشمیر کا منصب سونپا گیا، اس وجہ سے امانت خان کی جو عنایت اللہ خان کا بہت قریبی اور قابل اعتماد تھا، نیابت کو استحکام ملا۔ اس دور میں جو واقعات پیش آئے، ان میں ایک خلیل بیگ گروہ (؟) کا قتل ہے، جو رفض اور سب وشتم کی بنا پر عوام کے غیظ و غضب کے نتیجے میں قاضی محمد اکرم، نائب قاضی کے حکم پر ہوا۔ دوسرا واقعہ سو درش داس کے گھر پر عوام کے بہت زیادہ ہجوم و شورش کا ہے۔ جعفر خان کا پیش کار ہونے کی وجہ سے وہ بعض جراتوں کا مرتکب ہوا تھا۔ لوگوں کے ہلہ بولنے پر وہ بے قرار ہو کر نائب ناظم کی عدالت میں خواجہ نور الدین محمد آفتاب نقشبندی کے ہاتھ پر اپنے فرزندوں سمیت مشرف بہ اسلام ہوا۔ مذکورہ سال کے ماہ شوال میں خان مذکور، اپنے پورے عروج و کمال کے وقت، چند روز بیمار رہ کر راہی ملک بقا ہوا، اور صوبہ کی نیابت مشرف خان کو ملی جس کا نام میر نعمت اللہ اور جو عنایت اللہ خان کا داماد تھا۔ مذکور مشرف خان تین چار ماہ صوبہ کی نیابت پر مامور رہا لیکن اس نے ملکی اموررہا لیکن اس نے ملکی امور میں بڑی بے پروائی سے کام لیا۔ اسی دوران میں19محرم1124آخر فروری 1712 کو بادشاہ جم جاہ کی وفات کا واقعہ پیش آ گیا۔ شاہ عالم بہادر بہت رحم دل اور صاحب سخاو احسان تھا اور وہ کشمیر آنے کے لیے تیار تھا۔ جس کے سبب دو لتحانہ اور شاہی باغوں کی مرمت اور تیاری کے احکام صادر ہو چکے تھے۔ اس نے اکہتر برس عمر پائی۔ علم حدیث اس نے خوب حاصل کیا تھا۔ آخر میں وہ مذہب سے متعلق تذبذب کا شکار ہو گیا۔ وہ مذکورات بحث کو آگے بڑھانے کی فکر میں تفصیل میں پڑ گیا۔ انہی دنوں اس نے راہ آخرت اختیار کی۔ ایک ماہ کم پانچ سال سلطنت کی۔ چار شائستہ بیٹے پیچھے چھوڑے۔ ایک سلطان معز الدین مخاطب بہ جہاندار شاہ، دوسرا سلطان عظیم الدین معروف بہ عظیم الشان بہادر، تیسرا سلطان رفیع القدر مشہور بہ رفیع الشان بہادر اور چوتھا سلطان خجستہ اختر ملقب بہ جہان شاہ بہادر۔ بادشاہ کی وفات کے بعد چاروں بھائی ایک دوسرے پر قابو پانے میں لگے رہے۔ آخر کار جہاندار شاہ نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ اتفاق کر لیا اور 8 صفر کے دن شاہ عظیم الشان کو، جو دولت و جاہ، تدبیر و کاردانی اور رسائی و جمع خزائن میں سب سے برتر تھا، درمیان سے ہٹا دیا۔ جب فکر و تردد ختم ہو گیا تو امیر الامرا ذوالفقار خان، شاہی میر بخشی کے حسن سعی سے اس نے دوسرے دو بھائیوں کا بھی کام نپٹا دیا۔ بادشاہ کی وفات کے بعد ان میں سے ہر ایک سلطان زادہ نے، جو آل اولاد سمیت کوئی تیس افراد بنتے تھے، صرف بیس دن کی فرصت حیات پائی اور دو دو تین تین دن کے عرصے میں قضا و قدر نے سب کو ورطہ ہلاکت میں ڈال دیا۔ کئی ایک کے قتل ہو جانے اور بچ جانے والوں کو قید میں ڈالنے کے بعد وہ تخت سلطنت پر متکمن ہوا۔ امیر الامرا کو جو میر بخشی تھا، وزارت کل تفویض کی۔ اس کے باپ آصف الدولہ معروف بہ اسد خان کو وکالت مطلق سونپی اور اپنا لقب ابو الفتح جلال الدین جہاندار شاہ بادشاہ غازی اور مرحوم بادشاہ کا نام ’’ خلد منزل‘‘ قرار دیا۔ عنایت اللہ خان ناظم کشمیر کو ’’ مکان خدمت‘‘ پر (یعنی اس کے موجودہ منصب پر پھر سے) مامور کیا گیا۔ اس کی تبدیلی پر اس کے بیٹے ہدایت اللہ خان کو، جو خلد منزل کے عہد میں نیابت وزارت کی بنا پر وزارت خان کے خطاب سے مخاطب تھا، بادشاہ کے خان سامان کے عہدے سے نوازا اور سعد اللہ خان کا خطاب دیا گیا۔ عنایت اللہ خان ربیع الاول کے آخر 1124 شروع مئی 1712 میں کشمیر پہنچا۔ اس نے کوئی آٹھ نو ماہ صوبے کا نظم و نسق چلایا اس کی صوبہ داری کے زمانے میں صوبے کی اکثر ملازمتیں اس کے اقربا کے پاس رہیں۔ اس کے عہد میں محمد مظفر نے جو سلاطین پکلی کے ملازموں میں سے تھا، ان کی سلطنت کے درہم برہم ہونے پر تسلط حاصل کر لیا اور موضع درا و کرتا و پر قبضہ کرلیا جو پرگنہ کامراج کے علاقے ہیں۔ چونکہ یہ دونوں گاؤں صوبہ دار کی جاگیر میں تھے، اس لیے عنایت اللہ خان نے اپنے آدمیوں اور شاہی افواج کو دشمن کے آدمیوں کو سرزنش اور دلاسا پر متعین کیا۔ اسی اثنا میں سلطنت انقلاب کا شکار ہو گئی اور معاملہ ناتمام رہ گیا، جس کی وجہ سے محمد مظفر نے پوری طرح غلبہ حاصل کر لیا۔ انقلاب سلطنت کے ایام بحران میں یہ خبر آئی کہ عنایت اللہ خان کی جگہ ایک دوسرا صوبہ دار آ رہا اور وہ کوہستان میں پہنچ چکا ہے۔ عنایت اللہ خان نے اس وقت انتہائی پریشان خاطری کے باوجود، جس کا سبب اس کے صاحب رشد بیٹے سعد اللہ خان کا قتل اور اپنے معاملات کا تلپٹ ہونا تھا، ثبات قلب اور استقامت مزاج سے کام لیا اور اس خبر کو جھوٹی جانتے ہوئے اپنے آدمیوں اور شاہی افواج کو، اسے روکنے کے لیے، بادہ مولہ روانہ کر دیا اور اس امر کو قطعاً عمل پذیر نہ ہونے دیا۔ جب عظیم الشان مرحوم کے دوسرے بیٹے سلطان فرخ سیر نے، جو خلد منرل کے عہد میں ناظم بنگالہ تھا، وارث سلطنت کا دعوے دار بن کر لشکر کشی کی تو وہ سادات بارہہ کے حسن سعی و خدمت اور جاں فشانی سے اکبر آباد پہنچ گیا۔ جہاندار شاہ اپنے بیٹے سلطان اعزا الدین کی ہزیمت کے بعد خود اس طرف متوجہ ہوا اور اکبر آباد میں جنگ تخت نشینی میں شامل ہو گیا۔ خان جان بہادر کو کلتاش، جو میر بخشی تھا امیر الامرا کی سستی کے سبب مارا گیا۔ دوسری بات یہ کہ اس نے خاص طور پر اپنے ہوش و حواس غلبے کی خاطر، سلطان فرخ سیر کے امرا کی طرف قائم رکھے اور دیدہ و دانستہ لڑائی کے معاملے میں ہند کی مدد کی، جس کے نتیجے میں جہاندار شاہ کے لشکر میں بہت زیادہ بد دلی پھیل گئی۔ شاہ مذکور نے، خان جہان بہادر کے قتل کی خبر ملتے ہی راہ فرار اختیار کی اور وہاں سے سیدھا شاجہان آباد میں اس خان آصف الدولہ رکن السلطنت کے گھر پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی آصف الدولہ کا بیٹا امیر الامرا بھی آ گیا۔ا س نے بادشاہ کی رفاقت کے لیے باپ کو ترغیب دلائی۔ باپ نے جہاندار شاہ کی رفاقت میں مصلحت نہ جانی۔ چنانچہ شاہ کو نظر بند کر دیا گیا اور سلطان فرخ سیر کسی رکاوٹ کے بغیر اکبر آباد میں تخت سلطنت پر بیٹھ گیا۔ا ور سلطنت تو اس خدائے معبود کی ہے۔ ٭٭٭ ذکر حضرات سادات و علماء و مشائخ (جو عالمگیری عہد کے آخر سے بادشاہ محمد فرخ سیر کی تخت نشینی کے آغاز تک کشمیر میں رحلت فرما ہوئے) شیخ عبدالرحیم: ہندو تھے، چوہدریوں کے قبیلہ سے۔ شیخ نجم الدین معروف بہ نچی ریشہ بابا کی برکت خدمت میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر دنیا داری کے طور طریقے ترک کر کے تعلیم و تلقین پائی اور برسوں اس پر استقامت سے جمے رہے، تا آنکہ بابا سے انہیں اجازت مل گئی۔ کوئی چالیس برس تک مسلسل اپنے طریقے پر قائم رہے۔ پرانے کفر کو پاؤں تلے مل کر اسلام اور مسلمانی کی بنیاد کو مستحکم کای اور فراغت سے اور گوشہ نشینی میں زندگی بسر کرتے رہے۔ جب شادی کر لی تو رانیواری میں مکان بنا کر رہے اور اولاد بھی ہوئی۔ موت سے قبل اپنا مقبرہ دریا کے کنارے، میاں نانک مجذوب کے آستانے کے قرب میں تعمیر کر کے وہاں رہے۔ کہتے ہیں کہ اواخر میں آخوند ملا شمس الدین کبروی سے بھی انہوں نے نظر پائی تھی اور اس طریقہ عالی سے کسی قدر بہرہ ور ہوئے تھے۔ عصر اور مغرب کے درمیانی وقت میں انہوں نے سکوت و خاموشی کی قید لازم کر رکھی تھی۔ مخلص لوگ ان کے عجیب و غریب واقعات و کرامات بیان کرتے ہیں۔ ماہ شوال1120جنوری 1709میں مذکور مقبرے ہی میں انہوں نے ’’ کل نفس ذائقتہ الموت‘‘ (ہر ذی حیات کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کا شربت چکھا اور آسودۂ خاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو، وسیع رحمت۔ مشیخت پناہ سید حسین پکلی کبروی: ایک سلسلے سے حضرت میر محمد خلیفہ کے نمایاں خلفا میں سے تھے، ریاضات شاقہ اور حالات عالیہ کے مالک تھے۔ زمانہ سابق میں بھی کشمیر آ چکے ہیں۔ اس کے بعد حرمین محترمین گئے اور مناسک حج ادا کیے۔ اپنے وطن کے اطراف میں عجب مشیخت و ارشاد کے مالک تھے۔ اپنے شغل و وظیفہ میں کامل، سرگرم باطن، مضبوط الاوقات اور قاری الدعوت (دعائیں پڑھنے والے) تھے۔ شاہ عالم بہادر شاہ نے ان کی خدمت میں اخلاص بہم پہنچایا تھا۔ مدت مدید کے بعد ماہ شعبان 1122 اکتوبر1710 میں بعالم پیری پھر کشمیر آئے اور مذکورہ بادشاہ کے لشکر میں دو ماہ تک رہے۔ جب بادشاہ چلا گیا تو انہیں وہاں سے بیماری کی حالت میں وطن لایا گیا، جہاں وہ رحلت کر گئے (1710/1122) جو عزیزان کی صحبت و خدمت سے بہرہ ور ہوئے، وہ ان کے باطنی کمالات کے بارے میں عجیب حکایت بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ صاحب بروز و کمون (ظاہر اور پوشیدگی) تھے۔ عجیب و غریب تصرفات کے مالک تھے۔ حسن خلق، نیستی، انکسار اور شکستگی اور دید قصور (چارۂ کوتاہی؟) ان میں بدرجہ اتم تھا۔ شیخ محمد مراد رفیقی: حضرت خواجہ رفیق اشائی کی بیٹی کی اولاد سے ہیں، جن (رفیق) کا ذکر گذر چکا ہے۔ درویشی طور طریقوں اور کسب باطنی کے ساتھ ساتھ تحصیل علم کا باطنی ذوق بھی پایا تھا۔ اپنے وقت کے فضلا سے استفادہ کر کے علم منقولہ میں شہرۂ تام حاصل فرمایا۔ کتابوں کو بہت ہی ہوس اور اخلاص کے ساتھ درست رکھا؟ چنانچہ کتاب اور اہل علم و کمال کی صحبت کے علاوہ انہیں اور کوئی کام نہ تھا۔ ورع و تقویٰ سے خالی نہ تھے۔ عین عالم شباب میں رحلت کر گئے اور پسماندگان میں چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے۔ مرزا حیات بیگ: معارف آگاہ شیخ محمد کے مریدوں میں سے ہیں، اس لحاظ سے وہ ایک سلسلے سے جناب غفران مرتبت، دلایت و عرفان منزلت شیخ آدم بنوری قدس سرۂ کی ارادت و مریدی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے ان (آدم) سے بھی ملاقات کی ہے۔ شیخ آدم، حضرت مجدد الف ثانی، قطب ربانی شیخ احمد سرہندی، رضوان اللہ علیہ کے خلفائے رشید میں سے ہیں۔ ان حیات بیگ نے جب اس بزرگوار سے توجہ پالی واقف طریقہ ہو گئے اور استقامت اختیار کر لی تو اس کے بعد وہ کشمیر آ گئے معمولی سی ملازمت پر گذران کرتے ہوئے طریقت پر قائم اور درویشی کو رواج دیتے رہے۔ ان کی صحبت تاثیر سے خالی نہ تھی۔ وہ خوش اوقات تھے، صاحب کشائش تھے، اہل فنا و نیستی میں سے اور قانع تھے، نیز واقف کار اور طریقت شعار تھے۔ توحید کی باتیں بھی اپنی استعداد کے مطابق بیان کرتے۔ تقویٰ کے درجات طے کرنے میں لگے رہے۔ بعض لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ غافل اہل دولت سے اجتناب برتتے اور بے نیاز رہتے۔ علو ہمت کے مالک تھے۔ افادہ و ارشاد کی حالت میں تھے جب موت کا قاصد آ گیا، چنانچہ اسی برس کی عمر میں دار البقا کو سدھارے۔ دوم ذی الحجہ 1120آخر اکتوبر1708کو اپنے خرید کردہ باغ حسن آباد میں دفن ہوئے۔ ان کا شفیق بیٹا میر محمد ہاشم ایک دل آشنا، خوش صحبت، باعزت اور کتاب آشنا انسان تھے۔ سیادت پناہ اور فضیلت دستگاہ میر محمد افضل: دو تین سلسلوں سے سراپا سیادت و حقیقت سید میرک کی اولاد میں سے ہیں اور وہ معروف و مشہور اور شاہ و گدا کے ہم صحبت ہیں۔ یہ بزرگوار، شاہ سکندر کے زمانے میں اس دیار میں آئے اور محلہ ملارتہ میں سکونت پذیر ہوئے، وہیں مدفن بھی بنا لیا۔ ان کے دادا کا نام میر احمد یسوی تھا ان کے قبیلے کے کچھ لوگوں نے موضع رتنی پورہ میں سکونت اختیار کی اور ان کے آباواجداد بھی وہیں آسودۂ خاک اور سیادت میں مصروف ہیں۔ جناب میرک میر اپنے والد مری شمس الدین کی وفات کے بعد بہت زیادہ ظاہری فقر کے مالک تھے۔ پھر اویسیہ مرتبہ ان کا مربی بنا اور وہ توکل و استقامت میں بسر کرنے لگے۔ اس دوران میں شاہ نعمت اللہ قادری کی طرف سے انہیں رسل و رسائل پہنچتے رہے، جس سے وہ صاحب حال کے ساتھ ساتھ مقتدا بھی بن گئے۔ جناب شیخ داؤد خاکی ان کی سیادت اور ولایت کے معتقد تھے اور انہوں نے اپنی کتابوں میں ان (افضل) کی ولایت کی ولایت و سیادت کے اوصاف کو بہت سراہا ہے۔ یہ میر محمد افضل موروثی کمالات کے باوجود سیادت پناہ شاہ ابو الحسن قادری کی خدمت میں پہنچے، یقینا ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کی اور قرآن کریم کا ہدیہ پیش کیا تاہم اپنے جد امجد ان پر افضل صلوات و تسلیمات ہو، کی سنت کی پیروی میں زیادہ سعی کی۔ صلاح و تقویٰ سے آراستہ ہو کر گوشہ گیر اور خانہ نشین رہے۔ کلام اللہ کی کتابت کر کے اپنی روزی کا سامان کرتے۔ بڑے ہی پارسا تھے۔ ان کی سیادت اور سید برخوردار کی سیادت اس شہر میں جانی پہچانی ہے۔ مذکورہ صاحب 1711/1123 میں فوت اور اپنے آباؤ اجداد کے قرب میں آسودہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے، وسیع رحمت۔ ملا عبدالرزاق کو جواری: معروف بہ شاہ جیو، صغر سنی میں جناب خواجہ حیدر چرخی سے نظر و توجہ پائی تھی۔ بعد میں ان کے بیٹوں اور شاگردوں کی شاگردی اختیار کی۔ عقلی و نقلی علوم سے بہرۂ وافر پایا تھا۔ تعلیم و تعلیم میں زندگی بسر کرتے رہے۔ حتی المقدور پارسائی اور تقویٰ کی زندگی بسر کرنے کی سعی کی۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کا سارا جھکاؤ شافعی مذہب کی طرف تھا، بلکہ اس کے حامل تھے، اور اکثر کا کہنا ہے کہ شدت احتیاط کی بنا پر کبھی کبھی بعض شافعی اعمال بروئے کار لاتے تھے۔ عمر بہت زیادہ پائی۔ نوے برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ راقم حروف کئی مرتبہ ان کی سعادت بخش ملاقات سے فیض یاب ہوا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت مرشد مراد کی خدمت میں بھی ان سے ملاقات ہوئی جب وہ ان کے مرض موت میں عیادت کے لئے گئے تھے۔ 1122 یا1710/1123 یا1711میں رحلت فرمائی۔ مولانا محمد عابد: توبیگر (رفوگر) علم منقول کے فاضل تھے اور معقولات سے بہرۂ وافر پایا تھا۔ عالم عامل اور پارسائے کامل تھے زندگی گوشہ نشینی میں بسر کی اور کبھی مال داروں کے ساتھ مصاحبت پر راضی نہ ہوئے۔ معاملات میں بڑی احتیاط روا رکھتے۔ شرکا کے ساتھ گھر کی تقسیم کے بعد امرود کا ایک درخت ان کے حصے میں آیا۔ انہوں نے باغبان سے اس امر کی تحقیق کی کہ اس درخت کا پورا کس باغ سے لیا گیا تھا۔ اس کی مالکہ کو جو ایک بیوہ عورت تھی، انہوں نے پیغام بھجوایا کہ درخت کی قیمت لے لے یا پھر جنس میں لے۔ اس نے درخت جنس کی صورت میں چاہا۔ اسی وقت درخت کاٹ ڈالا اور اس کی خواہش پوری کر دی۔ ان کی پارسائی کے بارے میں اس قسم کی بہت سی حکایات نقل کی جاتی ہیں۔ ستر برس سے زیادہ عمر پائی۔ (1710/1122) میں رحلت فرمائی۔ کئی مرتبہ ان کے نور بار دیدار سے (راقم حروف نے) شرف اندوزی کی۔ اللہ نے ان کی برکات میں سے ہمیں عطا کیا۔ ملا عنایت اللہ چہ او: اپنے وقت کے فضلا میں صاحب امتیاز تھے۔ فضلا کی خدمت میں علوم حاصل کیے۔ بڑی گمنامی، فراغت اور آزادگی میں زندگی بسر کی۔ جب موت کا مقررہ وقت آ پہنچا تو سنہ (؟) میں رحلت کر گئے۔ قاضی عبدالکریم: چواد قبیلہ سے ہیں۔ ان کی والدہ مولانا یوسف کی بیٹی ہیں۔ مولوی ابوالفتح اور ان کے ہم عصروں کی خدمت میں اکثر علوم حاصل کیے اور مولویت کے مرتبے پر پہنچے۔ عالمگیری چھاؤنی میں ایک مدت رہے۔ قاضی یوسف کی تبدیلی پر کشمیر کے منصب قضا سے سرفراز ہوئے۔ کوئی چوبیس برس تک قضا کا نقاد امر پورے اقتدار و استقلال سے کیا۔ تقویٰ و صلاح اور شب خیزی سے خالی نہ تھے۔ قضا کے مقدمات واردات سے اکثر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے۔ عالمگیر عہد کے آخر میں خدمت قضا سے معزول ہوئے۔ پوری طرح عبادت و استغفار میں مشغول ہو گئے۔ انہی دو ایک سالوں کے اندر وفات پا گئے۔ مولانا ملا محمد محسن کشو: ملا محمد امین کافی اور دیگر فضلا سے علوم حاصل کیے۔ تھوڑی ہی مدت میں اپنے معاصرین پر فوقیت پا لی، خاص طور پر علم معقول میں تو مولویت کا ملکہ حاصل کر لیا۔ا پنے وقت میں معقولات کا درس بڑی محنت اور گہری علمیت کے ساتھ دیتے رہے۔ ان کی صحبت اور درس کا عجب فیض تھا۔ شاید ہی کوئی ان کی خدمت سے بے بہر رہا ہو۔ اکثر کتب بالخصوص ’’ معول‘‘ اور’’ ہدایہ‘‘ پر حواشی و تعلیقات لکھے۔ آج اکثر طالبان علم کو جو مرتبہ افادہ پر پہنچے ہیں، ان کی جناب کے سلسلے سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جناب اخوند ملا نازک سے باطنی شغل بھی حاصل کیا تھا۔ ابھی پچاس برس کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ 1707/1119 میں وفات پا گئے۔ حضرت ملا نازک کے احاطے سے بلندی پر اور محلہ تاشوان میں واقع مقبرہ حضرت سید محمد کرمانی میں دفن ہوئے۔ ملا محمد اشرف نتنو: حضرت خواجہ حیدر کے احفاد میں سے ہیں۔ خواجہ محمد طیب کے خلف الصدق تھے جو بلا واسطہ حضرت خواجہ کی اولاد سے ہیں۔ کمال کی جودت طبع، وقت ذہن اور استقامت مزاج کے مالک تھے۔ بزرگوں سے تحصیل علم کے بعد مولانا محمد محسن، جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے، کی خدمت میں پہنچے اور ان کی شاگردی اختیار کی، جہاں دقیق و نادر علوم حاصل فرمائے اور بہت زیادہ تبحر سے حاصل کیے۔ علم قرات میں عمدہ تصنیفات لکھیں۔ بعض فنون سے باخبر ہوئے اپنی تصانیف میں محاورہ اور بلاغت کلام کی بنا پر اپنے اکثر معاصرین میں ممتاز و مستثنیٰ ہیں بڑھاپے میں قدم رکھا تھا کہ 1708/1120میں وفات پا گئے۔ ملا کاظم جو (یاچہ او): قاضی عبدالکریم کے چچا زادوں میں سے ہیں۔ ضروری علوم حاصل کر کے تدریس میں مشغول ہو گئے۔ پارسا تھے اور اہل زمانہ کی طرف کبھی التفات نہ فرماتے۔ اکثر گوشہ نشینی اور دوسروں سے کٹ کر رہنے کی طرف مائل رہتے۔ فیض اور رقت سے خالی نہ تھے۔ بہادر شاہ کے اوائل عہد میں1120ھ میں رحلت کی۔ قاضی حیدر قاضی خان: قبیلہ بچات سے ہیں۔ چھوٹی عمر ہی میں تحصیل علوم میں کامیاب ہوئے۔ بیشتر مولوی عبدالرشید زرگر کی خدمت میں زانوے تلمذ تہ کیا۔ شدید تنگ حالی کے باوجود جس سے ان دنوں وہ گذر رہے تھے، تحصیل علوم پر کمر بستہ رہے۔ اپنی پیہم جدوجہد اور محنت سے اکثر علوم کے متبحروں میں شمار ہوئے۔ انقلاب زمانہ کے ہاتھوں انہیں وطن سے دوری اختیار کرنا پڑی اور عالمگیری لشکر میں چلے گئے، جہاں سیادت خان صدر الصدور سے شناسائی ہو گئی۔ رفتہ رفتہ ان کی دانشمندی کا شہرہ عالمگیر تک پہنچا اس طرح شاہی ملازمت میں باریاب ہوئے۔ تحقیق مسائل کی اکثر مجالس میں انہیں شرف حضوری میسر آیا۔ کچھ عرصہ شہزادہ عظیم الشان بہادر کی تعلیم و استادی پر تو کچھ عرصہ شاہجہان آباد کے عہدۂ قضا پر فائز رہے۔ آخر میں مذکورہ شہزادے کی رفاقت میں بنگالہ کی خدمت قضا انجام دیتے رہے۔ کوئی ایک برس تک بڑے ہی اقتدار کے ساتھ میں مشغول رہے۔ پھر دربار کے عہدۂ قضا پر مامور ہو کر اقضی القضات بنے، چنانچہ وہاں (بنگالہ) سے منتقل ہو کر مذکورہ عہدے کے لیے دربار پہنچے، اسی اثنا میں بادشاہ عالمگیر وفات پا گیا۔ تاہم بہادر شاہی دور میں بھی کوئی تین برس تک اس منصب پر کامیاب و کامران رہے۔ 1709/1121 کے اوائل میں مرض اسہال کا شکار ہو کر وفات پا گئے ان کی نعش دکن سے کشمیر لائی گئی۔ شہر سے باہر اپنے باغ واقع بچہ پورہ میں دفن ہوئے۔ جیسا کہ اس سے پہلے اوراق میں ذکر ہو چکا ہے، اس دور میں کچھ اور عزیز بھی تھے جن میںسے ہر کسی پر تفصیل سے لکھنا طوالت کا باعث ہو گا۔ ان میں سے ہیں خواجہ باقی قادری کے قلعہ میں سکونت پذیر تھے۔ راقم نے جب ان سے ملاقات کی ہے تو اس وقت وہ کوئی نوے کے پیٹے میں تھے۔ مرتاض اور مغلوب الحال تھے۔ 1710/1122 میں فوت ہوئے۔ شیخ مومن سہروردی پوتہ کام پوری۔ کشائش و احوال والے عزیز تھے۔ وہیں دفن ہوئے۔ ایک ہیں خواجہ مومن اسلام آبادی، صاحب جذبہ و استغراق تھے۔ پھر ظفر بابا ہمدانی ہیں کہ حضرت شاہ قاسم حقانی کے نبیرہ تھے، ایسے عزیز جو سراپانیکی، مضبوط الادقات، صاحب تمکین، عبادات میں موفق اور ارباب دولت کی صحبت سے گریزاں تھے۔ ایک ہیں بودی شیخ مرتاض اور مستقیم عزیز اور شیخ یعقوب سہروردی کے مریدوں میں سے تھے اور ان جیسے اور بھی تھے جن کے ذکر کے لیے سراسر فرصت اور ایک دفتر درکار ہے۔ علما میں حافظ حبیب اللہ ہیں جن کا تعلق محلہ جمالتہ سے تھا۔ ایک عالم باعمل انسان تھے۔ ملا ابو الحسن قاضی ساکن اک وہ دارہ، خلف ملا محمد امین قاضی، فاضل متقی تھے۔ دونوں عزیز ستر کے پیٹے میں تھے۔ انہوں نے علم و عمل کی لذت پائی۔ اللہ کی ان پر رحمت ہو نیز ملا ابو الحسن لولو، ساکن بلبل لنگر، مرد فاضل صاحب طبع اور جامع جزئیات تھے۔ ٭٭٭ ابوالمظفر معین الدین عالمگیر ثانی محمد فرخ سیر باد شاہ غازی: سلطان عظیم الشان کا دوسرا بیٹا، ایک کشمیری لونڈی سے ہے جسے بادشاہ اپنے عقد میں لے آیا تھا۔ شاہ عالم بہادر کی وفات کے موقع پر وہ صوبہ جات بنگالہ میں گورنر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ شاہزادہ (کی حکومت) کے انتشار اور جہاندار شاہ کی تخت نشینی کے بعد اس نے بنگالہ سے کوچ کیا اور لشکر فراہم کر کے، جیسا کہ پہلے تحریر ہو چکا ہے۔1712/1124کے اواخر میں وہ اکبر آباد (آگرہ) کے مقام پر تخت نشین ہوا۔ اس نے دنیا کو اپنے احسان فراواں سے شاد کام فرمایا۔ شاعروں اور ارباب بلاغت نے اس موقع کی تاریخیں کہیں، جن میں سے ایک یہ ہے: تاریخ: مژدہ بگوشم رسید از ظفر پادشاہ از پی تاریخ آن ’’شکر خدا‘‘ گفتہ ام (بادشاہ کی فتح کے بارے میں میرے کانوں میں خوشخبری پہنچی۔ میں نے اس کی تاریخ کے لئے ’’ شکر خدا‘‘ کہا ہے) راقم حروف نے یہ تاریخ نکالی: چو فرخ سیر شاہ والا ہمم بر اورنگ شاہی نہادہ قدم جہان را با حسان خود تازہ کرد برافگند بنیاد ظلم و ستم سزا وار اورنگ و نیہم اوست شناسامی اسرار تیغ و قلم بسال جلوس ہمایون شاہ زدہ کلک ارباب معنی رقم اذان جملہ گفت اعظم کم رموز ’’سلیمان ثانی بعدل و کرم‘‘ (=جب بلند ہمتوں والا بادشاہ فرخ سیر شاہی تخت پر بیٹھا، تو =اس نے دنیا کو اپنے احسان سے تازہ کر دیا اور ظلم و ستم کی بنیاد ڈھا دی۔ =وہ تاج و تخت کے لائق اور تیغ و قلم کے اسرار کا شناسا ہے۔ =ارباب معنی یعنی شعرا کے قلم نے بادشاہ کی مبارک تخت نشینی پر تاریخیں کہیں، =ان میں سے ایک اعظم نے کہ کم رموز ہے، کہی جو یوں ہے:’’ سلیمان ثانی بعدل و کرم‘‘ (1712/1124) جہاندار شاہ کے لشکر کی ہزیمت اور خان جہان بہادر، معروف بہ کو کلتاش خان، کے قتل کے بعد بادشاہ تیزی سے شاہجہان آباد (دہلی) پہنچا، جہاں اس نے جہاندار شاہ اور امیر الامرا کو قتل اور اکثر شاہزادوں کو مکحول (آنکھوں میں سلائی پھیر دی) اور مقتول کر دیا۔ چند روز کے بعد جب اس نے نظم و نسق سنبھال لیا تو بعض دوسرے امرا کے قتل کا بھی حکم صادر کیا، جن میں سے ایک عنایت اللہ خان کا بیٹا سعد اللہ خان میر سامان ہے، جسے چالیس روز محبوس رکھ کر قتل کر دیا گیا۔ عنایت اللہ خان کشمیر کے منصب نظامت سے معزول ہوا ۔ سادات خان بہادر معروف بہ میر محمد تقی کہ ایران کے شرفا میں سے تھا، عنایت اللہ خان کی جگہ نظامت کشمیر پر مقرر ہوا۔ اس کی بیٹی بادشاہ کے گھر میں تھی۔ اس نے کشمیر کے دیگر اچھے عہدے بھی اس کے اعزہ و اقربا کے لیے حاصل کیے، مثلاً علی محمد خان کو سادات خان نے اپنا تائب بنایا۔ عنایت اللہ خان لاہور چلا آیا اور وہاں سے حرمین محترمین چلا گیا۔ اس کے زمانے میں جو وقائع ظہور پذیر ہوئے، ان میں سے ایک مہم مظفر آباد ہے جو بعض سرداروں اور فوجداری منصب داروں نے تیار کی اور اس طرف کے علاقے پر تصرف کے ارادے سے کوہستانی باشندوں کو شورش پر آمادہ کیا۔ محمد ہت (ہیبت؟) بن محمد مظفر نے بے اعتدالی سے کام لے کر انہیں گرفتار کر لیا، جس پر عبدالعظیم خان، دیوان صوبہ نے جو اکابر ایران میں سے اور کربلا کا متولی زادہ ہونے کے علاوہ صاحب کمال تھا، نائب صوبہ کے ساتھ سخت سلوک کیا اور تنبیہہ و اصلاح کی طرف توجہ کی۔ چند ماہ اس مہم پر صرف کر کے مذکورہ گرفتار لوگوں کو رہائی دلائی اور محمد ہیبت کے بیٹے محمد معز الدین کو یرغمال بنا کر فتح و نصرت کے ساتھ لوٹ گیا نیز عبدالرزاق بن سید الفتاح، زمیندار پونج کو گرفتار کر کیلایا اس سے مناسب خراج و باج اور پیشکش وصول کی اور شہر میں گھما پھرا کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ نائب صوبہ دار کے آدمیوں نے اپنے ظلم و تعدی اور دیگر بدعتوں اور حرص و ہوس کی بنا پر بہت سے لوگوں کو آزردہ کر رکھا تھا۔ جب کچھ اوپر دو سال کے بعد بادشاہ دین پناہ کشمیر (والوں) کی فریاد سے متاثر ہوا تو اس نے سادات خان کے نائب علی محمد خان کو تبدیل کر کے اعظم خان کو کشمیر بھیج دیا، نیز سادات خان کے اکثر متعلقین کو معزول کر دیا۔ اعظم خان نے ایک برس سے کم کا عرصہ کشمیر میں گذارا اور صوبے کی نیابت دوبارہ علی محمد خان کو مل گئی۔ اس نے تقریباً ایک اور سال وہاں گذارا۔ اس کے بعد احترام خان، بخشی منصب داران کشمیر، نائب صوبہ مقرر ہوا۔ احترام مذکورہ سادات خان کے عزیز و اقارب میں سے تھا۔ علی محمد خان دربار روانہ ہو گیا۔ احترام خان نے کل سترہ روز نیابت کا فریضہ انجام دیا تھا کہ سادات خان سے کشمیر کی صوبہ داری لے لی گئی۔ عنایت اللہ خان، جو حرمین سے واپس آ گیا اور بادشاہ کی نوازشات کا مورد ٹھہرا تھا، دوسری مرتبہ کشمیر کا صوبہ دار مقرر ہوا اور اس نے صوبہ کے دیوان آقا بیگ خان کے نام نیابت کا پروانہ بھیج دیا، جب کہ میر احمد خان کے بیٹے میر احمد خان کو جسے شجاعت اور ضبط و ربط میں شہرت حاصل تھی، مستقل نائب مقرر کر دیا۔ خان مذکور1129/1717میں کشمیر پہنچا۔ اس نے تقریباً تین برس کمال نظم و نسق سے حکومت اور لوگوں کے ساتھ بھلائی اور ان کی بے حد داد رسی کر کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ سرکشوں، زیادتی کرنے والوں اور بدکار عورتوں کی تذلیل و تحقیر کر کے ان کی ساکھ گرا دی۔ 1719/1131کے اوائل میں دین پناہ بادشاہ اہل بارہہ (مراد سادات بارہہ) کی نمک حرامی کے سبب، جو سلطنت کے ان چھ سات برسوں میں دربار پر مسلسل غلبہ کیے ہوئے تھے اور بادشاہ ان کے ہاتھوں متواتر تردد اور شکوک کا شکار تھا، تدبیر کی کوتاہی اور تقدیر کی بنا پر، محمد مراد خان میر توزک کو آگے لایا اور اسے اس نے اعتقاد خان بہادر قمقام الدولہ کا خطاب دیا، اور امور سلطنت کا بست و کشاد اس کی رائے پر رکھا (اس کے نتیجے میں) سادات نے شورش برپا کر دی اور امیر الامرا حسن علی خان، دکن کے علاقے سے معین الدین نامی کسی جعلی شہزادے کو لے کر اور عظیم فوج کے ہمراہ آیا۔ مذکورہ اعتقاد خان نے ان کی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے شاہی بندوبست ہٹا دیا اور قلعہ سطور دولتخانہ کے اندر اور باہر ان کے آدمی لگا دیے۔ دوسری طرف ان کی قسم کے حوالے سے بادشاہ کو تسلی دی۔ سادات نے قلعہ اور دولت خانہ پر قبضہ کر کے غدر اور شور و غوغا برپا کیا۔ پھر بادشاہ کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ اور اس کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ بادشاہ ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ محبوس رہا اور ایک ماہ کے بعد اس نے شدید عذاب جھیلے، تآنکہ نو ربیع الاخر،سنہ مذکور کو اس نے شہادت پائی۔ بادشاہ بڑا ہی داد رس اور دیندار تھا۔ ہر شعبہ زندگی کے اہل کمال، کیا علما اور کیا شعرا، حتیٰ کہ مصوروں اور نقاشوں کی بڑی قدر دانی کرتا۔ صالحین کو عزیز رکھتا۔ بخشش و سخاوت اور خدائے کریم کی عبادت کو اس نے گویا اپنا پیشہ بنا رکھا تھا۔ اس کی موت پر اہل عالم نے ماتم کیا۔ حقیقت میں یہ واقعہ اکثر بلاد، بلکہ دیگر ممالک میں شورشوں کے ظہور کا باعث بنا اور اس دور سے اہل عالم میں افتراق روز بروز بڑھ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ راعی (بادشاہ) اور رعایا کے امور کی اصلاح کسی بھی طور صورت پذیر نہیں ہو رہی۔ ایک شاعر نے اس واقعہ (بادشاہ کی موت) کی تاریخ یوں نکالی: تاریخ: دیدی کہ چہ با شاہ گرامی گردند صد جور و جفاز راہ خامی کردند تاریخ شہادت شہنشہ دل گفت ’’سادات بوی نمک حرامی کردند‘‘ 1131 (تو نے دیکھا کہ عظیم بادشاہ کے ساتھ کیا گیا۔ اس پر، ان لوگوں نے اپنی کم عقلی سے،سینکڑوں جور و جفا کیے دل نے شاہنشاہ کی شہادت کی تاریخ ان الفاظ میں نکالی:’’ سادات بوی نمک حرامی کردند‘‘ یعنی سادات نے اس کے ساتھ نمک حرامی کی)’’ 1719/1131‘‘ نیز: دل باسر حیف گفت تاریخ ’’تجدید فساد کربلاشد‘‘ 1131 (دل نے افسوس کے ساتھ تاریخ کہی فساد کربلا کی تجدید ہوئی) چونکہ بادشاہ کی وفات اس کی دونوں آنکھوں میں زہر آلود سلائی پھیرنے سے ہوئی اس لیے ’’چشم زخم‘‘ کے الفاظ کے تلازمے سے درج ذیل تاریخ کہی: از دغاے ستمگران شریر شد گرفتار پنجہ ء تقدیر شاہ فرخ سیر معین الدین وارث تختگاہ عالمگیر افسرش میل چشم حق بین شد ہست نعش روان بجاے سریر چشم مردم تمام خونریز ست از غم آن شہ کرم تخمیر نشود آشنا بخانہ چشم نگہ از عبرت اندرین تشویر سال این حال بادشاہ جوان خواست اعظم زپیر صاف ضمیر دیدہ در ’’چشم زخم‘‘ عالم گفت سالش از نور چشم عالمگیر (=شریر ظالموں کے مکر و فریب سے وہ پنجہء تقدیر میں گرفتار ہوا یعنی =عالمگیر کے تحت کا وارث بادشاہ فرخ سیر معین الدین = اس (فرخ سیر) کا تاج اس کی حق بیں آنکھ کی سلائی بن گیا۔ تخت کی بجائے وہ نعش رواں ہے۔ =بخشش و سخاوت کی فطرت رکھنے والے اس بادشاہ کے غم میں لوگوں کی آنکھیں خون بہا رہی ہیں۔ = اس شور و فساد میں نگاہ، عبرت کے سبب، خانہ چشم سے آشنا نہیں ہو رہی۔ =اعظم نے اس جوان بادشاہ کے حال کے سال سے متعلق روشن ضمیر پیر سے پوچھا، = اس نے عالمگیر کے نور چشم کی تاریخ وفات ’’ چشم زخم عالم‘‘ (1131) میں دیکھ کر بتائی (چشم زخم=بری نظر کا ضرر) ’’ فاعتبروایا اولی الابصار‘‘ (اے صاحبان شعور عبرت حاصل کرو) سے بھی بخلاف الف زائد، اس کی آنکھوں میں سلائی پھرنے کی تاریخ نکالی گئی۔ راقم حروف (اعظمی) نے آنکھوں میں سلائی پھیرنے اور بادشاہ کو شہید کرنے کی تاریخ ’’ چشم زخم عالم‘‘ کے الفاظ سے نکالی بلا شبہہ یہ واقعہ دنیا کی تشویش اور تفرقہ کا سبب بنا۔ ٭٭٭ اصحاب کمال (جو اس دور میں کشمیر میں زندگی بسر کر رہے تھے) ملا عنایت اللہ شال: اپنے دور کے فضلاء بالخصوص مولوی ابو الفتح کلو اور ملا عبدالرشید زرگر کی شاگردی اختیار کی۔ حضرت خواجہ حیدر چرخی کے بعض فرزندوں کے مدرسے میں بھی کسب علوم کیا۔ تھوڑی ہی مدت میں اپنے ہم عصروں پر فائق ٹھہرے۔ علم حدیث، اس کی روایات اور اسناد میں بالخصوص صحیح بخاری کی تدریس میں بے مثال تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے چھتیس مرتبہ اونچی آواز سے صحیح بخاری اول سے آخر تک ختم کی تھی۔ بہت متقی اور صاحب ورع تھے۔ علم تقویٰ کی طرف پوری طرح مائل تھے۔ اکثر توکل و زہد سے زندگی بسر کرتے رہے۔ حضرت میاں صبغتہ اللہ سرہندی فاروقی کی جناب میں داخل مسلک ہوئے اور ان کی توجہ حاصل کی۔ پہلی ہی صحبت میں قلبی تاثیر پائی۔ خانقاہ معلی کے روبرو واقع نو مسجد جامع میں جمعہ کے روز وعظ دیا کرتے۔ موزوں طبع کے مالک بھی تھے اور صوفیانہ و درد مندانہ اشعار کہتے۔ 68برس کی عمر میں ماہ شعبان1713/1125میں رحلت فرما ہوئے۔ حافظ حسن اعمی: گاؤں سے شہر آئے، جہاں حضرت سیدنا و سندنا (ہمارے سردار اور ہماری سند) بابا میر محمد امین اویسی کے آستانے کے قریب ملچمر میں سکونت اختیار کی۔ شروع میں حضرت میر علی محمد قادری قدس سرہ کی جناب میں مرید ہوئے اور تعلیم حاصل کی۔ پھر حضرت اخوند ملا نازک نقشبندی کی خدمت میں سلسلہ نقشبندیہ کی نسبت حاصل کی۔ صبر و استقامت اور پرہیز گاری میں زندگی بسر کی۔ بڑھاپے کی ناتوانی اور نابینائی کے باوجود اکثر پانچوں وقت مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے، اہل زمانہ کے گھروں میں کبھی نہ جاتے اور ورع و تقویٰ اختیار کر کے شب و روز عبادت میں بسر کرتے۔ 1025 (1125؟) میں بعمر نوے برس فوت ہوئے۔ میر ابو الفتح قادری قدس سرۂ: اہل شادی پور میں سے ہیں جو کشمیر کے عمدہ بڑھئی شمار ہوتے ہیں۔ ان کی والدہ حضرت میر علی محمد قادری کی پاکیزہ باطن بیٹی تھیں چونکہ میر علی کا کوئی بیٹا نہ تھا اس لیے انہوں نے ابوالفتح کو اپنا لے پالک بنا یا، ان کی ظاہری اور باطنی تربیت کر کے علم و ادب اور تقویٰ کی تعلیم دی۔ جب وہ (میر علی) شاہجہان آباد (دہلی) روانہ ہوئے تو انہیں بعمر پندرہ برس اپنا قائم مقام بنا گئے۔ دہلی سے واپسی پران کی تربیت پر پوری توجہ کی۔ اپنی رحلت کے موقع پر، اپنے معاصرین کی مخالفت اور ممانعت کے باوجود انہوں نے ابوالفتح کو اپنا خلیفہ بنا دیا۔ اس کے بعد میر مذکور نے بڑی ثابت قدمی، تقویٰ اور خانہ نشینی کے ساتھ ظہور فرمایا۔ زندگی بھر فضل و تقویٰ سے آراستہ رہے۔ اپنی اولاد کو اکثر حصول علم اور تقویٰ کی ترغیب دلاتے رہتے اور یوں اسے (اولاد کو) فضیلت اور افادت کے رتبے تک پہنچا دیا۔ ماہ شعبان1713/1125میں رحلت فرمائی اور اپنے ٹھکانے کے قریب دفن ہوئے۔ سلطان میر جیو: حضرت شیخ نور محمد پروانہ کے بھتیجے ہیں۔ باطنی تربیت بھی انہی سے پائی۔ جوانی میں ریاضت و عبادت کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کیا اور فقہ و حدیث سے آشنا ہوئے۔ حضرت شیخ نور محمد کی وفات کے بعد ان کی خلافت کی مسند پر بیٹھے۔ ساری عمر انہوں نے غربت، تقویٰ، قناعت، آزادگی اور بے رنگی میں بسر کی اور قدم اور قلم سے خود کو عوام کی خدمت کے لیے وقف رکھا۔ زندگی بھر عاجزی، شرع پر عمل اور نیستی پر قائم رہے۔ حضرت میاں محمد امین ڈار نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ سلطان میر سے بوے فنا آتی تھی۔ 1125ھ میں رحلت کی۔ حکیم عنایت اللہ گانی: حافظ محمد شریف طبیب کے فرزند ہیں، جن کا ذکر پہلے گذر چکا ہے۔ ضروری علم حاصل کرنے کے بعد طبابت کے فن میں مشغول ہوئے۔ تھوڑی ہی مدت میں بہت ملکہ حاصل کر لیا۔ اس میں عجیب مہارت و استادی بہم پہنچائی۔ علوم عجیبہ، بالخصوص رمل اور شانہ سے باخبر تھے۔ ان سے، ان علوم کے آثار اور ثمرات کے بارے میں انوکھی حکایتیں مشہور ہیں۔ (ایک موقع پر) راقم حروف (اعظمیٰ) اپنے مرشد کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ محمد طاہر کنت نے آ کر بتایا کہ کل حکیم عنایت اللہ، اپنے دوستوں کے ساتھ کویہامہ کی طرف وارد ہوئے۔ میری موجودگی میں انہوں نے بکرے کا شانہ (کندھا) صاف کر کے ملاحظہ کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ اس شانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کی طرف ہماری واپسی جلد تر ہے، اہل مجلس میں سے ایک شخص گھوڑے سے گر پڑے گا، بوندا باندی ہو گی اور شہر کا ایک بڑا آدمی مر جائے گا۔ چنانچہ اسی روز نماز ظہر کے وقت جلودار، حکیم کی تلاش میں آیا کہ جعفر خان صوبہ دار بیمار ہے۔ خبر ملتے ہی حکیم سوار ہوئے۔ ادھر بوندا باندی شروع ہو گئی اور خود گھوڑے پر سے گر پڑے۔ شہر پہنچے تو جعفر خاں وفات پا گیا۔ طبابت میں حکیم کے بہت سے کمالات تھے۔ حسن صورت اور حسن سیرت کے مالک تھے۔ 1125ھ میں بمرض خناق فوت ہوئے۔ حضرت شیخ محمد چشتی عرف رادو: چھوٹی عمر ہی میں خدا طلبی کی توفیق میسر آئی۔ چار برس کی عمر میں مکتب نشینی کی تقریب آغاز میں، حضرت مولانا حیدر چرخی کی نظر میں آئے۔ یوں تحصیل علم، آداب شرعیہ اور عبادات میں بامراد ٹھہرے۔ شروع شروع میں تعلیم کتاب کے حوالے سے ملازمت کی۔ جب ان میں جذبہ الٰہی پیدا ہوا تو شیخ علی محمد چشتی کی خدمت میں پہنچ کر پوری پوری پابندی اور مکمل استقامت اختیار کی اور توفیق کی ثابت قدمی کے ساتھ جذب سلوک میں مشغول ہو گئے۔ نیز توکل، استقامت، کثرت عبادت و ریاضت میں اور اپنی مفید تصنیفات کی بنا پر ضرب المثل بن گئے۔ اسی دوران میں اہل و عیال کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر آ پڑا، تاہم اپنی اسی پرانی وضع کے ساتھ زندگی بسر کی۔ شہرت، خود نمائی ا ور دنیا دوستی سے ناواقف رہے۔ چشتیہ مسلک عالی کے مطابق ذکر جہر (بلند آواز میں ذکر کرنا) پر عمل کرتے رہے۔ تعلیم باطنی میں بعض لوگ بھی ان کی خدمت سے مستفید ہوئے۔ ان کے پر نور دیدار سے فنا و بقا کے انوار اور ولایت کے آثار نمایاں تھے۔ بلاشبہ وہ اسرار کی حقیقتوں کے مظہر اور دقائق انوار کے مقام طلوع تھے۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ درد درونی سے کبھی آسودہ نہ رہے۔ کچھ اوپر اسی برس کی عمر میں16شوال 1714/1126رحلت فرما گئے۔ راقم حروف نے اسی روز آنجناب کی زیارت و عیادت کا شرف حاصل کیا اور فاتحہ او رنظر خاص سے متخر ٹھہرا۔ اپنے دور کے بڑے بڑے اولیا اور عارفوں میں سے تھے۔ ریاضت، تقویٰ، معارف، ضبط اوقات اور کثرت عبادات میں اپنے ہم عصروں میں پورے طور پر صاحب امتیاز تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے صالح اور علم کے جویا فرزند چھوڑے اپنے گھر کے قرب میں جسے انہوں نے اپنی زندگی میں مدفن قرار دیا تھا، دفن ہوئے۔ حضرت قاضی دولت شاہ حسینی بخاری معروف بہ حضرت ایشان: ان کا مولد و مسکن بلاد اروس کا علاقہ سیرام ہے۔ چونکہ انہوں نے بخارا میں نشوونما پائی اس لیے وہاں سے منسوب ہوئے۔ حصول علم کے دوران میں سیدنا و سندنا (ہمارے سردار اور ہماری سند) حضرت مولانا میر محمد شریف البخاری الکحکینی (؟) قدس سرۂ کی جناب میں پہنچ کر ظاہری اور باطنی تربیت پائی، اس طرح ظاہری اور باطنی کمالات سے بہرہ ور ہوئے اور ظاہری علم کی تدریس اور ارشاد باطن کی خلافت سے سرفراز و ممتاز ہوئے۔ ایک مدت تک ماوراء النہر اور حدود ترکستان میں طالبوں کو فائدہ اور فیض پہنچانے میں مشغول رہے، اور ہر جگہ انہوں نے فیوض اور حقیقتوں کی اشاعت فرمائی۔ آخری عمر میں حرمین محترمین کی زیارت کے ارادے سے ترکستان کی حدود سے کوچ کر کے، براستہ کاشغر 1711/1123 میں کشمیر کو اپنے مبارک قدموں سے آراستہ کیا۔ تین برس سے زیادہ کا عرصہ اس شہر میں تربیت و اشار کا علم بلند کیے رہے۔ اہل علم اور اہل صلاح کی کثیر تعداد ان کی خدمت میں پہنچی اور ان کے سراپا انوار دیدار سے پوری طرح بہرہ ور ہوئی۔ آخر کار بیت اللہ کے طواف کے ارادے سے براستہ ہندوستان اس طرف متوجہ ہوئے۔ جب دہلی پہنچے تو بعض امرا کی التماس پر وہیں کچھ عرصہ اقامت اختیار کر لی۔ اس اثنا میں ان کی موت کا قاصد آ پہنچا، جس نے انہیں ان کی اصل منزل تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ15شوال1714/1126 کو ظہور پذیر ہوا اور اس آیہ کریمہ کا مصداق: ’’ اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف ہجرت کرے اور اسے (راستے میں) موت آ جائے تو اللہ پر اس کا اجر عطا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء آیت100)ٹھہرا۔ شکر ایزد ان کے پر انوار دیدار کی سعادت کئی مرتبہ میسر آئی اور صحبت خاص کا بھی اتفاق ہوا۔ اے خدا ہمیں ان کی برکات سے عطا کر اور ان کے درجات بلند فرما۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یسویہ کا بلند و آراستہ مسلک آنجناب ہی کشمیر میں لائے۔ حضرت شیخ محمد مراد نقشبندی قادری رضی اللہ عنہ: آنجناب معروف مفتی ملا محمد راما ہر کے فرزند ہیں۔ معقول اور منقول کے ضروری علوم حاصل کرنے کے بعد آغاز شباب ہی میں معرفت سبحانی کے ذوق سے سرشار ہوئے۔ مرشد تک پہنچنے سے دو برس قبل شدید ہر قسم کی ریاضتوں اور زائد عبادتوں میں مصروف رہے۔ جب ان کی طلب کی کشش سے اہل عالم کے مرشد حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی فاروقی نے کشمیر کو اپنی آمد سے آراستہ کیا، تو ان کی خدمت، انابت (توبہ تلا) اور طریقت کے ضروری لوازم ادا کرنے کے بعد، ظاہری ثروتمندی اور کثرت علائق کے باوجود دنیوی اشغال سے ہاتھ اٹھا لیا اور سرہند جا کر کچھ عرصہ بزرگوار مرشد کی خدمت میں بسر کیا اور بہت سے فوائد حاصل کیے۔ آنحضرت کے حکم سے، رشد و ہدایت کی اجازت پا کر، وطن لوٹ آئے۔ تین چار سال بعد پھر مرشد رشید کی خدمت میں پہنچے جو انہیں شاہجہان آباد میں ملے۔ جہاں حضرت حجتہ اللہ خواجہ محمد نقشبند کی خدمت سے بھی جو حرمین سے آئے تھے، اپنے مرشد آگاہ کی وساطت سے بہت زیادہ بہرہ ور ہوئے۔ ایک برس سے زیادہ کا عرصہ ان کی خدمت میں گذار کر واپس کشمیر آ گئے۔ اس مرتبہ گھر بار ترک کر کے بیج بہاڑا کی معروف مسجد میں، کہ ندی کے کنارے واقع ہے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ تقریباً چودہ برس اسی حال میں بسر ہوئے۔ پھر جناب مرشد کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ کثرت علائق بہت سی رکاوٹوں، آفات اور فتنوں کی موجودگی، دکھوں، دردوں اور رنج و خن کے باوجود سرہند روانہ ہوئے اور شاہ جہان آباد میں آنحضرت کی خدمت میں پہنچے۔ ایک مدت ان کی خدمت میں بسر کی۔ اس مرتبہ احمدیہ خاندان کے خاص کمالات سے بامراد ہوئے۔ پروردگار کی ہزاروں عنایات اور عطیات کے ساتھ کشمیر کا رخ کیا اور حضرت مرشد کی اجازت سے سلسلہ نقشبندیہ و قادریہ کے مطابق رشد و ہدایت کا طریقہ جاری کیا۔ اولیا کے سرگروہ حضرت شیخ محمد علی رضا کی خدمت سے بھی، جنہوں نے اس دوران میں کشمیر کو اپنے مبارک قدموں سے رشک فردوس بنا ڈالا تھا، بہرہ ور ہوئے اور ان سے کبرویہ، سہروردیہ اور چشتیہ سلسلوں کی اجازت حاصل کی۔ ان ایام سے مبارک عمر کے آخر تک صبر و قناعت سے شریعت مصطفویٰؐ سے سنت نبویؐ کے جادہ پر ثابت قدمی سے بیٹھے رہے۔ شب و روز عبادت الٰہی اور اس بحر بے کنار کے پیاسوں کی دستگیری کے سوا انہیں او رکوئی کام نہ تھا اور وہ طالب کے طالب تھے۔جب بھی کسی درویش کی خوشبو ان تک پہنچتی اس کی زیارت کے لیے وہاں پہنچ جاتے۔ باوجود کمال فراغ اور مناسب کار (؟) کے سوز و گداز میں بھی زندگی بسر فرماتے۔ اور راتون کو دن چڑھے تک سینہ افروز آہیں بھرتے اور جگر سوز نالے کرتے رہتے جن کا اثر اکثر اصحاب میں بھی سرایت کر جاتا۔ ایک کثیر جماعت اور بہت سی مخلوق اس صاحب کمال کے فیض بخشش سے خوشحال ہو گئی، حتیٰ کہ بعض عورتیں بھی صاحب جذبہ بن گئیں (ان کی) بیعت کے وقت بڑی احتیاط کرتے۔ عمر کے آخر تک اپنے ہاتھ ان سے دور رکھتے رہے۔ تمام امور میں احباب کی غمخواری اور ان پر مہربانی ماں باپ سے بڑھ کر کرتے۔ اکثر قرض لینے پر مجبور ہو جاتے۔ ان کی آمدنی میں کبھی اضافہ نہ ہوا۔ اس سلسلے میں وہ محفوظان الٰہی میں سے تھے۔ اس گناہ گار (اعظمی) نے کوشش کر کے سرکار بادشاہی سے ان کے وظیفے کی رقم کے بدلے جو چار تنگہ روزینہ کی صورت میں تھی، کوئی تین سو روپیہ اکٹھا حاصل کیا تھا۔ آنحضرت خود بھی قرض کی ادائیگی کی خاطر وظیفہ کی وصولی کا اہتمام کرتے رہتے۔ آنحضرت کی زندگی تک بجا کوشش نہ ہوئی، چنانچہ جب تک انہوں نے دنیا سے آنکھیں بند نہیں کیں اس وقت تک مذکورہ رقم نہ ملی۔ اپنے پیروں میں فنا ہونے، ان سے محبت اور ان کی فدویت کا جو انداز میں نے آنحضرت میں مشاہدہ کیا وہ مجھے دوسرے مشائخ میں نظر نہیں آیا۔ محبت حضرات میں سوختہ تھے اور ا س معاملے میں درس و عبرت کا سامان فرماتے۔ اواخر میں ضعف پیری کے باوجود تہجد میں ہزار آیات پڑھتے اور فجر کے بعد بلاناغہ ’’ حلقہ سکوت‘‘ کرتے۔ کبھی کبھی تو حاضرین کی تعداد چالیس سے بھی زیادہ ہوتی اور کبھی صرف دو ایک آدمی پہنچتے۔ اشراق کے بعد نماز کے ساتھ دیر تک تسبیح پڑھتے رہتے۔ احباب کی توجہ سے، جو باری باری حاضر ہوتے رہتے، خوراک کا کچھ سلسلہ کرتے۔ پھر تلاوت کر کے کلمہ طیبہ کے ورد میں مشغول ہو جائے۔ اس دوران میں آنے جانے والوں کی غمخواری کرتے اور شب و روز کے تمام اوقات اسی طور مخصوص عبادات میں کچھ اس طرح مصروف و مشغول رہتے کہ اس مختصر کتاب میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ گھر میں، صحرا میں اور سفر و حضر میں ان امور میں کوئی وقفہ نہ آتا۔ راقم آنحضرت کے احوال کی تفصیل رسالہ ’’ فیض مراد‘‘ میں جو پورا آنحضرت کے احوال پر مشتمل ہے، لکھ چکا ہے۔ 17رجب/1131جون1719کو بدھ کے دن بعمر پچھتر برس رحلت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور قربت خداوندی کی عظمتیں ان کی جائے پناہ ہوں۔ بعض احباب نے نظم اور نثر میں اس مقبول ذوالجلال کی تاریخ وصال کہی۔ اس حقیر فقیر نے حضرت مجدد کے اصحاب کی پیروی میں عربی اور فارسی نظم و نثر میں، نقطوں والی اور نقطوں کے بغیر، پچھتر تاریخیں کہیں، یہ سب تاریخیں رسالہ ’’ فیض مراد‘‘ میں لکھ دی ہیں یہاں ان میں سے چند تواریخ پر اکتفا کرتا ہوں: از مصنف(اعظم): حیف از دہر بے وفا بگذشت قبلہ عارفان حق آگاہ ۔۔۔۔ متحد شد بوحدت مطلق آنکہ بودہ بملک عرفان شاہ چون گل سبز سرز باغ جہان دست بردست رفت تادرگاہ بعد از و ملک دل خلل بگرفت حال ارباب شوق گشتہ تباہ بیدلان را ز شوق فرقت او کردہ اندر گلوست نالہ و آہ گفت تاریخ وصل او اعظم ’’وارث کامل رسولؐ اللہ .....‘‘ (=افسوس کہ حق آگاہ عرفوں کے قبلہ اس بے وفا دنیا سے گذر گئے، =وہ جو عرفان کی سلطنت کے بادشاہ تھے، وحدت مطلق میں مل گئے، =تروتازہ پھول کی طرح، وہ دنیا کے باغ سے، دست بدست دربار تک پہنچے =ان کے بعد دل کی مملکت خلل کا شکار ہو گئی اور ارباب عشق کا حال تباہ ہو گیا =ان کی فرقت کے کانٹے کے سبب (شوق کتابت کی غلطی ہے، یہاں شوک یا شوکہ بمعنی کانٹا ہونا چاہیے) بیدلوں کے حلق میں نالہ و آہ پیدا ہو گیا ہے۔ =اعظم نے ان کے وصل کی تاریخ ان الفاظ میں نکالی: رسولؐ اللہ کے کامل وارث) نیز: از جفاے سپہر غم بنیاد سرکنم بادل حزین فریاد چشم از سیل گریہ جیحونست دامن آسمان ہمہ خونست شاہ دین شیخ آسمان درگاہ مقتدای زمانہ مرشد راہ اختر برج لی مع اللسی گوہر معدن حق آگاہی بندۂ از قیود آزادہ نقشبندے ازین و آن سادہ علم خویش بر سپہر افراخت رفت و احباب را زغم بگداخت سالے تشریف او بخلد برین گفت دل ’’نقشبند ثانی دین‘‘ گوہر فکر را چومی سفتم باز شیخ الکمین می گفتم باز در دشت فکر گردیدم آہ از شیخ راہ نشیدم (=غم کی بنیاد رکھنے والے آسمان کے ستم کے ہاتھوں میں غمگین دل کے ساتھ فریاد کرتا ہوں =آنکھیں گریہ کے طوفان سے دریا کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں، آسمان کا سارا دامن خون سے بھرا ہے =دین کے بادشاہ، آسمان کی سی درگاہ رکھنے والے شیخ، جو زمانے کے پیشوا اور سلوک و معرفت کے مرشد ہیں =جو ’’ لی مع اللہ‘‘ (ایک حدیث: اللہ کے قرب میں میرے لیے ایک ایسا وقت آتا ہے جس میں نہ کوئی نبی بار سکتا ہے اور نہ کسی مقرب فرشتے ہی کی رسائی ہوتی ہے) کے برج کے ستارے اور حق آگاہی کی کان کے موتی =ایسے غلام جو قیود سے آزاد ہیں۔ اس اور اس سادہ کے نقشبند =جنہوں نے اپنا پرچم آسمان پر لہرایا، جو چلے گئے اور احباب کو غم میں پگھلا گئے =دل نے خلد برین میں ان کے تشریف لے جانے کا سال ’’ نقشبند ثانی دین‘‘ کے الفاظ سے نکالا 1131 =جب میں فکر کا موتی پرو رہا تھا تو پھر میں شیخ الکمین (؟) کہتا تھا =میں پھر دشت فکر میں گھوما، آہ میں نے مرشد کے بارے میں نہ سنا) نیز: شد قیامت آشکارا دورنیست ما تم درویش سلطان ہمت است سال تاریخ وصال آن امام گفت ہاتف ’’او مراد وحدت ست‘‘ (1131) (ہاتف نے اس امام کی تاریخ وصال یہ بتائی کہ وہ مراد وحدت ہیں) نیز: در خیال سال وصل مرشد عالی جناب کرد دل در چار مصرع ہشت تاریخ انتخاب شیخ اہل علم و حال و خازن اسرار ہو قطب شیخان جہان و صاحب خلعت بیاب قدوہ اہل شریعت گفتم و غواص دل باز بحر الفیض و شیخ دہر بود آمد خطاب عالی جناب مرشد کے وصل کی تاریخ کے خیال میں دل نے چار مصرعوں میں آٹھ تاریخیں انتخاب کیں: (جو اس طرح ہیں) شیخ اہل علم و حال، اسرار ہو کے خازن، شیخان جہان کے کازن اور صاحب خلعت بیاب میں نے قدوہ اہل شریعت کہا اور غواص دل (دل کے غوطہ خور) پھر بحر الفیض اور شیخ دہر بود (زمانے کے شیخ تھے) کی آواز آئی) (نام دیے بغیر حالات دے دیے ہیں) بخارا کے سادات میں سے ہیں۔ حضرت مولانا مرشدنا (ہمارے مرشد) سید شریف کچکینی کی جناب میں شاگردی اختیار کرنے کے بعد ہند چلے آئے اور میاں عبدالنبی نقشبندی سیام چوراسی کی جو ہندوستان کے مشائخ میں یگانہ ہیں۔ باسعادت خدمت میں راہ باطن کی منزلیں طے کیں۔ سنت نبوی کے آثار کی پیروی اور شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطوار کی پابندی میں عجب ثابت قدم تھے۔ فرخ سیر کے عہد کے شروع میں کشمیر آئے۔ طالبان علم کی ایک جماعت نے ان کی خدمت میں بار پایا۔ ان کے زیادہ تر وقت گہرے علوم کی تدریس میں گذرتا۔ 1718/1130میں رحلت کی اور کشمیر کے محلہ گوتہ وپرہ میں جہاں سکونت پذیر تھے، دفن ہوئے۔ شیخ اکمل الدین محمد کامل المشہور میرزا کامل بیگ بدخشی: حضرت سلطان خواجہ احمد یسوی کی اولاد سے ہیں۔ ان کے دادا تاشکند سے آ کر بدخشاں میں مقیم ہو گئے۔ اسی لئے انہیں بدخشی کہا جاتا ہے اکبر بادشاہ کے دور میں وارد ہند ہوئے اور ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصہ ناظم کشمیر رہے۔ ملک محمد خان ان کا خطاب تھا۔ الغرض میرزا ممدوح (کامل بیگ) کے والد ماجد عادل خان ان کی صغر سنی میں وفات پا گئے اور وہ پچپن میں خواجہ حبیب اللہ کے منظور نظر ہوئے۔ بارہ برس کی عمر میں آنجناب کی نیابت سے مشرف ہوئے اور مجاہدہ اور سخت ریاضت میں پوری طرح مصروف ہو گئے۔ شاہی ملازمت ترک کر کے فقر و قناعت کے گوشے میں بیٹھ گئے اور مرشد بزرگوار کی خدمت و فرمان برداری دل و جان سے کر کے مردوں کے مرتبہ کو پہنچے۔ پچیس برس کی عمر میں آنجناب کی خلافت پر فائز اور اس سلسلہ عالیہ کی مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔ ان کے حق منزل دل سے معانی و معارف کا چشمہ ابل پڑا۔ جس کے نتیجے میں وہ شیخ بزرگوار فرید الدین عطار اور مولوی معنی (یعنی مولانا رومی) کی پیروی میں ’’ جواہر اسرار‘‘ منصہ شہود پر لے آئے۔ اور چونکہ ان کی طبع شریف موزوں تھی۔ اس لئے انہوں نے معارف کو نظم کو جامہ پہنایا اور ان کی کتاب جس میں ان کے معارف جمع ہیں۔ ’’ بحر العرفان‘‘ ہے۔ جو چار جلدوں میں مرتب اور مکمل ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی ان کے معارف موزوں ہیں اس کتاب میں ان کے قصیدہ بعنوان ’’ مخبر الاسرار‘‘ سے جو انہوں نے سیر و سلوک کے دوران میں لکھا، چند اشعار تبرکا تحریر کیے جاتے ہیں: چون بدیدم دو جہان را کہ سو ادالو جہند چشم پوشیدم و بر ہر دو نظر بکشا دم خویش و بیگانہ بلا منکر و من زین دل شاد ہیچ در گوش نمی آید ازان فریادم فکری از دل متولد شد و براصل رسید رستم از باطل و حق راہ بحق بکشادم سرپس زانوی خود ماندہ ام از فکرت دل معلم شد و تعلیم تصوف دادم تلخ، شیرین شد و غم، شادی و وسواس برفت مرکبم رائض و من چابک و رہ آبادم انس حق و حشتم از غیر بجان و دل داد کرد از ظلمت کثرت ز جہان آزادم فتح کارم شد و امراض بصحت پیوست ذائقہ نیز بحال آمد و لذت دادم شد تمیزم کہ چہ تلخست و چہ شیرین ز غذا چیست نافع بدلم و آنچہ مضر افتادم طاعت و ذکر و غذا گشت بجانم چو ملک نیست آرام شب و روز بجز اورادم آکل نور شدم نیست غذایم خاکے للہ الحمد کہ من درچہ مقام افتادم خلعت فقرکہ فخرست مرا بخشید ند چون بخاک در مرشد سر خود بنہادم سالہا خاک درش راچو بمژگان رفتم تاکہ بالغ شدم و چشم خرد بکشادم دید مرشد کہ شدم پختہ و آمادہ بکار در ہمہ قید تعلق ز جہان آزادم جبروتشت ازین پیش منازل در راہ گوش دل جانب من کن کہ بشرح افتادم آنگہان گفت کہ بے مرگ نخواہی راہ یافت در زمان مردم و مردانہ براہ افتادم مردم از خویش ولی زندگیم حضرت اوست جان باقی عوضم داد چو این جان داد م قالبم قلب شدہ روح صفت بسیارست بر قدم آنچہ نظر داشت درین راہ دادم اصل ثابت شد و از فرع منزہ شدہ ام لا زوالیت خود دیدم ازان دل شادم من چہ، ہر کس کہ بدل گشت تو ابدال شناس خیر مقدم ہمہ عالم کہ بہ خیر افتادم لذتی یافتہ ام من کہ کنون سی سالست جان من مست ہمانست و برفت از یادم کاشکی ہر سر مویم بہ تنم جان بودی کاندرین راہ بشکرانہ آن می دادم تا دوسہ سال درین حال بسرمی بردم نہ زماضی ونہ مستقبل از آن در یادم 1(جب میں دونوں جہانوں کو دیکھا کہ وہ سیاہ چہرے والے ہیں تو میں نے آنکھ بند کر لی اور دونوں پر نظر کھول لی۔ (دل کی آنکھ سے دیکھا) 2(اپنے اور بیگانے آزمائش کے منکر ہیں۔ جب کہ اس سے میرا دل خوش ہے۔ اسی لئے میرے کانوں میں کوئی فریاد سنائی نہیں دے رہی) 3(دل میں ایک فکر نے جنم لیا اور اصل تک پہنچ گیا۔ میں باطل اور حق (کے جھنجھٹ) سے نجات پا گیا اور میں نے حق کا راستہ کھول لیا) 4(میں سوچوں میں سر بزانو پڑا ہوں۔ دل استاد بن گیا اور اس نے مجھے تصوف کی تعلیم دی) 5 (تلخ، میٹھا ہو گیا اور غم خوشی میں بدل گیا اور وسواس جاتا رہا۔ میری سوارمی قابو میں ہے اور میں ماہر ہوں اور میرا راستہ آباد ہے) 6 (حق کی محبت نے میرے دل و جان میں ماسوا سے وحشت بھر دی اور دنیا کثرت کی تاریکی سے مجھے آزاد کر دیا) 7(میرا کام بن گیا اور امراض کو صحت میسر آ گئی۔ ذائقہ بھی بحال ہو گیا اور مجھے لذت آنے لگی) 8(مجھے اس بات کی تمیز آ گئی کہ غذا میں کون سی چیز تلخ اور کون سی میٹھی ہے اور کون سی شے میرے دل کو نفع دینے والی اور کون سی مضر ہے) 9 (طاعت، ذکر اور غذا میری جان میں ملک کی صورت اختیار کر گئی۔ میرے لئے اوراد کے سوا شب و روز کا کوئی آرام نہیں ہے) 10(میں نور کا کھانے والا بن گیا، میرے غذا کوئی خاک نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں کس مقام پر پہنچ گیا ہوں) 11(جب میں نے مرشد کے دروازے کی خاک پر اپنا سر رکھ دیا تو فقر کی خلعت جو، باعث فخر ہے۔ مجھے عنایت کی گئی (اشارہ ہے حضورؐ کی اس حدیث مبارکہ کی طرف :الفقر فخری) 12(میں نے برسوں اس (مرشد) کے دروازے کی خاک کو پلکوں سے صاف کیا، جب جا کر میں بالغ ہوا۔ اور میں نے چشم خرد کھولی) 13 (مرشد نے دیکھا کہ میں پختہ ہو چکا اور کام پر آمادہ ہوں اور دنیا کی قید تعلق سے پوری طرح آزاد ہوں) 14(جبروت سے پہلے راستے میں کئی منزلیں ہیں، تو میری جانب دل کے کان کرتا کہ میں ان کی تفصیل بتاؤں) 15(پھر اس (مرشد) نے کہا کہ ’’ تجھے موت کے بغیر راستہ نہیں ملے گا‘‘ چنانچہ میں اسی وقت مر گیا اور دلیرانہ چلنے لگا) 16(میں اپنی ذات سے تو مر گیا لیکن اس کے قرب میں میری زندگی ہے جب میں یہ (فانی) جان دے دی تو اس کے بدلے میں اس نے مجھے حیات جاوید عطا کر دی) 17(میرا قالب (وجود) بدل کر روح کی مانند بہت سا ہو گیا ہے۔ جو کچھ وہ قدم پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ اس نے مجھے اس راہ میں دے دیا) 18(اصل (جڑ، بنیاد) مستحکم ہو گیا اور شاخ سے میں پاک ہو گیا ہوں۔ میں نے اپنی بقا دیکھ لی اس لئے میرا دل خوش ہے) 19(میں تو کیا، جو کوئی بھی بدل گیا تو اسے ابدال سمجھ۔ ساری دنیا کو خیر مقدم ہو کہ میں خیر میں پڑ گیا ہوں) 20 (میں نے ایسی لذت پائی ہے کہ تیس برس ہو چلے ہیں۔ میری جان اسی میں کھوئی ہوئی ہے۔ اور باقی سب میری یاد سے محو ہو گیا ہے) 21(کاشکے میرے جسم کے روئیں روئیں میں جان ہوتی جو میں اس راستے میں اس کے شکرانے میں دے دیتا) 22(دو تین برس تک میں اس حالت میں بسر کرتا رہا۔ مجھے نہ تو ماضی کی خبر رہی اور نہ اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ یاد ہے) یہ قصیدہ طویل ہے۔ اختصار کی خاطر اس کتاب میں اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔ چونکہ راقم کی والدہ کی دادی ان کے پیر بزرگوار کے عقد میں تھیں۔ اس لئے راقم کی والدہ کے ددھیال کو ان کی جناب سے خاص ارادت تھی۔ صغر سنی میں وہ راقم حروف پر عنایت و التفات کی نظر ڈالتے رہے۔ حضرت مرشدی مرادی (میرے مرشد، میری مراد) کی وفات کے بعد پانچ ماہ تک مسلسل خاص رابطے کی بنا پر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع میسر آتا رہا۔ اور راقم ان کے الطاف خاص سے مستفیض ہوتا رہا، اور با امتیاز صحبتیں حاصل ہوتی رہیں۔ نیز مخصوص خلوت و جلوت میں بھی مجھ پر اس مظہر کمالات کی بعض عنایات ہوئیں۔ عمر شریف کے ستترویں برس کے آغاز میں آنجناب کو جسمانی امراض لاحق ہو گئے۔ مرض کی شدت میں بھی بڑی بے نیازی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آخر کار پیشاب بند ہونے کے مرض میں جو بعض دیگر امراض کا بھی باعث بنا، مبتلا ہو کر 29ذی الحجہ 1131اکتوبر1719کو اس ذات لایزال کے وصال سے بامراد ہوئے۔ اس احقر العباد نے آنجناب کی تاریخ رحلت ان الفاظ میں نکالی: دادم ز عالم پیر کامل رفت گفتم (میں نے کہا: دنیا سے پیر کامل رخصت ہو گئے) اس دور میں ان حضرات کے علاوہ کچھ اور بھی اصحاب علم و حال تھے۔ جن کا یہاں تفصیلی ذکر طوالت کا باعث ہو گا۔ جیسے شیخ داؤد اسلام آبادی جو عالم عامل اور متقی کامل تھے۔ ملا محمد بائی صاحب سہروردی، شیخ حبیب اللہ کاسری متقی تھے۔ شاہ افضل چشتی، ملا سوری مارک (کذا) عارف تھے۔ اکثر قرآن کریم کی کتابت سے روزی کماتے۔ ملا عبدالرشید وادرو (؟) قادری اندرون قلعہ رہائش پذیر تھے۔ اسمعیل بائی صاحب احمد اکدالی ؒ،جناب میر ضیاء الدین نعیم باعمل عالم، متشرع، صاحب توکل، صاحب تمکنت، دین کو رواج دینے والے اور معاملات وماکولات (کھانے پینے) میں محتاط تھے۔ حافظ شاہ محمد قادرہ ساکن احمدا کدل، متقی و متوکل اور خادم قرآن مجید تھے۔ خواجہ عبداللہ ہوکبروی تارک اور متقی تھے۔ اور ساکن موضع ہنی داری، خواجہ محمد سعید نقشبندی جو بابا شاہ مسافر کے خلفا اور حضرت مولانا زاہد و حشی کے بزرگ اولاد میں سے تھے۔ میر محمد مراد نوشہ تنکو کبروی، بابا حاتم لوجواری کبروی، خواجہ صادق مانتجو قادری کہ خواجہ عبدالرحیم مانتجو کے بھائی تھے۔ اور دوسرے بھائی خواجہ محمد مومن مانتجو، شیخ حمزہ رفیقی سہروردی، عامد ہاصحہ مکی (کذا) سہروردی، میر عبدالقاضی ساکن پل دومارن، شیخ داؤد چشتی خلیفہ اور برادر زادہ جان محمد ہاشم ایک آزاد منش صاحب ترک کل اور سراپا بشاشت نیر مولانا و استاذنا (ہمارے استاد) ملا عبداللہ اپنے زمانے کے بڑے دانشور اور پروردگار کی کاریگری کا عجوبہ تھے۔ حدت ذہن، وقت طبع، کمال کی قوت ادراک، سرعت فہم اور شدت ذکاء میں بے نظیر تھے۔ علوم معقول کے فنون، ریاضی اور دیگر عجیب کمالات کے اقسام میں عالمگیر (شہرت) رکھتے تھے۔ خط اور انشا سے بھی کافی حد تک بہرہ مند تھے۔ اپنی خدا داد استعداد کے باوصف جب بھی کسی اہل دانش کی خوشبو سونگھ لیتے کسب کمال کے ذوق میں اس کی طرف دوڑ پڑتے۔ اپنے دور کے بڑے بڑے دانشمندوں سے خواہ وہ توران کے ہوتے یا ایران کے جو اس وقت اس شہر میں وارد ہوئے تھے، اور کیا کشمیر والوں سے کہ مسند افادہ کو زینت بخشنے والے تھے۔ سبھی سے علم و ادب میں بہرہ ور ہوتے۔ تاہم اکثر مواقع پر اپنی نسبت (شاگردی) جناب مولانا محمد حسن کیشو سے بتاتے۔ جن کا ذکر پہلے گذر چکا ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے قناعت اور توکل میں گذارا۔ صبح سے لے کر شام تک بلکہ رات کے کچھ حصے تک درس و تدریس میں مصروف رہتے اور ایک دنیا کو اپنے فیض صحبت سے بہرہ مند کرتے۔ شاید ہی کوئی شاگرد بلکہ حاضرین مجلس میں سے کوئی محروم رہا ہو۔ اور آنجناب کی تعلیم مدرسہ بھی برکت سے خالی نہ تھی اور اس میں بیحد یمن و برکت تھی۔ ان امور کے علاوہ آنجناب کی لطافت طبع اور حسن خلق حاضرین کے لئے ایک اور ہی طرح کی نعمت تھی۔ تقدیر کا لکھا تھا کہ عین گرمی ہنگامہ اور افاضہ عامہ (عوام کو فیض پہنچانے) کے دوران انہوں نے اس دیار سے دل اٹھا لیا اور طلبہ کو بیدل و بیکس چھوڑ کر سفر اختیار کر گئے۔ اور دربار پہنچ گئے۔ اگرچہ اس وقت بادشاہ فرخ سیر کی قدر دانی کے سبب شاہی لشکر میں فضلا اور ارباب کمال اک ایک مجمع لگاتھا۔ تاہم جناب مولوی کی تشریف آوری سے چھاؤنی میں ایک عجیب دبدبہ رونما ہوا۔ اور اکثر طالبان دانش ان کی خدمت سے رجوع کرنے لگے۔ بادشاہ کی طرف سے وہ ’’ عالمگیری‘‘ (غالباً فتادائے عالمگیری مراد ہے) کے ترجمے پر مامور ہوئے لیکن اسی دوران میں بادشاہ کی شہادت کا حادثہ پیش آ گیا۔ راقم حروف کو اپنی انتہائی بے استعدادی کے باعث اس بات کی اہلیت نہیں ہے کہ خود کو ان کے شاگردوں کی لڑی میں پروئے۔ میرے لئے یہی بڑا فخر ہے کہ ایام جوانی میں، مشاغل نفسانی کی کثرت کے باوجود، تین چار برس سے زیادہ کے عرصے تک اکثر ان کی پر از خاصیت صحبت سے مجھے بہرہ ور ہونے کا موقع ملتا رہا۔ ان کے بقیہ احوال آئندہ اوراق میں مرقوم ہونگے۔ مولانا عزیز اللہ: اپنے دور کے فضلا میں سے اور جودت طبع اور تیزی فہم میں ممتاز تھے۔ نیز عربی و فارسی اور خط و انشا کے کمالات سے بہرہ ور تھے۔ جستہ جستہ شعر بھی کہہ لیتے۔ قانع تخلص تھا۔ گردش روزگار کی بنا پر شب و روز ان کا ذکر ہوتے ہواتے بادشاہ فرخ سیر کے عہد میں شاہجہان آباد پہنچا۔ انہوں نے دنیا سے بہرہ حاصل نہ کیا اور خواجہ محمد سعید نقشبندی کی خدمت میں پہنچ گئے۔ اسی اثنا میں بحالت مسافری شاہجہان آباد میں رحلت کر گئے۔ مولانا امان اللہ: اس شہر کے سوداگر زادوں میں سے تھے۔ چونکہ ان کے والد ماجد خواجہ ابو الخیر بھی علم سے بہت بہرہ ور تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی اعلیٰ لیاقت کی بنا پر صغر سنی ہی میں حصول کمالات کے لئے ہمت کا پرچم بلند کیا۔ تھوڑی ہی مدت میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز ٹھہرے اور علوم معقول و منقول میں انہوں نے قدرت کاملہ حاصل کی۔ ان اوصاف کے باوجود ورع و تقویٰ کی طرف پوری طرح مائل تھے۔ اپنے حسن اخلاق اور عمومی شفقت سے آشنا اور بیگانہ کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ ہنگامہ تدریس کی عین گرمی میں دنیوی واردات کی بنا پر ان کی خوشبو دور دور تک پھیل گئی اور رفتہ رفتہ کمالات کے شہر کی وجہ سے امیر الامرا خان دوران صحمصام الدولہ سے ان کا مکمل رابطہ ہو گیا۔ اس تقریب سے وہ حاجت مندوں کے لئے ظاہری اور باطنی فیض کا وسیلہ بھی بن گئے اس کمالات مرتبت شخصیت کے حسن عاقبت کا ذکر آئندہ اوراق میں سراپا حسرت قلم سے رقم ہو گا۔ ملا عبدالشکور اور ملا ابو الفیض: دونوں بھائی علوم معقول و منقول سے بہرہ ور اور دانشمندی و دقیقہ یابی کے سمندروں کے شناور تھے۔ تدریس کے دوران میں عجیب و غریب باریک بینی اور تحقیق کا مظاہرہ کرتے۔ نادر علوم مثلاً ہیئت وغیرہ میں انہیں مہارت تھی۔ ایک مدت قناعت اور گمنامی میں بسر کی اور علوم کے چرچے میں مشغول رہے اور اپنی توجہ دوسروں کو فائدہ اور فیض پہنچانے پر مرکوز رکھی۔ زندگی کے آخری ایام میں ملا عبدالشکور پر جناب حضرت شاہ اولیا خاتم الخلفا (یعنی آخری خلیفہ) ان سب سے اللہ راضی ہوا پر حضرتین شیخین (دونوں شیخ) کی افضیلت کے سلسلے میں تردد کی تہمت لگائی گئی۔ جس کے نتیجے میں بہانہ جو لوگوں نے ارباب علم کے لئے مصیبت کھڑی کر دی۔ اس حقیر فقیر نے مولوی کے اکثر واقف کاروں سے یہ سنا کہ یہ جناب مولوی پر تہمت محض اور نصیبے کا اخترا تھا۔ معاملہ کچھ اس سے زیادہ نہ تھا کہ صحیح بخاری کی بعض احادیث میں جن میں فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ انہیں بعض شہبات ہو گئے تھے۔ دربار اور کشمیر میں ہندوؤں کو جو غلبہ حاصل تھا، میر احمد خان اس کی صورت پیش رفت سے آگاہ نہ تھا، چنانچہ کشمیر کے پیش کاروں بلکہ اکثر سرداروں، بالخصوص ارباب محکمہ متصلیان شرعی نے محتوی خان کی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے ان مسائل اور احکام کے اجرا کی تجویز نہ دی۔ محتوی خان کے گھر میں طالبان علما ور عوام الناس کا بہت بڑا جمگھٹا ہو گیا۔ میر احمد خان دو ایک ماہ ادھر ادھر رہا۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور بات عوام میں پھیل گئی تو میر احمد خان نے پیش کاروں کے مشورے پر محتوی خان کو بلوا کر اسے سنجیدہ نصیحتوں اور وعظوں سے اس قسم کی گفتار سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ ایک اعلیٰ پیش کار نے اس راقم حروف سے، جو اس مجلس میں حاضر تھا، آہستہ سے کہا کہ میں نائب ناظم کے کانوں تک خفیہ طور پر یہ بات پہنچا دوں کہ اگر اس وقت محتوی خان کوئی عذر کرے تو اسے کسی بھی صورت اس جگہ اور اس مجلس میں نہیں لایا جا سکتا۔ احقر نے امیر ملت کا احترام ملحوظ کرتے ہوئے اس کے اظہار بیان کا موقع نہ دیکھا اور مجلس میں زیادہ ہجوم کی بنا پر عدم اظہار کا عذر پیش کیا۔ بہرکیف محتوی خان نے اس روز ضعف اور نقاہت آزاد کی بنا پر میر احمد خان کے گھر سے رہائی پائی۔ صحن عام سے باہر نکلتے ہی عوام کا ہجوم بہت بڑھ گیا اور چیونٹیوں اور ٹڈی دل کی مانند اس کی سواری کے ساتھ ہو لیا۔ اگلے روز عوام کا غلبہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ لوگ جس بھی بازاری آدمی کو دیکھتے اور جہاں بھی کسی ہندو سے ان کا سامنا ہوتا اسے گھوڑے سے اتار لیتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ صورت حال گھروں کی تباہی اور ان لوگوں کے اموال پر دست درازی پر منتج ہوئی۔ ہندوؤں کی مغلوبیت کی تاریخ ’’ شکست کافران‘‘ ّ(1123ھ) میر احمد خان نے پیش کاروں کے مشورے پر محتوی خان کو طلب کرنے کے لیے فوج بھیج دی۔ اسی وقت اس کی تحریک پر لوگ جوش میں آ گئے اور محلہ قلاشپورہ میں انہوں نے مذکورہ فوج کو شکست دے دی۔ اکثر کو شہر کی عورتوں نے چھتوں پر سے پتھر، لکڑیاں اور ڈنڈے مار کر بھگا دیا اور ایک عظیم آگ بھڑک اٹھی جس نے بہت سے محلے جلا ڈالے اور میر احمد خان کا عمل ڈھیلا پڑ گیا: پہلے ملا ابو الفیض نے وفات پائی ان کے کچھ عرصہ بعد ملا عبدالشکور بھی فرخ سیر کے عہد کے آخر میں رحلت کر گئے۔ میر نور الدین شارق ایران کے سادات اور اس دیار کے شرفا میں سے تھے۔ قوام الدین خان سے قرابت کی بنا پر ہند سے آئے تھے، اور ایک مدت انہوں نے اسی علاقے میں بسر کی۔ جب ان کے بھائی میر رضی دیوانی کشمیر کے عہدے سے سرفراز ہوئے تو میرزا نور الدین بھی وارد کشمیر ہوئے۔ پھر واپس ہند چلے گئے۔ اور بادشاہ فرخ سیر کے زمانے میں دفتر دیوانی کی داروغگی پر مامور ہو کر پھر کشمیر چلے آئے۔ عمدہ اخلاق کے مالک تھے۔ میرزا صائب کی صحبت انہیں میسر آئی تھی، نیز محمد سعید اشرف وغیرہم سے بھی ان کی بہت صحبت رہی۔ کبھی کبھار بطرز ایہام اور کبھی خیال بانی کے انداز میں شعر بھی کہہ لیتے اور ان کے اکثر اشعار معنی سنجی کے حامل ہوتے۔ ایک دیوان بھی ترتیب دیا تھا۔ راقم حروف ان سے اشعار کی اصلاح لیا کرتا تھا۔ 1715/1127میں رحلت کر گئے۔ ان کی طبع نقاد اور فکر و قادر کی واردات میں سے یہ چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں: ز فیض بیکسی چون مصرع برجستہ ممتازم بلال آسا بیک بال آسمان سیرست پروازم (=بیکسی کے فیض سے میں ایک برجستہ مصرع کی طرح ممتاز ہوں۔ بلال کی مانند میری پرواز ایک ہی پر سے آسمان طے کرنے والی ہے) یہ غزل انہوں نے قزلباش خان متخلص امید سے قرابتداری کی بنا پر اور ان کے کشمیر آنے کے ارادے کے موقع پر کہی: غزل: کی دہد شرح دل و دیدہ گریان کاغذ کی شود بحر سیاہی و بیابان کاغذ از سخن کام و دہان راچہ حلاوت وادی شدہ از طوطی نطقت شکرستان کاغذ ہمچو طومار من از رشک بخود می پچم چون فرستم برت این غنچہ خندان کاغذ نامہ از سوزدلم کاغذ آتش زدہ است باشد از خون دل و دیدہ ام افشان کاغذ قاصد آہ با مید روان کن شارق کہ مگر آورد از نزد عزیزان کاغذ (=کاغذ روتے ہوئے دل و دیدہ کی کیفیت کیونکر بیان کر سکتا ہے، بھلا سمندر، سیاہی اور بیابان کاغذ بن سکتا ہے (یعنی اس کیفیت کے اظہار کے لیے بے پناہ سیاہی اور بکثرت کاغذ درکار ہے) = تو نے اپنے سخن سے کام و وہاں کو کیسی حلاوت بخشی ہے کہ تیری زبان طوطی سے کاغذ شکرستان بن گیا ہے۔ =جب میں تیرے پاس یہ کھلی ہوئی کلی ایسا کاغذ بھیجتا ہوں تو، رشک کے سبب، طومار کی مانند خود میں پیچ و تاب کھانے لگتا ہوں۔ =خط میرے سوز دل کے باعث ایک آتش زدہ کاغذ کی صورت ہے۔ میرے دیدہ و دل کے خون سے کاغذ افشاں بن گیا ہے۔ =اے شارق تو آہ کے قاصد کو امید کے ساتھ روانہ کر، شاید وہ عزیزوں کی طرف سے کوئی کاغذ یعنی خط لے ہی آئے) ایضاً: سختی جان پشت مارا چون کمانم کردہ است چرخ مست (منت؟) کش زمشت استخوانم کردہ است رستمم در ملک معنی طبع نظمم شاہد است دشمنان را عاجز اندر تیر جانم کردہ است از حکایت چرخ سنگین دل نہ بیند ہیچ کس آنچہ باز از مہر بانیہا بجانم کردہ است (=جان کی سختی نے ہماری پیٹھ کو کمان کی مانند کر دیا ہے۔ چرخ نے مجھے۔۔۔۔۔ مٹھی بھر ہڈیوں سے ممنون کر دیا ہے۔ =میں ملک معنی کا رستم ہوں۔ میری طبع نظم اس کی گواہ ہے۔ اس نے دشمنوں کو میری جان کے تیر میں (؟) عاجز کر دیا ہے۔ =اس پتھر دل آسمان نے اپنی مہربانیوں سے جو کچھ پھر میری جان کے ساتھ کیا ہے (خدا کرے) کوئی بھی اسے کہانی کی صورت میں بھی نہ دیکھے) انہوں نے اسی برس سے زیادہ عمر پائی۔ خواجہ نور اللہ دیوانی شہر کشمیر کے شرفا میں سے ہیں۔ تحصیلی علوم میں ’’ مولویت‘‘ کے درجے تک پہنچے۔ تدریس کا پیشہ اپنا رکھا تھا۔ شعر اور انشا کے فنون سے بہرہ مند تھے، رحمتہ اللہ علیہ۔ میر کمال الدین کشمیر کے شریف زادوں میں سے تھے۔ آغاز شباب سے شاعر کے طور پر معروف تھے۔ نظم و نثر میں مہارت بہم پہنچا رکھی تھی۔ خط نستعلیق شکستہ ٹھیک ٹھاک لکھتے۔ شہزادہ سلطان اکبر کے ملازموں میں شامل تھے۔ کچھ عرصہ مذکورہ سرکار میں ارباب انشا کی مجلس کارکنان میں بھی باریاب رہے۔ شہزادہ کی بغاوت اور اس کے ایران کی طرف فرار کے واقعے کے بعد یہ کشمیر پہنچے۔ ایک دنیا کو انہوں نے خط اور انشا کی تعلیم سے بہرہ ور کیا۔ فاضل خان کی تجویز پر غائبانہ شاہی نوکری اور جاگیر حاصل کی۔ بڑی قناعت سے زندگی بسر کرتے رہے۔ اس کمال آئین میر کے دلنشین نکات کے حامل رنگین رقعات خاص و عام زبانوں پر جاری ہیں۔ اس کتاب میں ایک رقعے کی نقل پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ یہ رقعہ شہد کی رکابی کی رسید کے طور پر ہے، جس کی بجائے میان حضور اللہ نے زندہ سانپ بھیجا تھا۔ رقعہ: رباعی: ماری کہ مخالفست قول (و) عملش بگریز ز لابہ سرا سر دغلش چون طفل بشیر ینیش از راہ مرو زہر مارست در حقیقت عسلش (وہ شانپ جس کے قول و عمل میں تضاد ہے، اس کی چاپلوسی سے، جو سرا سر فریب ہے، دور بھاگ بچے کی طرح اس کی شیرنی سے بے راہ نہ ہو۔ اس کا شہد حقیقت میں سانپ کا زہر ہے) مصفا شہد کی رکابی نے جو اس سراپا نوازش و عنایت کے شر بتخمانہ خلوت سے آبنائے عالم کے اخلاط کے حنطلستاں (جہاں سے حنظل ہو، حنظل ایک کڑوا اور بد مزہ پھل) کے تلخ کاموں (جن کے حلقے کڑوے ہوں) کا حصہ بن گئی تھی، نا امیدی کے ذائقے کو شیریں بنا دیا۔ اور اس بے باک روستازادہ (دیہاتی) کی شوخی کے چھتے میں پتھر پھینک دیا۔ اس (ضرب المثل) کے مطابق کہ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ٹپک پڑتا ہے، حقیقت مسطور، منصفہ ظہور پر جلوہ نما ہوئی۔ میں نے دل میں کہا کہ ہم ’’ جو فروش گندم نما‘‘ تو سنتے آئے ہیں اب ’’ زہر فروش شہد نما‘‘ بھی دیکھ لیا۔ پھر اس خیال سے کہ بزرگوں کے افعال حکمت سے خالی نہیں ہوتے، میں نے فکر کے جاسوس کو ہر طرف دوڑایا لیکن مجھے مدعا کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کبھی میں تصور کرتا ہوں، جس طرح سالکان طریق کرتے ہیں کہ ’’ یا قہار‘‘ کے ذکر کی کثرت سے یار کا تصور برآمد ہوتا ہے، نگاہ خیال بند کر لیتا ہوں کہ مشرکوں کی زنار خفی ہے جو باطن کے کفر کی سپاہ کی شدت سے ان کے درون نے سیاہی کا رنگ پکڑا ہے۔ کبھی ان کی تازگی عمر کو پیش نظر رکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ اس مقولے کے مطابق ’’ بچہ بچہ ہوتا ہے اگرچہ وہ تیرا بیٹا ہو‘‘ میری طفل مزاجی سے غلطی میں پڑ کر کسی ترسا بچہ کے کھلونے کو تن سے غافل ہو کر، یاد کیا ہے، کیونکہ یہ فقیر بصورت حقیر اس قسم کی چیز کے نہ ہونے میں اسی حال میں میں نے موسیٰ کا عصا دیا اور کبھی ان کی ریاضت اور جہاد کو ملحوظ رکھ کر میرے جی میں آتا ہے کہ تو بھی نفس کے لاغر شکار کو اپنی بلند ہمتی کے فتراک کے قابل نہیں سمجھتے۔ مختصر یہ کہ اگرچہ گنج حقیقت کے عدم دریافت کی گھٹن کے سبب قوت فکر نے پیچ و تاب کھائے، پھر بھی اسے مطلب کے سوراخ کا راستہ نہ ملا، ہاں اگر خود ارشاد فرمائیں اور یہ گرہ ناخن بیان سے سلجھائیں (تو ٹھیک ہے) میر کمال الدین کی وفات1719/1131 سے اوائل 1720/1132کے دوران ہوئی۔ خواجہ علی اکبر خواف اور ماورد کے اکابر زادوں میں سے ہیں۔ جو ہرات کے نزدیک واقع ہیں۔ شاہ عباس ثانی کے اواخر میں ہند کے ارادے سے ایران سے نکلے۔ بعض واردات کی بنا پر، جن کا ذکر انہوں نے خود کتاب میں کیا ہے، واپس چلے گئے۔ دوسری مرتبہ پھر ہند پہنچے اور بادشاہ کے ملازموں میں شامل ہو گئے۔ بعض خدمات کی بنا پر کشمیر آئے۔ اگرچہ اس دوران میں انہیں کئی سفر در پیش آئے تاہم آخر عمر تک انہوں نے کشمیر ہی میں سکونت اختیار کئے رکھی اور اسی کو وطن قرار دیا۔ صلاح اور عبادت کی پابندی کے ساتھ ساتھ وہ ایک صالح طبع اور شاعر و خوشنویس اور مرد تاریخات (تاریخ گو) تھے۔ نظم اور نثر دونوں میں لکھا۔ رقعات رنگین اور منشات دل نشیں ان سے یادگار ہیں۔ یہ چند اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ جو راقم حروف تک براہ راست پہنچے ہیں: یاد آن روز کہ دل درخم گیسوی تو بود تو تیای بہرم نظرم؟ خاک سر کوی تو بود محو گردیدن و بیخود شدہ افتادن من اثری از نگہ چشم سخن گوی تو بود بی سبب رنجہ شدن و ز نظر اندا ختم این چہ لائق ز تو (؟) طبع جفا جوی تو بود دل ربود از من و انداخت دگراز نظرم چشم این چشم کہ از نرگس جادوی تو بود (کذا) (وہ دن یاد آتے ہیں جب ہمارا دل تیری زلفوں کے خم میں اٹکا ہوا تھا اور تیرے کوچے کی خاک میری نظر کے لئے سرمہ تھی۔ =میرا وہ محو ہو جانا اور بیخود ہو کر گر پڑنا تیری سخن گو آنکھ کی نگاہ کا اثر تھا۔ =بلا وجہ ناراض ہو جانا اور مجھے نظروں سے گرا دینا، تیری جفا جو طبع کے یہی لائق تھا (؟) =آنکھ، اس آنکھ نے، جو تیری جادو بھری نرگس سے تھی، میرا دل اڑا لیا اور پھر مجھے نظروں سے گرا دیا) تالب لعل تو گویا نشود دہن تنگ تو پیدا نشود نکشاید گرہ از پیشانی قطرہ تا واصل دریا نشود گردم نزع نہ بینم رویت تلخی مرگ گوارا نشود مردہ را زندہ کند ار تکنی کار چشمت ز مسیحا نشود سعی بیہودہ ندارد حاصل سیل ازینست کہ دریا نشود چشم مست تو مراداد شراب چون دگر نشہ دوبالا نشود (=جب تک تیرے لب نعلیں بولتے نہیں تیرا دہن تنگ ظاہر نہ ہو گا =پیشانی کی شکنیں اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک قطرح و اصل دریا نہ ہو گا =اگر نزع کے وقت میں تیرا چہرہ نہ دیکھوں، موت کی تلخی گوارا نہ ہو گی۔ =مردے کو زندہ کرتا ہے اگر تو نہ کرے (؟) تیری آنکھوں کا کام مسیحا سے نہیں ہوتا۔ =فضول کوشش سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، سیلاب اس لیے ہے کہ وہ دریا نہیں ہو پاتا =تیری مست آنکھوں نے مجھے شراب پلا دی، پھر بھلا نشہ دوبالا کیوں نہ ہو) ان کی صحبت کے فوائد جو نقلیات پر مشتمل اور ان کی بزم کے غرائب (انوکھی باتیں) جو تمام ذوقیات تھے، میرے اپنے دیکھے بھالے ہیں۔ کوئی کہاں تک لکھے۔ انہوں نے بابرکت اور پر حلاوت زندگی پائی۔ نوے برس سے زیادہ کی عمر کو پہنچے۔ ساری عمر بڑی آسائش و تمکنت سے بسر کر کے 1719/1131کے اواخر میں فوت ہوئے۔ اپنے مسجد کی مانند بنائے گئے مکان میں باہر واقع مقبرے میں مدفون ہیں جو انہوں نے خود تعمیر کروایا تھا۔ ٭٭٭ سلطان رفیع الدرجات شہزادہ رفیع الشان کا بیٹا ہے۔ سادات بارہہ نے محمد فرخ سیر کو قید کرنے کے بعد اسے قید سے نکال کر بادشاہ بنا دیا۔ ’’ وارث تاج‘‘ 1111ھ اس کی تاریخ ولادت ہے۔ چار پانچ ماہ تک عارضی سلطنت کر کے دق کے مرض سے فوت ہوا۔ اس کے دوسرے بھائی سلطان رفیع الدولہ کو لا کر حکمران بنا دیا گیا۔ وہ شاہجہان ثانی سے ملقب ہوا۔ اس نے بھی بڑے بھائی کی طرح پانچ چھ ماہ بے استقلالی کے ساتھ تخت سلطنت پر گزارے۔ جب بادشاہی لشکر سلطان نیکو سیر اور سلطان اکبر بن عالمگیر بادشاہ کی طرف، جس نے اکبر آباد (آگرہ) میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی، متوجہ ہوا تو راستے ہی میں شاہجہان ثانی کی موت واقع ہو گئی۔ یہ واقعہ1719/1131میں رونما ہوا۔ ابو الفتح ناصر الدین محمد شاہ بادشاہ غازی: شاہجہان کا بیٹا ہے۔ اس کا اصل نام سلطان روشن اختر ہے۔ سادات بارہہ اور دربار کے دوسرے امرا نے اسے راتوں رات قلعہ شاہجہان (آباد) سے نکال کر اکبر آباد پہنچا دیا اور آنحضرت (ابو الفتح) کے وجود مسعود سے تخت و تاج کو مزین کیا۔ راقم حروف نے ’’ ظل رب ‘‘ (1720/1132) سے تاریخ نکالی۔ بادشاہ کی تخت نشینہ 1132ھ کے اوائل میں ہوئی۔ تخت نشینی کے اوائل میں جو وقائع رونما ہوئے وہ کچھ اس طرح ہیں کہ نظام الملک بہادر فتح جنگ، دکن کے اکثر حکام کو، جو سادات بارہہ کی طرف سے تھے، مغلوب اور قتل کر کے ان حدود پر قابض ہو گیا۔ سادات نے مہم دکن کو پیش نظر رکھا چنانچہ قطب الملک کا بھائی حسن علی خان، جو میر بخشی اور امیر الامرا تھا، بادشاہ کے ہمراہ اکبر آباد سے دکن کی طرف روانہ ہوا۔ تاکہ اس سرکشی کا توڑ کرے، جب کہ قطب الملک، جو بڑا بھائی اور دیوان اعلیٰ تھا، نیکو سیر کی مہم کے موقع پر شاہجہان آباد میں رک گیا تھا تاکہ ملک ہند کا نظم و نسق سنبھالے رکھے۔ میر حیدر خان نے، جو بخشی دوم محمد امین خان بہادر کی فوج کے مستوفیوں (آڈیٹرز) میں سے تھا، محمد امین خان کے حکم پر جو دیگر امرا کی طرح سادات کے غلبہ سے پریشان تھا وریہ سبھی امرا ان پر قابو پانے کی تلاش میں تھے، کوئی بات کرنے کے بہانے سے سر راہ امیر الامرا کو اس کی سواری پر ہی پیٹ میں خنجر مار کر قتل کر دیا۔ امیر الامرا کے آدمیوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ باقی سادات جو اس وقت لشکر میں تھے، فوجیں لے کر آمادہ بہ پیکار ہوئے اور مقاتلہ کے لیے آگے بڑھے۔ محمد امین خان بادشاہ کو باہر لے آیا اور بادشاہ کے ہمرکاب ان کے ساتھ جنگ کے لیے نکلا۔ اس نے شجاعت و مردانگی کا مظاہرہ کر کے سادات کو مغلوب کر لیا، جس کی بنا پر وہ وزارت اعلیٰ اور اعتماد الدولہ کے خطاب سے سرفراز ہوا۔ بڑے بھائی قطب الملک سید عبداللہ خان نے شاہجہان آباد میں یہ خبر سنی تو شاہزادہ رفیع الشان کے بڑے بیٹے سلطان ابراہیم کو قلعے سے باہر نکالا اور بغاوت کر کے بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی، جس کی وجہ سے شاہی لشکر عازم دہلی ہوااور انہوں نے بھی استقبال کیا۔ چنانچہ راستے ہی میں جنگ چھڑ گئی اور فتح و نصرت ارباب سلطنت کا مقدر بنی۔ سلکان ابراہیم اور قطب الملک گرفتار ہوئے سلکان پھر اپنی جگہ پہنچ گیا اور قطب الملک طویل قید کے بعد قتل کر دیا گیا، اور بادشاہ (شاہ) جہاں آباد میں متمکن ہو گیا۔ ٭٭٭ واقعات کشمیر چونکہ اس کتاب کی تحریر کا مقصد واقعات کشمیر کا بیان ہے اس لیے سراپا حسرت قلم ان فتنہ افروز اور ملک سوز واردات کے جو اس شہر سے مخصوص ہیں، مختصر ذکر سے ارباب اعتبار کی حیرت افزائی کا سامان کرتا ہے۔ اس ذکر کے درمیان، موقع و محل کے مطابق خواجہ احسن اللہ راضی المعروف فصاہت خان کی مثنوی آبدار کے کچھ اشعار دیے گئے ہیں جو اس نے اپنے قلم فصاحت سے اس شہر کے آشوب سے متعلق لکھی ہے: ندارد خلد با کشمیر نسبت عیانست این بر ارباب بصیرت درین گلشن ز رندان قدح نوش کہ چون بحرند دائم بر سر جوش چنان می ہر طرف آب سبیل ست کہ درپامی کدو چون نارجیل ست چنان در شہر و کویش آب جاریست کہ ہر یک خانہ او جویبار یست درین گلشن مپرس از چہرہ سبزان پری بار آورد باغ سلیمان تراود چہرہ سبزان را بصد زیب مفرح وار، کیفیت ز ترکیب چو میخانہ است دائم بسکہ شاداب بود ہر گل زمینش عالم آب بوصف این زمین در پیش جمہور پی تمثیل بوداین ست مشہور ’’بہشت آبخا کہ آزارے نبا شد‘‘ کسی را با کسی گارے نباشد ز شور انگیز چندی بی نمک شد ز لوح سینہ نقش عیش حک شد عجب ہنگامہ گردید ظاہر ز جنگ شیعہ و سنی و کافر (1ارباب بصیرت پر یہ بات روشن ہے کہ بہشت کو کشمیر سے کوئی نسبت نہیں۔ 2,3اس گلشن میں قدح نوش رندوں کی وجہ سے، جو سمندر کی مانند ہمیشہ بر سر جوش رہتے ہیں، شراب ہر طرف اس طرح آب سبیل ہے، جیسے کدو کے نیچے کھوپڑا ہوتا ہے (؟) 4شہر اور اس کے کوچوں میں پانی اس طرح جاری ہے کہ اس کا ہر ہر گھر جویبار سا بن گیا ہے۔ 5 اس گلشن میں سبز چہروں والوں (پھول بھی مراد ہے اور سالولے سلونے محبوب بھی) کے بارے میں مت پوچھ، یہاں کا باغ سلیمان (ایک جگہ کا نام) تو پریوں کا پھل اگاتا ہے۔ 6چہرہ سبزو ں کی بڑی آراستگی و زینت سے مفرح دار کیفیت، ترکیب سے ٹپک رہی ہے۔ (؟) 7 یہ میخانے کی طرح ہمیشہ اس قدر شاداب ہے کہ اس کی ہر گل زمین گویا عالم آب ہے۔ 8عوام الناس کے سامنے، اس سر زمین کی توصیف کے سلسلے میں یہ مشہور شعر مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے: 9 (حقیقت میں) وہ جگہ بہشت ہے جہاں کوئی آزار نہ ہو اور کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہ ہو۔ 10ہنگامہ خیزی کے سبب کچھ عرصہ کشمیر بے نمک رہا۔ سینے کی تختی پر سے عیش کا نقش مٹ گیا۔ 11 شیعہ، سنی اور کافر کی جنگ کے سبب ایک عجیب ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس تفصیل کا اجمال اور اس قیل و قال کا خلاصہ یہ ہے کہ میر احمد خان نے، جو عنایت اللہ خان کا نائب تھا، تقریباً تین برس کشمیر کی حکومت نظم و نسق اور حتی المقدور دیانت کے ساتھ چلائی اور صحیح معنوں میں نیک نامی اور ضبط و ربط سے وقت گزارا۔ تقدیر کا کرنا اور اہل کشمیر کے نصیبے کی عدم یاوری کہ اس کی حکومت کے آخر اور بادشاہ کی تخت نشینی کے اوائل میں کشمیر میں محتوی خان اور ہندوؤں کے مابین مذہب کا مذکورہ ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس واقعے کی صورت یہ ہے کہ محتوی خاں المعروف ملا عبدالنبی جو ایک باصلاح عالم اور شاہ عالم بہادر شاہ کی کابل اور پشاور میں نظامت کے زمانے میں شاہ کی فوج میں تھا، آہستہ آہستہ بادشاہ تک رسائی پا لی اور علمی مذکورات میں بھی شاہی خطاب اور سوال و جواب کے رتبے تک پہنچ گیا۔ جب شاہ ممدوح کو سلطنت ملی تو خان مذکور نے کشمیر میں منصب اور جاگیر حاصل کی اور سلطنت کے اواخر میں وطن چلا آیا۔ فرخ سیر بادشاہ کے ایام سلطنت میں اس کی اکثر جاگیر جاتی رہی اور وہ پھر فوج میں چلا گیا۔ جب جاگیر کی بحالی کی کوئی صورت نہ بنی تو وہ الٹے پاؤں چلا آیا اور وطن میں مقیم ہو گیا۔ بادشاہ کے سال جلوس کے آغاز (1132ھ) میں اطراف ہندو دکن کے بعض حکام اور زمینداروں نے سرکشی اختیار کرتے ہوئے بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔ خان مذکور نے کشمیر میں بعض تقریبات روزگار کی بنا پر ان شرعی مسائل و احکام کا اظہار کیا جو ہندوؤں اور اہل ذمہ (ذمی) کے بارے میں ہیں اور احمد خان سے ان کے اجرا کی التماس کی: حریف می گسار صدق آہنگ چین زد شیشہ این قصہ برسنگ کہ از کفار آنجا محتوی خان بتقصیری، شد از دل، دشمن جان منادی کرد یکسر این کہ دستار فرود آرنداز سرہای کفار دگر براسب ننشیند ایہا نشان قشقہ شویند از جینہا ز پاہم کفش چرمین دور سازند بکرتہ باول رنجور سازند مقرر شد کلاہ از بہر کفار فقاد از بام طشت شان ز دستار کلہ ہم گاہ گاہی می دہد دست بسان بدر ماہی می دہد دست (1راست گفتارمے خوار حریف نے اس قصے کا شیشہ پتھر پر یوں مارا (یوں بیان کیا ہے) 2کہ محتوی خان وہاں کے کفار کی کسی تقصیر کے سبب، دل سے ان کا دشمن جاں بن گیا ہے۔ 3اس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک یہ منادی کرا دی کہ کافروں کے سروں پر سے دستار اتار لی جائے (انہیں رسوا کیا جائے 4اب وہ لوگ گھوڑوں پر نہ بیٹھیں اور پیشانیوں پر سے قشقے کا نشان دھو ڈالیں 5 وہ پاؤں سے چمڑے کے جوتے بھی اتار دیں۔ کرتے ہی سے دل رنجور کے ساتھ نباہ کریں۔ 6کفار کے لیے ٹوپی مقرر کر دی گئی۔ دستار سے ان کا طشت چھت پر سے گر پڑا، یعنی وہ رسوا ہو گئے۔ 7 ٹوپی بھی کبھی کبھار میسر آتی ہے (یعنی سر برہنہ رہتے ہیں) پورے چاند کی مانند ہاتھ لگتی ہے) دربار اور کشمیر میں ہندوؤں کو جو غلبہ حاصل تھا، میر احمد خان اس کی صورت پیشرفت سے آگاہ نہ تھا، چنانچہ کشمیر کے پیش کاروں بلکہ اکثر سرداروں، بالخصوص ارباب محکمہ متصلیان شرعی نے محتوی خان کی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے ان مسائل اور احکام کے اجرا کی تجویز نہ دی۔ محتوی خان کے گھر میں طالبان علم اور عوام الناس کا بہت بڑا جمگھٹا ہو گیا۔ میر احمد خان دو ایک ماہ ادھر ادھر رہا۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور بات عوام میں پھیل گئی تو میر احمد خان نے پیش کاروں کے مشورے پر محتوی خان کو بلوا کر اسے سنجیدہ نصیحتوں اور وعظوں سے اس قسم کی گفتار سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ ایک اعلیٰ پیش کار نے اس راقم حروف سے جو اس مجلس میں حاضر تھا، آہستہ سے کہا کہ میں نائب ناظم کے کانوں تک خفیہ طور پر یہ بات پہنچا دوں کہ اگر اس وقت محتوی خان کوئی عذر کرے تو اسے کسی بھی صورت اس جگہ اور اس مجلس میں نہیں لایا جا سکتا۔ احقر نے امیر ملت کا احترام ملحوظ کرتے ہوئے اس کے اظہار بیان کا موقع نہ دیکھا اور مجلس میں زیادہ ہجوم کی بنا پر عدم اظہار کا عذر پیش کیا۔ بہر کیف محتوی خان نے اس روز ضعف اور نقاہت آزاد کی بنا پر میر احمد خان کے گھر سے رہائی پائی۔ صحن عام سے باہر نکلتے ہی عوام کا ہجوم بہت بڑھ گیا اور چیونٹیوں اور ٹڈی دل کی مانند اس کی سواری کے ساتھ ہو لیا۔ اگلے روز عوام کا غلبہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ لوگ جس بھی بازاری آدمی کو دیکھتے اور جہاں بھی کسی ہندو سے ان کا سامنا ہوتا اسے گھوڑے سے اتار لیتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ رفتہ رفتہ یہ صورت حال گھروں کی تباہی اور ان لوگوں کے اموال پر دست درازی پر منتج ہوئی۔ ہندوؤں کی مغلوبیت کی تاریخ ’’ شکست کافران‘‘ (1123ھ) میر احمد خان نے پیش کاروں کے مشورے پر محتوی خان کو طلب کرنے کے لیے فوج بھیج دی۔ اسی وقت اس کی تحریک پر لوگ جوش میں آ گئے اور محلہ قلاشپورہ میں انہوں نے مذکورہ فوج کو شکست دے دی۔ اکثر کو شہر کی عورتوں نے چھتوں پر سے پتھر، لکڑیاں اور ڈنڈے مار کر بھگا دیا اور ایک عظیم آگ بھڑک اٹھی جس نے بہت سے محلے جلا ڈالے اور میر احمد خان کا عمل ڈھیلا پڑ گیا: چو این ہنگامہ بر اوج سمارفت ازین رہ میر احمد خان ز جارفت روان فوجی پی احضار خان کرد کہ ہریک بود در مردانگی فرد ہمہ از پای تا سر غرق آہن تو گوئی کردہ طغیان آب جوشن چو این آوازہ در ہر سو سمر شد بخان معدلت آئین خبر شد کہ فوجی شد روان مانند سیلاب ز شمشیر و سپر ہا موج گرداب ز فرمان خود از بین خرابی کسی کو بود آتش گشت آبی پی تشکین مردم نی ز تشویش قدم بیرون نہاد از مسکن خویش ندادش جاکس از بیگانہ و خویش خدایش خواند ازان در خانہ خویش (1جب یہ ہنگامہ آسمان کی بلندی تک پہنچا تو اس کی وجہ سے میر احمد خان اپنی جگہ سے اکھڑ گیا 2اس نے خان کو طلب کرنے کے لیے ایک ایسی فوج روانہ کی جس کا ہر ہر سپاہی مردانگی میں یکتا تھا 3سبھی فوجی سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے، یوں لگتا تھا جیسے زرہ کا پانی طوفانی ہو گیا ہو 4,5جب یہ واقعہ ہر سو پھیل گیا تو انصاف کے دستور والے یعنی انصاف پرست خان کو یہ خبر ملی کہ سیلاب کی مانند ایک فوج روانہ ہوئی ہے جو تلوار اور ڈھالوں کی کثرت سے گویا موج گرداب ہے۔ 6اپنے فرمان کی بنا پر خرابی کے ڈر سے وہ ایک ایسا شخص تھا جو اگر آگ تھا تو اب پانی بن گیا تھا۔ 7کسی تشویش کے سبب نہیں بلکہ لوگوں کی تسکین کی خاطر اس نے اپنے ٹھکانے سے قدم باہر رکھا۔ 8کسی نے بھی، خواہ وہ اپنا تھا یا غیر، اسے جگہ نہ دی، چنانچہ خدا نے اسے اپنے گھر بلا لیا) محتوی خان نے فوج کے تعین کی خبر سنی تو اپنے آپ کو بیکس اور پناہ سے محروم پا کر پہلے محلے کی مسجد میں ٹھکانا کیا، اور دلیروں کی از حد عاجزی اور منت سماجت کی پھر جب لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو وہ خانقاہ معلی میں چلا گیا۔ نظم: ازین سو پر دلان را حربہ و جنگ بکف نبود فلاخن وار جز سنگ بمردی صف شکن در عرصہ کین ندیدہ کس بدینسان فوج سنگین چنان از ژندہ پوشان اجتماع ست کہ گوئی غزوہ ذات الرقاع ست چو شد نزدیک فوج خان ناظم در آن ساعت قیامت گشت قائم بسان شمع از باد سحر گاہ تزلزل یافت در پیر و جوان راہ نہ شد یک تن مقابل از پی جنگ نیا مد کس بروی شان بجز سنگ ز بام خانہا چون بر سر شان چکش کرد از دو جانب سنگ باران فگند از ہر دو جانب نو جوانی برہ، چون قصہ خوانان، نرد بانی چو آمن پوش مردان سپاہی در آن ہنگامہ از قہر الٰہی فرار، از بیم سنگ انداز کردند زبان خبث الحدید آغاز کردند در آب جوی مار آن کشتگان را بیفگندند مردم بی محابا ز قتل نو خطان چہرہ گلگون چو جدول، یک قلم شد سرخ از خون (1اس طرف یعنی محتوی خان کی طرف دلیرون کے پاس گویے کی طرح پتھر کے سوا کوئی جنگی ہتھیار نہیں۔ 2 میدان جنگ میں ایسی سنگین فوج (پتھر والی، مراد مضبوط، پتھر کے حوالے سے جو وہ مار رہے تھے) کسی نے نہیں دیکھی ہو گی جو مردانگی میں صف شکن ہو۔ 3 گدڑی پوشوں کا ایسا اجتماع ہے جیسے غزوہ ذات الرقاع ہو (ایک جگہ کا نام جہاں حضور اکرمؐ نے جنگ لڑی) 4جب خان، ناظم کشمیر کی فوج نزدیک ہوئی تو اس لمحے گویا قیامت برپا ہو گئی، 5 جس طرح صبح کی ہوا سے شمع لرزنے لگتی ہے، اسی طرح بوڑھوں اور جوانوں میں ایک زلزلہ برپا ہو گیا۔ 6 ایک بھی فرد جنگ کے لیے مقابل نہ آیا۔ پتھر کے سوا کوئی بھی ان کے سامنے نہ آیا 7جب گھروں کی چھتوں پر سے ان کے سروں پر، دونوں جانب سے، پتھروں کی بارش ہونے لگی 8تو ہر دو جانب سے ایک ایک نوجوان نے راستے میں، قصہ خوانوں کی طرح، ایک سیڑھی ڈال دی۔ 9جب آہن پوش دلیر سپاہی اس ہنگامے میں، قہر الٰہی کے سبب، پتھر پھینکنے والوں کے ڈر سے فرار پر مجبور ہوئے تو انہوں نے طعنہ زنی پر زبان کھولی۔ 10 لوگوں نے ان مقتولوں کی دھڑا دھڑ ندی ’’ جوے مار‘‘ میں پھینکنا شروع کر دیا 11نوخیز گل چہرہ لڑکوں کے قتل سے وہ ندی ایک دم جدول (نالہ، نہر) خون سے سرخ ہو گئی) دربار کی طرف سے عنایت اللہ خان کی نیابت خواجہ عبداللہ خان دہ بیدی کے نام مقرر ہوئی اور امیر احمد خان دربار چلا گیا۔ جب خواجہ عبداللہ خان کی حکومت میں عوام کا غلبہ اور تاخت و تاراج کا سلسلہ شہر میں بڑھ گیا اور اس کے علاوہ اہل کاروں کے مشورے سے محتوی خان نے خود سرکاری علاقے کو تصرف میں لے لیا تو دربار کی طرف سے مومن خان کو صوبے کا نائب بنا کر بھیجا گیا۔ وہ (مومن) ہیرہ پور پہنچا تھا کہ محتوی خان، میر حیدر خان (جس کا ذکر گذر چکا ہے) کے بڑے بھائی اور صوبہ کے بخشی شاپور خان کے مکان پر خواجہ عبداللہ خان سے ملاقات کرنے کے بعد (مومن خان سے) ملاقات کے لیے آیا۔ سید اطہر خان، دیوان بیوتات اور بعض دوسرے منصب داروں نے باہم مشورہ کر کے محتوی خان اور اس کے ساتھ کچھ عام لوگوں کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ ماہ زیعقدہ کی 21 تاریخ کو بدھ کے آخری پہر1132 میں رونما ہوا۔ ’’ شہید سر گذشت شیخ الاسلام‘‘ اس واقعہ کی تاریخ ہے تعمیہ کی صورت میں۔ دوسرے دن کا کچھ حصہ گزرنے پر لوگوں کو (اس واقعے کی) خبر ملی۔ چنانچہ انہوں نے محلہ جدیبل پر ہلہ بول دیا۔ اور اہل تشیع پر، جنہوں نے ہندوؤں کے فسادات کے دنوں میں متفق علیہ ہو کر بڑے بڑے مورچے بنا لیے اور مضبوط ہو گئے تھے، اسی وقت محتوی خان کے قتل کے مشورے میں شرکت کی تہمت لگا کر ان کو تاخت و تاراج کیا۔ کئی ایک زن و مرد اور چھوٹے بڑے قتل کر دیے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کا سامان کیا گیا۔ اس کے بعد اس فرقے کے مرشد میر شمس عراقی کی خانقاہ مسمار کر دی گئی۔ ابتدائے تعمیر سے آج تک جدیبل اور اس فرقے پر اس قسم کا حادثہ نہ گزرا تھا۔ ہندوؤں بلکہ بعض مسلمان سرداروں کو بھی اس طریق سے کئی مرتبہ آفات کا سامنا کرنا پڑا: پس از یکچند خان صدق تخمیر دل خود جمع کرد از اہل تزویر برامی دیدن بخشی روان شد اجل در پردہ با اوہم عنان شد چو بود از زمرہ اتراک بخشی شگون در قتل خان دانست بخشی سن شمت چشم از دہر پوشید قبای شتیش صد پارہ گردید پس ازیک لحظہ خلقی شورش انگیز شدند آتش صفت ہر سو جلوریز زوند آتش بخان و مان بخشی مسلم جست لیکن جان بخشی نمودندش سگان بی اعتدالی ز روبہ بازی قوم شغالی دگر بر حضرت قاضی دویدند چو آتش، یک نفس، آنجا رسیدند بجرم بی گناہی، خانہ اش را کشیدند آتش و کردند یغما 1کچھ دیر کے بعد سراپا صدق خان نے اہل مکر کے سلسلے میں دل کو تسلی دے دی۔ 2وہ (خان) بخشی سے ملاقات کے لئے چل پڑا۔ موت در پردہ اس کے ساتھ ہی جا رہی تھی۔ 3چونکہ بخشی ترک قبیلے سے تھا اس لئے اس نے خان کے قتل کو اچھا شگون لیا یا چونکہ وہ بخشی کے ترک قبیلے سے تھا۔۔۔ الخ 4 ساٹھ برس کی عمر میں اس نے دنیا سے آنکھ بند کر لی۔ اس کی ریشمی قبا (یا اس کی ہستی کی قبا) تار تار ہو گئی۔ 5 تھوڑی ہی دیر بعد ہنگامہ برپا کرتے ہوئے لوگ آگ کی مانند ہر طرف پھیل گئے 6انہوں نے بخشی کے گھر بار کو آگ لگا دی۔ صرف بخشی کی جان بچی 7 گیدڑ کی قوم کی رو باہ بازی (مکاری) سے کتوں نے اس سے بے اعتدالی کی۔ 8 پھر وہ قاضی کی طرف دوڑے اور آگ کی مانند ایک پل میں وہاں پہنچ گئے۔ 9بے گناہی کے جرم میں اس کے گھر کو آگ لگا دی اور لوٹ لیا۔ اس واقعے کے دو روز بعد مومن خان شہر کی حدود میں داخل ہوا چونکہ عوام نے محتوی خان کے بیٹے ملا شرف الدین کو جو باپ کے حادثے کے بعد چھپ گیا تھا، باہر لا کر باپ کی گدی پر بٹحا دیا تھا۔ اس لئے اب پہلے کی نسبت لوگوں کا ہجوم اور رجوع بڑھ گیا۔ ملکی معاملات تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گئے اور اکثر امور میں مداخلت ہوئی۔ عنایت اللہ خان نے جو وزارت اعلیٰ کا نائب بھی تھا دربار میں نائب کشمیر کی بے دخلی کا اظہار کر کے استعفیٰ دے دیا۔ سیف الدولہ عبدالصمد خان بہادر دلیر جنگ سیف الدولہ عبدالصمد خان بہادر دلیر جنگ نے عنایت اللہ خان کے بعد نظامت کشمیر کا عہدہ سنبھالا۔ اس نے اپنی نیابت کا پروانہ خواجہ عبداللہ خان دہ بیدی کے نام بھیجا۔ چار پانچ ماہ تک موصوف کے رفقا اور ملا شرف الدین کے پیرو کاروں کی نہایت مداخلت کے باعث احکام جاری کرنے سے عاجز رہا۔ ہندوؤں اور اہل تشیع کی فریاد پر سیف الدولہ، دربار کے حکم پر لاہور سے اٹھا اور ایک عظیم فوج کے ساتھ کشمیر کی طرف بڑھا۔ اول محرم22/1134 اکتوبر1721کو وہ شہر میں داخل ہوا۔ ملا شرف الدین اور ا س کے کئی ایک رفقا اور معاونین کو اس نے حسن تدبیر سے گرفتار کر لیا اور ہندوؤں پر پگڑی باندھنے، گھوڑے پر سوار ہونے اور قیمتی لباس پہننے پر ڈیڑھ سال سے جو پابندی لگی ہوئی تھی، وہ اٹھا دی۔ اس نے شہر کے اکثر سرداروں اور لوگوں نیز طبقات عوام کو قرار واقعی تنبیہہ کی۔ وہ چھ ماہ کشمیر میں بسر کر کے ماہ رجب کے وسط میں لاہور روانہ ہو گیا اور مذکورہ انابت خان کے بڑے بھائی محمد قاضی کاظم عارف خان کے بیٹے ابو البرکات خان کے لئے نیابت کا منصب بہت بڑی رقم کے تقرر کے ساتھ حاصل کیا۔ اس نے چھ ماہ حکمرانی کی۔ پھر لوگوں کی لگائی بجھائی کے سبب اسے تبدیل کر دیا گیا۔ اب نجیب خان احراری، سیف اللہ کے نائب کے طور پر کشمیر آیا۔ اسے ابو البرکات خان کے ہاتھوں مزاحمت اٹھانا پڑی۔ اس نے ایک سال کار گذاری کی تھی کہ صوبہ کشمیر کے نظامت سیف اللہ خان کی جگہ اعظم خان بہادر کو، جس کا ذکر ہو چکا ہے، مل گئی۔ اس نے خواجہ عبید اللہ خان وہ بیدی کو سادات خان کے پہننے تک نائب مقرر کر دیا۔ اعظم خان1723/1136کے اوائل میں کشمیر پہنچا۔ اس کے دور میں کشمیر میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں ایک منصب داروں اور بعض اعیان شہر کا خروج ہے، انہوں نے بعض لوگوں کی بے اعتدالی کے سبب شورش برپا کی اور اجتماع کیا۔ اس نے حسن تدبیر سے اس کا فوری تدارک کر کے اسے رفع کیا۔ دوسرا واقعہ جو سب سے زیادہ شدید ہے۔ کشمیر میں بہت بڑے قحط کا وقوع ہے۔ اگرچہ اس قحط کا آغاز تو ابو البرکات خان کی نیابت کے زمانے ہی میں ہو چکا تھا۔ تاہم اعظم خان کے عہد میں وہ اس حد تک پہنچ گیا کہ سابقہ ادوار میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ آٹھ روپے میں بھی دھان کا ایک خردار نہیں ملتا تھا۔ چاول گویا سونے کے بھاؤ ہو گیا۔ بھوک کے سبب لوگ کثیر تعداد میں فوت ہو گئے۔ راقم کتاب نے ان ایام کی صورت حال سے متعلق ایک طویل مثنوی لکھی تھی۔ اس میں سے چند اشعار، حسب ذیل یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ز بس در اضطرارند اہل کشمیر غم خود ہم نخوردہ ہیچ کس سیر ز سوز جوع از بس آتش افروخت بیاد وانہ پختن اشتہا سوخت چوچشم مردمان از قحط برگشت گرفتہ انقلاب از شہر تا دشت نشان غلہ پیدا نیست یکسر بغیر از حسن گندم گون دلبر ترقی منحصر دانند مردم در افزونی نرخ و کال و گندم تنور آسا شکمہا گشتہ بریان بسوز آرزوی یک لب نان بجز ماہی کہ دل فارغ زغم داشت میسر نان و آبی از درم داشت ز ماکولات حاصل غصہ خوردن بہای مشت شالی جان سپردن ز انبار کسی گر دانہ چیند پی یک کال صد دشنام بیند اگر جالی ظہوری کرد مہمان نمک دانش بود از شور و افغان جہان پامال سر چنگ جفا شد ز قحط آب و دانہ کربلا شد زپا افتادگان ست حالی ہمہ سرچنگ خوار مشت شالی بیاد کال ارزن محو خا کند برامی جو چو گندم سینہ چاکند جو و گندم اگر پیش کسی ہست چوشانہ برنمی وارند ازو دست شدہ ہر فرقہ غرق بحر تشویش نخوردہ بہرہ غیر از حسرت خویش خلائق بر سر دریا و بازار چو مور دانہ جو خوار لکد خوار چو مار گنج قوت ہر کہ ومہ بغیر از خاک نیست از شہر تا دہ سپاہی بسکہ دادہ تن بہرون غنیمت می شمارو زخم خوردن ہزاران بیت شاعر می سراید زبیت المال یک یشمش نیاید تسلی می دہد مادر پی خواب بطفل خویشتن از شیر مہتاب نویسد کاتب از بہر تسلی برنجی یافت اصطرلاب خود را بحسرت گفت خرادی بخاتون نماندہ در کفم جز چمچہ خون طبیب از دیدن اہل مرض سیر زجستن ہمچو نبض مردہ جاگیر مکرر نسخہای نان و حلوا منجم نفس را دادہ تسلی نیاید چون بکار قوت زرہا برنج و جو ازان بہ در نظر ہا غذای اہل سودا غصہ خوردن محالست از تجارت سود بردن ہمہ افتادہ در فکر مجالند ز شب تا روز محو این خیال لسند کمیت فکر ہر سو می دواند بغیر از سنبلہ برخے نداند شدہ رمال آنکیس مجسم مکدر ز اجتماع فاقہ و غم طریق قبض و داخل رفتش از یاد قرح در قرعہ اش ہر گز نیفتاد گدا یابد اگر حب الملوکی کند شاہانہ با ہرکس سلوکی زفقر و فاقہ بلبل بس نوا کرد وگر باریزہ گل اکتفا کرد نبردہ مورچہ راہی بشکر بجز شیرین لب نو خط دلبر 1اہل کشمیر اس قدر اضطرار میں ہیں کہ کسی نے اپنا غم بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا 2 بھوک کی جلن سے اس قدر آگ بھڑکی کہ دانہ پکانے کی یاد میں اشتہا جل گئی۔ 3جب لوگوں کی آنکھیں قحط سے پھر گئیں تو شہر سے دشت تک انقلاب نے گرفت میں لے لیا۔ 4 سوائے محبوب کے گندمی رنگ کے حسن کے غلے کا کوئی نشان تک بھی نظر نہیں آتا۔ 5 لوگ اب ترقی کو نرخ، دانے اور گندم کی افزدی پر منحصر جانتے ہیں 6 روئی کے ایک ٹکڑے کی آرزو کی جلن میں پیٹ، تنور کی مانند بھن گئے ہیں 7 سوائے مچھلی کے جس کا دل غم سے فارغ تھا۔ جسے (درم) کی صورت میں روٹی پانی میسر تھا۔ 8 کھانے پینے کی اشیاء کا حصول رنج کھانا اور مٹھی بھر چاولوں کی قیمت جان دے دینا ہے۔ 9اگر کوئی کسی کے ڈھیر سے ایک دانہ اٹھا لے تو ایک کال دانہ کے لئے اسے سو گالیاں سننا پڑتی ہیں۔ 10 اگر کسی جگہ کوئی مہمان وارد ہو گیا تو شور و فغان اس کا نمگدان بن گیا۔ 11 دنیا جفا و سختی کے دھول دھپ کی پامال ہو گئی، آب و دانہ کے قحط کے سبب کربلا بن گئی۔ 12 ست حالی کے گرے پڑوں کے لئے مٹھی بھر دھان کا حصول گویا سرا سر تھپڑ کھانے ہیں۔ 13 لوگ چینے کے دانے کی یاد میں مٹی میں محو ہیں، جو کے لئے گندم کی مانند سینہ چاک ہیں۔ 14 اگر کسی کے پاس جو اور گندم ہے تو لوگ کنگھی کی مانند اس سے ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ 15 ہر فرقہ بحر تشویش میں غرق ہے۔ اپنی حسرت کے سوا اس نے کوئی حصہ نہیں کھایا۔ 16 لوگ دریا کے کنارے اور بازار میں دانہ تلاش کرنے والی چیونٹی کی مانند پامال وخوار ہیں۔ 17خزانے کے سانپ کی مانند کیا گاؤں اور کیا شہر کے چھوٹے بڑے کی خوراک خاک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 18 سپاہی مرنے پر اس قدر آمادہ ہے کہ وہ زخم کھانے کو غنیمت سمجھتا ہے۔ 19 شاعر ہزاروں اشعار کہتا ہے لیکن بیت المال سے اسے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ 20 ماں اپنے بچے کو سلانے کے لئے اسے چاندنی کے دودھ سے تسلی دیتی ہے۔ 21 کاتب تسلی کی خاطر اپنے اصطرلاب کو لکھتا ہے ’’ ایک چاول پایا‘‘ 22خرادی نے حسرت کے ساتھ بیوی سے کہا کہ میرے ہاتھ میں چمچہ خون کے سوا کچھ نہیں رہا۔ 23 طبیب مریضوں کے دیکھنے سے سیر ہے (کوئی مریض نظر نہیں آ رہا) مریض کی تلاش کے سبب وہ مردے کی نبض کی مانند ایک جگہ ٹک کے رہ گیا ہے۔ 24 منجم نے نفس کی تسلی کی خاطر نان اور حلوہ بار بار لکھا 25چونکہ زر خوراک کے طور پر کام نہیں آتا، اس لئے دیکھنے میں چاول اور جو اس کی نسبت بہتر ہیں۔ 26 اہل تجارت کی غذا غصہ کھانا ہے۔ تجارت سے منافع حاصل کرنا محال ہو گیا ہے۔ 27 سبھی فکر مجال میں پڑے ہیں۔ شب تا روز اس خیال میں کھوئے ہوئے ہیں 28فکر کا گھوڑا ہر طرف دوڑاتا ہے۔ سنبلہ (خوشہ، ایک آسمانی برج) کے سوا وہ ذرا نہیں جانتا۔ 29علم رمل کا ماہر جو مجسم دانائی ہے۔ فاقہ اور غم کے اجتماع سے مکدر ہے۔ 30 اس کی یاد سے طریق قبض اور داخل محو ہو گیا۔ اس کے قرعہ میں قرح بالکل نہ گرا 31 اگر فقیر کو حسب الملوک (جمال گوٹا) مل جائے تو وہ ہر کسی کے ساتھ شاہانہ سلوک کرتا ہے۔ 32 فقر و فاقہ کے سبب بلبل نے بہت نالہ کیا۔ پھر ریزہ گل ہی پر اکتفا کر لی۔ 33چیونٹی کو شکر کا راستہ نہ ملا سوائے نو خط نو خیز حسین کے شریں لبوں کے (آخری اشعار تک) چند ماہ کے بعد قحط کی آتش قہر فضل باری (تعالیٰ) اور احسان الٰہی کے پانی سے بجھ گئی اور اس سے گواہی نامے کی صورت پیچھے رہ گئی۔ لیکن مدت تک اس قحط کا اثر باقی رہا۔ مختصر یہ کہ اعظم خان نے تقریباً ایک برس بطور ناظم کشمیر کام کیا۔ لوگوں کی شکایت پر اسے صوبے کے اس منصب سے معزول کر دیا گیا۔ ارباب کمال کا اجمالی ذکر: جنہوں نے مبارک شاہ کے آغاز عہد سے سین حال تک کشمیر میں مسند افضال کو طراوت بخشی۔ حضرت میر محمد ہاشم القادری: حسب نسب سے آنجناب سیادت ماب، متقیوں کے پیشوا، شیخ الواصلین، عبادت کے مضبوط پہاڑ، ہدایت کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور صاحب مناقب و مکارم تھے۔ 1723/1135یکم شعبان کو وارد کشمیر ہوئے۔ بحر معارف اور طاعت و ریاضت کے کوہ مستقیم تھے۔ شب و روز میں دو اور کبھی ڈیڑھ قرآن کریم ختم کرتے اور نماز میں تو ہمیشہ ایک ختم کرتے، اسی لئے لوگوں کی صحبت اور آمد و رفت سے انہیں بالکل فراغت میسر تھی اور وہ اپنا قدسی مناظر دل ہرگز خلائق کے نیک و بد پر نہ لگاتے۔ نماز فجر سے اشراق اور عصر کے بعد سے مغرب تک اور کبھی آخر شب نیز جمعہ کے بعد بلند آواز سے ذکر کرتے۔ یہ گنہگار فقیر (مصنف) آنحضرت کے ورود کے اوائل میں ان کی خدمت میں حاضری سے مشرف ہوا تھا۔ انہوں نے (مجھ پر) بڑی عنایات فرمائیں اور محض اپنی بے مثل عنایت سے قادریہ مسلک عالیہ کے فوائد خاص مرحمت فرمائے۔ چونکہ آنجناب کے احوال ’’ ثمرات الاشجار‘‘ میں بھی لکھ چکا ہوں اس لیے یہاں ان کے پیروں کے سلسلہ کے ذکر پر ہی قناعت کی جاتی ہے۔ آنجناب مرید اور فرزند ہیں۔ حضرت سیادت اور عرفان منزلت میر سید محمد علی خان کے باقی سلسلہ اس طرح ہے (محمد علی خان) بن میر سید عبداللہ بن میر سید احمد بن جناب میر سید عمر بن جناب میر سید ابراہیم بن جناب میر سید حسین بن جناب میر سید محمد جرمونی بن جناب میر سید یوسف بن جناب میر سید عبدالرزاق بن جناب میر سید میمون بن جناب میر سید مسعود بن جناب میر سید محمد بن جناب میر سید حسین بن جناب میر سید محمد صالح بن جناب عالی حضرت غوث الاعظم، قطب العالم شیخ السموات والارضین (آسمانوں اور زمینوں کے شیخ امام محی الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ انہوں (ہاشم) نے ان عالی درجات حضرات سے ظاہری اور باطنی نسبت حاصل کی۔ شوال کے آخر میں انہیں بخار ہو گیا۔ آغاز میں فرمانے لگے کہ ’’ ایک چقر (شرابخانہ چشمہ) ظاہر ہو رہا ہے۔ عرض کیا گیا کہ کس کام کے لیے، فرمایا: اگر کوئی مر جائے تو وہاں اس لے جا سکیں۔ تا آنکہ ایک روز جب خادم نے ان سے اکبر آباد میں مقیم ان کے فرزندوں کے مکتوب کے جواب کی استدعا کی تو فرمایا ’’ لکھ دے کہ سید مر گیا‘‘ بیماری کی شدت کے دنوں میں آسمان کی طرف منہ کیے پڑے رہتے۔ تلاوت کے سوا انہیں کسی بھی کام کی جلدی اور عجلت نہ تھی۔ بالخصوص آکری دن انہیں بڑی جلدی تھی، گویا کام نپٹانے کا ارادہ اور جلد کسی کام پر جانا معلوم تھا۔ رحلت کے وقت ان کے مبارک سینے سے ’’ اسم ذات‘‘ غرانے کے انداز میں سنا جاتا رہا۔ غسل کے موقع پر اس عاصی کا ہاتھ آنجناب کے کندھے پر پہنچا تو گیلا ہو گیا۔ غور سے دیکھا تو بینگن جتنا بڑا ناسور تھا جو پھٹ گیا تھا۔ حاضرین بہتر متعجب ہوئے کہ مرض کے دوران میں انہوں نے اس قدر شدید اور اذیت ناک پھوڑے کے بارے میں قطعاً کرئی اظہار نہ کیا، گویا وہ زبان حال سے فرما رہے تھے۔‘‘ گر تیغ بارد در کوی آن ماہ گردن نہادیم الحکم للہ (اگر اس محبوب کے کوچے میں تلوار چلتی ہے تو ہم نے گردن رکھ دی ہے، حکم اللہ ہی کو سزا وار ہے) 27شوال کو ہزاروں برکتوں، بزرگیوں اور قوت حال کے ساتھ 1723/1135میں انہوں نے رحلت فرمائی۔ درویشوں میں سے ایک عزیز نے، جو غسل کے موقع پر حاضر تھا، کہا کہ ’’اس تمام رات مجھے یوں لگا جیسے میں حضرت غوث الثقلین کے جسد مبارک کو غسل دے رہا ہوں۔‘‘ اس فقیر حقیر (مصنف) نے ان کی تاریخ رحلت ان الفاظ سے نکالی ہے: سرور زمرۂ سادات بہشت آرا شد نیر اوج کرامات فلک پیما شد در پر تو خورشید چو شبنم گردید گوہر کان ولایت ہمگی دریا شد جامہ عاریتی چون ز بدن بیرون کرد خلعت وصل الٰہی بقدش زیبا شد در رہ بندگی حق چو دو تا عمری بود در بحر قدم امروز در یکتا شد مدتی بود طراوت دہ بزم ارشاد این زمان در غرف خلد سریر آرا شد در حریم حرم وصل الٰہی جایافت عین سرچشمہ توحید بیک صہبا شد دیدی اعظم بسر تربت او روز عزا سوز صد حشر بر ارباب ولا برپا شد بدو تاریخ شدم روز وصالش مسلہم طوطی دل بدو مصراع ازان گویا شد نور حق ہادی دین، میر محمد ہاشم گوہر علم و یقین میر محمد ہاشم 1135 1سادات کی جماعت کے سردار بہشت کو سجانے والے بن گئے۔ کرامات کی بلندی کے آفتاب فلک پیما ہو گئے۔ 2خورشید کے پرتو میں وہ شبنم کی مانند ہو گئے۔ ولایت کی کان کا موتی سراسر دریا ہو گیا۔ 3 جب انہوں نے جسم سے عاریتی لباس اتار دیا تو وصل الٰہی کی خلعت ان کے قد پر سج گئی۔ 4چونکہ حق کی بندگی کے راستے میں ساری عمر دوتار ہے اس لیے آج بحر ازل میں در یکتا بن گئے۔ 5وہ ایک مدت تک رشد و ہدایت کی بزم کو تازگی بخشتے رہے اور اب وہ جلد کے دریچوں میں تخت کو آراستہ کیے ہوئے ہیں۔ 6وصل الٰہی کے حرم کی چار دیواری میں انہیں جگہ مل گئی۔ وہ ایک ہی صہبا سے عین سر چشمہ توحید بن گئے۔ 7 اے اعظم تو نے روز عزا ان کی تربت پر دیکھا کہ ارباب محبت پر سینکڑوں حشروں کا سوز برپا ہو گیا تھا۔ 8 ان کے روز وصال مجھے دو تاریخوں کا الہام ہوا۔ دل کے طوطی نے اس کو دو مصرعوں میں بیان کیا (جو یہ ہیں:) 9نور حق، ہادی دین میر محمد ہاشم (1135) اور گوہر علم و یقین میر محمد ہاشم (1135) اہل ارشاد کے خلاصہ شیخ محمد مراد نقشبندی، المعروف متو کشمیر کے شرفا میں سے تھے۔ چھوٹی عمر ہی میں دنیوی اشغال سے کنارہ کشی اختیار کر کے طلب الٰہی کے مسافر بنے۔ اس سلسلے میں وہ کمالات عالی کے مصدر، صاحب مقامات بلند میر محمد رضا دہلوی کی بابرکت خدمت میں حاضر ہوئے جو دہلی کے مشہور مشائخ میں سے اور صوری و معنوی کمالات کے جامع تھے، اور جنہوں نے حضرت خواجہ بیرنگ کے فرزند ارجمند اور حضرت مجدد کے تربیت یافتہ حضرت خواجہ خورد سے کسب فیض کیا تھا اور اویسی مشرب بھی تھے۔ مراد ایک مدت تک ان کی خدمت میں رہے اور کمالات مسلک سے بامراد ہوئے۔ مرشد کی وفات کے بعد کشمیر میں گوشہ نشینی اور ترک علائق اختیار فرمایا۔ اور شب و روز نسب باطن کی تقویت میں مصروف ہو گئے اور طالبوں کی تربیت و ہدایت کرتے رہے۔ حرکت بہت کم کرتے۔ رسمی علوم سے بہرہ ور تھے اور کبھی کبھی تصوف اور پند و موعظت پر مبنی اشعار بھی کہتے۔ فقیر (مصنف) حضرت مرشد مراد کی وفات کے بعد ان کی خدمت میں پہنچا اور تین برس سے زیادہ کا عرصہ اس عالیشان ذات سے بہرہ اندوز ہوا۔ فقیر نے آنجناب کو فضول کلام کے ترک میں غیر ضروریات سے عدم التفات، پورے طور پر محویت، بے تعینی اور ہمیشہ کے مراقبے میں دوسرے مشائخ سے ممتاز اور مستثنیٰ پایا۔ پچھتر برس کی عمر میں7ماہ شوال 1722/1134کو رحلت فرما ہوئے۔ راقم آخری دن ان کی عیادت و عنایت، میت کے غسل کے وقت موجودگی اور جنازہ اٹھانے سے مشرف ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی برکات سے ہمیں عنایت کرے۔ ’’ شیخ اکابر‘‘ (1134) سے ان کی تاریخ وفات نکالی گئی۔ ایک اور تاریخ، جو کسی نے نہیں نکالی تھی، فقیر نے آنجناب کے قائم مقام عامل عارف کامل مولانا ابو الفتح سلمہ اللہ کے ایما پر موزوں کی، جو یوں ہے: تاریخ: شیخ آفاق و مراد عشاق آنکہ سرخیل ولایت بودہ بود او عین بصیرت، الحق چشم بر غیر خدا نکشودہ آکراز وحشت کثرت یکبار گنج سان زیر زمین آسودہ ہمچو خورشید، رہ عالم قدس سرہ بسربی سروپا پیمودہ شدہ تاریخ وصالش مسموع ’’محرم راز خدا او بودہ‘‘ 1وہ آفاق کے شیخ اور عاشقوں کی مراد تھے، وہ جو ولایت کے سر گروہ تھے۔ 2وہ بلا شبہ سراسر بصیرت تھے، جنہوں نے ماسوا پر نظر نہ ڈالی۔ 3 آخر کار وہ کثرت کی وحشت سے ایک دم، خزانے کی مانند، زیر زمین آرام فرما ہو گئے۔ 4 خورشید کی مانند انہوں نے عالم قدس کا راستہ سراسر سر اور پاؤں کے بغیر طے کیا۔ 5ان کی تاریخ وصال یہ سنی گئی کہ وہ راز خدا کے محترم تھے۔ شیخ عبداللطیف قادری عالم عامل، اللہ کے ساتھ واصل کامل المعروف کوسہ۔ اس شہر کے شرفا میں سے اور تجارت پیشہ تھے۔ علم ظاہری کے حصول میں مصروف ہو کر علوم ظاہریہ سے بخوبی بہرہ ور ہوئے۔ پھر جاذبہ الٰہی کے نتیجے میں ختم نہ ہونے والے راہ سلوک پر چل پڑے۔ اس سلسلے میں وہ سراپا معارف شیخ اسمعیل انبور ہیلی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ شیخ اسماعیل ناخواندہ تھے اور سراپا ولایت حضرت خواجہ حبیب اللہ کی وساطت سے میر محمد علی قادری کی خدمت سے منسوب ہوئے، لیکن ریاضت و استقامت کے زور پر انہوں نے اپنا معاملہ اس حد تک پہنچا دیا کہ باکمال رجال میں شمار ہوئے۔ بہت سے کشف کونیہ بھی ان سے ہوئے۔ جہاں کہیں بھی مشکوک اور مشتبہ فرش اور لقمہ ہوتا انہیں غیب سے اس کی خبر ہو جاتی، چنانچہ وہ اس سے اجتناب کرتے، حرام شے کا تو ذکر ہی کیا۔ شرعی حدود میں بہت احتیاط سے کام لیتے، اس بنا پر اکثر مولانائے اعظم خواجہ ابو الفتح قلی کی جو حضرت مولانا حیدر علامہ کے بڑے بڑے نسبت یافتہ حضرات میں سے تھے، خدمت میں بسر کرتے، بلکہ مسلک قادریہ کے فوائد بھی حاصل کرتے جو متاخرین کے خلاصہ شیخ عبدالحق دہلوی کی خدمت سے علامہ تک اور ان سے مولانا تک پہنچے تھے۔ شیخ عبداللطیف نے دنیا اور گھر بار ترک کر کے پوری طرح ظاہر و باطن میں ریاضتہائے شاقہ اور رسمی عادات کے ترک میں استقامت اور استحکام کو کمال کی حد تک پہنچا دیا اور موضع انبرہیل میں سکونت اختیار کی۔ میرے حضرت مرشد مراد کسی کام سے اس طرف آ نکلے تھے، فقیر ان کے ہمرکاب تھا۔ وہاں ان کے احوال سنے اور ان کی زیارت کی۔ اس وقت وہ آغاز میں تین چلوں کی نیت سے چلہ بیٹھے تھے۔ عجب احوال کے مالک تھے چالیس روز کا ایک چلہ انہوں نے پورے سکوت سے گذارا۔ اس دوران میں وہ ضرورت کے مطابق آیت و حدیث اور مسائل کا جواب دیتے۔ اس کے بعد تقریباً گیارہ برس تک حضرت مرشد مراد بقید حیات رہے۔ اتفاق سے ان اکہتر سالہ بزرگوار کی صحبت میسر نہ رہی۔ اسی اثنا میں میرے مرشد کا وصال ہو گیا۔ اس کے تین سال بعد میں اکثر اس روشن ضمیر کی خدمت میں جاتا رہا۔ اس وقت وہ چالیس روزہ تین چلوں سے فارغ ہوئے تھے۔ ایک لمحہ بھی انہیں گریہ و نالہ اور آہ و فغاں سے فراغت نہ تھی۔ آیت و حدیث اور صوفیہ کے کلام کے سوا کوئی اور ذکر نہ کرتے۔ فنا، نیستی اور فروتنی میں وہ حد کمال کو پہنچ چکے تھے۔ اس تمام ترک علائق، اخفائے حال اور انکسار کے کبھی کبھار کشف کونیہ بھی کرتے جو کنایتہ ہوتا، خاص طور پر حضرت ایشان کی رحلت کے ایام میں یہ بات بتکرار معلوم ہوتی رہی۔ اس گنہگار فقیر پر وہ بہت شفقت فرمایا کرتے تھے اور اس فقیر نے اپنے نصیب کے مطابق ان کی صحبت شریف سے فوائد بھی حاصل کئے۔ 15شعبان 1722/1134رحلت فرمائی۔ ’’ شیخ اکابر‘‘ (1134ھ) ان کی تاریخ وفات ہے۔ میر شرف الدین قادری: میر ابو الفتح قادری کے فرزند ارجمند ہیں۔ اولاد نرینہ میں سب سے چھوٹے تھے۔ آغاز جوانی میں کمال کامرانی کے ساتھ باطنی مسلک اختیار کیا۔ اوراد اور اذکار میں مشغول رہے۔ ظاہری معاملات سے دست بردار ہو گئے۔ والد بزرگوار کی صحبت کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے عزیزوں سے بھی رابطہ پیدا کیا۔ میر ابو الفتح کے وصال کے بعد اسلاف کی مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ ان میں کرامت کی حد تک استقامت تھی۔ حسن خلق، چہرے کی بشاشت، دین کی خدمت گزاری اور پابندی اوقات میں اپنے ہمعصروں میں ممتاز تھے۔ ان کے دیدار مبارک سے ان کے صفائے باطن کا پتا چلتا تھا۔ خاص طور پر ذکر جہر (بلند آواز میں ذکر) عجب فیض و حلاوت سے پر ہوتا۔ ماہ شوال میں انہیں تکلیف ہو گئی۔ راقم حروف، جو ان کا منظور عنایت تھا، ان کی پر سعادت عیادت سے سرفراز ہوا۔ اس موقع پر ایک مغنی کوئی غزل گا رہا تھا اور آنجناب عجب سوز و گداز سے گریہ شوق کر رہے تھے۔ اللہ کی یاد میں جانکاہ آہ فرما رہے تھے۔ دوسرے روز15ماہ شوال 1723/1135کو کمال ہوش میں رحلت فرما گئے۔ حسن اتفاق سے میر ابو الفتح کی تاریخ وصال اور شرف الدین کی خلافت کی تاریخ ’’ خلیفہ شاہ جیلان‘‘ 1؎ کے الفاظ سے نکالی گئی، اور میر شرف الدین کی تاریخ رحلت ’’ خلیفہ شاہ جیلانی‘‘ ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی شیخ نور الدین نے علوم معقول و منقول کی تحصیل اپنے دور کے بڑے علما کی خدمت میں کی اور اس طرح اپنے معاصرین پر فوقیت پا گئے۔ اپنے والد بزرگوار کی زندگی ہی میں عین عالم شباب میں انہوں نے وفات پائی۔ بڑے بھائی کا حال اپنی جگہ پر تحریر ہو گا۔ حضرت خواجہ عبید اللہ نقشبندی: ان صاحب کمال کے مختصر احوال گذشتہ صفحات میں تحریر ہو چکے ہیں۔ لوازم طریقت کے اکتساب کے بعد انہوں نے تجرید و تفرید اختیار کر لی۔ انہوں نے اکثر مشہور شہروں کا سفر کیا۔ حرمین محترمین پہنچ کر سترہ حج کئے۔ کشمیر تین مرتبہ تشریف لائے پہلے بادشاہ عالمگیر کی سلطنت کے آخری میں دوسری مرتبہ محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ کی بادشاہت کے دنوں میں کہ ہجری سال 1707/1119یا 1708/1120تھا۔ اس زمانے میں یہ فقیر حقیر، حضرت مرشد مراد کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ لوگوں سے ملاقات کرنے سے اجتناب برتتے۔ اکثر دروازہ بند کئے بیٹھے رہتے۔ انہی دنوں جناب شیخ ’’ ملکوت پرواز‘‘ خواجہ نیاز کے پشاور پہنچنے کی خبر ملی جنہیں بہادر شاہ نے بلوایا تھا۔ ان کی تلاش میں کشمیر چلے گئے۔ چونکہ جناب حضرت خواجہ نیاز جلد ہی بہادر شاہ کے لشکر میں چلے گئے اس لئے جناب خواجہ عبید اللہ نے حرمین کی راہ لی اور ایک مدت وہیں رہے۔ چند سال بعد بلخ چلے آئے لیکن وہاں شہر میں فتنہ و فساد پھوٹ پڑنے پر 1720/1132 کے آخر میں کشمیر آ گئے اور پانچ برس سے زیادہ کا عرصہ یہاں نہ ٹھہرے۔ اس مرتبہ اس فقیر کے پیروں میں سے کوئی بھی جسمانی طور پر بقید حیات نہ تھا، چنانچہ ان کی صحبت و خدمت کو غنیمت جانا، ضبط اوقات، اخفائے حالات، آداب طریقت کی مراعات، طالبان حقیقت کی تادیب، کمال استغنا، مال داروں کی سرزنش، تشریح تمام اور فضول کلام کے ترک کے لحاظ سے اس وقت کے کشمیر میں بے نظیر تھے۔ انہوں نے اس شہر میں سکونت کا ارادہ کر لیا تھا لیکن بعد میں کسی باعث ملول ہو گئے۔ اکثر کہا کرتے کہ ’’ میں خوابوں میں خود کو حرمین اور مسجد اقصیٰ ایسے متبرک مقامات میں پاتا ہوں۔‘‘ ان مقامات کی وہ کئی بار سیاحت کر چکے تھے۔ 1724/1137کے اوائل میں براستہ ہند حرمین چلے گئے۔ جہاز پر سوار ہوتے وقت اپنی یہ غزل اپنے اس مخلص احقر کو بھجوائی: غزل ہر آن گلی کہ وزد بوی او بشامہ من زشامہ دور نسازم کہ شد شمامہ ء من بسوزن مژہ از دانہای اشک رخم خیاطہ ء ازلی بخیہ زد بجامہ ء من ز ہر گلی کہ وزد بوی او بمن نرسد زشامہ دور نمایم کہ شد غمامہ ء من ز اوج قدس چو روح الامین کند پرواز کبوتری کہ برد سوی یار نامہ من ز پیچ و تاب خم جمعد او بسر پیچد قضاز دست قدر پیچ بر عمامہ ء من ز چار موجہ ء طوفان نوح باکم نیست چوباد شرطہ شود بایدکہ سلامہ ء من بکشیتی کہ خدا نا خداست، رفتہ عبید رشد بکعبہ مقصود حج عامہ ء من 1میں ہر اس پھول کو، جس کی خوشبو میرے دماغ کو پہنچتی ہے، دماغ سے دور نہیں رکھتا (یا دور نہیں رکھوں گا) کیونکہ وہ میری خوشبو بن گیا۔ 2ازل کے درزی نے میرے چہرے کے آنسوؤں کے دانوں سے مژہ کی سوئی کے ساتھ میرے لباس کی بخیہ گری کی۔ 3 جس بھی پھول کی خوشبو مجھ تک نہیں پہنچتی، میں اسے دماغ سے دور رکھتا ہوں کیونکہ وہ میرا ڈھانا بن گیا۔ 4وہ کبوتر جو دوست کی طرف میرا خط لے کر جاتا ہے، قدس کی بلندیوں پر حضرت جبرئیل روح الامین کی مانند پرواز کرتا ہے۔ 5 قضا، قدر کے ہاتھوں سے، اس محبوب کی زلفوں کے پیچ و خم سے میری دستار کا پلو لپیٹتی ہے۔ 6طوفان نوح کے گرداب سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے جب باد موافق میری سلامتی کی ضامن ہے (؟) 7عبید اس کشتی میں، جس کا کھیون ہار خدا ہے، گیا ہے۔ میرا حج عامہ کعبہ مقصود کو پہنچے گا۔ حج ادا کر کے مدینہ مطہرہ پہنچے، جہاں بیمار ہو گئے۔ آخر29محرم27/1139ستمبر 1726 کو جبکہ جمعہ کا پہلا پہر تھا، ٹھیک ٹھاک ہوش و حواس اور شعور کے عالم میں غسل کر کے نماز پڑھی اور رحلت فرما گئے۔ا س فقیر پر ان کی عنایت خاص رہی۔ جن دنوں وہ حرمین پہنچے ہوئے تھے فقیر، مشائخ کے احوال لکھنے کا ارادہ کر کے رسالہ ’’ اشجار خلد‘‘ لکھنے میں مصروف تھا۔ ایک دن نماز فجر کے بعد، خانقاہ معلی میں روحانی طور پر حاضر ہوئے اور طویل صحبت کے بعد اپنے احوال لکھنے کا اشارہ کیا۔ فقیر متحیر ہوا۔ تین چار ماہ بعد حرمین سے ان کی وفات کی خبر ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرقد کو منور کرے اور ان پر اپنی وسیع رحمت فرمائے۔ عنایت اللہ خان اعظم خان کی تبدیلی پر عنایت اللہ خان نے تیسری مرتبہ کشمیر کی صوبہ داری سے رتبہ اعتبار پایا۔ اس نے نائب صوبہ دار کے عہدہ پر بیوتات کشمیر کے دیوان فخر الدین محمد خان کو مقرر کیا۔ اس (فخر الدین) نے کچھ اوپر ایک برس حسن عمل سے یہ عہدہ نبھایا۔ ادھر ابھی ایک برس بھی نہ گذرا تھا کہ پایہ تخت میں عنایت اللہ خان وفات پا گیا، یہ واقعہ 1723-4/1137میں پیش آیا۔ چونکہ عنایت اللہ خان اور اس کے بعض اقارب کا ذکر، جنہوں نے اس شہر پر حکومت کی تھی، اس کتاب میں کسی حد تک آ چکا ہے، اس لئے یہ ضروری معلوم ہوا کہ ان کے حسب و نسب کا کچھ تذکرہ بھی تحریر کر دیا جائے۔ واضح ہو کہ عنایت اللہ خان ولد میر شکر اللہ بن میر مومن بن قاضی صالح، قاضی موسیٰ شہید کی اولاد سے ہے جس (موسیٰ) کا ذکر کشمیر کے چک حکمرانوں کے احوال کے غبن میں گذر چکا ہے۔ عنایت اللہ کی والدہ بی بی مریم کی والدہ کا نام جان بی بی تھا جو ملا شریف میر عدل کی بیٹی تھی۔ ملا شریف، شاہی بیگمات اور پردہ نشین عورات کی معلمی اور اتالیقی کے سلسلے میں شاہ جہان بادشاہ کی سرکار میں ملازم تھا۔ جان بی بی نے عالمگیر کے تخت سلطنت پر بیٹھنے کے بعد اپنی بیٹی مریم بی بی کو شاہی دولت سرا میں (ملازمت کی خاطر) پیش کیا۔ رفتہ رفتہ اس کا کام ترقی کرتا چلا گیا، تآنکہ اسے بادشاہ کی دوسری بیٹی نواب زیب النساء کی سرکار میں کمال اعتماد اور محرمیت حاصل ہو گئی، جب کہ اس کا بھائی ملا محمد طاہر اس کے ہمراہ تھا۔ مریم نے اپنے بیٹے میر عنایت اللہ کو دربار میں بلوا کر بتدریج اور آہستہ آہستہ، خدا داد نصیبے کی یاوری اور قابلیت و استعداد کی بنا پر بلند منصبوں تک پہنچا دیا۔ اس نے عالمگیر بادشاہ کی جناب میں انتہائی قرب اور محرمیت کے سبب اختصاص اور اعتماد حاصل کر لیا، اور دربار کے اعلیٰ مرتبہ لوگوں کے لئے حسد کا باعث بن گیا۔ ادراک و شعور، اچھی معاشرت، ضابطہ دانی، تہذیب اخلاق، ضبط اوقات اور شغل علم و عمل سے کاملاً بہرہ ور اور صاحب نصیب تھا۔ صورت اور سیرت کے حسن میں کمال تمکنت اور قوت و مکنت میں پورے امتیاز کا مالک تھا۔ اس کے حسن تدبیر اور صواب نما درایت رائے کی حکایات معلوم و مذکور اور خاص و عام میں مشہور ہیں کہ اقبال و دولت اور شعور و فطرت میں اس جیسا شاید ہی کوئی شخص کشمیر سے اٹھا ہو اور یہ بات اہل عالم پر واضح ہے۔ خان مذکور کو عالمگیر کی جناب میں جو امتیاز اور قرب حاصل تھا وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں ایک عجیب و غریب حکایت کتاب ماثر عالمگیری سے، اسی عبارت میں نقل کی جاتی ہے جو ہماری بات کی تصدیق کرتی ہے۔ ان ایام کے سوانح لکھنے سے قبل مقدمہ کے طور پر ایسے بادشاہ کی۔۔۔۔ جو (بادشاہ) عادل کامل ہے، بحر بے ساحل ہے، مٹانے والا ہے غنیم باطل کو، نیکیوں کا مجموعہ، جو ضعیفوں کا کارساز ہے، قوی لوگوں کا خانہ بر انداز ہے، جہاں کشا بادشاہ، ایسا آقا جس کا حکم قضا کے دستخط لئے ہوئے ہے، جو تیغ دعا کی کاٹ ہے، دریائے سخا کا گوہر ہے، جو نیستی و ہستی کے مسلکوں کا سالک ہے اور جو بلندی و پستی کے موقفوں کا واقف ہے۔۔۔ خانزاد پروری، قدر دانی، فرمانروائی اور قہر مانی کے مراسم کی پاسداری سے متعلق کسی قدر حیطہ تحریر میں لایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اس مقام پر عجب اتفاق ہوا کہ فلک اختتام خیموں کے کرامت بھرے نزول کے وقت امیر الامرا کا ڈیرا زمین پستی پر واقع ہوا، جب کہ عنایت اللہ خان، دیوان خالصہ وتن کا خیمہ اونچی جگہ پر نصب ہوا۔ خان مذکور نے محل سربا کے سر پردوں کی جگہ ایک احاطہ بھی بنا لیا تھا۔ چند روز کے بعد امیر الامرا نے ایک خواجہ سرا کی معرفت اسے (خان کو) پیغام بھجوایا کہ یہاں سے اٹھ جاؤ یہاں نواب کا خیمہ لگے گا۔ خان نے جواب بھیجا کہ ہم مناسب جگہ ملتے ہی اٹھ جائیں گے، ذرا مہلت چاہئے۔ خواجہ سرا نے تیزی سے جواب پہنچا دیا۔ چار و ناچار اس نے وہاں قریب ہی ایک جگہ پر خیمہ منتقل کر لیا۔ اب اس جگہ امیر الامرا کا خیمہ نصب کر دیا گیا۔ یہ معاملہ دیوانی کچہری کے کسی اخلاص کیش واقعہ نویس کی تحریر سے مطالعہ قدسی میں آیا۔ اسی وقت (بادشاہ نے) حمید الدین خان بہادر کو حکم دیا کہ جا کر امیر الامرا سے کہو کہ یہ اچھا نہیں ہوا۔ تم پہلی ہی جگہ پر یا کسی اور جگہ پر چلے جاؤ۔ جس کا خیمہ پہلے سے وہاں تھا وہی اس جگہ رہے۔ خان مذکور نے وہاں جا کر حکم پہنچا دیا۔ امیر الامرا نے یہ حکم ماننے پر ٹال ٹٹول سے کام لیا۔ خان بہادر اس کے پاس سے اٹھ کر، ازراہ اخلاص، عنایت اللہ خان کے گھر پہنچا اور سرگذشت کہہ سنائی ا ور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ تم امیر الامراء کے پاس جا کر یہ کہو کہ ’’ مجھے جگہ مل گئی ہے، میں پسند نہیں کرتا کہ جگہ تبدیل کی جائے۔‘‘ عنایت اللہ خان نے کہا کہ ’’ تم تو حکم کے مطابق ان (امیر الامرا) کے پاس گئے تھے، میں بھلا حکم کے بغیر کیونکر جا سکتا ہوں۔‘‘ چنانچہ خان بہادر واپس چلا گیا اور اس نے دربار آ کر یہ ساری باتیں بادشاہ کے گوش گذار کر دیں۔ اگلے دن امیر الامرا، دیوان کے وقت، دربار پہنچا۔ خان مذکور کو حکم ہوا کہ وہ امیر الامرا کو عنایت اللہ خان کے گھر لے جائے۔ تاکہ جو کچھ ہوا ہے اس پر وہ معذرت کرے۔ اب بھلا امیر الامرا کی کیا طاقت و مجال کہ وہ حکم کے حلقے سے سر باہر نکال سکے، چنانچہ ’’ میں نے سنا اور میں نے اطاعت کی‘‘ کہہ کر اس نے فرمان برداری کا راستہ پلکوں سے طے کیا۔ میر خانزادہ خان نے یہ پیغام پہنچانے کے لیے کہ اس قسم کا حکم صادر ہوا ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ وہ جلد عرض کر دے کہ ان کا آنا موقوف ہو راقم (مصنف ماتر عالمگیری) کو عنایت اللہ خان کے پاس بھیجا۔ بندہ کی روانگی کے دن میں تاخیر اور پھر خان مذکور کے گھر امیر الامرا کے آ جانے کے اتفاق کی بنا پر میرا وہ پیغام پہنچانا موقوف ہو گیا۔ اتفاق سے عنایت اللہ خان حمام میں تھا۔ امیر الامرا آکر دیوانخانے میں بیٹھ گیا جس کا ابھی فرش درست نہ ہوا تھا۔ خان جلدی باہر آ گیا۔ امیر الامرا مذکورہ خان کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑا اور سوار ہو گیا اور اسے اپنے گھر لے آیا ۔ جہاں خان مذکورہ کو اقامت کہنے والوں کا ایک خاص قسم کا پارچہ پیش کیا۔ جتنی بھی دیر وہ وہاں ٹھہرا، اس دوران میں اس نے کسی بھی موقع پر اور کسی طور پر بھی کسی قسم کی بدمزاجی کا کوئی مظاہرہ نہ کیا بلکہ اس کی دلداری اور مہربانی ہی میں اضافہ کیا۔ ایسے لوگ بھی زیر آسمان تھے۔ زندگی کے مراحل اس نے اسی خوش آئند طریقے سے بسر کئے۔ اول و آخر تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس نے وزارت خان کا خطاب پایا اور وزارت اعلیٰ کا نائب بنا۔ کشمیر کی اکثر خدمات کا تعلق ان کے خاندان سے رہا ہے۔ شاہ عالم کی وفات کے بعد کشمیر کی صوبہ داری پر متمکن اور نصیبے کی یاوری سے اعلیٰ خدمات سے فائز ہوا۔ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ عقیدت خان (کا دور حکومت) عنایت اللہ خان کے تغیر کے بعد عقیدت خان کشمیر کی نظامت سے سرفراز ہوا۔ وہ عالمگیری دور کے خلیل اللہ خان کی اولاد سے تھے۔ اس کی نیابت ابو البرکات خان کو ملی۔ تقریباً تین برس تک اس نے ملکی نظم و نسق کامیابی کے ساتھ چلایا۔1728/1140 کے اواخر میں، خطہ کے لوگوں کی شکایات کی بنا پر عقیدت خان کو اس عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ آغر خان دیدہ مغل (کا دور حکومت) عقیدت خان کے بعد آغر خان نظامت کشمیر پا کر فخر و مباہات اور شان و شوکت کے رتبے میں افزائش کا باعث بنا۔ آغر خان کلان کا بیٹا اسکی صوبہ داری میں عنایت اللہ خان کے ہمراہ کشمیر آیا تھا۔ اس نے اپنے پہنچنے تک میر صدیق بخشی کو، جو شاپور خان کا نواسہ اور جس کا ذکر گذر چکا ہے، نائب بنا دیا۔ آغر خان سال مذکور کے ماہ ذی الحجہ کے آغاز میں داخل کشمیر ہوا پانچ چھ ماہ تک، اپنے مزاج کے مطابق بندوبست امور میں مصروف اور حسن نیت اور صفائے فکر کا اظہار کرتا رہا۔ وہ اکثر راقم حروف کے سامنے کہ تاریخ ورود پیش کرنے اور شعر و سخن کے مذکورات کی تقریب سے میر اا سے بڑا رابطہ تھا، تنہائی میں یہ شعر پڑھا کرتا: الٰہی چو بر نیتم آگہی چونیست بخیراست خیرم دہی (الٰہی جب تو میری نیت سے آگاہ ہے تو چونکہ نیت خیر کی ہے اس لیے مجھے خیر ہی عطا کر) تقدیر کا کرنا بعض عزیز، منصوبے کے تحت، اس کی راہزنی (یعنی اس کو بگاڑنے) پر مائل ہوئے اور آخر اس کی طبع کو (انحراف) پر لے آئے اور گمراہی کے راستے پر لے جانے والے اور بیابان جہالت کے غول بن گئے۔ انہوں نے اس کی قوت سماعت کو بے سروپا دعوؤں سے بیکار کر کے رکھ دیا اور اس کی آتش طائفہ کو لوگوں کے خون کے وعدے سے بھڑکا دیا۔ تآنکہ اس کی نیت بدل گئی اور راقم حروف کی موجودگی میں اس نے جو قول و قرار کیے تھے اور جو قسمیں کھائی تھیں ان کے الٹ چلنے لگا۔ شروع شروع میں وہ طبع موزوں کا مالک تھا۔ یہ سطور لکھتے وقت اس کی دروغ گوئی اور خلاف عہد سے متعلق درج ذیل غزل قلمبند ہوئی۔ غزل: بخم ابروی نگار قسم بدم تیغ آبدار قسم خط تو آیت ہدایت شد بسر مصحف غبار قسم کار شمشمیر می کند ابرو بعلی و بذوالفقار قسم دیدہ غیر ترا نمی بیند یک قسم صد قسم ہزار قسم (1محبوب کے ابروؤں کے خم کی قسم، تیغ آبدار کی کاٹ کی قسم، 2تیرا خط (سبزہ، جو نو خیزی کی علامت ہے) ہدایت کی نشانی بن گیا، مصحف غبار (غبار ایک رسم الخط کا نام ہے) کے سر کی قسم 3 ابرو، تلوار کا کام کرتے ہیں، (حضرت) علی اور (ان کی تلوار) ذوالفقار کی قسم 4آنکھیں تیرے سوا کسی اور کو نہیں دیکھتیں، ایک قسم، سو قسم بلکہ ہزار قسم) اس کے تغیر کے بعد عمدۃ الملکوت (عمدۃ الملک؟) امیر کان نے نظامت کشمیر کا عہدہ سنبھالا اور نیابت پھر ابو البرکات خان کو مرحمت ہوئی جو اس وقت دربار میں تھا۔ مشار الیہ برکات نے اپنے کشمیر پہنچنے تک یادگار خان کے بھائی خلیل الدین خان کو نائب بنا دیا۔ 1143/1730کے وسط میں ابو البرکات کشمیر پہنچا۔ اس نے کوئی دو برس تک اپنے خاطر خواہ نیابت کے فرایض انجام دیے۔ پھر احترام خان نے، جس کا ذکر گذر چکا ہے، ابو البرکات خان کی تبدیلی پر نیابت کا عہدہ سنبھالا۔ جب وہ (احترام) کشمیر پہنچا تو سوئے اتفاق کہ غلہ کی قلت پیدا ہو گئی۔ اس کے کشمیر پہنچتے ہی عوام نے غلے کی کمی کے باعث اپنی نعرہ زنی سے کوچہ و بازار میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ احترام خان نے اپنی نادانستگی کی بنا پر اور کچھ وہاں کے ان لوگوں کے بہکارے میں آ کر، جنہوں نے اپنی پیش آمد اور خود خواہی کی خاطر شہر کی ویرانی حاکم وقت کی بے آبروئی کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر وقت اس کام کو سامنے رکھا۔ انہوں نے غلے کی خاطر اس کے ہر کسی سے معترض ہونے کو اس کے سامنے معقول قرار دیا، جس کے نتیجے میں ایک عجیب شہر آشوب برپا ہو گیا۔ عوام الناس کچھ تو اپنے اضطرار کے باعث اور کچھ فساد پھیلانے اور بہکانے والوں کی تحریک پر آپے سے باہر ہو کر لوگوں کے گھر بار کی طرف متوجہ ہو گئے اور یوں معاملہ ہاتھ سے نکل گیا۔ ان فسادات اور ہنگاموں سے ہٹ کر جو دوسرا واقعہ رونما ہو اوہ یہ ہے کہ بعض اوباش، بدقماش آدمیوں نے یا تو ذاتی خباثت کے سبب یا پھر اہل غرض و حسد اور شرپسندوں کی تحریک پر جمعہ کے پہلے پہر مولانا عنایت اللہ المعروف فضیلت اللہ خان، جو میر عدل اور داروغہ عدالت شرعیہ کے مناصب پر فائز تھے، اور مولانا محمد اشرف مفتی اعظم کو انصاف خواہی اور غلہ کی نگرانی کی اصلاح کی استدعا کے بہانے گھروں سے بلا کر جامع مسجد میں لے گئے اور وہاں غوغا و ہنگامہ برپا کر کے، کوئی موقع دیے بغیر آن کی آن میں انہیں شہید کر دیا اور ان بہت سے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دی، جن پر غلہ رکھنے کی تہمت تھی۔ دونوں فاضل حضرات عجائب زمانہ میں سے تھے۔ مولانا عنایت اللہ خان نے اسی برس درس و افادہ میں بسر کیے اور بہت علم پھیلایا۔ ہندوستان اور کشمیر میں انہوں نے شاہی خدمات انجام دیں، اور بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ مولوی محمد اشرف بھی، رواج کے مطابق علوم پر ہاوی ہونے کے علاوہ دقت طبع اور ذکاوت و دانشمندی کے مالک تھے۔ ان کی استعداد حیران کن تھی۔ عدالتی اور فقہی مسائل کے حل میں اپنے ہم عصروں میں صاحب امتیاز تھے۔ دونوں بزرگواروں نے جس حالت میں شہادت پائی اس سے دل تڑپ تڑپ اٹھے اور شہر میں بہت بڑی شورش برپا ہو گئی۔ راقم حروف نے دونوں بزرگواروں کی تاریخ شہادت، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، اس طرح نکالی: تاریخ: دی بہر نثار مشہد مفتی دین اعظم گہر اشک بحسرت می سفت تاریخ شہادتش ز دل پرسیدم با آہ ز ہے سعادت اشرف گفت (کل مفتی دین کی شہادت گاہ پر نثار کرنے کے لیے اعظم حسرت سے آنسوؤں کے موتی پرو رہا تھا، میں نے اس کی شہادت کی تاریخ دل سے پوچھی تو اس نے آہ بھرتے ہوئے کہا’’ زہے سعادت اشرف‘‘ ) دوسری تاریخ: صد حیف ز افعال شیاطین سفیہ گشتند ز بس مرتکب فعل کریہ دل با سر بیداد بسال تاریخ می گفت ’’ز ہی شہادت ہر دو فقیہ‘‘ (کمینہ شیطانوں کے افعال پر صد حیف ہے جو انتہائی گھناؤنے فعل کے مرتکب ہوئے، دل بیداد کے ہاتھوں سال تاریخ ’’ زہی شہادت ہر دو فقیہ‘‘ کہتا تھا) جمعہ کے دن احترام خان جامع مسجد پہنچا اور ابو البرکات خان خانقاہ معلی میں آیا۔ چونکہ دونوں جانب کے لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ اور چوکنے تھے، اس لیے ایک دوسرے کے قریب پہنچ کر باہم دست و گریباں ہو گئے۔ بلوائیوں اور فسادیوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ابو البرکات خان کو، کہ خود غرض تھا، احترام خان سے بدظن کر دیا اور اس کے دل میں تردد و تشویش پیدا کر دی۔ اسی طرح احترام خان کو خان مذکور کی طرف سے اس قسم کی باتیں کر کے بدظن کر دیا۔ رفتہ رفتہ دونوں دلوں میں آرزو لیے ایک دوسرے کے گویا مد مقابل ہو گئے۔ شہر کے لوگوں اور خانقاہ معلی کے خدام نے ابو البرکات خان کی طرفداری کی۔ چنانچہ احترام خان شکست خوردہ ہو کر خواری کے ساتھ لوٹ گیا اور دربار سے، نہایت عدل و انصاف کی بنا پر، امیر خان کی نیابت دوبارہ ابو البرکات کے نام تقرر پذیر ہوئی۔ اس مرتبہ جو وقائع ظہور پذیر ہوئے ان میں ایک یہ ہے کہ مظفر آباد کے لوگ بلوا فساد کرتے ہوئے کامراج آ گئے اور لوگوں کے اموال اور محصولات کو انہوں نے تاخت و تاراج کیا۔ ابو البرکات خان شاہی افواج لے کر، ان لوگوں کی تادیب کی خاطر، بارہ مولہ پہنچا۔ جمعرات 9صفر کو، اس طرف کے سپاہی کتل سے آگے نکل کر غنیم کی تلاش میں رہے۔ ادھر وہ لوگ کمین گاہوں میں گھسن کر موقع کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس طرف کے سپاہیوں پر اچانک ہلہ بول دیا اور تیغ بے دریغ سے انہیں قتل کیا۔ شاہزادہ کے ایک اعلیٰ زمیندار نامدار ملک کا بیٹا مختار ملک اور کچھ دوسرے نامور لوگ مارے گئے اور ایک عجیب شکست واقع ہوئی۔ جس وقت یہ حادثہ بارہ مولہ میں رونما ہوا، اسی وقت شہر میں مذکورہ جمعرات کو، ایک پہر دن گزرنے کے بعد بلند مرتبہ ا ور فیض کی حامل خانقاہ امیریہ کی اعلیٰ چھت اوپر سے جلنا شروع ہو گئی اور دوپہر تک زمین پر آ رہی۔ ایک دنیا کے دل اس حادثے سے جل اٹھے، خانقاہ کے خادموں کو، بہرحال تبرکات باہر نکالنے کا موقع مل گیا۔ یہ دونوں واقعات1731-2/1144میں رونما ہوائے۔ بہر کیف ابو البرکات خان اور صوبہ میں متعین دوسرے اہل کار (یعنی شاہی افواج) اہل مظفر آباد کے ساتھ ادھوری سی صلح کر کے شہر میں داخل ہو گئے۔ 1733--4/1146میں خانقاہ معلی کی تجدید تعمیر ابو البرکات خان کے اہتمام میں ہوئی۔ راقم حروف نے ’’ قیلنہ البرکات‘‘ سے اس کی تاریخ نکالی تھی۔ یہ خانقاہ کی چوتھی تعمیر ہے۔ بعض اصحاب کمال کا ذکر: (جو ان چند سالوں میں کشمیر میں فوت ہوئے) اہل اللہ کے قبلہ حضرت شیخ عبید اللہ البخاری الفاروقیـ: حضرت شیخ الیاس بخاری کے فرزند تھے جن اک سلسلہ نسب حضرت الکبریٰ ابو الجناب شیخ نجم الدین کبریٰ کے وسیلے سے حضرت امیر المومنین، امام المسلمین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ظاہری اور باطنی کمالات کی تحصیل شہر بخارا میں کی جو آنحضرت کی جائے ولادت ہے۔ مرشد شریف کی وفات کے بعد سمرقند تشریف لے گئے۔ یہاں ظاہری اور باطنی علوم سے بہت سے فوائد حاصل کر کے گھر بار کو چھوڑا اور اشتر خان سے ہوتے ہوئے بلاد روس اور اطراف روم پہنچے، جہاں سے چل کر مصر کو عبور فرمایا اور پھر حرمین شریفین پہنچ گئے۔ یہاں وہ حضرت شیخ احمد مکی کی جو شیخ مکہ اور حضرت عروۃ الوثقیٰ حضرت عروۃ الوثقیٰ (مضبوط گرفت) شیخ محمد معصوم سرہندی کے خلفا میں سے تھے۔ خدمت میں پہنچے اور مرشد حقانی کی ہر طرح سے کیا جانفشانی سے اور کیا مالی و جانی خدمت بجا لا کر مسلک عالیہ احمدیہ کے کمالات حاصل کیے۔ مرشد کی وفات کے بعد ان کے حکم پر اس عالی مرتبہ کی مسند خلافت پر جا گزیں ہوئے۔ تقریباً سات برس تک حرم محترم میں محتاجان امم کو صوری و معنوی نعمتوں کی بخشش سے فیض پہنچاتے رہے۔ والدہ ماجدہ کے زیارت کے ارادے سے براستہ ہند شہر بخارا تشریف لے گئے۔ پھر والدہ کو ساتھ لے کر دوبارہ حرمین چلے گئے اور مزید نو دس برس رب العالمین کے گھر کی اس سر زمین میں عبادت و افادت میں بسر کیے۔ دو مرتبہ اکیس حج ادا کر کے ہندوستان مراجعت فرمائی۔ جہاں سے صرف ایک برس ہر جگہ خلوتوں اور چلوں میں بسر کر کے بعض امرا کی جو آنحضرت کے اقربا سے تھے صحبت سے متنفر ہو کر کوچ فرمایا۔ اور اوائل ذی قعدہ سنہ 1726/1138میں کشمیر کو اپنی قدوم کرامت لزوم (کرامت کی حامل تشریف آوری) سے منور فرمایا۔ وہ ظاہری وباطنی علوم کے جامع اور تجرید و تفرید نیز ترک کل کی طرف مائل تھے۔ علما کی عزت، عوام کے گروہ کے احوال کی غمخواری، وجود کی نفی دل میں موجود، اخفائے حالات، اخفائے کرامات، کھانا بہت کم بلکہ اضطرار کی حالت میں، نیند اونگھنے کی حد تک، ہر حال میں کتب شرعیہ سے رجوع، قہر اور جلال سے خالی، پیہم طہارت، سستی سے دوری، تمام اوقات میں عبادت میں کھڑا ہونا، بالخصوص شدت اشتہا کے وقت، دوسروں کے لئے ایثار، اختیار، غار آخر کار گریہ و زاری اور ماتم و سوگواری اور حضور باری میں پیہم توبہ یہ سب باتیں اس عاقبت مسعود اور مقبول رب المعبود کے وجود شریف کا خاصہ تھیں۔ آنحضرت کے مجمل حالات رسالہ ’’ فراق نامہ‘‘ میں جو اس پیشوائے اہل حال اور برگزیدہ رب المتعال کے وصال کے بعد ترتیب پایا۔ قلمبند ہوئے ہیں۔ آخر میں حضرت ایشاں تینوں عالی مسلکوں کے مطابق علانیہ اذکار و اوراد فرمایا کرتے اول قادریہ بعد میں یسویہ اور پھر نقشبندیہ مراقبہ کرتے سوائے نماز فجر کے بعد کہ اس وقت اس شہر کی رعایت کی بنا پر اوراد فتحیہ مقدم ہوتے۔ آنحضرت کی ولادت 1667-8/1078میں ہوئی اور محبوب رب متعال، صلوات اللہ و سلامہ علیہ کی عمر کے موافق تریسٹھ برس کی عمر پائی اور عالم ابدی کی طرف کوچ کر گئے۔ اس سراپا اختلال (مصنف) کے حال پر جو تفصیل سے، اجمال سے، استعداد اور استحاق کے طور پر عنایت و مہربانی فرماتے۔ اس کی عشر عشیر (دسواں حصہ) بھی اہلیت و لیاقت مجھ میں نہ تھی لیکن ان ایام میں اولاً انہوں نے اپنی ذات شریف کا عشق و محبت عطا کیا اور اس ذرہ ناچیز کو اپنے جمال باکمال کے آفتاب کا اسیر بنایا۔ اس کے بعد ہوا جو کچھ ہوا۔ اس ذات مقدس سے اپنے عشق و محبت کو کہ وجدانی و روحنای ہے۔ قالب تحریر میں کیونکر لایا جا سکتا ہے۔ بس اتنا لکھتا ہوں کہ شدت رابطہ کے سبب کہ وہ ایک لمحہ بھی میری نظر بصیرت سے غائب نہیں رہتے تھے۔ میں آنحضرت کی زندگی میں اپنی موت کا خواہاں تھا۔ اور میں اپنی یہ آرزو حضرت باری سے گریہ و زاری کے ساتھ چاہا کرتا۔ وکفیٰ باللہ شہیدا (اور اللہ کافی گواہ ہے) شعر: حیف آرزوی من باخر نر سید (کذا) اینکہ ہر گز برنمی آید تمنای دلست (افسوس کہ میری آرزو پوری نہ ہوئی۔ جو چیز پوری نہیں ہوتی وہ دل کی تمنا ہے) آنحضرت کی رحلت میری ہزاروں گرفتاریوں، آوارگیوں اور بدنامیوں کا موجب بنی۔ ذالک تقدیر العزیز العلیم (یہ اس غالب و علیم کی تقدیر ہے)’’ قدوۃ المتفین و زیدہ عشق خدا‘‘ آنحضرت کے کرامت مثال وصال کی تاریخ ہے۔ ان بعض اصحاب کمال کا مختصر ذکر جنہوں نے ان چند برسوں میں فیض رسانی کی: بابا محمد یوسف سو: حضرت خواجہ حسین خباز کے خاندان سے اور موحد اور خدا پرست عارف ہیں۔ قلعہ کے باہر مزار چشتی کے قریب آسودہ خاک ہیں۔ شیخ محمد گکو: حضرت اخوند ملا طیب سے نسبت یافتہ حضرات میں سے اور صاحب کمال اور مستقیم الحال عزیز ہیں۔ شیخ یعقوب کرایہ پاک: حضرت مہدی ریشہ بابا سے نسبت یافتہ حضرات میں سے اور مستقیم الحال شب بیدار اور شگفتگی چہرہ کے ساتھ معمر شخصیت ہیں۔ شیخ عبداللطیف تنباکو فروش: حضرت بابا عبدالنبی کبروی سے منسوب، مرد مستوار الحال (جس کا حال مخفی ہو) اہل بازار کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ شیخ عبداللطیف کول قادری: فیضہ بابا زرگر کے خلفا میں سے ہیں۔ پاکیزہ حال، صاحب وسعت مشرب اور توحید منش، ایک عمر آزاد منشی میں بسر کی۔ دامن کوہ میں مرشد کے مزار میں آسودہ خاک ہوئے۔ خواجہ محمد محسن خندہ بونی: حضرت اخوند ملا نازک کے یاران خاص میں سے ہیں۔ صاحب تمکین، کار کردہ، گوشہ نشینی کے راہرو اور پردیس کے خو کردہ عزیز۔ تقریباً اسی برس کی عمر پائی اپنے گھر کے صحن ہی میں مدفن پایا۔ خرم حافظ ایک فاضل عزیز ہیں۔ علم و عمل میں عمر گذاری۔ جناب خواجہ محمد امین صوفی سے تربیت پائی۔ آخر میں مغلوب الحال ہو گئے۔ سو برس سے زیادہ عمر پائی۔ وفات کے بعد اپنے صحن میں آسودہ خاک ہوئے۔ شیخ ابو القاسم تونی سہروردی: ایک ریاضت کرنے والے، قناعت پیشہ اور فقر و فاقہ کے خوکردہ آدمی تھے۔ شیخ یعقوب ساؤ اور ان کے معاصرین سے تربیت پائی۔ ملائی حلقے میں وقت بسر کیا۔ نشاء بلند اور معارف ارجمند کے مالک تھے۔ کبھی آسائش و راحت نفس کی طرف مائل نہ ہوئے۔ عالی ہمت اور بلند مراد تھے۔ شیخ معین الدین رفیقی: شیخ حمزہ کے فرزند ہیں۔ فاضل و متقی آدمی ہیں۔ ظاہر و باطن آراستہ ہموار وضع طاقت گفتار اخلاقی برجستہ کے مالک اور ظاہر و باطن میں آزاد منش۔ شیخ عبدالصبور قادری المعروف بستل: ایک مرتاض، جانباز اور آزاد منش اور کثیر العارف ناخواندہ محمد رضا: مشتاق تخلص، ناجیوں کے قبیلے سے ہیں۔ جو نوشہرہ کے محلوں میں سکونت پذیر تھے۔ ان میں سے اکثر نے خطاطی اور کتابت کا پیشہ اپنا رکھا تھا۔ آغاز شباب ہی سے لکھنے پڑھنے میں وقت بسر کرتے رہے اور اس سلسلے میں وہ اپنی فکر کے گھوڑے کو طبع آزمائی کے میدان میں دوڑاتے رہتے۔ چونکہ طبع روشن اور خدا داد استعداد میسر ہے۔ اس لئے تھوڑی ہی مدت میں پایہ سخندانی و نکتہ سنجی کو ترقی کی بلندیوں تک لے گئے۔ وضع آراستہ تھی اور دل آزادی حاصل کئے ہوئے تھا ذریعہ آمدنی کتابت، بالخصوص مثنوی معنوی کی کتابت تھا۔ حکام اور امیروں کی مدح کی خاطر کبھی اپنے گوشہ خلوت سے باہر نہ نکلے۔ ساری عمر تفرید قلندر منشی اور آزاد وضعی میں گذاری۔ جب ان صاحب کمال کا یہ شعر راقم شکستہ بال (جس کے بڑے پر ٹوٹے ہوئے ہوں) کے کانوں میں پہنچا تو ان کی خدمت میں پہنچنے کی آرزو دل میں پیدا ہوئی۔ راقم ایک مرتبہ ان معدن اسرر کے دیدار سے فیض یاب ہوا۔ شعر یہ ہے: پامال جفا شدیم و این بود در عشق تو سر نو شت مارا (ہم پامال جفا ہو گئے۔ تیرے عشق میں ہمارا یہ مقدر ٹھہرا) اب یہاں وہ پوری غزل نقل کی جاتی ہے: عشق تو چومی سرشت مارا رو کرد سوی کنشت مارا نی میوہ درو نہ سایہ داریم دہگان بچہ کار کشت مارا گلدستہ مطلبی نہ بستم بی فائدہ چرخ رشت مارا زاہد باشیم، بی تو باشد گر آرزوی بہشت مارا گربد گفتی، نکو نہ گفتی خوبان گفتند زشت مارا پامال جفا شدیم و این بود در عشق تو سر نوشت مارا یا رب کہ بہشت منزلش باد ہر کس بغمت بہشت مارا بر آتش سنگ طفل سنگی آشوب چنون برشت مارا دیوان مجتیم و مجنون از خون جگر نوشت مارا ہست ازخم بادہ پشت برکوہ مشتاق بسان خشت مارا 1جب تیرا عشق ہمارا خمیر تیار کر رہا تھا۔ اس وقت اس نے ہمارا رخ دیر و کلیسا کی طرف کر دیا۔ 2اے دہقان ہمارے لئے نہ تو اس میں کوئی پھل ہے۔ اور نہ کوئی سایہ ہی پھر کھیتی ہمارے کس کام کی۔ 3ہم نے غرض کا کوئی گلدستہ تیار نہ کیا۔ آسمان نے بے فائدہ ہمیں کاٹ ڈالا۔ 4 اگر تیرے بغیر ہمیں بہشت کی آرزو ہو تو ہم زاہد ہونگے 5اگر تو نے برا کہا تو اچھا نہیں کہا (کیا) حسینوں نے ہمیں برا کہا۔ 6ہم پامال جفا ہو گئے۔ تیرے عشق میں ہمارا یہ مقدر ٹھہرا 7یا رب جس نے بھی تیرے عشق میں ہمیں چھوڑا بہشت اس کا ٹھکانا ہو۔ 8 ایک طفل سنگ کی آتش سنگ پر آشوب نے ہمیں اس طرح بھون ڈالا۔ 9ہم محبت کے دیوان ہیں۔ اور مجنون نے ہمیں خون جگر سے لکھا ہے۔ 10اے مشتاق خم بادہ سے ہم میں اینٹ کی مانند قوت آ جاتی ہے۔ یہ اشعار بھی ان کے ہیں: کردیم سیر گلشن تاما و یار ہر دو گشتند بلبل و گل بی اعتبار، ہر دو چشم سیاہ مستش، لعل قدح بد ستش از عاشقان ربودند صبر و قرار ہر دو از خواب ناز برخاست از عشوہ جام می سوخت چشمان دل فریبش مست خمار ہر دو زلفین تابدارش بر گلشن عذارش خوش حلقہ حلقہ کردہ مانند مار ہر دو آیا بود کہ روزی این آرزو بر آید خسپند مست باہم مشتاق و یار ہر دو 1جب سے ہم اور یار دونوں نے گلشن کی سیر کی ہے۔ بلبل اور گل دونوں بے اعتبار ہو گئے ہیں۔ یعنی ان کی ساکھ نہیں رہی۔ 2اس کی سیاہ مست آنکھ اور اس کے ہاتھ میں سرخ شراب کا جام، ان دونوں نے عاشقوں کا صبر و قرار چھین لیا ہے۔ 3 وہ محبوب خواب ناز سے بیدار ہوا۔ اس نے اپنے عشوہ سے جام مے کو جلا ڈالا۔ اس کی دل کو لبھانے آنکھیں، دونوں مست خمار ہیں۔ 4 اس کی دونوں تابدار زلفوں نے اس کے گالوں کے گلشن پر سانپ کی مانند خوبصورت حلقے بنا رکھے ہیں۔ 5آیا کبھی یہ آرزو بھی پوری ہو گی کہ عشق اور محبوب دونوں عالم مستی میں باہم سو جائیں۔ فن محاورہ میں اپنے وقت کے شعرا میں ممتاز و بے نظیر تھے۔ 1730-1/1142میں رحلت فرمائی۔ ان کی تاریخ وفات تعمیہ میں کہی گئی: شاہ مشتاق از سرکنشت شدہ 1143(شاہ مشتاق کنشت سے اٹھ گئے۔ ٭٭٭ دل دلیر خان (کا دور حکومت): پانی پت کا رہنے والا تھا۔ اسے شاہی حکام کا توسبل حاصل تھا۔ امیر خان کے تغیر پر اس نے نظامت کشمیر سے اپنی ساکھ کا علم بلند کیا۔ اگرچہ وہ کشمیر کے ارادے سے روانہ ہوا تھا۔ لیکن لاہور میں اس کا قیام طویل ہو گیا۔ اس نے ابو البرکات کو نائب مقرر کر دیا۔ چند ماہ بعد دل دلیر خان لاہور میں وفات پا گیا۔ اس دوران میں کشمیر میں جو حوادث رونما ہوئے۔ ان میں ایک حادثہ سیلاب ہے۔ جو 1148ہجری کے اوائل میں ّ1735ئ) بڑی شدت سے سے آیا اور ایک مدت تک صحرا اور شہر سے باہر گھروں میں بہت زیادہ پانی کھڑا رہا۔ یہ امر لوگوں کے تعجب کا باعث بنا۔ اسی سال کے آخر میں (1736ئ) ماہ ذی قعدہ کی بائیس تاریخ کو رات کے وقت ایک ایسا شدید زلزلہ آیا جو قیام کبریٰ کی علامت تھا۔ شہر اور دیہاتوں میں بہت سے گھر زمیں بوس ہو گئے اس نے ایک دنیا کی ہستی برباد کر ڈالی۔ تقریباً تین ماہ تک اس زلزلے کے جھٹکے جاری رہے۔ تاہم ان میں آغاز والی شدت نہ تھی۔ اور دن رات میں چند مرتبہ جھٹکے آتے اس حد تک کہ لوگ ان کے عادی ہو گئے۔ بعض لوگوں نے اس زلزلے کو اس آیت کریمہ کا حوالہ جانا: ’’ ایتلی المومنون وزلز لوازلز الا شدیذا‘‘ (اس موقع پر مسلمانوں کا امتحان کیا کیا اور سخت زلزلہ ڈالے گئے۔ الاحزاب ، آیت11) بلاشبہ یہ خالق کائنات کے کلام کے معجزات میں سے ہے۔ یہ حادثہ ختم ہوا تو اہل کشمیر کا نائب ناظم کے ساتھ فساد اٹھ کھڑا ہوا۔ اس واقعے کی تفصیل اس طرح ہے کہ ابو البرکات خان نے بارہ مولہ کے اس حادثے کے وقوع کے بعد جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ محمد جعفر کنت کو اس کے بھائیوں اور اپنے آدمیوں کے ہمراہ محمد ہیبت خان زمیندار کے آدمیوں کو مظفر آباد سے نکالنے پر مامور کیا تھا۔ انہوں نے معاملے کو الجھا کے رکھ دیا۔ اور اہل مظفر آباد کو جو قوم ببنو کے نام سے مشہور ہیں۔ نکال دیا جب محمد جعفر وغیرہ نے خدمت کے مطابق سلوک نہ دیکھا تو وہ بے دل ہو گئے۔ اور بارہ مولہ میں حفاظت سے متعلق فرض سے الگ ہو گئے۔ بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے تغافل سے کام لیا۔ ان کی اس کاہلی کے نتیجے میں اہل بینو نے پھر سر شورش اٹھایا۔ ابو البرکات خان نے شاہی منصب داروں کو غنیم کی مکمل سرکوبی کے لئے بارہ مولہ روانہ کر دیا۔ اور اپنے چھوٹے بیٹے ان کے ہمراہ بھیج دیا۔ منصبدار کچھ عرصے بعض توہمات اور تحریکات کی بنا پر اجازت کے بغیر چلے آئے۔ چونکہ اہل شہر بھی نائب کے بعض اطوار سے دلگیر تھے۔ اس لئے کیا اشراف اور کیا کم درجہ لوگ۔ سبھی نے متفق ہو کر اور یک دل و یک زبان ہو کر نائب کی دشمنی پر کمر باندھ لی اور پلوں کو عبور کرنے والے راستے توڑ پھوڑ ڈالے۔ یکم رجب کو دونوں طرف سے لڑائی شروع ہو گئی۔ جس میں آخر نائب کے آدمیوں کو شکست ہوئی (اس کا بدلہ نائب نے یوں لیا کہ) جہاں کہیں بھی اسے موقع ملا۔ اس نے آگ لگا دی اس طرح رات کے دو ایک پہر میں پندرہ بیس ہزار سے زیادہ مکان جلا ڈالے۔ یوں دونوں طرف عداوت اور مخالفت کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی۔ اوائل رجب 1746/1159(صحیح1736/1149) میں یہ ہنگامہ برپا ہوا۔ تین ماہ تک صف آرائی برقرائی رہی۔ تاہم جنگ نہیں ہوئی پھر یہ کہ آتش زدگیوں کے دوران میں بہت سی فرمائشیں (؟) وقوع پذیر ہوئیں۔ نیز اس معاملے کے طول کھینچ لینے کے سبب لوگوں میں سستی پیدا ہو گئی اور محمد جعفر مذکور اپنے بھائیوں اور بعض منصب داروں سمیت نشانہ بنا۔ اس نے اپنی اعانت کے طور پر پنوج کے کچھ لوگ لئے اور امانت خان کے بیٹے محمد فاروق کی جو ابو البرکات کا غم زاد ہونے کے باوصف اس کا مخالف تھا۔ تحریک پر14محرم 1737/1150کو فریقین میں لڑائی چھڑ گئی۔ چونکہ شہر کے لوگ بھی اس میں شریک تھے۔ اس لئے نائب صوبہ نے پسپائی اختیار کر کے خود کو بچا لیا۔ اس کا گھر جلا دیا۔ اور اس کے اموال لوٹ لئے گئے۔ ابو البرکات خان لاہور چلا گیا۔ اور نیابت کا عہدہ یادگار خان کے بھائی جلیل الدین خان کو ملا۔ جلیل نے چند ماہ اس عہدے پر کام کیا۔ اس کے دور حکمرانی میں بھی غلے کی بنا پر اوائل سال میں لوگوں نے شورش اور فتنہ و فساد برپا رکھا۔ ملا ساطع: ملا غالب کا بیٹا ہے۔ عبدالحکیم نام تھا۔ طالب علم میں مشغول رہا۔ چونکہ طبع موزوں رکھتا تھا۔ اس لئے شعری رحجان اس کی طبع پر غالب رہا۔ لالہ ملک شہید سے جس کا ذکر گذر چکا ہے۔ اس کی صحبتیں رہیں اور اس سے وہ شعر کی اصلاح لیتا رہا۔ جب اس کی روزی کا وسیلہ بن گیا۔ اور اسے لالہ ملک شہید سے اپنی استعداد اور جودت طبع واضح طور پر زیادہ معلوم ہوئی تو خود کو اس کی تربیت سے ہٹا لیا اور میرزا دار اب بیگ جویا کی خدمت میں جانے کا مشورہ چاہا۔ پھر اس (لالہ) کے ایما پر جویا کی خدمت میں آنے جانے لگااور تھوڑی ہی مدت میں نمایاں ترقی کر کے اپنے معاصرین پر فائق ہوا۔ اس وقت شاہ عالم بہادر پشاور وغیرہ کا ناظم تھا۔ ملا پشاور میں اس کے لشکر میں چلا گیا۔ اثنائے راہ میں اس کی صحبت ملا محمد سعید اشرف سے ہوئی۔ جو اپنے وقت کا ایک عمدہ شاعر تھا۔ اس سے اپنے اشعار کیا صلاح بھی لی۔ بادشاہ کی تخت نشینی کے بعد اردوئے معلی(اعلیٰ لشکر یعنی پایہ تخت) میں اس نے شعر گوئی بالخصوص قصائد میں بہت (زیادہ ملکہ بہم) پہنچا لیا۔ شہید بادشاہ محمد فرخ سیر کے دور میں پیش از بیش رتبہ حاصل کر کے بادشاہ کی ملازمت میں باریاب ہوا۔ وہ بادشاہ کے حضور اپنے اشعار سنایا کرتا۔ جو اس کے تقرب و امتیاز اور انعامات کا وسیلہ بنتے رہے۔ بادشاہ کی شہادت کے بعد وہ کشمیر لوٹ آیا۔ ان کمالات کے ساتھ ساتھ وہ وسعت مشرب حسن خلق اور عجب انبساط کا مالک تھا۔ اس کے آبدار اشعار میں سے کہ سبھی منتخب ہیں۔ یہ چند یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ شعر: شراب عشق تا زد اولین جوش مرا شد نشاتین از دل فراموش (جب عشق کی شراب نے پہلا جوش مارا تو مجھے دونوں جہان دل سے فراموش ہو گئے) مفتم ز جام عشق مستی دادند کین نیستیم بقید ہستی دادند سرمایہ ہر آنچہ بود دادم از دست ارزان نہ متاع تنگدستی دادند (مجھے جام عشق سے مفت کی مستی عطا کی گئی کہ یہ نیستی مجھے ہستی کی قید میں عطا کی گئی) (میرے پاس جو کچھ سرمایہ تھا۔ وہ میں نے ہاتھ سے دے دیا۔ تنگدستی کی متاع ارزاںعطا نہیں ہوئی) غزل: پحندین رنگ گشتما ز گنہ چون خامہ مانی شدم موی جز این صورت نمی بندد پشیمانی قفس زندانی خود رامکن دیگر نگہبانی کہ رفت این ناتوان چون گل بتاراج پر افشانی رعونت بیشتر داری در آغوش دل تنگم برنگ غنچہ می زیہد ترا این جامعہ چسپانی زمن آموز آداب محبت، شہر بی عشقم اگر فرہاد کہساری وگر مجنون بیابانی 1میں گناہ کے سبب مانی (مشہور ایرانی مصور) کے موقلم کی مانند کئی رنگوں والا بن گیا ۔ میں بال بن گیا کیونکہ اس کے سوا پشیمانی کی تصویر بن نہیں پاتی۔ 2اے پنجرے تو اپنے قیدی کی اب نگہبانی نہ کر، کیونکہ یہ ناتواں پھول کی مانند پر کھولنے کی بنا پر لٹ گیا۔ 3 تجھ میں، میرے دل تنگ کی آغوش میں، زیادہ رعونت آ جاتی ہے۔ کلی کی مانند تجھ پر یہ تنگ لباسی سجتی ہے۔ 4 تو مجھ سے آداب محبت سیکھ کہ میں شہر بے عشق ہوں، اے فرہاد اگر تو کوہسار کارہنے والا ہے اور اے مجنوں اگر تو صحرائی ہے۔ نیز: در بر شاہدان معنی من از رقم جامہ قلمکار ست (میرے معنی یعنی شعری مضامین کے حسینوں کے جسم پر تحریر کا بیل بوٹے والا لباس ہے) در چنین عہدی کہ اوضاع جہان نادید نیست دیدہ تصویر اگر مارست جای حیرت ست گر بوصف شمع رخساری رود پروانگی خامہ در معنی شود صورت نگار آن نگار سہل مشمر موشگافی زین ریاضت ماندہ است شانہ یک مشت استخوان چون زاہد شب زندہ دار تاز گرد جوہر غم باشد اہل درد را در بغل سیپارہ دل مصحف خط غبار دشمنت را در فشار پنجہ مژگان غم باد دل از خون تہی سرمایہ خون افسردہ نار 1ایسے عہد میں جب کہ دنیا کے احوال دیکھنے کے لائق نہیں ہیں۔ اگر تصویر کی آنکھ سانپ ہے تو یہ مقام حیرت ہے۔ 2اگر کسی شمع ایسے رخسار والے محبوب کے وصف میں کوئی چھوٹا سا پروانہ جائے تو مو قلم حقیقت میں اس نگار یعنی محبوب کا صورت نگار بن جائے۔ 3موشگافی کو آسان مت سمجھ۔ اس ریاضت سے کنگھی، شب زندہ دار زاہد کی مانند ہڈیوں کی مٹھی رہ گئی ہے۔ 4,5جب تک جوہر غم کی گرد سے اہل درد کی بغل میں سیپارہ دل اور خط غبار (ایک خط کا نام) کا مصحف رہے، تیرے دشمن کا، غم کی پلکوں کے پنجے کے دباؤ میں دل خون سے تہی سرمایہ ہو۔ اور خون بجھی ہوئی آگ کی مانند ہو۔ بیزم بادہ ادب بیش ازین نمی باشد تو در کنار من و من ز خود گرفتہ کنار ترا غرور بصورت مرا بمعنی خویش کمال حسن ترا و مراست حسن کمال 1بزم شراب میں ادب اس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ تو میرے پہلو میں ہو اور میں اپنے آپ سے ایک طرف ہٹ جاؤں۔ 2تجھے اپنی صورت (ظاہر) کا غرور ہے۔ اور مجھے اپنے معانی (مضامین، نیز باطن) کا حسن کا کمال تیرے لئے ہے اور حسن کمال میرے لئے۔ نثر میں بھی اپنے وقت کا بے مثل تھا۔ بزم سخنوری کے کمال جوش و خروش میں12رمضان 1731/1143کو رحلت کر گیا۔ اور ایک دنیا کیا اپنے اور کیا بیگانے ، سبھی کو رنج و افسوس میں گرفتار چھوڑ گیا۔ بالخصوص راقم حروف کو کہ تقریباً بیس برس تک فرط محبت و اتحاد مجلس آرائی صحبت اور بادہ پیمائی الفت جس میں آبدار اشعار اور فی البدیہ قسم کے قافیوں کی طرح ہوتی کیا بزم میں اور کیا بزم لطف سے ہٹ کر میری طبیعت کے لئے راحت افزائی کا باعث بنی رہی تو درد فراق میں مبتلا کر گیا۔ راقم حروف نے یہ تاریخ جلدی میں صفحہ غیرت پر تحریر کی: تاریخ: نور ایمان بمر قدس شاطع (1143) (ایمان کا نور اس کے مرقد میں چمکے) از مولف مہر اوج سخنوری ساطع از صفا ذہن انورش لامع رایت عالی فصاحت را بود رامی متین او رافع صحبش وقت نکتہ پیرائی بفقیر و غنی بسی نافع از علو فطانتش استاد بود جویای او زہی طالع بزم آرای شعر شد یک چند آن باصناف معرفت جامع شدہ مقراض موت آخر کار صفحات بقاش را قاطع پردہ جسم ارچہ فانی گشت روح قدسش شدہ بحق راجع گفت اعظم بسال تاریخش نور ایمان بمرقدش ساطع 1ساطع سخنوری کی بلندی کا سورج تھا، صفا کے باعث اس کا منور ذہن روشن تھا۔ 2فصاحت کے عالی پرچم کو اس کی متین رائے بلند کرنے والی تھی۔ 3نکتہ پیرائی کے وقت اس کی صحبت فقیر اور غنی سب کے لئے بہت نفع بخش تھی۔ 4 اس کی ذہانت کی بلندی کے سبب استاد اس کا جویا تھا (جویا یہاں ذو معنی ہے۔ تلاش کرنے والا اور جویا شاعر جو اس کا استاد تھا) کیسی خوش بختی ہے۔ 5وہ کچھ عرصہ بزم آرائے شعر ہوا، وہ جو اصناف معرفت میں جامع تھا۔ 6آخر کار موت کی قینچی اس کی زندگی کے صفحات کو کاٹنے والی بن گئی۔ 7اگرچہ اس کے جسم کا پردہ فانی ہو گیا۔ تاہم اس کی روح قدس حق کی طرف رجوع کر گئی۔ 8اعظم نے اس کی تاریخ وفات کا سال ان لفظوں میں نکالا’’ نور ایمان بمرقدش ساطع‘‘ فخر الدولہ بہادر: روشن الدولہ کا بھائی تھا۔ دل دلیر خان کے انتقال پر دربار کی طرف سے ناظم مقرر کیا گیا۔ اس نے قاضی خان کو اپنا نائب بنایا۔ سال کے آخر میں خود کشمیر پہنچا۔ چند ماہ اس نے خشونت اور درشت انداز میں حکومت کا کام چلایا اور اکثر لوگوں کو غلہ داری کے الزام میں اور ہنگامہ آرائی اور اجتماع کے بہانے سے تکلیف پہنچائی۔ اس کے دور حکومت میں محمد فاروق خان مذکور اجتماع کے سبب اور غلہ داری کی تہمت پر فرار ہوتے وقت ناظم کے آدمیوں اور عوام الناس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اور اوباش اور بازاری لوگوں کی عین کھینچا تانی کے دوران میں خواری و زاری کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔ جب کہ دوسرے لوگ مثلاً جلیل الدین خان اور قاضی خان وغیرہم جنس اور مالی نقصان کا شکار ہوئے۔ فخر الدولہ ان فکروں پریشانیوں سے فراغت پا کر سویبور گیا۔ جہاں محمد جعفر کنت کو جو اپنے بھائیوں کے ہمراہ وہاں ایک مدت سے یکسوئی کے ساتھ مقیم تھا۔ شکست سے دو چار کر کے کویہامہ کی طرف جو ان کی زمینداری کی سرحد تھی۔ صحرائے ناکامی میں پھینک دیا۔ جب اس کے خلاف ہر طرف سے بادشاہ کو شکایت پہنچی تو اسے معزول کر دیا گیا۔ عنایت اللہ خان: المشہور عطیتہ اللہ خان کہ عنایت اللہ خان مرحوم کا بیٹا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد اسے عنایت اللہ خان کا خطاب ملا۔ اس نے کشمیر کی صوبہ داری کی خلعت حاصل کی، جبکہ نیابت مشرف خان ملا محمد اشرف صدر و دیوان کے بیٹے عصام الدین کو ملی، جس (ملا) کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اس نے فخر الدولہ کو جو ابھی تک کشمیر میں تھا، لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کے الزام میں قید کر دیا اور بہت سا مال و دولت ہتھیا لیا۔ا ور قاضی خان کو اپنا نائب مقرر کر کے ہندوستان روانہ ہو گیا۔ عصام الدین،قاضی خان پر غلبہ پا کر نیابت میں دخیل ہوا اور چند ماہ اس نے ہر ممکن طریقے سے گزارے۔ سال 1739/1151کے آخر میں فخر الدولہ نے جو لاہور میں تھا، نادر شاہ سے جو لاہور پہنچا ہوا تھا کچھ رقم لے کر کوہستان کے چند لوگ ہمراہ لیے اور وسط محرم1739/1152میں داخل کشمیر ہوا، اور وہاں اس نے بڑی شان و شوکت اور خود پسندی کا مظاہرہ کیا اور نادر شاہ کے نام کا خطبہ و سکہ جاری کرنا چاہا۔ عوام الناس نے غیرت پسندی کا مظاہرہ کیا اور نادر شاہ کے نام کا خطبہ و سکہ جاری کرنا چاہا۔ عوام الناس نے غیرت اور جوش میں آ کر اسے اس سے روک دیا۔ جب اس نے چالیس دن تسلط اور غلبے میں گزار لیے تو لوگوں کو بلا وجہ تکلیف دینے لگا۔ بادشاہ کی نادر شاہ سے مصالحت کے بعد صوبہ کشمیر بادشاہی کے ذیل تعلقات میں رہا اور عنایت اللہ خان کو حسب سابق کشمیر کی نظامت پر بحال رکھا گیا۔ شہر کے خاص و عام کیا چھوٹے کیا بڑے، سبھی نے متفق ہو کر فخر الدولہ کو شہر سے باہر نکال دیا۔ اس نے بعض شرپسندوں کے بہکانے پر ہفت چنار میں بیٹھ کر اطراف شہر کو آگ لگا دی اور جو لوگ سامنے آئے انہیں قتل کر دیا۔ کوئی دو ماہ تک طرفین ڈٹے رہے۔ اسی اثنا میں عنایت اللہ خان کشمیر پہنچ گیا۔ اب جب نادر شاہ کا ذکر درمیان میں آ گیا ہے تو لازم ٹھہرا کہ صیغہ وقائع نگاری کے تحفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس کے احوال، کہ عجیب و غریب حالات اور نوادر واقعات ہیں، سپرد قلم کیے جائیں، لہٰذا اگر ایران کے سابق سلاطین کے کچھ حالات، غصہ پردازی اور تاریخ طرازی کے ربط کے پیش نظر لکھ دیے جائیں تو مناسب ہو گا۔ اہل زمانہ کے حالات کا کھوج لگانے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ 1500/906سے لے کر 1720/1132تک یعنی دو سو چوبیس برس کے عرصے میں خاندان سلاطین صفویہ کے نو دس افراد نے ملک ایران میں استقلال و اقتدار کے ساتھ حکمرانی کی۔ ان میں سب سے پہلا شاہ اسمعیل صفوی تھا۔ا ور سب سے آخر میں شاہ سلطان حسین بن شاہ سلیمان بن شاہ عباس ثانی۔ جب شاہ حسین نے امور ملکی کے بندوبست میں سستی کا مظاہرہ کیا اور وہ ملکی امور کے ربط و ضبط سے عہدہ برآ نہ ہو سکا اور اس نے اپنے اسلاف کے برعکس طرز عمل اختیار کیا تو ایران کے بیشتر علاقوں میں نمایاں گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ اس میں ایک واقعہ افاغنہ غلیجیہ کے اویس نامی ایک سردار کا ہے۔ جن دنوں کثیر الاحسان بادشاہ محمد معظم شاہ بہادر، عالمگیر بادشاہ کے حکم پر کابل میں فرمان روا تھا، تو وہ (اویس) اپنی نمایاں خدمات کے صلے میں شاہی عنایت کا مورد ٹھہرا اور علی مردان خان کے خطابت سے سرفراز ہوا اور صوبہ قندھار کی جو ہمیشہ طرفین میں متنازع فیہ رہا نظامت شاہ عالم نے اس کے سپرد کر دی۔ مشاراء الیہ (اویس) نے تعلقات کے ربط و ضبط میں دلیری سے کام لیا اور ہرات تک خراساں کی اکثر حدود پر قابض ہو گیا۔ جب بہادر شاہ، ہندوستان کے تخت سلطنت پر بیٹھا تو علی مردان خان نے پہلے سے بڑھ کر ایرانی علاقوں میں مداخلت شروع کر دی، تآنکہ جہاندار شاہ کے عہد کے آغاز میں دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کا بیٹا میر محمد اس کی جگہ سرگرم ہوا اور اس نے باپ سے بڑھ کر مرتبہ و اقبال پایا۔ اس نے کچھ عرصہ بادشاہ ہند کے نام خطبہ و سکہ جاری کیا۔ اور دربار میں درخواستیں بھجوائیں۔ فرخ سیر کے اواخر عہد میں ہر جگہ فتنہ و فساد برپا ہوا۔ چونکہ لوگ شاہ حسین کے آدمیوں کے طور طریقوں اور روش سے نیز اس کی بے پروائی اور بے خبری کے سبب اس سے متنفر تھے، بالخصوص صفاہان (اصفہان) میں سکونت پذیر اہل سنت و جماعت، شاہ کے آدمیوں کے ہاتھوں بہت اذیت اٹھا رہے تھے، اس لیے انہوں نے مذکورہ میر محمد کو، جو اس وقت ہرات میں تھا، اپنی حقیقت احوال اور شاہ کی بے پروائی کے بارے میں آگاہ کیا اور اسے غیرت دلائی۔ وہ ایک کثیر فوج لے کر ہرات کے جنگل کے راستے سے اچانک اصفہان میں داخل ہوا، اس حالت میں کہ شاہ کے آدمی مست پڑے تھے، اس لیے کہ یہ بے پروائی تو ان کے دماغ میں گھسی ہوئی تھی۔ سلطان حسین نے اسی حالت میں اٹھک بیٹھک کی اور فوج بھی تیار کر لی۔ چند مرتبہ لڑائی ہوئی۔ تقدیر ربانی سے شاہ کا لشکر مغلوب ہوا۔ وہ اپنے پاؤں چل کر میر محمود کی فوج میں گیا، لیکن اس کی میر سے ملاقات نہ ہوئی اور اسے قید میں ڈالنے کے بعد اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور میر محمود جاہ و جلال کے ساتھ اصفہان کے تخت پر متمکن ہوا۔ یہ شعر اس کی مہر کا سجع بنا: جہانداری بحکم خالق معبود می باشد غلام چار سرور عاقبت محمود می باشد (جہانداری خالق معبود کے حکم سے ملتی ہے۔ چار سرداروں کا غلام آخر کار محمود (تعریف کیا گیا) ہوتا ہے۔) لیکن وہ کل دو برس فرماں روا رہا اور جلد ہی عالم فنا کو کوچ کر گیا، اور اس کا سالا اشرف سلطان اس کا قائم مقام ہوا۔ اس نے کم و بیش آٹھ برس تک اصفہان اور خراسان میں حکومت کی۔ ان چند سالوں میں کہ یہ دور افاغنہ تھا، ایران میں طرفہ گڑ بڑ اور تاخت و تاراج رہی۔ لوگوں کا مال لوٹا گیا اور بیوی بچے قید میں ڈال دیے گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ چنگیز اور ہلاکو کے واقعات کے بعد ملک ایران میں ایسی حالت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس دوران میں اطراف کے اکثر لوگوں نے سر اٹھایا۔ ان میں ایک ملک محمد خان تھا جو رستم داستاں کی اولاد میں سے تھا اور مشہد مقدس پر قابض ہو گیا۔ نذر قلی بیگ، جس کا تعلق ترکمان قوم کے افشار قبیلے سے تھا اور جو باد رود میں مقیم تھا، مشہد آ کر ملک محمد خان مذکور کے کارکنوں میں شامل ہو گیا۔ اسی حالت میں اس نے شاہ حسین کے بیٹے شہزادہ صفی میرزا کو، اس کے باپ اور دیگر شہزادوں کے قتل کے بعد جو دور افاغنہ میں بیس سے زیادہ کی تعداد میں قتل ہوئے تھے، پا کر اپنے چند آدمیوں کے ساتھ مشہد مقدس پہنچا دیا۔ اہل شہر نے شہزادے کی آمد کو غنیمت جانا اور اس کے ساتھ اطاعت فرمانبرداری کا رویہ اختیار کیا۔ نذر قلی بیگ بھی ملک محمد خان سے الگ ہو کر شاہزادہ کی خدمت میں پہنچ گیا، جہاں سے اسے ملک محمد خان کو بھگانے پر مامور کیا گیا۔ وہ (نذر) چند روز گھات میں رہا اور آخر اس پر قابو پا کر اسے قتل کر دیا اس بنا پر اسے طہاس قلی خان کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس نے شاہ طماس (طماسب) کے نام کا سکہ اور خطبہ جاری اور اشرف سلطان افغان کو بھگا کر ایران میں جدید بندوبست کیا۔ شاہ طہماسب صغر سنی، عدم تجربہ اور کم عقلی کے سبب امور حکمرانی سے عہدہ برآ نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے سلطنت کا تمام نظم و نسق طہماس قلی خان چلاتا رہا۔ اکثر امور میں اس کے اور شاہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا او رمخالفت چلی۔ طہماس قلی خان نے میدان خالی دیکھا تو اس کے دل میں ہوس سلطنت پیدا ہوئی۔ ملکی مصلحت کی خاطر شاہ نے بعض عذر رکھ کر طہماس کو قید میں ڈال دیا۔ اور اس کے عباس میرزا نامی دو سالہ بیٹے کو حکومت دے دی، اور خود تسخیر بغداد کے لیے روانہ ہوا۔ اس نے طویل مدت تک بغداد کا محاصرہ کیے رکھا۔ بغداد کے ایک حصے کو، جو ایران کی طرف تھا تاراج کر کے اس پر قابض ہو گیا۔ جب بادشاہ روم کا لشکر غالب آ گیا تو شاہ گہماسب مصالحت کر کے اصفہان کو لوٹ گیا۔ ابتدائی امور کو نپٹا کر خراسان کے معاملات کی اصلاح کی خاطر اور اشرف سلطان کو بھگانے کے لیے، جو شاہ طہماس کے تسلط کے بعد راہ فرار اختیار کر کے خراسان آ گیا تھا، وہ ہرات کی طرف متوجہ ہوا۔ مشارا الیہ کے پہنچنے سے پہلے ہی حسین خان افغان نے اشرف سلطان کو بھگا کر قندھار میں اپنا پرچم اقتدار بلند کر دیا۔ طہماس قلی خان نے بتدریج ایران کے علاقوں کا بندوبست اور نظم و نسق اپنے طور پر چلایا۔ شاہزادہ تخت سلطنت پر بیٹھا (کذا) اس نے بعض کو جو موجود تھے بھگا دیا او رنادر شاہ کے لقب سے ملقب ہوا۔ نیز مہمات ایران اور دوسروں کی مداخلت سے فراغت پا کر اور اطراف کے سرکشوں اور باغیوں کی سرکوبی کر کے قندھار پہنچ گیا۔ چونکہ حسین خان بہت سی فوج کے ساتھ مضبوط قلعوں میں جو پہاڑ پر واقع ہیں ڈٹا ہوا تھا۔ اس لیے محاصرہ طول پکڑ گیا۔ اور لڑائی کا ہنگامہ طویل ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ تقریباً تین برس تک یہ مجادلہ و محاربہ جاری رہا، تا آنکہ فتح و ظفر کی نسیم نادر شاہی پرچموں پر ٹک گئی۔ شاید محاصرہ قندھار کے دنوں میں اس نے بادشاہ ہندوستان کی جناب میں مدد و اعانت کی درخواست کی تھی اور ایلچی بھیجے تھے، لیکن امرا کے نفاق کی بنا پر، اس کی نظامت میں، مد دجاری نہ ہوئی بلکہ شاہ کے مدعا کے برعکس جواب ملا۔ قندھار کی مہم سے فارغ ہو کر نادر شاہ بعض عالی قدر امرا کے اشارے پر، غزنی کے راستے کابل میں متوجہ ہندوستان ہوا، اور ان عہد و پیمان کے دعوے پر جو ہمایوں بادشاہ نے سابق شاہ طہماس بن شاہ اسماعیل کی امداد کے موقع پر اپنے ذمے لیے تھے کچھ لوگوں کو دربار روانہ کیا۔ جب اس مرتبہ بھی قطعاً کوئی تدارک نہ ہوا اور اسے دربار کے امرا کی صحبت اور ان کے نفاق کا پتا چلا تو اس نے موقع غنیمت جانا اور کابل و پشاور کو ان کے ملحقات سمیت تھوڑی سی فوج کے ساتھ ہی تسخیر کر لیا۔ اس نے جہاں بھی حملہ کیا وہاں آتش زنی کے ساتھ لوٹ مار بھی کی اور بعض جگہ قتل عام کرتے ہوئے لاہور آ پہنچا۔ سیف الدولہ عبدالصمد خان مرحوم کے بیٹے زکریہ خان صوبہ دار لاہور نے مالی مصالحت کو باعث خیر جانتے ہوئے اپنی اور شہر کے لوگوں نیز تاجروں کی طرف سے بہت بڑی رقم جمع کر کے شاہ کی سرکار میں پہنچا دی اور خود اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مالی خدمت قبول ہونے سے وہ نادر شاہ کی عنایات کا مورد ٹھہرا۔ الغرض نادر شاہ نے راستے (کذا) سے دربار کا ارادہ کیا۔ بادشاہ کے امرا اس موقع پر اس کے تدارک کے بارے میں سوچنے لگے۔ امیر الامرا صمصام الدولہ خان دوران بہادر میر بخشی عظیم فوج کے ساتھ نادر شاہ کے مقابلے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ پانی پت میں آمنا سامنا ہوا اور طرفین میں شدید جنگ چھڑ گئی۔ دونوں طرف سے بہت سے لوگ مارے گئے۔ اگر دربار کے اکثر امراء بالخصوص برہان الملک، امیر الامرا سے منحرف نہ ہوتے، ان میں باہم نفاق نہ ہوتا اور ایک دوسرے کی طرف سے شاہی فوج کی مدد میں کمی نہ ہوتی تو نادر شاہ کے آدمیوں کے لیے معاملہ بہت کٹھن ہو گیا تھا اور قریب تھا کہ وہ مغلوب ہو جاتے، لیکن تقدیر کی بات کہ بہت سوں کا باہمی نفاق اہل ہند کی بدبختی کا باعث بن گیا اور کسی نے بھی مرے ہووں کے پیچھے رہنے والوں سے موافقت نہ کی بلکہ مخالفت شروع ہو گئی۔ امیر الامرا اپنے اعلیٰ مرتبہ رفقا کے ساتھ شہید ہو گیا، جن میں سے ایک کشمیر کا یادگار خان ہے جو امیر الامرا کا محرم و رفیق تھا۔ بادشاہ لشکر کے مغلوب ہونے اور اپنے امرا کے انحراف کے بعد نادرہ شاہ کے ڈیرے پر گیا۔ 19ذیعقد 1739/1151کو جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ مذکورہ مہینے کے آخر میں نادر شاہ، بادشاہ کو ساتھ لے کر قلعہ شاہجہان آباد میں داخل ہوا۔ ذی الحجہ کے وسط میں بعض لوگوں کی شرارت کی بنا پر اس (نادر) نے قتل عام اور شہر کے بعض حصوں کی آتش زنی کا حکم صادر کیا۔ آتش قتل و غارت ایک شب و روز تک بھڑکتی رہی۔ اہل کشمیر میں سے خاص و عام کی ایک خاصی تعداد قتل ہوئی۔ الغرض نادر شاہ دو ماہ تک شاہجہان آباد میں ٹھہرا رہا اور اس دوران میں اس نے بیشمار تحفے، ذخیرے اور خزانے، جو گزشتہ سلاطین کے عہد سے موجود تھے، حاصل کیے اور اہل شہر اور امرا پر جرمانے کر کے لاکھوں روپے بٹورے، اور بادشاہ سے مصالحت کر کے ہند، سند اور کشمیر کے علاقے اس کے پاس رہنے دیے اور پشاور اور کابل کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ آغاز صفر 52ھ (1739/1152ئ) میں وہ شاہجہان آباد سے نکلا،ا فغانوں کو تنبیہہ کی اور خود اطراف ملتان کو نکل گیا جہاں خدایار خان زمیندار سے لڑائی لڑی۔ وہاں سے، فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ ممالک ترکستان کی طرف متوجہ ہوا۔ سر رشتہ سخن کو برقرار رکھنے کی خاطر احوال نادر شاہ کے بارے میں اس قدر لکھنا ضروری تھا۔ اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بادشاہ نے عنایت اللہ خان کو نظامت صوبہ کشمیر پر بحال رکھا۔ مشار الیہ نے ابو البرکات خان کو جو ذہنی معذوری کی حالت میں تھا اپنا نائب مقرر کیا۔ عنایت اللہ خان نے نادر شاہ کے ہنگامے میں عزت و ناموس اور مال کے سلسلے میں تکالیف اٹھائی تھیں، اور اہل کشمیر فخر الدولہ کے ہاتھوں نالاں تھے۔ جو خود کو نادر شاہ کا وسیلہ قرار دیتا تھا،ا س لیے وہ نادر شاہ کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کرنے میں رکاوٹ بنے اور بادشاہ کی محبت میں بڑی غیرت سے کام لے کر انہوں نے فخر الدولہ کو نکال دیا۔ا دھر فخر الدولہ باہر نکلا ادھر اسی موقع پر ابو البرکات خان پہنچ گیا۔ ابو البرکات خان نے دو تین ماہ تک عنایت اللہ خان کی نیابت استقلال کے ساتھ انجام دی۔ عنایت اللہ خان اپنے اوپر گزری ہوئی واردات سے فراغت کی خاطر کشمیر چلا آیا۔ اواخر ذیعقد 1740/1152میں وہ شہر پہنچا۔ چار پانچ ماہ تک اس نے حسن سلوک کے ساتھ نظامت کے فرایض ادا کیے کامیابی کے ساتھ وقت گزارا اور حتی المقدور خلائق کی بھلائی اور عوام الناس کے ساتھ احسان میں کوشاں رہا۔ اکثر سرکشوں کی بیخ کنی کی، اور فقر و درویشی کے نام پر بڑے ہی عقیدے اور اخلاص کا مظاہرہ کیا۔ آخر کار مالی معاملات، امور ملکی کے احوال اور لوگوں کے نفاق کے سبب اس میں اور ابو البرکات میں جو مداخلت بلکہ تسلط کا قصد کیے ہوئے تھا، رنجش و عداوت پیدا ہو گئی جس رفتہ رفتہ جنگ پر منتج ہوئی۔ ایک مرتبہ نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد کے اطراف میں ان کی لڑائی ہوئی۔ اس دن عنایت اللہ خان کی فوج کچھ زیادہ ہی سستی کا شکار ہو گئی اور ابو البرکات خان کو شادمانی میسر آئی۔ دوسری مرتبہ عید گاہ میں دونوں کے آدمی آمنے سامنے ہوئے عنایت اللہ خان کے آدمیوں کو زبردست شکست ہوئی۔ چنانچہ وہ (عنایت) خود چند روز تک مخفی، سرگردان اور پریشان رہا۔ آخر کار وہ شہر میں روپوش ہو گیا۔ اس کے بیٹے خلعت اللہ نے جس نے سویپور کی راہ لی تھی، محمد ہیبت مظفر آباد کے بیٹے سے مدد چاہی جو طرفین کی تحریک پر سویپور آیا ہوا تھا۔ نصف ماہ امن کے ساتھ گزر گیا۔ شعبان کے آخری دن موضع ہارہ تت میں فریقین کا آمنا سامنا ہوا۔ اس مرتبہ ابو البرکات نے ہزیمت اٹھائی اور وہ راہ فرار اختیار کر گیا۔ عنایت اللہ خان ماہ رمضان کے آغاز میں چھپی ہوئی جگہ سے باہر آیا اور پھر اسے استحکام ملا۔ اس مجموعہ حسرت کتاب کا راقم چونکہ کسی طرح سے (عنایت کی) روپوشی کا وسیلہ بننے کے باعث بہت زیادہ اپنایت سے آشنا ہو اتھا اس لیے مجھے اس کے اطوار سے اس کی کمال بزرگ منشی اور امور ملکی سے اس کی عدم مناسبت کا، جس انداز میں آج زمانے کا دستور ہے، پتا چلا۔ اس میں مستقل مزاجی، جو اکثر درود و تفرقات سے متعلق تھی، قطعاً نہ دیکھی۔ ابو البرکات خان نے قصبہ پنوج کی راہ لی۔ چالیس دن میں عنایت اللہ خان کے استحکام کی صورت بندھی، لیکن حکمرانی کے اختیار کی ڈور ا سکے ہاتھ نہ آئی۔ منصب داروں وغیرہ میں سے بعض اہالی شہر نے جو اس سے قبل اس کی بے ادبی کا مصدر ٹھہرے تھے، ابو البرکات خان کو اکسایا۔ عبدالرزاق چودھری جس کا ذکر گذر چکا ہے کے بیٹوں محمد زمان اور محمد ولی، زمینداران پنوج نے جو اپنے باپ سے زیادہ صاحب اقتدار بنے، ابو البرکات خان کی اعانت و رفاقت کو لازمی جانا۔ چنانچہ وہ اسے ہمراہ لے کر کشمیر روانہ ہو گئے۔ چونکہ عنایت اللہ خان کے اکثر آدمی ناتجربہ کاری کی بنا پر صحیح معنوں میں حفاظت نہ کر سکے، اس لیے مذکورہ جماعت کسی روک ٹوک کے بغیر شہر کی حدود میں داخل ہو گئی۔ خلعت اللہ خان اپنے آدمیوں اور چند منصب داروں کو لے کر لڑائی کو نکلا۔ ہفت چنار کے اطراف میں آمنا سامنا ہوا، لیکن کسی لڑائی کے بغیر ہی خلعت اللہ خان کے آدمیوں پر کچھ زیادہ ہی رعب طاری ہو گیا، بلکہ بعض میں تو باہم نفاق بھی پیدا ہوا، اور یوں سب نے راہ فرار اختیار کی۔ 19ماہ شوال 1741/1153کو یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ ابو البرکات خان اور عوام پو پہنچ (پنوج؟) فوراً شہر میں داخل ہوئے اور عنایت اللہ خان بذات خود نصف شب تک ان کے آدمیوں کے ساتھ خوب لڑا۔ چونکہ اس کے پاس ساز و سامان نہ تھا، اس لیے خانپور کے راستے، عجب حالت میں، سویپور چلا گیا، جہاں وہ اپنے بیٹے سے جا ملا جو ہفت چنار کے ہنگامے کے موقع پر سویپور چلا گیا تھا۔ وہاں اس نے محمد ہیبت کے بیٹوں سے (مدد کی) التجا کی اور انہیں جاگیر بخشی انہوں نے موقع کو غنیمت جانا اور وہ محصولات جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ابو البرکات خان شہر میں عمل و حکومت کا موقع پا کر حکمرانی میں مشغول ہو گیا۔ قصہ کوتاہ ان تین ماہ عوام کی مخالفت اور اپنے آدمیوں کی نا تجربہ کاری کی بنا پر عنایت اللہ خان کے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک کے سبب دیگر تقاضے ذلت و خواری کا شکار ہوئے۔ اللتیا والتی کے بعد سات صفر کو عنایت اللہ خان جو اہل پنوج اور ابو البرکات خان کے ثالثوں کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت صلح کے ارادے سے سویپور سے آیا ہوا تھا، اور محمد زمان اور محمد ولی خود، بظاہر استقبال کے لئے گئے تھے، سوموار کی آخری پہر میں اہل پنوج کی دعا سے ان کے ایک اعلیٰ ملازم دیار رام کافر کے ہاتھوں درجہ شہادت کو پہنچا۔ 1741/1154میں ابو البرکات صوبہ داری کشمیر پر متصرف ہو گیا۔ ابو البرکات خان نے چند مرتبہ راقم کی موجودگی میں جو مصالحت کی گفتگو کے آغاز میں بطور ثالث شریک تھا، ایمان کی قسم کھا کر عنایت اللہ خان کے قتل کی اطلاع اور ارادے سے خود کو بری الذمہ قرار دیا تھا۔ اس کی حقیقت کا علم تو اللہ، سلطان معبود ہی کو ہے۔ میں (مصنف) نے نرم دلی، فرائض کی انجام دہی کے دوران بھی پابندی نماز، بخشش و احسان کی توفیق اور عقیدہ فقرا میں عنایت اللہ خان کی مانند کم ہی کسی حاکم کو پایا ہے۔ دنیا داری کے امور میں کوتاہی بھی کہ سراسر خرابی کا باعث ہے، انہی معاملات کی بنا پر اس کے مزاج میں راہ پا گئی تھی وہ جس حال میں بھی تھا اس کی عاقبت بخیر ہوئی اور وہ اس دنیا سے مظلوم و شہید گیا۔ ایک انوکھی بات اور وہ یہ کہ ایک روز عنایت اللہ خان نے خلوت میں راقم حروف سے ذکر کیا کہ حرم کی ایک خادمہ حاملہ ہے۔ ستارہ شناس کہتے ہیں کہ اس بچے کی ولادت اور اس کا وجود تمہاری (عنایت کی) ہلاکت اور تمہارے مال و جان کی خرابی کا باعث ہو گا۔ اس نے راقم سے اس حمل کے اسقاط کا مشورہ چاہا۔ راقم نے کہا کہ ظاہر شرع کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے احکام کو یقینی طور پر قابل عمل نہیں جانا جا سکتا اور اگر حمل کی مدت تین چلوں (چالیس روز) سے زیادہ ہو گئی ہے تو علما بچے (حمل) کے اسقاط کی اجازت بیوی کی رضا سے مشروط کرتے ہیں۔ پریشانیوں کے سبب اسے اسقاط کی فرصت نہ ملی۔ چنانچہ اتفاق کی بات کہ ادھر لڑکے کی صورت میں نومولود آیا اور ادھر عنایت اللہ خان کا معاملہ تلپٹ ہو گیا۔ محمد شاہ بادشاہ کی ابتدائے سلطنت سے ایک شخص موسوم بہ سعد اللہ خان میر آتش اور سعد الدین خان میر آتش معزول کے زمانے تک جو خان سامان تھا اس مرتبہ اپنی حکومت نہ پائی ایالت کا تعین سعد الدولہ کے نام تھا جو کبھی میر آتش نہ تھا۔1؎ عنایت کی شہادت کے بعد سعد اللہ خان میر آتش سرکار (اے خدا اس کی مغفرت فرما) کشمیر کی نظامت سے سرفراز ہوا۔ ابو البرکات خان کو مکمل استحکام ہو گیا ایک محفل میں جہان راقم کتاب ہذا بھی موجود تھا، اس (ابو البرکات) نے زور دار قسم کھا کر عنایت اللہ خان کے نہ صرف قتل کے ارادے سے اپنی برات ظاہر کی، بلکہ اس کے متعلق اطلاع سے بھی خود کو بے گناہ بتایا، والعلم عند اللہ ؔ(حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے) بہرحال خان مذکور نے اہل پنوج کو جو ہر معاملے میں زبردستی کرتے تھے، تدبیر سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ کے بعد اس شہر سے باہر نکال دیا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہ بدبخت کسی فاسد خیال سے پھر کشمیر کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک دفعہ تو مغلوب ہو کر وہ لوٹ گئے، لیکن دوسری مرتبہ وہ پھر آ دھمکے اور انہوں نے اچھا خاصا مقابلہ بھی کیا۔ ماہ شوال کے آغاز میں اس بنا پر کہ وہ شہر کے اطراف میں ایک مدت تک ڈٹے رہے اور نائب کے آدمی اور اہل شہر بھی مقابل تھے، ایک رات ابو البرکات کے مکان پر انہوں نے ہلہ بول دیا۔ مشارا الیہ اسی لمحے مورچہ بندی کے معانیے اور خانقاہ معلی کی زیارت کے لیے نکلا تھا۔ چنانچہ گھر خالی پا کر انہوں نے جو کچھ بھی سامنے نظر آیا لوٹ لیا۔ گھر کے اندر اور باہر جو چند ایک افراد موجود تھے بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگے۔ ابو البرکات خان خبر ملتے ہی لوٹا اور اس کے آدمی بھی پہنچ گئے۔ وہ اپنے گھر کے راستے میں کھڑا ہو گیا اور ان کے نکلنے کا راستہ اس نے روک لیا۔د و تین روز کے بعد انہیں کسی طریقے سے باہر نکال کر گرفتار کر لیا۔ 16شوال کو اس نے دونوں بھائیوں محمد زمان اور محمد ولی کو نواب شہید کے قاتل دیا رام کافر حربی سمیت قتل کر دیا اور تین چار روز میں ان کے فرزندوں، اقربا اور عام سپاہیوں کو ہر جگہ سے اکٹھا کر کے کوتوالی کے چبوترے پر ان کی گردنیں اڑا دیں۔ چار پانچ سو سے زیادہ ہی آدمی قتل ہوئے ہونگے۔ یہ واقعہ 1743/1155کے آخر میں رونما ہوا۔ اس تدارک سے گویا عنایت اللہ خان کا قصاص ظہور پذیر ہو گیا۔ اس کتاب سراپا عبرت کے راقم نے اس واقعہ کی تاریخ ان الفاظ سے نکالی: پی سال قتل ولی زمان بگفتم ’’سزای بد طاغیان‘‘ (1155) (میں نے اپنے وقت کے ولی کے قتل کی تاریخ ’’ سزای بدطاغیان‘‘ (سرکشوں کو بری سزا) کے الفاظ سے نکالی) یہ معرکہ سر کرنے پر ابو البرکات خان کو دربار کی طرف سے بہادری کا نمایاں خطاب تحسین فراواں کے ساتھ ملا جس کے نتیجے میں اس نے کچھ عرصہ کسی کی مزاحمت کے بغیر، اقتدار و کامرانی کے ساتھ بسر کیا۔ اسی دوران میں وہ طبعی مرض کا شکار ہوا اور ہر طرف سے پریشانیوں نے اسے گھیر لیا۔ شعر: درین حدیقہ بہار و خزان ہم آغوش است زمانہ جام بدست و جنازہ بر دوش ست (اس باغ میں بہار اور خزاں ہم آغوش ہیں۔ زمانہ ہاتھوں میں جام اور کندھوں پر جنازہ اٹھائے ہوئے ہے) بعد میں ظہور پذیر ہونے والے امور جن کے بارے میں اب ہم لکھنے والے ہیں، سے پہلے نصف شب کے وقت ایک خونخوار، فتنہ ریز اور بلا انگیز دم دار ستارہ افق سے طلوع ہوتا اور کافی دیر تک رہتا۔ فلکی گردشوں کے ماہرین کے تجربے،بلکہ بعض احادیث نبویؐ کی روشنی میں یہ عمومی تکالیف اور مکمل قیامت کی نشانی ہے۔ چنانچہ اس کے اسباب ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ تفصیل اس اجمال کی اور بیان اس مقال (بات) کا یہ ہے کہ خان مذکور کمال دانائی اور ادعائے فطرت و رسائی کے باوجود نفسانی اغراض کے موقع پر حکمرانی کے طور طریقوں پر قطعاً دھیان نہ دیتا اور ان امور میں اپنے ملازموں کی بے لگامی اور جرات پر راضی رہتا۔ ان میں سے ایک شخص ببر اللہ جو شکر اللہ بیگ سیف خانی کا پوتا اور اس (خان) کے ملازموں میں سے تھا، اس کے عقیدے کے مطابق اس کے بعض ترودات کا مھور و مرکز بن گیا۔ اسے اس نے کامراج کی تھانہ داری سے نواز کر بہت زیادہ آزادی دے دی اور سپاہیوں کے اختیار و اعتبار کی زمام اس کی بے باکی و بے راہ روی کے ہاتھوں میں تھما دی۔ ابو البرکات نے ابتدا میں اسے امر آسان جانا اور سہل انگاری سے کام لیا، گویا وہ اس شعر کے مضمون سے غافل تھا: سرچشمہ شاید گرفتن بمیل چو پر شد نشاید گذشتن بہ پیل (چشمے کے منہ کو ایک سلائی سے بند کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ بھر گیا تو پھر ہاتھی پر چڑھ کر بھی اس میں سے نہیں گزرا جا سکتا) مذکورہ ببر اللہ نے سویپور پر تصرف کے ارادے سے کوہستان مظفر آباد اور پنوج کے اہل غنیم سے موافقت کر لی اور شہر اور پرگنوں کے لوگوں کے مال و ناموس پر ظلم و تعدی اور لوٹ مار کا ہاتھ دراز کیا اور حجاب و حیا کا پردہ درمیان سے اٹھا دیا۔ اس صورت حال کے ساتھ ساتھ وہ مخالفان ملت کی صحبت میں پڑ گیا اور اس نے اپنے اسلاف کے برعکس، جو اہل مروت و صلاح تھے۔ دین داری اور حق گزاری کی ڈور ہاتھ سے چھوڑ دی، اور اپنے ولی نعمت کے ساتھ جنگ و جدال پر آمادہ ہو گیا۔ ابو البرکات خان نے اس سے نپٹنے کے لیے شاہی نوکروں اور اپنے ملازموں کی ایک جماعت مراد یاب خان پیش کار صوبہ کی سرکردگی میں بھیجی۔ اندر کوٹ اور شادی پور کے اطراف میں ان کا آمنا سامنا ہوا۔ ابو البرکات خان کے آدمیوں نے اس فوج میں شامل بعض لوگوں کی منافقت کے سبب دھوکا کھایا اور بے وقت معترض و مزاحم ہو کر خود کو آفت و بلا کے طوفان میں دھکیل دیا۔ یعنی بعض نے بے موقع جرات سے کام لیا اور غنیم کے غلبے کی بنا پر راہ فراز نہ پا کر شہر آنا چاہا، لیکن تقدیر الٰہی سے وہ منزل مقصود تک نہ پہنچے بلکہ اپنی جانوں کو انہوں نے ہلاکت میں ڈال لیا سبھی دریائے بھٹ (جہلم) میں جو اس وقت طغیانی پر تھا، مراد یاب خان اس جیسے دوسرے لوگوں اور شہر کے بعض سرداروں نیز ابو البرکات خان کے منصب داروں اور ملازموں سمیت غرق ہو گئے۔ اس فوج سے صرف گنتی کے چند لوگ جان بچا لے گئے۔ اس قسم کے واقعے کے بعد ببر اللہ خان کو مزید جرات حاصل ہو گئی اور اس نے شرارت میں قدم اور آگے بڑھایا۔ وہ شہر کی حدود میں آیا۔ اس مرتبہ شہر کے لوگوں نے ابو البرکات خان سے متفق ہو کر اس (ببر) کی تنبیہہ کا سامان کیا۔ دونوں طرف سے شدید لڑائی کے بعد ببر اللہ خان کو شکست دے کر شہر سے بھگا دیا گیا۔ اس موقع پر ابو البرکات خان سے جو بہت بڑی خطا ہوئی وہ یہ ہے کہ عاقبت ہیں خیر خواہوں کے اظہار کے باوصف اس نے دشمن کا تعاقب چھوڑ کر محلہ جدی بل کو لوٹنے اور جلانے کی طرف توجہ کی اور اس طرح اس محلے اور گرد و نواح کے دوسرے محلوں کے اکثر بے گناہوں کو ناحق تکلیف پہنچائی۔ یوں ایک ہی دن میں چند محلے برباد فنا ہو گئے، جبکہ دشمن کو اس نے مفت میں بھاگ جانے کی مہلت دے دی۔ اسی روز معاملے کا ظاہر و باطن گویا الٹ ہو گیا اور بے غرض طالبان خیر کی تبلیغ بے سود ٹھہری۔ ببر اللہ نے پہلے سے بھی بڑھ کر دست تسلط دراز کیا۔ (اس دوران میں) صوبہ کشمیر کی نظامت سعد اللہ خان کے تغیر پر ابو المنصور خان بہادر صفدر جنگ کو ملی۔ کشتواڑ کے زمیندار اور بہادر لوگ، جو ابو البرکات خان کی مدد کے لیے آئے تھے، شامت نفسی، تاخت و تاراج کی حرص و طمع اور نفاق طبع کوتاہ بینوں کے بہکانے اور فساد کی بنا پر ببر اللہ سے مل گئے اور انہوں نے علانیہ لوگوں کے مال و جان اور ناموس پر ہاتھ مارا۔ شہر اور گاؤں دشمن کے آدمیوں سے پٹ گئے ’’ عام التشویش‘‘ (تشویش کا سال) اس کی تاریخ ہے۔ محافظت اور مصالحت کی توقع پر آخر رمضان 1744/1157میں شہر میں جنگ و جدل چھڑ گئی۔ دونوں طرف سے اکثر مقامات پر آگ لگا دی گئی۔ آخر کار دشمن غالب آ گیا۔ ابو البرکات خان، خواجہ میرزاے نقشبندی کے گھر میں بیمار پڑا تھا، جس نے ببر اللہ کے معاونین کے ہاتھوں دھوکا فریب کھایا اور اسے وہ اپنا موافق جانتا تھا۔ ببر اللہ اور اس کے آدمی گئے اور انہوں نے اسے وہاں سے نکال کر اس کی قدیم حویلی میں پہنچا دیا، اور اپنے قابو میں کر رکھا۔ اس روز کشتواڑ کے آدمیوں اور بنبو کے پہاڑیوں کے ہاتھوں عوام پر عجب حالت گزر گئی جس نے قیامت برپا ہونے کی یاد دلا دی۔ عوام اپنے مال و جان اور عزت و ناموس سے بالکل مایوس ہو گئے۔ا ٓتش غضب بھڑک رہی تھی۔ پہاڑی رہزنوں کا ہر فرد، اور یہ سب ببر اللہ کے ساتھیت ھے، کھلم کھلا لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر وہاں موجود ہر شے پر قابض ہو جاتا اور مویشیوں، چوپایوں اور پرگنہ جات کو لوٹ کر ورثے کی صورت باہم بانٹ لیتے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ کہ اگر اتفاق سے کوئی صحرائی موقع پا کر کوئی گائے بھینس، پہاڑ اور جنگل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو جاتا تو وہاں بھی اس کا معاملہ ایک آفت و بلا پر منتج ہوتا۔ 58(1745/1158) کے اوائل میں خان بہادر شیر جنگ نائب ناظم ہو کر اور ان احوال کی اصلاح کی کشمیر پہنچا اور عید گاہ میں جا بیٹھا۔ اس نے پہلے کسی بہانے ابو البرکات خان کو پکڑا، اس شہر سے نکالا اور دربار کی طرف روانہ کر دیا۔ دوسرے مصالحت کی خاطر اور ملازمت کے ارادے سے ببر اللہ کو کامراج سے بلوا بھیجا، اسے اپنے پاس رکھا،ا ور اس کے ساتھ خاطر تواضع سے پیش آیا۔ جب اسے خود اس کی اسی خیرہ سری اور سرکشی کے آثار نظر آئے تو اپنے اندازے کے ٹھیک سے ظاہر ہونے پر اس نے وقت سلام، عقلمندی سے اسے گرفتار کر کے قتل کروا دیا اور اس کا سر دربار کو بھیج دیا۔ شیر جنگ بہادر بس دو ایک ماہ کشمیر میں رہا۔ اس نے دوسرے امور بالخصوص کوہستان کے امور کی اصلاح سے تغافل برتا اور پایہ تخت روانہ ہو گیا۔ ابو البرکات خان دہلی پہنچ کر دو ایک ماہ زندہ رہا۔ اور2زیعقد کو وفات پا گیا۔ وہ تیزی فہم، ذہانت و فطانت، سرعت ادراک، حیائے چشم و مروت، اپنے اور بیگانے میں امتیاز کرنے، انشا و املا کی قابلیت اور حسن خط میں اپنے ہمعصروں بلکہ اکثر اعیان میں صاحب استثنا تھا، لیکن مال و جاہ کی حرص، خود پسندی اور عزت و آبرو کے موقع پر عاقبت اندیشی (؟) نے اس کی سب صفات پر پردہ ڈال دیا تھا۔ اس کی آخری زندگی مسافرت اور پردیس میں گزری۔ خدا اس کی بخشش فرمائے۔ اب افراسیاب بیگ خان جو اس خاندان کے پرانے ملازموں میں سے تھا، صوبہ کی نیابت کے عہدے پر کشمیر میں رہ گیا۔ خان مشارا الیہ (افراسیاب) کے دوران حکومت میں کئی ایک واقعات رونما ہوئے۔ جن میں سے ایک غلے کا شدید قحط ہے جو ہلاکت و وبا پر منتج ہوا، اس لیے کہ دو برس سے اہل گمراہی و ضلال کی شورش کے باعث مزارعین اور رعایا کے حالات میں کئی قسم کے خلل واقع اور زراعت کے وسائل و ذرائع، جیسے مویشی اور کشان وغیرہ، میں سے اکثر مفقود ہو چکے تھے۔ پھر یہ کہ بے وقت کی زیادہ اور موقع پر کم بارشیں بھی آباد کاری، کھیتی باڑی میں توقف کا باعث بنیں اور اس طرح غلات میں کمی پیدا ہو گئی۔ اور اگر کوئی چیز موجود بھی تھی، تو بھی محنت کشوں کی بد نیتی اور بے رحمی کے سبب اس نے اہل ضرورت کی نظروں میں ’’ جلوہ ظہور‘‘ نہ کای اور مطلق نایاب ہو گئی۔ نتیجتہ شدید تنگی و مفلسی اور از حد صعوبت اور بے کلی نے ڈیرے ڈال دیے اور قہر الٰہی کی ہوا بادشاہی غضب کی آگ کی زنجیر ہلانے لگی اور ایک دنیا کیا بڑے کیا چھوٹے بے آبروئی کی خاک میں مل گئی۔ اگرچہ لوگوں نے اپنے ملبوسات اور زیورات کوڑیوں کے مول بیچ دیے لیکن روپیہ کے دو سیر چاول بھی ان کے ہاتھ نہ لگے اور وہ ریوڑوں کی صورت میں، غلے کی کمی کے باعث، بھوک کی آگ میں جل جل گئے۔ نظم: فشرد آنچنان قحط پای ثبات کہ نایاب شد نان چو آب حیات دو صد منزل از دیگ شد آش دور فراموش شد نام نان بر تنور ز قحط آتش دیگ دانہا بمرد چہ قحطی کہ آتش ازان جان نبرد (قحط نے اس شدت سے مضبوط پاؤں جمائے کہ روٹی، آب حیات کی مانند نایاب ہو گئی۔ سالن برتنوں سے سینکڑوں کوس دور ہو گیا اور تنور پر روٹی کا نام ہی فراموش ہو گیا۔ قحط کے باعث چولہوں کی آگ سرد پڑ گئی، قحط بھی کیسا کہ آگ بھی اس سے جان بچا کر نہ لے جا سکی) قحط سے مرنے والوں کو شروع میں گھاس پھوس سے ڈھانک کر سپرد خاک کیا جاتا رہا۔ جب اہل مروت نے مردوں کے حال پر رحم کھا کر انہیں دریا میں ڈالنا شروع کیا تو لاشوں کی کثرت کے سبب دریا متغیر بلکہ متعفن ہو گیا، اور اب انہیں دریا میں ڈالنے کا بھی یارا نہ رہا۔ پھر یہ ہوا کہ ہر جگہ بے یار و مددگار لاشیں پڑی ہیں اور کتے، بلیاں اور پرندے انہیں نوچ رہے ہیں۔ یہاں تک سنا گیا کہ بعض مقامات پر لوگوں نے انسانی گوشت پر دست درازی کی بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو ذوق کے ساتھ کھا گئے۔ کپاس کے بیج کی گری، سبزہ اور ہر جنس ایسی نعمت قرار پائی کہ دیکھیں کس خوش بخت کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایسے حالات میں ایک تہائی ہلاکت کا شکار ہو گئی، دوسری تہائی نے راہ فرار اختیار کی اور ایک تہائی باقی و سالم رہ گئی۔ بچوں کی ایک تعداد فروخت ہو گئی، جب کہ آدمی کی زیادہ سے زیادہ قیمت دو تنکہ اور تین تنکہ ٹھہری۔ ماش، مسور اور جو دوا کی صورت اختیار کر گئے۔ ربیع الاولیٰ کی ابتدا سے قحط کا معاملہ عروج کو پہنچا اور رمضان المبارک کے آخر تک اس میں شدت و جدت رہی۔ قضا و قدر کا کار فرما قہر و جلال کا پرچم پوری طرح بلند کیے رہا، تاآنکہ اللہ کا فضل ہوا اور تمام خلائق پر فضل کے دروازے کھل گئے۔ اس برس کے، جو سراسر اختلال و ملال سے پر رہا، دوسرے واقعات میں سے ایک یہ ہے کہ خدمت شریف حضرت خواجہ علاء الدین نقشبندی المعروف خواجہ میرزا نے جو اس وقت حضرت خواجگان عالی شان کی خانقاہ کے گدی نشین تھے، عوام کالانعام (چوپایوں کی مانند لوگ) اور بعض سراپا حماقت غرض مندوں کی تحریک پر گراں فروشی کے خلاف دعویٰ میں خود کو ہدف بنا لیا۔ حاجی عتیق اللہ قادری جو جناب حضرت میرک میر ملارتی کی اولاد سے تھا۔ اور چند سال سے بعض حرکات میں بڑھ پھول رہا تھا، آتش شورش میں زیادہ سے زیادہ تیزی پیدا کرنے کا باعث بنا۔ صوبہ کے نائب کے آدمیوں نے ان لوگوں کی تہدید کا سامان کیا۔ چنانچہ زینہ کدل کے اطراف میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔ نائب کے آدمیوں نے زینہ کدل کے اطراف میں آگ لگا دی۔ چند محلے جل گئے، لوٹے گئے اور خراب و برباد کر دیے گئے۔ اگلے دن مصالحت اور معاہدے کے وعدے کی بنا پر خدمت حضرت خواجہ علاء الدین کو ان کی زوجہ 2؎ سمیت طلب کیا گیا، حاجی عتیق اللہ کو بھی جو بھاگ گیا تھا، پکڑ لیا گیا۔ خواجہ معظم اللہ کو شاہی سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ مع میر بہاء الدین قادری اور خواجہ ہاشم دہ بیدی کہ جن کا اس ہنگامے سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا، پایہ تخت بھیج دیا گیا اور جان محمد اور عتیق اللہ کو جنہوں نے معارضہ اور مجادلہ میں شدت و گرمی پیدا کی تھی، شہید کر دیا گیا۔ انہی دنوں میر صدیق کا بیٹا میر عمر، ابو البرکات کا گھر داماد، جو اپنی شوخ طبعی، خود سری اور بیہودہ گردی کے سبب شہر میں قیام پذیر نہ تھا، موضع ببر میں واقع اپنے نانا محتشم بیگ کا شغری کے گھر میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس نے عاقبت نا اندیشی اور بد تدبیری کی بنا پر چند اوباش جمع کیر اور راتوں رات سلام آباد کا تھانیدار بن گیا اور دماغ میں سرکشی کے خیالی پلاؤ پکانے لگا۔ افراسیاب بیگ نے اپنی افواج اور شاہی ملازمین کو اسے مغلوب کرنے پر متعین کیا۔ چنانچہ اسلام آباد کی جانب عجیب گڑ بڑ رونما ہوئی۔ محتشم بیگ اپنے بیٹوں سمیت تعاقب میں مارا گیا اور نادان میر عمر کشتواڑ کے راستے فرار ہو گیا۔ اس صورت حال نے بھی ایک دنیا کو برباد کیا وہ ایک مدت تک میدان میں فوجوں کی آمد و رفت جاری رہی۔ مذکورہ اطراف میں تفرقے اور انتشار کے دیگر بہت سے معلوم حادثات نے شہر کے لوگوں کو متاثر کیا۔ اس سال کی تاریخ ان الفاظ سے نکالی گئی ’’ قہر مردم کشمیر‘‘ (1736/1159) 1747/1160میں غلہ موجود ہوتے ہوئے بھی مصنوعی قحط رونما ہوا۔ ایک ڈھیر دھان کا نرخ چھ سات روپیہ تک پہنچ گیا۔ اسی صورت حال میں اوائل جمادی الاول میں ایک دن خدائی قہر کی آندھی چلنے لگی۔ دوپہر سے غروب تک ہوا کی تیزی، گرد و غبار کی کثرت اور تاریکی برسانے والے بادل کے غلبے کے سبب دنیا میں اندھیر اچھا گیا جس سے اہل عالم پر عجیب حالت گزر گئی۔ ابھی اس حالت کو آٹھ دن بھی نہ گزرے تھے کہ بے موسم کی بے پناہ بارش کے سبب مسلسل سات آٹھ روز تک چھاجوں پانی پڑا اور اس نے اس قسم کا طوفان کھڑا کیا اور ایسی آفت و بلا نازل کی کہ ماضی کی اموات کا دسواں حصہ بھی کسی کو یاد نہیں۔ نظم: دلم از غیرت آشوب طوفان شدہ گریان چو ابر نو بہاران برنگی کرد چشمم خون فشانی کہ گردیدہ نگاہم ارغوانی ندیدم فرش غیر از چادر آب بجامی حلقہ در بود گرداب گرفتہ آب از ماہ تا بماہی جہاز آسمان گشتہ تباہی 1میرا دل آشوب طوفان کی غیرت کی بنا پر ابر نور بہار کی مانند رویا 2میری آنکھوں نے کچھ اس طرح خوں فشانی کی کہ میری نگاہ ارغوانی ہو گئی۔ 3 میں نے پانی کی چادر کے سوا کوئی اور دری وغیرہ نہیں دیکھی۔ دروازے کے حلقے کی بجائے بھنور موجود تھا۔ 4 پانی نے چاند سے لے کر مچھلی تک یعنی آسمان سے زمین تک قبضہ کر رکھا تباہی آسمان کا جہیز بنی۔ تین ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مکان سیلاب کے باعث ویرانی کا شکار ہو گئے۔ شہر کے اکثر پلوں کو نقصان پہنچا اور فصلیں اور غلات تباہ ہو گئے۔ ساگ پات اور پھلوں کا تو ذکر ہی کیا زمانے کے خود غرضوں اور ذخیرہ اندوزی کے دستر خوان کے پیٹوں کی بے رحمی اور سنگ دلی کے نتیجے میں فصلوں کی قلت کے بہانے سے غلات کے نرخ کی زیادتی کی سوزش بہت بڑھ گئی۔ تاہم اس کار ساز پروردگار کی قدرت کاملہ اور فضل شاملہ اور اس خالق کے لطف و کرم سے اور لوگوں کے وہم و گمان کے برعکس نمایاں برکت جلوہ گر ہوئی۔ اس حد تک گرانی ایک آفت تھی سو الحمد للہ ثم الحمد للہ ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہم پھر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اہل کمال اور اصحاب حال کا ذکر: (جو ان چند سالوں میں1150ھ بعد سے انتقال فرما گئے) خواجہ محمد صادق متوی نقشبندی: حضرت خواجہ ملا حسین خباز کے خاندان کے خلفا میں سے ہیں۔ ایسے عزیز جو طویل العمر متشرع اور متورع صاحب باطن اور ظاہر میں خوش گذر بسر کرنے والے تھے۔ انہوں نے بدعتوں وغیرہ کے مٹانے میں جدوجہد فرمائی۔ خواجہ محمد شفیع ککو سہروردی: حضرت آخوند ملا طیب سے نسبت یافتہ موحد کیش واقف معارف اور نمایاں احوال کے مالک تھے۔ خواجہ اسماعیل چشتی کے مزار سے متصل آسودہ خاک ہوئے۔ مولانا ابو الفتح بن عارف بن مولانا احمد کافی: عامل کامل عالم تھے۔ بزرگواری و عظمت کے باوجود بڑی خاکساری اتباع سنت اور بدت سے اجتناب میں اپنی مبارک عمر بسر کی ہو اور ہوس کی طرف مائل نہ ہوئے۔ ترک کل اختیار کیا فنا کے رنگ ان کے نور افزا چہرے سے ظاہر تھے۔ اول شیخ محمد چشتی کی خدمت میں پھر شیخ محمد مراد متویٰ نقشبندی کی صحبت واردات میں بامراد ٹھہرے اور وہیں استقامت حاصل کر کے ہر شے سے منہ موڑ لیا۔ جب تک رہے۔ غایت احتیاط تقویٰ پیروی سنت وضیع و شریف کے ساتھ حسن سلوک اور رفع پندار میں رہے۔ علم یقین اور توحید کے پردے میں آثار وجود کی نفی کرتے رہے۔ چھ محرم17/1149مئی 1736کو وہ مقبول آفاق نماز اشراق سے فراغت کے بعد کمال ذوق شہود کے ساتھ رحلت گزین ہوئے۔ رحمتہ اللہ علیہ۔ بابا محمد مہدی سہروردی: بابا عبداللہ کے خلفا میں سے تھے۔ طویل عمر پائی۔ بیشتر وقت مرشد کی خدمت میں ریاضت میں بسر کیا۔ مرشد کی وفات کے بعد خود شرع و تقویٰ کے ساتھ استقامت اختیار کیے رہے۔ کتاب سے آشنائی حاصل کی۔ کمال ہمت کے ساتھ آثار سنت اور اسلاف کے اطوار کی پیروی کرنے والے تھے جہاں کہیں بھی جاتے ایک مسجد تعمیر کر دیتے اس سلسلے میں تبت بھی گئے۔ آزاد وضع اور امر معروف کی طرف راغب تھے۔ ایک مدت تک بارہ مولہ سکونت پذیر رہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لاتے رہے۔ تجرید و تفرید میں اپنے ہم عصروں سے بڑھ کر تھے۔ آخر کار راقم حروف کی تحریک پر شہر چلے آئے اور محلہ اندر واری میں گوشہ نشین ہو گئے۔ بے تکلفی میں ایک عمر بسر کی۔ سو برس کے قریب بلکہ اس سے زیادہ عمر پائی۔ یکم ماہ ذیعقدہ سنہ 1739/1151کو رحلت فرمائی۔ وہیں محلہ سعد عبداللہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ عبدالرشید مانتجو: حضرت خواجہ عبدالرحیم مانتجو قادری خاندان سے ہیں۔ ظاہری علم سے بہرہ ور ہوئے۔ مرشد بزرگوار کے فیض صحبت سے حقائق و اسرار سے بھی بہت زیادہ بہرہ اندوز ہوئے۔ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اور بد گوئی سے دور زندگی بسر کی۔ مہذب الاخلاق اور محمود الاسلاف تھے۔ اسلاف کی وضع سے آشنا تھے۔ اسی برس سے زیادہ عمر پائی۔ شیخ عبداللہ المعروف بابہ بایوی دیدہ مری: صاحب ریاضت تھے۔ جناب حاجی بہرام کامراجی سے فیضان نظر پایا۔ بلکہ کچھ عرصہ ان کی بابرکت خدمت میں ریشیوں کے طریق کی کوشش کی۔ حضرت سید احمد قدس سرہ کے آستانے میں جو شیخ داؤ بتہ مالو کی خانقاہ کے آگے ہے۔ انہوں نے بڑی آمد و رفت رکھی کہتے ہیں کہ سید بزرگوار کی روحانیت سے آہستہ آہستہ بہرہ مند ہوئے اور ظاہر اور باطنی کام احتیاط سے انجامد یتے۔ تجرید و تفرید اور نشاء توحید میں نیز ترک و ریاضت اور عدم اختلاط میں وہ گویا قدما کا نمونہ تھے۔ کبھی کبھار تصرف کونی کے آثار بھی ان کے اطوار سے منصہ شہود پر آ جاتے ہیں۔ ورع و پرہیز گاری اور شرع پر عمل میں عجیب شان کے مالک تھے۔ بابا ابو الفتح کاتلی: حضرت میاں محمد امین ڈار کی صحبت واردات کے بہرہ مندوں میں سے ہیں۔ ایک عمر سفر و حضر میں ان کی خدمت میں بسر کی۔ آنجناب کی رحلت کے واقعہ کے بعد بڑی زندگی پائی تقویٰ ورع توکل اور قناعت میں زندگی بسر کی۔ حضوری و آگاہی کے تربت سے بہت بہرہ ور تھے۔ آزادہ وضعی وسیع خلقی اور بد گوئی سے دوری ان کی ذات بابرکت کا حصہ بن چکی تھی۔ کوئی نوے برس اسی طور بسر کیے۔ خوب تھے، اور خوب گذری۔ حضرت خواجہ نور الدین محمد آفتاب نقشبندی قدس سرہ: ولد جناب خواجہ نظام الدین بن حضرت خواجہ اشرف الدین بن حضرت خواجہ معین الدین یکی می رود دیگر آید بجامی (ایک جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ آ جاتا ہے) ان خواجہ نے آغاز شباب ہی سے ہر باب میں کمالات کے حصول کی توفیق پائی۔ علوم دینی سے بہرہ مند ہوئے۔ باطنی اشغال اور معنوی و ظائف کی تعلیم نیز طالبوں کی رشد و ہدایت کی اجازت جناب حضرت خواجہ احمد یسوی سے حاصل کی۔ اپنے ہم عصروں میں انہیں مکمل امتیاز حاصل تھا۔ والد بزرگوار کے سفر کے وقت خانقاہ حضرات کو زینت بخشنے والے بنے۔ اس کی تاریخ یہ ہے: شدہ از نور مظہر خواجہ عرصہ خانقاہ چون گلشن ہاتف از بہر سال ارشادش گفت ’’دل آفتاب، دین روشن‘‘ 1725/1138 =خواجہ کے نور مظہر سے خانقاہ کا صحن گلشن کی مانند ہو گیا۔ =فرشتہ غیبی نے ان کے رشد و ہدایت کے سال کے لئے کہا ’’ دل آفتاب، دین روشن‘‘ پھر روز بروز انہیں استقامت میسر آتی چلی گئی۔ انہوں نے ضبط اوقات اور توفیق طاعات سے مسلک عالیہ کے لوازم پورے کرنے کی کوشش فرمائی۔ ان کی باطنی ترقیاں روز بروز بڑھتی گئیں ان حالات کے باوصف شغل کتاب عمر شریف کے آخر تک جاری رکھا۔ صحیح معنوں میں خواجگان عالیشان کے آثار میں اسے اور ان کے انور ا کا تتمہ تھے۔ اس مسلک کا شجرہ ان کی کثیر البرکات ذات سے پر ثمر اور اس سلسلے کا سر رشتہ ان کے وجود مسعود سے مضبوط بنا۔ 1675/1086میں پیدا ہوئے اور 1743/1156بہتر برس کی عمر میں رحلت کر گئے۔ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس خاندان عالی شان پر چشم بد کسے سبب کیسی کیسی آفتیں ٹوٹ گئیں۔ اس شہر فضل و کمال کی تاریخ پر کہے گئے اشعار میں سے آخری شعر درج کیے جاتے ہیں۔ تاریخ: رفت آن سالار ملک معرفت در رکابش صد ہزاران فوج دل کشتی چشم جہان پر آبی است در عزایش این بود یک موج دل اعظم از ذرہ کم تاریخ یافت ’’بود خواجہ آفتاب اوج دل‘‘ 1156ھ 1ملک معرفت کے وہ سالار چلے گئے۔ ان کے ہمرکاب دل کی لاکھوں فوجیں گئیں۔ 2دنیا کی آنکھوں کی کشتی پانی سے بھری پڑی ہے۔ ان کے ماتم میں یہ ایک موج دل ہے۔ 3 ذرے سے بھی کم حیثیت والے اعظم نے تاریخ نکالی ’’ بود خواجہ آفتاب اوج دل‘‘ (خواجہ اوج دل کے آفتاب تھے۔ ’’ آفتاب راشد کسوف/‘‘ (سورج گہنا گیا) بھی تاریخ ہے۔ جو ملا عبدالسلام دت سے نکالی۔ شیخ محمد پارسا: صاحب فقر و فاقہ، تارک سوال اور مستغنی تھے۔ پرگنہ کویہامون کے موضع پایہ چہن میں مدفون ہیں۔ شیخ محمد فاضل زوینمری: شیخ داود خاکی کے جن کا ذکر گذر چکا ہے۔ خلف شیخ محمد پارسا کے خلیقہ شیخ محمد یعقوب جچہ بلی کے بھتیجے اور ان کے وارث بھی تھے۔ شیخ محمد غازی کے بیٹے شیخ محمد موسیٰ کے فرزند تھے۔ تقویٰ سے پوری طرح آراستہ تھے۔ 1737-8/1150میں فوٹ ہوئے۔ محلہ زوینمر میں اپنے گھر سے متصل مقبرہ ثانی میں مدفون ہیں۔ اللہ کی ان پر رحمت ہو، وسیع رحمت۔ خواجہ نور اللہ: معروف بہ دلو یہ (دلو) اہل کشمیر کا ایک معروف قبیلہ ہے ایسے عزیز جو ظاہری اور باطنی کمالات سے آراستہ تھے۔ نادر علوم اور شعر و سخن میں اپنے ہم عصروں میں بڑے صاحب امتیاز تھے۔ اکثر علوم ملا ابو الحسن اور ملا عبدالصبور راونیز ملا عزیز اللہ چہو کی خدمت میں حاصل کیے۔ جب کہ فصوص عرفان مرتبت شاہ ابو البرکات سے پڑھی اور ان کی صحبت کی برکات سے انہیں تصوف کے بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ حال کے غلبوں میں توحید و خودی کے مشرب سے بہرہ وری کے معاملے میں وہ شاہ ممدوح کے قدم بقدم چلے۔ زندگی کا بیشتر حصہ آراستگی حسن معاشرت اور مکمل استغنا میں بسر کیا۔ قادریہ فرقے سے نسبت کے باوجود حضرت اخوند ملا نازک کے نسبت یافتہ حضرات سے بھی نقشبندی سلسلہ شریفہ کا فیض حاصل کیا۔ تصوف میں باطنی راہ پر بڑے ذوق و شوق سے چلے۔ اس وجہ سے مظاہرہ جمیلہ پر بھی توجہ فرماتے اور اس سے بہت بڑا حصہ بھی پایا۔ حاجی محمد صادق: جوانی میں حضرت شیخ محمد چشتی کی مریدی سے بامراد ہوئے اور ان کی عنایت کے منظور نظر ٹھہرے۔ سلوک کی چند منزلیں طے کرنے کے بعد اپنے مرشد بزرگوار کے ہمراہ حرمین شیریفین گئے اور مناسک حج ادا کیے۔ اس سفر کے دوران قدوۃ الاولیا (ولیوں کے پیشوا) حضرت شیخ محمد علی رضا سرہندی کی خدمت عالیہ میں پہنچے اور ان کے انوار کثیر سے بہرہ اندوز ہوئے۔ واپسی پر اپنے پیر بزرگوار کو بقید حیات پا کر شب و روز ان کی اطلاعت کی راہ رضا پر چلے۔ آنجناب کی وفات کے بعد بقیہ عمر استقامت توکل اور شریعت و طریقت پر ثابت قدمی میں گذاری۔ چھیاسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوئے اپنے اسلاف کے مزار میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان حضرات کے علاوہ اس دور میں جو دوسرے عزیز بر سر کار رہے: میر محمد سلطان قاضیـ: خلف قاضی مقیم، عقلی و نقلی اور منقولہ علوم کے جامع تھے۔ مشرب صوفیہ سے پورے طور پر بہرہ ور ہوئے۔ا وضاع و اطوار کی کمال آراستگی سے فناو نیستی کے آثار کو اپنا شعار بنائے رکھا اور کشمیر ہند اور ولایت (ایران) کے اکثر بزرگوں سے فیض نظر پایا۔ حضرت خواجہ عبدالرحیم نقشبندی کی خدمت میں جو حضرت بابا شاہ مسافر سے نسبت یافتہ حضرات میں سے تھے، ارادت حاصل کی۔ آخری سفر میں شاہجہان آباد میں فوت ہوئے۔ میر محمد اسماعیل: جوانی میں خدا پرستی کا ذوق پایا اور حضرت مولانا میر محمد شریف کی نظر سے فیض یاب ہوئے جب بخارا سے چلے تو پشاور آ کر ایک مدت رہے۔ جہاں شاہ عباس کو نری کی جو بڑے اولیا میں سے تھے۔ خدمت میں سلوک کی منزل طے کی اور ان کے حکم پر کشمیر کی طرف توجہ فرمائی۔ وہاں بھی اپنے وقت کے بزرگوں سے استفادہ کرتے رہے ۔ کچھ اوپر اسی برس کی عمر میں1740/1153 میں فوت اور اپنے ہی صحن میں دفن ہوئے۔ حافظ احمد بارہ مولی: اکبر آباد (آگرہ) گئے۔ جہاں میاں عنایت اللہ درویش کی خدمت سے بہرہ ور ہوئے۔ اور کشمیر لوٹ آئے۔ اپنے مسلک پر استقامت اختیار کر کے صاحب کشایش ہوئے اور بہت سے لوگوں کو روحانی فیض پہنچایا۔ عمر سلوک و معرفت کے کام میں بسر کی۔ ستر اسی کے پیٹے میں تھے۔ جب فوت ہوئے۔ میر قاسم احمد اکدلی: ایک معمر عزیز جنہوں نے سو برس سے زیادہ عمر پائی۔ صالح خان جیو کے صحبت داروں اور مصاحبوں میں سے تھے۔ ساری زندگی آراستگی اور توکل میں بسر کی۔ شیخ الرحیم کبروی: میر محمد مرا دپوشہ تنکو سے نسبت یافتہ تھے۔ ایسے عزیز جو صاحب تفرید و تجرید اور عتیق اللہ کے خادم روحانیت سے آشنا اور عالی ہمت تھے۔ کوئی ستر برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ عبدالنبی لنگر: ہاشم بابا پلو سے نسبت یافتہ، صاحب ذوق، توحید میں معرفت سلوک اپنائی۔ کئی لوگوں کی ہدایت و رہبری کی۔ اکثر وجد و حال میں غرق شوق اور مغلوب ذوق ایک عمر توکل میں بسر کی کچھ اوپر ستر برس کی عمر میں رحلت فرمائی۔ گھر کے قریب ہی آسودہ خاک ہوئے۔ بابا عبدالباقی کبروی: خلف بابا محمد صفی عالی ہمت احتیاط ریاضت والے اور اصحاب غیرت میں سے تھے۔ چھوٹی عمر ہی میں سجادہ نشین ہوئے۔ شاہ حسین پکلی کی صحبت با برکت سے فیضیاب ہوئے۔ علوم دینی سے پورے طور پر بہرہ مند ہوئے۔ ورع و تقویٰ کی راہ پر پورے طور پر چلے۔ عین جوانی میں مسافرت اختیار کی۔ صاحب توکل تھے۔ ایک مرتبہ حضرت امیر کبیر کے مرقد منور کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن راستہ بند ہونے کے سبب کابل ہی سے لوٹ گئے۔ پھر حرمین محترمین کی راہ لی حج ادا کیا مدینہ منورہ کی زیارت کی اور سات برس بعد واپسی فرمائی پچاس برس کے ہوئے تھے کہ ان کی زندگی کی مدت پوری ہو گئی۔ حضرت شیخ بابا والی قدس سرہ کے احاطے میں دفن ہوئے۔ شیخ محمد قائم یسوی: قاضی شاہ دولت سے نسبت یافتہ ہیں۔ ایسے عزیز جو عالم معرفت میں عامل اور ریاضت کے عادی تھے۔ تحصیل علوم سے فراغت کے بعد راہ حقیقت کے سلوک میں کمر ہمت باندھی اور رسمی قیود سے کلی طور پر آزاد رہے۔ جب تک رہے ذوق و شوق میں غرق رہے۔ کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی روحانی تپش سے دور نہ رہے۔ صلاح و تقویٰ میں بھی صاحب بینش اور پروردگار کے برگزیدہ حضرات میں سے تھے۔ ستاون برس کی عمر میں رحلت کر گئے۔ ’’ شیخ محمد قائم1740/1152‘‘ ان کی تاریخ وصال ٹھہری مغل مسجد میں دفن ہوئے۔ حضرت مرشد مراد کے قدیم ارادت مندوں میں سے تھے۔ آغاز شباب میں ارباب دانش کے ان پیشوا کی جناب میں پہنچے اور خانہ داری ترک کی۔ آنحضرت کے ہمرکاب جو دوسرے سفر میں سرہند جا رہے تھے۔ مسافرت اختیار فرمائی۔ پھر ساری عمر حضرت مرشد کی خدمت و صحبت سے سعادت حاصل کرتے رہے۔ آنحضرت کے حکم سے نو مرتبہ تفرید و تجرید کے عالم میں سرہند گئے۔ ان بہت سے بزرگوں کی زیارت کی جو اس وقت رشد و ہدایت کی مسند کو آراستہ کئے ہوئے تھے۔ اور سب کے منظور نظر ٹھہرے۔ ان جیسی عالی ہمت ذات کم ہی دیکھنے میں آئی جو اپنے پیر بزرگوار کی عقیدت و فدویت میں ثابت قدم ہو جو فنا و نیستی نیز خاکساری میں کامل ہو۔ اور ان حضرات کی اجازت کے باوجود شیخ کا پٹا گلے سے نہ اتارا ہو۔ تقریباً نوے برس اسی حال میں بسر کئے ماہ ذی الحجہ پچپن ہجری (یعنی1743/1155) میں رحلت فرمائی۔ مولانا یوسف ترکی کے فیض آثار مزار کے روبرو دفن ہوئے۔ شیخ عبدالرشید: میرے مرشد حضرت مراد قدس سرہ کے فرزند ارجمند۔ آغاز جوانی میں ریاضتوں کی پابندی سے طلب ربانی کی اور کمالات حاصل کیے اپنے والد ماجد کی خدمت سے طریقت کے فیوض حاصل کرنے کے بعد غلبہ شوق سے مسافرت اختیار کی اور مرشد اعلیٰ کی خدمت میں چلے۔ جنہیں انہوں نے سرہند میں پایا۔ وہاں بھرپور خدمتگاری اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور عالی حضرت کی مکمل خوشنودی حاصل کر کے لوٹ گئے۔ کوئی دو برس گذار کر مرشد آفاق کی طلب کی خواہش میں پھر ہندوستان کا رخ کیا۔ اس مرتبہ شاہجہان آباد میں ان قطب رشد و ہدایت سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ دو سال سے زیادہ کا عرصہ حضور سراپا نور سے بہرہ ور ہوئے۔ اسی اثنا میں اہل کمال کے ان پیشوا کے وصال کا واقع پیش آ گیا۔ حضرات اہل بیت کے ایما پر نعش مبارک کو سرہند لے گئے۔ تدفین کی خدمت انجام دے کر واپس دہلی حضرات کی جناب میں پہنچے۔ اور ان کی اجازت سے وطن مولوف کو لوٹ آئے اور جہاں طالبوں کو فیض و فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ فرمائی۔ شدید امراض اور قدیم و جدید تفکرات کے باوجود ان پر وارد ہوتے رہے۔ وہ جادہ استقامت پر ثابت قدم رہے۔ جب ان کی عمر چون برس سے زیادہ ہوئی تو اسی شدت امراض میں حج اسلام اور سیدانام علیہ الصلوۃ والسلام کے روضہ کے طواف کے ارادے سے کمر ہمت مضبوطی سے باندھ کر روانہ ہو گئے کچھ عرصہ سرہند اور دہلی میں گذار کر ملتان کے راستے روانہ ہوئے اور حج ادا کیا۔ ان حدود میں بھی کئی لوگوں کو راہ ہدایت دکھائی اور ہندوستان کو لوٹے شاہجہان آباد میں تھے کہ امراض نے غلبہ کیا۔ چنانچہ شب معراج نبوی 27رجب1155نومبر1742کو رحلت کر گئے۔ استعداد کی کان اور ادراک کا شعلہ تھے۔ تقدیر کا کرنا کہ مرض نے سب کچھ کیا جو کیا۔ مولوی حاجی محمد: ملا طاہر غنی کے بھتیجے ہیں۔ عالم، عامل اور فاضل و کامل تھے روحانی اردت مرشدی مرادی (میرے مرشد میری مراد یعنی میرے مرشد مراد) کی جناب میں حاصل کی۔ کچھ عرصہ تک سلوک کے ضروری مراتب طے کیے۔ روحانی اوقات کے تحفظ کے بعد دن کے دوپہر ڈھلے معقولات اور منقولات کی تدریس میں مشغول رہتے۔ روزی کے سلسلے میں اکثر امور معاش میں پوری احتیاط برتتے۔ ابھی ان کی عمر شریف ساٹھ تک نہ پہنچی تھی کہ انہوں نے ملک بقا میں اقامت کا پرچم لہرا دیا۔ اپنے دور کے علما میں اکثر اطوار کے لحاظ سے ممتاز و مستثنیٰ تھے۔ ان کی وفات ہفتہ کی رات کو11ء (کذا) میں ہوئی۔ میر عبدالوہاب منور آبادی: میر محمد ہاشم کے جن کا ذکر گذر چکا ہے۔ خلف الصدق تھے۔ عالم دانش و بینش متورع اور متشرع تھے۔ ایک زندگی ’’ قال اللہ و قال الرسول‘‘ (اللہ نے کہا اور رسولؐ نے کہا) کے پیشے میں بسر کی۔ حضرت مرشدی مرادی کی بڑی بیٹی ان کے نکاح میں تھی۔ اسی سے زیادہ کی عمر پائی۔ 11ء (؟) میں صلاح و ہوش کے عالم میں وفات پائی۔ ملا زین الدین: خواجہ عبداللطیف کے فرزند امجد جو خواجہ زین الدین علی کے جن کا ذکر گذر چکا ہے، پوتے تھے۔ فاضل و کامل اور نکتہ طراز تھے۔ اور تیزی ذہن، باریک بینی، ذکا، سخاوت، علو شان اور حسب و نسب کے لحاظ سے فضلائے عصر میں ممتاز تھے۔ صلاح و تقویٰ اور قناعت میں پوری آراستگی کے مالک تھے۔ شعر و انشا میں فصاحت کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں سے گوے سبقت لے گئے۔ امور معاش میں پوری احتیاط سے کام لیتے۔ صاحب ذکر و فکر تھے۔ سن شریف باون کو پہنچا تو جگری اسہال کے مرض میں وفات پائی۔ 1125(1152؟) میں کوئی بیس ہزار افراد ان کے جنازے میں شریک ہوئے محلہ رانیواری میں واقع اپنے جد امجد کے فائض الانوار مزار میں مدفون ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی مشائخ فضلا اور فصاحت نشان شعرا اس دور میں رحلت گزین ہوئے۔ محمد اشرف یکتا: کم گو اور بدیہہ گو تھا۔ یہ شعر اسی کا ہے: درمیان این ہمہ ارباب شعر شعر اگر کم بود یکتا کم نگفت (ان تمام ارباب شعر کے یہاں شعر اگر کم تھا تو یکتا نے کم نہیں کہا) نیز لطف اللہ بیگ اور ان جیسے دوسرے شعرا کہ سبھی ملا ساطع اور محمد رضا مشتاق کے تربیت یافتہ ہیں۔ ان سب کا الگ الگ ذکر طوالت کا باعث ہو گا۔ در حقیقت اجمال کی حامل اس کتاب میں اہل کمال کے گروہ کا جو ذکر قلم سراپا انتشار سے قائم ہوا ہے۔ وہ نمی میں سے محض ایک قطرہ ہے۔ وگرنہ ہر ہر صدی میں اندرون شہر اور بیرون شہر ارباب فنون کے وجود سے پر رہا جو کچھ بھی (اس کتاب میں) لکھا گیا ہے وہ سب اپنی اطلاع و علوم کے مطابق ہے۔ اسی قدر افراد سے متعلق اور اشخاص پر منحصر نہیں ہے (؟)۔ اس غیرت فطرت اعجوبہ کی تحریر کا باعث یہ ہوا کہ جناب سیادت مرتبت اور فضائل منزلت میر محمد یوسف المعروف خواجہ پادشاہ نقشبندی و کبروی نے جنہوں نے 1735-6/1148میں کشمیر کو اپنے وجود سے آراستہ فرمایا۔ مملکت ہند کے بعض بڑوں کے سامنے اہل کشمیر سے عقیدہ کمال کے چھن جانے کی بات کی۔ دو تین دیگر عزیزوں نے حسب دستور ہند اور ایران کے عقیدے کا اظہار کیا۔ اگرچہ جناب خواجہ (اللہ انہیں عظمت دے) گنتی کے ان چند حضرات کے جو بقایائے اسلاف میں سے اور بر سر کار (معرفت) تھے۔ احوال کا مسائنہ اور گذشتہ حضرات (کے مزارات) کے زیارت کر کے اور ان کے حالات سن کر کشمیر کے ظاہری و باطنی اہل کمال کے کمال عقیدہ سے معترف ہو گئے۔ اور لاہور میں انہوں نے وہاں کے عزیزوں کے سامنے یہ باتیں خوب خوب باین کیں۔ تاہم راقم کی رگ غیرت پوری حیرت کے ساتھ پھڑک اٹھی۔ چنانچہ عجلت سے کام لیتے وہئے اسی وقت صاھبان کمال کے احوال پر مشتمل دلبند تربیت کے سات چند ورق لکھ ڈالے اور تاریخ نگاری کی ترتیب کی نگہداشت اور سر رشتہ احوال گذاری کے تحفظ کی خاطر ہر دور کے سلاطین و احکام کے حالات کو ضبط تحریر میں لانا ضروری جانا۔ خیال تھا کہ ان اہل کمال عزیزوں کا ذکر بھی جو ان چند برسوں میں رحلت فرما گئے۔ احوال گذشتگاں کے ساتھ ہی ہو جائے اور کتاب کا اختتام ان حضرات کی تعداد پر ہو جو آج علم و عمل کے گھر کا چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے: عالم و عالم شیخ رحمت اللہ نکتہ طراز کامل ملا محمد مقیم ظاہری اور باطنی علوم کے جامع اور کامل و مکمل شیخ السلام مولانا عبدالسلام المعروف وکیل ظل سبحانی اور فقیہ و فاضل ملا ابو الو فا مفتی وغیرہ نیز ہر سلسلے کے درویش جو اس وقت رشد و ہدایت کی مسند کو آراستہ کیے ہوئے تھے اور حضرت جناب اخوان عبدالسلام صاحب علیہ الرحمہ جن کی وفات گذشتہ برس18ماہ شوال کو ہوئی۔ پوشیدہ نہ رہے کہ جب قلم اس مقام پر پہنچا تو راقم حروف ایک سخت مرض میں مبتلا ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں انتہائی کمزوری نے آ لیا اور یوں ان خبروں کے تذکرے کی فرصت نہ ملی۔ چنانچہ اسی حال پر کتاب کے اتمام کو غنیمت جانا اور اس شہر کے خصائص کو جو کتاب کی ترقی سے پہلے تحریر ہو چکے تھے، خاتمہکے ذیل میں ساتھ ملا دیا۔ یہ کتاب تحریر کرتے وقت حوالے کی جو کتابیں زیر نظر رہیں۔ ان کی تفصیل یوں ہے۔ تاریخ سید علی، تاریخ رشیدی از میرزا حیدر منتخب التوریخ از حسن بیگ تاریک حیدر از ملک چادروہ ریشی نامہ حضرت بابا نصیب درجات سادات از خواجہ اسحاق نیز اسرار الابرار از بابا داؤد مشکواتی اور تحفتہ الفقر حضرت مرشدی مرادی کے رسائل ماثر عالمگیری از مستعداد خان اور دو ایک دوسری تاریخیں جو بعض متاخرین نے وسط عہد عالمگیر میں تصنیف کیں۔ خاتمہ کشمیر کے بعض عجائب و غرائب کا ذکر اور اس خطہ دلپذیر کے پرگنہ جات کے احوال اگر قدیم کتب میں کشمیر کے عجائب و غرائب اور احوال کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے تاہم جو کچھ تحقیق ہوا۔ اس میں سے کسی قدر یہاں لکھنے کی جرات کی جاتی ہے۔ زمانے کے نوادر میں سے ایک نادر بات جو تحریر کے موقع پر اس فقیر کے دل میں آئی۔ وہ یہ کہ شرع کا مبارک لفظ اور کشمیر کے عدد یکساں ہیں (یعنی570) بلا شبہ شرعی امو کی طرف دھیان ملک ماوراء النہر کے بعد دوسرے بلاد کی نسبت اس شہر میں زیادہ ہے۔ پھر امن و امان کے بارے میں جو اس شہر کا خاصہ تھا۔ اظہار کی ضرورت نہیں۔ کوئی اکیلا شخص روپیہ اشرفی کے لئے کشتواڑ کی حدود سے پکلی کے نزدیک تک کا راستہ بلا خوف و خطر طے نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس قناعت قسمی کے باوصف جو اس شہر میں تھی۔ غلات کی ارزانی دوسرے شہروں کی نسبت کمتر بتاتے ہیں۔ نیز یہاں کی طراوت یہاں کے مکانات اور آب و ہوا کی تازگی جو مسافر اور مقیم سب کے لئے فرح بخش ہے۔ کوئی کہاں تک بیان کرے ان چشموں کے بارے میں جو جگہ جگہ جاری ہیں۔ کس حد تک کوئی لکھے ان میں سے ایک چشمہ موضع کرمشور پرگنہ اچھ میں ہے۔ جو دو بڑے حوضوں تار سر اور مارسر کے نزدیک تالاب کی صورت ہے۔ اور اس کی گہرائی کسی کو معلوم نہیں کہتے ہیں کہ گذشتہ ادوار میں لوگ اردی بہشت کے مہینے (اپریل) کے شروع میں کہ زراعت کا موسم ہے۔ گانے بجانے کا ساز و سامان لے کر وہاں چلے جاتے اور چشمے کی تعریف میں مصروف ہو جاتے۔ نیز ایک بکرا ذبح کر کے کھانے پینے کا سامان کرتے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد چشمے سے پانی مانگتے۔ ادھر وہ استدعا کرتے اور پانی جاری ہو جاتا جس وقت وہ پانی سے بے نیاز ہو جاتے تو پھر اسی طرح جا کر کہتے کہ پانی کافی ہے تو چشمہ پردہ اخفا میں چلا جاتا۔ جن دو حوضوں کا ذکر ہوا ہے وہ عجائب روزگار میں سے اور پہاڑ پر واقع ہیں۔ کم ہی کوئی وہاں پہنچا ہے۔ اسی طرح بومہ ہامہ پرگنہ و نسو میں ایک پہاڑ ہے۔ وہاں کنکہ واری نام کی ایک جگہ ہے۔ جس کے اطراف میں دو دو تین تین میل تک پانی قطعاً نظر نہیں آتا۔ قضا و قدر کے خالق اور خیر و شر کے مالک کی تقدیر سے ماہ ثور کی پانچ تاریخ کو اس پہاڑ کے پہلو میں پانچ پن چکیاں جاری ہو جاتی ہیں وہاں زندگی ممکن نہیں ہے پھر اسی پرگنہ میں نواحی شہر ہاکرو نام کا تالاب ہے۔ اس تالاب کے درمیان چند جزیرے واقع ہیں۔ جو مویشیوں کی چراگاہ ہیں۔ جب بھی تیز ہوا چلتی ہے تو وہاں کے لوگ ان جزیروں کو کشتیوں کی طرح متحرک پا کر یکدم اپنے حیوانات کو خشکی کے راستے سے جو دو میل لمبا ہے۔ اپنے گھروں میں واپس لے آتے ہیں۔ پرگنہ بانکل میں بارہ مولہ کی طرف پنوچ کے راستے میں کوری مرگ نام کا ایک ہموار قطعہ زمین ہے۔ وہاں پچیس رنگ کے پھول جو ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہیں ایک رواں پانی کے نالے میں پائے جاتے ہیں جب کہ سات میل شرعی کے فاصلے پر خوشعی کے آخر میں اور پوشہ مرگ (یا گل مرگ) کی طرف اس سے بھی اچھی اور زیادہ کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہر ایک کے الگ الگ اور صاف لکھنے کے لیے ایک کتاب درکار ہے۔ پرگنہ سالیمو ضع پائین میں شہاب الدین پورہ کے نزدیک دریا کے کنارے ایک چنار زار ہے۔ اگر ہزار آدمی وہاں سارا دن رہیں اور شام کو ہر کوئی اپنے اپنے گھر چلا جائے، تو بھی صبح سویرے وہ جگہ یوں پاکیزہ و مصفا دکھائی دیتی ہے جیسے وہاں جھاڑو دیا گیا ہو۔ پرگنہ لار میں نگنو پہاڑ پ رایک خوفناک کتا (کتیا) موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ماہ فروردین کی ہر دسویں تاریخ کو (30مارچ) اس کے ہر تھن سے پانی جاری ہونے لگتا ہے جب تک کہ وہ سنگ (سگ؟) پر آب نہیں ہو جاتا ۔ اور اگر دس ہزار آدمی وہاں سے (پانی) لے لیں تو اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایک شب و روز معاملہ ایسا ہی رہتا ہے، اس کے بعد بارہ مہینے خشک اور خالی رہتے ہیں۔ اس پرگنہ میں پہاڑ پر، جناب شمال، ایک ندی بہہ رہی ہے۔ اس کا نام اوتر کیک ہے۔ اگر کبھی اتفاق سے موسم گرما میں گائے یا مرغ کا گوشت پکا لیں تو برف اس حد تک پڑتی ہے کہ چالیس ہزار آدمی برف کے نیچے دب جاتے ہیں۔ اسی پرگنہ میں ہرمک نامی ایک بلند پہاڑ ہے جہاں تک بھی چوٹی دکھائی دیتی ہے سانپ اور بچھو نظر نہیں آتے، جب کہ اس کی وادی کے نیچے سانپ اور بچھو بہت ہیں۔ جہاں چوٹی نظر نہیں آتی وہاں اس پہاڑ پر چڑھا ممکن نہیں ہے کیونکہ عبور کرتے ہی سرخ بھڑیں اس کثرت سے ظاہر ہو جاتی ہیں کہ چلنے والے کو ہلاک کر ڈالتی ہیں۔ پرگنہ کامراج میں ایک بلند پہاڑ ہے۔ اس پہاڑ کے درخت اور گھاس تمام دودھ ہوتے ہیں۔ سات برس بعد اگر کوئی آدھا گز زمین کھودے تو آگ کا شعلہ نکلتا ہے جس پر کھانا پکایا جا سکتا ہے۔ پرگنہ دیوہ سر میں بیالو نام کا ایک چشمہ ہے جس پر لوگ بہار کے موسم میں اپنی طالع آزمائی کے لئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مٹی کے برتنوں کو چاولوں سے بھر کر ان پر اپنا نام لکھتے اور اس چشمے میں ڈال دیتے ہیں اسی روز ایک گھنٹے کے بعد وہ برتن پانی کی سطح پر آ جاتے ہیں جس کسی کا ستارہ منحوس ہوت اہے ویسا ہی اس کا کھانا باہر آ جاتا ہے۔ تبت کی سرحد کے نزدیک، پرگنہ و چہن پارہ کے موضع بابل میں پہاڑ پر امر ناتھ نامی ایک غار ہے۔ اس غار میں ایک چشمہ ہے جو برف کے سبب جم جاتا ہے، جب کہ چاند کے گھٹنے پر وہ پندرہ دن تک کے لیے غائب ہو جاتا ہے اور اگلے پندرہ دن جب چاند کی روشنی بڑھ رہی ہوتی ہے وہ اپنے کمال پر آ جاتا ہے۔ اس چشمے کی بلندی ایک گز سے زیادہ ہے۔ ہندی زبان میں اسے ’’ کنگ مہادیو‘‘ کہتے ہیں بارہ مہینے وہ اسی حال پر رہتا ہے۔ پرگنہ اپہ کے موضع ہلہ تل میں سفید چیڑ کا ایک تناور درخت ہے جس کے نیچے آدمیوں کی ایک کثیر تعداد سائے میں بیٹھ سکتی ہے۔ اس قدر بڑا درخت ہونے کے باوجود (اس کی حالت یہ ہے کہ) اگر اس کی ایک شاخ کو ہلایا جائے تو ساری شاخیں اور تنہ وغیرہ جنبش میں آ جاتی اور لرزنے لگتی ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے: تش از فاقہ پلزردچو درخت ہلہ تل (اس کا جسم فاقے کے باعث ہلہ تل کے درخت کی طرح لرزتا ہے) نیز: کشمیر کے ونتی پورہ میں ایک حمام تھا، جس کی انگیٹھی میں ایک چراغ روشن تھا اور حمام مستقل طور پر گرم رہتا تھا۔ کہتے ہیں کہ حکیم بو علی سینا نے یہ حکمت چلائی تھی۔ آج سے سو برس قبل کسی نے یہ حکمت جاننے کے لیے چراغ کو بجھ ادیا تھا لیکن پھر وہ اسے درست نہ کر سکا، اس طرح پرانی حکمت بھی ضائع ہو گئی۔ پرگنہ برنگ کے موضع ژول کام میں پتھر کا ایک حوض ہے جس کا نام سند باری ہے۔ سال میں وہ گیارہ مہینے خشک رہتا اور بہار کے آغاز میں ایک ماہ تک، ہر روز تین مرتبہ پانی سے بھر جاتا ہے اور ہر مرتبہ دو تین پہروں تک کے لیے کوئی دو چکیوں کی مقدار کا پانی جاری ہو جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ اس کا بانی بو علی سینا تھا۔ جناب بابا داؤد خاکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں لکھا ہے کہ دولہ بابا جو ایک صالح درویش تھے، اس جگہ گئے۔ وہاں جب انہوں نے دیکھا کہ ہر طبقہ کے اہل کفر کی ایک بھیڑ لگی رہتی ہے، تو انہوں نے اس پتھر کو ہٹا کر وہاں مسجد کی بنیاد ڈالی۔ اس چشمے کا پانی اپنے وقت پر مسجد کے نیچے سے بہنے لگتا ہے۔ا گرچہ وہ عجائب میں سے تھا تاہم اس درویش نے بدعت مٹانے کے لئے اسے ہٹا دیا۔ نیز: پرگنہ2؎ کے موضع کو یہ شور میں ایک چشمہ ہے۔ دھان بونے کے موقع پر وہاں کے لوگ اس چشمے کے اوپر ایک بھیڑ ذبح کر کے کھانا تیار کرتے ہیں۔ کھانا کھا کر فاتحہ سلامتی پڑھتے ہیں، جس پر چشمے سے پانی جاری ہو جاتا ہے۔ جب کبھی پانی کی ضرورت نہ ہو تو پھر اسی طریق پر کھانا پکا کر فاتحہ پڑھتے ہیں، چنانچہ پانی غائب ہو جاتا ہے۔ نیز پرگنہ دیوہ سرمیں، دامن کوہ میں واسیک ناگ نامی ایک چشمہ ہے جو موسم بہار میں جاری ہوتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس کی ضرورت نہیں رہتی تو وہ خشک ہو جاتا ہے۔ پھر دھان کی فصل پکنے کے موقع پر کہ اس وقت ضرورت ہوتی ہے، جاری اور بعد میں پھر موسم بہار تک خشک ہو جاتا ہے۔ اس کا پانی بہت ٹھنڈا اور خوشگوار ہے۔ نیز پرگنہ مارشد کے موضع بومہ زدہ میں، دامن کوہ میں ایک مشہور غار ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی ارزای نام کے شخص نے اس پہاڑ کی کھوہ میں یہ غار کھودا تھا۔ وہ اس قدر تاریک ہے کہ کوئی بھی اس کا آخری حصہ دیکھ نہیں سکتا۔ اس کا عرض پانچ گز اور بلندی کچھ اوپر چار گز ہے۔ اس غار کے قریب ہی غفران پناہ بابا بام الدین ریشی رحمتہ اللہ علیہ کا جن کا ذکر گذر چکا ہے، مقبرہ واقع ہے۔ آج کل یہ سارا غار چمگادڑوں کی فوج کے قبضے میں ہے، اس حد تک کہ وہاں ایک پل کے لیے رکنا بھی طبیعت کے لیے نفرت کا باعث بنتا ہے۔ اس وادی کے اطراف میں کچھ حجرے سے نمایاں اور باقی ہیں جو غالباً ریشیوں کی خلوت کی عبادت گاہ ہیں۔ حیدر ملک چادری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک روز تحقیق کی خاطر میں اس غار میں گیا (اور وہ اس طرح کہ) بارہ آدمیوں نے چراغ ہاتھوں میں پکڑ رکھے تھے اور ہر کسی کو تیل کی ایک ایک بوتل دی گئی تھی۔ ہر مشعل ایک تیر کی اڑان/مار تک کے فاصلے پر رکھی گئی۔ جب بہت سا راستہ طے ہو گیا تو ہم ایک گنبد میں پہنچے جس کی بلندی بیس گز اور گولائی پچاس گز تھی۔ وہاں مجھے ایک چوک نظر آیا۔ دائیں جانب چار پانچ راہ اور بائیں جانب بالا رویہ راستہ، جب کہ سامنے کا راستہ درمیان کی طرف دکھائی دیتا تھا، یعنی وہ بہت نیچے کی طرف مائل تھا۔ ان تینوں راستوں میں میں دلیری نہ دکھا سکا، تاہم درمیان رویہ راستے میں آزمائش کی خاطر ایک پتھر لڑھکا دیا۔ ایک گھڑی تک اس پتھر کے نیچے لڑھکنے کی آواز کانوںمیں پہنچتی رہی۔ گنبد کی چھت سے پانی ٹپک رہا تھا، جس سے تھوڑی سی زمین تر ہو گئی تھی۔ اسی اثنا میں مجھے آگاہ کیا گیا کہ تیل تھوڑا رہ گیا ہے، لہٰذا اسی راستے سے ہم باہر لوٹ آئے۔ ایک اور بزرگ جب چراغ لے کر اس غار میں گیا تو اس نے تھوڑے ہی فاصلے پر بائیں جانب ایک دریچہ دیکھا۔ جب اس نے اسے کھولا تو ایک حجرہ نظر آیا جس کے اندر ایک قبر تھی۔ اس قبر اور اس غار کے بارے میں اور بھی کئی باتیں لکھی گئی ہیں۔ طوالت اور عدم اعتماد کی بنا پر اسی قدر تحریر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ نیز اسی موضع میں پتن کے اوپر ایک مسجد ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ حضرت میر محمد ہمدانی قدس سرۂ کی تعمیر کردہ ہے۔ اس مسجد کی پرانی لکڑی اور نقش وغیرہ ابھی تک صحیح حالت میں ہیں۔ مسجد کے قریب احاطہ ہے اور احاطے کے درمیان ایک اور حجرہ ہے۔ لوگوں کے عقیدے کے مطابق اس کے نیچے چاہ بابل ہے جس میں دو گناہگار فرشتے ہاروت اور ماروت لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کا قصہ مشہور ہے نیز اسی جگہ کے نزدیک عالی شان عمارتیں رہی ہیں جن کے چاروں طرف پتھر کی بنی ہوئی ایوان نما دیوار اور منقش و سنگین ستون تھے۔ کہتے ہیں یہ پانڈووں کا تعمیر کردہ بت خانہ ہے، جو دولت وو قوت میں ہمیشہ ضرب المثل رہے ہیں، عجب نگار خانہ تھا۔ سلطان شہاب الدین کے زمانے تک صحیح حالت پر تھا۔ اس کے عہد میں اس بت خانے کو ایک مدت تک ایندھن سے بھر کر جلا اور وہاں مقیم برہمنوں کو باہر نکال دیا گیا۔ ابھی تک اس کے آثار، اس کے وسطی اطراف میں درست طور پر قائم ہیں، جب کہ ویران جگہ اور محل، عبرت گاہ اور جائے حسرت بخش ہے اور عمارت بہت پرانی ہے۔ نیز موضع عیش مقام پر ایک غار ہے، جس میں حضرت بابا زین الدین رحمتہ اللہ علیہ اپنی زندگی میں داخل ہوئے۔انہوں نے فرمایا کہ اس غار کے اوپر جہاں میرا نیزہ ظاہر ہو وہاں میر امقبرہ بنا دینا۔ نیز تالاب اولر عجائب روزگار میں سے ہے۔ اس کی ہر حد سات سات کوس کی ہے۔ اس طرح اس کا کل رقبہ اٹھائیس کوس ہے۔ اکثر جگہوں پر اس کی گہرائی نہیں ہے، گویا یہ دریائے محیط کا ایک نمونہ ہے۔ اس کے اطراف میں کوہستان واقع ہے۔ اس تالاب میں لوگ اکثر مرغابی اور غاز کا شکار کرتے ہیں۔ ملاح لوگ آبان کے مہینے میں، ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر کشتیوں کو شاخوں اور پتھروں سے بھر لیتے اور لنک کے نواح میں، جنوب جانب، پانی میں ڈبو دیتے ہیں۔ ایک سال گذرنے پر، اسی موسم میں، آبان مہینے کی یکم کو وہ اپنی کشتیوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جبکہ کسی دوسرے شخص کو صد ہزار کوشش و مشقت کے باوجود ان کشتیوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ وہ ملاح کشتیاں پانی سے فی الفور نکال لیتے ہیں جو مچھلیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ نیز ڈل تالاب میں، بعہد چغتائیہ، بڑی عمدہ عمارتیں، دل کش اور طراوت و لطافت سے پر باغات تھے اور عمارات کے گرد بہت نقاشی کی ہوئی تھی۔ ہر باغ میں پتھر کی بنی ہوئی ندی، فوارہ اور آبشار تھی، خاص طور پر بادشاہی باغات اور امیروں کے باغات میں کہ ان میں سے ہر ایک رشک فردوس بریں تھا۔ لوگ بہار اور گلاب کے دنوں میں اپنے دوستوں کے ہمراہ سیر کی کشتیوں میں بیٹھ کر اس تالاب میں گھومتے ہیں اور سبزہ پر سبز شگوفوں والے درختوں اور گلاب کے پودوں کے نیچے اور معتدل ہوا میں بیٹھ کر طرح طرح کے کھانے کھاتے ہیں۔ گویا ’’ جنت علن تجری من تحتھا الانھار و فیھا ما تشتھیہ الانفس‘‘ الخ (ہمیشہ رہنے والے باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہاں وہ چیزیں ملیں گی جن کو جی چاہے گا او رجن سے آنکھوں کو لذت ہو گی) ان کے حسب حال ہے۔ اس قسم کا سیر و شکار اور تفریح و عیش کشمیر کے علاوہ اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا، اور کشمیر میں کشتی کی سواری کو دوسری تمام سواریوں پر برتری حاصل ہے، اس لیے کہ ہر قسم کے دوستوں کو جس قسم کی صحت و محفل مرغوب ہے۔۔۔۔ بزم رباب یا صحبت کتاب۔۔۔ وہ اس میں میسر ہے۔ پھر کشتی کی رفتار میں بڑی آہستگی و ہمواری ہے جس کے سبب اس میں بیٹھ کر بے تکلفی سے کتابت کی جا سکتی ہے، باقی امور کی تو بات ہی کیا۔ کشتی کا قالین اور پوشاک وغیرہ میسر آ جاتی ہے جو اس سے قبل سلاطین کا خاصہ تھی۔ نیز اسلام آباد سے بارہ مولہ تک کہ خشکی کے راستے چار پانچ منزلوں کی مسافت ہے، کشتی کے ذریعے شہر کے درمیان سے ہوتے ہوئے ایک شب و روز میں پہنچ جاتے ہیں۔ جو ضروری اشیا درکار ہوتی ہیں وہ ہر جگہ سے لی جا سکتی ہیں۔ نیز پرگنہ ویر ناگ میں ایک غار ہے، اس غار میں ایک چشمہ ہے جو سال کے بارہ مہینے یخ بستہ رہتا ہے۔ اگر کبھی کوئی اس میں داخل ہو اور اس برف کا ایک ٹکڑا کھا لے تو وہ خوشگوار ہوتا ہے لیکن جب وہ ٹکڑا باہر لایا جائے تو وہ سخت پتھر کی مانند نمکین شیشہ ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ برف کی کان شہر کشمیر کا خاصہ ہے۔ پرگنہ پہاک میں ایک کنواں ہے جس میں سے سارا سال برف نکلتی رہتی ہے اور کبھی کم نہیں ہوتی اور خلق کثیر اس عمل 2؎ پر زندگی بسر کرتی اور کھاتی ہے جب کہ دریا کا پانی، جو سردیوں میں جم جاتا ہے اس حد تک لطافت و صفا کا حامل اور گوارا نہیں ہوتا، سیاح دوسرے بلاد میں اس قسم (کی برف) کی نشان دہی نہیں کرتے۔ نیز کشمیر میں شاہین اور باز کے ذریعے شکار کچھ اس لطافت سے ہوتا ہے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شکار کے وقت لوگ یاروں اور دوستوں کے ساتھ کشتی میں یکجا بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر جس کسی کو چاہتے ہیں اس کے ہاتھ میں شاہین اور باز پکڑا دیتے ہیں اور تالاب اولر اور چند دیگر تالابوں نیز تہہ ناروہا کروہ (؟) پلہ سر اور خوشحال سر پر، جو اس کام سے مخصوص ہیں، سیر کرتے ہوئے باز اور جرہ کو مرغابی پر اڑا دیتے ہیں۔ باز شکار پکڑ کر صرف پانی پر بیٹھ جاتا ہے، یہاں تک کہ کشتی پہنچ جاتی ہے اور شکاری اس باز کو مرغابی سمیت اٹھا لیتے ہیں۔ پھر مزید شکار کی خاطر اسے دوبارہ اڑاتے ہیں۔ اسی انداز میں اگر سو باز اور شاہین ہوں تو ڈھیر سارا شکار میسر آ جاتا ہے۔ کبھی شکار پکڑ کر صاحب شکار خود کشتی میں آ جاتا ہے، کشتی میں کھانا بھی پکا لیا جاتاہے۔ بہار کے دنوں میں ان تالابوں کے کنارے پھولوں اور گلزاروں سے بھر جاتے ہیں۔ قسم قسم اور رنگ رنگ کے یہ پھول راحت افزا اور غم دور کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب ان کا عکس پانی میں پڑتا ہے تو عجیب روحانی لذت میسر آتی ہے۔ موسم خزاں میں بھی دل کو کچھ اس قسم کی فرخی حاصل ہوتی ہے کہ اہل سیر کا دل اور دیدۂ بصیرت کی بصر اگر بہار میں درد و عشق کا باعث بنتی ہے تو خزاں میں فنا و بے وطنی کا سبب بعض اوقات اکثر ندیوں میں پانی کے نیچے سبز و گلزار کچھ اس رنگ سے نمودار ہوتے ہیں کہ دق کے اکثر پرانے مریض ان کے نظارے سے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ ان (سبزہ وغیرہ) کے اوپر صاف پانی بہتا ہے۔ شاہ آباد میں کہ بادشاہوں کی سیر گاہ ہے، ایک انوکھا چشمہ پایا جاتا ہے۔ اس کے ہر طرف کئی ندیاں رواں ہیں۔ وہ دریائے بہت (جہلم) کا اصلی منبع ہے اور کشمیر کی سب سے بڑی نہر گویا وہی ہے۔ اس کی گہرائی کبھی کسی کو معلوم نہیں ہو سکی۔ نیز لار کی سمت موضع تیلہ مولہ میں، خشک زمین کے شکاریوں کے پاس لکڑی کا ایک اوزار ہوتا ہے جو اس دیار کے ماہی گیروں سے مخصوص ہے۔ اسے کسی سوراخ میں نیچے پیوست کر دیتے ہیں۔ پھر اسی سوراخ میں سے پانچ چھ مچھلیاں، آہنی پنجے پر لپیٹ کر باہر لے آتے ہیں۔ نیز پرگنہ اولر میں ایک چشمہ بنول ہے۔ خشک سالی اور پانی کی کمی کے موقع پر اس پرگنہ کے باشندے اس چشمے پر آ کر گریہ و زاری اور بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ پانی کی درخواست کرتے ہیں۔ ادھر وہ درخواست کرتے ہیں ادھر ایک بادل نمودار ہو جاتا ہے اور فضل ایزدی سے لوگوں کے حسب خواہش بارش ہو جاتی ہے۔ نیز اسی پرگنہ میں، تنکہ ونی سے آگے ونتی پورہ کے متصل ایک چشمہ ہے جو ’’ عین العفونت‘‘ کے نام سے مشہور ہے یعنی گندہ چشمہ۔ اس میں غوطہ لگاتے ہی خارش کا مریض اس تکلیف سے نجات پا جاتا ہے۔ گویا وہ چشمہ گندھک کی کان ہے اور اس کی علامتیں بھی اکثر ظاہر ہوئی ہیں۔ بعض آب و قلعہ اور دیگر علامتیں بھی اس کی واضح نشان دہی کرتے ہیں۔ اس کا پانی قولنج کے مریض کے لیے بھی مفید ہے۔ نیز قریہ لو کہ بون میں کانو نام کا ایک چشمہ ہے جو ظاہری طور پر کشادہ اور بباطن ’’ واحد العین‘‘ (ایک آنکھ والا) ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس چشمے میں جتنی بھی مچھلیاں ہیں سبھی ایک آنکھ والی ہیں۔ نیز پرگنہ شاہ آباد میں بون نامی ایک چشمہ ہے۔ ایک پل تو اس چشمے سے بہت پانی ابلتا ہے، اور دوسرے پل منقطع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی زمین پر پانی کا ایک قطرہ نیچے جانے میں چشمے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اور روز و شب اور ماہ و سال ہمیشہ یہی کیفیت رہتی ہے۔ نیز پرگنہ وچہن پارہ کے موضع یلاق میں ایک غار ہے، جس کی چھت سے پانی مسلسل ٹپکتا رہتا ہے اور برف کا ایک جوہر جم جاتا ہے۔ اسے امر ناتھ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے مطابق اس میں بیشی اور کمی ہوتی رہتی ہے۔ تحت الشعاع کے دنوں (یعنی مہینے کے آخری تین دن جن میں چاند نہیں نکلتا) میں اس کا کوئی نشان نہیں رہتا۔ ہر مہینے اور سال اسی طور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آج بھی سرطان کے آخر میں کشمیر (کے لوگ) اور ہند کے جوگی اور سنیاسی اس طرف سے پار اترنے کے امکان، برف سے فراغت اور سرما کی سہولت کی بنا پر اس چشمے (کذا) پر جاتے ہیں۔ سواے ایام کے اس کے نواح میں چرند، پرند اور شجر و ثمر کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس غار کے وسط میں کبوتروں کا ایک جوڑا بال و پر پھیلائے نظر آتا ہے۔ اس حکایت کے بیان کرنے والے ہندو ہیں، والعمدۃ علیہم (اور اس کی ذمہ داری ان پر ہے) نیز مذکورہ پرگنہ کے قریہ کرم میں ایک چشمہ ہے اگر چشمے کے اوپر فریاد و فغاں سنائی دے تو اس سے بلبلے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ سو جس قدر فریاد زیادہ ہو گی اسی قدر چشمے میں بلبلے زیادہ ہوں گے۔ نیز پرگنہ پر وہ کے موضع کہاگ میں نیر این نامی ایک چشمہ ہے۔ اگر باہر سے اتفاقاً کوئی آوازے یا نغمہ بلند ہو تو یہ چشمہ اس قدر متلاطم ہو جاتا ہے کہ لہریں کنارے سے نکل کر لوگوں کی کنار (پہلو) میں پہنچ جاتی ہے۔ نیز دیوہ سر پرگنہ میں ایک چشمہ ہے جس کے گرد چند بڑی بڑی لکڑیاں موجود ہیں۔ جب کبھی کوئی انوکھا سانحہ پیش آتا ہے وہ چشمہ متلاطم ہو جاتا ہے۔ وہ جو یبار تلپٹ ہو جاتی ہے۔ اس سر زمین کے باشندے اس صورت حال کے مشاہدے کو کسی حادثے کے وقوع پذیر ہونے پر منتج کرتے ہیں۔ نیز پرگنہ کو تہار میں جوہر نامی ایک چشمہ ہے جو مٹی کے کئی قسم کے برتنوں سے بھرا رہتا ہے۔ اگرچہ لوگ چاہتے ہیں کہ چشمے سے برتن نکال لیں لیکن کوئی صورت نہیں بنتی۔ جب بھی کوئی برتن سطح پر پہنچتا ہے، بے اختیار ہاتھ سے نکل کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے لیکن پھر پانی کی تہ میں پہنچنے پر وہ جڑ جاتا ہے۔ نیز پرگنہ دیوہ سر کے موضع یچہ گام میں واسک نامی ایک سرچشمہ ہے۔ جب بھی اہل زراعت کو کھیتی باڑی میں پانی کی ضرورت پڑتی ہے تو کسی استدعا وغیرہ کے بغیر ہی اس میں سے دس پن چکیوں کا پانی ابلنے لگتا ہے، جب کہ عدم ضرورت کی صورت میں اس چشمے سے ایک قطرہ پانی بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اسی قدر ان چند معینہ چشموں کا ذکر قلمبند کر دیا گیا ہے، وگرنہ اکثر مقامات چشموں سے خالی نہیں ہیں، خاص طور پر اسلام آباد کی جانب تو ہر کوچہ و مکان اور بازار میں فیض آثار چشموں سے نکلنے والی خوشگوار نہریں رواں ہیں۔ پھر سفید پتھر کے ظروف، عجائب و غرائب میں شمار ہوتے ہیں اور جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز دیوہ سر کے بالائی حصے میں پہاڑ پر ایک جگہ ہے، جہاں سے پانی ہزار گز سے زیادہ طویل چادر آب کی صورت گرتا ہے، جب کہ پہاڑ کے بالائی حصے پر ایک دوسرے کے سامنے چند منارے واقع ہیں جو پتھر کے ایک ہی ٹکڑے سے بنے ہیں۔ انہیں کو تہر قیصر کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی ایجاد و اختراع انسانی عقل کے احاطے سے باہر ہے، یا پھر یہ براہ راست اس لاشریک خالق کی صنعت (کا کمال) ہے۔ اس پہاڑ سے آگے ایک حوض ہے جو کہ سرناگ (کے نام سے) مشہور ہے۔ یہ بڑا سا تالاب ہے جس میں برف کے ٹکڑے کوہ پاروں کی طرح جن میں سے ہر ایک بلامبالغہ سو سے بھی زیادہ خروار (گدھے کا بوجھ، انبار) ہوتا ہے، تیر رہے ہوتے ہیں، اور جب بارش ہو رہی ہو تو پھر کسی کی کیا مجال جو ادھر دیکھ بھی سکے اور اس طرف عبور کر سکے، جب تک ایک فوج ہمراہ نہ ہو ایسی صورت بن نہیں پاتی۔ کشمیر کے عجائب میں بہترین شے یہاں کی شال ہے جو اسی شہر سے مخصوص ہے۔ عرب و عجم میں اس قسم کی انوکھی، عمدہ اور نرمی و سبکی والی اور پائدار قماش نہ تو موجود ہے اور نہ تخلیق ہی ہوئی ہے۔ ان اوصاف کی بنا پر اکثر اہل دنیا، اس کے فیض و فائدہ سے کیا استعمال کی صورت میں او رکیا شغل تحویل و تجارت میں بہرہ ور ہوتے ہیں۔ سب سے عجیب اور انوکھی بات یہ ہے کہ اس قسم کی جنس کے بننے والے بعض مخترع کشمیر کے بڑے ہی عاجز اور دشوار زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں جو کبھی خوشحالی و بہبودی کا منہ دیکھ نہیں پاتے اور ہمیشہ محتاج و مبتذل رہتے ہیں۔ اب رہی اس صوبے کے محالات (مال گذاری کے علاقے) کی بات، تو پوشیدہ نہ رہے کہ کشمیر کے راجاؤں اور سلاطین کے زمانے میں ان کے مقبوضات کابل و لاہور تک، بلکہ اکثر اوقات تو دہلی اور اس سے بھی آگے تک ہوتے تھے، چنانچہ گذشتہ اوراق میں اس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ ان کا تصرف و عمل تمور، تہتین (یعنی تبت کلاں اور تبت خرد) کشتواڑ اور جموں وغیرہ میں تھا۔ گردش ایام سے یہاں کے حکمرانوں کے اکثر علاقے ہاتھ سے نکل گئے۔ اب بادشاہی ریکارڈ میں ایسے پچپن علاقے ہیں جن سب کا محصول اٹھائیس کروڑ درہم ہے۔ ان کی تفصیل اس طرح ہے: کشمیر کے پرگنات معمولہ: انچاس محال، ہر دو تبت وغیرہ کے چھ محال، بلکہ بارہ محال موضع جات کی شرط کے بغیر ہیں۔ ان تمام بارہ محالات سے سات محالات کا محصول و آمدنی واجبی طور پر ریکارڈ نہیں ہوتا۔ دوسرے پانچ محال پکلی دارو، میال، متور، کاشیال اور کملاب کہل کے موضع جات کا اگرچہ تعین نہیں ہے لیکن ان کا محصول ضبط تحریر میں نہیں آتا۔ بانہال، پنوچ، راجور، آورن اور نوشہرہ کے سینتیس محال ہیں جن کے موضع جات کا تعین ہے اور ان کا مجموعہ تین ہزار دو سو ستر (قریہ جات) ہے۔ پرگنہ ناگام کے دو سو دو قریہ جات، مانجہامون (منچہ ہامہ) کے نواسی، پرگنہ وولر کے ایک سو اکیس قریے ہیں۔ پرگنہ ا چھ (یچہ)ایک سو چار مواضع اور پرگنہ وہو کے تیس۔ پرگنہ آورن کے دو سو آٹھ قریہ۔ پرگنہ اندر کوٹ کے آٹھ قریے۔ پرگنہ پروہ کے ایک سو بیاسی گاؤں۔ پرگنہ بانکل کے دو سو تیس، پرگنہ نہ پاک کے چونسٹھ قریے، پرگنہ باتو کے تریسٹھ، پرگنہ پتن کے ایک سو قریے، پرگنہ پرسپور کے بتیس قریے، پرگنہ تیلہ گام کے چھیالیس گاؤں، پرگنہ دیور سر کے ایک سو باسٹھ، پرگنہ وچہن پارہ کے اسی، پرگنہ دہنسو کے ایک سو آٹھ قریے، پرگنہ کہاور پارہ کے ایک سو دو، پرگنہ زینہ پور کے تیس گاؤں، پرگنہ زینہ گیر کے اٹھانوے گاؤں، پرگنہ شادرہ کے باون قریے، پرگنہ مارتند کے گیارہ، پرگنہ دچہنا اور کہاورہ دونوں کے چھپن گاؤں، پرگنہ کروہن کے چھیاسٹھ قریے، پرگنہ کوبہامون کے پچپن گاؤں، پرگنہ کہوئی کے چودہ، پرگنہ کامراج کے چار سو انہتر گاؤں، پرگنہ محمد آباد کے تیس گاؤں۔ چھ علاقے کشمیر کے پرگنات سے باہر ہیں 1تبت کلاں،2تبت خورد،3کشتواڑ،4 گلگت، 5می شال اور 6سرشال، سلاطین کے زمانے میں ان سب سے خراج وصول ہوتا تھا لیکن سلاطین کے زوال سلطنت کے بعد، جب ملک چکوں کے قبضے میں آ گیا، سوائے دونوں تبتوں اور کشتواڑ کے، باقی علاقے ہاتھ سے نکل گئے۔ یہ تین علاقے (تبت وغیرہ) مغلیہ بادشاہوں کے زمانے میں پیشکش، یور غمال (یرغمال) اور اس کے ضروری لوازم کے طور پر ان کے تصرف میں رہے، اس کی کسی قدر تفصیل گذشتہ اوراق میں گذر چکی ہے۔ خاتمہـ: بنام ایزد مرتب شد کماہی گرامی نامہ از فضل الٰہی ۔۔۔۔۔۔ ہمی گردم بلوح سینہ تصویر شوم زینت دہ گلزار کشمیر مدد از لشکر توفیق جستم سراغ از گوہر تحقیق جسم ز دیوان حقیقت بردہ ام راہ باحوال شہ و درویش آگاہ مداد عنبر افشان کرد امداد تحریر کمال اہل ارشاد بذکر صاف طبعان خامہ ء من چو شمع افزود نور نامہ ء من بود ہر صفحہ ء او چون حدیقہ مزین از مضامین دقیقہ ہمہ چون دفتر گل عشرت انگیز ہمہ چون دستہ ء سنبل دل آویز بسان سینہ ء دانا صفا بخش چو چشم مردم بینا ضیا بخش قلم آسا درین سودا دیدم بسی رنج از سیہ بختی کشیدم مرا زین قصہ پردازی چہ حاصل بجز ذکر جوانمردان واصل غرض نقشی ست کزما یاد ماند الٰہی تا ابد آباد ماند باہل نیستی دارم ہوائے کہ ہستی رانمی بیم بقائے مگر صالی دلی روزے برحمت فشاند از مروت دست ہمت ز راہ صدق، بے روی و ریائے کند بر حال این مسکین دعائے ز تجدید بتحریر این صحیفہ مرتب شد بائین لطیفہ قلم در فکر تاریخش روان شد ازین معنی کہ فیضان رہنما شد اگر پرسند تارخش چسان یافت بگو ’’ترتیب ابواب الجنان‘‘ یافت گرامی نامہ ام کاری چہ فرمود کہ زیب و زینت کشمیر افزود 1بنام خدا کے فضل سے ایک کتاب گرامی مرتب ہوئی۔ 2میں سینے کی تختی پر تصویر بناتا رہا، یعنی میں دل میں سوچتا رہا کہ میں گلزار کشمیر کو آراستہ کرنے والا بنوں۔ 3میں نے توفیق کے لشکر سے مدد چاہی اور گوہر تحقیق کا سراغ لگایا۔ 4دیوان حقیقت سے میں نے بادشاہ و درویش آگاہ کے احوال کا راستہ پایا۔ 5عنبر ایسی خوشبو پھیلانے والی سیاہی نے اہل رشد و ہدایت کے کمال کی تحریر میں مدد کی۔ 6پاکیزہ طبع لوگوں کے ذکر سے میرے قلم نے شمع کی مانند میری کتاب کی روشنی میں اضافہ کیا۔ 7 اس کتاب کا ہر صفحہ باغ کی مانند ہے، جو گہرے مضامین سے آراستہ ہے۔ 8سب یعنی ساری کتاب دفتر گل کی مانند عشرت بڑھانے والی اور سب سنبل کے دستے (گلدستے) کی مانند دل آویز ہے۔ 9دانا کے سینے کی مانند یہ کتاب صفا بخشنے والی اور بینا انسان کی آنکھ کی طرح روشنی بخشنے والی ہے۔ 10میں اس سودا میں قلم کی صورت دوڑا، سیاہ بختی کے سبب بڑے رنج اٹھائے۔ 11واصل بحق جوانمردوں کے ذکر کے سوا مجھے اس قصہ پردازی سے کیا حاصل۔ 12 اس سے مقصد ایک ایسا نقش ہے جو ہماری یادگار قرار پائے۔ الٰہی اسے ابد تک آباد رکھ۔ 13 اہل نیستی سے میری ایک خواہش ہے کہ میں زندگی کو کوئی بقا والی نہیں پاتا۔ 14,15 شاید کوئی صاحب دل کسی دن رحمت سے مروت کی بنا پر دست ہمت (یعنی دعا) پھیلائے اور ازراہ صدق، کسی رومی و ریا کے بغیر اس مسکین کے حال پر دعا کرے۔ 16تجدید تحریر سے یہ صحیفہ یعنی کتاب لطیف آئین و دستور کے ساتھ مرتب ہوئی۔ 17قلم اس کی تاریخ کی فکر میں رواں ہوا،اس صورت میں کہ فیضان نے رہنمائی کی۔ 18اگر پوچھا جائے کہ اس کی تاریخ کس طرح یعنی کن الفاظ میں پائی تو کہہ دے ’’ ترتیب ابواب الجنان‘‘ کے الفاظ میں پائی۔ 19میری اس گرامی کتاب نے کیسا کام کیا کہ کشمیر کی زیب و زینت میں اضافہ کر دیا۔ ٭٭٭ حواشی ( 1) 1؎ لی مع اللہ۔۔۔۔۔ حضور اکرم ؐ کی ایک حدیث (پوری حدیث ایک اور جگہ دی گئی ہے) 2؎ قم فنا نذر: سورۂ مدثر، آیہ 32۔ فاوحی: سورۂ النجم، آیت410۔ القینا۔۔۔۔، سورہ الحجر، آیت 19، نیز سورۂ ق، آیہ 5-7، من یحییٰ: سورۂ یسین، آیہ 678، فنفخت۔۔۔ سورۂ الحجر، آیہ 69، سورۂ ص،آیہ 72(دونوں جگہ ’’ ونفخت‘‘ ہے) 7؎ یخرج۔۔۔ سورۂ الروم، آیہ 819۔ تجری۔۔۔ یہ کئی سورتوں میں آیا ہے، جہاں بہشت کا ذکر ہوا ہے۔ 9؎ آتش خلیل: قرآنی تلمیح۔ حضرت ابراہیم ؑ کو نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تھا جو حکم خداوندی سے گلزار بن گئی تھی۔ 10؎ دوسرے مصرے میں ’’ میردیم‘‘ سے پہلے دہے (مید ہندو میردیم) یہاں وکا کوئی محل نہیں11 سورۂ الم آیہ12, 112بظاہر صحیح نام کشب (ب کے ساتھ) ہے، راج ترنگینی مرتبہ ڈاکٹر صابر آفاقی میں خشپ ہے (ص45) 13؎ بھرت کا مشہور تاریخی شہر جسے اب آگرہ کہا جاتا ہے۔ 14؎ راج ترنگینی (ص47) میں جشووتی (Yasavati) 15؎ کتاب میں یہ نام جس طرح کتابت ہوا ہے، اس کے مطابق جیم کے بعد سین ہے، اس لیے یہ نام اسی طرح لکھا گیا16؎ بہت ، بھٹ، کشمیر سے نکلنے والا مشہور دریا، جہلم 17؎’’ حضرت ایشاں‘‘ صوفیاء کے لیے احترام کے الفاظ18؎ قرآنی حوالہ، جو قرآن میں کئی جگہ مذکور ہے 19؎ یہ شعر سعدی کی گلستان، باب اول کی داستان21میں آیا ہے 20؎ سورہ الشرح، آیہ 216۔ کسی کافر سے عجائبات کا ظاہر ہونا۔ 22؎ اس سے پہلے ’’ راجہ پرورسین پسر راجہ بکرما جیت‘‘ لکھا گیا ہے اور اب ’’ پرورسین بن پورما‘‘ ہے۔ یا تو یہ دو الگ الگ راجے ہیں یا شاید یہ بکرماجیت کا لقب وغیرہ ہو۔ 23؎ گلستان سعدی، باب اول، حکایت3، قطعے کی صورت میں پہلا شعر یہ ہے: نیم نانی گر خورد مرد خدا بذل درویشان کند نیمی دگر (اگر اللہ کا بندہ آدھی روٹی کھائے تو دوسری آدھی روٹی وہ درویشوں میں بانٹ دیتا ہے)24؎ یہاں لفظ ’’ زیادت‘‘ سے اگر زیادہ کے معنی لیے جائیں تو یہ ممکن نہیں، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور جب اس راجہ کے دور میں ہوا تو ہجرت تک ’’ دو سو اٹھاون برس بعد‘‘ کا کیا مطلب؟ یہ کسی راجہ کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا۔ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ 25؎ یہاں ہندی عبارت کو پیش نظر رکھا جائے تو آخری ’’ نہ‘‘ سے پہلے ’’ نود‘‘ (90) ضروری ہے۔ 26؎ دوسرے مصرعے میں ’’ آتشی‘‘ کی بجائے’’ زآتشی‘‘ ہونا چاہیے، وگرنہ مفہوم واضح نہیں27؎ راج ترنگینی میں ’’ سور ورم‘‘ یا تشور ورما ہے 28؎ راج ترنگینی سے درست کیا گیا، یہاں ’’ برحت‘‘ (ح کے ساتھ) ہے 29؎ راج ترنگینی میں پارتہ ہے 30؎ یہ پورا جملہ غیر واضح ہے، کوئی سطر کتابت ہونے سے رہ گئی ہے 31؎ راج ترنگینی کے مطابق: کلس32سعدی نے گلستان (سال تصنیف1257/256) میں یہی مضمون یوں پیش کیا ہے: شمشیر نیک ز آہن بد چون کند کسی ناکس بہتر بیت نشود ای حکیم کس باران کہ در لطافت طبعش خلاف نیت در باغ لالہ روید و درشورہ بوم خش ترمان شورہ سنبل بر نیارد درو تخم و عمل ضایع مگردان 33 ؎ یہاں ’’ تاریخ ہفت و پنج‘‘ تحریر ہے، جبکہ ’’ تاریخ ہفت صدو پنج‘‘ ہونا چاہیے۔ ترجمے میں705میں لکھا ہے۔ 34؎ الشوریٰ، آیہ30، جو بھی مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال ہی کے نتیجے میں پہنچتی ہے۔ 35؎ الانفال، آیہ 25۔ اور تم ایسے وبال سے بچو جو خاص انہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ظلم کرتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ 36؎ الروم، آیہ 32، ہر گروہ اپنے جس طریقے پر ہے اسی کو پسند کرتا ہے۔ 37خدا کا وصل پانے والوں کے پیشوا، عارفوں کے امام، اسلام کو رواج دینے والے، بتوں کو توڑنے والے، حق آگاہ، دین کی تائید کرنے والوں حضرت بلبل شاہ، اللہ تعالیٰ ان کے بہت پاک بھید کو اور پاک فرمائے۔ 38؎ ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، قرآن میں چند جگہ یہ آیت آئی ہے، مثلاً آل عمران، آیہ 185(آیت کا ایک حصہ ) الانبیاء آیہ 35، العنکبوت آیہ57 39؎ جس نے اچھی سنت اپنائی (جس نے اچھا طریقہ اپنایا) 40 حضرت بلبل شاہ کے لیے یہ القاب ہیں، مخلوق کے شیخ، چرغ اسلام41؎ سورہ الواقعہ، آیہ 10، جو آگے نکل جانے والے ہیں وہ آگے نکل جانے والے ہیں، یہ لوگ مقربین ہیں 42؎ کشمیری زبان میں کوتہ رین، کبوتری کو کہتے ہیں۔ 43؎ سعدی کے اس شعر کا مصرع ہے: نہ ہر زن، ز نست و نہ ہر مرد، مرد خدا پنج انگشت یکسان نہ کرد 44؎ از انقلاب زمانہ۔۔۔۔۔ حافظ کی اس غزل سے ہے جس کا مطلع ہے: شراب و عیش نہان چیست کار بی بنیاد زدیم بر صف رندان دہرچہ بادا باد متن میں دوسرے مصرعے میں ’’ آرد‘‘ ہے، جبکہ صحیح ’’ دارد‘‘ ہے(دیوان حافظ۔۔۔۔ محمد قزدینی۔۔ تہران ص69) 45متن میں ’’ نجم‘‘ کا لفظ صحیح نہیں پڑھا گیا، تصحیح قیاسی، یہ شعر کسی ایسی غزل سے ہے جو حافظ کی درج ذیل مطلع والی غزل کے جواب میں کہی گئی ہے: ای کہ با سلسلہ زلف دراز آمدہ ای فرصتت باد کہ دیوانہ نواز آمدہ ای (دیوان حافظ۔۔۔۔۔ ص292) 46؎ لوٹ آ، سورہ الفجر، آیہ 27، 28؎ اے اطمینان والی روح اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چل، اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش۔ 47؎کمر، پہاڑ کے وسط اور تگنا کو بھی کہتے ہیں، یہاں لفظی معنی بنتے ہیں، مامن وہ کمر یا وسط سے گر جائے۔ 48؎ سلطان شہاب الدین کا سال وفات 780دیا ہے اور قطلب الدین اس کے بعد تخت نشین ہوتا ہے لیکن اس کا سال تخت نشینی 770دیا ہے، آگے اس کی وفات کے ذکر میں اس کا سال تخت نشینی 780ہی بنتا ہے۔ 49؎ سورہ البقرہ، آیہ 156، پوری آیت: جب ان لوگوں (صابرین) کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بیشک اللہ ہی کی ملک ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ 50؎ یہ شعر حافظ سے منسوب ہے، مثلاً ملاحظہ ہو دیوان حافظ، مطبع نو لکثور لکھنو ص85، یہ اس غزل میں شامل ہے جس کا مطلع ہے: تاز میخانہ دمی نام و نشان خواہد بود سرما خاک رہ پیر مغان خواہد بود اسی طرح دیوان حافظ مطبوعہ لاہور، ص78: لیکن ایران میں دیوان حافظ کے جتنے بھی مستند سکے اب تک شائع ہو چکے ہیں، ان میں کسی میں بھی یہ شعر نہیں ہے: حسین پژمان، مرتب دیوان حافظ (چاپچانہ بروخیم۔ تہران) کے مطابق یہ شعر ہمام تبریزی کا ہے (ص380نیز حاشیہ صفحہ مذکور )51 کلمہ احترام، بہت بڑے امام 52بظاہر یہ ایک ہی شخصیت ہیں لیکن چونکہ متن میں دو مرتبہ ذکر آیا ہے اور جائے دفن بھی الگ الگ ہے اس لیے اس عبارت کا ترجمہ کر دیا گیا 53؎ مشرق و مغرب کے پیشوا، جن و انس کے مرشد 54؎ سورہ البقرہ، آیہ 249کا کچھ حصہ: اکثر ایسا ہوا کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر خدا کے حکم سے غالب آ گئی ہیں۔ 55؎ سورہ التغابن، آیت14۔ پوری آیت کا ترجمہ: اے ایمان والو تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہاری دشمن ہیں، سو تم ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو بے شک اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ 56؎ ملانے اس رباعی میں نحو اور منطق کی اصطلات کسر، جسر اور غیر منصرف وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ منصرف وہ اسم جو کسرہ اور تنوین قبول کرے اور غیر منصرف اس کے برعکس ہے۔ 57؎ بقیع:ـ مختلف درختوں کی جڑوں والی زمین، بقیع طراز سے مراد درختوں اور پھولوں کی سر زمین۔ منصف نے اکثر جگہ مزار اور مقبرے سے وہ احاطہ مراد لیا ہے جس میں ایک سے زیادہ قبریں ہوں۔ بقیع گلزار مزار کا مطلب ایسا مزار جس کے گردا گرد درختوں اور پھولوں کی کثرت ہو۔ 58؎ مجمع البحرین: دو سمندروں کے ملنے کی جگہ، مطلع السیرین: دو سورجوں کے طلوع ہونے کی جگہ، سید الخافقین: دو آفاق کے سردار 59؎ بلا ذر بروزن بہادر، عرب کا ایک شہر جو باب الابواب کے نام سے معروف ہے۔ متن میں پہلے صرف بلا ذر ہے، جبکہ یہاں بھی بلا ذرومی ہونا چاہیے۔ 60؎ اکثر صوفیا کے تذکروں میں لفظ ’’ خدمت‘‘ احترام کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کے معنی جناب یا حضرت اور ذات شریف وغیرہ کے ہیں61؎ اس شعر میں شاعر لفظوں (زسر، سر اور قدوم) پر کھیلا ہے۔ قدووم کے لغوی معنی آمد یا تشریف آوری کے ہیں لیکن ممکن ہے یہاں ’’ سر‘‘ کی رعایت سے ویس نے قدوم کے معنی کہیں قدم یا قدموں کے نہ لیے ہوں۔ اگر پہلے مصرع میں سر بمعنی بھید، باطن اور راز ہو تو پھر ترجمہ ہو گا: جس کسی میں باطن کی گرمی یا جوش دیکھتے ہیں۔ 62؎ اس شعر میں حضرت اویس قربی کی طرف اشارہ اور تملیح ہے، متن میں دوسرے مصرعے کا آغاز ’’ گر‘‘ سے ہوتا ہے، یہاں ’’ گز‘‘ کا مقام ہے (تصحیح قیاسی) 63؎ جذبتہ من۔۔۔ الخ 64؎ مرنے سے پہلے مر جاؤ 65؎ سورہ النور، آیت16معاذ اللہ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ 66؎ یہ عبارت سورۂ آل عمران کی آیت97سے ماخوذ ہے اور حروف ابجد کے مطابق تاریخ تکمیل 898ھ (1493ئ) کی بنتی ہے 67؎ یہاں تو کوئی سطر رہ گئی ہے یا پھر غلطی سے میرزا کامران کا اضافہ کیا گیا ہے، کیونکہ یہاں بابر کی موت کے ذکر کا موقع ہے جب کہ متن کے مطابق کامران کی موت بتائی گئی ہے۔ 68؎ کتاب میں اس کے بعد جگہ خالی چھوڑی گئی ہے اور حاشیے میں تحریر ہے ’’البیاض فی الاصل‘‘ اسی طرح سادات پارسائیہ کے ذکر سے پہلے بھی جگہ خالی اور حاشیے میں مذکورہ عبارت ہے۔ (2) حواشی چکوں کی سلطنت کا آغاز 1,2کوئی سطر سہواً حذف ہو گئی ہے کیونکہ یہاں مطلب واضح نہیں 3؎ یہاں بھی کوئی سطر یا چند الفاظ چھوٹ گئے ہیں اور بعض الفاظ غلط لکھے گئے ہیں جن کا کوئی مطلب نہیں نکلتا4؎ ؟ 5؎ سورۂ البقرہ، آیہ 6249۔ سورۂ الحشر، آیت72۔ گیوپشن: شاہنامہ فردوسی کا ایک کردار، رستم داستان بھی اسی مثنوی کا ایک مشہور کردار ہے۔ 8؎ یہ شعر مولانا جامی کی مثنوی یوسف و زلیخا میں ہے، ملاحظہ ہو یوسف زلیخا، مطبع آصفی کانپور 1380ھ ص92معصن: وہ حدیث جس کا آغاز ’’ عن‘‘ سے ہو، یعنی فلاں’’ سے‘‘ روایت ہے 10؎ یہ حافظ کے اس مشہور شعر کا پہلا مصرع ہے: آنان کہ خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشہ چشمی بما کنند 11؎’’ بردر خیر مقدم‘‘ کے اعداد1200ہیں، تذکرۂ شعرامی کشمیر میں تاریخ صرف’’ خیر مقدم‘‘ ہے، یعنی 1586/994اور یہی صحیح ہے۔ 12؎ متن میں ’’ سنہ ہزار دیک صدویک‘‘ (1101) ہے، جب کہ ’’ شیخ کامل‘‘ کے عدد1001ہیں اور یہی صحیح تاریخ ہے۔ 13؎ متن میں ’’ در نہصد و ہفت دہشت ہجری‘‘ ہے۔ کاتب نے بیست (20) کو ہفت (7) بنا دیا، ملاحظہ ہو تذکرۂ شعرای کشمیر بخش دوم ص624 14؎ کتاب کے حاشیے پر مندرج عبارت کے مطابق جن دو نسخوں سے یہ کتاب مرتب ہوئی ہے ان دونوں میں رباعی کے آگے خالی جگہ چھوڑی گئی ہے۔ 15؎ متن میں ’’ میان باد تو۔۔۔‘‘ ہے جو بے معنی ہے، اسی طرح پہلے مصرع میں ’’ از‘‘ غلط ہے ’’ این‘‘ ہونا چاہیے۔ تصحیح قیاسی۔ 16؎ کلیات صائب مطبوعہ نو لکشور لکھنو1906میں مذکورہ قصیدہ نہیں ہے اور مذکورہ غزل کے اس شعر کا دوسرا مصرع اس طرح اور مطلع غزل یہ ہے: در سخا و در شجاعت چون ظفر خان تونیست (اور یہی صحیح ہے) مطلع: داغ من ممنون شکر خند پنہان تونیست زیر بار منت گرد نمکدان تونیست 17؎ متن میں تاریخ اس طرح بیان ہوئی ہے:’’ تاریخ ہر دو بزرگوار چنین اتفاق افتاد ستون دین،یہاں ’’ افتاد‘‘ دو مرتبہ آنا چاہیے، ایک ’’ اتفاق افتاد‘‘ اور دوسرا ’’ افتاد ستون دین‘‘ کہ صحیح تاریخ ان تین الفاظ سے نکلتی ہے۔‘‘ 18؎ مولف ماثر الامرا نے اسلام خان کی تاریخ وفات غنی ہی کے مصرع کے مطابق1074ھ دی ہے، ماثر الاصرا (جلد اول ص218) صمصام الدولہ شاہنواز خان مترجم پروفیسر محمد ایوب قادری، مرکزی اردو بورڈ لاہور) جب کہ تاریخ اعظمی کے مطابق اسلام خان1074میں وارد کشمیر ہوا اور دو برس وہاں رہا۔ا سلام خان کے بعد، اعظمی ہی کے مطابق، سیف خان 1076میں نظامت کشمیر پر مقرر ہوا۔ گویا درمیان کے دو سال کسی ناظم کے بغیر گذرے، مولف ماثر الامرا کے بقول، اسلام خان، عالمگیر کے چوتھے سال جلوس میں نظامت کشمیر پر فائز ہوا، اور عالمگیر صاحب مراۃ العالم کے مطابق1068ھ میں تخت نشین ہوا (محمد بختاور خان، مراۃ العالم تاریخ اورنگزیب، بہ تصحیح ساجدہ میں علوی، لاہور1979جلد او ص71) اس لحاظ سے اسلام خان کا مال ورود کشمیر 1072ھ بنتا ہے اور یہی صحیح ہو گا۔ 19؎ اس طویل بحر کی ہجو کے پانچ اشعار (دس مصرعے) دئیے گئے ہیں چونکہ باقی چھ مصرعے مبتذل ہیں، اس لیے پانچواں اور چھٹا مصرع ترجمے کے بغیر نقل کر کے باقی اشعار حذف کر دئیے ہیں۔ 20؎ اللتیا والتی: عربی کی ضرب المثل ہے جو ’’ القصہ‘‘ کی جگہ استعمال کی جاتی ہے۔ لتیا اسم موصول کا مصغر اور والتی اس کا مکبر ہے۔ مطول میں اس کا خلاصہ یوں دیا گیا ہے کہ کسی شخص نے ایک عمر رسیدہ عورت سے نکاح کیا۔ اس سے اس کی موافقت نہ ہو سکی۔ پھر اس نے کم عمر کی عورت سے نکاح کیا۔ وہ بھی اس کی مخالف ہوئی۔ اس وجہ سے اس نے دونوں کو چھوڑ دیا۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End