شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے پاکستان کا مستقبل ڈاکٹر محمد رفیع الدین اقبال اکادمی پاکستان ’’ہم نے علم کو علم دین تک اور دین کو قرآن اور حدیث کے الفاظ تک محددو کردیا، حالانکہ اس وقت جس قدر صحیح او سچا علم دنیا میں موجود ہے یا آئندہ زمانوں میں انسان کی ذہنی کاوش سے پیدا ہونے والا ہے وہ علم دین کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس زمانہ میں علوم کی ترقی قرآن کے علم کو بہت آگے لے گئی ہے ،لیکن ہم وہیں کھڑا ہیں۔ دنیا آگے جارہا ہے ۔ اور ہمارا رخ پیچھے کی طرف ہے ۔‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین پاکستان کا مستقبل سے اقتباس جواز اشاعت مکرر ایک ایسی کتاب جو آج سے قریباً چالیس سال پہلے شائع ہوئی پھر آ ج تک اس کا دوسرا ایڈیشن چھپنے کی نوبت نہ آئی اس کی اشاعت مکرر کا جواز پیش کرنا یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں آج ہر ہوشمند پاکستانی فکر مند ہے۔ خارجی خطرات سے کہیں زیادہ سنگین تر داخلی روگ ہیں جو جسد ملی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیںَ اور ستمگاری حالات کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور دینی راہنما اپنے بدشگون بیانات سے ملک میں مایوسی اور گھمبیرتا کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ خدا کی رحمت پر بھروسہ رکھنے والے بندگان خدا جنہوںنے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز رکھنے والا کوئی مرد خدا ہم میں سے اٹھے گا اور قوم کو بتلائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے وہ ابھی پورا نہیں ہوا اسے بہرحال پور ا ہو کر رہنا ہے اور یہ سوچنا بھی کفر ہے کہ خدا کا کوئی کام (نعوذ باللہ) بے مقصد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور جو کار مرداں روشنی و گرمی است کے قلم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جب تک زندہ رہے قوم کو روشن مستقبل کی نوید سناتے رہے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں آپ نے پاکستان کا مستقبل کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اسے شائع کیا۔ اس کتاب میں آپ نے قوم کے بنیادی مرض کی تشخیص کی اور اس کا علاج بھی تجویز کیا۔ لیکن ہماری قوم کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ وہ خسروانہ انداز رکھنے والے اس مرد درویش کے کام بلکہ نام تک سے ناواقف ہے۔ جو عمر بھر تند و تیز ہوائوںمیں اپنا چراغ جلاتا رہا مگر اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ انسانی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے ۔ موجودہ حالات میں جب تاریکیاں کچھ زیادہ ہی پھیلتی جا رہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے ہ اس مرد درویش کے چراغ سے روشنی حاصل کی جائے جس کی رجائیت پسندی کا یہ عالم رہا کہ کسی بھی حالت میں مایوسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا بلکہ مرض کو بھی رحمت ہی خیال کیا ذرا سنیے۔ ’’عجیب بات ہے کہ کئی امراض کی صورت میں آج تک مرض کو روکنے کے لیے مرض کو پیدا کرنے سے بہتر کوئی طریقہ علاج ایجاد نہیں ہوا۔ وہ مرض جو آ کر گزر جائے جسم کے لیے رحمت بن جاتا ہے کیونکہ اس سے جسم کی مخفی قوتیں جو مرض کو روکنے کے لیے فطرت نے اس کے اندر رکھی ہوئی ہیں بروئے کار آ جاتی ہیں اور اس کی آئندہ سحت کی ضامن بن جاتی ہیں‘‘۔ ڈاکٹر رفیع الدین مایوسی کو پھیلانے والے سیاسی اور دینی رہنمائوں سے سخت بیزار تھے۔ پیشہ ور سیاسی علماء کے بارے میں ان کی عمومی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ دینی بصیرت سے محروم ہیں۔ ان کے نزدیک دین کا علم ایک روحانی استعدا د ہے اور مطالعہ کتب پر موقوف نہیں۔ ان کے خیال میں علامہ اقبال اس روحانی استعداد سے پوری طرح بہرہ ور تھے اور ان میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی امتی کو دور جدید کے غلط تصورات کے خلاف حق و صداقت کے قدرتی رد عمل کا آلہ کار بننے کے لیے درکار ہیں نیز ان کی یہ قطعی رائے تھی کہ علامہ اقبال کا فلسفہ ان کا ذاتی فلسفہ نہیں بلکہ فقط جذبہ ایمان کی عقلی توجیہہ اور تشریح ہے چنانچہ وہ فلسفہ خودی کو علم جدید کی روشنی میں قرآن کی تفسیر اورقرآن کی روشنی میں علم جدید کی تطہیر قرار دیتے ہیں اور بلا تامل ہمارے مرض کا یہ علاج تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کو ریاست کا سرکاری نظریہ قرار دے کر فلسفہ خودی کو اسلام کی سرکاری ترجمانی کے لیے کام میں لایا جائے اپنے اس موقف کی تائید میں وہ بہت ہی محکم دلائل رکھتے تھے۔ افسوس کہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے امید افزا اور یقین افروز افکار و نظریات سے ہم ابھی تک کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے جو عمر بھر ہمیں اپنی تحریروں کے ذریعے ماں کی مامتا کی سی دلسوزی کے ساتھ پکارتے رہے۔ دست ہر نا اہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند موجودہ وقت کا شدید تقاضا ہے کہ ہم ان کی باتوں پرتوجہ دیں جو انہوںنے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں لکھی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ان کا فکر بلند ظلمت شب میں صفت برق چمک رہا ہے جو ہمارے الجھے ہوئے قومی معاملات اور حالات میں رہنمائی کے لیے مفید بھی ہے اور ولولہ انگیز بھی ۔ یہی چیز ہمارے لیی اس کی اشاعت مکرر کا جواز بنی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ آج ہر محب وطن پاکستانی پر واجب ہے جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ مظفر حسین 10مئی 1994ء اکیڈیمک اینڈ منسٹر یٹو ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس پاکستان کا مستقبل میں نے اپنی کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر Ideology of the Futureمیں اقبال کے تصور خودی کی منظم تشریح کرت ہوئے اس کو اس کے آخری نتائج تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جب میں ٰہ کتاب لکھ رہا تھا تو رجحانات ارتقا کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ حقائق فطرت ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ زور یا بدیر عالم انسانی میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئے گی جو نہایت اخلاص کے ساتھ اسلام کے بنیادی اصولوں کو اپنا سیاسی نظریہ بنائے گی اور پھر یہ ریاست رفتہ رفتہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی۔ اور اس کے ذریعے سے آدم اپنے انتہائی عروج کو پہنچے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے اس خیال کو ان حقائق کے سمیت جو اس پر مجبور کرتے ہیں ا س کتاب کی فصل پالیٹکس اینڈ وار Politics and Warمیں درج کیا ہے ۔ یہ کتاب مئی 1942ء میں ختم ہوئی تھی۔ اور اس وقت پاکتان کا مطالبہ اکثر مسلمانوں کے نزدیک ایک دھندلی سی امیداور اکثر ہندوئوں اور انگریزوں کے نزدیک سودے بازی کے لیے ایک چال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اگرچہ میں نے لکھا کہ مستقبل کے عالمگیر اسلامی ریاست تو مسلموں کے ایک گروہ کی لمی اور دشوار جدوجہد کے بعد عدم سے وجودمیں آئے گی اور ایک فلسفیانہ ریاست ہو گی جو اسلام کے فلسفہ یعنی فلسفہ خودی پر جو ایک ہی صحیح اور سچا فلسفہ ہے قائم ہو گی اور فلسفہ خودی کی اشاعت اس کی توسیع کا بڑا ذریعہ بنے گی وغیرہ تاہم اس وقت اس ریاست کی باریک جزئیات پر مثلا یہ کہ وہ کہاں وجود میں آئے گی غور کرنے کی ضرورت موجود نہ تھی۔ اگر میں غور کرتا بھی تو شاید اس وقت نتائج اخذ کرنے کے لیے کافی وجوہات نہ پا سکتا۔ لہٰذا میں نے ان جزئیات کو مستقبل کے سپرد کر رکھا کہ وہ ان کو جس طرح کہ وہ فی الواقع ظہور پذیر ہونے والی ہیں اپنے وقت پر خود بخود بے نقاب کر لے گا۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس ریاست کو دیکھنا میری قسمت میں ہو گا۔ لیکن میں خیال کرتا تھا کہ روح اسلام کے مطابق اس کے دستور اساسی کی تشکیل میں اس کے نظم و نسق میں اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسی کو وضع کرنے میں اس کے صنعتی تبلیغی تجارتی ‘ تعلیمی‘ اور مالی نظام کی تشکی میں مستقبل کے مسلمانوں کو دقت پیش آئے گی اور میری تمنا بھی تھی کہ میں اس ریاست کا خاکہ بنائوں اور ان امور کے متعلق جیسا کہ میں ان کو سمجھتا ہوں اپنی تجاویز پر مدلل طور پر لکھ دوں تاکہ جب یہ ریاست وجود میں آئے تو مسلمان میری تجاویز کو بھی غور و فکر کے بعد جس حد تک کار آمد پائیں کام میں لائیںَ لیکن ریاستی ملازمت کی مجبوریوں اور بعض اور مجبوریوں کی وجہ سے جن میں سے ایک یہ تھی کہ میری پہلی کتاب چھپنے میں دیر ہو گئی۔ اس کام کو جلدی ہاتھ میں لینا ممکن نہ ہوا۔ لیکن جب پاکستان کے مطالبہ نے زور پکڑا تو میری توجہ بعض ایسے حقائق کی طر ف ہوئی جن کی بنا پر مجھے یقین ہو گیا کہ مستقبل کی عظیم الشان اور عالمگیر اسلامی ریاست جس کی طرف حقائق اشارہ کر رہے ہیں پاکستان ہی ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ جب پاکستان بن گیا تو میں نے قائد اعظمؒ کی خدمت میں اپنی کتاب کا نسخہ بھیجا اور ایک طویل عریضہ لکھا جہ کس طرح سے اگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنایا گیا تو اس کا مستقبل ہماری توقعات سے بڑھ کر شاندار ہو گا اور کس طرح فلسفہ خودی اس زمانہ کی اسلامی ریاست کی مشکلات کا قدرتی حل ہے اس عریضہ کی کاپیاں بعض وزرا کو اور اسمبلی کے اراکین کو بھیجیں لیکن اس وقت تک پاکستان ایسی مشکلات میں گھر ا ہوا تھا کہ دستور سازی کے مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ناممکن نہیں تھا۔ زیر قلم مقالہ میں جو پاکستان کا مستقبل کی صورت میں قارئین کے سامنے آ رہا ہے میں نے کوشش کی ہے کہ فلسفہ خودی کی مختصر سی تشریح کر کے پاکستان کے سیاسی نظریہ کے طورپر اس کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کر دوں۔ جب وزیر اعظم کی قرار داد مقاصد پیش ہو کر منظور ہوئی تو اس وقت یہ مقالہ لکھا جا چکا تھا۔ لیکن قرار داد کی منظور سے مجھے اپنی معروضات میں کوئی تبدیلی کرنا ضروری نہیں ہوا کیونکہ اس قرار داد سے میری تجاویز کا وہ حصہ جس کی میں پہلے ہی توقع کر رہا تھا منظور ہوا اور دوسرے حصہ کی منظوری کے راستہ میں سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ البتہ یہ قرار داد اس خیال کی اور تائید کرتی ہے کہ مستقبل کی عالگیر ریاست پاکستان ہی ہے اقبال کے فلسفہ خودی کا ظہور پانا پھر اس کا زیادہ مفصل اور منظم صورت اختیار کرنا پاکستان کے ایک معجزہ کے طور پر وجود میں آنا اور پھر ایک ایسے ہی مجزہ کے طور پر ایک اسلامی ریاست بننا‘ یہ سب مستقبل کے اسلامی ریاست کی زندگی اور ترقی کے اسباب ہیں۔ اور اس سلسلہ کی اگلی کڑی فلسفہ خودی کو پاکستان میں اسلام کی سرکاری ترجمانی کے لیے کام میں لانا ہے اور پھر وہ کڑیاں جن کا ذکر میں نے مختصراً اس مقالہ میں کیاہے جو پاکستان کو زمین کے کناروں تک پھیلا دیں گی اس کے بعد آئیں گی۔ اگر آپ مقالہ میںدرج کی ہوئی معروضات میں سے کسی کی مزید تشریح یا تفصیل کی ضرورت محسوس کرتے ہوں تو میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر Ideology of the Future کا مطالعہ کریں۔ اگر آپ فلسفہ خودی کی ضرورت اور اہمیت کا احساس رکھتے ہوں تو پھر آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ جہاں کہیں ہوں اور جس حیثیت سے ہوں اور جہاں تک آپ کے لیے ممکن ہو۔ اس جہان تازہ کو جس کے ایوانی اوراولین صورت اقبا ل کی صبح گاہی آہوں میںنمودار ہوئی تھی ایک مکمل شکل دینے کے لیے کمربستہ ہو جائیں ۔ اسلام اور کفرکی کشمکش اس وقت ایک بحرانی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر فلسفہ خودی پاکستان کا سرکاری نظریہ بن گیا تو یہ کشمکش فوراً اسلام کے حق میں اور کفرکے خلاف طے پا جائے گی ۔ اگرچہ یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ فلسفہ خودی پاکستان کا سرکاری نظریہ قرار پانا قدرت کا اپنا مقصد ہے جو پورا ہو گا لیکن خدا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اہم کام لینا چاہتا ہے۔ آئیے ہم اس کام کے لیے کمرہمت باندھ لیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ اگر ہم نے آج سستی کی تو خدا تعالیٰ کے مقاصد تو نہ رکیں گے البتہ ہماراکوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔ ٭٭٭ 1:: مرض مسلمانوں کا انحطاط ہر سمجھدار مسلمان جو اپنی قوم کی موجودہ حالت پر دیانت دارانہ طریق سے اور جذبات س یالگ ہو کر غور و فکر کرتا ہے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہم ایک ایسے شدید انحطاط کے دور سے گزر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے لیے نہایت خطرناک ہو کستا ہے ۔ ہمارے دلوں سے اپنے نصب العین یعنی اسلام کی محبت یا تو بالکل ختم ہو چکی ہے یا اگر زند ہے تو شمع رہ گزر کی طرح جسے ہوا کے جھونکے ٹھیک طرح سے روشن کرنے کا موقع نہیں دیتے جو نہ جلتی ہے نہ بجھتی ہے او رجو اپنی زندگی کے لیے ہر وقت ایک ناکام کشمکش میں رہتی ہے یہ مسلم ہے کہ اب اسلام ایک ایسی قوت نہیں رہا جو ہماری زندگی کے سارے افعال اور اعمال پر نگران اور حکمران ہو۔ آہستہ آہستہ ہم ا س سے رخصت ہو رہے ہیں اور ہم یہ سے رخصت ہو رہا ہے۔ کوئی بداخلاقی ایسی نہیںجس سے اسلام نے روکا نہ ہو‘ لیکن کوئی بداخلاقی ایسی نہیں جس کے ہم مرتکب نہ ہو رہے ہوں رشوت ستانی‘ چور بازاری‘ کنبہ پروری ‘ جتھے بندی‘ دوست نوازی‘ جاہ طلبی ‘ غداری‘ قومی بے حمیتی‘ اسراف‘ حرص ‘ منافقت ‘ جھوٹ ‘ عیاشی‘ آرام طلبی‘ سہل انگاری‘ صوبہ پرستی‘ نسل پرستی غرضکہ تمام رزائل جو قو م کی جڑ کاٹنے والے ہیں دوسری قوموں سے بڑھ کر ہم میں موجود ہیں ۔ اب اسلام سے ہمارا تعلق قریباً قریباً ایک رسمی یا روایتی حیثیت رکھتا ہے ورنہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام سے الگ تھلگ نہ ہو چکے ہوں۔ مثلاً دستور حکومت ہی کے مسئلے کو لیجیے ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا تھا لیکن اب ہم سمجھت ہیں (اور کسی حد تک جائز طورپر سمجھتے ہیں) کہ پاکستان کو ایک کامیاب اسلامی ریاست بنانا ایک ایسا کام ہے جس کی راہ میں ناقابل عبور مشکلات ہیں۔ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست نہ بنا سکے یا اسلامی ریاست بنانے کے بعد عملی طورپر اسلام کی ریاست کی روح رواں نہ بنا سکے تو یہ اس بات کا اعتراف ہو گا کہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ اس زمانہ میں اسلام ایک سیاسی نظریہ کے طور پر ناقابل عمل ہے۔ اور جب اسلام عملی طور پر ایک موثر سیاسی نظریہ نہیں بن سکتا تو پھر زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس پر اس کا اثر باقی رہ سکتا ہے۔ کیا یہ ٹھیک نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ضابطہ قانون و اخلاق ہمارا نظام معاشیات اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلو درحقیقت ہمارے سیاسی نظریہ کے ماتحت صورت پذیر ہوتے ہیں۔ اہل یورپ کو دیکھ لیجیے کہ جب سے ان لوگوں نے پورے اختیار کے ساتھ اور جان بوجھ کر عیسائیت کو حکومت سے الگ کیا ہے ۔ عیسائیت مردہ ہو کر زندہ ہو گئی ہے۔ نا امیدی اس صورت حال کے باعث بعض مسلمان جو اعتقادی حیثیت سے پہلے ہی کنارہ پر تھے اور بھی زیادہ مایوس ہو گئے ہیں اور سمجھنے لگے ہیں کہ اب اسلام کے عروج کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور جس طرح سے تاریخ کا ہر تمدن یا نظریہ زندگی اپنے وقت میں پیدا ہوا تھا اوربڑھا اور پھولا تھا اور خوب ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ بام عروج تک پہنچ گیا اور اس کا زوال شروع ہو ا جو کسی کے روکے سے نہ رکا اور یہاں تک کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا اسی طرح سے اسلام کا روز افزوں تنزل بھی اس کی موت پر ختم ہوا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت بھی اسلام ایک بے جان یا نیم جان ڈھانچہ کی شکل میں باقی رہ گیا ہے اور مستقبل قریب میں بھی یہ اشتراکیت کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ ان کا خیا ل ہے کہ اسلام کی تقدیر باقی تہذیبوں سے الگ نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام بھی ہماری آنکھوں کے سامنے اپنے عروج کمال کو پہنچا۔ اس کا عروج صدیوں قائم رہا۔ اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ برابر انحطاط کی ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا چلا جا رہا ہے ۔ اور بظاہر تاریخ عالم ایک حد تک ان لوگوں کی قنوطی منطق کو بھی سہارا دیتی ہے کیونکہ دنیا کی تاریخ درحقیقت نظریات زندگی کے مٹنے اورابھرنے ہی کی تاریخ ہے۔ 2 :: پائیدا زندگی کی صلاحیتیں اسلام کبھی مٹ نہیں سکتا لیکن واقعات تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے کی بجائے اگر ہم ایک طرف اسلام کے بنیادی اصولوں اور دوسری طرف فطرت انسانی کے قوانین کا (جو دراصل تصورات زندگی کے مٹنے اور ابھرنے کا باعث ہوتے ہیں) گہرا علمی اور تنقیدی مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا کریں تو ہمیں اس نتیجہ سے گریز نہیں آئے گا کہ اسلام کبھی مٹ نہیں سکتا۔ بلکہ اس کے برعکس پیہم ترقی کی منزلوں کو طے کرتا ہوا آخر ایک ایسے دور میں پہنچ جائے گا۔ جب اسکے مقابلہ پر دنیا بھر میں کوئی اور نظریہ زندگی موجود نہ ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک کامل نظریہ زندگی ہے۔ لہٰذا وہی قوانین فطرت اور کائنات کی وہی مخفی قوتیں جو دوسرے ناقص نظریات زندگی کو ابھارتی ہیں اور مٹاتی ہیں اسلام کو ہمیشہ قائم رکھنے بلکہ زیادہ سے زیادہ ترقی دینے کے لیے ہر عمل پیر اہیں۔ قدرت ایک مکمل کامیابی کومدت دراز کی جدوجہد کے بعد حاصل کرتی ہے۔ اور جب وہ حاصل ہو جاتی ہے تو اسے مٹاتی نہیں بلکہ اسے کائنات کی آئندہ ترقی کے لیے سنگ بنیاد کے طور پر کام میں لاتی ہے۔ اسلام کو ایک مکمل تصور زندگی قرار دینا بظاہر ایک خوش فہمی سی نظر آتی ہے۔ کیونکہ تصور زندگی کی خصوصیتیں ہر قوم اپنے نظریہ زندگی کو خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ایک مکمل نظریہ سمجھتی ہیں۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کہ اسلام کیوں ایک مکمل نظریہ زندگی ہے اور اشتراکیت یا عیسائیت کیوں نہیں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ نظریہ زندگی کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں اور انسان کی نفسیات اور ارتقا کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے لہٰذا میں مختصر طور پر نظریات زندگی کی خصوصیات کا ذکر کروں گا۔ ہر انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کرے نظریہ زندگی Ideology اعتقادات اور آراء کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ایک انسان اپنے علم کے مطابق کائنات کا حل سمجھتا ہے۔ اور اسے اپنی خودی کے تقاضا کو پورا کرنے کے لیے قبول کرتاہے۔ ہر انسان مجبور ہے کہ کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کرے اور اس پر ایک ایسا پکا اور سچا اعتقاد رکھے جو فی الواقع اس کی زندگی کے سارے افعال پر مسلط ہو۔ ایک فرد بشر کے لیے کسی نظریہ کائنات کو قائم کرنا اور باور کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اگر وہ ایک نظریہ زندگی کا ناکافی یا غیر تسلی بخش سمجھ کر چھوڑنا چاہے تو جب تک کسی اور نظریہ زندگی پر اعتقاد قائم نہ کر لے اسے چھوڑ نہیں سکتا ۔ غرضیکہ انسان اپنے نظریہ زندگی سے ایک لمحہ کے لیے بھی الگ نہیں ہو سکتا۔ نظریہ زندگی اس کے لیے خوراک سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ مشاہد ہ میں آتاہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو انسان اپنے نظریہ زندگی کی حفاظت ک لیے خواہ وہ نظریہ زندگی کسی نوعیت کا ہو) بھوکا رہنے بلکہ جان تک دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ نظریہ زندگی کا منبع انسان کی خودی کا قوی ترین جذبہ یعنی کشش حسن ہے نظریہ زندگی کا سرچشمہ یا منبع درحقیقت فطرت انسانی کا وہ زبردست (انسا ن کے تمام نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ قوی اور زیادہ زبردست) جذبہ Urgeہے جسے حسن و کمال کی معنوی کشش کہنا چاہیے۔ یہ جذبہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی تصور کی طر ف حسن و کمال معنوی کی تمام صفات شعوری یا غیر شعور طور پر منسوب کرے خواہ یہ صفات اس تصور میں فی الواقع موجود ہوں یا نہ ہوں۔ تصور کامل کی خصوصیت ظاہر ہے کہ انسان کا یہ فطری جذبہ محبت صرف ایک ایسے تصور سے مستقل اور مکمل طور پر مطمئن ہو گا جس کے اندر حسن و کمال کے تمام وہ عناصر یا اوصاف فی الواقع موجود ہوں گے جنہیں ہم انسان ہونے کی حیثیت سے وہم و گمان میں لا سکتے ہیں یا جن کی خواہش کر سکتے ہیں ایسا تصور تصور کامل ہو گا۔ اور یہی ہماری فطرت کا اصل مقصود و مطلوب ہو گا۔ اور اگر کسی تصور میں ان صفات کمال میں سے جن کے لیے ہماری فطرت بے تاب ہے ایک صفت بھی مفقود ہو گی تو وہ تصور ہمیں آخر کار پوری تسلی نہ دے سکے گا۔ اور لہٰذا ناقص اور ناپائیدار ہو گا۔ ناقص تصورات ناتسلی بخش اور ناپائیدار ہوتے ہیں چونکہ انسان ٹھیک طرحسے یعنی ذاتی علم تجربہ یا احساس کی بنا پر نہیں جانتا کہ تصور کامل فی الحقیقت کون سا ہے۔ اور چونکہ اس کا جذبہ محبت ناقابل التواء اور ناقابل گریز ہے۔ اور فوری اطمینان چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بہتر علم کا انتظار نہیں کر سکتا۔ اور مجبور ہوتا ہے کہ اپنے دائرہ علم ک یاندر جو تصور اسے فی الوقت بہترین نظر آئے اسی سے حسن و کمال کی تمام صفات جن کی تمنا اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر گئی ہیں منسوب کر دے۔ جیسے کہ ہر شخص جو اپنی خوراک نہ پا سکتا ہو بھوکا سے مجبو رہوتاہے ۔ کہ جو کھانے کو ملے اسی سے اپنا پیٹ بھر لے۔ اور اسی میں لذت و اطمینان پائے۔ ہر تصور جو ایک انسان اس طرح سے اختیار کرتا ہے اسی قسم کا ہوتا ہے کہ اس میں سے صفات کمال و حسن میں سے ایک یا چند صفات کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ۔ اور پھر باقی ماندہ صفات کو وہ تحقیق کرنے کے بغیر اور غیر شعوری طور پر اس کی طرف منسوب کر کے ان کی موجودگی کا احساس کرنے لگتا ہے کیونکہ اس کا تصور کیسا ہی ناقص ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے تقاضائے فطرت کا کوئی پہلو غیر مطمئن رہے وہ کسی ایسے تصور کو پسند نہیں کر سکتا جس کے متعلق اسے شبہ ہو کہ کوئی صفت کمال ایسی بھی ہے جو اس میں موجود نہیں۔ لہٰذا وہ جس تصور کو پسند کرتا ہے اس کے متعلق ناجائز یا جائز اطمینان رکھتا ہے کہ اس کے اندر تمام صفات کمال موجود ہیں۔ لیکن درحقیقت جس قدر اس کا علم یعنی تجربہ یا احساس ناقص ہو گا اسی قدر اس کا باور کیا ہواتصور بھی ناقص ہو گا۔ اور جس قدر اس کے علم اور تجربہ کا دائرہ وسیع ہو گا اسی قدر اس کے تصور کا معیار حسن و کمال بھی بلند ہو گا۔ تاہم جب کوئی انسان کسی تصور کو اختیار کرتاہے تو اسے زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ اور جب تک اس کے ساتھ وابستہ رہتا ہے اس کے ساتھ پوری پوری عقیدت رکھتا ہے اور اپنی تمام زندگی کو اس کی خدمت میں اور اطاعت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ نظریات زندگی کا ارتقا گویا اسے ہر طرح سے وہی تصورخیال کرتا ہے جو درحقیقت کمال معنوی کی انتہا ہے اور جو اس کا اصلی مقصو د و مطلوب ہے لیکن چونکہ ایک ناقص تصور فی الواقع بعض صفات کمال سے عاری ہوتا ہے۔ اس لیے جب ہم کچھ عرصہ کے لیے اس کے ساتھ وابستہ رہتیہیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب ہم کچھ عرصہ کے لیے اس کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ہماری فطرت یا ہمارے تقاضائے حسن کے بعض عناصر کے ساتھ مزاحم ہو رہا ہے۔ اور لہٰذا ناقص اور غیر تسلی بخش ہے نہ صر ف یہ کہ بعض صفات کمال ا س میں نہیں بلکہ جو صفات کمال اس میں نظر آ رہی ہیں ان کی حقیقت بھی فریب نفس سے زیادہ نہ تھی۔ کسراب بقیعۃ تحسبہ الظمان ماء حتی اذا جاء ہ لم یجدہ شیئا (39:24) ترجمہ: چٹیل میدان کے سراب کی طرف جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو کچھ نہیں پاتا۔ پھر ہم اس نظریہ سے الگ ہو کر دوسرے نظریہ کو اختیار کرتے ہیں نئے نظریہ کے اندر جہاں تک ہمار ا علم اور تجربہ کام کرتا ہے وہ صفات موجود ہوتی ہیں جو پہلے تصور کے اندر موجود نہ تھیں۔ لہٰذا ہم اس نئے تصورکو اپنا اصلی مقصود و مطلوب خیال کرنے لگ جاتے ہیں اور اس کی طرف بھی کمال کی باقی ماندہ تمام صفات کو اسی طرح سے بلا تحقیقت اور غیر شعوری طور پر منسوب کر دیتے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے پہلے تصور کے بارہ میں کیا تھا۔ اب یہ نیا تصور بھی ہماری محبت کوپوری طرح جذب کر لیتا ہے اور ہم اس کی خدمت اور اطاعت میں لگ جاتے ہیں لیکن اگر یہ تصور بھی غلط ہو تو اس کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو پہلے تصور کا ہوا تھا۔ اور ہم ایک تیسرے تصور کی طرف رخ کرتے ہیں۔ وعلی ھذا القیاس۔ ظاہر ہے کہ ہماری فطرت کے یہ تجربات تصورات زندگی کے ارتقا کا ایک ذریعہ ہیں اور صرف اسی وقت تک جاری رہ سکتے ہیں جب تک ہم تصور کامل کو نہیں پا لیتے۔ یعنی اس کے صفات حسن و کمال کا ذاتی احساس نہیں کر لیتے۔ ہمارے اندازہ حسن میں ایک تصور کا بلند ہونا اور دوسرے کا گرنا ترازو کے دو پلڑوں کے گرنے اور ابھرنے کی طرح بیک وقت عمل میں آتاہے اس لیے نئی تہذیبیں پرانی تہذیبوں پر فوراً تعمیر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کامل نظام تصورات کی خصوصیت جو تصور Ideaزندگی کا نصب العین Idealبنتا ہے اس کے ماتحت اور تصورات پیدا ہوتے ہیں جو زندگی کا مکمل یا غیرمکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں۔ اس طرح سے ایک مرکزی یا بڑے تصور کے ارد گرد ایک کامل یا غیر کامل نظام تصورات Ideologyپیدا ہو جاتا ہے ۔ ایک کامل نظام تصورات وہ ہو گا جو تصور کامل کے اردگر دپیدا ہو اور انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر نظام تصورات جو تصور کامل کے اردگرد پیدا ہو‘ کامل نظام تصورات ہو۔ ہر نظام تصورات کامرکزی نقطہ انسان کی فطرت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ سوال کہ انسان کیا ہے کیا چاہتاہے اور کائنات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے۔ اس لیے ہر نظام تصورات ایک نظریہ کائنات یا ایک فلسفہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اسی حد تک صحیح یا غلط مدلل یا غیر مدلل‘ اور منظم یا غیر منظم ہوتا ہے جس حد تک کہ اس پر اعتقاد رکھنے والی سوسائٹی کا درجہ علم اجازت دیتا ہو۔ جس قدر فطرت انسانی کے متعلق ہمارا قیاس درست ہو گا اسی قدر ہمارا فلسفہ یا نظام تصورات بھی درست ہو گا۔ ارتقائے علم اور تصورات زندگی نظام ہائے تصورات اس وقت سے دنیا میں موجود چلے آتے ہیں جب انسان پہلے پہل اپنے آپ سے آگاہ ہوا‘ اور اس نے اپنی ہستی اور کائنات کے باہمی تعلق کے بارہ میں سوچنا شروع کیا۔ اپنے ارتقاء کے ہر درجہ پر جو تصور بھی اسے کامل تصور نظر آیا۔ اسی کو کائنات کی گتھی کا حل قرار دیا ۔ اور خواہ وہ زبان سے کچھ کہتا رہا لیکن دل سے اسی کو اپنا اور کائنات کا خالق اور مالک قرار دیا۔ اور اسی کو اپنی زندگی کا مدار اور محور بنایا۔ شروع شروع میں جب انسان کا علم ناقص تھا۔ اس کے نظام ہائے تصورات قدرت کی طاقتوں کی تجسیم Personification ان کی وہمی توجیہات اور وہمی روایات Mythologyپر مشتمل تھے۔ رفتہ رفتہ ا ن کی نوعیت زیادہ معقول ہوتی گی یہا ں تک کہ اب وہ ایسے فلسفو ں کی صورت اختیار کر گئے ہیں جو عقلی طور پر پوری طرح سے مدلل اور منظم نظر آتے ہیں۔ انسان کی فطرت ایک مکمل ترین نظام تصورات کی تلاش میں سرگرداں ہے تمام علوم فلسفے اور مذاہب اس کی تلاش کا نتیجہ ہیں۔ چونکہ ہر شخص خواہ اس کا علم یا اعتقاد کسی درجہ یا نوعیت کا ہو اپنا ایک مخصوص نظام تصورات یا نظریہ زندگی رکھتا ہے۔ اس لیے فلسفے سے کسی کو گریز نہیں۔ البتہ ہمارا وقت ہمارا فلسفہ اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ عقلی طور پر مدلل ہو سکے۔ اور بعض وقت ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہمارا فلسفہ عقلی طور پر مدلل ہونے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے۔ نصب العین کی بنیاد وجدان یا احسا س ہے عقل نہیں وہ نظام تصورات (درست یا غلط) جو فی الواقع ایک انسان کی زندگی پر حکمرانی کرتا ہے (وہ انسان ماہر ریاضیات ہو یا فلسفی یا سائنسدان) کبھی کلیتہً ریاضیات یا منطق یا سائنس پر مبنی نہیں ہوتا۔ خواہ اسے ماننے والا مطمئن ہو کہ عقلی طور پر وہ پوری طرح ثابت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصور زندگی یا نصب العین کی بنیاد عقل پر نہیں۔ بلکہ وجدان Intuition یا احساس Feelingپر ہوتی ہے۔ ہم وجدانی طور پر ایک تصور میں حسن و کمال کا بلا واسطہ احساس کرتے ہیں اور اس کو اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا وجدان یا احساس اکثر ہم کو غلط یا ناقص تصورات کی طرف لے جاتا ہے۔ تاہم ہمارے پاس تصور کامل کے لیے احساس یا وجدان کے سوائے کوئی راہ نما بھی نہیں۔ خو د عقل اور وجدان کی خدمت گار ہے‘ حکمران نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح وجدان سے پیدا ہونے والی عقل غلط وجدان کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ ایک نظام تصورات کبھی عقلی طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وہ ایک تربیت یافتہ بے خطا اور سچے وجدان پر مبنی نہ ہو۔ ایسا وجدان ایک پیغمبر کا امتیاز ہے۔ اور اس کو ہم وحی کہتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے نظام ہائے تصورات جو عقلی کہلاتے ہیں (مثلاً اشتراکیت) درحقیقت عقلی طور پر درست نہیں بلکہ ایک غلط وجدان سے پیدا ہونے والی عقل پر مبنی ہیں۔ ہر نصب العین ایک منظم جماعت یا ریاست پیدا کرتا ہے ایک تصور کا خاصہ ہے کہ وہ دوسرے افراد میں پھیل جاتا ہے۔ پھر افراد جو ایک ہی نظام تصورات پر اعتقاد رکھتے ہوں ایک دوسرے سے کشش رکھتے ہیں اور ایک جماعت بن جاتے ہیں جسے قوم یا فرقہ کانام دیا جاتا ہے۔ جماعت کے اندر خود بخود ایک نظام پیداہو جاتا ہے جس سے وہ ایک حکومت یا ریاست کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہر نظام تصورات کی ایک الگ جماعت ہوتی ہے اورہر جماعت کا اپنا الگ نظا م تصورات ہوتا ہے جو اسے معرض وجود میں لاتا ہے۔ اور اسے قائم رکھتا ہے۔ فرد کی طرح جماعت کا نصب العین بھی اس کے تمام اعمال پر حکمران ہوتا ہے۔۔ ہر نصب العین ایک خاص قسم کی تہذیب یا تمدن کامرکز بنتا ہے جو براہ راست اس کے نتیجہ کے طور پر وجود میں آتا ہے۔ ہر نصب العین اپنا الگ فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ سیاست‘ ضابطہ قانون نظام تعلیم اور ہنر پیدا کرتا ہے ۔ نصب العین اور جماعت ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہیںکہ دونوں کو ایک دوسرے کے ہم معنی سمجھنا چاہیے۔ ایک نصب العینی جماعت ایک جاندار وجود سے مشابہ ہے انسان کی وہ جماعت جو کسی نصب العین کا واضح شعور رکھتی ہو Ideological Communityایک جاندار وجود Living Organismسے مشابہت رکھتی ہے ۔ ایک جاندار وجود دیکھنے میں فرد واحد ہے لیکن درحقیقت وہ لاکھوں افراد کی ایک جماعت پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے افراد کے مشترک نصب العین کی وجہ سے ایک فرد واحد کی طرح کام کرتی ہے۔ اور ایسے قوانین کے ماتحت ہے جو علم الحیات Biologyکے قوانین سے ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ہر جماعت میں بحیثیت جماعت کے زندہ رہنے اور بڑھنے اور پھولنے کی خواہش اور استعداد ہوتی ہے اور جماعت کا نصب العین اسے زندگی یا روح کا کام دیتا ہ۔ جسم حیوانی کی طرح ہر آن اس کا ایک مدعا ہوتا ہے۔ جو نصب العین سے ماخوذ ہوتا ہے اسی طرح یہ مزاحمت سے دوچار ہوتی ہے اور اپنے مدعا کو حاصل کرنے کے لیے اس سے مقابلہ کرتی ہے۔ پھر جدوجہد سے اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور جب جدوجہد چھوڑ دیتی ہے تو کمزور ہو جاتی ہے۔ جسم حیوانی کی طرح یہ خارجی اثرات سے جواس کی صورت میں تصورات کی شکل اختیار کرتے ہیں بیمار ہوتی ہے اور مر تی ہے۔ ا س کی آخری موت کا اصلی سبب نصب العین کا فطرتی نقص ہوتا ہے جو اس کو بیماری سے جابنر نہیں ہونے دیتا۔ پھر ایک جاندور وجود ہی کی طرح نصب العین( دوسرے تمام نصب العینوں کے ساتھ ایک کشمکش حیات میں مصروف ہے جس میں وہ مغلوب ہو کر فنا ہو جاتا ہے۔ جب ایک جسم حیوانی کے اعضا جو ارح میں پوری پوری ایک یک جہتی ہو تو ا س کی صحت کی بہترین حالت ہوتی ہے۔ اسی طرح سے جب ایک جماعت کے افراد اپنے مشترک نسب العین سے پوری پوری محبت رکھتے ہوں تو جماعت کی قوت اور تنظم بھی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ ایک جاندار کی طرح نصب العین ایسی چیزوں کو پسند کرتا ہے اور کشش کرتا ہے۔ جو اس کی بقا اور نشوونما کے لیے ممدو معاون ہوں۔ اور ایسی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے اور دفع کرتا ہے جن کا اثر ا س کے مخالف ہو۔ جس طرح سے ایک جاندار کی زندگی کا ضبط اور نظم اور لہٰذا قیام وبقا دماغ پر موقوف ہے اسی طرح سے ایک نصب العین کا قیام و بقا اس کے قائد پر منحصر ہے۔ ہر نظام تصورات دوسرے نظام ہائے تصورات کے ساتھ مصروف پیکار ہے ہر نظام تصورات یہ چاہتا ہے کہ اپنے معتقدوں اور مددگاروں کی تعداد بڑھا کر اپنی طاقت اور دائرہ اثر کو وسیع کرے۔ چونکہ اس طرح سے ہر نظام تصورات ہر دوسرے نظام تصورات کے ممکن فائدہ کو نقصان میںبدلنا چاہتا ہے اس لیے ہر نظریہ زندگی کا وجود دوسرے تمام نظریات کے لیے دعوت مبارزت ہے۔ یہی سبب ہے کہ نظام ہائے تصورات ایک باہمی جنگ میں مصروف ہیں جو کبھی پر امن ہوتی ہے اور کبھی خونریز لیکن جو پیہم جاری رہتی ہے۔ ارتقاء کی انسانی سطح پرنظام ہائے تصورات کی یہ جنگ اس جنگ سے مشابہت رکھتی ہے جو کرہ ارض پر ظہور بشر سے پہلے اقسام حیوانات کے درمیان لڑی گئی اورجس کے نتیجہ کے طور پر زمین پر حیوان کامل یا انسان کا ظہور ہوا۔ اور جب انسان اس جنگ میں شریک ہونے کے لیے میدان میں آیا تو ایک عرصہ بعد وہ اس قابل ہوا کہ زمین پر پورا پورا غلبہ حاصل کر لے کیونکہ اسے باقی حیوانات پر ایک مجموعی برتری حاصل تھی۔ ہم قیاس کر سکتے ہیں (اور یہ قیاس ہمارے دوسرے تمام نتائج کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ) کہ اسی طرح سے تصورات کی یہ جنگ ایک کامل نظریہ زندگی کے ظہور اور غلبہ پر ختم ہو گی۔ تصور کامل حق تعالیٰ ہے اور کامل نظام تصورات اسلام تصور کامل حق تعالیٰ ہے کیونکہ حسن و کمال معنوی صفات میں سے کوئی صفت ایسی نہیں جو ہمارے خیال میں تو آئے یا جس کی خواہش تو ہم کر سکیں۔ لیکن جو اس تصور کی طرف منسوب نہ ہو سکے۔ نیز کوئی اور تصور ایسا نہیں جس کو ہم یہ تمام صفات پورے شعور اور احساس کے ساتھ منسوب کر سکیں اور کامل نظام تصورات اسلام ہے کیونکہ اس کامرکزی تصور تصور کامل ہے اور اس کے گرداگرد جو تصورات موجود ہیں وہ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہیں۔ کیوں اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب کامل نظام تصورات نہیں اسلام کے علاوہ کئی اور نظریات زندگی جو مذاہب کہلاتے ہیں ایسے ہیں جنہوں نے تصور کامل کے اردگرد ایک نظام تصور پیدا کیاہے۔ لیکن ان میں سے کوئی نظریہ زندگی ایسا نہیں جس کے بانی نے تصور کامل کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں تک پھیلایا ہو۔ اگر پھیلایا ہو تو اس کا بہتر ریکارڈ تاریخ عالم میں موجود ہے۔ ان میں سے کسی نظریہ نے انسان کی ابدی زندگی کو نظر انداز کیا ہے کسی نے اجتماعی زندگی کو۔ اور زندگی کا سیاسی پہلو جو بسب سے زیادہ اہم تھا تقریباً سب کے ہاں مفقود ہے لیکن بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی تصور کامل کو دنیا کے سامنے ایک کامل نظام تصورات کی صورت میں پیش کرتی ہے ۔ جو تاریخ کے باوثوق ریکارڈ میں ضبط ہے کائنات (انسان کے ذریعہ سے جو کائنات کا حاصل اورارتقاء کی شاہراہ ہے) اپنے کمال کو پہنچ رہے ہیں لیکن وہ کون سے عقائد اور اعمال ہو ں گے جو انسان کے ارتقاء کا ذریعہ بنیں گے یہ سمجھنے کے لیے دنیا کو ایک مثال کی ضرورت تھی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نے بہم پہنچا دی ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نوع انسانی کے ارتقا کی ایک چھوٹے پیمانہ کی تصویر ہے۔ جسے دیکھ کر ہم انسان کے ارتقاء کی کیفیت کے بارے میں ایک یقینی تصور قائم کر سکتے ہیں۔ اور لہٰذا پوری پوری راہ نمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ تصور کامل کے گرد پیدا ہونے والاناقص نظام تصورات ناپائیدار ہوتا ہے جب تصور کامل کے اردگرد ایک ایسا نظام تصورات پیدا ہو جائے جو کامل ہو تو وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر تصورات مل کے اردگرد پیدا ہونے والا نظام تصورات کامل نہ ہو (یعنی انسان کیی زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی نہ ہو) تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جاندار کے اعضائے رئیسہ میں سے کوئی عضو مائوف یا ناکارہ نہ ہو جائے۔ تو اس کی زندگی تادیر قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن اگر اعضائے رئیسہ میں سلامت رہیں اور جسم کے کسی حصہ کا گوشت کٹ جائے تو جاندار مرتانہیں۔ کیونکہ اعضائے رئیسہ کا فعل جسم کی نشوونما کو قائم رکھتا ہے۔ اور جسم کے کٹے ہوئے گوشت کو جس حد تک کہ وہ بقائے حیات کے لیے ضروری ہوپھر پیدا کر لیتا ہے۔ انسان کی زندگی کے شعبے ایسے ہیں جو ایک نظام تصورات میں خواہ وہ تصور کامل کے گرد پیدا ہو ۔ زندگی کے کسی ایسے ہی ضروری پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی تعمیر میں خرابی کا سامان مضمر ہے اور اس کی زندگی کا عرصہ محدود ہے۔ اجتہاد کے معنی لیکن اگر تصور کامل کے گرد پیدا ہونے والا نظام تصورات زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو تو گو کسی وقت یہ محسوس کیا جائے کہ زندگی کی بعض جزئیات کے لیے اس کے ہاں تصورات موجود نہیں۔ لیکن اس سے نظام حیات او رضروریات کے مطابق مناسب تصورات اپنے اندر ہی سے پیدا کر لیتاہے۔ اسلام کی اصطلاح میں اسی کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ عیسائیت کی مثال ناپائیداری کے اعتبار سے تصور کامل کے اردگرد پیدا ہونے والا ناقص نظام تصورات دونوں برابر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناقص نظام تصورات جو تصور کامل کے گرد پیدا ہوتا ہے۔ ارتقاء سے کبھی کامل نہیں بنتا۔ بلکہ تصورات باطلہ سے اپنی کمی پوری کرتا رہتا ہے۔ یہا ں تک کہ رفتہ رفتہ تمام کاتمام تصور کامل کے مرکز سے ہٹ جاتا ہے۔ چنانچہ عیسائیت کو یہی ماجرا پیش آیا ہے۔ عیسائیت نے اپنے ہاں کے سیاسی تصورات کی کمی نیشنلزم Nationalism سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ اب اکثر عیسائیوں کا حقیقی مقصود و مطلوب عیسائیت کا خدا نہیں بلکہ کوئی قوم یا وطن ہے اور عیسائیت کسی جگہ اور کسی شکل میں اس کا رد عمل نہیں دکھا رہی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تصورات باطلہ سے مغلوب ہو کر عملی طور پر ختم ہو گئی ہے۔ لیکن زندگی کے تمام ضروری پہلوئوں پر شامل ہونے کی وجہ سے اسلام کے اندر بالقوہ ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جو رہتی دنیا تک اس کے بقا اور ارتقا کی ضامن رہیں گی۔ بلکہ رفتہ رفتہ اسے تمام ناقص تصورات پر غالب کر دیں گی۔ ان صلاحیتوں کی وجہ سے اسلام تصورات باطلہ کے خلاف رد عمل کرتا ہے اور ان سے مغلوب نہیں ہوتا‘ بلکہ ان پر غالب رہتا ہے۔ اسلام کے آخری غلبہ کی وجوہات ناقص نظام ہائے تصورات پر کامل نظام تصورات کے آخر کار غالب آنے کی وجہ یہ ہے کہ (۱) کامل نظام تصورات ان کے مقابلہ میں زندگی کا ایک برتر ظہور اور ارتقا کا ایک اعلیٰ تر مقام ہے (2)ہمارے جذبہ حسن و کمال کی پوری پوری تشفی کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اور لہٰذا ہماری فطرت کے عین مطابق ہے (3)ناقص نظام ہائے تصورات کے اندر ان کی بربادی کا سامان موجودہے (4)ارتقا کی تمام قوتیں (جن میں حقائق عالم کے بارہ میں انسان کے علم کی ترقی ایک بہت بڑی قوت ہے) اسے تمام دوسرے تصورات پر غالب کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ اسلام کا ظہور ارتقاء کے ایک اہم ترین دور کی ابتدا ہے اسلام ارتقاء کی کوئی اتفاقی یا ضمنی پیداوار نہیں بلکہ اس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جو ارتقاء کی تمام آئندہ منزلوں کی بنیاد ہے۔ لاتعداد ناقص اور نادر ست نظام ہائے تصورات کے درمیان اسلام کا ظہور اگر ارتقاء کی کسی کامیابی کے ساتھ لگائو کھاتا ہے تو وہ یا تو بے جان مادہ سے بھری ہوئی کائنات کے اندرپہلے زندہ خلیہ Cellکی پیدائش ہے۔ یا بے زبان حیوانات کی بے شمار اقسام کے درمیان پہلے حیوان ناطق کا ظہور ہے۔ اسلام کے مٹنے کا مطلب یہ ہو گا کہ قدرت نے خود اپنی ایک قیمتی کامیابی کو ضائع کرنا اور ارتقا کے پہیے کو پیچھے کی طرف حرکت دینا پسند کر لیا ہے۔ اور یہ قطعاً ممکن نہیں۔ تاریخ کا ارتقا کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی میں زندگی کا برتر ظہور اپنی برتر اور بہتر قوتوں کے وجہ سے ہمیشہ نہ صرف اس قابل ہوتا رہاہے کہ اپنے آپ کو برقرار رکھ سکے۔ بلکہ اس قابل ہوتا رہا ہے کہ زندگی کے نچلے درجات پر جو نسبتاً کمزور یا ناقص الخلقت ہوتے ہیں مجموعی طور پر یا آخر کار غالب آ جائے۔ اسلام کے آخری غلبہ کے بغیر ارتقاء جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ ز ندگی جب کسی بلند تر مقام پر قدم رکھتی ہے تو ارتقاء کو جلدی رکھنے کے لیے اس سے بھی اوپر ابھرا رہتا ہے ۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے راستہ کی رکاوٹوں کو دور نہ کر لے۔ یعنی زندگی کے نچلے درجات پر غالب نہ آ جائے۔ مثلاً جب پہلی زندہ خلیہ Cellپیدا ہوئی تو یہ ارتقاء کی ایک بڑی کامیابی تھی قدرت نے اسے قائم رکھا اور بے جان مادہ کے غلبہ سے اسے مٹنے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ دنیا حیوانات کی کروڑوں گونا گوں اقسام سے بھر گئی ۔ پھر جب انسان کا ظہور ہوا تو یہ ارتقاء کی دوسری بڑی کامیابی تھی اور قدرت نے خونخوار درندو ں سے بھری ہوئی دنیا میں کمزور اور ناتواں انسان کو برقرار رکھا جا بلکہ اسے وسعت اور فروغ دیتی رہی یہاں تک کہ انسان کرہ ارض پر پھیل گیا۔ اور اقسام حیوانات انسان سے مغلوب ہو گئیںَ اسلام کا ظہور بھی قدرت کی ایسی ہی بڑی کامیابی ہے جو متواتروسعت پاتی رہے گی۔ یہاں تک کہ اسلام اپنی علمی اخلاقی او رمادی طاقتوں کی مدد سے بالآخر تما م ناقص نظام ہائے تصورات کی مزاحمت اور مخالفت کو توڑ کر روئے زمین پر پھیل جائے گا۔ یہی مطلب ہے قرآن کے ان اشارات کا: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون (۱۹:۳۳) ترجمہ: وہی ذات پاک ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ اس کے تمام دینوں پر غالب کرے گو مشرکوں کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ یریدون ان یطفوا نور اللہ بافواھہم ویابی اللہ الا ان یتم نور ہ ولو کرہ الکفرون (۹:۳۲) ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو منہ سے پھونک مار کر بجھا دیں۔ اور خدا کو منظور ہے کہ ہر طرح اپنے نور کو پورا کر کے رہے اگرچہ کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ 3 :: مرض کے اسباب جاندار وجود اور نظام تصورات کی مشابہت کے اور نکات سوال یہ ہے کہ جب اسلام ایک پائیدار نظا م تصورات ہے جس کی قدرت خود محافظ اور نگران ہے۔ تو اس کا انحطاط کیوں ہوا ۔ ا س لحاظ کا خاص سبب کیا ہے۔ اور اس خاص سبب کے پیش نظر قدرت اس کے علاج کے لیے کیا صورت اختیار کر چکی ہے یا کرنے والی ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ایک جاندار کے جسم اور ایک نظام تصورات (یعنی نظام تصورات کی حامل جماعت) کی باہمی مشابہت کے بعض اور نکات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جس طرح سے ایک تندرست و توانا جاندار کبھی کبھی مرض کا شکار ہوتا ہے اسی طرح سے کامل نظام تصورات بھی ایک پائیدار زندگی کی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود کبھی کبھی انحطاط کے دور سے گزرتا ہے۔ یعنی کبھی کبھی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جب اس کے ماننے والوں کے دلوں میں اس کی محبت اور کشش کم ہو جاتی ہے۔ یہ گویا ایک ایسا مرض ہے جو اس کے جسم پر نہیں بلکہ ان کے شعوریعنی نفسیات اور جذبات پر مخالفانہ اثر ڈالتا ہے۔ مرض کے جراثیم اور تصورات باطلہ جب ایک جاندار وجود بیمار ہوتا ہے تو اس کے مرض کا سبب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ کسی بیماری کے جراثیم باہر سے آ کر اس کے جسم میں داخل ہوت ہیں اور اس کی قوت حیات کے ساتھ مزاحمت کر کے مرض کی حالت پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح سے کامل نظام تصورات کی صورت میں افراد جماعت کے جذبات کی نادرستی یا بیماری کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بیرونی غلط تصورات جو دوسرے غلط نظام ہائے تصورات سے نکلے ہوتے ہیں اور ان کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور جس قدر ان تصورات کی محبت ا ن کے دلوں میں جاگزیں ہوتی جاتی ہے اسی قدر وہ اپنے نصب العین کی محبت سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ اس دور میں جو ناقص تصورات ہمارے انحطاط کا موجب ہوئے ہیں ان کا سرچشمہ مغرب کے غلط فلسفے یا غلط نظام ہائے تصورات ہیں جن کے بڑے بڑے امام میکاولی ‘ کارل مارکس‘ فرائڈ‘ ایڈلر اور میکڈوگل ہیں۔ مکیاولی نے یور پ کو سکھایا کہ سیاست کا مذہب یا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں اور حکمران کے لیے جائز ہی نہیںبلکہ ضروری ہے کہ جب ریات کے مفاد کا تقاضا ہو تو جھوٹ ‘ دغا‘ فریب‘ مکر اور ظلم سے جس قدرچاہے کام لے۔ اور آج یورپ کے سیاست دان اور ان کے ایشیائی شاگرد امن ‘ اخلاق‘ تہذیب‘ صداقت اور عدل کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ دنیا کی تما م بڑی بڑی ریاستیں خواہ ان کو یہ بات معلوم ہو یا نہ ہو اس وقت اسی فلسفہ پر قائم ہیں۔ نیشنلزم اور یہ فلسفہ دنیا کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس کی وجہ سے اہل عالم خالق ارض و سما سے روگرداں ہو کر نیشنلزم کے بت کے سامنے سربسجود ہیں۔ اسی نے نوع انسانی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے عالمگیر جنگوں کو وہ خوفناک سلسلہ شروع ہوا ہے کہ جو اگر ختم نہیں ہوا تو ممکن ہے کہ روئے زمین سے انسان کی ہستی مٹ جائے لیکن پھر بھی دنیا ا س بت کے حسن و جما ل پر اس قدر فریفتہ ہے کہ اسے چھوڑنے کا نام نہیں لیتی۔ اشتراکیت کارل مارکس کی تعلیم یہ ہے کہ مذہب ‘ اخلاق ‘ فلسفہ‘ علم ‘ ہنر‘ اورسیاست جو انسان کے اعلیٰ ترین مشاغل تصور کیے جاتے ہیں در حقیقت اپنی کوئی جداگانہ حیثیت نہیں رکھتے بلکہ سوسائٹی کے معاشی حالات کی پیداوار ہیں۔ ا س کا خیال ہے کہ انسان کی مادی یا اقتصادی ضروریات جن پر زندگی موقوف ہے مثلاً کھانا کپڑا مکان وغیرہ آخر کار انسان کی تمام سرگرمیوں کی حاصل یا جڑ ثابت ہوتی ہے یہ فلسفہ دنیا کے قریباً نصف حصہ پر اپنی حکومت قائم کر چکا ہے۔ اور دن بدن پھیلتا جا رہا ہے ۔ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتتیں اس کے خوف سے لرزہ براندام ہیں اور چونکہ وہ خود باطل پر قائم ہیں اس یلے ان کے پاس کوئی باطل شکن فلسفہ نہیں اس لیے ان کو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس فلسفے کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ فرائڈزم فرائڈ اس بات میں کارل مارکس سے متتفق ہے کہ مذہب‘ اخلاق‘ صداقت‘ فلسفہ‘ ہنر اور سیاست اپنی کوئی جداگانہ حیثیت یا قدر و قیمت نہیں رکھتے ۔ لیکن اس کے خیال میں ان کی جستجو کا اصل سبب معاشی ضروریات نہیں بلکہ جنسی ضروریات ہیں۔ اس کے خیال میں جنس کی کشش Sex Urgeانسان کی تمام زندگی( جس میں اسکی معاشی ضروریات بھی شامل ہیں) کا مدار و محور ہے۔ ایڈلرزم ایڈلر انسان کی اعلیٰ ترین سرگرمیوں کا استحقاف کرنے میں مارکس اور فرائڈ دونو ں کا ہمنوا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ انسان کے سار ے اعمال و افعال کی بنیاد جب تفوق یا استیلا Urge for Powerہے ۔ میکڈوگل کا خیال ہے کہ انسان کی حیثیت ایک برتر قسم کے حیوان سے زیادہ ہے کیونکہ انسان کی حیوانی جبلتیں Animal Instincts جو اس میں اور اس کے نچلے درجہ کے حیوانات مشتر ک طور پر پائی جاتی ہیں۔ درحقیقت اس کی زندگی کی قوت محرکہ ہیں۔ ان فلسفوں کی وجہ سے دنیا میں ہر جگہ مذہب اور اخلاق کی مٹی پلیدہو رہی ہے۔ اسلام کو فلسفہ کا زبردست چیلنج یہ فلسفے جو درحقیقت تمام فلسفوں کی طرح انسان کی فطرت کے نظریات ہیں اسلام کو ایک زبردست چیلنج کرتے ہیں۔ کیونکہ اسلام بھی فطرت انسانی کے متعلق اپنا ایک فلسفہ یا نظریہ رکھتاہے۔ اور اس بات کا مدعی ہے کہ وہی نظریہ سچا اور بے خطا ہے قرآن کے نزدیک اسلام انسان کی فطرت ہی کے قوانین کانام ہے۔ فاقم وجھک للذین حینفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون (۳۰:۳۱) ترجمہ: تو اے پیغمبر تم ایک خدا کے ہو کر اس کے دین کی طرف اپنا رخ کیے رہو۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پید اکیا۔ خدا کی پیدا کی ہوئی فطرت میں ردو بدل نہیں ہو سکتا۔ یہی دین کا سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ حضورؐ کی مندرجہ ذیل حدیث اس مضمون کی وضاحت کرتی ہے۔ مامن مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ ترجمہ: ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ ہمار ی بے بسی ہمارافرض تھا کہ ہم ان فلسفیوں کا چیلنج قبول کرتے ا ن کا جواب دیتے اور فطرت انسانی کے متعلق اسلام کی پوزیشن کو خالص علمی Scientificنکتہ نظر سے درست ثابت کرکے دکھاتے۔ لیکن اس کی بجائے احساس کمتری ہمیں ایسا دامن گیر ہوا کہ ہم دانستہ طور پر ان سے خود متاثر ہوتے چلے گئے اور آج ہمیں میں سے اکثر تعلیم یافتہ اشخاص اگرچہ مسلمان بھی ہیں لیکن فطرت انسانی کے متعلق ان فلسفو ںمیں کسی نہ کسی فلسفہ کے بنیادی نظریہ کے بھی قائل ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کے یہ عقائد اسلام کے اس قدر مخالف ہیں کہ ان سے ہمدردی رکھنا اسلام سے انکار کرنے کے مترادف ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں ان فلسفوں کی تعلیم کسی نہ کسی شکل میں ہوتی رہتی ہے۔ ان دنوں نشر و اشاعت کے بعض ایسے ادارے وجود میں آئے ہیں جن جا کام فقط یہ ہے کہ فرائڈ اور ایڈلر کے نظریات کو نفسیات کے نام پر چھوٹی چھوٹی کتابوں اور رسالوں کے ذریعہ سے پھیلایا جائے اور یہ ادارے خوب روپیہ کما رہے ہیں پھر ہم ترقی پسند ادب کے نام سے ایک ایسا لٹریچر پیدا کر رہے ہیں جس کی آخری بنیاد یہ ہے کہ کارل مارکس اور فرائڈ کے عقائد صحیح ہیں۔ اگر ہم اسلام کے نفسیاتی نقطہ نظر کو ایک علمی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب ہوتے ہیں اور ہماری کامیابی یقینی تھی (کیونکہ خدا سے زیادہ سچی اور معقول بات کون کہہ سکتاہے) تو ہم ایک طرف اسلام کی صداقت کا ایک نیا بین ثبوت مہیاکرتے ہیں اور دوسری طرف علم النفس کے انتشار کا ازالہ بھی کرتے ہیں۔ وحی کے بغیر فلسفہ کے میدان میں انسان کی بے بسی کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ فطرت انسانی کے متعلق عقلی قیاس ارائیاں کرنے والوں نے اب تک کم از کم علم القس Psychologyکے تیس مختلف نظریات پیدا کر دیے ہیں۔ تصورات مغرب کا بالواسطہ اور غیر شعوری اثر یہ فلسفی جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ائمہ الکفر کی حیثیت رکھتے ہیں اوراگرچہ ہمارے تعلیم یافتہ اشخاص میں سے کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے ان کا نام بھی نہیں سنا یا اگر سنا ہے تو ان کا فلسفہ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع نہیں پایا۔ لیکن پھر بھی ان کے افکار نے ہمارے عقائد کو متزلز ل کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کی علمی Scientific اور مادی ترقی اور سیاسی غلبہ کی وجہ سے ہم نے ان فلسفوں کا اثر زیادہ تر بالواسطہ Indirectly اور غیر شعوری طور پر Unconsciouslyقبول کر لیا ہے۔ جس طرح سے مرض کے جراثیم کے ایک محدود حصہ کو اپنا مرکز بنا کر وہاں سے اپنا ضرر رساں اثر تمام جسم میں پھیلاتے ہیں۔ کفر کے تصورات نے بھی ایک خاص مرکز سے ابھر کر اپنا اثر و نفوذ تمام نوع انسانی میں پھیلا دیا ہے۔ اگرچہ ائمتہ الکفر کی تعداد زیادہ نہیں لیکن انہوں نے اپنے ماتحت لاتعداد چھوٹے چھوٹے امام پیدا کر لیے ہیں۔ پھر ان کے ماتحت یعنی ذہنی طور پر ان کے زیر اثر ہزاروں لاکھوں تعلیم یافتہ اور ذہین انسان ہیں جو اپنے اپنے حلقہ میں ان کے فلسفہ کے اثرات اور تصورات کو پھیلاتے اور قائم کرتے ہیں۔ دنیا کا سارا لٹریچر ان اثرات سے بھرا پڑا ہے۔ دنیا کے سارے عالم ارو ادیب دنیا بھر کے ؤتمام ملکوں کے ذرائع نشر و اشاعت پریس‘ پلیٹ فارم‘ ریڈیو‘ سینما‘ گھر مدرسہ‘ ریاست‘سوسائٹی ‘ علمی ‘ ادبی‘ تجارتی اور صنعتی انجمنیں اور جماعتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ طورپر ان کی تبلیغ کے لیے وقف ہیں۔ اس وقت دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس کا نظام تعلیم ان فلسفوں سے پیدا ہونے والے تصورات سے گہری طرح متاثر نہ ہو۔ مختصر یہ کہ دنیا کی ساری ذہنی فضا ان تصورات سے اس طرح سے معمور ہے جیسے آسمان پر چاروں طرف سیاہ بادل چھائے ہوئے ہوں اور ہم جہاں جائیں ان کے سایہ میں رہیں۔ باطل کیوں موثر ہے آپ کہیں گے کہ آخر باطل باطل ہونے کے باوجود اس قدر موثر کیوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل کبھی خالصتہ باطل نہیںہوتا‘ بلکہ میشہ حق و باطل کی آمیزش سے بنتا ہے ہم اصل میں حق کی طرف جھکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ نادانستہ طور پر باطل کو بھی قبول کر لیتے ہیں یہی شرک ہے۔ اور دنیا پر اسلام کا سب سے بڑا احسان اور اسلام کا سب سے بڑا امتیاز بھی جو اس وقت کسی قدیم یا جدید مذہب کو حاصل نہیں جو اسے آخری اور صحیح ترین نظریہ زندگی کی حیثیت سے فی الواقع ہونا چاہیے تھا یہ ہے کہ اس نے تصور کامل اور اس سے اخذ کیے ہوئے تمام تصورات حق کو باطل کے ہر ممکن شائبہ سے پاک رکھنے کی تاکید کی ہے۔ انحطاط کی علامات اس کے اسباب نہیں اس زمانہ میں ہمارے بعض مفکرین نے کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب کا کھوج لگایا جائے تاکہ قوم ان کا ازالہ کر کے پھر عروج کی طرف مائل ہو۔ لیکن اکثر مفکرین کی پرواز خیال اس سے اوپر نہیں گئی کہ انہوںنے انحطاط کی علامات کو ہی انحطاط کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت نہایت پستہ ہے ان میں ضبط Discipline نہیں اتحاد نہیں ‘ قربانی کا مادہ نہیں خودداری نہیں‘ عزت نفس نہیں‘ دیانت داری نہیں‘ محنت سے کام کرنے کی عادت نہیں۔ علی ہذا القیاس اس کے برعکس وہ خود غرضی بددیانتی حرص اور لالچ کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ذاتی اغراض کے لیے قومی مفاد کو نظر انداز کر دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں اور ان کے بدترین دشمن ان ہی میں سے ہوتے ہیں۔ اگر مسلمان دوسری قوموں کی طرح ضبط Discipline قربانی‘ دیانت داری‘ خودداری‘ اور محنت کی عادت پیدا کر لیں تو ان کا انحطاط عروج میں بدل جاتا ہے وغیرہ۔ بعض مفکرین اس سے ذرا آگے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں کسی تقریر یا تحریر کی ضرورت نہیں۔ بلکہ عمل اور فقط عمل کی ضرورت ہے۔ عمل ہی سے ہم اپنے گھر کو درست کر سکتے ہیں اور عمل ہی سے دوسری قوموں کو متاثر کر کے ان کی ہدایت کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ عمل بالقرآن تبلیغ دین کا صرف ایک ہی صحیح اور کامیاب طریقہ ہے۔ لوگ نصیحت سے نہیں بلکہ مثال سے اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر آج مسلمان پھر قرآن و سنت پر عمل کرنے لگ جائیں تو ان کی قسمت بدل سکتی ہے وعلی ہذا القیاس۔ لیکن یہ باتیں ہمارے عوارض کو بیان کرتی ہیں عوارض کے اسباب کو نہیں کرتیں۔ اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ مریض کو بخار اس لیے ہے کہ اس کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے یا اسے زکام اس لیے ہے کہ اسے چھینکیں آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اصل سوال یہی تو ہے کہ جب اور قوموں کی اخلاقی حالات درست ہے تو ہماری اخلاقی حالت درست کیوں نہیں۔ ہم میں ضبط اور اتحاد کا کیوں نہیں۔ ہم میں قربانی کا مادہ خودداری عزت نفس اور دیانت داری کے اوصاف کیوں نہیں۔ انحطاط کا سبب غلط فلسفوں کا اثر ہے ہم کیوں سست ہیں لاور محنت اور تندہی سے کام کیوں نہیں کر سکتے۔ ہم مسلمان کہلانے کے باوجود قرآن اور سنت سے کیوں منحرف ہیں۔ اور ان پر عمل کیو ںنہیں کرتے۔ حقیقت ان تمام سوالات کا جواب ایک جواب ہے۔ او ر وہ یہ ہے کہ مسلمان قوم کو اپنے نصب العین سے کوئی محبت نہیں رہی اور زوال محبت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل مغرب کے غلط تصورات سے متاثر ہیں۔ کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیںہوتے۔ یہ قطعاً ممکن نہیں تھا کہ مسلمانوں کے دل مغرب کے غلط تصورات کی طرف بھی مائل ہوتے ہیں اور پھر وہ اسلام کے لیے بھی ویسے ہی معتقد رہتے ہیں۔ ان تصورات نے مسلمانوں کی متاع دین و ایمان کو اس صفائی سے لوٹا ہے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوئی۔ اقبال اس حقیقت کی طرف ایک بلیغ اشارہ کرتا ہے: متاع دین و دانش لٹ گئے اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزہ خونریز ہے ساقی عمل یقین محکم کا نتیجہ ہے زندگی کی ساری کل کو حرکت میں لانے والی قوت فقط ایک ہے اور وہ نصب العین کی محبت ہے۔ نصب العین مختلف درجو ں اور بلندیوں کے ہوتے ہیں۔ ہر نصب العین اپنا الگ ایک قانون اخلاق رکھتا ہے ۔ جس پر اس نصب العین کو ماننے والے بشرطیکہ وہ د ل سے اس کو مانتے ہوں نصب العین کی اندرونی کشش کی وجہ سے پوری رغبت کے ساتھ اور کسی بیرونی مجبوری کے بغیر عمل کرتے ہیں جس قدر کوئی نصب العین بلند ہوتا ہے یعنی اپنے اوصاف کے لحاظ سے تصور کامل کے قریب ہوتاہے اسی قدر اس کا قانون اخلاف بھی بلند ہوتاہے۔ اور جس قدر کوئی نصب العین پست اور ناقص ہوتا ہے۔ اسی قدر اس کامقرر کیا ہوا قانون اخلاق بھی پست ہوتا ہے۔ تاہم جس قدر کوئی قوم اپنے نصب العین سے زیادہ محبت رکھے گی اسی قدر وہ اس نصب العین ناقص اور پست ہے لیکن چونکہ دنیا کی ہر قوم اپنے نصب العین سے شدید محبت رکھتی ہے وہ اس کے مقرر کیے ہوئے قانون اخلاق پر (اگرچہ وہ ایک پست اور ناقص نصب العین کا قانون اخلاق ہونے کی وجہ سے پست اور ناقص ہے) شدت کے ساتھ عمل کرتی ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتی کہ اس راہ میں اسے کتنی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں میں اپنے نصب العین کی خاطر بڑی بڑی قربانیا ں کرنے کی استعداد ہے۔ کافر کی سبقت کی وجہ اس کے برعکس مسلمان کا نصب العین صحیح اور بلند ہے اور اس کا قانون اخلاق بھی ویساہی ہے صحیح اور بلند ہے لیکن چونکہ مسلمان اپنے نصب العین کی محبت سے محروم ہیں وہ اس کے قانون اخلاق پر بھی عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کافر بہت سی باتوں میں مسلمان پر سبقت رکھتا ہے۔ کافر بیدار دل پیش صنم بہ زدیند ارے کہ خفت اندر حرم تقدیر یا آخرت کا عقیدہ ہمارے انحطاط کی وجہ نہیں بعض مفکرین نے ہمارے انحطاط کی ایک اور وجہ بیان کی ہے کہ ہم تقدیر کے قائل ہیں اور لہٰذا جدوجہد کے کنارہ کش رہتے ہیں۔ یہ مقولہ بھی فطرت انسانی کے اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرتا ہے کہ نصب العین یا مدعائوں کے مدعا کی محبت ہمارے اعمال کا سرچشمہ ہے ۔ اور ہمارے تمام عقائد و اعمال نصب العین کے خدمت گار ہیں اس کے حکمران نہیں۔ اگر نصب العین کی محبت قوی ہو تو تقدیر کا عقیدہ ہمارے ایسے عمل سے باز نہیں رکھ سکتا جو اس محبت کا تقاضا ہو بلکہ اس کے برعکس اس کا ممدومعاون بن جاتا ہے۔ تقدیر کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کے بھی تو قائل ہیں کہ تقدیر پر اسباب کے ذریعہ سے اپنے مقاصد کو پاتی ہے۔ اور ہم کو خدا کی تقدیر کا علم نہیں۔ بلکہ فقط ان اسباب کا علم ہ جو بالعموم تقدیر کو صورت پذیر کرتے ہیں۔ جب ہمارے دل میں ایک نصب العین یا مدعا کی شدید محبت یا خواہش پیدا ہوتی ہے تو ایک زبردست اندرونی دبائو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم وہ عمل کریں جو ہمارے تجربہ کے مطابق بالعموم اس کی تکمیل کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور تقدیر کا عقیدہ اس دبائومیں کمی نہیں کرتا بلکہ اور اضافہ کرتا ہے کیونکہ اس صورت میں ہم ی نہیں کہتے کہ میں یہ کام نہیں کرتا اگر میری تقدیر میں کامیابی لکھی ہو گی تو میرا مدعا خود بخود حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مجھے اس کام کو بلا خوف و خطر کر گزرنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر میرا چارہ نہیں اور اس میں جو خطرہ یا خوف مجھے محسوس ہوتا ہے وہ خدا کی تقدیر کے بغیر کوئی حقیقت نہیں رکھے گا۔ یعنی اگر نصب العین کی محبت کمزور ہو تو ہم تقدیر کو ترک عمل کا بہانہ بنا لیتے ہیں کیا کوئی تقدیر کا ماننے والا یہ کہتا ہے کہ میں آج کھانا نہیں کھاتا۔ اگر تقدیر میں ہو گا تو خود بخود سیر ہو جائوں گا۔ یا میں آج سے اپنے کام پر حاضر نہیں ہوں گا ۔ اگر تنخواہ میری قسمت میں ہو گی تو مجھے مل جائے گی یا کیا اگر ایسا شخص دشمنوں سے گھر ا ہوا ہو اور اسے اچانک نجات کی واضح راہ مل جائے تو وہ کبھی کہتا ہے کہ میں اس راہ کو اختیار نہیں کرتال اگر تقدیر میں ہو گا‘ تو مجھے خود بخود نجات میسر آ جائے گی۔ یا کیا اگر وہ ایک تجارتی معاملہ صریحاً سود مند پاتا ہو تو نفع کو مقدر سمجھ کر کبھی اس معاملہ کو نظر انداز کرتا ہے۔ ہم عمل کو ہمیشہ اس وقت ترک کرتے ہیں جب مدعا کی صحت اور اس کے حصول کے اسباب کی صحت پر ہمارا عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے یعنی جب مدعا جس میں ا سکے حصول کے اسباب بھی شامل ہیں کی محبت کمزور ہو جاتی ہے ایسی صورت میں ہم ترک عمل کے لیے عذرات تراشتے ہیں جن میں تقدیر بھی ایک عذر ہے۔ ہمیشہ ترک عمل پہلے ہوتا ہے اور تقدیر کا عذر یا دوسرے عذرات بعد میں ہوتے ہیں اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ ہم عمل کو کلیتہً ترک نہیںکرتے بلکہ ایک عمل کو ترک کرکے فوراً دوسرے عمل کو اختیار کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس دوسرے عمل کے لیے بھی تقدیر کا عذر اسی طرح پیش کیا جا سکتا ہے جس طرح سے پہلے عمل کے لیے جو ترک کیا گیا ہو۔ مسلمان کا قدم واپس نہیں جا سکتا اگر دوسری قوموں کی طرح مسلمان وطنیت جیسے کسی پست نصب العین سے شدید محبت پیدا کر لیں تو وہ بھی دوسری قوموں کی طرح محدود قسم کی خوبیوں سے آراستہ ہوکر ایک محدود عرصے کے لیے کچھ عروج اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں لیکن خواہ مسلمان اسلام سے پوری طرح عقیدت رکھیں یا نہ رکھیں اسلام جیسے ایک کامل نظام تصورات سے وہ ایک دفعہ آشنا ہونے کے بعد ان کے لیے ممکن نہیںرہا کہ اب وہ کسی پست نصب العین سے ایک ایسی شدید محبت پیدا کر سکیں جو غیر مسلم قوموں کے لیے ممکن ہے۔ مسلمان قوم کے لیے واپس جانے کا راستہ کوئی نہیں صرف آگیجانے کا راستہ موجود ہے۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں تو ان کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ پھر اسلام ہی سے اپنی محبت کو زندہ کر یں اور اس محبت کے لیے ضروری ہے کہ اس محبت کی راہ میں مغر ب کے غلط تصورات نے جو رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں پہلے ان کو ہٹائیں ۔ اگر مسلمان اسلام سے اپنی پہلی محبت کو پھر زند ہ کر لیں (اوریہ ممکن ہی نہیں بلکہ اس کا ہونا ضروری ہے ) تو پھر ان کو دوسری قوموں کی طرح عارضٰ عروج نہیں بلکہ اختتام تک عروج حاصل رہے گا۔ تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کے تصورات ضلال نے ہماری سوسائٹی کے مختلف طبقوں کو مختلف طرھ سے متاثر کیا ہے۔ تعلیم جدید سے بہرہ پانے والے بعض مسلمانوں کے معتقدات تو بری طرح مجروح ہوئے ہیں ۔ وہ شریعت کے اخلاقی محاسبہ سے بیزار اور اسلام کے مستقبل کے متعلق مایوس ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب مذہب کا زمانہ گزرا چاہتا ہے اور اب ہمیں زیادہ سیزیادہ اسلام کو وہی حیثیت دینا چاہیے جو مغرب کے لوگوں نے عیسائیت کو دی ہے ان میں سے بعض کمیونسٹ کہلاتے ہیں اور فقط ترقی پسند مسلمان لیکن غیر اسلامی افکار و آراء کی محبت اور حمایت میںسب یکساں ہیں۔ جدید تعلیم پانے والے مسلمانوں کا دوسرا گروہ ایسا ہے کہ اگرچہ اس پر مغربی تصورات کی پوری زد پڑی ہے اور اس کے عقائد متزلزل ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے کلیتہً الگ نہیں ہوا۔ وہ مغربی تصورات کے ساتھ ایک کشمکش میں مصروف ہے جو اسے ناکام ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاہم اس گروہ کے دل ابھی اسلام کی محبت سے خالی نہیں ہوئے۔ قدامت پرست علماء ان کے تین مقابل میں علماء کا وہ گروہ ہے جو مغربی تصورات کو خطرناک سمجھ کر ان سے کلیتہً محترز رہنا چاہتا ہے ۔ اور سمجھتا ہے کہ سلامتی کا راز اسی میں ہے یہ علماء بہرحال قوم ترقیوں کو روک کر واپس جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ خود اسلام سے انہیں آگے بڑھنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن اگر ان کو آگے بڑھنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تو یہ لوگ براہ راست تو نئے تصورات کے اثر سے محفوظ ہیں۔ لیکن بالواسطہ اس سے متاثر ہیں۔ کیونکہ ان میں ایک احساس کمتری پیدا ہو گیا ہے ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں کوئی ایسی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اس زمانہ کے آدمی نہیں یہ احساس کمتری اس بات کی واضح علامت ہے کہ ان کے ایمان اور اطمینان قلب کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ جدت پسند علماء تیسرا گروہ ان علماء کا ہے جو جدت پسند کہلانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اسلام کی شدت Rigidity سے گھبرا کر اور کافرانہ تصورات سے للچا کر جہاں جہاں سلامت کوش علماء کو روش کے خلاف قدامت پرستی کے دائرہ سے قدم باہر رکھنے کی کوشش کی ہے بصیر اسلامی سے محروم ہونے کی وجہ سے باطل کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ خواہ ان میں کوئی مفسر قرآن تھا یا معلم حدیث۔ یہ لوگ کبھی کبھی اپنے آپ کو اسلام سے بچھڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ اب اسلام اسی بات کانام ہے۔ اور اس کے ثبوت میں قرآن اور حدیث میں بظاہر نہایت مضبوط دلائل مہیا کرتے ہیں۔ ہندوستانی قومیت اور اکھنڈ ہندوستان کے حامی علماء اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاد ناتمام چوتھا گروہ ان علمائکا ہے جو اپنی استعداد کے مطابق اسلام کو تصورات باطلہ سے محفوظ کرنے اور آخر کار اسلام کو ان پر غالب کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ لیکن کامیاب نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے ک ایک تو وہ خود تصورات باطلہ پر ٹھیک طرح سے حاوی نہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس کوئی ایسا فلسفہ نہیں جو ایک موثر علمی حربہ کا کام دے اور جس کی مدد سے وہ مغرب کے تصورات کو ان ہی کے قلعہ میں گھس کر شکست دے سکیں۔ فلسفہ کا جواب ایک فلسفہ ہی ہو سکتا ہے ایک فلسفے کی کامیاب تردید کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس کے بعض انفرادی تصورا ت کو لے کر اس کے نقائص بیان کریں۔ اس سے ہمارا حریف سوائے اس کے کوئی اور اثر قبول نہیں کرتا معترض جس فلسفہ پر اعتراض کر رہا ہے ا س سے خود واقف نہیں۔ اور اس کی بات ٹھیک ہوتی ہے۔ بلکہ ایک فلسہ کی کامیاب تردید کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے مقابل میں ایک اور فلسفہ مہیاکیا جائے جو اس سے زیادہ منظم اورمعقول اورزیادہ قابل قبول ہو اور جس کے تسلیم کرنے سے مقابل کا فلسفہ خود بخود ناقابل تسلیم ہو جائے۔ خود مغربی فلسفہ نے بھی مذہب کی براہ راست تردید نہیںکی بلکہ انسان اور کائنات کی ایسی عقلی تشریح کی ہے جو مذہب کے لیے ایک گنجائش باقی نہیں چھوڑتی۔ تاہم ان علمائے کرام کو صرف ان تصورات کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی وجہ سے(خواہ یہ جہاد کرنے کے سارے حربے ان کے پاس موجود رہیں یا نہیں) مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ہر دلعزیزی حاصل ہو گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیائے اسلام اپنے عارضہ سے جلد ہی شفایاب ہو سکتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ علما کرام بھی تصورات باطلہ کے اثر سے محفوظ نہیں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ (اور ایک منظم اسلامی فلسفہ کی عدم موجودگی میں ایسا ہونا متوقع بھی تھا) کہ باطل کے مقابلے کے لیے ان کے دلائل نادانستہ طور پر خود باطل سے ہی ماخوذ ہوتے ہیں اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ مغربی تصورات کا ضرر رساں اثر کس قدر مخفی اور گہرا ہے اور اس زمانہ میں حق و باطل کا امتیاز س قدر مشکل ہے ۔ علماء کے یہ تینوں طبقات ان حکومتوں اور صداقتوں سے مستفید نہیں جو نئے تصورات کے اندر باطل کے ساتھ لپٹی ہوئی موجود ہیں اور جو درحقیقت نو ر قرآن کی بکھری ہوئی اور ظلمت کفر میں کھوئی کرنیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کا علم ترقی پا کر آگے نکل گیا ہے ۔ اور وہ پیچھے رہ گئے ہیں اور اس قابل نہیں رہے کہ قرآن کو زمانہ حال کے علم اور تجربہ کے مطابق سمجھا سکیں۔ صحیح رد عمل کیا تھا تصورات مغرب کے خلاف ہمارے علماء کا صحیح رد عمل یہ تھا کہ و ہ ان فلسفوں کی طرف رجوع کرتے جو ان کے اصلی ماخذ ہیں پہلے ان پر ہمدردانہ غور کر کے ان کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیتے ہیں اور پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بانیوں نے اپنے اپنے استدلال میں کہاں کہاں ٹھوکریں کھائی ہیں اور کیوں؟ ایسا کرنے سے وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سے الگ کرتے ہیں اور ایک نئے سچے عالمگیر فلسفہ کی داغ بیل ڈالتے ہیں جس کی مدد سے نہ صر ف اپنی قوم اور تمام دنیا کو ضلالت سے بچاتے بلکہ دنیا کے علم کو اغلاط سے پاک کر کے منزلوں آگے لے جاتے اور آئندہ نسلوں کو شکر گزاری کا موقعہ دیتے ۔ لیکن انہوںنے ایسا نہیںکیا۔ اسلام کے مدمقابل اور عین اس وقت جب کہ یورپ کا فلسفہ سارے مذاہب کو جڑ سے اکھاڑ رہا تھا۔ ہمارے علماء و مشائخ اور مناظر ویدک دھرم‘ عیسائیت‘ فلسفے میں مذاہب نہیں اوردوسرے مذاہب کی تردید ممیں لگے ہوئے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ اسلام کی بڑی مدافعت ہو رہی ہے۔ ہم نے مدت تک نہیں سمجھا کہ اس زمانہ میں اسلام کا مد مقابل کوئی مذہب نہیں بلکہ یورپ کا فلسفہ ہے جو تمام مذاہب کو چیلنج دے رہا ہے اور جو مذہب اس فلسفے کے مقاب میں قائم رہ سکے گا۔ وہی زندہ رہے گا۔ ہم نے دوسرے مذاہب پر جو اس فلسفہ کے اثر سے پہلے ہی مر رہے تھے اور ضربیں لگا رہے تھے لیکن خود اس فلسفہ سے ٹکر لے کر اپنی حفاظت کا سامان نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ دوسرے مذاہب پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد کمیونزم نیشنلزم اور نفسیات جدید کے پھندے ہاتھ میں لیے ہوئے ہمیں بھی اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ علماء کی خدمت دین اس کا مطلب یہ نہیںکہ ہم اپنے انحطاط کی تمام ذمہ داری اس گروہ پر ڈال دیں جنہوں نے دین کا علم حاصل کر کے کسی قدر اس فرض کو ادا کیا جو قوم کے ہر فرد پر عائد ہوتا تھا۔ اس کے برعکس ہمیں اس گروہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے سخت مشکل کے زمانہ میں بھی ہم نے من حیث القوم اپنی مقدس کتابوں سے کچھ نہ کچھ تعلق قائم رکھا جس سے آئندہ موافق حالات میں ایک سچی اسلامی زندگی ابھر سکتی ہے ۔ ورنہ مستقبل میں جب ہم پر اسلام کی عظمت کے آشکار ہونے کا وقت آتا تو قرآن اور حدیث کے نسخے بھی کسی عجائب خانہ سے تلاش کرنا پڑتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے علماء حالات کی وجہ سے اس پوزیشن ہی میں نہ تھے یا کم از کم ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ مغرب کے فلسفہ کے خلاف صحیح قسم کا رد عمل کر سکتے۔ دوست نما دشمن ایک تو ہمارے حریف کے الجھنے کا طریق ایسا تھا کہ ہمیں مدتوں خبر نہ ہوئی کہ کوئی ہمارے ساتھ الجھ رہا ہے۔ اس کا ظاہری لباس ایسا جاذب نظر تھا اور اس کی باتیں ایسی محبت آمیز کہ ہمیں اس پر دشمنی کا گمان بھی نہ ہوا۔ بلکہ ہم نے اسے دوست سمجھ کر اس پر اعتماد کیا۔ اور اس سے راہ و رسم پیدا کی۔ اس کے علاوہ مغرب کے فلسفہ کے نیک و بد کی جانچ پڑتال کے لیے قرآن اور حدیث کی واقفیت کے علاوہ اس بات کی بھی ضرورت تھی۔ کہ ہمارے علماء خود اس فلسفہ سے پوری طرح واقف ہوتے لیکن غلامی کی وجہ سے دینی تعلیم اور مغربی تعلیم کو یک جا کرنا ممکن نہ تھا۔ مغربی تعلیم اور دینی تعلیم کا افتراق ہماری اکثریت مجبور تھی کہ روزگار کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہم دین سے الگ رہے اور مغربی تعلیم پا کر مغربی فلسفہ کی مخالفت کی نہیں بلکہ حمایت اور ہمنوائی کا سبق سیکھتے ۔ ان میں ہماری قوم کے بہترین دل و دماغ بھی تھے۔ جو مقابلہ کے امتحانوں کے ذریعہ سے چن چن کر ہم سے الگ کر لیے گئے تاکہ اسلام کی بجائے انگریزی سلطنت کی حفاظت کے لیے اپنی قوت فکر و عمل کو صرف کریں۔ اس کے بعد بہت تھوڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہ گئی جو خاندانی روایات کی وجہ سے یا اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے فکر معاش سے بے پرو ا ہو کر علم دین کی طرف متوجہ ہوئے اورعلماء دین بنے۔ ایسے لوگوں کے لیے مغربی فلسفہ کے تحقیقی مطالعہ کا موقعہ کہاں سے پیدا ہوتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر مغربی اور علوم دین دونوں میںپوری پوری دسترس ایک ساتھ موجود بھی ہوتی تو پھر بھی فلسفہ مغرب کے غلط اور صحیح تصورات میں امتیاز کرنے کے لیے ایک ایسی پختہ اورتربیت یافتہ اسلامی بصیرت اور روح قرآن سے ایک ایسی قریبی واقفیت کی ضرورت ہے جو درس و تدریس سے یا لغات اور تفاسیر کے مطالعہ سے نہیں بلکہ ایک سچے مومن کو اعلیٰ روحانی مقام پر ہی حاصل ہو سکتی ہے اور جس کا میسر آنا بالخصوص الحاد کی رونق کے اس زمانہ میںنہایت مشکل ہے۔ قرآن کی ماہیت قرآن کوئی ایسی کتاب نہیں کہ جسے کسی مصنف نے لکھ کر یا لکھوا کر دوسروں کے سر تھوپ دیا ہو کہ تمہارا جی چاہے یا نہ چاہے اس پر عمل کرو ورنہ تمہیں آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ بلکہ قرآن انسان کے تحت الشعور کا وہ بے پناہ اور ناققابل گزیر جذبہ حسن ہے جس کے اظہار اور اطمینان کے لیے ہر شخص بے تاب ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے صحیح راہ نہیں پاتا۔ لیکن جب ایک مومن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں مخلصانہ طور پر اور کثرت سے خڈا کی عبادت کرتا ہے تو اس کا جذبہ حسن سطح شعور پر ظاہر ہوتا ہے اپنے صحیح مقصد کو پا کر اطمینان حاصل کرتا ہے۔ معرفت کے اس درجہ پر ایک انسان کو یوں نظر آیا ہے کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے حق تعالیٰ کا مشاہدہ کر رہاہے۔ اور یہ کیفیت اس کے دل کو انتہائی سرور اور لذت سے بھر دیتی ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے بڑے زور دار الفاظ میںیوں بیان کیا ہے: الذین امنوا و تطمئن قلوبھم بذکر اللہ الابذکر اللہ نظمئن القلوب (۱۳:۲۳) ترجمہ: وہ لو گ جو ایمان لائے اور جن کے دل خدا کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں ۔ خبردار ہو کہ خدا کے ذکر ہیسے دل اطمینان پاتے ہیں۔ یہی احسان کا درجہ ہے جس کی تشریح کرتے ہوئے حضور ؐ نے فرمایا: الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ (رواہ بخاری) ترجمہ: احسان کے معنی یہ ہیں کہ تو خدا کی عبادت اس طرح سے کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ قرآن کا علم مشاہدہ حق کے اس مقام پر مومن کو ایک علم دیا جاتا ہے جس سے دین کے رموز و اسراراس پر آشکار ہوتے ہیں ۔ اور وہ حقائق دینی کا ذاتی احسا س کرتا ہے ۔ لہٰذا اس مقام پر وہ احکام شریعت اور اصول و اخلاق کی پابندی مجبوری سے نہیں بلکہ ایک ایسی رغبت اور خواہش سے کرتا ہے جس کا روکنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اسے قرآن کے مطالب سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ قرآن اصل جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے اس پر عیاں ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنی فطرت کے قرآن کو جواب اس کے لیے ایک زندہ اور متکلم قرآن کی حیثیت اختیار کر چکا ہوتا ہے اس قرآن سے جو کتاب کی صورت میں اس کے سامنے ہوتا ہے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے تو دونوں کو ایک دوسرے کے عین مطابق پاتا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے۔ بل ھو ایت بینت فی صدور الذین اوتو العلم (۲۹:۴۹) ترجمہ: بلکہ یہ قرآن واضح آیات پر مشتمل ہے جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں علم سے دینی حقائق کی ایسی واقفیت مراد نہیں جو درس و تدریس تفسیر اور عربی زبان کی لغت اور گرائمر کے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے… قلبی مشاہدہ بلکہ حقیقت کا وہ ذاتی مشاہدہ تجربہ یا احساس ہے جس کی بنا پر ایک انسان خدا اور اس کے فرشتوں کی طرح اپنے ذاتی علم سے قرآن کی صداقت کی گواہی دے سکتا ہے ۔ جو لوگ اس قسم کا علم رکھتے ہیں ان کے لیے قرآن نے اولو العلم راسخون فی العلم الذین اوتو العلم اور علماء کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ بل ھوایت بینت فی صدور الذین اوتو العلم ترجمہ: بلکہ یہ قرآن واضح آیات پر مشتمل ہے جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں ضو علم دیے گئے ہیں۔ شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملکتہ واولو العلم قائما بالقسط (۳:۱۸) ترجمہ: خدا گواہی دیتا ہے اورنیز فرشتے اور علم والے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں وہ عدل و انصاف کے ساتھ کارخانہ عالم کوسنبھالے ہوئے ہے۔ وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ لا کل من عند ربنا (۳:۷) ترجمہ: اور اللہ کے سوائے اس کا مطلب کسی کو معلوم نہیں اور جو لوگ علم میں بڑی پایگاہ رکھتے ہیں صرف اتنا ہی کہتے ہیںکہ اس پر ہمرا ایمان ہے یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (۳۵:۲۸) ترجمہ: خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ اسلام کی نشاۃ الثانیہ میں ایسے علماء کثرت سے پیدا ہوں گے۔ قرآن کے داخلی علم کے بغیر قرآن کو خارجی ذرائع سے سمجھنے کی کوشش خواہ ان میں لغت کی موشگافیوں اور گرائمر اور منطق کی باریک بینیوں سے کتنا ہی کام لیا جائے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ بلکہ مضر ثابت ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسلام میں فرقوں کے اختلافات ان ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ مطالب قرآن کا اندرونی علم ایسا ہے کہ جیسے دن کے وقت راستہ پر چلنا اور اس کے بغیر قرآن کو سمجھنے کے لیے ذہنی کاوش سے کام لینا ایسا ہے جیسے تاریکی میں راستہ کو ٹٹولنا ۔ جو لوگ قرآن کا داخلی علم حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کو قرآن کے مضامین و مطالب ازبر ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اس علم کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ مغز ماری کے باوجود ا س کے مطالب پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ فطرت انسانی قرآن کی محافظ ہے اگر ہر انسان کے دل میں قرآن کی اصل نہ ہوتی تو نبوت کا اختتام نوع انسانی کو ہلاکت کے لیے چھوڑ دیتا۔ کیونکہ قرآن کی تشریح اور تفسیر کے بارہ میں ہمارے اختلافات روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ قرآن جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا ہماری غلط تعبیرات میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن نبوت کے علاوہ انسان کو ایک اور ایسا راہ نما بھی دیا گیا ہے جو مستقل طور پر اس کے پاس موجود رہتا ہے۔ اور یہ اس کی فطرت کا وہی جذبہ حسن ہے جو اپنے اظہار اور اطمینان کے کمال کو پہنچ کر ایک زندہ اور متکلم قرآن کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ انسان کے اس جذبہ حسن کی وجہ سے یعنی اختتام نبوت کے بعد قدرت ان تمام مقاصد کو آسانی سے حاصل کر سکتی ہے۔ جو اختتام نبوت میں پوشیدہ رکھے گئے تھے۔ اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام نوع انسانی کو رفتہ رفتہ ایک ہی شخص (خاتم انبیاء ؐ) کی روحانی قیادت کا کامل ترین نظریہ زندگی پر جمع کیا جائے۔ اب جوں جو کائنات کا ارتقا ہو گا یعنی جوں جوں نوع انسانی اپنے جذبہ حسن کا زیادہ سے زیادہ اظہار اور اطمینان کرنا سیکھے گی۔ وہ قرآن کو زیادہ سے زیادہ صحیح زیادہ واضح اور زیادہ منظم طریق سے سمجھنے لگے گی اور ہمارے اختلافات (اسلام کے اندر یا باہر) خواہ اس وقت کتنے ہی شدید نظر آتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ آخر کار بالکل مٹ جائیں گے اللہ کی کتاب ہماری فطرت کی راہنمائی کرتی ہے اور ہماری ہدایت یافتہ فطرت کتاب اللہ سے مفہوم کو بگڑنے نہیںدیتی۔ اور اس طرح سے کتاب اللہ اور فطرت ہ اللہ جو اصل میں دونوں ایک ہیں دونوں ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحفظون (۱۵:۹) ترجمہ: بے شک ہم ہی نے قرآن اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان بھی ہیںَ انسان کے فطرتی جذبہ حسن ہی کی وجہ سے ایک پیغمبر خدا کی وحی پاتا ہے اوراسی کی وجہ سے ایک غیرمعمولی ذہانت کے انسان Geniusکے دل میں علمی صداقتوں کا ارتقا ہوتا ہے۔ نبوت اور سائنس علمی صداقت کا القا ایک قسم کی وحی ہے پیغمبر کی وحی اور غیرمعمولی ذہانت کے انسانوں کی وحی(جس حد تک کہ وہ فی الواقع صداقت کو پاتی ہے) دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں۔ بلکہ ممدو معاون ہیں کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی ابدی سچائیوں کی پردہ کشائی۔ دونوں کائنات کی گتھی کو سلجھاتی ہیں۔ اس لیے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پیغمبر کی وحی غلطی سے پاک ہوتی ہے اور ذہین انسان کے مدر کات میں غلطی کے عنصر کا ہونا بھی ممکن ہے ۔ لیکن یہ غلط عنصر پیغمبر کے علم کی مدد سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اور آخر کار ذہین انسان کی علمی جستجو سے جو حقائق دستیاب ہوئے ہیں وہ وحی نبوت کی تشریح اور تفصیل مہیا کرتے ہیں اور اس طرح سے دونوں کو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں۔ قرآن دین ہے اور دین فطرت انسانی اور فطرت انسانی جذبہ حسن چونکہ تلاش صداقت جذبہ حسن کی تشفی اور تسکین کے لیے ہے اس لیے انسان کا ذہن کوئی ایسی علمی حقیقت دریافت نہیں کر سکتا جو فی الواقع ایک سچی علمی حقیقت تو ہو لیکن قرآن کی تشریح اور تفسیر نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کا ارشا د ہے۔ لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی السموت ولا فی الارض والااصغر من ذلک ولہ اکبر الا فی کتاب مبین (۳۴:۳) ترجمہ: اور آسمانوں اور ز مینوں میں ذرہ بھر چیز اس سے پوشیدہ نہیں اور ذرے سے چھوٹی یا ذرہ سے بری کوئی ایسی چیز نہیں جو واضح کتاب میں موجود نہ ہو۔ چونکہ علم کی کوئی حد نہیں۔ اس لیے قرآن کی تشریح اور تفسیر کی بھی کوئی حد نہیں۔ قل لو کان البحڑ مدادا للکمت ربی لنفد ا لبحر قبل ان نفد کلمت ربی ولو جلنا بمثلہ مددا (۱۸:۱۹) ترجمہ: اے پیغمبر کہہ دو کہ اگرمیرے پروردگار کی باتو ں کے لکھنے کے لیے سمندر کا پانی سیاہی کی جگہ ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں ختم ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی سمندر اس کی مدد کواور لائیںَ علم قرآن کی نشوونما قیامت تک جاری رہے گی قرآن ایک ایسے پودے کی طرح سمجھ لیجیے جو اچھی زمین میں بویا گیا ہو۔ اور اسے دھوپ ہوا اور پانی کافی مقدار میں میسر ہو۔ پھر وہ شاخیں اور پتے نکالتا ہے اور زمین میں اس کی جڑ زیادہ گہری اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے۔ جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ سائنس اور فلسفہ کی ہر ترقی خواہ وہ دنیا کے کسی مقام پر اور کسی شخص کی باتوں س یظہور میں آئے قرآن کے درخت میں ایک نیا پتا ایک نئی شاخ یا ایک نیا پھول یا پھل ہے چونکہ علم کی ترقی جا ری رہے گی اور علم نبت کی رہنمائی میں آخر کار اغلاط سے پاک ہوتارہے گا۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی شاخیں پھول پھل ار پتے قیامت تک نکل نکل کر نوع انسانی کو بہار دکھاتے رہیں گے ارو اس کی ہر قسم کی ترقیوں کو ممکن بناتے رہیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب قرآن کے علم کا درخت پھیل کر تمام کائنات کا احاطہ کر لے گا اور دنیا کا سارا علم اپنی ساری وسعتوں کے باوجود فقط قرآن ہی کا علم ہو گا۔ ضرب اللہ مثلا کلمتہ طیبۃ اصلھا ثابت و فر عھا فی السماء توتی اکلہا کل حین باذن ربھا (۱۴:۲۴) ترجمہ: خدا نے پاکیزہ بات کی ایک مثال ایک پاکیز ہ درخت کی طرح بیان کی ہے جس کی جڑ مضبوط ہو اور ٹہنیاں آسمان میں ہوں اورجو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل لاتا رہے۔ اچھی زمین جس میں قدرت نے قرآن کا پودا اگایا ہے۔ فطرت انسانی ہے جس میں جذبہ حسن ودیعت کیا گیا ہے۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (۹۰:۴) ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت کا پیدا کیا۔ او ردھوپ پانی اور ہوا انسان کا ماحول ہے جو اس کے جذبہ حسن کو اکساتا اور اسے نئے نئے علمی انکشافات پر مائل کرتا ہے۔ ان فی خلق السموت والارض واختلاف الیل والنہار لایت لاولی الالباب (۳:۱۹۰) ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں رات اور دن کے اختلاف میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ نئی شاخیں اور نئے پتے جو پودے کے اگنے سے رونما ہوتے ہیں۔ درحقیقت نئے نہیں ہوتے بلکہ پودے کے اندر اس وقت سے موجود ہوتے ہیں جب وہ ابھی بیج کی حقلت میں تھا ۔ جس طرح سے ایک پودا جب اگتا بڑھتا اور پھولتا ہے تو بدلتا ہے بلکہ فقط اپنے آپ سے باہر آ جاتا ہے۔ اسی طرح سے گو ارتقائے علم سے قرآن ایک پودے کی طرح بڑھتا اور پھولتا ہے لیکن بدلتا نہیں بلکہ اپنے مخفی علوم کا اظہار کرنے سے اور مفصل اور مشرح ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن کاعلم جس قدر نشوونما پائے گا قرآن اسی قدرجوںکا توں رہے گا۔ قرآن کا موجودہ ترقی یافتہ علم اگر ہم خود مسلمان رہنا چاہتے ہیںاور دوسروں کو اسلام کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کو اس علم سے جو پیہم ترقی کر رہا ہے اپنے آپ کو واقف رکھیں اور اس غرض کے لیے ضرور ی ہے کہ اگر ہم علمی میدان میں دوسروں کے راہنما نہ ہوں تو کم از کم دوسروں کی علمی ترقیوںکے دوش بدوش رہیں تاکہ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے ہم اس میں سے حق و باطل کا امتیاز کرتے ہوئے باطل کو چھوڑتے اور حق و صداقت کو اپنے ساتھ لیتے چلے جائیں یہی مطلب تھا حضورؐ کے اس بیان کا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم (مشکوۃ) ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ سارا علم علم دین ہے لیکن ہم نے علم کو علم دین تک اور دین کو قرآن او ر حدیث کے الفاظ تک محدود کر دیا حالانکہ اس وقت جس قدر صحیح اور سچا علم دنیا میں موجود ہے یا آئندہ زمانوں میں انسان کی ذہنی کاوش سے پیدا ہونے والاہے وہ علم دین کے سوائے اور کچھ بھی نہیں۔ اس زمانہ میں علوم کی ترقی قرآن کے علم کو بہت آگے لے گئی ہے۔ لیکن ہم وہیں کے وہیں ہیں۔ بلکہ قرآن آگے جا رہا ہے اور ہمارا رخ پیچھے کی طرف ہے۔ ہم قرآن کے تازہ علم سے جو انسان کے قلم کی بدولت صدیوں میں جمع ہو ہو کر اس معیار پر پہنچا ہے۔ بے اعتنائی کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اسی خدا نے انسان کو کر دیا ہے جس نے قرآن نازل کیا تھا اور جس نے خود قرآن میں اس علم کو ایک بخشش اور عنایت کے طور پر یاد کیا ہے۔ الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (۹۶:۴۔۵) ترجمہ: وہ جس نے آدمی کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ تمام علم صداقتیں ہماری ہیں اگر ہم یورپ کے فلسفے کا جو اس وقت ہمارے لیے ایک مصیبت بنا ہواہے تنقیدی مطالعہ کرتے تو یہی ہمارے لیے ایک رحمت بن جاتا۔ آئن سٹائن پلانک۔ کارل مارکس۔ مکیاولی۔ ہیگل۔ کانت۔ فرائڈ۔ ایڈلر۔ برگسان۔ ڈریشن میکڈوگل اور اس قسم کے دوسرے لوگوں نے دنیا کو جو کچھ بتایا ہے وہ سب کا سب غلط اور بیکار نہیں بلکہ اس کے اندر نہایت قیمتی اور پاکیزہ صداقتیں بھی ہیں جو باطل کے ساتھ ملوث ہو کر بڑی ہیں اور یہ صداقتیں تمام قوموں سے بڑھ کر ہماری ہیں کیونکہ قرآن کی تشریح اور تفسیر ہیں اور ہم ہی ان ک وارث اور امین مقرر ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المومن فحیث وجد ھافھوا حق بھا (ترمذی) ترجمہ: دانائی کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے پس جہاں اسے مل جائے (یعنی مسلمانوں کے ہاں سے ملے یا غیر مسلموں کے ہاں سے) اس کا زیادہ حق دار وہی ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم ایمان کی روشنی میں ان صداقتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے اور باطل سے انہیں الگ کر کے باطل کا طلسم توڑ تے اور حق کی رونق کو بڑھاتے لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں حالات ایسے تھے کہ ہم اس فرض کو ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اور اس سلسلہ میں جو جو فزوگزاشتیں اور کوتاہیاں ہم سے ہوئیں وہ ناگزیر ہیں۔ عروج مرض کی علامتیں بیماری کے عروج کی حالت میں طبیعت کے صحت بخش رجحانات جو آخر غالب آتے ہیں عارضی طور پر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ مغرب کے غلط تصورات نے ایک مزمن مرض کے جراثیم کی طرح خود ایسے حالات پیدا کر لیے ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے ممکن ہوا کہ عرصہ دراز تک ہماری مزاحمت کو روکے رکھیں۔ ہمارے دلوں سے رفتہ رفتہ اسلام کی محبت کو جو ہمارے لیے قوت حیات Vitality کا حکم رکھتی ہے سلب کرتے جائیں اور خو د زیادہ سے زیادہ ان کی جہ متمکن ہوتے جائیں ان کی ہر کامیابی نے ان کی اگلی کامیابی کو اور ہماری اگلی شکست کو آسان کر دیا ہے اور اس طرح سے ہم شکست پر شکست کھاتے چلے گئے ہیں ہمارا انحطاط جس نے ا س وقت ہمیں موت کے روبرو کھڑا کر دیا ہے درحقیقت ہماری پے در پے شکستوں کے اسی سلسلہ کا نام ہے۔ 4:: مرض کا علاج جسم حیوانی کے مرض کا علاج جب ایک طاقت ور اور تندرست جسم حیوانی میں بیماری عروج پانے لگتی ہے تو قدرت کا انتظام ایسا ہے کہ اس کا علاج ایک قدرتی اور بیساختہ ردعمل کی صورت میں خود بخود اس کے اندر سے ظاہر ہوتاہے۔ یعنی جاندار کے وجود کے اندر نہایت سرعت کے ساتھ ایسے مواد پیدا ہوتے ہیں جو کیفیت مرض کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور جو مرض کے جراثیم کا مقابلہ کر کے ان کو برباد کر ڈالتے ہٰں یہ مواد جاندار کے جس میں بالقوہ موجود ہوتے ہیں لیکن ضرورت کے وقت نمودار ہو تے ہیں اور جب تک ضرورت ختم نہیں ہوتی یعنی جب تک مضر صحت جراثیم ہلاک نہیں ہو جاتے یہ مواد بڑھتے اور ترقی کرتے جاتے ہیں یہ مواد ہر مرض کے لیے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں کی اصطلاح میں ان کو اینٹی باڈیز Antibodiesاور اینٹی ٹاکسز Antitoxinsکہا جاتا ہے۔ اس قدرتی رد عمل کی وجہ سے جاندار کے خون کے اندر ایک ایسی مستقل تبدیلی واقع ہوتی ہے جو نہ صرف وقتی طور پر مرض کا ازالہ کرتی ہے بلکہ جو آئندہ بھی عرصہ دراز تک یا ہمیشہ کے لیے مرض کے حملو ں کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹروں نے بعض امراض کو روکنے کے لیے جو ٹیکے ایجاد کیے ہیں ان کا اصول یہی ہے کہ مرض کو ایک خفیف صورت میں پیدا کر کے طبیعت کو ردعمل پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس سے جسم کے اندر دافع امراض موا د ظہور میں آ اجتے ہیں اور مرض کا حملہ ناممکن ہو جاتا ہے ۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ کئی امراض کی صورت میں آج تک مرض کو روکنے کے لیے مرض کو پیدا کرنے سے بہتر اور کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ وہ مرض جو آ کر خیریت سے گزر جائے جسم کے لیے ایک رحمت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے جسم کی مخفی قوتیں جو مرض کو روکنے کے لیے فطرت نے اس میں رکھی ہیں بروئے کار آ جاتی ہیں اور اس کی آئندہ کی صحت کی ضامن بن جاتی ہیں۔ کمزور جاندار کا رد عمل ہمیشہ کامیاب نہیںہوتا یوں تو ہر جاندار وجود مرض کے خلاف قدرتی رد عمل کا اظہار کرتاہے لیکن ردعمل کی کامیابی کا انحصار جاندار کی طاقت صحت اور عام صلاحیت کے اس معیار پر ہے جو اسے مرض سے پہلے حاصل ہو اگر جاندار وجود سے پہلے ہی کمزور اور نحیف یا ناقص الخلقت ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرض کے حملہ سے جانبر نہ ہو سکے۔ وجود اجتماعی کے مرض کا علاج بالکل یہی اصول ایک وجود اجتماعی Social Organisms یا نظام تصورات کی صورت میں کام کرتا ہے جب ایک نظام افکار مخالف تصورات کا شکار ہوتا ہے تو وہ بھی ان تصورات کے خلاف ایک قدرتی رد عمل کرتا ہے جس کے نتیجہ کے طورپر اس کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اس نظام افکار کی گہرائیوں سے نئے تصورات پیدا کرتے ہیں جو مخالف تصورات کا مقابلہ کرکے ان کو بے کار اور بے معنی بنا دیتے ہیں۔ اور نظام افکار کو ایک نئی زندگی اور طاقت بخشتے ہیں جاندار کے جسم میںپیدا ہونے والے دافع امراض موا د یعنی اینٹی باڈیز Antibodiesکی طرح یہ نئے تصورات درحقیقت نئے نہیں ہوتے۔ بلکہ شروع سے مخفی طور پر نظام افکار کے اندر موجود ہوتے ہیں اور ضرورت کے وقت نمودار ہوتے ہیں ۔ اور جب تک ضرورت ختم نہیں ہوتی یعنی جب تک مخالف تصورات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا برابر ترقی پاتے اور زور پکڑتے رہتے ہیں اور فوری ضرورت کی تکمیل کے بعد نظام افکار کا ایک مستقل جزو بن جاتے ہیں جس سے نظام افکار ان تصورات کے حملہ سے جن کے مقابلہ کے لیے وہ پیدا ہوتاہے آئندہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ناقص نظام تصورات کا رد عمل ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا یوں تو ہر نظام افکار خواہ ناقص ہو یا کامل اپنے مخالف تصورات کے خلاف ایک قدرتی رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ناقص نظام تصورات کی صور ت میں ضروری ہے کہ یہ رد عمل ہمیشہ کامیاب ہو۔کیونکہ ایک ناقص نظام تصورات میں حسن و کمال کے تمام عناصر (جن سے رد عمل درحقیقت اپنی قوت حاصل کرتا ہے)موجود نہیں ہوتے بلکہ اس کے برعکس ضروری ہے کہ ناقص نظام تصورات پر ایک وقت ایسا بھی آئے کہ جب مخالف تصورات جن کے خلاف اسے رد عمل کرنا پڑے اس نوعیت کے ہوں کہ وہ اپنے فطری نقص کی وجہ سے ان کے مقابلہ کی استعداد نہ رکھتا ہو اور ان سے جانبر نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناقص نظام تصورات ہمیشہ ناپائیدار ہوتا ہے۔ ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار (۱۴:۲۶) ترجمہ: ایک ناپاک تصور اس درخت کی طر ح ہے جو زمین سے اکھاڑ کر پھینکا جاے اسے پائداری نہیں۔ مثل الذین اتخذو امن دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت اتخذت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانو یعلمون ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جو خدا کو چھوڑ کر اوروں کو دوست بناتے ہیں ایسی ہے کہ جیسے مکڑی جس نے گھر بنایا ہو۔ بیشک گھروں میں سے کمزور ترین گھر مکڑی کا ہے کاش کہ وہ جانتے ہوں۔ کامیاب رد عمل کامل نظام تصورات کا خاصہ ہے لیکن ایک نظام کامل تصورات جس میں حسن و کما ل کے تمام عناصر موجود ہوتے ہیں۔ ہمیشہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے مخالف باطل تصورات کے خلاف زور یا بدیر ایک کامیاب اور صحت بخش رد عمل کر سکے۔ قرآن حکیم نے اس اصول کو یوں بیان کیا ہے۔ بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھوزاحق (۲۱:۱۸) ترجمہ: ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ باطل کا سر کچل دیتا ہے جس سے وہ ناگہاں مٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کامل نظام تصورات پائدار ہوتا ہے اور ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلہا ثابت وفرعھا فی الشماء ہ توتی اکلھا کل حین باذن ربھا (۱۴: ۲۴) ترجمہ: ایک پاکیزہ بات کی مثال ایک پاکیزہ درخت کی طرح جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں بلند ہوں اور وہ خدا کے حکم سے ہر وقت پھلتا رہے۔ کامل نظام تصورات پر غلط تصورات کے حملے اگرچہ اسے کچھ عرصے کے لیے کمزور اور بیمار کر دیتے ہیں لیکن اسے مٹاتے نہیں بلکہ ایک جاندار کے صحت میں بدل جانے والے مرض کی طرح اس کی مخفی قوتوں کو بروئے کار لاکر اس کی پائدار صحت ‘ طاقت اور درازی عمر کا سامان بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اسلام اپنے مخالف فلسفیانہ تصورات کے خلاف ہمیشہ کامیاب رد عمل کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک زندہ ہے اور اب بھی دنیا کے کسی غلط نظریہ میں اشتراکیت کے خلاف صحت بخش رد عمل کرنے اور اس سے بچ نکلنے کی صلاحیت موجود نہیں اور اس کے برعکس یقینی بات یہ ہے کہ اسلام نہ صرف اشتراکیت سے بچ نکلے گا بلکہ اشتراکیت اس کے ساتھ ٹکر ا کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گی۔ فلسفہ خودی باطل تصورات کے خلاف اسلام کا رد عمل ہے اس زمانہ میں مغرب کے غلط تصورات کے خلاف اسلام کا قدرتی رد عمل اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں نمودار ہوا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ان تصورات کو مردہ اور بے اثر کر کے دنیا کی آخری قوم کو ایک نئی زندگی اور نئی قوت دی جائے اور پھر اس سے موجودہ دنیا کی اصلاح کا کام لیا جائے۔ فلسفہ خودی کی صورت میں حق زمانہ کے باطل کے خلاف نبرد آزما ہوا ہے تاکہ اسے ہمیشہ کے لیے اپنے راستہ سے ہٹا دے اور صرف اسلام ہی کو نہیں بلکہ تمام دنیا کو اس سے نجات دلائے۔ چونکہ باطل فلسفہ نے فلسفہ کی صورت اختیار کی تھی اس لیے حق نے بھی ایک فلسفہ کی صورت اختیار کی ہے۔ اور چونکہ باطل تازہ علوم اور جدید طرز استدلال سے آراستہ ہو ا ہے تاکہ باطل کو اس کے اپنے ہی آلات اور اسلحہ کی مد د سے شکست دے ۔ اقبال کی موزونیت اقبال میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو خاتم النبینؐ کی امت کے کسی فرد کو اس زمانہ کے غلط تصورات کے خلاف حق و صداقت کے قدرتی رد عمل کا آلہ کار بننے کے لیے موزوں بنا سکتی تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ مغرب کے فلسفیانہ تصورات کے تاروپود سے بخوبی واقف تھا اور یہ واقفیت اسے ا تصورات کے نیک و بد کی پہچان کا اہل بناتی تھی وہ خود کہتا ہے: چو نتوائے دانائے اسرار فرنگ کس نکور نشست درتار فرنگ طلسم عصر حاضر را شکستم ربودم دانہ و رامش گسستم خداوند کہ مانند براہیم بنار اوچہ بے پروا نشستم دوسری بات یہ ہے کہ تصوف اور خدا پرستی کے ساتھ ایک خاندانی مناسبت رکھنے کی وجہ سے اسے دین کا علم(جو درحقیقت ایک قسم کی روحانی استعداد ہے۔ اور مطالعہ کتب پر موقوف نہیں) حاصل تھا۔ اقبال اسے آتش سینہ عشق ذوق نگاہ تب و تاب‘ بادہ ناب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کر کے اس کا مدعی ہوتا ہے۔ حلقہ گر و من زنیداے پیکران آب و گل آتشے در سینہ دارم ازنیا گان شما عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرغ و عین بتکدہ تصورات اے پسر ذوق نگاہ ازمن بگیر سوختن در لا الہ از من بگیر از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد من ناید چومن مرد فقیر مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ میکدہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے یہ عشق یا ذو ق نظر اقبا ل کی اہم ترین اور سب سے زیادہ مایہ نا ز استعداد تھی۔ کیونکہ اس کے بغیر مغربی فلسفہ کی واقفیت اسے فائدہ نہ دے سکتی تھی۔ اور وہ مغربی تصورات کا صحیح تجزیہ نہ کر سکتا اور اقبال اس حقیقت کا اعترا ف کرتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ وہ دنیا کے آخری اور عظیم ترین فلسفہ کاموجد ہے تاہم اپنے آپ کو فلسفی کہتا ہے بلکہ ایک درویش مرد فقیر یا قلندر کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کے فلسفہ کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں بلکہ وہ اس کے جذبہ ایمان کی عقلی توجیہہ اور تشریح ہے لیکن دنیا کے اعلیٰ ترین اور منطقی طور پر صحیح ترین فلسفہ کا امتیازی نشان بھی یہی ہے ۔ تیسرے اسے شعر کا ملکہ حاصل تھا جس کی بدولت وہ اپنے خیالات کا اظہار نہایت موثر طریق سے کر سکتا تھا۔ اس میںشک نہیں کہ شعر کی وجہ سے اس کا فلسفہ سا کی زندگی میں ایک منظم صورت اختیار نہ کر سکا۔ لیکن اگر اقبال اپنے خیالات شعر میں بیان نہ کر سکتا تو اس کی تعلیم اس سرعت کے ساتھ دلوں میں اثر انداز نہ ہوتی جس کی اس وقت قوم کی خطرناک حالت کے پیش نظر ضرورت تھی۔ جس قدر مرض گہر ا اور شدید تھا ضروری تھا کہ اس کا علاج بھی اسی قدر طاقتور اور سریع الاثر ہوتا۔ پس قدرت نے دوا کی تاثیر کو اس کے بدرقہ یعنی شعر کے ساتھ اور تیز کر دیا اقبال خود کہتا ہے: نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطارے کشم ناقہ بے زمام را اقبال کا اثر اقبال نے اسلام کے نئے ظاہر ہونے والے فلسفہ کو گایا اور شعر کے اثر سے قوم کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو فی الحقیقت جمع کر دیا۔ اگرچہ ابھی طلسم فرنگ پوری طرح سے نہیں ٹوٹا اور ہمیں نہ اپنی منزل اور نہ اپنی راہ صا ف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہم کسی منزل کی طرف چل نکلنے کے لیے اکٹحے ضرور ہو گئے ہیں۔ قریب ہے کہ ہم راہ کو بھی ڈھونڈ نکالیں اور منزل کا نشا ن پا کر اس کی طرف چل نکلیں۔ اب جب کہ ہماری موت کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے فلسفہ خودی زیادہ منظم اور زیادہ واضح صورت میں سامنے آ ئے گا۔ ضروری ہے کہ یہ رد عمل اپنے مقصد کو پائے اسلام کا وہ قدرتی رد عمل جس کا آغاز اقبال کی ذات میں ہوا تھا۔ جب تک اپنے کمال کو نہ پہنچے اور اپنے مقصد کو نہ پا لے رک نہیں سکتا۔ بلکہ اب اقبال کے ایسے شارحین کو اپنا آلہ کار بنائے گا جن پر وہی قلبی واردات نازل ہوں گی جو اقبال پر نازل ہوئی تھیں اور متواتربڑھتا اور زور پکڑتا رہے گا۔ تاآنکہ مغرب کے بیہودہ فلسفیانہ تصورات نہ صرف دنیائے اسلام سے بلکہ صفحہ عالم سے نیست و نابود ہو جائیں گے۔ بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھوذاھق (۲۱:۱۸) ترجمہ: بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ باطل کو کچل ڈالتا ہے تاآنکہ باطن ناگہاں مٹ جاتا ہے۔ اور قدرت نے اقبال ہی کی معرفت ا س کے ہمراز شارحین کی آمد کے لیے زمین ہموار کی ہے تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑے فلسفی کو اس کے شارحین نے ہی عظمت کاجامہ پہنایا ہے۔ یہ بات اقبال کی صورت میںبھی پوری ہو گی اقبال کے کئی اشعار ایسے ہیں جن میں وہ برے درہ اور اشتیاق سے اپنے رازدان شارحین کی آمدکا انتظار کرتا ہے ۔ یہ رباعی جو اس کے آخری اشعار پر مشتمل ہے اس کے در د بھرے انتظار کا پتا دیتی ہے۔ سرور رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آیا کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید فلسفہ خودی کے نقاط اقبال نے اپنے فلسفہ کا مختصر سا خاکہ ساقی نامہ میں دیا ہے۔ لیکن اس کی تشریح اور تفصیل کے نکات اس کی ساری تصانیف میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ اگر ہم ان نکات کو ایک عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ آراتہ کریں اور اس کی ضروری تشریح کرتے ہوئے ان کو ان کے نتائج کی انتہا تک لے جائیں تو فلسفہ خودی ایک مفصل اورمنظم شکل میں آ جاتا ہے ۱؎۔ فلسفہ خودی کیا ہے فلسفہ خودی کیا ہے ۔ علم جدید کی روشنی میں قرآن کی تفسیر ہے اورقرآن کی روشنی میں علم جدید کی تطہیر ہے۔ ان دونوںحیثیتوں کو جمع کرنے کی وجہ سے وہ ایک ایسے عالمگیر انقلاب کا پیش خیمہ ہے جو ایک طرف سے خالص اسلامی انقلاب ہو گا اور دوسری طرف سے خالص ذہنی Intellectual انقلاب۔ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ ہر فلسفہ کا مرکزی نقطہ فطرت انسانی کا تصور ہوا کرتا ہے۔ ۱؎ فلسفہ خودی کی مکمل و منظم تشریح کے لیے میری کتاب ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ فطرت انسانی کا صحیح یا غلط تصور ہر فلسفہ کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے جس قدر ہمارا فطرت انسانی کا تصور درست ہو گا اس قدر ہمارافلسفہ جوہم اس کے اردگرد تعمیر کریں گے درست ہو گا اور جس قدر کوئی فلسفہ فطرت انسانی کے صحیح تصور سے ہٹا ہوا ہو گا اسی قدروہ نادرست اور عقلی طور پر غیر مدلل ہو گا۔ فلسفہ خودی چونکہ فطرت انسانی کے صحیح تصور پر (جو خالق فطرت نے خود تعلیم کیا ہے) مبنی ہے‘ اس لیے وہ اس قابل ہے کہ عقلی طورپر تمام دوسرے فلسفیوں سے زیادہ معقول اورمدلل ہو ۔ کارل مارکس‘ فرائڈ ‘ ایڈلر‘ میکڈوگل اور دوسرے فلسفیوں کے غلط نظریات کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ انسان کی فطرت کو نہیں سمجھ سکتے۔ اور نوع بشر کی ساری مصیبتیں بھی اسی وجہ سے ہیں کہ اس کے دانا اور حکیم یہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ انسان کی فطرت کیا ہے۔ مغرب کے لوگ باربار تہذیب نیکی‘ انصاف اور آزادی کا نام لیتے ہیں۔ مغربی حکما ء کا ذہنی انتشار لیکن ان کا کوئی فلسفہ ان کو بتا نہیں سکتا کہ ان الفاظ کے معنی کیا ہیں اور کیوں کر متعین کے جا سکتے ہیںؒ ان اقدار کے متعلق مغرب کی ہر قوم کا تصور الگ ہے نتیجہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی اپنی نیکی تہذیب انصا ف اور آزادی کی حفاظت کی خاطر دوسری قوموں کے ساتھ دست بگریبا ں ہے۔ انسان کے سارے معاملات میں سے ایک انتشارپیدا ہوا ہے اور نو ع انسانی ایک شدید قسم کی پریشانی اور بے قراری میں مبتلا ہے۔ تہذیب و تمدن اور علم کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود مغرب کے مفکرین فطرت انسانی کے بارے میں اپنی لاعلمی کو بری طرح محسوس کرر ہے ہیں اور بیقرار ہیں کہ انہیں کوئی بتائے کہ انسا ن کیا ہے وہ خود کیا ہیں۔ ڈاکٹر روگر کی پریشانی حال ہی میں ڈاکٹر روگر جے ولیمز Dr. Roger j. Williamsنے جو امریکہ کا ایک نامور سائنسدان ہے دنیا بھرمیں سائنسدانوں کی سب سے بڑی انجمن اے اے اے ایس American Association for Advancement of Science کے ایک اجلاس میں جس میںپانچ ہزار سے زیادہ سائنسدان شریک تھے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’پچھلے ایک سو سال میں سائنس نے علم صنعت میں ایک انقلاب پیدا کیا ہے اب اسے انسانی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ سائنسدان سوسائٹی کے سالمہ یعنی فرد انسانی کے متعقل وہ معلومات حاصل نہیں کر سکے جو انہوں نے مادہ کے سالمہ متعلق بہم پہنچائی ہیںَ اب ہماری ساری توجہ اس بات کی دریافت میں صرف کرنا چاہیے کہ انسان کیا ہے۔ آج ہم اپنی جس کمی کو سب سے زیادہ محسوس کر رہے ہیں وہ اس بات کی لاعلمی ہے کہ لوگ کیا ہیں۔ ہم سچ مچ کے انسان جو اس کرہ زمین پر بستے ہیں کیا ہیں آج ہماری تہذیب کو سالمہ کے بمب سے یا جراثیم کی جنگ سے فنا ہونے کا خطرہ نہیں۔ بلہ ہم اس کے لیے خود ایک خطرہ بنے ہوئے ہیںَ اگر ہم اپنی بدبختی کے لیے ایٹم بم کو مجرم ٹھہرائیں تو ہم اس نادان لڑکے کی طرح ہوں گے جو بائیسکل سے گر جاے کے بعد اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے بائیسکل کو جوتے کی ٹھوکر لگاتا ہے۔ اگرہماری تہذیب مٹ گئی تو وہ آلات یا اسلحہ جو انسان کام میں لائے گا اس کی بربادی کا موجب نہ ہوں گے بلکہ انسان خود ہی اپنی ہلاکت کا موجب ہو گا‘‘۔ میکڈوگل کی فکر اسی طرح میکڈوگل Mc. Dougalجو دنیا کے مشہور ترین علماء فلسفیات میں سے خود فطرت انسانی کے مطالعہ کاماہر ہونے کے باوجود لکھتاہے: ’’انسان کی فطرت کے متعلق ہماری عدم واقفیت نے آج تک تمام اجتماعی علوم کی نشوونما کو روکا ہوا ہے۔ یہ علوم ہمارے زمانہ کی ایک ایسی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں جس کے لیے دنیا چلا رہی ے ان کے بغیر ہماری تہذیب زوال بلکہ فنا کے شدید خطرہ سے دوچار ہے۔ میراادعا یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے ترازو کو برابر رکھنے کے لیے ہمیں انسان کی فطرت اور سوسائٹٰ کی زندگی کے متعلق اس سے بہت زیادہ علم (ایک منظم اورعقلی طور پر مرتب علم) کی ضرورت ہے جو ہمیں اس وقت حاصل ہے۔ پس ہماری تہذیب کی غیر متیقین اور بڑھتی ہوئی خطرناک حالت کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں سرعت کے ساتھ اجتماعی علوم کو سچ مچ کے علوم کی شکل دینا چاہیے اور اس غرض کے لیے ہمیں انسان کی فطرت اور اس کے اعمال اور افعال کے متعلق ایک منظم واقفیت بہم پہنچانا چاہیے۔ پس عملی صورت میں اس کا علاج کیا ہے۔ میں اس سوال کے مختصر جواب کے طورپر یہ بتائوں گا کہ اگر میں ڈکٹیٹر بن جائوں تو کیا کروں… میں ہر ممکن طریق سے اپنی قوم کے ذہین ترین افراد کو مادی علوم سے ہٹا کر انسانی اور اجتماعی علوم کی جستجو پر مقرر کر دوں‘‘۔ فطرت انسانی کی لاعلمی کا عام احساس اور ایک دو نہیں بلکہ مغرب کے سارے مفکرین فطرت انسانی کے متعلق اپنی لاعلمی کو انسان کے سارے مصائب کا موجب ٹھہرا کر اس کا رونا رو رہے ہیں اب یہ عام طور پر محسوس کیا جا رہا ہے کہ فطرت انسانی کے متعلق انسان کا علم مدت سے ایک نقطہ پر جا کر ٹھہر گیا ہے ار آگے نہیں جاتا۔ ایک ماہر نفسیات کے الفاظ میں : ’’اب ہمیں ایک ایسے گلیلیو Galilio کی ضرورت ہے جو طبیعیات کی طرح علم کے اس شعبہ میں بھی انسان کی ترقی کا دروازہ کھول دے‘‘۔ افسوس کی میکڈوگل Mc.Dougal او ر اس کے بھائی بندوں کو جو اپنی تہذیب کی متوقع فنا کے غم میں گھلے جا رہے ہیں یہ معلوم نہیں کہ مادی دنیا کے علم کی طرح فطرت انسانی کا علم اس کی قوم یا دنیا کی کسی اور قوم کے ذہین ترین انسانوں کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے قدرت ایک اور قسم کے انسان کو دنیا میں پیدا کرتی ہے جن کی اہمیت کا اندازہ بھی اس کو اور اس کی قوم کو نہیں ہوا۔ اور وہ انسان خدا کے پیمبر ہیں جن سے خالق فطرت خود ہمکلا م ہوتا ہے۔ فطرت انسان کا علم اور انبیاء علہیم السلام اور جو اس سے براہ راست انسان کی فطرت کا علم حاصل کرتے ہیں۔ پھر جس سے مادی علوم میں ایک علمی مسئلہ کا آخری او رمستقل حل کرنے کے لیے ایک آخری عالم یا ذہنی نابغہ Intellectual Geniusپیدا ہوتا ہے اور اسی طرح انسانی اور اجتماعی علوم میں فطرت انسانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھی ایک آخری پیغمبر یا روحانی نابغہ Spiritual Geniusپیداہوتا ہے جو اس مسئلہکو آخری طور پر صاف کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے ذہین ترین انسان چلیں تو اس کے عطا کیے ہوئے علم کو (جب علم کا ارتقاء اس کی عقلی تفصیلات اور جزئیات کو بے نقاب کرنے کا موقع دے) اپنی ذہنی کاوش سے ایک منظم علمیا سائنس کی شکل دے سکتے ہیں۔ فطرت انسانی کا راز میکڈوگل Mc.Dougalچاہے تو فطرت انسانی کا مسئلہ حسل کرنے والے پیغمبر (نداہ امی و ابی) سے فطرت انسانی کا یہ تنہا راز سیکھ لے تو توحید یعنی خدا پر ایمان لانا اور زندگی کو خداکی رضا جوئی کے لیے وقف کر دینا صرف ایک نصب العین ہے جس کی جستجو انسان کو مستقل اور مکمل طور پرمطمئن کر سکتی ہے۔ ناقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذالک الدین القیم (۳۰:۳۰) ترجمہ: تو اے پیغمبر ایک خدا کے ہو کر اس کے دین کی طرف اپنا رخ کیے رہو یہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔ خدا کی پیدا کی فطرت میں ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی دین کا سیدھا راستہ ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور یہی ساری کائنات کا راز ہے: قل انزلہ الذی یعلم الشر فی السموت والارض (۲۵:۶) ترجمہ : اے پیغمبر کہہ دو کہ یہ قرآن اس خدا نے نازل کیا ہے جو کائنات کے راز سے واقف ہے ۔ اور اسی کے اردگرد ایک سچامضبوط اور مستقل فلسفہ زندگی وجود میں آ سکتا ہے۔ فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ فقد استمسک و بالعروۃ الوثقیٰ لا انفصام لھا (۲: ۲۵۶) ترجمہ: اور جو شخص جھوٹے خدائوں سے انکار کرے اور سچے خدا پر ایمان لائے اس نے گویا ایسی مضبوط رسی کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتی۔ علم کی ترقی اور فطرت انسانی کا منظم علم خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں علم کے دونوں شعبوں یعنی علم الانفس اور علم الآفاق میں علم کی ترقی اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ جہاں قرآن کا یہ نظریہ آسانی کے ساتھ فطرت انسانی کے ایک ایسے گوشے ’’منظم اور عقلی طور پر مرتب علم‘‘ کی صورت میں ظاہر ہو جاتاہے۔ جس ی ضرورت میکڈوگل اوراس جیسے دوسرے لوگ اس زمانہ میں شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ اور یہ کام فلسفہ خودی کی صورت میں انجام کو پہنچا ہے۔ شعور انسانی سے باہر کی دنیا کو قرآن کی اصطلاح میں آفاق کہا گیا ہے اور شعور انسانی کی دنیا کو انفس علم الآفاق میں طبیعیات Physicsاور علم الحیات شامل ہیں اور علم الانفس علم النفس Psychology پر مشتمل ہے۔ علم کی تین شاخیں ارتقا کو تین بڑی منزلوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہیںمادہ حیوان او رانسان اور ان کے مقابل میں علم کی بھی تین ہی بڑی قسمیں ہیں۔ علم طبیعیات جو مادہ کے خواص سے تعلق رکھتا ہے۔ علم الحیات جو حیوا ن کی ماہیت کا مطالعہ کرتا ہے اور علم النفس جو انسان کے شعور سے تعلق رکھتا ہے۔ جس علم کو ہم فلسفہ کہتے ہیں اور جس کا کمال فلسفہ خودی ہے وہ درحقیقت نفسیات کائنات کا مطالعہ ہے ۔ اور علم کی تینوں اقسام اس کی شاخیں ہیں۔ اگر انفس و آفاق کے تازہ علم کی روشنی میں ہم فطرت انسانی کے متعلق قرٓان کے نظریہ کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کی تہہ میں علم النفس کی وہ قیمتی حقیقت پوشیدہ ہے جس کے نہ جاننے کے سبب سے تمام فلسفیوں نے اپنے اپنے استدلال میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ نصب العین کی کشش فطرت انسانی کا قوی ترین جذبہ ہے اور غلط اور گمراہ کن فلسفے پیدا کیے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان کی نفسیات کا قوی ترین جذبہ تو روٹی کی کشش Urge for Hunger ہے جیساکہ کارل مارکس کے ذہن میں آیا نہ جنس کی کشش Sex Urgeہے جیسا کہ فرائڈ نے خیال کیا اور نہ حب استیلا ء Urge for Power ہے جیسا کہ ایڈلرنے سمجھا ہے اور نہ جبلتوں کا تقاضا Urge for Instincts ہے جیسا کہ میکڈوگل کو نظر آیا بلکہ وہ نصب العین کی کشش Urge for Ideal ۱؎ ہے اور فلسفہ خودی کے تصور ثبوت میں ایسے شواہد اور حقائق مہیاکرتا ہے کہ جن کی روشنی میں اس کے مقابل کے تمام تصورات جن کا ابھی ذکر کیا گیا ہے غلط نظر آتے ہیں۔ اور جن کی وجہ سے کسی دیانت دار شخص کو اس تصور کے تسلیم کرلینے میں دقت نہیں ہوتی۔ اسلام کی راہنمائی اگرچہ یہ تصور آج تک عصر حاضڑ جدید کے ماہرین نفسیات کی نظروں سے اوجھل رہا ہے لیکن اس کی نوعیت ایسی ہے کہ ایک دفعہ آشکارا ہو نے کے بعد یہ ایک پیش پا افتادہ‘ آسان اور سادہ حقیقت نظر آتا ہے۔ چونکہ یہ تصور فطرت انسانی کے اسرار میں سے تھا اس لیے سادہ اور آسان ہونے کے باوجود ااس کا مناسب وقت پر آشکار کرنا صرف اس قوم کے لیے ممکن تھا اور اسی قوم کے لیے اٹھا رکھا گیا تھا جس کو خاتم الانبیاء کی معرفت فطرت انسان کی صحیح تعلیم دی گئی تھی۔ ۱؎ قرآن مجید کی آیت: یہ تصور اگرچہ معمولی سی حقیقت نظر آتا ہے لیکن اس کے نتائج نہایت اہم ہیں کیونکہ ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ ارب العلمین ہمیں اس تصور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نظم علوم کا رشتہ دنیائے علم میں اس کے داخل ہونے سے سارے علم کا رخ بدل جاتا ہے ۔ اور تمام علمی حقائق کے اندر ایک اطمینان بخش ترتیب اور دلکش انتظام پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ چیز بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اس تصور کے تسلیم کرنے کے بعد ہم علم کی ایک ایسی توجیہہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور علم کی ایسی شاہراہ پر چل نکلتے ہیں جو ہمیں بالآخر کائنات کے سربستہ رموز تک پہنچا دیتی ہے فلسفہ تاریخ معاشیات علم النفس فلسفہ اجتماع فلسفہ سیاست ‘ فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تعلیم اور سارے انسانی اجتماعی علوم ہیں جس قدر انتشار اس وقت موجود ہے اور فطرت انسانی کے متعلق دور حاضڑ کی جس قدر لا علمی ہے ۔ انسانی مسائل کا حل وہ اپنے تمام ہلاکت خیز نتائج کے سمیت صرف اس تصورکی لاعلمی سے پیدا ہوئی ہے اس تصور کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی اب تک انسان کے لیے ممکن نہیںہوا کہ وہ انصاف نیکی‘ آزادی ‘ سچائی ‘ اخوت ‘ مساوات کی مانند اصطلاحات کی کوئی ایسی واضح اور معین تعریف کر سکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو یا رنگ نسل ‘ قوم‘ ذات پات اور طبقات کے جھگڑوں کا کوئی حل پیدا کر سکے یا افراد اور اقوام کو اخلاقی اصولوں کی پابندی پر آمادہ کر کے خونریزی کا انسداد کر سکے۔ یاامن و اتحاد عالم کی تعمیر کے لیے صحیح خطوط پر کوئی ایسا کام کر سکے جو دن بدن اسے کامیابی کے قریب تر لاتا جائے۔ ایک جدید فلسفہ کا مرکزی تصور جونہی ہم اس تصور کو کہ انسان کی تمام خواہات کشش نصب العین کے ماتحت کام کرتی ہیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیں (اور اس کے سوائے ہمارا کوئی چارہ بھی نہیں) تو ہمیں فی الفور بہت سے سوالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جو اپنا جواب چاہتے ہیں۔ کشش نصب العین کا سبب کیا ہے؟ یہ ارتقاء کے کس مقصد کو پورا کرتی ہے؟ اس کے مکمل اطمینان کا طریقہ کیا ہے؟ اگریہ مکمل طورپر مطمئن نہ ہوسکے تو اس سے کیا کیا عملی اور نفسیاتی نتائج پیدا ہوتے ہیں نصب العینوں کے اختلافات کا سبب کیا ہے؟ نصب العین کے نفسیاتی عناصرکیاہوتے ہیں یعنی نصب العین میں کون سے ایسے اوصاف ہوتے ہیں جو ہمیں کشش کرتے ہیں۔ بعض وقت ہم ایک نصب العین کو ترک کر کے دوسرے نصب العین کو کیوں اختیار کرتے ہیں۔ فرد اور جماعت کی زندگی میں نصب العین کی تبدیلی کس سمت میں ہوتی ہے۔ اور کیوں؟ جب ہم اس تصور کو ذہن میں رکھ کر ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ تازہ ترین علمی حقائق ہماری تائید کے لیے دوڑتے ہیں اور ہمیں ان سوالات کا ایک ایسا جواب مہیا کرتے ہیں جو کائنات کے ایک منظم فلسفہ کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اساسیات اسلام کافلسفہ اور پھر یہ فلسفہ نہ صرف ایک طر ف محض فلسفہ کی حیثیت سے تمام دوسرے فلسفو ں سے زیادہ معقول او رمدلل ثابت ہواہے بلکہ دوسری طرف اسلام کے بنیادی اصولوں یعنی توحید ‘ نبوت ‘ ختم نبوت ‘ شریعت ‘ جہاد ‘ حریت ‘اخلاق ‘ عمل ‘سزا‘ اور جزا‘وغیرہ کی پوری پوری تائید کرتا ہے۔ یعنی اس فلسفہ کی وجہ سے یہ اصول کسی تکلیف اور بناوٹ کے بغیر کائنات کے عقلی نظام کا ایک جزو نظر آتے ہیں اور یہ بات اسلام کی صداقت کا ایک اور بین ثبوت ہے جو اس زمانہ میں پیدا ہوا ہے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ایک صحیح علمی تصور کی بنا پر ہماری خالص علمی جستجو ایسے نتائج پیدا کرتی ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی تائید و توثیق کرتے۔ اس فلسفہ کا بنیادی تصور فانے کی نوک کی طرح ہے کیونکہ اس کے تسلیم کرنے کے بعدباقی تمام اسلامی تصورات کے قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ یہ فلسفہ ضمناً حکماء کے دیرینہ اختلافات کو سلجھاتا اور انفرادی اور اجتماعی نفسیات فلسفہ‘ لاشعور‘ فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تاریخ‘ فلسفہ سیاست‘ اور فلسفہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایسے مشکل مسائل کا حل کرتا ہے جو اب تک حکماء کے لیے ایک معمہ بنے ہوئے ہیں پھر ان سوالات کے جواب کے ضمن میں یہ فلسفہ ہمیں دوسرے تمام فلسفوں سے زیادہ معقول اورقابل فہم طریق سے بتاتا ہے کہ حسن کمال ‘جبلت‘ عمل‘ علم ‘ سیاست‘ مذہب‘ فلسفہ ‘ہنر اخلاق قانو ن اور تعلیم کیا چیزیں ہیںَ ریاست کیا چیز ہے۔ کیونکہ وجود میں آتی ہے اس کی ترقی اور تنزل عروج اور انحطاط کے اسباب کیا ہیں۔ کیونکر روکے یا پیداکیے جا سکتے ہیں۔ مذہبی ریاست کی اصطلاح کیونکر بے معنی ہے۔ وجدان کی کیا حیثیت ہے۔ عقل کا دائرہ عمل کیاہے۔ قوموں میںجنگیں کیوں ہوتی ہیں ان کا مستقبل علاج کیاہے۔ نبوت کیا چیز ہے۔ ارتقاء کے لیے کیوں ضروری ہے ختم کیوں ہو جاتی ہے قومیں اور افراد خواہش کے باوجوداخلاقی اصولوں کی پابندی کیوں نہیںکر سکتیں۔ وعلی ہذ القیاس۔ اسلام کا اصلی جواب ان سوالات میں سے بعض کے مقابل میں ہم نے وہ جوابات بھی سنے ہیں جو اسلام کی طرف سے ہمارے علماء اب تک دیتے رہے ہیں ۔ لیکن فلسفہ خودی کے جوابات کچھ اور قسم کے ہیں۔ ایک تو یہ اسلام کی سچی روح سے سرزد ہوتے ہیںَ اور ان میں غلط تصورات سے کوئی مدد نہیں لی گئی ۔ اور دوسرے ان کامقصد ہماری کامیاب یا ناکام تسلی کرنا نہیں بلکہ غلط تصورات کو جڑ سے اکھیڑ کر ان کی جگہ صحیح تصورات کو قائم کرناہے۔اصل بات یہ ہے کہ دور حاضر کے غلط فلسفیانہ تصورات کے مقابل میں اسلام اس وقت تک خامو ش رہا ہے جب تک کہ اس نے فلسفہ خودی کی صور ت میں اپنی زبان کو نہیں کھولا۔ ایک علمی حقیقت فلسفہ خودی کامرکزی تصور کہ نصب العین کی کشش انسان کی زندگی مدار و محور‘ ایک علمی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام علمی حقائق کے اندر ایک تسلی بخش ترتیب اورنظام پیدا کرتا ہے۔ اور اس کی جگہ لینے والا کوئی اور تصور ان کے اندر یہ ترتیب اور نظام پیداکرتاہے۔ اور ا س کی جگہ لینے والا کوئی اور تصور ان کے اندر یہ ترتیب اور نظا م پیدا نہیںکرتا ۔ تمام علمی حقائق جو انسان آج تک دریافت کر سکا ہے‘ اس تصور کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اور اس کے مقابل کے کسی اورتصورکے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ علمی حقائق دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک علمی حقیقت تو وہ ہے جسے ہم تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم کر سکتے ہیں۔مثلاً ہم معمل میں تجربہ کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ پانی کی ترکیب میں آکسیجن Oxygenاور ہائیڈروجن Hydrogenایک اور دو کی نسبت کے ساتھ شامل ہیں۔ اور دوسری علمی حقیقت وہ ہے جو ایک مفروضہ کی شکل میںہوتی ہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ سے معلوم کیے ہوئے حقائق کے ایک غیر منظم اور ناقابل فہم مجموعہ کے اندر داخل ہو کر ایک قابل فہم ترتیب اور نظام پیداکر دیتی ہے مثلاً سالمہ Atom کے متعلق ہمارا نظریہ اسی قسم کی ایک علمی حقیقت ہے لیکن اس حقیقت خیالی یا فرضی ہونے کے باوجود کس قدر سچی ہے۔ دنیائے ہیروشیما کی ہولناک تباہی میں اس کا عینی مشاہدہ کر لیا ہے۔ فلسفہ خودی کا مرکزی تصور اسی دوسری قسم کی ایک علمی حقیقت ہے۔ اتحاد علوم گویا یہ تصور سارے علوم کو متحدہ کرتا ہے اور اس کی بنا پر ہم علوم کی ایسی تشریح کر سکتے ہیں کہ وہ سب کے سب کائنات کے ایک مرکزی مدعا کے معاون نظر آتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فلسفہ خودی ایک ایسی مکمل اور مسلسل وحدت ہے جس کا ہر ایک تصور دوسرے تمام تصورات سے تائید اور قوت حاصل کرتا ہے اور ان وجوہات کی بناپر یہ کہنا نہ تو کوئی مبالغہ ہے۔ اورنہ خوش فہمی کہ فلسفہ خودی اس دور کے تمام نظریات عالم سے زیادہ معقول ہے۔ باطل نظریات کی شکست چونکہ فلسفہ خودی کا مرکزی تصور ایک سادہ اورناقابل انکار حقیقت ہے کہ اگر اس کی مناسب نشر و اشاعت دنیامیں ہو تو یہ کارل مارکس کے نظریے سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ دنیا میں پھیلے گا اور پھر جوں جوں یہ تصور دنیا کے تعلیم یافتہ طبقہ کی سمجھ میں آتا جائے گا باطل نظریات کی بنیادیں اکھڑتی جائیں گی۔ کیونکہ باطل نظریات سب کے سب اسی تصور کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا اور زندہ ہیں۔ اشتراکیوں نے اپنے اس نعرہ سے کہ بوٹی یا اقتصادی ضروریات کی کشش انسان کے تمام اعمال کی جڑ ہے نصف دنیا کو فتح کر لیا ہے لیکن ہم اپنے اس نعرہ سے کہ نصب العین کی کشش کے تمام اعمال کی جڑ ہے اس فتح کوآسانی کے ساتھ شکست میں بدل سکتے ہیں کیونکہ اس حقیقت کے تسلیم کر لینے کے بعد ہماری دنیا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کہ اقتصادی ضروریات کا مسئلہ اور انسان کی زندگی کے باقی تمام مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم اپنے نصب العین کو درست کر کے نصب العین کی فطرتی کشش کو پوری طرح سے اور صحیح طریق سے مطمئن کرنے کا انتظام نہ کریں۔ ریاست کا فرق اشتراکیوں کا نام نہاد مقصد ہر ایک کو ا س کے کام کے مطابق سے لے کر ہر ایک کو اس کے اسلامی اور اشتراکی ضروریات کے مطابق تک From everyone according to his work; to everyone according to his needs ایک اشتراکی ریاست میں نہیں بلکہ صرف ایک اسلامی ریاست میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس کی تکمیل کے لیے نفسیات انسانی کے بعض ایسے رجحانات اور بعض ایسی خواہشات کے قابو میں لانے کی ضرور ت ہے جنہیں قابو میں لانے کے لیے اشتراکیت کے پاس کوئی سامان موجود نہیں۔ لیکن اسلام کے پاس سارا سامان موجود ہے۔ اشتراکیت فرد پر دبائو ڈال کر اور سختی کر کے بھی اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ لیکن ہم دبائو ڈالنے یا سختی کرنے کے بغیر بھی اس کو پوری طرح حاصل کر سکتے ہیں اور پھر اسلامی نظام حکومت میں اگر فرد پر بھی کوئی سختی روا رکھی جائے تو وہ اس کی آزادی کو سلب نہیں کرتی اور نہ اس کی فطرت کو دباتی یا روکتی ہے بلکہ اسے اور آزاد کرتی ہے اور مزید ابھرنے کا موقع دیتی ہے۔ پس اگر دنیا غلامی کے ساتھ ناکام معاشی اعتدال چاہتی ہے تو اشتراکیت کو پسند کرے گی اور اگر آزادی کے ساتھ کامیاب معاشی اعتدال چاہتی ہے تو اشتراکیت کو پسند کرے گی اور آزادی کے ساتھ کامیاب معاشی اعتدال چاہتی ہے تو اسلام کوترجیح ۱؎ دے گی۔ ۱؎ اشتراکیت کی زیادہ مفصل تردید کے لیے میری کتاب ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ کی فصل مارکسزم Marxismملاحظہ فرمائیے۔ فلسفہ خودی اشتراکیت کا ہی ایک جواب ہے فلسفہ خودی واضح طور پربتاتا ہے کہ اشتراکیت کا سیلاب کہاں رکے گا اور کیونکر لوٹایا جائے گا۔ یوں تو ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ اسلام اشتراکیت کا جواب ہے لیکن فلسفہ خودی وجود میں آنے سے پہلے ہمارے لیے مشکل تھا کہ ہم دنیا کو وضاحت سے بتا سکیں یا قائل کر سکیں کہ ایسا کیوں ہے پچھلے سال امریکہ کی حکومت نے اشتراکیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک پانچ کا پروگرام شائع کیا تھا جس کا اولین یہ تھا کہ ایسا لٹریچر پیدا کیا جائے جو اشتراکیت کا جواب ہو لیکن اشتراکیت جیسے ایک مکمل نظریہ کائنات کی تردید کے لیے ایک اور مکمل نظریہ کائنات کی ضرورت ہے جو اس سے زیادہ مقبول اور قابل قبول ہو اور جس میں اشتراکیت کے نقائص خو د بخود عیاں ہو جائیں۔ اشتراکیت کے مقابلہ کے لیے اس قسم کا نظریہ کائنات عیسائی دنیا ایک صدی کی انتہائی کوششوں کے باوجود آج تک نہیں پیدا کر سکی۔ اور نہ اس میں صلاحیت ہے کہ آئندہ پیدا کر سکے۔ اس فلسفہ کی کید فقط مسلمان قوم کے ہاتھ میں دی گء ہے۔ خواہ دنیا فلسفہ کے میدان میں اسلام کی قیادت کو پسند کرے یا نہ کرے لیکن اس قسم کا فلسفہ دنیا کو اسلام سے ہی لینا پڑے گا۔ اور وہ فلسفہ فلسفہ خودی ہے۔ تازہ علمی حقائق کی تائید یہ بات اس زمانہ میں فلسفہ خودی میں نمودار کرنے کے لیے قدرت کے خاص اہتمام کا ثبوت ہے جب علم کی ہر سطح پر بہت سے ایسے حقائق منکشف ہوئے ہیں جو اس تصور کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتے ہیں اور اس کے مقابل کے کسی دوسرے تصور کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ ان حقائق کے بغیر فلسفہ خودی وجود میں نہ آ سکتا۔ کیونکہ ان کے بغیر نہ تو اس کے مرکزی تصور کو ہی کافی سہارا ملتا اور نہ ہی ہم ان سوالات کا تسلی بخش جواب مہیا کر سکتے جو یہ تصور پیدا کرتا ہے۔ آئندہ کے علمی حقائق کا خط پھر چونکہ آج تک کے تمام حقائق فلسفہ خودی کی تائید کرتے ہیں ہم توقع کرسکتے ہیں کہ آئندہ کے علمی حقائق بھی فلسفہ خودی پر مزید روشنی ڈالیں گے اور اس کی مزید تفصیلات اور جزئیات بہم پہنچائیں گے۔ گویا فلسفہ خودی ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم آئندہ کے علمی انکشافات کی ممکن نوعیت کا کچھ اندازہ قائم کر سکیں اور لہٰذا ایک حد تک آئندہ کی علمی جستجو کے لیے معاون ہے اسی طرح سے یہ فلسفہ اسلامی علمی تحقیق کی راہیں معین کرتا ہے۔ اسلامت ریسرچ کے معنی ان دنوں ہماری یونیورسٹیاں اسلامک ریسرچ Islamic Researchکی طرف خاص توجہ دینا چاہتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے موزوں اشخاص میسر نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علمی انحطاط کے اس دور میں ہم میں ایسے اشخاص بہت کم ہیں جو ٹھیک طرح سے جانتے ہیں کہ اسلامت ریسرچ کس طریق سے ہو اور کس سمت میں ہو۔ لے دے کے اسلامک ریسرچ فقط اس نام رہ گیا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی پرانی کتابوں میں سے کوئی ایسی علمی حقیقت نکال کر دنیا کو دکھا دیں کہ جو اس زمانہ کے محققین نے بھی دریافت کی ہو اور دنیا کے سامنے زیادہ واضح اور صحیح طور پر پیش کی ہو۔ اس قسم کی علمی تحقیقات سے نہ ہمیں کچھ فائدہ ہے اور نہ دنیا کو۔ البتہ ایسی تحقیقات کے نتائج کو ٹیکسلا سے کھودی ہوئی چیزوں کے ساتھ کسی عجائب خانہ میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ انسان کے ماضی کے متعلق لوگوں کا ذوق دریافت مطمئن ہوتا رہے۔ ہمارا ماضی نہایت شاندار ہے لیکن ہمارا مستقبل اس سے کئی گناہ زیادہ شاندار ہونے والا ہے اور ہمیں چاہیے کہ مستقبل کی تعمیر کے لیے کام کریں ۔ اسلامک ریسرچ سے مراد ایسی علمی جستجو ہے جس سے ہم علمی صداقتوں کو کچھ موجودہ علوم سے الگ کر کے اور کچھ تازہ ذہنی کاوش سے پیدا کر کے اپنے نظام تصورات کی لڑی میں پروتے چلے جائیں۔ اس قسم کی علمی جستجو کا نتیجہ صرف اسلام کا علمی ارتقا ہے بلکہ نوع انسانی کا مجموعی علمی ارتقا بھی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اب جبکہ فلسفہ خودی یعنی کائنات کا پہلا اور آخری صحیح فلسفہ وجود میں آ چکا ہے۔ اسلامک ریسرچ بلکہ انسانی اور اجتماعی علوم کا سارا ریسرچ اسی فلسفہ کے اندر اس کی مدد سے اور اس کی راہ سے ہو سکتا ہے۔ اس فلسفہ کی راہنمائی کے بغیر ہم اپنی علمی تحقیقات میں (خواہ اسے اسلامک ریسرچ کا نام دیا جائے یا انسانی یا اجتماعی علوم کے عام ریسرچ کا) کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ علمی تحقیقات کی کامیابی اس بات کانام ہے کہ ہم علم کو اس نقطہ سے اور آگے لے جائیں جہاں وہ پہنچ چکا ہے۔ فلسفہ خودی نہ صرف ہماری آ ج تک کی علمی جفتجو کے تمام نتائج کا جائزہ لے کر ان کے صحیح اور کارآمد حصہ کو ایک مناسب ترتیب اورتنظیم کے ساتھ اکٹھا کرتا ہے۔ بلکہ اس کی ترتیب اور تنظیم کی بدولت مزید علمی حقائق کو روشنی میں لاتا ہے لہٰذا اب وہی علمی جستجو کامیاب سمجھی جائے گی جو ان حقائق پر مزید روشنی ڈالے یا ہمیں ان سے اور آگے لے جائے۔ ایک اعتراض ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ فلسفہ ایک گمراہی ہے کیونکہ اس کا دارومدار عقل پر ہے اور انسان کی راہنما عقل نہیں بلکہ وحی ہے ۔ عقل ہر چیز کو صحیح ثابت کر لیتی ہے اس لیے وہ گویا کسی چیز کو صحیح ثابت نہیں کر سکتی۔ صحیح عقلی استدلال ایک صحیح تصور کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے ۔ لیکن ایک غلط تصور کے اندر موجود نہیں ہوتا لیکن عقل اور وحی کے مقام کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے میں ٰہ عرض کروں گا کہ قرآن خود اس بات کامدعی ہے کہ وہ ایک فلسفہ ہے اور وہ اپنی طرف ’’حکمت‘‘ کو منسوب کرتا ہے اور لفظ ’’حکیم‘‘ سے اپنے آپ کو تعبیر کرتاہے۔ ’’یس والقرآن الحکیم‘‘ ارو پھر قرآن بار بار عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتا ہے۔ فلسفہ کا لازمی عنصر یا اس کی روح یا بنیاد استدلال نہیں بلکہ کائنات کا ایک وجدانی تصور ہے چونکہ قرآن اس قسم کا تصور پیش کرتا ہے لہٰذا وہ فلسفہ ہے جب ایک وجدانی طور پر معلوم کی گئی حقیقت سچی ہو تو ایک مکمل اور بے خطا عقلی اور منطقی استدلال اس کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے اگرچہ ہم کسی وجہ سے اس استدلال کی جزئیات اس کے اندر سے باہر نہ لائیں یا نہ لا سکیں لیکن اگر وہ غلط ہو اور ہم اسے ایک حقیقت سمجھ رہے ہوں تو اس کے حق میں ہمارا استدلال خواہ کس قدر عمیق اوردقیق ہو عقل کی ٹھوکروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ درحقیقت ایسا تصور بے خطا عقلی یا منطقی استدلال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ فلسفہ اور عقل پر جو اعتراضات ہم آج تک کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان کا اطلاق فلسفہ خودی پر نہیںہوتا۔ کیونکہ یہ سچا فلسفہ ہے اور سچی عقل کا نتیجہ ہے۔ فلسفہ خودی کے وجود میں آنے سے پہلے انسان کی عقل فلسفہ کے ذریعہ سے اور آسمانی ہدایت سے الگ ہو کر ان ازلی اور ابدی صداقتوں کی پانے کی کوشش کر رہی تھی جو صرف خدا کی وحی آشکارکر سکتی ہے اور لہٰذا ناکام و نامرا د تھی اس زمانہ میں فی الواقع فلسفہ اور نبوت کے الفاظ بالترتیب ضلالت اور ہدایت کے ہم معنی تھے لیکن فلسفہ خودی نے فلسفہ اور مذہب کی تفریق ختم کر دی ہے ۔ یہ وہ فلسفہ ہے جو خدا کی وحی سے ہدایت پاتاہے ۔ اور ان حقائق پر مبنی ہے جو خدا کی وحی سے آشکار کیے ہیں لہٰذا یہ بیک وقت ایک سچا مذہب اور ایک سچا فلسفہ ہے۔ ہم نے مسلمان جو خداوند تعالیٰ کو اس کے تمام اسماء اور صفات کے ساتھ (کما ھو باسمائہ وصفاتہ) مانتے ہیں تمام قوموں سے بڑھ کریہ ماننے کے اہل ہیں کہ کائنات کا ایک سچا فلسفہ بھی ضرور ہے ۔ کائنات کا سچا فلسفہ کیونکہ حکمت و دانائی خالق کائنات کی ایک صفت ہے ۔ اس صفت کی وجہ سے کائنات کے اندر ایک عقلی ترتیب کا ہونا ضروری ہے۔ کائنات کیا ہے؟ خدا کی صفات کا مظہر ہے۔ خدا چاہتا تو کائنات کو آن واحد میں سلسلہ اسباب کے بغیر پیدا کر دیتا لیکن اس صورت میں اس کی صفت حکمت کا اظہار نہ ہوتا۔ لہٰذا اس نے کائنات کی تخلیق میں ایک عاقلانہ ترتیب تدریج اور نظام کو داخل کیا۔ وہ مسبب الاسباب ہے یعنی جس کو کام کرنا چاہتا ہے اس کے لیے اسباب کا سلسلہ مہیا کر دیتا ہے ۔ ایک سبب دوسرے کو پیدا کرتا ہے۔ اور دوسرا سبب تیسرے سبب کو یہاں تک کہ آخر کار جس چیز کی تخلیق منظور ہوتی ہے وہ بھی ایک سبب سے ظہور پاتی ہے۔ کائنات ایک عقلی نظا م ہے کائنات گویا ایک زنجیر کی طرح ہے جس کا ہرایک حلقہ دوسر ے حلقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسی لیے ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف اور ایک حقیقت سے دوسری حقیقت کی طرف راہنمائی ہوتی ہے۔ اسی بات نے ہماری جستجوئے حق و صداقت کو خواہ وہ علم کے میدان میں ہو یا عمل کے میدان میں ہو ممکن بنایا ہے ۔ اسی بنا پر ا س دنیا میں اور اگلی دنیا میں ہماری جزا اور سزا کا انحصار ہے۔ اسی پر نیکی اور بدی ہدایت ہیں کہ کوئی فلسفہ عقل پر مبنی نہیں ہے۔ ہر فلسفہ وجدان پر مبنی ہوتا ہے۔ عقل اگرچہ ہمارے وجدان کو اکساتی ہے لیکن خود آزاد نہیں بلکہ ہمارے وجدان یا احساس کی خدمت گزار اور پابند ہو جاتی ہے۔ ہر فلسفہ کی بنیاد وجدان ہے عقل نہیں ہر فلسفہ کی ابتدا وجدا ن سے ہوتی ہے اور ہر فلسفی اپنے وجدان کی عقلی تشریح اور توجیہہ کرتاہے۔ فلسفی کی عقل اس کے وجدان کے دائرہ سے باہر نہیں جاتی۔ فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو وجدان ایک قسم کا قلبی مشاہدہ ہے۔ اور اس کے مدارج ہوتے ہیں۔ جس قدر ہمارا وجدان ناقص ہو گا اسی قدر ہماری عقل جو اس کی ترجمانی پر مامور ہو گی ناقص ہو گی۔ کامل اور سچا وجدان اس قابل ہوتاہے کہ وہ زود یا بدیر ایک ایسے عقلی نظام یا فلسفہ کی صورت اختیار کرے جو بے خطا ہو لیکن ایک ناقص اور غلط وجدان ا س قابل نہیں ہوتا کہ جو فلسفہ غلط وجدان سے پیدا ہو گا وہ عقلی طور پر غلط اور ناقص ہو گا۔ عقلی استدلال کی ضرورت ہم اپنی ذہنی کاوش سے اسے ایک صحیح عقلی نظام یا فلسفہ کی شکل نہیں دے سکتے۔ زود یا بدیر اس کی منطقی یا عقلی خامیاں ظاہر ہو جائیں گی۔ ہر وجدان کی عقل الگ ہے ۔ اور ہر عقل اسی وجدان کی طرف راہنمائی کرتی ہے جس کو وہ مخلوق یا پیداوار ہوتی ہے۔ چونکہ فلسفہ خودی نبوت کے سچے اور صحیح وجدان کے عقلی ارو منطقی تشریح اور تفسیر ہے اس لیے وہ عقلی اور منطقی طور پر صحیح ہے اور گمراہ نہیں کرتا بلکہ نبوت کے سچے اور صحیح وجدان کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ صحیح ترین وجدان ایک پیغمبر کا وجدا ن ہے۔ حکمت قرآنی سچے وجدان سے جو عقل پیدا ہوتی ہے وہ اعلیٰ ترین بلند ترین اور صحیح ترین عقل ہونے کی وجہ سے ایک بیش بہا نعمت ہے۔ اسی عقل کو قرآن حکیم نے حکمت اور خیر کثیر کہا ہے۔ اور ضلالت کا امتیاز مبنی ہے۔ اگر کائنات کے اندر کوئی عقل نہ ہوتی تو سائنس کا علم اور دوسرے تمام علوم نہ ممکن ہوتے بلکہ خدا کے پیغمبروں کا ظہور بے معنی ہوتا۔ ایک خدا پرست انسان جانتا ہے کہ کائنات کا ایک نظام ہے جس کی رو سے اسے اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سز املے گی لہٰذا وہ نیکی کی زندگی اختیار کرکے خدا کے عذاب سے پناہ مانگتا ہے۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار (۱۳:۱۹) ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! تو نے ا س کائنات کو بے فائدہ نہیں بنایا۔ تو (ایسے فعل عبٹ ک کرنے سے) پاک ہے۔ پس (جب نیکی کی جزااور بدی کی سزا ہے ) تو ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ ایک فلسفی ایک سائنسدان ایک عالم یا ایک معمولی انسان کو بھی وجدانی طورپر معلوم ہے کہ دنیا کے ایک ترتیب کھلتی ہے جو عقل سے سمجھی جا سکتی ہے ۔ لہٰذا وہ اسباب کی زنجیر کوٹٹولتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ اور نئے نئے معلومات اور فوائد جو بالآخر اس کی عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں حاصل کرتا جاتا ہے۔ کائنات کا عقلی نظام تخلیق کی ہر سطح پر صاف نظر آتا ہے۔ مادی دنیا میں اس نظام کے ترجمان علم طبیعیات اور کیمیاہیں۔ حیوانات کی دنیا کے عقلی نظام نے علم الحیات کو ممکن بنایا ہے۔ اور انسانی سطح پر جو عقلی نظام قائم ہے اسے علم النفس کہتے ہیں۔ انسان کی زندگی کی ساری جستجو تلاش اسباب ہی کانام ہے اور اس جستجو کا سبب یہی ہے کہ کائنات کے اندر ایک عقلی ترتیب موجود ہے۔ فلسفہ کی کوشش یہ ہے کہ اس ترتیب یا نظام کو مکمل طور پر دریافت کیا جائے۔ صحیح عقل اور غلط عقل کا فرق لیکن فلسفی ایک سچے اور صحیح وجدان Intuition کے بغیر جو صرف ایک پیغمبر کا حصہ ہے اسے کبھی معلوم نہیں ہوتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح وجدان کے بغیر وہ ایک غلط وجدان سے ابتدا کرے گا۔ اور جو عقل غلط وجدان سے پیدا ہوتی ہے وہ غلط کام کرتی ہے۔ اور غلط ہوتی ہے۔ ہم اس حقیقت کو اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یوتی الحکمۃ من یشاء ومن یوت الحکمۃ فقل اوتی خیرا کثیرا (۲:۲۶۹) ترجمہ: جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس شخص کو حکمت دی گئی اسے ایک بہت بڑی بھلائی دی گئی۔ یہی وہ عقل ہے جو ایک امتی کو پیغمبر کے وجدان کی طرف راہنمائی کر کے نور ایمان سے بہرہ ور کرتی ہے۔ لہٰذا دین کی تبلیغ میں اس سے کام لیا جاتا ہے۔ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ (۱۶: ۱۲۵) ترجمہ: اے پیغمبر لوگوں کو عقل کی باتوں اور اچھی نصیتوں سے اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف بلائو۔ یعلمھم الکتب والحکمتہ (۶۲:۲) ترجمہ: وہ ان کو کتاب اور دانائی کی باتیں سکھاتا ہے۔ ہر حکمت کی بات کا ذکر لفظا قرآن میں نہیں لیکن چونکہ ہر حکمت کی بات معنا قرآن میں ہے اس لیے اوپر کی آیت میں کتاب اور حکمت دونوں کا اکٹھا ذکر کر کے حکمت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حکمت کی جزئیات کا علم ایک مومن کے ساتھ خاص تھا۔ لیکن ایک مومن قرآن کے علم کی روشنی سے ہر حکمت کو پہچانتا اور قبول کرتا ہے۔ الکمۃ الحکۃ ضالۃ المومن فحیث وجدھا فھوا حق بہا ترجمہ: دانائی کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں پائے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ فلسفہ خودی حکمت قرآنی ہے قرآنی حکمت یا قرآنی عقل قرآن کے مفہوم کو واضح اور معین کرتی ہے اور اسے ذہنوں کے قریب لاتی ہے یہ ہر زمانہ میں گمراہی کی نوعیت کے مطابق مناسب صورت اختیار کرتی رہی ہے علم کے ارتقاء سے حکمت قرآنی میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ فلسفہ خودی ا س دور میں ظہور پانے والی حکمت قرآنی ہے جس نے اس زمانہ میں علم کی ترقی کی وجہ سے اور زمانہ کی ضرورت کی بنا پر ایک منظم فلسفہ کائنات کی صورت اختیار کی ہے۔ نبوت ایک خاتم النبیین کی ذات میں اپنے کمال کو پہنچ کر نظام عالم کے ان حقائق یا زنجیر کائنات کی ان کڑیوں کو آشکار کرتی ہے جن کا علم انسان کی کامیاب زندگی کے لیے از بس ضروری ہوتا ہے۔ دعوت نبوت کی بنیاد استدلال پر نہیں لیکن یہ حقائق ایک نظام عقلی Intellectual Systemکی شکل میں نہیں ہوتے۔ حقائق عالم کی سلسلہ وار اور مکمل ترتیب مہیا کرنا نبوت کا کام نہیں ۔ ایک نبی جن حقائق کی اطلا ع دیتا ہے اگرچہ عقلی ہیں جو آخر کار ان کی پوری پوری حمایت ہو سکتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہی حقائق ہوتے ہیں جو آخر کا رعقلی طور پر صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن نبی نہ تو خود انہیں مکمل عقلی استدلال سے معلوم کرتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے ذہن میںایک مکمل عقلی استدلال سے بٹھانا چاہتا ہے ۔ وہ ان حقائق کا براہ راست مشاہد ہ کرتا ہے اور جس طرح سے اور جن الفاظ میں ان کو پاتا ہے بیا ن کرتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ وہ ایسی باتیں کہہ رہا ہے کہ جن کی صداقت اور گواہی دینے کے لیے انسان کی فطرت سے پہلے سے ہی آمادہ کی گئی ہے لہٰذا وہ انسان کی فطرت کو متاثر Appealکر کے اس کے صحیح فطرتی وجدان کو بیدار کرتا ہے۔ اور یقین رکھتاہے کہ خود وہ اپنی تائید میں کوئی عقلی دلائل مہیا کرے یا نہ کرے۔ اس کی آواز آخر کار رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ اس کے جواب مین خدا کے بندے اپنے پروردگار کو مخاطب کر کے یہ کہتے ہوئے سنیں گے۔ ربنا انا سمعنا منا دیا ینا دی للایمان ان امنو بربکم فامنا (۳:۱۹۳) ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا کہ ایمان کی منادی کر رہے تھے کہ ایمان لائو اور اب رب پر پس ہم ایمان لے آئے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی حقائق عالم کی ایک مکمل عقلی ترتیب کا علم بھی مہیا ہو جاتا تو غلط فلسفے پیدا نہ ہوتے اور نوع انسانی تمام کی تمام خاتم النبیین کی ہدایت پر فوراً ایمان لے آتی۔ لیکن وہ علم جو انسان رفتہ رفتہ صدیوں کی علمی جستجو اور ذہنی کاوش سے پید اکرنے والا تھا۔ اسے فوراً دے دینا۔ کیونکر ممکن ہوتا اور اگر ممکن بھی ہوتا تو وہ اس کو کس طرح سے سمجھ سکتا اور اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا۔ پھر اختتام نبوت کے ساتھ ہی اس علم کا فوراً عطا کر دینا ضروری بھی نہیں تھا۔ قدرت جلد با ز نہیں بلکہ اپنے مقاصد کو ایک تدریج اور ترتیب کے ساتھ ایک سکیم کے مطابق حاصل کرتی ہے۔ وہ اپنی تخلیقی سرگرمیوں کا بے سود اعادہ کر کے انہیں ضائع نہیں کرتی بلکہ آئندہ کی تخلیق کے لیے اپنی گزشتہ تخلیق سے پورا پورا کام لیتی ہے۔ چونکہ انسان کو علمی صداقتوں کی جستجو کا ذوق اور ذہن رسا پہلے سے دے دیا گیا ہے اس لیے اب اس علم کو انسان علم نبوت کی راہنمائی میں اپنی ذہنی کاوش سے خود بخود پیدا کر سکتا ہے۔ نبوت نے کم از کم نوع بشر کے ایک حصہ میں وہ صحیح وجدان پیدا کر دیا ہے جس کی مدد سے نوع بشر اپنی علمی جستجو کو بالآخر صحیح راستوں پر پہنچانے کے قابل ہو گی۔ نبوت کا عطا کردہ علم خواہ دنیا کی کوئی قوم اس کی حامل ہو اعلم کے سمندر میں ایک روشنی کا مینار ہے جو نوع انسانی کو راہ سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ فلسفہ خودی کے ظہور کے متعلق قرآن کی پیشگوئی آخر کار انسان نبوت کی مدد سے اس قابل ہو گا کہ وہ علمی حقائق یا سلسلہ عالم کے دہ حلقے جو نبوت نے آشکار نہیں کیے تھے رفتہ رفتہ ان کو معلوم کر کے کائنات کے ایک ہی صحیح اورسچے فلسفہ کی تکمیل کرے۔ جب انسان اپنے علم کی ارتقاء کے اس نقطے پر پہنچے گا اور ظاہر ہے کہ یہ نقطہ ارتقا خاتم النبیین کے ظہور کے بعد کسی زمانہ میں حاصل ہو سکتا ہ۔ تو اس وقت کہ قوموں کے اختلاف ختم ہو جائیں گے اورتمام دنیا قرآن کی حقانیت کو تسلیم کر لے گی۔ قرآن نے صحیح الفاظ میں ا س واقعہ کی پیشگوئی کی ہے۔ سنریھم ایتنا فی الآفاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق ترجمہ: عنقریب ہم ان کو اطراف عالم میں اور ان کی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر آشکار ہو جائے گا کہ قرآن برحق ہے۔ یعنی ہم آفاق اور انفس کے بارہ میں انسان کو ایسے علمی حقائق کا ارتقا کریں گے جس سے قرآن کی سچائی ثابت ہو جائے گی۔ یہ پیش گوئی اس زمانہ میں فلسفہ خودی کے ظہور سے پوری ہوئی ہے کیونکہ جیساکہ میں عرض کر چکا ہوں فلسفہ خودی دور حاضر کے الحاد کے خلاف اسلام کا کامیاب حربہ ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کی صداقت کو آشکار کرتا ہے۔ اور اس زمانہ میں آفاق و انفس سے تعلق رکھنے والے بہت سے علمی حقائق کے انکشاف کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ فلسفہ خودی ابھی حقائق عالم کے پورے سلسلہ کو منکشف نہیں کرتا۔کیونکہ علم کا ارتقا قیامت تک جاری رہے گا۔ لیکن اتنے حقائق کو ضرور منکشف کرتا ہے کہ ان کی وجہ سے (۱) یہ فلسفہ زندگی کے تمام موجودہ فلسفیانہ نظریات سے زیادہ معقول اور مدلل بن جاتا ہے۔ (۲) یہ باور کرنے کی وجوہات موجود ہو جاتی ہیں کہ آئندہ دریافت ہونے والے تمام علیمی حقائق جن کی کوئی حد نہیں فلسفہ خودی کی جزئیات اور تفصیلات بہم پہنچائیں گے (۳) اسلام کے بنیادی اصولوں کا عقلی ثبوت بہم پہنچ جاتا ہے اور ان کے بارہ میں قرآن کے معانی معین ہو جاتے ہیں۔ فرقوں کے اختلافات کی وجہ جوں جوں ہم خیر القرون سے دور ہو تے گئے ہیں ہم میں قرآن کو سمجھنے ار اس پر عمل کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی گئی ہے۔ خدا کے نیک بندوں اور پرہیز گارعالموں کے وجود کی برکت سے جو اس امت میں وقتاً فوقتا ً پیدا ہوتے رہے ہیں ہمارے اس رجحان کی اچھی خاصی مزاحمت ہوتی رہی ہے اور یہی سبب ہے کہ اسلام ابھی تک زندہ ہے لیکن اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اسلام میں نام نہاد علماء کا ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہا ہے جو یا تو قرآن کی روح سے ناواقف ہونے کے باعث نادانی کے ساتھ یا اپنی اغراض کو پورا کرنے کے لیے بددیانتی کے ساتھ قرآن کی ایسی تفسیر کرتا رہا ہے جس سے اسلام کے بنیادی اصول بھی مسخ ہو جاتے رہے ہیں۔ اس افسوسناک صورت حالات کی وجہ سے اسلام یں فرقوں کا ظہور ہوا ہے۔ ہر فرقہ اپنے دعاوی کے ثبوت میں قرآن اور حدیث سے ایسے دلائل مہیا کرتا رہا ہے۔ جنہیں تسلیم کرنے کے لیے اسے سمھ دار اور پڑھے لکھے آدمیوں کی کافی تعدادمہیا ہو جاتی ہے مثلاً اسی قرآن سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ نبوت ختم ہو گئی ہے۔ اور اسی سے ہم نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ نبوت جاری رہے گی ۔ اسی قرآن سے ہم اس بات کی دلیل مہیا کرتے ہیں کہ جہاد بالسیف کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ اور اسی سے ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ جہاد بالسیف دین کا ایک اصولی تصور ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمان امن پسند ہے اور اس کو حکومت کفار کے ساتھ تعاون کرنا چاہیی اور دوسرا کہتا ہے کہ آزادی کے بغیر مسلمانوں مسلمان نہیں۔ ایک فریق کہتا ہے کہ وطنیت اور قومیت پرستی عین اسلام ہے اور اکھنڈ ہندوستان کا تصور غیر اسلامی نہیں۔ اور دوسرا قومیت پرستی کو شرک سے کم نہیں سمجھتا ۔ وعلی ھذا القیاس معلوم نہیںکہ یہ صورت حال کب تک جاری رہتی ۔ اسلام کے اندر کتنے فرقے پیدا ہوتے اور قرآن کی آخری شکل و صورت کیا رہ جاتی۔ اختلافات کے خاتمہ کی صورت لیکن جس خدا نے قرآن نازل کیا تھا اسی نے اس کی حفاظت کا بھی ذہ لیا تھا۔ چنانچہ اس نے فلسفہ خودی کو نمودار کر کے اس صورت حالات کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ آج سے پہلے ہماری خود غرضیوں اور نادانیوں کی وجہ سے قرآن ایک غیر معین اور بدلتی ہوئی چیز تھا۔ اور ہمارے اس قسم کے فقرات کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ اپنے اختلافات کو مٹانے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرو ۔ ترقی چاہتے ہو تو قرآن کی طرف واپس آئو وغیرہ بے معنی ہو کر رہ گئے تھے۔ لیکن اب فلسفہ خودی کی وجہ سے جہاں تک اسلام کے بنیادی اصولوں کا تعلق ہے قرآن کے معنی معین ہو گئے ہیں اور اسلام ایک ایسی فکری وحدت بن گیا ہے جس کے اندر ہم کوئی تصور اپنی مرضی یا منشا کو پورا کرنے کے لیے داخل نہیں کر سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو خواہ ہم اس کی تائید میں قرآن و حدیث سے کتنی ہی عبارتیں نقل کرتے جائیں۔ دوسروں کو یہ سمجھنے میں دقت نہیںہو گی کہ یہ تصور اسلام کے باقی تصورات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور اس کی تائید میں قرآن اور حدیث سے جو عبارتیں نقل کی گئی ہیں ان کی تعبیرات غلط ہیں اس قسم کا تصور نہ صرف قرآن و حدیث کے صحیح مفہوم کے خلاف ہو گا۔ بلکہ کائنات کے تمام حقائق اسکی مخالفت کرتے ہوئے نظر آئیں گے نئے اختلافات پیدا کرنا تو درکنار اب ہم مجبور ہیں کہ اپنے پرانے اختلافات کو ترک کر کے واپس جائیں ارو اسلام کی وہی توجیہہ قبول کریں جو دراصل حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے اور جو تنہا اس قابل ہے کہ عقلی طور پر ایک منظم شکل اختیار کر سکے۔ قوموں کے اختلافات کا علاج فلسفہ خودی اسلام کے اندرونی اختلافات کا ایک قدرتی حل پیش کر کے اسلام کی پائیداری کا سامان مہیا کرتا ہے اور لہٰذا اسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس کے بغیر اسلام فرقوں کے اختلافات میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ پھر فلسفہ خودی اسلام کے اندر فرقوں کے اختلافات کو ہی نہیں بلکہ اسلام کے باہر قوموں کے اختلافات بھی مٹٓ دیتا ہے۔ گو اس کے وجود میں آنے کا قریب ترین سبب قدرت کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کی ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو اس زمانہ میں غلط فلسفوں نے پیدا کی ہیں لیکن ایک سچا فلسفہ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت وقتی یا محدود نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ فلسفہ خودی ام الکتاب یعنی اسلام کے بنیادی اصولوں کا فلسفہ ہے ۔ لیکن چونکہ اسلام کے بنیادی اصول ہی فطرت ک ابدی اور ازلی قوانین ہیں اس لیے فلسفہ خودی کسی خاص قوم یا گروہ یا مذہب کا فلسفہ نہیں بلکہ ساری نو ع انسانی کا فلسفہ ہے قوموں فلسفوں مذہبوں کے اختلافات درحقیقت قوانین فطرت سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔ اور چونکہ ااس زمانہ میں ان قوانین کی منظم واقفیت فلسفہ خودی کی صورت میں بہم پہنچ گئی ہے ضروری ہے کہ جوں جوں اس فلسفہ کی واقفیت عا م ہوتی جائے گی ہر فرقہ قوم اور مذہب کے سمجھدار لوگ اس سے اتفاق کرتے جائیں۔ اقبال کا یہی مطلب ہے کہ جب وہ کہتا ہے: طلسم بے خبری کافری و دین داری حدیث شیخ و برہمن فسون و افسانہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا آغاز فلسفہ خودی اسلام کی نشاۃ ثانیہ Renaissance کی ابتدا کرتا ہے۔ جس میں نہ صرف اسلام کو ایک زبردست سیاسی قوت حاصل ہو گی۔ اور اسلام کے اندر فرقوں کے اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ بلکہ اسلام پھر دنیا میں پھیل جائے گا۔ قرآن نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: واخرین منھم لما یلحقو ابھم وھو العزیز الحکیم (۶۲:۳) ترجمہ: اور ان دوسروں میں بھی جو ہنوز ان سے نہیں ملے اس رسول کو بھیجا اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔ اس آیت میں اخرین منھم کے الفاظ پہلی آیت کے لفظ امیین کے مقابل پر پڑے ہیں اورلہٰذا ان میں یہ کنایہ ہے کہ رسولؐ کی تعلیم نہ صرف اس وقت کے ان پڑھ لوگوں کو ہدایت کرتی ہے بلکہ اس میں آخری زمانہ کے ان لوگوں کے لیے بھی ہدایت کا سامان موجود ہے جو علم و حکمت میں ترقی یافتہ ہوں گے۔ اور ا س آیت کے تممہ میں جہاں خدا کی دو صفات عزیز (غالب رہنے والا) اور حکیم (حکمت والا) کا ذکر ہے۔ یہ کنایہ ہے کہ اسلام کے آخری دور کے مسلمانوں کا عروج خدا کی ان دونوں صفات کا آئینہ دار ہو گا۔ اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں حکمت یا فلسفہ کے ذریعے سے غالب کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اسلام کا یہ آخری دور ابتدائی دور سے بھی بہتر ثابت ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے بڑے حوصلہ افزا الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے: البشر و البشر وانما مثل امتی مثل الغیث لایدری اخرہ خیر امر اولہ او کحدیقۃ اطعم منہا فوج عاما ثم اطعم منہا فوج عاما لعل اخرھا فوجا ان یکون اعرضہا و اعمقھا عمقا واحسنھا حسنا الخ (مشکوۃ) ترجمہ: خوش ہو جائو خوش ہو جائو۔ بیشک میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے کہ نہیںکہا جا سکتا کہ اس کی ابتدا بہتر ہے کہ انتہا یا اس باغ کی طرح ہے کہ جس میں سے پہلے ایک فوج ایک سال تک خوراک حاصل کرتی رہی ہے ۔ اور پھر ایک اور فوج ایک سال تک خوراک حاصل کرتی رہی۔ ممکن ہے کہ دوسری فوج وسعت میں گہرائی میں اور عمدگی میں پہلی فو ج سے بڑھ کر ہو۔ ان ارشادات کے ساتھ اگر ہم قرآن حکیم کی اس پیشگوئی کو بھی نظر انداز رکھیں جس میں کہا گیا ہے: سنریھم ایتنا فی الآفاق وفی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق (۴۱:۵۳) ترجمہ: عنقریب ہم ان کواطراف عالم میں اور اپنی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن برحق ہے۔ تو اس مطلب کی اور بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اسلام کی والہانہ محبت ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ اسلام کی والہانہ محبت کا جو مقام مسلمانوں کو اسلام کے ابتدائی دور میں حاصل تھا وہ پھر کبھی عود نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضورؐ نے فرمایا ہے : خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم لیکن ہم اس حدیث کی ایسی تشریح نہیں کر سکتے جو قرآن اور حدیث کے باقی ارشادات کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو۔ اس حدیث کا مطلب فقط اس قدر ہے کہ جوں جو ں مسلمان زمانہ نبوت سے دور ہٹتے جائیں گے۔ ان برکتوں سے بھی دور ہوتے جائیں گے جو نبوت کے ساتھ خاص ہیں ارو ایسا ہونا ہر طرح سے قرین قیاس ہے ۔ کیونکہ نبوت کا قرب ایسا ہے جیسے چراغ کی روشنی میں جوں جوں ہم اس سے دور ہوتے جائیں کم ہوتی جاتی ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ جہاں تک مسلمانوں کے ایمان اور اعتقاد کا تعلق خیر القرون جیسا زمانہ پھر عود نہیں کر سکتا۔ بلکہ اوپر کی آیات و احادیث بتا رہی ہیں کہ اس قسم کا زمانہ پھر عود کرے گا۔ یہاں تک کہ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ دونوں میں سے اچھا زمانہ کو ن سا ہے۔ پہلا یا آخری ہدایت کے بغیر اس کا حصول ہرگز ممکن نہیں۔ لیکن وہ کوئی بھی ایسا کمال نہیں تھا جو انسان کو نبوت کی زمانی قرب سے ہی حاصل ہو سکتا ہو۔ اور جس کے حصول کے لیے انسان کی فطرت کے اندر مستقل طورپر کوئی سامان نہ رکھا گیا ہو۔ نبوت کا معنوی قرب نہیں بلکہ نبوت کے زمانی قرب نے ( اس کمال کی صورت میں) انسان کے ان فطری تقاضوں کو آسانی سے پور ا کر دیا ہو جو ہر وقت اپنا مکمل اطمینان چاہتے ہیں اور جو انسان کی تاریخ میں کسی نہ کسی وقت ساری نوع بشر کے لیے مکمل اطمینان پا کر رہیں گے۔ نبوت کے زمانی قرت نے ہمیں ایمان کی جس دولت سے مالا مال کیا تھا۔ اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں نبوت کا معنوی قرب جو فلسفہ اور سائنس کے ذریعے سے حاصل ہو گا پھر ہمیں اسے سے مالا مال کرے گا اور یہ ایسا قرب ہو گا جسے زوال نہیں اور جو مرد زمانہ سے کم نہیںبلکہ زیادہ ہوتا رہے گا۔ کسی نصب العین کے ساتھ شدید مجنونانہ محبوت رکھنا انسان کی فطرت کا ایک ایسا تقاضا ہے جسے انسان رو ک نہیں سکتا ۔ اور یہ تقاضا کامل کی محبت سے مستقل اور مکمل طور پر پورا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ غلط نظریات کے پرستار اپنے نظریات سے ایسی شدید محبت رکھتے ہیں کہ ان کے لیے کسی قربانی کو زیادہ نہیں سمجھتے ۔ جب ہم ایک باطل نظریہ کے ساتھ جو انسان کی فطرت کے مطابق اور جس میں بعض قابل نفرت عناصر بھی مخفی ہوتے ہیں اسی قدر شدید محبت پیدا کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم زندگی کے ایک ہی صحیح اور سچے نظریہ کے ساتھ جو فطرت کے مطابق ہے جسے خدا کے پیغمبروں ہی کی تائید نہیں بلکہ کائنات کے تمام علمی حقائق کی تائید حاصل ہے اس سے شدید تر محبت پیدا نہ کر سکیں۔ جوں ہی کہ ہم ان رکاوٹوں کو دور کریں گے جو باطل تصورات نے ہم اری محبت کے راستہ میں پیدا کر دی ہیں ضروری بات ہے کہ ہم پھر اسلام سے ایک ایسی شدید محبت پیدا کر لیں جو اسلام کے اولین دور کی یاد کو تازہ رکھے۔ اس قسم کی محبت ہمارے تمام اخلاقی نقائص کا علاج کرے گی اور یہ محبت فلسفہ کی تعلیم سے پیدا ہو گی۔ اسلام کے دو حصے ہر نظام تصورات کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک نظریہ یا عقائد Theory اور دوسرے عملی زندگی پر اس کا اطلاق یا عمل Practiceکامل نظام تصورات کے بھی دو حصے ہیں ۔ ایک وہ حصہ جو عقائد سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا وہ حصہ جو اعمال سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر نظام تصورات کی صورت میں اعمال عقائد پر مبنی ہوتے ہیں۔ عقائد جڑ ہیں اور اعمال ا س کی شاخیں بلکہ اعمال کی نوعیت کا دارومدار تمام تر عقائد کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ جیسا ہمارا عقیدہ ہو گا ویسا ہی ہمارا عمل ہو گا۔ عقیدہ خودی کا مقام ہے اور عمل خار ج میں اس کا اظہار عقیدہ وہی ہے جو دل میں ہو نہ کہ فقط زبان پر اور جو عقیدہ دل میں ہو گا وہ لازمی طور پر اپنے مطابق خارج میں عمل پیدا کرے گا۔ اس لیے عقیدہ کی پہچان محض عمل سے ہوتی ہے۔ اساسیات یا عقائد عقائد کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن حکیم نے ان احکام کے لیے جو عقائد سے متعلق ہیں ام الکتاب (کتاب کی ماں یعنی منج یا نچوڑ یا روح یا اصل یا بنیاد) کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے مراد یہ ہے کہ کتاب کے باقی احکام ان کا نتیجہ ہیں یا ان پر مبنی ہیں نیز چونکہ اسلامی عقائد انسا ن کے تصور یا ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ قدرت کے ازلی ارو ابدی قوانین پر مشتمل ہیں جن میں ردوبدل کی گنجائش نہیں۔ اس لیے قرآن حکیم نے ان کے لیے ایت محکمت (پختہ نشانیاں) کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ عقاء د اسلام یا نظریہ اسلام میں توحید ضرورت عبادت‘ ضرورت نبوت‘ اطاعت نبوت‘ ختم نبوت۔ اخلاق۔ جہاد سیاسی آزادی حیات بعد الممات‘ جزا و سزا وغیرہ تصورات شامل ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ فلسفہ خودی اسلا م کا فلسفہ ہے تو اسلام سے میری مراد عقائد اسلامی یا نظریہ ہے جو اسلا م کی بنیاد واصل ہے۔ ہمیں ٹھیک طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ عقائد اسلام کی صحت اور عمدگی کا پکا یقین ہی ہمیں پکا مسلمان بناتا ہے ۔ اور ان ہی کا مضحمل یقین اسلامی کردار اور اخلاق ہم سے چھینتا ہے۔ ہمارے اعمال کی خرابی کی تہہ میں ہمیشہ ہمارے عقائد کی خرابی ہوا کرتی ہے ۔ اس دور میں ہم اسلام کے مطابق عمل سے محروم اس لیے ہیں کہ مغرب کے تصورات نے ہمارے عقائد کو روند ڈالا ہے۔ عقائد کے بگڑنے سے ہم بگڑتے ہیں اور ان کے سنورنے سے ہمارے عقائد کو روند ڈالا ہے عقائد کے بگڑنے سے ہم بگڑتے ہیں اور ان کے سنورنے سے ہم سنورتے ہیں اور ہم ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ عقائد کے بگڑنے سے بگڑتے ہیں اور سنورنے سے سنورتے ہیں ۔ عقائد دل سے تعلق رکھتے ہیں اور دل وہ چیز ہے جس کے سنورنے سے انسان سنورتا ہے اوربگڑنے سے بگڑتا ہے۔ ہم میں سے بعض اسلام کے نظریہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ اسلام عمل ہی کا نام ہے اور اسے کسی نظریہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ نظریہ یا عقیدہ کے بغیر عمل ناممکن ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ نظریہ یا عقیدہ کے بغیر ہی عمل کر ہی نہیں سکتا۔ عقیدہ کے معنی کیا ہیں ایک مدعا کی خواہش جب تک مدعا نہ ہو اس کے حصول کے لیے عمل سرزد کیونکر ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے اور دنیا کے خارجی حالات میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے یہ تبدیلی ہمارے ذہن میں یعنی ہمارے تصورات او ر عقائد میں صورت پذیر ہو۔ پہلے ہم ایک نظریہ کو باو ر کرتے ہیں اور پھر اس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنے روز مرہ کے اعمال کاجائزہ لے تو اسے نظر آئے گا کہ ہر عمل جو اس نے کیا اس کے پیچھے ایک نظریہ یا فلسفہ موجود تھا۔ مثلاً اسے یقین تھا کہ یہ کام فلا ں فلاں مقاصد کے لیے مفید ہو گا۔ اگر نظریہ پر اعتماد جم جائے تو عمل پیدا ہونے سے نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جہاں عملو الصلحت کا ذکر ہے۔ وہاں امنو کا ذکر اس سے پہلے موجود ہے۔ اسلام کے نظریہ کو دل سے تسلیم کرنے کا نام ہی ایمان ہے۔ ہر عمل ایک عقیدہ پر مبنی ہے۔ اور ہر عقیدہ ایک فلسفہ ہے خواہ وہ کسی نوعیت اور معیار کا ہو۔ لہٰذا فلسفہ سے گریز نہیں۔ ہر شخص کوئی نہ کوئی عقائد رکھتا ہے جو اس کے اعمال کی تشکیل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے عقیدہ کو ایک منظم شکل دے لیتے ہیں اور بعض نہیں دیتے۔ لیکن جب ہم میں سے کوئی اپنی بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہے یا اپنے عمل کی بنیاد اپنے نظریہ سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے عقیدہ کو زیادہ سے زیادہ عقلی ترتیب اور تنظیم سے آراستہ کرے۔ اور اس غرض کے لیے جہاں جہاں سے اسے حقائق میسر آئیں کام میں لائے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو عقیدہ عقلی تنظیم اور ترتیب سے آراستہ ہو گا وہ دوسروں کو جلد متاثر کرے گا فلسفہ کی اہمیت یہی ہے کہ وہ ذہنوں میں تبدیلی پیدا کر کے خارج میں تبدیلی کی بنیاد قائم کرتا ہے خواہ ہم اپنی زبان سے فلسفہ کے متعلق کچھ کہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کا دل کسی نہ کسی فلسفہ سے گہری طرح متاثرہے۔ فلسفہ افراد اور جماعتوں کو حرکت میں لانے والی ایک زبردست قوت ہے آپ دنیا کے جس علمی اخلاقی‘ اجتماعی یا سیاسی انقلاب کا مطالعہ کریں گے آپ کو ا س کی تہ میں ایک نیا فلسفہ کام کرتا ہوا نظرا ٓئے گا۔ اور اس کے برعکس تاریخ عالم میں انسانوں کی زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی فلسفہ ظہور میں نہیں آیا جو اپنے پیچھے ایک زبردست انقلاب نہ لایا ہو۔ انقلابات پیدا کرنے میں فلسفیوں کا اثر مخفی اور دھیما ہونے کے باوجود نہایت قوی اور یقینی ہوتا ہے۔ اقبال کی عظمت دنیاکا آخری فلسفہ اقبال کا فلسفہ خودی ہے۔ ور دنیا کا آخری اور دائمی عالمگیر انقلاب اقبال کے فلسفہ خودی کے پیچھے آنے والا ہے۔ شاید اس وقت بعض لوگ یہ سننا گوارا نہ کریں کہ لیکن اقبال کی ساری عظمت درحقیقت اسی با ت میں ہے کہ جس طرح سے کارل مارکس ذہنی اعتبار سے اس زمانہ کی حکومت روس کا بادشاہ ہے۔ اقبال ذہنی اعتبار سے مستقبل کی حکومت عالم کا بادشاہ ہے۔ اسلام کا دوسرا حصہ وہ ہے جو نظریہ کے عملی اطلاق Application سے تعلق رکھتا ہے ظاہر ہے کہ ایک نظریہ کا عملی اطلاق کئی طرح سے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس میں ان لوگوں کے لے جو مقام نبوت سے واقف نہیں شبہ کی گنجائش ہے مثلاً یہ شبہ کی نمازیں پانچ کیوں ہیں دو کیوں نہیں؟ روزے مہینہ بھر کے کیوں ہیں؟ اور سال کے ایک مقرر حصہ میں کیوں رکھے جائیں۔ وضو کا ایک خاص طریق کیوںمقرر ہے؟ نماز سے پہلے نہا لینا بھی تو صفائی کا مقصد پورا کر دیتا ہے۔ چور کو ریفارمیٹری میں بھیجنے کی بجائے ہاتھ کاٹنے کی سزا کیوں دی جائے۔ ان ممکن شبہات کی بنا پر قرآن نے ان احکام کو آیت متشبھات کہا ہے وہ لوگ جا ام الکتاب یا اسلام کے اصولی عقائد پر ایمان نہیں رکھتے۔ اپنی کج دلی کی وجہ سے اسلام کے اس دوسرے حصہ پر اعتراضات کرتے ہیں اور پھر اپنے اعتراضات کی وجہ سے اسلام کے اصولی عقائد سے اور بھی دور ہو جاتے ہیں۔ فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغا ء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ (۳:۷) ترجمہ: وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے قرآن کی مشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فساف پیدا کریں اور ان کے اصلی مطلب کی ٹوہ لگائیں۔ اطاعت نبوت ارتقائے خودی کی شرط ہے اسلام کے نظریہ کا عملی اطلاق خواہ کوئی صورت اختیار کرتا کج دلوں کے اعتراضات ہر حالت میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا وحی نے اس کی وہ صورت اختیار کی جو خدا کے علم میں ہماری فطرت اور حالت کے پیش نظر بہترین تھی وہ لوگ جن کا پختہ علم ہے یعنی جو مقام نبوت سے پوری طرح آگاہ ہیں جانتے ہیں کہ نبیؐ سے بڑھ کر نہ تو کوئی شخص فطرت کے قوانین کا علم رکھتا ہے اور نہ اس سے بہتر کوئی شخص انسان کی عملی زندگی پر ان کا اطلاق کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ان دونوں باتوں کے لیے براہ راست خدا سے علم پاتا ہے ۔ خواہ کوئی حکم ان کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے‘ وہ میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہی کی طرح کسی حکم کی علت کا مطالبہ نہیں کرتے۔ بلکہ یہ سمجھ کر ا س کی علت خدا اور اس کے رسول کو ٹھیک معلوم ہے ہرحکم کے سامنے تسلی کا سر جھکا دیتے ہیں۔ وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا (۳:۷) ترجمہ : اور اس کا اصلی مطلب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ لوگ جن کا علم پختہ ہے صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ ایسے لوگ نبی کی موبمو اطاعت کی وجہ سے نبی کے علم سے حصہ پاتے ہیں اور اپنے مقصد کو پہنچ جاتے ہیں کائنات کا مقصد جس کی تکمیل انسان کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اور جوا س لیے انسان کا مقصد بھی ہے ارتقائے خودی ہے۔ ارتقائے خودی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہمیں تصور کامل سے کس قدر محبت ہے اگر ہمارا دل تصور کی محبت کامل سے لبریز ہو گا تو ہم سے ایسے اعمال سرزد ہوں گے جو ہمارے ارتقا کے لیے ممد و معاون ہوں گے کامل نصب العین کی محبت جسے میں آئندہ اختصار کے لیے صرف محبت ہی کہوں گا۔ رسولؐ کی موبمو اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ رسولؐ کی اطاعت میں جو عمل سرزد ہوتا ہے اس میں عمل سے بھی زیادہ رسولؐ کی اطاعت کی اہمیت ہے۔ اگر ہم اس سے دو چند عمل رسولؐ کی اطاعت کے بغیر کریں تو فائدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم رسول کی مکمل تابعداری کرتے ہیں تو اس کی خودی کے ساتھ ہماری خودی کا ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اور ہماری خودی رسول کی خودی سے ایک یا دو سرے دیے سے جلتا ہے۔ جس طرح ایک جھیل سے نہر نکل کر دوسری جھیل بنا دیتی ہے۔ اطاعت نبوت سے ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو شخص اپنے آپ کو کلیتہ رسول کی اطاعت میں دے دیتا ہے وہ ایک نیا جنم لیتا ہے یہ جنم اس کے جسم کا جنم نہیں بلکہ اس کی خودی کا جنم ہے۔ جس کے بعد اس کی خود رسولؐ کے علم سے تربیت پا کر اس طرح ترقی حاصل کرتی ہے۔ جس طرح ایک نومولود بچہ ماں کے دودھ سے تربیت پا کر جسمانی ترقی حاصل کرتا ہے ارتقا کی حیاتی سطح پر زندگی نسلی توالد کے ذریعے سے بڑھتی ہے اور پھیلتی ہے۔ یعنی حیوانات کی ایک قسم کے سارے افراد ایک باپ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس توالد میں قدرت متضاد جنسوں Opposite Sexesکی باہمی کشش سے کام لیتی ہے۔ ارتقا کی نفسیاتی Psychological سطح پر زندگی کے پھیلنے اور بڑھنے کا طریقہ ایک قسم کا نفسیاتی توالد ہے جس کے نتیجہ کے طور پر ایک نصب العین کو ماننے والے اپنے نصب العین کی محبت ایک ہی روحانی باپ سے حاصل کرتے ہیں۔ اس توالد میں قدرت تابع اور متوبع کی باہمی کشش سے کام لیتی ہے۔ جس طرح ایک جاندار وجود Organismاپنی طرح کے دوسرے جاندار وجود کو پیدا کرتا ہے اسی طرح ایک تصور اپنی طرح کے دوسرے تصور کو پیدا کرتا ہے۔ یعنی ایک انسان کا تصور ہے ۔ اسی طرح ایک تصور اپنی طرح کے دوسرے تصور کو پیدا کرتا ہے۔ یعنی ایک انسان کا تصور دوسرے انسان کا تصور بن جاتا ہے۔ انسانی سطح ارتقا پر نظام ہائے تصورات کی رنگا رنگی حیاتی سطح پر اقسام حیوانات کی بوقلمونی سے مشابہت رکھتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور محبت یا علم سے بہرہ ور ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ہم کچھ عرصہ کے لیے عقل جہاد جو کی کشمکش کو موقف کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اس طرح سے انحصار کریں جس طرح سے ایک جنین اپنی نشوونما کے لیے مان کے جسم پر انحصار کرتا ہے۔ فقط اسی صورت میں ہم اپنی خودی کا وہ جنم پا سکتے ہیں جس کے بعد خودی کا ارتقا شروع ہوتاہے ۔ پھر رسول کی پیہم اطاعت کی وجہ سے ہماری خودی کے ارتقا کا ایک ایسا دور بھی آئے گا۔ جب دین کے اسرار ہم کھل جائیں گے۔ اور ہم نیک و بد کا ذاتی امتیاز کرنے لگ جائیں گے۔ ارتقائے خودی کے اس نقطہ پر ہمیں اعتقاد اور مکمل میں رسولؐ کے ساتھ ایسی مشابہت حاصل ہو جائے گی جو بیٹے کی شکل و صورت میں اپنے باپ سے ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمیں رسولؐ کی روحانی انبیت کا فخر حاصل ہو گا۔ قرآن میں بارہا آل (اولاد) کا لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو ایک آقا سے جذباتی اثر یا کسی نصب العین کی محبت قبو ل کرتے ہیں۔ نبوت نور خودی کا منبع ہے جس طرح حرارت ایک بلند درجہ حرارت رکھنے والے جسم سے گزر کرکم درجہ حرارت رکھنے والے اجسام میں ضو اس سے چھوتے ہوں سرایت کر تی ہے۔ یا جس طرح پانی ایک بلند سطح سے بہہ کر ان مقامات کو سیراب کرتا ہے جو اس کے آس پاس نیچے کی طرف واقع ہوں اسی طرح سے زندگی کی لہراس مقام سے گزر کر جہاں وہ سب سے زیادہ بلندی پر ہوتی ہے نو ع انسانی کو مستفید کرتی ہے۔ خودی کا نور پہلے ایک مقام پر فراہم ہوتا ہے اور پھر وہیں سے اردگرد میں پھیلتا ہے۔ خاتم النبیین کی ذات عالم انسانی میں خودی کا بلند ترین مقام ہے جہاں زندگی کا پانی فراہم ہوا ہے۔ تاکہ نوع انسانی کی فطرت کی پیاس کو بجھائے اگر ہم زندگی کے پانی سے سیراب ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے سرچشمہ یعنی رسولؐ کی ذات کے ساتھ ایک گہرا دلی تعلق قائم کریں۔ ورنہ ہمیں کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اطاعت کا تعلق دل سے ہے ان تصریحات سے اگر یہ پتا چلتا ہے کہ خودی کا ارتقا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اطاعت جو ایک شدید محبت یا قلبی تعلق کا نتیجہ ہو ور محض ایک رسم یا عادت کی صورت میں رہ گئی ہو‘ ارتقائے خودی کے لیے مفید نہیں کیونکہ دراصل وہ اطاعت ہی نہیں بلکہ پابندی رسم یا زور عادت کا ظہور ہے بظاہر رسمی یا عادی اطاعت دلی اطاعت سے مختلف نہیں ہوتی۔ لیکن درحقیقت پہلی قسم کی اطاعت ضعف عقائد کا نتیجہ ہوتی ہے اور پھل کے ایک چھلکے کی طرح ہے جو بظاہر پھل نظر آتا ہے لیکن مغز سے خالی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کی اطاعت بھی جسماتنی تکلیفوں کے بغیر نہیں ہوتی۔ تاہم انسان کی خودی کی تربیت نہیںکری اور اسے روحانی ترقی کی منزلوں پر آگے نہیں لے جاتی۔ بلکہ کولھو کے بیل کی طرح وہیں کا وہیں رکھتی ہے۔ دوسری قسم کی اطاعت پختگی عقائد سے پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا منبع ایک اندرونی جذب یا کشش ہوتا ہے۔ اور وہ ایک بے ساختہ قدرتی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اس لیے اس میںمومن کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ نوافل کی ضرورت یہ نوافل کی صورت میں رفتہ رفتہ اپنا پھل لاتی ہے یعنی مومن کی محبت میں اضافہ کر کے اسے نوافل پر مائل کرتی ہے۔ اور وہ خود بخود نوافل میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ اور ان میں ایک دلی رغبت محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے فرائض سے کم ضروری نظر آٹے ہیں جن عبادات کو نوافل کہا جاتا ہے۔ وہ درحقیقت فالتو اور غیر ضروری نہیں جیسا کہ ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ بکہ وہ حدر درجہ ضڑوری ہونے کے باوجود نوافل اسی لیے ہیں کہ ان پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ فرائض کی مخلصانہ ادائیگی سے جو مقامات مومن کی خودی کو یقینی طور پر حاصل ہوتے جاتے ہیں ان مقامات پر وہ ایک زبردست اندرونی کشش کے ساتھ ان نوافل کی طرف زیادہ شدت سے مائل ہو تا جاتا ہے۔ اور اس طرح سے اپنی ترقی کا سامان خود بخود پیدا کرتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بنیادی احکام یا فرائض کے اندر جو انتہائی مقاصد مخفی ہیں ان کو خود بخود پا لیتا ہے۔ شارع علیہ السلام نے مومن کی آزادانہ ریاضت اور عبادت کے لیے بہت سا میدان چھوڑ دیا ہے کیونکہ خودی کو آزادانہ اور اختیاری جدوجہد اس کی انتہائی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پس مخلصانہ اطاعت سے انسان کی خودی اپنے ارتقا کی منزلوں کو طے کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی منزل پر جا پہنچتی ہے۔ جہاں اسے کہا جاتا ہے: یا یھا النفس المطمنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیتہ فادخلی فی عبادی ہ وادھخی فی جنتی (۸۹:۲۷) ترجمہ: اے روح مطمئن اپنے پروردگار کی طرف چل تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے میرے بندوں میں شامل ہو اور میری بہشت میں داخل ہو جائو۔ اخلاص اطاعت کی شرط ہے وہ لو گ جو رسمی یا عادی اطاعت میں مشغول ہوتے ہیں سمجھتے ہیں کہ انہوںنے جہاں تک عمل کا تعلق ہے دین کے لوازمات کو پورا کر دیا ہے۔ اور لہٰذا وہ کسی اندرونی جدوجہد کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن وہ غلطی پر ہیں کیونکہ اگر چہ درست ہے کہ دین عمل ہے لیکن یہ درست نہیں کہ عمل دین ہے۔ عمل دین کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ اور ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے عمل میں دین کس قدر ہے۔ عمل کا مقصد خودی کی پرورش اور آخر کار خودی کا معراج ہے۔ اگر عمل اخلاص اور محبت سے کیا جائے گا تو خودی کی پرورش کرے گا ورنہ نہیں اگر ہم ایک روبوٹ Robotکو نماز کی حرکات سکھا دیںاور وہ پانچ وقت کی نماز پڑھ لے تو کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ اس نے دین کا ایک رکن قائم کر دیا ہے۔ وہی عمل دین ہے جس کی بنیاد محبت پر ہو۔ عمل وہ ہے جو خودی کو حرکت میں لائے اورخودی جذب اور محبت کے بغیر حرکت میں نہیں آتی۔ قرآن نے ایسے عمل کی مذمت کی ہے۔ لایاتون الصلوۃ الا وھم کسالی ولا ینفقون الا وھم کارھون ترجمہ: اور نماز کو آتے ہیں تو بس الکسائے ہوئے اور راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بددلی سے۔ قرآن ہم سے رسمی اور بے ذوق عمل کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بلکہ اس عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ جس کی بنیاد انتہائی محبت اور اخلاص پر ہو۔ والذین امنو اشد حبا للہ (۲: ۱۵۶) ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ فادعو اللہ مخلصین لہ الدین (۴۰:۱۴) ترجمہ: خدا کی خالص اطاعت مدنظر رکھ کر اس کو پکارو۔ اور حضورؐ نے فرمایا ہے: الاحسان ان تعبل اللہ کانک تراہ ترجمہ: احسان یہ ہے کہ تو خدا کی اس طرح سے عبادت کرے کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ ارتقا خودی کی ابتدا اور انتہا اس میں شک نہیں کہ حسن عمل بھی ایک ابتدا بھی ہے اور ایک انتہا بھی اور درمیان بھی مشکلات ہیں جن کا عبور محنت اور کوشش چاہتا ہے۔ لیکن ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم ابتدا کو انتہاسمجھ کر اپنی ترقی وہیں پر روک دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابتدا ضروری ہے اور کبھی نظر اندازنہیں ہو سکتی۔ کیونکہ انتہا نہ صرف اس سے پیدا ہوتی ہے بلکہ اسی پر قائم رہتی ہے۔ عمارت خواہ کتنی ہی بلند ہو لیکن اپنی بنیادوں پر اکتفا نہیںکرتی۔ بلکہ راستہ کی ابتدا پر کھڑا ہونے کے مومن کے انتہائی مقاصد کی طرف بھی واضح رہنمائی کرتا ہے مثلاً عبادت کا ذکر کا ابتدائی سبق پانچ وقت کی نماز ہے جو ہم پر فرض ہے لیکن اس کاانتہائی مقصددرجہ احسان کا حصول ہے اور تخلیق باخلاق اللہ ہے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے بار بار نماز کے علاوہ کثرت ذکر اور فکر کی ہدایت ہے۔ فاذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون انفاق فی سبیل اللہ کا ابتدائی سبق زکوۃ ہے لیکن اس کے اندر جو انتہائی مقصد ہے وہ یہ ہے کہ مومن اپنے بھائی کی ضروریات کو اپنی ضروریات سمجھے۔ دولت سے دل نہ لگائے اور جس چیز کی ضرورت ہو وہ اپنے پاس نہ رکھے چنانچہ ارشا د ہے: ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو (۲:۲۱۹) ترجمہ: اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ ان کو کہہ دو کہ جو کچھ بچ رہے۔ لن تنالو البر حتی ینفقو مما تحبون (۳:۹۲) ترجمہ: تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنے مال کا وہ حصہ جو تمہیں محبوب ہے خدا کی راہ میں صرف نہ کر دو۔ اور حدیث میں ہے: لایومن احد کم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اسلا م کے جمود کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم مسلمان اسلام کی ابتدا کو ہی انتہا قرار دیتے رہتے ہیں جو شخص معراج یا خودی کی انتہا کو اپنا مقصود قرار دیتا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور ہر آن اپنی ترقی کا جائزہ لیتا رہتا ہے وہ اس آسانی سے اس مقصود کو پا لیتا ہے کیونکہ یہی ا س کی فطرت ہے۔ والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا(۲۹:۶۹) ترجمہ: جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی ہدایت دے دیتے ہیں۔ چونکہ مستقبل کی عالمگیر اسلامی ریاست میں فرد کی خودی کے ارتقاء کے لیے تمام قسم کی سہولتیں موجود ہو ں گی لہٰذا ہماری خودی کا ارتقاء اس قدر بلند مقام پر پہنچے گا کہ ریاست کو اسلامی تعزیری اور اسلاحی قوانین کو حرکت میں لانے کا موقع پیدا نہ ہو گا۔ مستقبل کی اس ریاست میں چوری کا قانون ہو گا۔ لیکن نہ کوئی چوری کا ارتکاب کرے گا نہ کسی کے ہاتھ کاٹنے کی نوبت آئے گی۔ زکوۃ کا قانون ہو گا لیکن لوگ حرص و ہوس پر اس طر ح فتح پا چکے ہوں گے اور دولت سے ایسے بے نیاز ہوں گے کہ نہ تو کسی کے پاس فالتو دولت ہو گی جس پر زکوۃ کا ٹیکس لگایا جائے اور نہ ہی کوئی شخص ایسا رہے گا جو تنگ دستی کی وجہ سے کوئی صدقہ یا امداد قبول کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے: تصدقوانانہ یاتی علیکم زمان یمشی الرجل بصدقتہ فلا یجدمن یقبلھا یقول الرجل لوجئت بالامس لقبلتھا فاما الیوم فلا حاجتہ لی فیھا (بخاری) ترجمہ: خیرات کرو۔ بیشک تم پر ایک ایسا وقت ا ٓ رہا ہے کہ ایک شخص خیرات کو لیتا پھرے گا لیکن اسے قبو ل کرنے والا نہ پائے گا آدمی اسے کہے گا کہ اگر تو کل آتا تو میں اسے قبول کر لیتا لیکن آج مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ 5:: مریض کا تعاون فلسفہ خودی اگرچہ مغرب کے غلط فلسفیانہ تصورات کے خلاف اسلام کے قدرتی رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا ہے اور یہ اپنا مقصد پا کر رہے گا۔ لیکن ایک سمجھدار مریض کی طرح جو اپنی صحت کی خاطر غذا اور دوا کے استعمال میں طبیب سے پورا پورا تعاون کرتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی اس رد عمل کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تاکہ یہ آسانی کے ساتھ اپنے کمال کو پہنچے اور جسم ملت کی مکمل صحت کا موجب ہو اور ا سکی صورت یہ ہے کہ ہم اس کے صحت بخش اثرات کو ملت کی رگوں میںخون زندگی کے ساتھ دوڑنے کا موقع دیں۔ قدرت کی تائید اور ہمارافرض یعنی اپنی تعلیم کے تمام ذرائع کو جو ا س وقت مغرب کے غلط تصورات کی نشر و اشاعت کے لیے وقف رہے ہیں فی الفور اس فلسفہ کی نشر و اشاعت کے لے وقف کر دیں۔ ان ذرائع تعلیم میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ تعلیم خود ریاست ہے اور اس کے ماتحت اور اس کے اندر سکول کالج‘ ریڈیو‘ سینما‘ پریس ‘ پلیٹ فارم‘ گھر اور سوسائٹی کی طرح اور ذرائع تعلیم ہیں۔ جب تک فلسفہ خودی ہماری ریاست کا اپنا نظریہ سرکاری نظرہہ قرار نہ پائے یہ ہمارے مرض کے رد عمل کی حیثیت سے نہ تو اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے ارو نہ اپنے مقصد کو پا سکتا ہے ا س کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ریاست نظریہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ اگر فلسفہ خودی ہماری ریاست کا نظریہ نہ ہو گا تو ضروری بات ہے کہ ا سکا نظریہ یا تو اسلام کے علاوہ کوئی اور ہو گا اور اگر اسلام ہو گا تو اس کی تشریح اور تفسیر کے لیے فلسفہ خودی کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر کام میں لایا جائے گا۔ دونوںصورتوں میں ریاست کے ماتحت اور اس کے اندر تمام ذرائع تعلیم جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے فلسفہ خودی کی ایسی نشر و اشاعت کے لیے کام میں نہ آ سکیں گے جو اس کے مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان زمانہ کے غلط تصورات کے خلاف اسلام کے رد عمل کو کمال پر پہنچانے کے لیے وجود میں آیا ہے لیکن میں نے عرض کیا ہے کہ فلسفہ خودی اپنے مقصد کوپا کر رہے گا۔ گو اسے اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک ریاست کوکام میں لانا ضروری ہے کیونکہ اسلام کا وہی رد عمل جس نے ایک طرف فلسفہ خودی کو پیدا کیا ہے اس نے دوسری طرف ایک ایسی ریاست کو بھی پیدا کیا ہے جسے فلسفہ خودی اپنے مقصد کے لیے کام میں لا سکتا ہے۔ پاکستان کا تصور بھی اسی اقبال کی ایجاد ہے جو فلسفہ خودی کا موجد تھا۔ یہ امر کہ یہ دونوں نعمتیں ایک ہی خطہ کے مسلمانوں کے سپرد کی گئی ہیں اور دونوں کے ظہور میں وقت کا ٹھیک ٹھیک تطابق بھی ہے۔ اتفاقی نہیں بلکہ ا س کے تحت قدرت کی یہ خواہش کام کر رہی ے کہ کامل نظام افکار کو اس کی معرفت تمام دنیا کو باطل فلسفوںسے نجات دلا کر دینا کے ارتقا کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔ پس قدرت پاکستان اور فلسفہ خودی دونوں کو ہمرکاب کر کے اپنے مقصد کو پورا کرے گی۔ اسلام کامل نظام تصورات کی حیثیت سے دنیا کا رہنما اور دنیا کے ارتقا کا زینہ ہے اسے دنیا کے ان فلسفوں پر جو اس وقت اسے چیلنج دے رہے ہیں غالب ہو کر زندہ رہنا ہے ایک طرف تو اسلام کی زندگی کو شدید خطرہ کے بغیر اب اس چیلنج کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ اور دوسری طرف بظاہر پاکستان کے سوائے دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جسے اسلام اس چیلنج کا جواب کا آلہ کار بنا سکے۔ پس کائنات کے ارتقاء کی مخفی قوتیں ہمیں مجبور کریں گی کہ ہم فلسفہ خودی کا پاکستان کا سرکاری نظریہ بنائیں۔ اس وقت بھی ان قوتوں کا عمل پاکستان کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریتکے اس مطالبہ کی صورت میں اظہار پا رہا ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنایا جائے۔ بالاخر اس مطالبہ ۱؎ کی کامیابی ضروری ہے۔ اور جب یہ مطالبہ کامیاب ہو گااور اسلام ریاست کا مدعا قرار پائے گا تو پھر اسلام کی سرکاری ترجمانی کے لیے فلسفہ خودی کو کام میں لانا بھی ضروری ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر ہماری ریاست کے لیے ممکن نہ ہو گا کہ معقول اور قابل قبول دلائل کی بنا پر اسلام کے اندرونی فرقوں کو اتحاد کی دعوت دے سکے اسلام کو بیرونی دنیا کے سامنے ایک عالمگیر عالمی نظام کی صورت میں پیش کر کے اپنے سیاسی نصب العین کی عظمت اور ضرورت کا قائل کر سکے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کا علم ترقی پذیر ہے۔ اور اس زمانہ میں غلط فلسفیانہ نظریات کا قلع قمع کرنے اوراسلام کی عمومی اندرونی اور بیرونی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے ترقی کر کے ایک نئی سطح ُپر پہنچ گیا ہے ۔ تو ہماری اسلامی ریاست اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس علم کو کیونکر نظر انداز کر سکے گی اور اپنے مقابل نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا صور ت اختیار کرے گی۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ چونکہ فلسفہ خودی اسلام کی فلسفیانہ تشریح اور تفسری ہے لہٰذا فلسفہ خودی کو ریاست کا سرکاری نظریہ بنانے کے معنی فقط یہ ہیں کہ اسلا م کو ریاست کا نظریہ بنایا جائے اور فلسفہ خودی کو اس کی سرکاری ترجمانی کے لیے کام میں لایا جائے مختصراً قدرت نے جو حالات اس وقت پیدا کیے ہیں وہ ہمیں ایک ایسی راہ اختیار کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں جس سے زمانہ کے باطل کے خلاف اسلام کا رد عمل اپنے کمال کو پہنچے گا۔ لیکن اگر قدرت کے ساتھ تعاون نہ کر سکے توپھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا ہمارا محتاج نہیں ہم اس کے محتاج ہیں: ۱؎ اب وزیر اعظم کی قرار داد مقاصد کے منظور ہونے سے یہ مطالبہ مانا جا چکا ہے اور یہ واقعہ فلسفہ خودی کی توقعات کے عین مطابق ہے۔ یاایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ غنی حمید ترجمہ: اے لوگو تم اللہ کے محتاج ہو اور خدا بے نیاز اور قابل تعریف ہے۔ اور خواہ ہم اسلام سے کتنے ہی روگرداں ہوں اور خواہ یہ بات ہمیں اس وقت کیسی ہی مشکل نظر آئے لیکن اسلام پھربھی اس دور کے غلط نظریات پر جو اسے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں غالب ہو کر زندہ رہے گا البتہ یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ ہم سازگار حالات کے باوجود جو قدرت ہمارے لیے پیدا کررہی ہے ۔ مقاصد قدرت کے لیے بیکار ثابت ہونا موت کو دعوت دینا ہے قدرت کے ارادوں کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس صورت میں ہم مقاصد ارتقا کے لیے بیکار بلکہ مضر سمجھ کر نظروں سے گر ا دیے جائیں گے۔ سلطنت کی نعمت ہم سے چھین لی جائے گی اور ہمیں ذلت کی زندگی بسر کرنے اور آخر کار مٹ جانے کے لیے چھو ڑ دیا جائے گا۔ اور ہماری جگہ کسی اور قوم کو کھڑا کر دیا جائے گا جو اسلام کی خدمت کرنے اور لوگوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر زمانہ کے باطل کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے تیار ہو گی۔ پھر سلطنت دولت علم اور دنیا کی تمام نعمتیں اسی قوم کو دے دی جائیں گی۔ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ محض میرے تخیل کی پیداوار نہیں بلکہ قرآن حکیم کی متعدد آیات اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں : یایھا الذین امنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المومنین اعذۃ علی الکفرین یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم (۵:۵۴) ترجمہ : مسلمانو! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے تو خدا کو اس کی پراوہ نہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کے گا جن کو وہ دوست رکھے گا اور وہ اسے دوست رکھیں گے۔ مسلمانوں کے حق میں نرم اور کافروں کے حق میں سخت ہوں گے۔ خدا کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کا باک نہ رکھیں۔ ان تتولو ایستبدل قوما غیرکم ثم لایکونوا امثالکم (۴۷:۳۸) ترجمہ: اگر تم اسلام سے منحرف ہو جائو تو خدا تمہیں مٹا کر تمہارے عوض میں اور قوم لائے گا پھر وہ تمہاری طرح نہ ہوں گے۔ جب ہم ارتقا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ زندگی تخلیق کے اس حصہ کو فروغ نہیں دیتی بلکہ قائم نہیں رکھتی۔ جو مقاصد ارتقا کے لیے مفید ثابت نہ ہوسکے۔ اسی بنا پر حیوانات کی لاکھوں قسمیں آج تک مٹ چکی ہیں۔ اور اسی بنا پر سینکڑوں تہذیبیں اور ان کی حامل قومیں دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں۔ اور قرآن نے ہمیں ان قوموں کی تاریخ سے بار بار عبرت دلائی ہے۔ تاکہ ہم ان کی طرح نہ ہوں بلکہ اپنے آ پ کو مقاصد قدرت کے مددگار ثابت کر کے خدا کے انعامات کے حقدار بنیں۔ اولم یرواکم اھلکنا قبلھم من القرون انھم الیھم لا یرجعون (۳۶:۳۱) ترجمہ: کیا انہوںنے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا ہے اور وہ ہلاک ہونے کے بعد ان کی طرف لوٹ کر نہیں آتے۔ عروج اور زوال کی راہیں واضح ہیں قدرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جہاں حالات سازگار پاتی ہے وہاں ایک قدم آگے بڑھاتی ہے۔ پھر اگر حالات یعنی انسانوں کے اعمال اور افعال اس قدم کی موافقت کریں تو دوسرا اور تیسرا قدم اٹھاتی چلی جاتی ہے۔ اگر اس راستہ کے کسی مقام پر وہ مزید ترقی کے لیے حالات سازگار نہ پائے تو پھر پہلا قدم بھی واپس لے لیتی ہے اور ای نئی کوشش کاآغا ز کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی پیہم ترقی کے لیے موافق حالات پا لیتی ہے۔ جب قدرت کے پہلے قدم کی واپسی عمل میں آتی ہے تو ایک قوم کا عروج زوال میں بدل جاتا ہے۔ اور پھر ایک دوسری قوم کو آزمایا جاتا ہے۔ اور اسے وہی مواقع دیے جاتے ہیں جو اس قوم کو دیے گئے تھے یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا: ان تنصرو واللہ ینصرکم (۴۷:۷) ترجمہ: اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔ ہم چاہیں تو دنیا کی بادشاہت ہماری ہے ہمارے انحطاط کی انتہا کے زمانہ میں ہمارے حق میں قدرت کا پہلا تائیدی قدم یہ تھا کہ اس نے ایک فلسفی شاعر ہم میں پیدا کیا جو اسلام کی گہری بصیرت رکھتا تھا جس نے اسلام کا ایک نیا فلسفہ ہمیں دیا اور اس فلسفہ کو گا کر سنایا۔ ہم نے اس پیغام کو سراہا اور اس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس کے عوض میں خدا کا دوسرا احسان ہم پر یہ ہوا کہ ہمیں ایک ریاست عطا کی گئی جس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اسلام کے پیغام اور فلسفہ کو ریاست کا اساس بنائیں۔ اگر ہم نے ایسا کیاتو یقینا ہم پرایک ایسے انعام کا دروازہ کھل جائے گا جس کا تصور میں لانا بھی اس وقت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جس کا عطا کرنا خدا کے لیے مشکل نہیں۔ میری مراد دنیا کی حکومت سے ہے جس کا وعدہ خدا نے دیر سے کر رکھا ہے کہ یہ آخر کار اس قوم کا انعام ہو گا جو اپنے آپ کو اس کی حق دار ثابت کرے گی اور کرتی رہ گی۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون ترجمہ: ہم نے زبور میں وعظ و نصیحت کے بعد یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ میرے نیکو کار بندے ہی آخر کار زمین کے وارث ہوں گے (۲۱:۱۰۵) حق و باطل کی کشمکش کا بحرانی نقط لیکن اگر ہم نے قدرت کے اس تازہ اقدام کی تائید نہ کی۔ تو تعجب نہیں کہ قدرت پاکستان بھی ہم سے چھین لے اور اسلام کا باطل شکن فلسفہ جو ہمیں دیا گیا ہے جو دوسروں کے سپرد کردے کہ وہ اسے اوروں تک پہنچائیں۔ اور دنیا کو باطل سے بچائیں۔ باطل کی قوت اس وقت ایک ایسے مرحلہ پرپہنچ گئی ہے کہ یا تو اسلام مٹ جائے گا یا فوراً دنیا پرپھیل جائے گا لیکن اسلام اس زمانہ میں نئے علمی ہتھیاروں کے ساتھ اس یے آراستہ نہیں ہوا کہ وہ باطل سے مٹا دیا جائے بلکہ اس لیے ہو کہ وہ باطل کو مٹا دے۔ ار ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام کی فطرت میںمٹنا نہیں بلکہ مٹانا اور غالب رہنا ہے اگر ہم نے حق و باطل کی اس آخری کشمکش میںاس فریق کا ساتھ دیا جو یقینی طور پر غالب رہنے والا ہے۔ تو یہ ایک معمولی قسم کی مصلحت بینی ہوگی اور پھر دنیا کی حکومت ہمارے سوائے اور کس کی ہے۔ خودی کائنات کے تقاضوں اعانت قومی عروج کی ضمانت ہے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان ایک کمزور چھوٹا سا ملک ہے جو بالخصوص ایٹم بمب کے اس زمانہ میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیںرکھتا۔ لیکن قوموں کا عرو ج و زوال نہ تو ان کے ظاہری مادی اسباب پر منحصر ہے۔ اور نہ ان کی قوت سعی و عمل پر بلکہ اس کا دارومدار کائنات کی باطنی قوتوں کے عمل پر ہے جو قوم بھی ان قوتوں کے نہ رکنے والے عمل کو اپنے موافق اور مطابق کرلے گی۔ وہ زندہ رہے گی اور دوسری قومیں خواہ ان کے ظاہری اسباب کچھ ہوں مٹ کر فطرت کی اس چہیتی قوم کے لیے راستہ صاف کر دیں گی جس طرح سے ایک رد کی خودی کے اندر جذبہ حسن و کمال موجود ہے اسی طرح کائنات کی خودی میںبھی ایک جذبہ حسن و کمال ہے اورقوموں کا عروج و زوال بلکہ کائنات کی ساری ارتقائی حرکت اس جذبہ اظہار و اطمینان کے لیے ہے اور قدرت نے جو انسان میں جذبہ حسن و کمال رکھا ہے وہ بھی اسی غرض سے ہے۔ کہ انسان اس کے ساتھ مل کر کام کرے۔ اور اس کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنے جو قوم کائنات کے اندرونی جذبہ حسن و کمال کی موید ہو گی۔ دوسرے الفاظ میں جو قوم آخر کامل نظام تصورات کو اپنی زندگی کی حقیقی بنیاد بنائے گی وہ روئے زمین پر حکومت کرے گی کیونکہ اس کے ظاہری حالات خواہ کیسے ہی مایوس کن ہوں فطرت اسے عروج و کمال پر پہنچانے کے لیے بیتاب ہے اگروہ تہی دست و نادار ہو گی تو دولت دوسروں سے چھین کر اسے دے دی جائے گی ۔ اگر اس کے پاس سامان جنگ نہ ہو گااسے اجاز ت دے دی جائیے گی کہ دوسروں کا سامان جنگ چھین کر اپنے قبضہ میں لے لے۔ اگر وہ بے علم و بے ہنر ہو گی تو اسے علم و ہنر سے آراستہ کیا جائے گا اگر وہ عمل سے محروم ہو گی تو دوسروں کے ہاتھ پائوں شل کیے جائیں گے۔ اور اسے سعی و عمل سے نوازا جائے گا قدرت ان تمام ترقیوں سے جو وہ نوع انسانی کو آج تک نصیب کرتی رہی ہے صرف ایک قوم کی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ اور وہ خاتم النبیینؐ کی امت ہے۔ اگرچہ اس قوم کی تعمیر کے سامان کا بہت سا حصہ اس وقت دوسری قوموں میں بکھرا ہوا ہے۔ لیکن بالآخر وہ یکجا کر کے اسی قوم کے سپرد کیا جائے گا۔ مسلمان مطمئن رہیں کہ جو کچھ دنیا پیدا کر چکی ہے۔ وہ ان کا ہی ہے اور جو کچھ دنیا نے ابھی تک پیدا نہیں کیا وہ خو د پیدا کرنے والے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کو فی الواقع ایک کامل نظام تصورات کی حیثیت سے کام میں لائیں یعنی اسے اپنی سیاسی زندگی کا روح و رواں بنائیں۔ عزت اور ذلت کی راہیں اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ایک راہ تو انتہائی قسم کی ترقیوں کی طرف جاتی ہے جس میں کوئی حقیقی خطرہ نہیں‘ کوئی مستقل شکست اور ناکامی نہیں جس میں دشمنوں کی ذلت اور بربادی ہے اور اپنی عزت اور کامرانی اس راہ کی آخری منزل دنیا کو حکومت ہے۔ دوسری راہ میں سطحی اور عارضی تسلیاں لیکن گہری اور مستقل ناکامیاں اور نامرادیاں ہیں جن کا آخری نتیجہ مکمل بربادی ہے۔ اگر ہم نے اسلام کو سچ مچ اپنی سیاسی زندگی کے اساس بنا لیا تو ہم فی الفور ناکامی کی راہ سے ہٹ کر کامیابی کے راستہ پر ہو لیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کو سیاست کی بنیاد بناتے ہوئے ہمیں کئی ایک تشویش انگیز مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ہماری مشکلات مثلاً ہماری پہلی مشکل تو یہ ہے یکہ خواہ ہم دنیا کو ا س بنا پر اپنا سمجھیں یا برا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس زمانہ میں دنیا مذہب سے بے حد متنفر ہے اور ایک مذہبی ریاست کے قیام کو ایک رجوعی حرکت تصور کرتے ہوئے اسے آسانی سے گوارا کر نے کے لیے تیار نہیں ۔ہم ا زمانہ میں بالخصوص دنیا کی رائے عامہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم مجبور ہیں کہ دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کریں۔ ہم اپنی فلاح و بہبود کی بہت سی باتوں کے لیے ان کی پروا ومدار رکھتے ہیں اور ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم تعلمی ثقافتی سیاسی‘ تجارتی ‘معاشی‘ اور فوجی بین الاقوامی انجنوں میں اپنے احترام کو برقرار رکھیں۔ بلکہ جہا ںتک ہو سکے اس میں اور اضافہ کریں اور اقوام عالم کی زیادہ سے زیادہ ہمنوائی حاصل کریں چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا تو ہمارے دشمنوں کو ہمارے خلاف غلط نفرت پھیلانے کا ایک بہانہ ہاتھ میں آ جائے گا۔ ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے علماء قرآن کی تفسیر میں اختلاف رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہم کسی فرقہ کے اسلام کو ریاست کی بنیاد قرار دیں ہماری تیسری مشکل یہ ہے کہ ہماری اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے لیے مشکل ہو گا کہ ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے مسلمانوں کے ساتھ برادری کا احساس کر سکیں اور اس اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں یا ریاست کی خوشحالی اور ترقی میں وہ دلچسپی لے سکیں جو ایک غیر مذہبی جمہوری ریاست کی صورت میں ان کے لیے ممکن ہے۔ مشکلات کا قدرتی حل یہ مشکلات ایسی ہیں کہ ان کی بنا پر بعض لوگوں نے شک کیا ہے۔ کہ اگر پاکستان کو فی الواقع عملی طور پر ایک اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی تو ہم کامیاب بھی ہو سکیں گے یا نہیں لیکن خوش قسمتی سے فلسفہ خودی ہمیں ان مشکلات کامکمل او رقدرتی حل ٹھیک وقت پر بہم پہنچاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے میں عرض کر چکا ہوں کہ کس طرح سے فلسفہ خودی اصول اسلام کی صحیح تشریح ہے جو اسلام کے تمام فرقوں کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ جونہی فلسفہ خودی ہمارا سیاسی نظریہ تسلیم ہو گا ہماری قو م کی ذہنی کیفیت میں ایک انقلاب رونما ہو گا جس کی وجہ سے فرقوں کے اختلافات اپنی اہمیت کھو دیں گے اور رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہو جائیں گے میں عرض کر چکا ہوں کہ کس طرح سے فلسفہ خودی اسلام کے بنیادی اصولوں کو ناقاب فہم عقائد Dogmasنہیں رہنے دیتا۔ پاکستان ایک عقلی نظریہ زندگی پر قائم ہو گا بلکہ اسلام کو ایک عقلی نظریہ زندگی Intellectual Ideologyکے طور پر پیش کرتا ہے۔ جو ریاست اس قسم کے نظریہ زندگی پر مبنی ہو گی وہ ایک تھیوکریسی نہیں ہو گی۔ بلکہ ان پر جدید قسم کی ریاستوں میں سے ایک ہو گی۔ جو اس زمانہ میں فلسفیانہ نظریات کی حامل ہیں۔ لہٰذایہ بات عصر جدید اور پاکستان کی اقلیتوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے۔ بلکہ ہمارے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کافی وجوہات موجود ہیں دنیا تھوڑے ہی عرصے میں ہماری شکر گزار ہو گی ہم نے فطرت انسانی کے متعلق ایسی معلومات بہم پہنچاکر ج ؤمیں کمی اس دور میں شدت سے محسوس کی جا رہی تھی دنیا کی رہنمائی کی ہے اور علم کے ایک بڑے خلا کو پر کیا ہے ۔ ایک اقلیت جب تک اقلیت ہے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو سکتی۔ تاہم جب ہمارے معقول دلائل کی بنا پر اقلیتوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور کیوں چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایک حد تک ہمارے ساتھ اتفاق کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اور پھر ہم دنیا اپنا نظام تعلیم اس طرح سے تعمیر کریں گے کہ جس سے دنیا کی غیر مسلم اقوام کو ہمارے تصورات کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ سیاست کا نیا دور فلسفہ خودی کا منتظر ہے حال ہی میں دنیا کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے یعنی اب وہ قومیت کے تصورات سے کسی قدر الگ ہو کر زندگی کے فلسفیانہ تصورات پر استوار ہو رہی ہے۔ آج ہر قوم اور ہر ریاست کا اپنا ایک الگ فلسفہ ہے جس پر وہ نازاں ہے اور جس قوم کا کوئی فلسفہ نہیں وہ سرعت کے ساتھ ایک فلسفہ کی تعمیر میں مشغول ہے۔ اشتراکیت ایک فلسفہ ہے فاشیت اور تازیت بھی فلسف ے تھے جو سیاسی حیثیت سے مٹ گئے ہیں اور امریکہ اور انگلستان کے لو گ اب جمہوریت کو ایک طرز حکومت نہیں سمجھتے بلکہ ایک نظریہ زندگی کے طور پر اس کی تشریح کرتے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ حکومت بظاہر گاندھی کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی پیرو ہے ۔ اس دو ر میں جس طرح فلسفہ خودی کے ظہور اورپاکستان کے قیام نے اسلام کے لیے ایک موافق حالات پیدا کر دیے ہیں اسی طرح فلسفہ کی جانب اقوام عالم کے رجحان نے بھی اسلام کے لیے زمین ہموار کر دی ہیل۔ یہ سارے حالات قدرت کے ایک ہی مقصد کی نشان دہی کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دنیا کا اعلیٰ ترین اور صحیح ترین فلسفہ یعنی فلسفہ خودی کہیں نہ کہیں ایک سیاسی قوت کے طور پر ظہور پائے اور عالم گیر قبولیت حاصل کرے۔ یقینا پاکستان کے مسلمان دنیا کے اس ذہنی انقلا ب کے آلہ کار بنیں گے۔ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے تعلیم و تبلیغ کی زبردست قوتوں کا استعمال عصر جدید کو اپنا طرف دار کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ مہم فلسفہ خودی کو ریاست کا نظریہ قرار دینے کے بعد ریاست کے اندر اور باہر ا س کی نشر و اشاعت کے لیے تعلیم اور تبلیغ کے تمام ذرائع کو وقف کر دیں۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنے تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہین ترین افراد کی ایک ایسی جماعت پیدا کریں جو اس فلسفہ سے بخوبی واقف ہو او ر ا س کی نشر و اشاعت کے لیے موزوں قسم کا لٹریچر کثرت سے پیدا کرے یہ لٹریچر دنیا کی ہر زبان میں شائع ہو اور تین اپ؛نا جہاد دونوں محاذوں پر (ریاست کے اندر اور باہر) بیک وقت شروع کرنا چاہیے ۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے ممد ومعاون ہیں اگر ہم یہ کہیں خہ پہلے اپنی قوم کو درست کر لیں پھر دوسروں کی باری آئے گی تو ہم اپ اپنی قوم کو درست کرنے کا ایک اہم ذریعہ ترک کر دیں گے۔ کیونکہ دوسروں کو تبلیغ کرنا اپنے آپ کو درست کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے ۔ ہمارے گھر کی خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے گھر سے باہر دنیا کی خرابی کا غم نہیں کھایا۔ غلط تصورات کی تعلیم اور بلیغ سے ہم بگڑتے ہیں بلکہ تمام دنیا بگڑی ہے۔ اور صحیح تصورات کی تعلیم او رتبلیغ ہی سے ہم درست ہوں گے۔ اور ہمارے ساتھ تمام دنیا درست ہو گی۔ اب فلسفہ سے شغف پیدا کرنا اشاعت اسلام کے لیے ضروری ہے یہ بات فلسفہ خودی ایک فلسفہ ہے ہمارے لیے اسے پڑھنے اور سمجھنے سمجھانے میں کوئی مشکل پیدا نہیں کر سکتی۔ جب ہم اس حقیقت سے آشنا ہو ں گے کہ فلسفہ خودی دین کا علم ہے جس کے بغیر اس زمانہ میں ہمارا چارہ نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ا س کی طرف انتہائی شوق سے متوجہ نہ ہوں فلسفہ اسلام میں کوئی نئی چیز نہیں آج سے پہلے بھی ہم اسلام کو ایک فلسفہ سمجھتے رہے ہیں اور ہمارے علماء میں سے جس قدر کوئی زیادہ فلسفی تھا اورنکات قرآنی کی فلسفیانہ تشریح و تفسیر کا اہل تھا اسی قدر زیادہ قابل اور قبول سمجھا جاتا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس زمانہ میں فلسفہ اسلام ارتقائے علم کی وجہ سے اپنے کما ل کو پہنچا ہے۔ کیونکہ اس کے مقابل پر کفر نے بھی فلسفہ کمال پیدا کر دیا ہے۔ فلسفہ خودی سچا فلسفہ ہونے کی وجہ سے تمام فلسفوں سے زیادہ آسان ہے۔ ایک فلسفہ اس وقت مشکل ہوتا ہے جب فلسفی ایسی کی بات کوجو فی الواقع غلط ہو اپنے زور بیان اور پرواز تخیل سے درست ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے لیکن صحیح اور سچی باتیں فوراً قلم سے نکلتی ہیں اور دل میں اتر جاتی ہیں۔ اب زمانہ کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری قوم سائنس اور فلسفہ سے الفت پیدا کرے اگرچہ اس وقت ہماری قوم علم سے اپنا پرانا شغف کھو چکی ہے لیکن تعلیم سے ہم ھپر ان میں علم کا ہی ذوق و شوق پیدا کر سکتے ہیں ج وپہلے ہمارا امتیاز تھا ۔ تعلیم کا جادو تعلیم قلب ذہنیت کا ایک زبردست آلہ ہے۔ تعلیم سے ہم اپنی قوم میں فلسفیانہ ذہنیت پیدا کر سکتے ہیں اور جس حد تک چاہیں ان میں اپنے نصب العین کی محبت کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہر قوم اپنے افراد کو اپنے فلسفہ کی تعلیم دینا اپنا فرض اولین شمار کرتی ہے۔ خواہ نصب العین کسی نوعیت کا ہو لیکن جب ایک نظام تعلیم کو اس کے مطابق ٹھیک طرح سے ڈھالا جائے تو ہم اس کی مدد سے ایک قوم کو یقینی طور پر اپنے نصب العین کی محبت سے سرشار کر سکتے ہیں ہٹلر ‘ مسولینی اور لینن میں سے ہرایک نے طاقت سنبھالنے کے بعد جو پہلاکا م کیا تھا ک قوم نے نظام تعلیم کو بدل کر اپنے اپنے نصب العین کے مطابق بنا لیا تھا۔ اور اسی طرح گزشتہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان کے فاتحین نے بھی ملک میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا تھا کہ نصاب تعلیم کو بدل کر اپنے فلسفہ کے مطابق کر لیا تھا۔ دوسری قوموں کی مثالیں روس میں فلسفہ اشتراکیت کی تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے حال ہی میں چیکو سلواکیہ کی حکومت نے اپنا حکم نافذ کیا ہے کہ ہر افسر کو ملازمت میں داخ ہونے سے پہلے ایک امتحان دینا ہو گا جس میں اور مضامین کے علاوہ فلسفہ اشتراکیت بھی ہے جو افسر فلسفہ اشتراکیت میں فیل ہو جائے (اور ہمیں معلوم ہے کہ جدلی مادیات یعنی فلسفہ اشتراکیت دنیا کے مشکل ترین فلسفوں میں سے ہے) وہ تمام مضامین میں فیل سمجھا جاتاہے اسے ٹیکسٹ بک آف فارکسسٹ فلاسفی A Text Book of Marxism Philosophy کے مصنیفن فلسفہ اشتراکیت کی عام تعلیم کی اہمیت جتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک روسی جانتا ہے کہ ایک آدمی کا فلسفہ اہمیت رکھتا ہے کہ ہم سماج کی بیماریوں کا علاج نہیں کر سکتے۔ جب تک کہ اپنے سیاسی اور صنعتی اقدامات کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار انہ فلسفہ کی تردید اور اس کے عوض میں نئے فلسفہ کی تردید اور اس کے عوض نئے فلسفہ کی تبلیغ نہ کریں۔ وہ جس نظام تصورات کی تردید کرتے ہیںاس کے نقائص کو خوب جانتے ہیں۔ اور ان کے پاس اپنا ہی ایک الگ نظام تصورات ہے جو ہر چیز کے دیکھنے کے لیے انہیں روشنی بخشتا ہے ایک روسی چیسٹرین Chesterton کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے کہ انسان کے بارے میں اہم ترین چیز اس کائنات نظریہ ہے۔ تاریخ میں کوئی تحریک ایسی پیدا نہیںہوئی جو اصل یں ایک فلسفیانہ تحریک نہ تھی بڑے بڑے فلسفوںکے ظہور کے وقت بڑے بڑے نتائج کے ظہور کا وقت تھا۔ یقینا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے ذہن کو فلسفہ سے خالی رکھے جو شخص کہتا ہے کہ وہ فلسفی نہیں وہ درحقیقت یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ اچھا فلسفی نہیں‘‘۔ ہر شخص جو جرمنی اور روس کے ان حالات سے جوہٹلر اور لینن کے لائے ہوئے انقلابات سے پہلے اور بعد میں ان ملکوں میں پیدا ہوئے تھے واقف ہے خوب جانتا ہے کہ کس طرح تعلیم کے جادو نے ان لوگوں کو ان کے نظریات کا فریفتہ بنا دیاہے جس سے وہ پہلے خود متنفر تھے۔ جب تعلیم کے ذریعے سے ہم انسانوں کے دلوں میں ایک غلط نصب العین کی شدید محبت آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں حالانکہ غلط نصب العین انسان کی فطرت کے مطابق نہیںہوتا۔ تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ مناسب تعلیم کے ذریعہ سے صحیح اور فطرتی نصب العین کی محبت کس درجہ تک پیدا کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک مسلمان طلبا کا تعلق ہے پاکستان کے نظام تعلیم میں عربی انگریزی اور فلسفہ خودی (جس میں قرآن ار حدیث بھی شامل ہیں) کو لازمی مضامین کادرجہ ملنا چاہیے۔ ہمارے نظام تعلیم کے ضروری عناصر عربی کو اس لیے کہ وہ قرآن اور حدیث کی زبان ہے فلسفہ خودی کو اس لیے کہ وہ قرآن اور حدیث کی ہی ایک ایسی تفسیر ہے جو ارتقائے علم کے موجودہ دور کے مطابق ہے اور انگریزی کو اس لیے کہ وہ قریباً قریباً دنیا کی مشترکہ زبان Lingua Franca کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور اس کے بغیر ہم نہ علم کی ترقیوںسے ہمدوش ہو سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ اور نہ دوسروں کو اپنی بات سمجھ اسکتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا منصب اقوام عالم کی امامت کا منصب ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ہم دوسرو ںکو اپنی بات سمجھائیں اور ان کی بات سمجھیں۔ فلسفہ خودی کی مکمل واقفیت ک لیے ایک ذہنی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ جو سائنس اور فلسفہ کے مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ لہٰذا سائنس بیھ کچھ اس سبب سے اور کچھ اس لیے کہ وہ ہماری اقتصادی اور فوجی ضروریات کی تکمیل کا سامان بہم پہنچاتی ہیں ہمارے نصاب تعلیم میں ایک خاص اہمیت رکھے گی۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں علمائے دین وہی لوگ شمار ہوں گے جو قرآن اور حدیث کی واقفیت کے وعلاوہ فلسفہ خودی کی پوری پوری واقفیت رکھتے ہوں اور نیز دین کے سمجھنے کے لیے ایک خاص روحانی استعداد کا ثبوت بہم پہنائیں ۔ اس زمانہ میں ایسے علماء کثرت سے پید ا ہوں گے۔ عوام تعلیم یافتہ طبقہ کے پیچھے چلتے ہیں تاہم جسطرح سے اسلام کے پہلے دور میں یہ ضروری نہیں تھا کہ ہر شخص قرآن اور حدیث کا بڑا عالم ب جائے اب بھی یہ ضروری ہیں ہو گا کہ ہماری قوم کاہر فرد فلسفہ خودی کا ماہر بن جائے۔ ہر قوم کے ذہین ترین لوگ دوسروں کی راہنمائی کیا کرتے ہیں اور یہ کافی ہے کہ ہماری قوم کے بہترین تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہین ترین افراد فلسفہ خودی کے ماہر ہوں اور ایسے لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی رہے گی۔ ماکسزم Marxism دنیا میں پھیل رہی ہے اگرچہ وہ لوگ جو فلسفہ اشتراکیت سے پوری طرح واقف ہیں زیاد ہ سے زیادہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ ان لوگوں کا اثر بالواسطہ عوام پر پڑتا ہے۔ اور انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اشتراکیت کے انقلاب کا باعث روٹی کا نعرہ نہیں بلکہ اس کا باعث یہ ہے کہ دنیا کے ذہین ترین لوگ علمی نقطہ نظر سے فلسفہ اشتراکیت کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔ روٹی کا نعرہ اور اس کا اثر اسی قلب ذہنیت کی پیداوار ہے۔ ہم اپنے استحکام کے لیے بجٹ کا بہت سا حصہ فوجی مصارف کے لیے وقف کرنے پر مجبور ہیں لیکن ہمیں معلوم نہیں خہ اس زمانہ میں ہر قوم کے لیے ذہنی محاذ Intellectual Frontفوجی محاذ سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ جب تک کہ کوئی قوم اپنے آپ کو ذہنی محاذ پر حملہ ارو حفاظت Offence and Defenceکے قابل نہ بنائے وہ محض فوجی طاقت سے اپنی آزادی کو قائم نہیں رکھ سکتی۔ ذہنی محاذ فوجی محاذ سے بھی زیادہ اہم ہے اور اگر وہ ذہنی محاذ پر طاقت ور ہو گی تو اس کی فوجی طاقت فوجی حفاظٹ کے لیے وہ چند زیادہ موثر ثابت ہو گی اس زمانہ میں یہ حقیقت واضح طور پر ہمارے مشاہدہ مین آ گئی ہے کہ نظا م ہائے تصورات خواہ وہ پست ہوں یا بلند ‘ کمزور ہوں یا طاقت ور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی اور موت کی کشمکش میں مصروف ہیں جو اس وقت تک ختم نہیںہوئی جب تک کہ ایک نظام تصورات یا خود نہ مٹ جائے یا دوسرے نظام ہائے تصورات کو مٹا کر نہ دے۔ اگرچہ اس کشکمش کے دوران میں فوجی طاقت اور خونریزی کا استعمال ایک نہ ایک مقام پر ضرور ی ہو جاتا ہے۔ لیکن نظام ہائے تصورات کا اصل مدعا تشدد اور خونریزی کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے گویا ہر نظام تصورات دوسرے نظا م ہائے تصورات پر ذہنی فتح حاصل کرنا ہے۔ اور اس لیے تبلیغ (پراپیگنڈہ) کے تمام ذرائع کام میں لاتا ہے۔ ذہنی فتح] سیاسی فتح کا پیش خیمہ ہے۔ اور خونریزی اور فوجی فتح کی غرض و غایت یہ ہے کہ ذہنی فتح کے لیے راستہ صاف کیا جائے۔ پہلے ایک جزوی شکست فوجی شکست کے لیے راستہ صاف کرتی ہے اور پھر فوجی شکست کے بعد ذہنی شکست مکمل کر لی جاتی ہے۔ جو قوم ذہنی محاذ پر جارحانہ اقدام کر ے دوسری قوموں کو ذہنی طور پر فتح نہیں کرتی وہ خو د ذہنی طور پر اور لہٰذا آخر کار سیاسی طورپر مفتوح و مغلوب ہونے کا خطرہ مول لیتی ہے۔ ہماری غلامی کا اولین سبب ہماری ذہنی شکست تھی ۔ اور ہمارا موجودہ انحطاط سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہم ذہنی طور پر مغلوب ہو چکے ہیں۔ فوجی اور ذہنی دونوں محاذوں کی صورت میں یہ بالکل درست ہے کہ جارحانہ اقدام Offenceبہترین قسم کی مدافعت Defenceہے اگر ہم دوسروں پر حملہ میں پہل نہ کریں گے تو خواہ ہم فوجی محاذ پر لڑ رہے ہوں یا ذہنی محاذ پر ہم مدافعت کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ فلسفہ خودی ہماری طاقت کا منبع اور آزادی کا محافظ ہے بڑا نکتہ یہی ہے کہ فلسفہ خودی وہ حربہ ہے جس سے اسلام اس دور میں ذہنی محاذ پر دوسری قوموں کے خلاف حملہ میں پہل کر کے کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس زمانہ میں فسلفہ خودی کے بغیر غیروں میں اسلامی تصورات کی تبلیغ قریباً قریباً ناممکن ہے۔ شروع میں تبلیغ اسلام کے لیے ہمارا طریقہ یہ تھا کہ ہم اسلام کو مجموعی حیثیت سے پیش کر کے فطرت انسانی کو اپیل کرتے تھے۔ تبلیغ اسلام کا طریقہ بدلنے کی ضرورت یہ طریقہ اس وقت تک تو خوب کامیاب رہا جب تک ایک طرف انسان ابھی تک سادہ لوح تھا اور دوسری طرح صحابہ کرامؓ اور صوفیا عظام ایسی بڑی بڑی روحانی شخصیتیں اس سے کام لینے میںہم میں موجود تھیں۔ اس کے بعد جب شدید ذہنی مذہبی تعصبات کا زمانہ شروع ہوا تو ہم نے مذہبی مناظروں کے ذریعے سے اسلام کی تبلیغ شروع کی لیکن آج تک ہم اسلام کی تبلیغ کے لیے نہ پہلی راہ اختیار کر سکتے ہیں اور نہ دوسری کیونکہ آج ہمارا مخاطب پہلے زمانہ کا سادہ لوح انسان نہیں بلکہ اس زمانہ کا وہ انسان ہے جس کی فطرت غلط فلسفوں سے پوری طرح مسخ ہو چکی ہے۔ اور پھر ٓج ہمارا مدمقابل کوئی مذہب نہیں بلکہ قوموں کے پیچیدہ فلسفے ار نام نہاد دنیوی عقلی نظریات ہیں۔ اس زمانہ میں جہاں دہریت‘ مادیت اور الحاد کے دور دورہ کی وجہ سے ہم میں بڑی بڑی روحانی شخصیتیں پیدا نہیں ہوتیں وہاں دوسری طرف فلسفی مورخ ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے انسان کو ایسا سبق دیا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہوشیار ہو کر خدا اور مذہب کے تصورات کا نکتہ چیں اور منکربن گیا ہے۔ اور ان کاذکر تک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ موڈرن اسلام ان انڈیا Modern Islam in Indiaکے مصنف پروفیسر سمتھ نے جو ہمار ی مذہبی سرگرمیوںکا اسحقاف کیا ہے وہ ایک شخص کی رائے نہیں ہے بلکہ دور حاضر کے انسان کی قائم کردہ مقام رائے ہے ۔ اور پروفیسر سمتھ ہمارے مبلغین کومشورہ دیتے ہوئے بالکل سچ کہتا ہے: ’’جہاں دس بیس سال پہلے بازاروں کے موڑوں پر مذہبی مناظرے ہوا کرتے تھے اور تعلیم یافتہ مسلمان عصر جدید کے متعلق پرھ پڑھ کر اپنا سر کھپاتے تھے آج مسلمان نوجوان ان علمی مشکلات سے بے خبراور بے پرواہ ہے جو زندگی کے صحیح راستہ کی حیثیت سے مذہب کے سامنے آتی ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے آزاد خیال مسلمانوں نے ان اعتراضات کا قریباً قریباً مکمل جواب دیا ہے۔ عیسائیوں نے اسلام پر وار کریے تھے آج ترقی پسند مسلمان اس جواب کو کافی سمجھتا ہے ار کوئی مسلمان ایسا پیدا نہیں ہوتا جو جواب دینا تو درکنار ان اعتراضات کا فقط ذکر ہی کرے جو اسزمانہ میں فلسفی ‘ مورخ‘ ماہر نفسیات‘ اور ماہر اجتماعیات‘ نے اسلام پر اور سارے مذہب پر وارد کر رکھے ہیں‘‘۔ Modern Islam in India آج ہم وعظوں یا مناظروں سے اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ بلکہ ٹھوس علمی حقائق کو سامنے لانے سے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ آج ہمارا بڑے سے بڑا عالم دین بھی اگر غیروں کے سامنے اسلام کو اسی رح عقائد اور اعمال کے ایک سادہ سے مجموعہ کے طورپر پیش کرے جس طرح سے پہلے وہ کیا کرتا تھا تو اس کی دعوت کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے برعکس دلوں میں نفرت بڑھ جاتی ہے لہٰذا اس زمانہ میں اسلام کی تبلیغ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے اسلام کو ایک ایسے عقلی نظام افکار کی صورت دے دی ہے جو ٹھوس علمی حقائق پر مبنی ہے۔ جو نہ صرف ان اعتراضات کو جو اس زمانہ میں فلسفی مورخ ماہر نفسیات اور ماہر اجتماعیات نے اسلام اور سارے مذہب پر وارد کر رکھے ہیں بیہود ہ ثابت کرتا ہے بلکہ جس میں ایک تصور دوسرے تمام تصورات کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اب ہمارے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ ہم کسی ایک تصور کو لے لیں جس سے مخالفین متفق ہوں اور پھر اس سے ان کو باقی ماندہ تمام اسلامی تصورات کی طرف راہنمائی کریں چونکہ ایک عقلی نظام تصورات کی تبلیغ کرتے ہوئے معلوم تصورات نامعلوم تصورات کی طرف راستہ بالکل صاف ہوتاہے۔ ہم اس قسم کے نظام تصورات کی تبلیغ میں ایک موثر عقلی ترتیب اور تدریج اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلاً فلسفہ خودی کا ایک تصور یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر فرد کو اخلاق کے عالم گیراصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اور دنیا کم از کم نظری اعتبار سے اس پر پوری طرح سے متفق ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کی رائے عامہ میں اب بھی ایک ایسی طاقت ہے جس سے دنیا کی قومیں خوفزدہ ہوتی ہی ۔ اور ہر قوم اس کاکوئی فعل اچھا ہو یا برا۔ اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ اپنے فعل کو اخلاقی طور پر درست اور اپنی مدمقابل قوم کے فعل کو اخلاقی طور پر غلط ثابت کرے۔ اگرچہ ابھی تک قومیں اس عقیدہ پر عمل نہیں کر سکیں لیکن مذہب کے ختم ہونے کے بعد مذہب کے اس عقیدہ کا نری طور پر ہی زندہ رہ جانا اور مرنے کا نام نہ لینا بلکہ دن بدن اور طاقتور ہوتے جانا نوع انسانی کے مستقبل کے لیے ایک امید کی شعاع ہے۔ کیونکہ عقیدہ انسان کو سائنس اور فلسفہ کی راہ سے اسلام کی طرف لائے گا۔ اس زمانہ میں فلسفہ خودی کے بغیر تبلیغ اسلام ممکن نہیں اور یہ کام فلسفہ خودی کے ذریعے سے انجام پائے گا۔ کیونکہ یہی وہ فلسفہ ہے جو قابل تردید شواہد اور دلائل کی بنا پر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کس طرح سے اخلاقی اصولوں پر عمل کر نے کی خواہش کشش نصب العین کا ایک حصہ ہے اور کس طرح سے اس خواہش کی تکمیل کا ایک کامل نصب العین کی شدیدمحبت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اب اس عقیدہ کو عملی صورت دینے کی کوشش کرے گا تو اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ رہے گا کہ وہ اس کی خاطر اپنے تمام اسلامی تصورات کو قبول کرے۔ اگر ہم فلسفہ خودی کو ریاست کی بنیاد نہ بنائی تو چونکہ ہم ذہنی محا ذ پر کمزور رہیں گے ہمارے لیے مشکل ہو گا کہ اس زمانہ میں اپنی آزادی کی حفاظت کر سکیں۔ نیز ہم اس مقصد کو بھی نقصان پہنچائیں گے جس کے پیش نظر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں یعنی تبلیغ اسلام اور دنیا کی راہ نمائی اور نجات دہی کا مقصد او ر دوسری طرف اگر ہم نے فلسفہ خودی کو پاکستان کی بنیاد نہ بنایا تو باطل تصورات کے خلاف اسلا م کا رد عمل اپنے کمال کو کیونکر پہنچے گا اور دائرہ اسلام کے اندر اور باہر ان تصورات کا استیصال کیونکر ہو گا گویا ہم جس پہلو سے دیکھیں ہمیں نظر آتاہے کہ پاکستان اور فلسفہ خودی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی ابتدا میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوش ہو کر ایک دوسرے کی زندگی اور ترقی کا ذریعہ بننے کے لیے وجود میں آئے ہیں اس وقت دنیا اپنی مصیبتوں سے پریشان ہے اور ان سے مستقل نجات کی راہ ڈھونڈ رہی ہے ۔ لیکن اس کے پاس فلسفہ خودی کے سوائے کوئی اور راہ نجات نہیں۔ فلسفہ خودی کی نوعیت اور اس وقت دنیا کی ذہنی کیفیت دونوں اس بات کے ضامن ہیں کہ دائرہ اسلام سے باہر ہمیں اپنی تبلغ میں بہت کامیابی ہو گی۔ اس وقت فلسفہ خودی کی اشاعت کے لیے حالات سازگار ہیں اور کچھ عرصہ بعد دنیا کے ہر مک میں ہمارے ماننے والوںاورہمددردوں کی جماعتیں پیدا ہو جائیں گی۔ جو رفتہ رفتہ بڑھتی رہیں گی اور ہماری حوصلہ افزائی سے زیادہ طاقتور ہوتی جائیں گی۔ یہ صورت حالات ایک عالم گیر اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ہو گی اور ہم تمام ایسی قوموںکو جو سچے دل سے دنیاکے امن اور اتحاد کی متمنی ہیں اور امن اور اتحاد کے نام کو اپنے سامراجی مقاصد کی پیش برد کے لیے کام میں لانا نہیں چاہتیں فلسفہ خودی کی طرف دعوت دین گے تاکہ ہمارے ساتھ مل کر وہ امن و اتحاد عالم کے لیے کام کریں۔ سچے تصورات کا بے پناہ اثر پھر ہماری دعوت اس نوعیت کی ہو گی کہ جو قوم اسے تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر قبول نہ کرے گی وہ اس کا خمیازہ یوں بھگتے گی کہ انکار کے ساتھ اس کے اندر ایک اخلاقی ضعف اور احسا س کمتری پید اہو جائے گا جو آخر کار اس کی شکست کا موجب ہو گا۔ ہندو قوم فلسفہ اور روحانیت سے ایک تاریخی نسبت رکھتی ہے اور لہٰذا ہمیں ا س سے ناامید نہیں ہونا چاہے لیکن اگروہ ہماری دعوت کو قبول نہ کریں گے تواپنے ماضی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اخلاقی طور پر دوسری قوموں سے زیادہ نقصان میںرہیں گے۔ اور ہر حالت میں ہم یقین کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اور باہر ہند و قوم کا ایک مقتدر طبقہ اپنی روایات کی وجہ سے ہمارے نظام تصورات کے ساتھ ہمدردی پیدا کرے گا۔ عیسائیوں کی صورت میں بھی جو ہماری دوسری بڑی اقلیت ہیں یہ توقعات قریباً درست ہیں ہر مذہب کو ماننے والے اپنے مذہب کی علمی اور عقلی توجیہ چاہتے ہیںجو ان کو فلسفہ خودی بہم پہنچاتا ہے۔ ایک بیرونی مشکل تاہم ہمارا راستہ شروع ہی سے آسان نہیںہو گا بلکہ ہمیں پاکستان کے اندر اور باہر اپنی تبلیغ میںکچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا خواہ اس وقت فلسفہ خودی کی کتنی ہی ضرورت محسوس کر رہی ہو لیکن جب فلسفہ خودی فی الواقع ان کے سامنے آئے گا تو ہر قوم کا پہلا ردعمل نفرت کا ہو گا کیونکہ انہیں اس وقت تک گمان بھی نہیں کہ دنیا کا آئندہ نجات دہندہ علمی اور عقلی مذہب Scientific Religiousمسلمانوں کی طرف سے آئے گا۔ لہٰذا انہیں قومی تعصب کی ابتدا میں مخالفت پر مجبور کر دے گا۔ اور یہ بات ہمیں نظریہ کی اشاعت میں مزید جانفشانیاں کرنے کے لیے اور اسے زیادہ بہتر طریق سے پیش کرنے کے لیے اکسائے گی۔ کسی بات کا تسلیم کیا جانا فقط اس کی معقولیت اور سچائی پر منحصر نہیں بلکہ اور بہت سی باتوں پر موقوف ہے۔ انسان فطرتاً راسخ العقیدہ واقع ہوا ہے۔ اور جس عقیدہ پر وہ جم جاتا ہے خواہ اچھا ہو یا برا مدلدل ہو یا غیر مدلل اسے آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ اصل میں انسان کی یہ ہٹ دھرمی اس لیے ہے کہ جب وہ صداقت پر اپنا اعتقاد پیدا کر لے تو باطل کے معمولی حملوں سے پیچھے نہ ہٹ سکے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان باطل پر بھی اسی پختگی سے جم جاتا ہے جس کا اظہار فقط حق کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ تاہم انسان کی فطرت کی یہ پہلو حق کو موقع دیتا ہے کہ وہ باطل پر فتح پانے کے لیے اور زیادہ کشمکش کرے اور اس سے حق ور طاقتور ہوتا ہے اور دنیا میں ظہور پاتا ہے لہٰذا زود یا بدیر ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے جن میں ہٹ دھرمی قائم نہیں رہتی تاہم دنیا کے سمجھدار ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک کثیر تعداد کو صرف تعلم اور تبلیغ کے ذریعہ سے اپنا طرف دار بنا لینا دوسروں قوموں کی نسبت ہمارے لیے زیادہ آسان نہ ہو گا۔ کیونکہ ہمارا نظریہ زندگی معقول اور مدلل ہے۔ اور انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے ہمیں ہر حالت میں مطمئن رہنا چاہیے۔ کہ غیر قوموں میں فلسفہ خودی کی نشر و اشاعت میں ہمیں آخر کار بے نظری کامیابی ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسفہ خودی کو زیادہ عرصے کے لیے نظر انداز کرنا اقوام عالم کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ فلسفہ خودی ارتقا کے راستہ کی ایک ضروری منزل ہے اورنوع انسانی اپنی فطرت سے مجبو ر ہے کہ اس سے ہو کر گزرے۔ وہ اسے دائیں یا بائیں چھوڑ کر قطعاً آگے نہیں جا سکتی۔ البتہ ہم اپنی تبلیغ سے انسان کی اس منزل کو قریب لا سکتے ہیں اور اس کی پریشانیوں کے عرصہ کو مخفف کر سکتے ہیں۔ ایک اندرونی مشکل علماء کا ذہین اور سمجھدار طبقہ اسلام کی صحیح بصیرت رکھتا ہے اور ہمارے انحطاط کے اسباب کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتا ہے اور لہٰذا ان کا ازالہ کرنے کا خواہشمند ہے وہ فلسفہ خودی کو لبیک کہے گا اور احیائے ملت کی خاطر اس کی تعلیم و تقلم اور نشر و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہو جائے گا لیکن ہم میں علماء کا ایک گروہ بھی ایسا ہے جو نہ تو اسلام کی صحیح بصیرت رکھتا ہے اور نہ قرآن کی اور نہ ہمارے انحطاط کے اسباب کو سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ علما خودی کے فلسفہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کی مخالفت پر آمادہ ہو گا۔ لیکن ان کی مخالفت بے بنیاد ہونے کی وجہ سے ناکام رہے گی۔ علماء کے اس طبقہ کو اقبال بار بار ملا کے لفظ سے تعبیر کرکے اسے رمز دیں سے آشنا اسرار کتاب سے نامحرام فساد قلاب و نظر بے سود‘ بے نور اور کور ذوق قرار دیتا ہے۔ زمانہ میں اسلام کی ترقی کا دارومدار ان پر نہیں رکھا بلکہ ان مسلمانوں پر رکھا ہے جن کو یہ علما مغرب زدہ اور گنہگار کہتے ہیں اور جن کے اعتقادات اگرچہ مغرب کے تصورات کے ساتھ ایک ناکام داخلی کشمکش میں مصروف ہیں لیکن جو پھر بھی اپنے دل کی گہرائیوں میں اسلام کا درد لیے ہوئے ہے چونکہ علما کا یہ طبقہ اس دور میں احیائے ملت کے لیے ایک رکاوٹ تھا اور متواتر ایک رکاوٹ بنا رہتا اس لیے قدت نے ان کو الگ کر کے احیائے اسلام کے مقاصد کی پیش برد کے لیے مغرب زدہ گنہگار مسلمانوں سے کام لیا ہے۔ چنانچہ جب یہ لوگ ایک دوسرے کی تکفیر میں لگے ہوئے تھے ایک گنہگار اسلام کے غم میں شب و خون جگر پی رہا تھا اور شعر کے پیرایہ میں ایک ایسا لٹریچر پیدا کر رہا تھا جو بالآخر اسلام کے سب سے بڑے دشمن یعنی فلسفہ مغرب کی یلغار کو تھام لینے والا تھا ۔ تاہم یہ شخص ان کی تکفیر سے نہ بچ سکا اور پھر جب یہ لوگ قرآن کو ہاتھ میں لیے ہوئے برعظیم ہند کے سارے مسلمانوں کو ہندو کی غلامی پر رضامند کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور ایک مغرب زدہ مسلمان اس غم میں بے قرار تھا کہ مسلمان آزاد ہوں۔ علماء کا بے بصیرت گروہ تاکہ اگر پاکستان ان لوگوں کی کوششوں سے وجود میں آتا ہے تو یہ لوگ اس مین برسراقتدار ہوتے تو آج دنیا میں فلسفہ خودی کی نشر و اشاعت کی توقعات بے معنی ہوتیں اور خود پاکستان کے ظہور کا مقصد فوت ہو جاتا۔ لیکن قدرت نے بڑے اہتمام کے ساتھ ہر قدم پر ان لوگوں کو اس راستہ سے جو اقتدار کی طرف جاتا تھا باز رکھا ہے۔ اور اس طرح فلسفہ کودی کے لیے سیدھا راستا کھلا چھوڑ دیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظریہ کے طور پر وجود میں آئے تاکہ اسلام کا قدرتی ردعمل اپنے کمال کو پہنچے اس دور میں جس طرح سے قدرت نے آج تک عالم دینداروں کو چھوڑ کر اسلام کی خدمت کے لیے ایسے لوگوں کو چنا ہے جو ان کی نظروں میں جاہل اور گنہگار ہیں کوئی تعجب نہیں کہ آئندہ بھی گناہ کا سدباب کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے میں خداوند تعالیٰ کی حکمت پھر گنہ گاروں سے ہی کام لے ’’مغرب زدہ‘‘ مسلمان قرآن کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتے۔ لیکن زمانہ کو سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اس دور میں اسلام کی خدمت کے لیے کم از کم ان علماء سے زیادہ موزوں ہیں اور پھر فلسفہ خودی ان کے فہم و یقین کے لیے علاج و شافی کا حک رکھتا ہے۔ ضروری ہے کہ اسلام کے لیے ترقی کی راہ پا کر امید کی کرن دیکھ کر یہ لوگ اسلام کے لیے ہمہ تن خدمت بن جائیں اور اسلام کی نئی زندگی کے لیے کام میں لگ جائیں اگر علماء کے بے بصیرت طبقہ نے پھر ہمارے راستہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو ہمارا فرض ہو گا کہ ان کو ایک مضبوط ہاتھ سے دبا دیں۔ ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ ایک اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے ہمیں بڑے بڑے پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کی ضرورت ہے جو اس وقت میسرنہیں آ سکتے۔ اور لہٰذا وہ ایک اسلامی ریاست کے طور پر پاکستنا کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ ہمیں شروع میں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ جس طرح سے دوسری قومیں اپنے اپنے نصب العین کی صحت اور عمدگی کا نصب العین کو ٹھیک طرح سے سمجھتی ہیں ہم اپنے نصب العین یعنی اسلام کو ٹھیک طرح سے سمجھیں۔ عالمانہ یقین ہماری پہلی ضرورت ہے اور اس کی درستی اور پختگی پر پورا پورا یقین رکھیں اور اس زمانہ میں ہم یہ فہم و یقین فلسہ خودی کے مطالعہ سے پیدا کر سکتے ہیں۔ انسان میں نیکی اور بدی دونوں موجود ہیں۔ لیکن جونہی ایک انسان نیکی کو اپنی منزل مقصود قرار دیتا ہے ۔ وہ بدی کے ساتھ ایک کشمکش میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بعد گروہ بر بار پھسلتا ہے لیکن بلحاظ کل ا س کی نیکی کی قوت بڑھتی اور بدی کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست کا یہ نشان نہیں کہ اس کے لوگ شروع ہی سے ارتقائے خودی کی انتہائی سطح پر ہوتے ہیں بلکہ ایک اسلامی ریاست کا نشان یہ ہے کہ نیکی اور بدی کی اس کشمکش میں جو اس کا فرد خود اپنی مرضی اور اختیار سے اپنے دل میں پیدا کرتا ہے اسلامی ریاست (ا س کی فطرت کی کمزوریوں کے خلاف اور اس کی فطرت کی نیکی کے حق میں) ا س کی مدد کو پہنچتی ہیں اور اسے اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنے میں سہولتیں مہیا کر کے اس کی کوششوں کو آسان کرتی ہے۔ ایک فرد کی انسانی فطرت اگر صحیح اور صالح صورت میں باقی رہے گی تو نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کرتی ہے۔ اسلامی ریاست کاکام اسلامی ریاست کا کام یہ ہوتا ہے ک وہ تعلیم کے ذریعہ سے (اور میں تعلیم کا لفظ یہاں وسیع معنوں میں استعمال کر رہا ہوں) اس فطرت کو بگڑنے نہیں دیتی۔ بلکہ اسے قائم رکھتی ہے۔ اور اسے مزید رونق اور جلا دیتی ہے۔ یعنی ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جس میں بدی کے لیے فرد کی فطرتی نفرت اور نیکی کے لیے اس کی فطرتی محبت میں متواتر اضافہ ہوتا رہتا ہے اور پھر جس حد تک ضروری ہوتا ہے ایک اسلامی ریاست فرد کی اعانت اور حفاظت کے لیے اس کی بدی کو جبراً روک دیتی ہے۔ تاکہ وہ اس پر یعنی اس کی نیکی پر غالب نہ آئے۔ افسوس کہ آزادی اور جمہوریت کے تصورات کی غلط ترجمانی کی وجہ سے جو اس زمانہ میں عام ہے اس قسم کی جبر کی ماہیت کے بارہ میں ہم میں سے بعض غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا جبر فر د کی آزادی کو سلب کرتاہے۔ لیکن درحقیقت یہ جبر فرد کی آزادی کو سلب نہیں کرتا۔ بلکہ اسے اور آزد ہونے کا موقع دیتا ہے اور اس کے خلاف اور تسلی کا سامان بہم پہنچاتا ہے ۔ جس طرح سے ایک جماعت میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور دونوں کی باہمی کشمکش اور مخالفت میں ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جماعت کی حفاظت کی خاطر جبرسے کام لے کر اس کو نیکوں اور بروں سے محفوظ رکھتے ہیں‘ اسی طرح سے ایک فرد کے شعور کے اندر اچھی اور بری خواہشات ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ کشمکش کرتی ہیں اور ریاست کا فرض ہے کہ اس کشمکش میں فرد کا ساتھ دے یعنی اس کی نیکی کو جبر ا اس کی بدی سے محفوظ رکھے تاہم جبر کا استعمال احتیاط کے ساتھ اور واضح ضرورت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ نصب العین کا یقین تمام برکتوں کاسرچشمہ ہے جس طرح سے پاکستان ایک شخص کے مطالبہ کے بعد محض عدم سے وجود میں آیا ہے حالانکہ نہ ہم میں اس کا واضح تصور تھا نہ اس کے حصول کی ہمت تھی۔ اور نہ اس کے لیے ضروری تنظیم تھی نہ دولت اسی طرح سے ہماری اخلاقی حالت اسلا کو اپنا نصب العین مقرر کرنے کے بعد انتہائی پستی سے انتہائی بلندی تک گرنے گی حالانکہ ہمیں اس وقت بظاہر اس کے کوئی اسباب نظر نہیں آتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر مقصد کی تکمیل کے اسباب مقصد کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔ جب ہم ایک مقصد کو اپنا لیتے ہیں اور پھر اپنے عزم کو پکا کر لیتے ہیں تو اس کے اند رسے اسباب خود بخود نکل آتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ اندرونی کشمکش مسلمان کے ساتھ خاص ہے بلکہ فرد انسانی جو ایک نصب العین رکھتا ہے اس کشمکش میں گرفتارہے کیونکہ ہر نصب العین کی اپنی الگ نیکی اور بدی ہوتی ہے اور جو شخص کسی نصب العین کی جستجو کرتا ہے وہ اس کی نیکی کی طرف بڑھنے اور اس کی بدی سے ہٹنے کی کوشش کرتاہے اور چونکہ کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی نصب العین سے وابستہ نہ ہوبلکہ یہ کشمکش ہر انسان کا حصہ ہے ۔ زندگی بھر میں فکر و عمل کے لیے ہمارے تمام فیصلے اسی کا نتیجہ ہیں۔ یہی زندگی کی جدوجہد ہے ۔ اسی سے دنیا کی رونق اور زینت ہے اس کے بغیر انسان کی زندگی بے کیف ہو جاتی ہے پھر یہ کشمکش انسان کے لیے مصیبت نہیں بلکہ ایک راحت ہے۔ انسان اس میں لذت محسوس کرتا ہے اور یہ لذت اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ جس نسبت سے کوئی انسان اپنے نصب العین سے محبت رکھتا ہو۔ اسلامی اور غیر اسلامی ریاست کا فرق پھر یہ ایک اسلامی ریاست ہی نہیں جو نصب العین کی جستجو میں فرق کی اعانت کرتی ہے ۔ بلکہ ہر ریاست کی غرض و غایت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور فرد کے مشترک نصب العین کی جستجو میں ایک فرد کی اعانت کرے اور ریاست کی ساری سرگرمیاں خواہ ان کی نوعیت اچھی ہو یا اقتصادی مالی ہو یا تعلیمی‘ یا کوئی اور اس غرض و غایت کے ماتحت ہوتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست اور اس کا نصب العین اور اس سے پیدا ہونے والا نیکی اور بدی کا معیار صحیح اور کامل ہوتا ہے ۔ اور غیر اسلامی ریاست اور ا س کے افراد کا نصب العین اور اس سے اخذ کیا ہوا نیکی اور بدی کا معیار غلط اور ناقص ہوتا ہے۔ 6:: صحت مختصراً ہم نے زمانہ کے غلط تصورات کے خلاف اسلام کے قدرتی رد عمل کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے تو یہ رد عمل اپنے کمال کو پہنچے گا۔ اور اس کے نتیجہ کے طور پر اسلام کو ایک نئی زندگی عطا ہو گی۔ اور لاتعداد برکات کا ظہور ہو گا۔ جن میں سے اہم ترین یہ ہیں: ۱۔ مسلمانوں کا احساس کمتری احساس برتری میں بدل جائے گا اور اس کی وجہ سے ان کے اندر ایک حیرت انگیز قوت عمل پیدا ہو گی۔ ۲۔ اسلام کے بنیادی اصولوں کی معقولیت اور عظمت مسلمانوں کی توجہ کو اس طرح سے جذب کرے گی کہ وہ اپنے اپنے فرقہ وارانہ تعصبات اور اختلافات بھول جائیں گے اور رفتہ رفتہ بالکل ترک کر دیں گے۔ تعلیم کی وجہ سے جوں جوں ان کی محبت نصب العین ترقی کرے گی ان کا باہمی اتحاد اور توافق اور تراحم بڑھتا جائے گا ۔ قومی اتحاد یہاں تک کہ وہ جسد واحد کی طرح بن جائیں گے۔۔ ۳۔ نصب العین کی محبت کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی تمام اخلایق کمزوریاں جو دراصل ضعب محبت سے پیدا ہوئی ہیں۔ اخلاقی تربیت مثلاً نسل پرستی صوبہ پرستی‘ جتھے بندی ‘ رشوت ستانی ‘ بددیانتی ‘ قومی بے حمیتی اور غداری وغیرہ جن کا ذکر میں نے مقالہ کے شروع میں کیا ہے دور ہو جائیں گی ۔ ایک قوم کی تمام قوتوں کا سرچشمہ نصب العین کی محبت ہے اسی سے اخلاقی قوت اقتصادی قوت ‘ سیاسی قوت ‘ فوجی قوت اورقوت کی تمام قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ ۴۔ ہماری اندرونی اصلاح کی وجہ سے دنیا کی توجہ ہمارے نظام تصورات پر جم جائے گی اور دنیا کے لوگ اس کی طرف ایک غیر شعوری کشش محسوس کریں گے۔ اشاعت اسلام جس میں منظم تبلیغ Propaganda سے اور اضافہ ہو گا یہاں تک کہ دنیا کے ہر ملک کے نیک سرشت اور تعلیم یافتہ طبقہ میں ہماری ہمدرد پارٹیاں قائم ہوں گی جو خود بخود ہمارے تصورات کی اشاعت کریں گی۔ اس سے دنیا بھر میں ہماری عزت اور سیاسی قوت میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا۔ ۵۔ ہم علم کے ساتھ پھر وہی شغف پیدا کر لیں گے جو ہمیں اسلا م کے زریں دور میں حاصل تھا۔ میدان عمل میں راہنمائی چونکہ ہم محسوس کریں گے کہ ہمارا نظریہ ایک علمی نظریہ ہے اورا س کی اشاعت کا دارومدار علم کی جستجو اور ترقی پر ہے۔ ہمارا علمی شغف اور انہاک اس قدربڑھے گا کہ ہم پھر علم کے میدان میں دنیا کی راہنمائی کے اس مقام پر فائز ہوں گے جو ہمیں پہلے حاصل تھا ہم علم کی جستجو کر کے فلسفہ خودی کو ہر آن کامل سے کامل تر کرتے چلے جائیں گے اور دنیا بھر کے سائنسدان دانستہ یا نادانستہ طور پر ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہوں گے۔ ۶۔ ہماری اخلاقی برتری کی وجہ سے دنیا کی قومیں ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں گی‘ اور بین الاقوامی انجمنوں میں ۃارے رائے کو وقعت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ میدان سیاست میں راہنمائی چونکہ ہمارے پاس وہ علم ہو گا جو فی الواقع ایک دائمی امن اور اتحاد کی کنجی ہے اور جس کے بغیر امن اور اتحاد عالم کاکوئی ذریعہ نہیں۔ ہم اس قابل ہوں گے کہ سیاست کے میدان میں دنیا کی راہنمائی کریں۔ اور ہماری راہنمائی کی ضرورت دن بدن زیادہ محسوس کی جائے گی۔ ۷۔ رفتہ رفتہ دنیا کی تمام قومیں اسلام کے بنیادی تصورات کی سچائی قبول کر لیں گے اور آخر کار اسلام کی آخری فتح سے کلیتہً اسلام میں داخل ہو جائیں گی۔ ایک نظریہ زندگی پر اقوام عالم کا اتحاد لازمی طور پر ایک عالم گیر ریاست پیدا کرے گا ۔ اور آد م کا عروج اور چونکہ پاکستان فلسفہ خودی کی تحریک کامرکز ہو گا پاکستان اس ریاست عالم کا مرکز بھی ہوگا۔ اس عالمگیر ریاست میں سازگار حالات کی وجہ سے انسان اپنی محبت کو ترقی د ے کر اپنی خودی کو کمال کے اس درجہ پر پہنچائے گا کہ نوع انسانی فن واحد کی طرح متحد ہو جائے گی اس وقت دنیا میں بے نظیر امن و امان اور اتحاد کا دور دورہ ہو گا۔ اور کرہ ارض کا انسان چین کی زندگی بسر کرے گا لیکن اسے پھر بھی چین نہیں ہو گا اور وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کائنات کی فضا میں نئی نئی مہمات کی تلاش میں نکلے گا۔ ارتقا ء کی یہ منزل خیالی نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور انسان اسے ضرور پا کر رہے گا۔ اور کوئی مانے یا نہ مانے لیکن خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اس منزل کی راہنما ہے۔ الحمد للہ الذی بعزتہ وجلالہ تتم الصالحات ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End