پربت کی بیٹی چراغ حسن حسرت دیباچہ آریوں کے اصل وطن کے بارے میں بڑا اختلاف ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ وہ شمالی یورپ سے اٹھ کر پورب اور پچھم کے ملکوں میںپھیل گئے تھے۔ دوسرا گروہ جو پہلے گروہ سے بڑا ہے کہتا ہے کہ ہزاروں برس ہوئے یہ لوگ وسط ایشیا کے میدانوں میں گایوں اور بھیڑ بکریوں کے گلے چراتے پھرتے تھے۔ پھر ایسا زمانہ آیا کہ چشمے اور تال سوکھ گئے۔ دور دور تک ہریاول کا نام و نشان نہ رہا۔ اور دھرتی مینہ کی ایک ایک بوند کو ترس گئی۔ یہ دیکھ کے ان لوگوں نے پانی و چارہ کی تلاش میں دکھن کا رخ کیا۔ کچھ دور تک تو وہ اکٹھے بڑھتے چلے گئے پھر ان میں پھوٹ پڑ گئی ۔ بعض قبیلے پچھم کو بڑھ کر اس دیس میں جا پہنچے جو آریوں کے نام پر ایران کہلاتا ہے۔ کچھ ہندوکش کے پہاڑوں سے اترے اور دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقے میں ڈیرے ڈال دیے۔ آریوں کے اصل وطن کے بارے میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن اتنا سب مانتے ہیں کہ وہ چوڑے ہاڑ۔ مضبوط ہاتھ پائوں۔ لانبے قد اور گوری رنگت کے لوگ تھے۔ اور ایک ایسی زبان بولتے تھے کہ جس سے فارسی اور سنسکرت دونوں زبانیں نکلی ہیں۔ لڑائی کے ڈھنگ اور سپاہ گری کے کرتبوں میں بھی وہ ان لوگوں سے جو ان سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے۔ بہت بڑھے ہوئے تھے۔ وہ گھوڑے پالتے تھے اور لڑائیوں میں ان سے کام لینا جانتے تھے۔ اور جب وہ رتھ دوڑاتے تیر برساتے بڑھتے تھے تو ان کے دشمنوں کے لیے میدان میں پائوں جمانا مشکل ہو جاتا تھا۔ سندھ کے آس پاس کے علاقے کو فتح کر کے وہ یورپ کی طرف بڑھے اورجوقومیں ان سے پہلے یہاں آباد تھیں انہیں ریلتے دھکیلتے اس علاقے میں پہنچے جو پنجاب یعنی پانچ دریائوں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ یہاں اچھی طرح قدم جما کے وہ آگے بڑھے اور گنگا اور جمنا کی وادیوں میں پھیل گئے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آریہ سند ھ کے آس پاس کے علاقے سے گنگا کی وادی تک کتنی مدت میں پہنچے اور راستے میں انہیںکیا کیا مشکلیں پیش آئیں۔ ہاں ویدوں اور دوسری پرانی کتابوں میں کہیںکہیں ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے اس سفر کی کوئی منزل روشن ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا حال بالکل ویسا ہی ہے کہ اندھیری رات میں تاریک تارا ٹوٹا کوندا لپکا ار دھندلکے کی چادر میںلپٹی ہوئی پگڈنڈیوں کی مدھم مدھم لکیریں دم بھر کے لیے اجاگر ہو گئیں۔ پران پرانی کتابوں سے اس بات کی گواہی ضرور ملتی ہے کہ آریوں نے یہ سفر دس بیس برس میں نہیں بلکہ سینکڑوں برسوں میںپورا کیا ہے۔ ان میں سے کچھ پہلے آئے تھے اور کچھ بعد میں جو پہلے آئے تھے ان کے لیے اس کے سو ا کوئی چارہ نہیں تھا کہ پورب اور دکھن کی طرف بڑھیں اورنئے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کر دیں ۔ یہ لین ڈوری صدیوں تک یوں ہی بندھی رہی ۔ دراوڑوں نے جو آریوں سے پہلے اس دیس میں آباد تھے مدتوں لڑائیاں ہوتی رہیں۔ آخر آریوں نے انہیں بندھیا چل کے پار دھکیل دیا۔ لیکن پہلے تین ویدوں کے منتر دریائے سندھ کی وادی اورپنجاب کے میدانوں ہی میں لفظوں کے قالب میں ڈھلے اور دیو مالا نے یہیں جلا پائی۔ ویدوں کے ایک مشہور گیت میں انہیں ندیوں کی تعریف کی گئی ہے ۱؎ ان میں زیادہ تر وہی ہیں جو پنجاب کے میدانوں اور اتر اور پچھم کے پہاڑی علاقوں میںبہتے ہیں۔ ۱؎ ٹیکس مولر کا خیال ہے کہ آریہ وادی سندھ سے وادی گنگا تک چھ سو برس میں پہنچے لیکن بندھیا چل کے دامن میں پہنچ کر ان کی پیش قدمی رک گئی اور کہیں سینکڑوں برس کے بعد ا ن کے چھوٹے چھوٹے گروہ دکھن میں داخلل ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ سے بندھیا چل کا علاقہ پرانے زمانے میں آریہ ورت یعنی آریوں کا وطن کہلاتا ہے۔ برہما ورت پنجاب کے ایک حصے کا نام تھا۔ ٹیکس مولر کی رائے میں آریہ ۱۵۰۰ ق ۔ م میں آئے اور ۹۰۰ق۔ م میں گنگا کی وادی میں پہنچے ۔ وید کے منتر اسی زمانہ کی یادگار ہیں ۔ تلک کے نزدیک وید کے منتروں کی تاریخ ۲۰۰۰ ق ۔ م اور ایک اور عالم جیکوبی کے نزدیک سارھے چار ہزار ق ۔ م ہے۔ آریہ جب پہلے پہل اتر کے پہاڑوں کو چیر کر دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقے میں آباد ہوئے تو وہ نرے گلہ بان اور کسان تھے۔ انہیں اپنے کھیتوں بھیڑ بکریوں کے گلوں اور چراگاہوں کے سوا اور کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی وہ بس اتنا جانتے تھے کہ بارش وقت پر ہو جایا کرے۔ فصل خوب ہو اور میدان جنگل اور پہاڑوں کی گھاٹیاں ہر یاول سے ڈھک جائیں گائیں خوب دودھ دیں اور وہ ان کے بال بچے ہر طرح کے دکھوں اوربیماریوں سے بچے رہیں۔ مینہ دھوپ سردی گرمی آگ اور پانی ان کے دوست بھی تھے اور دشمن بھی۔ مینہ وقت پر ہو جاتا تو وہ اپنے کھلیان اناج سے بھر لیتے تھے۔ گایوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے چارہ کی کمی کی شکایت نہ رہتی تھی۔ لیکن موقع پر بارش نہ ہوتی توسورج کی تیز کرنیں کھیتوں کو جھلک ڈالتیں ۔ درخت کھیت گھاس انسان اور مویشی پانی کو تر س جاتے یا پھر آندھیاں آتیں زور زور کے جھکڑ چلتے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ اکھڑ کر گر پڑتے۔ ہرے بھرے کھیت تباہ ہو جاتے۔ کبھی کبھی اس طرح موسلا دھار بارش ہوتی کہ جل تھل ایک ہو جاتے۔ دریا ندی نالے امڈ آتے اور ان کی لہریں مکانوں فصلوں‘ گایوں‘ بھیڑ بکریوں کو بہا کر لے جاتیں۔ یہ سیدھے سادے گوالے اور کسان ان آندھیوں اور جھکڑوں طوفانوں اور سیلابوں سے ڈرتے تھے اورانہیںاپنے حال پر مہربان کرنا اور اپنا دوست بنانا چاہتے تھے۔ پھر آگ ‘ دھوپ ‘ مینہ ‘ نیلے آسمان اور ٹھنڈی ہوا۔ ندی اور پربت سے غیر قانونی دیوتائوں کی شخصیتیں ابھریں۔ وہ ان کی تعریف میں گیت گانے اور ان کے سامنے چڑھاوے چڑھانے لگے اور ان کی پوجا کرنے لگے۔ شروع شرو ع میں ان کے بہت سے دیوتا تھے۔ کبھی ایک دیوتا انہیں سب سے بڑا معلوم ہوتا۔ کبھی وہ کسی دوسرے دیوتا کی پوجا میں ایسے مگن ہوتے کہ باقی سب کو بھول جاتے۔ پھر آہستہ آہستہ بڑے بڑے دیوتا صرف تین رہ گئے۔ ایک تواگنی یعنی آگ۔ دوسرا سوریہ یعنی سورج‘ تیسرا وایو یعنی ہوا۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ وایو کو بھول کر اندر یعنی آسمان کے دیوتا کو تین بڑے دیوتائوں میں شامل کر لیتے۔ آگے چل کر اندر سارے دیوتائوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ ویدوں میں رگ وید سب سے پرانا ہے۔ اس میںگیت ہی گیت ہیں جن میں ان سیدھے سادے کسانوں اور گلہ بانوں نے سیدھی سادی زبان میں اپنی آرزوئیں دیوتائوں کے سامنے بیان کر دی ہیں لیکن رگ وید کے منتروں سے کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ ان دیوتائوں سے کسی اونچی ہستی کو بھی مانتے تھے ۔ کم از کم انہیں یہ احساس ضرور تھا کہ اندر ‘ وایو‘ اگنی اور سوریہ ہی سب کچھ نہیں ان سے اونچی کوئی ہستی بھی موجود ہے۔ جوں جوں آریہ پچھم اور دکھن کی طرف بڑھتے گئے ان کے مذہب کی سادگی میں بھی فرق آتا گیا۔ یگیہ اور دوسری رسموں ریتوں پر زور دیا جانے لگا اور ویدوں کا وہ حصہ مرتب ہوا جو برہمن کہلاتا ہے۔ اور جس میں یگیہ اور ہون کے قاعدوں کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کائنات کے بھیدوں کی ٹوہ لگانے اور فطرت کے رازوں کی گرہیں کھولنے کا شوق پیدا ہو ا اوراپ نشدھ وجود میں آئے ۔ اگرچہ اپ نشدھوں کے مرتب ہونے سے پہلے ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہو چکا تھا۔ جو تمام دیوتائوں پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور اس تصویر کی ہلکی سی جھلک ہمیں رگ وید میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اب یہ تصور زیادہ واضح اور نمایاں ہو گیا۔ بالآخر اپ نشدھوں نے اسے پرجا پتی یعنی برہما کے سانچے میں ڈھالا اور دیوتا ایشور یعنی خدائے یگانہ کی مختلف صفات کے مظہر سمجھے جانے لگے۔ بعد کے زمانے میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ ویدوں کے عہد کے دیوتائوں کو بھلا دیا گیا اوران کی جگہ برہما وشنو اور شو نے لے لی ۔ ترمورتی کا تصورپہلے بھی موجود تھا۔ اور زمین فضا اور آسمان نے تین دیوتائوں کی صورت اختیار کر لی تھی۔ لیکن برہما شوا اور وشنو نے جنہیں اس تر مورتی یعنی تثلیث کی ایک بدلی ہوئی شکل کہنا چاہیے۔ دوسرے دیوتائوں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی تھی۔ البتہ اندر اب بھی دیوتائوں کا راجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اب وہ اپنی پہلی حیثیت کھو بیٹھا تھا۔ اس زمانے میں ایک اور اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ منو کے دھرم شاستر نے آریوں کو چار گروہوںمیں تقسیم کر دیا۔ شروع شروع میں ذات پات کے یہ بندھن ڈھیلے تھے آہستہ آہستہ وہ اتنے سخت ہو گئے کہ ان میں کوئی لچک باقی نہ رہی۔ ساتھ ہی اوتار کے عقیدہ نے جنم لیا اور وشنو دیو لوک کی نیلگوں فضا سے اتر کر انسانوں کی صف میں کھڑا نظرا ٓنے لگا۔ ہندوستان کی دو مشہور رزمیہ نظمیں مہا بھارت اوررامائن اسی زمانے میں لکھی گئیں ۔ ان کتابوں کو غور سے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دیوتائوں اور کھشتریوں اور برہمنوں میں کوئی ایسا فرق نہیں رہا تھا۔ کبھی کوئی تپسوی برہمن تپسیا کے بل سے تینوں لوکوں کو جیت لینا چاہتا ہے اور دیوتا اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیںَ کبھی کوئی کھشتری راج کمار اتنا اونچا اڑتا ہے کہ دیوتائوں سے جا ٹکراتا ہے۔ اور پھر کبھی دیوتا اپنے سنگھاسن سے اتر کر انسانوں سے آ ملتے ہیںَ ان کی طرح دکھ جھیلتے سختیا ں اٹھاتے محبت کی پینگیں بڑھاتے جدائی اور انتظار کے مزے لوٹتے اور اپنے دلوں میں انسانوں کا سا سوز و ساز اور ترب و تاب پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ مہا بھارت میں اس قسم کی سینکڑوں کہانیاں ہیں جن پر پرانوں نے تصنع اورتکلف کا رنگ چڑھایاہے اور شاعروں نے انہیں اپنی شاعری کے سانچے میں ڈھا ل کے کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ دیو مالا کی ان کہانیوں پر غور کیا جائے ۔ تو معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے بعض زمانہ قبل از تاریخ کے کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض کی حیثیت نیم تاریخی واقعات کی ہے جن میں شاعروں نے اپنی طبیعت کے زور سے رنگ بھرا ہے لیکن بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جن سے پرانے زمانے کے آریہ ہندوئوں کے رجحانات ان کی دبی ہوئی آرزوئوں اور ناتمام خواہشوں کا سراغ ملتا ہے اس کتاب میں تینوں قسم کی کہانیاں موجود ہیںَ اور میں نے ان کا بڑ ا خیال رکھا ہے کہ یہ کہانیاں مہا بھارت پرانوں اور ہندوئوں کی دوسری کتابوں میں جس طرح بیان کی گئی ہیں ا س سے ذرہ بھر ادھر اادھر ہٹنے نہ پائیںَ پربت کی بیٹی کالی داس کی مشہور نظم کمار سنبھو کا چربا ہے۔ شکنتلا یوں تو مہابھارت میں بھی موجود ہے لیکن کالی داس نے اس اصل کہانی میں جگہ جگہ تصرفات کر کے اسے بہت حد تک بدل دیا ہے۔ میں نے کالی داس ہی کی پیرو ی کی ہے باقی کہانیاں مہا بھارت سے لی گئی ہیں۔ بعض لوگوں کو تعجب ہو گا کہ ایک مسلمان اخبار نویس نے ہندو دیو مالا کی کہانیاں لکھنے کی زحمت کیوں اٹھائی؟ لیکن ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے ہندوئوں کے قدیم علم و فن ان کی پرانی داستانوں ان کے فلسفہ ادب اور شاعری کی جانب توجہ کی۔ یہ سلسلہ ہارون الرشید ۱؎ کے زمانے میں شروع ہو ا ور ہندوستان کی تیموری حکومت کے زوال کے زمانے تک برابر جاری رہا۔ اور اسے بھی جانے دیجیے شاہنامہ اور سکندر نامہ جو فارسی شاعری کے بہت بڑے کارناموں میں سے ہیں‘ آخر آتش پرست ایرانیوں اور بت پرستوں یونانیوں کی پرانی داستانیں ہی تو ہیں اور ہندو دیو مالاکی ان کہانیوں سے چنداں مختلف معلوم نہیں ہوتیں۔ میں نے یہ کہانیاں لکھتے وقت عمداً ایسی زبان اختیار کی ہے جو موضوع سے بڑی مناسبت رکھتی ہے شاید کچھ لوگوں کو جو عربی فارسی کی بھاری بھرکم ترکیبوں کے بغیر دو قدم نہیں چل سکتے اسے اردو سمجھنے میں تامل ہو لیکن میں تو اسے اردو ہی سمجھتا ہوں۔ چراغ حسن حسرت ۱ ؎ ہارون الرشید کے دربار میں ایک مشہور برہمن سالی نام تھا جسے عرب مصنف صالح کہتے تے۔ ابن دھن ایک اور فاضل ہندو تھا جس نے سنسکرت کے کئی کتابیں عربی میںمنتقل کیں۔ مسلمان اہل علم میں سب سے زیادہ اہمیت ابوریحان البرونی کو حاصل تھی ۔ اس نے اٹھارہ پران زبانی یاد کیے اور کئی کتابیں لکھیں جن میں کتاب الہند بہت مشہور ہے۔ سلطان زین العابدین والئی کشمیر کو بھی سنسکرت پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس کے عہد حکومت میں سنسکرت کی بہت سی کتابیں فارسی کے قالب میں ڈھالی گئیں بعد کے زمانے میں اکبر کی وجہ سے مسلمانوں میں سنسکرت کی کتابوں نے رواج پایا۔ پربت کی بیٹی ستی جس کا چہرہ چاند سا تھا۔ شوجی ۱؎ کی استری اور وکش ۲؎ جی کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے پتی کے ساتھ کیلاش ۳؎ پربت پر رہتی تھی۔ جہاں سورج کی کرنیں دیودار کے پیڑوں تلے جھولا جھولتی ہیں اور سپید بادل ننھے بچوں کی طرح کھیلتے پھرتے ہیں۔ پر یہ دکھ اسے گھلائے ڈالتا تھا کہ اس کے پتال وکش جی رات دن شیو جی کی نندیا کرتے رہتے تھے۔ کبھی انہیں بھکاری اور کنگال کہتے۔ کبھی بیٹی کو بھکارن کہ کر ؤپجاری کا جی دکھاتے۔ ایک دن انہوںنے ستی کو ایسے ایسے طعنے دیے کہ اس جانہار نے آگ میں کو د کر جان دے دی۔ ستی اپنے جی سے گئی پر اس کی یاد شوجی کے جی سے نہ جا سکی۔ انہیںآٹھوں پہر اس کا دھیان لگا رہتا۔ اور جدھر نظر اٹھتی ستی کی سندر موت کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیتا۔ ہاتھ کی امٹ لکیروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور ہو کے رہتا ہے۔ستی کے نصیبے میں یہی لکھا تھا کہ وہ پربتوں کے راجہ ہماچل کے ہا ں جنم لے کر پھر شوجی کی استری بنے اور کیلاش کی اندھیری گپھائوں میں اجالا کر دے اوریہ بات پوری ہو کے رہی۔ ۱؎ شوجی ہندوئوں کے تین بڑے دیوتائوں میں سے ایک ہیں۔ ویدوں میں ان کا نام رور ہے۔ اپنشدوں اور پرانوں میں انہیں شو شنکر مہیشورا ار مہادیو کہا گیا ہے۔ عام طور پر انہیں فنا اور ہلاکت کی قوت سمجھا جاتا ہے۔ پر ہندو فلسفیوں کے نزدیک شوجی کی ذات زندگی اور موت حیات اور فنا دونوں کا سرچشمہ ہے۔ پرانوںمیں ان کی جو تصویر کھینچی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پانچ چہرے اور چار بازو اور تین آنکھیں ہیں اور تیسری آنکھ ماتھے کے درمیان ہے۔ ۲؎ وکش جی جو برہما کے بیٹے ہیں دیوتائوں میں بڑے اونچے سمجھے جاتے ہیں مہابھارت میںلکھا ہے کہ وہ برہما کے دہنے انگوٹھے سے پیدا ہوئے اور ان کی استری نے بائیں انگوٹھے سے جنم لیا۔ وکش جی کی تیرہ بیٹیاں کیشپ رشی کو بیاہی گئی تھیں۔ بہت سے دیوتا انسان اور حیوان انہیں سے پیدا ہوئے ۔ ۳؎ کیلاش جو شیو جی کا استھان ہے ہمالیہ کے اس حصے کا نام ہے جو مان سروور سے اتر کی طرف ہے۔ اس جنم میں اس کا نام اماتھا ۔ اور لوگ اسے پاربتی یعنی پربت کی بیٹی کہتے تھے۔ اس کی چمپئی بدن ہماچل کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں خی طرح چمکتا تھا۔ جن پر پیلی پیلی دھوپ اپنا سنہری رنگ پھیر دیتی ہے۔ اس کی کمر انگور بیل کی طرح پتلی اور لچکیلی تھی اور آنکھیں مان ۱؎ سرورسی نیلی اور گہری جب وہ کیلاش کی برف بھری چوٹیوں پر نظر ڈالتی۔ تو اس کے ہونٹوں سے جو شہدانہ کی طرح لال تھے ایک سرد آہ نکل جاتی۔ اس وقت اس کی آنکھیں لمبی اور گھنی پلکوں کی چھائوں میں اس طرح بے چین معلوم ہوتیں کہ جیسے مان سروور کا پانی گھنے پیڑوں کے سایے تلے تیز ہوا میں جھکولے کھا رہا ہو۔ وہ پربت کی بیٹی تھی اور پربت کی گود میں کھیل کے پلی تھی۔ پیڑوں سے ڈھکی ہوئی گھاٹی۔ پہاڑ کا ڈھلوان گہرا کھڈ اوراونچی کگراس اس کے لیے گھر آنگن تھے اور سارس اور تیتر بگلے اور مرغابیاں پتھریلی چٹانوں میں گھونسلا بنانے والے باز اور سہمی ہوئی آنکھوں والی ہرنیاں اس کے بچپن کے ساتھی۔ گرمیوں کی رت میں جب برف پگھلتی خوبانی کی کلیاں کھلتیں اور اجلی اجلی پن چادریں سپید سپید پتھروں پر سر پٹکنے لگتیں۔ تو وہ اونچے سروں میں شو جی کی مہما کے گیت گاتی اور لہراتی ہوئی ندیاں گنگناتے ہوئے چشمے سنگت کرتے۔ کبھی اسے کوئی ہرن کسی پیڑ تلے چوکڑیاں بھرتا نظر آجاتا تو وہ اس کے پیچھے دوڑ پڑتی۔ ۱؎ ہمالیہ کی ایک مشہور جھیل جس کا ذکر سنسکرت کی کتابوں میں بکثرت آیا ہے۔ اس جھل سے کوئی دریا نہیںنکلتا۔ ہاں دریائے ستلج کا منبع مانسوور کے قریب ہے۔ راستے میں اسے کوئی چشمہ مل جاتا تو وہ اس کو بھول کر اس میں اپنا روپ دیکھنے لگتی۔ پرھ وہ ایکا ایکی مسکرا اٹھتی اور اس کی مسکراہٹ پھولوں کی مسکراہٹ میںیوں گھل مل جاتی کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتاتھا۔ پھر جب تیز اور سرد ہوا سوکھے پتوں میں سے سرسرتی ہوئی گزرتی اور اس کا ایک جھونکا اما کے گالوں کو تھپتھپاتا اس کے بالوں کو کاندھوں پر بکھیر دیتا تو وہ جان لیتی کہ جاڑا آ گیا ۔ پر وہ برف اور آندھی کہر اور دھند سے ڈرتی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ پربت کی بیٹی تھی۔ اور پربت ۱؎ کی بیٹی کو کون ڈرا سکتا ہے۔ وہ چاہتی تو اپنی گرم گرم سانس سے برف کو پگھلا دیتی۔ بادلوں کو ہوا میں یوں اچھال دیتی کہ ان کا کوئی اتا پتہ نہ ملتا اور جاڑے کی تیز ہوا تو اسے اپنی سانس کی طرح جانی پہچانی معلوم ہوتی تھی کیونکہ وہ کیلاش کی چوٹیوں کو چھو کے آئی تھی۔ ۱؎ پاربتی یا پربت کی بیٹی کوئی فانی انسان نہیں۔ بلکہ شوجی کی شکتی ہے۔ اس کے دو روپ ہیں اپنے پہلے روپ میں وہ گوری ستی‘ اما‘ پاربتی اورہماوتی ہے۔ اور دوسرے روپ میں کالی درگا اور چنڈکا ۔ پہلے روپ میں وہ حسن کی موت ہے۔ اور دوسرے میںتباہی کی دیوی۔ اسے مہا دیوی مہا مایا اور بھیروی اور بھوانی بھی کہتے ہیں۔ کھلی ہوا اور پیلی دھوپ میں نیلے آسمان کے سایے تلے اس کے جوبن کی جوت یونہی بڑھتی گئی۔ پرجوں جوں اس کا روپ نکھرتا جاتا تھا۔ اس کے دل میں چاہت کی آگ زیادہ تیز ہوتی جاتی تھی۔ اب اس میں اگلی سی اچپلاہٹ نام کو نہ رہی تھی۔ وہ کچھ کھوئی کھوئی اور اداس نظر آتی تھی ۔اور کبھی کبھی تو اسے ایسی چپ لگ جاتی کہ جنگل کے پکھیرو جنہوںنے اسے مسکراتے ہوئے قہقہے لگاتے اور سورج کی ہر کرن کی طرح سرد اور اندھیری گپھائوں میں جگمگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ حیران ہو ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے ’’پربت کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ اس کے جی کو شیو بھگوان نے کچھ ایسی کچھ چٹیک لگا دی تھی کہ وہ رات دن انہی کے نام کی سمرن کرتی رہتی۔ وہ لمبے لمبے برت رکھتی۔ بھوک پیاس کے دکھ سہتی‘ بھگوان کے سامنے بیل کے پتوں‘ جنگلی بیروں اور آنسوئوں کی لڑیوں کے چڑھاوے چڑھاتی۔ پوشوجی کے من میں تو مستی بسی ہوئی تھی۔ انہوںنے اما کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ وہ کبھی کبھی اس کے پائوں کی چاپ سے اتنا جان لیتے تھے کہ ہماچل کی بیٹی پوجا کرنے آئی ہے۔ پر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پربتوں کے راجہ کی بیٹی کیسی ہے؟ یہ دیکھ کر دیوتا سناٹے میںا ٓ گئے۔ ایک دوسرے سے کہنے لگے کوئی ایسی تدبیر ہونی چاہیے کہ مہا دیو ستی کو بھول کر اما کو چاہنے لگیں۔ کیونکہ برہما جی کہہ چکے ہیں کہ جب شوجی پاربتی سے بیاہ کریں گے ان کے ہاں ایک لڑکا ۱؎ پیدا ہو گا جو سنسار کو راکشسوں کے ۲؎ ظلم سے چھڑائے گا۔ اس لیے جب تک اما سے مہادیو کا بیاہ نہیں ہوتا۔ دھرتی پر یونہی پاپ کا اندھیرا چھایا رہے گا۔ آخر دیوتائوں کے راجہ اندر ۳؎ نے لکشمی ۴؎ کے بیٹے مدن ۵؎ کو بلا بھیجا جو پریم کا دیوتا ہے۔ اور جس کے زہریلے بانوں سے انسان تو انسان دیوتا بھی نہیں بچ سکتے اور کہنے لگے کہ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ مہا دیو کسی ڈھب اما کو چاہنے للگیںَ اگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکے تو تمہارے بان جو پریم کے بس میں بجھے ہوئے ہیں اور کس کام آئیں گے۔ ۱؎ شواور پاربتی کے لڑکے کا نام کارتکیہ ہے اسے سکندر اور کمار بھی کہتے ہیں۔ وہ دیوتائوں کا سنیاسی (سپہ سالار) اور جنگ کا دیوتا ہے۔ ۲؎ ایک مخلوق کانام راون جو رام چندر جی کے ہاتھوں مارا گیا راکشسوں کا ہی سردار تھا۔ رامائن میں لکھا ہے کہ جب ہنومان جی لنکا گئے تو انہوںنے وہاں ہر قسم کے راکشس دیکھے۔ ان میں سے کچھ خوبصورت تھے کچھ بدصورت کچھ موٹے ‘ کچھ دبلے پتلے‘ کچھ لمبے‘ کچھ بونے‘ بعض کے سر ہاتھیوں جیسے تھے۔ بعض کے سانپوں کے مانند۔ اس زمانے کے عالموں کا خیال ہے کہ راکشس وہ لو گ تھے جو آریائوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے آریائوں نے انہیں دکن کی طرف دھکیل کر ملک پر قبضہ کر لیا۔ ۳؎ اند آکاش کا دیوتا اور دیوتائوں کا راجہ ہے اور وہ مینہ برساتا ہے اور فصلیں اگاتاہے بجلی کاکڑکا (رعد) اور دھنک (قوس قزح) اس کے ہتھیار ہیںَ سورگ کا راج بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ ایراوت اس کے ہاتھی کانام اور اندرانی اس کی بیو ہے۔ اندر آریوں کا پرانا دیوتا ہے ویدوں میں جگہ جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔ ۴؎ لکھشمی دولت کی دیوی ہے اسے شری بھی کہتے ہیں۔ پرانوں میں لکھا ہے کہ جب دیوتائوں نے سمندر کو بلو کے اس میں سے امرت نکالا تو لکشمی ہاتھ میں کنول کا پھول لیے سمندر کی جھاگ سے نمودار ہوئی ہری بنس میں سنسکرت کی مشہو ر نظم ہے کام دیو کو لکشمی کا بیٹا بھی کہا گیا ہے۔ شو کانام سن کر مدن کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اور اس کی استری رتی ایسے کانپنے لگی جیسے مینہ کی بوچھاڑ میں چمپا کی پنکھڑی کانپ رہی ہو۔ مدن کو مہادیو پر تیر چلانے کا ہوائو تو نہیں پڑتا تھا پر جب اندر نے کہا گھبراتے کیوں ہو رتوں کا راجہ بسنت ۱؎ جس کی سانس میں کلیوں کی باس ہے تمہارے ساتھ ہو گا۔ تو مدن کی ٹوٹی ہوئی ہمت بندھ گئی۔ اور وہ کمان کو کندھے پر ڈال ۔ رتی کو ساتھ لے کیلاش کی طرف چلا۔ آگے آگے بسنت پھول بکھیرتا جا رہا تھا اور پیچھے پیچھے یہ دونوںجنے آ رہے تھے۔ اس سمے سارے جنگل اور بن سنسا ن تھے۔ پربت کچھ اس ڈول سناٹے کی طرح سوکھ رہی تھی کہ جییس ان کے دل میں کوئی بڑا بوج ہو۔ ہوار کی ہوئی تھی۔ پن چادروں کا شور مدھم پڑ گیا تھا۔ پکھیرو گھونسلوں میںدبکے ہوئے تھے۔ چشمے اورتال آنکھوں میںآنسو ڈبڈبائے پہلول میں کسک دبائے سر نہوڑائے کھڑے تھے ہاں کبھی کبھی ہوا سسکیاں بھرنے لگتی۔ ۱؎ بسنت بہار کا دیوتا جو مدن کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر خواہشیں اسی موسم میں بیدار ہوتی ہیں۔ تو یہ خیال ہوتا کہ اب یہ آنسو پربت کے گالوں پر پھوٹ بہیں گے۔ پر جب پانچ تیروں والا دیوتا مدن ۱ ؎ اپنی استری رتی کو لے کے کیلا ش کے بنوں میں پہنچا تو ایسا معلوم ہونے لگا کہ دو چنچل کرنیں پربت کی گود میں مچل رہی ہیں۔ جن کی جوت سے اندھیرے جنگلوں میں اجالا ہو گیا ہے۔ چٹانیں ا س طرح دمک اٹھیں کہ جیسے ان کے سینوں میں آگ دہک رہی ہو۔ پچھو ا لہکی چشمون کاپانی ہلکورے لینے لگا۔ ندیاں شور مچانے لگیں اور لال اور سپید پتھروں پر سر پٹکنے لگیںَ ہری ہری دوب کے فرش پر پھولوں اور کلیوں کے ڈھیر لگ گئے اور ہوا ان کی خوشبو سے مہل اٹھی۔ شفتالو کی ٹہنیاں خوبانی کے پیڑ میں پھیلیں۔ انار کی کلیاں انگور کے پتوں میں کھچڑی ہو گئیں چنبیلی کی ڈالیاں لچکے کے ساتھ اٹھیں اور آپس میں مل گئیں۔ عشق پیچہ بادام کی ٹہنیوں سے لپٹ گیا اور انگور نے اپنی نازک باہیں چنار کے گلے میں ڈال دیں۔ کنول کی سپید کلیاں ندی کے پانی میں اپنا روپ دیکھنے لگیں۔ بھونروں کے جھنڈ گونجنے لگے۔ پکھیرو سرک کے ایک دوسرے کے پاس آ گئے ۔اور ان کی کوک سے دلوں میں ہوک سی اٹھنے لگی۔ ۱؎ مدن کے پانچ تیز پانچ پھول ہیںَ وہ آم کی پتلی ٹہنیو ں سے کمان بناتاہے۔ مدھ مکھیاں کمان کی تانت کا کام دیتی ہیں یونانی دیو مالا میں ایروسی یعنی کیوپڈ محبت کا دیوتا ہے۔ یوں تو وہ بھی تیر کمان سے دلوں کا شکار کرتا پھرتا ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ مدن نے دور سے دیکھا کہ درختوں کے جھرمٹ میں دیودار کا ایک پرانا پیڑ ہے جس کی ٹھنڈی چھائوں سے دل میں ٹھنڈک پڑتی ہے۔ پیڑ تلے مرگ چھالا ہے اور مرگ چھالا سے کچھ دور ہٹ کے کیشپ ۱؎ کا بیٹا نندی سنتری کی طرح پہرہ دے رہا ہے۔ مدن نے کندھے سے کمان اتاری۔ پرندے چہکارے بھرنے لگے۔ کیلاش کی گپھائوں میں جو تپسوی مدتوں سے بیٹھے تپسیا کر رہے تھے۔ ان کا بھی من ڈول گیا۔ ایکا ایکی نندی نے کہا چپ اور بن پر سناٹا چھا گیا۔ پرندوںکے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ہوا نے سانس روک لیا۔ مدھ مکھیاں گاتے گاتے ٹھٹھک گئیں پھر مدن کو دیودار کے پیڑ تلے شو کی جھلک نظر آتی۔ گورا رنگ اور س پر بھبوت کا بانہ جیسے راکھ میں آگ چمک رہی ہو۔ گلے میں کھوپڑیوں کی مالا بازوئوں پر لمبے لمبے ناگ لپٹے ہوئے۔ گورے ماتھے پر ہلکی ہلکی سی لکیر جیسے کسی پنچھی کے پنکھ چشمے کے تھمے ہوئے پانی سے چھو کر اس پر سلوٹ سی ڈال گئے ہوں۔ ۱؎ کیشپ رشی سات مشہور رشیوں میں سے ایک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ برہما کے پوتے تھے۔ وایو پوران میں لکھا ہے کہ شوجی کا بیل نندی ان کا بیٹا ہے۔ لیکن صرف ایک نندی ہی پر موقوف نہیں۔ بہت سے دیوتا ان کی اولاد میں سے ہیںَ کیشپ رشی وکش جی کی تیرہ بیٹیوں سے بیاہے گئے تھے۔ جن میں سے سب سے بڑی کا نام ادیتی تھا۔ ادیتی سے کئی دوسرے دیوتا پیدا ہوئے اور باقی سے دوسری مخلوق نے جنم لیا۔ مدن سمجھ گیا ۔ یہ مہادیو کی تیسری آنکھ ہے جس میں سارے سنسار کو بھسم کر ڈالنے کی شکتی ہ۔ یہ اگر کھل گئی تو کوئی اس سے نہ بچ سکے گا۔ یہ سوچ کے اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ مڑا اور بسنت اور رتی کے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے جھاڑیوںمیں دبک گیا۔ وہ پریم پتی جگت جیت مد ن جس نے نہ جانے کتنے مردوں اور عورتوں کو پریم کے بندھنوں میں جکڑ دیاتھا۔ وہ کام کا دیوتا جو بھگوان کے من میں سب سے پہلے پیدا ہوا وہ دلوں کا شکاری جس کے بانوں نے ان گنت سینون کو چھید ڈالا تھا۔ آج سہما ہوا تھا اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں موتیوں کی طرح دھلک رہی تھیں اور سانس پچھوا کی طرح چل رہا تھا۔ بسنت نے کہا کوئی آ رہا ہے۔ رتی کہنے لگی سچ مچ کوئی آ رہا ہے۔ پر یہ کون ہے جو مہادیو کے استھان میں یوں بے دھڑک چلا آ رہا ہے۔ یہ کوئی دیوتا یا کوئی تپسوی جس نے تپسیا کے بل سے تینوں لوکوں ۱؎ کو اجیت کر لیا ہے ۔نہیں یہ تو ایک سندر استری ہے جس کے روپ میں سورج کی جوت اور جس کے جوبن میں کونپل کی پھبن ہے اوریہ کسی گندھرو ۲؎ کی کنیا ہے جو بادلوں پر پائوں رکھتی دھنک کے چنچل رنگوں کو روندتی ابھی ابھی آکاش سے اتری ہے ۔ ۱؎ تین دنیا میں دھرتی سورگ (بہشت) اور پاتل مگر ہندوئوں کی بعض کتابوں میں سات بعض میں آٹھ لوکوں کا ذکر آیا ہے۔ ۲؎ گندھرو ایک آسمانی مخلوق کا نام ہے جو دیوتائوں کو گا بجا کے رجھاتی ہے۔ اسی لیے موسیقی کو گندھرو بدیا بھی کہتے ہیں۔ یا سورگ کی اپسرا ہے ۱؎ جن کے گورے گورے پائو ں تلے پربت کا دل مارے خوشی کے دھڑک رہا ہے۔ نہیں یہ تو کسی گندھرو کی کنیا ہے نہ سورگ کی اپسرا۔ یہ پربتوں کے راجہ ہماچل کی بیٹی اما ہے جو شروھا کے بل اور بھگتی کی شکتی سے وہاں آ پہنچی ہے۔ جہاں دیوتا بھی پائوں نہیں رکھ سکتے۔ اما مہادیو کے سامنے پہنچ کر ڈھنڈوٹ کو جھکی تو اس کے بالوں کی ایک لٹ کھل کے اس کے تمتماتے ہوئے گالوں پر آ رہی۔ مدن نے پانپتے ہوئے ہاتھوں سے کمان میں تیر جوڑا اور شو جی نے مسکرا کے آنکھیں کھول دیں۔ کتنے لال ہیں اس کنیا کے ہونٹ ۔ لال اور رس بھرے۔ یہ خیال شو جی کے من میں لو کی طرح لپک اٹھا۔ انہوںنے پہلی بار پربت کی بیٹی کو آنکھ بھر کے دیکھا تھا۔ پھر وہ ننھی سی لو کانپی اور کانپ کربجھ گئی۔ میرے جی میں یہ بات کہاں سے آئی۔ کیسے آئی۔ میرے من نے اسے جنم نہیں دیا۔ یہ تو کہیں باہر سے آئی ہے۔ ۱؎ گندھرو کی استری سورگ کی ایک حسین مخلوق حور چپکے چپکے دبے پائوں چوروں کی طرح لال اور رس بھرے ہونٹ یہ بات میرے من میں کس نے ڈال دی کون ایسا ہے؟ یہ سوچتے سوچتے ان کی بھویں تن گئیں اور پھر ایکا ایکی انہوںنے اپنی تیسری آنکھ کھول دی۔ وہی آنکھ جس میں تمام سنسارکو جلا ڈالنے کی طاقت ہے۔ لال لال شعلے نکیلی زبانیں نکالے ہوئے بڑھے اور دلوں کے شکاری کو جو جھاڑیوں کی اوٹ میں کمان کا چلہ لگائے گھات لگائے بیٹھا تھا۔ جلا کر راکھ کر ڈالا۔ رتی نے اپنی آنسو بھری آنکھیں اٹھائیں مرگ چھالا سونا پڑا تھا۔ شوجی کہیں نہیں تھے۔ ہاں اما پھولوں کی بھری ڈالی کی طرح سر نیہوڑائے کھڑی تھی۔ اس کا جوڑا اب پوری طرح کھل گیا تھا۔ اور لمبے لمبے با ل اس کے پائوں میں لوٹ رہے تھے۔ جب اما نے دیکھا کہ اس کا روپ اور جوبن شوجی کے من سے ستی کی یاد کو نہیںمٹاسکا۔ تو اسنے سارا گہنا اتار ڈالا۔ ست لڑے ہار کو یوں نوچ کے پھینک دیا کہ اس کی رگڑ سے چندن کا لیپ آپ ہی آپ اتر گیا۔ کان کے بندوں کو غصہ میں یوں نوچا کہ کان لہولہان ہو گئے۔ پھولوں کے جھومروں کو پائوں تلے روند ڈالا اور ریشم کا سوہا جوڑا جس میں سونے کے تار گندھے ہوئے تھے اتار کے درختوں کی بھوری چھال سے اپنا بدن ڈھانک لیا۔ اور گھر بار چھوڑ کر ایک سنسان جنگل میں جو آبادی سے دور ایک راہ باٹ سے کٹا ہوا تھا کٹیا بنا کے رہنے لگی۔ پراس برن میں بھی اس کے روپ کی چمک دمک کم نہیں ہوئی تھی۔ اور بھوری چھال کے جوڑے میں اس کا نکھرا ہوا جوبن یو ں جھلکتا دکھائی دیتاتھا جیسے پچھلے پہر کے دھندلکے میں پو پھٹ رہی ہو کیونکہ کنول کا پھول کائی میں گھرا ہو ا بھی بھلا معلوم ہوتا ہے اور بھونرا اس کے ہونٹوں کا رس پینے کے لیے اس کے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ پچھلے پہر وہ ندی پر جا کر اشنان کرتی اور لوٹتے وقت پودوں کو پانی دینے کے لیے گھگری بھر لایت۔ جب بھوک بہت ستاتی تو پھل پھلاری اور پیڑوں کی جڑیں کھا کے گزارہ کرتی اور رات کے سمے اپنی نازک بانہہ کو تکیہ بنا کے پتھریلی زمین پر پڑ رہتی۔ جنگل کے پنچھی پکھیرو اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ اور ہرن ہرنیاں اس سے یوں ہل گئی تھیں جیسے وہ کوئی ہرنی ہے جو راستہ بھول کر اس طرف کو آنکلی ہے۔ آہستہ آہستہ اسے بھوک پیاس بھی بسر گئی۔ پہاڑ سی راتیں آنکھوں میں کٹنے لگیںاور نیند اس کی آنکھوں کو یوں چھوڑ چھاڑ کے چلی گئی کہ پھر اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔ اب تو اس کا یہ حال ہوا کہ جو تھوڑا بہت وقت ان دھندوں میں خرچ ہو جاتا تھا وہ بھی تپسیا میں کٹنے لگا۔ اس کا جسم جو نئی کھلی ہوئی کلی کی طرح نرم اور تازہ تھا کملا گیا مال پھیرتے پھیرتے انگلیوں پر گٹھے پڑ گئے پر اس کے جب تپ میں کوئی فرق نہ آیا۔ اما کو یونہی تپسیا کرتے مدتیں بیت گئیں۔ ایک دن وہ کٹیا کے دروازے میں کھڑی تھی۔ ایک برہمن جو شاید راستہ بھول گیا تھا ادھر آ نکلا۔ کٹیا کے پاس سے گزرا ۔ اور اما کو دیکھ کر رک گیا۔ اما نے برہمن دیوتا کے پائوں دھلائے۔ ان کی پوجا کی اور پھل پھلاری ان کے سامنے رکھ کر چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ برہمن پہلے توٹکٹکی لگاؤئے اس کے منہ کو تکتا رہا۔ پھر کہنے لگا۔ اے کنول کے سے نینوں والی ‘ میں دیکھتا ہوں کہ ہرن تجھ سے بہت ہلے ہوئے ہیں۔ وہ کش ۱؎ گھا س کے تنکے تیرے ہاتھوں سے چھینے لیے جاتے ہیں۔ اور تو بھی ان ہرنوں اور ہرنیوںمیںخوش معلو م ہوتی ہے۔ پرسندری ایک بات پوچھوں برا تو نہ مانے گی۔ تو اس سنسان بن میں کیوں اپنی جوانی گنوا رہی ہے۔ تجھے تو اس چاند ایسے چہرے سے کسی راجہ کے نواس کو اجالنا چاہیے تھا کوینکہ یہ چھال تیرے بڑھاپے کا سنگار ہے۔ ایسا تپسیا تو ہم ایسے بوڑھوں کا کام ہے جو زندگی سے نراش ہو چکے ہیں۔ میری سنے و اس جنگل کو چھوڑ کر اپنے گھر چلی جا۔ ۱؎ ایک قسم کی گھاس جو پوجا کے کام آتی ہے۔ یہاں تیری رسیلی جوانی کی بہار دیکھنے والا کون ہے؟ اچھا میں سمجھ گیا۔ تیری ٹھنڈی سانس نے تیرے دل کا بھید کھول دیا ہے۔ تو نے کسی کی چاہت میں یہ دھج بنا رکھی ہے۔ پر دھرتی پر کون ایسا ہے جسے تو چاہے اور وہ تیرے قدموں میں نہ آ گرے۔ اس کے سینے میں دل کی جگہ پتھر کی سل ہو گی کہ وہ تیرے اداس چہرے بکھرے بکھرے بالوں اور آنسو بھری آنکھوں کو دیکھتا ہے اور اس کا جی نہیں پسیجتا۔ نہ تیرے ہاتھوں میں مہندی ہے نہ تیری آنکھوں میں کاجل تیرے کان بندوں سے خالی ہیں اور تیرے سینے کو جسے ہاروں سے ڈھکا ہونا چاہیے تھا۔ سورج کی تیز کرنیںجھلس رہی ہیںَ وہ کون ہے جو یہ سب کچھ دیکھتا ہے اور اسے تیری حالت پر ترس نہیںآتا۔ مجھے تو کوئی ایسا برہمن سمجھتی ہے جو صرف باتیں کرنا جانتا ہے۔ پر اے پتلی کمر والی کنیا۔ میں نے بھی تپسیا کی ہے مجھ میں بھی اتنی شکتی ہے کہ اگر چاہوں تو تیرے پیتم سے تجھ کو ملا دوں۔ اس لیے مجھ سے اپنا بھید مت چھپا اور صاف صاف بتا دے کہ کس کی چاہت تیرے جی کی گاہک ہوئی ہے؟ اما بولی برہمن دیوتا میں شو بھگوان کے سوا اور کسی کو نہیں چاہتی۔ برہمن ٹھٹھا مار کے ہنسا۔ اس کی ہنسی میں بادل کی گڑگڑاہٹ تھی اور اس کے اجلے اجلے دانت بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔ شو میں شوکو جانتا ہوں۔ پر اس کے پاس کیا رکھا ہے۔ کہ تجھ ایسی دیوی اس کی چاہ میں اپنا جوبن گنوائے۔ شو تو بھکاری ۱؎ ہے اسے تو پہننے کو کپڑا بھی نہیں جڑتا اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ گیت جوڑنے والے شاعروں کی طرح سپنے دیکھتا رہتا ہے۔ اما ٹھنڈی سانس بھر کے کہنے لگی کہ دیوتائوں کے ڈھنگ نیارے ہیں اؤان کی باتوں کو ہم تم نہیں سمجھ سکتے تم شو کو بھکاری کہتے ہو پر دیوتائوں کا راجہ اندر اسے ڈنڈوٹ کرتا ہے۔ اور برہما جس نے سارے سنسار کو پیدا کیا ہے اس کی مہما کے گیت گاتا ہے۔ برہمن بولا میری سنو تو۔ اما کی بھنویں تن گئیں اور وہ کڑک کے بولی۔ چپ میں اور کچھ سننا نہیں چاہتی۔ پر ایکسا ایکی اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے پائوں من من بھرکے ہو گئے ا س کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اور یوں وہ رک گئی جیسے پتھریلی چٹان کا ایک ٹکڑا کسی چنچل ندی میں ٹوٹ کر آ پڑے اور اس کا راستہ روک لے۔ کیونکہ برہمن کی جگہ مہا دیو کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ۱؎ شوجی کا لباس شیر یا ہاتھی کی کھال بتایا گیا ہے ان کے سر پربالوں کا جوڑا ہے۔ جو سنکھ کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ گلے میں کھوپڑیوںکی مالا ہے اور بازوئوں سے سانپ لپٹے ہوئے ہیں۔ اما اپنے روپ اور جوانی سے تو شو کے من کو لبھا سکی۔ پر اس کا تپ وشانا تھ ۱؎ کو اس کے دوارے لے آیا۔ پھر وہ پانچ پتھروں والا دیوتا بھی جی اٹھا۔ جو مردوں اور عورتوں کے پریم کو بندھنوں میں جکڑتا ہے۔ اور جس نے اپنے زہریلے بالوں سے ان گنت سینے چھید ڈالے ہیں۔ جب آموں پر مور آتا ہے اور ار بھنوروں کے جھنڈ گونجنے لگتے ہیں تو بدن بے کھٹکے دلو ں کا شکار کرتا پھرتا ہے۔ پر جب سے اس نے شیو جی پر تیر چلانے کا ہوائو کیاہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔ ۱؎ وشواناتھ جی شو جی کا نام ہے۔ جس کے معنی سب کا مالک ہے۔ ٭٭٭ ساوتری مہاراجہ شو پتی ۱؎ کی ایک بیٹی ساوتری تیرتھ یاترا کو جا رہی تھی۔ بیچ میں سنہری رتھ تھی۔ جس پر لال پردے ٹنکے ہوئے ھتے۔ دہنے ہاتھ سورما سپاہی گھوڑے مارے چلے آ رہے تھے۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں سے رتھ کا پردہ سرک جاتا تو راجکماری کی ایک جھلک نظر آ جاتی وہ سکھیوں میں اس طرح گھری بیٹھی تھی جیسے تاروں کے جھرمٹ میں چاند۔ رتھ میں ناگوری بیل جتے ہوئے تھے جن کے سینگوں پر سونے کی سنگوٹیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ بھاری بھاری پہیوں کی گڑگڑاہٹ میں راجکماری کی البیلی سکھیوں کی رسیلی ہنسی اور ان کی چوڑیوں کی کھنک دبی جاتی تھی۔ ۱؎ اشوپتی لفظی ترجمہ گھوڑوں کا مالک۔ دیکھو سنسکرت کا اشو اور فارسی اسپ ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں۔ رتھ کے آگے آگے ڈھلیت اور بلم بردار تھے ان کے آگے کئی ہاتھی جن کی زری کی جھم جھماتی جھولیں پڑی تھیںَ پیچھے سامان کے چھکڑے جن پر کھانے پینے کی چیزیں خیمے ڈیرے تنبو شامیانے راوٹیاں لدی چلی آ رہی تھیں۔ یہ لوگ پچھلے پہر تاروںکی چھائوں میں گھر سے چلے تھے۔ اور اب ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے۔ سپید پگڈنڈی پر تازہ کلیوں اور پتوں کا فرش تھا۔ دونوں طرف رس اور مولسری کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے۔ بیچ بیچ میں کہیں کہیں مالتی کی جھاڑیاں سر جھکائے کھڑی تھیں۔ چاند ابھی نہیںنکلا تھا۔ پردرختوں پر ایک اجلی اجلی سی دھند چھائی جا رہی تھی۔ اور سرس کی ان گنت کلیاں تاروں کی طرح چمک رہی تھیں کبھی کبھی کوئی پنچھی گھوڑوں کی ٹاپوں اور ہاتھوں کے قدموں کی دھمک سے گھبرا کے چیخ اٹھتا۔ ایک دفعہ جھاڑیاں ہلیں اور ایک ہرن اس طرح بھاگنے لگا جیسے شکاری کتے اس کا پیچھا کر رہے ہوں۔ راجکماری ساوتری نے کبھی محل سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ یہ سنسان جنگل کلیوں سے لدے ہوئے پیڑ۔ ہریاول مڑتی تڑتی پگڈنڈی کلیوں اور پتوں کا فرش رات کے دھندلکے میں ایسے لگتے جیسے وہ سپنا دیکھ رہی ہے۔ پر یہ سپنا کتنا سہانا اور کتنا انوکھا تھا۔ بالکل ان جانا ان بوجھا دیوتائوں کے کسی ایسے بھید کی طرح جس کی ٹوہ لگانا انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ اور تاروں بھری رات تو اسے یوں معلوم ہوتی تھی جیسے مان گود پھیلائے کھڑی ہو۔ اس سمے ساوتری کا جی چاہتا تھا کہ وہ رات کی پھیلی ہوئی گود میں پھولوں اور پتوں کیفرش پر سو جائے اور دسدا ایسے ہی سہانے سپنے دیکھتی رہے۔ یہ لوگ صبح ہوتے ہوتے جنگل میں سے نکل گئے۔ پر وہ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ دن چڑھ آیا۔ یہ دیکھ کے وہ ایک ندی کے کنارے درختوں کی چھائوں میں اتر پڑے۔ اور آن کی آن میں تینوتان کے ایک نگر سا بسا دیا۔ دن یہیں گزارا جب رات بھیگ چلی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تو پھر چل نکلے۔ ساوتری کو یوں ہی سفر میں کئی مہینے گزر گئے۔ اس نے بڑے بڑے تیرتھوں کی یاترا بھی کی جو رشمی منی سادھو اور تپسوی آبادی سے من موڑ جنگلوں ؛میں بیٹھے جوگ سادھ رہے تھے۔ ان کے بھی درشن کیے کہیں وہ دو تین دن ٹھیری اور کہیں آٹھ دس دن ڈیرے ڈالے پڑی رہی۔ ایک دن راجکماری کی سواری کسی جنگل میں سے جا رہی تھی کہ اسے تنگ پگڈنڈی پر جو جھاڑیوں میں سے بل کھاتی ہوئی چلی گئی تھی ایک مرد نظر آیا جب سواری پاس پہنچی تو اس کے پاس سے وہ ہٹ کر ایک طرف ہو گیا۔ اب چلمن کی اوٹ سے اس کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ وہ ایک بلونت نوجوان تھا۔ انیس بیس کی عمر ہو گی۔ بھیگتی مسیں اس کی رنگت تیز دھوپ اور ہوا میں سنولا گئی تھی۔ پر اس کے بازو سڈول تھے ۔ بھراہواجسم پھرے ہوئے ڈنرا۔ چوڑا سینہ۔ ہوا سے اس کے بال بکھر کر اس کے ماتھے پر یوں لہرا رہے تھے جیسے کہ اس کے چہرے کا ایک حصہ ڈھک گیا تھا۔ پر اس کے روپ اک سہانا پن چھپائے نہ چھپتا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑا تھا دوسرے میں لکڑیوں کا گٹھا اور وہ پگڈنڈی کے کنارے پیڑوں کے جھرمٹ میں یوں چپ چاپ کھڑاتھا جیسے وہ بھی کوئی ہرا بھرا پیڑ ہے۔ اسے دیکھ کر ساوتری کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ یہ چہرہ تو کچھ جانا پہچانا معلوم ہوتاہے۔ میں ںے اس سجیلے جوان کو پہلے کہیں دیکھا ہے پر کہاں یہ یاد نہیںپڑتا۔ یہ کون ہے جو میری آتما پر اس طرح چھایا جاتا ہے۔ جس طرح روپہلی چاندنی دھرتی پر چھا جاتی ہے۔ اس چہرے کو تو میں نے اپنے سپنوں کے نیلے نیلے دھندلکے میں سے یوں ابھرتے دیکھا ہے جیسے برکھا رت میں دھنک نکل آتی ہے۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو چھوا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن سنی ہے ۔ میرے لمبے لمبے بال اس کے بھورے کندھوں پر بار بار بکھرے ہیںَ بھگوان یہ تو وہی ہے۔ میرے پچھلے جنم کا ساتھی ۔ جب سے برہما ۱؎ نے سنسار کی رچنا ر رچی ہے۔ ۱؎ برہما جی کی زندگی کا ایک دن ۲ ارب ۱۶ کروڑ برس کا ہے ۔ دنیا اتنی مدت تک جوں کی توں رہتی ہے پھر تباہ ہو جاتی ہے اور برہما جی نئے سرے سے اس کی رچنا رچتے یعنی اسے پیدا کرتے ہیں۔ وہ یونہی میرے دل کے سنگھاسن پر بیٹھا راج کرتا رہا ہے۔ پر یہ بجوگ جیسے آ پڑا۔ ہم ایک دوسرے سے کیسے بچھڑے۔ میں اس سے اتنے دنوں کیسے الگ رہی۔ پھر یہ کتنے اچنبھے کی بات ہے کہ جب میں اسے قریب قریب بھول گئی تو وہ درختوں کی اوٹ سے اس طرح نکل کر میرے سامنے آ گیاجیسے کوئی بھولا بسرا خیال من کے کسی کونے سے اچانک نکل پڑے۔ (۲) گھر پہنچتے پہنچتے اس بات کا چرچا پھیل گیا کہ راجکماری ساوتری نے ایک لکڑ ہارے سے بیاہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ لوگوں کو یہ سن کر اچنبھا تو ہوا۔ پر وہ یہ سوچ کر چپکے ہو رہے کہ راجکماری دھرک کی مورت ہے۔ اس نے جو کچھ کیا ہو گا سوچ سمجھ کے کیا ہو گا۔ ار تو اور جب مہاراجہ اشوپتی کو یہ خبر ملی تو انہوںنے بھی یہی کہا کہا س لکڑ ہارے میں کچھ ایسے ہی گن ہوں گے جو میری بیٹی نے اسے چنا ہے جب بیٹی باپ سے ملنے گئی تو مہاراجہ اشوپتی کے پاس نارومنی ۱؎ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مہاراج نے پوچھا ساوتری ؤجس نوجوان کو تم نے اپ؛نا برچنا ہے وہ کون ہے؟ ۱؎ نارو سات بڑے رشیوں میںسے ایک ہیں۔ رگ وید کا ایک حصہ ان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ رگ وید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کنور شی کے خاندان میں سے وشنو پر انہیں کیشپ کا بیٹا اور کش کا نواسا بتلایا گیا ہے۔بین انہیں کی ایجادہے اور وہ گندھروں کے سردار سمجھے جاتے ہیںَ پرانوںمیں جگہ جگہ ان کا ذکر ہے۔ نارودھرم شاستر انہیںکی یادگار ہے۔ ساوتری لجا کر کہنے لگی’’مہاراج اس کا نام ستیہ دان ہے اور وہ مہاراجہ دیومت سین کے بیٹے ہیں۔ بوڑھے مہارج پر کچھ ایسی بپتا پری کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیںَ دشمن اس تاک میں تھے۔ موقع پا کے راج پاٹ چھین لیا۔ اور وہ بیچارے اپنی اتری اور بیٹے کو لے کر بن کو سدھارے اور بھگوان کے دھیان میں دن گزرانے لگے۔ مہاراجہ اشوپتی کچھ کہنے کو تھے کہ نارو جی کو سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر رک گئے اور کہنے لگے کہ مہاراج آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ نار و جی بولے ’’یہی کہ ستیہ دان سے ساوتری کا بیاہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مہاراج اشوپتی نے کہا ’’ستیہ دان کے پاس دھن دولت تو نہیں تو کیا ہوا دولت ڈھلتی پھرتی چھائوں ہے‘‘۔ نارو جی کہنے لگے کہ ’’مجھے دھن دولت کا خیال نہیں کیونکہ چھتریوں میں جو جوگن ہونے چاہئیں ستیہ دان میں سب موجود ہیںَ پر ا س کے نصیبے میں یہی بدا ہے کہ آج سے پورے ایک برس کے بعد مت کی لو اس کی زندگی کے لہلہاتے پودے کو جھلس ڈالے اور ساوتری کا سہاگ لٹ جائے۔ ساوتری کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیںَ اور مہاراجہ اشو پتی گھبر اکے بیٹی کا منہ تکنے لگے کچھ دیر تو یہ حال رہا جیسے چینی کی دو مورتیں آمنے سامنے بیٹھی ہوں۔پھر ساوتری ٹھنڈٰ سانس لے کر بولی اب جو ہو سو ہو میں نے تو انہیں سے بیاہ کروں گی۔ انہیں آج تک میں نے پتی کے روپ میں دیکھا ہے۔ بھگوان نہ کریں کہ میں انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے کا منہ دیکھوں۔ نارو جی بولے ساوتری ٹھیک کہتی ہے۔ مہاراجہ اشوپتی نے جب دیکھا کہ ساوتری کا ارادہ اٹل ہے تو شبھ گھڑی دیکھ کے اس کے ہاتھ پیلے کر دیے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ ساوتری ماتا پتا کو چھوڑ کر ستیہ دان کے ساتھ تپ بن کر سدھاری ۔ جب وہ بدا ہوئی تو سارا شہر اسے دیکھنے امڈ آیا۔ لوگ چہروں پر دکھ لیے سینوں میں چبھن دبائے سڑک کے کنارے پرے باندھے کھڑے تھے۔ پر نہ تو کسی کی آنکھ میں آنسو تھے اور نہ کسی کے ہونٹ پر فریاد۔ وہ سب کے سب یوں گم سم کھڑ ے تھے جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہوں انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ چاہیں تو رو سکتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ دیوتائوں نے انسان کو آنسوئوں جیسی انمول چیز دے کر اس کے غموں کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے کیونکہ یہ آنسو ہی ہیں جو دکھ کے پربت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی رومیں بہا لے جاتے ہیںَ ساوتری کی ماں پردے کی اوٹ سے دیکھا اور کلیجہ مسوس کے رہ گئی اسے یاد آ گیا کہ اس کا پتی بھی اسے یونہی بیاہ لایا تھا۔ وہ بھی ماں باپ سے بدا ہوئی تھی۔ اونچی اٹاریاں اور مندروں کے سنہری کلس سہارنے جھٹپٹے میں چپ چاپ اور اداس کھڑے تھے۔ آسمان کی نیلاہٹ پر سپیدی سی چھائی ہوئی تھی۔ اور دلہن کی سسکیاں چوڈول کے لال لال پردوں میں دب کے رہ گئی تھیں۔ پر اس کا پتی تو مہاراج تھا وہ تو اسے باجے گاجے کے ساتھ بیاہ لایا تھا۔ اور اب اس کی لاڈلی بیٹی ساوتری ایک لکڑ ہارے کے ساتھ جا رہی تھی جو سال بھر کے بعد اسے رانڈ چھوڑ جائے گا۔ (۳) تپ بن میں پہنچ کر ساوتری نے ہیرے پنے کے گہنے پاتے اور ریشم کا سرخ جوڑا اتار کے جوگنوں کی سی دھج بن الی نہ اس کے ماتھے پر جھومر تھا اورنہ ہاتھوں میں کنگن نہ گلے میں بنسلی نہ کانوں میں کرن پھول اور تو اور اس کی مہندی رچی پتلی پتلی انگلیوں میں چھلاتک باقی نہ رہا تھا۔ صرف اس کی مانگ میں سیندور کی لال لال لکیر نظر آ رہی تھی۔ جن لوگوں نے اسے مہاراجہ اشوپتی کے محلوں میں دیکھا تھا وہ اگر اسے اس سمے دیکھ لیتے تو یہ نہ جان سکتے کہ وہ راجکماری ساوتری ہے یا کوئی بن دیوی کیونکہ وہ پیڑوں کی ملگجی چھال کے برن میں سچ مچ بن دیوی ہی معلوم ہوتی ہے ۔ یہاں نہ محل نہ اٹاریاں تھیں نہ مرمر کی سولوں کا چکنا فرش نہ گدگدے ریشمی گدے نہ موتیوں کی جھالروں کے جھم جھماتے پردے پھر بھی اس انسان جنگل میں ہری دوب نیلے آسمان سنہرے پھولوں سے ڈھکی ہوئی گھاٹیوں اور پتھریلی چٹانوں میں کوئی ایسی موہنی تھی کہ ساوتری میکے کو بھول گئی۔ ستیہ وان بڑے تڑکے لکڑیاں کاتنے نکل جاتا۔ ساوتری تالاب سے پانی بھر کے لاتی ہر قد پر اس کی لچکیلی کمر گگری کے بوجھ سے دھری ہوئی جاتیل سانس پھول جاتی ماتھے پر پسینے کے قطرے یوں ڈھلکنے لگتے جییس گلاب کی پتیوں پر اوس کی بوندیں جھل مل جھل مل کر رہی ہوں۔ پانی لا کے وہ ساس سسر کے پائوں دھوتی پھر پوجا کے کے کش گھاس اور رنگ برنگ کے پھول توڑ لاتی۔ اتنے مین ستیہ وان لکڑیاں لے کر آ جاتا اور اس کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر ساوتری کی ساری تھکن دور ہو جاتی ۔ پر ساوتری جانتی تھی کہ اس کے ہنستے چہرے کو جس نے سورج کی کرن کی طرح اس کے سونے اور اندھیرے جیون میں اجالا کر دیا تھا۔ کالی کالی بدلیاں چھپا لیں گی۔ اور اس کی زندگی پھر سونی ہوجائے گی۔ اسے اپنا سہاگ جاڑے کی رت کا ایک چھوٹا سا دن معلوم ہوتا تھا جس کی دوپہر گھڑی بھر میں ختم ہوجاتی ہے اور اب تو اسے ایسا لگتا تھا کہ دن ڈھلنے کو ہے۔ گھڑی دو گھڑی میں چمکیلا سورج مٹیالے رنگ کے پہاڑوں کی اوٹ میں جا چھپے گا۔ اور دھرتی پر کالی رات چھا جائے گی۔ کبھی کبھی راتوں کو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ وہ پہاڑو ں میں کوئی بہت بڑا پرندہ اپنے پر پھڑپھڑا رہا ہے ارو وہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتی اور سوچنے لگتی کہ میں نے سچ مچ کوئی آواز سنی ہے یا مجھے دھوکا ہوا ہے۔ پر یہ بھیانک پرچھائیاں کیسی ہیں جو میری آتما پر چھائی ہوئی ہیں۔بھگوان کہیح یہ موت کا دیوتا تو نہیں جس کے بازو سارے سنسار پر پھیلے ہوئے ہیںَ جب ستیہ وان کی موت میں صرف چار دن باقی رہ گئے تو ساوتری نے تین دن کا برت رکھا۔ چوتھے دن جب وہ پچھلے پہر اٹھ کر پانی بھرنے چلی تو اسے تپ بن اداس اداس معلوم ہوتا تھا۔ اشا کا منہ کملایا ہوا تھا اور اس کی مسکراہٹ کچھ پھیکی پھیکی معلوم ہو رہی تھی اور تالاب کا تھما ہوا پانی تو یوں لگتا تھا جیسے تپ بن کی آنکھ میں ایک بڑا سا آنسو ہے۔ ستیہ وان لکڑیاں کاٹنے چلا تو ساوتری بھی سسر سے اجازت لے کر اس کے ساتھ گئی آج وہ ستیہ وان سے کییس الگ رہ سکتی تھی کیونکہ آج کا دن اس کے پتی کی زندگی کا آخری دن تھا۔ وہ دونوں ایک تنگ راستے پر بڑھے جا رہے تھے جو جنگلی پھولوں کی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا کہیںکہیں اونچے اونچے درخت بھی نظر آ جاتے تھے ان درختوں کے تنوں پر کائی اگ آئی تھی۔ کچھ دور وہ یونہی چلتے رہے پھر یہ پگڈنڈی ایک پہاڑ کی طرف مڑ گئی جس کا نچلا حصہ ہار سنگھار کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا اور اوپر کے حصے میں جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں پہنچ کر ستیہ وان نے ساوتری کو ہریاول کے فرش پر بٹھا دیا۔ جس پر پھولوں کی پتیاں بکھری پڑی تھیںپھر نازک بیلوں کو ملا کے ایک چلمن سی بنا دی کہ سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر نہ پڑیں اور کلہاڑا لے کر جنگل میں گھس گیا۔ آسمانوں پر ابابیلیں اڑ رہی تھیںَ ان سے اوپر سپید بادل تھے جنہیں ہوا اڑائے لے جا رہی تھی۔ نیچے زمین ہری ہری گھاس مہکتی ہوئی کلیاں درختوں کے جھنڈ اور ان میں دمکتے ہوئے ندی نالے جن میں زندگی دھڑکتی معلوم ہوتی تھی۔ پر موت کا دیوتا بھی یہیں کہیں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ گھنے درختوں کی چھائوںمیں ندی کے اس پار بادلوں کی اوٹ میں ایکا ایکی ساوتری کو سامنے ستیہ وان کا تمتماتا ہوا چہرہ نظر آیا اور وہ چونک پڑی۔ کلہاڑا اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑا تھا اور اس کے پائوں لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ کہنے لگا میرے سر می درد ہے جسم پھنک رہا ہے وہ ساوتری کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اورآنکھیں بند کر لیں اور آن کی آن میں اس کے چہرے پر موت کی زردی کھنڈ گئی پھر ساوتری نے ایک سایہ سا دیکھا جو بڑھتے بڑھتے سارے جنگل پر چھا گیا۔ وہ دھرتی سے آکاش تک پھیلا ہوا تھا اور پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں اور سپید بادلوں کو اس نے ڈھک لیا تھا پھر اس نے دیکھا کہ اس کی کالی پرچھائیں کے ہاتھ پائوں‘ ناک ‘ کان‘ منہ اور آنکھیں بھی ہیں۔ پر اس کے نتھنے دوگھپائیں ہیں۔ ناک کان منہ اور آنکھیں بھی ہیں۔ درختوںکے تنے جیسے بازو ٹہنیوں کی سی انگلیاں اور پتھریلی چٹانوں ایسا چوڑا سینہ جس پر لہو جیسا لال لال بانا ایسے لگتا تھا جیسے آگ کی لپٹیں دھوئیں سے لپٹ گئی ہوں۔ ساوتری نے موت کے دیوتا یم ۱؎ کو اس بھیانک روپ میں پہچان لیا اور ڈنڈوت بھر کے چپکی کھڑی ہو گئی۔ ۱؎ یم موت کا دیوتا سے دھرم راج بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ انصاف کا دیوتا بھی سمجھا جاتاہے۔ وہ سورج کا بیٹا ہے اور اس کی ماں کا نام سنجنا ہے۔ وہ یم پوری کا راجہ ہے۔ جس کے راستے پر چار آنکھوں والے کتے پہرہ دیتے ہیں۔ انسان کی آتما زندگی کے بندھن سے آزادہو کر یم پوری ہی میں پہنچتی ہے۔ وہاں حساب کتاب ہوتا ہے۔ پھر کسی کو پتری لوک میں جگہ ملتی ہے۔ کوئی سورگ میں جاتا ہے اور کوئی نرگ میں۔ یم کو سنسار کے دکھنی حصے کا نگہبان بھی مانا جاتا ہے۔ اس لیے سے دکھشن پتی کہتے ہیں۔ یم نے کہا’’ساوتری میں تجھے نہیں تیرے پتی کو لینے آیا ہوں‘‘۔ پھر اس نے جھک کر ستیہ وان کی آتما کو اپنے پھندے میں الجھا لیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسے لے چلا۔ وہ گھنے جنگلوں اور بنوں مٰں سے گزرتا ہوا پرچھائیوں کی بستی کو جا رہا تھا۔ جسے یم پوری کہتے ہیں۔ پر اس کامن بے چین تھا اور وہ جی ہی جی میں کہہ رہا تھا کہ مجھے آج تک کسی انسان نے نہیں دیکھا۔ پھر ساوتری نے کیسے دیکھ لیا۔ اور وہ ڈری اور جھجکی بھی تو نہیں بلکہ ڈنڈوت کر کے یوں چپ چاپ کھڑی ہو گئی جیسے وہ میرا ہی راستہ تک رہی تھی۔ پھر وہ ایکا ایکی رک گیا۔ یہ پائوں کی چاپ کیسی ہے یہ کون ہے جو میرے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے ارے یہ ساوتری ہی تو ہے اس کے بال بکھرے ہوئے مٹھیاں بھنچی ہوئی۔ جگلی پھول اور پتے آنچل سے لپٹے ہوئے پائوں کانٹوں سے لہو لہان ہو گئے ہیں پھر بھی اس کے چہرے پر ڈر کا ہلکا سا سایہ بھی نظر نہیں آتا۔ اور یہ دو چمکیلے ستارے کیا ہیںَ یہ اس کی دو آنکھیں ہیں جو مجھ پر جمی ہوئی یں ان آنکھوں کو تو اس طرح امڈنا چاہیے تھا جییس برکھا رت میں ندیاں امڈ آتی ہیںَ پر وہ تپتے ہوئے میدانوں کی طرح خشک ہیں۔ وہ چلا کر کہنے لگا’’لڑکی تو میرے پیچھے کیوں آ رہی ہے؟‘ُ‘ وہ بولی ’’دھرم راج میں اور کہاں جائوں سنسار میں میرا اور کون سا ٹھکانا ہے‘‘۔ تو اپنے گھر کیوں نہیں چلی جاتی۔ میرا گھر؟ جہاں میرے سوامی ہیں وہی میرا گھر ہے آپ جہاں انہیں لے چلے ہیں وہیں مجھے بھی لے چلیے۔ ’’تو وہا ں کیسے جا سکتی ہے؟‘‘ ’’آپ مجھے نہیں لے جاتے تو انہیں بھی نہ لے جائیے‘‘ ’’یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہاںتو اور جو چاہے مانگ لے‘‘ ’’تو میرے سسر کی کھوئی ہوئی آنکھیں مل جائیں‘‘۔ ’’تو جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ پر اب تو لوٹ جا کیونکہ تو بہت تھک گئی ہے۔ یہ کہہ کر دیوتا پھر چل پڑا۔ وہ گھنے اور سرد جنگلوں گہرے کھڈوں اور ندیوں کی ترائیوں سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ جہاں بھیانک دلدلوں میں بڑے بڑے اجگر لوٹتے رہتے ہیں پر ساوتری کے پائوں کی چاپ ابھی بھی اسے سنائی دے رہی تھی۔ دیوتا پھر رک گیا اور کہنے لگا لڑکی تو کیا چاہتی ہے۔ وہ بولی ’’دھرم راج مجھ پر دیا کیجیے کیوکہ دیا کرنا ہی سب سے بڑ ا دھرم ہے ۔ تو ستیہ وان کی زندگی چھو ڑ کر جو چاہے مانگ لے۔ تو پھر میرے سسر کو ان کا راج پاٹ لا دیجیے۔ جا تیرے من کی کامنا پوری ہو گی۔ یم پھر چل پڑا۔ اس کے دہنے بائیں بڑی بڑی چٹانیں تھیں جن پر کائی اگ آئی تھی اور بہت دور کہیں اندھرے غاروں میں جھرنے پتھروں سے سر ٹکرا رہے تھے۔ پر ساوتری اب بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ دیوتا ٹھہر گیا اور کہنے لگا۔ تجھے جو کچھ مانگنا ہے ایک بار ہی مانگ لے اور میرا پیچھا چھوڑ دے کیونکہ یم پوری کا راستہ بڑا کٹھن ہے۔ ساوتری بولی دھرم مہاراج آپ سورج کے بیٹے ہیں جس نے چار کھونٹ اجالا کر رکھا ہے۔ پھر یہ کیا بات کہ آپ میری زندگی ان اندھیری گپھائوں کی طرح سونی کر چلے ہیں۔ جن میں سورج کی ہلکی سی کرن بھی نہیں پہنچ سکتی۔ لڑکی میں کیا کروں کرموں کا لکھا کسی کے مٹائے سے کب مٹ سکتا ہے۔ پر میں تجھے بچن دیتا ہوں کہ تو اپنے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جو جو چیزیں مانگے گی تجھے مل جائیں گی۔ مہاراج میں چاہتی ہوں کہ میرے ہاں سو بیٹے ہوں جنہیں دیکھ دیکھ کر میں اپنے دکھوںکو بھول جائوں۔ تو نے جو مانگا ہے وہ تجھے مل جائے گا تیری کوکھ سے سو بیٹے جنم لیں گے جو بڑے بڑے سورمائوں کو نیچ ادکھا کر اپنے بنس کا نام روشن کریں گے۔ پر ساوتری اس طرھ چپ چاپ کھڑی رہی جیسے اس نے دیوتا کی بات سنی ہی نہیں۔ تم نے کہا لڑکی تو نے جو چاہا تجھے مل گیا اب تو جاتی کیوںنہیں؟ میرا سہاگ تو آپ لیے جا رہے ہیں پھر میری کوکھ سے سو بیٹے کیسے جنم لیں گے موت کا دیوتا کچھ دیر چپکا کھڑا رہا پھر اس کا چہرہ آسمانی جوت سے جگمگا اٹھا اس نے پھندا کھول کر ستیہ وان کی آتما کو آزاد کر دیا اور کہنے لگ اپتی برتا استری میں کتنی شکتی ہے وہ چاہے تو یم کے پیچھے پیچھے موت کی گھاٹیوں تک چلی آتی ہے اور اس سے اپنے پتی کی آچھین لے۔ انسان دیوتائوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا پھر بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بلا کا اٹل ارادہ دیوتائوں کو ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنوں سے ستیہ وان کے ماتھے کو چھو ا اور وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا پھر وہ کہنے لگا۔ ساوتری میں نے ایک بھیانک سپنا دیکھا ہے۔ نہ جانے وہ سپنا تھا یا میں سچ مچ مر کے جی اٹھا ہوں۔ ساوتری نے اس کی با ت کا کچھ جواب نہ دیا اور کہنے لگی۔ اب رات کا اندھیرا اترنے لگا ہے ۔ پنچھی پیڑوں پر بسیر لے رہے ہیںَ آئیے ہم بھی گھر چلیں۔ وہ پیڑوں سے گھری ہوئی پگڈنڈی پر جا رہے تھے کہ اچانک بہت سے آدمیوں کے شورتھوں کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ ہاتھیوں کے قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سے جنگل گونج اٹھا اور انہیں بہت سے لوگ اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ یہ لو گ راجہ دیو مت سین کو لینے آئے تھے۔ بوڑھا راجہ اپنے جھونپڑے کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ ساوتری یہ دیکھ کے اس کا چہرہ دمک اٹھا۔ اس نے پہلی بار اپنی چہیتی بہو کو دیکھا تھا۔ ٭٭٭ نل دمینتی (۱) دور بھ دیس کے راجہ بھیم کی بیٹی راجکماری دمینتی اپنی سکھیوں کے ساتھ پھلواڑی کی سیر کر رہی تھی کہ چنبیلی کے جھرمٹ میں کچھ ہنس دکھائی دیے جن کے سنہری پروں کی جھم جھماہٹ پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ ان ہنسوں کے رنگ و روپ میں کوئی ایسی موہتی تھی کہ راجکماری اور اس کی سکھیاں ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ وہ پہلے تو چپ چاپ کھڑے رہے پھر ان میں کچھ کدم کے پیڑ تلے جا رہے۔ کچھ جھاڑیوں میں گھس گئے۔ انہوںنے پھر پیچھا کیا تو وہ سب کھنڈ گئے اورایک ایک کنیا اک ایک ہنس کے پیچھے ہو لی۔ راجکماری نے جس ہنس کا پیچھا کیا وہ کچھ دیر تو اس کے پیلے پیلے پنکھ جھاڑیوں میں نظرآٹے رہے۔ پھر وہ ایکا ایکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دمینتی اسے کیار ی کیاری دیکھتی بھالتی چلی آ رہی تھی کہ اچانک اشوک کے پیر تلے اس کی جھلک سی نظر آئی۔ اب کے راجکماری کے پاس پہنچنے پر بھی وہ چپکا کھڑا رہا۔ اور جب دمینتی نے اسے پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو وہ کہنے لگا۔ دوربھ دیش کی راجکماری مجھے نشدھ دیش کے راجہ نل نے بھیجا ہے۔ جو راجائوں کا راجہ پرجا کا رکھوایا دیوتائوں کا پیارا اور بھارت ورش کی آنکھ کا تارا ہے۔ وہ سنسار کے سب سورمائوں سے بڑا ہے اور روپ ہل اور گیان میں کوئی چھتری سے نہیں پہنچ سکتا۔ پر اے راجکماری جب سے راجہ نے تیرے روپ میں اور جوبن کی تعریف سنی ہے جی اس کے بس میں نہیں رہا۔ اور تیری چاہت ا س کے روئیں روئیں میں سما گئی ہے۔ راجکماری نے نل کا نام پہلے بھی کئی بار سنا تھا۔ ابھی نل ہی کی پیاری سکھی تلوتما سورج کا بادلوں کی اوٹ سے نکلنا دیکھ کے کہہ رہی تھی کہ نل راجہ کا رتھ بھی سورج کے رتھ کی طرح سنہری ہے۔ اور ہاں اس نے اجلے اجلے بادلوں کو آکاش پر دوڑتے دیکھ کر یہ بھی کہا تھا کہ نل کے گھوڑے یونہی ہرے بھرے میدانوں میں طرارے بھرا کرتے ہیں۔ اس پر تو رمبھا بول اٹھی تھی کہ اری باولی کہاں راجہ نل کے گھوڑے اور کہاں یہ بادل یہ تو ہوا سے زیادہ تیز اور بجلی سے زیادہ چنچل ہیں۔ اچھا تو دوربھ دیس کی راجکماری کو پریم کا سندیسہ بھیجنے والا نل ہی ہے۔ جس کے گن گاتے گاتے رمبھا او ر تلوتما آپس میں لڑ پڑی تھیںَ یہ نہ جانے کیا بات تھی کہ جب انہوںنے نل کی کہانی چھیڑی تو وہ کچھ لجا سی گئی۔ یوں کہنے کو تو اس نے اوپر کے دل سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اری رمبھا تو پھر نل کی کتھا بکھا ننے بیٹھ گئی پر اس کا دل یہی چاہتا تھا کہ وہ دونوں نل ہی کی باتیں کیے جائیں۔ اس کی حالت اس مدھ مکھی کی سی تھی جو دن بھر کلیوں کے ہونٹوں کو چوستی پھرے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے بہت سا رس اکٹھا کر لیا ہے۔ پھر ایکا ایکی اس کی آتما امرت کی لہروں میں ڈوب جائے اوروہ جان لے کہ یہ تووہی رس ہے جسے دن بھر کی محنت سے میں نے اکٹھا کر لیا تھا کیونکہ جب راج ہنس نے نل کا نام لیا تو دمینتی کو اپنے دل میں آنند کی ایک لہر سی اٹھتی معلوم ہوئی اورنل کے روپ ار بل کی جتنی کہانیاں اس نے سنی تھیں ایک ایک کر کے یاد آ گئیںَ پھر اس نے دو بازو دیکھے جو چٹانوں کی طرح مضبوط تھے اور نشدھ دیس کو ایک بہت بڑی فصیل کی طرح گھیرے ہوئے تھے اس سمے اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک نازک اور لچکیلی بیل ہے جسے ہوا کے ہلکے سے جھونکے کی سہارنیں اور اب اسے ایک مضبوط پیڑ کا سہارا مل گیا ہے۔ جو اسے تیز ہوا اور مینہ کی بوچھاڑ سے بچا لے گا۔ پھر اچانک اس کے دل میں ایک ہلکی ہلکی ٹھیس اٹھنے لگی۔ ایک ایسی میٹھی میٹھی سی کسک جس میں دکھ اور آنند بس اور امرت دونوں ملے ہوئے تھے۔ اور اس نے ٹھنڈی سانس بھر کے ہنس سے کہا میں راجہ نل کے سندیسے کا جواب تو کیا دوں ہاں تم نے جو کچھ دیکھا ہے ان سے کہہ دیجیو۔ نل راج محل سے اٹھ کر پھلواڑی کی سیر کو چلا تھا۔ سامنے سے وہی ہنس آئے جنہیں اس نے پریم سندیسہ دے کر دمینتی کے پاس بھیجا تھا۔ راجہ انہیں دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ اتنے میں وہ ہنس جس ن ے دمینتی سے باتیں کی تھیں اڑ کے نل کے پاس پہنچا۔ اورکہنے لگا نشدھ دیس کے راہ میں اتر کے برفانی پہاڑوں سے دکھن کے ان پتھریلے پہاڑوں تک گھوما ہوں جن کے سینے میں آ گ بھری ہے۔ پر میں نے دمینتی جیسی سندر کنیا نہیں دیکھی۔ جب وہ مسکراتی ہے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ گلاب کی پتی پر چنبیلی کی پنکھڑی رکھ دی گئی ہو یا مونگے پر موتی پڑا چمک رہا ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھکر مجھے وہ نیلے کنول یاد آ گئے جو مندرا چل کی جھیلوں کے کنارے ہوا میں ہلکورے لیتے رہتے ہیں اور جب اس نے مجھے پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ سرس کی کلیاں زیادہ نازک ہیں یا دمینتی کی گوری گوری بانہیں۔ پر اے راجہ چنتا نہ کر وہ بھی تجھے چاہتی ہے کیونکہ جب میںنے تیرا نام لیا تو وہ کچھ دیر چپ چاپ کھڑی رہ۔ پھر ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگی مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدن نے تیرے ہی دل پر بان نہیں مارا۔ بلکہ اس کے زہریلے تیرو ںنے دمینتی کے سینے کو بھی چھید ڈالا ہے۔ (۲) اور مدن کے بانوں نے سچ مچ دمینتی کے سینے کو بھی چیر ڈالا تھا کیونکہ اس دن کے بعد اسے کسی نے ہنستے نہ دیکھا۔ وہ پہروں چھپر کھٹ پر منہ ڈھانپے پڑی رہتی یا پھر اشوک کے اس پیڑ تلے جا بیٹھتی جہاں ا س نے ہنس کی زبانی پر یم سندیسہ سنا تھا۔ رمبھا نے کئی بار مالتی کی جھاڑیوںمیں چھپ کر اس کی سسکیاں سنی تھیں۔ اس کی پلکوں پر ایک ننھی سی بوند کو تھرتھراتے دیکھا تھا۔ اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ دمینتی کی آنکھیں ان چٹیل پہاڑوں کی چوٹیوں پر گڑی ہیں جہاں نشدھ دیش کا ڈانڈ ودربھ راج سے ملنا ہے ایکا ایکی اس نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اوریوں آہیں بھرنے لگی جیسے اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ اس کی سکھیوں نے بہتیرا چاہا کہ وہ پہلے کی طرح ہنس بول کے جی بہلائے پر کہا کا سنسا بولنا کیونکہ جب وہ سکھیوں کے ساتھ پھلواڑی سیر کو جاتی تو ہنس نے جو باتیں کہی تھیں اس کے کانوں میں گونجنے لگیتیں۔ جی بھرا آتا تھا۔ گلا رندھا جاتا تھا اورسانس پھانس کی طرح کھٹکتی معلوم ہوتی تھی اور اب تو کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا۔ رمبھا اور تلوتما نے بہت ہاتھ پائوں جوڑے تو ان کا جی رکھنے کو یونہی منہ جھٹال لیا۔ نہٰں تو وہ دن دن بھر بھوکی پیاسی پڑی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کا پھول سا چہرہ کملا گیا تھا۔ گالوں کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی اورجسم سوکھ کے کانٹا ہو گیا تھا۔ سکھیوں کو اس کے روگ کا کارن وتو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا پر جب یہ حال دیکھا تو کسی طرح دمینتی کے باپ تک خبر پہنچائی اور باتوں باتوں میں یہ بھی بتا دیا کہ کسی جوگ بر سے راجکماری کا بیاہ کر دینا چاہیے۔ راجہ بھیم بڑے اونچے گھرانے کا چھتری اورراجوں کاراجہ تھا۔ اس نے بڑی دھوم دھوم سے بیٹٰ کے سوئمبر کی تیاری شروع کی۔ اور ہرکارے یہ خبر لے کر ہر طر ف پھیل گئے ۔ دمینتی کے سوئمبر کی خبر سن کے دیس دیس کے راجہ بڑے ٹھاٹ باٹ سے ودر بھ دیس کو چلے۔ ان میں اتر کے دیسوں کے راجکمار بھی تھے ۔ جہاںسورج کی کرنیں برف کہر وارپالے کے ڈر سے دھرتی کے سینے میں جا چھپتی ہیںَ اور پھر کیسر ک یروپ میں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیںَ اورسندھو ۱؎ کے راجہ بھی جوسر پر کٹ دھرے۔ اسیل گھوڑوں پر سوار بڑے لائو لشکر کے ساتھ آئے تھے۔ ۱؎ سیندھوا یا سندھو ان قبلیوں کا نام ہے جو پرانے زمانے میں دریائے سندھ کے کنارے بستے تھے۔ سندھو کے راجہ جے ورتھ کا ذکر مہابھارت میں بھی آیا ہے۔ اس راجہ سے دھرت راشٹر کی بیٹی بیاہی گئی تھی۔ وہ ہار بھارت میں کورو کی طرف سے لڑا۔ اور ارجن کے ہاتھوں مارا گیا۔ پھر کچھ چھتری کوشل ۱؎ پانجال ۲؎ اور کامروپ ۳؎ کچھ دکن کی ان نگریوں سے جن کے آنچل میں کرشنا اور گود اوری نے روپہلی گوٹ ٹانگ رکھی ہے اور اچنبھے کی بات تویہ ہے کہ جب سمبر ۴؎ پربت پر یہ خبر پہنچی اور دیوتائوں نے ناروجی کی زبانی دمینتی کے جوبن اورروپ کا حال سنا تو ان کا جی بھی للچایا اور اندر ورن ۵؎ اور اگنی ۶؎ اوریم ۷؎ رھتوں پر بیٹھ کر دوربھ دیس کی راجکماری کو جیتنے چلے۔ ۱؎ کوشل اس علاقے کو کہتے ہیں جو سرجوندی کے آس پاس پھیلا ہوا ہے ۔ اجودھیا نگری ا س کی راج دھانی تھی مگر اس کے علاوہ یہ نام بعض دوسرے علاقوں کے لیے بھی استعمال ہواہے مثلا وندھیا چ کے دکھن میں جو علاقہ ہے اسے بھی کوشل کہتے ہیں۔ ۲؎ پانجال کے بارے میں اختلاف ہے بعض لوگوں کاخیال ہے کہ پانجا ل پنجاب کا پرانا نام ہے۔ بعض قنوج کو پانجال کتہے ہیں یورپ کے بعض عالموں کا خیال ہے کہ وہ سارا علاقہ جو دلی سے چنبل ندی تک پھیلا ہوا ہے پرانے زمانے میں پانجال کہلاتا تھا۔ درد پدی پانجال ہی کی راجکماری تھی۔ سا لیے اسے پانجالی بھی کہتے ہیںَ ۳؎ آسام کے مغربی علاقے کو اب بھی کامروپ ہی کہتے ہیں۔ ۴؎ یونانی دیو مالا میں جو حیثیت اولمپس کی ہے وہی ہندو دیو مالا میں سمبر پربت کی ہے۔ سورگ جہاں اندراج کرتا ہے۔ اس پہاڑ پر ہے اور دیوتا بھی یہیں رہتے ہیں۔ ۵؎ ورن پانی کا دیوتا ہے۔ ۶؎ آگ کا دیوتا جو وشنو پوران کے مطابق برہما کا بیٹاہے ۔ سواہا اس کی بیوی کا نام ہے۔ ۷؎؎ موت کا دیوتا ہے تفصیل کے لیے ساوتری کی کہانی دیکھو۔ راجہ نل جو دمینتی کے سوئمبر کی خبر پا کے چلا۔ تو دن بھر میں میدانوں اور پہاڑوں کو لپیٹ سپیٹ دوربھ کے علاقے میںجا پہنچا۔ اس کا رتھ ایک گھنے جنگل میں گزر رہا تھا۔ جہاں سے بھیم کی راجدھانی تک گھڑی دو گھڑی کا سفرر تھا کہ اچانک… آکاش سے ایک جو ت سی اتری اور چاروں دیوتا انسان کے روپ میں اس کے سامنے آ گئے۔ نل نے رکھ روک لیا اور ڈنڈوت کر کے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں اندر بولا۔ نشدھ دیش کے راجہ تم سے ہو سکے تو ہماراایک کام کر دو۔ نل نے ہاتھ جوڑ کر کہا آپ کا حکم بجا لانا میرا دھرم ہے پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے؟ اندر کہنے لگا’’میں اندر ہوں‘‘ یہ اگنی اور یہ ورن ہیں۔ اور جو وہ ذرا ہٹ کے کھڑے ہیں یم راج ہیں۔ ہم چروں دمینتی کے سوئمبر کی خبر سن کر دھرتی پر آئے ہیںَ اب تم جا کے راجکماری سے کہو کہ وہ ہم چاروں میں سے کیس کو اپنا پتی بنا لے۔ یہ سن کے نل کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور وہ کہنے لگا۔ مہاراج میں بھی آپ کی طرح دمینتی کو جیتنے کے لیے سوئمبر میں جا رہا ہوں۔ میں اس سے یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں۔ اندر نے جواب دیا’’راجہ تم بچن ہار چکے ہو۔ اس لیے اب تو تمہیں جانا ہی ہو گا‘‘۔ نل بولا راج محل کے گرد سینکڑوں پہریدار کھڑے ہیںَ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان سب کی آنکھ بچا کے دمینتی کے پاس پہنچ جائوں۔ اندر نے کہا اس کی فکر نہ کرو تم اس طرح چپ چاپ محل میں جا پہنچو گے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے گی۔ اندر نے جو کچھ کہا تھا وہ ٹھیک نکلا۔ کیونکہ جب نل نے راجہ بھیم کے محل میں پائوں رکھا تو کسی کو اس کے قدموں کی چاپ سنائی دی نہ اسکا سایہ نظر آیا۔ اور وہ پہریداروں کے بیچ میں سے نکل کے رنواس میں جا پہنچا۔ دمینتی بال بال موتی پروے سولہ سنگھار کیے سکھیوں کے جھرمٹ میں بیٹی تھی اور گائنیں انگلیاں نچا نچا سولھے گا رہی تھیں کہ ایکا ایکی انہیں دروازے پر نل کا چہرہ نظرآیا۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ ان میں سے کچھ تو لاج کے مارے منہ ڈھانک کر سرنیہوڑا ئے ایک طرف کھڑی ہو گئیں کچھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ا س کے روپ کو تکنے لگیںَ کچھ چلا چلا کر کہنے لگیں کہ ار ییہ کون ہے جو یوں بے دھرک رنواس میں گھس آیا ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر نل بھی کچھ گھبرا سا گیا۔ اتنے میں دمینتی آگے بڑھی اور کہنے لگی آپ کون ہیں کہ اتنے کڑے چوکی پہرے میں سے گزر کر نواس میں چلے آئے ۔ راجکماری میں نشدھ دیس کا راجہ نل ہوں۔ اور اندر ورن اگنی اور یم نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ چاہتے ہیں خہ تم ان چاروں میں سے کسی کو اپنا پتی بنا لو۔ دمینتی ہنس کے بولی جب سے میں نے ہنس کے منہ سے آپ کے گن سنے ہیں میں توآپ کو اپنا پتی مان چکی ہوں۔ راجکماری میں کہاں اور کہاں دیوتا۔ میں تو ان کے پائوں کی دھول کی برابری بھی نہیں کر سکتا۔ دھرتی کے باسیوں میں کس کا جگرا ہے کہ جسے دیوتا چاہیں اسے اپنی پتنی بنانے کا خیال بھی جی میں لائے۔ میں دیوتائوںکو نمسکار کر کے کہتی ہوں کہ میں آپ ہی کو اپنا پتی بنا لوں گی۔ پر مجھے تو دیوتائوں نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ میں نے اس کا اپائے بھی سوچ لیا ہے۔ ک میں ان کے سامنے آ پ کے گلے میں جے مال ڈال دوں گی۔ دوسرے دن جب راجہ نل سونمبر سبھا میں آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑا منڈپ ہے جس میں جڑائو کواڑ لگے ہیں اور کھمبے سونے روپے سے منڈھے ہوئے ہیں۔ کھمبوںکے ساتھ ساتھ سنگھاسن بچھے ہیں اور ان پر دیس دیس کے راجہ رنگا رنگ لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ نل بھی اپنے سنگھاسن پر جا کے بیٹھ گیا۔ اتنے میں دمینتی بھاری جوڑا پہن آئی اور کوندا سا لپکتا معلوم ہوا۔ وہ جے مال رتھ میں آگے برھی اور نل کے سامنے جا کر رک گئی۔ پر یہ دیکھ رک اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا کہ نل کے رنگ اور روپ کے پانچ مرد ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں۔ وہ جانگئی کہ دیوتائوں نے یہ سوانگ رچایا ہے۔ ان میں سے ایک تو نل ہے اور باقی چار دیوتا۔ پر کوئی یہ کیسے جانے کہ ان میں سے نل کون ہے؟ تب وہ دیوتائوں کو ڈنڈوت کر کے کہنے لگی اے دیوتائوں میں نے جب سے ہنس کی زبانی نشدھ دیس کے راجا کا حال سنا ہے میں جی جان سے انہیں اپنا پتی مان چکی ہوں۔ اس لیے مجھے ایسی شکتی دیجیے کہ میں اپنے پتی کو پہچان لوں۔ یہ سن کر دیوتائو ں کے دل پسیج گئے اور دمینتی نے نل کو پہچان لیا۔ اس نے دیکھا کہ دیوتائوں کی آنکھوں پر پلکیں نہیں ہیں۔ نہ ان کا سایہ ہے نہ ان کے چہرے پر پسینہ ہے۔ نہ ان کے پائوں زمین کو چھوتے ہیں۔ پھر وہ ایسے پھولوں کے ہار پنے ہوئے ہیں جو کبھی نہیں کملاتے۔ پرنل کے جسم کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی آنکھوں پر پلکیں بھی ہیں اورپھولوں کا ہار پسینے سے چپک گیا ہے۔ دمینتی رم سے سرجھکائے نل کی طرف بڑھی اور اس کے گل میں جے مال ڈال دی پھر کیا تھا جے کاروں کا شور مچاگیتوں کی تانوں سے منڈپ گونج اٹھا۔ اندر کے حکم سے سورگ کی اپسرائیں نل اور دمینتی پر پھول برسانے لگیںَ ورن اور اگنی نے کہا تم ہمیں جب بلائو گے ہم پل بھر میں تمہارے پاس آ پہنچیں گے۔ یم بولا کہ تم دھرم کے راستے سے کبھی نہیں ہٹو گے اور اچے اچھے کھانے پکانے میں کوئی تمہاری برابری نہیں کر سکے گا۔ یہ کہہ کر دیوتا تو سمبر پربت کو سدھارے اور ادھر راجہ بھیم نے بڑے چھوم دھڑ کے سے نل کے ساتھ دمینتی کا بیاہ کر دیا۔ اندر اور اس کے ساتھی وردھ بھ سے سمبر پربرت کو چلے تو راستے میں انہیں وقت کے اتھاہ ساگر سے کل جگ کا بھیانک چہرہ ابھرتانظر آیا جو اپنے ساتھی دواپر کے پیچھے پیچھے اینڈتا براتا چلا آ رہا تھا۔ اندر نے پوچھا کل جگ کہاں چلے۔ کل جگ بولا ہم دونوں دمینتی کے سوئمبر میں جا رہے ہیں۔ اندر نے ہنس کر کہا لیکن دمینتی کا سوئمبر تو ہو چکا۔ اب و نل سے اس کے بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں یہ جو تمہیں بہت دور سونے کی ایک ندی لہراتی نظر آتی ہے یہ دوربھ دیس کی راجدھانی ہے۔ جس کی دیواریں سونے روپے سے لپی ہوئی ہیںَ اور یہ جھلملاتی لال لکیریں ریشمی باوٹے ہیں جو ساری نگر میں پھیلتے چلے گئے ہیں۔ کل جگ سانپ کی طرح بل کھا کے بولا ’’بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ جسے دیوتا چاہیں وہ ایک انسان کو اپنا پتی بنا لے دمینتی کو ضرور اس غلطی کی سزا ملنی چاہیے‘‘۔ اندر نے کہا اس میں دمینتی کی کوئی غلطی نہیں اس نے ہماری مرضی سے نل کو بر چنا ہے۔ یہ کہہ کر اندر نے رتھ کو آگے بڑھایا تینوں دیوتا بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ پر کل جگ ۱؎ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ اب اس کا چہرہ اور زیادہ گھنائونا ہو گیاتھا۔ اس کے جسم کے داغ ابھر آئے تھے اوراس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر یونہی کھڑا سوچتارہا پھر دوا پر سے کہنے لگا۔ جب تک میں نل سے بدلہ نہ لے لوں مجھے کل نہیں پڑے گی۔ (۳) دمینتی سکھ پال سے اتری تو اس کے جوبن کی ٹھلک سے نشدھ کے راج محل کی دیواریں چمک اٹھیں۔ امیروں کی اٹاریوں سے غریبوں کے جھونپڑوں تک گوٹے سے منڈھے اور بندن دارون سے لدے پھندے نظر آتے تھے۔ گھر گھر طلبہ کھڑ ک رہا تھا۔ پکھاوج پر ٹکور پڑ رہی تھی اور مبارک باد کے ترانوں اور شادیانوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ نل اور دمینتی کے پریم کو دیکھ کر لوگ چکوے چکوی کی چاہت کی کہانیاں بھول گئے۔ جس طرح بھونر ا ہولے ہولے کلیوں کا رس چوستا رہتا ہے پر اسے سیری نہیں ہوتی اسی طرح پریم کے مدھ بندھن میں بھی ان دونوں کا جی نہیں بھرتاتھا۔ راجہ راج دربار میں ہو یا سیر و شکار میں۔ رانی سایے کی طرح اس کے ساتھ لگی رہتی اور پل بھر کے لیے بھی اسے آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ اور تو اور لرائی کے میدان میں بھی جہاں تلواریں برستیں اور تیر کی بوچھاڑ سے دھرتی کا سینہ چھلنی ہو جاتا تھا وہ راجہ کے قریب سفید گھوڑے پر سوار نظر آتی تھی۔ یونہی بارہ برس گزر گئے اور کل جگ نے جو منصوبہ باندھا تھا وہ پورا نہ ہوا۔ ایک دن نل پائوں دھوئے بغیر پوجا کرنے جا بیٹھا۔ کل جگ ایسے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ جھٹ اس کے جسم میں گھس کے اسے جوا کھیلنے پر اکسانے لگا۔ ساتھ ہی اس نے نل کے چھوٹے بھائی پشکر کو اس طرح بہکایا کہ اس کی بھی مت ماری گئی اور دونوں بھائی بھاری دائوں بھر کے جوا کھیلنے لگے۔ ۱؎ ہندوئوں نے زمانے کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصے کا نام یک یا جگ ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے کہ کرت یک‘ ترتیا یگ‘ دوا پریگ اور کل یگ۔ ان میں سے کل یگ آخری دور ہے۔ اور اس دور میں دنیا سے سچائی اٹھ جاتی ہے اور ہر طرف پاپ کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر جگ کا ساتھی دوا پر جوئے کے پانسوں میں جا گھسا اور بازی کا رنگ ایسا بدلا کہ ن جب پانسا پھینکتا الٹا پڑتا۔ پہلے پشکر نے ہاتھی گھوڑے جیتے ۔ پھر گہنے پاتے کی نوبت آئی۔ یہ دیکھ کر دمینتی سمجھ گئی کہ اب راج پاٹ کی خیر نہیںَ میں تو جس طرح بن پڑی گزارا کر لوں گی۔ یہ ننھے بچوں کو کون سنبھالے گا۔ یہ سوچ کے اس نے لڑکے اور لڑکی کو اپنے باپ کے ہاں بھیج دیا ۔ نل جب سارا روپیہ پیسہ گھوڑے ہاتھی اور گہنا پاتا ہار چکا تو راج پاٹ کو دائوں پر لگا دیا۔ اب کے پھر نل ہار گیا۔ یہ دیکھ کر پشکر کہنے لگا۔ آ پ کے پاس جو کچھ تھا آپ وہ سب ہار چکے اب صرف دمینتی رہ گئی ہے اسے بھی دائوں پر لگا دیجیے۔ یہ سن کر نل کا چہرہ مارے غصے کے تمتما اٹھا۔ پر اس نے پشکر کو کوئی جواب نہ دیا ار سارے کپڑے اتار کر صرف ایک چادر اوڑھ راج محل سے نکل کھڑا ہوا دمینتی بھی چادر میں اپنا نازک بدن چھپائے اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ ان کے نکلتے ہی پشکر نے شہر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جوکوئی نل کو اپنے ہاں جگہ دے گا اسے کولھو میں پلوا دیا جائے گا اس لیے پرجا میں سے کسی کو اس سے بات کرنے کا ہوائو نہیں پرتا تھا۔ یہ دونوں تین دن تو شہر کے باہر بھوکے پیاسے پڑے رہے جب کہ پشکر کے ڈر نے اپنوں کو بھی بیری بنا دیا تھا۔ تو جدھر منہ اٹھا چل کھڑے ہوئے۔ راستے میں ایک بن ملا جس میں پیڑوں کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے۔ جھاڑیاں پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔ انہیں جھاڑیوں کے پاس ایک تالاب مل گیا۔ اس میں ہاتھ منہ دھویا۔ پھر درختوں کی جڑیں اور کچھ پھل پھلاری کھا کے پیٹ بھرا۔ اورایک پیڑ کی چھائوں میں لیٹ گئے۔ اسی طرح یہاں کئی دن گزر گئے۔ ایک دن نل اور دمینتی تالاب کے پاس کھڑے تھے کہ انہیں کچھ پرندے نظر آئے نل نے سوچا میرے پاس کوئی ہتھیار ہوتا تو ان پرندوں کو شکار کرتا۔ پر یہاں ہتھیار کہاں۔ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر وہی چادر جسے اوڑھے ہوئے تھا اتار کے ان پر پھینک دی۔ پر وہ پرندے اس چادر کو لے کر اڑ گئے۔ اور ساتھ ہی یہ آواز آئی کہ اے مورکھ ہم وہی جوئے کے پانسے ہیں جنہوںنے تجھ سے راج پاٹ چھنوایا۔ اور اب پرندوں کا روپ بھر کے تیرے چادر لیے جا رہے ہیں۔ پھر وہ جب زور زور سے پر پھڑپھڑا رہے تھے تو نل کو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی ٹھٹھا مار کے ہنس رہا ہو۔ نل کچھ دیر تو چپ چاپ کھڑا رہا پھر کہنے لگا دمینتی تم کب تک میرے ساتھ جنگلوں اور بنوں خی خاک چھانتی پھروں گی ۔ دیکھو ا س جنگل سے کئی راستے نکتے ہیں یہ پگڈنڈی تو اجین ۱؎ کو گئی ہے اور اس کے پاس جو پربت پھیلا ہوا ہے یہ بندھیا چل ہے۔ اس کے پاس یہ ایک اور راستہ ہے جو کوشل کو گیا ہے۔ اس سے ہٹ کے جو پگڈنڈی نظر آ رہی ہے وہ سیدھی دروبھ نگر کو چلی جاتی ہے۔ اس راستہ میں پانی جگہ جگہ ملتا ہے۔ پھر رشیوں کے بہت سے آشرم ہیں جہاں پھل پھلاری کی کمی نہیں۔ تم میری سنو تو ودربھ چل جائو۔ دمینتی کہنے لگی میں آپ کو چھوڑ کر کیونکر جا سکتی ہوں۔ ہاں اگر آپ مجھے میکے بھیجنا چاہتے ہیں تو میرے ساتھ چلیے۔ نل نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھو ں سے ڈھانپ لیا اور آہیں بھرتا ہوا بولا۔ میں پہلے راجہ تھا اب صرف ایک ہارا ہوا جواری ہوں تمہارے ماں باپ مجھے اس حالت میں دیکھ کر کیا کہیں گے‘‘۔ (۴) جنگل اور پہاڑ کی چاندی کی روپہلی چادر میں لپٹے ہوئے چپ چاپ کھڑے تھے ۔ اور نل اور دمینتی سوکھے پتوں کے فرش پر ایک ہی چادر اوڑھے سو رہے تھے ۔ ۱؎ جین کا شہر ہندوئوں کے سات پوتر شہروں میں سمجھا جاتا ہے۔ پرانے ہندو جغرافیہ دان اسی شہر سے عرض بلد اور طول بلد کا حساب لگاتے تھے۔ جین کا شہر تو بہت پرانا ہے۔ پر اس کو زیادہ شہرت کرما جیت کی وجہ سے ہوئی جس نے بکرمی سمیت چلایا کہتے ہیں اس کے زمانے میں اجین نے بڑی ترقی کی۔ راج دربار میں ہر فن مولا کے استاد موجود تھے جن میں نو آدمی جو نورتن کہلاتے تھے سب سے اونچے درجے پر تھے۔ ان میں سنسکرت کا سب سے بڑا شاعر کالی داس اور مشہور طبیب دھنوتری بھی شامل تھے۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اتنے قریب کہ ایک سینے سے دو دل دھڑکتے معلو م ہوتے تھے۔ نکل کے چہرے پر دکھ تھا جیسے وہ اپنے سینے میں ایک کسک چھپائے ہوئے ہو۔ دمینتی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اس کے کالے کالے بال نل کے چوڑھے کندھوں پر بکھر گئے تھے۔ اچانک درختوں میں ایک پرندہ پھڑپھڑایا اور نل آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا آج دن بھر وہ یہی سوچتا رہا تھا کہ دمینتی دوربھ نگر کیوں نہیں چلی جاتی۔ اور اب بھی یہی خیال اسے ستا رہا تھا۔ پھر ایکا ایکی اس کے جی میں ایک عجیب خیال آیا۔ میں اگر اسے یہاں چھوڑ کر چلا جائوں تو وہ سیدھی اپنے میکے چلی جائے گی۔ یہ جو سامنے پگڈنڈی ہے اس سے دوربھ نگر کو راستہ نکلتا ہے۔ میں کئی بار اس راستے آیا گیا ہوں۔ وہ اٹھا اورآدھی چادر پھاڑ کر اپنے جسم پر لپیٹ لی پر اس کے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے۔ میرا دل بھی کتنا کٹھورہے میںدمینتی کو ایسے سنسان جنگل میں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ اس دمینتی کو جو اگر چاہتی تو سورگ کی رانی بن سکتی تھی۔ اندر کے ساتھ اس کے سنگھاسن پر بیٹھ سکتی تھی۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ آنسوئوں سے گلا رند ھ گیا۔ پھر ایکاایکی اسے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی اس کے کان میں کہہ رہا ہے تو اب سوچ کیا رہا ہے اسے چھوڑ کے چلا کیوںنہیںجاتا تو اب نشندھ کا راجہ نل تو نہیں جس کے لیے دمینتی نے دیوتائوں کی بات نہیںمانی تھی تو تو ایک ہارا ہوا جواری ہے۔ وہ چند قدم چلا پھر رک کر کہنے لگا۔ میںدمینتی کو چھوڑ کر کیسے چلا جائوں۔ اچانک ہوا سوکھے پتوںمیں سے سرسراتی ہوئی گزری۔ نل کے کان اس آواز سے بھر گئے۔ تو تو ہارا ہوا جواری ہے ہارا ہوا جواری ہارا ہوا جواری۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بڑھا پھر دوڑنے لگا مگر دل کی دھڑکن کے ساتھ یہ آواز اور زیادہ تیز ہوتی جاتی تھی۔ پگڈنڈی کے موڑ کے پاس پہنچ کر اس نے دمینتی پر نظر ڈالی وہ سوکھے پتوں پر یوںپڑی تھی جیسے پچھلے پہر کے دھندلکے میں صبح کا تارا کانپ رہا ہو۔ نہ جانے وہ کب تک یونہی چلتا رہا۔ پھر اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ دمینتی بہت دور رہ گئی ہے کیونکہ اب تڑکا ہو چکا ہے۔ اور وہ ایک گھنے جنگل میں سے گز ر رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف بڑے بڑے درخت تھے اور صبح کی روشنی ان پتوں میں سے چھن چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی۔ پھر اسے اپنے سامنے آگ کے شعلے بھڑکتے نظر آئے اور ساتھ ہی مجھے بچائو کی آواز سنائی دی۔ وہ ان شعلوں کے پا س پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی کو آگ کی لپٹوں نے گھیر رکھا ہے اور اس میں ایک بہت بڑا ناگ تڑپ رہا ہے۔ نل نے ہاتھ بڑھایاتو وہ ناگ ایک ننھا سا کیڑا بن گیا۔ اور نل اسے آسانی سے اٹھا کے شعلوں سے باہر نکال لایا۔ پر جب اس نے ناگ کو زمین پر رکھنا چاہا تو اس نے نل کی انگلی میں کاٹ لیا۔ اس کے کاٹتے ہی نل کی رنگت کالی پڑگئی اور اس کا قد بھی گھٹ کے بہت چھوٹا رہ گیا۔ ناگ بولا میں نے تجھے اس لیے کاٹا ہے کہ تیرے بیری تجھے پہچان نہ سکیں۔ اور وہ جو تیرے اندر بیٹھا تجھے برائی پر اکساتا رہتا ہے میرے بس سے بیکس ہو کر تجھے چھوڑ کر چلا جائے۔ اب تو یہاں سے اجودھیا کے راجہ رتوپرن سے گنت بدیا ۱؎ سیکھ تاکہ تو جوئے میں اپنے بھائی کو ہرا سکے۔ میں تجھے کپڑے بھی دیے دیتا ہوں۔ جب تو میرا دھیان کر کے انہیں پہن لے گا تو تجھے کھویا ہوا رنگ روپ مل جائے گا۔ یہ کہہ کے وہ ناگ توپاتال کو چلا گیا۔ اور نل اجودھیا پہنچ کے راجہ رتوپرن کے رتھ بانوں میں ںوکر ہو گیا۔ یہاں سب لوگ اسے باہک کے نام سے جانتے تھے اور کسی کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ اس کالے کلوٹے بونے کے روپ میں نشدھ دیس کا راجہ نل چھپا ہوا ہے۔ ۱؎ علم ریاضی (۵) ادھر دمینتی سو کے اٹھی تو نل کو نہ پا کے بہت بیکل ہوئی پہلے سوچا کہ شاید تالاب تک گئے ہوں پر جب چادر پر نظر پڑی تو ساری بات سمجھ میں آ گئی۔ پھر تو وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کے روئی کہ جنگلوں اورپہاڑوں میں کوک سی پڑ گئی۔ جب رونے سے جی ذرا ہلکا ہوا تو اٹھ کے ایک طرف کو چلی پر راستے میں بیہڑ کہیںپہاڑ کہیں ٹیلے‘ کہٰں چڑھائی کہیںاترائی کہیں ندی نالے‘ کہیں دلدلیں۔ مدت تک یونہی جنگلوں میں بھٹکتی رہی اور کئی مہینوں کے بعد سختیاں جھیلتی کالے کوسوں کی منزلیں کاٹتی بھوک پیا سکے دکھ سہتی چیدی ۱؎ پہنچی وہاں کی رانی دمینتی کی ماں کی سگی بہن تھی۔ پہلے تو دیر تک دونوں پر ایک دوسرے کا بھید نہ کھلا۔ پر جب چیدی کی رانی کو معلوم ہوا کہ دمینتی کون ہے تو وہ بڑے پیار دلار سے اپنے پاس رکھا۔ اور پھر اس کے کہنے پر اسے دروبھ نگر بھجوا دیا۔ دمینتی کو وردبھ نگر جیج جان سے پیارا تھا کیونکہ اس نے یہیں جنم لیا تھا۔ ییہیں کھیل کود کے پلی تھی۔ ۱؎ چیدی پرانے زمانے کی ایک مشہور ریاست ہے۔ یہ ریاست اس علاقے میںپھیلی ہوئی تھی جو آگے چل کر چندیل اور بندھیل کھنڈ کے نا م سے مشہور ہوا۔ ششوپال جوسری کرشن جی کے ہاتھ سے مارا گیا یہیں کا راجہ تھا۔ پھریہاں سے اس کے ماں باپ ساتھ کھیلی ہوئی سہیلیاں بہنیلیاں بھی موجود تھیںجو اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ دونوں بچے بھی یہیں تھے۔ جنہیں دیکھ کے کلیجے میں ٹھنڈک سی پڑتی تھی۔ پر ساجن سے بچھڑنے کا دکھ ایسا تھا کہ آسانی سے مٹ جاتا۔ جب دیکھو بال بکھرائے ہیں آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے ہی َاور پھر اکیلے مین منہ ڈھانپے پڑی رو رہی ہے۔ راجہ بھیم نے نل کا کھوج لگانے کے لیے بڑے جتن کیے۔ دیس دیس پرچے پیغام دوڑائے پورب سے پچھم اور اتر سے دکھن تک ہرکاروں کی ڈاک بٹھا دی کہ جہاں کہیں نل کا پتہ ملے فوراً ودربھ میں خبر پہنچ جائے۔ ادھر دمینتی نے یہ ترکیب کی کہ کچھ برہمنوں کو ہر طرف پھیلا دیا یہ لوگ شہر شہر اورگائوں گائوں پھرتے اور پکار پکار کر کہتے کہ وہ جواری کہاں ہے جو اپنی استری کو بن میںچھوڑ کے چلا گیا۔ وہ پجاری برہ میں بیکل اس کا راستہ تک رہی ہے۔ ان میں سے ایک برہمن رتوپرن کے دربار میںبھی پہنچا اور کتھا میں یہ فقرے بھی جوڑ دیے اور کسی کو تو خیال نہ آیا۔ پرراجہ کے رتھ بان باہک کے کان کھڑ ے ہو گئیل۔ جب کتھا ختم ہو چکی تو وہ برہمن کے پاس آیا۔ اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد آہ بھر کر بولاا جس بچارے میںاتنی سکت نہیں رہی ہو کہ اپنی استری کا پیٹ پال سکے۔ وہ اسے چھوڑ کر نہ چلا جائے تو اور کیا کرے۔ پر اونچے گھرانے کی عورتیں بڑے بڑے دکھوں میںپڑ کے بھی اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتیں۔ ان کا پتی چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اس کی طرف سے جی میلا نہیں کرتیںَ دمینتی کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کلی کے روپ میں کھل گئی اور کہنے گی ہو نہ ہو میرے پتی نے رتھ بان کا سوانگ رچا رکھا ہے۔ برہمن نے بہتیرا کہا کہ مہارانی کہاں وہ کالا کلوٹا اور ٹھگنا رتھ بان اور کہاں راجہ نل مجھے تو وہ کچھ سنکی بھی معلوم ہوتاہے۔ پر دمینتی کے جی میں یہ بات بیٹھ گئی تھی۔ کہ باہک کے روپ میں وہی ہارا ہوا جواری ہے برہمن سے کہنے لگی کہ اسی وقت سیدھے اجودھیا چلے جائو اور توپرن سے کہو کہ کل دمینتی کا سوئمبر ہے۔ راجہ رتوپرن نے یہ خبرپاتے ہی باہک کو بلا کے کہااسی وقت رتھ میں گھوڑے جوتو اور جس طرح بن پڑے مجھے دن ڈھلے سے پہلے دوربھ نگر پہنچا دو۔ کیونکہ کل دمینتی کا سوئمبر ہے۔ یہ سن کر باہک کے دل پر چھریاں سی چل گئیں۔ پائوں لڑکھڑانے لگے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا جون توں کر کے جی کو سنبھالا اور گھوڑے جوت راجہ کو رتھ میں بٹھا کر دوربھ لے چلا۔ ایک جگہ راجہ کے کہنے پر باہک نے رتھ کو پل بھر کے لیے روکا۔ سامنے ایک ہرا بھرا پیڑ تھا۔ راجہ نے انگلیو ں پر حساب لگا کر بتایا کہ اس پیڑ پر اتنے پھل ہیں اور جب باہک نے کہا مہاراج مجھے بھی یہ بدیا سکھا دیجیے۔ تورتو پرن نے اسے گنت بدیا کے موٹے موٹے گر بتا دیے۔ اس بدیا میں کچھ ایسا اثر تھا کہ ک جگ جو اس کے جسم میں چھپا بیٹھا تھا اسے چھوڑ کے چلا گیا۔ ابھی اونچے اوچنے پیڑوں کی پھنگ اورمندروں کے کلس پر سورج کی پیلی پیلی کرنیں جھلک رہی تھیںَ کہ رتو پرن دروبھ نگر جا پہنچا۔ پر وہ یہ دیکھ کر سناٹے میں آ گیا کہ نہ سوئمبر کی دھوم دھام ہے نہ لوگوں کا بھیڑ بھاڑ نہ کہیں راجائوں کے خیمے ڈیرے نظر آتے ہیں نہ باجے گانے کا شور سنائی دیتا ہے۔ راج محل کی اجلی اجلی دیواریں اداس اور چپ دچاپ کھڑی ہیںفوراً سمجھ گیا کہ برہمن دیوتا جل دے گئے پر کسی سے کیا کہتا۔ راجہ بھیم کو بھی یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یونہی سیر شکار کے لیے آ نکلا ہے دور سے شہر کی دیواریں دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ چلو دروبھ نگر سے بھی ہوتے چلیں۔ دمینتی آپ تو باہک کے سامنے نہ آئی لیکن اس کی داسیاں جو ٹوہ میں لگی تھیں اسے پل پل کی خبریںپہنچاتی رہیں۔ دمینتی نے پہلے یہ سنا کہ رتوپرن کا رتھ بان لکڑیوں پر نظر ڈالتا ہے تو وہ سلگ اٹھتی ہیںَ برتن کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ پھر سنا ہے کہ اسے ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں ُڑتی۔ کھانا آپ ہی آپ پک جاتا ہے۔ اب تو اسے یقین ہو گیا کہ نل ہی نے باہک کا روپ بھر رکھا ہے۔ پہلیل تو جی میں آئی کہ باہک کو راج محل میں بلا بھیجے۔ پھر سوچا کہ بچوں کو اس کے پاس بھیج کر دیکھنا چاہیے۔ اگر وہ نل ہوا تو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھ کر بے چین ہو جائے گا۔ نل کی نظر بچوں پر پڑی تو اس سے صبر نہ ہو سکا۔ دوڑ کے انہیں سینے سے لگا لیا۔ پھر جب خیال آیا کہ داسی جی میں کیا کہتی ہو گی تو کہنے لگا کہ میرے بھی دو بچے ہیںَ اتنے ہی بڑے رنگ و روپ میں بھی ان سے ملتے جلتے ہیں۔ انہیں دیکھ کے مجھے وہ یاد آ گئے جب دمینتی باہک کو ہر طرح سے جانچ پرکھ کے دیکھ چکی تو باپ کی اجازت سے اسے اپنے محل میں بلوا بھیجا اور نل کی کہانی چھیڑ دی۔ دمینتی کی دھج دیکھ کر ہی نل کا جی بے چین ہو گیا تھا۔ پر جب اس نے ساجن کی بیوفائی کی کتھا بکھانی شروع کی تو نل نے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ دمیؤنتی کی باتیں کیا تھیں تیز کٹار کے وار تھے جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا تھا۔ جب یہ وار سہنے کی طاقت نہ رہی تو کہنے لگا تم سچ کہتی ہو پر میں کل جگ کے بس میں تھا۔ اس نے جو چاہا میں نے وہی کیا۔ یہ کہہ کے ناگ نے جو کپڑے دیے تھے وہ پہن لیے۔ انہیں پہنچتے ہی وہ اپنے اصلی روپ میں آ گیا۔ دمینتی اسے پہچان کے دوڑی۔ اور گلے لگ کے رونے لگی۔ کچھ دیر تک دونوں کا یہ حال رہا کہ آنسوئوں کا تار تھمنے میں نہیں آتاتھا۔ جب رو دھو چکے تو ایکد وسرے کو اپنی اپنی بے تبی کی کہانی سنانے لگے اور رات انہی باتوں میں کاٹ دی ۔ نل نے رتوپرن سے گنت بدیا کے گر سیکھ لیے تھے۔ اب اس نے اجودھیا کے راجہ کو گھوڑوں کی بال بھونری کی پہچان بتائی۔ رتھ چلانے کا ڈھنگ بھی سکھایا اور اس کے بدلے ا س سے جوئے کے جوڑ توڑ سیکھ لیے۔ پھر وہ دمینتی کو ساتھ لے کر بڑے ٹھاٹھ ک ساتھ نشدھ پہنچا۔ پشکر سے جوئے کی بازی میں سارا کھویا ہوا مال دھن اور راج پاٹ لے لیا۔ اور بڑے چین سے راج کرنے لگا۔ نل اور دمینتی نے نشدھ میں ایسا سکھ پایا کہ دکھوں اور مصیبتوں نے ان کے دلوں میں جو گھائو ڈال رکھے تھے وہ آپ ہی آپ بھر گئے۔ ہاں کبھی کبھی بھولی بسری باتیں اس طرح یاد آٓ جاتی تھیں جیسے ان دونوں نے اب اسے دور ایک بھیانک سپنا دیکھا ہو۔ ٭٭٭ شکنتلا (۱) مہرشی وشوا ۱ ؎ متر کی ذات کے چھتری اور کوشک بنس کے راجکمارتھے۔ پر ان کا جی راج کا ج سے زیادہ گیان دھیان کی باتوں میں لگتا تھا۔ آخر ان بکھیڑوں سے ایسا جی اچاٹ ہوا کہ تیر تلوار چھوڑ مالا سنبھالی اورایک سنسان بن میں پہنچ کر تپسیا کرنے لگے۔ ۱؎ رگ وید میں وشوامتر کو راجہ کوشک کا بیٹا بتایا گیا ہے لیکن بعد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ پوروبنس کے کھشتری تھے۔ ان کا شمار بڑے بڑے رشیوں میں ہوتاہے۔ کہتے ہیں کہ اور سب نے تو انہیں رشی مان لیا پروششٹ رسی نے نہ مانا۔ ان کا جھگڑا مدتوں تک چلتا رہا اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن آخر ان میں صلح ہو گئی۔ اور ششٹ جی نے وشوامتر کو رشی مان لیا۔ رامائن مہابھارت اور ہری دفش اورکئی پرانوںمیں وشوامتر کا ذکرموجود ہے۔ وشوامتر کی کڑی تپسیا کو دیکھ کر سورگ کا راجہ اندر بہت ڈراکہ کہیںیہ تپسوی جپ تپ کے بل سے میرا راج نہ چھین لے۔ اور ان کا آسن ڈگمگانے کے لیے جتن کرنے لگا۔ جب کوئی اور تدبیر نہ چلی تو منیکاکو بلا بھیجا جو رمبھا ۱؎ کو دچھوڑ کے سورگ کی سب اپسرائوں کی سردار سمجھی جاتی تھی ارو کہنے لگا کہ دھرتی پر جا کے اپنے انوپ شنوپ سے وشوامتر کے منکو ایسا لبھائو کہ اسے تپسیا کی سدھ نہ رہے۔ یہ سن کے مینکا کا کلیجہ زور زرو سے دھڑکنے لگا۔ پائوں سن ہو گئے۔ گال پیلے پڑ گئے ۔ اور وہ کانپتی ہوئی بولی کہ مہاراج وشوامتر مہا تپسوی ہیں۔ ان کی نظروں میں سورج کا تیج اور باتوں میں شعلوں کی لپک ہے۔ وہ چاہیں تو تینوں کو جلا کر بھسم کر ڈالیں۔سمیر ۱ ؎ پربت کو گیند کی طرح اچھال دیں۔ موت کا دیوتا یم ان سے ڈرتا ہے۔ چاند اور سورج ان سے خوف کھاتے ہیں۔ مجھ ابلا میں اتنی سکت کہاں کہ ان کا آسن ڈگانے کا حوصلہ کروںَ دیکھیے وہ دونوں ہاتھ آکاش کی طرف اٹھائے آنکھیں بند کیے سمادھی لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھو ں پر مٹی جم گی ہے۔ ۱؎ رمبھا کا حال امرت کہانی میں پڑھیے کہیت ہیںکہ پہلے اندر نے وشوامتر پر ڈورے ڈالنے رمبھا کوبھیجا تھا۔ پر وہ اس کے فریب میں نہ آئے اوران کے سراپ سے رمبھا ہزار برس تک پتھر کی عورت بنی ۔ رمبھا اور منیکا کے علاوہ سورگ کی اپسرائوں میں تلوتما اور اروسی بھی بہت مشہور ہیں۔ ۱؎ سمیر یا یمرودیوتائوں کا استھان ہے۔ اندر کا سورگ اسی پربت پر ہے۔ سمیر پربت کو ہندو دیو مالا میں وہی حیثیت حاصل ہے جو یونانی دیو مالا میں اولمپس پہاڑ کو۔ اور اس میں پودے اگ آئے ہیں اوران کی جٹا میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیںَ ایسے تپسوی کے من کو کون جیت سکتا ہے۔ اندر بولا استری کی آنکھوںمیں ایساجادو ہے جس سے بڑے سے بڑا تپسوی بھی نہیں بچ سکتا۔ اورمینکا تو استری کے روپ میں آکاش کی جوت ہے۔ سنسار میں کون ایساہے جو تجھے ایک نظر دیکھ لے اور اپنا سب کچھ تجھے دینے کو تیار نہ ہو جائے۔ مینکا نے سمی ہوئی آنکھوں سے دھرتی پر ایک نظر ڈالی اورپھر کہنے لگی مہاراج میں ان سے ڈرتی ہوں۔ یہ زہر بھرا پیالہ میرے ہونٹوں سے ہٹا لیجیے۔ مجھے ان کے پاس نہ بھییجیے۔ اندر نے کہا میں تیرے ساتھ پریم پتی مدن اور اس کے دوست بسنت کو بھی بھیج رہا ہوں۔ وشوامتر تیری آنکھوں کے جادو سے بچ جائے تو بچ جائے۔ پر وہ مدن کے بانوں سے کیسے بچ سکتا ہے۔ بسنت رت کے دن تھے آموں پر مور آ چلا تھا۔ اس کے لو بھی بھونرے ڈالی ڈالی گونج رہے تھے۔ ہر ی ہری گھاس پر آم کی ادھ کھلی کلیوں کی سیچ بچھی ہوئی تھی۔ اور ہوا ان کی باس سے مہکی ہوئی تی۔ سنہرے کنول ندی کے پاس میں اپنا روپ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور پھولوں بھری ڈالیاں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ جیسے کوئی نئی نویلی دلہن لال جوڑا پہنے سر نیہوڑائے کھڑی ہو۔ اتنے میں مینکا ہولے ہولے آکاش سے اتری۔ وہ دھنک کی چادر اوڑھے ہوئے تھی جس میں بجلی نے گوٹ لگا رکھی تھی۔ اور کوندے کی چھاگل پری تھی دھرتی کو چھوکے چھاگل گنگنا اٹھی اورٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے مینکا کے لمبے لمبے بالونکو بکھیر دیا وشوامتر نے جھرجھری لے کر آنکھیں کھول دیں ساتھ ہی مدن نے بان مارا جورشی کے دل میں ترازو ہو گیا۔ وشوامتر کچھ دن تو مینکا کی چاہت می پڑ کے جپ تپ کو بھولے رہے۔ جپ پیت کی چڑھی ہوئی ندی اتر گئی تو بہت پچھتائے اور مینکا کو وہیں تپ بن میں چھوڑ کے کہیں چلے گئے۔ کچھ دن کے بعد اس کی کوکھ سے ایک لڑکی نے جنم لیا۔ ماں نے سینے پر صبر کی سل رکھ کے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو ایک پیڑ تلے چھوڑا اور آپ سورگ کو سدھاری۔اس ننھی سی جان کو کچھ دن تو جنگل کے پنچھیوںنے پالا پھر کنور شی۱؎ ادھر سے گزرے تو اسے اٹھا کے اپنے آشرم میں لے آئے انہوںنے اس کا نام شکنتلا رکھا کیونکہ سنسکرت میں پنچھی کو شکنت کہتے ہیں۔ ۱؎ کنورشی بڑے اونچے پائے کے رشی ہیںَ چنانچہ ان کا شمار سات بڑے رشیوں میں کیا جاتاہے۔ ان سات تشیوں کی فہرست میں کوھن کون رشی شامل ہیں ان کے بارے میں الگ الگ رائیں ہیں ایک رائے یہ ہے کہ گوتم بھادواج‘ وشوامتر‘ جگد گنی‘ وششٹ‘ کشیپ اور تری سات بڑے رشی ہیں۔ اور بعض فہرستوں میں بھرگو ‘ پلست‘ کنور‘ویاس‘ منو اور والمیک کے نام بھی ملتے ہیں۔ (۲) پروبنس ۱؎ کے راجہ وشینت جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ ایک ہرن نظر پڑا جو قدموں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ نکلا۔ رتھ بان کنے گھوڑوں کو کوڑا کیا اور راجہ نے تیر کمان میں جوڑا۔ پر ہرن اس طرح اڑتا چلا جارہا تھا کہ اس پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ پھر بھی ٹیلے اسے نظرں سیاوجھل کر دیتے تھے کبھی وہ پیڑوں اور اونچی نیچی جھاڑیوں کی آڑ میں ہو کے تیر کی زد سے بچ نکلتا تھا۔ اب دن ڈھلنے کو تھا۔ صرف کہیں کہیں اونچے اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں پرپیلی پیلی دھو پ دم توڑتی ہوئی نظر آتی تھی۔ کہ ایکا ایکی ہرن پل بھر کے لیے اٹکا۔ راجہ نے کمان کا چلہ چڑھایا ہی تھا کہ کچھ سادھو پیڑو ں کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گئے اور چلا کر کہنے لگے مہاراج یہ کنو رشی کے آشرم کا ہرن ہے۔ یہ سن کے راجہ نے ہاتھ روک لیا اور رتھ سے اتر کے آشرم دیکھنے لگا۔ ۱؎ پروبنس اصل میں چند ربنس کی ایک شاخ ہے۔ پرو اور یادودو بھائی تھے جس سے پروبنس اور یادوبنس چلے۔ کورو اور پانڈو پروبنس میں سے تھے۔ اورکرشن چندر جی یا دوبینس میںسے۔ وشینت پانڈو سے کئی پیڑھیاں اوپر ہے اور اس کا شمار کوروپانڈو کے بڑوں میں ہوتا ہے۔ شفق کے ریشمی آنچل میں سورج کی کرنوںنے جھالر سی ٹانک دی تھی۔ گھاس پھونس کے جھونپڑوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کہ وشنیت کو پیڑوں کے جھرمت میں تین لڑکیاں نظر آئیں جو پودوں کو پانی دینے کے لیے گگریاں بھر کے لا رہی تھیں۔ دوہ تینوں رنگ روپ میں ایک جیسی تھیں تینوں نے پیڑوں کی چھال سے اپنے جسم کو چھپا رکھاتھا۔ پروہ جوان کے بیچ میں تھی۔ وہ چھال کے برن میں جگمگاتی ہوئی جوت معلوم ہوتی تھیں۔ یہ کنورشی کی بیٹی شکنتلا تھی۔ شکنتلا کی سکھیاں بڑی چنچل تھیں راجہ کچھ دیرپیڑوں کی آڑ میں کھڑا ان کے نوک جھونک سنتا رہا۔ پھر ایکا ایکی پیڑوں کی اوٹ سے نکل کر یوں ان کے سامنے آ کھڑا ہوا کہ تینوں رشی کماریاں گھبرا سی گئیںَ راجہ کا جی تو شکنتلا کو دیکھتے ہی ہاتھ سے جاتارہا۔ پر اب جو اس سے باتیں کیں تو روئیں روئیں یں اس کی چاہت سما گئی۔ کنورشی کہیں گئے ہوئے تھے پاپی راکشس آئے دن آشرم والوں کو تنگ کرتے رہتے تھ راجہ نے انہیں راکھشسو ں سے بچانے کے لیے یہیں ڈیرے ڈال لیے۔ جوں جون دن گزرتے جاتے تھے چاہت کی آگ تیز ہوتی جاتی تھی۔ پھر بھی راجہ کو جی کی بات زبان پر لانے کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کیونکہ وہ پروبنس کا چھتری اور کنورشی بڑے اونچے گھرانے کے برہمن چھتری اور برہمن کا سنجوگ کیسا پیپل کی ٹہنی میں آم کا پیوند کیونکر لگ سکتا ہے۔ بہت دیر تو جی ہی جی میں اپنے آپ کو کوستا رہا کہ یہاں کیوں آیا وارایسا روگ کیوں مول لیا۔ جس کی کوئی دوا ہی نہیں۔ پر جب اس نے شکنتلا کی جنم کہانی سنی اور یہ بھید کھلا کہ جسے وہ رشنی کماری سمجھتا رہا ہے و ہ اصل میں راجکماری ے تو بیاہ کی بات چھیڑی۔ یوں تو شکنتال ک یبی جی کو وشینت بن چین نہیں آتا تھا۔ پر بیاہ کا نام سن کر گھبرائی۔ پرھ جب راجہ نے سمجھایا کہ اس سے پہلے بھی رشیوں منیوںکی بیٹیوں نے اپنی مرضی سے بیاہ کیا ہے اور اس کے ماں باپ اس پر ناراض نہیں ہوئے تو وہ مان گئی۔ اور وشنیت نے گندھرب ۱؎ ریت سے چپ چپاتے ا س کے ساتھ بیاہ کر لیا۔ راجہ کو نگر پہنچنے کی جلدی تھ۔ اس لیے وہ توتپ بن میں کچھ دن رہ کے گھر سدھارا پر چلتے وقت اپنی انگوٹھی اتار کے شکنتلا کے ہاتھ میں پہنا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گیا کہ میں کچھ دنوں میں تمہیں بلوا لوں گا۔ وشنیت کو گئے تھوڑے دن ہوئے تھے ہ ایک دن دروا سارشی ۱؎ پھرتے پھراتے کنوجی کے آشرم میں آ نکلے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ۱؎ گندھر اب بیاہ میں میاں بیوی کی رضامندی کافی ہے۔ کسی گواہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ۱؎ دروا سارشی اتری رشی کے بیٹے ہیں اوراپنے نک چڑھے پن کی وجہ سے مشہور ہیں۔ (باقی اگلے صفحہ پر) پر شکنتلا اپنے پیتم کی یاد میں اس طرح کھوئی ہوئی تھی کہ اس نے ان کی آواز نہ سنی۔ دودا سامزاج کے جھلے مشہور تھے۔ اتنی سی بات پر آگ بگولہ ہو کر کہنے لگے کہ اری باولی تو جس کی یاد میں ڈوبی ہوئی ہے وہ تجھے بھول جائے گا۔ اور جب تک انگوٹھی نہ دیکھے گا تجھے پہچان نہ سکے گا۔ شنکتلا کی سکھیوںنے دروا سا رشی کے سراپ کا حال اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ تو ہاتھ پر سر رکھے وشنیت کے دھیان میں بے سدھی بیٹھی رہتی۔ اسے کیا خبر کی دروا ساجی کب آئے کب گئے اور ان کے اس آنے جانے میں اس کے سرپر مصیبت کا کتنا بڑاپہاڑ ٹوٹ پڑا۔ (۳) بسنت رت بیت گئی گرمی آئی اور آسمان سے آگ برسنے لگی۔ تپ بن کے تال سوکھ گئے۔ پھر آکاش پر اودی اودی بدلیاں چھا گئیںَ جلے بھنے رکھ ہرے ہو گئے ۔ بکل کی ہری ڈالیوںمیں پھول آئے۔ آکاش پر دھنک نے جھولا ڈالا اور اپسرائیں ساون گانے لگیں۔ پر شکنتلا کو سسرال سے کوئی لینے نہ آیا۔ ۱؎ وشنو پران میں لکھا ہے کہ انہوںنے اندر کو سراپ دیا تھا جس کی وجہ سے اندر اور دوسرے تمام دیوتا کمزور ہو گئے تھے اور اسرو ں کازو ربڑھ گیا تھا۔ آخر وشنو جی نے سمندر کو متھ کے امرت نکالنے کی تدبیر نکالی اور اس طرح دیوتائوں نے اسروں پر غلبہ پایا۔ جوں جوں دن بیتے جاتے تھے۔ شکنتلا کے جی کی بے کلی بڑھتی جاتی تھی۔ کبھی سوچتی مہاراج کہیں ونواس کی رنگ رلیوں میں پڑ کے مجھے سچ مچ بھول نہ گئے ہوں۔ پھر خیال آیا کہ وہ ایسے تو نہ تھے کہ مجھے یوں بھول جاتے۔ چلتے وقت جب انہوں نے اپنی انگوٹھی مجھے دے کر کہا تھا کہ شکنتلا میں ہستنا پور ۱؎ جا رہا ہوں تو ان کاگلا رندھا ہوا تھا۔ اور ان کی پلکوں پر آنسو کی ایک بوند صبح کے تارے کی طرح کانپ رہی تھی۔ کوئی ایسی بات ہی ہوئی ہو گی۔ کہ وہ نہ آپ آسکے نہ خط پترہی بھیج سکے۔ کچھ دنوں کے بعد آشرم میں چرچا پھیل گیا کہ شکنتلا کا پائوں بھاری ہے۔ کنورشی انہیں دنوں سفر سے لوٹے تھے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ شکنتلا نے ہستنا پور کے راجہ وشنیت کے ساتھ گندھرب کو بیاہ کر لیا ہے تو اسے بلا کے آشیر باد دی اور کہا بیٹی گلاب کا پھول پھلواڑی ہی میں بھلا معلوم ہوتا ہے۔ ہم بن باسیوں میں تیر ا کام ہے؟ تیرے نصیبے میں یہی لکھا تھا کہ سادھوئوں میں پلے اور راجہ کے پہلو میں بیٹھ کر راج کرے۔ تو شرمائی کیوں جا رہی ہے؟ ۱؎ ہستنا پور وہی شہر ہے جس کے لیے کوروپانڈو میں لڑائی ہوئی تھی۔ دلی سے ۵ میل شمال مشرق کی طرف اس شہر کے کھنڈر ملتے ہیں۔ ہستنا پور کا لفظی ترجمہ ہاتھیو ں کا شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں ہاتھیوں کی بہتات تھی ایک خیال یہ بھی ہے کہ ونبس کے ایک راجہ پرونبس کے ایک راجہ کانام ہستن تھا۔ جس کے نام پر یہ شہر ہستنا پور کہلانے لگا۔ میں صبح سویرے ہی تجھے تیرے سسرال بھجوائے دیتا ہوں۔ شکنتلا کی جی آشرم سے جانے کو تو نہیں چاہتا تھا وہ جنگل میں پیداہوئی ۔ کھلے میدانوںاور پھوس کے جھونپڑوں میں پلی اور بڑھی۔ سرس کے پیڑ سہانی ندی مالتی کی جھاڑیاں اورآشرم کے پالتو ہرن اس کے بچپن کے ساتھی تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان سے جدا ہو کر کیسے زندہ رہ سکے گی۔ اسے راجہ کے محل میں رہنا ہو گا جسے پتھروں کی چوڑی چکلی سلوں کی اونچی اونچی دیواریں گھیرے کھڑی ہیں۔ وہاں نہ ندیاں اور تال ہی نہ جنگل کے پنچھی پکھیروں نہ سدا بہار پھول اور بیلیں نہ البیلی سکھیاں جن کے ساتھ کھیل کود کے اس نے بچپن کا زمانہ گزارا تھا۔ وہان تو ہر چیز بناوٹ کاجھول چڑھا تھا۔ ہنسنا بناوٹی رونا بناوٹی باتوں میں بناوٹ ہی بناوٹ وہ اپنے دل کا حال کس سے کہے گی ورکیسے کہے گی؟ پھر بھی وشنت کی چاہت اسے ہستنا پور کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔ پوپھٹتے ہی سکھیوں نے اسے بنا چنا کے دلہن بنادیا۔ وہ ریشم کے سوہے جوڑے میں ایسی لگتی تھی جیسے آگ میں سونے کی ڈلی دمک رہی ہو۔ ماتھے پر بندی تھی آنکھوںمیںکاجل اور مانگ میں سینور کی لال لکیر۔ بن باسیوں کے ہاں سونے روپے اور ہیرے پنے کے گہنے کہاں سے آتے۔ ہاں اس کے کانوں میں سرس کے جھومر ضرور تھے۔ جو ستاروں پر آنکھ مار رہے تھے۔ اور چندن کے لیپ سے اس کی انگیا مہکی جا رہی تھی۔ کنوجی اور شکنتلا کی سکھیاں اسے چھوڑنے تالاب تک آئیں۔ جہاں سے آشرم کی حد شروع ہوتی تھی۔ پھر اس نے کنو بابا کے پائوں کو چھوا۔ سکھیوں کو گلے لگا کر رخصت کیا کنوجی نے اپنے دو چیلے اس کے ساتھ کر دیے تھے۔ راستے میں تپ بن کی جھاڑیاں بار بار اس کا پلو پکڑ لیتی تھیں۔ ایک بار اس نے پلٹ کر دیکھا تو مولسری کی ڈالیاں ہوا میں ہلتی ایسی معلوم ہوئیں جیسے کوئی ہاتھ ہلا ہلا کر اسے اپنی طرف بلا رہا ہو۔ (۴) راجہ وشنیت محل میں بیٹھا تھا۔ انتے میں خبر ملی کہ دو بن باسی کنورشی کا سندھیا لے کے آئے ہیں۔ راجہ نے انہیں بلا بھیجا۔ شکنتلا کو دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا کہ سادھوئوں کی منڈلی میں یہ کنیا کہاں سے آئی؟ جب سادھوئوں نے کہا کہ یہ کنو بابا کی منہ بولی بیٹی شکنتلاہے جس سے آپ نے تپ بن میں بیاہ کیا تھا اور اب کنورشی نے اسے ہمارے ساتھ آپ کے پاس بھیجا ہے۔ کیونکہ بیاہی ہوئی بیٹی کا گھر میں بٹھائے رکھنا ٹھیک نہیں تو وہ سوچ میںپڑ گیا۔ درواسارشی کے سراپ کی وجہ سے اسے ہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالنا آشرم میں آجانا شکنتلا کاملنا اور پھر اس سے بیاہ کر لینا سرے سے یاد ہی نہیں رہاتھا۔ راجہ کے محل میں قدم رکھتے ہی شکنتلا کا ماتھا تھنکا تھا۔ پھر جب سادھوئوں کی بات سن کر راجہ کی بھنویں تن گئیں اور وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا تو اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اتنے می اسے وشنیت کی آواز سنائی دی کہ وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس دیو ی سے کبھی بیاہ کیاہو۔ اپنے پیارے کی زبا ن سے یہ الفاظ سن کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہو۔ پھر بھی اس نے ہمت کر کے اپنے چہرے سے گھونگھٹ کو ہٹا دیا۔ کہ شاید اس کا دولہا ا س کی صورت دیکھ کر اسے پہچان لے۔ پر راجہ نے اسے بالکل نہ پہچانا۔ اس نے نشانی کی مندرجی دکھانی چاہی تو انگلی خالی پائی۔ چلا کے کہنے لگی ہائے میری انگوٹھی کہاں گر پڑی لیکن راجہ اسے بھی تریا چلتر سمجھا اور ایسے ایسے طعنے دیے کہ اس بے چاری کا سینہ چھلنی ہو گیا اس کی جلی کٹی سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اسے کوئی چھنال سمجھتا ہے۔ جس نے کام دیو کے بس میں ہو کے اپنی لاج کو بٹہ لگایا۔ اور اب زبردستی راجہ کے گھر پڑ جانا چاہتی ہے۔ راجہ کے طعنے مہنے سن کے شکنتلا غصے کے مارے کانپنے لگی۔ چہرہ تمتما اٹھا۔ آنکھوںمیں خون اتر آیا وہ کہنے لگی مہاراج میں نے آپ کو پرو کے گھرانے کا کھشتری سمجھ کر سب کچھ اپنا آ پ کے حوال یکر دیا تھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ آپ کے جی میں کھوٹ بھرا ہے۔ پر ذرا اپنے دل پر ہاتھ رک کے کہیے تو سہی کہ آپ جو کہہ رہے ہیں سب سچ ہے۔ کیا آپ نے کبھی مجھ سے پیت بیوپار نہیں کیا ۔ کیا آپ نے تپ بن میں گندھرب ریت کا بیاہ نہیں رچایا۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میرے من کی بات کو کون جانتا ہے۔ آ کو معلوم نہیں ہے کہ من کے مندر میں ایک دیوتا کا استھان ہے۔ جس سے کوئی بات لکی چھپی نہیں رہتی۔ وہ کھوٹے کھر ے کواچھی طرح پہچانتا ہے اور پن پاپ کا حساب رکھتاہے۔ آپ دنیا کو دھوکا دے لیں تو دے لیں پر اسے کیسے دھوکا دے سکتے ہیں۔ اس وقت شکنتلا کے ہونٹ کانپ رہے تھے نتھنے پھولے ہوئے تھے اور گال لال گلال ہو گئے تھے۔ راجہ اس کی باتیں سن کے چکرایا اور جی میں کہنے لگا کہ اس کنیا کا غصہ بناوٹی تو معلوم نہیں ہوتا ۔ اس کی باتوں میں آگ بھری ہے جس کی آنچ سے دل پگھلا جاتا ہے۔ پھر ا سکے روپ میں ایسا بانکپن ہے کہ جی چاہتاہے کہ بس اسے دیکھتے ہی رہیے پر جس استری سے کبھی کی جان پہچان نہیں اسے اپنے گھر میں کیسے ڈال لوں اورگھرمیں بھی ڈال لوں۔ تو دنیا کوکیا منہ دکھائوں گا۔ کنو جی کے چیلوں نے بھی راجہ کو بہت سمجھایا اور دھرم اور ادھرم کا فرق بتا کے کہا کہ مہاراج اس نصیبوں جلی پر دیا کیجیے۔ اور اسے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیجیے۔ پر جب دیکھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں تو وہ شکنتلا کو وہیں چھوڑ کر چل دیے وہ بے چاری روتی ہوئی ان کے پیچھے بھاگی پر یہ سادھو ایسے دل کے کٹھور نکلے کہ اسے اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ شکنتلا سمجھی تھی کہ سسرال میں جگہ نہ ملی تو میکے میں سرچھپانے کا ٹھکانا مل جائے گا۔ پر جب یہ آس بھی ٹوٹ گئی تو اس نے پھولوں کے جھومروں کو نوچ کے پھینک دیا۔ اور دو ہتڑ مار مار کے اپنے سینے کو لہولہان کر لیا۔ پنچھی پکھیرو آم کے گھنے پتوںمیں دبک گئے تھے ۔ وشنیت کے محل کی لونڈیاں باندیاں گم سم ھکڑی تھیں اور شکنتلا کے بین سن کے پتھروں کے دل پانی ہوئے جا رہے تھے۔ اتنے میں آکاش پر اجالا ہو گیا۔ اور ایک تار ا ٹوٹتا ہوانظر آیا۔ اس تارے نے دھرتی پر پہنچ کر عورت کا روپ دھار لیا۔ پرھ ا سعورت نے جو اس روپ میں بھی دمکتا ہوا تارا معلوم ہوتی تھی۔ شکنتلا کو گود میں اٹھا لیا او ر اندرا ۱ ؎ لوک کی طرف اڑ گئی۔ اس وقت آکاش پر ہزاروں مہتابیان چھوٹ رہی تھیں۔ ۱؎ اندر لوک یا سورگ دیوتائوں کے راجہ اندر کا استھان ہے۔ اور پھولوں کی باس سے ہوا کا آنچل مہک رہا تھا۔ یہ مامتا کی ماری منیکا تھی جو بیٹی کو بے آسرا پا کے اسے اٹھا کے لے گئی تھی۔ (۵) وشنیت نے شکنتلا کو جو انگوٹھی دی تھی۔ وہ تپ بن کے ہستنا پور آتے وقت اس کی انگلی سے نکل کر ایک ندی میں گر پڑی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد ایک مچھیرے نے ندی میں جال ڈالا تو ایک مچھلی ہاتھ آئی۔ گھر جا کے اس کا پیٹ چاک کیا تو ایک مندری نکلی۔ جس کانگینہ ستاروں پر آنکھ مار رہا تھا۔ پاس ہ ایک سنا ر کا گھر تھا دوڑا دوڑا اس کے پاس پہنچا۔ سنار کو فوراً پہچان گیا کہ یہ تو راجہ کی انگوٹھی ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ انگوٹھی سنار سے کوتوال اور کوتوال سے راجہ تک پہنچی اور مچھیرا جس کی جان مارے ڈر کے نکلی جا رہی تھی۔ راج دربار سے مالا مال ہو کر لوٹا۔ ورداسارشی کے سراپ نے وشنیت کی یاد پر جو پردہ ڈال دیا تھا انگوٹھی پر نظر پڑتے ہیی وہ اس طرح ہٹ گیا جیسیی تیز ہوا چاند کے الے مکھڑے سے بادلوں کے آنچل کو ہٹا دیتی ہے۔ اور راجہ کوہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالنا ۔ کنورشی کے آشرم میں جانا شکنتلا سے پینگ بڑھانا غرض ساری بھولی بسری باتیں یاد آ گئیں۔ سوچا میں کتنا بڑا پاپی ہوں کہ ایک انیلی لڑکی کو سبز باغ دکھا کے پیت کے پھندے میں پھنسایا۔ اس سے بیاہ رچایا اور پھر جب وہ میرے دوارے آئی تو اسے اس طرح دھتکار دیا جیسے کوء پہچان ہی نہیں سکتی تھی۔ انسان بڑا بھلکڑ سہی پر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے من مند ر کی دیوی بنائے اسے یوں بھول جائے بھگوان یہ کیوں ہوا کیسے ہوا میری آنکھوں پر یہ پردہ کیسے پڑ گیا۔ میں نے گھر آئی ہوئی لچھمی ۱؎ کو کیوں ٹھکرا دیا۔ میری حالت تواس کنگال کی سی ہے جو سد ا دولت کے سپنے دیکھتا رہے۔ پر جب اس کے گھر سے ہیرے پے کا مینہ برسنے لگے تو وہ فوراً انہیں سمیت کے اتھاہ سمندر میں ڈال دے۔ ان خیالوں نے راجہ کو ایسا گھیرا کہ اور کسی بات کی سدھ نہ رہی۔ جب دیکھو کسی گہری سوچ میں کھویا ہواہے۔ یا پھر اودی اودی بدلیوں پر نگاہ اس طرح جمی ہوئی ہے کہ جیسے ان بدلیوں کے اس پار اس کی نظریں کھوئے ہوئے سکھ کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ محل میں بیٹھے بیٹھے اکتاجاتا تو باغ میں چلا جاتا۔ اور اشوک کی چھائوں میں بیٹھ کے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتا۔ جب اشوک کی ٹھنڈی چھائوں میں بھی دل کی آگ نہ بجھتی تو اٹھ کے دربارمیں چلا جاتا۔ یہاں بھی جی نہ لگتا تو گھبرا کے پھر محل کا رخ کرتا۔ یہاں جڑائو مسندیں تھیں۔ جگمگاتے سنگھاسن صندل اور بلور کی چوکیاں سنہری پردے جن پر چتر کاروں نے رنگا رنگ چتر بنا رکھے تھے۔ ۱؎ لچھمی یا لکشمی راجہ تکیے پر سر رکھ کے لیٹ جاتا۔ باندیاں مورچھل جھلتیں سازندے ساز چھیڑتے پکھاوج پر تھاپ پڑتی۔ گائنیں دھیمیے سروں میں گیت گاتیں جن میں کبھی چاند اور چکور کنول اوربھونرے کی پیت کی کہانی ہوتی۔ کبھی سرمشتھا ۱؎ اور دیویانی کے سوتیاڈاہ کا ذکر کبھی اندر کے سورگ کی تعریف کبھی مدن کے شوجی پر تیر چلانے کا بیان۔ پریہ میٹھے اور سہانے گیت جلتی آگ پر تیل کا کام کرتے۔ ساز کے اتار چڑھائو سے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ اورپکھاوج کی آواز تو اسے یوں لگتی جیسے کوئی موگری اس کے سر کو کوٹ رہا ہے۔ وہ بے اختیار پکاراٹھتا بس کرو بس کرو ہاتھ روک لو گانا بند کر دو۔ اورایکا ایکی ہر طرف سناٹا چھا جاتا۔ سازندے اور گائنیں سرجھکائے یوںپیچھے پائوں ہٹتیں کہ ان کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ ۱؎ سرمشتھا اور دیویانی دونوں راجہ بیاتی کی رانیاں تھیں۔ سرمشتھا ایک ویت راجہ کی لڑکی تھی۔ اور دیویانی اس راجہ کے پروہت شکر کی بیٹی ایک دن دونوںمیں جھگڑا ہو گیا اورسرمشتھا نے دیویانی کو ایک کنوئیں میںدھکیل دیا۔ ادھر سے راجہ بیاتی کا گزرہوا۔ اس نے دیویانی کو نکالا اور پھر اس کے باپ کی اجازت لے کے اس سے بیاہ کر لیا۔ سرمشتھا کو اس کے قصور کی سزایہ ملی کہ وہ دیویانی کی لونڈی بن کے بیاتی کے ہاںگئی کچھ دنوں کے بعد بیاتی اور دیویانی میں بگاڑ ہو گیا۔ کیوکہ سر مشتھا نے راجہ کے دل کوموہ لیا تھا اور دیویانی اپنے باپ کے ہاں چلی گئی تھی۔ سرمشتھا کا بیٹا پروتھا جس سے پروبنس چلا اور دیویانی کا بیٹا یادو جس کی اولاد یادوبنسی کہلاتی ہے۔ مورچھل جھلنے والی باندیاں بھی راجہ کا اشارہ پا کے اس کے پیچھے چل دیتیں۔ جب سب لوگ چلے جاتے تو وہ منہ ڈھانک کے رونا شروع کر دیتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ پر سچ پوچھو تو دل کی آگ کا کوئی ٹھیک نہیں کبھی آنسوئوں سے بجھ جاتی ہے۔ کبھی اور بھڑک جاتی ہے اور محبت کے آنسوئوں میں شرم اورپچھتاوے کے آنسو بھی آملیں تو جی کی بے کلی کا کیا ٹھکانا ہے؟ (۶) آخر یوں ہی روتے روتے دکھ کی گھڑیاں بیت گئیں۔ وشنیت کے دن پھرے اورسورگ کے راجہ اندر نے اپنے رتھ بان ہاتھی کو حکم دیا کہ راجہ وشنیت کو رتھ میں بٹھا کے میرے پاس لے آئو یوں تو کہنے کو کچھ راکھشسوں نے سر اٹھایا تھا اور ان سے لڑنے کے لیے اندر نے ہستنا پور کے راجہ کو بلایا تھا۔ پر یہ اصل میں وشنیت سے شکنتلا کا سامنا کرا نے اور بچھڑے ہوئوں کو ملانے کا بہانہ تھا۔ اندر کارتھ جسے کھینچنے والے گھوڑے ئبجلی سے زیادہ چنچل ہیں اچنبھے کی چیز ہے۔ اس میں ہچکولے لگتے ہیں نہ پہیوں کی گڑگڑاہٹ اور ٹاپوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ماتلی نے گھوڑوں کو ششکارا تو رتھ تیر کی طرح سنسناتا۔ ہوا کو چیرتا۔ آکاش کی طرف بڑھا۔ اس وقت وشنیت کو ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے دھرتی کو نیچے کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ ندیوں کا پاٹ گھٹ گیا ہے۔ مندروں کے کلس ننھے ننھے تارے معلوم ہو رہے ہیںَ پھر یہ ننھے تارے بھی چھپ گئے۔ ندیاں سپید لکیریں بنیں اور آہستہ آہستہ یہ لکیریں بھی نظروں سے اوجھل ہو گئیں اب دھرتی کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ سپید سپید بادل جو دھنکی ہوئی روئی کی طرح معلو م ہوتے تھے بہت نیچے رہ گئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں بجلی کی دھاریاں سنہری سانپ کی طرح لہراتی نظر آ جاتی تھیں۔ آگے بڑھے تو نہ بادل تھے نہ بجلی کی لکیریں ہاں چاروں طرف ایک نیلی نیلی دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اندرا لوک ۱؎ کے پاس پہچنے تو ہوا مہک اٹھی اور کان گیتوں سے بھر گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان گنت ساز بج رہے ہوں اور ہر طرف گیت ہی گیت بکھرے ہوئے ہیں پر ان میں ناروجی کی بین کی آواز سب سے اونچی تھی۔ کیونکہ وہ سب گندھروں کے سردار ہیں۔ ۱؎ اندر کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی سردار یا راکھشس اس کا راج نہ چھین لے۔ یاکوئی تپسوی تپسیا کے بل سے اندر لوک پر قبضہ نہ کر لے۔ راون کے بیٹے میگھ ناد نے شوجی کی پوجا کر کے ایسی طاقت پائی تھی کہ اندر سے جا بھڑا تھا۔ اور اسے گرفتار کر کے لنکا لے گیاتھا۔ آخر برہما جی نے جا کے اندر کو چھڑایا۔ میگھ ناوجو اندر جیت بھی کہلاتا ہے ۔ لکھشمن جی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اوران کے سامنے چھ راگ اور چھتیس راگنیاں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیںَ اب وشنیت نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتاہے کہ پکھراج کی زمین ہے جس میں موتی اور لعل کے پھول دمک رہے ہینَ ہیرے پنے کے محل ہیں چاندی سونے کے پربت اور ٹیلے جھیلوں اور تالابوں کا پانی کیا ہے پگھلا ہوا نیلم ہے؟ جس میں سنہری کنول ہلکورے لے رہے ہیں۔ پربتوں میں کہیں کنروں ۱؎ کے ڈیرے ہیں۔ کہیں مکیش پھر رہے ہیں۔ ایک طرف کلپ کے پیڑوں کا جھرمٹ ہے جن کے سایے تلے جو چاہو مل جاتاہے۔ پاس ہی امرت کنڈ ہے جس کا پانی پی لو تو موت کا کھٹکا باقی نہیں رہتا۔ پھر اس نے اپسرائیں دیکھیں۔ جو سپنوں کی اس دنیا میں پرے باندھے اڑ رہی تھیں۔ ان کا لباس سورج کی سنہری کرنوں اور چاندنی کو گوندھ کے بنایا گیا تھا۔ مانگ میں شفق نے سیندور ؤبھرا تھا اور ماتھے پر تاروں کے جھومر لٹک رہے تھے۔ ماتلی ساتھ ساتھ بتاتا جا رہا تھا وہ جو بیچ میں بازو پھیلائے اڑ رہی ہے اروسی ہے۔ اس کے دہنے ہاتھ مینکا ہے اور بائیں طرف نل کویرکی استری رمبھا اور وہ جو ان کے آگے آگے دھیمے سروں میں کچھ گا رہی ہے تلوتما ہے جس کے لیے سند ۲؎ اور اسند آپس میں لڑ مرے تھے۔ ۱؎ کنر۔ گندھرو کی طرھ سورگ کی ایک مخلوق ہے۔ جس کا سر گھوڑے کا سا اور دھڑ انسانوںکا سا ہے۔ ۲؎ سند اور اسند دو راکھشس تھے جب انہوںنے بہت فساد مچایا تو اندر نے تلوتما کو ان کے پاس بھیجا۔ اس نے ان کے من کو ایسا لبھایا کہ وہ دونوں تلوتما کو جیتنے کے لیے آپس میں لڑ مرے۔ وشنیت یہ تماشا دیکھتا اندر کے دربار میں پہنچا۔ وہاں اس کی بڑی آئو بھگت ہوئی پھر وہ اندر کی فوج کو ساتھ لے کر راکھشسوں سے جا بھڑا۔ اور آن کی آن میں انہیں مولی گاجر کی طرح کاٹ کے رکھ دیا۔ اس پر دیوتا بہت خوش ہوئے اور سورگ کے راجہ نے اپنا ست لڑا تار کے اس کے گلے پر ڈال دیا ۔ اندر کے دربار سے لوٹا تو راستے میں کشیپ رشی کا آشرم پڑتا تھا سوچا آئو ان مہاتما کے بھی درشن کر لیںَ جنہوںنے دیوتائوں کو جنم دیا ہے۔ یہاں ایک لڑکے کو دیکھا جس کا چہرہ سورج کی طرح روشن تھا۔ اسے دیکھ کے جی بے قابو ہو گیا۔ سینے میں چاہت کی لہر سی اٹھنے لگی۔ پوچھا یہ کس گھر کا اجالا ہے۔ جواب ملا پروبنس کا راج کما رہے۔ باپ کا نام پوچھا تو کہا وشنیت۔ بس پھر کیا تھا۔ لپک کے اسے سینے سے چمٹا لیا شکنتلا بھی یہ خبر سن کے رہمی سمٹی رکتی جھجکتی آئی آنکھیں دو چار ہوئیں تو دونوں کا جی بھر آیا۔ وشنیت کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو تھے۔ شکنتلا کا گلا رندھا ہوا تھا۔ پر اس کی نظریں ملامت کے اگنی بانوں سے خالی تھیں۔ وشنیت نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ گھر آئی لچھمی کو ٹھکرا دیا۔ پر اب میری آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا ہے۔ ادھر سے جواب ملا اس میں آپ کا کیا قصور ہے میں نے پچھلے جنم میں کوئی پاپ کیا تھا جس نے آپ ا دل مجھ سے پھیر دیا۔ وشنیت اور شکنتلا کا ملاپ تو ہو گیا۔ پر دونوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ بجوگ کیسے پڑا۔ آخر کیشپ رشی نے بتایا کہ درواساجی کے سراپ نے وشنیت کے دل سے شکنتلا کی یاد مٹا دی تھی۔ تو یہ گتھی آپ سے آپ سلجھ گئی۔ وشنیت شکنتلا اور بھرت تینوں نے کشیپ جی اور ان کی استری ادیتی کے چرن چھوئے۔ ان کی اشیر باد لے کے رتھ میں بیٹھے اور آن کی آن میں ہستنا پور آ پہنچے۔ شکنتلا نے جیسے دکھ اٹھائے ہیں ویسا ہی سکھ پایا تھا پٹ رانی بن کر راجہ کے پہلو میں بیٹھی ۔ اور اس کے بیٹے بھرت نے اپنے نبس کانام ایسا اچھالا کہ آج تک یہ دیس اس کے نام پر بھارت ورش کہلاتا ہے۔ ٭٭٭ گنگا (۱) سرجوندی کے کنارے سے اجودھیا کی پرانی بستی ہے جس کے نام و سورج بنسی راجائوں کے بل اور تیج نے چار چاند لگا دیے ہیںَ کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں یہاں راجہ سگر راج کیا کرتے تھے۔ کہنے کو تو وہ اجوچھیا کے راجہ تھے پر ان کی بہادری کے جھنڈے چار کھونٹ گڑے ہوئے تھے ۔ اور دیس دیس کے راجہ انہیں باج دیتے تھے۔ راجہ سگر کے بہت سے بیٹے تھے جنہیں اپنی بہادری کا بڑا گھمنڈ تھا۔ ان کے کہنے سے ایک دن راجہ کو خیال آیا کہ اشومیدھ یگیہ ۱؎ کر کے بھارت ورش ۲؎ کے سب بلوانوں کو نیچا دکھانا چاہیے۔ ۱؎ گھوڑے کے قربانی جو راجے مہاراجے چھتر پتی بننا چاہتے تھے یہ رسم ادا کرتے تھے۔ لیکن بہت پرانے زمانے میں صرف اولاد حاصل کرنے کے لیے گھوڑے کی قربانی کی جاتی تھی۔ اس غرض کے لیے جو گھوڑا چنا جاتا تھا وہ خاص قسم کا ہوتا تھا یہ خیال عام تھا کہ جو راجہ ایسی سو قربانیاں کرے وہ آسانی سے اندر کا راج سنگھاسن چھین سکتا ہے (باقی اگلے صفحے پر)۔ اشارے کی دیر تھی اسی وقت ایک اصیل گھوڑا یگیہ کے لیے چن لیا گیا اور سپاہی تلواروں کو سان پر چڑھانے اور ایک لمبے سفر کی تیاریاں کرنے لگے۔ پھر ایک دن صبح سویرے اس گھوڑے کو اچھی طرح بنا سنوار کر چھوڑ دیا گیا۔ اس وقت اس کی سج دھج دیکھنے کے لائق تھی۔ جڑائو پاکھر سونے کی ہنسلی جس میں بڑے بڑے نگینے جگمگا رہے تھے۔ اپنے کو آزاد پا کے گھوڑوں نے چاروں پتلیاں جھاڑیں اور اس طرح جست بھری کہ بس بجلی سی کوند گئی۔ ادھر راجہ سگر کے بیٹے فوج کے لیے کھڑے تھے۔ انہوںنے گھوڑے کا پیچھا کیا غرض آگے آگے یہ گھوڑا ہر بھرے کھیتوں سنسان بنوں اونچے ٹیلوں اور ندی نالوں کو الانگتا پھلانگتا چلا جاتا تھا۔ اورپیچھے پیچھے راج کمار چلے آتے تھے۔ کچھ راجائوں نے اپنے میں مقابلہ کا بوتا نہ پا کے بے لڑے بھڑے ہار مان لی بعض نے لڑائی کا ڈول ڈالا اور گھوڑے و گھیر گھار کے پکر کے لے گئے۔ پریہ راجکمار آسانی سے دبنے والے نہیں تھے۔ فوراً ڈنکے کی چوٹ پر لگا دشمن پر جا پڑے۔ ۲؎ ہندوستان کا پرانا نام ہے۔ کہتے ہیں کہ مہاراجہ وشنیت کے بیٹے بھرت کے نام پر اس ملک کا نام بھارت ورش پڑ گیا۔ کورو پانڈو راجہ بھرت کی نسل میں سے تھے۔ گھوڑ ے کو لڑ بھڑ کے چھڑایا اور نذریں لے کر فتح کے نشان لہراتے چل کھڑے ہوئے۔ یونہی یہ سورما جنگل اور بیابانوں کے لپٹتے سپٹتے میدان مارتے راج بخشتے باج لیتے سمندر کے کنارے جا پہنچے۔ اب دور دور کوئی ایسا راجہ مہاراجہ نہ تھا جو ہار مان کے باج دینے کا اقرار نہ کر چکا ہوں۔ اس یے یہی صلاح ٹھہری کہ گھر لوٹنے کی تیار کی جائے۔ سپاہیوں کو بھی گھر چھوڑے مدتیں ہو گئی تھیں۔ اجودھیا نگری کی یاد دلوں میںچٹکیاں لے رہی تھی۔ یہ خبر سن کے ان کے اداس چہرے دمک اٹھے۔ ایک دن راجکمار سمندر کے کنارے کھڑے ہنس بول کے جی بہلا رہے تھے کہ ایکا ایکی ایک شور سنائی دیا۔ ساتھ ہی کچھ سپاہی ہانپتے کانپتے سامنے آ گئے۔ اور کہنے لگے کہ گھوڑے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ یہ سن کے راجکماروں کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ پہلے تو آس پاس کے علاقے میں آدمی دوڑائے جب گھوڑے کا کوئی کھوج نہ ملا تو آپ اسے ڈھونڈنے نکلے۔ ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں انسان تو انسان یکش اور گندھرو ۱؎ بھی پائوں نہ رکھ سکتے۔ مگر کہیں اس کا پتہ نہ پایا۔ ۱؎ گندھرو سے ملتی جلتی ایک مخلوق جو دولت کے دیوتا کو یر کے ماتحت سمجھی جاتی ہے۔ کالی داس نے اپنی مشہور نظم میگھ دولت (قاصدابر) میں ایک یکش کی بپتا کا حال لکھا ہے۔ جو اپنی محبوبہ سے جدا ہو کر ایک پہاڑ پر آ پڑا ہے۔ اور بادل کے ہاتھ اسے سندیسہ بھیجتا ہے۔ آخر دیس دیس کی خاک چھانتے ایک ہرے بھرے جنگل میں پہنچے۔ دیکھا کوسوں تک ہریاول کا فرش ہے اور اس میں لال اور پہیلے پھول تاروں خی طرح دمک رہے ہیں۔ بیچ میں ایک تالاب ہیجس کا نرمل جل موتی کی آب کو شرماتاہے۔ اردگرد پیڑوں کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں اوران پر پنچھی پکھیروکلول کر رہے ہیں ۔ تالاب سے ذرا ہٹ کے ایک جنا دھاری سادھو بھبوت رمائے سمادھی لگائے بیٹھے ہیں۔ اور ان کے پاس وہ گھوڑا بندھا کھڑا ہے ایک راجکمار نے بڑ کے پوچھا بابا تم کون ہو اور یہ گھوڑا تمہارے ہاتھ کیسے آیا۔ پر سادھو مہاتما اسی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔ یہ دیکھ کے وہ بہت بگڑے اور جو کچھ منہ میں آی اکہہ ڈالا۔ شور سن کے سادھو نے آنکھیں کھولیں اور غصیلی نظروں سے اس کی طرف دیھکا۔ ان کے یوں دیکھتے ہی ایک شعلہ سا لپکا جو راجکماروں کو بھسم کر گیا۔ جنگل کے پکھیرو سہم کر ٹہنیوں میں دبک گئے۔ اور ڈوبتے سورج کی کرنیں ٰہ دیکھکر پیلی پڑ گئیں کہ جہاں راج کمار کھڑے تھے وہاں راکھ کے ایک ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ (۲) راجہ سگر بیٹوں کی راہ تک رہے تھے اور ان کے جل کر راکھ ہو جانے کی خبر ملی ۔ ساتھ ہی ہی بھید بھی کھلا کہ وہ تپسوی سادھو جن کے غصے کی آگ نے راجکماروںکو جلا ڈالا تھا۔ اصل میں کپل روشی ۱ ؎ تھے یہ سن کر راجہ سگر ڈھاڑیں مار ما رکے رونے لگے اورروتے روتے بے سدھ ہو کر سنگھاسن پر گر پڑے۔ یہ خبر شہر میں پہنچی تو ہر طرف ایک کوک سی پڑ گئی اورکئی دن اجودھیا میں کہرام مچا رہا۔ راجہ کو پہلے ہی بڑھاپے نے نڈھال کر رکھا تھا۔ بیٹوں کی موت کے دکھ نے رہی سہی سکت باقی نہ چھوڑی۔ کئی دن بستر پرپڑے رہے جب جسم میں تھوڑی بہت جان آئی اور بات چیت کرنے کے لائق ہوئے تو اپنے پوے انشومان کو لے کر جو بوڑھے راجہ کا سہارا تھا۔ بلا بھیجا اورک ہنے لگے کہ بیٹا جو ہوا سو ہوا پر مججھ اس بات کا بڑا دکھ ہے ک اب یگیہ نہ ہو سکے گا۔ اور لیے تم جائواور جس طرح بھی بن پڑے یگیہ کے گھوڑے کو لے آئو۔ انشومان دل کے نرم اور طبیعت کے نیک تھے۔ اور ان کی باتوں میں کچھ ایسی مٹھاس تھی کہ لوگوں کے جی آپ ہی آپ ان کی طرف کھنچتے تھے۔ انہوںنے میٹھی میٹھی باتوں سے کپل رشی کے غصے کو دھیما کر کے پہیل گوڑا مانگ لیا۔ پ؛ھر کہنے لگے مہاراج کوئی ایسا اپائے بتائیے کہ یہ راجکمار پھر جی اٹھیں۔ ۱؎ ایک مشہور رشی سانکھیہ شاستر انہیں کی یادگار ہے۔ رشی بولے جب تمہارا پوتا بھاگیرتھ گنگا جی کو آکاش سے دھرتی پر لائے گا تو یہ سب راجکمار سورگ کو سدھاریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے تو آنکھیں بند کر لیں اور انشو مان گھورے کو لے کر ہنسی خوشی گھر لوٹے۔ (۳) گنگا جس کے آس پاس کے علاقے کو پرانے زمانے میں آریہ ورت ۱؎ کہتیتھے بھارت ورش کے سب دریائوںسے اتم سمجھی جاتی تھی۔ وہ پربتوں کے راجہ ہماچل کی بیٹی اور اما کی بہن ہے اور وشنو جی ۲؎ کے پائوں سے بہہ نکی ہے پہلے وہ آکاش پر بہتی تھی اور راجہ سگر کے پڑوتے بھاگیرتھ ۳؎ جی اپنی تپسیا کے بل اسے دھرتی پر لائے تھے۔ بھاگیرتھ کو راج سنگھاسن پر بیٹھے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھ کہ اپنے بڑوں کا کپل رشی یکے غصے کی آگ میں بھسم ہونا یاد آیا۔ اس خیال کے آتے ہی جی بیکل ہو گیا۔ ۱؎ پرانے زمانے میں گنگا بندھیا چل تک کے علاقے کو آریہ ورت کہتے تھے۔ ۲؎ وتنو تین بڑ دیوتائوں میں سے ایک ہیں اور سنسار کے پالنہار سمجھے جاتے ہیں۔ لکشمی ان کی پتنی کا نام ہے ہندودیومالا میں کہٰں تو انہیں اس طرھ دکھایا گیا ہے کہ ہر طرف پانی پھیلا ہوا ہے۔ وشنو جی اس پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی نام سے کنول کا پھول پھوٹ نکلا ہے۔ کہیں وہ سفیع کنول کی پننکھڑی پر بیٹھے ہیں۔ گنگا ان کے پائوں سے بہہ نکلی ہے اورکہیں وہ ہزارپھنوں والے سانپ شیش ناگ کی پیٹھ پر لیٹے نظرآتے ہیں۔ ۳؎ گنگاراجہ سگر کے پڑوتے بھاگیرتھ کے نام پر بھاگیرتھی بھی کہلاتی ہے۔ اسی وقت راج پاٹ دیوان کو سونپا گیروے کپڑے پہن اجودھیا سے نکلے اور ہمالیہ پربت پر پہنچ کے تپسیا کرنے لگے۔ یہاں کبھی گہری گپھائوں میں ہوا اس طرح شور مچاتی ہے کہ انسان تو انسان جنگل کے جانوروںکے جی دھل جاتے ہیں کبھی زور کے جھکڑ چلتے ہیںَ جھیلوں کا پانی اچھلنے لگتا ہے۔ درخت اکھڑ اکھڑ کے گر پڑتے ہیںَ کبھی بجلی چمکتی ہے بادل گرجتے۔ چٹانیںٹوٹ ٹوٹ کر گرتیں برف کے طوفان آتے۔ جھیلوں کا پانی ختم ہو جاتا اور برفانی پرطت کے چوڑے سینے اور اس کے بھورے بھورے بازوئوں کو اجلی اجلی چادر اوڑھا دیتے۔ پریہ طوفان اور جھکڑ بھاگیرتھ جی کے من کو ڈانواڈول نہ کر سکے۔ اور وہ جس طرح بیٹھے تھے اسی طرح بیٹھے رہے۔ انہیں یونہی تپسیا کرتے ہوئے مدتیں بیت گئیںَ برف کے سینکڑوں طوفان آئے جھیلوں کا پانی کئی بار جم کے پگھلا جنگل اور بن کئی بار سوکھے اور ہرے ہوئے پر ان کے جی کی کلی نہ کھلی۔ پچھلا پہر تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہ تھی بھاگیرتھ جی سمادھی لگائے بیٹھے تھے۔ اتنے میں اشا ۱؎ نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے پورب کے پھاٹک کھول دیے سامنے کی جھیل میں خنول کے سپید پھول ہلکورے لینے لگے اور گنگا جی دیوی کا روپ دھار کر ان کے سامنے آ گئیں۔ ۱؎ اشا صبح کی دیوی جو آکاش کی بیٹی ہے اس کی جوانی کا سدا بہار پیڑ ہمیشہ لہلہاتا رہتا ہے۔ اور بڑھاپا اس پر اثر نہیں کر سکتا۔ ہماچل کی بیٹی کی آنکھیں کنول کی سی تھیںَ راج ہنس کی گردن گھٹا سے بال جن میں موتی پروئے ہوئے تھے۔ اور مونگے کی سی پتلی پتلی اور لال لال انگلیاں جن سے پانی کی بوندیں گر رہی تھیںَ اس کا لباس سیپ کی طرح سپید تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دودھ ۲؎ کے سمندر کی ایک لہر نے اس کے سارے جسم کو ڈھانپ رکھا ہے۔ گنگا کے ہونٹ یوں ہلے جیسے کنول کی نازک پتیاں صبح کی تیز ہوا اور سورج کی سنہری کرنوں کو چھو کے کانپنے لگتی ہیں اور ایک لہر سی گنگنا اٹھی۔ راجہ تک کیا چاہتے ہو۔ اے ہماچل کی بیٹی میں چاہتا ہوں کہ تو آکش سے اتر کر دھرتی پر بہنے لگے۔ مگر اے راجہ میرا بوجھ دھرتی کیسے سنبھال سکے گی؟ بھاگیرتھ کا سر جھک گیا ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا جواب دیں پہاڑی چشموں کے میٹھے گیت کی طرح پھر ایک آواز گونج اٹھی۔ ہاں ااگر میں شو جی کے سر پر گر کے ان کی جٹا سے بہہ نکلوں تو دھرتی تباہی سے بچ سکتی ہے۔ راجہ تم جائو اور شو جی کو راضی کرو۔ ۱؎ دودھ کا سمندر یعنی کیشر ساگر ہنوئوں کی پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ کیشر ساگر میں پانی کی جگہ دودھ ہے۔ کہتے ہیں دیوتائوں نے اسی سمندر کو بلو کے امرت نکالا تھا۔ بھاگیرتھ جی نے پ تپ سے شو جی کو ایسا رجھایا کہ انہوںنے گنگا کو اپنے سر پر روکنا منظور کر لیا۔ پھر ایک دن یہ سورگ کی ندی شو جی کے سر پر گر کے ان کی جٹائوں سے گزرتی ہوئی پربت کا سینہ توڑ ک بہہ نکلی۔ شو جی کے سر پر گرنے کی وجہ سے اس کی تیزی کم ہو گئی۔ پھر بھی اس کے زور کا یہ حال تھا کہ کہیں چٹانوں کو توڑ پھو ڑ کے بہا دیا کہیں بڑے بڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر ہوا میں اچھالا ار پھر اپنی لہروں میںلپٹتی لے چلی کہیں وہ چھوٹے بڑ ے ٹیلوں کو پھلانگتی میدانوں کو پہلو میں دباتی ہوئی اس طرح بڑھی کہ دور دور تک پانی کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ کہیں چادریں بنا بنا کے ایسے زور سے گزرتیکہ پربت اور بن شور سے گونج اٹھتے اور کہیں پہاڑوں سے ٹکراتی جھاگ اڑاتی تنگ دروں میں سمٹ کے یوں بہنے لگتی جیسے ایک سپید سا سانپ لہراتا چلا جاتا ہو۔ جب وہ یونہی چٹانوں سے ٹکراتی میدانوں کو دباتی جنگلوں اور کھیتوں کی گود کو موتیوں سے بھرتی راکھ کے اس ڈھیر تک پہنچی جو راجہ سگر کے بیٹوں کی نشانی تھا۔ تو وہ سب کے سب جی اٹھے اور گنگا کی مہما کرتے شوجی کی تعریف کے گیت گاتے اڑ کے سورگ میں جا پہنچے۔ ٭٭٭ امرت کہانی ایک بارسار ے دیوتا مل کر وشنو جی کے پاس گئے اور کہنے لگے کوئی ایسا اپائے بتائیے کہ ہمارا بل اور شکتی کبھی نہ گھٹے اورہمارے دشمن اسر ۱؎ کسی بات میں ہم سے آگے نہ بڑھیںَ وشنو جی بولے کہ یہ تو جبھی ہو سکتا ہے کہ سمندر کو بلو کے امرت نکالا جائے اور سارے دیوتا اسے پی کے امر ہو جائیں۔ پر یہ بڑا کٹھن کام ہے تم سے ہو سکے تو پہلے مندرا ۲؎ اچل پہاڑ کو اکھاڑ لائو کیونکہ سمندر اس سے بلویا جا سکتا ہے‘‘۔ ۱؎ سر دیوتائوں کو کہتے ہیں اور اسر دیوتائوں کے دشمن کو۔ لیکن راکھشسوں اور اسروں میں بڑا فرق ہے اسر دیوتائوں کی طرح کیشپ رشی کی اولاد ہیں۔ اور راکشس پلست رشی کی نسل میں سمجھے جاتے ہیں۔ ۲؎ یہ ٹھیک ٹھیک تو معلوم نہیںہو سکا کہ مندراچل کس پہاڑ کا نام ہے۔ ہاں بھاگل پور کے پاس اس نام کا ایک پہاڑ موجود ہے جسے ہندو بہت پوتر سمجھتے ہیںَ یہ سن کے دیوتا بہت خوش ہوئے اور مندراچل کو اکھاڑنے چلے مندراچل بہت اونچا پربت ہے۔ اس کی چوٹیوںپر اجلی اجلی بدلیاں سورگ کی اپسرائوں کی طرح نرمل جل کی گاگریں لیے کھڑی ہیںَ ان کی مانگ میں شفق نے سیندور بھرا ہے ماتھے پر بجلی کا جھومر ہے۔ اور گلے میں دھنک کاست لڑا ہار۔ جب وہ مسکرا پر اپنی گاگریں دھرتی پر الٹ دیتی ہیں تو جل تھل ایک ہو جاتے ہیں۔ دیوتائوں نے بڑا زور مان پرمندراچل ان سے ہل بھی نہ سکا۔ یہ دیکھ کے وشنو جی نے کدرو کے بیٹے شیش ناگ کو بھیجا۔ اس نے اپنے بل بوتے پر پربت کو اکھیڑ لیا۔ اور سب دیوتا مل کے اسے سمندر کے کنارے لے آئے۔ پھر انہوںنے مندراچل کو رئی بنایا اور شیش ناگ کے بھائی واسکی ناگ کو رسی کی طرح اس میں لپیٹا۔ وشنو جی نے کچھوے کا روپ بھر کے پربت کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اورسب سر اور اسر مل کے بلونے لگے۔ جب مندراچل سمندر میں گھومنے لگا تو دھرتی تھرا اٹھی۔ مندراچل پر جو بڑی بڑی چٹانیں تھیں وہ ٹوٹ ٹوٹ کے سمندر میں گرن لگیں۔ ان کی رگڑ سے آگ بھڑک اٹھی۔ ۱؎ کدرووکش جی کی بیٹی تھیں جس کا بیاہ کیشپ رشی سے ہوا وہ ہزار سانپوں کی ماںہے جس میں واسکی شیش اور تکشک سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ ان میں شیش ناگ جس کے ہزار سر ہیں درھتی کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے اور واسکی ناگ پاتال میں راج کرتا ہے۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگلوں میں پھیل گئی اور آگ کے شعلے ہرے بھرے پہاڑ کی چوٹیوں پر یوں لپکنے لگے جیسے نیلے نیلے بادوں میں بجلی کوند رہی ہوں اتنے مٰ اندر دیوتا نے بدلیوں کو اشارہ کیا اور انہوںنے پانی برسا کے آگ کو بجھا دیا۔ پھر بھی چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر برابر گر رہی تھیں۔ جنگلی پھولوں اور جڑی بوٹیوں کا رس بہہ بہہ کر سمندر میں ملتا جاتا تھا۔ ا س رس کے ملنے سے سمندر کا پانی دودھ بنا اور دودھ کی لہروں سے چاند نکلا۔ جو اندھیری راتوں کو اجالتا اور سنسار پر امرت برساتا۔ تھوڑی دیر ہوئی کہ کنول کا ایک پھول پانی پر ہلکورے لیتا نظر آیا۔ اس سے ایک جوت سی ابھری کہ سب کی آنکھیں جھپک گئیںاب جو دیکھا تو کنول کی پنکھڑیوں پر ایک سندر دیوی بیٹھی ہے۔ وہ اپنی مسکراہٹ سے لہروں کو جگمگاتی اور سونا روپا بکھیرتی آگے بڑھی اور کنارے پہنچ کر دیویوں کے جھرمٹ میں جا کھڑی ہوئی۔ یہ دولت کی دیوی لکشمی تھی۔ اس کے آتے ہی جنگل اورپہاڑ دمک اٹھے اور دھرتی نے اپنے سارے خزانے اس کے قدموں میں لا ڈالے۔ اسرمارے تکان سے ہانپ رہے تھے۔ دیوتائوں کے بھی ہاتھ سست پڑ گئے تھے پر لکشمی کو دیکھ کے ان کی ہمتیں بڑھ گئیں۔ اور ہو اس طرح سمندر کو بلونے لگے کہ سپید سپید لہریں آکاش تک جا پہنچیں۔ واسکی ناگ کے منہ سے آگ کی لپٹیں اور دھواں نکلا۔ یہ دھوا ں بادل بنا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ اتنے میں ایک ناری جس کی اگنلیاں مونگے کی سی تھیں سمندروں کی لہروں سے ابھرتی ہوئینظر آئی۔ اس کی آنکھیں دودھ بھرے پیالے کی طرح تھیں۔ گلاب کی پنکھڑیوں ایسے ہونت تمتماتے ہوئے گال ۔ اس کا جسم بھی ایک گلابی ساری سے ڈھکا ہوا تھا۔ ا س نے اپنی نشیلی انکھڑیوں کو کچھ اس طرح گھما کر دیوتائوں پر نظر ڈالی کہ ان کے چہرے جگمگا اٹھے پھر وہ اٹھلاتی ہوئی بڑی اور ورن ۱؎ کے پاس جا کے کھڑی ہو گئی۔ یہ شراب کی دیوی ورنی تھی۔ پھر کام دھینو گائے نکلی جس نے سورگ میں دودھ کی ندیاں بہا رکھی تھیں۔ اس کے پیچھے اچیہ شردا گھوڑا نظر آیا جو بجلی سے زیادہ چنچل ہے۔ دیوتا اس گھوڑے کو دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہے تھے۔ کہ ایک سپید ہاتھی دکھائی دیا۔ جس کے چار دانت تھے۔ پر وہ اپنے ڈیل ڈول سے ایک ڈال چاندی کا پربت معلوم ہوتا تھا یہ ایرادت ہاتھی تھا جس پر دیوتائوں کو راجہ اندر سوار ہوتا ہے۔ کچھ دیر ہوئی تھی کہ سمندر سے ایک پیڑابھرتا دکھائی دیا۔ جس کی ڈالیوں میں رنگا رنگ کے پھول کھلے تھے یہ کلپ برکش تھا۔ ۱؎ ارو آریائوں کا مشہور دیوتا ہے ۔ جس کا ذکر ویدوں میں بھی موجود ہے وہ پانی کا دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے اور شراب کی دیوی ورنی اس کی بیوی ہے۔ جس کی چھائوں تلے دل کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اور جو چاہو مل جاتاہے۔ پھر ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی۔ لہریں اس طرح اٹھیں جیسے شرط باندھ کے آکاش کو چھونے چلی ہوں سمندر پر ایک نیلی نیلی سی دھند چھا گئی اور بہت سی سندر اپسرائیں قطار باندھے بازو پھیلائے اڑتی نظر آئیںَ جن کی چھب کو دیکھ ک ربڑے بڑے تپسویوں کا من ڈول گیا۔ سب سے پیچھے ایک سندر کنیا جس کا روپ چنبیلی کی پنکھڑی کی طرح بے داغ تھا اپسرائوں کے جھرمٹ میں نظر آئی۔ ساری اپسرائیں اس کے سامنے لونڈیاں معلوم ہوتی تھیں یہ رمبھا ۱؎ تھی جس کی یا د میں ان گنت گندھرو اور ریکش ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد سمندر سے اور بہت سے رتن نکلے جنہیں دیوتائوں نے بانٹ لیا پھر ایکا ایکی دھواں سا اٹھا اور ہر طرف چھا گیا۔ اس کی بو سے اسر بے سدھ ہوکر گر پڑے اور دیوتائوں کے بھی دم گھٹنے لگے۔ برہما جی بولے یہ بڑا خوفناک زہر ہے۔ اگر شو جی ہماری مدد کریں تو دھرتی بچ سکتی ہے۔ نہیں تو اس کا کوئی توڑ نہیں۔ یہ سن کے شو شمبھو آگے بڑے اور اس زہر کو پی گئے۔ ۱؎ رمبھا سورگ کی اپسرا اور کویر کے بیٹے نل کویر کی بیوی ہے اندر نے اسے وشوامتر رشی کاتپ توڑنے کے لیے بھیجا تھا۔ پروہ رشی کے من کو نہ لبھا سکی۔ اوران کے سراپ (بددعا) سے ہزار سال تک پتھر کی مورت بنی رہی۔ پر اسے پیتے ہی ان کے گلے کی رنگت نیلی ۱؎ ہو گئی۔ سب سے اخیر میں دھنونتری جی ۱؎ ہاتھ میں امرت کا پیالہ لیے سمندر سے نکلے ۔ انہیں دیکھ کیاسر ٹوٹ پڑے۔ اور امرت کا پیالہ چھین کے لے گئے دیوتائوں نے بہتیرا چاہا کہ اسر بچ کر نہ نکلنے پائیں وہ اس طرح جی توڑ کے لڑے کہ دیوتائوں کی فوج کو گھونگٹ کھا کے پیچھے ہٹنا پڑال دیوتائوںکا یہ حال دیکھ کے وشنو جی سے رہا نہ گیا۔ اور وہ استری کا روپ بھر کے اسروں سے امرت چھیننے چلے اس من موہنی سی چھب اور گات کو دیکھ کے اسروںکی سدھ بدھ جاتی رہی۔ اور وہ امرت پینا بھول گئے۔ اس موہنی نے ان کے دلوں کو ایسا لبھایا کہ وہ اپنا سب کچھ اسے دے ڈالنے کو تیار ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے امرت بھی اسے دے ڈالا۔ پر جب اس نے مسکرا کے امرت کا پیالہ ہاتھ میں لیا تو ایک بجلی سی چمکتی ہوئی معلوم ہوئی۔ جس سے سب کی آنکھیں جھپک گئیں پھر جو دیکھا تو وہی ریتلا میدان ہے وہی اونچے اونچے ٹیلے اور جھاڑیاں ہیں پھر وہ سندر استری کہیں نہیں۔ یہ دیکھ کے کچھ اسر تو ہائے ہاء کرتے ہوئے دھرتی پر گر پڑے اور کچھ پتھروں پر سر پٹکنے لگے۔ ۱؎ شو جی کو اسی لیے نیل کنٹھ یعنی نیلے گلے والا بھی کہتے ہیں۔ ۲؎ دھونتری دیوتائوں کوبید (طبیب) اور آریہ ویدک یعنی ہندوستان کا طب قدیم کا بانی ہے۔ بہت دیر تک یہی حال رہا آخر ایک بڈھا اسر جسے دیوتائوں سے لڑے بھڑتے مدتیں گزر گئیں تھیں کہنے لگا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسے تم سندر استری سمجھ رہے تھے وہ وشنو تھے جو موہنی کے روپ مین امرت چھل کے لیے گئے۔ یہ سن کے اسروں کو بہت غصہ آیا اور وہ ہتھیار سج کے دیوتائوں سے لڑنے چلے۔ یہاں پہنچے تو سارے دیوتا امرت پی کے امر ہو چکے تھے۔ اب نہ تلواروں پر کاٹ کر سکتی تھی نہ آگ جلا سکتی تھی نہ زخمی ہونے کا کھٹکا تھا نہ جسم کی طاقت گھٹنے کا خوف تھا نہ موت کا ڈر‘ پراسر بے لڑے بھڑے ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوںنے آتے ہی پتھروںکا مینہ برسا دیا۔ بڑی بڑی چٹانیں یوں لڑھکائیں کہ دھرتی ڈوی۔ پہاڑ تھرائے سمندرکا پانی اچھلنے گلا۔ ادھرسے دیوتا بھی بڑھے۔ اگنی کے بانوں نے ہر طرف آگ بھڑکا دی۔ پون ۱؎ نے دشمنوں کو یوں للکارا کہ زور کی آندھی چلنے لگی۔ بڑے بڑے پیڑ جڑ سے اکھڑ کے گر پڑے۔ اور دھرتی دھول میں چھپ گئی اندر کا کوندا اس طرح لپکنے لگا کہ اسرو ں کے لیے سر چھپانا مشکل ہو گیا۔ وشنو بھی موہنی کا روپ تیاگ کر اپنے چکر ۲؎ سے دشمنوں کا سر کاٹنے لگے۔ بہت سے اسر اس لڑائی میں مارے گئے جو جیتے بچے ان میں کچھ سمندر میں گھس گئے اور کچھ پاتال میں جا چھپے۔ جب دیوتائوں نے دیکھا کہ سارے اسر بھاگ کے کونے کھدروں میںجا چھپے ہیں تو وہ بھی وشنو جی کی مہما بکھانتے اپنے اپنے لوک کو سدھارے ۔ ۱؎ پون ہوا کا دیوتا جسے وایو بھی کہتے ہیں۔ اندر اور وایو دونوںایک ہی رتھ میں سوار ہوتے ہیں جو سونے کی بنی ہوئی ہے۔ اس رتھ کو ایک ہزار گھوڑے کھینچتے ہیں۔ ہنومان جی پون ہی کے بیٹے تھے۔ ۲؎ چکر وشنو جی کا خاص ہتھیار ہے۔ یہی ہتھیار وشنو کے اوتار کرشن جی کے پاس بھی تھا۔ اسے سدرش چکر اور ویر نابھ بھی کہتے ہیں۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End