پاکستانی ادب کے معمار میر اجی شخصیت اور فن ڈاکٹر رشید امجد پیش نامہ اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوں کے ممتاز تخلیق کاروں کے بارے میں ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معماران ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ اکادمی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں ‘ شاعروں‘ افسانہ نگاروں اور نقادوں کے بارے میں کتابیں شائع کرنا چاہتی ہے ۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ان کتابوں کی ضخامت‘ معیار اور مندرجات یکساں ہوں۔ پیش نظر کتاب ’’میرا جی شخصیت اور فن‘‘ ملک کے ممتاز نقاد اورافسانہ نگار جناب رشید امجد نے بڑی توجہ اور محنت سے مرتب کی ہے۔ میرا جی کی شخصیت کا طلسم اور ان کے جہان فن کی رنگا رنگی ہماری ادبی تاریخ کا بہت اہم اور انتہائی لائق توجہ باب ہے مگر اس پر اتنا اوراس نوعیت کا کام نہیںہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ میرا جی کی زندگی اور ادبی خدمات کے حوالے سے یہ کتاب بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا۔ افتخار عارف ٭٭٭ پیش لفظ پاکستانی ادب کے معمار کے سلسلے میں یہ کتاب اردو کے اہم شاعر میرا جی کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو شاعری ‘ خصوصاً جدید اردو نظم میں میرا جی کا نام اس حوالے سے اہم ہے کہ انہوںنے اول‘ جدید کی نظم کو نہ صرف ایک شناخت ملی بلکہ اس کا قاری بھی وجود میں آیا۔ دوئم میرا جی نے جدید اردو نظم کی مصرع سازی کی طرف خصوصی توجہ دی اور نئے لکھنے والوں کو سکھایا کہ جدید نظم کا مصرع کہاں توڑنا چاہیے اور کہاں سے نیا مصرع شروع ہونا چاہیے۔ میرا جی کی شخصیت ان کے فن پر کچھ ایسے حاوی ہے کہ ان کی شاعری اور دوسرے کاموں کی تفہیم و ترسیل میں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میرا جی کا ظاہری روپ‘ روپ بھی تھا اور بہروپ بھی ۔ بیس سال پہلے میرا جی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھتے ہوئے جب میں ان کی دنیا میں داخؒ ہوا تو میری ملاقات جس میرا جی سے ہوئی وہ نہ صرف ایک نارمل شخص تھا بلکہ اپنے زمانے کے سیاسی سماجی معاملات پر اس کی نظر بھی بہت گہری تھی۔ کیا یہ عجیب بات نہیںکہ بظاہر جنس کی شاعری کرنے والا میرا جی جب بسنت سیائے کے نام سے مضامین لکھتا ہے تو اس کے موضوعات جاپان میں مزدوروں کے مسائل چین کے کارخانوں میں مزدوروں کے اوقات کار اور سا مراج کا ہندوستان کو لوٹنے کا دو طرفہ عمل وغیرہ ہیں۔ یہ میرا جی شاعر میرا جی سے کتنا مختلف ہے ۔ اصل صورت یہ کہ میرا جی کی اس ظاہری ہئیت کذائی میں ان کے دوستوںکا بڑا ہاتھ ہے۔ ان دوستوں نے اس پر جو خاکے اور مضامین لکھے ان میں زیادہ زور اس بات پر رہا کہ میرا جی ایک ابنارمل (غیر معمولی) شخص تھے۔ میں نے جس میرا جی کو دیکھا وہ ابنارمل نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ دوسروں کے تجویز کیے ہوئے رنگ کو اپنی ذات پر اوڑھ لیتے ہیں۔ انہوںنے کئی چیزیں دوستوں کی خواہش کے احترام میں کیں ۔ میرا سین ہی کے معاملے کو دیکھ لیجیے کہ وہ اس میں کتنا سجیدہ تھے۔ ایک مختصر سی ملاقات ‘ جس میں انہوںنے صرف یہ کہا کہ سنئے انہوںنے میرا سین کو کبھی متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس عشق نے ان کی کایا پلٹ دی۔ میرا سین کا حقیقی وجود ہونے کے باوجود میرا جی کا عشق تصوراتی تھا۔ ان کی میرا سین وہ نہیںتھی جو اپنا حقیقی وجود رکھتی تھی۔ میرا جی کے دیگر عشقوں کا بھی یہی حال ہے کہ انہوں نے کبھی اظہار عشق نہیں کیا۔ ان کا دکھ اور تکلیف ان کا اپنا طاری یا ہوا تھا۔ ان کی شخصیت کا تجزیہ کرتیہوئے ان نفسیاتی محرکات کومدنظر رکھنا ضروری ہے جن کا تعلق ان کے بچپن اور خاندانی حالات سے ہے۔ میرا جی کی جس طرح شاعری میں الگ راہ نکالی اسی طرح انہوںنے تنقید میں نفسیاتی دبستان کا آغاز کر کے اردو تنقید کو ایک نئے منطق سے آشنا کیا۔ تراجم میں بھی انہیں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ میرا جی باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بظاہر بے ترتیب اور غیر منظم زندگی گزارنے والا شخص جب حلقہ ارباب ذوق کے معالات کو ہاتھ میں لیتا ہے تو زبردست منتظم بن جاتاہے۔ ان کی شخصیت کے یہ تضاد ہی ان کا حسن اور انفرادیت ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ اس مختصر کتاب میں ان کی شخصیت اور فن کے سارے پہلو اس طرح سمٹ آئیں کہ ایک عام قاری بھی ان سے آشنا ہو جائے۔ رشید امجد میرا جی کا خاندان اور خاندانی شجرہ میرا جی کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا (۱) ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ منشی مہتاب الدین نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی حسین بی بی سے دو لڑک پیدا ہوئے ۔ ان کے نام عطاء اللہ ڈار اور محمد عنایت اللہ ڈار ہیں۔ حسین بی بی کے انتقال کے بعد منشی مہتاب الدین نے 1910ء میں زینب بیگم المروف سردار بیگم سے شادی کی۔ زینب بیگم سے سات اولادیں ہوئیں۔ ۱۔ محمد ثناء اللہ ڈار (میرا جی) ۲۔ عزیز ثریا ۳۔ محمد اکرام اللہ کامی (لطیفی) ۴۔ انعام اللہ کامی ۵۔ محمد شجاع اللہ نامی ۶۔ محمد ضیاء اللہ ۷۔ محمد کرامت اللہ میرا جی کے بڑے بھائی محمد عنایت اللہ ڈار کا مرتب کیا ہوا شجرہ یوں ہے: ………………تصویر………………… ٭٭٭ سوانحی حالات اور شخصیت میرا جی کے آبائو اجداد اور ڈوگرہ راج میں کشمیر کے ایک گائوں کا روٹ سے ہجرت کر کے پنجاب کے گائوں اٹاوہ ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوئے تھے۔ یہ مہاجرین میرا جی کے پانچویں چوتھے اور تیسرے دادا‘ اللہ داد خان یوسف ڈار اور فاضل ڈار تھے۔ یوسف ڈار نے اپنی ذہانت اورمحنت سے گائوں میں اچھا مقام حاصل کرلیا تھا۔ فاضل ڈار کے بیٹے اور میرا جی کے پردادا رحمت ڈار تھے۔ ان کی رہائش اٹاوہ میں تھی۔ میرا جی کے دادا ولی دا د خان اور والد منشی مہتاب الدین ریلوے کے ٹھیکیدار تھے۔ ایک بار انہیںکاروبار میں سخت نقصان ہو گیا اور وہ کوڑی کوڑی کے متحاج ہو گئے۔ ٹھیکے ختم ہو گئے۔ انگریز انجینئر نے ازرہ ہمدردی منشی مہتاب الدین کو ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر بھرتی کر لیا۔ (۲) منشی مہتاب الدین مستقل طور پر لاہور آ گئے پہلے صفاں والے چوک میں گھر لیا پھر مزنگ میں منتقل ہو گئے۔ (۳) شاہد احمد دہلوی کے مطابق۔ میرا جی کے والد برج انسپکٹر تھے۔ نہایت پابند شرع اور پانچوں وقت کے نمازی‘ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی زندگی انجمن حمایت اسلام کی خدمت میں گزاری۔ (۴) ریٹائرمنٹ کے بعد منشی صاحب مستقل طورپرلاہور آ گئے۔ آخری عمر میں بینائی کمزور ہو گئی تھی۔ آپریشن ہوا لیکن آنکھیں ٹھیک نہ ہو سکیں۔ گرنے سے ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگ گئی۔ جس کی وجہ سے آخری عمر میں انہیں کافی اذیت اٹھانا پڑی۔ آخری عمر میں وہ نارمل بھی نہیں رہے تھے۔ اکثر بہکی بہکی باتیں کرتے۔ (۵) اس زمانے میں گھر کی مالی حالت بھی کافی مخدوش تھی۔ کمانے والا ایک ہی شخص تھا۔ محمد عنایت اللہ ڈار ان ہی کی کمائی پر گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ میرا جی کے والد منشی صاحب کو ریٹائر منٹ پر جو رقم ملی تھی اس سے انہوںنے مولانا صلاح الدین کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی تھی۔ مولانا کے خاندان سے ان کے پرانے مراسم تھے۔ یہ یجنسی چل نہ سکی اور سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ منشی صاحب بڑے دل شکستہ ہوئے اور مولانا کے خاندان سے ان کے مراسم اچھے خاصے خراب ہو گئے۔ یہاں تک کہ معاملہ عدالت میں جا پہنچا کیونکہ منشی صاحب کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ ان کی اولاد بھی کچھ بہتر نہ نکلی خاص طور پر میرا جی سے ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ جب میرا جی نے ادبی دنیا میں شمولیت کی تو منشی صاحب نے بڑا برا منایا لیکن میرا جی نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ یہ پیسا تو ہمارا ہی ہے (۶) میرا جی کے چھوٹے بھائی محمد اکرام اللہ کامی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ میرا جی ’’ادبی دنیا‘‘ میں ابا جان کی مرضی کے خلاف کام کر رہے تھے ۔ (۷) میرا جی کا سن پیدائش مختلف تذکرہ نگاروں ان کے بھائی کامی اور انوار انجم کی روایت کے مطابق 1912ء (۸) ہے ۔ انوار انجم نے ان کے بھائی کامی کے حوالے سے ان کی جائے پیدائش ہالول (نزد چمپانیر) گجرات بتائی ہے۔ (۹) وجیہہ الدین احمد کے مطابق میرا جی ۲۵ مئی ۱۹۱۲ء کو محلہ بلوچاں مزنگ لاہور میں پیدا ہوئے۔ (۱۰) خود میرا جی نے ایم اے لطیف کے نام کو ایک خط میں جو ۱۹۴۶ء میں لکھا گیا اس تاریخ کی تصدیق کی ہے۔ ۲۵ مئی کو بندے حسن کی سالگرہ تھی لیکن افسوس کہ ۴؍۳ (اجی بوتل) پر وہ اکیلے منائی گئی۔ اب بندے حسن مبلغ چونتیس (Thirty Four)کے ہو گئے ہیں (۱۱) میرا جی کے اس بیان سے تاریخ اور سن دونوں کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ کہ وہ ۲۵ مئی ۱۹۱۲ء کو پیدا ہوئے ۔ ان دنوں ان کے والد گودھرہ ضلع پنچ محل گجرات کاٹھیاوار میں بحیثیت اسسٹنٹ انجینئر ریلوے کام کر رہے تھے۔ میرا جی کی جائے پیدائش لاہور ہی میں ہے میرا جی کے والدملازمت کے سلسلے میںاکثر تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ اور یوں بھی پنجاب کے کشمیری گھرانوںمیں یہ رواج ہے کہ بچے خصوصاً پہلے بچے کی ولادت بیوی کے میکے میں ہوتی ہے۔ اس لیے میرا جی کی والدہ بیٹے کی پیدائش سے پہلے لاہور آ گئی تھیں۔ میرا جی پندرہ ماہ کی عمر میں والدہ کے ساتھ گجرات پہنچے۔ ان کے والد کافی عرصہ تک گجرات ہی میں مختلف مقامات پر فائز رہے۔ جب میرا جی چھ برس کے تھے تو ان کے والد کا تبادلہ اپاوہ گڑھ کے دامن میں واقع قصبے ہالول میں ہوا یہیں میر اجی نے باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا اور سکول میں داخل ہوئے۔ انوار انجم کے مطابق اس وقت ان کی عمر سات سال تھی (۱۲) خود میرا جی نے اس زمانے کو طفلی کا زمانہ کہا ہے پنے نامکمل سیلف پورٹریٹ میںلکھتے ہیں: ’’میرے زمانہ طفلی میں اباجان بند ہیا چل سے آگے گجرات کاٹھیاوار کے علاقے میں ملازم تھے۔ یہ وہی علاقہ ہے جس میں کچھ عرصہ کے لیے مہارانی میرا بائی بھی اپنے گیتوں کا جادو جگانے آئی تھیں۔ لیکن بچپن میں زمین کے اس حصے میں مجھے ان گیتوں کا سامنا نہیںہوا۔ ہمارے والد وہاں ایک چھوٹی لائن پر اسسٹنت انجینئر تھے۔ مشہو ر تاریخی مقام چمپانیر کے قریب (ہالول میں) ہم رہا کرتے تھے۔ جہاں سے چار پانچ میل ہی دو ر پاواگڑھ کا پہاڑ تھا جس کی چوٹی پر کالی کا ایک مندر تھا۔ ہمارے بنگلے کا صح میں یہ پہاڑ دکھائی دیتا تھا۔ میرا یک مصرع ہے: پربت کو اک نیلا بھید بنایا اس نے؟ دوری نے لیکن یہ پہاڑ کا منظر نزدیک ہوتے ہوئے بھی میرے لیے ایک نیلا بھید تھا ایک ایسا راز جس کی د ل کشی ذہن پر ایک گہرانقش چھوڑتی ہے۔ (۱۳) میرا جی کے والد منشی محمد مہتاب الدین خود بھی شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ مہتاب تخلص کرتے تھے (۱۴) جب میرا جی سات سال کے تھے تو گجرات میں قحط پڑا۔ اس وقت ان کے والد نے دو ڈرامے لکھے اور انہیں سٹیج کیا تاکہ انکی آمدنی سے متاثرین قحط کی امداد کی جاسکے۔ ان ڈراموں میں میرا جی نے بھی حصہ لیا۔ میرا جی کے بھائی محمد عنایت اللہ ڈار کا کہنا ہے کہ: یہ پہلا موقع تھا کہ میرا جی نے ادب اور آرٹ کو نزدیک سے دیکھا (۱۵) اسی دوران منشی محمد مہتاب الدین کا تبادلہ بوستان (بلوچستان) میں ہو گیا۔ میرا جی اپنی والدی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ لاہور آ گئے کچھ دن مزنگ میں رہے اور پھر والد کے پاس بوستان چلے گئے میرا جی نے اس کا ذکر یوں کیا ہے: ’’والد کی ملازمت کے سلسلے میں چند ماہ بلوچستان کے کہستانی ماحول میں بھی گزرے۔ (۱۶)‘‘ تھوڑے عرصہ کے بعد منشی محمد مہتاب الدین بوستان سے سکھر تبدیل ہو گئے۔ وجیہہ الدین احمد کے مطابق میرا جی تعلیم کی خاطر لاہور آ گئیئ۔ جہاں انہیں باغبان پورہ سکول میں داخل کراد یا گیا۔ اس زمانے میں وہ اپنے بڑے بھائیوں محمد عطاء اللہ ڈار اور محمد عنایت اللہ ڈارکے ساتھ میک لیگن انجینئر نگ کالج کے بورڈنگ ہائوس میں رہتے تھے (۱۷) لیکن یہ بییان درست نہیں کیونکہ میرا جی سکھر سے فوراً لاہور نہیں آئے تھے بلکہ کچھ عرصہ وہاں ریلوے پنجابی سکول میں پڑھتے تھے۔ ان کے والد اس سکول کے سیکرٹری تھے میرا ج وہاں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔ اس کی تصدیق ان کے بھائی کامی نے بھی کی۔ ’’ریلوے پنجابی سکول سکھر میں جس کے اباجان سیکرٹری تھے ہم داخل ہوئے… ثناء بھائی ان دنوں چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ (۱۸) سکول کے عرصہ میں انہیں شاعری اور کرکٹ سے دلچسپی تھی۔ انہیں کتابوںکا بہت شوق تھا۔ ان کے پاس جب بھی پیسے ہوتے وہ کتابیں خریدتے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے میں ثناء بھائی کی لائبریری میں چار پانچ سو کتابیں اکٹھی ہو گئیں‘‘۔ (۱۹) وہ سکول کے ڈراموں میں بھی حصہ لیتے تھے موسیقی سے بھی لگائو تھا اور سکول ادبی مجلس کے سیکرٹری بھی تھے۔ سکھر سکول کے سالانہ جلسہ میں انہیں انعام بھی ملا تھا۔ سکول کے ڈراموں میں پارٹ بھی لیتے تھے اسی سلسلے میں انہوںنے سکھر سکول کے سالانہ جلسے میں انعام بھی حاصل کیا تھا۔ انہیں گانے کا بھی شوق تھا اور بچپن میںبہت اچھا گایاکرتے تھے۔ وہاں ایک ادبی مجلس بھی بنی ہوئی تھی۔ جس کے سیکرٹری تھے۔ (۲۰) سکھر کے بعد وہ کچھ عرصہ جیکب آباد میں رہے۔ ’’یہاں ثناء بھائی اور میں ایک سندھی سکول میں پڑھتے تھے ‘‘ (۲۱) جیکب آباد سے میرا جی ڈھابیجی (۲۲) آ گئے۔ یہاں ان کا کمرہ علیحدہ تھا۔اس کمرے میں چاروں طرف کتابیں رسالے اور اخبارات ہر قسم کے اردو وار انگریزی اور انگریزی رسالوں میں سے ورق پھاڑ پھاڑ کر تصویریں انبار در انبار نظر آتی تھیں ۔ (۲۳) لیکن انہیںیہاں کی رہائش پسند نہ آئی اورانہوںنے چھپ کر لاہور جانے کی کوشش کی مگر پکڑے گئے۔ ڈھابیجی کی رہائش شاید ثنا ء بھائی کو پسند نہ تھی کیونکہ انہوںنے چھپ کر یہاں سے لاہور جانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن پکڑے گئے (۲۴) مگر جب انہوںنے زیادہ اصرار کیاتو انہیں لاہور بھیج دیا گیا۔ اپنے نامکمل سیلف پورٹریٹ میں میرا جی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ زندگی کی بدلتی کیفیتیں مجھ کو سندھ سے مختلف مضافات میں بھی لے گئی ہیں۔ لیکن یہاں صرف دو جگہیں قابل ذکر معلوم ہوتی ہیں۔ ایک سکھر میں دریائے سندھ کا منظر جس کے کنارے پر کچھ عرصہ بیٹھے رہنے سے بعد بعض دفعہ دریا کی ہستی ایک لیٹے ہوئے عفریت کی مانند محسوس ہوتی تھی۔ ایک ایسا عفریت جس میں ہیبت بھی ہو اور دلکشی بھی۔ دوسرا کراچی کے ماحول سے ۳۷ میل دور ڈھابے کا مقامجو ایک پھیلا ہوا اونچا سبزے سے بھرا ممیدان کہیںکہیں خشک جھاڑیاں یا خشک پست قد پیڑ ایک طرف سامنے چار پانچ میل کے فاصلے پر سمندر کے ساحل کی دھندلی لکیر اور یہیں ساحل پر شمالی ہند کے مشہور عاشق پنوں کی محبوبہ سسی کا باغ معلوم نہیں کہ یہ باغ محض روایت ہے یا حقیقت ‘ اور اسی ماحول میں ہمیشہ سمندر کی طر ف سے آتی ہوئی تند ہوائیں۔ یہاں سے میرے ذہن پر حرف اداسی بیزاری اور ویرانی کے نقش ہوئے کیونکہ اولاً یہاں رہنا میری مرضی کے خلاف تھا دوسرے شہری زندگی کی یہاں کوئی بات نہ تھی اور بنگلے کے پاس سے گزرتی ہوئی مسافر گاڑی کی کھڑکیوں سے جھانکتے ہوئے چہرے ہی ایک تسکین کا سامان تھے۔ (۲۵) اس بے زار ویرانی اداسی اورمرضی کے خلاف رویے نے میرا جی کو ڈھابیجی سے لاہور پہنچا دیا۔ یہا ں وہ مزنگ ہائی سکول میں نویں جماعت میں داخل ہو گئے۔ یہاں ان کے کئی دوست بن گئے جن میں دین محمد‘ نذیر سامری اور بشیر احمد شامل ہیں۔ اس زمانے میں میرا جی خود بھی شعر کہتے تھے اور ساحری تخلص کرتے تھے۔ جس کمرے میں ان کی رہائش تھی اس کا نام انہوںنے ساحر خانہ رکھا ہوا تھا۔ میرا جی اپنے اشعار اور مضامین پمفلٹ کی صورت میں خوش خط لکھتے جن کے آخر میں لکھا ہوتا تھا: ہینڈ پرنٹنگ پریس میں چھپا اورساحر خانہ سے شائع ہوا۔ (۲۶) میرا جی جب میٹرک میں پہنچے تو وہ واقعہ پیش آیا جس نے انہیںمحمد ثناء اللہ سے میرا جی بنا دیا یعنی ان کی ملاقات میرا سین سے ہوئی۔ میر ا سین ایف سی کالج میں پڑھتی تھیں اور میرا جی وہاں محمود نظامی کے مطابق جس دوست سے ملنے جاتے تھے اور جنہیں وہ افسانہ نویس بنانے کی بڑی آرزو رکھتے تھے ان کا نام اے ڈی فرزوق تھا۔ میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات ۲۰ مارچ کو ہوئی دہلی سے ۲۶ مارچ ۱۹۴۶ء کے ایک خط میں جو قیوم نظر کے نام ہے میرا جی نے خود اس کی تصدیق کی ہے۔ میرا جی نے میرا سین سے کبھی بات نہیں کی۔ وہ روزانہ بیس پچیس قدموں کے فاصلے سے میرا سین کے پیچھے چلتے جس کی خود میر ا سین کو اخیر تک خبر نہ ہو سکی۔ دراصل میرا جی کے اظہار عشق کا ایک اپنا طریقہ تھا۔ ان کی طبیعت میں ہر کام کرنے کا اپنا انداز تھا جس نے اظہار عشق کے لیے بھی ایک راستہ ڈھونڈا۔ میرا سین سے خاموش عشق کے رد عمل نے ثناء اللہ ڈار کی شخصیت کو بدل ڈالا۔ انہوںنے اپنا نام بدل کر میرا جی رکھ لیا۔ وہ اکثرمیرا سین کے گھر کے سامنے سے گزرتے۔ دور سے رنگ دار ساڑھیوںکو لٹکا ہوا دیکھ کر شعر کہتے۔ انہوںنے مریا سین کے گھریلو ملازم سے واقفیت پیدا کر لی تھی اور یوں میرا سین کی ایک ایک مصروفیت سے باخبر رہنے لگے۔ یہ واقعات 1937-38ء کے ہیں۔ اس خاموش عشق نے ان کے اندر الائو روشن کر دیا تھا۔ اپنی طبیعت کی بے چینی کو چھپانے کے لیے انہوںںے ایک طرف میرا کا نام اپنایا اور دوسری طرف مطالعہ میں پناہ ڈھونڈی۔ میرا جی نے میٹرک تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان دیا لیکن پاس نہ ہوئے۔ جس کے باعث ان کے والد نے انہیں ہومیو پیتھی کی تعلیم کی طرف راغب یا میرا جی نے ہومیو پیتھی میں استعداد تو بہم پہنچائی لیکن کبھی اسے مالی منفعت کا ذریعہ نہ بنایا۔ میٹرک فیل ہونے کے باوجود انہوںنے دنیا جہان کا ادب پڑھا اور بے شمار تراجم کے جوان کی خداداد صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اسی دوران حلقہ ارباب ذوق لاہور کا قیام 29اپریل 1939ء کو ’’بزم داستان گویاں‘‘ کے نام سے عمل میں آ چکا تھا۔ میرا جی بھی اس میں شامل ہوئے میرا جی نے حلقہ میںایک نئی روح پھونک دی۔ انتظامی معاملات سے لے کر تنقیدی معیار تک انہوںنے حلقہ کے مسائل میں پوری دلچسپی لی۔ میرا جی تقریباً ہر جلسے میں شریک ہوا کرتے تھے اورقواعد وضوابط کی سخت پابندی کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ گزشتہ اجلاس کی کارروائی بڑے غور سے سنتے تھے۔ اور ذرا سی کوتاہ پر اعتراض کر دیتے تھے۔ حلقہ کے ریکارڈ سے ج بجا اس کی تصدیق ہوتی ہے وہ صرف کارروائی کی غلطیوں پر اعتراض ہی نہیںکرتے تھے اپنی گفتگو سے حلقہ کے تنقیدی معیار کو بلند کرنے میں بھی کوشں رہتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ میرا جی کی شمولیت نے حلقہ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ حلقہ میں آنے سے پہلے میرا جی اگرچہ ادبی دنیا ے مضامین تراجم اور تجزیوں کے حوالے سے ادبی دنیا میں جانے جا چکے تھے لیکن حلقہ کے پلیٹ فارم سے انہیں اپنے تخلیقی و فنی جوہر کو نمایاں کرنے میں بڑی مدد ملی اور انہوںنے نئی نسل کی راہنمائی کی جس ے جدید اردو نظم کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ حلقہ ارباب ذوق کے علاوہ میرا جی کا بہت گہرا تعلق ’’ادبی دنیا ‘‘ سے رہا جو مولانا صلاح الدین احمد کی ادارک میں اردو کے ممتاز ترین جرائد میں شمار ہوتاتھا۔ میراجی نے 1939ء سے 1942ء تک ادبی دنیا سے منسلک رہے۔ ’’ادبی دنیا‘‘ سے وابستگی نے میرا جی کو پہلی بار اردو ادب کی دنیا سے متعارف تو کروایالیکن ان کی وابستگی نے ’’ادبی دنیا‘‘ کی ترتیب و مواد میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ انہوںنے دنیا بھر کے منتخب شعراء کے تراجم اور ان کے کلام کے تنقیدی جائزے لکھنا شروع کیے جو بعد میں مشرق و مغرب کے نغمے کے نام سے اکادمی پنجاب لاہور نے شائع کیے۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں انہوں نے جدید نظموں کے تجزیے اس نظم میں کے عنوان سے شروع کیے جو بعد میں اسی نام سے کتابی صورت میں ساقی بک ڈپو دہلی سے شائع ہوئے۔ اس نظم میں کے تجزیوںنے جدید اردو نظم کے امکانات ہی کو روشن نہیں کیا جدید نظم کے بارے میں بہت سے مغالطوں کو بھی دور کیا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں وہ بسنت سہائے کے قلمی نام سے سیاسی مضامین بھی لکھتے رہے۔ لیکن اس ساری حنت و مشقت کا صلہ انہیں صرف تیس روپے ماہوار کی صورت میں ملتا تھا۔ یہ ان کی تنگ دستی کا زمانہ تھا۔ مالی حالت اتنی خراب تھی کہ پہننے کے لیے ڈھنگ کے کپڑے تک نہ تھے۔ یہاں تک کہ وہ گرمیوں میں بھی سردیوںکا لباس پہنتے تھے۔ ممکن ہے کہ اس بات میں مالی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ ایک عجیب و غریب ئیت کذئی اختیار کرنے کی شعوری کوشش بھی شامل ہو۔ میرا جی کی اس ہئیت کذائی کے پیچھے صرف میرا سین کا عشق ہی نہیں ان کی کئی خاندانی الجھنین بھی تھیں۔ جنہوںنے ان جیسے حساس شخص کواندر سے ہلا دیا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے والد منشی محمد مہتاب کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ بھائیوں کی تعلیم کی فکر گھر کے اخراجات کی فکر اور اس پر یہ کہ اپنی ماں پر انہیں (میرا جی کو) بہت ترس آتا تھا۔ ان کی مں ان کے باپ کی دوسری بیوی تھیں۔ عمروں میں تفاوت کچھ زیادہ ہی تھا۔ میرا جی سمجھتے تھے کہ ماں کی جوانی بوڑھے باپ کے ساتھ اکارت گئی۔ باپ کو وہ ظالم اور ماں کومظلوم سمجھتے تھے۔ مگر باپ کے ساتھ کوئی گستاخی انہوںنے کبھی نہیں کی بلکہ باپ سے انہیںمحبت ہی تھی۔ ڈرامہ کرنے کی عادت میرا جی کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ شاید وہ ساری زندگی اپنے آپ س بھی ڈرامہ ہی کرتے رہے اور دوسروں سے بھی خاص طورپر شراب پی کر تو وہ اپنے آپ میں نہیں رہتے تھے۔ اچھی شرب ملتی نہیں تھی۔ ٹھرا یا بئیر پی کر دماغ بھڑکتا تو عجیب و غریب حرکتیں کرتے۔ ڈرامہ کرنے کی یہ عادت ان کی ایسی مجبوری بن گئی تھی کہ جس پر انہیں خود بھی اختیار نہیں تھا۔ شراب پی کر رونے کی عادت جو دہلی کے قیام کے دوران خاص ظور پر نمایاں ہوئی محض ڈرامہ نہیںتھا بکہ اس طرح کا کتھارسس تھا لیکن اس کتھارسس کے پیچھے بھی ڈرامہ کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ شراب کی لت اور میرا سین کے افلاطونی عشق نے انہیں خود لذتی کی طرف مائل کر دیا اور انہوںنے جنسی آسودگی کے لیے یہ آسان راستہ چن لیا جو آہستہ آہستہ ایک مرض کی صورت اختیار کر گیا۔ ابتدا میں اس تن آسانی کا محرک میرا سین کا تصور تھا لیکن آہستہ آہستہ میرا سین کا تصور اتنا پھیلتا چلا گیا کہ ہر عورت میرا سین دکھائی دینے لگی۔ خود لذتی کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی اور دہلی میں بھی وہ طوائفوں کے پاس جاتے رہے لیکن شاہد احمد بریلوی کے نزدک ان کیہ جانا بھی محض ایک عادت یا دکھاوا ہی تھا۔ ورنہ ان کا پہلا اور آخری جنسی معاملہ لاہور میں ہی ہو گیا تھا۔ میرا جی 1942ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ سے الگ ہو کر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہو گئے۔ میرا جی دہلی میں تقریباً چھ سال رہے۔ س دوران وہ سٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے ریڈیو کے لیے مختلف پروگرام لکھتے رہے۔ ماہنامہ ساقی دہلی میں مستقل کالم باتیں بھی شروع کیا جس کا سلسلہ تقریباً دو سال جاری رہا۔ ریڈیو پر اپنی نظموں غزلوںاور گیتوں کے ساتھ ساتھ کئی نئے پروگرام بھی تعارف کرائے خرابات کے نام سے ملک کے نامور فنکاروں کو ان کے فن پر گفتگو کی دعو ت دی۔ اس پروگرا م میں میرا جی نے دینا ناتھ زشتی سالک‘ فیض‘ استاد غلام علی خاں‘ اورملکہ پکھراج وغیرہ سے ان کے فن پر غیر رسمی گفتگو کی۔ (۲۷) اس کے علاوہ انہوںنے دیہاتیوںکے لیے ایک پروگرام کیے اور جرمنی کے خلاف پروپیگنڈا بھی فیچر بھی لکھے۔ دہلی ریڈیو سٹیشن پر ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ شام کو شاہد احمد دہلوی کیگھر اور کتب خانے علم و ادب پر اکثر ادبیوںکا جھمگٹا ہوتا میر ا جی بھی یہاں روز شام کو آنے لگے۔ شروع شروع میں ان کی باتیں لوگوں کی سمجھ میںنہیں آتی تھیں لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ ہر دل عزیز ہو گئے اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ (۲۸) ریڈیو کی وجہ سے ان کی آمدنی بھی خاصی مقبول ہو گئی۔ انہیں احساس ہو گیا کہ وہ زندگی کے ایک نئے دورمیں داخؒ ہو گئے ہیں۔ قیوم نظر کے نام ایک خط میں جو 28دسمبر 1942ء میں لکھا گیا کہتے ہیں: چھٹکل کام اب تک کافی مل چکا ہے اور ملتا جائے گا تاوقتیکہ کوئی مستقل صورت بن جائے اور وہ بھی ذرا سی کوشش سے بن جائے گی کم سے کم خیال یہی ہے۔ (۲۹) اس کے بعدوالے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دہلی کی زندگی سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ اپنے دوسرے لاہور ی دوستوں کو بھی وہاں بلانے کے خواہش مند ہیں۔ قیوم نظر کے نام ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔ محمود 11سے 16تک لاہو ر میں ہو گا۔ آ پ اور گوہر اس سے ضرور ملیں۔ وہ ایک ملازمت کا حال بتائے گا۔ سو سوا سو تنخواہ ہے میرے خیال میں بالترتیب قیوم نظر‘ یوسف ظفر‘ الطاف گوہر ور مختار صدیقی میںسے ایک آدمی کو آنا چاہیے (۳۰)۔ اس خط سے معلوم ہوتاہے کہ میرا جی میں بھی لاہوری دوستوں کو نہیں بھولے۔ وہاں رہ کر بھی انہیں ان دوستوںاور حلقہ ارباب ذوق کی فکر رہی۔ اپنے خطوط میں وہ حلقہ کے لیے اور دوستوں ک نجی معاملات کے لیے مسلسل مشورے دیتے رہے۔ قیو م نظر کے نام 21دسمبر 1944ء کے خط میں لکھتے ہیں: حقیقت پرست بننے کی کوشش کرنا چاہیے پھر نہ کوئی مصیبتیں ہیں نہ راحتیں (۳۱) دہلی میں میرا جی کو دو لڑکیوں میں خصوصی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ ایک کو وہ پیار سے بلی خانم ار دوسری کو بدلی یا بادلی بیگم کہا کرتے تھے۔ بلی خانم کا اصلی نام سحاب قزلباش تھا۔ وہ دہلی کے نامور شاعر قزلباش کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیںَ ریڈیو میں ان کی بنیادی نوکری تو انائونسر کی تھی لیکن وہ ڈراموں میں بھی کام کرتی تھیں اور اس حوالہ سے میرا جی سے ان کا ایک دفتر ی تعلق بھی تھا ابتدامیں سحاب قزلباش یعنی بلی خانم برقع پہنا کرتی تھیںَ شاعرہ بھی تھیں بہت خوش الحان نعت پڑھنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ آغاصاحب کے انتقال کے بعد برقع اتر گیا۔ گھرانے کی کفیل بن گئیںَ جنگ شروع ہوئی تو مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں باہر نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔ سحاب بھی ان میں شامل تھی۔ ابتدا میں جب اس نے ریڈیو آنا شروع کیا تو اس وقت ریڈیو سٹیشن علی پور روڈ پر تھا۔ سحاب اس زمانے میں بڑی کم گو تھی اور برقع پہنتی تھی۔ (۳۲) جنگ عظیم کے ساتھ ہی بے روز گاری اور مالی بحران کا ایسا ریلا آیا کہ اچھے خاصے گھرانے اس کا شکار ہو گئے اور ان کی لڑکیاں ملازمتوں کے لیے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔ باہر کی ہوا لگی تو شرم و پردے کے انداز بھی بدل گئے۔ سحاب قزلباش کے علاوہ میرا جی اس زمانے میں جس دوسری خاتون میں دلچسپی لیتے تھے وہ بدلی یا بادلی بیگم تھیں ۔ جس کا اصل نام صفیہ معینی تھا۔ یہ بڑی شوخ و شنگ خاتون تھیں۔ ڈرامہ آرٹسٹ اور میرا جی کے ڈراموں اور فیچروں میں اکثر کاسٹ ہوتی تھیں انہیں دہلی سٹیشن کی Bright Voiceسمجھا جاتاتھا۔ (۳۳) ان دونوں کے علاوہ بھی کچھ اور خواتین تھیں جن میں میرا جی دلچسپی لیتے تھے۔ ایک خاتون امیتہ رائے تھیںَ بنگالی تھیں میرا جی نے ان پر ایک مزاحیہ نظم بھی لکھی تھی جسکا ایک مصرع ہے امیتہ رائے پپیتا کھائے (۳۴) سحاب اور صفیہ معینی سے ا ن کے عشق کی بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور انکی حالت پہلے سے زیادہ خراب رہنے لگی۔ ان حالات میں ن م راشد اور محمود نظامی ہی ان کا سب سے بڑا سہار ا تھے جو انہیں دفتری عتاب سے بچاتے۔ خصوصاً ن۔ م ۔ راشد نے ان کے بہت ناز نخرے اٹھائے ۔ (۳۵) راشد صاحب کے ایران جانے کے بعد میرا جی کی حالت بہت نازک ہوگئی اور تقریباً روز ہی خود کشی کا موڈ ان پر سوار رہنے لگا۔ کچھ عرصہ تک محمو د نظامی نے انہیں سنبھالے رکھا لیکن راشد صاحب کی یاد ان کے دل سے محو نہ ہو سکی۔ میرا جی راشد صاحب کی آواز سننے کے لیے اکثر ایران کی نشریات سنتے اور کہتے کہ دوست چلا گیا۔ (۳۶) اب ان کی عادت بن گئی کہ شراب پیتے دھاڑیں مار مار کر روتے اور جو کچھ پاس ہوتا اسے اچھال دیتے۔ ایک دن ان کے چند دوست انہیںگھیر کر ایک نستعلیق طوائف کے کمرے پر لے گئے۔ وہاں کچھ گانا سنا کچھ شراب پی اور بہکنے لگے۔ زینے سے اتر کر سڑک پر آئے تو حالت اور بھی خرب ہو گئی۔ سڑک پر لوٹنا اور چیخیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ نظموں کا دوسراضخیم مجموعہ مسودے کی شکل میں ان کے پا س تھا اسے اس بری طرح اچھالا کہ رات کے اندھیرے میں اس کا ایک ورق بھی کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ دوستو ں نے جو ان کی یہ حالت دیکھی تو گھبرا گئے ۔ لاکھ انہیں چمکارا پچکارا مگر وہ اپنے اوسانوں میںنہ آئے۔ اتنے میں پولیس کے چند آدمی گشت کرتے ہوئے آ گئے دوست بیچارے سب دم بخو د رہ گئے۔ کہ اب آوارہ گردی میں سب کے سب بند ہوتے ہیں۔ بھلا رات کے بارہ بجے اس بدنام بازار میں اور اس حالت میں دیکھ کر کون چھوڑے گا۔ مگر اخلاق احمد کے حواس قائم رہے۔ ہمرت مردانہ تو ان کی جواب دے چکیتھی مگر جب پولیس نے توکا تو اس نے جرات رندانہ سے کام لے کر کہا بے چارے کی ماں مر گئی ہے۔ یہ کہہ کر میرا جی کو سمجھانے لگا کہ ماں باپ سدا کبھی نہیںجیتے رہتے صبرکرو۔ چلو اٹھو کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا۔ ارے بھئی تم بڑے بودے نکلے۔ بچوں کی طرح رو رہے ہو۔ چلو اٹھو گھر چلو اور ہاں سنتری جی کوئی تانگہ ملے تو ادھر بھیج دینا۔ خدا خدا کر کے بلا آئی ٹلی اور سب کی جان میں جان آئی۔ نظموں کے دوسرے مجموعے کے ساتھاس مہینے کی تنخواہ کا بقایا بھی میرا جی اس بازار میں اچھال آئے ۔ (۳۷) تنخواہ کے ساتھ ساتھ دوسرے ذرائع سے حاصل کی ہوئی رقم کا بھی یہی حشر ہوتا تھا چنانچہ ان کی مالی حالت کبھی بھی اچھی نہیںرہی۔ شاہد احمد دہلوی سے انہیں اپنی کتابوں کی اچھی خاصی رائلٹی ملی مگرانہوںنے پیسے کو پیسہ نہ سمجھا اور بلکہ ایسے لٹایا جیسے لوٹ کا مال ہو۔ قیام دہلی کے آخری زمانے میں وہ مختار صدیقی کے ساتھ رہنے لگے تھے اور غالباً یہی ان کا نسبتاً اچھا زمانہ تھا۔ الطاف گوہر کہتے ہیں۔ 1945ء کے دو چار خطوط جو محفوظ ہیں ان میں سے کسی قدر اطمینان قلب کا پتہ چلتا ہے۔ (۳۸) ۔ خود میرا جی نے 5جنوری 1946ء کے خط میں جو قیوم نظر کے نا م ہے لکھا ہے: آج کل میںمختار صدیقی کے ساتھ رہ رہا ہوں 14رابرٹس سکوائر نئی دہلی خدا مختار صدیقی کا بھلا کرے کہ اس نے گھر کے نہ گھاٹ کے سے نجات دلائی۔ امید ہیکہ یہ نجات استقلال انگیز ہو گی (۳۹)۔ قیام دہلی کے دوران میراجی کے پاس ایک چھوٹا اٹیچی کیس ہوتا تھا جسے وہ آل بندوبست کہا کرتے تھے۔ اس اٹیچی کیس میں کچھ سادے کاغذ پنسلیں صابن کی ایک استعمال شدہ ٹکیہ دو خالی بوتلیں (فلیٹ شکل کی) جو شام کو شراب سے بھری جاتی تھیں۔ ریہرسل میںبیٹھتے تو پنسل یا کاغذ وغیرہ کی ضرورت پڑتی تو آل بندوبست کام آتا۔ کھانا کھانے سے پہلے میرا جی ہاتھ ضرور دھوتے تھے اس کے لیے بھی صابن آل بندوبست سے ملتا۔ ہمیں ہاتھ دھونے ہوتے تو صابن کے لیے آل بندوبست سے رجوع کرتے۔ (۴۰) دہلی کے قیام کے دوران لاہور کے دوستوں سے ان کامستقل رابطہ قائم رہا اورلاہور بھی انہیں یاد آتا رہا۔ انہوں نے کئی بار لاہور آنے کا پروگرام بنایا لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ دہلی سے صرف ایک بار 1943ء میں چند دنوں کے لیے لاہور آئے تھے۔ 1943ء میں جبکہ میں لاہور میں تھا۔ وہ دہلی سے پندرہ بیس دن کے لیے آئے (۴۱) اس کے بعد وہ لاہور نہیں آئے۔ دہلی کے زمانہ قیام میں میرا جی نے جو ادبی کام کیے ان میں حلقہ ارباب ذوق کا قیام اور نوجوان دوستوں کی فنی اور فکری تربیت خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ میرا جی الطاف گوہر کے نام اپنے ایک خط میں جو 28ستمبر 1942ء کو لکھا گیا بتاتے ہیں: کیا بات ہے حلقہ ارباب ذوق کی حلقہ ارباب ذوق کی جے دلی میں بھی حلقیکی شاخ قائم ہوا چاہتی ہے۔ اختر الایمان (آج کل یہاں آ گیا ہے) راشد اورمیں ہم تینوں نے مل کر امکانی ارکان کی فہرست بنائی ہے۔ (۴۲) دہلی میں کچھ عرصہ حلقہ کے سیکرٹری بھی رہے۔ اس دوران انہوںنے حلقے کے معاملات میں پوری دلچسپی لی۔ جلسے سے قبل سارا انتظام خود کرتے تھے۔ جلسے والے دن ان پر عجب کیفیت طاری ہوتی تھی۔ وہ اس دن ادھر ادھر کی باتیں کرنے سے بچتے تھے جیسے وہ کسی مقدس فریضے کو انجام دینے آئے ہیں وار سوائے اس کے اور کچھ سوچ ہی نہیں سکتے (۴۳) عجیب بات یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں غیر ذمہ دار انہ روے کے باوجو دحلقہ کے بارے میں وہ انتہائی ذمہ دار تھے۔ چنانچہ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ جلسہ پانچ بجے شروع ہونے والا ہے اور وہ تین بجے عریبک کالج (جلسہ گاہ) کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں (۴۴) ڈھائی ماہ کے بعد جب انہوںنے محسوس کیا کہ وہ بطور سیکرٹری اس سلسلے کو اچھے طریقے سے جاری نہیں رکھ سکتے اور حلقہ بھی رواں ہو گیا تو انہوںنے سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عبادت بریلوی سیکرٹری ہو گئے۔ میرا جی نے س کی وجہ یہ بیان ک ہے: کل اتوارکے روز میں نے حلقہ ارباب ذوق کی انتظامی کمیٹی کی ایک ہنگامہ مجلس میں سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس استعفیٰ کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں نے شروع ہی سے اپنے آپ کو زندگی کے حالات کے لحاظ سے اس قابل نہ سججھا تھاکہ اس انجمن کا کام کماحقہ کر سکوں لیکن خاص کر قیوم اور مختار نے اس بات پر بہت زور دیا تھا کہ اگر میں نے سیکرٹری کا کام نہ کیا تو حلقہ گیا بھاڑ میں اوریہ بات مجھے خوش نہ آ سکتی تھی۔ لہٰذا بہ مجبوری میں نے کام شروع کیا اور ڈھائی ماہ تک کام چلانے کے بعد مجھے یہ حق پہنچتاہے کہ میں استعفیٰ دے دوں (۴۵) قیام دہلی کے آخر میں ان کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ انہوںنے کام کرنا بھی چھوڑ دیا۔ بال بڑھنے لگے۔ اور ان میں کنگھی کا عارضی دستور بھی اب ختم ہو گیا۔ کپڑوں کی حالت لاہور کے آخری دنوں کی یاد دلانے لگی اور سرخ آنکھوں میں ہر دم عجیب عجیب احساسات کی پرچھائیاں آنکھ مچولی کھیلنے لگیں ۔ دہلی سے گویا ان کے قدم اکھڑ رہے تھے۔ میرا جی دہلی میں تقریباً چھ برس رہے اس دوران وہ چند دنوں کے لیے آگرہ اور لکھنو بھی گئے۔ آگرہ میں انہوں نے جوتوںکا کاروبار کرنے کی کوشش بھی کی۔ قیام دہلی کے دوران وہ اکثر فلم بنانے کا ارادہ ظاہر کرتے تھے۔ اب وہ فلم میں جانے کے لیے سنجیدہ ہوگئے چنانچہ انہوںنے دہلی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرا جی سمجھتے تھ کہ بمبئی جا کر ان کے حالات بدل جائیں گے۔ بمبئی جانے کے لیے انہوںنے ایک پٹحان سے سو روپیہ سود پر قرض لیا تھا چنانچہ میرا جی وشو نندن بھٹنا گر کے ساتھ 7جون 1964ء کو صبح سویرے بمبئی پہنچ گئے۔ وشونندن بھٹناگر بمبئی میں تین مہینے رہے۔ ان کا کہناہے کہ تین مہینوںمیں میرا جی کو کوئی کام نہ ملا اوران کے سارے سپنے مٹی میں مل گئے۔ اس کسمپرسی کے عالم میں انہیں اپنے والد منشی محمد مہتاب کے اتنقال کی خبر می۔ اس زمانے میں میرا جی کی ذہنی حالت کچھ درست نہ تھی۔ لکھنے کا کام بھی سلیقے سے نہیں ہو پاتا تھا۔ منٹو نے جب انہیں ایک فلم کے لیے گانے لکھکنے کے لیے کہا تو انہوںنے اکھڑے اکھڑے ور یکسر غیر فلمی گیت لکھ دیے۔ اسی دوران بارشیں شروع ہو گئیں۔ میرا جی کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس بارش سے بچنے کے لیے بھی کچھ نہیں رہا تھا۔ منٹو نے انہیں ایک برساتی دی۔ بمبئی میں اب ان کاکوئی مستقل ٹھکانہ نہیں رہا تھا ابتا میں بخشب چار جوی کے ہاں رہے۔ نخشب کے بعد ایک آدھ دن کرشن چندر کے ہاں رہے کرشن سے پھر وہ منٹو کے دور کے عزیز اشرف کے ہاں منتقل ہو گئے۔ اشرف نے ان کی بہت خبر گیری ک۔ اشر جو ہومیںسمندر کے کنارے رہتے تھے ان دنوں میرا جی کا معمول تھا کہ اشرف کی غیر موجودگی میں وہ ساحل پر آ جاتے اور ساحل کی نرم نرم اور گیلی ریت پر منٹو کی دی ہوئی برساتی بچھا کر لیٹ جاتے۔ شعر کہتے یا سمندر کو دیکھ کر سوچتے رہتے۔ اشرف کے ساتھ میرا جی کا کچھ زمانہ تو ٹھیک گزرا لیکن آہستہ آہستہ میرا جی اشرف کے لیے بوجھ بنے لگے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب فلم کے حالات دگرگوں تھے۔ تقسیم سے پہلے افراتفری شروع ہو چکی تھی۔ میرا جی برے حالوں میں تھے کہ منٹو سے نہین ایک بوتل شراب کے لیے جو رقم ملتی تھی وہ بھی بند ہو گئی تھی۔ چنانچہ انہوںنے شراب چھوڑ کر بھنگ پینا شروع کر دی تھی۔ بھنگ کے ساتھ پانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ پان کھانے کی عادت تو لاہور سے ہی چلی آتی تھی۔ لیکن بمبئی کے اس زمانے میں یہ بھی اپنی انتہا کو پہنچ گئی بمبئی سے میرا جی کچھ عرصہ کے لیے اختر الایمان کے ساتھ پونا بھی گئے لیکن وہاں بھی ان کے طور طریقے وہی رہے۔ پونا کے آخری دنوں میں حالت یہا ں تک پہنچی کہ مسودے بھجوانے کے لے ڈاک خرچ تک نہ تھا۔ انہی پریشانیوں میں وہ 16اکتوبر 1947ء کو بمبئی واپس آ گئے۔ اس کے بعد وہ آخری دم تک بمبئی ہی میں رہے۔ 1948ء میں انہوںنے بمبئی سے اختر الایمان اور مدھو سدھن کے ساتھ مل کر خیال نکالا جس کے سات شمارے شائع ہوئے خیال کے لیے انہوںنے اداریے لکھے ترجمے کیے غزلیں اور نظمیں لکھیں ’’خیال‘‘ اختر الایمان کی ملکیت تھا۔ میرا جی کی ادارت کو سو روپے ماہوار ملتے تھے۔ یہ قدرے بہتر زمانہ تھا۔ قیوم نظر کے نام ان کے آخری خط سے جہاں یہ اندازہ ہوتاہے کہ میرا جی پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے تھے۔ وہا ں اس بات کا احساس بھی ہوتاہیکہ وہ زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کی تمنا بھی رکھتے تھے۔ اس دوران انہوںنے ایک لڑکی سے عشق کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ یہ ان کی زندگی کا آخری صدمہ تھا۔ اختر الایمان نے ان دنوں کی حالت بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (میرا جی) اسہال کا شکار ہو گئے تھے جب ان کی حالت بہت خراب ہوئی تو وہ انہیںاپنے گھر لے گئے۔ (۴۶) اختر الایمان کی بیگم سلطانہ منصوری نے مظہر ممتاز کے نام اپنے خط میں لکھا ہے: میرا جی اپنے گھر میں ہمیشہ بیماررہا کرتے تھے۔ ہر اتوار کو ہمارے یہاں آتے تھے۔ ہوٹلوں کے کھانے اور کچھ ان کی بد پرہیزی سے ا ن کی حالت گرتی جار ہی تھی۔ ہم لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے یہاں رہیے جب تک کہ آپ کی صحت ٹھیک ہو جائے۔ چنانچہ وہ فورٹ سے ہمارے یہاں آ گئے (۴۷)۔ اسہال کے ساتھ ساتھ انہیں نمونیا بھی ہو گیا۔ جس میں خون بننابند ہو گیا۔ اختر الایمان ان کا علاج ڈاکٹروں سے کرانا چاہتے تھے۔ لیکن میرا جی ہومیو پیتھی علاج پر اصرار کرتے رہے۔ ان کی ضد کی وجہ سے ڈھائی تین مہینے علاج ہوتا رہا ۔ علاج بدلنے کے لیے کہا جاتا تو وہ ناراض ہو جاتے۔ بالآخر وہ بڑی مشکلوں سے مانے اوران کا ایلو پیتھی علاج شروع ہوا۔ ان کو جگر کے ٹیکے لگوائے گئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں سخت پرہیز تجویز کیا تھا کہ سوائے دہی اور لسی کے کچھ استعمال نہ کریں۔ مگر میرا جی نے پرہیز قائم نہ رکھا۔ بقول اکرام قمر ان کی زندگی پابندیاں توڑنے ہی میں گزری تھی حتیٰ کہ ڈاکٹروں کا بتایا ہوا پرہیز بھی گوارا نہ کیا۔ (۴۸) ۔ چنانچہ چوری چھپے سب کچھ کھا لیتے تھے جس سے مرض اور بگڑ گیا۔ حالت زیادہ خراب ہوئی تو انہیںباندرہ کے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ وہاں سے انہوںنے کینٹین والوں اور دوسرے ملازموں اور کبھی ساتھ والے مریضوں سے مانگ مانگ کر کھانا شروع کر دیا۔ سلطانہ منصوری بتاتی ہیں : میرا جی نے خودکو اچھا نہ ہونے دیا۔ وہ بلا کے بدپرہیز تھے۔ اختر صاحب انہیںسختی سے کھانے پینے کو منع کرتے تھے کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کی غذا صرف لسی اور دہی تجویز کی تھی مگر میرا جی کبھی مجھ سے اور کبھی ملازم سے چیزیںمانگ کر کھالیاکرتے تھے۔ رات کو وہ باورچی خانے میں جا کر جو ملتا کھا لیا کرتے تھے۔ جب ان کی حالت د ن بدن خڑاب ہوتی گئی تو اختر صاحب نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے مشورے سے باندرہ کے ہسپتال میں داخل کروا دیا مگر انہوںنے ہسپتال کے ملازموں کو پیسے دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور ہوٹلوں سے پکوڑے اور پھلکیاں منگوا کر کھانے لگے (۴۹)۔ ان کی بد پرہیزی سے ڈاکٹر سخت ناراض ہوا اور انہیں کنگ ایڈورڈ میموریل ہسپتال میں بھجوا دیا گیا یہاں پہنچ کر ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی۔ ڈاکٹروں کاخیال تھا کہ انہیں Mental Derailmentہو گیا ہے (۵۰) اختر الایمان کے مطابق ڈاکٹر نے بتایا آتشک کے مریضوں کے ساتھ ایک عمر میں ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ ان کی عمر اس وقت 35سال کے قریب تھی مگر بال سب سفید ہو گئے تھے۔ (۵۱) ۔ ڈاکٹروں نے نفسیاتی علاج تجویز کیا لیکن میرا جی اس پر تیار نہ ہوئے۔ آہستہ آہستہ حالت خراب ہونے لگی۔ ہاتھ پائوں جبڑوں اورپیٹ میں ورم آ گیا۔ جسم میں خون بننا بند ہو گیا۔ خون دینے کی ضرورت پڑی تو مہندر ناتھ نے اپنا خون دیا مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اختر الایمان ان دنوں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اسے دیکھنا بڑے دل گردے کاکام تھا۔ ہم برداشت نہ کر سکتے تھے اور دعائیں کیا کرتے تھے کہ الٰہی میرا جی کو صحت نہیں ہو سکتی تو انہیںموت دے دے ۔ کم از کم اس تکلیف سے نجات ہو جائے گی۔ (۵۲)۔ ڈاکٹروں نے ان کے لیے Psycho Therapic Shocksتجویز کیے لیکن میرا جی نہ مانے (۵۳) اور ان کی ذہنی اورجسمانی حالت روز بروزبگڑتی ہی چلی گئی۔ یہاںتک کہ انہوںنے ایک دن نرس کی کلائی میں کاٹ لیا۔ اختر الایمان بتاتے ہیں: ایک روز گئے تو معلوم ہواکہ انہوںنے ایک نرس کی کلائی پر کاٹ لیا ہے ۔ میں نے کہا میرا جی اس خوبصورت نرس کی کلائی پر آپ نے کاٹ لیا ہے۔ بگڑ کر کہنے لگے پھر اس نے مجھے انڈا کیوں نہیں دیا کھانے کو (۵۴)۔ اسی ذہنی کیفیت اور تکلیف دہ حالت میں تین نومبر 1949ء کی رات کو میرا جی انتقال کر گئے مرنے سے چند دن پہلے ایک پادری نے ہسپتال میں ان سے پوچھا… آپ یہاں کب سے ہیں؟ تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا… ازل سے (۵۵)۔ از ل کے متلاشی اس مسافر کو جو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی روح کا پرستار رہا بمبئی کے ذرائع ابلاغ میں صرف اس وجہ سے اسے اہمیت نہ ملی کہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے۔ اختر الایمان کہتے ہیں: راستے میں رک کر مختلف اخبارات کے دفتر کو ٹیلی فون کیے۔ اگلے دن خود جا کر کہامگر ان لوگوں پر عصبیت چھائی ہوئی تھی۔ اور نظریاتی اختلاف کے دبیز غبار نے انسانی قدروں کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا تھا (۵۶)۔ میرا جی کو میری لائن قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کے جنازے میں صرف پانچ آدمی شریک ہوئے۔ جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔ میں مدھو سودن‘ مہندرناتھ‘ نجم نقوی اور میرے ہم زلف آنندبھوشن (۵۷)۔ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا۔ تقریباً ساڑھے سینتیس سال کی کڑی مسافت طے کرکے یہ مسافر اپنے گھر کو سدھارا۔لاہور کی زرخیز مٹی سے پیداہوا اور ہند مسلم ثقافت کے دل دہلی سے ہوتا ہوا بمبئی کی سیاہ مٹی میں دفن ہوا۔ میرا جی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بنیادی سوال یہ تھا کہ کیا میرا جی کی ظاہری ہیئت کذائی محض ایک ڈرامہ تھی یا انہیںخود بھی معلوم نہیںتھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ واضح لفظوں میں یہ سارا عمل شعوری تھا یا لا شعوری ؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ تو میرا جی کے اپنے اندر ہی خودکو نمایاں کرنے کا جذبہ تھا اور کچھان کے دوستوںنے داستان کو ایسا رنگ دیا کہ وہ ایک افسانوی کردار بن کر رہ گئے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان خو د میرا جی کو ہوا کہ لوگوں نے ان کی تخلیقات کو اسی مخصوص کردار کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے معنی محدود ہو کر رہ گئے۔ میرا جی پر سب سے بڑا الزام یہ لگا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے گرد جنسی غلاظتوں کا ڈھیر جمع کرلیاتھا۔ اس الزا م میں ترقی پسند نقاد پیش پیش تھے۔ کمار پاشی کا کہنا ہے: میراجی کی شاعری کے گرد جنسی غلاظتوں کا ڈھیر جمع کرنے میں ترقی پسندوں کے بعد اس کے دوستوں کا بھی اوربہی خواہوں کازیادہ ہاتھ رہا ہے جنہوںنے اس کے شخصی خاکوں میں جھوٹے سچے واقعات بیان کر کے اس کی شخصیت کو مکمل طورپر مسخ کرنے کی کوشش کی ہے (۵۸)۔ اسی طرح داستان طرازی کی ایک مثال شاہد احمد دہلوی کا بیان کردہ یہ واقعہ ہے: جب پونے میں اپنے اندھے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی تو انہوںنے (میرا جی نے) مسجد میں جا کر منبر کے پاس پیشاب کیا اور کہا کہ تو نے میرے باپ کو مار دیا ہے اس لیے میں تیرے گھر میں پیشاب کرتا ہوں (۵۹)۔ جیسا کہ میرا جی کے حالات کے باب میں لکھا جا چکا ہے کہ میرا جی کو اپنے والد کے انتقال کی خبر بمبئی میں ملی تھی۔ خود میرا جی کا اپنا کہنا ہے: تین ستمبر کو لاہور سے چا ہوا خط تیرہ ستمبر کو نخشب کے پتے سے ملا‘ معلوم ہوا کہ اباجان ستر کی عمر کو پہنچ کر ختم ہو گئے شام کو کرشن چندر سے د س روپے اور راج کمار سے تین روپے لے کر شراب کی پوری ایک بوتل لی اور نشہ میں جو رونا چھونا تھا وہ کر لیا۔ (۶۰) نخشب کرشند چندر اورراج کمار تینوں بمبئی میں تھے۔ اس لیے میرا جی کو والد کے انتقال کی اطلاع وہیں ملی اس لیے شاہد احمددہلوی کا بیان واقعاتی طورپر ہی غلط نہیںزمانی و مکانی طور پر نادرست ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ منبر پر پیشاب کرنے کی جو داستان طرازی کی گئی ہے وہ بھی ٹھیک نہیں بلک شاہداحمد دہلوی کے اکثر بیانات میراجی کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ میرا جی کے ساتھ اسی طرح کے کئی واقعات منسوب کیے گئے ہیںَ جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ لیکن ایسی داستان طرازی کے لیے خود میرا جی کو بھی بری الذمہ قرار نہیںدیا جا سکتا کیونکہ انور انجم کے بقول: ان کی غلط فہمیوں کی ذ مہ داری بہت حد تک میرا جی پر ہی ہے۔ وہ اپنی داخلیت کے حصارمیں اس طرح محدود ہو گئے تھے کہ انہیںباہر کی دنیا حتیٰ خہ اپنی ذات کے بیرونی رخ کی بھی خبر نہ رہی تھی۔ (۶۱) اعجاز احمد کہتے ہیں: میرا جی نے اپنی ذات کا افسانہ اتنی محنت اور چابک دستی سے وضع کیا تھا کہ اس کی بابت عینی شہادتیں بے حد مشکوک ہیں۔ اور اس کے Mythکو جتنا اس کے دوستوں شناسائوں نے الجھایا ہے کسی ناقد نے نہیں الجھایا (۶۲)۔ الطاف گوہر نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے: میرا جی کی شخصیت کو لوگوں نے اس قدر پریشان کر دیا ہے کہ اب یہ کہنے کی ہمت نہیں پڑتی کہ وہ ایک بھلے چنگے سیدھے سادے انسان تھے (۶۳)۔ سوال یہ ہے کہ کیا میرا جی نے یہ ظاہرہ شخصیت کسی شعوری جذبے کے تحٹ بنائی تھی یا حالات کے نتیجے میں خود بخود بنتی چلی گئی۔ اور خود میرا جی کو بھی احساس نہ ہوا کہ وہ کیا بن گئے ہیںَ اس ضمن میں اعجا ز احمد کا یہ بیا ن قابل غور ہے: وہ ثانوی حیثیت جواس نے ابتدا میں کچھ شعری شخصیت کے روحانی مفروضوں سے مرعوب ہو کر اور کچھ اپنی مخصوص جذباتی ضرورتیں پوری کرنے کی خاطر محض دیکھنے والوں کے لیے ترتیب دی تھی مگر بعد ازاں اتنی مکمل اور بسیط ہو گئی کہ میرا جی خو د بھی نقلی او ر اصلی کا امتیازقائم نہ رکھ سکے اور اپنے لیے وہی بن گیا جو ابتدامیں وہ دوسروں کے لیے بننا چاہتا تھا۔ (۶۴) اعجاز احمد کی رائے کا تجزیہ کرنے کے لیے دو پہلوئو ں کو ذہن میں رکھنا پڑے گا۔ اول یہ کہ میرا جی کے دور کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس طرح کی پراسراریت اور قدرے بے ڈھنگی شخصیت کا ہونا ایک فیشن تھا (۶۵) دوم میرا جی کے شخصی حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ان کی شخصیت کی نشوونما کس طرح ہوئی اور اس نشوونما میں ان کے خاندانی حالات اور طبعی رجحان کا کتنا عمل دخل ہے۔ میرا جی کی والدہ سردار بیگم منشی محمد مہتاب الدین کی دوسری بیوی تھیںَ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بڑی حسین اور تیز مزاج خاتون تھیں۔ منشی صاحب کی عمر میں کافی چھوٹی تھیں جس کی وجہ سے وہ نہ صرف خاوند پر حاوی تھیں بلکہ اکثر ان سے لڑتی جھگڑتی بھی رہتی تھیںَ (۶۶)۔ میرا جی کو اپنی والدہ سے بڑا انس تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کی والدہ کی جوانی کو منشی محمد مہتاب الدین کے بڑھاپے نے برباد کر دیا ہے۔ لاشعوری طور پر انہیں والد صاحب سے ایک رقابت اور والدہ سے ذہنی اورقلبی لگائو تھا۔ اس حوالہ سے وہ Mother Fixationکا ایک کیس بنتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی میں عورت جسمانی طورپر کبھی ان کے قریب نہیں آئی لیکن عورت کے دونوں روپ ان کے حواس پر طاری رہے یعنی اس کی جسمانی لذت اور اس کی روحانی محبت۔ بظاہر یوں لگتاہے کہ وہ عورت کی جسمانی لذت کے تصور کے خمار میں ڈوبے رہے لیکن کئی نظموں میں عورت کی روحانی محبت کی بازگست بھی موجود ہے۔ ماں کے ساتھ ان کی محبت اور لگائو کا ذکر کئی لوگوں نے کیا ہے۔ الطاف گوہر کہتے ہیں: ان کی والدہ ان پڑ ھ اورپرانے فیشن کی خاتون تھیں مگر میرا جی انہیں بہت چاہتے تھے (۶۷)۔ قیام دہلی کے دوران وہ اکثر والدہ کا ذکر کرتے رہتے تھے اور انہیں بھیجنے کے لیے پیسے بھی جمع کرتے تھے۔ دہلی پہنچنے کے بعد جب وہ ن م راشد سے ملے تو کہنے لگے میرانام میرا جی ہے ملازمت چاہے ڈیڑھ سو رپے کی۔ پچاس روپے اپنی ماں کو بھیجوں گا پچاس اپنی اس بہن کو دوں گا جس کے گھر میں رہوں گا۔ اور پچا س روپے میں خود گزارہ کروں گا۔ (۶۸) نسیم الظفر کا کہنا ہے: انہیں اپنی ماں ‘ بہنوں اور بھائیوں سے بے پناہ محبت تھی ۔ انہی کی آسودگی کے لیے انہوںنے اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑا… وہ اپنے لواحقین کے لیے روپیہ کمانا اور جمع کرنا چاہتے تھے کبھی کبھی یہ کہتے ان کی آواز بھرا جاتی تھی اور آنکھیں نمناک ہو جاتیں تھیں میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کچھ تھوڑا سا روپیہ جمع ہوجائے تو میں دنیا میں سب سے ظالم اور سب سے پیارے شہر لاہور لوٹ جائوں… جہاں میری بوڑھی شفیق ماں ہر وقت اپنے آوارہ بیٹے کو یاد کرتی ہے۔(۶۹)۔ قیوم نظر کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’دوستوں کے سامنے اکثر اپنی ماں کی فہم و فراست طور طریقوں رکھ رکھائو حتیٰ کہ شکل و صورت کی بھی تعریف کیا کرتے تھے… جب ان کے گھر کی کوئی بات پسند کی جاتی تو وہ بلاتکلف اسے اپنی والدی سے منسوب کر کے ان کی اعلیٰ تربیت کا کرشمہ بتاتے (۷۰)‘‘۔ شاد امرتسری نے ا ن کے والد منشی محمد مہتاب الدین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’منشی صاحب کہتے تھے کہ انہیں اپنی والدہ کے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہیں (۷۱)‘‘ دوسری طرف میرا جی کی والدہ کا رویہ بھی ان کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا۔ میرا جی ان کے بڑے بیٹے تھے ۔ اس لیے وہ اپنے دوسرے بچوں سے زیادہ ان سے پیار کرتی تھیں۔ قیوم نظر بتاتے ہیں: ’’آٹھویں ساتویں جب میرا جی کی والدہ ان کو اپنے پاس بٹھا کر چھوٹی بچیوں کی طرح ان کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے دھوتیں ان میں تیل ڈالتی اور کنگھی کرتی ہیں تو ان میںایک اور طرح کی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ()۷۲)‘‘۔ ماں کے ساتھ ان کے لگائو اور قربت کا ذکر ان کے کئی دوستوں نے کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ Mother Fixationکے کیسوںمیں ہوتاہے ماں کے وجود سے ایک لاشعوری دوری اور بغاوت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ میرا جی کے یہاں بھی یہ صورت دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف تو وہ ماں کا بار بار ذکر کرتے ہیں اور دوسری طرف ماں کی Physicalقربت سے بھاگتے ہیں۔ یہ بات کم لوگوں کومعلوم ہے کہ میرا جی کے قیام دہلی کے دوران ان کی والدہ ہر سال دہلی میں کچھ دن گزارتی تھیں لیکن میرا جی ان سے ملنے نہیں جاتے تھے۔ وہ ایک بار ایسے گھر سے نکلے کہ روحانی طور پر واپس نہیں لوٹے۔ میرا جی کے بہنوئی عبدالرشید ڈار ریلوے ہیڈ کوارٹر ز دہلی میں ملازم تھے۔ ماں جی ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ضیاء اورکرامت کے ساتھ دہلی جاتی تھیں اور کچھ عرصہ وہاں قیام کرتی تھیں …میرا جی شاید ہی ان سے وہاں ملے ہوں(۷۳)‘‘۔ میرا جی کی والدہ نے انہیں کئی بار لاہور بلانے اور ملنے کی کوشش کی ‘ ایک بار الطاف گوہر کو بھی ان کے پاس بھیجا‘ مگر وہ لوٹ کر نہ آئے۔ یہ بلاوا لے کر میں خود بھی ایک دفعہ میرا جی کے پاس دلی گیا اور بات کرنے سے پہلے ہی انہوںنے مجھے روک دیا اگر اماں کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے ہو تو میں نہیںسنوں گا۔ میں نے کہا کہ میا جی انہوںنے مجھے خاص طور پر …برہم ہو گئے۔ اجی آپ کا تو دماغ خراب ہے۔ میری طرح اور نہ جانے کون کون لاہور سے یہ بلاو ا لے کر گیا لیکن میرا جی اس بارے میں کسی کی کب سنتے تھے ۔ (۷۴)‘‘ لیکن دوسری طرف یہ بلاوا ان کے لاشعور میں موجود تھا اپنی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘ میں کہتے ہیں: یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آئو کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے میرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا پھر وہ کون ساجذبہ تھا جواس پیار بھرے بلاوے پر جانے سے روکتا تھا؟ یہ اس شدید محبت سے جو انہیں ماں سے تھی لاشعوری طورپر دور بھاگنے کا رد عمل تھا جو Mother Faxationکے کیسوں میں عام طورپر ہوتا ہے۔ میرا جی کی ماں جی کے ساتھ محبت تو شاید نارمل تھی لیکن ماں جی ے پاس Possessive Loveتھا اوریہ صرف میرا جی کے لیے ہی نہیں تھا وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ان کا معاملہ یہی تھا ماں جی کی شخصیت بڑی Dominatingتھی‘‘۔ (۷۶) ماں کے اس Possessive Loveنے ا ن کی شخصیت کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ بعد میں یہی محبت ‘ نفسیاتی اور معاشرتی حالات کے سبب انہوںنے مختلف طریقوں سے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ (۷۷)۔ میرا سین‘ بلی خانم‘ بادلی بیگم اور بمبئی کی پارسی نژاد لڑکی منی رباڈی ان چاروں میں وہ کس طرح کی محبت ڈھونڈتے رہے ۔ کیا وہ انہیں ایک عام محبوبہ سمجھتے تھے یا اس سے بڑھ کر کچھ اور؟ ان چاروں خواتین سے میرا جی کے عشق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ وہ ان لڑکیوں کی جسمانی قربت سے زیادہ ان کے تصور کی قربت کو پسند کرتے تھے۔ ان چاروں خواتین میں سے ایک کے ساتھ بھی انہوںنے ڈھنگ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی روایتی عاشقوں کی طرح ان کا سایہ بنے بلکہ ان لڑکیوں کو انہوںنے تصوراتی خود لذتی کے لیے صرف ایک وسیلے کے طورپر ہی استعمال کیا۔ یہ بات بھی ان کے یہاں ایڈی پس کمپلیکس کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس کمپلیکس کے شکار جسمانی لذت کے بجائے تصوراتی لذت کو پسند کرتے ہیں۔ ایسے شخص کو مرد یعنی باپ سے اک طرح کی چڑ ہوجاتی ہے اور وہ اسے اپنا حریف تصور کرنے لگتاہے ۔ چنانچہ مرد عام حالتوں میں جس طرح کا جنسی رویہ اختیار کرتے ہیںایسا شخص ان سے گریز کرتاہے ۔ میرا جی کو اپنے والد سے کچھ زیادہ الفت نہ تھی دوسرے ان کے والد منشی محمد مہتا ب الدین بھی انہیں زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کے باپ کو ان کے کندھوں تک پہنچے ہوئے بالوں اور بے دریغ بڑھتی ہوئی سنہری مونچھوں پر بہت تائو آتا تھا ۔ انہیںمیرا جی کی انوکھی وضع قطع اور بے ترتیب لباس سے الجھن ہوتی تھی۔ وہ ان کی غیر معمولی عادتوں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے برہم ہوتے تھے… اور یہ باتیں دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے ہوئے اندرون خانہ نہ جانے کس کس پر برستے۔ ‘‘ (۷۸) ظاہر ہے کہ ا س برسنے کی زد میں سب سے زیادہ میرا جی کی والدہ ہی آتی تھیں یوں بھی دونوں میاں بیوی کے مزاجوں میں بڑا فرق تھا۔ (۷۹) سردار بیگم منشی صاحب پا حاوی تھیں اس کی ایک وجہ منشی صاحب کا بڑھاپا تھا جس کی وجہ سے وہ بیوی سے جسمانی طور پر بہت دور ہو گئے تھے چنانچہ سردار بیگم گھر پر حاوی تھیں۔ دوسرے یہ کہ منشی صاحب نے بہت پہلے اپنا سارا اثاثہ سردار بیگم کے حوالے کردیا تھا ۔ بعد میں انہیںاحساس ہوا کہ انہوںنے پہلی بیوی کی اولاد کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ (۸۰) خاص طور پر اس لیے بھی کہ ان کی آخری عمر میںگھر بھر کی کفالت ان کے بڑے بیٹے (پہلی بیوی سے) محمد عنایت اللہ ڈار کے ذمہ تھی۔ احمد ذکی ڈارکا کہنا ہے کہ ’’ماں جی بہت خوبصورت تھیں اوراپنی جوانی اور خوبصورتی کی وجہ سے منشی صاحب کو اہمیت نہیں دیتی تھیں بلکہ اکثر ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں… منشی صاحب انہیں خوبصورت ڈائن کہتے تھے ‘‘ (۸۱) میاں بیوی کے درممیان اس کشمکش کا اثر بچوں کو نفسیات پر بھی پڑا چنانچہ میرا جی کی نفسیاتی الجھنوں اور ہیت کذائی کے پیچھے ان عوامل کو آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میرا جی اگرچہ اپنے والد کا بہت احترام کرتے تھے لیکن ان کے ظاہری تعلقات اچھے نہیں تھے۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے وہ مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے بلکہ میرا جی سے اپنا گھر کہنے کے بجائے ہمیشہ منشی مہتاب الدین کا گھر کہا کرتے تھے۔ باپ سے ذہنی فاصلے کی کئی وجوہات ہیں ایک ماں کی بہت زیادہ قربت دوسرے منشی صاحب کی ملازمت۔ منشی صاحب دوران ملازمت کبھی ایک جگہ ٹک کرنہیں رہے۔ آئے دن کے تبادلوں کی وجہ سے بچے کبھی ساتھ رہتے کبھی لاہور آ جاتے اورچھٹی جماعت کے بعد تو ممیرا جی مستقل طورپر لاہور آ گئے۔ والد ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور آئے۔ یہ تمام عرصہ میرا جی والد کے دائرہ اثر سے باہر رہے۔ دوسرے یہ کہ منشی صاحب سخت مزاج تھے۔ ان کا سخت گیر رویہ انہیں (میرا جی کو) گھر کی فضا اور اپنے باپ کے مرتب کردہ قواعد سے ہم آہنگ کرنے سے حارج رہا۔ ان کے والد مزاج کے اعتبار سے بھی ذرا درشت آدمی تھے۔ انہیں اس بات کا سخت غصہ تھا کہ میرا جی ان کی باقی اولاد کی طرح ان کی مرضی کے مطابق انہیں اٹھ رے‘‘۔ (۸۲) پڑھائی میں میرا جی کی عدم دلچسپی دیکھ کر انہوںنے ہومیو پیتھی سکھانے کی کوشش کی ۔ میرا جی نے اس میں استعداد تو بہم پہنچائی لیکن اسے باقاعدہ پیشے کے طورپر اپنانے سے انکار کر دیا۔ یہ بات بھی باپ بیٹے کے درمیان ٹکرائو اوردوری کا سبب بنی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا جی جہاں ایک طرف باپ یعنی مرد سے دور ہوتے گئے وہاں ماں یعنی عورت کے بارے میں ان کے تصورات نے ایک نئی صورت اختیار کر لی۔ آہستہ آہستہ جنس کا ایک ایسا پہلوان کے سامنے وضع ہوتاگیا جس کی تسکین کی جسمانی صورتیں مفقود تھیں چنانچہ جنسی تسکین کا تصور بھی ان کے یہاں ایک طرح کی نفسیاتی الجھن بن کررہ گیا۔ بچپن ہی سے انہوںنے عورت کو جس روپ میںمحسوس کیا وہ عورت کا روحانی نہیں بلکہ کسی حد تک جنسی پیکر تھا۔ اس پیکر کے ساتھ تشنگی اورکراہت دونوں پہلو شامل تھے ۔ انہوںنے اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھاہے۔ ایک دفعہ کا ذکرہے کہ انگریزی انجینئر دورے کے سلسلے میں آیا ہوا تھا اس کی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ میری بہن اور میں اور ہمارے خاندانی ملازموںکے دو بیٹے اس بنگلے کے وسیع باغ میں یونہی کھیلنے کے لیے گئے۔ ہمارے اور ساتھی ڈاک بنگلے کے چوکیدار کا بیٹا اور بیٹی جمنا بھی تھے ان علاقوں میںبھیل قوم کی آبادی…ڈٓک بنگلہ میںہم بھی ہانکے کاشکار کھیلتیتھے ایک پیڑ کو مچان تصور کیا گیا تھا۔ کا بیٹا اور میں بھیل بن کرکچھ دور نکل گئے تھے۔ اتنے میںہمارے خاندانی ملازم کے بیٹے سر نے معملاع ید کہ جمنا بہت بری لڑکی ہے وہ پیڑ پر بیٹھے ہوئے رفع حاجت کر رہی ہے۔ میں نے جی پر اپنے گھر کی روایات کے مطابق تربیت یافتہ ہوتے ہوئے ا س بات کو برا مانا لیکن ا س واقعہ کی جنسی نوعیت کا ایک نقش طفلی ہی میں میرے ذہن پر قائم ہو گیا اس کے متعلقہ عمل کی نفسیاتی وضاحت کا علم تو اب آ کر ہواہے‘ مگر اس زمانے میں صرف ان باتوں میں ایک شعوری نوعی دل کشی تھی‘‘ ۔ (۸۳) رفع حاجت کرتی کسی لڑکی کے ساتھ جنسی دل کشی محسوس کرنا جنس کے ساتھ غلاظت شامل کرنا ہے جس سے جنسی عمل محض ایک غلیظ اور کراہت آمیز بن کر رہ جاتاہے۔ میرا جی کے یہاں بعدمیں جا کر جس خود لذتی کا تصور قائم ہوا ہے اور ان کے اردگرد جس طرح کی غلاظت اکٹھی ہوئی اس کے آثار بچپ ہی میں ان میں موجود تھے۔ وہ عام چیز حتیٰ کہ لباسوں میںبھی جنسی دل کشی محسوس کرتے تھے۔ لباس میں دلچسپی ابتدا ہی میں طبیعت کا خاصہ رہ۔ گجرات کاٹھیاوار میں جو لہنگے پہنے جاتے ہان کی کیفیت راجپوتانے یا ہندوستان کے دوسرے علاقوںکے لہنگوں سے مختلف ہے اس لہنگے کی ساخت سیدھی ہے۔ کمرسے ٹخنوں تک ایک جھول سا ہلکی ہلکی لہروں کاایک ناز جھرمٹ جسے دیکھ کر میری نگاہوں کے سامنے پہنے والی تو ایک لچکتی ہوئی ٹہنی بن جاتی ہے اور لباس جھیل یا دریا کی سطح جس پر ہلکی ہلکی لہریں کبھی جھوم اٹھتی ہوں کبھی ٹھہر جاتی ہوں… اس کے خلاف راجپوتانے کا لہنگا ایک سمندر کی حیثیت رکھتاہے ایک طوفانی شے جس میںجنگل کا گھنا گر م جادو معلوم ہوتاہے… دوسرا پسندیدہ لباس ساڑھی ہے لیکن اس میں حرکت نظر نہیں آتی اس میں ایک ٹھہرائو ہی ٹھہرائو ہے… ساڑھی پہنے ہوئے کوئی انسانی پیکر میرے ذہن میں لٹکے ہوئے پردے یا چھائے ہوئے دھندلکے کا تصور دلاتا ہے‘‘۔ (۸۴) رفع حاجب کرتی لڑکی میں جنسی دلکشی تلاش کرنے والے میرا جی لباسوں کا ذکر کرتے حسن کی بلند سطح کو چھونے لگتے ہیں۔ یہ تضاد ان کی پوری شخصیت میں ہے کہ وہ جسمانی لذت کی اتہائی گھٹیا سطح پر بھی رہتے ہیں اور دوسری طرف روحانی لذت کے متلاشی بھی ہیں یہاں بھی انکی جسمانی لذت یکدم ایک روحانی لذت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لباسوں کے اس نفسیاتی حسن کا تصور ان کی کئی نظموں میں موجود ہے۔ بچپن ہی سے میرا جی کے ذہن میں عورت ایک منقسم شے کے طور پر ابھری ہے۔ یعنی ان کے خیال میں جسم اور تصور جسم دو علیحدہ علیحدہ دائرے بن کر رفتہ رفتہ تصورجسم کا دائرہ مضبوط ہوتا گیا اور جسمانی لذت کی تمنا ایک کسک بن کر مستقل تلخی میں تبدیل ہوتی گئی۔ انہوںنے بچپن کا ایک اورواقعہ بیان کیا ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس طرح جسم سے تصورجسم تک پہنچے۔ نسائی لباس کا یہ بیان زندگی کے ایک اور پہلو پر بھی روشنی ڈالتا ہے یعنی عورت سے دوری۔ ایک دفعہ ریلوے کی ملازمت کے سلسلے میں ملتان کے قریب ہمارا قیام تھا۔ ساتھ کے مکان سے اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی کوئی سوغات کی چیز ہمارے یہاں لائی۔ دائیں ہاتھ پر اسنے تھال کو تھام رکھا تھا اور بائیں ہاتھ سے چق کو ہٹاتی ہوئی دروازے میں داخل ہوئی میں دروازے کے ساتھ ہی ایک آرام کرسی پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے دہلیز سے داخل ہو کر دیکھا کہ کمرے میں کوئی نہیںہے صرف میں ہوں مجھ سے پوچھا اور میں نے اندر کی طرف اشارہ کیا کہ گھر کے لوگ ادھر ہیں اور وہ چلی گئی لیکن ایک لمحہ ٹھٹک کر کھڑے رہے کے دوران میری نظر نیم جنسی احساسات کے ساتھ اس پر جمی رہی۔ اس نے سفید دھوتی پہن رکھی تھی۔ اور دس گیارہ سال کی عمر۔ نیز شاید گھر کی بات ہونے کے لحاظ سے کوئی زیر جامہ نہ تھا چنانچہ سورج کی کرنیں لباس کے پردے میں سے چھنتے ہوئے زیریں جسم کے خطوط کا اظہار کر رہی تھیں‘‘۔ (۸۵) لباس کے نیچے گولائیاں اور خطوط تلاش کرنے کی یہ خواہش آہستہ آہستہ تخیل کاایک حصہ بن گئی چنانچہ جسم کی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی وہ جب چاہتے کسی بھی نسوانی لباس کے نیچے اپے پسندیدہ خطوط دیکھ لیتے ۔ جلق لگانے والوں کا تخیل بہت تیزہوتاہے۔ وہ کسی بھی راہ چلتی عورت کو جس روپ میں چاہیںلمحہ بھر میں دیکھ لیتے ہیں۔ مریا جی کے یہاں یہ احساس بچپن ہی سے پیدا ہو گیا تھا۔ اس نفسیاتی الجھن میں باپ کا دبائو بھی شامل ہے اور ماں سے والہانہ محبت بھی۔ جہاں تک باپ سے دبائو اور سخت گیری کا تعلق ہے منشی محمد مہتاب الدین عام اصطلاح میں ایک لبرل شخص تھے۔ انہوںنے اپنے بچوں کی تربیت اپنے زمانے کے لحاظ سے بڑے جدید طریقے سے کی۔ ’’منشی صاحب خود بڑے دین دار اور پرہیز گار آدمی تھے ۔ مگر ان کا گھر میں رویہ بڑا لبرل تھا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دی۔ ہماری پھوپھی (میرا جی کی بہن) کے علاوہ کسی نے قرآن نہیں پڑھا‘‘۔ (۸۶) منشی صاحب کو میرا جی کے طور طریقوں سے زیادہ اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ اپنا کیرئیر نہیں بنا سکے۔ ورنہ زندگی کے دوسرے معاملات میں انہوںنے اپنے کسی بچے پر اپنی شخصیت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میرا جی پر باپ سے زیادہ ماں کے اثرات تھے مادرانہ انس کی وجہ سے ان کے یہاں ایڈی پس کمپلیکس کی جو صورت پیدا ہو گئی تھی اس میں جنسی فعل سے نفرت لیکن صنف مخالف میں جنسی دلکشی بیک وقت ایسا تضاد پیدا کرتی ہے کہ کیفیات نارمل نہیں رہتیں۔ میرا جی نے اپنی ساری محبوبائوں کے ساتھ یہی رویہ رکھا اس تصور کو انہوںنے میرا سین میں بھی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ میرا سین کے ساتھ ان کا عشق جسمانی نہیںتصوراتی تھا اسی لیے انہوںنے اس عشق میں ایک پراسرار خاموشی کو زیادہ اہمیت دی۔ انہوںنے ایک بار بھی میرا سین سے براہ راست عشق کا اظہار نہیںکیا۔ میرا سین کے ن ایک خط میں جو کبھی پہنچایا نہیں جا سکا وہ لکھتے ہیں۔ اب کہ حالات بے چارگی کی آخری حد پر پہنچ چکے ہیں اور تم سے ملنے کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے… ان باتوں کو یوں نہ سممجھنا اور مجھے معاف کرنا کہ یہ سب کچھ گھر کے پتے پر بھیج رہاہوں کیونکہ مجھ میں جرات نہیں کہ خود تم تک پہنچا سکوں‘‘۔ (۸۷) یہ خط بھی اسی ڈرامے کا ایک حصہ ہے جو میرا جی اپنے آپ سے کر رہے تھے۔ بات جرات کی کمی کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ میرا جی اس طرح کا رابطہ چاہتے ہی نہیںتھے اپنی ساری محبوبائوں کے ساتھ ان کا رویہ دراصل جسمانی قربت سے دور رہنے کی ایک کوشش تھی۔ ان کے بعض احبا ب اس کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ جنسی طور پر ناکارہ ہو چکے تھے۔ میرا جی جسی طور پر ناکارہ تھے۔ خود لذتی نے انہیں De Generateکر دیا تھا۔ دلی ریڈیو کی لڑکیاں تو ان کا منہ پر مذاق اڑاتی تھیں۔ صفیہ معینی تو کئی دفعہ کہہ چکی تھیں میرا جی جانے دیجیے آ پ ہیں کس لائق۔ (۸۸) یہ بات بھی کلی طور پر درست نہیں کہ جسم کی دوری میں ان کی جنسی ناکامی کی بنیادی وجہ تھی ۔ اس یلے ہ یہ وجہ بعد کے تین عشقوں میں تو ہو سکتی ہے میرا سین سے عشق میںاس کا تعلق نہیں رہتا۔ کہ اس وقت میرا جی نے ابھی اس بازار میں جانا شروع نہیں کیا تھا اور انہیںکوئی جنسی بیماری بھی نہ تھی اس یے جسم سے دوری کی وجہ جنسی ناکاری نہیںبلکہ نفسیاتی ہے۔ اس نفسیاتی الجھن کے دبائو میں وہ اپنے عشق کی شہرت چاہتے تھے۔ تصور محبوب کو خود لذتی کا وسیلہ بنانا چہاتے تھے لیکن جسمانیی قربت سے گریز کرتے تھے۔ انہوںنے اپنے چاروں عشقوںکا خوب چرچا کیا۔ میرا سین کو بھی انہوںنے Source of Inspirationکے طورپر ہی استعمال کیا۔ جہاں تک ظاہری شواہد کا تعلق ہے میرا جی اس مادی وجود کو کبھی نہ پا سکے مگر شاید یہ بات ان کے لیے ضروری بھی نہیں تھی۔ میرا سین تو ان کے لیے ایک علامت تھی۔ (۸۹) ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اس کی طر ف اشارہ کیا ہے: میرا سین سے اس کے عشق کی ساری داستان میرا جی کے اپنے ذہن کی اختراع معلوم ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا سین محض اس کا ایک خواب تھا جسے اس نے حقیقت بنا کر پیش کیا اور جب خواب کا زور ٹوٹا تو بھی وہ اسے قائم رکھنے کی برابر کوشش کرتا رہا۔ ‘‘ (۹۰) احمد بشیر نے اس نکتے کا ذرا تفصیلی تجزیہ کیا ہے وہ کہتے ہیں: میرا جی کا لذت کا تصور عام انسانوں سے مختلف تھا۔ ا س کے لیے اس لذت کے ذرائع بھی مختلف تھے ۔ مثلاً لذت کے حصول میں اسے عورت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ عورت اس کے لیے ایک بے معنی اورمجہول شے تھی جسے اس نے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ وہ میرا جی کے لیے ایک خوبصورت بطخ تھی جس کے سفید سفید پر بھلے معلوم ہوتے تھے لیکن جس سے کسی گہرے یا مستقل تعلق کاتصور نہیںکیا جا سکتا… اس نے عمر بھرمیرا سین سے بات بھی نہ کی۔ اس کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا بھی نہیں اور ساری زندگی اس کے نام تج دی۔ میرا جی نے میرا سے کوئی مقصد وابستہ نہیں کیا اس کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘ (۹۱) شاد امرتسری کے خیال میں’’یہ روپ ان کی ذات میں کچھ اس طرح گھل مل گیا تھا کہ وہ خود میراسین بن گئے تھے۔ (۹۲)‘‘ خود میرا جی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ ’’میں نے میرا سین سے کوئی رسمی محبت نہیں ک۔ میرے تصورات میں عورت کے خدوخال کا جو تصور تھا اس کو میں نے میرا سین کے کافر جسم میں مکمل پایا‘‘ (۹۳) مظہر ممتاز سے بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا تھا ’’میرا میرے لیے ایک Symbolتھی مجھے اس کی محبت اس کی وفا کی آرزو نہیں تھی‘‘ (۹۴) دراصل وہ اس کافر جسم سے بہرہ ور ہونا ہی نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ ا س رویے سے ان کے یہاں ایک نا آسودگی اور مستقل کسک نے جنم دیا۔ ایک بے چینی‘ ایک اداسی نے انہیں مستقبل سے بینیاز کر دیا۔ وہ صرف ماضی اور حال میں ہی رہ گئی ۔ اس کا ایک مثبت نتیجہ نکلا کہ ان کی نظموں میں جنسی فعل اور اس کی غلاظت سے اوپر اٹھ آیا اور پاکیزگی کاایک تصور ابھر آیا۔ وہ اپنے محبوب کو دللہن کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے یا اس میں ممتا تلاش کرتے ہیں اور یوںمحبت کو ایک آدرش کا درجہ دیتے ہیں: ’’ان کا محبوب انہیںصرف وصال اور ہجر کے مثبت اور منفی مروجہ دائروں ہی کے گرد گردش نہیںکراتا بلکہ ان کے بے حد پاکیزہ اور معصوم جذباتی خواہشات کی تسکین بھی کرتا ہے‘‘ (۹۵) میرا جی کو طوائفوں کے پاس جانے کا شوق بھی تھا اور بعض کے ساتھ تو ان کے خصوصی مراسم بھی تھے مگر جنسی تعلق کے شواہد نہیںملتے۔ شاہد احمد دہلوی کے مطابق انہوںنے صرف ایک طوائف سے جنسی معاملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ آتشک میں مبتلا ہو گئے تھے (۹۶)دہلی کے قیام کے زمانے میں وہ دوستوں کے ساتھ اکثر طوائفوں کے ہاں جایا کرتے تھے لیکن یہ تعلق صرف سننے اور سنانے کی حد تک محدود تھا۔ نسیم الظفر نے دہلی میںایک طوائف کا ذکر کیا ہے جس کے پا س میرا جی روز دوپہر کو جایا کرتے تھے۔اور اس سے غزلیں سنتے اسے گیت سناتے بلکہ خود اس کی بیاض میں لکھ دیتے جب تک وہ زندہ رہی یہ تعلقات اسی حیثیت سے قائم رہے… وہ بھی میرا جی کی داستان حیات سے بڑی متاثر تھی۔ اور اس لیے بے حد عزت کرتی تھی۔ وہ خود میرا جی کی داستان حیات کے گیت ریڈیو پر گاتی تھی۔ اور جب میرا جی اس کے پاس ہوتے تو اس کی محفل میں سوائے بے تکلف احباب کے کسی کو بار نہ ہوتا تھا‘‘۔ (۹۷) طوائف کا استعارہ بھی Mother Fixationکی ایک علامت ہے۔ مادری انس کے شکارلوگ شادی کے بعد بیوی میںماں کا روپ تلاش کر لیتے ہیں اوران کی زندگی کسی حد تک معمول پر آ جاتی ہے لیکن میرا جی نے شادی بھی نہیں کی چنانچہ انہیں ماں کے بعد کوئی ایسی مکمل ہستی نہیںمل سکی جس میں وہ اپنے آ پ کو محفوظ سمجھتے اس لیے ان کے یہاں مختلف شکلوں اور صورتوں میں اسی احساس کی تکمیل کی کوشش نظر آتی ہے۔ ماں کے ساتھ اس غیر معمولی تعلق نے انہیں ہندی دیو مالا کے بھی قریب کیا کیونکہ ہندی دیوی مالا کا مزاج مادری ہے۔خصوصاً کرشن اور رادھا کے قصے میں رادھا بیک وقت محبوبہ بھی ہے اور ماں کی ممتابھی رکھتی ہے دوسری وجہ جو خارجی ہے یہ ہے کہ میراجی بچپ میں بہت عرصہ تک اپنے والد کے ساتھ جنوبی ہندوستان میں رہے جہاں کے مناظر اور ثقافتی رویوں نے ان میں گہرے اثرات مرتب کے۔ تیسری وجہ وہ تحیر اور اسرار ہے جس دیو مالائی کہانیوں کا خاصا ہے۔ یہ تحیر اور اسرار خود میرا جی کی شخصیت میں بھی تھا۔ چنانچہ انہوںنے خود کو ابتداہی میں دیو مالائی کردار تصور کرنا شروع کر دیا۔ اپنی محبوبائوں کو بھی انہوںنے دیویاںہی سمجھا جن کے ساتھ تصوراتی اور روحانی محبت تو کی جا سکتی ہے لیکن جن کے جسموں تک رسائی ممکن نہیں اسی وجہ سے انہو ں نے اپنی کسی محبوبہ کو جسمانی طور پر پالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ میرا جی فطری اعتبار سے پراچی اور ہندوستان کے بھکشو کوی تھے مگر بعض اوقات زمانہ حاضر کے عقلیت پرست انسان کی جھلکیاں بھی ان میں دکھائی دینے لگتی تھیں… ان کا انداز فکر اور انداز نظر ایسے مغربی فنکاروں اور فلسفیوں کے ساتھ تھا جنہوںنے آ ج یا کل کے نہیں صدیوں بعد کے بہت ہی متمدن انسان کے لے سوچ بچار کی ہے۔ اس کا مسلک تیاگ تھا اور ان کی زندگی بھی بیراگ کی تصویر تھی۔ (۹۷)۔ اس بیراگی پن میں ان کے بچپن کے ماحول اور کسی حد تک ان کی ابتائی تربیت کا بھی ہاتھ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین خود عربی فارسی کی اچھی دسترس رکھتے تھے لیکن اپنے بچوں کو انہوںنے فارسی یا عربی کی تعلیم نہیں دلوائی حتیٰ کہ انہیں بچپن میں قرآن مجید بھی نہیںپڑھوایا۔ (۹۹) میرا جی کو عربی فارسی سے اتنی دلچسپی نہ تھی جتنی مثلاً ن م راشد اور فیض کوتھی۔ جنوبی ہندوستان میں ایک عرصہ تک رہنے اور بعدمیں میرا بائی کے بھجنوں سے دلچسپی کی وجہ سے وہ ہندی کے زیادہ قریب ہو گئے۔ سعید الدین احمد ڈارکا خیال ہے کہ اگر وہ بچپن میں عربی فارسی کی زیادہ تعلیم حاصل کرلیتے اوران کے مطالعہ کے راہ کی سمت اس طرف مڑ جاتی تو وہ بالکل مختلف شخص ہوتے۔ میرا جی کے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ برہمو سماج کی مقبولیت کا عرصہ تھا۔ میرا جی بھی اس سے متاثر ہوئے تھے جس میں بنیادی نقطہ نظر ایک لبرل سے مذہبی ماحول کاتھا میرا جی کے انٹلکچویل سیلف کو یہ بات لگا کھاتی تھی۔ (۱۰۰) سعید الدین احمد ڈار کی یہ بات اپنی جگہ ہم ہے لیکن ا س بے بھی بڑھ کر میرا جی کی دلچسپی کا سبب وہ اسرار اور تحیر ہے جو جنوبی ہندوستان اور اس کے حوالے سے ہندی دیو مالا میں موجود ہے میرا جی کو بچپن ہی سے سمندر دریا پہاڑ اورنیلے آکاش سے گہری رغبت تھی۔ یہ سارے استعارے اور علامتیں اس اسرار سے ہم آہنگ تھیں جو بعد میں ان کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔ ابتدامیں ایک شوق اورپراسرار ہونے کی لذت نے انہیں اس ہئیت کذائی کی طرف راغب کیا ہو گا لیکن آہستہ آہستہ یہ روپ ان پر ایسا پورا اترا کہ انہیں احساس ہی نہ ہو سکا کہ وہ کس طرح آہستگی کے ساتھ ایک ایسے سانچے میں ڈھل گئے ہیں جس سے نکلنے یا جسے چھوڑنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چنانچہ یہ بات کہ وہ اپنی ظاہری ہئیت کذائی سے کوئی ڈرامہ پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ درست نہیں وہ تو خود اس ڈرامے کا ایک کردار تھے جس کی ڈور ان کی اپنی شخصیت کے اندر تھی۔ شخصیت کے اس اندرونی اسرار نے ان کے یہاں خود لذتی خود اذیتی اور ملامت پسندی کے رویے پیدا کر د یے تھے۔ گویا وہ ہر معاملہ میں صر ف اپنی ہی ذات پر بھروسہ کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہ رویہ ایک دم مردم بیزار شخص کا تھا؟ جب ہم میرا جی کی زدنگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے مجلسی اور رکھ رکھائو والے شخص تھے۔ دوستوں کے علاوہ غیروں کے ساتھ بھی شفقت اور اخلاق سے پیش آتے تھے۔ تو پھر یہ تضاد کیوں؟ کہ ایک طرف تویہ کہ وہ اتنے خود پرست (Self Centered)کہ اپنی جبلی اور جذباتی خواہشات کی تکمیل میںبھی اپنی ذات کے علاوہ کسی کو شریک نہ کرتے تھے اور دوسری طرف ان کے سارے وسائل محبتیں اور خلوص دوسروں کے لیے وقف تھا۔ سعید الدین احمد ڈار اسے تضا د نہیں سمجھتے بلکہ ان کی شخصیت ہی کا ایک پہلو تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ (میرا جی) ایک سادہ آدمی تھے۔ آ پ زیادہ سے زیادہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک خاص طرح کی سوچ نے اسے آئی لینڈ بنا دیا تھا ‘‘ (۱۰۱) بات صرف اتنی نہیں کہ آئی لینڈ ہونے کی وجہ سے میرا جی الگ تھلگ ہو گئے تھے ۔ کہ یہ الگ تھلگ ہونا صرف باطنی سطح تک ہی محدود تھا ورنہ خارجی سطح پر توازن کا رابطہ اپنی سوسائٹی سے مکمل تھا۔ اصل معاملہ ان کے ظاہری اور باطنی روپ کے تضاد کا تھا۔ ان کی ظٓہری گندگی اور بدئیتی اتنی حاوی تھی اور خود میرا جی نے اپنی حرکتوں سے ایسا تاثر قائم کر دیا تھا کہ کسی کو ان کے اندر جھانکنے کاموقع ہی نہیںملا۔ ان کی موت کے بعد جب کئی خاکہ نگاروں نے ذر ا فاصلے سے ان کا تجزیہ کیا تو ان کی رائے خاصی مختلف ہو گیئ۔ شاہد احمد دہلوی کہتے ہیں’’اس غلیظ پیکر میںکسی قدر لطیف روح تھی۔ روح اسے اڑا کراعلی علیین میں پہنچانا چاہتی تھی مگر جسم اسے اسفل السافلین کی طرف کھینچے لیے جاتا تھا میرا جی کی ترکیب انہی اجتماع ضدین سے ہوئی تھی۔ ‘‘ (۱۰۲) میرا جی کی زندگی میں کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ یہ بظاہر گندہ شخص اپنی ہر بات اوم سے کیوں شروع کرتا ہے حتیٰ کہ اپنے دستخطوں سے پہلے بھی اوم لکھتا ہے۔ اوم سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی بابرکت طریقے سے شروعات کرنا ہے اسے کسی دعا کے ابتدائی الفاظ بھی سمجھا جاتا ہے۔ لفظ کسی بھی زبان کا ہو غرض تو مفہوم سے ہے چنانچہ اومم بسم اللہ کا مترادف ہے میرا جی اپنی ہر بات ہر نظم ہر کام اوم سے شروع کرتے تھے۔ میرا جی ہر نظم شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر دیو ناگری رسم الخط میں اوم لکھتے… کاغذ تو کاغذ انہوںنے ایک دفعہ میریسامنے آموں تک پر اوم لکھا اور دستخط کیے۔(۱۰۳) ہر کام ’’اوم‘‘ سے شروع کر کے میرا جی ظاہری گندگی کے برعکس اپنی باطنی طہارت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی تمام تر غیر اخلاقی حرکات کے باوجود یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قاری ظاہر قاسمی سے بالکل تخلیہ میں قرآن شریف سنتے اور روتے۔ ‘‘ (۱۰۴) میرا جی کی تحریروں کی طرح ان کی پوری شخصیت بھی ہم تک نہیں پہنچی۔ ان کی تحریریں تو خیر ان کی اپنی لاپروائی کی وجہ سے ضائع ہوئیں اور ان کی شخصیت ان کے مداحوں کی فسانہ طرازیوں کی نذر ہو گئی ورنہ جتنے وہ قادر الکلام تھے انتے ہی ہمہ جہت بھی تھے لیکن اپنی شخصیت کی طرح انہوںنے اپے کلام کی بھی حفاظت نہیں کی۔ ان کے دوستوں کاکہنا ہے کہ وہ بعض اوقات تسلسل سے نظمیں کہتے تھے۔ قیوم نظر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک مہینے کی بائیس تاریخ تک انہوںنے چھبیس نظمیں لکھیں (۱۰۵)‘‘ وہ اپنی تخلیقات سے اولاد کی طرح محبت کرتے تھے اور جب ایک بار ان کی بیاض ان کے بھائی نے ردی میں بیچ دی تو اس شام میرا جی نے کھانا نہ کھایا اور دو تین دن تک حیران و سرگرداں ردی فروشوں کی دکانوں پر وہ کاپیں تلاش کرتے رہے (۱۰۶) ان کا مجموعہ اجنتا کے غار جسے شاہد احمد دہلوی نے چھاپنا تھا 1947ء کے ہنگاموں میں ضائع ہو گیا۔ خو د میرا جی کئی بار نشے کی حالت میں اپنے مسودے کو سڑک پر اچھال دیتے تھے۔ یوں ان کا بہت سا کلام ان کی اپنی بے نیازی اور لاپروائی کی نذر ہو گیا۔ لیکن دوسری جانب ان کی زندگی کے کئی رخ ایسے بھی تھے جہاں انتہائی نظ و ضبط کا اظہار ہوتاتھا۔ دہلی میں ان کے ریڈیو کے دوست سے اپنا فرض ادا کرتے کہ احساس ہوتا کہ ان سے زیادہ ذمہ دار شخص او ر کوئی نہیں ‘‘ (۱۰۷) میراجی مروج اقدار کے باغی ضرور تھے لیکن اس بغاوت میں بھی ایک سلیقہ تھا۔ اس بغاوت کی سزا یا نتیجہ وہ اپنی ذات تک محدود رکھتے تھے۔ اور خود اذیت برداشت کرتے تھے۔ جہاں تک دوسروں کامعاملہ تھا تو اس بارے میں وہ بہت محتاط تھے۔ خود اصول پرستی کا مظاہرہ کرتے اور دوسروں کو بھی اصول پرستی کی تلقین کرتے حتیٰ کہ پولیس اور ٹریفک کے جو قاعدے قانون سب توڑ دے ہیں اورکوئی پوچھتا نہیں میرا جی ان کے بڑے پابند تھے ‘‘ (۱۰۸) ’’ادبی دنیا‘‘ کی ادارک کے زمانے میں بھی اپنی تمام تر آزاد روی کے باوجود دفتری معاملاتمیں ان کا رویہ بہت ذمہ دارانہ تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ اپنی آزادمنشی اور بے پروائی کے باوجود میرا جی نے مجھے کبھی آزردہ نہیں ہونے دیا (۱۰۹)‘‘۔ ذمہ داری کا یہ احساس ان کی اس پریشانی سے بھی دکھائی دیتا تھا جو انہیںاپنے بھائیوں کی تعلیم کے سلسلے میں تھی۔ لیکن یہ سب کچھ ان کی شخصیت کا ایک رخ ہے‘ دوسری طرف وہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے وقتی طور پر سارے اخلاقی ضابطے توڑ دیتے تھے۔ دہلی ریڈیو سٹیشن پر جب کہیں سے چندہ اکٹھا نہ ہوتا تو وہ درازوں میں سے خود ہی پیسے نکال لیتے لیکن بعدمیں بتا دیتے ۔ (۱۱۰) لاہرمیں بھی ان کا یہی حال تھا جب ان کے پاس پیسے ختم ہو تے تو بڑی بے تکلفی سے اپنے بڑے بھائی محمد عنایت اللہ ڈار کی جیب سے مطلوبہ رقم نکال لیتے لیک ساتھ ہی وہاں ایک چٹ رکھ دیتے کہ اتنے پیسے نکال رہا ہوں (۱۱۱)۔ دہلی ریڈیو سٹیشن پر تو کبھی کبھار وہ لوگوں سے ان کے بٹوے طلب کرتے اور بڑی ڈھٹائی سے مطلوبہ رقم نکال لیتے۔ (۱۱۲) میرا جی کو دوسروں کی جیب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کا فن آتا تھا۔ جب ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ اسے دونوں ہاتھوںسے لٹاتے لیکن جب اپنے پاس کچھ نہ ہوتا تو دوسروں پر حق جتاتے اور اس کے لیے ذرا بھر بھی ممنون نہ ہوتے بمبئی کا قیام کا ذکر کرتے ہوئے احمد بشیر کہتے ہیں۔ کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے میں میرا جی کا رویہ ایسے ہی نارمل قسم کے آدمی کا تھا جس کا مقصد دوسروں کی گرہ پر زندہ رہنا ہو… مگر وہ کسی کا ممنون نہیں ہوتا تھا‘‘ (۱۱۳) ان ساری باتوں سے بظاہر یوں لگتاہے کہ میرا جی کی باطنی شخصیت ایک اخلاقی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی شکست و ریخت کی زد میں بھی تھی۔ لیکن بغور دیکھا جائے تو وہاں وہ ایک توانا شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے آپ پر اعتماد تھا بلکہ ان کے اکثر فیصلے جچے تلے اور سوچے سمجھے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے تھے بغیر کسی جھجک کے کہہ ڈالتے تھے۔ چنانچہ ان کے فن اور ان کی زندگی پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھائی گئیں مگر وہ ہر طرف سے بے نیاز اپنے بنائے ہوئے راستوں پر خاموشی سے چلتے رہے (۱۱۴)۔ خود انہوںنے اپنا یہ اصول بنا لیا ہے کہ میرا ذہن جو سوچتا ہے اور دل جو چاہتا ہے وہی کرتا ہوں ‘‘ (۱۱۵)۔ وہ اپنی گفتگو سے اپنی شخصیت کا بھرپور احساس کرواتے تھے۔ اور بڑے مدبرانہ اندازسے بات کرتے جس میں ایک سلیقہ ہوتا۔ ایک دو لفظ بولتے تھے۔ وہ بھی کھرج میں۔ معقول گفتگو کرتے تھے مگر مختصر (۱۱۶)۔ ان میںایک صفت یہ تھی کہ جس سے دو باتیں کی وہ ان کی طرف کھینچ گیا ان کی کھرج دار آواز جب کسی محفل میں گونجتی تو ان کے مخالف بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے کیونکہ ان کی آواز کی گھمبیرتا سے ان کی چھپی ہوئی فکر اور ذہانت کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ وہ اپنی بات ہمیشہ کھنکھار کر شروع کرتے… جہاں تک ہم جانتے ہیں جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے…احمد بشیرنے لکھا ہے وہ دھونس اور جبر سے بات کرتا تھا۔ اس کی بات کوجھٹلانا کفر تھا۔ وہ اپنی سانپ کی سی آنکھیں نکال کر گھورتا تھا اور اپنے الجھے ہوئے بالوں کوجھٹکتا تھا۔ (۱۱۷) ممتاز مفتی بتاتے ہیں: ’’میں نے میرا جی کے دونوں روپ دیکھے ہیں ہم کیانہیں ہیں اور یہ بھی کہ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں…میرا جی نے انتقاماً خود اپنی شخصیت کے پرزے پرزے کر کے انہیں اڑا دیا(۱۱۸)‘‘ لیکن اس پرزے پرزے کرنے میںبھی ایک منصوبہ بندی تھ۔ اپنی ذاتی زندگی کے متعلق وہ اسی حالت میںمنصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔ ان دوں انہیںیہ دھن سمائی تھی کہ ایک دن ریڈیو سٹیشن کا ڈائریکٹر بن کے دم لوں گا۔ چنانچہ وہ حساب لگایا کرتے تھے کہ اس کام میں کتنا عرصہ لگے گا… جب وہ یہ بتانا شروع کرتے کہ آدمی سٹیشن ڈائریکٹر کس طرح بنتاہے تو مجھے ان سے ڈر لگتاتھا (۱۱۹)۔ انہیں متفرق کام کرنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک زمانے میں انہیںکپڑوں کے ڈیزائن مطالعہ کرنے کا شوق ہوا۔ کہا کرتے تھے کہ جب شادی ہوگی تو بیوی کو مشورہ تو دے سکوں گا۔ (۱۲۰)پھر ایک زمانے میں انہوں نے پان بنانا سیکھا تھابلکہ اپنے مخصوص ہنر کے ساتھ ساتھ اس فن کے بھی دو چار نئے طریقے ایجاد کیے تھے… دس منٹ میں تو ان کا ایک پان بنتا تھا (۱۲۱)۔ اس فنکاری اور رکھ رکھائو کااظہار خاص طور پر حلقہ ارباب ذوق میں دیکھنے کے قابل ہوتاہے۔ وہ جب کسی معاملے پرمتانت اور گرم جوشی سے بحث کرتے تواس کے سارے پہلوئوں کا اس طرح احاطہ کرتے کہ بحث تقریباً ختم ہوجاتی اور یوں لگتا کہ جیسے اب اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہیںرہی۔ لیکن دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ کج بحث یا ڈکٹیٹر قسم کے شخص نہیںتھے۔ جب مخالف بہتر دلیل کے ساتھ بات کرتا تو قائل ہوجاتے اور برملا اپنی غلطی کا اعتراف کرتے۔ گفتگو کرتے ہوئے ساحرانہ انداز سے مخاطب کی آنکھوں میںدیکھتے لیکن شائستگی کا پہلو ہاتھ سے نہ چھوڑتے ۔ ان کی قوت برداشت اور رواداری کی غیر معمولی تھی۔ شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں: ’’میرا جی کومیںنے کبھی کسی سے بدزبانی کرتے نہیںدیکھا۔ وہ تو کسی سے مذاق تک نہیں کرتے تھے۔ ان کا رکھ رکھائو ایسا تھا کہ کیا مجال کوئی ان سے ناشائستہ بات کرے ادب آداب ہمیشہ ملحوظ رکھتے ان کی بھونڈی وضع قطع پر بے تکلف دوست پھبتیں کستے مگر وہ صرف مسکرا جاتے اور کبھی الٹ کر کوئی سخت جواب نہ دیتے‘‘۔ (۱۲۱) لیکن دوسری طرف تند مزاجی بھی طبیعت کا ایک حصہ تھی۔اخلاق احمد دہلوی بتاتے ہیں: ’’میرا جی خوش باطن تھے اتنے ہی تند مزاج جتنے منکسر المزاج اتنے ہی انائیت کے قائل۔ شاعرکا دل محتسب کا دماغ اور فوجی چال ڈھال رکھنے کی وجہ سے وہ اکثر اوقات اپنے دوستوں کے سنبھالے سے نہ سنبھلتے ۔ وہ بے قاعدگیوں تک میں باقاعدگی اور ایک خاص نوع کے نظم و ضبط کے قائل تھے وہ ہنسی مذاق تک میں سنجیدہ رہتے اورزیادہ سنجیدہ رہنے کو بدمذاقی سمجھتے (۱۲۳)۔ اور تیسری طرف یہ عالم بھی تھا کہ کسی کے مزاج کی نزاکتیں شخصیت کا البیلا پن۔ معصومیت اور انفرادیت کی بے نام سی جھلک متاثر کرتی تو وہ بڑی شدت سے جذباتی طور پر اس سے وابستہ ہو جایت۔ لیکن اس وابستگی میں ایسا نکھار اورسبھائو تھا اتنا وقار اورپاکیزگی تھی کہ کبھی بھولے سے بھی وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار نہیں کرتے تھے (۱۲۴)‘‘۔ ترتیب و بے ترتیبی سلیقہ اور بے سلیقگی کا یہ امتزاج ان کی شخصیت کا حصہ تھا بظاہر اپنے نجی معاملات میں بڑے لاپروا دکھائی دیتے تھے مگر انہیں دوسروں کے مقام حفظ مراتب ار محفل کی شائستگی کا بڑا احساس ہوتا تھا سوائے پونا کے اس مشاعرے کے جس میں انہوںنے حاضرین کی طرف پیٹھ کر کے غزل پڑھی تھی ان کی زندگی میںناشائستگی کا کوئی واقعہ نہیںملتا۔ انہوںنے شاید ہی کسی کو تم کہہ کر مخاطب کیا ہو انہیںایسے لوگ سخت ناپسند تھے جو شائستگی کے معیار پر پورے نہیں اترتے ۔ تہذیبی رکھ رکھائو کی پاسداری انہیں بڑی عزیز تھی۔ نسیم الظفر نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ دہلی میں کسی والئی ریاست کے اعزاز میں ایک دعوت تھی۔ کھانے کے بعد محفل رقص و سرود کااہتمام کیا گیا اور اس کے لیے دہلی کی ایک نامور مغنیہ کو بلایا گیا۔ گانا شروع ہوا تو والئی ریاستنے بڑی نخوت اور رعونت سے اپنے گے کا ست لڑ ا بیش قیمت جڑائو ہاار اتار کر انعام کے طور پر مغنیہ کی طرف پھینکا۔ اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ بھرپور نگاہ اس نے محفل پر ڈالی ارو گانا ختم کر دیا۔ پھر بڑی نفرت سے وہ جڑائو ہار اٹھا کر وائی ریاست کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ موسیقی ایک فن ہے اورگانے والے فنکار نذر قبو ل کرتے ہیں بھیک نہیںلیتے ۔ نذر پیش کرنے کے آداب ہوتے ہیں وہ سیکھیے اورپھر گانا سنیے اس اندا ز تمکنت سے میرا جی اس قدر متاثر ہوئے کہ جب تک وہ زندہ رہی میرا جی اس کے گیت گاتے رہے‘‘۔ (۱۲۵) دوسروں کی یہ پرکھ ان کے مشاہدے اور زندگی کے گہرے تجربے کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعے کی دین تھی۔ پڑھنے اور اشیاء پر غور کرنے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا اور ایک لحاظ سے اسے ان کا خاندانی ورثہ سمجھا جاتاتھا۔ ان کے آبائو اجداد بھی علم کے رسیا تھے۔ علم حاصل کرنا اور اسے تقسیم کرنا ان کا خاندانی شغل تھا۔ احمد حسن دانی کا کہنا ہے کہ ڈار اصل میں لفظ دھر سے بنا ہے سنسکرت میں اس کے معنی مضبوطی سے پکڑنا ہے۔ یہ لوگ (ڈار) وید پڑھاتے تھے مگر برہمن نہیں تھے۔ تعلیم دینا ان کا پیشہ تھا۔ (۱۲۶) کشمیر میں میراجی کے آبائو اجداد کایہی کام تھاکہ وہ مذہب کی تعلیم دیتے تھے مگر اسے انہوںنے روٹی کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا (۱۲۷) چنانچہ علم حاصل کرنا اور علم پھیلانا میرا جی کی گھٹی میں موجو د تھا۔ شاہد احمد دہلوی کہتے ہیں لاہور کی دیال سنگھ لائبریری میں وہ چاٹ چکے تھے۔ (۱۲۸) دہلی میںبھی ان کے رہنے کا کمرہ کتابوں سے بھرا پڑا تھا ان میں کچھ کتابیں لاہور کی لائبریریوں کباڑیوں اور دیگر ذرائع سے اکٹھی کی ہوئی تھیں اور علم و ادب کا یہ خزانہ انہوںنے اپنے ہاتھ سے محفوظ کیاتھا۔ (۱۲۹) مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے شوق کا دوسرامیدان موسیقی تھا۔ راگوں میں جے جے ونتی بہت پسند تھا۔ یہ راگ جب وہ گاتے یا سنتے تو رونے لگتے۔ کامی کا کہنا ہے کہ ایک بار وہ میرا جی اور ان کے دوستوں کو وائلن سنا رہے تھے میرا جی نے فرمائش کی کہ جے جے ونتی گائو۔ کامی نے راگ شروع کیا۔ میرا جی پر آہستہ آہستہ جذب طاری ہونے لگا یہاں تک کہ انہوںنے پلنگ کے پائے کے ساتھ سر مارنا شروع کر دیا۔ جے جے ونتی سن کر ان پر وجد طاری ہو جاتاتھا۔ اخلاق احمد دہلوی ان سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’’میرا جی نے گانا شروع کیا … اور گاتے گاتے رونے لگے… پھر خود ہی کہا مجھے جے جے ونتی راگ بہت پسند ہے یہ جب میں خود گائوں یا کسی اور سے سنوں تو مجھے رونا آ جاتاہے۔ (۱۳۰) قیام دہلی کے دوران وہ ہر صبح پرارتھنا کرتے تھے اور رات کے پچھلے پہر اٹھ کر بڑی کھرج کے ساتھ میرا بائی کا بھجن… جاگو بنسی والے للتا جاگو میرے پیارے…گایاکرتے تھے‘‘۔ سید انصار ناصری کہتے ہیں انہیں موسیقی سے بڑا لگائو تھا۔ ان کے پاس Sense of Rythmبہت اچھا تھا۔ یہ بات ان کی شاعری میں بھی موجود ہے کہ وہ تراکیب اور ناچ کی Descriptionبہت عمدگی سے پیش کرتے ہیں (۱۳۱)بنگال سے ان کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی رہی تھی اگرچہ ان کے دوست اس کی وجہ میرا سین کا بنگالی ہونا بتاتے ہیں۔ لیکن اس کی بنیادی وجہ ایک تو بنگال کا اسرار ار دوسری بنگالی موسیقی اور ناچ کی جسمانی کشش ہے۔ میرا جی کا بہت سا لگائو اور پسند جنسی تلذذ سے منسلک ہے۔ بنگال سے ان کی دلچسپی کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہ دلچسپی دہلی کے دوران بہت بڑھ گئی تھی۔ جنگ کے زمانے میں ڈیرہ دارطوائفیں تقریباً ختم ہو چکی تھیں اوران کی جگہ دہلی کی ٹانڈہ بازار میں جسم فروشی کا کاروبار پھیل گیا تھا۔ ان عورتوں کو ٹکے بائیاں کہا جاتا تھا (۱۳۲) ڈیرہ دار طوائفوں کے اٹھ جانے سے گانے اور مجرے کا قحط سا پڑ گیا تھا۔ ادھر کلکتہ تک جنگ کے اثرات اور جاپانی وسعت پسندی کے چرچے نے بے شمار بنگالی خاندانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد دہلی میں موجود تھی۔ جو رقص و موسیقی کے خلا کو پر کر رہی تھی۔ (۱۳۳) ان کی ایک معقول تعداد ریڈیو پر بھی آتی تھی۔ میرا جی ان میں بڑی دلچسپی لیتے تھے ان کی دلچسپی کی اصل وجہ بنگالیوں کا لباس تھا۔ وہ ساڑھی کے نیچے صرف چولی پہنتی تھیں اور آدھے سے زیادہ پیٹ اور بازو ننگے ہوتیتھے میرا جی بنگایوں سے دلچسپی کی یہی وجہ جسمانی نمائش تھی۔ بعد میں رفتہ رفتہ بنگال کا سحر ان پر حاوی ہوتا گیا ان کی شاعری میں ناچ کے اکثر انگ اور بھائو بنگالی رقص سے متاثر ہیں (۱۳۴) اخلاق احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ ایک بار میرا جی شراب اورآموں کی نذر چڑھانے غالب کے مزار پر گئے اورمزار کے سرہانے پہنچ کر کہنے لگے: میں بھی آپ کی طرح ایک بنگان میرا سین کا پجاری ہوںَ آپ نے کہیں اپنی بنگان محبوبہ کا بالمشافہ ذکر نہیںکیا لیکن میرے لیے آپ کے اس شعر میں کافی اشارہ موجود ہے کہ: کلکتہ کاجو نام لیا تو نے ہم نشیں اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے اور پھر بنگال کے جادو سے تو آپ بچ نہ سکے اور نہ میں… آپ اور میں دونوں بنگال کے حسن اور شراب کی سرمستی کا شکار ہیں (۱۳۵)۔ یہ نشہ کا اثر تھا یا اداکاری ہر دو صورتوں میں ان کی معصومیت اور خلوص اس میں موجود تھا اور دیکھا جائے تو اداکاری بھی اصل میں اپنے اندر کے انسان کو ظاہر کرنے کاایک وسیلہ تھی۔ قیوم نظر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دبی ہوئیی خواہش کو کبھی ہیرو اورکبھی ولن کے روپ میں دیکھا کرتا تھا(۱۳۶)۔ میرا جی کے بارے میں یہ سوال تو بار با ر اٹھایا جاتا ہے کہ ان کی ساری زندگی ایک اداکاری تھی ۔ کیونکہ وہ جو کچھ بظاہر نظر آتے تھے اندر سے ویسے نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ جزوی طور پر درست ہے کہ میرا جی باہر سے جتنے گندے اور بعض اوقات اکھڑ دکھائی دیتے تھے اندر سے اتنے ہ معصوم اور نرم دل تھے۔ بڑ ے زود حس کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کسی کو تکلیف پہنچانا تو دور کی بات تھی۔ ان کے دوست کا ایک چپڑاسی انہیں بہت پسند کرتا تھا۔ اور جب بھی میرا جی وہاں جاتے وہ انہیں ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کرتا۔ میرا جی اس کے خلوص سے اتنے متاثر ہوئے کہ پیا س ہو یا نہ ہو اس کی دل جوئی کے لیے پانی ضرور پیتے (۱۳۷)۔ اخلاق احمد دہلوی کا کہنا ہے کہ وہ دوستوں سے لے کر تانگے والوں اور فقیروںتک سے یکساں سلوک کرتے تھے۔ (۱۳۸)۔ وشونندن بھٹنا گر کا بھی یہ کہنا ہے کہ وہ دہلی ریڈیو سٹیشن کے کم تنخواہ پانے والوں کے بہت دوست تھے اور ان کی ضروریات کا اکثر خیال رکھتے تھے۔ (۱۳۹) بمبئی کے دوران قیما میں بھی جب ان کی مالی حالت بہت زیادہ خراب تھی ان کا رویہ یہی تھا۔ نسیم الظفر نے بمبئی کے اسی دور کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن وہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’میں نے 2170روپے جمع کر لیے ہیں۔ مکالمے اور گیت کے پانچ ہزار ایک پروڈیوسر سے طے ہوئے ہیں۔ کل ایک ہزار پیشگی مل جائے گا۔ بس اب میں ایک مہینے کے لیے لاہور چلا جائوں گا۔ اس وقت وہا ں ایک مشہور ترقی پسند شاعر بیٹھے تھے۔ انہوںنے میرا جی کی بات سن کر رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ اگر دو ہزار کہیں سے مل جائیں تو اپنی ایک بہن کو سینی ٹوریم میںداخل کرا دوں۔ تپ دق کادوسرا سٹیج ہے جان بچ سکتی ہے لیکن دو ہزار کہاں سے لائوں۔ ی کہہ کر وہ رونے لگے۔ میرا جی نے کہا دو ہزار کل تم مجھ سے لے لینا۔ مجھے ہزار کل مل جائیں گے۔ ایک آڈھ مہینے میں کوئی بندوبست ہوجائے گا ۔ چلو جہاں اتنے دن لاہور سے دور گزرے وہاں کچھ اور سہی میں دو تین دن کے بعد لاہور چلا جائوں گا‘‘۔ (۱۴۰) لاہور جانا تو انہیں نصیب نہ ہوا لیکن مدد کرنے میںدریغ نہ کیا۔ دہلی ریڈیو سٹیشن پر لوگوں کی عرضیاں لکھنے سے لے کر ان کے لیے قرض تک کا انتظام کر دیا ان کی ذمہ داری میں شامل تھا۔ (۱۴۱) ان کے دوست محمد حسین نے سعید الدین احمد ڈا ر کو بتایا تھا کہ جب انہیں چیک ملتا تو اسے کیش کرا کے پہلے تو ادھار ادا کرتے اس کے بعد ا س شام کی ضرورت یعنی شراب کے لیے رقم علیحدہ کرتے۔ اس کے بعد جو بچتا جو سب سے پہلے سامنے آتا اس کے حوالے کر دیتے ۔ اوربھول جاتے۔ (۱۴۲) صبر و توکل کی یہ روایت انہیں اپنے والد منشی محمد مہتاب الدین سے ورثے میں ملی تھی۔ منشی صاحب کا بھی یہی کہنا تھا کہ جو ک کے لیے سوچتا ہے اس کا ایمان کمزور ہے۔ (۱۴۳) ریٹائرمنٹ ککے بعد منشی صاحب کی مالی حالت خاصی خراب ہو گئی تھی۔ پنشن نہ ہونے کے برابر تھی۔ کمانے والا صرف ایک ہی بیٹا محمد عنایت اللہ ڈار تھا جس پر گھر کا کاروبار چلتا تھا۔ منشی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد انجمن حمایت اسلام کے اعزازی بلڈنگ انجینئر تھے۔ مزنگ سے پیدل چل کر ریلوے روڈ انجمن کے دفتر میں آتے لیکن انجمن سے ایک پیسے کی مالی امداد لینا انہیں گوارا نہ تھا ۔ (۱۴۴) یہ ساری خوبیاں یعنی دوسروں کے لیے ایثار کرنا اور خود دکھ اٹھانا میرا جی میں بھی موجود تھیں۔ قیام بمبئی کے دوران جب وہ شدید قسم کے مالی بحران سے دو چار تھے تب بھی وہ اس طرح کے ایثار سے گریز نہیں کرتے تھے۔ سجاد ظہیر نے اس زمانے کا ایک واقعہ بیان کیاہے: ’’بمبئی کے ایک مرکزی مقام انجمن اسلامی ہائی سکول کی خوب صورت ہال میں ایک ادبی اجتماع ہوا۔ جلسے کے خاتمے پر ڈیڑھ سو روپے ہی ملے تھے۔ جو ہماری توقعات سے کم تھے۔ لوگوں نے ایک ایک و دو روپے اٹھنیاں چونیاں دینا شروع کر دیں اور اس طرح سو روپے کے قریب اور جمع ہو ئے میرا جی بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ ہم سب جانتے تھے کہ ان کی مالی حالت کافی خراب ہے۔ لیکن اہوںنے اپنی جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر چندے کی جھولی میں ڈال دیا اورخود لوگوں سے زیادہ چندہ دینے کی اپیل کی۔ ہم سب میرا جی کی اس سخاوت سے بہت متاثر ہوئے ا س یے کہ وہ ہمیشہ اس بات کا بھی اعلان کرتے رہتے تھے کہ وہ اصولی طور پر ہم سے اختلاف کرتے ہیں ‘‘۔ (۱۴۵) دوسرو ں کے لیے کچھ کرنا ان کی تعریف کرنا اروانہیں Projectکرنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن اپنے بارے میں ہمیشہ ایک صوفیانہ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے حتیٰ کہ بے موقع کلام سنانے سے بھی گریز کرتے۔ ایک بار حیدر آباد دکن کے ایک مدیر نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس محفل میں اختر الایمان ابراہیم جلیس اور مظہر مختار بھی شریک تھے۔ دعوت بڑے اہتمام سے کی گئی۔ میرا جی اس مہمان نوازی سے بڑے متاثر ہوئے لیکن جب کھانے کے بعد مدیر نے میرا ج سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو انہوںنے بہت برا منایا اور کہا کہ یہ مناسب موقع نہیں ہے۔ (۱۶۴) یہ اور اس طرح کے دوسرے رویے توکل ہی کی دین تھے۔ لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ برداشت اور خود پسندی کا رویہ صبر و قناعت اور توکل کی حدوں سے نکل کر میرا جی کے یہاں خود اذیتی میں بھی بدل جاتا ہے۔ خود اذیتی کس وجہ سے تھی؟ عمومی محرومیوں کی وجہ سے یا نا آسودہ جنسی جذبوں کی وجہ سے؟ وجہ کچھ بھی ہو یا دونوں ہی ہوں میرا جی اس کا اظہار عموماً رو کریا خود کو تکلیف پہنچا کر کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں کئی واقعات ا س طرح کے ہیں کہ وہ شراب پی کر بے تحاشا روتے یا اپنے آپ کو اذیت دیتے۔ آملیٹ بنانے کے عمل میں تو خیر دوسرے بھی شامل تھے لیک نکبھی کبھی وہ اپنا آملیٹ بھی بنا دیتے تھے۔ قیا م دہلی کے دوران اس طرح کے واقعات زیادہ ہوئے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب تک وہ والدہ کے ساتھ رہے ان کی طبیعت میں اس طرح کی شدت پسندی پیدا نہیں ہوئی لیکن جب وہ ان کے دائرہ اثر سے دور ہوئے تو ان کے مزاج میں تشدد کا عنصر بڑھ گیا۔ بعض اوقات یہ تشدد اس حد تک بڑھ جاتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بھی لہولہان کردیتے تھے۔ اخلاق احمد دہلوی قیام دہلی کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ’’میرا جی ایک صبح خون میں رنگے ہوئے نظر آئے… تحقیق کے بعد سب سے زیادہ جارح غالب کا یہ شعر تھا جس کا عکس اس صبح میرا ی کی مضروب پیشانی پر دیکھا گیا ۔ شعر یہ تھا: قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا خوں بھی ذوق درد سے فارغ مرے تن میں نہیں اس شعر پر میرا جی کے ہاتھ کا الٹا اوم کانشان بھی تھا۔ جس سے شک ہوتا تھا کہ سارا کارنامہ خود کردہ ہے۔ (۱۴۷) اس طرح کی خود اذیتی کے اور بھی کئی واقعات ہیںجن سے ظاہر ہوتاہے کہ میرا جی خو د کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ا ن کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ ملامتی خو د کو برا بھلا کہہ کرایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ میرا جیکے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی صورت پیدا کر دی تھی۔ لیکن مکمل طورپر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہت سے اثرات سے مل کر وہ کچھ بنا وہ خالصتاً میرا جیت تھی اعجاز احمد کہتے ہیں: ’’بھگتی تحریک کے کچے پکے مطالعے سے اخذ کیا ہوا یہ نظریہ کہ خدا دراصل ایک اصول حسنہے عورت اس اصول کا پرتوی اسم ہے ورخدا کی پرستش کی ایک امکانی اور ضروری شکل یہ ہے کہ عورت کے ساتے بے لوث اور بے لاگ محبت کر کے اپنی ذات اسی عشق میںجذب کر دی جائے‘‘۔ (۱۴۸) اس بات سے قطع نظر کہ میرا جی نے بھگتی تحریک کو کس حد تک سمجھا تھا‘ میرا جی کے وسیع مطالعے اور خصوصاً قدیم ہندوستانی مزاج کے ساتھ ان کی ہم آہنگی سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ انہوںنے امکانی حدوں تک بھگتی تحریک سمجھنے کی کوشش کی ہو گی۔ میرا بائی سے ان کی دلچسپی کی وجہ بھی یہی تھی۔ دراصل میرا جی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ کوئی بیروین اثر مکمل طورپر اپنے آ پر طاری نہیںکر سکتے تھے کیونکہ خود ان کی اپنی ذات میںایک انانیت اور خارج کے لیے دفاعی رویہ موجود تھا۔ اصل صورت یہ ہے کہ میرا جی نے دانستہ طور پر اپنی زندگی کے تاروپور اور شخصیت کی بنیاد حقیقت کی بجائے تصور کے دھندلکے پر تعمیر کی جس کے نتیجے میں وہ ایک پر اسرار کردار بن گئے ابتا میں اس کردار میں ایک شعوری کوشش بھی شامل ہو گی لیکن آہستہ آہستہ اس کردار کی اسراریت اتنی بڑھتی گئی کہ ان کے معمول کے عمل اس سے متاثر ہون لگے اور رفتہ رفتہ وہ پور ی زندگی میںایک غیر معمولی شخصیت بن کر رہ گئے۔ ا س حوالے سے میرا جی کے اخلاق عورتوں سے ان کے رویے جنسی تشنگی اور اس کے اظہار کا جائزہ لیا جائے تو کوئی چیز نا مانوس محسوس نہیں ہوتی۔ مادہ پرست لوگ عام طورپر ہر عورت میں ماں کی تلاش کرتے ہیں اسی لیے جسمانی قربت سیگریز کرتے ہیں لیکن دوسری جانب اس گریز کی وجہ سے ان کے اندر ایک شدید جنسی طلب پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگ عام طور پر جلق لگانے لگتے ہیں۔ میرا جی بھی جلق لگانے کے عادی تھے۔ انہیں ساری زندگی کسی عورت کی جسمانی قربت میسر نہ آئی۔ شاہد احمد دہلوی کے مطابق میرا جی نے اپنی ساری عمر میں پہلا اور آخری جنسی معاملہ کیا۔ لاہور کی ہیرا منڈی میں کسی کے یہاں پہنچ گئے۔ اس نے اپنی یاد دلانے کے لیے آتشک کا تحفہ دیا۔ یہ تحفہ میرا جی کے پا س آخری دم تک رہا (۱۴۹)۔ قیوم نظر نے بھی اس سے ملتے جلتے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے ’’ایک بار میرا جی شدید جنسی خواہش کے تحت ایک طوائف کے پاس گئے مگر جب وقت خاص آیا تو وہ بالکل ہانپ گئے اور انہیں محسوس ہوا جیسے اس معاملے میں ساتھ دینا ان کے بس کی بات نہیں چنانچہ وہ اسی طرح جیسے گئے تھے واپس آ گئے (۱۵۰) ۔ ان دونوں واقعات میں کچھ مماثلتیں ہیںاول یہ کہ میرا جی کسی نفسیاتی الجھن کی وجہ سے جنسی معاملہ نہ کر سکے۔ دو م وہ ایک طوائف سے آتشک کی بیماری لے کر لوٹے۔ جنسی معاملہ نہ کرسکنے کی وجہ تو مادر پرستی ہے۔ رہی آتشک کی بات تو یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جنسی ابال کو تیز کر دیتی ہے۔ جذبہ تو شدت سے پیدا ہوتاہے لیکن عمل میں رکاوٹ آ جاتی ہے (۱۵۱) میرا جی نے اس کی آسان راہ خود لذتی میںڈھونڈی۔ یہ آسانی سے ان کے مزاج کو بھی راس آتی تھی چنانچہ بغیر استر کی پتلون ہاتھو ں کے گولے اسی بے حد بے چینی کی علامت ہیں۔ منٹو نے لکھا ہے: ’’اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی جنسی اجابت عام طورپر ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیوز میں ہوتی ہے جب یہ کمرے خالی ہوتے تھے تو وہ بڑے اطمینان سے اپنی رفع حاجت کر لیا کرتا تھا‘‘۔ (۱۵۲) اس حاجت روائی کے لیے وہ خام مواد کے طور پر ان لڑکیوں کے تصور سے کام لیتے تھے۔ جنہیںوہ عام زندگی میںاپنا نہیں سکتے تھے۔ ان کے دوستوں نے لکھا ہے کہ انہیں بچپن ہی سے انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور اکثر ان کی جیبوں میں ایکٹرسوں کی نیم عریاں تصویریں ہوتی تھیں۔ (۱۵۳) دہلی ریڈیو سٹیشن پر بنگالیوں کے نیم عریاں جسموں میں بھی ا ن کی دلچسپی کا بہت سامان تھا۔ اس کے علاوہ وہ باقاعدگی سے جنسی لٹریچر بھی پڑھتے تھے۔ سید انصار ناصری بتاتے ہیں۔ اس زمانے میں Haveloc Eles Marie Stopesاور Case Novaان کے مسلسل مطالعے میں تھی۔ اس کے علاوہ وہ اکثر اپنے دوستوں کو Sex Obsessionسنایا کرتے تھے۔ جنہیںوہ انگریزی ناولوں یا سیکس کی کتابوں میں پڑھتے تھے ان قصوں کو وہ مزے لے لے کر کرئی بار سناتے اور ایسی حالتوں میں ان کی کیفیت ایک جنسی نفسیاتی مریض (Sexual Manic)کی سی ہوتی تھی۔ (۱۵۴) اس طرح کے قصے اور جنسی مواد کے مطالعے سے بھی انہیں خام مواد میسر آتا تھا۔ لیکن جیساکہ اس طرح کے معاملات میں عموماً ہوتاہے۔ کہ تشنگی کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اور خام مواد بے اثر ہو جاتا ہے۔ بمبئی میںقیام کے زمانے میں دہلی ریڈیو سٹیشن کی بنگالی خواتین اور ان کا قرب میسر نہ رہا تو ان کی نفسیاتی طلب میں مریضانہ اور وحشیانہ انداز پیدا ہو گیا منٹو بتاتے ہیں: ’’ایک مرتبہ معلوم نہیںکس سلسلے میں اس کی اجابت جنسی کے خاص ذریعے کا ذکر آگیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے لیے اب خارجی چیزوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی ٹانگیں جن پر سے میل اتارا جا رہا ہو یا خون میںلتھڑی ہوئی خموشیاں‘‘۔ (۱۵۵) اس خارجی مدد میں کراہیت کا جو پہلو ہے اس سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ میرا جی کے تصور نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور آخری دور میں تصورات کی خوشگوار حدت اور نرم روئی کی جگہ اس طرح کی خارجی مدد کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ ان خارجی سہاروں کی نفسیاتی گرہ کشائی بھی معنی خیز ہے۔ خون میں لتھڑی ہوئی خموشیاں نسوانی جائے مخصوصہ کے ساتھ خون کے جس تصور کر پیش کرتی ہیں اس میں کسی کنواری عورت کے معاملہ کرنے کی شدید خواہش بھی موجود ہے۔ میرا جی شاید ساری زندگی کسی بھی عورت سے معاملہ نہ کر سکے۔ یہ خواہش تمام عمر ان کے اندر موجود رہی۔ او ر اس کی طلب نے انہیں عجیب و غریب نفسیاتی الجھنوں کا شکار بنائے رکھا۔ ان الجھنوں نے ان کے لیے جس اخلاقی ضابطے کو وضع کیا وہ بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ ایک طرف تو وہ ہر عورت کو اپنے ویژن کی آنکھ سے برہنہ دیکھنا چاہتے تھے اور دوسری طرف ان کے اندر ایک روحانی باپ کا سا پیار اور شفقت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ میرا جی نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران بہت سی بھتیجیاں اور بھانجیاں بنا رکھی تھیں جن سے وہ بالکل باپ کا پر شفقت برتائو کرتے تھے۔ (۱۵۶) خود کو باپ کے روپ میں دیکھنے کی تمنا ان ہی محرمیوں کا رد عمل تھی۔ میرا جی نے شادی نیںکی کیوں؟ مالی مجبوریاں شخصیت کا سحر ٹوٹ جانے کا ڈر یا جنسی کمزوری؟ مالی مجبوریاں معقول وجہ نہیں البتہ شخصیت کا سحر ٹوٹ جانے کا خوف اور جنسی کمزوری دونوں ہی معقو ل وجوہ ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر انہو ں نے عملاً شادی نہیں کی لیکن ذہنی طورپر باپ بننے اور شادی کرنے کی تمنا ان کے اندر ہمیشہ موجود رہی یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں محبوبہ کا روپ دلہن کی صورت میں دکھائی دیتا ہے اور محبوبہ بار بار دلہن کی شکل میں سامنے آتی ہے الطاف گوہر کہتے ہیں۔ آج تک شاید اس بات پر توجہ نہیںدی گئی کہ میرا جی کی شاعری میں عورت کا سب سے گہرا اور سب سے حسین تصور دلہن کا ہے۔ یہ تصور میرا جی کے تصور وقت سے وابستہ ہے۔ اس تصورمیں ان کی زندگی کی سب سے بڑی ناکامی کا راز ہے۔ اس تصور کے ساتھ شہنائی کی گونج ہے گھر میں خوشیوں کا ہنگامہ ہے۔ رنگوں میں ڈوبی ہوئی دلہن ہے۔ اور روزن در سے جھانکتا ہوا ایک اکیلا تنہا شخص ہے جسے سرد دیوار کی ہنستی ہوئی سنائی دیتی ہیں اور لمحے اپنے دامن میں یہ سب کچھ لیے ہوئے گزرے جاتے ہیں۔ (۱۵۷) میرا جی کی شاعری میں عورت کے تین روپ ہیں ماں طوائف اور دلہن لیکن بنیادی کردار دلہن کا ہے ایک ایسی دلہن جسے پاے اور دیکھنے کی انہیں شدید تمنا تھی۔ فتح ملک کہتے ہیں۔ ’’میرا جی کے گیتوں اور نظموں میں دلہن بہن اور ماں اور بچوں کے لہجوں اور مکالموں کا آہنگ شنیدنی ہے تو ایک اچھوتی انجان کنواری دلہن کی تصویر دیدنی ہے۔ یہ دلہن پری زاد نہیں ہے متوسط طبقے کی عام سی صورت ہے جو ہماری دیکھی بھالی ہے اور جس میں ہمیں شاعری اور رومان کی کوئی ادا نظر نہیں آتی مگر میرا جی کے ہاں وہ بے حد دل کش کردار ہے۔ خوشیوں کے جھولے میں جھولنے کی تمنا ئوں کوسینے میں چھپائے یہ دلہن میرا جی کی شاعری میںہر جگہ موجود ہے۔ کہیںپس منظر میں تو کہیںپیش منظر کے طور پر‘‘۔ ۱۵۸) میرا جی نے اپنی شاعری میں دلہن کو باقاعدہ سنگار کرایا ہے اور اسے دیکھنے کے انتظار کی لذت کو محسوس کیا ہے۔ کیوں بہن! ہم نے سنا ہے کہ دلہن کی آنکھیں آنکھ بھر کر نہیں دیکھی جاتیں اور کہتی ہے بہن میرے بھیا کو ترا چائو ہے کیوں پوچھتا ہے اب تو دو چار ہی دن ہیں وہ ترے گھر ہو گی (اقتباس از تفاوت راہ) جس کے اس پار جھلکتانظر آتاہے مجھے منظر انجان اچھوتی سی دلہن کی صورت ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جائوں گا (اقتباس از لب جوئبارے) اور پھر اس سجی سجائی دلہن کو اپنے تصور کے نہاںخانے میں لے جانا اور اس تصور پر جلق لگا لینا کیا اس سے تسکین ہو جاتی ہے یا ہو سکتی ہے جلق کے مریضوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جتنی زیادہ جلق لگاتے ہیں تشنگی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ خرابی احساس گناہ کی ہے اوریہ خیا کہ ان کا عمل بے کار گیا میرا جی نے شاید اپنے احساس گناہ کو تو کوئی جواز فراہم کر دیا ہو لیکن یہ احساس وہ ختم نہ کر سکے کہ ان کے اس جنسی عمل کے نتیجے میں ان کی نسل آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ اپنے بے اولاد ہونے کا انہیںبڑا دکھ تھا۔ وہ ایک با ر آم اور شراب لے کر غالب کے مزار پر گئے اور کہنے لگے آم کھائیے اور اگر آپ چاہیں تو شراب بھی حاضر ہے انگور کی بیٹی کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انگور کے ہاں بیٹی ہوئی لیکن میں اس نعمت سے محروم ہی رہا۔ اورپھر میرا جی اپنی بیٹی کے نہ ہونے پر بے طرح روئے۔ دیر تک اس غم میں روتے رہے۔ (۱۶۱) اسی ضمن میں انہوں نے ایک شعر بھی کہا تھا جس کے راو ی ان کے بھائی لطیفی ہیں: زباں سے کہہ نہیں سکتا کسی کا باپ ہوں میں کہ اپنی نسل کے فقرے کا فل سٹاپ ہو ں میں(۱۶۲) دہلی کے قیا کے دوران انہوںنے بڑی سنجیدگی سے بادلی بیگم سے شادی کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی ہوئی۔ کچھ عرصہ خاموش رہے لیکن جب ن م راشد ایران چلے گئے تو ان پر پھر شادی کا دورہ پڑ گیا۔ ن م راشد کے ایران جانے کے بعد جب میرا جی نے شدت سے اپنے تئیں دل میں تنہا محسوس کیا اور شادی اور خود کشی کے لیے بچوں کی طرح مچلنا شروع کیا تو میرا جی کو ان کی ہلاکت آفرینیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھائی ہی پیش پیش تھے۔ (۱۶۳) شادی اور خود کشی کا یہ امتزاج بھی خوب ہے۔ لکھنو میںکچھ دن رہنے کے دوران میں انہیں شادی کا خیال آیا تھا۔ وہ اپنے دوست ایم اے لطیف کی بیوہ ہن سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ حیدر آباد میں انہوںنے مظہرممتاز کو بتایا تھا۔ ’’میں لکھنوجائوں گا وہاں لطیف کی بیوہ بہن سے شادی کر لوں گا۔ وہ میری طبیعت سے واقف ہے ‘‘ (۱۶۴) لیکن خود میرا جی کے مطابق … وقت کے گھیرے نے مجھے ایسا گھیرا ہے کہ میں چاہوں بھی تو نکل نہیں سکتا۔ (۱۶۴) قیام بمبئی میں بھی انہیں شادی کا جنون چڑھا تھا۔ ایک دن عصمت چغتائی سے کہنے لگے۔ خدا کا واسطہ میری شادی کرا دیجیے بھنگن ہو چماری ہو بس عورت ہو (۱۶۵) لیکن آہستہ آہستہ یہ خیال ان کے ذہن سے نکل ہی گیا۔ بمبئی کے آخری زمانے میں جب مظہر ممتاز نے انہیں بتایا کہ ایم اے لطیف کی بیوہ بہن ان دنوں بمبئی میںہیں تو وہ کہنے لگے: ’’اب تومیرا خیال بدل چکاہے۔ میں شادی نہیں کروں گا۔ مدتوں بعد خیال نکالا ہے شادی کرنے سے بات بگڑ جائے گی‘‘ (۱۶۷) دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی کے ابتدائی دور میں جب ان کی والدہ ان کی شادی کے لیے کہتیں تو وہ صاف انکار کر دیتے تھے۔ بہرحال ان کے دوسرے معاملات کی طرح شادی کا ماملہ بھی ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے جسے ان کی مجموعی الجھی ہوئی نفسیات ہی کے پس منظرمیں دیکھنا چاہیے۔ البتہ ایک بات اپنی جگہ ہے کہ اگر ان کی شادی ہو جاتی تو شاید ان کے بہت سے معمولات میں ایک اعتدال پیدا ہو جاتا۔ موجود صورت میں ان کی عادات میں غیر معمولی ہیجان پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک وجہ یہ بھی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ ا ن کے مداحوں نے بھی ان کے بعض رویوں کو افسانوی قرار دے کر ان کی زندگی میں ہی انہیںایک خاص ڈگر پر ڈال دیا۔ ان کی موت کے بعد بھی مسلسل ایسے خاکے اور مضامین لکھے گئے جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انہیں اپنی ذات سے باہر کسی اور مسئلے سے دلچسپی ہی نہ تھی خصوصاً ان کی نظموں کی جو تاویلیں ی گئیں ان سے ان ے ایک باطنی اور نفسیاتی شاعر ہونے کا تاثر اور بڑھا۔ دوسری وجہ یہ ہوئی کہ ایک عرصہ تک ان کے مضامین جو مختلف رسائل میں چھپتے رہے تھے نظروں سے اوجھل رہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی و تنقیدی شخصیت کا مکمل روپ سامنے نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسیاتی اور باطنی اعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرا جی ایک فعال سیاسی ذہن بھی رکھتے تھے۔ اور ان کے مضامین سے ان کے سماجی اور سیاسی رویوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک اہم بات تو یہی ہے کہ اپنی ہندووانہ ہئیت کذائی کے باوجود ان کے اندر ایک مسلمان موجود تھا جسے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل اور برصغیر کے معاملات سے گہری دلچسپی تھی۔ اپنے 24دسمبر 1946ء کے ایک خط میں قیوم نظر کو لکھتے ہیں: شالی مار مسلمانوںکا ادارہ ہے اور جس طرح مسلمانوں کے بارے میں مجھے یہ معلوم ہے کہ ان کا خدا ہی حافظ ہے اسی طرح ان کے اداروں کے متعلق بھی یہ دعا ہے کہ انہیں بھی خدا ہی سنبھالے تو ملک اور قوم کی بہتری ہو‘‘ (۱۶۸) تقسیم ملک کے وقت انسانی خون کی جو ارزانی ہوئی اس سے بھی میرا جی بہت پریشان ہوئے تقسیم کے بعد جو قتل عام ہوا اس کی خبریں سن سن کر میرا جی کو بے حد تکلیف ہوتی تھی۔ (۱۶۹) میرا جی کا جو ذہنی سفر ان کے ابتدائی دنوں میںشروع ہو ا تھا اور جس میں قیام دہلی کے دوران قدیم ہندوستانی مزاج بہت حاوی ہو گیا تھا آہستہ آہستہ ایک نئے رخ کی طرف گامزن ہوا خصوصاً ان کی آخری نظموں کے پہلے مجموعہ میرا جی کی نظمیں کے بعد کی نظموں میں ایک نیا فکری انداز ابھرا جو بمبئی کے قیام کے دوران واضح ہوا۔ اس انداز میں ہندی الفاظ کی بجائے اردو الفاظ کی شمولیت اور ہند آریائی فضا کی بجائے کسی حد تک عجمی روایت کی طرف لوٹنے کی فضا ملتی ہے۔ موضوعات میںبھی ایک تبدیلی دکھائی دیتی ہے یعنی جنس اور نفسیات کی بجائے مابعد الطبعیاتی مسائل بھی ان کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ جمیلہ شاہین ان کی اس دور کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے کہتی ہیں: ’’خیال‘‘ کے صفحات پابند نظمیں اور سہ آتشہ کی نظمیں ‘ اور غزلیں ہند آریائی فضا سے قطعاً عاری ہیں۔ ان رسالوں اور کتابوں میں میرا جی کا لب و لہجہ بالکل عجمی ہے۔ خدا طالب علم جز و کل ۔ آبگینہ کے اس پار کی ایک شام انجام روح انسانی کے اندیشے‘ صدا بہ صحرا ‘ لمحے اور غزلیات میں فارسی تراکیب بکثرت ہیں۔ عجمی آریائی فضا ہے۔ ہندی لفظ اول تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے ت وآگیا ہے لایا نہیں گیا اور وہ بھی ا س تیور سے کہ عربی اور فارسی کے رنگ میں ڈوبا ہوا۔ مزید ی کہ اس دور کی نظمیں پابند نظموں کی شان لیے اور ابہام سے یکسر خالی ہیں (۱۷۰) آخری زمانے میں ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ قرآن پر تحقیق کرنے کے لیے جرمنی جانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قرآن کی امثال پر آج تک کسی مذہبی عالم نے قلم نہیں اٹھایا۔ صرف ای کتاب ماوردی کی عربی میں موجود ہے مگر اس پر تحقیق ہونی چاہیے کیونکہ جب تک امثال کی ماہیت اور وجہ تسمیہ کو نہ سمجھاجائے قرآن کو نہیںسمجھا جا سکتا (۱۷۱) ۔ اختر الایمان نے بھی ان کی اسی طرح کی خواہش کا ذکر کیا ہے میرا جی نے جوائز کی کتاب Finnegan's Wakeمیں قرآن کو تلاش کییا ہے اور اس پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔ (۱۷۲) خود میرا جی نے اپے عقیدے کے بارے میں ممتاز کو بتایا تھا کہ ’’ یہ بات غلط ہے کہ میں نے اسلام کو ترک کیا۔ میں ایک خدا کو اب بھی مانتا ہوں مگر میں نے حضرت عمر فاروقؓ تک اسلام کو سمجھا ہے ا کے بعد مجھے اسلام کی اصل شکل نظر نہیں آئی لیکن مجھے قرآن پڑھ کر اور سن کر اب بھی غش آ جاتا ہے …جب میں دلی ریڈیو میں تھا تو وہاں اکثر قرآن سنا کرتا تھا ‘‘ اسی بات کی تصدیق اخلاق احمد دہلوی نے بھی کی ہے کہ دہلی ریڈیو سٹیشن پر تخلیہ میں قاری ظاہر قاسمی سے قرآن سنتے تھے اور روتے تھے۔ (۱۷۳) میراجی نے اسلامی علوم باقاعدہ تو نہیںپڑھتے تھے لیکن تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی ۔ والد کے توسط سے فارسی کا ایک ذوق انہیں ورثے میںملا تھا۔ جس کی نشوونما اردو کے کلاسیکی شعراء کے مطالعے سے بھی ہوئی ہو گی لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ صوفیانہ ذہن رکھنے کے باجوود وہ روایتی صوفی نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی تعلیم میں عربی فارسی کا باقاعدہ درس شامل نہیں تھا۔ (۱۷۴) لیک یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ وہ پیدائشی مسلمان تھے۔ اس لیے ان کا رہن سہن اور ہئیت کذائی کیسی ہی کیوں نہ ہو ایک بنیادی جذبہ ان کے اندر موجود تھا۔ لاہور میں یوسف ظفر سے اپنی پہلی ملاقات میں جب ان سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے کہ میرا اصلی نام حمد ثناء اللہ ڈار ہے۔ اس نام میں محمد کا لفظ آتا ہے کسی کو حق نہیکہ اپنے گندے منہ سے اس پاک لفظ کو ادا کرے (۱۷۵) یہ ان کے اندر کی آواز تھی۔ ایک پیدائشی مسلمان خواہ کتنا ہی بدل جائے اس کے اندر ایک مسلمانی روح ضرور موجود رہتی ہے۔ یہ اسی مسلمانی روح کا اثر تھا کہ بمبئی میں جب کرشن چندر کے ہاں رہ رہے تھے تو کرشن چندر نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ میرا جی مسلمان ہیں بلکہ پکے مسلمان ہیںَ ان کا نام ایک دھوکا ہے صبح سویرے وہ جے جے ونتی کا جو راگ الاپتے تھے وہ بھی محض فریب ہے۔ دراصل وہ مسلمان ہیں (۱۷۶) ۔ یہاں مسلمان ہونے کے معنی ایک باعمل مسلمان ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد کلچر مسلم ہے جو صوفیانہ روایت کاایک تسلسل ہے۔ یہ صوفیانہ رواداری میرا جی کے مسلک کاایک حصہ تھی اور اگرچہ شعید الدین احمد ڈار کے لفظوں میں ’’وہ روایتی صوفی نہیں تھے‘‘ (۱۷۷) لیکن ان کی پوری زندگی پر صوفیانہ قناعت اور توکل کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ وہ دراصل فتح محمد ملک کے لفظوںمیں ایک زندہ اور توانا ذہن رکھتے تھے اس لیے انہوںے کسی جامد نظریے کے پر فریب سکون سے آشنا ہونے کی بجائے اس اضطراب کو اپنایا جو حقیقت کی تلاش میںنئے نئے ویرانوں کی سیر کراتا رہا (۱۷۸) ۔ اس سیر میں انہوںنے اپنے آ پ کو بھی بہت بھلایا لیکن روح کے مرکزہ سے بہر حال ان کا کوئی نہ کوئی تلعق ضرور قائم رہا۔ اس تعلق کو عام معنوں میں مذہبی تو نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن وسیع تر معنوں میں اسے مذہبی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مذہب کے بارے میں مظہر ممتاز نے جواندازہ لگایا تھا وہ بہت حد تک درست معلوم ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ان کے (میرا جی کے) ایمان کے بارے میں جو اندازہ لگایا تھا وہ کچھ بھگت کبیر اور ابن تمیمہ کے درمیانی راستے کا نظر آتاتھا (۱۷۹) یہ درمیانی راستہ ان کے اندر موجو د تھا جو ظاہر میں صورت مختلف تھی اور سمجھنے والے سمجھ نہ پاتے تھے کہ وہ کیا ہیں کیونکہ ایک طرف بھجنوں اور ہندی گیتوں سے ان کی دلچسپی سب کو معلوم تھی دوسری طرف قوالی سن کر ان پر وجد اور جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ سید انصار ناصری بتاتے ہیں ’’جب کبھی کبھی ہم حضرت نظام الدین اولیاؒ کی درگاہ میں قوالی ریکارڈ کرنے جاتے تو میرا جی بھی ساتھ ہو لیتے ۔ قوالی سن کر ان پر وجد طاری ہو جاتا اور وہ عجب سر مستی میں سر دھننے لگتے۔ (۱۸۰) دراصل میرا جی نے اپنے مذہبی جذبات کو ہمیشہ چھپائے رکھا ۔ وہ فرقہ ملامتیہ کے ایک گروہ کی طرح چھپ کر عبادت کرنے والوں میں سے تھے اوردعا اور عبادت کو بہت ہ یانفرادی فعل خیال کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ان کی ساری اندرونی کشمکش اور بہام کے والے سے ایک اہم بات کہی ہے کہ: ’’اگر خلش دروں اور ابہام کو عقیدے کا مقام دینے میں کوئی اعتراض نہ ہو تو میرا جی اس مسلک کا بے حد سچا اور پہنچا ہوا مومن ہے۔ وہ کسی جگہ بھی الجھنوں میں گم نہیںہوتا۔ بلکہ ہر جگہ خود الجھنیں اس میں گم ہیں ‘‘ (۱۸۱) الجھنوں کو اپنے اندر گم کردینے والا یہ شخص بہت ہمہ جہت تھا ان کے علم کا اظہار ان کی شاعری میںپوری طرح ہوا ہی نہیں بلکہ کئی گوشے تو ایسے ہیں جو آج تک نظروں سے اوجھل رہے ہیں مثلاً یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہیں علم فلکیات سے بھی گہری دلچسپی تھی ‘‘ (۱۸۲) ا س کا مضمون ’’سورج کا زوال‘‘ جو خیا ل بمبئی کے جنوری 1949ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا ان کے اس علم سے دلچسپی کا غماز ہے۔ ان کی بہت سی دلچسپیوں کااندازہ ان کے آخری مشنوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جن میں دنیا کے گرد ایک چکر لگانا بھی شامل تھا۔ یہ 1946ء کی بات ہے ان کا پروگرام تھا کہ جنوبی ہند سے مشن کا آغاز کیا جائے اورتمام براعظموں کی سیر کے بعد اخیر میں قطب شمالی جا کر وہاں ایک سال تک قیا کریں تاکہ چھ مہینے کے دن اور چھ مہینے کی رات کو نظم کر سکیںَ ان کی تمنا تھی کہ وہ تلک کی کتاب کا جواب لکھیں اوریہ ثابت کریں کہ دنیا میں سب سے پہلے آدم نے قطب شمالی کے برفستان میںجنم نہیں لیا تھا بلکہ ایشیا کے کسی مقام پر پیدائش ہوئی تھی۔ ‘‘ (۱۸۳) میرا جی کے آخری مشنوں میںسے ایک مشن اردو کی ترقی اور اشاعت کے لیے بھی تھا ان کا خیال تھا کہ سب سے پہلے بڑے پیما نے پر اردو لائبریری قائم کی جائے اور ساتھ ہی ادیبوں کے لیے ایک ہوسٹل تعمیر کیا جائے… ان کایہ بھی خیال تھا کہ ادب کی ترقی کے ساتھ ساتھ ادیب کی معاشی تنگ دستی کو بھی دور کیا جائے۔ ‘‘ (۱۸۴) ان تمام مقاصد او رمشنوں میں میرا جی ایک مختلف شخص دکھائی دیتے ہیں۔ میرا جی ایک باغی ضرور تھے لیکن ان کی بغاوت منافقت اور ظاہرداری کے خلاف تھی۔ ان نام نہاد اخلاقی تصورات کے خلاف تھے جنہوں نے انسان کی روح کو تباہ کر رکھا ہے (۱۸۵) یہ بغٓوت دراصل ایک صوفی کی بغاوت تھی۔ جس نے از ل و ابد کے درمیانی فاصلوں کو بغور دیکھا بلکہ خود طے کیا (۱۸۶) ۔ لیکن ہوایہ کہ ان کی شخصیت کے اس روپ پر ظاہری روپ اور مداحوں کی داستان طرازی کا ایسا پردہ پڑٓ کہ بہت سی باتیں اور پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جمیلہ شاہین کا کہنا ہے کہ میرا جی کی شاعری اور شخصیت پرقلم اٹھانے والوں کی سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ وہ میرا جی کی زندگی اور فکر کے ظاہر میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ باطن پرست میرا جی پر اس سے بڑا ظلم ہو بھی کیا سکتا ہے۔ (۱۸۷) باطن پرستی کاتعلق بھی ان کی شاعرانہ ذات تک محدود تھا ورنہ ان کا ذہن سچے انسان دوت کا قاموسی ذہن تھا… وہ بہت وسیع اور گہری دلچسپی کے حال سالر تھے … کہا جا سکتا ہے کہ ان میں نیچرل سائنس دانوں کی خصوصیات موجود تھیںَ (۱۸۸) ان صفات کا اندازہ ان کے مکمل کام سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ جس کے مطالعے سے ان کی متحرک شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ کمار پاشی نے ان کے پہلو سے ان کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ہے۔ وہ لو گ جو میرا جی کو پڑھے بغیر جنسی شاعری کا علمبردار ‘ منفی خیالات کامبلغ اور ایک بے عمل شخص گردانتے ہیں اور انہیںچاہیے کہ وہ میرا جی کی شاعری ار اس کے مختلف شاعروں پر لکھے ہوئے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کے ساتھ مطالعہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی عمل کا پیغام دینے واے میرا جی کی طرح اس حقیقت کوجان جائیں گے کہ جیون رن بھومی کے سمان ہے جہاں انسان کو مرتے د م تک لڑتے رہنا ہے (۱۸۹) اس جہد مسلسل کا اقرار اس کی اہمیت کا اظہار میرا جی نے اقبال کے عمل مسلسل کو تسلیم کرتے ہوئے یوں کیا ہے کہ صرف اقبال اردو کا ایک شاعر ہے جو صحیح راہ پر چلتے ہوئے ایک نئی دنیا بسانا چاہتا ہے کیوں کہ وہ ہر وقت عمل پر مصر رہتا ہے (۱۹۰) اپنی ساری ظاہری بے عملی کے باوجود میرا جی ایک متحرک اور فعال شخصیت تھے۔ ان کی شاعری اسی متحرک شخصیت کا اظہار ہے۔ انہوںنے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے اس متحرک تخلیقی سیلف کو زندہ رکھیں۔ بمبئی کے آخری دنوں میںمرنے سے چند دن پہلے انہوںنے جو یہ کہا تھا کہ: ’’میں ایسا علاج نہیںچاہتا جس سے میرا جی مر جائے اور ثناء اللہ خان ڈار زندہ رہے ‘‘ (۱۹۱) تو ان اکا مقصد یہی تھا کہ ان کا تخلیقی سیلف ثناء اللہ ڈٓر نہیں میراجی ہے۔ وہ میرا جی بن کر ہی زندہ رہنا چاہتے تھے۔ یعنی ایک متحرک تخلیقی فنکار کے طور پر زندگی گزارنا چاہتے تھے اور سی حیثیت سے فن و شعر میں اپنی پہچان کرانا چاہتے تھے۔ ثناء اللہ ڈار ایک عام آدمی کو انہوں نے زندگی کا جہنم بھوگ کر میرا جی بنایا تھا اس لیے وہ میرا جی کو دوبارہ ثناء اللہ ڈار بنانے پر تیار نہیں تھے۔ اسی یے اپنے آخری زمانے میں وہ بار بار یہ کہتے تھے: ’’لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا کیا لکھوں گا؟ یہ کمپلیکس ہی تومیری تحریریں ہیں‘‘۔ (۱۹۲) یہ ان کا بہت ہی سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثنا ء اللہ ڈار کی حثیت سے نہیں بلکہ میراجی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔ انہوںنے اپنی شخصیت کی یہ Mythممکنہ رنج و غم سبہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زدنگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتا۔ یہ تو ایک شخصیت کی Mythکی تعمیر تھی جس کے لیے انہوںںے ثناء اللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔ زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میر ا جی کو زندہ کر گئے یہی ان کامقصد بھی تھا اور یہی ان کا ثمر بھی ہے۔ ٭٭٭ میرا جی کی تصانیف میرا جی کی شعری اور نثری تصانیف کی تفصیل یہ ہے: 1۔ شعری تصانیف 1 ۔ میرا جی کے گیت مکتبہ اردو ‘ لاہور ‘ 1943ء 2۔ میرا جی کی نظمیں ساقی بک ڈپو‘ دہلی 1944ء 3 گیت ہی گیت ساقی بک ڈپو‘ دہلی 1944ء 4۔ پابند نظمیں کتاب نما‘ راولپنڈی 1968ء 5۔ تین رنگ کتاب نما‘ راولپنڈی 1968ء 6۔ میرا جی کی نظمیں (مرتب انیس ناگی) مکتبہ جمالیات لاہور 1988ء 7۔ کلیات میرا جی (مرتب جمیل جالبی) اردو مرکز‘ لندن 1988ء 8۔ باقیات میرا جی (مرتب شیما مجید) پاکستان بکس اینڈ لٹریری سائونڈز لاہور 1990ء ب۔ ترتیب و انتخاب گیت مالا (مختلف شعراء کے گیتوں کا انتخاب جسے میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے تعاون سے مرتب کیا اس کتاب کی ضخامت 48صفحات ہے) تنقیدی؍ تجزیاتی مطالعہ اس نظم میں ساقی بک ڈپو‘ دہلی 1944ء تراجم 1 مشرق و مغرب کے نغمے اکادمی پنجاب‘ لاہور 1958ء 2۔ نگار خانہ مکتبہ جدید لاہور‘ 1950ء 3 خیمے کے آس پاس مکتبہ جدید لاہور ‘ 1964ء ان مطبوعہ تصانیف کے علاوہ میرا جی کی کئی تخلیقات غیر مطبوعہ صورت میں بھی مختلف لوگوں کے پاس محفوظ ہیں یا مختلف رسائل می بکھری پڑی ہیں۔ ان میں ان کی نامکمل آپ بیتی بھرتری ہری کے شتکوں کے تراجم ہزلیات‘ نثر لطیف(جن میں کچھ خاکے افسانے اور ہلکے پھلکے مضامین شامل ہیں) اور بہت سارے مضامین ہیں جن میںسے بعض انہوںنے بسنت سہائے کے قلمی نام سے بھی لکھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ مضامین ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوئے ہیں۔ ’’ادبی دنیا‘‘ کے علاوہ ’’خیال‘‘ بمبئی ’’ہمایوں‘‘ لاہور اور ’’شیرازہ‘‘ لاہر میں بھی ان کے نثر پارے چھپتے رہے ہیں۔ یہ ساری چیزیں غیر مدون ہیں۔ ساقی دہلی میں ’’باتیں ‘‘ اور ’’خیال ‘‘ بمبئی میں ’’کتاب پریشاں‘‘ کے عنوان سے انہوںنے جو کچھ لکھا اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتب کردہ کتاب ’’میرا جی… ایک مطالعہ‘‘ میں شامل ہے۔ میرا جی کی نثری تحریروں کوشیما مجید نے ’’باقیات میرا جی‘‘ (نثر) کے نام سے مرتب کیا ہے۔ یہ مجموعہ زیر طبع ہے ۔ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور اور ’’خیال‘‘ بمبئی کے اداریے میں بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ میرا جی کے تراجم تنقید اورنثر کا تعارف میرا جی کی بنیادی پہچان اگرچہ شاعری ہی کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ لیکن تراجم تنقید اور متفرق نثری کام میں بھی ان کی اپنی انفرادیت ہے۔ یہاں اختصار سے ان کے تینوں پہلوئوں ک جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ 1۔ میرا جی کے تراجم میرا جی کے زیادہ تراجم اگرچہ شعر و ادب تک محدود ہیں لیکن ان کے ذریعے ہماری شاعری خصوصاً نظم میں ایک نئی معنوی اور فکری لہر پیدا ہوئی ۔ میر ا جی نے اپنے بہت سے مضامین میںجو سیاسی سماجی اور اقتصادی نوعیت کے ہیں ترجمے سے استفادہ کیا ہے اور گلوب پر ہونے والی سیاسی سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں سے اپنے عہد کو آشنا کرانے کی کوشش کی ہے۔ میرا جی کے تراجم صرف لفظی نہیںبلکہ انہوںنے مفہوم کی تہہ تک پہنچنے اور اس کی حسیت و مزاج کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ترجمہ نگار دونوں زبانوں پر نہ صرف یکساں قدرت رکھتا ہو بلکہ دونوں زبانوں کے ادبی سرمایے اور اس کی روایت سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ میرا جی کے تراجم میں ان دونوں صلاحیتوں کا احساس ہوتا ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد کہتے ہیں: ’’ترجمہ بجائے خود ایک بہت مشکل فن ہے۔ اس میں کامیابی کی جو دو تین شرائط ہیں ان میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ مترجم صاحب ذوق ہواور دونوں زبانوں ک مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ پھر شعر کا ترجمہ شعر میں تو اور بھی دشوار ہے۔ یوں ترجمہ کرنے کو آپ جیسا چاہیں کر لیں لیکن ایک زبان کے فنکار کی روح کو دوسرے زبان کے پتلے میں اس انداز سے داخل کرنا کہ پتلا بولنے لگ جائے اور ترجمے پر تصنیف کا گمان ہو بہت کم اہل قلم کو عطا ہوا ہے۔ اور خود ہماری زبان میںیہ اہلیت جن چند لکھنے والوں کے حصے میں آئی ہے۔ ان میں میرا جی بے شک و شبہ ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں ‘‘ (۱۹۳) میرا جی کے تراجم یہ ہیں: 1۔ مشرق و مغرب کے نغمے 2 خیمے کے آس پاس (رباعیات عمر خیام) 3 بھرتری ہری کے چند شتکوں کے تراجم 4۔ نگار خانہ(داموورگپت کے نٹنی متم کا ترجمہ) 1۔ مشرق و مغرب کے نغمے یہ کتاب اکادمی پنجاب لاہور نے 1950ء میں شائع کی تھی ۔ اس میں شامل مضامین 1936ء سے 1941ء کے دوران لکھے گئے ۔ ان میںسے اکثر ادبی دنیا کے مختلف شماروں میںشائع ہوتے رہے۔ ان کی ابتدا کے بارے میں مولانا صلاح الدین احمد کہتے ہیں: ’’یہ غالباً 1936ء کی بات ہے کہ میرا جی میرے پاس آئے اور پہلی ہی صحبت میں انہوںنے مجھے اپنی چند چیزیں سنائیں کہ میں ان کی مہارت ترجمہ پر چونک اٹھا اور میں نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ صرف اپنی یہ مشق جاری رھکیں بلکہ اسے ایک باقاعدہ نظم کی صورت بھی عطاکر دیں ‘‘ (۱۹۴) ا س مجموعہ میں جو مضامین اور تراجم شامل ہیں ان کی تفصیل یہ ہے: 1۔ جہاں گرد طلبا ء کے گیت 2 امریکہ کا ملک الشعرائ والٹ وٹمن 3۔ روس کا ملک الشعرائ پشکن 4 فرانس کا آوارہ شاعر فرانساولاں 5۔ مغرب کا ایک مشرقی شاعر طامس مور 6۔ انگلستان کا ملک الشعراء جان میفیلڈ 7۔ فرانس کا ایک آوارہ شاعر چارلس باد یلیئر 8۔ بنگال کا پہلا شاعر چنڈی داس 9۔ امریکہ کا تخیل پرست شاعر ایڈگرایلن پو 10۔ چین کا ملک الشعرائ لی پو 11۔ مغرب کی سب سے بڑی شاعرہ سیفو 12۔ فرانس کا تخیل پرست شاعر سٹیفا نے میلارمے 13۔ پرانے ہندوستان کا ایک شاعر امارد 14۔ روما کا رومانی شاعر کیٹولس 15۔ انگلستان کا پیامی شاعر ڈی ایچ لارنس 16۔ کوریا کی قدیم شاعری 17۔ گیشائوں کے گیت 18۔ رس کے نظریے 19۔ جرمنی کا یہودی شاعر ہائینے 20۔ انگلستان کا تین شاعر بہنیں (دی برانٹی سسٹرز) اس مجموعہ میں یہ تراجم شامل نہیں۔ 1۔ دیس دیس کے گیت ادبی دنیا جولائی 1938ء 2۔ چین کی جدید شاعری ادبی دنیا اگست 1938ء 3۔ مغرب کی ایک مشرقی شاعرہ ادبی دنیا نومبر 1938ء 4۔ فرانس کا ایک اور آوارہ شاعر ادبی دنیا اپریل 1938ء یہ سارے مضامین 1936ء سے 1941ء تک ادبی دنیا میں چھپتے رہے۔ پھر کتابی صورت میں تدوین پا کر شاہد احمد دہلوی کے اشاعتی پروگرام میں باری کا انتظار کرنے لگے۔ اسی اثناء میں تقسیم ہو گئی اور بزم ساقی بھی منتشر ہو گئی۔ بعد میں یہ مجموعہ 1958ء میں مشر ق و مغرب کے نغمے کے نام سے شائع ہوا۔ 2۔ خیمے کے آس پاس یہ عمر خیام کی ان رباعیوں کا مجموعہ ہے جو فٹز جیرالڈ نے انگریزی میںمنتقل کی تھیں۔ میرا جی نے فارسی کی بجائے انگریزی سے ترجمہ لا۔ میرا جی کہتے ہیں۔ ’’خیمہ اس لیے کہ خیام کا کلام ہے۔ نیز خیمے سے زندگی کے قافلے کے اس چل چلائو کا تلازم خیال بھی ہے جو عمر خیام کی شاعرانہ ذہانت کی نمایاں خصوصیت ہے اور آس پاس ترجمے کی رعایت سے نیز اس لیے بھی کہ یہ ترجمے اصل فارسی کے بجائے ایڈورڈ فٹز جیرالڈ کے انگریزی ادب سے تیار ہوئے ہیں‘‘۔ میرا جی نے 1948ء میں یہ ترجمہ کیا۔ انہوںنے ان رباعیوں کو قطعہ کو ہیت میں ترجمہ یا پہلی بار ان میں سے چودہ رباعیاں خیال بمبئی کے اپریل 1948ء کے شمارے میں اور دوسری بار اٹھارہ رباعیاں مئی 1949ء کے شمارے میں شائع ہوئیں۔ کتابی صورت میں یہ ترجمے اسی نام سے 1964ء میں شائع ہوئے۔ کتاب میں ایک صفحہ پر فٹز جیرالڈ کا انگریزی ترجمہ اور دوسرے پر میرا جی کا اردو ترجمہ درج ہے۔ تعارف جیلانی کامران نے لکھا ہے۔ ان تراجم کی خاص بات یہ ہے کہ میرا جی نے جہاں مناسب سمجھا ان میں ہندی مزاج پیدا کر دیا ہے۔ جس سے بعض جگہ کبیر کے دوہوں کا رنگ ؤنمایاں ہو گیا ہے۔ ایک مثال: جاگو! سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دور بھگایا ہے اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے جاگو اب جاگی دھرتی پر اس آن سے سورج آیاہے راجا کے محل کے کنگورے پر اجول تیر چلایا ہے 3 ۔ بھرتری ہری کے شتکوں کا ترجمہ میرا جی نے بھرتی ہری کے شتکوں کا ترجمہ بھی شروع کیا تھا جو نامکمل رہ گیا۔ ابتدائی تعارف اور ترجموںکا یہ ادھورا مسودہ اختر الایمان کے پاس ہے۔ شعر و حکمت حیدر آباد کے گوشہ میرا جی میں ان میں سے چند تراجم شائع ہوئے ہیں۔ اپنے ادھورے کام کا تعارف میرا جی نے یوں کرایا ہے: ’’نینی شتک کے اقوال محض ہرزہ گوئی کے اقوال ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں انداز بیان یا ادب کی کوئی شاعرانہ خوبی نہیں دکھائی دیتی۔ چونکہ ا س مضمون کا مقصد بھرتری ہری کو ایک صلح کی بجائے ایک شاعر کی حیثیت سے روشناس کرانا ہے اس لیے نینی شتک سے میں نے صرف چار اقوال لیے ہیں… نیز میرا مقصد بھرتری ہری کی شاعرانہ حیثیت کو بتانے کے علاوہ ہندوستان میں محبت کی شاعری کا ایک او ر نمونہ پیش کرنا بھی ہے‘‘۔ ترجمہ کی ایک مثال ’’اس کے دونوں ہاتھ زعفران سے بھیگے ہوئے ہیں اور اس کے (کنگن) سونے کے ہیں‘‘ … ایک شتک 4۔ نگار خانہ نگار خانہ سنسکرت شاعر و امودر گپت کی کتاب ’’نٹنی متم‘‘ کا نثری مجموعہ ہے۔ جو پہلی بار خیال بمبئی (شمارہ جنوری 1949ئ) میں شائع ہوا۔ دوسری بار کتابی صورت میں نومبر 1950ء میں اسے مکتبہ جدید لاہور نے شائع کیا۔ اس کا دیباچہ منٹو نے لکھا ہے۔ میرا جی نے اسے انگریزی سے ترجمہ کیا۔ نگار خانہ کی ہیروئن ممالتی نو عمر طوائف ہے جسے ایک جہاں دیدہ طوائف و کرالا اس پیشے کے سارے گر سکھات ہے اور اسے بتاتی ہے کہ ایک اچھی طوائف کو کس کس موقع پر کس کس طرح مرد کو یوں لبھانا چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس کی زلف کا اسیر بن کر رہ جائے۔ منٹو کے خیال میں یہ ایک ایسا زندہ موضوع ہے جو ہر دور میں موجود رہے گا۔ اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی اس کی زبان ہے جس میں اردو انگریزی اور ہندی الفاظ کی آمیزش کا ایک نیا تجربہ کیا گیا ہے ۔ ایک مثال پریم کا لوبھ بھنور کے سمان ہے۔ وہ بن بن گھومتا ہے تاکہ ہر پھول کا رس چکھ لے‘ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ بناوٹ کی اچھائی میں سب پھول ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے ہیں تو گھوم پھر کر مالتی ہی کے پاس لوٹ آتاہے کیونکہ مالتی کا تو یہ حال ہے کہ جس پھول سے بھی چاہو ٹکر لے لو مالتی کو اس میں کوئی گھاٹا نہیں رہے گا‘‘۔ نظم کو نثر میں ترجمہ کر کے اس میں کہانی کا ایسا مزہ پیدا کرنا اورمکالمے کو اس کے نیچرل انداز میں اس طرح ابھارنا کہ کردار کا نفسیاتی چہرہ ساممنے آ جائے میرا جی کے ترجمے کا کمال ہے۔ میرا جی کی تنقید میرا جی نے وقتاً فوقتاً شاعری پر جو تنقید کی اس نے اردو تنقید کو ایک نئے رویے سے آشنا کیا ہے میرا جی کی تنقید کے چار دائرے ہیں: 1۔ حلقہ اربا ب ذوق کے جلسوں میں تنقیدی گفتگو 2۔ نظموں کے تجزیاتی مطالعے 3۔ اردو شاعری کے بارے میں مختلف مضامین میں تنقیدی آراء 4۔ مشرق و مغرب کے نامور شعراء کے تراجم کے ساتھ شاعروں اور ان کے عہد پر تنقیدی آرائ۔ 1 میرا جی نے حلقہ کے جلسوں میں تنقیدی گفتگو سے ایک معیار قائم کیا‘ نوجوانوں کو تنقید کرنے پر اکسایااورتنقید برداشت کرنے کا ظرف سکھایا۔ انہوںنے تجربے اور ہئیت و تکنیک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ انہوںنے حلقہ کو تاثراتی تنقید سے نکال کر اسے نفسیاتی اور جمالیاتی اقدار سے ہمم آہنگ کیا ۔ انہوںنے مشرق و مغرب کے امتزاج سے تنقید کا ایک ایسا رنگ روشناس کرایا جس میں نظریہ سازی کے ساتھ ساتھ مشرقی تجزیہ پسندی کا رویہ بھی شامل تھا۔ 2۔ حلقہ کو ایک تحریک کی شکل دینے کے ساتھ ساتھ میرا جی کا دوسرا بڑا تنقیدی کارنامہ نظموں کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ وہ اردو کے پہلے نقاد ہیں جنہو ں نے فن پارے کا تجزیہ کر کے فن کار اور فن پارے کے درمیان رشتہ کو تلاش کرنے اور اس طرح تخلیق کے اس سفر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے توسط سے فن پارہ وجود میں آتاہے۔ اس نظم میں کے تحت کیے گئے تمام تجزیے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ’’اس نظم میں‘‘ کے تحت جن نظموں کا جائزہ لیا گیا ہے وہ اپنے موضوع اور ہئیت کے حوالے سے اپنے عہد کی اہم نظمیں ہیں۔ ان کے موضوعات مختلف ہیں یعنی یہ نظمیں معاشرتی سیاسی نفسیاتی جنسیاتی اور زندگی کے کئی دوسرے اہم پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ہئیت کے حوالے سے بھی ان میں بڑا تنوع ہے۔ ان میں سے بعض قدیم ہیئتوں یعنی رباعی قطعہ اور مثنوی کے انداز میں ہیں۔ اور بعض غیر روایتی ہئیتوں میں ہیں جن میں آزاد اورمعریٰ کے علاوہ پابند ہئتییں بھی ہیں اسی طرح ان میں ترقی پسند اور غیر ترقی پسند کی تفریق بھی نہیںکی گئی اور ہر وہ نظم جو کسی حوالے سے اہم ہے اس میں شامل کی گئی ہے۔ 3۔ نظموں کے تجزیے کے ساتھ ساتھ میرا جی کا سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ وہ تنقیدی جائزے اور تعارف ہیں جو مشرق و مغرب کے مختلف شاعروں کو اردو میں متعارف کروانے کے لیے لکھے گئے ہین ان تنقیدی جائزوں کی تین خوبیاں ہیں۔ 1۔ شاعروں کے کلام کو ان کے ذاتی حالات اور ان کے عہد کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ب۔ کلام کا جائز لیتے ہوئے مروج فنی اقدار اور اس زبان کے اب کی بنیادی اقدار کو سامنے رکھا گیا ہے ۔ ج۔ جائزوں میں تقابلی مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ میرا جی کی تنقید کا خاص پہلو وہ نکتہ آفرینی ہے جس کے ذریعے وہ نہ صرف تخلیقی واردات کی حسیت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس کے وسیع تر ثقافتی اور سماجی پس منظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انداز نظر بھی اردو تنقید میں ان کی دین ہے۔ انہوںنے اپنی تنقیدی تحریروں سے ادبی تنقید کو مستحکم کرنے اور اس کے فروغ کے لیے ابتدائی کام انجام دیا ہے ۔ نفسیاتی دبستان کے تو وہ اولین معمار ہیں۔ ان کے تنقیدی خیالات اگرچہ کسی مربوط نظریاتی سطح پر موجود نہیںکیونکہ انہوںنے زیادہ تر عملی تنقید کی ہے۔ لیکن اس کے اثرات جدید اردو تنقید پر ہی نہیںجدید اردو نظم پر بھی بہت گہرے ہیں۔ متفرق نثر ’’اس نظم میں‘‘ کے تحت کیے گئے تجزیوں مشرق و مغرب کے نغمے کے شاعروں کے جائزوں اور چند تنقیدی مضامین کے علاوہ میرا جی نے کئی نثری چیزیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی تقسیم یوں ہے: ا۔ ریڈیو کے لیے لکھے گئے سکرپٹ۔ ب۔ ’’ادبی دنیا ‘‘ اور ’’خیال‘‘ کے اداریے۔ ج۔ نثر لطیف یعنی ’’باتیں‘‘ اور کتاب پریشاں۔ د۔ ادبی تحریریں… خاکے؍ آپ بیتی؍ تبصرے؍ دیباچے ہ۔ ادب کے علاوہ دوسرے موضوعات پر لکھے گئے مضامین جن میں سے بعض بسنت سہائے کے قلمی نام سے لکھے گئے۔ میرا جی کے مضامین کی خوبی موضوع کے ساتھ ان کی ذہنی وابستگی اور خیالات کی صفائی ہے۔ وہ جو بات محسوس کرتے ہیں اسے واضح طور پر بیان کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا نقطہ نظر نہ صرف خوبصورتی سے بیان ہوتاہے بلکہ قاری کے لیے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کرتا ہے۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں سے مثالیںدیتے ہیں اور مختلف پہلوئوں سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان کی نثر کاکمال یہ ہے کہ وہ سادہ اور رواں دواں ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک پیچیدہ فنی حسن رکھتی ہے جو ان کے صاحب اسلوب ہونے کی دلیل ہے اور ان کو اپنے عہد کے دوسرے نثر نگاروں سے جد ا کر کے انفرادیت بخشتی ہے۔ ٭٭٭ میرا جی کی شاعری بیسویں صدی پوری دنیا میں نئے انکشافات اور بنیادی تبدیلیوں کی صدی ہے‘ اس صدی میں دنیا بھر میں نئے سماجی اور سیاسی رویے سامنے آئے جنہوںنے ادبی اور دفکری دنیا میں بھی بڑے بڑے انقلاب پیدا کیے۔ اس صدی کے تین بڑے واقعات یعنی 1914 ء کی جنگ عظیم میں بھی کئی نئی سیاسی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی۔ آج بیسویںصدی کے اختتام پر ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے اولین نقوش انہی تین بڑے واقعات کے اندر موجود ہیںَ برصغیر میں سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء نے جس نئے سماج کی بنیاد 1857ء کے بعد رکھی تھی اور جس نئی فکر کو روشناس کرایا تھا اس کی واضح شکل بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آ گئی تھی۔ خصوصاً برصغیر کی مسلم فکر کے حوالہ سے جو سوچ اور رویہ شاہ ولی اللہؒ سر سید اور اکبر وغیرہ سے ہوتا ہوا بیسویں صدی کے دروازے تک پہنچا تھا ا س نے ایک بڑے مفکر اقبال (1938-1873)کی شکل میں اپنی صورت مجتمع کرلی تھی۔ اقبال نے فکری اور فنی دونوں سطحوں پر ایک ء تبدیلی کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں برصغیر کی اردو دنیا میںایک نیا فکری انقلاب آ گیا۔ بیسویںصدی کو اگر اقبال کی صدی کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔ اقبال ایک بڑے مفکر ہی نہیں ایک بڑے شاعر بھی تھے۔ انہوںنے فرد اور سماج سے وابستگی کے درمیان ایک صحت مند رشتے کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ فرد کی زمین و آسمان سے وابستگی کے توازن کو بھی ایک نئے معنی عطا کیے۔ اقبال کا فردزمین سے رشتہ استوار کرنے ار انے حال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی روح اور اپنے آدرش کی بھی حفاظت کرتاہے۔ اقبال کے یہاں طبیعیات اورمابعد الطبیعیات کے درمیان ایک نیا توازن ہی قائم نہیںہوا ان کے نئے معنی بھی دریافت ہوئے۔ اقبال کافر اپنی سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں اورپھر ان سے آگے بڑھ کر اپنے کائناتی کردار کا تعین بھی کرتاہے۔ گویا اقبال زندگی کے کل کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ اقبال کاکمال یہ ہے کہ انہوںنے اردو شاعری کو ایک نئی فکری سطح ہی سے روشناس نہیں کرایا بلکہ فنی اور ہئیتی طور پر بھی نئے طریقوں اور نئے معیاروں سے آشنا کیا۔ اقبال کی فکری عط اار ان کے فنی معیاراس صدی کی پوری اردو شاعری پر اپنی گہری چھاپ رکھتے ہیں۔ یہ اقبال ہی ہیں جنہوںنے برصغیر میں جدید طرز فکر کی آبیاری کی ہے چنانچہ جدیدیت اور ترقی پسندیکے تمام رویوں کے ڈانڈے اقبال ہی کے افکار تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ اقبال ہی کا اثر تھا کہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک اور 1940ء میں حلقہ ارباب ذوق کی تحریک وجود میں آئی۔ اقبال نے گویا ان تحاریک کے لیے گرائونڈ ورک کر دیا تھا۔ یہ صدی اردو ادب میں متعدد بڑے ناموں کی صدی ہے۔ شاعری کے کئی بڑے نام اسی صدی کے متعلق ہیں جن کی وجہ سے ہماری نظم اور غزل کو نئے رویوں نئے اسالیب اور نئے فکری ذائقوں کے ساتھ ساتھ نئے فنی رویوں کی چاشنی ملی۔ ہمارے کئی بڑے شاعر اس صدی کی پہلی اور دوسری دہائی کے دوران پیدا ہوئے اورا ن کے لکھنے کا آغاز تقریباً تیسری اورچوتھی دہائی یک دوران ہوا۔ گویا جب انہو ں نے لکھنا شروع کیا تو فکر اقبال اور فن اقبال اپنے عروج پر تھا اور برصغیر ہی نہیںبلکہ پوری مسلم دنیا بلکہ مغرب میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اقبا ل کے اثرات سے بچنے کی شعوری کوشش کی لیکن اقبال کے فن و فکر کے اثرات کامثبت تسلسل پوری بیسو یں صدی کے فن و فکر میں ایک رواں لہر ایک مثبت روایت بن کر جاری و ساری ہے۔ ا س عہد کے چند اہم نام یہ ہیں: حسرت (1875ء …1951ئ) ‘ فانی ( 1879ء … 1941ئ)‘ یگانہ (1884ء … 1956ئ) ‘ اصغر گونڈوی ( 1884ء … 1936ئ) ‘ جگر (1890ء … 1961ئ) ‘ جوش (1894ئ… 1982ئ)‘ فراق (1896ء … 1982ئ) ‘ مجاز (1911ئ… 1955ئ) ‘ حفیظ (1900ئ… 1982ئ)‘ اختر شیرانی (1905ئ…1948ء ) ‘ فیض (1910ء … 1984ئ) ‘ ن م راشد (1910ء … 1975ئ)‘ میرا جی (1912ء … 1949ئ) ‘ مجید امجد (1914ئ… 1974ئ) ان چند شعراء کے ہاں جو فکری اور فنی تنوع دکھائی دیتا ہے وہ اردو شاعری کی نئی صورت حال کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال اوراقبال سے پہلے کے شاعروں کی ایک خوبی یہ تھی کہ ان کی ذاتی شخصیت اور شعری شخصیت میں کوئی دوئی نہ تھی۔ وہ شعر و ادب میں جن اخلاقی رویوں کے پرچارک تھے اپنی ذاتی زندگی میں بھی بڑی حد تک ان کا عملی نمونہ تھے۔ لیکن بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بعد عموماً جنگ عظیم اول ور خصوصاً جنگ عظیم دوم کے بعد جو اخلاقی رویے سامنے آئے انہوںنے ہمارے شاعروں کی شخصیتوں پر بھی اثر ڈالا۔ مغرب کی اخلاق باختگی بیسویں صدی میں ہمارے یہاں اپنے پورے زور و شور سے نمایاںہوئی۔ دو بڑی جنگوں نے جو اقتصادی بحران پیداکیا اس نے معاشرے کی پرانی اقدار کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ مختلف تہذیبی حلقوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت اور مخلوط تہذیبی منطق کے وجود میں آنے سے بھی پرانی اخلاقی اقدارآہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں چنانچہ اقبال کے بعد حسرت موہانی کو چھوڑ کر شاید ہی کسی شاعر کو پرانی اقدار کانمونہ کہا جا سکے۔ خصوصاً جن شاعروں نے جنگ عظیم اول کے بعد کے اقتصادی بحران میں ذہنی نشوونما پائی اور جو لوگ جنگ عظیم دوم کے دوران ادبی افق پر ابھرے ان کے کرداروں میں ایک سی مماثلت نظر آتی ہے۔ یعن موجود او ر ظاہری اخلاقی اقدار کی نفی اور خود ایک Tragic Heroسمجھنا۔ اس المیاتی ہیرو کا تصور جنگ عظیم دوم کی تباہی اور انسانیت کی بڑی شکست کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اس دور کے اکثر شعراء کی شخصیتوں کے گرد عجیب و غریب طرح کے افسانے اور واقعات اکٹھے ہوگئے تھے۔ خصوصاً فراق جوش مجاز اور میرا جی تو ان معاملات میں خاصے بدنام بھی ہوئے۔ دراصل اد دور میں شاعروں کا خیال یہ تھا کہ ان پر اخلاقی اقدار اور معاشرے کی عائد کردہ پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا اورشاعرکی شخصیت جتنی ان اقدار سے ٹکرائی ہوئی دکھائی دیتی ہے اتنا ہی اس کا شعری مرتبہ بلند ہو گا۔ یہ لوگ خود کو نہ صرف ایک المیاتی ہیرو کے طور پر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی خود کو ایک ہزیمت یافتہ ہیروہی سمجھنے لگے تھے۔ محمد صفدر میر اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے میرا جی حوالے سے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’’اپنے نہایت ہی منظم اور مربوط تصوراتی نظام اور اپنی منضبط شاعرانہ زندگی کے باوجود میرا جی کی طبیعت میںوہ انتشار موجود تھا جو اس زمانے کے بہت سے شاعرو ں اور ادیبوں کی زندگیوں میں پایا جاتا ہے یاد رکھنا چاہیے کہ یہی زمانہ مجاز لکھنوی‘ اختر شیرانی‘ منٹو نیاز حیدر اور متعدد دوسرے ادیبوں کا زمانہ ہے۔ جنہیں ان کے ذہنی انتشار اور جذباتی نا آسودگی نے شراب کا عادی بنایا حتیٰ کہ وہ صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھائے بغیر دنیا سے چل دیے بالکل میراجی کی طرح ‘‘ (۱۹۵) چنانچہ اس دور کے اکثر شاعر نشے کے عادی اور بہت سی دوسری قباحتوں کے اسیر دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ اس پر شرمانے یا جھجکنے کی بجائے ان کمزوریوں اور رویوں کو اپنی پہچاناور انفرادیت سمجھتے ہیں۔ سی لیے ان کی زندگی میں خود انہوںنے اور بعد میں ان دوستوں نے ایسی خرافات اور واقعات کو خوب نمایاں کیا۔ میرا جی کے ساتھ بھ یہی ہوا۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ وہ ایک مریضانہ ذہن کے مجہول شخص تھے جس کا کام سوائے ؤجلق لگانے اور نظمیں کہنے کے اور کچھ نہیںلیکن جب ہم میرا جی کے کلام اور ان کے نثری کام پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے موضوعات کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر باخبر اور اپنے عہد کی سیاسی صورت حال کا شعور رکھنے والے شخص تھے۔ جنہیں نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کی سیاسی سماجی صورت حال سے گہری دلچسپی تھی بلکہ وہ اس کے پس منظر میں برصغیر کی آئندہ سیاسی زندگی کے نقشے کو نہ صرف دیکھ رہے تھے بلکہ اس کی شدت کو بھی محسوس کر رہے تھے۔ کیایہ دلچسپ بات نہیں کہ ایک ہی شخص جب شاعر کے روپ میں سامنے آتا ہے تو اس کی شخصیت افسانوی بن جاتی ہے۔ اوروہی شخص نثری دنیا میں ایک باخبر اور شباشعور شخص بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں تصور عام تھا کہ شاعر کو نارمل شخص سے قدرے مختلف ہونا چاہیے اور اس مختلف ہونے کے لیے شراب پینا غیر اخلاقی حرکات کانا اور اپنے اردگرد خیالی اور تصوراتی محبت ارو جنس کے افسانے تراشنا ضروری ہے اور یہ بات صرف میرا جی ہی تک محدود نہ تھی ان کے عہد کے کئی بڑے شاعر اپنی شخصیت کو مسخ کرنے کی اس شعوری کوشش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ میرا جی کی فکری اور ادبی پہچان حلقہ ارباب ذوق کے حوالہ سے ہوتی ہے۔ تحریک کی سطح پر میرا جی ترقی پسندوں کے مخالف تھے۔ انہیں ترقی پسندوں پر سب سے بڑ ا اعتراض یہ تھا کہ انہوںنے شعر و ادب کے موضوعات کو محدود اور ایک سیاسی پارٹی کے نظریے کا پابند کردیا ہے اور زندگی کی وسعتوں کو صرف پیٹ کے مسائل تک سمیٹ دیا ہے۔ خود میرا جی کا شعری افق بہت وسیع تھا خصوصاً ان کے مطالعے کی وسعت نے انہیں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے جس شعری سرمائے سے روشناس کرایا تھا اس نے ان کے شعری ذوق اور شعری دنیا کی سرحدوں کو بہت پھیلا دیا تھا۔ اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ اس نئے سماجی پس منظر میں جس کا ظہورپوری دنیا میں ہو رہا ہے اردو شاعری خصوصاً اردو نظم کو بھی اپے موضوع اورفنی ڈھانچوں کو تبدیل کرنا چاہیے۔ اس تبدیلی کا احساس انہوںنے اپنے دوستوں کو بھی کرایا تھا چنانچہ حلقہ کی بحثوں میں اور اس نظم میں کے تجزیوں کے ذریعے انہوںنے نظم کی نئی فکری اور فنی جہتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ان کوششوں میں اپنے اپنے طور پر کئی لوگ شامل تھے ۔ ایک طرف فیض جوش‘ فراق اور حفیظ وغیرہ اپنی اپنی سطح اور اپنے اپنے فکری رویوں کے حوالے سے نظم اور غزل دونوں میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑ رہے تھے تو دوسری طرف ن م راشد اور میرا جی کے ہم خیال اور ہم عصر یوسف ظفر ‘ قیوم نظروغیرہ تھے۔ مجید امجد کی شعری پہچان بہت بعد میں جا کر ہوئی لیکن ن م راشد میراجی کے عہد میں ایک بڑے اور منفرد شاعر کی حیثیت سے سامنے آ گئے تھے اور ان کا کام بھی نظم ہی سے متعلق تھا اس لیے میرا جی کے شعری مرتبے کا تعین کرتے ہوئے اس کے فکری اورفنی کام کا مختصرسا جائزہ لینا بھی مناسب ہو گا۔ ن ۔ م ۔ راشد (1910ء … 1975ئ) کاپہلا شعری مجموعہ ماورا 1941ء میں شائع ہوا دیباچہ میں ایشاء شاعری خصوصاً برصغیر کے فکری رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے انہوںنے ایشیائی ممالک میں ادبی تغیرات کی کمی کی دو وجود بیان کی ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے جغرافیائی حالات جنہوںنے نہ صرف ہمارے جسموں میں بلکہ ہمارے ذہنوں میں بھی ایک لازوال کسالت پیدا کر رکھی ہے۔ یعنی ہمارے ذہنوں میں وہ مافوق الفطرت تحرک باقی نہیںچھوڑا جو زندگی کی پیش کی ہوئی نئی مہمات سر کرنے کے لیے ضروری ہے (۱۹۶) دوم ہمارا مذہب جس نے ہماری انفرادیت کو غیر ضروری حد تک صدمہ پہنچایا ہے اور خود فکری ککے اس نایاب جوہر کو جو ادبیات اور تہذیب کے فروغ اور ترقی کے لیے ضروری ہے آہستہ آہستہ محدود کر دیا ہے (۱۹۷) ان دو وجوہ کے بیان ہی سے ا س باغیانہ رویے کا پتہ چلتا ہے جو راشد کی نظموں کی اساس ہے۔ ڈاکٹر سلامت اللہ راشد اور میر جی کے اس باغیانہ رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اردو کے یہ باغی شاعر اسی بغاوت کے علمبردار ہیں جسے یہ اردو شاعری و ادب میں برپا کرنا چاہتے ہیں… ان کی ہر نظم تکنیک و موضوع کے اعتبار سے ایک نیا تجربہ ہے۔ ان کی حقیقت بینی اور حقیقت نگاری پر نہ رومان کا شیریں غلاف ہے اورنہ خواب کا دھندلکا۔ یہ اپنے تلخ سے تلخ تجربے کو بھی سچائی سے ظاہر کردیتے ہیں ‘‘ (۱۹۷) ساقی فاروقی بھی ا ن دونوں شاروں کو روایت کا باغی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں جذبے اور خیال کو جوں کا توں اس کی عریاں حالت میں بیان کر دینے کے حامیوں میں ہیں۔ اس لیے اسلوب ہو کہ خیال یا جذبہ ہر تین صورتوں میں یہ لوگ نظم اور خاص کر جدید نظکم سے قریب تر اور روایت کے باغیوں میں ہیں ‘‘ (۱۹۹) راشد اور میرا جی دونوں ہی اختر شیرانی کی عورت کو خارجی حقیقتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ سلیم احمد کی رائے میں راشد کی شاعری کے ابتدائی حصے پراختر شیرانی کا اثر نمایاں ہے۔ (۲۰۰) ان کی ابتدائی نظموں میں اختر شیرانی کی رومانیت کا سحر ایک حد تک قام رہتا ہے لیکن ساتھ ہی راشد کا آدمی رومانیت سے گتھم گتھا بھ ہوتاہے (۲۰۱) اور اس کی نظم میں اوپر کا دھڑ نیچے کے دھڑ سے ملنے کے لیے بے تاب ہے تاکہ ایک مکمل وحدت بن جائے (۲۰۲) اور آہستہ آہستہ اس کے یہاں یہ آدمی مکمل ہو جاتاہے اور محبوبہ بھی مکمل ہو جاتی ہے اس میں شک نہیںکہ اختر شیرانی کی سلمیٰ اور ریحانہ نہ بھولنے والے کردار ہیں لیکن یہ کردار تصوراتی ہیں۔ ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ راشد کے یہاں محبوبہ آہستہ آہستہ حقیقی روپ اختیار کرنے لگتی ہے اپنے عہد میں اقبال اور جوش کی شہرت کے باوجو داختر شیرانی نے اپنا چراغ جلایا ار ایک ایسی رومانی فضا قائم کی کہ نئے شاعروں کے لیے اس میں سے مکمل طور پر نکلنا محال ہو گیا۔ میرا جی اور راشد کے ابتدائی کلام پر یہ اثرات محسوس ہوتے ہیں لیکن بقول سلیم احمد اختر شیرانی کی مصنوعی تقدس والی رومانیت ک ملبے کے نیچے سے میرا جی ار راشد آہستہ آہستہ رینگ کر باہر نکل آئے (۲۰۳) ان دونوں کی تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیںَ ان دونوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوںنے نظم کے روایتی ڈھانچے کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ اس کی فضا کو بھی بدلنے کی کوشش کی ساقی فاروقی کہتے ہیں: میرا جی اور راشد نے کرم خوردہ اخلاق کی جھوٹی قدروں والی بے نیود یواروں کو ڈھانا اور نظم والے حالی کے سائے میں پہلی ہوء یپود کے چہرے سے چھکا اتارنا شروع کیا… ان تمام لوگوں نے اپنے آئینے سورج کے سامنے کر دیے تھے اور ہاتھوں کی جنبش سے ان کی چکا چوند کر دینے والی روشنیاں خشک ہونٹوںاندھی آنکھوں اور روشنی کے لیے ترسے ہوئے جسموں پر پھینکنی شروع کیں (۲۰۴)۔ میرا جی کے برعکس راشد ابتداہی سے مغرب پرستی کا رویہ حاوی تھا اور وہ اس گروہ میں سے تھے جو یہ سمجھتا ھتا کہ مشرقی اقدار کے مقابلے میں مغربی طرز فکر انسان کے لیے زیادہ ترقی یافتہ ہے چنانچہ فکری اور اخلاقی سطح پر راشد نے ایک نئے جہا ن کو تخلیق کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پرانے فنی رویوں سے بھی اختلاف کیا خصوصاً قوانی اور بحور کے مروج تصورات کو رد کرتے ہوئے انہوںنے نظم کے لیے نئی شعری ہئیت اور آہنگ کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہناہے: قوافی اور بحور کی مروجہ تکنیک روایت پرمبنی ہے۔ یہ روایت نسل بہ نسل ہم تک پہنچی ہے۔ اس لیے اس تکنیک کی فرسودگی کو جانتے ہوئے بھی ہم میں سے اکثر موجود صورت حال پر صابر و شاکر رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم تقدیر پرست ایشیائی عام طور پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی نیا قدم اٹھاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں چنانچہ مروجہ بحور و قوافی کا نظام اکثر لوگوں کو اس لیے مرغوب ہے کہ ان کے بزرگوں نے اس تکنیک کو متفقہ طور پر قبول کر لیاتھا۔ یہ استدلال ان کو مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس طرح جو لوگ شاید اور فوری انقلابات کے علمبردار ہیں وہ ندرت پرستی کے جوش میںنہ صرف قوافی اور بحور کی تعمیری حیثیت کو فراموش کر دیتے ہیں بلکہ ان کو منسو خ کر کے ان کے نقصان کی تلافی کسی بہتر یا نئی چیز سیکرنا بھی نہیں چاہتے‘‘ (۲۰۵) راشد پرانی بحور کو نئے آہنگ سے بدلنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ محض توڑ پھوڑ کے قائل نہیں تھے ۔ پرانے آہنگ پر ان کا اعتراض یہ تھا کہ: ’’اردو شاعری اپنی خارجی اصل کے سبب ہمارے قومی شعور نغمہ کے ساتھ کوئی ربط و آہنگ نہیںرکھتی بلکہ ایک میکانکی علم عروض پر مبنی ہے‘‘ (۲۰۶) تاہم راشد نظم کے لیے آہنگ ضروری سمجھتے ہیں ارو یہ آہنگ بہرحال قوافی اور بحور ہی کا مرہون منت ہے۔ اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے راشد کہتے ہیں: ’’قدیم اسالیب بیان کا ادبی باغی ہونے کے باوجود میرے نزدیک یہ اعتراض قابل پذیرائی نہیں ہے کہ بحروں اور قافیوں کی پابندی شاعری کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے کیونکہ بحور اور قوافی تو اس تناسب اصوات کے محض معاون ہیں جو کسی اعلیٰ شاعر کی روح میں قدرتاً موجود ہوتاہے‘‘۔ (۲۰۷) راشد کی ابتدائی نظمیں قدیم اسالیت بیا ن سے انحراف کے ساتھ ساتھ اس نئے فکری تناظر کی امین ہیں جو جنگ عظیم دوم کے پس منظر اوراس کے اثرات کے نتیجے میںمغرب میں خصوصاً اور برصغیر میں عموماً جنم لے رہے تھے۔ جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں انسانی وقار کی بے حرمتی انسان جان کی بے وقعتی اور اخلاقی اقدار کے زوال کی جو صورتیں سامنے آئی تھیں اور جو ایک بڑا اقتصادی بحران سیاسی سماجی اتھل پتھل کا سبب بن رہا تھا اس کے اثرات برصغیر کی سوسائٹی پر بھی پڑے تھے۔ نئے موضوعات اور نئی صورت حال نے نوجوان شاعروںکو خاص طور پر متوجہ کیا ان کے یہاںروایتوں کے خلاف ایک باغیانہ سوچ تو پیدا ہوتی ہے دھندلے مستقبل کے پریشان خوابوں کے ایک فکری انتشار کو بھی جنم دیا لیکن بہرحال ان کا فکر ی رویہ اپنے عہد کی تبدیلیوں کا غماز تھا اسے محض تغیر برائے تغیر نہیں کہا جا سکتا جیسا کہ اس عہد کے بعض لوگوں نے کہا۔ خود راشد کو بھی اس کا احساس تھا چنانچہ اپنی نظموں کی فکری اساس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوںنے کہا: ’’اردو میں یہ آزاد شاعری کی تحریک محض ذہنی شعبدہ بازی نہیں محض جدت اور قدیم راہوں سے انحراف کی کوشش نہیں۔ اگر ان نظموں میں آ کو کسی تخلیقی جوہر کی معمولی چمک کسی قوت کا ادنیٰ سا شائبہ کسی نئے احساس کی ہلکی سی جنبش نہ ملے تو انہیں قطعی طور پر رد کر دیجیے۔ کیونکہ اجتہاد کا جواز صرف یہ نہیںکہ اس سے کسی حد تک قدیم اصولوں کی تحریب عمل میں آئی ہے۔ بلکہ یہ کہ آیا تعمیری ادب ا س میں سے کسی نئی صبح کی طرح نمودار ہوتاہے یا نہیں‘ اگر یہ نہ ہو تو اجتہاد بیکار ہے۔ اجتہاد کاجواز صرف وہ خیالات و افکارہی پیش کرتے ہیں جن کی خاطر یہ راستہ اختیار کیا گیا ہو‘‘ (۲۰۸) راشد اور ان کے ساتھی جدید ادب کو تعمیری ادب خیال کرتے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کا ادب اپنے عہد کی بہتر فکری ترجمانی کر رہا ہے یہ زمانہ دراصل ایک نئے انقلاب سے ہم آہنگ ہو رہا تھا۔ جنگ عظیم دوم نے مغرب کے سارے نظم کو تو الٹ پلٹ کر ہی دیا تھا ایشاء میں بھی صنعتی بیداری کے ساتھ ساتھ ایک نئی سیاسی لہر اٹھ رہی تھی۔ جس میں وطنیت یا قوم پرستی کا عنصر ایک اہم موضوع تھا مشرق میں ادیب شاعر مغرب پر تنقید بھی کر رہے تھے اور مغربی شعر و ادب سے متاثر بھی ہو رہے تھے۔ چنانچہ فکری سطح پر مغرب کی نفی اورمغرب کے خلاف ایک باغیانہ رویہ رکھنے کے باوجود شعر کی ہئیت و فن پر جدید مغربی رویے غالب آ رہے تھے۔ راشد نہ صر ف یہ کہ خو د نئی شاعری کر رہے تھے بلکہ اس رویے کے بڑے مبلغ بھی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اس سفر میں میرا جی بھی ان کے ہم رکاب ہیں نئی شاعری کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس میدان میں سب سے پہلے جو شاعر نظر آتے ہیں ان میں میرا جی ڈاکٹر خالد اور راقم الحروف شامل ہیں ج کے متعلق یقین کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے مختلف اند ازمیں آج کی اردو شاعری پر ایک نمایاں اور گہرا اثر ڈالا ہے ۔ (۲۱۲) اس جماعت سے الگ اختر شیرانی ‘ جوش ‘ فراق‘ فیض اور حفیط بھی اپنے اپنے حوالے سے شاعری کی نئی حد بندیوں میں مصروف تھے اور اگرچہ فکری طور پر ان کا تعلق میرا جی اور راشد کی فکری صورت حال سے مختلف تھا لیکن اردو کی جدید شاعری کے وسیع ترمعنوں میں یہ لوگ بھی اس نئے اسالیب اور نئے موضوعات کی راہ ہموار کر رہے تھے جنہوںنے جدید اردو شاعری کے ایوان کو مستحکم کیا۔ اگر جدید شاعری کو چند رویوں اور موضوعات تک محدود نہ کیا جائے تو جوش‘ فراق فیض اور حفیظ بھی اپنے اپنے حوالے سے اس بڑے کینوس کو وسیع کرنے میں مصروف تھے جس پر نئی شاعری کی تصویر نے بعد میں جا کر ایک واضح شکل اختیار کی۔ یہ سارے شاعراپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور انفرادی مطالعوں کے متقاضی ہیں۔ جدید اردو شاعری اور خصوصا ً نظم میں ان کی خدمات اور کام کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ادب میں وکٹری سٹینڈ نہیں ہوتے کہ اول دوم سوم کے نمبر الاٹ کیے جائیںَ ایک عہد کے مختلف بڑے لوگ مل کر اس عہد کے فنی اور فکری رویوں کو تعمیر کرتے ہیں اور اس عظیم روایت کو ایک صورت عطا کرتے ہیں جو نئی نسل کو وراثت میں منتقل ہوتی ہے ۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر تک جو بڑی شعری روایت وجود میں آئی اور جس نے 1960ء کے بعد جدید علامتی اورتجریدی موڑ کاٹا اس کے خالق یہی لوگ ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان بڑے ناموں کے وسیع کام کی وجہ سے بیسویںصدی کی شاندار ادبی روایت نے جنم لیا اور وہ اپنے ارتقاء کو پہنچی۔ ان میں سے ایک اہم نام میرا جی بھی ہیں۔ اس ضمن میں راشد کا ذکراس لیے قدرے تفصیل سے کرنا پڑا کہ وہ میرا جی کے رنگ و فکر کے بڑے شاعر ہیں میرا جی کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے راشد کہتے ہیں: ان تین شاعروں (میرا جی ‘ خالد اور راشد خود) میں میرا جی صرف ایک شاعر ہی نہیںتھا بلکہ اپنی جگہ ایک مکمل ہنگامہ بھی تھا۔ اس زمانے میں تین شاعروں نے اردو میں آزاد شاعری کا تعارف کرایا میرا جی نے باقی دونوں کے مقابلے میں بڑے دھڑلے سے اس نئی طرز کو استعمال کیا…انگریزی شاعری سے انہوںںے (میرا جی نے) اپنے شعور کا ادراک حاصل کیا اور آزاد شعر کا استعمال سیکھا۔ جدید نفسیاتی تجربوں سے انہوںنے فطرت انسانی کے عمیق اور اتھاہ گہرائیوں سے آگاہی حاصل کی اور قدیم ہندو ثقافت نے میرا جی کو ان کی شاعری کے لیے موضوعات اور ماحول مہیا کیے (۲۱۳)۔ ڈاکٹر جمیل جالبی بھی میرا جی کی ان خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں آزاد‘ اسماعی میرٹھی‘ سرور جہاں آبادی‘ چکبست اور اقبال کی بعض نظمیں صرف خارجی عناصر ہی کو اجاگر کرتیہیں اور یہ منظر کشی سیدھی سادھی حقیقت نگاری بن جاتی ہے۔ داخلیت کا عنصر اس میں نہیں ہوتا۔ اردو کے نئے شاعروں میں راشد کے ہاں اکثر اورفیض کے ہاں ایک آدھ نظم میں یہ خصوصیت نظر آتی ہے لیکن میرا جی کی شاعری اس سے مالا مال ہے۔ (۲۱۴) میرا جی کی شاعرانہ انفرادیت کا جائزہ لینے سے پہلے یہ مناسب ہو گا کہ ان کے فکری اور فنی نقطہ نظر کا ایک تقابلی مطالعہ ان کے چند ہم عصروں سے کرک لیا جائے ۔ ان کے ہم عصروں میں سے راشد تواسی فکری سلسلے کی ایک کڑی ہیں جس کے حوالے سے جدید اردو نظم کا ارتقا سامنے آتا ہے اس سے ذرا ہٹ کر فیض ‘ فراق ‘ جوش اور حفیظ چار اہم نام ہیں جو بیسویںصدی کی چوتھی دہائی کے بعد اہمیت کے حامل ہیںَ فیض کی بنیادی پہچان ترقی پسند حوالے سے ہوئی ہے لیکن فیض کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے ترقی پسندوںکے فنی معیار کے موضوعات میں جو استعاراتی اور کلاسیکی روایت سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کے موضوعات میں جو استعاراتی اور تلازماتی کیفیت کلاسیکی روایت کی ہم آہنگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ دوسرے ترقی پسند‘ شاعروں کے ہاں موجود نہیں فیض کا دوسرا کمال وہ سلیقہ ہے جو ان کی تخلیقی واردات شعری روپ عطا کرنے میں ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ فیض کے یہاں اردو کی تہذیبی روایت موجود ہے۔ لیکن موضوعاتی سطح پر وہ بہت کم طبیعیات سے اوپر اٹھے ہیں۔ ان کے ہاں دنیا اورمتعلقات دنیا کے غموں کی ایک نئی سطح بلکہ ہمہ جہت سطح وجود میں آئی ہے لیکن ماورائے دنیا ما بعد الطبیعیاتی رویے ان کے یہاں جگہ نہیں پاتے اس کمی کے باوجود ان کا شعری سلیقہ اور روایت سے گہری وابستگی ان کے اشعار کو ہمہ جہت بناتی ہے یعنی کلاسیکی شاعری کے حوالے سے معنوں کا متعین ہونا اور دوسرے کشمکش کے حوالے سے اپنے عہد کی سیاسی سماجی صورت حال کی عکاسی۔ فراق کی شاعری کا مرکزی نقطہ یوں تو عشق ہی ہے تاہم ان کے عشق میں برصغیر کی سیاسی سماجی اتھل پتھل کا شعور جدید مغربی شعریات کے اثرات اور ہندو ستانیت کے عناصر آپس میں شیر و شکر ہو گئے ہیں انہوںنے عشقیہ تجربات کو زندگی کے دوسرے تجربات سے ملا کر نئی معنویت عطا کی ہے۔ وہ غزل کو واسوخت کی فضا سے کسی حد تک باہر لے آنے میںکامیاب رہے ہیں۔ ان کی کوششوں سے اردو شاعری کے دائرہ شعور کو وسعت نصیب ہوئی ہے لیک یہ بات پیش نظر رہے کہ ان کی یہ عطا نظمم سے زیادہ غزل سے متعلق ہے۔ اگرچہ ان کی نظموں کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن بہرحال ان کا بنیادی حوالہ غزل ہی بنتا ہے۔ حفیظ کی شاعری اپنے عہد کے ایک معتدل مزاج کی عکاسی ہے۔ انہوںنے بھی خصوصیت سے غزل میں ایک نئے لہجے اور نئی لے کو دریافت کرنے کی سعی کی ہے۔ نظم میں ان کا کام اور طرح کا ہے اور البتہ گیتوں میں ان کا اپنا انداز و لہجہ ہے جوش بھی ترقی پسند شاعر ہیں‘ انہیں زبان کا استاد مانا جاتا ہے۔ لفظ کے استعمال کا فن اور سلیقہ انہیں خوب آتا ہے لیکن ان کی نظمیں تمام تر گھن گرج کے باوجود معنوی طورپر اتنی زور دار نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کی توجہ شعر کی ظاہری ہیئت اور ڈھانچے کی طرف رہتی ہے۔ تاہم وہ بڑے شاعر ہیں ان کے موضوعات برصغیر کی آذادی اور طبقاتی کشمکش سے عبارت ہیں اور اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کرنے میں ان کی ایک خاص انفرادیت ہے۔ موضوع اور فکری بنت کاری کے حوالے سے یہ چاروں بڑے شاعر یعنی فیض جوش فراق اور حفیظ جالندھری میرا جی کے موضوعاتی فکری اور فنی دائرے سے بہت مختلف ہیں ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں: راشد و فیض کی شاعری کا باقاعدہ سفر بھی اسی زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن موضوع نئی ہیئت اور آزاد نظم کے شعور و تخلیقی سطح پر استعمال کے پیش رو صرف میرا جی ہیں۔ راشد و فیض اظہار و بیان میں اردو فارسی روایت سے استفادہ کر کے اپنا رشتہ اس سے قائم رکھتے ہیں لیکن میرا جی اس روایت سے بغاوت کر کے رد عمل کے طورپر ہندی شاعری کی روایت سے ناتا جوڑ لیتے ہیں ۔ (۲۱۵) میرا جی کے ساتھ ان چاروں شاعروں کا تقابلی مطالعہ اپنے عہد کے مجموعی رویوں کے حوالوں سے تو ہو سکتا ہے انفرادی فنی حوالے سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ البتہ راشد کا معاملہ دوسرا ہے ۔ کیونکہ راشد اور میرا جی دونوں جدیدنظم کے اہم شاعر ہیں اور جہاں تک راشد کا تعلق ہے وہ اسی جدید روایت کے شاعر ہیں جس کا بنیادی مقصد اردو نظم کو ایک نئی فکری اور فکری کروٹ عطا کرنا تھا اس لیے وہ ان معنوں میںتو میرا جی کے قریب آ جاتے ہیں لیکن دونوں میںبعض بنیادی تضادات بھی ہیں۔ اول یہ ہے کہ راشد فارسی روایت کے تسلسل میں شعر کہتے ہیں اور ان کا تلازماتی اور استعاراتی سلسلہ تمام تر باغیانہ روش کیک باوجود اپنے ماضی سے برقرار رہتا ہے۔ قوافی و بحور کے مروج نظام کو بدلنے کی خواہش اور فکری طور پر نئے رجحانات کو خوش آمدید کہنا بلکہ مغرب پرستی کے باوجود راشد کا فنی ڈھانچہ فارسی نظام سے الگ نہیں ہوتا اس کے برعکس میرا جی ہندی روایت کے زیادہ قریب ہیں ان کا استعاراتی اور تلازماتی سلسلہ قدیم ہندوستان کی شاعری سے ملتا ہے اور ان کی زبان و بیان پر ہندی کے گہرے اثرات ہیں۔ اردو کی کلاسیکی شاعری سے مکمل آگاہیی کے باوجود وہ فارسی روایت کے قریب نہیں ہوتے بلکہ شعوری طور پر خود کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں۔ دوم راشد کے یہاں جنس کا پہلو ایک سیاسی تشدد کا رد عمل بن جاتا ہے اور وہ جنسی تشنگی کا شکار ہونے کے بجائے باغیانہ رویوں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس میرا جی جنس کو ایک موضوع ہی نہیںبناتے اس کا نفسیانہ مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے میرا جی کے یہاں انسانی نفسیات کی بعض ایسی پیچیدہ صورتوں کی عکاسی کی گئی ہے جن کی طرف سے اس سے پہلے ہمارے شاعروں نے توجہ نہیں دی تھی۔ سو یہ کہ دونوں کی مادری زبان پنجابی ہے اور دونوں تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دونوں کے ادبی سفر میں لاہور کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ دونوں کا ثقافتی یونٹ بنیادی طور پر ایک ہے‘ دونوں مغرب سے متاثر ہیں یکن میرا جی اس مغرب پرستی کو مشرقیت سے آشنا کر دیتے ہیں جبکہ راشد مغرب کو مغربی حوالوں سے قبول کرتے ہیں میرا جی زیادہ مقامی ہیں۔ زمین کے حوالے سے قریب رہتے ہیں جبکہ راشد کے ہاں مشرق سے لگائو ایشیا کی بیداری کے روپ میں ظاہر ہوتاہے۔ وہ مشرق کی سیاسی صورت حال کی خرابیوں کودور کرنا چاہتے ہیں۔ چہارم‘ جنگ عظیم اول کے عالمی پس منظر میں جو شکست و ریخت ہوئی اس کا اثر برصغیر میں اقتصادی بحران کی صورت میں ہوا اور بے روزگاری کا ایک ایسا خوف ناک سلسلہ شروع ہوا جس کی زد میں سبھی آئے جنگ عظیم دوم نے اس بحران کو اور شدید کر دیا۔ نو آبادیوں میں آزادی کی تحریکیں مختلف صورتوں میں شروع ہو ئیں۔ برصغیر میں دوسری تحریکوں کے ساتھ ساتھ احیاء پرستی کی تحریک نے بھی جنم لیا جس کے تحت ہندوئوں نے اپنے قدیم ہندوستانی ماخذوں کی طرف رجوع کیا اور قدیم ہندو معاشرے کی بازیافت بلکہ ہندو ازم کے تسلط کے خواب دیکھنے شروع کر دیے اس کے برعکس مسلمانوں میں عربی عجمی اثرات کی بازیافت اور ماضی کے مسلم عروج کی بازگشت سنائی دینے لگی میرا جی اپنے مزاج کی وجہ سے قدیم ہندو تہذیب کی طرف راغب ہوتے گئے جبکہ راشد اپنی مغرب پرستی کے باوجود جدید عجمی روایت کی طرف متوجہ ہوئے اس کااثر دونوں کے اسلوب پر بھی پڑا چنانچہ میرا جی کے یہاں فارسی روایت کی بجائے ہندی الفاظ اور خالص اردو کے اثرات زیادہ ہیں جبکہ راشد کے اسلوب پر فارسیت کا اثر گہرا ہے۔ میرا جی کی شاعری کا آہنگ لوک آہنگ سے قریب تر ہے ۔ اور اسی وجہ سے ان کے یہاں جمال اور کو ملتا ملتی ہے ۔ جبکہ راشد کے یہاں فارسی اثرات کی وجہ سے جلال کا پہلو نمایاں ہے میرا جی کے یہاں ہندی اثرات کے تحت نظم تھرکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جبکہ راشد کے یہاں فارسی کے آہنگ کے باوجود ایک طرح کی بلند آہنگی ہے۔ پنجم ‘ فنی طور پر میراجی کی نظم ایک وحدت بناتی ہے یعنی ان کی نظم Running Linesکی نظم ہے ہر مصرعہ اگلے مصرعے سے مربوط ہو جاتا ہے۔ جبکہ راشد کی نظم کا ہر مصرعہ غزل کے مصرعہ کی طرح اپنی وحدت برقرار رکھتا ہے۔ وہ اگلے مصرعہ میں ختم نہیںہوتا بلکہ قافیہ کے ذریعے اپے معنوی دائرے کو مکمل کرتاہے راشد اگرچہ قوافی اور بحور کے مروج نظام کے خلاف تھے لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں قافیہ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے اور بعض اوقات تو وہ محض قافیہ کے لیے نیا مصرعہ لے آتے ہیں جبکہ میرا جی کے یہاں قوافی کا استعمال نسبتاً کم ہوا ہے۔ ششم راشد کے یہاں جلای اثرات نمایاں ہیں ان کا ابتدائی زمانہ خاکسار تحریک سے وابستہ رہا ہے اس کے اثرات بھی ان کے مزاج کا حصہ ہیں۔ ان کی سامراج دشمنی کا اگر فکر اقبال کا تسلسل سمجھا جائے توایشیا کی نفی کر کے وہ عجمی ثقافت کا احیاء از سر نو چاہتے تھے اورآخر کار ان کی سامراج دشمنی ایرانی توسیع پسندی میںتبدیل ہو گئی تھی‘ اس کے برعکس میرا جی ہندوستانی تہذیب و فکر کا احیا کر کے مشرقی بلکہ ہندوستانی مزاج کی بازیافت چاہتے تھے۔ ہندی اثرات نے ان کے یہاں ایک جمالی کیفیت پیدا کر دی تھی ان کے اپنے مزاج میں بھی ایک انکساری تھی جس نے ان کے فن پر بھی اثر ڈالا اور ان کی نظم میں جلال کی بجائے ایک عاجزانہ جمال پیدا ہو گیا۔ ہفتم میرا جی کی اس مشرقیت کا اظہار گیتوں کی صورت میں ہوا۔ لوک گیت کی موسیقی انہیںکاٹھیاوار گجرات لے گئی۔ اور گیت کا اثر ان کی نظموں پر بھی پڑا میرا جی کی وجہ سے ان کی نظموں کے اسلوب میں ایک کوملتا پیدا ہو گئی راشدنے گیت نہیں لکھے۔ ان کی نظم میں ایک بلند آہنگی ہمیشہ موجود رہی جسے مغربی اسلوب کا اثر سمجھا جاتا ہے۔ ہشتم زندگی کے مجموعی رویوںکے بارے میں راشد اور میرا جی کا نقطہ نظر نہ صرف الگ الگ تھا بلکہ زندگی کے رویے بھی مختلف تھے۔ اس حوالے سے دونوں کے تجربے بھی الگ الگ ہیں اور مشاہدے بھی الگ۔ اس لیے دونوں کی تخلیقی واردات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان کا اشتراک صرف نظم کے خارجی ڈھانچے اوراس کی ہئیت تک ہی یکساں ہے۔ فکری اور باطنی سطح پر دونوں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیںَ پھر یہ کہ دونوں کے شعری ابلاغ کی کیفیت بھی مختلف ہے۔ راشد کے نزدیک میرا جی نے نہ صرف جان بوجھ کر اجنبی موضوعات پر مبہم ماور غیر واضح انداز میں طبع آزمای کی بلکہ وہ خود بھی ایک پیچیدہ اور غیر واضح تھے اور ان کا ابہام فکری ہونے سے زیادہ جذباتی تھا۔ (۲۱۶) راشد اس کے برعکس فکری ابہام کے قائل تھے۔ اور ا س رائے میں انہوںنے ایک طرح سے میرا جی پر تنقید بھی کی ہے کہ ان کا ابہام جذباتی ہے ورنہ اس کے موضوعات میںیہ ابہام نہیں ہے اور اگر میرا جی کی ذات کو درمیان سے نکال دیا جائے تو ان کا ابلاغ بھی آسانی سے ہو جاتاہے۔ میرا جی اپنے آسان اسلوب کے باوجود ایک ادق شاعر مشہور ہیں حالانکہ ان کا کلام انتہائی عام فہم اورعوامی زبان میں ہے۔ (۲۱۷) لیکن اس کے باوجود راشد اپنی اور میرا جی کی شاعری میں بعض مماثلتوں کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور انہوںنے میرا جی کا دفاع بھی کیا ہے۔ سلیم احمد کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’میری اور میرا جی کی شاعری پر کئی الزام لگائے گئے ہیںَ ان میں سے ایک الزام فحاشی ہے دوسرا الزام جو پہلے الزام کا ضمیمہ سمجھنا چاہیے یہ ہے ہک ہم لو گ چونکہ جنس کا ذکر ایک حد تک جسارت کے ساتھ کرتے ہیں اس لیے ہماری شاعری مریضانہ شاعری ہے‘‘۔ (۲۱۸) یہ الزامات زیادہ تر ترقی پسند وں کی طرف سے لگائے گئے تھے۔ راشد ان کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرا یا میرا جی کی مقصد کسی نظریے کی تلقین کرنا نہ تھا بکہ ہارے نزدیک ایک انسانی شخصیت کی داخلی ہم آہنگی ایک طبعی امر تھی اور اس کا ذکر ہم نے بغیر کسی ذہنی کشمکش یا فشار کے کیا ہے‘‘۔ (۲۱۹) میرا جی اپنے مغربی مطالعے کے باوجود اپنی نظم میں مشرق کے قریب رہنا پسند کرتے تھے۔ ایک زمانے میں انہیں راشد پر یہ اعتراض تھا کہ وہ اپنی بعض نظموں میںمغرب کی نقالی کر رہے ہیں اپنے ایک مضمون میں آمیزہ ادب و سیاست میں انہوںنے ماوراء کی ایک نظم پر یہی الزام لگایا تھا کہ اس کے جواب میںراشد نے انہیں جو خط لکھا تھا اس سے ان کے فنی اور فکری نقطہ نظر پر بہت روشنی پڑتی ہے لکھتے ہیں: ’’آپ کا مضمون ’’آمیزہ ادب و سیاست‘‘ پڑھا۔ اس مضمون میں آپ نے ’’ماورائ‘‘ کی ایک نظم کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس سے یہ استباط کیا ہے کہ ایسی نظمیں لکھنا مغرب کی نقالی کا نتیجہ ہے… مجھے یہ کہنے میں باک نہیںخہ آپ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کسی قدر تعجل سے کا لیا ہے‘‘۔ (۲۲۰) اس کے بعد راشد نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہیں: ۱۔ فطرت انسانی جو دنیاکے ہر حصے میں شعرو ادب کا سرچشمہ ہے غیر منقسم اور یکساں ہے۔ یہ فطرت جغرافیاء یفاصلوں سیبہت کم بدلتی ہے۔ فرق صرف ظاہری حالتوں کاہوتا ہے باطنی کیفیات تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ب۔ اردو میں بے قافیہ و ردیف کی شاعری کی پہلے بھی مثالیں موجود ہیں اور ایرانی ماہرین عروض اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ ج۔ جہاں تک مغربی اثرات کا تعلق ہے تو ان اثرات کا آغاز تو ان عرب مسلمانوں کی کوششوں سے ہی ہو گیا تھا جنہوںنے یونان کے علم و فنون سے اکتساب کرنے کی طرف توجہ دی تھی۔ د۔ انگریزی کی تعلیم نے انہیں (راشد کو) مغربی علوم سے آشنا کرنے بلکہ اسے سمجھنے میںبڑی مدد دی ہے۔ خط کے آخر میں راشد کے یہ جملے بڑے معنی خیز ہیں کہ : ’’اگر میری تعلیم میں سنسکرت‘ ہندی اور اردو کا عنصر کماحقہ شامل ہوتا تو میں بھی شاید شیکسپئیر کیٹس اوربائرن کے جنازوں کو کندھا دینے میں آپ کا شریک ہو جاتا لیکن اب میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے اور میںمحسوس کرتاہوں کہ حکمت و فن صرف کالی داس‘ سعدی اور حافظ کی اجارہ داری نہ تھے۔ ‘‘ (۲۲۱) راشد کے خیالات پر تنقید یہاں مناسب نہیں۔ یہ اقتباس صرف اس فکری اختلاف اور متضاد رویے کو نمایاں کرنے کے لیے درج کیا گیا ہے جو میرا جی اور راشد میں موجودتھا۔ میرا جی مغربی ادب سے واقف تھے۔ انگریزی پر بھی ان کی دسترس تھی اور انہوںنے بہت سے مغربی شاعروں کے ترجمے بھی کیے لیکن وہ ساری مغربی شاعری سے متاثر نہ تھے۔ ان کی پسند کی اپنی وجوہات تھیں۔ اور انہو ں نے صرف انہی مغربی شاعرو ں کو اردومیں متعارف کرایا جن سے ان کی ذہنی وابستگی تھی یا ڈاکٹر سلیم اختر کے لفظوں میں جو ان کی اپنی شخصیت کی تفہیم میں معاونت کرتے تھے۔ راشد کے برعکس میرا جی کا مزاج بنیادی طورپر مشرقی تھا۔ راشد صرف مغرب کے ادب ہی سے متاثر نہ تھے بلکہ آہستہ آہستہ مغربی کلچر کا رنگ ان کی ذات و شخصیت پر بھی گہر ہوتا گیا اور آخر کار وہ مکمل طور پر مغربی اثر میں آ گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ملازمت کے اختتام پر لندن میں مستقل رہائش اختیار کر لی اس کے برعکس میرا جی بنیادی طور پرہندوستانی تھے اور یہاں کی مقامی تہذیب و تمدن ان کے رگ و پے میں رچا بسا تھا یہا ں تک کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی وہ ہندوستان کی زمین اور اس کے مقامی مظاہر کے اتنے قریب تھے کہ اکثر ان پر ہندو ہونے کا شبہ کیا جاتا تھا۔ یہ اس مشرقی سماج کا ہی اثرتھا کہ میرا جی نے صرف انہی مغربی شاعروں کو اردو قالب عطا کیا جن میں کسی حد تک مشرقی روایات کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ میرا جی کا تصور عشق بھی خالصتاً مشرقی ہے۔ اور جنسی رویوں میں بھی اپنی تمام تر بلند آہنگی کے باوجود مشرقی ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی فرق دونوں کی تخلیقی واردات میںبھی ہے۔ راشد کا پور ا آدمی میرا جی کے پورے ٓدمی سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ ان کا ثقافتی اور تہذیبی مزاج کا دائرہ بھی الگ الگ ہے۔ میرا جی کے یہاں راشد کے مقابلے میں جدیدیت کی پہچان واضح اور سوچی سمجھی ہے۔ شمیم احمد کے خیال میں: ’’میرا جی راشد کی طرح جدید شاعری کو صرف قدیم اصناف سخن سے بغاوت اور اجتہاد سمجھ کر نہیں قبول کررہے تھے۔ ان کے ہاتھوں جدید سکول کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ ان کے یہاں اس کا مفہوم محض بغاوت سے کہیں زیادہ اہم اور دور رس تبدیلیوں اور منصوبوں کا حامل تھا ‘‘ (۲۲۲) میرا جی اور راشد میں ایک اور قدر بھی مشترک تھی کہ دونوں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شعری افکار کی تشریح و تبلیغ بھی کرتے تھے ایک حوالے سے نقاد بھی تھے لیکن میرا جی کے مقابلے میں راشد کا تنقیدی سرمایہ بہت کم ہے میرا جی نے باقاعدگی کے ساتھ تنقید بھی لکھی اور نظریاتی تنقید کے بجائے عملی تنقید کو بھی ترجیح دی۔ اس نظم میں تجزیے مشرق و مغرب کے نغممے کے شاعروں کے تنقیدی تعارف اور دورسے بہت سے مضامین اردو تنقید میں ایک بڑے اور منفرد سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا جی کو اردو میں نفسیاتی تنقید کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ راشد نے تنقید کی طرف اتنی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ ان کی تنقید ان کے وسیع مطالعے اور اپنی شاعری کے تعارف ار جواز کی ایک کوشش ہے چنانچہ اس شعبہ میں میرا جی ان سے بہت آگے ہیں۔ اس عہد کے دوسرے شعراء میں سے فیض اور فراق نے بھی تنقید لکھی ہے لیکن فیض کی تنقید تاثراتی ہے۔ ان کا تنقیدی مجموعہ میزان ہلکے پھلکے انداز کے تشریحی اور تاثراتی مضامین پر مشتمل ہے انہیں باقاعدہ طورپر نقاد کی حیثیت سے نہیں جانا جاتا اور نہ ہی وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں البتہ فراق کے مضامین اپنے موضوعات اور تنقیدی بصیرت کے حوالے سے اہم ہیں اور ان کی عصری ادب اور کلاسیکی ادب پر تنقید کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔ میرا جی اور فراق کی تنیقد میں نقطہ نظر کا بنیادی فرق یہ ہے کہ میرا جی نفسیاتی دبستان اور فراق جمالیاتی دبستان کے آدمی تھے۔ زندگی گزارنے کے رویوں میں اختلا ف کے ساتھ ساتھ دونوں کا خصوصی شعری میدان بھی الگ الگ تھا میرا جی بنیادی طور پر نظم وفراق غزل کے شاعر تھے۔ دونوں نے اگرچہ دوسری اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن میرا جی کی پہچان نظم اور فراق کی غزل سے ہے۔ اس لیے دونوں کے تقابلی مطالعے میں صرف عصر ہی بنیادی اشتراک ہے ورنہ دونوں کا نقطہ نظر‘ دلچسپیاں اور طریقہ کار الگ الگ ہیں اس لیے دونوں کی تخلیقی واردات اور تنقیدی بصیرت کی شکلیں بھی جدا جدا ہیں۔ میراجی اپنے ہم عصروں میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی اہمیت تو یہ ہے کہ انہوںنے اردو نظم کے جدید روپ کو مقبول بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے حمید نسیم کے لفظوں میں: ’’میرا جی اپنے دو ر کا اہم شاعر ہے۔ راشد اور فیض کا ہم عصر اور ایک نئے شعری دبستان کا بانی۔ اس کا موضوع انسان کا ظاہر نہیںباطن ہے۔ انسان کی وہ شعوری اور تحت الشعوری کیفیات جو اس کے فکر و عمل کے پیچھے کارفرما ہوتی ہییں اس نے ان کے عمیق جذباتی اور فکری تجربوں کے اظہار کے لیے نئی زبان‘ نئی علامتیں‘ نئی اصطلاحیں اورنئے کردار وضع کرنے کی کوشش کی ‘‘۔ (۲۲۳) انیس ناگی بھی میرا جی کی اس منفرد حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرا جی کی راشد اورفیض کی نسبت جدید شاعری میں حیثیت مختلف تھی۔ فیض لیریکل شاعر ہے اس نے مروجہ شاعری کا سٹرکچر بدلنے کی بجائے اس میں کہیں کہیں اضافہ کیا لیکن عموماً غزل کے لسانی اسلوب کو اپنایا ۔ اس نے راشد اور میرا جی کی نسبت کم آزاد نظم کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ راشد نے اگرچہ آزاد نظم کو ذریعہ اظاہر بنایا لیکن اس کی مفرس اور معرب شعری لغت ہمیشہ اس کے قاری کے درمیان حجاب کی طرح حائل رہ۔ یوں بھی راشد Run onمصرعے لکھنے سے گریز کر کے نظم معریٰ کی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ راشد اور فیض کے برعکس میرا جی نے جدید شاعری کی وضاحت بھی کی۔ میرا جی ایک معمار شاعر تھا۔ اس نے جدید شاعری کی تخلیق اور رواج کے لیے فضا بندی کی اور آزادنظم کے اندرونی سٹرکچر کی طرف خصوصی توجہ دی۔ علیحدہ علیحدہ مصرعوں کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے نظم کو ایک معنوی اکائی میں منتقل کرنے کا ایک طریقہ اردو شعراء کو بتایا۔ نظم جاتری میں طویل سے طویل مصرعہ لکھنے کا کامیاب تجربہ کیا…سریلسٹ تکنیک کو اردو شاعری میں رائج کیا‘‘ (۲۲۴) محمد صفدر میر کے خیال میں بھی میرا جی کی جہ انفرادیت مسلم تھی اور اپنے ہم عصروں کی نسبت وہ جدید مادی علوم کے نقطہ نظر سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔ اپنے تجرباتی مطالعوں اور تنقیدی مضامین کے ذریعے مریا جی نے جدید نظم کی فہیم کو عام نہیں کیا بلکہ اس کی ہیتی اور فنی صورتوں کو بھی متعارف کروایا۔ میرا جی کی نظم زمین سے وابستگی کا اظہار کرتی ہے۔ اس حوالہ سے اس میں دروں بینی ککی کیفیت بھی پیدا ہوئی ہے۔ ترقی پسند تحریک کا سارا زور خارجی حقیقت نگاری کی طرف تھا۔ جس کی وجہ سے شاعری میں خارجیت اس حد تک آگے آ گئی تھی کہ فرد کا باطن گم ہو گیا تھا میرا جی نے فرد کی اندرونی کشمکش کو جس نفسیاتی اور جنسی مطالعے کے حوالے سے دریافت کرنے کی کوشش کی اس نے اردو نظم میں اندر کی دنیا کو پانے سمجھنے کے دروازے وا کر دیے۔ سر سید اور حالی کی اصلاحی تحریک سے ترقی پسندوں کی خارجی حقیقت نگاری تک اردو نظم قومی مرثیے سے نیچرل شاعری اور طبقاتی جدوجہد کے راستے طے کرتی جس مرحلہ پر پہنچی تھی اس نے ایک انتہا پسند انہ صورت اختیار کر لی۔ جس کا رد عمل بھی ہوا اور یہ رد عمل خارج سے باطن کی طرف مراجعت کا سفر تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس رد عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جدید اردو شاعری میں یہ رد عمل اندر کی دنیا کی سیاحت کا وہ رجحان تھا جو میراجی سے شروع ہوا۔ میرا جی نے اپنی شاعری میں ان بہت سے احتسابات کو مسترد کردیا جو ایک طویل اصلاحی تحریک کی دین تھے… میرا جی نے جسم اور اس کے تقاضوں سے شرمانے کی بجائے انہیں اپنے شعری اظہار سے منسلک کر دیا اور یوں شاعری کو ایک غیرفطری رویہ اختیار کرنے سے باز رکھا… جب میرا جی اندر کی طرف متوجہ ہوا تو اس کی شاعری میں زمین کی باس ابھر آئی اور اردو شاعری کو ایک مضبوط بنیاد مہیا ہو گئی‘‘ (۲۲۵) زمین سے اپنی اس وابستگی کو میرا جی نے زمین کے خارجی مظہر عورت کے حوالے سے بیا کیا اقبال کے بعد اختر شیرانی نے بھی عورت کو از سر نو دریافت کیا تھا لیکن اختر شیرانی کے یہاں یہ سارا بیان ایک روحانی دھندلکے میں لپٹاہوا ہے۔ محبت کا آدرشی روپ ان کے یہاں افلاطونی محبت کے کرداروں کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ میرا جی کے یہاں عورت ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے ارو جنس کے بارے میں ان کا رویہ صحت مندانہ ہے۔ میرا جی نے جنس کو محض جسمانی سطح پر اپنا موضع نہیں بنایا بلکہ انوار انجم کے لفظوں میں اپنے ذہنی اور جسمانی ارتقاء کے دوران اپنے شعور اورلاشعور پر جس جس طرح اس کے اثرات محسوس کیے ہیں ان کا بے جھجک اظہار کر دیا ہے (۲۲۶)۔ میرا جی جنسی عمل کو غیر اخلاقی حرکت تصور کرنے کی بجائے اسے انسانی صحت کے لیے ایک مثبت عمل سمجھتے ہیںَ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ عمل انسان کو ایک روحانی مسرت سے ہم آہنگ کرتا ہے چنانچہ وہ جنس کو ایک قبیح فعل سمجھنے کی بجائے حسن کے گرد جمع اس تہذیبی آلودگی کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مروج اخلاق کی پیداوار ہے۔ جنس کے ساتھ میرا جی کا تعلق سطحی یا اکتسابی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی ہے کیونکہ وہ اسے زندگی اور تخلیق کا ایک لازمی عنصر سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے: ’’زندگی اور تخلیق سے بڑھ کر کوئی موضوع شعری خصوصیات نہیں رکھتا کیونکہ عشق بھی اسی جذبے کا نام ہے جو زندگی کے بعد پیدا ہوتا ہے اور پھر نئی زندگی کو پیدا کرنے کی وجہ سے بنتا ہے‘‘ (۲۲۷)۔ جنس کے ساتھ ساتھ اس دلچسپی کی وجہ سے انہیں فرائڈ کے قریب ہونے کا موقع ملا اور فرائڈ نے انہوں نے تخلیق کا وہ گر سیکھا جس کے زورپر بعد میں انہوںنے تنقید اور طریقہ کار کا ایک نیا دبستان متعارف کروایا۔ تحلیل نفسی کے طریقہ کار سے انہوںنے اجتماعی اور انفرادی لاشعور میں جھانکنے کی سعی کی کوشش کی جن کے سرے کسی نہ کسی طرح جنسی پابندیوں ی انارسائیوں سے ملے ہوئے ہیں۔ میرا جی بہت سے دوسرے اردو شاعروں کی طرح عورت کے خوف کا شکار نہیںبلکہ اس کے برعکس انہوںنے عورت کے وجود کا اعتراف کیا ہے۔ میرا جی کی شاعری میں عورت کا تصور کئی صورتیں اختیار کرتا ہے۔ یعنی طوائف گھریلو عورت دلہن اور ماں۔ بہت سی صورتوں میں انہیں میرا سین کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے لیکن ان کاپسندیدہ تصور دلہن کا ہے اور پھر ماں کی پکار جس طرح سمندر کا بلاوا میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کی کئی نظموں میںمثلاًتیاگ اپنا پجاری وغیرہ میں میرا سین کی بازگشت ہے لیکن میرا جی اپنی سائیکی سے بھی گہرا واقفیت رکھتے تھے کہ میرا کے ساتھ اس وابستگی کو اس نے خود اپنی ایگو (Ego)کے ہمزاد کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ‘‘ (۲۲۸) اقبال کے بعد شاعری میں عورت کے تصور کو جس طرح شامل کیا گیا اس کی مثال اختر شیرانی کی سلمیٰ اور عذرا ہیں۔ لیکن اختر شیرانی کی رومان پسندی نے عورت کو ایک تخلیقی مخلوق بنا دیا۔ راشد اور میرا جی نے اس تخیلی عورت کے اندر سے ایک حقیقی تورت کو نکالنے کی کوشش کی۔ میرا جی نے اس سلسلے مین روایت جدت اور مغربی افکار کو ملا کر ان سے عورت کا ایک ہیولہ تیار کیا چناندہ ہندی شاعری سے انہوںنے عورت کے دیوی پن کا تصور اخذ کیا اور مغرب بلکہ فرانسیسی شاعروں سے عورت کی جسمانی پہلو تلاش کیے اور دونو ں کے امتزاج سے ایک مکمل عورت تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں وہ ان روایتوں کی تلاش میں تھا جن سے مدد لے کر وہ اردو شاعری کی روایت میں عورت کا تصور شامل کر سکے ‘‘۔ (۲۲۹) انہوںنے ایک جیتی جاگتی عورت کو محسوساتی سطح پر متعارف کرانے کی سعی بھی کی چنانچہ ہم اس کی نظم پڑھتے ہوئے عورت کے روپ اور اس کی ساری لطافتوں اور کثافتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں‘‘۔ (۲۳۰) عورت میرا جی کے یہاں عموماً تین رویوںمیں ظاہر ہوئی ہے یعنی ماں دلہن اورطوائف ۔ عورت کے یہ تینوں روپ اپنی اپنی جگہ اہم ہیںَ ماں کے حوالہ سے عورت انہیں اپنی طرف بلات ہے سمندر کا بلاوا اور اس جیسی دوسری نظموں میں یہ عورت یعنی ماں بانہیں کھولے انہیں آوازیں دیتی ہے۔ دلہن کے روپ میں عورت ان کی تمنا ناتمام خواہشوں اور ناتعبیر خوابوں کی علامت ہے۔ عورت کا یہ کردار بھی اس کا مثبت روپ ہے جو مرد کی خواہشوں کو ایک خلاقی تحفظ دیتا ہے۔ طوائف کے روپ میں عورت ان اخلاقی قیود سے آزاد ہو جاتی ہے۔ جو معاشرہ اپنے بچائو کے لیے عورت پر عائد کرتاہے۔ میرا جی کے یہاں عورت کے تینوں روپ اپنی پنی صورتوں میں نہایت موثر ہیں جن کے مطالعے سے میرا جی کی نفسیاتی گرہ کشائی میں مدد ملتی ہے۔ جنس اور عورت کے بارے میں میرا جی کا یہ رویہ حقیقت کے مروج تصور سے گریز کا ہے۔ جیسے ایک حوالے سے باغیانہ رویہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بغاوت راشد کی بغاوت اور ان کے دوسرے ہم عصروں کے گریز کے رویوں سے مختلف ہے۔ میرا جی کی اس بغاوت میں داخلی عنصر بھی شامل ہے ارو ان کی داخلیت پسندی انہیںایک روحانی کرب اور تنہائی کے آشوب میںمبتل کر دکتی ہے اور یہی ابتلا ذات کے عرفان سے آشنائی کا سبب بنتی ہے ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں: ’’وہ جو مبتلا تھا اسے اپنے مبتلا ہونے کا عرفان حاصل ہو گیا یعنی اس کی تیسری آنکھ یکایک کھل گئی اور اس نے خود کومکروہات دنیا میں گرفتار دیکھ لیا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ جیسے کوئی روزن در سے ہمسائے کے آنگن کا نظارہ کرے اور پھر یکایک خود کو روزن در سے جھانکتے ہوئے دیکھ لے۔ اسی چیز کو Ouspenskyنے Self Rememberingکا نام دیا ہے۔ روحانی سطح پر یہی Self Rememberingعرفان کے لمحے پر منتج ہوتی ہے۔ (۲۳۱) عرفان کا یہ لمحہ ہی حیرت کا وہ لمحہ بنتا ہے جہاں چیزیں نئے اندازاورنئے رویوں کے ساتھ منکشف ہوتی ہیںَ میرا جی کی بنیادی تربیت اگر فارسی روایت کے حوالے سے ہوئی ہوتی تو اس لمحہ حیرت سے ایک مکمل صوفی بن کر نکلتے لیکن فارسی روایت کے بجائے ان کا رجحان ہندی روایت کی طرف تھا اس لیے اس لمحہ حیرت سے اس سادھو نے جنم لیا جس کے نزدیک دنیا کو تیاگنا زیادہ بہتر عمل تھا۔ لیکن میرا جی کا کمال یہ ہے کہ ا س سادھو پن کے باوجود ان کی ذات کا مرکزی نقطہ نہ صرف اپنی جگہ پر قائم رہا بلکہ انہوںنے ا س مرکزی نقطہ کے حوالے ہی سے اپنے اردگرد کا مشاہدہ کیا ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں: ’’میرا جی جب تک جیا اپنی ذات کے مرکزی نقطے پر کھڑے ہو کر جیا اور یہیں سے وہ اپنی تیسری آنکھ کو بروئے کار لاتا رہا نظر کے رشتوں کو بنتے مٹتے اور پھر مٹتے بنتے دیکھتا رہا یوں سوچے تو وہ منسلک بھی تھا اور منحرف بھی اور اپنی ان دونوں حیثیتوں کا ناظر بھی‘‘ (۲۳۲) اپنی مرکزی ذات کو نقطہ بنا کر اس بلندی سے چیزو ں کو دیکھنا کہ اپنا تماشا بھی دکھائی دے ایک صوفیانہ عمل ہے جہاں بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ میرا جی کی ذہنی تربیت اور ان کے ہندی فلسفے سے رغبت نے انہیں تیاگ اور گیان کے جس رویے ک یطرف متوجہ کیا ہے اس کے ڈانڈے قدیم ہندوستانی فلسفے سے ملتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں ہندوستانی فضا اپنے ہم عصروں سے بہت مختلف اورگہری ہے۔ جدید نظم کی تحریک میں ان کے ساتھ شامل راشد بھی فارسی روایت کے تسلسل میں بات کرتے ہیں۔ فیض فراق اور حفیظ کے یہاں تو خیر غزل کے حوالے سے کلاسیکی روایت کا تسلسل موجود ہے۔ جوش کی نظموں میں بھی انقلاب کی ساری کیفیت اپنے فنی مزاج میں اردو ذوق کی نمائندگی کرتی ہے لیکن میرا جی کی فنی بنت کاری او ر تخلیقی واردات کی مختلف جہتوں میں فارسی روایت کے بجائے ہندی روایت کا تسلسل ملتا ہے۔ ہندوستانی فضا کے یہ رنگ میرا جی میںمقامیت کا ایک ذائقہ ضرور پیدا کر دیتے ہیں۔ لیکن ان کا ایک برا نقصان یہ ہوا ہے کہ میرا جی اس مرکزی دھارے سے کٹ گئے ہیں جو ہندو مسلم تہذیب کی ایک بڑی لہر کے حوالے سے اردو ادب کا لازمی جزو ہے۔ ا س کٹائو نے میرا جی میں کسی حد تک اجنبیت بھی پیداکی ہے اورہم عصروں کے مقابلے میں ایک عرصہ تک ان کے نظر انداز ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوںنے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی ۔ دراصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کوئی کوشش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان شخصی افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیںَ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح برصغیر کی سیاسی سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔ عام طور پر میرا جی کواینٹٰ ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میںبرصغیر کی اقصادی صورت حال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی پسند بھی نہیں کرتا۔ میرا جی کے ایک مضمون ’’ہندوستان کی غربت کا مسئلہ‘‘ میں سے یہ چند سطریں ملاحظہ کیجیے: ’’حکومت پرست اخبارات اور افراد ہندوستان کی صنعتی تنظیم کے خطرے کو دیکھتے ہوئے اندیشوں میں دبے ہوئے جا رہے ہیں لیکن ان کی گھبراہٹ پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں ہے۔ بلکہ ان کی یہ سراسیمگی ہمارے لیے باعث انبساط ہے۔ ہندوستانی شہسوار میدان شجاعت میں اپنے جوہر دکھا کر اب اقتصادی میدان میں غیر ملکی اقتدار و اختیار پر حملہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ‘‘۔ (۲۲۳) ہندوستان کی غربت کامسئلہ کاتجزیہ کرتے ہوئے میرا جی اس حقیقت سے بھی آگے جا کر بات کرتے ہیں جس کا پرچار اس زمانے کے ترقی پسند کر رہے تھے۔ میرا جی نے مسائل کا تجزیہ بڑے کھرے اور سچے انداز میں کیا ہے۔ اسی مضمون میں آگے جا کر کہتے ہیں: ’’اس حالت کو برطانوی سرمایہ داری نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے پیدا کر رکھاہے۔ ہندوستانی اقتصادیات میں زرعی امتیاز اور برطانوی صنعتی سامان سے ہندوستانی مبادلے کا نرخ درحقیقت برطانیہ کے مفاد کی خاطر روا رکھا گیا ہے۔ ہندوستانی مبادلے کے نرخ در حقیقت برطانوی وسیع کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں‘‘۔ (۲۳۴) ہندوستان کی زرعی صورت حا ل کو برطانوی سامراج نے جس طرح اپنے مفادات کے لیے ایک رنگ دیا تھا اور مال کے بدلے مال کاجو سلسلہ شروع کیا تھا اس کا تجزیہ میرا جی نے جس حقیقت پسندی سے کیا ہے وہ ان کے سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ اقتصادی امور پر گرفت کی دلیل بھی ہے میرا جی نے اس وقت کے برطانوی ٹریڈ کمشنر کے اس بیان پر بھی سخت تنقید کی ہے کہ جس میں اس نے کہا تھا کہ گزشتہ دو برسوں سے ہندوستان برطانیہ کے مال کی سب سے بڑی منڈی نہیں رہا۔ میرا جی نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’ہم نے کبھی بڑی منڈی ہونے پر اظہار تفاخر نہیں کیا کہ ہم اپنی دولت کو ضائع کرنے کے لیے یہ مصرف امتیاز حاصل کریںَ برطانیہ اگر یہ سبق دینا چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت ملک اپنی غلامی اور غربت پر اظہار مسرت کریں تو وہ دوسروں کی طرف توجہ کرے ہندوستان اس سے باز آیا‘‘۔ (۲۳۵) آخری سطروں میں برطانوی سامراج پر جو طنز لگایا گیا ہے وہ میرا جی کی قوم پرستی ہی کی دلیل نہیں بلکہ مسائل کی تہہ میں اتر کر اصل صورت حال سے واقف ہونے کی بات بھی ہے اور ظاہر ہے کہ پیچیدہ اقتصاد ی مسائل اور سامراجی ہتھکنڈوں سے وہی شخص پوری طرح آگاہ ہو سکتاہے جسے سماجیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی اقتصادیات سے بھی دلچسپی ہو میرا جی کی نظر اس اقتصادی بحران پر بھی تھی جو مستقبل میں یورپ میں آنے والا تھا کہتے ہیں: ’’اسے (ہندوستان کو) اس بات کا مکمل شعور ہے کہ غریبی اور فلاکت کا جو اگلے سے علیحدہ کرنے کے لیے اقتصادی تنظیم از بس ضروری ہے نیز اپنے مستقبل کو سدھارنے کے لیے اسے اپنے بل بوتے پر انحصار کرنا ہو گا۔ اس وقت سرمایہ داری پند و نصائح اور انتباہ پر اترآئی ہے لیکن وہ دن دور نہیں کہ یہ سب اونچے گھمنڈی التجائوں کی طرف رجوع ہو جائیں گے۔ سرمایہ داری کی تمام چالیں ا ب ہماری نظروںمیں آ چکی ہیں ۔ یہ حیوان پہلے غراتا ہے اور دانت دکھاتا ہے لیکن بعد ازاں وقت کے مطابق دم بھی ہلانے لگتاہے‘‘۔ (۲۳۶) اس سے زیادہ ترقی پسندانہ رویہ اورقوم پرستی کااظہار اور کیا ہو سکتا ہے۔ مریا جی کی سیاسی دلچسپی صرف برصغیر تک ہی محدود نہ تھی ان کے مضامین کے متنوع موضوعات سے انداز ہ ہوتاہے کہ ان کی نظر پورے گلوب کے سیاسی سماجی مدوجزر پر تھی۔ ان کے مضامین چینی عورتیں زندہ باد اور جاپان کے مزدور میں جس طرح چینی سماج میں عورتوں کی بیداری اور جاپان میں صنعت کاری کے نتیجے میں بندہ مزدور کے اوقات کا جائزہ لیا گیا ہے وہ میرا جی کی وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔ میرا جی کی دلچچسپ سرف سیاسی اور سماجی موضوعات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ سائنسی انکشافات او ر مجموعی سائنسی صورت حال پربھی ان کی نظر تھی۔ اس کا کچھ اندازہ ان کے مضمون سورج کا زوال سے ہوتاہے اس کے علاوہ ان کو علم فلکیات سے بھی دلچسپی تھی۔ یہ سارے متنوع موضوعات میرا جی کی شخصیت کو ہمہ جہت بناتے ہیں اورمحسوس ہوتاہے کہ وہ اپنے بہت سے ہم عصر شاعروں کی طرح صرف شاعرہی نہ تھے اس سے بڑھ کر بہت کچھ اور بھی تھے۔ میرا جی کے مجموعی شعور کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پرایک بڑی معاشرتی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے شخص تھے لیکن یہ خواب ایک لیبل یافتہ ترقی پسند کا خواب نہ تھا نہ میرا جی اسے پسند کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں کسی بھی طرح کا نعرہ یا منشور فنکار کی ذاتی آزادی کو ختم کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سماج اور سماج کے مظلوموں سے ایک وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی نجی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ انہوںنے دوسروں کی اور خصوصاً چھوٹے طبقوں کی مدد لینے کے لیے اپنی عزت کو بیھ خطرے میں ڈالا اور دوسروں کی مدد کے لیے سود پر قرض لینے سے بھی گریز نہیںکیا۔ بنیادی طور پر وہ خود بھی ایک ایسے مظلوم شخص تھے جس نے خواب بہت بڑے بڑے دیکھ لیے تھے لیکن تعبیر کی صورت موجود نہ تھی۔ مظفر علی سید کے لفظوں میں اس کا فلسفہ ایسے مظلوم آدمی کا فلسفہ تھا۔ جس نے جینے کا سکھ کبھی دیکھا ہی نہیں ‘‘۔ (۲۳۷) لیکن ان کے یہاں دوسروں کویہ سکھ پہنچانے کا جذبہ ضرور موجود تھا۔ میرا جی کے سماجی شعور کااظہار ان کی کئی نظموں میں ہوا ہے ۔ جہاں چھوٹے طبقوں سے ان کی واضح وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے ان کی نظمم کلرک کانغمہ محبت اس کی بہترین مثال ہے۔ سب رات مری سپنوںمیں گزر جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں پھر صبح کی دیوی آتی ہے اپے بستر سے اٹھتا ہوںمنہ دھوتا ہوں لایا تھا کل جو ڈبل روٹی اس میں سے آدھی کھائی تھی باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے اس بندمیں جس طرح ایک متوسط طبقے کے شخص کی ذہنی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ مشاہدے کی زیر کی دلیل ہے۔ متوسط طبقے کا یہ شخص کیسے یسے سہانے خواب دیکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رات کی بچی ہوئی روٹی کھا کر دفتر روانہ ہونا پڑتاہے۔ حقیقت اور سپنے کا یہ تضاد میر ا جی کے مشاہدے ک دلیل تو ہے ہی ‘ کلرک کے ساتھ ان کی وابستگی اور اس کے مسائل کو اسی کی سطح پر اتر کر سمجھنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ اس نظم میں محرومیوں کا طویل سلسلہ ہے جن سے اس نظم کا مرکزی کردار گزرتاہے آ س پاس کی آسائشوں اور لوگوں کے اطمینان و سکون کو دیکھتا دفتر پہنچتا ہے۔ اور اپنے افسر کی فضول باتیں سنتا ہے۔ نظم کا اختتام ان سطروں پر ہوتا ہے۔ پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں اور دل کی آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دورمرا گھر ہوتا اور تو ہوتی! لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرت سے بھی پرانی ہے یہ ایک کلرک کی نا محرومیوں کا ہ قصہ نہیں ایک طبقے کے ساتھ ہونے والی طبقاتی نا انصافیوں کا نوحہ بھی ہے۔ ا س نظم سے اندازہوتاہے کہ میرا جی طبقاتی شعور رکھتے تھے اور ان کی واضح ہمدردیاں نچلے طبقے کے ساتھ تھیں۔ میرا جی ان معنوںمیں تو نظریاتی شاعر نہیں تھے۔ جن معنوں میں ترقی پسند شاعر اپنی پہچان کراتے تھے۔ لیکن میرا جی کے یہاں زندگی کا ایک نظریہ موجود ہے اور یہ نظریہ موجود سے غیر مطمئن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمل مسلسل کی خواہش ہے۔ وہ موجود کو بدلنا چاہتے تھے لیکن کسی نعرے یا منشور کے تحت نہیں فن کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسے زندگی کے کل کا احاطہ کرنا چاہیے۔ کسی ایک یا کسی مخصوص موضوع تک محدود نہیں ہونا چاہیے اس یے میرا جی کے یہاں زندگی کا تنوع ملتا ہے۔ جنس ان کے یہاں صرف ایک استعارہ ہے جس کے حوالے سے وہ زدنگی کے کل دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندوستانی معاشرہ اپنے بہت سے رنگوں کے ساتھ سانس لیتا محسوس کرتا ہے اور وہ اسے اسی حالت میں قبول کرنے کے بجائے اسے اپے خوابوں اور آدرشوں کے رنگوں میں سجا کر مختلف صورتوں اور زاویوں میں منعکس ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش یہ خواب انہیں زندگی کی توانائی عطاکرتے ہیں۔ اپنی شخصیت کے مجہول پن کے باوجود وہ ذہنی اور باطنی طور پر ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے تحرک کو پسند کرتے تھے اور اس کا اظہار ان کی شاعری میں جگہ جگہ ہواہے۔ زندگی کا زیر و بم جذباتی تموج حال کے لمحہ پر کھڑے ہو کر ماضی کی بازیافت اور پھر مستقبل کی طرف نگاہ انہیں اپنے عہد کا ایک اہم شاعر بناتی ہے اورنہیں اپنے ہم عصروں میں انفرادیت عطا کرتی ہے۔ میرا جی کی شاعری میں اگرچہ جنس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ وہ صرف جنسی موضوعات تک ہی محدود نہیں بلکہ جنس کی جسمانی سطح سے بلند ہو کر انسانی روح کی بالیدگی اور سکون کامل کی تلاش کے سفر پرنکلتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جنس ان کے یہاں محض بدنی لذت کانام نہیں بلکہ محمد صفدرمیر کے لفظوں میں میرا جی کی شاعری کا موضوع جنس یا عورت نہیں بلکہ محبت کے وہ مظاہر ہیں جس کو اس نے اپنی سوسائٹی میں مروج دیکھا ہے۔ (۲۳۸) جنس تو میرا جی کا صرف ایک پہلو ہے وسیع تر پس منظر میں ان کی شاعری کی ایک بڑی تلاش کا سفر ہے جس می سب سے بڑا تجسس نامعلوم کو جاننے کی تمنا ہیے وجود مطلق یا خدا کے تصور کے بارے یں بھی زندگی بھر بڑا تجسس رہا تھا اس کی ذہنی فضا ایک جدید انسان کی تھی جو حیات و کائنات کے بارے یں جدید سائنسی انکشافات کی روشنی میں غور و فکر کرنے کا عادی تھا۔ (۲۳۹) میرا جی کی اکثر نظموں میں اس غور و فکر کا اندازہ ہوتا ہے حتیٰ کہ خالص جنسی نظموں میں بھی اس غور و فکر نے ایک نفسیاتی گرہ کشائی کی کیفیت پیدا کر دی ہے سلیم احمد کہتے ہیں: نفسیاتی الجھنیں میرا جی کی نظموں کا خاص موضوع ہیں جنہیں وہ بڑی فنکاری سے ان کے آخری نتیجے تک لے جاتے ہیںَ اس طرح وہ اپنے قاری کی الجھنوں کو لاشعور سے شعور میں لا کر اس کے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں (۲۴۰) میرا جی کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے ان نفسیاتی الجھنوں کو اپنی ذات کے مرکزہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے زمانے کے مخصوص معاشرے کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے (۲۴۱) میرا جی کی شاعری موضوع کے حوالے سے اپنے دور کی مجموعی مزاج سے خاصی مختلف تھی اس اختلاف کی ایک وجہ تو میرا جی کے عہد کی بدلتی ہوئی سماجی سیاسی صورت حال تھی اور دوسرے خود میرا جی کی اپنی انفرادیت۔ اس سماجی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹرسلامت اللہ کہتے ہیں: ’’(میرا جی ) اس تصادم و کشمکش کی پیداوار ہیں جو ایک طرف ہماری انفرادی آزادی اور سمجی و اخلاقی خواہشیں ہیں دوسری طرف مغربی تعلیم سے بڑھتی ہوئی انفرادیت اور انفراد آزادی کی خواہش‘ سماج اٹل اورمستحکم فرد مجبور اور بے بس لیکن پھر بھی یہ کشمکش جاری ہے۔ باغی فرد اس سماج کو ذرہ ذرہ کر کے بکھیر دینا چاہتا ہے۔ جو اس کے نزدیک مفلوج اور اندھی ہے اور دوسری طرف فماج کے علمبردار ان باغیوں کی سرکوبی میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (۲۴۲) میرا جی کی یہ بغاوت محض شخصی رویوں کی بغاوت نہیں بلکہ ایک بدلتے ہوئے عہد کی پرانے عہد سے بغاوت ہے۔ اس لیے یہ اعتراض درست نہیں کہ میرا جی کا پسندیدہ موضوع جنس ہی نہیں ہے ان کی شاعری میں اور بہت سے ایسے مشاہدات ہیں جو موجودہ تمدن سے لیے گئے ہیں۔ ’’کلرک کا نغمہ محبت‘‘ ۔ ’’جہالت‘‘ اور ’’ابوالہول‘‘ وغیرہ اسی قسم کی نظمیں ہیں۔ (۲۴۳) جہاں تک جنسی موضوعات کا تعلق ہے تو جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ میرا جی نے ’’آدمی کے ان دکھتے ہوئے زخموں اور زنگ خوردہ جنسی جذبوں کی تطہیر کا فرض ادا کیا ہے جنہیں ہمارے دوسرے شاعروں نے دانستہ نظر انداز کر رکھا تھا‘‘۔ (۲۴۴) دراصل میرا جی کا عہد ایک ایسا دور تھا جس کے مسائل ماضی سے نہ صرف بہت مختلف تھے بلکہ جس کے مسائل کی نوعیت بھی پہلے سے زیادہ شدید اور الجھی ہوئی تھی۔ سلیم احمد ا س کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس عہد کی جدید شاعری ایک ایسی شاعری ہے جس کا مقابلہ چند ایسے مسائل سے تھا جن سے اردو زبان کی شاعری کو اب تک کسی دور میں سابقہ نہیں پڑا تھا۔ ان مسائل کو ان کی پوری شکل میں نمایاں کرنے اورمقدور بھرا نہیں ہندوستان کے شعور میں رچانے بسانے کے لیے اس شاعری نے اک نئی ہئیت اختیار کی۔ میرا جی کی شاعری کو آپ اس ہئیت کا آخری قرار دین یا نہ دیں اس کی اولیت ان سے نہیں چھین سکتے‘‘۔ (۲۴۵) میرا جی نے اپنے عہد کو اس پورے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اپنے عہد کے آدمی کو اس کی مکمل شخصیت کے ساتھ پانے کی سعی کی ہے۔ اس معاملے میں وہ اپنے عہد کے دوسرے جدید شعراء سے بہت آگے تھے۔ اپنے زمانے کے مخصوص آدمی کی تمام شکلیں دیکھنے اورپھر انہیں پورے آدمی کے معیار پر پرکھنے کی جیسی صلاحیت میرا جی میں تھی ان کے زمانے کے کسی شاعر میں نہیں تھی‘‘ (۲۴۶) سلیم احمد جس پورے آدمی کی بات کر رہے ہیں وہ 1857ء کے بعد صرف میرا جی کے یہاںہی ابھرتا ہوا محسو س ہوتا ہے۔ اپنے مکمل تہذیبی حوالے اور ضرورتوں کے ساتھ یہ آدمی میرا جی کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتا ہے اور بقول سلیم احمد ’’میرا جی وہ تنہا شاعر تھا جس کی ذات میں اس زمانے کی مخصوص روح اس کھوئی ہوئی ہم آہنگی کو تلاش کر رہی تھی جسے ہم نے 1857ء کے ہنگامے میں کہیں گم کر دیا تھا‘‘ (۲۴۷) اس پورے آدمی کو میرا ج وسیع تناظر میں دیکھ رہے تھے جنس تو صرف اس کی ایک پرت تھی۔ خود میرا جی کے اپنے لفظوں میں: ’’موجودہ صدی کی بین الاقوامی کشمکش(سیاسی سماجی اور اقتصادی) نے جوانتشار نوجوان میں پیدا کیا وہ بالخصوص میرا مرکز رہا ہے‘‘۔ (۲۴۸) اس سماجی بغاوت کو جو ایک بڑی کشمکش کے رد عمل میں وجود میں آئی تھی شاعری میں پیش کرنا ایک جرات مندانہ شخصیت کا ہی کام تھا۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی : ’’میرا جی کی شاعری سماج کے ایک ایسے زہن کی ترجمانی کرتی ہے کہ میرا جی سے کم اخلاقی جرات رکھنے والا انسان اس کو پیش ہی نہیں کر سکتا تھا اور میرا جی کی شاعری میں خلوص اور صداقت کا وہ عنصر ملتا ہے کہ ہم ان کی شاعری کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘‘ (۲۴۹) میرا جی کا اصل کمال یہ ہے کہ ایک نیا شعری ذوق پیدا کرنے کے سلسلے میں ان کا کام اپنے دوسرے ہم عصروں سے منفرد اور ممتاز ہے بلکہ ان کی حیثیت اس سلسلے میں ایک معمار کی سی ہے۔ انیس ناگی کہتے ہیں: ’’میرا جی ایک معمار شاعر تھا جس نے اردو شاعری کا شعری اسلوب بدلنے کی کوشش کی۔ جس نے انسانی شعور کے مختلف منطقے دریافت کر کے انہیں شاعری کا موضوع بنایا‘‘ (۲۵۰) انسانی شعور کے نئے منطقے دریافت کرنے کا عمل جان جوکھو ں کا کام ہے اور اس کام میں میرا جی جس شخصی و اجتماعی مستبد نظام سے ٹکرائے اس کی بازگشت دونوں سطحوں پر محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی بغاوت صرف شخصی بغاوت نہیںرہتی نہ ایک شخصی کانیور وسسی اظہار بنتی ہے بلکہ اس سے آگے نکل کر اپے عہد کو ایک مختلف زاویہ نظرسے سمجھنے کی تخلیقی کوشش بن جاتی ہے۔ بیسویں صدی کا یہ زمانہ مجموعی طور پر تنہائی کا احساس کا دور ہے۔ اس تنہائی کے اثرات یورپ سے ہندوستانی سماج میں اس طرح در آئے تھے کہ اس کا اظہار اس طرح کا چلنت بن گیا تھا لیکن میرا جی کے یہاں یہ تنہائی ایک متصوفانہ مزاج سے ہم آہنگ ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ’’میرا جی کی نظمیں ایک ایسے شعور کی روئداد ہیں جو بیک وقت انفرادی اور معاشرتی تنہائی کا شکار ہے… میرا جی نے شاعری کے ذریعے خود کشی اور مزاج کے خلاف ایک دفاعی نظام تعمیر کیا (۲۵۱) مغربی طرز فکر کو مشرقی مزاج سے ہم آہنگ کرنے کا یہ انداز میرا جی کی خاص انفرادیت ہے۔ خود کشی اور مزاج کی نفی کر کے تنہائی کو ایک صوفیانہ کشف سے ہم آہنگ کرنے کا یہ انداز خالصتاً مشرقی رویہ ہے دراصل مادیت کے باوجود میرا جی کے ذہن کی جڑیں ایک متصوفانہ ماورائیت سے جڑی ہوئی تھیں اور بقول صفدر میر میرا جی کا شعور بھی مادیت اور ماورائیت کے اسی طرح کے مرکب سے عبارت تھا (۲۵۲) میرا جی کی نظم ’’خدا‘‘ میں اس امتزاج کی ایک جھلک واضح طورپر محسوس ہوتی ہے ۔ اور ’’صدا بہ صحرا‘‘میں بھی یہی کیفیت ہے۔ میرا جی کو عام طور پرایک مادیت پسند شاعر ہی سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے بعض نقادوں نے ان کی شاعری میں موجود تنہائی کو صوفیانہ واردات سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے خیال میںمیرا جی کی ذاتی تنہائی اور بے نوائی محض حیاتیاتی سطح تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا اصل مرکزہ وہ درد اور بے قراری تھی جو انسانی روح کو اپنے اصل سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے گھیر لیتی ہے۔ ‘‘ (۲۵۳) اسی طرح کی واردات ایک روایتی صوفی کی واردات ملتی ہے لیکن میرا جی ان معنوں میں اس روایت سے الگ ہیں کہ ان کے یہاں تصوف اپنے مخصوص معنوں اورمزاج میں موجود نہیں بلکہ ان کی تمام کشمکش اور جستجو کا مقصد جدید زمانے کے انتشار اور پریشان خیالی کی سطح کے نیچے جا کر نئے انسان تجربے کی تہہ تک پہنچ کر جدید انسان کی روح کا سراغ لگانا تھا ‘‘ (۲۵۴) یہی رویہ انہیں روایتی صوفی سے علیحدہ کر کے ان کا رشتہ جدید عہد سے جوڑ دیتاہے محمد صفدر میر کے لفظوں میں اس کی شاعری کا ایک بڑ ا حصہ بلاشبہ ایک صوفیانہ درد و غم کا سراغ دیتا ہے جو انسانی روح کو اپنے گرد و پیش کی الجھنوں سے فارغ کر دیتا ہے۔ ‘‘ (۲۵۵) میراجی کی یہ فراغت تیاگ کے زمرے میں نہیں آتی بلکہ دنیااور متعلقات دنیا سے ان کے رشتے کو اور مضبوط کر دیتی ہے چنانچہ ان کی شاعری میں جستجو‘ کشمکش اور ٹکرائو کی جو کیفیت ملتی ہے وہ ان کی ذاتی مایوسیوں اور جذباتی ناآسودگیوں سے قطعی مختلف او ر الگ ہے۔ میرا جی نے اپنے ارد گرد کو جدت اور روایت کے اس ملے جلے نقطہ نظر سے دیکھا کہ اس میں بیک وقت مغربی اور مشرقی طرز ہائے احسا س کی آمیزش ہو گئی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اسے میرا جی کی ایک بڑی عطا قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں: ’’مغربی طرز احساس کا اپنے تہذیبی طرز احساس کے ساتھ تخلیقی سطح ُپر جو امتزاج میرا جی نے کر دکھایا ہے وہ اتنا مشکل کام تھا کہ کسی اور سے نہیں ہوا‘‘۔ (۲۵۶) اس انداز نے اردو شاعری کو نئے امکانات سے روشناس کرا کے جدید یت کے دروازے کھول دیے۔ یہ نئے امکانات دونوں سطحوں پر میرا جی کی اہمیت قائم کرتے ہیں۔ موضوع کی سطح پر ان نئے امکانات کا سراغ ان تجربوں سے ملتا جلتاہے جو میرا کی نظموں میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں انیس ناگی کہتے ہیں: ’’میرا جی اردو شاعری کی تاریخ میں جو تجربات کر رہا تھا او ر جس ذوق شعر کی ترویج کے لیے کوشاں تھا آج جدید شاعری میں ا س کی حیثیت ایک بھٹکے ہوئے شاعر کی نہیں بلکہ ایسے فنکار کی ہے جس نے ایک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں عظیم شاعری کے امکانات دریافت کیے جا سکتے ہیں‘‘۔ (۲۵۷) یہ نیا اسلوب روایت سے اگرچہ علیحدہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا جی روایت کے باغی تھے یا وہ اردو شاعری کی روایت سے بے خبر تھے۔ ان کے کلام کے مجموعی اطوار و انداز سے محسوس کرتاہے کہ وہ نہ صرف اردو شاعری کی روایت سے پوری طرح باخبر تھے بلکہ اس کے تسلسل کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں: ’’اس سارے عمل میں انہوںنے اردو شاعری کی روایت سے پورے طور پر ناطہ نہیں توڑا بلکہ اسے بدل کر ایک نیا روپ دے دیا‘‘ ۔ (۲۵۸) روایت کونیا روپ دینے کی یہ کوشش میرا جی کو اپنے ہم عصروں سے منفرد و ممتاز بناتی ہے انہوںنے 1857ء کے بدلے ہوئے احسا س کو بیسویں صدی کے اس منطقے میں نئی شکل دینے کی کوشش کی انتظار حسین اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میرا جی کی روایت سے بغاوت ایک محدود روایت توڑ کر ایک وسیع تر روایت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے…روایت سے بغاوت ان کے یہاں بدلے ہوئے طرز احساس کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش ہے‘‘۔ (۲۵۹) اس بدلے ہوئے طرز احساس کومعروضی حالات کے پس منظرمیں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو صورت حال یہ بنتی ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جو مجموعی شکست و ریخت ہوئی تھی اس کے باوجود ایک اجتماعی عقلیت کی رو شروع ہو چکی تھی جس کے تحت عالمی کائناتی تصورات اور نئے نئے علوم سے آشنائی ہو رہی تھی۔ ہندوستانی معاشرہ اپنے تحفظات کے باوجود مغرب کے نئے فلسفوں سے ہم آہنگ ہو رہا تھا جس سے اذہان میں نئے دریچے وا ہو رہے تھے ۔ میرا جی نے ا ن معروض انکشافات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ شخصیت کے داخلی مشرقی رویے کو بھی برقرار رکھا بلکہ سوچنے کا ایک ایسا طریقہ بخشا جس نے شخصیت کے داخلی امکانات روشن تر کر دیے‘‘ (۲۶۰) مغربی فلسفے سے دلچسپی کے باوجود مشرقی روایات کی پاسداری کا اعتراف خود میرا جی نے بھی کیا ہے کہتے ہیں: ’’ا س زمانے میں نہ صرف مغربی(انگریزی اور فرانسیسی) ادب نے میری راہنمائی کی بلکہ مغربی تفکر اور سائنس نے بھی اپنا اثر دکھایا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرقی روایات اور صدیوں کے اثاثے سے بے گانگی رہی‘‘۔ (۲۶۱) میرا جی نے مغربی فلسفے کے ساتھ ساتھ مغربی شعری ہئیت اور اسلوب کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوںنے خصوصاً فرانسیسی علامت نگاروں کے فن علامت نگاری سے اردو نظم کو آشنا کیا ساقی فاروقی اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہمارے نظم نگاروں میںمیرا جی پہلے آدمی ہیں جنہوںے فرانسیسی علامت نگاروں کی زبان سمجھی ہے اور علامت کو پورے سلیقے سے برتا… انہیں علامتوں کی زبان آتی تھی بلکہ وہ خود علامتوں کے شاعر تھے۔ اس لیے اکثر وہ وقت پسندی کی طرف بھی نکل گئے اور جہاں جہاں وہ خود واضح نہیں تھے ان کی نظمیں بھی گنجلک اور گاہے بے معنی ہو گئے ہیں ‘‘ (۲۶۲) ابلاغ کا مسئلہ میراجی کے یہاں بحث طلب ہے ۔ ابہام کی ئی صورتیں ہوتی ہیںَ ایک ابہام وہ ہے جسے شاعر خود پیدا کرتاہے تاکہ اس کے شعر میں دبازت اور ہمہ جہتی پیدا ہوجائے دوسرا ابہام وہ ہے جو عجز و بیاں کی وجہ سے پیداہو جاتا ہے میرا جی کے یہاں جو فنی پختگی ہے اور مصرع کی ساخت میں جو محنت دکھائی دیتی ہے اور وہ دوسری قسم کے ابہام کو تو خارج از بحث کر دیتی ہے البتہ پہلے طرز کا ابہام ان کے یہاں ضرور موجود ہے۔ خو د وہ بھی ابہام کو ایک اضافی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ میراجی کے ابہام میںان کے تخلیقی طریقہ کار کا بڑا دخل ہے ان کی نظم کہنے کا اندازیہ ہے کہ وہ جو کچھ سوچتے جاتے ہیں وہ نظم کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ایک خیال منطقی ربط و تسلسل کے دائرے سے نکل کر اس طرح پھیل جاتاہے کہ ا س کی کئی ضمنی شاخیں وجودمیں آ جاتی ہیں ڈاکٹر جمیل جالبی اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’نظم لکھتے وقت جو کچھ میرا جی کا ذہن سوچتاچلا جاتاہے اور جو تصورات و خیالات ان کے ذہن میں آتے ہیں اور جدھر بھی خیال مڑ جاتاہے وہ نظم میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کو خاص طورپر پیش رکھنا ضروری ہے۔ کہ میرا جی کی نظمیں ایسے لکھتے تھے جیسے عام طور پر لوگ نثر لکھتے ہیں‘‘ (۲۶۳) دوسری بات یہ کہ میرا جی کے یہاں زیادہ تر ’’مجرد تصورات اور نامعلوم کیفیات کا اظہار ہوا ہے ‘‘ (۲۶۴) خیالات کی اس یلغار نے میراجی کی نظموں میں ایک داستانی کیفیت پیداکر دی ہے جس میں ایک مرکزی کہانی کے ساتھ ساتھ کئی ضمنی کہانیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ڈاکٹر سلامت اللہ کہتے ہیں: ’’ان کے یہاں بعض اوقات پہلے مصرع میں ایک خیال اٹھایا جاتا ہے اور دوسرے مصرعے میں وہ ختم نہیں ہونے پاتا کہ دوسرا خیال اس سے آ کر الجھ جاتا ہے پھر دوسرے سے تیسرا تیسرے سے چوتھا مصرع اور اس طرح زنجیر کی کڑیوں کی طرح بعض اوقات ہر خیال نظم کے آخری مصرع پر مکمل ہوتا ہے‘‘ (۲۶۵) اس طریقہ کار کی مثال کی وضاحت کے لیے ان کی نظمیں ’’اونچا مکان‘‘ اور ’’سایے کی حرکت ‘‘ پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس مجموعی طریقہ کار نے نظموں کی فکری اٹھان کے ساتھ ساتھ ان کے فنی ڈھانچے پر بھی اثر ڈالا ہے۔ شادامرتسری کے خیال میں: ’’ان کی نظموں کا ایک مخصوص ڈھانچا ہے اس مخصوص ڈھانچے یعنی Patternکی ساخٹ کچھ اس قسم کی ہے کہ ہر نظم کے چند مصرعے جو ابتدائی بند میں آتے ہیںوہ ساری نظم میں مختلف موقعوںپر تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں اور اس طرح سے ہر نظم طبلے کی تال کا ایک گریا چکر سا معلوم ہوتی ہے… طبلے کی تین تال میں ایک مقررہ وقت پر خالی آتی ہے۔ جس سے پھر سم کا آغاز ہوتاہے اسی طرح میرا جی کی نظموں میں بعض مصرعے سم کا سا کام کرتے ہیں‘‘ (۲۶۶) ان کی نظمیں’’طالب علم‘‘ ’’مجاور‘‘ اور ’’ترقی پسند ادب‘‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ میرا جی کے اسلوب کی ایک ادا ان کا نثری آہنگ ہے۔ انہوںنے آزاد نظم کے تشخص کو ابھارنے کے لیے ایک پابند نظم کے رد م سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور اسے ایک ایسے اسلوب میںلکھنے کا رواج ڈالا جو نثر کے قریب ہے بقول محمد صفدر میر: ’’میرا جی اس شاعرانہ اسلوب کی تخلیق کرتا ہے جو نثر کے اس قدر قریب ہے کہ نثرہ پارہ بن جاتاہے‘‘ (۲۶۷) نثری آہنگ کی اس شمولیت نے آزاد نظم کوایک چہرہ عطا کیا ہے ۔ اس چہرے کے خدو خال کو ابھارنے میں دوسرا سب سے بڑاعنصر مقامیت کی شمولیت ہے جس نے میرا جی کی نظموں میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ صفدر میر کے خیال میں: میرا جی کی شاعرانہ اسلوب کا دوسراپہول اس کی مقامیت پر ہے اور یہ اس کی نظم آزاد کی ڈرامائی نوعیت کے لیے ضروری تھا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی کہ میرا جی کی نظم آزاد بلکہ دوسری نظمیں بھی ڈرامائی نوعیت کی حامل ہیں اس لیے اس کے ہاں مقامی رنگ لازمی تھا‘‘۔ (۲۶۸) مقامیت کی یہ شمولیت دراصل اس معروضی مطابقت سے مربوط ہے جو میراجی کی مشرقیت یا ہندوستان پرستی کا ایک حصہ تھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اس تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ: ’’انہوںنے (میرا جی نے) الفاظ میں اپنے جذبات کے تجربات کوایک معروضی مطابقت Equalanceکرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو شاعری میں اس نئے تجربے کوسمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو نہ دیکھا جائے کہ الفاظ مفہوم کو بھی ظاہر کر رہے ہیں یانہیں بلکہ یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ جذبات ظاہر کر رہے ہیں اور خیال کے تسلسل اور ذہن کی ادھوری آواز کی داخلی بازگشت کو ظاہر کررہے ہیں‘‘۔ (۲۶۹) داخلی بازگشت کا یہ عنصر عدم ابلاغ یا ابہام کی کیفیت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ زبان و بیان کی تمام نزاکتوں کا خیال رکھنے کے باوجود میرا جی کے یہاں ایک مشکل پسندی پیداہو جاتی ہے اور بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ’’میرا جی کو پڑھنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور بڑا صبر آزما بھی۔ میرا جی کی نظمیں پڑھتے وقت ایک ایک مصرعے پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ ‘‘ (۲۷۰) لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس مشکل پسندی میں میرا جی کا شعوری ہاتھ نہیں بلکہ اس اظہار میں میرا جی کا خلوص چھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تخیل کی ا س نرالی طرز کے لیے ضروری تھا کہ پیرائیہ اظہار بھی نرالا ہوتا وگرنہ خیال کا اچھوتا ہونا بے معنی ہے‘‘۔ (۲۷۱) یہ اچھوتا پن اس مجموعی فضاکا مرہون منت ہے جو میرا جی کی نظموں کی خاص پہچان ہے۔ انہیں اپنی نظموں میں فضا پیداکرنے کا فن آتاہے اور یہ فضا اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ قاری کے ذہن میں بھی ایک دھندلی دھندلی تصویر بنا دیتی ہے۔ جو منظر کی کیفیت کے ساتھ دیرپا اثر رکھتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں: ’’فضا پر تو میراجی کو کمال حاصل ہے ہی لیکن منظر کشی ان کی شاعری کا ایک اور نمایاںپہلو ہے ۔ ان کے ہاں منظر کشی میں داخلی جذبات اور شعور کے انفرادی رجحانات ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ وہ خارجی منظر کشی کے باوجود داخلیت کا پہلو لیے ہوئے ہوتی ہے۔ حسیاتی مغالطہ Fattacy Patheticان منظروں میںایسا رچ بس گیا ہے کہ منظر کشی کے باوجود یہ خارجی اشیاء داخلی کیفیت Moodsاور جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں‘‘۔ (۲۷۲) میرا جی کی شاعرانہ انفرادیت میں ان کی نظموں کے ہیتی تجربوں اور اسلوب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ میرا جی کا اپنا ایک اسلوب ہے جو ان کی نظموں کی فضا بندی کرتاہے۔ ان کے الفاظ بظاہر سادہ اور ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں لیکن ان ہلکے پھلکے الفاظ کے اندر معانی کا ایک موجیں مارتا ہوا ساگر ہے (۲۷۳) جنہوں نے میرا جی کی شاعری کو موضوعات اعتبار سے تو قابل قدر بنایا ہ ہے ان کی فنی دلکشی کو بھی نمایاں کر دیا ہے۔ میرا جی کی اس اسلوبی روایت کے پیچھے موسیقی کا جو ذوق ہے اس کے ڈانڈے آریائی موسیقانہ ذوق سے ملتے ہیں شاد امرتسری کے لفظوں میں اس موسیقی اور آہنگ میں آریائی ذوق اور فلسفہ ویدانت کا نرم رو ساگر ہے میرا جی نے اس آریائی ذوق کی آبیاری جس جدید ذہن کے ساتھ کی ہے اس نے ان کی نظموں میں سادگی کے ساتھ ایک پرکاری بھی پیدا کر دی ہے۔ یہ پر کاری اورسادگی ان کے الفاظ کے چنائو اور موسیقانہ ذوق سے تعلق رکھتی ہے۔ شاد امرتسری اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’سب سے بڑی خصوصیت جو میرا جی کی شاعری میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ الفاظ نہایت سادہ ہیں۔ ہلکے پھلکے گاتے ہوئے جملے ان کی جان ہیں… مصرعے تان پلٹون کو سنوارتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں‘‘۔ (۲۷۴) میرا جی کے اسلوب کا دوسرا اہم پہلو علامتوں اور استعاروں کا شعور ہے۔ ڈاکٹر حامدی کاشمیری کے خیال میں: ’’میرا جی علامت نگاری کے دبستان کا سب سے بڑا شاعر ہے‘‘۔ (۲۷۵) میرا جی کی علامتوں میں چاند‘ رات‘ سمندر‘ کنواں‘ ویران محل‘ کرن‘ شعلہ مرمریں قصر‘ دہلی ملبوس اور عکس وغیرہ تواتر سے استعمال ہوئے ہیںَ سلیم احمد میرا جی کی علامتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ چاند میرا جی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے… خود جنسی جذبہ کی علامت رات ہے جو غیر شخص ہے اور حیات کا مظہر ہے… اس کے مقابلے میں دن فرد کی غیر جنسی زندگی کی علامت ہے‘‘۔ (۲۷۶) سمندر میرا جی کی پسندیدہ علامتوں میں سے ایک ہے جسے وہ کبھی ماں کے روپ میں اور کبھی ابدی جائے سکوں کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ میرا جی کے اکثر استعارے ’’مقصود بالذات ‘‘ ہیں۔ (۲۷۷) میرا جی نے اپنی علامتوں کے ذریعے بہت سے جنسی جذبوں کی نفسیاتی گرہ کشائی کی ہے۔ ان پر عام اعتراض یہ ہے کہ انہوںنے صرف جنس ہی کو اہمیت دی ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ خصوصاً ان کی جو نظمیں پہلے مجموعہ میرا جی کی نظمیں کے بعد لکھی گئی ہیں ان میں جنس کا موضوع زیر سطح چلا جاتاہے۔ اور دوسرے مسائل خصوصاً فطرت کو سمجھنے کی کوشش زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میںمیرا جی کی نظمیں سے بعد کے کلا میں جنس پوری زندگی کی اکائی کا جزو لاینفک بن کر نارمل جذبہ بن جاتی ہے۔ اور میرا جی کا راستہ نہیں روکتی‘‘ (۲۷۸) میرا جی پر جنس زدہ ہونے کا الزام ان کی نظم لب جوئبارے کے حوالہ سے لگایا جاتاہے۔ یہ نظم بنیادی طور پر ایک تصوراتی منظر نامہ ہے۔ کئی نقادوںنے اس نظم کو صرف اوپری سطح پر ہی دیکھنے کی کوشش کی ہے ورنہ سلیم احمد کے لفظوں میں ’’یہ ایک واضح شاعرانہ تجربہ ہے۔ شاعر اسے بیان کرنتے ہوئے بالکل نہیںجھجکا۔ اس کا مطلب ہے کہ ا س کے ذہن یں کوئی گندگی نہیں‘‘ (۲۷۹) محمد صفدر میر بھی اس نظم کو ایک نئی معنویت کو حوالے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں لب جوئبارے کے بارے میں ؤجو کہا گیا ہے وہ تعبیر کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ (۲۸۰) اصل بات یہ ہے کہ یہ نظم لذت کشی کی نظم نہیں بلکہ ایک تصوراتی منظر نامہ ہے ۔ میرا جی کے شخصی تجزیے میں اس بات کی طرف وضاحت سے اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ اشاء کی بجائے ان کے تصورات کو پسند کرتے تھے۔ دراصل استمنا بالید کے عادی لوگوں کا تخیل حیر ت انگیز طور پر تیز ہوتا ہے وہ چند لمحوںمیں امیجز کو ایک تصوراتی ہیولے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان کے تصور کا ہیولہ ایک ہی صورت یا بدن میں سے جنم نہیںلیتا بلکہ بعض اوقات اس کے اجزاء مختلف موقعوں اور مختلف سمتوں جسموں سے حاصل ہوتے ہیں۔ میرا جی کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انہیں تصورات عزیز ہیں چنانچہ وہ عورت کے بجائے عورت کے تصور اشیاء کے بجائے اشیاء کے تصور اور لذت کے بجائے لذت کے تصور کو پسند کرتے ہیں۔ لب جوئبارے میں ایک تصور موجود ہے۔ انہوںنے اسی تصور سے ایک تصوراتی لذت کو محسوس کیا اور اسے ایک تصور ہی کی صورت میں نظم کر دیا یہی اس نظم کی انفرادیت اور خوبی ہے۔ خود پر لگنے والے جنس پرستی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے خود میر ا جی کہتے ہیں: ’’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی میری توجہ کا مرکز ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں ‘‘۔ ( ۲۸۱) جس میرا جی کا شخصی مسئلہ ضرور تھا لیکن ان کی ساری شاعری کا محورنہیں… ان کے مسائل اس سے بڑے اور پھیلے ہوئے تھے وہ جسم سے باطن میں اترنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کی رائے میں: ’’اگر میرا جی کا ذہن معائنہ باطن سے قاصر ہوتا تو غالباً وہ بھی زندگی سے بھاگ کر کسی رقص گاہ میں چلا جاتا اور التجا کرتا کہ اے میری ہم رقص مجھ کو تھام لے لیکن میرا جی نے زندگی کے خونی بھیڑیے سے بھاگنے کے لیے جو راستہ اختیار یا وہ اسے اس کے نہاں خانوں میں لے گیا‘‘ (۲۸۲) میرا جی کے اس باطنی کشف نے انہیں ایک ایساحوصلہ اور جرات عطا کی کہ وہ نہ صرف خارجی زندگی میں تگ و دو کی ایک علامت بن کر ابھرے بلکہ ذاتی اور باطنی الجھنوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی ان کے اندر پیدا ہوا۔ اپنی اپنی الجھنوں سے انہوںنے جینے کا ڈھنگ بلکہ زندگی کا ایک نقطہ نظر پیدا کیا قدرت اللہ شہاب اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میرا جی میں ایک مبہم الجھن کا احساس تو شروع ہی سے موجود تھا اور وہ اپنے ابتدائی گیتوں میں بھی اس الجھن سے مکتی حاصل کرنے کی فکر میں رہتا تھا‘ لیکن جب وہ شعوری طور پر خود اپنے اندر پناہ گزین ہو گیا تو وہی الجھن ایک مستقبل زاویہ نظر بلکہ ایک فلسفے کی صورت اختیار کر گئی‘‘۔ (۲۸۳) میرا جی نے اپنے آ پ کو باطن ہ کے حوالے سے جاننے اور پہچاننے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ عمل صرف ایک فرد کی تفتیش ذات نہیں بلکہ ایک فرد کی قومی تہذیبی شخصیت کی بازیافت کا عمل بھی ہے۔ (۲۸۴) تہذیبی شخصیت کی بازیافت کے سفر میں وہ وجود مطلق یا کائنات کے بارے میں بھی ایک نئے تصور سے آشنا ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ ایک ایسے جدید انسان کا ذہن رکھتے تھے جو حیات و کائنات میںجدید انکشافات کی زد میں ہے محمد صفدرمیر کہتے ہیں: ’’میرا جی کے بارے میں پیشہ ور نقادوں نے یہ حقیقت بالکل بھلا رکھی ہے کہ اسے وجود مطلق یا خدا کے تصورکے بارے می زندگی بھر بڑا گہرا تجسس رہا تھا۔ اس کی ذہنی فضا ایک جدید انسان کی تھی جو حیات و کائنات کے بارے میں سائنسی انکشافات کی روشنی میں غور و فکر کرنے کا عادی تھا۔ اپنے ہم عصروں کی نسبت وہ جدید مادی علوم کے نقطہ نظر سے زیادہ ہم آہنگ تھا‘‘۔ (۲۸۵) میرا جی کے یہاںمادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ انہیں اپنے جدید عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد ممتاز بناتا ہے۔ اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میرا جی کی شخصیت میںایک روایتی عنصر بھی موجود تھا۔ یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے ڈانڈے صوفیانہ درد و غمم سے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہ رویہ میرا جی کی نجی زندگی میںبھی موجود ہیکہ وہ ایک سطح ُپر آ کر تمام دکھوں سے بے نیاز ہو گئے تھے خارجی دنیا سے یہ لاتعلقی صرف نجی بے بسی کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اس کا مرکز ان کی ذات کے اندر تھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستانی ثقافت کے ماضی اور پرانے شاعروں ودیاپتی‘ چنڈی داس اور میرا بائی سے ان کی دلچسپی کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ اپنے حال سے لاتعلق ہو کر ایک ایسی ازلی مسرت کی تلاش میں تھے کہ جس کی روایت متصوفانہ رویوں سے جا ملتی ہے۔ اس حوالے سے فطرت کا مطالعہ ان کے نزدیک ایک نئے معنی کا متقاضی تھا چنانچہ انہوںنے فطرت کو ایک منظر نامے کی صورت میں پہچانا تھا۔ فطرت میرا جی کے لیے ایک ماوراء اسرار ہے‘‘۔ (۲۸۶) میرا جی کی مجموعی فکر اور اس کی قدر و قیمت کا جائزہ لیتے ہوئے اور ان کے ادبی مقام کے تعین کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے فنی طریقہ کار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ فکر فن سے علیحدہ کسی اہمیت کا حامل ہیں کہ فکر کو اظہا ر کے سانچے تخلیق کرنے کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برا ہونا ہے بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں ہر فکر و بطن سے ہی اس کا سانچہ ابھرتا ہے فنی حوالے سے میرا جی پہلے شاعر ہیں جنہوںے نظم میںمختلف ہیتوں کے کامیاب تجربے کیے ہیں اورنظم کی مختلف ہیتو کو ایک اعتبار بخشا ہے۔ میرا جی نے نئی ہیتوں کی تخلیق یا نئی ہیتوں کو ملا کرایک تجربہ کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے ان نظموں کا فنی تجزیہ ضروری ہے۔ میرا جی نے نظم می پابند معریٰ اور آزاد تینوں ہئتوں کو استعمال کیا ہے لیکن پابند نظم میں انہوںنے بالکل روایتی طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ پابند نظم کی ہئیت میں مختلف اضافوں اور تغریب و تخفیف سے نیا آہنگ پیداکیا ہے۔ انہوںنے اس تغریب و تخفیف کے ذریعے خیال کی اکائی اور ربط و تسلسل میں ایک نیا سلیقہ پیدا کیا ہے۔ آزادنظموں کی ہئیت و تکنیک کے استعمال کا جو شعور میرا جی کو تھا وہ انہین اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتاہے۔ اردو میں آزاد نظم بہرحال ایک قاعدے کی پابند ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کے الفاظ میں: ’’نظم معریٰ اور آزادنظم پابند نظم کے مقابلے میں آزاد ہے لیکن ان کے علیحدہ اصول و ضوابط ہیں نظم معریٰ میںصرف ردیف و قافیہ کی پابندی نہیںکی جاتی اور نہ تمام مصرعے برابر ہوتے ہیں اور آزاد نظم میں ایک قد م اور آگے بڑھایا گیا ہے یعنی مصرعے چھوٹے بڑے ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بحر ایک ہوتی ہے مصرعوں میں ارکان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ کسی طویل نظم کے مختلف ابواب کو ہم علیحدہ علیحدہ بحروں میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ ‘‘ (۲۸۷) سید وقار عظیم نے بھی کم و بیش اسی رائے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’آزاد نظم ہونے کے باوجود فنی حیثیت سے ایک چیز کی پابند ہے کہ وہ جس بحر میں کہی جائے اس کے مختلف مصرعوں میں ا س بحر کے ارکان کو گھٹا بڑھا کر آہنگ پیدا کیا جائے ‘‘۔ (۲۸۸) ڈاکٹر عبادت بریلوی بحر کے اس گھٹائو بڑھائو کو شاعر کے خیال کے اتار چڑھائو سے وابستہ کرتے ہیں ان کی رائے میں: ’’آزاد نظم پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کی ہئیت پر نظر پڑتی ہے۔ اس میں مروجہ اور متد اول کی بحروں کو استعمال کیاجاتا ہے۔ لیکن ان بحروں کا آہنگ شاعر کے خیال کا پابند ہوتا ہے۔ اس یے وہ اس روانی اور بہائو کی نسبت سے بحر کے مروجہ ارکان کو گھٹا بڑھا دیتاہے ‘‘۔ (۲۸۹) آزاد نظم کے شاعر ارکان کے اس گھٹائو بڑھائو کو خیال کی اصلیت اور اظہار کے لیے ضروری سمجھتے ہیں لیکن بعض نقادوں کے نزدیک اس سے نظم کا آہنگ بھی بگڑ جاتاہے اور اس کافنی حسن متاثر ہوتا ہے۔ جابر علی سید کے خیال میں: ’’آزاد نظم میں بحر کا بنیادی یا سالم رکن وزن کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے جس کی غیر معین تکرار کی بنا پر مختلف مصرعوں میں یکساں ارکان کا ہونا ضروری نہیںسمجھا جاتا… بعض مصرعوںمیں بنیادی رکن صرف ایک دفعہ استعمال ہوتا ہے اور بعض میں اس کی تکرار پندرہ بیس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بہت حد تک بے راہ روی کے مترادف ہے نیز اس سے نظم کا آہنگ بگڑ جاتا ہے اور نظم نثر کی حدیں مل جاتی ہیں‘‘۔ ( ۲۹۰) لیکن ڈاکٹر منیب الرحمن ارد و میں آزاد نظمکو عروض سے انحراف نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک اردو میں آزادنظم کو عروض سے انحراف نہیں۔ اس کا قانون بنیادی طور پر مستزاد سے اخذ کیا گیا ہے ترمیم صرف اتنی ہے کہ مستزاد کے برخلاف اس کے اندر کے مصرعوں کی ترتیب میں آزادی سے کام لیا جا سکتا ہے‘‘۔ (۲۹۱) شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ: ’’جن زحافات کو ایک ہی بحر میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے ان کو نظم میںکیوںنہ برتاجائے۔ غزل میں تو خیر تھوڑی سی مشکل ہو سکتی ہے لیکن جب آزادنظم کو آزاد کرنے کا دعویٰ ہم لوگ کر چکے ہیں تو اس کی وہ آزادیاں تو کم سے کم عطا کر ہی دیں جو عروض کی رو سے حق بجانب ہیں۔ اگر ہم فعولن کی گردان بار بار کر سکتے ہیں تو کیوں نہ ایک مصرع فعولن فعولن فعل دوسرا مصرع فعولن فعولن فعولن تیسرا مصرع فعولن فع فعولن چوتھا مصرع فعولن فعل فعولن وغیرہ لکھیں… کیوں نہ ہم ایک ہی نظم میں مختلف بحریں استعمال کریں‘‘۔ (۲۹۳) ڈاکٹر حنیف کیفی کے نزدیک یہ اہم ضرور ہے لیکن اس کی تعمیل خاصی دشوار ہے (۲۹۳) ا ن کے خیال میں آزاد نظم میں مختلف بحروں کے استعمال کی یہی صورت مناسب ہو سکتیہے کہ طویل نظم میں مختلف حصے پورے کے پورے الگ الگ بحروں میں نظم کیے جائیں اور مصرعوں کو آہنگ کے انتشار اور طوائف الملوکی سے محفوظ رکھا جائے۔ ‘‘ (۲۹۴) اس اصول کی پابندی کر کے جو نظمیں لکھی گئی ہیں وہ زیادہ پرکشش آہنگ اور زیادہ پرکشش زیادہ موثر اور زیادہ دل آویز ہیں۔ ڈاکٹر حنیف کیفی میرا جی کی نظم سمندر کا بلاوا کو بھی اس طرح کی ایک اچھے آہنگ والی نظم سمجھتے ہیں۔ اردومیں آزاد نظم کے ابتدائی شاعروں میں شرر‘ قیصر بھوپالی‘ عظمت اللہ اور تصدق حسین خالد کے نام شامل ہیں لیکن اس فن میں د اہم نام میرا جی اور راشد ہیں میرا جی نے آزاد نظم کو دوسرے شعراء کی طرح استعمال نہیں کیا بلکہ اس میں قافیہ کا التزام بھی کیا ہے۔ بعض جگہ ٹیپ کا مصرع بھی شامل کیا گیا ہے اور اس کی ہئیت کو اپنی مرضی سے ایک صورت عطا کی ہے۔ مجموعی طور پر میرا جی کے یہاں گیتوں کی فضا بندی ہے اور انہوںنے اکثر ہندی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ اکرا م قمر کے خیال میں میراجی نے جو گیت لکھے ہیںان کی فضا بھی ہندی ہے۔ اس نے ہندی الفاظ اور ان کی لوح کو اپنے گیتوں میں اس طرح بٹھایا ہے کہ وہ الفاظ اردو میں اجنبی معلوم نہیں ہوتے‘‘۔ (۲۹۵) گیتوں کے ساتھ ساتھ میرا جی جس صنف میں روایت کے بہت قریب رہے ہیں وہ غزل ہے ۔ ان کی سبھی غزلیں کلاسیکی روایتی ہیت می ہیں اور ان میںمیر ککی سی سادگی ہے۔ زبان پر ہندی روز مرہ کا اثر ہے۔ محمد صفدر میر ے خیال میں غزل میں بھی اس کے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عام ہندی روز مرہ کا استعمال کرتاہے اور یوں غالباً پہلا جدید شاعر ہے جس نے میر کی اہمیت پر زور دیا ہے ‘‘۔ (۲۹۶) اکرام قمر کی بھی یہی رائے ہے کہ اردو شاعری کی موجودہ نسل کو میرے رنگ کی طرف متوجہ کرنے والا یہی میرا جی ہے‘‘۔ (۲۹۷) میرا جی کا شعر ہے: میر ملے تھے میرا جی سے باتوں سیہم جان گئے فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا دیوان کریں میرا جی کا غزلوں میںمیر کی سی سادگی سلاست اور روانی پائی جاتی ہے لیکن ان میں میر کی سی کاٹ اور درد نہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی دونوں کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرا جی میر کی طرح حزنیہ طنز نہیں کرتے بلکہ اس سے نفرت کرتے اور اسے نظر انداز کرنے لگتے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ میرکی شاعری میں بھی جذبات کو سکون دے کر آسودہ کرتی ہے اور میرا جی کی شاعری بھی آسودگی پیدا کرتی ہے‘‘۔ (۲۹۸) میرا جی کی غزلوں میں حیاتی اور جذباتی تاثر موجود ہے۔ غزل گیت اورپابند نظموں میں وہ روایتی ہئیتوں کے قریب رہے ہیں اکرام قمر کی رائے میں جب گیت پابند نظم یا غزل کہتا ہے تو اسمیں کوئی نہ کوئی ابہا م مہوتا ہے اور نہ کوئی خلا چھوڑتا ہے۔ یہاں آ کر روایت کے خلاف ا س کا تمام جوش ختم ہو جاتاہے۔‘‘ (۲۹۹) دراصل میرا جی کی بغاوت ہئیت سے زیادہ خیال اور فکر کی سطح سے تعلق رکھتی ہے ۔ انہوںنے جس نئی روایت کی تخلیقکی ہے وہ خصوصاً آزاد نظم کے موضوعاتی دائرے سے متعلق ہے۔ ابتدا میں جس جنس کے زیر اثر تھے وہ بھی آخر کار خت ہوگئی اور 1944ء کے بعد ا ن کی شاعری کا ای نیا موضوعاتی دور شروع ہوا جس کی طرف اوپر تفصیل سے اشارہ کیا گیا ہے اس کی آخری نظموں میں ابہام اور جنس کا عنصر کم ہے۔ (۳۰۰) اس تبدیلی کی واضح صورتیں ان کی نظموں ’’ارتقائ‘‘ ’’تنہائی‘‘ ’’یگانگت‘‘ ’’عدم کا خلا‘‘ آبگینے کے اس پار کی شا م ’’خدا ‘‘ اور ’’صدا بہ صحرا‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔ میرا جی کے کلام میں غزلیں بھی شامل ہیں ان میں سے بہت سی تو غیر مطبوعہ ہیں اور مختلف لوگوں کے پاس موجو د ہیں۔ مطبوعہ غزلوں میں کوئی انفرادی پہلو نہیںاسوائے اس کے ہ عام طور پر ہزل غزل کی ہئیت میں لکھی جاتی ہے لیکن میرا جی نے ہزلییں بھی پابند نظم کی ہئیت میں لکھی ہیں مثلاً: اے حضرت آوارہ میرا جی کے تراجم ہئیت کے حوالے سے منثور مقفی اور آزاد ہیں۔ مقفی ترجموں میں مختلف ہئیتیں استعمال کی گئی ہیں مثلاً: ۱۔ عمر خیام کے ترجمے قطعہ کی ہئیت میں ہیں لیکن وزن ایک ہی ہندی پنگل میں ہے۔ ۲۔ بعض جگہ چاروں مصرعے ہم قافیہ ہیں جس سے ا ن کی شکل مربع بن گئی ہے مثلاً کوئی کہے اس جگ کی آن بان میں انوکھی بہار کوئی ٹھنڈی سانس بھرے ہم کو تو سورگ سے پیار کوئی کہے یہ جیون اچھا کوئی کہے اس پار دور کے ڈھول سہانے ہیںنو نقد نہ تیرہ ادھار (قافیے بہار۔ پیار۔ بار۔ ادھار) جاگو سورج نے تاروں کے جھرمٹ کودور بھگایا ہے اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے جاگو اب دھرتی جاگی پر اس آن سے سورج آیا ہے راجا کے محل کے کنگورے پر اجول تیر چلایا ہے (قافیے: بھگایا۔ مٹایا۔ آیا۔ چلایا) ۳۔ بعض ترجموں میںپہلے اور تیسرے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ بندی کا التزام رکھا ہے ان کی ہئیت انگریزی طرز کی ہو گئی ہے مثلاً: نرک کا ڈڑ اور سورگ کی آشا یہ دونوں ان جانے ہیں ایک ہی بات ہے سچی آخر جیون کو مٹ جانا ہے ایک ہی بات ہے سچی جگ میں باقی سب افسانے ہیں آج کھلا جو ڈال پہ پھول اسے کل ہی مرجھاناہے ٭٭٭ اس بستی میںیا اس بستی ہر بستی کی ریت یہی باری باری گرتے پتے اور ڈالی مرجھاتی ہے پیالے میں میٹھی کڑوی مہنگی سستی کی ریت یہ بوند بوند میں جیون مدہرا پل پل رستی جاتی ہے ٭٭٭ جیون کیا یہ ناچ انوکھا ہاں بھی ہے انکار بھی ہے جیسا جیسا پائے اشاراناچنے والا پائوں بڑھائے جس نے اس آنگن میںپھینکا( اس کا ہمیں اقرار بھی ہے) ناچ کے بھید بھائو کو جانے وہی تو جانے وہی سمجھائے ۴۔ منثور ترجموں کی سطر بندی آزاد نظم کی ہئیت میں ہے مثلاً امارو کے ترجموں میں پریم کتھا عورت وغیرہ۔ ۵۔ بعض ترجمے پابند بھی ہیں مثلاً ا۔ ودیا پتی کے گیتوں کے تراجم پابند ہیتوںمیں ہیں۔ ب۔ چندی داس کے گیتوں کے ترجمے بھی پابند ہیتوںمیں ہیں۔ ۶۔ کچھ گیتوں کے ترجمے نثری بھی ہیں مثلاً چنڈی داس کا نوحہ ۷ مجموعی طور پر نظموں کے تراجم نثری مقفی اور آزاد تینوں ہئیتوں میں ہیں۔، میرا جی کی ہئیتوں کا یہ جائزہ اس شعور اور فنی پختگی اور روایت سے آشنائی کا پتہ دیتا ہے جو ان کی طویل ریاضت کا ثمرہ تھال ہئیت کے ساتھ ساتھ تکنیکی سطح پر بھی ان کے یہاں کئی انفرادی صورتیں سامنے آتی ہیں مثلاً ا۔ وہ نظم کی وحدت Running Linesکے ذریعے قائم رکھتے ہیں ان کا ہر مصرع وزن کے لحاظ سے دوسرے مصرع میں جذب ہو جاتاہے۔ ان مصرعوں کو ایک ہی سانس میں پڑھنا پڑتاہے۔مثلاً ۱۔ سفید بازو گدا ز انتے زباں تصور میں حظ اٹھائے ۲۔ اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیںمگر انہیں برق ایسی لہریں سمیٹتی مٹھی کی شکل دیدیں۔ (دکھ ‘ دل کا وارد) اس میں: ۱۔ سانس لینے کا وقفہ نہیںملتا دو دو تین تین مصرعوں کو ایک ہی سانس میں ادا کرنا پڑتاہے۔ ب۔ اس طرح کی نظمیں عام طورپر ایک ہی رکن کی تغریب اور تخفیف پرمشتمل ہوتی ہیں۔ مثلاً اسی نظم میںمفاعلن کی تعداد کم و بیش ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح کی ایک اور مثال ’’سمندرکابلاوا‘‘ ہے۔ یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آئو کہ برسوں؟ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے اس میں فعولن کی تغریب و تخفیف ہوتی ہے میرا جی کا سب سے بڑا کمال یہ ہیکہ ان کی نظموں کے مصرعے غزل سے علیحدہ اور آزاد ہوتے ہیں جس سے آزاد نظم کی چہر گی نکھری ہے اور اس کی اپنی علیحدہ پہچان قائم ہوئی ہے۔ ۲۔ ممیرا جی نے سطر بندی کا اصول بھی قائم کیا ہے۔ ۱۔ وہ ارکان کی تغریب و تخفیف سے مصرعوں کو چھوڑا بڑا کرتے ہیں۔ ب۔ مصرع کے چھوٹا بڑا ہونے سے ان کے یہاں نظم کامجموعی آہنگ وجود میں آتاہے جو خیال اور موضوع کو نئی سمت اور فضا عطا کرتا ہے۔ ج۔ وہ فارسی کے مروج آہنگ سے گریز کر کے ہندی کے قدیم آہنگ کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ د۔ انہوںنے لفظوں کو اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کی روشنی میں نئے معنی پہنائے ہیں۔ عمومی طور پر میرا جی کے یہاں مجموعی خوش آہنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن عابد صدیق کے مطابق رسیلے اور سبک الفاظ کا استعمال شعر اور موسیقی کی عنایت میں زبردست۔ Overlapingیا تکویر کا سبب بنتا ہے۔ میرا جی نے ایسے الفاظ کا استعمال تو کیا ہے لیکن نظم میں لفظوں کے عروضی سانچوں کی ایسی دروبست Compositionکا اہتمام نہیں کر سکے جو تال کے تنوعات اور سر کی چھت کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو ‘‘۔ (۳۰۱) کلیم الدین احمد کے نزدیک بھی میرا جی کی تکنیک زیادہ کامیاب نہیں ان کے خیال میں: ’’میرا جی کی تکنیک کی ناکامیابی کی ایک وجہ یہ ہیکہ اکثر و بیشتر شائد میرا جی کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ تکنیک تجربوں کی کامیاب ترجمانی کا ایک ذریعہ ہے اگر تجربے صاف نہ ہوں تو تکنیک ان کی ترجمانی نہیں کر سکتی۔ ان کی نظموں میں خیال نہیںخیال کا دھندلکا ہے جذبات کا دھواں ہے لفظوں کاپھیلاہوا کہرا ہے اسی وجہ سے تکنیک میں کوئی شان نہیںکوئی بانکپن نہیں‘‘۔ (۳۰۲) کلیم الدین احمد کی یہ رائے نہیںکہ میرا جی کی نظموں میںخیال کا نیا پن نہیں۔ انہوں نے اپے متذکرہ بالا حوالہ میںصرف دو نظموں ’’کلرک کا نغمہ محبت‘‘ اور ’’نادان‘‘ کا تجزیہ کر کے یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے (۳۰۳)کلرک کا نغمہ محبت کو وہ اچھی نظم سمجھتے ہیں لیکن اسے ایلیٹ کی نظم دی لوسونگ آٖ ایلفر ڈپروفروک کاترجمہ خیال کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کی انگریزی پرستی اور اردو شاعری کے بارے میں حقیرانہ نظر رکھنے کا تجزیہ کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ میرا جی اپنے ہم عصروں کے مقابلے می بہتر غنائی شعور رکھتے ہیںَ انہوںنے اپنے اس غنائی شعور احساس کو آزاد نظم کی تکنیک و ہئیت سے ہم آشنا اور ہم مزاج کر کے ایک نیا فنی ذائقہ پیدا ککرنے کی کوشش کی ہے ڈاکٹر حامدی کاشمیری کی رائے میں: ’’میرا جی نے آزاد نظم کے پوشیدہ امکانات کو پہچان لیا تھا اس نے ایک حد تک شعری تجزیے کی اشد اور جذبے کے اتار چڑھائو کے مطابق نظم میں ارکان کی تقسیم اور ترتیب پر توجہ کی‘‘۔ (۳۰۴) یہ میرا جی کی عطا ہے کہ انہوںنے ارد و نظم کوایک مستحکم اور چہرہ رکھنے والی نئی شعری ہئیت اور روایت دی اور اپنی وضع کردہ روایت کو شعری کو اردو شاعری کی روایت کے ساگر سے ملا دیا‘‘۔ (۳۰۵) اردو شاعری کی عظیم روایت میں بڑی شاعری کو جانچنے کا بنیادی معیار اس کا ہمہ جہت ہونا رہا ہے۔ عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ بڑی شاعری چار سطحوں پراپنا اثر قائم کرتی ہے۔ یہ چار سطحیں یہ ہیں: ا۔ حسی سطح پر ب۔ جذبہ کی سطح پر ج۔ مابعد الطبیعیاتی سطح پر د۔ روحانی سطح پر پہلی دو سطحیں تو درمیانے درجے کے شعرا ء کے ہاں بھی مل جاتی ہیں تیسری یعنی مابعد الطبعیاتی سطح کم شاعروں کے یہاں وجود میں آتی ہے اور روحانی Spiritualسطح تو اردو میں اقبال کے علاوہ میراور غالب کے یہاں بھی کسی کسی جگہ قائم ہوتی ہے۔ اقبال اردو کے واحد شاعرہیں جن کے کلام کا بہت سا حصہ پہلی تینوں سطحوں سے بلند ہو کر روحانی سطح تک اپنا وجود برقرار رکھتا ہے اور یہ کیفیت اقبال کی نظموں اور غزلوں دونوں میں یکساں موجود ہے۔ اقبال کے علاوہ میر اور غالب کے یہاں مابعد الطبیعیاتی سطح تو جگہ جگہ موجود ہے لیکن روحانی سطح کہیں کہیں ہی وجود میں آتی ہے۔ میراجی کے شعری مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے اس چار درجی معیار کو مدنظر رکھاجائے تو صورت یوںبنتی ہے کہ ان کے یہاں حسی اور جذبے کی سطح تو موجود ہے لیکن 1944ء کے بعد کی نظموں میں اکثر مابعد الطبعیاتی سطح بھی وجود میں آ جاتی ہے۔ البتہ روحانی سطح شاید ہی ان کی کسی نظم میں موجود ہو۔ اس حوالے سے انہیں عظیم شاعر تونہیںکہا جا سکتا البتہ اقبال کے بعد اردو شاعری کے منظر پر ابھرنے والے چند اہم شاعروںمیں ان کا اپنا مفرد مقام ضرو ر ہے۔ میرا جی کی ابتدائی نظموں میں جن سے اکثر ’’میرا جی کی نظمیں‘‘ میںچھپی ہوئی ہیں ہیئت اور جذبے کی بڑی فراوانی ہے۔ اس مجموعہ کی نظموں کے بارے میں جمیل جالبی کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتاہے کہ میرا جی کی بعض نظمیں صرف تاثر کے لیے لکھی جاتی ہیں بعض صرف فضا کے لیے اور بعض صرف ذہنی آسودگی اور لطف اندوزی کے لیے ‘‘۔ (۳۰۶) اس دور کی زیادہ ترنظمو کا بنیادی خیال جنس اور شکست خوردگی ہے جن کے پس پشت ایک جھجکتے ہوئے مجہول انسان کی شبیہہ ابھرتی ہے لیکن اس جھجک اور مجہول پن میں سے ایک یا دور طلوع ہوتادکھائی دیتا ہے عصمت چغتائی ان نظموں کے ماحول اور مجموعی تاثر پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’میں جب میراجی کو پڑھتی ہوں تو مجھے قبرستان میں سوکھے ہوئے پتوں کے ڈھیر یاد آ جاتے ہیںجن پر اوس کی نمی سے کائی جم گئی ہے۔ اور دھیمی دھیمی سڑانڈ اٹھ رہی ہے ۔ یہ سوکھے پتے کھاد بن جائیں گے اور نئے پودے لہلہا اٹھیں گے۔ ‘‘(۳۰۷) میرا جی کی اس دور کی نظموں میں لمسیت حسیت اور جذباتی تنوع بہت زیاد ہ ہے لیکن قیام دہلی کے دوران میں اور بعد میں یعنی تقریباً 1944ء کے بعد کی نظموں میںایک ٹھہرائو اور گہرا پن ہے اس دور کی نظمیں ذاتی مسائل اور تکلیفوں کی عکاس ہوتے ہوئے بھی ہمہ گیریت رکھتی ہیں۔ شاد امرتسری کی رائے میں: ’’میرا جی کی شاعری اس کی اپنی ذہنی الجھنوں کی تخلیق ہوتے ہوئے بھی ہمہ گیرتاثرات کی حامل ہے… مانا کہ میرا جی نے ان گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش نہیں کی مگر اس الجھائو میں جو دل کشی اور خوبصورتی ہے اس کی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے‘‘۔ (۳۰۸) میرا جی کی ا س دور کی نظموں میں ایک موضوعاتی کشادگی اور بڑے سوالوں کی گنجائش پیدا ہوے لگی تھی۔ دراصل میرا جی تک جو شعری روایت پہنچی ہے وہ فرد کی شعوری سطح کی اہمیت کو اس کی لاشعوری سطح سے بہت زیاد ہ مانتیتھی (۳۰۹) میرا جی کے یہاں اس کا جو رد عملو ہوا اس نے انہیں گہری نفسیاتی صورتوں سے دوچار کردیا اور اس کا نتیجہ یہ نکا کہ میرا جی نے غیر مانوس جذبات اور داخلیت کی طرف مراجعت کی اور اس طرح ایک تہذیبی رد عمل بن کر سامنے آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کا تصور ان کے یہاں بالکل دھندلا پڑ گیا۔ (۳۱۰) لیکن میرا جی جلد ہی اس فریب سے نک آئے اور رفتہ رفتہ ان کے یہاںایک متوازن صورت پیدا ہونے لگی۔ ان کی ادبی اورتہذیبی اہمیت یہ ہے کہ انہوںنے شعوری اصول سے رد عل کا بھرپور اظہار کرکے تہذیبی بہائو میں توازن پیدا کیا‘‘۔ (۳۱۱) اس دور کی شاعری پر موضوع کے حوالہ سے جنس کا اثر تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ الوب پر بھی ہندی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس دور کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے جمیلہ شاہین کہتی ہیں: ’’میرا جی کی شاعری اور شخصیت کا یہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں ان کی ذات کا اظہار ہندی دیو مالا ہندی شاعری کے لہجہ اور آہنگ اور ہندی محاکات کی وساطت سے ہوا ہے۔ میراجی کے گیت ‘ گیت ہی گیت اورمیرا جی کی نظمیں کی بیشتر فضا ہند آریاء فضا ہے اس مرحلے پر وہ ذات اور شاعری کے معمے کی پیچیدگی میںکھوئے رہے الجھنوں کے مزے لیتے رہے اور ذات اور شاعری کے انوکھے پن سے مشہور ہوتے رہے‘‘ (۳۱۲) 1944ء کے بعد ان کے یہاں ایک واضح تبدیلی آئی ا ن کی نظموں کا فکری کینوس وسیع ہو گیا۔ رفتہ رفتہ میرا جی کی خود لذتیت ان کے لیے بے حد بدمزہ چیز بن کر رہ گئی۔جب انہوںنے اس معمے کو سمجھ لیا اور سمجھ کر حل کر نے پر مائل ہو ئے توان کی شاعری میں ایک واضح تبدیلی روھما ہوئی خیال کے صفحات پابند نظمیں اور آتشہ کی نظمیں اور غزلیں ہند آریائی فضا سے قطعاً عاری ہیں۔ ان رسالوں اور کتابوں میں میرا جی کا لب و لہجہ بالکل عجمی اسلامی ہے‘‘ ۔ ۳۱۳۰) اس اقتباس میں عجمی اسلامی کی اصطلاح ممکن ہے کوئی مغالطہ پیدا کر دے اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا جی ان معنوں میں عجمی اسلامی فکر کے داعی نہیں جن معنوں میں اقبال یا اس نوع کے دوسرے شاعرہیں۔ یہاں اس اصطلاح سے مراد زبان اسلوب کی وہ تبدیلی ہے جو میرا جی کے آخری دور میں نظر آتی ہے یعنی ہندی الفاظ کے بجائے اردوکے اپنے لفاظ کا استعمال جن میں کسی حد تک فارسیت کی جھلک بھی آ جاتی ہے قیام دہلی کی ایک نظم ’’صدا بہ صحرا‘‘ ملاحظہ کیجیے: مجھے لا کے شہر بقا سے کیوں‘ یہاں چھوڑ رکھا ہے تو نے یوں؟ میرے دل میں سلسلہ جنوں میںیہ حال جا کے کسے کہوں؟ بہ دل ملول و بہ چشم نم‘ یوںفرق میںتیرے سر بہ خم مجھے ہر نفس ہے پیام غم یونہی عمر گھٹتی ہے دم بہ دم نہ تو راحتیں ہیں نہ ہم نشیں‘ نہ وہ ہم نفس ہے مرے قریں جسے دیکھ کر یہ دل حزیں ذرا چین پائے کبھی کہیں مگر آہ حال زبوں مرا یہی کہہ رہا ہے جنوں ترا! ترا عشق ہے کہ فسوں ترا کیے جا رہا ہے یہ خوں مرا مجھے لا کے شہر بقا سے کیوں یہاں چھوڑ رکھا ہے تو نے یوں؟ (صدا بہ صحرا ) (۳۱۳) اس نظم کے تیور مزاج کا درو بست ہندی اثرات سے آزاد ہی نہیں بلکہ کسی حد تک فارسی مزاج کا آئینہ دار ہے فکر کے حوالے سے اس میں صوفیانہ سوالات اورمابعد الطبیعیاتی اثرات پائے جاتے ہیں۔ اب ذرا اس نظم (صدا بہ صحرا) کو میرا جی کی نظم ’’دیوداسی اور پجاری‘‘ (جو 1932ء اور 1934ء کے درمیانی عرصہ میں لکھی گئی) کے ساتھ ملا کر دیکھیے۔ ظم یوں ہے: لو ناچ یہ دیکھو ناچ پوتر ناچ اک دیوداسی کا دھیرے دھیرے دو ر ہوا ہے سایہ میرے دل سے دل کی اداسی کا تول تول کر پائوں ہے رکھتی‘ ہلکے ہلکے ایسے میرا من چاہے بن کر بندا کا اجیالا ا س دھرتی پر بچھ جائے میں پتھریلے کھمبے کے پیچھے چھپ کر اس کو دیکھوں چپکے چپکے حیرانی میں یوں سمجھوں جیسے دیوی کی صورت میں ہی جی کر ناچ رہی ہو ناچ اور پانی کی لہروں ایسے ہلتی جائے لہرائے یا جنگل ک چنچل ہرنی پتوں پر چلی جائے ایک اندھیرے بن کی ناگن پھنکارے اور بل کھائے جیرے مری للچائی نظریں پچکاریں اس کا رنگ دیوداسی دھرتی سے چھو کر ویسے دکھلائے رنگ کالی کالی چمتی آنکھیں بجلی جیسا ناچ کریں اور ہیرے موتی کے گہنے اجیالے میںیوں چمکیں جیسے اونچے اونچے نیل منڈل میں چاند اور تارے ناچیں بانہوںمیں دیکھوں دل میںزور کی دھڑکن ہو اور تیزی سے سانس چلے لمبے ڈھیلے ڈھالے دامن میں لہروں کے بہنے سے اور گھومر کے پڑنے سے ذہن کی ہر اک رگ تھرکے آہوں کا نغمہ نکلے آ گے آنا پیچھے جانا تھرک تھرک کر رہ جانا سنبھل سنبھل کر گرتی جائے گر گر کر سنبھالے لے ڈرنا جھنکنا پھر شوخی سے بے باکی سے بڑھ آنا ڈگمگ ڈولے دھرم کی نائو ڈگمگ میرا دھرم کرے! ناچ ناچ کر جب تھک جائے تھک کر ہو جائے ہلکان لے جائے یکسوئی میری چین مرا اور مرا گیان اورپھر ایسا موہن منظر آنکھوں سے اوجھل ہو جائے جب پتھریلے اونچے کھمبوں کے سائے اس سے لپٹیں جیسے گھٹائیں چمکتی بجلی کو اپنے دامن میں لیں (دیوداسی اور پجاری) (۳۱۵) اس نظم(دیوداسی اور پجاری) کا منظر نامہ مزاج تہذیبی ماحول اورلفظوں کی نشست پر ہی ہندی اثرات واضح نہیں بلکہ شاعر کی مجموعی سوچ اور فکر پر بھی اس کے گہرے اثرات ہیں۔ اس کے برعکس صدا بہ صحرا مزاج اور ماحول کے علاوہ اسلوب کی سطح پر بھی مختلف نظم ہے دیودااسی اور پجاری میں شاعر حسی او ر جذبے کی سطح سے اوپر نہیں اٹھتا بلکہ بہت حد تک لمسیاتی اورحسی حظ میںمبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یہاںاشیا ٹھوس پن سے آگے نہیں بڑھتیں چنانچہ اس کے سوال اور فکر بھی محدود رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس صدا بہ صحرا میں اشیاء ٹھوس حوالوں سے نکل کر مجرد صورت اختیار کرتی ہیں اور تجرید کی فضا میںسوال بھی بڑے پیدا ہوتے ہیں اور یوں یہ نظم حسی اور جذباتی کیفیت سے بلندہو کر مابعد الطبیعیاتی سطح کو چھونے لگتی ہے۔ اس کا موضوع اور فکری بلندی اس کے اسلوب میں بھی ایک تبدیلی پیدا کرتی ہے ۔ ایسی ہی نظموں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ اس طرح کی دوسری نظموں میں ’’خدا‘‘ ’’طالب علم‘‘ ’’جزو اور کل‘‘ ’’آبگینہ کے اس پار کی ایک شام‘‘ ’’انجام‘‘ ’’روح انسانی کے اندیشے ‘‘ وغیرہ شامل ہیں جس میں اردو کی صوفیانہ شاعری کی روایت کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ ان نظموں کے سوال ذات اور خارج سے بلند ہو کر روح کائنات اور جز و کل کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں نظم ’’خدا ‘‘ کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ میں نے کب دیکھا تجھے روح ابد اس گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مرقد صبح کا شام کانظارہ ہے ذوق نظارہ چشم گدا گر ہو مگر میں نے کب جانا تجھے روح ابد راگ ہے تو پہ مجھے ذوق سماعت کب ہے مادیت کا ہے مرہون مرا ذہن مجھے چھو کے معلو م یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر اور جب پھول کھلے اس کی مہک اڑتی ہے اپنی ہی آنکھ ہے اوراپنی سمجھ کس کو کہیں… تو مجرم ٭٭٭ میں نے کب سمجھا ہے تجھے روح ابد خشک مٹی تھی مگر چشم زدن میں جاگی اسے بے تاب ہوا لے اڑی پھر کنارا نہ رہا کوئی کنارا نہ رہا بن گیا عرصہ آفاق نشان منزل زور سے گھومتے ہوئے پہیے کی طرح ان گنت گہرے خیال‘ ایک ہوئے ایک آئینہ بنا جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر اپنے ہی رنگ میں اک لمحہ دکھائی دی تھی ایک لمح؁ کے لیے بن گیا عرصہ آفاق نشان منزل ٭٭٭ میں نے دیکھا ہے تجھے روح ابد ایک تصویر ہے شبرنگ مہیب در معبد پہ لرز اٹھے ہر اک کے پائوں ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں خوف سے ایک ساتھ ہوئے ٭٭٭ میں تجھے جان گیا روح ابد تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں (چشم ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد) اور مرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں اور میرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں (خدا) (۳۱۷) اس نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد صفدر میر کہتے ہیں: حیرت کی بات ہے کہ انسان اور حقیقت مطلق کے تعلق کے بارے میںاتنی واضح نظم اس شاعر کی تخلیق ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ س کی کوئی نظم سمجھ نہیں آتی‘ لیکن اور بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خیال اورہئیت کی ہم آہنگی اتنی مکمل ہے کہ کسی طرح کے تشریحی بیا ن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خیال پختگی اور گہرائی کی ان سطحوں تک پہنچا ہو اہے جہاں اس کا اظہار خود بخود سہل ممتغ کی شفاف آئینہ صفت صورت اختیار کر لیتاہے ۔ فلسفیانہ تصور کی یہ منزل اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی‘‘ (۳۱۸) اس نظم میں میرا جی اپنی ابتدائی نظموں سے نہ صرف خیال و فکر کی سطح پر مختلف نظر آتے ہیں بلکہ لفظوں کے استعمال اور آہنگ پر بھی ہندی اثرات خاتمہ محسوس ہوتاہے ۔ خدا کے بطور محبت کے اس تصور میں ہمیں روایتی صوفی خیالات کی جھلک نظر آتی ہے (۳۱۹) میرا جی کی مروج صورت حال سے بغاوت آہستہ آہستہ متوازن ہو تی جا رہی ہے اور آخر آخر ان کی سوچ اور اظہار پر ہندو مسلم تہذیب کے اثرات قائم ہونے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں فتح محمد ملک کی یہ رائے قابل توجہ ہے کہ میرا جی کا ہندی مسلمان ہونا اس ضمن میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ میرا جی کے مصائب سراسر ذاتی ہوتے ہوئے بھی برطانوی ہندوستان میں رہنے والے عالم مسلمان نوجوان کے نمائندہ مصائب ہیں (۳۲۰) ایک غصیلے اور باغیانہ روش والے نوجوان کی حیثیت سے میرا جی نے جو سفر شروع کیاتھا ا س کی غصیلی اور باغیانہ تپش آہستہ آہستہ ایک مدھم مگر دیرپاشعلے میں تبدیل ہو تی چلی گئی اوران کی شاعری حسی اور جذباتی اور لمسیاتی سطح سے بلند ہو کر مابعد الطبیعیاتی سطح پر آ پہنچی‘ اگر وہ جوانی میں انتقال نہ کر جاتے تو شاید انکے یہاں وہ روحانی سطح بھی پیدا ہو جاتی جو ایک عظیم شاعر کی پہچان ہوتی ہے موجودہ صورتر میںبھی وہ ایکک بڑے شاعرہیں جنہوںنے اپنے فن اور فکر سے جدید شاعری کا سنگ بنیادرکھا ہے اور جدید شاعری خصوصاً نئی نظم کی تاریخ میں ان کا نام کسی صورت میں نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔ ان کے ہم عصر ااوراپنے عہد کے بڑے شاعر ن م راشد کہتے ہیں: ’’میرا جی اس زمانے کے سب سے قابل ذکر سب سے زیادہ جدت پسند سب سے زیادہ منفرد شاعر تھے‘‘۔ (۳۲۱) سلیم احمد خان کا کہنا ہے: ’’میراجی وہ تنہا شاعر تھا جس کی ذات میں اس زمانے کی مخصوص روح اس کھوئی ہوئی ہم آہنگی تلاش کر رہی تھی جسے ہم نے 1857ء کے ہنگامہ میں کہیںگم کر دیا اور جسے ہم اب تک نہیں پا سکے‘‘۔ (۳۲۲) ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے ہے: میرا جی خارج کے ہنگامی مسائل اور ان کی کروٹوں کا شاعر نہیںبلکہ باطن کے ان اسرار و رموز کا شاعر ہے جو بہرحال محرمات میں بر انگیختہ ہوتے ہیں اور آج اردو شاعری کی اہم ترین جہت خارج سے باطن کی طرف ہے جو میرا جی کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے‘‘۔ (۳۲۳) ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں: (میرا جی نے) اردو شاعری کو نئے امکانات سے روشناس کرکے نئے امکانات کے دراوزے کھول دیے ہیں اسی لیے وہ آج بھی اہم شاعر ہیں۔ اس سارے عمل میں انہوںنے اردو شاعری کی روایت سے پورے طور پر ناتا نہیںتوڑا بلکہ اسے بدل کر ایک نیاروپ دے دیا … میرا جی ؤنے قافیہ کی پابندی بھی کی ہے اور اسے توڑا بھی ہے نظم معریٰ کو بھی استعمال کیا ہے اور نظم آزاد کو بھی۔ ہئیت کے تجربے کیے ہیں اور اظہار احساس کے بھی یہ وہ کام ہے جوآگے پیچھے کی دو یا دو سے زیادہ نسلیں کرتی ہیں میرا جی نے ایک مختصر سی زندگی میں سارا کام خود کر دکھایا‘‘۔ (۳۲۴)اور ڈاکٹر وحید قریشی کہتے ہیں: ’’ان کے (میرا جی کے ) ہاں ہر تصویر بذات خود بھی انوکھی اور دل کش ہے… ان محاکات کی اصل خوبی یہ نہیں کہ ان سے ہمیں تجربات کے انوکھے پن کا پتا چلتا ہے بلکہ ان کی اصل قوت اس میں ہے کہ ہر تصویر دوسری تصویر سے مل کر وحدت کو اجاگر کرتی ہے۔ پابند نظموں میںمیرا جی کے کامیاب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس صنف کی پابندیاں جذبات کی لہروں کو بے راہ نہیں ہونے دیتیں۔ ڈرامائی کٹ اور روایت سے قرب کا احساس قافیے کا التزام یہ سب اس کے جذبات کو متوازن کرتے چلے جاتے ہیں… انہیںروایت کو اپنانے کا ڈھنگ آ گیا ہے اور ان کی انفرادیت نکھر گئی ‘‘ (۳۲۵) یہ تمام آراء میرا جی کی شاعرانہ عظمتوں کے مختلف گوشوں کو وا کرتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میرا جی بیسویں صدی کے ارد و ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیںَ انہوںنے اپنی شاعری کصوصاً نظموں کے ذریعے جدید ظم کی نبیاد رکھی۔ اپنی تنقید کے توسط سے جدید اردو شاعری کی تفہیم کی اورنئے تنقیدی پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ ان کاکام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میراجی اپنے عہد ہی میں نہیں آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ بمطابق خاندانی شجرہ جسے میرا جی کے بڑے بھائی محمد عنایت اللہ ڈار نے مرتب اور جاری کیا تھا ادارہ اشاعت ڈر انٹرمیڈیٹ کالج برائے خواتین اچھرہ لاہوراردو انسائیکلوپیڈیا ص ۹۷۰ ۔ فیرو ز سنز لاہور 1968ء تذکرہ جدید شعرائے اردو ص ۷۴۷ فیروز سنز لاہور س ن۔ ۲۔ سعید الدین احمد ڈار (میرا جی کے بھتیجے) سے انٹرویو از راقم بمقام راولپنڈی بتاریخ 15دسمبر 1989ء ۳ ۔ ایضاً ۳۔ ص ۳ شاہد احمد دہلوی میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت اور فن مرتب کمار پاشی ص ۲۰ موڈرن پبلشنگ ہائوس دہلی 1981ء ۵۔ احمد ذکی ڈار(میرا جی کے بھتیجے) سے انٹرویو از راقم بمقام راولپنڈی بتاریخ 2جنوری 1990ء ۶۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از رازم ۷۔ محمد اکرام اللہ کامی مشمولہ ماہنمہ ادبی دنیا لاہور فروری 1950ء س ۱۰۲ ۸۔ اردو انسائیکلو پیڈیا ص ۹۷۰ ۹۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ برائے ایم اے اردو سال 1964ء ص ۴۱ پنجاب یونیورسٹی لاہور(غیر مطبوعہ) ۱۰۔ وجیہ الدین احمد… سرگزشت میرا جی مشمولہ ماہنامہ سب رس کراچی ص ۱۰ شمارہ دسمبر 1987ء ۱۱۔ میراجی… ایک دفعہ کا ذکر ہے(عبداللطیف کے نام خطوط)مشمولہ شعر و حکمت و روم کتاب اول ص ۱۰۰ حیدر آباد 1987ء ۱۲۔ انوار انجم میرا جی شخصیت و فن مقابلہ برائے ایم اے اردو 1963ء ص ۴۱ ۱۳۔ میرا جی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی س ۴۵ موڈرن پبلشنگ ہائوس دہلی 1981ء ۱۴۔ سعید الدین ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۵۔ محمد عنایت اللہ ڈار بحوالہ وجیہ الدین احمد …سرگزشت میرا جی مشمولہ سب رس کراچی شمارہ دسمبر 1987ئ‘ ص ۱۱ ۱۶۔ میرا جی ایضاً ص ۴۹ ۱۷۔ وجیہ الدین احمد سرگزشت میرا جی مشمولہ ’’سب رس‘‘ کراچی شمارہ دسمبر 1987ء س ۱۱ ۱۸۔ کامی… میرا بھائی مشمولہ ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1950ء ص ۱۰۰ ۱۹۔ کامی… میرا بھائی مشمولہ ماہنامہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری ۱‘ ص ۱۰۰ ۲۰۔ کامی … میرا بھائی مشمولہ ماہنامہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1950 ء ص ۱۹۱ ۲۱۔ ایضاً ایضاً ایضاً ص ۱۰۱ ۲۲۔ میرا جی کے تمام تذکروں میں اس جگہ کانام ڈاھبے یا ڈابے لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔ ریلوے ٹائم ٹیبل کے Indexص Xکے مطابق (جاری کردہ پاکستان ریلویز) اس کا صحیح نام Dabheji(ڈھابیجی) ہے یہ جگہ مین لائن پر کراچی اور کوٹری کے درمیان ہے۔ کراچی کینٹ سے اس کا فاصلہ ۱۵کلومیٹر ہے۔۔ ۲۳۔ کامی میرا بھائی مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور فروری 1950ء ص ۱۰۱ ۲۴۔ ایضا ً ایضاً ایضاً ص ۱۰۲ ۲۵۔ میرا جی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۴۹ ۲۶۔ وجیہ الدین احمد… سرگزشت میرا جی مشمولہ سب رس کراچی شمارہ دسمبر 1987ء ص ۱۲۔ ۲۷۔ محمود نظامی… میراجی مشمولہ ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر شمار ۴۷‘۴۸ ‘ 1955ء ص ۸۹۲ ۲۸۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۲۵ ۲۹۔ الطاف گوہر… میرا جی کے چند خطوط مشمولہ نئی تحریریں لاہور شمارہ ۴ س ۷۶ ۳۰۔ ایضاً ایضاً س ۷۹ ۳۱۔ ایضاً ایضاً ص ۸۱ ۳۲۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم بمقام راولپنڈی بتاریخ 7اپریل 1990ء ۳۳۔ ایضاً ایضاً ۳۴۔ ایضاً ایضاً ۳۵۔ ایضاً ایضاً ایضاً ص ۳۵ ۳۶۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیان اپنا ص ۳۵ ۳۷۔ شاہد احمد دہلوی … مشمولہ چند ادبی شخصیتیں ص ۱۳۹۔۱۴۰ ۳۸۔ الطاف گوہر… میرا جی کے خطوط مشمولہ نئی تحریریں لاہور شمارہ ۴ ص ۸۲ ۳۹۔ الطاف گوہر … میرا جی کے چند خطوط مشمولہ نئی تحریریں لاہور شمارہ ۴ ص ۸۲ ۴۰۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو ا ز راقم ۴۱۔ کامی…میرا بھائی مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1950ء ص ۱۰۳ ۴۲۔ الطا ف گوہر… میر ا جی کے چند خطوط مشمولہ نئی تحریریں لاہور شمارہ ۴ ص ۷۶ ۴۳۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی … میرا جی مشمولہ ’’سویرا ‘‘ لاہور شمار ہ ۱۵۔۱۱ ص ۲۵ ۴۴۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی … میرا جی مشمولہ سویرا لاہور شمارہ ۱۵۔۱۱ ص ۲۵ ۴۵۔ میرا جی… ایک دفعہ کا ذکر ہے مشمولہ شعر و حکمت حیدر آباد دور دوم کتاب اول 1978ء ص ۹۸ ۴۶۔ اختر الایما ن… میرا جی کے آخری لمحے مشمولہ نقوش لاہور شمارہ نومبر دسمبر 1952ء ص ۱۲۲ ۴۷۔ سلطانہ منصوری بحوالہ مظہر ممتاز …یہ میرا جی ہیںمشمولہ نقوش لاہور شمارہ ۱۴ ص ۳۱ ۴۸۔ اکرام قمر… میرا جی کی آخری تحریر مشمولہ ادبی دنیا لاہور شمارہ ۲۸۰ ‘ ص ۷۷ مء 1952ء ۴۹۔ سلطانہ منظوری بحوالہ مظہر ممتاز… یہ میرا جی ہیںمشمولہ نقوش لاہور شماورہ ۱۴ ص ۳۱ ۵۰۔ اختر الایمان کا خط راقم کے نام بتاریخ 27اکتوبر 1990ء ۵۱۔ اختر الایمان کا خط راقم کے نام بتاریخ 27اکتوبر 1990ء ۵۲۔ اختر الایمان … میرا جی کے آخری لمحے مشمولہ نقوش لاہور شمارہ نومبر 1952ء ص ۱۲۳۔ ۵۳۔ اختر الایمان کا خط راقم کے نام بتاریخ… 27اکتوبر 1990ء ۵۴۔ اختر الایمان کا خط راقم کے نام بتاریخ… 27اکتوبر 1990ء ۵۵۔ الطاف گوہر…میراجی کے خطوط مشمولہ ’’نئی تحریریں‘‘ لاہور شمارہ ۴ ص ۱۲۳ ۵۶ ختر الایمان … میرا جی کے آخری لمحے مشمولہ’’نقوش‘‘ لاہور شمارہ نومبر 1952ص ۱۲۳ ۵۷۔ اختر الایمان کا خط راقم کے نام بتاریخ 27اکتوبر 1990ء ۵۸۔ کمار پاشی… ہندوستان کی تہذیبی اقدار کا محافظ میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۸ ۵۹۔ شاہد احمد دہلوی …میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت اور فن کمار پاشی ص ۲۲ ۶۰۔ میرا جی کا خط وشونندن بھٹنا گر کے نام مشمولہ شعر و حکمت حیدر آباد دور دوم کتاب اول 1987ص ۸۶ ۶۱۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۵۹ ۶۲۔ اعجاز احمد… میرا جی شخصیت و فن مشمولہ سویرا لاہور شمارہ ۳۶ ص ۷ ۶۳۔ الطاف گوہر… میرا جی مشمولہ تحریریں چند ص ۸۷ ۶۴۔ اعجاز احمد… میرا جی شخصیت و فن مشمولہ سویر ا لاہور شمارہ ۶ ص ۷ ۶۵۔ اس پہلو پر آخری باب میں تفصیلی بات کی گئی ہے۔ ۶۶۔ احمد ذکی کی ڈار سے انٹرویو از راقم ۶۷۔ الطاف گوہر… میرا جی ایک تصویر مشمولہ تحریریں چند س ۱۰۴ ۶۸۔ میرا جی بحوالہ نسیم الظفر… سیپیاں مشمولہ ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور 14دسمبر 1962ء ص۱۱ ۶۹۔ نسیم الظفر …… سیپیاں مشمولہ ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور 16دسمبر 1962ء ص ۱۲ ۷۰۔ قیوم نظر… بھولا رام کی داشتہ مشمولہ ’’کتاب‘‘ لاہور جولائی 1944ء ص ۱۲ ۷۱۔ شاد امرتسر… میراجی مشمولہ ہفت روزہ اقدام لاہور 9نومبر 1952ء ص ۷ ۷۲۔ قیوم نظر… میرا جی کی ایک تصویر مشمولہ ہفت روزہ قومی زبان کراچی یکم دسمبر 1957ء ص ۵ ۷۳۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۷۴۔ الطاف گوہر… میر ا جی ایک تصویر مشمولہ تحریریں چند س ۱۰۳۔۱۰۴ ۷۵۔ میرا جی… سمندر کا بلاوا مشمولہ کلیات میرا جی مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی س ۲۲۹ ۷۶۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۷۷۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۱۰۷ ۷۸۔ قیوم نظر… بھولا رام ک داشتہ مشمولہ کتاب لاہور‘ جولائی 1944ء ص ۱۳ ۷۹۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۸۰۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۸۱۔ احمد ذکی ڈار سے انٹرویو از راقم ۸۲۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۱۰۹ ۸۳۔ میراجی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۴۶ ۸۴۔ میراجی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۴۶۔۴۷ ۸۵۔ میراجی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۴۸ ۸۶۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۸۷۔ میرا جی کا خط میرا سین کے نام مشمولہ ’’شعر و حکمت‘‘ حیدر آباد دو ر دوم کتاب اول 1987ص ۷۵ ۸۸۔ سید انصارناصری سے انٹرویو از راقم ۸۹۔ انوار انجم… میرا جی کی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ص ۱۱۳ ۹۰۔ ڈاکٹر وزیر آغا… میراجی کا عرفان ذات مشمولہ نئے مقالات مکتبہ اردو زبان سرگودھا 1972ء ص ۸۳ ۹۱۔ احمد بشیر…اکیلا مشمولہ شعور دہلی شمارہ ص ۹۱۔۹۲ ۹۲۔ شاد امرتسری …میراجی مشمولہ ہفت روزہ اقدام لاہور 9نومبر 1952ء ص ۷ ۹۳۔ میرا جی بحوالہ ممتاز… یہ میرا جی ہیںمشمولہ نموش لاہور شمارہ ۴ ۱ ص ۲۴ ۹۴۔ ایضاً ۹۵۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۱۱۳ ۹۶۔ شاہد احمد دہلوی… میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۲۵ ۹۷۔ نسیم الظفر… سیپیاںمشمولہ ہفت روزہ لیل و نہار لاہور 6دسمبر 1962ء ص ۵ ۹۸۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۸۹۔۹۰ ۹۹۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۰۰۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۰۱۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۰۲۔ شاہد احمد دہلوی… میرا جی مشمولہ شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۱۹ ۱۰۳۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیان اپنا ص ۲۷ ۱۰۴۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیان اپنا ص ۲۷ ۱۰۵۔ قیوم نظر ۱۰۶۔ اخلاق احمد دہلوی ردی کے بھائو مشمولہ پھر وہی بیان اپنا ص ۴۱ ۱۰۷۔ سید انصار نصری سے انٹرویو از راقم ۱۰۸۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ص ۷۰ ۱۰۹۔ مولانا صلاح الدین احمد اداریہ ادبی دنیا لاہور شمارہ ۸ 1949 ص ۳ ۱۱۰۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۱۱۔ احمد ذکی ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۱۲۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۱۳۔ احمد بشیر… اکیلا مشمولہ’’ شعور‘‘ دہلی شمارہ۱ ص ۹۳ ۱۱۴۔ ا نوار انجم … میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۷۱ ۱۱۵۔ میرا جی بحوالہ مظہرممتاز… یہ میرا جی ہیں مشمولہ ’’نقوش‘‘ لاہور شمارہ ۱۴ ص ۲۷۔ ۱۱۶۔ شاہد احمد دہلوی میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۲۶ ۱۱۷۔ احمد بشیر …اکیلا مشمولہ ’’شعور‘‘ دہلی شمارہ ۱ ص ۸۵ ۱۱۸۔ ممتاز مفتی… میرا جی مشمولہ پیاز کے چھلکے نیشنل پبلشنگ ہائوس لاہور 1958ء ص ۱۶۶ ۱۱۹۔ محمد حسن عسکری … میرا جی مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹرجمیل جالبی سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1990 ص ۸۳ ۱۲۰۔ محمد حسن عسکری… میرا جی مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۸۳ ۱۲۱۔ محمد حسن عسکری… میرا جی مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹرجمیل جالبی ص ۸۴ ۱۲۲۔ شاہد احمد دہلوی …میرا جی مشمولہ چند ادبی شخصیتیں ص ۱۴۲ ۱۲۳۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کی ایک اور تصویر مشمولہ پھر وہی بیان اپنا ص ۱۷۶ ۱۲۴۔ نسیم الظفر… سیپیاں مشمولہ ہفت روزہ لیل و نہار لاہور 16دسمبر 1962ء ص ۱۲ ۱۲۵۔ نسیم الظفر… سیپاں مشمولہ ہفت روزہ لیل و نہار لاہور 16دسمبر 1962ء ص ۱۲ ۱۲۶۔ احمد حسن دانی سے گفتگو از راقم بمقام اسلام آباد تاریخ 2فروری 1990ء ۱۲۷۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۲۸۔ شاہد احمد دہلو… میرا جی مشمولہ چند ادبی شخصیتیں ص ۱۳۵ ۱۲۹۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۷۷۔۷۸ ۱۳۰۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا ی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۲۴ ۱۳۱۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۳۲۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۳۳۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۳۴۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو از راقم ۱۳۵۔ اخلاق احمد دہلوی… ردی کے بھائو مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۴۲ ۱۳۶۔ قیوم نظر… بھولا رام کی داشتہ مشمولہ ’’کتاب‘‘ لاہور جولائی 1944ء ص ۱۳ ۱۳۷۔ قیوم نظر… بھولا رام کی داشتہ مشمولہ’’کتاب‘‘ لاہور جولائی 1944ص ۱۳ ۱۳۸۔ اخلاق احمد دہلوی … میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیاں اپن ص ۱۸ ۱۳۹۔ وشونند ن بھٹناگر… میرا جی میرا نظر میں مشمولہ ’’شعر و حکمت‘‘ حیدر آباد دور دوم۔ کتاب اول 1987ء ص ۱۱۵ ۱۴۰۔ میرا جی بحوالہ نسیم الظفر… سیپیاں مشمولہ ہفت روزہ لیل و نہار لاہور 16دسمبر 1922ء ص ۱۳ ۱۴۱۔ وشونند بھٹناگر… میرا جی میری نظر میں مشمولہ’’شعرو حکمت‘‘ حیدر آباد دو ر دوم کتاب اول ص ۱۱۵۔ ۱۴۲۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۴۳۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۴۴۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۴۵۔ سجاد ظہیر بحوالہ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ص ۸۳ ۱۴۶۔ مظہر ممتاز… یہ میرا جی ہیں مشمولہ’’نقوش ‘‘ لاہور شمارہ ۱۴ ص ۲۷ ۱۴۷۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۳۸ ۱۴۸۔ عجاز احمد… میرا جی شخصیت و فن مشمولہ سویرا لاہور شمارہ ۳۶ ص ۹ ۱۴۹۔ شاہد احمد دہلوی … میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی‘ ۲۵ ۱۵۰۔ قیوم نظر بحوالہ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۱۴۷ ۱۵۱۔ رجسٹرڈ میڈیل پریکٹیشنرز ڈاکٹر خواجہ نسیم احمد ایم بی بی ایس سے گفتگو بمقام راولپنڈی بتاریخ 3مارچ 1990ء ۱۵۲۔ سعادت حسن منٹو… تین گولے شمولہ گنجے فرشتے ص ۷۷ ۱۵۳۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی ایک اور تصویر مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۱۷۶ ۱۵۴۔ سید انصار ناصری سے انٹرویو ا ز راقم ۱۵۵۔ سعادت حسن منٹو… تین گولے مشمولہ گنجے فرشتے ص ۸۶ ۱۵۶۔ مختار صدیقی … میرا جی کا دلی کا دور مشمولہ نفسیاتی جائزے کرابی اکتوبر 1949 ء ص ۱۱ ۱۵۷۔ الطاف گوہر … میرا جی مشمولہ تحریریں ص ۹۳۔۹۴ ۱۵۸۔ فتح محمد ملک… میرا جی کی کتاب پریشان مشمولہ تعصبات ص ۲۹۰ مکتبہ فنون لاہور 1973ء ۱۵۹۔ میرا جی …تفاوت راہ مشمولہ کلیات میرا جی مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۱۴۵ اردو مرکز لندن 1988ء ۱۶۰۔ ایضاً لب جوئبارے ایضاً ص ۹۶ ایضاً ۱۶۱۔ اخلاق احمد دہلوی… ردی کے بھائو مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۴۲ ۱۶۲۔ محمد اکرم اللہ کایم (لطیفی) بحوالہ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963ء ص ۸۸ ۱۶۳۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھروہی بیاں اپنا ص ۳۹ ۱۶۴۔ میرا جی بحوالہ مظہر ممتاز یہ میرا جی ہیں مشمولہ’’نقوش‘‘ لاہور شمارہ ۱۴ ص ۲۴ ۱۶۵۔ میرا جی بحوالہ مظہر ممتاز… یہ میرا جی ہیں مشمولہ نقوش لاہور شمارہ ۱۴ ص ۲۴ ۱۶۶۔ میرا جی بحوالہ عصمت چغتائی… سوکھے پتے مشمولہ ’’مضاھیم‘‘ گیارہ ستمبر اکتوبر 1979ء ص ۱۱ ۱۶۷۔ میرا جی بحوالہ مظہر ممتاز… یہ میراجی ہیں مشمولہ’’نقوش‘‘ اہور شمارہ ۱۴ ص ۲۹ ۱۶۸۔ الطاف گوہر… میرا جی کے چند خطوط مشمولہ’’نئی تحریریں‘‘ لاہور شمارہ ۴ ص ۸۴ ۱۶۹۔ احمد بشیر… اکیلا مشمولہ ’’شعور ‘‘ دہلی شمارہ ۹۰ ۱۷۰۔ جمیلہ شاہین… میرا جی کا سفر شوق مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۰۹ ۱۷۱۔ میرا جی بحوالہ مظہر ممتاز… میرا جی کے مشن مشمولہ ماہنامہ’ہم قلم‘‘ کراچی جنوری 1961ء ص ۴۷ ۱۷۲۔ میرا جی بحوالہ اخترالایمان بحوالہ مظہر ممتاز ایضاً ص ۴۶ ۱۷۳۔ اخلاق احمد دہلوی… میرا جی کا اخلاق مشمولہ پھر وہی بیاں اپنا ص ۲۷ ۱۷۴۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۷۵۔ یوسف بحوالہ شاید احمد دہلوی… میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۳۰ ۱۷۶۔ کرشن چندر بحوالہ مظہر ممتاز… میرا جی کے مشن مشمولہ ہم قلم کراچی جنوری 1961ء ص ۴۶ ۱۷۷۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۷۸۔ فتح محمد ملک… میرا جی کی کتاب پریشاں مشمولہ تعصبات ص ۲۸۲ ۱۷۹۔ مظہر ممتاز… میرا جی کے مشن مشمولہ ماہنامہ ہم قلم کراچی جنوری 1961ء ص ۴۵ ۱۸۰۔ سید انصار انصاری سے انٹرویو از راقم ۱۸۱۔ قدرت اللہ شہاب … میراجی مشمولہ ’’نقوش‘‘ لاہور شمارہ ۲۷۔۲۸۔ دسمبر 1952ء ص ۱۲۰ ۱۸۲۔ سعید الدین احمد ڈار سے انٹرویو از راقم ۱۸۳۔ مظہرممتاز… میرا جی کے مشن مشمولہ ماہنامہ ’’ہم قلم ‘‘ کراچی جنوری 1961ء ص ۴۷ ۱۸۴۔ مظہرممتاز… میرا جی کے مشن مشمولہ ماہنامہ ’’ہم قلم ‘‘ کراچی جنوری 1961ء ص ۴۷ ۱۸۵۔ کمار پاشی… ہندوستان کی تہذیبی اقدار کا محافط میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی س ۷ ۱۸۶۔ کمار پاشی… ہندوستان کی تہذیبی اقدار کا محافط میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی س ۷ ۱۸۷۔ جمیلہ شاہین… میرا جی کا سفر شوق مشمولہ میرا جی کا مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۰۳ ۱۸۸۔ محمد صفدر میر… میرا جی اور حلقہ اربا ب ذوق مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد یویر پبلی کیشنز لاہور 1990ء ص ۱۴۔ ۱۸۹۔ کمار پاشی… ہندوستان کی تہذیبی اقدر کا محافط میرا جی مشمولہ میرا جی شخصیت و فن مرتب کمار پاشی ص ۱۶ ۱۹۰۔ میرا جی… بحوالہ جمیلہ شاہین… میرا جی کا سفر شوق مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۱۴ ۱۹۱۔ میرا جی بحوالہ اختر الایمان … میرا جی کے آخری لمحے مشمولہ نقوش لاہور شمار ہ ۲۷۔۲۸۔ دسمبر 1952ء ص ۱۲۳ ۱۹۲۔ میرا جی بحوالہ اختر الایمان … میرا جی کے آخری لمحے مشمولہ نقوش لاہور شمار ہ ۲۷۔۲۸۔ دسمبر 1952ء ص ۱۲۳ ۱۹۳۔ مولانا صلاح الدین احمد میرا جی کے چند منظوم تراجم مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ جنوری 1988ء ص ۳۴ ۱۹۴۔ مولانا صلاح الدین احمد میرا جی کے چند منظوم تراجم مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ جنوری 1956ء ص ۳۵ ۱۹۵۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد پولیمر پبلی کیشنز لاہور 1990ء ص ۴۱۹ ۱۹۶۔ ن م راشد دیباچہ ماوراء المثال‘ لاہور طبع چہارم‘ 1969ء ‘ ص ۱۰۲ ۱۹۷۔ ن م راشد دیباچہ ماوراء المثال‘ لاہور طبع چہارم‘ 1969ء ‘ ص ۱۰۳ ۱۹۸۔ ڈاکٹر سلامت اللہ …اردو کے دو باغی شاعر مشمولہ’’نگار‘‘کراچی شمارہ ستمبر 1950ء ص ۵۳۔۵۴ ۱۹۹۔ ساقی فاروقی… نظم کا سفر مشمولہ ’’تخلیقی ادب‘‘ کراچی شمار ہ ۴ ص ۲۰۸ ۲۰۰۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پور ا آدمی ادبی اکیڈمی کراچی 1961ء ص ۲۶ ۲۰۱۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پور ا آدمی ادبی اکیڈمی کراچی 1961ء ص ۲۹ ۲۰۲۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پور ا آدمی ادبی اکیڈمی کراچی 1961ء ص ۲۶ ۲۰۳۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پور ا آدمی ادبی اکیڈمی کراچی 1961ء ص ۲۶ ۲۰۴۔ ساقی فاروقی… نظم کا سفر مشمولہ تخلیقی ادب کراچی شمارہ ۴ ص ۲۰۹ ۲۰۵۔ ن م راشد… دیباچہ ماورا المثال لاہور طبع چہارم 1969ء ص ۱۰۵۔۱۰۶ ۲۰۶۔ ن م راشد… دیباچہ ماوراء ۔ ص ۱۰۶ ۲۰۷۔ ن م راشد… دیباچہ ماورا ء ص ۱۰۷ ۲۰۸۔ ن م راشد… دیباچہ ماوراء س ۱۰۹۔۱۱۰ ۲۰۹۔ ڈاکٹر آفتاب احمد… ن م راشد شاعر اور شخص ص ۲۴ ماوراء پبلیشرز لاہور 1989ء ۲۱۰۔ کرشن چندر… تعرف مشمولہ ماوراء المثال لاہور طبع چہارم 1969ء ص ۱۱۲ ۲۱۱۔ کرشن چندر… تعرف مشمولہ ماوراء المثال لاہور طبع چہارم 1969ء ص ۱۱۲ ۲۱۲۔ ن م راشد… جدید اردو شاعری مشمولہ پاکستانی ادب جلد پنجم مرتب رشید امجد ص ۴۸۶ فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج راولپنڈی 1982ء ۲۱۳۔ ن م راشد… جدید اردو شاعری مشمولہ پاکستانی ادب جلد پنجم مرتب رشید امجد ص ۴۸۶ ۲۱۴۔ ڈاکٹر جمیل جالبی … میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ مارچ 1950ء ص ۱۴۱۔۱۴۲ ۲۱۵۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا ی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1990ء ۲۱۶۔ ن م راشد… جدید اردو شاعری مشمولہ پاکستانی ادب جلد پنجم مرتب رشید امجد ص ۴۸۶۔۴۸۷ ۲۱۷۔ ن م راشد… جدید اردو شاعری مشمولہ پاکستانی ادب جلد پنجم مرتب رشید امجد ص ۴۸۴ ۲۱۸۔ ن م راشد… سلیم احمد کے نام خط مشمولہ ’’نیا دور‘‘ کراچی ۲۸۔۲۷۔ ل ۳۶۶ ۲۱۹۔ ن م راشد… سلیم احمد کے نام خط مشمولہ ’’نیا دور‘‘ کراچی ۲۸۔۲۷۔ ل ۳۶۶ ۲۲۰۔ ن م راشد… میرا جی کے نام خط مشمولہ ’’شعر و حکمت‘‘ حیدر آباد ‘ دور دوم‘ کتاب اول‘ 1978ء ‘ ص ۷۷ ۲۲۱۔ ن م راشد… میرا جی کے نام خط مشمولہ ’’شعر و حکمت‘‘ حیدر آباد ‘ دور دوم‘ کتاب اول‘ 1978ء ‘ ص ۷۹ ۲۲۲۔ شمیم احمد … جدید شاعری کا سکول مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۳۵ ۲۲۳۔ حمید نسیم …ناممکن کی جستجو مشمولہ ماہنامہ’’ علامت‘‘ لاہور شمارہ جون 1990ء ص ۴ ۲۲۴۔ انیس ناگی… میرا جی ایک بھٹکا ہوا مشمولہ میرا جی کی نظمیں مرتب انیس ناگی ص ۲۸ جمالیات لاہور ۱۹۸۸ء ۲۲۵۔ ڈاکٹر وزیر آغا… جدید اردو شاعری مشمولہ نئے مقالات مکتبہ اردو زبان سرگودھا 1972ء ص ۱۱۵ ۲۲۶۔ انوار انجم… میرا جی شخصیت و فن مقالہ ایم اے اردو 1963 ء پنجاب یونیورسٹی لاہور ص ۲۰۰ ۲۲۷۔ میرا جی… بز م ادب مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ مئی 1941ء ص ۳ ۲۲۸۔ محمد صفدر میر… تبصرہ باقیات میرا جی مرتب شیما مجید مشمولہ روزنامہ دان کراچی 6جولائی 1990ء ۲۲۹۔ ناصر کاظمی… شخص و عکس مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۲۳۹ ۲۳۰ ۔ ناصر کاظمی… شخص و عکس مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۲۴۰ ۲۳۱۔ ڈاکٹر وزیر آغا… میرا جی مشمولہ تنقید اور مجلسی تنقید مکتبہ اردو زبان‘ سرگودھا ‘ 1976ء ۲۳۲۔ ڈاکٹر وزیر آغا… میر جی مشمولہ تنقید اور مجلسی تنقید ص ۶۱۔ مکتبہ اردو زبان سرگودھا 1976ء ۲۳۳۔ میرا جی… ہندوستان کی غرب کا مسئلہ مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1939ء ۲۳۴۔ میرا جی… ہندوستان کی غرب کا مسئلہ مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1939ء ۲۳۵۔ میرا جی… ہندوستان کی غرب کا مسئلہ مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1939ء ۲۳۶۔ میرا جی… ہندوستان کی غرب کا مسئلہ مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ فروری 1939ء ۲۳۷۔ مظفر علی سید… میرا جی مشمولہ راوی لاہور شمارہ 1950ء ص ۲۶ ۲۳۸۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۳۰۸ ۲۳۹۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ۳۰۹ ۲۴۰۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی س ۴۳ ادبی اکیڈمی کراچی 1962ء ۲۴۱۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی س ۴۳ ادبی اکیڈمی کراچی 1962ء ۲۴۲۔ ڈاکٹر سلامت اللہ … اردو کے دو باغی شاعر مشمولہ’’نگار‘‘ کراچی شمارہ ص ۵۶ ۲۴۳۔ ڈاکٹر سلامت اللہ … اردو کے دو باغی شاعر مشمولہ’’نگار‘‘ کراچی شمارہ ص ۵۶ ۲۴۴۔ ساقی فاروقی… نظم کا سفر مشمولہ’’تخلیقی ادب ‘‘کراچی شمار ہ ۴ ْص ۲۰۹ ۲۴۵۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ‘ ادبی اکیڈمی ‘ کراچی 1962ء ص ۵۰ ۲۴۶۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ‘ ادبی اکیڈمی ‘ کراچی 1962ء ص ۵۱ ۲۴۷۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ‘ ادبی اکیڈمی ‘ کراچی 1962ء ص ۵۱ ۲۴۸۔ میرا جی… نامکمل سیلف پورٹریٹ مشمولہ میرا جی شخصیت اور فن مرتب کمار پاشی ص ۷۰ موڈرن پبلشنگ ہائوس دہلی 1981ء ۲۴۹۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ’’ ادبی دنیا ‘‘ لاہور شمارہ ص ۱۲۹ ۲۵۰۔ انیس ناگی… میراجی ایک بھٹکا ہوا شاعر مشمولہ میرا جی کی نظمیں مرتب انیس ناگی ص ۸ ۲۵۱۔ انیس ناگی… میراجی ایک بھٹکا ہوا شاعر مشمولہ میرا جی کی نظمیں مرتب انیس ناگی ص۲۳ ۲۵۲۔ محمد صفدرمیر… میرا جی کا فکری نظا م مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۳۰۹ ۲۵۳۔ محمد صفدرمیر… میرا جی کا فکری نظا م مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۳۲۰ ۲۵۴۔ ایضاً ص ۳۲۲ ۲۵۵۔ ایضاً س ۳۱۹ ۲۵۶۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۲ ۲۵۷۔ انیس ناگی… میرا جی ایک بھٹکا ہوا شاعر مشمولہ میرا جی کی نظمیںمرتب انیس ناگی ص ۲۹ ۲۵۸۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۵ ۲۵۹۔ انتظار حسین… شخص و شاعر ایضاً ص ۲۳۰ ۲۶۰۔ ساقی فاروقی… نظم کا سفر مشمولہ ’’تخلیقی ادب‘‘ کراچی شمارہ ۴ س ۲۱۱ ۲۶۱۔ میرا جی … خود نوشت مشمولہ میری بہترین نظم مرتب محمد حسن عسکری ص ۱۸۵ ۲۶۲ ۔ ساقی فاروقی… نظم کا سفر مشمولہ ’’تخلیقی ادب‘‘ کراچی شمارہ ۴ س ۲۱۰ ۲۶۳۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ مارچ 1980ء ص ۱۳۳ ۲۶۴۔ ایضاً ایضاً ص ۱۳۴ ۲۶۵۔ ڈاکٹر سلامت اللہ… اردو کے دو باغی شاعر مشمولہ’’نگار‘‘ کراچی شمارہ ستمبر 1950ء ص ۵۴ ۲۶۶۔ شاد امرتسری … میرا جی مشمولہ ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ لاہور شمارہ 9نومبر 1952ص ۸ ۲۶۷۔ محمد صفدر میر… تبصرہ باقیات میرا جی مرتب شیما مجید مشمولہ روزنامہ ڈا ن کراچی 6جولائی 1990ء ۲۶۸۔ ایضاً ایضاً ۲۶۹۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ستمبر 1950ء ص ۱۳۵ ۲۷۰۔ ایضاً ایضاً ص ۱۳۳ ۲۷۱۔ شاد امرتسری… میرا جی مشمولہ ہفت روزہ اقدام شمارہ 9نومبر 1952ء ص ۷ ۲۷۲۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ ادبی دنیا لاہور شمارہ ستمبر 1950ء ۲۷۳۔ شاد امرتسری… میرا جی مشمولہ ہفت روزہ’’اقدام‘‘ شمارہ 9نومبر 1956 ء ص ۸ ۲۷۴۔ شاد امرتسری… میرا جی مشمولہ ہفت روزہ’’اقدام‘‘ شمارہ 9نومبر 1956 ء ص۵۴ ۲۷۵۔ ڈاکٹر حامد کاشمیری… اردو نظم میں علامت نگار مشمولہ تفہیم و تنقید جس میں نکس لاہور 1989ء ص ۵۴ ۲۷۶۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ص ۱۴۵ ادبی اکیڈ می کراچی 1962ء ۲۷۷۔ ڈاکٹر سہیل احمد… میرا جی ایک سال مشمولہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور شمارہ مارچ 1968ء ص ۱۲ ۲۷۸۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۸۶ ۲۷۹۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ص ۴۳ادبی اکیڈمی کراچی 1963ء ۲۸۰۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ مقالات حلقہ اربا ب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۳۲۳ ۲۸۱۔ میرا جی… دیباچہ میرا جی کی نطمیں ص ۱۴ ساقی بک ڈپو دہلی ۳ ن ۲۸۲۔ قدرت اللہ شہاب… میرا جی مشمولہ ’’نقوش ‘‘ لاہور شمارہ ۲۸۔۲۷ نومبر 1952ء ص ۱۱۹ ۲۸۳۔ قدرت اللہ شہاب… میرا جی مشمولہ ’’نقوش ‘‘ لاہور شمارہ ۲۸۔۲۷ نومبر 1952ء ص ۱۱۹ ۲۸۴۔ جمیلہ شاہین… میرا جی کاسفر شوق مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹرجمیل جالبی س ۳۰۳ ۲۸۵۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ مقالات حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ۳۰۹ ۲۸۶۔ جیلانی کامران… حلقہ ارباب ذوق اورنئی نظم مشمولہ حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۱۸۱ ۲۸۷۔ خلیل الرحمن اعظمی… آزاد نظم اور اس کے احکامات مشمولہ ’’علی گڑھ میگزین‘‘ علی گڑھ شمارہ اول 1957ء ص ۱۹۹ ۲۸۸۔ سید وقار عظیم… نئے شاعروں پر ایک سرسری نظر مشمولہ ’’ساقی‘‘ دہلی سالنامہ جنوری 1945ء ص ۲۱ ۲۸۹۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی… جدید شاعری اردو دنیا کراچی ۱۹۶۱ء ص ۳۱۱ ۲۹۰۔ جابر علی سید… اردو میں آزاد نظم کاارتقاء مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ستمبر 1946 ء ص ۴۳۔۴۴ ۲۹۱۔ ڈاکٹر منیب الرحمن… آزاد نظم کی ہئیت مشمولہ ’’علی گڑھ‘‘ میگزین علی گڑھ شمارہ اول 1957ء ص ۱۹۴۔۱۹۵ ۲۹۲۔ شمس الرحمن فاروقی… عروض آہنگ اربیان کتاب نگر لکھنو 1977ء ص ۲۷۔۲۸ ۲۹۳۔ ڈاکٹر حنیف کیفی… آزاد نظم کی ہئیت از تکنیک مشمولہ’’اوراق‘‘ لاہور شمارہ ستمبر اکتوبر 1981ء ص ۳۵ ۲۹۴۔ ایضاً ایضاً ص ۳۶ ۲۹۵۔ میرا جی کی آخری تحریریں مشمولہ ادبی دنیا لاہور شمارہ ۲۸ 1952ء ص ۷۹ ۲۹۶۔ محمد صفدر میر … تبصرہ باقیات میرا جی مرتب شیما مجید مشمولہ روزنامہ ڈان کراچی 6جولائی 1990ء ۲۹۷۔ اکرام قمر… میرا جی کی آخری تحریریں مشمولہ ادبی دنیا لاہور شمارہ ۲۸ 1952ء ص ۷۹ ۲۹۸۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ س ۱۴۰۔۱۴۱ ۲۹۹۔ اکرام قمر… میراجی کی آخری تحریریں مشمولہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ۲۸ 1952ء ص ۷۹ ۳۰۰۔ ایضاً ایضاً ص ۷۸ ۳۰۱۔ عابد صدیق آزاد نظم کی فنایت مشمولہ اوراق لاہور شمارہ جون جولائی 1989ء ص ۲۸۶ ۳۰۲۔ کلیم الدین احمد… آزاد نظم مشمولہ اردو شاعری پر ایک نظر (حصہ دوم) ص ۴۳۷۔۴۳۸ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد 1987ء ۳۰۳۔ کلیم الدین احمد… آزاد نظم مشمولہ اردو شاعری پر ایک نظر(حصہ دوم) ص ۴۳۷ ۳۰۴۔ ڈاکٹر حامدی کاشمیری… اردو نظم میں علامت نگاری مشمولہ تفہیم تنقید ص ۵۵ ۳۰۵۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۴۰ ۳۰۶۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی کو سمجھنے کے لیے مشمولہ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور شمارہ ستمبر 1950ء ص ۱۳۶ ۳۰۷۔ عصمت چغتائی… سوکھے پتے مشمولہ مفاہم گیا شمارہ ۹ 10ستمبر 1979ء ص ۱۲ ۳۰۸۔ شاد امرتسری… میرا جی مشمولہ ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ لاہور شمارہ 9نومبر 1952ء ص ۸ ۳۰۹۔ ڈاکٹر سہیل احمد… میرا جی ایک سال مشمولہ ’’ادب لطیف‘‘ مارچ 1968ء ص ۱۲ ۳۱۰۔ ایضاً ایضاً ص ۳۱ ۳۱۱۔ ڈاکٹر سہیل احمد… میرا جی ایک سال مشمولہ ادب لطیف لاہور شمارہ مارچ 1968ء ص ۱۴ ۳۱۲۔ جمیلہ شاہین… میرا جی کا سفر شوق مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۰۸ ۳۱۳۔ جمیلہ شاہین… میرا جی کا سفر شوق مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۰۹ ۳۱۴۔ میرا جی… صدا بہ صحرا مشمولہ کلیات میرا جی مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی 269 ۳۱۵۔ میرا جی… دیوداسی اورپجاری مشمولہ میرا جی کی نظمیں ص ۲۵۔۲۷ ۳۱۶۔ محمد صفدر میر… میرا جی کا فکری نظام مشمولہ حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۳۱۹ ۳۱۷۔ میرا جی… خدا مشمولہ کیلات میرا جی مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ۳ ص ۲۱۹۔۲۲۰ ۳۱۸۔ محمد صفدر میر… میرا جی کافکری نظام مشمولہ مقالہ حلقہ ارباب ذوق مرتب سہیل احمد ص ۴۱۱ ۳۱۹۔ ایضاً ایضاً ص ۳۱۱ ۳۲۰۔ فتح محمد ملک… میرا جی کی کتاب پریشاں مشمولہ تعصبات ص ۲۸۴ مکتبہ فنون لاہور 1973ء ۳۲۱۔ ن م راشد…بحوالہ تصدق سہاروی اختر الایمان کے ساتھ ایک شام مشمولہ شب خون الہ آباد شمارہ ۲۸ دسمبر 1971ء ص ۲۴ ۳۲۲۔ سلیم احمد… نئی نظم اور پورا آدمی ص ۱۵۱ اردو اکیڈمی کراچی 1962ء ۳۲۳۔ ڈاکٹر وزیر آغا… میرا جی کی اہمیت مشمولہ میراجی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۵۹ ۳۲۴۔ ڈاکٹر جمیل جالبی… میرا جی ایک مطالعہ مشمولہ میرا جی ایک مطالعہ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی ص ۳۵ ۳۲۵۔ ڈاکٹر وحید قریشی … میرا جی کی پابند شاعری مشمولہ جدیدیت کی تلاش میں ص ۳۰۴۔۳۰۷ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End