کشمیر چراغ حسن حسرت دیباچہ کشمیر کے متعلق کتاب لکھنے کا خیال مجھے پہلی دفعہ ۱۹۳۹ء میں آیا تھا۔ شیخ محمد عبداللہ انہیں دنوں رہا ہو کے لاہور آئے تھے۔ انہوں نے بھی ہمت بندھائی اور کہا کہ سری نگر آؤ تو کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کے متعلق جتنا مسالہ اکٹھا کر رکھا ہے، سب تمہارے حوالے کر دیں گے۔ میں نے کتابیں جمع کرنی شروع کیں۔ جو کتابیں صرف لائبریریوں میں مل سکتی تھیں، ان کے ضروری حصے نقل کرائے۔ لیکن اس کام کا اتمام میرے سری نگر جانے پر موقوف تھا۔ کیونکہ کشمیر کے اسلامی عہد حکومت کی تاریخ کے متعلق قلمی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ جو صرف سری نگر ہی میں مل سکتا ہے۔ اس لئے صرف دو باب لکھنے کے بعد ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس کے بعد ایسے قضیے پیش آئے کہ کئی برس تک اس طرف توجہ کرنے کا موقع نہ ملا۔ پچھلے سال (فروری ۱۹۴۷ئ) کے شروع میں ملایا سے واپس آیا تو ارادہ تھا کہ اپنے آبائی وطن پونچھ میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا کام کروں گا۔ میری ذاتی کتابیں مجھ سے پہلے پونچھ پہنچ چکی تھیں۔ انہیں میں میری بعض کتابوں کے ناتمام مسودے اور یادداشتیں بھی تھیں۔ ان دنوں ملایا کے سفر کے نقوش ذہن میں تازہ تھے۔ اس لئے خیال تھا کہ پہلے ملایا کے متعلق ایک چھوٹی سی کتاب لکھ ڈالوں۔ پھر اطمینان سے کشمیر کی تاریخ لکھوں گا۔ جولائی میں سری نگر گیا اور مہینہ بھر وہاں رہ کے پونچھ چلا گیا۔ لیکن کتاب ختم نہ ہوئی ستمبر کے تیسرے ہفتے میں بعض ضرورتوں سے لاہور آنا پڑا۔ یہاں پہنچے چند دن ہی گزرے تھے کہ حالات خراب ہو گئے اور پونچھ کے شہر سے مسلمانوں کو نکلنا پڑا۔ اس ہنگامہ عام میں میری کتابیں اور مسودے بھی جن میں ملایا کا نامکمل سفر نامہ اور کشمیر کی تاریخ کے بعض اجزاء اور یادداشتیں شامل تھیں، غارت ہو گئے۔ ورق بر ورق ہر سوئے بردبار یہ کتاب جو آپ کے سامنے ہے وہ کتاب تو نہیں جس کا خاکہ کئی برس سے میرے ذہن میں تھا۔ کیونکہ لاہور میں نہ کتابیں موجود تھیں نہ وہ یادداشتیں جن کی فراہمی میں میرے کئی مہینے صرف ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ کتاب بڑی عجلت میں لکھی گئی ہے۔ تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ کشمیر کی پوری تاریخ سیدھے سادے انداز میں بیان کر دی جائے۔ اس کی تالیف میں جن کتابوں سے مدد لی گئی ہے ان کی فہرست کتاب کے اخیر میں موجود ہے لیکن کشمیر کی سیاسی جدوجہد کے سلسلہ میں مجھے کہیں کہیں صرف اپنی ذاتی معلومات پر بھروسہ کرنا پڑا ہے۔ کتاب کا انڈکس عزیزم انیس ہاشمی صاحب نے مرتب کیا ہے جس کے لئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ لاہور ۳ جنوری ۱۹۴۸ء چراغ حسن حسرت ٭٭٭ پہلا باب کشمیر ریاست جموں و کشمیر جو ہندو کش اور قراقرم کے برفستانوں سے پنجاب کے تپتے ہوئے میدانوں تک ۸۴۴۷۱ مربع میل میں پھیلی ہوئی ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے تو دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کا مقابلہ کرتی ہے ۔ ہاں آبادی ذرا کم ہے یعنی یہی کوئی چالیس لاکھ۔ شمال میں اس ریاست کے ڈانڈے چین اور روس سے جا ملے ہیں۔ مغرب میں افغانستان ہے اور اس سے ذرا ہٹ کے سرحدی صوبہ، لیکن جنوب اور مشرق میں پنجاب ہی پنجاب پھیلا ہے۔ ہمارے دیس کے دودریاؤں نے بھی کشمیر کی قدرتی حد بندی میں حصہ لیا ہے۔ اس کی مشرقی سرحد کو راوی نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور مغرب میں دریائے سندھ بلتستان کا پہلو دباتا ، جھاگ اڑاتا بہہ رہا ہے۔ ایک انگریز1؎ مصنف نے کشمیر کو ایک وسیع عمارت سے تشبیہہ دی ہے۔ جس کی کئی منزلیں ہیں۔ پھر ہر منزل میں بسنے والوں کا لباس الگ، بولی مختلف، رسم و رواج جداگانہ۔ اور بات صحیح بھی ہے، جموں اس عمارت کا دروازہ ہے جس کے سامنے سیالکوٹ، گجرات، گوردا سپور اور جہلم کے ضلعے ہیں۔ ان ضلعوں کے ساتھ ساتھ جو علاقہ ہے، اس کی زمین مسطح ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھو تو اونچے نیچے ٹیلے اور پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ جن میں کہیں کہیں میدان بھی نظر آ جاتے ہیں یہاں کے لوگ اس علاقے کو ’’ کاہنڈی‘‘ کہتے ہیں ’’ ڈگر‘‘ بھی اسی کا نام ہے۔ ڈوگرہ راجپوت جو عام طور پر میاں کہلاتے ہیں اور برہمن، کھتری، ٹھکر اور جاٹ یہاں کے باشندے ہیں۔ ڈوگرے عام طور پر سپاہی پیشہ ہیں۔ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ لیکن زراعت ان کے بس کا روگ نہیں۔ بیوپار پر کھتریوں کا قبضہ ہے۔ برہمن، ٹھکرا اور جاٹ بھی زراعت پیشہ ہیں۔ ٹھکروں او رجاٹوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن ’’ کاہنڈی‘‘ کے علاقے میں مجموعی حیثیت سے ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ یہاں گرمی بلا کی پڑتی ہے۔ پیداوار میں بھی یہ علاقہ پنجاب سے بہت ملتا جلتا ہے۔ 1؎ سروالٹر لارنس مناور کی توی سے دریائے جہلم تک جو علاقہ پھیلا ہوا ہے وہ چبھال کہلاتا ہے۔ یہاں زیادہ تر چب آباد ہیں۔ جو راجپوت قوم کی ایک شاخ ہیں۔ کہتے ہیں ایک چب سردار نے جس کا اصل نام دھرم چند تھا، اسلام قبول کر کے ایک مغل شہزادی سے بیاہ کر لیا تھا۔ دھرم چند کا اسلامی نام شادی خان تھا سارے چب جن میں مسلمان زیادہ اور ہندو کم ہیں، اپنے آپ کو اسی شادی خان کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ چوڑے ہاڑ، اونچے قد اور گٹھے ہوئے جسم کے لوگ ہیں، جو ڈوگروں سے زیادہ مضبوط سمجھتے جاتے ہیں۔ چبھال کے علاقے میں ’’ کاہنڈی‘‘ جتنی گرمی نہیں پڑتی۔ کاہنڈی کی طرح یہاں شیشم اور آم کے پیڑ بھی نظر نہیں آتے لیکن زرعی پیداوار قریب قریب ویسی ہے اس علاقے کے بعض حصوں میں منگرال اور گکھڑ بھی آباد ہیں۔ کاہنڈی اور چبھال دونوں علاقوں میں پہاڑی بولی جاتی ہے جو پنجابی سے کچھ ملتی جلتی ہے۔ لیکن چبھال کی پہاڑی اور کاہنڈی کی پہاڑی میں بڑا فرق ہے۔ کاہنڈی کی بولی میں جو ’’ ڈوگری‘‘ کہلاتی ہے ایک خاص قسم کا طنطنہ پایا جاتا ہے جس میں اکھڑپن کے ساتھ ساتھ لچک بھی ہے۔ پہاڑی ایک خاص راگنی کا نام بھی ہے۔ یہاں کے اکثر دیہاتی گیت اسی راگنی میں گائے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ میں جو گیت گائے جاتے ہیں ان میں اکثر اسی دھن میں ہوتے ہیں۔ عورتیں گاؤں کے کنویں یا چشمے پر پانی بھرتی ہیں تو پہاڑی کی دھن میں کوئی گیت چھیڑ دیتی ہیں جس کے میٹھے بول دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی چرواہا بکریاں چراتے چراتے تھک جاتا ہے تو کسی درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ کے بنسری پر پہاڑی کی تانیں اڑاتا ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کے لباس میں دو چیزیں خاص ہیں ۔ ایک تو رنگین پگڑیاں جن کی بندش بھی خاص وضع کی ہوتی ہے اور دوسرے تنگ مہری کے پاجامے جو کھٹنے کہلاتے ہیں۔ میرے خیال میں گھٹنا اسی علاقے کی ایجاد ہے۔ یہاں سے پنجاب میں پہنچا اور وہاں سے دلی اور اودھ میں پھیل گیا۔ یہ تو اس عمارت کے صحن کا حال تھا اونچے نیچے پہاڑوں کی ایک لمبی دیوار سے پار اترو تو اس عظیم الشان قلعہ کی پہلی منزل آتی ہے۔ اس منزل میں بھی کئی درجے ہیں۔ نچلے حصے میں بسوہلی، رام نگر اور اودھم پور کے علاقے ہیں، جہاں کی آب و ہوا کاہنڈی اور چبھال سے زیادہ خوشگوار ہے۔ اوپر کے حصے میں بھدرواہ، کشتواڑ، رام بن اور رام پور راجوری جہاں سرد ہوائیں چلتی ہیں اور زور کی برف پڑتی ہے۔ قدرت کی دریا دلی نے اس سر زمین میں جگہ جگہ لالہ زار اگائے اور گل و یاسمین کے چمن کھلائے ہیں۔ جگہ جگہ چشمے اور تال، سیب آر و ادر، ناشپاتی کے درختوں کے جھنڈ، چنادر، دیودار اور شمشاد کی قطاریں، پر بہار وادیاں، سر سبز میدان اور کشتواڑ میں تو زعفران بھی پیدا ہوتا ہے۔ دریائے چندر بھاگا جو عام طور پر چناب کہلاتا ہے اور لاہول کے پہاڑوں سے نکلتا ہے، یہاں سنگلاخ چٹانوں سے سر ٹکراتا، چھینٹے اڑاتا بڑے زور سے بہتا ہے۔ نچلے حصے میں پہنچ کر اس کی تیزی کم ہو جاتی ہے۔ یہ دریا صوبہ جموں کے ایک بہت بڑے حصے کو سیراب کرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے لوگ وادی کشمیر سے اٹھ کے آ بسے ہیں۔ اور ڈوگروں اور کشمیریوں کے باہمی خلا ملانے نے ایک نئی بولی کو جنم دیا ہے، جسے نہ ڈوگری کہہ سکتے ہیں نہ کشمیری۔ کشمیریوں کے علاوہ یہاں بہت سے گوجر بھی آباد ہیں۔ یہ لانبے قد اور مضبوط جسم کے سیدھے سادے لوگ ہیں اور زیادہ تر گائیں بھینسیں پالتے ہیں۔ گوجر کشمیر اور جموں دونوں صوبوں میں آباد ہیں لیکن ان کی بولی سب سے الگ ہے۔ ان سے پوچھو کہ تمہارے بزرگ کہاں سے آئے تھے تو جواب ملے گا کہ ہم لوگوں کا اصل وطن گجرات ہے ان لوگوں کی بولی سن کے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ دکنی اردو کی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ان لوگوں کا لباس بھی سب سے الگ ہے۔ پٹو کا پاجامہ اس پر پٹو ہی کی ایک ڈھیلی ڈھالی پوشش جو انگرکھے سے ملتی جلتی ہے۔ پاؤں میں پیال کی جوتی، کشتواڑ میں گوجروں کا ایک قبیلہ جو گڈریوں کی طرح خانہ بدوش ہے اور بکریاں پالتا ہے، بکروال کے نام سے مشہور ہے۔ قدرتی تقسیم کے لحاظ سے پونچھ جس کی سرحد ایک طرف راولپنڈی اور دوسری طرف وادی کشمیر سے ملی ہوئی ہے، اسی علاقے میں شامل ہے۔ مغربی علاقے میں ڈھونڈ اور سدھن آباد ہیں جو بڑے تنومند اور جفاکش لوگ ہیں۔ یہ قبیلے جو مری کی تحصیل میں بھی پھیلے ہوئے ہیں، سپاہی پیشہ ہیں۔ اس لئے پونچھ کے مغربی حصے میں کھیتی باڑی کم ہوتی ہے۔ ہاں جنوبی اور مشرقی حصہ خاصا زرخیز ہے۔ سدھنوں اور ڈھونڈوں کی بولی پہاڑی ہی کی ایک شاخ ہے۔ ہاں اس میں سپاہیانہ اکھڑ پن زیادہ ہے۔ اس کے علاقے بعض حصوں میں ڈوگری، گوجری اور کشمیری بھی بولی جاتی ہے۔ مختلف حصوں کی آب و ہوا میں بھی خاصا فرق ہے۔ یوں تو جنوبی اور مغربی علاقے کے بعض دیہات کے سوا پونچھ بھر میں برف پڑتی ہے لیکن جوں جوں مشرق اور شمال کی طرف بڑھتے جاؤ ہوا زیادہ خنک ہوتی جاتی ہے اور لباس، زبان، رہنے سہنے کے طور طریقوں میں کشمیر کا اثر زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ جنوب میں دلی قبیلہ کے لوگ کثرت سے ہیں۔ مشرقی اور شمالی علاقے میں زیادہ تر کشمیری اور گوجر آباد ہیں۔ پیداوار کا بھی یہی حال ہے۔ گرم سیر علاقے میں گیہوں اور گنا خوب ہوتا ہے، سرد علاقے میں مکئی، چاول آڑو، خوبانیاں، ناشپاتیاں اور سیب پیدا ہوتے ہیں۔ اس علاقے کے سامنے پیر پنجال کے سلسلہ کوہ کی لمبی فصیل کھینچی ہے جس کی چوٹیاں پندرہ ہزار فٹ تک اونچی ہیں۔ ان پہاڑوں کو چیر کے آگے بڑھو تو خطہ مینو سواد نظر آتا ہے جسے وادی کشمیر کہتے ہیں۔ یہ اس عمارت کی دوسری منزل ہے۔ اور پیر پنجال کا سلسلہ کوہ اس کا زینہ ہے۔ پیر پنجال میں کئی درے ہیں جن سے وادی کشمیر کو راستہ جاتا ہے۔ جموں سے سری نگر تک پکی سڑک ہے۔ راستہ میں بانہال کا درہ پڑتا ہے اس سے بڑھو تو خطہ کشمیر قدموں تلے نظر ا ٓتا ہے۔ بھمبر سے بھی ایک راستہ جاتا ہے، جو بہرام گلہ اور پوشانہ سے ہوتا ہوا شوپیاں جا پہنچتا ہے۔ مغل بادشاہ اسی راستے کشمیر جایا کرتے تھے۔ شاہی سواری چلتی تھی تو آگے آگے بیلدار ہوتے تھے جو راستہ صاف کرتے جاتے تھے۔ جہانگیر کو تو کشمیر سے عشق تھا چنانچہ اس کے عہد کی بہت سی ٹوٹی پھوٹی یادگاریاں اس راستے میں موجود ہیں۔ شاہ جہان کے عہد میں کشمیر کے صوبہ دار نواب علی مردان خان نے اس سڑک پر سایہ دار درخت لگوائے، سرائیں بنوائیں۔ چنانچہ علی آباد کی سرائے اسی کی یادگار ہے۔ لیکن اب یہ سڑک کیا ہے ایک بٹیرو پگ ڈنڈی سی ہے جس میں جا بجا بڑی بڑی سر توڑ چڑھائیاں آتی ہیں۔ پونچھ سے کئی راستے کشمیر کو جاتے ہیں۔ ان میں ایک تو سادجیاں کا راستہ ہے جو سیدھا گلبرگ جا پہنچتا ہے، دوسرا ہلاں کا جو بارہ مولا سے جا ملا ہے۔ لیکن یہ راستے بڑے دشوار گزار ہیں۔ ہاں پونچھ سے ایک کچی سڑک جو حاجی پیر کے درے سے ہوتی ہوئی اوڑی جا پہنچتی ہے، وہ خاصی اچھی ہے۔ اور اس پر موٹریں اور لاریاں بھی چل سکتی ہیں۔ لیکن پنجاب سے کشمیر جانے کے لئے سب سے اچھی سڑک وہی ہے، جو راولپنڈی سے شروع ہوتی ہے اور مری، کوہالہ، دو میل اور اوڑی سے گزرتی ہوئی سری نگر جا پہنچتی ہے۔ ایبٹ آباد سے جو سڑک نکلی ہے وہ بھی دو میل کے مقام پر اس سڑک سے آ ملتی ہے۔ کاغان سے بھی کشمیر جانے کا ایک راستہ ہے جو وادی لولاب سے ہوتا ہوا ترہ گام جا پہنچتا ہے۔ وادی کشمیر جسے اس سر زمین کا دل کہنا چاہیے۔ کہ ۸۴ میل لمبی اور ۲۰ سے ۲۵ میل تک چوڑی ہے۔ اسے چٹیل پہاڑوں کی قدرتی فصیل نے گھیر رکھا ہے۔ جن کی چوٹیاں برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ گویا وادی کشمیر کیا ہے۔ زمرد کا ایک بڑا سا بیضوی پیالہ ہے جو آسمان کے گنبد مینائی پر آنکھ مارتا ہے اور یہ چٹیل پہاڑ کالے کالے دیو ہیں جو اس گنج گرانمایہ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ سچ پوچھو تو ان پہاڑوں کے قدرتی حصار کے طفیل ہی کشمیر کے لوگ بیرونی حملہ آوروں سے بچے رہے ہیں۔ اگرچہ پرانے زمانے میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اس وادی سے کوئی اولو العزم فاتح اٹھا، جو آس پاس کے علاقوں کو فتح کر کے ہندوستان میں دور تک بڑھتا چلا گیا۔ لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہیں ۔ کشمیر کی حکومت زیادہ تر اسی چھوٹے سے علاقے میں محدود ہی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ پونچھ اور راجوری کی کوہستانی ریاستیں ہمیشہ اس سلطنت کا جزو سمجھی جاتی رہی ہیں۔ کشمیر میں جگہ جگہ پر بہار مرغز اور گل پوش میدان پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میدانوں میں کہیں چنار کے درخت ہیں، جن کے پتے خزاں میں پتلی پتلی مہندی رچی انگلیوں کی یاد دلاتے ہیں۔ کہیں شمشاد کے پیڑ جنہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ہنر مند نے چاندی کو پگھلا کے اس سے یہ درخت بنائے ہیں۔ اور پھر انہیں ان میدانوں میں نصب کر دیا ہے اور برسات کے موسم میں بید مجنوں کو دیکھ کے تو خیال ہوتا ہے کہ کوئی عاشق حرماں نصیب سرنہوڑائے آنسو بہا رہا ہے۔ اس سر زمین میں پانی کی جگہ فراوانی ہے۔ جگہ جگہ چشمے پھوٹ نکلے ہیں جن کا پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ دو گھونٹ پیا نہیں جاتا۔ جابجا جھیلیں اور تال جنہیں یہاں کی بولی میں سر کہتے ہیں دریا اور ندی نالے جو ان میدانوں میں رو پہلی سانپوں کی طرح لہراتے بل کھاتے چلے جاتے ہیں۔ دریاؤں ار ندی نالوں کو سانپ کہہ دینا نری شاعرانہ تشبیہہ ہی نہیں۔ کیونکہ چینیوں کی طرح کشمیری ہندو بھی ندی نالوں کو سانپ یا سانپوں کا کرشمہ فیض سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ ناگ‘‘ بعض ندی نالوں اور چشموں کے نام کا جزو بن گیا ہے۔ مثلاً ویری ناگ، نیلا ناگ وغیرہ۔ بڑی بڑی جھیلیں دو ہیں ایک تو ڈل جس نے سری نگر کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اور دوسری ’’ دلر‘‘ جس کا پرانا نام ’’ مہا پدم سر‘‘ ہے1؎ دلر کے بیچوں بیچ ایک مصنوعی جزیرہ کشمیر کے مشہور بادشاہ سلطان زین العابدین کی یادگار ہے۔ 1؎ کشمیری ہندوؤں کی پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ جہاں آج دلر ہے۔ وہاں کسی زمانے میں ایک بہت بڑا شہر تھا۔ لیکن اس شہر میں ایک کمہار کے سوا کوئی شخص نیک نہیں تھا۔ اس لئے مہا پدم ناگ نے جو اس شہر کا نگران تھا، اسے تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کمہار نے سپنے میں دیکھا کہ مہا پدم اس کے سامنے کھڑا کہہ رہا ہے کہ یہ شہر پانی میں غرق ہو جائے گا، تم اپنی جان بچا کے یہاں سے چلے جاؤ۔ کمہار کے شہر سے رخصت ہوتے ہی پانی کی چادر نے شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا اور جہاں ہر طرف اونچی اناریاں اور محل کھڑے تھے، وہاں عالم آب نظر آنے لگا۔‘‘ اس نے اس جزیرے میں ایک محل تعمیر کروایا تھا۔ ایک مسجد بھی بنوائی تھی جس کے کھنڈر اب تک موجود ہیں۔ جھیل ڈل جس کا پانی موتی کی آب کو شرماتا ہے، ڈھائی میل چوڑی اور چار میل لمبی ہے۔ نسیم باغ، نشاط باغ اور شالامار جو تیموریوں کے حسن ذوق کی یادگار ہیں، اسی کے کنارے واقع ہیں۔ آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں اور رنگا رنگ درختوں کا عکس ڈل میں پڑتا ہے۔ تو عجب عالم نظر آتاہے یوں تو بہار میں بھی ڈل کی بہار دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ لیکن خزاں کے موسم میں جب بید مجنوں کی رنگت روپہلی ہو جاتی ہے اور چنار کے پتے سرخ نظر آتے ہیں، ڈل کے آئینہ خانے پر پرستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ یوں تو کشمیر کا ہر چشمہ، ندی، نالہ، جھیل، تالاب مذہبی تقدس کی ردا میں لپٹا ہوا ہے۔ لیکن سندھ اور جہلم کو جن کے پرانے نام سندھو اور وتستا ہیں، بڑا رتبہ حاصل ہے۔ سندھ تو وادی کشمیر کا پہلو دبائے بہہ رہا ہے لیکن جہلم جودیری ناگ کے چشمے سے نکلا ہے، وادی کے بیچوں بیچ گل و گلزار کھلاتا بہتا چلا جاتا ہے۔ سری نگر میں اس پر سات پل بنائے گئے ہیں۔ کشمیر کی راجدھانی شری نگر1؎ ہے جسے اب سری نگر کہتے ہیں ۔ اس شہر کے دہنے پائیں ہری پربت اور تخت سلیمان کی پہاڑیاں ہیں۔ 1؎ دولت کی دیوی لکشمی کا ایک نام شری بھی ہے۔ یہ شہر لکشمی کے نام پر بسایا گیا ہے۔ تخت سلیمان پر شنکر اچاریہ کا مندر ہے۔ پری پربت پر اکبر کا قلعہ ۔ شہر کے اندر کئی خوبصورت عمارتیں ہیں۔ جن میں جامع مسجد، شاہ ہمدان کی مسجد، پتھر مسجد، مخدوم صاحب کی خانقاہ خاص طور پر ذکر کے لائق ہیں۔ یہ شہر کئی دفعہ تباہ ہوا۔ کبھی قحط نے آفت مچائی، کبھی زلزلے اور سیلاب نے سینکڑوں گھر تباہ کر دیئے اور کبھی ایسی آگ لگی کہ شہر کا بہت بڑا حصہ جل کر راکھ ہو گیا۔ گرمیوں میں یہاں بڑی چہل پہل نظر آتی ہے۔ ڈل اور جہلم میں ہوس بوٹ کھڑے ہیں۔ شکار لے اور ڈونگے آ جا رہے ہیں۔ بیوپاری شکاروں میں مال ڈھیر کئے گاہکوں کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔ گاہک مل گیا تو دونوں طرف سے شکارے روک لئے گئے اور مول تول ہونے لگا۔ بیوپاری بیس روپے قیمت بتاتا ہے۔ گاہک ایک روپے سے شروع کرتا ہے۔ آخر نو یا دس روپے پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ لیکن سیاح سری نگر میں تھوڑے دن ہی ٹھہرتے ہیں۔ پھر بعض لوگ گل مرگ چلے جاتے ہیں یا پہل گام کا رخ کرتے ہیں۔ پھر مانس بل، کوکرناگ، ویری ناگ، اچھابل، گاندربل وغیرہ ہیں ۔ جن میں سے ہر جگہ الگ عالم رکھتی ہے۔ وادی کشمیر میں پھلوں اور پھولوں کی بہتات ہے۔ سیب، ناشپاتی، آڑو، خوبانی، گلاس، شفتالو، بہی، انار، بادام کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔آغاز بہار میں جب پھول کھلتے ہیں اور درختوں تلے ادھ کھلی کلیوں کے انبار نظر آتے ہیں تو عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ڈل کی سطح پر شکاروں کی ریل پیل ہے۔ جسے دیکھو چائے کا سماوار لئے کسی باغ کی طرف کھچا چلا جا رہا ہے۔ درختوں تلے چار چار پانچ پانچ دوستوں کی ٹولیاں بیٹھی ہیں۔ چائے کا دور چل رہا ہے تمک1؎ ناڑی پر ٹکوڑ پڑ رہی ہے، رباب بج رہا ہے اور یہ صدا گونج رہی ہے۔ بید مشکن ریٹو اندازہ آو بہار تروتازہ خاص طور پر جب بادام میں شگوفہ آتا ہے تو اور ہی عالم ہوتا ہے۔ یہ زمانہ گلریزی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ لیکن گلریزی کے زمانے میں سیاح کہاں۔ وہ تو کہیں گرمی کے موسم میں آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس موسم کا لطف کشمیر کے لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔ زعفران کا پھول خزاں کے موسم میں کھلتا ہے۔ اس زمانے میں بھی عجب سیر ہوتی ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ 1؎طبلہ کی طرح کا ایک ساز کشمیر میں چاول، مکئی، گیہوں، جو، کپاس مختلف قسم کی دالیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ریشم کے لئے بھی یہاں کی آب و ہوا بہت موزوں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں معدنیات کی بھی بہتات ہے۔ بعض جگہ لوہا، کوئلہ اور سونا بھی ملتا ہے۔ پاڈر میں نیلم کی کان بھی ہے۔ لیکن سچ پوچھو تو کشمیر کی معدنی دولت سے ابھی پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس کے علاوہ پہاڑوں پر دیو دار، چیل اور بیاڑ کے گھنے جنگل کھڑے ہیں، جن کی وجہ سے اس سر زمین میں عمارتی لکڑی کی بہتات ہے۔ جاڑے میں یہاں بلا کی سردی پڑتی ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کا پانی جم جاتا ہے اور برف کی وجہ سے زمین و آسمان سپید نظر آتے ہیں۔ اس زمانے میں کاروبار قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے اکثر اہل حرفہ اور مزدور گرمی کے موسم میں پیسہ پیسہ جوڑ کے کچھ رقم پس انداز کر لیتے ہیں جو اس زمانے میں کام آتی ہے۔ کشمیری کئی قبیلوں اور گوتوں میں بیٹے ہوئے ہیں۔ ان میں شیخ بھی ہیں ۔ سید، مغل اور پٹھان بھی۔ لیکن شیخ جن کے بزرگ ہندو تھے، تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کول، بٹ، پنڈت، اتیوا، ریشی، منٹو اور گناٹی برہمنوں کی اولاد میں سے ہیں۔ اور مگرے، ڈار، ٹھاکر اور ناٹک وغیرہ اصل نسل کے لحاظ سے کھشتری ہیں۔ لون ویش ہیں اور ڈامر شودر۔ کشمیر میں مغل بھی کثرت سے ہیں، جن کے ناموں کے ساتھ بیگ یا میر ہوتا ہے۔ میر اصل میں میرزا تھا، جو مخفف ہو کے میر رہ گیا ۔ عشائی اور بانڈے بھی مغلوں کی اولاد میں سے ہیں۔ سید بھی میر کہلاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مغلوں کے نام کے اخیر میں میر ہوتا ہے اور سیدوں کے نام سے پہلے مثلاً عبداللہ میر مغل ہے اور میر عبداللہ سید۔ کشمیری ہندوؤں میں زیادہ تعداد برہمنوں کی ہے جن میں رازوان، کاک، رینا، سپروکول، زنشی، مدن، وانگنو، کاچرو اور کچلو وغیرہ مشہور گوتیں ہیں۔ کشمیری پنڈت آپس ہی میں شادی بیاہ کرتے ہیں، اور باہر کے برہمنوں سے رشتہ ناطہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ برہمنوں کے علاوہ کشمیر میں بہت سے کھتری بھی آباد ہیں جو بوہرے کہلاتے ہیں۔ بارہ مولے سے نیچے جو علاقہ ہے اس میں بہت سے قبیلے آباد ہیں جن میں دو قبیلے کھکھے اور بمبے زیادہ نام آور ہیں۔ اس علاقے میں ان لوگوں کی چھوٹی چھوٹی جاگیریں بھی ہیں۔ کھکھے جاگیردار جو راجہ کہلاتے ہیں، راٹھور راجپوت ہیں اور بمبے جاگیردار جن کا لقب سلطان ہے، علوی۔ لیکن کھکھے اور بمبے وادی کشمیر کے لوگوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ ان کی بولی الگ ہے، لباس الگ، رسم و رواج الگ۔ ہم نے کشمیر کے لوگوں کی جو گوتیں گنوائی ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سی گوتیں ہیں۔ بعض مرتبہ کسی چھوٹے سے واقعہ پر کسی خاندان کا کوئی نام جاتا ہے اور اس خاندان کے لوگ اسی نام سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ مثلاً نہرو خاندان اس لئے نہرو کہلاتا ہے کہ ان کا مکان نہر کے کنارے تھا۔1؎ 1؎ ایک دفعہ مولف کی ملاقات ایک کشمیری پنڈت سے ہوئی جو کھڈو کہلاتے تھے (باقی اگلے صفحے پر) وادی کشمیر کے لوگ گورے چٹے اور ہاتھ پاؤں کے مضبوط ہیں۔ اس کے ساتھ قدرت نے انہیں بلا کی ذہانت بخشی ہے۔ اورنگزیب جوا آسانی سے کسی کا قائل نہیں ہوتا تھا، اپنے ایک رقعہ میں لکھتا ہے کشمیر دریں ملک نیستند کہ ما مقرر کنیم ۔ صناعی اور ہنر مندی میں بھی کشمیریوں کا مقام بہت اونچا ہے۔ شالبافی اور کاغذ سازی کشمیریوں کے پرانے ہنر ہیں۔ قالین اور غالیچے بھی بنے جاتے ہیں۔ لپے پر ماشی کا کام بھی خوب ہوتا ہے۔ یعنی کشمیر صناع بوسیدہ کاغذ کو کوٹ کوٹ کر اس سے بہت سی چیزیں بناتے ہیں اور انہیں نقش و نگار سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ لکڑی، چاندی اور تانبے پر بیل بوٹے بنانے میں بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ پرانے زمانے میں کشمیر نے سنسکرت زبان کے بڑے بلند پایہ مصنف پیدا کئے ہیں۔ ان میں کلبن پنڈت جس نے راج ترنگنی کے نام سے کشمیر کی تاریخ لکھی سب سے زیادہ نام آور ہے۔ زونراج نے جو بڈ شاہ کے عہد میں ہوا ہے اس تاریخ میں اسلامی عہد کے حالات شامل کر کے اسے مکمل کیا۔ میں نے وجہ تسمیہ پوچھی کہنے لگے ہمارے مکان کے صحن میں ایک درخت تھا۔ لوگوں نے ہمیں کلو یعنی درخت والے کہنا شروع کر دیا۔ میرے والد کو غصہ آیا اور انہوں نے درخت کٹوا ڈالا۔ لیکن اس کی جڑ باقی رہ گئی تھی۔ سارے لوگ ہمیں ’’ مڈو‘‘ کہنے لگے۔ والد نے جڑ بھی اکھیڑ دی۔ لیکن جڑ کے اکھڑنے سے گڑھا پڑ گیا اور ہمارا نام ’’ کھڈو‘‘ ہو گیا۔ اب یہ نام ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ سچ پوچھئے تو اس ’’ کھڈو‘‘ سے ’’ مڈو‘‘ اور کلو دونوں اچھے تھے۔ ملہن اور منکھا بڑے مشہور شاعر تھے جنہوں نے کشمیر کے حسن و رعنائی کے گیت گائے ہیں۔ کشمندر سنسکرت کا ایک اور شاعر اور مورخ تھا، جس کی غیر فانی شاعری سنسکرت ادب میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔ جن لوگوں نے فارسی میں کتابیں لکھی ہیں ان میں نرائن کول، حیدر ملک، بیربل اور حسن بہت مشہور ہیں۔ غنی جو صائب کا معاصر اور فارسی کا مشہور شاعر تھا، کشمیر ہی کا باشندہ تھا۔ ملا محسن فانی ایک اور مشہور شاعر تھا، ادبستان مذاہب جو دنیا بھر کے مذہبوں کی تاریخ ہے۔ اسی کی یادگار ہے۔ کشمیری زبان سنسکرت سے نکلی ہے لیکن، اس پر فارسی اور عربی کا بھی گہرا اثر پڑا ہے۔ اس زبان میں سنسکرت کے شکوہ کے ساتھ ساتھ فارسی کالوچ اور شیرینی بھی موجود ہے۔ کشمیری میں نثر کی کتابیں بہت کم ہیں۔ ہاں نظم کا ذخیرہ خاصا ہے۔ پہلے دور کے صوفی شعراء شاہ نور الدین ولی اور للہ عارفہ سے آخری دور تک کے شاعروں عزیز ریشی اور محمود گامی تک بیسیوں ایسے سخنوروں کے نام آتے ہیں، جن کے کلام میں بڑا خلوص پایا جاتا ہے۔ آج کل کے کشمیری شاعروں میں غلام احمد مہجور نے بڑا نام پیدا کیا ہے۔ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے لوگوں سے ہمیشہ الگ تھلگ رہے ہیں اور اب بھی ان کا یہ حال ہے کہ باہر کے لوگوں سے زیادہ خلا ملا پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان، لباس، رسم و رواج وغیرہ پر ہندوستان کا بہت کم اثر پڑا ہے۔ اور تو اور کشمیر کی موسیقی اور ہندوستان کی سنگیت پار کے راستے بھی الگ الگ ہیں۔ کشمیر کی موسیقی کی بہت سی دھنیں مثلاً عرق نوا، نبریز، رسجانی وغیرہ ایرانی ہیں۔ ان کے ساز بھی ایران اور توران سے آئے ہیں۔ اب تو کشمیر میں یہ فن بڑی پستی کی حالت میں ہے لیکن ایک زمانے میں بڑے عروج پر تھا۔ چنانچہ اکبر کے دربار میں کشمیر کے گویے موجود تھے۔ بڈ شاہ جس کا عہد حکومت کشمیر کے شباب کا زمانہ ہے خود موسیقی کا بڑا ماہر تھا۔ اور اس کے درباریوں میں سوم پنڈت، بودی پنڈت، ملا خود اور ملا جمیل جیسے نامور گویے شامل تھے۔ کشمیر کے بھانڈ بھی اپنے فن میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ چنانچہ لکھنو کے جن بھانڈوں نے نوابان اودھ کے عہد میں بڑی شہرت پائی ان میں اکثر کے بزرگ کشمیر سے اٹھ کے لکھنو میں جا بسے تھے۔ کشمیریوں کا عام لباس ایک ڈھیلا ڈھالا کرتا اور ٹوپی یا سپید پگڑی ہے عورتیں بھی یہی ڈھیلا ڈھالا کرتا جسے پیرہن یا پھرن کہتے ہیں پہنتی ہیں۔ ہاں ان کے سر پر ایک گول ٹوپی بھی ہوتی ہے جسے قصابہ کہتے ہیں۔ اوڑھنی کو اس ٹوپی سے ٹانک دیا جاتا ہے۔ جاڑے میں کیا عورت اور کیا مرد، سردی سے بچنے کے لئے کانگڑی لئے پھرتے ہیں۔ کانگڑی کیا ہے۔ مٹی کی انگیٹھی جو بید مجنوں کی پچکیلی ٹہنیوں سے منڈھی ہوئی ہے۔ لیکن اب کانگڑی کا بازار بھی سرد پڑ رہا ہے۔ پچھلے بیس پچیس برس میں لباس بھی بہت کچھ بدلا ہے۔ لکھے پڑھے کشمیری کوٹ پتلون پہنتے ہیں یا پھر کرتے پاجامے پر صدری۔ سر پر قراقلی کی ٹوپی عورتوں کے لباس میں بھی خاصی کتربیونت ہو رہی ہے۔ یہ تو کشمیر کی وسیع عمارت کی دوسری منزل کا حال تھا۔ اس کے سامنے اور داہنے بائیں اونچے پہاڑوں کی دیوار کچھی ہے۔ اس سے پار اترو تو اس عمارت کی تیسری اور آخری منزل آتی ہے۔ سامنے بلتستان ہے داہنے ہاتھ لداخ جو کشمیر کے مغرب میں نیچے تک پھیلتا چلا گیا ہے اور بائیں طرف گلگت کا علاقہ لیکن پہاڑوں کی اس دیوار سے پار اترنا آسان نہیں ایک تو چڑھائی ایسی سیدھی ہے کہ بڑے بڑے ہمت والوں کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں۔ پھر راستے میں جگہ جگہ تیز رفتار ندی نالے ان پر لکڑی کے تختوں اور رسوں کے پل، گہرے کھڈ، خوفناک گھاٹیاں، وحشت خیز بیاباں ان سے آگے جو سر زمین ہے اس کے سامنے اور اغل بغل قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں کا حصار ہے، جن کی چوٹیوں پر ابدی سکوت چھایا رہتا ہے۔ سری نگر سے گلگت ۲۲۸ میل دور ہے۔ پہاڑوں کے تنگ دروں سے گزر کے وادی سندھ میں پہنچو تو ایک وحشت ناک ویرانہ نظر آتا ہے جس میں کہیں ہر یاول کا نام و نشان نہیں ملتا۔ لیکن اس بیابان میں بھی حسن ازل کے لازوال جلووں کی کمی نہیں۔ صبح کے وقت جب سورج نانگا پربت کی برفانی چوٹیوں پر نور بکھیرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹیوں سے پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے یہ کیفیت دیکھ کے سفر کی ساری تکان دور ہو جاتی ہے۔ لیکن سارے گلگت کا یہ حال نہیں۔ دریائے سندھ سے آگے بڑھو تو جگہ جگہ مکئی، دھان، گیہوں او رجو کے کھیت لہلہاتے نظر آتے ہیں۔ ندی نالوں میں سونا بھی بہت پایا جاتا ہے۔ گلت کی سرحد پر ہنزہ اور نگردو چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں، وہاں سے جو ندیاں آتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کافی مقدار میں سونا ملتا ہے۔ گلگت کے لوگ کئی قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جن میں رونو، شین اور پشکن بہت مشہور ہیں۔ یہ لوگ بہت گورے چٹے تو نہیں ہاں خاصی کھلتی ہوئی رنگت ہے۔ مضبوط ہاتھ پاؤں جسم پر پٹو کا ڈھیلا ڈھالا لباس، پٹو ہی کی ٹوپیاں، انہیں پھولوں سے بڑی محبت سے ٹوپیوں میں پھول لگاتے اور دوسروں کو پھول لگائے دیکھ کے خوش ہوتے ہیں۔ گلگت کے داہنے ہاتھ بلتستان ہے۔ یہ علاقہ اونچے اونچے پہاڑوں سے جن کی چوٹیاں اٹھائیس ہزار فٹ تک اونچی ہیں گھرا ہوا ہے۔ جتنے بڑے بڑے گلیشیر اس علاقے میں ہیں۔ قلب شمالی کے سوا اور کہیں نہیں ملتے جاڑے میں دریا اور ندی نالے اس طرح یخ بستہ ہو جاتے ہیں کہ لوگ ان پر بے کھٹکے دوڑے پھڑتے ہیں۔ بلتستان اگرچہ بڑا برفانی علاقہ ہے۔ پھر بھی یہاں خاصی کھیتی باڑی ہو جاتی ہے۔ گیہوں، جو، چنا، سڑ یہاں کی عام پیداوار ہے۔ اصل میں برف یہاں پانی اور کھاد دونوں کا کام دیتی ہے۔ وہ جتنی دیر زیادہ رہتی ہے، اتنی ہی فصل اچھی ہوتی ہے۔ پھلوں میں خوبانی، شہتوت، انار، تربوز وغیرہ کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ ندی نالوں میں سونا بھی ملتا ہے۔ بلتستان کے لوگ جو بلتی کہلاتے ہیں، منگول نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہی چینیوں اور تبتیوں کی سی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، رخساروں کی ہڈی ابھری ہوئی۔ ہاں ناک اتنی چپٹی نہیں۔ گلگت کے لوگوں کی طرح بلتی بھی مسلمان ہیں۔ لیکن گلگت میں شیعہ اور سنی دونوں ہیں اور بلتستان میں صرف شیعہ یہاں سے لداخ اور وادی کشمیر کو کئی راستے نکلے ہیں۔ بلتستان سے داہنے ہاتھ لداخ کا علاقہ ہے، جس کی سرحد تربت سے ملی ہے۔ لداخ کے بعض حصے تو سمندر کی سطح سے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہیں۔ پورے علاقہ میں کوئی جگہ ایسی نہیں جس کی اونچائی ۹ ہزار فٹ ہے جنوبی حصے میں کئی جھیلیں ہیں۔ ان میں سے ایک جو پندرہ میل لمبی ہے دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ لداخ کی زمین ریتلی ہے۔ اس لئے زراعت زیادہ نہیں ہوتی لکڑی اور ایندھن بھی کمیاب ہے۔ پھر بھی گیہوں، چنا، جو وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ لداخ کے باشندوں کی صورت شکل بلتیوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ان کی ناک بلتیوں کی ناک سے زیادہ چپٹی ہوتی ہے۔ لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کسان، گویئے اور کاریگر مذہبی پیشوا بڑے چھوٹے افسر، لوگ بدھ مت کے پیرو ہیں۔ آبادی میں مسائل بھی ہیں۔ لیکن بہت کم یہاں کے لوگ عام طور پر بھٹے کو ہیں اور بلتیوں سے زیادہ خوش حال ہیں۔ لداخ میں بدھ مت جو بڑے بڑے مندر ہیں ان میں سونے چاندی اور جواہرات کے انبار لگے ہیں۔ گلگت اور بلتستان کی طرح یہاں کی بولی بھی الگ ہے جس پر تبت کی زبان کا بڑا گہرا اثر پڑا ہے۔ سب سے بڑا شہر لیہ ہے جو سری نگر سے ۲۳۴ میل فاصلے پر ہے۔ پورے کشمیر کی آبادی ۸۰ لاکھ ہے، جو اس کے وسیع رقبے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ لیکن اس ۸۰ لاکھ آبادی میں جو بو قلمونی اور رنگا رنگی نظر آتی ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مسلمان کوئی بتیس لاکھ ہیں۔ ہندو، سکھ، بدھ وغیرہ آٹھ لاکھ۔ جموں کے صوبے میں تو مسلمانوں کا تناسب کوئی ساڑھے اکسٹھ فیصد ہے اور غیر مسلم اڑتیس فیصد سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔ لیکن کشمیر، پونچھ اور دوسرے تمام علاقوں کا یہ حال ہے کہ مسلمان کہیں ۹۲ کہیں ۹۵ اور کہیں ۹۹ فیصد ہیں۔ دوسرا باب پرانے ہندو راجا ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح کشمیر کی پرانی تاریخ پر بھی تاریکی کا پردہ پڑا ہے۔ ہاں کشمیری ہندوؤں کی پرانی مذہبی کتابوں میں لکھا ہے کہ جس جگہ آج وادی کشمیر ہے وہاں کسی زمانے میں ستی سرنام ایک بڑی جھیل تھی۔ جس پر جل دیورا کھشس کا راج تھا۔ کشیپ رشی نے برسوں تپسیا کی تو شو جی نے نمودار ہو کے بارہ مولے کے قریب پہاڑ پر اپنا ترسول، اور اس میں سوراخ کر دیا۔ جھیل کا پانی نکاس، کا راستہ پا کے اس سوراخ سے بہنے لگا اور جھیل خشک ہو گئی۔ لیکن یہ راکھشس پھر بھی ہاتھ نہ آیا، پاربتی جی چڑیا کے روپ میں ظاہر ہوئیں۔ چڑیا کی چونچ میں ایک کنکری تھی جس سے اس نے جل دیو کو ہلاک کر کے رشیوں میں مینوں کو اس کے ظلم سے چھڑایا۔ اب جھیل خشک ہو چکی تھی اس لئے کشیپ جی کو اسے آباد کرنے کا حکم ہوا۔ وہ آس پاس کے میدانی علاقوں سے بہت سے لوگوں کو اٹھا لائے لیکن اس سر زمین میں سردی کا یہ حال تھا کہ لوگ صرف گرمی کے موسم میں یہاں رہتے تھے اور جاڑا شروع ہوتے ہی واپس چلے جاتے تھے۔ آخر جب کیشپ رشی کی ہدایت کے مطابق انہوں نے ہون کئے، چڑھاوے چڑھائے تو سردی کم ہو گئی۔ درخت اگے ان میں پھول کھلے اور پرندے چہچہانے لگے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دھرتی جو مدت سے سوئی پڑی تھی ایکا ایکی جاگ اٹھی۔ یہ زمانہ قبل از تاریخ کا کوئی اہم واقعہ ہے جسے دیو مالا کے خاص انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس داستان پر مذہبی عقیدت نے جو حاشئے چڑھائے ہیں ان سے الگ کر کے دیکھا جائے تو اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں وادی کشمیر کو پانی کی چادر نے ڈھانپ رکھا تھا پھر یہ پانی کسی طرح خشک ہو گیا۔ پھول کھلے درخت اگے، میدانوں میں سبزہ لہلہانے لگا۔ اور آس پاس کے علاقوں سے کچھ خانہ بدوش قبیلے بھیڑ بکریوں کے گلے لے کے یہاں آ پہنچے۔ پہلے تو یہ لوگ گرمی کے دنوں میں یہاں رہتے تھے اور جاڑے میں اٹھ کے آس پاس کے میدانی علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ لیکن پھر انہوں نے مستقل طور پر یہیں ڈیرے ڈال دیئے۔ اس سر زمین میں انہیں سب سے بڑی خوبی یہ نظر آئی کہ اسے چاروں طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ اس لئے باہر سے حملے کا کوئی کھٹکا نہیں۔ آگے چل کے ان لوگوں نے شہر اوربستیاں بسائیں۔ ملک میں اپنا راج پاٹ قائم کیا۔ قاعدے اور قانون باندھے اور یونہی ترقی کرتے کہیں سے کہیں جا پہنچے۔ ہندوستان بھر میں کشمیر ہی ایسا ملک ہے جس کی تاریخ کے لئے ہمیں صرف مذہبی کتابوں پرانے سکوں اور عمارتوں کے کھنڈروں کا سہارا نہیں لینا پڑا۔ کیونکہ پنڈت کلہن نے نظم میں کشمیر کی مضبوط تاریخ لکھی ہے جس کا نام راج ترنگنی ہے۔ لیکن کلہن نے بھی کتاب کے ابتدائی حصے کی بنیاد پرانی قصہ کہانیوں اور مذہبی کتابوں پر رکھی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ کشمیر کے پہلے راجہ رام چند جی تھے۔ ان کے بعد ۶۳۳ برس تک ۵۶ راجے کشمیر کے تخت پر بیٹھے۔ آگے چل کے اس نے لکھا ہے کہ جن دنوں مہا بھارت کی لڑائی ہوئی کشمیر کا راجہ گونند دوم تھا۔ لیکن وہ اس لڑائی میں کسی طرف سے شریک نہیں ہوا۔ آخر پانڈو خان کے ایک راجکمار نے اس راج پاٹ چھین لیا۔ اس طرح کلہن نے کشمیر کی حکومت کا سلسلہ رامائن اور مہا بھارت دونوں سے جا ملایا ہے۔ راج ترنگنی میں آگے چل کے جن راجاؤں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں وزیر یمبرو کا نام بھی ہے۔ جو وزارت کی مسند سے اٹھ کے راجگی کی گدی پر جا بیٹھا تھا۔ یمبرو کو اور کسی لحاظ سے تو شاید کوئی اہمیت حاصل نہ ہو البتہ اس نے ایک حسین لڑکی لولار کے عشق میں ایسا نام پیدا کیا کہ آج تک بمہرو اور لولار کی محبت کی کہانی لوگوں کی زبان پر ہے اور بعض کشمیری گیتوں میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔ پنڈت کلہن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے پرانے فرمانرواؤں میں جتنے لوگ مشہور ہیں ان سب کو اس نے کشمیر کا راجہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ راج ترنگنی میں کشمیر کے جن حاکموں کا ذکر ہے۔ ان میں ہمیں اشوک اور کنشک کے نام بھی نظر آتے ہیں۔ اتنا تو ٹھیک ہے کہ اشوک اور کنشک کی حکومتوں میں کشمیر بھی شامل تھا لیکن اشوک کی حکومت کا صدر مقام پاٹلی پتر تھا، اور اس کی سلطنت ایک بہت بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی۔ کنشک خود تو پرش پور میں رہتا تھا۔ ہاں اس کی حکومت میں شمالی ہند کے علاوہ اس علاقے کا بہت بڑا حصہ شامل تھا جو اب افغانستان اور ترکستان کے ناموں سے مشہور ہے۔ کشمیر میں بدھ مت کے پھیلنے کا زمانہ یہی ہے۔ چنانچہ آپ کو یاد ہو گا کہ کنشک کے زمانے میں جو بدھ مت کی تیسری مجلس ہوئی تھی وہ کشمیری ہی میں ہوئی تھی۔ اس سے کچھ عرصے کے بعد مہن قوم نے جس کا سردار مہر کل تھا کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ یہ شخص بڑا ظالم تھا اور لوگوں کو دکھ دے دے کر بہت خوش ہوتا تھا۔ کہتے ہیں وہ عمر بھر میں صرف ایک دفعہ مسکرایا تھا اور وہ بھی اس طرح کہ وہ اپنے محل کی کھڑکی میں بیٹھا تھا۔ یکایک پاس کی پہاڑی سے ایک ہاتھی کا پاؤں پھسلا اور وہ گہرے کھڈ میں جا پڑا۔ یہ دیکھ کے مہر کل جسے لوگوں نے کبھی ہنستے نہ دیکھا تھا مسکرا پڑا۔ پیر پنجال کے راستے کشمیر جائیں تو علی آباد کے پاس ایک جگہ آتی ہے جس کا نام ہستی و نج ہے۔ کہتے ہیں مہر کل اس راستے کشمیر جا رہا تھا کہ ایک ہاتھی کا پاؤں پھسلا اور وہ لڑھکتا ہوا گہرے کھڈ میں جا پڑا۔ ہاتھی کا چنگھاڑنا دم توڑنا اور پھر پہاڑوں میں اس کی آواز کا گونجنا مہر کل کو بہت پسند آیا۔ نوکروں سے پوچھا لشکر میں کتنے ہاتھی ہیں جواب ملا ایک سو۔ حکم ہوا ان سب کو پہاڑ سے لڑھکا دو۔ ہاتھی چٹانوں سے لڑھک لڑھک کے دم توڑ رہے تھے اور مہر کل یہ سماں دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہا تھا۔ کشمیر میں بدھ مت کے رواج پانے سے پہلے جو زمانہ گزرا ہے اس کے بہت تھوڑے حالات ہمیں معلوم ہیں۔ ہاں اس کے بعد کے زمانے کا یہ حال نہیں۔ ایک تو راج ترنگنی ہی میں اس عہد کے بارے میں بہت سی تفصیل مل جاتی ہے۔ پھر ان دنوں جو چینی سیاح ہندوستان میں آئے انہوں نے بھی اپنے سفر ناموں میں کشمیر کا تھوڑا بہت حال لکھا ہے انہیں لوگوں میں مشہور سیاح ہیون سانگ بھی تھا، جو بدھ مت کے تیرتھوں کی یاترا کرنے ہندوستان آیا اور کوئی دو برس کشمیر میں رہا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں کشمیر کے پنڈتوں کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ دیس علم کی وجہ سے ہمیشہ مشہور رہا ہے۔ یہاں کے لوگ خوبصورت اپنے مذہب کے پکے اور علم کے شوقین ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فریبی بھی ہیں۔ اس سفر نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی پونچھ اور راجوری کے علاقے جو وادی کشمیر سے باہر ہیں۔ کشمیر کی سلطنت میں شامل تھے۔ ان دنوں سری نگر کا شہر جو اب دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر آباد ہے صرف بائیں کنارے پر تھا ہیون سانگ اس شہر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ کشمیر کی راجدھانی کوئی ڈھائی میل لمبی اور ایک میل چوڑی ہے۔ جب ہیون سانگ کشمیر آیا تو سری نگر کو آباد ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ان دنوں یہ شہر پرور پور کہلاتا تھا۔ کیونکہ جس راجہ نے یہ شہر بسایا اس کا نام پرور سین تھا۔ سچ پوچھئے تو کشمیر کی تاریخ پرور سین کے زمانے ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کے جو حالات ہم تک پہنچتے ہیں ان میں تاریخ کم ہے اور افسانے کا عنصر زیادہ ہے۔ کہتے ہیں اجین کے راجہ بکرماجیت نے ایک شاعر کو جس کا نام میتری گپت تھا کشمیر کا راجہ مقرر کر دیا تھا۔ شاعر کا کام تو سپنے دیکھنا اور گیت جوڑنا ہے۔ مگر میتری گپت رعایا کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور جب تک کشمیر کی حکومت اس کے قبضے میں رہی رعایا کو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملا جب بکرماجیت مارا گیا تو اس کی طبیعت سلطنت کے جھگڑوں سے ایسی اچاٹ ہوئی کہ راج پاٹ تج دیا اور گیر وے کپڑے پہن بنارس چلا گیا۔ لیکن وہ جاتے جاتے کہہ گیا تھا کہ میری جگہ پرور سین کو راجہ بنانا۔ یہ نوجوان جسے وطن سے نکلے مدتیں ہو گئی تھیں۔ کانگڑے میں تھا۔ یہ خبر ملی یلغار کرتا ہوا کشمیر پہنچا اور سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ پرورسین کے بارے میں بہت سی قصہ کہانیاں مشہور ہیں جن کے جھوٹ سچ کا حال کسی کو معلوم نہیں ہاں اتنا ضرور درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑا با اقبال فرمانروا تھا۔ کہتے ہیں اس نے شمالی ہند کے بہت سے علاقوں کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ پرور سین سے کوئی ڈیڑھ سو سال کے بعد للتا دتیہ مکتا پیڈ کشمیر کی گدی پر بیٹھا، جس کی فتح مندیوں کے سامنے پرورسین کے کارنامے بھی ہیچ نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کی حکومت وسط ایشیا سے لے کر قنوج تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور کشمیر کے لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے سارے ہندوستان بلکہ چین کے ایک بہت بڑے حصے کو فتح کر لیا تھا مگر اس میں بہت کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ ہاں چین کی پرانی کتابوں اور سرکاری یادداشتوں سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس نے چین میں اپنے ایلچی بھیجے تھے۔ للتا دتیہ علم و فن کا بڑا قدر دان تھا۔ طبیعت لہراتی تو خزانوں کے منہ کھل جاتے اور برہمنوں کے علاوہ بدھ بھکشو بھی جھولیاں بھر بھر کے لے جاتے اس نے بہت سی عمارتیں بھی بنوائیں جن میں مارتنڈ کا مندر جو کشمیر کی مشہور عمارتوں میں ہے اب تک موجود ہے۔ یہ مندراننت ناگ سے جو اسلام آباد بھی کہلاتا ہے، پانچ میل دور ایک اونچے میدان میں کھڑا ہے، جہاں سے وادی کشمیر زیر قدم نظر آتی ہے۔ ارد گرد اونچے اونچے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، نیچے سرسبز میدان، چھوٹے بڑے گاؤں، جھیلیں، نالے غرض منظر کی دلآویزی نے مندر کی شان و شوکت کو دوبالا کر دیا ہے۔ للتا دتیہ نے اپنی حکومت کے زمانے میں پرنتس، للت پور اور پرہاس پور کے نام سے تین شہر بھی بسائے جن میں پرنتس جو پونچھ اور پرونس کہلاتا ہے اب بھی اچھا خاصا شہر ہے۔ باقی دو شہر چھوٹے چھوٹے گاؤں رہ گئے ہیں ۔ پرور پورہ یعنی سری نگر اس زمانے میں بھی بڑا خوبصورت شہر تھا۔ لیکن نہ جانے راجہ کے جی میں کیا آئی کہ پرور پورہ کی جلت للت پورہ کو راجدھانی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس بستی میں اب بھی مندروں اور حویلیوں کے کھنڈر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں بہت بڑا شہر آباد ہو گا۔ للتا دتیہ نے آبپاشی کے لئے بہت سی نہریں بھی بنوائیں اور بہت سی زمین جو بنجر پڑی تھی، اس میں بھی کھیتی باڑی ہونے لگی۔ پرانے مورخ کسی ملک کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس بات پر بڑا دور دیتے ہیں کہ فلاں راجہ نے اتنے شہر فتح کئے۔ اتنی عمارتیں بنوائیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ لوگوں کا حال کیا تھا؟ انہیں پیٹ بھر کے کھانے کو بھی ملتا تھا یا نہیں۔ کشمیر کی تاریخ کا بھی یہی حال ہے۔ ہاں للتا دتیہ نے اپنے زمانے میں جو قاعدے مقرر کر رکھے تھے۔ ان کا کچھ حال کتابوں میں مل جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑی قبائل پر بڑی سختی کی جاتی تھی۔ دیہات کے لوگ شہر یوں جیسا لباس نہیں پہن سکتے تھے۔ ہر کسان کو اتنی ہی زمین ملتی تھی جس میں اس کا گزارہ ہو سکے۔ اہلکار آپس میں رشتہ ناطہ نہیں کر سکتے تھے۔ سپاہیوں کو مدت تک ایک جگہ نہیں رہنے دیا جاتا تھا۔ للتا دتیہ میں ایک بڑا نقص یہ تھا کہ شراب پینے پر آتا تھا تو خم کے خم لنڈھاتا چلا جاتا تھا ایک دفعہ نشے کی ترنگ میں حکم دیا کہ پرور پورہ کو آگ لگا دی جائے لیکن درباری بڑے سیانے نکلے سوچا راجہ کی تو مت ماری گئی ہے۔ ہم اس گناہ میں کیوں شریک ہوں۔ پرور پورہ کے بیچوں بیچ پیال کا ایک انبار پڑا تھا۔ انہوں نے اس انبار کو آگ لگا دی۔ راجہ کو تو سر پیر کا ہوش نہیں تھا۔ قدم رکھتا کہیں تھا اور پڑتا کہیں تھا۔ پرور پورہ سے آگ کے شعلے اور دھواں اٹھتا دیکھا تو اطمینان ہو گیا کہ میرے حکم کی تعمیل کر دی گئی۔ جب نشہ اترا تو رات کی حرکت پر بہت پچھتایا پھر درباریوں اور نوکروں چاکروں کو بلا کے کہا کہ میں بدمستی کے عالم میں کوئی ایسا ویسا حکم دے بیٹھوں تو اس کی تعمیل ہرگز نہ کی جائے۔ کہتے ہیں للتا دتیہ ے دربار میں ہر فن کے کامل موجود تھے۔ ان میں سنسکرت کا مشہور شاعر تھا بھوبوتی 1؎ بھی تھا جسے راجہ اجین سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ 1؎ بھوبھوتی ذات کا برہمن تھا۔ اس کے وطن کے بارے میں اختلاف ہے کچھ لوگ کہتے ہیں وہ بیدر کا رہنے والا تھا بعض عالموں کا خیال ہے کہ اس کا اصل وطن برار تھا۔ لیکن بھوبھوتی نے اپنی عمر کا زیادہ حصہ اجین ہی میں گزارا۔ اس نے تین مشہور ڈرامے لکھے ہیں جن میں مالتی مادھو نے بڑی شہرت پائی۔ اس کی زبان میں بڑا رس اور لوچ ہے۔ چنانچہ سنسکرت ڈرامے میں کالی داس کے بعد اسی کا درجہ ہے۔ للتا دتیہ کا پوتا جیا پیڈ جس نے ۳۱ برس سلطنت کی، اولو العزمی میں اپنے دادا سے کم نہیں تھا۔ کشمیر کے مورخوں نے اس کے شمالی ہند کو فتح کرنے پھر بھیس بدل کر بنگال جانے اور وہاں کی راجکماری جینتا سے بیاہ رچانے کا حال بڑے دلآویز پیرائے میں لکھا ہے لیکن جیا پیڈ کی حکومت کا یہ دور اس کی جوانی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ بڑھاپے میں اس نے رعایا پر ایسے ایسے ظلم توڑے کہ مہر کل کی یاد تازہ ہو گئی۔ آخر ایک برہمن نے کشمیر کو اس کے ظلم سے نجات دلائی۔ جیا پیڈ کے بعد جو زمانہ آیا وہ بڑا پر آشوب تھا۔ حکومت کے سارے اختیارات راجہ کے ہاتھ سے نکل کے وزیروں کے قبضہ میں آ گئے تھے۔ یہ بادشاہ گر وزیر پانچ بھائی تھے جن میں سب سے بڑے کا نام اتپل تھا۔ یہ لوگ جسے چاہتے تھے، گدی پر بٹھا دیتے اور جب چاہتے تھے اتار دیتے تھے، اس زمانے میں جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے راجہ کشمیر کے راج سنگھاسن پر بیٹھے ان کی فہرست خاصی لمبی ہے۔ لیکن یہ راجہ کیا تھے کاغذ کے گڈے تھے۔ بادشاہ گر وزیر انہیں جو ناچ چاہتے نچاتے اور ان کے پردے میں خود حکومت کرتے تھے۔ آخر میں تو اتپل نے یہ پردہ بھی اٹھا دیا اور حکومت پر پوری طرح قبضہ کر لیا۔ اونتی ورمن جو جیا پیڈ کی موت سے ساٹھ برس کے بعد ۸۵۵ میں کشمیر کی گدی پر بیٹھا اسی اپتل کا پوتا تھا لیکن دادا اورپوتے میں بڑا فر ق نظر آتا ہے۔ سچ پوچھو تو اتپل نے بے بس رعایا پر جو ظلم ڈھائے تھے۔ اونتی ورمن نے اپنی نیک دلی اور انصاف پرستی سے ان کی تلافی کر دی۔ اونتی ورمن نے للتا دتیہ اور جیا پیڈ کی طرح ملک تو فتح نہیں کئے ہاں اپنی حکومت کے ابتدائی زمانے میں اسے اپنے چچیرے بھائیوں سے ضرور لڑنا پڑا۔ وہ بڑا لاؤ لشکر لے کے آئے تھے۔ لیکن اونتی ورمن کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ چلی ان جھگڑوں سے فارغ ہو کے راجہ نے ملک کے انتظام کی طرف توجہ کی سوچا پرجا کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں پانی کثرت سے ہے۔ بہت سی زمین پہلے ہی زیر آب ہے اس پر طرہ یہ کہ بارش اور سیلاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں آسمان پر گھٹائیں چھائیں لوگ اس خیال سے سہم گئے کہ بس اب سیلاب آیا کہ آیا درباریوں میں سویا ایک بڑا ذہین شخص تھا۔ جو انجینئری کے فن میں مہارت رکھتا۔ راجہ نے اسے اس کام پر لگایا۔ سویا نے پانی کے نکاس کا انتظام تو کر دیا۔ لیکن جب پانی موج مارتا ہوا چلا تو مزدور یہ سوچ کے ڈر گئے کہ اس کام میں جان کا جوکھم ہے۔ راجہ کو خبر ہوئی تو اشرفیوں کی کئی تھیلیاں پانی میں پھنکوا دیں۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگ پانی میں کود پڑے اور تھوڑے عرصے میں پانی نکال کر زمین خشک کر ڈالی۔ سوپور کا شہر جس کا اصل نام سویا پور ہے اسی نامور انجینئر کی یادگار ہے۔ اس تدبیر سے کشمیر کی بہت سی زمین میں جو پہلے زیر آب تھی، کھیتی باڑی ہونے لگی۔ سیلاب کا خطرہ کم ہو گیا۔ ہر طرف ہری بھری کھیتیاں لہلہانے لگیں اور غلہ کی ایسی ارزانی اور فراوانی ہوئی کہ پہلے جتنا غلہ ایک روپے میں آتا تھا اس کی قیمت چار آنے رہ گئی۔ چنانچہ آج بھی کشمیر کے لوگ اس زمانے کی ارزانی کو یاد کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ للتا دتیہ کا نام سن کر ہر کشمیری کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ اس کے بزرگوں نے ایک زمانے میں ترکستان سے وسط ہند تک کے وسیع علاقے کو فتح کر ڈالا تھا۔ لیکن للتا دتیہ نے صرف ملک تسخیر کئے اور اونتی ورمن نے کشمیریوں کے دلوںپر فتح پائی۔ اونتی ورمن علم و فن کا بڑا سرپرست تھا اور اس کے درباروں میں کئی بڑے بڑے شاعر موجود تھے۔ جن میں انند دروھن اور رتنا گر یمد مشہور ہیں۔ اونتی پورہ کا مشہور مندر جو فن تعمیر کا بہت اچھا نمونہ ہے اسی راجہ نے بنوایا تھا۔ اونتی ورمن نے اٹھائیس برس حکومت کی اس کے آنکھیں بند کرتے ہی پھر ادھر کی دنیا ادھر ہو گئی۔ اور کچھ عرصے کے بعد سارے افسر سپاہیوں کے ایک گروہ کے قبضے میں آ گئے۔ اس زمانے میں کشمیر کا حال تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ۳۴ برس کے عرصے میں دس راجہ کشمیر کی گدھی پر بیٹھے یہ سپاہی جو تنترن کہلائے ملک کے حقیقی فرمانروا تھے اور راجہ اور اس کے درباری ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ یہ لوگ کہیں ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن لٹیروں کو اپنا گھر بھرنے کے سوا اور کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ حکومت کی گدی آئے دن نیلام ہوتی رہتی تھی جو زیادہ بولی دیتا تھا اسے راجہ بنا دیا جاتا تھا۔ راجہ اور امیر ان لوگوں کو خوش کرنے کے لئے خزانے لٹا رہے تھے۔ رانیوں کو اپنی آبرو بیچنے میں کوئی دریغ نہیں تھا۔ مہر ماد اور شفقت پدری عنقا ہو گئی تھی۔ بیٹا باپ کا دشمن باپ بیٹے کے خون کا پیاسا۔ آخر ایک راجہ نے کچھ سرداروںکی مدد سے جوڈ امر کہلاتے تھے ان لوگوں کا زور توڑا۔ لیکن ملک کی حالت میں اس سے صرف اتنا فرق ہوا کہ ملکی اختیارات تنترن کے قبضے سے نکل کر ڈامروں کے ہاتھ میں آ گئے۔ یہ حالت دس بیس برس تک نہیں بلکہ پورے دو سو سال رہی۔ پرجالٹ رہی تھی۔ اور راجا اور بڑے بڑے سردار دادعیش دے رہے تھے۔ اس زمانے میں یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ راجہ نے کیا کیا آئین باندھے کتنی سڑکیں اور سرائیں بنوائیں؟ رعایا کے فائدے اور آرام کے لئے کیا کیا؟ بلکہ راجہ کی خوبیاں گنواتے وقت دربار کے شاعر اور بھاٹ صرف اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ وہ شراب کے کتنے پیالے پی سکتا ہے اور جب شراب پیتے پیتے اکتا جاتا ہے تو اپنی بیہمیت کو تسکین دینے کے لئے کیا کیا نئے طریقے نکالتا ہے۔ دربار میں بازاری شہدے مسخرے اور نقال بھرے پڑے تھے اور اچھے خاصے شریف آدمی بھی دربار میں پہنچ کر اسی رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ہرش دیو نے جس کے زمانے میں نوچ کھسوٹ اور بد انتظامی کا یہ دور اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ۱۰۸۹ ء میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی یہ راجہ عالموں اور شاعروں کا بڑا قدر دان تھا۔ خود بھی شعر کہتا تھا۔ موسیقی پر بھی اسے تھوڑی بہت دسترس حاصل تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں ہرش کے لکھے ہوئے گیت لوگوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ وتر جو سنسکرت کا مشہور ڈرامہ ہے۔ ہرش دیو ہی کی تصنیف ہے۔ اب خدا جانے یہ ڈرامہ اس نے خود لکھا تھا یا لوٹ کا مال ہے کیونکہ یہ راجہ لوٹ کھسوٹ پر اپنے پیش روؤں سے بہت آگے نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں دن دہاڑے قتل کی وارداتیں ہوتیں۔ لوگوں کو گھروں سے نکلتے وقت یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ لوٹ کے گھر آنا نصیب ہو گا یا نہیں۔ ڈاکو شہرہ دیہات کو لوٹتے پھرتے تھے اور کبھی تو خود محل پر ہاتھ صاف کر جاتے تھے۔ ملک میں ہر طرف قحط پھیلا ہوا تھا اناج بہت کمیاب تھا لوگ فاقے کر رہے تھے کہ وبا نے زور پکڑا اور لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انہی دنوں راجہ نے اپنے رشتہ داروں اور بڑے زمینداروں کے قتل کا حکم دیا۔ اس حکم کی تعمیل پوری طرح تو نہیں ہوئی، پھر بھی بہت سے لوگ مارے گئے۔ آخر خدا نے غریب رعایا کی فریاد سنی یعنی راجہ کے بھانجوں اچل سسل نے فوجیں سمیٹ کشمیر پر حملہ کر دیا۔ لوگوں کو ایسا موقع خدا دے۔ ہر طرف سے سمٹ کے ان کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ محل کو آگ لگا دی رانی جل مری اور ولی عہد مارا گیا۔ راجہ جان بچا کے بھاگا اور ایک بھکاری کے جھونپڑے میں جا چھپا۔ لیکن لوگوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور بڑی بے رحمی سے اسے قتل کر ڈالا۔ پونچھ کے مشرقی حصے میں لوہرن ایک گاؤں ہے۔ کسی زمانے میں یہ خاصا بڑا شہر تھا۔ اور یہاں ایک سلطنت قائم تھی جسے لوہرن یا لوہر کی حکومت کہتے تھے ہرش کا خاندان لوہرن ہی سے آیا تھا اس لئے اسے اور اس کے بزرگوں کو لوہر خاندان کے راجہ کہتے ہیں۔ لوہر کے دو خاندانوں نے یکے بعد دیگرے کشمیر پر راج کیا ہے۔ ان میں ہرش کا خاندان پہلا تھا اور اچل اور سسل کا دوسرا۔ اچل بڑا بھائی تھا، اس لئے وہی کشمیر کی گدی پر بیٹھا۔ یہ راجہ طبیعت کا نیک ارادے کا مضبوط اور ہاتھ کا سخی تھا۔ اس نے پہلے شوریدہ سر سرداروں کا زور توڑا۔ پھر جو عہدہ دار رشوت خوار اور ظالم تھے انہیں الگ کر کے ان کی جگہ اپنے بھروسے کے آدمیوں کو مقرر کیا۔ وہ خود لوگوں کی شکایتیں سنتا اور کسی کی رو و رعایت بالکل نہیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی راتوں کو بھیس بدل کے شہر کے گلی کوچوں میں پھرتا اور لوگوں کی شکایتوں کی جانچ پڑتال کرتا قحط کی روک تھام کے لئے اس نے سرکاری دکانیں کھلوا دی تھیں جن پر لوگوں کو بہت سستے داموں غلہ مل جاتا تھا۔ لیکن اچل ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بڑا خود پسند اور مغرور شخص تھا۔ آخر یہ خود پسندی ہی جان لیوا ثابت ہوئی یعنی کچھ لوگوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ اچل کے بعد اس کا چھوٹا بھائی سسل راجہ مقرر ہوا۔ شروع شروع میں تو اس نے بڑے عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی لیکن آخر میں وہ بھی کشمیر کے پرانے راجاؤں کے ڈھرے پر چل نکلا تھا۔ تاہم زمانے کا مقابلہ ہرش کے عہد حکومت سے کیا جائے تو سسل کی حکومت بہت غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ جے سنگھ نے جو سسل کا بیٹا تھا ۱۱۲۸ء میں کشمیر کے تخت پر قابض ہوا تو خود کودشمنوں سے گھرا ہوا پایا۔ ان دشمنوں میں کئی بڑے بڑے سرداروں کے علاوہ حکومت کے بہت سے دعویدار بھی تھے۔ لیکن جے سنگھ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا اس نے بعض کو وعدوں سے اور بعض کو رشوت دے کر دشمنوں کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا۔ جے سنگھ بڑا دھن کا پکا شخص تھا، جس بات کا ارادہ کر لیتا پورا کر کے رہتا اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بالکل نہیں گھبراتا تھا دشمن سے بڑی خوش خلقی سے پیش آتا تھا اور جب دیکھتا کہ حریف کے جال میں آیا، نہ اس پر رشوت کا حربہ کارگر ہوتا دکھائی دیتا ہے تو اسے قتل کروا ڈالتا تھا۔ وہ اپنے وفادار نوکروں پر بڑی مہربانیاں کرتا۔ رعایا کے کام اور بھلائی کا بھی بڑا خیال رکھتا تھا اور جب سمجھتا تھا کہ دشمن بالکل بے بس ہو چکا ہے اور اب نقصان پہنچا نہیں سکتا تو اسے معاف کر دیتا تھا جے سنگھ کی چالوں، گھاتوں، سازشوں، خفیہ منصوبوں کی کہانی بہت لمبی ہے لیکن اس کی تدبیروں کا یہ نتیجہ ہوا کہ ملک جو بالکل اجڑا ہوا تھا پھر آباد ہو گیا اور شہروں میں پھر اگلی سی گہما گہمی نظر آنے لگی۔ اس راجہ کی عمر کا زیادہ حصہ دشمنوں کو نیچا دکھانے میں گزر گیا۔ ادھر سے فراغت پا کے ملکی انتظام کی طرف توجہ کی تو موت نے مہلت نہ دی اور کشمیر میں پھر وہی پہلا سارنگ اچھلنے لگا۔ جے سنگھ1؎ کی موت سے مسلمانوں کی حکومت تک دو سو برس کا جو عرصہ گزرا، وہ بڑی افراتفری اور ہل چل کا زمانہ ہے۔ جو شخص تھوڑی بہت فوج جمع کر لیتا تھا خلقت اسی کے ساتھ ہو لیتی تھی کئی شخص دیکھتے دیکھتے فرش خاک سے اٹھ کے تخت سلطنت پر جا بیٹھے، اور چند روزہ حکومت کے مزے لوٹ کے راج پاٹ کے ساتھ ساتھ جان گنوا کے اٹھے۔ یہ راجا ملکی انتظام تو خاک کرتے۔ ہاں انہیں پرجا کو لوٹ کے اپنا خزانہ بھرنا خوب آتا تھا۔ اس دور کا خاتمہ سہد یو پر ہوا۔ رینچن شاہ جس نے اسلام قبول کر کے کشمیر میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی کا جانشین تھا۔ پرانے ہندو راجاؤں نے جن کی کہانی ہم بیان کر چکے ہیں۔ ہزاروں برس کشمیر پر حکومت کی شروع شروع میں جو ہندو راجا کشمیر کی گدی پر بیٹھے وہ بڑی سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے، نہ شہر تھے نہ بڑی بڑی بستیاں نہ محل اور اٹاریاں، ملک جنگلوں سے پٹا پڑا تھا۔ لوگ جھونپڑوں اور پرانے غاروں میں رہتے تھے، روپے پیسے کا کوئی نام نہیں جانتا تھا۔ 1؎ راج ترنگنی کا مصنف پنڈت کلہن جے سنگھ کے زمانے میں ہوا ہے چنانچہ ہمیں اس کتاب میں جے سنگھ کے زمانے تک کے حالات ملتے ہیں البتہ زونراج نے جے سنگھ سے بڈ شاہ کے زمانے کے حالات لکھ کر راج ترنگنی میں شامل کر دیئے ہیں۔ ہر شخص ساری ضرورت خود پوری کرتا یعنی خود زمین میں ہل چلاتا، خود اپنے لئے ٹوپیاں بنتا، پیال کی جوتیاں بناتا۔ لوگ چار گروہوں یعنی برہمن کھشتری، ویش شودر میں بٹے ہوئے تھے لیکن ذات پات کے بندھن کچھ ایسے مضبوط تھے جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ذات پات کی تفریق بڑھتی گئی اور کچھ عرصہ کے بعد یہ کیفیت نظر آئی کہ سرکار دربار پر برہمن چھائے ہوئے ہیں اور کچھ راجہ ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ اشوک کے زمانے میں بدھ مت نے زور پکڑا۔ جشک اور کنشک اس کے بعد راجہ ہوئے، بدھ مت ہی کے پیرو تھے۔ کشمیری برہمن یہاں پیش پیش تھے۔ انہوں نے بدھ مت کو پھیلانے میں بڑا حصہ لیا۔ برہمن اس مذہب کا پرچار کرنے تبت اور چین پہنچے۔ بعض نے کشمیر گھوم پھر کے نئے دھرم کا سنکھ پھونکا۔ یہ بڑی ترقی کا زمانہ ہے۔ باہر لوگوں سے کشمیر کے لوگوں کے تعلقات بڑھے۔ انہوں نے کچھ ان سے سیکھا کچھ انہیں سکھایا۔ صنعت حرفت اور تجارت نے بڑا رواج پایا۔ نئی عمارتیں بنیں۔ لیکن آخر بدھ مت نے جو اب صرف پرانی یادگاروں کی پرستش کا نام تھا، برہمنی مذہب کے لئے جگہ خالی کر دی۔ بدھ مت ساتویں صدی عیسوی کے شروع میں کشمیر سے مٹ چکا تھا۔ چینی سیاح ہیون سانگ نے جو اسی زمانے میں ہندوستان آیا اور کشمیر میں کوئی دو برس رہا، اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ کشمیر میں مندر عام ہیں، اور لوگوں کو مورتی پوجا کے سوا اور کسی بات کی سدھ بدھ ہی نہیں۔ ہندوستان سے بدھ مت کو مٹانے میں مشہور ویدانتی شنکر اچاریہ کا بڑا حصہ ہے۔ وہ ویدانت کا پرچار کرنے کشمیر بھی آئے تھے۔ اور ان کی آخری عمر کا حصہ یہیں گزرا تھا۔ شنکر اچاریہ شوجی کی پوجا پر بڑا زور دیتے تھے۔ شاید یہ انہیں کی تعلیم کا اثر ہے کہ کشمیر میں شو جی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس طرح شنکر اچاریہ مالا بار سے چل کر آئے، اسی طرح کشمیر کے ملبو دری برہمنوں کے بہت سے خاندان مالا بار جا بسے، جو اب تک اپنے آپ کو کشمیری کہتے ہیں۔ ان میں بعض خاندان ملایا اور جاوا میں بھی آباد ہو گئے تھے۔ چنانچہ ان ملکوں میں ہندو دھرم کا پرچار کرنے میں ان لوگوں کا بڑا حصہ ہے۔ اس کے بعد جو دور آیا، اس میں اگرچہ کشمیر نے علم و فن اور صنعت و حرفت میں بڑی ترقی کی۔ اور کشمیر کی فوجیں ملک فتح کرتی ہوئی دور دور جا پہنچیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں میں اخلاق کا معیار اتنا اونچا نہیں رہا تھا۔ اس دور کے آخری حصے میں کشمیریوں پر جو مصیبتیں ٹوٹیں۔ ان کا حال ہم بیان کر چکے ہیں۔ ٭٭٭ تیسرا باب مسلمان فرمانروا ہندوستان پر مسلمانوں کے حملے آٹھویں صدی ہی میں شروع ہو گئے تھے۔ اور گیارھویں صدی میں تو شمالی ہند کے ایک بہت بڑے حصے پر ان کی حکومت بھی قائم ہو چکی تھی ۔ پھر بھی کشمیر مدت تک ان کے حملوں سے بچا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ علاقہ راستے سے کٹا ہوا ہے۔ اور اسے پہاڑوں کے قدرتی حصار نے گھیر رکھا ہے۔ محمود غزنوی نے دوبار پیر پنجال کے راستے کشمیر پر فوجیں بڑھائیں۔ لیکن جبد یکھا کہ پہاڑے کے سلسلے تو برتو چھائے ہوئے ہیں، جن کو چیر کے، وادی کشمیر میں پہنچنا خاصا مشکل کام ہے تو واپس چلا گیا۔ چودھویں صدی کے شروع میں ذوالقدر خان تاتاری جو چنگیز خان کی اولاد میں سے تھا، بہتر ہزار سپاہی لے کے سیلاب کی طرح پہاڑوں کی بلندیوں سے اترا۔ راجہ سہدیو میں اتنی ہمت کہاں کہ اس طوفان کا مقابلہ کرتا، بھاگ کے جان بچائی۔ ذوالقدر خان نے کشمیر کو خوب لوٹا۔ لوٹتے وقت پچاس ہزار قیدی اس کے ساتھ تھے۔ دیو سر کے درے کے اس یہ سب کے سب برف میں دب کے ہلاک ہو گئے۔ ذوالقدر خان کو کشمیر کے لوگ نروالچو کہتے ہیں اور اس کے ہاتھوں کشمیر پر جو تباہی آئی اسے اب تک یاد کرتے ہیں۔ ذوالقدر خان گیا تو ایک تبتی سردار پنچن شاہ1؎ نے زور پکڑا، سہدیو کے سپہ سالار رام چندر نے اسے نیچا دکھانے کی بڑی تدبیریں کیں، لیکن آخر مارا گیا۔ اور رینچن شاہ نے اس کی بیٹی ٹارانی سے بیاہ رچا کے بہت سے لوگوں کو اپنا طرف دار بنا لیا۔ ان لوگوں میں ایک شخص شہ میر بھی تھا جو سوات کا رہنے والا تھا اور جس کا شمار بڑے با اثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ اب صرف سہد یو باقی رہ گیا تھا۔ رینچن شاہ نے اسے بھی راستے سے ہٹا کے اپنی بادشاہت کے لئے میدان صاف کر لیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ آبائی مذہب کو چھوڑ کر ایک مسلمان فقیر بلبل شاہ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ یہی رینچن شاہ جس کا اسلامی نام صدر الدین تھا، کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران ہے۔ 1؎ کچھ لوگ رینچن شاہ لکھتے ہیں کچھ رٹخن شاہ معلوم نہیں اصل نام کیا ہے؟ اگرچہ رینچن شاہ کے اسلام قبول کرنے سے حکومت کے طور طریقوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ ملکی انتظام اب بھی ہندو اہل کاروں کے ہاتھ میں تھا۔ مالگزاری کا نظام بھی وہی تھا جو صدیوں سے چلا آتا تھا۔ پھر بھی انصاف کی بات یہ ہے کہ صدر الدین کا زمانہ بڑے امن و امان کا زمانہ ہے۔ بادشاہ بڑا نیک دل اور داد گستر تھا۔ اور اسے رعایا کے فائدے اور آرام کا بڑا خیال رہتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اسے اپنے جی کے حوصلے نکالنے کا موقع نہ ملا اور صرف تین برس حکومت کرنے پایا تھا کہ موت کی لو نے اس کی زندگی کے لہلہاتے پودے کو جھلس ڈالا۔ موت سے کچھ دیر پہلے شہہ میر کو بلا کے اپنے بیٹے حیدر کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ شہ میر اب ولی عہد سلطنت کا سرپرست اور کشمیر بھر میں سب سے طاقت ور امیر تھا۔ لیکن اب اسے اس کی بے تعصبی کہہ لو یا کچھ اور اس نے حیدر کے پردے میں خود حکومت کرنے کے بجائے، سہدیو کے بھائی ادیان دیو کو جو زوالچو کے حملے کے زمانے سے گمنامی کی زندگی گزار رہا تھا، بلا کے راج پاٹ اس کے حوالے کیا۔ ادیان دیو نے حکومت پر قبضہ کرنے ہی پر قناعت نہیں کی بلکہ کوٹارانی سے بیاہ بھی کر لیا۔ ادیان دیو بھی نام کا راجہ تھا۔ کیونکہ اس کا دل راج پاٹ سے زیادہ پوجا پاٹ اور گیان دھیان کی باتوں میں لگتا تھا۔ حکومت کا سارا کاروبار شہہ میر کے ہاتھ میں تھا۔ اور راجہ کے اختیارات سری نگر بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شاہی محل تک محدود رہ گئے تھے۔ اس کے زمانے میں ایک تاتاری سردار نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ راجہ میں اتنی سکت کہاں تھی کہ اس کا مقابلہ کرتا، بھاگ کے تبت کا راستہ لیا۔ پررانی کی ہمت کو آفرین ہے کہ ذرا بھی نہ گھبرائی، دشمن کے مقابلے پر اڑ گئی۔ ادیان دیو نے پندرہ برس سلطنت کر کے انتقال کیا۔ کوٹارانی جو کئی موقعوں پر اپنے خاوند سے زیادہ دلیر ثابت ہوئی تھی، حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی ۔ لیکن شہہ میر حکومت پر چھایا ہوا تھا، بھاگ کے اندر نگر چلی گئی۔ او روہاں جا کے اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیا۔ شہ میر نے پیغام بھیجا کہ آپس کے جھگڑے سے کیا فائدہ بہتر یہی ہے کہ تم مجھ سے بیاہ کر لو اور ہم تم دونوں مل کر راج کریں۔ پہلے رانی نہ مانی لیکن جب شہ میر نے محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو کہہ بھیجا کہ تقدیر میں یہی لکھا ہے تو یونہی سہی، اب محل کے پھاٹک کھول دیئے گئے۔ شادی کی رسمیں ادا ہوئیں اور ملک بھر میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ رات کا وقت تھا۔ شہ میر ایک سجے سجائے کمرے میں بیٹھا دلہن کا انتظار کر رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور رانی سنگر کئے بھاری جوڑا پہنے، کنیزوں کے جھرمٹ میں نظر آئی۔ کنیزیں اسے کمرے میں پہنچا کے ہٹ گئیں۔ شہ میر جو اس لمحے کے انتظار میں تھا، اسے دیکھ کے کھڑا ہو گیا۔ رانی آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اس کے قریب پہنچی۔ پھر کپڑوں سے ایک خنجر نکال کے سینے میں گھونپ لیا۔ خون کا فوارہ سا اچھلا، ساتھ ہی رانی نے گر کے دم توڑدیا۔ شہ میر ۱۳۳۷ء میں سلطان شمس الدین کا لقب اختیار کر کے کشمیر کے تخت پر بیٹھا۔ پہلے راجاؤں نے رعایا پر بہت سے بھاری محصول لگا رکھے تھے، جن کے بوجھ تلے لوگ دبے جا رہے تھے، شمس الدین نے یہ محصول موقوف کر کے کسانوں کو حکم دیا کہ پیداوار کا چھٹا حصہ شاہی خزانے میں داخل کیا جائے۔ صدر الدین کی طرح شمس الدین بھی بڑا عادل اور انصاف پرور حاکم تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں بہت سے ہندو اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑ کے مسلمان ہو گئے، لیکن انہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ اور جہاں انصاف کا سوال آتا تھا ہندو ہو یا مسلمان کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ شمس الدین نے گیارہ برس حکومت کرنے کے بعدو فات پائی اور اس کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے تخت پر بیٹھے۔ ان دونوں کے زمانے میں کوئی خاص بات ایسی نہیں ہوئی جو ذکر کے لائق ہو۔ ہاں ایک دفعہ بڑے زور کا قحط ضرور پڑا۔ جس کی وجہ سے بہت سے آدمی ہلاک ہو گئے۔ غور کیا جائے تو شروع میں جن مسلمان بادشاہوں نے کشمیر میں حکومت کی، ان میں اور ہندو راجاؤں کی حکومت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ سلطنت کے انتظام میں کوئی تبدیلی ہوئی نہ پرانے ادب آداب بدلے۔ درباری اسی طرح جوڑ توڑ کر رہے تھے۔ بڑے بڑے زمینداروں میں بھی پرانی دشمنیاں اور رقابتیں چلی آتی تھیں۔ سنسکرت اب بھی دفتری زبان تھی۔ صرف ا س میں عربی اور فارسی کے کچھ لفظ شامل ہو گئے تھے او ریہی نہیں جو لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ وہ بھی اپنے بزرگوں کی بہت سی رسموں ریتوں پر عمل کرتے تھے۔ اور بہت سے پرانے توہمات نے جو کشمیر کے لوگوں میں صدیوں سے چلے آتے تھے، ابھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا، ان کا خیال تھا کہ جنگلوں اور پہاڑوں میں بھوت، پشاچ، ایکش اور گند مسیح رہتے ہیں۔ ہر چشمے اور ندی کی حفاظت کے لئے ایک سانپ مقرر ہے اور ان میں سے بعض توہمات تو ایسے ہیں جو اب تک کشمیر کے لوگوں میں چلے آتے ہیں۔ چنانچہ اب بھی کشمیری زبان میں چشمے کو ’’ ناگ راد‘‘ کہتے ہیں۔ اور اس لفظ سے جو تصورات وابستہ ہیں ان کے ذہن پر مسلط ہیں۔ کشمیر میں جگہ جگہ دیوتاؤں کے پوتر استھان تھے۔ بہت سے لوگ مسلمان ہونے کے بعد بھی ان استھانوں کی پوجا کرتے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ مسلمانوں نے اسے کسی ولی کا مقبرہ بنا لیا یا ایک چبوترہ بنا کے اور اس کے گرد درخت لگا کے کہہ دیا کہ یہاں فلاں بزرگ آ کے بیٹھے تھے۔ دیو مالا کی بہت سی پرانی داستانوں کو بھی مسلمانوں نے اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ یعنی شوجی کی جگہ حضرت سلیمان آئے اور راکھشسوں، یکشوں اور الپسراؤں کی جگہ دیووں، جنوں اور پریوں نے لے لی۔ کیونکہ مسلمانوں میں یہ عقیدہ مدت سے چلا آتا ہے کہ حضرت سلیمان 1؎ ساری دنیا کے حکمران تھے۔ دیو، جن اور پریاں ان کے ماتحت تھیں اور ہوا ان کا حکم مانتی تھی۔ پھر بھی یہ بات ماننی پڑے گی کہ ان مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں کشمیر کے لوگوں کو جو امن نصیب ہوا، اس کی مثالیں ہندو راجاؤں کے عہد میں بہت کم ملتی ہیں۔دیکھو اونتی ورمن کی موت کے بعد چار سو سال تک اچل اور جے سنگھ کے سوا کوئی راجہ ایسا نہیں ہوا جو ملک میں امن قائم رکھ سکے۔ ان میں سے اچل نے صرف دس برس حکومت کی، اور جے سنگھ کی حکومت کے آخری چند برسوں کے سوا اس کی ساری عمر خانہ جنگیوں میں گزر گئی۔ 1؎ ملایا، اور جاوا اور سماٹرا کے مسلمانوں میں بھی بہت سی روائتیں ایسی مشہور ہیں جن میں حضرت سلیمان اور شو جی دونوں موجود ہیں۔ اور بعض کہانیوں میں گرڑ جو وشنو جی کی سواری کا پرندہ ہے حضرت سلیمان سے بحث کرتا نظر آتا ہے۔ شمس الدین کا پوتا شہاب الدین جو ۱۳۵۵ء میں تخت پر بیٹھا، بڑا دبدبے اور طنطنے کا بادشاہ تھا۔ اسے عنان حکومت سنبھالے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ آس پاس کے علاقوں کو فتح کرنے کا خیال آیا۔ دریائے سندھ کے بالائی حصے کا آس پاس کے علاقے کو فتح کرتا ہوا جا پہنچا۔ اس شہر پر قبضہ کر کے وہ بڑھا اور اگر ہندو کش کی برفانی چوٹیاں اس کا راستہ نہ روک لیتیں تو وہ غزنی اور قندھار تک سارے علاقے کو فتح کرتا جاتا۔ اس کے زمانے میں کشمیر کی حکومت سرہند تک پھیلی ہوئی تھی۔ شہاب الدین کی حکومت کے چھٹے برس کشمیر میں اس زور کا سیلاب آیا کہ لوگ جانیں بچانے کے لئے آس پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے۔ بادشاہ سے جہاں تک بن پڑا۔ اس نے لوگوں کے دکھوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کی۔ شہاب الدین بڑا بے تعصب بادشاہ تھا۔ ایک دفعہ خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ اس کے ہندو وزیر ادیا سری نے کہا کشمیر میں بدھ کا ایک بہت بڑا بت ہے جو پیتل کا بنا ہوا ہے اس کو گلا کے اگر سکے ڈھالے جائیں تو روپے پیسے کی ریل پیل ہو جائے۔ یہ سن کے شہاب الدین وزیر پر بہت ناراض ہوا۔ شہاب الدین کی عمر کا آخری حصہ بڑے دکھوں اور غموں میں گزرا۔ اس نے اپنی ایک حرم کے کہنے پر اپنے تینوں بیٹوں کو دیس نکالا دے دیا تھا۔ یہ غلطی ایسی تھی جس پر وہ ہمیشہ پشیمان رہا۔ جب دیکھا کہ موت میں تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں تو بڑے بیٹے حسن کو بلوا بھیجا۔ لیکن بات کو بیٹے کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اس کے آنے سے پہلے ہی وہ چل بسا۔ شہاب الدین کی جگہ اس کا بھائی قطب الدین تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنے بھتیجے حسن کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آیا۔ لیکن نوجوان شہزادے نے جس کے سر میں حکومت کی ہوا سمائی ہوئی تھی، بغاوت کی۔ شکست کھا کے پکڑا گیا اور قید ہوا۔ قطب الدین اپنے بھائی کی طرح بڑا فیاض اور نیک دل بادشاہ تھا۔ خود فریادیوں کی عرضیاں پڑھتا۔ ان پر حکم لکھتا اور انصاف کے معاملے میں کسی کی رعایت نہیں کرتا تھا۔ ہندوؤں سے اس کا سلوک بہت اچھا تھا۔ وہ برہمنوں کی بہت عزت کرتا اور انہیں جاگیریں اور زمینیں دیتا تھا۔ میر سید علی ہمدانی جن کی خانقاہ کشمیر کی مشہور عمارتوں میں سے ہے، اسی بادشاہ کے زمانے میں کشمیر آئے اور ان کی تلقین سے بہت سے ہندو مسلمان ہو گئے۔ قطب الدین نے ۱۳۹۰ ء میں وفات پائی اور اس کا نابالغ بیٹا سکندر کشمیر کا حکمران مقرر ہوا۔ شروع شروع میں سکندر کا سلوک ہندوؤں سے بہت اچھا تھا۔ اس کی رانی سری سوبھا ہندو تھی۔ رانی کی پیش خدمتیں اور لونڈیاں ہندو۔ کئی بڑے بڑے عہدوں پر بھی ہندو ہی مقرر تھے۔ لیکن سلطان کے ایک وزیر نے جو ہندو سے مسلمان ہوا تھا، آہستہ آہستہ اسے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہندوؤں کو جبراً مسلمان بنایا جائے۔ سلطان کی رضا کی دیر تھی، سیا بھٹ کے حکم سے ہزاروں ہندو جبراً مسلمان بنا لئے گئے۔ بہت سے مندر تباہ کر ڈالے گئے بت توڑ دیئے گئے۔ سکندر علم و فن کا سرپرست اور عالموں فاضلوں کا قدر دان تھا۔ شجاعت میں بھی وہ کشمیر کے دوسر ے حکمرانوں سے پیچھے نظر نہیں آتا۔ ایک دفعہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے پر فوجیں بڑھائیں اور ادہند کے شہر کو فتح کر کے وہاں کے سردار کی بیٹی سے بیاہ رچایا اور فتح کے نقارے بجاتے واپس آیا ۔ لیکن ہندوؤں کے ساتھ اس نے جو سلوک کیا اس نے سکندر کی بہت سی خوبیوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ تاریخ میں وہ بت شکن کے لقب سے مشہور ہے مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ مندروں کو صرف سکندر ہی نے نہیں لوٹا بلکہ اس جرم میں بعض ہندو راجے بھی شریک ہیں۔ بدھ مت نے اپنے زمانے میں ہندوؤں کے مندروں کو تباہ کیا۔ ہندوؤں کو عروج حاصل ہوا تو انہوں نے بدھوں کی مذہبی یادگاروں کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ اور بعض ہندو راجہ تو ایسے تھے، جنہوں نے نہ بدھ مت کے مندروں کو چھوڑا نہ ان سے ہندوؤں کے مندر ہی بچے۔ ہرش دیو کے حالات پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ جب خزانہ خالی ہو جاتا تھا تو مندروں کو لوٹ کے عیش و عشرت کے سامان مہیا کئے جاتے تھے۔ چنانچہ ہرش نے جسے اپنی بہیمیت کی تسکین کے لئے نت نئے سامان فراہم کرنے کی غرض سے ہمیشہ روپے کی ضرورت رہتی تھی، کئی مندر گرائے۔ لیکن کشمیر کے لوگوں نے ہرش کے بہت سے جرائم کو بھی سکندر کے اعمال نامے میں شامل کر دیا ہے۔ سکندر کے زمانے میں تیمور نے ہندوستان پر حملہ کیا، لیکن اس حملہ سے کشمیر صاف بچ گیا۔ اور تیمور سکندر سے ایسا خوش ہوا کہ دو ہاتھی اسے تحفے کے طور پر بھیجے۔ کشمیر کے لوگوں نے ہاتھی 1؎ نہیں دیکھے تھے ان بیڈول اور بھاری بھر کم جانوروں کو دیکھ دیکھ کے تعجب کرتے اور ہنستے تھے۔ سکندر نے ۱۴۱۴ء میں وفات پائی اور اس کا بڑا بیٹا علی شیر اس کا جانشین مقرر ہوا۔ نیا سلطان ناتجربہ کار نوجوان تھا۔ سارے اختیارات سیابھٹ کے ہاتھوں میں تھے جس کا اسلامی نام ملک سیف الدین تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی شیر کے زمانے میں بھی ہندوؤں کو امن نصیب نہ ہوا۔ علی شیر کو حکومت کرتے سات برس ہوئے تھے کہ اس کے چھوٹے بھائی شاہی خان نے اسے شکست دے کے حکومت پر قبضہ کر لیا اور زین العابدین کا لقب اختیار کر کے تخت پر بیٹھا۔ 1؎ پرانے زمانے میں کشمیر کے راجا جنوبی ہند سے ہاتھی منگواتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کشمیر کے ایک راجہ شنکر ورمن نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس کی فوج میں تین سو ہاتھی تھے۔ شاہی خان ابھی بہت نوعمر تھا کہ سکندر نے اسے کچھ تحفے دے کے امیر تیمور کے پاس بھیجا۔ تیمور اٹک کو عبور کر چکا تھا کہ شاہی خان پہنچا۔ تیمور نے اسے روک لیا اور کہا میرے ساتھ سمرقند تک چلو اور کچھ دن وہیں رہو۔ تیمور کے زمانے کا سمرقند عباسی عہد کے بغداد کی یاد دلاتا تھا۔ ایشیا کے گوشے گوشے سے ہر فن کے کامل جن میں بڑے بڑے عالم بھی تھے، کھچ کے وہاں پہنچ گئے۔ علم و فن کا شوق تو نو عمر شہزادے کی گھٹی میں پڑا تھا۔ یہاں اس شوق نے جلا پائی وہ سمرقند کے محلوں، کوشکوں، باغوں، مدرسوں اور مکتبوں کو دیکھتا، پر رونق بازاروں کی سیر کرتا۔ دستکاروں اور صناعوں، شاعروں اور عالموں سے ملتا، اور جی ہی جی میں کہتا، خدا مجھے بادشاہت دے تو اپنے وطن میں یہ سارے سامان جمع کروں۔ سمرقند میں اس نے جو زمانہ گزارا اس کے پورے حالات تو نہیں ملتے، لیکن قیاس کہتا ہے کہ اس نے ملک داری کے بہت سے اصول اور قاعدے، تیمور اور اس کے وزیروں سے سیکھے ہوں گے۔ اور تیمور کی مملکت میں ملکی انتظام کے جو طریقے رائج تھے اس کی طبیعت پر ان کا بھی بڑا اثر پڑا ہو گا۔ شاہی خان کشمیر واپس آیا تو سکندر شمع سحری ہو رہا تھا۔ باپ کی وفات کے بعد علی شاہ نے اس سے اچھا سلوک کیا لیکن ہندوؤں پر جو ظلم توڑے جا رہے تھے انہیں دیکھ دیکھ کے وہ جی ہی جی میں کڑھتا ہو گا۔ اور اسے بار بار خیال آتا ہو گا کہ سمرقند اور سری نگر میں کتنا فرق ہے؟ جب ملک سیف الدین (سیا بھٹ) کی وفات کے بعد علی شیر نے اسے اپنا وزیر مقرر کیا تو اسے ملک کی حالت کو بہتر بنانے کا تھوڑا بہت موقع ملا اور ہندو جو ہمیشہ سہمے رہتے تھے، امن کی زندگی بسر کرنے لگے۔ پھر بھی وہ پوری طرح دل کے حوصلے نہ نکال سکا۔ کیونکہ وہ نظام حکومت میں جس قسم کی تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ جو چاہے کرے اس کے معاملات میں کوئی شخص دخل نہ دے سکے۔ علی شیر کی حکومت کا ساتواں سال تھا کہ وہ شاہی خان کو اپنا نائب مقرر کر کے حج کے ارادے سے چلا۔ جموں پہنچا تو وہاں کے راجا نے کہا، آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ شاہی خان بھائی سہی،لیکن یہ امید نہ رکھئے کہ آپ حج کر کے واپس آئیں تو وہ تخت و تاج آپ کے حوالے کر دے گا۔ راجوری کا راجا بھی اس موقع پر موجود تھا۔