قائد اعظم Quaid-e-Azam چراغ حسن حسرت ابتدائی زندگی آج سے ستر اسی سال پہلے کراچی کا شہر آج سے بالکل مختلف نظر آتا تھا۔ نہ یہاںموٹریں تھیں۔ نہ بسیں۔ نہ سینما نہ بڑے بڑے ہوٹل۔ آبادی بہت کم تھی ۔ پھر بھی کراچی خاصا صاف ستھرا شہر تھا۔ اور کسی اور لحاظ سے نہ سہی۔ صفائی کے لحاظ سے ہندوستان بھر کے شہروں میں ممتاز نظر آتاتھا۔ اس کے علاوہ تجارت کے اعتبار سے بھی اس شہر کو خاصی اہمیت حاصل تھی۔ اس وقت شہر کی تجارت پر زیادہ تر سندھی ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ لیکن بہت کچھی اور خوجہ سوداگر بھی یہاں آباد ہو گئے تھے ۔ اور ان کا کاروبار ترقی پر تھا۔ انہی لوگوں میں جناح پونجا بھی تھے۔ جو خوجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اور کراچی کے خوشحال تاجروں میں سمجھے جاتے تھے۔ ان کا اصل وطن تو راج کوٹ تھا۔ جو کاٹھیا وار کی ایک ریاست لیکن کراچی سے آئے ہوئے انہیں خاصی مدت ہو گئی تھی۔ اور اب راج کوٹ کبھی کبھار ہی جانا ہوتا تھا۔ جناح پونجا نیونہم روڈ کی ایک سہ منزلہ عمارت میں رہتے تھے۔ یہ عمارت اب بھی موجود ہے۔ اور وزیر منشن کہلاتی ہے۔ آج کی طرح اس زمانے میں بھی وزیر مینشن میں کئی کنبے آباد تھے جناح پونجا اس مکان کی پہلی منزل کے دو کمروں میں رہتے تھے۔ عمارت کے دوسرے حصوں میں جو لوگ تھے ان میں سے بعض ان کی جان پہچان کے تھے۔ اور بعض ان کی طرح خوجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ء کو جناح پونجا کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام باپ نے محمدعلی رکھا۔ محمد علی جناح پانچ برس ہوئے۔ تو انہیں ایک مکتب میں داخل کیا گیا۔ جہاں دینی تعلیم دی جاتی تھی۔ انہوںنے پہلے باقاعدہ بغدادی پڑھا پھر اس زمانے کے عام دستور کے مطابق انہیں ناظرہ پڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوںنے حکایات لطیف اور اردو کی ایک آدھ کتاب پڑھی۔ ان دنوں سندھ ابھی الگ صوبہ نہیں بنا تھا۔ بلکہ بمبئی ہی میں شامل تھا۔ اس لیے بمبئی کسے کراچی کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے جناح پونجا نے مناسب سمجھا کہ محمد علی کو بمبئی بھیج دیا جائے۔ لیکن انہیں بمبئی کے ایک سکول میں داخل ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ کہ ان کی والدہ سکینہ بیگم کے کہنے پر ان کے والد نے انہیں پھر کراچی بلوا لیا۔ یہاں وہ پہلے مدرسہ ہائی سکول میں داخل ہوئے۔ پھر مشن سکول میں بھیج دیے گئے۔ چنانچہ یہیں سے انہوں نے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت محمد علی جناح کی عمر سولہ برس کی تھی۔ جناح پونجا کئی دن تک یہ طے نہ کر سکے کہ محمد علی کو مزید تعلیم کے لیے کالج میں بھجوا دیں یا کاروبار میں شریک کریں۔ انہی دنوں ان کی ملاقات اپنے ایک پرانے دوست سر فریڈرک کراف سے ہوئی۔ محمد علی کا ذکر آیا۔ تو سر فریڈرک کہنے لگے۔ لڑکے کو بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان کیوںنہیں بھجوا دیتے ۔ جناح پونجا کو یہ بات بہت پسند آئی۔ چنانچہ انہوںنے اپنی بیوی اور کنبہ کے دوسرے لوگوں سے مشورہ کر کے محمد علی جناح کو ولایت بھجوادیا۔ جناح کے بچپن کے حالات ہمیں بہت کم معلوم ہیں۔ لیکن جو تھوڑے بہت حالات ہم تک پہنچے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھلنڈرے نہیں تھے۔ بلکہ انہیں جو فرصت کا وقت ملتا تھا۔ وہ کھیلنے کودنے کے بجائے لکھنے پڑھنے میںگزار دیتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو مطالعہ کے شوق میں بہت رات گئے تک جاگتے رہتے تھے۔ وہ شروع سے دھن کے پکے تھے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتے تھے اسے پورا کر کے چھوڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں صفائی ستھرائی کا بھی بڑا شوق تھا۔ کتابیں بڑے سلیقہ سے لگا کے رکھتے تھے۔ اور ان پر کوئی داغ دھبہ نظر نہیں آتاتھا۔ ان کے کپڑے بھی صاف ستھرے ہوتے تھے ۔ چنانچہ جن لوگوں نے ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ دیکھا ہے۔ ان کا بیان ہے ۔ کہ محمد علی جناح کو اس زمانے میں اچھا لباس پہننے کے سوا کوئی شوق ہی نہیں تھا۔ ان کے رشتہ داروں میں شروع سے ان کی خوشی پوشی کا چرچا تھا۔ اور وہ جس طرف سے گزرتے تھے۔ لوگوں کی نگاہیں بے اختیار ان کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ گجرات کاٹھیاوار میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح یہ رواج مدت سے چلا آتا ہے۔ کہ اکثر شادیاں بچپن ہی میں طے ہوجاتی ہیں کھیم جی نام ایک خوجہ تاجر تھے۔ جو راجکوٹ کے ایک گائوں ہیانی کے رہنے والے تھے۔ ان کی لڑکی امرت بائی سے محمد علی جناح کا رشتہ بچپن ہی سے طے ہو چکا تھا۔ جناح کو ولایت گئے ہوئے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔کہ امرت پائی کے والد نے شادی کیلیے زور دینا شروع کیا محمد علی جناح سکینہ بیگم کی خواہش بھی یہی تھی۔ کہ شادی جلد ہو جائے۔ چنانچہ جناح پونجا نے بیٹے کو شادی کے لیے ولایت بھجوایا۔ محمد علی جناح شادی تو نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن والدین کے اصرار سے مجبور ہو گئے۔ انہیں شادی کر کے ولایت گئے ہوئے تھوڑے ہی مدت گزری تھی۔ کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد یعنی شادی سے ٹھیک ساتویں مہینے امرت بائی بھی انتقال کر گئیں۔ محمد علی جناح ۱۸۹۲ء میں ولایت گئے تھے۔ اور پورے چار سال کے بعد بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے واپس آئے۔ ولایت جاتے وقت انہوںنے بعض لوگوں سے کہا تھا۔ کہ میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں اور ولایت میںانہوں نے جس طرح زندگی گزاری ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بیرسٹر بن کے روپیہ کمانے ہی کا شوق نہیں تھا۔ بلکہ وہ سچ مچ بڑاآدمی بننا چاہتے تھے۔ لندن میں آج کی طرح ان دنوں میں بھی تفریح سے بہت سے سامان تھے۔ ہندوستان سے جو نوجوان ولایت جاتے تھے ان میں سے اکثر ان قصوں میں پڑ کے اپنے وطن کو بھول جاتے تھے لیکن محمد علی جناح نے تفریح اور دل بستگی کے ان سامانوں سیکوئی سروکار نہ رکھا۔ امتحان کی تیاری سے جو وقت بچ جاتا تھا اسے مطالعہ پر خرچ کر دیتے تھے۔ برٹش میوزیم لائبریری لنڈن کی لائبریریوں میں سب سے بڑی ہے۔ محمد علی جناح ہر روز اس کتاب خانہ میں جا بیٹھے تھے۔ لیکن انہیں زیادہ تر بڑے لوگوں کے حالات کے مطالعہ کا شوق تھا۔ انہیں بڑا بننے اور دنیا میں نام پیدا کرنے کا شوق تو پہلے ہی تھا۔ لوگوں کے حالات کا مطالعہ سونے پر سہاگہ ہو گیا ۔ اس زمانے میں ولایت کے ایک ڈرامیٹک کلب سے جو شیکسپیر کے ڈرامے دکھاتا تھا۔ ان کا تعلق بھی رہا اور بعض ڈراموں میں انہوںنے خود حصہ بھی لیا۔ بظاہر تو یہ صرف تفریحی مشغلہ تھا۔ لیکن اس تفریحی مشغلہ سے بھی انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا۔ اب تک انہیں سیاسی جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن جن دنوں وہ بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس نے انہیں سیاست کی جانب متوجہ کر دیا۔ دادا بھائی نوروز جی ان دنوں ہندوستانی لیڈروں میں بڑا اونچا مرتبہ رکھتے تھے۔ وہ تھے تو پارسی لیکن ہندوستان کے لوگوں کے خیالات حکومت کے سامنے کچھ اس بیباکی اور بے خوفی کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے سارا ملک ان کی عزت کرتا تھا۔ ایک موقع پر لارڈ سالسبری نے غصہ میں آ کے انہیں کالا آدمی کہہ دیے ۔ ان دنوں انگلستان میں جو ہندوستانی موجود تھے۔ وہ اس بات پر بہت ناراض ہوئے۔ ہندوستان میں بھی بہت شور مچا۔ آخر یہ فیصلہ ہوا۔ کہ دادا بھائی نوروز جی کو انگلستان کی پارلیمنٹ کی ممبری کے لیے امیدوار کھڑا کیا جائے۔ تاکہ لارڈ سالسبری کو معلوم ہو جائے۔ کہ خود ان کے ملک کے لوگ بھائی نوروز جی کو اپنا نمائندہ بنا کے انگلستان کی پارلیمنٹ میں بھیجنے پر آمادہ ہیں۔ ہندوستانی طالب علموں نے دادا بھائی کو کامیاب کرانے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ دوسرے طلبہ کے ساتھ ساتھ محمد علی جناح نے بھی یاس کام میں بڑے ذوق شوق سے حصہ لیا۔ دادا بھائی نو روز جی الیکشن میں کامیاب ہوئے۔ اور لارڈ سالسبری کو اپنی بدکلامی کا موزوں جواب مل گیا۔ ٭٭٭ بیرسٹری محمد علی جناح ۱۸۹۶ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے واپس آئے ۔ لیکن کراچی میں ان کا جی نہ لگا۔ ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے والد کے کاروبار کی حالت میں کچھ ایسی اچھی نہیں تھی۔ وزیر مینشن کے دو کمرے۔ جن میں انہوںنے اپنی زندگی کا ابتدائی زمانہ گزارا تھا۔ اب انہیں زیادہ گھٹے گھٹے اور اداس معلوم ہوتے تھے۔ نیونہم روڈ پر اب بھی خاصی چہل پہل تھی۔ لیکن انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ سڑک پر ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی ہے۔ محمد علی جناح چاہتے تو کراچی میں بھی ان کی ملازمت مل سکتی تھی۔ چنانچہ ان کے والد کے ایک دوست نے جن کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ انہیں خاصی بڑی تنخواہ پر اپنے ہاں ملازم رکھنا چاہا۔ لیکن ملازمت پر ان کی طبیعت نہ جمی۔ انہوںنے کہا۔ کہ کراچی میں پڑے رہنے سے تو بہتر ہے کہ بمبئی میں چل کے قسمت آزمائی کریں ان کے والد کے دوست نے اصرار کیا۔ تو انہوںنے کہا کہ اچھا مجھے بمبئی میں ہاتھ پائوں مار کے دیکھ لینے دیجیے۔ وہاں کوئی صورت نہ نکلی تو کراچی واپس آ جائوں گا۔ بمبئی آج ہی نہیں اس زمانے میں بھی خاصا بڑا شہر تھا۔ کراچی کا میدان جس شخص کو اپنے حوصلوں کے لیے تنگ نظر آتا تھا وہ بمبئی ہی کا قصد کرتاتھا۔ جناح بمبئی پہنچے تو اتنا روپیہ پاس نہیں تھا۔ کہ اطمینان سے بیرسٹری کی پریکٹس کرتے۔ اور تو اور وکالت کے پیشہ کے لیے قانون کی جن جن کتابوں کی ضرورت ہے وہ بھی انہیں میسر نہیں تھیں۔ ان دنوں میکفر سن صاحب بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ انہوںنے جنا ح کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں تو خیال ہوا۔ کہ یہ نوجوان ہے تو بہت ہونہار لیکن بیرسٹری میں کامیاب ہونے کے لیے جس سامان کی ضرورت ہے اس سے بے نصیب ہے۔ انہوںنے کہا تمہارے پاس کتابیں نہیں تو میرے ہاں آ جایا کرو۔ میرے پاس قانون کی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ تم جب چاہو آ جائو اوران سے جتنا فائدہ اٹھا سکو اٹھائو۔ محمد علی جناح ولایت سے بیرسٹری کی ڈگری تو لے آئے تھے لیکن ایک تو وہ نوعمر تھے پھر بالکل ناتجربہ کار اہل مقدمہ انہی وکیلوں پر اعتبار کرتے تھے۔ جن کانام نکل چکا تھا۔ اس لیے شروع شروع میں انہیں کوئی مقدمہ نہ ملا۔ اور اسی طرح پورے تین سال گزر گئے یہ بیکاری اور تنگ دستی کا زمانہ انہوںنے بڑی مشکل سے گزارا پھر بھی انہوںنے اس فرصت سے پورا فائدہ اٹھایا یعنی میکفر سن صاحب کی لائبریری میں جتنی کتابیں تھیں ان سب کو ایک نظر دیکھ گئے۔ اور بعض کابوں ی تو عبارتوں کی عبارتیں انہیں زبانی یاد ہو گئیں۔ تین سال کے بعد جب انہیں مقدمے ملنے لگے تو انہوںنے ان کی تیاری میں رات دن ایک کر ڈالے۔ کبھی کبھی تو وہ ساری ساری رات جاگ کر آنکھوں کو تیل ٹپکاتے مسلیں پڑھتے بیانوں پر غور کرتے قانونی نکتے نکالتے انہوںنے اوپر تلے دو تین مقدمے جیتے تو لوگوں کی توجہ ان کی طرف ہونے لگی۔ یہ تو نہیں کی خاصی فراعت ہو گئی۔ پھر بھی اتنی آمدنی ہوجاتی تھی۔ کہ تنگی ترشی سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ اور کسی سے قرض نہ لینا پڑے۔ انہی دنوں بمبئی کے تھرڈ پریذیڈنسی مجسٹریٹ مسٹر دستور تین مہینے کی چھٹی پر گئے بہت سے وکیوں اور بیرسٹروں نے اس اسامی کے لیے درخواستیں دیں۔ جناح نے بھی درخواست دے دی۔ بلکہ کسی تعارف کے بغیر سیدھے سر چارلس اولیونٹ سے جو جوڈیشنل کے محکمہ کے افسر اعلیٰ تھے جا ملے ان سے ملنے کے لیے سفارش کی ضرورت تھی۔ لوگوں کو کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جناں اس طرح بے دھڑک ان سے ملنے چلے گئے۔ کہ سر چارلس نے اسی بات سے متاثر ہو کر انہیں بلایا۔ لیکن اتنے بڑے عہدے کے لیے کسی نہ کسی بڑے آدمی اور خاص طورپر ایسے شخص کا جو جوڈیشنل کے محکمہ سے تعلق رکھتا جو سفارشی خط ضروری تھا یہ کمی میکفر سن صاحب نے پوری کر دی۔ اور سر چارلس نے جناح کو تین مہینے کے لیے پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقرر کر دیا تین مہینے گزرے تجھے کہ چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ تین مہینے کی رخصت پر گیا۔ مسٹر دستور چھٹی گزار کے آئے تواس کے قائم مقام مقرر ہوئے۔ جناح مسٹر دستور کی جگہ مزید تین مہینے تک مجسٹریٹی کرتے رہے۔ ان چھ مہینوں کی ملازمت کی وجہ سے ان کی حالت خاصی درست ہو گئی۔ پہلے وہ گول پٹھا میں رہتے تھے۔ پھر دنی روڈ کے ایک ہوٹل میں اٹھ گئے اور کچھ عرصے کے بعد ایک اچھا سا فلیٹ کرایہ پر لے لیا۔ لیکن ان کی طبیعت میں یوں بھی کفایت شعاری تھی۔ پھر تین سال کی بیکاری میں جو تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ ان کی وجہ سے انہیں روپے پیسے کی خاصی قدر ہو گئی تھی۔ اس لیے چھ مہینے کی ملازمت میں جو کمایا تھا اس سے قرض بھی ادا کیا۔ اورتھوڑا بہت بچا بھی لیا۔ لیکن اس ملازمت سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی قابلیت اور ذہانت کی دھاک بیٹھ گئی مجسٹریٹ کی قابلیت اس کے فیصلوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جناح نے اپنی مجسٹریٹی کے زمانے میں جو فیصلے کیے تھے ان سے اور لوگ تو الگ رہے سر چارلس بھی بہت متاثرہوئے تھے چنانچہ ایک موقع پر جناح سے ملے تو کہنے لگے۔ کہ آپ کا نام مجسٹریٹی کے امیدواروں کی فہرست میں لکھ لیا گیا ہے۔ اب کے کوئی مستقل اسامی نکلی تو سب سے پہلے آپ ہی کو موقع دیا جائے گا۔ بڑی اچھی ملازمت ہے تنخواہ کا گریڈ ڈیڑھ ہزار روپے تک ہے۔ جناح نے جواب لیکن میں تو ارادہ کر چکا ہوں۔ کہ ڈیڑھ ہزار روزانہ کمائوں گا۔ سر چارلس اس وقت تو یہ سوچ کے چپکے ہو رہے۔ کہ جوانی کے جوش میں اس نوجوان کی زبان سے ایک بات نکل گئی زمانے کی کھکیڑیں اٹھائے گا۔ تو قدر عافیت معلوم ہو گی۔ لیکن کئی برس کے بعد جب جناح کی ملاقات سر چارلس سے ہوئی۔ تو وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ اور جناح کی آمدنی ڈیڑھ ہزار چھوڑ دو ہزار روپے سے بھی اوپر تھی۔ گویا انہوںنے سر چارلس سے جو بات کہی تھی۔ وہ پتھر کی لکیر ثابت ہوئی۔ اصل میں وہ شروع سے تہیہ کر چکے تھے۔ کہ ملازمت نہیںکریں گے۔ ورنہ انہیں ملازمت کرنی ہوتی تو کراچی سے بمبئی کیوں جاتے۔ اور انہوںنے چھ مہینے تھرڈ پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ تو محض حالات سے مجبور ہو کے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ چھ مہینے کی ملازمت ان کے بہت کام آئی۔ بمبئی کے قانونی حلقوں میں ان کی خاصی شہرت ہوئی۔ اور انہیں آسانی سے مقدمے ملنے لگے۔ سچ پوچھیے تو محمد علی جناح کی طبیعت ملازمت کے ڈھب کی نہیں تھی۔ ملازمت چاہے کتنے اونچے درجے کی ہو افسروں کی بات چاہے صحیح ہو یا غلط ضڑور ماننی پڑتی تھی۔ اور جناح کی طبیعت میں آزادی کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ کسی کے دبیل بن کے نہیںرہنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ بڑے بے باک اور صاف گو شخص تھے۔ جو بات جی میں آتی تھی۔ بے جھجک کہہ ڈالتے تھے۔ ان کی ان خوبیوں نے لوگوں کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے پاس بڑے بڑے پیچیدہ مقدمے آنے لگے اوروہ ترقی کی منزلیلں طے کرتے ہوئے۔ بمبئی کے وکیلوں کی صف اول میں جا کھڑے ہوئے۔ جوانی میں بڑ ے حسین اور جامہ زیب شخص تھے اکہرا جسم تھا خاصی کھلتی ہوئی رنگت پر جو لباس پہنتے تھے۔ بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اچھا لباس پہننے کا شوق انہیںبچپن سے تھا۔ جو مرتے دم تک رہا۔ لیکن افلاس کے زمانے میں جو مصیبتیں اٹھائی تھیں۔ انہوںنے محمد علی جناح کو روپے پیسے کی قدر کرنا سکھا دیا تھا وہ گھر کا سارا حساب خود لھکتے تھے اورپاکستان کا گورنر جنرل بننے کے بعد بھی ان کا یہی انداز رہا۔ روپے پیسے کی طرف سے دل جمعی ہو گئی۔ تو وہ تاج محل ہوٹل کے پاس کی ایک عمارت میں اٹھ آئے۔ ایک بگھی بھی خریدی۔ اور خاصے ٹھاٹھ سے رہنے لگے۔ فراغت اور دل جمعی کے اس زمانہ میں بھی ان کے انداز میں کوئی فرق نہ آیا ان میں نو دولت لوگوں کی سی اکڑ تو نہ تھی۔ البتہ رکھ رکھائو ضرور تھا ۔ اور اپنے آپ کو بہت لیے دییے میں رکھتے تھے۔ یہ چیز ان میں فراغت کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔بلکہ شروع سے ان کا انداز یہی تھا۔ ٭٭٭ کانگریس ہندوستان میں ہندوستانیوں کے حقوق ضمانت کے لیے آل انڈیا نیشنل کانگرس کے نام سے ایک انجمن مدت سے چلی آتی تھی۔ اس جماعت میں زیادہ تعداد تو ہندوئوں کی تھی لیکن کچھ مسلمان بھی اس میں شامل ہو گئے تھے۔ اس انجمن سے مسلمانوں کے الگ رہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریز مسلمانوں کو ہندوئوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے بڑے بڑے انگریز مدبروں کا خیال تھا کہ ہندوستان میں بھی کوئی شورش ہوئی تو مسلمانوں ہی کی وجہ سے ہو گی۔ کیونکہ ابھی ا کے سر سے حکومت کا نشہ نہیں گیا۔ بعض انگریز یہ بھی کہتے تھے کہ مسلمانوں کی تو گھٹی میں ہی بغاوت پڑی ہے۔ ان کا مذہب انہیں یہی سکھاتا ہے۔ کہ دوسرے مذہب والوں کی اطاعت قبول نہ کرو۔ اس لیے یہ کبھی نچلے نہ بیٹھیح گے جب موقع پائیں گے ضرور حکومت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں ماریں گے۔ مسلمان لیڈروں نے جن میں سر سید احمد خاں پیش پیش تھے انگریزوں کے دماغ سے اس قسم کے خیالات نکالنے کی بڑی کوشش کی۔ اور حکومت کی اطاعت اور وفاداری پر اتنا زور دیا۔ کہ مسلمان سچ مچ ہندوستان کے سیاسی معاملات سے بالکل بے تعلق ہو گئے بلکہ جب کانگریس قائم ہوئی تو اوس سے بھی کوئی سروکار نہ رہا۔ ان دنو ں کانگریس سے جو مسلمان ہمدردی رکھتے تھے۔ ان کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ اور ان میں بھی دو چار ہی باقاعدہ کانگریس کے ممبروں میںشامل تھے۔ لیکن محمد علی جناح کی طبیعت کا میلان شروع ہی سے کانگریس کی جانب تھا۔ جن دنوں وہ ولایت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہی دنوں کانگریس کی تحریک سے انہیں ایک قسم کی دلبستگی سی ہو گئی تھی۔ اوردادا بھائی نورو جی کو پارلیمنٹ کا ممبر بنانے میں ولایت کے دوسرے ہندوستانی طالب علموں کی طرح انہوںنے بھی بڑاحصہ لیا تھا ولایت سے واپس آنے کے بعد برسوں تک انہیں پیٹ کے دھندوں نے اتنی مہلت نہ دی کہ کسی دوسری طرف توجہ کر سکیں۔ جب ان کی بیرسٹری خاصی چل گئی اور اطمینان اور فراغت کے ساتھ بسر ہونے لگی۔ تو انہوںنے ملکی معاملات کی طرف توجہ کی۔ اور کانگریس ک ممبر ہو گئے۔ مسلمان کہنے کو تو سیاسی معاملات سے بے تعلق تھے لیکن یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ انہیں بھی ہندوئوں کی طرح اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سیاسی معاملات میں حصہ لینا پڑے گا۔ ۱۹۰۵ء میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ جس نے مسلمانوں کو سیاست میںحصہ لینے پر مجبور کر دیا مسلمان بہت خوش ہوئے کیونکہ مشرقی بنگال کے نئے صوبے جس میں آسام کا علاقہ بھی شامل تھا ان کی تعداد ہندوئوں سے بہت زیادہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ نئے صوبے میں ہماری تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے ملازمتوں پر بھی ہماراہی قبضہ ہو گا آگے چل کر لوگوں کو حقو ق ملیں گے۔ یورپ کے جمہوری ملکوںکے ڈھنگ کی حکومت قائم ہوئی۔ تو اس میں بھی ہم پیش پیش نظر آئیں گے لیکن بنگالی ہندوئوں نے بنگال کی تقسیم کے خلاف اس زور سے تحریک شروع کی کہ انگریز حکام بھی گھبرا گئے۔ کانگریس میں تو ہندو ہی ہندو بھرے ہوئے تھے اس لیے اس نے بھی تحریک کی حمایت کی۔ مسلمانوں نے یہ رنگ دیکھا تو یہی مناسب معلوم ہوا کہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کانگریس کی طرح کوئی انجمن قائم کی جائے اب تک مسلمانوں میں جو تحریکیں شروع ہوئی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ طاقت علی گڑھ کی تحریک تھی۔ یہ تحریک جس کے بانی سرسید احمد خاں تھے یوں تو خالص علمی تحریک تھی اوریہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے علی گڑھ میں ایم اے او کالج کے نام سے ایک اعلیٰ درجہ کا کالج قائم کر لیاتھا۔ اگرچہ سر سید احمد خاں چاہتے تھے کہ مسلمان سیاست کے بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے تعلیم پر اپنی ساری طاقت خرچ کر دیں۔ اور جب تک تعلیم میں وہ ہندوئوں کی برابری کرنے کے لائق نہیں ہو جاتے۔ سیاست سے اپنا دامن بچائے رکھیں لیکن علی گڑھ سے کبھی کبھی مسلمانوں کے حقوق کی حمایت میں بھی کوئی نہ کوئی آواز بلند ہو جاتی تھی اب جو بنگالی ہندوئوں کی تحریک نے زور باندھا تو مسلمانوں نے ڈھاکہ میں ایک جلسہ کیا۔ جس میں مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اگرچہ اس جلسہ میں سر سید احمد خاں مرحوم کے پرانے ساتھیوںکے علاوہ ملک کے سر برآوردہ مسلمان شریک تھے۔ اور یہ تحریک ایسی نہیںتھی کہ جو ہندوستان کے کسی ایک کونے تک محدود رہی ہو۔ بلکہ دیکھتے دیکھتے ملک بھر میں لیگ کی شاخیں قائم ہو گئیں پھر محمد علی جناح جو کانگریسی لیڈروں کی پہلی صف میں نظر آتے تھے اس تحریک سے بالکل الگ رہے۔ اصل میں ان کا خیال تھا کہ ہندو مسمانوں کو مل کے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ بات بظاہر ٹھیک تو معلوم ہوتی تھی۔ لیکن آگے چل کر انہیں اپنی رائے بدلنی پڑی۔ بنگالی ہندوئوں نے بنگال کے دونوں حصوں کو ایک کرنے کے لیے جو تحریک شروع کی تھی۔ وہ کئی برس تک جاری رہی۔ ا س زمانے میں جناح نے بیرسٹر کی حیثیت سے بڑا نام نکالا۔ بلکہ ایک ایسا عجیب اتفاق ہوا کہ وہ انتخاب لڑے بغیر سپریم امپیریل کونسل کے ممبر بن گئے۔ ان دنوں ہندوستان میں یہ سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ اور برے بڑے دولت مند لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے پرا ٓمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جناح کو امپیریل کونسل کی ممبری کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہ کرنا پڑا۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ اس اعزاز کے لیے دو شخص جو دولت اور عزت میںایک دوسرے کی ٹکر کے تھے امیدوار تھے لیکن دونوں کو یہ کھٹکا تھا کہ اگر اس مقابلہ میں ہار گئے تو بڑی بدنامی ہو گی۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ دونوں بیٹھ جائیں اور اپنی جگہ کسی ایسے شخص کو کھڑاکر دیں کہ جس کی قابلیت کا لوہا سب مانتے ہوں۔ ان دنوں بمبئی بھر میں جناح کی لیاقت کے جھنڈے گڑ ے تھے اس لیے ان دونوں نے انہیں اپنی جگہ کونسل میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور محمد علی جناح بلا مقابلہ ممبر منتخب ہو گئے امپیریل کونسل میں جناح نے اس خوبی سے ہندوستانیوں کی نمائندگی کی کہ دوست دشمن سب پر ان کی ذہانت اور لیاقت کا سکہ بیٹھ گیا۔ ان کی تقریریں بڑے زور کی ہوتی تھیں۔ لوگ سنتے تھے اور وجد کرتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ بڑی بے باکی سے گورنمنٹ کر نکتہ چینی کرتے تھے اور طرز حکومت کے نقائص اس جرات اور ہمت سے گنواتے تھے کہ ہندوستانی تو ہندوستانی انگریز بھی داد دینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اب تو کانگریس کے سوا اور کسی جماعت سے ان کا تعلق نہیںتھا۔ لیگ سے وہ بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔ اور ان کی پختہ رائے یہی تھی کہ مسلمانوں کو کانگریس میں رہ کے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے لیکن جن دنوں وہ امپیریل کونسل کے ممبر تھے کچھ باتیں ایسی ہوئیں کہ وہ یا تو لیگ کا نام سن کے کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے یا خود لیگ میں شامل ہوگئے۔ اور ا س کے کاموں میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کے حصہ لینے لگے۔ یہ ذکر پہلے آ چکا ہے کہ جب بنگال کے د و ٹکڑے کر دیے گئے تو مسلمان بہت خوش ہوئے تھے۔ اوراگرچہ ہندو بنگال کے یوں دو حصوں میں بٹ جانے پر بہت ناراض تھے۔ انگریزیہی کہتا رہا کہ بنگال کی تقسیم کا فیصلہ پتھر کی لکیر ہے ۔ چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہوج ائے اس فیصلہ میں ذرہ بھر فرق نہیں آئے گا۔ لیکن بنگالی ہندوئوں کی تحریک بھی اس بلا کی تھی جس نے سچ مچ پتھر کو موم کر ڈالا۔ چنانچہ بنگال کے دو ٹکڑے ہوئے پورے چھ برس گزر گئے تھے۔ کہ دلی میں بڑی دھو م دھام سے ایک دربا ر ہوا۔ جس میں اعلان کیا گیا کہ بنگال کی تقسیم منسوخ کی جاتی ہے مسلمان تو مسلمان ہندوئوں کو بھی سان گمان نہیںتھا۔ ک انگریز اس قدر جلد اپنے فیصلہ کو جو بڑے طمطراق سے کیا گیا تھا منسوخ کر دیں گے۔ ہندوئوں نے تو اس اعلان پر بڑی خوشیاں منائیں۔ مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ پھر بھی انہوںنے اس واقعہ سے ایک سبق ضرور سیکھا۔ کہ اگر انہیں ہندوستان میں عزت وا ٓبرو سے زندگی بسر کرنا ہے تو ہندوئوں کی طرح اہیں بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ جناح اب تو لیگ سے الگ تھلگ رہے تھے بعض مسلمان لیڈر ان سے کئی بار لیگ میں شامل ہونے کو کہہ چکے تھے۔ لیکن انہوںنے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جب مولینا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسن نے ان سے لیگ میں شامل ہونے کو کہا۔ تو وہ فوراً آمادہ ہو گئے۔ محمد علی جناح دلی دربار سے کوئی دو برس کے بعد یعنی ۱۹۱۳ء میں لیگ کے ممبر ہوئے۔ اگرچہ لیگ کے ممبر بننے کے بعد ھبی کانگریس سے ا ن کا تعلق قائم رہا۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ تقسیم بنگال کے جھگڑے میں کانگریس کا جو طرز عمل رہا تھا۔ اس نے انہیں کانگریس سے کسی قدر بددل ضرور کر دیا تھا۔ انہوںنے اس موقع پرکچھ کہا تو ہنیں لیکن معلوم ہوتا ھتا کہ ان کے دل پر ہندوئوں کی تنگ دلی کا نقش خاصا گہرا ہے ۔ اور وہ محسو س کر رہے تھے کہ سیاسیات میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ پھر بھی ان کے دل کو یہ امید سہارا دیے چلی جاتی تھی کہ شاید یہ دونوں راستے آگے چل کر کسی منزل پر آپس میں مل جائیں۔ اور ہندو مسلمان ایک ہو کے ملک کی آزادی کے کام میں جٹ جائیں۔ ٭٭٭ مسلم لیگ مسلم لیگ ۱۹۰۶ء میں قائم ہوئ۔ لیکن کئی برس تو اس نے غرض معروض کے دائرہ سے قدم ہی باہر نہ نکالا۔ بہت ہوا تو میموریل بھیج دیا۔ یا لاٹ صاحب کی خدمت میں لیگ کے لیڈروں کا وفد پیش ہو گیا۔ اصل میں کانگریس نے بھی شروع شروع میں یہی کیاتھا۔ لیکن کانگریس سیاسیات کے میدان میں لیگ سے پہلے اتری تھی۔ اور جب لیگ قائم ہوئی۔ کانگریس اس دور سے نکل چکی تھی۔ ۱۹۱۱ء میں جب تقسیم بنگال منسوخ کی گئی تو لیگ کے لیڈر ذرا چونکے۔ انہی دنوں طرابلس اور بلقان کی لڑائیاں چھن گئیں یورپ میں ترکی ہی مسلمانوں کی ایک حکومت تھی۔ اسے بھی یورپ کی عیسائی سلطنتیں چین نہیں لینے دیتی تھیں۔ بلقان کی ریاستوں نے جو ترکی کے ماتحت تھیں۔ بغاوت کر دی۔ پھر اٹلی نے ترکوں سے طرابلس کا علاقہ جو شمالی افریقہ میں ہے۔ چھین لیا۔ چونکہ ترکی کاسلطان خلیفہ کہلاتا تھا۔ اور سارے مسلمانوں کا پیشوا سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو ترکوں سے بڑی ہمدردی تھی۔ پھر بھی مسلمان یہی سمجھتے تھے کہ یورپ میں ترکوں کو مٹانے کی جو سازشیں تیار ہو رہی ہیں ان میں برطانیہ ہی کا ہاتھ ہے اگرچہ مسلم لیگ کے رنگ ڈھنگ میں تو بظاہر کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ لیکن اس قسم کے خیالات ہر شخص کے دل میں موج مار رہے تھے کہ بڑے بڑے لیڈر توعام جلسوںمیں اس قسم کی باتیں کہتے جھجتکتے تھے لیکن لوگوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے جہاں چند لو گ مل بیٹھتے تھے۔ یہی باتیں چھڑ جاتی تھیں۔ محلوں ٹولوں‘ گلی کوچوں‘ قہوہ خانوں ‘ ہوٹلوں اور مسجدوں میں یہی ذکر اذکار تھے انہی دنوں ہندوستان میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ کانپور کے مچھلی بازار میں ایک مسجد تھی۔ سرکار نے سڑک نکالنی چاہی تو اس مسجد کا ایک حصہ جس میں حمام تھا سڑک میں آ گیا۔ چنانچہ مسجد کا یہ حصہ گرا دیا گیا۔ مسلمانوں کو یہ بات بہت ناگوار گزری ۔ چنانچہ ایک دن بہت سے مسلمان جمع ہوئے اور مسجد کے اس حصے کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے اینٹیں چننے لگے یہ کوئی ایسا بڑا جرم نہیں تھا۔ لیکن ایک انگریز افسر کی عقل پر نہ جانے کیسا پردپ پڑ گیا۔ کہ اس نے لوگوں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ اور بہت سے لوگ جن میں بچے اوربوڑھے بھی تھے شہید ہو گئے۔ مسلمانوں کے دل تو پہلے ہی دکھے ہوئے تھے۔ کانپور میں گولی کیا چلی گھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ اور جو باتیں کہنے سے لوگ اب تک جھجکتے رہے تھے اور وہ برملا زبانوں پر آنے لگیں۔ حکومت نے مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لے بڑی کوششیں کیں۔ اور بظاہر یہ معاملہ رفع دفع بھی ہو گیا لیکن مسلمانوں کو انگریزی حکومت سے جو بدگمانی تھی۔ وہ دو چند ہو گئی۔ اور مسلمانوں کے جو لیڈر کانگریس کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے ان کی نظریں بے اختیار کانگریس کی طرف اٹھنے لگیں۔ کانپور کے حادثہ کو سال بھر ہوا تھا یورپ میں جنگ چھڑ گئی۔ ترک پہلے پہل تو غیر جانبدار رہے تھے۔ لیکن آخر انہیں بھی جنگ میں شریک ہونا پڑا انگریزوںسے ان کے تعلقات کچھ ایسے برے تو نہیں تھے لیکن انہوںنے اس لڑائی میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ کئی مسلمان لیڈر جن میں مولانا ابوالکلام آزاد مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے ترکوں سے ہمدردی رکھنے کے جرم میں گرفتار کر کے نظر بند کر دیے گئے۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنہوںنے کھلم کھلا ترکوں کی حمایت کی تھی۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی زبانیں انگریزوں کے ستھ تھیں اور دل ترکوں کے ساتھ اور عام لوگوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ وہ ترکوں اور ان کے ساتھیوں کی کامیابی کی خبریں سن کر خوش ہوتے۔ انگریز کی فتح مندی کی کوئی خبر سنتے تو یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ نرا پروپیگنڈہ ہے ۔ محلوں ٹولوں قہوہ خانوں عام دکانوں پر اکثرمحفلیں جمتی تھیں۔ ایک شخص اخبار پڑھتا تھا باقی سنتے جاتے تھے بیچ بیچ میں فقرے بھی کسے جاتے تھیل دیہات کے لوگوں میں اتنی سوج بوجھ نہیں تھی ایک تو تعلیم بہت کم تھی۔ پھر خبریں پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کہیں مدت کے بعد کوئی پرانا اخبار ہاتھ آ جاتا تھا تو چوپال میں خاصی محفل جم جاتی تھی۔ پھر یہ لوگ حکومت سے ڈرتے بھی بہت تھے۔ دل کی بات زبان پر بڑی مشکل ہی سے آتی تھی۔ تاہم کبھی کبھی لوگوں کی بات چیت سے یہ ضرور معلوم ہوتا تھا کہ وہ حکومت سے کچھ ایسے خوش نہیں۔ ہندوستان کثرت سے فوج میں بھرتی ہوئے۔ ان میں بھی زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ کیونکہ اس زمانے تک وہی مالک شمشیر سمجھے جاتے تھے ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جن کا آبائی پیشہ سپاہ گری ہے بہت سے لوگ مفلسی کے ہاتھوں سے مجبور ہو کے فوج میں بھرتی ہو گئے کیونکہ جنگ کے زمانے میں گرانی حد سے بڑھ گئی تھی۔ پھر بھی ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کے بعد کہیںکہیں مسلمانوں کی پلٹنوںمیں یہ شورشیں ہوئیں اور سنگاپور میں تو پٹھانوں کی پلٹن نے بغاوت کر دی۔ یہ لوگ مدت سے ملایا میں تھے۔ انہیں مشرق قریب میںجہاں ترکو ں سے لڑائی چھڑی ہوئی تھی۔ جانے کا حکج ہوا تو وہ بگڑ گئے۔ اور سنگاپور پر قبضہ کر لیا انگریزوںنے بڑی مشکل سے یہ بغاوت فرو کی۔ اور جن لوگوں نے اس شورش میںحصہ لیا تھا ان سب کو قتل کر ڈالا۔ جنگ کے زمانے میں بعض انگریز لیڈروںنے وعدے کیے تھے کہ جنگ کے بعد ہندوستان کی حکومت کے ڈھنگ میںکچھ تبدیلیاں کیجائیں گی۔ اور ہندوستانیوںکو اپنے ملک میں حکومت کرنے کا حق دیا جائے گا مسٹر جناح نے جو کانگریسی لیڈروں میں بڑی نمایاں حیثیت رکھتے تھے یہ کوشش شروع کی۔ کہ کسی طرح لیگ اور کانگریس کا جلسہ ایک جگہ ہوتاکہ برطانوی حکومت سے جو مطالبہ کیا جائے مل کے کیا جائے۔ چنانچہ ۱۹۱۵ء میں کانگریس اور لیگ دونوں کے جلسے بمبئی میں ساتھ ساتھ ہوئیے۔ اب تک ہندوستان کے لوگوں کو زیادہ حقوق حاصل نہیں تھے پھر بھی انتخاب جداگانہ ہوتا تھا یعنی جن جن مجلسوں میں لوگوں کے نمائندے شریک ہوتے تھے ان کے مسلمان نمائندے مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب کیے جاتے تھے۔ اور ہندوئوں کے نمائندے ہندوئوں کے ووٹوں سے۔ اس زمانے میں پہلی مرتبہ مسلمان لیڈر اس بات پر کسی حد تک آمادہ ہوئے کہ مخلوط انتخاب کے طریقہ کو رواج دیا جائے ۔ یعنی ہندو مسلمان جس شخص کومناسب سمجھیں مل کے ووٹ دیں لیکن یہ تجویز کامیاب نہ ہوئی۔ بمبئی میں لیگ کا جو جلسہ ہو ا تھا۔ اس میں مسلمان لیڈر وں کے علاوہ بڑے بڑے ہندو لیڈربھی موجود تھے۔ اس بات پر کچھ مسلمان بگڑ گئے۔ اور جلسہ میں شور مچا دیا۔ بات ایسی بڑھی کہ فساد تک نوبت جا پہنچی۔ پھر بھی اتنا طے ہو گیا کہ لیگ اور کانگریس کے لیڈر دونوں مل کے کوئی سکیم بنائیں اگلے سال لکھنو میںلیگ اور کانگریس دونوں کے جلسے ساتھ ساتھ ہوئے ۔ لیگ کے جلسے کے صد ر مسٹر جناح تھے دونوں مجلسوں کے نمائندوں نے جو سیم بنائی تھی۔ وہ ان جلسوں میں پیش ہوئی اور منظو ر کر لی گئی۔ اس سکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ جب ہندوستان کے مختلف صوبوں میں کونسلیں یعنی قانون بنانے والی مجلسیں قائم ہوں تو اس کے ممبر جداگانہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیے جائیں۔ یعنی ہندو ہندوئوں کو ووٹ دیں اور مسلمان مسلمانوں کو۔ ااس کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہو گیا کہ ہر صوبہ میں اتنے مسلمان ممبر ہوں گے اور اتنے ہندو۔ لیکن اس سکیم میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ جن صوبوں میںمسلمان کی تعداد کم تھی وہاں انہیںاپنے حقوق سے زیادہ کچھ ممبریاں تو مل گئیں لیکن جن صوبوں میں ان کی گنتی ہندوئوں سے زیادہ تھی۔ وہاں ان کی ممبریوں کی تعداد گھٹا دی گئی۔ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی گنتی ہندوئوںسے زیادہ تھی۔ لیکن اس سکیم کے مطابق وہاں انہیں پنجاب میں پچاس اور بنگال میں چالیس فی صدی ممبریاں ہاتھ آئیں اس طرح ملک کے ہر صوبے کی کونسل پر ہندوئو ں کا قبضہ ہو گیا۔ مسٹر جناح کی عمر اس زمانے میں چالی س برس کی تھی۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے بڑ ے لیڈروں میںہوتا تھا وہ کانگریس ہی کے نہیںںح لیگ کے بھی لیڈر تھے۔ اور کانگریس اور لیگ کو جو آج تک الگ الگ رہی تھیں ایک دوسرے کے پاس لانے اور ہندو مسلمان لیڈروں کو گلے ملوانے کا سہر ا انہی کے سر تھا۔ پھر بھی انصاف کی بات یہ ہے کہ لکھنو میں لیگ اور کانگریس کے درمیان جو سمجھوتہ ہوا تھا اس میں ہندوئوں ہی کافائدہ تھا جناح سمجھتے تھے کہ چلو اس طرح جن صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے وہاں کی کونسلوںمیںبھی خاصے مسلمان دکھائی دینے لگیں گے اور پھر یہ بھی تو ہے کہ جب ہندو مسلمان میں میل جول بڑھے گا تو اپنائیت اور اتحاد کے راستے میں آج جو رکاوٹیں ہیںوہ دور ہو جائیں گی۔ اور مسلمان جو کچھ چاہیں گے مل جائے گا۔ لیکن ان کی یہ امید پوری نہ ہوئی۔ اور عجب بات تو یہ ہے کہ اتنا کچھ پانے پر بھی بعض ہندو لیڈر خوش نہیں تھے۔ ٭٭٭ ہوم رول کی تحریک لکھنو کے اس سمجھوتہ کو سال بھر ہوا تھا کہ ہوم رول لیگ قائم ہوئی۔ جس میں ہندو مسلمان دونوں شریک تھے۔ اس انجمن کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ملک میں اپنا راج ہو۔ اور سچ پوچھیے تو یہ تحریک خوب پھولی پھلی۔ جنگ کے آخری زمانے میں تواس تحریک کا بڑا چرچا ہوا۔ اور لکھنو کے ایک شاعر کا یہ شعر بچے بچے کی زبان پر چڑھا ہوا تھا۔ طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے ملے بہشت نہ لیں ہوم رول کے بدلے جناح شروع شرو ع میں تو اس تحریک سے الگ تھے لیکن حکومت نے سختی شروع کی تو وہ بھی ہوم رولل ملیگ میں شامل ہو گئے۔ اور کئی جلسوں میں معرکہ کی تقریریں کیں۔ جن میں حکومت پر بڑی سخت نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اسی زمانے میں انہوںنے دوسری شادی کی۔ انہوںنے پہلی شادی تو ماں باپ کی مرضی سے کی تھی لین وہ ابھی ولایت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ بیوی کا انتقال ہو گیا۔ دوسری شادی انہوںنے اپنی مرضی سے کی۔ اور اس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ ان کی دوسری بیوی رتن جناح بمبئی کے مشہور پارسی کروڑ پتی سر ڈنشاپٹیٹ کی صاحبزادی تھیں ۱۹۱۶ء میں جب لکھنو دمیں کانگریس اور لیگ کے جلسے ہو رہے تھے جناں سے پہلی مرتبہ ان کی مللاقات ہوئی تھی۔ پھر بمبئی میں اکثر ان سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا۔ بالآخر دونوںنے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ مس رتن پٹیٹ اپنے با پ دادا کامذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے پر آمادہ ہو گئیں۔ اور قاضی نے شریعت اسلامی کے مطابق نکاح پڑھوا دیا۔ سرڈنشاپٹیٹ بمبئی کے پارسیوں میں دولت اور اثر کے لحاظ سے بہت اونچا رتبہ رکھتے تھے۔ انہوںنے بڑا زور مارا کہ کسی طرح یہ شادی منسوخ ہوجائے چنانچہ معاملہ عدالت تک پہنچا۔ لیکن مسز جناح کی عمر اٹھارہ برس سے زیادہ تھی۔ انہوںنے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا اس لیے سر ڈنشا کی کوئی پیش نہ چلی۔ اس ہنگامہ کو مہینہ بھر ہوا تھا کہ لارڈ لنگٹن سے جو ان دنوں بمبئی کے گورنر تھے مسٹر جناح کا جھگڑا ہو گیا۔ لارڈ ولنگٹن بڑے اکل کھڑے تھے اور ہوم رول لیگ سے تو انہیں ضد سی ہو گئی تھی۔ انہوںنے یکم جون کو بمبئی کے ٹائون ہال میں جنگی امداد کے سلسلے میں ایک کانفرنس کی اس میں انہوںنے جو تقریر کی اس میں ہوم رول لیگ پر بڑی کڑی نکتہ چینی کی گی تھی جناح نے اپنی تقریر میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ لارڈ ولنگٹن بہت بگڑے۔ لیکن موقع ایسا تھا کہ کچھ نہ کہہ سکے۔ اور خون کے گھونٹ پی کے رہ گئے۔ کوئی دو ہفتے کے بعد لارڈ ولنگڈن کی تقریر کے خلاف ناراضی ظاہر کرنے کے لیے ہوم رول ڈے منایا گیا۔ مسٹر جناح نے اس روز ایک عام جلسے میں بڑی معرکے کی باتیں کیں جس میں لارد ولنگڈن پر بڑی لے دے کی گئی۔ اس واقعہ کے بعد لارڈ ولنگڈن کوئی چھ مہینے بمبئی میں رہے کیونکہ دسمبر میں ان کی گورنری کی معیا د ختم ہونے کو تھی۔ اگرچہ انہیںکوئی ہندوستانی پسند نہیں کرتا تھا۔ پھر بھی سرکاری افسر چاہتے تھے۔ کہ کسی طرح ان کے اعزاز میں ایک دعوت ہو جائے۔ بمئی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو سرکار کو خوش کرنے کے لیے نت نئے موقعوں کی تلاش میںرہتے تھے چنانچہ یہ تجویز طے پائی کہ بمبئی کے ٹائون ہال میں جلسہ ہو۔ اور بمبئی کے لوگوں کی طرف سے لارڈ ولنگڈن کو ایڈریس دیا جائے۔ اور کچھ لوگ تو اس بات پر زور دے رہے تھے۔ کہ نرا جلسہ ہ نہ ہوبلکہ چندہ جمع کر کے لارڈ ولنگڈن کی یادگار قائم کی جائے۔ ادھر مسٹر جناح نے بمبئی کے شیرف کو خط لکھا۔ کہ ہمیں بھی ٹائون ہال میںجلسہ کرنے کی اجازت دی جائے اجازت تو کیا ملتی البتہ ۱۱ دسمبر کو لارڈ ولنگڈن کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کے لیے جلسہ ہوا۔ تو اس میں اس زور کا ہنگامہ ہوا کہ جلسہ ٹھپ ہو کے رہ گیا۔ ۱۱ دسمبر کی صبح کو سب سے پہلے مسٹر جناح ٹائون ہال میں داخل ہوئے ان کے ساتھ جو ہوم رول لیگ کے ممبر تھے ان کے ساتھ نظر آتے تھے۔ جلسہ پانچ بجے ہونے کو تھا۔ لیکن یہ صبح سویرے ہی جلسہ گاہ کی اگلی نشستوں پر قبضہ کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ پانچ بجے جلسہ شروع ہوا تو یہ کیفیت تھی کہ جتنے لوگ ٹائون ہال کے اندر تھے اس سے تگنا چوگنا مجمع باہر تھا۔ اور اگر مسز جناح جو رضاکاروںکا ایک دستہ لیے باہر کھڑی تھیں ہجوم کو قابو میں نہ رکھتیں تو نہ جانے کیا ہوتا۔ پھر بھی جلسہ شروع ہوا تو اتنا شور مچا کہ خدا کی پناہ۔ اس عالم میں ایڈریس کو ن پڑھتا۔ صدر نے کھڑے ہو کر چند الفاظ کہے اور اعلانکیا کہ لیجیے ایڈریس پڑھ دیا گیا۔ اب بھی شور برابر مچا ہوا تھا۔ اور زور زور کے نعرے لگ رہے تھے انتے میں پولیس کمشنر صاحب پولیس کاایک دستہ لے کر وہاں آ گئے۔ اورہال خالی کرانے لگے۔ اس موقع پر کچھ ہشت مشت بھی ہوئی۔ پرلیس نے مسٹر جناح اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا۔ اور کچھ لوگ جن میں مسٹر جناح خود بھی شامل تھے زخمی ہو گئے مسٹر جناح ہال سے نکلے تو جو ہجوم باہرکھڑا تھا اس نے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ یہ لو گ جلوس کی شکل اپالو بندر پہنچے۔ وہاں جلسہ ہوا۔ جس میں مسٹر جناح نے بھی تقریر کی۔ رات کو پھرایک جلسہ ہوا جس میں لارڈ ولنگڈن کو ایڈریس دینے کی حرکت کی مذمت کی گئی۔ بمبئی کے خطاب یافتہ لوگوں نے یہ جلسہ تو اس لیے کیا تھا کہ لارڈ ولنگڈن کی یادگار قائم کی جائے لیکن یہ تجویز تو پروان نہ چڑھی البتہ جناح ہال کے نام سے مسٹر جناح کی اس شاندار فتح کی یادگار ضرور قائم ہو گئی۔ ٭٭٭ رولٹ ایکٹ اور تحریک خلافت ہندوستان کے لوگوں کو یہ امید تھی کہ جنگ ختم ہو گی تو حکومت کے ڈھانچے میںتبدیلیاں کر کے سارے اختیارات ہمارے حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ کہ حکومت نے سیاسی مجرموںکو سز ا دینے کے لیے ایک قانون منظور کر لیا۔ جس نے سارے ملک میں آگ سی لگا دی۔ اس قانون کا مسودہ بنانے کے لیے جو کمیٹی بنی اس کے صدر سر سڈنی رولٹ تھے۔ اس لیے یہ قانون رولٹ ایکٹ کہلاتا ہے۔ امپیریل کونسل کی میں جب رولٹ ایکٹ کا مسودہ پیش ہوا تو مسٹر جناح نے اس کی مخالفت میں ایک پرزور تقریر کی۔ لیکن حکومت نے پروا نہ کی۔ اور یہ قانون منظور کر لیا گیا مسٹر جناح نے اس عالم میںوہی کیا جو ان جیسے خوددار شخص کو کرنا چاہیے تھا۔ یعنی امپیریل کونسل کی ممبری سے استعفا دے دیا۔ گاندھی جی جو مدت تک جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کی رہنمائی کرتے رہے تھے ان دنون ہندوستان میں تھے۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی تھی اس کے لیڈر وہی تھے۔ لیکن تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ اسے قابو میں رکھنا ناممکن ہو گیا۔ مارچ کے اخیر میں فوج نے ایک مجمع پر گولی چلا دی۔ گاندھی جی نے تین دن کا برت رکھا۔ دعا کے لیے ایک دن مقرر کیا لیکن دلی کے حادثہ سے تیرھویں دن ایک اکھڑ فوجی افسر جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں ایک نہتے ہجوم پر گولی چلا دی۔ اور گھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ حکومت پنجاب نے جگہ جگہ مارشل لاء نافذ کر دیا یعنی شہروں کے شہر فوج کے حوالے کر دیے گئے۔ گوروں نے جی بھر کے ظلم کیے لیکن اس طرح لوگ زیادہ بھڑک اٹھے اور رولٹ ایکٹ کی مخالفت اس طرح پھیلی کہ جس طرح سوکھے بن میں آگ پھیلتی ہے۔ اس تحریک میں ہندو مسلمان دونوں شریک تھے لیکن انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مسلمانوں کو زیادہ مشتعل کر دیا۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یورپ کی جنگ میں ترک جرمنی کے ساتھ تھے۔ جرمنی کے ساتھ ترکی کو بھی شکست ہوئی۔ اور بہت سا علاقہ چھن گیا۔ انگریز چاہتے تھے کہ یورپ سے ترکوں کو بالکل ہی بے دخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کاپیشوا یعنی خلیفہ المسلمین کہلاتا تھا اور اگرچہ اس کی خلافت نام کی خلافت تھی لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے یہ سہارا بھی بہت تھا اب جو انہوںنے یہ سہارا بھی مٹتے دیکھا تو بے چین ہو گئے۔ ایک تو رولٹ ایکٹ کی وجہ سے پہلے ہی ملک بھر میںشور مچاہواتھا خلافت کے قصے نے جلتی آگ پر تیل کا کام دیا۔ اور خلافت کی حمایت میں ملک کے ہر گوشے سے صدائیںبلند ہونے لگیں انہیں دنوں مولانا محمد علی اور ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی جنہیں جنگ کے زمانے میں نظر بند کر دیا گیا تھا رہا ہوئے اور ان کی رہنمائی میں خلافت کی تحریک نے بڑا زور پکڑا۔ اس زمانے میں مجلس خلافت اور نیشنل کانگریس دونوں کی تحریکیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ اور مسلم لیگ ان کے سامنے بالکل ماند ہو کے رہ گء تھی۔ ہندو لیڈر مسلمانوں کے جلسوں میں تقریریں کرتے تھے مسلمان رہنما ہندوئوں کے جلسوں میں شامل ہوتے تھے۔ گاندھی جی اور علی برادران ہندو مسلمان دونوں کے لیڈر تھے۔ اور بظاہر ایسا معلوم ہوتاتھا کہ اپنائیت اور اتحاد کا یہ رشتہ ایسا پکا ہے کہ جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا۔ لیکن یہ اتحاد جس تیزی سے ہواتھا۔ اسی تیزی سے مٹ گیا۔ اور ہندو مسلمان پہلے سے بھی زیادہ ایک دوسرے سے دورہو گئے۔ بدیشی کپڑے کے بائیکاٹ کی تحریک تو پہلے ہی چل رہی تھی۔ اب کانگریس اور خلافت کے لیڈروں نے مل کر یہ تحریک چلائی کہ سرکاری نوکریوں بلکہ سرکاری مدرسوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کد دیا جائے۔ بہت سے لوگوںنے نوکریاں چھوڑ دیں۔ طالب علموں نے سرکاری کالجوں اور مدرسوں کے بائیکاٹ کی تحریک میں بڑا حصہ لیا۔ اسی زمانے میں حکومت کے پرانے طریقوںمیں کچھ ادل بدل ہوا تھا۔ قانون بنانے کے لیے کونسلیں قائم کی گئی تھیں۔ جن کے نمائندوں میںزیادہ لوگ ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوتے تھے جو لوگ اس طرح چنے جاتے تھے ان سے وزیر چن کے خاص خاص محکمے ان کے سپرد کر دیے جایت تھے۔ کانگریس اور خلافت نے کونسلوں کا بھی بائیکاٹ کیا اور یہ تحریک جسے ترک موالات یا عدم تعاون کی تحریک کہتے ہیں خوب چلی لیکن مسٹر جناح نے اس تحریک میں کوئی حصہ نہ لیا۔ انہیں خلافت کی تحریک سے بھی ہمدردی تھی اور رولٹ ایکٹ کے تو وہ اتنے پر زور مخالف تھے کہ انہوںنے امپیریل کونسل کی ممبری ہی سے استعفا دے دیا۔ پھر بھی وہ سمجھتے تھے کہ کونسلوں اور نوکریوں کے بائیکاٹ سے لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔ کونسلوں سے الگ رہنے کے بجائے یہ اچھا ہے کہ لوگ کونسلوں میں جائیں اور ڈٹ کے حکومت کا مقابلہ کریں۔ علامہ ابال اگرچہ ابھی تک سیاسی جھگڑوں میں نہیںپڑے تھے لیکن وہ بھی اس معاملہ میں مسٹر جناح کے ہم خیال تھے۔ ہندو مسلم اتحاد پر خود ہندوئوں ہی نے کاری ضرب لگائی یعنی ادھر تو ہندو مہا سبھا نے یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان ہندوئوں کا ہے۔ دوسری طرف آریہ سماج نے ملکانہ راجپوتوں کو جن کے باپ دادا ہندو دھرم چھوڑ کے مسلمان ہو گئے تھے پھر اپنے مذہب میں شامل کرنا چاہا۔ اس پر جھڑے ہوئے فسادات کاطوفان امڈا جگہ جگہ ہندئوں اور مسلمانوںمیں لڑائیاں ہونے لگیں۔ اور سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کو صاف نظر آ گیا کہ سیاسیات میں ہندو مسلمانوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ ٭٭٭ مسٹر جناح کے چودہ نکات ہندو مسلمانوں میں جو جھگڑے شروع ہوئے تھے وہ کئی برس رہے۔ ایک جھگڑا ختم ہونے نہیں پاتا تھا کہ کوئی دوسرا جھگڑا شروع ہو جاتا تھا خلافت کمیٹی تو اپنا کام ختم کر چکی تھی۔ کیونکہ ترکوں نے مصطفی کمال کی رہنمائوںمیں اپنے دشمنوں کو اوپر تلے کئی شکستیں دے کر یورپ میں اپنے اکھڑے ہوئے پائوں مضبوطی سے جما لیے تھے۔ البتہ خلافت مٹ گئی۔ لیکن اسے ترکوں نے خود مٹایا۔ یعنی خلافت کی جگہ جو اصل میں بادشاہت تھی جمہوری حکومت قائم کر دی ۔ لیکن کانگرس میں بھی وہ پہلے سی رونق نظر نہیں آتی تھی۔ یعنی مسلمان اس سے الگ ہو چکے تھے۔ صرف چند مسلمان لیڈر ابھی تک ساتھ دیے چلے جا رہے تھے ۱۹۲۷ء میں برطانوی حکومت نے ہندوستان کو مزید اختیارات دینے کا ارادہ کر لیا۔ اور یہ طے پایا کہ ہندوستان کے حالات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا جائے لیکن جو کمیشن مقرر ہوا۔ اس کے سارے ممبر انگریز تھے ۔ اس پر خود ہندوستان میںبہتشور مچا۔ اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ہندومسلمان رولٹ ایکٹ کے زمانے کی طرح پھر ایک ہو جائیں گے کانگریس نے تو کمیشن کا اعلان ہوتے ہی فیسلہ کر لیا کہ بائیکاٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں لیگ کے بعض لیڈروں کا خیال تھا کہ کمیشن کا بائیکاٹ ہونا چاہیے بعض کہتے تھے کہ کانگریس بائیکاٹ کرتی ہے تو کرے۔ ہم کیوں ساتھ دیں مسٹر جناح بائیکاٹ کے حامی تھے۔ پنجاب کے لیڈر بائیکاٹ کے مخالف اس جھگڑے نے ایسا طول کھینچا کہ لیگ کے دو ٹکڑے ہوئگئے ادھر ای گروہ نے جس کے لیڈر سر شفیع محمد تھے لاہور میں ؒیگ کا جلسہ کر کے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو کمشین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ادھر مسٹر جناح نے کلکتہ میں ایک لیگ کا سالانہ جلسہ کر کے کمشین سے بائیکاٹ کی قرارداد منظور کی۔ اس سال کانگرس کا سالانہ اجلاس مدراس میں ہواتھا۔ اجلاس کے ختم ہونے پر سارے کانگرسی لیڈر کلکتہ پہنچے ۔ اور لیگ کے جلسے میں شریک ہوئے۔ اس جلسے میں اتحاد و یگانگت کے جو نقشے نظروں سے گزرے وہ پھر دیکھنے میں نہیں آئے مولانا محمد علی مولانا شوکت علی‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مس سروجنی نائیڈو‘ پنڈت جواہر لال نہرو ‘ ان کے والد پنڈت موتی لال نہرو ڈاکٹر راجندر پرشاد‘ ڈاکٹر انصاری یعنی کانگریس اور لیگ کے سار ے بڑے بڑے لیڈڑ موجود تھے ۔ تقریروں میں ہندو مسلم اتحادپر بڑا زور دیا گیا تھا۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھ کہ خلافت کا زمانہ پھر پلٹ آیا ہے۔ کمیشن ہندوستان آیا تو سیاہ جھنڈوں اور واپس جائو کے نعروںسے اس کا استقبا ل کیا گیا۔ جگہ جگہ ہڑتالیں بھی ہوئیں جلوس بھی نکلے جلسے بھی کیے گئے لیکن کہیں کہیں صر ف مسلمانوں ہی نے نہیں۔ ہندوئوں نے بھی آئو بھگت کی۔ کیونکہ پنجاب کے مسلم لیگی ہی کمیشن کے حمایتی نہیں تھے ہندو مہا سبھا بھی حامی تھی۔ کمیشنکے آنے سے پہلے ایک انگریز مدبر نے کہا تھا۔ کہ ہندوستان میں پھوٹ ہے۔ اور پھوٹ رہے گی۔ اس لے وہ اپنے ملک کی آئندہ حکومت کا کوئی ایسا خاکہ بنا ہی نہیں سکتے جسے ہندوستان ی ساری جماعتیںقبول کر لیں۔ کمیشن آیا بھی اورچلا بھی گیا لیکن ہندوستانی لیڈروں کے کانوںمیں اس انگریز مدبر کے الفاظ برابر گونج رہے تھے۔ اور اسے جواب دینے کا سب سے اچھا طریقہ یہ تھا کہ ہندوستانی خود اپنے ملک کی آئندہ حکومت کا آئین مرتب کر کے پیش کر دیں اب گفتگوئیں شروع ہوئیں۔ مارچ ۱۹۲۷ء میں مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر دلی میں جمع ہوئے۔ اس اجلاس میں مسٹر جناح نے چودہ مطالبات پیش کیے۔ اور کہا کہ اگر ہندو انہیںمان لیں تو سمجھوتہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی یہ چودہ مطالبات جنہیں سارے لیڈر مسلمان نے منظور کر لیا مسٹر جناح کے چودہ نکات کہلاتے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام صوبے اپنی اپنی جگہ خود مختارہوں گے ہر صوبے میں اقلیتوں یعنی تھوڑی تعداد رکھنے والی قوموں کوکافی ممبریاں دی جائیں گیل اور ممبروں کی تعداد مقرر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ جو قوم کسی صوبہ میں زیادہ تعداد رکھتی ہے۔ اس کی حیثیت میںفرق نہ آئے۔ یعنی صوبہ کی قانون ساز مجلس میں اسی کے ممبروں کی تعداد زیادہ رہے۔ مرکزی مجلس قانون ساز میں جو سارے ہندوستان کے لیے قانون بنائے گی مسلمان ممبروں کی گنتی ایک تہائی ہو گی۔ جداگانہ انتخاب کا اصول برقرار رہے گا۔ ہاں اگر کوئی قوم اس سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہو جائے تو یہ اور بات ہے۔ کسی جماعت کے مذہبی معاملات میں دخل نہ دیا جائے۔ کوئی ایسا قانون منظور نہیں ہو سکے گا جسے کسی جماعت کے تین چوتھائی ممبر اپنے لیے مضر قرر دے کر نا منظور کر دیں۔ سندھ کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ سرحد اور بلوچستان کو وہی درجہ دیا جائے جو دوسرے صوبوں کو مسلمانوں کی تہذیب اوران کی زبان کی حفاظت کا انتظام کیاجائے۔ ہر صوبہ کی وزارت میں کم سے کم ایک تہائی مسلمان ضرور شامل ہوںَ ملک کے آئین میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہ کی جائے جب تک ہندوستان کے سارے صوبے اور ساری ریاستیں اسے منظور نہ کر لیں۔ مسلمان تو پہلے ہی مسٹر جناح کے چودہ نکات پر متفق ہو چکے تھے کانگرس نے بھی انہیں منظور کر لیا۔ اوریہ صلاح ٹھہری کہ ملک کا آئین بنانے کے یلے ایک کمیٹی مقرر کی اجئے اس کمیٹی کے ممبروں میںاگرچہ ہندو مسلمان کانگریسیاور غیر کانگریسی سب ہی شامل تھے۔ لیکن اس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو تھے اس لیے وہ ان کے نام پر نہر کمیٹی کہلائی اور اس نے جو آئین بناکے پیش کیا وہ نہرو رپورٹ کے نا م سے مشہور ہوا۔ کانگریس نے اگرچہ مسٹر جناح کے چودہ نکات کو منظور کر لیا تھا۔ لیکن نہرو کمیٹی نے جوآئین بنایا۔ اس میںبعض نکات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا مثلاً مسلمانوںکا مطالبہ تھا کہ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی تعداد ایک تہائی ہو۔ لیکن نہرو رپورٹ نے یہ مطالبہ منظور نہ کیا۔ چودہ نکات میں ایک نکتہ یہ تھا کہ کسی صوبہ میں جس قوم کی تعداد زیادہ ہو وہاں کی اسمبلی کی زیادہ ممبریاں بھی اسی کو ملیں۔ نہرو رپورٹ میں پنجاب اور بنگال کے غیر مسلموں کے لیے تو ممبریوں کی تعداد مقرر کردی۔ لیکن مسلمانوں کی ممبریوں کی تعداد مقرر نہ کی۔ اور مسلمانوں کو اندیشہ ہو چلا کہ کہیں بنگال اور پنجاب میں جہاں مسلمانوں کی گنتی ہندوئوں سے بس تھوڑی سی ہی زیادہ ہے ہندو ممبروں کی گنتی مسلمان ممبروں سے بڑھ نہ جائے۔ کچھ دنوں کے بعد لکھنو میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس ہوئی جس میںنہرو روپورٹ پیش کی گئی۔ مسٹر جناح ان دنوں ہندوستان سے باہر تھے اس لیے کانفرنس میں شریک نہ ہو سکے لیکن لیگ کے نمائندے کانفرنس میں موجود تھے انہوںنے نہرو رپورٹ کو منظور کر لیا۔ البتہ مولانا شوکت علی دستخط کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ بلکہ بگڑ کے الگ ہو گئے۔ اور دلی پہنچ کے نہرو رپورٹ کے خلاف اس زور کا بیا ن دیاکہ سیاسی حلقوں میںکھلبلی مچ گئی۔ مولانا محمد علی بھی ان دنوں یورپ میں تھے۔ وہ ہندوستان پہنچے تو انہوںنے بھی اپنے بھائی کا ساتھ دیا مسٹر جاوناح کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ھتی ک جس طرح ممکن ہو ہندو مسلمانوںمیںکوئی سمجھوتہ ہو جائے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندو سمجھوتے کے معاملہ میں تنگ دلی برتیں تومسلمانوں کو فیاضی سے کام لینا چاہیے۔ ہندو دو چار ممبریواں اپنے حصہ میں بھی لے گئے توآخر کون سی آفت آ گئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۶ء میں لیگ اور کانگریس کے درمیان جو سمجھوتہ ہو اتھا اس میں اگرچہ سراسر مسلمانوںکانقصان تھا لیکن مسٹر جناح نے صرف اتحاد کی خاطر اسے بھی قبو کر لیا۔ نہر رپورٹ مرتب ہوئی تو اگرچہ اس کی خامیاں بھی مسٹر جناح کی نظر سے اوجھل نہیں تھیں۔ پھر بھی ان کا خیال تھا کہ نہرو رپورٹ جو کچھ ہے سو ہے۔ لیکن اس پرہی سارا ملک متحد ہو جائے۔ تو انگریزوں کے لیے یہ کہنے کا موقع تو نہیں رہے گا۔ کہ ہندوستانی اپنے ملک کا آئین ہی نہیں بنا سکتے۔ تو حکومت کا انتظام کیا خاک چلائیں گے۔ البتہ مسٹر جناح یہ ضرور چاہتے تھے کہ نہر و رپورٹ میں تھوڑی سی ترمیم ہو جائے۔ اور زیادہ نہیں تو ہندو یہی منظور کر لیں کہ مرکزی اسمبلی میںایک تہائی ممبر یاں مسلمانوں کو دی جائیں گی لیکن ہندو یہ بات ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس سال کانگریس اور لیگ دونوں کے سالانکہ جلسے کلکتہ میں ہوئے کانگریس نے نہرو رپور ٹ منظور کر لی۔ لیگ نے کوئی فیصلہ نہ کیا کچھ دنوں کے بعد مسلمانوں نے دلی میں ایک کانفرنس کی جس می مختلف جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ اس کانفرنس نے جو مسلم کانفرنس کے نام سے مشہو ر ہوئی۔ اور جسے کچھ عرصہ کے لیے ایک الگ انجمن کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی فیصلہ کیا۔ کہ مسلمان نہر ورپورٹ کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے۔ مسٹر جناح اس اجلاس میں شامل تو نہیں ہوئے۔ اور اس کانفرنس میں جو لوگ آگے آگے نظر آتے تھے وہ مسٹر جناح سے کچھ ناراض بھی معلو م ہوتے تھے۔ لیکن یہاں بھی جو تقریریں ہوئیں ان میں مسٹر جناح کے چودہ نکات ہی پر زور دیا گیا تھا۔ ا س وقت مسلمانوں کا جو انداز تھا اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مسلم لیگ ہو یا مسلم کانفرنس دونوں انہی چودہ نکات کے گرد گھوم رہی ہیں۔ مسلم کانفرنس کے اجلاس کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ مسلم لیگ نے بھی دلی میں اپنا ایک خاص جلسہ کیا۔ جس میںیہ فیصلہ ہوا کہ نہرو رپورٹ کوکانگرس کے سوا ہندو ستان کی کسی جماعت نے منظور نہیں کیا۔ اس لیے لیگ بھی اسے نا منظور کرتی ہے۔ ٭٭٭ کانگرس سے مایوسی مسٹر جناح شروع سے ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ اور سچ پوچھیے تو لیگ اورکانگریس کو جن کے راستے شروع سے الگ الگ تھے ایک مرکز پر جمع کرنے میں ان کا بڑا حصہ تھا رولٹ ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد ہندو مسلمانوں میں جواتحاد ہوا تھا۔ اس کی بنیاد جذبات پر تھی ۔ نہ ہندوئوں نے سوچا کہ آپس میں اختلافات گلے مل لینے مل کے نعرے لگانے اوراکٹھے جیل چلے جانے سے تو دور نہیں ہو سکتے۔ نہ مسلمانوں نے اس بات پر غور کیا کہ آزدی ملی تو حکومت میںہندوئوں کا حصہ کتنا ہو گا۔ اور ہمارے ہاتھ کیاآئے گا۔ بس جذبات کا ایک سیلاب تھا۔ جودونوں ملکوں کو بہائے لیے جاتا تھا۔ یہ چڑھئی ہوئی ندی اتری تو اختلافات نے سر اٹھا دیا۔ ہندوئوں کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو ہندوئوں سے شکایتیں پیداہوئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوںقومیں رولٹ ایکٹ سے پہلے جتنی ایک دوسرے کے قریب تھیں اتنی قریب بھی نہ رہیں۔ بلکہ اس سے کچھ زیادہ دور ہو گئیں۔ مسٹر جناح ایسے شخص نہیں تھے کہ آسانی سے جذبات کیروس میں بہ جاتے وہ چاہتے تھے کہ دونوں قوموںکو خوب سوچ سجھ کے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ اور جن باتوں پر آگے چل کر جھگڑا ہونے کا اندیشہ ہے انہیں ابھی سے طے کر لینا چاہیے۔ تاکہ کسی جھگڑے کا اندیشہ نہ رہے اور محبت اور اپنائیت کے ایسے مستقل اور پائیدار تعلقات کی بنیاد رکھی جائے جن میں کبھی کھنڈت نہ پڑے۔ لیکن جب سے نہرو رپورٹ منظور ہوئی تھی ملک میں کچھ ایسا رنگ اچھل رہا تھا کہ اتحاد کی کوئی صورت ہی نظر نہیں آتی تھی۔ بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ سیاسیات میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے راستے الگ الگ ہیں کانگریس میں جو تھوڑے بہت مسلمان باقی رہ گئے ہیں انہیں آج نہیں تو کل ضرور اس سے الگ ہونا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آ رہاتھا کہ سمجھوتے کہ کوئی صورت نہ نکلی تو آزادی بھی ہاتھ نہیں آئے گی۔ بلکہ ہندوستان میں انگریزوں کے قدم زیادہ مضبوط ہوجائیں گے۔ مسٹر جناح کے لیے یہ زمانہ مایوسی کا زمانہ تھا۔ انہوںنے ہندو مسلمان اتحاد کے بارے میں جو امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ مٹتی نظر آ رہی تھیں آرزوئوں کے جو محل کھڑے کیے تھے وہ راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئے تھے۔ ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ جس میں امید کی کوئی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی۔ ایک تو ملک کی حالت دیکھ دیکھ کر ان کے دل پر مایوسی کے بادل چھائے جا رہے تھے پھر ایک حادثہ ایسا پیش آیا کہ جس نے مایوسی کے ا س احساس کو زیادہ گہرا کر دیا۔ یعنی مسز جناح کا انتقال ہو گیا۔ انہیں اپنے شوہر کی طرح سیاسی معاملات سے بڑی دلچسپی تھی۔ اور کانگریس کے جلسوں میں برابر شریک ہوتی رہتی تھیں۔ بلکہ مسٹر جناح سے ان کی پہلی ملاقات بھی کانگریس کے اجلاس ہی میں ہوئی تھی۔ لارڈ ولنگڈن سے مسٹر جناح کا جو معرکہ ہوا تھا اس کا حال ہم بیان کر چکے ہیں۔ مسٹر جناح تو ہال کے اندر تھے اورہال کے باہر ہجوم کو قابو رکھنے کے لیے جو رضاکار مقرر کیے گئے تھے مسز جناح ان کی کمان کر رہی تھیں۔ مسٹر جناح بڑے ہمت والے شخص تھے۔ مصیبتوں کی آندھیوں ور طوفانوں نے ان کے قدموں کو جنبش تک نہیں ہوتی تھی لیکن یہ صدمہ ایسا تھا کہ ان کی طبیعت دنیا کے سارے دھندوں سے اچاٹ ہو گئی۔ انہی دنوں ہندوستان کی حکومت کے آئین کا سوال حل کرنے کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس ہوئی جس میں کانگرس کے نمائندے تو شامل نہ ہوئے البتہ مسلمانوں کی مختلف انجمنوں ہندو سبھا اور ہندوئوں کی دوسری جماعتوں کے نمائندے ضرور شامل تھے۔ مسٹرجناح بھی موجود تھے لیکن ہندوستان کے جھگڑوں خاص طورپر ہندوئوں کی تنگ دلی سے ایسا بیزار تھے کہ لندن ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا اوروہین چار برس گزار دیے۔ کانگریس نے پہلے گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ او ر سول نافر مانی کی تحریک شروع کی ۔ دوسری گول میز کانفرنس میںگاندھی جی کانگریس کے نمائندے کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا لند ن سے واپس آئے تو پھر ہندوستان کی حکومت سے ان کی ٹکر ہو گئی۔ اس زمانے میں لارڈ ولنگڈن جو ایک زمانے میں بمبئی کے گورنرتھے اور جن سے مسٹر جناح کی ٹھن گئی تھی۔ ہندوستان کے وائسرائے تھے۔ انہوںنے کانگریس کی تحریک کو کچلنے میں کوئی بات نہ اٹھا رکھی۔ جب آپس کے جھگڑوں کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکااور ہندو مسلمانوں میں سمجھوتے کی کوئی صورت نہ نکلی تو بعض لیڈروں نے انگلستان کے وزیرا عظم سے کہا کہ ہم تو ان جھگڑوں کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ آپ ہی ثالث بن کے فیصلہ کر دیجیے آخر وزیرا عظم نے فیصلہ کر دیا۔ جسے سب نے قبول کر لیا۔ ا س فیصلہ کی رو سے پنجاب میں مسلمانوں کو اکاون اور بنگال میں قریب قریب پچا س فیصدی ممبریاں ہاتھ آ گئیں۔ سندھ بمبئی سے الگ ہو گیا سرحدکو دوسرے صوبوں کے برابر اصلاحات مل گئیں۔ اور مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی ممبریاں دینے کا بندوبست کر دیا گیا۔ یوں تو یہ فیصلہ نہرو رپورٹ سے بہتر تھا لیکن مسٹر جناح کے دل میں برابر یہ پھانس کھٹک رہی تھی کہ آخر یہ فیصلہ وزیر اعظم کا فیصلہ ہے ہندوستان کے لوگ آپس میں مل کے جو برا بھلا سمجھوتہ کر یتے وہ اس فیصلہ سے بہتر تھا۔ مسٹر جناح یہ طے کر چکے تھے کہ لندن ہی میں رہیں گے۔ اور وہیں بیرسٹری کریں گے۔ لیکن جب انہوںنے دیکھا کہ ہندوسان کے مسلمانوںمیں افراتفری پھیلی ہوئی ہے ملک بھرمیں کوئی ایسا قابل لیڈر نظر نہیں آتا ۔ جو مسلمانوں کو غلط راستوں پر پڑ کے بھٹکنے سے بچا سکے وت انہوںنے پھر ہندوسان کا رخ کیا اور آتے ہی مرکزی اسمبلی کے ممبر ہو گئے۔ ان دنوں نجاب میں شہید گنجا کا جھگڑا بڑے زوروں میں تھا۔ لاہور میں مسلمانوں کی ایک پرانی مسجد مدت سے سکھوں کے قبضہ میں چلی آتی ھی مسلمانوں نے مسجد کی واگزاری کا مطالبہ کیا سکھوں کی حکومت کی شہ پا کے مسجد گرا دی مسلمان اس پر بھڑک پڑے ایک جلوس نکالا۔ اس پر گولی چلاگی گئی۔ اور بہت سے لوگ شہدی ہوئے اس کے علاوہ بہت سے مسلمان لیڈر وں کو گرفتار ر کے نظر بند کر دیا گیا۔ مسٹر جناح اس سلسلہ میں لاہور آئے۔ اور نظر بندیوں کو رہائی دلائی۔ اس جھگڑے میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات پیدا ہو گئے تھے انہیں دور کرانے کی کوشش کی ان دنوں نئی اصلاحات نافذ ہو رہی تھیں انتخابات سر پر تھے۔ لوگ ممبریاں حاصل کرنے اور لوگوں کواپنا حامی بنانے کے لیے نت نئے شگوفے چھوڑتے رہتے تھے۔ مسٹر جناح چاہتے تھے کہ یہ لوگ اپنی جماعتیں بنانے کے بجائے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں۔ لیکن پنجاب کے لیڈروں میں بہت کم لوگ ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے اور بڑے بڑے زمینداروں نے تو مل کے یونینسٹ پارٹی کے نام ایک جماعت بنا لی جس میںہندو مسلمان دونوں شریک تھے انتخابات میں سب سے زیادہ ممبریاں اسی جماعت کے ہاتھ آئیں۔ لیکن یہ کیفیت صرف پنجاب میں تھی۔ دوسرے صوبوں میں مسلم لیگ کو خاصی کامیابی ہوئی۔ چنانچہ صوبوں کی اسمبلیوں میں کانگریس کے بعد سب سے زیادہ تعداد مسلم لیگ ہی کے ممبروں کی تھی۔ مرکزی اسمبلی میں بھی یہی حال تھا۔ مسٹر جناح کو اگرچہ اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ ہندو بڑے تنگ دل ہیں سمجھوتے کا کوئی راستہ نکلے۔ یہ ضرور روڑا اٹکائیں گے۔ چاہے ملک کو انکی تنگ دلی سے کتنا ہی نقصا ن کیوں نہ پہنچے۔ یہ ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئیں گے۔ او ر ماپ تول کے جو گر انہوںنے یاد کر رکھے ہیں ان سے ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوں گے۔ پھر بھی مسٹر جناح کی یہی خواہش تھی کہ کانگریس اور لیگ میں کوئی سمجھوتہ ایسا ہو جائے کہ دونوں جماعتیں مل کے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیں۔ لیکن ہندو لیڈروں نے ان کی پیش نہ چلنے دی۔اور تو اور پنڈت جواہر لال نہرو نے جو ہندو لیڈر وںمیں بڑ ے روشن خیال سمجھے جاتے ہیں صاف صاف کہہ دیا کہ ملک میں جماعتیںہی دو ہیں برطانوی حکومت اورکانگریس لیگ کہاں سے بیچ میں آٹپکی۔ یہ سن کے مسٹرجناح کے ارادوں پر اوس پڑ گئی۔ وہ پہلے ہی کانگرس سے مایوس تھے۔ جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی تھی پنڈت جواہر لال نہرو کے اس جواب نے جس کا ایک ایک لفظ تیرو نشترتھا پوری کر دی۔ ٭٭٭ پاکستان مسلم لیگ کی تحریک کے تین دور ہیںَ پہلے دور میں مسلم لیگ کے لیڈر سمجھتے تھے کہ ہمیں برطانوی حکومت کے سوا اور کسی سے سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ جو کچھملے گا سرکارہی سے ملے گا۔ دوسرا دور پہلی جنگ عظیم میں شروع ہوا۔ اور مسلمان لیڈر سمجھنے لگے کہ انگریزی حکومت کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کانگریس سے سمجھوتہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ دور جو ۱۹۱۶ء سے شروع ہوا۔ گول میز کانفرنس کے زمانے میں ختم ہو گیا اور مسلمان لیڈروںنے محسوس کیاکہ ہم جب تک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوںگے۔ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اسی زمانے میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت مجلس احرار نے کشمیر کی تحریک چلائی۔ اور ریاست میں جتھے بھیجنے شروع کر دیے۔ مسلم لیگ اگرچہ اس تحریک سے الگ رہی تھی لیکن مسلمان کشمیر کی رعایا کو ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم سے بچانے کے لیے اس زور سے اٹھے کہ سارے ہندوستان میں شور مچ گیا۔ اس تحریک سے اور کوئی فائدہ تو ہوا نہیں تاہم سارے ملک میں مسلمانوں کی ہمتاور جرات کی دھاک بیٹھ گئی۔ اور اپنے پرائے سب محسوس کرنے لگے کہ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا ڈھنگ صرف کانگریس ہی کو نہیں آتا۔ مسلمان چاہیں تو کانگرس سے الگ رہ کے بھی بڑے زور کی تحریک چلا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ میں سب سے بڑا نقص یہ تھا کہ اب تک وہ بڑے بڑے آدمیو ںکی جماعت تھی اس کے قاعدے اور قانون ہی کچھ ا س قسم کے تھے کہ صرف اونچے طبقے کے لوگ اس میں شامل ہو سکتے تھے۔ مسٹر جناح نے ولایت سے آنے کے بعد سب سے پہلے لیگ کا ڈھانچہ بدلا۔ پرانے قاعدے اور قانون جنہوںنے لیگ کو روپے پیسے والے لوگوں کی جماعت بنا دیاتھا منسو خ کر کے اس جماعت کے دروازے سارے مسلمانوں پر کھول دیے۔ اب لیگ کی ممبری کے لیے سفارشیں یا روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ ہر مسلمان چار آنے سالانہ چندہ ادا کرکے لیگ کا منبر بن سکتاتھا۔ یہ سب کچھ تو ہو گیا۔ لیکن بڑی مشکل یہ تھی کہ لیگ کے سامنے کوئی صاف اور واضح راستہ نہیں تھا۔ اسے اتنا تو معلو م تھا کہ اس کی منزل آزادی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس منزل تک پہنچنے کے یے اسے کن راستوں سے گزرنا ہو گا۔ اگرچہ لیگ کے لیڈر اب بھی محسوس کرتے تھے کہ ہمیں ہندوستان میںرہنا اور ملک کوآزاد کرانا ہے تو کانگریس کو ساتھ لے کر آزادی کے راستے میں قدم رکھنا ہو گا لیکن ہند و لیڈر ہو ا کے گھوڑوںپر سوار تھے۔ سیدھے منہ بات کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ ۱۹۳۷ء میں صوبوں کی قانون ساز مجالس کے انتخابات ختم ہوئے۔ اور کانگریس کو انتخابات میںبڑی کامیابی ہوئی۔ شروع شروع میں تو وہ وزارتیں قائم کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ لیکن جب حکومت سے معاہدہ ہو ااور اس نے وزارتیں قائم کرنے کی حامی بھری تو مسلم لیگ کے ممبروں کو وزارت میںلینے سے انکار کر دیا بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ مسلم لیگ سے استعفا دینا پڑے گا۔ مسٹرجناح اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر یہ شرط ماننے پر آمادہ نہ ہوئے اور کانگریس نے وزارتوں پر قبضہ کر لیا۔ اس واقعہ سے کانگریس اور لیگ میں بدمزگی تو پیدا ہو گئی لیکن کانگریسی وزرا اگر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تو معاملات زیادہ نازک صورت حال اختیار نہ کرتے۔ لیکن انہوں نے بعض حرکتیں ایسی کیں کہ مسلمان یؤیکبارگی بھڑک اٹھے۔ کہیں کہیں ہندوئوں نے جو یہ سمجھتے تھے کہ اب حکومت ہماری ہے۔ مسلمانوں کو بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی کرنے سے روکا۔ بعض مقامات پر مسجدوں کے سامنے باجہ بجانے پر جھگڑے ہوئے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کانگریسی وزیروں نے اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کے اردو کی جگہ ہندی کو رواج دینے کی کوشش کی۔ یہ کیفیت دیکھ کر مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اور مسلمانوں کے دوسرے لیڈر الگ رہے۔ خود مسٹر جناح یہ محسوس کرنے لگے۔ کہ کانگریس سے شاید کبھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے۔ لیگ کے لیے یہ بڑی آزمائش کا زمانہ تھا اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیراچھایا ہوا ہے۔ کبھی کالے کالے بادلوں میں بجلی کی چمک اٹھتی ہے۔ تو سامنے پگ ڈنڈی کی سپید سپید سی لکیر نظر آ جاتی ہے۔ پھر وہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس عالم میں یکبارگی بجلی چمکی۔ مایوسی اور بے یقینی کی کالی گھٹائیں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں۔ اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ پگ ڈنڈی سے ہٹ کر ایک خاصی چوڑی سڑک ہے۔ جو اگرچہ دھندلکے کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ لیکن اسے دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سڑک پر بڑھتے چلیں تو آزادی کی منز ل پر ضرور پہنچا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کویہ راستہ اصل میں ان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے سمجھایا تھا۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں انہوںنے خطبہ الہ آباد میں لیگ کے سالانہ جلسہ کے صدر کی حیثیت سے جو تقریر کی تھی اس میں انہوںنے کہا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پنجاب صوبہ سرحد سندھ اور بلوچستان کو ملا کے ایک الگ صوبہ بنانے کی کوشش کریں ا س وقت تو لوگوں نے اس تجویز کی طرف زیادہ توجہ نہ دی لیکن ہندو مسلمانوں کے باہمی اختلافات جتنے زیادہ ہوتے گئے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال جڑ پکڑتا گیا کہ ہندوئوں کے ساھ مل کے ساجھے کی حکومت قائم کرنے کی بجائے انہیں اپنی علیحدہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بعض نوجوانوں طالب علموں نے اسلامی حکومت کے اس خاکے میں رنگ بھرا۔ بنگال اور کشمیر بھی اس میں شامل کر لیا۔ اور اس حکومت کانام پاکستان رکھا۔ یہ تحریک بڑے زور سے پھیلی اور ملک کے ہر حصے میں پاکستان کے حامی پید ا ہو گئے۔ مسلم لیگ نے تو شروع شروع میں پاکستان کو قبول نہ کیا۔ لیکن آخر کار جناح کو بھی ماننا پڑا۔ کہ پاکستان کے سوا مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ انہیں پاکستان کا حامی بنانے میں علامہ اقبال کا بڑا حصہ تھا۔ انہوںنے اس زمانے میں مسٹر جناح کے نام جو خط لکھے تھے ان میں جگہ جگہ پاکستان کا ذکر موجودہے ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ جس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق کے جن علاقوںمیں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔ انہیں ہندوستان سے الگ کر کے ایک آزاد حکومت قائم کر دی جائے۔ اب تک لیگ کے سامنے کوئی واضح راستہ موجود نہیں تھا۔ لیکن اس قرارداد نے یہ الجھن دور کر دی۔ یعنی لیگ کو اپنا راستہ صاف نظر آ گیا۔ ٭٭٭ جنگ کا زمانہ یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ انگلستان اور فرانس پولینڈ کی حمایت میں جرمنی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوربڑے زور کی جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کے شروع می جرمنی کا پلہ بھاری تھا۔ پھر اٹلی بھی اس سے آملا۔ پولینڈ کے بعد اس نے مغربی یورپ کے کئی ملکوں پر قبضہ کر لیا۔ فرانس بڑا طاقت ور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آخر کار اسے ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ کانگریس نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی یعنی آزادی کا مطالبہ پیش کر دیا ہندوستان کی برطانوی حکومت اس پر آمادہ نہ تھی۔ تو کانگریسی وزارتیں مستعفی ہو گئیں اور صوبوں کے اختیارات کی باگ ڈور گورنر وں کے قبضہ میں آ گئی۔ کانگریس نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا۔ اور گاندھی جی کو اختیار دے دیا کہ جب چاہیں سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دیں۔ ۱۹۴۱ء میں روس جنگ کے میدان میں اترا۔ کوئی پانچ مہینے کے بعد جاپان نے برطانیہ سے جنگ چھیڑ دی اور ملایا اور برما پر قبضہ کر لیا۔ اب برطانیہ کی طرف سے سر سٹیورڈ کرپس ہندوستان آئے۔ اور صلح کی گفتگو شروع کی۔ برطانیہ اس بات پر آمادہ تھا کہ ملک میںایک عارضی حکومت قائم کر دی جائے۔ جس میں لیگ اور کانگریس کے نمائندے شریک ہوں۔ اور جب جنگ ختم ہو جائے تو ملک کے آئندہ نظام حکومت کا فیصلہ کر کے ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے۔ لیکن کانگریس صلح پر آمادہ نہ ہوئیی اور سر سٹیفورڈ کرپس مایوس ہو کر واپس چلے گئے ان کے جاتے ہی کانگریس نے برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ کر دیا کہ وہ ہندوستان خالی کر دے اور حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ حکومت نے یہ کیفیت دیکھ کر سارے بڑے بڑے کانگریسی لیڈروں کو جن میں گاندھی جی بھی شامل تھے۔ گرفتار کر کے مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا۔ اس زمانے میں جو لوگ مسٹر جناح کی پر زور مخالفت کر رہے تھے ان میں خاکسار تحریک کے لیڈر عنایت اللہ مشرقی صاحب بھی تھے جو عام طور پر علامہ مشرقی کہلاتے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکنے اٹھے تھے۔ اور جن دنوں لاہور میں لیگ کا جلسہ ہوا۔ اس سے کچھ روز پیشتر حکومت سے لاہور کے خاکساروں کی بھی ایک ٹکر ہو چکی تھی۔ جس میں بہت سے خاکسار شہید ہوئے تھے۔ اور مشرقی صاحب کو گرفتار کر کے مدراس میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ مشرقی صاحب اور خاکسار تحریک کے متعلق مسٹر جناح کارویہ شروع سے ہمدردانہ تھا۔ لیکن مشرقی صاحب رہا ہو کے آئے تو ان کااندا ز بدلا ہوا تھا۔ انہوںنے لاہور پہنچتے ہی اس بات پر زور دینا شروع کیا کہ لیگ اورکانگریس میں سمجھوتہ ہوجانا چاہیے۔ یہاں تک تو خیر غنیمت تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد مشرقی صاحب نے زیادہ پائوں پھیلائے۔ اور مسٹر جناح کے نام حکم جاری کر ددیا کہ گاندھی جی سے مل کر کانگریس سے صلح کر لو۔ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا مسٹر جناح اس حکم نامہ کا جواب کیا دیتے؟ لیکن مشرقی صاحب نے اس قسم کے خطوں کا تار باندھ دیا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک نوجوان جو مشرقی صاحب کی خاکسار تحریک سے تعلق رکھتا تھا۔ اور جس کا نام رفیق صابر تھا۔ لاہور سے بمبئی پہنچا۔ اور ایک مسافر خانے میں اترا۔ وہاں اس نے اپنا نام محمد صادق بتایا اور مسافر خانے کے رجسٹر میں بھی یہی نام سے دستخط کیے۔ ہفتہ بھر مسافر خانہ میں رہنے کے بعد وہ جماعت خاکساران کے دفتر میں پہنچا۔ جہاں اسے رہنے کے لیے جگہ مل گئی۔ مسٹر جناح ان دنوں بلوچستان کا دورہ کر رہے تھے ۔ وہ جس دن دورہ ختم کر کے بمبئی پہنچے رفیق صابر نے کہیں سے ایک چاقو لیا اسے سان پر چڑھوا کر تیز کیا اگلے روز اتوار تھا۔ یہ دن اس نے جوں توں کر کے گزارا اور پیر کو رات کے وقت مسٹر جناح کے بنگلہ پر پہنچ کر دربان سے ملا اور کہا کہ میں مسٹر جناح سے ملنا چاہتا ہوں ۔ دربان نے اسے سیکرٹری کے دفتر میں پہنچا دیا۔ سیکرٹری نے اس کی باتیں سن کر کہا کہ مسٹر جناح تو بہت مصروف ہیں۔ لیکن آپ ایک کاغذ پر لکھ دیجیے کہ آپ کیوں ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان تک پہنچا دوں گا۔ رفیق نے اردومیں مسٹر جناح کے نام ایک خط لکھا۔ ابھیاس نے بمشکل خط ختم کیا ہو گا کہ مسٹر جناح خود دفتر میں آ گئے۔ اسے دیکھ کر انہوںنے سیکرٹری سے پوچھا کہ یہ کیا چاہتے ہیں۔ سیکرٹری نے کہا کہ یہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مسٹر جناح رفیق صابر سے کہنے لگے آ پ کو مجھ سے جو کچھ کہنا ہے کاغذ پر لکھ دیجیے۔ میں ایک آدھ دن میں ملاقات کے لیے وقت نکال لوں گا۔ رفیق نے کہا میں ابھی ملنا چاہتا ہوں۔ مسٹر جناح نے مصروفیت کا عذر پیش کیا۔ لیکن وہ نہ مانا اور چاقو نکال کر ان پر حملہ کر دیا۔ مسٹر جناح نے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ پھر بھی ان کی ٹھوڈی اور ہاتھ زخمی ہو گئے۔ اتنے میں سیکرٹری اور دربان آ گئے اور رفیق کو پکڑ لیا۔ وہ دربان سے اپنے آپ کو چھڑا کے بھاگا لیکن سڑک پر پہنچا تھا کہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ مسٹر جناح کو خاصے شدید زخم آئے تھے لیکن وہ چند دنوں میں تندرست ہو گئے۔ حملہ آور پر مقدمہ چلا اور اسے پانچ برس قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ ۱۹۴۴ء میں جب حکومت نے گاندھی جی کورہا کیا تو بمبئی میں مسٹر جناح سے ان کی ملاقات ہوئے کئی دن گفتگو ہوتی رہی دونوںنے ایک دوسرے کو لمبے لمبے خط لکے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ٭٭٭ جدوجہد ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں کی اسملیوں میں کانگریس کے بعد لیگ کا زور تھا۔ البتہ سرحد میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ اسمبلی پر بھی کانگریسی چھائے ہوئے تھے اورپنجاب میں تو اور ہی رنگ اچھل رہا تھا۔ یعنی یہاں بڑے بڑے زمینداروں نے مل کر یونینسٹ پارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کر لی تھی جو اسمبلی پر چھائی ہوئی تھی یونینسٹ پارٹی کہنے کو تو مخلوط جماعت تھی یعنی اس میں ہند و اورمسلمان دونوں شامل تھے۔ لیکن مسلم لیگ سے بھی اس کا تعلق چلا آتا تھا۔ اس کے مسلمان ممبراپنے آ پ کو لیگی کہتے تھے۔ اصل میں یونینسٹ پارٹی کے لیڈر سر سکندر حیات کاں بڑے ہوشمند شخص تھے انہوںنے پنجاب کے ہندو زمینداروں کو بی اپنے ساتھ ملائے رکھا۔ اور لیگ کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھے۔ اور بگاڑ کا کوئی موقع نہ آنے دیا۔ انہوںنے دسمبر ۱۹۴۲ء میں انتقال کیا۔ اور ملک خضر حیات خان ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ وہ یوں بھی تو مسلم لیگ کی وفاداری کا دم بھرتے تھے لیکن ۱۹۴۴ء میں جب مسٹر جناح نے کہا کہ یونینسٹ پارٹی بالکل آدھا تیتر اور آدھا بٹیر قسم کی جماعت بن کر رہ گئی ہے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسمبلی کے سارے مسلمان ممبر مل کر مسلم لیگ پارٹی بنائیں پھر ہندوئوں کو ساتھ ملا کے ملی جلی وزارت قائم کی جائے۔ ملک خضر حیات خان نے یہ بات نہ مانی۔ چنانچہ انہیںلیگ سے نکلنا پڑا۔ اس طرح یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ میں ٹھن گئی۔ اٹلی اور جرمنی نے ہتھیار ڈالے۔ اور یورپ میں جنگ ختم ہو گئی۔ تو حکومت نے سارے کانگریسی لیڈروںکو رہا کر دیا لارڈ ویول نے جو ان دنو ں وائسرائے تھے شملہ میں کانگرس لیگ اور دوسری جماعتوں کے ممبروں کو بلایا۔ اور ملک میں ایک عارضی حکومت قائم کرنے کے لیے گفتگو شروع ہوئی۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق تھا۔ کہ نئی حکومت میں آدھے مسلمان ہوں۔ اور آدھے اونچی ذاتوں کے ہندو۔ لیکن مسٹر جناح کو ا س بات پر اصرار تھا کہ عارضی حکومت کے مسلمان ممبروں کو لیگ منتخب کرے گی۔ اور کانگریس اس بات پرآمادہ نہیں تھی۔ بلکہ یہ چاہتی تھی کہ ایک آدھ کانگریسی مسلمان کو بھی نئی حکومت میں لیا جائے۔ ملک خضرحیات خان نے اس موقع پر ایک اورالجھن پیدا کر دی یعنی اس بات پر اڑ گئے کہ نئی حکومت میں پنجاب کا ایک نمائندہ ضرور ہونا چاہیے جسے میں خود منتخب کروں گا۔ شملہ کانفرنس ناکام رہی۔ اور ملک خضر حیات خاں جو پہلے ہی مسلمانوں میں بہت بدنا م تھے۔ زیادہ بدنام ہو گئے۔ اب مرکزی اسمبلی اور صوبوں کی اسمبلیوں کا انتخاب شروع ہوا۔ اس زمانے میں لیگ کی تحریک بڑا زور پکڑ گئی تھی۔ اور پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچ چکا تھا مسلمانوںمیں کچھ اور جماعتوں نے لیگ کے امیدواروں ے مقالبے میں اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ لیکن لیگ کے سامنے کسی کا چراغ نہ جل سکا۔ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ساری ممبریاں لیگ کے ہاتھ آئیں۔ صوبوںمیں کہیںپچانوے فیصدی اور کہیںنوے فیصدی ممبریاں لیگ کو ملیں۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بڑے زور سے اٹھی لیکن اس کے صرف پانچ امیدوار کامیاب ہوئے۔ بنگال میں یہی ہوا۔ یعنی مسلمانوںکی ۱۹۹ نشستوں سے ۱۱۳ پر لیگ کا قبضہ ہو گیا۔ البتہ سرحد میں کانگریس اور لیگ برابر رہیں۔ یعنی سرحد کی ۳۶ نشستوںمیں سے ۷ ۱ لیگ کے ہاتھ آئیں۔ جمعیت العلماء کے دو امیدوار کامیاب ہوئے۔ ایک مسلمان امیدوار کسی پارٹی سے تعلق نہیںرکھتا تھا۔ ۱۶ نشستیں مسلمان کانگریسیوں کو ملیں۔ سرحد میں توخیر پہلے بھی کانگریسی مسلمانو ں کا زور تھا۔ اور خدائی خدمتگار جماعت جس کے لیڈر خاں عبدالغفار خاں کو اس صوبہ میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مدت سے کانگریسی چلے آتے تھے۔ لیکن پنجاب میں تو لیگ نے بالکل یونینسٹ پارٹی کا تختہ ہی الٹ دیا۔ اسمبلی کے کل ممبروں کی تعداد ۱۷۵ تھی جس میں ۸۶ مسلمان اورباقی غیر مسلم تھے۔ ان ۸۶ میں سے ۵ یونینسٹ تھے اور باقی ۷۹ مسلم لیگی۔ پھر بھی ملک خضر حیات نے لیگ کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔ بلکہ اسمبلی کے غیر مسلم ممبروں کو ساتھ ملا کے ایک وزارت قائم کی۔ اور خود وزیراعظم بن بیٹھے۔ مسٹر جناح کو ایک موقع پر پنجاب کے ایک لیگی کارکن میاں فیروز الدین احمد مرحوم نے قائد اعظم کہا تھا۔ یہ لقب ایسا مقبول ہوا کہ لوگ انہیں قائد اعظم ہی کہنے لگے اخباروں میں ان کے نام کے ساتھ قائد اعظم لکھا جاتاتھا۔ گاندھی جی نے انہیں جو خط لکھے ان میں بھی انہیں انہیں الفاظ میں مخاطب کیا گیاتھا۔ انتخابات کے زمانے میں ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسی نام کی دہائی دی جاتی تھی۔ جلسوں اور جلوسوں میں جگہ جگہ قائد اعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے۔ قائد اعظم کے معنی بڑا لیڈر کے ہیں اور مسٹر جناح کے نام کے ساتھ یہ لفظ ایسا بیٹھتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ کیونکہ مسلمانوں میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں تھا۔ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی پوری تایرخ میں ایسی مثالیںبہت کم ملتی ہیں کہ کسی شخص کو اتنی ہر دل عزیزی اور مقبولیت حاصل ہوئی ہو۔ ۱۹۴۶ء میں حکومت برطانیہ کے تین وزیر ہندوستان آئے انہوںنے یہاں مختلف جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقاتین کر کے بعد ایک سکیم مرتب کی۔ جسے وزراتی مشن سکیم کہتے ہیں اس سکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ صوبوںکے تین گروپ بنائے جائیں آئین بنانے کے لیے ایک مجلس قائم کی جائے۔ جس میں تمام قوموں کے نمائند ے آبادی کے حساب سے شریک ہوں اورجب تک ملک کے آئین کا فصلہ نہیں ہو جاتا ایک عارضی حکومت قائم کی جائے۔ جس کے چودہ وزیروں میں سے پانس مسلم لیگ میں سے لیے جائیں۔ اس تجویز کو منظور کر لیاگیا آئین بنانے والی مجلس کے ممبروں کا انتخاب بھی ہوا۔ اس انتخاب میں بھی لیگ ہی کا پلہ بھاری رہا یعنی مسلمانوںکی ۷۸ نشستوں میں سے ۷۳ نشستیں پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ پھر بھی وزراتی مشن کی سکیم پروان نہ چڑھی۔ کانگریسی لیڈروں نے اس کے بعض حصوں کو غلط معنی پہنانے شروع کر دیے۔ اور ایسی پیچیدگیان پیدا ہوئیں خہ ساری سکیم ہی ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ اب وائسرائے نے ایک عارضی حکومت قائم کی اورپنڈت جواہر لال نہرو کو وزیر اعظم بنایاشروع شروع میں لیگ اس سے الگ رہی لیکن کچھ دنوں کے بعد اس کے پانچ نمائندے بھی مرکزی وزارت میں شامل کر لیے گئے۔ یوں تو نئی حکومت میں لیگ اور کانگریس دونوں کے نمائندے موجود تھے جو بظاہر مل کے کام کرتے تھے۔ لیکن دل صاف نہیںتھے۔ اور مسلمانوں اور ہندو ایک دوسرے کو شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسی زمانے میں فسادات کا طوفان امڈا۔ اور ملک میں خو ن کی ندیا ںبہہ گئیںَ فساد کلکتہ سے شروع ہوا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی بنگال اور بہار اس کی لپییت میں آ گئے۔ بہار میں خاص طور پر مسلمانوں کا بڑا جانی نقصان اور مالی نقصان ہوا۔ یو پی کے بعض شہروں میں بھی ہنگامے ہوئے۔ ان میں گڑھ مکتشیور کا ہنگامہ خاص طور پر بڑے زور کا تھا۔ پنجاب میں ملک خضر حیات خان اسمبلی کے ہندو ممبروں کی مد د سے وزارت سنبھالے بیٹھے تھے۔ مسلمانوں میں ان کے خلاف نفرت کا جذبہ ضرور تھا۔ لیکن اگر وہ مسلم لیگ سے ٹکر نہ لیتے تو اتنے بدنام نہ ہوتے اور شاید ان کی وزارت کچھ دن اور چل جاتی۔ مگر وزارت کے نشہ میں انہیں یہ خیا ل ہی نہ رہا۔ کہ لیگ آخر ہندوستان ک مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اسے حکومت کے زور سے دبانے کی کوشش کرنا اچھا نہیں۔ ان کی بعض حرکتوں کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ لیگ نے ان کی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ اور ہزاروں مسلمانوں جن میں پنجاب مسلم لیگ کے سارے بڑے بڑے لیڈر شامل تھے جیل بھیج دیے گئے یہ تحریک اگرچہ صرف پنجاب تک محدود تھی اوریہاں بھی اس کا زور زیادہ تر لاہور ہی میں تھا۔ پھر بھی وہ اس زناٹے کی تحریک تھی کہ کانگریس کی تحریکیں بھی اس کے سامنے گرد ہو کے رہ گئی تھیں ۔ بالآخر ملک خضر حیات خان کو لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ یعنی انہوں نے وزارت سے استعفا دے دیا۔ اور اگرچہ اس کے بعد ملک میں بڑے بڑے اہم واقعات ہوئے۔ لیکن وہ اس طرح گھر میں پائوں توڑ کے بیٹھے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ادھر ہندوستان کی عارضی حکومت تو لشٹم پشٹم چل رہی تھی۔ لیکن ہندوستان کے آئندہ طرز حکومت کی گتھی ایسی الجھی ہوئی تھی کہ سلجھائے نہیں سلجھتی تھی۔ آخر انگلستان کے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جون کے مہینے میں ہم ہندوستان کے حکومت کی باگ ڈور خود ہندوستانیوںکے حوالے کر دیں گے۔ آگے وہ جانیں اور ان کا کام۔ لارڈ مائونٹ بیٹن انہی دنوں ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تھے۔ انہوںنے ایک سکیم بنائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستان کو دو حصوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کر دیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور بنگال کے صوبوں میں بھی دو ٹکڑے کیے جائیں۔ مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال ہندوستان کو ملیں اور مغربی پنجاب اورمشرقی بنگال پاکستان کے حصے میں آئیں۔ صوبہ سرحد اورآسام کے ایک ضلع سلہٹ کے لوگوں کی رائے شمار ی کر کے معلوم کیا جائے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیںیا ہندوستان میں۔ وہ اس معاملہ میں جو فیصلہ دیں اسی کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس سکیم کا اعلان ۳ جون ۱۹۴۷ء کو کیاگیا۔ مسلمانوں نے پاکستان کا جو خاکہ بنایا تھا اس میں پورا بنگال پورا پنجاب بلکہ آسام بھی شامل تھا۔ کیونکہ آسام کے غیر مسلموں میں عیسائیوں اور وہاں کے قبائلیوںکو نکال دیا جائے تو ہندوئوں اورمسلمانوں کی تعداد قریب قریب برابر رہ جاتی ہے۔ لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن کی تجویز کی رو سے مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب کے علاوہ آسام بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا۔ پھر بھی کانگریس اورلیگ دونوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ اب سرحد اور سلہٹ میں رائے شماری ہوئی ۔ان دونوں علاقوں کے باشندوں نے پاکستان کے حق میں رائے دی۔ اورانہیں پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ اب یہ طے ہو گیا۔ کہ ۱۵ اگست کو تقسیم کی تجویز پر عمل ہو جائے گا۔ اور ہندوستان کو دو حصوںیعنی پاکستان اور ہندوستان میں بانٹ دیا جائے گا۔ لیکن دونوں ملکوں کی جو حدیں مقرر کی گئی تھیں۔ وہ عارضی تھیں۔ پکی حدبندی کے لیے ایک کمیشن مقرر ہوا جس کا صدرایک انگریز ریڈ کلف تھا اس نے حد بندی کے متعلق جو فیصلہ کیا۔ وہ بڑا غیر منصفانہ تھا اس سے مسلمانوں کو سخت نقصان ہوا۔ اور گورداسپور امرتسر فیروز پور اور جالندھر کی بیشتر تحصیلیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پاکستان سے ملی ہوئی بھی تھیں ہندوستان کے قبضہ میںچلی گئیں۔ ریڈ کلف نے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو دے کر اسے کشمیر سے ملا دیا۔ اور اس طرح ایک بہت بڑے فتنہ کی بنیاد رکھ دی ۔ ٭٭٭ حکومت پاکستان جن دنوں ملک خضر حیات نے استعفا دیا۔ پنجاب میں فسادا ت شروع ہو چکے تھے ۳ جون ۱۹۴۷ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کا اعلان کیا۔ اور ہنگامے زیادہ زور پکڑنے لگے۔ اگست کے وسط میں ہندوئوں اور سکھوں نے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر بزن بول دیا۔ لوگ بھاگ بھاگ کے مغربی پنجاب اور پاکستا ن کے دوسرے حصوں میں پہنچنے لگے۔ مغربی پنجاب میں بھی فساد کا طوفان امڈ ا ور ہندوئوں نے پاکستان کو چھوڑ کے ہندوستان کا رخ کیا چنانچہ ۱۵ اگست کو جب ادھر دلی میں اور کراچی میں آزادی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ پنجاب میںخون کا سیلاب امڈ رہا تھا۔ فسا دکی آگ ایسی پھیلی کہ دلی اور یوپی کا ایک حصہ اس کی لپیٹ میں آ گیا کوئی ستر لاکھ مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اورپچاس لاکھ ہندو اور سکھ پاکستان کو چھوڑ کے ہندوستان چلے گئے دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی ہجرت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی نئی حکومت کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح مقرر ہوئے تھے کیونکہ ان کے سوا کوئی اور ایسا شخص نظر نہیں آتا تھا جو اتنی اہم ذمہ داری سنبھال سکے۔ لیکن ہندوستان کا گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن ہی کو رہنے دیا گیا۔ وہ تقسیم سے پہلے سارے ہندوستان کا وائسرائے اور گورنر جنرل تھے۔ اب وائسرائے کا عہدہ اڑ گیا۔ اور ان کی حیثیت صرف گورنر جنرل کی رہ گئی۔ ہندوستان کی پرانی حکومت تھی پاکستان کی حکومت نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ نہ ابھی دفتر قائم ہوئے ھتے نہ فائلیں موجود تھیں نہ افسروں اور کلرکوںنے چارج لیا تھا۔ اور تو اور جو ضروری سامان تقسیم میںپاکستان کو ملا تھا وہ بھی ابھی دلی میں ہی پڑا تھا۔ کہ فسادات شروع ہو گئے۔ اور مہاجرین کا تانتا بندھ گیا۔ اصل میں مشرقی پنجاب میں جن لوگوںنے فساد شروع کیا تھا ان کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پنجاب کی ساری مسلم آبادی پاکستان پہنچ گئی تھی تو پاکستان کی نئی حکومت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی لیکن خدا کی قدرت پاکستان اس امتحان میں پورا اترا۔ اور دشمنوں کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ قائد اعظم صرف پاکستان کے گورنر جنرل ہی نہیںتھے۔ ساری قوم کے باپ اور ملک کے سب سے بڑے لیڈر بھی تھے۔ مصیبت کے وقت ساری قوم کی نظریں انہیں کی طرف اٹھتی تھیں۔ اور ان کی زبان سے نکلے ہوئے دو لفظ کبھی کبھی ایسا کام کر جاتے تھے جو ہزاروں انسانوں اور لاکھوں کروڑوں روپے میں نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کٹھن وقت میں انہوںنے قوم کی ہمت بندھانے میں کوئی بات نہ اٹھا رکھی۔ اور سچ پوچھییے تو یہ انہی کی حکمت عملی اور ثابت قدمی کا نتیجہ تھی۔ کہ جھگڑوں اور طوفانوں میں نہ تو پاکستان کے لوگوں کے ہاتھوں سے امید کادامن چھوٹا اور نہ ان کے قدم ڈگمگائے۔ ہندوستان نے یہ غضب کیا کہ ریاستوں کے معاملہ میں بھی دھاندلی سے کام لیا۔ اس بات کا فیصلہ شروع سے ہو چکا تھا۔ کہ جو ریاستیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیں پاکستان میں شامل ہوجائیں جو ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہیں وہ ہندوستان کے ساتھ رہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ جس مملکت میں شامل ہوں اس سے ان کی سرحد ملتی ہو۔ جونا گڑھ کا نواب مسلمان تھا۔ وہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ لیکن ہندوستان نے نہ مانا اورجوناگڑھ میں فوجیں اتار دیں۔ کشمیر کی آبادی زیادہ تر مسلمانوں کی ہے لیکن وہاں کے ڈوگرہ مہاراجہ نے ہندوستان میں شامل ہونا چاہا تو ہندوستان کی حکومت نے اس کی درخواست منظور کر لی۔ اور وہاں بھی اپنی فوجیں بھیج دیں۔ ریاست میں پہلے ہی مہاراجہ کے خاف ایک تحریک جاری تھی۔ اور ریاست کے باشندے پہلے ہی ڈوگرہ فوجوں لڑ رہے تھے۔ اب سرحد کے آزاد قبیلے جن کے علاقے کی حدیں کشمیر سے ملتی تھی کشمیر کے مسلمانوں کی مد د کو آ پہنچے۔ اور بڑے زور کی جنگ چھڑ گئی قائد اعظم چاہتے تھے کہ کشمیر کا معاملہ صلح صفائی سے طے ہوجائے۔ اور کشمیر کے باشندوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ جس مملکت میں چاہیں شامل ہو جائیں۔ لیکن ہنوستان کے لیڈر یہ بات بھی نہ مانے۔ قائد اعظم نے مسلم لیگ کو صحیح معنوں میں سارے مسلمانوں کی جماعت بنانے اور اس کاپیغام گھر گھر پہنچانے میں بڑی محنت کی تھی وہ شہر شہر پھرے۔ جگہ جگہ جلسوںمیں تقریریں کیں۔ سمجھوتے کی گفتگوئوں میں حصہ لیا۔ ولایت سے آنے کے بعد انہوںنے وکالت کی پریکٹس ترک کر دی تھی اور ان کا سارا وقت قومی کاموں میں صرف ہو جاتا تھا پھر بھی جو کام وہ کر رہے تھے وہ ایک طرح کی وکالت ہی تھا وکالت کے زمانے میں وہ بڑی محںت س مقدمے تیار کرتے تھے۔ مسلیں بار بار پڑھتے قانون کی کتابوں میں حوالے تلاش کرتے اور ساری ساری رات جاگتے رہتے لیکن اپنی قوم کا مقدمہ جس ذوق و شوق سے انہوںنے تیار کیا تھا اس کی مثال ان کی بیرسٹری کے ابتدائی زمانے میں نہیں ملتی۔ پاکستان کا گورنر جنرل بننے کے بعد انہیں جو کام کرنا پڑا۔ وہ مقد مہ تیارکرنے کے بالکل مترادف تھا۔ لیکن یہ فرض بھی انہوںنے بڑے ذو ق و شوق سے انجام دیا۔ وہ صبح سویرے اٹھ کے کام میں جٹ جاتے تھے۔ اور بہت رات گئے تک جاگتے رہتے تھے۔ ان کی چھوٹی بہن مس فاطمہ جناح مدت سے ان کے پاس رہتی تھیں۔ گھر کی دیکھ بھال بھی وہی کرتی تھیں۔ سچ پوچھیے تو شفیق بہن کی وجہ سے انہیں بڑھاپے میں بہت آرام ملا۔ ٭٭٭ وفات قائد اعظم کی صحت تو یوں تو مدت سے خراب چلی آتی تھی۔ لیکن وہ سیاسی دھندوں میں کچھ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ نہ کبھی جم کے علاج کرنے کاموقع ملا۔ نہ کبھی اتنی فرصت ملی۔ کہ کچھ دن آرام ہی کر لیتے۔ اس طرح صحت بگڑتی گئی اور انہیں احساس تک نہ ہوا پاکستان قائم ہونے کے بعد انہوںنے اتنی محنت کی کہ چھ مہینوں میں صحت بالکل جواب دے گئیی ۱۹۴۸ء کے شروع میں ڈاکٹروں کے مشورہ سے پہلے کوئٹہ گئے اور پھر وہاں سے زیارت چلے گئے۔ وہ یہاں آرام کرنے آئے تھے۔ لیکن آرام کا نام ہی نام تھا۔ یہاں بھی ضروری کاغذات اور اہم فائلوں کا تانتا بندھا تھا۔ مس فاطمہ جناح نے جو ان کے ساتھ تھیں۔ بہتیرا چاہا کہ وہ کچھ دنوں ملک کا کام دھندا دوسرے لوگوں پر چھوڑ کے آرا م کریں۔ لیکن انہوںنے نہ مانا۔ اب تک تو ڈاکٹروں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہ آئی تھی کہ انہیں اصل میں مرض کیا ہے۔ لیکن زیارت میں پاکستان کے بعض مشہور ڈاکٹروں نے غور سے ان کا معائنہ کیا۔ تو معلوم ہوا کہ ان کے پھیپھڑے خراب ہو گئے ہیں لاہور کے دو ڈاکٹروں نے جو پھیپھڑوں کے علاج میں بہت ماہر تھے بڑی محنت سے علاج شروع کیا شروع شروع میں تو انہیں خاصا افاقہ ہو گیا تھا۔ اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ چند مہینوں میں تندرست ہو جائیں گے۔ لیکن پھر یکبارگی ان کی صحت گرنے لگی۔ ڈاکٹروں کا خیا تھا کہ ان می زندہ رہنے اور مرض کا مقابلہ کرنے کی خواہش باقی نہیں رہیل اصل میں انہیں اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ میں نے اپنا کام ختم کر لیا ہے۔ پاکستان قائم ہو چکا ہے۔ اس کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ اور میرے بعد بھی وہ زندہ رہے گا۔ اس احساس نے ان میں مرض کے مقابلہ کی قوت کم کر دی اور بیماری طبیعت پر غاب ہوتی گئی۔ ستمبر کے شروع میں ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ ۱۱ ستمبر کو انہیں کراچی پہنچا دیا گیا۔ شام کو کوئی چھ بجے کے قریب وہ اپنی کوٹھی میں پہنچے۔۔ اور دس بج کے بیس منٹ پر اپنے مولا سے جا ملے انا للہ وانا علیہ راجعون۔ لوگوں کو قائد اعظم کی بیماری کے حالات معلوم نہیںتھے۔ اس لیے ان کی وفات کی خبر ملی تو ایسا معلوم ہوا کہ اچانک بجلی سی گر پڑی ہے۔ دوسرے دن جنازہ اٹھا تو ہر طرف کہرام برپا تھا۔ اکثر لوگ تو بالکل ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے جنازہ میںکوئی چھ لاکھ اشخاص کا ہجوم تھا۔ آنکھوںمیںآنسوئوں کی جھڑی بندھی ہوئی تھی۔ اور دلوں سے آہوں کے طوفان اٹھ رہے تھے۔ کراچی تو خیر پاکستان کی حکومت کا مرکز تھا دوسرے شہروں میں بھی دکانیں بند تھیں۔ بازار سنسان پڑے تھے۔ اور لوگوں کے جذبات کا یہ حال تھا کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی تھی۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے آدمیوں نے اس موقع پر ماتم پرسی کے پیغام بھیجے۔ اخباروںمیں مضامین چھپے بہت سے شاعروں نے اس موقع پرمرثیے لکھے قائد اعظم کو اپنی قوم میں ہر دل عزیز ی حاصل تھی۔ وہ دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اور ان کی قوم نے جس طرح ان کا سوگ منایا ہے اس کی مثالیں بھی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔ ٭٭٭ خراج عقیدت قائد اعظم کی وفات پر دنیا بھر کے سیاستدانوں ادیبوں اور شاعروں کے بہترین الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ذیل میں چین کے ایک نامور شاعر اور پاکستان کے ایک نوجوان ادیب کے لکھے ہوئے مرثیے درج کیے جاتے ہیں: عہد جناح ! اے مقاومت جہاد اور انقلا ب کے نشان! جسے صحرائوں کے خانہ بدوش بھی پہچانتے تھے اور گنگا کے کنارے پر بسنے والے بھی‘ میرا کمزور دل آج غم کے مقابلے میں عاجز ہے میں رونے پر مجبور ہوں اگرچہ آنسو میرے غم کی شدت کے اظہار سے قاصر ہیں! او جناح! روح انسانی تجھے کبھی بھونے نہ پائے! حکمرانوں کی نخوت اور دشمنوں کی لذت خون آشامی برقرا ر رہے گی لیکن تو صبر و اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کر لے کیونکہ جنگلوں میں اور ساحلوں پر تیرے بیٹے (ہی نہیں) تیری بیٹیاں (بھی) تلواریں ہاتھوں میں لیے حق کی حمایت کرتی رہیں گی‘ وہ تیرے طویل جہاد کو‘ از سر نو شروع کریں گے‘ اور یہ نسل(ہی)‘ تیرا کام پایہ تکمیل کو پہنچا دے گی! یہ صرف ایک نوحہ نہیں ‘ حلف ہے! (لوہ ینگ) ٭٭٭ قائد دہر تو نے اسلام کا بول بالا کیا ہر قیامت کو ہنس ہنس کے ٹالا کیا تو نے ان ظلمتوں میں اجالا کیا جن کو صدیوں سے افرنگ ڈھالا کیا تو نے ان راستوں کو اجاگر کیا جن پہ صدیقؓ و فاروقؓ چلتے رہے تو نے ان قافلوں کو خراماں کیا جو پڑائو پہ پہلو بدلتے رہے بحر ہستی میں اسلام کی لہر تھا قائد ہند کیا قائد دہر تھا آندھیوں سے نکلنا سکھایا ہمیں آن میں آسماں پر بٹھایا ہمیں راستہ زندگی کا دکھایا ہمیں ساری دنیا کا دولھا بنایا ہمیں تو نے تلوار کو طاق پر رکھ دیا اور قرآن کو رہنما کر دیا یعنی صدیوں کے الجھے ہوئے راز کو چند باتوں کی حکمت سے وا کر دیا بحر ہستی میں اسلام کی لہر تھا قائد ہند کیا قائد دہر تھا ایک بے داغ آئینہ سیرت تری سلطنت کا سہارا تھی قوت تری ساری ملت کی حشمت تھی شوکت تری پاک فطرت تری نیک نیت تری آفتاب جہاں تاب تیری شعائیں ابد تک فضائوںمیں ارزاں رہیں تیرا چہرہ اب تک فروزاں رہے تیری آنکھیں ابد تک درخشاں رہیں بحر ہستی میں اسلام کی لہر تھا قائد ہند کیا قائد دہر تھا (احمد ندیم) ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The end