پاکستانی ادب کے معمار ادا جعفری شخصیت اور فن شاہد حسن پیش نامہ اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوںکے ممتاز تخلیق کاروں کے بارے میں پاکستانی ادب کے معمار کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معماران ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ اکادمی پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں شاعروں افسانہ نگاروں اور نقادوں کے بارے میں کتابیں شائع کررہی ہے۔ ادا جعفری کو عہد جدید میں اردو شاعری کی خاتون اول کے طورپر جانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی شعری روایت اور جدید شعری حیت کا ایک خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ عصری شعری منظر نامے میں ہماری شاعرات کے تسلسل اور تنوع کے صحیح جوہر کو سمجھنے کے لیے ہمیں ادا جعفری کی شعری کائنات سے آگہی ضروری ہے کہ وہ تاریخی اعتبار سے اس تخلیقی سفر کا نقطہ آغاز گردانی جاتی ہیں۔ پیش نظر کتاب ادا جعفری شخصیت اور فن ملک کی معروف شاعرہ شاہدہ حسن نے بڑی توجہ اور محنت سے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب ادا جعفری کی شخصیت اور فن کو متعارف کرانے اور ان کے کام کو سمجھنے سمجھانے میں یقینا معاون ثابت ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ پاکستان ادب کے معمار ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا۔ افتخار عارف پیش لفظ جب کسی قلم کار کی تحریریں اس کی اگلی نسلوں کے مطالعے میں شامل ہو جائیں اور انہیں اک احساس پذیرائی کے ساتھ قبول کر لیا جائے تو گویا یہیں سے حرف کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی خواتین قلم کاروں نے فن و شعر کی دنیا میں اپنے محسوسات اور فکر و شعور کی صورت گری کے ذریعے اپنی انفرادیت کو اجاگر کرنا شروع کردیا تھا۔ اور آج گزرتے ہوئے وقت کے ہمراہ یہ سفر اپنی زیادہ تر جہتوں کے ساتھ جاری و ساری نظر آ رہا ہے۔ ادا جعفری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اس سلسلے کی اولین نمائندہ شاعری کے طور پر تسلیم کی گئی ہیں۔ میرے لیے یہ امر باعث مسرت ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان نے ادا جعفری کے فن و شخصیت پر تعارفی نوعیت کی یہ کتاب مرتب کرنے کا اعزاز مجھے بخشا ہے۔ اس کتاب میں میں نے ان کے عہد کے تہذیبی ماحول ان کے شعری اظہار اور موضوعات کا جائزہ لیتے ہوئے اندازہ لگایا کہ خواتین قلم کروں کو اپنے ذہنی وجود کو تسلیم کرانے اور نفی ذات سے اثبات ذات تک یہ مراحل طے کرنے میں کیسی کٹھنائیوں کا سامنا کرناپڑا۔ ادا جعفری چونکہ حیات ہیں اور کراچی می ہی قیام پذیر ہیں اس لیے میری خواہش تھی کہ میں براہ راست ملاقات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات اور حوالے حاصل کر سکوں مگر ان کی شدید علالت اور مسلسل نادستیابی کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ان کے رفیق حیات جناب نور الحسن جعفری کی کتاب منتشر یادیں میں بھی کوئی تحریر ان کے تعلق سے موجود نہیںتھی کہ استفادہ کیا جا سکتا۔ میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے جناب ادیب سہیل اور جناب امرائو طارق کی ممنون ہوں جنہوںنے ادا جعفری کی تصانیف اور ان کی شخصیت پر نگار پاکستان کا ادا جعفری نمبر مجھے فراہم کیا ج کے مندرجات اس کتاب میں شام کیے گئے ہیں۔ کسی شعری شخصیت کو اس کی تحریروں کے آئینے میں سمجھنے اور ایک مجموعی شعری روایت کے تناظر میں پرکھنے اور جاننے سے ہم نہ صرف عہد گزشتہ سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ آنے والے دنوں کے خدوخال کو بھی واضح ہوتامحسوس کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اردو شاعری میں نسائی شعور کے ارتقاء کو سمجھنے کے لیے ادا شناسی کی یہ کاوش بار آور ثابت ہو گی۔ شاہدہ حسن ٭٭٭ ادا جعفری خود شناسی کا سفر اپنی خود نوشت جو رہی سو بے خبری رہی میں ادا جعفری رقم طراز ہیں: ’’شاعری اپنی سوانح عمر ی بھی ہوتی ہے اور اپنے عہد کے شب و روز کا منظر نامہ بھی ۔ شعر و ادب کی دنیا میں میں نے جو سفر شروع کیا تھا وہ شدید روایتی ماحول اور قدامت پسند خاندانی پس منظر کی وجہ سے میرے لیے زیادہ ہی دشوار تھا اور حوصلہ طلب تھا۔ عورت کے دکھ درد میں نے آنکھ کھولتے ہی دیکھے اوربہت قریب سے دیکھے۔ عورت کا پہلا روپ جو میں نے دیکھا وہ میری ماں کا تھا۔آندھیوں میں چراغ کی لو اونچی رکھنے والے ہاتھ مجھے یاد ہیں‘‘۔ یوں گویا… ادا بدایونی نے خود شناسی کے سفر کا آغاز اپنی ماں اور اپنی عزیز ترین ہستی کی خواہشوں کے عین مطابق کیا تھا۔ اپنے بچپن کے حوالے سے اپنا ایک قلمی مرقع پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’شام پڑے باورچی خانے میں دھیان کی پرائی کا دامن تھامے چولھے کی آگ سے اٹھتا ہوا دھواں توے سے اترتی ہوئی سنہری روٹیاں پکانے والی ملازمہ کی بے رنگ چوڑیوں کی کھنک… اور سامنے پیڑی پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی لڑکی جو وقت کے جادوگر سے اپنا پتا پوچھ رہی تھی‘‘۔ جدید سائنسی انکشافات اور تحقیقات کے اس حیرت انگیردور میں علم نفسیات کی رو سے ہمیں اس تجزے میں مدد ملتی ہے۔ کہ کسی انسانی وجود کی کیمیا میں وہ کون کون سے عناصر باہم آمیز ہوئے ہیں جن کے ایک خاص تناسب کے باوصف اس شخصیت کے انفرادی خدوخال ترتیب پائے ہیں۔ اس ضمن میں بچپن کے حالات خاندانی پس منظر‘ تعلیم و تربیت ‘ ذاتی آرزوئیں‘ تمنائیں محرومیاں‘ مسرتیں… غرض حیات کے دائرے میں شامل مختلف النوع تجربات‘ احساسات اور نفسیاتی رد عمل بطور خاص لائق مطالعہ قرار پاتے ہیں۔ ادا جعفری… آج اپنی عمر کی آٹھویں دہائی کی تکمیل کر چکی ہیں اوراس عرصہ حیات میں وہ دنیا کے بہت سے خوب صورت علاقوں کی سیر بھی کر چکی ہیں۔ فطرت اور مظاہر فطرت کے ان گنت مشاہدوں سے بھی فیض یاب ہو چکی ہیں… مگر جب وہ 22اگست 1026ء کو اس دنیامیں آء یتھیں تو وہ شہر بدایوں کی ایک قلعہ نما حویلی کی قدیم روایت پسند اور پرسرار فضائیں تھیں۔ ان کے والد مولوی بد ر الحسن ایک برے زمیں دار تھے اور کٹر مسلمان۔ یہ قلعہ نما حویلی اد ا کا ننھیال تھا۔ اس ایک گھرمیں کئی گھر آباد تھے بڑی حویلی چھوٹی حویلی دیوان خانہ اور نانا کی کوٹھی۔ یہ گھرانا ٹونک والا خاندان کے نام سے جانا جاتاتھا اس خاندان کا ایک رواج تھا کہ ان کی بیٹیاں بیاہ کر سسرال نہیں بھیجی جاتی تھیںَ ادا کے والد کانپور میں رہائش پذیر تھے ۔ جہاں ان کی ملازمت تھی اور ان کی والدہ نانا کی کوٹھی میں اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ شہر بدایوں میں مقیم رہتی تھیں۔ بدایوں شہر علم پسندوں کی ایک پرکشش بستی تھی۔ جسے بدھ نام کے کسی راجا نے آباد کیا تھا۔ پھر مسلمان بادشاہوں نے اسے بدایوں کا نام دے دیا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کا مولد اور بہت سے صوفیائے کرام اور روحانی ہستیوں کی آخری آرام گاہوں سے مزین یہ شہر تاریخ کے اوراق میں اہل فکر و نظر کے حوالوں سے پہچانا جاتا ہے۔ سبز ریشمی چادروں مہکتے پھولوں اور ڈھے مزاروں حسین گنبدوں اور عالی شان مسجدوں سے آراستہ اس شہر میں ادا کبھی کبھار بہ صد اہتمام دوسری خواتین کے ہمراہ باہر نکلتی تو ضرور تھیں مگر اس خوب صورت شہرکو انہوں نے کبھی ایک رستے بستے شہر کی حیثیت سے دیکھا ہی نہیں۔ اپنی خود نوشت میں لکھتی ہیں: ’’یہ سارے مزارات اور تاریخی مقامات جن کی زیارت کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے میرے لیے محض کہانیوںکی دنیا کی طرح رہے ہیں۔ یہ مقامات اس وقت بھی میرے لیے شہر کی تاریخ کے کچھ حوالے تھے اور آج بھی ہیں‘‘۔ اک ایسی مقید محصور اور محدود دنای میں ایک گہرے احساس تنہائی کے ساتھ ادا جعفری کا بچپن گزرا۔ پھر یہی احساس ان کی شخصیت میں ہمیشہ کے لیے سرایت کر گیا ان کی خود نوشت کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا کے معصوم اور ننھے سے دل میں اپنے بکھرے ہوئے رشتوں کا ملال بہت گہرا تھا اور بطور خاص شفقت پدری سے مسلسل دوری نے اس میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ وہ اپنے والد سے بہت پیار کرتی تھیں مگر ان سے ملنے سال میں صرف ایک بار اپنی والدہ اور بہنوں کے ہمراہ کانپور جایا کرتی تھیں۔ دونوں بڑی بہنیں تو سلائی سیکھنے یا پڑھنے لکھنے میں مصروف ہو جاتیں مگر وہ ماں کی نظر بچا کر گھر کی چھت پر چلی جایا کرتیں۔ املی کے درخت سے گرتے بیجوں کو اکٹھا کرتیں اور ان سے کبھی ریل گاڑی اور کبھی اپنے گھر کا نقشہ بنایا کرتیں۔ بعد کی زندگی میںیہی دونوں آرزوئیں یعنی سفر اور گھر ادا جعفری کے فن اور شخصیت کے اہم استعاروں کے طورپر اپنی مختلف جہتوں کے ساتھ ہمیں ان کی شاعری کے اوراق میں نظر آتی ہیں… ادا تین برس کی ہوئیں تو والد علیل ہو گئے ٹانگ کے زخم نے ناسور کی صورت اختیار کر لی اور بالآخر جان لیوا ثابت ہوا مگر ادا کو والد کی وفات کی خبر سے دور رکھا گیا۔ کہہ دیا گیا کہ وہ علاج کے لیے کہیں اور گئے ہوئے ہیں نانا کی جھاڑ فانوسوں سے آراستہ کوٹھی میںان کا دل ہر لمحے اچاٹ رہتا تھا۔ وہ بہت خاموش اور گم سم اور تنہا نشین ہو گئیں۔ اسی عالم تنہائی میں مسلسل پانچ برس تک اپنے والد کا انتظار کرتی رہیں۔ والد کی وفات کے تین ماہ بعد ان کے اکلوتے بھائی طیب حسن صدیقی پیدا ہوئے۔ ان کی کم عمر بیوہ نے نومولو د بیٹے اور تین کم سن بچیوں کی پرورش اور نگہداشت ایک چٹان بن کر کی۔ عبادت گزار کم گو ور صابر ماںنے بیٹیوں خو تعلیم دلوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ گھر پر ٹیوٹر کا انتظام کیا گیا۔ فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کی تعلیم کا بھی بندوبست ہوا۔ ادا کو باقاعدہ کالج میں داخل ہو کر تعلیم حاصل نہ کرنے کا دکھ زندگی بھر رہا۔ ادا جعفری کی شخصیت میںکتابوں بچوں اور مظاہر فطرت سے محبت اور قربت کا احساس بچپن ہی سے شامل رہا ہے۔ زندگی کی انہیں خوشیوں کو ترتیب دے کر وہ اپنے اداس دل کے بہلاوے کی صورتیں پیدا کر لیتی تھیں۔ ابتدا میں انہوںنے کاغذ اور قلم تھام کر ہر گزرنے والے لمحے کا حساب درج کرنا شروع کر دیا وہ بڑی باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتی تھیں۔ اپنی ڈائری میں اپنے روز و شب کا احوال لکھتے ہوے وہ اپنے جذؓوں کی کہانیاں رقم کیا کرت تھیں۔ یہ ڈائری اگر آج دستیاب ہوتی تو اندازہ ہو سکتا کہ وہ ابتدائی زندگی میں وہ کن کن جذبات و احساسات سے دوچار رہی تھیں۔ مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ ڈائری کہیں گم ہو گئی اور یوں ادا جعفری کے اظہار ذات کی صورت گری کے اولین مراحل سے ہماری شناسائی کا ایک در ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ ٹونک والا پھاٹک کے اندر چھوٹی حویلی میںمحرابی دروں اور منقش ستونوں والے برآمدے کو ایک کونے میں زمین پر کتابوں رسالوں اورم خطوطوں کا ڈھیر ہوا کرتا تھا۔ گردو غبار میں اٹا ہوا۔ اس حصے میں ایک پراسرار دل پذیر خاموشی کے بیچ ادا کی اولین مطالعہ گارہ ترتیب پا چکی تھی۔ وہ وہیںزمین پر بیٹھ کر اردو فارسی اور انگریزی کی کتابوں کے انبار میں سے کسی آسان سے آسان کتاب کا انتخاب کرلیتیںاور اسے پڑھنے لگتیںَ لغت کے پھٹے ہوئے اوراق ہاتھ لگ جاتے تو الفاظ کے مطالب یاد کرنے لگتیںَ یوں طبیعت میں روانی آنے لگی لکھتی ہیں: ’’نو سال کی عمر میں سب سے چھپ کر پہلا شعر کہا اور جب ڈرتے ڈرتے اپنی امی کو سنایا تو ان کی آنکھوںسے شفقت کی پھوار برسنے لگی‘‘۔ شاعری نے انہیں بڑا سہارا دیا ۔ زیادہ تر نظمیں اور کبھی کبھی غزلیں لکھتی تھیں جو اس وقت سے قابل ذکر جرائد ’’سویرا‘‘ ’’ایشیا‘‘ ’’ادب لطیف‘‘ ’’افکار‘‘ اور’’شاہکار‘ ‘ وغیرہ میں شائع ہونے لگیںَ اپنی ایک ابتدائی نظم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’بڑی حویلی کے آنگن کے اوپر چار وں طرف چھجا تھا۔ چھجے کی منڈیر پر بڑے بڑے گملے رھکے ہوئے تھے ج میں مختلف قسم کے پودے لگے ہوئے تھے۔ اسی چھت پر سے ہو کر چھوٹی حویلی کی چھت پر ایک چھوٹی سی کھڑکی سے گزر کر کتابوں کے پاس جاتی تھی۔ ایک دن حسب معمول جب اوپر پہنچی تو حیران رہ گئی نارنگی کے بوٹے کی شاخ شاخ شگوفوں سے لدی وہئی تھی۔ یہ منظر جمال ابھی تک میری نگاہوں سے اوجھل کیسے رہا۔ میں ٹھٹک کر رہ گئی پھر وہیںمنڈیر پر بیٹھ گئی۔ ان شگوفوں نے مجھجے خوشبو کا جو تحفہ دیا تھا میری حیرانیوں نے ان کے نام نظم لکھی عنوان تھا ’’شگوفے‘‘ اس نظم کا آخری حصہ کچھ یوں ہے: آج سے پہلے بھی پھوٹے ہوں گے یہ شگوفے یہ لجیلے لپنے یہ بہاروں کے سجیلے سپنے اسی شوخی اسی رعنائی سے یہی لہجہ یہی لہجے کی کھنک یہ سجاوٹ یہ سجاوٹ کی جھمک یہ نگاہیں یہ نگاہوں کی جھجک اسی معصوم و برنائی سے شکوہ بیگانہ نگاہی کا لیے شاخ میں پہلے بھی پھوٹے ہوں گے یہ شگوفے یہ لجیلے سپنے (میں ساز ڈھونڈتی رہی) اندازہ ہوتا ہے کہ شاعری کے ابتدائی موضوعات میں بھی اپنی محدود لفظیات کے باوجود ادا جعفری کے یہاں مظاہر فطرت اور حسن تخلیق سے ایک بے ساختہ کشش کا رویہ شامل رہا ہے۔ ادا کے اولین مجموعے میں ساز ڈھونڈتی رہی۔ میں ان کی ایک نظم ’’بیزاری‘‘ شامل ہے۔ ادا کی زندگی کے تناظر میں اس نظم کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ نظم ان کے شعری اظہار کے ایک واضح منشور کے طور پر نظر آئے گی۔ زیست اک خواب طرب ناک و فسوں ساز سہی رس بھرے نغموں کی اک دل نشیں آواز سہی فرش مخمل بھی زر و سیم کی جھنکار بھی ہے جنت دید بھی ہے عشرت گفتار بھی ہے چشم سرشار کا اعجاز سہی… قہر ہے اف‘ یہ تسلسل یہ تواتر‘ یہ جمود یہ خموشی‘ یہ تسلی‘ یہ گراں بار سکوت شوق کو رخصت پرواز نہیں رفعت روح کا دربار نہیں جسم آسودہ سہی روح مگر ہے بے تاب ایک بے نام تغیر کے لیے… پھر نظم کے اختتام میں یہ آرزو کی گئی ہے کہ اس محصور و مقید زندگانی میں کہیں تازہ ہوائوں اور سورج کی کرنوں کے لیے ایک دریچہ کھل جائے … تو گویا یہی دریچہ کھلا۔ اور ادا جعفری نے اپنے باطنی وجود کو حڑف و لفظ کی روشنی میں منکشف کرنا شروع کر دیا۔ یہ زمانہ ایک مختلف زمانہ تھا۔ خیال و خواب کی پہنائیوں سے نکل کر زندگانی کی حقیقتوں تک رسائی کا سفر کھلی آنکھوں سے کیا جار ہا تھا۔ عصری صداقتوں کو زبان مل رہی تھی۔ ادب میں پہلی بار حقیقی زندگی کو اس کے تمام تر روشن اور تاریک پہلوئوں کے ساتھ قلم بند کیا جا رہا تھا۔ نثر اور شاعری میں نئے نئے موضوعات در آئے تھے۔ نئی ہئیتوں نئی لفظیات اور نئے افکار کو جگہ دی جا رہی تھی۔ نت نئے مباحث جنم لے رہے تھے۔ اس عہد میں لکھنے والوں کے لیے تنقید بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہی تھی۔زندگی کے منفرد تجربوں اور طرز احساس سے جنم لینے والے تخلیقی اظہار کی تفہیم کے لیے علمی مضامین لکھے جا رہے تھے۔ پیش رو شاعرات اور اثبات ذات کی روایت عہد جدید کی سماجی اور فکری زندگی میں آج دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں نے عورت کے ذہنی وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب عورت کا مسلسل اپنی فہم و فراست، علمی آگہی اور خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر کیے ہوئے عملی مظاہروں کے ذریعے اعتماد قائم کرنا ہے۔ عہد حاضر کی قابل ذکر دانش گاہوں اور جامعات میںWomen,s Studiesسے متعلق شعبہ جات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں نسائی شعور کے تاریخی ارتقاء کا جائزہ لینے کے لیے اہم مطالعات کیے جا رہے ہیں جن میں مختلف زبان و ادب کے حوالے سے عہد بہ عہد خواتین قلم کاروں کی تحریروں کے تجزیے اور تنقیدی جائزے شامل ہیں۔ گویا عورت کے فکر و شعور، اس کے جذبات و احساسات اور بحیثیت مجموعی نسائی جمالیات کی نوعیت کو پرکھنے کے لیے عورت کی ذات کے اثبات کا سلسلہ جاری و ساری ہے لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ یہ مطالعات، انسانی معاشرے کے بارے میں ہماری آگہی میں خاطر خواہ اضافہ کا سبب بن سکیں گے۔ جدید فرانسیسی نسائی نقاد ’’ ژولیا کرسٹیوا‘‘ نے جو فیمنزم یعنی ’’ نسائی تحریک‘‘ کی ایک اہم رکن ہیں، خواتین کی تحریروں کے خصوصی مطالعے کے حوالے سے اپنے نظریات بہت واضح طور پر پیش کیے ہیں اور عورت کے وجود اور اس کی شناخت پر زور دیتے ہوئے معاشرے کی نمو پذیری میں مرد اور عورت کے باہمی رشتوں کے حوالے سے ان کے جداگانہ تشخص کی اہمیت کو تسلیم کیے جانے پر خصوصی اصرار کیا ہے۔ ایک اور جدید نسائی نقادBell Hooksنے کہا ہے کہ عورت یقینا ایک وجود یعنی Subjectہے کوئی ’’ شے‘‘ یعنی Objectنہیں ہے۔ اور وجود کو شے پر اسی بنیاد پر برتری حاصل ہوتی ہے کہ وجود اپنی ذاتی سچائیوں کو خود بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جبکہ اشیاء محتاج اور بے زبان ہوتی ہیں اور ان کی حقیقت کوئی او ربیان کرتا ہے۔ اور اس ضمن میں یہ اختیار بھی رکھتا ہے کہ وہ اس کی اہمیت کا تعین اپنی مرضی اور منشاء سے کرے۔ یہ جدید خیالات آج کے عہد کی علمی آگہی اور اس کی بخشی ہوئی روشن خیالیوں کا تحفہ ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم مختلف معاشروں کا جائزہ لینا شروع کریں تو سر زمین مغرب اور سر زمین مشرق کی روایات، تہذیب و تمدن اور ان کے ارتقاء کے تناظر میں آج کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی طویل جدوجہد کے نشانات واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات عورت اور مرد کے امتیاز کے بغیر ہونے لگی ہے اور عورتوں کی زباں بندی بڑی حد تک ختم ہو کر، تخلیقی اظہار کے مختلف پیرایوں میں سامنے آ رہی ہے، جس سے ایک بہتر نظام نو کی تشکیل کی سمتیں واضح ہونی شروع ہو چکی ہیں۔ ایسے میں مشرق کی ادبی روایت میں بھی، عورتوں کے جرأت مندانہ اظہار کی اہمیت از سر نو تسلیم کی جا رہی ہے۔ اٹھارہویں صدی میں مغرب میں عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک ’’ Sufferage‘‘ نے ان کے شعور کو جگانے اور عورت کو اپنے جذبات و خیالات کے آزادانہ اظہار پر مائل کر کے تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا تھا۔ سرزمین مشرق کی طرف نظر اٹھائیں تو انیسویں صدی کے ایران کی عظیم الشان شاعرہ ’’ قرۃ العین طاہرہ‘‘ سے ملاقات ہوتی ہے۔قراۃ العین طاہرہ، جن کا اصل نام زریں تاج تھا، ایک ایسے ماحول کی پروردہ تھیں جہاں فنون لطیفہ کا چراغ، تنگ نظر ملاؤں کے ہاتھوں تقریباً بجھ چکا تھا۔ طاہرہ نے ایرانی معاشرے کے مروجہ مذہبی خیالات سے روگردانی کی جرأت کی اور اپنے روحانی عشق کے حوالے سے ادب و شعر میں اپنے دلی جذبات کے اظہار کی معراج تک جا پہنچیں اور یوں اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا۔ ہندوستانی معاشرہ کی سمت نظریں اٹھائیں تو اندازہ ہو گا کہ دنیا بھر میں عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے حوالے سے جو تحریکیں چل رہی تھیں، انہوں نے ہندوستانی معاشرہ پر بھی بھرپور اثر ڈالا تھا۔ 1857ء کے بعد ہندوستان میں اگرچہ سرسید اور ان کے رفقائے کار نے اپنی کوششوں کی بدولت، بالعموم مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے تھے مگر تعلیم نسواں کے خصوصی حوالے سے سب سے زیادہ مخلصانہ جدوجہد ’’ خواجہ الطاف حسین حالی‘‘ کی سامنے آئی۔ انہوں نے شد و مد سے عورتوں کی ترقی اور تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان کی نظم ’’ چپ کی داد‘‘ میں عورتوں کی عظمت و اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ اور ان کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں پر زبردست احتجاج موجود ہے۔ یہ ایک پدرسرانہ معاشرہ میں سچ کی اہمیت کو اجاگر کرنے والے ایک مرد کی آواز تھی۔ گویا مسلمانوں میں حالی نے تحریک نسوں کی ابتدا کی۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے: اے ماؤ بہنو بیٹو، دنیا کی زینت تم سے ہے ملکوں کی بستی ہو تم ہی، قوموں کی عزت تم سے ہے نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو ہو دین کی تم پاسباں، ایماں سلامت تم سے ہے فطرت تمہاری ہے حیا، طینت میں ہے مہر و وفا گھٹی میں ہے صبر و رضا، انسان عبارت تم سے ہے تو دراصل وہ ان ہندوستانی عورتوں کی حالت زار کو اجاگر کر رہے تھے جنہیں سماج میں تہذیب و دین کے مروجہ اصولوں کا پابند بنا کر اس بہانے ان کے بے شمار حقوق سلب کیے جا رہے تھے: حالی مزید کہتے ہیں: کی تم نے اس دارالمحن میں جس تحمل سے گزر زیبا ہے گر کہیے، ہے تم سے حرمت نوع بشر دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب تم پر مبادا علم کی پڑ جائے پرچھائیں کہیں نظم ’’ بیوہ کی مناجات‘‘ میں بھی حالی نے بیوہ عورتوں کی زندگی کی تمام تر محرومیوں اور نا آسودگیوں کا تذکرہ کھل کر کیا ہے: دولہا نے جانا نہ دلہن کو دلہن نے پہچانا نہ سجن کو دل نہ طبیعت، شوق نہ چاہت مفت لگائی، بیاہ کی تہمت شرط سے پہلے بازی ہاری بیاہ ہوا اور رہی کنواری بیسوی صدی کے ابتدائی زمانے ہی سے ہندوستانی خواتین نے تعلیمی اور تخلیقی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اور تہذیب نسواں خاتون اور عصمت جیسے رسائل میں چھپنا شروع کر دیا تھا۔ ان رسائل کے ذریعے اس دور کی خواتین قلم کاروں نذر سجاد حیدر، شائستہ اکرام اللہ، صغریٰ ہمایوں، بیگم سہروردی، اور شاعرات میںز۔ خ۔ ش۔ صفیہ شمیم ملیح آبادی، نوشابہ قدوائی، ذکیہ سلطانہ، حیا لکھنوی، رابعہ پنہاں اور بلقیص جمال جیسی شاعرات کے نام سامنے آنے لگے۔ اور وہ جو اقبال نے عورت کے حوالے سے کہا تھا: اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں تو یہی شعلہ ذات اپنے تمام تر جوہر کی نمود کے ساتھ، اپنے ذہنی وجود پر دلالت کرنے والی عورت کا گواہ بن گیا۔ ادا بدایونی کا کلام بھی انہی رسائل کے ذریعے متعارف ہوا۔ مگر ان کا زمانہ ترقی پسند تحریک کے اثرات کا زمانہ تھا۔ ان کی پیش رو شاعرات کا مطالعہ ہم دو واضح طرز احساس اور طرز اسلوب کے امتیاز کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ شاعرات کا ایک طبقہ تو وہ تھا جنہوں نے شعر و ادب میں مردوں کے نام سے شمولیت اختیار کی۔ اگرچہ انگریزی ادب میں جارج ایلیٹ اور برانٹے سسٹرز کی ابتدائی تحریریں بھی اسی انداز کی تھیں مگر مغرب کی ان اہل قلم خواتین نے مردانہ ناموں سے اس لیے لکھا تھا: ’’ عورتوں کے اصلی ناموں کی وجہ سے ان کی تحریریں قابل اعتنا اور قابل اشاعت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ مگر مشرقی ادب خصوصاً اردو ادب میں ایسی اہل قلم خواتین کی تحریروں میں جنہوں نے مردانہ ناموں سے لکھا،ا پنی ذاتی سچائیوں اور انفرادی تجربات کے بیان کے ذریعے اپنے وجود کی شناخت قائم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ان میں سے زیادہ تر نے عمومی اظہار کے ذریعے یا تو محض زبان و بیان کے کمالات دکھانے پر اکتفا کی ہے یا شاعری کے نام پر محض روایتی مضامین قلم بند کر دیے ہیں اگر کسی شاعرہ نے نسوانی نام اختیار بھی کیا تو لہجہ مردانہ رکھا۔‘‘ مگر اسی کے ساتھ شاعرات کا دوسرا طبقہ بھی موجود تھا جن میں شامل اہل قلم خواتین اگرچہ صرف چند تھیں مگر انہوں نے اپنے خاص طرز احساس کے ساتھ اپنی انفرادیت کے تاثر کو اجاگر کیا اس فرق کو ہم دو مختلف شاعرات کے شعری نمونوں کے تقابل کے ذریعے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں: ’’ 1929ء میں نیرنگ خیال میں مولوی تمکین کے شائع شدہ ایک مضمون کے ذریعے ہماری ملاقات لکھنو کی ایک پردہ نشین شاعرہ سے ہوئی ہے۔ ان کا نام شمس النساء اور تخلص شرم تھا۔ ان کے دیوان پر تبصرہ کرتے ہوئے، مولوی تمکین نے ان کی زبان و بیان، طرز ادا، سلاست و روانی کے باب میں لکھا ہے کہ یہ شاعری کسی مرد کی شاعری سے قطعی مختلف نہیں۔‘‘ ان کے شعری نمونے ملاحظہ ہوں: کرتا ہوں کب بیان میں وعدہ خلافیاں سچے اجی تمہیں سہی، جھوٹے ہمیں سہی پھر لکھنو شہر کی محبت میں لکھتی ہیں: حکم اختر نہ رہا، حکم نصارا کا ہوا آج کل ہم نے نئی طرح کا ساماں دیکھا غیر سے خالی ہے گھر اب ہم ہیں اور دلدار ہے شرم ہم ہیں صورت پروانہ، صاحب خانہ شمع تشبیہیں اس انداز کی ہیں: صانع عالم نے نیلم جڑ دیا الماس میں شرم یہ مسی کی ریخیں اس کے دنداں میں نہیں اپنی پردہ نشینی کے حوالے سے لکھتے ہیں: تابہ دروازہ بھی ہم جا نہیں سکتے افسوس اے خوشا بخت پہنچتے ہیں جو دیوار کے پاس یا پھر یہ اشعار: آج تک چشم فرشتہ نے بھی دیکھا نہیں شرم مہر کی طرح سے ہاں نام ہے روشن اپنا مگر اس پردہ داری میں بھی شرم کی شاعری میں ایک عورت کا لہجہ چھپائے نہ چھپا۔ اس کی بھی کچھ لڑائی ہے اتنا برا نہ مان ہم خوبرو نہیں نہ سہی تو حسیں سہی یوسف عزیز تھا جو زلیخا نہ کہہ سکی ہوں گی شکایتیں سر بازار آپ کی لیکن ان شعری نمونوں سے گزر کر جب ہم بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ز۔ خ۔ ش، (زاہدہ خاتون شیروانی) کے شعری اظہار کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ز۔ خ۔ ش، کی شاعری میں اپنے عہد کا سماجی اور فکری شعور بہت واضح اور جاندار تھا۔ ز، خ۔ ش 1894ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ یکم مارچ1914ء کو علی گڑھ کے زنانہ کالج کے ہوسٹل کی افتتاحی تقریب کے موقع پر انہوں نے صرف اپنی 19, 20سال کی عمر میں ایک سپاسنامہ پڑھا جسے سن کر شعری اظہار پر ان کی گرفت کا بخوبی اندازہ وہ گیا۔ 1915ء میں ز۔ خ۔ ش نے ایک طویل مسدس آئینہ حرم کے عنوان سے قلم بند کیا اس مسدس میں عورتوں کو اپنے حقوق طلب کرنے اور ان میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے حوالے سے اک جوش اور ولولہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ز۔ خ۔ ش چونکہ علامہ اقبال کے انداز کلام اور پیغام عمل سے بہت متاثر تھیں اس لیے ان کے شعری نمونوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس اثر پذیری کے نتیجے میں ان کے کلام میں ایک واضح فکر کا احساس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں در کھولو، ہوا آنے دو سنگدل کہتے ہیں ہرگز نہیں، مر جانے دو خود بھلے بنتے ہیں اوروں کو برا کہتے ہیں ناقص العقل ہمیں یہ عقلا کہتے ہیں پر دغا کہتے ہیں بے مہر و وفا کہتے ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہتے ہیں ان کو رہ رہ کے ستاتا ہے یہ بے اصل خیال گھر میں پڑھ لکھ کے خواتین کا رکنا ہے محال کہیں اٹھے نہ مساوات کا غم خیز خیال کہیں ہو جائے نہ مردوں کی حکومت کا زوال ز۔ خ۔ ش نے مسلمانوں کے عہد عروج کے حوالے سے ان مسلمان خواتین کا بھی تذکرہ کی اہے جنہوں نے اپنی اعلیٰ دینی خدمات کی بدولت، قابل قدر کارنامے سر انجام دیے تھے۔ ہم تھے اس عہد ہمایوں میں نہ یوں مشق ستم بے دل و روح اندھا دھند نہ کہلاتے تھے ہم قفس خشت میں گھٹ گھٹ کے نکلتا تھا نہ دم ہم نے کھائی تھی نہ یوں گھر سے نکلنے کی قسم عضو مفلوج کی مانند نہ بیکار تھے ہم قصر اسلام کی تعمیر میں معمار تھے ہم اس کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں بھی ز۔ خ۔ ش، جیسی شاعرہ کی تاریخ دانی اور مختلف تہذیبی ادوار کے متعلق ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا جس نے انہیں اپنے سماج اور معاشرے میں عورت کے مقام اور حیثیت کے تعین کے حوالے سے ایک واضح شعور دے دیا تھا۔ اور اسی احساس کے تعلق سے وہ بارگاہ نبوی میں دعا گو نظر آتی ہیں کہ دین و مذہب اسلام نے تو اپنی تمام تر کاملیت کے ساتھ طبقہ نسواں کے بہت سے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے مگر اسے ہندوستانی معاشرت میں بری طرح کچلا اور بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ایک خاص درد مندی کے ساتھ وہ اپنی بیچارگی کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہیں۔ کب تک آزاد کش قید ہوں سکان حرم المدد المدد اے بیخ کن رسم ستم کنج در بند ہیں گھٹ گھٹ کے مرے جاتے ہیں ہم تیری بخشی ہوئی حریت کامل کی قسم اتنی رخصت بھی نہیں دل میں ہو جب سوز و گداز جا کے مسجد میں گھسیں ناصیہ عجز و نیاز ادا جعفری کی پیش رو شاعرہ ز۔ خ۔ ش کے ان شعری نمونوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سلجھا ہوا سیاسی شعور اور فکری تدبر کی روایت، ادا جعفری سے قبل کے عہد کی خواتین کے حصے میں بھی آ چکی تھی۔ پھر اسی تسلسل میں جب پہلی جنگ عظیم کے بعد قوم پرستی اور آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا تو خواتین کی تحریروں میں بھی ان کے نظریات اور خیالات کا برملا اظہار ہونے لگا۔ 1936ء میں اردو ادب میں شروع ہونے والی نئی ادبی تحریک نے جب نئے سماجی رشتوں کا احساس اور نیا تاریخی شعور پیدا کیا تو ادا جعفری بھی اس تحریک سے متاثر ہوئیں۔ اور جس طرح اس عہد کے ممتاز لکھنے والوں نے سیاسی اور سماجی حالات کی برملا ترجمانی کے تعلق سے اپنی واضح شناخت قائم کرنی شروع کی تو ادا جعفری نے بھی اپنے موضوعات اور اسلوب اظہار میں اس تاثر پذیری کا احساس دلانا شروع کیا۔ا گرچہ وہ اعلانیہ طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوئیں مگر ان کی شاعری میں اقبال کی فکر، جگر کے تغزل اور فانی کے اسلوب بیان اور طرز فکر کے اثرات کے حوالے سے ایک واضح نشاندہی ملتی ہے جس کا تذکرہ ان کے اولین شعری مجموعے ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کا دیباچہ قلم بند کرتے ہوئے ممتاز ادیب و نقاد قاضی محمد عبدالغفار نے کیا ہے اور ان کے یہاں زندگی کے قدیم اسلوب سے بیزاری اور جدید رویوں کی طلب اور نئے زمانوں کے تعلق سے امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کو ابھرتا ہوا محسوس کیا تھا۔ ادا جعفری کی شاعری میں قدیم و جدید کے امتزاج سے اک ایسی تازگی پیدا ہوئی جو ان کی پیش رو شاعرات کے یہاں نہیں ملتی۔ کسی بھی تخلیقی اظہار کے حوالے سے ہمیشہ یہی معیار پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ اسے اپنے عہد اور اپنے زمانے کی نمائندگی کے اعتبار سے کتنا اہم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں موضوعات، اسالیب، پیرایہ اظہار، زبان و بیان اور شعری جمالیات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے مگر اس کا سب سے اہم عنصر یہ ہوتا ہے کہ اس فن پارے اور اس سے کیا تاثر اجاگر ہو رہا ہے۔ ادا جعفری نے اپنے موضوعات، احساسات اور داخلی تجربات کو جس زاویے سے قلم بند کیا ہے اس سے وہ اس سماج کی ایک زندہ حقیقت اور زندہ وجود کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔ اک ایسا وجود جو انسانی معاشرہ میں موجود ان گنت دکھوں اور مسرتوں سے بھرے لمحات کی نہ صرف پہچان رکھتا ہے۔ بلکہ ایک Speaking Being کی حیثیت سے ان کا اظہار کرنے پر بھی قادر ہے۔ یوں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تجربات و واقعات ان کی شاعرانہ آواز میں ڈھلتے چلے گئے ہیں۔ اس آواز میں ان کی نظریاتی وابستگیوں، عقیدتوں، محبتوں، خوابوں، تمناؤں اور مامتا کے جذبات نے بے شمار رنگ بھرے ہیں۔ یوں بحیثیت مجموعی وہ اعلیٰ اقدار حیات پر اپنے یقین اور ایک انسان دوست عالمی معاشرہ کی نمود کے حوالے سے دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کو قلم بند کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنی نظم ’’ سلسلے‘‘ میں وہ کہتی ہیں: سلسلے ’’ تمام لمحے جو نسل انساں کو چھو کے گزرے گئی رتوں کی امانتیں بھی نئے دنوں کی بشارتیں بھی کبھی تمناؤں کی شبنمی ردائیں کبھی دعاؤں کے سبز آنچل جو ابن آدم کے رازداں ہیں جو بنت حوا کی داستاں ہیں گلوں کی صورت مثال خوشبو ہماری میراث ہیں ازل سے وہ سب شگوفے جو کھل چکے ہیں، جو کھل رہے ہیں کسی کی یادوں، کسی کی باتوں سے مل رہے ہیں وصال و ہجراں کے سب تقاضے مزاج جاناں کے رمز سارے ہمارے پیمانہ جنوں سے چھلک رہے ہیں ہمارے نغموں میں اپنی پلکیں جھپک رہے ہیں وہ سب صحیفے، صداقتوں کے جو ترجماں ہیں ہمارے لفظوں کے آئنوں میں ان آیتوں کی گواہیاں ہیں وہ سارے الفاظ جو ابھی تک کسی زمیں پر کسی زباں میں لکھے گئے ہیں ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں وہ سارے جذبے وہ سارے رشتے خلوص جاں کے، نزول غم کے تمام پیماں تمام پیکاں ہمارے دل کی پناہ گاہوں میں آ بسے ہیں ہماری آنکھوں کے معبدوں میں سجے ہوئے ہیں وفائیں خود اپنی نامہ بر ہیں صداقتوں کے سخن امر ہیں‘‘ مسجد اقصیٰ، سواد شب، الفتح، تضاد رنگ، دید کا لمحہ وہ نظمیں ہیں جن کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ادا جعفری کا شعری وژن، گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ، وسیع تر ہوا ہے اور وہ شعری شعور جو ان سے قبل ہمیںز۔ خ۔ ش، اور اس عہد کی چند دیگر شاعرات کے یہاں نمایاں ہوتا محسوس ہوا تھا وہ ادا جعفری تک آتے آتے کئی اور جہتوں میں سامنے آیا ہے۔ ادا جعفری نے زندگی کے وسیع تر مشاہدات، دیگر معاشروں کی سائنسی اور علمی ترقی سے اپنی آگاہی اور عہد حاضر کی سیاسی اور سماجی زندگی کے تضادات سے واقفیت کے باوصف، اپنے شعری اظہار میں اپنی قوم کے موجودہ احساسات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو بھرپور اعتماد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی نظم ’’ الفتح‘‘ ملاحظہ کریں۔ ’’الفتح‘‘ ابھی کل کی بات ہے ہم نوا میرے پاس میری نگاہ تھی جو وقار تھی، جو پناہ تھی وہ نگاہ کشت فسون جاں ترے درد سے مرے درد تک وہی رنگ تھا وہی روپ تھا کبھی زخم زخم پہ نوحہ خواں کبھی بس تجاہل عارفاں جو کلی کلی کی نسیم تھی جو رحیم تھی، جو کریم تھی وہ سفیر جاں، وہ خبیر دل ترا آئنہ، مرا آئنہ وہ نگاہ تیری نگاہ تھی وہ نگاہ میری نگاہ تھی یہ مسافران برہنہ پا اسی اک نگاہ کی ہیں جھلک وہیں ہیں لباس شعاع میں جہاں راکھ اٹھی تھی پلک پلک یہ مثیل ذرہ ناتواں جو زمیں کی کوکھ سے پھوٹ کر بہ جمال غم، بہ فسون جاں بہ کرشمہ ہائے جنون جاں بہ ہوائے رنج نمو رہا ہے دراز درد کا سلسلہ یہ مسافران برہنہ پا یہ بلا کشان خجستہ پا یہی طالبان نگار صبح یہی وارثان شرار صبح پے کوہسار افق بڑھے لب جوئبار شفق چلے یہاں پر نظم کے صوتی آہنگ میں ایک تبدیلی کے ساتھ انہوں نے اسے اس انداز میں تکمیل تک پہنچایا ہے کہ نظم کے بیانیہ انداز میں اک نئی جان پڑ گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ امید آفرینی اور آرزو مندی کے اک تازہ تر جذبے کے ساتھ نئے زمانے کا نغمہ تحریر کر رہی ہیں۔ یہ نظم جو 1968ء میں قلم بند کی گئی تھی۔ اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے اک نئی امنگ اور نئے حوصلے کا مژدہ کچھ اس طرح دیتی ہے: چلے ہیں یہ کہ ہے روشن ابھی خیال کی لو اسی نگاہ کی مشعل، اسی جمال کی لو یہیں کہیں سپر آفتاب کھوئی تھی جہاں پہ ڈوب گئی ہے، وہیں سے ابھرے گی شفق سا رنگ گھلا ہے بدن بدن کے لیے گلوں نے آج تلک چاک پیرہن نہ سیے لہو لہو ہیں جو چہرے تو رنگ زرد نہیں دریدہ پیرہنوں کی جبیں پہ گرد نہیں ادا جعفری کی کلیات میں ان کے چھ شعری مجموعے شامل ہیں۔ یعنی ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی، شہر درد، غزالاں تم تو واقف ہو، ساز سخن بہانہ ہے، حرف شناسائی ‘‘ اور’’ سفر باقی ہے‘‘ اور یہ کلام 1950ء سے 2002ء تک کی ان کی شعری کاوشوں پر مشتمل ہے۔ ’’ میں ساز ڈھونڈتی ہوں‘‘ کے ابتدائی کلام کے بعد’’ شہر درد‘‘ سے’’ سفر باقی ہے‘‘ تک کی مجموعی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا کا شعری اسلوب نصف صدی سے زائد اس عرصے میں بھی کسی بڑی تبدیلی سے نہیں گزرا ہے۔ ان کے طرز اظہار، ان کے محسوسات اور ان کے لب و لہجہ میں درد کی دھیمی دھیمی لہریں ڈوبتی ابھرتی محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی بلند آہنگی، کوئی شدت مزاحمت، کوئی احتجاج، کوئی غصہ، کوئی سرکشی اس طرح نمایاں نہیں ہوئی کہ ان کے شعری اظہار کی ساخت، ان کے زبان و بیان اور اسلوب اظہار کو کسی اور رنگ میں ڈھال کر پیش کرتی۔ البتہ جس طرح ہر تخلیق کار اپنے پیش روؤں اور اپنے ہم عصروں میں ہے کسی نہ کسی توانا آواز کا کوئی نہ کوئی اثر قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح ادا جعفری کی لفظیات شعری استعاروں، الفاظ کے دروبست اور مصرعے کے اتار چڑھاؤ میں بھی ان کے عہد کی کئی منفرد آوازوں کے اثرات اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان کے مختلف مجموعوں میں شامل چند نظموں کے ان ٹکڑوں کو تقابلی نظر سے دیکھنے سے اس نکتے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ’’ اجنبی‘‘ ساحل بحر پہ تنہا بھی ہوں آزردہ بھی کس قدر خوش ہوں کہ ہو جاتی ہوں افسردہ بھی یوں نہیں تھا کہ مجھے رہ میں اجالا نہ ملا کیسے کہہ دوں کہ محبت کو سہارا نہ ملا وہ جزیرے جو تمہیں دور نظر آتے ہیں جو ہمہ رنگ، ہمہ نور نظر آتے ہیں میرے شہکار، مرے خواب، مرے ارماں ہیں میری تشکیل کی کرنیں ہیں کہ تاب افشاں ہیں میں جو کردار بھی ہوں، خالق افسانہ بھی آج اپنے ہی خدو خال نہ پہچان سکی برگ گل کی وہ فصیلیں ہیں کہ جی ہانپ گیا رشتہ نکہت گل بھی مجھے زنجیر بنا یہ مرے دل کا حسیں خواب کہ تعبیر بنا نظم ’’ سواد شب‘‘ سے ایک اقتباس: ’’ سواد شب‘‘ لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے آج کی رات ہے تاریک، مسافت بھی کڑی جیسے سینے پہ کوئی برف کی سل آن پڑی اب نہ دیدار کا مژدہ، نہ جدائی کی گھڑی اک خلش سی ہے جسے نام کوئی دے نہ سکوں نہ رفاقت، نہ مروت، نہ محبت نہ جنوں کچھ تو ہو گرمی محفل کا بہانہ ساتھی جی بہل جائے گا زخموں کی نمائش ہی سہی بارش سنگ سے ہر پیکر گل زخمی ہے کہیں آدرش ہے گھائل، کہیں دل زخمی ہے سوچتی ہوں کہ کہیوں بھی تو بھلا کس سے کہوں ان میں وہ سنگ ملامت بھی تو شامل ہوں گے جس کی زد پر سبھی اپنے ہیں کوئی غیر نہیں پھول سے ہاتھ میں پتھر کی خراشیں ہی گنوں درد چمکا ہے اندھیرے میں تو جی ٹھہرا ہے لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے یہ شعری آہنگ اور یہ لہجہ جوان دونوں نظموں میں موجود ہے ادا جعفری کی بیانیہ شاعری کا مخصوص لہجہ ہے، جسے انہوں نے اپنی اکثر نظموں میں بارہا برتا ہے۔ ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘، کی بعض نظموں میں فیض احمد فیض کی رومانی شاعری کا پرتو بھی ہے اور لفظیات اور آہنگ شاعری میں فیض کے لہجے کی غنائیت اور ترنم کی بازگشت بھی صاف سنی جا سکتی ہے۔ ’’ آج کی رات کتنی تنہا ہے‘‘ آج کی رات کتنی تنہا ہے ہم بھی تنہا ہیں، دل بھی تنہا ہے قطرہ قطرہ بجھی ہے آنکھوں میں درد کی آنچ روشنی کی طرح منجمد تیرگی ہے چار طرف آج کس در سے مانگنے جائیں زخم احساس، زندگی کی طرح غم ہی ہوتا تو غم گسار آتے ہجر کی رات ہم گزار آتے اس نظم میں ’’ ہجر کی رات‘‘ ،’’ درد کی آنچ‘‘ ،’’ غم گسار‘‘ ،’’ قطرہ قطرہ‘‘ جیسی لفظیات فیض کے سرمایہ لفظی سے اثر پذیری کا تاثر دیتی ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی نظموں میں بھی ’’ درد کے نامہ بر‘‘، ’’حلقہ زنجیر‘‘ ،’’ پاؤں کے چھالے‘‘ ،’’ نقد جاں‘‘ ،’’ خون کا قرض‘‘ ،’’ پس زنداں‘‘ ،’’ پندار کی چاہت‘‘ ،’’ سر کوچہ و بازار، احوال دل فگاراں، غم چارہ گراں، مدارات درد ہجراں، نکھرا ہوا زخم، چمکا ہوا درد، کجلائی ہوئی رات، لو دیتی ہوئی تنہائی‘‘ جیسی لفظیات اور تراکیب بھی اسی سلسلہ اکتساب کا احساس اجاگر کر رہی ہیں مگر ان نظموں کے علاوہ بھی ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ مین شامل کئی نظمیں ان کے خاص شعری آہنگ میں ان کے محسوسات، ان کی شخصی آرزوؤں اور تمناؤں کے باب میں ان کے نرم لہجے کی ترجمان ہیں۔ ان نظموں میں ایک نوع کی خود کلامی ہے جو ایک گہرے احساس تنہائی سے پیدا ہوئی ہے: ہم نے بھلا کس سے کہا کرتے رہے ہم عمر بھر کس رہ گزر کی جستجو آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوا منسوب جس کے نام تھی ہر روشنی، ہر آرزو سفاک تھی موج بلا مرگ تمنا عام تھی چپ چاپ ہم کس کے لیے تھامے رہے جلتے دیے دیکھو کہ پھر صیقل ہوئے شہر وفا کے آئینے آتی رتوں کی آہٹیں بہتے دنوں کے نقش پا دیکھو کہ وہ آرام جاں ہم پر ہوا پھر مہرباں ہم نے بھلا کس سے کہا!!! یا ایک اور نظم:’’ تم نے ایسا کیوں سوچا تھا‘‘ تم نے ایسا کیوں سوچا تھا خوابوں کی مالا ٹوٹی تو خالی ہاتھوں لاج آئے گی گونگی ہو جائیں گی آنکھیں گیت سے خوشبو کترائے گی رنگت پھیکی پڑ جائے گی خوابوں کی مالا ٹوٹی تو تم نے ایسا کیوں سوچا تھا آرزوؤں کے راج دو محلے بن جائیں گے ریت گھروندے چاند کی کشتی کیوں اترے گی شبنم جلوؤں کو ترسے گی خوابوں کی مالا ٹوٹی تو تم نے ایسا کیوں سوچا تھا تم تو میرے پاس ہو اب تک موتی میری جھولی میں ہیں ساز سخن بہانہ ہے، میں جسے پیش کرتے ہوئے ادا جعفری نے لکھا تھا کہ ’’ یہ تصویریں نہ کسی چوپال کی ہیں نہ کسی محل سرا کی یہ دلوں کے اندر کی، ذات کے تہہ در تہہ حجابوں کی تصویریں ہیں۔ یہ زندگی کے خاکے ہیں کچھ میری ذاتی اور کچھ ہماری اجتماعی زندگی کے خاکے ہیں میں جس عہد میں زندہ ہوں یہ اس عہد کے خواب ہیں۔ ‘‘ اور پھر اپنی نظم ’’ سانجھ سویرے‘‘ میں ان کا یہ شعری اظہار: ’’ سانجھ سویرے‘‘ بھگی بھیگی پلکوں والی جتنی آنکھیں ہیں میری ہیں دکھ کی فصلیں کاٹنے والے جتنے ہاتھ ہیں میرے ہیں شاخ سے ٹوٹی کچی کلیاں الجھی الجھی لٹ بھی میری دھجی دھجی آنچل بھی کالی رات کی چادر اوڑھے اجلے دن کا رستہ دیکھ رہی ہوں! یا نظم ’’ اس تضاد شب و روز میں‘‘ ان کے شعری محسوسات کی یہ صورت گری: ’’ اس تضاد شب و روز میں‘‘ زندگی رقص آئینہ گر اور میں آئینہ صرف پرچھائیاں اور میں میری مانوس تنہائیاں اور میں ذات کی ریشمیں، نرم آغوش میں موت کا سا سکوں جیسے اک ساغر واژ گوں جیسے پلکوں کی موہم سی جنبش بے زباں گھاس کی سبز یتی کسی پھولوں کی پنکھڑی کی طرح ناتواں خواب پروائیاں اور میں، عکس، تصویر، تفسیر تشہیر بھی اپنے پیروں کی زنجیر بھی نظم مزید آگے بڑھتی ہے تو ادا کہتی ہیں: زہر احساس نس نس میں شعلہ فشاں ہو تو پھر میرے مغرور فن کا ہر اک معجزہ جرأت آگہی جاگ اٹھے شہر جاں میں کوئی رنگ مدھم نہیں وحشت شوق کو زاد رہ کے لیے سلسبیل نگہ کم نہیں اور میں اس تضاد شب و روز میں جتنے رنگوں کی پہچان ہوں ان کو پہچان لوں پھر مرے روبرو رقص آئینہ گر آئینہ! ان نظموں کے تقابلی مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ ادا جعفری کا شعری شعور، وقت کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح نمو پذیر رہا ہے کہ وہ اپنے محسوسات، مشاہدوں اور فکری رحجانات کے اظہار میں اک ایسے اعتماد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں، جہاں انہوں نے زندگی کے معانی اور اس کے رشتوں کی مختلف جہات کو زیادہ بہتر طور پر پیش کیا ہے۔ ادا جعفری کا پانچواں شعری مجموعہ ’’ حرف شناسائی‘‘ 1999ء میں شائع ہوا تو اس میں بھی اپنے عہد اور اپنی معاشرت کے اجتماعی تجربات اور احساسات کے حوالے سے کئی نظمیں موجود تھیں۔ ان نظموں میں نئی نسل کے نام امیدوں اور آرزوؤں کا اظہار بھی ہے اور اپنے وطن کے تعلق سے اپنے جذبوں اور خلوص کو بھی از سر نو تازہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی ذاتی زندگی کے اندوہ اور المیوں کا تذکرہ بھی موجود ہے اور اپنے شریک حیات کے بچھڑ جانے کے دکھ کی شعری تجسیم بھی کی گئی ہے۔ ان نظموں کے مندرجہ ذیل اقتباسات کے مطالعے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ادا جعفری کی شاعری، تکنیکی بحثوں کی الجھن پیدا کیے بغیر، ایک گہرے انسانی دکھ کی دھیمی دھیمی پرسوز نغمگی کے ساتھ وجود میں آئی ہے اور ایک حساس شاعرہ کو ہم سے متعارف کراتی ہے جو اپنے غموں کے بیان میں اپنی محرومی اور مظلومی کا چرچا کر کے دلوں کو متاثر کرنا نہیں چاہتی بلکہ اپنی بردباری اور شخصی وقار کے ساتھ، اپنے جذبات کی کشاکش اور اپنے زخمی احساسات سے متعارف کروانا چاہتی ہے۔ نظم نوجوان نسل کے نام مرے بچو! تم آنے والے موسم کی دعا ہو تمہیں ورثے میں ہم نے کیا دیا کیا دے سکے ہیں گزرگاہوں پہ بہتاخوں ہوائیں شعلہ ساماں خوف اور نفرت سے آلودہ مرے بچو! محبت اور قیادت کے سبھی منظر تمہارے منتظر ہیں کہ تم اس سر زمیں اس آسماں کی آبرو ہو جنہیں کھلنا ہے ان پھولوں کی خوشبو ہو ایک اور نظم’’ یہ بستیاں ویراں نہیں‘‘ میں کہتی ہیں: ’’ یہ بستیاں ویراں نہیں‘‘ نہیں، یہ بستیاں ویراں نہیں اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یہ وہ ہیں جو کبھی زخم وفا، بازار تک آنے نہیں دیتے یہاں کچھ خواب ہیں جو سانس لیتے ہیں جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ فلک آثار بام و در یہاں وقعت نہیں رکھتے کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے یہ جتنے لوگ ہیں بے نام ہیں، بے لاگ ہیں بے ساختہ جینے کے طالب ہیں یہ دل کے بوجھ کا احوال اپنے حرف، خود لکھنے کے طالب ہیں اجالے کی سخی کرنوں کو زنداں سے رہائی دو ذاتی دکھوں کے حوالے سے ایک نظم ’’ خالی ہاتھ‘‘ سے یہ اقتباس دیکھیے: ’’ خالی ہاتھ‘‘ جب اس کے ساتھ تھی میں اس وسیع کائنات میں نفس نفس، قدم قدم نظر نظر امیر تھی اور اب غبار روز و شب کے جال میں اسیر ہوں نورم کے نام ایک نظم سے اقتباس: تم اب میرے سرہانے موتیا کے پھول رکھنا بھول جاتے ہو سویرا ہو تو کیسے ہو اجالا، اب مرے دل تک نہیں آتا دھنک کے رنگ آنچل سے پھسل کر گر چکے ہیں مسافر خواب کو رستہ مرے گھر کا نہیں ملتا کوئی شیریں نوا طائر کسی رت کا سندیسہ اب نہیں لاتا تو کیا سب آئینے ٹوٹے تو کیا اب یہ زمین و آسماں بدلے یہ سناٹا، اندھیرا اور تنہائی یہ ویرانی تمہارے بس میں تھا کار مسیحائی نہ جانے تم کہاں ہو!! اور جب ادا جعفری اپنے آخری شعری مجموعے ’’ سفر باقی ہے‘‘ تک پہنچتی ہیں تو اپنے شعری اظہار میں اپنے گزرے ہوئے سفر حیات کے تعلق سے ایک رجائی انداز اختیار کرتے ہوئے یوں اظہار کرتی ہیں! بتائیں کیا ہمارے زخم زخم کے گلاب ماہ و آفتاب سب گواہ ہیں کہ ہم نے کیا نہیں سہا صعوبتوں کے درمیاں ہمارے ساتھ اک یقیں رہا گواہ یہ زمین اور زماں رہے نہ آج سوگوار ہیں نہ کل ہی نوحہ خواں رہے شرر جو کل لہو میں تھے وہ آج بھی لہ ومیں ہیں ہمارے خواب، سانس لے رہے ہیں آج بھی کوئی دیا بجھا نہیں کہ ہم ابھی تھکے نہیں کہ ہم کبھی تھکے نہیں اور اک صدی سے دوسری تلک سفر میں ہیں ادا جعفری نے عہد جدید کے صنعتی معاشرے کی شکست و ریخت کا شکار ہونے والے انسانی رشتوں کی خوبصورتی کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اس موضوع کے حوالے سے بحیثیت عورت، اپنی داخلی آواز اور اپنی باطنی سچائیوں کو ایک خاص طرز احساس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یعنی زندگی کے وہ رشتے جو دائمی اور اٹل ہیں جن پر ان کا اعتماد گہرا ہے اور جن کے تعلق سے وہ خود اپنی زندگی کے معانی و مقاصد چاہتی ہیں۔ یہی وہ رشتے ہیں جو آسودگئی جاں کا سبب ہوتے ہیں اور جن کی سچائی کا ادراک انسان کی ذات کو ایک محدود زندگی سے نکال کر ایک وسیع تر دائرہ حیات میں شامل کر دیتا ہے۔ ادا جعفری ان رشتوں اور ان بندھنوں کو بے حد عزیز جانتی ہیں۔ اور ان کے حسن کے بیان میں اپنے اعتماد اور اپنی گہری مسرتوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری میں مامتا کے بے ساختہ جذبات، محض ایک مخصوص ماں اور اس کی اولاد کے باہمی رشتے تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے ایک بھرپور وارفتگی، محبت اور گہرے تعلق کی علامت بن کر اظہار پاتے ہیں نظم ’’ دوسرا قدم‘‘ ’’ دوسرا قدم‘‘ یہ شوخ لال اوڑھنی یہ مامتا کی چھاؤںمیں گلاب سے الجھ گئی نگہ سے پھوٹتی کرن لبوں پہ کھیلتی ہنسی یہ میرے گھر کی چاندنی مرے سحر کی روشنی جمال شہر آبرو غرور حرف آرزو یہ پارۂ جگر مرا فسانہ دگر مرا ہے مستجاب ہر دعا مری نظر، مری نوا ہر ایک خواب دل ربا امر ہوا، امر ہوا چراغ ہاتھ ہاتھ ہے تسلسل حیات ہے وہ بامراد ہو گئے جو مر کے بھی نہ مٹ سکے (غزالاں تم تو واقف ہو) پھر ایک اور نظم اپنے بیٹے عزمی کے نام وداع کی گھڑی سہی ذرا سنبھل ذرا قدم بچا کے چل کہ چبھ نہ جائیں تیرے پھول جیسے پاؤں میں ان آئینوں کی کرچیاں جنہیں کسی نے اشک اور کسی نے حرف آرزو کہا کسی نے کاسہ دعا کہ میرے پاس تیری نذر کے لیے کچھ اور تھا بھی کیا یہ آنسوؤں کے روپ میں گئی رتوں کے آئنوں کی کرچیاں پلک سے تھم نہ پائیں گی ترے سفر کے راستوں میں آئیں گی وداع کی گھڑی سہی ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل میں اپنے دل کے بت کدے میں یہ چراغ آئنے سنوار لوں ان آئینوں میں تیرا حسن بے مثال ہے ان آئنوں میں میری آرزو کے لمحے لمحے کا جمال ہے وداع کی گھڑی سہی ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل ذرا قدم بچا کے چل (ساز سخن بہانہ ہے) نظم ’’ اس کو نزدیک آنے نہ دو‘‘ ’’ اس کو نزدیک آنے نہ دو‘‘ نہیں میرے بچو! جدائی تو عفریت ہے سخت بے دروخوں خوار آسیب ہے اس کو نزدیک آنے نہ دو تم مجھے دیکھ لو کسی یقیں اور کتنے تحمل سے میں روز ہر روزن ور کے آگے حصار دعا کھینچ دوں تم مری آنکھ میں اعتبارنگہ کی طرح فاصلے دوریاں کچھ نہیں تم مرے پاس ہو میں تمہارے قریں تم تو خود اپنی دھرتی کا چہرہ ہو آواز ہو تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں اور گل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں ہے یہاں جیسے دیپک کی لو اور وہاں روشنی میں تو جس آئینے میں بھی چاہوں تمہیں دیکھ لوں موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے اس میں تمہاری ہنسی گھل گئی اور چمپا کی خوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تل گئی دیکھ لو کس طرح کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی یاد کی بھیگتی چاندنی میں میں اب بھی بہاروں سے لے کر ردائے صبا اوڑھ لوں (ساز سخن بہانہ ہے) اپنے بیٹے عامر کے لیے ایک نظم: ’’ شجر نازاں‘‘ شجر گل بار اور نازاں نمو کے راز سے سرشار، خود حیراں شجر سایہ فگن، گل بار اور نازاں ابھی کل تک بس اک کونپل کی صورت تھا جو میرے لمس کی کرنوں سے ہر رنگت کا خواہاں تھا غم خود آشنائی کی ہر اک لذت نمو کی دل ربا وحشت کا خواہاں تھا اسیر شش جہت نے اس گھڑی جس سمت بھی دیکھا وہ میری ہی نگاہیں تھیں مرے ان ناتواں ہاتھوں میں تھیں جتنی پناہیں تھیں جو آنسو تھا وہ شبنم سا وہ لمحہ تھا، بشارت تھا شجر سایہ فگن گل بار اور نازاں وہ کل بھی تھا مرے ہر خواب کا عنواں وہ اب بھی ہے مری تکمیل کا ساماں جہاں تک اس کی خوشبو ہے وہاں میں ہوں مرے عامر! یہ میری اور تمہاری ہی کہانی ہے گھنا سایہ وہیں تک ہے جہاں تم ہو گھنیری چھاؤں مل جائے تو موسم کی تمازت ہار جاتی ہے دلوں میں پھول کھل جائیں تو ویرانوں کی شدت ہار جاتی ہے (ساز سخن بہانہ ہے) ان نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا جعفری نے نہ صرف اپنی پیش رو شاعرات کے یہاں موجود اثبات ذات کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ عہد حاضر میں اپنے بعد آنے والی شاعرات کے لیے بھی اپنے شعور ذات سے حاصل کردہ مسرتوں کے سفر کا آغاز کیا اور اب اس سفر کی راہوں پر نئے لہجوں، نئے اسالیب اور نئے شعری تجربات کی خوشبوئیں بکھرتی چلی جا رہی ہیں۔ ٭٭٭ ادا جعفری کا جہان شعر نظم وہ کم عمری تھی نادانی کے دن تھے اور میں نے وقت کے ساحر سے پوچھا تھا پتا اپنا پھر اس جادو کے لمحے نے نہ جانے کیا کہا مجھ سے نہ جانے کیا سنا میں نے کہ میں اب تک سفر میں ہوں ادا جعفری کی ابتدائی شعری کاوشیں جو1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالے ’’رومان ‘‘ مرزا ادیب کے ’’ ادب لطیف‘‘ مولانا تاجور کے ’’ شاہکار‘‘ اور غیر منقسم ہندوستان کے دیگر جرائد کے ذریعے سامنے آئیں۔ ان میں اس عہد کی عام نسائی شاعری سے ایک واضح انحراف موجود تھا اور دیگر شاعرات کے اسالیب، موضوعات اور طرز احساس کے برعکس ایک جداگانہ اور انفرادی رنگ نمایاں تھا۔ ان سے قبل شاعرات اصناف سخن میں زیادہ تر قدیم غزل اور دیگر مروجہ ہیئتوں تک محدود تھیں اور کسی فکری اور ہیئتی اجتہاد سے کام لینے کی صلاحیت ان میں نظر نہ آتی تھی۔ ادا جعفری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ترقی پسند موضوعات اور نظم کے پیرائے کو اپنا کر شاعری کے جدید تجربات کی طرف خواتین کو متوجہ کرنے کا کام کیا۔ اپنے اولین شعری مجموعے ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کا پیش لفظ انہوں نے منظوم قلم بند کیا اور نظم کی شاعرہ کے طور پر ابھریں۔ اس نظم میں قدیم اور جدید رویے کے تقابل کا موضوع چھیڑ کر وہ اپنے طرز احساس اور نظریہ فن کی صراحت یوں کرتی ہیں: زندگی تیرے لیے خواب سہی، گیت سہی نقرئی گیتوں کی ذرکار سجیلی کرنیں نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں تو کہاں سوچتی خوابوں کی سجل بانہوں میں کیوں ڈھلکنے سے بھی معذور رہا کرتے ہیں وہی آنسو جنہیں مبہم سا سہارا نہ ملا کسی دامن، کسی آنچل کا کنارا نہ ملا کیسے محبوب تمناؤں کی کومل کلیاں آگ اور خون کے عفریت نکل جاتے ہیں کیسے تہذیب کے معیار بدل جاتے ہیں تو کہاں سنتی وہ بے باک نوائی جس کو لوریاں دے کے سلایا ہے نہاں خانوں میں انہیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے کتنی معصوم امیدوں کے لجیلے سپنے چند دانوں کے عوض، بکتے رہے بکتے رہے بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی اس مجموعے میں شامل ابتدائی شاعری کے یہ نمونے ہی ہمیں ایک ایسے وجود کا احساس دلا رہے ہیں جو ’’ باطنی کشمکش‘‘ کی زد پہ آیا ہوا ہو اور خود اپنے آپ سے سوالات اٹھا رہا ہو۔ نظم ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کا آخری ٹکڑا کچھ یوں ہے: ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کہ سن رہے ہیں چشم و دل ںظام نو کی آہٹیں بہار بیت ہی چکی، خزاں بھی بیت جائے گی مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں؟؟ یہ اسلوب، جدید شاعری کی سمت ادا جعفری کا پہلا قدم تھا۔ ممتاز ادیب قاضی عبدالغفار نے ادا جعفری کے پہلے شعری مجموعے ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کے دیباچے میں اس عہد کی ادبی اور فکری صورت حال کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ ادا جعفری (جو اس وقت ادا بدایونی کے نام سے معروف تھیں) کی شعری شخصیت پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والی دیگر باشعور اہل قلم خواتین کے ساتھ ادا بدایونی کو بھی عہد جدید کے ان قلم کاروں میں شمار کیا ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے مطالبہ حقوق انسانیت کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ 1940ء سے 1950ء تک کے عرصے میں پاک و ہند کی تحریک کا پر آشوب ماحول بھی ذہن و احساس کی سطح پر ادا جعفری کو متاثر کر رہا تھا۔ ایک جانب بر عظیم میں برطانوی سامراج سے چھٹکارے کی آخری جنگ جاری تھی تو دوسری طرف تقسیم ہند کے ذریعے مسلمانوں کے تہذیبی اور نظریاتی تشخص کو تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ عالمی پس منظر یہ تھا کہ آمریت اور سامراجی استبداد کے خلاف ہر سطح پر شدید رد عمل سامنے آ رہا تھا۔ مغرب میں برطانیہ کے اقتدار کا کبھی نہ ڈوبنے والا سورج، افق کی پہنائیوں میں گم ہوتا جا رہا تھا اور مشرق کی سر زمین پر چین کی عظمت و سربلندی کی صبح روشن طلوع ہو رہی تھی۔ ان ساری تبدیلیوں نے فکری اور سماجی سطح پر ادب و زندگی کے تعلق سے نت نئی جہتوں کو متعارف کرایا تھا۔ ترقی پسند تحریک کا واضح میلان اشتراکیت کی طرف تھا۔ یعنی یہ کہ ادب کو سیاسی اور سماجی نظام کے تابع ہونا چاہیے۔ انتہا پسند اور اعتدال پسند ادیبوں اور شاعروں کے دو واضح گروپ سامنے آئے تھے۔ ن م راشد اور میرا جی کا جدید شعری اسلوب، جوش کی سیاہی، اختر شیرانی کی رومانی، احسان دانش کی سماجی اور حفیظ جالندھری کی اسلامی اور تاریخی نظمیں مختلف حلقوں میں مقبول و معروف تھیں۔ فراق، فیض، اختر الایمان، مجید امجد، مجروح سلطان پوری، ساغر، عدم، مجاز، جذبی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری یہ سارے نام شعری افق پر اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ دمک رہے تھے۔ ایک اہم فکری منبع علامہ اقبال کے شعری سرمائے کی صورت میں میسر تھا اور اگرچہ اب اقبال خود بقید حیات نہ تھے، ان کی منفرد شاعری اپنی بھرپور انقلاب انگیز اثر پذیری کے ساتھ، دلوں کو فتح کر چکی تھی۔ ان درجنوں شعری اسالیب اور نظریات حیات کے درمیان ادا جعفری کے لیے کسی خاص رنگ پر نگاہیں ٹھہرا دینا، ممکن ہی نہ تھا۔ ان کی ابتدائی شاعری کے خام مواد میں ہمیں ایک متجسس اور متلاشی شعری وجود کا احساس ملتا ہے جو اپنے پیش روؤں کے طرز اظہار سے استفادہ کرتے ہوئے، اپنی راہ تراشنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ میں شامل شاعری میں زندگی کے جمالیاتی رخ سے ایک بے ساختہ کشش اوقر رومان و حسن کی دنیا سے فطری لگاؤ کے باوصف، تخیل اور محسوسات کے رنگ تو نمایاں ہوئے ہیں مگر ان کا اپنا شعری لہجہ متعین نہیں ہو پایا ہے۔ جناب قاضی عبدالغفار کے تجزیے کی رو سے: ’’ ان نظموں میں اقبال، جگر اور فانی کے طرز فکر کے علاوہ، منظر نگاری اور ترنم کی خصوصیات اجاگر ہوئی ہیں۔ کہیں جگر کے تغزل کا رنگ ہے تو کہیں فانی کے طرز بیان کے اثرات۔ مگر یاس اور مایوسی کے دوش بدوش امید اور ایک بے محابا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے اور بیزاری اور یاس کے پردے میں ایک جذبہ طلب اور پیغام عمل کی نوید ملتی ہے۔‘‘ اقبال کے زیر اثر قومی اور ملی مسائل کے حوالے سے بھی ادا نے اپنے شعور و تجزیے سے کام لے کر اپنی نظموں کے لیے نئے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اختلاف، انحراف اور انکار کی صلاحیت، ان کی شخصیت میں بالکل ابتدا ہی میں نمایاں ہو چکی تھی اور انہی خصوصیات سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے استاد جناب عبدالستار سے جناب اثر لکھنوی کی ایک رباعی کے معنی اور مفاہیم کی صراحت کے سلسلے میں اختلاف رائے سے کام لیا تھا۔ گویا یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ علم و شعور کی راہوں پر آنکھیں موند کر چلنے کی خواہش نہیں رکھتیں بلکہ اپنے ذاتی مشاہدے، تجربے اور ادراک و شعور سے کام لینا چاہتی ہیں۔ اپنی شعر گوئی کے حوالے سے ادا لکھتی ہیں: ’’ مجھے احساس ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں جہاں عورت کی اپنی کوئی حقیقت نہیں تھی، میرا احتجاج بھی بلند آہنگ نہیں تھا۔ اسے احتجاج کہوں بھی یا نہیں، بہرحال نسل در نسل منتقل ہونے والی فرسودہ روایات سے انحراف یقینا کہا جا سکتا ہے۔ اونچی آواز میں بات کرنا میرا مزاج نہیںاور سب دیواریں مسمار کرنا میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔ مگر میں نے عورت کو مجبوری اور محکومی کی زندگی بسر کرتے دیکھا تھا اور اس دکھ کو سہا بھی میری شاعری اسی دکھ کے نام تھی۔‘‘ اس تجزیے کے پس منظر میں ان کی کلیات’’ موسم موسم‘‘ جس میں ان کے پانچ شعری مجموعے اور غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل حصہ بہ عنوان ’’ سفر باقی ہے‘‘ شامل ہے (یعنی 1950ء سے لے کر 2002ء تک کی ان کی تمام شعری کاوشیں) بطور خاص لائق مطالعہ ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ادا جعفری کی شاعری، بلند آہنگی، سرکشی، غصے اور احتجاج کے بجائے، مدھم مدھم سرگوشی اور خود کلامی کی کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان کے بیانیہ لہجے میں قدیم و جدید لفظیات کے امتزاج سے ایک ایسا شعری اسلوب وجود میں آیا ہے جو خاص ادا جعفری کی پہچان بن گیا ہے۔ اس پہچان کو انہوں نے اپنے طویل شعری سفر میں مستقل برقرار رکھا ہے۔ ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی ‘‘ سے ’’ حرف شناسائی‘‘ اور’’ سفر باقی ہے‘‘ تک تمام شعری پیرایوں میں ایک پر سوز لب و لہجہ غم ذات اور غم کائنات سے مانوس و آشنا اور زندگی کے جمالیاتی رنگوں سے مسرتیں کشید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ شعری اسلوب رومان و حقیقت کی تلخیوں اور شیرینیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لب و لہجے، شعری آہنگ، لسانیات و لفظیات اور اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے متنوع موضوعات کے حوالے سے اپنے محسوسات کو رقم کیا ہے اور پھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ شعور و آگہی، درد مندی، نسائی بصیرت اور اجتماعی انسانی مقاصد سے ان کی تازہ تر قربتوں نے اس لہجے میں تیقن اور امید آفرینی کی خصوصیات کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے دسمبر1998ء کے سال نامہ ’’ نگار پاکستان‘‘ کے ’’ ادا جعفری نمبر‘‘ میں اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے: ’’ آج سے چند سال قبل میں نے ایک محفل میں ادا جعفری کو اردو شاعری کی خاتون اول قرار دیا تھا اور یہ میں نے انہیں معنوں میں کہا تھا جن معنوں میں محمد حسین آزاد نے ’’ آب حیات‘‘میں ولی دکنی کو اردوشاعری کا باوا آدم کہنے کا مطلب آزاد کے نزدیک صرف یہ تھا کہ ولی اردو کے پہلے ایسے بلند مرتبہ شاعر ہیں جن کا نام بہ اعتبار فکر و فن، قابل قدر اور معتبر ہے، اسی طرح ادا جعفری اقلیم اردو شاعری کی خاتون اول ہیں کیونکہ ان کی شاعری نے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں بہ اعتبار رہنمائی و اثر پذیری، اردو کی خواتین شعراء کے حق میں وہی کردار ادا کیا ہے جو اٹھارویں صدی میں ولی دکنی نے عام شعراء کے حق میں ادا کیا تھا۔‘‘ اس شناخت کے تعین کا ایک خوش گوار پہلو یہ ہے کہ برصغیر کے روایتی معاشرے میں عورت کے ذہنی اور باطنی وجود کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ۔ اگرچہ بہت تاخیر سے اس کا اظہار کیا گیا مگر بالآخر ایک ایسا سماجی اور فکری رویہ ظہور پذیر ہوا جس میں روشن خیالی، ترقی پسندی اور عصری آگہی کے نئے تقاضوں کے مطابق خواتین قلم کاروں کی تحریروں کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ ادا جعفری کی تربیت کا آغاز اگرچہ قدیم طرز کی دینی اور تہذیبی روایات کے گھٹے ہوئے ماحول میں ہوا تھا مگر پھر زندگی نے انہیں ایک ایسے سفر پر روانہ کر دیا جہاں افق در افق، نئی دنیا کے مشاہدوں، تجربوں اور رنگا رنگی نے ان کے وژن میں ایک وسعت پیدا کر دی۔ اور ان کے اندر سانس لیتی حساس عورت، اپنے جیسی دیگر قلم کار خواتین کی تخلیقات میں بھی جرأت اظہار اور روایت شکنی سے پیدا ہونے والی تازگی کو پنپتے اور پھلتے پھولتے دیکھنے کی آرزو مند نظر آنے لگی۔ وہ لکھتی ہیں: ’’ تازہ وار دان بساط سخن کے کلام میں معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج پوری توانائی کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ معاشرتی زندگی میں انقلاب تو نہیں آیا مگر دیکھتے دیکھتے وقت نے ثابت کر دیا اور معاشرہ اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہو گیا کہ عورت نہ تو ذہنی طور پر پس ماندہ ہے نہ حسیاتی لحاظ سے مفلس۔ میرا لہجہ بلند آہنگ آج بھی نہیں مگر مجھے خواتین کی شاعری میں احتجاج کی بے جھجک، بے تامل اونچی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ ادا جعفری کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ شہر درد‘‘ طویل عرصے کے فرق کے ساتھ یعنی پہلے شعری مجموعے کی اشاعت کے سترہ سال بعد1967ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کی بیشتر نظمیں1965ء سے 1967ء تک گویا دو ڈھائی سال کے عرصے میں کہی گئی ہیں۔ یہ عملی زندگی کے سفاک تقاضوں میں گم ہو جانے والی زود حس شاعرہ کے لیے اپنے باطنی وجود کی از سر نو دریافت کا مرحلہ تھا۔ ادا لکھتی ہیں: ’’ اس طویل خاموشی کی اصل وجہ میں خود بھی نہیں جانتی۔ یا شاید یہ وجہ ہو کہ ان دنوں مامتا کے جذبے سے پہلی بار متعارف ہوئی تھی، جھولی میں اتنے پھول تھے کہ نظر اٹھا کر کسی اور سمت دیکھنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ لیکن اجلے اجلے دھندلکوں کی طرح خود فراموشی کتنی ہی دل فریب کیوں نہ ہو، شکر ہے کہ دائمی نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ بہت طویل عرصہ تھا اور بڑی نامانوس مسافت تھی۔ دشت بے آب و گیاہ بھی اور خیاباں خیاباں گل و سمن بھی۔ اپنے بچوں اور اپنے گھر میں بہت خوش بھی رہی اور تمام وقت ایک احساس محرومی بھی دل میں چبھتا رہتا تھا۔ پھر میرا کھویا ہوا قلم مجھے واپس مل گیا اور بھرپور اجالوں کی تمنا ’’ شہر درد‘‘ تک لے آئی۔‘‘ ادا جعفری اور جناب نور الحسن جعفری کے قریبی احباب میں جناب مختار زمن کا ذکر بطور خاص آتا ہے۔ انہوں نے ادا جعفری کے حوالے سے لکھا ہے: ’’ ادا جعفری کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی ملت اور اپنے وطن پاکستان سے شدید محبت ہے، جس کا ثبوت ان کے چاروں مجموعوں میں ملتا ہے۔ 1965ء کی پاک و ہند جنگ اور میجر ضیاء الدین عباسی کی شہادت نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میجر عباسی ان کے شوہر سے قربت رکھتے تھے۔ ان کی سناؤنی سنی تو ادا تڑپ اٹھیں۔ سر فخر سے بلند بھی ہو گیا کہ ہمارے خاندان کے ایک چشم و چراغ نے وطن کے لیے جان قربان کر دی ہے۔ ادا نے ’’ میرے شہید‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ اسی سلسلے کی نظمیں ’’خاک وطن کو سلام‘‘ اور ’’ سترہ دن بعد‘‘ بھی ہیں۔ یہ نظمیں احساس دلا رہی ہیں کہ وطن دوستی کا موضوع ان کا ایک محبوب موضوع ہے اور اس کے حوالے سے وہ بارہا اپنے محسوسات کو پیش کرتی رہی ہیں۔‘‘ ’’ شہر درد‘‘ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا: ’’ ادا جعفری نے درد کا جو شہر تخلیق کیا ہے۔ اس شہر کی دیواریں اب ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ عالم گیر ہیں اور اس درد میں حزن و یاس کا عنصر بہت کم اور عزم و استقلال کا دخل بہت زیادہ ہے۔‘‘ ’’ شہر درد‘‘ میں غزلیں بھی شامل ہیں اور نظمیں بھی مگر اب داخلی زندگی کے تذبذب اور اضطراب میں ایک ٹھہراؤ کا احساس ہوتا ہے اور زندگی کے نئے تقاضوں سے آنکھیں ملانے سے پیدا ہونے والی جرأت بھی لہجے میں نمودار ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ غزل بھی اسی مجموعے میں شامل ہے جسے پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک امانت علی خاں مرحوم نے گایا ہے۔ اس غزل میں اظہار کی تازگی نمایاں ہے: ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا کام آئے تو پھر جذبہ ناکام ہی آئے ’’ شہر درد‘‘ میں شامل غزلوںمیں ادا کا انفرادی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں لفظیات اور طرز اظہارمیں ایک باطنی اداسی کسی در پردہ دکھ کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے: حائل رہی ہے راہ میں دیوار برگ گل پلٹے ہیں شہر درد سے دست تہی لیے ایک قطرہ شبنم، چند ادھ کھلی کلیاں دیکھیے تو کافی ہے زندگی کا سرمایا اک کرن تبسم کی زاد راہ بن جاتی اور دل نے کیا مانگا اور ہم نے کیا چاہا کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں سچ کو زہر کہتے ہیں زہر پی لیا، ہم نے راہ میں کہاں چھوڑا دل سا رہنما ہم نے برگ گل سے کیوں پوچھا گھر کا راستہ ہم نے کر لیا ہے کس دل سے اپنا سامنا ہم نے گویا’’ شہر درد‘‘ میں وہ حقیقت پسندی کی طرف بڑھی ہیں۔ یہ شعور، جسم و جاں پر بہت کچھ جھیل جانے کے بعد، خود بہ خود حاصل ہو جاتا ہے۔ گماں بھی کر نہ سکے تھے سحر کے متوالے نظر فریب ضیا کھا گئی تو کیا ہو گا ’’ شہر درد‘‘ کا آغاز اس اعتراف سے ہوا ہے: ’’ شہر درد‘‘ ساتھ بے شک تمہارا نہیں دے سکی میں کبھی نقش پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی تاکہ مسلی ہوئی پنکھڑیاں چن سکوں جو تمہارے ہی قدموں تلے آ کے روندی گئیں پیرہن تار تار، انگلیاں خونچکاں اپنا مسلک مگر بر تر از جسم و جاں کند ہوتے نہیں درد احساس کے نیشتر دل کو پھر بھی نہیں خواہش درگزر جو خطا آج بھی مجھ سے سرزد ہوئی اس خطا سے مجھے آج تک پیار ہے ان رہوں میں کوئی میں اکیلی نہیں اور آشفتہ سرساتھ ہیں وہ جو غیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے اور اپنوں کے پھولوں سے زخمی ہوئے یہ لہجہ، ایک نیا لہجہ ہے۔ ادا جعفری کی پیشرو شاعرہ زخ ش (زاہدہ خاتون شیروانی) جو ان کی پیدائش سے تقریباً تین برس قبل انتقال کر چکی تھیں اور ہمیشہ گوشہ گم نامی میں رہی تھیں، انہوں نے بھی اپنے عہد (یعنی 1894ء سے1923ئ) کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے گہرے شعور کے ساتھ اپنے شعری اظہار کو بامعنی اور منفرد بناتے ہوئے جب اپنے زمانے کے مزدوروں اور کسانوں کی ابتری اور استحصال کی تصویر کشی کی تھی تو ان کا انداز یہ تھا: کارخانے میں جو بارود کے بم آ کے پھٹا جل گیا پیکر بے جرم و خطائے مزدور گر تناقص نہ ہو مزدور و قبا میں تو کہوں کہ تن چوب پہ ڈھیلی ہے قبائے مزدور گلہ برف دسمبر میں ہے سر کے اوپر فرش آتش ہے مئی میں تہ پائے مزدور کل جہاں اس کے لیے جیل ہے پھانسی گھر ہے خاص کر ہند تو دوزخ ہے برائے مزدور یہ لہجہ، یہ لفظیات اوریہ اسلوب ادا جعفری سے مختلف سہی مگر اس میں زخ ش کے سماجی شعور اور اپنے عہد کے حالات پر ان کے بصیرت افروز رد عمل کا اظہار ملتا ہے۔ ادا جعفری کے موضوعات اور محسوسات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ان کے تخلیقی عمل کی بنیاد بھی یہی شعور زندگی ہے۔ اپنے وطن اور اپنی دھرتی سے ادا جعفری کی شدید انسیت بھی ان کے دلی جذبوں کی ترجمان ہے۔ 1948ء میں ادا جعفری جب پاکستان ہجرت کر کے آئیں تو یہ ان کی ازدواجی زندگی کے آغاز کا زمانہ تھا۔ ان کی شعری شخصیت بھی اپنی شناخت کے معتبر حوالوں کے ساتھ سامنے آ چکی تھی۔ ایک نئے ملک میں زندگی کی تازہ بہاروں میں اپنے حصے کے پھول چننے کی آرزو دل کو گھیرے ہوئے تھی اور نئی فضاؤں اور نئی ہواؤں میں نئے خوابوں کی تکمیل کا اہتمام ہو رہا تھا۔ ایسے میں پاکستان کی سر زمین سے نظریاتی اور جذباتی سطح پر ایک گہری وابستگی کا احساس ان کی ذات کا تشخص قرار پاتا ہے۔ ’’ شہر درد‘‘ میں شامل کئی نظمیں اپنے وطن اور اپنی دھرتی سے شدید انسیت کے اظہار کے طور پر لکھی گئی ہیں۔ اگرچہ یہ منظوم جذبات، ایک سادہ پیرائے میں پیش کیے گئے ہیں اور ان میں ادا جعفری کی شعری زبان ان کے مانوس آہنگ کے ساتھ استعمال ہوئی ہے مگر ان میں ایک خلوص اظہار موجود ہے جسے وہ اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ 1965ء کے پاک بھارت معرکے کے حوالے سے نظم ’’ سترہ دن بعد‘‘ کی یہ لائنیں: ’’ سترہ دن بعد‘‘ صدیاں لمحوں میں گزر جاتی ہیں قوموں کے لیے اور کبھی ایک ہی لمحے کا فسوں بے کراں ہوتا ہے، آفاق پہ چھا جاتا ہے قوم کو رسم و رہ درد سکھا جاتا ہے مجھ سے پوچھو تو وہ بس ایک ہی لمحہ تھا کہ جب اک جری قوم نے جینے کی قسم کھائی تھی ایک ملت کے مقدر کا ستارا جاگا پاک مٹی کا نصیبہ جاگا پاک مٹی گل و گلزار بنی تیرگی چھائی تھی ہر سمت مگر چھٹ ہی گئی رات بھاری مرے بیمار پہ تھی کٹ ہی گئی اور شفق میرے شہیدوں کے لہو سے رنگیں صبح کے ریشمیں آنچل پہ صبا ٹانک گئی ادا جعفری کے شعری اظہار پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حنیف فوق نے لکھا ہے: ’’ ادا جعفری نے ہماری تہذیبی شائستگی سے اپنی شاعری کا دامن باندھا ہے۔ شائستگی، دل آویزی اور صدا آفرینی کی یہ مرکب خصوصیت ان کے شعری اور تخلیقی جوہر کا تعین کرتی ہے اور اردو شاعری میں ان کی انفرادی پہچان کو مستحکم بناتی ہے۔ یقینا وہ شاعرات میں ایک نئے سلسلہ شعور و کیفیت کی ارزیابی میں پیش رو کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘ پھر اسی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ ادا جعفری نے اپنی شاعری کے شہر درد میں، گھر کی خوشبو، ماحول کی تربیت اور روایت کے تہذیبی مزاج سے کام لیا ہے اور احتجاج کی راہوں پر آگے بڑھتے ہوئے بھی وہ باد صبا کی اس خوشبو کی پابند رہی ہیں جس میں گزشتہ فصل بہار کی بوئے یاسمن باقی ہے ۔ وہ اپنے طبقہ نسواں کے تشخص کی مختلف حیثیتوں کو ’’ شہر بانو بھی مرا نام رہا، مریم بھی‘‘ کہہ کر ظاہر کرتی ہیں لیکن ان کی شاعری اپنے عہد کی صداقتوں، خوابوں اور امیدوں کی شاعری بھی رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر حنیف فوق کے اس تجزیے کے مطابق ہر قلم کار، اپنی مخصوص صنف کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ، اپنی مجموعی حیثیت میں ایک انسانی وجود کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی تحریروں کی روح میں موجود، اس کی شخصیت کے عمومی اور خصوصی گوشوں کو پہچاننا بھی از حد ضروری ہوتا ہے۔ اس تعلق سے ادا جعفری نے نہ صرف اپنی صنف کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف زاویوں اورمختلف جہتوں سے ایک عورت کے نفسیاتی رد عمل کو قلم بند کیا ہے بلکہ اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر عام انسانی فضائے حیات اور مسائل کائنات سے بھی خود کو ہم رشتہ رکھتے ہوئے اپنے شعور کو شعری زبان عطا کی ہے۔ جذبوں اور فکر سے آراستہ ان کی کئی نظموں میں مسائل حیات سے انسان کے آنکھیں ملانے کی جرأت کا اظہار ملتا ہے۔ بعض موضوعات انہوں نے دہرائے بھی ہیں۔ مثلاً اختر الایمان کی نظم کی ایک مشہور لائن ہے: آپ ہوں میں نہیں انسان سے مایوس ابھی ادا جعفری نے اپنی نظم ’’ ماں‘‘ میں کہا: آخر انسان ہے، انسان سے مایوس نہ ہو اس نظم کے موضوع’’ ماں‘‘ کے تحت انہوں نے احترام حیات اور انسانی معاشرے کی بقا اور خوش حالی کی آرزوؤں کے حوالے سے دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کو قلم بند کیا ہے۔ میں کہ تقدیس وفا، عفت و ناموس حیات میرے انفاس سے روشن ہوا فانوس حیات حرف آغاز بھی میں، نقطہ انجام بھی میں کل کی امید بھی میں، آج پیغام بھی میں کوئی کونپل نئی پھوٹی تو یہ جانا میں نے دے دیا دہر کو جینے کا سندیسہ میں نے میرا مذہب کہ محبت بھی ہے، امید بھی ہے پھر یہ کیسی مرے انداز میں محرومی ہے نظم کے اختتامی حصے میں کہتی ہیں: آج یہ سوچ کے حیران ہوں، آرزدہ ہوں اپنی تخلیق پہ نازاں ہوں کہ شرمندہ ہوں آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے اور سرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں کٹ ہی جائے گا شب تار کا اک روز فسوں 1966ء میں لکھی ہوئی اس نظم میں انسان کے مستقبل کے بارے میں یہ امید و آرزو، اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان کے پر اعتماد تعلق کی فیض یابی کو جس طرح ادا جعفری نے اپنا موضوع بنایا ہے، وہ ایک ایسا بنیادی موضوع ہے جو ان کی بعد کی شاعری میں بھی ایک ’’ ماں‘‘ کے جذبہ مسلسل اور اولاد کے تعلق سے ساری انسانیت سے اس کی غیر مشروط محبت کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ مری گود میں مچلی ہوئی ننھی سی کرن اک نئی صبح کا پیغام حسیں ہے کہ نہیں سے لے کر 1973ء میں اپنی بیٹی صبیحہ اقبال کی رخصتی پر لکھی ہوئی ان کی نظم گدازی دل اور مامتا کے جذبات کی تجسیم کی کامیاب مثالیں ہیں۔ اسی تسلسل میں اپنے بیٹوں عزمی اور عامر کی وطن سے دوری کے حوالے سے بھی ان سے منظوم جذبات میں ہمیں ضبط نفس، بردباری، تمکنت اور باہمی رشتوں کے بخشے ہوئے اعتماد کا حسن جھلکتا نظر آتا ہے: گھنا سا یا وہیں تک ہے جہاں تم ہو گھنیری چھاؤں مل جائے تو موسم کی تمازت ہار جاتی ہے دلوں میں پھول کھل جائیں تو ویرانوں کی شدت ہار جاتی ہے مرے بچے مجھے جب دیکھنا جب سوچنا چاہو تو بس اپنی طرف دیکھو تمہارے لب پہ جو حرف صداقت ہے، یہی میں ہوں تمہارے دل میں جو ناز جسارت ہے، یہی میں ہوں نگاہوں میں جو اک طرز عبادت ہے، یہی میں ہوں ’’ مامتا ‘‘ کا ہمہ گیر احساس ادا جعفری کی شخصیت کی پہچان رہا ہے۔ زندگانی کے اس سفر میں جب ان کے عزیز ترین بچے ان کی نگاہوں سے دور ہو کر پردیس جابسے تو جذباتی طور پر وہ ان سے اور قریب ہو گئیں: نہیں میرے بچو! جدائی تو عفریت ہے سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے اس کو نزدیک آنے نہ دو تم مجھے دیکھ لو کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں روز ہر روزن در کے آگے حصار دعا کھینچ دوں تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح فاصلے، دوریاں کچھ نہیں تم مرے پاس ہو، میں تمہارے قریں تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں ہے یہاں جیسے دیپک کی لو اور وہاں روشنی (’’ ساز سخن بہانہ ہے‘‘ ) ادا جعفری کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھاہے: ’’ شہر درد‘‘ کے بعد ادا جعفری کی شاعری کے دیگر مجموعوں ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ (مطبوعہ1974ئ) اور ’’ ساز سخن بہانہ ہے‘‘ (مطبوعہ 1982ئ) میں فن کارانہ صناعیوں کے ساتھ ساتھ عصری شعور و آگہی کا وہی تموج نظر آتا ہے جس کی ایک پختہ کار فن کار سے توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ مجموعے مشرق کی صالح روایت کے ترجمان و پاسبان بھی ہیں اور مغرب کی مثبت اقدار حیات کے داعی و پاس دار بھی۔ ان میں طرز کہیں پہ اڑنے یا آئین نو سے ڈرنے کی کیفیت کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ نہ کلاسیکیت کی سخت گیری کہیں نظر آتی ہے، نہ جدیدیت کی انتہا پسندی۔ بلکہ قدیم و جدید نے ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ایک نئے اسلوب شعری کو جنم دیا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری مزید رقم طراز ہیں: ’’ کلاسیکیت ہو یا جدیدیت، اگر زندگی کی حسن آفرینی و کار کشائی میں مددگار ہوں تو ممدوح و مسعود، ورنہ ان میں سے ہر ایک مکروہ و مردود، زندگی اور فن کے باب میں یہی وہ نقطہ نظر اور راسخ عقیدہ ہے جو ادا جعفری کو آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پیچھے لے گیا اور انہوں نے راجا رام نرائن موزوں کے جس شعر کے ابتدائی ٹکڑے کو اپنے مجموعہ کلام کا عنوان بنایا، وہ ہے: غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری یہ شعر ادا جعفری کے ذہن میں بے سبب نہیں آیا۔ ایک الم ناک تاریخی سانحے کے تلازم خیال نے انہیں اس کی یاد دلائی ہے۔ اس شعر کا تعلق پلاسی کی جنگ آزادی اور نواب سراج الدولہ کی شکست و شہادت سے ہے۔ راجا رام نرائن کو جب سراج الدولہ کی شہادت کی خبر ملی تو بے ساختہ یہ شعر نازل ہو گیا۔ یہاں ’’ مجنوں‘‘ اور’’ دوانہ‘‘ کے الفاظ استعارہ ہیں سراج الدولہ کا اور ’’ ویرانہ‘‘ استعارہ ہے عظیم آباد کی تباہی اور اس پر بیرونی سامراج کے قدم جمانے کا۔‘‘ ادا جعفری نے بھی اس شعر کے استعاراتی پس منظر کے ساتھ سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کے المیے کے تعلق سے اپنے دلی جذبات رقم کیے ہیں۔ نظم ’’ کوئی پیماں نہیں‘‘ میں جو1971ء میں لکھی گئی یہ احساسات یوں بیان ہوئے ہیں: کوئی پیماں نہیں آج دامن کشاں کوئی پیماں نہیں زخم جاں سے بھی گھر میں چراغاں نہیں شہر دل کے لیے کوئی فرماں نہیں آج ہر مہرباں ہاتھ ہے خونچکاں پیار کے گیت، ہونٹوں پہ ہیں منجمد آج حسن و صداقت کو کیا ہو گا میرے ریحان و سروو سمن کیا ہوئے وہ جمال و وقار چمن کیا ہوئے آج کھیتوں میں نفرت کی فصلیں اگیں میرے اپنے درختوں کی شاخیں صلیبیں بنیں میرے بچوں کو کیسی امانت ملی خوں میں لتھڑا ہوا یہ سیہ پیرہن میری نسلوں کو میری وراثت ملی اور پھر ایک اور نظم بہ عنوان ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ میں یہ شعری ظہار: ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ محبت پا بہ جولاں تھی وفا صحرا گزیدہ زندگی پیمان گم گشتہ تمنا مہر برلب حرف خاموشی تہی کیسہ نہ جانے کون بسمل تھا نہ جانے کون قاتل تھا یہاں تو رہزن و رہبر یہی دل تھا جو مونس تھی تو بس سفاک تنہائی بگولوں کی ردا اوڑھے ہوئے اک دیدۂ بے خواب سے سرو چراغاں تک انہیں بے آس ہاتھوں کی دعائے برگزیدہ سے جمال روئے تاباں تک ۔۔۔۔ لہو کے رنگ سے گل رنگ صحرا تھا اس اسلوب شعری سے ادا جعفری کے انداز فکر و فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اپنی درد مند طبیعت کے باوصف وہ خود کو ہر جبر اور ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور پاتی ہیں۔ اور یہی احتجاج ان کے شعری اظہار کا ایک طاقت ور محرک بھی ہے، مگر وہ یاس اور بے دلی کی نفی کرتے ہوئے ہر بار امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کی ایک نئی دنیا ترتیب دے لیتی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں بدی پر نیکی، تیرگی پر روشنی اور نا آسودگیوں اور محرومیوں پر مستقل کی تاب ناکیاں اور روشن ضمیریاں، فتح مند قرار پاتی ہیں۔ جناب سحر انصاری نے اپنے مضمون ’’ ادا جعفری: ایک مطالعہ‘‘ میں اظہار خیال کیا ہے: ’’ ادا جعفری کی شاعری مجموعی طور پر اقدار حیات اور انسان دوستی کی شاعری ہے۔ اور ان کے پہلے شعری مجموعے سے لے کر ’’ ساز سخن بہانہ ہے‘‘ تک ان کے اس مسلک شاعری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ زندگی کی صداقتوں کو شعری پیکروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں اور اس ضمن میں انتہا پسندی کا شکار کبھی نہیں ہوئیں۔ ادا کی شاعری میں زندگی کے کئی روپ اور زاویے ہیں جن میں بنیادی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔ ادا نے عالمی سطح پر آنے والے انقلابات سے تازگی اعتماد اور حوصلہ حاصل کیا ہے۔ اب وہ خود کو ایک وسیع تر انسانیت کا حصہ محسوس کرتی ہیں۔ ’’ ساز سخن بہانہ ہے‘‘ کی ایک نظم’’ سلسلے‘‘ کے یہ مصرعے دیکھیے: ’’ سلسلے‘‘ ’’ وہ سب صحیفے صداقتوں کے جو ترجماں ہیں ان آیتوں کی گواہیاں ہیں وہ سارے الفاظ جو ابھی تک کسی زمیں پر کسی زباں میں لکھے گئے ہیں ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں‘‘ اور یہی وہ احساست ہیں جن کے باوصف، رجائیت، توانائی اور امید آفرینی کے عناصر ان کی شعری علامتوں کا حصہ بن چکے ہیں۔‘‘ جناب ادیب سہیل رقم طراز ہیں: ’’ اگر آپ ادا جعفری کی شاعری کا شروع سے آخر تک جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان کی تمام تر شاعری ان کے اس شعر کے مصداق ایک حرف آرزو سے عبارت ہے: میں دشت زندگی میں کھلے سر نہیں رہی اک حرف آرزو کی ردا مل گئی مجھے اسی حرف آرزو نے ان کے شعروں میں جستجو، دروں بینی، ملائمت، نکتہ رسی اور حرارت داخل کر دی ہے۔ یہی شعر وسیع تناظر اختیار کر کے نظم ’’ساز سخن بہانہ ہے‘‘ بن گیا ہے اس نظم کا آخری حصہ ہے: میں بے قرار وخستہ تن بس اک شرار عشق، میرا پیرہن مرا نصیب ایک حرف آرزو وہ ایک حرف آرزو تمام عمر سو طرح لکھوں جناب محسن بھوپالی نے ’’ اردو کی عہد آفریں شاعرہ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے: ’’ ادا جعفری اپنے پورے تخلیقی عہد میں اپنے ماحول اور اپنے گرد و پیش سے غافل نہیں رہی ہیں۔ بیشتر نظمیں اور بالخصوص عالمی تناظر میں ان کی نظم ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ اور وطن پر گزرنے والے کڑے روز و شب کے پس منظر میں کہی گئی ان کی دیگر نظمیں، ان کے سیاسی اور معاشرتی شعور کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلوں میں بھی جابجا ایسے اشعار نظر آتے ہیں جو ان کے احساس کی تازگی، شعور کی پختگی اور مضبوط فنی گرفت کے مظہر ہیں: جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑھتی گئی بڑے تاباں، بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا اس عہد خود سپاس کا پوچھو ہو ماجرا مصروف آپ اپنی پذیرائیوں میں تھا گرہ کشائی شبنم کی داد کیا دیں گل ہنسی کے ساتھ ہی آنکھوں میں اشک بھر آئے کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں ادا کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی ادا جعفری کی غزلیہ شاعری میں، ان کے لسانی رویوں کے توسط سے ہم ان کی شاعری کے ارتقائی سفر کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو جدید شعری اسالیب میں شامل نہیں مگر ادا جعفری نے اپنی غزلوں میں انہیں بارہا برتا ہے۔ ان کے یہاں پوچھو ہو، چلے ہے، لگے ہے، کہیو جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ الفاظ ان کے ثقافتی پس منظر اور ان کے داخلی آہنگ کی ابتدائی صورت گری کے دیرپا اثرات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں: اک وحشت جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں اک عالم دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے کچھ سوچ کے کہنا کہ ہمیں حرف تسلی تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہے دل کے لیے بس آنکھ کا معیار بہت ہے جو سکہ جاں ہے سر بازار چلے ہے اک جنبش مژگاں کی اجازت بھی نہیں ہے دل ساتھ چلا ہے کہ ستم گار چلے ہے شوق آشفتہ سراں، دیدۂ تر مانگے ہے ہے وہ کافر جو شب غم کی سحر مانگے ہے رنگ گل، روئے سحر، بوئے صبا کی سوگند ہر تماشا مرا انداز نظر مانگے ہے خاصی تعداد ایسی تراکیب اور لفظیات کی بھی ہیں جنہیں وہ تکرار کے ساتھ استعمال کرتی رہی ہیں۔ مثلاً لہولہان انگلیاں، زہر احساس، نگاہ بے سکوں، جمال سحر، دھجی دھجی آنچل، دیوار شب، کڑی مسافت، مگر بحیثیت مجموعی ان کی غزلیں ذاتی کیفیتوں او رمحسوساتی اور فکری زاویوں کو پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ مزید چند اشعار: خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید جادۂ تمنا سے دار کی بلندی تک جانے والے جا پہنچے، فاصلہ ہی کتنا تھا تم آشنائے دل تھے کہو تم نے کیا کیا ہم تو حصار انجمن گل کے ہو رہے ہر لمحہ اک صدی سا گزارا ہے کرب سے دل کو ندامت نفس رائیگاں نہیں جس کسی لفظ میں پائی ہے صداقت کی مہک میں نے اس لفظ کے قدموں میں جبیں رکھ دی ہے نہ جانے لوگ کہاں تھے زمانہ تھا کہ نہیں زمیں پہ میں تھی فلک پر بس اک ستارہ تھا صحیفہ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی لکھی گئی حدیث جاں جراحتوں کے درمیاں اب اس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث نگہ جھپک جھپک گئی ارادتوں کے درمیاں ادا جعفری کی شخصیت میں، اپنی ذات کے وقار کو قائم رکھنے کی آرزو نے، ایک فطری ضبط اور دیرپا اختیار پیدا کر دیا ہے۔ مگر کبھی کبھی دکھ کے بے ساختہ اظہار کی خواہش بھی سر اٹھاتی ہے: زوپہ آندھی کے دیا کانپ رہا ہو جیسے تھک کے افسردہ و ویران گزرگاہوں میں آخری عہد وفا ہانپ رہا ہو جیسے اور یہ آنسو ہے کہ آنکھوں سے ڈھلکتا ہی نہیں ہائے یہ ساغر لبریز چھلکتا ہی نہیں ادا جعفری اپنی سوچ کی ترجمانی میں جس شائستگی اور تہذیب کا لحاظ رکھتی ہیں، وہ اسی دیرینہ روایت کی مظہر ہے جس کی پاس داری ان کی تربیت میں ہمیشہ سے شامل رہی ہے: نازک تھے کہیں رنگ گل و بوئے سمن سے جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں ان کی شاعری ایک بہتر زندگانی اور ایک خوش تر نظام حیات کی آرزومندی سے عبارت ہے۔ اس احساس کا اظہار انہوں نے یہ کہہ کر کیا ہے۔ شبنم سے رہ گزار سحر کا پتا کروں مٹی سے رنگ و بو کے خزانے تراش لوں اس راہ میں اپنے عہد کے تازہ تر فکری تقاضوں کو سمجھنے اور اپنے شعری اظہارکو زندگی کی صداقتوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے انہوں نے راہ سخن میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لیا ہے: بہت دنوں تو ہواؤں کا ہم نے رخ دیکھا بڑے دنوں میں متاع قلم کو پہچانے دراصل تخلیق کے اس سفر میں ادا جعفری اپنے احساس غم کی نمو پذیری سے زندگی اور اس کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں: کچھ بت بنا لیے ہیں، چٹانیں تراش کر دل بھی بہانہ ساز ہے، غم بھی بہانہ ساز سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی ادا اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز ڈاکٹر اسلم فرخی، ادا جعفری کے شعری اظہار کے تعلق سے اپنی ایک تحریر میں رقم طراز ہیں: ’’ 1967ء میں وہ یادگار نظم ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ شائع ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اردو ادب میں مسجدوں کے حوالے سے دو شعری شہ کار وجود میں آئے ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ فلسفیانہ اساس میں ڈوبی ہوئی، زمان و مکاں کے اسرار ہویدا کرنے والی، سطوت ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ایک خوف ناک نظارہ پیش کرتی ہوئی۔ مگر ’’مسجد اقصیٰ‘‘ ذاتی جذبات واردات سے لبریز وہ فریاد ہے جسے سن کر عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں۔ ایسی پر اثر اور سراپا آرزو نظمیں ہمارے ادب میں خال خال ہیں جن میں فریاد، آرزو، تقاضا سبھی کچھ موجود ہو۔ ادا جعفری کے یہاں جس نسائی حسیت کی جھلک ابتدا سے ملتی ہے، وہ اس نظم میں اپنے عروج پر آ گئی ہے۔‘‘ ڈاکٹر اسلم رخی کے اس تجزیے کی روشنی میں ’’ مسجد اقصیٰ‘‘ کی مجموعی فضا میں ایک باطنی خلوص اظہار پاتا نظر آتا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی نظریاتی اور روحانی وابستگی کے ساتھ، مسجد اقصیٰ کے سانحے کے حوالے سے، اسلامی معاشرے کی عظمت رفتہ کے پس منظر میں جس کرب باطنی کو رقم کیا ہے، وہ ذاتی اور اجتماعی سطحوں پر، حقیقت حال کا غماز ہے۔ اس نظم میں مسلمانوں سے تخاطب کا انداز یہ ہے: تم تو خورشید بکف تھے سر بازار وفا کیوں حریف نگہ چشم تماشا نہ ہوئے کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ ہے یہاں سرور کونین کے سجدے کا نشاں اور پھر نظم کے آخری حصے میں کہتی ہیں: تم نے کچھ قبلہ اول کے نگہباں سنا؟ حرمت سجدہ گہہ شاہ کا فرمان سنا؟ زندگی مرگ عزیزاں کو تو سہ جاتی ہے مرگ ناموش مگر ہے وہ دہکتی بھٹی جس میں جل جائے تو خاکستر دل بھی نہ ملے اس نظم میں جس طرح ادا جعفری نے ’’ مرگ ناموس‘‘ کو ملت اسلامیہ کی افتادگی اور زبوں حالی کا اصل سبب قرار دیا ہے۔ یقینا اسی ادراک کو ڈاکٹر اسلم فرخی نے ادا کے نسائی شعور کا نقطہ عروج قرار دیا ہے۔ جناب احمد ہمدانی نے ادا جعفری کی شاعری کو ان کی شخصیت کی کلیت کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ادا جذبوں کو یک رخے انداز سے دیکھنے کی قائل نہیں۔ اس کے برعکس اپنے احساس کی دھوپ چھاؤں میں بیٹھی، وہ زندگی کی تمازتوں اور ٹھنڈکوں کے خدوخال ابھارتی رہتی ہیں۔ ان خدوخال میں ادا جعفری کی اپنی شخصیت کی سالمیت خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔‘‘ احمد ہمدانی کے اس انداز فکر کو ادا جعفری کے فنی اظہار کی مختلف جہتوں کے حوالے سے سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مثبت رخ تو یہ ہے کہ ادا زندگی کی اصل قوت، انسانی وجود کی باطنی قوت کو قرار دیتی ہیں جو سپاہیوں اور گھپ اندھیروں میں بھی، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی روزن سے ایک کرن کو داخل کر کے انسانی بینائی کو بحال کر دیتی ہے۔ اور منظروں کو ہویدا کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ادا اسی کو زندگی کرنے کا حقیقی مثبت رویہ سمجھتی ہیں اور اس کے برعکس ہر رویے کو انسانی زندگی کے لیے خسارہ قرار دیتی ہیں۔’’ حرف شناسائی‘‘ میں شامل ایک مختصر نظم ’’ خسارہ‘‘ میں کہتی ہیں: ’’ خسارہ‘‘ روزنوں سے قدموں تک مکڑیوں کے جالے ہیں گرد سے اٹے پیکر بے چراغ آنکھوں سے دیکھنا بھی کب چاہیں ورنہ ہر زمانے میں آئینہ تو دل بھی ہے ہر طرف اندھیرے ہوں آدمی کے اندر بھی خوش نما اجالے ہیں اسی طرح ادا جعفری زندگی کی رنگارنگی اور بو قلمونی پر بھی یقین رکھتی ہیں اور انسانی احساسات کے ہزار ہا رنگوں میں سے منفرد اور اچھوتے رنگوں کو اجاگر کر دینے کے ہنر ہی کو تخلیقی اور شعری اظہار کی اساس قرار دیتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ میں شامل ان کی ایک نظم ’’ رنگ کے روپ ہزار‘‘ کی استعاراتی فضا قابل توجہ ہے: ’’ رنگ کے روپ ہزار‘‘ کہیں سچا اجلا رنگ کہیں پھیکا پھیکا روپ کہیں چھاؤں رہے کہیں دھوپ کبھی زلفوں جیسا جیون بھر کے اندھیاروں کا رنگ کبھی چاندی جیسی لٹ اور کرنوں جیسا رنگ کوئی جس کا بھاؤ نہ مول یہی سوکھے ہونٹوں ٹوٹے پھوٹے بول یہی رنگ رچے ہے ارمانوں کے تول کہیں آنکھیں ساون بھادوں کہیں جیٹھ اساڑھ کی پیاس کہیں پروائی کی بھینی بھینی پھوار کہیں اوس بنے کہیں آس کہیں رنگ جمے اور خوب جمے کہیں بدلے سو سو بھیس کبھی اپنا گاؤں کا گاؤں کبھی گھر آنگن پردیس رہے رنگ کے روپ ہزار ادا جعفری کے شعری مجموعے ’’ غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ میں ان کی پانچ نظمیں ایسی بھی شامل ہیں جنہیں انہوں نے ’’ سفر نامہ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ یہ منظوم سفر نامے بنکاک، ٹوکیو، واشنگٹن اور استنبول کے سفر کے محسوسات اور تاثرات ہیں جو 1968ء سے 1969ء کے دوران قلم بند کیے گئے ہیں۔ ان منظوم سفر ناموں میں ادا جعفری نے دنیا کی مختلف معاشرتوں اور مختلف سرزمینوں پر پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں اس قوم کی مجموعی نفسیات کا تجزیہ کیا ہے اور ان اقدار پر بطور خاص نگاہ رکھی ہے جنہیں ردیا قبول کرنے کی صورت میں، ان معاشروں کی تشکیل و ارتقا پر مخصوص اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ٹوکیو کے سفر میں انہوں نے جاپانی قوم کی اس خوئے تعمیر اور آرزوئے زندگی کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو خود ان کے اپنے وجود میں زندگی کی تازہ لہر دوڑا گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں تک پہنچنے ، ان سے متعارف ہونے اور انہیں قریب سے دیکھنے کے سبب، انہیں ایک ہمہ گیر عالمی معاشرے کے افراد کے طور پر قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور خود اپنے دل میں ایک ایسی وسعت آ جاتی ہے جو طبقاتی، نسلی اور گروہی تفریق کو مٹا کر، تمام انسانوں کو ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے انسانی وجود کے طور پر قبول کرنے کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ ادا جعفری نے ان منظوم سفر ناموں میں انسان دوستی کے اسی احساس کے ساتھ اپنے مشاہدے قلم بند کیے ہیں اور قوموں کی تاریخ میں اندھیروں اوراجالوں کی جنگ کے دوران جتنے بھی نصیحت آموز لمحات امر ہو جاتے ہیں، انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ٹوکیو کے سفر کے حوالے سے اپنی نظم ’’ رسم تعارف‘‘ کے ایک حصے میں وہ لکھتی ہیں: ’’ رسم تعارف‘‘ تیسرے سرشار جلووں کی درگاہ میں ہم اندھیری رتوں کے سفیران درد آئے ہیں رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے تیرے ماتھے پہ بھی گردہی گرد تھی تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی آنچلوں کی دھنک بجھ گئی عارضوں کی شفق بجھ گئی تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں جنگ اور موت کی قہر سامانیاں تیرا ہیروشیما زخم سا زخم تھا اے نگار حیات آشنا! رات بھی کٹ گئی گرد بھی چھٹ گئی زخم بھی بھر گئے تیری کرنوں کا رقص صبا زندہ ہے تیرے پھولوں کا رنگ حنا زندہ ہے تیری گلیوں میں اے وادی مہرباں زندگی سے ہمارا تعارف ہوا!! ’’ تضاد رنگ‘‘ اور’’ زخم تماشا‘‘ بھی تاثراتی نظمیں ہیں جو واشنگٹن کے سفر سے متعلق ان کی دلی کیفیات کی ترجمان ہیں۔ زندگی کے متضاد رنگوں کو محسوس کرتے ہوئے وہ دو مختلف معاشروں کی جدوجہد آزادی اور جمہوری اقدار پر ان کے ایقان کے پس منظرمیں ان کے شب و روز کے معیارات میں موجود فرق کو اجاگر کرتی ہیں: تری سحر بھی گل عذا ر و لالہ زار مری سحر بھی میرے عکس خواب سے لہو لہو شفق نہاد رنگ ہے افق سواد رنگ ہے یہ اتصال رنگ بھی، مگر تضاد رنگ ہے تری سحر کے پاس میرے دن کی روشنی نہیں ’’ زخم تماشا‘‘ میں بھی وہ ایک ترقی یافتہ انسانی معاشرے کی فضاؤں میں اپنی موجودگی کا احساس اس انداز میں دلاتی ہیں کہ ایک درد آشنا دل اور ایک انسان دوست رویہ، ان کی پہچان بن جاتا ہے، واشنگٹن کی بلند وبالا عمارتوں کے درمیان جہاں چمکتی دھوپا ور امڈتے اجالوں کی فراوانی ہے۔۔۔۔وہیں کہیں انہیں جنگ کی آگ میں جھلستے اور دھوئیں کے گہرے بادلوں میں گھرے ان شہروں کی یاد آنے لگتی ہے جہاں طاقت کی حکمرانی نے نفرتوں کے بیج بوئے اور زخموں کے ڈھیر لگائے ہیں۔ سورج ابھرا تو جبینوں سے کرن بھی پھوٹی دھوپ چمکی ہے تو آنگن میں اجالا امڈا اور کچھ دور۔۔۔ بہت دور نہیں شوخ رنگین اجالوں کے قریں کتنے گہرے ہیں دھوئیں کے بادل ارض کشمیر سے وتنام تلک امن کے خواب سے نیپام تلک ماند پڑتی ہوئی چہروں کی جلایاد آئی دیس پردیس کے زخموں کی حنا یاد آئی ادا جعفری کے پانچویں شعری مجموعے ’’ حرف شناسائی‘‘ میں ایک مختصر سی نظم ہے ’’ صدیوں کا سفر‘‘ ’’ صدیوں کا سفر‘‘ مرا حصہ، بس اک محدود جلوہ ہے یہ آنکھیں وسعت افلاک کی رعنائیوں کی داد کیسے دیں کہ میں نے آسماں کو روزن زنداں سے دیکھا ہے!! اس مختصر میں ان کا انکسار و اعجاز اس امر کا مظہر ہے کہ ادب و شعر کی دنیا میں ادا جعفری بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ شامل نہیں رہی ہیں۔ انہیں علم ہے کہ حیات کے بحر بے کراں میں ایک فرد کی حیثیت محض ایک قطرۂ آب کی ہوتی ہے جو کل میں جزو بن کر اس طرح شامل رہتا ہے کہ اسی میں اس کی شناخت کا راز بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بقا کا راز بھی۔ کیوں کہ یہ جلوہ گاہ کائنات بے کراں اور لا محدودہے اور اس کے مشاہدات و تجربات اتنے گوناگوں ہیں کہ مشاہدہ کرنے والی آنکھیں ان سب وسعتوں کو گرفت میں لے ہی نہیں سکتیں۔ ادا جعفری نے بھی اپنی شعری کائنات کے جن تجربوں اور مشاہدات کو قلم بند کیا ہے اور جس کے لیے اپنی عمر عزیز کے بہت سے لمحات کا کرب سہا ہے، وہ انہیں صدیوں کے برابر محسوس ہوتے رہے ہیں اور ان پر یہ احساس غالب رہا ہے کہ وہ ان بے کراں وسعتوں کو محض ایک روزن زنداں سے دیکھتی رہی ہیں۔ اپنے تخلیقی لمحوں کے انبساط کو انہوں نے اس شعر میں لکھا ہے: نزول شعر کی ساعت جمال خواب کی لو کہ جیسے سلطنت جاوداں ملے ہے مجھے اسی طرح’’ حرف شناسائی‘‘ میں شامل ایک غزل کے اشعار بھی اس کیفیت کو پیش کرتی ہیں: ہمیں خود سے بھی ملنا تھا، کسی ہم راز سے پہلے کوئی آواز سننا تھی، کسی آواز سے پہلے یہ جو بے ساختہ پن ہے یہی تو اصل راحت ہے پروں کو دیکھنا واجب نہیں پرواز سے پہلے ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے کہانی ختم کیسے ہو گئی آغاز سے پہلے ادا جعفری کی کلیات’’ موسم موسم‘‘ میں’’ سفر باقی ہے‘‘ کے عنوان سے ان کے غیر مطبوعہ کلام کا منتخب حصہ بھی شامل ہے۔ اس نام میں ایک رجائی پہلو ہے۔ اور اس حصے میں شامل ان کی شعری تخلیقات میں بھی یہی آرزومندی اور امید آفرینی نمایاں ہے۔ حرف بھر روشنی بچا رکھوں اک دیا آفتاب سا رکھوں آنکھ اجالے تلاش کرتی ہے اک ستارے کو جاگتا رکھوں تند خو، سر پھری ہواؤں سے درد سا کوئی سلسلہ رکھوں میں حساب و شمار کیا رکھتی تجھ سوا اپنے پاس کیا رکھوں زندگی شعر ہے نہ افسانہ کیا لکھوں اور کیا اٹھا رکھوں اسی مجموعے میں شامل ایک اور نظم بہ عنوان ’’ سفر باقی ہے‘‘ میں بھی یہی رجائیت موجود ہے جو زندگی اور اس کی پیہم نمو پر، ان کے یقین کی مظہر ہے۔ ’’ سفر باقی ہے‘‘ بتائیں کیا ہمارے زخم زخم کے گلاب ماہ و آفتاب سب گواہ ہیں کہ ہم نے کیا نہیں سہا صعوبتوں کے درمیاں، ہمارے ساتھ اک یقیں رہا گواہ یہ زمین اور زماں رہے نہ آج سوگوار ہیں نہ کل ہی نوحہ خواں رہے شرر جو کل لہو میں تھے وہ آج بھی لہو میں ہیں ہمارے خواب سانس لے رہے ہیں آج بھی کوئی دیا بجھا نہیں کہ ہم ا بھی تھکے نہیں کہ ہم کبھی تھکے نہیں ٭٭٭ ادا جعفری کی شاعری پر ناقدین کی آراء قاضی عبدالغفار جدید ادب اور شعر کے معماروں کی صف اول میں محترمہ ادا بدایونی کا نام اور کلام نمایاں ہے۔ میں جدید ادب کو فن کے قدیم پیمانوں میں سختی کے ساتھ جانچنے کا قائل نہیں۔ جدید ادب عوام کے لیے نئی زندگی کا ایک پیغام لایا ہے لہٰذا اس کے جانچنے کا سب سے معتبر پیمانہ اس کی ’’ اثریت‘‘ ہے۔ ادا جعفری کے کلام میں قدیم اور فرسودہ نظام زندگی کے خلاف بغاوت کا ایک بے پناہ جذبہ کارفرما ہے۔ ان کی آواز سراپا طلب اور احتجاج ہے۔ ان کے انداز بیان سے ایک ایسی قوت ارادی مترشح ہے جس کے بغیر جدید ادب کے کسی معمار کا پیغام موثر نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ (قاضی عبدالغفار، یکم فروری1947ئ، حیدر آباد دکن) فیض احمد فیض ادا کے لہجے میں اب ایسا تیقن اور ان کی آواز میں ایسی تمکنت ہے جو شاعر کو جہد اظہار میں اپنا مقام ہاتھ آ جانے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ ادا جعفری نے درد کا جو شہر تخلیق کیا ہے، اس کی دیواریں ان کی ذات تک محدود نہیں قریب قریب عالم گیر ہیں اور اس درد میں حزن و یاس کا عنصر بہت کم ہے اور عزم و استقلال کا دخل کہیں زیادہ۔ سید ضمیر جعفری ادا کے فن و فکر کا رخ، ابتدا ہی سے زندگی کی وسیع تجربہ گاہ کی طرف تھا۔ جیالے سیاحوں کی مانند، نا آزمودہ سمتوں کے سفر کا رحجان ان کے ہاں بڑا نمایاں تھا۔ ادا نے شاعری کے اس تہہ خانے کی، جس میں عورت محصور تھی، کئی صدیوں کی چنی ہوئی سنگلاخ دیواریں توڑ کر ہوا اور روشنی کے بہت سے دریچے وا کیے ہیں۔ اور میں ادا کو ان ہی معنوں میں اردو شاعری کی خاتون اول کہتا ہوں۔ انہوں نے ہماری اونچی اور گہری فکری شاعری کو پہلی مرتبہ وہ لہجہ دیا جس میں عورت کا دل دھڑکتا سنائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ادا جعفری نے ایک خاتون کی حیثیت سے انسانیت کے بعض ایسے نفسیاتی کوائف اور جذبوں کی ترجمانی کی ہے جو کسی مرد شاعر سے ممکن نہ تھا۔ مگر وہ اسی دائرے میں گھر کر نہیں رہ گئیں۔ انہوں نے نسوانی فضا سے آگے بڑھ کر اور ذات کے حصار سے باہر نکل کر عام انسانی فضائے حیات اور مسائل کائنات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اس خوبصورتی اور تواتر کے ساتھ کہ ان کا شمار عصر حاضر کے نمائندہ و معتبر شعرا میں کیا جاتا ہے۔ میرزا ادیب ان کے ہاں نسوانی فطرت کی نرمی ضرور ہے لیکن وہ اس نرمی کو اپنی امتیازی خوبی کے طور پر قبول نہیں کرتیں۔ انہوں نے شاعرہ ہونے کی حیثیت سے کسی قسم کی رعایت نہیں چاہی ۔ وہ سب کے لیے اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ عورتوں کے لیے مردوں کے لیے ایشائیوں کے لیے ، افریقیوں کے لیے، بلکہ ساری دنیا کے لیے۔ فتح محمد ملک یہ فطرت نسوانی کے مطالبات پر لبیک کہنے ہی کا کرشمہ ہے کہ اب ادا جعفری کا فن کاروان حیات کا تماشائی ہی نہیں ہم سفر بھی ہے اور تنہائیوں کے تاریک دیس میں اس قدر دور نکل آنے کے باوجود آگہی کی یہ مشعل ان کے ہاتھوں میں فروزاں ہے۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین ادا جعفری کے کلام کا بڑا وصف اس کی دلپذیری ہے۔ جدت فکر اور جدت اسلوب نے ان کی شاعری کو صرف انہیں حلقوں تک محدود نہیں رکھا ہے جو جدید ادب کے شیدائی ہیں بلکہ وہ ان حلقوں میں بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں جو نظم آزاد کے قائل نہیں ہیں۔ ادا جعفری کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ خیال آیا کہ ان کی شاعری کو جدید تنقیدی اصطلاحات یا ’’ کلیشے‘‘ کی وساطت سے پڑھنا اور سمجھنا محال ہے۔ ان کو پڑھنے کے لیے صحت فکر اور شائستگی مزاج کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ یا اس سے کم اور کوئی تقاضا ان کی شاعری نہیں کرتی۔ حمایت علی شاعر ادا جعفری کی سلیقہ مندی اس عظیم روایت کی عطا ہے جس کی زرخیزی جدت کے خوب صورت امکانات کی ضامن ہے۔ وہ جدید شاعرہ ہونے کے باوجود اس جدیدیت کی دلدل سے دور ہیں جو اکثر شعراء کو ڈبو چکا ہے۔ احمد ہمدانی اداجعفری کی پوری شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خارجی معیارات فکر سے کہیں زیادہ تجربے سے حاصل کیے ہوئے شعور کے اجالوں پر بھروسا کرتی ہیں۔ اور اس اندازے کی بنیاد ان الفاظ کی تاثیر ہے جو ان کے اشعار میں آتے ہیں۔ شخصیت کی کلیت اور سالمیت کے دوش بدوش احساس میں پھولوں کی سی نزاکت کے ساتھ دکھوں کی دھیمی دھیمی آنچ ان کی منفرد خصوصیت ہے۔ ڈاکٹر حنیف فوق ادا جعفری کی شاعری میں اظہار کا سلیقہ تو ابتدا سے موجود ہے لیکن اس میں مظلوم انسانوں کی ہمدردی کے ساتھ جذبات و احساسات کی نئی تہیں بھی ملتی رہی ہیں۔ ان کی شعری دانش نے عصر حاضر کی گواہی دی ہے۔ زندگی کے نسائی پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔ مستقبل کے انسانی امکانات کا جائزہ لیا ہے اور اس کے علاوہ مجموعی اور ذاتی کیفیات کے اظہار میں دل کی دھڑکنیں سمو دی ہیں۔ ان کی شاعری ایک خوب صورت مثال کی ماہرانہ بنت میں خواب و حقیقت کی وہ دل آویز نقش گری ہے جس کے رنگوں کی گویائی میں لکھنو سے کشمیر اور ویت نام تک کی انسانی تاثر پذیری اور تہذیبی تابانی ملتی ہے۔ محسن بھوپالی ادا جعفری کو کوئی شاعر یا نقاد اہم جدید شاعرہ یا نسوانی لہجے کی شاعرہ کہہ کر سرسری نہیں گزر سکتا۔ وہ اپنے پورے تخلیقی عہد میں اپنے ماحول اور اپنے گرد و پیش سے غافل نہیں رہی ہیں۔ ان کی نظمیں ان کے سیاسی اور معاشرتی شعور کی آئینہ دار ہیں اور درد مندی اور حب الوطنی کی ترجمان ہیں۔ ان کی غزلوں میں بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جو ان کے احساس کی تازگی، شعور کی پختگی اور مضبوط فنی گرفت کے مظہر ہے۔ سحر انصاری ’’ ساز‘‘ ادا کی شاعری کا ایک کلیدی استعارہ ہے جس میں سخن اور پردۂ سخن کے بہت سے رمز پنہاں بھی ہیں اور آشکار بھی۔ اور یہی ادا جعفری کی سب سے بڑی شاعرانہ خوبی ہے کہ انہوں نے خود کو سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے لکھا جس کی آواز میں طلب بھی ہے، احتجاج بھی او ربغاوت بھی۔ وہ ایک عورت کے روپ میں بھی آئیں جس کے اپنے داخلی تجربات ہیں۔ رنج و الم، خواب و حقیقت، نشاط و مسرت کی اپنی ایک دنیا بھی ہے اور جس کے دامن میں مامتا کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ بھی ہے۔ وہ ہر پیرایہ اظہار میں سرتا سر ایک شاعرہ رہی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان کی شاعرانہ آواز پر کبھی موضوعات غالب نہ آ سکے اور انہوں نے ہر تجربے اور ہر واقعے کو شاعری کے آہنگ میں ڈھال دیا۔ محمود ہاشمی ادا جعفری نے اپنے تخلیقی سفر کی اس منزل پر ہیں جہاں رنگ حنا کا احساس، دست دعا میں بدل چکا ہے اور عہد گزشتہ سے قائم و دائم حیات جامد، ایک ایسی متحرک(dynamic)حیات میں تبدیل ہو چکی ہے، جسے شعری انقلاب یا تخلیقی ارتقا سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اپنے عہد کے دشت بے اماں میں، زندگی کے اثبات کا یہ بے پناہ احساس، خوابوں کو حقائق کے آئینے میں سنوارنے کا یہ طور، ادا جعفری کا طور ہے۔ ان کا فن، جدید اردو شاعری کی تاریخ کاایک درخشندہ باب ہے۔ ٭٭٭ ادا جعفری کا نثری اظہار ’’ غزل نما‘‘ کے آئینے میں ادا جعفری کے نثری اظہار کا ایک نمونہ انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام 1987ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ غزل نما‘‘ ہے۔ یہ اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور انتخاب کلام پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے جو انجمن ترقی اردو کے ماہنامے قومی زبان کے لیے قلم بند کیے گئے تھے اور دسمبر1983ء سے ہر ماہ تواتر کے ساتھ 137اشاعتوں تک شائع ہوتے رہے۔ اس کتاب کو پیش کرتے ہوئے خود ادا جعفری نے کسی قسم کی دعوے داری سے کام نہیں لیا ہے اور اسے اپنا کوئی تحقیقی کارنامہ قرار دینے سے گریز کیا ہے۔ قدیم غزل گو شعراء کے حالات زندگی کے بنیادی نکات رقم کرتے ہوئے اور ان کے نمونہ ہائے کلام کو منتخب کرتے ہوئے ادا جعفری نے بحیثیت ایک تخلیق کار اور شاعرہ، جن معیارات کو پیش نظر رکھا ہے اس سے خود ان کے ذوق شعری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کتاب کے بیشتر مواد کی پیش کش کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ادا جعفری کے لیے کن قدیم شعراء کے دو اوین تک رسائی ممکن ہو سکی۔ کتاب کے پیش لفظ میں ادا جعفری نے مختلف صراحتوں سے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس انتخاب کے ذریعے نہ تو انہوں نے اردو شاعری کی کوئی تاریخ قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے نہ اردو زبان کی۔ بلکہ ان قدیم اشعار کے جھروکوں سے انہوں نے تسلسل کے ساتھ کئی صدیوں کا نظارہ کیا ہے اور زبان کے ارتقائی مدارج اور مختلف معاشروں کے خدوخال کو پہچاننے کی کاوش کی ہے۔ قدیم شعراء کے اس انتخاب کا اصل مقصد ان غیر معروف اہل سخن کو متعارف کرانا تھا جو اپنے معاشرے کی کوتاہیوں، ناقدریوں اور روایتی بے رخی کا شکار رہے اور ان کی پذیرائی سے ان کا عہد محروم رہا۔ اس کا اہم سبب کسی خاص زمانے میں بعض ایسی بھرپور اور توانا شعری آوازوں کا غلبہ ہے جن کے بھرپور اثرات کے سبب، اس عہد کے دیگر اہل قلم خاطر خواہ توجہ نہ حاصل کر سکے۔ ادا جعفری نے قدیم غزل کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسے ہی بہت سے غیر معروف شعراء کے حالات زندگانی اور نمونہ کلام کو یکجا کر دیا ہے جنہیں ان کے عہد کی مجموعی ادبی اور سماجی صورت حال کے تناظر میں پڑھتے ہوئے، ہمیں قدیم معاشرے، قدیم اسلوب شاعری، قدیم موضوعات و مضامین سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ادا جعفری نے پہلا نام ’’ محمد قلی قطب شاہ‘‘ کا منتخب کیا ہے اور آخری نام ’’میاں داد خاں سیاح کا ‘‘ ان دونوں ناموں کا جواز پیش کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں: ’’ قلی قطب شاہ یقینا اردو شاعری کا پہلا نام نہیں اور آخری نام جو اس کتاب میں درج ہے وہ قدیم اردو شاعری کا آخری نام نہیں۔ بات صرف میری رسائی کی ہے۔‘‘ اس بیان کی روشنی میں تجزیہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ ان قدیم شعراء کے مطالعے سے ہمیں قدیم اردو شاعری کے ضمن میں کسی عہد بہ عہد مربوط تاریخی ارتقاء سے آگاہی تو نہیں ملتی مگر زبان کی ساخت، تلفظ، شعری تلازموں، دیگر زبانوں کے مرتب کردہ اثرات، اور خواص و عوام کے لسانی رویوں کے بارے میں معلومات ضرور حاصل ہوتی ہیں۔ بطور خاص ہر شاعر کو متعارف کراتے ہوئے ادا جعفری نے جس طرح سوانحی حالات رقم کیے ہیں اور مختلف غزلوں کے چیدہ چیدہ اشعار میں موجود غیر مانوس اور قدیم الفاظ کے معانی کو، سادہ اردو میں مصرع بہ مصرع درج کر دیا ہے اس سے پڑھنے والوں کو ان اشعار کا مفہوم اخذ کرنے میں بہت آسانی ہو گئی ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اردو زبان کا کوئی خاص لفظ، کن مدارج سے گزر کر، آج اپنی موجودہ شکل میں مستعمل ہے۔ ادا جعفری نے سولھویں صدی سے آغاز کر کے بیسویں صدی کی ابتدا تک کی اردو غزلیات کے حوالے سے مختلف نکات کی وضاحت بھی کی ہے۔ بطور خاص اپنے تحریر کردہ پیش لفظ میں جو ان کی نثر نگاری کی ایک اچھی مثال ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ’’ قدیم اردو شاعری کی وادیوں سے گزرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اردو شاعری کے حلقہ اثر کو وسیع تر کرنے کے لیے اساتذہ نے فارسی شاعری کے مضامین کو بھی اردو میں ڈھالا اور اس طرح اردو شاعری کے لیے ایک مانوس فضا قائم کی۔‘‘ مزید لکھتی ہیں: ’’ اردو غزل اتنی توانا ہے کہ خود رو و قبول کی سکت رکھتی ہے۔ تند اور شوریدہ سر ہواؤں کا ہاتھ تھام کر زندگی اور وقت کے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی ہے۔ شاعری یوں بھی ٹہرا ہوا پانی نہیں۔ بہتا ہوا دریا ہوتی ہے۔ ہر منظر حیات کے لیے شفاف آئینہ۔ اگلے زمانوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ بھی نظر آئیگا کہ سچا شاعر اور سچا شعر، حدود وقت سے ماوراء ہوتا ہے۔ گردش ماہ و سال کا غبار اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔‘‘ ’’ غزل نما‘‘ میں پیش کردہ شعری نمونوں کے تعلق سے ادا جعفری لکھتی ہیں: ’’ ان اشعار کا تقابل، شاعری کے اعلیٰ فن پاروں سے جائز نہیں۔ اس کتاب میں ایسے شاعر بھی ہیں جو آج ذہن اور دل کو اپنی گرفت میں لینے سے قاصر ہیں۔ مگر یہ سب اپنے اپنے عہد میں اساتذہ کا درجہ رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے کلام کا انتخاب، ان کے عصر کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سفر کے کس مرحلے پر کس کی سانس ٹوٹ گئی اورکس نے منزل کو پا لیا اس کا دار و مدار انفرادی صلاحیتوں پر بھی تھا اور حالات و واقعات پر بھی۔ انہیں صدیوں کے بیچ ہم میر، درد اور سودا کے کمال فن سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔‘‘ ’’ غزل نما‘‘ میں شامل شعری انتخاب اور سوانحی حالات کے لیے ادا جعفری نے قدیم شعراء کی کلیات کے علاوہ، دکنی زبان کے سلسلے میں قدیم اردو لغت (مولف: ڈاکٹر جمیل جالبی) مطبوعات انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، مطبوعات، حیدر آباددکن اور مطبوعات مرکزی اردو بورڈ لاہور سے بھی استفادہ کیا ہے۔ قلی قطب شاہ سے آغاز کرتے ہوئے ادا جعفری نے قدیم دکنی اردو کے مثالیوں کے طور پر غزلوں سے اشعار پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ قلی قطب شاہ اردو زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے اشعار میں فارسی الفاظ ملتے ہیں لیکن قدیم دکن اردو کا رنگ بہت گہرا ہے۔ اس لیے اس کے اشعار عام فہم نہیں۔ وہ اپنے کلام میں محبوب کے لیے تانیث کا صیغہ ہی استعمال کرتا ہے۔ ایک حسن پرست اور جمالیاتی شاعر کی حیثیت سے وہ دبستان دکن کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ سلطان محمد عادل شاہ جیسے علم پرور اور ادب پرست حکمراں کے زمانے کے ایک قابل ذکر شاعر حسن شوقی کے دیوان سے اشعار پیش کرتے ہوئے ادا جعفری ان غزلیہ اشعار کا انتخاب کرتی ہے جو حسن شوقی کے خاص رنگ کو نمایاں کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا سرمایہ شعری صرف دو مثنویوں اور 30غزلوں پر مشتمل تھا اور اس نے بھی اردو کی قدیم غزل کی عمومی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے رومانوی جذبات، موضوعات ہجر و وصال اور حسن محبوب کے تذکروں کو قلم بند کیا تھا مگر اس میں بھی اس کا انفرادی رنگ، اس کا جداگانہ تشخص قائم کر گیا ہے۔ دیگر اشعار کے علاوہ ادا جعفری نے یہ اشعار بھی منتخب کیے ہیںـ: از ہند تا خراساں، خوشبو ہوا ہے عالم تس شاہ مشکبو کا، گل پیرہن کہاں ہے اے باد نو بہاری گرتوں گزر کرے گا گلزار تے خبر لیا، وہ یاسمن کہاں ہے ’’ غزل نما‘‘ میں ادا جعفری ہمیں محمد قلی قطب شاہ، شیخ حسن شوقی، غواصی، عادل شاہ شاہی، نصرتی، ہاشمی بیجاپوری، بجری، آبرو، فائز، تاباں، انعام اللہ خاں یقین، سراج اورنگ آبادی، قاسم اورنگ آبادی، حاتم، حسن، حسرت دہلوی، حضور عظیم آبادی، قائم چاند پوری، حسرت عظیم آبادی، تاسف، نسیم دہلوی، شیفتہ، نظام رامپوری، میر مہدی حسین مجروح، میاں داد خان سیاح اور دیگر قدیم شعراء کی غزلیہ شاعری سے متعارف کراتی ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’ میری نگاہ میں وہ معاشرہ اور ماحول بہت سی کوتاہیوں کا ذمہ دار تھا جس میں یہ لوگ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں کسی نہ کسی دربار سے وابستگی شاعر کے کمال فن کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی مالی مشکلات کا حل بھی ہوتی تھی۔ شاعری، درباری اور مجلسی رنگ قبول کرنے پر مجبور تھی۔ امراء کی خوشنودی طبع شاعر پر لازم تھی۔ رنگین مزاج بادشاہ یا امراء کاروباری شاعر، رعایت لفظی، تصنع اور معاملہ بندی سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ جن خوش نصیبوں کی رسائی کسی صاحب ذوق فرماں روا تک ہو جاتی، زندگی کی سچائیوں کی تصویر کشی انہیں کے لیے ممکن تھی۔ بہرحال ان خاموش آوازوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اس غزلیہ انتخاب میں مختلف شعراء کے اشعار کی تعداد ادا جعفری نے مختلف رکھی ہے۔ اور اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ استفادے کے لیے حاصل ہونے والی مطبوعات کے مواد پر اس کا دار و مدار رہا اور پھر یہ بھی کہ مضمون قلم بند کرتے ہوئے کس شاعر کو میں کتنا وقت اور کتنی توجہ دے سکی۔‘‘ شعراء کے ناموں کی ترتیب بھی اس کتاب میں ادا جعفری نے، ان کی تاریخ وفات کے حساب سے رکھی ہے۔ شاہ مبارک آبرو تک آتے آتے، جن کا عہد سترھویں صدی کے آخر سے لے کر اٹھارھویں صدی کی چوتھی دہائی تک کا ہے۔ ادا جعفری نے آبرو کے کلام کے مطالعے کے ذریعے، شمالی ہند کی قدیم ترین شاعری کے مزاج کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ آبرو کے اشعار میں ایہام موجود ہے۔ لیکن ان کی شاعری تاریخی اور ادبی دونوں حیثیتوں سے اہم مانی جاتی ہے۔ا ن کا دیوان،ا ردو کا پہلا مستند دیوان قرار دیا جاتا ہے۔ ادا جعفری نے دیوان آبرو (مرتبہ ڈاکٹر محمد حسن، شعبہ اردو جواہر لال یونیورسٹی، دہلی) سے یہ اشعار بھی نقل کیے ہیں: بے تابی دل آج میں دلبر سے کہوں گا ذرے کی تپش مہر منور سے کہوں گا شاید ہمارے جی کی کشش نے اثر کیا جاتا تھا جلد دیکھ کے ہم کو ٹھٹک گیا ہر گدا گوشہ قناعت میں شاہ ہے ملک بے نیازی کا ان اشعار کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اٹھارھویں صدی کے وسط تک آتے آتے کتنی صاف اور رواں ہو چکی تھی۔ ادا جعفری جب اس سلسلے کے آخری شاعر ’’ میاں داد خاں سیاح‘‘ تک پہنچتی ہیں تو وضاحت کرتی ہیں: ’’ سیاح ایک پر گو شاعر کی حیثیت سے قدرت کلام اور مضمون آفرینی سے خوب خوب کام لیتے تھے۔ ان کا زمانہ 1829ء سے 1907ء تک کا ہے اور ان کا شمار غالب کے شاگردوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ وہ غالب سے ملاقات اور مشورہ سخن کے لیے بارہا دہلی جایا کرتے تھے اور اسی شوق سفر کی مناسبت سے غالب نے خود ان کا تخلص سیاح تجویز کیا تھا۔‘‘ پھر ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی کے 1957ء میں طبع کردہ ’’ انتخاب کلام میاں داد خاں سیاح سے ادا جعفری ان کی مختلف غزلوں کے اشعار پیش کرتی ہیں۔‘‘ ایک غزل کے اشعار ہیں: ہر ایک داغ سے روشن ہے دل قمر کی طرح ملا ہے عیب کو میرے شرف، ہنر کی طرح خدا نے عشق میں ثابت قدم رکھا ہم کو اٹھے نہ منزل جاناں سے سنگ در کی طرح دیا جواب نہ خط کا نہ کچھ خبر آئی الٰہی گم ہوا کیا نامہ بر، خبر کی طرح اس غزل کا اسلوب، اس کی لفظیات اور پیرایہ اظہار اس حقیقت کے غماز ہیں کہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ، اردو زبان اپنے ارتقائی مدارج طے کرتے ہوئے کس طرح آگے بڑھتی رہی اور کیسے مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے دامن میں سمیٹ کر شعری اظہار کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے اور اپنی اثر انگیزی کو بڑھاتے ہوئے عہد جدید تک آ پہنچی ہے۔ ٭٭٭ خود نوشت، سوانح جو رہی سو بے خبر ی رہی جولائی 1995ء میں شائع ہونے والی ادا جعفری کی خود نوشت ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ اک ایسی تحریر ہے جو اردو زبان میں اچھی نثر کی تازہ تر لطافتوں اور دل کشی کے ساتھ سپرد قلم کی گئی ہے۔ اور ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرز معاشرت کی عکاس ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کے مسلمان معاشرے کی دیرینہ روایات میں پلی بڑھی ادا جعفری سفر در سفر، مختلف معاشروں کے تنوع اور رنگا رنگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی بخشی ہوئی مسرتوں سے زندگی کی حرارتیں کشید کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تجربات نے کس کس طرح ان کی شاعرانہ حسیت کی تشکیل کی ہے! یہ تحریر ان کے عرصہ حیات میں پھیلی ہوئی دھوپ اور چھاؤں کی ایک تصویر ہے، جس میں گئے دنوں کی یادوں کے دل آویز رنگ بھی ہیں، لمحات موجود کے اندھیرے اجالے بھی اور آنے والے دنوں کی آہٹیں بھی۔ ایک گزرے ہوئے زمانے کے رنگ تہذیب اور طریق معاشرت سے آگاہی بھی ہوتی ہے اور بدلتی ہوئی اس دنیا کے نئے انداز سے مرتب ہونے والے نقشے میں بھرے جانے والے رنگ بھی نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ خود نوشت سوانح ادا جعفری کے ان ذہنی رویوں کی غماز ہے جو بحیثیت ایک حساس شاعرہ، زندگی کے عملی تقاضوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ان کے یہاں نمایاں ہوئے ہیں۔ حساسیت، درد مندی اور گدازی قلب کے ساتھ، ادا جعفری نے اپنی زندگی کے بہت سے تجربات و مشاہدات کو شعری پیکروں میں تو ڈھالا ہی تھا مگر پھر تخلیقی اظہار کی انہی بنیادی خوبیوں سے کام لیتے ہوئے انہوں نے نثری تحریر میں بھی بہت سی ذاتی اور اجتماعی صداقتوں کو قلم بند کیا ہے۔ اس خود نوشت کی ابتدا جناب صہبا لکھنوی کی فرمائش پر ہوئی تھی اور پھر جیسے جیسے یہ تحریر آگے بڑھتی گئی، بیانیہ کے فطری بہاؤ، مشاہدہ کی صلاحیت اور ایک بے ساختہ لب و لہجے کی سچائی نے اس ایک خوشگوار تحریر میں ڈھال دیا۔ ادا جعفری نے بحیثیت ایک نسوانی وجود، جن دو متضاد زمانوں کو دیکھا، برتا اور جھیلا ہے ان کے کئی اہم تجربات کو بہت سی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے وہ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں: ’’ ایک مرد کو تو ہمیشہ سے اس دنیا اور زندگی میں اپنی ترجیحات پر اختیار حاصل رہا ہے لیکن عورت نے خود اپنی جھلک دیکھنے کے لیے بڑا طویل سفر طے کیا ہے۔‘‘ عورت کی ذات کے اسی سفر کو اپنی ذاتی زندگی کے مختلف مراحل، اپنے رد عمل ، رد و قبول کے معیارات اور زندگی میں اپنی ترجیحات کے تناظر میں انہوں نے واقعہ در واقعہ بیان کرتے ہوئے، خود شناسی اور اپنے شعری تشخص کے استحکام کو، اپنی ذاتی زندگی کا ماحصل قرار دیا ہے۔ یہ خود نوشت ادا کی ذات کے حوالے سے کوئی حرف آخر نہیں کہ انسان خود کو بھی کہاں سمجھ پاتا ہے۔ خود انہوں نے بھی لکھا ہے: ’’ کون جانے کس کا سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پہنچا دیتا ہے۔ زندگی کے بحر بے کراں میں اپنا پتا کس نے پایا ہے۔ حرف سخن اور وسیلہ اظہار نے بے شک دل کو آسودگی عطا کی ہے مگر کی اہم خود کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ سکیں۔‘‘ اس اعتبار سے اس خوب صورت تحریر کے مطالعے سے ہمیں ان کے طرز زندگانی، طرز فکر اور ان کے نسوانی شعور کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جس ماحول اور تہذیب میں ادا جعفری نے 1926ء میں آنکھ کھولی تھی، وہ زوال آمادہ جاگیر داری نظام کے گہرے اثرات میں تھے۔ شرافت اور امارت کے بت بھی سجے ہوئے تھے اور خاندانی وضع داریوں اور سفید پوشیوں کا بھرم بھی قائم رکھا جاتا تھا۔ مستحکم خاندانی نظام کا تجزیہ وہ یوں کرتی ہیں: ’’ مرد تھے جن کی جنبش ابرو پر زندگی بھر کی خوشیوں اور محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بیبیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین و ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں۔‘‘ پھر لکھتی ہیں: ’’ ان دو انتہاؤں کے درمیان اس لڑکی نے جنم لیا تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے اپنے اندر کی شاعرہ، اپنے وجود سے علیحدہ ایک ہستی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی میری مجبوری کبھی میری پناہ گاہ۔‘‘ اپنے باطنی وجود کے اضطراب کو دور کرنے اور اپنے حصے میں آئی ہوئی تنہائی کو تخلیقی لمحوں میں بدلنے کے لیے انہوں نے علمی مشاغل کو اپنانا شروع کیا۔ جو لوگ تخلیقی کاموں کی فیض رسانیوں سے واقف ہیں، وہ اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ کسی انسانی وجود کی روحانی آسودگی کے لیے ادب و شعر کس درجہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اظہار سے ہم رشتگی اور ذہنی اور فکری رفاقتیں اک ایسے باطنی انبساط کا سبب بنتی ہیں کہ بے لگام سوچوں اور پریشاں خیالیوں کو دور کر کے اور انسانی جذبات کو ایک حسن ترتیب دے کر، زندگی کے مثبت رویوں میں بدل دیتی ہیں۔ ادا جعفری نے پدر سرانہ نظام کے جبر اور مذہبی رسم و رواج کے دباؤ میں رہتے ہوئے بھی، اس وسیع و عریض حویلی کی گھٹی گھٹی فضا اور اکتا دینے والے ماحول میں، جسمانی زندگی سے زیادہ اپنی ذہنی زندگی کے لیے خوشیاں فراہم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اپنی اس پوری جدوجہد کو انہوں نے نہ صرف تمام تر شگفتہ بیانی کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے بلکہ اپنے قارئین تک اس احساس کو منتقل کر دینے میں بھی کامیاب ہوئی ہیں کہ کٹھن حالات اور آزمائشی لمحات کے باوجود ایک تخلیقی عورت کی ذات اپنی بردباری، استقامت اور فطری برداشت کی صلاحیتوں کے باوصف، اپنے لیے زندگی کی راہیں ہموار کر سکتی ہے۔ زندگی کی دو انتہاؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے، زندگی کے جبر کو اختیار میں بدل دینے کی کوششوں کے ساتھ، ادا جعفری نے سفر حیات میں کچھ کھونے اور کچھ پانے کے سلسلوں کو بھی بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی وضاحت کی ہے کہ خود ان کی اپنی ذات کس کس طرح اس نوع کے تجربات سے گزرتی رہی ہے کہ جہاں کوئی بھی احساس کبھی پچھتاوے میں نہیں بدلا بلکہ ہمیشہ ایک قلبی طمانیت اور دلی آسودگی پر منتج ہوا۔ مثلاً جب وہ یہ لکھتی ہیں کہ: ’’ میں نے بدایوں کی شمسی مسجد آج تک نہیں دیکھی اور نہ ان بزرگوں کے مزارات کی زیارت ان کے کمالات کی روشنی میں کی۔‘‘ یا یہ کہ: ’’ غیر ممالک میں، میں بے نام سپاہی کی قبر پر تو گئی ہوں لیکن اپنے شہر میں ان نامور سپاہیوں کو سلام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘ پھر مزید یہ کہ: ’’ میں نے جاپان میں وہ درخت دیکھے جن کی عمر نصف صدی سے پوری صدی تک ہے اور جاپانیوں کے کمال باغبانی نے جنہیں ننھے ننھے پودوں کے قد و قامت میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ روم میں آثار قدیمہ اور مائیکل اینجلو کے بنائے ہوئے مجسموں کا دیدار کیا، نیویارک اور پیرس کی آرٹ گیلریوں میں مصوری کے شاہ کاروں کی زیارت کی، روس میںزار پیٹر کا مجسمہ دیکھا لیکن بدایوں میں جو قلعے کی فصیلوں کے شکستہ آثار تھے، وہ کبھی نہیں دیکھ سکی۔ میری پوری دنیا اس پھاٹک کے اندر آباد تھی۔ جسے ’’ٹونک والوں کا پھاٹک‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ یا یہ آرزو: ’’ مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی تمنا تھی کہ خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں مگر تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو نہ چھو سکیں۔‘‘ تو اس سارے تقابل میں اگرچہ ہمیں ایک ننھے سے دل میں رہ جانے والی بچپن کی اس کسک کا شدید احساس تو ہوتا ہے جو محرومی بن کر تمام عمر کسی انسانی نفسیات کا حصہ بن جاتی ہے مگر پھر اسی محرومی کے سدباب کے حوالے سے زندگی کی حاصل کردہ مسرتوں اور شادمانیوں کی قدر و قیمت بھی فزوں تر ہو جاتی ہے۔ ادا جعفری کے یہاں جو ایک گہری طمانیت اور Sense of achievement نظر آتا ہے، وہ اپنی محرومیوں کے ازالے سے حاصل ہونے والے اسی یقین و اعتماد کا مظہر ہے۔ ادا جعفری نے اپنے عہد کے مختلف رویوں، پدر سری نظام اور خاندانی رسم و رواج کے قدیم اصولوں کے اثرات کے تحت ظہور پذیر ہونے والی طبقاتی تقسیم کا بھی احساس دلایا ہے۔ لکھتی ہیں: ’’ اس زمانے میں بھی اپنے گاؤں کے کسانوں سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیبیاں گھر کے نوکروں سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ گویا ان کا شمار عام انسانوں میں نہ ہو۔ مجھے گاؤں کا وہ منظر یاد ہے جب ہم ماموں صاحب کے ساتھ شکار پر جاتے تھے۔ گھنے درختوں کی چھاؤں میں دری بچھا کر ہم تین چار لڑکے لڑکیاں بیٹھ جاتے۔ کھانے پینے کا سامان ساتھ ہوتا تھا۔ جب گاؤں والوں کو ہماری آمد کی خبر ہوتی تو عورتیں اور بچے ہم شہر والوں کو دیکھنے کے لیے آس پاس جمع ہو جاتے۔ دیہاتی عورتیں گڑ کے لڈو اور باجرے کی ٹکیاں ہمیں پیش کرتیں۔ ہمیں پہلے سے ہدایت ہوتی کہ سوغات میں ملی ہوئی یہ چیزیں قبول تو کر لیں مگر کھائیں ہرگز نہیں۔ گھر آ کر یہ چیزیں نوکروں میں تقسیم کر دی جاتیں۔‘‘ اس اقتباس میں جس رویے کا حوالہ دیا گیا ہے اور طبقاتی تقسیم کے جس احساس کو بالالتزام انسانی نفسیات کا حصہ بنا دینے کی شعوری کوشش کا ذکر ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرتی رویوں کے معیارات کا تعین اس زمانے میں کیونکر کیا جاتا رہا تھا۔ بعد میں یہی طبقاتی تقسیم غیر شعوری طور پر اس طرح قبول کر لی گئی کہ اس ذہنیت کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے۔ ادا جعفری نے برصغیر میں تحریک پاکستان کی بہت سی سرگرمیوں کو بہ نفس نفیس دیکھا تھا۔ اور اس نئے وطن سے ان کی جذباتی وابستگی، گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئی تھی۔ کتاب کے نویں باب میں انہوں نے بطور خاص تحریک پاکستان کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور اس ضمن میں چنیدہ واقعات بھی بیان کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خود ان کے اپنے خاندان پر اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ لکھتی ہیں: ’’ میری یاد میں1944-45ء کا زمانہ ہے جب ملک کی سیاست اور تحریک آزادی سے الگ تھلگ رہنے والا یہ تغیر نا آشنا خاندان، جس کے مزاج میں روایت پرستی رچی بسی تھی اور جسے صرف اپنے ہی نقش قدم پر چلنے کی عادت تھی، ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ سے جذباتی اور عملی دونوں لحاظ سے وابستہ ہو چکا تھا۔ اس گھرانے میں نئی اور پرانی نسل کے درمیان، سیاسی نظریوں میں کوئی اختلاف بھی نہیں تھا جیساکہ برصغیر کے اکثر گھروں میں ہوا۔ ہمارے گھر میں پاکستان کا قیام سب کے لیے مرکز نگاہ اور مقصد حیات بن گیا تھا۔ دنیاوی حق بھی اور دینی فریضہ بھی۔‘‘ پھر اسی جدوجہد آزادی کے تناظر میں انہوں نے ان صدمات، خوف اور بے اعتباری کے لمحوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے محبت کرنے والے بے شمار دلوں کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ بدایوں میں خدا کا شکر ہے خوں ریزی اور غارت گری کے ہول ناک مظاہرے نہیں ہوئے مگر اندیشے دلوں کو کھرچ رہے تھے، وسوسے پرانی رفاقتوں کو نیم جاں کر رہے تھے، خبریں آ رہی تھیں، دل لرز رہے تھے۔ دوسرے شہروں میں کیا کچھ نہیں ہوا اور کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم کا فرق مٹ چکا تھا۔ انسانیت نڈھال ہو چکی تھی، موت زندگی سے بڑا ظلمانہ خراج لے رہی تھی۔ پورے ملک میں آگ بھڑک رہی تھی۔ ایک چنگاری کہیں بھی اور کسی بھی وقت پہنچ کر بے پناہ ہو سکتی تھی۔ ذہن میں خوف، دل میں بے اعتباری اور آنکھوں میں بد گمانی جنم لے رہی تھی۔ ادا جعفری میں انسانی نفسیات کے تجزیے کی ایک خدا داد صلاحیت بھی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی خود نوشت کو اک ایسی تحریر میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئی ہیں جس کے مطالعے سے نہ صرف ہم تقسیم ہند سے قبل موجود نسل کی اس بھرپور نظریاتی اور عملی جدوجہد کے مختلف مراحل سے آشنا ہوتے ہیں جو ایک آزاد اور خود مختار وطن کے حصول پر منتج ہوئی بلکہ متحدہ ہندوستان کے مختلف طبقات کی اس تمام ذہنی اور باطنی کش مکش کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس سے ہندوستانی معاشرہ ایک طویل عرصے تک گزرتا رہا تھا۔ ادا جعفری کا نثری اسلوب اپنی تمام تر سادگی کے باوجود معنی آفریں اور پر کشش ہے۔ رواں، خوب صورت اور پر اثر لہجے کے ساتھ وہ اپنے قارئین کو اپنی یادوں کے سفر میں شامل کر لیتی ہیں اور غیر محسوس طور پر انہیں بیتے ہوئے زمانوں کی طرف لوٹا دیتی ہیں۔ یوں دھیان کی رہ گزر پر پاؤں دھرتے ہی اس خود نوشت کا پڑھنے والا آپ ہی آپ اک ایسے سفر میں شامل ہو جاتا ہے کہ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی منظر، کوئی نہ کوئی احساس اور کوئی نہ کوئی یاد، اس کی انگلیاں تھام کر ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ظہور پذیر ہونے والے ذاتی احوال کے حوالے سے ادا لکھتی ہیں: ’’ دسمبر1947ء میں نور اپنی ملازمت کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ میں لکھنو میں شمسہ باجی کے پاس تھی۔ وہ ایک انوکھا موسم تھا۔ جب صبا اور سموم قدم قدم ساتھ چلیں۔ جب چراغوں نے اجالوں کی سوگند کھائی تھی اور آندھیاں اپنا بل آزما رہی تھیں۔تند ہوائیں بھی موجود تھیں اور چاروں کھونٹ دیے بھی روشن تھے۔ محبتوں کے کشکول خاک دھول پر اوندھے کر دیے گئے تھے تو ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی خالی جھولیاں محبتوں ہی کے کھنکتے ہوئے سکوں سے بھر دی گئی تھیں۔ ایک مانوس گھر کے دروازے بند ہوئے تھے تو بے کراں جذبوں اور قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا ہوا وطن خیر مقدم بھی کر رہا تھا۔ مارچ 1948ء میں جب میں پاکستان آئی تو اپنے وطن میں تھی۔ جہاں میں کسی بھی شہر میں رہوں سب اپنے تھے۔ اورمیری بہن جو ہندوستان میں رہیں، وہ اپنے گھر، اپنے شہر رہ کر بھی ان پر آشوب دنوں میں بے وطن ہو چکی تھیں۔ تنہائی اور مہاجرت تو اس وقت ان کے نصیبوں میں آئی تھی اور ایسے منقسم خاندان بہت سے تھے۔ اور ابھی تک ہیں۔‘‘ تصور پاکستان سے لے کر قیام پاکستان اور پھر استحکام پاکستان کے حوالے سے ادا جعفری کی خود نوشت میں جگہ جگہ وطن سے ان کی بے پناہ محبت کاسراغ ملتا ہے۔ وہ ان دقتوں اور دشواریوں کا تذکرہ بھی کرتی ہیں جو نئی مملکت کی اساس رکھے جانے کے وقت درپیش رہے۔ اور ان مسائل کا تجزیہ بھی پیش کرتی ہیں جو قومی زندگی میں وقتاً فوقتاً سر اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ شہر کراچی میں ہونے والے آئے دن کے فسادات کو وہ لمحہ فکریہ قرا ردیتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ آج لہو لہان کراچی میں بیٹھ کر قیام پاکستان کے تاریخ ساز دنوں کو یاد کر رہی ہوں۔ کیسے یقین آئے کہ ایک عالم گیر برادری سے تعلق رکھنے والے ہی لوگ جو آج اک عظیم فلسفہ حیات کے داعی اور پیروکار ہیں جو دنیا کے نقشے پر ایک غیر معمولی نظریاتی ملک کے معمار ہیں، صرف چالیس برسوں میں ’’ طمع‘‘ ان کے دلوں کو تاراج کر سکتی ہے۔ قائداعظم اور ان کے جلیل القدر ساتھیوں اور تمام جاں نثاروں اور سرفروشوں نے کب اور کیوں سوچا ہو گا کہ حصول آزادی کے بعد اسلام کے نام لیوا، اپنی خوشی سے قبائلی نظام کے اسیر ہو جائیں گے۔‘‘ ادا جعفری کی خود نوشت کوئی روزنامچہ نہیں کہ اس میں زندگی کے گزارے ہوئے دنوں کا ذکر، تاریخی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہو۔ اس میں تو یادوں کے سائے اور دھیان میں کھلنے والے پھولوں کی بو باس ہے جو کسی بھی جھونکے کے ہمراہ چلی آتی ہے اور مشام جاں کو معطر کر جاتی ہے۔ ایسے ہی کسی لمحے کی بازیافت کے حوالے سے وہ ہمیں بطور خاص خواتین تخلیق کاروں کی ان مشکلات سے آگاہ کرتی ہیں جو دہرے معیارات کے حامل ایک کم علم معاشرے کے بیشتر افراد کے رویوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ فرسودہ سوچوں اور گھٹے ہوئے ماحول کے پروردہ لوگوں میں روشن خیالی مفقود ہوتی ہے۔ وہ صرف لکیر کے فقیر رہنے پر اکتفا کیے رکھتے ہیں۔ تخلیقی ہنر مندی رکھنے والوں کے نازک احساسات اور ارفع خیالات کو سمجھنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ بطور خاص اگر قلم عورت کے ہاتھوں میں نظر آ رہا ہو تو تعصبات اور تنگ دلی کا مظاہرہ اتنی شدت سے کیا جاتا ہے کہ بہت سی قلم کار خواتین ابتداء ہی میں ہمت ہار جاتی ہیں۔ اپنے ذاتی حوالے سے ایسے ہی ایک امتیازی سلوک کا ذکر ادا جعفری یوں کرتی ہیں: ’’ ایک دوپہر میں نے ایک صدائے آشنا سنی دور کہیں کوئل کوک رہی تھی۔ شاید وہ مجھ سے ہی محو کلام تھی، اس ہمدم دیرینہ سے مخاطب ہو کر میں نے اک نظم لکھی۔ اس کا عنوان تھا ’’ اجنبی دیس میں‘‘ اس کے چند مصرعے ہیں: شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہو گا شاید تو مجھے دور بہت دور لیے جاتی ہے یہ صدائے شیریں کسی بچھڑے ہوئے، بسرے ہوئے ساتھی کی طرح جیسے ماضی کے نہاں خانے سے آپ ہی آپ دبے پاؤں چلی آئی ہے مجھ سے مت پوچھ کہ میرے لیے کیا لائی ہے یہ طویل نظم ہے۔ مکمل ہونے کے بعد میں نے اشاعت کے لیے ایک رسالے کو بھیج دی۔ نظم شائع ہوئی اور ایک روزنامے کے صلاح کار نے اس کو اپنی توفیق بھر معنی آفرینی اور مفہوم تراشی سے نوازا۔ سعید بھائی (ادا کے بہنوئی) ان دنوں لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے۔سرخ روشنائی سے نشان زدہ مصرعے اور تبصرہ بحیثیت سرکاری افسر، ان تک بھی پہنچا۔ یہ سب تفصیل مجھے سعید بھائی نے بتائی اور میں پریشان ہو کر رہ گئی۔ نور بھی پاس نہ تھے اور پریشان کن خیال یہ بھی تھا کہ کیا اب لکھنے والوں کو دوسروں کے خیالوں کی اونچ نیچ دیکھ کر لکھنا ہو گا۔ کیا مجھے شعر کہنے سے پہلے متعصب ذہنیتوں کا دھیان بھی رکھنا ہو گا پہلی بار معلوم ہوا کہ زندگی کے سفر میں، صرف زوال آمادہ جاگیرداری نظام ہی حائل نہیں ہوتا، کچھ اور مشکل مقام بھی آتے ہیں۔‘‘ اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود ادا جعفری کے لیے اپنے تخلیقی سفر کی راہیں تراشنا کچھ اتنا سہل نہ تھا۔ اس تلخ حقیقت کا یہ رخ بھی قابل توجہ ہے کہ جب کوئی عورت، معاشرے کے طے کیے ہوئے نظام اقدار کے تحت: ’’ کیا لکھے اور کیا نہ لکھے‘‘ کی الجھن میں مبتلا ہو کر اپنے بعض تجربوں اور سچائیوں کے اظہار سے گریز کرتی ہے تو اسکی تحریروں کو غیر معیاری اور ادب عالیہ کے مطلوبہ معیارات سے کم تر قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی جرأت مند قلم کار خاتون اپنی آرزوؤں، تمناؤں اور بحیثیت ایک ذی شعور انسانی وجود اپنے تجربات کو تمام تر سچائیوں کے ساتھ سپرد قلم کر دیتی ہے تو سماج کے اخلاقی آدرشوں کے مطابق، انہیں ناپسندیدہ اور ناقابل قبول قرار دے دیا جاتا ہے۔ ادا جعفری خواتین قلم کاروں کے اس المیے کا بھرپور ادراک رکھتی ہیں مگر وہ اس مصرعے یعنی: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر کے مصداق ہمیشہ نرم زبان و نرم گفتار رہ کر نسوانیت کے روایتی روپ کو اپنے اوپر مسلط کر لینے سے گریزاں رہی ہیں اور مسلسل اپنے محسوسات اپنی سوچ اور شعور ذات و کائنات کا اظہار کرنے پر اصرار کرتی رہی ہیں۔ اس اصرار کے نتیجے میں جو تحریریں ہمارے سامنے آئی ہیں، ان کے مطالعے سے ان کے طرز احساس اور نقطہ نظر کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ادا جعفری کی شعری اور نثری تحریروں میں اپنے رشتے ناتوں، گھر، خاندان، شوہر اور بچوں سے ایک گہری دل وابستگی اور بے لوث الفت کا احساس مستقل غالب رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر ہر لمحہ کسی اٹوٹ بندھن سے بندھی رہتی ہیں۔ ان کے محسوسات، خیالات، آرزوؤں، ارادوں اور ان کے پورے وجود کو یہ رشتے جکڑے رہتے ہیں۔ مگر اس بندھن سے کسی گھٹن یا جبر کا احساس نہیں ابھرتابلکہ زندگی کی تازہ تر قوت، دیرینہ اعتماد اور سکوں بخش سیرابیوں کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ بطور خاص اپنے بچوں اور پھر ان کے تعلق سے اپنی بہوؤں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنے پھلتے پھولتے سرسبز و شاداب رشتوں سے ایسی مسرتیں حاصل کرتی محسوس ہوتی ہیں جن کے بے ساختہ بیان میں ان کا والہانہ پن چھپائے نہیں چھپتا۔ جس طرح ان کے شعری مجموعوں میں ان رشتوں کے تعلق سے کہی ہوئی نظمیں شامل ہیں، اسی طرح ان کی خود نوشت سوانح میں بھی ہمیں اس نوع کے تذکرے بار بار ملتے ہیں۔ اپنے بیٹے عامر کی شریک حیات کے لیے ان کے یہ جذبات ہیں: ’’ ماہا کو ہماری زندگی میں شامل بہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر لگتا ہے، وہ کبھی ہم سے الگ نہیں تھی۔ صرف دعاؤں ہی میں نہیں، ہمارے شب و روز میں بھی خوشبو کی طرح پہلے ہی کہیں نہ کہیں موجود تھی۔ ماہا کی آمد سے پہلے میں اور نور کتنے اکیلے تھے، اس کا احساس تو گھر میں اس کی موجودگی کے بعد ہی ہوا۔ سنتے آئے تھے کہ ’’ بہو بے زبان ہی بھلی‘‘ مگر میری بیٹی ماہا بفت زبان ہے اور گفتگو صرف محبت کی زبان میں کرتی ہے۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتی ہیںـ: ’’ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ جو وقت گزرتا ہے، اس کا تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ عزمی اور صبیحہ امریکا میں ہمارے قیام کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی وقت کی حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی کی غیر معمولی شخصیات سے ملاقات ہو جاتی ہے، کبھی آسائشوں اور شادمانیوں سے چھلکتے ہوئے اس بر اعظم کے ایسے گوشوں تک جا پہنچتی ہوں جہاں قدرتی مناظر کا حسن و جمال اپنے معجز نمائی کی انتہا کو چھوتا نظر آتا ہے۔‘‘ اپنے شوہر نور الحسن جعفری کا ذکر یوں کرتی ہیں: ’’ نور کے وجود میں بیک وقت دو بڑی دل آویز شخصیتیں سانس لیتی ہیں۔ ایک حفاظت اور امان کی علامت وہ چھتنا رگھنا سایا جسے باپ کہتے ہیں اور ایک وہ بچہ جو دو سال کی عمر میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا۔ (دو سال کی عمر تھی جب نور الحسن جعفری کی والدہ کا انتقال ہوا تھا) نور نے سائبان بن کر مجھے موسموں کی شدت سے محفوظ رکھا ہے انہوں نے میری خوشی کو کتنا عزیز جانا ہے، یہ لکھنے کی ضرورت بھی کیا اور حاصل بھی کیا۔ احساس کی امانت کا بار الفاظ کہاں اٹھا سکیں گے۔‘‘ ان محبتوں، قربتوں اور وابستگیوں کے علاوہ ادا جعفری کی شخصیت کی تعمیر میں ان کے روحانی ورثوں کا بخشا ہوا فیض بھی شامل رہا ہے۔ خود نوشت کے ایک باب ’’ نگاہوں نے زمیں کو آسماں دیکھا‘‘ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہو گا کہ تمام دنیا میں گھوم پھر کر راحتیں اور مسرتیں حاصل کرنے والی ادا جعفری جب بیت اللہ پر پہنچتی ہیں تو عمرے کی ادائیگی اور روضہ رسولؐ پر حاضری کے دوران کی قلبی کیفیات نا قابل بیان ہو جاتی ہیں۔ اپنی باطنی سرشاریوں کو حرف و لفظ کا جامہ پہناتے ہوئے وہ سراپا سپردگی ہی سپردگی نظر آ رہی ہیں۔ ان لمحوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ خانہ کعبہ کے گرد والہانہ طواف کرتے ہوئے کسے معلوم کون کہاں تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر جانے والا اکیلا ہوتا ہے کتنا ہی مجمع، کیسی ہی بھیڑ ہو، کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی اپنے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘ ادا کی شخصیت اور تحریروں میں کوئی تضاد نہیں۔ وہ جتنی منکسر المزاج ، شائستہ، تہذیب، سادہ دل اور حساس، اپنے ظاہر میں نظر آتی ہیں، اتنی ہی اپنی تحریروں کے آئینے میں بھی منعکس ہوتی ہیں۔ خواتین کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ ان کے مزاج میں باہمی مقابلہ آرائی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسی لیے وہا یک دوسرے کی اصل خوبیوں اور خامیوں کو پرکھے بغیر ایک دوسرے سے حسد میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ادا جعفری کی شخصیت اور ان کے ذاتی رویوں نے اس تاثر کی بھرپور نفی کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے سے قبل کی شاعرات کا تذکرہ عزت و احترام سے کیا ہے بلکہ اپنی ہم عصر شاعرات اور پھر اپنے بعد ادبی منظر نامے میں شامل ہونے والی اہل قلم خواتین کا ذکر بھی بھرپور احساس پذیرائی کے ساتھ کیا ہے اور اس سلسلے میں معروف اور غیر معروف اہل قلم خواتین میں بھی کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا۔ ممتاز نقاد ممتاز شیریں کو ان کی وفات پر 1973ء میں نظم ’’ بلاوا‘‘ میں خراج تحسین پیش کرتی ہیں، اس نظم کی چند سطریں: وہ جو چپ چاپ بھری بزم سے اٹھ کر چل دیں یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں بے نیازی تھی کہ خود داری فن تھی لوگو شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں خامشی ایسی کہ ہنگامہ محشر جیسے یاد کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا عہد ماضی کے حسیں خواب تمنا کے سراغ دور افق پار، فروزاں کسی فردا کے چراغ معروف ناول نگار نثار عزیز بٹ کے لیے لکھتی ہیں: ’’ نثار موجودہ عہد کی نہایت اہم ناول نگار ہیں۔ ان کی تصانیف سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔ ان کے حسن اخلاق اور جمال کردار کے علاوہ، ان کی ادبی حیثیت بھی اپنا اعتبار اور اپنی وقعت رکھتی ہے۔‘‘ اسی طرح ممتاز ادیب مختار مسعود کی بیگم عذرا مختار مسعود کا تذکرہ نکل آیا تو ادا جعفری محض ان کے مزاج، رویوں، نرم خوئی اور ایثار و خلوص کا ذکر کر کے آگے نہیں بڑھ گئیں بلکہ بڑی فراخ دلی سے ان کی شخصیت کے اس تخلیقی جوہر کو بھی سراہاجو گاہے بہ گاہے ان کے تحریری حسن میں اپنی جھلکیاں دکھاتا رہتا ہے۔ لکھتی ہیں: ’’ عذرا، خوب صورت نثر لکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ا ن کے لکھے ہوئے مضامین میں نے سنے بھی ہیں اور پڑھے بھی ہیں۔ نہ جانے کیوں انہوں نے لکھنا ترک کر دیا۔ یہ عذرا نے اپنے اوپر بھی ظلم کیا ہے اور ہمیں بھی مایوس کیا ہے۔ اب بھی جب کبھی کبھی ان کے خط آتے ہیں، ان میں وہی ادبی لہجہ اور طرز اظہار کا وہی حسن ہوتا ہے۔ کاش انہوں نے لکھنا جاری رکھا ہوتا۔‘‘ مختلف قلم کار خواتین کی صلاحیتوں کے حوالے سے یہ اعتراف اور یہ فراخ دلی اس بات کی مظہر ہے کہ ادا جعفری خود اپنی شخصیت اور اپنی ذات پر بھرپور اعتماد رکھتی ہیں اور اپنی روشنی کو نمایاں کرنے کے لیے دوسروں کے چراغ بجھانے کی خواہش نہیں رکھتیں۔ ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ میں شامل ایک خوب صورت باب بہ عنوان ’’ ایک سب آگ، ایک سب پانی‘‘ ہے۔ ان اوراق کے مطالعے سے ادا جعفری کی ’’ علم پسندی‘‘ کا اظہار ہوتا ہے۔ اپنی ذات کے محدود حصار سے نکل کر، کھلی آنکھوں سے زندگی کے متنوع مظاہر کو دیکھنے کی تمنا، ان کی فطرت میں ابتدا سے شامل تھی۔ اسی تمنا نے انہیں وقت آنے پر، زندگی سے مستفیض ہونے پر اکسایا۔ لہٰذا وہ اپنے مشاہدات، علمی تجسس اور تخلیقی لگن کے ذریعے اس انبساط کو حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ جو زندگی کی صداقتوں کے منکشف ہونے پر ہر صاحب دل کو حاصل ہوتا ہے۔ لکھتی ہیں: ’’ گمانوں کو چھونے اور خیالوں کو بوجھنے کی عمر میں میرے سامنے دیواریں ہی دیواریں تھیں۔ دائرہ در دائرہ زیست کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ جتنا اب اتنی دوری کے بعد نظر آ رہا ہے۔ میں کہاں کہاں پہنچنا اور کس کس کو دیکھنا اور سننا چاہتی تھی۔ مگر مدتوں کھلی ہوا میں سانس لینے کو بھی ترستی رہی۔ سو اب میں نے وقت اور زمانوں کی حد بندیاں بھی توڑ دی ہیں۔‘‘ ایک محدود زندگی سے نکل کر ادا جعفری نے مختلف سر زمینوں، مختلف معاشرتوں اور تہذیبوں کا نظارہ کیا تو ان کے اندر، ان کے بچپن کی سوئی ہوئی آرزوئیں اور تمنائیں ایک ایک کر کے جاگنے لگیں۔ اب ان کے جذبات، ان کے افکار اور سوچوں کا تقاضا تھا کہ دنیا میں مشترک جذبوں اور مشترک خیالات کے حوالے سے بلا امتیاز رنگ و نسل تمام انسانوں کو ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح محسوس کریں۔ ادا جعفری نے نیو انگلینڈ کے سفر میں اپنی اسی تمنا کو باریاب ہوتے دیکھا۔ا پنے مشاہدوں کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں، انسان کی تہذیبی زندگی جن جن مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی آگے بڑھی ہے اور انسان اس ارتقائی مرحلے میں اقدار کے رد و قبول کے جن جن تجربات سے آشنا ہوا ہے، اس کے مطالعے سے ہم مختلف معاشروں کے بہت سے مشترک تجربوں کے ذریعے ایک دوسرے سے قربت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے نیو انگلینڈ کی دو نہایت غیر معمولی شاعرات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ یعنی ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ۔ ان دونوں شاعرات کے عہد میں تقریباً ایک صدی کا فاصلہ ہے اور زندگی کے بارے میں ان کے رد عمل میں بھی یکسر فرق پایا جاتا ہے۔ ادا جعفری نے ان دونوں شاعرات کے تخلیقی رویوں، فکری جہات اور اسالیب اظہار کی امتیازی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے اپنے خوب صورت نثری اظہار میں بڑی مہارت سے ان شاعرات کے ’’ تضاد رنگ‘‘ کو نمایاں کیا ہے۔ ایملی ڈکنسن کی گم نام زندگی، شاعری، ناکام محبت، جذباتی نا آسودگی، بیماری و غم و اندوہ کے تفصیلی بیان میں ادا جعفری نے کسی رسمی اظہار سے ہرگز کام نہیں لیا ہے بلکہ اس کی شخصیت کے مطالعے میں ایک گہری درد مندی شامل ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایملی ڈکنسن کی جن نظموں کا انتخاب کیا ہے، ان کے تراجم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایملی سے اس کے تخلیقی دکھ کی نوعیت کے حوالے سے بھی ایک خاص قربت محسوس کرتی ہیں ۔ لکھتی ہیں: ’’ ایملی ڈکنسن کی شاعری اور زندگی دونوں میں ہمیں ایک مانوس مشرقیت ملتی ہے۔ اس کی شاعری کو اس کی زندگی کا روزنامچہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کی بہن کو الماریوں کے کونوں اور درازوں میں اس کی دو ہزار سے زیادہ نظمیں ملیں جو اس کے مرنے کے چار سال کے بعد شائع ہو کر لوگوں تک پہنچیں اور انہیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے انداز بیان کی سادگی اور صداقت نے اس کے ذاتی جذبات کو آفاقی حقیقت بنا دیا۔‘‘ اسی طرح سلویا پلاتھ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ میں نے ان دونوں کے تضاد رنگ کا ذکر کیا ہے۔ سوچتی ہوں کہ زندگی کی ناکامیوں سے کام لینے میں تو دونوں یک رنگ رہیں۔ فرق تھا تو اتنا کہ ایک نے زندگی کو گھونٹ گھونٹ پیا۔ دوسری نے ایک ہی سانس میں پیالہ خالی کر دیا۔‘‘ سلویا پلاتھ کی شاعری پر بھی ادا جعفری نے اپنا واضح نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے لکھا ہے: ’’ وہ پہلی مغربی شاعرہ تھی جس نے پہلی بار کھل کر ایک باشعور مکمل عورت کے جذبات کو خاص عورت کے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔‘‘ پھر ایملی ڈکنسن سے اس کا تقابل کرتے ہوئے ادا لکھتی ہیںـ: ’’ ایملی ڈکنسن کبھی مکمل عورت نہیں بن سکی۔ ترک دنیا کر کے وہ گویا دوبارہ رحم مادر میں پناہ گزیں ہو گئی تھی جب کہ سلویا پلاتھ مردوں کے قائم کردہ نظام حیات کی نا انصافیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھی۔‘‘ اس تقابل سے ہمیں ادا جعفری کے ذہنی رویے اور طرز احساس کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور بطور خاص جب ہم اس تجزیے کے آخری حصے تک پہنچ کر ان کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں: ’’ ان دونوں خواتین اک تعلق میرے اپنے قبیلے سے ہے۔ وہ مغربی معاشرہ تھا اور اپنا اپنا رد عمل۔۔۔۔ میرے دیس میں تو مدتوں، پہلی سانس لینے سے قبل ہی عورت زندگی سے دست بردار ہونے پر مجبور ہوتی رہی ہے۔‘‘ یہ سطور پڑھتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خود ادا جعفری کی اپنی ذات میں بھی ایسے تجربات کا دکھ بہت گہرا ہے جو معاشرے کے استحصالی عناصر کے ہاتھوں مشرق کی اہل قلم خواتین کو پہنچے ہیں جبھی تو انہوں نے ا یملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ کا تعارف کراتے ہوئے ان کی شعری تخلیقات میں سے اپنے نقطہ نظر کی صراحت کے لیے ایسی نظموں کا انتخاب کیا ہے جو معاشرتی جبر کے خلاف حساس اور ذی شعور نسائی وجود کے بھرپور رد عمل پر مبنی ہیں۔ مثلاً ایملی ڈکنسن کی نظم کی یہ سطریں: محبت روٹی کی طرح ہے جب پیٹ بھرا ہو تو ہمیں یاد بھی نہیں رہتی اور جب فاقے کی نوبت آ جائے تو ہم اس کے خواب دیکھتے ہیں اس کے گیت گاتے ہیں اس کی شبیہیں بناتے ہیں یا یہ نظم: میں ہمیشہ بھوکی رہی دانہ دنکا جو میں نے چڑیوں کے ساتھ حصہ بانٹا وہ صرف قدرت کے طعام خانے سے ملا اسی طرح سلویا پلاتھ کی شاعری میں یہ نسائی زاویہ نگاہ جس میں ایک مسلسل احتجاج کے عالم میں اپنی نامرادی اور اپنے دکھوں کو یوں بیان کیاگیا ہے: ایک مسکراہٹ گھاس پر گر گئی اس کی واپسی اب ممکن نہیں موت کی شدید آرزو کو لکھتے ہوئے سلویا اپنے احساس کو ان لفظوں میں ڈھالتی ہے۔ مر جانا، دوسرے فنون کی طرح ایک فن ہے میں اس فن میں غیر معمولی مہارت رکھتی ہوں ادا جعفری نے سلویا پلاتھ کے جسمانی اور ذہنی استحصال، تلخ تجربات زندگی، ذہن و روح کی تکذیب سے ملنے والے گھاؤ اور ایک قلم کار شوہر کے ہاتھوں ایک قلم کار بیوی سے معاندانہ سلوک کے تناظر میں اس کی زندگی کے انجام اور خود کشی کے حوالے سے اس کی آخری عمر کے محسوسات سے یہ اقتباسات پیش کیے ہیں: دل تھم گیا ہے سمندر کی لہریں پیچھے ہٹ گئی ہیں آئینوں پر چادریں ڈال دی گئی ہیں ایک اور نظم: عورت نے اپنی تکمیل کا مقام حاصل کر لیا ہے اس کا بے جان جسم، کاملیت کی مسکراہٹ کا غماز ہے اس کے ننگے پیر کہہ رہے ہیں ہم نے طویل سفر طے کیا ہے اور سفر تمام ہوا ادا جعفری کی اس خود نوشت سوانح کی ایک واضح خوبی اس کا تسلسل بیان بھی ہے۔ ایک بہاؤ ہے جس میں پڑھنے والا بہتا چلا جاتا ہے اور زمانی اورمکانی فاصلے خود بخود طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ اپنے قاری کو کچھ دیر کے لیے سستانے کی مہلت دیتی ہیں اوریوں دلچسپ واقعات کی ٹھنڈی چھاؤں میں لا بٹھاتی ہیں۔ زندگی کے مختلف تجربات سے اخذ کردہ معلومات کو وہ کسی غیر دلچسپ اور بے رس پیرائے میں اپنے قاری تک نہیں پہنچاتیں بلکہ ابتداء ہی سے ایک ایسا انداز اختیار کرتی ہیں کہ ان کے بیانیے سے ان کے قاری کا ایک گہرا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتی جاتی ہیں، یہ تعلق مستحکم سے مستحکم تر ہوتا جاتا ہے۔ ’’ آمش‘‘ کے عنوان سے مرتب کیے ہوئے ایک باب میں انہوں نے قدیم روایتی امریکی قبیلے کی بابت مختلف معلومات بہم پہنچانے کے لیے ایک قصے سے آغاز کیا ہے۔ یہ قصہ ان کی بیٹی صبیحہ اقبال نے انہیں سنایا تھا۔ اس قصے سے آغاز کا مقصد قاری کے تجسس کو فوری بیدار کرنا ہے: ’’ وہ قبیلہ جو ایک ترقی یافتہ دنیا کے ایک انتہائی جدید معاشرے کے جزو ہونے کے باوجود، اپنی قدامت پرستی اور مخصوص نظام حیات کے اعتبار سے بالکل متضاد طرز زندگی کا حامل ہے۔ وہاں ایسی روایتوں پر عمل کرنے والے افراد رہتے بستے ہیں جو کسی بیمار انسان کے لیے بیماری کی حالت میں بھی علاج کروانے کو ممنوعہ قرار دیتے ہیں اور اپنے دین اور مذہب کے تقاضوں سے متصادم سمجھتے ہیں۔‘‘ اس ضمن میں انہوں نے آمش قبیلے کی ایک نوجوان لڑکی کی بیماری، لا علاجی اور بالآخر موت کا احوال لکھا ہے اور پھر اسی قصے کے پس منظر کے ساتھ آمش قبیلے کی فرسودہ روایات کو انتہائی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے: ’’ وہ قبیلہ جو واشنگٹن کے قرب و جوار میں ایک شدت پسند مذہبی فرقے کے طور پر آزادانہ زندگی گزارتا ہے اور جدید سائنسی ایجادات کو اللہ کے قانون میں مداخلت سمجھتا ہے۔‘‘ اس باب کو لکھتے ہوئے ادا جعفری نے ایک دلچسپ تقابلی مطالعے سے کام لیا ہے۔ امریکا کی معاشرتی زندگی کے تضادات کو نمایاں کرنے کی خاطر، انہوں نے اہم علمی درس گاہوں اور معروف جامعات کا بھی ذکر کیا ہے جو سائنسی ترقی کے جدید ترین مثالیوں کے ساتھ، علم و آگہی کی قدر و قیمت کو اجاگر کر رہی ہیں۔ یوں ان تفصیلات کو جاننے والوں کے لیے اس نکتے کو سمجھنا سہل ہو جاتا ہے کہ وہ روشنی کی اہمیت کو اندھیرے سے تقابل کے ساتھ اور صبح کے اجالے کو رات کی تاریکی سے تقابل کے ساتھ، بہتر طور پر سمجھنا چاہتی ہیں۔ ادا جعفری نے آمش قبیلے کے رہن سہن، مذہبی عقائد، ان کے اصولوں اور طریقوں، ان کے طرز زندگی، لباس، وضع قطع، عادات و اطوار کے بیان کے ذریعے جو رود اور رقم کی ہے، اس کے مطالعے سے امریکہ کی معاشرتی زندگی کو اس کے تمام تر تنوع اور تضادات کے ساتھ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ادا جعفری نے مغربی معاشروں میں مقیم اپنے بچوں سے ملاقات کے لیے کی جانے والی آمد ورفت سے بھرپور استفادہ کیا۔ یوں بھی زندگی نے انہیں اس انداز میں آسودہ حال رکھا کہ مختلف شہروں او رمختلف ملکوں کو دیکھنے اور وہاں کے شب و روز سے نئی تازگیوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے سے، وہ زندگی کی یکسانیت سے محفوظ رہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں، تصور ترقی اور تسخیر کائنات کے مفہوم کو عملی جامہ پہنانے والے طرز زندگی کے مشاہدوں سے انہوں نے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جب زندگی اپنی وسعتوں کے ساتھ، کسی انسان پر منکشف ہوتی ہے تو اس کے نگاہ و قلب میں بھی کشادگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے بہت سے سفر کی تفصیلات رقم کرتے ہوئے اگرچہ انہوں نے اپنی نجی زندگی اور گھریلو مصروفیات پر بھی توجہ رکھی ہے مگر ان میں بھی جگہ جگہ ان کی دلی خواہشوں اور باطنی مطالبوں کی تسکین کے سامان نظر آتے ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’ ناظم حکمت کو میں نے شعاع اور عزمی کے ساتھ ایمرسٹ میں تلاش کیا۔ میری بہو شعاع کتابوں کی تلاش میں ہمیشہ بڑی جاں فشانی سے میری مدد کرتی ہے اور جب وہ ساتھ ہو تو اس تلاش میں کامیابی کا یقین بھی میرے ساتھ رہتا ہے۔ کتابوں کی شیلف میں منتخب شعراء کے مجموعوں کے درمیان میں نے ناظم حکتم کی نظمیں دیکھیں اور مجھے فیض یاد آ گئے۔ یہ ناظم حکمت کا تازہ ترین اور وقیع انتخاب کلام تھا جو عزمی نے دریافت کر لیا۔‘‘ ادا جعفری کا انداز نگارش کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی اخذ شدہ مسرتوں میں اپنے قارئین کو بھی بھرپور شرکت کا احساس دلاتی ہیں، اسی لیے اپنی تحریر میں جب وہ کسی ایسے مقام پر پہنچتی ہیں جہاں کسی اہم بات کا تذکرہ ہو رہا ہو تو سرسری نہیں گزر جاتیں بلکہ کچھ دیر گفتگو کا رخ موڑ کر اپنے تجربات کے مختلف پہلوؤں کو کچھ ایسے معلومات انداز میں پیش کرتی ہیں کہ پڑھنے والا خود کو ثروت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔ ترکی کے شہرۂ آفاق شاعر، ناظم حکمت کی نظموں کی کتاب ہاتھ آتے ہی ادا جعفری کو فیض احمد فیض یاد آ گئے۔ وہ لکھتی ہیں: ’’ دونوں کی شاعری اور زندگی میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے، غم دوراں کو غم جاناں کی طرح دل سے لگائے ہوئے دونوں سر اٹھا کے چلے۔ زنداں کے اندھیرے ان دونوں چراغوں سے روشن رہے۔ قید تنہائی میں دونوں نے اپنے آپ سے باتیں کیں۔ اکتائے بھی، گھبرائے بھی لیکن پچھتائے کبھی نہیں۔‘‘ فیض کہہ رہے تھے: صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دی دستک سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے تو ناظم حکمت سوچ رہے تھے: قید و بند تو کوئی بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ انسان شکست خوردہ نہ ہو ادا جعفری نے ترکی کے جدید شاعر ناظم حکمت کو جن کا عرصہ حیات(1963ء ۔1902ئ) تک پھیلا ہوا ہے آزادی اور مساوات کے خواب دیکھنے والا شاعر کہا ہے اور ان کی کئی نظموں کے تراجم پیش کیے ہیں: ایک منظوم خط میں وہ اپنی بیوی کو لکھتے ہیں: جان من! رسن و دار کے موسم میں میں نے کئی بار اپنی آزادی کو کھویا وہ دن جو ظلمتوں، چیخوں اور بھوک کے کرب سے طلوع ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دیں گے ان کے دونوں ہاتھوں میں آفتاب ہو گا اس خود نوشت کی ایک خوبی یہ ہے کہ ادا جعفری کے گزرے مہ و سال کو سمیٹتے ہوئے کم و بیش اپنے سارے ہی مخلص ساتھیوں کا ذکر کسی نہ کسی طور پر ضرور کیا ہے۔ یہ ذکر اتنا بے ساختہ اور فطری ہے کہ بس بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور یادوں کے شہر کے کھلے دروازے سے یہ سب آشنا کردار ایک اک کر کے داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سترھویں باب بہ عنوان ’’ سلسلے‘‘ میں وہ کئی ممتاز ادیبوں اور قلم کاروں سے اپنے ذاتی مراسم کے حوالے سے جب اپنی یادداشتیں بیان کرتی ہیں تو ان کے قارئین کو ان ہستیوں کی نجی زندگی، عادات و ا طوار، طرز احساس اور زندگی کرنے کے رویوں کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اجنبیت اور نا آشنائی کا احساس، گہری شناسائی اور دلی قربت میں ڈھلنے لگا ہے۔ اس احساس کے اجاگر کرنے میں بیانیہ کے اس لطف کا بھی ہاتھ ہے جو ادا جعفری کے نثری اظہار کا خاصہ ہے۔ وہ کہانیوں کے انداز میں اپنی بات کا آغاز کرتی ہیں اور ابتدا ہی سے ایک ایسا فطری پیرایہ اظہار اختیار کر لیتی ہیں کہ ان کا ہر قاری خود کو بہ نفس نفیس ان کی محفلوں کا شریک محسوس ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ممتاز ادیب قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کر رقم کرتے ہوئے وہ اپنی بات کا آغاز اس داستاں طرازی سے کرتی ہیں: ’’ کہتے ہیں ایک عابد شب زندہ دار، زاہد تہجد گزار، پاک طینت، نیک خو کسی در یا کے کنارے چلے جا رہے تھے۔ آگے بڑھے تو موج نسیم کی طرح ذکر کی جاں پرور صدا آئی۔ ٹھٹک کر سننے لگے۔ دریا پار کوئی درویش اپنے حالوں یاد الٰہی میں غلطاں تھا۔ بزرگ کو حرف کی ادائیگی اور لہجے میں کسی کمی بیشی کا احساس ہوا۔ تصحیح اپنا فرض جانا۔ پاس ہی کنارے سے لگی ایک کشتی دیکھی۔ مالک سے اجازت لے کر مرد بزرگ ناؤ کو کھیتے ہوئے دوسرے کنارے تک جا پہنچے۔ درویش کو آداب و طریق ذکر سے آگاہ فرمایا، لہجہ درست کیا، پھر کشتی واپس موڑی۔ مگر پھر ٹھہرنا پڑا۔ درویش کی صدائے بے تابانہ میں پھر سہو کا احساس ہوا۔ دوبارہ کشی لے کر ندی پار کی اور وہاں پہنچے، در و بست سمجھایا۔ اصلاح کر کے پھر واپس پلٹے، کچھ دیر سکوت رہا تو چونکے، مڑ کے دیکھا تو دوسرے کنارے سے درویش دریا کی سطح پر قدم جماتا ان کی سمت بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ نزدیک آ کر معذرت خواہ ہوا کہ اصلاح ذہن سے محو ہو چکی ہے۔ اس لیے میں ندی اور ناؤ کے اہتمام کے بغیر ہی آپ تک آ پہنچا ہوں۔‘‘ اس داستاں طرازی کے بعد قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے انہوں نے کئی حلقوں کی اس رائے کی صراحت کی ہے جس میں انہیں ’’ صاحب اسرار‘‘ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ پھر اپنے اس مسلسل اصرار کا ذکر بھی کیا ہے جو شہاب صاحب سے انہوں نے اس تاثر کی اصلیت دریافت کرنے کے لیے کیا۔ آکر میں وہ اپنے قارئین تک اپنا تاثر ان الفاظ میں پہنچاتی ہیں: ’’ برسوں کے میل جول کے عرصے میں میں اور نور شہاب صاحب کی ایک ہی کرامت پر ایمان لائے اور وہ یہ تھی کہ وہ نہایت پاک طینت انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں کوئی بات ایسی ضرور تھی جس کا احترام کرنے کو جی چاہتا تھا۔‘‘ پھر لکھتی ہیں: ’’ ویسے شہاب نامے کے ایک دو باب اب بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں ان سے کچھ پوچھنے کی خواہش ہوتی ہے مگر اب وہ ہمارے یقین و گماں کی پگڈنڈیوں سے بہت آگے جا چکے ہیں۔‘‘ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت میں جن جن دوستوں، مہربانوں اور قرابت داروںکا تذکرہ کیا ہے، ان کی شخصیات کی ان گنت رنگوں میں سے بطور خاص وہ رنگ چنے ہیں جو خوب صورت اور دل آویز ہیں۔ تلخ گوئی، عیب جوئی اور طنز و تشنیع کا انداز اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں خود ادا جعفری کی متین و بردبار شخصیت اور صلح جو فطرت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ فی زمانہ، یہ رویہ اور انداز نظر بہت کم نظر آتا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی شخص میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں موجود ہوتی ہیں اور اس کی ذات میں کوئی خامی اور کمزوری نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی انسانی فطرت ہی کا خاصہ ہے کہ اگر اعلانیہ طور پر کسی کی شخصیت کے کمزور پہلوؤں کا تذکرہ کیا جائے تو اس کی ’’ عزت نفس‘‘ مجروح ہوتی ہے۔ ادا جعفری چونکہ ایک دستاویزی صورت میں ان شخصیات کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کر رہی تھیں، غالباً اس لیے انہوں نے کسی بھی منفی تبصرے سے گریز کیا ہے۔ ان کی دردمندی، شائستگی اور خوش خلقی کا بھی یہی تقاضا تھا کہ اپنے ان احباب کو جن سے وہ گہری عقیدتیں رکھتی تھیں، کسی طور ان کے دلوں کو مجروح نہ کریں، لہٰذا انہوں نے ان کی خوبیوں کو منتخب کر لیا اور کوتاہیوں سے صرف نظر کیا۔ مگر اس رویے سے ان کے قارئین کے لیے یہ دشواری پیدا ہو گئی ہے کہ وہ ادب و شعر کی ان ممتاز ہستیوں سے بھرپور تعارف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں اپنے قیام کے دنوں میں ادا جعفری نے ’’ سلسلہ‘‘ کے نام سے ادبی نشستوں کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ اس انجمن کا منشور طے کیا گیا اور قواعد و ضوابط متعین ہوئے، پھ رہر ماہ کسی ایک رکن کے گھر پر ادبی محفل منعقد ہونے لگی جس میں ممتاز قلم کار اور خوش ذوق سامعین شرکت کرتے تھے۔ اس حوالے سے اپنی یادداشتوں کو سمیٹتے ہوئے ادا جعفری ہمیں ہماری تہذیبی اور ادبی روایتوں کی خوبصورتیوں کا بھرپور احساس دلاتی ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نشست کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ سلسلہ‘‘ بڑے اہتمام سے شرو ع کیا گیا تھا۔ اس کی پہلی محفل جنوری 1978ء میں میرے گھر میں منعقد ہوئی۔ نشست گاہ میں چاندنی کے فرش پر موم بتیوں کے سانولے اجالے بکھرے ہوئے تھے۔ آتش دان پر رکھے ہوئے فانوس سے چھنتی ہوئی روشنی نے دیوار پر آویزاں صادقین کے خطوط کو گویا تاب گویائی بخش دی تھی۔ آیات ربانی کے قدموں میں چھوٹی سی تپائی پر، روپہلی تھالی میں سبز ریشم کا خریطہ مقیش کی سنہری ڈوریوں میں لپٹا رکھا تھا۔ جس کے پاس سبز بلوریں شمع دان روشن تھا۔ ’’خاصان سلسلہ‘‘ نیم دائرے کی صورت، فرش پر بیٹھے تھے۔ سامنے ترکسانی قہوہ دان اور فنجان سنبھالے ہوئے دوطشت تھے۔ یہاں میزبان اور مہمان کی تمیز ناروا تھی۔ اس لیے ہر عزیز کو اپنا پیالہ خود بھرنا تھا۔ آگے ایک بادیے میں کھجوریں تھیں اور پس منظر میں عاشق رسول کی غیر فانی نظم کے مصرعے دہراتی ہوئی مغنی کی دھیمی آواز: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات اس رات کچھ استعارے بھی شریک بزم تھے۔ اہتمام زیادہ ہی کیا گیا تھا۔ بجلی کے قمقمے ایک تسلسل کے ساتھ روشن ہوتے گئے، خریطہ کھولا گیا، سفید کپڑے کے ورق سادہ پر ’’ خاصان سلسلہ‘‘ نے دستخط کیے، اب دیکھتی ہوں کہ اس محضر میں بڑے انمول دستخط موجود ہیں۔ ان محفلوں کے حوالے سے ادا جعفری نے جن لوگوں کو ’’ خاصان سلسلہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے ان میں جمیل نشتر، رفعت جمیل، مختار مسعود، عذرا مسعود، نثار عزیز بٹ، اصغر بٹ، قدرت اللہ شہاب، آغا ناصر، صفیہ، ضیا جالندھری، شفقت ضیا، اختر جمال، احسن علی خاں، سید ضمیر جعفری، مسعود مفتی، بشری مسعود، کرنل محمد خاں، ممتاز مفتی، جنرل شفیق الرحمن، منظور الٰہی اور زہرہ نگاہ جیسے نام شامل ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ان تمام اعتراضات اور بدگمانیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو پاکستانی معاشرے میں اچھا کام کرنے والے شخص کو سننے پڑتے ہیں۔ مگر اپنی فطری سادگی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے درگزر کے رویے کو اپنایا ہے اور اپنے کسی معترض کو استہزاکا نشانہ نہیں بنایا، نہ کوئی کڑوی کسیلی بات کی ہے بلکہ خوش گوار لہجے میں صراحت کرتے ہوئے ان مراحل سے آسان گزر گئی ہیں۔ مثلاً لکھتی ہیں: ’’ انہیں دنوں بیرون ملک اقامت گزیں اک خوش نوا نے مجھ سے کہا، سنا ہے آپ نے امیر ادیبوں کی ایک انجمن قائم کر لی ہے۔ میں نے اقرار کیا کہ جن احباب کو اس انجمن میں شریک کیا ہے، بے شک ان میں بیشتر رئیسان ادب ہی ہیں۔ چونکہ ’’ سلسلہ‘‘ کی رکنیت محدود تھی اس لیے کچھ بزرگوں نے اسے افسر شاہی کی خفیہ تنظیم بھی کہا۔ دراصل نور اس وقت اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری تھے اور ہمارے ممبران میں قدرت اللہ شہاب اور مختار مسعود جیسے سینئر سرکاری افسران شامل تھے، جنہیں میں نے صرف ادیب اور اہل قلم کے مرتبے سے پہچانا تھا اور پہچاننا چاہا تھا۔‘‘ یوں اپنے معترضین کے لیے ملائمت اور نرمی کا لہجہ اختیار کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امن پسندی اور نرم خوئی ادا جعفری کے مزاج کے خاص عناصر ہیں۔ جناب مشفق خواجہ نے ادا کی اس خود نوشت سوانح کو ایک انتہائی دلچسپ اور اعلیٰ ادبی معیار کی کتاب قرار دیا ہے۔ اور اسے ایک قابل قدر دستاویز قرار دیا ہے کیونکہ اس کے مطالعے سے ہمیں بدایوں کی پرانی حویلی کی قدیم روایتی فضاؤں میں پیداہونے والی ایک حساس شاعرہ کے ذہنی اور تخلیقی ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ لڑکی جس نے اپنے اظہار ذات کے لیے جدید شعری پیرایوں سے آغاز کیا اور پھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ جب اس کے شخصی اعتماد نے ایک بھرپور شخصیت کا روپ دھارا تو نثری اظہار کے ذریعے بھی اپنی تخلیقی ہنر مندی کے بھرپور جوہر دکھائے۔ مشفق خواجہ نے تخلیقی اور غیر تخلیقی نثر کے فرق کو سمجھاتے ہوئے ادا جعفری کی نثر کو ’’ تخلیقی نثر‘‘ کے زمرے میں رکھا ہے اور اس سے ان کا مفہوم یہ ہے کہ ادانے لفظوں کو بے جان اشیا کی طرح نہیں برتا ہے بلکہ اپنے بیانیے میں الفاظ کی معنویت کو اس طرح ابھارا ہے کہ ان کی تحریر جان دار، معنی آفریں اور تہہ دار ہو گئی ہے۔ مشرقی معاشرے کی کسی قلم کار خاتون کو اپنی شعری اور ادبی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کتنی دشواریوں سے گزر کر میسر آتا ہے اور ایک قدیم سماج کے تنگ نظر اجارہ داروں کے روبرو اسے اپنے ذہنی وجود کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیسی کیسی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اس کا احساس ہر زمانے میں اہل قلم خواتین کو رہا ہے۔ ادا جعفری جب طویل عرصے تک ادبی محفلوں سے دور ہو گئیں تو کچھ لوگوں نے یہ رائے زنی کی کہ ان کے شوہر نور الحسن جعفری نے حسب دستور، ان کی شعری مصروفیات پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔ اور انہیں محافل میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے۔ ادا لوگوں کی اس سوچ کے جواب میں وضاحت کرتی ہیں: ’’ نور نے مجھ پر ادبی محفلوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ انہوں نے میری شاعری سے نا پشیمان محبت کی ہے۔ لیکن ان کی اپنی مصروفیات تھیں اور تنہا کسی محفل میں شریک ہونا ایک عمر تک میرے لیے دشوار رہا۔ یہ فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔‘‘ ادبی احباب سے مکالمہ، تبادلہ خیالات، ان کے فکر وفہم سے فیض یابی اور ان کے ذہنی معیارات سے آگاہی وہ نعمتیں ہیں جن سے ادا جعفری روزمرہ زندگی کی نجی مصروفیات میں الجھے رہنے کے باوجود مسلسل روشنی حاصل کرتی رہی ہیں۔ اپنے محسوسات کو قلم بند کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ عورت ایک ہی مہلت حیات میں کئی جیون جھیلتی ہے۔ قلم ہاتھ میں تھام لے تو جھمیلے کچھ اور بڑھ جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے آداب کچھ کہتے ہیں اور اپنے آپ سے ملنے کے راستے کہیں اور نکلتے ہیں۔ لفظ کو سانس لیتے دیکھنا کتنی بڑی نعمت ہے۔‘‘ ذاتی زندگی کے حقائق کو بیان کرتے ہوئے اداجعفری نے اپنی خود نوشت کے اوراق میں جگہ جگہ ان ہستیوں کاذکر کیا ہے جن کی کسی خوبی سے یا تو وہ متاثر ہوئیں یا ان کے حسن سلوک کی احسان مندی کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ اپنے بچوں، اپنے گھر، خانہ داری، خاندانی مراسم، سماجی روابط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ کسی نہ کسی حیلے سے اپنی گفتگو میں اپنے پسندیدہ لوگوں کا تذکرہ چھیڑ دیتی ہیں اور پھر خوبصورت الفاظ کے ساتھ انہیں یاد کرتی ہیں، یوں گویا وہ اپنے قارئین کو انسانی رشتوں ناتوں کی قدر و قیمت اور دل نشینی سے آگاہ کرتی ہیں۔ اگرچہ ہر خود نوشت سوانح کا مرکزی کردار انسان کی اپنی ذات ہی ہوتی ہے اور تمام واقعات اور تفصیلات اسی کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں مگر ادا جعفری نے اپنے ذکر میں کہیں بھی اس انتہا کو نہیں چھوا ہے جسے ہم ’’ خود پسندی‘‘ یا ’’ نرگسیت‘‘ سے موسوم کریں۔ جہاں جہاں بھی وہ اپنا ذکر کرتی ہیں، ایک انکساری، بردباری، شرافت و تہذیب ان کے لہجے پر سایا کیے رکھتی ہے۔ نہ کوئی انانیت ہے، نہ سنسنی خیزی، نہ چٹخارہ نہ چھیڑ خوانی۔ دوسروں کی کردار کشی سے بھی انہوں نے مکمل گریز کیا ہے اور اپنے حوالے سے کسی دعوے داری اور احساس تفاخر سے بھی۔ جارج برنارڈشا کے مطابق خود نوشت سوانح ایک طرح کا مکارانہ جھوٹ ہوتا ہے کہ جس میں لکھنے والا اپنی تصوراتی شخصیت کے خدوخال طے کر لیتا ہے اور پھر اسی کے مطابق اپنا خاکہ دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ مگر ادا جعفری نے تقسیم ہند سے قبل اور بعد کی مجموعی معاشرتی اور تہذیبی صورت حال کے پس منظر میں اپنی حقیقی زندگی اور ذہنی اور شعوری تبدیلیوں اور ارتقا کو پیش کرتے ہوئے بڑی حد تک دیانت داری کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ وہ اگر کسی معروف شخصیت سے بھی اپنی ذاتی ملاقات کا تذکرہ کرتی ہیں تو اس کا بنیادی مقصد اپنی بڑائی اور اہمیت جتانا نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کی دل آویزی کو ابھارنا ہوتا ہے۔ ان اقتباسات میں اس تاثر کو محسوس کیا جا سکا ہے: ’’ پہلی بار طفیل بھائی (مدیر ’’ نقوش‘‘ ) مجھ سے ملنے آئے۔ سنجیدہ، خاموش طبع، خلوص طینت طفیل بھائی بہت بڑی شخصیت تھے۔ انہوں نے جس استقامت اور عزم سے اردو ادب کی خدمت کی ہے، اسے ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ احسان دانش کے حوالے سے لکھتی ہیں: ’’ اس بوریہ نشیں عظیم انسان سے مل کر ہمیشہ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتاتھا جیسے کچھ دیر کے لیے دنیا کے تمام بکھیڑوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ جن دنوں ریڈیو والوں کی مہربانی سے جوش ملیح آبادی حکومت کی نگاہوں میں معتوب ٹھہرے تھے، احسان دانش ان کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔ بے نیاز طبیعت کے مالک تھے مگر جوش کے معاملے میں ان کی پریشانی اور مخلصانہ کوششیں ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ سعادت حسن منٹو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ منٹو جب پہلی بار 1949ء میں آپا کے گھر مجھ سے ملنے آئے تھے تو میں چونکی تھی اور تھوڑا سا گھبرائی بھی تھی۔ ابھی تک ان کی تحریریں ہی دیکھی تھیں مگر جب انہیں دیکھا تو ایک انسان کی حیثیت سے وہ بہت بڑے نظر آئے۔‘‘ 1952ء میں فیض احمد فیض سے ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’ لاہور کے شالیمار باغ میں شہنشاہ ایران کے خیر مقدم کا اہتمام تھا۔ نہایت شان دار تقریب تھی اتنے میں فیض احمد فیض آتے ہوئے دکھائی دیے۔ اس مجمع میں ان کے سبھی دوست ان کے منتظر تھے مگر وہ خلاف توقع ہماری میز کی جانب بڑھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس گوشے کی رونقیں قابل رشک ہو گئیں۔ ایران کا بادشاہ کب آیا، کب گیا، کسی کو پرواہ نہ تھی۔ وہاں تو اقلیم سخن کا فرماں روا تھا اور اس کے چاہنے والے۔‘‘ انتظا رحسین کے حوالے سے اپنے محسوسات کو قلم بند کرتے ہوئے ادا جعفری یوں رقم طراز ہیں: ’’ انتظار حسین میرٹھ اور بدایوں کے ناتے، ایک لحاظ سے ہمارے پڑوسی ہی ٹھہرے مگر بہ حیثیت بہترین دوست اور انسان ہم پر بہت دیر میں منکشف ہوئے۔ داستان گو ایسے کہ جب چاہتے ہیں بیتی ہوئی صدیوں کے سفر پر نئی پگڈنڈیاں تراشتے ہوئے اپنے سامع اور قاری کو ساتھ لے کر چل پڑتے ہیں۔ نہ خود تھکتے ہیں، نہ دوسروں کو تھکنے دیتے ہیں۔ الف لیلیٰ کی شہر زاد نے کہانی سے کہانی کی کڑیاں جوڑنے کا ہنر شاید انتظار حسین ہی سے سیکھا تھا۔‘‘ ادا جعفری کی علمی اور تحقیقی کاموں سے دلچسپی ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر اسلم فرخی کے حوالے سے کیے گئے ان کے اظہار خیال سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’ ڈاکٹر صاحب کے مزاج میں کوئی تکلف اور تصنع نہیں۔ علم و ادب اور تحقیق کے میدان میں وہ با وقار مقام رکھتے ہیں اور درویش صفت انسان ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اسلم فرخی کے لیے لکھتی ہیں: ’’ قومی زبان کے لیے میں ’’ غزل نما‘‘ ترتیب دے رہی تھی۔ کبھی ان سے کسی کتاب کی فرمائش کرتی تھی، کبھی سنہ ہجری اور سنہ عیسوی کا معمہ حل کرنے میں مدد لیتی تھی، پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا تھا اور مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا، دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیا تک جا پہنچتا تھا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ الفاظ سے تصویریں بناتے ہیں۔ عالم، محقق اور ادیب ہیں مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت نیک دل اور نیک خو انسان ہیں۔‘‘ تذکرہ در تذکرہ اور شخصیت در شخصیت ادا جعفری نے کم و بیش سو ڈیڑھ سو افراد سے اپنے قارئین کو ملوایا ہے اور اس ذکر میں مختلف زاویوں سے خود اپنی شخصیت کے دل آویز گوشوں کو ہم پر منکشف کیا ہے۔ یوں ان کی سلامت روی اور بے لوث تعلق خاطر پر ہمارے یقین کا رنگ کچھ اور گہرا ہو جاتا ہے۔ ’’ کچھ اور اجالے‘‘ کے عنوان سے مرتب کیے ہوئے اپنی سوانح کے ایک باب میں انہوں نے انسانی رشتوں ناتوں کے حسن کو اپنے خاص انداز میں رقم کیا ہے۔ عالم گیر انسانی جذبات اور احساس یگانگت کے زیر اثر وہ مختلف فرقوں، انسانی گروہوں اور مختلف تہذیبوں کے لوگوں میں بہت سے ایسے مشترک خواص دیکھتی ہیں جو انہیں باہمی قربتوں، رفاقتوں اور محبتوں کے بندھن میں باندھے رکھتے ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’ بچپن ہی سے مجھے ہندوؤں کے تہوار ، ہولی دیوالی وغیرہ بہت دلچسپ نظر آتے تھے مگر ان کا سب سے خوبصورت تہوار راکھی بندھن ہے جو ہر سال ساون کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کی ندرت کو میں ابھی تک نہیں بھول سکی ہوں۔ اس دن بہنیں اپنے بھائیوں کی کلائی پر راکھی باندھتی ہیں اور ان کی درازی عمر اور خوشیوں کی دعائین مانگتی ہیں۔ اس تقریب کا حسین ترین پہلو یہ ہے کہ سگی بہن کے علاوہ بھی اگر کوئی لڑکی چاہے تو راکھی باندھ سکتی ہے۔‘‘ لاہور میں اپنے قیام کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ادا جعفری کو میرزا ادیب سے اپنی خواہرانہ الفت کے مظاہرے یاد آتے ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’ لگتا ہے کبھی کسی خواب میں، میں نے بھی ایک بہن کے پورے مان کے ساتھ میرزا ادیب کو راکھی بھیجی تھی جس کو وہ آج تک ایک بھائی کی محبت اور خلوص کے ساتھ جس میں شفقت بھی شامل نظر آتی ہے، نباہ رہے ہیں۔‘‘ احمد ندیم قاسمی کے بارے میں بھی کم و بیش ان کے یہی محسوسات ہیں: ’’ خاندان سے باہر جس ہستی نے پہلی بار مجھے بہن کہا تھا، وہ احمد ندیم قاسمی ہیں۔ میں بڑی حویلی کی چار دیواری کے اندر رہتی تھی اور اپنی شاعری کی دنیا میں سانس لے رہی تھی۔ انہوں نے بہن لکھ کر میرے احساس تنہائی کو کم کر دیا اور ایک حیرت آمیز مسرت سے آشنا کیا کہ قلم کے رشتے سے بھی میری ایک برادری اور ایک کنبہ موجود ہے۔ اک ایسا تعلق جو غیر مشروط بھی ہے لیکن زندہ اور تابندہ رہنے کی توانائی بھی بخشتا ہے۔‘‘ ادا جعفری کی خود نوشت میں ان کے سیاسی اور سماجی شعور کی بے شمار جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تقسیم ہند سے قبل کے ہندوستانی معاشرے کی سماجی او رسیاسی صداقتوں کی عکاسی کی ہے بلکہ تاریخ کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ وقت کی لہروں میں پڑنے والے بھنور اور مدو جزر کو بھی کسی نہ کسی طور اپنے قلم کی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ ترقی پسند تحریک اک دیا ہوا منشور ہو یا زندگی کے مختلف شعبوں پر اس کے دور رس اثرات کا ذکر، یا برصغیر میں دوسری جنگ عظیم کے ثمرات کی نشان دہی یا تحریک آزادی اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والا مطالبہ پاکستان، 1944ء میں ہندو مہاسبھا کے صدر کی جانب سے اردو زبان کے خلاف مظاہرہ یا ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی ایما پر ناگ پور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اردو کانفرنس کا ذکر۔ ان تمام تجزیوں اور تفصیلات میں ہمیں اک ذی شعور قلم کار کا ذاتی نقطہ نظر ملتا ہے۔ ہر چند کئی مقامات پر ادا جعفری افراط و تفریط کا شکار بھی رہی ہیں اور ذاتی پسند اور ناپسند سے مرتب ہونے والے اثرات واضح نظر آتے ہیں مگ رپھر یہ بات بھی قطعی فطری ہے کہ سوانح کی صورت میں لکھی جانے والی کسی تحریر کی حیثیت بہت تحقیقی اور منطقی نہیں ہوتی بلکہ قلم کار اپنے ذاتی حوالوں اور مشاہدوں کے تناظر میں گویا خود اپنی داستان حیات رقم کرتا ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ترقی پسند تحریک کے ضمن میں ادا جعفری نے جو کچھ رقم کیا، اس میں یہ اثرپذیری بطور خاص موجود ہے۔ لکھتی ہیں: ’’ زندگی کے میلے میں شرکت کا احساس مجھے ترقی پسند تحریک نے عطا کیا اور یہ بڑا دل نواز اور جاں پرور احساس تھا۔ فرسودہ روایات میں جکڑی ہوئی ناقابل شناخت تمناؤں کو جیسے اپنے خدوخال نظر آنے لگے تھے جیسے صدیوں سے منجمد آنکھوں کو اچانک بینائی مل گئی ہو۔‘‘ اس تحریک کے تناظر میں انہوں نے اردو ادب میں آنے والی نئی تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں اردو افسانہ، شاعری اور تنقید کے لیے حیات نو کا بلاوا قرار دیا۔ مگر پھر اس ضمن میں اپنے تجزیے کو آگے بڑھاتے ہوئے، وہ ان پہلوؤں کا بھی ذکرکرتی ہیں جو اس تحریک کی مخالفت کے اسباب فراہم کرتے ہیں، لکھتی ہیں: ’’ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو بہت قد آور شاعر اور ادیب دیئے۔ فیض، احمد ندیم قاسمی، مجروح سلطان پوری، اختر الایمان، مخدوم محی الدین، سردار جعفری، بیدی، عصمت چغتائی، شوکت صدیقی، غلام عباس، اوپندر ناتھ اشک، میرزا ادیب اور دوسرے بہت سے نام۔ اور ان کے فوراً بعد آنے والی نسل کے اہل قلم جو ابتدا میں اس جماعت میں شامل تھے لیکن اس تحریک کے انتہا پسند سیاسی عقائد کی وجہ سے بعد میں علیحدہ ہو گئے مثلاً ممتاز مفتی، ممتاز شیریں، اختر حسین رائے پوری، پروفیسر احمد علی، محمد حسن عسکری وغیرہ۔ ان اختلافات کی ایک بڑی وجہ تحریک کے سرپرستوں کا انتہا پسندانہ رویہ تھا۔ جس میں سیاسی نظریات کو انسان کے بنیادی جذبات و احساسات پر برتری حاصل تھی۔ آئندہ برسوں میں یہی سخت گیر رویہ اس عظیم الشان تحریک کے زوال کا باعث بنا۔‘‘ اسی طرح تقسیم برصغیر سے لے کر تقسیم پاکستان کے المیے تک تمام سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی ادا جعفری اپنی حب الوطنی، سیاسی اور سماجی شعور اور ذہنی اور قلبی وابستگیوں کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ رقم طراز ہیں: ’’ تقسیم برصغیر ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ اس ایک خواب کے حقیقت بنتے بنتے ان اہل عشق پر جو اقلیتی علاقوں میں تھے، کیا کچھ نہ بیت گئی۔ ان قربانیوں کی گواہی تاریخ کے اوراق ہمیشہ دیتے رہیں گے۔ اولاد، آبرو، جان و مال کچھ بھی نہ بچا۔ ایسے خاندانوںمیں اگر ایک دو افراد بچ بھی گئے تو ساری عمر ان زخموں کو اپنی اور دوسروں کی آنکھوں سے چھپاتے ہی گزار دی۔ اب جہاں آ بسے تھے، زمین کا وہی ٹکڑا ان کی پہچان تھا۔ مگر ابھی اس خون کے دھبے برساتوں نے دھوئے بھی نہیں تھے کہ اہل جاں کی صفوں میں رخنے جگہ پانے لگے۔‘‘ مشرقی پاکستان کے المیے پر اپنی دلی رنجشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ادا جعفری ان عوامل پر روشنی ڈالتی ہیں جنہوں نے ہماری قومی زندگی میں بدگمانیوں اور انتشار کا زہر گھول کر ہمیں نہ صرف شرمساری اور ندامتوں سے دوچار کیا، بلکہ ہماری قومی تاریخ کو بھی داغ دار کر دیا۔ لکھتی ہیں: ’’ بنیادی بھوک تھی، بے یقینی تھی۔ ہر قسم کی نا انصافی کا احساس تھا۔ بدقسمتی سے وہ مفادپرست طبقہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ 1948ء میں جب قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو ان کے سامنے دو قومی زبانوں کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ عام سیاسی بیداری زیادہ تھی۔ ان کا احتجاج سیاسی اور اقتصادی تسلط کے خلاف تھا۔ مگر قضیہ زبان کے نام پر کھڑا ہوا۔ وہی زبان جس کا وجود، وجود پاکستان کے جواز میں شامل تھا۔ اگر زندگی قائداعظم کو مہلت دے دیتی تو وہ چونکہ مشرقی پاکستان کے اس مطالبے کی بنیادی وجوہات کا ادراک رکھتے تھے، لہٰذا یقینا تدارک بھی کر دیتے مگر اب یہ سب باتیں محض مفروضے ہیں۔‘‘ ادا جعفری نے خود اپنی خود نوشت کو جن الفاظ میں متعارف کرایا ہے، وہ یہ ہیں: ’’ یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔‘‘ ان الفاظ کی روشنی میں پرکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس خود نوشت کا تعلق بھی ان کے شاعرانہ احساسات کی توسیع ہی سے ہے جیسے ایک حساس دل، جو اپنی کیفیات باطنی سے آسودہ و خوش حال ہو اور زندگنای کے عملی تقاضوں سے نبٹتے ہوئے بھی اپنے وجود کی حیرانیوں میں گم رہتا ہو۔ گویا آسائش حیات اور لوازمات حیات کی بخشی ہوئی آسودگیوں میں نا آسودہ و مضطرب رہتا ہو اور کسی اور ہی دھیان میں، کسی اور ہی تمنا اور تلاش میں مبتلا ہو۔ ادا جعفری نے انہی محسوسات کی بنیاد پر اپنی شاعری کے موضوعات چنے ہیں اور اپنی خود نوشت کے نثری اظہار میں بھی وہ انہی کیفیتوں سے دوچار نظر آتی ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’ آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں۔ دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلی تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔ اپنی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ تصویریں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ کبھی حد نگاہ تک کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے، سراب ہی سراب، تشنگی ہی تشنگی، کبھی پیروں کے نیچے بھیگی ہوئی گھاس کا دل پذیر لمس، کسی پیڑ کی مہرباں چھاؤں، آواز دیتا ہوا کوئی رنگ، سانس لیتی ہوئی کوئی خوشبو۔ یہ سب کچھ تو ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ سارے نظاروں میں اپنا تو وہی ہے جو دو پلکوں کے بیچ بسیرا کر لے۔‘‘ اس خود نوشت کا مطالعہ شروع کرتے ہی ادا جعفری کی شعری شخصیت کے رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سراج اورنگ آبادی کی معروف غزل کا یہ شعر یاد آتا ہے جس کے مصرعہ ثانی سے کتاب کا عنوان اخذ کیاگیا ہے: خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی نہ تو، تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی پھر فہرست پر نظر پڑتی ہے جو انتیس ابواب پر مشتمل ہے تو ’’ دریچے‘‘ کے خوب صورت نام کی معنویت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ مختلف ابواب کے منتخب کردہ عنوانات سے بھی ادا جعفری کی شاعرانہ صلاحیتون اور تخلیقی مزاج کی تازہ کاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثلاً: روشنی کی لکیر، مسافتوں کے درمیاں، دشت میں سامنے تھا خیمہ گل، شہر عزیزاں، موج ہوا کے ساتھ، مہرباں لمحے، ایک سب آگ ایک سب پانی، شاخ نہال غم، نقش قدم یہاں وہاں، غلام گردشیں، قریہ بہ قریہ کوبہ کو۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نام ان کی سوانح عمری کے مختلف ابواب کے نہیں بلکہ ادا کی مختلف نظموں کے عنوانات ہیں۔ اور اب آخر میں چند اختتامی سطریں جو ایک خاص مفہوم کے ساتھ، ان کی اس تحریر کے جواز پر دلالت کر رہی ہیں اور اس نکتے کی وضاحت بھی کہ کسی تخلیق کار کے لیے اپنے سفر حیات کے چند واقعات اور چند لمحات کی تفصیلات کو رقم کر دینے سے کیا، اس کی زندگی کی تمام جہات سے آگاہی کا سامان فراہم ہو جاتا ہے جس سے گزر کر اس نے اپنے وجود کی گواہی دی ہے اور اس حیات و کائنات کے بارے میں اپنے فہم و ادراک سے کام لے کر، اپنے نقطہ نظر کو پہنچوایا اور زندگی کی معنویت کو سمجھایا ہے۔ خود نوشت کے اختتامی حصے میں رقم طراز ہیں: ’’ اب لکھتے لکھتے اچانک دھیان آیا ہے کہ کیا ہم خود کو اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ بھی سکیں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں نے تو اب بھی جسے زندگی کہتے ہیں، اس کی صرف جھلکیاں ہی دیکھی ہیں۔ میرا سرمایہ تو صرف ایک چنگاری تھی۔ اسی کو راکھ میں دفن ہونے سے بچانے کی کوشش کرتی رہی ہوں۔ بس ایک لاگ ساتھ رہی جس نے کبھی تھکنے نہیں دیا اور میرے لیے یہی بہت ہے۔‘‘ ادا جعفری اب اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے چھٹے سال کے اختتام پر، اپنی جسمانی کمزوری کے سبب ایک غیر متحرک اور غیر فعال زندگی گزار رہی ہیں۔ مگر ان کی تحریروں کے باطن سے جھلکتا، ان کا شخصی اعتماد، ان کی عمر بھر کی جدوجہد اور اپنے باطنی وجود پر ان کا یقین وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے ان کے بعد آنے والی نسل کو اپنے احساسات کی لو کو اونچا رکھنے کا حوصلہ بخشا ہے۔ یہیں سے چراغ سے چراغ جلاتے رہنے کی خوب صورت روایت کو استقامت ملتی ہے۔ ٭٭٭ ادا جعفری کا نثری اسلوب اور ناقدین کا تجزیہ ادارۂ جنگ کراچی نے 1996ء میں اپنے ادارے کے زیر اہتمام ادا جعفری کی خود نوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے لیے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں معروف اہل قلم نے ادا جعفری کے نثری اسلوب اور پیرایہ اظہار کی اہم خصوصیات کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی ڈاکٹر اسلم فرخی ڈاکٹر فرمان فتح پوری پروفیسر سحر انصاری ڈاکٹر حنیف فوق محترمہ زاہدہ حنا ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے کہا: ’’ ادا جعفری دنیائے ادب میں ایک مستند نام رکھتی ہیں۔ سید ضمیری جعفری نے تقریباً30برس پہلے (جب ان کا پہلا شعری مجموعہ آیا تھا) انہیں اردو ادب کی خاتون اول کا خطاب دیا تھا۔ ادا جعفری کی دوسری کتابیں ہمارے سامنے رہی ہیں اس لیے ان کتابوں کا تاثر اس خود نوشت سے جدا نہیں ہو سکے گا۔ یہ ان کی نثر کی پہلی کتاب آئی ہے اور سوانح عمری کی ذیل میں شامل ہوتی ہے۔ یہ کتاب ادا جعفری کی تقریباً پچاس سالہ زندگی پر محیط ہے۔ ان کی عمر تو زیادہ ہے مگر میں نے شعور کی عمر کی بات کی ہے اس کتاب کے ابتدائی ساٹھ ستر صفحات سے مجھے بڑی سرشاری کا احساس ہوا کہ ایسی نثر بہت دنوں کے بعد آئی ہے ہماری اردو نثر کچھ عرصے سے بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ زبان نے ترقی بھی کی ہے اس کتاب کے مطالعے سے مجھے اک نیا تاثر اور آسودگی ملی۔ اگر کیٹس اور شیلے اردو نثر لکھتے تو شاید ایسی ہی لکھتے۔ ادا جعفری کی شاعری میں جس طرح دھیما پن اور آگہی ملتی ہے وہی کیفیت ان کی نثر میں بھی آتی ہے۔ اس میں تھوڑا سا نیم رومانوی اثر حجاب اسماعیل کا بھی آیا ہے۔ کیونکہ ادا جعفری اس زمانے میں ایک طالبہ تھیں لیکن اس کتاب کے اگلے صفحات میں ان کی اپنی شخصیت مکمل طور پر ابھرتی گئی میں نے اس کتاب کے مطالعے سے جو تاثر لیا اسے ایک فقرے میں یوں کہوں گا کہ اس کتاب میں وہ ایک بہترین رفیق حیات اور محبت کرنے والی ماں محسوس ہوئیں۔ بحیثیت شاعرہ وہ اپنے اطراف سے مطمئن نہیں۔ لیکن عملی زندگی میں نہایت وفا شعار بیوی اور مثالی ماں ہیں۔ ادا جعفری نہ تو زندگی میں تماشا ہوئیں اور نہ کسی کو غیر ضرور طور پر برا کہا۔ انہوں نے اپنے خارج کی زندگی کو جیسا دیکھا ویسا ہی بیان کر دیا۔‘‘ زاہدہ حنا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’’ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اس بات کا سب سے زیادہ صدمہ ہو رہا ہے کہ اردو نثر کا قاری اب تک اتنی خوبصورت نثر لکھنے والی سے کیوں محروم رہا تھا یہ خوبصورت نثر شعوری طور پر نہیں لکھی گئی ہے بلکہ اندر سے پھوٹی ہوئی او ربہاؤ میں لکھی ہوئی نثر ہے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ گڑھی ہوئی نثر ہے۔ جہاں تک ابتدائی صفحات کی بات ہے تو اس سے ان کی ذہنی بغاوت تو نہیں مگر تمام صورت حال پر الجھن اور نیم برہمی کی کیفیت ملتی ہے۔ لیکن وہ ایک خاص حد سے کہیں باہر نہیں گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے انتقال کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اس میں باپ سے بچھڑنے کا غم بھی ہے اور اپنے اطراف کی زندگی کو بھی زبان دی ہے۔ ابتدا میں جس قسم کے فقرے آئے ہیں اس سے ایک نرم دل رکھنے والی اور سوچنے والی لڑکی کی تصویر ابھرتی ہے۔ انہوں نے اپنی بعد کی زندگی کا بھی احوال لکھا ہے: ’’ میں روس امریکا اور بہت سے ممالک گئی اور وہاں کیا کچھ دیکھا مگر میں نے بدایوں شہر کو نہیں دیکھا یعنی اپنے شہر ہی کو نہیں دیکھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے: ’’ میں نے دنیا بھر کے مزاروں پر حاضری دی لیکن اپنے شہر بدایوں کے باکمال بزرگوں کے در پر حاضر نہ ہو سکی۔‘‘ اس کتاب میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل مسلم اشرافیہ کی ایک لڑکی کے وسیلے سے ہم تک ہمارا ماضی کھل کر سامنے آتا ہے۔ ادا جعفری نے اس ماضی کی نہایت خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔‘‘ اس مذاکرے میں پروفیسر سحر انصاری نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کے حوالے سے اپنا یہ نقطہ نظر پیش کیا: ’’ زاہدہ حنا نے نسل کے جس سفر کی بات نکالی ہے اس کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو ادا جعفری صاحبہ نے اپنی اس سوانح عمری میں اس کا ذکر ایک جگہ خود اس طرح کیا ہے: ’’ میں دیکھتی ہوں کہ میری بیٹی نے اس خواہش کو مکمل کیا جو میں نہیں کر سکی تھی۔‘‘ ایک آدھ جگہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے: ’’ بظاہر یہ میری ذاتی داستان ہے لیکن اس عہد کی تمام خواتین کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے ز۔ خ۔ ش کا حوالہ دیا ہے یعنی زاہدہ خاتون شیروانی جو کہ اپنا نام بھی پورا نہیں لکھ پاتی تھیں۔‘‘ اس طرح انہوں نے یہ بھی لکھا: ’’ جب لکھنا شرو ع کیا تو رسائل میں حیا لکھنوی اور صفیہ شمیم کے نام دیکھتی تھیں۔‘‘ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے جو راستہ تلاش کیا اور ان کی نظم ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ خود ایک منفرد چیز ہے۔ ادا جعفری سے پہلے کی شاعرات کے یہاں صورت حال کچھ اور تھی۔ ان سے ایک نیا شعور اردو شاعری میں آیا۔ دوسری بات میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کتب خانوں سے ہٹ کر جس قدر مشہور ادیب اور شاعر مختلف ممالک میں گزرے ہیں، ان کے مکانوں کو دیکھنا، ان کے کتب خانوں کو دیکھنا یہ منظر بھی اس میں خاص طور سے ابھرتا ہے۔ اس کے ساتھ علم کی لگن ان میں بدستور دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے جدید دور سے اپنے آپ کو ملا لیا۔ انہوں نے اشتراکی فکر کے علمبرداروں کے خیالات سے واقف ہونے کے بارے میں تو بتایا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ وہ ان کے افکار سے متفق نہیں۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’ ماضی کا دور کتنی بھی دشواریوں میں گزرا ہو کتنی ہی محرومیاں اور مجبوریاں مقدر بن گئی ہوں یادوں کے آئینے میں سجی ہوئی تصویر حسین بھی ہو جاتی ہے اور عزیز بھی۔ اس کتاب میں بہت سے کردار ابھرتے ہیں مثلاً رحمت، مولوی میاں، بادل خان، رابعہ وغیرہ۔‘‘ اس کتاب میں بڑی گہری نفسیاتی کیفیات بھی سامنے آئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس پورے معاشرے کی نمائندگی بھی ہوئی ہے۔ گویا ادا جعفری صاحبہ نے ایک عہد کو اپنی کتاب میں زبان دے دی ہے۔ سحر انصاری کے اظہار خیال کے بعد ڈاکٹر اسلم فرخی نے فرمایا: ’’ میں عالی صاحب کے ایک جملے سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔ عالی صاحب نے کہا کہ نثر کا ایک اسلوب اس کتاب میں ملتا ہے۔ یہ خیال بالکل درست ہے۔ نثر خاصی پیچیدہ اور دشوار صنف ہے۔ اس ماحول اور اس فضا میں ایک ایسی کتاب سامنے آئی ہے جس میں نثر کو خوب صورت اور اعلیٰ انداز میں استعمال کیا گیا ہے تو اسے پڑھ کر یقینا فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا سبب بھی میرے ذہن میں موجود ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی اس سے اتفاق کریں۔ بات یہ ہے کہ خود نوشت لکھنے والا اپنے سماجی منصب اور اپنی شخصیت کے مطابق لکھتا ہے اور یہ ہمارا عہد انکشاف ذات کا عہد ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خود نوشتیں بڑی کثرت سے لکھی جا رہی ہیں۔ سفر نامے بھی کثرت سے لکھے جا رہے ہیں۔ سفر نامے بھی مجھے تو کبھی کبھی انکشاف ذات کا حصہ لگتے ہیں۔ اگر ہم اردو کے حوالے سے خود نوشت لکھنے کی روایت پر غور کریں تو سب سے پہلے خود نوشت لکھنے والا میر تقی میر ہے جس نے اپنی خود نوشت اردو ہی نہیں، فارسی میں لکھی لیکن میر کی خود نوشت میں انکشاف ذات نہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی شخصیت پر کچھ خوش گمانی کے پردے ڈالنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ سرو الملک کی ’’ کارنامہ سروری‘‘ ہے جو بڑی زبردست خود نوشت ہے۔ اس میں وہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس میں محسن الملک سے ان کی ٹکر ہوئی ہے اور محسن الملک کو حیدر آباد دکن چھوڑنا پڑا۔ سر رضا کا ’’ اعمال نامہ‘‘ بھی اہم خود نوشت ہے اس میں ان کی شخصیت کا عکس ملتا ہے ۔ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ میں جو نثر لکھی ہے وہ ان کی شاعری اور شخصیت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک شاعرہ کی لکھی ہوئی خود نوشت ہے اور اس کی سب سے اچھی مثال جوش ملیح آبادی کی خود نوشت ’’ یادوں کی برات‘‘ ہے جس کو زبان کا حد سے زیادہ خیال بھی ہے اور وہ زبان پر غیر معمولی قدرت اور دسترس بھی رکھتا ہے۔ اور اس میں اس کی پوری شاعرانہ شخصیت بول رہی ہے۔ وہی کیفیت ہمیں ادا جعفری کی خود نوشت میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نثر کا اسلوب بہت خوبصورت ہے اور یہ ان کی شاعری سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یعنی ہم ان کی شاعری کو ان کی نثر میں بھی کہیں کہیں تلاش کر لیتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خود نوشت ایک زمانے میں ادبی صنف کے طور پر شمار نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ مغربی ممالک میں تو یہ حال ہے کہ میں نے ایک ادیب کی سوانح عمری دیکھی جو چھ ہزار صفحات پر مشتمل تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ صنف اتنی بڑھ گئی کہ خود نوشت اتنے صفحات میں بھی لکھی جا سکتی ہے۔ اداجعفری کی اس کتاب میں ماضی اور حال کو بڑے سلیقے سے جوڑا گیا ہے۔ مجھے اپنے بچپن میں ایک بات بڑی تعجب خیز معلوم ہوتی تھی کہ ہمارے رشتے کی جتنی شادی شدہ بہنیں تھیں وہ سب ہمارے یہاں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سال میں ایک بار آ گئے۔ یا وہ سال میں ایک بار چلی گئیں۔ مگر وہ رہتی ہمارے گھر میں تھیں۔ اب جو ادا جعفری کی خود نوشت پڑھی تو معلوم ہوا کہ جناب وہ تو جبر کا شکار تھیں انہیں اجازت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنی سسرال جائیں، مجھے پہلے بار اس کتاب کو پڑھ کر وہ واقعات یاد آئے اور ہم جو یہ پڑھتے ہیں کہ سندھ میں عورت کے ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے اور پنجاب میں یہ ظلم ہوتا ہے تو یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ جس کو بڑی خوبصورتی سے ادا جعفری نے اپنی اس کتاب میں پیش کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حنیف فوق نے اس محفل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’’ میں سب سے پہلے اس کتاب کے نام کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا کہ ادا جعفری صاحبہ نے اپنی خود نوشت کا یہ نام کیوں رکھا ہے۔میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ادا جعفری کی یہ نثر کی پہلی کتاب نہیں ہے۔ اس سے پہلے ان کی کتاب غزل نما کے نام سے انجمن ترقی اردو نے شائع کی تھی۔ میں ان کی اس کتاب کو نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ اس سے ادا جعفری صاحبہ کے ذہنی سفر اور تنقیدی نقطہ نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انتخاب جو ہوتا ہے وہ بھی ایک ذہنی سفر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کتاب کا جو نام رکھا گیا ہے وہ سراج اورنگ آبادی کے شعر سے لیا گیا ہے بات یہ ہے کہ ذہنی میراث اس خود نوشت میں جھلکتی ہے تو پھ رجب ہم کسی کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں خاص طور پر خود نوشت کے سلسلے میں تو مجموعی حیثیت سے شخصیت کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ ادا جعفری کی جو متاع قلم ہے جو شاعری ہے وہ تو اردو شاعری کا اہم سرمایہ ہے۔ اور ان کی خود نوشت تو اب آتی ہے۔ لیکن اگر ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی ہمیں جگہ جگہ سوانحی رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری بھی ایک طرح سے خود نوشت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادا جعفری نے یہ نام کیوں پسند کیا؟ میں اسے ایک کلیدی نکتہ سمجھتا ہوں۔ اس کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ان کی تلاش و جستجو ہے۔ اور تلاش و جستجو کیسی ہے۔ ایک تو یہ کہ انسان جو اپنی ذات کی تلاش میں گم ہوتا ہے تو کہاں پہنچ جاتا ہے ایک بے خبری وہ ہوتی ہے جو تصوف کی لائی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک بے خبری وہ ہوتی ہے کہ انسان ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک چھوٹی سی لڑکی ہے جو اپنی ذات کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ ہجوم سے پریشان رہی ہے اور ہجوم سے ہم آہنگ ہونے کی جستجو میں بھی رہی ہے۔ ا س لڑکی کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ بے خبر اور بے چین لڑکی ہے اس کے بعد وہ شعور کی کتنی منزلوں سے گزری ہے لیکن آخر میں وہ وہ اسی منزل پر پہنچتی ہے جہاں بے خبری رہی یعنی پھر وہ دائرہ مکمل ہو جات اہے۔ بے خبری کا جو دائرہ جہاں شروع ہوا تھا اسی پر آ کر ختم ہو جاتا ہے یہ جو بے خبری آئی ہے وہ زندگی کے سارے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اس لیے میں کتاب کے نام کو ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ بہت اہم سمجھتا ہوں دوسری بات جس کی جانب ابھی اشارہ کیا گیا یعنی ابتدائی صفحات تو میں یہ کہوں گا کہ ابتدائی صفحات نہایت جاندار اور پر اثر ہیں۔ تہذیبی نقوش کے اعتبار سے سب سے زیادہ مزین حصہ وہ ہے جو کتاب کی ابتدا کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تضاد ہے وہ اس میں نمایاں ہوا ہے۔ اب مجھے کہنا ہے کہ اہم بات کون سی ہے۔ دونوں باتیں ادا جعفری نے کہی ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ بدایوں میں ٹونک والا پھاٹک بہت بلند و بالا تھا ایک عام قاری کو اس سے کیا دلچسپی ہو گی لیکن ادب کے قاری کو اس سے ضرور دلچسپی ہو گی کہ وہ لڑکی جو ساری دنیا کی سیاحت کر چکی وہ اپنے شہر کی سڑک پر تنہا نہیں چلی اور اپنے شہر کی سڑک پر پیدل چلنے کی آرزو پوری نہیں ہوئی یہ جو زندگی کا تضاد اس طرح سے بیان ہوا ہے وہ کتاب کو اہم بناتا ہے۔ اس لیے اسے اردو کی خود نوشتوں میں ایک اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ خود نوشت محض واقعات اور روایات کو بیان کرنے کا نام نہیں۔ ’’ گرد راہ‘‘ کو اہم خود نوشت سمجھتا ہوں۔ ’’ یادوں کی برات‘‘ ’’ مٹی کا دیا‘‘ ’’ شہاب نامہ ‘‘ بلاشبہ قابل ذکر خود نوشتوں میں شامل ہیں لیکن یہ سب مختلف روایات کو پیش کرتی ہیں یہ تمام خود نوشتیں الگ الگ انداز میں لکھی گئیں۔ لیکن یہاں ہم جس کتاب پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں اس میں ایک بڑی خوبی تو یہ ہے کہ اس میں خود نمائی نہیں آتی۔ خود نوشت میں اضافہ تراشی بھی آ جاتی ہے۔ا س طرح اپنے حوالے سے لکھنے کا انداز بھی ہوتا ہے۔ ادا جعفری کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے یہاں جو گہرائی آتی ہے اس کے لیے ہمیں ان کی ذات سے بالاتر ہو کر دیکھنا ہو گا اور اگر کوئی فکری تشکیل نہ ہو تو وہ سوانح عمری قابل ذکر قرار نہیں پاتی، ادا جعفری کی ذات میں جو گہرائی آئی ہے وہ دراصل ترقی پسند تحریک کی دین ہے۔ اس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے کہ زندگی کے میلے میں کثرت کا احساس ترقی پسند تحریک سے پیدا ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترقی پسند تحریک ہی تھی جس نے خواتین کو اپنا لہجہ عطا کیا۔ یہ جو دو باتیں آتی ہیں وہ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے آتی ہیں ترقی پسند تحریک نے ہمارے پورے معاشرے میں ہلچل پیدا کر دی تھی تو اس ہلچل کو ادا جعفری نے جس طرح سے جذب کیا ہے اس کی وجہ سے ان کی جو ذہنی نشوونما ہوئی ہے اس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ مذاکرے کے اس مرحلے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’’ ادا جعفری کی خود نوشت کے بارے میں اب تک یہاں جو کچھ کہا جا چکا ہے اس میں کچھ باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بعض پہلو ایسے ہیں جن سے الگ ہو کر سوچنا ممکن نہیں۔ مثلاً کتاب کے ابتدائی ساٹھ، ستر صفحات نہایت جاندار اور خوبصورت نثر کا نمونہ ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ کتاب کا بقیہ حصہ اضافی یا ناکام کوشش ہے۔د راصل یہ ابتدائی حصہ کچھ اس قدر اثر انگیز ہے کہ آدمی اس کے حصار سے الگ نہیں ہو پاتا۔‘‘ ڈاکٹر حنیف فوق نے کتاب کے نام کے حوالے سے جو باتیں کہیں ا س سے کئی نئے پہلو سامنے آئے: ’’ ادا جعفری صاحبہ نے اپنی کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور آخری باب کا عنوان بھی یہی ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہر باب کے لیے کوئی مصرعہ رکھا گیا ہے۔ ادا جعفری صاحبہ کا یہ عمل ان کی شاعری سے والہانہ وابستگی ہی نہیں بلکہ ایک تخلیقی فنکار کی حیثیت سے انہوں نے ا پنے استعاروں اور علامتوں کے لیے شاعری کا انتخاب کیا۔ انہوں نے ان ابواب کے لیے دیباچے کے بجائے دریچے کا عنوان زیادہ موزوں سمجھا۔ ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے زندگی کو ہر جگہ اسی دریچے سے دیکھا اور سمجھا ہے اس دریجے میں تہذیبی رنگوں کی آمیزش ہی ان کے منفرد مزاج اور فکر کا پتا دیتی ہے ان کے شعری مجموعوں کے ناموں کو دیکھیے اور انہوں نے ’’ غزل نما‘‘ کی صورت میں جو انتخاب کیا ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے خاتون ہونے کے احساس کو کہیں ختم ہونے نہیں دیا۔ جہاں تک ادا جعفری صاحبہ کی خود نوشت کا کسی دوسرے ادیب کی سوانح حیات سے مختلف ہونے کا تعلق ہے تو یہ یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ہر آدمی کی ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے اور وہ زندگی بھی اپنے مطابق بسر کرتا ہے۔ ایک تخلیقی فنکار کی پہچان ہے کہ وہ اپنا راستہ دوسروں سے الگ بناتا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت میں چیزوں پر اتنے حوالے سے غور کیا۔ جب وہ مختلف ممالک کا احوال بیان کرتی ہیں تو جو کچھ دیکھتی ہیں۔ ان کے خدوخال اور تاریخ کا تذکرہ کرنے کے بجائے یہ بتاتی ہیں کہ انہیں مشہور و معروف چیزیں کیسی لگیں۔ یوں ہم ان چیزوں کے تذکرے میں ادا جعفری کی سوچ کے رنگوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتی ہیں وہاں لائبریری اور آرٹ گیلری ضرور دیکھتی ہیں۔ یہ دو چیزیں ان کی نفسیات کا حصہ ہیں۔ وہ دریچہ سے جھانکتی ہیں تو اس دوران ان کی فکر اور سوچ بے معنی نہیں لگتی یعنی جب انہوں نے دریچے سے ایک لڑکی کی حیثیت سے زندگی کو دیکھا تو ان کے بیان میں وہی لڑکی دکھائی دے گی جو اپنی تہذیبی روایات کی بھرپور ترجمان بھی ہے۔ انہوں نے نانی اور دادی بن کر بھی یہی بتایا کہ انہیں یہ رشتہ کیسا لگا او ریہاں آنے کے بعد انہیں اپنا ماضی کیسا لگا۔ انہوں نے اس محسوساتی سفر میں حالات و واقعات کو بہت کم بیان کیا۔ خود نوشتوں میں ’’میں‘‘ کا استعمال کچھ اس صورت کیا گیا ہے کہ اس سے الجھن ہونے لگتی ہے مثال کے طور پر بعض لوگوں نے ترقی پسند تحریک کے بیان میں بھی اپنی ’’ میں‘‘ کو اس طرح باقی رکھا ہے کہ شاید ان کی عدم موجودگی سے یہ تحریک کامیاب نہ ہوتی۔ خود نوشت میں اس رویے کی بدولت اصل حقائق کچھ سے کچھ ہو گئے۔ ادا جعفری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی چیز کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔‘‘ جناب جمیل الدین عالی نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’ ہم نے بہت ہی سوانح عمریوں کا ذکر کر کے دو چار چیزیں ملا دیں۔ یعنی ہم پوری سوانح عمری کے موضوع پر آ گئے تھے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر شاہ علی صاحب کی نہایت عمدہ کتاب ہے جس میں انہوں نے پچاس، ساٹھ برس پہلے کی سوانح عمریوں سے متعلق نہایت عمدہ تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ کوئی سوانح عمری کن کن عوامل کے تحت لکھی گئی اور لکھنے والوں کی کیا کیا مجبوریاں تھیں۔ ہم کو ادا جعفری کی خود نوشت کے سلسلے میں تمام تر تجزیے اور تعریف کے ساتھ کہ کیا انہیں اپنے دور کی بھی پوری کہانی لکھنی تھی جیسے کہ خلیق انجم نے افکارمیں لکھی ہے۔ وہ ان کی اپنی کہانی تو کم رہ گئی ہے سیاسی تحریکات کے لوگوں اور عظیم شخصیات کی کہانی ہو کر رہ گئی ہے یا حال ہی میں حمید نسیم صاحب کی کتاب آئی ہے اس میں ان کے واقعات، تاثرات اور تعصبات زیادہ نمایاں ہیں۔ میاں سر رضا علی کا ذکر ہوا۔ اتفاق سے جس زمانے میں وہ دہلی میں اعمال نامہ کے اجزاء پڑھا کرتے تھے تومیری عمر سترہ اٹھارہ برس تھی۔ انہوں نے چند ہی اجزاء پڑھے تھے کہ میں نہایت ادب اور گستاخی دونوں کے ساتھ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی یہ کتاب مکمل ہو گئی اورکیا اسے مکمل کرتے کرتے آپ کی زندگی کی تمام سچائیاں سامنے آ جائیں گی تو انہوں نے مجھ جیسے نوجوان سے کہا: ’’ برخوردار، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں سب کچھ کہہ دوں گا تو اپنی کچھ کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ یہ الفاظ سر رضا علی جیسے بے باک اور نڈر آدمی کے ہیں یہاں جوش صاحب کا بھی ذکر آیا ہے۔ ان کی نثر کے بارے میں تو ہم کہاں بات کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی خود نوشت میں افسانویت کو زیادہ شامل کیا ہے۔ یہ بات ان کی زندگی ہی میں ثابت ہو گئی تھی کہ ان کے اپنے زیادہ تر واقعات میں رنگ آمیزی کی گئی ہے۔ جوش صاحب نے مخصوص انداز میں لوگوں کی تعریف کی۔ ان کی اس تعریف کے پس منظر میں ذاتی معاملات تھے جبکہ زیادہ تر برائیاں ان لوگوں کی ہیں جن سے وہ خفا ہو گئے تھے۔ا س میں ادب بہت ہے لیکن سوانح عمری والی بات نہیں ہے۔ ادا جعفری نے سب کو اچھا اچھا کیوں کہا! اس خاندان کو تیس چالیس برس سے جانتا ہوں۔ یہ دونوں میاں بیوی اپنے مزاج کی وسعتیں بھی جانتے ہیں اور محدودات بھی جانتے ہیں ان کی سوچ محدود نہیں ہے۔ البتہ زندگی محدود ہے۔ محدود انداز میں زندگی بسر کرنے والے باہر جا کر زنگی کو برت نہیں سکتے، سوچ نہیں سکتے ہیں۔ میں نے ابتدا میں انہیں بہترین رفیق حیات اور والہانہ محبت کرنے والی ماں کہا تھا۔ یہاں شباب صاحب کا بھی ذکر آیا شاید میری یہ بات بہت سے حلقوں میں پسند نہ کی جائے لیکن میری بھی عمر آخر ہے لہٰذا میں کیاکروں کہ شہاب نامے پر میرا بہت لمبا لکھا ہوا تبصرہ نامکمل پڑا ہے کیونکہ مجھے ان سے محبت بہت زیادہ ہے اور یہ ایسی محبت ہے کہ میری صداقت پر حاوی ہے۔ میں تین برس ان کا ماتحت رہا اور پچیس برس بے ریا دوستی رہی میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ شہاب نامے میں انہوں نے کئی واقعات کو بڑے پیمانے سے افسانوی بنایا ہے۔ کہ اس میں شخصیات کو رد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ آپ کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو اس کا اظہار کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی ناپسندیدگی کے لیے کوئی واقعہ گھڑ دیا جائے اور اس واقعے کی بنیاد پر مذمت کی جائے تو وہ جائز نہیں۔ ہمارے لیے ’’ روسو‘‘ بھی معیار نہیں بن سکتا کیونکہ وہ آدھا تو جھوٹا ہے۔ خود اس کے زمانے کے لوگوں نے اس کے اعترافات میں بہت سے واقعات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔ ادا جعفری نے مشاہدے اور تجزیے کی کمی کے سبب لوگوں کی خامیوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ رویہ اختیار کر لیا کہ کسی کو برا نہ کہا جائے۔ا ور دوسرے ان کا واسطہ بیوروکریٹ سے پڑا۔ سسرال والوں سے پڑا ادیبوں سے پڑا۔ لیکن میں نے ان کے گھر میں کبھی کسی ادیب اور شاعر کو شراب پیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ان کے گھر کی نشستیں ہوئیں لیکن ان میں کسی مرحلے پر بے قاعدگی اور بد تہذیبی نہیں آئی۔ ان کا گھر ہمیشہ سے مخصوص انداز میں رہا۔ا ور اس کے ماحول نے اجازت ہی نہ دی کہ لوگ حدود سے گزرتے۔ اب یہ دیکھئے کہ ان کی شادی سے قبل ہی ان کی کتاب پر قاضی عبدالغفار جیسے آدمی کا مقدمہ آتا ہے جو کوئی معمولی بات نہیں لڑکی بدایوں میں رہ رہی ہے اور وہ حیدر آباد دکن میں دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں اس وقت ادا جعفری کسی بڑے افسر کی بیوی نہیں تھیں۔ اس کے باوجود قاضی صاحب نے مقدمہ لکھا ابتدا سے ان کے اندر تلاش کا سلسلہ جاری ہے مروجہ اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میں بہت زیادہ واقعات اور نشیب و فراز نہیں آتے۔ سوانح عمری کو اپنے حالات کے مطابق نہیں بلکہ جو لکھ رہا ہے اس کے حالات کے مطابق دیکھنا چاہیے اس میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ادب کتنا دیا ہے۔ پہلی چیز ادب ہے جسے ہم شعر میں دیکھتے ہیں کہ موضوع یا خیال کو فنکارانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اگر تخلیقی عنصر نہیں ہے تو خیال کی بڑائی اور بلندی کے باوجود اسے ادب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔‘‘ ڈاکٹر حنیف فوق نے اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:ـ ’’ کوئی خود نوشت کسی دوسرے کے لیے ماڈل نہیں ہے۔ا دا جعفری کے یہاں ایک کلچر اور ایک معاشرہ ہے اور اسی وجہ سے یہ آپ بیتی ’’ جگ بیتی‘‘ بن گئی ہے۔ میں اس بات سے اختلاف کروں گا کہ اس میں واقعات نہیں بات یہ ہے کہ ہر شخص کے بیان کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ان کی شاعری کو لے لیجئے وہ بڑے مدھم لہجے کی شاعرہ ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اسلم فرخی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں سمجھتا ہوں خود نوشت کا نہ تو کوئی آئیڈیل ہو سکتا ہے اور نہ کوئی مقررہ انداز ہو سکتا ہے۔ ہر لکھنے والا اپنے سماجی منصب اور اپنے طرز احساس کے مطابق اپنے حالات لکھتا ہے۔ عالی صاحب نے بالکل درست کہا: ادا جعفری صاحبہ نے زندگی کو اپنے مطابق بسر کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی خود نوشت دوسروں سے الگ اور منفرد ہے دوسری بات یہ ہے کہ خود نوشت نہ سوانح عمری ہوتی ہے اور نہ تاریخ ہوتی ہے۔ لیکن وہ سوانح اور تاریخ کے لیے خام مواد فراہم کرتی ہیں‘‘ مذاکرے کے اس مرحلے میں جناب جمیل الدین عالی نے پروفیسر سحر انصاری سے سوال کیا: ’’ ادا جعفری مغربی ادیبوں میں کن سے آپ کو زیادہ قریب دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ سحر انصاری نے کہا: ’’ میرا خیال ہے کہ زیادہ قربت تلاش کریں تو بغیر کسی گہرائی میں جائے ہوئے، ظاہری مماثلت ورجینیا وولف سے ملتی ہے۔ اس کی خود نوشت تو اس طرح سے نہیں آئی ہے لیکن اس کی جو ڈائریاں بہت اہم ہیں اس میں جس طرح کی ایک باطنی آگاہی اور باطنی عنصر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں یہ چیز ادا جعفری کے یہاں قدر مشترک ہے۔‘‘ سحر انصاری کی گفتگو کے بعد جناب جمیل الدین عالی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا: ’’ اس کتاب نے ادا جعفری کو ایک صاحب اسلوب نثر نگار کے طور پر پیش کیا ہے۔‘‘ مزید معروف اہل قلم ناقدین کا تجزیہ احمد ندیم قاسمی اردو میں خود نوشت سوانح عمریوں کی کمی آہستہ آہستہ دور ہو رہی ہے اور اردو کی بڑی اور محترم شاعرہ ادا جعفری کی خود نوشت اس امر کا ایک تازہ اور ٹھوس ثبوت ہے۔ انہوں نے بچپن سے لے کر اب تک حالات اتنے اتنے سلیقے سے اور اتنی سچائی سے رقم کیے ہیں کہ ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کو آئندہ کی خود نوشتوں کے لیے مینارہ نور قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر اتنی خوبصورت شاعری کرنے والی خاتون نے نثر بھی نہایت خوبصورت اور رواں لکھی ہے۔ نجی زندگی کے حقائق کے بیان میں تخلیق جوہر کم ہی ساتھ دیتا ہے مگر ادا صاحبہ کا یہ جوہر ایک ایک سطر میں چمک رہا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے کسی واقعے کو چھپایا نہیں اور بعض مقامات پر ایسا ایسا سچ بولا ہے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو کترا کر نکل جاتا، البتہ یہ ان کی طبعی شرافت اور نیت کی نیکی ہے کہ انہوں نے ان افراد یا عناصر کا ذکر تک نہیں کیا جو ان کے معیاروں پر پورے نہ اترے یا جنہوں نے انہیں کوئی تکلیف پہنچائی۔ خود نوشت کے آخری باب میں انہوں نے اس سلسلے میں وضاحت کر دی ہے: ’’ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کبھی کسی سے دکھ نہ پہنچا ہو۔ دوستوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جن باتوں نے دل دکھایا انہیں اپنی یادوں میں کیوں شریک رکھا جائے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو و در گزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے‘‘ بحیثیت مجموعی انہیں کم ہی کسی سے گلہ رہا ہے، سب سے اپنائیت محسوس کی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھر کے اہل شعر اور اہل ادب کے علاوہ اپنے عزیزوں اور پنے شوہر (نور الحسن جعفری مرحوم) کے ہم پیشہ بعض افسروں کے بارے میں جب بھی کچھ لکھا ہے کمال سیرچشمی سے لکھا ہے ایک قدامت پسند ماحول میں پرورش پانے کے بعد بحیثیت شاعرہ جب انہوں نے اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنے کی ’’ بغاوت‘‘ کی ہے تو اس کی روداد بہت دلچسپ ہے مگر مجال ہے جو انہوں نے کوئی دعویٰ کیا ہو۔ انہیں اردو کی اولین شاعرہ بھی کہا گیا ہے مگر خود وہ لکھتی ہیں کہ: ’’ ہم سب کو معلوم ہے کہ تذکروں میں اٹھارویں صدی تک شاعرات کے نام موجود ہیں اور انتخاب کلام بھی۔ ان میں مہ لقابائی چندا کا نام نمایاں ہے وہ پہلی شاعرہ تھی جس کا پہلا دیوان 1789ء میں مرتب ہوا۔‘‘ چنانچہ اتنی سچی اور کھری خاتون سے کسی قسم کی سنسنی خیزی یا انانیت کے اظہار کی توقع غلط ہے۔ انہوں نے ’’ خود نوشت‘‘ کے حوالے سے خود ہی لکھ دیا ہے: ’’ یہ خود نوشت ایک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی بھی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار، اور وہ عورت چار دیواروں کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہو گا۔ جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔‘‘ اور یہ ہنر انہوں نے سیکھ لیا چنانچہ کرۂ ارض کا شاید ہی کوئی منطقہ ایسا ہو جہاں وہ نہیں پہنچیں۔ یورپ اور خاص کر امریکا کو تو انہوں نے چھان لیا۔ سر زمین عرب سے بھی ہو آئیں۔ دنیا کے ان تمام خطوں سے متعلق ادبی اور ثقافتی شخصیات کا بھی انہوں نے قریب سے مطالعہ کیا۔ بیسویں صدی میں جو سیاسی تحریکیں جنوبی ایشیا میں چلیں ان سے بھی انہوں نے اجنبیت نہیں برتی۔ ترقی پسند ادب کی تحریک کی ہمہ گیر اور ہمہ اثر کیفیات کا بھی انہوں نے کھل کر اعتراف کیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں جو انسانیت سوز فسادات ہوئے ان کا حسیاتی تذکرہ بھی نہایت دلدوز اسلوب میں کیا ہے اس سلسلے میں ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کے باب ’’ میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کا مطالعہ لرزا کر رکھ دیتا ہے یوں سمجھئے کہ محترمہ ادا جعفری کی یہ خود نوشت اس تہذیب کی تاریخ ہے جس کا اب شاید نشان تک باقی نہیں رہا اور جو اس کتاب کے ابتدائی ابواب میں محفوظ ہو گیا ہے۔ پھر جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح حد درجہ خوبصورت اور دلاویز ہے۔ چند اقتباسات درج ہیں: ’’ بارہ تیرہ سال کی عمر میں کتابوں کے علاوہ روشنی کی جو دوسری کرن میری زندگی میں داخل ہوئی وہ ننھے منے بچے تھے۔۔۔ کسی کے بھی ہوں میں نے گھر کی مہترانی کے بچے نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر گود میں کھلائے ہیں۔ آسمانوں سے دل میں اترتے ہوئے حرف اور مسکراتے ہوئے ننھے بچے میں مجھے آج بھی ایک مشابہت نظر آتی ہے۔ دونوں کس قدر معصوم اور کتنے سچے ہوتے ہیں۔‘‘ ’’ وقت کے ساتھ ساتھ آئینوں میں پرتو اور عکس بھی زاویے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی سامنے، کبھی اوجھل، کبھی بولتے ہیں، کبھی چپ رہتے ہیں۔ وہاں خوشبو تو یہاں شبنم۔ اس خاکداں میں آنے والی ہر روح اپنے حصے کا جادو بھی ساتھ لے کر آتی ہے اور جہاں یہ طلسم ساتھ چھوڑ جائے، وہیں آدمی دم توڑ دیتا ہے۔‘‘ امریکی یونیورسٹیوں کے پاکیزہ علمی ماحول کا نقشہ یوں کھینچا ہے:ـ ’’ ان ہواؤں میں سانس کتنی نکہت آمیز لگتی ہے۔ ارض و سما کا یہ مخصوص حصہ کتنا پاکیزہ کتنا مقدس نظر آتا ہے۔ ہر ملک، ہر قوم اور ہر مذہب کی نوجوان نسل کے دمکتے ہوئے اجلے اجلے چہرے جن کے آئینوں کے آگے کوئی انسان ساختہ دیوار نہیں ہے۔ کتاب اور قلم کی حرمتوں سے آشنا یہ نوجوان جنہیں ان کی اپنی مرادیں ہی پروان چڑھاتی ہیں، ان کی امنگوں کے راستوں میں کوئی سنگ گراں حائل نہیں ہوتا۔‘‘ ’’ ہوا یہ کہ اس لڑکی نے جب عورت کا روپ دھارا تو اپنے آپ سے بچھڑ گئی۔ گہنے، لتے، ہار سنگھار اور گود میں چاند سورج۔۔۔۔ بارہ تیرہ سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا لیکن وہ لڑکی مری نہیں تھی، بس ہجوم میں کھو گئی تھی بات یہ ہے کہ عورت موت کا استقبال تو ایک ہی بار کرتی ہے لیکن جنم بار بار لیتی ہے۔‘‘ قیام پاکستان کے بعد جو ’’ آپا دھاپی اور لچیو پکڑیو‘‘ کی فضا قائم ہوئی اس کے بارے میں مصنفہ لکھتی ہیں: ’’ کپل وستو کا شہزادہ جب اپنے آپے کی کھوج میں نکلا تھا تو عبا اور قبا اور عصا ترک کر کے نکلا تھا۔ ایسی کوئی پرچھائیں اس اجالے کے تعاقب میں نہیں تھی۔ مگر یہ کیسے شہزادے تھے کہ وہ جن کے گھروں، چوباروں پر پہچان نے دستک دی، وہ محلوں دو محلوں کی تعمیری میں نڈھال ہوئے، اور وہ جو صوف پہن کر گھر سے نکلتے تھے، زرتا رقبا کے بوجھ تلے روندے گئے۔‘‘ اور آخر میں اس بھرپور خود نوشت کے آخری صفحے کا ایک بلیغ اقتباس: ’’ اب لکھتے لکھتے اچانک یہ دھیان آیا کہ کیا ہم خود اتنا جانتے ہیں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھ بھی سکیں۔ پتہ نہیں میں نے کیا لکھا اور پڑھنے والے کیا پڑھیں۔ اپنے آپ سے متعارف ہونا مجھ جیسی ایک محدود علاقے میں عمر بسر کرنے والی کے اختیار میں کہاں۔ حقیقت یہی ہے کہ میں نے تو اب بھی جسے زندگی کہتے ہیں اس کی صرف جھلکیاں ہی دیکھی ہیں۔ مجھ جیسے روز و شب کے جزیروں میں جاگتے سوتے رہنے والے کیا جانیں کہ کس کا سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پہنچا دیتا ہے۔ زندگی کے بحر بیکراں میں اپنا پتہ کس نے پایا ہے۔‘‘ مشفق خواجہ ادا جعفری کی کتاب ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ دیکھ کر ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ محترمہ کا تازہ مجموعہ کلام ہو گا۔ ان کا آخری مجموعہ ’’ ساز سخن بہانہ‘‘ ہے بارہ تیرہ برس پہلے چھپا تھا، اس عرصے میں انہوں نے بہت سی شاہکار نظمیں غزلیں لکھی ہیں اس لیے تازہ مجموعے کی اشاعت غیر متوقع نہیں تھی۔ کتاب کی ورق گردانی سے پہلے اس کے نام نے مسحور کر دیا کہ کسی شعری مجموعے کے لیے ایسا موزوں اور خوب صورت نام کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بڑے شوق سے کتاب کھولی، لیکن افسوس کہ اس میں سے نظم کی بجائے نثر برآمد ہوئی۔ مزید مایوسی اس وقت ہوئی جب اندرونی سر ورق پر کتاب کے نام کے نیچے قوسین میں ’’ خود نوشت‘‘ لکھا دیکھا۔ا یک تو شاعروں کی نثر پڑھنا ہمارے لیے مشکل کام ہے، اور اس سے زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ کسی ایسی شخصیت کی آپ بیتی ُڑھی جائے جس کی زندگی میں کسی چٹخارے دار واقعے کے رونما ہونے کا امکان ہی نہ ہو جس نے امرتا پریتم، اجیت کور اور کشور ناہید کی آپ بیتیاں پڑھی ہوں۔ وہ ادا جعفری کی آپ بیتی اسی وقت پڑھے گا، جب اسے ثواب حاصل کرنا ہو گا۔ سو ہم نے اس کتاب کو ان کتابوں کے ساتھ رکھ دیا جن کو آئندہ زندگی میں حصول ثواب کے لیے پڑھنے کا ارادہ ہے۔ گزشتہ ہفتے سورج گرہن والے دن پورے شہر کی طرح ہم بھی خوف زدہ تھے گھر سے باہر قدم نکالنے کی ہمت نہ ہوئی تو سوچا کوئی نیکی کا کام کر ہی لیا جائے اس لمحے ادا جعفری کی کتاب یاد آئی کہ اس کے مطالعے سے زیادہ نیکی کا کوئی کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ کانپتے ہاتھوں میں ہم نے کتاب سنبھالی اور آئندہ زندگی میں نیک راہ پر چلنے کی دعا مانگ کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا پہلے صفحے کی پہلی سطر ہی ایسی دامن کش دل ہوئی کہ ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اسے پڑھتے اور جب تک کتاب ختم نہ ہو گئی، ہم نے اسے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہمیں اپنی اس رائے پر ندامت ہوئی جو ہم نے کتاب پڑھنے سے پہلے قائم کی تھی، حالانکہ ہماری روایت یہ رہی ہے کہ کتابیں پڑھے بغیر ان کے بارے میں کالم لکھے ہیں اور الحمد للہ کہ کبھی کوئی غلط بات نہیں لکھی ادا جعفری کی کتاب پڑھنے کے بعد اب ہماری یہ رائے ہے کہ اسے سورج گرہن کے دن ہی میں نہیں عام دنوں میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور ایسی دلچسپ اور اعلیٰ ادبی معیار کی کتابیں کم لکھی گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ادا جعفری کی زندگی میں چٹخارے دار واقعہ کوئی سنسنی خیز قصہ اور کوئی دل گرما دینے والا رومان نہیں ہوا اس کے باوجود یہ کتاب قاری کے دل کو گرماتی ہے اور ذہن کو روشنی بھی عطا کرتی ہے۔ ادا جعفری نے ہر حساس انسان کی طرح دو سطحوں پر زندگی بسر کی ہے، وہ بیک وقت دو دنیاؤں کی شہری ہیں۔ ایک دنیا تو وہ ہے جو گرد و پیش کے ماحول نے تعمیر کی ہے اور دوسری دنیا وہ ہے جو ان کی ذات کے اندر واقع ہے وہ اپنی زندگی کی روداد بیان کرتے ہوئے کبھی ظاہری دنیا کی تصویریں دکھاتی ہیں اور کبھی باطنی دنیا کے مناظر پیش کرتی ہیں۔ کہیں وہ بھولے بسرے واقعات سناتی ہیں اور کہیں اپنی ان سوچوں اور خیالوں کی نقش گری کرتی ہیں جو زندگی کے مختلف ادوار میں ان کے دل و دماغ پر مسلط رہے۔ اس اعتبار سے یہ آپ بیتی منفرد ہے کہ اس میں عام واقعات کے ساتھ دل و دماغ پر گزرنے والی کیفیات کو بھی محفوظ کر دیا گیا ہے۔ بدایوں کی ایک بہت بڑی اور پرانی حویلی کی اونچی دیواروں کے درمیان پرورش پانے والی ایک ذہین اور حساس لڑکی نے آج کے عہد کی ایک بڑی شاعرہ بننے تک کے مراحل کس طرح طے کئے، ان کی تفصیل تو اس کتاب میں ملتی ہی ہے لیکن جو چیز اس کتاب کو عام کتابوں سے الگ کرتی ہے۔ وہ مصنفہ کا انداز بیان ہے۔ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی اچھا شاعر، اچھی نثر لکھنے پر بھی قادر ہو۔ اسی طرح اگر کوئی اچھا نثر نگار، شاعر بھی ہو تو اس سے اچھی شاعری کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ غالب کا شمار تو مستثنیات میں ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت بڑا شاعر بھی ہے اور بڑا نثر نگار بھی لیکن دوسرا کوئی شاعر یا نثر نگار ایسا نہیں ملتا جو نثر و نظم دونوں میں باکمال ہو۔شاعروں میں علامہ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہ بڑے شاعر ہیں مگر ان کی نثر بے مزہ ہوتی ہے، یہی حال فیض کا ہے کہ ان کی شاعری کے سامنے ان کی نثر خانہ بے چراغ ہے۔ ہمارے صاحب طرز نثر نگاروں میں مولانا ابو الکلام آزاد اور نیاز فتح پوری، شاعری سے بھی شوق رکھتے تھے مولانا آزادکا خاصا کلام منظر عام پر آ چکا ہے اور نیاز فتح پوری کا شمار تو زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کا وہ کلام جو ستر اسی سال پہلے کے رسالوں میں دفن ہے، جمع کیا جائے تو ہزار صفحوں سے کم کا مجموعہ مرتب نہیں ہو گا، لیکن آزاد اور نیاز کی نثر کے سامنے ان کی شاعری کا وہی حال ہے جو کمال کے بالمقابل عجز کا موجودہ دور میں ایک بھی نثر نگار ایسا نہیں ہے جس نے ڈھنگ کے دو مصرعے لکھے ہوں، لیکن شاعروں میں چند ایسے ضرور مل جاتے ہیں جنہیں نثر لکھنی آتی ہے اس مختصر گروہ میں ادا جعفری اس اعتبار سے منفرد نظر آتی ہیں کہ ان کی نثر صحیح معنوں میں تخلیقی نثر ہے وہ اب تک ہمارے عہد کی ایک بڑی شاعرہ تھیں زیر نظر کتاب کی اشاعت کے بعد اب وہ بڑی نثر نگار بھی ہیں۔ اگر یہاں تخلیقی نثر اور غیر تخلیقی نثر کا فرق واضح کر دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ہر لکھنے والے کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرے اور یہ کام ہر وہ شخص بآسانی انجام دے لیتا ہے جس کے ہاتھ میں قلم اور قلم کے سامنے کاغذ ہو۔ کوئی لفظوں کو بے جان اشیاء کی طرح استعمال کرتا ہے اور کوئی ان کا جانداز سمجھ کر ان کی روح میں اترتا ہے اور معانی کا سراغ لگاتا ہے کوئی اپنا مدعا اس طرح بیان کرتا ہے کہ پڑھنے والا پڑھ کر بھول جاتا ہے کہ اس نے کیا پڑھا تھا اور کوئی اپنی بات اس طرح کہتا ہے کہ بات ذہن میں نقش ہو جاتی ہے اور بات کہنے کا انداز دل میں گھر کر لیتا ہے۔ ادا جعفری کی نثر اس لیے تخلیقی ہے کہ انہوں نے لفظوں کو انسانوں کی طرح جاندار سمجھا ہے اور ان کی ماورائے لغت معنویت سے بھی کام لیا ہے۔ ان کی باتیں اچھے شعر کی طرح نہ صرف متاثر کرتی ہیں بلکہ یاد بھی رہ جاتی ہیں کتاب کا آغاز ہی اس خوبصورت انداز سے ہوتا ہے ’’ وہ جو بے چین اور بے خبر اور ہجوم میں تنہا لڑکی تھی، یہ اس کی اور میری کہانی ہے، میرے اور اس کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صبح و شام کے بیچ آ جاتا ہے۔ میرا اور اس کا وہی رشتہ ہے جو سوچ کا آواز سے ہوتا ہے۔ سوچ کی سرحدیں نہیں ہوتیں، آواز حدود میں گرفتار رہتی ہے، آواز سوچ کے ساتھ چلے، کبھی ایسا ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا، کبھی وہ میرے پاس ہوتی ہے کبھی صدیوں کے فاصلے پر میں تو اسے بہت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھی تھی مگر اس نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا، مڑ کر دیکھ لینے میں ہرج ہی کیا ہے۔ بدلتے موسموں کی دل داری دل آزاری دونوں پر یقین کرنے کے لیے کبھی کبھی بھولی بسری یادوں کو چھو لینا بھی اچھا ہے۔‘‘ اگر اس اقتباس کے جملے مصرعوں کی طرح لکھ دیے جائیں تو یہ عبارت ایک خوبصورت نثری نظم میں تبدیل ہو جائے گی۔ ایسے ہی دل کو چھو لینے والے ’’ شعر‘‘ اس کتاب کے تقریباً ہر صفحے پر ملتے ہیں ان میں کچھ ’’ شعر‘‘ سنائے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ’’ وہ بی بیاں واقعی چراغ خانہ تھیں، طاق میں رکھے ہوئے دیے کو اپنے ہی اجالے کے لیے کسی اور ہاتھ کا منتظر رہنا پڑتا ہے کہ جب چاہا جلا لیا، جس کو چاہا بجھا دیا اور پھر بجھے ہوئے چراغ کی بساط ہی کیا ہوتی ہے، وہ آنسو جو آنکھ سے دل میں ٹپکا کس نے دیکھا ہے۔‘‘ ’’ کتاب ذات کو کھول کر پڑھا جائے، کہاں ممکن ہے، اس کے اوراق تو تند و تیز اور شوریدہ سر ہواؤں میں اتنی تیزی سے پلٹ رہے ہیں کہ کہیں کسی صفحے کا ایک لفظ، کسی ورق کی ایک سطر ہی پلے پڑ جائے تو بہت ہے۔‘‘ ’’ عورت ایک ہی مہلت حیات میں کئی جیون جھیلتی ہے۔ قلم ہاتھ میں تھام لے تو جھمیلے کچھ اور بڑھ جاتے ہیں۔ زندگی بسر کرنے کے آداب کچھ کہتے ہیں آپ سے ملنے کے راستے کہیں اور نکلتے ہیں۔‘‘ اس آپ بیتی کا مطالعہ کئی زاویوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اس میں مصنفہ نے اپنے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات بھی بیان کیے ہیں، خصوصاً غیر ملکی اسفارکا تذکرہ خاصی تفصیل سے ملتا ہے، لیکن اس میں روایتی سفر ناموں والی کوئی بات نہیں ہے۔ سفر کے انہیں پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے جو مصنفہ کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث تھے، اس حیرت استعجاب میں قاری بھی برابر کا شریک ہو جاتا ہے۔ سہیل احمد فاروقی جو رہی سو بے خبری رہی عبارت ہے ان یادوں سے جو معصوم بچپن کے روپ میں زیست کے مرحلے پر ہمارے دل کے نہاں خانے میں جھانک کر سوال کرتی ہیں کہ کہیں ہم تمہارے لیے اجنبی تو نہیں ہو گئے کبھی ہم اس چہرے سے آنکھیں چرانا بھی چاہتے ہیں تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو لازم ہوا کہ اس ہمزاد کو کبھی خود سے جدا نہ کیا جائے تاکہ وقت ضرورت اپنا مکمل تعارف کرانے میں غیر ضروری حوالوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ جدید اردو شاعری کی خاتون اول ادا جعفری اپنے رومانی لب و لہجے اور قدیم و جدید کے امتزاج کی بناء پر ایک الگ شناخت رکھتی ہیں جس کا اظہار ان کے چار شعری مجموعوں اور قدیم شعراء کے تعارف و انتخاب کلام پر مشتمل مجموعہ ’’ غزل نما‘‘ سے ہوتا ہے۔ زیر نظر خود نوشت کا انداز بیان بھی رومان کی چاشنی میں سمویا ہوا ہے۔ گنج شہیداں بدایوں میں ’’ ٹونک والوں کا پھاٹک‘‘ میں واقع بڑی حویلی کا پرداختہ ’’ ہم زاد‘‘ درد ل پر دستک دے کر خود کہیں چھپ جاتا ہے لیکن دل کا وہ حال کر جاتا ہے کہ قلم اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ادا جعفری اس خود نوشت کے محرکات کا بیان بڑے اچھوتے انداز میں کرتی ہیں: شہر کی واحد کشادہ سڑک کے ایک طرف محصول چنگی وصول کرنے کی چھوٹی سی کوٹھری اور اس کے مقابل دوسری اونچی مغرور قلعہ نما عمارت۔ پتہ نہیں شہر یہاں سے شروع ہوتا تھا یا ختم ہوتا تھا۔ آگے کھیت اور میدان نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی آرزو تھی کہ کبھی خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں اور تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو کبھی نہ چھو سکیں۔ بڑی حویلی کے ذکر میں جہاں اندھیرے پاسباں تھے اور ’’ اجالا تو صرف ماں کی پلکوں پر‘‘ ایک اور جگہ وہ لکھتی ہیں: ’’ میری یادوں کے اس مرقع میں جہاں محبتیں اور شفقتیں ہیں وہیں مجبوریاں اور محرومیاں ہیں۔ وضعداریاں بھی ہیں اور کم نگاہیاں بھی۔ حویلی میں اذانوں کے اجالے تھے، دعاؤں کے سویرے تھے مگر طاقوں میں شرافت، امارت اور روایت کے بت بھی سجے ہوئے تھے۔‘‘ ادا جعفری کے نزدیک یہی وہ روایت کے بت ہیں جن کی پرستش کی بناء پر مرد کو ہمیشہ اس دنیا اور زندگی میں اپنی ترجیحات پر اختیار حاصل رہا ہے لیکن عورت نے خود اپنی جھلک دیکھنے کے لیے بڑا طویل سفر کیا ہے۔ گویا کہ یہ خود نوشت بولتی ہوئی تصویر غالب کے اس مصرعہ کی ہے کہ ’’ پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم‘‘ بڑی حویلی کی قدیم روایت میں خواتین کو زمانے کی دست برد سے حصار در حصار محفوظ و مامون رکھنے والی دیواریں اتنی اونچی کر دی گئی تھیں کہ تازہ ہواؤں اور دھوپ اور چاندنی کا گزر بھی ممکن نہیں تھا۔ اسیری میں آتش زیرپا ادا حلقہ ہائے زنجیر کو موئے آتش دیدہ تو نہ بناس کیں ہاں واردات قلب کو شعر کی زبان دے کر انہوں نے تعمیر نشیمن کا آغاز کر دیا تھا۔ اس شوق کو ذوق نمو کا حوصلہ خوش نصیبی سے ان کی ماں نے بخشا تھا اور نانا کی فراخدلی نے اسے پروان چڑھایا اور مانند صبا یہ بشارت دی: سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے ادا جعفری کی تخلیقی کاوشیں اس اعتبار سے بھی خاص اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کی ذہنی تربیت تعلیم کے مروجہ وسائل و اصول کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ حصول علم کے ذوق کی آبیادی گھر کی چہار دیواری میں ہوئی جس سے ہمہ گیر نتائج کی توقع عموماً نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ترقی پسند تحریک سے اثر پذیری کی بات ہو چالیس کی دہائی کی برصغیر کی سیاست کے تحت ودیا مندر کی اس کیم ہو، قرار داد پاکستان ہو تحریک آزادی ہویا تقسیم ہند، تقسیم پاکستان ہو یا فرقہ واریت کا معاملہ سب کے تئیں ان کا رویہ ایک ذمے دار اور حساس فرد کا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہنگامہ آرائی اور قتل و خون اور بے کسی و لاچاری کی وہ نہ صرف شاہد بلکہ اس تجربے کی شریک بھی ہیں۔ دسمبر1995ء کے خون میں نہائے ہوئے شہر کراچی کی کراہوں کو بھی ان کے قلم نے محسوس کیا ہے ایک عالمگیر برادری سے تعلق رکھنے کے دعوے داروں پر ان کی حیرت بجا ہے کہ جو دنیا کے نقشے پر ایک غیر معمولی نظریات ملک تعمیر کرنے کے دعویدار ہیں تو پھر کس طرح صرف چالیس بیالیس سالوں میں طمع ان کے دلوں کو تاراج کر سکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف سطحوں پر جاری عصبیتی کش مکش اور اس سے پیدا شدہ تباہی و انتشار اور تہذیبی المیے کا نقشہ ادا جعفری نے مخصوص استعاراتی اسلوب میں اس طرح پیش کیا ہے: ’’ کپل وستو کا شہزادہ، جب اپنے آپے کی کھوج میں نکلا تھا تو عبا اور قبا اور عصا ترک کر کے نکلا تھا۔ ایسی کوئی پرچھائیں اس اجالے کے تعاقب میں نہیں تھی۔ مگر یہ کیسے شہزادے تھے کہ وہ جن کے گھروں، چوباروں پر پہچان نے دستک دی، وہ محولوں دو محلوں کی تعمیر میں نڈھال ہوئے اور وہ جو صوف پہن کر گھر سے نکلتے تھے زرتار قبا کے بوجھ تلے روندے گئے۔‘‘ خانگی ذمے داریوں شوہر کی منصبی مصروفیات کے ضمن میں دیگر تفصیلات اور دیس دیس کے سفر نئی تہذیب اور نئے لوگوں سے تعارف و تعامل کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ تاہم کتاب کے آخری ایک تہائی حصے میں قاری کی وہ محویت کچھ ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ذہنی سرگزشت لکھنے والے سے قاری کی توقعات بیانیے کے ساتھ ساتھ بتدریج بڑھتی جاتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی اس توقع میں کس حد تک حق بجانب ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ اپنے انداز فکر، انداز نگارش اور انداز پیش کش ہر اعتبار سے دلکش ہے۔ میرزا ادیب تخلیقی کاوشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ آج بھی ہو رہی ہیں کوئی دور بھی ان سے خالی نہیں رہا ہاں یہ ضرور ہے کہ جب تخلیقی کاوشیں منظر عام پر آتی ہیں تو انہیں وقت کی آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا بیشتر حصہ ان آندھیوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتا ہے، معدوم ہو جاتا ہے مگر جو حصہ ان کاوشوں کا زندگی کی توانائیوں سے معمور ہوتا ہے وہ اڑ کر معدوم نہیں ہوتا بلکہ آندھیوں کو شکست دے کر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اورنگ آباد، حیدر آباد دکن کی اٹھارویں صدی میں ایک شاعر نے ایک ایسی غزل لکھی جسے وقت شکست دینے میں ناکام رہا اور یہ غزل آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ اس کے شاعر سید شاہ سراج اورنگ آبادی تھے اور انہوں نے جو غیر فانی غزل لکھی ہے اس کے مطلع کے مصرع ثانی کے حصہ آخر کو موجودہ صدی کی ایک بڑی اہم شاعرہ محترمہ ادا جعفری اپنی خود نوشت کا سرنامہ بنا رہی ہیں۔ اس غزل کا مطلع یوں ہے: خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا، نہ پری رہی نہ وہ ہم رہے، نہ وہ تو رہا، جو رہی سو بے خبری رہی تو خود نوشت کا نام ہے ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ محترمہ ادا کی اس خود نوشت کی چند قسطیں ممتاز ادبی جریدہ افکار کراچی میں چھپی تھیں اور پڑھنے والے مکمل کتاب کا بڑی صبری سے انتظار کر رہے تھے اور اب یہ بہت خوبصورت کتاب اپنی مکمل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ادا جعفری ایک زمانے میں ادا بدایونی خود کو کہتی تھیں او رکہلواتی تھیں۔ پھر ادا جعفری کہلانے لگیں اور اب اسی نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ جو رہی سو بے خبری رہی میں بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ اس کے بیان کے لیے ایک کالم کیا ایک بسیط مضمون بھی کافی نہیں ہے میں کوشش کروں گا کہ اپنے اس تنگ داماں کالم میں اس کی کچھ ایسی جھلکیاں اپنے قارئین کو دکھا سکوں جو اس خود نوشت سوانح عمری کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کر سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں جس چیز نے مجھے بطور خاص متاثر کیا ہے وہ اس کا تسلسل بیان ہے ادا نے اپنی طرف سے اس امر کا پورا پورا اہتمام کیا ہے کہ اپنی زندگی کی کہانی زبانی اور مکانی تسلسل کے ساتھ لکھیں اور میں سمجھتا ہوں اس معاملے میں انہوں نے مذکورہ بالا مقصد کی تکمیل کر دی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا کچھ نہیں ہوتا جب کوئی شخص اپنی روداد حیات سنانے کا ارادہ کرتا ہے تو بعض اوقات وہ اپنی داخلی بے تابی کے کارن زمان و مکاں سے الجھ پڑتا ہے۔ چنانچہ اس کی کوشش الجھاووں میں پھنس کر ارتقائی رفتار واقعات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس خود نوشت میں ایسا نہیں ہے ہر واقعہ اس زمانے میں اس مقام پر بیان کیا گیا ہے جہاں اسے ہونا چاہیے اور جہاں وہ ہوا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی خود نوشت کا آغاز اس یتیم بچی کی حیثیت سے کیا ہے جو بدایوں میں ٹونک والا پھاٹک کے پیچھے اپنے باپ کا انتظار کر رہی تھی جو دنیا سے جا چکا تھا۔ کہتی ہیں۔ ’’ میں نے ایک عالم تنہائی میں باپ کا انتظار کیا مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ علاج کے لیے سب سے بڑے حکیم کے پاس گئے ہیں۔ اس آئینے میں جو پہلی صورت دیکھی وہ تنہائی کی تھی۔‘‘ یہ یتیم بچی ٹونک والا پھاٹک کی حویلی کی اونچی اونچی دیواروں کے درمیان ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتی تھی۔ اس کا معصوم دل تنہائی کے گہرے دکھ سہہ رہا تھا۔ ان اذیت ناک لمحوں میں کتابوں نے اسے سہارا دیا۔ کتابوں نے اس کی انگلی پکڑی اور اداسیوں کے ہجوم سے نکال کر زندگی کی کشادہ راہ پر لے آئیں۔ مطالعہ کتب اس کے دکھوں کا مداوا ثابت ہوا۔ اس بچی کو ایک اور چیز نے بھی سہارا دیا: ’’ بارہ تیرہ سال کی عمر میں کتابوں کے علاوہ روشنی کی جو دوسری کرن میری زندگی میں داخل ہوئی وہ ننھے منے بچے تھے کسی کے بھی ہوں میں نے گھر کی مہترانی کے بچے بھی نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر گود میں کھلائے ہیں۔‘‘ اس مقام پر ذرا رک کر میں روشنی کی اس دوسری کرن کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا۔ خود نوشت میں ادا نے کہیں کہیں اپنی پوری نظمیں اور کہیں کہیں دو تین شعر یا ایک ہی مصرع دے دیا ہے۔ اس سے کتاب کے صفحات پر قوس قزح کے رنگ بکھر گئے ہیں۔ کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے ’’ کچھ اور یادیں‘‘ اس میں ادا نے اپنی ایک بہت خوبصورت نظم درج کی ہے جس کا آخری مصرع ہے ’’ میں کہ فطرتاً ماں ہوں‘‘ اور واقعی ادا فطرتاً مامتا کی تجسیم بن کر نمایاں ہوتی ہیں۔ ماں کا دل بھی عجیب ہوتا ہے اس ماں ہونے کے ناطے ادا نے اپنے دکھوں کو راحتوں میں بدل دیا ہے۔ ادا نے ایک واقعہ لکھا ہے: ’’ ایک شام میں نے صبیحہ (جو تین برس کی تھی) سے کہا جاؤ نوکر سے کھانا میز پر رکھنے کے لیے کہہ دو وہ گئی اور فوراً ہی واپس آ کر کہنے لگی وہ ایک کیلا (کیڑا) ہے۔ ماں بچی کے ساتھ گئی اور جا کر دیکھا کہ وہ کیلا دراصل ایک سانپ تھا۔ جو نیڑی میں پھن اٹھائے بیٹھا تھا۔ یہ سانپ ایک گز لمبا تھا سانپ مار ڈالا گیا ادا کہتی ہیں میرے لیے تو اس مرے ہوئے سانپ کی طرف دیکھنا بھی مشکل تھا اور آج تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک بچے کی نگاہ نے سانپ کو کس طرح مسحور کر لیا یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے کوئی معجزہ رونما ہو گیا ہو۔‘‘ یقینا یہ ایک معجزہ تھا۔ سانپ کی نگاہیں تو دیکھنے والے کو فوراً مسحور کر لیتی ہیں مگر ایک معصوم بچی کی معصومانہ نگاہیں سانپ کی ساحرانہ نگاہوں کو شکست دے رہی ہیں میرے خیال میں یہ ایک بچی کا معجزہ معصومیت تو ہے ہی مگر ادا غیر شعوری طور پر مامتا کی اس پر اسرار قوت پر بھی فخر کر رہی ہیں جس نے بچی کو یہ ساحری دی ہے یہ ساحری مامتا کی دین ہے۔ ایک اور مقام پر مامتا کی خود اعتمادی دیکھئے! ادا کے رفیق زندگی سید نور الحسن جعفری نے مشرقی پاکستان میں تنہا گاڑی میں جاتے ہوئے انہیں یونیورسٹی روڈ یا کسی کالج کے قریب سے نہ گزرنے کے لیے کہا خیال رہے یہ مشرقی پاکستان کے اس زمانے کا واقعہ ہے جب وہاں کے باشندوں کی ایک معقول تعداد کے ذہنوں میں بنگلہ دیش کا تصور بڑی تیزی سے نشوونما پا رہا تھا مامتا کی آواز سنئے: ’’ میں نے کہا نور آپ بھول رہے ہیں یونیورسٹی اور کالج میں تومیرا عزمی اور میری صبیحہ پڑھتی ہے۔ یہ بچے جو یہاں پڑھ رہے ہیں کیا ہمارے بچے نہیں کیا یہ سب عزو اور صبو جیسے نہیں ہیں کیا مائیں اپنے بچوں سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔ یہ درس گاہیں ہیں کیا تعلیم و تہذیب کا جنازہ بھی یہیں سے اٹھے گا؟ ان مقامات کا درجہ تو عبادت گاہوں سے کم نہیں ہوتا۔‘‘ ادا نے بالکل سچ کہا ہے کہ میں فطرتاً ماں ہوں اور ادا صرف انسانی بچوں کے لیے ہی نہیں مامتا کے برگد کا طویل و عریض سایہ بن گئی ہیں بلکہ بے جان اشیاء کو بھی اپنے اسی پھیلے ہوئے سایے میں لے آتی ہیں وہ شگفتہ پھولوں کو دیکھتی ہیں تو ان کے سینے میں بے اختیار مامتا کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اور جب ان کی نظر کسی کھوکھلے پیڑ پر پڑتی ہے تو یہی جذبہ ان کی آنکھوں کو پرنم کر دیتا ہے۔ ادا ایک اسلامی ذہن کی مالک ہیں مگر یہ ذہن بڑا کشادہ ہے تنگ نظری نے تو اس ذہن کو چھوا تک نہیں ہے۔ چنانچہ اس کشادگی ذہن اور فراخ دلی کا نتیجہ ہے کہ وہ ادب کی ترقی پسند تحریک کا کشادگی ذہن کے عالم میں تجزیہ کرتی ہیں۔ لوگوں نے انہیں دکھ بھی دیے ہیں مگر وہ دکھ دینے والوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں چنانچہ خود کہتی ہیں یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو درگزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے ٹونک والا پھاٹک کے پیچھے تنگ نظری کے سایے پھیلتے اور گھٹتے رہتے ہیں اور ان سایوں کو گھٹانے میں ادا کی امی کا بڑا اہم کردار ہے ادا پر ان کی ماں نے اپنی ذہنی کشادگی سے بہت اثر ڈالا ہے۔ ادا کو جو تربیت ملی ہے اس تربیت میں ان کی ماں کا نہایت اہم رول ہے اور اس ذکر میں کہیں بھی کسی سے بھی کوئی شکایت کوئی گلہ نہیں کیا اپنے معاصرین کا ذکر انہوں نے محبت اوراپنائیت سے کیا ہے۔ ادا کا کئی معاملوں میں خوش قسمتی نے بھرپور ساتھ دیا ہے ان کی ماں کا ذکر کر چکا ہوں۔ پھر انہیں سعادت مند پیار کرنے والی محبت کرنے والی اولاد ملی ہے اپنی یہ کتاب انہوں نے اپنی اولاد ہی کے نام معنون کی ہے پھر ان کی یہ خوش قسمتی بھی ہے کہ انہیں سید نور الحسن جعفری جیسا شوہر ملا جو ان کے سچے قدر دان ہیں جنہوں نے ادا کے خوابوں پر کبھی کبھی ناکامی کی راکھ نہیں ڈالی۔ عطر بیز خوش رنگ پھول ہی ڈالے ہیں۔ سید صاحب صحیح معنوں میں ادا کے سچے رفیق حیات ہیں۔ ایک بڑی نمایاں خوبی جو مجھے ادا کی اس خود نوشت میں محسوس ہوئی ہے اور جس نے مجھے خصوصی طور پر متاثر کیا ہے وہ ان کی بڑی خوبصورت، بڑی دلاویز نثر ہے ادا یقینا ایک بڑی شاعرہ ہیں مگر جیسی سحر آفریں نثر انہوں نے اس کتاب میں دی ہے اسے پڑھ کر لطف آ جاتا ہے۔ ادا جس جس ملک میں گئی ہیں وہاں کی ثقافتی زندگی کا ایک ایک پہلو انہوں نے لفظوں میں محفوظ کر دیا ہے۔ ان کا جمالیاتی ذوق ہمہ گیر قسم کا ہے انہوں نے جس مقام پر بھی حسن دیکھا ہے اسے اپنے باطن میں اتار کر الفاظ کے حوالے کر دیا ہے یہ خود نوشت ان کے اپنے کئی چھوٹے چھوٹے سفر نامے بھی اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ اپنی اس تحریر کے آغاز میں میں نے لکھا ہے: ’’ ہر تخلیق کو وقت کی آندھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر تخلیقی کاوشیں زمانے کی آندھیوں میں خس و خاشاک بن کر اڑ جاتی ہیں اور بعض ان آندھیوں کو شکست دے کر آگے ہی آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ ادا جعفری کی اس خود نوشت ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کے بارے میں میں پورے وثوق اور پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ادبی شاہکار زندہ رہے گا اور آگے بڑھتا رہے گا۔‘‘ ڈاکٹر نور الحسن نقوی (علی گڑھ) چند روز پہلے ایک دلکش سی کتاب موصول ہوئی۔ سر ورق پر نظر پڑی تھی کہ یادوں کی کتاب کے ورق تیزی سے الٹنے لگے۔موسم خوشگوار ہے۔ سردیوں کی تعطیل کے بعد آج سکول کھلا ہے۔ لائبریری کے وسیع کمرے میں کسی کتب فروش نے کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ انٹرول کے بعد چھٹی کر دی گئی ہے تاکہ طلبہ نمائش سے فائدہ اٹھا سکیں۔ لائبریری کی طرف جانے والے ہجوم میں میں بھی شامل ہوں۔ استاد اور با حیثیت طالب علم اپنی پسند کی کتابیں خرید رہے ہیں۔ میری نظریں کتابوں کی قطار پر پھسلتے پھسلتے ایک دیدہ زیب کتاب پر ٹھہر جاتی ہیں۔ اٹھا کر دیکھتا ہوں کہیں کہیں سے پڑھتا ہوں۔ دل ادھر کھنچتا ہے مگر جیب ہلکی ہے اور قیمت بھاری یعنی تین روپے یہ واقعہ پینتالیس سال پہلے کا ہے جب تین روپے سچ مچ تین روپے ہوتے تھے پہلی کتاب تھی جو میں نے اپنے شوق سے خریدی اور پھر شوق سے پڑھی ابھی ہائی اسکول بھی پاس نہیں کیا تھا اور شعر کو پرکھنے کی صلاحیت صفر تھی مگر سادہ و دل نشین زبان میں اصل زندگی کی چھوٹی چھوٹی مگر معنی خیز باتیں دل کو چھوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ یہ کتاب تھی ’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ ادا بدایونی کا پہلا مجموعہ کلام ان کے اگلے مجموعے کا برسوں انتظار رہا تقریباً سترہ سال بعد شاعری سے ادا کا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جڑا۔ ’’ شہر درد‘‘ اور اس کے بعد دو اور مجموعوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ اندازہ ہوا کہ زبان کچھ اور سنور گئی ہے تجربات میں گہرائی اور پختگی پیدا ہو گئی ہے۔ خود سوانحی عنصر کی فراوانی ہے۔ ادا کی زندگی اور ان کے عہد و ماحول کی جو تصویر ان کے شعروں کی کرچیاں جوڑ کی بنانی پڑتی تھی ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ میں پوری طرح روشن ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس خود نوشت میں ادا کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں۔ پہلی تصویر بدایوں کی الجھے سلجھے بالوں والی اس کمسن، تنہا تنہا اور اداس لڑکی کی ہے جس کی پوری دنیا اس پھاٹک کے اندر آباد تھی جسے ٹونک والوں کا پھاٹک کہتے تھے اور ’’ جہاں زنجیر کو بھی دستک کی اجازت نہیں تھی‘‘ دوسری طرف تصویر اس ادا کی ہے جس کے آنچل میں زندگی نے ساری خوشیاں ڈال دی تھیں ’’ گہنے پاتے‘‘ ہار سنگھار اور گود میں چاند سورج!اسے ادا نے اپنا دوسرا جنم کہا ہے۔ دونوں تصویریں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود بہت مماثلت رکھتی ہیں اور ایک میں دوسری کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ سوانح نگار نے اپنی ابتدائی زندگی اور اس دور میں پیش آنے والے واقعات و حادثات پر تفصیل سے لکھا ہے اور ایک شاعر کی طرح محسوس کر کے لکھا ہے۔ بدایوں کے قصباتی ماحول میں متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں کی لڑکیوں کو گھر سے باہر قدم نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ چار دیواری کے قید خانے میں سانس لینے والی اس لڑکی نے ’’ جس کے روز و شب اس کے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے تھے‘‘ ان کا حساب ایک ڈائری میں محفوظ کر لیا۔ کاپی کتاب اور قلم پنسل سے اس کا رشتہ کم سنی ہی میں استوار ہو گیا تھا۔ جو کچھ دل پر گزرتی اسے سپرد قلم کرنے کے بعد دل ہلکا ہو جاتا تھا۔ یہ ڈائری تو 1947ء کے ہنگامے میں ضائع ہو گئی لیکن ان دنوں کی یادیں اس کے ذہن سے محو نہ ہو سکیں اور ان صفحات کے ذریعے ہم تک پہنچیں۔ اس لڑکی کے ارد گرد جو دنیا تھی وہ مردوں کی جاگیر تھی اور عورت ان کی غلام۔ اس صورت حال سے اس لڑکی کے مزاج میں تلخی تو پیدا نہیں ہوئی لیکن رنج ضرور ہوا جو برسوں بعد بھی مٹ نہ سکا۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں اس کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیں: ’’ مردوں کی جنبش ابرو پر زندگی بھر کی خوشیوں یا محرومیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور بی بیاں تھیں جو ان فیصلوں کو دین ایمان کے احکام کا درجہ دیتی تھیں۔۔۔۔ کتنی عورتیں تھیں جو جنات کے قبضے میں تھیں۔ نا آسودہ خواہشات، محرومیوں، نامرادیوں اور تلخ حقیقتوں سے فرار کے جن‘‘ اور ملاحظہ ہو یہ حسرت: ’’ مجھے یاد ہے بچپن میں میری سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ کبھی خاندان کے لڑکوں کی طرح میں بھی اس سڑک پر پیدل چلوں اور تقدیر کا فیصلہ یہ تھا کہ میں پوری دنیا گھوم لوں لیکن میرے قدم اس سڑک کو کبھی نہ چھو سکیں۔‘‘ آگے چل کر ایک جگہ لکھتی ہیں: ’’ جو مصور ہوتی تو ہر رنگ سے ہمیشہ ایک ہی تصویر بنائی ہوتی۔ وادیوں، گھاٹیوں، میدانوں میں سرگرداں کوئی راہی۔۔۔ چھالوں سے بھرے ہوئے تلوے، گرد میں اٹا ہوا سراپا اور آنکھوں میں چمکتے ہوئے ستاروں کی تابانیاں‘‘ ان سطروں میں بچپن کی محرومیاں بول اٹھی ہیں۔ باپ کی موت ادا کے بچپن کا سب سے بڑا سانحہ تھا جس کے بعد ان کی امی سفید چادر اوڑھ کر بڑی حویلی میں آ گئیں۔ یہاں ہجوم تھا مگر ادا کی تنہائی کچھ اور بڑھ گئی۔ ایک ننھی بچی کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس کے باپ علاج کے لیے بڑے حکیم کے پاس گئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے اس یقین کے ساتھ ہی انتظار کے کانٹوں بھرے صحرا میں ایک معصوم ذہن کا طویل تھکا دینے والا سفر شروع ہو گیا تھا اب یہ یقین دلانا آسان نہیں تھا کہ ایسے جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ آخر ایک صبح اس کی امی نے ایک فیصلہ کیا وہ اسے وہاں لے گئیں جہاں زندگی پر موت کی فتح کے آثار اپنی تمام دل آزاریوں کے ساتھ آنکھوں کے آگے موجود ہوتے ہیں۔ وہ جو کرب انتظار کی طویل ترین صدیاں جھیل کر اپنے باپ کی قبر کے پاس پہنچی تھی اس وقت ایک عجیب لاتعلقی کیفیت سے آشنا ہوئی پھر اس نے شعوری طور پر کبھی انہیں یاد نہیں کیا۔ مگر اب دل میں ایک مسلسل سناٹے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ اب اس نے صرف کتابوں کو رفیق تنہائی جانا اور قلم کا سہارا لیا۔ ابھی قلم پر گرفت پوری طرح مضبوط نہیں ہوئی تھی کہ ترقی پسند ادبی تحریک ہوا کے جھونکے کی طرح آنگن کی دیوار پھلانگ کر اس کے دالان تک آپہنچی۔ حویلی میں ایک دریچہ سا کھل گیا۔ وہ جس نے ابھی ادب کی وادی میں پہلا قدم ہی رکھا تھا اسے ایک محرک میسر آگیا۔ اس کی شاعری کو ایک سمت مل گئی۔ اس تحریک کے افکار ہی اس زمانے کی شاعری کا مرکز ہیں۔ تقسیم وطن اور اس کے نتیجے میں ملک میں بپا ہونے والے ہولناک فسادات پر ادا نے تفصیل سے لکھا ہے۔ دراصل اس زمانے میں ہر طرف جو خوف و ہراس پھیلا اس سے وہ خود بھی دو چار ہوئیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ذرا سی دیر میں محبتیں کس طرح نفرتوں میں بدل جاتی ہیں۔ بھولی بھالی لڑکیوں کے بے آبرو ہونے کے قصے اپنے کانوں سے سنے۔ ان دنوں بہن کے گھر لکھنو میں قیام تھا۔ اسی مکان کے آدھے حصے میں ایک ہندو خاندان رہتا تھا جس سے بے حد دوستانہ تعلقات تھے۔ ڈرائنگ روم کا درمیان کا دروازہ کس طرح چپکے سے بے آواز بند کیا جائے کہ دوسرے کی دل آزاری نہ ہو اور کھلے دروازے کو بھول جانا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ بدگمانیوں کا دور دورہ تھا لیکن انہی گھنیرے سیاہ بادلوں میں کہیں کہیں نقرئی لکیر بھی چمک اٹھی تھی۔ رات کے گیارہ بجے آٹھ مہینے کے ایک بچے کو تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دکھانا ضروری اور فسادات کے سبب باہر نکلنا مشکل۔ ٹیلی فون ڈائرکٹری میں تلاش کر کے ایک ڈاکٹر کو فون کیا اور پوچھا کہ اجازت دو تو اس وقت بچے کو لے آئیں۔ اس نے کہا ایسے میں آپ کا آنا مناسب نہیںحال بتائیے میں خود دوا اور انجکشن لے کر آتا ہوں۔ جس وقت وہ ہندو ڈاکٹر بچے کو انجکشن دے کر ان کے گھر سے واپس لوٹا رات کا ایک بج چکا تھا۔ ادا نے ایک لڑکی رابعہ کی کہانی دہرائی جس کی آبرو ایک سکھ نوجوان نے ساری رات پہرہ دے کر بچائی اور جب اسے گھر پہنچا آنے کو کہا تو ادا نے کیا خوب لکھا: ’’ وہ ایک انوکھا موسم تھا۔ جب صبا اور سموم قدم قدم ساتھ چلیں۔ جب چراغوں نے اجالوں کی سوگند کھائی تھی اور آندھیاں اپنا بل آزما رہی تھیں۔ تند ہوائیں بھی موجود تھیں اور چاروں کھونٹ دیے بھی روشن تھے۔ (سچ ہے انہی چراغوں سے زندگی کی راہ گزر روشن ہے اور زندگی کا سفر آسان!)‘‘ آزادی سے چند مہینے قبل ادا بدایونی ادا جعفری ہو گئیں۔ نور الحسن سے ان کی شادی ہو گئی وہ سرکاری ملازم تھے اور تقسیم کے بعد انہوں نے پاکستان میں ملازمت کا انتخاب کیا تھا آخر وہ کراچی چلے گئے ادا علیل تھیں کچھ دنوں بعد کراچی پہنچیں۔ جعفری صاحب کو اپنے منصبی فرائض کے سلسلے میں مختلف ملکوں میں قیام کرنا پڑا۔ ان کے ساتھ ادا کو بھی دنیا گھومنے اور کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں، مدبروں، دانش وروں، شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی جس کی تفصیل انہوں نے اس آپ بیتی میں بہت تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے اس آپ بیتی کی ایک اور خصوصیت قابل ذکر ہے۔ زندگی میں اچھوں بروں، بہی خواہوں اور بد خواہوں سبھی سے واسطہ پڑتا ہے بلکہ برے کچھ زیادہ ہی آپ کا راستہ کاٹتے ہیں۔ آپ مصنف ہیں تو اپنی تحریروں میں ان سے بدلہ لینے اور آپ بیتی لکھ رہے ہیں تو موقع بے موقع ان کی بخیہ ادھیڑنے کا خاطر خواہ موقع ملتا ہے۔ آپ عالی ظرف ہیں تو طرح دے جاتے ہیں خود نوشت کے آخر میں ادا لکھتی ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھے کبھی کسی سے دکھ نہ پہنچا ہو۔ دوستوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے مگر جن باتوں نے دل دکھایا انہیں اپنی یادوں میں کیوں شریک رکھا جائے۔ یہ زندگی بہت مختصر ہے اور عفو و در گزر میرے مولا کی صفت ہے اور اسے پسند ہے۔ انہی کا ایک شعر ہے: میں اندھیروں کو اوڑھ بھی لیتی راہ میں آفتاب آوے ہے ادا نے اپنی راہ میں آنے والے بس ایسے آفتابوں ہی سے سروکار رکھا ہے ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کو ایک نہایت کامیاب خود نوشت اس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادا نے اپنی زندگی کے ہر گوشے کو بے نقاب کرنے کے باوجود صرف اپنی ذات کو ہی توجہ کا مرکز نہیں بنایا بلکہ اپنے عہد و ماحول اعزہ و احباب سبھی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ کسی کو نظر انداز نہیں کیا یوں تو یہ ادا جعفری کے سفر زندگی کی روداد ہے مگر ایک مکمل عہد، ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر، طریق معاشرت، اس دور کی نامور شخصیات کیا ہے جو ان پونے چار سو صفحات میں نہ سمٹ آیا ہو! یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ مگر وہ شے جو ہر با ذوق کے دامن کو اپنی طرف کھینچتی اور بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے وہ اس کی صاف ستھری زبان، دلکش انداز بیان اور دھیما دھیما نغمگی میں ڈوبا ہوا لہجہ ہے یہ ایک ایسے فن کار کی آپ بیتی ہے جو بنیادی طور پر شاعر ہے اور جس نے نثر میں تمام شعری وسائل سے کام لیا ہے قافیہ و وزن لوازم شعر میں داخل نہیں۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ کتاب مکمل شاعری ہے اور اس کا رشتہ میر و فراق سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں کتاب کی متعدد عبارتیں اور جملے کہیں واوین میں اور کہیں بغیر واوین کے پیش کیے گئے ہیں تاکہ قارئین کو سوانح نگار کے انداز نگارش کا اندازہ ہو سکے مگر اوس سے پیاس نہیں بجھتی تشنگی ہنوز باقی ہے تو مزید چند اقتباسات پیش خدمت ہیں: دیکھیے بدایوںکی ایک شرمیلی سی لڑکی کا سیلف پورٹریٹ: ’’ ۔۔۔۔ شام پڑے باورچی خانے میں پیڑھی پر چپ چاپ بیٹھی ہوئی، کسی دھیان کی پروائی کا دامن تھامے ہوئے۔ سامنے چولہے کی آگ سے اٹھا ہوا گلابی دھواں، توے سے اترتی ہوئی۔ سنہری روٹیاں پکانے والی ملازمہ کی بے رنگ چوڑیوں کی رنگا رنگ کھنک اور سامنے پیڑھی پر بیٹھی ہوئی ایک اکیلی لڑکی جو وقت کے جادوگر سے اپنا پتہ پوچھ رہی تھی۔‘‘ ایک جگہ پست قامت یعنی بون سائی درختوں کو دیکھ کر لکھتی ہیں: سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان حسینوں پر ترس بھی آیا۔ یہ درخت جن کا سایہ سائبان بننے سے محروم رہا، جن کی چھاؤں تے کسی تھکے ہارے مسافر نے دو گھڑی راحت حاصل نہیں کی، جن کی شاخوں نے آشیانے کی امانت نہیں سنبھالی، جنہوں نے شام ڈھلے بسیرا لینے والے طائروں کی چہکار نہیں سنی۔ سوچتی رہی کیا ان فن پاروں نے اپنی تحسین و آفرین کی بہت بڑی قیمت ادا نہیں کی مگر یہ دست انسان کا شکار یقینا ہیں۔ دو ایک جملے اور ’’ مقصود نگار ہو نہ ہو، مژگاں اٹھانے کی آرزو بھی کچھ کم محترم نہیں ہوتی۔‘‘ ’’ طلب اور آرزو کے تانے بانے سے ہی زندگی کی قبا بنی جاتی ہے۔‘‘ ’’ گیلی مٹی کو سانتے گوندھتے ہوئے ہاتھ بے شکل کو شکل دیتے دیتے اپنی عمر بھی انہیں لگا جاتے ہیں اور دھوپ میں سوکھتے کچے کوزے جب پزاوے کی پوری تمازت جھیل جائیں تب ہی ان کی ساکھ بنتی ہے۔ تب ہی ان کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔‘‘ ’’ ہمیشہ ظلمتوں کی کوکھ سے ہی دمکتا ہوا آفتاب جنم لیتا ہے اور اجالا باغ و راغ کو نہیں دیکھتااور آنکھیں اجالوں کا انتظار کرنا جانتی ہیں۔‘‘ اسلوب احمد انصاری ہندو پاک کی شاعرات میں ادا جعفری کا نام معروف اور شناساہی نہیں وزن و وقار کا بھی حامل رہا ہے ان کے متعدد شعری مجموعے وقتاً فوقتاً منظر عام پر آ کر پڑھنے والوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں انہوں نے اردو غزل کے بیش قیمت سرمائے کا انتخاب بڑی دیدہ وری اور تحسین شناسی کے ساتھ کیا ہے جو ان کے ذوق سلیم پر دلالت کرتا ہے۔ زیر نظرکتاب ان کی خود نوشت سوانح ہے جو اس سے قبل قسط وار شائع ہو چکی ہے اور اب دیدہ زیبی کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ موصوفہ کا تعلق بدایوں کے ایسے مردم خیز خطے سے ہے جس کی خاک سے ایسی ایسی نامور اور ممتاز ہستیاں اٹھی ہیں، جیسے حضرت نظام الدین اولیائ، ملا عبدالقادر فانی، میر محفوظ علی اور مولانا ضیاء احمد بدایونی کتاب کا عنوان سراج اورنگ آبادی کی نادر اور لافانی غزل کے ایک مصرعے سے لیا گیا ہے، اور یہ ادا جعفری کے پاکیزہ ادبی ذوق کی چغلی کھا رہا ہے۔ اکثر خود نوشت سوانح عمریوں کے بارے میں جو یہ کہا گیاہے کہ ان کا مقصد اظہار ذات نہیں، بلکہ اخفائے ذات ہوتا ہے کہ ان میں مصنف اپنے آپ کو اس طرح پیش نہیں کرتا جیسا کہ وہ فی الاصل ہے، بلکہ جیسا کہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو دیکھا جائے، یعنی وہ اپنی ایک IdealizedیاDistortedشبیہ پیش کرتا ہے، اور اسی لیے جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ خود نوشت سوانح ایک طرح کا جھوٹ یا مکاری یعنی Fraudہوتی ہے۔ اس کا اطلاق اس سوانح عمری پر نہیں ہوتا۔ ادا نے اپنے بچپن اور اوائل عمر کی یادوں کو شروع کے ابواب میں جس طرح کنگھالا اور تازہ کیا ہے یعنی ان کی تشکیل نو کی ہے، اس سے ان کے خاندانی حالات و کوائف اور اس پر مستز اداس معاشرے اور تہذیب کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں جو تقسیم ہند سے قبل مسلمانوں کے متوسط طبقے کا معاشرہ تھا اور اس میں پروردہ تہذیب بھی۔ اس میں کوئی بات بے جا تفاخر کے ساتھ گھٹا بڑھا کر بیان نہیں کی گئی، بلکہ بلا کم و کاست سامنے رکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے کتاب کی Authenticityقائم ہوتی ہے اور اس کا بھرم باقی رہا ہے۔ وہ آغاز کار ہی سے ادبی دلچسپیاں رکھتی تھیں اور ان کی طبیعت شعر گوئی کی طرف خلقی طور پر مائل تھی۔ ستر بندشوں اور پابندیوں میں گھرے رہنے کے باوجود وہ انہیں جاری رکھنے کی تگ و دو میں لگی رہیں۔ شادی کے بعد پاکستان منتقل ہونے پر انہیں جاری رکھنے کی تگ و دو میں لگی رہیں۔ شادی کے بعد پاکستان منتقل ہونے پر انہیں اظہار ذات اور اپنے علمی اور ادبی ذوق کی نشو و ارتقا اور پرورش و پرداخت کے لیے بدلا ہوا منظر نامہ خاصا سازگار نظر آیا۔ اور اس نئی فضا میں انہیں زیادہ متنوع مواقع ملے۔ نجی اور خانگی زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر کو نکھارنے اور اس پر صیقل کرنے کا وظیفہ جاری رکھا اور وقفوں وقفوں کے بعد ان کے شعری مجموعے شائع ہوتے رہے اور وہ توجہ کا مرکز بنتی چلی گئیں۔ چونکہ ان کے شوہر نور الحسن جعفری مرحوم اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور پاکستان سے باہر بے شمار ممالک کی سیاحت کے اپنے شوہر کے ہمراہ انہیں مواقع ملتے رہے اس لیے ان ممالک کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار انہوں نے بڑے ہی دلکش اور دلنشین انداز سے کیا ہے۔ اس اظہار بیان میں ان کی تحریر کا اجلا پن ندرت اور تازگی پوری طرح منعکس نظر آتی ہے۔ پاکستان میں ان کا قیام لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی مختصر اور طویل مدتوں تک رہا۔ کسی خوبصورت منظر کا نقش ابھارنے میں انہوں نے متعدد جگہ اپنی شاعرانہ حسیت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے: ’’ فاصلے سے دیکھا تو جیسے سفید بدلیوں کے ساتھ آسمان کا کوئی ٹکڑا زمین پر بچھا ہو اور پاس پہنچے تو دو پہاڑوں پر دمکتی ہوئی برف اب ہمارے قدموں میں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھی اور سامنے سیف الملوک جھیل کا مٹیالا پانی ہمیں تک رہا تھا۔ اجلی دھوپ اور ہوا میں پاکیزگی سی جھیل کے آس پاس بکھرے ہوئے پتھروں کے درمیان برف کی قربت سے بے نیاز چھوٹے چھوٹے پودے جن کے سبز پتوں کی ہتھیلیوں پر اودے اودے پھول سجے ہوئے تھے۔ سامنے ایک سرخ رنگ کا چائے خانہ بھی کسی نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا۔‘‘ ایسے ہی دلکش اقتباسات اس کتاب سے بڑی تعداد میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور روس کے ان تمام قابل ذکر مقامات کا جہاں ان کے قدم انہیں لے گئے، جغرافیائی منظر نامہ بھی انہوں نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے اور وہاں کی ذہنی اور علمی فضا کا نقشہ بھی بڑی چابکدستی کے ساتھ کھینچا ہے۔ یعنی انہوں نے ان مقامات کے Floraاور Faunaسے بھی بغایت دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور وہاں کی علمی سرگرمیوں سے بھی واقفیت بہم پہنچائی ہے مثلاً کتاب کے آخر آخر میں (ص240) کیپ کبناورل میں کینڈی اسپس سینٹر کا تذکرہ جس طرح کیا ہے اس سے خلائی پرواز کے موضوع سے ان کی دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ جس میدان میں روس، امریکا اور یورپ کے ممالک نے محیر العقول کارنامے انجام دیے ہیں ان ا س کے ساتھ ہی انہوں نے کتاب کے شروع میں ایک باب میں آش قبیلے کا جو ذکر (ص168) کیا ہے اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے یہ کارنامے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کی معتمدن اور ترقی یافتہ دنیا کے بیچوں بیچ ایک ایسا عیسائی قبیلہ بھی بستا ہے جو ہر طرح یک سائنسی ترقیات کے اعتراف اور ان کے ثمرات سے متمتع ہونے کو ترک مذہب کے مترادف گردانتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے مذہب سے انحراف کیے بغیر بلکہ علم کی طرف قرآئی رویے کے عین مطابق سائنسی نقطہ نظر کو اپنایا اور از منہ وسطے کے دور میں علم کی اولین شمعیں روشن کی اور وہی اس نام نہاد دور تاریکی میں سائنسی علوم کو ترویج دینے والے اور یورپین قوموں کو ان سے متعارف کرانے والے ہر اول دستے کی حیثیت رکھتے تھے۔ امریکا میں اپنے قیام کے دوران ادا جعفری کے دل میں مشہور شاعر ایملی ڈکن کے گھر کو دیکھ کر اس کی یادتازہ ہو گئی۔ انہوں نے اس کی شاعری کے بارے میں مختصراً اپنی رائے کا اظہار بھی کیا: ’’ ایملی ڈکنز کی زندگی ایک مدت تک ایک معمہ بنی رہی اور اس کی شاعری کی قدر و منزلت اس کی موت کے بعد سے شروع ہوئی۔ اس کی شاعر ہمیں سترھویں صدی کے برطانوی مابعد الطبیعاتی شعراء کی یاد دلاتی ہے خاص طور پر جارجک ہر برٹ کی شاعری کی۔‘‘ جوانمرگ شاعرہ سلویا پلاتھ کا ذکر بھی جو جدید دور کی ایک نوخیز اور جوانمرگ شاعرہ تھیں، ادا جعفری نے بہت پر اثر لہجے میں کیا ہے اور ان کی بعض نظموں سے مختصر اقتباسات بھی دیے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر راقم الحروف کو اپنے قیام آکسفورڈ میں طالب علمی کے دوران سلویا پلاتھ کی زبان سے ان کی نظمیں سننے کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔ سلویا پلاتھ سے راقم الحروف کی دلچسپی اس کے شوہر ڈیڈ ہیوز کی نظموں کو پڑھ کر پیدا ہوئی تھی۔ ادا جعفری نے اپنے دورہ روس اور خاص طور سے دو شنبے اور تاشقند وغیرہ کے سفر کی جو روئیداد لکھی ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور یہ حال ان کی ترکی کی سیاحت کے انداز بیان کا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ ان کی حرمین شریف کی زیارت اور جبل نور کا ذکر یہاں ان کے جذبات سرتا سر عقیدت اور محبت سے مملو ہیں۔ وہ غار حرا میں بھی تشریف لے گئیں جہاں نبی کریم ؐ اپنا وقت مراقبے اور استفراق میں گذار کرتے تھے۔ اس کا بیان بھی انہوں نے انتہائی احترام و تشویق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کیا جن سے ایک روحانی کیف اور اہتزاز کی حالت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہے۔ ادا جعفری کی سلامت روی اور ان کی طبیعت کا اتا پتا اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے کسی شخص کے تذکرے کے ضمن میں بھی تلخی، عیب جوئی اور طنز و استہزاء کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ انہیں کسی شخص میں بھی کوئی کمی اور خامی نظر نہیں آئی۔ اس خاص معاملے میں وہ درود مسعود کے مصنف حاجی مسعود حسین خاں کی ضد ہیں۔ جنہیں اپنے علاوہ کسی اور شخص میں کوئی خوبی ڈھونڈے سے نہیں ملی لیکن اس سادہ ڈہ لوحی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے بہت سے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں عظیم اور اہم جیسے الفاظ کا استعمال بے دریغ کیا ہے۔ یہ ایک طرح سے ہم اردو لکھنے والوں کا عام وطیرہ رہا ہے۔ لیکن اس بے احتیاطی اور حس امتیاز کی کمی کی وجہ سے یہ الفاظ نامعتبر بن جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے سلسلے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے اور بڑی حد تک محل نظر ہے۔ اس تحریک کے پس پشت جو سیاسی محرکات تھے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس تحریک نے جو ادیب اور شاعر پیدا کیے۔ ان میں سوائے فیض اور بیدی کو اعلیٰ تخلیقی فن کار کا درجہ دینا ایک ایسیInduleenceہے۔ جس کے لیے کوئی معقول وجہ جواز موجود نہیں ہے اس تحریک نے فی الواقعہ اردو ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس لیے کہ ادبی تخلیق کی طرف اس کا رویہ اور مفروضہ ہی بنیادی طور پر غلط تھا۔ اعلیٰ درجے کے ادب نعروں، فارمولوں، شور و غوغا اور پارٹی پروگرام کے مطابق اور ان کے بل بوتے پر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ ادب کی تخلیق کے سرچشمے جبلی ما قبل منطق اور متفکرانہ ہوتے ہیں۔ اس پر کوئی لیبل چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی پسندی کسی مخصوص سیاسی تحریک کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ہر اعلیٰ ادب ہر دور میں ترقی پسند رہا ہے روسی اہل نظر Trotsky اور روسی نہ جو دی فلسفی Nicholas Berdyacدونوں نے ادب کی خود مختاری یعنی Autonomy کو تسلیم کیا ہے اور اسے جائز اور ضروری قرار دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ترقی پسند ادیب اور نقاد مارکس اور اینگلز سے بھی زیادہ ترقی پسند نکلے۔ مجروح سلطانپوری اور احمد علی کا اس تحریک سے انحراف اور اس کا استر داد بہت معنی خیز تھا اور اختر الایمان تو اس سے ہمیشہ دامن کشاں ہی رہے اور انہوں نے اپنی تخلیقی حسیت پر ان پہروں کے بٹھائے جانے اجازت نہیں دی جو اس تحریک کے نفاذ کا ایک لازمی جزو تھے۔ ادا جعفری نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور مد و جزر اور اس میں ملوث شخصیتوں کا ذکر بھی بڑے لے لاگ پن، دلسوزی اور درد مندی کے ساتھ کیا ہے۔ اپنے ملک کے حالات ان سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن اس واقفیت کے اظہار میں انہوں نے طنز استہزا، نفرت اور کلبیت کو راہ نہیں دی ہے بلکہ اس کے برعکس میانہ روی، انصاف پسندی اور ہمدردی کا لہجہ اپنایا ہے اور یہ ایک قابل ستائش رویہ ہے۔ جس سے ان کی نیک نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے باسیوں میں حق تلفی کے احساس، برہمی اور انقلاب کے جو جراثیم موجود تھے اسے مغربی پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاست گروں اور اغیار نے خوب خوب ہوا دی۔ ان سب کی اصلیت ادا جعفری کے ضمیر پر آشکار ہے لیکن انہوں نے غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ بہ زن کا فتویٰ صادر کیا۔ ادا جعفری کا کوئی تعلق تانیثیت یعنی Feminismکی تحریک سے نہیں رہا اور باوجودیکہ انہیں اس امر کا واضح احساس ہے کہ مرد کے تشکیل کردہ معاشرے میں عورتیں برابر استحصال اور انتفاع کا نشانہ بنائی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جارحانہ انداز کا مظاہرہ نہیں کیا، جو بعض دوسری خواتین کا مع سلسلے میں جارحانہ انداز کا مظاہرہ نہیں کیا جو بعض دوسری خواتین کا مع شاعرات وظیفہ رہا ہے کتاب کے آخر آخر میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اس طرح کی ہے: ’’ اونچی آواز میں بات کرنا، میرے مزاج نہیں تھا اور سب دیواریں مسمار کرنا میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔ مگر میں نے عورت کی مجبوری اور محکومی کی زندگی بسر کرتے دیکھا تھا اور اس دکھ کو سہا بھی تھا۔‘‘ (ص365) مزید: ’’ میری شاعری میں بغاوت کے منصب پر فائز عورت بھی نہیں اور ان تمام مصائب کے باوجود جو وہ جھیلتی آئی ہے، تھکی ہاری لاچار عورت بھی نہیں میرے دل نے اسے کبھی شکست خوردہ تسلیم نہیں۔‘‘ (ص367) یہ متوازن سلجھا ہوا اور شائستہ لب و لہجہ ان خونخوان تیوروں سے یکسر مختلف ہے جو بیشتر دوسری خواتین کے سب و شتم کے سلسلے میں مردوں کے تئیں رہے ہیں۔ ادا جعفری کے مشاہدے اور تخیل کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے کینوس پر مختلف دلکش اور دیدہ زیب تصویریں بڑی خوبی کے ساتھ جڑ دی ہیں۔ ان کے انداز بیان میں جو شائستگی، شرافت اور تہذیب ہے۔ وہ داد لیے بغیر نہیں رہتی۔ ان کے ہاں نرمی، حلاوت اور شیرینی ہے لیکن یہ مٹھاس کچھ زیادہ ہی ہے یعنی ایک چمچہ ٹکر سے کسی قدر زیادہ۔ عام طور سے اچھی خود نوشت سوانح عمریاں ان لوگوں نے لکھی ہیں جو تخلیقی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ جناب آل احمد سرور کی ، خواب باقی ہیں، اور حاجی مسعود حسین خاں کی ودود مسعود، استثناء کی حیثیت رکھتی ہیں حالانکہ دونوں اردو کے مانے ہوئے شاعر ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’ جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ خود نوشت سوانح عمریوں کے ذخیرے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ یہ اس عیب سے بھی بری ہے جسے نرگسیت کے لفظ سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔ موصوفہ نے اپنی ذات کو سر بلند کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ دوسروں پر بھی نظر ڈالی ہے، اور متانت ہمدردی اور رواداری کے ساتھ امید ہے اس کتاب کا خیر مقدم اس کی خوبیوں کو مطابق کیا جائے گا۔ ٭٭٭ مطبوعات اور حوالہ جات 1۔ میں ساز ڈھونڈتی رہی (شعری مجموعہ) غالب پبلشرز لاہور 1950ء 2۔ شہر درد(شعری مجموعہ) غالب پبلشرز لاہور 1967ء 3۔ غزالاں تم تو واقف ہو (شعری مجموعہ) غالب پبلشرز لاہور 1972ء 4۔ ساز سخن بہانہ ہے (شعری مجموعہ) غالب پبلشرز لاہور 1982ے 5۔ غزل نما (قدیم اساتذہ غزل کے حالات زندگی اور انتخاب کلام انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی 1987ء 6۔ جو رہی سو بے خبری رہی (خود نوشت) مکتبہ دانیال کراچی 1995ء 7۔ حرف شناسائی (شعری مجموعہ) غالب پبلشرز لاہور 1999ء 8۔ سفر باقی ہے (غیر مطبوعہ کلام جو شعری کلیات موسم موسم میں شامل کیا گیا ہے) 9۔ موسم موسم (شعری کلیات اکادمی بازیافت کراچی 2002ء ٭٭٭ ادبی اعزازات 1۔ آدم جی ادبی ایوارڈ سال1967ء 2۔ تمغہ امتیاز حکومت پاکستان سال1981ء 3۔ بابائے اردو ایوارڈ اکادمی ادبیات، پاکستان سال1994 4۔ وثیقہ اعتراف ہمدرد فاؤنڈیشن سال1994ء 5۔ نقوش ادبی ایوارڈ 6۔ قائد اعظم ادبی ایوارڈ ثقافتی تنظیم ینگ کلچرل ویلفیئر سوسائٹی پاکستان سال1997ء 7۔ تمغہ حسن کارکردگی حکومت پاکستان سال سال2002ء 8۔ کمال فن ادبی ایوارڈ اکادمی ادبیات، پاکستان سال2003ء اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End