پاکستانی ادب کے معمار ڈاکٹر فقیر محمد فقیر شخصیت اور فن محمد جنید اکرم پیش نامہ اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوں کے ممتاز تخلیق کار وں کے بارے میں پاکستانی ادب کے معمار کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معماران ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے اکادمی ادبیات پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں شاعروں افسانہ نگاروں اور نقادوں کے بارے میں کتابیں شائع کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پنجابی کے نام ور شاعر محقق تنقید نگار صحافی اور مترجم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پنجابی زبان و ادب کی خدمت کے انمٹ اور لازوال نقوش ثبت کیے اور ایک تحریک کی صورت اختیار کرتے چلے گئے۔ آج بھی پنجابی زبان و ادب کے میدان میں ان کے نقوش قدم واضح اور نمایاں طورپر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی پنجابی شاعری خاص طور پر پاکستانی ادب کا ایک معتبر حوالہ سمجھی جاتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر معروف سلسلے ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ میں شامل کر کے ان کے احوال و آثار پر پیش نظر کتاب مرتب کرائی تاکہ آئندہ نسلیں ان کے غیر معمولی کارناموں سے آگاہ ہو سکیں۔ محمد جنید اکرم اردو اور پنجابی کے معروف محقق اور نقاد ہیں۔ انہوںنے اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر شخصیت اور فن تحریر کر کے اد ب کی غیر معمولی خدمت سر انجام دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی حلقوں پر بھی پسند کیا جائے گا۔ افتخار عارف ٭٭٭ پیش لفظ میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے علمی اور ادبی قد کاٹھ کے لحاظ سے کسی بھی طرح اس قابل نہیں ہوں کہ حضرت بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زندگی کے احوال اور علمی و ادبی معرکوں کا احاطہ کر سکوں۔ یوں جان لیجیے کہ اس معرکتہ الآرا کام کوکرنے کی حامی میں نے اپنے چھوٹے قد کو بڑاکرنے کے لالچ میں بھرلی۔ جب میں نے اس کام کا آغاز کیا تو میں پوری طرح تندرست و توانا تھا مگر آغاز میں ہی میرے خالق و مالک کی رضا و کرم سے میں گردے فیل ہو جانے کے موذی مرض کا شکار ہو گیا۔ 14دسمبر 2006ء کو میں ہسپتال لایا گیا اورآج تک ہفتہ میں دو بار ڈایلاسز کروا رہا ہوں۔ یہ میرا اپنے مالک سے شکوہ نہیں میں تو ہر لمحہ اس کے فضل اور کرم کا طلب گار اور معترف رہتا ہوں۔ یہ میرے لیے مرض نہیں میرے اللہ کا کرم ہے اور اس کے لیے میں ہر لمحہ اور ہر دم اس کا شکر گزار ہوں۔ اس بیماری کا تذکرہ محض اس لیے کیا ہے کہ جو دوست اس کتاب کے منتظر تھے اور وقتاً فوقتاً بذریعہ ٹیلی فون اس کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے وہ جان جائیں کہ: ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا میں نے چمن میں ہر طرف بکھرے ہوئے افکار فقیر کو ہر ممکن سمیٹنے اور یکجا کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر تکمیل کا دعویٰ نہیں کیا۔ دراصل اس کام کاآغاز کرتے ہی مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ یہ وہ سمندر نہیں جسے کوزے میں بند کیا جا سکے لہٰذا اس کتاب میں جہاں جہاں کمی محسوس ہو میری کم علمی نالائقی اور جسمانی کمزوری کو وجہ سمجھ کر درگزر کیا جائے۔ اگر کہیں کوئی خوبی نظر آئے تو اسے سوفیصد بابائے پنجابی کے پاک قدموں کی طفیل ہی تصور کیا جائے۔ خس خس جں قدر نہ میرا صاحب نوں وڈیائیاں میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سائیاں میں اس کام کو ہرگز مکمل نہ کر پاتاا گر مجھے اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل جناب ظہیر الدین ملک کا محبت بھرا خط نہ ملتا اور محترمہ سعیدہ درانی کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی۔ میرا ہر کام اس وجہ سے بھی بطریق احسن پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے کہ اس کے آغاز میں امی جی کی دعائوں سے بنیاد رکھولی جاتی ہے۔ اس کام میں میرے برادر عزیز حامد ارشد اورمیری شریک حیات مصباح کا بھرپور تعاون شامل رہا۔ بابائے پنجابی کے علمی ادبی اور قلمی وارثوں میں اہم اور معتبر نام جناب عبدالباسط باسط اور جناب صدیق تاثیر کے ہیں۔ ا ن دونوں کی سرپرستی نے ا س کام کو میرے لیے قدرے آسان بنا دیا۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ محمد جنید اکرم ٭٭٭ حالات زندگی پیدائش آ پ کا نام فقیر محمد اور تخلص ’’فقیر‘‘ تھا ۔ آپ 5جون 1900ء کو پنجاب کی مردم خیز سرزمین گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ لاہور سے گوجرانوالہ کی سمت کی ٹی روڈ پر جائیں تو گوجرانوالہ شہر میں داخل ہو کر جی ٹی روڈ پر مغربی سمت میں جسٹس دین محمد میموریل لائبریری ہے۔ اس لائبریری سے پہلے ہی گوجرانوالہ کا تاریخی باغ شیرانوالہ باغ آج بھی موجود ہے۔ اس باغ میں کسی زمانے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بارہ دری ہوا کرتی تھی۔ ہمیں اپنے بچپن میں اس بارہ دری میں کھیلنے کا شرف حاصل ہے۔گزشتہ برسوں میں اس شہر کے حکمرانوں نے اس بارہ دری کو منہدم کر کے شہر کی تاریخ کے ساتھ گھنائونا ظلم کیا۔ اس باغ کے مغربی دروازے پر پتھر کے بنے ہوئے دو شیر ہوتے تھے۔ اسی مناسبت سے اس باغ کو شیرانوالہ باغ کہا جاتا ہے۔ اسی باغ کی جنوب مغربی سمت میں چند قدم آگے میں بازار کو کراس کر کے ایک گلی جنوب کی سمت جار ہی ہے جو کہ محلہ تکیہ معصوم شاہ میں جا نکلتی ہے۔ اس محلے میں ایک گرائونڈ سی ہوا کرتی تھی جو کہ محلے کی سطح زمیں سے تقریباً دو اڑھائی فٹ اونچی تھی۔ اس گرائونڈ کے گر لوہے کی سلاخوں سے بنا ہوا جنگلا لگا ہوتا تھا۔ اس گرائونڈ کے درمیان میں ایک مزا ر نما قبر اورچند چھوٹی چھوٹی قبریں موجود تھیں۔ اس مزار کو معروف صوفی بزرگ حضرت سید معصوم شاہ کے نام نامی سے منسوب کیا جاتا ہے اسی مناسبت سے اس محلے کو محلہ تکیہ معصوم شاہ کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔ ایام طفلی میں تکیہ معصوم شاہ کی گرائوند میں کھیلنے کا ہمیں بھی اعزاز رہا ہے۔ اسی محلہ کی مغربی سمت میں گلی نمبر تین ہے کوچہ حکیم امام دین کے نام سے معروف رہی ہے۔ اسی کوچہ امام دین میں بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی جائے پیدائش ہے۔ او ر یہی حکیم امام دین بابائے پنجابی کے جد امجد تھے۔ اپنی تاریخ پیدائش ای چومصرعے میں فقیر اس طرح بیان کرتے ہیں: جون پنج سن انی سو عیسوی سی میرا فانی جہان تے آون دا دن سوموار نوں فجر دی بانگ ویلے چڑھیا میرا پہلا جاگن سون دا دن چڑھی رات تے کدی رون والی کدی دن چڑھیا ہسن گئون دا دن دن میں آون دا دس فقیر دتا اگوں رب جانے پچھاں بھون دا دن آبائو اجداد آپ کے والد میاں دین ٹھاکر کشمیری تھے۔ اور حککمت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ آپ کے آبائو اجداد 1857ء کے ہنگاموں میں جموں کشمیر کے علاقہ سری نگر کے ایک گائوں راول پور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ کے راستے گوجرانوالہ میں آ کر آباد ہوئے۔ فقیر محمد اپنی ای دو بیتی میں اپنے قدیم آبائی وطن کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں: تخت کئیاں دے نیں کیئاں دی بنے جدی وطن پر میرے وطنوں نیں سارے جگ دے ردی وطن ہاں گیا کشمیر پر ڈٹھا نہ راول پور فقیر دیس اوہ میرے بزرگاں دا میرا جدی وطن فقیر محمد کے بزرگ نہایت مذہبی اور روایتی قسم کے لوگ تھے۔ آپ کے آباء میں اوین بزرگ جنہوںنے ہندو مت کو ترک کر کے اسلام قبول کیا ان کا اسلامی نام میاں محمد بخش تھا۔ آپ حکمت کے پیشہ سے منسلک تھے اورانتہائی سوجھ بوجھ رکھنے والے دانشور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بفضل ربی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ قبول اسلام کے بعد وہاں کے ہندو معاشرہ میں زندگی گزارنا کٹھن محسوس ہونے لگا تو اپنے تمام تر قبیلے کے ساتھ پنجاب کی جانب ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ میاںمحمد بخش ٹھاکر ہجرت کے اس کٹھن سفر میں بیمار ہوئے اور دوران سفر میں ہی وفات پا گئے (انا للہ و انا الیہ راجعون) آپ کے بڑے بیٹے حکیم امام دین ٹھاکر نے باپ کی تجہیز و تکفین کے فرائض پورے کیے چند دن سیالکوٹ میں قیام کرنے کے بعد سفر جار ی رکھا اور بالآخر گوجرانوالہ میں آ کر آباد ہو گئے۔ حکیم امام دین کے تین بیٹے تھے۔ لالہ دین فضل دین اور کرم دین۔ حکیم امام دین کے بڑے نامی گرامی حکیم تھے۔ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اسی وجہ سے جس گلی میں آپ نے رہائش اختیار کی اس کا نام کوچہ امام دین پڑ گیا۔ محلہ تکیہ معصوم شاہ گوجرانوالہ کی شہور اور قدیم آبادی ہے اس محلہ میں زیادہ تر ہندو مذہب کے ماننے والے لوگ رہتے تھے۔ حکیم میاں امام دین نے اپنے خرچے سے ا س محلہ میں ایک مسجد مسلمانوں کی عبادت کے لیے تعمیر کروائی اورقریبی قبرستان میں جناز گاہ تعمیر کروائ۔ ایسے فلاحی کاموں سے حکیم امام دین لوگوں میں بہت جلد مقبول ہونا شروع ہو گئے۔ حکیم امام دین کے بڑے بیٹے حکیم میاں لال دین کی شادی کامونکی کے قریب ایک دیہات تھیمڑ میں ہوئی۔ ان کی زوجہ کا نام برکت بی بی تھا۔ یہی لال دین اوربرکت بی بی فقیر محمد کے والدین تھے۔ حکیم لال دین بڑے خوب صورت دراز قد اور وجیہ انسان تھے اور ا کی زوجہ نہایت فقیرمزاج اور درویش صفت عور ت تھیں۔ میری والدہ روایت کرتی ہیں کہ: ’’ہماری دادی تہجد گزار اورپانچ وقت کی نماز ادا کرنے والی اور کثرت سے ذکر کرنے والی فقیر مزاج خاتون تھیں‘‘۔ ٭٭٭ شاعری کا آغاز فقیر محمد کم سنی میں ہی یتیم ہو گئے۔ بعنوان میری آپ بیتی ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: ’’1915ء کے ابتدائی ایام میں اپنے والد حکیم میاں لال دین مرحوم و مغفور کی وفات پر میں نے اچانک ا پنی طبیعت کو شعر گوئی کی طرف مائل پایا۔ خاندان میں ان کی وفات میرے لیے پہلا حادثہ جانکاہ تھا جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس حادثے کے بعد میں نے زندگی میں ایک کشمکش محسوس کی جو مجھے زندہ رہنے کے لیے ابھا ررہی تھی۔ شاید میں نے اس لیے محسوس کیا کہ شعر و ادب زندگی کے حادثوں کا مقابلہ کرنے کادوسرا نام ہے۔‘‘ 1915ء کا زمانہ جب فقیر محمد پندرہ برس کے تھے۔ انہوںنے کرب اور غم کی کیفیت میں اپنے مرحوم باپ کی جدائی میں مرثیہ کہا جس کا مطلع اس طرح ہے: دل دی وسدی وستی اجاڑ میری واس آپ نین کتے سدھار چلے رونا دے کے میریاں اکھیاں نوں لے کے دل دا صبر قرار چلے بس انہی جذبات بھرے الفاظ نے فقیر محمد فقیر کو فقیر محمد فقیر بنا دیا۔ وہ شاعر بن گئے۔ انہوںںے کم سنی میں ہی اپنے دوسرے جنم کے مرحلے کو طے کر لیا تھا۔ شعر و شاعری کے تجربے شروع ہونے لگے اور دنیائے فن و ادب میں فقیر اپنا مقام تلاش کرنے کے لیے جستجو کرنے لگے۔ تعلیم و تربیت فقیر محمد ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے گوجرانوالہ کے واحد مسلمان سکول ’’اسلامیہ ہائی سکول‘‘ میں داخل ہوئے یہ سکول ان زمانوں میں زیر تعمیر تھا اور جو بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے وہ اس کی تعمیر میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام بھی کرتے تھے۔ لہٰذا فقیر محمد نے بھی اس سکول کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس سکول کے بانی اور محرک گوجرانوالہ کی معروف اور بزرگ شخصیت مولوی محبوب عالم تھے۔ 1915 میں اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد فقیر محمد کو سکول کی تعلیم مجبوراً چھوڑنا پڑی۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ اب بیوہ ماں کو اللہ کی ذات کے سوا صرف فقیر محمد کا سہارا حاصل تھا۔ حالات نے یک دم ایسا رخ موڑا کہ کم سنی میں کچھ اسے فیصلے کرنے پڑے جو کہ بہتر حالات کی صورت میںظاہر ہوتے۔ فقیر محمد سکول چھوڑ کر تلاش رز ق میں گم ہو گئے مگر چونکہ قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا لہٰذا فقیر نے اپنے زمانے کے جید عالم اور استاد بننے کے لیے تگ و دو بھی جاری رکھی۔ شعر و ادب فلسفہ صرف میر نحو میراور علم العروض کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے منشی محمد ابراہیم عادل‘ مولانا محمد رمضان‘ مولانا نذیر حسین(فرسٹ کلاس آنریری مجسٹریٹ) اور منشی حکیم امام دین سے وقتاً فوقتاً اکتساب فیض حاصل کیا۔ حصول رزق کا فکر بھی چونکہ چھوٹی عمر میں ہی دامن گیر ہو چکا تھا لہٰذا کیا کیاجائے اور کس طرح کیا جائے یہ بھی سوچ مسلسل پیچھاکر رہی تھی۔ لہٰذا آبائو اجداد کے پیشہ حکمت و طب ہی کو آغاز میںاپنایا۔ لاہور آ کر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی لیبارٹری میں سلسلہ روزگار کے لیے کام شروع کر دیا۔ بعد ازاں گوجرانوالہ میں دی پنجاب ہومیوپیتھک کالج گوجرانوالہ سے 1923ء میں ایم بی ایچ‘ ایم بی ایس (بیچلر آف ہومیو پیتھک میڈیسنز اینڈ بائیو کیمک میڈیکل سائنس) کی ڈگری حاصل کی۔ ٭٭٭ ڈاکٹری بطور پیشہ ’’صدائے فقیر‘‘ فقیر محمد فقیر کا اولین شعری مجموعہ ہے جو کہ 1924ء میں پہل مرتبہ شائع ہوا۔ اس پہلے ایڈیشن کا سائز بانگ درا کے اوین سائز کے برابر ہے۔ صدائے فقر کے اولین ایڈیشن کی کتابت دنیائے کتابت کے اممام حضرت پروین رقم نے کی۔ اس کتاب کی مکمل فوٹو کاپی راقم کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہے۔ اس ایڈیشن پر شاعر کے نام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے ساتھ اس کے تعلیمی کوائف اس طرح رقم طراز ہیں ایمبی ایس‘ ایم بی ایچ اینڈ ایم پی ایچ سی ۔ طبی دنیا میں یہ ڈپلومے حاصل کرلینے کے بعد فقیر محمد فقیر ڈاکٹر بن گئے انہوںنے دنیائے طب کو عملی طور پر اختیار کر لیاتھا۔ 1924ء میں صدائے فقیر کی اشاعت سے پہلے فقیر محمد ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے طور پر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ میرے والد گرامی (مرحوم) میاں محمد اکرم رشتے میں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کے بھتیجے اور داماد تھے مگر ان دونوں حیثیتوں سے ہٹ کر ان چند لوگوں یمںشمار ہوتے ہیں جن کا ڈاکٹر فقیر محمدف فقیر کے ساتھ انتہائی گہرا اور قریبی تعلق تادم آخر برقرار رہا میرے والد گرامی بتایا کرتے تھے کہ گوجرانوالہ کے مشہور زمانہ آنکھوں کے ہسپتال چارلس آئی ہسپتال میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو لوگوں کی آنکھوں کے آپریشن کرتے ہوئے انہوںنے کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ بلکہ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ میرے ضد کرنے پر وہ ایک مرتبہ مجھے بھی آپریشن تھیٹر میں ساتھ لے گئے اور جب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ایک مریض کا آپریشن کرنے لگے مریض کو شدت تکلیف میں دیکھ کر میں بے ہوش ہو یگا تو ڈاکٹر صاحب کے لیے بڑی مشکل صورت حال پیدا ہو گئی۔ ایک طرف مریض تھا اور دوسری طرف بھتیجا بیہوش پڑا تھا۔ میرے والد کم سنی میں یتیم الطرفین ہو گئے ۔ ان کی کوئی ہمشیر نہیں تھی۔ یتیمی اور عذاب تنہائی نے انہیں بے بس کر دیا۔ ان حالات میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر چچا ہونے کے ناتے انہیں ساتھ رکھتے تھے۔ یہ ساتھ تادم آخر برقرار رہا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پہلے پہل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کی لیبارٹری میں کام کرتے رہے بعد ازاں ان زمانوں میں گوجرانوالہ کے مشہور آنکھوں کے ہسپتال چارلس آئی ہسپتال میںکام شروع کر دیا اور پھرگوجرانوالہ میں اپنا شفا خانہ بھی کھولا مگر بالآخر دنیائے طب کو خدا حافظ کہہ کر ٹھیکیداری کا کام شروع کر دیا۔ شفاخانہ بند کرنے کی وجہ کیا بنی یہ ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس نے فقیر کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ڈاکٹری کے پیشے سے علیحدگی ایک روز ڈاکٹر صاحب اپنے شفاخانے پر مریضوں کے علاج معالجہ میں مصروف تھے کہ اانگریز حکومت کے ایک سرکاری عہدیدار مسٹر منوہر لعل دگل وزیر آباد سے اپنی زوجہ کے کسی بیماری کے لیے اسے ساتھ لے کر دوائی لینے کی غرض سے آئے۔ اتفاقاً اس وقت ڈاکٹر فقیر کے پیر فیض ان کے کلینک میں تشریف فرما تھے۔ مریضہ کے علاج معالجے کے بعد ڈٓکٹر صاحب نے پانچ روپے فیس وصول کی اور مریضہ چلی گئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے پر فیض حضرت میاں صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے مریضہ سے پانچ روپے فیس لی اہے تو کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ آپ کی دوا سے تندرست ہو جائے گی ؟ ڈاکٹر صاحب نے نفی میں سر ہلا دیدا تو میاں صاحب فرمانے لگے کہ تو کیا جب تک اس کے تندرست ہونے کی اطلاع نہیں آتی آپ یہ پانچ روپے خرچنہیں کریں گے۔ ڈاکٹر فقیر نے جواب دا حضرت ایسا بھی نہیں ہے یہ تو ابھی گھر پہنچوں گا تو خرچ ہو جائیں گے۔ حضرت فرمانے لگے پھر تو یہ مشکوک معاوضہ ہو گای اس کی اسلام اجازت نہیںدیتا۔ ڈاکٹر فقیر فرماتے ہیں خہ بس یہ بات میرے دل میںگھر کر گئی اور میں نے سلسلہ روزگار کو تبدیل کر لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ٹھیکیداری اور دیگر کاروبار کا آغاز یہ شفاخانہ بند کیا اور لاہورآ کر کارپوریشن اور ملٹری کے محکمہ میں سپلائی کا کام شروع کر دیا۔ پاک تعمیرات کے نام سے اپنی کنسٹرکشن کمپنی بنائی اور ٹھیکیداری کا کام شروع کیا۔ معروف دانشور بشیر حسین ناظم اپنے والد مرحوم و مغفور سے روایت کرتے ہیں خہ قیام پاکستان سے پہلے کے دور میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر لاہور میں صف اول کے ٹھیکیدار جانے جاتے تھے۔ اور ان کے مقابلے میں کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم ٹھیکیدار نہیں تھا جو نقد اور فی الفور لین دین کے معاملے میں شہرت رکھتا ہو۔ ڈاکٹر فقیر نے خوب روپیہ پیسہ کمایا۔ قیام پاکستان سے پہلے فقیر مرحوم نے گوجرانوالہ میں برتن سازی کا ایک کارخانہ بھی شروع کیا۔ جس کی نگرانی ان کے بڑے سے چھوٹے بیٹے محمد اسلم کی ذمہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے چار بیٹے تھے ۔ سب سے بڑے بیٹے محمد اشرف جو حکمت کے پیشہ سے ہی منسلک ہوئے چھوٹے محمد اسلم جو برتن سازی کے کارخانہ کو چلاتے اور اسی کاروبار سے منسلک رہے۔ تیسرے نمبر پر عبدالحئی اور چوتھے نمبر پر محمد ارشد تھے۔ فقیر مرحوم نے ٹھیکیداری کا کام کیا اوراس میں خوب ترقی کی مگر آخری عمر میں تو یہ کام بھی چھوٹ گیا اور شب و روز فقط علم و ادب کی خدمت اور قلم کا علم بلند کرتے ہوئے ہی گزار دیے۔ دو بیٹوں کی جدائی کا صدمہ محمد اسلم ڈاکٹر فقیر کے بیٹوں میں باکمال صلاحیتوں کے مالک تھے۔ خوبصورت کتابت بھی کیا کرتے تھے اورتحریکی شخصیت کے مالک تھے۔ قیام پاکستان کے بعد گوجروانولہ کے کشمیری نوجوا نوں نے کشمیر کمیٹی کے نام سے ایک تحریکی جماعت بنائی محمد اسلم اس کے روح رواں تھے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ان کے شانہ بشانہ کام کرنا اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نا اس کمیٹی کا نقطہ نظر تھا۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ اسلم اکثر آپوجی (اپنی والدہ) کو یہ کہتے رہتیتھے کہ میری شادی کا نہ سچا کریں میں ان شاء اللہ شہید ہو جانا ہے اوربالآخرایک دن ان کے منہ کی بات سچ ہو ئی اور ہوا یو کہ گوجرانوالہ کے صاحب دل لوگوں سے چندہ اکٹھا کیا جا رہا تھا کہ چند ایک شر پسند اور موقع پرست لوگوں سے کسی معاملہ پر تلخ کلامی ہو گئی۔ بات غیر ضروری حد تک برھ گئی جس کا انجام انتہائی افسوسناک ہوا سی بدبخت نے خنجر کے پے در پے وار کیے جس سے ڈاکٹر فقیر محمد کے بیٹے محمد اسلم شہید ہو گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون) چند ہی برسوں بعد ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے بڑے صاحبزادے حکیم محمد اشرف بھی چند روز بیمار رہ کر عہد جوانی ہی میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ جوان بیٹوں کی جدائی سے فقیر مرحوم کو شدید دھچکا لگا۔ زبان و ادب کی جانب توجہ یہ افسوس ناک واقعات بالترتیب 1948ء اور 1969ء کو پیش آئے۔ ان واقعات سے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی میں جب آپ کی سوانح عمری کو ماہ سال کے آئینہ میں دیکھتا ہوں تو 1948ء کا سال اور بیتے کی جواں سال مرگ کا یہ افسوس ناک واقعہ اورپھر 1969دوسرے بیٹے کی وفات فقیر مرحوم کی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث نظرآتے ہیں۔ دنیائے سے عملاً نفرت دوری اورطبیعت میں فقیری کا رنگ بہت زیادہ نمایاں ہونے لگا ہے۔ یہ افسوس ناک واقعات ڈاکٹر فقیر کی دنیاوی زندگی کے زوال کا سبب بنے برتن بنانے کا کارخانہ ختم ہو گیا۔ فقیر مرحوم کا ذہنی رجحان کاروباری معاملات سلجھانے کی بجائے پنجابی زبان و ادب کی ترقی کی جانب بڑھنے لگا۔ اپنی خود نوشت میری آپ بیتی میں ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں: ’’تقسیم ملک کے بعد جب میں نے پنجابی زبان کو پاکستان کی علاقائی زبان کی حیثیت سے دیکھا تو اس کی بہت زیادہ ترویج اور ترقی کی ضرورت محسوس ہوئی ساڑھے تین کروڑ پاکستانی باشندوں کی روز مرہ زبان جسے وہ صبح و مسا اپنی زندگی میں استعمال کرتے تھے زبوں حالی کا شکار ہو نے لگی۔ میرا خیال تھا کہ زبان جس قدر زیادہ استوار ہو گی فن شعر و ادب اسی قدر موثر اور جاذب ہو گا۔ اور فن جس قدر مستحکم اور متوازن ہو گا ہم زندگی کا اسی قدر زیادہ مقابلہ کر سکیں گے‘‘۔ ایک اور مضمون بعنوان قیام پاکستان تو ں بعد پنجابی بولی لئی کیتے گئے جتن میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر لکھتے ہیں: ’’14اگست 1947ء دی ملکی ونڈ وچ پاکستان تے ہندوستان دیاں دوآزاد حکومتاں بنیاں تے آزادی دی ٹور دا ساتھ دین لئی زندگی دے ہر روپ نو ں نواں بھیس بدلنا پیا… اجہے سمے ہور نوں ہور دی تے انھے نوں ڈنگور ی دی مینوں بلبلاں دے کرلاٹ سن کے اپنے ٹھرک نے اشکل دتی۔ پنجابی میری مادری زبان ہن ایہدا کہ بنے گا؟ ایہدے جمے جایاں ایہدے ولوں منہ پرتالیااے۔ ایہدے انے ٹکانے وی ایہنوں جواب دے گئے نیں۔ اجے کل ایہ اورئنٹل کاللج لاہور وچ پڑھائی جاندی تسی پر اج ایہدا پڑھن پڑھان تے کدھر ے رہیا یونیورسٹی دے داتے ایہدے ناں تو ں ہسدے تے گہکدے تے حجتاں کردے نیں۔ ایہناں پڑھے لکھیاں دی مورکھتا دا کسے کول کیہ علاج اے؟ کیہ کرئیے تے کویں کرئیے؟‘‘ یہ تو وہ صورت تھی جو قیام پاکستان کے فوراً بعد سامنے آئی ۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی تاریخ پیدائش 5جون 1900ء ہے۔ 1915ء میں والد گرامی کی وفات اور شاعری کے آغاز کا سال ہے۔ 1915سے 1947ء تک کا زمانہ 32سال پر محیط ہے۔ یہ دور تلاش روزگار کے لیے بھاگ دوڑ کا زمانہ ہے اور دوسری طرف فقیر ہندوستان بھر میں ایک قادر الکلام اور استاد پنجابی شاعر کی حیثیت سے اپنے فن کالوہا منوا رہے ہیں۔ وفات 1974ء میں میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا کہ جب اباجی کا انتقال ہوا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر میرے نانا تھے خاندان کے تمام افراد تو کجا اردگرد اور محلہ اور اہل محلہ کے تمام مرد و زن انہیں اباجی اور ان کی اہلیہ کو آپوجی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ یہ ان کا احترام تھا جو لوگوں کے دلوں میں موجود تھا۔ 11 ستمبر 1974ء کو صبح تقریباً دس بجے بابائے پنجابی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ایک رات پہلے مرحوم ارشد میر ایڈووکیٹ حسب روایت پاس بیٹھے ہوئے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے ایک کاغذ پر ایک شعر لکھ کر راشد میر کو دیا وہ شعر اس طرح تھا: کرماںدا فضلاں مہراں پنا ہواں دا شکریہ ساہواں دے نال تیرے وساہواں دا شکریہ ارشد میر کو مرحوم اس شعر کو پڑھ کر شدید پریشان ہوئے اور جب یہ شعر انہوںنے میرے والد مرحوم کو سنایا تو وہ بھی آبدیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چند گھنٹے پہلے لکھا ہوا یہ شعر بابائے پنجابی کی زندگی کا آخری شعر ثابت ہوا۔ اگلی صبح آپ انتقال فرما گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون) 11ستمبر کی شام پانچ بجے جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازے کا جلوس آواز بلند کلمہ پڑھتے ہوئے اور چیخوں سسکیوں اور آہ و بکا کے شور میں قبرستان مبارک شاہ کے سمت روانہ تھا۔ کچھ لوگ آگے بھاگ بھاگ کر راستہ خالی کروا رہے تھے۔ گوجرانوالہ میں بہت بڑے سکول گورنمنٹ عطا محمد سکول کی وسیع گرائونڈ میں جنازے کی نماز پڑھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ حافظ محمد ایوب ڈاکٹر فقیر محمد کے ہمسایے رہتے تھے۔ انہوںنے نماز جنازہ پڑھائی۔ سب سے اگلی قطار میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ والی کے موذن الحاج مولوی غلام رسول کھڑے تھے۔ ان کی آواز بڑی رعب دار اور بلند تھی۔ امام صاحب کی آواز کے بعد وہ بلند آواز میں اللہ اکبر کہتے پھر پچھلی صفوں میں سے بھی بعض لوگ تکبیر کو دہراتے جاتے اس طرح نماز جنازہ مکمل ہوئی۔ بابائے پنجابی کی خواہش تھی کہ انہیں عام قبرستان میں دفنایا جائے۔ اپنی اسی خواہش کا آخری عمر میں انہوںنے اظہار بھی کیا مگر شہر کے معتبر حضرات پر مشتمل کمیٹی نے آپ کے احترام اور بزرگی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو گوجرانوالہ کے عظیم صوفی بزرگ حضرت مبارک شاہ کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کر نے کا منصوبہ بنایا۔ لہٰذا رات گئے پنجاب دیس کا یہ عظیم فرزند پردہ خاک میں روپوش ہو گیا علامہ عرشی امرتسری نے قطعہ تاریخ وفات لکھا: لحد کے پردے میں اے عزیزو! فقیر روپوش ہو گئے آہ پکار اٹھی زبان ہاتف فقیر خاموش ہو گئے آہ ۹۴ھ۱۳ ٭٭٭ قیام پاکستان سے پہلے کی شاعری 1924ء میں ’’صدائے فقیر‘‘ منظر عام پر آ چکی تھی۔ یہ ڈاکٹر فقیر کا اولین شعری مجموعہ تھا۔ اس کتاب میں موجود زیادہ تر نظمیں طویل ہیں اور مسلمانوں کے تاریخٰ سماجی مذہبی اورسیاسی پس منظر کے زیر اثر لکھی گئی ہیںَ ان نظموں کی تخلیق کا زمانہ وہ ہے جب پورے ہندوستان میں آزادی کی تحریک پورے زور و شور سے شروع ہو چکی تھی۔ گھر گھر اور گلی گلی مسلم امہ کے اتحا د کا نعرہ گونج رہا تھا۔ 1930ء میں علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد پیش کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کاتصور پیش کیا اور قیام پاکستان کی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا۔ ان طویل نظموں کا انداز علامہ اقبال کی مشہور زمانہ طویل نظموں سے ملتا جلتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب ہندوستان کے پورے مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی لہر دوڑ چکی تھی۔ اس زمانے میں ہندوستان کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے جو مذہبی اورسیاسی پلیٹ فارم قابل ذکر تھے ان میں انجمن حمایت اسلام سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ صدائے فقیر صدائے فقیر کی نظموں کی افادیت اور اہمیت کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تقریباً ساری کی ساری نظمیں انجمن حمایت اسلام کے بڑے عالیشان جلسوں میں پڑھی گئیں۔ اس پلیٹ فارم پر علامہ اقبال مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا ظفر علی خان جیسے جید علماء مفکر اور ملت اسلامیہ کے نامور شاعر لوگوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ اور اس دور میں انجمن حمایت اسلام کے اسٹیج پر آنا اور مسلمانان ہند کی خوابیدہ روح کو بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والے لیڈر صاحبان ملت اسلامیہ میں جانے جاتے تھے۔ یہ بڑی بات تھی کہ نوجوان فقیر محمد فقیر انجمن حمایت اسلام کے ہر جلسہ میں اپنی نظم سے مسلمانان ہند کی روحو ں کو جھنجھوڑنے کا قومی فریضہ سرانجام دے رہے تھے کلاسیکی روایت میں تخیلق کیے گئے ڈاکتر فقیر محمد فقیر کے ادب کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیںپنجایب کلاسیکی ادب کا آخری شاعر اور پنجابی زبان کی جدید شاعری کا اولین شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ صدائے فقری میں موجودہ نظمیں اس وقت کی نامور سیاسی علمی اور ادبی شخصیات کی صدارت میں پڑھی گئیںَ رہبر اعظم خان بہادر سید قلندر علی شاہ پبلک پراسیکیوٹر کی صدارت میں پڑھی ’’بیتے ویلے دی یاد‘ خواجہ فیرو ز الدین اوحمد میونسپل کمشنر لاہور ی صدارت میں پڑھی گئی نوری شمع آنریبل خان بہادر سر چوہدری محمد شہاب الدین صدر پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی صدارت میں پڑھی گئی مشہور زمانہ نظم پیام اتفاق خان بہادر شیخ امیر علی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی صدارت میں پڑھی گئی۔ نظم شاعر جسٹس جناب شیخ دین محمد کی صدارت میں پڑھی گئی۔ شہر ہ آفاق طویل نظم ’’خطاب بہ کشمیر‘‘ شیخ عطا محمد کمشنر راولپنڈی کی صدارت میں پڑھی گئی۔ تلوار تے مسلم آنریبل جسٹس خان بہادر سر شیخ عبدالقادر کی صدارت میں پڑھی گئی ’’در س قرآن‘‘ زیر صدارت آنربیل ملک فیروز خان نون وزیر تعلیم پنجاب پرھی گئی ’’دانیں جانگلی‘‘ ’’مٹی تے انسان‘‘ ’’پیام اسلام‘‘ ’’شرم دے ہنجو‘‘ جیسی مشہور زمانہ طویل نظمیں مہارانا ہر سنگھ نصر اللہ خان صاحب اور میاں سر محمد شفیع جیسے صاحبان علم و ادب کی صدارتوں میں انجمن حمایت اسلام کے جلسوںمیںپڑھی گئیںَ صدائے فقیر کے آخری میں نظم دعا کے چند شعر ملاحظہ ہوں: الٰہی مڑ چوفیرے پالیا ظلمت نے گھیرا اے الٰہی فیر دنیا تے ہنیرا ای ہنیرا اے وکاندی مڑ پئی ظلماں دی بھیڑی جنس سستی ا مڑا او ہجڑ جان نوں یارب مسلماناں دی بستی اے بے عملی تھیں پئے تقصیر تے تقصیر کر دے نیں مڑ اپنی آپ پئے دنیا تے ایہ تشہیر کردے نیں عمل دی بخش دے توفیق بدکاراں بے حالاں نوں پھلن پھلن دی مہلت بخش دے ساڈے نونہالاں نوں بت آزر دے پئی مڑ کوئی ابراہیم چاہندے نیں وطیرے دہر دے مڑ حرم دی وی ترمیم چاہندے نیں ترے فضلوں مڑ اوہ شوکت مسلماناں دی ہو جاوے جماعت فیر یا مولا پریشاناں دی ہو جائے کلاسیکی ادب لڑکپن اور جوانی کی عمر ایک طرف ڈاکٹر فقیر محمد کے جسمانی حسن و جمال کی آئینہ دار ہے وار دوسری طرف ان کا تخلیقی بانک پن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ اسی دورمیں ایک نہایت تجربہ کار نباض حکیم کی طرح وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ایسا ادب تخلیق کیا کہ یعنی ایسے نسخے تجویز کیے کہ جن کی قوم کو اس وقت اشد ضرورت تھی جس سے ان کی شاعری میں جدت و ندرت آئی یہی وہ زمانہ ہے جب انہوںنے پ؛نجابی زبان و ادب کی کلاسیکی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے قدیم شعراء کے طرز سخنوری پر بھی طبع آزمائی کی ۔ گویا پنجابی زبان کی ایسی کون سی صنف تھی جس پر انہوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو؟ غزل نظم‘ رباعی ‘ گیت‘ دامن دوہا‘ سہ حرفی‘ چو مصرعہ وغیرہ۔ جملہ پنجابی اصناف سخن سے انہوںنے اپنے فکر و فن کالوہا منوایا۔ ہیر رانجھا اسی دور میں انہوںنے وارثی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجابی کی معروف عشقیہ داستان ہیر رانجھا کو بھی وارثی بحر میں لکھا اور سارے ہندوستان یمں اپنے قادر الکلام شاعر ہونے کی حیثیت سے منوالیا۔ ہیر رانجھا پنجاب کی سر زمین کا وہ لازوال رومانی قصہ ہے کہ جس پر پنجاب کے تقریباً سبھی کلاسیکل شعراء نے طبع آزمائی کی ہے پنجابی زبان کے اس لازوال قصے کی ہمہ گیر تاثیر سے متاثر ہو نے والوں میں اردو کے معروف کلاسیک شاعر انشاء اللہ خان تک شامل رہے ہیں۔ اس لافانی اور ابدی قصے کو دمودر اورمقبل جییس بڑے شاعروں نے لکھا اور سید وارث شاہؒ نے اپن معجز بار قلم سے تو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لے امر کر دیا ڈاکٹر صاحب کی ہیر کے بارے میں ان کے ہمعصر معروف پنجابی دانشور اورپنجاب یونیورسٹی لاہور میں پنجابی ریڈر کی حیثیت سے کام کرنے والے معروف سکالر ڈاکٹر پروفیسر موہن سنگھ دیوانہ لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر فقیر دی ہیر دا اکا وارث شاہ دی ہیر تو ں وڈا اے‘‘ (کلام فقیر جلد اول۔ مرتبہ : محمد جنید اکرم۔ جولائی 2006ء ص 18) ڈاکٹر صاحب نے نوجوانی کی عمر میں اپنی یہ تخلیق نہ صرف کئی ایک عوامی اجتماعات میں سنا کر داد تحسین حاصل کی بلکہ خواص نے بھی آپ کے فکر و فن کوبے حد سراہا اور نہ صرف پنجاب بھر میں ان کی لکھی ہیر کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا بلکہ پنجاب سے باہر کے اہل علم و دانش نے بھی ان کی فنی ریاضت کی بڑی تعریف کی۔ ان کی اس فنی اور فکری ریاضت کو سراہنے والوں میں ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال تک شامل تھے مگر عام روایت یہ ہے کہ بعض دوست علماء نے نجانے کس نیت کے پیش نظر اس کو کتابی صورت میں شائع کرنا نامناسب تصور کیا۔ راقم الحروف نے ذاتی طور پردو ایک بزرگوں سے اس عظیم داستان کو شائع نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوںنے سوائے اس کے اور کوئی جواب نہ دیا کہ پر وارث شاہ کے احترام میں ڈاکٹر فقیر نے اپنی ہیر کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے ضائع کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف یہی حقیقت ہے تویہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے فقیرانہ مزاج کی حیران کن جھلک ہے۔ سید وارث شاہؒ پنجابی زبان کے باکمال اور لازوال شاعر تھے۔ ان کے فکر و فن کے گرویدہ بیمشمار اہل علم ڈاکٹر صاحب کے زمانے میں بھی اوران سے پہلیبھی وار بعد میں بھی موجود ہیں اور بقول میاںمحمد وارث شاہ سخن دا وارث نندے کون انہاںنوں والی بات کے مصداق آج تک کوئی بھی صاحب کمال سید وارث شاہ کی فنی اور فکری برابری نہ کرسکا۔ بہت سوں نے ببانگ دہل دعوے کیے گئے مگر بالا ٓخر یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ہیر وارث شاہ کا کسی اور پنجابی شاعر س موازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر صاحب نے اگر سید وارث شاہ کی ہیر کے احترام میں اپنے اس ادبی شاہکار کو ہمیشہ کے لیی نہ چھپوانے کا فیصلہ کی ااور اسے ضائع کر ڈالا تو جہاں ان کے اس بڑے فیصلے سے سید وارث شاہ کے فکر و فن کی عظمت کو تسلیم کرنے کا عندیہ ملا وہیں ڈاکٹر صاحب کی فنی اور فکری ریاضت کی بڑائی کا بھی واضح ثبوت فراہم ہوا یعنی ایک قابل قدر ادبی شاہکار ہوتے ہوئے بھی انہوںنے اپنی تخلیق کو سید صاحب کی تخلیق کے مقابل ہیچ جانا۔ یہ ان کی فنی اور فکری عظمت ہی تو ہے۔ ہیر رانجھا ڈاکٹر صاحب کی نادر اور بے مثال تخلیق تھی۔ اس کی صرف ایک جھلک نے رازم کے اس دعوے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ اپنے اس ادبی شاہکار میں ایک مقام پر جہاں رانجھا اور ساس کے بھائی آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے پنچایت بیٹھی ہے قاضی فیصلہ کرنے کے لیے آن بیٹھتا ہے۔ ا س موقعے کو اس داستان میں فیصلہ قاضی متعلق جائیداد عنوان دیا گیا ہے۔ اس عنوان تلے شاعر کا انداز بیان ملاحظہ ہو: اوڑک بھائیاں نے قاضی نوں گنڈھ آندا لگا رانجھے دا ہون نیاں میاں بیٹھے پرھیا دے وچ اک جتھ ہو کے آن پنڈ دے خورد کلاں میاں چھیڑی گل اک پنڈ دے جنیں پہلاں دیکھ وچ مجلس چپ چاں میاں اوہنے کہیا بھائی ایدکی جان دیو کہیا رانجھے دے بھائیاں نے ناں میاں کرئیے کدوں تیکر سانوں تسیں دسو اسیں نال ایدے کاں کاں میاں ککھ بھن کے کدی نہ کرے دوہرا چونی رہ گئی مج تے گاں میاں ایہنے گھٹ خرمستیاں کیتیاں نیں؟ جیوندے سن جد باپ تے ماں میاں جھوٹے پینگھ جہڑی اتے جھوٹدا سی ٹٹ گئی جے اوس دی لاں میاں کرے کم نہ کاج تے رہوے ستا گھر تے جاتا اے ایس سراں میاں ساتھوں نہیں ایہدے چائونے چائے جاندے ایتھوں کرے ہن اپنا تھاں میاں ساڑی دل پرتائوندا ٹوکدا اے اسیں ایہدے ساں پیو دی تھاں میاں اسیں کدوں تک نبھاں گے نال ایہدے چھڈو لمیاں کرو نیاں میاں جاتا جدوں سبھناں ایہ نئیں ولے جاندے ہوئے زمینن دے ول رواں میاں قاضی لئی رسی کچھ پاونے نوں اوتھوں ایں کھول کے اک تناں میاں جوڑ ڈھینیاں وٹاں تے آن بیٹھے بالک گھبرو پیر جواں میاں قاضی ونڈیاں پا کے وکھ کیتی بھائیاں نالوں بھرا دی تھاں میاں باہیاں والیاں دا بنیاں جگ سارا کلا رہیا رانجھا نیم جاں میاں آئی رانجھے دے حق زمین ساری کلر ٹوئے ٹبے بیاباں میاں کوڑ گھٹ کر کے رانجھا چپ ہویا ہوندا دیکھ کے صاف انیاں میاں مہلے چھچھرے ون کریر نالے موہڈی اک بوٹے تھاں تھاں میاں ملے ڈھور سکے چم ہڈ تھوتھے لگے کن پٹھے کھاندے کاں میاں کوڑا جگ فقیر تے کار ایہدی سچا رب رسولؐ دا ناں میاں سنگی فارسی اور اردو زبان کی طرح پنجابی زبان کی کلاسیکل روایت میں مثنوی لکھنے کا رواج رہا ہے پنجابی زبان یمں آج تک قابل ذکر جو مثنویاں آفاقی شہر ت اور عزت حاصل کر سکی ہیں ان میں ایک سیف الملوک ہے جسے کھڑ ی شریف کے معروف صوفی شاعر حضرت میاںمحمد بخشؒنے تخلیق کیا۔ اور دوسری مثنوی احسن القصص (یوسف زلیخا) ہے جو حضرت مولوی غلام رسول عالمپوریؒ نے تخلیق کی ہے۔ یوں تو اور بھی کئی مثنویاں ہیں مگر ان دونوں مثنویوںکے مقابلے میں کوئی مثنوی بھی اس قابل نہیں ہے جو ان کے مد مقابل ٹھہر سکے۔ سیف الملوک مین اگر حقیقت ومعرفت اور فقر و تصوف کے دریابہہ رہے ہیں تو احسن القصص میں عرفان اور گیان کے ساتھ ساتھ سوز و گداز کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے متعلق یہ بات بڑی مشہور ہے کہ اور شعراء نے بھی بڑے ڈھنگ سے یوسف زلیخا کا قصہ لکھا ہے۔ مگر مولوی صاحب نے تو اپنی اس مشہور زمانہ مثنوی کے اوراق میں اپنا کلیجہ نکا ل کے رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بھی قدیم کلاسیکل روایات پر چلتے ہوئے جہاں ہیر رانجھا کی منظوم داستان رقم کی وہاں عالم پوری بحڑ میںایک طویل نظم بعنوان سنگی تخلیق کی۔ یہ نظم اپنی ہئیت کے اعتبار سے مثنوی ہے۔ یہ وہی نظم ہے جس کا تذکرہ مندرجہ بالا سطور میں مہاراجہ پٹیالہ کے حوالے آیا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کتاب کامکمل قلمی مسودہ بھی دوسرے بہت سے نادر اور نایاب مسودات کے ساتھ ارشد میر مرحوم کی ذاتی لائبریری میںمحفوظ ہے۔ شعبہ پنجابی اورئنٹل کالج پنجاب یورنیورسٹی کا ششماہی تحقیقی مجلہ کھوج ہے۔ اس کے بانی اور اویلن ایڈیٹر ڈاکٹر شہباز ملک ہیں ڈاکٹر شہباز ملک اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ انہوںنے اپنے زمانہ ملازمت میںاس مجلے کے قابل ذکر اور قابل قدر شمار ے مرتب کیے ہیں جن میں ایک شمارہ قلمی نسخہ نمبر ہے یہ کھوج کا شمارہ نمبر 8اور 9ہے یعنی عام شماروں کی نسبت ضخیم ہونے کے ساتھ س ایک شمارے کو دو شماروں کی صورت میں بنا دیا گیا ہے۔ اس میں مرحوم ارشد میر کا ایک مضمون ہے جس کا عنوان اس طرح ہے میرے ذاتی کتب خانے دے پنجابی قلمی نسخے (ص 133سے 159تک) اس مضمون میں ارشد میر نے اپن کتب خانے میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے چار غیر مطبوعہ قلمی نسخوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں ایک نسگی ہے۔ سنگی : فقیر محمد فقیر ڈاکٹر 1900ء سے 1974ء مجموعہ شاعری: نظم 1358ھ مصنف شکستہ نے نستعلیق 19*16س م 16سطر 297ورق مڈھ : علم میرے دی تیرے اگے بند زبان خدایا۔ چھیکڑ: حرص دی ہوا جد اس کھوئوں بنیں گا نہ آ ئی۔ کیفیت: غیر مطبوعہ نادر تے نایاب۔ 18ربیع الثانی 1358ھ (فقیر)‘‘۔ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں پنجایب کے پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بیگ (مرحوم ) تھے جن کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کا موضوع ڈاکٹر فقیر محمد فقیر فن تے شخصیت تھا اس تحقیقی مقالے کی تکمیل کے دوران میں راقم الحروف ور مقالہ نگار کی گاہ بگاہ ملاقات ہوتی رہی۔ مرحوم اعجاز بیگ جب اپنا مقالہ مکمل کر کے یونیورسٹی میں جمع کروا چکے تو وقتاً فوقتاً حوالہ کے لیے اکٹھی کی ہوئی نایاب تحریریں فرط محبت میں تحفتاً مجھے دے گئے۔ ان میں اس نایاب نسخے سنگی کے ابتدائی اوراختتامی کچھ اوراق کی فوٹو کاپی بھی شامل تھیں۔ ان اوراق کی تفصیل درج ذیل ہے۔ سب سے پہلا ٹائٹل صفحہ ہے جس پر موٹی قم سے لفظ سنگی لکھا ہوا ہے صفحے کے اختتام پر ایک شعر جلی حروف میں اس طرح لکھا ہوا ہے۔ دیس میرا پنجاب سہانا ٹھیٹھ میرا پنجابی گت اپنی دے رکھدے ناہیںڈھلی تار ربابی اس شعر کے نیچے لفظ ’’فقیر‘‘ لکھا ہوا ہے اگلا صفحہ کتاب میں موجود عنوانات کی فہرست کی فوٹو کاپی ہے اسے فہرست مضامین کا نام دیا گیا ے اس صفحے پر جو عنوانات رقم ہیں ان کی تفصیل اس طرح ہے: مضمون صفحہ مضمون صفحہ بینتی 1تا 6 لوبھ 46تا 47 وڈیائی 7تا 10 واہدا 47تا 50 رب 11تا12 کوڈہو 51تا54 محمدؐ 13تا 18 وہم 55تا 56 بولی 19تا 21 میلویں شعر 57تا62 پنجابی 22تا25 مطلب 62تا64 سخن 26تا 27 سنو 64تا66 مڈھ 28تا30 کرم 66تا70 سنگلدیپ 31 اتلی نظر 70تا72 تارک 32 کھلھ 72تا74 بندگی 33 شہناز 74تا 76 پینچ 34تا36 روپ سہپن 76تا80 شاہد 36تا42 کرن ہار 81تا84 تھوڑ 44تا46 اگلا صفحہ فہرست مضامین کا آخری صفحہ ہے۔ اس پر صرف تین موضوعات دیے گئے ہیں: ہاڑے 588تا 590 سینتاں 590تا592 چھمکاں 592تا 594 اس صفحے کے بعد والے صفحے کو صفحہ نمبر 1لکھا گیا ہے اور یہیں سے کتاب کا باقاعدہ آغاز ہوتاہے۔ اس قلمی مسودے کے مطابق ہر صفحے پر باریک قلم سے حاشیہ لگا کر کتاب لکھی گئی ہے۔ جس صفحے پرنیا موضوع شروع ہوتاہے۔ وہاں موٹے عنوان قلم سے لکھا گیا ہے اور چودہ مصرعے یعنی سات شعر لکھے گئے ہیں عام صفحات جہاں عنوانات کی سرخی نہیں لکھی گئی ایسے صفحات پر سولہ مصرعے یعنی آٹھ اشعار درج کیے گئے ہیں اس مثنوی کا آغاز صفحہ نمبر 1پر اس شعر سے ہوتا ہے: علم میرے دی تیرے اگے بند زبان خدایا مردے دے وچ فضلوں کرموںپائیں جان خدایا اس مثنوی کا اختتام اس قلمی نسخے کے صفحہ نمبر 594پر مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے: صاف انج کیتا دل اپنے نوں جیہا فقیر نہ کیتا حرص ہوا دی جد اس کھوئوں بنیں گار نہ آئی آخری شعر کے اختتام پر شاعر کا نام فقیر لکھ کا اختتام تاریخ 18ربیع الثانی 1358ھ درج ہے۔ تقویم تاریخی مصنفہ عبدالقدوس ہاشمی مطبوعہ مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کراچی کے مطابق 18ربیع لثانی 1358ھ کو سن عیسویں کی 7جون اور سال 1939ء بنتا ہے ۔ اس روز منگل کا دن ہے۔ 5جون 1900ء ڈاکٹر فقیر کی تاریخ پیدائش ہے۔ گویا یہ شاہکار اور بے مثال ادبی شہپارہ مرحوم نے اپنی زندگی کے 39ویں سال مکمل کر لیاتھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس عظیم مثنوی کا پلاٹ مولانا روم کی مثنوی جیسا رکھا ہ۔ جگہ جگہ دانائی ‘ حکمت‘ پند و نصیحت فکر و دانش‘ وطن کی محبت‘ تمدن کی کسک اپنے کلچر کی تڑپ‘ علم و ادب کی عظمت عشق اور درد‘ ترپ فقر اور درویشی‘ توکل اور قناعت کا درس‘ ادم اور ہمت کی رغبت ‘ تحیر اور تحرک کے اسرار لیے ہوئے ہے اس شاہکار مثنوی کا دیباچہ لکھتے ہوئے سر چوہدری شہاب دین رقم طراز ہیں: ’’ایہہ کتاب نری پیار دی کہانی نہیں سگوں اوہدے وچ اجہی گاٹھویں علمی سوجھ اسے جویں کسے استاد جڑئیے نے سونے دے پتراں وچ ہیریاں دی جڑت کیتی ہووے۔ پنجا ب دیس دی رہت بہت تے ونڈ دیہار دا ایہہ کتاب شیشہ اے حیاتی دا کوئی پاسہ نہیں جیہدی مورت ڈاہڈی استادی نال سوادی اکھراں وچ نہیں کھچ دتی گئی۔ سدا توں وڈے شاعر دا ایہہ کم وی اے جے ااوہ لوکاں اگے اپنے دیس دی گل نوں اجیہا سجا کے رکھے کہ جہدے ویکھیاں پرایاں دے دل وچ وی اہدے دیس لئی پیار ودھے سنگی وں لکھ کے ساڈے فقیر محمد نے پنجابی دی عزت نوں چار چن لا دتے نیں‘‘۔ (کاروان ششماہی مجلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ جولائی 1976 ء ص 163-164)۔ یہ مثنوی جیسا کہ اوپر بتایاجا چکا ہے کہ 594صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور سینکڑوں اشعار پر مشتمل ہے مجھے وقتاً فوقتاً مختلف مقامات سے اس کے متفرق اشعار ملتے ہں۔ ان سب کو راقم نے مہینہ وار پنجاب لاہور کے ایک ضخیم شمارہ جولائی 2000ء تا مارچ 2001ء بابائے پنجابی نمبر میںیکجا کر کے شائع کیا ہے تاکہ محفوظ ہوسکیں۔ ان اشعار کی کل تعداد 327ہے۔ اس طرح اس مثنوی کا ایک حصہ تو (الحمد للہ) الحروف کی کوششوں سے محفوظ ہوا ہے۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ ارشد صاحب مرحوم کی ذاتی لائبریری میںمحفوظ ہے۔ اس کتاب خانے میں ارشد میر کے اپنے نایاب قلمی اشاعت کے منتظر پڑے ہیں مگر ابھی تک ان کی جانب توجہ نہیںکی گئی۔ س سلسلے میں مرحوم کے بچوں سے رابطے کیے ہیں۔ امید واثق ہے کہ آپ کے صاحبزادے احسن ارشد میر اور بیٹی ثویلہ ارشد میر کی جانب سے ان شاء اللہ مثبت اقدام کیے جائیں گے۔ یہاں ہم سنگی کے کچھ شعر اپنے قارئین کے ذوق کی نظر کرتے ہیں: علم میرے دی تیرے اگے بند زبان خدایا مردے دے وچ فضلوں کرموں پائیں جان خدایا مالک توں وڈیائیاں والا سب وڈیائی تیری کردے ویکھے تختاں دے سلطان گدائی تیری علم تیرا جد سینیاں دے وچ معنیاں دے در کھولے کیکر فیر زباناں وچوں جبرائیلؑ نہ بولے چمن میرے وچ رنگ برنگی سہنے پھل کڑاہیں عطر بھرے کڈھ ہلے سوہے مغزاں وچ رچائیں حمد تری وچ ہووے ایسی نظم مری محمودی توڑن پنچھی تان پراں دے سن کے سوز دائودی عشق فقیر دلاں دا ضامن مارے باہر نہ جھاتی عشق فقیر اے ساری دنیا عشق فقیر حیاتی لائیاں عشق نہ لگے دل نوں تے نہ چھڈیاں چھٹے جس بستی وچ وردا ڈاکو کلے کوٹے لٹے عشق گناہ کر جانن جیہڑے عین ثواب جہانے سچا دین ایسے نوں منن سارے مورکھ دانے کراں کلام کتے مستانہ پی کے جام الستوں بے سرتی وچ نک دراڈا جاواں حدوں بستوں حیرت دے لگ پچھے جائے مار خیال دڑنگے تیرے رنگ حقیقی وچوں رنگ طبیعت رنگے لہرے مست رواں چنہاں دے قلم میرے دے ثانی سدھر پدھر پانی وانگوں ایہدی سدھ روانی قلم میرے دا انت نہ پاندے درداں مارے بندے وانگ سمندر دور دراڈے قلم میری دے دندے قلم میری دا دارو درمل کٹے روگ دلاں دے قلم میری تھیں مڑ کے ملدے وچھڑے جوگ دلاں دے قلم میری شہباز شکاری جتھا پیندا ڈوروں سبھے زوراں وریاں نادم قلم مری دے زوروں ہیٹھی آہی قلم میری دی شوکت شان شہانہ تختاں والے قلم میری نوں پیش کرن نذرانہ قلم میری دے رن کھلیان فوجاں بنھ قطاراں قلم میری دی ٹوروں نکلن تیغ میری دیاں چھنکاراں قلم میری دی واگ لمیری وانگوں عربی گھوڑے قلم میری نوں ہٹک نہ سکن راہ وچ ٹھیکر روڑے قلم میری اے مست بیانوں بلبل باغ ارم دی قم میری تت کرماں دے لئی جانی گھری کرم دی دو کن تے اک جیبھ بندے دی بھرت مناسب کرئیے بے وسے نہ سخن الاپئے دو سنیے اک کرئیے دھارے روپ خزاں دا چمنوں نکل بہار چمن دی واجب کرنی دلوں بجانوں رکھ فقیر سخن دی دامن پنجابی زبان کے ادب کی کلاسیکل روایات میں دامن لکھنے کا رواج بھی رہا ہے۔ دامن مسدس نظم کو کہتے ہیں۔ ہر بند کے چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے بند کے ہر مصرعہ کا ردیف دامن ہوتا ہے اور باقی ہر بند کے آخری دو مصرعوں کا ردیف دامن لکھا جاتا ہے۔ شاعر پوری چابکدستی اور فنی مہارت کے ساتھ دامن کو اس کے صوتی اور معنوی اثرات کے ساتھ استعمال کرتا ہے ۔ اوریہی فنی کمال شاعر کی شاعرانہ عظمت کا ثبوت ہوتا ہے پنجابی زبان کی تاریخ میں قابل ذکر جو دامن محققین اور ناقدین ادب کا موضوع بنے وہ صرف چار ہیں جن میں سے ایک دامن استاد عشق لہر کا لکھا ہوا ہے جس کا موضوع حضرت یوسفؑ اور زلیخا کے عشق کا قصہ ہے۔ دوسرا دامن گجرات کے معروف پنجابی شاعر پیر فضل حسین فضل گجراتی کا لکھا ہواہے۔ جس کا موضوع گجرات ہی کا معروف عشقیہ قصہ سوہنی مہینوال ہے اور باقی دو دامن ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے لکھے ہوئے ہیں جن میں سے ایک نعتیہ دامن ہے او ردوسرا پنجاب کا معروف عشقیہ قصہ سسی پنوں کے موضوع پر لکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر فقیرمحمد کے یہ دونوں دامن نوجوانی کی عمر میں ہی لکھے گئے تھے۔ نعتیہ دامن کا تو صرف ایک ہی بند مل سکا مگر سسی پنوں کا دامن مکمل طورپر شائع ہو چکا ہے۔ سسی پنوں کے دامن میں عاشق اورمعشوق زمانہ ہجر کے بعد جب آپس میں ملتے ہیں تو دونوں کا آپس میں مکالمہ ہوتا ہے ا س کا انداز بیان ملاحظہ ہو: پنوں پچھیا کون؟ کوئی کہن لگی تیرے ہجر دے واٹ دی راہی ماہی پھر دی بھیس فقیراں دا ادھار کے تے تیرے واسطے چھڈ کے شاہی ماہی ہولی ککھاں توں وچ سنسار ہوئی تیرے دکھاں دے گاہن دی گاہی ماہی ماہی وانگ بے آب پئی تڑفنی آں تیرے حسن دے جال دی پھاہی ماہی تیری یاد وچ دیدیاں رتیاں نے رو رو کر لیا اے گل دا ہار دامن شکر اے دلے دی پوری مراد ہوئی سٹان موتیاں دے وارووار دامن یہ قصہ بہتر (72)مصرعوں پر مشتمل پنجابی زبان و ادب کا ایک شاہکار ادب پارہ ہے۔ نیلے تارے المعروف رباعیات فقیر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی ایک غزل کا مقطع اس طرح ہے: فن شعر دے کول جواب جد کوئی اوہدی غزل تے میری رباعی دا نہیں کیوں نہیں غزل پنجابی دا فضل حافظ تے فقیر میںعمر خیام کیوں نہیں فارسی زبان او ر اس کے ادب نے سینکڑوں سال اپنی فنی اور فکری عظمت کالوہا منوایا ہے اسی لیے تو حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کو بھی کہنا پڑا: گرچہ ہندی در عذوب شکر است گرز گفتار ذری شیریں تراست حتیٰ کہ پنجابی زبان کے قدیم کلاسیکل شعرا کے کام پر فکری اور ادبی اور فنی اثرات جس قدر فارسی زبان نے چھوڑے ہیں شاید ہی کسی دوسری زبان کے ہوں۔ فارسی زبان نے برصغیر پاک و ہند پر ہزار سال سے بھی زیادہ حکومت کی ہے ۔ اور اسے سرکاری درباری زبان ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ فارسی زبان میں جواب اس دوران میں تخلیق کیا گیا اس کی مثال آ ج تک پیش نہیں کی جا سکی۔ فارسی زبان کی جامعیت و وسعت اور ہمہ گیر یت کا اندازہ اس دور کے شعری ادب سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کہ جب پنجاب میں ہر گھر اور ہر کوچے میںحافظ رومی جامی اور سعدی کی نگارشاات پڑھی جاتی تھی اور سنی جاتی تھیں خصوصاً گلستان بوستان اور دیوان حافظ کی تعلیم و تدریس کو اعلیٰ تعلیم گردانا جاتاتھا۔ شاید اسی پس منظر کے پیش نظر ہراستاد شاعر کے کلام میں فارسی رنگ کی جھلک نظر آتی ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہے کہ کئی ایک اصناف سخن تو خالصتاً فارسی ہی سے پنجابی او ر اردو زبانوں میں شامل ہوئیں۔ جیسے رباعی۔ رباعی تو لفظ عربی زبان کا ہے مر ایران والے یہ دو بیتی یا چومصرعہ جو کہ مخصوص اوزان میں اساتذہ نے لکھا ہے اس کو رباعی کہتے ہیں۔ یہاں ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے کہ ہر چو مصرعہ قطعہ یا دو بیتی رباعی نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مخصوص اوزان اساتذہ نے مقرر کر رکھے ہیں۔ جن کی کل تعداد چوبیس ہے۔ یعنی بارہ اوزان اخرب جو (مفعول) سے شروع ہوتے ہیں اور بارہ (اخرب) جو (مفعولن) سے شروع ہوتے ہیں۔ رباعی کی مکمل تاریخ اور رباعی کے فن پر مکمل تنقدی اور تحقیقی جو کہ اردو فارسی اورپجابی کے جید عالم اور شاعر جناب صدیق تاثیر نے لکھا ہے۔ کلام فقیر جلد اول مطبوعہ 2006ء ناشر بزم فقیر پاکستان 125/3-B2ٹائون شپ لاہور کے ایڈیشن میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اس کا مطالعہ ضرور کریں۔ پنجابی زبان میں ڈاکٹر فقیرمحمد کو رباعی کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ کیونکہ پنجابی زبان میں رباعی کی ایجاد انہی کا کارنامہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے پہلے پنجابی ادب میں رباعی کا وجود بالکل ناپید ہو گیا ہے کچھ معروف پنجابی شعراء نے بند رباعیات ضرور لکھی ہیں مگر وہ رباعیات اساتذہ کے مقرر کردہ رباعی کے مخصوص اوزان پر پوری نہیںاترتیںَ ان کو قطعات (چو مصرعہ) تو کہا جا سکتا ہے یا پھر کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے مگر رباعی کے نام سے ہرگز نہیں موسوم کیا جا سکتا۔ پنجابی زبان میں رباعی اپنے پورے فنی اور فکری لوازمات کے ساتھ صرف اور صرف ڈاکٹر فقیر صاحب ہی نے لکھی اوران سے پہلے کسی بھی استاد کے ہاں رباعی اپنے مکمل اوزان اور ہئیت میں نہیںملتی۔ ہاں البتہ ان کے بہت بعد انہی کے قلمی خانوادہ کے چشم و چراغ اردو اور فارسی اور پجابی کے ادیب و شاعر صدیق تاثیر نے حال ہی میں 700رباعیات کا مجموعہ ’’رباعیات تاثیر‘‘ کے نام سے طبع کرایا ہے۔ جو رباعی کے جملہ مخصوص چوبیس اوزان پر مشتمل ہے۔ پنجابی زبان و ادب میں تاثیر کا بلاشبہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ رباعیات فقیر کے غالباً تین ایڈیشن قیام پاکستان سے پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت دو ایڈیشن موجود ہیں۔ اولین ایڈیشن مجھے جو مل سکا اس کے ٹائٹل صفحے پر نواں ایڈیشن لکھا ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اس کتاب کا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔ اس کتاب پر شاعر کا نام اس طرح رقم ہے کلک گوہر بار ابوالمعانی خیام ثانی علامہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر صاحب یہ کتاب شیخ جان محمد اللہ بخش تاجران کتب علوم مشرقیہ کشمیری بازار لاہور نے اکتوبر 1946ئء کو شائع کی تھی۔ اس ایڈیشن کے آغاز میں محمد شریف شوخ نے ڈاکٹر فقیر کے سوانح عمری کے موضوع پر ایک مختصر مضمون تحریر کیا ہے اس کتاب کا انتساب شاعر نے اس طرح لکھا ہے۔ اوہناں دی نذر رب نے پنجابی زبان نوں جنہاں دی زبان بنایا اے۔ بھاویں اوہناں اپنی مادری زبان دی قدر نہ جانی۔ اسی صفحے پر مندرجہ ذیل پانچ اشعار لکھے گئے ہیں۔ یہ اشعار ڈاکٹر فقیر کی مثنوی سنگی میں سے لکھے گئے ہیں جن میں وطن کے اکابر شعراء سے اپنی مادر زبان سے تغافل آمیز سلوک کرنے پر وہ سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں اس سلسلے میں خصوصاً آپ اس زمانے کے نابغہ (علامہ اقبال) سے گلہ کرتے ہوئے اپنی پنجابی زبان کے علمی لحاظ سے پیچھے رہ جانے کا سبب ان کی پنجابی زبان سے بے اعتنائی کو ہی گردانتے ہیں۔ یہ شعر اس طرح ہیں: بن مالی ٹیگور سیانے لائیاں دی لج پالی سخن اوہدے دی آبوں ساوی سکی چھمک بنگالی وچ انگریزی دے وی اوہنے سخن کیتا انملا ونڈی باہر شیرینی بھاویں پر گھر دے نہ بھلا بدل وانگ اقبال دماغوں یار وسائے پھانڈے جنس پنجابی دی تھیں ایہ پر بھرے بھرائے بھانڈے جے اوہ وچ پنجابی لکھدا وسر غیر زبانں کر دی دیس میرے دی گھرتی گلاں نال اسماناں پر اوہنے کیوں خورے اکا تک ایہدی نہیں کیتی نال اوہدے وچ غیر زباناں جو کجھ بیتی بیتی (فقیر) اس ایڈیشن میں معروف پنجابی قلم کار اکبر لاہور ی کا ایک مضمون بھی شامل ہے جو کہ 10ستمبر 1946ء کا لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد قیام پاکستان سے قبل اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ریڈر کے عہدہ پر کام کرنے والے معروف پنجابی دانشور پروفیسر ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ ایم اے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کا تنقیدی جائزہ پرکھ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا اپنا لکھا ہوا مضمون وکھالا بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسرا ایڈیشن جو مجھے ملال یہ وہ تاج بکڈپو اردو بازار لاہور کی اشاعت ہے۔ اس ایڈیشن پر قیمت غیر مجلد کتاب کی دو روپے آٹھ آنے اور مجلد کتاب کی تین روپے آٹھ آنے درج ہے۔ ا س پر سن اشاعت درج نہیں ہے مگر یہ یقین سے کہا جا سکتاہے کہ یہ بعد کا ایڈیشن ہے کیونکہ اس کی کتابت نئی اورضخامت زیادہ ہے دوہڑے اور کچھ قطعے نئے سرے سے شامل کیے گئے ہیںَ نواں میل کے عنوان سے نئی رباعیات شامل کی گئی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ رباعیات فقیر میں جو قطعات شامل دکھائی دیتے ہیں انہیں ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹرموہن سنگھ دیوانہ کے پر زور اصرار پر شامل کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کتاب کے مختلف ایڈیشن شائع ہوئے۔ ڈاکٹر فقیرمحمد کی وفا ت 11ستمبر 1974ء کے بعد تو آپ کے شعری مجموعے مال غنیمت سمجھے جاتے رہے اور کئی ایک پبلشرز نے جیسے جیسے چاہا شائع کرتے رہے جیسے کوئی پوچھنے والا نہ رہا۔ سن 2006میں راقم الحروف نے بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام کلام فقیر کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ الحمد للہ جلد اول جو ہک رباعیات قطعات چو مصرعے اور بول وغیرہ پر مشتمل ہے شائع ہوچکی ہے۔ اور آج کل جلد دوم غزل گرنتھ کے عنوان سے ترتیب دی جا رہی ہے۔ نیلے تارے المعروف رباعیات فقیر کو کلام جلد اول میں مکمل طور پر شامل کر دیا گیا ہے یہ جلد مارکیٹ میں موجود ہے۔ یہاںنمونے کے طور پر چند رباعیات قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں: ٭ تدھ بن کوئی دم غیر دا بھردا اے تو مورکھ منگتا جے کسے ہور دے در دا اے تے مورکھ مورکھ تیرا اقرار جے کردا اے تے دانا دانا تیرا انکار جے کردا اے تے مورکھ ٭ تیتھوں بے آس کدی کوئی سوالی نہ گیا شاہ گدا کوئی کوی عالی موالی نہ گیا چور‘ مکار‘ دغے باز‘ فریبی‘ ظالم آ گیا جو وی تیرے در تے اوہ خالی نہ گیا ٭ بانگ آکھے کوئی یا ناد وجائے کوئی وسرے مینوں‘ میرا نام دھیائے کوئی ہے ایہہ اعلان فقیر عام زمانے تے میرا ہو کے بے آس میرے در توں نہ جائے کوئی ٭ رند نیں رند پنے وچ وگتے سارے ذکر دی مدھ تھیں صوفی وی نیں گتے سارے پوجدے بت نیں فقیر عام پجاری ایہہ پر جاگدا اکو اے باقی دے نیں ستے سارے ٭ موتی تیری الفت دا پروتا نہ کدی مونہہ شرم دے مڑھکے تھیںایہہ دھوتا نہ کدی بے آس کرم تھیں نہیں مڑ دی کہ فقیر در غیر دے تے جا کے کھلوتا نہ کدی ٭ دے شرک نوں توحید دا دستور محمدؐ جگ کر گئے سب نور تھیں پرنور محمدؐ نوری سی نرا نوری فقیر آپ دا جثہ سائے دی کلکھن توں وی رہے دور محمدؐ ٭ میں رہیا رونوں تے ہاواں توں رہیا پھکیاں بے رنگ چاواں توں رہیا اوہدی بخشش میرے کم آ ای گئی موڑدا زاہد گناہواں توں رہیا ٭ پرائے سیک سینہ سیکناں سی غماں انجے ایدل نوں چھیکناں سی میرا متھا میرا بے داغ متھا ہے دتا ٹیک جتھے ٹیکناں سی ٭ پربتوں لہندی ندی موڑاں تے چکرائے جویں پتھراں دے نال پانی ٹھوکراں کھائے جویں جگ دے وچ آ کے انجے مار کھادی اے فقیر اوپری تھاں کوئی اوبھڑ مار کھا جائے جویں ٭٭٭ قیام پاکستان کے بعد کی شاعری قیام پاکستان کے بعدبابائے پنجابی کی توجہ زیادہ تر پنجابی زبان کے فروغ کی طرف رہی۔ کلاسیکی ادب کی اشاعت پنجابی رسالوں کا اجرا اورپنجابی زبان کو نصابی سطح پر منظور کروانے کے لیے بھاگ دوڑ ان کامشن بن چکے تھے۔ مگر شاعر تو وہ تھے ہی۔ لہٰذا شعر و شاعری کا سلسلہ تادم آخر جاری و ساری رہا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے جو شعری مجموعے منظر عام پرآئے ان کی تفصیل اس طرح ہے: مو آتے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی نظموں اور غزلوں پرمشتمل یہ شعری مجموعہ 1956ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ اس کی تقریظ میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب کو مبداء فیاض سے ذوق سلیم ارزانی ہوا ہے۔ مولانا حالی نے جو کام اپنی شہرہ آفاق تصنیف مسدس مدوجزر اسلام سے لیا ہے وہی کام ڈاکٹر فقیرنے اپنی کتاب مو آتے سے لیا ہے۔ مو آتے نہ صرف ڈاکٹر فقیر کا بلکہ پنجابی زبان کے شعری ادب کی تاریخ کا بہترین شعری مجموعہ ہے بلکہ ان کی نظموں اورغزلوں میں وطنیت اور اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ قومی درد اور وطنیت کا جذبہ جو مو آتے کی نگارشات میں پایا جاتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ خصوصاً پنجابی شعرو ادب میں جو تخلیقی توانائی اوراظہار کی بے ساختگی و سادگی جذبات کی روانی اور تجربات کا خلوص ان کی نظموں میں بحر بے کراں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس حرکی اور عملی فکرسے لبریز شاعری سے پوری قوم کو عمل اور حرکت کا احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی ہے گویا یہ ڈاکٹر صاحب کے عزم و ہمت کی شاعری ہے جس میں انہوںنے پوری قوم کو عمل اور حرکت کی تلقین کی ہے اور بے چینی اور بے عملی سے دور رہنے کا درس دیا ہے۔ سستی اور کاہلی سے کنارہ کشی دکھوں اورمصیبتوں سے چٹان کی طرح مقابلہ کرنے عمل اور جذبہ سے کام لینے اور منفی طاقتوں سے ٹکرا جانے کو ہی عزم و ہمت گردانا ہے۔ کتاب کا انتساب اس وقت کے گورنر سندھ جسٹس شیخ دین محمد کے نام لکھا گیا ہے۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن اگست 2007ء میں بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے۔ یہ شاہکار کتاب ہر صاحب ذوق طالب علم کی لائبریری کی زینت بننے کے قابل ہے۔ اس کتاب میں سے دو نظمیں قارئین کے ذوق کے لیے پیش کی جا رہی ہیں: عمل دا زور چہرہ تیرا اے سادہ طبیعت تیری اے چور دل اے تیرا کجھ ہور تے دل دی ہوس کجھ ہور بندے دے دل دا نور اے ہوندا نظر دا نور باطن تیرا اے کور جے دیدے تیرے نیں کور بے آہنگسا اے شوق تے بکھڑے تیرے نیں راہ منزل تیری اے دور تے مٹھی تیری اے ٹور زندگی دا پا کے پج آزادی دے نال آپ گلاں دی نئیں پتنگ نوں دیندا عمل دی ڈور طاقت اوہدی دا کردا اے اقرار زمانہ دنیا تے جہدیاں بازوواں وچ اے عمل دا زور ٭٭٭ اصلا کنڈے نوں پھل آکھن گا نوک سنبھال کھلو مڑ مڑ چبھ نہ ویریا نہ کر ایڈ دھرو جھونے نال ہوا دے میں جہڑے پاس پواں لیں وچ سوئی نوک دی توں اوسے پاس پرو نال اپنے شرمندیا میرا دیکھ سلوک سہہ سہہ چوبھاں تیریاں میں دیواں خوشبو سن کے کنڈے آکھیا گل سن پھل ملوک گل اصلے تے مکدی اصلا ہووے جو ہر کوئی اپنے اصیلوں ہے ایتھے مجبور خصلت میری چبھنا خوشبو تیری خو چبھن تیرے آکھیاں چھڈ دینا واں میں میرے آکھے چھڈ دے توں دینی خوشبو ٭٭٭ شعری مجموعہ مو آتے کو پنجاب یونیورسٹی نے انعامی کتاب قرار دیتے ہوئے پچاس ہزار روپے انعام دیا۔ ٭٭٭ ستاراں دن 1965ء ستمبر میں جب بھارت نے راتوں رات پاکستان پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے جوان اپنے وطن پر جان نچھاور کرنے کے لیے سرحدوں کی جانب بھاگنے لگے۔ اس وقت پاک مجاہد تو اپنی پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے مگر دوسری طرف ساری قوم نے اپنی پاک دھرتی پر جان قربان کرنے کی ٹھان لی۔ یوں نظر آتا تھا کہ جیسے سارا ملک جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں قلمی محاذ کے لوگ کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟ شاعروں اور ادیبوں نے بھی قلی جنگ کا آغاز کر دیا اوران کی آواز اقوام متحدہ تک پہنچنے لگی ڈاکٹر رشید انور نے لکھا: جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے تو بھارت نے اقوام متحدہ میں واویلا کیا کہ پاکستان ریڈیو سے یہ ترانہ بند کروایا جائے۔ اسی طر ح صوف غلام مصطفیٰ تبسم اور دوسرے کئی قلم کاروں نے ایک سے بڑھ کرایک جنگی ترانے اور قومی تقسیم لکھیں جو اخبارات کی زینت بنتی رہیں یا ریڈیوسے گائی جاتی رہیں۔ انہی سترہ دنوں میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے اس قدر جنگی ترانے اور قومی نظمیں لکھیں کہ وہ بعد میں ایک مکمل کتاب کی صورت میں شائع کر دی گئیں۔ اس شعری مجموعے کا نام ستاراں دن رکھا گیا کیونکہ ستاراں دن میں شامل نظموں کی اکثریت ستمبر 1965ء کی پاک بھار ت جنگ سے متعلق تھی۔ اوریہ نظمیں کل انہی سترہ دنوں میں ہی لکھی گئیں جن میں پاکستانی قوم کے جذبوں کا بھرپور اظہار پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب اکتوبر 1965ء کو چھپ گئی تھی۔ جس کے آغاز میں جان پہچان کے عنوان سے میجر شجاع الدین بٹ پر لیں لائز ان آفیسر انٹرنییشنل پبلک ریلیشن لاہور نے حق و باطل کے اس معرکے کا تجزیہ کروتے ہوئے لکھا : ’’ستاراں دن کی تمام نظمیں ہمارے مورچوں پر شہیدوں اور غازیوں کے کارناموں کی چلتی پھرتی تصویریں ہی جن کا مطالعہ ہمارے سپاہیوں کے دلوں کو گرمانے کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر طبقے کی روح کو بھی جگاتا رہے گا‘‘۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی: ’’ستاراں دن میں پاکستان قوم کے جذبوں اور ان کی داستان جہاد کی ہر تفصیل بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دشمن کی ذہنیت کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے اس کتاب کی ساری نظمیں ایک وقتی جذبے کے تحت لکھی گئیں اس کے باوجود ادب کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ اسی لیے ستاراں دن کو ہم اپنے قومی ادب میں بڑا خوبصورت اور انمول اضافہ سمجھتے ہیں‘‘۔ میں جن دنوں ایم اے پنجابی کا طالب علم تھا تب استاد محترم پروفیسر حضرت حفیظ تائب شعبہ پنجابی میں ہمارے استاد تھے۔ ان ہی کے بار بار سمجھنے اورراہنمائی کرنے سے مجھے یہ حوصلہ ملا اور میں نے ’’بابائے پنجابی‘‘ کے شعری مجموعے ستاراں دن کی اشاعت کے لیے بھاگ دوڑ کرنی شروع کر دی۔ مگر اس کام میں کامیابی تب حاصل ہوئی جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں لیکچر شپ جوائن کر چکا تھا۔ سب اردو بازار لاہور کے پبلشرز اورینٹ پبلشرز کے مالک خالد قریشی سے رابطہ ہوا تو انہوںنے اس کتاب کی اشاعت کی۔ یہ کتاب پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ایم اے پنجابی کے نصاب میں شامل کی گئی۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن جنوری 2008ء میں بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں نمونے کے چند اشعار پیش کرتے ہیں: وطن سر سانجھاں سردار وطن دکھ سکھ دا غم خوار وطن گلشن سدا بہار وطن قومی ہار سنگار وطن جنت دا گلزار وطن قومی مان تراناں والا اچیاں عزتاں آناں والا ذاتی شاہیاں شاناں والا زوراور مختار وطن جنت دا گلزار وطن انڈونیشی ترک ایرانی چینی شامی عرب اردانی سارے دل دے محرم جانی سب یاراں دا یار وطن جنت دا گلزار وطن آون سارے پریم پجاری تگڑے مارے ہاری ساری بن کے یار ازماون یاری ہارے کدی نہ پیارا وطن جنت دا گلزار وطن ہر رنگ ایہدا گورا لاکھا میرے لئی اے اکو آکھا میں ایہدیاں آناں دا راکھا میرا پہرے دار وطن جنت دا گلزار وطن ڈردا نہیں میں جان نہ جائے وطن میرے دی آن نہ جائے دلوں فقیر ایہہ مان نہ جائے دل دا اے بلکار وطن جنت دا گلزار وطن ٭٭٭ ربی سایہ گولیاں بمباں نوں جو سمجھن ڈگدے خالی کپے پھر دے ٹینک جنہاں نوں دسن دھمیں دے ہل جپے اگے ودھ کے کون اوہناں تے پائے زوریں سایہ ربی سایہ ویکھن جہڑے سر تے چھاویں دھپے گولی چڑھیا روپ جلال خدائیوں صورت سوہنی بھولی چوڑے متھے تیناں ہکاں چال ترکھی چولھی دیکھ نہ سکے دشمن ساڈے ڈھول سپاہیاں ولوں نین اوہناں دے وانگ بندوقاں نظر ایہناں دی گولی غازی تے شہید کر کے پیار مریدی شوقوں مرشد بنے مرید دے کے دل دی دولت جنہاں آندا رب خرید دن بنیاں عید اوہناں دے لئی رات بنی شبرات جیوندے جہڑے بن گئے غازی مر کے بنے شہید ٭٭٭ پاٹے گلمے بقول ارشد میر ایڈووکیٹ: ’’پاٹے گلمے‘‘ ڈاکٹر صاحب کے پچھلے چند سالوں کے کلام بلاغت نظام کی چندنمائندہ چیزوں کا انتخاب ہے۔ جس کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں ڈاکٹر صاحب نے قلم سے موقلم کا کام لیا ہے اور قلم کی بڑائی سے کام لیتے ہوئے قاری پر جادو کا اثر ڈال کر پنجابی شاعری کی نہ صرف ایک جاندار آہنگ بخشاہے بلکہ فرسودہ اورپامال الفاظ کو نئی وسعت دے کر خلعت نو عطا کی ہے۔ اس مجموعہ میں قاری کو نہ صرف علو خیال لطافت بیان اور انداز تغزل میں بلا کا بانکپن نظر آئے گا بلکہ فنی پرکاری اور معاشرے کی ناہمواری پر طنز و مزاح کے نشتروں کے ساتھ ساتھ دل کوموہنے والی کیفیت بھی ملے گی۔‘‘ 1968ء میں گوجرانوالہ شہر کے عوام نے مجلس فکر و نظر گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شام فقیر منانے کا اہتمام کیا مجلس فکر و نظر کے جنرل سیکرٹری معروف دانشور اور ایڈووکیٹ ارشد میر تھے۔ ارشد میر مرحوم بتایا کرتے تھے کہ گوجرانوالہ تو درکنار پنجاب بھر کی تاریخ میں کسی پنجابی شاعر کے اعزاز میں ایسی پروقار تقریب نہیں ہوء جو ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے اعزا ز میں ان کے شہر کے لوگوں نے منعقد کی۔ اس تقریب ک صدارت اس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات مرحوم الطاف گوہر نے کی۔ شام فقیر کی اسی پروقار تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی یہ لاثانی تصنیف پر لطیف کو دوستوں اور عوام الناس میں مفت تقسیم کیا تھا۔ جناب ارشد میر نے ڈاکٹر صاحب کے کلام بلاغت کے متعلق لکھا: ’’ کلام میں سوز و گداز جذبات کی شدت بانکے استعارے نادر تشبیہیں ‘ غیر معمولی سلاست محاورے کی چاشنی اور غذائے روحانی کا چٹخارہ بھی نصیب ہو گا اور ٹھیٹھ ٹکسالی پنجابی زبان کی شیرینی اور لوچ بھی میسر آئے گا۔ اتنے مختصر انتخاب میں ایسے دلچسپ اور متنوع مشاہدات جن میں قومی حوادث اور کوائف کا پورا عکس ہو قریب قریب ہر صنف ادب پر نت نئے خیالات اور انوکھے منفرد موضوعات ملیں گے پنجابی شاعری میں پہلے کم ہی دیکھنے میں آئے ہوں گے‘‘َ ’’پاٹے گلمے‘‘ کو وہ ڈاکٹر صاحب کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب کا یہ ایک ناقابل فراموش ادبی کارنامہ ہے۔ ان کی حیات آفریں تخلیقات کو زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔ جواں عزم خود اعتمادی بے پایاں جرات خودداری اور غیر متزلزل ایقان اور ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی ہیںَ ڈاکٹر صاحب گزشتہ تقریباً چالیس سال سے پنجابی زبان کی ترقی ترویج اور فروغ کے لیے کوشاں ہیںَ چنانچہ ان کی اسی مشنری سپرٹ کا ہی اعجاز ہے کہ آج پنجابی زبان چوپال کی چارپائیوں سے اٹھ کر ڈرائنگ روم کے صوفہ سیٹوں تک پہنچی اور کل اسے گنواروں کی زبان کہنے والے آج فخڑ سے اسے ماں بولی کا درجہ دے رہے ہیںَ ڈاکٹر صاحب کی شاعری کی اولین اور نمایاں خصوصیت یقین محکم‘ ملک و ملت خدا اور رسولؐ سے والہانہ شیفتگی ہے چنانچہ یہی ایقان ان کے ہر شعر میں موجزن ہے‘‘۔ محترم سید سبط الحسن ضیغم‘ ارشد میر مرحوم اور ڈاکٹر اصغر علی چوہدری جیسے بزرگوںنے بتایا کہ اس زمانے میں گوجرانوالہ کی فضا بے انتہا علمی اور ادبی ہوا کرتی تھی اورچہر کے عوام شاعروں اور ادیبوں کے بڑے گرویدہ ہوتیتھے۔ اور ان کا ادب و احترام کرتے تھے۔ نہی صرف عوام الناس بلکہ سرمایہ دار طبقے کے لوگ بھی پڑھے لکھے اور علم و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے ہوتے تھے۔ اسی طرح بیوروکریسی میں بھی زیادہ تر علم و ادب کے قدر دان میسر ہوتے تھ۔ یہی وجہ تھی کہ شام فقیر میں ہر طبقے کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔ شام فقیر کی اس تقریب کے موقع پر فقیر مرحوم کی شاعری کا ایک مجموعہ بعنوان پاٹے گلمے شائع کر کے حاضرین محفل میں مفت تقسیم کیا گیا۔ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام جنوری 2008ء میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سے نمونے کے چند شعر ملاحظہ ہوں: جٹ تے ملاں واہندا اے اوہ پنڈ دا کھوہ چودھروں نہیں ہاردا ایہہ دے مسجد پنڈ دی واہندا تے بندے چاردا جٹ تے ملاں دے وچ نہیں فرق تل جناں فقیر جٹ اے چھویاں ماردا ملاں اے آیتاں ماردا نقلی پیر حاضر غائب غائب حاضر وچ اکھ دے پلکارے کرن مداری حاضر غائب دے ہتھ ناٹک سارے تیجے چوتھے پھیرے نقلی پیر وکھان کرامت کڈھدے پھرن مریدنیاں دے کھوج مرید وچارے چو مصرعہ بن جا جھکھڑ راہ تیرے وچ جے کر چڑھی ہنیری اے راہئیے رکھ لمیرے راہیا تیری واٹ لمیری اے موڑ فقیر کسے نوں ایویں منزل سمجھ کھلویں نہ جتھے رکیوں اوتھے سمجھیں موت کھلوتی تیری اے ٭٭٭ وکائو مال دین مذہب دے سودے سارے ویچن پے مذہبی ونجارے آسے سوٹے پھوڑ مصیل درس کوقتے وعظ کولے جبہ ٹوپی تسبیح داڑھی لاں بوکا وٹوانی داڑھی گند سمیت طہارت خانے ول چھل دھوکھے مکر بہانے سیاہ عمامے پھلے پھلے سچے تہمت طرے کلے مست اکھاں سر نئی خماری لمیاں زلفاں جال شکاری گھر دی فقہ حدیث بگانی مطلب دی تفسیر قرآنی چوڑے متھے سنیںمحراباں بحثاں نال سوال جواباں کھلھ دینی دنیاوی تنگی بھیڑی وسوں بھکی ننگی عقبیٰ نال خیال سہاندی ناگ گناہواں بخشش واندی رولے رپے چکاں چاہنگاں نعرے ہوکاں اچیاں بانگاں سنتاں تے فرضاں دیاں ریتاں حجرے ممبر سنیںمسیتاں دم جھاڑے دے بھرے پراگے نال تویتاں پھوکاں دھاگے مولانا دا لقب سولا غوث قطب پیغمبر اللہ شاہواں جہی فقیر فقیری راٹھاں چاری ورگی پیری بھولیوگا ہکو سائو لوکو لے لئو مال وکائو لوکو دیوے تھلے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا پانچواں شعری مجموعہ دیوے تھے کے عنوان سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی خواہش تھی کہ یہ کتاب ان کی حیات میں شائع ہو مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر مرحوم نے اپنی حیات میں غزلوں نظموں رباعیوں اور چو مصرعوں پر مشتمل یہ ایک ضخیم کتاب ترتیب دی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد کئی سال یہ مسودہ پبلشر کے پا س پڑا رہا مگر اس کی اشاعت نہ ہوسکی۔ 1988ء کی بات ہے جب میں ایم اے پنجاب کا طالب علم تھا او رئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو میرے استاد محترم مرحوم ومغفور پروفیسر حفیظ تائب نے اس مسودے کی نشاندہی کرتے ہوئے مجھے اس بات کی ترغیب دی کہ میں متعلقہ پبلشر سے مسودہ حاصل کروں اور اس کی اشاعت کا اہتمام کروں۔ میں پبلشر کے پاس پہنچا تو انہوںنے روایتی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا تب میرے محترم بزرگ مرحوم و مغفو ر ارشد میر ایڈووکیٹ لاہور آئے اور پبلشر سے مسودہ تلاش کر کے میرے سپرد کرنے کی تاکید کی اس طرح اس کتاب کا مسودہ مجھے ملا۔ زمانہ طالب علمی میں میں اس مسودے کو محفوظ رکھنے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ بعد ازاں 1992ء میں بزم فقیر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ تب بھی کتابوں کی اشاعت جیسا اہم اور گراں قدر پروگرام شروع کرتے وقت دبے پائوں آگے ہی آگے چلا جاتا رہا۔ بالآخر 1997ء میں میرے نہایت ہی محترم اورمحبوب دوست اور برادر بزرگ جناب منصور سہیل نے بزم فقیر پاکستان کی سرپرستی کی اور انہی کی کوششوں سے بزم کے زیر اہتمام اولین دو کتب شائع کی گئیں۔ 1997ء پاکستان کا گولڈن جوبلی سال تھا۔ اسی مناسبت سے بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی سیاسی اور قومی نظموں پر مشتمل کتاب دیوے تھلے شائع کی گئی۔ اس کتاب کا دیباچہ علامہ علائو الدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے تحریر کیا ہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن اکتوبر 2007ء میں بزم فقیر کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام مرحوم ارشد میر ایڈووکیٹ نے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک کاغذ پر دو شعر لکھ کر ارشد میر کو دیے جو ان سے گم ہو گئے۔ بدقسمتی سے اس کتاب کی اشاعت کے بعد یہ کاغذ کا ٹکڑا ملا میں یہ دو شعر یہاں لکھ رہا ہوں تاکہ بطور سند محفوظ رہیں۔ ان دو شعروں کو مان کا عنوان دیا گیاہے۔ سن کے ایس کتاب میری دامیتھوں ذکر بیان رکھا اے اک صاحب دل دے میرے دا مان دیوے تھلے ناں رکھیا اے ایہدا ارشد میر کیتا ایس جوان مفکر بڑا فقیر احسان اس کتاب میں سے نمونے کے چند شعر ملاحظہ ہوں: سڑکاں سوکھا لاہیا جاندا ناہیں گل وچ پیا جنجال کوئی پچھو میتھوں دیس مرے دیاں سڑکاں دا نہ حال کوئی نویںنروئی سڑک ایتھے اٹھوارہ مساں لنگھاندی اے آج بھریچے کھالی جہڑی کل مڑ پٹ جاندی اے ہوئے رہندے ایہہ دیس دیاں سڑکاں دے نت دوالے نیں اگے بجلی والے پچھے پانی نلکے والے نیں اگلے کٹی جان فقیر پچھلے پٹی جاندے نیں کٹن پٹن والے دوویں موجاں لٹی جاندے نیں پروگرام آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آ پرہای نویں بنائیے کوئی نویںسکیم چلائیے کوئی ہور ہن چھری لوائیے آ لاہیے پٹھیاں کھلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آ چل بہیے وچ چیمبر میں بناں وزیر توں ممبر بند کرئیے ہزار بھمبر آ کھوہ بنائیے ڈلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آ کڈھیے رج کڑاکے آ قوم نوں مارئیے پھاکے آ جہے بنائیے خاکے پئی پائے بھکھ کڑلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں چل آ تقریراں کرئیے رو اتوں ہو کے بھرئیے وچوں نہ جھکیے ڈرئیے چل مارئیے کچھ ٹرپلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آ کھچرے سانگ رچائیے کوئی چل نمائش لائیے آ قوم نوں چمبڑ جائیے چل بہیے مار پتھلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آ بنئیے گرجاں الاں ملت دیاں لاہیے چھلاں ونڈ کھائیے کوٹھیاںملاں چل ولیے ساریاں ولاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں ہن چھڈ فقیر فقیری چل لئیے سانبھ امیری پئے کرئیے نت وزیری کیوںپائیے سنیے سلاں آ کوٹھی دے وچ بہہ کے کچھ کریے دل دیاں گلاں توں میرا بھیت نہ بھنیں میں تیری گل نہ تھلاں آخری نبیؐ اردو دنیا کے معروف دینی سکالر مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی اردو نثر میں لکھی ہوئی سیرت النبیؐ بعنوان النبی الخاتم بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی نظر سے گزری تواس کتاب کے اسلوب نے فقیر مرحوم کو اس طرح متاثر کیا کہ آپ نے نقطہ آغاز سے لے کر اختتام تک اس کتاب کو مکمل پنجابی زبان میں منظوم ترجمہ کر ڈالا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کام میں نے اپنی بخشش کے لیے کیا ہے۔ اس کتاب کا اولین ایڈیشن 1986ء میں شائع ہوا اور دوسرا ایڈیشن مارچ 2008ء میں بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام شائع کیا گیا۔ اردو نثر سے منظوم پنجابی ترجمہ کی یہ شاہکار کتاب اپنی مثال آپ ہے جس طرح سے فقیر مرحوم نے اس کتاب کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا ہے یہ ان جیسے استاد شاعر ہی کا کام ہے اس کتاب کے آغاز کا انداز دیکھیے: مکی زندگی انج تے آون نوں سب آئے ساریاں دے وچ آئے بڑھیاں اوکھیاں گھڑیاں وچ آ اوہناں ڈیرے لائے آئے نیں ایہہ سب تھاں ہووے سدا سلام اوہناں تے ہندی رہ درگاہ ربی تھیں رحمت عام اوہناں تے پر کیہ کرئیے جو وی آیا جاون دے لئی آیا ایہناں دے دم قدماں وچ ہنیریاں چانن لایا آیا اک نرا اکو جو آون دے لئی آیا دین دنی دا چہرہ مہرہ جنہے آن سجایا اکو چڑھیا جہڑا چرھ کے ڈٹھا چڑھدا جانا دھر فرشاں تو قدمگیا جو عرشاں تیک ودھاندا چڑھ نظراں تے سدا لئی جو وچ دلاں دے کھبا اوہو جہڑا چڑھیا چڑھ کے فیر کدی نہ ڈبا اک واری اے چمک کے جہڑا چمکاںماری جاندا لشکاں مار ہنیرے چانن نال سواری جاندا ودھیا ودھ کے ودھدا جائے ودھدا جاون والا ٹر کے اگے ٹر دا جائے پچھاںنہ آون والا نال ہنیریاں ڈونگھیاں کھائیاں دے وچ لڑدا جاندا چڑھیا جہڑا چڑھ کے دسے اچا چڑھدا جاندا سارے جانن کویں نہ جانن ایہہ گل جانن والے ملی کتاب جنہاںنوں گئے جو نال نبوت پالے آہراں ادماں نال اوہناں نوں بخشی ہمت عالی کیتی آپ خداوند تعالیٰ اوہناں دی رکھوالی وچ گروہ پاکاں سدے ہے پر حق ایسے دا ایہنوں نہیں ایہہ گل وسارن والی کدے وی مینوں تینوں باجھ ایہدے ایہہ ہو وی سکے کیکر ہور کسے نوں ٹرنی ملی نہ ایہدے وانگوں عرشی ٹور کسے نوں پچھلیاں اگلیاں وچ ایہہ جائے اکو جیہا پچھاتا پچھلے انجھے جانن ایہنوں جویں سی اگلیاں جاتا وسدے دور وی ویکھے اوہنوں انجدے ملدے گلدے نیرے اوہدے وسن والے جویں نیں اوہنوں ملدے طلب ایہدی نوں کدی دلاں تھیں طالب بھل نہ ویہسن ملدے نیں ایہہ جویں پے انجے ملدے گلدے ریہسن ٭٭٭ کلام فقیر(جلد دوم) راقم الحروف نے اس کتا ب (جلد دوم) میںبابائے پنجابی کو غزل کی صنف میں تخلیق کی گئی شاعری کو یکجا کر نے کی سعی کی ہے۔ اس کتاب کو راقم نے غزل گرنتھ کا نام دیاہے۔ اس کتاب کے آغاز میں پنجابی ارد و اور فارسی زبان و ادب کے استاد شاعر محقق اور ناقد جناب صدیق تاثیر کاضخم تحقیقی اورتنقیدی مقدمہ بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ پنجابی زبان و ادب کے طلبہ کے لیے گراں قدر تحریر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مطلع اور مقطع کے ساتھ ہم ردیف اور ہم قافیہ شاعری میں لکھی گئی حمدیں نعتیں اور غزلیں سب اس کتاب میں شامل کی گئی ہیںَ پنجابی زبان کے معروف غزل گو شاعر پیر فضل گجراتی کے وصال پر فقیر مرحوم نے مرثیہ بطرز غزل لکھا جو کہ اپنی طرز میں ایک منفرد اور خاصے کی چیز ہے۔ اسے بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ مرکزی اردو بورڈ جو اب اردو سائنس بورڈ بن چکا ہے۔ کی طرف سے گرمکھی میں مطبوعہ ایک کتاب پنجابی غزل کی پاکستان میں تقسی کے لیے بابائے پنجابی سے رائے لی گئی مرحوم حنیف رامے اس وقت بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ بالعموم پنجابی ادب کے شائقین نے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو غزل کاشاعر نہیں جانا۔ اس مجموعہ کلام کے مطالعہ کے بعد پنجابی غزل پر لکھے گئے ماضی و حال کے مضامین نگاروں کو اپنی تحقیق پر نظر ثانی کی ضرورت درپیش ہو گی تقریباً چار سو پچاس صفحات کے اس مجموعہ کلام میں بابائے پنجابی کی دو سو کے قریب غزلوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہاں نمونے کی چند غزلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کے اس سرکاری خط کا عکس بھی یہاں دیا جا رہا ہے۔ غزلاں آوے نال خیال کسیدے جدوں خیال غزل دا حسن جمال کسے دا بن دا حسن جمال غزل دا بن کے بھڑک کسے دے رخ دی بھڑکے تاب غزل دی زلف سنہری وانگ کسے دی لشکے جال غزل دا لفظ بنن کناں دے بندے مصرعے ہار گلاں دے دیہن طبیعت دے تاء جس دم سونا ڈھال غزل دا ہار پروندیاں جاون اکھاں لے پلکاں تھیں موتی ابلدے دل وچوں اٹھے جدوں ابال غزل دا بن مستانیاں نظراں کردیاں ناچ نشے دیاں تاراں دیوے جدوں طبع دا ساقی جام اچھال غزل دا نچدا گائوندا وگدا سوماں ٹور روان غزل دی باغ طبع دیاں بنے بہاراں لگ نکال غزل دا کاہا پے کے نال اداسی دلوں کدی جد اٹھے جا بہہ درد وچھوڑا کوئی ڈیرا بھال غزل دا نکتے غین غزل دے اگے مکی ل سہانی ویکھے اڈدی زلف غزل دی بیٹھا خال غزل دا درد ونڈاندے اک دوجے دا رہ ایہہ مڈھ قدیموں دل دی محرم حال غزل دل محرم حال غزل دا نال غزل دے دل پاگل نے خوب نبھائیاں سانجھاں ہجر وصال ایہدے سا محرم ہجر وصال غزل دا لکھ کے جدوں کسے دے رو سے دتی داد غزل دی لیا گواچے خطاں لفافیاں من کمال غزل دا چھیڑن جد وی دل نوں اوہدی سرد طبع دیاں یاداں گرمی سوز سخن دی دیوے بھانبڑ بال غزل دا ہین قصیدے حسن اوہدے دے شعر فقیر غزل دے رکھے کول کویں نہ تحفہ یار سنبھال غزل دا ٭٭٭ کیتا سی کدی پیار بڑی دیر دی گل اے دو اکھیاں سن چار بڑی دیر دی گل اے آیا سی بہاراں تے کدی باغ جوانی کھڑیا سی ایہہ گلزار بڑی دیر دی گل اے بجلی دی نری لشک سی اک اکھ دی شوخی اک نظر سی تلوار بڑی دیر دی گل اے اک لشکدی تحریر سیاہ بخت میرے دی سرمے دی سی اک دھار بڑی دیر دی گل اے منصور دے دل وانگ میرے دل دا سی جگرا اک پلک سی اک دار بڑی دیر دی گل اے اج دسدی اے خالی پر ایہہ اوہو ای اے گردن اک بانہہ سی جہدا ہار بڑی دیر دی گل اے شاماں توں فجر تیکراں رہندا سی وچ اکھاں اک چن دا پروار بڑی دیر دی گل اے قید اوہدیاں نظراں تے جے ہے سی نہ کسے دی دل میرا سی مختار بڑی دیر دی گل اے اج اوہدیاں واٹاں تے نیں پے سہکدے دیدے شوخ حسن دا بلکار بڑی دیر دی گل اے رونے نیں ایہدے اج نرے درد دے رونے ہندا سی ایہہ سنسار بڑی دیر دی گل اے بدنام جدوں ہوئے ساں دوویں اسیں کٹھے ایہہ گل تے سرکار بڑی دیر دی گل اے تھاں تھاں نیں فقیر اج میرغ فقر دے چرچے ہے سا میں گنہگار بڑی دیر دی گل اے ٭٭٭ دل وچ نیں اوہدے پیار دیاں کیہہ بھبکاں تساں کہ دساں کیہ میتھوں دل دیاں پچھدے او میں دل دساں کیہ دساں اج اوہدے سامنے ٹھپے رہ سب دفتر گلہ گزاری دے بے وسی جئی کیوں وسی اے اج دل دیاں وساں کیہ دساں قدماں تے اوہدیاں شرماں تے سر رکھے ہار سنگھاراں نے اج اوہنے کیڈے ظلم دیاں کڈھیاں سن ٹساں کیہ دساں سرمے دی سان تے لگی سی دھار اوہدیاں کھیویاں نیناں دی لگیاں سن نظر دے تیراں نوں کجلے دیاں چاساں کیہ دساں کیہ دساں منہ پیا سکدا اے کیوں میرا جی جی کردا اے اوہ مینوں ایویں مارن پے کوں دباں دھساں کیہ دساں جائو دسو بدلو سائون دیو نہ پچھ نی بجلیے لشکدئے کیوں ہسدا ہسدا روواں میں کیوں رو رو ہساں کیہ دساں سوکے تے کیہڑی سدھر دے ہنجواں دی مست پھوار پئی وس گئیاں کدھر ہاواں دے بدلاں دیاں لساں کیہ دساں کیوں اوہدی شوخ نگاہ اج پئی شرماں وچ ڈبدی جاندی اے کیوں پلکاں نال اج اوہدیاں میں پیا تلیاں جھساں کیہ دساں اکھاں تھیں دل وچ اتر کے کوئی دل دا ڈیرہ چھڈ گیا ایس اجڑے گھر وچ کیکر میں پیا وساں رساں کیہ دساں کیوں رند کوئی بت خانے نوں کعبے دا پوکھا دیندا نئیں میں بت خانے ول کعبے تھیں پیار اٹھ اٹھ نساں کیہ دساں کیہ دساں اوہدے پیاراں نے چاکہڑے رستے پایا اے کیوں اساں فراقاں وصلاں دے سرپائیاں بھساں کیہ دساں اوہ ہمدم جدوں فقیرمیرا پیا دم دم دم وچ وسدا اے کیوں گاواں گیت وراگاں دے وچ اوہدیاں جساں کیہ دساں ٭٭٭ چن اے عجیب لشکدے تارے عجیب نیں فرقت دی رات دے ایہہ سہارے عجیب نیں چانن ہنیریاں دے گزارے عجیب نیں لشکے کسے دی زلف دے تارے عجیب نیں باگے شبہ خزاں دا پے پاندے نیں پھل اجے ڈٹھے تیری وی رنگ بہارے عجیب نیں دس دی اے آس نال پئی تقدیر وگڑدی گیسو کسے نے اج سوارے عجیب نیں دل دے کے کھیڈیا اساں جواء اے پیار دا جت دے کے کیوںنہ داء اسیں ہارے عجیب نیں جادو حیا دے رہن نہ دتا اے یاد کجھ کیتے کسے دی اکھ اشارے عجیب نیں کجھ گھٹ اے دکھ ساڈے وی پاگل پنے دا ویکھ تیرے سنگار دے جے نظارے عجیب نیں دسدا اے کوئی مہر کوئی آوے نظر کرم تیرے ستم ستمگرا! سارے عجیب نیں رکھدے نیں کجھ نہ رکھ کے شاہواں دے حوصلے ہندے فقیر وی ایہہ وچارے عجیب نیں ٭٭٭ روپ جہدے دی اکھیں ویکھی سدا بہار چمن دی بلبل جان رہی کرلاندی خاطر اوس سجن دی ویکھ اوہدے ول وچ چمن دے وٹ سنبل نوں پیندے لپٹ جہدی لٹ کھلی وچوں آوے مشک ختن دی ہونٹھاں اوہدیاں دی تک سرخی سرخ یاقوت گواچا جوہریاں دی وچ نظرے اڈی لالی لعل یمن دی نین جہدے تک ودھدی جائے نرگس دی حیرانی ویکھ اوہدے و شرموں ہووے نیویں اکھ ہرن دی شوخی نظر اوہدی نہ کیتا دور ہنیر نظر دا شاموں فجر تیکر وچ اکھاں ول لگی جس چن دی جھا کے کدی نہ کھولے میرے اوہدیاں نیم نگاہواں کدی تے نال میرے اوہ لڑدے کدی تے وگڑی بن دی لب تک صبراں آون نہ دتا بن جس نوں فریاداں دبی رہی اوہ ترلے لیندی سدھر م وچ من دی جس دی شوخ محبت مینوں لکھنے شعر سکھائے سن کے اوس فقیر کدی نہ دتی داد سخن دی ٭٭٭ نوحہ اپنے ہم عصر پنجابی کے عظیم غزل گو شاعرپیر فضل حسین گجراتی کی وفات پر بابائے پنجابی نے نوحہ لکھا جو کہ بطرز غزل تھا۔ یہ نوحہ یہاں قارئین کے ذوق کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ہے سی جس مستانے دا میکدہ مقام غزل دا بھرا بھرایا ٹٹ گیا جے رندو جام غزل دا دسدی پیر فضل بن اج نہیںٹور ایہدی مستانی کھس گیا اے اج غزل تھیں مست خرام غزل دا ٹکراں مارے پیر بناں پئی سوچ نماز کویلی خالی چھڈ کے صفاں غزل دیاں گیا امام غزل دا اکھاں مل مل ویہندے نیں پئے فلک غزل دے تارے ڈب گیا وچ نوری ساگر دے ماہ تمام غزل دا دسے سوہنیاں وچ نہ سن کے اج اوہ بھاجڑ پیندی نہ اوہ رنگ غزل دا نہ اوہ اثر کلام غزل دا ہس ہس سوہنے روسے اوہنوں ہیسن آپ مناندے لاندا فضل جدوں سی تھاںسر کوئی دام غزل دا ڈٹھا عشق نہ نال غزل دے اج پھردا وچ راہواں کرے قبول نہ بھڑک حسن دی ادب سلام غزل دا لالا تنکے گھریاں پھولن بیٹھے دور شکاری دسے پیا شکاروں خالی وچھیا دام غزل دا گم گئیاں وچ اڈدیاں دھوڑاں زلف غزل دیاںلشکاں ڈبا وچ ہنیریاں دسے مکھڑا شام غزل دا وجے بوہے اج غزل دے پے وچ ڈونگھیاں سوچاں دسے پیا اداس وچارہ چہرہ بام غزل دا کھولئی کس خونخوار ایہدے توں اج تلوار غزل دی اڈیاں چک چک ویکھے خالی منہ نیام غزل دا ٹٹے ساز غزل دے نال ای مکے راز غزل دے دسدا اے پیا جو کجھ ہوسی ہن انجام غزل دا منگدا گیائے فضل وی ساتھی غزل گوواں دیاں خیراں لا گیا اے کجھ یاراں تے اوہ آپ الزام غزل دا سوز غزل دے تاء وچ تپدا گیا غزال پیامی دے گا کون سمے نوں دسو ہن پیغام غزل دا نال فقیر اساڈے ہن نہیں فضل کدی رل بہناں باجھ اوہدے پئے اسیں کراں گے ناں بدنام غزل دا ٭٭٭ کلام فقیر(جلد سوم) بابائے پنجابی کے باقی ماندہ نظمیہ کلام پر مشتمل یہ مجموعہ کلام فقیر کی تیسری جلد ہے۔ اسے ترتیب دینے کا اعزاز بھی ان شاء اللہ راقم الحروف ہی کو حاصل ہو گا۔ اس جلد میں وہ تمام نظمیں اکٹھی کی گئی ہیں جو کسی شعری مجموعے میں شامل نہیں کی گئیں۔ مختلف ادبی جرائد اخبارات اور وقتاً فوقتاً کسی خاص موقعے کی مناسبت سے لکھی گئی نظمیں اس جلد میں شامل کی گئی ہیں۔ مطلبی بھڑ بناندا اے کوئی بے غرض دنیا دین دا لے منا اپنی دلوں پکا اے جہڑا این دا مصر دا راکھا فرنگی جرمنی دا روس یار دین دا دوری اے ہندا د جوٰں بے دین دا سمجھدا اے چین نوں محتاج امریکہ پیا میںسمجھناں آپ امریکہ اے ہیٹھا چین دا زین دا محتاج تے ہندا اے گھوڑے دا سوار پر نہیں ہندا کدی محتاج گھوڑا زین دا سنگ دے ساتھی نیں دونویں غرض دے ساتھی فقیر بھکھا اے ٹکر دا تریہایا اے پانی پین دا ٭٭٭ کانی سوچ شہر میرے دے بخت پورے وچ رہندا ہاکو کانا سی ہے سی عقلوں پورا بھاویں شکلوں ارھورانا سی ہڈ بیتی لئی جگ بیتی دے لبھے ورتے دانے نوں یار بنائے لبھ اچیچا کدوں اوہ بندے کانے نوں کسے دواکھے نال نہ کھچرا کلی اکھ ملاندا سی ہولی ہولی سب اک اکھے یار بناندا جاندا سی وچوں وچ ای نال سیانف گھونی سوچ سیانے نے شہر میرے دے سارے کانے یار بنالیے کانے نے اک دن مل کے آکھیا میں اک اکھ سی قسمت یار تیری ایہہ پر سمجھ نہیں آندی مینوں کانی سوچ وچار تیری نال اپنے ایہہ کیہ اک اکھی لام ای لاندا جانا ایں یاری دی کھیہ پگل پیا خود رنگے رنگ رنگانا ایں آکھن لگا مل کوڈاں دا کیوں ہن لوگ پچھاندے نہیں پر حکمت دے موتی باجھ صرافاں جوکھے جاندے نہیں ہتھیں دتیاں کھولن دے لئی پیندی لوڑ اے دنداں دی مورکھ گل نہ سمجھن سوکھی کیتی دانشمنداں دی اپنے وانگ فقیر ایہ مینوں جد وی ویکھن چاکھن گے کانے نیں ایہہ سارے مینوںکانا تے نہ آکھن گے ٭٭٭ کھوتے دا سوار اوڑھ دیاں لئی وچلی مدت ساہے دی جد مکی بھٹیاں دی اک جنج راویوں چٹھیاں دے ول ڈھکی چاواں شوقاں نال دلاں دے پورے مان ترانوں کیتی جنج دی آدر خاطر چٹھیاں دلوں بجانوں دتے داج دون بے اوڑک ماپیاں بھین بھراواں سجر بوریاں جھوٹھیاں نالے گزریاں لاکھیاں گاواں بڑے بڑے راٹھاں دے چٹھیاں ہمیں مان تروڑے کمیاں نال آیاں نوں دتے اوہناں گھوڑے جوڑے پا جوڑا گل راساں پھڑ کے ڈاہڈی نال چالاکی نال آیا گھمیار گھوڑے تے چڑھیا مار پھلاکی جوڑ چواڑی کھوتے والی گھوڑے نوں اس ماری ہو چکھریا دوڑیا سرپٹ گھوڑے بدھی تاری ماری ہور چواڑی اتوں گھمیارے بے سارے سٹ اوہنوں گھوڑے نے تھلے دنیں وکھائے تارے نال کھراں دیاں ضرباں ٹٹے ہڈ اوہدے مغرورے پھس گیا ڈگدے دا کوپر ساہ ہویو سو پورے نال سہاگ نروئے پے گیا پنڈ وچ ماتم تازہ پنڈ اپڑے جد جانج لے کے ڈولی نال جنازہ گھمیاری دکھیاں موئے گھر والے دی ماری آئی پنڈوں باہر فقیر ایہہ کردی وین وچاری کھوتے دیا سوارا میریا مار گئیوں وے مینوں مرن اوہناں دے بچڑے جنہاں گھوڑے چاڑھیا تینوں ٭٭٭ کلام فقیر (جلد چہارم) زمانہ ماضی میں پنجابی شعراء کے ہاں چو مصرعے قطعے یا چوبر گے لکھنے کا رواج بڑا مقبول تھا۔ کلام فقیر کی جلد اول میں راقم نے بابائے پنجابی کی رباعیات اور چو مصرعے وغیرہ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔زیر بحث جلد میں بھی ایسا ہی باقی ماندہ کلام کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ بہت پہلے میں نے ’’کلیات فقیر‘‘ کی ترتیب کا کام شروع کیا تو میرے محبوب استاد پروفیسر حفیظ تائب نے میری سرپرستی فرمات ہوئے مجھے یہ مشورہ دیا کہ تم زندگی بھر اکٹھا کرتے رہو گے مگر ’’کلیات فقیر‘‘ کی اشاعت تمہارا خواب ہی رہے گی۔ ان کی اس بات کی تائید میرے اور ایک محبوب استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم رانا نے بھی کی۔ پنجابی زبان و ادب میں یہ دو شخصیات میرے لیے انتہائی قابل احترام اور راہنما تھیں۔ لہٰذا میں نے ’’کلیات فقیر‘‘ کو کلام فقیر کا رنگ دینے کا ارادہ کر یا اور جسے متذکرہ بالا دو بزرگوں نے خوش دلی سے پسند کیا لہٰذا ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شاعری کو اوپر بیان کیے گئے موضوعات اور ترتیب کے مطابق شائع کیا جا رہا ہے کلام فقیر کی جلد چہارم میں بھی چو مصرعے قطعے اور رباعیات وغیرہ کو ہی یکجا کیا گیا ہے۔ ٭٭٭ غیر مطبوعہ مسودات شعبہ پنجابی‘ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے تحقیقی ششماہی مجلہ کھوج کے شمارہ نمبر 8-9قلمی نسخہ نمبر میں مطبوعہ ارشد میر مرحوم کے ایک مقالے بعنوان میرے ذاتی کتب خانے دے پنجابی قلمی نسخے کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں پہلے بھی آ چکا ہے۔ یہاں ہم اسی مضمون کے حوالے سے ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کے تین قلمی اور تاحال غیر مطبوعہ مسودات کا ذکر کر رہے ہیں۔، 1۔ پنجابی زبان تے ادب دی تاریخ: فقیرمحمد فقیر ڈاکٹر (5جون 1900ء 11ستمبر 1974) تاریخ ادب نثر…؍ مولف شکستہ : 35*20س م ‘ 31سطر 82ورق مڈھ : اپنے اصلے توں زبان انسان دے منہ وچ گوشت دے اک ٹکڑے دا ناں ایں چھیکڑ: لال چرکھڑ اڈاہ کے چھوپ پائیے کہے سوہنے گیت چنہں دے نیں۔ کیفیت نادر غیر مطبوعہ (کھوج ص: 139)۔ 2۔ رانجھا ہیر مع تفسیر فقیر: فقیر محمد فقیر‘ ڈاکٹر (1900ء … 1974ئ) داستان نظم ؍ نثر مصنف نستعلیق 33*21س م ‘ 24توں 30سطر 1+58ورق: مڈھ: اصل حمد رب العالمین دی اے پالن ہار سائیں چھیکڑ : لئیں نتار فقیر نوں کول بہا کے جے توں جٹیئے گل نتارنی ایں‘ کیفیت: نادر و نایاب غیر مطبوعہ وچ وچ قرآنی حوالے تے نثر پنجابی۔ (کھوج ص: 144) 3۔ رباعیات عمر خیام دا پنجابی روپ (ترجمہ) فقیر محمد فقیر ‘ ڈاکٹر (1900ء … 1974ئ) عشقیہ نظم… ؍ مصنف شکستہ 20*13س م‘ 8توں 12سطر ‘ 17ورق: مڈھ: ماڑیاں تے کر نظر ساقی خدا دے واسطے چھیکڑ: ایہدوں پہلاں عمر تیری دا بھریا جائے پیالہ: کیفیت: غیر مطبوعہ (کھوج ص 144)۔ 4۔ راقم الحروف کے ذاتی کتب خانے میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے ان گنت قلمی مخطوطے شاعری اورنثری تحریروں کی صورت میں موجودہیں جو انشاء اللہ جلد از جلد زیور طباعت سے آراستہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں علمی‘ ادبی تحقیقی اور نصابی معاملات کے موضوعات پر کئی ایک سرکاری و نیم سرکاری خطوط اور مکاتیب کے جوابات کی کاپیاں میرے پاس موجود ہیں جو کہ ڈاکٹر مرحوم کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کی عکاس ہیں۔ 5۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے فکری اور فنی وارث محمد عبدالباسط باسط ہیں جو کہ رشتے می ڈاکٹر صاحب کے پوتے ہیں۔ ان کے والد حکیم محمد اشرف جواں سالی میں مرحوم ہو گئے۔ اکلوتے بیٹے ہونے کے ناتے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی محبتوںکا رخ بہت زیادہ ان کی تعلیم و تربیت اور فکر معاش کی جانب ہو گیا۔ یتیمی کی روگ کے بعد تو گویا ڈاکٹر فقیر ہی عبدالباسط کے دادا بھی تھے اور باپ بھی۔ اس مر د قلندر کی بھرپور توجہ نے انہیں نہ صڑف دنیاوی منزل مقصودپرپہنچایا بلکہ باسط فی الواقعی فقیر مرحوم کے اصل قلمی جانشین بھی ثابت ہوئے۔ ان کے اپنے نعتیہ مجموعے شائع بھی ہو چکے ہیں اور آئندہ اشاعت کے لیے بھی تیار ہیں۔ عبدالباسط باسط کے ذاتی کتب خانے میں بھی فقیر کے قلمی نسخے غیر مطبوعہ مسودات موجود ہیں۔ جن کی اشاعت کا انشاء اللہ اہتمام کیا جا رہا ہے۔ 6۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے سب سے چھوٹے صاحبزادے محمد ارشد مرحوم کے بچوں کی ملکیت میں بھی کئی غیرمطبوعہ او ر نثری مخطوطے اپنی اشاعت کے منتطر ہیں۔ ان کے مزاج میں خودداری تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگر خود پسندی اور خود نمائشی نام کو نہیں تھی۔ یہی وجہ ٹھہری کہ انہوںنے اپنی زندگی میں اپنے سینئر اور ہم عصر شعراء کے کلاموں کے مجموعے چھپوانے کے لیے جس طرح بھاگ دوڑ کی ا س طرح اپنی شاعری کو چھپوانے کے لیے تگ و دو نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکا کہ ان کا اپنا کلام زیادہ تر ان چھپا اور ادھر ادھر بکھرا ہی پڑا رہا۔ مرحوم کے زمانہ حیات تک فوٹو کاپی کا رواج یا توموجود نہیںتھا یا پھر بہت ہی کم کم ہو گا۔ شاید اسی وجہسے انہوںنے ایک نظم یا ایک غزل کو بھی کئی کئی مرتبہ مختلف ڈائریوں یا اوراق میں رقم کیا ہے۔ جو تحریر ایک دفعہ چھپ جائے اس کی اشاعت کی تصدیق بعض اوقات مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ بہرحال پھر بھی بزم فقیر پاکستان کے زیر اہتمام راقم الحروف نے عبدالباسط صاحب کی سرپرستی میں اور عزیزم حامد ارشد کے تعاون سے یہ مہم چلا رکھی ہے۔ کہ انشاء اللہ جلد از جلد کلام فقیر کو مکمل طورپر شائع کر دیا جائے گا۔ ٭٭٭ قادر الکلامی ڈاکٹر فقیر استاد الاساتذہ اورقادر الکلام شاعر تھے۔ وہ پیدائشی شاعر تھے۔ شاعرانہ صلاحیتیں ان کی ذات میں پیدائشی طور پر موجود تھیں۔ کیونکہ کوئی بھی فن کار فطری طور پرفنکار ہوتا ہے۔ کسب فن سے کوئی بڑا فنکار کبھی نہیں بنا۔ تاحال اس میں فن کی صلاحیتیں روز اول سے ہی رکھی گئی ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ فن و فکر اور علم و ادب و ریاضت سے ا س کے فن میں مزید نکھار تو پیدا ہو سکتاہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی فطری طور پر فنکار پیدا نہ ہو ا ہو تو وہ محض علم اور ریاضت کے بل بوتے ہرگز ہرگز بڑا فنکار نہیں بن سکتا۔ سچ ہے کہ: ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدا کے نخشندہ ارشد میر(مرحوم) اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر فقیر سے ان کی کم سنی کا ایک واقعہ روایت کرتے ہیں فقیر اٹھارہ سال کی عمر کا واقعہ سناتے ہیں کہ: ’’راولپنڈی میں سائیں احمد علی پشاور پنجابی زبان کے معروف شاعر تھے۔ مجھے انہیں دیکھنے اوربالمشافہ ان سیان کا کلام سننے کی خواہش تھی۔ لہٰذا میں راولپنڈی روانہ ہوا اور سائیں صاحب کے آستانے پر حاضر ہو کر اپنا تعارف کروایا اور آنے کا مقصد بیان کیا۔ سائیں صاحب نے کمال شفقت اور کرم فرمائی کرتے ہوئے ایک چو مصرعہ پڑھا جو اس طرح تھا: خ خام خیال سن مفتیاں دے واقف کار نہ راز مستور دے سن بناں سوچیاں کفر دے لان فتوے فی الحقیقت اوہ ماملے دور دے سن بدلے جنہاں دے واجب الدار ہویا کیا وہ اصل میں بول منصور دے سن جس قصور پچھے سائیں رجم ہویا اوہ قصور کہڑے بے قصور دے سن ڈاکٹر ؤفقیر فرماتے ہیں کہ میں یہ چو مصرعہ سن کر اٹھا اور سائیں صاحب کی مجلس سے باہر آ کر ایک دکان پر بیٹھا اور اسی بحر میں اورانہی ردیف و قوافی میں دو تین چو مصرعے لکھ کر واپس ان کی مجلس میں چلا آیا اجازت لے کر اپنا کلام حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔ ایک چو مصرعہ اس طرح تھا: اوہدے نقش نقاش نے لکھن ویلے لکھے پری تے یاں کسے حور دے سن سایہ حسن دا پیا بنگالیاں تے سحر سامری جلوے حضور دے سن پلکاں تیر تقدیر‘ کمان ابرو بے خود نین اوس مست مخمور دے سن کنڈل زلفاں دے ہین فقیر رخ تے ایہ سپولیے کسے سنگ چور دے سن فقیر کہتے ہیں کہ سائیں صاحب نے شعر سنے تو خوب داد دیتے ہوئے فرمانے لگے نڈھا جیوندا رہیا تے وڈا شاعر ہو سی۔ اپنے وقت کے استاد اور بہت بڑے شاعر احمد علی سائیاں کی اصل میںیہ پیش گوئی تھی کہ جو تھوڑے عرصے میں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور ڈاکٹر فقیر صاحب اس کم سنی میں ہی بڑے بڑے جغاوری شعراء سے ٹکر لینے لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انتھک فکری ریاضت کی وجہ سے ان میں استاد انہ اور حکیمانہ طرز و اسلوب در آئے۔ کلاسیکل روایت کے ساتھ ساتھ بہت جلد جدت و ندرت سے بھی انہوںنے ایک گونہ ہم آہنگی پیدا کر لی۔ ارشد میر مرحوم اپنے وادل میر عطا محمد مرحوم سے ایک واقعہ روایت کرتے ہیں۔ میر عطا محمد ڈاکٹر فقیرمحمدفقیر کے کم سنی کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ وہ 1925ء کا واقعہ سناتے ہیں کہ ڈاکٹر فقیرلاہور کے یکی دروازے کے علاقے میں رہائش پذیر تھے کہ میر عطا محمد ان سے کسی ذاتی کام کی نسبت ملنے گئے۔ گرمیوں کے دن تھے ڈاکٹر فقیرمحمد اورمعروف پنجابی شاعر سائیں نقد اپنی بیٹھک میں پاشا کھیل رہے تھے۔ برف کے دو بڑے بلاک میزوں پر رکھے ہوئے تھے اور ایک آدمی چھت پہ لگا ہوا بڑا پنکھا کھینچ رہاتھا۔ میر عطا محمد کچھ دیر بیٹھے آنے کا عدعا بیان کیا اور واپسی کے لیے اٹھے تو ڈاکٹر فقیر نے فی البدیہہ یہ چو مصرعہ پڑھ دیا: اچھا رب حوالے جے چلیائیں اینی گل مینوں جاندی وار دس جا کتھے ملاں کد ملاں تے ملاں کیکر بھیتی گل تے نام دلدار دس جا کیہ پچھاں کد پچھاں تے پچھاں کیکر وقت ڈھنگ تے شہر دیار دس جا گلی کوچے دا نقشہ فقیر کیہ اے؟ تے مکان دے درودیوار دس جا اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری ہم عصر بھی تھے اور گہری دوستی بھی تھی۔ شاہنامہ اسلام کے اشعار ہر ملاقات پر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو سناتے اوران سے داد تحسین وصول کرتے۔ ایک روز دوستوں کی محفل جمی ہوء تھی کہ حفیظ شاعری سنا رہے تھے قطب الدین ایبک کے دور حکومت پر شاعری ہو رہی تھی حفیظ جالندھری جذباتی ہوئے جا رہے تھے۔ ایبک کا زمانہ اور جاہ و جلال بیان ہو رہا تھا کہ ایک شعر پرھا: مجھے محسوس ہوتاہے کہ غازی مرد ہوں میں بھی پرانے لشکر اسلام کا اک فرد ہوں میں بھی ڈاکٹر فقیر قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ حفیظ چونکے قدرے غصے کے عالم میں ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو فقیر گویا ہوئے کہ اس شعر کو اس طرح لکھو: مجھے محسوس ہوتا ہے کہ عربی اوٹھ ہوں میں بھی پرانے لشکر اسلام کی اک جوٹھ ہوں میں بھی جب حفیظ جالندھری کو معلوم ہوا کہ غازی مرد کا اصل مفہوم کیا ہے تو خاموش ہو رہے۔ کسی بھی موقعے پر فی البدیہ شعر کہنا تو ڈاکٹر مرحوم کے بائیں ہاتھ کا کام تھا گویا ہر وقت جیسے موقع محل کے مطابق شعر پہلے سے ان کے دل و دماغ میں موجود ہوتے تھے۔ پٹیالہ کا مہاراجہ شعر و ادب کا دلدادہ تھا اور ہمیشہ سرپرستی کیا کرتا تھا۔ بلکہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں پورے ہندوستان میں پنجابی زبان اور ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے ایک تنظیم سنٹرل پنجابی سبھا کے نام سے موجود تھی۔ جس کے صدر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر تھے۔ اس ادبی تنظیم کی مہاراجہ پٹیالہ نے دل وجان سے سرپرستی کی ۔ پنجابی کے نامور اور قابل قدر اساتذہ کی قدر کرنا اور عزت افزائی کرنا مہاراجہ کا شوق تھا۔ 1939ء میں اپنے محل میں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کی عزت افزائی کے لیے ان کی تاج پوشی ککرنے کے لیے انہیں پٹیالہ آنے کی دعوت دی ۔ ڈاکٹر صاحب وہاں پہنچے تومعلوم ہوا کہ دربار میں مہاراجہ کے سامنے آنے کے لیے ایک ضابطہ تھا جس کے مطابق ہر آنے والے مہمان کو بسنتی رنگ کی پگڑی باندھنا ہوتی تھی۔ اس ضابطے کے مطابق ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو بھی ان کی ٹوپی اتار کر بسنتی پگڑی باندھنا پڑی۔ پگڑی پہن کرجب ڈاکٹر صاحب نے دیوار پر آویزاں قدآدم شیشے میںاپنا آپ دیکھا تو اپنی نظروں ہی میں بھلا محسوس نہ ہوا۔ فوراً پگڑی اتارکراپنی ٹوپی اپنے سر پر رکھی اور مہاراجہ کے سامنے جا کر فی البدیہہ یہ چومصرعہ پڑھ دیا: ہے لیندا کوئی نذر یا خراج میں کیہ کراں جگ سفلے دا کیہ اے رواج میں کیہ کراں میرے تے سر دی ایہ ٹوپی ای آبرو میری کسے دے سر تے فقیر ہے جے تاج میں کیہ کراں مہاراجے نے آپ کی عزت افزائی کی اور گلے سے لگایا اور پانچ سو روپے انعام دیا اور آپ کی مشہور مثنوی ’’سنگی‘‘ سرکاری خرچے سے چھپوانے کا اعلان کیا۔ پنجابی کے ایک شاعر خان صاحب بابو عبدالغنی وفا ہوئے ہیں۔ گوجرانوالہ میںرہنے والیتھے اور ڈاکٹر صاحب سے عمر میں سینئر تھے۔ ان زمانوں میں بعض شاعر اپنی گروپ بندیاں بنا کر مشاعروں میں جاتے تھے۔ وفا بھی اسی طرز کے شعراء میں سے تھے۔ ایک محفل میں انہوںنے چند ایسے شعر پڑھے کہ ج میں ڈاکٹر فقیر مرحوم کے نام فقیر کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ فقیر مرحوم نیفی البدیہ جو اباً ایک نظم لکھی جس کی ردیف تھی ’’وفا کتا‘‘ ۔ ڈاکٹری فقیر کے پلیٹھی کے شاگرد مرحوم اختر لاہوری نے یہ واقعہ مجھے سنایا اور بتایا کہ اس نظم کاایک ہی مصرعہ انہیں زبانی یاد رہ گیا ہے جو اس طرح تھا: بندہ بندے دے نال نہ کرے جویں کرے بندے دے نال وفا کتا دلچسپ بات یہ تھی کہ اس پوری نظم میں لفظ وفا کے لیے کتے کا استعمال نہیں بلکہ کتے کے لیے وفا کا استعمال کیا گیا اور کتے کی وفاداری کی مثالیں پیش کی گئیں۔ اختر لاہوری بتاتے ہیں کہ اس نظم سے محفل میں ایک کہرام مچ گیا ڈاکٹر صاحب نے پوری نظم سنائی اورپھر ا س کاغذ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے فرمانے لگے کہ میں نے یہ اس لیے لکھی تھی کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ میں شاعر نبنا نہیں بلکہ شاعر پیدا ہوا ہوں۔ شاعری میرے من میں موجود ہے میں صرف کاغذ پر اتارتا ہوں میرے پاس کرن کے اور بہت سے کا م ہیں لہٰذا مجھے مت چھیڑا کریں ورنہ میں ایسے ردیف قافیوں میں مثنوی لکھ دوں گا۔ آپ کے شاعرانہ کمالات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف عوام الناس میں مشہور ہوئی خواص (اہل علم و دانش) میں بھی انہوںنے اپنے فکر و فن کے ڈنکے بجائے۔ بیشمار ایسے واقعات ہیں جن سے ان کے کمال فن پر مکمل دسترس کا ثبوت ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب 1955ء میں سیلاب آیا تو دریائے راوی کے کنارے آ بیٹھے۔ پانی کاپاگل پن دیکھتے رہے۔ مخلوق خدا کو تہس نہس ہوتے دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ اسی موقعے پر پاگل پانی کے عنوان سے ایک نظم بھی فی البدیہہ لکھی جس کا ایک شعر اس طرح ہے: کھلیاں وسدیاں بستیاں پکڑ پیروں روہڑاں وچ پانی نے گھسیٹ لئیاں آنے کڈھ کے موت نے انج ڈٹھا ڈردی زندگی نے اکھاں میٹ لئیاں جوش ملیح آبادی کے ساتھ بڑی بے تکلفی اور دوستی بہت زیادہ تھی۔ کراچی کے ایک بازار میں دونوں اکٹھے گزر رہے تھے کہ جوش نے ایک کھڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس کھڑکی میں سے دو لڑکیاں جھانک رہی تھیں کہ مجھے دیکھ کر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ دیکھو کتنا قوی مرد ہے۔ ڈاکٹر فقیر مسکرائے اور کہنے لگے کہ بڑ ی بے وقوف تھی اتنے بڑے کوے کو کوی کہہ دیا بشیر حسین ناظم کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ بابا جی اس مصرعے کو پنجابی میں کیسے کہیں گے: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر تو فوراً فرمانے لگے: بعد از خدا تے ہو تسی جے نہیں خدا تسی اور فوراً نعت کا مطلع کہہ دیا: مولا خدا نے نور دی نوری ضیا تسی بعد از خدا تے ہو تسی جے نہیں خدا تسی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی ایک تصنیف پنجابی زبان و ادب کی تاریخ ہے۔ یہ کتاب 526صفحات پر مشتمل ہے اور اردو زبان میں پنجابی زبان اور ادب کے تذکرہ کی ایک نادر مثال ہے۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز نے 2002ء میں شائع کیا تھا۔ یہ کتاب دراصل مرکزی اردو بورڈ جو اب اردو سائنس بورڈ بن چکا ہے نے 1964ء کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب سے لکھوائی تھی۔ اس کتاب کے صفحہ 148پر ڈاکٹر صاحب ایک واقعہ اس طرح لکھتے ہیں: ’’یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام (1919)ء کا واقعہ ہے کہ انگریز بہادر کے گھر فتح کے شادیانے بج رہے تھے جن کی نقالی کے لیے اہالیان لاہور کے چند رئوسا نے بھی فیصلہ کیا۔ چنانچہ محمڈن ہال بیرون موچی گیٹ میں ایک پنجابی مشاعرہ ہونا قرار پایا جس کی صدارت کے لیے نواب محمد علی قزلباش مرحوم تشریف لائے۔ انگریز بہادر کی قصیدہ خوانی کے لیے پنجابی زبان کے جن شعراء کو دعوت فکر دی گئی بدقسمتی سے میں بھی ان میں شامل تھا۔ مشاعرہ پورے شباب اور رنگینی سے اپنے انجام کی طرف رواں دواں تھا کہ استاد عشق لہر سٹیج پر تشریف لائے اور انہوںنے ایک یا دو مصرعے کہے ہوں گے کہ جنت آشیاں ملک لال دین قیصر سٹیج پر اچانک نمودار ہو کر ا س بات کے لیے مضر ہو گئے کہ یہ ان پڑھ ہے اور بے علم شاعر ہے دوسروں سے لکھوا کر لاتا ہے اور پڑھتا ہے۔ اگر یہ لکھ سکتا ہے تو اس سٹیج پر میرے مقابلے میں لکھے۔ ان کے اس اعلان سے ہال میں کہرام مچ گیا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور وہیں کھڑے کھڑے جناب صدر سے بات کرنے کی اجاز ت چاہی۔ انہوںنے باکمال شفقت سے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ میں نے عوام کو خاموش کر کے یہ اعلان کیا کہ استاد عشق لہرمیرے اور قیصر صاحب کے بزرگ اور قابل احترام ہیں۔ اگر قیصر صاحب کوا س وقت صر ف مقابلہ پر لکھنے کا ہی شوق چرایا ہے تو میں جناب صدر کی اجازت سے اس کے لیے حاضر ہوں بشرطیکہ ہ مقابلہ قلم کے بھی بغیر ہو۔ مصرعہ اول قیصر کہیں گے اور اس پر میں گرہ لگائوں گا۔ اور یہ سلسلہ کام اسی طرح بغیر تحریری احتیاج کے چلے جب تک بھی چلے۔ میری اس دعوت پر جناب قیصر صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ میں ان کی مشق سخن کا قائل ہوں۔ میں تو ایک ایسے آدمی کے سامنے آیا ہوں جو خود فکر سخن سے بالکل لاتعلق ہے۔ مشاعرہ کی یہ بدمزگی گو یہاں ختم ہو گئی مگر اس کے اختتام تک مقابلے کی چہ مگوئیاں ختم نہ ہوئیں‘‘۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات اور بھی ملتے ہیں۔ جو فقیر مرحوم کے استاد اور قادر الکلام ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ٭٭٭ پنجابی نثر نگاری اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر جیسا کہ کوئی بھی زبان اپنے آغاز سے شعر و شاعری کے رنگوں سے مہکتی ہوئی نثر کی وادیوں کی جانب سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے مگر پنجابی زبان کامعاملہ کچھ یوں رہا ہے کہ یہ زبان صدیوں تک اپنے دامن کو شاعری کے رنگارنگ پھولوں سے ہی سنوارتی اور مہکاتی رہی۔ یوں پنجابی پنجاب دیس میں سب سے وسیع اور آفاقی موضوعات کو بیان کرنے والی زبان تو بن چکی تھی مگر عجب اتفاق یہ ہے کہ پنجابی علماء اور اساتذہ نے نثر نگاری کی طرف توجہ بہت کم ہی دی۔ اس میدان میں مشرقی پنجاب کے لوگ ہم سے آگے نظر آتے ہیں۔ مغربی پنجاب میں بہت کم شاعر وں اور ادیبوں نے پنجابی نثر کی زلفوں کو سنوارنے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ علماء کی اس مختصر سے قافلے کی نمائندگی بھی قیام پاکستان کے بعد بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے ہی کی پنجابی زبان میں نظری تنقید نگاری کی اولین اور دلکش صورت مہکدے پھل ہے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے پنجابی زبان کے آٹھ صوفی شاعروں کیکلام اور افکار پر تنقید مضامین کامجموعہ ’’مہکدے پھل‘‘ تصنیف کر کے پاکستانی پنجابی ادب میں تنقید نگاری کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح تذکرہ نگاری یا تاریخ کی روایت پنجابی زبان کے اسلامی ادب میں قیام پاکستان کے بعد پنج ہادی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور چار خلفائے راشدین کے حالات زندگی پر پنجابی نثر میں یہ کتاب ترتیب دے کر قیام پاکستان کے بعد پاکستانی پنجابی نثرمیں اس موضوع کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں ایک کتاب بلھے شاہ فن تے شخصیت بلھے شاہؒ کے فکر و فن پر تنقید اور تحقیق کی شاہکار تصویر ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے 1958 ء کے زمانہ میں تحریر کی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر مرحوم نے وقتاً فوقتاً پنجابی زبان میں ان گنت علمی ادبی ثقافتی سماجی سائنسی اور دینی موضوعات اورمضامین تحریر کر کے یہ ثابت کیا کہ پنجابی میں زندگی کے تمام تر موضوعات کو بطریق احسان پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ مضامین مختلف جرائد ہفتہ وار اور روزانہ اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ٭٭٭ پنجابی صحافت اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر درحقیقت 14اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے بعد اور پاکستان کے مسلمانوں میں چند ایک عجیب و غریب توہمات نے فروغ پایا مثلاً پنجابی خالصتاً سکھوں کی زبان ہے جو پنجابی بولے گا یا پنجابی کی حمایت کرے گا وہ سکھوں کا ایجنٹ ہے۔ دوسرایہ کہ سکھ قوم کو خالصتاً پاکستان اور مسلمان دشمن قوم کی حیثیت سے متعارف کروانے کا پراپیگنڈہ شروع ہو گیا۔ ہمارے بعض علماء اور نام نہاد محبان وطن نے تو پنجابی کے کافروں کی زبان تک قرار دے دیا۔ ان حالات میں پنجابی کی بات کرنا متعصب ذہنیت کے گروہ کو اپنے خلاف کرنے کے مترادف تھا۔ اور ایسا ہوا بھی جب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے 1951ء میں پنجابی زبان کے حقوق کا پرچم سربلند کیا تو سر چوہدری شہاب الدین جیسے صاحب اختیار لوگوں نے بھی ہاتھ جوڑ لیے اور یہ کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کے درست موقف کو جانتے ہیں مگر ان حالات میں پنجابی کی بات کرنا ملک کو اپنے خلاف کرنے کے مترادف ہے۔ ذرا سوچیے! ایسے میں ایک شخص جو اپنی عمر کے پچاس برس گزار چکا ہے وہ ان تھک اور نڈر مجاہد کے روپ میں اپنی دھرتی کا حق مانگنے چلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مولانا ظفر علی خان شورش کاشمیری‘ سید عابد علی عابد‘ صوف غلام مصطفی تبسم‘ پروفیسر تاج محمد خیال‘ استاد کرم امرتسری‘ ڈاکٹر محمد دین تاثیر‘ مولانا عبدالمجید سالک ‘ حمید نظامی‘ مولانا غلام رسول مہر ‘ وقار انبالوی ‘ علامہ علائو الدین صدیقی‘ ڈاکٹر محمد باقر چراغ حسن حسرت اور ایسے سینکڑوں معروف اردو لکھنے والوں کو پنجابی کی حمایت پر آمادہ کر لیا۔ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ملتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا ستمبر 1951ء میں ماہنامہ رسالہ’’پنجابی‘‘ کے نام سے جاری کر کے پاکستان میں پنجابی صحافت کا پرچم بلند کر دیا۔ یہ ایک دیا جلا اور پھر کئی دیے جلے ۔ الحمد اللہ آج شائع ہونے والے کسی بھی پؤنجابی رسالے کو کسی دوسری زبان کے مقابلے میں معیار پرکھنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ 1962ء میں مسعود کھدر پوش نے حق اللہ کے نام سے ایک پنجابی ماہانہ رسالہ شرو ع کرنے کا ارادہ کیا۔ اس رسالے کی اشاعت کے فرائض بھی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کو ادا کرنے پڑے۔ لہٰذا دسمبر 1962ء میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ یہ پاکستای پنجابی صحافت میں دینی موضوع پر اولین رسالہ تھا۔ مارچ 1965ء میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے لہراں کے نام سے ایک اور ماہنامہ رسالہ شروع کیا جو کہ آج تک تسلسل سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے چیف ایڈیٹر سید اختر حسین اخترنے راقم الحروف کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس رسالے کا نام لہراں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر صاحب کا تجویز کردہ ہے۔ 1965ء سے تادم حیات فقیر مرحوم رسالہ مکمل طور پر خود ترتیب دیتے پر و ف پڑھتے مگر چیف ایڈیٹر یا سرپرست کے طور پر اپنا نام رسالے پر لگوانے کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جب بھی کبھی رساے کی اشاعت مالی حالات کی وجہ سے رکنے جا رہی ہوتی تھی تو اس کے لیے مالی اسباب بھی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر تن تنہا پیدا کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے وارث کے نام سے بھی ایک ہفتہ وار پنجابی رسالے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے لیٹر پیڈ کے راقم الحروف کے پاس چند اوراق اب بھی محفوظ ہیں مگر تمام سعی کے باوجود شمارے کا کوئی پرچہ آج تک نہیںمل سک۔ بزرگوار احمد ندیم قاسمی بتایا کرتے تھے کہ امروز نے جب پنجابی کا صفحہ شروع کیا تو فقیر مرحوم روز امروز آتے اور اکثر معاملات میں سرپرستی اور راہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ ٭٭٭ پنجاب زبان میںبچوں کا ادب بالعموم بڑے دانش ور اور مفکر اپنی فکر و دانش کے سفر میں زندگی کے تمام پہلوئوں اور معاشرے کے تمام طبقوں کو اپنے موضوعات کے گھیرے میں لاتے ہیں مگر بچو ں کونظر انداز کر دیا جاتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے معاشرے کے اس اہم طبقے کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے ماہنامہ رسالہ پنجابی میں بچوں کے لیے بال بہار کے عنوان سے صفحا ت مقرر کیے۔ بچوں کے لیے خودبھی لھکا اور دوسرے لکھاریوں کو بھی لکھنے پر آمادہ کیا۔ بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں شاعری کی اور دوسری زبانوں سے ترجمے کیے۔ ڈاکٹر فقیر کے بچوں کے لیے تخلیق کیے گئے ادب کو اگر یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ یہاں پر ہم نمونے کے طور پر چند شعر قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں: چل سکولے آ وائی چل سکونے مہانے وچ گلی دے پیا ککارا کل بری ہوئی سی یارا ڈاہڈا ماریا نانی نانے آ وائی چل سکولے مہانے نسے جے سکولوں پیارے فیر متے پئی بے بے مارے ابو سنے نہ متے بہانے آ وائی چل سکولے مہانے ٭٭٭ نعرہ اساں پڑھ پڑھ کے رنگ لانا اے اساں پاکستان وسانا ایں اساں دیس دی حامی بھرنی ایں دکھ جر کے محنت کرنی ایں جھکڑاں سنگ متھے لانے نیں اساں ساگر پربت گاہنے نیں اساں کدی نہ کدھرے ہرنا ایں سر قوم دا اچا کرنا ایں اساں پج نہ پانا اکن دا اساں ناں لینا تھکن دا بہناں نہ لک لفانا ایں اساں ٹر کے ٹردیاں جانا ایں اساں پڑھ پڑھ کے رنگ لانا ایں اساں پاکستان وسانا ایں ٭٭٭ پنجابی زبان میں خواتین کا ادب ماہنامہ پنجابی میں باقاعدہ خواتین کے لیے ادبی صفحات علیحدہ سے شائع ہوتے تھے۔ ان صفحات کو سوانیاں لئی کا عنوان دیا جاتا تھا۔ معاشرے میں عورت کا اصل مقام کیا ہے عورت ماں بہن بیٹی بیوی کے روپ میں کیا کیا کردار اور کس کس طرح ادا کر سکتی ہے؟ ایسے موضوعات پر مضمون شامل کیے جاتے اداریوں میں بحث و مباحثہ کیا جاتا دراصل یہ دور قیام پاکستان کے فوراً بعد کا زمانہ تھا تو اس مناسبت سے پاکستان کے ہر طبقے کے لیے اس رسالے میں راہنمائی کا انداز موجو د تھا۔ نیا گھر تعمیر ہو رہا تھا نیا وطن تعمیر ہو رہا تھا اور پھر بابائے پنجابی یہ جانتے تھے کہ عورت معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور اگر اس کی تعلیم و تربیت بہتر انداز میں ہوجائے تو معاشرہ خود بخود ترقی کی سمت رواں دواں ہو جائے گا۔ یہاں ہم ہس پنجابن دھیئے کے عنوان سے ایک نظم قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں جو کہ قیام پاکستان اور پنجاب کی تقسیم کے وقت ہونے والے ظلم و ستم کے پس منظر میں لکھی گئی۔ ہس پنجابن دھئیے دیکھ تیرے ول ہس دے نیںہن تیرے دکھ قضئیے رو رو کیوں پئی پھوی ہووں ہس پنجاب دھئیے وچھڑدے نہیں اتھرواں تھیں تیرے دین سہانے گھٹے کوڈیاں نہ کر انویں موتی درد رنجانے رو رو نین نہ تھکے تیرے ہس ہن نہ کر ہاڑے سمجھ وسیبے دھرلے دل تے بھاگ سہاگ اجاڑے بولے کن اسماناں دے نہیں سن دے تیریاں کوکاں ہوٹھاں ہیٹھ دبا لے ہاواں دل وچ دل دیاں ہوکاں تیرے ڈھلکدیاں ہنجواں تے کھڑ کھڑ ہسن تارے تیرے ویریاںنوں پے دیون تیرے نین سہارے کیہ ہویا جے پائی دھاندل تیرے لیکھ نصیباں کیہ ہویا جے روگ تیرے لئی متھیا زہر طبیباں کیہ ہویا جے وچھڑیوں ہیرے رانجھیوں بییوں جوہوں کیہ ہویا جے شرم تیری کجھ بول نہ سکی مونہوں کیہ ہویا جے وچھڑی تیتھوں امبڑی جمن والی کیہ ہویا توں وچ جنہاں نہ رہڑدیاں سرت سنبھالی کیہ ہویا توں بیٹھ نہ جے کر کھلا سیس گندایا کیہ ہویا توں گندھیں مینڈھیں پھل نہ چونک سجایا کیہ ہویا پا ڈولی امبڑی گائے سہاگ نہ تیرے کیہ ہو یا گوں گھوڑیاں بھیناں منگے لاگ نہ تیرے کیہ ہویا نہ سنیاں تیرا رب اقرار زبانی کیہ ہویا جے سس تیرے نوں وار نہ پیتا پانی کیہ ہویا جے رو رو چو گئے تیرے نین اتالے کیہ ہویا جے بھیناں تیریاں وکیاں وانگر گاواں کیہ ہویا دھرو کیتے نیں جے بھیناں نال بھراواں کیہ ہویا تھڑکایا تینوں راہواں پاڑوپاں نے کیہ ہویا جے تیری عصمت لٹی دھاڑویاں نے چھڈ بھولا ایہ وڈ قصائی وڈیاں آناں والے ڈاکو چور بے غیرت شوہدے دھرم ایماناں والے ایویں پائیں رو رو ہاڑے ایویں ماریں ہائیں رب تیرے دیاں کیتیاں تینوں اجے وی بھل دیاں نائیں ہوسن نشر فقیر ہمیشہ شاہ بے ترس کمینے رکھے گی تاریخ پنجابی داغ تیرے وچ سینے ٭٭٭ پنجابی زبان میں زرعی مشورے پنجاب دنیا کی بہترین زرعی زمین ہے۔ اس سرزمین کے کسان دنیا کے اعلیٰ اور بہت زراعت کرنے والے اور بہتر فصل تیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ یوں تو پانچ دریائوں کا یہ خطہ فطرت کی جانب سے ہر طرح کے موسموں اور قدرتی عنایات سے مالا مال ہے اور پھر یہاں کا کسان بھی ان تھک محنت ہوتے ہوئے اپنے خون پسینے سے اس سونے جیسی سر زمین سے میٹھا پھل حاصل کرنے کافن بخوبی جانتا ہے۔ بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پاک وطن کی ترقی کے لیے ہر محاذ پر جنگ کر رہے تھے لہٰذا وہ بخوبی جانتے تھے کہ کسان اگر ترقی کرے گا تو سارا ملک ترقی کرے گا۔ وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں کے کسان کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی جانی چاہے۔ ملک سرسبز ہو گا تو ساری دھرتی شاداب ہو گی لہٰذا انہوںنے اپنے ماہنامہ رسالہ پنجابی میں جٹاتر کے عنوان سے کسانوں کے لیے صفحات بھی مخصوص کر رکھے تھے ہر موسم کے مطابق ہونے والی فصلوں کے بارے میں کسانوں کو مشورے دیے جاتے تھے۔ فصلوں کی بہتر سے بہتر صورت میں پیداواری کے لیے نت نئے طریقے بتائے جاتے۔ کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شاعری ہوتی اور اس طرح معاشرے کے اس اہم طبقے کو قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا۔ ٭٭٭ پنجابی زبان کے لیے نصابی جدوجہد پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت تھی۔ جس کے روح رواں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر تھے۔ ماہنامہ لہراں کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر سیداختر حسین اختر نے مجھے ایک مطبوعہ انٹرویو میں بتایا کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پنجابی فاض کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ اختر شاہ بتاتے ہیں کہ ہم چند طلبہ نے پنجابی فاضل کا امتحان دیا تو دوسرے تمام مضامین میں فاضل کا امتحان دینے والے طلبہ کے لیے یہ رعایت تھی کہ وہ اردو فارسی یا عربی زبانوں میں فاصل کا امتحان پاس کر لینے کے بعد صرف انگریزی اور اردو (لازمی مضامین) کے امتحانات پاس کر کے ایف اے اور بی اے کی اسناد حاصل کر لیتے تھے مگر ہمیں کہا گیا کہ پنجابی فاضؒ پاس کرنے والوں کے لیے یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں کہ ہم بہت پریشان ہوئے کہ کسی نے بتیا کہ اردو بازار کے سامنے وقف جلال دین ہسپتال کے ساتھ شیخ بشیر اینڈ سنز کتابوں کی دکان ہے وہاں گوجروانولہ سے ہر روز ڈاکٹر فقیر محمد فقیر آتے ہیں جائوان سے بات کرو۔ ہم چند دوست وہاں پہنچے بشیر صاحب موجود تھے مگر وہ فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب چند منٹ پہلیل چلے گئے ہیں تم کل آنا۔ اگلے روز ڈاکٹر فقیر کو دیکھنے کی تڑپ میں ہم سب دوست وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے ساری بات سنی تو غصے سے لال پلیلے ہونے لگے اور فرمایا کہ کل صبح نو بجے تم اپنے دوستوں کو لے کر وائس چانسلر کے دفتر کے پاس آ جانا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر شرمندہ ہوئے کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر گوجرانوالہ سے وہاں ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ درخواست گھر سے لکھ کر لائے تھے ہمیں فرمایا کہ تم سب یہیں کھڑے رہو اور خود بلا روک ٹوک وائس چانسلر کے دفتر میں چلے گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب باہر آئے تو ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی فرمانے لگے دو چار روز انتظار کرو۔ اور واقعی دو چار روز میں نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔ ڈاکٹر فقیر اس کی کاپی لے کر شیخ بشیر اینڈ سنز پر موجود تھے ہم آئے تو ہمیں کاپی عنایت کر دی۔ اسی طرح پنجابی دی پہلی کتاب چھٹی جماعت کے لیے پنجابی کی دوسری کتاب ساتویں جماعت کے لیے پنجابی کتاب نویں دسویں جماعتوں کے لیے پنجابی کی نصابی کتابیں ترتیب دیں یہ کتابیں نیشنل بک کارپوریشن کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔ ایم اے پجابی کے اجراء کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ ڈاکٹر اختر حسین اختر اور مرحوم رئوف شیخ نے راقم الحروف کو بتایا کہ مال روڈ پر جلوس نکالے گئے ڈاکٹر صاحب بزرگ ہو چکے تھے انہٰں ٹانگے پر بٹھا لیا ور نوجوانوں کا ایک بڑاجلوس ساتھ ساتھ جس کی قیادت مرحوم مشتاق بٹ ایڈووکیٹ کیا کرتے تھے۔ ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم لکھتے ہیں کہ علامہ علائو الدین صڈیقی وائس چانسلر تھے ان سے ایم اے پنجابی کی کلاسوں کے اجرا کا نوٹیفکیشن کروایا اور بعد ازاں گوجرانوالہ میں علامہ کے اعزا ز میں ایک تقریب منعقد کی۔ اس تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر وحید قریشی بھی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مرحوم نے علامہ علائو الدین صدیقی کی خدمت میں منظوم سپاسنامہ پیش کیا یہ سپاسنامہ علامہ صدیقی مرحوم کے بیٹے سے حاصل کر کے میں نے اسے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے شعری مجموعے دیوے تھلے میں شامل کردیا ہے تاکہ محفوظ ہو جائے۔ س طرح پنجابی زبان کو نصابی صورت میں تیار کرنے کے لیے بھی ڈاکٹر فقیر مرحوم نے دن رات محنت کی۔ وائس چانسلر کی خدمت میں پیش کیے گئے سپاسنامے کے چند شعر نمونے کے طور پر پیش کیئے جا رہے ہیں: حب وطن دی وچوں لبھا قوم ایمان یقین تیرا مان کرے کناں کو اج پنجاب علائو الدین تیرا اچے جھنڈے جھولن گے ہن ساڈیاں علمی شاناں دے ساڈیاں گلاں نال وی ہن گونجن گے ہال ایواناں دے لگے رونق میلے ویکھ کے اج پنجابی نالج دے ویہڑے کھڑ کھ؟ڑ ہسن پے پنجاب اوری اینٹل کالج دے وارث شاہ تے بلھے ورگے پتر ماں دے گولے سن مونہاں وچ زباناں رکھدے بن گئے گونگے بولے سن علمی مان فقیر ہن ویکھیں ودھدا شہر گراواں دا ودھدے پتر ویکھ ودھے گا مان پنجابن ماواں دا ٭٭٭ بابائے پنجابی کے خطوط خطوط نگاری کو مرزا اسد اللہ خان غالب نے نہ صرف فن بلکہ فن کی معراج تک پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کے خطوط جو اب تک مجھے مل سکے ہیں وہ تقریباً ستر کے قریب ہیں جو کہ انشاء اللہ مکاتیب فقیر کی صورت میں بہت جلد شائقین ادب کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے۔ ان خطوط میں چند ایک اردو زبان میں لکھے گئے ہیں اور زیادہ تر پنجابی زبان میں مرقوم ہیں۔ ظاہر ہے کہ خط ایک اور ذاتی اور فی البدیہ لکھی ہوئی تحریر کوکہتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے ان خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ مرحوم کانثری اسلوب کس قدر منفرد ہے اور زبان کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی ہے پنجابی زبان کے اساتذہ اور علماء میں شاید ہی کسی کے ہاں زبان و بیان کا یہ انداز میسرہو۔ ہر جملے پر عقل حیران اور طبیعت معطر ہو جاتی ہے۔ یہ کتاب بھی ان شاء اللہ بہت جلد شائع ہو جائے گی۔ بابائے پنجابی کے ان مکاتیب میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی جدوجہد کا پتا چلتا ہے۔ ایک طرف ان کی ذاتی زندگی کے مسائل کے بارے میں قارئین کو معلومات ملتی ہیں تو دوسری طرف ان کی شخصیت کا یہ پہلو کہ وہ کس قدر محنت کش آدمی اور بلند حوصلہ تھے۔ یہ خطوط فقیر مرحوم کی شخصیت کے نہایت خوب صورت پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ پنجابی زبان میں ابھی تک اس جانب توجہ نہیں دی گئی کہ پنجابی زبان کے مشاہیر علماء اور اساتذہ کے مکاتیب کو نہ صرف شائع کیا جائے بلکہ مختلف سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ یہاں ہم بابائے پنجابی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے دو خطوط قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ٭٭٭ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے خطوط (بابائے پنجابی کے لکھے ہوئے خطوط) گوجرانوالہ تکیہ معصوم شاہ 12ستمبر 1972 گرامی قدر جناب حافظ صاحب قبلہ سلام ادب۔ آپ کا پوسٹ کارڈ اور ملفوف گرامی مل گئے تھے۔ میں آنکھوں کی تکلیف کے باعث جواب نہ دے سکنے کی غیر ارادہ غلطی کا مرتکب ہوا۔ جس کے لیے معافی کا طالب ہوں۔ اور آپ کے التفات کریمانہ سے متوقع ہوں کہ آپ معاف فرمائیں گے۔ رباعی کے متعلق میں نے بھی ابتدامیں مستعمل فارسی بحور ووزان ہی کی پابندی کی تھی۔ کیونکہ پنجابی زبان میں اس وقت تک رباعی بالکل ناپید تھی اور اب میرا خیال اس سے مختلف ہے جس کی تفصیل ملاقات پر پیش کروں گا۔ بہرحال اس وقت تعمیل ارشاد میں قدیم بحور ہی کی پابندی سے ترتیب دی گئی چند رباعیات ارسال خدمت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ یہ مطلوبہ مقصد کے لیے کام آ سکیں گی۔ والسلام طالب دعا حقیر فقیر بملا حظہ گرامی جناب حافظ عبدالحمید سرشار لاہور ٭٭٭ گوجرانوالہ 3مارچ1971ء تکیہ معصوم شاہ عزیز المکرم و محترم جناب اقبال صاحب پرسوں کے روز سے لائل پور(فیصل آباد) کے بگڑے ہوئے حلات کے متعلق پر سکون ہونے کی خوشخبری سے طبیعت کو بڑی تسکین و طمانیت حاصل ہو رہی ہے۔ خداوند رحیم و کریم آپ کو بہ تمام ممبران خاندان و اعزہ و اقربا کو اپنی رحمت و شفقت کے سایہ میں امن و سلامتی سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین۔ اپنی خیر و عافیت کی ضرور اطلاع دیںَ میں نے پچھلے دنوں سید غلام مرتضیٰ جیلانی رجسٹرار زرعی یونیورسٹی لائل پور(فیصل آباد) کو ایک خط میں آپ کے لیے تحریر کیا تھا کہ مقامی طورپر اگر کسی الجھن یا پریشانی کے لیے مقامی معاونت کی ضرورت ہو تو وہ آپ سے رابطہ کریں۔ جیلانی صاحب اپنے کرم فرمائوں میں سے ہیں۔ میں نے انہیں آپ کا ٹیلی فون نمبر بھی تحریر کر دیا تھا اور اگر وہ کبھی رابطہ کریں تو یا خود آئیں تو انہیں اپنے دوستوں میں شمار فرمائیے گا۔ بڑے شریف النفس آدمی اور مومن آدمی ہیں۔ مہربانی فرما کر واپسی پر اپنی خیریت سے آگاہ کریں بزرگوار شیخ صاحب محترمہ آپا صاحبہ کی خدمت میں سلام ادب پیش کریں۔ اورتمام عزیزوں کو دعائیں دیں خدا آپ کو سلامت رکھے (آمین)۔ دعا گو فقیر ٭٭٭ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور اردو زبان ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت کا خوبصورت پہلو یہی تھا کہ تمام عمر پنجابی زبان کے فروغ کے لے وقف کر دی تما م کمائی جمع پونجی پنجابی زبان کی ترقی کے لیے خرچ کر دی۔ کوئی پنجابی کے خلاف بات کرتا تو دلائل کا انبار پنجابی کے حق میں لگا کر بات کرنے والے کو شرمندہ کر دیتے۔ مگر اس طرز زندگی کے باوجود کوئی شخص ان کی ذات پر پنجابی کے معاملے میں تعصب کا الزام نہیں لگا سکتا تھا۔ درحقیقت ڈاکٹر فقیر کا پنجابی کے بارے میں موقف کھلم کھلا اور سادہ تھا۔ وہ یہ کہ پنجابی پاکستان کی سب سے بڑی آبادی کی زبان ہے۔ پنجاب پاکستان ہے اورپاکستان پنجاب ہے۔ جو پنجابی کا منکر ہے وہ پاکستان کا منکر ہے لہٰذا اس موقف سے کسی کو اختلاف نہ تھا نہ ہے اورنہ آئندہ ہو گا۔ مگر اس کے باوجود اردو دان طبقے کو پنجابی لکھنے پر آمادہ کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ ڈاکٹر فقیر کو اردو لکھاریوں میں جانے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا ان کے تعلقات نہ صرف معیاری اردو لکھنے والوں سے مضبوط تھے بلکہ وہ خود بھی اردو لکھتے۔ اردو تحریروں کے پنجابی ترجمے کیے پنجابی زبان و ادب کی تاریخ اردو زبان میں لکھی ہوئی تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب اس بات کا بہترین ثبوت ہے ہیر وارث شاہ کا اردو ترجمہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی اردو نثر میں لکھی ہوئی کتاب کا منظوم ترجمہ اردو زبان میں لکھے گئے خطوط وغیرہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فقیرمرحوم اردو زبان سے بھی لگائو رکھتے تھے مگر ان کی محبتوں کا مرکز پنجابی زبان تھی۔ چندمعروف شعر ڈاکٹر فقیر محمدف قیر نے لکھے ہوئے اردو زبان میں زبان زد عام ہیں۔ میں ہوں کہ میزباں ہیں میری فاقہ مستیاں دل ہے کہ دو جہان کو مہماں کیے ہوئے دولت مجھے یہ ساری ہے اللہ نبیؐ نے دی کوٹھی شہاب دین نے موٹر غنی نے دی مشہور ہے کہ لاہور میں فقیر مرحوم کے ایک عزیز دوست نے فالودہ کی دکان بنائی تو انہوںنے ڈاکٹر صاحب کو مدعو کیا۔ دوست احباب جمع تھے تو موصوف ڈاکٹر فقیر سے کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں ایک شعر لکھ دیں جو اردو میں ہو ہم یہ شعر اپنی دکان میں دیوار پر آویزاں کریں گے۔ فقیر مرحوم نے فی البدیہ یہ شعر لکھ دیا: ارے ناداں کہاں سر پھوڑتا پھرتا ہے صحرا میں کوئی فرہاد سے کہہ دے یہاں شیریں ہے فالودہ مرزا غالب کی کئی ایک غزلوں پر پنجابی میں تضمین لکھی۔ علامہ اقبالؒ کی کئی ایک نظموں میں سے فکری خوشہ چینی کی۔ گویا عجیب اور دلچسپ اتفاق ہے کہ بابائے پنجابی کا حلقہ احباب اور موضوعات مطالعہ زیادہ تر اردو فارسی اور عربی زبانوں کا ادب ہی رہا ہے۔ مرکزی اردو بورڈ نے بابائے پنجابی سے ایک کتاب بعنوان پنجابی زبان و ادب کی تاریخ لکھوائی۔ اس کتاب کا مسودہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گشت کرتا رہا۔ کبھی کوئی بہانہ اور کبھی کوئی بہانہ۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل پر ڈاکٹر صاحب کو اس کام کو کرنے کا جو معاوضہ طے پایا تھا وہ بھی سرکاری طور پر ادا کر دیاگیا مگریہ کتاب سرکاری ادارے کے زیر اہتمام شائع نہیںکی گئی۔ بالآخر ایک پرائیویٹ پبلشر نے اس کتاب کو شائع کر دیا اس سلسلے میں ڈائریکٹر مرکزی ارد وبورڈ حنیف رامے کے ایک خط کا عکس یہاں دیا جا رہا ہے۔ تاریخ گوجرانوالہ بابائے پنجابی کو پنجابی زبان کی طرح اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ سے بھی بے پناہ محبت تھی۔ زندگی بھر گوجرانوالہ سے لاہور تک کاسفر کیا مگرہر رات واپس گوجرانوالہ ضرور پہنچتے تھے۔ حالانکہ اس زمان میںلاہور سے گوجرانوالہ کی آمد و رفت میں ایسی آسانیاںنہیںتھیں جو آج کل ہیں۔ بقول پروفیسر خوشی محمد شارب (مرحوم) کہ ڈاکٹر فقیر گوجرانوالہ سے گاڑی پر بیٹھ کر اورپوری آن بان کے ساتھ لاہور آئے اورجب واپس گئے تو سادہ سے لباس یں اور بس پر سوار ہو کر گئے۔ لاہور کی تحریکی زندگی نے بابائے پنجابی کا نہ صرف مال و دولت چھین لیا بلکہ شب و روز کا سکھ چین بھی ختم ہو کر رہ گیا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ بابائے پنجابی کی اپنے شہر سے محبت تو زندگی کے آخری ایام میں گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے معروف اخبار’’قومی دلیر)‘‘ (ہفت روزہ) میںقسط وار تاریخ گوجرانوالہ لکھنا شروع کی جو ابھی نامکمل ہی تھ کہ آپ کا وصال ہو گیا (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ راقم الحروف کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس کتاب کی تمام مطبوعہ اقسام کو یکجا کر کے 1997ء میں بزم فقیر پاکستا کے زیر اہتمام پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر شائع کیا ۔ اب یہ کتاب نایاب ہو چکی ہے ان شاء اللہ بشرط صحت و زندگی ا س کا دوسرا ایڈیشن جلد شائع کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں روزانہ اخبارات اور بعض اردو جرائد میں وقتاً فوقتاً ارد و زبان میں مضامین بھی تحریر فرماتے۔ قصہ مختصر کہ بابائے پنجابی ایسے اعلیٰ ظرف انسان تھے کہ دل میں پنجابی کی محبت کا سمندر تو ٹھاٹھیں مار رہا تھا مگر کسی دوسری زبان کے معاملہ میں تعصب نام کو نہیں تھا۔ یہی تو حقیقی عالم اور برے انسان کی اصل شناخت ہے۔ پنجابی ادبی اکیڈمی بابائے پنجابی نے قیام پاکستان کے بعد تو گویا پنجابی زبان کو پاکستان میں ایک علمی ادبی زبان ثابت کرنے کے لیے ایک تحریک چلا دی۔ اس تحریک کا پہلا حصہ ستمبر 1951ء میں شروع ہونے والا ماہنامہ پنجابی تھا اور دوسرا معرکتہ الآرا دور اس تحریک کا 1955میں شروع ہوا جب پنجابی ادبی اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہ اکادمی ڈاکٹر فقیر کا دیرینہ خواب تھی۔ اس کی تکمیل کے لیے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمدباقر کو ساتھ ملایا ڈاکٹر باقر کو اکادمی کا چئیرمین مقرر کیا ایک مجلس عاملہ بنائی خود اس مجلس کے ایک رکن بن کر ایک قلمی مزدور کی حیثیت سے دن رات کام کرنا شروع کر دیا۔ گوجرانوالہ کے رہنے والے د وبیوروکریٹ الطاف گوہر اورممتاز حسن پنجابی زبان کی اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کر تے رہے ہیں۔ دونوں کا ڈاکٹر فقیر مرحوم سے گہرا محبت کا رشتہ تھا۔ ممتاز حسن ایک دفعہ ڈاکٹر فقیر کے پاس بیٹھے علمی ادبی گفتگو میں محو تھے کہ ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگے کہ آپ نے اپنی ایک غزل کے مقطے میں اپنے آ پ کوپنجابی رباعی کا عمر خیام کہا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو عمر خیام کی رباعیوں کا پنجابی میں ترجمہ کر کے اس کا ثبوت دیںَ ارشد میر اپنے مضمون بعنوان بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مطبوعہ پنجابی ادبی مجلہ کاروان گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ شمارہ جولائی 1976ء کے صفحہ 140پر رقم طراز ہیں کہ ممتاز حسن نے بار بار کہہ کر ڈاکٹر صاحب کویہ کام کرنے پر مجبور کیا اور ڈاکٹر فقیر محمد نے چند دنوں میں عمر خایم کی رباعیات کا پنجابی ترجمہ کر دیا۔ یہاں ہم نمونے کے لیے ایک رباعی پیش کرتے ہیں: دھمیں میرے میخانے تھیں ایہہ آوازہ آیا اوئے سودائیا رند خرابا پارمییرے بھرمایا اٹھ اتانہہ نوں اٹھ کے پیالہ بھرلے نال شرابے ایہدوں پہلاں عمر تیری دا بھریاجائے پیالہ ممتاز حسن ڈاکٹر فقری کے بڑے بے تکلف اور محبت کرنے واے دوستوںمیں سے تھے اپنے کسی سرکاری دورے پر برطانیہ گئے ہوئے تھے تو وہاںسے ڈاکٹر صاحب کو خط لکھا اور محبت کا انداز ملاحطہ فرمائیے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب میں تو سمجھتا رہا کہ ہیر کا رانجھے کے ساتھ ہی معاشقہ تھا مگر یہاں آ کر ایام فرصت میں ہیر کا مطالعہ کر رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ہیر کے عاشقوں کی فہرست میں آپ کا نام بھی موجود ہے‘‘۔ اور آگے وارث شاہ کا یہ مصرعہ لکھ دیا: جٹی ہیر نوں فقیر نال ٹور دے تے سہتیے مراد پائیں گی الطاف گوہر سیکرٹری اطلاعات و ثقافت تھے۔ قبل ازیں علمی اور ادبی حلقوں میں ایک اور نام جو کہ بیوروکریٹ بھی تھے اورقلم کار بھی قدرت اللہ شہاب کا ہے قدرت اللہ شہاب کا بھی فقیرمرحوم سے گہری محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا۔ پنجابی ادبی اکادمی کے کاغذات تیار ہوئے اکادمی کو رجسٹر کرای گیا اور اس کی گرانٹ کے لیے بابائے پنجابی نے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اپنے ایک مضمون بعنوان قیام پاکستان توں بعد پنجابی بولی لئی کیتے گئے جتن مطبوعہ تماہی پنجابی بابائے پنجابی نمبر جولائی 2000ء تا مارچ 2000ء کے صفحہ 39پر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر رقم طرازہیں: ’’مرکزی حکومت پاکستان اور مغربی پاکستان کی حکومت ساٹھ ہزار روپے کی گرانٹ پنجابی ادبی اکادمی کو ملی اور اپنی کتابوں کی اشاعت سے بہت جلد اکادمی کو سات ہزار نو سو روپے کی رقم آمدنی کے طورپر حاصل ہو گئی‘‘۔ پنجابی اکادمی کے زیر اہتمام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑے معرکتہ الآرا کام سرانجام دیے۔ قیام پاکستان سے پہلے دورتک کلاسیکل شعرا کا کلام مجلسوں محفلوں اور میلوں ٹھیلوں میں گوئے گا کر تو سناتے رہے تھے مگر یہ کلام کتابی صورت میں یا تو موجود نہیں تھا اوراگر تھا تو غیر معیاری اور غیر مستند نسخوں کی صورت میں اور بہت کم کم کتابیں میسر ہوتی تھیں۔ پنجابی اکادمی کابڑا کارنامہ یہی ہے کہ س ادارے نے پہلی مرتبہ پنجابی کے کلاسیک ادب کو مستند اندازمیں خوبصورت کتابوں کی صورت میں محفوظ کر لیا اور اس کام کے روح رواں بابائے پنجابی ہی تھے۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہ کا شاہکار ہیر بیرسٹر عبدالعزیز نے مرتب کیا اور بابائے پنجابی نے اس کتاب پر مقدمہ لکھا اور اس کی اشاعت اکادمی کے زیر اہتمام ہوئی۔ ہیر کا ایک نسخہ بعد ااں خود بابائے پنجابی نے بھی مرتب کیا اور اسے اردو بازار کے ایک پبلشر تاج بک ڈپو نے شائع کیا۔ بابائے پنجابی نے اپنے مرتب کیے ہوئے ہیر وارث شاہ کے نسخہ میں ضخیم مقدمہ نہایت خوبصورت اردو زبان میںرقم کیا۔ کلیات بلھے شاہؒ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ کی کافیوں کو یکجا کر کے کتابی صورت میں ترتیب دیا اورپنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کیا۔ کتاب کے آغاز میں عظم صوفی شاعر کے حالات زندگی اور فکر و فن پر سیر حاصل مقدمہ تحریر کیا۔ پاکستانی پنجابی زبان و ادب کی یہ پہلی کتاب تھی جسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے دنیا کی دوسری زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کے لیے منتخب کیا۔ سیف الملوک کھڑی شریف کے عظیم صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخشؒ کی مشہور زمانہ مثنوی سیف الملوک کو ترتیب دے کر شاعر کے حالات زندگی اور فن و فکر پر ایک ضخیم مقدمہ لکھا اور اس کتاب کو پنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کیا۔ مرزا صاحباں پنجابی کی معروف عشقیہ داستان مرزا صاحباں عظیم شاعر پیلو کی لکھی ہوئی اور حافظ برخوردار کی لھکی ہوئی دونوں شاعروں کے کلام کو علیحدہ علیحدہ کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ان کے فکر و فن پر مضامین لکھے اور پنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کیا۔ پنجابی واراں پنجابی شاعری میں ’’وار‘‘ لکھنے کا رواج مقبول عام رہا ہے۔ وار دراصل جنگی شاعری ہوتی ہے جس میں ایک کردار ہیرو بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ ڈاکٹر فقیر نے نادر شاہ دی وار نجابت کی لکھی وئی چٹھیاں دی وار‘ پیر محمد کی لکھی ہوئی‘ سکھاں دی وار‘ شاہ محمد کی لکھی ہوئی علیحدہ علیحدہ مرتب کیں۔ ہر کتاب کے شاعر کے حالات زندگی اور فکر و فن پرمقدمہ لکھا اوران کی اشاعت کا اہتمام پنجابی ادبی اکادمی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ ککارے پنجابی کے عظیم صوفی شاعر ہاشم شاہ کے کلام کو یکجا کیا ترتیب دیا اور شاعر کے احوال اور فکر و فن پر ناقدانہ مضمون تحریر کر کے یہ کتاب بھی پنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کی گئی۔ کلیات ہدایت اللہ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر میاں ہدایت اللہ کا مکمل کلام کتابی صورت میں مرتب کر کے آغاز میں شاعر کے حالات زندگی اور فکر و فن پر محققانہ مضمون تحریر کیا اور یہ کتاب بھی پنجابی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کی۔ بول فریدی پنجابی کے عظیم صوفی بزرگ اور صوفی شاعر حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے صوفیانہ بول جنہیں پنجابی شاعری کاآغاز کہا جا تاہے۔ انہیںاکٹھا کر کے ہر بول کامختصر ترجمہ لکھا اور کتاب کے آغاز میں بابا جی کی زندگی کے احوال اور فکر و فن پر مفصل مقالہ تحریر کیا اور یہ کتاب بھی پنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کی گئی۔ کلیات علی حیدر پنجاب کے عظیم صوفی شاعر علی حیدر ملتانیؒ کی شاعری کو اکٹھا کر کے کلیات کی صورت میں ترتیب دیا ۔ آغازمیں علی حیدر ملتانیؒ کی زندگی کے احوال اور فکر و فن پر ناقدانہ نوٹ تحریر کیا اور اس کتاب کو بھی پنجابی اکادمی کے زیر اہتمام شائع کیا۔ ہیر شاہجہان مقبل پنجابی کے کلاسیکل ادب میں ایک معتبر نام شاہجہان مقبل کا ہے مقبل کی مقبولیت بھی معروف عشقیہ داستان ہیر کو کھنے کے حوالے سے ہے۔ فقیر مرحوم نے مقبل کی تخلیق اس ہیر کو مرتب کر کے مقدمہ تحریر کیا اور اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ لہراں ماہنامہ پنجابی کے پہلے سال کی جلد میں سے نثری تحریروں کا انتخاب کر کے ایک کتاب لہراں کے نام سے ترتیب دی۔ اسی کتاب میں سے مزید انتخاب کر کے بعد ازاں ایک مختصر کتاب شائع کی گئی جو پنجاب یونیورسٹی میں بی اے کے نصاب میں عرصہ دراز تک شامل رہی۔ مندرجہ بالا سطور میں ان کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہیںبابائے پنجابی نے خود مرتب کیا ۔ علاوہ ازیں پنجابی ادبی اکادمی کے زیر اہتمام تقریباً پچاس سے زیادہ کتابوں کی اشاعت کی گئی ۔ یہاں بھی بابائے پنجابی کے فقیرانہ مزاج کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ سرکاری گرانٹ سے پنجابی کے فروغ کے لیے بنائی گئی اس اکادمی کے زیر اہتمام کلاسیکل ادب کی اشاعت کی اور اپنے ہم عصر اور سینئر شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں میں اشاعت کا اہتمام کیا مگر اپنی ذاتی کوئی تخلیق اس اکادمی کے زیر اہتمام شائع نہیں کی ۔ سچ یہ ہے کہ بڑے انسان زندگی کے تمام پہلوئوں میں بڑے ہی نظر آتے ہیں۔ ٭٭٭ اختتام بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کی زندگی کے احوال علمی اور ادبی خدمات اور ان کے فکر و فن کا مختصراً جائزہ لینے کے بعدہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ پنجابی زبان و ادب کی گزشتہ صدی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نام سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ پنجابی زبان میں باقاعدہ فنی نثر نویسی کا آغا ز انہوںنے کیا ہے قیام پاکستان کے بعد پنجابی زبان میں صحافت (پرچہ کاری) کا باقاعدہ آغاز انہوں نے کیا پنجابی زبان کو معاصر ترق یافتہ معاشرتی سطح پر اک معایری اور ترقی یافتہ زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور سرگرام تحریک چلائی۔ وہ پنجابی زبان کے طالب علموں اور اہل ذوق شوق کے درمیان تمام عمر شمع بن کر جلتے رہے اور روشنی دکھاتے رہے۔ پنجابی ادب کے فوغ کے لیے پنجابی ادبی اکادمی کی بنیادرکھی اورمتعدد کلاسیکل شعراء کے کلام کو مرتب کر کے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس طرح قیام پاکستان کے بعد پنجابی زبان میں تحقیق اور تنقید کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان تما م جذبات کے علاوہ بلند بانگ او رخو ش آہنگ شاعری تخلیق کر کے پنجابی زبان کو اعلیٰ و ارفع ادب سے مالا مال کر دیا۔ ا نہوںنے پنجابی شاعری کو اپنے عصری تقاضوں کے مطابق متعدد اور متنوع موضوعات دیے۔ اسے نیا اسلوب اور نیا آہنگ بخشا اور ہئیت کی کئی صورتوں سے آشنا کیا۔ ان کی شعری زبان جزالت لفظی بلاغت معنی حسن خیال‘ رفعت فکر‘ صداقت جذبہ‘ نزاکت احساس‘ سلاست بیان اور دیگر فنی خوبیوں کا مرقع ہے۔ جبکہ موسیقیت تاثیر درد و سوز نقطہ گوئی اور حکمت طرازی اس کا لازمی عنصر ہے۔ بلاشبہ وہ پنجابی زبان و ادب کے نہایت عظیم شاعر مفکر اور سیوک تھے ان کی ذات میں پنجابی کو نثر نگار ماہر فن صاحب طرز شاعر ناقد محقق اور تحریک ساز بیک وقت اپنی پوری عظمت کے ساتھ مل گئے اسی بنا پر انہیں بابائے پنجابی کہا جاتا ہے۔ ٭٭٭ معروف شخصیات کے تاثرات بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر لڑکپن سے بزرتی تک ایک بھرپور زندگی گزارنے والے عہد آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ یہاں ہم چند عہد ساز شخصیات کے ان کے بارے میں تاثرات میں سے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان کے دوران میں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر مسلم لیگ کو باقاعدہ چندہ تو دیتے ہی تھے مگر 1946ء میں جب قائد اعظم گوجرانوالہ کے دورے پر آئے تو بے شمار سیاسی سماجی علمی اور ادبی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ بشیر حسین ناظم اپنے ایک مضمون بعنوان ’’حضرت بابائے پنجابی‘‘ مطبوعہ تماہی ’’پنجابی‘‘ (بابائے پنجابی نمبر) جلد نمبر 3-4شمار نمبر 4-3اور 1جولائی 2000ء تا مارچ 2001کے صفحہ نمبر 106اور 107پراس طرح رقم طراز ہیں: بہت سے متمو ل لوگوں نے لاکھوں روپے قائد اعظم کے قدموں پر نثار کر دیے۔ بعد میں ایک شخص جو اپنے حسن و جمال خود وصفی اور خوش قطعی‘ خوش گلی اور رعنائی میں سب پر فوقیت رکھتا تھا قائد اعظم کی خدمت میں اپنی کار کی چابیاں پیش کرتے ہوئے کہا: گر قبول افتندر ہے عز و شرف حضرت قائد اعظم نے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر سے یوں خطاب کیا: Well done Faqir! Yor are mandicat by name but rich by heart! I remember my swar gratgul for this invaluable donation. حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بعض مضبوط روایات سے یہ بات ملتی ہے کہ علامہ اقبالؒ اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی روحانی عقیدتوں کا سلسلہ گوجرانوالہ کے ایک معروف روحانی خاندان سے ملتا ہے۔ اس بحث کو یہاں اگر شروع کیا گیا تو بات بہت دور جا نکلے گی لہٰذا ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ ڈاکٹرعلامہ اقبال سے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی نیاز مندی اور عقیدت کے کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کلام فقیر جلد اول مرتب محمد جنید اکرم مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن جولائی 2006ء کے صفحہ نمبر 12سے 13تک ڈاکٹرفقیر محمد فقیر کی اپن تحریر بعنوان وکھالا کی چند سطریں قابل مطاعہ ہیں۔ فقیر مرحوم اکثر و بیشتر ڈاکتڑ اقبال کو اس بات پر مائل کرتے رہے کہ آپ پنجابی زبان میں بھ یاپنے افکار کو قلم بند فرمائیں۔ مگر اقبالؒ ہر دفعہ یہی موقف اختیار کرتے کہ مجھے پنجابی کی وسعت کا انکار نہیں مگر پنجابی سائنسی علمی سماجی اور بین الاقوامی موضوعات کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ایک دفعہ یوں ہی دوران گفتگو فقیر فرمانے لگے کہ قبلہ میرے دو شعر ملاحظہ ہوں: میری بولی ایہہ جو بولی سگویں جاچی تولی ظفر‘ آزاد‘ اقبال تناں دے گھر وی ایہہ جو بولی ٹانویں ٹانویں لفظ پرائے باہر قلم دی واکوں جہڑے ساگوں اردو ورتے میں ورتے اس ساکوں ڈاکٹر اقبالؒ یہ شعر سن کرمسکرائے اور فرمانے لگے: ’’فقیر تمہارے پاس دلیل ہے۔ تم پنجابی زبان میں کسی زبان کا لفظ لکھ لو وہ تمہارا ہے‘‘۔ اسی طرح فقیر رقم طراز ہیں کہ ایک روز دوران گفتگو میں علامہ اقبال فرمانے لگے کہ اچھا تم مرے ایک اردو شعر کا پنجابی میں ترجمہ کرو: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر تو فقیر نے فی البدیہہ اس شعر کو پنجابی قالب میں ڈھال دیا: لشکن والیاں زلفاں تائیں ہور ذرا لشکاندا جا ہوشاں عقلاں جیوڑے نظراں سب نخچیر بناندا جا اس قدر خوب صورت ترجمہ سن کر علامہ اقبال قہقہہ گاکر ہنسے اور خوب داد دی۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے اولین شعری مجموعے صدائے فقیر کی اشاعت پر علامہ اقبال نے ان خیالات کا اظہار فرمایا: ’’صدائے فقیر کی تمام نظمیں دلکش ہیں اور وقت کے تقاض؁ کو پورا کرتی ہیں۔ ایک مفکر کا اس وقت یہی منصب ہے کہ وہ قومی اور ملکی تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ پوری توجہ اور انہماک سے اس کام کو جاری رکھو۔ کیونکہ یہ عوام کی ضرورت کا کام ہے‘‘۔ بابائے صحافت حضرت مولانا ظفر علی خان ڈاکٹر فقیرمحمد صاحب فقیر نے پنجابی زبان میں اپنے خیالات سپرد قلم کر کے اہل نظر کے لیے تفریح کا سامان پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کومبداء فیاض سے ذوق سلیم ارزانی ہوا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے جو کام اپنی شہرہ آفاق تصنیف مسدس حالی سے لیا وہی کام ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے اپنے شعری مجموعے موآتے سے لیا ہے۔ جو کامیابی انہیں اس کوشش میں حاصل ہوئی ہے اس پر میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اگر وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی تو پنجابی شاعری میںدلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے ادب و اخلاق کا ایک بیش قیمت خزانہ ہاتھ آ جائے گا۔ (تقریظ مو آتے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ مطبوطہ بز م فقیر پاکستان ایڈیشن اگست 2007ء سر شہاب الدین چوہدری ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی غیر مطبوعہ مثنوی سنگی کا دیباچہ لکھتے ہوئے سر چوہدری شہاب الدین رقم طراز ہیں: ’’ایہہ کتاب نری پیار دی کہانی نہیں سگوں اوہدے وچ اجہی گاٹھویں علمی سوجھ بوجھ اے جویں کسے استاد جڑئیے نے سونے دے پتراں وچ ہیریاں دی جڑت کیتی ہووے پنجاب دیس دی رہت بہت تے ونڈ ویہار داایہہ کتاب شیشہ اے۔ حیاتی د ا کوئی پاسہ نہیں جہدی مورت ڈاہڈی استادی نال سوادی اکھراں وچ اپنے دیس دی گل نوں اجہا سجا کے رکھے جہدے ویکھیاں پرائیاں دے دل وچ وی اوہدے دیس لئی پیار ودھے۔ مینوں ایہہ پکی امید ہے کہ ایس کتاب نال جتھے پنجبی بولی دے شونقیاں دی گنتی ودھے گ اوتھے بڑے بڑے لائق آدمی ڈاکتر فقیر محمد فقیر دے سنگی ساتھی بن جان گے۔ سنگی نوں لکھ کے ساڈے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے پنجابی دی عزت نوں چار چن لا دتے نیں۔ جدوں اپنے دیس دی بابت ایہہ گائون گائوندائے تے پنجابی دی عزت ہو ر وی ودھدی اے: قوماں دی پت دون سوائی قومی رسم رواجوں دیس اپنے دی جتی چنگی اوپریاں دے تاجوں دیس اپنے دا پٹل کھلا ساری دنیا سوڑی دیسی گڑ شکر نیں مٹھے پردیسی کھنڈ کوڑی احسان دانش جناب ڈاکٹر فقیرمحمد فقیرمیرے کرم فرمائوں میں سے تھے۔ عمر میں مجھسے اتنے بڑے کہ محبت سے کاکا کہہ کر پکارتے تھے۔ میں نے ان کا تعلق ہمیشہ معیاری لوگوں سے دیکھا ہے۔ وہ سر سے پائوں تک مخلص انسان تھے۔ ہر شخص کوان کے رویے سے یہ گمان ہوتا تھا کہ ان کے تعلقات مجھ ہی سے زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہر چند کہ مجھ سے بہت سینئر ہیں لیکن مجھے وہ اپنے حسن اخلاق سے بے تکلفی تک لے آتے تھے۔ میں نے پنجابی میں بہت کم اس اخلاق کے آدمی دیکھے ہیں۔ مگر آہ کہاں سے لائیں ان پوشیدہ صورتوں کو! مرزا ادیب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر شاعر بھی تھے اور شاعر گر بھی۔ پنجابی زبان کی ترقی ورفروغ کے لیے انہوںنے جوناقابل فراموش خدمات انجام دیں ان کی بنا پر بابائے پنجابی کہلائے۔ ان کی علمی وادبی سرگرمیوں ک دائرہ بڑا وسیع تھا۔ نقد و نظر میں ان کا بلند مقام ہے۔ وہ پنجابی شاعری کے سچے رمز شناس تھے۔ وہ استاد الاساتذہ تھے۔ پنجابی زبان سے ٹوٹ کر محبت کی ساری عمر ان کا قلم متحرک رہا اور ان کی تخلیقی قوتیں برسر عمل رہیں۔ انہوں نے اپنی ساری صلاحیتیں پنجابی کے فروغ کے لیے وقف کر دیں۔ وہ محقق ناقد مولف اور شاعر تھے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر وہ ایک پیارے انسان تھے میں نے ریڈیو می ان سے بار بار ملاقات کی۔ ان کی خوبصورت پیار بھری اور میٹھی باتیں کبھی بھلائی نہیں جا سکتیںَ وہ بابائے پنجابی تھے مگر اپنے رویے میں بالکل غیر متعصب تھے۔ وہ سب سے محبت کرتے تھے پنجابی کا لکھاری ہو یا اردو کا یا کسی اور زبان کا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں انہیں مگر دلوں میں زندہ ہیں۔ الطاف گوہر فقیر صاحب دیوانے آدمی تھے۔ ساری عمر پنجابی زبان کی خدمت میں گزار دی۔ وہ پہلے محقق اور ادیب ہیں جنہوںنے پنجابی زبان اور ادب کی تاریخی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے اپنا کام کیا جتنا اس دور کے کسی اور پنجابی ادیب نے نہیںکیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بابائے پنجابی کا خطاب دیا گیا۔ 1951ء میں رسالہ پنجابی کا اجرا اور بعد ازاں ڈاکٹر محمد باقر کے اشتراک سے پنجابی ادبی اکادمی کا قیام ان کے بڑے اورقابل ذکر کارنامے ہیں۔ 1968ء میں گوجرانوالہ میں مجھے شام فقیر میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ مقررین میں سے ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ ڈاکٹر فقیر پنجابی زبان کی علمی ادبی اور تاریخی اہمیت کو اجاگرکرنے کا کام اپنے ذمے نہ لیتے تو یہ زبان ایک علاقائی بولی بن کر رہ جاتی۔ گوجرانوالہ سے فقیر صاحب کو وہی محبت تھی جو پنجابی زبان سے تھی ان کی اس محبت کی وجہ سے گوجرانوالہ پنجابی زبان کا گہوارہ بن کر رہ گیا۔ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر صاحب دی شاعری نوں میں چروکنا من چکاہاں۔ اودوں دا جدوں میں اجے ایہناں دے درشن وی نہیں کیتے سن۔ تے صرف ایہناں دیاں کجھ رباعیاں ہی ویکھیاں سن۔ رباعیاں وچوں فقیری مزاج تے شاعرانہ کمال بھاہ ماردے دسدے سن پر میرا ایہہ وی خیال سی کہ شاید سارے باغ وچ ایہو ای گنتی دے پھل ہون گے۔ جدوں ڈاکٹر صاحب ملے تے اوہناں اپنی ہیر دا کار د سیاجہڑا وارث شاہؒ دی ہیر نالوں وڈا ہے تے اپنیاں سینکڑے ہور رباعیاں سنائیاں تاکہ میں چیتیا پء ایتھیتان رب دی مہر ہے۔ شاعری دے جوش دے ہڑھ وگدے نں۔ تے زبان ہتھ بدھی غلام ہر ویلے حاضر رہندی اے۔ ڈاکٹر صاحب نوں میں ساڈے زمانے دے اوہناں دوہاں چوہاں سبھا گے منکھاں وچوں سمجھدا ہاں جنہاں نوں رب نے دب دشٹی دتیہوئی اے۔ جہڑے کال تو اکال تیک پہنچدے نیں تے چوگردے دے تماشے نوں لابنیوبوں تے دوروں ہٹ کے ویکھ سکدے نیں۔ ڈاکٹر صاحب دیاں رباعیاں وچ لفظی جاد و وی ہے تے معنوی چھوہ وی۔ (پرکھ کلام فقیر جلد اول ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن جولائی 2006ئ) علامہ علائو الدین صدیقی (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) اک گل جہڑی ڈاکٹر فقیرمحمدفقیر ہوراں دے کلام وچ نکھر کے سامنے آئوندی اے اوہ ایہہ اے کہ اوہ سچے محب وطن پاکستانی وانگ ملک نال پیار رکھدے نیں۔ اوہناں نے پنجابی زبان نوں کسے ہور مقصد لئی نئیں ورتیا تے اوہدے وچ مذہبی خیالات تے ملکی محبت نوں پیش کیتا اے۔ اییہہ خلوص تے محبت اوہناں نوں شاعری وچ اچالے گیا اے۔ اج کل دے زمانے وچ جداسی غیرملکی نظریات دے چکر وچ پئے ہوئے آں۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہوریں ایہناں چکراں توں اچیاں ہو کے اک سچے تے پکے پاکستانی مسلمان دی نظر نال دیکھ کے سانوں اپنے خیالاں دی تصویر وکھانا چاہندے نیں۔ ڈاکٹر فقیر ہوراں دی شاعری دا میں پرانا مداح اوں مینوں ایہہ گل ڈاہڈی چنگی لگدی اے کہ ڈاکٹر فقیر ہوریں اوس بول چال نوں ادبی رنگ دیندے نیں جہڑی اسیں گھراں باہراں وچ بولدے چالدے آں تے جہدی مٹھاس چنگی لگدی اے۔ پنجاب وچ اوہو پنجابی چلے گی جہڑی ایتھے بولی جاندی اے۔ ایہو پنجابی علمی تے ادب زبان بنن دا حق رکھدی اے۔ فقیر ہوراں دی ایس پنجابی دا کجھ اپنا ہ سواد اے۔ ایہہ دکھے دل دی آواز اے ایس واسطے ایہہ ساڈے دل وچ اتر جاندی اے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید میں ڈاکٹر فقیر محمدفقیر کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری آنکھوں خے سامنے وہ زمانہ آ جاتا ہے جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ لوگ پنجابی بولتے تھے پر حمایت اردو کی کرتے تھے۔ اورشہروں میں پڑھے لکھیے لوگ بھی اردو کی حمایت میں آگے نکل چکے تھے۔ اور پنجابی زبان کا نام لینا بھی گوارا نہیںکرتے تھے۔ لوگ بھول چکے تھے کہ پنجابی اصلا ً مسلمانوں کی زبان ہے اورہمارے دینی اور تہذیبی ورثے کی امین ہے جو آدمی پنجابی زبان کی حفاظ کی بات کرتا اسے شک و شبہ کی نظر سے دیکھاجاتا تھا۔ پاکستان بن گیا اور آہستہ آہستہ تعصب کی دیواریں ٹوٹیں اور لوگوں میں یہ سوچ ابھری کہ اردو زبان کی اپنی جگہ ہے اور پنجابی زبان کی اپنی جگہ ہے۔ یہ دونوں زبانیں اک دوسرے کو نقصان پنہچائے بغیر آگے بڑھ سکتی ہیں۔ اس سوچ کے سب سے بڑے پرچارک ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر تھے جنہوں نے اس صدی میں پنجابی شاعری میں وہ کردار ادا کیا جو اردو شاعری میں اقبال اور حالی نے ادا کیا تھا۔ میرے نزدیک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے رسالہ پنجابی کی اہمیت وہی ہے جو اس صدی (1900-2000)کے آغاز میں سر عبدالقادر کے رسالہ مخزن کی تھی مخزن نے انگریزی پڑھے لکھے لوگوںکو اردو کی طرف مائل کیا اور رسالہ پنجابی نے انگریزی اور اردو پڑھے لکھے لوگوں کو پنجابی زبان میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ جس طرح مخزن ایک رسالہ ہی نہیںتھا بلکہ ایک تحریک تھی اسی طرح پنجابی بھی محض رسالہ نہیںبلکہ ایک ادبی تحریک کی صورت تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے پنجابی ادب کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا اسی طرح جج سر عبدالقادر نے اردوادب میں ایک نئی جان ڈالی۔ آج پنجابی زبان میں نت نئے ادیب موجود ہیں جو بڑی خدمت کر رہے ہیں پر اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیںکر سکتا کہ قیام پاکستان کے بعد تعصب کی دیواریں توڑنے میں ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر کی ذات سب سے آگے تھی۔ پنجابی زبان اور ادب کو آگے بڑھانے کے لے انہوںنے اپنی ذت اور اپنی شخصیت کی نفی سے بھی گریز نہیںکیا۔ اپنے ہمعصروں کے مقابلے میں پنجابی ادب میں انہوںنے سب سے بڑ ھ کر کام کیا۔ انہوںنے ہمیشہ لیڈری دوسروں کے سپرد کی اور خود ایک فنکار اور مزدور کی حیثیت میں کام کرتے رہے۔ پہلے دورمیں انہوںنے سارا کام خود کیا اور لیڈری میرے والد مولانا عبدالمجید سلک کے سپر د کی۔ ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر باقر کو ساتھ ملا لیا۔ حالانکہ وہ پنجابی ادیب نہیں تھے پنجابی ادبی اکادمی بنائی تو اس کی چیئرمینی ڈاکٹر باقر کو دے دی اور فقیر نے فقیری کی روش پر چل کے اکادمی کی ہر طرح سے خدمت سر انجام دی۔ مادی طور پران کو کچھ حاص نہ ہوا۔ پر انہوںنے بے لوث خدمت جاری رکھی۔ احمد ندیم قاسمی روزنامہ امرواز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکتر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات ہتی تھی۔ وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیٹٰ ہوء محبت ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔ جب میں ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتاکہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ مفاہم اور بلاغتوں کی شعاعیں بکھیرا محسوس ہوتا ہے پنجاب ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ ک معنی سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا انپی اس مشک کا اظہار کر دیتا تھا۔ وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنی بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقہ میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے مگر شیخوپورہ‘ سیالکوٹ‘ گجرات‘لائل پور (فصل آباد) جھنگ اہور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کاتلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنی میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔ کسی ایک لفط کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔ مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اوراخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوتی کی اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگوفرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہؒ کا شاہکار یاد آ جاتا۔ اشفاق احمد ڈاکٹر فقیر محمد فقیر پنجابی راجدھانی دا ایسا من موہنا بادشاہ سی جہنے ساری عمر پنجابی زبان تے پنجابی کلچر دی خاطر فقیری کیتی تے اوس فقیری نوں اپنے سر دا تاج بنا کے رکھیا ساڈی ماں بولی داما ن آدرکرن لئی ڈاکٹر فقیر نے اپنی سار حیاتی اندروں باہروں سجیوں کھبیوں ارداس بنا کے گزار دتی تے اپنا پرارتھنا ورگا سروپ سورج سجا کے ایس دنیا تو ں پردہ کر گئے۔ ڈاکٹر فقیر ہوراں ورگے لوگ یاد گیریاں ورگے سودے ہوندے نیں تے جدوں ایہہ سودے نہ رہن فیر ذہن نمانے بھکھے بھانے مرکھپ جاندے نیں۔ ڈاکٹر ہوراں پنجابی دی بڑی خدمت کیتی اے۔ اوہناں اردو زبان نوں جیوندیاںجاگدیاں رکھن لئی وی بڑی جا جالی اے۔ پنجابی زبان تے ادب نوں اردو دان طبقے نال روشناس کران لئی ڈاکٹر صاحب دے دو کم ہمیشہ یادگار رہن گے اک ہیر وارث شاہ دا اردو ترجمہ تے دوجا پنجابی زبان و ادب دی تاریخ۔ ایہ دوویں کتاباںہمیشہ اردو دے شوہ دریا وچ ٹھنڈے تے مٹحھے پانی دا اضاافہ کر دیاں رہن گیاں تے ایس دے نال ساڈی تہذیب تے ثقافت دی چنگی تے چوکھی آبیاری ہووے گی۔ ڈاکٹر وزیر آغا پنجابی بولی تے اوہدے ادب وچ ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر ہوریں انج جاپدے نیں جویں رڑے تے کوئی پہار ورگا بوڑھ دا رکھ کھلوتا ہووے جہدیان ٹھنڈیاں چھاواں ہتھ دوروں دوروں آون والے پنجابی دے لکھاریاں اپنے اپنے زمانے وچ چار گھڑیاں گزاریاں ہون تے جاندی وا ر ایس بوڑھ دی چھاں دیاں چھتریاں بنا کے اپنے اپنے نال لے گئے ہوں۔ میں تے جدوں وی ویکھیا اے مینوں پنجابی زبان تے ایہدے لکھاریاں دیاں پچھلیاں دوت نپیہڑیاں دے ہر لکھاری تے ڈاکٹر فقر محمد فقیر ہوراں دی چھاں چھتری وانگوں ای جاپی اے ایہہ کنی وڈی گل اے۔ گل خالی رباعی دی نہیں ڈاکٹر فقیر ہوراں پنجابی وی مہاری ای اپنے سجر ے ہتھاں وچ پھڑ لئی سی تے فیر پنجبی بولی تے اوہدے ادب دے قافلے نوں اوہناں واٹاں ول لے گئے سن جہڑیاں اج ویہندیاں ویہندیاں پکیاں سڑکاں بن چکیاں نیں۔ تے جنہاں اتے نویں نویں لکھاریاں دے کنے ای ٹولے خوشبو تے چانن ونڈ دے اگے ای اگے ٹردے جاندے نیں۔ میں ڈاکٹر فقیرمحمد فقی رنوں پنجابی ادب دی پچھلی صدی دا سب توں وڈا لکھاری تے سیوک سمجھناں۔ پروفیسر پری شان خٹک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے اپنی تمام تر زندگی جس محبت لگن جوش اور جذبے کے ساتھ پنجابی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کیے رکھی ہے اس پر بلا تخصیص سبھی علمی اورادبی نقاد متفق ہیں۔ میں انہیں ان معنوں میں ایک کثیر الجہتی شخصیت قرار دینے میں کوئی باک محسوس نہیںکرتا جن کے مطبق ہمارے قدیم زعما جنہوںنے تا ابد ناموری پائی۔ بیک وقت سائنسدان ریاضی دان حکیم ادیب فلسفی اور شاعر ہوا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہت سارے علوم و فنون کو اپنی ذہنی دسترس میں لے آتے ہیں۔ ڈاکٹر فقیرمحمد فقیر بظاہر ایک معرکتہ الآرا پنجابی شاعرکی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پنجابی شاعری پر ان کی قادر الکلامی کا یہ عالم تھا کہ وہ دقیق بحروں میں مشکل سے مشکل موضوعات پر فی البدیہہ شاعری کر دیا کرتے تھے۔ انہیں پنجابی زبان میں بیسویں صدی کے منفرد اور جدید محقق عالم نقاد شاعر صحافی اورمورخ کا اعزاز ملا بلا خوف و تردید حاصل ہے۔ پنجابی زبان کی ترویج وتترقی کے لیے انہوں نے جس قدر جنون اور جوش کے ساتھ تن تنہا خدمات انجام دین اور مرتے دم تک اپنے دامن میں تعصب کا شائبہ تک نہ ہونے دیا وہ انہی کا حصہ ہے۔ پنجابی زبان کے ساتھ اس قدر وابستگی کے باوجود بھی وہ متعصب پنجابی کی صورت میں نظرنہیں آتے۔ چونکہ پاکستان کی تعمیر و تحریک میں ان کا خون جگر شامل تھا۔ اس لیے پنجابی دانوں کو اردو دانوں سے شناسا کر نے کے لیے ان کی تگ و دو ہمیشہ برسر پیکار رہی۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی پنجابی زبان اوروں کی ماں بولی ہو گی مگر بابائے پنجابی کی تو وہ بیٹی ہوئی۔ بابل بیٹیوں کے سہاگ اور وقار کے لیے کیا کچھ نہیں کر گزرتے۔ بابائے پنجابی نے تو اپنے گھر کی اس راج دلاری کا سہاگ لٹتے اور وقار خاک میں ملتے دیکھا۔ وہ سینہ سپرہو گئے اور مرتے دم تک اپنے اس علمی اور ادبی گھرنے کی لاج بڑھانے کے لیے کوشش پر کوشش کرتے رہے۔ ان کی شخصیت کچے منڈیر پر ایک چراغ کی صور ت تھی۔ کسی موازنے کے بغیر ان کا رتبہ بابائے قوم سے ملتا جلتا ہے۔ انہوںنے تحریک پاکستان میں جس خلوص سے حصہ لیا اور پھر پنجابی کو ایک پاکستانی زبان کا درجہ دلانے کے لیے جو کچھ کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیرنے ان دنوں پنجابی کے لیے اپنے جذبوں خواہشوں اور کوششوں کا علم بلند کیا جب پنجابی کانام لینے والے چند ایک تھے۔ اب تو پنجابی زبان کے ہمنوائوں خیر خواہوں اور جانبازوں کی ایک فوج ظفر موج جنم لے چکی ہے۔ اس فوج کے سپہ سالار ہونے کا شرف کسی کا استحقاق ہے تو وہ صرف بابائے پنجابی ہیں۔ بالعموم ہمارے ہاں پنجابی زبان کی وکالت کامطلب ہے پاکستان دشمنی لیتے ہیں۔ ایسا تاثر ضرور دیتے ہیں مگر بابائے پنجابی نے اس سوچ کو سچ کے خلاف مانا اورپاکستان سے اپنی محبت اور اسلام سے اپنی وابستگی کواپنی ساری جدوجہد میں شریک سفر رکھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی سے محبت والا کوئی ایک آدمی بھی بابائے پنجابی کے خلا ف نہ تھا نہ ہے۔ یہ تو ان کے دل کی طاقت ہے جس نے سب کو اپنی حمایت کے دائرے میں رکھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کی تاریخ وفات 11ستمبر ہے جو بابائے قوم کی تاریخ وفات ہے۔ ان کا سال پیدائش 1974ء ہے 74کو الٹایا جائے تو 47بنتاہے جو قیام پاکستان کا سال ہے۔ ایسے اتفاقات یونہی وارد نہیںہوتے اس اتفاق کو حسن اتفاق کہیے اور حسن اتفاق سے ہماری زندگیوں میں بہت کمی ہے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے عمر بھر ایک لگن اپنے لہو میں سنبھالے رکھی اور پوری فطری استقامت اورسچی فراست والے استحکام کے ساتھ اپنی دھن میں لگے رہے۔ اس وقت پنجابی زبان کے لیے حمایت و عظمت کے جتنے نام نظر آتے ہیں ان میں سر فہرست تو ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ہی ہیں۔ منفر د اور سب سے اونچے رتبے پر فائز بھی وہی ہیں۔ یہ عمارت بلند ہو گی اور شاندار بھی ہو گی۔ خشت اول پر نام تو بابائے پنجابی کا ہے اور اس عمارت پر جھنڈے کا رنگ بھی فقیر صاحب کے دل کے رنگ سے ملتا جلتا ہو گا۔ ان ک کام ایک لیڈر کا سا تھا۔ لیڈر قوموں کو زندہ کرتے ہیں کچھ لیڈر قوموں کو اپنی زبان کا شرف لوٹاتے ہیں۔ وہ سب کا بابا بھی تھا بابا کے تخاطب میں جو پیار اور احترام ہے اور کسی لفظ میں نہیں۔ بڑے بڑے جگادری پنجابی زبان کے مجاہدین میں شامل ہوئے مگریہ خطاب کسی کو نصیب نہ تھا۔ ٭٭٭ منظوم خراج عقیدت ’’صنعت توشیع میں لکھی ہوئی یہ نظم دسمبر 1951ء کے ماہنامہ پنجابی میں چھپی اس کے ہر شعر کے پہلے مصرعے کے سب سے پہلے حرف ترتیب وار لکھا جائے تو ڈاکٹر فقیر محمد فقیر بن جاتا ہے اور دوسرے مصرعے کے پہلے لفظ کا حرف ترتیب وار لکھا جائے تو ایڈیٹر رسالہ پنجابی بن جاتا ہے‘‘۔ پیر فضل گجراتی ڈونگھے دشت سجن دے پینڈے یارا ساڈے جاگے اوس سمند طبع دا چھیڑی رکھیا کھلی واگے اوہ زمیاں نہ لگن جتھے غور فکر دیاں ہلاں یارا ساڈے چوہراں پایاں تے مل لئیاں ملاں کوئی نہ اولھے اوہدے کولوں صفت نویں پرانی ڈیرے ہر شاعر دے رہندی اوہدی شروع کہانی ٹک ٹک لکھے رباعیاں نعتاں نظماں غزلاں دوہڑے یم فرحت ول دھک لیاوے پور ماں دے روہڑے رواں زباناں اتے اوہدے مصرعے ہون دھگانے ٹر کے شاعر اوہنوں ویکھن آون سگھڑ سیانے فہم فراست اوہدی منن فہم فراست والے رات دنیں شوقین سخن دے بیٹھے رہن دوالے قلم اوہدی جس پاسے وگے چیر مراحل جاوے راہ پیڑے ہموار بنائے ہر پاہندی سکھ پاوے یاد اوہنوں ہر ویلے کردے دل اپنے پرچاون ساریاں یاران نوں اوہنوں مٹھیاں نچھاں آون رے نہ ٹھلیا چامل اوہدا چھاپے نت رسالے اک مرکز ول ٹور لیاندے سارے لکھنے والے میداناں وچ جھنڈے گڈے ڈھولن ڈھول وجائے لڈی حال دھمالاں پاندے نکل ہزاراں آئے حد مکا وکھائی اوہنے رکھی لاج وطن دی ہری نوٰں سر اوہنے کیتی سکی شاخ سخن دی مرلی اوس اجہی پھوکی بیلے اگاں لائیاں پیکے پیڈے نغمے اوہدے دیسیں دھماں پائیاں دار علوم اندرا وس چھیڑے پجابی قصے نرے ای حب وطن دے جذبے آیئے اوہدے حصے فیکلٹی نے دنیائی اوڑک اوہ جہڑا حق منگے جیونکر ہوراں باقی صوبیاں رنگ اپنے نیں رنگے قلعے دلیلاں اوہدیاں والے کوئی تروڑ نہ سکے آمنا سامنا آکھن بے گانے تے سکے یمنوںبھریاں اوہدے اتے پایاں کسے نگاہواں بلھا وارث ہاشم حافظ اوہدیں پشت پناہواں رہسی مستی گھٹی ہمیشہ فضل کلام اوہدے دی یاد رہوے گی رنداں تائیں گردش جام اوہدے دی ٭٭٭ احسان دانش اے فقیر خوش نوا اے گوجرانوالہ کے چاند چاندنی ہیں تیری سب اس دور کے جگنو ہیں ماند تھا تیری مکررسا کے سامنے حسن بیان ناز کرتی تھی تیری ہستی پہ پنجابی زباں اس میں کیا شک ہے کہ اپنے فن کا تو استاد تھا مستند تھا سربسر جو بھی ترا ارشاد تھا تجھ پہ لائے نور کی بارش تیرے مرقد کی رات رحمتیں نازل کرے تجھ پر خدائے کائنات ٭٭٭ استاد دامن اوہ فقیر سی اپنے رنگ اندر اچی اپنی صدا لگا گیا جے کر پڑھو رباعیاں تے پتہ لگدا دوجا عمر خیال اے گیا اوہدے شعر شگوفے گلاب دے نیں عشق مشک نوں کھول وکھا گیا آئوندی رہوے گی مہک پیاریاں نوں ایسے سخن والے باغ لا گیا اوہدے گلمے مو آتے پئے لائوندے نیں فرضی شاعراں نوں اگ لا گیا چلد رہوے گا شاعری دے ملک اندر ایسا اپنا سکہ چلا گیا ٭٭٭ ابو الطاہر فدا حسین فدا (قطعہ تاریخ رحلت) آج ہے جنت میں آسودہ محمدؐ کا فقیر ہو گئی اس پر ہے بے شک رحمت خیرالانامؐ حکمت علم و ادب میں تھا وہ اک فرد وحید شاعر پنجاب خیام زماں عالی مقام وہ کہ پنجابی زباں کا تاجور جس کو کہیں وارث دوراں حریم فکر کابرحق امام ہے دعا حق سے مری اس کے لیے ہر دم یہی ہو نزول رحمت باری لحد پہ صادق و شام اس کی رحلت پر فدا ہاتف پکارا پے بہ پے لکھ فقیر با رضا و وافقیر خوش کلام ٭٭٭ ڈاکٹر احمد حسن قریشی قلعداری (قطعہ تاریخ رحلت) ٹر گیا چھڈ سخن دی نگری پیر امام سخن دا اج فقیر وی ٹرپیا چھڈ کے عالی بام سخن دا پیر فقیر سخن دے والی وچ پنجاب زمینے پیراں اتے فقیراں کیتا اچا نام سخن دا یار فقیر فقیری اندر دولت شعر سخن دا پنجابی وچ اسدے پاروں استحکام سخن دا علم ادب دی ہر جوہ اندر جاں اس جھاتی پائی کر تنقیداں نکتے دسے دے پیغام سخن دا احمد درد دلے دے پاروں ایہہ تاریخ بنائی گیا فقیر آہ واہے مکیا کیف دوام سخن دا ٭٭٭ بشیر حسین ناظم وہ سمن زار محبت حسن کا گلزار تھا پیکر دانش جہان علم کامعمار تھا انفس وآفاق پر اس کی نظر تھی مرتکز اس نے جو کچھ کہا لکھا وہی شہکار تھا حلقہ یاراں میںپھولوں کی طرح خوشبو فشاں رزم کذب و صدق میں اک آہنی تلوار تھا حب دیں جب نبیؐ اس کے گلے کا ہار تھے وہ دل و جاں سے غلام احمد مختار تھا حسن پنجابی نکھارا جس نے حسن صدق سے اس فقیر مرد حق سے پیار ہے ارو پیار تھا وہ تھا ناظم تیس شہر لیلیٰ حسن عمل اس کی رگ رگ میں رواں اک چشمہ ایثار تھا ٭٭٭ انور مسعود تیرے وانگوں جیوے تے کوئی اک دیہاڑ نہ کڈھے کہڑااے جہڑا اپنے غم دی کدے ہواڑ نہ کڈھے کردی رہی جواناں ورگے ادم تیری پیری تیرے وانگ نبھائی کنہے غیرت نال فقیری تیری ہر اک گل سی بابا پند نصیحت والی تیرے اندر دوویں ڈٹھے عبدالحق تے حالی میخانے تھرتھلی پائی شعر تیرے اصلاحی پیراں پرنے ساقی ڈٹھا سر دے بھار صراحی دامن دے نال اک مک ہوندی انور جسراں چولی ایسے طرح فقیر محمد تے پنجابی بولی ٭٭٭ تنویر بخاری گورو‘ گنیں‘ گن ونتا‘ گیانی‘ صوفی‘ رند ‘ فقیر آگو آہری شعر ادب دا پنجابی دا پیر ہیجل سچل پیار سنہیڑو سوجھی سوچن ہار لیکن ہارا لیک گیا اے ان مٹویں تحریر علم ہنر دا سیوک بن کے بنیاں اوہ پردھان ایویں اوہنوں بابا بابا کہندے نیں تنویر ٭٭٭ فقیر بااقبال: اقبال فیروز (فیصل آباد) یاد ایامے کہ با او گفتگو ہاداشتم اے خوشا حرفے کہ گوئد آشنا با آشنا چالیس برس ہو گئے یادوں کے دل کی دنیا میں بسائے بیٹھا ہوں۔ وہ یادیں جن کی دلکشی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یادشاید چیز ہی ایسی ہے کہ جوں جوں ماضی کے دھندلکوں میں ڈوبتی جاتی ہے ا سکا سہانا پن نکھرتا چلا جاتا ہ۔ تاہم عمر کے ا س حصے پر اپنی اس کوتاہی کا احساس بھی دل کی خلش بنتا جارہاتھا کہ انتی خوبصورت یادوں کو محض اپنی تن آسانی کی بنا پر الفاظ کے پیکر مین نہ ڈھال سکا اور اتنے خوبصورت سیرت وجود جنہیں قریب سے دیکھنے سننے اور سمجھنے کا شرف قدرت نے زندگی کے مختصر سفرمیں عطا کیا تھا اپنے چہرہ زیبا کی اصل جھلک فقط میری کم کوشی کے سبب دنیا کو نہ دکھا سکے۔ بھلا ہو عزیز ی جنید اکرم کا جنہوںنے اپنی آوازکی کڑک کو بمشک دباکے ارو اپنے لہجے کی گھن گرج کو ادب کے پردے میں چھپا کر مجھ سے میرے محسن ڈاکٹرفقیر محمد فقیر سے متعلق یادیں قلمبند کرنے کی فرمائش کی۔ اس فرمائش نما فرمان نے مجھے چالیس برس پہلے کے لاہور کی ان محفلوں میںپہنچا دیا جن میں ڈاکٹر فقیر مرحوم اوران حلقہ احباب… پروفیسر علم الدین سالک مولانا عبدالرحمن طارق‘ عبدالمجید بھٹی خضر تمیمی‘ آغا اشر ف ارشاد احمد پنجابی اور حفیظ قریشی کالج روڈ پر پنجابی ادبی اکیڈ می کے چھوٹے سے دفتر میں جلوہ فرما ہوتے تھے اور ڈاکتر محمد باقر پرنسپل اورینٹلکالج کے برادر نسبتی خواجہ حمید الدین ان محفلوں کے کار پرداز اور بقول ڈاکٹر فقری پردھان ہوتے ۔ مجھے ان دنوں یونیورسٹی اورئنٹل کالج میں نئی نئی فارسی کی سینئر لیکچر شپ ملی تھی اور اس لیکچر شپ کے حصول کے لیے میری کسی قابلیت یا اہلیت کا کوئی حصہ نہ تھا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ ملازمت ایک ابتدائیہ تھا۔ ڈاکٹر فقیرمرحوم کی نوازشات پیہم کا جوآخری لمحے تک ان کی طرف سے ہوتی رہیں۔ ہفت روزہ چٹان اور روزنامہ کوہستان میں ڈیڑھ دو سو روپے ماہوار کی سب ایڈیٹری کرنے کے بعد میں یکلخت میری تنخواہ پونے چار سو روپے ہو گئی تو ظاہر ہے کہ میں اپنی جگہ بہت مطمن اور مسرور تھا مگر ڈاکٹر فقری مرحوم نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ڈاکٹر باقر سے کہ کر مجھے ڈیڑھ سوروپے ماہوار معاوضہ پر پنجابی ادبی اکیڈمی کا پبلیکیشن آفیسر مقرر کرا دیا۔ پھر چند ہی روز کے بعداتفاقاً ڈاکٹر باقر مرحوم کو پتہ چلا کہ میں گورمکھی اورشاستری سے حرف شناسی کی حدتک واقف ہوں تو انہوںنے اکیڈمی ہ کی ایک شاخ پنجابی ڈکشنری بورڈ میں سیکرٹری میا ں مولابخش خضر تمیمی ایم اے ایم او ایل ایل بی منشی فاضل مولوی فاضل کا معاون مقرر کر کے مزید ایک سو روپے بطور معاضہ بڑھا دیے اور پٹیالہ یونیورسٹی کی چھپی ہوئی گورمکھی کی ڈکشنری میرے ہاتھ میں تھماکر حکم دیا کہ اسے اردو رسم الخط میں منتقل کرتے جائو۔ اب میری تنخواہ سو ا چھ سو روپے ماہوار ہو گئی اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اتنے پیسے خرچ کیسے کروں؟ دوسری طرف جب میںآہستہ آہستہ ڈاکٹر صاحب کے قریب ہوا تو پتہ چلا کہ اکیڈمی سے اس شدید وابستگی شب و روز کی سردردی اور ایسی پابندیو باقاعدگی سے ترجمہ و تالیف تنقید و تحقیق کے بکھیڑوں سے گزرنے کے بعد انہیں مجموعی طور پر چار سو روپے ماہوار سے زیادہ معاوضہ نہیںملتا۔ لیکن ان کا خمیر صبر کی مٹی سے اٹھا اور ان کا ضمیر شکر کے جوہر سے بنا تھا میں نے دوستوں کے درمیان انہیں کبھی بھی افسرد ہ نہیں پایا ہمشیہ مسکراتے ہنستے چٹکلے سناتے اور گزرتے واقعات دہراتے۔ بالخصوص حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی خدمت میں گزارے ہوئے لمحات کا کوئی ذکر جب کی زبان پر آتا تو ان کی چہرہ تمتما اٹھتا۔ علامہ مرحوم سے ذاتی تعلق تو انہیں ابتائے شباب ہی سے ہو گیاتھا۔ جب وہ اور مولانا علم الدین سالک انتہائی گرمجوشی سے کشمیری انجمن کے جلسوں کے اہتمام میں محمد دین فوق کا ہاتھ بٹاتے ۔ مولانا سالک کے اسی انہماک کو دیکھ کر علامہ مرحوم انہیںاہل خطہ سمجھتے تھے مگر جب ایک دن مولانانے انہیں بتایا کہ وہ کشمیری نہیںارائیں ہیں تو علامہ نے ہنس کر کہا موالنا آج سے آپ آنریری کشمیری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی حضرت علامہ کے ہاں آمد و رفت ان کی میکلوڈ روڈ کی کوٹھی کے قیام کے دنوں میں کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی۔ جب علامہ کی طبیعت پر گوشہ نشینی اور خلوت گزینی کا غلبہ ہو رہا تھا ان دنوں ڈاکٹر تاثیر صوفی تبسم اور مہر سالک بکثرت وہاں جاتے تھے۔ اور کوئی نہ کوئی شگوفہ چھوڑ کرجواباً علامہ مرحوم کی شگفتہ بیانیوں اور نکتہ طرازیوں کے لطف اٹھاتے تھے اور ڈاکٹر فقیر کی حیثیت ایک مودت مرید کی تھی۔ جب کبھی موقع ملتا اپنا پنجابی کلام پیش کرتے۔ جس کے رگ و پے میں فکر اقبال کا خون گردش کر رہا ہوتا۔ علامہ مرحوم روزمرہ کی گفتگو اگرچہ ٹھیٹھ پنجابی میں کرتے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کی اس درخواست کو ہمیشہ مسکرا کر ٹال دیتے کہ اپنے دست کرم سے پنجابی ادب کے کشکول میں بھی کچھ ڈال دیں۔ مولانا عبدالرحمن طارق پنجابی اکیڈمی کے دفتر میں آتے تو علامہ اقبال مرحوم سے متعلق ڈاکتر صاحب کی یادوں کے دریچے کھل جاتے اورمعلومات کا تانتا بندھ جاتا۔ مولانا طارق کا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پنجابی کلام میں فکر اقبال کو ہی پنجابی کے خوبصورت ملبوس میں پیش کیا ہے۔ اور کہتے کہ ڈاکٹر صاحب دعویٰ تو عمر خیام کے تتبع کا کرتے ہیں مگر ان کے دل و دماغ اور فکر و فن پر اقبال ہی چھایا ہوا ہے۔ طارق صاحب کی یہ رائے سن کر میں جی میں کہتا ہوں کہ اس سے بڑی خوش نصیبی اور بلند بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی صاحب دل کے دل میں اقبال بستا اور کسی صاحب فکر کی فکر میں اقبال چھایا ہوا۔ چنانچہ جذباتی سا ہو کر ڈاکٹر صاحب سے کہتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے عصر حاضر کے سب سے بڑے مسلمان کو اتنے قریب سے دیکھا اورپرکھا ہے۔ اس لحاظ سے’’ آپ فقیر با اقبال ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کے بعد ان کے بارے میں لکھی گئی تحریروں سے تاثر ملتا ہے کہ ان کا جسم کسرتی تھا مگر جب میں نے انہیںدیکھا تو وہ سبک اندام اور تیز خرام تھے۔ دور سے آتے تو ایسے لگتا جیسے ہوا میں تیرتے آ رہے ہوں۔ لوگوںنے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خوش خوراک اور خوش لباس تھے۔ مگر اکیڈمی کی اس ہم نشینی کے دوران میں جب میں نے ان ی خوش خوری کا کوئی مظاہرہ نہ دیکھا حالانکہ خالص گوجرانوالہ کی پیدائش ہونے کے ناطے انہیں خوش خور سے بڑح کر خوش بسیار خور ہونا چاہیے تھا۔ مگر ان کی خوراک تو معمول سے بھی مختصر اور سادہ تھی۔ کھانے میں کبھی مین میکھ نہ نکالتے تھے جو دال بھات سامنے رکھا جاتا چند لقمے لے کر ہاتھ کھینچ لیتے۔ البتہ چائے اور سگریٹ شو ق سے پیتے تھے۔ چائے کی چسکی اور اسی کیفی اورمستی میں وہ وارث شاہ کی ہیر کا کوئی بند جس می بالعموم ڈرامہ یا ڈائیلاگ کا عنصر اور اس ڈائیلاگ میں بھی طنز پھبتی یا ضلع جگت کا رنگ غالب ہوتا اپنے حافظے کی پرتیں الٹ کر سنانے لگتے ۔ جن دنوں اکیڈمی کی رونق عروج پر تھی ان دنوں ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ پر بلھے شاہ چھایا ہوا تھا۔ بلھے شاہ کی بے ساختگی بے باکی اور راست گوئی کے قصیدے پڑھتے ہوئے کہتے… اوہ جی! کوئی شاعر سی سبحان اللہ جہدی زبان وچوں نکیا ہویا ایک اک مصرعہ ضرب المثل بن گیا ہے۔ جہدے کلام نے چٹیاں تے سفید داڑھیاں والے بابیاںنوں وی چا دتا تے وڈے وڈے جبیاں تے عمامیاں والے ثقہ عالماں نوں وی حال پوا دتے… بلھے شاہ کے کلام سے ان کے دل کے تار اتنی شدت سے کیوں بجنے لگتے ہیں؟ اس راز کی مجھے اس وقت سمجھ ا ٓئی جب پتہ چلا کہ وہ خود قادری سلسلے میں بیعت ہیں۔ ان کے مرشد میاں کریم اللہ اور دادا مرشد میاں عبداللہ قادری شطاری سلسلے کے بزرگ تھے اور ان کے جو ملفوظات ڈاکٹر فقیر کی زبانی مجھ تک پہنچے ہیں انہیں محطاط لفظوں میں شطحیات قسم کی کوئی چیز ہی کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زبان پر اکثر یہ شعر رہتے: کار ساز ما بفکر کارما فکر مادر کارما آزاد ما جنہوں تقویٰ رب دا اوہنوں رزق ہمیش پلے خرچ نہیں بنھدے پنچھی تے درویش مگر جس قوت نے ڈاکٹر صاحب کو اتنی بے سروسامان میں بھی سراپا اطمینان اوراس فقر و فاقہ میں مسرور و شادمان رکھا تھا۔ اس قوت کا راز بھی اس وقت فاش ہوا‘ جب ایک دن ڈاکٹر صاحب کے ایک ہم دم و دمساز حفیظ قریشی نے پر سوز جگر دوز لے میں فارسی کیایک غزل چھیڑ دی۔ انہی دنوں کشمیر میں موئے مبارک کی گمشدگی کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ جس نے صدیوں سے خوابیدہ کشمیری قوم کو یکلخت بیدار کر کے اس کے تن مردہ می ہمت و شجاعت کی نئی روح پھونک دی تھی اور ساری دنیا حیران تھی کہ وہ قوم جسکی حمیت کو حوادث کا کوئی کچوکا اور ذلت کا کوئی طمانچہ جگا نہ سکا ایک بال کی گمشدگی سے غضبناک ہو کر شیر کی طرح بھارتی سامراج پر جھپٹ پڑی۔ اسی پس منظر میں حفیظ قریشی اپنی غزل سرائی کے دوران جب اس شعر پر پہنچے: تو بہائے اوچہ دانی زاہدا؟ ہر دو عالم قیمت یک موئے دوست تو ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور بلند آواز سے صلی اللہ علیہ وسلم… صلی اللہ علیہ وسلم کا ورد شروع کر دیا۔ یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر اکیڈمی کی آمدورفت رکھنے والے احباب میں سب سے زیادہ مجھے جس شخص نے متاثر کیا وہ ایک نوجوان تھا دھیما دھیما اور دھان پان ۔ گم سم اور بے زبان۔ بظاہر شرمیلا اور سربریز مگر جب کھلا تو معلوم ہو اکہ جذب و شوق سے معمور پنجابی زبان کا عاشق صادق ہے۔ افسوس کہ قدرت کے دست ستم نے بہت جلد ہم سے جدا کر دیا ورنہ وہ بابائے پنجابی کا صحیح جانشین ہوتا۔ وہ تھا ارشاد احمد پنجابی۔ اس کی باتیں سن کر حیرتی ہوئی کہ اتنی چھوٹی عمر میں پنجابی زبان و ثقافت کے پوشیدہ گم شدہ خزانے کو کس طرح تلاش کر کے اپنے دماغ کے نہاں خانے میںمحفوظ کر لیا۔ ا س خزانے کا کچھ حصہ اس نے زیور طبع سے آراستہ کر کے مجھ جیسے قدردانوں تک پہنچا دیا مگر ابھی بہت کچھ باقی تھا اس کے کرنے کے لیے جو اس جگر کا وی اور دلسوزی سے شاید اور کوئی نہ کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کی دلی خواہش تھی کہ پنجابی ادب سے مجھے بھی ارشاد پنجابی جیسی رغبت پیدا ہو مگر میری طبیعت ادھر آتی ہی نیہں تھی۔ اکیڈمی کی الماریاں پنجابی شہ پاروں سے بھری تھیں مگر میں نے انہیںکھو کر بھی نہ دیکھا۔ کبھی کبھی اس کوتاہی کا احساس ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کی خوشنودی کے لیے پنجابی سے اپنی دلچسپی کا مصنوعی اظہار کرنے لگتا۔ جب کبھی ڈاکٹر صاحب سے کہا ڈاکٹر صاحب مجھے آپ کی نعت کایہ شعربہت پسند ہے: ہے میریاں حمداں نعتاں توں بہت اچا مقام محمدؐ دا میں اپنے شعر سجاناں اں وچ لکھ لکھ نام محمدؐ دا تو ڈاکٹر صاحب بجائے داد وصول کرنے کے فوراً میری اصلاح کرتے ہوئے کہتے نہیں چناں ایہہ شعر انج اے: ہے میریاں حمداں نعتاں توں بہت اتا نہہ مقام محمدؐ دا میں اپنے شعر سجاناں واں وچ لکھ لکھ نام محمدؐ دا بالآخر ایک مرتبہ میں نے حوصلہ کر کے پوچھ ہی لیا: ’’ڈاکٹرصاحب اچا اور اتانیہ میں کیا فرق ہے؟ تو کہنے لگے کہ اچے دا مطلب چمٹا وی ہوندا اے تو موچنے نوں وی اچا کہندے نیں۔ ایس لئی نعت وچ اچے دا لفظ ورتنا سرکار صلی اللہ علیہ وسلم دی بے ادبی تے گستاخی اے۔ ایس تو ودھ ہو ر وی کئی فرق نہیںجنہاں دے سمجھن لئی تینوں چاہیدا اے کہ پنجابی زبان تے شاعری ایسے آہر نال پڑھیں جویں اردو تے فارسی پڑھنا ایں‘‘۔ غرضیکہ اتنی سی بات میں بھی ڈاکٹر صاحؓ نے اپنے مشن کی تبلیغ کا بہانہ تلاش کر لیا۔ وہ مشن جوان کی زندگی تھا یا جس کی تکمیل کے لیے وہ پیدا کیے گئے تھے۔ پنجابی زبان و ادب کی طرف ہر ملنے والے کو راغب کرنا اس ادب کی وسعت و گہرائی لذت و شیرینی اور بے تکلفی و سچائی کے جابجا چرچے کرنا اور صبح و شام اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے پنجابی ہی کے گن گانا ان کا وظیفہ زندگی تھا۔ پنجابی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا پنجابی ہی ان کا طرہ امتیاز اور پنجابی ہ ان کاسرمایہ نا ز تھی ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اہل جنون اور ارباب عشق کیا ہوتے ہیں؟ وہ اہل جنوں جو فقر و فاقہ میں ہر کر بے سروسامانی میں اپنا سفر جاری رکھتے اور بالآخر لیلائے مقصود کو پا لیتے ہیں وہ ارباب عشق جو پہاڑوں کے دل چیر کر جوئے مراد نکال لاتے ہیں اور آخر الامر جریدہ عالم پر اپنا نقش دوام ثبت کر دیتے ہیں۔ وہ کوئی موقع پنجابی سے اپنی محبت کے اظاہر اوراس کی شاعری کی گہرائی و گیرائی کے تذکرے کا نہ چھوڑتے اور جب میں انہیں خرشچ کرنے کے لیے کہتا کہ ڈاکٹر صاحب پنجابی بھی کوئی زبان ہے جس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں لکھے موسیٰ تے پڑھے خدا۔ بلکہ موسیٰ بھی جسے لکھنے کے بعد پرکھ نہیں سکتا تو ڈٓکٹر صاحب بپھر کر کہتے: ’’ایہہ کسے انھے درباری (رودکی) دی شروع کیتی ہوئی زبان نہیں۔ ایہہ اوہ زبان اے جہدی شاعری دی نینہہ ولیاں دے ولی قطباں دے قطب تے غوثاں دے غوث بابا فریدؒ نے رکھی تے جہدا ماڑے توں ماڑا شاعر وی فقر تے درویشی دیاںساریاں رمزاں تو ں واقف ہوندا اے سارے اسلامی ادب دی جند جان تصوف اے تے تصوف دی جنی اچی تے سچی شاعری پنجابی زبان وچ اے اینی دنیا وچ کسی بولی وچ نہیں۔ اک تہاڈے علاقے دا علی حیدر ہی نہیںمان کیہاتے اوہنوں ملاتی جان دا اے پر میری پرچول اے کہ اوہ بارداوسنیک سی۔ کویں جے اوہدا لہجہ نرول ملتانی لہجہ نہیں بلکہ بار دا لہجہ اے۔ ایہہ وکھری گل اے پئی ساریاں باراں اوس ویلے صوبہ ملتان دا ای حصہ سن‘‘۔ آپ کا مطلب ہے علی حیدر جانگلی شاعر ہے۔ بلا سوچے سمجھے میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے۔ استغفراللہ ڈاکٹر صاحب کبیدہ خاطر ہو کر کہنے لگے… ’’پتر! پنجاب دے سپراں نوں جانگلی نہیں خہنا چاہیدا۔ انگریز نے احمد خان کھرل شہید دی بغاوت دا بدلہ لین واسطے ایس علاقے دے لوکاں نوں جانگلی کہہ کے بے عزت کرن دی کوشش کیتی سی تے دوجی کوشش انگریز نے ایہہ کیتی پئی جدوں ایہناںباراں وچ لائل پور منٹگمری تے سرگودھے جئے نویں شہر آباد کیتے تے اپنی مشہور Devide Ruleدی پالیسی دے تحت نویں آباد کاراں دے مقابلے تے پرانے وسنیکاں نوں جانگلی کہہ کے دوہاں وچ نفاق پا دتا راجپوتاں توں بعد ہندوستان دے کسے علاقے نے اگر اپنیاں نسلاں نوں محفوظ رکھیا تے اوہ صرف پنجاب دیاں باراںنیں۔ جتھوں دے لوک بڑے انکھاں والے لجاں والے سوجھوان تے گویڑ وچ بے مثل نیں۔ ایہہ ساندل بار بنجی بار تے نیلی بار دھرتی نے ایڈے ایڈے وڈے جنے پیدا کیتے نیں کہ جہدا انت حساب نہیں۔ تینوں شاید نہ پتہ ہووے کہ سلطان ٹیپو شہیدؒ دے وڈے وڈیرے ایہناںباراں وچ ای جنوبی ہندوستان گئے سن تے قائد اعظمؒ دے بزرگاں وی منٹگمری توں ای کاٹھیا وار رول ہجرت کیتی سی‘‘۔ مگر ڈاکٹر صاحب محمد دین فوق کی تحقیق تو یہ ہے کہ حیدر علی کے آبائو اجداد غالباً کشمیر سے ہجرت کر کے میسور گئے تھے۔ ’’نہیں چناں فوق وچارے نوں لفظ ناٹک تو بھلیکا لگا اے۔ کیوں جے نائک کشمیری برہنماںدی اک گوت اے۔ حیدر علی دی ذات نائک نہیں عہدہ نائک سی۔ جہڑا میسوری فوج و چ اوس ویلے کیپٹن دے برابر ہوندا س۔ جے توں حیدر علی دی تصویر ویکھی ہووے تو تینوں اندازہ ہو جاوے تگا کہ اوہدے سر تے بنھی ہوئی پگڑی ساڈے ساندل بار دے چوہدریاں دی پگل نال کنی رلدی اے۔ میں تے پنجاب دا کونہ کونہ چھانیا اے ہن پگ ویکھ کے پہچان لینا واں ئی اے بند اپنجاب دے کہڑے ضلعے دا اے‘‘۔ پھر ڈاکٹر صاحبررہتک کرنال سے لے کر پوٹھوہار تک اور گورداسپور سے لے کر ڈیرہ غازی خان تک پنجاب کے ہر علاقے کے لوگوں کا پگڑی باندھنے شملہ باندھنے اور سرہ نکالنے کا اندازہ اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ سمجھاتے ۔ پھر اس میں بھی امراء روسا (چودھریوں او رسرداروں) اور غربا عوام ہماتڑوں مسکینوں کے پگڑی باندھنے کا فرق واضح کرتے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں میں واقع پنجاب کے کونے کونے کی خاک چھانی تھی اس لیے انہیں اس خاک کے ذرے ذرے سے پیار تھا۔ جوانی میں انہیں پنجاب کی بولیوں ٹھولیوں اور لوگ گیتوں کی تلا ش اور تجسس نے سرگرداں رکھا۔ اسی سرگردانی کے دوران میں انہیں پنجاب کے پٹری واسوں اور خانہ بدوشوں کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پٹری واسں کے خلاف بھی وہ کوئی بات سننا گوارہ نہیں کرتیتھے۔ ان کا تھیسس Thesisیہ تھا کہ یہی لوگ پنجاب کے اصل مالک اور آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل ہڑپہ اور موہنجوڈرو جیسے منظم اور مربوط معاشروںکے معمار تھے۔ جنہوںںے آریائوں کی عسکری بالاد ستی کو قبول نہ کیا اور شہری زندگی کو مکمل طور پر تیاگ کر خانہ بدوشی اختیار کر لی۔ ان کا یہ رویہ ذات پات کے بندھنوں میں بندھی ہوئی آریائی تہذیب کیخلاف ایک ایسی بغاوت ہے جو آج تک جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب یورپ میں ہسپانیہ تک پھیلے ہوئے جپسی خانہ بدوشوں کو انہیںپنجاب سے ہجرت کر کیجانے والے پٹری واسوں کی اولاد قرار دیتے تھے۔ اور چونکہ پٹری واسوں کے بارے میں ان کی تحقیق زندگی بھر کے مشاہدے اور مطالعے پر مبنی تھی ا س لیے اس موضوع پر بھی وہ لسانیات اور علم قیافہ کی روشنی میں ایسے ایسے قصے بیان کرتے اور یورپ کے جپسیوں کی زبان عادات خصائل قد کاٹھ ناک نقشہ شکل شباہت احرکات و سکنات کی پنجاب کے پٹری واسوں سے مشابہت کے ایسے ایسے ٹھوس ثبوت پیش کرتے جس کی تردید ناممکن ہوتی تھی۔ پنجاب کے پٹری واسوں بلکہ دنیا بھر کے خانہ بدوش قبائل کے بارے میں مختلف النوع تحقیقات بعد میں بارہا نظر سے گزریں مگر ڈاکٹر صاحب کے بیان میں جو لذت تھی وہ کسی تحریر کو پڑھ کر حاصل نہ ہو سکی۔ شاید اس لیے کہ ان کے ذاتی تجربے اور عینی مشاہدے نے ان کے بیان میں تاثیر پیدا کر دی تھی پھر ڈاکٹر صاحب کے کسی بان پر مجال تردید کس مائی کے لال کو ہو سکتی ہے کیونہ وہ اپنے موضوع پر واحد اتھارٹی اپنے میدان کے واحد شہسوار اور اپنے دریا کے تنہا شناور تھے۔ پنجاب اور ان کی زبا ن ادب شاعری تہذیب اور ثقافت کے ایک ایک پہلو اور ایک ایک رخ پر جس قدر عمیق اوروسیع مطالعہ ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا پھر س مطالعہ کو عشق کی سان پر دچڑھا کر جس قدر صقل کر دیا تھا ا س کی تیزی و براقی کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ میرے سامنے کئی ایسے حضرات جن کے علم و فضل کا بڑا چرچا اورشعر و ادب کی دنیا میں جن کے نام کا سکہ چلتا تھا پنجابی زبان و ادب کے معاملہ میں انہیں کوئی پیچیدہ یا متنازعہ مسئلہ درپیش ہوتا تو ڈاکٹر صاحب ہی کی طرف رجوع کرتے۔ آج ذرائع ابلاغ کی ثرت کتب و رسائل کی آسان دستیابی اور دیگر وسائل علم کی فراوانی میں ہم ان مشکلات کا اندازہ نہیں لگا سکتے جو آج سے چالیس برس پہلے پنجابی زبان و ادب کے بارے میں تحقیقی کام کرنے والوں کے راستہ می حائل تھیں حات یہ تھی کہ پنجابی زبان کی کوئی ڈکشنری اردورسم الخط میں موجود نہت ھی دوسری طرف ڈاکتر صاحب کی خواہش تھی کہ ٹھیٹھ پنجابی الفاظ جو فارسی و عربی کے غلبہ کے تحت قریباً متروک ہو چکے ہیں از سرنو متعارف کر ا کے یہ صرف پنجابی شاعری بلکہ رز مرہ گفتگو میں بھی ان کا چلن عام کیا جائے۔ اس خواہش کو انہوںنے ایک تحریک کی شکل دے دی تھی اسی سلسلے کا ایک واقعہ میرے ذہن پر غالباً ا س بنا پر نقش ہو کر رہ گیا ہے کہ اس قسم کا منظر میںنے زندگی میں پھر کبھی نہ دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک شاگر د عزیز نے گجرات میںاپنے ولیمہ پر مدعہ کر کے انہیں حسب دلخواہ احباب کو بھی ساتھ لانے کی درخواست کی۔ گجرات اور اس کی حس پرور سر زمین میں سے ڈاکٹر صاحب کو شدید دلبستگی تھی۔ پھر پیر فضل شاہ گجراتی وار شریف کنجاہی کی کشش اس پر د وآتشہ…چنانچہ ڈاکٹر صاحب اپنے ایک خدمت گزار شاگرد اسیر سو ہلوی کے علاوہ خضر تمیمی مرحوم اور مجھے بھی ہمراہ لے گء ۔اس تقریب مں میں نے پہلی مرتبہ پیر فضل اور شریف کنجاہی جیسے نیک طینت بزرگوں کو قریب سے دیکھا اسیر سو ہلوی نے دوران سفر مجھے سرگوشی کے انداز میں بتا دیا تھا کہ ایک طویل رنجش کے بعد ڈاکٹر صاحؓ کی حال میں ہی پیر صاحب سے صلح ہوئی ہے اور دل ہی دل میں متعجب تھا کہ ڈاکٹر صاحب ک کسی سے رنجش بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال جب دونوں بزرگ ایک دوسرے سے ملے تو اس محبت کے ساتھ کہ من شد تو من شدی والانقشہ کھنچ گیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے شامیانے سے باہر گھیرا بنا کر کرسیوں پر بیٹھے دس بارہ حضرات سے جن میں پنجابی کے آسمان ادب کے دو دونوں ستارے بھی موجو د تھے مخاطب ہو کر کہا کہ چلو بھئی ذرا پرچول ہوجائے۔ می جو اس وقت تک مشاعرے کی امید لگائے بیٹھا تھا حیران ہو گیا کہ ی پرچول کیا بلا ہے؟ اس کے بعد جو منظر دیکھا وہ مشاعرے سے کہیں زیادہ دلچسپ تھا۔ کہ ڈٓکٹر صاحب پنجابی کا ایک لفظ منہ سے نکلاتے تو زبان و بیان کیان دس بارہ کھلاڑیوں کیہر ٹیم کا ہر رکن اس لفظ کا صرف ایک معنی بتا کر لفظ کوآگے بڑھا دیتا کہ اگلے رکن کو دوسرے معنی بتانے کا موقع مل سکے۔ حتیٰ کہ وہ لفظ واپس ڈاکٹر صاحؓ کے پاس اس طرح پہنچ جاتا جیسے باسکٹ بال کی گیم میں بال ہاتھوں ہاتھ ہوتی وہوئی واپس باسکٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر صاحب کی زبان سے نکلا وٹ تو ساتھ بیٹے شخص نے کہا پیچ ڈاکٹر صاحب نے دوسرے کی طرف دیکھا تو اس نے برجستہ کہا غصہ ڈاکٹر صاحب نے بلے کہہ کر تیسرے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا ’’حبس‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اشکے کہہ کر چوتھے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا ’’پیٹ دا مروڑ‘‘ اسی طرح جب اس ایک لفظ ’’وٹ‘‘ کے گیارہ بارہ مختلف معنی بتائے ج چکے تو حرف آخر ڈاکٹر صاحب کی ہی زبان سے نکلا کہ اک معنی تسی سارے گھل گئے او وڈے وٹے نوں وی وٹ کہندے نیں۔ اسی طرح پرح پرچول کا دوسرا لفط گھول بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے جس کے پانچ چھی معنی کشتی دنگل ‘ کھلی ہوئی چیز‘ محلول‘ میل جول‘ لڑائی وغیرہ یکے بعد دیگرے ہر رکن کی زبان سے بیان ہو چکے تو ایک صاحب کہنے لگے سستی غفلت ڈٓکتر صاحؓ کی زبان سیف نشان نے اس کی بات وہیں پر کاٹ دی اوہ گھول نہیں گھول اے گھ دی زبر نال۔ پرچول کا یہ دلچسپ سلسلہ اس کے بعدغالباً اس لیے جاری نہ رہ سکا کہ اسی زمانے میں پنجابی کی لغات مرتب ہونا شروع ہو گئیںَ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ اردو رسم الخط میں اس وقت تک پنجابی کی کوئی لغت موجود نہ تھی۔ پیر فضل شاہ گجراتی سے ڈاکٹر صاحب کی رنجش کی بات تو میری زبان قلم سے بے ساختہ نکل گئی ہے ورنہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو سینہ بے کینہ عطا کیا تھا اس لیے میری سمجھ میں تو یہی بات آتی ہے کہ پیر صاحب جیسے مرنجاں مرنج شخص سے و ہ رنجش یقینا وقتی عارضی طورپر محض بے ربط باہ کو بڑھانے کی غرض سے ہو گی جبکہ ڈاکٹر صاحب کا حال یہ تھا کہ اپنے جن ہم سخن اور ہم قلم حضرات سے وہ بظاہر ناراض نظر آتے تھے ان کے لیے بھی دل کی گہرائیوں میں محبت اور درد مندی کادریاموجیںماررہا ہوتا وہ کسی ادیب یا شعرسے ناراض اس وقت ہوتے جب وہ دیکھتے کہ بھارت کی نفسیاتی یلغار کے زیر اثر وہ اپنے فن پارے میں سنسکرت یا بھاشا کے الفاظ ضرورت سے زیادہ استعمال کررہا ہے اور نجابی کو تکلفاً مصنوعی بنا کے پیش کر رہا ہے۔ ایسی زبان کو وہ سکھی پنجابی کا نام دیتے تھے اور یہ زبان مشرقی پنجاب کے بعض متعصب قلم کاروں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت محض پاکستان دشمنی میں شروع کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر سے اس قسم کی کوئی تحریر گزرتی تو وہ آزردہ خاطر ہو کر دوسروں سے پوچھتے کہ اوئے تسی دسو ایہ زبان پنجاب دے کیہڑے علاقے دی بولی اے۔ ایس زبان توں تے ماجھے مالوے وی نہیں سمجھ سکدے۔ جہڑے ساری ساریرات ہیر وارث شاہ سن کے مست ہوندے تے اوہدے اک اک بول دی تہہ تائیں پہنچدے نیں دوسری طرف مغربی پنجاب میں سرکاری سرپرستی میں لکھی جانے والی عربی فارسی الفاظ سے بوجھل پنجابی تحریریں بھی انہیں ایک آنکھ نہ بھاتیں ان کانقطہ نظر یہ تھا کہ روز مرہ کی وہ پنجابی جو لاہور امرتسر اورگوجرانوالہ اور گجرات کے گلی کوچوںمیں بولی جاتی ہے پنجاب کے ٹکسالی زبان ہے۔ جن لوگوںنے ڈاکٹر صاحب کے بعض تحقیقی کارناموں اور تنقیدی کاوشوں پر حر ف گیری کی ہے انہیں اندازہ نہیںکہ ڈاکٹر صاحب نے کن نامساعد حالات میں مختلف محاذوں پر پنجابی کے فروغ و بقا کی جنگ لڑی ہے۔ انہوںنے تنقیدی کام کا اس وقت آغاز کیا جب پنجابی زبان و ادب میں سائنٹفک تنقید کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ خود ڈاکٹر صاحب بھی مغرب کے جدید اسالیب تنیقد سے نا آشنا تھے۔ چنانچہ انہوںنے روایتی تاثراتی تنقید ہی پر اکتفا کرکے تھوڑے سے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ فن پاروں پر برسوں سے پڑی ہوئی گرد جھاڑ کے انہیں عامتہ الناس سے روشناس کرایا کیونکہ ان کا اصل مشن بھولے بسرے ادبی شہ پاروں کو اہل پنجاب کے حافظہ میں تازہ کرنا تھا ان کی حیثیت تو اس فقیر کی تھی جو طلوع فجر سے پہلے دھندلکے میں صدائے پر درد لگاتا ہوا سوتی بستی کو جگاتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ اذانوں کا سلسلہ بعد میںشروع ہوتاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے زمانے میں تو ابھی تک تحقیق و تنقید کی جدید اصطلاحات کے صحیح مترادفات کا بھی تعین نہیںہو سکا۔ بہرکیف یہ دنیا کی ریت ہے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کی جان کاھیو ں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہ اور اس کی محنت کے حاصل کو حقیر سمجھتا ہے۔ محمد حسین آزاد کے علمی کمالات اورتنقیدی سرمائے کی ا کے بعدمیں آنے والے چھوٹے چھوٹے اور بے وقت نقاد ان جدید نے جو درگت بنائی ور علامہ شبلی نعمانی کے شعر العجم کا جس بیدردی سے چیر پھاڑ کیا ہے ا س کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں مگریہ تمام تر گستاخانہ دست درازیاں آزاد اور شبلی کی عظمت میںذرہ برابر بھی کمی نہیں کر سکیں اورڈاکٹر فقیر کے تو صرف اسی احسان کو بھلانا مشکل ہے کہ انہوںنیپنجاب کی کوکھ سے جنم لینے والے ہر نابغے کو خواہ وہ انگریزی کا دلدادہ ہو یا اردو کا پرستار اپنے ذاتی اثر رسوخ سے ماں بولی میںاظہار خیال پر آمادہ کر لیا اور ان سے ایسے ادبی شاہکار تخلیق کرائے جنہوںنے پنجابی ادب کویکلخت ماضی سے مستقبل کا ادب بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف ایم اے فارسی کی تعلیم کے دوران کے دماد میرے عزیز اور کرم فرما میاںمحمد اکرم (والدمحترم جنید اکرم) نے کرایا تھا مگر ڈاکٹر صاحب کی بے پایاں محبت نے میری زندگی کو ایک عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا۔ اتنی اچھی ملازمت اتنا معقول معاوضہ اتنا سازگار ماحول مگر میں ان دنوں شدید ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا۔ والد صاحب کا بڑھاپا اس وقت تیزی سے ضعف و اضمحلال کی طرف جا رہا تھا وار وہ مصر تھے ک میں واپس آ کر گھر کے معاملات ک یباگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں۔ چنانچہ ایک چھوٹی سی چٹ پر انہوںنے دس بارہ چھوٹے چھوٹے کاموں کی فہرست سی بنا کر مجھے دی اور کہا کہ میاں یہ کام مکمل کر کے نوکر ی پر واپس چلے جانا لطف کی بات یہ ہے کہ زندگی ختم ہونے کو آ گئی ہے مگر وہ چھوٹے چھوٹے کام ابھی تک مکمل نہیں ہوئے۔ بہرکیف اسی صورت حال کو میں نے ڈاکٹر صاحب کے روبرو پیش کیا کیونکہ علی وجہ البصیرت میں یہ سمجھتا تھا کہ ایسی ملازمت چھوڑنا کفران نعمت بھی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی احسان ناشناسی بھی جنہوںنے نہ جانے کیا جتن کر کے اس کا سروسامان فراہم کیا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے سنتے ہی بلا تامل ارشاد فرمایا: ’’چناں جو شیخ صاحب کہندے نیں بس اوہ کر۔ ایدھر اودھر دی گل نہ سوچ اہدے وچ ای دنیا دی بھلائی اے۔ یاد رکھ کہ دنیا وچ اک باپ دا وجود ای ہوندا اے جہڑا چاہندا اے کہ میرا پتر میرے نالوں زیادہ لائق تے زیادہ کامیاب ہووے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کے قول فیصل نے میری دو ذہنی کیفیت ختم کر دی اور میں بادل ناخواستہ اس ماحول کو چھوڑ کر آ گیا جس کی یاد سے آج بھی آنکھوں میں ستارے جھلملانے لگتے ہیں۔ اٹھ کر تو آ گئے ہیں تیری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں ڈاکٹر صاحب سے رشتہ مودت اتنا کمزور نہ تھا کہ نوکری چھوڑنے سے ٹوٹ جائے چنانچہ لائل پور سے جب بھی گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضری ضرور ہوتی۔ وہ بھی بارہا لائل پور آ کر ملتے۔ ایک مرتبہ تو ارشد میر مرحوم کوبھی ساتھ لے کر آئے ۔ میری شادی کا سنا تو خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے شادی پر آئے مگر میرے نام سے کندہ انگوٹھی اور سہرا لکھ کر لائے آخری مرتبہ جب میں نے ان کی بیمار ی کا سنا تو گوجرانوالہ پہنچا۔ بے حد کمزور ہو گئے تھے مگر جسم میں پھرتی اور تیزی و طراری ابھی باقی تھی مجھے سید علی حیدر کا پنجابی اور جویا کشمیری کا فارسی کلام سناتے رہے۔ کچھ حصہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی النبی الخاتم کے اپنے پنجابی ترجمے کا بھی پڑھ کر سنایا لائل پور پرواپسی کے چند ہی روز بعد ان کی رحلت کی خبرملی۔ گوجرانوالہ پہنچا تو ارشد میر نے آنسوئوں کی جھڑی میں ہچکیاں لے لے کر وہ شعر سنایا جو وفات سے چند لمحے پہلے انہیںلکھ کر دیا تھا اور جسے اللہ کے اس صابر و شاکر بندے نے واصل بحق ہوتے وقت تحدیث نعمت کے طور پر اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں پیش کرنا تھا۔ کرماں دا فضلاں مہراں پناہواں دا شکریہ ساہواں دے نال تیرے وساہواں دا شکریہ ٭٭٭ میری آپ بیتی: ڈاکٹر فقیر محمد فقیر 1915ء کے ابتدائی ایام میں اپنے والد حکیم میاں لال دین مرحوم مغفور کی وفات پر میں نے اچانک اپنی طبیعت کو شعر گوئی کی طرف مائل پایا۔ اپنے خاندان میں ان کی وفات میرے لیے پہلا حادثہ جانکاہ تھا جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس حادثے کے بعد میں نے زندگی میں ایک کشمکش سی محسوس کی جو مجھے زندہ رہنے کے لیے ابھار رہی تھی شاید می نے یہ محسوس کیا کہ شعر و ادب زندگی کے حادثوں کا مقابلہ کرنے کا دوسرا نام ہے۔ طبیعت اسی کشمکش میں ایک روز پیر فیض کی صحبت میں جن کے ہات پر میں نے ابھی بیعت نہیں کی تھی یہ بات چل نکلی جس میںپہلی دفعہ ان کے عالمانہ اظہار و بیان پر مجھے علم عروض کی منفرد حیثیت ضرورت اور اس کے دیگر دستوری رسوم و قیود سے آگاہ کیا اور فرمایا کہ متعلقہ علوم کی تحصیل کے بغیر شیر و ادب میں فنکارانہ حسن و خوبی کا پیدا ہونا ناممکن امر ہے۔ میں خوشی اوغم کی اس ہاتھا پائی میں مرحوم استاد محمد ابراہیم عادلؒ کے ہاں پہنچا تو اظہار مقصد مجھے اپنے استاد حکیم امام دین منشی کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے کہ میرا تعارف کروانے کے بعد انہوںنے میری حاضری کی وجہ بھی بیان کی۔ حکیم امام دین ایک عظیم المرتبت شخصیت اور عالم دین ہونے کے علاوہ پنجابی فارسی اور عربی زبانوں کے شعراء میں بھی شمار ہوتے تھے۔ سن کر فرمانے لگے ٹھیک ہی تو کہا ہے انہوںنے۔ پھر ہر فن کے لیے طبعی صلاحیت کے باوجود اسکے لوازم علمی کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے معمولی جوتا مرمت کرنا ہو تو اس کے لیے بھی متعلقہ علم اور اس کے ضروری لوازم اور اوزاروں وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ فن شعر و ادب جس کی علمی حیثیت مذکور سے عظیم اور بالاتر ہے کیسے بغیر کسی رہنما اور متعلقہ علوم کے حاصل ہو سکتا ہے۔ عادل مرحوم نے جواباً عرض کیا کہ حضرت اس کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس نے میری شاگردی میں خاصی مہارت اور مشق فکر و سخن حاصل کر لی ہے۔ اور اڑھائی تین سال کے عرصہ میں شعر نظم کا ضخیم مجموعہ بھی مرتب کر چکا ہے سن کر حکیم صاحب بولے کہ اسے کل صبح معہ اس کے مجموعہ کلام اپنے ساتھ لانا تو دیکھیں گے۔ اگلے روز اپنا مجموعہ کلام لے کر میں ان کی خدمت میںحاضر ہوا انہوںنے جستہ جستہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اوراپنے صاحبزادے بابو محمد عبداللہ کو آواز دی عبداللہ بھائی ذرادیا سلائی تو لانا انہوںنے دیا سلائی پیش کی تو حکیم صاحب نے میرے اس مجموعہ کلام کو الٹ کر زمین پررکھا اور اسے آگ لگا دی۔ عادل صاحب اور میں دیکھتے رہ گئے ہم دونوں پریشان تو تھے مگر عادل مجھے سے نسبتاً زیادہ خفت محسوس کر رہے تھے۔ حکیم صاحب نے بڑی چابکدستی سے ایک کاغذ اپنے بستر سے کالا اور اس پ صرف میر نحو میر فلسفہ کی ابتائی کتب صغریٰ کبریٰ اور قواعد العروض از خلیل احمد بن بصری لکھ کر میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اور میرے جلتے ہوئے مجموعہ کلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے لو بیٹا ان کتابوں کا اہتمام کرو اور اس جلتے ہوئے مجموعے کا ہر شعر بھول جائو۔ قواعد العروض کی تحصیل کے لے صبح میرے پاس آ جایا کرنا اور دیگر دونوں مضامین کا اہتمام اپنے قرب میں مناسب جگہ کر کے پڑھنا شروع کر دو۔ رات عشاء کے بعد کم از کم ایک گھنٹہ مشق سخن کا دھندا ابھی جاری رکھو جسے ایک ماہ بعد مجھے دکھا دیا کرو۔ یہ تھی وہ ابتدائی بھاگ دوڑ جس کے سہارے میں نے انی منزل کا رخ کیا اور آج تک اس طالب علم کی حیثیت سے اسی راستے پر گامزن ہوں۔ حکیم صاحب کی مشفقانہ توجہ اور محنت سے میں جلد ہی اپنے فکری عنوا نات میں کامیابی محسوس کرنے لگا۔ جن میں وہ مقدم روحانی اور اخلاقی عنوانات تھے جو میرے کلام کے تمام مجموعوں میں نمایاںہیں۔ انہیں میں نے آج تک سامعین اور قارئین کے دلو ں میں جذب و کشش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور آج بھی انہی عنوانات کو اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہوںان عنوانات کے لیے یہ بات اظہرامن الشمس ہے کہ دونوں روکھے پھیکے خشک او ربے کیف عنوانات تھے۔ اس لیے میں نے ہمیشہ انہیں جذب و کرب کی بنیادوں پر استوار کرکے شاعرانہ رنگ و روغن کی جلا دے کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1924 میں اپنے پہلے مجموعہ کلام صدائے فقیر کی اشاعت پر میں چند کتب لے کر حضرت علامہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ علامہ نے ایک کتاب ہاتھ میںپکڑکر ورق گردانی شروع کردی تھوڑی دیر کے بعد اپنے مخصوص انداز میں داد دینے لگے اور کتاب کے ٹائٹل پر یہ لکھا کہ تمام نظمیں دلکش ہیں اور وقت کے تقاضے کوپور اکرتی ہیں۔ چند روز بعد میں حسب معمول حضرت علامہ اقبال کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو فرمانے لگے کہ ایک مفکر کا اس وقت یہی منصب ہے کہ وہ ملکی اور قومی تقاضوں کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ پورے انہماک اور محنت سے اس کام کو جاری رکھو کیونکہ یہ عوام کی ضرورت کا کام ہے۔ علامہ اقبال ؒ کے اس فرمان پر میں اس دن کو اپنی زندگی کا نقطہ آغاز سمجھ کر دل ہی دل میں نہایت خوش و خرم تھا اور اپنے مقصد تعین پراس کے صحیح اور قومی ضرورت کے مطابق ہونے پر اس لیے نازا ں بھی تھا کہ حضرت علامہ نے اس پر مہر توثیق ثبت کر دی ہے۔ اب پہلے سے زیادہ فراخدلی اور محنت سے کام کرنے لگا جس کی وجہ سے فن کا مخصوص تصور میری نظر میں نمایاں اور زیادہ ہوتا گیا۔ تقسیم ملک کے بعد جب میں نے پنجابی زبا ن کو پاکستان کی علاقائی زبان کی حیثیت سے دیکھا تو اس کی بہت زیادہ ترویج اور ترقی کی ضرورت محسو س ہوئی۔ ساڑھے تین کروڑ پاکستانی باشندوںکی روز مرہ زبا ن جسے وہ صبح و مساء اپنی زندگی کے لیے استعمال کر تے تھے زبوں حالی کا شکار ہونے لگ۔ میرا خیال تھا کہ زبان جس قدر زیادہ استوار ہو گی فن شعر و ادب اسی قدر موثر اور جاذب ہو گا اور فن جس قدرمستحکم اور متوازن ہو گا ہم زندگی کااسی قدر زیادہ مقابلہ کر سکیں گے۔ اسی خیال سے میںنے اکابرین علم و فن کو 1951میں دعوت عمل دی۔ یہ اجتماع گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور کے ہال میں ہوا۔ اس اجتماع میں ڈاکٹر محمد باقر‘ مولانا عبدالمجید سالک‘ سید عابد علی عابد پروفیسر تاج محمد خیال‘ صوفی غلام مصطفی تبسم پروفیسر فیروز الدین احمداستاد کرم امرتسری اور دیگر کئی ایک بزرگوں نے شمولیت کی ۔ انہوںنے بلا اختلاف میرے مقاصد کو صحیح اور برمحل جان کر میرا ساتھ دینا منظور کر لیا۔ مختلف احباب کے ذمہ مختلف فرائض لگائے گئے مولاناعبدالمجید سالک اور میرے ذمہایک پنجابی ماہنامے کا اجرامقرر ہوا۔ چنانچہ مذکورہ ماہنامہ جاری ہونے پر اردو کے تقریباً تمام قلم کاروں نے اسمیں لکھنا شروع کیا۔ ہمارے اس اقدام کو کچھ یار لوگ ارو کی مخالفت پر محمول کرنے لگے۔ میری اس تحریک کا مقصد جہاں پنجابی ترویج و ترقی تھا وہاں اردو کی نئی آبیاری بھی میرا مقصود تھی کہ اردو اپنی وسعت عمل کے اعتبار سے صحیح پاکستان گیر زبان بن سکے چنانچہ یہ قافلہ اب تک اسی راہ پر گامزن ہے جس میں کچھ ہمراہی ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں اور باقی ہے اپنے مقصد کی منزل کے لیے رواں دواں ہیں۔ اس راستہ کے ایک موڑ پر پنجابی اکیڈمی کی داغ بیل ڈالنے کا موقع نصیب ہوا۔ جس کی وجہ سے ہمیں پنجابی ارد و اور فارسی کی نایاب اور نادر کتب کی طباعت میںکامیابی ہوئی۔ ڈاکٹر محمد باقر کی سرپرستی میں اکیڈمی نے اس وقت تک پچاس کتابیں چھاپ کر علمی و ادبی حلقوں میںداد تحسین وصول کی ہے ایک اہم کار ہونے کی حیثیت سے مجھے ڈاکٹر صاحب سے اپنی نسبت ایک ہی شعر کے دو مصرعوں کی سی معلوم ہوتی ہے۔ خڈا کرے گا کہ اکیڈمی کو عوامی سطح پر اور زیادہ مفید کام کرنے کا موقع ملے او راس کے کارکن اپنے مقاصد میں اور زیادہ کامیاب و کامران ہوں۔ اکیڈمی کی مالی معاونت میںبنیادی طورپر جناب ممتاز حسن سابق سیکرٹری وزارت مالیات حکومت پاکستان اور جناب الطاف گوہر سابق سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان نے بہت زیادہ کردار ادا کیا ۔ انہوںنے سرکاری خزانے سے مالی امداد دے کر اکیڈمی کواس علمی اور ادبی کام انجام دینے کے لیے مواقع بہم پہنچایا۔ میں ذاتی طور پر اور اکیڈمی کے تمام ممبران کی جانب سے ان احباب کا صدق دل سے ممنون ہوں۔ جہاں تک پنجابی زبان کا تعلق ہے میں ذاتی طورپر اسے جس مقام پر دیکھنا چاہتاہوں وہ منزل ابھی بہت دور ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ کئی برس پہلے جبمیں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا تو اس وقت کے حالات سے اب کے حالات بہت بدل چکے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جس جنون اور عشق کے ساتھ اس کام کا آغاز میں نے تنہا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک جماعت کی صورت بن گئی۔ اگر اسی انداز میں مخلصانہ طور پریہ کوشش جاری رہی تو پنجاب کے لوگ بھی اسی اعتماد کے ساتھ اپنی زبان بولنا لکھنا اور پڑھنا شروع کر دیں گے جس اعتماد کے ساتھ کوئی ترقی یافتہ قوم اپنی زبان لکھتی پڑھتی اور بولتی ہے۔ ٭٭٭ حوالہ جات و کتابیات 1 صدائے فقیر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر بزم فقیر پاکستان‘ ایڈیشن 2007ء 2 ۔ کلام فقیر جلد اول‘ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن 2006ء 3۔ مو آتے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن 2007ء 4۔ دیوے تھلے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن 2007ء 5 آخری نبیؐ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ مطبوعہ بزم فقیرپاکستان ایڈیشن 2008ء 6۔ ستاراں دن ڈاکٹر فقیر محمد فقیر مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن 2008ء 7۔ پاٹے گلمے‘ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ مطبوعہ بزم فقیر پاکستان ایڈیشن 2008ء 8۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر حیاتی تے فن مقالہ پی ایچ ڈی مقالہ نگار ڈاکٹر اعجاز بیگ 9۔ کاروان ادبی مجلہ‘ گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ شمارہ جولائی 1976ء 10۔ تماہی پنجابی بابائے پنجابی نمبر ایڈیٹر محمد جنیداکرم جولائی 2000ء تا مارچ 2001ء 11 غیر مطبوعہ قلمی محظوطات ڈاکٹر فقیر محمد فقیر ذاتی لائبریری عزیزم حامد ارشد 12۔ گفتگو محمد عبدالباسط باسط پوتے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر 13 غیر مطبوعہ قلمی مخطوطات ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ ذاتی لائبریری راقم الحروف۔ 14۔ پنجابی صحافت تے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ تحقیقی مقالہ برائے ایم اے مقالہ نگار 15۔ کاروان ادبی مجلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ شمارہ 1993-94, 22 16۔ ماہنامہ مہر و ماہ بابائے پنجابی نمبر یادگار فقیر ایڈیٹر ابو الطاہر فدا حسین فدا شمارہ نومبر دسمبر 1975ء اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End