اس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ شاہی خان نے یہ باتیں سنیں تو وہیں سے پلٹا جموں اور راجوری کے راجوں نے اپنی فوجیں اس کے ساتھ کر دی تھیں۔ اب خدا جانے شاہی خان کی نیت پہلے سے بدلی ہوئی تھی یا بھائی کی بدگمانی نے اسے مقابلے پر آمادہ کر دیا۔ سری نگر سے کوئی ساٹھ میل جنوب مغرب کی طرف اوڑی میں دونوں بھائیوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ شاہی خان شکست کھا کے بھاگا۔ حسرت گکھڑ نے جو اس زمانے کا ایک نامور سردار تھا، اس کی بڑی مدد کی۔ اور شاہی خان تین مہینے کے اندر اندر گکھڑوں کی ایک بڑی فوج لے کے کشمیر پر جا چڑھا۔ اب کے علی شیر نے شکست کھائی اور فتح مند بھائی نے اسے پکھلی ہزارہ میں قید کر دیا۔ سلطان زین العابدین یعنی شاہی خان جو کشمیر کے لوگوں میں بڈ شاہ کے لقب سے مشہور ہے۔ اس سر زمین کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ با اثر اور نامور ہو گزرا ہے۔ اس کے زمانے کو پانچ سو برس ہو چکے ہیں پھر بھی کشمیر میں بچے بچے کی زبان پر اس کا نام چڑھا ہوا ہے۔ لوگ بڑی عزت اور فخر سے اسے یاد کرتے ہیں۔ اور بڑے بوڑھے اس کے حالات بیان کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں دیکھی باتیں سنا رہے ہیں۔ جن محلوں اور کوشکوں، شہروں، بازاروں اور پلوں کا ذکر کر رہے ہیں ان کے سامنے تعمیر ہوے ہیں۔ سلطان سے جو واقعات منسوب کئے جا رہے ہیں، وہ سب کے سب ان کے سامنے پیش آئے ہیں اور موکب سلطانی ابھی ابھی سری نگر کے بازاروں سے گزرا ہے۔ دنیا نے بڑے بڑے اقبال مند حکمران پیدا کئے، مگر اسے کیا کیجئے کہ بڈ شاہ جیسی ہر دلعزیزی او رنیک نامی بہت کم فرمانرواؤں کے حصے میں آئی ہے۔ زین العابدین نے تخت سلطنت کو رونق بخشی تو اس کی عمر سترہ اٹھارہ برس سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن ہوشمندی اور دانائی اللہ کی دین ہے، اس نو عمری اور ناتجربہ کاری کے باوجود فراست میں پیران کہن سال سے آگے تھا۔ ملک پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ یوں تو ساری رعایا زبوں حال ہے، لیکن ہندوؤں کا حال سب سے زیادہ پتلا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ان کی حالت سدھارنے کی طرف توجہ کی اور سلطان سکندر کے زمانے میں ان پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، وہ سب ہٹا دیں۔ سکندر اور علی شیر کے زمانے میں ہر ہندو سے آٹھ تولہ چاندی سالانہ جزیہ کے طور پر لی جاتی تھی۔ زین العابدین نے اسے گھٹا کے ایک ماشہ کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد یہ برائے نام سا جزیہ بھی معاف کر دیا ساتھ ہی اعلان کیا کہ اسلام کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہ اعلان سن کر بہت سے برہمنوں نے جو جان کے خوف سے مسلمان ہو گئے تھے، پھر اپنا آبائی مذہب اختیار کر لیا بہت سے ہندو وطن چھوڑ کے پنجاب اور اودھ میں آباد ہو گئے تھے۔ سلطان نے انہیں بھی بلوایا۔ ان میں جو جاگیردار تھے انہیں جاگیریں دلوائیں۔ جو زمینیں اور مکان چھوڑ گئے تھے، انہیں بھی اپنی اپنی جائدادیں دلوائی گئیں۔ بعض مندر جو ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے، ان کی مرمت کرائی، ان کے ساتھ پاٹھ شالا کھولے، جن میں ہندو اپنی مذہبی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اور یہی نہیں سلطان کو ہندوؤں کا اتنا خیال تھا کہ آگے چل کے اس نے ملک بھر میں گاؤ کشی کی بھی ممانعت کر دی۔ اس حکم پر مسلمان خصوصاً علما اور مشائخ ضرور بگڑے ہوں گے۔ لیکن سلطان کے رعب و داب کا یہ حال تھا کہ کسی کو کھلم کھلا مخالفت کی جرات نہ ہوئی۔ سیابھٹ کے اقتدا رکے زمانے میں ملکی انتظام کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ سلطان نے اب اس کی طرف توجہ کی۔ رشوت خوار عہدہ داروں کو ہٹا کے ان کی جگہ دیانت دار اہل کار مقرر کئے۔ سیابھٹ نے مالگزاری کی شرح بہت بڑھا دی تھی۔ زین العابدین نے حکم دیا کہ پیداوار کا چھٹا1؎ حصہ مالیہ کے طور پر لیا جائے۔ زینہ گیر کے علاقے میں جو سوپور کے پاس ہے اورجہاں آبپاشی کا انتظام نیا نیا تھا، مالیہ اس سے بھی کم تھا یعنی پیداوار کا ساتواں حصہ۔ کشمیر میں نرخ بندی کی ابتداء بھی اسی بادشاہ نے کی یعنی تانبے کے پتروں پر مختلف چیزوں کے نرخ کندہ کرا کے اپنی ساری مملکت میں بھجوا دیئے۔ ان نرخوں میں بادشاہ کے حکم سے تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ اور مہینہ کے مہینہ رعایا کو اطلاع دے دی جاتی تھی کہ نئے نرخ کیا مقرر ہوئے ہیں۔ 1؎ اس کا مقابلہ سکھوں کے زمانے کی شرح مالگذاری سے کرو، جو پیداوار کا 2/5یعنی نصف سے کچھ ہی کم تھی۔ اس قسم کی اصلاحیں تو خیر بہت سے اور بادشاہوں نے بھی کی ہیں لیکن سلطان زین العابدین کی بعض اصلاحیں ایسی ہیں، جن کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان دنوں دنیا کے اکثر ملکوں میں مجرموں کو قید کرنے کا رواج بہت کم تھا۔ حکام اکثر مجرموں کو اس خیال سے موت کی سزا دے دیا کرتے تھے، کہ قید خانوں کا انتظام کون کرے؟ اور جہاں قید خانے موجود تھے، ان کا انتظام بہت ناقص تھا۔ بعض علاقوں میں تو قیدیوں کو ایک اندھیرے کنویں میں پھینک دیا جاتا تھا، جس سے وہ عمر بھر نہیں نکل سکتے تھے۔ زین العابدین نے قید خانوں کا بہت اچھا انتظام کیا اور حکم دیا کہ قیدیوں سے کام لیا جائے۔ ان قیدیوں میں صناع اور کاریگر بھی تھے۔ اس لئے قید خانوں میں مختلف چیزیں بننے لگیں۔ جو قیدی کوئی دستکاری نہیں جانتے تھے، انہیں یا تو کوئی دستکاری سکھائی جاتی تھی، یا انہیں سڑکیں بنانے اور نہریں کھودنے کے کام پر مقرر کیا جاتا تھا۔ بظاہر تو یہ اصلاح معمولی سی معلوم ہوتی ہے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ انیسویں صدی سے پہلے دنیا کے اکثر ملکوں کے قید خانوں میں صنعت و حرفت نے رواج نہیں پایا تھا تو زین العابدین کے ذہن کی رسائی پر حیرت ہوتی ہے۔ سلطان نے ناپ تول کے پیمانے مقرر کئے۔ ٹکسال بنوائی۔ جس میں سکے ڈھالے جانے لگے۔ نئی سڑکیں تعمیر کرائیں، اور سارے ملک میں نہروں کا جال سا بچھا دیا۔ ان میں بڑی بڑی نہریں تو آٹھ تھیں۔ ان کے علاوہ بیسیوں چھوٹی چھوٹی نہریں تھی، جن کی وجہ سے ملک میں غلہ کی فراوانی ہو گئی۔ چنانچہ ان دنوں تین پیسے میں دو من چاول مل جاتے تھے اور ایک پیسے میں چار سیر انگور آتے تھے۔ تعزیری جرمانہ کی ابتداء بھی اسی سلطان کے عہد میں ہوئی۔ اگلے بادشاہوں کے عہد میں چوری چکاری بہت بڑھ گئی تھی۔ دن دہاڑے راستے لٹتے تھے۔ زین العابدین نے حکم دیا جس علاقے میں کوئی مسافر لوٹا جائے گا، اس علاقے کے لوگ اس کے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے مکان بنوائے۔ جگہ جگہ باغ لگوائے۔ ان کے لئے ایران اور توران سے پھول اور پودے منگوائے۔ کشمیر میں پھل اور پھول پہلے بھی تھے لیکن سمرقندی سیب اور قسم قسم کی ناشپاتیاں کہاں تھیں، آج اسی سر زمین میں پھلوں اور پھولوں کی جو کثرت نظر آتی ہے، اسے بھی زین العابدین کا کرشمہ فیض سمجھنا چاہیے۔ سلطان نے لڑکپن کا زمانہ سمرقند میں گزارا تھا۔ وہاں کی عمارتیں دیکھی تھیں۔ رعایا کی خوش حالی کی تدبیروں سے تھوڑی سی فراغت ملی تو عمارتوں کی طرف توجہ کی اندر کوٹ کا شہر جس کی گردا گرد پانی تھا، مدت سے ٹوٹا پھوٹا پڑا تھا۔ پہلے اس کی مرمت کرائی۔ پھرڈل کے کنارے اپنے لئے ایک محل بنوایا خدا جانے یہ شہر سمرقند کے قصر چہل ستون کے نمونے پر تھایا قیصر نیلی رواق کا مقابلہ کرتا تھا، زمانے نے نہ قصر چہل ستون کو باقی چھوڑا نہ زین العابدین کے محل کا نشان ملتا ہے۔ ہاں سری نگر کی جامع مسجد ابھی تک موجود ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد تو سلطان سکندر بت شکن نے رکھا تھا، لیکن اس کی تعمیر کی سعادت زین العابدین کے حصے میں آئی۔ سلطان نے اور بھی کئی مسجدیں اور خانقاہیں بنوائیں جن میں سے بعض ابھی تک موجود ہیں۔ زینہ گیر کی بستی، زینہ کدل نام مشہور پل اور زینہ لنک کا مصنوعی ٹاپو جوولر میں ہے، اسی کی یادگار ہیں۔ قالین بانی، غالیچہ سازی، شال بانی اور پیپر ماشی کے لئے کشمیر بہت مشہور ہے۔ ان صنعتوں نے بھی زین العابدین ہی کے عہد میں رواج پایا۔ اس کے علاوہ سلطان کی توجہ سے کشمیر میں کاغذ کے کارخانے کھلے۔ ریشم کی صنعت کو ترقی ہوئی تلواریں اور بندوقیں بھی بننے لگیں۔ سلطان نے کشمیر میں ان صنعتوں کو رواج دینے کے لئے سمرقند اور بخارا سے کاریگر منگوائے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے کشمیری نوجوانوں کو خرچ دے کے سمرقند بھیجا گیا وہ وہاں سے طرح طرح کے ہنر سیکھ کے آئے اور انہیں سارے کشمیر میں پھیلاد یا۔ آتش بازی کے فن میں بھی کشمیریوں کو بڑا کمال حاصل تھا۔ چنانچہ سلطان نے خود ایک مشہور آتش باز کی مدد سے اس فن کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جو اب ناپید ہے۔ زین العابدین خود عالم اور عالموں کا قدر دان تھا۔ اس کے دربار میں اس زمانے کے بڑے بڑے عالم اور ہر فن کے صاحب کمال جمع تھے۔ ان میں بہت سے ایسے تھے، جو دور دور سے اس کی سخاوت اور علم دوستی کی شہرت سن کر کشمیر پہنچے تھے۔ سلطان نے تصنیف و تالیف کا ایک محکمہ قائم کیا، او رمختلف زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کرایا۔ ان میں مہا بھارت اور راج ترنگنی جیسی ضخیم کتابیں بھی تھیں، جنہیں ملک الشعراء ملا احمد نے فارسی کا لباس پہنایا ہے۔ اس زمانے کا ایک مشہور مصنف زونراج تھا، جس نے راج ترنگنی کے توڑ پر زینہ ترنگنی سنسکرت نظم میں لکھی ہے۔ اس کتاب کو راج ترنگینی کا ضمیمہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ زونراج نے اس میں ہرش دیو سے لے کے زین العابدین کے زمانے تک کے حالات لکھے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ سوم پنڈت، بودی بٹ، ملا محمد، ملانا دری وغیرہ بھی اس زمانے کے نامی مصنف تھے۔ سلطان خود بہت اچھی سنسکرت جانتا تھا۔ فارسی میں شعر بھی کہتا تھا، لیکن کتابوں میں اس کا صرف ایک آدھ شعر ملتا ہے۔ آتش بازی کے متعلق اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عربی زبان کی ایک مناجات بھی اس سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس کا کتب خانہ بہت عظیم الشان تھا، جس کے لئے اس نے ملکوں ملکوں سے کتابیں منگوائی تھیں۔ ان میں عربی اور فارسی کے علاوہ سنسکرت کی بہت سی کتابیں بھی تھیں جو کشمیر میں بالکل نایاب تھیں۔ سلطان کو موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ وہ اس فن کو خوب سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے خود کئی ساز بھی ایجاد کئے تھے جن کے نام بھی اب کوئی نہیں جانتا۔ ایران و توران کے سازندوں اور گویوں کے علاوہ بودی بٹ اور سوم پنڈت جیسے موسیقی دان اس کے دربار میں موجود تھے، جنہوں نے اس فن میں اعلیٰ درجے کی کتابیں لکھی ہیں۔ بڈ شاہ کو علم و فن کا جو شوق تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فارسی اور سنسکرت دونوں زبانیں پہلو بہ پہلو ترقی کرنے لگیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان نے بھی جو عام بول چال کی زبان تھی، بڑا فروغ پایا۔ اور اس میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ان باتوں سے یہ نہ سمجھو کہ بڈ شاہ نرا کتابی کیڑا تھا۔ جس طرح وہ عالموں میں عالم، شاعروں میں شاعر اور موسیقی دانوں میں موسیقی دان تھا۔ اسی طرح سپاہیوں میں سپاہی تھا۔ اس نے تلوار کے زور سے اپنے باپ دادا کے تخت و تاج پر قبضہ کیا تھا۔ اور اپنی بادشاہت کے زمانے میں بھی اسے اکثر گرہیں کھولنے کے لئے تلوار سے کام لینا پڑا۔ تخت نشینی کے بعد اسے سب سے پہلے اپنے دودھ شریک بھائیوں سے جو بڑے سرکش تھے، لڑنا پڑا۔ ان کا زور ٹوٹا تو پانڈو چک نے جو دردستان کا ایک سردار تھا، سر اٹھایا۔ آخر وہ بھی مارا گیا، ادھر سے فراغت پائی تو معلوم ہوا کہ کاشغر کا حاکم جس نے علی شاہ کے زمانے میں لداخ اور بلتستان پر قبضہ کر لیا تھا، اب کشمیر پر چڑھائی کرنا چاہتا ہے۔ سلطان نے ایک لاکھ پیادوں اور بیس ہزار سواروں کے ساتھ اسے بڑھ کے روکا۔ کاشغر کا حاکم شکست کھا کے بھاگا اور زین العابدین نے پھر لداخ اور بلتستان پر قبضہ کر لیا۔ جسرت گکھڑ جس نے شہزادگی کے زمانے میں زین العابدین کی مدد کی تھی، پنجاب کا حاکم بننا چاہتا تھا۔ سلطان نے اس کی مدد کے لئے فوجیں بھیجیں اور جسرت نے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس کی حکومت زیادہ عرصہ نہ رہی۔ لودھیوں نے اسے نکال کے پنجاب کو دہلی کی بادشاہت میں شامل کر لیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد پنجاب بھی زین العابدین کے قبضے میں آ گیا تھا۔ ہاں یہ پتہ نہیں چلتا کہ سلطان کو پنجاب پر چڑھائی کرنی پڑی تھی یا اس نے صلح صفائی 1؎ سے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ البتہ اتنا سب مانتے ہیں کہ بڈ شاہ کی حکومت پشاور سے سرہند تک پھیلی ہوئی تھی۔ دریائے سندھ کے کنارے کنارے کا سارا علاقہ اس کے ماتحت تھا۔ پکھلی یعنی ہزارہ کا علاقہ، لداخ اور بلتستان کشمیر کی سلطنت میں شامل تھے۔ اور جموں اور راوجوری کے راجا بڈ شاہ کو خراج دیتے تھے۔ غرض بڈ شاہ کے حالات پر غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ عجوبہ روزگار تھا۔ کبھی عالموں فاضلوں اور شاعروں کی محفل میں بیٹھا نکتہ آفرینیاں کر رہا ہے۔ اچھا شعر سنتا ہے، تو پھڑک اٹھتا ہے۔ اتنے میں کوئی علمی بحث چھڑ جاتی ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی لیاقت کے مطابق رائے ظاہر کرتا ہے۔ سلطان کی باری آتی ہے تو ایسی ایسی موشگافیاں کرتا ہے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی پنڈتوں سے صحبت گرم ہے، بید پر ان کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جوگ وششٹ اور اتھرو وید کے مشکل مقامات حل کئے جا رہے ہیں۔ 1؎ سلطان شہاب الدین کے زمانے میں سرہند تک سارا پنجاب کشمیر کی حکومت کے ماتحت تھا۔ سلطان سنسکرت کے شلوک پڑھ رہا ہے، اور بڑے بڑے پنڈت حیرت سے اس کا منہ تک رہے ہیں۔ یہ لوگ جاتے ہیں تو رقص و سرود کی محفل جمتی ہے۔ کشمیر اور ایران و توران کے نامی گویے جمع ہیں۔ سروں اور سرتیوں کی بحث ہو رہی ہے۔ کوئی گویا کہیں غلطی کرتا ہے تو سلطان کے ابرو پر بل پڑ جاتے ہیں۔ ابھی محفل گرم ہے کہ خبر آتی ہے کاشغر کا حاکم لداخ میں فوجیں جمع کر رہا ہے۔ اسی وقت محمد ماگر سے، ملک مسعود ٹھاکر، ہلمت رینہ، اتر رینہ وغیرہ سرداران لشکر کو بلایا جاتا ہے اور اس سوال پر بحث چھڑ جاتی ہے کہ لڑائی کا ڈول کس طرح ڈالا جائے، اور کس طرف سے لداخ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے ملکی انتظا، اس کی داد گستری اور انصاف پژوہی پر غور تو حیرت ہوتی ہے۔ رعایا کے سود و بہبود کا ایسا خیال تھا کہ راتوں کو بھیس بدل کے گلی کوچوں میں پھرتا، لوگوں کی شکایتیں سنتا، ان کے حالات کی ٹوہ لگاتا او ران کی مصیبتوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتا۔ زین العابدین کے حالات پڑھ کے ہمیں بے اختیار اکبر یاد آ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکبری عہد کی بہت سی اصلاحوں میں زین العابدین کے ملکی انتظام کی جھلک نظر آتی ہے اور بے تعصبی اور وسیع المشر بی میں بھی دونوں بظاہر ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر بھی غور کیا جائے تو دونوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ اکبر کی طبیعت میں اباحت اور بے قیدی تھی، اور بڈ شاہ بڑا راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ چنانچہ جہاں بہت سے ہندو اسے وشنو1؎ کا اوتار جانتے تھے۔ وہاں مسلمان بھی اسے ولی مانتے تھے اور اس کے زہد و ارتقاء اور فرق عادت کی عجیب و غریب کہانیاں بیان کرتے تھے۔ بڈ شاہ کے ہاں اکبر کے شبستان شہی کی رنگینیاں تلاش کرنا بھی بے سود ہے۔ اس کے محل میں نہ لونڈیوں نہ کنیزوں کا ہجوم تھا نہ خواجہ سراؤں، قلماقنیوں، ترکنوں اور ابیگینوں کی کثرت۔ وہ بڑی سیدھی سادی زندگی بسر کرتا تھا۔ عمر بھر میں صرف دو شادیاں کیں۔ وہ بھی اس طرح کہ پہلی بیوی سے اولاد نہ ہوئی تو دوسری شادی کر لی۔ دوسری بیوی سے تین بیٹے ہوئے اوہم خان، حاجی خان اور بہرام خان۔ لیکن ان نالائقوں کی خانہ جنگیوں نے سلطان کو زندگی کے آخری زمانے میں چین نہ لینے دیا۔ آپس کی لڑائیاں تو الگ رہیں، بڑا غضب یہ کیا کہ تخت و تاج کی ہوس میں باپ سے جنگ چھیڑ دی۔ پہلے حاجی خان پونچھ سے بڑا بھاری لشکر لے کے آیا۔ لیکن شکست کھائی۔ پھر اوہم خان بڑھا اور سوپور تک آ پہنچا۔ لیکن بڈ شاہ نے اسے بھی نیچا دکھایا۔ 1؎ دلر ہندوؤں کے عقیدے میں مہا پدم یعنی کالی ناگ کا مسکن ہے جسے کرشن جی نے زیر کیا تھا۔ اس لئے جب بادشاہ نے دلر میں مصنوعی جزیرہ بنوایا تو برہمنوں نے کہا کہ بادشاہ تو خود کرشن ہے اس لئے کالی ناگ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ان واقعات نے سلطان پر ایسا اثر کیا کہ اس کی طبیعت دنیا سے اچاٹ ہو گئی اسی عالم میں بیمار ہوا۔ اور باون برس بادشاہت کر کے رحمت الٰہی کے وسیع دامن میں جگہ پائی۔ یہ ۱۴۷۲ کا ہے۔ بڈ شاہ کے بعد امیروں نے اس کے منجھلے بیٹے حاجی خان کو بادشاہ مقرر کیا۔ اور وہ حیدر شاہ کے لقب سے تخت پر بیٹھا۔ بڑا بیٹا ادھم خان بھاگ کے جموں چلا گیا تھا جہاں وہ مغلوں سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ حیدر شاہ کو شہزادگی کے زمانے ہی میں شراب کی عادت پڑ گئی تھی۔ دن رات اس کے نشے میں بدمست رہتا تھا۔ اس کے زمانے میں لولی نامی ایک حجام نے ایسا عروج پایا کہ بڑے بڑے سردار اس سے ڈرتے تھے۔ آخر زمانے نے یہ ورق بھی الٹا اور حیدر شاہ کا بیٹا حسن تخت نشین ہوا۔ اس میں اس کی بہت سی خوبیاں تھیں۔ چنانچہ شروع شروع میں اس نے مستعدی حکومت کے کاروبار کی طرف توجہ کی۔ بڈ شاہ کے عہد کے جو قاعدے قریب مٹ چکے تھے، انہیں نئے سرے سے رواج دیا۔ لیکن وہ بیگم کو جو سیدانی تھی بہت چاہتا تھا آہستہ آہستہ بیگم نے بادشاہ کے مزاج میں ایسا دخل پایا کہ سارے امور سلطنت اس کے مشورے سے ہونے لگے۔ بڑے بڑے عہدوں پر بھی بیگم کے رشتے دار مسلط تھے ان کے سامنے کسی کی پیش نہیں چلتی تھی۔ حسن کے بعد اس کا نابالغ بیٹا محمد شاہ تخت پر بیٹھا۔ سید پہلے سلطنت کے سارے کاروبار پر چھائے ہوئے تھے اس زمانے میں ان کا عمل اور بڑھ گیا۔ آخر لوگوں نے جو ان کی دراز دستیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے، بغاوت کر دی۔ اور بہت سے سیدوں کو قتل کر ڈالا۔ یوں تو شہمیری 1؎ خان کی حکومت سلطان زین العابدین ہی پر ختم ہو گئی تھی، پھر بھی اس کے زمانے تک سلطنت کا ظاہری رعب و داب قائم تھا، جو اس کے بند کرتے ہی ختم ہو گیا۔ اب خانہ جنگیاں شروع ہوئیں اور یہ عالم نظر آیا کہ شہزادہ تخت سلطنت پر بیٹھا تھا، آج سر چھپانے کا ٹھکانا ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ محمد شاہ کی تخت نشینی سے مغلوں کے کشمیر پر تسلط پانے تک کا زمانہ پورے سو برس بھی نہیں ہوتا، لیکن اس عرصے میں بیس بادشاہوں نے حکومت کی ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ایک سے زیادہ مرتبہ تخت نشین ہوئے۔ آخر میں چکوں اور مگروں نے زور پکڑا۔ مگرے تو کشمیر کے باشندے تھے لیکن چک 2؎ جو بڑے شوریدہ سر اور جنگ جو تھے اور دستان یعنی گلگت سے آ کے کشمیر میں آباد ہو گئے تھے۔ آخر ایک چک سردار غازی چک نے کشمیر کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ 1؎ شہ میر اس خانوادہ جنگ کا بانی تھا جس کے نام کی رعایت سے یہ سارا خاندان شہ میری کہلاتا ہے۔ ابھی کشمیر میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو شہمیری کہلاتے ہیں اور اپنا سلسلہ نسب شہ میر سے ملاتے ہیں۔ 2؎ کشمیری پنڈتوں میں ایک روایت مشہور ہے کہ چک راکھشس کی اولاد ہیں۔ لیکن ان کی ماں کشمیری تھی۔ تریہہ گام اور اس کے آس پاس کے علاقے میں ان لوگوں نے بڑی آفت مچا رکھی تھی۔ چکوں کے زور پکڑنے سے پہلے ایک مغل سردار حیدر مرزا نے دو مرتبہ کشمیر پر حملہ کیا۔ پہلی دفعہ تو وہ لداخ کے راستے آیا اور سری نگر پہنچ کے حکومت پر متصرف ہو گیا۔ لیکن تھوڑے دن کی حکومت کے بعد اسے بھاگنا پڑا۔ دوسری بار اس نے ہمایوں کے نائب کی حیثیت سے کشمیر پر حملہ کر کے اپنے آقا کے نام کا سکہ چلایا۔ میرزا حیدر تاریخ رشیدی کا مصنف ہے۔ یہ کتاب جو مغلوں کی ضخیم تاریخ ہے، اس نے کشمیر ہی میں بیٹھ کے لکھی تھی۔ تاریخ رشیدی میں کشمیر کا حال بھی ہے، لیکن بہت تھوڑا۔ چک سپاہی تو ضرور تھے لیکن ملک کا انتظام کرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لئے غازی چک اور اس کے جانشینوں کی حکومت کا زمانہ آپس کی لڑائیوں ہی میں گزر گیا۔ یعقوب شاہ اس خاندان کا آخری فرمانروا تھا۔ اس کا باپ یوسف شاہ اکبر کی فوج سے لڑکے گرفتار ہوا اور بادشاہ نے اسے ایک چھوٹی سی جاگیر دے کے غار بھیج دیا۔ یعقوب شاہ نے آزادی قائم رکھنے کے لئے بڑا زور مارا، اور ایک دفعہ تو کھکھہ اور بہہ سرداروں کو ساتھ لے کے ایسا لڑا کہ اکبر کی فوج پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن آخر کاراس نے بھی شکست کھائی اور باپ کے پاس بہار چلا گیا۔ یعقوب شاہ کے ساتھ کشمیریوں کی حکومت ختم ہو گئی اس کے بعد کسی کشمیری کو تخت سلطنت پر بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ کشمیر کے مسلمان فرمانرواؤں خاص طور پر خاندان شہ میری کا عہد حکومت اس سر زمین کے عروج و اقبال کا زمانہ تھا۔ کشمیری ہمیشہ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہے تھے۔ لیکن اس زمانے میں باہر کے لوگوں خاص طور پر ایران اور توران کے مسلمانوں سے ان کا خلا ملا بڑھا۔ جس نے کشمیریوں کی زبان معاشرت اور خیالات پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ بہت سے ہندو اپنا آبائی مذہب چھوڑ کے مسلمان ہو گئے۔ پہلے زمانے میں دفتری زبان سنسکرت تھی۔ اب عربی اور فارسی نے بھی رواج پایا اور دفتروں کا سارا کاروبار فارسی میں ہونے لگا۔ کشمیری پنڈتوں نے یہ کیفیت دیکھی تو فارسی کی طرف جھک پڑے اور اہل زبان کی ہمسری کرنے لگے۔ ان پنڈتوں کے بھی دو گروہ ہو گئے۔ ایک تو باچھ بٹ تھے جو سنسکرت پڑھتے پڑھاتے اور مذہبی رسوم ادا کرتے تھے اور دوسرے کارکن جو سرکاری دفتروں میں بڑے بڑے عہدوں پر مقرر تھے۔ کشمیری زبان نے اس زمانے میں بڑی ترقی کی۔ اس زبان کی اصل تو سنسکرت ہے لیکن اس میں عربی، فارسی، ترکی، تبتی وغیرہ کے بہت سے الفاظ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کے عہد سے پہلے کشمیری صرف بول چال کی زبان تھی، لیکن اب اس میں کتابیں بھی لکھی جانے لگیں۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں اور بھی بہت سی ترقیاں ہوئیں۔ جن کا حال ہم مختصر طور پر بڈ شاہ کے حالات کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں۔ ٭٭٭ چوتھا باب مغل ہندوستان میں خان تیموری کی حکومت پورے عروج پر تھی یعنی اکبر کو سریر آرائے سلطنت ہوئے اکتیس برس ہو چکے تھے اور کابل سے دکن تک سارا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا کہ کشمیر بھی اس وسیع سلطنت میں شامل ہو گیا اور کشمیریوں کو جن کے دل بد امنی اور خانہ جنگی سے فکار ہو رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوا کہ بڈ شاہ کا زمانہ پھر پلٹ آیا۔ اور اس چمن خزاں رسیدہ میں بہار آ گئی۔ سری نگر اب مرکز سلطنت نہیں رہا تھا۔ بلکہ یہاں مغل بادشاہوں کے صوبے داران کے نائب سلطنت کی حیثیت سے حکومت کرتے تھے۔ لیکن ان لوگوں نے شاہی دربار میں رہ کے حکمرانی اور فرماں فرمائی کے طریقے ملکی انتظام کے اصول اور قاعدے اور دربار داری کے ادب آداب سیکھے تھے۔ اور اکبر کا دل تو تعصب سے اس حد تک خالی تھا، کہ راسخ العقیدہ مسلمان اس پر بے دینی کا الزام لگاتے تھے۔ امراء پر بھی یہی رنگ چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ گھر گھر بادشاہ اور اس کے صوبیداروں کی عدل گستری کے چرچے تھے۔ اور لوگ ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے۔ ان دنوں پنجاب سے کشمیر جانے کے جتنے راستے تھے، سب اتنے دشوار گزار تھے کہ بڑے بڑے باہمت لوگوں کے حوصلے پست ہو جاتے تھے۔ اکبر کے زمانے میں محمد قاسم خان نے گجرات سے کشمیر تک سڑک نکالی، جو بھمبر راجوری اور پوشانہ سے ہوتی ہوئی شوپیاں جا پہنچتی ہے۔ اس کی حفاظت کے لئے لوگ مقرر کئے۔ جگہ جگہ چوکیاں بنوائیں۔ اب یہ راستہ ٹوٹا پھوٹاپڑا ہے۔ پھر بھی اس میں جگہ جگہ موکب اکبری اور کوکب جہانگیری کے نقوش قدم نظرآتے ہیں۔ ابو الفضل نے جو اکبر کامشیر ہی نہیں بلکہ اس کے عہد کا سب سے بڑا وقائع نگار بھی ہے، اس سفر کی ساری منزلیں گنوائی ہیں۔ اکبری جلوس کا چونتیسواں برس تھا کہ بادشاہ نے کشمیر کی سیر کا ارادہ کیا۔ فیضی بھی ساتھ تھا۔ اس نے اسی سفر میں ایک قصیدہ لکھا جس کا مطلع ہے۔ ہزار قافلہ شوق می کند شبگیر کہ بار عیش کہ شاید بہ خطہ کشمیر اکبر تین بار کشمیر آیا۔ یہاں کے باغ و راغ اور کوہ وادی کے مناظر دیکھے ٹوڈرمل سے زمین کی پیمائش کرائی۔ اور قلعہ ماگرنگر جواب ہری پربت کا قلعہ کہلاتا ہے، تعمیر کرایا۔ ابو الفضل نے جسے خلوت و جلوت میں حاضر باشی کی سعادت حاصل تھی، یہ داستان کسی قدر تفصیل سے لکھی ہے اور کشمیر کی سرسبزی اور شادابی کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عادات و خصائل، ان کے طرز معاشرت اور مشاغل کے بارے میں بہت سی کام کی باتیں لکھ گیا ہے۔ اس کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں اس سر زمین میں چوری چکاری بہت کم تھی۔ بھکاری بھی مشکل سے نظر آتے تھے۔ تجاری اور کشتی رانی کی بڑی قدر تھی، اور ہانجی خوب روپے کماتے تھے۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے اعلیٰ اخلاق کی بھی بہت تعریف کرتا ہے۔ اکبر کے جانشین جہانگیر کو تو کشمیر سے عشق تھا۔ کئی بار کشمیر آیا اور یہاں کی بہار و خزاں دونوں کے جلوے دیکھے جہانگیر نے کشمیر کا سفر زیادہ تر تو بھمبر کے راستے ہی کیا ہے لیکن پکھلی (ہزارہ) کے راستے بھی آیا ہے۔ چنانچہ تزک میں لکھتا ہے کہ کشمیر کی بہار کا لطف اٹھانا ہو تو پکھلی کے راستے سفر کرو کیونکہ آغاز بہار میں دوسرے راستے برف کی وجہ سے مسدود ہوتے ہیں۔ اس نے حسن ابدال سے سری نگر تک کا سفر پچیس دن میں طے کیا تھا۔ تزک میں اس سفر کا پورا حال لکھا ہے اور ساری منزلیں گنوائی ہیں۔ جہانگیر نے کشمیر کی سیر کا جو لطف اٹھایا وہ نہ اس کے پیش رو کے حصے میں آیا، نہ جانشینوں کو نصیب ہوا۔ راستے میں کوئی پربہار مرغزار یا چشمہ دیکھ کر طبیعت لہراتی ہے تو اتر پڑتا ہے۔ خدام فرش بچھانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کے روک دیتا ہے کہ سبزہ کے قدرتی فرش پر جس کی نرمی مخمل کو شرماتی ہے، فرش بچھانا بد مذاتی ہے۔ پھر رام رنگی حاضر ہوتی ہے، اس کے دو تین پیالے پیتا ہے خود شعر پڑھتا ہے۔ دوسروں سے سنتا ہے، روپے لٹاتا ہے، خلعت و انعام بخشتا ہے کوئی نیا پرندہ، پھول یا پھل نظر آ جاتا ہے تو اس کے حال کی تحقیق کرتا ہے اور داد نکتہ سنجی دیتا ہے۔ مثلاً پکھلی کے راستے کشمیر گیا تو بہار شروع ہو چکی تھی۔ لوگوں نے گیلاس جو کشمیر کا ثمر پیش رس ہے، حاضر کیا شراب کے ساتھ اس کے چند دانے چکھے بہت پسند آیا۔ پوچھا نام کیا ہے لوگوں نے کہا ’’ اشکن‘‘ فرمایا اشکن نہیں اسے ’’ خوش کن‘‘ کہنا چاہیے۔ بہار میں تو خیر کشمیر کا عجب عالم ہوتا ہے لیکن یہاں کی خزاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جہانگیر نے کشمیر کو بہار و خزاں دونوں موسموں میں دیکھا اور دونوں کی کیفیت الگ الگ لکھی ہے۔ چنانچہ خزاں کے ذکر میں لکھتا ہے۔ بے تکلف خوبی ہائے خزاں از بہار ہیچ کمی نہ دارد رنگیں تر از بہار بود جلوہ خزاں کشمیر جہانگیری عہد کی یادگاروں1؎ سے بھرا پڑ ہے۔ چشمہ ویر ناگ کی عمارت نسیم باغ اور شالا مار جہانگیر کے حکم سے تعمیر ہوئے۔ نشاط باغ آصف خان نے بنوایا۔ پتھر مسجد نور جہاں کی یادگار ہے۔ البتہ چشمہ شاہی کی عمارت شاہ جہاں نے تعمیر کرائی تھی او رپری محل دار ا شکوہ نے بنوایا تھا۔ 1؎ بھمبر، پگھلی اور پونچھ سے وادی کشمیر کو جو راستے جاتے ہیں۔ ان کے کنارے جگہ جگہ عہد جہانگیری کی بہت سی ایسی یادگاریں ہیں جو اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ بیرم قلعہ کے پاس جسے اب بہرام گلہ کہتے ہیں، ایک آبشار ہے جو نور جہاں کے نام کی عایت سے نوری چھم کہلاتا ہے، جہانگیر نے تزک میں بھی اس آبشار کا ذکر کیا ہے۔ مہورہ کے پار نور کھاہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ ایک بوڑھے کشمیری سے اس گاؤں کا ذکر آیا تو اس نے کہا میں نے بڑے بوڑھوں کی زبانی سنا ہے کہ نور جہاں کشمیر جاتے یہاں پہنچی تو اس گاؤں کی فضا ایسی پسند آئی کہ سواری رکوا دی اور یہیں اتر پڑی اس دن سے یہ گاؤں ’’ نور خواہ‘‘ کہلاتا ہے۔ جہانگیر نرا شاعر ہی نہیں تھا، اسے ملک کے انتظام و رعایا کی فلاح و بہبود کا بھی بڑا خیال رہتا تھا۔ ایک دفعہ کشمیر کے ایک صوبیدار کے ظلم کی شکایت دربار میں پہنچی، اسی وقت اسے لکھ بھیجا ’’حکومت پناہا! داد خواہان تو بسیارو شکر گزاران تو کم آب سحاب برلب تشنگاں بر بر ورنہ از حکومت برخیز۔‘‘ جہانگیر کے زمانے میں چکوں نے پھر سر اٹھایا کشتواڑ کا راجہ بھی خوب لڑا۔ لیکن آخر چک زیر کر لئے گئے اور کشتواڑ بھی فتح ہو گیا۔ ۱۶۰۵ء میں جہانگیر کشمیر سے واپس آ رہا تھا کہ بیرم قلعہ پہنچ کے طبیعت بگڑی اور چند روز کی علالت کے بعد راستے ہی میں انتقال کیا اس کی جگہ شہزادہ خرم جس نے دکن کی مہموں میں بڑی ناموری حاصل کی تھی، تخت نشین ہوا۔ وہ شہزادگی کے زمانے میں بھی کشمیر آ چکا تھا۔ تخت نشینی کے بعد بھی کئی بار آیا۔ شاہ جہان کے عہد میں جو لوگ کشمیر کے صوبیدار مقرر ہوئے، ان میں ظفر خان اور علی مردان خان کے نام بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ علی مردان خان نے کشمیر کے راستے میں جگہ جگہ اپنے خرچ سے پختہ سڑکیں بنوائیں۔ وہ ملکی انتظام پر بھی دل کھول کے روپیہ خرچ کرتا تھا۔ چنانچہ لوگوں میں مشہور تھا کہ علی مردان خان کے پاس پارس پتھر ہے، جس کی مدد سے جتنا سونا چاہتا ہے بنا لیتا ہے۔ وہ دو مرتبہ کشمیر کا صوبیدار رہا۔ پہلی دفعہ صرف ایک برس اور دوسری مرتبہ سات برس۔ اس کی صوبیداری کے زمانے میں کچھ مسلمانوں نے ایک کشمیری برہمن پنڈت مہادیو کے مکان کو آگ لگا دی۔ شاہ جہان کو معلوم ہوا تو علی مردان کے نام فرمان لکھا کہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے انہیں سخت سزائیں دی جائیں۔ چنانچہ شاہی حکم کی تعمیل کی گئی۔ ظفر خان کو بھی دوبار کشمیر کی صوبیداری ملی۔ پہلی بار وہ سات برس اس سر زمین پر حکومت کرتا رہا۔ اور دوسری بار چار برس۔ ظفر خان نے اپنی حکومت کے زمانے میں زعفران کا محصول اڑا دیا۔ اس کے علاوہ او ربھی بہت سے محصول مثلاً بھیڑوں کا ٹیکس اور ایک خاص محصول جو ہانجیوں یعنی ملاحوں سے لیا جاتا تھا، موقوف کر دیئے۔ ظفر خان علم و فن کا سرپرست اور بڑا نکتہ سنج شخص تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتا اور احسن تخلص کرتا تھا۔ غرض عہد شاہ جہانی کے امراء میں اسے وہی حیثیت حاصل تھی جو اکبری عہد میں خان خاناں نے حاصل کر لی تھی۔ ایران کا مشہور شاعر صائب اسی کے ساتھ کشمیر آیا اور مدت تک یہاں رہا۔ ایک اور شاعر علی قلی سلیم نے بھی کشمیر کو اپنا وطن بنا لیا اور یہیں وفات پائی۔ ان دنوں ایک کشمیری الاصل شاعر ملا محمد طاہر غنی کی شاعری کی بڑی شہرت تھی۔ صائب، سلیم اور غنی اکثر مل بیٹھتے اور ایک ہی زمین میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے دیوانوں میں اکثر ہم طرحی غزلیں ملتی ہیں۔ شاہ جہان کشمیر آیا تو اس کے ساتھ اس کے دربا رکا ملک الشعراء کلیم ہمدانی بھی تھا۔ اسے یہاں کی آب و ہوا ایسی پسند آئی کہ شاہ جہاں سے اجازت لے کے یہیں اقامت اختیار کر لی۔ ایک تو کشمیر کی فضا ہی شعر انگیز ہے۔ پھر ان دنوں غنی۔ صائب، سلیم وغیرہ کی وجہ سے یہاں فارسی شاعری کا بڑا چرچا تھا۔ اس لئے اس کی زندگی کے دن بڑے اطمینان سے گزرنے لگے۔ قصیدوں کی تشبیب میں تو اکثر شاعر بہار پہ شعر لکھتے ہیں، لیکن کلیم کی بعض غزلوں پر بھی یہی رنگ چھایا ہوا ہے، جو کشمیر کا فیضان معلوم ہوتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر جو ۱۶۵۸ء میں بادشاہ ہوا، اپنی سلطنت کے چھٹے سال کشمیر آیا۔ حکیم برنیر نے جو فرانس کا رہنے والا تھا اور بادشاہ کے ساتھ کشمیر آیا تھا، اپنے سیاحت نامے میں اس سفر کا حال بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ برنیر کے بیان سے معلوم ہوتا ہے اورنگ زیب کشمیر چلا تو خدم و حشم کو دیکھ کے خیال آیا کہ اتنے آدمیوں کی وجہ سے کشمیر میں غلہ کا توڑانہ پڑجائے ۔ اس لئے صرف خاص خاص لوگوں کو ساتھ جانے کی اجازت1؎ ملی۔ خواتین میں سے بادشاہ کی بہن روشن آراء بیگم، ان کی منظور نظر خواتین اور منتخب خواصیں ہمراہ تھیں۔ امراء اور سپاہیوں میں بھی بہت تھوڑے لوگوں کو ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ 1؎ جہانگیر نے بھی پکھلی کے راستے کشمیر جاتے ہوئے یہی کیا تھا۔ بار برداری کے لئے چند فیلان خاصہ اور کچھ خچروں کو چنا گیا اور اونٹوں کی جگہ بوجھ اٹھانے کے لئے مزدوروں کا انتظام کیا گیا۔ اندازہ لگایا گیا کہ تیس ہزار مزدوروں کی ضرورت ہو گی۔ شاہی فرمان کے مطابق بھمبر سے سری نگر تک ایک من بوجھ کے لئے ہمارے زمانے کے سکے کے حساب سے بیس روپے اجرت مقرر کی گئی جو ان دنوں خاصی بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔ بادشاہ سری نگر پہنچا تو شعراء نے قصیدے پڑھے اور صلہ پایا۔ ان شاعروں میں کچھ تو بادشاہ کے ساتھ آئے تھے، کچھ کشمیر کے باشندے تھے۔ برنیر نے اپنے سفر نامے میں کشمیریوں کی بڑی تعریف کی ہے، اور لکھا ہے کہ کشمیری بہت ذہین لوگ ہیں اور ذہانت میں ہندوستان کے لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ آگے چل کے وہ لکھتا ہے کہ بادشاہ کے درباریوں نے اس خیال سے کشمیری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کر لیں ہیں کہ ان سے جو اولاد پیدا ہو گی وہ ناک نقشے کی اچھی اور رنگت کی گوری ہو گی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں جو لوگ کشمیر کے صوبیدار مقرر ہوئے ان میں فاضل خان سب سے زیادہ نیک نام ہے۔ اس نے کئی مسجدیں، سرائیں بنوائیں۔ بند باندھے، باغ تعمیر کرائے اور کئی محصول اڑا دیئے مثلاً بعض صوبیداروں نے مٹی کے گھڑوں اور نمک پر محصول لگا رکھا تھا۔ چڑیماروں کو بھی محصول دینا پڑتا تھا۔ فاضل خان نے یہ سب محصول معاف کر دیئے۔ وہ بڑا پابند مذہب شخص تھا او رعالموں فاضلوں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ اسی کے عہد حکومت میں پہلی دفعہ کشمیریوں کو سرکاری دفتروں میں بار ملا۔ اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر نظر آنے لگے۔ اس بادشاہ کے عہد حکومت میں کشمیریوں پر قحط اور سیلاب کی مصیبتیں آئیں۔ دو دفعہ سری نگر میں آگ لگی۔ جس سے خاصا نقصان ہوا دوبار بھونچال بھی آیا۔ اس پر ستم یہ کہ شیعہ سنیوں میں جھگڑے شروع ہو گئے اورنگ زیب نے بڑی سختی سے اس فتنے کو دبایا لیکن فساد کی آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی اور اورنگ زیب کی موت کے بعد پھر بھڑک اٹھی۔ اسی زمانے میں خبر آئی کہ تبت کے راجہ نے اسلام قبول کر کے اپنی راجدھانی میں ایک خوبصورت مسجد بنوائی ہے۔ جس میں اورنگ زیب کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد تبت پر قلماق قبیلے نے حملہ کر دیا۔ راجہ نے مدد مانگی۔ یہاں سے ابراہیم خان صوبہ دار کشمیر کے بیٹے فدائی خان کو بھیجا گیا۔ اس نے حملہ آور کو مار بھگایا اور تبت میں پوری طرح امن قائم کر دیا۔ تاریخ میں اورنگ زیب ایسا بدنام ہے کہ اس کا نام آتے ہی ہندو اور عیسائی مورخوں کا قلم بے لگام ہو جاتا ہے جن لوگوں نے کشمیر کے حالات لکھے ہیں، ان کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ لوگ اورنگ زیب کے جرم نہیں گنواتے۔ یہ نہیں بتاتے کہ اس نے کشمیریوں پر کیا کیا ظلم کئے، بس اسے متعصب اور تنگ نظر کہہ کے چپکے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اورنگ زیب ہزار ظالم سہی انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس نے کشمیریوں سے جتنا اچھا سلوک کیا، اس کی مثال اکبر، جہانگیر اور شاہ جہان تینوں کے عہد حکومت میں نہیں ملتی۔ دیکھو اکبر کا وقائع نگار ابو الفضل صرف کشمیر کے مناظر کی تعریف کرتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کا ذکر چھیڑتا ہے تو ان کے لباس غذا اور پیشوں کے تذکرہ سے آگے نہیں بڑھتا۔ اسے بس زیادہ سے زیادہ یہ نظر آتا ہے کہ کشمیری پٹو کا لباس پہنتے ہیں۔ باسی چاول کھاتے ہیں اور نجاری اور کشتی رانی میں مہارت رکھتے ہیں۔ جہانگیر کشمیر کے باغ و راغ اور یہاں کی آب و ہوا کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتا ہے لیکن کشمیریوں کا ذکر آتا ہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ کشمیر میں چاول اچھا نہیں ہوتا۔ لوگ خشکہ پکا کے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو کھاتے ہیں، اسے بھتہ کہتے ہیں۔ غریب لوگ باسی بھتہ کھاتے ہیں۔ پٹو کا ایک ہی کرتہ تین چار سال تک پہنے رہتے ہیں اور جب تک پھٹ نہیں جاتا نہیں اتارتے۔ پاجامہ پہننا عیب سمجھا جاتا ہے۔ لب آب رہتے ہیں، لیکن غسل نہیں کرتے۔ غرض ان کا ظاہر بھی گند ااور باطن بھی گندا۔ یوں کہنا چاہیے کہ اورنگ زیب سے پہلے جو تیموری فرمانروا گزرے ہیں ان کے نزدیک کشمیر کی حیثیت صرف شیر گاہ کی تھی۔ کشمیریوں کی ذہانت پر نہ اکبر اور جہاں گیر کی نظر گئی، نہ شاہ جہان نے انہیں منہ لگایا۔ اورنگ زیب صرف ایک بار کشمیر آیا، لیکن اس نے یہاں کے مرغزاروں، جھیلوں اور چشموں ہی کی سیر میں وقت نہیں گزارا، بلکہ یہاں کے لوگوں سے بھی ملا۔ شاعروں کا کلام سنا۔ عالموں فاضلوں سے باتیں کیں۔ برنیر فارسی زبان اور شاعری کا ایسا نقاد کہاں تھا؟ بادشاہ نے درباریوں سے کشمیریوں کی ذہانت کی تعریف کی ہو گی۔ درباریوں سے برنیر نے سنا اور لے اڑا۔ اورنگ زیب کشمیریوں کی ذہانت اور کاردانی کا بڑا مداح تھا۔ چنانچہ ایک رقعے میں لکھتا ہے۔ کشمیری ہادریں ملک نیستند کہ ما مقرر کنیم اس کے عہد میں پہلی مرتبہ کشمیریوں کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔ ان میں سے بعض لوگوں نے بڑی ترقی کی۔ چنانچہ زیرام بھان نام ایک کشمیری پنڈت نے محمد شاہ کے زمانے میں بادشاہ کی دیوانی کا عہدہ پایا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد خانہ جنگیوں کا جو دور شروع ہوا اس کا اثر کشمیر پر بھی پڑا۔ اور یہاں کا شیرازہ انتظام بھی بالکل درہم برہم ہو گیا۔ محمد شاہ کے عہد میں تو اب عبدالصمد خان نے پھر کشمیر میں امن قائم کر دیا۔ ان دنوں ملا شرف الدین جو مذہبی معاملات میں بڑا متشدد تھا۔ کشمیر کا شیخ الاسلام تھا۔ اس کا والد ملا عبدالنبی بھی شیعہ سنیوں کے جھگڑے میں مارا گیا تھا اور وہ خود بھی ان جھگڑوں میں پیش پیش نظر آتا تھا۔ عبدالصمد1؎ نے پہلے اسے قتل کروایا۔ اس کے علاوہ بہت سے اور لوگ بھی مارے گئے۔ اور کشمیر نے مذہبی جھگڑوں سے نجات پائی۔ لیکن مرکز حکومت ہی فتنوں سے خالی نہ ہوا، تو صوبوں میں کیسے امن قائم رہ سکتا ہے۔ عبدالصمد کو کشمیر سے گئے سترہ سال گزرے تھے کہ نادر شاہ اور اس کے جانشین ابدالی کے حملوں نے ہندوستان کی تیموری حکومت کی بساط الٹ کے رکھ دی۔ دلی لٹی۔ پنجاب ویران ہو گیا۔ ادھر جاٹوں اور سکھوں اور ادھر مرہٹوں نے لوٹ مچائی۔ اورصو بیدار اپنی اپنی جگہ خود مختاری کا علم لہرانے لگے۔ غرض اورنگ زیب کو وفات پائے تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی، کہ تیموری حکومت کاست لڑاہار 1؎ اس پر کسی کشمیری شاعر نے کہا ہکا آدصمد پھڑن زین نہ رد دکنی شرف نہ رد دکنی دین یعنی صمد گھوڑا دوڑاتا آتا۔ نہ کہیں شرف رہا نہ دین۔ ٹوٹ گیا اور موتی بکھر گئے انہیں میں یہ گوہر یک دانہ یعنی کشمیر بھی تھا جو اس لوٹ میں احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ آیا۔ مغلوں نے کشمیر پر ۱۵۵۷ء سے ۱۷۵۲ء تک کوئی دو سو برس حکومت کی یہ زمانہ کشمیریوں کے لئے بڑی فراغت اور خوشحالی کا زمانہ تھا۔ سری نگر سے ادھر بھمبر اور ادھر حسن ابدال تک سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ سرائیں بنیں۔ اور کشمیری سوداگر مال تجارت لے کے دور دور پہنچنے لگے۔ کشمیر کے لوگ صنعت و حرفت میں پہلے ہی یکتا تھے۔ لیکن قدر دان ہاتھ آئے تو ان کی ہنر مندی نے زیادہ جلا پائی۔ او رتیمور کی خوش مذاقی نے کشمیریوں کی صناعی کو چار چاند لگا دیئے۔ اکبر کے زمانے میں ٹو ڈرمل کی زیر نگرانی از سر نو زمین کی پیمائش اور اور لگان کی تشخیص کی گئی۔ مال گذاری نقد ادا کرنے کا رواج اس ملک میں شروع سے نہیں تھا۔ اس لئے مغلوں کی حکومت کے زمانے میں بھی بٹائی کا قاعدہ جاری رہا۔ البتہ بعض دوسرے محصول نقد ادا کئے جاتے تھے۔ ابو الفضل کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبری عہد میں کشمیر سے ۷ کروڑ ۴۶ لاکھ ۷۰ ہزار ۴ سو گیارہ دام وصول ہوتے تھے، جو آج کل کے سکے کے مطابق ۸ لاکھ ۶۶ ہزار ۷ سو روپے کے برابر ہوتے ہیں۔ آج کل کشمیریوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ سیاح ہیں، جو ہزاروں کی تعداد میں ہر سال کشمیر جاتے ہیں۔ سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تیموری فرمانرواؤں کے زمانے ہی میں شروع ہوا۔ بادشاہ خود سیاحت کے لئے اکثر کشمیر جاتا تھا۔ اس کے ساتھ امیروں، وزیروں، شہزادوں، بیگمات اور سپاہیوں کا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ ان کا سامان لانے لے جانے کے لئے ہزاروں مزدوروں کی ضرورت پڑتی تھی۔ اورنگ زیب کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے۔ بہت سا سامان ہاتھیوں اور خچروں پر لدا ہوا تھا۔ پھر بھی بار برداری کے لئے ۳۰ ہزار مزدوروں کی ضرورت پڑی۔ ان مزدوروں کو بھمبر سے سری نگر تک آج کل کے سکہ کے مطابق بیس روپے مزدوری دی گئی۔ سری نگر پہنچ کے بھی مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہو گی۔ کیونکہ بادشاہ اور امراء ایک جگہ نہیں رہتے تھے۔ آج سری نگر میں ہیں، تو کل ویر ناگ کی سیر ہو رہی ہے۔ پرسوں اچھا بل روانہ ہو گئے۔ا س طرح غریب لوگ خاصے روپے کما لیتے تھے۔ اس کے علاوہ کشتی بانوں، قالین بافوں، پیپر ماشی کا کام کرنے والوں شال بافوں، زرد دزوں، نجاروں وغیرہ کو بھی بہت آمدنی ہوتی تھی کیونکہ جو شخص کشمیر آتا تھا، خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا، اپنے دوستوں اور کنبہ کے لوگوں کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی تحفہ لے جاتا تھا۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ کشمیر میں ۵۷۰۰ کشتیاں ہیں اور ۷۴۰۰ مزار بادشاہ آتا تھا تو ان لوگوں کی چاندی ہو جاتی تھی۔ امراء اور بیگمات کو سیر کراتے تھے۔ اور اجرت کے علاوہ انعام پاتے تھے۔ کاریگروں کی تعداد معلوم نہیں، لیکن ان کی گنتی بھی ہزاروں تک پہنچتی ہو گی۔ یہ لوگ زیادہ تر گھروں پر کام کرتے تھے۔ مغلوں کے زمانے میں ان کی دکانیں بھی کھل گئیں۔ اور بازاروں میں لاکھوں روپے کا مال بکنے لگا۔ مغلوں کی سلطنت مٹنے سے کشمیریوں کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ آمدنی کے ذرائع کم ہو گئے۔ نہ وہ امن و امان رہا، نہ ویسے قدر دان لوگ۔ ان کی نظریں پیر پنجال کے دروں پر لگی رہتی تھیں جن سے اتر کر اکبر آیا۔ جہانگیر آیا، شاہ جہان اور اورنگ زیب آئے۔ شہزادے اور امراء آئے شہزادیاں اور امراء کی خواتین آئیں۔ وہ نگاہ حسرت سے ان کے راستوں کو تکتے تھے، جن سے انہوں نے بادشاہوں، شہزادوں او ران کے امیروں وزیروں کی سواریاں گزرتی دیکھیں۔ پٹھان جنہیں ان کی جانشینی کا فخر حاصل ہوا، اکھڑ لوگ تھے۔ جن کی عمریں دھادوں میں گزر گئی تھیں۔ وہ ترک اور ایرانی امراء کا سا شستہ مذاق اور ان کی سی نفاست پسندی کہاں سے لاتے؟ انہیں آبشاروں کے شور، ندیوں کی روانی، پرندوں کے نغموں، سبزے کی لہک اور درختوں کے جھومنے سے زیادہ مار دھاڑ میں لطف آتا تھا۔ اس لئے ان کی حکومت قائم ہونے کے بعد کشمیریوں کی معاش کا ایک بہت بڑا ذریعہ جاتا رہا۔ سنسکرت بڈ شاہ کے زمانے تک کشمیری ہندوؤں کی علمی زبان بنی رہی تھی۔ لیکن مغلوں کے زمانے میں فارسی نے آہستہ آہستہ اس کی جگہ لینی شروع کی۔ ہندوؤں نے بڈ شاہ کے زمانے میں فارسی کتابوں کو پہلی دفعہ ہاتھ لگایا تھا۔ مغلوں کے زمانے میں انہوں نے بڑی ترقی کی اور بڑی روانی سے فارسی نظم و نثر لکھنے لگے۔ کشمیری مسلمانوں میں بھی فارسی ادب اور شاعری کا ایک عام مذاق پیدا ہو گیا۔ دیکھو ملا احمد نے جو بڈ شاہ کے دربار کا ملک الشعراء تھا، راج ترنگنی اور مہا بھارت کا جو ترجمہ کیا ہے، اسے ملا محسن فانی کی تصنیف دبستان مذاہب سے بلحاظ زبان کوئی نسبت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر نے اپنے عہد حکومت میں نئے سرے سے ان کتابوں کا ترجمہ کرایا۔ کشمیریوں کا پرانا فن تعمیر ہندوؤں کے قدیم فن تعمیر سے مختلف ہے۔ ہندو ان گھڑ پتھروں کے انبا رکھڑے کرتے جاتے تھے۔ جنییوں کے مندروں میں ستون ہی ستون نظر آتے ہیں۔جو ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ لیکن کشمیری ہندوؤں کے انداز تعمیر میں جو حسن اور تناسب ہے، اسے دیکھ کے اکثر ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ کشمیر کی پرانی عمارتوں پر یونانی طرز تعمیر کا بڑا گہرا اثر پڑا ہے۔ اور بڈ شاہ کے عہد کی عمارتیں پرانے کشمیری اور ایرانی طرز تعمیر کے لطیف امتزاج کا نمونہ ہیں۔ لیکن مغلوں نے کشمیر میں جو عمارتیں بنوائیں۔ ان کی نفاست اور خوشنمائی دلی اور آگرہ کی عمارتوں کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔ ٭٭٭ پانچواں باب افغان یوں تو نادر شاہ ایرانی ہی کے حملے نے تیموری حکومت کی جڑیں کھوکھلی کر دی تھیں۔ احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں نے مغلوں کی رہی سہی ساکھ بھی مٹا دی۔ کابل کا صوبہ پہلے ہی مرکز سلطنت سے کٹ چکا تھا۔ ۱۷۵۲ء میں پنجاب ابدالی کے ہاتھ آیا اور کچھ دنوں کے بعد افغانوں نے بڑی آسانی سے کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا۔ ابدالی کے حملوں پر غور کرو تو محمود اور تیمور کے بگٹٹ دھاوے یاد آتے ہیں۔ پنجاب کو روندتا ہوا دلی تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ سکھوں کی متحدہ فوج کو شکست دیتا ہے۔ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کا زور اس طرح توڑتا ہے کہ ان میں پھر سر اٹھانے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ لیکن اس کی ان یلغاروں کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ اس نے تیموری حکومت کو کمزور کر کے پہلے مرہٹوں کو شکست دے کر انگریزوں اور سکھوں کے لئے راستہ صاف کر دیا۔ پنجاب تو افغانوں کے قبضے سے جلد نکل گیا، لیکن کشمیر پر کوئی ۶۷ برس ان کا تسلط رہا۔ اور اس عرصے میں کوئی ۲۸ افغان صوبہ داروں نے اس سر زمین پر حکومت کی۔ اس زمانے میں کشمیر کے لوگوں پر سخت آفتیں آئیں۔ ہندو زیادہ لٹے کیونکہ وہ مسلمانوں سے زیادہ دولت مند تھے۔ مسلمان زیادہ پٹے اور بیگار میں پکڑ لئے گئے کیونکہ ان میں رشوت دینے کی استطاعت نہیں تھی۔ کشمیر کے ان ۲۸ صوبہ داروں میں صرف ایک دو نام ایسے نظر آتے ہیں جن کا عہد حکومت کسی قدر بہتر تھا۔ ان کے حالات لکھتے وقت کشمیر کے وقائع نگار کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قلم کا تھکا ہارا مسافر تپتے ریگستانوں میں سے گزرتا ہوا کسی نخلستان میں جا پہنچا۔ ان میں خرم خان اپنی نیک دلی اور خدا ترسی کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہے۔ کشمیر میں افغانوں کے عہد کے متعلق بہت سے اشعار اور کہاوتیں مشہور ہیں۔ مثلاً ایک کشمیری شاعر کہتا ہے۔ خواست حق کیں زمین مینا رنگ چوں دل نے شور دز افغاں تنگ کرد بروے مسلط افغاں را باغ جمشید داد دیواں را ایک اور شاعر لکھتا ہے پرسیدم از خرابی گلشن زباغباں افغاں کشیدہ گفت کہ افغاں خراب کرد آزاد خان جو ۱۷۸۳ء میں صوبہ دار مقرر ہوا، بڑا ظالم اور حریص شخص تھا۔ اس نے ایک دفعہ پونچھ پر حملہ کیا اور پونچھ کے شہر اور اس کے گرد و پیش کے علاقے میں سات دن قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ آزاد خان گیا تو مدد خان آیا، جو ظلم و ستم میں اس سے کم نہیں تھا۔ اس پر کسی ستم ظریف نے کہا ’’ ظلم آزاد را رسید مدد‘‘ مغلوں کے زمانے میں کشمیر کی آمدنی اٹھارہ انیس لاکھ روپے سے زیادہ نہیں تھی اور مغل بادشاہ آتے تھے تو اس سے زیادہ خرچ کر جاتے تھے۔ لیکن کشمیر کے ایک اور گورنر عبداللہ خان نے چھ مہینے میں ایک کروڑ روپیہ جمع کیا یہ تو وہ رقم ہے جو اس کے حصے میں آئی، جو روپیہ کشمیر کے خراج کے نام سے کابل کے خزانہ میں جمع ہوا وہ خدا جانے کتنا ہو گا؟ ادھر کشمیر کا یہ حال تھا، ادھر مرکز سلطنت میں بڑے اتار چڑھاؤ ہو رہے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد اگرچہ اس کے بیٹے تیمور اور پوتے شاہ زمان نے کچھ دنوں سلطنت کو سنبھالے رکھا، لیکن سرکش افغان جن کی عمریں خانہ جنگیوں میں گزر گئی تھیں، کب نچلے بیٹھ سکتے تھے۔ ان کی بغاوتوں نے ابدالی کے جانشینوں کو اتنی مہلت ہی نہ دی کہ کشمیر اور پنجاب کی طرف توجہ کرتے۔ شاہ زمان نے پنجاب پر دو حملے کئے۔ دوسرے حملے میں لاہور میں قبضہ کر کے وہ جنوب کی طرف بڑھا ہی تھا، اتنے میں کابل سے خبر آئی کہ اس کے بھائی شاہ محمو دنے بغاوت کر دی ہے۔ مجبوراً وطن کا رخ کیا لیکن اقبال ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ پنجاب سے گئے سال بھر بھی ہونے نہ پایا تھا کہ محمود نے بھائی کو تخت سے اتار کے اندھا رک دیا، اور خود حکومت پر قبضہ کر لیا۔ تین سال گزرے تھے کہ تیمور کا چھوٹا بیٹا شاہ شجاع، سرداروں کی مدد سے محمود کو معزول کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا۔ لیکن اسے بھی زیادہ دیر حکومت کرنے کا موقع نہ ملا۔ محمود بارک زئی قبیلے کے سرداروں کی مدد کا سہارا پا کے پھر اٹھا اور شاہ شجاع سے حکومت چھین لی۔ شاہ شجاع نے اس خیال سے پنجاب کا رخ کیا کہ سکھوں اور انگریزوں کی مدد سے پھر تخت و تاج حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ شاہ زمان بھی پنجاب آیا لیکن وہ بیچارا اندھا اور بے یار و مددگار تھا۔ جب دیکھا کہ جن لوگوں سے بڑی بڑی امیدیں تھی، ان سب نے آنکھیں پھیر لی ہیں، تو چند جان نثار رفیقوں کے ساتھ وسط ایشیا کا قصد کیا۔ شاہ شجاع نے بھی اگرچہ بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ لیکن سلطنت کی ہوس نے پیچھا نہ چھوڑا۔ دو بار پشاور پر قبضہ کیا لیکن دوسری دفعہ اٹک کے صوبہ دار جہاں داد خان نے اسے گرفتار کر کے کشمیر بھیج دیا۔ جہاں وہ سال بھر قید رہا۔ اس زمانے میں کشمیر پر بھی کابل کی مرکزی حکومت کی گرفت بہت ڈھیلی ہو چکی تھی۔ افغان صوبہ دار جب موقع پاتے خود سر ہو جاتے اور خراج بھیجنا بند کر دیتے تھے۔ جن دنوں شاہ شجاع گرفتار ہوا عطا محمد خان کشمیر کا صوبہ دار تھا جو کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ شاہ محمود کے وزیر فتح خان نے جو بارک زئی قبیلے کا سردار تھا، اور وزارت کے پردے میں بادشاہت کرتا تھا، اسے سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اور کشمیر پر قبضہ کر کے اپنے بھائی عظیم خان کو یہاں کا صوبہ دار مقرر کر دیا۔ فتح خان نے اس موقع پر بڑی عالی حوصلگی دکھائی یعنی شاہ شجاع کو جو قید میں تھا رہا کر دیا۔ شجاع نے کچھ عرصے کے بعد کشتواڑ کے راجہ کی مدد سے کشمیر پر فوجیں بڑھائیں لیکن شکست کھائی اور انگریزوں کے ٹکروں 1؎پر جا پڑا۔ 1؎ شاہ شجاع کو پہلے اٹھارہ روپے سالانہ ملتے تھے، پھر پچاس ہزار ملنے لگے۔ ان دنوں پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سکھوں کے چھوٹے چھوٹے جتھوں کو توڑ کے پنجاب میں ایک طاقتور سلطنت قائم کر لی تھی اور اس کی نظریں اب کشمیر پر پڑ رہی تھیں۔ فتح خان نے جب کشمیر پر چڑھائی کی تو مہاراجہ سے یہ طے ہو گیا تھا کہ کشمیر کی لوٹ میں دونوں حصہ دار ہوں گے، لیکن سردی کے دن تھے۔ راستے برف سے اٹے پڑے تھے، رنجیت سنگھ نے جو فوج افغانوں کی مدد کے لئے بھیجی تھی وہ گرتی پڑتی کشمیر پہنچ تو گئی، لیکن اس وقت جب لڑائی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب رنجیت سنگھ نے فتح خان کو وعدہ یاد دلایا تو اس نے یہ کہہ کے صاف جواب دے دیا کہ کشمیر کو افغانوں نے فتح کیا ہے۔ اس لئے وہ افغانوں ہی کے قبضے میں رہے گا۔ رنجیت سنگھ کی فوجیں اگر کشمیر پہلے پہنچ جاتیں، تو وہ بھی یہی کرتا جو فتح خان نے کیا تھا۔ پھر بھی اسے بہت افسوس ہوا اور وہ کشمیر کو فتح کرنے کی تیاریاں کرنے لگا۔ رنجیت سنگھ نے پہلے کشمیر کے آس پاس کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کیا۔ پھر کشمیر پر فوج بڑھائی۔ حملہ آور فوج دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک حصہ بہرام گلہ کے راستے بڑھا اور خود مہاراجہ نے پونچھ کا راستہ اختیار کیا۔ پونچھ میں بڑے زور کی لڑائی ہوئی۔ آخر یہاں کے حاکم روح اللہ خان نے شکست کھائی اور بھاگ کے محمد عظیم خان کے پاس چلا گیا۔ اب دونوں فوجیں بڑھیں۔ ایک ہر اول دستہ شوپیاں تک جا پہنچا لیکن شکست کھا کے پیچھے ہٹا۔ محمد عظیم خان اسی موقع کے انتظار میں تھا، پٹھانوں کا لشکر لے کے سکھوں پر اس زور کا حملہ کیا کہ ان کے قدم راجوری سے ادھر کہیں نہ جم سکے۔ رنجیت سنگھ اس شکست کا بدلہ لینے کے لئے موقع کا منتظر تھا۔ کہ ایک شخص پنڈت ببر بردر جو کشمیر کے سر بر آوردہ لوگوں میں تھا، بھاگ کے لاہور پہنچا ۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ فتح خان ہرات میں مارا گیا ہے، اور محمد عظیم خان اپنے چھوٹے بھائی جبار خان کو اپنی جگہ چھوڑ کے بہت بڑی فوج کے ساتھ ہرات روانہ ہو گیا ہے ایک تو پنڈت پیر بر نے کشمیر کی دولت اور زرخیزی کے ایسے نقشے کھینچے تھے کہ مہاراجہ اس سر زمین پر حملہ کرنے کے لئے بے تاب ہو رہا تھا۔ پھر جب سنا کہ کشمیر میں تھوڑی سی فوج رہ گئی ہے تو فوراً حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ گرمیوں کے دن تھے کہ کشمیر پر راجوری کے راستے چڑھائی شروع ہوئی۔ مصر دیوان چند سر لشکر تھا۔ اس کے ساتھ پنڈر بیر بردر بھی تھا جو راستے کی مشکلات اور ان پر قابو پانے کے طریقے بتاتا جاتا تھا۔ جولائی ۱۸۱۹ء میں یہ فوج پیر پنجال کے پہاڑوں کو چیر کے وادی کشمیر میں داخل ہوئی کچھ عرصے میں دس ہزار سپاہیوں کی ایک کمک فوج میں آ پہنچی۔ جبار خان کے پاس مل ملا کے کل بارہ ہزار سپاہی تھے۔ پھر بھی اس نے بڑی ہمت سے مقابلہ کیا اور شروع شروع میں اس زور کا حملہ کیا کہ سکھوں کی فوج کو پسپا کر کے ان کی دو توپیں چھین لیں۔ لیکن انجام کار شکست کھائی اور کشمیر پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ کشمیر پر افغانوں کی حکومت کا زمانہ بڑی بد امنی اور ہل چل کا زمانہ ہے۔ انہیں اس سے پہلے اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اس لئے نہ وہ سلطنت کے آداب سے واقف تھے، نہ قانون اور آئین سے آگاہ۔ ان کی کائنات چند پرانے اصول تھے، جو افغان قبیلوں میں صدیوں سے چلے آتے ہیں۔ لیکن یہ اصول ایک قبیلے کے لوگوں میں اتحاد رکھنے کے لئے موزوں ہوں تو ہوں سلطنت اور فرمانفرمائی کے لئے موزوں نہیں تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تیموری فرمانروا انتظام ملکی کے قاعدوں اور اصولوں کا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے تھے، لیکن افغانوں کو آپس کی رقابتیں اور دشمنیوں سے اتنی مہلت ہی نہیں ملی کہ کبھی ان پر غور کر سکتے۔ وہ کشمیر کو لوٹنے کے لئے آتے تھے، اور جب خاصی رقم جمع کر لیتے تھے تو واپس چلے جاتے تھے۔ کشمیر کے ایک صوبہ دار عبداللہ خان کا حال پہلے آ چکا ہے۔ محمد عظیم خان جس کے ہاتھوں رنجیت سنگھ نے شکست کھائی تھی، جب کشمیر سے چلا تو چار کروڑ روپے کی نقدی اور سامان لے گیا۔ کشمیر کے لوگوں کو پٹھانوں کے ظلم کا احساس اس لئے بڑی شدت سے ہوا کہ پٹھانوں کے آنے سے پہلے ان پر جو زمانہ گزر چکا تھا، وہ بڑی خوشحالی اور امن کا زمانہ تھا۔ شاہان دہلی کی طرف سے جگہ جگہ پرچہ نویس مقرر تھے۔ جو انہیں حالات کی اطلاع دیتے رہتے تھے اس لئے کسی اہل کار کو جرأت نہیں پڑتی تھی کہ رعایا کو تنگ کرے۔ اس کے علاوہ بادشاہ شہزادے اور امراء ہر سال کشمیر آتے تھے اور لاکھوں کا مال خرید کے لے جاتے تھے۔ پٹھانوں کے زمانے میں یہ سب باتیں خواب و خیال ہو کے رہ گئیں۔ پٹھان اکھڑ، بے تدبیر اور حریص ضرور تھے۔ لیکن ان پر مذہبی تعصب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ چنانچہ ان کے زمانے میں بھی بعض ہندو بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے۔ مثلاً کشمیر کے ایک صوبہ دار حاجی کریم داد خان کا دیوان ایک کشمیری پنڈت دلا رام نام تھا، جو سارے سیاہ و سپید کا مالک تھا ایک اور کشمیری پنڈت نند رام ٹکو نے بہت بڑی عزت پائی یعنی شاہ زمان کے عہد حکومت میں کابل کی دیوانی کے عہدہ پر جا پہنچا۔ ٭٭٭ چھٹا باب سکھ جن دنوں دلی کی حکومت پر زوال آیا، سکھ بارہ چھوٹے بڑے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، جنہیں بارہ مسلیں کہتے تھے۔یہ لوگ پنجاب بھر میں مار دھاڑ کرتے پھرتے ہیں اور کبھی کبھی تو بڑھ کے دلی کے آس پاس کے علاقے پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے تھے۔ پنجاب کے صوبہ دار نواب معین الملک عرف میر منو نے ان کا زور توڑنے کی بڑی کوششیں کیں۔ احمد شاہ ابدالی نے سرہند میں ان کی متحدہ فوج کو جس کی تعداد پچاس ہزار کے قریب تھی، ایسی شکست دی کہ سکھوں کو پھر دو بدو ہو کے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پھر بھی ان کی لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ میں کچھ ایسا فرق نہ آیا۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہوا کہ سکھ جب ابدالی کے حملے کی خبر سنتے، جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپتے، وہ چلا جاتا تو پھر لوٹ مار شروع کر دیتے تھے۔ رنجیت سنگھ سکھوں کی ایک مسل سکر چکیہ نام کے سردار مہاں سنگھ کا بیٹا تھا۔ باپ مرا تو بارہ برس کی عمر تھی اور مسل کے سارے کاروبار پر اس کی ماں سدا کور چھائی ہوئی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ سارے اختیارات اپنے قبضہ میں کر لئے اور پھر اپنا اقتدار بڑھانے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ اب تک سکر چکیہ مسل کے اثر کا دائرہ گوجرانوالہ کی چار دیواری تک محدود تھا۔ رنجیت سنگھ نے پہلے آس پاس کے چھوٹے چھوٹے سرداروں کو نیچا دکھایا پھر لاہور پر قبضہ کر کے سکھوں کے جتھوں کو توڑا اور چند برس کے عرصہ میں اپنی لیاقت اور ہمت کی بدولت سارے پنجاب کا مالک بن بیٹھا۔ موت کے وقت اس کی حکومت ایک طرف درۂ خیبر سے دریائے ستلج اور دوسری جانب کشمیر کے شمالی گوشے سے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا شمار اپنے زمانے کے بڑے بڑے لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ پھر بھی اس کی معلومات کا دائرہ بڑا وسیع تھا۔ سپاہیانہ اوصاف کے ساتھ ساتھ قدرت نے اسے ذہانت کی دولت بھی بخشی تھی۔ اس کی فوج اعلیٰ درجے کے قواعد دان تھی اور اس کی تربیت کے لئے فرانسیسی اور اطالوی افسر مقرر تھے۔ لیکن اس میں بعض نقص بھی تھے جنہوں نے اسے سخت نقصان پہنچایا۔ اس کی طبیعت میں حرص بہت تھی، جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی تھی۔ خزانے میں ہر وقت بے شمار روپے موجود رہتے تھے۔ پھر بھی فوج کو سال سال بھر بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کی تنخواہیں نہیں ملتی تھیں۔ اکثر بڑے بڑے عہدہ داروں کا بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ یہ لوگ لوٹ مار کر کسر پوری کر لیتے تھے۔ رنجیت سنگھ کی صورت شکل اچھی نہیں تھی۔ بچپن میں چیک سے اس کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ بہت بدنما ہو گیا تھا۔ پھر بھی جو شخص اس سے ملتا تھا، اس کی ذہانت اور فراست سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ ملک کے اکثر حصوں خصوصاً پنجاب میں خاصا امن تھا اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لیکن اہل کاروں کے ظلم کا کیا علاج؟ وہ پکڑے بھی جاتے تھے تو اپنی حرام کی کمائی کا ایک حصہ مہاراجہ کی نذر کر کے رہائی حاصل کر لیتے تھے۔ اس زمانے میں اخلاق کے بندھن بہت ڈھیلے ہو گئے تھے۔ لوگوں کی طبیعتوں میں ایک خاص قسم کی بے قاعدگی آ گئی تھی۔ بڑے بڑے سرداروں کی بیویاں غیر مردوں سے علانیہ تعلق پیدا کر لیتی تھیں، اور کسی کو اس کی پرواہ تک نہیں ہوتی تھی۔ رنجیت سنگھ نے ہوش سنبھالا تو اسی قسم کے لوگوں سے اپنے آپ کو گھرا ہوا پایا۔ اس کی ماں سدا کور جسے جوانی ہی میں رنڈاپے کا دکھ اٹھانا پڑا تھا، گوجرانوالہ میں اپنی عیش پسندی اور طبیعت کی رنگینی کی وجہ سے بہت بدنام تھی۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ نے اسے زہر دے کے مروا ڈالا تھا۔ اسے اپنی رانیوں کے بارے میں بھی اسی قسم کے شبہات تھے، اور اپنی اولاد میں سے وہ صرف کھڑک سنگھ کو اپنا حقیقی بیٹا سمجھتا تھا۔ جب ہر طرف یہ رنگ اچھل رہا ہو تو رنجیت سنگھ کا دامن اس سے کیونکر محفوظ رہ سکتا تھا۔ لاہور کی ایک طوائف موراں1 ؎ سے اس کے تعلقات کی داستانیں لاہور میں آج بھی مشہور ہیں۔ ملک کے گوشے گوشے سے حسین عورتیں منتخب کر کے مہاراجہ کو تحفے کے طور پر بھیجی جاتی تھیں۔ اس میں کشمیر کا بڑا حصہ تھا۔ صوبہ دار خراج بھیجتا تھا تو اس میں شالوں اور قالینوں کے ساتھ ساتھ حسین لڑکیاں بھی ہوتی تھیں۔ مہاراجہ نے ان کافر اداؤں کی پوری پلٹن مرتب کر رکھی تھی۔ جو عیش و نشاط کی محفلوں میں حاضر رہتی تھیں۔ مہاراجہ شراب بھی بہت پیتا تھا، اور کبھی کبھی تو جوش کے عالم میں ہاتھی پر سوار ہو کے سارے سامان طرب سمیت محل سے باہر نکل آتا تھا لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ عیش و طرب میں پڑ کے مہمات ملکی کو بھول گیا ہو۔ 1؎ ظفر نامہ رنجیت سنگھ کے مصنف دیوان امرناتھ نے جو رنجیت سنگھ کا خاص وقائع نگار ہے۔ موراں اور گل بہار بیگم سے رنجیت سنگھ کے عشق کی داستان بیان کرنے میں انشاء پردازی کا زور دکھایا ہے اور ان دونوں کے لئے الگ الگ باب باندھے ہیں۔ آسبورن صاحب نے اپنے روزنامچے میں وہ کشمیری لڑکیوں صاحبو اور کنول کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے کنول رنجیت سنگھ کی خاص منظور نظر تھی۔ رنجیت سنگھ بڑا وشیع مشرب شخص تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کبھی کبھی اسے متعصب سکھوں سے دبنا بھی پڑا ہے لیکن اس سے جہاں تک بن پڑا اس نے ان لوگوں کا زور گھٹانے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس نے سکھوں کے توڑ پر ڈوگروں کو بڑھایا۔ بہت سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بڑے بڑے عہدوں پر مقرر کیا اور اکالیوں کو جو مذہبی جوش میں بڑی ناگوار حرکتیں کر گزرتے تھے کو ایسی سزائیں دیں کہ انہیں سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں سب سے زیادہ مظلوم کشمیر کا صوبہ تھا۔ سکھوں کی حکومت کے عام دستور کے مطابق کشمیر صوبہ داروں کو اجارے پردے دیا جاتا تھا۔ وہ جتنی رقم شاہی خزانے میں داخل کرتے، اس سے زیادہ اپنے لیے رکھ لیتے تھے۔ کبھی کبھی صوبہ دار کسی دوسرے شخص کو ٹھیکہ دے دیتا۔ وہ جس طریقے سے چاہتا، روپیہ وصول کرتا، کوئی داد فریاد نہیں تھی۔ چنانچہ کشمیر کی فتح کے بعد یہ علاقہ پنڈت بیر بر کو ۵۳ لاکھ روپے پر دے دیا گیا۔ شال داغ کے دس لاکھ روپے اور بعض دوسرے محصول اس کے علاوہ تھے۔ اس پنڈت نے کشمیریوں کو خوب لوٹا اور جتنا روپیہ مقرر ہوا تھا اس کے علاوہ بہت سے تحفے تحائف بھی نذر گزارے۔ کشمیر کو سکھوں کے قبضے میں آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ وہاں کے صوبہ دار مصر دیوان چند کے ظلم و ستم کے قصے دربار میں پہنچنے لگے۔ مہاراجہ نے اسے بلوا بھیجا۔ اور اس کی جگہ کشمیر کی صوبہ داری دیوان مونی رام کو مرحمت ہوئی مہاراجہ مصر دیوان چند پر ناراض تو بہت تھا۔ لیکن جب اس نے پچیس لاکھ روپے کشمیر کے خراج کے نام سے اور بہت سے تحفے جو کشمیر کے سر بر آوردہ لوگوں سے وصول کئے گئے تھے پیش کئے تو رنجیت سنگھ کا سارا غصہ کافور ہو گیا۔ دیوان کو خلعت و انعام ملا اور اس کے ساتھ ساتھ فتح جنگ کا خطاب بھی مرحمت ہوا۔ لیکن صوبہ داروں کے ادل بدل سے کیا ہوتا ہے۔ ظلم و ستم کی تلوار جو بے نیام ہو چکی تھی، برابر چلتی رہی۔ مذہبی آزادی مفقود ہو گئی۔ اذان دینا ممنوع قرار پایا۔ مسجدوں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ ان میں سری نگر کی جامع مسجد بھی تھی جو سلطان زین العابدین کے عہد کی یادگار ہے۔ مال تو خیر لٹا سو لٹا، سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں نہ جانیں محفوظ تھیں۔ نہ عزت و آبرو۔ جو محصول پہلے سے چلے آتے تھے، ان کی شرح میں اضافہ ہوا او ربہت سے نئے محصول بھی لگائے گئے۔ ہر شال کی قیمت پر ۲۶ فیصدی محصول مقرر ہوا جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے شال بافی کا پیشہ ہی ترک کر دیا۔ ان دنوں عہدے نیلام ہوتے تھے، جو شخص زیادہ بولی دیتا اسے تقرری کا پروانہ مل جاتا۔ بعض عہدوں کی خاص خاص قیمتیں مقرر تھیں، جو شخص تیس ہزار روپے نذر کرتا اسے کوتوال بنا دیا جاتا تھا۔ اگر کسی سکھ کے ہاتھ سے کوئی شخص مارا جاتا تو قاتل کو صرف ۱۶ روپے خوں بہار کے طور پر دینے پڑتے تھے۔ مقتول ہندو ہوتا تھا تو اس کے وارثوں کو اس میں سے چار روپے ملتے تھے، اور مسلمان ہوتا تو دو روپے۔ باقی رقم خزانے میں داخل کر دی جاتی۔ ہری سنگھ نلوہ کی صوبہ داری کے زمانے میں تو سکھوں کا ظلم و ستم انتہا کو پہنچ گیا۔ نلوہ بڑا بد مزاج اور متعصب تھا۔ اور اکثر سرکاری اہل کار بھی اس کی بد مزاجی کے شاکی تھے۔ یوں تو اکثر صوبہ دار اور ان کے اہلکار عیش پرست تھے۔ لیکن دیوان کرپا رام جو ۱۸۲۷ء میں صوبہ دار مقرر ہوا طرب و نشاط کی بزم آرائیوں میں ان سب سے بازی لے گیا تھا۔ وہ ہانجی عورتوں کا دلدادہ تھا۔ اور انہیں کی صحبت میں اپنا وقت گزارتا تھا۔ ڈل کی سیر کا بھی اسے بہت شوق تھا۔ وہ سیر کو جب نکلتا تھا تو یہ کیفیت نظر آتی تھی کہ پارام کشتی میں بیٹھا ہے۔ جوان جوان ہانجنیں سرخ جوڑے پہنے ہاتھوں میں گھونگھر و باندھے چپو چلا رہی ہیں اور کرپا رام ان کے حسن و جوانی اور عالم آب کا لطف اٹھا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگوں نے اس کا نام کرپا شروئیں رکھ چھوڑا تھا۔ چپو کے چلنے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اسے شروئیں کہتے ہیں۔ کرپارام کے عہد حکومت میں زلزلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کوئی تین مہینے کشمیر میں زلزلے آتے رہے۔ جن سے ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس بلا سے نجات ہوئی تو ہیضہ پھوٹ پڑا جس نے اس سرزمین میں بڑی تباہی مچائی۔ کچھ عرصہ گزرا تھا کہ قحط نے آفت مچائی اور بہت سے لوگ بھاگ کے پنجاب چلے گئے۔ کہتے ہیں کرپارام کے زمانے سے پہلے کشمیر میں کوے نہیں ہوتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں جو ظلم و ستم ہو رہا تھا، اس کا رنجیت سنگھ کو بھی ملال تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ دربار میں کشمیر کی ویرانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانے میں وہاں پچاس ہزار کاریگر تھے۔ اب صرف پانچ ہزار رہ گئے ہیں۔ لیکن مہاراجہ کی طبیعت کا عجب حال تھا۔ لالچ اس کی اکثر خوبیوں کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیتا تھا اور جب حرص کی آنکھیں کھل جاتی تھیں تو عدل و انصاف آنکھیں بند کر لیتے تھے۔ سچ پوچھئے تو رنجیت سنگھ کی بہت سی خوبیوں پر اس کے اسی ایک نقص نے پانی پھیر دیا۔ کنور شیر سنگھ بھی کچھ دنوں کشمیر کا حاکم رہا۔ لیکن اس کے زمانے میں بڑی بڑی بدعنوانیاں ہوئیں۔ کنور جب صوبہ دار مقرر ہو کے بارہ مولا پہنچا تو جنوری کا مہینہ تھا، دریائے جہلم جما ہوا تھا، ہر طرف برف ہی برف نظر آتی تھی، حکم دیا کہ ہم دریا کے راستے نگری جائیں گے۔ مصاحبوں نے سمجھایا کہ سفر دریا کا یہ کونسا موسم ہے۔ لیکن شیر سنگھ جو شہزادگی اور جوانی کے نشے میں بدمست تھا، اپنی بات پر اڑا رہا۔ ہزاروں کسان اور ملاح بیگار میں پکڑے گئے برف کو کاٹ کے دریا میں راستہ بنایا گیا۔ اور کنور صاحب کشتی میں بیٹھ کے روانہ ہوئے کشمیریوں کو اسی بات سے نئے حاکم کی طبیعت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ سری نگر پہنچ کے اس نے ملکی معاملات اپنے دیوان بسا کھا سنگھ کے حوالے کر دیئے اور عیش و عشرت میں ایسا غرق ہوا کہ کسی بات کا ہوش نہ رہا۔ بسا کھا سنگھ تو ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔ رعایا کو لوٹنا شروع کر دیا۔ مہاراجہ کو خبر ملی تو اسے واپس بلا کے اس کی جگہ شیخ غلام محی الدین کو کنور کا نائب مقرر کیا پھر خود کشمیر کا ارادہ کیا۔ اور جمعدار خوشحال سنگھ کو جو مہاراجہ کا منہ چڑھا مصاحب تھا، سفر کے انتظام کے لئے روانہ کیا گیا۔ مہاراجہ ابھی پونچھ کے پہاڑوں میں سیر و شکار کے مزے لوٹ رہا تھا کہ جمعدار خوشحال سنگھ کے ظلم کی خبریں آنی شروع ہوئیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کشمیر میں ایک تو اب کے زور کی برف باری ہوئی ہے، دوسرے جمعدار نے ایسا لوٹا ہے کہ بڑے بڑے دولت مند لوگ نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔ قحط کی شدت ہے لوگ بھاگ بھاگ کے پنجاب جا رہے ہیں۔ سوچا اس حالت میں کشمیر جانا بے سود ہے۔ یہیں سے واپسی کا قصد کیا۔ لاہور پہنچا تھا کہ اتنے میں خوشحال سنگھ کی عرضی آئی جس میں لکھا تھا کہ بہت سا روپیہ اور سامان لے کے حاضر ہو رہا ہوں۔ خوشحال سنگھ تین مہینے کشمیر میں رہا لیکن ان تین مہینوں کی مدت میں کشمیر بالکل ویران ہو گیا۔ پنجاب، دلی اور اودھ میں کشمیریوں کے جو خاندان نظر آتے ہیں، ان میں سے اکثر اسی زمانے کے بھاگے ہوئے ہیں۔ جمعدار خوشحال سنگھ نے ۷ لاکھ ۲۶ ہزار روپے نقد اور سات لاکھ روپے کے سامان کے علاوہ بہت سے اعلیٰ نسل کے گھوڑے مہاراجہ کی خدمت میں پیش کئے اس لئے وہ صاف بچ گیا۔ البتہ جو کار دار اس ظلم میں اس کے شریک تھے، ان پر عتاب ہوا۔ آخر انہوں نے بھی نذرانہ دے کے رہائی پائی۔ دیکھئے خوشحال سنگھ نہ کشمیر کا صوبہ دار تھا، نہ صوبہ دار کا نائب بلکہ مہاراجہ نے اسے صرف انتظام سفر کے لئے بھیجا تھا، اس نے اتنا لوٹا تو نہ جانے صوبہ دار، اس کا دیوان اور پیشکار لوگوں کو کتنا لوٹتے ہوں گے۔ مہاراجہ نے کچھ عرصے کے بعد شیر سنگھ کو بھی بلوا لیا اور اس کی جگہ کرنیل میاں سنگھ کو صوبہ دار مقرر کر کے بھیجا۔ میاں سنگھ بڑا بہادر شخص تھا۔ ایک لڑائی میں سارا جسم فگار ہو گیا۔ سارے زخم گنے گئے تو ۲۷ نکلے اس بہادری کے ساتھ ساتھ وہ بات کا دھنی تھا اور دل کا نیک تھا اور کشمیر پر اس نے جس عدل و انصاف سے حکومت کی ہے، اس کی مثال سکھوں کے پورے عہد حکومت میں نہیں ملتی۔ وہ جب کشمیر آیا تو ملک میں قحط پھیلا ہوا تھا۔ اس نے غلہ کے انتظام کی طرف توجہ کی۔ جن لوگوں نے اناج جمع کر رکھا تھا، ان سے اناج نکلوایا۔ اور اسے رعایا کے ہاتھ مناسب قیمت پر بیچنے کا بندوبست کیا۔ اناج کی نرخ بندی کی نئے پل تعمیر کرائے۔ بندوں اور نہروں کی مرمت کرائی اور ملک کو بیس پر گنوں میں تقسیم کر کے ہر پرگنے میں تھانہ دار مقرر کئے۔ رنجیت سنگھ کے بعد اس کے خاندان میں صرف سات برس حکومت چلی۔ لیکن یہ صرف نام کی حکومت تھی۔ دربار ڈوگروں اور سندھانوالہ سرداروں کی باہمی رقابتوں کا میدان بنا ہوا تھا کبھی ایک فریق بازی لے جاتا تھا۔ کبھی دوسرا آخر فوج ایسی خود سر ہوئی کہ یہ لو گ بھی بے بس ہو کے رہ گئے۔ رنجیت سنگھ کے جانشین کھڑک سنگھ نے سال بھر حکومت کر کے انتقال کیا۔ اس کی زندگی ہی میں اس کے بیٹے نونہال سنگھ نے ڈوگروں کی مدد سے سلطنت کے کاروبار پر قبضہ کر رکھا تھا۔ لیکن جس دن وہ مرا اسی دن نونہال سنگھ بھی مارا گیا۔ اب کھڑک سنگھ کی بیوہ چندر کور نے حکومت سنبھالی کیونکہ ماجھا کے سکھوں کے پرانے دستور کے مطابق وہی سلطنت کی جائز وارث تھی۔ سرداروں کے دو گروہ ہو گئے کچھ چندر کور کے ساتھ تھے، کچھ شیر سنگھ کے حامی تھے۔ رانی نے بڑی ہمت سے ان کا مقابلہ کیا۔ شروع شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان چندر کور ہی کے ہاتھ رہے گا لیکن رانی کی رنگین مزاجی نے اسے ڈبویا۔ جو لوگ اس کی حمائت کا دم بھرتے تھے، وہ بھی اس سے الگ ہو گئے۔ اور شیر سنگھ1؎ نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ شیر سنگھ کو مہلت ملتی تو خاصا لائق حکمران ثابت ہوتا لیکن وہ ڈھائی برس سلطنت کرنے پایا تھا کہ سندھیانوالہ سرداروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اور اس کی جگہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک نابالغ بیٹے دلیپ سنگھ کو گدی پر بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد ایسا طوفان امڈا کہ ڈوگرہ سردار راجہ دھیان سنگھ، اس کا بیٹا ہیرا سنگھ اور سندھیانوالئے سردار ایک ایک کر کے تلوار کے گھاٹ اتر گئے اور خالصہ فوج نے سارے اختیارات پر قبضہ کر لیا ۔ دلیپ سنگھ کی ماں رانی جنداں جو بڑے جوڑ توڑ کی عورت تھی، اپنے آشنا لال سنگھ کی مدد سے بیٹے کے نام پر حکومت کرنا چاہتی تھی۔ لیکن خالصہ فوج کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔ اور سکھوں کی بے سری فوج نے جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ طاقت کے زعم میں انگریزی علاقے پر چڑھائی کر دی۔ 1؎ شیر سنگھ بڑا وجیہہ اور دلاور شخص تھا۔ لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کبھی اسے اپنے بیٹا تسلیم نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ سکھ خوب خوب لڑے۔ لیکن آخر شکست کھائی اور تاوان میں کشمیر اور ہزارہ انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ انگریزی خزانے میں ان دنوں خاک اڑ رہی تھی۔ اس لئے انہوں نے کشمیر کا علاقہ ۷۵ لاکھ روپے کے عوض دھیان سنگھ کے بھائی گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ لیکن سکھ آسانی سے دبنے والے نہیں تھے، جب اپنی شکست کا خیال آتا تو سینے پر سانپ لوٹ جاتا۔ موقع پا کے پھر جنگ چھیڑ دی۔ اب کے پھر ہزیمت اٹھائی اور سارا ملک چھنوا بیٹھے۔ ادھر تو یہ حال تھا، ادھر کشمیر کے لوگ کرنیل میاں سنگھ کی انصاف پسندی کی بدولت آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے کہ سکھ فوج جسے اب لوٹ مار کے موقعے بہت کم ملتے تھے، بگڑ گئی اور میاں سنگھ کو قتل کر ڈالا۔ مہاراجہ شیر سنگھ نے شیخ غلام محی الدین 1؎ کو صوبہ دار مقرر کر کے بھیجا، اس نے جا کے بہت اچھا بندوبست کیا۔ مہاراجہ سے کہہ کے سری نگر کی جامع مسجد واگزار کرائی، لیکن بدنصیب کشمیریوں نے غلام محی الدین کے زمانے میں بھی آرام نہ پایا۔ لداخ پر فوج بھیجی گئی۔ 1؎ شیر سنگھ کی صوبہ داری کے زمانے میں شیخ غلام محی الدین کا نائب مقرر ہوا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے حساب فہمی کے لئے بلوا بھیجا۔ اور اس کی جائیداد ضبط کر لی۔ شیخ نے ہوشیار پور میں جو اس کا وطن تھا، ایک مزار بنوا رکھا تھا۔ جسے وہ اپنے مرشد کا مقبرہ کہتا تھا۔ مصر بیلی رام نے جو شیخ کا دشمن تھا۔ مہاراجہ سے شکایت کی کہ مزار کا تو صرف بہانہ ہے۔ اصل میں ۲ لاکھ روپے کا سونا دفن کر رکھا ہے مہاراجہ نے شیخ کو پکڑوا منگوایا اور ۴ لاکھ روپے وصول کر کے چھوڑا۔ بھیجی گئی۔ تو اس کی بار برداری کے لئے کوئی چودہ ہزار کشمیری جو اصل فوج سے دگنے تھے، بیگار میں پکڑے گئے۔ ایک تو یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیا کہ فصلیں کاٹی جا رہی تھیں۔ جو کسان بیگار میں پکڑے گئے ان کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پھر لداح میں بلا کا جاڑا پڑتا ہے۔ ان بیگاریوں میں سے ہزاروں راستے ہی میں ہلاک ہو گئے۔ شیخ غلام محی الدین نے کشمیر ہی میں وفات پائی اور اس کا بیٹا امام الدین باپ کی جگہ صوبہ دار مقرر ہوا۔ اس کی صوبہ داری کے زمانے میں کشمیر سکھوں کے قبضے سے نکل کر ڈوگروں کے ہاتھ آیا اور مہاراجہ گلاب سنگھ نے یہاں اپنا تسلط قائم کر لیا۔ سکھوں نے صرف ستائیس برس کشمیر پر حکومت کی لیکن ان ستائیس برسوں میں انہوں نے ایسے ایسے ظلم کئے جنہیں کشمیری صدیوں تک نہیں بھولیں گے۔ اصل میں سکھوں نے انتظام ملکی کے جو قاعدے مقرر کر رکھے تھے، وہ بہت ناقص تھے۔ بعض صوبے تو صوبہ داروں کو ٹھیکے پر دے دیئے جاتے تھے۔ وہ ضلعوں کو اجارہ پرکار داروں کے حوالے کر دیتے تھے، جو ضلعے براہ راست دربار لاہور کی نگرانی میں تھے، وہ بھی ٹھیکے پر کار داروں کے سپرد تھے۔ لاہور کے آس پاس ضلعوں میں تو کار دار زیادہ ظلم نہیں کر سکتے تھے لیکن جو علاقے لاہور سے بہت دور تھے، وہاں کار دار رعایا کو خوب لوٹتے تھے۔ کشمیر سب سے دور دست علاقہ تھا اس لئے وہاں کے لوگ سب سے زیادہ لٹے۔ یہ کار دار صرف مال گزاری ہی وصول نہیں کرتے تھے بلکہ چونگی اور آبکاری کا ٹھیکہ بھی انہیں کے پاس تھا۔ مجسٹریٹ کے فرائض بھی یہی انجام دیتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ کار داروں پر نظر رکھ سکے۔ اس لئے یہ لوگ جو چاہتے کرتے تھے۔ ہاں اگر کسی کار دار کے ذمہ سرکاری رقم نکل آتی تھی تو اسے سخت سزا دی جاتی تھی۔ وادی کشمیر کے لوگوں میں تو ظلم سہتے سہتے اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی کہ سکھوں کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کر سکیں۔ ہاں کھکھہ اور بمبہ جاگیردار جن کی جاگیریں ضلع مظفر آباد میں ہیں، بار بار اٹھے اور سکھوں سے خوب خوب لڑے۔ مظفر آباد کے بمیہ 1؎ سردار سلطان زبردست خان نے ایک دفعہ دیوان کرپارام کو سخت شکست دی تھی۔ 1؎ بمیہ سردار سلطان کہلاتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی جاگیر کٹھالی ہے جس کا صدر مقام بجھامہ ہے جو دریائے جہلم کے پار مبورہ سے کوئی چار میل کے فاصلے پر ہے۔ موجودہ جاگیر دار سلطان محمد متوفی خان کا دادا سلطان محمد خان بڑے طنطنے اور دبدبے کا آدمی تھا۔ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ لیکن بہت اچھا ذوق شعر رکھتا تھا۔ ایک دفعہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دربار میں مہاراجہ کے ایک منہ چڑھے مصاحب نے کہا سلطان صاحب! آپ شہروں کے طریقے کیا جانیں۔ آپ تو جنگلوں پہاڑوں میں پیدا ہوئے ۔ وہیں عمر گزاری سلطان محمد خان نے جواب دیا۔ شیر غرال اگرچہ کہساری بود بہتر از سگ ہائے بازاری بود شیخ غلام محی الدین کی صوبہ داری کے زمانے میں اس نے پھر بڑا زور باندھا۔ گہوڑی ، دوپٹہ اور اوڑی کے سرداروں نے اس کا ساتھ دیا۔ کئی معرکے ہوئے جن میں سے صرف ایک معرکے میں سات ہزار سکھ مارے گئے۔ اور بمبہ اور کھکھہ سردار بڑھتے ہوئے سری نگر تک آ پہنچے۔ یہ لوگ تو سکھوں کو کشمیر سے نکال کے دم لیتے لیکن آپس کی رقابتیں اور خاندانی دشمنیاں سد راہ ہو گئیں اور کشمیر کی سکھ حکومت جس کی تباہی میں تھوڑی سی کسر باقی رہ گئی تھی، مٹتے مٹتے بچ گئی۔ سکھوں کے زمانے میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی بالکل سلب ہو گئی تھی۔ مسجدوں میں نماز پڑھنا الگ رہا۔ مسلمان اذان تک نہیں دے سکتے تھے۔ صرف گاؤ کشی کے شبہ پر پورے پورے کنبہ کو قتل کر ڈالا جاتا تھا۔ خود شیخ غلام محی الدین کی صوبہ داری کے زمانے میں ایک شخص گاؤ کشی کے الزام میں ماخوذ ہوا اور سکھوں نے اسے اور اس کے اہل و عیال کو گائے کے گوبر کے اپلوں میں بند کر کے آگ لگا دی۔ سکھوں کی یہی دراز دستیاں تھیں جنہوں نے بمبوں اور کھکھوں کو بغاوت پر مجبور کر دیا۔ ٭٭٭ ساتواں باب ڈوگرے ڈوگرے جن کا اصل وطن ’’ کاہنڈی‘‘ یعنی جموں اور اس کے آس پاس کا علاقہ ہے۔ اصل نسل کے لحاظ سے راجپوت ہیں، او رجموں کی حکومت صدیوں سے انہیں کے خاندان میں چلی آتی ہے۔ لیکن پرانے زمانے میں جموں کی حکومت وہ نہیں تھی، جو آج ہے۔ جموں کا راجہ صرف ’’کاہنڈی‘‘ کے علاقہ کا راجہ سمجھا جاتا تھا۔ کشتواڑ، چبھال، راجوری وغیرہ میں الگ الگ حکومتیں قائم تھیں، جن کے راجا جموں کے راجہ کے ساتھ برابری کے دعوے سے ملتے تھے۔ ڈوگرے سپاہی پیشہ لوگ ہیں۔ ان کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ اپنے وطن میں گزارے کی کوئی سبیل نظر نہ آئی تو گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور کسی راجہ یا سردار کی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ پنجاب ان کے وطن کے قریب ہے۔ اس لئے جب وہ کھیتی باڑی سے اکتا کر گھر سے نکلتے ہیں تو اسی طرف کا رخ کرتے ہیں۔ چنانچہ رنجیت سنگھ کی فوج میں بھی بہت سے ڈوگرے تھے۔ ان لوگوں میں گلاب سنگھ نام کا ایک ڈوگرہ بھی تھا۔ جس کے چہرے سے اس فلاکت میں بھی وجاہت کے آثار نمایاں تھے۔ رنجیت سنگھ نے خاندان کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس کے نسب کا سلسلہ جموں کے ایک راجہ رنجیت دیو کے بھائی صورت دیو سنگھ1؎ سے جا ملتا ہے۔ چنانچہ مہاراجہ نے اسے اپنے اردلیوں میں رکھ لیا۔ شروع شروع میں تین روپے تنخواہ تھی مہاراجہ کی سواری چلتی تھی تو گلاب سنگھ گھوڑے کے آگے آگے ہوتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے اپنے دو بھائیوں دھیان سنگھ اور سوچیت سنگھ کو بھی یکے بعد دیگرے بلوا لیا۔ یہ دونوں بڑے سجیلے اور خوش رو جوان تھے۔ مہاراجہ سفر و حضر میں انہیں ساتھ رکھتا۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں نے مہاراجہ کے مزاج میں ایسا دخل پایا کہ سارے بڑے سردار ان کے سامنے گرد ہو کے رہ گئے۔ 1؎ کننگھم صاحب لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ سرداروں کے نسب میں داغ تھا۔ اسی لئے کانگڑہ کے راجہ انرودھ چند نے اپنی بہن کا بیاہ گلاب سنگھ کے بھتیجے ہیرا سنگھ سے کرنا منظور نہ کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں ڈوگرہ سردار پورے عروج پر تھے۔ راجہ ایک شادی میں شریک ہونے لاہور آیا تو ڈوگروں نے اسے نظر بند کر لیا ڈرایا دھمکایا اور اپنے ڈھب پر لے آئے لیکن اس کی ماں نہ مانی اور لڑکی کو لے کے بھاگ گئی۔ آخر انرودھ چند کو اسی جھگڑے میں راجگی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ گلاب سنگھ کو جموں کی راجگی ملی۔ دھیان سنگھ وزیراعظم مقرر ہوا۔ سوچیت سنگھ نرا مصاحب ہی رہا۔ ہاں اپنے بھائیوں کی طرح اسے بھی راجہ کا خطاب ملا۔ سکھ سردار جن میں سندھیانوالئے سب سے زیادہ با اثر تھے۔ ڈوگرہ سرداروں سے جلتے تھے۔ لیکن دھیان سنگھ سے جو راجہ ’’ کلاں‘‘ کہلاتا تھا اور سارے مہمات ملکی پر چھایا ہوا تھا۔ سب کی کور دبتی تھی۔ اور اس کا نو عمر بیٹا ہیرا سنگھ تو اس سے بھی بڑھ گیا تھا۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں مہاراجہ اور ولی عہد کنور کھڑک سنگھ کے سوا اور کسی کے لئے کرسی نہیں بچھتی تھی۔ سارے درباری فرش پر بیٹھتے تھے اور دھیان سنگھ مہاراجہ کی پشت پر کھڑا رہتا تھا۔ آگے چل کے دو کرسیاں اور بچھنے لگیں۔ ایک کنور شیر سنگھ کے لئے اور دوسری ہیرا سنگھ کے لئے۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد بھی دھیان سنگھ وزیراعظم رہا۔ لیکن کھڑک سنگھ کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ دھیان سنگھ نے یہ دیکھ کے نونہال سنگھ کو چنگ پر چڑھایا اور ابھار کے باپ کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ پھر جب چندر کور ور شیر سنگھ میں جنگ چھڑی تو یہ تماشا نظر آیا کہ دھیان سنگھ تو شیر سنگھ کا حامی ہے اور ہیرا سنگھ اور گلاب سنگھ دونوں چندر کور کے ساتھ ہیں۔ جب شیر سنگھ کو حکومت ملی تو دھیان سنگھ نے بھائی اور بیٹے دونوں کو بلا کے مہاراجہ سے ان کی خطا معاف کرا دی۔ باپ کے قتل کے بعد ہیرا سنگھ وزیراعظم مقرر ہوا۔ لیکن اپنے چچا سوچیت سنگھ 1؎ سے اس کا بگاڑ ہو گیا۔ دونوں میں لڑائی ہوئی جس میں سوچیت سنگھ مارا گیا۔ ہیرا سنگھ کو بھی زیادہ دن آرام سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا اور خالصہ فوج نے اسے بھی قتل کر ڈالا۔ گلاب سنگھ ان جھگڑوں میں شریک ہوتا، تو اس کی بھی جان نہ بچتی۔ لیکن وہ بڑا عقل مند اور زمانہ ساز شخص تھا۔ ان سارے قضیوں سے الگ تھلگ جموں میں بیٹھا رہا اور لاہور اس وقت پہنچا کہ سکھوں اور انگریزوں2 ؎ میں جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ 1؎ آسبورن نے اپنے روزنامچے میں دھیان سنگھ اور سوچیت سنگھ دونوں کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے۔ سوچیت سنگھ کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ شخص رنجیت سنگھ کے تمام سرداروں سے زیادہ حسین ہے۔ ہیرا سنگھ کے تذکرہ میں لکھتا ہے کہ اس کی عمر سترہ برس کی ہے اور نہایت حسین نوجوان ہے لیکن چہرے پر زنانہ پن برستا ہے کسی سردار کی مجال نہیں کہ رنجیت سنگھ سے بن بلائے یا ہاتھ جوڑے بغیر ہم کلام ہو۔ لیکن ہیرا سنگھ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہے۔ 2؎ انگریزوں کا نام ہی نام ہے۔ (لڑنے والے تو ہندوستانی سپاہی تھے جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ان لوگوں کی بہادری کا ایک واقعہ اکثر مورخوں نے لکھا ہے۔ جب مٹکاف صاحب مہاراجہ کے دربار میں سفیر بن کے آئے تو ان کے ساتھ ہندوستان سپاہیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ بھی تھا۔ امرتسر میں ان دنوں تعزیے نکل رہے تھے۔ یہ سپاہی بھی ماتم میں شریک ہو گئے۔ پھولا سنگھ اکالی نہایت متعصب شخص تھا۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ان پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ یہ دیکھ کے کچھ مسلمان سپاہی ماتم کا حلقہ توڑ کے نکلے اور سکھوں کو شکست دے کے پھر حلقہ ماتم میں جا شامل ہوئے۔ خالصہ فوج کے پنچوں کا اصرار تھا کہ گلاب سنگھ فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے۔ عقلمند ڈوگرے نے انکار کرنا تو مناسب نہ سمجھا۔ البتہ ہر روز وہ کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کے کوچ کی تاریخ ملتوی کر دیتا تھا۔ ان حیلوں حوالوں میں سپہ سالاری کی قابلیت دکھانے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا اور سبراؤں کے معرکے میں سکھوں نے شکست کھائی۔ رانی جنداں نے جو بڑی بے چینی سے اس گھڑی کا انتظار کر رہی تھی، گلاب سنگھ کو صلح کی بات چیت کرنے بھیجا۔ا س نے اس خوبصورتی سے گفتگو کا ڈول ڈالا کہ دونوں فریق اس کی قیادت کا لوہا مان گئے۔ انگریزوں کو اس جھگڑے میں چھوٹا سا علاقہ اور دوقسطوں میں ۷۵ لاکھ روپے کی رقم ملی۔ سکھ آدھا ملک چھنوا بیٹھے۔ گلاب سنگھ کو کشمیر کی حکومت ہاتھ آئی اور انگریزوں نے اسے جموں اور کشمیر کی ریاست کا مہاراجہ تسلیم کر لیا۔ اس سلسلے میں دو عہد نامے ہوئے۔ ایک تو عہد نامہ لاہور جو انگریزوں اور سکھوں کے درمیان تھا، اور دوسرا عہد نامہ 1؎ امرتسر جس میں ایک فریق انگریز حکومت تھی اور دوسرا فریق مہاراجہ گلاب سنگھ۔ اس معاہدے پر ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ء کو دستخط ہوئے۔ 1؎ اس عہد نامے کی ایک دفعہ یہ تھی کہ مہاراجہ گلاب سنگھ ہر سال ایک گھوڑا، تین دو شالے اور اعلیٰ نسل کے چھ بکرے اور چھ بکریاں جن کی پشم سے شالیں بنتی ہیں، انگریزی حکومت کی نذر کیا کرے گا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے جس طریقے سے جموں و کشمیر کی حکومت حاصل کی وہ شاید یورپ کے لوگوں کے لئے چنداں قابل اعتراض نہ ہو، لیکن اس کے ہم وطنوں کو جن کے لغت میں ’’ نمک حلالی‘‘ اور ’’ نمک حرامی‘‘ جیسے لفظ موجود ہیں، اس کی یہ حرکت پسند نہ آئی۔ وہ کہتے تھے کہ جس روپے سے گلاب سنگھ نے کشمیر خرید وہ اس نے رنجیت سنگھ کا گھر لوٹ کے جمع کیا تھا۔ وفاداری کا تقاضا یہ تھا کہ ۷۵ لاکھ روپے کی اس رقم سے اپنے آقا کا ملک خریدنے کے بجائے وہ اس کڑے وقت میں اپنی ساری جمع جتھا دلیپ سنگھ کے قدموں میں لا ڈالتا۔ چبھال اور پونچھ کے علاقے دھیان سنگھ کی جاگیر میں شامل تھے۔ دھیان سنگھ کے ایک بیٹے موتی سنگھ کو پونچھ کا علاقہ ملا۔ دوسرے بیٹے جواہر سنگھ کو چبھال کا علاقہ دیا گیا۔ وہ تیز مزاج نوجوان تھا۔ کسی بات پر گلاب سنگھ سے بگڑ بیٹھا۔ گلاب سنگھ بھی اپنے بھائی کی یادگار سے اچھی طرح پیش نہ آیا۔ لڑائی تک نوبت پہنچی۔ جواہر سنگھ نے جب اپنے میں مقابلے کی ہمت نہ پائی، تو راج پاٹ کو تج کے گھر سے نکل گیا۔ اور ایسا غائب ہوا کہ پھر اس کا سراغ نہ ملا۔ قاعدے کی زد سے چبھال کا علاقہ بھی موتی سنگھ کو ملنا چاہیے تھا، لیکن گلاب سنگھ نے اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ پونچھ اور جموں کے حکمران خاندانوں میں اسی زمانے سے رقابت چلی آتی ہے جس نے آگے چل کے کئی رنگ بدلے۔ انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیر کا علاقہ بیچ تو ڈالا۔ لیکن اس سودے سے نہ بیچنے والا خوش نظر آتا تھا نہ خریدار۔ انگریز اس لئے کشمیر بیچ ڈالنے پر مجبور تھا کہ روپیہ حاصل کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا اور گلاب سنگھ کے انداز سے یہ معلوم ہوتا تھا اسے اپنی مملکت کو وسعت دینے اور مہاراجہ بننے کا کوئی اور طریقہ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کہتے ہیں جب کشمیر کی خرید و فروخت کا مرحلہ طے ہو چکا تو گلاب سنگھ کہنے لگا۔ میں نے ۷۵ لاکھ روپے دے کے ایسا علاقہ لیا ہے جس میں ایک حصہ پہاڑ ہے۔ ایک حصہ پانی اور ایک حصہ زمین۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف کہنے کی باتیں تھیں، ورنہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی ہوس مدت سے اس کے دل میں تھی۔ اس وقت تو انگریزوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ انہوں نے اس سودے میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ لیکن آگے چل کے وہ بھی بہت پچھتائے۔ گلاب سنگھ کو کشمیر پر قبضہ کئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ سکھوں اور انگریزوں میں پھر جنگ چھڑ گئی۔ گلاب سنگھ اس لڑائی میں شامل تو نہیں ہوا۔ پھر بھی اس نے ہرکاروں کی ڈاک بٹھا رکھی تھی۔ جو اسے پل پل کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع شروع میں لڑائی کا جو ڈھنگ تھا، اگر کچھ عرصہ تک وہی رہتا اور سکھوں کا پلہ بھاری نظر آتا، تو گلاب سنگھ امرت سر کے عہد نامے کو بالائے طاق رکھ کے دلیپ سنگھ سے جا ملتا۔ لیکن سکھوں نے اب کے پھر شکست کھائی اور پنجاب انگریزی حکومت میں شامل کر لیا گیا۔ گلاب سنگھ کی سپہ گری میں کسی کو کام نہیں۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں راجوری اور کشتواڑ کے علاقے اسی نے فتح کئے تھے۔ سرحد کی لڑائیوں میں شامل رہا تھا۔ جن دنوں وہ صرف جموں کے علاقے کا راجہ تھا اس نے لداخ او ربلتستان کے علاقے بھی فتح کر لئے تھے۔ کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے گلگت پر چڑھائی کی اور اس کوہستانی علاقے کا ایک حصہ فتح کر لیا۔ لیکن گلگت کی فتح اس کے بیٹے کے زمانے میں مکمل ہوئی۔ ان سپاہیانہ اوصاف کے ساتھ گلاب سنگھ بڑے جوڑ توڑ کا آدمی تھا ۔ دھیان سنگھ جس کی تدبیر دانی کی بڑی دھوم تھی، سازشوں میں ایسا الجھا کہ آخر جان ہی گنوا بیٹھا۔ لیکن گلاب سنگھ جموں ہی میں تدبیر کے پیچ لڑاتا رہا۔ ایک زمانے میں تو مہاراجہ شیر سنگھ اور انگریز حکمران دونوں اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے۔ کہ اٹک کے پارکا سارا علاقہ جو اب سرحدی صوبہ کہلاتا ہے، گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا جائے، لیکن بعد میں ان کی رائے بدل گئی۔ ڈوگرہ سردار نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں رہ کے حکمرانی کے گر سیکھے تھے۔ اس لئے اس کے زمانے میں بھی سکھوں کے زمانے کے بہت سے قاعدے اور قانون جوں کے توں رہے۔ گاؤ کشی پر اب بھی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لوگ اب بھی بیگار میں پکڑے جاتے تھے اور مسلمانوں کو اب بھی اذان دینے کی ممانعت تھی۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کی موت پر اس کا بیٹا رنبیر سنگھ جو ’’ میاں پھینو‘‘ کے نام سے مشہور تھا، مہاراجہ مقرر ہوا۔ رنبیر سنگھ بڑا نرم مزاج اور علم دوست شخص تھا۔ اس کے دربار میں کبھی کبھی فلسفیانہ بحثیں چھڑ جاتی تھیں۔ جن میں مہاراجہ خود بڑا حصہ لیتا تھا۔ اسے مختلف مذاہب کی تعلیم پر غور کرنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ لیکن اس کی علمی پیاس پوری طرح بجھ نہ سکی، کیونکہ دربارکی فضا اس قسم کے کاموں کے لئے موزوں نہیں تھی۔ سکھوں کے زمانے میں مسلمانوں پر جو پابندیاں تھیں وہ اب بہت حد تک کم ہو گئیں۔ سڑکوں اور مدرسوں پر بھی روپیہ خرچ کیا جانے لگا۔ برطانوی علاقے کے قوانین کے نمونے پر قانون کی کتابیں مرتب ہوئیں اور گاؤ کشی کی سزا کم ہو کے صرف سات سال قید بامشقت رہ گئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریز اب کشمیر کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے لگے تھے اور ریاست پر ان کی گرفت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ رنبیر سنگھ کے زمانے میں ایک دفعہ بڑے زور کا قحط پڑا جس میں بہت سے آدمی ہلاک ہو گئے۔ گلگت کی فتح بھی اسی زمانے میں مکمل ہوئی۔ رنبیر سنگھ 1؎ کے بعد اس کا بیٹا پرتاب سنگھ ۱۸۸۵ء میں گدی پر بیٹھا۔ اپنے باپ کی طرح وہ بھی نرم مزاج لیکن بڑا پابند مذہب شخص تھا اور ہمیشہ برہمنوں میں گھرا بیٹھا رہتا تھا۔ ہندوستان کے اکثر والیان ریاست سیر و شکار اور راگ رنگ میں وقت گزارتے تھے۔ پرتاب سنگھ کے وقت کا زیادہ حصہ کتھا سننے یا دان پن کرنے میں گزر جاتا تھا۔ انگریزوں کی طرف سے اس کی طبیعت میں جھجک اور وحشت سی تھی۔ لیکن انگریز ریاست پر چھائے جا رہے تھے اور ریذیڈنٹ کے اختیارات بہت بڑھ گئے تھے۔ چنانچہ مہاراجہ پرتاب سنگھ کو گدی پر بیٹھے صرف چار برس ہوئے تھے کہ کرنل نسبٹ نے جو اس زمانے میں کشمیر کا ریذیڈنٹ تھا، اسے گدی سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیا۔ 1؎ حکیم نور الدین قادیانی رنبیر سنگھ کے طبیب رہے تھے۔ ان سے بھی مہاراجہ کی بحثیں رہتی تھیں۔ مولوی اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے اپنی کتاب حیات نور الدین میں حکیم صاحب کی زبانی مہاراجہ کے علمی شوق کے بعض واقعات نقل کئے ہیں۔ ہندوستان کے بعض اخباروںنے جن میں امرت بازار پتر کا اور اخبار عام لاہور پیش پیش تھے، مہاراجہ کی حمایت کی، اور ہندوستان کے مختلف حصوں سے بھی اس کی حمایت میں آوازیں بلند ہوئیں۔ آخر برطانوی حکومت نے پرتاب سنگھ کو پھر گدی پر بٹھا دیا۔ اصل میں انگریزوں نے کشمیر کا علاقہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچا تھا تو احتیاج نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ پھر جب کشمیر کی سرسبزی اور شادابی اور اس کی سیاسی حیثیت پر نظر گئی تو بہت پچھتائے۔ خصوصاً جب رنبیر سنگھ کے زمانے میں گلگت کی فتح نے ریاست کے ڈانڈے روس سے جا ملائے، تو کشمیر کی اہمیت اور بڑھ گئی، کیونکہ اگرچہ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں روس نے ایک دفعہ بھی ہندوستان پر چڑھائی نہیں کی۔ پھر بھی انہیں ہمیشہ روس سے خطرہ رہا ہے۔ اسی زمانے میں ہنزہ فتح ہو کے کشمیر کی باج گزار ریاستوں میں شامل ہوا اور انگریزوں نے چترال کے اندرونی معاملات میں دخل دینا شروع کیا۔ چونکہ چترال کی سرحد کشمیر سے ملی ہوئی ہے۔ اس کا معاملہ گلگت کے پولیٹیکل ایجنٹ کے سپرد ہوا، جس کی مدد پر ڈوگرہ فوج موجود تھی اور چترال پر کشمیر کا اقتدار جو صرف برائے نام تھا، تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ مہاراجہ پرانی لکیر کا فقیر تھا اور چاہتا تھا کہ اس کے باپ دادا کے وقت سے جو طریقے چلے آئے ہیں، ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ پھر بھی اس کے زمانے میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ مدرسے کھلے، ہسپتال قائم ہوئے۔ جموں اور سری نگر میں دو کالج قائم کئے گئے۔ ایک پکی سڑک نے جو وادی جہلم کی سڑک کہلاتی ہے، کشمیر کو پنجاب سے ملا دیا۔ اور گرمی کے موسم میں یہاں بڑی چہل پہل اور رونق نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں تو صرف انگریز کشمیر آیا کرتے تھے، پھر ہندوستان کے مختلف حصوں کے لوگ اس حسین وادی میں پہنچنے لگے اور سیرگاہوں میں جو مغلوں کے زمانے کے بعد سنسان پڑی رہتی تھیں، پھر لوگوں کے ہجوم دکھائی دینے لگے۔ باہر کے لوگوں کی قدر دانی کی بدولت صنعت و حرفت کو پھر فروغ ہوا۔ کشمیر کے پھل اور کشمیریوں کی صنائی کے نمونے دور دور پہنچنے لگے۔ لیکن کشمیر اب پہلے کی طرح ایک چھوٹا سا علاقہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی سرحد ایک طرف پنجاب اور دوسری طرف روس اور چین سے ملی ہوئی تھی۔ وادی جہلم کی سڑک بننے سے صرف سری نگر اور اس کے نواح کے صناعوں اور دستکاروں یا ہانجیوں کو فائدہ پہنچا۔ سرکار دربار پر ڈوگرے اور کشمیری پنڈت چھائے ہوئے تھے۔ رشوت کا بازار گرم تھا اور کسان اب بھی ظلم کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ پولیس کا سپاہی کسی گاؤں میں چلا جاتا تھا تو آفت 1؎ آ جاتی 1؎ آج سے پچیس تیس برس پہلے میں نے خود دیکھا ہے کہ شہر کا کوئی آدمی اجلے کپڑے پہنے کسی گاؤں میں نکل جاتا تھا تو لوگ گھبرا جاتے تھے۔ اور کوئی شخص کوٹ پتلوان پہنے نظر آ جاتا تو لوگ گھروں میں چھپ کر دروازے بند کر لیتے تھے۔ تھی۔ تھانہ دار یا تحصیل دار کی سواری جن دیہات میں سے گزر جاتی تھی، وہ ویران ہو جاتے تھے۔ بیکار عام تھی، جس سے خاص خاص لوگوں کے سوا کوئی نہیں بچتا تھا کوئی ہندو اسلام قبول کر لیتا تھا تو اسے جائداد سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ جس سال پرتاب سنگھ نے حکومت کی گدی سنبھالی، اسی سال بڑے زور کا بھونچال آیا جس نے بڑی تباہی مچائی۔ چند برس کے بعد ہیضہ پھوٹ پڑا۔ جس میں ہزاروں آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس سے اگلے سال سیلاب آیا جس میں چھ ہزار جانیں ضائع ہوگئیں۔ لیکن کشمیر کے لوگ دکھ سہنے کے عادی ہو چکے تھے کیونکہ سرکاری اہل کاروں نے جو آفت مچا رکھی تھی، وہ ان آفتوں سے زیادہ تھی۔ پرتاب سنگھ اپنی قدامت پسندی کے باوجود لوگوں میں خاصا ہر دلعزیز تھا۔ بلکہ اکثر لوگ اسے اپنی اسی قدامت پسندی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ پرانے بادشاہوں کی طبیعت کا عام انداز یہ تھا کہ جس سے بگڑ گئے اس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اور جس سے خوش ہو گئے اس کا گھر دولت سے بھر دیا۔ رعایا فاقے کر رہی ہے۔ لیکن بادشاہ ایک شاعر کو قصیدے کو عوض چاندی میں تلواتا ہے۔ یا موتیوں سے اس کا منہ بھر دیتا ہے۔ تو ہر طرف غلغلہ مچ جاتا ہے۔ داد دہش کی ان حکائتوں نے بہت سے اگلے بادشاہوں کے گردا گرد ایسا طلسم باندھ رکھا ہے، جس کے غبار میں ان کے خدو خال دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں۔ مورخ کہر کے اس پردے کو چیرنے کی ہزار کوشش کرتا ہے لیکن اس کی نگاہ تنقید بھی دھندلا کے رہ جاتی ہے۔ رنبیر سنگھ اور پرتاب سنگھ دونوں میں پرانے زمانے کے سلاطین و امراء کا یہ وصف کسی حد تک موجود تھا جس نے ان کے بہت سے عیبوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ہندوستان میں کانگریس کی تحریک مدت سے شروع تھی۔ لکھے پڑھے کشمیریوں کو جن کی تعداد زیادہ نہیں تھی، اخباروں کے ذریعے حالات معلوم ہوتے رہتے تھے۔ گرمی کے موسم میں جو سیاح آتے تھے، ان سے بھی یہ لوگ عجیب و غریب باتیں سنتے تھے۔ کشمیر، جموں اور پونچھ میں تعلیمیا نجمنیں قائم ہو چکی تھیں۔ ان کی سرگرمیوں میں اگرچہ سیاسیات کا شائبہ تک نہ تھا۔ پھر بھی ان کے سالانہ جلسے قومی میلوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور ان موقعوں پر لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے خیالات سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اسی زمانے میں بلقان اور طرابلیس کی لڑائیاں چھڑیں۔ برطانوی ہند کی طرح کشمیر میں بھی جلسے ہوئے۔ چندہ بھی جمع کیا گیا اور کشمیر میں ہماہمی سی پیدا ہو گئی۔ انہیں دنوں پونچھ کی جیل میں توہین قرآن کا واقع ہوا۔ لوگ احتجاج کے طریقوں سے ناواقف تھے۔ ایک مولوی صاحب سے فتویٰ طلب کیا کہ ایسی حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا۔ جہاد یا ہجرت ۔ لوگوں میں جہاد کی ہمت نہیں تھی، اس لئے ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔ کچھ لوگ پونچھ چھوڑ کے بارہ مولا اور سری نگر چلے گئے۔ بعض نے پنجاب کا رخ کیا۔ آخر پونچھ کے راجہ کو رعایا کے سامنے جھکنا پڑا۔ جس شخص نے قرآن کی توہین کی تھی اسے ریاست سے نکال دیا گیا اور لوگوں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ حکومت کو اپنے حقوق منوانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ۱۹۱۴ء میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی ۔ کشمیر کی فوجوں کو ہندوستان سے باہر جانے کا موقع ملا۔ ریاست کے بہت سے لوگ بھی فوج میں بھرتی ہو کے فرانس اور گیلی پولی وغیرہ کے معرکوں میں شامل ہوئے۔ یورپ میں گھومے پھرے وہاں کا رنگ ڈھنگ دیکھا۔ اپنے ملک سے دوسرے ملکوں کا مقابلہ کیا تو زمین و آسمان کا فرق نظر آیا۔ اگرچہ وطن پہنچ کے مقدمہ بازی اوراس قسم کے دوسرے مشاغل نے ایسا الجھایا کہ اپنے ملک کے سدھار کے طریقوں پر زیادہ غور کرنے کا موقع نہ ملا۔ لیکن طبیعت میں ایک خلش سی ضرور پیدا ہو گئی تھی اور یہ دبی ہوئی چوٹ ابھرنے کے لئے موقع کا انتظارکر رہی تھی۔ جنگ کے بعد رولٹ ایکٹ نے ہندوستان میں بے چینی پیدا کر دی۔ امرتسر اور لاہور وغیرہ اضلاع میں مارشل لاء نافذ ہوا۔ جلیانوالہ باغ میں گولی چلی۔ خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ اس سیلاب کی لہریں کشمیر تک بھی پہنچیں اور بعض نوجوان کشمیری جن میں میر واعظ احمد اللہ کا بھتیجا یوسف شاہ بھی تھا، تحریک خلافت میں شامل ہو گئے۔ ان تحریکوں سے اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ کشمیر کے لوگ سیاسی مسائل پر سوج بچار کرنے لگے۔ لیکن ان کا موضوع فکر ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ تھا۔ ریاستوں کا سوال کانگریس کے فکر و عمل کے دائرے سے باہر تھا اور کشمیر کے لوگوں میں ابھی اتنی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ اپنے طور پر کچھ سوچ سکیں۔ اس لئے کشمیر میں کوئی سیاسی تحریک شروع نہ ہو سکی۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ نے چالیس برس حکومت کر کے ۱۹۲۵ء میں انتقال کیا۔ وہ لاولد تھا۔ اس لئے اس نے پوچھ کے راجہ بلدیو سنگھ کے منجھلے بیٹے جگت دیو سنگھ کو جو رشتے میں اس کا بھتیجا ہوتا تھا، گود لے لیا تھا۔ اور اسے اپنی نگرانی میں تعلیم دلائی تھی جس میں مذہبی تعلیم کا عنصر غالب تھا۔ جگت دیو سنگھ کو ایک تو تعلیم ہی ایسی ملی اس پر مہاراجہ کی صحبت کا اثر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اچھا خاصا پنڈت بن کے رہ گیا۔ جگت دیو سنگھ مہاراج کمار کہلاتا تھا۔ اور مہاراجہ پرتاب سنگھ جس کی نظروں میں اسے بڑی وقعت حاصل تھی، اس کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اس سے پہلے اپنے سگے بھتیجے ہری سنگھ کو جو اس کے چھوٹے بھائی امر سنگھ کا بیٹا تھا، اپنا ولی عہد 1؎ مقرر کر چکا تھا اور برطانوی حکومت نے اس کی ولی عہدی تسلیم کر لی تھی۔ اس لئے مہاراجہ پرتاب سنگھ کی آرزو پوری نہ ہوئی۔ اور اس کی وفات پر ہر ی سنگھ کو اس کی جگہ کشمیر کی گدی پر بٹھا دیا گیا۔ جگت دیو سنگھ نے اپنا استحقاق ثابت کرنے کے لئے بڑی دوڑ دھوپ کی لیکن برطانوی حکومت کے فیصلے میں کوئی ترمیم نہ ہو سکی، اور جگت دیو سنگھ جو مہاراجہ بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، اپنے بھائی سکھ دیو سنگھ کی جگہ جس نے انہیں دنوں وفات پائی تھی، پونچھ کا راجہ مقرر ہوا۔ پونچھ اور جموں کے حکمران خاندانوں کی رقابت تو بہت پرانی ہے، لیکن اس واقعہ کے بعد اس پرانی رقابت نے نہایت تلخ اور ناگوار صورت اختیار کر 2؎ لی۔ 1؎ لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں انگریزوں کی عام پالیسی یہ تھی کہ کسی والی ریاست کے متنبے کو اس کا وارث تسلیم نہ کیا جائے لارڈ ڈلہوزی کے بعد والیان ریاست کو جن میں مہاراجہ کشمیر بھی شامل تھا اس اصول سے مستثنے کر دیا گیا۔ 2؎ اصل میں پونچھ کے راجہ ہمیشہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ پونچھ پر دربار کشمیر کا اقتدار اسی قسم کا ہو جیسا چترال پر۔ موتی سنگھ کا بیٹا اور دھیان کا پوتا بلدیو سنگھ جو بڑا باہمت شخص تھا۔ ہمیشہ اسی کوشش میں رہا کہ دربار کشمیر سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے۔ او رپونچھ کو علیحدہ ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ اس کے بیٹے سکھ دیو سنگھ نے تو کھلم کھلا دربار کشمیر سے بغاوت کر دی اور اگر وہ اپنی بات پر اڑا رہتا (باقی اگلے صفحے پر) مہاراجہ ہری سنگھ نے نئے انداز کی تعلیم پائی تھی جس پر مذہب کی چھاؤں تک نہیں پڑی تھی۔ اسے ولی عہدی ہی کے زمانے میں یورپ کی سیر کا موقع بھی ملا تھا۔ لیکن یورپ کی سیر ہندوستانی والیان ریاست اور امراء کی نظر میں وسعت پیدا کرنے کی بجائے انہیں عشرت و کامجوئی کے چند نئے طریقے سمجھا دیتی ہے۔ پرتاب سنگھ کا جو پکا سناتن دھرمی ہندو تھا، یہ باتیں سخت ناپسند تھیں اور اسے ہی نہیں رعایا کو بھی ناپسند تھیں۔ پرتاب سنگھ کے عہد حکومت میں بھی اگرچہ لوگوں کی حالت میں چنداں فرق نہیں آیا تھا۔ پھر بھی اس کی سادگی، قدامت پسندی اور کردار کی پختگی نے اس کی شخصیت کو بہت دلآویز بنا دیا تھا۔ اسے عیش و عشرت سے نفرت تھی۔ بڑی سادہ زندگی بسر کرتا اور شیر گڑھی میں رہتا تھا جو شہر کے وسط میں ہے۔ اس لئے کبھی کبھی اس تک عام لوگوں کی رسائی بھی ہو جاتی تھی ۔ اور تو شاید اسے بہت حد تک کامیابی ہوتی۔ لیکن جب پرتاب سنگھ سے آنکھیں چار ہوئیں تو ساری ہمت جواب دے گئی۔ اور پرتاب سنگھ نے بزرگی کے دعویٰ سے جو چاہا لکھوایا۔ اسسٹنٹ ریذیڈنٹ کا عہدہ اڑا دیا گیا اور سکھدیو سنگھ کے مشیر جن میں گوجرانوالہ کے خان بہادر منشی احمد دین بھی تھے۔ برطرف کر دیئے گئے۔ سکھ دیو سنگھ کی وفات کے بعد اس کے بھائی جگت دیو سنگھ نے بھی بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جگت دیو سنگھ کا بیٹا اور پونچھ کا موجودہ راجہ شیو رتن سنگھ جسے ابھی تک گدی نہیں ملی، لکھنو میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اور اس کی ماں جس نے ان جھگڑوں میں مردوں کی سی ہمت دکھائی ہے اور اب بھی اپنی بات پر اڑی ہوئی ہے ہر دوار میں زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ کسان اپنے جھونپڑوں میں اور ہانجی اپنی کشتیوں میں بیٹھ کے جب اس کی زندگی کے بعض عجیب و غریب واقعات کاجن میں بہت کچھ مبالغہ ہوتا تھا، ذکر کرتے تھے، وہ افسانوں کی دنیا کی کوئی مخلوق معلوم ہوتا تھا۔ نئے مہاراجہ نے شہر سے دور گپکار میں اپنا محل بنوایا۔ اس کے لئے ڈل میں ایک چھوٹی سی عمارت بھی بنی جو کبوتر خانہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور اسے ایک سڑک کے ذریعے محل سے ملا دیا گیا۔ لوگوں کو کبھی کبھار اس سڑک پر اس کی موٹر نظر آ جاتی تھی اس کے ساتھ عام طور پر انگریز مرد اور عورتیں ہوتی تھیں 1؎ ان انگریز مردوں اور عورتوں اور کبوتر خانہ کی صحبتوں کے متعلق لوگوں میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ لوگ سنتے تھے اور تعجب کرتے تھے کیونکہ انہوں نے استبداد کو اس نئے لباس میں نہیں دیکھا تھا۔ ہری سنگھ سے پہلے جو مہاراجہ گزرے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہنجار یہ تھا کہ گرمی کا موسم آیا تو سری نگر چلے گئے اور جاڑے میں پھر جموں چلے آئے، لیکن ہری سنگھ نے کئی بار یورپ کی سیر کی اسے گدی پر بیٹھے دو سال ہوئے تھے 1؎ ولی عہدی کے زمانے میں ہری سنگھ یورپ گیا تو ایک حرافہ نے اپنے ایک ساتھی کی مدد سے اس انیلے نوجوان پر کمپا مارا۔ اور ۲۲ لاکھ روپے کی رقم وصول کر لی۔ ولائت کے اخباروں میں اس واقعہ کا بہت چرچا ہوا۔ اگرچہ ہری سنگھ کا نام نہیں لیا گیا۔ اور اسے مسٹر اے کہا جاتا رہا۔ پھر بھی یہ بھید کھل گیا۔ کہ والیان ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے بٹلر کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے ولائت جانا پڑا۔ اس کی غیر حاضری میں کشمیر میں دو دفعہ بڑے زور کا سیلاب آیا۔ سری نگر میں آگ بھی لگی۔ جس سے لوگوں کو سخت نقصان پہنچا۔ ۱۹۳۰ء میں وہ گول میز کانفرنس میں شریک ہونے ولائت گیا۔ اس سفر سے واپس آیا ہی تھا کہ پھر سیلاب نے آفت مچا دی۔ یہ سیلاب تھما تو ایک اور طوفان نے زور باندھا جس سے گپکار کے محل کی دیواریں ہل گئیں، یہ عوام کے احتجاج کا طوفان تھا، جس کی قوت سے کشمیر کا نوجوان مہاراجہ بالکل بے خبر تھا۔ کشمیر کے لوگوں کو ظلم سہتے مدتیں ہو گئی تھیں۔ اور غالباً وہ ابھی کچھ مدت اور یوں ہی چپکے ظلم سہتے رہتے، لیکن پنجاب اور سرحد میں جو واقعات ہو رہے تھے۔ انہوں نے ان کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات پیدا کر دیئے تھے۔ انہوں نے جب پہلی مرتبہ سنا کہ ہندوستان کے لوگوں نے حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کر رکھی ہے، تو انہیں سخت تعجب ہوا۔ نوجوانوں نے بڑے اشتیاق سے یہ واقعات سنے اور حیرت زدہ ہو کر چلا اٹھے۔ ’’ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘ بڈھے ٹھڈوں نے جنہیں ظلم سہتے زیادہ عرصہ ہوا تھا۔ سر ہلا کے کہا’’ بالکل جھوٹ! بادشاہوں سے کون لڑ سکتا ہے۔‘‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ پنجاب سے جو آتا ہے، اس کی زبان پر یہی ذکر ہے، تو ان کی منطق جواب دے گئی، اور ان کا ذہن متضاد خیالات میں الجھ کے رہ گیا۔ پھر یکایک ان کا خون کھول اٹھا اور وہ ظلم کے عفریت کا مقابلہ کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس سرکشی کا نتیجہ کیا ہو گا؟ لیکن کوئی ان کے دل میں بیٹھا انہیں ظالمانہ قوانین کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسا رہا تھا۔ شروع شروع میں ان پر ایک موہوم سا ڈر، ایک بے معنی سا تذبذب چھایا ہوا تھا۔ لیکن جب انہوں نے اس راستے میں قدم رکھا تو یہ تذبذب یہ جھجک مٹ گئی۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے، الجھنیں خود بخود دور ہوتی جاتی تھیں۔ انہیں اپنے سوالوں کا جواب آپ سے آپ ملتا جا رہا تھا۔ اب انہیں اپنی قوت کا احساس ہو چلا تھا۔ اور انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ استبداد کے جس دیو سے وہ اب تک ڈرتے رہے ہیں۔ اس کے پاؤں لکڑی کے ہیں جسے گھن لگ چکا ہے۔ ٭٭٭ آٹھواں باب سیاسی جدوجہد خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں کے بعد ہندوستان میں شدھی اور سنگھٹن کا طوفان امڈا۔ جگہ جگہ فرقہ وار فساد ہوئے اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حقوق کا سوال پوری قوت سے لوگوں کے سامنے آ گیا۔ اگرچہ بڑے بڑے مسلمان لیڈر ابھی تک کانگریس کا دامن تھا مے ہوئے تھے لیکن فضا میں تکدر اور انقباض کے آثار تھے اور یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہندوستان کی سیاسیات میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے راستے الگ الگ ہیں۔ آج نہیں تو کل ضرور وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ۱۹۲۸ء میں برطانوی حکومت نے اس بات کی تحقیقات کرنے کے لئے کہ ہندوستان میں کس قسم کا نظام حکومت نافذ ہونا چاہیے ایک کمیشن بھیجا جس کے صدر سر جان سائمن تھے۔ کانگریس نے کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ لیکن بائیکاٹ کے سوال نے لیگ کو دو حصوں میںبانٹ دیا۔ ایک گروہ جس کے لیڈر مسٹر محمد علی جناح تھے، کمیشن کے بائیکاٹ کا حامی تھا اور دوسرا گروہ جس کی عنان میاں سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی، بائیکاٹ کا مخالف تھا اب آل پارٹیز کانفرنس نے جس میں لیگ اور کانگریس دونوں شامل تھے، ہندوستان کا دستور اساسی بنانے کے لئے پنڈت موتی لال نہرو کی صدارت میں ایک کمیٹی مقرر کی اس مجلس نے جو دستور بنایا، مسلمانوں کی بعض جماعتوں نے بڑی شدت سے اس کی مخالفت کی اور علی برداران جو اب تک کانگریس کے ساتھ دیئے جا رہے تھے، اس سے الگ ہو گئے۔ اب آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے نام سے ایک نئی جماعت وجود میں آئی۔ جس نے آگے چل کے مسلم کانفرنس کے نام سے ایک مستقل مجلس کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس جماعت میں اگرچہ بڑے مقتدر مسلمان لیڈر شامل تھے، اور عام مسلمانوں کی اکثریت کانگریس کی مخالف تھی، تاہم مسلمان قومی کارکنوں کی ایک خاصی بڑی جماعت جس نے مسلم نیشنلسٹ کے نام سے شہرت پائی، کانگریس کے ساتھ تھی۔ چنانچہ جب لاہور کانگریس کے بعد ۱۹۳۰ء میں گاندھی نے نمک کی ستیا گرہ شروع کی تو بہت سے مسلمان اس تحریک میں شریک تھے اور جہاں تک قربانی کا تعلق ہے، ہندوؤں سے بھی آگے نظر آتے تھے۔ پنجاب اور صوبہ سرحد میں جو کشمیر کے پڑوسی ہیں۔ اس تحریک کا بڑا زور تھا لاہور اگرچہ مدت سے انقلاب پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ تاہم یہاں معاملہ قید و بند سے آگے نہ بڑھنے پایا۔ لیکن پشاور میں متواتر تین گھنٹے گولی چلتی رہی اور بہت سے لوگ مارے گئے۔ آخر ایک پر زور معرکہ کے بعد جس میں دونوں فریقوں نے اپنی پوری طاقت خرچ کر دی تھی۔ گاندھی جی اور لارڈ ارون کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے سول نافرمانی ختم کر دی گئی۔ حکومت نے تمام آرڈی نینس واپس لے لئے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس واقعہ کو تین مہینے ہوئے تھے، کہ کشمیر میں بعض ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے یہاں کے مسلمانوں کو ابھار کے حکومت کے مقابلے پر کھڑا کر دیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی کئی انجمنیں قائم تھیں۔ لاہور میں بھی کشمیر کانفرنس کے نام سے ایک مجلس موجود تھی۔ جس کے سالانہ جلسے ایک زمانے میں بڑی دھوم دھام سے ہوا کرتے تھے، لیکن ان انجمنوں کی سرگرمیوں کا دائرہ تعلیمی مسائل تک محدود تھا۔ اخبارات میں بھی کبھی کبھار کشمیر کے متعلق ایک آدھ مضمون چھپ جاتا تھا جس میں بڑے مودبانہ انداز میں حکومت کو بعض معمولی باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی۔ یکایک لاہور کے ایک روزانہ اخبار انقلاب میں مراسلات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جن کا لب و لہجہ اگرچہ اعتدال کا پہلو لئے ہوئے تھا، لیکن ان میں کشمیر کے مختلف محکموں کے متعلق اچھی خاصی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہندو، خصوصاً کشمیری پنڈت سارے محکموں پر چھائے ہوئے ہیں، اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ حکام یہ مضامین پڑھ کے جھلا اٹھے اور ریاست میں ’’ انقلاب‘‘ کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ سری نگر کے لوگوں کو بیرونی دنیا سے جو تعلق تھا اس کا ذریعہ زیادہ تر وہ سیاح تھے، جو گرمی کا موسم گزارنے کشمیر آ جاتے تھے۔ لیکن جموں کا شہر پنجاب کی سرحد پر ہے۔ وہاں کے لوگ اکثر پنجاب جاتے تھے۔ لیکن جموں کا شہر پنجاب کی سرحد پر ہے۔ وہاں کے لوگ اکثر پنجاب جاتے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے خلافت اور عدم تعاون کے ہنگامے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ جلسوں میں شریک ہو کے لیڈروں کی تقریریں سنی تھیں۔ جلوس نکلتے دیکھے تھے۔ ان میں سے بعض نوجوانوں نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے نام سے ایک انجمن بھی قائم کر رکھی تھی۔ ’’انقلاب‘‘ میں جو مراسلے چھپتے رہے تھے وہ انہیں لوگوں نے لکھے اور لکھوائے تھے۔ سری نگر میں اس قسم کی کوئی انجمن تو نہیں تھی ہاں فتح کدل میں ایک مسلم ریڈنگ روم ضرور تھا، جہاں کچھ نوجوان مل بیٹھتے تھے۔ ان میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو مدتوں تلاش معاش میں سرگردان رہے تھے۔ اور اب ہمت ہار کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ یا کوئی چھوٹی موٹی ملازمت قبول کر کے بیٹھ گئے تھے۔ یہ لوگ جب اکٹھے ہوتے مسلمانوں کی زبوں حالی اور ہندو افسروں کی تنگ خیالی کے قصے چھڑ جاتے۔ اب انہوں نے بھی اپنی اپنی شکایتیں لکھ کے ’’ انقلاب‘‘ میں چھپوانی شروع کر دیں۔ ’’ انقلاب آتا تھا تو سب لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ پھر ’’ انقلاب‘‘ کا داخلہ بند ہو گیا اور یہ صحبتیں بے کیف ہو کے رہ گئیں۔ جموں اور سری نگر کے نوجوانوں کی ان دو جماعتوں کو ریاست سے باہر کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ ایک حد تک کانگرس کے بعض لیڈروں خصوصاً پنڈت جواہر لال نہرو کے معترف تھے۔ کیونکہ پنڈت نہرو اصل کے لحاظ سے کشمیری ہیں۔ جموں کے نوجوانوں نے جب یہ سنا کہ ڈاکٹر شیخ محمد عالم کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر چن لئے گئے ہیں، تو انہیں خوشی ہوئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا خاندان جموں سے اٹھ کے پنجاب میں جا بسا تھا۔ تاہم یہ لوگ ریاست میں کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں چاہتے تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ ہندوستان آزاد ہو جائے لیکن غالباً انہوں نے ابھی تک اس بات پر غور بھی نہیں کیا تھا کہ کشمیر کی آزادی کے لئے کوئی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ چاہتے تھے کہ ملازمتوں کی تقسیم میں مسلمانوں سے انصاف کیا جائے۔ مسلمان اہل کاروں کو بھی ہندوؤں کی طرح ترقیاں دی جائیں اور ہندو نوازی اور خویش پروری کا سلسلہ بند ہو جائے۔‘‘ ہندوستان کے سیاسی معاملات میں یہ نوجوان مسلم کانفرنس یا یوں کہنا چاہیے کہ ان لوگوں کے ہم خیال تھے جو نہرو رپورٹ کو غیر منصفانہ سمجھتے تھے اور کانگریس کی سرگرمیوں سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ اگرچہ ابھی تک عام مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی تنظیم نہیں ہوئی تھی کیونکہ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ دونوں خواص کی جماعتیں تھیں۔ لیکن مسلمانوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو کانگریس کے شدید مخالف تھے۔ مسلم نیشنلسٹ جماعت بھی بہت کمزور ہو گئی تھی۔ کیونکہ ۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی کے بعد کانگریسی مسلمانوں کی ایک جماعت جسے مرحوم مولانا محمد علی ’’ پنجابی ٹولی‘‘ کہا کرتے تھے، کانگریس سے الگ ہو گئی تھی۔ ان لوگوں نے مجلس احرار1؎ کے نام سے ایک علیحدہ جماعت قائم کر لی تھی۔ 1؎ جماعت احرار کا مسلک کانگریس اور مسلم کانفرنس کے بین بین تھا۔ جہاں تک حقوق کا سوال ہے یہ لوگ بہت حد تک مسلم کانفرنس کے ہم خیال تھے۔ لیکن ان کی رائے یہ تھی کہ حقوق حاصل کرنے کے لئے تقریروں اور قرار دادوں ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں حربوں سے کام لینا چاہیے جن سے کانگریس کام لیتی رہی ہے۔ مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر شیخ محمد عالم اور مولانا عبدالقادر قصوری کے سوا پنجاب کے قریب قریب تمام کانگریسی مسلمان اس جماعت میں شامل تھے۔ دوسری جماعتوں کے مقاصد سے تو نہیں البتہ طریق کار سے ضرور اختلاف تھا۔ لیکن سری نگر اورجموں کے یہ نوجوان نیشنلسٹ مسلمانوں سے متاثر تھے، نہ احرار سے۔ بلکہ ان میں حق طلبی کا یہ ولولہ اخبار انقلاب نے پیدا کیا تھا جو اس زمانے میں جداگانہ انتخاب، مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی تنظیم اور آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ملازمتوں کی تقسیم کا سب سے بڑا علم بردار تھا، اور کانگریس خصوصاً کانگریسی مسلمانوں پر نہایت تلخ انداز میں نکتہ چینی کیا کرتا تھا۔ انقلاب کا داخلہ بند ہوتے ہی ان نوجوانوں کو ایسا معلوم ہوا کہ انہیں جو نورانی مشعل ہاتھ آ گئی تھی وہ گل ہو گئی ہے، اور وہ اندھیرے میں ٹامک ٹویئے مارتے پھر رہے ہیں۔ اب دل کا غبار نکلنے کے لئے دوسرے راستے تلاش کرنے لگا۔ اتفاق سے انہیں دنوں جموں میں ایک مولوی صاحب نماز کے موقع پر اردو میں خطبہ پڑھنے لگے تو ایک ہندو تھانہ دار نے جسے معلوم نہیں تھا کہ خطبہ کیا ہوتا ہے انہیں روک دیا۔ نواح جموں میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہوا یعنی مسلمان عید کے دن ایک تالاب کے کنارے نماز پڑھنے اکٹھے ہوئے، تو پولیس نے انہیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی۔ یہ دو واقعات ہی مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے کافی تھے، کہ جموں کے ایک ہندو ہیڈ کانسٹیبل نے ایک مسلمان کانسٹیبل کا بستر اٹھا کے پھینک دیا۔ بستر میں پنج سورہ تھا۔ جو زمین پر گرپڑا۔ اس پر ریاست بھر میں ناراضی کی لہر دوڑ گئی۔ ان دنوں جموں اور سری نگر کے نوجوانوں میں تعلق پیدا ہو چکا تھا۔ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے توہین قرآن کے سلسلے میں کچھ پوسٹر چھپوا کے سری نگر بھیجے۔ ایک نوجوان سری نگر کے بازاروں میں پوسٹر لگا رہا تھا کہ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس واقعہ نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا شام کو جامع مسجد میں جلسہ ہوا جس میں گرما گرم تقریریں ہوئیں۔ مہاراجہ سے درخواست کی گئی کہ جن اہل کاروں نے مسلمانوں کی دلآزاری کی ہے، انہیں سزائیں دی جائیں۔ جلسے کے بعد جلوس نکالا اور سری نگر کے بازار اسلام زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے کشمیر میں یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ تھا۔ اس جلسے میں ایک نوجوان نے بڑے زور کی تقریر کی۔ وہ لانبے قد اور گہرے جسم کا نوجوان تھا۔ علی گڑھ سے ایم ایس سی کا امتحان پاس کر کے مدتوں ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھرا تھا۔ جب کوئی اچھی ملازمت نہ ملی تو ساٹھ روپے ماہوار پر ایک اسکول میں نوکر ہو گیا۔ اس کا نام تو شیخ محمد عبداللہ تھا، لیکن لوگوں میں وہ ماسٹر عبداللہ کے نام سے مشہور تھا۔ فتح کدل کے مسلم ریڈنگ روم میں جو لوگ آیا جایا کرتے تھے۔ اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے کئی بار ریڈنگ روم کے ایک گوشے میں اخبار سامنے رکھے کسی گہرے خیال میں کھوئے ہوئے پایا تھا۔ ’’ انقلاب‘‘ میں حکام کی دراز دستیوں کے متعلق اس کے کئی مضمون بھی چھپ چکے تھے۔ نوجوان مقرر نے تقریر کے شروع میں قرآن کی چند آیتیں پڑھیں۔ ان کا ترجمہ کیا، پھر کلام الٰہی کی عظمت، مسلمانوں کی پستی اور بے حسی کے متعلق کچھ باتیں کہیں۔ شیخ محمد عبداللہ کو اس سے پہلے کبھی اتنے بڑے مجمع میں اپنے خیالات ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس کی تقریر میں نہ خطابت کا زور تھا، نہ کہنہ مشق مقرروں کی سی روانی، لیکن اس کے قرآن پڑھنے کا انداز بڑا دلکش تھا۔ پھر موقع ہی کچھ ایسا تھا کہ اس نے جو کچھ کہا، دلوں میں اترتا چلا گیا۔ چنانچہ جلسہ کے بعد جلوس نکلا تو یہ حال تھا کہ ’’ اسلام زندہ باد‘‘ کے نعروں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ماسٹر عبداللہ زندہ باد کی صدائیں بھی بلند ہو جاتی تھیں۔ حکومت نے توہین قرآن کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے مسٹر ویکفیلڈ کو جو بڑے جوڑ توڑ کا انگریز تھا، جموں بھیجا۔ اس تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو ہیڈ کانسٹیبل تو صاف بری ہو گیا۔ ہاں مسٹر ویکفیلڈ کی سفارش پر اسے پنشن دے دی گئی اور مسلمان کانسٹیبل کو موقوف کر دیا گیا۔ اس پر لوگ اور بھڑک اٹھے۔ جن دنوں ادھر جموں میں تحقیقات ہو رہی تھی۔ حکام نے بڈھے بڈھے کشمیریوں کو جن کی کئی پشتیں سرکار کی خیر خواہی میں گزر گئی تھیں، بلوایا اور ان سے مشورہ کر کے جامع مسجد میں جلسوں اور تقریروں کی ممانعت کر دی۔ لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ ادھر جامع مسجد میں ایک جلسہ ہوا۔ ادھر خانقاہ معلیٰ میں ایک اجتماع کا انتظام کیا گیا۔ جس میں جموں کے نمائندے بھی شریک تھے۔ ان لوگوں میں چودھری غلام عباس بھی تھے۔ جنہوں نے آگے چل کے کشمیر کی سیاسیات میں بڑا نام پیدا کیا۔ یہاں بھی خوب خوب تقریریں ہوئیں۔ لیکن ان میں معرکے کی تقریر عبدالقدیر کی تھی۔ یہ شخص سرحد کا رہنے والا اورکسی انگریز افسر کا خانساماں تھا۔ اب تک سری نگر میں جتنے جلسے ہوئے اور جلوس نکلے تھے، ان سب میں وہ شریک تھا۔ بلکہ ایک آدھ جلسے میں تقریر بھی کر چکا تھا۔ کشمیری مقرر تو پھونک پھونک کے قدم رکھتے اور سوچ سمجھ کے بات کرتے تھے۔ لیکن عبدالقدیر اکھڑ پٹھان۔ تقریر کرنے کھڑا ہوا تو جو منہ میں آیا کہہ گیا۔ ہندو حکام کے حق میں تو اس نے جو کہا سو کہا، ان کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کو بھی لے ڈالا، اور ایسے ایسے طعنے دیئے کہ سننے والوں کا خون کھول اٹھا۔ برسات کا زمانہ تھا ۔ سیلاب نے بڑی آفت مچا رکھی تھی۔ پانی چڑھا ہوا تھا۔ مکان پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں جلسوں کا زور تھما رہا۔ لیکن ادھر پانی اترا، اور بازاروں میں اگلی سی گہما گہمی نظر آنے لگی، اور ادھر حکومت نے جسے اپنا دبدبہ قائم رکھنے کا بڑا خیال تھا۔ کجلائی ہوئی چنگاریوں کو کرید کے دبی ہوئی آگ کو بھڑکا دیا یعنی عبدالقدیر کو خانقاہ معلی کی تقریر کی بنا پر گرفتار کر لیا۔ اس پر جامع مسجد میں ایک جلسہ ہوا۔ اور لوگوں کے جوش و خروش کا پھر وہی عالم نظر آنے لگا۔ سنٹرل جیل میں عبدالقدیر کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو جیل کے باہر لوگوں کے ٹھٹ لگے نظر آتے تھے۔ شروع شروع میں ہجوم پر امن تھا۔ لیکن جب سیشن جج جیل میں داخل ہونے لگا۔ اور پھاٹک کھلا تو کچھ لوگوں نے چاہا کہ ہم بھی گھس بیٹھ کے اندر جا پہنچیں۔ اور بعض تو اس ترکیب سے اندر چلے بھی گئے۔ بات معمولی سی تھی سرکاری افسر طرح دے جاتے تو جھگڑا نہ بڑھتا۔ لیکن ایک مجسٹریٹ صاحب نے اپنا اختیار جتانے کے شوق میں پولیس کو حکم دے دیا کہ جن لوگوں نے جیل میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے، انہیں گرفتار کر لو۔ چنانچہ بعض لوگ گرفتار کر لئے گئے۔ اس پر ہجوم بے قابو ہو گیا اور کہا جاتا ہے بعض نوجوانوں نے جیل میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔ حکام میں اتنی تاب کہاں کہ چپکے کھڑے یہ سب کچھ دیکھتے رہتے۔ گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ نو آدمی مارے گئے اور چالیس زخمی ہوئے۔ ان میں سے بھی بہت سے ہسپتال پہنچ کے جانبر نہ ہو سکے۔ ہجوم جیل سے نعرے لگاتا ہوا لوٹا تو اس کے شہر پہنچتے پہنچتے دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ ایک پنجابی ہندو کی دکان کھلی تھی۔ لوگوں نے کہا تم بھی دکان بند کر دو۔ اس پر وہ بہت بگڑا اور لڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک نے جس کا رخ ابھی تک حکومت کی طرف تھا فرقہ وار فساد کی صورت اختیار کر لی۔ اور اس ہنگامہ عام میں ہندوؤں کی کچھ دکانیں بھی لٹ گئیں۔ اب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور کوئی ساڑھے تین سو مسلمان گرفتار کر لئے گئے۔ جن میں چودھری غلام عباس اور ان کے دو ساتھی بھی تھے۔ دوسرے دن جامع مسجد کو بھی گھیر لیا گیا۔ اور شیخ عبداللہ بھی پکڑے گئے۔ لیکن اس پکڑ دھکڑ کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اور لوگوں کا جوش گھٹنے کی بجائے بڑھتا چلا گیا۔ کئی دن مسلسل ہڑتال رہی اور عورتوں اور بچوں کے جلوس نکلے کہیں کہیں ہنگامے بھی ہوئے اور ایک آدھ جگہ پھر گولی چلی۔ شہر تو خیر شہر تھا، جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ دیہات تک جا پہنچا۔ لوگوں کے دلوں پر گرفتاری اور قید کا جو رعب بیٹھا ہوا تھا وہ مٹ چکا تھا۔ اور گرفتاری کیا چیز ہے۔ لوگ سینوں پر گولیاں بھی کھا چکے تھے۔ لیکن حکام ابھی تک اس وہم میں مبتلا تھے کہ کشمیری آخر کشمیری ہیں۔ وہ تو اصل میں باہر کے لوگوں نے انہیں ابھار کے سرکار کے مقابلے پر کھڑا کر دیا ہے۔ ورنہ ان بچاروں کو ان قضیوں سے کیا واسطہ۔ یہ خیال دلوں میں ایسا بیٹھا تھا کہ نکالے نہیں نکلتا تھا۔ حکومت کے کار پردازوں نے یہ نتیجہ اس لئے نکالا کہ مغلوں کے زمانے سے کشمیریوں کو حکام کے احکام سے کبھی سرتابی کی جرات نہیں ہوئی تھیں۔ مغلوں کے عہد میں جو آرام پایا تھا۔ اس نے عیش و عشرت کا خوگر کر دیا تھا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سو سال ایسا ظلم و ستم دیکھا کہ ساری ہمت جواب دے گئی۔ چنانچہ مدتوں سے کشمیریوں کا یہ حال تھا کہ کسی سرکاری اہل کار نے ذرا دھمکی دی اور ڈر گئے، اس لئے حکام سمجھتے تھے کہ یہ جوش و خروش عارضی ہے۔ جذبات کی چڑھی ہوئی ندی اتر گئی تو وہی کشمیری ہوں گے، وہی ہم، جب چاہیں گے ڈرا لیں گے، اور جو چاہیں گے کریں گے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ کہ حکومت کا ڈر دلوں سے ایک دفعہ نکل گیا تو نکل گیا۔ مہاراجہ نے جب دیکھا کہ معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے، تو راجہ ہری کشن کول کو جو بڑا جہاندیدہ شخص تھا اور ریاستی معاملات کا بڑا تجربہ رکھتا تھا، بلوا کے وزارت اس کے حوالے کر دی۔ اس نے بڑی ہوشیاری دکھائی یعنی جب دیکھا کہ اعلانوں سے کام نہیں نکلتا تو لیڈروں سے پر امن رہنے کا وعدہ لے کر انہیں رہا کر دیا۔ پھر ان سے سمجھوتے کے لئے گفتگو شروع کی۔ یہ مرحلہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے طے ہو گیا یعنی ادھر سے وفاداری کا یقین دلایا گیا، ادھر سے قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن راجہ پرانا پچیت تھا۔ زمانے کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکا تھا۔ ادھر شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی انیلے نوجوان تھے۔ جنہوں نے تحریکوں کا حال کتابوں میں پڑھا تھا۔ یا لوگوں سے سنا تھا۔ راجہ نے نوجوانوں سے جو اقرار نامہ لکھوایا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ تحریک ختم کر دی جائے گی۔ جا مع مسجد میں آئندہ تقریریں نہیں ہوں گی۔ ساری مسجدوں میں اعلان کر دیا جائے گا کہ مسلمان باہر کے لوگوں کا اثر قبول نہیں کریں گے اور مہاراجہ کے وفادار رہیں گے۔ حکومت کی طرف سے بھی وعدہ کیا گیا کہ جب تحریک بالکل ختم ہو جائے گی تو قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ جو احکام پچھلے دو مہینوں میں نافذ ہوئے ہیں وہ واپس لے لئے جائیں گے۔ اور جن سرکاری ملازموں کو موقوف کیا گیا ہے، اور اگر آئندہ سیاسی جھگڑوں سے الگ رہنے کی ضمانت دے سکے، تو انہیں بھی بحال کر دیا جائے گا۔ نوجوان لیڈر سمجھتے تھے کہ میدان ہمارے ہاتھ رہا یعنی ہم نے حکومت کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور ادھر حکام اس خیال میں مگن تھے کہ بیرونی مداخلت کا کانٹا جو مدت سے کھٹک رہا، وہ تو نکل گیا۔ یعنی باہر کے لوگ جب کشمیر کے معاملات میں دخل دینا چاہیں گے، خود کشمیری مسلمان انہیں یہ کہہ کے چپ کرا دیں گے کہ تم ہمارے معاملات میں دخل دینے والے کون؟ حکومت کو صرف یہی اندیشہ نہیں تھا کہ پھر کوئی عبدالقدیر نہ اٹھ کھڑا ہو، بلکہ پنجاب سے جو خبریں آ رہی تھیں، ان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہاں بڑا جوش پھیلا ہوا ہے۔ لاہور میں کشمیر کمیٹی کے نام سے ایک مجلس قائم ہو گئی ہے۔ جس میں علامہ محمد اقبال بھی شامل ہیں۔ اور قادیانی جماعت کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد اس کے کاموں میں بڑا حصہ لے رہے ہیں۔ اس مجلس نے اپنا ایک وفد بھی کشمیر بھیجنا چاہا تھا لیکن حکومت نے اجازت نہ دی۔ اس کے علاوہ مجلس احرار بھی اس جھگڑے میں کود پڑنے کے لئے کندے تول رہی تھی۔ اس لئے راجہ ہری کشن نے اگر یہ سمجھا کہ اس نے بیرونی مداخلت کا سد باب کر کے بڑا تیرمارا ہے تو ٹھیک سمجھا۔ کشمیری نوجوان اس پھندے میں الجھ گئے تو اس کی سب سے بڑی وجہ عبدالقدیر تھا۔ یہ لوگ سوچتے ہوں گے کہ ملک ہمارا لیڈر، ہم، یہ عبدالقدیر کہاں سے آ ٹپکا، کہ آج ہر طرف عبدالقدیر زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ پھر اس موقع پر جو خونریزی ہوئی، اس سے بھی گھبرائے۔ کیونکہ اس سے پہلے نہ کشمیر میں کوئی سیاسی تحریک ہوئی تھی، نہ اتنا خون بہا تھا۔ بہت سے میرزا منشوں کا تو حال تھا کہ فصد کھلتی دیکھتے تو غش آ جاتا تھا اکثر خیال آتا تھا کہ عبدالقدیر نہ ہوتا تو یہ نوبت کیوں آتی؟ باہمی گفت و شنید سے سارے جھگڑے طے ہو جاتے۔ اصل میں کشمیر پہلے ہی تودۂ بارود بنا ہوا تھا اور اسے تودہ بارود بنانے میں ’’ انقلاب‘‘ کا بڑا ہاتھ تھا۔ صرف دیا سلائی کی ضرورت تھی۔ وہ عبدالقدیر نے مہیا کر دی۔ وہ خود تو رہا ہو کے اور وطن جا کے واپس نہ آیا اور پھر کسی نے اس کا نام بھی نہ سنا۔ لیکن وہ جو راستہ دکھا گیا تھا اس پر لوگوں کی لیکن ڈوری بندھی ہوئی تھی۔ اور دلوں سے جیل کا ڈر نکل گیا تھا۔ اقرار نامہ کی شرطیں سن کے کشمیریوں میں بڑا جوش پھیلا، اور انہوں نے شیخ عبداللہ کے گھر پر حملہ کر دیا۔ لیکن وہ چپکے سے نکل کے ایک ہوس بوٹ میں جا چھپے تھے۔ اس لئے ان کے ہاتھ نہ آئے۔ دوسرے دن جب یہ طوفان ذرا تھما تو انہوں نے جامع مسجد میں تقریر کی، جس میں وقت کی ضرورتوں اور مصلحتوں کا ذکر کچھ اس پیرائے میں کیا گیا تھا کہ لوگوں کا غصہ کچھ کچھ دھیما ہو گیا۔ اب ایک اور قضیہ سامنے آیا۔ حکام کا اصرار تھا کہ مسلمان اپنے مطالبات جلد پیش کریں اور یہاں مطالبات پیش کرنے میں اس لئے دیر ہو رہی تھی کہ مسودہ مشورہ کے لئے کشمیر کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا۔ حکام بھی دراصل اسی لئے مطالبات پیش کرنے پر زور دے رہے تھے کہ کشمیری نوجوان باہر کے لوگوں سے مشورہ نہ کر سکیں۔ ان کے پیش کرنے میں دیر ہوئی تو بہت بگڑے اور نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے لئے موقع تلاش کرنے لگے۔ اصل میں صلح صفائی کی باتیں ظاہری لفافہ تھیں۔ حکام کی نیتوں میں فتور تھا۔ انہوں نے یہ وعدہ تو کر لیا کہ جو سرکاری ملازم موقوف کئے گئے ہیں، انہیں بحال کر دیا جائے گا۔ لیکن جب وعدے کے ایفا کا وقت آیا تو رخنے نکال کے بعض لوگوں کی بحالی کے معاملہ کو صاف ٹال گئے۔ اس پر شور مچا، جلسے ہوئے، تقریریں کی گئیں۔ اور حکام نے جو اس بات کے بھی روادار نہیں تھے کہ کشمیری لیڈر باہر کے لوگوں سے ہی کر لیں، شیخ عبداللہ کو گرفتار کر لیا۔ مسلمان پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کی خبر سن کے قوت آزمائی پر تیار ہو گئے۔ آپس کے مشورے سے فیصلہ ہوا کہ تحریک شروع کرنے کا یہی وقت ہے۔ جو ہوا سو ہوا، اب ہمیں میدان میں کود پڑنا چاہیے۔ غرض جنگی کونسل بنی، جلسے ہوئے، جلوس نکلے، نعرے لگے، ادھر سے بھی کلہ بکلہ جواب دیا گیا۔ پولیس آئی، گرفتاریاں ہوئیں۔ گولی چلی، کہیں کہیں ہشت مشت بھی ہوئی۔ ایک دو جگہ ہجوم نے بے قابو ہو کے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ ادھر سے پتھر کا جواب گولی سے دیا گیا اور بہت سی جانیں ضائع ہو گئیں۔ آخر حکومت نے اس خیال سے کہ تحریک کے سارے لیڈر گرفتار ہو گئے تو یہ طوفان خود بخود تھم جائے گا، دو لیڈروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ یہ خبر اس طرح پھیلی جیسے سوکھے بن میں آگ پھیلتی ہے اور خانیار میں جو سری نگر کا ایک مشہور محلہ ہے، کوئی پچاس ہزار مسلمان اس ارادے سے جمع ہوئے کہ جانوں پر کھیل جائیں گے مگر لیڈروں کو گرفتار نہ ہونے دینگے۔ اس موقع پر لوگوں کے جوش و خروش کا یہ حال تھا کہ فوج اور پولیس سے ان کی ٹکر ہو جاتی تو بڑا کشت و خون ہوتا۔ لیکن حکومت نے جو اب تک پے در پے غلطیاں کرتی چلی آئی تھی، اس موقع پر بڑی عقلمندی دکھائی یعنی فوج کو ہٹا لیا۔ فوج ہٹنے کو ہٹ تو گئی لیکن حکام جنہیں اپنے وقار کا بڑا خیال تھا، بہت جھلائے ہوئے تھے۔ اور لوگوں کی نظروں میں ان کی جو سبکی ہوئی تھی، کسی نہ کسی طرح اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے اور کوئی طریقہ نہ سوجھا تو مہاراجہ نے ۲۴ ستمبر کو اپنے دستخطوں سے سری نگر میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ۲۵ ستمبر کو فوج کا ایک دستہ شہر میں سے گذرا۔ اس کے آگے آگے ریاستی جھنڈا تھا۔ جو مسلمان نظر آتا، اسے اس جھنڈے کے سامنے سر جھکانے اور مہاراجہ کی جے کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا۔ لوگوں کو گھر کے اندر یا باہر مل بیٹھنے اور آپس میں بات چیت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ڈوگرے سپاہی جنہیں ایسا موقع خدا دے۔ شہر میں پھیلے ہوئے تھے، جسے جی چاہتا پکڑ لیتے۔ سلام کرواتے، ناک رگڑواتے، جب کہیں جا کے چھوڑتے۔ اس پر بھی اس ہنگامے میں بہت سے لوگ پکڑے گئے بعض کو قید کی سزائیں دی گئیں۔ بعض کو جرمانہ کیا گیا۔ جو زیادہ دل چلے نظر آئے انہیں سزائے تازیانہ دی گئی۔ آخر یہ ہنگامہ گیر دور ختم ہوا اور ۳اکتوبر کو مہاراجہ کی سالگرہ کے موقع پر سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ اب مسلمانوں کی طرف سے مہاراجہ کی خدمت میں ایک میموریل پیش ہوا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وزراء میں مسلمانوں کی تعداد تناسب آبادی کے مطابق ہو۔ ملازمتوں کی تقسیم میں بھی یہی اصول مدنظر رکھا جائے۔ ریاست میں ایک مجلس آئین ساز قائم کی جائے، جس کے صرف تیس فی صدی ممبروں کو حکومت نامزد کرے۔ باقی کو عوام منتخب کریں۔ پنجاب کے نظام مالگزاروں کے نمونے پر نیا نظام مال گزاری قائم کیا جائے۔ لوگوں کو تحریر و تقریر کی آزادی ہو اور ظالمانہ قوانین منسوخ کر دیئے جائیں۔ کشمیر میں ایک قانون چلا آتا ہے کہ اگر کوئی ہندو یا سکھ اسلام قبول کر لے تو اسے اپنی آبائی جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ میموریل میں خصوصیت سے اس قانون کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بعض ٹیکسوں کا بھی ذکر تھا، جس کی زد مسلمانوں ہی پر پڑتی ہے۔ اس میموریل کے پیش ہونے سے پہلے سری نگر کے ہنگامے کی تحقیقات کے لئے ایک انگریز افسر مسٹر مڈلٹن کی صدارت میں کمیشن مقرر ہو چکا تھا۔ میموریل پیش ہوا تو مہاراجہ نے اس کے جواب میں کہا کہ سری نگر میں جو کچھ ہوا اس کی تحقیقات کا بندوبست کر دیا گیا۔ ہم عنقریب ایک اور کمیشن مقرر کرنے والے ہیں جو اس بات کی چھان بین کرے گا کہ ریاست میں کس قسم کی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ بات اگر زبانی وعدوں ہی تک رہتی تو لوگوں کو اتنا اطمینان نہ ہوتا، لیکن مہاراجہ نے ایک عقلمندی یہ کی کہ پتھر مسجد کو نور جہاں بیگم کی یادگار ہے اور جس پر حکومت کا قبضہ چلا آتا تھا، اپنے حسن نیت کے ثبوت کے طور پر واگزار کر دیا۔ اس پر لوگ مطمئن ہو گئے۔ ادھر تو یہ ہو رہا تھا، ادھر پنجاب میں کشمیر کے واقعات نے آگ سی لگا رکھی تھی۔ جلسے ہو رہے تھے، تقریریں کی جا رہی تھیں۔ اخباروں میں کشمیر کے متعلق پر زور مضامین شائع ہو رہے تھے۔ اگرچہ کشمیر کمیٹی اچھا خاصا کام کر رہی تھی، لیکن اس کا دائرہ کشمیریوں کی مالی اور قانونی امداد تک محدود تھا۔ اور عوام کی ہنگامہ پسند طبیعتیں کچھ اور چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کو کشمیر کمیٹی کے متعلق شبہات بھی تھے کیونکہ اس پر قادیانی چھائے ہوئے تھے۔ یکایک احرار دامن گردان کر اٹھے اور رضا کاروں کے جتھے کشمیر بھیجنے شروع کر دیئے۔ بنفشہ طرۂ مفتول خود گرہ می زد صبا حکایت زلف تو در میاں انداخت احرار سیاسیات کے میدان کے پرانے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے خلافت کی تحریک دیکھی تھی، کانگریس کے ساتھ رہے تھے، بارہا قید کی سختیاں جھیل چکے تھے۔ پھر انہیں ولولہ انگیز تقریریں کرنا اور دلوں کو گرمانا بھی خوب آتا تھا۔ اس لئے یہ تحریک خوب چلی اور لوگ دور دور سے چل کے لاہور پہنچنے لگے۔ تحریک کا مرکز تو لاہور تھا لیکن اس کا زور سیالکوٹ کے علاقے میں تھا۔ یہاں رضا کاروں کی لیکن ڈوری بندھی ہوئی تھی۔ جتھے آتے تھے اور سوچیت گڑھ کے راستے جموں کے علاقے میں داخل ہوتے تھے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ کچھ جتھے راولپنڈی سے کوہالہ پہنچے اور وہاں گرفتار کر لئے گئے۔ احرار کی اس تحریک سے سارے ہندوستان کے مسلمان متاثر تھے۔ کیونکہ مسلمانوں کو پہلی مرتبہ ایک ایسی تحریک چلانے کا موقع ملا تھا جس میں اگرچہ ہندوؤں کی شرکت کا شائبہ تک نہ تھا۔ پھر بھی وہ اپنی وسعت، تنظیم اور جوش و خروش کے لحاظ سے کانگریس کی کسی تحریک سے کم نہ تھی۔ لیکن احرار نے جن لوگوں کی حمائت میں یہ تحریک شروع کی تھی، ان کی طرف سے انہیں داد نہ ملی۔ کشمیر کے لیڈر خصوصاً شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کو کشمیر کمیٹی کی امداد قبول کرنے میں تو دریغ نہیں تھا، لیکن احرار سے تعاون کرنے میں انہیں سخت تامل تھا۔ اس کی کئی وجہیں تھیں۔ ایک تو احرار کے دامن پر کانگریس کی تولا کا جو داغ تھا وہ ابھی پوری طرح نہیں دھلا تھا اور شیخ عبداللہ کو جو اخبار ’’ انقلاب‘‘ کا دامن تھامے سیاسیات کے میدان میں آئے تھے، ابھی ان لوگوں سے وحشت سی تھی۔ پھر احرار چاہتے تھے کہ کشمیر میں ذمہ دار حکومت قائم ہو، اور شیخ عبداللہ اس سے کم پر راضی تھے۔ اور سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ جن دنوں احرار کی تحریک کا زور بندھا، تحقیقاتی کمیشن کا اعلان ہو چکا تھا، اور کشمیری بہت حد تک مطمئن نظر آتے تھے۔ احرار کی تحریک کا غلغلہ بلند ہوا۔ تو یہ لوگ ڈرے کہ یہ جوشیلے لوگ کہیں سارا کام نہ بگاڑ دیں۔ اصل میں کشمیر کی حکومت اور کشمیر کے لیڈر، دونوں بیرونی مداخلت سے ڈرتے تھے۔ حکومت کو یہ ڈرتھا کہ کہیں باہر کے لوگوں کے اثر سے کشمیری بالکل خود سر نہ ہو جائیں اور لیڈروں کو یہ اندیشہ کے باہر کے لوگوں نے ہمارے سیاسی معاملات میں دخل دیا تو ہمیں کون پوچھے گا؟ غرض ادھر احرار جنہوں نے بڑے بڑے ہنگامے دیکھے تھے، کشمیر کے نوجوان لیڈروں کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اور اس بات پر مصر تھے کہ کشمیر کے بارے میں جو فیصلہ کیا جائے، ہمارے مشورہ سے کیا جائے۔ ادھر کشمیری نوجوانوں کا انداز کچھ اس قسم کا تھا کہ اگر آپ کشمیر کمیٹی کی طرح ہماری مدد کر سکتے ہیں تو شوق سے کیجئے، ورنہ ہمارے معاملات میں دخل نہ دیجئے۔ لیکن یہ انداز صرف وادی کشمیر کے لیڈروں کا تھا۔ جموں کے لیڈروں میں سے اکثر احرار کے حامی تھے اور ان میں سے بعض جوشیلے نوجوانوں نے ریاست کے اکثر حصوں میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ احرار کی تحریک کی اٹھان دیکھ کے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ریاست اس طوفان کی ایک ٹکر بھی سنبھال نہ سکے گی۔ سات ہزار احرار رضا کاران دیکھتے دیکھتے قید ہو گئے۔ اب بھی وہ انبوہ در انبوہ سیلاب کی طرح امڈے چلے آتے تھے۔ اس کڑے وقت میں حکومت ہند نے مہاراجہ کشمیر کی دستگیری کی۔ یعنی ایک آرڈی نینس نافذ کر دیا، جس کے رو سے کشمیر پر احرار کی یورش خلاف قانون قرار دی گئی اور احرار کے جتھے برطانوی ہند میں گرفتار کئے جانے لگے۔ ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ مہاراجہ نے اصلاحات کے لئے جس تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا تھا، اس کے صدر گلینسی 1؎ صاحب مقرر ہوئے ہیں۔ جو عنقریب اپنا کام شروع کر دیں گے۔ کشمیری لیڈروں نے بہتیرا چاہا کہ لوگ احرار کی تحریک سے الگ رہیں، لیکن لوگ کب مانتے تھے۔ وادی کشمیر میں تو امن رہا۔ لیکن جموں اور میر پور میں فساد شروع ہو گئے۔ اور ضلع میر پور کے بعض حصوں میں تو لوگوں نے مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ پونچھ کا بھی یہی حال ہوا اور دیہات سے تمام ہندو سمٹ کے شہر میں چلے آئے۔ راجہ جگت دیو سنگھ بڑے گن دان پنڈت تھے۔ لیکن یہ کھکھیڑیں کب اٹھائی تھیں؟ اس عالم میں اور کچھ نہ سوجھا، ہندو رعایا کو ساتھ کر کے قلعہ میں جا بیٹھے۔ پونچھ کے ستم ظریف رات دن نئے نئے شگوفے چھوڑتے رہتے تھے۔ دریار کے پار اور قلعہ کے عین بالمقابل ایک اونچی پہاڑی ہے۔ ایک رات اس پہاڑی پر مشعلیں روشن نظر آئیں۔ 1؎ سربرٹرینڈ گلینسی جو آگے چل کے پنجاب کے گورنر بنے۔ جسے دیکھ کے خیال ہوا کہ وہاں کچھ لوگ جمع ہیں۔ اس پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوئیں۔ کوئی بولا، احرار ہیں، کسی نے کہا نہیں مسلح لشکر ہے۔ راجہ کے وزیر اور درباری ایسے معاملوں میں بالکل ناتجربہ کار تھے۔ انہوں نے کچھ بندوقچیوں کو جنہیں راجہ نے صرف نمائش کے لئے رکھ چھوڑا تھا، جمع کیا اور بچاؤ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اہل کاروں میں ایک صاحب بڑے عقلمند سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے راجہ کو مشورہ دیا کہ مہاراج ! پل توڑ دیجئے، پل نہ ہو گا تو دشمن دریا کے پار کیسے اترے گا۔ یہ بات راجہ اور اہل دربار کو پسند آئی اور پل توڑ کے رکھ دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ وہم کی کرشمہ آرائی تھی، ورنہ کہاں احرار اور کہاں پونچھ کے کہسار؟ انہیں دنوں کشمیر کی حکومت نے ایک اور شاخسانہ نکالا شیخ عبداللہ کے ساتھیوںمیں ایک صاحب مفتی ضیاء الدین بھی تھے جو رہنے والے تو پونچھ کے تھے لیکن مدت سے سری نگر میں مقیم تھے۔ ان پر یہ الزام لگا کہ باہر کے لوگوں خاص طور پر بعض قادیانیوں سے ان کا ساز باز ہے، اور حکومت نے انہیں جلا وطن کرنے کے احکام صاد کر دیئے۔ شیخ عبداللہ ان دنوں گلینسی کمیشن کے چکر میں تھے۔ انہوں نے بہتیرا چاہا کہ حکومت جلا وطنی کا حکم واپس لے لے لیکن حکام جنہیں قیام امن سے زیادہ مہاراجہ پر اپنی کاردانی اور لیاقت کا نقش جمانے کی فکر تھی،ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ مفتی ضیاء الدین کی جلا وطنی کا حکم واپس لینا درکنار، انہوں نے شیخ عبداللہ کی زباں بندی کا حکم نافذ کر دیا۔ شیخ صاحب نے دوسرے دن جامع مسجد میں جو تقریر کی، اس کا لب و لہجہ اعتدال کا پہلو لئے ہوئے تھا۔ غرض تقریر کیا تھی پند و موعظت کا دفتر تھا۔ کچھ وقت کی ضرورتوں اور مصلحتوں کا ذکر کچھ اپنی مجبوریوں کا بیان۔ لیکن قانون شکنی ا ٓخر قانون شکنی ہے۔ حکام نے انہیں جھٹ گرفتار کر لیا۔ اور چھ مہینے کے لئے جیل بھیج دیا۔ میرپور اور پونچھ کے علاقوں میں تو پہلے ہی طوفان برپا تھا۔ اب صوبہ کشمیر کے لوگ بھی مشتعل ہو گئے۔ اوڑی، سوپور، بارہ مولا میں ہنگامے ہوئے سردی کا موسم تھا۔ لوگ کانگڑیاں لئے پھرتے تھے۔ پولیس سے ٹکر ہوئی تو انہوں نے کانگڑیاں پھینکنی شروع کر دیں۔ کانگڑی گولی کا جواب نہ سہی پھر بھی بہت کچھ تھی۔ صوبہ جموں کے بعض قصبوں خاص طور پر راجوری، بھمبر، سکھ چین پورہ اور کوٹل میں بڑے ہنگامے ہوئے۔ اس علاقے میں سیری ایک خاصی بڑی بستی ہے، اس کا بازار لوٹ لیا گیا۔ کوٹلی میں کچھ ریاستی فوج تھی، اسے لوگوں نے گھیر لیا۔ یہ محاصرہ خاصی دیر تک رہا۔ اور لوگ اگرچہ بے سر و سامان تھے، پھر بھی اس طرح لڑے کہ ریاستی فوج کو حواس باختہ کر دیا۔ پونچھ میں ہوا تو کچھ نہیں البتہ ہندوؤں کا دیہات سے بھاگ کے پونچھ کے شہر میں چلے آنا، اور راجہ کا ان سب کو لے کے قلعہ میں جا بیٹھنا، ایسے واقعات تھے جنہوں نے رائی کا پربت بنا دیا۔ اور خوش فکرے لوگوں کو داستان طرازی کا موقع ہاتھ آ گیا۔ مہاراجہ نے مجبور ہو کے حکومت ہند سے مدد مانگی۔ وہاں سے فوج بھیجی گئی۔ برطانوی ہند کی فوج کو اپنی مدد پر پایا تو ریاستی حکام کے دل پھر مضبوط ہو گئے۔ پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جو لوگ فساد میں شریک تھے، وہ تو الگ رہے جن پر فساد انگیزی کا شبہ بھی تھا، وہ بھی گرفتار کر لئے گئے۔ معلوم نہیں حکومت ہند اور مہاراجہ کشمیر میں اوپر ہی اوپر کیا کیا طے پایا۔ لیکن اتنا تو سب نے دیکھا کہ گلگت پر برطانوی حکومت کی گرفت زیادہ مضبوط ہو گئی۔ راجہ ہری کشن کول کو وزارت سے الگ کر دیا گیا۔ اور ان کی جگہ ایک انگریز افسر کرنل کالون وزیراعظم مقرر کئے گئے۔ گلینسی کمیشن نے مارچ ۱۹۳۲ء میں اپنا کام ختم کر لیا تھا۔ اس نے جو سفارشیں کی تھیں وہ مہاراجہ کی منظوری کے بعد شائع کر دی گئیں۔ اس پر کشمیری پنڈتوں نے سول نافرمانی شروع کر دی۔ کوئی ایک سو ہندو گرفتار ہوئے۔ آخر انہیں اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ وہ آئندہ کسی غیر آئینہ تحریک میں حصہ نہیں لیں گے۔ مسلمان سیاسی قیدیوں کو بھی اسی شرط پر رہائی ملی۔ ان میں شیخ عبداللہ بھی تھے۔ کشمیر کے لیڈر شروع شروع میں احرار سے بے تعلق رہے تھے لیکن احرار کی تحریک نے زور باندھا تو جموں کے نوجوان جن میں قاضی گوہر رحمان اور اللہ رکھا ساغر پیش پیش تھے۔ ٹوٹ کے ان سے آملے۔ چنانچہ میرپور میں عدم ادائے مالیہ کی تحریک قاضی گوہر رحمان ہی نے شروع کی تھی۔ اور ان کے ساتھ اور بھی بہت سے مقامی کارکن شامل تھے۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد سری نگر کے بعض نوجوان لیڈروں نے احرار سے تعلق پیدا کرنا چاہا۔ ان میں سے اکثرلوگ لاہور آئے اور مرحوم چودھری افضل حق سے جو تحریک کے روح و رواں تھے، ملاقات کی۔ لیکن یہاں کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر انہیں معلوم ہو گیا کہ احرار صرف جتھے ہی بھیج سکتے ہیں۔ ان سے مالی امداد کی توقع عبث ہے۔ احرار کی تحریک ابھی اور چلتی لیکن اتفاق سے انہیں دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس اچھی خاصی تحریک کو ختم کر دیا۔ لارڈ ارون اور گاندھی جی کے درمیان جو سمجھوتہ ہوا تھا اس کا ذکر آ چکا ہے اس سمجھوتے کے بعد دوسری گول میز کانفرنس ہوئی جس میں گاندھی جی بھی شریک تھے۔ لیکن ان کا ولائت جانا بے نتیجہ ثبت ہوا، اور کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ وہ ابھی ہندوستان پہنچے بھی نہیں کہ نئے وائسرائے لارڈ ولنگڈن نے آرڈی نینسوں کی بھر مار کر دی۔ کانگریس سول نافرمانی کے لئے تیار نہیں تھی۔ گاندھی جی نے بہتیرا چاہا کہ تصادم کا موقع نہ آئے لیکن ایک تو نیا وائسرائے مزاج کا سخت تھا۔ دوسرے غالباً برطانوی وزارت کا بھی اشارہ یہی تھا، کہ ہاں یہی وقت ہے ۔ چنانہ لارڈ ولنگڈن نے کانگریس کو لڑنے پر مجبور کر دیا۔ پنجاب کے کانگریسی لیڈروں کو اس لڑائی میں اپنا پہلو دبتا نظر آیا تو احرار پر ڈورے ڈالنے شروع کئے۔ یہ لوگ مدت تک کانگریس میں رہ چکے تھے اور اس سے دو سال پہلے نمک کی ستیہ گرہ میں شریک تھے۔ کانگریسی لیڈروں کے کہنے سننے سے پھر ہڑک اٹھی، اور ان کی مدد پر آمادہ ہو گئے۔ یعنی احرار کے رضا کاروں نے کانگریسی رضا کاروں کی طرح شراب اور بدیشی کپڑے کی دکانوں پر پکٹنگ شروع کر دی۔ کہنے کو تو اب بھی کشمیر کا مسئلہ ان کا قبلہ مقصود تھا اور یہ طریقہ صرف اس لئے اختیار کیا گیا تھا کہ مہاراجہ کشمیر کے پشتی بان انگریز کو زک پہنچائی جائے لیکن عام مسلمان یہ باریک باتیں کہاں سمجھ سکتے تھے۔ انہوں نے یہی نتیجہ نکالا کہ احرار پھر کانگریس سے جا ملے ہیں چنانچہ وہ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے۔ جب تک چودھری افضل حق گرفتاری سے بچے رہے۔ تحریک تھوڑی بہت چلتی رہی۔ ان کی گرفتاری نے تحریک کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ احرار کی تحریک تو ختم ہو گئی۔ لیکن کشمیر کمیٹی کی رقابت نے ان کے دلوں میں جو خلش1؎ پیدا کر دی تھی۔ وہ نہ مٹ سکی۔ چنانچہ جب وہ جیل سے نکلے تو ان کا رخ کشمیر کی بجائے قادیان کی طرف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کا دامن بھی اغراض سے پاک نہیں تھا کیونکہ وہ کشمیریوں کی امداد کے ساتھ ساتھ ان میں اپنے عقائد کی تبلیغ بھی کرنا چاہتے تھے۔ یہی چیز تھی جس نے علامہ اقبال کو جو کشمیر کمیٹی کے بانیوں میں سے تھے، قادیانیوں کی مخالفت پر آمادہ کر دیا۔ 1؎ احرار اور کشمیر میں بنیادی اختلاف تو یہ تھا کہ احرار انتہا پسند تھے اور کشمیر کمیٹی اعتدال پسندوں کی جماعت تھی۔ پھر احرار یہ بھی سمجھتے تھے کہ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے ہم سے جو بے نیازی اختیار کر رکھی ہے، اس کا باعث بھی کشمیر کمیٹی ہے۔ ٭٭٭ نواں باب مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس سیاسی جدوجہد کے اس دور میں حکومت نے تین تحقیقاتی مجلسیں مقرر کیں۔ ان میں دو مجلسوں یعنی دلال کمیٹی اور مڈلٹن کمیٹی کا کام تو محض ہنگاموں کے اسباب کی تحقیقات تھا اور تیسری مجلس یعنی گلینسی کمیشن اس بات کی چھان بین کے لئے قائم کی گئی تھی کہ کشمیر کے لئے کس قسم کا نظام حکومت موزوں ہے۔ گلینسی کمیشن نے تو اپنا کام مارچ ۱۹۳۲ء ہی میں ختم کر دیا۔ لیکن فرنچائز کمیٹی (حق رائے دہی کی کمیٹی) کی تحقیقات مدتوں میں مکمل ہوئی۔ اس لئے گلینسی کمیشن کی سفارشوں پر عمل میں کوئی دو برس خرچ ہو گئے۔ 1؎ انجمن نصرۃ الاسلام خالص تعلیمی انجمن ہے۔ جس کی نگرانی میں کئی اسکول، یتیم خانے وغیرہ چل رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ اب ماسٹر عبداللہ نہیں بلکہ شیر کشمیر ’’ شیخ محمد عبداللہ‘‘ تھے اور شیر کواپنے لئے نیساں کی تلاش تھی۔ چنانچہ چودھری غلام عباس اور اپنے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے انہوں نے مسلم پولیٹیکل کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔ اس کانفرنس کا پہلا اجلاس ستمبر ۱۹۳۲ء ہی میں ہو گیا ہوتا، لیکن ادھر کشمیری ہندو جو اصلاحات کے نفاذ کو اپنی شکست سمجھتے تھے، بھرے بیٹھے تھے، اور ادھر اس فتح نے مسلمانوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں بڑے زور کی ٹکر ہوئی، جس کی وجہ سے مسلم کانفرنس کو اپنا پہلا اجلاس ستمبرکی بجائے اکتوبر میں منعقد کرنا پڑا۔ پتھر مسجد جو سکھوں کے زمانے سے حکومت کے قبضے میں چلی آتی تھی اور تحریک کشمیر کے پہلے دور میں واگزار ہوئی تھی، اس فتح مبیں کی یادگار تھی۔ اس لئے مسلم کانفرنس کا پہلا اجلاس وہیں ہوا۔ کشمیریوں نے تعلیمی انجمنوں کے جلسے تو دیکھے تھے، لیکن اس قسم کا اجتماع جس میں انقلاب اور آزادی کی حمائت میں نعرے بلند ہوں، اور حکومت پر آزادانہ نکتہی چینی کی جا سکے، ان کے لئے نئی چیز تھی۔ شیخ عبداللہ اجلاس کے صدر تھے اور کوئی تیس چالیس ہزار کا مجمع تھا۔ پر اس قسم کی کانفرنس کے لئے جو چیزیں لازمی سمجھی جاتی ہیں، وہ سب موجود تھیں۔ یعنی مجلس استقبالیہ بھی تھی، رضاکاروں کا جم غفیر بھی، صدارتی تقریر بھی ہوئی، قرار دادیں بھی منظور کی گئیں۔ ’’ زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی لگے، لیکن کانفرنس کا دائرہ ’’ نشستند و گفتند و برخاستند‘‘ تک ہی محدود رہا۔ اور اس کے سامنے جو کام تھے ان میں سے ایک بھی نہ ہو سکا۔ کشمیر کے لیڈروں نے دوسری مصیبتوں سے ذرا مہلت پائی تو آپس کی رقابتوں اور باہمی جھگڑوں میں الجھ کے رہ گئے۔ سری نگر میں دو شخص جو میر واعظ کہلاتے ہیں، علماء کے سرکردہ مانے جاتے ہیں۔ ان میں ایک صاحب میر واعظ ہمدانی ہیں۔ جن کا مرکز خانقاہ معلی ہے، دوسرے بڑے میر واعظ جو جامع مسجد میں وعظ کہتے ہیں، سارا شہر انہیں دو میر واعظوں میں تقسیم ہے۔ اور ان کی یہ مذہبی اجارہ داری جو ناقابل تقسیم ورثہ کی طرح پشتہا پشت سے چلی آتی ہے، حکومت کے نزدیک بھی مسلم ہے۔ دونوں خاندانوں میں عقائد کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق نہیں۔ چھوٹے میر واعظ صاحب غالی حنفی ہیں، اور بڑے میر واعظ صاحب بعض فروعی مسائل میں دیو بندی علماء کے ہم خیال۔ اگرچہ حکومت نے ان دونوں میر واعظوں کے الگ الگ دائرے مقرر کر رکھے تھے، پھر بھی پرانی رقابت کا اثر کہاں جاتا ہے؟ اب ایک تیسرے ’’ میر واعظ‘‘ نے ظہور کیا یعنی شیخ عبداللہ کی لیڈری نے ایسا فروغ پایا کہ دونوں میر واعظ گرد ہو کے رہ گئے۔ وہ باقاعدہ مولوی تو نہیں تھے لیکن تقریروں کا انداز مولویانہ اور واعظانہ تھا۔ یعنی وہ اپنی تقریر ہمیشہ تلاوت قرآن سے شروع کرتے۔ موقع بہ موقع آیت اور حدیث کی سند لاتے۔ پھر ان میں اور ان میر واعظوں میں ایک بڑا فرق تھا کہ وہاں صرف فقہی مسائل تھے یا حشر و نشر کا بیان، صوم و صلوٰۃ کے فضائل کا ذکر اور یہاں کشمیریوں کے افلاس کی داستان، حکام کی دراز دستیوں اور بے عنانیوں کے ذکر اذکار۔ لوگ سنتے اور جھومتے۔ شیر کشمیر کے بے باکی اور حق گوئی کی داد دیتے، اور تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ شروع شروع میں تو میر واعظ محمد یوسف بھی شیخ عبداللہ کے ساتھ تھے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ کیفیت نظر آئی کہ چھوٹے میر واعظ تو شیخ عبداللہ کے ساتھ ہیں اور بڑے میر واعظ صاحب ان سے الگ تھلگ اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ اور میر واعظ محمد یوسف کی ناچاقی کی وجہیں کئی تھیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ اب تک میر واعظ محمد یوسف کا خاندان مرجع انام تھا۔ انجمن نصرۃ1؎ الاسلام جس کی بنیاد بڑے میر واعظ صاحب کے بزرگوں نے ڈالی تھی، مسلمانوں کی سرگرمیوں کا محور بنی ہوئی تھی۔ اور اس کے انتظامی معاملات میں میر واعظ محمد یوسف پیش پیش نظر آتے تھے۔ پھر یکایک یہ عالم نظر آیا کہ ہر شخص کی زبان پر شیخ محمد عبداللہ کا نام ہے اور لوگوں کے دل ان کی طرف کھچے جا رہے ہیں۔ اب بھی شاید ان دونوں میں بگاڑ نہ ہوتا، لیکن ستم یہ ہوا کہ میر واعظ محمد یوسف بلکہ ان کا پورا خاندان قادیانی دشمن تھا۔ اور شیخ عبداللہ قادیانی دوستی میں بدنام تھے۔ احرار نے جن سے بڑے میر واعظ صاحب ا کثر ملتے رہے تھے۔ انہیں اور چمکایا اور میر واعظ محمد یوسف شیخ عبداللہ سے الجھ بیٹھے۔ شروع شروع میں تو دور دور سے چوٹیں چلتی رہیں یعنی بڑے میر واعظ نے داڑھی منڈوں کے بارے میں کچھ کہا اور شیخ عبداللہ یہ سمجھے کہ مجھ پر چوٹ ہے۔ یا انہوں نے مولویوں کے فرسوہ خیالی کے بارے میں کچھ کہہ دیا، اور میر واعظ نے اپنے آپ کو اس طنز و تعریض کا ہدف سمجھا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد انہوں نے کھلم کھلا ایک دوسرے کی مخالفت شروع کر دی۔ اگرچہ شیخ عبداللہ کے طرف دار بہت تھے۔ پھر میر واعظ ہمدانی اپنے حامیوں کے پورے لشکر سمیت ان کی مدد پر موجود تھے۔ لیکن بڑے میر واعظ آخر بڑے میر واعظ تھے۔ ایک تو لوگوں پر ان کی خاندانی وجاہت کا بڑا اثر تھا، پھر ان کی قومی خدمات کا بھی بڑا چرچا تھا۔ کیونکہ انجمن نصرۃ الاسلام کو چلانے میں ان کا اور ان کے بزرگوں کا بڑا حصہ تھا۔ خلافت کی تحریک کے زمانے میں بھی صرف انہی کو ترکوں کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔ ان سب باتوں کے علاوہ میر واعظ محمد یوسف کے پاس ایک حربہ ایسا تھا جس کا وار ہمیشہ بھرپور پڑتا۔ قادیانیوں سے شیخ عبداللہ کا بڑا ربط و ضبط تھا۔ اور لوگوں میں یہ افواہ گرم تھی کہ شیخ عبداللہ خود بھی قادیانی ہیں۔ اب جو جھگڑا چلا تو میر واعظ محمد یوسف نے قادیانیات کے اس الزام سے بڑا فائدہ اٹھایا۔ اگست کے مہینے میں دونوں جماعتوں کے درمیان کئی جگہ جھگڑے ہوئے اور آپ کی بحثا بحثی اور تو تکار سے ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی۔ آخر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے تینوں لیڈروں کے الگ الگ دائرے مقرر کر دیئے۔ اب پرانے دستور کے مطابق چھوٹے اور بڑے میر واعظ خانقاہ معلی اور جامع مسجد میں واعظ کرتے تھے۔ اور پتھر مسجد کے نیستان میں شیر کشمیر گرج گرج کے آسمان سر پر اٹھاتا رہتا تھا۔ اکتوبر میں مسلم کانفرنس کا پہلا اجلاس ہوا تو بڑے میر واعظ بھی اس میں شریک تھے۔ لیکن دلوں میں جو کدورتیں بھری تھیں وہ کیسے دور ہوتیں۔ آپس کے جھگڑوں کا سیلاب ایسا امڈا کہ تھمنے میں نہ آتا تھا۔ اسی زمانے میں کسی ستم ظریف نے کہہ دیا کہ یہ بکرے اور شیر کی لڑائی ہے۔ شیخ عبداللہ کے حامی اسے لے اڑے اور بڑے میر واعظ کو ’’ بکرا ‘‘ کہہ کے ان کے حامیوں کو چڑانا شروع کر دیا۔ اب یہ لوگ اپنی جماعت کو ’’ شیر پارٹی‘‘ کہتے تھے اور یوسف شاہ کی پارٹی کو ’’ بکرا پارٹی‘‘ لطف یہ کہ بڈھے بڈھے لوگ ان طفلانہ بحثوں اور فقرہ بازیوں میں شریک تھے۔ ان دنوں لوگوں کو اخبار نکالنے کی اجازت بھی مل گئی تھی اور جگہ جگہ سے ہفتہ وار اخبار نکل رہے تھے۔ لیکن ان کے صفحات بھی انہیں بے کار بحثوں سے سیاہ کئے جاتے تھے۔ شیخ عبداللہ کی جماعت نے ’’صداقت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ اور اس میں ان جھگڑوں کو خوب پھیلا کے بیان کیا۔ کچھ عرصے کے بعد بڑے میر واعظ نے بھی اپنا اخبار نکال لیا۔ اس میں یہی ذکر اذکار ہوتے تھے۔ کشمیری پنڈت دوررہ کے یہ تماشے دیکھتے اور ہنستے اور موقع ملتا تو دونوں فریقوں کو بڑھاوے دے دے کر ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ آخر دونوں میر واعظ گرفتار کر لئے گئے۔ چھوٹے میر واعظ تو ضمانت دے کے رہا ہو گئے۔ بڑے میر واعظ نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا اور جیل بھیج دیئے گئے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کے ایک عقیدت مند نے ضمانت داخل کر کے انہیں چھڑا لیا۔ شیخ عبداللہ ان دنوں کشمیر میں نہیں تھے اس لئے گرفتاری سے بچ رہے۔ واپس آئے تو اس طوفان بے تمیزی نے پھر زور باندھا۔ جھگڑے میں ان کی جماعت کا ایک شخص مارا گیا۔ حکومت نے دونوں طرف کے چند لیڈروں کو جن میں شیخ عبداللہ بھی تھے گرفتار کر لیا۔ اس پر کشمیر کے مختلف حصوں میں ہڑتال ہوئی۔ جلوس نکلے، گرفتاریاں ہوئیں۔ اور جب تک یہ لوگ رہا نہیں ہوئے یہی حال رہا۔ اس جھگڑے کا انجام یہ ہوا کہ مائسمہ بازار میں ایک تعزیری چوکی بٹھا دی گئی جس کا خرچ شیخ عبداللہ کی جماعت سے وصول کیا گیا۔ ایک تو اس تعزیری چوکی کے قائم ہونے سے میر واعظ یوسف شاہ پر انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔ پھر شیخ عبداللہ پر قادیانیت کا جو الزام تھا، وہ بھی غلط ثابت ہو چکا تھا۔ کشمیر کمیٹی سے سارے قادیانیوں کو نکال دیا گیا تھا اور کشمیر کے سپاہی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ رہا تھا۔ اس لئے میر واعظ کی جماعت کو بڑا نقصان پہنچا۔ اور ان کے حامیوں کی تعداد گھٹنے لگی۔ پھر بھی دلوں میں جو گرہ پڑ گئی تھی وہ بدستور موجود تھی اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ نہ جانے یہ جھگڑا کتنی مدت چلے اور کیا کیا رنگ بدلے۔ کہ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مسلمانوں کی سرگرمیوں کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔ مٹن میں زمین کا ایک قطعہ تھا۔ ہندو کہتے تھے کہ یہ مندر کی جائیداد ہے۔ مسلمان کہتے تھے کہ یہ خانقاہ کی زمین ہے۔ حکومت ابھی اس جھگڑے کا کوئی فیصلہ نہیں کرنے پائی تھی کہ ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے منچلے نوجوانوں نے خانقاہ معلیٰ میں جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ حکومت چاہتی تو اس جھگڑے کو بڑی خوش اسلوبی سے نمٹایا جا سکتا تھا۔ لیکن اس نے جب دیکھا کہ شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھ ان کی مسلم کانفرنس اس جھگڑے سے الگ ہے تو دفعہ ۹ ایل نافذ کر دی۔ نوجوانوں نے اس دفعہ کو توڑا۔ یکے بعد دیگرے کئی نوجوان ڈکٹیٹر بنے اور گرفتار ہوئے۔ ہڑتال ہوئی، جلوس نکلے، اور طرح طرح کے نعروں سے پھر سری نگر کی فضا گونج اٹھی۔ حکومت نے بعض لوگوں کو گرفتار کیا۔ بعض کو سزائے تازیانہ دی۔ بعض پر بھاری جرمانے کئے اور جو لوگ جرمانہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ان کی جائیداد نیلام کر کے رقم پوری کر لی۔ بلوامہ میں گولی چلی۔ بیچ بہاڑہ میں لوگوں پر بڑے بڑے ظلم توڑے گئے۔ اور سری نگر کے سات مقتدر اشخاص کو جو حکومت کے نزدیک بہت خطرناک تھے، جلا وطن کر دیا گیا۔ کہنے کو تو یہ تحریک ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن نے چلائی تھی اور شیخ عبداللہ کے قول کے مطابق مسلم کانفرنس کو اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، تاہم مسلم کانفرنس کے اکثر لیڈر اس میں شریک تھے۔ جن سات اشخاص کو جلا وطن کیا گیا، ان میں میر واعظ ہمدانی بھی تھے، جو شروع سے شیخ عبداللہ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ بخشی غلام محمد جو مسلم کانفرنس کے حلقوں میں چلتی تلوار سمجھے جاتے تھے، اس تحریک میں شامل تھے۔ ابھی یہ ہنگامہ گرم تھا کہ فرنچائز کمیٹی کی رپورٹ شائع ہو گئی۔ جس نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا، اور تحریک جو صوبہ کشمیر ہی تک محدود تھی، ساری ریاست میں پھیل گئی۔سیالکوٹ میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا اور بڑی ردو قدح کے بعد یہ طے پایا کہ مجلس عاملہ توڑ کے چودھری غلام عباس کو ڈکٹیٹر مقرر کیا جائے۔ اجلاس میں شیخ عبداللہ بھی شامل تھے لیکن ان کے انداز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ میر واعظ یوسف شاہ کی طرح پاؤں توڑ کے بیٹھ رہنا چاہتے ہیں۔ چودھری غلام عباس تو گرفتار کر لئے گئے۔ لیکن شیخ صاحب اپنا دامن بچا کے صاف الگ ہو گئے۔ یہ تحریک خوب چلتی لیکن اول شیخ عبداللہ اور میر واعظ یوسف شاہ دونوں الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ جاڑے کا موسم تھا، کوہ دمن پر برف کا سپید پرچم لہرا رہا تھا اور لوگوں کے جذبات ٹھٹھرے ہوئے تھے۔ برف کا جھنڈا سرنگوں ہوا تو شیخ عبداللہ صلح کی سپید بیرق ہلاتے نظر آئے۔ چودھری غلام عباس جو ابھی جیل میں تھے، کب مانتے تھے۔ لیکن شیخ صاحب نے ان سے بھی اپنی بات منوا لی۔ غرض صلح ہوئی اور سیاسی قیدی رہا کر دیئے گئے۔ فرنچائز کمیٹی نے حق رائے دہی کا جو معیار قرار دیا تھا، اس کے رو سے بہت کم لوگوں کو رائے دینے کا حق ملا۔ جن میں مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی کے تناسب کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ ہر رائے دہندہ کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ یا تو اس کی جائیداد کی مالیت چھ سو روپے ہو، یا وہ بیس روپیہ لگان یا ساٹھ روپیہ کرایہ دیتا ہو۔ پھر اس کی تعلیم آٹھویں جماعت تک ہو۔ اس کے علاوہ وہ تمام خطاب یافتہ لوگوں پنشنروں اور لمبرداروں کو بھی رائے دہی کا حق دیا گیا۔ پرجا سبھا یعنی ریاست کی مجلس قانون ساز کا بھی یہی حال تھا۔ کل ۷۵ ممبر، جن میں ۴۲ سرکار کے نامزد کئے ہوئے اور ۳۳ عوام کے نمائندے۔ صدر بھی سرکاری وزراء بھی۔ سرکاری گویا کشمیر کی مجلس قانون ساز، صرف نام کی مجلس قانون ساز تھی۔ جس کا کام صرف اتنا تھا کہ رعایا کی شکایتیں حکومت کے گوش گزار کر دے۔ انتخابات میں مسلم کانفرنس کو بڑی کامیابی ہوئی۔ یعنی مسلمانوں کی اکیس نشستوں میں سے ۱۹ اس کے ہاتھ آئیں۔ لیکن پرجا سبھا میں کانفرنس کے لیڈروں کی شرکت سے نہ کانفرنس کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچا اور نہ کشمیر کی حالت بہتر ہوئی۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ کانفرنس کے لیڈروں کی سرگرمیوں کا دائرہ بدل گیا۔ کہاں وہ خانقاہ معلیٰ اور جامع مسجد کی ولولہ انگیز تقریریں، جنہیں سن کے خون جوش مارنے لگتا تھا اور کہاں پرجا سبھا کی بے نتیجہ بحثیں۔ مسلم کانفرنس کے لیڈر خود بھی سمجھتے تھے کہ اس قسم کی اسمبلی بے کار ہے۔ لیکن کیا کرتے انہوں نے جس قسم کی مجلس قانون ساز کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ مل گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں سرکار کے نامزد کئے ہوئے نمائندوں کی اکثریت تھی۔ اور سچ پوچھئے، انہوں نے جو مانگا تھا وہ بھی مل جاتا، تو کچھ زیادہ فرق نہ پڑتا1؎ دراصل جن دنوں کشمیر میں تحریک شروع ہوئی اور مسلمانوں کے مطالبات سامنے آئے۔ برطانوی ہندوستان میں ۱۹۱۹ء کا آئین رائج تھا۔ اگرچہ مشورہ دینے والوں نے یہ بھی کہا کہ ذمہ دار نظام حکومت مانگو، بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود، تاہم ان لوگوں نے سوچا چادر سے باہر پاؤں کیوں پھیلائیں۔ اور ایسی چیزیں کیوں مانگیں جو برطانوی ہند کے لوگوں کو بھی میسر نہیں۔ اس لئے ایک برائے نام سی مجلس قانون ساز کا مطالبہ کر دیا۔ لیکن جب تک اصلاحات نافذ ہوں، ہندوستان ترقی کا ایک اور قدم بڑھ چکا تھا۔ اور نئے آئین کا غلغلہ بلند تھا۔ پرجا سبھا کو کام شروع کئے سال بھر کا عرصہ ہوا تھا کہ ہندوستان کے نئے آئین کا خاکہ ساری دنیا کے سامنے آ گیا۔ یہ خبر ان لوگوں کی ہمت کے لئے تازیانہ ہو گئی۔ اور ’’ آزادی‘‘ ’’ انقلاب‘‘ اور’’ ذمہ دار حکومت‘‘ کی قسم کے الفاظ پھر زبانوں پر آنے لگے۔ 1؎ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ۷۰ فیصدی نمائندے عوام کے ووٹوں سے چنے جائیں اور ۳۰ فیصدی کو سرکار نامزد کرے۔ مئی ۱۹۳۶ء میں مسلم کانفرنس نے ’’ ذمہ دار حکومت‘‘ کا دن منایا۔ اس موقع پر جگہ جگہ جلسے ہوئے جن میں بعض دور اندیش ہندو بھی شریک تھے۔ اس زمانے میں کشمیری لیڈروں نے بعض مقتدر ہندوؤں سے ربط و ضبط پیدا کیا۔ کانگریسی لیڈروں سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور شیخ عبداللہ کی طبیعت میں کانگریس کی طرف سے جو وحشت سی تھی، وہ کم ہونے لگی۔ بعض مسلمان دوستوں نے بھی کہا کہ مسلم کانفرنس کے نام میں مسلم کی جگہ نیشنل کا لفظ رکھ دیا جائے تو کیا ہرج ہے؟ نیشنل کا تو ظاہری لفافہ ہے، اسے نیشنل کانفرنس کہہ لو، یا کوئی اور نام رکھ لو، وہ ہر حالت میں مسلمانوں کی جماعت رہے گی۔ یہ دلیل کام کر گئی اور کشمیری لیڈر مسلم کانفرنس کا نام بدلنے پر آمادہ ہو گئے۔ کانفرنس کا نام تو بدل گیا لیکن ہندوؤں کی بدگمانیاں دور نہ ہوئیں۔ وہ مسلم آزاد خیال نوجوان جن کے انداز فکر پر اشتراکیت کا بڑا اثر پڑا تھا یا بعض مال اندیش کشمیری پنڈت جو ہوا کا رخ پہچانتے تھے، اس میں شامل ہو گئے۔ ان لوگوں میں پنڈت پریم ناتھ 1؎ بزاز اور پنڈت جیا لال کلم کے علاوہ پنڈت کیشپ بندھو اور سردار بدھ سنگھ بھی شامل تھے۔ 1؎روزنامہ ہمدرد کے ایڈیٹر پنڈت پریم ناتھ بزاز جو آگے چل کے نیشنل کانفرنس سے الگ ہو گئے، مسٹر ایم این رائے کے بڑے معتقد ہیں۔ چنانچہ انہوں نے کشمیر میں مدت سے ریڈیکل ڈیمو کریٹک پارٹی کا علم بلند کر رکھا ہے۔ بزاز صاحب مشہور لکھاڑ ہیں اور اخبار نویسی کا بڑا (باقی اگلے صفحے پر) جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا مسلم کو جو ۳۲ برس تک امراء کی جماعت بنی رہی تھی، مسلمانوں میں بڑا قبول حاصل ہو رہا تھا، اور احرار جو قادیانیوں سے نبرد آزمائی کر کے مدت تک مل من مبارز کے نعرے لگاتے رہے تھے، قضیہ شہید گنج کے معرکہ امتحان میں شکست کھا کے اپنی ساگھ گنوا بیٹھے تھے۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بر سر اقتدار تھی۔ بنگال میں بھی ایک مخلوط وزارت قائم تھی۔ باقی صوبوں میں کانگرس نے وزارتیں قائم کر رکھی تھیں۔ اور کشمیر کے لیڈر بڑی شدت سے یہ محسوس کر رہے تھے کہ انہوں نے ادنیٰ قسم کی اصلاحات کا مطالبہ کرنے اور پھر اس سے بھی ادنیٰ قسم کے نظام حکومت پر قناعت کر لینے میں سخت غلطی کی ہے۔ چنانچہ جن چیزوں نے کشمیر کے ہندو اور مسلمان لیڈروں کو متحد ہونے پر آمادہ کر دیا۔ ان میں ہندوستان کا نیا نظام حکومت بھی تھا۔ سلیقہ رکھتے ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ سے ان کے اختلافات کی داستان بہت لمبی ہے۔ اور اپنے اخبار میں وہ مدتوں کشمیر نیشنل کانفرنس اور انڈین نیشنل کانگریس پر بڑی لے دے کرتے رہے ہیں۔ ۱۹۴۷ء کے شروع میں جب ان پر گولی چلی اور شیخ محمد عبداللہ کے بعض حامی شبہ میں گرفتار ہوئے تو وکیل صفائی نے جرح کے دوران میں ان سے پوچھا، آپ کسی زمانے میں شیخ محمد عبداللہ کو کشمیر کا گاندھی سمجھتے تھے اور اب ان کے اتنے مخالف ہیں۔ جواب ملا میں اب بھی انہیں کشمیر کا گاندھی سمجھتا ہوں۔ پنڈت کلم سرینگر کے مشہور وکیل اور بڑے ذہین اور فطین شخص ہیں۔ پنڈت کیشپ بندھو پہلے مسلم کانفرنس کے سخت مخالف ہونے کی وجہ سے بدنام تھے۔ پھر نیشنل کانفرنس کی حمائت کی وجہ سے بدنام ہوئے۔ سردار بدھ سنگھ جو گاندھی جے کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، مدت تک وزیر وزارت رہ چکے ہیں۔ کشمیر نیشنل کانفرنس قائم ہونے کے بعد ۵ اگست ۱۹۳۸ء کو ’’ ذمہ دار حکومت کا دن‘‘ منایا گیا۔ اور ۲۹ اگست کو کانفرنس کے بارہ لیڈروں کے دستخطوں سے ایک منشور چھپا جس میں ذمہ دار حکومت کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن حکام نے اس تحریک کو سر اٹھانے کی بھی مہلت نہ دی اور سارے لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ ان کے علاوہ اسمبلی کے بہت سے ممبر اور میونسپل کمشنر بھی جو نیشنل کانفرنس کے حامی تھے، گرفتار کر لئے گئے اگرچہ لیڈروں کی گرفتاری کے بعد بھی تحریک چلتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں کشمیر کی اگلی تحریکوں کا سا زور و شور نہیں تھا۔ کٹر ہندو تو کانفرنس کو اس نئے روپ میں دیکھ کے بھی خوش نہ ہوئے۔ البتہ بہت سے مسلمان جنہیں ’’ نیشنل‘‘ کے نام سے چڑھ سی تھی، ضرور ناراض ہو گئے۔ نعرے اب بھی لگتے تھے لیکن ان پر پھیپھڑوں کی پوری قوت خرچ نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا، الفاظ حلق سے اٹک اٹک کے نکل رہے ہیں۔ جلوس اب بھی نکلتے تھے لیکن اہل جلوس پر بیدلی سی چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان دنوں کشمیر کا وزیراعظم بھی گوپال سوامی آئنگر جیسا شخص تھا۔ جس کے خیالات پر کانگرس سے زیادہ ہندو مہاسبھا کا اثر پڑا تھا۔ اس نے تحریک کو کچلنے کے لئے ریاست کی ساری طاقت خرچ کر دی۔ اور آخر اسے کچل ہی کے دم لیا ۔ کانفرنس کے بعض پرانے کارکنوں خصوصاً بخشی غلام محمد نے جو باقی لیڈروں کے ساتھ گرفتار نہیں ہوئے تھے اور کسی طرح بچ کے لاہور چلے گئے تھے، کانگرسی اخباروں کو تحریک کا حامی بنانے کی بڑی کوشش کی، لیکن ان کے دلوں میں نیشنل کانفرنس کے نام اور کام کے متعلق جو بدگمانیاں تھیں وہ کسی طرح دور نہ ہوئیں اور تو اور خود گاندھی جی کانفرنس کے کارکنوں خاص طور پر شیخ عبداللہ سے سخت بدظن معلوم ہوتے تھے۔ صرف پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کا انداز ہمدردانہ تھا۔ لیکن ان لوگوں کی ہمدردی بھی کیا کر سکتی تھی۔ کانگرس جس کی سرگرمیوں کا دائرہ برطانوی ہند تک محدود تھا، ریاستوں 1؎ کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہتی تھی اور اگرچہ سٹیٹس پیپلز کانفرنس یعنی ریاستی پرجا سبھا قائم ہو چکی تھی، تاہم اکثر ہندو لیڈر جو راجوں مہاراجوں کو پرانے ہندو سامراج کی یادگار سمجھتے تھے، ریاستوں کے نظام حکومت میں کسی قسم کی تبدیلی کے روادار نہیں تھے۔ 1؎ گاندھی جی گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے تو انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس کسی ایسے آئین سے مطمئن نہیں ہو گی جس میں ریاستی باشندوں کے شہری حقوق کی حفاظت اور فیڈرل مجلس آئین ساز میں ان کی نمائندگی کا بندوبست نہ ہو۔ ۱۹۳۵ء میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ایک قرار داد منظورکی، جس میں کہا گیا تھا کہ ریاستوں کے باشندوں کو بھی سواراج ملنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تصریح بھی کر دی گئی تھی کہ ریاستی رعایا کو اس مقصد کے لئے اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے اور کانگریس سے امداد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ کانگریس زیادہ سے زیادہ اخلاقی امداد ہی کر سکتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد کشمیر کے تمام سیاسی لیڈر رہا کر دیئے گئے۔ ان کے خیر مقدم میں جگہ جگہ جلسے ہوئے، جلوس نکالے۔ ان جلسوں اور جلوسوں میں بعض ہندو بھی شریک تھے۔ لیکن ان کی دورخی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دل پوری طرح مطمئن نہیں۔ یکبار نہ گفتی سخن مہر کہ درپے صد گونہ حدیث غلط انداز نہ گفتی چودھری غلام عباس جو ان معرکوں میں ہمیشہ سب سے آگے نظر آتے تھے، سب سے اخیر میں رہا ہوئے۔ اور سری نگر میں ان کا عظیم الشان دریائی جلوس نکالا گیا جو کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ نیشنل کانفرنس کا مطالبہ تو پورا نہ ہوا۔ البتہ یہ تحریک بالکل بے نتیجہ بھی نہ رہی اور ریاست کے دستور اساسی میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں یعنی منتخب نمائندوں کی تعداد ۳۳ کے بجائے ۴۰ کر دی گئی۔ لیکن یہ سات ممبر جاگیرداروں، زمینداروں اور پنشن خواروں کے حلقے سے لئے گئے تھے۔ جن سے یہ توقع ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ کبھی وفاداری کے دائرے سے باہر قدم رکھنے کی جرأت کریں گے۔ اس کے علاوہ منتخب ممبروں میں سے چار کو دو دو سو روپے ماہوار پر انڈر پارلیمنٹری سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ لیکن ان کے تقرر کا معاملہ بھی مہاراجہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ تبدیلیاں اگرچہ عملی طور پر بے معنی تھیں ان سے اسمبلی کے منتخب ممبروں کی طاقت بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی تھی۔ تاہم لوگ اس خیال سے خوش تھے کہ حکومت نے ہماری طاقت کا اعتراف تو کر لیا۔ یہ اور بات ہے کہ یہ اعتراف بجائے خود ’’ نمود بے بود‘‘ ہے یعنی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ ۱۹۳۱ء میں مسلمان اس زور و شور سے اٹھے تھے کہ ۱۹۳۴ء تک برابر حکومت کے مقابلے پر ڈٹے رہے۔ لیکن ۱۹۳۸ء کی تحریک کے بعد کچھ ایسا تعطل اور جمود کا زمانہ آیا کہ برسوں تک کوئی تحریک شروع نہ ہو سکی اگرچہ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں نے بڑی کوشش کی کہ ہندو کسی طرح کانفرنس میں شامل ہو جائیں لیکن انہیں چنداں کامیابی نہ ہوئی۔ ہندو عملاً کشمیر کی سیاسی جدوجہد سے بالکل الگ تھے او رنیشنل کانفرنس کی حمائت کرنا درکنار، کوئی موقع آ پڑتا تو اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے۔ اور قراردادوں اور تجویزوں کے لشکر لے کے حکام کی مدد کو آپہنچتے۔ غر ض کانفرنس کہنے کو تو مخلوط جماعت تھی لیکن اب بھی اس کی رونق اور ہما ہمی مسلمانوں ہی کے دم قدم سے تھی۔ مدود ہے چند لوگوں کو چھوڑ کے ریاست کے سارے ہندو اس کے دشمن تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ نظام حکومت میں کسی قسم کی تبدیلی ہو۔ جو تھوڑی بہت تبدیلی ہو چکی تھی وہ بھی ان کے دلوں میں پھانس بن کے کھٹک رہی تھی۔ ’’ نیشنل‘‘ کے نام سے مسلمان جو اجنبیت اور مغائرت سی محسوس کرتے تھے وہ تحریک کے زمانے میں تو دبی رہی، لیکن جب ذرا سکون ہوا اور اطمینان سے ان باتوں پر غور کرنے کا موقع ملا، تو اجنبیت اور بیگانگی کا یہ احساس بڑی شدت سے ابھرا۔ اسے ابھارنے میں مسلم لیگ کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ کیونکہ ان دنوں لیگ نے بڑا زور باندھ رکھا تھا اور نیشنل کانگریس 1؎ اور نیشنلسٹ مسلمان دونوں اس کے تیروں کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ 1؎ شروع شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں اتحاد کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔ کیونکہ مسٹر جناح کانگریس کے پر زور حامی تھے اور یہ چاہتے تھے کہ کانگریس اور مسلم لیگ اپنے اپنے دائرے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی تنظیم کریں۔ اور پھر دونوں برطانوی سامراج کے مقابلے میں صف آراء ہو جائیں۔ لیکن کانگریس نے مسلم لیگ کی یہ حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ پنڈت جواہر لال نہرو نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ یہ مسلم لیگ کہاں سے آ گئی۔ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں۔ برطانوی حکومت اور کانگریس۔ چودھری غلام عباس جیل سے نکلے تو دو تین مہینے اس الجھن میں پڑے رہے کہ مسلمان نیشنل کانفرنس کے ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک طرف تو یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ ہندوستان کی سیاسیات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے راستے الگ الگ ہیں اور کشمیر کے مسلمانوں کو بھی ایک نہ ایک دن اپنے بھائیوں کا ساتھ دینا پڑے گا۔ دوسری طرف شیخ محمد عبداللہ اور دوسرے پرانے دوستوں کی رفاقت کا خیال دامن دل کو کھینچ رہا تھا۔ آخر انہوں نے بڑے غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی جداگانہ تنظیم قائم رکھنا چاہیے۔ ادھر شیخ عبداللہ کے پرانے حریف میر واعظ یوسف شاہ اسی قسم کے کسی موقع کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے مسلم کانفرنس سے الگ ہونے کے بعد آزاد مسلم کانفرنس کے نام سے ایک جماعت قائم کر رکھی تھی، جس کا دائرہ ان کے عقیدت مندوں تک محدود تھا۔ چودھری غلام عباس نے انہیں ساتھ ملا کے پھر مسلم کانفرنس کا پرچہ بلند کیا۔ جموں کے مسلمان کارکن تو پہلے ہی چودھری صاحب کے ہم خیال تھے۔ میر واعظ یوسف شاہ کی وجہ سے سری نگر کے بہت سے لوگ بھی نئی مسلم کانفرنس میں شامل ہو گئے۔ بلکہ شیخ عبداللہ کے بعض نیاز مند بھی ان سے ٹوٹ کے اس نئی مجلس میں آ ملے۔ پاکستان کا نام تو مدت سے لوگوں کی زبانوں پر چڑھا ہوا تھا اور اخباروں میں اس کی حمائت اور مخالفت میں مضمون بھی چھپتے تھے، لیکن شروع شروع میں مدت تک خود اکثر مسلمانوں کو پاکستان کا تصور محض شاعرانہ مضمون اور سیمیائی وجود معلوم ہوتا تھا۔ ہندو پاکستان کا نام سن کر چڑتے تھے اور مسلمان انہیں چڑانے کو یہ تذکرہ لے بیٹھتے تھے، کہ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا اور پاکستان کی حمائت میں ایک قرار داد منظور کی گئی۔ یہ آواز جو لاہور سے اٹھی تھی۔ کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم پر دہرائی گئی اور اگرچہ تنظیم کے لحاظ سے مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس سے کوئی نسبت نہیں تھی، تاہم کچھ عرصے کے بعد یہ کیفیت نظر آئی کہ کشمیر کے کوہسار اور مرغزار اسی صدا سے گونج رہے ہیں۔ ٭٭٭ دسواں باب ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ عالمگیر جنگ شروع ہونے کے بعد کشمیر کی سیاسی محفلوں پر افسردگی سی چھا گئی۔ مسلم کانفرنس نے انہیں دنوں نئے سرے سے زندگی پائی تھی لیکن اس کا حال یہ تھا گویا ایک طفل نو آموز ہے، جس نے ابھی پوری طرح چلنا بھی نہیں سیکھا۔ دو قدم چلتا ہے اور گر پڑتا ہے۔ نیشنل کانفرنس زیادہ مضبوط جماعت تھی۔ لیکن اس کی نظریں بھی کانگریس اور سٹیٹس پیپلز کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں۔ گاندھی جی نے ان دنوں بڑے زور سے ریاستوں کی اصلاح کا سوال چھیڑا۔ لیکن راج کوٹ کے قضیئے میں الجھ کے رہ گئے اور ریاستوں کی رعایا خاص طور پر کشمیر نیشنل کانفرنس نے، ان سے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ کانگریس وزارتوں سے تو کنارہ کش ہو چکی تھیں لیکن اندرونی اختلافات دم نہیں لینے دیتے تھے۔ کھارے اور نریمان کو تو ان کی سرکشی کی سزا دے دی گئی۔ ایم این رائے بھی الگ ہو گئے۔ لیکن سبھاش چند بوس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ پھر مسلم لیگ جو سارے ہندوستان پر چھائی جا رہی تھی، کانگریسی وزارتوں کی تشہیر کے درپے تھی کہ لنڈن سے سر سٹیفورڈ کر پس کو مصالحت کی گفتگو کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ لیکن جاپانی فوجیں ہندوستان کی طرف اس طرح درانہ بڑھی چلی آتی تھیں، کہ عوام تو عوام اکثر کانگریسی لیڈر بھی یہی سمجھتے تھے کہ برطانوی حکومت بس چند دنوں کی مہمان ہے۔ اس حالت میں مصالحت کی گفتگو کیسے کامیاب ہو سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کرپس صاحب کو بے نیل مرام واپس جانا پڑا۔ ادھر کانگریسی حلقوں سے ’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی آوازیں بلند ہوئیں۔ جو دیکھتے دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئیں۔ آخرکانگریسی لیڈر گرفتار کر لئے گئے۔ جگہ جگہ ہنگامے ہوئے جنہوں نے ملک میں بڑی افراتفری پیدا کر دی۔ ادھر یہ حال تھا ۔ ادھر کشمیر کے لیڈر چپ چاپ بیٹھے زمانے کی نیرنگیوں کا تماشا دیکھ ر ہے تھے۔ نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں پر جمود چھایا ہوا تھا۔ ہاں کبھی کبھی ان دونوں جماعتوں کے باہمی جھگڑوں کے وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے فضا میں ہما ہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز ان دنوں نیشنل کانفرنس سے الگ ہو چکے تھے اور اپنے اخبار میں بڑے زور سے شیخ محمد عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ ’’ شیخ و برہمن‘‘ کی اس مخاصمت میں بھی لوگوں کو دلچسپی کا تھوڑا بہت سامان ہاتھ آ جاتا تھا۔ ۱۹۴۴ء میں مسٹر جناح کشمیر آئے۔ ان کے خیر مقدم میں نیشنل کانفرنس نے بھی بڑا حصہ لیا۔ شیخ محمد عبداللہ اور دوسرے لیڈروں سے ان کی ملاقاتیں اور گفتگوئیں بھی ہوئیں۔ لیکن مسٹر جناح ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح کشمیر میں بھی مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کے قائل تھے۔ انہوں نے جامع مسجد میں جو تقریر کی تھی، اس میں بھی اس بات پر بڑا زور دیا گیا تھا۔ دوسرے 1؎ موقعوں پر جو گفتگوئیں ہوئیں ان میں یہی بات کہی گئی۔ 1؎ ایک محفل میں یہ ذکر چھڑا تو غلام محی الدین ہمدانی نے جو نیشنل کانفرنس کے ایک ممتاز کارکن ہیں، مسٹر جناح سے پوچھا۔ آپ ۱۹۳۸ء میں سری نگر آئے تھے تو کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ذمہ دار حکومت قائم کرنے کی کوششوں میں سب ہندو، مسلمانوں اور سکھوں کو حصہ لینا چاہیے۔ ’’ یقینا میں نے یہ بات کہی تھی۔‘‘ ’’ کیا اس کے معنی یہ نہیں کہ نیشنل کانفرنس کی روش صحیح ہے؟‘‘ ’’ آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں آپ سے دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کییا مسلمان چاہتے ہیں کہ ریاست میں ذمہ دار حکومت قائم ہو جائے؟‘‘ ’’ یقینا‘‘ ’’ کیا ہندو اور سکھ بھی یہی چاہتے ہیں؟‘‘ بچارے ہمدانی سے اس سوال کا کوئی جواب بن نہ پڑا غرض نہ تو مسٹر جناح نیشنل کانفرنس کی حمائت پر اپنے آپ کو آمادہ کر سکے نہ شیخ عبداللہ سے یہ ہو سکا کہ نیشنل کانفرنس کو چھوڑ کے اپنے رفیقوں سمیت مسلم کانفرنس میں شامل ہو جائیں۔ مسٹر جناح سری نگر گئے تھے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا جلوس نکالا تھا، زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ واپس ہوئے تو بارہ مولے میں ان کے خلاف مظاہرہ کا انتظام کیا گیا اور مردہ باد کے نعرے لگا کے جی کی بھڑاس نکالی گئی۔ ۱۹۴۵ء میں کانگریسی لیڈر رہا ہوئے اور لارڈ ڈیول نے جو ان دنوں وائسرائے تھے، بڑی خوش اسلوبی سے مصالحت کی تمہید اٹھائی۔ شملہ میں کانفرنس کا انتظام ہوا۔ لیکن کانگریس اور لیگ دونوں اپنی اپنی با ت پر جمی رہیں اور یہ گفتگو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ کانفرنس کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کا قصد کیا۔ پنڈت نہرو کو تو خیر کشمیر سے کئی نسبتیں ہیں۔ لیکن مولانا آزاد اس لئے ان کی رفاقت پر آمادہ ہو گئے کہ ان کی شاعرانہ طبیعت کو اس بہارستان سے ازلی مناسبت ہے۔ یہ لوگ تو سکون کی تلاش میں کشمیر آئے تھے لیکن یہاں بھی سکون میسر نہ ہوا۔ یعنی نیشنل کانفرنس نے جلسے اور جلوس کا پرانا نسخہ ان پر بھی آزمانا چاہا۔ کئی میل لمبا دریائی جلوس تھا۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، بجرے اور کشتیاں ہی دکھائی دیتی تھیں۔ لیکن جتنا بڑا جلوس تھا، اس کے خلاف اتنا ہی بڑا مظاہرہ بھی ہوا یعنی مسلم کانفرنس والوں نے جن میں میر واعظ یوسف شاہ کے عقیدت مند پیش پیش تھے، وہ خاک اڑائی کہ خدا کی پناہ۔ بڈھے بڈھے کشمیریوں نے جن کے ماتھے سجدوں کے گھٹوں سے دمک رہے تھے، اور جن کے چہروں کو سپید داڑھیوں نے نورانی کر رکھا تھا، ایسی ایسی نامناسب حرکتیں کیں کہ تہذیب نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ دونوں کانفرنسوں کے حامیوں میں لڑائی بھی ہوئی۔ جس میں نیشنل کانفرنس کا ایک رضا کار مارا گیا۔ پنڈت نہرو پر تو اس واقعہ کا جو اثر ہوا سو ہوا، لیکن مولانا آزاد جو عام ہنگاموں سے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں، ایسے متاثر ہوئے کہ جلوس سے ہمیشہ کے لئے جی سرد ہو گیا۔ ان دنوں جنگ ختم ہو چکی تھی۔ ایک طرف ہندوؤں کی ساری سیاسی جماتیں کانگریس کے سامنے گرد نظر آتی تھیں، دوسری طرف مسلم نے ایسا زور باندھ رکھا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی تمام انجمنوں کا پہلو دبتا دکھائی دیتا تھا۔ اور انتخابات نے تو یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور ہندو کانگریس کے حامی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ باقی جتنی سیاسی جماعتیں ہیں وہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اسی زمانے میں وزارتی مشن ہندوستان آیا اور ملک کے آئندہ نظام حکومت کے سوال پر گفتگو شروع ہوئی۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ ۱۹۴۴ء میں مہاراجہ نے اپنے آئینی مشیر سرتیج بہادر سپرو کے مشورہ سے اسمبلی کے ایک ہندو اور ایک مسلمان ممبر کو وزیر بنانا منظور کر لیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں میں مرزا افضل بیگ بڑے ہوشمند آدمی سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ وزارت کے لئے انہیں کے نام قرعہ فال پڑا۔ لیکن کوئی دو برس وزارت کر کے انہیں معلوم ہوا کہ اس قسم کی وزارتیں کاغذی پھول ہیں کہ ’’ خوب اندوخوش اندولے بوئے ندارند‘‘ چنانچہ انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اتفاق سے جن دنوں مرزا افضل بیگ نے استعفیٰ دیا۔ اس سے کوئی مہینہ بھر پہلے عہد نامہ امرتسر 1؎ کو پورے سو برس ہو چکے تھے۔ یہ اتفاق نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کے لئے ’’ سرود بہ مستاں یاد ہانیدن‘‘ کا مضمون بن گیا۔ شیخ محمد عبداللہ نے وزارتی مشن کے نام ایک میموریل بھیجا جس میں عہد نامہ امرتسر کا ذکر کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت کی صد سالہ ستم آرائیوں کی داستان مختصر طور پر بیان کر دی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سری نگر کے مختلف حصوں میں جلسے بھی ہوئے جن میں شیخ عبداللہ نے پر زر تقریریں کیں۔ اور کشمیر چھوڑ دو کے نعروں سے ہری پربت اور تخت سلیمان کی بلندیاں گونج اٹھیں۔ 1؎ امرتسر کا عہد نامہ جسے عہد نامہ سے زیادہ بیع نامہ کہنا موزوں ہو گا، مارچ ۱۸۵۷ء میں ہوا تھا۔ شروع شروع میں تو مسلم کانفرنس بھی اس تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ تھی، لیکن آگے چل کے کچھ ایسے پیچ پڑے کہ تنہا نیشنل کانفرنس ہی میدان میں رہ گئی۔ کہتے ہیں کہ جب مرزا افضل بیگ نے استعفیٰ دیا تو مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا مرزا صاحب نے جو خود وزیر رہ کے حکومت کی بدعنوانیوں کے تماشے دیکھ چکے تھے۔ اس موقع پر ایک تقریر کی، جس میں انہوں نے حکومت کی مسلم آزاد روش اور ہندو افسروں کی تنگ دلی کے بہت سے واقعات بیان کئے۔ اس تقریر کا بڑا اثر ہوا اور یہ قرار پایا کہ نیشنل کانفرنس اپنے دو نمائندے جموں بھیجے۔ وہ وہاں سے مسلم کانفرنس کے دو نمائندوں کو ساتھ لے کر مسٹر جناح کے پاس جائیں۔ وہ اگر نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اتحاد کو منظور کر لیں تو شیخ عبداللہ اور میر واعظ یوسف شاہ کو تار دے کر بلا لیا جائے اور ساری تفصیلات طے کر لی جائیں۔ لیکن اس قرار داد پر عمل نہ ہو سکا۔ا پریل کا مہینہ تو باتوں میں گزر گیا۔ مئی کے مہینے میں بھی کچھ نہ ہو سکا۔ مئی کے وسط میں شیخ عبداللہ نے دو تین جلسوں میں تقریر کی۔ کچھ دنوں کے بعد شیخ عبداللہ پنڈت جواہر لال نہرو سے ملنے کا ارادہ لے کے دلی روانہ ہوئے، لیکن راستے ہی میں گرفتار کر لئے گئے۔ اگرچہ ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کی تحریک کے بارے میں آگے چل کے بہت سی تاویلیں کی گئیں۔ لیکن دراصل اس کا مطلب صرف اس قدر تھا کہ کشمیر کا علاقہ انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچا تھا۔ا س واقعہ کو پورے سو برس ہو چکے ہیں۔ نہ بیچنے والے کو بیچنے کا حق تھا، نہ خریدنے والے کو خریدنے کا۔ اور اب تو انگریز جنہوں نے یہ علاقہ بیچا تھا، خود ہندوستان سے جا رہے ہیں۔ ڈوگروں کو کشمیر پر مسلط رہنے کا کیا حق ہے؟ لیڈروں نے اپنی تقریروں میں یہی باتیں کہی تھیں ۔ عوام نے بھی اس تحریک کا یہی مطلب سمجھا تھا۔ آگے چل کے جو تعبیریں کی گئیں وہ صرف وکیلوں کی نکتہ طرازیاں تھیں۔ تنگ مزاج ڈوگرے تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگڑ جاتے تھے۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کے نعرے سنتے۔ اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے چپکے بیٹھتے رہتے۔ ادھر مہاراجہ ہری سنگھ جموں سے سری نگر پہنچے اور ہری پربت کے قلعے سے اکیس توپوں کی سلامی اتاری گئی۔ اور ادھر شہر کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ ریاست کی فوج کے سپاہی جن میں کچھ گورکھے تھے اور باقی ڈوگرے، شہر اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں پھیل گئے اور ہنگامہ دار و گیر گرم ہو گیا۔ ڈوگرے سنگینیں تانے درانہ گھروں میں جا گھستے۔ انہیں سڑکوں پر گھسیٹتے پھرتے، پھر لاریوں میں بٹھاتے اور جیل میں پہنچا دیتے۔ کئی جگہ گولی بھی چلی اور بہت سے آدمی مارے گئے۔ اگرچہ مسلم کانفرنس ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کی تحریک میں شامل نہیں تھی، لیکن اس ہنگامہ عام میں مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی تمیز ہی اٹھ گئی۔ اور نیشنل کانفرنس والوں کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس کے بہت سے حامی بھی ڈوگروں کے عتاب کی زد میں آ گئے۔ لیکن یہ لوگ وہ تھے، جو مسلم کانفرنس کے لئے چندے جمع کرتے تھے۔ اس کے جلسوں اورجلوسوں کی رونق بڑھاتے تھے اور کوئی موقع آ پڑتا تھا تو لڑنے مرنے پر بھی تیار ہو جاتے تھے۔ مسلم کانفرنس کے لیڈروں اور مشہور کارکنوں پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ اس موقع پر کشمیر بھر میں ہڑتالیں ہوئیں۔ ان میں بھی مسلم کانفرنس کے اکثر طرف دار شریک تھے۔ ڈوگرہ سپاہیوں نے شہر کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ پلوں پر زبردست پہرہ لگا تھا۔ جو لوگ ان راستوں سے گزرتے، انہیں حکم ملتا کہ قطار باندھے اور دونوں ہاتھ بلند کئے ’’ مہاراجہ ہری سنگھ کی جے‘‘ کے نعرے لگاتے گزر جاؤ۔ کہیں کہیں لوگوں کو ایک ٹانگ پر چلنے کا حکم دیا گیا اور بعض جگہ تو انہیں پیٹ کے بل چلنے پر بھی مجبور کیا گیا اس تحریک میں عورتوں نے بڑی ہمت دکھائی۔ شروع شروع میں روز سری نگر میں ان کے جلوس نکلتے تھے اور گلی کوچوں میں نعرے لگاتے پھرتے تھے۔ ان میں سے بہت سی عورتوں کو گرفتار کر کے جھیل بھیج دیا گیا اسلام آباد میں تو عورتوں کے مجمع پر گولی بھی چلی۔ جس میں دو عورتیں ہلاک اور بہت سی زخمی ہوئیں۔ کہیں کہیں شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں وحشی ڈوگروں کی نفس پرستی کا شکار بھی ہوئیں۔ بڈگام میں جب نیشنل کانفرنس کے جلسے پر ریاستی سپاہیوں نے ہلہ بولا تو وہاں کثرت سے اس قسم کے واقعات ہوئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے جب یہ خبریں سنیں تو سارے کام چھوڑ چھاڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے اور کشمیر کا رخ کیا۔ کوہالہ کے پل پر پولیس نے انہیں روکنا چاہا۔ مگر وہ نہ رکے اور دو میل تک بڑھتے چلے آئے۔ یہاں انہیں گرفتار کر کے اوڑی کے ڈاک بنگلے میں پہنچا دیا گیا۔ اس واقعہ پر ملک میں بڑا شور مچا۔ لیکن مہاراجہ بھی ضد کا پورا تھا اس نے پنڈت نہرو کو سری نگر نہ جانے دیا اور آخر انہیں اوڑی ہی سے واپس ہونا پڑا۔ پنڈت جی تو بڑے غصے میں تھے لیکن بڈھے بڈھے کانگریسیوں نے جو یہ سمجھتے تھے کہ ہری سنگھ کو کوئی نقصان پہنچا تو اس میں سرا سر اپنا ہی نقصان ہے، انہیں دوسری باتوں میں الجھا کے ان کے غصے کو ٹھنڈا کر دیا۔ شیخ عبداللہ اور دوسرے لیڈروں کی گرفتاری اور سزا یابی کے بعد بھی تحریک چلتی رہی۔ پہلے خانقاہ معلیٰ تحریک کا مرکز تھی۔ پھر حضرت ہل میں جلسے ہونے لگے۔ اگرچہ تحریک بہت مدھم پڑ گئی تھی، پھر بھی کشمیر چھوڑ دو کے نعرے لگتے۔ اور دوسرے تیسرے دن ایک آدھ گرفتاری بھی ہو جاتی تھی۔ تحریک کا سر رشتہ ایک نوجوان وکیل خواجہ غلام محی الدین قرہ کے ہاتھوں میں تھا جو اخیر تک پولیس کے ہاتھ نہ آئے۔ کچھ عرصے کے بعد مسلم کانفرنس سے بھی حکومت کا تصادم ہوا یعنی چودھری غلام عباس نے کانفرنس کا جلسہ سری نگر میں کر کے دفعہ ۱۴۴ کو توڑ ڈالا۔ چودھری صاحب اور ان کے بعض رفیق گرفتار کر لئے گئے۔ لیکن معاملہ چند لوگوں کی گرفتاری اور اسیری سے آگے نہیں بڑھا۔ مسلم کانفرنس کے لیڈر حکومت سے ٹکر لینے کا ارادہ کر لیتے تو سارے مسلمان ان کا ساتھ دیتے۔ لیکن ایک تو اسمبلی کا انتخاب سر پر تھا۔ اور نیشنل کانفرنس میدان خالی کر چکی تھی بہت سے لوگ تو اس لئے بھی لڑائی کا ڈول ڈالنے سے ہچکچاتے تھے۔ پھر کچھ اور مصلحتیں بھی مانع تھیں۔ غرض مسلم کانفرنس حکومت سے ٹکر لینے کے بجائے الیکشن کے میدان میں اتری۔ کوئی مد مقابل موجود نہیں تھا۔ اس لئے آسانی سے اسمبلی کی مسلم نشستوں پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ اسمبلی کے مسلمان ممبروں کے سامنے اب بہت سے نئے مسائل تھے۔ ان قصوں میں پڑ کے وہ چودھری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں کو بھول گئے ۔ ایرانی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ براں صید لاغر چہ بیداد رفت کہ در دام از یاد ضیا درفت دیکھو کشمیر کی سیاسی جدوجہد میں جن لوگوں نے نام پایا ان میں شیخ عبداللہ اور چودھری غلام سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ شیخ صاحب یوں تو کشمیری ہیں۔ لیکن ان کی طبیعت میں پٹھانوں کا سا اکھڑ پن اور راجپوتوں کی سی اکڑ تکڑ ہے۔ تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی کبھی احتیاط کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے اور ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جو ان کے رتبہ کے انسان کو زیب نہیں دیتیں۔ ان کے ساتھ وہ بہت عجلت پسند بھی ہیں اور بعض مرتبہ سوچے سمجھے بغیر یسی باتیں کر گزرتے ہیں، جن پر انہیں بعد میں شاید خود بھی افسوس ہوتا ہو گا۔ یہ کہنا چاہیے کہ ان کی طبیعت میں طوفان کا انداز ہے، کہ جدھر رخ پھر گیا پھر گیا۔ اپنے زور میں اس طرح بڑھتے چلے جاتے ہیں کہ پلٹنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی علجت پسندی اور سرشوری نے کشمیر کی تحریک کو بہت سے نقصان بھی پہنچائے ہیں لیکن سچ پوچھو تو ان کی یہی ادائیں ہیں جو کشمیریوں کو بہت پسند ہیں۔ شیخ صاحب پر مذہب کا بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ شروع شروع میں تو یہ نشہ بہت تیز تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ وہ اشتراکیت سے بھی متاثر ہوئے ہیں لیکن اس معاملے میں ان کا حال پنڈت نہرو کا سا ہے۔ یعنی وہ کبھی پورے اشتراکی نہیں بن سکے۔ ان کے حالات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور پنڈت نہرو میں بعض باتیں مشترک ہیں۔ اگرچہ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے اختلاف نے شیخ عبداللہ کی قوت کو سخت نقصان پہنچایا، پھر بھی ان کے خاص خاص نیاز مندوں کو ان سے ایسی عقیدت ہے کہ جس طرف شیخ صاحب کا رخ پھرتا ہے، وہ بھی اسی طرف ہو لیتے ہیں۔ غرض شیخ صاحب کو جو کامیابیاں ہوئی ہیں۔ میں ان کی ذاتی خوبیوں یعنی تیز فہمی، بے باکی اور دلیری کے ساتھ ساتھ ان کے رفیقوں کے اخلاص و وفا کو بڑا دخل ہے۔ ان لوگوں نے وفاداری کے دائرے سے کبھی قدم باہر نہیں رکھا۔ جہاں تک بن پڑا ہے ان کے عیبوں پر پردہ ڈالا ہے۔ اور ہر موقع پر انہیں ہی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ 1؎ خوش عقیدہ کشمیریوں نے ایک دفعہ مشہور کر دیا تھا کہ درختوں کے پتوں پر شیخ عبداللہ کا نام لکھا ہوا ہے اور دیہات میں تو اب بھی ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ان کے خرق عادت کے معتقد ہیں۔ مسلم کانفرنس کے قافلہ سالار چودھری غلام عباس اگرچہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل ہیں، لیکن وکیلوں کے ایچ بیچ اور جوڑ توڑ انہیں نہیں آتے۔ ان کی طبیعت میں بڑی سادگی ہے۔ جس نے متنات، خندہ روئی اور انکسار سے ترکیب پا کے ان کی شخصیت کو بہت دلآویز بنا دیا ہے۔ ایثار و خلوص میں ان کا پایہ بہت اونچا ہے۔ چنانچہ قربانی کے معرکوں میں وہ شیخ محمد عبداللہ سے بھی آگے رہے ہیں۔ البتہ شہرت کے میدان میں وہ شیخ صاحب سے پیچھے نظر آتے ہیں۔ یہاں شیخ صاحب اپنی آشفتہ سری اور گرم گفتاری کے سہارے بڑھے ہیں اور چودھری صاحب اپنی سادگی اور متانت کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ رفیقوں کے معاملے میں شیخ صاحب بڑے خوش نصیب ہیں، لیکن چودھری غلام عباس کا یہ حال ہے کہ اپنے ساتھیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو اکثر اپنے آپ کو تنہا پاتے ہیں اور یہ شعر پڑھ کے رہ جاتے ہیں۔ زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا ورستم دستانم آرزوست جس زمانے میں ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک ختم ہوئی اور یہ واقعات پیش آئے، رائے بہادر پنڈت رام چند کاک جو خود کشمیری ہیں، وزیراعظم تھے۔ اس زمانے میں کشمیریوں پر جو ظلم توڑے گئے انہوں نے ان کے خلاف لوگوں میں نفرت کا شدید جذبہ پیدا کر دیا۔ کانگریسی لیڈر بھی ان سے ناراض تھے۔ کیونکہ انہوں نے پنڈت جواہر لال پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارکن نے جو کچھ کیا۔ مہاراجہ کے اشارے سے کیا۔ پنڈت نہرو کو روکنے اور گرفتار کرنے کے لئے مہاراجہ کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ’’ بیرونی مداخلت‘‘ کی صورت میں گوارا نہیں کی جا سکتی۔ شیخ محمد عبداللہ خود ایک دفعہ اسی دلیل کے دامن میں پناہ لے چکے تھے۔ اور آگے چل کے انہیں ایک بار پھر اسی حربے سے کام لینا پڑا جس کا ذکر اگلے باب میں آتا ہے۔ ٭٭٭ گیارہواں باب آزاد کشمیر کشمیر میں بہت سی جاگیریں ہیں جن میں سب سے بڑی تو پونچھ ہے اس سے اتر کے چنہنی1؎ اس کے بعد مسلمانوں کی جاگیروں کا نمبر آتا ہے۔ پونچھ کی آبادی کوئی پونے پانچ لاکھ ہے اور آمدنی دس پندرہ لاکھ کے درمیان۔ علاقہ کوہستان ہے یعنی کہیں کہیں ندی نالوں نے پہاڑوں کو کاٹ کے چھوٹی چھوٹی وادیاں بنا لی ہیں۔ جن میں کھیتی باڑی ہو جاتی ہے۔ لیکن علاقے کے زیادہ حصے میں پہاڑوں کے دل بادل اس طرح چھائے ہوئے ہیں، گویا 1؎ بانہال کے راستے کشمیر جاؤ تو راستے میں چنہنی کا علاقہ پڑتا ہے۔ کد کی چھوٹی سی بستی جو آب و ہوا کی لطافت کی وجہ سے مشہور ہے اسی جاگیر میں ہے۔ یہاں کا راجہ مہاراجہ ہرسی سنگھ کا قرابت دار ہے۔ راجہ کیا ہے اچھا خاصا ساہو کار ہے یعنی غلہ کا بیوپار بھی کرتا ہے۔ سود پر لوگوں کو قرض بھی دیتا ہے۔ پھر خود ہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہے۔ خود ہی جیل اور پولیس کا سپرنٹنڈنٹ۔ خود سیشن جج، خود جنگلات کا اعلیٰ افسر، غرض چنہنی کا راجہ اور وہاں کا نظام حکومت عجائبات کے نمونے ہیں۔ کالی کالی دیواریں کھڑی ہیں جن کے درمیان چشمے اور ندیاں موج مار رہی ہیں ان پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر کہیں کہیں مکئی کے کھیت بھی نظر آجاتے ہیں۔ سارا علاقہ چار تحصیلوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان میں سے دو تحصیلیں یعنی حویلی اور مینڈر تو اپنی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا کر لیتی ہیں۔ لیکن باقی کی دو تحصیلوں یعنی باغ اور سدھنتی میں مزروعہ زمین بہت تھوڑی ہے۔ باغ کے لوگوں کو آدھا اناج باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ لیکن سدھنتی کے باشندے جتنا اناج پیدا کرتے ہیں، اس سے ان کی ضرورتوں کا چوتھا بھی پورا نہیں ہوتا ۔ یہ دونوں تحصیلیں پونچھ کے مغربی حصے میں ہیں۔ اور ان میں ضلع راولپنڈی میں دریائے جہلم حد فاصل ہے۔ سدھنتی 1؎ اور باغ کے لوگ جنہیں ضروریات زندگی کی کمیابی نے بڑا جفاکش بنا دیا ہے، سپاہی پیشہ ہیں۔ مدت سے ان کی زندگی کا انداز یہ ہے کہ کمانے کھانے کے لائق ہوئے، اور راولپنڈی جا کے فوج میں بھرتی ہو گئے۔ بوڑھے ہوئے تو پنشن لی۔ گھر آ کے کمر کھولی اور ایسے پاؤں توڑ کے بیٹھے کہ مر کے ہی اٹھے۔ 1؎ سندھتی اور باغ دونوں میں ایک قبیلہ پھیلا ہوا ہے جسے سدھن کہتے ہیں۔ سدھنتی تو خیر ان لوگوں کا خاص وطن ہے اور انہیں کے نام کی رعایت سے سدھنتی کہلاتا ہے۔ لیکن باغ میں بھی اس قبیلے کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔ البتہ باغ میں ڈھونڈ بھی ہیں جو سدھنوں کی طرح سپاہی پیشہ لوگ ہیں۔ یہ دونوں قبیلے پونچھ کے مغربی حصے کی طرح ضلع راولپنڈی میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ یوں تو یہ لوگ ہمیشہ سے فوجی ملازمت کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن جنگ عظیم میں انہیں سپاہگری کے جوہر دکھانے کا زیادہ موقع ملا۔ چنانچہ دوسری عالمگیر جنگ میں پونچھ کے جو لوگ ہندوستانی فوج میں شامل تھے۔ ان کی تعداد اسی ہزار کے قریب تھی۔ ان میں زیادہ تر انہیں دونوں تحصیلوں کے لوگ تھے۔ زندگی کے اس ہنجار نے جہاں ان کے سپاہیانہ اوصاف کو چمکایا، وہاں ان کی نگاہ میں وسعت اور طبیعت میں ریاست کے نظام حکومت کی طرف سے بے اطمینانی بھی پیدا کر دی ہے۔ یہی وسعت نظر اور بے اطمینانی ہے۔ جسے ریاست کے حکام سرکشی اور شوردہ پشتی سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ پونچھ کے نظام حکومت کا بھی عجب حال تھا۔ شروع شروع میں تو یہاں کا راجہ صرف برائے نام دربار کشمیر کے ماتحت تھا۔ اور پونچھ کو ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن آگے چل کے دربار نے پرانے عہد ناموں کو بالائے طاق رکھ کے پونچھ کے معاملات پر بڑا تسلط حاصل کر لیا۔ اسسٹنٹ ریذیڈنٹ کی اسامی اڑا دی گئی۔ پہلے پونچھ کے محکموں کے افسر برطانوی ہندوستان سے آتے تھے، اب کشمیر سے آنے لگے اور پونچھ کو کاغذات میں جاگیر یا علاقہ لکھا جانے لگا۔ اب کہنے کو تو پونچھ کی حیثیت جاگیر کی تھی۔ لیکن اب بھی یہاں ریاست کے سارے اسباب جمع تھے۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ اس کے انتظام میں دو عملی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ یعنی پونچھ کے لوگوں پر راجہ حکمران تھا۔ اس پر مہاراجہ مسلط۔ چونکہ ان دونوں کے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف نہیں تھے۔ اس لئے دربار کے فرستادہ افسروں اور راجہ کے دولت خواہوں میں بھی ہمیشہ کشمکش رہتی تھی اور اس کشمکش میں بے چاری رعایا برابر پستی چلی جاتی تھی۔ جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں ایک جگہ بیان کر چکے ہیں پونچھ کے لوگ ۱۹۱۳ء میں جب دربار کشمیر کا اثر اتنا نہیں بڑھا تھا، حکومت سے ٹکرا کے اپنی قوت کا اندازہ کر چکے تھے۔ ۱۹۲۵ء میں دربار کشمیر اور پونچھ کے فرمانروا راجہ سکھدیو سنگھ کے درمیان ٹکر ہوئی۔ اگر سکھدیو سنگھ اس موقع پر جرات اور پامردی کا ثبوت دیتا، تو لوگ اس کا ساتھ دیتے۔ لیکن راجہ نے ہمت ہار دی اور لوگ بھی مایوس اور شکستہ دل ہو کے اپنے اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔ ۱۹۳۱ء میں جب کشمیر بھر میں سیاسی جدوجہد شروع ہوئی تو پونچھ میں اس کشمکش نے ایسا زور باندھا کہ راجہ بھاگ کے قلعہ میں جا چھپا۔ اسی زمانے میں پونچھ کے کچھ منچلے سپاہیوں نے کوٹلی کو گھیر کے ڈوگرہ فوج کو بڑا زچ کیا۔ یہ قضیہ دیر تک جاری رہا۔ یعنی کبھی ایک فرق گھر جاتا تھا۔ کبھی دوسرا یہ ہنگامہ فرو ہوا اور لوگوں کو تحریر و تقریر کی آزادی ملی، تو یہ سوال سامنے آیا کہ پونچھ سے دو عملی ختم ہو جانی چاہیے۔ دو عملی کا خاتمہ تو سب لوگ چاہتے تھے۔ لیکن بعض کا خیال تھا کہ کشمیر سے پونچھ کا کوئی تعلق نہیں رہنا چاہیے۔ اور بعض کہتے تھے کہ راجہ کو ہٹا کے اس علاقے کو کشمیر کا ضلع قرار دیا جائے پہلے گروہ کو راجہ کی سرپرستی حاصل تھی دوسرے گروہ کو دربار کشمیر کے فرستادہ افسر بڑھاوے دے رہے تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور گروہ بھی تھا، جس کی رائے یہ تھی کہ پونچھ کو برطانوی ہند میں شامل ہونا چاہیے۔ جن دنوں یہ بحثیں چھڑی ہوئی تھیں، انہیں دنوں پونچھ میں پھر توہین قرآن کا واقعہ ہوا جس نے لوگوں میں بڑا جوش پیدا کر دیا۔ حکومت اور مسلمان عوام میں بڑے زور کی ٹکر ہوئی، اور آخر حکومت کو ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ غرض پونچھ کے لوگ اگرچہ شروع سے کشمیر کی سیاسی جدوجہد میں شامل تھے اور ہمیشہ اگلی صفوں میں کھڑے ہو کے لڑتے تھے لیکن اس لڑائی کے علاوہ جس میں سارا کشمیر شریک تھا، انہیں اپنی لڑائیاں بھی لڑنی پڑتی تھیں جن میں انہیں صرف اپنی قوت بازو کا سہارا تھا۔ جن دنوں ۱۹۳۸ء کی تحریک شروع ہوئی۔ پونچھ کے لوگ راجہ مہاراجہ 1؎ کے جھگڑوں اور دو عملی کے قضیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ اس لئے اس تحریک کو پونچھ میں زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ تحریک نیشنل کانفرنس کے جھنڈے تلے شروع کی گئی تھی اور پونچھ کے لوگ اس نام سے بھڑکتے تھے راجہ اور مہاراجہ کا جھگڑا نہ جانے کیا کیا رنگ بدلتا لیکن ایک تو جنگ چھڑنے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بٹ گئی۔ پھر جنگ چھڑے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ راجہ جگت دیو سنگھ کے انتقال نے یہ کشمکش ختم کر دی۔ جنگ ختم ہوئی اور سپاہی گھروں کو لوٹے تو ان کے خیالات میں بڑا فرق تھا۔ یہ لوگ جنہوں نے لیبیا اور برما کے معرکوں میں جانیں لڑائی تھیں، اٹلی اور مصر کی سیر کی تھی، آزاد ہند حکومت کو بنتے اور بگڑتے دیکھا تھا، اب سیدھے سادے دیہاتی نہیں رہے تھے۔ آزاد ملکوں کی سیر اور آزاد قوموں کے لوگوں سے خلا ملا نے ان کی نگاہ میں بڑی وسعت پیدا کر دی تھی اور ان کے خیالات آزادی اور انقلاب کی فضا میں پرواز کر رہے تھے۔ 1؎ پونچھ کی آمدنی میں سے راجہ اور اس کے خاندان پر کوئی ڈھائی تین لاکھ روپے سالانہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ اگر اسے بے دخل بھی کر دیا جاتا، جب بھی جاگیر کی حیثیت سے ساری مالگزاری اس کی جیب میں جاتی۔ غرض پونچھ کے بالکل جاگیر بن کے جانے میں مالی لحاظ سے راجہ کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ ذرا پونچھ کے راجہ کے مصارف کا مقابلہ مہاراجہ کے مصارف سے کیجئے۔ مہاراجہ کے مصارف کہنے کو تو ریاست کی آمدنی کا بیسواں حصہ ہیں لیکن وہ مختلف ترکیبوں سے پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ریاست کے خزانہ سے وصول کر لیتے ہیں۔ لیکن ان پانچ چھ برسوں کے عرصے میں ان کی وطن کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہی ظالمانہ 1؎ قوانین جو مدت سے چلے آتے تھے، ابھی تک بدستور رائج تھے اور اب بھی ان کی زد زیادہ تر مسلمانوں ہی پر پڑتی تھی۔ سرکاری اہل کاروں کی رعونت بدمزاجی اور تنگ دلی کا وہی حال تھا۔ منشی متصدی اور تحصیلدار برابر رعایا کو لوٹ رہے تھے۔ اس پر گرانی کا یہ عالم کہ روپے کا سیر بھر آتا بکتا تھا۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں نے جو روپیہ کمایا تھا، جب تک اس نے رفاقت کی، روپے کا سیر بھر آٹا بھی خرید کے کھاتے رہے۔ لیکن اب یہ روپیہ بھی ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔ بے اطمینانی تو پہلے ہی تھی۔ گرانی نے اس بے اطمینانی کو دگنا کر دیا۔ اس حالت میں لے دے کے لوگوں کو بس ایک ہی امید سہارا دیئے چلی جاتی تھی کہ پاکستان قائم ہو گا تو کشمیر کو بھی اس میں شامل ہونا پڑے گا۔ ظالمانہ قوانین منسوخ کر دیئے جائیں گے۔کشمیر میں پاکستان کے دوسرے حصوں کا سا نظام حکومت رائج کیا جائے گا۔ سڑکیں بنی گی۔ پل تعمیر ہوں گے غلہ بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکے گا۔ 1؎ مثلاً ترفی اور کاہچرائی دو ٹیکس ہیں جو صرف مسلمانوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ہندو ان سے مستثنیٰ ہیں۔ ان ٹیکسوں کی زود دیہاتی مسلمانوں پر پڑتی ہے، جو گائے، بھینس اور بھیڑ بکریاں پالتے ہیں۔ قانون انتقال اراضی نے بھی مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ کیونکہ اس قانون کی رو سے نو مسلموں کو غیر زراعت پیشہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قانون اسلحہ میں بھی ہندوؤں کے لئے بڑی گنجائش رکھی گئی ہے۔ یعنی ڈوگرہ راجپوتوں کو اس قناون سے مستثنے قرار دیا گیا ہے۔ شیخ محمد نے ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کی تحریک شروع کی تو پونچھ کے لوگوں کے دل ان کے ساتھ تھے، لیکن شیخ صاحب اور ان کے ساتھی پاکستان کے تصور کے سخت مخالف تھے اور کانگریس کے ہندو لیڈروں سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ اس لئے یہ لوگ جنہیں پاکستان کے قیام کے سوا کوئی اور نجات نظر نہیں آتی تھی، اپنے آپ کو اس تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کر سکے۔ ادھر مہاراجہ کے انداز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سر میں خود مختاری1؎ کی ہوا سمائی ہوئی ہے۔ کشمیر چھوڑ دو کی تحریک ذرا دبی تو میں نے ایک دربار کیا، جس میں ہوا خواہان دولت کے علاوہ مختلف علاقوں کے سر بر آوردہ لوگ بھی شریک تھے۔ اس موقع پر انہوں نے جو تقریر کی، اس میں امیدوں کے سبز باغ بھی دکھائے گئے تھے۔ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ غرض تقریر کے بین السطور میں یہ مضمون صاف جھلکتا نظر آتا کہ نیشنل کانفرنس نے اولو العزمی کے راستے پر قدم رکھا تھا اس لئے مابدولت نے اسے کچل ڈالا۔ 1؎ لطف یہ ہے کہ مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چودھری حمید اللہ بھی اپنے بیانوں میں یہی کہے جا رہے تھے کہ مہاراجہ کو خود مختاری کا اعلان کر دینا چاہیے اور ایک بیان میں تو انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ مہاراجہ خود مختاری کا علم بلند کریں تو ہم ان کی حمائت میں جانیں لڑا دیں گے اور ضرورت پڑی تو ہمیں پاکستان سے لڑنے میں بھی کوئی دریغ نہ ہو گا۔ پونچھ کے لوگ شیخ محمد عبداللہ سے تو پہلے ہی مایوس تھے، اس بیان نے انہیں چودھری حمید اللہ سے بھی مایوس کر دیا۔ آئندہ بھی جو لوگ باغیانہ خیالات کو دلوں میں راہ دیں گے، ان سے یہی سلوک کیا جائے گا۔ اس دربار کے علاوہ بساکھی کے موقع پر جموں میں اور جو دربار ہوا، اس کا انداز بھی نرالا تھا۔ شوکت شاہانہ کے جو سامان مدتوں سے توشہ خانوں میں پڑے تھے، انہیں نکال کے محل میں سجایا گیا۔ مہاراجہ سر پر مکٹ سجا کے راج سنگھاسن پر بیٹھے۔ نذریں پیش ہوئیں۔ سلامی اتری۔ شہر میں مہاراجہ کی سواری نکلی اور جموں کے ارد گرد کی پہاڑیاں مہاراجہ کی جے کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ لوگوں کے دلوں پر فتح پانے کا طریقہ تو یہ تھا کہ رعایا کے اطمینان کے سامان فراہم کئے جاتے۔ لیکن مہاراجہ بہادر جو خود مختاری کی ہوا میں اڑے چلے جا رہے تھے، نیشنل کانفرنس اور پنڈت نہرو کو دبا کے اور کانگریس کے صدر اچاریہ کر پلانی 1؎ کو ہموار کر، کے یہ سمجھتے تھے کہ میدان مار لیا۔ وہ ان بکھیڑوں میں کیوں پڑتے۔ انہیں تو یہ دھن تھی کہ جس قدر جلد ہو سکے خود مختاری اور مطلق العنانی کے سامان جمع کئے جائیں۔ ہوائی اڈے تعمیر ہوں، چھاؤنیاں بنیں اور فوج کو نئے ساز و سامان سے آراستہ کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اب کے جموں سے سری نگر جاتے وقت پونچھ کا راستہ اختیار کیا۔ راولہ کوٹ میں جو سدھنتی کا ایک قصبہ اور فوجیوں کا مرکز ہے۔ تھوڑی دیر ٹھہرے۔ مقامی افسروں سے گفتگو کی۔ اس سوال پر غور کیا گیا کہ ہوائی اڈہ کہاں بنے۔ چھاؤنی کہاں تعمیر ہو اور فوجی چوکیاں کہاں کہاں قائم کی جائیں اور موٹر پر بیٹھ کے سری نگر روانہ ہو گئے۔ 1؎ اچاریہ کر پلانی انہیں دنوں جموں آئے، اور جاتے جاتے کہہ گئے کہ ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کی تحریک سے سے مہمل ہے۔ دراصل مہاراجہ کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ہندوستان پاکستان میں شرکت کے سوال پر رعایا میں شورش ہوئی تو پونچھ کے لوگ سب سے آگے ہوں گے۔ اس لئے موقع پا کے ان گردن کشوں کو ایسی سزا دینی ہے کہ ان میں سر اٹھانے کی ہمت ہی نہ رہے۔ پنجاب میں ان دنوں فساد شروع ہو چکے تھے ہندو سکھ گروہ در گروہ ریاست میں داخل ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ راشٹر یہ سیوک سنگھ کی شاخیں قائم تھیں اور پونچھ میں خصوصیت سے اس جماعت کے کارکن بڑے سرگرم نظر آتے تھے۔ کہ دفعتہ جموں سے پونچھ میں فوجیں پہنچنے لگیں۔ راولہ کوٹ کو جہاں وسیع میدان پھیلے ہوئے ہیں، فوجی چھاؤنی بنا لیا گیا۔ کچھ دستے باغ کے علاقے میں بھیجے گئے اور باقی پونچھ کے شہر میں احکام کا انتظار کرنے لگے۔ انہیں دنوں راولہ کوٹ میں پنجاب کے دو افرشوں کا ایک گروہ وارد ہوا۔ یہ لوگ جو مذہباً مسلمان ہیں، جوگی کہلاتے ہیں۔ مدتوں سے ان کا وتیرہ ہے کہ جہاں گرمی کا موسم آیا، کشمیر کے پہاڑوں میں پھیل گئے۔ جڑی بوٹیاں تلاش کیں، دوائیں بیچیں، چشموں کا ٹھنڈا پانی پیا۔ ٹھنڈی ہوا کا لطف اٹھایا اور واپس آ گئے۔ اتفاق سے راولہ کوٹ کے جس مکان میں یہ لوگ اترے، اس کے پاس ہی ایک ڈوگرہ صوبیدار سپاہیوں کا ایک دستہ لئے پڑا تھا۔ کسی نے اس سے جا کے کہا کہ پنجاب سے کچھ آدمی جوگیوں کے بھیس میں پاکستان کا پروپیگنڈا کرنے آئے ہیں، اور فلاں شخص کے ہاں اترے ہیں۔ پاکستان کا نام سن کے ڈوگرہ سپاہی بھڑک اٹھے اور اس مکان میں گھس کے صاحب خانہ، اس کے اہل و عیال اور مہمانوں کی مشکیں کس لیں۔ پھر انہیں اپنے ہاں لا کے ڈرایا دھمایا، ماراپیٹا اور ان کی بے آبروئی میں کوئی بات اٹھا نہ رکھی۔ کچھ دیر کے بعد پولیس نے آ کے ان گرفتاران بلا کو مخلصی تو دلا دی، لیکن اس واقعہ نے راولہ کوٹ کے مسلمانوں میں بڑا جوش پھیلا دیا تھا۔ دوسرے دن جلسہ ہوا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ڈوگرہ صوبیدار اور اس کے ساتھیوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو اس موقع پر موجود تھا، لوگوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لئے وعدہ تو کر لیا کہ تین دن کے اندر اس سلسلے میں ضرور کوئی کارروائی کی جائے گی۔ لیکن یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا اور ڈوگرہ سپاہی کھل کھیلنے لگے۔ غرض 3 جون کو جب لارڈ مونٹ بیٹن نے ہندوستان اور پاکستان کی مملکتوں کے قیام اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا۔ سدھنتی اور باغ کی تحصیلوں میں ڈوگروں کی دراز دستیوں نے بڑا جوش پھیلا رکھا تھا۔ اگرچہ اس علاقے کے لوگوں سے اکثر اکھڑ سپاہی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس موقع پر بڑی عقلمندی سے کام لیا۔ یعنی آئین کے دائرہ سے باہر قدم نہ نکالا۔ ہاں جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو مالیہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ لطف یہ ہے کہ ان دنوں اس علاقے میں کوئی لیڈر موجود نہیں تھا۔سردار محمد ابراہیم جو اسی حلقے سے کشمیر اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے، شروع کے ایک آدھ جلسے میں شامل ہونے کے بعد سری نگر چلے گئے تھے۔ مسلم کانفرنس کے دوسرے لیڈروں میں سے کچھ سری نگر میں تھے۔ کچھ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے تھے۔ تحریک عام لوگوں کے ہاتھ میں تھی جنہیں اس قسم کے معاملات کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ یہ جھگڑا مئی میں شروع ہوا تھا۔ جون اور جولائی کے مہینوں میں معاملہ جلسوں اور جلوسوں سے آگے نہ بڑھا۔ حکام نے اس زمانے میں کسی کو گرفتار کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ ہزاروں آدمی قید ہونے پر تیار تھے۔ وہ کس کس کو گرفتار کرتے۔ البتہ ڈوگرہ سپاہی برابر مار دھاڑ کرتے رہے۔ اگست کے مہینے میں ادھر مشرقی پنجاب میں ہنگامہ رستخیز گرم ہوا۔ حد بندی کمیشن کا فیصلہ جس نے عام توقع کے برعکس کشمیر کے ڈانڈے ہندوستان سے جا ملائے تھے، دنیا کے سامنے آیا اور ادھر پونچھ میں ڈوگرہ سپاہیوں نے انسان شکاری کی مشق شروع کر دی۔ ستمبر کا مہینہ آیا تو یہ حال تھا کہ ڈوگرہ سپاہی لوگوں کو للکار للکار کے مقابلے کی دعوت دے رہے تھے۔ راستے رکے ہوئے تھے۔ سڑکیں بند، کمکی دستوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہر طرف فوجی ٹرک جنگی سامان سے لدے ہوئے دوڑتے نظر آتے تھے۔ یوں تو ریاستی فوج کے سپاہیوں کے عام انداز سے پہلے ہی یہ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ لیکن اگست کے تیسرے ہفتے میں جب حکام نے سدھنتی اور باغ کے بعض سر بر آوردہ لوگوں کو گرفتار کیا اور دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی گئی۔ تو ڈوگرہ سپاہیوں نے پہلے سے زیادہ خرمستیاں شروع کر دیں۔ کے قصبہ میں ایک مجمع عام پر گولی چلی جس میں سینکڑوں آدمی مارے گئے۔ مجمع کی پشت پر ایک ندی تھی جو ان دنوں چڑھاؤ پر تھی۔ لوگ گولیوں کی زد سے بچنے کے لئے پیچھے ہٹے تو ندی میں جا گرے اور اس طرح بہت سی جانیں ضائع ہو گئیں۔ دو تھان ایک چھوٹی سی بستی ہے، وہاں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔ یعنی ڈوگروں کی ایک پوری کمپنی نے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے مجمع کو للکار للکار کے مقابلے پر ابھارا۔ ایک طرف لاٹھیاں کلہاڑیاں اور دو چار توڑے دار بندوقیں تھیں، اور دوسری طرف رائفلیں، برین گنیں او رمشین گنیں لیکن آفرین ہے ان بہادروں کی ہمت پر کہ ڈوگرہ سپاہیوں کی للکار سن کے وہ بھاگے نہیں، بلکہ سینوں پر گولیاں کھا کے دوتھان کی گھاٹیوں کو اپنے خون سے گلرنگ کر گئے۔ اب ڈوگروں نے گھروں میں گھس گھس کے لوگوں کو قتل کرنا اور مکانوں کو جلانا شروع کیا۔ ان بچاروں کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ اس لئے مجبور ہو کے جنگلوں اور پہاڑوں میں جا چھپے۔ اور جنگی پھل اور مکئی کے بھٹے کھا کھا کے گزارہ کرنے لگے۔ اس بے سر وسامانی کے باوجود جب موقع ملتا یہ کوہستانی کمین گاہوں سے نکل کے ڈوگروں پر آ پڑتے اور مار دھاڑ کر کے نکل جاتے۔ ڈاک بند تھی، راستے رکے ہوئے ۔ اس لئے پونچھ کے دوسرے علاقوں تک صحیح خبریں نہ پہنچ سکیں۔ 1؎ جولائی کے اخیر میں مسلم کانفرنس نے یہ قرار داد منظور کی کہ مہاراجہ کو پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دینا چاہیے۔ اصل قرار داد کانفرنس کے قائم مقام صدر چودھری حمید اللہ نے پیش کی تھی اور اس کا مضمون یہ تھا کہ مہاراجہ کو خود مختار رہنا چاہیے۔ لیکن اس پر جو ترمیم پیش ہوئی اس نے قرار داد کا مفہوم ہی بدل دیا۔ ان دنوں سری نگر کے مسلمانوں میں بڑا جوش تھا اور گلی کوچے ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کے گونج رہے تھے۔ ہاں لوگوں کو اتنا ضرور معلوم تھا کہ مغربی باغ اور راولہ کوٹ کے آس پاس کے علاقے میں ہنگامہ ستیز گرم تھا۔ مسلم کانفرنس کے لیڈروں کو بھی جو اس سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان 1؎ میں شمولیت کی قرار داد منظور کر چکے تھے، کچھ کچھ حالات معلوم ہوئے، لیکن معاملہ جلسوں اور قرار دادوں سے گزر کے شمشیر و سناں تک جا پہنچا تھا۔ اس لئے وہ سب کے سب بڑی حیص و بیص میں مبتلا تھے۔ انہیں لوگوں میں سردار محمد ابراہیم بیرسٹر بھی تھے۔ ان کا وطن مالوف تو سدھنتی کا علاقہ ہے لیکن وہ مدت سے سری نگر میں مقیم تھے۔ پہلے کچھ عرصہ تک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل رہے۔ پھر ملازمت سے استعفے دے کے بیرسٹری کی پریکٹس شروع کر دی۔ اسمبلی کا انتخاب ہوا تو کامیا ب امیدواروں میں ان کا نام بھی تھا۔ لیکن حکومت ان سے کھٹکی ہوئی تھی۔ اس لئے جب پونچھ میں جھگڑے کا زور بڑھا، تو انہیں سری نگر کی حدود میں نظر بند کر دیا گیا، اگرچہ پولیس والے بڑی سختی سے ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ لیکن ان کی آنکھوں میں دھول ڈال کر نکل پڑے اور راولپنڈی پہنچ کے اپنے ہم وطنوں کو مدد پہنچانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ یہ تو صاف نظر آ رہا تھا کہ اب لڑائی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے سدھنتی اور باغ میں بہت لوگ ہتھیاروں کے لئے چپکے چپکے روپیہ جمع کر رہے تھے۔ ضلع راولپنڈی میں ان لوگوں کے بہت سے قرابت دار آباد ہیں لیکن سدھن اور ڈھونڈ جو پونچھ کے مغربی علاقے کے مشہور قبیلے ہیں، دریائے جہلم کے کناروں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی معرفت ہتھیار خریدے گئے۔ پھر انہیں دریار کے پار پہنچانے کی تدبیریں ہونے لگیں۔ اگرچہ ڈوگروں نے سارے ناک روک رکھے تھے۔ دریا کے کنارے جو کشتیاں پڑی تھیں انہیں توڑ ڈالا تھا۔ پھر بھی ان لوگوں نے ہمت نہ ہاری۔ لکڑی کے لٹھے جوڑ کے بیڑے بنائے ۔ ان پر سامان رکھ کے دریا کے پار پہنچایا۔ اور رات کی تاریکی میں ڈوگروں کی چوکیوں سے بچتے بچاتے لے چلے۔ بعض منچلوں نے اس کا بھی انتظار نہ کیا، جتنا سامان آسانی سے اٹھا سکتے تھے، اٹھایا اور مشکیں پھال کے ان کے سہارے دریا کے پار اترے۔ ان لوگوں کے پاس لے دے کے گنتی کی بندوقیں اور رائفلیں تھیں۔ یا ہتھ گولے اور بم توپوں اور برین گنوں کے سامنے اس سامان کی کیا بساط تھی۔ 1؎ ان لوگوں نے دھیر کوٹ کے تھانے پر جو چھاپہ مارا تھا اس میں بہت سی بندوقیں اور رائفلیں ہاتھ آئیں۔ حکومت نے یہ اسلحہ مسلمانوں سے چھین چھین کے اس لئے تھانے میں جمع کر رکھا تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کو مسلح کرنے کے کام آئے گا۔ پنجاب کے ہنگاموں میں لوگوں کے گھروں سے جو سامان نکلا تھا، وہ اس سے زیادہ تھا۔ پھر بھی اس سامان کے آ جانے سے یہ دلاور زیادہ قوی دل ہوگئے اور پہاڑوں سے نکل کے ڈوگروں کی فوجوں پر اس زور کے چھاپے مارنے لگے کہ ان میں افراتفری پھیل گئی۔ اس دوران میں بہت سا لڑائی کا سامان بھی فتح نصیب بہادروں کے ہاتھ آیا۔ 1؎ اور گھمسان کی لڑائیاں ہونے لگیں۔ اب تک یہ لوگ کسی لیڈر کے بغیر لڑ رہے تھے۔ لیکن اب انہیں سردار محمد ابراہیم جیسا رہنما ہاتھ آ گیا۔ جو انہیں سنگلاخ کوہستانوں کے دامن میں پل کے جوان ہوا تھا اور اس علاقے کے لوگوں کے دکھوں اور مصیبتوں، ان کی آرزوؤں، خواہشوں اور ان کی فطری صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ غرض ’’ آزاد کشمیر‘‘ کی تحریک کی ابتداء نہایت معمولی تھی۔ اور اس کا آغاز راولہ کوٹ اور باغ کے دیہاتیوں نے کیا تھا۔ شروع شروع میں یہ تحریک پر امن تھی اور پر امن ہی رہتی۔ لیکن جب ان لوگوں نے دیکھا کہ ڈوگرہ سپاہی صرف تیغ و تنگ کی بولی ہی سمجھ سکتے ہیں، تو انہوں نے بھی یہی زبان اختیار کر لی کیونکہ وہ ڈوگروں سے کہیں زیادہ روانی کے ساتھ یہ زبان بول سکتے تھے۔ اس تحریک کی ابتداء کے بارے میں کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن اس میں سے اکثر بے اصل باتیں اور دور از کار قیاس آرئیاں ہیں۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ تحریک شروع کی تھی، وہ جنگ کے زمانے میں کئی ملکوں کی سیر کر چکے تھے۔ انہوں نے آزاد ملکوں کے لوگوں کے رنگ ڈھنگ اور قاعدے قانون دیکھے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ یہ جنگ انسانوں کو آزادی دلانے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ڈوگروں کو ہمارے گھروں میں گھس گھس کے ہمیں قتل کرنے اور ہماری بہو بیٹیوں کی بے آبروئی کا حق کس نے دیا؟ معاہدہ امرتسر جسے کشمیر کا حکمران خاندان اپنے استحقاق حکومت کی سند سمجھتا ہے، ہماری ابدی غلامی کا مہری پروانہ کیسے بن گیا؟ اور اب اس سے ہمارے قتل کے محضر کا کام کیوں لیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان پر کبھی کبھی پاکستان کا نام بھی آ جاتا تھا اور وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہمارے وطن کو پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کے لوگوں سے ہمارا نسل، تہذیب اور مذہب کا رشتہ ہے یہ بھی درست ہے کہ اس مصیبت کے زمانے میں جب ڈوگرہ حکومت انہیں بالکل نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی تھی، ان کی نظریں بار بار دریائے جہلم کے پار کے علاقے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ اور وہ تعجب کرتے تھے کہ پاکستان کے لوگ جنہیں ترکوں اور عربوں کی مصیبتیں بے قرار کر دیا کرتی تھی ہماری مدد کیوں نہیں کرتے۔ احرار کو کیا ہو گیا؟ مسلم لیگ کی صفوں سے ہماری حمائت میں آواز کیوں بلند نہیں ہوتی؟ ہم کلہاڑیوں بندوقوں سے کب تک لڑتے رہیں گے؟ کیا ہمیں اتنی رائفلیں نہیں مل سکتیں کہ ہم تیس چالیس ہزار جوانوں کو مسلح کر سکیں۔ لیکن ان کی جدوجہد کا مقصد پاکستان کی حمائت یا ہندوستان کی مخالفت نہیں بلکہ ڈوگرہ راج کی مخالفت تھا یعنی اصولی طور پر اس تحریک اور کشمیر چھوڑ دو کی تحریک میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ’’ کشمیر چھوڑ دو‘‘ کا نعرہ شیخ محمد عبداللہ نے بلند کیا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جب مردان بلاکش اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لئے اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ شیخ صاحب جنہیں ان کا ہیر سپاہ ہونا چاہیے تھا۔ مہاراجہ کے چتر دولت کے سائے میں کھڑے ہیں اور ’’ آزاد ہندوستان‘‘ کی پوری قوت مہاراجہ کے سنگھاسن کے پیچھے صف آراء ہے۔ اے خوش آں دم کہ من کشتہ بخوں می گشتم اورز دہ تکیہ بہ شمشیر تماشامی کرد اس المناک واقعہ کے صحیح اسباب کی تفصیل تو شاید کسی کو معلوم نہیں لیکن جو حالات لوگوں کے سامنے آ چکے ہیں۔ انہیں ہم مختصر طور پر بیان کئے دیتے ہیں۔ 1؎ آگے چل کے پاکستان کے لیڈروں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ اصول ہی سرے سے غلط ہے اور اس سے ریاستی رعایا کی سخت حق تلفی ہوئی ہے۔ جن دنوں ریاست کے ایک چھوٹے سے علاقے میں یہ واقعات ہو رہے تھے، سیاستدان بڑے بڑے پیچ لڑا رہے تھے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ لیگ اور کانگریس یا یوں کہنا چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں یہ بات مانچ کے تھے کہ الحاق و المان1؎ ریاست کی مرضی پر موقوف ہے۔ وہ چاہے پاکستان میں شامل چاہیے ہندوستان میں۔ پاکستان کے لیڈروں نے تو یہ اصول تسلیم کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن ہندوستانی لیڈر چپکے بیٹھنے والے نہیں تھے۔ پہلے اچاریہ کرپلانی جموں آئے۔ وہ گئے تو گاندی جی سری نگر تشریف لے آئے۔ لیکن ان دنوں مہاراجہ ہری سنگھ کا ارادہ یہی تھا کہ جس طرح بن پڑے خود مختار رہیں۔ چنانچہ گاندی جی جو ناراض آئے تھے، ناراض ہی گئے۔ پر جب حد بندی کمیشن کے فیصلے نے کشمیر کی سرحد ہندوستان سے جا ملائی۔ تو مہاراجہ پر نئے سرے سے دباؤ پڑنے لگا کیونکہ اب کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا تھا۔ نہ جانے اوپر ہی اوپر کیا کیا باتیں ہوئیں۔ لیکن اتنا تو سب نے دیکھا کہ پنڈت رام چندر کاک جنہوں نے نیشنل کانفرنس کی تحریک کو کچلنے میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی، بلکہ پنڈت نہرو پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت بھی کر بیٹھے تھے، وزارت سے الگ کر دیئے گئے۔ نیشنل کانفرنس نے کشمیر چھوڑ دو کی تحریک واپس لے لی اور شیخ محمد عبداللہ اور ان کے رفقا کی رہائی کے احکام صادر کر دیئے گئے۔ قید سے رہا ہونے کے بعد شیخ صاحب نے جو تقریر کی ان میں ذمہ دار حکومت پر بڑا زور دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے ذمہ دار حکومت قائم ہو پھر کشمیر کے الحاق کا سوال طے کیا جائے۔ چنانچہ آ گئے تو انہوں نے پونچھ کے لوگوں کی جدوجہد کا ذکر جن الفاظ میں کیا تھا، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس جدوجہد کو مظلوم عوام کی جدوجہد سمجھتے ہیں ۔لیکن چند دنوں کے بعد جب جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا، پٹھان قبائل ان کی حمائت پر اٹھے اور مہاراجہ نے ہندوستان میں شرکت کا اعلان کیا تو خدا جانے کیا پیچ پڑا کہ شیخ صاحب نے کشمیر کے نئے وزیراعظم مسٹر مہر چند مہاجن کی تحتی میں حکومت کی سربراہی قبول کر لی۔ دراصل مہاراجہ اور ان کے مشیر یہ چاہتے تھے کہ کشمیر چاہے خود مختار رہے، چاہے ہندوستان میں شامل ہو جائے، ریاست میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے تناسب کا نقشہ ضرور بدل دیا جائے تاکہ آگے چل کے پاکستان میں شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مدت سے چپکے چپکے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کے قافلے ریاست میں داخل ہو رہے تھے اور انہیں مسلح کرنے کے لئے ہتھیار بھی منگوائے جا رہے تھے۔ مسلمان پولیس سے بھی ہتھیار رکھوا لئے گئے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو مار مار کے ریاست سے نکال دیا جائے۔ 1؎ اور ان کی زمین باہر سے آنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے حوالے کر دی جائے۔ ریاست کے دوسرے حصوں میں تو یہ منصوبہ پورا نہ پڑا۔ البتہ جموں کے ایک صوبہ میں ڈوگروں کی سازش بڑی کامیاب ثابت ہوئی۔ جموں، سانبہ اور کٹھوا میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ اور کوئی دو لاکھ ستم رسیدہ مسلمان جموں سے بھاگ کے مغربی پنجاب میں چلے آئے۔ ڈوگرے سمجھتے تھے کہ جس طرح کپور تھلہ میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، آج ایک مسلمان نظر نہیں آتا، اسی طرح جموں اور کشمیر سے مسلمانوں کو بالکل نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ لیکن جو دلاور پونچھ کے پہاڑوں میں ریاست کی فوجوں کو ریلتے دھکیلتے چلے جا رہے تھے، جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں سن کے ان کا خون کھول اٹھا، اور انہوں نے زیادہ زور کے دھاوے کرنے شروع کر دیئے۔ میر پور، مظفر آباد اور رام پورر راجوری کے چب، منگرال، کھکھے اور بمبے بھی چونکے ساتھ ہی ہمسایہ علاقوں کے لوگ جنہیں ایک زمانے میں طرابلس کے عربوں اور سمرنا اور اورنہ کے تریکیوں کی مصیبتوں نے بے چین کر دیا تھا، کشمیر کے مظلموں کو بچانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1؎ اکھنور میں کوئی پندرہ ہزار مسلمان جمع تھے۔ ۲اکتوبر کو انہیں حکم دیا گیا کہ پاکستان روانہ ہو جاؤ۔ جب وہ پل پر پہنچے ان پر گولیاں برسنے لگیں چنانچہ پندرہ ہزار میں سے صرف ایک سو زندہ بچے ۲۲ اکتوبر کو جموں میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا اور کوئی ۲۵ ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ اسی دن سانبہ میں ۴ ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ کٹھوآمیں میں اس سے دو دن پہلے آٹھ ہزار مسلمان قتل کئے جا چکے تھے۔ یہ واقعات کشمیر کے ہندوستان میں شامل ہونے سے پہلے کے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور ریاسی، میرپور اور کشتواڑ کے علاوہ باقی سارا صوبہ مسلمانوں سے خالی کرا لیا گیا۔ اگرچہ اب بھی یہ لڑائی عوام کی جدوجہد آزادی تھی لیکن اس لڑائی میں ہمسایہ علاقوں کے لوگوں کی شرکت سے ہندوستان کی حکومت کو کشمیر میں فوجیں اتارنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ اور شیخ محمد عبداللہ بھی اسی دور میں بہ نکلے۔ دلیلوں کا خزانہ خالی ہو جائے تو ہو جائے بہانوں کے بھرپور خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے۔ غرض شیخ صاحب دلی گئے تو پونچھ کے لوگوں کی مظلومی کا تذکرہ ان کی زبان پر تھا۔ واپس آئے تو یہی مظلوم ان کی نظر میں ظالم بن چکے تھے۔ رفتم بہ بت شکستن و ہنگام بازگشت بابرہمن گزاشتم از ننگ دیں اخویش لیکن شیخ صاحب کی غیر معمولی صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوت و اثر کے باوجود آزاد کشمیر کی تحریک برابر وسعت اختیار کرتی چلی گئی۔ اور آخر میں تو خود ہندوستان کی حکومت کو بھی اپنے عجز اوربے چارگی کا اعتراف کرنا پڑا۔ یعنی پاکستان سے بے نتیجہ گفت و شنید کے بعد اس نے سیکیورتی کونسل کے سامنے معاملہ پیش کر دیا۔ ٭٭٭ ماخذ اس کتاب کی تالیف کے زمانے میں جو کتابیں مولف کے زیر نظر رہی ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ ابو الفضل جہانگیر آئین اکبر تزک جہانگیری اکبر نامہ برنیئر سفر نامہ گواشہ لال بیرن ہیوگل مختصر تاریخ کشمیر سیاحت نامہ پنجاب و کشمیر ینگ ہسبنڈ پنڈت کلہن کشمیر راج ترنگینی ایف ڈریو (ترجمہ سٹین صاحب) جموں اور کشمیر محمد دین فوق دیوان امر ناتھ مکمل تاریخ کشمیر ظفر نامہ رنجیت سنگھ شباب کشمیر پین محمد قاسم فرشتہ سکھوں کی مختصر تاریخ تاریخ فرشتہ اوتار سنگھ سندھ رام چندر کاک ہری سنگھ نلوہ کشمیر کی پرانی یادگاریں سر والٹر لارنس وادی کشمیر گورڈن سکھ پریم ناتھ بزاز کنگھم کشمیر کا گاندھی تاریخ پنجاب اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End