دوست بنئے دوست بنائے ڈیل کارنیگی پہلا حصہ باب اول اگر آپ شہد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو چھتے کو ٹھوکر نہ ماریں ۷ مئی ۱۹۳۱ء کو نیو یارک شہر کا بدنام ترین قاتل کرولی ’’ ٹوگن‘‘ کئی ہفتوں کی سرتوڑ کوشش کے بعد شہر کے ویسٹ اینڈ میں اپنی محبوبہ کے گھر سے پکڑا گیارہ کرولی نہ تو سگریٹ پیتا تھا اور نہ ہی شراب ایک سو پچاس کے قریب پولیس والے اور جاسوس اس کی محبوبہ کے اپارٹمنٹ کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے گھر کی چھتوں میں سوراک کئے اور ان میں آنسو گیس چھوڑی تاکہ دھوئیں سے گھبر اکر کرو کی باہر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔ اس کے بعد انہوں نے ارد گرد کے گھروں میں اپنی مشین گنیں نصب کر دیں اور پھر نیویارک شہر کا سب سے عمدہ رہائشی علاقہ ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک گولیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ کرولی ایک ایسی کرسی کے پیچھے چھپا ہوا پولیس پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا تھا جس میں گھر کی بے شمار فالتو چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ارد گرد کی عمارتوں پر تقریباً دس ہزار افراد اس لڑائی کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔ جو اس سے قبل نیویارک کے علاقے میں نہیں لڑی گئی تھی۔ کرولی ’’ ٹوگن‘‘ جب پکڑا گیا تو پولیس کے کمشنر ای پی لوونی نے اعلان کیا کہ نیویارک شہر کی تاریخ کا خطرناک ترین قاتل ’’ ٹوگن‘‘ پکڑا گیا ہے اور چھتوں پر چڑھے ہوئے لوگ اپنی چھتوں سے اتر جائیں یہ آدمی بہت خطرناک ہے۔ لیکن کرولی ’’ ٹوگن‘‘ اپنے آپ کو کیا سمجھتا تھا؟ آپ کو حیرانگی ہو گی کہ جب پولیس اس کے اپارٹمنٹ میں اندھا دھند فائرنگ کر رہی تھی تو وہ بڑے اطمینان سے وہاں بیٹھا خط لکھ رہا تھا۔ میں وہ To whan it miy concern سے مخاطب تھا۔ خون کے چھینٹے کاغذ پر گر رہے تھے۔ اس نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’ میرا دل بہت آزردہ ہے اور یہ کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ اپنی گرفتاری سے کچھ دیر قبل کرولی اپنی محبوبہ کے ساتھ ایک پارٹی میں شریک تھا اور پارٹی کے ختم ہونے پر جب وہ اپنی کار میں بیٹھ رہا تھا تو اچانک ایک پولیس مین اس کے پاس آیا اور اس سے ڈرائیونگ لائسنس طلب کیا۔ ایک لفظ کہے بغیر اسے گولیوں سے بھون ڈالا۔ جونہی وہ پولیس مین زمین پر گرا۔ کرولی اپنی کار سے باہر نکلا اور اس نے مرے ہوئے پولیس مین کا پستول نکال کر اسکے مردہ جسم میں ایک اور گولی داغ دی اور یہ اس قاتل کا اقدام تھا۔ جس نے اپنے خط میں یہ لکھا تھا۔ ’’ میرا دل بہت افسردہ ہے میں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس سے اس کے خطرناک ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘ کرولی پر مقدمہ چلا اور اسے سزائے موت دی گئی۔ اسے جب الیکٹرک چیئر پر بٹھانے کے لئے ’’ سنگ سنگ‘‘ نامی موت کے گھر میں لایا گیا تو اس نے کہا کہ ’’ یہ سزا وہ نہیں ہے جو مجھے انسانوں کو قتل کرنے کے عوض مل رہی ہے بلکہ یہ وہ سزا ہے جو مجھے اپنی حفاظت کرنے کے جرم میں مل رہی ہے۔‘‘ اس کے یہی الفاظ کہانی کا آغاز ہیں۔ جس نام ’’ ٹوگن‘‘ ہے کرول اپنے آپ کو اتنے انسانوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ کیا قتل کے مجرموں کا یہی رویہ ہوتا ہے جب انہیں سزائے موت دی جا رہی ہوتی ہے؟ اگر آپ یہی سمجھتے ہیں تو کرول کی زبانی اس کی کہانی سنیں۔ ’’ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال لوگوں کو خوشیاں دیتے ہوئے گذارے میں نے اپنے اچھے دنوں میں بے شمار ضرورت مند لوگوں کی مدد کی۔ لیکن اس کے بدلے میں مجھے صرف گالیاں ملیں۔ جس نے مجھے ایک قاتل بننے پر مجبور کیا۔‘‘ یہی بات کیپون نے کہی جو امریکہ کی تاریخ کا سب سے بدنام ترین قاتل تھا اس نے شکاگو میں بے شمار انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے لیکن اس نے اپنے آپ کو کبھی مجرم نہیں سمجھا تھا۔ وہ اپنے آپ کو عوام کا خادم تصور کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے غلط سمجھا گیا اور میرے کاموں کی بھی تعریف نہیں کی گئی۔ یہی بات ڈچ شلز نے کہی جو کہ نیویارک کا بدنام ترین دغا باز تھا۔ اس نے ایک بار اپنے اخباری انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عوام کا خادم ہے۔ شلز اس دعوے پر یقین رکھتا تھا۔ میں نے نیویارک کے سنگ سنگ نامی موت کے گھر کے وارڈن لوئس لیز کے ساتھ کئی برسوں تک بڑی دلچسپ قسم کی خط و کتابت کی تھی۔ جس کے ذریعے مجھے یہ پتہ چلا کہ موت کے گھر میں مقیم بہت سے لوگ اپنے آپ کو برا خیال کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو عام انسانوں کی طرح انسان سمجھتے تھے اور وہ اس بارے میں باقاعدہ دلیل دیا کرتے تھے۔ بہت سوں کی دلیل میں وزن اور منطق ہوا کرتی تھی۔ جو ان کے دعوے کی تصدیق کرتی تھی۔ ان سب مجرموں کو یہ اعتماد تھا کہ انہیں ہرگز ہرگز گرفتارنہیں کرنا چاہئیے۔ اگر کیپون، کرولی، ٹوگن، ڈچ شلز اور اسی طرح کے بے شمار مجرم جو جیلوں میں بند ہیں اور اپنے آپ کو مجرم نہیں سمجھتے۔ تو ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن سے ہم روز مرہ ملتے ہیں۔ جان ہوپ جو ایک شراب کی دکان کا مالک تھا اس نے ایک بار تسلیم کیا تھا ’’ تیس برس قبل میں نے یہ سیکھا کہ کسی کو برا بھلا کہنا بے وقوفی ہے۔ مجھے اپنی اس عادت پر قابو پانے میں کافی مشکل پیش آئی۔ میں نے کڑھنا چھوڑ دیا او ریہ حقیقت جان لی کہ خدا نے ہر انسان کو ایک جیسی عقل عطا نہیں کی۔‘‘ جان ہوپ نے یہ سبق بہت پہلے سیکھ لیا لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ حقیقت جاننے کے لئے بہت دیر لگی۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ہم سو غلطیاں کرنے کے بعد صرف ایک غلطی کے بارے میں اپنے آپ پر نکتہ چینی کرتے ہیں باقی ننانوے غلطیوں پر ہم اپنے آپ کو قصور وار ہی نہیں ٹھہراتے۔ نکتہ چینی ایک بے کار کوشش ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسرے شخص کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور عموماً وہ شخص اپنے اقدام کا جواز تلاش کرنے لگتا ہے۔ نکتہ چینی ایک خطرناک عادت ہے اور اس سے دوسرے شخص کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت کم ہوتی ہے اور اسے غصہ آتا ہے۔ دنیا کا ایک مشہور نفسیات دان ایف سکنز اپنی کتاب میں یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اچھے سلوک کے ساتھ ایک جانور بھی بڑی تیزی کے ساتھ سیکھتا ہے اور وہ آپ کی بات بھی سمجھنے لگتا ہے اور وفاداری بھی کرتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس اس سے برا سلوک کیا جائے تو وہ بھی سرکش ہو جاتا ہے۔ بعد کی تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انسان بھی اسی طرح اچھے اور برے سلوک کا اثر لیتے ہیں۔ دوسروں پر نکتہ چینی کرنے سے ہم ان میں مثبت تبدیلی لانے کی بجائے ان کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔ ایک او رنامور نفسیات دان ہینز یلی کا کہنا ہے کہ ’’ جس قدر ہمیں اس بات کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے ہماری باتوں کی تائید کریں۔ اتنا ہی ہمیں ان پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔‘‘ نکتہ چینی انسان کے حوصلے پست کرتی ہے اور اس سے اس صورتحال میں بہتری پیدا نہیں ہوتی جس کے لیے نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ اوکلوہاما کا جارج بی جانسٹن ایک انجینئرنگ کمپنی میں کام کرتا ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کمپنی کے ملازمین باہر فیلڈ میں کام کرتے ہیں تو وہ چیک کرے کہ تمام نے اپنے سروں پر ہیلمٹ پہنے ہوئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ ایسے ملازمین کو دیکھتا ہے جنہوں نے ہیلمٹ نہیں پہنے ہوتے تو وہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ یہ کمپنی کا حکم ہے جسے انہیں ماننا چاہئے اور اس کے بدلے وہ بڑی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہیلمٹ پہنتے ہیں اور اکثر جب میرا دھیان کسی دوسری طرف ہو جاتا ہے اور وہ فوراً اپنے ہیلمٹ اتار دیتے ہیں اور بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ میں انہیں دوبارہ دیکھ سکتا ہوں۔ اس کے بعد جارج جانسٹن نے ایک مختلف طریقہ آزمایا اور جب اگلی بار اس نے دیکھا کہ کچھ ملازمین نے ہیلمٹ نہیں پہنے ہوئے ہیں تو اس نے ان سے دریافت کیا کہ آیا ان کے ہیلمٹ آرام دہ نہیں ہیں؟ اس کے بعد وہ انہیں بڑی ملائمت کے ساتھ بتاتا کہ یہ ہلمٹ اس لیے ہیں کہ کسی حادثے سے بچ سکیں اور ا سلیے انہیں یہ ہلمٹ پر وقت پہننے چاہئیں۔ تاریخ کے صفحات نکتہ چینی کے منفی اثرات کی ہزاروں مثالوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر ٹیف اور تھیوڈور روز ویلٹ کے درمیان ہونے والے جھگڑے کو لیں۔ جس کے باعث ری پبلکن پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وڈ روولن امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ آئیے ہم ان حقائق کو جانیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب روز ویلٹ ۱۹۰۸ء میں اپنی صدارت کی مدت پوری کر چکا تو اس نے صدارت کے لیے ٹیف کی حمایت کی۔ اس کے بعد روز ویلٹ شکار کھیلنے کے لیے افریقہ کے جنگلوں میں چلا گیا۔ واپسی پر اس نے ایک ہنگامہ کر دیا۔ اس نے صدر ٹیف کی قدامت پرست پالیسیوں پر نکتہ چینی کی اور تیسری بار صدارت کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی اس نے ’’ بل موز پارٹی‘‘ بنائی اور اس کے بعد کیا ہوا۔ بعد میں ہونے والے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کو صرف دو ریاستوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ پارٹی کی تاریخ میں سب سے بڑی ناکامی تھی۔ اس ناکامی کا ذمہ دار روز ویلٹ نے صدر ٹیف کو ٹھہرایا۔ لیکن کیا ٹیفٹ نے اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا؟ بالکل نہیں۔ آنکھوں میں آنسو لیے ٹیفٹ نے کہا کہ ’’ میں جو کچھ ہوں اس سے مختلف کام کیسے کر سکتا ہوں۔‘‘ روز ویلٹ یا ٹیفٹ میں سے کون قصور وار ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ میں نہیں جانتا اور مجھے اس کی فکر بھی نہیں لیکن میں یہ نکتہ آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ روز ویلٹ کی نکتہ چینی کا ٹیفٹ پر بالکل اثر نہیں ہوا اور اس نے اپنی پالیسیوں کا دفاع کرنا شروع کر دیا اور آنکھوں میں آنسو لیے اس نے کہا کہ ’’ میں اپنی شخصیت سے مختلف اقدام کیسے کر سکتا ہوں‘‘ اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو غلط سمجھنے کی بجائے اپنا دفاع کیا۔ ٹی پاٹ ڈوم آئل کمپنی کے سیکنڈل کی مثال لیں۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے میں یہ سیکنڈل امریکہ بھر کے اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا۔ اس سیکنڈل نے امریکی قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ا س وقت کے جو لوگ اب تک زندہ ہیں وہ کبھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ اس طرح کا کوئی اور سیکنڈل ہو۔ ہم یہاں آپ کو اس سیکنڈل کے بعض حقائق بیان کرتے ہیں۔ صدر ہارڈنگ کی کابینہ میں وزیر داخلہ البرٹ فال کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ٹی پاٹ ڈوم اور ایلک ہل پر واقع حکومت کے تیل کے ذخیروں کو لیز پر دے۔ یہ ذخیرے امریکی بحریہ کے لیے مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر رکھے گئے تھے۔ کیا البرٹ فال نے ان زخیروں کو لیز پر دینے کے لیے نیلامی کروائی تھی؟ نہیں اس نے بغیر سوچے سمجھے انہیں اپنے دوست ایڈورڈ کو دے دیئے اور ایڈورڈ نے کیا کیا؟ اس نے اپنے دوست البرٹ فال کو ایک لاکھ ڈالر دیئے۔ جسے قرض ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد وزیر داخلہ نے ایک اور سنگین غلطی کرتے ہوئے امریکی بحریہ کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے میں کام کرنے والی کمپنیوں کو وہاں سے نکال دے ان کمپنیوں کو بندوقوں اور سنگینوں کی نوک پر وہاں سے نکالا گیا اور اس کے بعد متاثرین اس بے دخلی کے بعد عدالت میں چلے گئے اور پھر امریکی قوم کے سامنے ایک ایسا سیکنڈل آیا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ پوری قوم نے اس پر شور مچایا کہ اس سے صدر ہارڈنگ کی انتظامیہ ختم ہو گئی۔ البرٹ فال کو جیل جانا پڑا اور ری پبلکن پارٹی کے ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ البرٹ فال پر پوری قوم نے لعن طن کیا۔ اس پر اس قدر شدید نکتہ چینی ہوئی کہ شاید ہی کسی اور پر ایسی نکتہ چینی ہوئی ہو، کیا اس پر البرٹ فال کو کوئی ندامت، شرمندگی یا پچھتاوا ہوا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کئی برسوں کے بعد ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہربرٹ ہوور نے بتایا کہ صدر ہارڈنگ کی موت کی وجہ ذہنی پریشانی اور صدمہ تھا جو ایک دوست (البرٹ فال) نے انہیں پہنچایا تھا۔ جب مسز البرٹ فال کو اپنے شوہر کے فراڈ کا علم ہوا تو وہ اپنی کرسی سے اچھل پڑی اور رونے لگ گئی۔ اس نے کہا کہ میرا شوہر سونے سے بھرا ہوا اپنا گھر چھوڑ کر ایسی غلطی نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ یقینا دھوکہ ہوا ہے۔ یہ ہوئی نہ بات کہ انسانی فطرت جب کوئی غلطی کرتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو الزام دیتی ہے لیکن اپنے آپ کو ہمیشہ بے قصور وار سمجھتی ہے۔ ہم سب ایسی انسانی فطرت کے مالک ہیں اس لیے اگر مجھے یا آپ کو کل کسی شخص پر نکتہ چینی کرنا پڑے تو ہمیں کیبون، کرولی ’’ ٹوگن‘‘ ڈچ شلز اور البرٹ فال کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ نکتہ چینی ان کبوتروں کی مانند ہوتی ہے جو سارا دن اڑنے کے باوجود واپسی پر اپنے گھر آ جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ جس شخص پر ہم نکتہ چینی کرنے والے ہیں وہ اپنا دفاع کر لے گا اور ہو سکتا ہے وہ جواباً ہم پر نکتہ چینی کرے۔ ۱۵ اپریل ۱۹۶۵ء کی صبح کو ابراہام لنکن فورڈز تھیٹر کے نہایت ایک سستے سے گھر کے بیڈ روم میں مردہ پایا گیا۔ اسے ایک شخص جان بوتھ نے گولی مار دی تھی۔ لنکن کی لاش ایک ایسے بستر پر پڑی تھی جو اس کے قد سے بہت چھوٹا تھا۔ اس کے بستر کے قریب دیوار پر ایک پینٹنگ لٹک رہی تھی اور قریب ہی آتش دان سے زرد رنگ کی روشنی آ رہی تھی۔ ابراہام لنکن کی لاش کو دیکھتے ہوئے اس کی کابینہ کے وزیر جنگ نے کہا کہ ’’ یہ اس شخص کا مردہ جسم ہے جس نے ہم انسانوں پر بڑی اچھی طرح حکومت کی۔‘‘ یہاں آپ کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہو گا کہ لنکن میں ایسی کون سی خوبی تھی اور وہ لوگوں کے ساتھ اپنے میل ملاپ میں اس قدر کامیاب کیوں تھا؟ میں نے لنکن کی زندگی کے بارے میں دس برس تک مطالعہ کیا اور تین برس ایک کتاب لکھنے میں صرف کئے جس میں میں نے ابرہام لنکن کی زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جو اب تک امریکی عوام کی نظروں سے اوجھل تھے۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے لنکن کی شخصیت اور اس کی گھریلو زندگی کے بارے میں مکمل مطالعہ کیا ہے اور خاص طور پر لنکن کا لوگوں سے میل جول کا کیا طریقہ تھا۔ کیا لنکن کبھی دوسروں پر نکتہ چینی کرتا تھا؟ بالکل کرتا تھا۔ نوجوانی میں وہ نہ صرف لوگوں پر نکتہ چینی کرتا تھا بلکہ خطوں اور نظموں کے ذریعے لوگوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ کئی بار ان نظموں اور خطوں پر لوگوں نے بہت ناراضگی کا اظہار کیا۔ سپرنگ فیلڈ میں وکالت شروع کرنے کے بعد بھی وہ اپنے مخالفین کے بارے میں اخبارات میں خطوط شائع کروایا کرتا تھا۔ ۱۸۴۲ء کے موسم خزاں میں اس نے مغرور اور جھگڑالو قسم کے سیاستدان کا مذاق اڑایا۔ لنکن نے ایک فرضی نام کے ذریعے اس سیاستدان کے بارے میں ایک خط شائع کروایا۔ جسے پڑھ کر لوگوں کو اس سیاستدان کا مذاق اڑانے کا ایک بہانہ ہاتھ آ گیا۔ جیمز شیلڈ نامی یہ سیاست دان جو بڑا مغرور اور حساس تھا غصے سے کھول اٹھا اور اس نے معلوم کر لیا کہ یہ خط لنکن نے لکھا ہے وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور لنکن کے گھر پہنچا اور اسے لڑائی کرنے کا چیلنج دیا۔ لنکن لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اسے اپنی بیوی کی عزت بچانے کی خاطر یہ لڑائی لڑنی پڑی سیاست دان نے لنکن کو اپنی پسند کا ہتھیار چننے کی اجازت دے دی لہٰذا چونکہ لنکن کے ہاتھ کافی لمبے تھے۔ اس نے اپنے لیے ایک ایسی تلوار چنی جو کافی لمبی تھی لنکن نے طالب علمی کے زمانے میں تلوار چلانا سیکھی تھی چنانچہ لڑائی کے لیے مقررہ دن پر وہ دریائے مسسپی کے کنارے پہنچا۔ وہ ذہنی طور پر لڑنے مرنے کے لیے تیار تھا لڑائی شروع ہوئی لیکن آخری لمحوں میں ان کی لڑائی چھڑا دی گئی۔ لنکن کی ذاتی زندگی میں یہ واقعہ بہت ہی وحشت ناک تھا جس نے اسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے کا طریقہ بتایا پھر اس نے زندگی بھر کسی پر نکتہ چینی نہیں کی اور نہ ہی اخبارات میں مضحکہ خیز خطوط شائع کروائے۔ وقت گذرتا گیا۔ خانہ جنگی کے دوران لنکن نے پوٹو میک کو آرمی کا ایک نیا جنرل مقرر کیا اس کے بعد یکے بعد دیگرے پوپ برن سائیڈ ہو کر اور میڈکو جنرل مقرر کیا۔ یہ اس کی فاش غلطیاں ایسی تھیں کہ جس پر پوری قوم نے ان نااہل جنرلوں پر شدید نکتہ چینی کی لیکن لنکن کے دل میں ان کے لیے کوئی میل نہیں تھا۔ اور جب مسز لنکن اور لنکن کے دوستوں نے قوم کی طرف سے اس نکتہ چینی کا برا منایا تو لنکن نے انہیں روکا اور کہا کہ ہم بھی اگر ان کی جگہ ہوتے تو ایسا ہی کرتے اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کو نکتہ چینی کرنے کا موقع ملا ہو اور اس نے نکتہ چینی نہ کی ہو تو وہ لنکن تھا۔ جولائی ۱۸۶۳ء کے پہلے تین دنوں میں گیٹس برگ کی جنگ لڑی گئی۔ ۴ جولائی کو جنرل لی کی فوجوں نے جنوب کی طرف پسپا ہونا شروع کر دیا۔ جبکہ سیاہ بادلوں کی گرج چمک کے بعد ملک میں شدید بارشیں ہو رہی تھیں جب جنرل لی اپنی شکست خوردہ فوج کے ساتھ پوٹو میک پہنچا تو اس کے سامنے ایک بہت بڑا دریا تھا۔ جسے عبور کرنا بہت مشکل تھا اور اس کے تعاقب میں فتح یاب یونین آ رہی تھی۔ جنرل لی گھیرے میں آ چکا تھا اور اس کا بچنا مشکل تھا۔ لنکن کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ جنرل لی کو اس کی فوج سمیت گرفتار کر کے ملک میں جاری خانہ جنگی کو ختم کر دے۔ اس لیے اس قوی امید کے ساتھ لنکن نے جنرل میڈ کو حکم دیا کہ وہ جنگی کونسل کا اجلاس نہ بلائے بلکہ فوراً جنرل لی پر حملہ کرے۔ لنکن نے بذریعہ تار یہ حکم بھیجا اور بعد ازاں ایک خصوصی پیغام بھی جنرل میڈ کو بھیجا کہ حملہ کرنے میں ہرگز دیر نہ کی جائے۔ اور جنرل میڈ نے کیا کیا؟ جو اسے کہا گیا تھا اس نے بالکل اس کے برعکس کیا۔ اس نے لنکن کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگی کونسل کا اجلاس طلب کیا۔ لنکن نے دوبارہ احکامات بھجوائے۔ پہلے تو جنرل میڈ بہا نے کرتا رہا۔ مگر پھر اس نے صاف طور پر انکار کر دیا کہ وہ جنرل لی کی فوج پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس دوران دریا کا پانی اتر گیا اور جنرل لی اپنی فوج سمیت دریا عبور کر گیا۔ لنکن اپنے احکامات کا اس طرح مذاق اڑائے جانے پر بڑا غضبناک تھا وہ اپنے بیٹے رابرٹ سے کہہ رہا تھا کہ ’’ اس کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے جنرل لی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا لیکن اسے جانے دیا گیا۔ ان حالات میں ایک معمولی فوجی افسر بھی جنرل لی کو شکست دے سکتا تھا اگر میں وہاں ہوتا تو میں خود اسے کوڑے مارتا۔‘‘ سخت مایوسی کے عالم میں لنکن اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس نے جنرل میڈ کے نام ایک خط لکھا جو آپ کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے مائی ڈیئر جنرل میں یہ یقین نہیں کر سکتا کہ جنرل لی کے بچ نکلنے سے جو نقصان ہوا ہے آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہو گا۔ وہ بڑی آسانی سے ہمارے گھیرے میں آ چکا تھا اور اس کی شکست اور گرفتاری سے ملک میں جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکتا تھا لیکن اب یہ خانہ جنگی طول پکڑ جائے گی۔ اگر آپ گذشتہ سوموار کو جنرل لی پر حملہ نہیں کر سکے تو آپ دریا کے جنوب میں مزید کامیابیاں کیسے حاصل کر سکتے ہیں ان حالات میں آپ پر اعتماد کرنا مشکل ہو گا۔ اس لیے آپ کو آپ کی ذمہ داریوں سے فارغ کیا جاتا ہے آپ کو ایک سنہری موقع ملا تھا مگر آپ نے اسے کھو دیا اور مجھے اس سے اس قدر دکھ ہوا کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ آپ کا مخلص ابراہام لنکن اس خط کو پڑھنے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد جنرل میڈی کا کیا رد عمل تھا؟ جنرل میڈی تک یہ خط نہیں پہنچا۔ کیونکہ لنکن نے اسے یہ خط بھیجا ہی نہیں تھا لکھ کر لفافے میں بند کر کے رکھ دیا تھا اور یہ خط لنکن کی وفات کے بعد اس کے ضروری کاغذات سے ملا۔ میرا خیال ہے کہ یہ خط لکھنے کے بعد لنکن نے کھڑکی میں سے باہر دیکھا اور اپنے آپ سے کہا ہو گا۔ ذرا ایک منٹ ٹھہرو۔ ہو سکتا ہے کہ میں نے جلدی میں احکامات جاری کر دیئے ہوں اور مجھے گیٹس برگ کے حالات کا مکمل طور پر علم بھی نہیں ہے اگ رمیں جنرل میڈی کی جگہ ہوتا اور گذشتہ دو ہفتوں کے دوران جتنا خون بہتے ہوئے وہ دیکھ چکا ہے میں دیکھتا اور اگر میرے کان مرنے اور زخمی ہونے والے لوگوں کی چیخیں سن لیتے شاید میں بھی جنرل لی کی فوج پرحملہ کرنے کے بارے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرتا او رمیں وہی کرتا جو جنرل میڈی نے کیا۔ خیر ابھی زیادہ وقت نہیں گذرا۔ اگر میں یہ خط روانہ نہ کر دیتا ہوں تو اس سے میرے جذبات کی تسکین تو ہو جائے گی لیکن اس سے جنرل میڈی میرے احکامات نہ ماننے کے لیے مختلف تاویلیں اور جوازپیش کرے گا اور اس طرح اسے مجھ پر تنقید کرنے کا موقع مل جائے گا کہ میں نے حالات کو جانے بغیر حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس سے اس کے دل میں بدگمانیاں پیدا ہوں گی اور ایک کمانڈر کی حیثیت سے اس کی آئندہ کارکردگی متاثر ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے۔ اس لیے جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ لنکن نے خط کو ایک طرف رکھ دیا ہو گا۔ کیونکہ تجربات سے اس نے یہ بات سیکھی تھی کہ نکتہ چینی بالآخر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتی ہے۔ روز ویلٹ نے کہا کہ جب صدرکی حیثیت سے وہ کسی پیچیدہ مسئلے سے دوچار ہوتے تو وہ کرسی پر پیچھے جھک کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور دیوار پر لگی ہوئی لنکن کی قد آور تصور کو دیکھا کرتے تھے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرتے تھے کہ اگر لنکن میری جگہ ہوتا تو وہ کیا کرتا۔ مارک ٹیون اکثر آپے سے باہر ہو جایا کرتا تھا اور اکثر لوگوں کو غصے سے بھرے ہوئے خطوط لکھا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر اس نے ایک بار ایک شخص کو جس نے اسے غصہ دلایا تھا۔ ایک خط لکھا ’’ تمہارے لیے اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ تم مر جاؤ۔‘‘ ایک اور موقع پر اس نے اخبار کے ایڈیٹر کو خط لکھا کہ پروف ریڈر نے اس کے خط کے بعض الفاظ کے ہجے درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارک ٹیون نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’ میرا خط ہو بہو میرے الفاظ میں چھاپو اور اپنے پروف ریڈر سے کہو کہ وہ اپنے ہجوں کو اپنے زنگ آلود دماغ میں رکھے۔‘‘ ان خطوط کی اشاعت سے مارک ٹیون بڑا خون ہوتا تھا۔ اس سے اس کی ذہنی تسکین ہوتی تھی اور یہ خطوط کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتے تھے کیونکہ مارک ٹیون کی بیوی اسے پوسٹ نہیں ہونے دیتی تھی اور وہ انہیں مارک ٹیون کے کاغذات میں سے اٹھا لیتی تھی۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جسے آپ صحیح راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہوں؟ یہ ایک عمدہ آئیڈیا ہے اور میں اس کی حمایت کرتا ہوں لیکن کیوں نہ یہ کام اپنے آپ سے شروع کیا جائے۔ کنفیوشن کا مقولہ ہے کہ ’’ اپنے ہمسائے کی چھت پر پڑی ہوئی برف کی شکایت نہ کرو جب کہ تمہاری اپنی دہلیز صاف نہیں ہے۔‘‘ جب میں ابھی جوان تھا اور لوگوں کو اپنی شخصیت سے متاثر کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ میں نے رچرڈ ہارڈمگ ڈیوس کو ایک احمقانہ قسم کا خط لکھا۔ رچرڈ ہارڈنگ ڈیوس امریکہ کے ادبی حلقوں میں ایک نامور شخصیت تھی۔ میں ایک میگزین کے لیے مصنفوں کے بارے میں آرٹیکل لکھ رہا تھا۔ میں نے ڈیوس سے پوچھا کہ وہ مجھے اپنے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں بتائے۔ چند ہفتے قبل مجھے ایک خط موصول ہوا تھا۔ جس کے اندر یہ لکھا ہوا تھا ’’ یہ خط لکھوایا گیا ہے اسے پڑھا نہیں گیا۔‘‘ میں اس فقرے کو پڑھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ یہ خط لکھوانے والا بہت ہی مصروف ترین اور بڑا شخص ہو گا۔ رچرڈ ہارڈنگ ڈیوس کو خط لکھتے وقت میں اس کو یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ میں بھی بہت مصروف شخص ہوں۔ اس لیے میں نے اس خط کے نتیجے میں بھی وہی الفاظ لکھ دیئے۔ ’’ یہ خط لکھوایا گیا ہے اسے پڑھا نہیں گیا۔‘‘ ڈیوس نے خط کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس نے اس خط کے اوپر ایک جملہ لکھا تھا ’’ تمہاری بری عادت دوسری عادات سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے فاش غلطی کی تھی اور میں اس ڈانٹ کا حقدار تھا لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے میں نے اس ناراضگی کا اظہار کیا۔‘‘ میں اس قدر ناراض ہوا کہ جب دس برس قبل میں نے ڈیوس کی موت کی خبر پڑھی تو مجھے خیال آیا کہ اچھا ہوا۔ اس نے مجھے تکلیف جو دی تھی اور میں آج تک اپنے اس خیال پر نادم ہوں۔ لوگوں کے ساتھ میل جول کے وقت ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا واسطہ ایسے افراد سے نہیں ہے جو منطق یا دلیل کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا واسطہ جذبات سے مغلوب افراد سے ہے جنہیں اپنے خیالات پر بڑا فخر ہے۔ مشہور برطانوی افسانہ نگار تھامس ہارڈی جس نے انگریزی ادب کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں بہت حساس تھا اس پر جب کڑی تنقید کی گئی تو وہ اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ اس نے افسانے لکھنا چھوڑ دیئے اسی طرح ایک مشہور برطانوی شاعر تھامس چیٹرٹن پر اس قدر تنقید ہوئی کہ اس نے خود کشی کر لی۔ بنجمن فرنیکلین جونوجوانی میں ایک سر پھرا شخص تھا بعد ازاں اس قدر ڈیلومیٹک اور معاملہ فہم شخص بن گیا کہ اسے فرانس میں امریکا کا سفیر مقرر کیا گیا۔ اس نے اپنی کامیابی کے راز کے بارے میں بتایا کہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کسی بھی شخص کے خلاف کوئی بغض نہیں رکھے گا بلکہ ہر شخص کے لیے وہ ہمیشہ اچھے جذبات کا اظہار کرے گا اس کا کہنا تھا کہ صرف بیوقوف لوگ ہی دوسروں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ان کے عیب نکالتے ہیں اور ان کی برائیاں کرتے ہیں اور ایسے بیوقوف لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں۔ کارلال لائل کا کہنا ہے کہ ’’ ایک عظیم شخص کی پہچان یہ ہے کہ وہ لوگوں سے کس طرح ملتا جلتا ہے۔‘‘ بوب ہوور جو ایک مشہور پائلٹ تھا ۔ ایک بار وہ سان ڈیگو میں ایک فضائی مظاہرے میں حصہ لینے کے بعد اپنے گھر لاس اینجلز واپس آ رہا تھا کہ فضا میں تین سو فٹ کی بلندی پر اس کے جہاز کے دونوں انجمن اچانک بند ہو گئے تاہم وہ اپنی مستعدی اور ہنر مندی سے جہاز کو بحفاظت رن وے پر اتارنے میں کامیاب ہو گیا لیکن جہاز کو شدید نقصان پہنچ چکا تھا لیکن کوئی شخص زخمی نہیں ہوا تھا۔ ہوور نے ایمرجنسی لینڈنگ کے بعد سب سے پہلے جہاز میں موجود تیل چیک کیا اس کو شک تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے اس جہاز میں گیسولین کی بجائے فیول بھرا ہو گا اس کا شک درست نکلا۔ ہوائی اڈے پر واپس پہنچنے کے بعد اس نے اسی مکینک کو ہلایا جس نے اس کے جہاز کی سروس کی تھی مکینک اپنی غاش غلطی کے باعث شدید اضطراب کا شکار ہو گیا۔ وہ جب ہوور کے سامنے آیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اسے احساس تھا کہ اس کی عظمت سے ایک مہنگا جہاز تباہ ہو سکتا تھا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جہاز میں سوار تین قیمتی زندگیاں ختم ہو سکتی تھیں۔ لیکن دوسری طرف آپ ہوور کے غصے کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مکینک کو اس کی غلطی پر بہت بری طرح ڈانٹنے والا تھا۔ لیکن ہوور نے مکینک کو بالکل لعن طعن نہیں کی بلکہ بڑے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ تم دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرو گے۔ جاؤ اور میرے ایف ۵۱ جہاز کی سروس کرو۔‘‘ اکثر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں والدین سے کہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کو بالکل نہ ڈانٹا کریں مگر میں ایسا نہیں کہوں گا۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے سے قبل امریکی صحافت کا ایک شاہکار Father forgets ’’ باپ بھول جاتا ہے۔‘‘ ضرور پڑھیں ہم اسے یہاں اس کے مصنف کی اجازت سے دوبارہ چھاپ رہے ہیں۔ ’’ باپ بھول جاتا ہے۔‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو ہر پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔ اس میں بیان کئے گئے خلوص بھرے جذبات بڑے پر اثر ہیں۔ یہ شاہکار دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے چھاپا گیا۔ ’’ باپ بھول جاتا ہے‘‘ ڈبلیو لیونگ سٹون پیارے بیٹے سنو۔ میں یہ تمہیں اس وقت کہہ رہا ہوں جب تم میٹھی نیند کا مزہ لے رہے ہو۔ تمہارا ایک ہاتھ تمہارے گال کے نیچے ہے اور تمہارے خوبصورت بال تمہارے ماتھے پر چپکے ہوئے ہیں۔ میں چوری چھپے تمہارے کمرے میں آیا ہوں صرف چند منٹ پہلے جب میں لائبریری میں بیٹھا اپنے کاغذات دیکھ رہا تھا تو اچانک ندامت کی ایک لہر میرے وجود کے اندر دوڑ گئی اورمیں خطا ورانہ انداز میں تمہارے بستر کے پاس آیا ہوں۔ میرے پیارے بیٹے میں سوچ رہا تھا کہ میرے اور تمہارے درمیان کچھ ایسی باتیں ہو گئی ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہئے تھیں۔ جب تم سکول جاتے وقت نہانے کے بجائے تولیہ گیلا کر کے محض اپنے چہرے کو صاف کرتے تھے۔ تو میں تمہیں ڈانٹا کرتا تھا۔ پھر جب تم جوتوں کو پالش کیے بغیر سکول جانے لگتا تو بھی میں نے تمہیں ڈانٹا۔ پھر جب تم سکول سے واپسی پر اپنا بیگ لاپرواہی سے کمرے کے فرش پر پھینک دیتے تو میں تمہیں غصے ہوتا۔ جب تم ناشتہ کرنے کے لیے میز پر بیٹھتے تو بھی میں تمہاری غلطیاں نکالتا۔ مثلاً تم چیزوں کو بے ترتیبی سے استعمال کر رہے ہو۔ تم کھانا چبا کر کھانے کے بجائے جلدی جلدی ہڑپ کر رہے ہو۔ ناشتے کے دوران تم نے اپنی کہنیاں میز پر رکھی ہوئی ہیں۔ تم نے اپنے توس پر بہت زیادہ مکھن لگا لیا ہے اور پھر تم جب کھیلنے کے لئے جاتے وقت مجھے ’’ خدا حافظ ڈیڈی‘‘ کہتے ہو اور میں تمہیں ’’گڈلک ‘‘ کہنے کے بجائے غصے سے تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے کندھے مت اچکاؤ۔ تب دوپہر ہوتی ہے تو میں سڑک پر آتا ہوں اور تمہاری جاسوسی کرتا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ تم زمین پر بیٹھے گولیاں کھیل رہے ہو۔ تمہاری جرابیں پھٹی ہوئی ہیں۔ میں تمہارے دوستوں کے سامنے تمہیں سخت برا بھلا کہتا ہوں اور اپنے آگے آگے گھر چلنے کو کہتا ہوں۔ جرابیں بڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ اگر انہیں تم اپنے جیب خرچ میں سے خریدو تو تمہیں احساس ہو گا اور پھرتم جرابیں استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لو گے۔ پیارے بیٹے ایک باپ کی حیثیت سے ذرا سوچو کہ اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ تمہیں یاد ہے کہ جب میں لائبریری میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا تو تم بہت ڈرے ڈرے وہاں آئے تو تمہاری آنکھوں پر بڑی شرمندگی تھی اور جب میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ سن کر تمہاری طرف غصے کے انداز میں دیکھا اور پوچھا کہ کیا کرنے آئے ہو تو تم کمرے کی دہلیز پر ہی رک گئے تم نے فوراً کہا کہ کچھ نہیں۔ فوراً ایک جست لگا کر میرے قریب آئے اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر میری گردن میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور مجھے پیار کیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بازوؤں نے جب محبت کے ساتھ مجھے جکڑ لیا۔ اس محبت کے ساتھ جو خدا نے تمہارے ننھے سے دل میں پیدا کر رکھی ہے اور جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی پھر اچانک تم تیزی سے واپس چلے گئے اور تمہاری سیڑھیاں چڑھنے کی ٹپ ٹپ سنائی دی۔ بیٹے تمہارے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد میرے کاغذات جن کا میں مطالعہ کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ سے گر گئے اور ایک شدید قسم کا خوف مجھ پر طاری ہو گیا۔ یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے؟ میری عادتیں کیوں بدلتی جا رہی ہیں۔ مثلاً دوسروں میں عیب نکالنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا وغیرہ۔ میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگا بیٹے ایسا نہیں کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ میں تم سے بہت زیادہ توقعات رکھے ہوئے ہوں۔ میں ہمیشہ تمہیں اس زاویے سے دیکھتا ہوں کہ میں تمہاری عمر میں کیا تھا۔ تمہاری شخصیت اور کردار میں بہت ہی عمدہ باتیں ہیں۔ تمہارے جسم کے اندر دھڑکتا ہوا دل اتنا وسیع ہے جتنا کہ پہاڑوں پر پھیلتا ہوا صبح کا اجالا۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب تم آئے اور مجھے پیار کر کے چلے گئے۔ میرے بیٹے میں آج رات تمہارے کمرے میں آیا ہوں تو تمہارے بستر کے پاس گھٹنے ٹیک کر شرمندگی کے عالم میں بیٹھا ہوں۔ میرے بیٹے مجھے معلوم ہے کہ اگر تم سوئے ہوئے نہ ہوتے اور میں تمہیں یہ سب باتیں کہتا تو اس کا تم پر زیادہ اثر نہ ہوتا او رتم میری باتوں کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن اب میں ایک ا چھا ڈیڈی ہوں۔ صبح جب تم نیند سے بیدار ہو گے تو تم اپنے باپ کو ایک نئے روپ میں دیکھو گے۔ جو تمہارا دوست ہو گا جو تمہاری ہر مشکل میں تمہارے ساتھ ہو گا جو تمہاری کسی غلطی پر تم سے خفا نہیں ہو گا کیونکہ تم میرے بیٹے ہو اور تم خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جاؤ میرے لیے تم چھوٹے ہی ہو۔ اتنے چھوٹے کہ جیسے میں تمہیں بچپن میں اپنی گود میں کھلایا کرتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک تمہیں ایک بڑے شخص کی طرح سمجھتا رہا لیکن اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تم مجھے ایک ننھے منے ایک پیارے سے بیٹے مگر مجھے لگا کہ جیسے تم ابھی بھی ایک چھوٹے سے بچے ہو۔ زیادہ پیار کے ساتھ تمہارا ڈیڈی دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کی بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ نکتہ چینی کرنے کی بجائے یہ جستجو زیادہ اچھی ہے کیونکہ اس سے آپ کے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی، برداشت اور شفقت پیدا ہوتی ہے ’’ سب کچھ جاننے کے لیے معاف کر دینا بہت ضروری ہے۔‘‘ ڈاکٹر جانسن نے جیسا کہ کہا ہے کہ خود خدا بھی اپنے بندوں سے اس وقت تک پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ جب تک کہ وہ اس کے پاس نہیں چلے جاتے۔ ہم دوسروں پر کیوں نکتہ چینی کریں کیوں ان سے باز پرس کریں۔ اصول نمبر1: کسی پر نکتہ چینی، کسی کا عیب یا کسی سے شکایت نہ کریں۔ ٭٭٭ باب دوئم لوگوں سے میل جول کا راز اس دنیا میں کسی شخص سے کام لینے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کیا کبھی آپ نے اس کے بارے میں سوچا ہے؟ ہاں صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دوسروں کو کام کرنے پر آمادہ کیا جائے نہ کہ انہیں کام کرنے کا حکم دیا جائے۔ یاد رکھیں کہ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے آپ دوسروں سے کام لے سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کسی کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اس سے اس کی گھڑی لے سکتے ہیں۔ آپ اپنے ملازمین کو دھمکی دے کر کہ انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا، اس کا تعاون حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ ایک بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر اس سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتے ہیں لیکن یہ ناشائستہ طریقے بہت منفی دور رس نتائج مرتب کر سکتے ہیں۔ میں آپ سے صرف ایک ہی طریقے سے کام لے سکتا ہوں اور وہ وہی ہے کہ میں آپ کو کام کرنے پر آمادہ کروں۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کیا کام کرنا چاہتے ہیں؟ سگمڈ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ میں اور آپ جو بھی کام کرتے ہیں، اس کے لیے ہمیں دو باتیں متحرک کرتی ہیں ایک تو جنسی جذبہ اور دوسرا عظیم بننے کی خواہش۔ جاں ڈیوی جو کہ امریکہ کا ایک نامور فلاسفر تھانے اسے تھوڑا سا مختلف بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوی کا کہنا ہے کہ ’’ ایک انسان کے اندر سب سے بڑی خواہش خود کو نمایاں کرنے کی ہوتی ہے۔‘‘ یاد رکھیں کہ ’’ خود کو نمایاں کرنے کی کوشش اور خواہش‘‘ یہ بہت اہم بات ہے اور آپ اس کتاب میں اس کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کریں گے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ بہت زیادہ کام نہیں لیکن چند ایسے کام جو آپ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں ہم چند ایسے کام بتاتے ہیں جو کہ بہت سے لوگ کرنا چاہتے ہیں مثلاً ۱۔ اپنی صحت کی طرف توجہ دینا اور لمبی عمر کی خواہش کرنا ۲۔ خوراک ۳۔ نیند ۴۔ دولت کمانا اور اس سے ایسی چیزیں خریدنا، جس کی آپ خواہش کرتے ہوں۔ ۵۔ اپنے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ۶۔ جنسی تسکین حاصل کرنا ۷۔ آنے والی زندگی اور مستقبل کے بارے میں سوچنا ۸۔ اپنی اہمیت کا احساس کرنا۔ ان میں سے تقریباً تمام خواہشات کی تکمیل ہمیں تسکین دیتی ہے لیکن اس میں سے صرف ایک خواہش ایسی ہے جس کی تسکین بمشکل ہوتی ہے اور وہ ہے کھانے اور سونے کی خواہش۔ یہی وہ خواہش ہے جسے فرائیڈ عظیم تر ہونے کی خواہش کہتا ہے اور جسے ڈاکٹر ڈیوی خود کو نمایاں کرنے کی خواہش کہتا ہے۔ لنکن نے ایک دفعہ ایک خط ان الفاظ سے شروع کیا۔ ’’ ہر کوئی تعریف و ستائش کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘‘ ولیم جیمز کا کہنا ہے ’’ انسانی فطرت میں یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ اس کے اصولوں اور کاموں کی تعریف کی جائے۔‘‘ اہم ہونے کا احساس اور خواہش انسان اور حیوان کے درمیان ایک بہت بڑا نمایاں بنیادی فرق ہے مثلاً ایک بار مجھے یاد ہے جب میں میسوری میں اپنے کھیت میں کام کرتا تھا۔ میرے باپ نے سوڈروں او رمویشیوں کی بڑی عمدہ قسم پال رکھی تھی اور وسطی مغرب کے ملکوں اور امریکہ میں ہونے والی مویشیوں کی نمائش میں شرکت کے لیے ہم اپنے مویشی اور سوڑ بھیجا کرتے تھے۔ ہم نے کئی بار پہلا انعام حاصل کیا تھا۔ میرے باپ نے ان سب انعامات کو ایک علیحدہ کمرے میں سجا رکھا تھا۔ اور جب بھی ہمارے گھر میں کوئی مہمان یا دوست آتا تو میرا والد بہت فخر سے انہیں اس کمرے میں لے جاتے اور انہیں پوری تفصیل کے ساتھ بتاتے کہ انہوں نے یہ انعام کس کس مقابلے اور نمائش سے حاصل کیے ہیں اور جب مہمان ان انعامات کو دیکھ کر میرے والد کی تعریف کرتے تو میں اپنے والد کے چہرے پر خوشی کے واقع آثار دیکھا کرتا تھا۔ ہمارے مویشیوں کو ان انعامات کی قدر و قیمت کا احساس نہیں تھا مگرمیرے والد کے لیے ان کی قدر و قیمت بہت زیادہ تھی کیونکہ ان سے انہیں اپنی اہمیت کااحساس ہوتا تھا۔ اگر میرے آباؤ اجداد میں خود کو نمایاں کرنے کا یہ احساس نہ ہوتا تو ہم میں موجود تہذیب کا ہونا ممکن نہ تھا اور اس کے بغیر ہم محض حیوان ہوتے۔ اسی احساس نے پرچون کی دکان پر کام کرنے والے ایک معمولی کلرک کو جو اپنی غربت کے ہاتھوں بھی تنگ تھا پچاس سینٹ میں قانون کی چند کتابیں خریدنے پر آمادہ کیا اور جانتے ہیں کہ وہ معمولی کلرک کون تھا اس کا نام ابراہام لنکن تھا۔ خود کو نمایاں کرنے کا یہی احساس تھا جس نے ڈکنز کو اپنے لازوال ناول لکھنے کی ترغیب دی۔ اس خواہش نے سر کرسٹوفررین کو پتھر سے بنا ہوا ایک زینہ بنانے پر مجبور کیا اور یہی خواہش تھی جس کی تکمیل کے لیے راک فیلر نے کروڑوں روپے کمائے جنہیں اس نے کبھی خرچ نہیں کیا اور یہی خواہش کسی بھی امیر ترین شخص کو اپنی ضروریات سے زیادہ بڑا گھر بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی خواہش ہمیں جدید ترین لباس پہننے کا جدید ترین کاروں میں گھومنے اور اپنے ذہین بچوں کے بارے میں گفتگو کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وہ خواہش ہوتی ہے جو بہت سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک گروپ کی صورت میں اکٹھے ہو کر مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کرتی ہے نیو یارک کے پولیس کمشنر ای پی طرونی نے مجھے ایک بار بتایا کہ جب یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پکڑے جاتے تو ان کی سب سے پہلی درخواست یہ ہوتی کہ شہر کے ایسے اخبار نویس کو بلایا جائے جو ہمیں راتوں رات ہیرو بنا دے۔ ان کے لیے یہ احساس کافی ہوتا کہ کل کے اخبار میں ان کی تصویر ملک کے نامور سیاستدانوں، کھلاڑیوں، فلم ایکٹروں اور دیگر نامور افراد کے ساتھ چھپے گی۔ اگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو اپنی اہمیت کا احساس کیسے ہوتا ہے تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کیا ہیں۔ اس سے آپ کے کردار کا تعین ہوتا ہے اور یہ آپ کے لیے بہت ہی اہم بات ہے۔ مثال کے طور رپ جان ڈی راک فیلر نے چین کے دار الحکومت پیکنگ میں غریب افراد کے لیے ایک جدید ہسپتال بنا کر اپنی اہمیت کا احساس دلایا۔ یہ ہسپتال اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس ڈلنجر نے بینک ڈکیتی اور قاتل ہونے کی حیثیت سے اپنی اہمیت جتائی۔ جب ایف بی آئی کے ایجنٹ ڈلنجر کو تلاش کر رہے تھے تو وہ مینی سوٹا ریاست کے ایک فارم میں جا چھپا۔ اس نے فخریہ انداز میں بتایا کہ وہ ڈلنجر ہے۔ اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ اول درجے کا سماج دشمن ہے۔ اس نے وہاں لوگوں کو بتایا کہ میرے بارے میں کسی سے بات نہ کرو۔ میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ ہاں ڈلنجر اور راک فیلر کے درمیان اپنی اہمیت جتانے میں ایک بہت نمایاں فرق ہے۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ مشہور لوگ اہمیت جتانے کے لیے کس طرح جدوجہد کیا کرتے تھے حتیٰ کہ صدر جارج واشنگٹن کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اسے ہزمائٹی کہہ کر مخاطب کیا جائے اور کولمبس نے اپنے لیے امیر البحر اور بھارت کے وائسرائے کے خطابوں کی خواہش کی۔ کیتھرائن دی گریٹ اپنے نام ایسے خطوط پڑھنے سے انکار کر دیتی تھی جن پر ’’ لہر امپیریل میجسٹی‘‘ نہیں لکھا ہوتا تھا اور ابراہام لنکن کی اہلیہ وائٹ ہاؤس میں ایک مہمان مسز گرانٹ پر برس پڑیں کہ ’’ تم نے میری موجودگی میں اپنی نشست پر بیٹھنے کی جرأت کیسے کی جب کہ میں نے تمہیں بیٹھنے کو نہیں کہا تھا۔‘‘ ایڈمرل بائرڈ نے ۱۹۲۸ء میں انٹارکٹیکا کی مہم کے لیے اس خواہش کے ساتھ رقم مہیا کی کہ وہاں کے برف سے ڈھکے پہاڑوں کا نام اس کے نام پر رکھ دیا جائے گا اور اس طرح وکٹر ہو گا نے بڑی شدت سے یہ چاہا کہ پیرلس کا نام اس کے نام پر رکھا جائے۔ بعض اوقات لوگ دوسروں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرتے ہوئے مریض بن جاتے ہیں اور اس طرح اپنی اہمیت کو منواتے ہیں مثال کے طور پر امریکہ کی ایک سابق خاتون اول مسز میکنلے نے ایک بار اپنی اہمیت اس طرح جتائی کہ اس نے اپنے خاوند امریکہ کے صدر کو مجبور کیا کہ وہ ملک کے اہم معاملات کو نظر انداز کر کے اس کے بستر کے پاس بیٹھ جائے اور اسے آہستہ آہستہ تھپک کر سلا دے۔ ایک بار پھر اس نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ وہ اس کے پاس بیٹھا رہے جب تک کہ وہ اپنے مصنوعی دانت منہ کے اندر مناسب طریقے سے رکھ نہیں لیتی اور ایک بار تو غضب ہو گیا جب صدر امریکہ نے اپنی اہلیہ کو دندان ساز کے کلینک میں چھوڑ کر اپنے وزیر خارجہ جان ہے سے بڑی اہم ملاقات کرنے کے لیے چلا گیا۔ مشہور ادیبہ میری رابرٹ نے ایک بار ایک خوبصورت نوجوان عورت کے بارے میں بتایا جو اپنی اہمیت جتانے کے لیے مریضہ بن گئی۔ اس کی بوڑھی ماں کو اس کی تیمار داری کرنی پڑی اور پھر ایک دن بوڑھی ماں مر گئی۔ اس کے چند ہفتوں بعد اس عورت کی بیماری ختم ہو گئی اور وہ اپنے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے معمول کی زندگی شروع کر دی۔ بعض محقق کہتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی اہمیت جتانے کے لیے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں تمام دیگر بیماریوں سے دوگنے مریض ایسے ہیں جو ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ ذہنی امراض کی وجوہات کیا ہیں؟ کوئی بھی شخص اس عام سے پوچھے جانے والے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ بعض بیماریوں مثلاً بریک ڈاؤن، دماغ کے خلیوں کا کمزور ہونا اور Sypliilis کے باعث ذہنی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ در حقیقت تمام ذہنی امراض میں سے تقریباً نصف انہی وجوہات کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں جبکہ باقی نصف امراض میں دماغ کے خلیوں میں کوئی خرابی نہیں ہوتی ہے۔ پوسٹ مارٹم کے دوران جب انتہائی حساس اور طاقت ور مائیکرو سکوپ کے ذریعے ان خلیوں کا معائنہ کیا جاتا ہے تو یہ مکمل طور پر اسی طرح صحت مند ہوتے ہیں۔ جس طرح میرے اور آپ کے خلیے ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ ذہنی مریض کیوں بن جاتے ہیں؟ میں نے یہ سوال نفسیاتی اور ذہنی امراض کے ایک ہسپتال کے سربراہ سے کیا۔ اس ڈاکٹر نے نفسیاتی اور ذہنی امراض کے شعبے میں بہت اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور اسے اس شعبے میں اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے اس نے مجھے بڑی بے تکلفی سے بتایا کہ وہ خود بھی نہیں جانتا کہ لوگ ذہنی مریض کیوں بن جاتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ایک بات اس ڈاکٹر نے بڑے وثوق سے بتائی کہ جو لوگ ذہنی مریض بن جاتے ہیں ان کا اصل مقصد اپنی اہمیت کا احساس دلانا ہوتا ہے جو وہ حقائق کی دنیا میں حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اس نے مجھے ایک کہانی سنائی جو یہاں آپ کے لیے بیان کی جاتی ہے۔ ’’ میرے پاس اس وقت ایک ایسی مریضہ ہے جس کی شادی ایک المیہ ثابت ہوئی۔ وہ محبت، جنسی تسکین اور سماجی حیثیت کی طلب گار تھی۔ لیکن ناکام شادی نے اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کا خاوند اس سے محبت نہیں کرتا تھا حتیٰ کہ وہ اس کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتا تھا اور اس کا حکم تھا کہ اسے کھانا گھر کی دوسری منزل پر اس کے کمرے میں پہنچایا جائے۔ اس لڑکی کے بچے نہیں تھے اور کوئی سماجی حیثیت نہ تھی وہ ذہنی مریضہ بن گئی ور اپنے تخیل میں اس نے اپنے خاوند سے طلاق لے لی۔ اب اس کو یہ یقین تھا کہ اس نے ایک بڑے امیر گھرانے میں شادی کر رکھی ہے اور وہ اصرار کرتی تھی کہ اسے لیڈی سمتھ کہہ کر بلایا جائے۔ بچوں کے بارے میں اس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہر رات وہ ایک نیا بچہ جنم دیتی ہے جب بھی میں اسے بلاتا وہ مجھے کہتی ’’ ڈاکٹر کل رات میں نے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔‘‘ میں یہ کہانی سن کر بہت متاثر ہوا اگر میں اپنے ہاتھوں سے اس کا مرض ٹھیک کر پاتا تو مجھے بڑی خوشی ہوتی۔ چارلس شواب نامی ایک شخص کو ۱۹۲۱ء میں امریکی سٹیل کمپنی کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس وقت اس کی تنخواہ دس لاکھ ڈالر سالانہ سے بھی زیادہ مقرر ہوئی اور شواب کی عمر اس وقت محض اڑتیس برس کی تھی لیکن بعد ازاں اس نے امریکی سٹیل کمپنی چھوڑ کر ایک اور سٹیل کمپنی کی ملازمت اختیار کر لی جو اس وقت خسارے میں جا رہی تھی اور اس کی کوششوں سے یہ کمپنی امریکہ میں سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چارلس شو اب کو دس لاکھ ڈالر سالانہ یعنی تین ہزار ڈالر روزانہ کی تنخواہ کیوں دی جاتی تھی؟ کیا وہ جنیئس تھا؟ کیا وہ سٹیل کے کاروبار کے بارے میں دوسروں سے بہتر جانتا تھا؟ چارلس شواب نے ایک بار خود مجھے بتایا کہ اس نے اپنے ماتحت ایسے افراد رکھے ہوئے ہیں جو سٹیل کے کاروبار کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔ شواب نے مجھے بتایا کہ اسے اتنی تنخواہ اس لیے دی جاتی تھی کہ وہ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کس طرح ایسا کرتا ہے۔ اس نے مجھے جو کچھ بتایا میں اس کی زبانی آپ کو بتاتا ہوں اور یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمارے ہر تعلیمی ادارے، دوکان اور دفاتر میں لکھ کر دیواروں پر لٹکائے جانے چاہئیں اور بچوں کو سکول کے زمانے سے ہی یہ الفاظ اچھی طرح ذہن نشین کرا دینا چاہئے جو کہ آنے والے مستقبل ان کی زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ چارلس شواب نے مجھے بتایا کہ ’’ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اندر کام کرنے کے بارے میں ایک ولولہ پیدا کر دیتا ہے اور یہی وہ عظیم اثاثہ ہے جو میرے پاس ہے اور میں اس خوبی سے اس طرح کام لیتا ہوں کہ میں لوگوں کی ہر وقت حوصلہ افزائی اور ان کے کام کی تعریف کرتا ہوں۔ کسی بھی شخص کی مہارت اور کارکردگی کو سب سے زیادہ متاثر اس کے سینئر افسر کی نکتہ چینی کرتی ہے۔ میں کسی کو برا بھلا نہیں کہتا۔ کسی کے کام میں عیب نہیں نکالتا اور نہ ہی کسی پر نکتہ چینی کرتا ہوں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دی جائے اور انہیں ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی جیسے حربوں سے کام کرنے پر آمادہ کیا جائے۔‘‘ یہ تو چارلس شواب کا طریقہ کار ہے لیکن کیا ہم سب یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں، بالکل نہیں۔ ہم بالکل اس کے برعکس کرتے ہیں اگر ہمیں اپنے کسی ماتحت کا کام پسند نہ آئے تو ہم اس کو ڈانٹ دیتے ہیں۔ یہاں مجھے ایک بوڑھے شخص کی بات یاد آ رہی ہے جس نے مجھے بتایا کہ ’’ جب میں نے کوئی غلط کام کیا تو بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ تم نے یہ کام غلط کیا ہے۔ بہت سوں نے مجھ پر نکتہ چینی کی اور جب میں نے کوئی اچھا کام کیا تو ان میں سے کسی میں اتنی اخلاقی قدر موجود نہیں تھی کہ وہ آ کر میری تعریف کرتا۔‘‘ ’’ میں نے زندگی میں بہت سے لوگوں سے جن میں بعض بڑے نامور لوگ بھی شامل تھے ملاقاتیں کی ہیں۔ میں دنیا بھر میں گھوما ہوں اور ہر خطے کے عظیم لوگوں سے ملا ہوں۔ مجھے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا کہ جس نے تعریف و ستائش اور حوصلہ افزائی کے ماحول میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔‘‘ یہ چارلس شواب کے الفاظ ہیں۔ اینڈریو کارنیگی کی کامیابی کا راز بھی یہی تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے اور ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کی تعریف کیا کرتا تھا۔ جان ڈی راکفیلر کو بھی لوگوں کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ مختلف قسم کے لوگوں سے میل ملاپ اور ان سے کام لینے کا طریقہ آتا تھا۔ مثال کے طور پر جب ایک بار اس کا ایک پارٹنر ایڈورڈ بیڈ فورڈ نے جنوبی افریقہ میں کاروباری سودے میں دس لاکھ ڈالر کا نقصان کر بیٹھا تو جان راک فیلر اپنے پارٹنر پر تنقید کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایڈورڈ نے اپنی طرف سے بہترین کوشش کی ہو گی اور اس نے اس بات کو بھی بھلا دیا کہ اس کی فرم کو دس لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس نے اس کی بجائے ایڈورڈ بیڈ فورڈ کو مبارکباد دی کہ اس نے اس سودے سے ۶۰ فیصد بچا لیا ہے۔ میرے کاغذات میں ایک کہانی محفوظ پڑی ہے جس کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ مگر یہ کہانی بڑی سچی لگتی ہے اور میں اسے دوبارہ یہاں آپ کو بتاتا ہوں۔ اس کہانی کے مطابق ایک دیہاتی عورت سارا دن کام کرنے کے بعد اپنے گھر کے آدمیوں کے سامنے سوکھی گھاس کا ڈھیر لگا دیتی ہے اور جب لوگ ناگواری کے انداز میں اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ پاگل تو نہیں ہو گئی۔ اس عورت نے جواب دیا ’’ وہ کیسے جان سکتی ہے کیونکہ وہ گذشتہ بیس سال سے تم لوگوں کے لیے کھانا پکا رہی ہے اور اس عرصے میں اس نے تم کسی کی زبانی ایک بھی لفظ نہیں سنا کہ ہمیں گھا س کھلائی جا رہی ہے۔‘‘ چند برس قبل جب گھر سے بھاگ جانے والی بیویوں کے بارے میں ایک سروے کیا گیا تو آپ کے خیال میں بھلا کیا وجہ معلوم ہوئی ہو گی کہ بیویاں گھروں سے کیوں بھاگ جاتی ہیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے خاوند ان کی تعریف نہیں کیا کرتے تھے۔ او رمیں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اسی طرح کا ایک سروے اگر گھر سے بھاگ جانے والے شوہروں کے بارے میں کیا جائے تو اس کی وجہ کچھ زیادہ مختلف نہ ہو گی۔ بعض اوقات شوہر اپنی بیویوں کے بارے میں اس قدرپر اعتماد ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا بالکل خیال نہیں رہتاکہ انہیں ایک دوسرے کی تعریف بھی کرنی ہوتی ہے۔ مجھے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ایک بار اس کی بیوی نے اس سے درخواست کی کہ وہ اور چند دوسری خواتین کا گروپ چرچ میں ایک اصلاحی پروگرام کرنا چاہتی ہیں او رمیں (شوہر) ایسے اصول اسے بتاؤں جن پر عمل کر کے وہ ایک اچھی بیوی بن سکتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ میں اپنی بیوی کی یہ درخواست سن کر بہت حیران ہوا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ایسے چھ اصول بتا سکتا تھا جن پر عمل کر کے وہ ایک اچھی بیوی بن سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہی بات میں اسے اپنے بارے میں کہتا تو وہ ایسے ہزاروں اصول بتا سکتی تھی۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے کچھ سوچنے دو۔ صبح میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔ دوسری صبح میں بہت جلد سو کر اٹھ گیا اور پھول والے سے میں نے کہا مجھے سرخ گلاب کے چھ پھول دے۔ میں نے ان پھولوں کو ایک چٹ کے ساتھ اپنی بیوی کو بھیجے۔ اس چٹ پر میں نے لکھا ’’ میں تمہیں ایسے چھ اصول نہیں بتا سکتاجن پر عمل کر کے تم ایک اچھی بیوی بن سکو۔ تم جیسی بھی ہو مجھے اچھی لگتی ہو اور میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اس شام کو جب میں گھر پہنچا تو آپ جانتے ہیں کہ گھر کی دہلیز پر کس نے میرا استقبال کیا؟ میری بیوی نے ہاں میری بیوی آنکھوں میں آنسو لیے دہلیز پر کھڑی تھی اور اب مجھے یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں بہت خوش تھا کہ میں نے اپنی پیاری بیوی پر نکتہ چینی کیے بغیر اس کو مکمل طور پر فتح کر چکا تھا اور میری قدر و قیمت اور محبت اس کے رگ و پے میں سما چکی تھی۔ اس کے بعد آنے والی اتوار کر چرچ میں اس نے اپنے گروپ کی خواتین کو اپنے کام کے نتیجے کے بارے میں بتایا تو ان میں سے بہت سی خواتین میرے پاس آئیں اور انہوں نے کہا کہ اس سے بہتر بات ہم نے اب تک نہیں سنی۔ ان عورتوں کی باتیں سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تعریف کرنے میں کس قدر طاقت ہے۔ ایک بار میں نے چھ کچھ کھائے بغیر گذار دیئے۔ یہ کچھ زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ میں نے چھٹے دن کے آغاز پر محسوس کیا کہ مجھے بھوک بہت کم لگی ہوئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے روز کے فاقے کے بعد مجھے بڑے زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ جب مشہور ایکٹر الفرڈ لیونٹ نے ’’ وی آنا میں ملاپ‘‘ نامی ایک فلم میں کام کیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ اور کسی غذا کی ضرورت نہیں ہے کہ فلم میں میرے کام کی تعریف کی جائے۔ ہم اپنے بچوں اور خاندان والوں کی جسمانی نشوونما کرتے ہیں مگر کیا ہم ان کی تعریف کر کے ان کی ذہنی نشوونما کرتے ہیں؟ ہم ان کے جسم کے اندر توانائی پیدا کرنے کے لیے بھنا ہوا گوشت، انڈے، پنیر اور پھل وغیرہ انہیں کھانے کو دیتے ہیں مگر ہم ان کی تعریف میں بہت ہم کم الفاظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہمیں ان کی بہت زیادہ تعریف کرنی چاہیئے اور یہ تعریف بچپن سے ہی ان کے ذہنوں میں جذب ہو جاتی ہے اور پھر جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو یہ الفاظ ان کی یادداشت میں رہتے ہیں او روہ ہماری عزت کرتے ہیں اور ہمیں احترام دیتے ہیں۔ پروڈیوسر پال ہاروے نے اپنے ایک ریڈیو پروگرام ’’ کہانی کا باقی حصہ‘‘ میں بتایا کہ کس طرح تعریف کسی شخص کی زندگی میں مثبت تبدیلی لاتی ہے وہ پروگرام میں بتاتا ہے کہ ’’ ایک بار اس سکول ٹیچر نے سیٹو سورس سے کہا کہ کلاس روم میں ایک چوہا آ گیا ہے اسے تلاش کرنے میں اس کی مدد کرے۔‘‘ آپ یہ بات نوٹ کریں کہ پوری کلاس کے سامنے ٹیچر نے مورس کو کام کا کہہ کر اس کی اس طرح عزت افزائی کہ کہ جیسے اس کلاس میں سٹیو کے علاوہ کوئی دوسرا یہ کام نہیں کر سکتا۔ سٹیو اگرچہ آنکھوں سے اندھا تھا مگرخدا نے اسے سننے کی بے پناہ صلاحیت دے کر اس کا ازالہ کر دیا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ سٹیو کو اس قابل سمجھا گیا اور اسے پوری کلاس کے سامنے اہمیت دی گئی۔ اس کے بعد سال گذرتے گئے اور یہ حوصلہ افزائی سٹیو کے اندر جذب کر گئی اور نوجوانی میں اس نے بڑا نام پیدا کیا۔ وہ امریکہ کا ایک بہترین پاپ سنگر بنا اور ستر کے عرصے میں وہ اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ اس دوران اس نے بے شمار گانے بھی لکھے جو امریکہ اور یورپ بھر میں بہت مشہور ہوئے۔ آپ اب تک اس کتاب کو پڑھ کر یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو محض خوشامدی اور چاپلوسی ہے جو ہم کئی بار کر چکے ہیں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ خاص طور پر ذہین لوگ اسے فوراً سمجھ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چاپلوسی وہاں نہیں چلتی جہاں لوگ تاڑ جاتے ہیں کیونکہ یہ بہت کھوکھلی ہوتی ہے اس میں خود غرضی اور غیر مخلص عنصر زیادہ ہوتا ہے اسے ناکام ہونا ہوتا ہے اور اکثر یہ ناکام ہوتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض لوگ اپنی تعریف کے اس قدر بھوکے اور بے چین ہوتے ہیں کہ وہ اس کے لیے سب کچھ ہضم کر جاتے ہیں جیسے کہ ایک فاقہ زدہ شخص گھاس تک کھا لیتا ہے۔ انگلینڈ کی ملکہ وکٹوریہ بہت خوشامد پسند تھی۔ وزیراعظم سنجمن ڈنرریلی یہ تسلیم کرتا تھا کہ اسے ملکہ کے ساتھ بعض معاملات پر اس کی منظوری لینے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے لیکن ڈنرریلی بہت معاملہ فہم، باریک بین اور شاطر انسان تھا۔ اس جیسا انسان اب تک برطانیہ کا وزیراعظم نہیں بن سکا۔ وہ اپنی طرح کا ایک عقلمند ترین شخص تھا۔ جو کچھ دوسروں کے لیے ٹھیک ہو ضروری نہیں کہ وہ آپ کے اور میرے لیے بھی ٹھیک ہو۔ چاپلوسی آخر میں ہمیں نقصان دیتی ہے۔ چاپلوسی ایک بناؤٹی رویہ ہے اور ایک کھوٹے سکے کی طرح یہ بالآخر آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ اس لیے چاپلوسی یا خوشامد سے جس قدر ہو سکے بچیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاپلوسی اور تعریف و ستائش میں کیا فرق ہے؟ یہ بڑی سادہ بات ہے کیونکہ چاپلوسی کرنے والا شخص مخلص نہیں ہوتا اور تعریف کرنے والا شخص مخلص ہوتا ہے۔ چاپلوسی کرنے والا شخص الفاظ ڈھونڈتا ہے او ران الفاظ کا اس کے جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جبکہ مخلص شخص اپنے جذبات کے اظہار میں روانی سے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ ایک کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے اور دوسرے کی نہیں۔ حال ہی میں میں نے میکسیکو سٹی کے ایک محل میں میکسیکو کے ہیرو جنرل ایلوارو اور بریجن کا مجسمہ دیکھا۔ جس کے نیچے جنرل ایلوارو کے الفاظ کھدے ہوئے تھے ’’ اپنے دشمنوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں جو تم پر حملہ کر سکتے ہیں ان دوستوں سے ڈرو جو آپ کی چاپلوسی کرتے ہیں۔‘‘ جارج پنجم نے بکھنگھم پیلس میں دیواروں پر چھ مقولوں کا ایک سیٹ لٹکا رکھا تھا ان میں سے ایک مقولہ تھا ’’ مجھے یہ سبق دو کہ نہ ہی میں کسی کی چاپلوسی کروں اور نہ ہی کسی سے اپنی چاپلوسی کراؤں۔‘‘ چاپلوسی ایک بہت ہی گھٹیا رویہ ہے۔ میں نے ایک بار چابلوسی کی ایک تعریف پڑھی تھی جو میں یہاں آپ کے لیے لفظ بہ لفظ بیان کر رہا ہوں۔ ’’ چاپلوسی دوسرے کو بالکل وہی بات بتاتے ہیں جو وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے راف والڈ و ایمرسن کہتا ہے کہ آپ چاپلوسی کرتے وقت کسی بھی زبان کا استعمال کریں آپ جو کچھ ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگر ہم کو چاپلوسی ہی کرنی ہے تو ہمیں انسانی تعلقات بنانے کا ماہر ہونا چاہیے نہ کہ انہیں توڑنے کا۔ جبکہ مشاہدے میں یہ بات ہے کہ تعلقات بنتے کم ہیں اور بگڑتے زیادہ ہیں۔‘‘ جب ہم کسی سیدھے سادھے مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہم ۹۵%وقت عام طور پر اپنے بارے میں سوچ بچار میں صرف کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم چند لمحوں کے لیے اپنے بارے میں سوچ بچار بند کر دیں اور کسی دوسرے شخص کی اچھی باتوں کے بارے میں سوچیں تو ہمیں اس شخص کی تعریف کے لیے جھوٹے الفاظ اور چاپلوسی والا رویہ نہیں اختیار کرنا پڑے گا۔ ہماری روزانہ زندگی کا ایک سب سے اہم پہلو وہ ہے جسے ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہ پہلو ہے تعریف و ستائش کا بعض دفعہ جب ہمارا بیٹا یا بیٹی اپنا رزلٹ کارڈ ہمیں دکھاتے ہیں یا ہماری بیٹی نے کیک بنایا ہے یا پھر ہمارے بچے بلاک سے گھر بناتے ہیں تو ہم ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے حالانکہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کر کے ہم ان کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں او ران کے دل میں اپنے بارے میں عزت و احترام کا جذبہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہر وزیر، لیکچرار اور مقرر یہ جانتا ہے کہ جب وہ اپنے سامعین کے سامنے بات کر رہا ہوتا ہے تو اگر سامعین کی طرف سے حوصلہ افزائی یا تعریف کا معمولی سا بھی اشارہ نہ ملے تو اسے کتنی مایوسی ہوتی ہے جو مایوسی ایسے موقعوں پر پیشہ ور لوگوں کو ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ مایوسی دفتروں اور دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کو ہوتی ہے۔ اپنے روز مرہ کے باہمی تعلقات میں ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے تمام تعلقات کی کامیابی کا انحصار ایک دوسرے کی تعریف کرنے پر ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس سے ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اپنے کسی دوست کو ملتے وقت اس کی تعریف میں چند فقرے کہیں اور پھر آپ دوسری ملاقات میں یہ جان کر حیران ہونگے کہ وہ آپ کا پہلے سے کہیں زیادہ خوش دلی کے ساتھ استقبال کرے گا اور پہلے سے کہیں زیادہ خلوص کا مظاہرہ بھی کرے گا۔ نیو فیر فیلڈریاست کی ایک عورت پامیلا کی اپنے دفتر میں اور ذمہ داریوں کے علاوہ یہ ذمہ داری بھی تھی کہ وہ اپنے دفتر کے چوکیدار کا خیال رکھے کیونکہ وہ دفتر کا سب سے کمتر ملازم تھا اور دفتر کے بہت سے لوگ اسے اپنے مذاق کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ پامیلا نے کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت سے طریقے استعمال کیے۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چوکیدار کبھی کبھار بہت ہی اچھا کام کر لیتا ہے اس پر پامیلا نے اس کے اچھے کام کی تعریف کرنی شروع کر دی۔ ہر روز چوکیدار کے کام میں بہتری پیدا ہوتی گئی اور بہت ہی جلد وہ اپنا ہر کام بخوبی انجام دینے لگ گیا۔ اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ اچھی ملازمت کرتا ہے اور لوگ اس کی صلاحیت کو مانتے ہوئے اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ خلوص بھری تعریف اچھے نتائج پیدا کرتی ہے جب کہ نکتہ چینی یا کسی کا مذاق اڑانے سے ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایمرسن کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی کسی شخص کو ملتا ہوں تو وہ میرے لیے ایک طرح کا بڑا آدمی ہوتا ہے اور اس طرح میں اس سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں اگر ایمرسن کا کہنا ٹھیک ہے تو کیا یہ میرے یا آپ کے بارے میں ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ آیئے ہم اپنی خواہشات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں۔ آیئے ہم دوسرے شخص کی اچھائیوں کو تلاش کریں اور پھر چاپلوسی کو بھول کر بڑی دیانت داری کے ساتھ اس کی تعریف کریں اور پھر دیکھیں کہ لوگ آپ کے الفاظ کو پسند کریں گے اور انہیں اپنے ذہن میں دہرائیں گے تاکہ وہ نقش ہو جائیں۔ اور پھر آپ اگر ان سے کہیں دور بھی چلے جائیں اور سالوں آپ کی ملاقات نہ ہو مگر وہ پھر بھی آپ کے تقریضی الفاظ ضرور یاد رکھیں گے۔ دوسرا اصول ’’ دیانت داری اور خلوص کے ساتھ تعریف کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب سوئم جو ایسا کر سکتا ہے پوری دنیا اس کے ساتھ ہوتی ہے میں اکثر گرمیوں میں میامی جھیل پر مچھلیوں کے شکار کے لیے جاتا ہوں۔ ذاتی طور پر سٹرابریز اور کریم بہت پسند ہیں اور اس کی چند خاص وجوہات ہیں۔ اس لیے جب میں مچھلی کے شکار کے لیے جاتا ہوں تو میں یہ نہیں سوچتا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ مچھلیاں کیا چاہتی ہیں۔ میں مچھلی پکڑنے والی کنڈی پر کیکڑا یا کوئی دوسرا کیڑا لگاتا ہوں تو میں اسے مچھلی کے سامنے کر کے کہتا ہوں۔ ’’ کیا آپ یہ کھانا پسند کریں گی‘‘ تو لوگوں کا دل جیتنے کے لیے ہم یہی طریقہ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ انگلینڈ کے لائیڈجارج جو پہلی جنگ عظیم کے دوران وزیراعظم تھے یہی طریقہ استعمال کیا۔ جب کسی نے ان سے پوچھا کہ جنگ عظیم کے دوسرے رہنماؤں ولسن اور لانڈو وغیرہ کو تو لوگوں نے بھلا دیا ہے مگر آپ ابھی تک اقتدار میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر اقتدار پر فائز رہنے کی کوئی ایک وجہ بیان کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مچھلی کو پکڑنے کے لیے ہک میں اس کا پسندیدہ کیکڑا استعمال کرنا چاہئیے۔ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں سوچنا ایک بچگانہ حرکت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اس میں دلچسپی ہوتی ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں لیکن کوئی دوسرا اس میں دلچسپی نہیں رکھتا کہ آپ کیا چاہتے ہیں دوسرے بالکل ہماری طرح ہیں ہم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیئے۔ اس لیے اس دنیا میں لوگوں کو متاثر کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے کا صر ف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس میں دلچسپی لیں کہ دوسرے کیا چاہتے ہیں اور وہ انہیں کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کل آپ جب کسی شخص کو کام کرنے پر آمادہ کر رہے ہوں اگر مثال کے طور پر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے سگریٹ نہ پئیں۔ انہیں اس کے بارے میں منع نہ کریں اور نہ ہی ان کے سامنے یہ بات کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ انہیں یہ دکھائیں کہ کھیل کود کے دوران سگریٹ پینے والوں کا کیا حال ہوتا ہے۔ ان کا جلد سانس پھول جاتا ہے اور وہ کھیل کے دوران جلد تھک جانے کے باعث اپنی صحیح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک یاد رکھنے والی بات ہے کہ جب آپ بچوں کو، بچھڑوں کو یا بندروں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوں یہی طریقہ استعمال کریں۔ مثال کے طور پر ایک دن راف والڈو ایمرسن اور اس کے بیٹے نے ایک بچھڑے کو بار سے نکالنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے وہی غلطی کی اور یہ نہ سوچا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ان دونوں نے بچھڑے کو کھینچنا شروع کر دیا۔ بچھڑے نے بھی انہیں کھینچنا شروع کر دیا۔ بچھڑا بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے لہٰذا اس نے اپنی ٹانگیں سختی سے اکڑا لیں اور اس طرح یہ ظاہر کیا کہ وہ باڑ سے باہر نہیں جانتا چاہتا اس سارے واقعہ کو ایمرسن کی بیوی دیکھ رہی تھی۔ وہ نہ ہی مضمون لکھ سکتی ہے اور نہ ہی کتابیں۔ لیکن بچھڑے کو باڑے سے باہر نکالنے میں اس کے ذہن میں ایک انوکھی ترکیب تھی۔ اس نے یہ سوچا کہ بچھڑا کیا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی ایک انگلی بچھڑے کے منہ میں دی۔ بچھڑے نے اس کی انگلی چوسنا شروع کر دی اور اس طرح وہ بچھڑے کو باڑ سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ جب سے آپ پیدا ہوئے ہیں اس دن سے لے کر آج تک آپ کا ہر عمل اس خواہش کا تابع ہوتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ نے ریڈ کراس والوں کو کتنا وقت دیا ہے؟ ہاں آپ نے ریڈ کراس والوں کو چندہ دیا کیونکہ آپ اس طریقے سے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے یا پھر آپ ایک خوبصورت مخلص اور مقدس فریضہ انجام دینا چاہتے تھے کیونکہ بہرحال آپ ایک مذہبی شخص ہیں۔ اگر آپ نے کبھی اس احساس کی خواہش اتنی زیادہ نہیں کی جتنا کہ آپ اپنی دولت کے بارے میں کرتے ہیں تو آپ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی آپ کوئی کار خیر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ آپ نے ریڈ کراس والوں کو چندہ دیا کیونکہ آپ کو انکار کرنا اچھا نہیں لگا اور شاید اس لیے کہ آپ کے کسی دوست نے آپ کو ایسا کرنے کو کہا۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ آپ نے چندہ اس لیے دیا کہ آپ اپنے لیے کچھ چاہتے تھے چاہے وہ مہربانی یا شکریہ کا ایک لفظ ہی کیوں نہ ہوں۔ ہیری نے اپنی یادگار کتاب ’’ انسانی برتاؤ اور رویے پر اثر انداز ہونا‘‘ میں کہتا ہے ’’ ہمارا کوئی بھی عمل ہماری بنیادی خواہش سے پھوٹتا ہے اور لوگوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو، بہترین مشورہ دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دوسرے شخص میں ایک سرگرم خواہش کو ابھاریں۔ جو ایسا کر سکتا ہے وہ ساری دنیا کو اپنے ساتھ کر سکتا ہے اور وہ کبھی بھی اکیلا نہیں ہوتا۔‘‘ اینڈریو کارنیگی نامی ایک سکاچ لڑکا جس نے دو سینٹ فی گھنٹہ کے حساب سے کام کرنا شروع کیا اور بعد ازاں کروڑوں ڈالر کا مالک بن گیا۔ اپنی اوائل زندگی میں ہی یہ گر سیکھ لیا تھا کہ اگر آپ دوسروں پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو اس بات میں دلچسپی لیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اینڈریو کارنیکی کی سالی جس کے دو بیٹے تھے اکثر بیمار رہتی تھی کیونکہ وہ اس قدر مصروف زندگی بسر کر رہے تھے کہ انہیں اپنی ماں کو خط وغیرہ لکھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی۔ کارنیگی نے ایک شخص کو سو ڈالر دیئے اور اس کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ اس کی سالی کے بیٹوں کے پاس خط لے جائے اور اس کا جواب واپس لے کر آئے اور اس کا اچھا اثر ہوا۔ بیٹوں نے ماں سے آ کر ملاقات کی۔ میں ایک اور مثال آپ کو دیت اہوں اوھیو ریاست کا ایک شخص سٹان نووک ایک دفعہ اپنے دفتر سے گھر آیا۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ زور زور سے اسے آوازیں دے رہا تھا۔ اس کا بیٹا ٹم جو دوسرے روز پہلی بار سکول جاتا تھا، ایک کمرے میں منہ بسور رہا تھا کہ وہ سکول نہیں جائے گا۔ سٹان کا معمول کے مطابق رد عمل یہ ہوتا کہ وہ اپنے بیٹے کو کمرے میں بند کر دیتا اور اسے کہتا کہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرے کہ اسے سکول جانا ہے کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ سٹان نے ایسا نہیں کیا اس نے تسلیم کیا کہ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ کے بعد تم کو سکول بھیجنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سٹان کمرے میں آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگا اس نیا پنی بیوی سے مل کر ایک لسٹ تیار کی جس میں ٹم کی دلچسپی کی تمام چیزیں رکھی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ سکول میں جا کر پینٹنگ کرے گا۔ گانا گائے گا اور وہاں اس کے نئے نئے دوست بنیں گے۔ ہم نے باورچی خانے کی میز پر بیٹھے ہوئے انگلیوں سے وہاں تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ ٹم ہمیں تصویریں بناتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور اگلے روز وہ ضد کر رہا تھا کہ وہ بھی تصویریں بنائے گا۔ ہم نے اسے بتایا کہ اسے سب سے پہلے سکول جانا ہو گا۔ جہاں وہ یہ تصویریں بنانی سیکھے گا تو وہ راضی ہو گیا۔ دوسری صبح جب میں سو کر اٹھا تو میرا خیال تھا کہ میں سب سے پہلے سو کر اٹھا ہوں۔ میں نیچے کے کمرے میں گیا اور میں نے دیکھا کہ ٹم کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس نے مجھے جواب دیا کہ وہ سکول جانے کی تیاری کر رہا ہے اور آج میرا پہلا دن ہے میں نہیں چاہتا کہ مجھے سکول سے دیر ہو جائے۔ کل آپ کو کسی دوسرے شخص سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ اسے یہ کام کرنے کو کہیں آپ ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں گے آپ دوسرے شخص کو کس طرح یہ کام کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں مغز کھپائی کی کوفت برداشت نہیں کرنا پڑے گی۔ میں ہر برس نیویارک ہوٹل کا وسیع ہال ۲۸ راتوں کے لیے کرائے پر لیتا ہوں اور وہاں پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کرتا ہوں۔ ایک سیزن کے شروع میں جب میں نے مذکورہ ہوٹل میں بکنگ کرانی چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے سابقہ کرائے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ دینا ہو گا یہ خبر مجھے اس وقت ملی جب تمام انتظامات مکمل ہو چکے تھے ٹکٹ بک ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں زیادہ کرایہ ادا کرنا نہیں چاہتا تھا مگر جو میں چاہتا تھا اسے ہوٹل والوں کو بتانے کا کیا فائدہ تھا۔ انہیں صرف اپنے کرائے میں دلچسپی تھی بہرحال دو روز بعد میں ہوٹل کے منیجر سے ملا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کا خط پڑھ کر مجھے بڑا صدمہ ہوا لیکن میں اس کا تمہیں الزام نہیں دیتا۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں بھی تمہیں اسی قسم کا خط لکھتا۔ ہوٹل کا منیجر ہونے کے ناطے تمہاری یہ ذمہد اری ہے کہ تم ہوٹل کے منافع میں اضافہ کرو اور اگر تم ایسا نہیں کر سکو گے تو تمہیں اپنے مالک کی ڈانٹ پڑے گی۔ اب ہمیں ایک کاغذ پر اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ ہوٹل کا کرایہ اتنا زیادہ بڑھا دینے سے اسے کیا فائدہ اور کیا نقصان ہو گا۔ اس کے بعد میں نے ایک کاغذ لیا اور درمیان میں ایک لکیر کھینچی اور دونوں اطراف میں نے فائدہ اور نقصان کا کالم بنایا۔ میں نے فائدے کے والے کالم میں لکھا۔ ہال بالکل مفت، تب میں نے کہا کہ تم ڈانس پارٹیوں اور کنونشن کے انعقاد کے لیے ہال بالکل مفت دے کر یہ فائدہ حاصل کر سکتے ہو کہ اس طرح تمہارا بہت سے لوگوں سے میل جیل ہو گا اور ان میں سے کئی ایسے ہو سکتے ہیں جو تمہیں بہت زیادہ فائدہ بھی پہنچا سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ اس کے بعد میں نے نقصان والے کام میں لکھا۔ ’’ سرا سر نقصان‘‘ میں نے منیجر کو بتایا کہ میں جس مقصد کے لیے ہال بک کرانا چاہتا ہوں اس میں مختلف عنوانات پر لیکچر دیئے جائیں گے اور اس میں شرکت کے لیے بہت سے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگ آئیں گے اور یہ تمہارے لیے ایک تشہیر کا بہترین موقعہ ہو گا اور تم انہیں صحیح طرح سے سہولتیں فراہم کر کے انہیں اپنا گاہک بنا سکو گے۔ میں نے اسے کہا کہ ذرا سوچو کہ تم اگر اخبار میں اپنے ہوٹل کا اشتہار دو تو تمہیں مختلف اخباروں کا تقریباً پانچ ہزار ڈالر کا بل دینا پڑے گا اور پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہو گا کہ کون سا اخبار کثیر الاشاعت ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ جتنے لوگ میرے لیکچر میں آئیں گے وہ بہت زیادہ دوستیاں رکھتے ہیں ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے اور تمہاری اچھی سروس تمہارے ہوٹل کی مفت میں مشہوری کرے گی۔ میں نے اسے بتایا کہ اخبار کے اشتہار صرف مخصوص قسم کے لوگ پڑھتے ہیں اور اخبار میں اشتہار تمہیں اتنا فائدہ نہیں پہنچا سکے گا جتنا میرے لیکچر میں شرکت کرنے کے لیے آنے والے پڑھے لکھے لوگ۔ میں نے منیجر کو فائدے اور نقصان لکھ کر دے دیئے اور اسے کہا کہ وہ ان پر مکمل غور کرے گا اور اس کے بعد مجھے اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کرے گا۔ اگلی صبح مجھے ہوٹل کے منیجر کی طرف سے ایک خط ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہوٹل کا کرایہ صرف پچاس فیصد زیادہ ادا کرنا ہو گا جبکہ پہلے یہ تین سو فیصد زیادہ ادا کرنا تھا۔ یاد رکھیں کہ میں نے یہ بات ایک لفظ بھی کہے بغیر کہ میں کیا چاہتا ہوں حاصل کر لی۔ میں منیجر کے ساتھ گفتگو کے دوران یہ بات کرتا رہا کہ منیجر کیا چاہتا ہے اور پھر نفع اور نقصان کے بارے میں اس انداز سے دلائل دیئے کہ بالآخر منیجر مجھے ڈھائی سو فیصد رعائیت دینے پر آمادہ ہو گیا۔ ذرا سوچیں کہ میں معمول کے مطابق منیجر سے تکرار کرتا کہ اس نے کرایہ اتنا زیادہ کیوں بڑھا دیا ہے جبکہ تم یہ بھی جانتے تھے کہ میں نے پروگرام کے ٹکٹ بھی بھیج دیئے ہیں اور پروگرام کی تاریخ کا اعلان بھی ہو چکا ہے اور تم نے تین سو فیصد کرایہ بڑھا دیا۔ عجیب مذاق ہے میں کبھی بھی اتنا کرایہ نہیں دوں گا میں کسی اور ہوٹل میں بکنگ بھی کروا سکتاہوں۔ لیکن یہ بھی سوچیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا۔ ہم دونوں بحث کرتے اور ایک دوسرے کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے اور آخر میں اگر میں منیجر کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو پھر بھی اس کی عزت نفس اسے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ یہاں میں آپ کو انسانی تعلقات استوار کرنے کے دو ایک بہترین طریقے بتاتا ہوں۔ ہنری فورڈ کا کہنا ہے کہ اگر کامیابی کا صرف ایک راز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دوسرے شخص کے نکتہ نظر سے سوچا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا نکتہ نظر بھی ذہن میں رکھو اور پھر دیکھو کہ کہاں سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے اور ہر کوئی اس پر عمل کر کے کامیابی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس دنیامیں نوے فیصد افراد اپنی زندگی میں نوے فیصد وقت میں اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے ڈیسک پر صبح آنے والی ڈاک کو پڑھیں آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سے خطوط میں کامن سینس کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے اس ایک خط کو پڑھیں جو ایک اشتہاری فرم کے ریڈیو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے لکھا ہے یہ خط ملک بھر کے ریڈیو سٹیشنوں کے منیجروں کو لکھا گیا ہے۔ میں نے خط کے ہر پیراگراف کے بعد اپنے تاثرات لکھ دیئے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ اس پیراگراف میں کس چیز کی کمی ہے اور جب آپ کو اس طرح کا خط لکھنے کا موقع ملے تو ان تمام باتوں کا خیال رکھیں تاکہ دوسرا شخص جو آپ کا خط پڑھے وہ نہ صرف آپ کی بات کو بخوبی سمجھ سکے اور اس کے ساتھ معاملہ طے کرنے میں آسانی ہو۔ مسٹر جان بلینک بلینک ولا۔ انڈیانا ڈیئر مسٹر بلینک ’’ ہماری کمپنی ریڈیو کے شعبے میں اپنی اشتہاری ایجنسی کی اول پوزیشن برقرار رکھنا چاہتی ہے۔‘‘ کون اس بات کی پروا کرتا ہے کہ آپ کی کمپنی کیا چاہتی ہے مجھے تو اپنی پڑی ہوئی ہے بینک میرے گھر کی قرقی کا حکم جاری کرنے والا ہے سٹاک مارکیٹ میں خسارے کا رحجان ہے آج صبح مجھے آٹھ کے مقابلے میں پندرہ کا نقصان ہوا۔ گذشتہ رات مجھے جونز کی ڈانس پارٹی میں نہیں بلایا گیا تھا ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ مجھے ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ہے میرے بال تیزی سے گر رہے ہیں اور اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ میں آج صبح پریشانی کے عالم میں اپنے دفتر آیا ہوں اور ڈاک دیکھنا شروع کی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ نیویارک کی یہ کمپنی کیا چاہتی ہے اگر اس خط کے لکھنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو پڑھ کر میرے کیا تاثرات ہیں تو وہ ایڈورٹائزنگ کا کاروبار چھوڑ کر مویشیوں کی تجارت شروع کر دے۔ ’’ ہماری اشتہاری کمپنی کے اکاؤنٹس ریڈیو کے نیٹ ورک میں ایک فصیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واجبات کی ادائیگی کے لیے ہمارا ہر سٹیشن پر اپنا ایک دفتر موجود ہے جو ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر ان کی ادائیگی کرتا ہے اور ہماری یہی کارکردگی اور اصول ہماری اول پوزیشن ہونے کا ثبوت ہے۔‘‘ آپ کی کمپنی بہت بڑی ہے بڑی امیر ہے اور اس کی اشتہاری شعبے میں اول پوزیشن ہے تو ہم کیا کریں آپ اگر جنرل موٹرز، جنرل الیکٹرک اور امریکی فوج کے جنرل اسٹاف بھی ہوتے تو میں اس کی بھی پروا نہ کرتا۔ اگر آپ میں تھوڑی سی سمجھ ہوتی تو آپ کو معلوم ہوتا کہ مجھے صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ میں خود کتنا بڑا، کتنا امیر ہوں۔ آپ نے اپنی کمپنی کے بارے میں جو الفاظ لکھے ہیں وہ مجھے بہت ہی غیر ضروری اور چھوٹے لگے ہیں۔ ’’ ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنا کاروبار ایک ایسی مستند فرم کے ساتھ کریں جو ریڈیو کی دنیا میں حرف آخر ہے۔‘‘ آپ کی خواہش۔ مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں یا امریکہ کا صدر کیا چاہتا ہے؟ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے اس بات سے دلچسپی ہے کہ میری خواہش کیا ہے اور آپ نے اپنے خط میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ ’’ کیا آپ ہماری اس کمپنی کو اپنے گاہکوں کی ترجیحی فہرست میں اول نمبر پر رکھ لیں۔‘‘ ترجیحی فہرست۔ کیا آپ اپنے ہوش و حواس میں ہیں آپ کی ان بلند و بانگ باتوں سے میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا اور غیر اہم محسوس کر رہا ہوں اور پھر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی کمپنی کو ترجیحی فہرست میں اول نمبر پر رکھیں اور اس کے لیے آپ نے ’’ برائے مہربانی‘‘ کے الفاظ بھی نہیں استعمال کئے ہیں۔ ’’ ہمارے خط کا اپنی پہلی فرصت میں جواب دیں جس میں آپ کی موجودہ سرگرمیوں کی تفصیل ہو اور ہم دونوں کے مشترکہ مفاد میں ہو۔‘‘ آپ بے وقوف ہیں آپ کے اس عام سے خط سے مجھے بہت غصہ آیا ہے اور میں نے اسے پرزے پرزے کر کے خزاں کے پتوں کی طرح پھینک دیا ہے۔ آپ کا یہ خط مجھے اس تکلیف میں ملا یہ گھر کی قرقی کے باعث تھی۔ میرا بلڈ پریشر بہت ہائی تھا اور میں سخت پریشانی کے باعث اس قابل نہیں تھا کہ فوراً آپ کے خط کا جواب لکھواتا ’’ جلد ہی جواب دیں۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ میں اس قدر مصروف ہوں جتنا آپ بھی مصروف نہیں ہو سکتے اور جب کہ ہم پہلی بار خط و کتابت کر رہے ہیں۔ آپ کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ آپ مجھے ’’ ڈیر‘‘ کہہ کر مخاطب کریں۔‘‘ آپ کا مخلص جان ڈو منیجر ریڈیو ڈیپارٹمنٹ ’’ ہم آپ کو ایک پرنٹ بھیج رہے ہیں جو کہ آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ اور آپ اسے دوسرے سٹیشنوں سے نشر کرنا چاہیں گے۔‘‘ آخر میں آپ نے جو فقرے لکھے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ اس سے میں اپنے مسائل کو حل کر سکتا ہوں۔ آپ کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری موجودہ سرگرمیاں کیا ہیں۔ اب اگر وہ لوگ جو اپنی زندگی ایڈورٹائزنگ میں صرف کر دیتے ہیں اور جو اپنے آپ کو اس شعبے میں بڑا ماہر خیال کرتے ہیں۔ جنہیں یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اگر وہ اس قسم کا فضول سا خط لکھیں تو پھر ہم ایک قصائی، ایک بیکری والے اور یا ایک آٹو مکینک سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ یہاں ہم آپ کے لیے ایک اور خط پیش کر رہے ہیں جو فریٹ ٹرمینل کے سربراہ نے اپنے کورس میں شرکت کرنے والے ایک طالب علم کو لکھا۔ اس خط میں آپ دیکھیں کہ اس کا طالب علم پر کیا اثر پڑتا ہے آپ اسے پڑھیں اور پھر اپنی رائے دیں۔ اے زیریگا اینڈ سنز ۲۸ فرنٹ سٹریٹ بروکلین، نیو یارک ۲۰۱/۱ برائے توجہ۔ مسٹر ایڈورڈ ومبلن جینٹلمین ہمارے سٹیشن سے باہر کی طرف جانے والی ریل گاڑیوں کی تفصیلات کے بارے میں ہمیں بعض مشکلات کے باعث دیر سے آگاہی ہوئی۔ جس کے باعث ہمارے کام کا بڑا حرج ہوا۔ لڑکوں کا بندوبست کرنے میں دیر ہوئی اور بعض معاملات میں لوگوں کا سامان ان کے پاس پہنچانے میں دشواری پیش آئی۔ دس نومبر کو ہمیں آپ کی کمپنی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں یہ لکھا ہوا تھا۔ کہ ۵۱۰ کریٹ شام ۴ بج کر ۲۰ منٹ پر پہنچائے گئے۔ ہم سامان کے دیر سے پہنچنے کے باعث آپ کو پیش آنے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آپ سے تعاون کی درخواست کرتے ہیں۔ ہم آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ جس دن آپ نے اپنا سامان ہمیں بھیجا اور جو ہمیں دس نومبر کو ملا آپ اپنے سامان کو ہمارے پہنچانے کے لیے صبح کے وقت جس قدر جلد ممکن ہو سکے کوشش کریں تاکہ آپ کا سامان شام کو منزل مقصود پر روانہ کیا جا سکے۔ ان انتظامات سے آپ کو جو فائدہ ہو گا وہ یہ کہ آپ کا سامان جلد از جلد منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔ آپ کا مخلص جے بی اس خط کو پڑھنے کے بعد اے زیریگا اینڈ سنز کے سیلز منیجر نے اپنے تبصرے کے ساتھ میرے پاس بھیج دیا۔ تبصرہ آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس خط کا مجھ پر جو اثر ہونا چاہیئے تھا وہ نہیں ہوا۔ اس خط کے شروع میں ٹرمینل والوں نے اپنی مشکلات کا احساس کیے بغیر ہم سے تعاون کی درخواست کی ہے اور پھر آخر میں لکھا ہے کہ اگر ہم تعاون کریں تو ہمارا سامان جلد از جلد منزل کی طرف روانہ کر دیا جائے گا دوسرے لفظوں میں کہ جس بات کے ہم خواہشمند ہیں کہ ہمارا سامان جلد از جلد روانہ کر دیا جائے۔ اس کے بارے میں سب سے آخر میں لکھا ہے ان کے اس پورے خط سے تعاون کا تاثر ابھرنے کے بجائے غرور کا تاثر ابھرتا ہے۔ آیئے ہم دیکھیں کہ ہم اس خط کو دوبارہ بہتر انداز سے لکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی مشکلات کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں ہم اس خط کو بہتر انداز سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسٹر ایڈوڈورمیلن معرفت اے زیریکا اینڈ سنز ۲۸ فرنٹ سٹریٹ بروکلین۱۔ ۱۱۲۔ نیویارک ڈیئر مسٹر ورمیلن آپ کی کمپنی گذشتہ ۱۴ سال سے کاروبار کر رہی ہے جو کہ ایک اچھی اور خوش آئند ہے قدرتی طور پر ہم آپ کے تعاون پر آپ کے شکرگذار ہیں اور ہم ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم آپ کو ایسی سروس دیں جس کے آپ مستحق ہیں۔ تاہم ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے لیے اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کے ٹرک سامان لے کر شام کو دیر سے ہمارے پاس پہنچتے ہیں جیسا کہ انہوں نے دس نومبر کو کیا۔ کیونکہ بہت سے ہمارے گاہک شام کے وقت اپنا سامان ہمیں پہنچاتے ہیں۔ جس سے ہمیں بڑی مشکل ہوتی ہے جس سے یہ ہوتا ہے کہ اکثر آپ کے ٹرک ٹرمینل پر کھڑے رہتے ہیں اور آپ کا سامان منزل مقصود پر دیر سے پہنچتا ہے۔ یہ اگرچہ اچھی بات نہیں ہے مگر اس سے بچا جا سکتا ہے اگر آپ صبح کے وقت اپنا سامان ہمارے پاس ٹرمینل پر پہنچا دیں تو آپ کا سامان ٹرمینل پر رکنے کی بجائے براہ راست منزل کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔ اور ہمارے کارکن کام جلد ختم کر کے اپنی شام کا صحیح طریقے سے لطف اٹھا سکیں گے۔ وہ آپ کے بنائے ہوئے نولڈز اور سویاں اپنے رات کے کھانے میں استعمال کر سکیں گے۔ اس کے باوجود بھی جب آپ کا سامان ہمارے پاس پہنچے گا۔ ہم اپنے طور پر اسے جلد از جلد منزل کی طرف روانہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ بہت مصروف ہیں۔ ہمارے خط کا جواب دینے کی زحمت نہ کریں۔ آپ کا مخلص جے۔ بی بابر اینڈرسن جو نیویارک کے ایک بینک میں کام کرتی ہے وہ اپنی ٹرانسفر فونکس آریزونا کرانا چاہتی تھی کیونکہ وہاں بورڈنگ میں مقیم اس کے بیٹے کی صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی اس نے ہمارے کورسوں میں شرکت کرنے کے بعد جو اصول سیکھے ان پر عمل کرتے ہوئے فونکس کے بارہ بینکوں کو یہ خط لکھا۔ ڈیئر سر میل بینکنگ کا دس برس کا تجربہ آپ کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے بینک کے لیے یقینا دلچسپی کا باعث ہو گا۔ میں نے بینکرز ٹرسٹ کمپنی نیویارک سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور مختلف پوزیشنوں پر کام کرتے ہوئے اب برانچ منیجر کے عہدے پر کام کر رہی ہوں۔ میں نے بینکنگ کے تمام شعبوں مثلاً ڈیپازٹ، کریڈٹ، انتظامیہ اورقرضہ دینے کے شعبوں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا ہے۔ اس برس مئی میں میں فونکس میں ہوں گی اور مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے بینک کے منافع اور ترقی میں خاطر خواہ کردار ادا کر سکتی ہوں۔ میں ۳ مئی کو فونکس میں ہوں گی اور آپ کی طرف سے اس موقعہ کا خیر مقدم کروں گی کہ مجھے یہ دکھانے کا چانس ملے کہ میں آپ کے بینک کی اس کے مقاصد حاصل کرنے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہو سکتی ہوں۔ آپ کی مخلص بابرا اینڈ رسن اس خط کا فونکس کے بارہ بینکوں پر کیا اثر ہوا ہو گا؟ گیارہ بینکوں نے بابرا کو انٹرویو کے لیے بلایا اور اب اس کے لیے یہ مسئلہ تھا کہ وہ ان میں سے کس بینک کی آفر قبول کرے۔ کیوں؟ اس لیے کہ بابرا اینڈرسن نے اپنی درخواست میں یہ نہیں لکھا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے بلکہ یہ لکھا تھا کہ وہ ان کے منافع میں اضافے کے لیے کس قدر مددگار ثابت ہو سکتی ہے اس نے اپنی درخواست میں بینک کا مفاد مدنظر رکھا، نہ کہ اپنا۔ ان دنوں ہزاروں سیلز مین مختلف جگہوں پر اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سے مایوس اور حوصلہ شکن حالات کا شکار ہیں اور وہ سیل میں بہت کم کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ اپنی خواہشات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ یہ بالکل نہیں جانتے کہ میں یا آپ اس کی چیز خریدنے کے خواہش مند نہیں ہیں اگر ہمیں خریدنے کی خواہش ہو تو ہم باہر چل کر خرید کر سکتے ہیں اس طرح ہماری کچھ تفریح بھی ہو جائے گی۔ اس طرح سیلز مین اور ہم سب اپنے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر سیلزمین ہمیں یہ سمجھا سکے کہ وہ کس طرح ہمارے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو پھر اسے اپنی مصنوعات فروخت کرنے میں دشواری نہیں ہو گی بلکہ ہم خود اس کی مصنوعات خریدیں گے۔ اس طرح صارفین یہ سمجھیں گے کہ وہ بک نہیں رہے بلکہ خرید رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سیلز مین صارفین کی خواہش کا احترام کئے بغیر اپنی مصنوعات کامیابی کے ساتھ فروخت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نیویارک کے وسط میں ایک بستی فورسٹ ہل میں کئی برس رہائش پذیر رہا۔ ایک دن جب میں جلدی میں سٹیشن پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا تو میری ملاقات ایک پراپرٹی ڈیلر سے ہوئی جو گذشتہ کئی برسوں سے اس علاقے میں کاروبار کر رہا تھا وہ فورسٹ ہل کی بستی کے بارے میں بہت سی معلومات رکھتا تھا۔ اس لیے میں نے جلدی میں اس سے پوچھا، کیا مجھے اس علاقے میں رہائش کے لیے کوئی اچھا مکان مل سکتا ہے۔ اس نے مجھے جو جواب دیا اس کا مجھے پہلے سے علم تھا اس نے کہا کہ مجھے فورسٹ ہلز گارڈن ایسوسی ایشن سے رابطہ قائم کرنا چاہیئے۔ اس سے اگلی صبح اس پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے مجھے ایک پیغام ملا۔ کیا اس پیغام میں میرے لیے مطلوبہ معلومات تھیں جو میں حاصل کرنا چاہتا تھا؟ وہ اس طرح کی معلومات صرف ایک ٹیلی فون کال کر کے صرف ایک منٹ میں حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے مجھے بتایا کہ میں فورسٹ ہلز گارڈن ایسوسی ایشن سے رابطہ قائم کر کے اپنے لیے مکان تلاش کر سکتا ہوں اور پھر اس نے مجھے کہا کہ میں اسے اپنی انشورنس کے معاملات کا نگران مقرر کر دوں گا۔ وہ میرا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا بلکہ اسے اپنے مفاد سے دلچسپی تھی۔ برمنگھم البامہ کے جسے ہاورڈ لوکاس کا کہنا ہے کہ ایک ہی کمپنی کے دو سیلز مینوں نے اس قسم کی صورت حال میں کام کیا۔ اس نے بتایا کہ چند برس قبل میں ایک چھوٹی سے کمپنی کا انچارج تھا۔ ہمارے دفتر کے پاس ہی ایک بہت بڑی انشورنس کمپنی کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ ان کے ایجنٹس کو مختلف علاقوں کا انچارج بنایا ہوا تھا جبکہ ہماری کمپنی کے دو ایجنٹ تھے جن کا نام کارل اور جان تھا۔ ایک صبح کارل ہمارے دفتر میں آیا اور اس نے بتایا کہ اس کی کمپنی نے افسران کے لیے ایک نئی انشورنس پالیسی متعارف کروائی ہے اور اس کا خیال ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں جاننے کی دلچسپی ہو گی۔ اس نے مزید کہا کہ جونہی اسے نئی پالیسی کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی وہ ہمیں آ کر بتائے گا۔ اسی دن جب ہم اپنے روز کے معمولات کے مطابق کافی پی کر واپس آ رہے تھے کہ سڑک کی دوسری طرف جان ہمیں ملا جس نے ہمیں دیکھ کر دور سے آواز دی اور رکو مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ وہ دوڑ کر ہمارے پاس پہنچا اور اس نے بڑے جوش کے ساتھ ہمیں اس انشورنس پالیسی کے بارے میں بتایا جو ہم کارل کی زبانی سن چکے تھے جان نے کہا کہ ہم اس نئی پالیسی کے پہلے خریدار بن جائیں۔ اس نے ہمیں اس پالیسی کے بارے میں بعض اہم باتیں بتائیں۔ اس کے اس جوش سے ہمیں بڑا تجسس ہوا۔ جب اس نے ہمیں تفصیلات سے آگاہ کیا تو ہم سب نے ایک ایک پالیسی خرید لی۔ کارل بھی ہمیں یہ پالیسیاں فروخت کر سکتا تھا مگر وہ ہمارے اندر ان کے بارے میں تجسس پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ دنیا ایسے بے شمار لوگوں سے بھری پڑی ہے مگر ان میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو بڑے خلوص کے ساتھ دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امریکہ کے ایک نامور وکیل اور کامیاب بزنس مین اوون ڈی ینگ کا کہنا ہے ’’ ایسے لوگوں کو بہت کم مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں جو ان کے ذہنوں کو سمجھ کر ان سے گفتگو کرتے ہیں۔‘‘ اگر اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ صرف ایک بات سمجھ جائیں وہ یہ کہ ہمیشہ دوسروں کے ذہنوں کو سمجھ کر ان سے مخاطب ہونگے اور چیزوں کو ان کے نکتہ نظر کے مطابق سمجھیں گے تو آپ یقین جانیں کہ یہ آپ کا کیرئر بنانے میں بے حد مددگار ثابت ہو گا۔ دوسروں کے نکتہ نظر کو سمجھتے ہوئے ان کے اندر تجسس پیدا کرنے کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کا ہی اس میں فائدہ ہونا چاہیئے بلکہ اس میں دوسروں کا بھی فائدہ ہو۔ آپ مسٹر ایڈورڈ میلن کو لکھے گئے خط کو پڑھیں۔ اس میں لکھنے اور مخاطب کیے جانے والا دونوں فائدے میں رہے۔ بابرا اینڈرسن کا بینکوں کو لکھے جانے والے خط کی مثال لیں۔ اس میں بھی دونوں کا فائدہ ہوا۔ بابرا کو ملازمت اس کے اپنے شہر میں مل گئی اور بینک کو ایک فرض شناس اور تجربہ کار آفیسر مل گیا اور جان کی طرف سے مسٹر ہاروڈ لوگاس کو انشورنس پالیسی کا فروخت کرنا بھی دونوں کے لیے فائدہ مند تھا۔ دوسروں میں تجسس پیدا کرنے کا اصول بہت کامیاب ہے۔ روڈے جزیرے کا ایک سیلز مین مائیکل جو شیل آئل کمپنی میں ملازم ہے۔ مائیکل اپنے علاقے کا بہترین سیلز مین بننا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسے سروس سٹیشن پر ملازم تھا جہاں صفائی کا بڑا ناقص انتظام تھا۔ اس سروس سٹیشن کا مالک ایک بوڑھا آدمی تھا جو مائیکل کی بات بالکل نہیں مانتا تھا۔ جس کے باعث سروس سٹیشن کی سیل میں بہت فرق پڑ رہا تھا۔ پھر ایک دن اس علاقے میں ایک نیا سروس سٹیشن کھل گیا۔ اس میں صفائی کا بہترین انتظام تھا اور اس کی سیل بہت زیادہ تھی۔ مائیکل نے اس پر شیل آئل کمپنی کے منیجر کو بلایا اور اسے نیا سروس سٹیشن دکھایا۔ منیجر واپس چلا گیا اور چند ہی دنوں میں مائیکل نے دیکھا کہ اس کا سروس سٹیشن شیشے کی طرح چمک اٹھا ہے اور اس کی سیل میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس طرح مائیکل اپنی کمپنی کو مختلف قسم کے مشورے دینے کے بعد اول پوزیشن حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ مائیکل نے یہ کامیابی اس لیے نہیں حاصل کی کہ وہ منیجر کو اپنی تجاویز سے قائل کر لیا تھا بلکہ اس لیے کامیابی حاصل کی کہ وہ منیجر کو ایک نئے سروس اسٹیشن پر لے گیا اور وہاں صفائی کے انتظامات دکھا کر اسے یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ اس طرح کے انتظامات کر کے وہ اپنے سروس سٹیشن کی سیل بھی بڑھا سکتے ہیں۔ اس طرح منیجر کے اندر بھی شوق پیدا ہوا اور اس نے مائیکل کی بات مان لی اس سے دونوں کا فائدہ ہوا۔ سروس اسٹیشن کی سیل بڑھ گئی اور مائیکل ایک بہترین سیلزمین بن گیا۔ بہت سے لوگ بہت سی باتیں سیکھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی تک پڑھائی کرتے ہیں اور اس دوران وہ اکثر اسی بات کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ ان کا اپنا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے ایک بار نوجوان گرایجوایٹس کو جو ایک کارپوریشن میں اپنا کیرئر شروع کرنے والے تھے پر اثر بات چیت کے فن پر لیکچر دیا۔ ان میں سے ایک گریجویٹ اپنے ساتھیوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا کہ ہمیں فارغ اوقات میں باسکٹ بال کھیلنا چاہیے اور وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ باہر آ کر باسکٹ بال کھیلیں میں باسکٹ بال کھیلنا چاہتا ہوں لیکن گذشتہ چند بار جب میں باسکٹ بال کھیلنے کے لیے کورٹ میں پہنچا تو وہاں پر مطلوبہ تعداد میں کھلاڑی نہیں تھے۔ ہم تین چار لڑکے باسکٹ بال کھیلتے رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج رات کو آ کر باسکٹ بال کھیلیں۔‘‘ اس لڑکے نے اپنی پوری گفتگو میں کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ باسکٹ بال کھیلنا نہیں چاہتے۔ آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ یہاں ہم پروفیسر اوورسٹریٹ کا ایک قول بیان کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے ’’ پہلے دوسرے شخص میں تجسس اور شوق پیدا کرو جو ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ ساری دنیا کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتا ہے اور جو ایسا نہیں کر سکتا وہ اس بھری دنیا میں تنہا ہوتا ہے۔‘‘ میرے تربیتی کورس میں شرکت کرنے والا ایک طالب علم اپنے چھوٹے بچے کے بارے میں پریشان تھا۔ بچے کا وزن معمول سے کم تھا اور وہ ٹھیک طرح سے خوراک نہیں کھاتا تھا۔ بچے کے والدین اسے کے طریقے سے خوراک کھلانے کی کوشش کرتے۔ وہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ باپ کہتا تھا کہ تم یہ کھانا کھاؤ۔ ماں بچے سے کہتی کہ تم یہ کھانا کھاؤ پھر تم جلدی سے اپنے باپ کی طرح بڑے ہو جاؤ گے۔ غرض اس طریقے سے وہ بچے کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے۔ کیا اس طرح بچے پر کچھ اثر ہوا تھا؟ ہاں بالکل بچے پر اتنا ہی اثر ہوتا تھا جتنا کہ آپ سمندر کے کنارے ساحل پر پیدل چلتے ہوئے اپنے نشان بناتے جائیں اور آنے والی سمندر کی لہریں ان کو مٹاتی جائیں۔ اب کوئی احمق ہی یہ توقع رکھے گا کہ تین سال کا ایک بچہ تیس سال کے ایک والد کا نکتہ نظر سمجھ سکے گا۔ یہ ایک لغوبات ہے۔ بچے کے باپ کو آخر کار بات سمجھ میں آ گئی اور اس نے اپنے آپ سے کہا کہ مجھے یہ جاننا چاہئیے کہ بچہ کیا چاہتا ہے؟ باپ کے لیے یہ بہت آسان تھا۔ اس کے بچے کے پاس تین پہیوں والی ایک سائیکل تھی جسے چلانا وہ بہت پسند کرتا تھا کبھی کبھار وہ سائیکل چلاتے ہوئے اپنے گھر سے باہر گلی میں نکل جاتا۔ جہاں ایک بڑی عمر کا بچہ اسے سائیکل سے اتار دیتا اور خود چلانا شروع کر دیتا۔ قدرتی طور پر چھوٹا بچہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس آتا اور اس کی یہ خواہش ہوتی کہ اس کی ماں اس بڑے لڑکے سے اس کی سائیکل واپس لے کر دے۔ ایسا تقریباً روزانہ ہوتا۔ چھوٹا بچہ کیا چاہتا تھا؟ اس کے لیے ضروری نہیںکہ شرلاک ہولمز ہی اس کا جواب دے۔ بچے کا غصہ اس کی خواہش اور وقار یہ سب مل کر اس کے اندر اپنی اہمیت کا ایک مضبوط ترین احساس پیدا کرتے اور وہ اس بڑے لڑکے سے بدلہ لینے پر تل گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی احساس تھا کہ وہ چھوٹا بچہ ہے اور وہ اس سے بدلہ نہیں لے سکتا۔ اس لیے وہ اپنی امی کے پاس شکایت لے کر آیا تھا اور جب اس کا باپ کھانا کھلاتے وقت بچے کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا اور یہ کوئی پرہیزی کھانا نہیں ہے تو پھربچے نے سب کچھ کھانا شروع کر دیا۔ اس مسئلے کے حل ہونے کے بعد ایک اور مسئلہ بھی تھا جس سے بچے کے ماں باپ بھی دو چار تھے اور وہ مسئلہ یہ تھا کہ بچہ بستر پر پیشاب کر دیتا ہے۔ وہ اپنی دادی کے ساتھ سوتا تھا اور ہر صبح جب اس کی وادی سو کر اٹھتی اور گیلا بستر دیکھتی تو وہ اس سے کہتی دیکھو جانی تم نے رات پھر پیشاب کر دیا۔ جانی جواب دیتا۔ دادی ماں میں نے پیشاب نہیں کیا۔ اس پر دادی اماں اس کو ڈانٹتی اور اس سے کہتی تمہیں شرم نہیں آتی مگر ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اور دوسری صبح بستر پھر گیلا ہوتا اس کے والدین سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ سوچنے لگے کہ اسے کس طرح روکا جائے۔ بچے کی ضروریات کیا تھیں؟ پہلا یہ کہ وہ اپنے ڈیڈی کی طرح پاجامہ پہننا چاہتا تھا نہ کہ اپنی دادی کی طرح نائٹ گاؤن۔ اس کی دادی روزانہ اس کے سوتے وقت رات کو پیشاب کرنے سے تنگ آ چکی تھی۔ اس نے بڑی خوشی کے ساتھ اس بات کی اجازت دے دی کہ جانی رات کو سوتے وقت پاجامہ پہن سکتا ہے اس کے علاوہ بچہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کا اپنا علیحدہ بستر ہونا چاہیے۔ دادی اماں نے اس پر بھی اعتراض نہیں کیا۔ اس کی ماں اسے بروکلین کے ایک سٹور پر لے گئی۔ اور اس نے سیلز گرل سے کہا کہ یہاں پر ایک ننھا سا آدمی شاپنگ کرنا چاہتا ہے۔ سیلز گرل نے اشارے کو سمجھتے ہوئے چھوٹے بچے سے کہا۔ ہیلو ینگ مین میں آپ کو کیا چیز دکھاؤں۔ چھوٹا بچہ اپنی ایڑیوں کے بل تین چار انچ اوپر اچھل کر کھڑا ہوا اور اس نے سیلز گرل سے کہا کہ مجھے اپنے لیے ایک بستر چاہیے۔ اسے بستر مل گیا۔ شام کو جب اس کا باپ گھر واپس آیا تو جانی دوڑ کر دروازے تک گیا اور اس نے اپنے باپ کو بڑی خوشی کے ساتھ بتایا۔ ڈیڈی۔ ڈیڈی اوپر آؤ اور میرا بستر دیکھو جو کہ میں نے خریدا ہے۔ باپ نے بستر کی طرف دیکھا اور اس نے چارلس شواب کے اصول کے مطابق بستر کی دل کھول کر تعریف کی اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اب تم اس بستر کو گیلا نہیں کرو گے۔ نہیں ڈیڈی نہیں۔ میں اب اپنے اس بستر کو ہرگز پیشاب کر کے گیلا نہیں کروں گا۔ بچے نے اپنا وعدہ پورا کیا کیونکہ اب یہ اس کی عزت کا مسئلہ تھا۔ وہ اپنا بستر خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ یہ بستر اس نے خود خریدا تھا اور اب وہ اپنے باپ کی طرح پاجامہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ اب ایک آدمی کی طرح لگ رہا تھا اور اسی طرح کے انداز اپنائے ہوئے تھا۔ ایک باپ کے ٹی ڈچمین جو محکمہ ٹیلی فون میں انجینئر تھا۔ وہ بھی ہمارے تربیتی کورس میں شریک تھا۔ اس کے لیے اپنی تین سالہ بیٹی جیکولین کو ناشتہ کرانا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس صورت حال میں عام طور پر استعمال کیے جانے والے تمام حربے ناکام ہو چکے تھے۔ لہٰذا والدین سر جوڑ کر بیٹھے اور اس مسئلے پر قابو پانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔ جیکولین اپنی ماں کی نقل کرنا پسند کرتی تھی تاکہ وہ بھی اپنی ماں کی طرح بڑی لگے پھر ایک دن اس کے والدین نے اسے ایک بڑی سی کرسی پر بٹھا دیا تاکہ وہ خود اپنے لیے ناشتہ تیار کرے۔ ڈچمین کچن میں اس کے پاس ہی کھڑا تھا اور جیکولین ایک فرائی پین میں چمچ بلا رہی تھی نور ساتھ ہی وہ اپنے باپ سے یہ کہتی جا رہی تھی کہ دیکھو ڈیڈی میں اپنے لیے دلیا تیار کر رہی ہوں۔ اس کے بعد اس نے بغیر کسی دھونس اور لالچ کے دلیا کھا لیا کیونکہ یہ دلیا اس کے خیال میں اس نے خود تیار کیا تھا اب اسے اپنی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا۔ ولیم ونٹر نے ایک بار کہا کہ ’’ اپنے احساسات کا خود سے اظہار کرنا انسانی فطرت کی بہت ہی اہم ضرورت ہے۔‘‘ ہم اسی نفسیات کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں کیوں استعمال نہیں کرتے۔ جب ہمارے ذہن میں کوئی شاندار آئیڈیا ہوتا ہے۔ تو بجائے اسے دوسروں پر ٹھونسے کے ہم خود انہیں دعوت کیوں نہ دیں کہ وہ خود اپنا نظریہ بتائیں کیونکہ اس طرح ایک تو اپنی اہمیت کا احساس ہو گا اور دوسرا وہ اپنے نظریے پر عمل کریں گے۔ یاد رکھیں کہ سب سے پہلے تجسس اور شوق پیدا کریں۔ جو کوئی ایسا کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لے گا وہ ساری دنیا کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتا ہے اور جو ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ تنہا رہتا ہے۔ اصول نمبر ۳۔ ’’ دوسرے شخص میں تجسس اور شوق پیدا رکیں۔‘‘ یہاں ہم آپ کو لوگوں کے ساتھ میل جول اور لین دین کرنے کے لیے مختصراً تین اصول بتاتے ہیں۔ ۱۔ دوسروں پر تنقید نہ کریں انہیں لعن طعن نہ کریں اور ان کی شکایت نہ کریں۔ ۲۔ دوسروں کی کارکردگی پر ان کی بڑے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ تعریف کریں۔ ۳۔ دوسرے شخص میں کام کرنے کا تجسس اور شوق پیدا کریں۔ ٭٭٭ باب اول دوسرا حصہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کے چھ قیمتی اصول ہم آپ کو جو طریقے بتا رہے ہیں۔ انہیں استعمال کریں اور پھر دیکھیں کہ ہر کوئی آپ کو خوش آمدید کہے گا۔ ہم دوستی پیدا کرنے کے طریقے جاننے کے لئے یہ کتاب کیوں پڑھ رہے ہیں؟ ہم دنیا کے ان عظیم لوگوں کے طور طریقے کیوں نہ پڑھیں جن کے بے شمار دوست تھے؟ وہ کون ہیں آپ انہیں کل صبح کسی سڑک پر چلتے ہوئے مل سکتے ہیں۔ جب آپ اس کے قریب جائیں گے تو وہ اپنی دم ہلانا شروع کر دے گا۔ اگر آپ رک کر اسے پچکاریں گے تو وہ فوراًآپ کے پاس آپ کی گود میں آنا چاہے گا اس کا یہ انداز یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ کہ مجھے آپ کا پچکارنا بہت اچھا لگا او ریہ ذہن میں رکھیں کہ اس محبت میں کوئی غرض شامل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مفاد۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ صرف کتا ہی ایک جانور ہے جو اپنی زندگی گزارنے کے لیے کام نہیں کرتا؟ ایک مرغی انڈے دیتی ہے گائے دودھ دیتی ہے۔ کوئل گنگناتی ہے بھیڑ بکریوں کا گوشت کھانے کے کام بھی آتا ہے لیکن ایک کتا صرف اپنی محبت سے جس کو بانٹ کر وہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔ جب میری عمر پانچ برس کی تھی تو میرے باپ نے میرے لیے زرد بالوں والا ایک کتے کا بچہ پچاس روپے میں خریدا۔ وہ کتا میرے بچپن کی روشنی اور تفریح تھا۔ وہ ہر دوپہر ساڑھے چار بجے صحن میں بیٹھ کر اپنی خوبصورت آنکھوں سے میری راہ تکتا اور جب وہ مجھے دیکھتا تو وہ ایک دم اچھل کر میرے پاس آتا اور بھونک بھونک کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ۔ اس کتے کا نام ٹپی تھا وہ مسلسل پانچ برس تک میرا ساتھی رہا پھر ایک افسوسناک رات جسے میں کبھی نہ بھلا سکوں گا وہ دس فٹ دور میری اپنی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو گیا ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے کچل دیا تھا پٹی کی المناک موت میرے بچپن کی ٹریجڈی تھی۔ پٹی نے نفسیات کی کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی تمہیں یہ کتاب پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی تمہیں شاید غائب سے ہی اس بات کا ادراک تھا کہ تم دوسرے لوگوں میں دلچسپی لیکر انہیں اپنا گرویدہ بنا لو گے۔ اور پھر یہی لوگ تمہیں پیار کرنے لگیں گے۔ اس کے باوجود میں اور آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرانے کے لئے فاش غلطیاں کرتے ہیں اور اس سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا لوگوں کو آپ سے دلچسپی نہیں ہے۔ لوگوں کو مجھ سے بھی دلچسپی نہیں ہے انہیں صرف اپنے آپ سے دلچسپی ہے۔ نیویارک ٹیلی فون کمپنی نے اس بات کو جاننے کے لئے ایک تفصیلی سروے کیا کہ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران ہم کونسا لفظ سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ آپ یقینا جان گئے ہونگے یہ لفظ میں ’’ میں‘‘ اور میں ہے۔ کمپنی نے پانچ سو افراد کی ٹیلی فون پر بات چیت سنی جس میں ۳۹۰۰ بار ’’ میں‘‘ میں کا لفظ استعمال کیا گیا جب آپ کوئی ایسی گروپ فوٹو دیکھتے ہیں جس میں آپ بھی موجود ہوتے ہیں۔ تو سب سے پہلے آپ کسے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ہم محض یہ کوشش کریں کہ لوگ ہماری ذات میں دلچسپی لیں اور اس کیلئے انہیں مختلف طریقوں سے متاثر کرنے کی کوشش کریں تو ہم مخلص اور سچے دوست نہیں بنا سکتے مخلص اور سچے دوست اس طرح نہیں بنائے جاتے۔ نپولین نے بھی اس طریقے سے دوست بنانے کی کوشش کی لیکن جو زمین کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں اس نے کہا۔جو زفین میں بھی دنیا میں موجود دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح دوست بنانے کے معاملے میں خوش قسمت رہا مگر، اس وقت دنیا میں صرف تم ہی ہو جس پر میں اعتماد کر سکتا ہوں حالانکہ مورخوں کو اس پر بھی شک ہے کہ وہ جو زفین پر اعتماد بھی کر سکتا تھا۔ وینس کا مشہور نفسیات دان ایلفرڈ ایڈلمر اپنی مشہور کتاب ’’ آپ کے لیے زندگی کا کیا مقصد ہونا چاہیے میں لکھتا ہے۔‘‘ یہ ہم ہی، میں جو اپنے جیسے لوگوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور ہمیں ہی اپنی زندگی میں بے شمار دشواریاں ہوتی ہیں اور ہم دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے ہماری اپنی حرکتوں سے تمام انسانی ناکامیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نفسیات کے موضوع پر جتنی مستند کتابیں پڑھ لیں۔ لیکن آپ کو اس سے بہترین بیان کسی میں بھی نہیں ملے گا۔ ایڈلر کا بیان اس قدربا مقصد ہے کہ میں دوبارہ دہراتا ہوں۔ یہ ہم ہی ہیں جو اپنے جیسے لوگوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور ہمیں اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اور ہم دوسروں کو بھی تکلیف پہنچانے کا موجب بنتے ہیں اور اس طرح ہماری اپنی ہی حرکتوں سے تمام انسانی ناکامیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ میں نے ایک بار نیویارک یونیورسٹی میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے کا ایک کورس کیا اور اس کورس کے دوران ایک بڑے میگزین کہے ایڈیٹر نے آ کر ہماری کلاس میں ایک لیکچر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ اپنی میز پر پڑی درجنوں کہانیوں میں سے کوئی ایک کہانی نکال کر اس کی چند سطریں پڑھنے کے بعد ہی یہ بتا سکتا ہے کہ اس کہانی کو لکھنے والا لوگوں کو پسند بھی کرتا ہے یا نہیں اس نے مزید کہا کہ اگر کہانی لکھنے والا لوگوں کو پسند نہیں کرتا تو لوگ اس کی کہانیاں نہیں پڑھیں گے۔ یہ ایڈیٹر اپنے لیکچر کے دوران دوبار اس وقت رکا جب وہ ’’ افسانہ لکھنے کے فن‘‘ پر بول رہا تھا اس نے دونوں بار معذرت کی اور کہا کہ وہ کوئی واعظ نہیں کر رہا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو وہی کچھ بتا رہا ہوں جو آپ کا مبلغ آپ کو بتائے گا لیکن آپ کو یہ بات یاد رکھنی ہے۔ کہ اگر آپ ایک کامیاب کالم نگار بننا چاہتے ہیں تو آپ کو لوگوں میں دلچسپی نہیں ہو گی۔ اب اگر یہ کالم نگاری یا کہانی لکھنے کے ضمن میں درست ہے تو پھر آپ کو روز مرہ کی زندگی میں لوگوں سے ملنے جلنے میں یہی طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔ میں نے ایک شام ہاورڈ تھرسٹن کے ڈریسنگ روم میں گزاری وہ ایک تسلیم شدہ جادوگر تھا اس نے چالیس برس تک دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ دنیا بھر کے تقریباً ۶ کروڑ افراد اس کے کمالات دیکھ چکے تھے اور اس نے بیس لاکھ ڈالر کمانے تھے۔ میں نے تھرسٹن سے پوچھا کہ وہ مجھے اپنی کامیابی کا راز بتائیے اس کے کمالات اور عجیب و غریب کرتبوں میں اس کے سکول کا کوئی ہاتھ نہیں تھا جہاں اس نے پڑھائی کی تھی کیونکہ وہ سکول کے زمانے سے ہی اپنے گھر سے بھاگ گیا تھا اور اس نے سڑکوں، درختوں اور گلیوں میں سو کر اپنی زندگی گزاری۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے گھر گھر جایا کرتا تھا اور بھیک تک مانگا کرتا تھا۔ کیا تھرسٹن کی جادوگری کے علم میں فوقیت حاصل تھی؟ نہیں اس نے خود مجھے بتایا کہ بازیگری اور شعبدہ بازی پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ہزاروں لاکھوں افراد انہیں پڑھ بھی چکے ہیں اور اس فن کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ تھرسٹن نے بتایا کہ اس کے پاس دو ایسی چیزیں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اپنے کمالات دکھانے کے دوران اپنی شخصیت کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے کہو ہ ایک ماسٹر شعبدہ باز ہے وہ انسانی فطرت کو جانتا ہے۔ اس نے بتایا کہ شو کے دوران بنایا جانے والا ہر انداز ہر الیکشن، بھوؤں کا اوپر اٹھانا اور اپنی آواز کا اتار چڑھاؤ سب کی پہلے سے ریرسل کی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں لوگوں میں دلچسپی ظاہر کرتا ہوں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور یا وہ مجھ سے کس قسم کے فن کا مظاہرہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ تھرسٹن نے مجھے بتایا کہ بہت سے شعبدہ باز اپنے ناظرین پر نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس کچھ جوسنیاں ہیں اور یہاں کچھ گنوار قسم کے دیہاتی ہیں، میں انہیں آپ کے سامنے بیوقوف بناؤں گا لیکن میرا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ میں جب بھی سٹیج پر جاتا ہوں تو ناظرین کی بڑی تعداد کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اتنی تعداد میں لوگ میرا فن دیکھنے آئے ہیں اور پھر میں ان کے سامنے اپنے بہترین فن کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ وہ سٹیج پر آنے سے پہلے یہ ضرور کہتا ہے کہ مجھے اپنے ناظرین سے محبت ہے۔ مجھے اپنے ناظرین سے محبت ہے۔ اب آپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ آپ کچھ بھی خیال کریں بے شک اس طریقہ کار کو مضحکہ خیز اور لغو خیال کریں مگر میں صرف آپ تک دنیا کے مشہور ترین شعبدہ باز کے خیال پہنچا رہا ہوں۔ پسیلونیا کے جارج ڈک کو اپنا سروس سٹیشن اس وقت بند کرنا پڑا جب ایک ہائی وے تعمیر کرتے وقت وہ جگہ بھی سڑک کے راستے میں آ گئی۔ وہ تیس برس سے وہاں سروس سٹیشن چلا رہا تھا۔ تاہم گھر میں بیٹھ کر بور ہونے کی بجائے اس نے اپنے پرانے وائلن کو بجانا شروع کر دیا جلد ہی اس نے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے مشہور وائلن بجانے والوں کو موسیقی سننی شروع کر دی۔ اپنی روایتی ملنساری اور انکساری کی وجہ سے اسے ہر وائلن بجانے والے سے دلچسپی ہو گئی اگرچہ وہ ایک اچھا وائلن نواز نہیں تھا مگر بہت سے وائلن بجانے والے اس کے اچھے دوست بن گئے اس نے موسیقی کے مقابلوں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی وہ امریکہ کے مشرقی حصے میں موسیقی کے دلدادہ لوگوں میں ’’ انکل جارج‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا جب میں نے انکل جارج کے بارے میں سنا اس کی عمر ۷۲ برس کی تھی اور وہ اپنی عمر کے ایک ایک حصے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ دوسرے لوگوں میں دلچسپی ظاہر کر کے اس نے اپنے لیے ایک نئی زندگی تلاش کر لی تھی اور وہ بھی ایک ایسی عمر میں کہ جس میں بہت سے لوگ دل میں یہ بات بٹھا کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب ہمارا وقت نہیں رہا۔ تھیو ڈور روز ویلٹ کی حیران انگیز مقبولیت کا ایک راز یہی تھا کہ وہ دوسروں کے کاموں میں دلچسپی ظاہر کرتا تھا۔ اس کے ملازم بھی اس سے محبت کرتے تھے اس کے ایک خدمت گار جیمز اسی اموس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھیو ڈور روز ویلٹ اپنے خدمت گاروں کا ہیرو ہے اس کتاب میں جیمز اموس ایک بہت ہی شاندار واقعہ کا ذکر کرتا ہے۔ ’’ ایک بار میری بیوی نے صدر روز ویلٹ سے پوچھا کہ خچر کیسا ہوتا ہے ۔ اس نے اسے کبھی دیکھا نہیں تھا اور روز ویلٹ نے خوب اچھی طرح میری بیوی کو بتایا کہ ٹٹو یعنی خچر کیا ہوتا ہے۔ بعد ازاں چند دنوں بعد ہمارے گھر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی میری بیوی نے ٹیلی فون اٹھایا اور اس کی حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی جب دوسری طرف صدر روز ویلٹ بذات خود تھے۔ وہ ٹیلی فون پر کہہ رہے تھے کہ میری بیوی کو بتا دیا جائے کہ اس کی کھڑکی کے باہر ایک ٹٹو کھڑا ہے اور وہ اگر دیکھنا چاہتی ہے تو کھڑکی کھولی کر دیکھ لے۔‘‘ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتیں صدر روز ویلٹ کے کردار کا خاصا تھیں۔ جب بھی وہ ہمارے گھر سے ملحق اپنے کالج میں تشریف لاتے وہ ہم سے ضرور ملاقات کرتے جو کہ ایک بہت ہی دوستانہ انداز تھا۔ روز ویلٹ ایک بار وائٹ ہاؤس میں گئے جب صدر اور ان کی اہلیہ ٹیفٹ کہیں باہر گئے ہوئے تھے روز ویلٹ اس وقت سابق صدر تھے انہوں نے وائٹ ہاؤس میں تمام ملازمین کو ان کے نام لے کر بلایا ان سے ہاتھ ملایا۔ اور ان کی خیریت دریافت کی۔ جب روز ویلٹ نے وائٹ ہاؤس کی بادر چن ایلسن کو دیکھا تو انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ اب بھی مکئی کی روٹی پکاتی ہے ایلس نے انہیں بتایا کہ وہ بعض اوقات ملازموں کے لئے روٹی پکاتی ہے۔ مگر اوپر والی منزل پر رہنے والے نہیں کھاتے روز ویلٹ نے جواب دیا کہ انہیں اس روٹی کا ذائقہ معلوم نہیں میں اگلی بار صدر ٹیفٹ سے ملوں گا تو انہیں اس کے ذائقے کے بارے میں بتاؤں گا۔ ایلس مکئی کی روٹی کا ایک ٹکڑا پلیٹ میں لے کر آئی اور روز ویلٹ اس روٹی کو کھائے ہوئے باغ میں مالیوں سے ملنے کیلئے چلے گئے۔ انہوں نے تمام ملازمین سے اسی طرح بات کی جس طرح وہ بڑی شفقت کے ساتھ اپنے زمانہ صدارت کے دوران ان سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایک ہو کر جو گزشتہ چالیس برس سے وائٹ ہاؤس میں ملازم تھا اپنی آنکھوں میں آنسو لئے یہ کہہ رہا تھا کہ گزشتہ دو برسوں میں یہ پہلا خوشی کا دن ہے جو وہ دیکھ رہا ہے۔ غیر اہم افراد کیلئے اسی طرح کی محبت اور شفقت نے نیو جرسی کے ایڈورڈ سکائس کو ایک کامیاب سیلز ریبریزیٹو بننے میں مدد دی۔ اس نے بتایا کہ کئی برس قبل وہ اپنی فرم جانسن اینڈ جانسن کی مصنوعات کی فروخت کے سلسلے میں صارفین کے پاس جاتا تھا تو اسے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہنگم بام کے ایک ڈرگ سٹور میں جب بھی میں جاتا تو میں اس کے مالک سے مصنوعات کو خریدنے کا آرڈر وصول کرنے سے قبل سٹور کے سیلز کلرک اور سوڈا کلرک سے ضرور گفتگو کرتا ایک دن جب میں سٹور کے مالک سے ملنے کیلئے گیا تو میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے مجھے چلے جانے کو کہا کیونکہ وہ جانسن اینڈ جانسن کی مصنوعات خریدنے میں اب دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ میں بوجھل دل کے ساتھ نیچے سیڑھیاں اتر آیا اور شہر میں بلا مقصد گاڑی چلاتا رہا۔ آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک بار پھر سٹور پر جاؤں اور سٹور کے مالک پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کروں۔ جب میں سٹور میں پہنچا تو میں نے معمول کے مطابق سیلز کلرک اور سوڈا کلرک سے گفتگو کی۔ جب میں مالک کے پاس پہنچا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس نے مجھے معمول سے دوگنا آڈر دیا۔ میں نے اس کی طرف حیرانگی سے دیکھا اور پوچھا کہ یہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اس نے سوڈا کلرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد یہ سوڈا کلرک میرے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ تم سٹور پر آنے والے ان چند سیلز مینوں میں سے ہو جو تمام ملازمین کو ہیلو کہتا ہے۔ اس کلرک نے بتایا کہ اگر کوئی سیلز مین اس سٹور سے آڈر لینے کا حقدار ہے تو وہ صرف تم ہو میں نے اس سے اتفاق کیا اور تمہیں آڈر دے دیا۔ میں نے ذاتی تجربے سے یہ بات معلوم کی ہے کہ کوئی شخص کسی معروف ترین بڑے شخص سے بھی تعاون حاصل کرنے کے لئے وقت حاصل لے سکتا ہے اگر وہ اس میں دلچسپی ظاہر کر لے میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ کئی برس قبل میں نے بروکلین انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ سائنسز میں افسانے لکھنے کا کورس منعقد کرایا اس کیلئے مجھے کیتھلین نورس فین پرسٹ اور ہیوز جیسا مصنف چاہیے تھا۔ جو وہاں طالب علم کو لیکچر دے اس لیے ہم نے انہیں خط میں لکھا کہ ہم ان کے کام میں اس بات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں کہ آپ کی کامیابی کے رازوں کو جان سکیں اور ان سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ ہر خط پر ڈیڑھ سو طالب علموں کے دستخط تھے، ہم نے یہ خیال کیا کہ یہ مصنف بہت معروف ہیں اور ان کیلئے لیکچر کی تیاری کرنا مشکل ہو گا اس لیے ہم نے ہر خط میں ان سے پوچھا کہ وہ ہمیں اپنے بارے میں بتائیں اور اپنے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں آگاہ کریں۔ یہ تمام مصنف بروکلین آنے اور لیکچر دینے پر رضا مند ہو گئے۔ یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے میں نے صدر روز ویلٹ کی کابینہ میں وزیر خزانہ لینر لی شاہ، صدر ٹیفٹ کے دور حکومت میں اٹارنی جنرل جارج وکر شام، فرنیکلین روز ویلٹ اور اس طرح کے متعدد نامور افراد کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ وہ ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے طلباء کو آ کر لیکچر دیں گے۔ ہم میں سے سب خواہ وہ کسی فیکٹری کے ملازم ہوں کسی دفترمیں کلرک ہوں یا کسی تخت کا بادشاہ ہوں۔ ہم سب ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہماری تعریف کرتے ہوں۔ جرمنی کے بادشاہ قیصر کی مثال لیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر وہ دنیا بھر میں شاید سب سے قابل نفرت اور وحشی شخص سمجھا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کی اپنی قوم اس کے خلاف ہو گئی تھی۔ جب وہ اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ کر ہالینڈ گیا تو اس کے خلاف نفرت اس قدر شدید تھی کہ لاکھوں لوگ یہ چاہتے تھے کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ نفرت کی اس فضا میں ایک چھوٹے لڑکے نے قیصر کو ایک خلوص بھرا خط لکھا جس میں اس کی تعریف کی گئی اور اس کے ساتھ محبت کا اظہار کیا گیا اس لڑکے نے خط میں لکھا کہ دنیا چاہے کچھ بھی کہے وہ ہمیشہ اپنے بادشاہ سے محبت کرے گا۔ قیصر اس خط سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اس لڑکے سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ بچہ اپنی ماں کے ہمراہ آیا قیصر نے اس کی ماں سے شادی کر لی اس بچے کو یہ نہیں معلوم تھا اور نہ ہی اس نے دوست بنانے کے طریقوں کے بارے میں کوئی کتاب پڑی تھی مگر وہ بادشاہ کو اپنا دوست بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔ اگر ہم دوست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے۔ ایسے کاموں میں ان کی مدد کرنی چاہیے جس میں وقت کی ضرورت اور ہو طاقت کی ضرورت ہو۔ جب ڈیوک آف ونڈسر پرنس آف ویلز تھا تو اس کو ایک بار جنوبی امریکہ کے دورے پر جانا تھا۔ دورے پر روانگی سے کئی ہفتے پہلے اس نے سپینی زبان سیکھنا شروع کر دی تاکہ وہ وہاں کے باشندوں سے ان کی زبان میں گفتگو کر سکے۔ جنوبی امریکہ کے لوگوں نے ڈیوک آف ونڈ سر کو بہت پسند کیا کیونکہ اس نے اپنے پرخلوص جذبات کا اظہار وہاں کے لوگوں کی مادری زبان میں کیا تھا۔ کئی برسوں سے میں نے اپنا یہ طریقہ بنا لیا تھا کہ میں اپنے دوستوں کی سالگرہ کے دن یاد رکھوں اور پھر کسی نہ کسی بہانے ان کی پیدائش کا دن معلوم کر لیتا اگر کوئی مجھے ۲۴ نومبر بتاتا تو میں ۲۴ نومبر ۲۴ نومبر دہراتا اور بعد میں اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا جو میں نے اس مقصد کیلئے خاص طور پر بنائی تھی۔ ہر سال کے شروع میں میں اپنے بستر کے قریب میز پر پڑے ہوئے ٹیبل کیلنڈر پر تمام مہینوں کے ان دنوں پر نشان لگا لیتا جن دنوں میں میرے دوستوں کی سالگریں آتی تھیں اور ہر مہینے کا شیڈول میرے سامنے ہوتا تھا اور ہر رات کو سونے سے قبل میری کیلنڈر پر نظر پڑتی تو خود بخود مجھے ذہن نشین ہو جاتا کہ صبح یا اس ماہ میں میرے کس کس دوست کی سالگرہ ہے جب کوئی ایسا دن قریب ہوتا تو میں فوراً اپنے دوست کو سالگرہ کی مبارکباد کا بڑا کارڈ ضرور بھیجنا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے شاہد میں اس روئے زمین پر واحد شخص ہوں جو اس قدر باقاعدگی کے ساتھ اپنے دوستوں کی سالگرہ پر کارڈ بھیجتا ہے۔ اگر ہم دوست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی تعریف کریں جب کوئی شخص آپ کو فون کرے اور ہیلو کہے تو آپ بھی اسی انداز میں ملائمت کے ساتھ ہیلو کہہ کر اس شخص کو یہ احساس دلائیں کہ آپ کو اس کی آواز سن کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ بعض کمپنیاں اپنے ٹیلی فون آپریٹروں کو اس بات کی خصوصی تربیت دیتی ہیں کہ وہ ٹیلی فون سنتے وقت بڑی ملائمت اور خوش اخلاقی سے بات کریں تاکہ فون کرنے والوں کو یہ احساس ہو کہ میری بھی اہمیت ہے۔ دوسروں میں دلچسپی ظاہر کرنے سے آپ ان کی دوستی حاصل کر سکتے ہیں۔ بلکہ ایک طرح سے آپ ان کی وفاداری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ نیویارک کے ایک بینک نیشنل بینک آف نارتھ امریکہ کے میگزین میں ایک اکاؤنٹ ہولڈر کا خط چھپا جو ہم یہاں آپ کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ ’’ میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ آپ کے بینک کا عملہ کس قدر خوش اخلاق ہے۔ ہر کوئی ایک ہر وقت خدمت کے لیے تیار ہے۔ کس قدر خوشی کی بات ہے کہ ایک لمبی لائن میں دیر تک کھڑے رہنے کے بعد جب باری آئے تو آپ کے عملے کا فرد بڑی ملائمت اور خوش اخلاقی سے یہ کہتا ہے کہ ’’ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔‘‘ گذشتہ برس میری والدہ پانچ ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہی، وہاں پر ہسپتال کے عملے نے ان کی بڑی اچھی طرح دیکھ بھال کی کہ میری ماں کا وہاں دل لگ گیا تھا۔‘‘ نیویارک کے ایک بہت بڑے بینک نے چارلس والٹرز کو ایک کارپوریشن کی خفیہ رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ چارلس والٹرز یہ جانتا تھا کہ صرف ایک شخص ہے جس سے اسے حقائق کا علم ہو سکتا ہے جب وہ کارپوریشن کے صدر کے دفتر میں داخل ہوا تو اس کی سیکرٹری نے دروازے کے اندر سر ڈال کر صدر سے کہا کہ اس کے پاس اسے دینے کے لئے ٹکٹ نہیں ہیں صدر نے والٹرز کو بتایا کہ وہ اپنا بارہ برس کے بیٹے کیلئے ٹکٹ اکٹھے کرتا ہے۔ چارلس والٹرز نے بتایا کہ اس نے اپنے کام کے ضمن میں صدر سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا مگر صدر گول مول اور غیر واضح قسم کے جوابات دیتا رہا وہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا اور اسے بات کرنے اور سوالات کا جواب دینے پر مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے اس سے میرا انٹرویو بہت ہی مختصر اور بور رہا۔ والٹرز نے بتایا کہ اسے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اس نے کہا کہ پھر اچانک مجھے صدر کے بارہ سالہ بیٹے اور اس کے ٹکٹ اکٹھے کرنے کا مشغلہ یاد آیا اور یہ بھی یاد کہ ہمارے بینک کا بین الاقوامی شعبہ بھی ٹکٹ اکٹھے کرنا ہے۔ جو ان خطوط سے اتارے جاتے ہیں جو سات سمندر پار سے ہمارے بینک میں آتے ہیں۔ اگلے دن و الٹرز دوبارہ کارپوریشن کے صدر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ اس کے بارہ سالہ بیٹے کیلئے ٹکٹ لے کر آیا ہے۔ وہ بڑا خوش ہوا اور اس خوشی سے مجھ سے ہاتھ ملانا بھی بھول گیا۔ اس نے ٹکٹ میرے ہاتھ سے لئے اور کہا کہ میرا چارج انہیں پا کر بہت خوش ہو گا اس کے بعد ہم ٹکٹوں کے بارے میں اور اس کے بچے کی تصویر دیکھنے میں کافی دیر تک مصروف رہے اور اس کے بعد کارپوریشن کا صدر تقریباً ایک گھنٹے تک مجھے وہ تمام معلومات فراہم کرتا رہا۔ جو مجھے چاہیے تھی اس نے مجھے وہ سب کچھ بتایا جس کا اسے علم تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے تمام ماتحتوں کو بلایا اور ان سے بھی معلومات لے کر مجھے دیں۔ اس نے اپنے بعض دوستوں کو فون کیا۔ ان سب باتوں کے بعد میرے پاس حقائق کا اتنا ڈھیر ہو گیا کہ اگر میں ایک صحافی ہوتا تو اس خبر سے بہت پیسہ کماتا۔ یہاں میں آپ کو ایک اور واقعہ بتاتا ہوں، فلاڈلفیا کا ڈین رسک نامی ایک شخص ایک ایسے ادارے کو تیل فروخت کرنا چاہتا تھا۔ جس کے امریکہ بھر میں بہت سے ڈیپارٹمنٹل سٹور تھے مگر یہ ادارہ اپنی ضرورت کا تیل باہر کے قبضے سے حاصل کرتا تھا جس کا ڈین کو بہت رنج تھا وہ کئی برسوں تک یہ کوشش کرتا رہا کہ یہ ادارہ اس سے تیل خریدے ایک رات اس نے میرے کورس میں شرکت کرنے والے طلبہ کے سامنے ایک لیکچر دیا جس میں اس نے ایسے اداروں پر سخت نکتہ چینی کی، جن کے بڑے بڑے سٹور تھے۔ اس نے ایسے اداروں کو قوم کے لیے ایک لعنت قرار دیا۔ اس کے باوجود بھی اسے یہ دیکھ تھا کہ اس سے تیل کیوں نہیں خریدا جاتا۔ میں نے اسے یہ مشورہ دیا کہ وہ مختلف طریقے استعمال کرے اس کے لیے ہم نے ایک ڈیبیٹ کروائی جس میں کورس میں شرکت کرنے والے طلبہ نے حصہ لیا۔ ڈیبیٹ کا موضوع تھا کہ ایسے اداروں کا وجود جن کے ملک بھر میں سٹور ہوں ملک کے لیے نقصان دہ ہیں! یا نہیں۔ ڈین نے میرے مشورے پر ایسے اداروں کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد وہ میرے ہی مشورے سے ایک ادارے کے بڑے افسر کے پاس گیا جسے وہ سخت ناپسند کرتا۔ ڈین نے اسے جا کر کہا ’’ میں یہاں اپنا تیل بیچنے نہیں آیا بلکہ آپ سے مدد لینے آیا ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے افسر کو اس نے ڈیبیٹ کے بارے میں بتایا جس میں وہ حصہ لے رہا تھا اس نے کہا ’’ کہ میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ مجھے آپ کے علاوہ اور کوئی شخص ایسے حقائق نہیں بتا سکتا جن کی وجہ سے میں ڈیبیٹ جیت سکتا ہوں اور میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار رہوں گا اگر آپ نے میری مدد کی۔‘‘ باقی کہانی ڈین کے اپنے الفاظ میں سنیئے۔ ’’ میں نے افسر سے اس کا بہت تھوڑا وقت مانگا تھا تاکہ وہ مجھے ملنے سے انکار نہ کر دے اس نے مجھے اندر بلایا۔ اس نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کے لیے نہیں کہا میں نے آج اسے اپنا مسئلہ بتایا اور پھر ہم ایک گھنٹہ سنتالیس منٹ تک باتیں کرتے رہے اس دوران اس نے ایک اور افسر کو بلایا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی اس نے نیشنل چین سٹور ایسوسی ایشن کو ایک خط لکھا جس میں ان سے میرے لیے ایسے ہی ایک موضوع پر ہونے والی ڈیبیٹ کی کاپی منگوائی۔ اس کا خیال تھا کہ ایسے ادارے انسانیت کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ باتیں کرتے وقت اس کی آنکھیں کھول دیں اس نے میرا تمام غم و غصہ دور کر دیا۔ جو مجھے ایسے اداروں کے بارے میں تھا جب میں اس کے کمرے سے نکل رہا تھا تو وہ افسر مجھے دروازے تک چھوڑنے آیا میرے کندھے پراپنا ہاتھ رکھا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ میں ڈیبیٹ جیت جاؤں گا اس کے بعد اس نے مجھے کہا کہ میں ڈیبیٹ کے بعد اسے آ کر بتاؤں کہ میری کارکردگی کیسی رہی آخری الفاظ جو اس نے کہے وہ یہ تھے۔ مجھے آنے والے موسم بہار میں ضرور ملو میں تمہیں تیل کی خرید کا ایک بڑا آرڈر دونگا۔‘‘ میرے لیے یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ میرے کہنے کے باوجود مجھ سے تیل خریدنے کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے صرف دو گھنٹے میں اس افسر میں اپنی دلچسپی کا اظہار کر کے اتنا فائدہ حاصل کیا تھا جو کہ میں گزشتہ دس سال کی محنت اور کوشش کے باوجود حاصل نہیں کر سکا تھا۔ مسٹر ڈین تم نے کوئی نئی چیز دریافت نہیں کی۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے سو سال پہلے روم میں ایک مشہور شاعر پبلیلس سارس نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ ہم دوسروں میں اس وقت دلچسپی ظاہر کرتے ہیں جب وہ ہم میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ لیکن اس کے لیے ایک بات کی احتیاط بہت ضروری ہے کہ جب آپ کسی دوسرے شخص میں اپنی دلچسپی کا اظہار کریں تو یہ صرف اور صرف خلوص پر مبنی ہونی چاہیے یہ نہ صرف آپ کے لیے بلکہ دوسرے شخص کے لئے بھی فائدہ مند ہونی چاہیے۔ مارٹن گنیرگ نامی ایک طالب علم نے ہمارے ایک کورس میں شرکت کی۔ اس نے بتایا کہ ایک دفعہ جب وہ ہسپتال میں داخل تھا تو ایک نرس نے اس طرح اس کی دیکھ بھال کی کہ جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی اس کی زبانی سنیے۔ ’’ میری عمر دس برس کی تھی میں شہر کے فلاحی ہسپتال میں داخل تھا اور میری آرتھو پیڈک سرجری ہونے والی تھی میں جانتا تھا کہ آپریشن کے بعد مجھے کئی ماہ درد اور تکلیف میں گزارنے ہونگے۔ میرے والد فوت ہوچکے تھے۔ اور میں اپنی والدہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا میرے آپریشن سے ایک روز قبل میری والدہ کسی مجبوری کے باعث مجھے ملتے ہسپتال نہیں آ سکی۔ میں اس دن بہت تنہائی محسوس کر رہا تھا اور اداس تھا۔ مجھے ڈر بھی تھا کہ پتہ نہیں آپریشن کامیاب بھی ہوتا ہے کہ نہیں مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میری ماں بھی میرے لیے پریشان ہو گی۔ کیونکہ وہ بھی میری طرح اکیلی ہے۔ اس کے ساتھ گھر میں باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کو اکیلے کھانا پکانا اور کھانا پڑتا ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے گھر میں کسی ی دعوت کا اہتمام کرے۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے اپنا منہ تکیے میں چھپا لیا اور کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ میں نے بڑی آہنگی سے سسکی لی۔ مگر اس کے باوجود میرا جسم درد کرنے لگا ایک طالب علم نرس نے میری سسکیوں کی آواز سنی اور وہ میرے پاس آئی اس نے میرے اوپر سے کمبل کو پرے کیا اور میرے آنسو پونچھنے لگی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی بہت تنہا ہے اس نے مجھے کہا کہ وہ رات کا کھانا میرے ہمراہ کھائے گی۔ رات کو وہ کھانے کی دو ٹرے لیکر آئی اس میں آلو کی بجھیا۔ توس ابلے ہوئے انڈے، چٹنی اور آئس کریم تھی۔ وہ مجھ سے باتیں کر تی رہی اور اس طرح میرا خوف کافی کم ہوا۔ اس کی ڈیوٹی سہ پہر چار بجے ختم ہو جاتی تھی مگر اس کے باوجود وہ رات گئے میرے ساتھ رہتی۔ وہ میرے ساتھ کھیلتی اور باتیں کرتی رہی اور رات کو گیارہ بجے جب میں گہری نیند سو گیا تو وہ چلی گئی۔ ’’ میری زندگی میں اسی طرح کے بہت سے دن آئے، مگر اس طرح کا دن میں نے کوئی نہیں گزارا۔ جب کہ میں بہت زیادہ مایوس، خوفزدہ اور تنہا تھا اور اس کڑے وقت میں اس نرس نے اپنی ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود اپنا وقت میرے ساتھ گزارا۔ میرے ساتھ رات کا کھانا کھایا اور اس طرح میرا خوف، میری مایوسی اور تنہائی ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ میرے لئے بالکل اجنبی تھی مگر اس نے مجھے جو اپنائیت دی وہ میں اب تک نہیں بھول سکا۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کو پسند کریں۔ اگر آپ حقیقی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اگر آپ دوسروں کی اس وقت مدد کرنا چاہتے ہیں جس وقت خود آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو یہ اصول ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ ’’ دوسرے لوگوں میں پر خلوص دلچسپی لیں۔‘‘ ٭٭٭ باب دوئم پہلی ہی ملاقات میں اچھا تاثر قائم کرنے کا سادہ طریقہ نیویارک شہر کی ایک ڈنر پارٹی میں ایک مہمان خاتون جسے وراثت میں کافی دولت ملی تھی اس بات کی خواہشمند تھی کہ وہ ہر کسی سے ملتے وقت اس کو متاثر کرے۔ اس نے عمدہ لباس کے ساتھ مہنگے نہایت قیمتی زیورات بھی پہن رکھے تھے، لیکن اس کے چہرے پر اچھی قسم کے میک اپ کے باوجود شگفتگی نہیں تھی۔ اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ بلکہ اس پر خود غرضی کی واضح جھلک نظر آ رہی تھی اسے یہ بالکل علم نہ تھا کہ لوگ سب سے پہلے چہرے کو دیکھتے ہیں اور چہرے پر مسکراہٹ کا ہونا کس قدر ضروری ہے جبکہ اس کے برعکس اس کا خیال تھا کہ اس کا خوبصورت لباس اور قیمتی زیورات خود بخود لوگوں کو اس کی طرح متوجہ کرے گا اور اس طرح وہ ڈنر پارٹی میں موجود مہمانوں پر ایک اچھا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ چارلس شو اب نے ایک بار مجھے بتایا کہ اس کی مسکراہٹ کی قیمت دس لاکھ ڈالر ہے اور وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ شواب کی شخصیت اس کی سحر انگیز گفتگو اور لوگوں میں دلچسپی ظاہر کر کے ان سے خود اپنی ذات میں دلچسپی حاصل کرنا اس کا ہی خاصا تھا اور اس کی غیر معمولی کامیابی کا راز بھی یہی تھا اس کی پر اثر شخصیت میں سب سے بڑا عنصر اس کی خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات الفاظ سے زیادہ پر اثر ہوتے ہیں اور ہمارے چہرے کی مسکراہٹ دوسرے کو یہ باور کراتی ہے۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں آپ نے مجھے خوش کر دیا ہے میں آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کتے جنہیں ہم اپنے گھروں میں پالتے ہیں، ہمیں دیکھ کر اپنی دم بھی ہلاتے ہیں اور فوراً ہمارے پیروں میں لوٹ پوٹ ہونے لگتے ہیں اور ہم بھی انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ایک بچے کی مسکراہٹ کا بھی ایسا ہی اثر ہوتا ہے کیا آپ کبھی کسی ڈاکٹر کے ویٹنگ روم میں گئے ہیں۔ وہاں آپ نے بے شمار افسردہ قسم کے چہرے دیکھے ہونگے جو بڑی بے چینی کے ساتھ جانوروں کے ماہر ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں میسوری میں جانوروں کے علاج کے ایک مشہور ڈاکٹر سٹیفن نے مجھے بتایا کہ موسم بہار کے ایک دن اس کا کمرہ ایسے لوگوں سے بھرا ہوا تھا جو اپنے پالتو جانوروں کا معائنہ کرانے کے لئے لائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ کوئی بھی دوسرے سے گفتگو نہیں کر رہا تھا۔ وہ غالباً یہ سوچ رہے تھے کہ اتنی دیر سے ڈاکٹر کا انتظار کرنے کی بجائے ہم کوئی دوسرا ضروری کام کر سکتے تھے ڈاکٹر نے ہمارے کورس کے طلبہ کو بتایا۔ میرے کمرے میں تقریباً دس افراد بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے کہ جب ایک نوجوان عورت اپنے ایک سال کے بچے اور بلی کے چھوٹے بچے کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ بیٹھ گئی جو ڈاکٹر کا انتظار کر کے کافی بور ہو چکا تھا۔ نوجوان عورت کی گود میں بیٹھے ہوئے ننھے منے بچے نے مسکرا کر اس شخص کی طرف دیکھا اس شخص نے کیا کیا؟ وہی جو ایسے موقعوں پر آپ یا میں کرتا ہوں۔ وہ شخص بھی بچے کو دیکھ کر مسکرایا۔ جلد ہی اس نے نوجوان عورت کے ساتھ گفتگو کرنی شروع کر دی۔ اس نے عورت کے بچے اور اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کے بارے میں بات چیت کی اور اس کے بعد اس کمرے میں بیٹھے تمام لوگ اس گفتگو میں شریک ہو گئے جلد ہی بوریت اور انتظار کی بے چینی ختم ہو گئی اور سب ایک دوسرے سے ہنسی خوشی گفتگو کرنے لگے۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں خلوص نہ ہو۔ یا ایک زبردستی کی مسکراہٹ کسی شخص کو بے وقوف نہیں بنا سکتی۔ ہم ایسی مسکراہٹ کو پہچان لیتے ہیں۔ میں یہاں سچی مسکراہٹ کا ذکر کر رہا ہوں ایک ایسی مسکراہٹ جس میں گرم جوشی ہو۔ جس میں ہمارے دلی جذبات ظاہر ہو رہے ہوں۔ میں ایک اسی مسکراہٹ کا ذکر کر رہا ہوں۔ مشی گن یونیورسٹی میں نفسیات کے ایک پروفیسر جیمس مسکراہٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں۔ ’’ جو لوگ مسکراتے ہیں۔ اگر دفتر میں ہوں تو وہ ایک اچھے نگران اور منتظم ثابت ہو سکتے ہیں اگر وہ کوئی استاد ہیں تو طالب علم خوش رہتے ہیں اور اگر وہ سیلزمین ہیں تو وہ اپنی مصنوعات کو بڑی کامیابی کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں۔ چہرے پر تیوڑی کے بجائے مسکراہٹ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے پڑھاتے وقت سزا کے بجائے حوصلہ افزائی زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔‘‘ نیویارک کے ایک بہت بڑے سٹور کے منیجر نے مجھے بتایا کہ میں اپنے سٹور میں کام کرنے کے لیے کسی بھی ایسے شخص کو ترجیح دوں گی۔ جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہو خواہ اس نے میٹرک بھی نہ کیا ہو۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لیے ایک پی ایچ ڈی کو بھی ملازمت نہیں دے گی۔ مسکراہٹ کے اثرات بہت طاقت ور ہوتے ہیں حتیٰ کہ جب آپ مسکرا رہے ہوں اور کوئی آپ کو دیکھ نہ سکے پھر بھی اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں امریکہ بھر میں ٹیلی فون کمپنیاں ایک پروگرام کرتی ہیں اس پروگرام کا نام ’’ فون کی طاقت ہے۔‘‘ یہ پروگرام ان کاروباری اداروں کے لیے ہوتا ہے جو مصنوعات کی فروخت کے لیے ٹیلی فون کا سہارا لیتے ہیں۔ اس پروگرام میں انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ٹیلی فون پربات کرتے وقت مسکراتے رہیں کیونکہ آپ کی مسکراہٹ کا اندازہ دوسری طرف فون سننے والے کو آپ کی آواز سے ہوتا ہے۔ امریکہ کی ایک بہت بڑی کمپنی کے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رابرسٹ نے مجھے ایک بار بتایا کہ اس نے کسی طرح ایک بہترین ملازمت کے لیے ایک موزوں امیدوار کا انتخاب کیا اس کی زبانی سنیے۔ ’’ مجھے اپنے محکمے کے لیے ایک ایسے شخص کی سخت ضرورت تھی جس نے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کیا ہو بالآخر میں نے ایک نوجوان آدمی تلاش کر لیا۔ ٹیلی فون پر بہت سی ملاقاتوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس شخص کو بہت سی کمپنیوں کی طرف سے آفرز آ رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کمپنیاں ایسی تھیں جو میری کمپنی سے بھی بڑی تھیں۔ مجھے اس وقت بڑی خوشی ہوئی جب اس نے میری پیش کش قبول کر لی۔ جب اس نے ملازمت شروع کر دی تو ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے دوسری آفرز چھوڑ کر میری کمپنی میں ملازمت کیوں اختیار کی ہے۔ اس نے میری بات کو غور سے سنا اور اس نے جو جواب دیا وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ اس نے کہا کہ دوسری کمپنیوں کے منیجروں نے ٹیلی فون پر میرے ساتھ کاروباری انداز میں بڑی سرد مہری سے بات کی تھی۔ جس سے مجھے بہت افسوس ہوا کہ وہ صرف میری قابلیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ کی ٹیلی فون پر آواز سے مجھے یہ احساس ہوا کہ آپ مجھے کمپنی میں جگہ دے کر بہت خوش ہونگے۔ مجھے یوں لگا کہ جسے آپ مجھے اپنی کمپنی کا ایک حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ تم یقین رکھو میں اب بھی ٹیلی فون پر دوسروں سے مسکرا کر بات کرتا ہوں۔‘‘ امریکا کی ایک بہت بڑی ربڑ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین نے مجھے بتایا کہ میرے مشاہدے کی بات ہے کہ بہت کم لوگ کسی کام میں دلچسپی لیے بغیر اسے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس کا کہنا تھا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ صرف محنت ہی آپ کے لیے کامیابی کے دروازے کھولتی ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے کاروبار میں دلچسپی لے کر کامیابی حاصل کی۔ پھر میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ اب ان کی دلچسپی کام میں تبدیل ہو چکی تھی اور دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی تھی انہیں کاروبار میں نقصان ہونے لگا اور ان کی ساری دلچسپی ختم ہو گئی اور وہ ناکام ہو گئے۔ آپ ایسے لوگوں کی صحبت میں بہت اچھا وقت گزارتے ہیں جن کو آپ پسند کرتے ہیں اور جو آپ کو پسند کرتے ہیں۔ میں نے اپنے کورس میں شرکت کرنے والے ہزاروں کاروباری افراد سے یہ کہا کہ وہ ایک ہفتے تک اپنے کاروباری لین دین کے دوران ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائیں اور اس کے بعد کلاس میں آ کر اس کے نتائج سے آگاہ کریں اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ آیئے ہم دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ نیو یارک کے ایک اسٹاک بروک کا ایک خط میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔ ’’ میری شادی کو اٹھارہ برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں شاز و نازر ہی اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکرایا ہوں یا شاید ہی اس سے کوئی اتنی لمبی بات کی ہو جس کے الفاظ چوبیس سے زیادہ بنتے ہوں میں یہ اس وقت کا ذکر کر رہا ہوں جو صبح اٹھنے سے لے کر دفتر کے جانے تک کا ہے۔‘‘ ’’ آپ نے مجھے کہا ہے کہ مجھے ایک ہفتہ میں ہر ایک گھنٹے کے بعد مسکرانا چاہیے میں یہ تین ہفتے تک کرنے کو تیار تھا اس لیے اگلی صبح بالوں میں کنگھی کرتے وقت میں نے اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھا اور یوں مخاطب ہوا۔ بل آج سے تم مسکراؤ گے اور یہ کام تم ابھی شروع کرو گے۔ جب میں ناشتے کی میز پر بیٹھا تو میں نے اپنی بیوی کو گڈمارننگ کہا اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔‘‘ ’’ آپ نے مجھے خبردار کیا تھا کہ میری بیوی میری مسکراہٹ پر حیران ہو گی۔ لیکن آپ نے میری بیوی کے رد عمل کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔ میری بیوی ششدر رہ گئی۔ جیسے اسے کوئی سکتہ ہوا ہو لیکن میں نے جلد ہی اسے بتا دیا کہ اب تم ہر صبح باقاعدگی کے ساتھ میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھو گی۔ میرے رویے کی اس تبدیلی سے گھر میں پہلے سے زیادہ خوشیاں آ گئیں اب جب میں اپنے دفتر کے لیے گھر سے روانہ ہوتا ہوں تو میں اپنی بیوی کو مسکرا کر خدا حافظ کہتا ہوں۔ اپنے ڈرائیور کو گڈ مارننگ کہتا ہوں اپنے دفتر میں پہنچ کر گیٹ والے کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہوں اور دفتر میں موجود تمام لوگوں سے ہاتھ ملاتا ہوں اور جب میں سٹاک ایکسچینج کے فلور پر کھڑا ہوتا ہوں تو میں لوگوں کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہوں۔‘‘ ’’ جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ ہر شخص میری مسکراہٹ کا مسکراہٹ سے جواب دے رہا ہے۔ میں نے اپنے دفتر میں شکایات اور مسائل لے کر آنے والوں سے بھی مسکرا کر بات کرنا شروع کر دی۔ جب وہ اپنے مسائل یا شکایات بیان کرتے تو مجھے یوں محسوس ہوتا۔ کہ انہیں فوراً ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ مسکراہٹیں ہر روز میرے لیے ڈالروں کا ڈھیر لگا رہی ہیں۔‘‘ ’’ میرے کاروبار میں میرا ایک پارٹنر بھی ہے اس کا ایک کلرک ایک اچھا نوجوان آدمی ہے ایک دن میں نے اس کو بتایا کہ انسانی تعلقات کے بارے میں میرا نظریہ اب بدل گیا ہے۔ کلرک نے مجھے بتایا کہ جب میں پہلے دن اس کا پارٹنر بنا تھا۔ تو میں اسے ایک خوفناک شخص دکھائی دیا تھا اور اس نے حال ہی میں میرے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کیا ہے۔‘‘ ’’ میں نے اپنے کاروباری نظام سے نکتہ چینی کو نکال دیا۔ اب میں دوسروں کو ملامت کرنے کی بجائے ان کی تعریف کرتا ہوں میں نے یہ سوچنا بند کر دیا کہ میں کیا چاہتا ہوں اب میں دوسروں کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس تبدیلی نے میری زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اب میں مکمل طور پر ایک مختلف انسان ہوں۔ ایک خوش انسان ایک امیر انسان اور ایک ایسا انسان جس کے بہت زیادہ دوست ہیں اور جس کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاںہیں۔‘‘ آپ مسکرانا نہیں چاہتے۔ پھرکیا کریں؟ دو باتیں پہلی یہ زبردستی ہنسنے کی کوشش کرنا۔ اگر آپ اکیلے ہیں تو سینی بجائیں یا کوئی گانا گائیں اور یہ ظاہر کریں کہ آپ خوش ہیں سیٹی بجانا یا گانا گانا آپ کے خوش ہونے کی علامت ہے۔ اس بات کو نفسیات دان اور فلسفہ دان ولیم جیمس میں اس طرح بیان کرتا ہے۔ ’’ ہمارے عمل کے پیچھے ہمارے جذبات چھپے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے عمل اور جذبات ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ہم اپنے عمل کو جو کہ ہمارے بس میں ہوتا ہے کنٹرول کر کے ہم اپنے جذبات کو بھی اپنے کنٹرول میں لے سکتے ہیں اس لیے خوش ہونے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اٹھتے بیٹھتے خوش رہیں اور بات چیت کے دوران بھی مسکرائیں۔ جس سے دوسرے کو یہ محسوس ہو کہ آپ اس سے بات کر کے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ اس دنیا میں ہر شخص خوشی کا متلاشی ہے اور اسے حاصل کرنے کا ایک بہترین اور یقینی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے خیالات پر قابو پائیں خوشیوں کا تعلق بیرونی حالات سے نہیں ہوتا بلکہ یہ ہمارے اندرونی حالات سے جنم لیتی ہیں۔ ’’ خوشی یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس کیا ہے یا آپ کیا ہیں۔ مثال کے طور پر دو شخص ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں ایک ہی قسم کا کام کرتے ہوں ایک ہی جتنی تنخواہ لیتے ہوں لیکن ان میں سے بھی ایک خوش ہو سکتا ہے اور دوسرا ناخوش۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف دونوں کا ذہنی رویہ ہے۔ میں نے سخت محنت کرنے والے غریب کسانوں کو چلچلاتی دھوپ میں بھی خوش دیکھا ہے جبکہ اس کے برعکس نیویارک شکاگو اور لاس ایٹمبلی میں بڑے بڑے دفتروں کے ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے بڑے بڑے کاروباری افراد کو پریشان دیکھا ہے۔ شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ دنیا میں اچھائی یا برائی نہیں ہے یہ ہماری سوچ ہے جو اچھائی یا برائی کو جنم دیتی ہے ابراہام لنکن نے ایک بار کہا کہ بہت سے لوگ اتنا ہی خوش ہوتے ہیں جتنا کہ ان کا ذہن خوش ہوتا ہے اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ میں نے اس کا ایک واضح نمونہ دیکھا جب میں نیویارک کے ریڈیو سٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ بالکل میرے سامنے چالیس کے قریب لنگڑے بچے بیساکھیوں کی مدد سے سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر خوشی اور مسرت کو دیکھ رک حیران ہو گیا میں نے ان لڑکوں کے انچارج سے پوچھا۔۔۔۔۔ تو اس نے مجھے بتایا‘‘ جب ایک لڑکے کو پہلی بار یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عمر بھر کے لیے لنگڑا ہو رہا ہے تو اسے شروع میں بہت دکھ ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے دکھ کو بھول جاتا ہے تو وہ اپنی معذری سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور پھر وہ ساری عمر ہنسی خوشی گزار دیتا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ لڑکے واقعی داد و تحسین کے مستحق ہیں انہوں نے مجھے ایک سبق دیا ہے جو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ کسی دفتر کے ایک بندے کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے سے نہ صرف تنہائی کا احساس ہوتا ہے بلکہ اس سے ہمیں یہ بھی موقع نہیں ملتا کہ ہم دوسروں کو دوست بنا لیں۔ میکسیکو کی سینورا ماریہ ایسی ہی ایک ملازمت کرتی تھی۔ وہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں کی گفتگو اور قہقہے سنتی تو اسے بڑا رشک ہوتا وقت گزرتا گیا وہ یہی توقع کرتی رہی کہ دوسرے لوگ میرے پاس آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ چند ہفتوں کے بعد اس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’ ماریہ تمہیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ لوگ تمہارے پاس آئیں۔ تمہیں خود باہر جا کر ان سے ملنا چاہیے۔‘‘ اگلی دفعہ وہ پانی پینے کے لئے خود باہر لگے واٹر کولر تک گئی اور اس نے ہال میں موجود ہر فرد سے فرداً فرداً ہیلو کیا۔ اور اس دوران اس کے چہرے پر مسکراہٹ بدستور رہی۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ عملے کے افراد نے بھی مسکراہٹ سے اور ہیلو کا جواب ہیلو سے دیا۔ اس طرح اس کی تنہائی بھی دور ہو گئی اور اسے دفتر کے بعض افراد سے شناسائی بھی ہو گئی اور یہی شناسائی بہت اچھی دوستی میں بھی بدل گئی۔ اس کی ملازمت اور زندگی پہلے سے زیادہ خوشگوار اور دلچسپ ہو گئی اور وہ پہلے سے زیادہ خوش رہنے لگی۔ ایلبرٹ ہبررڈ کا یہ مشورہ بہت ہی کار آمد ہے مگر ایک بات یاد رکھیں کہ آپ اس سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک آپ اسے نہ کریں۔ جب بھی آپ کبھی باہر جائیں اپنی ٹھوڑی کو اندر کی طرف رکھیں سر کو اونچا رکھیں اور پھیپھڑوں کو پھلا کر رکھیں سورج کی روشنی میں کھائیں پئیں اپنے دوستوں کو ایک پر خلوص مسکراہٹ سے ملیں۔ اس بات سے بالکل خوفزدہ نہ ہوں کہ آپ کی باتوں کو غلط سمجھا جائے گا اور اپنے دشمنوں کے بارے میں ایک منٹ بھی سوچنے میں وقت ضائع نہ کریں۔ اپنے ذہن میں مضبوطی سے یہ ٹھان لیں کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور پھر بغیر کسی مشکل کے آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے اپنے ذہن کو عظیم اور شاندار چیزوں پر مرکوز رکھیں جنہیں آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر جوں جوں دن گزرتے جائیں گے۔ آپ لاشعوری طور پر اپنے اندر یہ محسوس کریں کہ آپ میں ان چیزوں کو حاصل کرنے کی صلاحیتیں اور آپ کیلئے ایسے مواقع بھی موجود ہیں۔ اپنے ذہن میں ایسے ذہین اور بہترین انسان کا خاکہ رکھیں جو آپ بننا چاہتے ہیں اور آپ کے خیالات ہر گھنٹے بعد آپ کو اس انسان کے روپ میں ڈھالتے جائیں گے۔ سوچ سب سے برتر چیز ہے صرف اپنا ذہنی رویہ درست رکھیں۔ آپ کے اندر جرأت بیباکی اور بشاشت ہونی چاہیے۔ صحیح سوچنے کا مطلب تخلیق ہوتا ہے۔ ہر چیز خواہش سے اور خلوص بھری دعاؤں سے حاصل ہوتی ہے۔ چین کے قدیم باشندے بہت عقلمند تھے۔ ان کی ایک ضرب المثل تھی۔ ’’ ایک ایسا شخص جس کے چہرے پر مسکراہٹ نہ ہو اسے دکانداری نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ آپ کے چہرے کی مسکراہٹ آپ کے خیر سگالی جذبے کا پیغام دیتی ہے۔ آپ کی مسکراہٹ ان سب کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیر دیتی ہے جو اسے دیکھتے ہیں ان کیلئے جو اس مسکراہٹ سے قبل لوگوں کے چہروں پر خفگی یا تیوریاں دیکھ چکے ہوں۔ یہ اس سورج کی کھلی ہوئی کرنوں کا کام دیتی ہے جو کئی دن تک موسم ابر آلود ہونے کے بعد اچانک نکلی ہوں خاص طور پر اس وقت جب کوئی اپنے افسر کی طرف سے سخت دباؤ میں ہوں تو ایک خوشگوار مسکراہٹ اس کو یہ احساس دلاتی ہے کہ ہر طرف نا امیدی نہیں ہے اس دنیا میں خوشی بھی ہے۔ چند برس قبل نیو یارک کے ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور نے اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ کرسمس کے موقعہ پر زبردست خریداری کے باعث اس کی سیلز کلرک بہت دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ ایک پمفلٹ اپنے گاہکوں کو دیا۔ جو ہم یہاں آپ کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ’’ کرسمس کے موقعہ پر مسکراہٹ کی قدر و قیمت ‘‘ ۱۔ اس کی قیمت نہیں ہے مگر یہ بہت زیادہ اچھا اثر ڈالتی ہے۔ ۲۔ یہ ان لوگوں کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے جو اسے دیکھتے ہیں۔ ۳۔ یہ اگرچہ صرف چند سیکنڈ کیلئے ہوتی ہے مگر اس کا اثر بعض اوقات دیر تک رہتا ہے۔ ۴۔ جو شخص مسکرانا نہیں جانتا وہ اپنے آپ کو مفلس تصور کرے اور جو مسکرانا جانتا ہے وہ مفلس نہیں ہے۔ ۵۔ مسکراہٹ سے گھر میں خوشی رہتی ہے کاروبار میں خیر سگالی کا جذبہ ابھرتا ہے اور اس سے دوستی کا آغاز ہوتا ہے۔ ۶۔ یہ پریشانی اور تھکاؤٹ میں آرام بہم پہنچاتی ہے مایوس لوگوں کیلئے دن کا اجالا بنتی ہے دکھی لوگوں کیلئے سورج کی کرنوں کا کام دیتی ہے۔ اور تکلیف کے وقت میں یہ قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔ ۷۔ اسے کوئی نہیں خرید سکتا ادھار نہیں مانگ سکتا۔ چرا نہیںسکتا کیونکہ یہ خلوص بھری مسکراہٹ آپ کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ ۸۔ اور اگر کرسمس کی خریداری کے آخری لمحات میں ہمارے سیلز کاؤنٹر کے بعض افراد شدید تھکن کے باعث آپ کی طرف مسکرا کر نہ دیکھ سکیں تو کیا ہم آپ سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ آپ ان کی طرف مسکرا کر دیکھیں گے۔ ۹۔ کیونکہ ان سے زیادہ کسی کو مسکراہٹ کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی جن کے پاس کسی کو دینے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں ہوتا۔ دوسرا اصول مسکرائیں ٭٭٭ باب سوئم اگر آپ ایسا نہیں کریں گے آپ اپنے لیے تکلیف پیدا کرینگے ۱۸۹۸ء میں نیویارک کی راک لینڈ کاؤنٹی میں ایک بڑا المناک واقعہ رونما ہوا ایک بچہ فوت ہو گیا تھا اور اس رو زہمسائے اس کی تدفین کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یہ جم فارلے تھا جو باہر میدان میں اپنے گھوڑے کو دیکھنے کے لئے گیا تھا۔ زمین برف سے ڈھکی ہوئی تھی اور یخ ہوا چل رہی تھی گھوڑے نے کافی دنوں سے ورزش یعنی چہل قدمی نہیں کی تھی۔ جونہی یہ بچہ گھوڑے کے قریب پہنچا اس نے اپنے دونوں پچھلے پاؤں ہوا میں اچھالے اور جم کو مار ڈالا۔ اس طرح اس دن راک لینڈ سے ایک نہیں دو جنازے اٹھے جم فارے لواحقین میں ایک بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے تھے اس کے علاوہ انشورنس کے چند سو ڈالر تھے۔ اس کا سب سے بڑا بیٹا جم دس برس کا تھا جسے اس چھوٹی سی عمر میں ایک اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنا پڑا۔ یہ بچہ کبھی بھی تعلیم حاصل نہیں کر سکا مگر اپنی مخصوص اور قدرتی ذہانت کے باعث لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے میں ماہر تھا۔ لہٰذا جوان ہونے پر وہ سیاست میں آ گیا اور سال گزرتے رہے اس دوران اس کی یادداشت اس قدر تیز ہو گئی کہ اسے ہر ملنے والے کا نام یاد ہو جاتا۔ وہ کبھی بھی ہائی سکول نہیں گیا تھا۔ مگر چھیالیس برس کی عمر میں چار کالج اسے اعزازی ڈگریوں سے نواز چکے تھے اور وہ ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کا چیئرمین اور امریکہ کا پوسٹ ماسٹر جنرل بن چکا تھا۔ میں نے ایک بار جم فارے سے ملاقات کی اور اس سے اس کی کامیابی کاراز معلوم کیا اس نے جواب دیا ’’ سخت محنت‘‘ میں نے کہا کہ ’’ مذاق نہ کرو‘‘ اس پر اس نے مجھ سے پوچھا ’’ تم بتاؤ کہ پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔’’ تم دس ہزار آدمیوں کے نام پکارنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔‘‘ نہیں یہ غلط ہے اس نے جواب دیا ’’ میں پچاس ہزار افراد کے نام ان کے چہرے دیکھ کر بتا سکتا ہوں اور اس میں ایک بھی غلط نہیں ہو گا اس کی اس قابلیت نے فرینکلن روز ویلٹ کو ۱۹۳۴ء میں وائٹ ہاؤس پہنچانے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا۔ ان برسوں میں جم فارلے جپسم تیار کرنے والی ایک کمپنی کے سیلزمین کی حیثیت سے مختلف شہروں کا دورہ کیا کرتا تھا۔ اس نے سٹوئی پوائنٹ میں بھی کچھ دیر کیلئے رہائش رکھی تھی۔ وہاں اس نے لوگوں کے نام یاد رکھنے کا طریقہ دریافت کیا۔ شروع میں یہ بہت سادہ تھا جب کبھی وہ کسی نئے ملنے والے کو ملتا۔ وہ اس کے بارے میں کچھ حقائق ضرور معلوم کرتا اس کا خاندان اس کا کاروبار اور اس کے سیاسی خیالات وغیرہ وہ شروع میں ان تمام خیالات اور حقائق کو اپنی ڈائری میں لکھ لیتا اور دوسری بار جب وہ اس شخص کو ملتا خواہ وہ ایک سال بعد ہی کیوں نہ ملے۔ وہ اس شخص سے ہاتھ ملا کر اس کے گھر والوں کی خیریت ضرور دریافت کرتا۔‘‘ روز ویلٹ کی صدارتی مہم شروع ہونے سے چند ماہ پہلے جم فارلے نے ہر روز سینکڑوں خطوط شمالی اور مغربی امریکہ میں ان لوگوں کو لکھے جنہیں وہ جانتا تھا۔ تب وہ ایک ٹرین پر سوار ہوا اور انہیں دنوں میں اس نے بیس ریاستوں میں تقریباً بارہ ہزار میل کا سفر کیا ۔ وہ ہر قصبے میں رکتا اور لوگوں سے ناشتے یا دوپہر کے کھانے پر ملاقات کرتا اوران سے گفتگو کرتا اور انہیں روز ویلٹ کیلئے ووٹ دینے کی اپیل کرتا۔ وہ واپس اپنے گھر آ کر اپنے انیس روزہ دوسرے کے دوران بیس ریاستوں میں ملنے والے ایک ایک فرد کو خط لکھتا اور ان سے کہتا کہ وہ ان افراد کی فہرست اسے بھیجیں جن سے وہ اس دوران ان کے ہمراہ ملا تھا جب سب طرف سے فہرستیں آ جاتیں تو وہ ان کی ایک حتمی فہرست تیار کرتا اور پھر ان سب کو فرداً فرداً خط لکھتا۔ جم فارلے نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی یہ راز پا لیا تھا کہ ایک اوسط درجے کا آدمید وسروں سے زیادہ اپنے نام میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کا نام یاد کرو اور اسے مخاطب کرو۔ اور دیکھیں کہ اس پر کتنا خوشگوار اثر ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کا نام بھول گئے یا اسے غلط نام سے پکار لیا تو آپ سراسر خسارے میں رہیں گے۔ مثال کے طور پر میں نے ایک بار پیرس میں ایک کورس کا انعقاد کیا۔ یہ ’’پبلک پیسکنگ‘‘ کے موضوع پر تھا اور اس کورس میں شرکت کرنے کیلئے میں نے پیرس میں رہنے والے تمام امریکی شہریوں کو دعوت دی۔ ان ناموں کی فہرست کو ٹائپ کرنے والا ٹائپسٹ فرنچ تھا اور اس نے ان امریکی شہریوں کے نام ٹائپ کرنے میں ہجوں کی بے شمار غلطیاں کیں۔ پیرس میں ایک امریکی بینک کے مینجر نے مجھے ایک سخت قسم کا خط لکھا جس میں اس نے اپنا نام غلط لکھنے کی شکایت کی تھی۔ بعض اوقات کوئی نام یاد رکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب اسے ادا کرنا مشکل ہو۔ بہت سے لوگ اسے یاد رکھنے کی بجائے نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر اسے کسی سادہ سے عرف نام سے پکارتے ہیں۔ سڈلیوی ایک گاہک کے پاس گیا۔ جس کا نام نکوڈیمس پاپا ڈولس تھا۔ بہت سے لوگ اسے تک کہہ کر پکارتے تھے لیوی نے مجھے بتایا کہ اس نے یہ نام یاد کرنے کی خصوصی مشق کی اور اس کے بعد جب میں نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے اس کا پورا نام بلایا تو وہ حیران ہو گیا او روہ کئی منٹ تک بالکل بات نہیں کر سکا۔ اس کے بعد اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو لئے مجھے کہا ’’ مسٹر لیوی میں گذشتہ پندرہ برسوں سے اس ملک میں رہ رہا ہوں۔ کسی نے مجھے میرے مکمل نام سے پکارنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘ اینڈریو کارنیگی کی کامیابی کی کیا وجوہات تھیں؟ اسے ’’ سٹیل کنگ‘‘ کہا جاتا تھا مگر خود اسے سٹیل کی تیاری کے بارے میں بہت کم علم تھا سینکڑوں افراد اس کے کارخانے میں کام کر رہے تھے اور وہ سب سٹیل کی تیاری کے بارے میں اینڈریو سے بہت زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ لیکن وہ لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر جانتا تھا اور اس وجہ سے اس نے بے پناہ دولت کمائی۔ ابتدائی زندگی میں ہی اس کی زندگی میں تنظیم کا عنصر غالب تھا۔ اس میں قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ جب وہ دس برس کا ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ لوگ کس طرح اپنے نام کو اہمیت دیتے ہیں اور اس نے اس دریافت سے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ چھوٹی عمر میں سکاٹ لینڈ میں تھا۔ اس کے پاس ایک مادہ خرگوش تھی جلد ہی اس کے پاس کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہو گئے۔ لیکن اس کے پاس ان کی خوراک کے لئے کچھ نہیں تھا لیکن اس کے ذہن میں ایک شاندار خیال آیا۔ اس نے اپنے ہمسائے میں چھوٹے بچوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ اگر وہ ان خرگوشوں کے کھانے کیلئے کچھ کھانے کو لا دیا کریں گے تو میں ان کے ناموں پر ان خرگوشوں کے نام رکھ دوں گا۔ اس کی یہ سکیم بڑی کارگر ثابت ہوئی اور وہ اسے زندگی بھر نہیں بھولا۔ اس نے لاکھوں ڈالر کمائے۔ مثال کے طور پر وہ پنسلوینا ریل روڈ کو سٹیل ریل فروخت کرنا چاہتا تھا پنسلوینا ریل روڈ کا صدر ایڈگر تھامن تھا اینڈریو کارنیگی نے پیٹس برگ میں ایک بڑی سٹیل مل قائم کی اور اس کا نام ’’ایڈگر تھامسن سٹیل ورکس‘‘ رکھا۔ میں آپ کیلئے ایک پہیلی پیش کر رہا ہوں۔ دیکھیں کہ آپ اسے جان سکتے ہیں۔ جب پنسلونیا ریل روڈ کو سٹیل ریل کی ضرورت ہے آپ کے خیال میں ایڈگر تھامسن اسے کہاں سے خریدتا تھا۔ میٹرز رڈ بک ؟ نہیں آپ کا اندازہ غلط ہے دوبارہ اندازہ لگائیں۔ جب اینڈریو کارنیگی اور جارج پل مین سٹیل کے بے تاج بادشاہ بننے کی دوڑ میں ایک دوسرے کے ساتھ سخت مقابلہ کر رہے تھے۔ تو سٹیل کنگ کارنیگی کو خرگوش والی ترکیب یاد تھی۔ سنٹرل ٹرانسپورٹیشن کمپنی جسے کارنیگی چلاتا تھا جارج پل مین کی کمپنی سے مقابلہ کر رہی تھی۔ دونوں کمپنیاں یونین پیسفک ریل روڈ کی طرف سے سیلپنگ کاروں کا بزنس لینا چا رہے تھے دونوں اپنا منافع کم سے کم کرنے کیلئے بھی تیار تھے۔ کارنیکی اور پل مین دونوں نیویارک میں یونین پیسفک ریل روڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ملنے گئے۔ سینٹ نکولس ہوٹل میں ایک شام کو ہونے والی ملاقات میں جارج پل مین سے کارنیگی نے کہا ’’ کیا ہم دونوں کچھ احمقانہ حرکا ت نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ پل مین نے پلٹ کر پوچھا کیا مطلب ہے تمہارا؟ پھر کارنیگی نے اسے بتایا کہ اس کے ذہن میں کیا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ دونوں کے مفادات کا اشتراک چاہتا ہے اور اس نے اس کے لئے باقاعدہ شرائط نامہ تک پل مین کو دکھایا کہ جس کی رو سے دونوں کے درمیان اشتراک عمل طے پاتا اور وہ ایک دوسرے کے مفاد کے خلاف کام نہ کرتے۔ پل مین نے اس کی آفر کو بڑے غور سے سنا اور قائل ہو گیا۔ا ٓخر کار اس نے پوچھا کہ تم نئی کمپنی کا کیا نام رکھو گے؟ تو کارنیگی نے فوراً جواب دیا ’’ پل مین پیلس کار کمپنی‘‘ یہ سنتے ہی پل مین کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور اس نے کارنیگی کو اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہاں پر بیٹھ کر مزید بات چیت کر سکیں یہ بات چیت امریکہ کی صنعتی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اپنے دوستوں اور کاروباری پارٹنر کا نام یاد رکھنا اور انہیں عزت دینے کی پالیسی اینڈرویو کارنیگی کی لیڈر شپ کا راستہ اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ اپنی فیکٹری میں کام کرنے والے سینکڑوں کارکنوں کے نام ان کے چہرے دیکھ کر بتا سکتا ہے اور اس کا دعویٰ تھا کہ جب وہ ذاتی طور پر اپنی مل کی نگرانی کرے تو اس میں کوئی ہڑتال بھی نہیں ہو سکتی۔ ٹکساس کامرس کے چیئرمین بینٹن کو یقین تھا کہ جتنا زیادہ تعاون کیا جائے اس میں گرمجوشی نہیں رہتی اور گرمجوشی کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم لوگوں کے نام یاد رکھیں وہ افسر جو یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے دفتر میں کام کرنے والوں کے نام یاد نہیں رکھ سکتا وہ کوئی بہت ہی ضروری کاروباری نکتے کو بھی یاد نہیں رکھ سکتا۔ کیلی فورنیا کی کیرن نے جو ٹی ڈبلیو اے میں فلائٹ سٹوارڈ تھی نے اپنی یہ عادت بنا رکھی تھی کہ وہ جہاز میں بیٹھنے والے تمام مسافروں کے نام یاد کر لیا کرتی تھی اس طرح سروس کے دوران اسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ جہاز میں سفر کرنے والے بہت سے مسافر اسے اور فضائی کمپنی کے نام تعریفی خطوط لکھا کرتے تھے ایک مسافر نے لکھا کہ ’’ میں نے کافی عرصے ٹی ڈبلیو اسے میں سفر نہیں کیا۔ اب میں ۱۴ دسمبر کو شکاگو سے لاس ویگاس جانا ‘‘ چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اس دن جہاز پر کرن کی ڈیوٹی ہو اور میرے لیے یہی بات اہم ہے۔ لوگ اپنے ناموں کے بارے میں اتنے پراؤڈ ہوتے ہیں کہ وہ انہیں ہر قیمت پر نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں حتیٰ کہ اپنے وقت کا سب سے عظیم شومین بوڑھا پی ٹی برنم مایوس ہو گیا کیونکہ اس کا کوئی بیٹا زندہ نہیں تھا۔ جو اس کا نام زندہ رکھ سکتا۔ اس نے اپنے پوتے سی ایچ شیلے کو پیش کش کی کہ وہ اپنا نام اگر برنم شیلے رکھے تو وہ اسے پچیس ہزار ڈالر دے گا۔ کئی صدیوں سے شرفاء اور ارب پتی لوگوں نے آرٹسٹوں موسیکاروں اور مصنفوں کی ہمیشہ حمایت کی تاکہ وہ اپنے فن میں انہیں ضرور یاد رکھیں۔ عجائب گھروں اور لائبریریوں میں ایسے لوگوں کی بے شمار کتابیں موجود ہیں جن کی یہ خواہش تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا نام نہ مٹے نیویارک پبلک لائبریری میں آسٹر اور لسی نوکوس کی بے شمار کتابیں ہیں، میٹروپولیٹن عجائب گھر میں بنجمن اور مورگن کے نام موجود ہیں اور تقریباً ہر گرجا گھر میں ایسے لوگوں کے نام لکھے ہوئے ہیں جنہوں نے اس گرجا گھر کو کبھی نہ کبھی کوئی فنڈ دیا ہو امریکی یونیورسٹیوں کی بہت سی عمارتوں پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوتے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کو چلانے کے لیے چندہ دیا تھا۔ بہت سے لوگ نام یاد نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ ان کے پاس اتنی فرصت ہے اور نہ وہ یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ وہ انہیں یاد رکھیں۔ ذرا سا احساس دلانے پر وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں لیکن وہ کسی طرح سے بھی فرنیکلن ڈی روز ویلٹ سے زیادہ مصروف نہیں ہو سکتے۔ روز ویلٹ اس کے باوجود اپنے ہر ملنے والے کا نام یاد رکھتا تھا۔ ہم اس کو مزید واضع کرتے ہیں۔ جیرئپلر ادارے نے روز ویلٹ کے لیے ایک مخصوص قسم کی کار بنائی۔ کیونکہ وہ اپنی ناکارہ ٹانگوں کے باعث عام کار استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ ڈبلیو ایف چیمبر لین اور ایک مکینک نے یہ کار وائٹ ہاؤس پہنچائی۔ میں یہاں آپ کو چیمبرلین کے خط کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ ’’ میں نے صدر روز ویلٹ کو سکھایا کہ وہ اس کار کو کس طرح چلایا جا سکتا ہے مگر انہوں نے مجھے اس فن کے بارے میں بہت کچھ بتایا کہ لوگوں کے ساتھ لین دین کیسے کیا جا سکتا ہے ان سے تعلقات کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ جب میں وائٹ ہاؤس پہنچا تو میں نے صدر کو انتہائی خوشگوار اور اچھے موڈ میں دیکھا۔ا نہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ جو انہیں ٹیلی فون پر بتایا گیا تھا کہ چیمبرلین اپنے مکینک شیفررڈ کے ساتھ انہیں کار دینے کیلئے آئے گا۔ مجھے ان کے منہ سے اپنا سن کر خوشگوار حیرت ہوئی اوریہ حقیقت جان کر بھی مجھے خوشی ہوئی کہ صدر صاحب مجھ سے کچھ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ کار ایسی بنائی گئی تھی کہ آپ اسے صرف ہاتھوں کی مدد سے چلا سکتے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں رہنے والے ملازمین کا ایک ہجوم اس کار کو دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ اور صدر نے کہا ’’ میرا خیال ہے کہ یہ کار بے حد شاندار ہے آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ بٹن کو دبانا ہے۔ اور پھر یہ خود ہی چلنے لگے گی اور آپ اسے بغیر کسی کوشش سے چلا سکتے ہیں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کیسے تیار کی گئی ہے۔ اگر میرے پاس وقت ہوتا تو میں اس کا پرزہ پرزہ الگ کروں اور دیکھوں گا کہ یہ ‘‘ کیسے تیار کی گئی ہے۔‘‘ جب روز ویلٹ کے دوست احباب نے کار کی تعریف کی تو انہوں نے ان کی موجودگی میں کہا میئر چیمبرلین کو اس کار کی تیاری میں ان کی کوششوں اور ہمت کی تعریف کرتا ہوں انہوں نے کار کے ریڈی ایٹر کی تعریف کی۔ ونڈ سکرین اور کار کے اندر لگی ہوئی گھڑی کی تعریف کی۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے کار میں مہیا کی گئی ہر سہولت کے بارے میں تعریف کی انہوں نے مجھے کہا کہ میں اس کار کے بہت سے فائدوں کے بارے میں ان کی اہلیہ اور وزیر محنت مس پرکنز کو ضرور بتائے۔ جب میں صدر کو کار کی ڈرائیونگ کے بارے میں تمام باتیں بتا چکا تو وہ میری طرف مڑے اور کہا مسٹر چیمبرلین فیڈرل ریزرو بورڈ گزشتہ تیس منٹ سے میرا انتظار کر رہا ہے میرا خیال ہے کہ اب مجھے زیادہ انتظار نہیں کرانا چاہیے۔ ’’ میں واپس آ گیا اور چند دنوں بعد مکینک کو لے کر وائٹ ہاؤس پہنچا اور صدر سے مکینک کا تعارف کرایا۔ اس نے کبھی صدر سے ملاقات نہیں کی تھی اور صدر نے صرف ایک بار اس کا نام سنا تھا۔ مکینک ایک شرمیلا سا انسان تھا اور زیادہ تر خاموش رہا ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو صدر نے مکینک سے ہاتھ ملایا اسے اس کے نام سے بلایا اور اس کا وائٹ ہاؤس آنے پر شکریہ ادا کیا۔‘‘ ’’ نیو یارک واپس آنے کے چند دنوں بعد مجھے روز ویلٹ کے آٹو گراف والی ایک تصویر موصول ہوئی اس کے ساتھ ہی ایک تعریفی خط تھا جس میں صدر نے انہیں کار چلانا سکھانے کے بارے میں میری محنت کی تعریف کی گئی تھی صدر کو یہ سب کرنے کا کس طرح وقت ملا میں ابھی تک یہ نہیں جان سکا۔‘‘ فرینکلن ڈی روز ویلٹ جانتے تھے کہ خیر سگالی حاصل کرنے کیلئے سب سے اہم واضح اور سادہ طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے نام یاد رکھیں اور انہیں اہمیت دیں۔ مگر ہم میں سے کتنے ایسا کرتے ہیں؟ ہمیں کسی اجنبی سے متعارف ہونے میں آدھا وقت لگتا ہے۔ ہم چند منٹ تک گفتگو کرتے ہیں اور بعد میں ہمیں ان کا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ ایک سیاستدان جو سب سے پہلا سبق سیکھ لیتا ہے وہ اپنے ساتھیوں کا نام یاد رکھتا ہے۔ اور نام یاد رکھنے کی قابلیت سماجی رابطوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رابطوں کو استوار کرنے میں بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین تھرڈ جو نپولین بونا پارٹ کا بھتیجا تھا۔ ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا تھا کہ وہ اپنی شاہی ذمہ داریوں کے باوجود خود سے ملنے والے ہر شخص کا نام یاد رکھ سکتا ہے اس کا طریقہ کار بہت سادہ تھا۔ اگر وہ کسی کا نام صحیح طرح سے نہ سن سکتا تو وہ معذرت کے ساتھ کہہ دیتا کہ ایک بار پھر اپنا نام بتائیں اور اگر یہ ایک غیر عام سا نام ہوتا تو وہ بڑی بے تکلفی سے پوچھ لیتا کہ اس کے ہجے کیا ہیں۔ بات چیت کے دوران وہ دوسرے شخص کا نام بار بار لیتا اور اسے اپنے ذہن میں اتارنے کی کوشش کرتا۔ اگر دوسرا شخص کوئی اہم شخصیت ہوتا تو نپولین اور زیادہ احتیاط کرتا جب بھی نپولین اکیلا ہوتا وہ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر نام لکھتا۔ اسے غور سے پڑھتا اور پھر جب یہ ذہن نشین ہو جاتا تو کاغذ کو پھاڑ دیتا۔ اس طرح وہ نام اس کی ذہن کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی سما جاتا۔ ایمرسن کے خیال میں یہ سب کچھ کرنے میں وقت تو لگتا ہے۔ مگر اس سے ہمیں آداب کے طور طریقے آ جاتے ہیں۔ جس کیلئے بہر حال وقت کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ نام یاد رکھنے کی اہمیت صرف بادشاہوں یا اعلیٰ عہدوں پر فائز بڑی بڑی شخصیتوں کا ہی استحقاق نہیں ہے ایسا ہر کوئی کر سکتا ہے انڈیانا میں جنرل موٹرز کا ایک ملازم کین نوٹنگھم عام طور پر دوپہر کا کھانا کمپنی کے کیفے ٹیریا میں کھایا کرتا تھا اس نے محسوس کیا کہ کاؤنٹر پر کام کرنے والی عورت کے چہرے پر ہر وقت خفگی کے تاثرات رہتے ہیں وہ پچھلے دو گھنٹوں سے سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ مجھے بھی ایک سینڈوچ بنا دو اس نے ہنٹر بیف کو کاٹا اور پھر مجھے سلاد کا ایک ٹکرا دیا۔ کچھ آلو کے چپس اور سلائس دیئے۔ اگلی صبح میں پھر اسی طرح اس عورت کے پاس گیا۔ اس کے چہرے پر اسی طرح کے خفگی کے تاثرات تھے صرف ایک ہی فرق مجھے محسوس ہوا کہ اس نے اپنی قمیض پر اپنے نام کا ٹیک لگایا ہوا تھا۔ میں اسے دیکھ کر مسکراہا اور اسے ہیلو اینی کہہ کر بلایا اور پھر اسے بتایا کہ مجھے ایک سینڈوچ چاہیے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہنٹر بیف کو تولنا بھول گئی مجھے سلاد کے تین ٹکڑے دیئے آلو کے چپس کا ڈھیر لگا دیا اور مجھے ایک صاف ستھری پلیٹ میں ٹماٹر کی چٹنی کے ساتھ پیش کیا۔ ہمیں نام یاد رکھنے کی قابلیت کے اندر چھپے ہوئے راز سے آگاہ ہونا چاہیے کہ صرف یہی ایک چیز اس شخص کی مکمل طور پر ملکیت ہے جس سے ہم بات کر رہے ہیں۔ نام پکارنے سے دو افراد کے درمیان اجنبیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے بوریت محسوس نہیں کرتے۔ یاد رکھیں کہ ایک ویٹرس سے لے کر سینئر ایگزیکٹو تک کو نام سے بلانا ایک ایسی کشش رکھتا ہے کہ جس سے ہم ایک دوسرے سے اجنبیت محسوس نہیں کرتے۔ تیسرا اصول ’’ یاد رکھیں کہ کسی شخص کو اس کا نام لیکر بلانا اس کے لیے ایک بہت ہی مٹھاس بھری اہمیت کا احساس ہے۔‘‘ ٭٭٭ باب چہارم بات چیت میں مہارت حاصل کرنے کا آسان طریقہ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک برج پارٹی میں شرکت کی جہاں ایک عورت بھی تھی جو برج کھیلنا نہیں جانتی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی لاول تھامس کی منیجر تھی اور میں نے اس کے ہمراہ یورپ کا دورہ کیا اور اس دوران سفری بات چیت کے موضوع پر بہت سے لیکچر تیار کرنے میں اس کی بڑی مدد کی۔ اس کے بعد اس عورت نے کہا ’’ مسٹر ڈیل کارنیگی مجھے آپ ان تمام خوبصورت جگہوں کے بارے میں بتائیں جہاں آپ جا چکے ہیں اور جنہیں آپ دیکھ چکے ہیں۔‘‘ جونہی ہم گفتگو کرنے کیلئے صوفے پر بیٹھے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ حال ہی میں افریقہ کی سیر سے واپس آئی ہے میں نے خوش ہو کر کہا ’’ افریقہ کیا بات ہے۔‘‘ میں ہمیشہ افریقہ دیکھنا چاہتا ہوں مگر میں سوائے ایک بار چوبیس گھنٹے الجزائر میں ٹھہرنے کے اور کہیں نہیں جا سکا۔ مجھے اس کے بارے میں بتائیں ہاں کس قدر خوش قسمتی کی بات ہے میرے لئے وہ پنتالیس منٹ تک گفتگو کرتی رہی اور اس نے مجھ سے بالکل نہیں پوچھا کہ میں نے کونسی جگہیں دیکھی ہیں کیونکہ اب اسے اس سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ اپنی سنا رہی تھی اور اسے صرف اس بات سے دلچسپی تھی کہ اس کی باتوں کو غور سے سنا جائے تاکہ وہ اپنے سفر ناموں کا حال سنا کر اپنی انا کی تسکین کر سکے۔ کیا یہ کوئی غیر معمول بات ہے؟ نہیں بہت سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے ایک مشہور ماہر نباتات سے نیویارک کے ایک پبلشر کی جانب سے دی گئی ڈنر پارٹی میں ملاقات کی اس سے پہلے میں نے کسی بھی ماہر نباتات سے ملاقات نہیں کی تھی۔ اس سے ملاقات بڑی شاندار رہی۔ میں اپنی کرسی کے کنارے پر بیٹھا اس کی گفتگو سنتا رہا اس نے مجھے مختلف پودوں ان کی نشوونما باغ اور باغ سے باہر ان کی زندگی کے بارے میں بتایا۔ میرے گھر کے اندر ایک کھلا سا باغ ہے اور اس کی گفتگو نے مجھے اس باغ کے بارے میں میری بعض مشکلات کو دور کرنے میں مدد دی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری یہ ملاقات ایک ڈنر پارٹی میں ہوئی جہاں پر اور بھی مہمان موجود تھے۔ لیکن میں نے تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مہمان کو نظر انداز کیا اور گھنٹوں ماہر نباتات سے بیٹھا گفتگو کرتا رہا۔ آدھی رات ہو گئی ڈنر پارٹی ختم ہوئی تو میں نے ہر مہمان سے گڈ نائٹ کہا اور روانہ ہونے لگا اس وقت ماہر نباتات میزبان کی طرف مڑا اور اس سے اجازت لینے کے ساتھ ساتھ اس نے میری تعریفیں کرنا شروع کر دیں ’’ کہ میں بہت دلچسپ آدمی ہوں میں یہ ہوں، میں وہ ہوں‘‘ وغیرہ وغیرہ اس نے کہا کہ ’’ میں بہت خوش گفتار آدمی ہوں۔‘‘ میں بہت خوش گفتار آدمی ہوں؟ کیوں؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ حالانکہ میں نے پوری گفتگو کے دوران بمشکل سے ایک آدھ فقرہ بولا ہو گا۔ میں صرف اسے بغور سنتا رہا اور اس نے میری اس دلچسپی کو محسوس کیا اور قدرتی طور پر اسے یہ اچھا لگا۔ دوسروں کی گفتگو میں اس قسم کی دلچسپی لیکر آپ اسے بہت اچھے انداز میں تعظیم پیش کر سکتے ہیں۔ جیک ووڈ فورڈ اپنے ناول ’’ اجنبیوں کی محبت‘‘ میں کہتا ہے کہ چند انسان ہی ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں زیادہ تر لوگ سنانے والے کی طرف دیکھ تو رہے ہوتے ہیں مگر سن نہیں رہے ہوتے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور جب وہ بات ختم کرتے ہے تو پھر اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں اس سے بالکل برعکس نہ صرف اس کی بات غور سے سن رہا تھا بلکہ پورے خلوص کے ساتھ اس میں دلچسپی بھی لے رہا تھا۔ میں نے اسے یہ باور کرا دیا تھا کہ میں اس کی باتوں سے بڑی معلومات حاصل کر رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ کاش میرا بھی علم اس جتنا ہوتا۔ میں نے اس کو بتایا کہ میں اس سے دوبارہ ملوں گا اور میں۔۔۔۔ دوبارہ ملتا رہا اور ہم نے کئی مرتبہ گھومنے پھرنے کے پروگرام بنائے۔ اور اس طرح اس نے میرے بارے میں اندازہ لگایا کہ میں خوش گفتار ہوں جب کہ حقیقت میں میں نے اس کی باتوں میں دلچسپی لے کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور وہ گھنٹوں بیٹھا میرے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ ایک کامیاب بزنس انٹرویو کا راز کیا ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق صدر ڈاکٹر چارلس کے مطابق کامیاب کاروباری بات چیت میں کوئی خاص راز نہیں ہوتا مگر اس میں اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ دوسرا جو آپ سے بات کر رہا ہے اس کی بات کو پورے غور سے سنا جائے اور اسے یہ احساس دلا دیا جائے کہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ اور اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر چارلس بذات خود کسی کی بات کو سننے کے فن کا ماہر تھا امریکہ کا ایک عظیم ناول نگار ہنری جیمز یاد دلاتا ہے ’’ ڈاکٹر چارلس دوسروں کی بات صرف خاموشی کے ساتھ نہیں سنتا تھا بلکہ وہ اس میں مداخلت کر کے سوالات بھی کرتا تھا۔ جس سے بات کرنے والے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات نہ صرف سنی جا رہی ہے بلکہ اس کو سمجھا بھی جا رہا ہے۔‘‘ اس بات کو جاننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ ہاورڈ میں چار برس پڑھائی کریں۔ میں اور آپ جانتے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ سٹورز کے مالکان جو اپنی چیزیں بہت کم قیمت پر خریدتے ہیں۔ اپنے سٹورز کی سجاوٹ اس طرح سے کرتے ہیں کہ شوکیسوں میں پڑی ہوئی مصنوعات یا لباس دیکھنے والوں کو بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ ہزاروں ڈالر ایڈورٹائزنگ پر خرچ کرتے ہیں مگر اس کے بعد جو سیلز کلرک ملازم رکھتے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے افراد ہوتے ہیں جو گاہکوں کو توجہ کے ساتھ سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ایسے کلرک جو گاہک کی بات کو درمیان میں کاٹ کر اپنی ہانکنے لگ جاتے ہیں ان کے ساتھ تکرار کرتے ہیں اور انہیں خفا کرتے ہیں اور بالآخر انہیں سٹور سے بغیر خریداری کئے چلے جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ شکاگو کی ایک ڈاکٹر مسز ہنری ڈگلس جو ایک بڑے سٹور کی باقاعدہ گاہک تھی اور وہ ہر مہینے سینکڑوں ڈالر کی خریدار کیا کرتی تھی۔ محض اس وجہ سے اس نے سٹور سے خریداری بند کر دی کہ وہاں کے سیلز کلرک نے اس کی بات توجہ سے نہیں سنی تھی۔ اس خاتون ڈاکٹر نے سٹور سے اپنے لیے رعایتی سیل سے ایک کوٹ خریدا۔ جب وہ اسے خرید کر گھر لے آئی تو اس نے نوٹ کیا کہ یہ اندر کی طرف سے جگہ سے پھٹا ہوا ہے وہ اگلے دن سٹور پر واپس آئی اور سیلز کلرک سے کہا کہ اس کوٹ کو بدل دے کلرک نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ اس نے صرف یہ کہا کہ آپ نے یہ کوٹ رعایتی سیل سے خریدا ہے۔ اس کے بعد اس نے دیوار کی طرف اشارہ کر کے خاتون ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ دیکھیں وہاں لکھا ہوا ہے خریدا ہوا مال واپس نہیں ہوتا۔ ایک بار آپ اسے خرید چکی ہیں اس لیے اسے اپنے پاس رکھیں اور گھر میں اسے سی لیں مسز ڈگلس نے اسے بتایا کہ یہ تو میں دکان سے پھٹکا ہوا لے کر گئی ہوں اس وقت میں اسے اچھی طرح الٹ پلٹ کر دیکھ نہیں سکی تھی۔ کلرک نے جواب دیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسز ڈگلس بڑے غصے کی حالت میں سٹور سے یہ سوچتے ہوئے باہر نکل رہی تھی کہ وہ اب اس سٹور میں دوبارہ کبھی خریداری نہیں کرے گی کہ اچانک اس کی نظر سامنے سے آنے والے سٹور منیجر پر پڑی مسز ڈگلس نے بتایا۔ منیجر نے اس کی ساری بات بڑی توجہ سے سنی اور کوٹ کا معائنہ کیا اور کہا رعایتی سیل سے خریدار جانے والا مال واپس نہیں لیا جاتا کیونکہ سال کے آخر میں ہم ایسا ہی مال سیل میں فروخت کرتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا ہو۔ لیکن یہ پالیسی ا یسی چیزوں پر لاگو نہیں ہوتی جو پھٹی ہوئی ہوں ہم یقینا آپ کو یا تو نیا کوٹ دیں گے یا اگر آپ چاہئیں تو اپنے پیسے واپس لے سکتی ہیں۔ یہاں پر رویے کا فرق محسوس کریں۔ سیلز کلرک نے مسز ڈگلس سے کس طرح بات کی اور سٹور کے منیجر نے کس طرح بات کی۔ اگر یہ منیجر مسز ڈگلس کو نہ ملتا اور توجہ سے اس کی بات نہ سنتا تو یہ خاتون ہمیشہ کے لئے اس سٹور سے خریداری کا بائیکاٹ کر دیتی اور یہ دوسروں کو بھی واقعہ سنا کر اس سٹور سے خریداری کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتی۔ توجہ سے سننے کی عادت نہ صرف ہماری عام زندگی بلکہ کاروباری دنیا میں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ نیویارک کی کمپنی کروٹون آن ہڈن کی ملی اپسوزیٹو نے اپنی یہ عادت بنا لی تھی کہ جب اس سے اس کا بچہ بات کرتا تو وہ پوری توجہ کے ساتھ اس کی بات سنتی ایک شام وہ کچن میں اپنے بیٹے رابرٹ کے ساتھ بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی۔ کچھ دیر بعد رابرٹ نے اپنی ماں سے کہا ’’ امی میں جانتا ہوں کہ آپ مجھ سے بے حد محبت کرتی ہیں۔‘‘ اسپوزیٹو اس سے بہت متاثر ہوئیں اور اس نے کہا ’’ بے شک میرے بیٹے میں تم سے بے حد محبت کرتی ہوں کیا تمہیں اس میں کوئی شک ہے‘‘ رابرٹ نے جواب دیا ’’ نہیں امی لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔ میں نے جب بھی آپ سے کوئی بات کہنا چاہی تو آپ نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میری بات سنی۔‘‘ ایک بد تمیز شخص حتیٰ کہ ایک سخت تنقید کرنے والا شخص بھی مغولب کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کی بات پوری ہمدردی اور توجہ سے سنیں اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں۔ چند برس قبل نیویارک ٹیلی فون کمپنی نے یہ معلوم کیا کہ اسے ایک ایسے بدمعاش قسم کے صارف سے معاملہ طے کرنا ہے جس نے صارفین کی خدمت کے لیے بھیجے جانے والے کمپنی کے ایک ملازم پر بہت شدید نکتہ چینی کی تھی۔ اس نے دھمکی دی کہ وہ ٹیلی فون کی لائنیں اکھاڑ دے گا۔ ٹیلی فون کے بل ادا نہیں کئے جو کہ اس کے خیال میں بہت زیادہ تھے اس نے ٹیلی فون کمپنی کے خلاف اخبارات میں خط لکھے اور کمپنی کے خلاف کئی عدالتوں میں مقدمے دائر کر دیئے۔ کمپنی نے اس کے ساتھ معاملہ طے کر نے کی بڑی کوشش کی اور آخر کار اس نے ایک اپنا بہت قابل اور ماہر ملازم غصیلے صاف کے پاس بھیجا وہ ملازم اس کی تمام باتیں بڑی ہمدردی اور غور سے سنتا رہا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ملازم نے بعد میں بتایا کہ وہ تین گھنٹے تک اس کی شکایات سنتا رہا، اس نے ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے طلبہ کو ایک لیکچر دیتے ہوئے اس واقعہ سے یوں آگاہ کیا ’’ میں چار بار اس کے پاس گیا اور ہر بار میں اس کی شکایات سنتا رہا اور جب میری چوتھی ملاقات ختم ہوئی تو میں اس کے ایک ایسے ادارے کا رکن بن چکا تھا۔ جو وہ شروع کرنے والا تھا اس ادارے کا نام ٹیلی فون صارفین ایسوسی ایشن تھا۔ میں اب بھی اسی ادارے کا ممبر ہوں۔‘‘ میں اس کی ہر بات پر سر ہلا کر اس کی شکایات کی تائید کرتا تھا۔ اس نے کبھی بھی ٹیلی فون کمپنی کے کسی ملازم کے ساتھ اتنی لمبی چوڑی گفتگو نہیں کی تھی۔ لیکن وہ میرا دوست بن گیا، پہلی ملاقات میں جس مسئلے پر اس سے گفتگو کرنے گیا اس مسئلے پر بات چیت ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی دوسری اور تیسری ملاقات میں اس مسئلے کو چھیڑا گیا۔ ہم اس دوران زیادہ تر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ چوتھی ملاقات میں یہ معاملہ ختم ہو چکا تھا اس نے اپنے تمام واجبات ادا کئے اور ٹیلی فون کمپنی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی شخص نے کمپنی کے خلاف اپنی تمام شکایات رضا کارانہ طور پر واپس لے لی ہوں۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسا شخص خیال کرتا تھا جو انسانی حقوق کی بحالی کے لیے ایک مقدس جہاد کر رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ صرف اپنی اہمیت جتانا چاہتا تھا پہلے پہلے اس نے شکایات کر کے اپنی اہمیت جتائی۔ لیکن جوں ہی ٹیلی فون کمپنی کے ایک ملازم نے اس کی شکایات کو اہمیت دی اسے دلچسپی اور توجہ سے سنا تو اس کی تمام خود ساختہ شکایات ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ کئی برس قبل ایک صبح ایک گاہک ڈٹمر وولن کمپنی کے آفس میں آیا جو سخت غصے میں تھا۔ مگر جب یہ شخص کمپنی کے ڈائریکٹر جو لین ایف ڈٹمر کے دفتر سے باہر نکلا تو وہ وولن کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر بن چکا تھا یہ سب کیسے ہوا۔ ڈٹمر کی زبانی سنیں۔ ’’ ہم نے اس شخص سے کچھ رقم لینی تھی۔ مگر وہ اس سے انکاری تھا کہ اس کی طرفی ہماری کوئی رقم ہے ہمیں معلوم تھا کہ وہ غلط کہہ رہا ہے۔ ہمارے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ والے اس پر زور دے رہے تھے کہ ہماری رقم واپس کی جائے ہماری کمپنی نے اسے بہت سے خطوط لکھے اور ایک طرف جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو وہ سخت غصے میں شکاگو آیا اور اس نے دفتر میں آ کر مجھے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ ایک پائی بھی ادا نہیں کرے گا اور ہماری کمپنی سے آئندہ ایک ڈالر کا بھی مال نہیں خریدے گا۔‘‘ ’’ میں نے اس کی تمام باتیں بڑے اطمینان سے سنیں میں نے کئی بار اس کی باتوں میں مداخلت کرنا چاہی مگر پھر میں نے سوچا کہ یہ ایک غلط بات ہو گی۔ لہٰذا میں نے اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا پورا پورا موقعہ دیا جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکا تو میں نے بڑی آہستگی کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اتنی دور شاگو سے آ کر یہ سب کچھ بتانے کی زحمت گوارہ کی۔ باوجود اس کے کہ ہمارے دفتر والوں نے آپ کو پریشان کیا ہے جو کہ ایک بری بات ہے۔‘‘ ’’ میری یہ ابتیں اس کے لیے بہت ہی حیران کن تھیں میرے خیال میں اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ کیونکہ وہ شکاگو سے صرف ہمارے ساتھ جھگڑا کرنے کے لیے آیا تھا اور میں اس سے جھگڑا کرنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہماری کوئی رقم آپ کی طرف نہیں ہے۔ اگر کوئی ہے بھی تو ہم اسے اپنی کتابوں سے کاٹ دیں گے۔ کیونکہ وہ اپنا کھاتہ چیک کرنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیتا ہے اور ہمارے کلرک کو بہت سے افراد کے کھاتے چیک کرنے پڑتے ہیں اس لیے ہمارے کلرک سے غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے جذبات کو سمجھتا ہوں اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو بلا شبہ میرے بھی یہی جذبات ہوتے۔ چونکہ وہ ہم سے کوئی لین دین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے اسے چند کمپنیوں کے نام بتائے جو وولن کی مصنوعات بناتی تھیں۔ ’’ ماضی میں وہ جب بھی شکاگو آتا۔ تو ہم اکٹھے دوپہر کا کھانا کھاتے لہٰذا اس دفعہ بھی میں نے اسے دوپہر کا کھانا کھانے کی دعوت دی۔ اس نے تھوڑی سی پس و پیش کے بعد میری دعوت قبول کر لی اور جب کھانے کے بعد ہم واپس دفتر پہنچے تو اس نے پہلے سے بھی بڑا آرڈر دیا اور بڑے اچھے موڈ میں واپس گھر گیا جہاں جا کر اس نے اپنی فائلیں چیک کیں اور ایک جگہ اسے وہ بل مل گیا جو اس نے ابھی تک ہمیں ادا نہیں کیا تھا۔ اس نے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ بڑی معذرت کے ساتھ ایک بینک ڈرافٹ بھیج دیا۔‘‘ بعد ازاں جب اس کی بیوی نے ایک بیٹے کو جنم دیا تو اس نے اپنے بیٹے کا نام ڈٹمر رکھا۔ اور وہ اپنی وفات کے بائیس برس بعد تک ہماری کمپنی کا ایک مستقل گاہک رہا۔ کئی برس پہلے ایک ڈچ تارکین وطن سکول سے آنے کے بعد اپنے خاندان کی کفالت کیلئے ایک بیکری کی کھڑکیوں اور شو کیسوں کے شیشے صاف کیا کرتا تھا۔ وہ اس قدر غریب تھا کہ اس کا بڑا لڑکا ایک ٹوکری لئے اس جگہ پر بھی جایا کرتا تھا جہاں کوئلے والی ویگنیںکوئلہ اتارا کرتی تھیں اور وہاں سے سڑک پر گرا ہوا کوئلہ اٹھا کر وہ چولہا جلانے کے لیے گھر لایا کرتا تھا۔ یہ لڑکا جس کا نام ایڈورڈ بوک تھا اپنی پوری زندگی میں چھ برس سے زائد عرصے کیلئے سکول نہیں گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ امریکی صحافت کی تاریخ میں ایک کامیاب ترین میگزین ایڈیٹر بنا۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن اس نے اس سفر کا آغاز کیسے کیا یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں اس نے اپنا آغاز ان اصولوں سے کیا جو اس باب میں بتائے گئے ہیں۔ تیرہ برس کی عمر میں اس نے سکول جانا چھوڑ دیا اور ویسٹرن یونین میں آف بوائے بن گیا۔ لیکن اس نے ایک بھی منٹ کیلئے تعلیم حاصل کرنے کا خیال نہیں چھوڑا۔ وہ روزانہ دوپہر کے کھانے کے پیسے بچا لیتا۔ اور جب اس کے پاس کافی پیسے جمع ہو گئے تو اس نے امریکہ کے بارے میں ایک انسائیکلو پیڈیا خرید لیا اور اس میں مشہور امریکیوں کے بارے میں تفصیل سے مطالبہ کیا اور اس نے پبلشر کو لکھا کہ وہ ان افراد کے بچپن اور لڑکپن کی ایام کی اگر ہو سکے تو مزید معلومات فراہم کرے۔ وہ ایک اچھا سننے والا تھا وہ مشہور لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کیا کرتا تھا ایک بار اس نے جنرل جیمز اے گار فیلڈ کو خط لکھا۔ جنرل اس وقت امریکہ کا ایک صدارتی امیدوار تھا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی ایک معمولی لڑکا تھا جو چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا؟ اس نے جنرل گرانٹ کو خط لکھا کہ وہ کس خاص جنگ کے بارے میں بتائے جس میں اسے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے مواقع ملے ہوں جنرل گرانٹ نے چودہ برس کے اس لڑکے کو رات کے کھانے پر بلایا اور اس کو نقشے کی مدد سے بہت دیر تک جنگ کے واقعات کے بارے میں بتایا۔ جلد ہی ویسٹرن یونین کا یہ چودہ سالہ قاصد امریکہ کے نامور افراد سے خط و کتابت کرنے لگا جن میں لائف والڈ وایمرسن اولیور وینڈل ہولنر لونگ فیلو، مسز ابراہام لنکن لوسزا نے ایلکوٹ جنرل شرمن اور جیفرسن ڈیوس شامل تھے وہ نہ صرف ان افراد سے خط و کتابت کیا کرتا تھا بلکہ جب کبھی اسے چھٹی ملتی تھی تو وہ ان افراد کے ایک معزز مہمان کے طور پر ان کے ہاں جا کر قیام بھی کرتا تھا اس سے اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوا جو بعد کی زندگی میں بہت کام آیا۔ ان نامور افراد کی رفاقت اور دوستی نے اس کی پوری زندگی بدل کر رکھ دی اور یہ سب کچھ صرف ایک اصول کو اختیار کرنے کے باعث ہوا جو ہم اس باب میں بیان کر رہے ہیں۔ اسحق، ایف مارکوس نامی صحافی جس نے سینکڑوں نامور افراد کے انٹرویو کئے۔ اس کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ایک ہمت افزاء تاثر پید اکرنے میں صرف اس لئے ناکام رہتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی بات کو غور سے نہیں سنتے۔ وہ اس خیال میں مگن ہوتے ہیں کہ انہیں کیا کہنا ہے کہ وہ اپنے کان کھلے نہیں رکھتے۔ بہت سے اہم شخصیتوں نے مجھے بتایا کہ وہ اچھی بات کرنے والوں سے زیادہ اچھی طرح توجہ سے سننے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ صرف اہم شخصیتوں کی ہی عادت نہیں بلکہ عام آدمی بھی اس طرح کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں جیسا کہ ’’ ریڈر ڈائجسٹ‘‘ میں ایک بار ایک مضمون چھپا تھا جس میں کہا گیا تھا ’’ بہت سے لوگ ڈاکٹر کے پاس صرف اس لئے جاتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر نے ان کی باتیں سننا ہوتی ہیں۔‘‘ امریکہ میں سول وار کے تاریک ترین دنوں میں ابراہام لنکن نے اپنے ایک دوست کو لکھا کہ وہ واشنگٹن آئے۔ لنکن نے خط میں لکھا کہ وہ کچھ مسائل پر اس سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا دوست وائٹ ہاؤس پہنچا اور لنکن نے اس کے ساتھ غلاموں کی آزادی کا اعلان کرنے کے بارے میں گھنٹوں بحث کی لنکن نے اس اعلان کے حق اور مخالفت میں دلائل دیئے اس نے ا س مسئلے کے حق اور مخالفت میں اخبارات میں چھپنے والے مضامین پڑھے اور گھنٹوں بحث کرنے کے بعد لنکن نے اپنے دوست سے ہاتھ ملایا اور اسے گڈ نائٹ کہا۔ دوسری صبح لنکن نے اپنے دوست کی رائے سنے بغیر اسے واپس بھیج دیا وہ سارا وقت خود ہی باتیں کرتا رہا اور اس کا دوست محض سنتا رہا۔ غلاموں کو آزاد کرنے کے حق اور مخالفت میں دلائل دے کر اور اخبارات میں لکھے جانے والے مضامین اور آرٹیکل پڑھنے کے بعد خود لنکن کا اپنا ذہن اس مسئلے کے بارے میں صاف ہو گیا تھا اور وہ اب خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا لنکن کے دوست نے بتایا کہ لنکن کو اس کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ کوئی بڑی توجہ اور ہمدردی کے ساتھ اس کی باتیں سنے یہی ہم سب چاہتے ہیں جب ہم مشکل میں ہوتے ہیں۔ سگمڈ فرائیڈ موجودہ دور کا سب سے عظیم سننے والا تھا ایک شخص جس نے فرائیڈ سے ملاقات کی بتایا ’’ فرائیڈ میں ایسی صلاحیتیں موجود تھیں جو میں نے پہلے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھی تھیں میں نے کبھی کسی بھی شخص کو اس قدر توجہ اور انہماک سے باتیں سنتے نہیں دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں بہت نرمی اور ملائمت ہوتی تھی اس کی آواز دھیمی اور شفقت بھری تھی۔ مگر اس نے میری باتیں جس توجہ سے سنی اور ان کی جس طرح تعریف کی اس میں ایمانداری اور خلوص بھرا ہوا تھا۔ اگر آپ یہ چاہتے کہ لوگ آپ کے جانے کے بعد آپ کی باتوں کا مذاق اڑائیں اور آپ سے نفرت کریں تو میں اس کیلئے آپ کو ایک بہتر طریقہ بتاتا ہوں کسی کو بھی دیر تک نہ سنیں زیادہ دیر تک اپنے بارے میں گفتگو کریں، جب دوسرا شخص بات کر رہا ہو اور آپ کے ذہن میں کوئی خیال آئے تو اس بات کا بالکل انتظار نہ کریں کہ بات کرنے والا اپنی بات ختم کر لے۔ بلکہ اس وقت اس کی بات کو ٹوک کر اپنی بات شروع کر دیں۔‘‘ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس کو پسند کرتے ہیں؟ میں اسے پسند کرتا ہوں اور بدقسمتی سے اس کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ بہت سے نامور لوگ ایسا کرنا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں اور ان پر اپنی اہمیت کا احساس ہر وقت غالب رہتا ہے۔ جو لوگ صرف اپنے بارے میں بات کرتے ہیں وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں کولمبیا یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر نکوس مرے ہٹلر کا کہنا ہے۔ ’’ جو لوگ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں وہ بہت کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں یا بالکل ان پڑھ ہوتے۔‘‘ اس لیے اگر آپ ایک اچھی گفتگو کرنے والا بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ اپنے اندر دوسروں کی گفتگو کو پوری توجہ اور دلچسپی سے سننے کی صلاحیت پیدا کریں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی باتوں میں دلچسپی لیں تو خود ان کی باتوں میں دلچسپی لیں۔ ان سے ایسے سوالات کریں جن کے جوابات دینے میں انہیں خوشی محسوس ہو۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ بات آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جن سے آپ گفتگو کر رہے ہیں وہ اپنے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں انہیں اپنی خواہشات اور مسائل سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ انہیں آپ سے یا آپ کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایک آدمی کے دانت کا درد اسے زیادہ تکلیف دیتا ہے ناکہ ہزاروں میل دور چین میں قحط سے ہزار متعدد افراد کی ہلاکت آئندہ آپ کسی دوسرے شخص سے گفتگو کرتے وقت اس بات کو ہمیشہ دھیان میں رکھیں۔ چوتھا اصول اپنے اندر دوسروں کی باتوں کو توجہ اور دلچسپی سے سننے کی صلاحیت پیدا کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں اگر وہ صرف اپنے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ ٭٭٭ باب پنجم دوسرے شخص کی دلچسپی اور خواہش کے پس منظر میں گفتگو کریں ہر وہ شخص جو کبھی تھیو ڈور روز ویلٹ کا مہمان رہا ہو وہ اس کے علم کے بارے میں ضرور حیران ہوتا تھا۔ خواہ وہ مہمان ایک معمولی کاؤ بوائے ہو یا ایک گھڑ سوار، نیو یارک کا ایک سیاستدان ہو یا سفارتکار روز ویلٹ یہ جانتا تھا کہ ان سے کس طرح بات کرنی ہے اور وہ کیسے کیا کرتا تھا؟ اس کا جواب بڑا سادہ ہے جب کبھی روز ویلٹ کے ہاں کسی مہمان نے آنا ہوتا تھا وہ ایک رات پہلے دیر تک بیٹھ کر سوچتا کہ کل آنیوالے مہمان کی دلچسپی کے کونسے مراکز پہلو ہیں اور کن موضوعات پر اس سے بات کرنے میں آسانی رہے گی۔ روز ویلٹ ہر لیڈر کی طرح یہ جانتا تھا۔ کہ کسی شخص کے دل میں اترنے کا راستہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں بات کی جائے جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔ ییل یونیورسٹی میں ادب کے پروفیسر ولیم لیون نے یہ سبق اپنی ابتدائی زندگی میں ہی سیکھ لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ جب میری عمر آٹھ برس کی تھی تو میں اپنی آنٹی لبی لنزلے کے گھر میں ہفتہ وار چھٹی گزار رہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ایک شام میری آنٹی سے ملنے آیا اور ہلکی سی ایک جھڑپ کے بعد اس نے اپنی توجہ مجھ پر مرکوز کر دی اس وقت مجھے کاغذ کی ناؤ بنانے کا بڑا شوق تھا اور اس شخص نے میرے ساتھ کاغذ کی ناؤ بنانے کے بارے میں گفتگو کی جب وہ چلا گیا تو میں نے اپنی آنٹی سے اس کے بارے میں بڑے اچھے الفاظ میں ذکر کیا‘‘ کیا اچھا آدمی تھا میری آنٹی نے بتایا کہ وہ نیویارک کا ایک وکیل ہے اور اسے کشتیوں کے بارے میں کچھ زیادہ پتہ نہیں اور نہ ہی اسے اس موضوع سے دلچسپی ہے لیکن اس نے پھر میرے ساتھ کشتیوں کے بارے میں بات چیت کیوں کی۔ اس لیے کہ وہ ایک شریف آدمی تھا۔ اس نے کاغذ کی ناؤ بناتے ہوئے دیکھا اور اس نے تمہارے ساتھ اس بارے میں گفتگو کی۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہا س موضوع پر گفتگو کر کے تمہیں خوشی ہو گی۔میں اپنی آنٹی کے یہ الفاظ آج تک نہیں بھولا۔ جب میں یہ باب لکھ رہا تھا تو میرے سامنے ایک بوائے سکاؤٹ ایڈورڈ کا خط پڑا ہوا تھا ت ومیں یہاں آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ’’ ایک بار مجھے مدد کی ضرورت تھی یورپ میں ایک بہت بڑی سکاؤٹ جمہوری شروع ہونے والی تھی اور میں یہ چاہتا تھا کہ امریکہ کی کوئی بڑی کارپوریشن جمہوری میں شرکت کے لیے جانے والے سکاؤٹوں میں سے کسی ایک سکاؤٹ کی آمد و رفت کا خرچہ برداشت کر لے خوش قسمتی سے میں ایک ایسے آدمی کے پاس گیا جس کو چند ہی روز پہلے لاکھوں ڈالر مالیت کا ایک چیک ملا تھا جو کیش نہیں ہو سکا تھا اور اس نے اسے فریم کروا کے اپنے دفتر میں رکھ لیا تھا۔‘‘ ’’ جب میں اس کے دفتر میں داخل ہو اتو سب سے پہلے میں نے وہ چیک دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ لاکھوں ڈالر کا چیک تھا میں نے اسے بتایا کہ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس نے کبھی اتنی مالیت کا چیک لکھا ہو اور میں اپنے سکاؤٹوں کو اس چیک کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس شخص نے بڑی خوشی کے ساتھ مجھے وہ چیک دکھایا میں نے اس کی تعریف کی اور اس سے کہا کہ وہ مجھے بتائے کہ وہ کیش کیوں نہیں ہو سکا۔‘‘ آپ یہاں یہ نوٹ کریں کہ ایڈورڈ نے بوائے سکاؤٹس کے بارے میں اپنی بات شروع نہیں کی اور نہ ہی اس جمہوری کے بارے میں بات کی جس میں شرکت کے سلسلے میں اسے اپنے ایک سکاؤٹ کے لیے آمد و رفت کا خرچہ درکار تھا۔ا س نے صرف وہی بات کی جس میں دوسرے شخص کی دلچسپی تھی اور اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایڈورڈ کی زبانی سنیے۔ پھر اچانک جیسے اس شخص کو خیال آیا اور اس نے مجھے پوچھا کہ میں کیوں اس سے ملنا چاہتا تھا اور میں نے اسے بتایا میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ اس نے فوراً میری بات مان لی اور مجھے میری ضرورت سے زیادہ رقم فراہم کر دی میں نے اسے صرف ایک لڑکے کا خرچہ برداشت کرنے کی درخواست کی تھی مگر اس نے میرے علاوہ پانچ دوسرے لڑکوں کی آمد و رفت کے خرچے کی رقم بھی دی۔ اس کے علاوہ اس نے۔۔۔۔۔۔ مجھے سات ہزار ڈالر مالیت کا ایک چیک بھی دیا اور کہا کہ آپ سات ہفتے تک میرے خرچ پر یورپ میں ٹھہر سکتے ہو۔ اس نے مجھے یورپ میں اپنی کمپنی کے مختلف دفاتر کے سربراہوں کے نام خطوط دیئے جن میں یہ لکھا ہوا تھا کہ وہ ہمیں یورپ میں قیام کے دوران ہر قسم کی سہولت مہیا کریں وہ خود ہم لوگوں کو پیرس میں ہمارے قیام کے دوران ہر قسم کی سہولت مہیا کرے گا واقعی وہ ہم لوگوں کو پیرس میں ہمارے قیام کے دوران ملا اور ہمیں شہر کی سیر کرائی اس کے بعد اس نے ہمارے کچھ لڑکوں کو ملازمت بھی فراہم کی۔ ’’ یہاں میں جانتا ہوں کہ اگر میں شروع میں یہ نہ جان پاتا کہ اس شخص کی دلچسپی کا مظہر کیا ہے اور اس کے کمرے میں جاتے ہی اس سے اپنا مسئلہ بیان کرتا تو مجھے یقین ہے کہ مجھے اتنی کامیابی حاصل نہ ہوتی۔‘‘ کیا کاروبار میں یہ ایک بہت ہی قیمتی اور کامیاب تکنیک ہے؟ آیئے ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں نیویارک کی ایک بیکنگ فرم ہنری جی ڈیونری اینڈ سنز کی مثال لیں۔ مسٹر ڈیونری نیویارک کے ایک ہوٹل کو ڈبل روٹی فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا وہ گزشتہ چار برسوں سے ہر ہفتے ہوٹل کے منیجر سے باقاعدگی سے مل رہا تھا۔ وہ ایسی سماجی تقریبات میں جاتا جہاں ہوٹل کا منیجر جایا کرتا تھا۔ اس نے کئی مہینوں تک ہوٹل میں کرائے کا کمرہ لیا لیکن اس کے باوجود وہ ڈبل روٹی ہوٹل کو بیچنے میں ناکام رہا۔ مسٹر ڈیونری نے بتایا کہ انسانی تعلقات کے بارے میں مطالعہ کرنے کے بعد میں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہوٹل کے منیجر کی دلچسپی کا مرکز کیا ہے۔ میں نے یہ معلوم کیا کہ وہ ہوٹل ایگزیکٹوز کی ایک سوسائٹی سے تعلق رکھتا ہے وہ اس سوسائٹی کا صدر بھی ہے جہاں بھی اس سوسائٹی کے فنکشن ہوتے ہیں وہ وہاں موجود ہوتا ہے۔ اگلی صبح جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے اس کی سوسائٹی کے بارے میں گفتگو کی تو اس کا مجھے مثبت جواب ملا۔ اس نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ آدھ گھنٹے تک بات کی جس سے مجھے یہ اندازہ وہ گیا کہ یہ صرف اس کا مشغلہ ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی ہے جب میں اس کے دفتر سے باہر نکلنے لگا تو اس نے مجھے اپنی سوسائٹی کی ممبر شپ لینے کی پیش کش کی۔ اس دوران میں نے ایک لمحے کے لیے بھی ڈبل روٹی کے بارے میں بات نہیں کی چند دنوں کے بعد ہوٹل کے سٹیورڈ نے ٹیلی فون کیا اور مجھے ڈبل روٹی کی قیمتوں کے فہرست کیساتھ آنے کو کہا سٹیورڈ نے مجھے کہا کہ وہ نہیں جانتا کہ میں نے منیجر پر کیا جادو کر دیا ہے وہ آپ کی کمپنی سے ڈبل روٹی خریدنے کیلئے تیار ہو گیا ہے ذرا سوچیں میں گزشتہ چار برس تک اس ہوٹل منیجر سے اپنی ڈبل روٹی خریدنے کا آرڈر حاصل کرنا چاہ رہا تھا مگر ایسا ممکن نہیں ہوا اور جب مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ منیجر کی دلچسپی کا مرکز کیا ہے تو مجھے یہ آرڈر مل گیا۔ میری لینڈ ہیگر سٹون کے ایڈورڈ ہیری مین نے اپنی رہائش کیلئے ایک خوبصورت وادی کا انتخاب کیا جہاں وہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد رہنا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت میری لینڈ میں روزگار کے وسائل بہت کم تھے۔ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد اس نے معلوم کیا کہ اس علاقے کی بہت سے کمپنیوں کا مالک میروک نامی ایک برسمین ہے جو کبھی اس قدر غریب تھا کہ نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرا کرتا تھا۔ ہیری مین کی زبانی سنیے۔ بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ علم ہوا کہ میروک کی دلچسپی اور خواہش کا سب سے بڑا مرکز روپیہ اور طاقت حاصل کرنا ہے اس نے میرے جیسے لوگوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک بہت ہی سخت گیر سیکرٹری کا انتخاب کر رکھا ہے اس پر میں نے سیکرٹری کی دلچسپی اور مفادات کے بارے میں معلوم کیا اور پھر ایک دن میں بغیر اطلاع دیئے سیکرٹری سے ملنے چلا گیا وہ گزشتہ پندرہ برسوں سے میروک کی سیکرٹری تھی اور اس نے میروک کے گرد ایک حصار قائم کر رکھا تھا۔ کہ اس تک نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے جب سیکرٹری کو بتایا کہ میرے پاس اس کے باس کیلئے ایک ایسا مشورہ ہے جس پر عمل کر کے وہ اپنے لئے سیاسی اور مالی کامیابی حاصل کر سکتا ہے تو سیکرٹری کا تجسس بڑھ گیا میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ خود کس طرح اس کامیابی میں تعمیری انداز میں شرکت کر سکتی ہے اس گفتگو کے بعد اس نے میری اور میروک کی ملاقات کا بندوبست کیا۔ ’’ ملاقات کے دن میں اس کے شاندار اور بڑے دفتر میں داخل ہوا‘‘ وہ ایک بڑی میز کے پیچھے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اس نے مجھے عجیب سی نظروں کے ساتھ دیکھا اور پوچھا کہ تمہارے پاس کونسا ایسا منصوبہ ہے؟ میں نے بتایا کہ مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے لیے بہت سی رقم بنا سکتا ہوں وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے مجھے کمرے میں پڑے آرام دہ صوفے پر بیٹھنے کو کہا اور خود بھی اپنی کرسی چھوڑ کر وہاں آ بیٹھا میں نے اسے تفصیل کے ساتھ اپنے منصوبے سے آگاہ کیا کہ جس پر عمل کر کے وہ اپنے لئے مالی اور ذاتی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ اس نے فوراً مجھے ملازم رکھ لیا اور میں بیس برس تک اس کے ساتھ رہا۔ اس دوران ہم دونوں نے بہت سا روپیہ کمایا۔ دوسرے شخص کے مفادات کے متعلق بات کرنے سے ہم دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ایمپلائز کمیونیکیشن کے ایک لیڈر ہاورڈ ہرزگ نے ہمیشہ اس اصول کی پیروی کی جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اس سے کیا حاصل کیا ت واس نے بتایا کہ اس نے ہر شخص سے مختلف قسم کا فائدہ حاصل کیا لیکن اس کا ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ اس سے نہ صرف معیار زندگی بڑھا بلکہ میں ہمیشہ خوش و خرم بھی رہا۔ پانچواں اصول دوسرے شخص کی دلچسپیوں اور خواہشات کے پس منظر میں ان سے گفتگو کریں۔ ٭٭٭ باب ششم لوگ آپ کو فوراً پسند کرنے لگیں میں نیویارک کے ایک پوسٹ آفس میں ایک خط رجسٹرڈ کرانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ رجسٹری کلرک اپنی ملازمت سے خوش نہیں ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا میں اس کلرک کو اپنی طرح بنانے کی کوشش کروں گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بہت اچھا ہوں بلکہ یہ کہ وہ بہت اچھا بن جائے اور اپنے کام میں دلچسپی لے۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا اس کلرک میں کون سی خوبی ہے جس کی میں تعریف کروں؟ یہ ایک مشکل سوال تھا خاص طور پر اجنبیوں کے معاملے میں مگر یہاں معاملہ ذرا مختلف تھا۔ میں نے کوئی چیز دیکھی اور فوراً ہی اس کی تعریف کر دی۔ جب رجسٹری کلرک میرے خط کا وزن کر رہا تھا۔ میں نے بڑے جوش سے ریمارکس دیا۔ ’’میری یقینا یہ خواہش ہے کہ میں آپ کی جگہ ہوتا۔‘‘ اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا یہ اتنا آسانی نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اگرچہ یہ اپنی اصلی شکل کھو بیٹھا ہے مگر اب بھی یہ کام بہت شاندار ہے وہ بہت خوش ہوا اور پھر میں نے اسے بتایا کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو اس کام کو کس طریقے سے کرتا میں اس کام میں دلچسپی لیتا اور پھر یہ کام مجھے نہ تو بور معلوم ہوتا اور نہ ہی مشکل لگتا۔ میں نے یہ واقعہ اپنے طلبہ کو بتایا اور ان سے پوچھا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے اور آپ یہی کچھ کرتے تو آپ کا مقصد کیا ہوتا؟ میں اس کلرک سے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا؟ اگر ہم اس قدر ذلیل اور خود غرض ہیں کہ بڑی ایمانداری کے ساتھ کوشش کیے بغیر کسی کو تھوڑی سی خوشی نہیں دے سکتے تو ناکامی اور صرف ناکامی ہمارا مقدر ہے اور ہم خود بھی خوش نہیں رہ سکتے۔ ہاں میں اس رجسٹری کلرک سے کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا او روہ بھی بغیر قیمت کے اور میں نے یہ حاصل کر لیا۔ میں نے یہ جذبات اور احساسات حاصل کئے کہ میں نے بغیر کسی غرض اور لالچ کے کسی کو خوشی دی ہے۔ یہ وہ جذبات اور احساسات ہوتے ہیں جو واقعہ بیت جانے کے بعد ایک عرصے تک آپ کی یادداشت میں گنگناتے رہتے ہیں۔ انسان کے ساتھ ملنساری کا ایک اصول ہے اگر ہم اس اصول کی پاسداری کریں ہم کبھی بھی مشکل میں نہیں ہونگے۔ در حقیقت اگر اس اصول کی پاسداری کی جائے تو یہ ہمارے لیے مسلسل خوشیاں لائے گا مگر جونہی ہم اصول کو توڑتے ہیں ہم لاتعداد مشکلات میں پھنس جاتے ہیں اور وہ اصول یہ ہے ’’ ہمیشہ دوسرے شخص کو ایمانداری کے ساتھ یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے بہت اہم شخص ہے۔‘‘ جان ڈیوی کا کہنا ہے کہ ’’ اہم ہونے کی خواہش انسانی فطرت کی گہری ترین خواہش ہے۔‘‘ اور ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ ’’ انسانی فطرت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔‘‘ جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہی وہ تقاضا ہے جو ہمیں جانوروں سے مختلف کرتا ہے اور یہی وہ طلب ہے جو تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا باعث بنی۔ فلسفہ دان ہزاروں برسوں سے انسانی تعلقات کے اصولوں کے بارے میں قیاس کر رہے تھے اور ان سب میں سے صرف ایک اصول سب سے اہم ہے یہ نیا نہیں ہے یہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ ہماری دنیا کی تاریخ کنفیوشیٹس نے چوبیس سو سال پہلے یہی اصول چین میں متعارف کرایا۔ بدھا نے دریائے گنگا کے کنارے اس اصول کی تبلیغ کی۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں بھی ہزاروں برس پہلے اس اصول کا ذکر موجود تھا یہی حضرت عیسیٰ نے دو ہزار برس پہلے اپنے پیروکاروں کو سکھایا۔ آپ جن لوگوں سے ملتے ہیں ان سے اپنی شخصیت کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں آپ یہ احساس چاہتے ہیں کہ آپ اپنی چھوٹی سی دنیا میں ایک اہم شخص ہیں۔ آپ بے فضول اور سستی قسم کی چاپلوسی پسند نہیں کرتے۔ لیکن آپ پر خلوص تعریف کو پسند کرتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دوست و احباب چارلس شواب کے الفاظ کی طرح ہوں۔ کسی کی تعریف پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ وسیع القلبی کے ساتھ کریں۔ اس لیے ہمیں یہ سنہرا اصول اپنانا چاہیے کیسے؟ کہاں؟ کب؟ اس کا جواب ہے ہر وقت ہر جگہ۔ وسکونس کے ڈیوڈ جی سمتھ نے مجھے بتایا کہ ایک بار جب وہ ایک چیرٹی شو کے موقعہ پر لگائے جانے والے مشروبات کے ایک سٹال کا انچارج تھا تو اس نے ایک نازک صورت حال پر کس طرح قابو پایا۔ ’’ اس رات جب میں پارک میں پہنچا تو میں نے دو ادھیڑ عمر عورتوں کو مشروبات سٹینڈ کے قریب بڑے بے ڈھنگے انداز میں کھڑے دیکھا۔ ان کے چہروں سے یہ دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے ان میں سے کوئی ایک اس سٹینڈ کی انچارج ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے کہ چیرٹی شوب کو سپانسر کرنے والی کمیٹی کا ایک رکن میرے پاس آیا اس نے مجھے کیش بکس دیا اور اس اسٹینڈ کا انچارج بننے پر میرا شکریہ ادا کیا۔ اس نے ان ادھیڑ عمر عورتوں روز اور جین کہہ کر تعارف کرایا اور مجھے بتایا کہ وہ میری معاون ہونگی۔‘‘ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ کیش بکس اتھارٹی کا مظہر ہوتا ہے۔ میں نے بکس روز کو دیا اور اسے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ میں رقم کا صحیح طرح سے حساب کتاب نہ رکھ سکوں اگر وہ اس کی ذمہ داری سنبھال لے تو میں مشکور ہوں گا۔ اس کے بعد میں نے جین سے کہا کہ وہ دو نو عمر لڑکیوں کو بتائے کہ سوڈا مشین سے مشروبات کس طرح لیے جا سکتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ شام کے وقت روز بڑی خوشی کے ساتھ رقم گن رہی تھی اور جین نو عمر لڑکیوں کو مشروب لینے کے بارے میں گائیڈ کر رہی تھی۔ اور چیرٹی شو دیکھ رہا تھا ۔ آپ کو کسی کی تعریف کرنے کا اصول اپنانے کے لیے فرانس کا سفیر ہونا یا کسی بہت بڑی کارپوریشن کا چیئرمین ہونا ضروری نہیں ہے آپ اس اصول کو اپنانے کے بعد اس کا جادو کس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے۔ روز مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ’’ اگر مثال کے طور پر ویٹرس ہمارے لیے آلو کی بجھیا لے آتی ہے۔ جب کہ ہم نے آلوؤں کے قتلوں کا آرڈر دیا ہے تو ہمیں یہ کہنا چاہیے ’’ میں آپ کو تکلیف دینے پر معذرت چاہتا ہوں لیکن میں آلو کے قتلے کھانا پسند کرونگا۔‘‘ وہ غالباً یہ جواب دے گی نہیں اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔‘‘ اور وہ بڑی خوشی سے ہمیں آلو کے قتلے لا دے گی کیونکہ ہم نے اسے برا بھلا کہنے کی بجائے عزت دی ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقرے مثلاً ’’ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو زحمت ہوئی۔‘‘ ’’ کیا آپ مائنڈ تو نہیں کریں گے؟‘‘ آپ کا شکریہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں اس قدر پر اثر احساس چھوڑتے ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہم ایک اور مثال دیتے ہیں ہال کنیز کے ناول ’’ دی کرسچن‘‘ ’’ دی ڈیمسٹر‘‘ اور ڈی مینکسمین تینوں بہترین بکنے والے ناول تھے۔ لاکھوں کروڑوں افراد نے ان ناولوں کو پڑھا۔ کنیز ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ وہ زندگی میں آٹھ برس سے زیادہ عرصے کے لیے سکول نہیں گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود جب اس کی موت واقع ہوئی تو وہ ادبی دنیا کا ایک امیر ترین شخص تھا۔ کنیز نے دانتے جبریل وزیٹی کی ساری شاعری زبانی یاد کر رکھی تھی اس نے ایک بار وزیٹی کی تعریف میں ایک مضمون لکھا۔ جس میں اس کی صلاحیتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس نے اس مضمون کی ایک کاپی روز یٹی کو بھی بھیجی۔ روزیٹی کو بہت خوشی ہوئی اور اس نے کہا ’’ یہ نوجوان لڑکا جس نے بڑے خلوص کے ساتھ میری شاعری کی تعریف کی ہے۔ ضرور بہت قابل ہو گا۔ اس لیے اس نے لوہار کے اس بیٹے کو لندن آنے کی دعوت دی۔ کنیز وہاں پہنچا تو اس کو روزیٹی نے اپنا سیکرٹری بنا لیا اور یہی ہال کنیز کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اب وہ اپنی اس نئی حیثیت میں اپنے وقت کی اہم ترین ادبی شخصیتوں سے ملنے لگا۔ ان کے مشوروں اور حوصلہ افزائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایک ایسے کیرئیر کا آغاز کیا۔ جس نے اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔‘‘ گریبا کیسل میں اس کا گھر دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے مقدس جگہ بن گیا اور مرتے وقت اس نے کروڑوں ڈالر مالیت کی جائیداد چھوڑی۔ اگر کنیز روزیٹی کے بارے میں ایک مضمون نہ لکھتا تو وہ بڑی غربت میں گمنامی کی حالت میں مر جاتا۔ یہ ہے کسی کی خلوص اور ایمانداری کے ساتھ تعریف کرنے کا پھل۔ روزیٹی اپنے آپ کو بہت اہم خیال کرتا تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ہر کوئی اپنے آپ کو اہم بلکہ بہت اہم خیال کرتا تھا۔ کسی بھی شخص کی زندگی میں اس وقت انقلاب آ سکتا ہے جب کوئی اسے اس کی اہمیت کا احساس دلا دے۔ جے رولینڈ نے جو کیلی فورنیا میں ہمارے کوہسز کا ایک انسٹرکٹر ہے اور جو آرٹس اینڈ کرافٹ کا استاد بھی ہے ہمیں اپنی کرافٹ کلاس کے ایک طالب علم کرس کے بارے میں بتایا۔ ’’ کرس ایک بہت خاموش، شرمیلا اور عدم اعتماد کا شکار لڑکا تھا۔ جسے اکثر وہ توجہ بھی نہیں ملتی تھی جس کا وہ مستحق تھا۔ میں ایک ایسی کلاس بھی پڑھایا کرتا تھا جو کالج میں ایک مثال بن چکی تھی اور ہر طالب علم اس کلاس میں شرکت کرنے کی خواہش کرتا تھا۔ ایک دن کرس بڑی توجہ کے ساتھ اپنے ڈیسک پر بیٹھا کا م کر رہا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کلاس میں شرکت کرنے کی خواہش کہیں ضرور چھپی ہوئی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔ میں نے کرس سے پوچھا کیا وہ ایڈوانس کلاس میں شرکت کرے گا۔ کرس نے نظریں اٹھا کر میری طرف اس قدر خوشی سے دیکھا کوش میرے پاس الفاظ ہوتے کہ میں اس کی حقیقی خوشی کو مناسب ترین الفاظ میں بیان کر سکتا۔ یہ چودہ برس کا لڑکا حیرت زدہ خوشی کے چھپے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘ ’’ میں سر کیا میں اس قابل ہوں؟ ہاں کرس تم واقعی اس قابل ہو۔‘‘ اور میں زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہر سکا کیونکہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور خود میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں اس روز جب کرس کلاس سے باہر نکلا تو وہ بے حد خوش اور بلند حوصلہ تھا اس نے اپنی چمکتی ہوئی نیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور بڑی انکساری کے ساتھ کہا ’’ آپ کا شکریہ مسٹر رولینڈ‘‘ ’’ کرس نے مجھے ایک سبق دیا جو میں کبھی بھی نہیں بھول سکوں گا وہ سبق اپنی اہمیت کے احساس کی خواہش میں نے یہ اصول عمر بھر یاد رکھا اور میں نے اپنی کلاس میں ایک چارٹ لگوایا جس پر لکھا ہوا تھا ’’ آپ بہت اہم ہیں۔‘‘ اس چارٹ پر ہر کری کی نظر پڑتی تھی کیونکہ یہ بلیک بورڈ کے بالکل قریب لگایا گیا تھا۔ یہ چارٹ مجھے یہ احساس دلاتا تھا کہ میرا ہر طالب علم بہت اہم ہے۔‘‘ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کہ آپ سے ملنے والا ہر شخص خود کو کسی نہ کسی وجہ سے آپ سے برتر خیال کرتا ہے اور ان کے دل میں اترنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں مناسب الفاظ سے خلوص کے ساتھ یہ باور کرائیں کہ آپ اس کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں۔ یاد رکھیں ایمرسن نے کہا تھا ’’ ہر شخص جس سے میں ملتا ہوں وہ کسی نہ کسی لحاظ سے مجھ سے برتر ہے اور اس طرح میں اس سے سیکھتا ہوں۔‘‘ مگر اس کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے اہم ہونے کا کوئی بھی جواز نہیں ہوتا۔ وہ بڑی کثرت سے خود بینی اور عجیب قسم کی عامیانہ حرکتوں سے اپنی خودی کی تسکین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے بزنس مین ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر کس طرح شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں آیئے ہم آپ کو نیکٹیکیٹ کے ایک اٹارنی کی مثال دیتے ہیں (وہ اپنے بعض رشتہ داروں کے باعث اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا) اس لیے ہم اس کا فرضی نام ڈیکٹر رکھ لیتے ہیں۔ کورس میں شرکت کرنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد ڈیکٹر اپنی بیوی کے ہمراہ لانگ آئی لینڈ میں اپنی بیوی کے بعض رشتہ داروں کے پاس گیا۔ اس کی بیوی نے اسے اپنی ایک بوڑھی آنٹی کے پاس گپ شپ کے لیے بٹھا دیا اور خود اپنے نسبتاً جوان رشتے داروں کے پاس ملنے چلی گئی۔ ڈیکٹر نے چونکہ ہمارے کورس میں اس موضوع پر لیکچر دیتا تھا کہ ’’ تعریف کے اصول کس طرح استعمال کریں۔‘‘ لہٰذا اس نے سوچا کہ وہ اس بوڑھی آنٹی سے گفتگو کر کے بہت زیادہ تجربہ حاصل کرے گا۔ اس نے گھر کے چاروں طرف نظر گھمائی اور اس بات کا جائزہ لیا کہ وہ کس بات کی تعریف کرے۔ اس نے بوڑھی آنٹی سے دریافت کیا کہ یہ گھر ۱۸۹۰ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ہاں آنٹی نے جواب دیا کم و بیش یہی وہ سال ہے جب یہ تعمیر ہوا میں نے کہا یہ مجھے اس گھر کی یاد دلاتا ہے جس میں پیدا ہوا تھا۔ یہ بہت خوبصورت ہے بہت اچھی طرح بنا ہوا ہے۔ آج کل اس قسم کے مکان کب بنتے ہیں بوڑھی آنٹی نے جواب دیا۔ تم ٹھیک کہتے ہو آج کل نوجوان نسل اس قسم کے گھر کہاں بناتی ہے وہ تو چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہنا پسند کرتی ہے۔ یہ تو ایک ایسا گھر ہے جو ہم خوابوں میں دیکھتے ہیں۔ اس کی آواز سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ماضی کی حسین یادیں اس کے ذہن میں ابھی تک تازہ ہیں۔ اس گھر کو بڑی محبت سے بنایا گیا۔ اس گھرکو بنانے کے لیے میں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر بہت خواب دیکھے تھے کہ ہمارا گھر اس طرح ہو گا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا باغ ہو گا۔جس کے عین درمیان میں ایک خوبصورت فوارہ لگا ہوا ہو گا اور کیاریوں میں رنگ برنگے پھول لگے ہوں گے۔ ایک طرف درخت پر پکے ہوئے امرود لگے ہونگے اور دوسری طرف سرخ سرخ سیب درختوں پر لٹک رہے ہوں گے۔ ہم نے کسی ماہر تعمیرات سے اس کا نقشہ نہیں بنوایا تھا بلکہ خود اس کا نقشہ تیار کیا تھا۔ اس نے ڈیکٹر کو پورا گھر دکھایا اور ڈیکٹر نے دل کھول کر اس کی تعریف کی۔ اس کے بعد آنٹی ڈیکٹر کو گیراج میں لے گئی جہاں پر ایک خوبصورت کار کھڑی تھی۔ اس نے ڈیکٹر کو بتایا کہ یہ کار میرے شوہر نے مرنے سے کچھ دیر قبل شادی کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر دی تھی۔ میں نے شوہر کی موت کے بعد اس کو نہیں چلایا۔ تم نے بڑے خلوص اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے گھر کی تعریف کی ہے اس لیے میں یہ کار تمہیں تحفتاً دیتی ہوں۔ ’’ کیوں آنٹی؟ میں آپ کی سخاوت کی تعریف کرتا ہوں مگر میں یہ تحفہ قبول نہیں کر سکتا۔ میں آپ کا رشتہ دار بھی نہیں ہوں۔ میرے پاس اپنی ایک نئی کار ہے اور یہ کار اپنے کسی رشتہ دار کو تحفے میں دیں۔‘‘ ڈیکٹر نے کہا ’’ رشتہ دار‘‘ آنٹی نے چونک کر کہا’’ ہاں میرے رشتہ دار ہیں جو صرف میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ گھر اور کار سمیت ہر چیز پر قبضہ کر سکیں مگر میں انہیں یہ سب کچھ کرنے نہیں دوں گی۔‘‘ ڈیکٹر نے کہا کہ آپ اس کار کو کسی ڈیلر کے پاس فروخت بھی کر سکتی ہیں۔ ’’ فروخت کر دوں‘‘ آنٹی نے احتجاج کیا ’’ اپنے شوہر کی نشانی کو فروخت کر دوں تاکہ اجنبی لوگ اس کار میں بیٹھ کر میری نظروں کے سامنے آوارہ گردی کرتے رہیں۔ یہ کار میرے خاوند نے میرے لیے خریدی تھی۔ میں اسے فروخت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں یہ تمہیں دے رہی ہوں کیونکہ تمہیں قیمتی چیزوں کی قدر کرنی آتی ہے اور تم سے زیادہ اس کار کی کوئی بھی دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ جذبات میں آ کر بولتی گئی۔ ڈیکٹر لاکھ کوشش کے باوجود اس تحفے سے انکار نہ کر سکا۔ یہ خاتون اپنے گھر میں اپنی حسین یادوں کے سہارے زندہ تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ بہت خوبصورت اور جوان تھی۔ اس نے بڑی محبت کے ساتھ یہ گھر بنایا تھا اور پورے یورپ سے بڑی بڑی نادر اور قیمتی چیزیں لا کر اس گھر کی سجاوٹ کی تھی اور اب اس تنہائی کے زمانے میں کسی نے آ کر بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے خوبصورت گھر کی تعریف کی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے صحرا میں بہار آ گئی ہو اور وہ اظہار تشکر کے طور پر یہی کار تحفے کے طور پر دے سکتی تھی جو اس کا قیمتی سرمایہ اور شوہر کی نشانی تھی۔ میں آپ کو ڈونلڈمیکموہن کی کہانی بتاتا ہوں جو نیویارک میں ایک بڑا آفیسر تھا۔ اس نے مجھے بتایا ’’ کیسے دوست بنائے جائیں اور لوگوں کو متاثر کیا جائے۔‘‘ جب اس موضوع پر میں نے آپ کا کورس اٹینڈ کیا تو کچھ ہی عرصے بعد میں ایک مشہور اٹارنی کی جاگیر پر قدرتی مناظر کی تصویر کشی کر رہا تھا کہ جاگیر کا مالک وہاں آیا اور اس نے مجھے کچھ تجاویز دیں۔ میں نے اٹارنی سے کہا ’’ آپ کا بہت ہی پیارا مشغلہ ہے۔ میں اس کے خوبصورت کتوں کی تعریف کر رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے میڈسن سکوائر گارڈن میں کئی انعامات جیتنے ہونگے‘‘ اس تھوڑی سی بات کا حیران کن اثر ہوا۔ اٹارنی نے جواب دیا ’’ ہاں مجھے اپنے کتے بہت پسند ہیں آپ ان کے گھر دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘ وہ تقریباً ایک گھنٹے تک مجھے کتوں کے گھر دکھاتا رہا۔ اس نے مجھے وہ انعامات دکھائے جو اس نے ان خوبصورت، صاف ستھرے کتوں کی وجہ سے جیتے تھے۔ آخر میں اس نے میری طرف مڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’ کیا آپ کے چھوٹے بچے ہیں؟‘‘ ’’ہاں‘‘ میں نے جواب دیا ’’ میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے‘‘ تو وہ یقینا ایک کتے کا بچہ ضرور پسند کرے گا۔ اٹارنی نے جواب دیا۔ اس کے بعد اٹارنی نے مجھے یہ بتانا شروع کیا کہ کتے کی پرورش کیسے ہوتی ہے اور اسے کیا خوراک دی جاتی ہے۔ پھر وہ بولتے بولتے رک گیا اور کہنے لگا ’’ اس طرح تم بھول جاؤ گے۔ میں تمہیں یہ سب کچھ لکھ کر دوں گا۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں گیا اور اس نے تمام ہدایات مجھے ٹائپ کر کے دیں۔ مجھے کئی سو مالیت کا خوبصورت کتا دیا اور سوا گھنٹے سے بھی زیادہ ا پنا قیمتی وقت مجھے دیا۔ صرف اس لیے کہ میں نے اس کے مشغلے اور کاموں کی تعریف کی تھی۔ کوڈک فیم کے جارج ایسٹلمین نے ٹرانسپیرنٹ فلم ایجاد کی جس کے باعث موشن پکچرز کو رواج حاصل ہوا او راس نے اس سے نہ صرف لاکھوں، کروڑوں ڈالر کمائے بلکہ بہت شہرت بھی کمائی۔ مگر اسے اپنے ان کارناموں کی بہت کم داد ملی۔ جب وہ ایسٹلمین سکول آف میوزک اور روچیسٹر میں ’’ کلبورن ہال‘‘ بنا رہا تھا تو اس وقت سپرئیرٹینگ کمپنی کے صدر جیمز ایڈمن اس سے اس کے ہال اور سکول کے لیے کرسیاں خریدنے کا آرڈر لینا چاہتا تھا۔ اس نے ایسٹیمین آرکٹیکچر کو فون کیا اور اس سے ملاقات کا وقت لیا۔ جب ایڈمن ملنے کے لیے ایسٹیمین کے دفتر میں پہنچا تو آرکٹیکچر نے کہا۔ ’’ میں جانتا ہوں کہ تم کرسیوں کی فراہمی کا آرڈر لینا چاہتے ہو مگر میں تمہیں ابھی سے یہ بتا دوں کہ پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتا۔ مسٹر ایسٹمین ڈسپلن کا بہت پابند ہے وہ بہت مصروف آدمی ہے لہٰذا مختصر الفاظ میں اپنی بات مکمل کرنا اور باہر آ جانا۔‘‘ ایڈمن بالکل اس طرح کرنے پر ذہنی طور پر تیار ہو گیا تھا۔ جب ایڈمن ایسٹمین کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ وہ میز پر فائلوں کا انبار رکھے ہوئے ایک فائل کا مطالعہ کر رہا ہے۔ ایسٹمین نے اس کو دیکھا۔ اس نے اپنی عینک اتار دی اور آرکٹیکچر اور مسٹر ایڈمن کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ’’ گڈ مارننگ جنٹلمین میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔‘‘ دونون کا تعارف ہو ااور مسٹر ایڈمن نے کہا’’ مسٹر ایسٹیمن جب ہم آپ کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہے تھے تو میں آپ کے شاندار دفتر کی تعریف کر رہا تھا۔ میں اس قسم کے دفتر میں کام کرنا یقینا پسند کروں گا۔ میں اندرونی سجاوت کا کاروبار کرتا ہوں۔ لیکن میں نے اس سے زیادہ خوبصورت دفتر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں آپ کی چوائس اور ذہانت کی داد دیتا ہوں۔‘‘ جارج ایسٹمین نے جواب دیا ’’ آپ نے مجھے کچھ ایسی باتیں یاد دلا دی ہیں جنہیں میں بھول گیا تھا۔ یہ خوبصورت ہے نا؟ جب یہ پہلی بار بنایا گیا تو میں نے اسے بہت پسند کیا مگر اب میرے ذہن میں کچھ اور تبدیلیاں ہیں جو میں اس دفتر کی سجاوٹ میں لانا چاہتا ہوں۔‘‘ ایڈمن نے ایک دروازے کو ہاتھ سے رگڑا اور کہا کہ یہ انگلش شاہ بلوط ہے نا؟ اور اس دروازے کی ساخت اٹلی میں بننے والے دروازوں سے ذرا سی مختلف ہے۔ ’’ ہاں‘‘ ایسٹیمین نے جواب دیا ’’ یہ امپورٹڈ انگلش شاہ بلوط ہے۔ اس کا انتخاب میرے دوست نے کیا جو لکڑی کے کام کا ماہر ہے۔ ایسٹمین نے اسے کمرہ دکھایا۔ اس کے بعد وہ کمرے میں موجود کھڑکی کے پاس رکے او رجارج ایسٹیمین نے اپنی روائتی ملائمت کے ساتھ بعض اداروں کا ذکر کیا جن کے ذریعے وہ انسانیت کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان اداروں میں روچسٹر یونیورسٹی، جنرل ہسپتال، ہومیو پیتھک، فرینڈلی ہومز اور چلڈرن ہسپتال، مسٹر ایڈمن اس کی نفاست کی دل کھول کر تعریف کی اور اس نے کہا کہ آپ اپنی دولت کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے بہت صحیح طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ جارج ایسٹمین نے ایک دراز کھولا اور اس میں سے ایک کیمرہ نکالا۔ جو اس نے ایک انگریز سے خریدا تھا۔ ‘‘ ایڈمن نے اس سے ابتدائی دنوں میں اپنے کاروبار کی ساکھ بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں سوالات کئے گئے اور ایسٹمین نے بڑی ایمانداری کے ساتھ بچپن اور لڑکپن میں اپنی غربت کے بارے میں بتایا اس نے بتایا کہ اس کی بیوہ ماں ایک بورڈنگ ہاؤس میں کام کرتی تھی اور وہ خود ایک انشورنس کلرک تھا۔ غربت کی چکی میں وہ دن رات پس رہا تھا اور اس دوران وہ ہر وقت یہی سوچا کرتا تھا کہ کس طرح وہ اتنی دولت کمائے کہ اس کی بیوہ ماں کو ملازمت نہ کرنی پڑے۔ ایڈمن اس سے مزید سوالات کرتا رہا اور ایسٹمین نے اسے ڈرانی فوٹو گرافک پلیٹوں کے بارے میں اپنے تجربے سے آگاہ کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ کس طرح سارا سارا دن ایک دفتر میں کام کرتا تھا اور بعض اوقات کام کرتے کرتے رات بیت جاتی تھی۔ جیمز ایڈمن جارج ایسٹمین کے دفتر میں سوا دس بجے داخل ہوا تھا اور اسے یہ تاکید کی گئی تھی کہ وہ پانچ منٹ سے زیادہ بات نہ کرے۔ مگر دو گھنٹے گذر چکے تھے اور وہ ابھی تک گفتگو کر رہے تھے۔ بالآخر ایسٹمین ایڈمن کی طرف مڑا اور اسے بتایا کہ پچھلی دفعہ جب وہ جاپان میں تھا تو اس نے چند کرسیاں خریدیں وہ انہیں یہاں لایا اور انہیں پورچ میں رکھ دیا۔ جہاں سورج کی براہ راست روشنی ان پر پڑتی تھی۔ لیکن اس روشنی نے کرسیوں کا رنگ خراب کر دیا۔ اس کے بعد میں خود بازار گیا۔ پینٹ خریدار اور ان کرسیوں کو خود رنگ کیا۔ کیا آپ یہ دیکھنا پسند کریں گے کہ میں نے ان کرسیوں کو کس طرح پینٹ کیا ہے؟ آپ میرے ساتھ گھر آیئے اور دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائیں گے اس کے بعد آپ کو کرسیاں دکھاؤں گا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ایسٹمین نے ایڈمن کو وہ کرسیاں دکھائیں جو وہ جاپان سے خرید کر لایا تھا۔ ان کی قیمت اگرچہ چند ڈالروں سے زیادہ نہیں تھی جارج ایسٹمین جو ایک کروڑ پتی تھا اور اس نے ان کرسیوں پر خود پینٹ کیا تھا۔ اس لیے اسے یہ کرسیاں بہت پسند تھیں۔ ایسٹمین کے سکول اور ہال کے لیے کرسیاں فراہم کرنے کا آرڈر نو ے ہزار ڈالر مالیت کا تھا۔ جو جیمز ایڈمن کو ملا اور اس کے بعد جارج ایسٹمین کی موت تک وہ دونوں بہترین دوست رہے۔ کلاؤڈی ماراٹس فرانش کے شہر روین میں ایک ریسٹورنٹ کا مالک تھا جس نے اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ریسٹورنٹ کے ایک اہم ترین ملازم کو کسی دوسری جگہ ملازمت اختیار کرنے سے روک لیا۔ یہ شخص (ملازم) ماراٹس اور اس کے اکیس سٹاف ممبران کے درمیان گذشتہ پانچ برسوں سے ایک اہم ترین رابطہ تھا کہ اچانک ایک دن اسے اپنے ملازم کا استعفیٰ موصول ہوا۔ آگے کی تفصیل مسٹر مارائس کی زبانی سنیں۔ ’’ مجھے بڑی حیرانگی بلکہ بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ میرے خیال میں میں اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتا تھا اور وہ میرے ملازم کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا۔ غالباً میں اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رہا تھا میں نے اس کا استعفیٰ نامنظور کر دیا۔ کیونکہ بغیر کسی وجہ کے یہ میرے لیے ناممکن تھا میں اسے ایک طرف لے گیا اور اسے کہا تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ میں تمہارا استعفیٰ منظور نہیں کر سکتا تم میرے لیے بہت اہم ہو بلکہ اس کمپنی کے لیے بھی بہت اہم ہو اور تم اس ریسٹورنٹ کی کامیابی کے لیے اتنے ہی اہم ہو جتنا کہ میں ہوں۔ میں نے یہ تمام الفاظ اسے تمام سٹاف کے سامنے بھی کہے میں نے اسے اپنے گھر بلایا اور اپنی فیملی کے سامنے ایک بار پھر اس پر اپنے اعتبار کا اظہار کیا۔ ‘‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا اور آ ج میں اس پر پہلے سے زیادہ اعتبار کرتا ہوں اب میں بعض اوقات یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اسے اس ریسٹورنٹ کی کامیابی کے بارے میں اپنے کردار کی اہمیت کا احساس ہے کئی بار اس کی تعریف کی اور اس کو یہ احساس دلایا کہ وہ میرے لیے کتنا اہم ہے۔ برطانوی سلطنت پر حکمرانی کرنے والا سب سے شاطر بادشاہ ڈزاریلی کا کہنا ہے’’ لوگوں سے ان کے بارے میں بات کرو اور اس کے بعد وہ گھنٹوں آپ کی باتیں سنیں گے۔‘‘ چھٹا اصول دوسرے شخص کو اس کی اہمیت کا احساس دلائیں او ریہ کام بڑے خلوص کے ساتھ کریں۔ یہاں ہم آپ کو چھ ایسے اصول مختصراً بیان کرتے ہیں جن پر عمل کر کے آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔ اصول نمبر ۱ دوسرے لوگوں میں صحیح طریقے سے دلچسپی لیں۔ اصول نمبر۲ مسکرائیں اصول نمبر۳ یاد رکھیں کہ کسی شخص کے لیے اس کا نام پکارے جانا دنیا میں سب سے زیادہ میٹھی اور اہم زبان ہے۔ اصول نمبر ۴ اپنے اندر دوسروں کی گفتگو توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سننے کی صلاحیت پیدا کریں اور دوسروں کی خود ان کے بارے میں بات چیت کرنے میں حوصلہ افزائی کریں۔ اصول نمبر ۵ دوسروں سے بات کرتے وقت ان کے مفادات کا خیال رکھیں۔ اصول نمبر ۶ دوسرے شخص سے بات کرتے وقت اسے یہ احساس دلاتے رہیں کہ وہ آپ کے لیے بے حد اہم ہے اور یہ کام بڑے خلوص اور ایمانداری سے کریں۔ ٭٭٭ تیسرا حصہ اپنے خیالات کے مطابق لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا طریقہ باب اول آپ بحث نہیں جیت سکتے پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے تھوڑے دنوں بعد میں نے ایک رات لندن میں ایک بہت ہی قیمتی سبق سیکھا۔ میں ان دنوں سر راس سمتھ کا منیجر تھا۔ جنگ کے دوران سر راس سمتھ فلسطین میں آسٹریلیا کا ہوا باز تھا اور امن قائم ہونے کے کچھ دنوں بعد اس نے دنیا کے گرد تیس دنوں کا میں چکر لگا کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کارنامہ کسی نے انجام نہیں دیا تھا۔ آسٹریلیا کی حکومت نے اسے پچاس ہزار ڈالر کا انعام دیا۔ برطانیہ کے بادشاہ نے اسے سر کا خطاب دیا اور جہاں جہاں دنیا میں برطانیہ کی حکومت تھی اس کے چرچے تھے۔ ایک رات لندن میں سر راس کے اعزاز میں دی جانے والی ایک ضیافت میں مدعو تھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے ایک مزاحیہ کہانی سنائی۔ جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ اس کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ وہ غلط کہہ رہا تھا میں جانتا تھا بلکہ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ بائبل سے نہیں ہے اور اس بارے میں ذرا بھر بھی شک نہیں تھا اور اس لیے اپنی اہمیت کا احساس او راپنی برتری کا احساس جتانے کے لیے میں نے اسے کہا کہ وہ غلط کہتا ہے یہ کہانی بائبل سے نہیں ہے اس شخص نے مجھے خشمگین نگاہوں سے دیکھا تو کیا یہ شیکسپیئر کے ڈرامے کی کوئی کہانی ہے؟ ناممکن لغویہ کہانی بائبل سے ہے اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ کہانی سنانے والا شخص میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اور فرینک گیمنڈ جو میرا ایک پرانا دوست تھا۔ میرے بائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ گیمنڈ نے شیکسپیئر کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہوا تھا لہٰذا میں اور کہانی سنانے والا اس پر رضا مند ہو گئے کہ مسٹر گیمنڈ ہمارے درمیان فیصلہ کرائے مسٹر گیمنڈ نے ساری بات سنی اور مجھے میز کے نیچے سے پاؤں مارا اور پھر کہا ’’ ڈیل تم غلط کہتے ہو یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے یہ کہانی بائبل سے ہی لی گئی ہے۔‘‘ ضیافت کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے میں نے گیمنڈ سے پوچھا کہ ’’ فرینک تم جانتے تھے کہ یہ کہانی شیکسپیئر کی تھی۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’ ہاں بالکل جانتا تھا۔‘‘ یہ کہانی شیکسپیئر کے ڈرامے ’’ ہملٹ‘‘ کے پانچویں ایکٹ کے دوسرے سین میں موجود ہے۔ لیکن ہم وہاں پر مہمان تھے۔ میرے پیارے ڈیل۔ ہم کیوں کسی شخص کو یہ ثبوت دیتے کہ وہ غلط ہے؟ ہم کیوں نہ اسے شرمندگی سے بچنے کا موقعہ دیں؟ کیوں اس سے بحث کریں؟ اس نے تم سے رائے نہیں مانگی تھی۔ وہ یہ چاہتا بھی نہیں تھا ہمیشہ تند و تیز بحث سے بچو، میرے دوست نے مجھے جو سبق دیا وہ میں کبھی نہیں بھول سکا۔ میں نے نہ صرف کہانی سنانیوالے کو مشکل میں ڈال دیا بلکہ اپنے دوست کو بھی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ میں اس بحث میں نہ پڑتا۔ مجھے اس سبق کی بہت سخت ضرورت تھی کیونکہ میں بہت زیادہ نکتہ چیں تھا۔ جوانی کے ایام میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس آسمان کے نیچے موجود ہر چیز کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا۔ جب میں کالج میں گیا میں نے منطق اور دلائل دینے کا فن پڑھا اور بہت سے تقریری مقابلوں میں حصہ لیا۔ جس میں مختلف طریقے اور اصول تھے۔ نیویارک میں تقریر کرنے کے مختلف آداب تھے لہٰذا وہاں مجھے ان کو سیکھنا پڑا اور مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ایک بار میں نے اس موضوع پر کتاب لکھنا چاہی۔ جس کے بعد میں ا س نتیجے پر پہنچا کہا ٓسمان کے نیچے کسی بحث سے کچھ حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اس طرح سے بچیں جیسے آپ سانپ زلزلے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ہر دس میں سے نو بحثیں اس نتیجے پر ختم ہوتی ہیں کہ اس میں حصہ لینے والے پہلے سے زیادہ پر اعتماد ہوتے ہیں کہ ان کے دلائل بہت صحیح تھے۔ آپ بحث نہیں جیت سکتے کیونکہ اگر آپ بحث میں ہار گئے تو بھی ہا رگئے اور اگر آپ جیت گئے تو بھی ہار گئے۔ کیسے؟ فرض کریں کہ آپ نے بحث جیت لی ہے تو پھر کیا ہو گا؟ آپ بہت خوشی محسوس کریں گے لیکن دوسرے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہار گیا ہے؟ آپ نے اسے کم تر ہونے کا احساس دلایا ہے۔ آپ نے اس کی عزت کو نقصان پہنچایا ہے اور اسے آپ کی جیت سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔ کئی برس پہلے پیٹرک ہیرے نے میرے کورسز میں شرکت کی۔ اس کی تعلیم واجبی سی تھی۔ وہ پہلے شوفر تھا جب وہ میرے پاس آیا کیونکہ وہ اس وقت ٹرکوں کو فروخت کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اگر کوئی گاہک اس کے ٹرک کے بارے میں کوئی غلط بات کہہ دیتا تو وہ فوراً اس سے جھگڑ پڑتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے ابھی تک گاہک کو کوئی ٹرک فروخت نہیں کیا ہے میں نے ابھی صرف اس کے بارے میں بتایا ہے اس لیے گاہک کو اس میں نقص نکالنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میرا پہلا مسئلہ پیٹرک ہیرے کو بات کرنے کا سلیقہ سکھانا نہیں تھا۔ میرا پہلا کام یہ تھا کہ ہیرے کو بات کرنے اور زبانی جھگڑا کرنے سے باز رکھوں۔ کیونکہ یہ بہت ضروری تھا اور اس کے بغیر پیٹرک کامیابی کی منزل کو نہیں چھو سکتا تھا۔ آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہو گی کہ پیٹرک ہیرے نیویارک کی وائٹ موٹر کمپنی کا سب سے کامیاب ترین سیلزمین تھا۔ ایسا کیسے ہوا؟ یہ کہانی اس کی زبانی سنیے ’’ اگر میں کسی گاہک کے پاس جاتا اور وہ مجھ سے پوچھتا کیا۔ سفید ٹرک؟ یہ کوئی اچھا ٹرک نہیں۔۔۔۔ میں یہ ٹرک کسی بھی قیمت پر نہیں خریدوں گا۔ اس وقت میرا دل چاہا کہ میں اس کا گلہ دبا دوں۔ لیکن میں نے سفید ٹرک کے بارے میں دلائل دینے شروع کر دیئے۔ جبکہ اس نے بتایا کہ وہ سرخ رنگ کا ٹرک خریدنا چاہتا ہے میں نے سرخ ٹرک کے خلاف دلائل دینے شروع کر دیئے۔‘‘ آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرانگی ہوتی ہے کہ میں کس طرح ٹرک فروخت کر لیا کرتا تھا میں نے کئی برس محض گاہکوں کے ساتھ بحث اور الجھنے میں گذارے۔ اب میں اپنا منہ بند رکھتا ہوں اور اس کا مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ فرینکلن کا کہنا ہے ’’ اگر آپ کسی کے ساتھ بحث کریں۔ کسی کو سرزنش کریں یا کسی سے اختلاف کریں آپ کچھ دیر کے لیے فتح حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ ایک خالی فتح ہو گی کیونکہ آپ کبھی بھی اپنے مد مقابل کا جذبہ خیر سگالی حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘‘ ’’ لہٰذا خود اس کا حل نکالیں کہ آپ کو اپنے مدمقابل پر فتح چاہیے یا اس کی خیر خواہی۔ کیونکہ آپ شاید ہی یہ دونوں چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔ بولٹن ٹرالنکرپٹ نے ایکبار یہ غیر شاعرانہ قسم کے مصرعے پرنٹ کئے۔‘‘ یہاں ولیم جے دفن ہے جو اپنے حقوق برقرار رکھنے کی کوشش میں مر گیا۔ وہ بالکل سچا تھا اور سچائی کے لیے مر گیا۔ لیکن وہ اس طرح مر گیا کہ جیسے وہ غلط تھا۔ آپ بالکل سچائی پر ہو سکتے ہیں چونکہ آپ اپنے دلائل میں بہت تیز ہیںلیکن جہاں تک آپ کے مد مقابل کے ذہن بدلنے کا تعلق ہے تو غالباً یہ اتنا ہی بے سود ہو گا جتنا کہ اگر آپ غلط ہوتے۔ ایک انکم ٹیکس کنسلٹنٹ فریڈرک ایس پارنسنر ایک سرکاری انکم ٹیکس آفیسر کے ساتھ ایک گھنٹے سے تکرار کر رہا تھا۔ ان کے درمیان نو ہزار ڈالر کی ایک رقم کا تنازعہ تھا۔ مسٹر پارنسز کا کہنا ہے کہ یہ نو ہزار ڈالر ایک ایسی جگہ قرض دیئے گئے ہیں جہاں سے اس کی واپسی نہ ہو گی۔ لہٰذا اس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے مگر انکم ٹیکس آفیسر کا اصرار تھا کہ نہیں اس پر ٹیکس لگے گا۔ مسٹر پارنسنر نے بتایا ’’ یہ آفیسر بہت روکھا، گھمنڈی اور ہٹ دھرم تھا۔ میری تمام وجوہات اور حقائق ضائع گئے جتنا عرصے تک ہم بحث کرتے رہے وہ اتنا ہی گھمنڈی بنتا گیا۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سے بحث نہیں کروں گا۔ میں نے موضوع بدل دیا اور اس کی تعریف کرنی شروع کر دی۔‘‘ میں نے کہا ’’ میرا خیال ہے کہ ان اہم اور مشکل فیصلوں کے مقابلے میں جنہیں آپ نے ابھی کرنا ہے یہ ایک بہت ہی معمولی سا معاملہ ہے میں نے ٹیکشن کا خود مطالعہ کیا ہے۔ مگرمیرا کتابی علم ہے مگر آپ کا علم تجربے کی بھٹی سے حاصل کیا گیا ہے بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ میں بھی آپ کی طرح انکم ٹیکس آفیسر بنوں۔ اس سے میں بہت کچھ سیکھوں گا۔ میرا مطلب ہے کہ سب کچھ۔‘‘ ’’ اس کے فوراً بعد آفیسر اپنی کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر پیچھے کو جھکا اور کافی دیر تک اپنے کام کے بارے میں مجھ سے گفتگو کرتا رہا۔ اس نے مجھے ایسے فراڈ بتائے جو اس نے پکڑے تھے اس کا لہجہ آہستہ آہستہ دوستانہ ہو گیا۔ جب وہ روانہ ہوا تو اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ معاملے پر غور کرے گا اور چند دنوں میں مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کرے گا۔‘‘ ’’ وہ تین روز بعد میرے دفتر میں آیا اور اس نے مجھے اپنے فیصلے کے متعلق بتایا کہ اس نے میری خواہش کے مطابق نو ہزار ڈالر کی رقم پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ انکم ٹیکس آفیسر دراصل اپنی اہمیت جتوانا چاہتا تھا اور جب تک مسٹر پارنسنر اس کے ساتھ بحث کر رہے تھے تو وہ زیادہ زور سے گفتگو کر کے اپنی اہمیت اور اختیارات کو جتا رہا تھا مگر جونہی اس کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا تو وہ ایک ہمدرد انسان بن گیا۔ بدھا نے ایک بار کہا تھا ’’ نفرت کو نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اور اسی طرح ایک غلط فہمی کو آپ بحث کر کے نہیں ختم کر سکتے اس میں ڈپلومیسی، مصالحانہ انداز اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسرے کے نقطہ پر ہمدردانہ غور کرنا ہوتا ہے۔ ابراہام لنکن نے ایک بار ایک نوجوان فوجی افسر کو اپنے ایک ساتھی افسر کے ساتھ تند و تیز بحث کرنے پر سرزنش کی۔ لنکن نے کہا ’’ جو شخص زیادہ وقت اپنے آپ کو سنوارنے اور اپنی اصلاح کرنے میں صرف کرتا ہے اس کے پاس لڑائی جھگڑے کے لیے وقت نہیں بچتا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ ایک کتے کو پہلے گزرنے دیں تاکہ وہ آپ کو کاٹ نہ لے۔ لیکن اگر کتے نے آپ کو کاٹ لیا تو بھی کتے کو مار دینے سے بھی اس کا علاج نہیں ہو گا۔ ’’ Bits and Pieces‘‘ نامی ایک آرٹیکل میں بحث سے بچنے کے لیے بعض مشورے دیئے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔‘‘ اختلاف کو پسند کریں اس نعرے کو یاد رکھیں ’’ جب دو پارٹنر ہمیشہ متفق ہوتے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ دونوں واقعی ایک دوسرے سے متفق ہو گئے ہیں۔‘‘ اگر کوئی ایسا نکتہ ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا تو اگر یہ آپ کی نظر میں آ گیا تو شکر ادا کریں۔ شاید یہ اختلاف کا نقطہ آپ کے لیے موقعہ ہے کہ اپنے آپ کو درست کر لیں قبل اس کے کہ آپ سے کوئی فاش غلطی ہو جائے۔ اپنے پہلے فطری تاثر پر اعتبار نہ کریں کسی قسم کی اختلافی صورت حال میں ہمارا پہلا فطری رد عمل دفاعی ہونا چاہیے۔ احتیاط سے کام لیں۔ خاموشی سے اپنے پہلے رد عمل کا بغور جائزہ لیں ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے بہترین ہونے کی بجائے بدتر ہو۔ اپنے غصے پر قابو رکھیں یاد رکھیں کہ آپ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ کس چیز نے اسے غصہ دلایا ہے اور پھر اس چیز کو رفع کر دیں۔ پہلے سنیں اپنے مخالف کو پہلے بات کرنے کا موقعہ دیں اسے اپنی بات ختم کرنے دیں مزاحمت نہ کریں اور نہ ہی اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے صرف رکاوٹیں پیدا ہونگی ایک دوسرے کا موقف سمجھنے کی کوشش کریں اپنے درمیان غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی نہ کریں۔ مفاہمت کی راہیں تلاش کریں جب آپ کا مخالف اپنی بات ختم کر چکے تو آپ یہ دیکھیں کہ اس کی کونسی ایسی باتیں ہیں جن سے آپ متفق ہیں۔ ایماندار بنیں آپ دیکھیں کہ آپ کے مخالف نے جو باتیں کہی ہیں ان میں سے کتنی صحیح ہیں اور اگر کہیں آپ کی غلطی ہو تو بڑی فراخدلی سے اپنی غلطی تسلیم کر لیں۔ اس سے آپ کا مخالف بالکل تنہا ہو جائے گا اور آپ کی دفاعی پوزیشن ختم ہو جائے گی۔ اپنے مخالف کے خیالات پر غور کرنے کا وعدہ کریں آپ کا مخالف سچا بھی ہو سکتا ہے۔اس سٹیج پر یہ زیادہ آسان ہے کہ آپ اس کے نقطہ نظر پر غور کرنے کا فیصلہ کریں۔ بجائے اس کے بحث کرتے جائیں اور اختلاف زیادہ ہو جائے اور آپ کے مخالف کو یہ کہنے کا موقعہ مل جائے کہ میں تو آپ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر آپ میری بات سن ہی نہیں رہے۔ اپنے مخالف کا اس کی دلچسپی پر شکریہ ادا کریں یاد رکھیں کہ کوئی بھی شخص جو آپ سے اختلاف کرتا ہے دراصل اس مسئلے میں دلچسپی لے رہا ہے جس میں آپ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس طرح آپ ایک دوسرے کی مدد کر کے مخالفت کو دوستی میں بدل سکتے ہیں۔ اپنے رد عمل کو ملتوی کر دیں تاکہ دونوں کو مسئلے پر دوبارہ غور کرنے کا وقت مل سکے یہ تجویز کریں کہ ہمیں شام کو یا دوسرے روز اس مسئلے پر دوبارہ بات کرنی چاہیے تب تک ہم اس مسئلے پر خوب اچھی طرح غور و غوض کر لیں۔ دوبارہ ملاقات کی تیاری کرنے سے پہلے آپ اپنے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کریں۔ کیا میرا مخالف ٹھیک ہو سکتا ہے؟ کس حد تک سچا ہے؟ کیا اس کے دلائل میں سچائی ہے؟ کیا میرے رد عمل سے مسئلہ حل ہو جائے گا ؟ کیا میرے رد عمل سے میرا مخالف مجھ سے زیادہ دور ہو جائے گا یا نہیں؟ کیا میں جیت جاؤں گا یا ہار جاؤنگا؟ اگر میں جیت گیا تو مجھے کیا قیمت دینی پڑے گی؟ اگر میں خاموش رہوں تو کیا اس سے مسئلہ ختم ہو جائے گا؟ جان پسرس کی شادی کو جب تقریباً پچاس برس ہو گئے تو اس نے ایک بار کہا ’’ میں نے اور میری بیوی نے کئی برس پہلے ایک معاہدہ کیا تھا اور ہم ایک دوسرے سے کتنا بھی ناراض رہے ہوں اگر ہم نے اس معاہدے پر عمل کیا۔ وہ معاہدہ یہ تھا کہ جب ایک اپنا غصہ نکال رہا ہو گا تو دوسرا سنے گا۔ کیونکہ جب دونوں بیک وقت اپنا غصہ نکال رہے ہونگے تو ان کے درمیان تلخی ہو گی۔ بات بگڑ جائے گی اور بول چال بند ہو جائے گی۔‘‘ اصول نمبر ۱ ’’ بحث سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بحث نہ کریں۔‘‘ باب دوئم دشمن بنانے کا ایک یقینی طریقہ اور اس سے کیسے بچا جائے جب روز ویلٹ وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے صدر کی حیثیت سے مقیم تھا تو وہ یہ تسلیم کرتا تھا کہ اگر میں وقت کے مطابق ۷۵ فیصد صحیح ہو سکوں تو میں اپنی توقعات کی انتہا تک پہنچ سکتا ہوں اگر بیسوی صدی کے ایک بہت ہی مشہور شخص کی یہ توقعات ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اور آپ کیا چیز ہیں؟ اگر آپ کو یقین ہو کہ آپ صرف ۵۵ فیصد درست ہیں تو آپ وال سٹریٹ میں آ جائیں اور ایک دن میں لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں اگر آپ کو ۵۵ فیصد درست ہونے کا یقین نہیں ہے تو آپ پھر دوسروں کو کیوں کہتے ہیں کہ وہ صحیح نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کو کسی خاص انداز میں مثلاً عجیب نظروں سے دیکھ کر انہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ غلط ہیں اور اگر آپ انہیں الفاظ کے ذریعے بتائیں کہ وہ غلط ہیں تو کیا آپ انہیں اپنا ہم خیال بنا سکیں گے؟ کبھی نہیں کیونکہ اس طرح آپ نے ان کی قابلیت پر ایک براہ راست چوٹ کی ہے اور وہ اس کا جواب دینا چاہیں گے آپ بعد میں بے شک ان سے الجھ پڑیں لیکن آپ ان کے خیالات کو بدل نہیں سکیں گے کیونکہ آپ نے نہ صرف ان کی قابلیت، ان کی عزت نفس بلکہ ان کے جذبات کو بھی ٹیس پہنچائی ہے۔ کبھی یہ اعلان نہ کریں کہ میں تمہیں اس کا ثبوت دوں گا۔ یہ ایک غلط بات ہے یہ دوسرے کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ وہ آپ سے کم تر ہے اور اسے اب اپنے خیالات کو بدل لینا چاہیے۔ یہ ایک چیلنج ہے اس سے دوسرے شخص کے دل میں مخالفانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ آپ کے بولنے سے پہلے ہی آپ سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ انتہائی خوشگوار ماحول میں بھی لوگوں کے خیالات کو بدلنا مشکل ہوتا ہے تو پھر اسے مشکل حالات میں بدلنے کی کوشش کیوں کی جائے؟ اگر آپ کوئی چیز ثابت کرنا چاہتے ہیں تو کسی کو اس کا پتہ نہ چلنے دیں۔ اسے اس قدر راز داری اور مہارت سے کریں کہ کسی کو احساس تک نہ ہو کہ آپ کچھ کر رہے ہیں جیسا کہ الیگزینڈر پوپ کا کہنا ہے۔ ’’ لوگوں کو اس طرح سکھاؤ کہ جیسے آپ انہیں سکھا نہیں رہے اور انہیں نامعلوم چیزوں کے بارے میں اس طرح بتائیں کہ جیسے وہ انہیں بھول چکے ہیں اور اب انہیں یاد دلا رہے ہیں۔‘‘ تین سو برس پہلے گیلیو نے یہ کہا تھا۔ ’’ آپ کسی بھی شخص کو سکھا نہیں سکتے۔ آپ محض اس کے اندر سے علم کو تلاش کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ لارڈ چیسٹر فیلڈ کا کہنا ہے ہو سکے تو دوسرے شخص سے زیادہ عقل مند نہیں مگر انہیں اس کا پتہ نہ چلنے دیں۔ سقراط نے ایتھنر میں اپنے پیروکاروں سے بار بار یہ کہا ’’ میں صرف ایک چیز جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔‘‘ میں سقراط سے زیادہ قابل ہونے کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا۔ لہٰذا میں نے لوگوں سے یہ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ وہ غلط ہیں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کا فائدہ یوں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک بیان دیتا ہے جو آپ کے خیال میں غلط ہے تو کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہو گا اگر آپ اس شخص کے ساتھ اس طریقے سے بات شروع کریں آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں مگر میرا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور اگر میرا موقف غلط ہو تو اسے صحیح بھی کیا جا سکتا ہے۔ آئیں ہم حقائق کا جائزہ لیں۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے یہ الفاظ کیا جادو جگاتے ہیں۔ خاص طور پر آپ کے یہ الفاظ ’’ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں۔ آئیے ہم حقائق کا جائزہ لیں‘‘ دنیا میں آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر یا پانیوں کے نیچے کوئی بھی شخص آپ کے ان الفاظ پر آپ سے اختلاف نہیں کرے گا۔ ’’ میں بھی غلط ہو سکتا ہوں۔ آئیے حقائق کا جائزہ لیں۔‘‘ ہمارا ایک دوست ہارولڈ رینکے اپنے گاہکوں کے ساتھ اس اصول کے تحت ڈیل کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ آٹو موبائل بزنس کے پریشر کے باعث اس پر اکثر تنگ مزاجی اور غصے کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور اس سے اکثر ماحول نہ صرف ناخوشگوار ہو جاتا تھا بلکہ اسے کاروبار میں بھی نقصان ہوتا تھا۔ اس نے ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے طلباء کو بتایا۔ ’’ اس پر میں نے ایک نیا طریقہ اپنایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ میں اپنے گاہکوں سے اس طرح مخاطب ہوں گا۔ ہم سے اس قدر غلطیاں ہو جاتی ہیں کہ ہمیں اکثر اوقات شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اور آپ جیسے لوگ ہی ہمیں ہماری غلطیوں کی نشاندہی کراتے ہیں اور اس طرح ہمیں یہ موقعہ ملتا ہے کہ اپنی غلطیوں کو ہم درست کریں۔ اس لیے ہم آپ کے شکر گذار ہیں۔ اس رویے نے بڑا کام دکھایا اور جب گاہک اپنے جذبات کا اظہار کر لیتا تو پھر عام طور پر اس کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بڑی آسانی رہتی۔ در حقیقت بہت سے گاہکوں نے میرے رویے کی تعریف کی اور ان میں دو گاہک اپنے دوستوں کو میرے پاس لے کر آئے اور انہوں نے مجھ سے کاریں خریدیں۔ ہمیں اپنے کاروبار جس میں کہ مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے اس قسم کے گاہکوں کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر تمام کو اسی طرح عزت دی جائے تو پھر آپ کا کاروبار پھل سکتا ہے۔‘‘ اگر آپ کو مکمل یقین ہے کہ دوسرا شخص غلط کہہ رہا ہے اور آپ بے دھڑک اسے کہہ دیتے ہیں کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ تو کیا ہوتا ہے میں اسے واضح کرتا ہوں۔ مسٹر سانتے نیو یارک کا ایک نوجوان وکیل ہے۔ ایک بار اس نے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے ایک بڑے اہم مقدمے میں دلائل دیئے۔ اس مقدمے کا تعلق بہت زیادہ رقم سے تھا اور اس میں ایک بہت ہی اہم قانونی نکتہ تھا۔ دلائل کے دوران ایک جج نے وکیل سے پوچھا۔ ’’ اس قسم کے قانونی معاملے میں زیادہ سے زیادہ میعاد چھ برس ہوتی ہے نا۔‘‘ مسٹر سانتے ایک دم رک گئے اور انہوں نے ایک لمحے کے لیے جج کی طرف گھور کر دیکھا اور پھر جواب دیا ’’ عزت مآب اس قسم کے قانون میں کوئی میعاد نہیں ہوتی۔‘‘ ’’ عدالت میں ایک سناٹا طاری ہو گیا۔‘‘ سانتے نے بتایا ’’ میں بالکل صحیح کہہ رہا تھا مگر جج غلطی پر تھا اور ایسا میں نے اسے بتا دیا تھا۔ لیکن کیا اس سے جج مطمئن ہو گیا؟ نہیں۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ میری قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور میرا خیال تھا کہ میں نے پہلے سے زیادہ اچھے دلائل دیئے ہیں لیکن میں نے ایک مشہور اور قابل جج کو اس کی غلطی کا بتا کر بہت بڑی غلطی کی اور اس طرح میں نے اس کے جذبات اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی۔‘‘ ہم میں سے محض چند لوگ منطقی ہوتے ہیں۔ باقی سب میں صرف تعصب بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے اپنے ذہن میں حسد، شک خوف اور جلن کے جذبات لیے ہوئے ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے مذہب اپنے بالوں کے سٹائل یا اپنے پسندیدہ ایکٹر کے بارے میں اپنا ذہن نہیں بدلنا چاہتے اس لیے اگر آپ اس بات پر مائل ہوں کہ آپ لوگوں کو یوں بتائیں کہ وہ غلط ہیں تو ہر صبح ناشتے سے پہلے یہ پیراگراف ضرور پڑھیں۔ یہ جیمز ہاروے رابنسن کی مشہور کتاب The Mind in the Making سے لیا گیا ہے۔ ’’ ہم بعض اوقات کسی قسم کے دباؤ یا بھاری جذبات کے بغیر اپنا ذہن بدل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں بتا دیا جائے کہ آپ غلط ہیں تو یہ بات ہمیں سخت ناگوار گذرتی ہے ۔ ایک چھوٹا سا لفظ ’’ میرا یا میری‘‘ انسانی معاملات میں سب سے اہم ہے اور یہیں سے عقل کا ارتقا ہوتا ہے۔ اس میں بھی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے جتنی ان الفاظ میں ہوتی ہے۔ جیسے ’’ میرا گھر‘‘ میرا والد، میرا ملک، میری کار اور میرا خدا ہم ہر وقت اس یقین میں رہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہیں گے اسے سچ مانا جائے گا اور ہم اس وقت سخت ناراض ہو جاتے ہیں جب ہمارے خیالات پر ذرا برابر بھی شک کیا جائے۔ اور ایسی صورتحال میں ہم اپنے خیالات سے ہی چمٹے رہتے ہیں خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف دوسروں کو ناراض کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے بھی ناخوشگوار حالات کا سامان پیدا کرتے ہیں۔‘‘ مشہور نفسیات دان کارل راجرز نے اپنی مشہور کتاب On Becoming a Person میں لکھا ہے۔ میں اس وقت کو اپنے لیے بہت قیمتی سمجھتا ہوں جب میں کسی دوسرے شخص کا نقطہ نظر سمجھنے کیلئے خود کو تیار کر لوں۔ جن الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے ہو سکتا ہے وہ آپ کو عجیب سے لگیں۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ آپ دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے خود کو تیار کریں۔ بہت سی باتوں کے بارے میں ہمارا پہلا رد عمل ان کے خیالات کو جانچنا ہونا چاہیے۔ جب کوئی شخص اپنے کسی خیالی رویے یا جذبات کا اظہار کرتا ہے تو ہم فوراً یہ سوچتے ہیں ’’ یہ غلط ہے‘‘ ’’ یہ صحیح ہے‘‘ یہ بالکل فضول ہے بہت کم ہم اس کے جذبات اور خیالات کو سمجھنے کے لیے خود کو آمادہ کرتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک اندرونی سجاوٹ کے ماہر کو اپنے گھر کے لیے پردے تیار کرنے کا آرڈر دیا۔ جب اس نے مجھے بل بنا کر دیا تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ چند روز بعد میرا ایک دوست گھر آیا اور اس نے پردوں کو دیکھا۔ میں نے پردوں کی قیمت بتائی تو فوراً وہ چونک اٹھا ’’ کیا؟‘‘ اس نے کہا میں نے پردوں کی بہت زیادہ قیمت ادا کی ہے۔ ہاں یہ صحیح تھا اور اس نے مجھے صحیح بتایا تھا مگر بہت سے لوگ اپنے فیصلوں کے بارے میں سچائی سننا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ایک انسان کی طرح میں نے اپنے فیصلے کا دفاع کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ بہترین چیز خریدنے کے لیے زیادہ قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اگلے دن ایک اور دوست میرے گھر آیا اس نے پردوں کی تعریف کی اور اس نے کہا کاش مجھے بھی اپنے گھر کے لیے ایسے پردے مل جائیں میرا رد عمل بہت مختلف تھا۔ میں نے کہا کہ میں اتنے مہنگے پردے خرید نہیں سکتا تھا۔ میں نے ان کے لیے پیسے دیئے ہیں جن کا مجھے افسوس ہے۔ ’’ جب ہماری غلطی ہو تو ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی غلطی کو اندر ہی اندر تسلیم کر رہے ہوتے ہیں اور اگر ہمیں بڑی ملائمت کے ساتھ ہماری غلطی کا احساس دلایا جائے تو ہم اپنی غلطی کو اعلانیہ طور پر تسلیم بھی کر سکتے ہیں مگر اگر کوئی بحث کے ذریعے دلائل کے زور سے ہمیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے تو ہم تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔‘‘ امریکی سول وار کے دوران گریلے امریکہ کا سب سے مشہور ایڈیٹر تھا وہ براہام لنکن کی پالیسیوں کی بڑی شد و مد کے ساتھ مخالفت کرتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس قسم کے طور طریقوں سے لنکن کو اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے۔ وہ ہر مہینے اورہر سال بعد لنکن پر سخت ترین الفاظ کے ساتھ تنقید کرتا دراصل اس نے لنکن کی موت سے ایک دن پہلے اس پر سخت ترین الفاظ میں طنز ور ذاتی حملے کئے تھے۔ لیکن کیا ان تمام حرکتوں سے اس نے ابراہام لنکن کو اپنا ہمنوا بنا لیا؟ ہرگز نہیں۔ اگر آپ لوگوں سے میل جول کرنے اور اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے مشورہ چاہتے ہیں تو بنجمن فرینکلن کی سوانح عمری ضرور پڑھیں۔ یہ امریکی ادب میں اب تک لکھی جانے والی ایک بہترین سوانح عمری ہے اس میں فرینکلن بتاتا ہے کہ اس نے خواہ مخواہ بحث کرنے کی اپنی عادت پر کیسے قابو پایا اور وہ کس طرح امریکی تاریخ کا ایک نہایت قابل اور معاملہ فہم شخص بنا۔ جب کبھی فرینکلن ایک غلطیاں کرنے والا نوجوان تھا تو اس کا ایک دوست ایک بار اسے کسی جگہ لے گیا اور وہاں اس نے اسے بعض حقائق بتائے۔ اس نے کہا۔ فرینکلن تم بہت ہی مشکل شخص ہو۔ جن سے تم اختلاف کرتے ہو ان کے لیے تمہاری رائے ان کے چہرے پر تھپڑ کی مانند ہے وہ اس قدر جارح ہو جاتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ تمہارے دوستوں کا خیال ہے کہ جب تم پاس نہیں ہوتے تو وہ بڑا سکون محسوس کرتے ہیں۔ تم اس قدر علم رکھتے ہو کہ کوئی شخص بھی تمہیں کچھ نہیں سکھا سکا اور کوئی بھی ایسی کوشش بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں بڑی مشکل اور سخت محنت کی ضرورت ہے اور تم جس پوزیشن میں اس وقت ہو ہمیشہ نہیں رہو گے۔ فرینکلن کے بارے میں ایک عمدہ ترین بات جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اس قسم کی سرزنش قبول کر لیتا ہے۔ وہ اتنا سمجھدار ہے کہ اس کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے اس لیے وہ فوراً اپنی پالیسی کو بدل لیتا ہے۔ فرینکلن کا کہنا ہے ’’ میں نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔ میں نے اپنے الفاظ میں تبدیلی پیدا کر لی ہے۔ اب میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہوں ۔ یقینا ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘ جب کوئی دوسرا شخص کوئی بات کرتا ہے جسے میں غلط سمجھتا ہوں۔ میں اس سے اختلاف نہیں کرتا بلکہ اسے کہتا ہوں کہ بعض معاملات میں اس کی رائے صحیح ہے لیکن اس مسئلے میں یہ ذرا سی مختلف ہے میں نے جلد ہی اپنے طریقوں میں تبدیلی محسوس کی اور دوسروں کے ساتھ میری گفتگو بڑی خوشگوار رہتی ہے اور ہمارے معاملات بڑی خوش اسلوبی سے طے پا جاتے ہیں۔‘‘ اور جو طریقہ میں پہلے اختیار کیا کرتا تھا۔ بعد میں اس قدر آسان ہو گیا کہ بعض اوقات میں خود بھی حیران ہو تا کہ مجھ میں اس قدر تبدیلی آ گئی ہے۔ اس سے میرے ملنے جلنے والوں میں میری عزت بڑھ گئی۔ حالانکہ میں بڑا مقرر تھا۔ تقریر کرتے ہوئے میری آواز لڑکھڑا جاتی تھی مگر اس کے باوجود میری باتوں کو لوگ سنتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے۔ فرینکلن کا یہ اصول کاروبار میں کس طرح کام آتا ہے؟ ہم اس کی دو مثالیں آپ کو دیتے ہیں۔ نارتھ کیرولینا کی کیتھرائن ایک یارن پروسینگ پلانٹ کی انڈسٹریل انجینئر سپروائزر تھی۔ اس نے ہمارے کورسز میں شرکت کرنے والے طلباء کو ایک لیکچر دیا۔ اس نے ایک حساس قسم کی صورت حال سے کس طرح نبٹا کرتی تھی اور ہمارا کورس پورا کرنے کے بعد وہ اس قسم کی صورت حال سے کیسے نبٹا کرتی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’ میری ذمہ داریوں میں پلانٹ پر کام کرنے والے کارکنوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا اور ان کے لیے کمائی کے زیادہ مواقع فراہم کرنا تھا۔ ہم نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بہت اچھی طرح چل رہا تھا۔ اس وقت ہمارے پاس دو قسم کے یارن تھے مگر حال ہی میں ہم نے اپنی پیداواری صلاحیتیں بڑھا لی ہیں اور ہم بارہ مختلف قسم کے یارن تیار کر رہے تھے۔ موجودہ طریقے کے مطابق کارکنوں کو اچھی تنخواہ نہیں مل رہی تھی او رمیں نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ اس کے مطابق ہم نے کارکنوں کو بتایا کہ وہ جس قسم کا یارن بنائیں گے اس قسم کا انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔ اس طریقے کو اپنے ذہن میں لیے میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں شرکت کے لیے گئی۔ میں نے بورڈ کے ارکان کو تفصیل کے ساتھ بتایا کہ وہ کہاں کہاں غلطی کر رہے ہیں اور کارکنوں کے ساتھ کہاں کہاں نا انصافی ہو رہی ہے مگر مجھ پر ہر طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہونے لگی اور میرے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو گیا اور یہ مسئلہ ختم ہو گیا۔‘‘ ’’ اس کورس میں شرکت کے بعد مجھے سب کچھ سمجھ میں آ گیا کہ مجھ سے کہاں کہاں غلطی ہوئی۔ میں نے ایک اور اجلاس بلایا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ بتائیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں۔ ہم نے ہر نکتے پر غور کیا۔ لہٰذا میں نے ان سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ ہمیں اس مسئلے پر کیسے آگے بڑھنا چاہیے۔ صحیح وقفوں کے دوران صحیح مشوروں کے بعد میں انہیں آہستہ آہستہ اپنے طریقہ کار کی طرف لے آئی۔ اجلاس کے آخر میں جب میں نے اپنا طریقہ کار ان کے سامنے پیش کیا انہوں نے فوراً ہی اسے منظور کر لیا۔۔۔۔‘‘ ’’ اب میں اس بات کی قائل ہو گئی ہوں کہ اگر آپ کسی شخص کو فوراً ہی ٹوک دیں کہ وہ غلط ہے تو نہ ہی وہ اس سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے بلکہ اس سے آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ صرف اس شخص کو غلط کہنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو اس کی نظروں میں گرانے کے باعث بنے ہیں۔‘‘ آیئے ایک اور مثال لیں اور یاد رکھیں کہ جن معاملات کی میں مثال دے رہا ہوں وہ ہزاروں لوگوں کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ نیویارک کی لمبر کمپنی میں ایک سیلز مین آر وی کرولی تھا۔ کرولی اکثر لوگوں کو ان کے منہ پر کہہ دیا کرتا تھا کہ تم غلط کہتے ہو اور اس طرح وہ بحث جیت لیا کرتا تھا۔ لیکن اس سے کرولی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں کے بارے میں کرولی کا کہنا تھا کہ وہ بیس بال کے ایمپائر ہیں اور جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو اسے تبدیل نہیں کرتے۔ کرولی نے جب محسوس کیا کہ اس کی دوسروں کے ساتھ بحث کرنے والی عادت سے اس کی فرم کو نقصان ہو رہا ہے۔ وہ میرے کورس میں شرکت کے لیے آیا۔ میرے کورس میں شرکت کے بعد اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور بحث کرنا چھوڑ دی۔ یہاں ہم آپ کو وہ کہانی تفصیل کے ساتھ بتا رہے ہیں جو اس نے ہمارے کورس کے دوران ایک لیکچردیتے ہوئے سنائی۔ ’’ ایک صبح میرے دفتر میں فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے ایک شخص بڑے غصے سے کہہ رہا تھا کہ ہماری کمپنی نے ایک کار جو اسے بھیجی ہے وہ غیر تسلی بخش حالت میں اسے ملی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم کار لینے سے انکاری ہیں۔ آپ ہمیں اس کے بدلے میں دوسری کار بھجوانے کا بندوبست کریں۔‘‘ ’’ میں فوراً پلانٹ کی طرف روانہ ہو گیا اور راستے بھر میں اس صورت حال سے نبٹنے کا بہترین طریقہ سوچتا رہا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد میں نے کورس میں شرکت کرنے کے دوران بتائے جانے والے اصول کے مطابق اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں پلانٹ پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں خریدنے والا ایجنٹ اور ہمارا کوالٹی کنٹرول افسر اس ساری صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے خوب مزے لے رہے تھے۔ ہم اس کار تک پہنچے جو واپس آ گئی تھی مجھے دیکھ کر وہ رک گئے مگر میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں تاکہ میں بذات خود یہ دیکھ سکوں کہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے اپنے کوالٹی کنٹرول آفیسر سے کہا کہ وہ کار کے مسترد شدہ پرزے ایک طرف کر دے۔ اور جب وہ ایسا کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ اچھے پرزے خراب پرزوں والے ڈھیر میں رکھ رہا ہے۔‘‘ اسے بغور دیکھنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ کوالٹی کنٹرول آفیسر کوالٹی کے اصولوں کی زیادہ پروا نہیں کر رہا۔ جس کی وجہ سے ہمارے گاہکوں کو شکایت ہے۔ میں آفیسر کو بغور دیکھتا رہا اور پھر اس سے سوالات کرنے شروع کئے کہ یہ پرزے خراب کیوں ہیں۔ اس دوران میں نے اسے ایک سیکنڈ کے لیے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ غلط ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں یہ سوالات اس لیے پوچھ رہا ہوں تاکہ مستقبل میں ہم اپنے گاہکوں کے لیے ان کی پسند کی کار فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ’’ اس طرح بڑے دوستانہ انداز میں سوالات پوچھ کر میں نے اس کے ذہن سے اپنے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی نکال دی۔ لیکن اس کے باوجود میں بہت محتاط تھا تاکہ اسے کسی قسم کا احساس نہ ہو کہ میں اس پر شک کر رہا ہوں۔ آہستہ آہستہ اس کا رویہ بالکل تبدیل ہو گیا۔ آخر کار اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ اس کی ناتجربہ کاری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس فرم کو دوبارہ کار روانہ کی گئی اور ہمیں فرم کی طرف سے پوری رقم کا چیک موصول کیا گیا۔‘‘ مارٹن لوتھر کنگ سے ایک بار پوچھا گیا کہ امریکی فضائیہ کے جنرل ڈینل چیسپی کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ ڈاکٹر کنگ نے جواب دیا اگرچہ ڈاکٹر ڈینل سیاہ فام ہے مگر میں لوگوں کو اپنے اصولوں کی بجائے ان کے اصولوں سے پرکھتا ہوں۔ اسی طرح جنرل رابرٹ لی نے ایک بار کنفیڈریس کے صدر جیمزسن ڈیوس سے ایک افسر کے بارے میں بہت ہی اچھے الفاظ میں گفتگو کی۔ اس دوران وہاں موجود ایک اور افسر بڑا حیران ہوا۔ اس نے جنرل سے کہا کہ کیا اسے یہ معلوم نہیں کہ جس شخص کی وہ اس قدر تعریف کر رہا ہے وہ اس کا سب سے بڑا مخالف ہے اور جو آپ کو ذلیل کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ جنرل لی نے جواب دیا ’’ ہاں میں جانتا ہوں کہ وہ میرا زبردست مخالف ہے مگر صدر نے مجھ سے اس کے بارے میں میری رائے پوچھی ہے ناکہ میرے بارے میں اس کی رائے۔‘‘ میں اس باب میں کوئی نئی بات نہیں بتا رہا ہوں۔ دو ہزار برس پہلے حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا تھا ’’اپنے مخالف سے بڑی جلدی متفق ہو جاؤ‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے بھی بائیس سو برس پہلے کے بادشاہ اختوئی نے اپنے بیٹے کو یہ قیمتی مشورہ دیا جو کہ آجکل بھی بہت ضروری ہے ’’ لوگوں سے گفتگو کرتے وقت معاملہ فہم بنو اس سے تم اپنے نقطہ نظر کو منوانے میں کامیاب رہو گے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں آپ کو اپنے گاہکوں سے بحث نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی بیوی/شوہر یا اپنے مخالف سے بحث نہیں کرنی چاہیے انہیں یہ نہ بتائیں کہ وہ غلط ہیں ان کو غصہ نہ دلائیں ان سے گفتگو کے دوران تھوڑی سی معاملہ فہمی دکھائیں۔ اصول نمبر ۲ دوسرے شخص کی رائے پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں۔ اسے یہ کبھی نہ کہیں کہ وہ غلط ہے۔ ٭٭٭ باب سوئم اگر آپ غلطی پر ہیں تو فوراً تسلیم کر لیں میرے گھر سے تقریباً ایک منٹ کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا جنگل تھا۔ جس کے ہرے بھرے درختوں پر گلہریاں اپنے بچوں کو پال کر جوان کرتی تھیں۔ جس کے درختوں کے نیچے گھڑ سوار شدید گرمی میں کچھ دیر ٹھہر کر آرام کر لیتے تھے۔ اس علاقے کو ’’ فورسٹ پارک‘‘ کہا جاتا تھا میں اپنے کئے ریکس کے ہمراہ اکثر اس پارک میں سیر کے لیے جایا کرتا تھا۔ میرا کتا کسی راہ گیر کو کچھ نہیں کہتا تھا اور ویسے بھی اس پارک میں شاذ و ناذر ہی لوگ آتے تھے۔ اس لیے میں اسے بغیر ڈوری کے ہی اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ ایک بار پارک میں ایک مونچھوں والے پولیس والے سے ہماری مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جو اپنا رعب جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے بغیر ڈوری کے اس کتے کو پارک میں کھلا کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ تم نہیں جانتے کہ یہ قانون کے خلاف ہے؟ میں نے بڑی نرمی سے جواب دیا۔’’ ہاں میں جانتا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کتا کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ ’’ تمہارا خیال ہے‘‘ تمہارا خیال ہے قانون اس بات کو نہیں جانتا کہ تمہارا خیال ہے یہ کتا اس اس پارک میں کسی گلہری یا کسی بچے کو کاٹ سکتا ہے اس دفعہ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ اگر میں نے اس کتے کو دوبارہ یہاں دیکھ لیا بغیر ڈوری کے تو میں اسے پکڑ لوں گا۔ میں نے بڑی انکساری کے ساتھ اس سے وعدہ کر لیا کہ میں آئندہ سے احتیاط کروں گا اور میں نے احتیاط کی۔ لیکن ریکس نے اس پابندی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا اور نہ ہی میں احتیاط کر سکا۔ لہٰذا میں نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا جب ہم پارک میں پہنچے تو میری مایوسی کی کوئی انتہا نہیں رہی کہ وہاں پر ایک مجسٹریٹ بمع چند سپاہیوں کے کھڑا تھا۔ ریکس بالکل سیدھا آفیسر کی طرف جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ پولیس مین کچھ کہتا میں نے ریکس کو مارا اور کتے کو آگے بڑھنے سے روکا اور پولیس مین سے کہا ’’ آپ نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے میں قصور وار ہوں میں کوئی بہانہ نہیں بناؤں گا۔ آپ نے مجھے گذشتہ ہفتے منع بھی کیا تھا مگر میں اس کے باوجود ڈوری کے بغیر کتے کو یہاں لے کر آیا ہوں۔‘‘ مگر اس دفعہ پولیس مین نے بڑی آہستگی سے کہا ’’ میں جانتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب ارد گرد کوئی نہ ہو کتے کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے میں نے جواب دیا ’’ مگر یہ قانون کے خلاف ہے‘‘ پولیس مین نے کہا ’’ خیر اتنا چھوٹا کتا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ مگر وہ گلہریوں کو مار سکتا ہے پولیس مین نے پھر کہا ’’ میرا خیال ہے تم اسے کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے رہے ہو۔ میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیا کرنا چاہیے۔ تم اسے اس سامنے والی پہاڑی پر لے جاؤ۔ وہاں میری نظر نہیں پڑے گی اور ہم اس بارے میں بھول جائیں گے۔‘‘ یہ پولیس والا اپنی اہمیت چاہتا تھا اور جب میں نے خود اپنے اوپر نکتہ چینی شروع کر دی تو اس کے لیے اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی خودی کی تسکین کے ساتھ ساتھ رحم کا بھی مظاہرہ کرے۔ لیکن فرض کریں اگر میں اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتا تو؟ کیا آپ نے کبھی کسی پولیس والے سے بحث کی ہے؟ مگر میں نے اس سے بحث کرنے کی بجائے اپنی غلطی فوراً مان لی اور یہ معاملہ بہت جلد طے پا گیا اور ذرا اس بات کو نوٹ کریں کہ یہ وہی پولیس والا تھا جس نے ایک ہفتے قبل مجھے بڑی سختی سے وارننگ دی تھی اور مجھے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی مگر اب جب میں نے اس کو اہمیت دی تو وہ بڑا رحم دل بن گیا۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہماری کسی غلطی پر ہمیں ڈانٹ پڑے گی تو کیوں نہ ہم خود اپنے آپ کو ڈانٹ لیں۔ اپنا محاسبہ کرنا اس بات کی نسبت بہت آسان ہے کہ کوئی آپ پر نکتہ چینی کرے۔ آپ اپنے آپ کو تمام وہ گالیاں دے لیں جو آپ کے خیال میں دوسرا شخص آپ کو دے سکتا ہے اور اگر ہو سکے تو دوسرے شخص کے سامنے ہی اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیں اور پھر دیکھیں صرف ایک کے مقابلے میں سو بار آپ کامیاب ہونگے اور دوسرا شخص آپ کے ساتھ رحمدلی کے ساتھ پیش آئے گا۔ جیسا کہ میرے ساتھ ریکس والے معاملے میں پولیس والے نے کیا۔ فرڈنینڈ وارن کو جو ایک کمرشل آرٹسٹ تھا اپنے شعبے کے بعض افراد کے ساتھ لین دین کرنے میں بڑی مشکل پیش آتی تھی۔ اس نے ان افراد کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ مسٹر وارن کی زبانی سنیں۔ ’’ بعض آرٹ ایڈیٹروں کا یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ انہیں ان کا کمشن فوراً ادا کر دیا جائے اور اس جلدی میں کوئی معمولی سی غلطی ہو جانے کا ہر وقت احتمال رہتا تھا۔ میں ایک ایسے آرٹ ڈائریکٹر کو جانتا تھا جو معمولی معمولی غلطیوں کو بھی نوٹ کیا کرتا تھا اور ہمیشہ بڑی حقارت سے اس کے دفتر سے واپس آیا کرتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ میں نکتہ چینی برداشت نہیں کر سکتا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کا رویہ بہت ہی ناقابل برداشت ہوتا تھا۔ حال ہی میں میں نے اس آرٹ ڈائریکٹر کو بڑی جلدی میں ایک کام کر کے دیا۔ اس نے مجھے فون کیا کہ میں فوراً اس کے دفتر پہنچوں۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہی کچھ میں نے دیکھا جس کا مجھے اندازہ بھی تھا اور خوف بھی۔ وہ غصے میں غرآ رہا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں نے اس کام کو اس طرح کیوں نہیں کیا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر وہ صحیح ہے تو میرے پاس اپنی غلطی کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ میں کافی عرصے سے آپ کے لیے کام کر رہا ہوں۔ آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے میں اپنی غلطی پر اپنی شرمندگی کے اظہار کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہنے کی دیر ہے کہ اس نے فوراً کہا ’’ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو مگر یہ کوئی بڑی غلطی نہیں ہے یہ بڑی معمولی غلطی ہے۔‘‘ لیکن میں بھی مزہ لینے کے موڈ میں تھا میں نے کہا یہ غلطی بہت مہنگی بھی ثابت ہو سکتی تھی۔ مجھے آئندہ بہت احتیاط کرنی ہو گی۔ آپ مجھے بہت کام دیتے ہیں اور میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کی تسلی کے مطابق کام کر کے دوں میں اس کام کو دوبارہ کروں گا۔ ’’ نہیں نہیں‘‘ اس نے جواب دیا’’ تمہیں یہ سب کچھ دوبارہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ اس نے میرے کام کی تعریف کی اور کہا کہ وہ صرف ایک معمولی سی تبدیلی چاہتا ہے اور اس میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ’’ خود اپنے پر نکتہ چینی کر کے میں نے اس کی طرف سے جھگڑا کرنے کے تمام امکانات کو ختم کر دیا۔ گفتگو کے اختتام پر اس نے مجھے دوپہر کے کھانے کی دعوت دی اور جب میں روانہ ہونے لگا تو اس نے مجھے میرے کام کے معاوضے کے علاوہ مزید کمشن بھی دیا۔‘‘ اگر کوئی اپنی غلطی مان لے تو اس کی بڑی حد تک تسکین ہوتی ہے اس سے نہ صرف اس کے اندر سے احساس جرم ختم ہو جاتا ہے بلکہ اس کی دفاعی پوزیشن بھی ختم ہو جاتی ہے اور اکثر اوقات اس سے مسئلے کا حل بھی نکل آتا ہے۔ نیو میکسیکو کے بروس ہاروے نے ایک بار ایک ایسے ملازم کو پوری تنخواہ دے دی جو بیماری کی رخصت پر تھا۔ جب اسے اس غلطی کا احساس ہوا تو اس نے ملازم کے نوٹس یہ بات لائی اور اسے کہا کہ اگلی دفعہ اس کی تنخواہ سے یہ اضافی رقم کاٹ لی جائے گی۔ ملازم نے جواب دیا کہ چونکہ اس سے میں سنگین مالی بحران کا شکار ہو جاؤں گا۔ کیا میں یہ رقم قسطوں میں ادا کر سکتا ہوں ہاروے نے کہا کہ اس صورت میں اسے اپنے افسر سے بات کرنی ہو گی اور شاید وہ اس کی منظوری نہ دے۔ بہرحال کسی نتیجے پر پہنچنے کی سوچ بچار میں ہاروے نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ میری غلطی سے ہوا ہے اس لیے اس صورت حال کے تدارک کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ میں اپنی غلطی باس کے سامنے تسلیم کر لوں گا باقی ہاروے کی اپنی زبانی سنیں۔ ’’ میں اپنے باس کے کمرے میں گیا اور اس کو بتایا کہ میں نے غلطی کی ہے میں نے اسے تمام حقائق سے آگاہ کیا۔ اس نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ یہ پرسنل ڈیپارٹمنٹ کی غلطی ہے۔ میں نے دوبارہ کہا ’’ نہیں سر یہ میری غلطی ہے۔‘‘ اس نے دفتر کے دو دوسرے افراد پر الزام لگایا کہ یہ ان کی غلطی ہے۔ لیکن ہر بار میں نے کہا کہ ’’ یہ میری غلطی ہے‘‘ آخر کار اس نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’ اوکے یہ تمہاری غلطی ہے اور تم ہی اسے ٹھیک کرو۔‘‘ غلطی درست کر دی گئی اور کسی کو بھی تکلیف نہیں ہوئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ میں نے ایک تناؤ کی سی صورت حال پر اپنی غلطی کا اعتراف کر کے بڑی خوش اسلوبی سے قابو پا لیا تھا اور میرے باس کے دل میں میرے لیے پہلے سے زیادہ عزت بڑھ گئی تھی۔‘‘ کوئی احمق ہی ہو گا جو اپنی غلطی کا دفاع کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بہت سے احمق ایسا کرتے ہیں لیکن اپنی غلطی کو مان لینے والے بڑے سکون میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر رابرٹ ای لی کے بارے میں تاریخ میں جو سب سے خوبصورت بات کہی گئی ہے یہ ہے کہ اس نے گیٹس برگ میں کمپٹ کی ناکامی کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی تھی۔ پکٹ نے جس محاذ پر اپنی فوج کی کمان کی۔ وہ بلاشبہ مغربی دنیا میں ایک مشکل ترین محاذ تھا۔ اس نے اتنے لمبے بال رکھے ہوئے تھے کہ وہ اس کے شانوں تک لٹکتے تھے اور نپولین کی طرح ہو بھی اپنی محبوبہ کو محاذ جنگ سے محبت بھرے خطوط لکھا کرتا تھا۔ اس کے سپاہی اسے پسند کرتے تھے۔ جولائی کی اس المناک دوپہر جب وہ بڑی موج میں یونین لائنز کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے اپنی کیپ دائیں کان کے اوپر خاص فوجی انداز میں اٹکائی ہوئی تھی۔ اس کے پیچھے اس کی فوج بینر لہراتی آ رہی تھی۔ ان کی مینگوں کا رخ سورج کی طرف تھا۔ یہ دیکھنے کا منظر تھا۔ پکٹ کی فوج نے کماد کے کھیتوں سے گذرنے کا آسان راستہ اختیار کیا۔ پورے راستے میں دشمن کی گولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہیں مگر وہ اپنی فوج کے ہمراہ بلا خوف و خطر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا اور اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ اچانک یونین پیادہ فوج پتھر کی ایک دیوار کے پیچھے سے نمودار ہوئی جہاں وہ چھپی ہوئی تھی اور اس نے بلا دریغ پکٹ کی فوج پر فائرنگ شروع کر دی۔ چند منٹوں میں پکٹ کے تمام بریگیڈ کمانڈروں میں سے صرف ایک زندہ بچا تھا اور اس کی فوج کے تقریباً چار ہزار افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ جنرل لی جو آخری حملے کا انچارج تھا۔ بھاگ کر پتھر کی دیوارپر بڑھ گیا اور اس نے اپنی تلوار کی نوک پر کیپ کو لہرا کر اپنی فوج سے کہا دشمن پر ٹوٹ پڑو اور اس کی فوج نے یہی کیا۔ وہ دیوارپر چڑھ دوڑے۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کو سنگینوں سے ہلاک کیا اور محاذجنگ کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ پکٹ نے بڑی بہادری اور جرأت کے ساتھ اپنی فوج کی کمان کی تھی۔ جنرل لی شمال میں مزید آگے نہیں بڑھ سکا تھا اور جنوبی محاذ پر بھی برا حال تھا۔ لی اس قدر مایوس تھا کہ اس نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور صدر جیفرسن سے کہا کہ وہ اس کی جگہ کوئی نوجوان اور بہادر افسر کو مقرر کریں اگر جنرل لی اس ناکامی کی تمام تر ذمہ داری جنرل پکٹ پر ڈال دیتا تو کوئی بھی اسے غلط نہ کہتا اس کے بعض کمانڈروں نے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا کیولری کی مدد بھی اسے نہیں ملی نہیں کہ وہ پیادہ فوج کی مدد کر سکتی۔ لیکن جنرل لی دوسروں پر الزام دینے کا عادی نہیں تھا اور جب جنرل پکٹ کی شکست خوردہ فوج نے دوبارہ اپنی قوت کو یکجا کیا تو جنرل لی ان کی مدد کے لیے موجود تھا اس نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ یہ سب کچھ میری غلطی سے ہوا۔ میں اور صرف میں اکیلا اس ناکامی کا ذمہ دار ہوں۔‘‘ تاریخ میں محض چند کمانڈر ہی ایسے ہونگے جنہوں نے اپنی غلطی کو اس طرح تسلیم کیا ہو گا۔ مائیکل چینگ جس نے ہانگ کانگ میں ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے افراد کو کئی لیکچر دیئے۔ اس نے ایک بار اپنے لیکچر میں بتایا کہ چین کی ثقافت کس طرح بعض مخصوص قسم کے مسائل پیش کرتی ہے اور بعض اوقات کیسے یہ تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کس اصول پر عمل کرنے کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے بہ نسبت ایک پرانی روایت پر عمل کرنے کے۔ اس کی جماعت میں درمیانی عمر کا ایک شخص بھی تھاجو اپنے بیٹے سے کئی برسوں سے نہیں ملا تھا ان کے تعلقات بے حد خراب تھے باپ کبھی افیمی تھا مگر اب مناسب علاج کے بعد ٹھیک ہو چکا تھا۔ چینی روایات میں بڑا آدمی پہل نہیں کرتا۔ باپ کا یہ کہنا تھا کہ مصالحت کے لیے اس کے بیٹے کو پہل کرنی چاہیے اس نے ایک لیکچر کے دوران ہمارے کورس میں شرکت کرنے والوں کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے سے صلح کرنے کا بے حد خواہشمند ہے اور اس نے آج تک اپنے پوتے پوتیوں کو نہیں دیکھا اس کا خیال تھا کہ چھوٹوں کو بڑوں کے پاس خود چل کر جانا چاہیے۔ کورس کے اختتام پر باپ نے ایک بار پھر لیکچر دیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اس مسئلے پر بہت غور کیا۔ ڈیل کارنیگی نے مجھے کہا ’’ اگر تم غلطی پر ہو تو فوراً تسلیم کر لو۔‘‘ میرے لیے اس غلطی کو فوراً تسلیم کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا اور اب تو ویسے بھی بہت دیر ہو چکی تھی لیکن میں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔ غلطی میری تھی مگر میں نے اپنے بیٹے کو غلط سمجھا۔ وہ میرے ساتھ نہ ملنے میں حق بجانب تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے سے چھوٹے کسی شخص سے معانی مانگنے میں مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے مگر چونکہ میں نے غلطی کی تھی اس لیے یہ ذمہ داری ہے کہ میں اسے تسلیم کروں۔ کورس میں شرکت کرنے والوں نے اسے بہت داد دی اور اگلے کورس میں اس نے بتایا کہ وہ کس طرح اپنے بیٹے کے گھر گیا اور اس نے اپنے بیٹے سے معافی مانگی اور پھر اس کے اپنے بیٹے سے تعلقات دوبارہ خوشگوار ہو گئے۔ اس نے اپنی بہو سے ایک عرصے کے بعد ملاقات کی اور اپنے پوتوں اور پوتیوں کو پہلی بار ملا۔ جو خود اسے دیکھ کر اپنے باپ سے پوچھ رہے تھے۔ ’’ ابو یہ کون ہیں‘‘ ایلبٹ ہیوبرڈ ایک ایسا مصنف تھا جو اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کو بھڑکاتا تھا اور اکثر لوگ اس کی تحریروں کو سخت ناپسند کرتے تھے لیکن ہیوبرڈ اپنی مہارت کے ساتھ اپنے دشمنوں کو دوست بنا لیا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر بعض سخت ناراض قسم کے قارئین نے اسے خط لکھا کہ وہ اس کے فلاں فلاں آرٹیکل سے ہرگز متفق نہیں ہیں اور خط کے آخر میں ہیوبرڈ کے خلاف بڑے سخت الفاظ بھی استعمال کئے مگر ہیوبرڈ ایسے خطوط کا اس طرح جواب دیا کرتا تھا۔ ’’ ذرا سوچو ایک بار پھر سوچو میں خود بھی مکمل طور پر اس سے متفق نہیں ہوں جو بات میں نے کل لکھی ہے ضروری نہیں وہ آج بھی میرے خیالات کا حصہ ہیں۔ مجھے اس معاملے میں آپ کے خیالات جان کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میرے مضامین بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور پھر انہیں سمجھتے ہوئے ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ اگلی دفعہ اگر آپ کا میرے شہر میں آنے کا اتفاق ہو تو آپ مجھ سے ضرور ملیں تاکہ ہم اس موضوع پر دوبارہ گفتگو کریں اور اس کا کوئی خاطر خواہ حل نکالیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ضرور اس گفتگو میں دلچسپی لیں گے۔ آپ کا مخلص ایلفرڈ ہیوبرڈ‘‘ اگر کوئی ناپسندیدہ شخص آپ سے اس طرح پیش آئے تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا۔ جب ہم سچائی پر ہوں تو ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو بڑی ملائمت اور طریقے سے قائل کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہم غلطی پر ہیں تو یہ اکثر بڑا حیران کن ہوگا اگر ہم اپنے ساتھ مخلص ہیں اور اگر ہم ایماندار ہیں تو ہمیں فوراً اپنی غلطی تسلیم کر لینی چاہیے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف حیران کن نتائج برآمد ہونگے بلکہ آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ اس قسم کی صورت حال میں اپنا دفاع کرنے کے مقابلے میں آپ غلطی تسلیم کر کے صحیح لطف اٹھائیں گے۔ کیونکہ دوسرا شخص تو اپنے ذہن میں بڑے منصوبے بنا رہا ہو گا کہ وہ آپ کو شرمندہ کرے گا مگر یہاں آپ خود اپنے آپ کو شرمندہ کر رہے ہیں اور اس کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ایک پرنای ضرب المثل یاد رکھیں ’’ لڑائی جھگڑے سے آپ کبھی بھی زیادہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے ہیں مگر اپنی غلطی تسلیم کر کے آپ اپنی توقعات سے بھی زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اصول نمبر ۳ ’’ اگر آپ غلطی پر ہیں تو فوراً اسے تسلیم کر لیں۔‘‘ ٭٭٭ باب چہارم شہد کا قطرہ اگر آپ کو غصہ آ جائے اور آپ دوسروں کو دو چار سنا دیں تو آپ کے جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ لیکن دوسروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ لیکن وہ آپ کے جذبات کی تسکین ہو جانے کی خوشی میں شریک ہو گا؟ کیا آپ کا جارحانہ رویہ اس کو آپ کے ساتھ متفق ہونے پر آمادہ کر سکے گا؟ ووڈ وولسن نے ایک بار کہا ’’ اگر آپ میری طرف اپنی مٹھیاں بھینچ کر بڑھیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس سے بھی زیادہ غصے میں مٹھیاں بھینچ کر آپ کی طرف بڑھوں گا۔ لیکن اگر آپ میری طرف آئیں اور یہ کہیں آؤ ہم مل بیٹھ کر اس معاملے پر غور کرتے ہیں اور اگر ہم ایک دوسرے سے اختلاف بھی کریں تو ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے اختلاف کیوں کر رہے ہیں اور یہ سوچنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ ہمارے درمیان صرف ایک دو امور پر اختلاف ہے جبکہ باقی تمام امور پر ہمارے درمیان اتفاق رائے ہے اور اگر ہمارے اندر اختلاف دور کرنے کا حوصلہ اور خواہش ہو تو پھر ہم انہیں بخوبی اور خوش اسلوبی سے دور کر سکتے ہیں۔‘‘ جان ڈی راکفیلر جونیئر سے زیادہ کوئی بھی ووڈ روولسن کے اس بیان سے متفق نہیں ہو گا۔ ۱۹۱۵ء میں جان ڈی راکفیلر جونئر کلوراڈو میں سب سے زیادہ نفرت کئے جانے والا شخص تھا۔ گذشتہ دو برسوں سے جاری امریکی منفی تاریخ کی سب سے پر تشدد ہڑتالوں نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہڑتالی کارکن زیادہ اجرتوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔ راکفیلر جو فیول اینڈ آئرن کمپنی کا مالک تھا کی جائیداد تباہ ہو رہی تھی۔ فوج کو بلانا پڑ گیا۔ سڑکوں پر خون بہایا جا رہا تھا۔ ہڑتالیوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔ اس صورت حال میں بھی جب کہ راکفیلر جونیئر کے لیے ہر طرف نفرت ہی نفرت تھی۔ وہ اپنے پر تشدد ہڑتالی ملازمین کو کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش رکھتا تھا اور اس نے انہیں دوبارہ کام کرنے پر آمادہ رک لیا۔ کیسے؟ ہم پوری کہانی آپ کو سناتے ہیں جو نہ صرف سبق آموز ہے بلکہ ایسے لوگوں میں حوصلے کا جذبہ پیدا کرتی ہے جو محض کسی خوف یا ڈر کی وجہ سے اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ راکفیلر نے کئی ہفتوں کی کوشش کے بعد ہڑتالی کارکنوں کے سرکردہ راہنماؤں سے رابطہ کیا اور ان سے خطاب کیا۔ اس کی یہ ایک انوکھی قسم کی پرکشش تقریر تھی۔ اس کے بڑے حیران کن نتائج برآمد ہوئے اس تقریر سے راک فیلر کے خلاف نفرت کی فضا ختم ہو گئی۔ ہر طرف اس کی تعریف ہونے لگی اس نے اس انداز سے ہڑتالیوں کو بعض حقائق بتائے کہ وہ بغیر کچھ کہے سنے دوبارہ کام پر واپس چلے گئے۔ راک فیلر ایک ایسے اجلاس میں ان لوگوں سے خطاب کر رہا تھا جو اجرتوں میں اضافے کے سوال پر ہڑتال پر تھے اور جو راک فیلر سے سخت نفرت کرتے تھے جو صرف چند روز قبل اسے پھانسی پر لٹکانا چاہتے تھے اگر راک فیلر اس وقت کسی میڈیکل گروپ کے افراد سے خطاب کر رہا ہوتا تو وہ اس قدر اعلیٰ ظرفی اور دوستانہ انداز میں مظاہرہ نہ کرتا۔ اس کی تقریر میں بہت سے مزیدار قسم کے جملے شامل تھے مثلاً مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں آپ کے درمیان موجود ہوں۔ آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ کے بیوی بچوں سے ملاقات کی ہے۔ ہم یہاں دوستوں کی طرح ہیں۔ ہمارے مفادات مشترکہ ہیں یہ صرف آپ لوگوں کی مہربانی ہے کہ میں آپ کے پاس ہوں۔ یہ میری زندگی کا ایک بہت ہی پر مسرت دن ہے یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مجھے اس عظیم کمپنی کے ملازمین کے نمائندوں سے ملاقات کرنے کا موقعہ ملا ہے اور آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کے درمیان بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں اور میں زندگی بھر ان خوبصورت لمحات کو نہیں بھلا سکوں گا اگر یہ ملاقات دو ہفتے قبل ہو جاتی تو میں یہاں آپ کے سامنے ایک اجنبی کی طرح ہوتا اور صرف چند چہروں کو پہچان سکتا۔ لیکن گذشتہ آپ لوگوں کے نمائندوں سے ملاقات کرنے کے بعد آپ کے گھروں میں جانے کے بعد اور آپ لوگوں کے بیوی بچوں کے ساتھ فرداً فرداً ملاقات کرنے کے بعد آج میں آپ کے لیے اجنبی نہیں ہوں اور آپ میرے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ہم دوست ہیں اور دوستی کے اس مشترکہ جذبے کے ساتھ مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ ہمارے مشترکہ مفادات پر گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے۔ چونکہ یہ اجلاس صرف کمپنی کے افسروں اور ملازمین کے نمائندوں کا ہے لیکن یہ آپ لوگوں کی مہربانی ہی ہے کہ میں یہاں آپ کے درمیان موجود ہوں۔ کیا یہ دشمنوں کو دوست بنانے کا ایک عمدہ ترین طریقہ نہیں ہے؟ فرض کریں راک فیلر اس سے مختلف طریقہ اختیار کرتا۔ اور وہ کارکنوں کے نمائندوں کے ساتھ بحث کرتا یا ان سے الجھتا۔ فرض کریں کہ وہ اپنے مخصوص انداز میں انہیں برا بھلا کہتا۔ اور وہ تمام حقائق اور منطق کے استعمال سے انہیں غلط ثابت کرتا۔ تو پھر کیا ہوتا؟ ملازمین کے نمائندوں میں زیادہ اشتعال پھیلتا، زیادہ نفرت پھیلتی اور وہ زیادہ تشدد پر اتر آتے۔ ’’ اگر کسی شخص کا دل آپ کے بارے میں حسد اور نفرت سے بھرا ہوا ہے آپ اپنی تمام تر منطق کے باوجود اس شخص کا دل نہیں جیت سکتے۔ بچوں کو ڈانٹے والے والدین۔ ملازمین پر ناجائز رعب ڈالنے والے افسروں اور بیویوں پر غصہ نکالنے والے خاوند اور شوہروں سے ناجائز جھگڑا کرنیوالی بیویوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ لوگ اپنا ذہن تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انہیں زبردستی اپنے ساتھ متفق ہونے پر رضا مند نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر انہیں دوستانہ انداز میں بڑی ملائمت کے ساتھ آمادہ کیا جائے تو وہ بھی آپ کے ساتھ اتنی ہی ملائمت کے ساتھ دوستانہ انداز کا مظاہرہ کریں گے اور پھر آپ کو کسی قسم کی مشکل نہیں ہو گی۔‘‘ لنکن نے اسی طرح کی بات ایک سو برس پہلے کہہ دی تھی۔ اس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’ دانش مندوں کا یہ ایک پرانا اور سچا مقولہ ہے کہ شہد کا ایک قطرہ بہت سی مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کسی شخص کو قائل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ اسے اس بات پر قائل کریں کہ آپ اس کے بہترین دوست ہیں۔ اس میں شہد کے ایک قطرے کی طرح مٹھاس ہے جو اس کے دل کو آپ کی طرف مائل کرتی ہے اور وہ آپ کی ہر بات پر اعتبار کرے گا۔‘‘ بزنس ایکٹیوز نے ہڑتالیوں سے دوستانہ انداز اختیار کرنے کا یہ طریقہ سیکھ لیا ہے۔ وائٹ موٹر کمپنی کے ڈھائی ہزار ملازمین نے جب ایک یونین شاپ قائم کرنے اور اجرتوں میں اضافے منوانے کے لیے ہڑتال کی تو اس وقت کمپنی کے صدر رابرٹ ایف بلیک نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور اس نے ہڑتالی کارکنوں پر نہ تو لعن طعن کی اور نہ ہی انہیں دھمکیاں دیں اس نے ان کی تعریف کی۔ اس نے کلیولینڈ کے اخبارات میں ایک اشتہار چھپوایا جس میں اس نے کارکنوں کی طرف سے پر امن ہڑتال کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے ہڑتالیوں کو بیس بال بیٹ اور دستانے لا دیئے تاکہ وہ بیس بال کھیل کر فراغت سے لطف اندوز ہوں۔ مسٹر بلیک کے اس دوستانہ طرز انداز کا ہڑتال کارکنوں نے بھی بڑے دوستانہ انداز میں جواب دیا۔ انہوں نے جھاڑو، بیلچے اور چھکڑوں کا بندوبست کیا اور فیکٹری کے ارد گرد پھینکے گئے سگریٹ کے ٹکڑوں، سگار کی راکھ، کاغذ کے ٹکڑے اور خالی ماچسوں کو اٹھا لیا۔ ذرا سوچیں کہ یہ کارکن اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ منوانے کی خاطر ہڑتال پر ہیں اور اس کے باوجود وہ فیکٹری کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مزدوروں کے اپنے حقوق کو منوانے کی جدوجہد میں اس قسم کی مثال پہلے کبھی نہ سنی اور نہ دیکھی گئی۔ یہ ہڑتال صرف ایک ہفتے کے اندر کارکنوں اور انتظامیہ کے درمیان ایک سمجھوتے پر ختم ہو گئی جو دونوں کیلئے قابل قبول بھی تھا اور اس سے دونوں فریقوں کے دلوں میں کسی قسم کا کوئی خلش نہیں تھی۔ ڈمینل ومیبٹر امریکی تاریخ کا ایک بہت کامیاب اور باتونی قسم کا وکیل تھا۔ لیکن وہ اس قدر دوستانہ انداز میں دلائل دیا کرتا تھا کہ ججوں کے لیے بھی اسے ٹوکنا بڑا مشکل ہوتا تھا وہ دلائل کے بعد عموماً اس طرح کے فقرے کہتا ’’ میں نے حقائق عزت مآب کے سامنے پیش کر دیئے ہیں اور اب یہ جیوری کا کام ہے کہ وہ اس پر غور کرے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ آپ اس مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت ان حقائق کو سامنے رکھیں آپ اپنے علم کی طاقت سے ان حقائق کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہونگے۔ آپ دیکھیں کہ وہ نہ تو پرزور طریقے سے دلائل دیتا۔ ججوں پر بے جا دباؤ ڈالتا اور نہ ہی ججوں پر اپنا نقطہ نظر مسلط کرنے کی کوشش کرتا۔ ویبسٹر کی نرم اور دوستانہ انداز سے امریکہ بھر میں مشہور کرنے میں بہت کار آمد ثابت ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کبھی ہڑتالی کارکنوں سے نمٹنے کامسئلہ درپیش ہو یا آپ کو کسی عدالت میں جیوری کو قائل کرنا پڑے لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کے دفتر یا گھر کا کرایہ وہاں موجود سہولتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اور آپ اسے کم کرانا چاہتے ہیں کیا یہی نرم رویہ اور دوستانہ انداز آپ کے لیے اس قسم کے معاملے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ نرم رویہ اور دوستانہ انداز ان حالات میں کس قدر کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ اور ایل فارلے نامی ایک انجینئر اپنے گھر کا کرایہ کم کرانا چاہتا تھا۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس کا مالک مکان اس مطالبے پر شدید رد عمل کا اظہار کرے گا۔ مسٹر فارلے نے ہمارے کورس میں ایک لیکچر کے دوران بتایا کہ میں نے اپنے مالک مکان کو ایک خط لکھا۔ جس میں اس نے مالک مکان کو بتایا کہ جب اس کے گھر کی لیز ختم ہو جائے گی تو وہ یہ مکان خالی کر دے گا۔ در حقیقت سچ تو یہ ہے کہ میں تو وہ گھر چھوڑنا نہیں چاہتا۔ میں اسی گھر میں رہنا چاہتا ہوں اگر اس کا کرایہ کم کر دیا جائے لیکن مجھے اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ دوسرے کرایہ داروں نے بھی کرایہ کم کروانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ہر کسی نے مجھے بتایا کہ مالک مکان کے ساتھ بات کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں نے اپنے آپ سے کہا ’’ میں ایک کورس میں شرکت کر رہا ہوں جس میں یہ بتایا جاتا ہے لوگوں کے ساتھ کیسے لین دین کیا جاتا ہے۔ لہٰذا میں کورس میں بتائے جانے والے اصولوں پر عمل کروں گا اور دیکھوں گا کہ ان کا کیا اثر ہوتا ہے۔‘‘ ’’ جونہی مالک مکان کو میرا خط ملا تو وہ اپنی سیکرٹری کے ساتھ مجھے ملنے آیا۔ میں نے بڑے دوستانہ انداز میں اسے خوش آمدید کہا۔ میں نے اس بارے میں بات نہیں کی کہ کرایہ بہت زیادہ ہے۔ میں نے اس طرح بات شروع کی کہ مجھے یہ گھر بہت پسند ہے۔ میں نے دل کھول کر اس کی تعریف کی اور اس کے بعد اسے کہا کہ میں اس گھر میں مزید ایک سال رہنا چاہتا ہوں لیکن میری مشکل یہ ہے کہ گھر کے افراد کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے میں اتنا کرایہ نہیں دے سکتا۔ مالک مکان کو کسی بھی کرایہ دار کی طرف سے اس قدر عزت افزائی نہیں ملی ہوئی ہو گی۔‘‘ اس نے مجھے اپنی مشکلات بتانی شروع کر دیں۔ جس میں زیادہ کرایہ داروں کی شکایتیں تھیں۔ ایک کرایہ دار نے اسے چودہ خطوط لکھے میں اس کو برا بھلا کہا گیا تھا۔ ایک اور کرایہ دار نے اس کو لیز ختم کر دینے کی دھمکی دی تھی اگر وہ اوپر کی منزل پر رہنے والے شخص کے خراٹے میں بند نہ کروا سکا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ ’’ میرے لیے یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ آپ جیسا خوش اخلاق شخص میرا کرایہ دار ہے اور پھر میرے کہنے کے بغیر ہی اس نے کرایہ کم کر دیا۔ میں اس سے زیادہ کمی چاہتا تھا لہٰذا اس نے میرے کہنے پر اس میں میری مرضی کے مطابق کمی کر دی۔ جب وہ واپس جانے لگا تو اس نے مجھے مڑ کر کہا کہ وہ اس گھر کی اندرونی آرائش کے لیے اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔‘‘ اگر میں دوسرے کرایہ داروں کی طرح لڑ جھگڑ کر کرایہ کم کرانے کا کوشش کرتا تو مجھے یقین ہے کہ مجھے اس میں ناکامی ہوتی یہ محض دوستانہ، ہمدردانہ اور تعریفی رویہ تھا جس کی فتح ہوئی۔ پیٹسبرگ، پنسلونیا کاڈین ووڈ کاک ایک مقامی الیکٹرک کمپنی کا چیف آفیسر ہے اس نے ایک کھمبے کے اوپر کچھ آلات مرمت کرنے کے لیے اپنے عملے کو بلایا۔ اس قسم کا کام قبل ازیں دوسرے محکمے کا عملہ کیا کرتا تھا اور حال ہی میں یہ محکمہ ووڈ کاک کی نگرانی میں دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس کا عملہ یہ کام بخوبی کر سکتا تھا مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس کے عملے کو یہ کام کرنا پڑ رہا تھا۔ کمپنی میں ہر شخص یہ دیکھنے کا خواہشمند تھا کہ ووڈ کاک کا عملہ یہ کام کس طرح کرتا ہے۔ اس طرح تمام عملہ اس جگہ موجود تھا جہاں یہ کام ہونے والا تھا۔ بہت سی کاریں اور ٹرک بھی وہاں موجود تھے اور بہت سے لوگ کھمبے پر چڑھے ہوئے دو افراد کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے ووڈ کاک نے دیکھا کہ گلی کی نکڑ پر کھڑی ایک کار سے ایک شخص اپنے کیمرے سمیت باہر نکل رہا ہے اور اس نے اب تصویریں لینی شروع کر دی ہیں۔ اچانک ووڈ کاک کو یہ خیال آیا کہ یہ سب کچھ یہ ظاہر کر رہا کہ دو آدمیوں کے کام کو دیکھنے کے لیے درجنوں افراد کو خواہ مخواہ بلایا گیا ہے اور اس طرح وہ اپنے کام کر ہرج کر کے یہ دیکھنے آئے ہیں چنانچہ میں پیدل چلتا ہوا فوٹو گرافر کے پاس گیا اور اس سے کہا ’’ آپ ہمارے اس کام میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا’’ ہاں۔ مگر میری ماں یہ تصویریں دیکھ کر اور زیادہ خوش ہو گی۔ اس کے آپ کی کمپنی میں حصص ہیں۔ یہ اس کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہو گا اور وہ اپنے حصص کمپنی سے نکال بھی سکتی ہے۔ میں گذشتہ کئی برسوں سے اسے کہہ رہا ہوں کہ کمپنی سے اپنے حصص نکال لے مگر وہ رضا مند نہیں ہوتی تھی مگر یہ تصویریں اس کو رضا مند کرنے کے لیے کافی ہونگی اور اخبارات بھی یہ تصاویر شائع کرنا پسند کریں گے۔‘‘ اب دیکھیں کہ ڈین ووڈ کاک اس صورت حال سے کس طرح نبرد آزما ہوتا ہے۔ اس نے فوٹو گرافر کو بتایا کہ یہ اس کے محکمے کا پہلا کام ہے۔ اس لیے ہر شخص اس کو دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اس نے فوٹو گرافر کو یقین دلایا کہ عام حالات میں صرف دو افراد ہی اس کام کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ فوٹو گرافر نے ووڈ کاک کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے صحیح پوزیشن بتا کر اس کا بڑا وقت بچا لیا۔ اس نے ووڈ کاک کا شکریہ ادا کیا اور کار میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس طرح ووڈ کاک کے دوستانہ، ہمدردانہ اور تعریفی انداز نے اس کی الیکٹرک کمپنی کو بہت بڑی بدنامی سے بچا لیا تھا۔ ہمارے کورس کے ایک اور طالب علم نیو ہیمشیائر کے جیرالڈون نے بھی ہمیں ایک واقعہ سنایا۔ اسی کی زبانی سنیں۔ ’’ موسم بہار کے شروع میں غیر معمولی طور پر زبردست ژالہ باری ہوئی اور پانی معمول کے مطابق ندی نالوں میں بہنے کی بجائے میرے نو تعمیر شدہ گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ اس پانی کو نکالنا خاصا مشکل ہو رہا تھا اور یہ پانی مکان کی بنیادوں میں جذب ہو رہا تھا۔ میرے گھر کی بیسمنٹ میں پانی بھر گیا تھا اس سے وہاں لگی ہوئی فرنس اور پانی کو گرم کرنے والا ہیٹر تباہ ہو گیا۔ اس کا نقصان تقریباً ۲ ہزار ڈالر تھا میں نے اس کی کوئی انشورنس بھی نہیں کرائی ہوئی تھی کہ مجھے اس کا معاوضہ مل جاتا۔‘‘ تاہم جلد ہی مجھے معلوم ہوا کہ مقامی سب ڈویژن کے سربراہ نے گھروں کے قریب سیلاب کے پانی کے نکاس کا کوئی خاطر خواہ انتظام کرنے میں غفلت سے کام لیا تھا۔ اس سے میں نے ملاقات کا وقت طے کیا۔ اس کے دفتر تک کے پچیس میل کے سفر کے دوران میں ساری صورت حال پر دوبارہ غور کرتا رہا اور ڈیل کارنیگی کے کورس میں سیکھے جانے والے تمام اصول ذہن میں دہراتا رہا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میں نے غصے سے بات کی تو معاملہ حل نہیں ہو گا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے سربراہ ے حال ہی میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے بارے میں گفتگو کرتا رہا اور جب میں نے محسوس کیا کہ اب صحیح وقت ہے تو میں نے اپنا مسئلہ گوش گذار کر دیا۔ وہ فوراً ہی اس کے حل کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ چند روز بعد اس نے مجھے بلا کر کہا کہ وہ میرے گھر کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کرے گا اور گھر کے پاس نکاس کا صحیح انتظام بھی کروائے گا تاکہ مستقبل میں اس قسم کا مسئلہ دوبارہ پیدا نہ ہو سکے۔ ’’ اگرچہ یہ غفلت اس کی تھی اور میں اگر اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں گفتگو نہ کرتا تھا۔ تو مجھے اپنا مسئلہ بیان کرنے میں اور اس کو نقصان پورا کرنے پر آمادہ کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی۔‘‘ کئی برس پہلے جب میں میسوری کے ایک سکول میں ننگے پاؤں پڑھنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ وہاں میں نے سورج اور ہوا کے بارے میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ ان کے درمیان جھگڑا ہوا کہ کون زیادہ طاقت ور ہے۔ میں نے کہا کہ ’’ میں ثابت کروں گی کہ میں زیادہ طاقتور ہوں۔ ذرا زمین پ چلتے اس بوڑھے آدمی کو دیکھوں میں تم سے پہلے اس کا کوٹ اتار سکتی ہوں۔‘‘ یہ سن کر سورج بادلوں کے پیچھے چلا گیا اور ہوا چلنا شروع ہو گئی مگرا ہوا جتنی تیز چلتی بوڑھا شخص اتنی ہی مضبوطی کے ساتھ اپنا کوٹ پکڑ لیتا۔ آخر کار ہوا خاموش ہو گئی اور اپنی ہار تسلیم کر لی اور سورج بادلوں کے پیچھے سے نکل آیا۔ اور اس کی ہلکی سی کرن جب بوڑھے شخص پر پڑی تو اس نے گرمی محسوس کرتے ہوئے خود ہی اپنا کوٹ اتار دیا اس پر سورج نے ہوا کو بتایا کہ ملائمت اور دوستانہ انداز ہمیشہ طاقت اور غصے کی نسبت سے زیادہ طاقتور ہے۔ شرافت اور دوستانہ انداز ہمیں لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں بہت مدد دیتا ہے اور اس کا استعمال صرف وہی لوگ کامیابی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ جو یہ جانتے ہیں کہ شہد کا ایک قطرہ بے شمار مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ میری لینڈ کے ایف کونز جب تیسری بار اپنی صرف چار ماہ قبل خریدی گئی کار سروس کرانے کے لیے کار ڈیلر کے پاس گیا تو اس نے یہی اصول استعمال کیا۔ اس نے ایک بار ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے طلباء و طالبات کو بتایا۔ ’’ یہ واضح تھا کہ سروس منیجر پر برسنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ میں کار ڈیلر کے شو روم میں گیا اور ایجنسی کے مالک سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد میں مسٹر وائٹ کے کمرے میں داخل ہوا۔ اور میں نے اپنا تعارف کرانے کے بعد بتایا کہ میں نے اپنے بعض دوستوں کے مشورے پر آپ کے ہاں سے ایک کار خریدی تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ کی قیمتیں بڑی مناسب ہیں اور سروس بڑی عمدہ ہے۔ وہ میری یہ بات سن کر مسکرا دیا۔ پھر میں نے اسے اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا جو سروس کے معاملے میں مجھے پیش تھا۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ یقینا یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کی شہرت پر سروس ڈیپارٹمنٹ کے عدم تعاون یا ناقص کارکردگی سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس نے اس پر میرا شکریہ ادا کیا کہ میں یہ باتیں اس کے نوٹس میں لایا ہوں اور مجھے اس نے یقین دلایا کہ میرا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ نہ صرف میرا مسئلہ حل کرانے میں پیش پیش رہا بلکہ اس نے اپنی کار میرے حوالے کر دی کہ جب تک میری کار کی سروس ہو رہی ہے میں اسے استعمال کروں۔‘‘ ایسوپ نامی ایک غلام حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے چھ سو برس قبل کرویلس کے دربار میں رہتا تھا۔ لیکن اس نے انسانی تعلقات کے بارے میں جو سچائی بتائی وہ آج سے چھبیس سو برس بعد بھی بوسٹن اور برمنگھم میں اسی طرح کی ایک سچائی ہے جیسی چھبیس سو برس پہلے ایتھنز میں تھی۔ ہوا سے زیادہ سورج آپ کو کوٹ اتارنے پر مجبور کر سکتا ہے اور شفقت، دوستانہ انداز اور تعریف دوسروں کو اپنا ذہن بدلنے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ یاد رکھیں لنکن نے کہا تھا ’’ شہد کا ایک قطرہ بہت سی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔‘‘ اصول نمبر ۴ دوسروں کے ساتھ دوستانہ انداز میں گفتگو کا آغاز کریں۔ ٭٭٭ باب پنجم سقراط کے راز دوسروں سے گفتگو کے دوران آپ ان امور پر بات چیت پہلے نہ کریں جن پر آپ کے درمیان اختلاف ہے۔ ان امور پر گفتگو کا آغاز کریں جن پر آپ کے درمیان ہم آہنگی موجود ہے۔ گفتگو کے دوران اس نکتے پر زور دیں کہ ہمارا مقصد ایک ہی ہے کہ یہ مسئلہ ہو جائے گا۔ صرف فرق یہ ہے کہ اس کو حل کرنے کے لیے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کریں کہ آپ کا مد مقابل آپ کی باتوں پر ’’ ٹھیک ہے‘‘ کے الفاظ استعمال کرے۔ پروفیسر اوور سٹریٹ کے الفاظ میں ’’ نہیں‘‘ کا لفظ سب سے مشکل لفظ ہوتا ہے کہ جس پر آپ قابو پا سکیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ ’’ نہیں‘‘ تو آپ کی ذاتی شخصیت کی انا اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر اڑے رہیں۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں آپ کو یہ احساس ہو کہ ’’نہیں‘‘ کا جواب غیر مناسب تھا۔ بہرحال یہاں ہم آپ کی قیمتی انا پر بات کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی بات کہنے کے بعد آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس پر اڑے رہیں۔ مگر اس کے باوجود اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ کوئی شخص مثبت انداز میں اپنی بات کا آغاز کرے۔ ایک اچھی گفتگو کرنے والا شخص آغاز میں ہی ’’ ہاں‘‘ ’’ بے شک‘‘ ٹھیک ہے کے جوابات موصول کرتا ہے۔ اس سے سننے والے کو حتمی مثبت جواب کی طرف لے جانے کا ایک نفسیاتی عمل شروع ہوتا ہے یہ عمل بالکل ایک بلیرڈ کے گیند کی طرح ہوتا ہے۔ یہ نفسیاتی عمل بڑا واضح ہے جب کوئی شخص ’’ نہیں‘‘ کہتا ہے تو اس نے صرف ایک ہی لفظ میں بہت کچھ کہہ دیا ہے جب کوئی شخص ’’ ہاں‘‘ کہتا ہے تو پھر اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم ’’ نہیں‘‘ پر تو کسی کو پوچھ سکتے ہیں کہ کیوں؟ مگر ہاں کہنے پر صرف شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی سادہ سی تکنیک ہے۔ یہ ہاں والا جواب۔ لیکن اس کے باوجود اکثر اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے ہم ’’ نہیں‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اپنی اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں۔ شروع میں کسی طالب علم کے منہ سے اگر ’’ نہیں‘‘ کا لفظ نکل گیا یا کوئی گاہک یا بچہ اور یا بیوی اگر ’’ نہیں‘‘ کہہ دے تو پھر ان کے نہیں کو ’’ ہاں‘‘ میں تبدیل کرنے کے لیے فرشتوں جیسا حوصلہ اور دانش چاہیے۔ ’’ ہاں‘‘ ’’ ہاں‘‘ کی تکنیک کے ہی استعمال سے نیویارک سٹی کے گرین وچ سیلونگ بیک کے آفیسر جیمز ایمبرسن نے اپنے ایک اکاؤنٹ ہولڈر کو کھاتہ نہ کھولنے سے باز رکھا۔ ایمبرسن کی زبانی سنیں۔ ’’ یہ شخص بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آیا تھا اور میں نے معمول کے مطابق اسے ایک فارم پر کرنے کو دیا۔ بعض سوالات کے جوابات اس نے خوشی سے لکھ دیئے اور چند ایسے سوالات تھے جن کے جوابات دینے سے اس نے صاف انکار کر دیا۔ اگر میں نے انسانی تعلقات کے بارے میں ایک کورس میں شرکت نہ کی ہوتی تو میں اسے فوراً ہی کہہ دیتا کہ آپ کا اکاؤنٹ ہمارے بینک میں نہیں کھل سکتا اور ماضی میں میرا رویہ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا۔ جس پر اب مجھے بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ وہ یہ نہ سوچے کہ بینک کیا چاہتا ہے بلکہ وہ یہ بتائے کہ وہ خود کیا چاہتا ہے اور میں اس بات پر تلا ہوا تھا کہ میں اس کے منہ سے ہاں، ہاں نکلوا کر رہوں گا۔ چنانچہ میں نے اسے بتایا کہ جن سوالات کے جوابات اس نے فارم میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے وہ اتنے ضروری بھی نہیں ہیں۔‘‘ ’’ تاہم میں نے اسے کہا کہ فرض کرو کہ تمہاری موت ہو جائے اور اس بینک میں تمہاری کچھ رقم ہو۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ یہ رقم آپ کے کسی ایک رشتہ دار کو منتقل کر دی جائے جو قانون کے مطابق اس کا حقدار ہو ہاں بالکل اس نے فوراً جواب دیا۔‘‘ ’’ میں نے سوال کیا کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اس فارم میں آپ اپنے اس جائز قانونی وارث کا نام لکھ دیں جسے آپ کی موت کے بعد یہ رقم منتقل کر دی جائے اور ہم بغیر حیل و حجت آپ کی خواہشات کا احترام کریں گے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے۔ اس نے پھر جواب دیا ۔ ہاں‘‘ جلد ہی اس شخص کو یہ یقین ہو گیا کہ ہم اس سے جو سوالات پوچھ رہے ہیں اس سے بینک کا کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ یہ اس کے اپنے فائدے میں ہے۔ بینک سے روانہ ہونے سے قبل اس نے نہ صرف مکمل فارم پر کر دیا بلکہ میرے کہنے پر اس نے ’’ ٹرسٹ اکاؤنٹ‘‘ کھولا اور وارث والے خانے میں اس نے اپنی ماں کا نام لکھا اور اس نے اپنی ماں کے بارے میں پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات دیئے۔ ’’ میں نے محسوس کیا کہ شروع میں ہی اسے ہاں، ہاں کہنے پر آمادہ کر کے میں نے اس کے ذہن سے یہ نکال دیا کہ بینک کو کچھ معلومات کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ذہن میں یہ بات سما گئی کہ یہ معلومات فراہم کرنا خود اس کے اپنے فائدے میں ہے اور پھر اس نے بڑی خوشی کے ساتھ بینک کی تمام ضروریات پوری کر دیں۔‘‘ ویسٹ ہاؤس الیکٹرک کمپنی کے سیلز آفیسر جوزف ایلیسن نے ہمارے کورس میں اپنا جو واقعہ سنایا وہ حسب ذیل ہے۔ ’’ میرے علاقے میں ایک شخص رہتا تھا جسے ہماری کمپنی بڑی شدت کے ساتھ اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتی تھی۔ مجھ سے پہلے والے سیلز آفیسر نے دس برس تک اس بات کی کوشش کی مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ جب میں نے اس علاقے کا چارج لیا تو مجھے بھی پہلے تین برس تک کوئی آرڈر نہیں ملا۔ بالآخر تیرہ برس کی کوشش کے بعد ہم اسے چند کاریں فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد میری توقع تھی کہ اب ہم اس کو کئی سو کاریں فروخت کر سکیں گے۔‘‘ ’’ میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا اور جب تین ہفتے بعد میں دوبارہ اس کے پاس گیا تو میں بہت اچھی اسپرٹ میں تھا۔ چیف انجینئر نے مجھے خوش آمدید کہا مگر ساتھ ہی اس نے مجھے اچانک یہ بری خبر سنائی کہ اس کی فرم ہماری کمپنی سے مزید کاریں خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ میں نے بڑی ملائمت سے پوچھا کیوں؟ کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ آپ کی کاریں بہت جلد گرم ہو جاتی ہیں۔ اور میں تو اپنا ہاتھ بھی ان پر نہیں رکھ سکتا۔‘‘ ’’ میں جانتا تھا کہ اس موقعہ پر دلائل دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ سب کچھ پہلے کئی بار کر چکا ہوں لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے منہ سے اب صرف ہاں کا لفظ نکلواؤں گا۔‘‘ ’’ میں نے کہا کہ مسٹر سمتھ میں آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ اگر واقعی یہ کاریں اس قدر جلد گرم ہو جاتی ہیں تو پھر آپ ہماری کمپنی سے ہرگز ہرگز کاریں نہ خریدیں۔ آپ صرف وہ کاریں خریدیں جن کے گرم ہونے کا وقت نیشنل الیکٹریکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے طے کردہ معیار کے مطابق ہو۔ اس نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے یہ اس کی پہلی ہاں تھی۔‘‘ ’’ نیشنل الیکٹریکل مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے ایک اچھی قسم کی موٹر کار کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۷۲ ڈگری فارن ہائٹ مقرر کیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے اس نے جواب دیا ہاں میں نے اس کے ساتھ بحث نہیں کی بلکہ اس سے پوچھا کہ وہ بتائے کہ مل روم کا درجہ حرارت کیا ہے؟‘‘ ’’ اوہو! اس نے کہا ۷۵ فارن ہائٹ اور آپ اس میں ۷۲ فارن ہائٹ مزید کا اضافہ کر لیں۔ تو یہ ٹوٹل ۱۴۷ بن جاتا ہے تو کیا آپ اپنا ہاتھ نہیں جلا بیٹھیں گے اگر ۱۴۷ ڈگری فارن ہائٹ پر ابلنے والے پانی کے نیچے آپ ہاتھ رکھیں گے؟ ایک بار پھر اسے ہاں کہنا پڑا۔ پھر میں نے اسے مشورہ دیا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اپنے ہاتھ ان موٹروں سے پرے رکھیں؟‘‘ ’’ اس نے فوراً کہا کہ آپ صحیح کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم کئی منٹ تک گفتگو کرتے رہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی سیکرٹری کو بلایا اور اس سے ایک خط لکھوایا اور جلد ٹائپ کر کے لانے کو کہا۔ اس کی سیکرٹری خط ٹائپ کر کے لائی اور جب میں اس کے دفتر سے باہر نکلا تو میرے ہاتھ میں صرف اس مہینے کے لیے پینتیس ہزار ڈالر مالیت کا آرڈر تھا۔‘‘ میں نے کئی برس ضائع کئے، ہزاروں ڈالر برباد کئے اور پھر کہیں جا کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کے نقطہ نظر کے مطابق معاملات پر سوچنا اور غور کرنا زیادہ فائدے مند اور دلچسپ ہوتا ہے اس لیے گفتگو شروع کرنے سے قبل ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ کن امور پر ہمارے درمیان اتفاق رائے ہے اور ان پر گفتگو کر کے ہمیں دوسرے شخص سے مثبت جواب کی توقع رکھنی چاہیے۔ ایڈی سنو نے جو کیلی فورنیا، آکلینڈ میں ہمارے کورس کا سپانسر ہے وہ کس طرح ایک دکان کا مستقل گاہک بن گیا۔ اس نے بتایا کہ دکان کے مالک نے اس سے گفتگو کے دوران اس کے منہ سے ’’ ہاں، ہاں‘‘ نکلواتا رہا۔ ایڈی نے اس دوکان سے گراں قدر رقم کی خریداری کی۔ اس کے بعد ایڈی کے بھائی نے ایک سٹور کرائے پر لینے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر سیلز کلرک نے بتایا کہ اس وقت کوئی سٹور خالی نہیں ہے لہٰذا ایڈی نے ایک اور سٹور پر فون کیا۔ آگے جو کچھ ہوا وہ ایڈی کی زبانی سنیں۔ ’’ ایک بہت ہی نفیس قسم کے شخص نے دوسری طرف فون پر بات کی۔ اس کا جواب بالکل مختلف تھا۔ اس نے افسوس کا اظہارکیا اور کہا کہ وہ سٹور کرائے پر نہیں دیتے ہیں کیونکہ اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا‘‘ کیا پہلے کبھی آپ نے سٹور کرائے پر لیا ہے میں نے جواب دیا ہاں کئی برس پہلے اس نے کہا کہ اس وقت پچیس سے تیس ڈالر ماہانہ کرایہ ہوتا تھا۔ میں نے کہا ہاں اس قدر کرایہ تھا۔ پھر اس نے دوبارہ مجھے کہا کہ کیا آپ ایسے شخص ہیں جو رقم کو خرچ کرنے کی بجائے بچت کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ میں نے جواب دیا ’’ ہاں‘‘ پھر اس نے مجھے بتایا کہ ان دنوں ساٹھ سے اسی ڈالر ماہانہ کرائے پر سٹور مل رہے ہیں اور اگر آپ ایک برس کا ایڈوانس شامل کریں پھر تقریباً آٹھ سو ڈالر اس میں اور شامل کر لیں۔ لیکن اگر آپ کو پندرہ سو ڈالر میں کوئی سٹور مالکانہ حقوق کی بنیاد پر مل جائے تو کیا آپ خریدیں گے؟ اس سے ہر ماہ باقاعدگی سے کرایہ ادا کرنے کے درد سر سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ میں نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں لہٰذا میں نے فوراً ایک سٹور خرید لیا۔ ایتھنز والوں کی آنکھوں کاتارا ’’ سقراط ایک عظیم فلاسفر تھا جسے آج بھی دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس نے جو کام کئے ہیں وہ اس دنیا میں بہت کم لوگ کر سکے ہیں۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے انسانی سوچ کا دھارا مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا اور آج بھی چوبیس سو برس گزرنے کے بعد وہ تاریخ کا ایک عقل مند ترین شخص مانا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کیا تھا؟ کیا وہ لوگوں کو کہتا تھا کہ وہ غلط ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ وہ ایسی چیزوں سے بہت بلند تھا۔ اس کی تکنیک اس بنیاد پر قائم تھی کہ اس نے دوسروں کو ہاں کہنے پر آمادہ کرنا ہے وہ لوگوں سے ایسے سوالات کیا کرتا تھا جن کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں ہوتا تھا۔ جب اس کے پاس بہت سے ’’ ہاں‘‘ جمع ہو جاتے تو پھر اس کا مخالف شخص بغیر اس بات کا احساس کرتے ہوئے کہ سقراط اسے اپنے نقطہ نظر کے بہت قریب لے آیا ہے۔ ’’ ہاں‘‘ کہتا رہتا اور نتیجہ یہ نکلتا کہ سقراط اپنی ’’ ہاں‘‘ والی تکنیک سے اپنے نقطہ نظر منوانے میں کامیاب ہو جاتا۔‘‘ اگلی بار اگر ہم کسی دوسرے شخص کو غلط کہنے لگیں تو ہمیں سقراط کی تکنیک یاد رکھنی چاہیے اور اپنے مد مقابل کے ساتھ بڑی ملائمت اور دوستانہ انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ ہاں اور صرف ہاں میں جواب دے۔ چینی ضرب المثل ہے کہ ’’ جو نرمی سے بات کرتا ہے وہ بڑے فائدے میں رہتا ہے۔‘‘ چینیوں کو انسانی فطرت کا مطالعہ کرتے ہوئے پانچ ہزار برس ہو گئے ہیں اور انہوں نے یہ اپنا اصول بنا رکھا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بڑی ملائمت اور دوستانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ہمیں بھی ان سب باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ دوسرے شخص سے گفتگو کرتے وقت بالکل یہ احساس نہ کریں کہ یہ شخص بڑا مشکل ہے اسے اپنا ہمنوا نہیں بنایا جا سکتا یہ احساس کیے بغیر ہمیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے اس شخص کے ساتھ بڑی ملائمت اور دوستانہ انداز میں گفتگو کرنی ہے اور اس کو احساس دلائے بغیر ہاں اور صرف ہاں کہنے پر آمادہ کرنا ہے اور پھر دیکھیں کہ کامیابی کس طرح آپ کے قدم چومتی ہے۔ اصول نمبر ۵ ’’ جب کبھی دوسرے شخص سے گفتگو کریں تو اس سے پہلا سوال اس طرح کریں کہ وہ اس کا ہاں میں جواب دے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ یہ طے کریں کہ ایسا کون سا سوال ہو سکتا ہے۔‘‘ ٭٭٭ باب ششم شکایات سے نمٹنے کا طریقہ بہت سے لوگ دوسرے لوگوں کو اپنا ہمنوا کرنے کی کوشش میں خود بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ بولنے دینا چاہیے۔ وہ اپنے معاملات اور مسائل کے بارے میں آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ لہٰذ ا ان سے سوالات کریں اور ان کی باتیں سنیں اگر آپ ان سے اتفاق نہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل ان کی بات کاٹنے کو چاہے لیکن ایسا نہ کریں یہ بہت خطرناک ہے وہ کبھی بھی آپ کی بات کی طرف توجہ نہیں دیں گے جبکہ ان کے ذہن میں بھی بہت سی باتیں کرنا باقی ہونگی اس لیے انہیں پوری توجہ، حوصلہ افزائی اور کھلے دل سے سنیں۔ ان کی حوصلہ ؟؟؟؟ فیبرکس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک فرم کے ساتھ بات چیت ہو رہی تھی۔ بہت سی فرموں نے اپنے نمونے معائنے کے لیے بھیجے۔ جس کے بعد تمام فرموں کو اطلاع کر دی گئی کہ وہ اپنا ایک نمائندہ دس اپریل کو صبح ۱۰ بجے کمپنی کے دفتر میں بھیج دے تاکہ فیبرکس کا آرڈر دینے کے بارے میں حتمی فیصلہ ہو سکے۔ جی بی آر نامی ایک سیلز آفیسر بھی اپنی فرم کی طرف سے دس اپریل کو مقررہ وقت پر کمپنی کے دفتر پہنچ گیا۔ اس نے بتایا کہ جب وہ وہاں پہنچ گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ کمپنی کا ڈائریکٹر باری باری تمام نمائندوں سے مل رہا ہے۔ جب میری باری آئی تو میرا گلہ خراب ہونے کی وجہ سے میری آواز بیٹھ گئی اور میں بڑی مشکل سے پورا زور لگا کر بہت کم آواز میں بول سکا۔ جب میں کمرے میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر کمپنی کا صدر، ڈائریکٹر، ٹیکسٹائل انجینئر اور پرچیز آفیسر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے پورا زور لگا کر بولنے کی کوشش کی مگر میں بول نہ سکا۔ کمپنی کے صدر نے میری مشکل سمجھ لی اور اس نے مجھے پیش کش کی کہ وہ میری طرف سے گفتگو کرے گا اور اس نے ایسا کیا اس نے میرے فیبرکس کے نمونوں کی تعریف کی۔ جس پر میرے نمونوں کی اچھائی کے بارے میں ایک بڑی جاندار قسم کی بحث ہوئی اور صدر چونکہ میری نمائندگی کر رہا تھا۔ اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں یہ نمونے پاس کر دینے چاہیں۔ اس پوری بحث میں میری شرکت صرف مسکرانے، سر ہلانے تک محدود رہی۔ اس بے مثال اجلاس کے نتیجے میں مجھے آرڈر مل گیا۔ جس کی مالیت ۶ الاکھ ڈالر کی تھی اور جو میری زندگی کا سب سے بڑا آرڈر تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میری آواز بیٹھ نہ گئی ہوتی تو میں یہ آرڈر حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ ذہن میں اپنے نمونوں کی اچھائی کے بارے میں خیالات مختلف قسم کے تھے اور کمپنی کے صدر نے جو خیالات پیش کیے ان کی وجہ سے مجھے بہ آرڈر ملا۔ اس وقت مجھے یہ شدت سے محسوس ہوا کہ دوسرے شخص کو بولنے کا موقعہ دے کر کس قدر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے شخص کو بولنے کا موقع دینے سے کاروبار کے ساتھ ساتھ خاندانی امور میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثلاً بابروا ولسن کے اپنے بیٹے رچرڈ کے ساتھ بڑے کشیدہ تعلقات تھے۔ اٹھارہ سالہ رچرڈ بہت خاموش قسم کا دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرنے والا لڑکا تھا ۔ مسز ولسن نے اسے پیار سے سمجھایا ڈانٹ ڈپٹ کی سزا دی لیکن رچرڈ پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ مسز ولسن نے ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے افراد کو ایک لیکچر دیتے ہوئے بتایا۔ ’’ ایک دن میں تنگ آ گئی۔ رچرڈ نے میری نافرمانی کی اور اپنی دوست سے ملنے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو میں اس پر تقریباً برسنے والی تھی لیکن نے اپنے اوپر قابو پا لیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور صرف اتنا کہا کیوں رچرڈ کیوں؟ رچرڈ نے میری حالت محسوس کرتے ہوئے بڑی پر سکون آواز میں مجھ سے پوچھا کیا آپ واقعی یہ جاننا چاہتی ہیں؟‘‘ ’’ میں نے اپنا سر ہلایا رچرڈ نے پہلے مجھے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد کہا ’’ ماں آپ نے کبھی میری بات نہیں سنی۔ آپ ہمیشہ مجھے یہی کہتی رہیں کہ یہ کرو، وہ کرو، جب کبھی میں نے اپنی بات کرنی چاہی۔ آپ نے ہمیشہ مجھے درمیان میں ٹوک دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ رچرڈ کو ماں کی ضرورت ہے مگر ایک ایسی ماں کی جو اس کی دوست ہو۔ جو اس کے خیالات اور نظریات کو سمجھ سکے۔ یہ واقعی میری غلطی تھی کہ میں نے کبھی اپنے بیٹے کی باتیں نہیں سنی تھیں۔‘‘ اس دن کے بعد میں نے اپنے بیٹے کو گفتگو کرنے کا ہمیشہ موقعہ دیا۔ وہ اب مجھے بتاتا ہے کہ اس کے ذہن میں کیا ہے۔ اب ہمارے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں اب وہ ایک بار پھر تعاون کرنے والا بیٹاہے۔‘‘ نیویارک کے ایک اخبار میں ایک بڑا اشتہار شائع ہوا جس میں ایک ایسے شخص کی خدمات حاصل کرنے کا ذکر تھا جو بہت ہی قابل اور تجربہ کار ہو۔ چارلس نامی ایک شخص نے اشتہار کے جواب میں اپنی خدمات پیش کیں۔ چند روز بعد اسے انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ انٹرویو کے دوران اس نے کہا کہ ’’ مجھے اس جیسی فرم کے ساتھ منسلک ہو کر بہت خوشی وہ گی۔ میں جانتا ہوں کہ آپ گذشتہ اٹھائیس برس سے اس کاروبار میں ہیں اور آپ نے اس وقت ایک سٹینو گرافر اور ایک میز کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘ تقریباً ہر کامیاب شخص اپنے ابتدائی زمانے کی جدوجہد کا تذکرہ کرنا ضرور پسند کرتا ہے۔ یہ شخص بھی ایسا ہی ہے اس نے اپنی کہانی سنانی شروع کر دی کہ اس نے صرف ۴۵۰ ڈالر اور ایک ٹھوس منصوبے کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کیا تھا اس نے بتایا کہ شروع میں اس نے حوصلہ شکن حالات کا کس طرح مقابلہ کیا۔ وہ بارہ سے سولہ گھنٹے روزانہ اپنے دفترمیں کام کرتا اور اکثر اوقات چھٹی والے دن بھی دفتر میں آ کر کام کرتا۔ اس نے بتایا کہ بالآخر وہ کس طرح تمام تر پیش گوئیوں کے باوجود جو اس کے خلاف کی گئی تھیں۔ وال سٹریٹ کا ایک کامیاب بزنس مین کامیاب ہوا اور آج وال سٹریٹ کے بڑے بڑے ایگزیکٹوز اس کے پاس رہنمائی کے لیے آتے ہیں۔ اسے اپنے شاندار ریکارڈ پر فخر تھا اور اسے اس پر فخر کرنے کا حق بھی تھا۔ بالآخر اس نے چارلس سے پوچھا کہ اس کا کس قدر تجربہ ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک نائب صدر کو بلایا اور کہا۔ ’’ میرا خیال ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔‘‘ چارلس انٹرویو سے قبل وال سٹریٹ میں جا کر اس اشتہار دینے والی فرم کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کر چکا تھا اور اس نے انٹرویو کے دوران دوسرے شخص کی جدوجہد میں دلچسپی ظاہر کر کے اسے ایک بسی گفتگو کرنے پر آمادہ کیا اور اس طرح اس نے دوسرے شخص پر بہت اچھا تاثر چھوڑا۔ انٹرویو کے خاتمے پر جب وہ باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں اس کا تقرر نامہ تھا۔ کیلی فورنیا کے جی بریڈلی کا مسئلہ دوسری نوعیت کا تھا۔ اس کی چھوٹی سی فرم تھی جس میں ملازمین کو انشورنس، میڈیکل ایڈ اور پنشن جیسی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ اس نے سوچا کہ وہ اپنی فرم کی سیلز پوزیشن کو بہتر بنائے گا اس کے لیے رچرڈ پائر نامی ایک تجربہ کار شخص اسے مل گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میری کمپنی میں آزادنہ طور پر کام کر سکے گا۔ وہ جس قدر کام کرے گا اتنی ہی اس کی تنخواہ اور کمیشن ہو گی۔ وہ سیل کو بڑھانے کے لیے خود اپنی پالیسی ترتیب دے گا۔ اس کے بعد رچرڈ پائر مجھے بتاتا رہا کہ وہ کس طریقے سے کام کا آغاز کرے گا اور کتنی دیر میں وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔ میں اس کی باتیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سنتا رہا۔ اس کے بعد جب میں نے دیکھا کہ وہ میری فرم میں کام کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے تو میں نے اسے بتایا کہ اس فرم میں انشورنس، میڈیکل ایڈ اور پنشن جیسی سہولتیں نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ تیار تھا کیونکہ میں نے بالکل اسے آزادانہ طور پر کام کرنے کی پیش کش کی تھی۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کے دوران بھی اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ ہمارے دوست بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی باتیں سنیں اور اپنی باتیں کم کریں۔ فرانس کے ایک فلاسفر کا کہنا ہے ’’ اگر آپ دشمن بنانا چاہتے ہیں تو اپنے دوستوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اگر آپ دوست بنانا چاہتے ہیں تو اپنے دوستوں کو آگے بڑھنے دیں۔‘‘ یہ صحیح کیوں ہے؟ کیونکہ جب ہمارے دوست ہم سے آگے بڑھتے ہیں تو انہیں اپنی حیثیت کا احساس ہوتا ہے اور جب ہم ان سے آگے بڑھ جاتے ہیں تو ان میں سے چند دوست ضرور اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتے ہیں اور اس طرح ان میں حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نیویارک کی مڈ ٹاؤں پر سائل ایجنسی کی بینر ٹیا نے جب اپنی ملازمت کا آغاز کیا تو اس نے پہلے چند ماہ میں ایک بھی دوست نہیں بنائی۔ کیوں؟ کیونکہ ہر روز اس کا کام اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ اسے اس کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ اس نے ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوئے بتایا۔ ’’ میں اپنے کام میں بہت اچھی تھی لیکن میرے ساتھی میری کارکردگی کو سراہنے کی بجائے مجھ سے حسد کرتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ لوگ مجھے پسند کریں۔ میں انہیں اپنا دوست بنانا چاہتی تھی۔ اس کورس میں بتائی گئی چند تجاویز کو سننے اور سمجھنے کے بعد میں نے اپنے بارے میں بات کرنا کم کر دی اور دوسروں کی باتیں زیادہ سننا شروع کر دیا۔ ان کے کام بھی بڑے اچھے تھے اور اس پر انہیں شیخی مارنے کا حق حاصل تھا۔ لہٰذا اب ہمیں جب بھی وقت ملتا، میں ان سے ان کے کام کے بارے میں سوالات کرتی۔ جس سے انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہوتا اور میں اپنے بارے میں صرف اس وقت بات کرتی جب وہ مجھے سے اس کے بارے میں سوال کرتے۔‘‘ ’’ اس پالیسی کے استعمال کے صرف چند ہی دنوں بعد میں اپنے دفتر کی سب سے زیادہ ہر دلعزیز ملازمہ تھی۔ ہر کوئی مجھ سے بات کرنا اپنی خوشی خیال کرتا تھا۔ میری ساتھی ملازمائیں مجھ سے حسد نہیں کرتی تھیں اور میں خود بھی بہت خوش تھی۔ مجھے بھی اپنی اہمیت کا احساس تھا۔ تبھی تو تمام ملازمین میرے پاس آ کر اپنی باتیں کرتے تھے۔‘‘ اصول نمبر ۶ ’’ دوسرے شخص کو زیادہ سے زیادہ گفتگو کرنے کا موقعہ دیں۔‘‘ ٭٭٭ باب ہفتم تعاون کیسے حاصل کیا جائے کیا آپ ان نظریات پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جو آپ کے اپنے ذہن کے اندر جنم لیتے ہیں یا ان نظریات پر جو آپ کو چاندی کی طشتری میں پیش کیے جاتے ہیں؟ اگر آپ کو اپنے نظریات پر اعتماد ہے تو کیا یہ برا نہیں ہو گا کہ آپ دوسروں پر اپنے نظریات ٹھونسنا شروع کر دیں؟ کیا یہ زیادہ اچھا نہیں ہو گا کہ چند تجاویز پیش کر دی جائیں اور دوسرے شخص کو ان پر غور کر کے نتیجے پر پہنچنے دیں۔ فلاڈلفیا کا رایڈ ولف مبلٹنز جو ایک موٹر کمپنی کے شو روم میں سیلز منیجر تھا۔ اس نے ہمارے کورس میں بطور طالب علم بھی شرکت کی تھی۔ اچانک اس نے اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کی کہ اسے اس موٹر کمپنی کے بے ترتیب اور حوصلہ شکن مایوس سیلز کے شعبے کے افراد میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کا جوش و جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس نے اپنے شعبے کے افراد کا ایک اجلاس بلایا اور ان سے کہا کہ وہ پورے خلوص اور دیانتداری سے بتائیں کہ انہیں اس سے کیا توقع وابستہ ہیں۔ ہر کسی نے اپنے اپنے خیالات کا تذکرہ کیا اور ایڈولف انہیں ایک کاغذ پر لکھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے اجلاس کو بتایا۔ ’’ آپ مجھ سے جس قسم کی کارکردگی اور صلاحیت کی توقع کر رہے ہیں میں اس پر پورا اتروں گا۔ لیکن اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے بھی حق ہے کہ آپ سے کچھ توقعات رکھوں۔ اجلاس کے شرکاء نے بیک زبان کہا وفاداری، ایمانداری، ٹیم ورک، امید اور آٹھ گھنٹے تک پورے جوش و خروش کے ساتھ کام۔ اجلاس ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ ختم ہوا۔ ایک سیلز مین نے دن میں چودہ گھنٹے کام کرنے کی پیش کش کی۔‘‘ مسٹر ایڈولف نے مجھے بتایا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیلز کے شعبے کی کارکردگی بہتر ہو گئی اور موٹر کمپنی کو زبردست فائدہ ہوا۔ اس نے بتایا کہ لوگوں نے میرے ساتھ ایک اخلاقی ضابطہ طے کیا تھا جب تک میں ان کی توقعات پر پورا اترتا رہا۔ وہ میری توقعات کے عین مطابق کام کرتے رہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے کوئی کام کرنے کے لیے کہا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے ہماری خواہشات، ہماری ضروریات اور ہمارے خیالات کے بارے میں پوچھا جائے۔ ایسجن ولین کا ہی معاملہ لیں۔ اس نے مکشن دینے میں ہزاروں ڈالر ضائع کیے اور پھر کہیں جا کر اس نے یہ سچائی پائی۔ مسٹر ویسن ایک سٹوڈیو کے لیے سکیچ بنایا کرتا تھا۔ جو بعد ازاں ایک ٹیکسٹائل مل کے لیے نت نئے ڈیزائن بنانے میں کام آتے تھے۔ مسٹرولین نیویارک کے ایک مشہور ترین سٹائلسٹ کے پاس مسلسل تین برس ہر ہفتے جاتا رہا۔ مگر وہ ہمیشہ اس سے ملنے سے انکار کرتا رہا اور اس نے کبھی بھی میرے سکیچ نہیں خریدے۔ تقریباً ۱۵۰ ناکامیوں کے بعد ولین نے فیصلہ کیا کہ وہ ہفتے کی ایک شام انسانی تعلقات کے بارے میں مطالعہ کرے گا۔ جس سے اس کے ذہن میں نئے نظریات ابھریں گے اور نیا ولولہ پیدا ہو گا۔ اس نے ایک دن تقریباً نصف درجن ایسے سکیچ لیے جو ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے اور اس شخص کے دفتر میں چلا گیا۔ میں آپ سے ایک کام کے سلسلے میں مدد چاہتا ہوں اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ مسٹر ولین نے کہا میرے پاس کچھ نامکمل سکیچ ہیں۔ آپ انہیں دیکھ لیں اور مجھے بتائیں کہ میں آپ کی پسند کے مطابق انہیں کس طرح ڈھال سکتا ہوں۔ اس نے ایک لفظ کہے بغیر سکیچوں کو دیکھا اور پھر کہا کہ انہیں میرے پاس چھوڑ دو اور چند دنوں بعد دوبارہ مجھے ملو۔ ولین دو دنوں بعد دوبارہ اس کے پاس گیا اور سکیچوں کے بارے میں اس کی تجاویز لیں اور سکیچوں کو واپس اپنے سٹوڈیو میں لے آیا اور پھر اس نے انہیں اس کے خریدار کی خواہش کے مطابق مکمل کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے تمام سکیچ پسند کر لیے گئے۔ اس کے بعد اس خریدار نے ولین کے سکیچ خریدنے کے کئی آڈرز دیئے اور ولین نے وہ تمام سکیچ خریدار کی مرضی کے مطابق بنائے۔ ولین نے کہا’’ اب مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ میں اتنے برسوں سے اس خریدار کو سکیچ کیوں فروخت نہیں کر سکا تھا۔ میں پہلے اس پر زور دیا کرتا تھا کہ وہ میرے بنائے ہوئے سکیچ خریدے مگر بعد ازاں میں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور اسے کہا کہ وہ مجھے مشورہ دے کہ میں اس کے لیے کس قسم کے سکیچ بناؤں اس سے ایک تو اسے اپنی اہمیت کا احساس ہوا اور دوسرا مجھے اس کی طرف سے سکیچ بنانے کا آرڈر مل گیا۔‘‘ دوسروں کو یہ احساس دلانے کا اصول کہ ان کے خیالات کو اہمیت دی جا رہی ہے نہ صرف کاروبار بلکہ سیاست میں بھی فائدے مند ثابت ہوتا ہے۔ خاندانی تعلقات میں تو یہ اصول خاندان کے اندر یک جہتی، محبت اور خلوص پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اوکلوہاما کے پال ڈیوس نے ہمارے کورس میں شرکت کرنے والے طلباء و طالبات کو بتایا۔ ’’ میری فیملی نے ایک بار اپنی چھٹیاں بعض دلچسپ اور خوبصورت مناظر دیکھنے میں گذاریں۔ میری عرصہ دراز سے یہ خواہش تھی کہ میں ان تاریخی مقامات کی بھی سیر کروں جو امریکی تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ مثلاً گیٹس برگ جہاں سول وار لڑی گئی۔ فلاڈلفیا جہاں آزادی کا ہال ہے۔ ملک کا دار الحکومت جیمز ٹاؤں میں ویلی فورج اور ولیم برگ کا گاؤں ایک ایسی جگہیں تھیں جو میری فہرست میں شامل تھیں۔‘‘ مارچ میں میری بیوی نینسی نے تجویز پیش کی کہ اس بار گرمیوں کی چھوٹیوں میں ہمیں مغربی ریاستوں نیو میکسیکو، آرزونا، کیلی فورنیا، اور نویدا کی سیر کرنی چاہیے۔ وہ کئی برسوں سے یہ ریاستیں دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ مگر ہم یہ دونوں ٹرپ نہیں لگا سکے۔ ’’ ہماری بیٹی این نے اپنے سکول میں امریکی تاریخ کا کورس مکمل کیا تھا۔ اور وہ ان کی واقعات کے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ جنہوں نے ہماری ملکی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ آئندہ چھٹیوں میں ان جگہوں کو کس طرح دیکھنا پسند کرے گی۔‘‘ دو دو دن بعد جب ہم رات کے کھانے کے بعد بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے تو اچانک نینسی نے کہا کہ اگر ہم سب متفق ہوں تو اس برس گرمیوں کی چھٹیاں مشرقی ریاستوں میں گزاری جائیں کیونکہ یہ ہماری بیٹی این کے لیے بڑی دلچسپ اور اہم جگہیں ہیں۔ یہی سائیکلوجی ایک ایکس رے پلانٹ مینوفیکچرز نے بروکلین کے ایک بہت بڑے ہسپتال کو اپنی ایکس رے فلمیں فروخت کرنے کے لیے استعمال کی۔ یہ ہسپتال اپنے ایکس رے ڈیپارٹمنٹ میں ایکس رے پلانٹ اور دوسرے جدید ترین آلات خریدنے کا خواہشمند تھا۔ ڈاکٹر لائیڈ کو جو ایکس رے ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ تھا۔ روزانہ بے شمار سیلز آفیسروں سے ملاقات کرنی پڑتی تھی۔ جو اپنی مصنوعات ہسپتال کو فروخت کرنا چاہتے تھے اور ہر کوئی اپنی کمپنی کی مصنوعات کے بارے میں بڑھ چڑھ کر تعریف کر رہا تھا اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ ا پنی فرم کے لیے اس ہسپتال سے بہت بڑا آرڈر لینے میں کامیاب ہو۔ ان میں سے ایک سیلز آفیسر بہت ماہر تھا وہ گفتگو کرنے اور قئال کرنے کا فن جانتا تھا۔ اس نے ہسپتال کے سربراہ کو ایک خط لکھا۔ ’’ ہماری فیکٹری نے حال ہی میں ایکسرے کے بارے میں جدید ترین آلات تیار کیے ہیں اور اس سلسلے میں پہلی کھیپ دو روز قبل ہمارے دفتر کو موصول ہوئی ہے جو اتنے اچھے نہیں ہیں یہ ہم جانتے ہیں اور ہم انہیں مزید بہتر انداز میں تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے بہت شکر گزار ہوں گے اگر آپ کچھ وقت نکال کر انہیں دیکھ لیں اور ان میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لیے ہمیں اپنے مشورے دے سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ بے حد مصروف رہتے ہیں۔ ہم اپنی کار جس وقت آپ چاہیں آپ کو بھجوا سکتے ہیں۔‘‘ ’’ ڈاکٹر لائیڈ نے کہا کہ مجھے یہ خط پڑھ کر بڑی حیرانگی ہوئی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایکس رے بنانے والی مصنوعات کے کسی مینوفیکچرز نے مجھ سے مشورہ طلب کیا ہو۔ اس سے مجھے اپنی اہمیت کا بے پناہ احساس ہوا۔ میں اس ہفتے میں بے حد مصروف تھا لیکن میں نے مینوفیکچرز کی طرف سے دعوت قبول کرنے کی خاطر ایک ڈنر پارٹی میں جانے کا پروگرام بدل دیا۔ میں نے ان آلات کا معائنہ کیا اور انہیں بے حد پسند کیا۔‘‘ کسی نے بھی مجھ سے ان آلات کی فروخت کے بارے میں گفتگو نہیں کی۔ مگر میں نے وہیں کھڑے کھڑے ہسپتال کے لیے ان آلات کی خریداری کے لیے آرڈرز دیئے۔ رالف والڈ و ایمبرسن اپنے مضمون Self-Reliance میں کہتا ہے ’’ اکثر ایسے حالات میں جب ہم سے کوئی مشورہ طلب کیا جائے تو ہم ایسا مشورہ دیتے ہیں جس کو ہم خود اپنے لیے رد کر چکے ہوں۔‘‘ جن دنوں ووڈ روولسن امریکہ کے صدر تھے کرنل ایڈورڈ ایم ہاؤس کو قومی و بین الاقوامی امور پر بڑی دسترس حاصل تھی۔ اکثر صدر ووڈ رولسن اسے صلاح مشورے کے لیے بلایا کرتے تھے اور وہ اکثر اپنی کابینہ کے ارکان کے مقابلے میں بھی کرنل ایڈورڈ کی رائے کو زیادہ اہمیت دیا کرتا تھا۔ کرنل ایڈورڈ صدر روڈ روولن کو متاثر کرنے کے لیے کونسا طریقہ استعمال کیا کرتا تھا؟ خوش قسمتی سے ہم جانتے ہیں کیونکہ کرنل ایڈورڈ کی طرف سے خود آرتھر ڈی ہاوڈن سمتھ کو یہ بات بتائی گئی اور اس پر سمتھ نے بعد ازاں The Saturday Evening Post نامی ایک اخبار میں ایک آرٹیکل لکھا۔ جو آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ جب میں نے صدر ووڈ وولن کو سمجھنا شروع کر دیا تو میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو بات میں منوانا چاہتا تھا۔ میں وہ بات آہستہ آہستہ صدر کے ذہن میں ڈال دیاکرتا تھا۔ یہ کام میں اس انداز سے کیا کرتا تھا کہ صدر کے ذہن میں اس بات کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ اس کے بارے میں سوچیں۔ پہلی مرتبہ تو حادثاتی طور پر ایسا ہو گیا۔ میں نے صدر کو ایک پالیسی کے بارے میں اپنا ہمنوانا بنانا چاہا جسے وہ رد کرنے والے تھے۔ چند روز رات کے کھانے کے وقت مجھے یہ سن کر بڑی حیرانگی ہوئی کہ چند روز قبل میں نے اپنی جو تجاویز ان کو دی تھیں وہ انہی کے مطابق عمل کرنیو الے ہیں۔ ’’ کیا کرنل ایڈورڈ نے صدر کی بات کو کاٹ کر یہ کہا کہ یہ آپ کی نہیں میری تجاویز ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسے شاباش وصول کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے اس نے صدر ولسن کو پورا پورا موقعہ دیا کہ اسے یہ احساس رہے کہ یہ سب کچھ اس کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔ کرنل ایڈورڈ نے اس سے بھی بڑھ کر ایک کام کیا۔ اس نے عوام میں اس پالیسی کو وضع کرنے کا پورا پورا کریڈیٹ صدر ووڈ روولسن کو دیا۔‘‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ روز مرہ کی زندگی میں ہماری جن لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے وہ سبھی ووڈ رولسن کی طرح انسانی فطرت کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں ان سے میل جول کے وقت کرنل ایڈورڈ ہاؤس والی تکنیک استعمال کرنی چاہیے۔ کینیڈا کے ایک خوبصورت صوبے نیو برونسوک کے ایک شخص نے میرے ساتھ گفتگو کے دوران یہی تکنیک استعمال کر کے میری سرپرستی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ میں ان دنوں نیو برونسوک میں مچھلیوں کے شکار کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس لیے میں نے ٹورسٹ بیورو فار انفارمیشن کو اپنے پروگرام کے بارے میں لکھا۔ میرا نام بیورو کی فہرست میں رکھ لیا گیا اور مجھے جلد ہی متعدد خطوط اور پمفلٹ موصول ہوئے جو مختلف گائیڈوں نے بھیجے تھے میں حیران ہو کر رہ گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس گائیڈ کا انتخاب کروں۔ پھر ایک گائیڈ نے بڑی ہوشیاری دکھائی اس نے مجھے نیویارک کے ایسے بہت سے افراد کے ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر بھیجے۔ جو نیو برونسوک میں اس کی خدمات سے استفادہ کر چکے تھے اس نے مجھے لکھا کہ میں اس کی سروس کے بارے میں ان لوگوں سے نیویارک میں ہی معلومات حاصل کر سکتا ہوں۔ اس نے مجھے جن ناموں کی فہرست بھیجی تھی ان میں سے ایک شخص کو میں خوش قسمتی سے جانتا تھا۔ میں نے اسے ٹیلی فون کر کے اپنی تسلی کی اور پھر اس گائیڈ کو اپنی آمد کی اطلاع دے دی۔ پچیس صدیاں پہلے لاؤس نامی ایک چینی دانشور نے جو کہا وہ شاید اس کتاب کو پڑھنے والے آج استعمال کرتے ہوں۔ دریا اور سمندر پہاڑوں کے دامن سے نکلنے والی سینکڑوں ندیوں سے جو پانی وصول کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان ندیوں سے نیچے ہوتے ہیں اس لیے وہ ندیوں کے ان پانیوں پر حکمرانی کرتے ہیں اس لیے ایک عقلمند شخص جسے حکمرانی کرنے کی خواہش ہو۔ وہ ان دریاؤں اور سمندروں کی طرح نیچے جھک جاتا ہے اس طرح وہ عام انسانوں سے بلند مرتبہ حاصل کرتا ہے جو کہ اس کے اس رتبے سے حسد بھی نہیں کرتے اور نہ ہی اسے اس کے رتبے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصول نمبر ۷ دوسروں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ جو نظریات پیش کر رہے ہیں وہ خود ان کے ہیں۔ باب ہشتم ایک فارمولا جو آپ کیلئے حیران کن کامیابی حاصل کریگا یاد رکھیں کہ دوسرے سب لوگ بالکل غلط بھی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتے۔ ان پر نکتہ چینی نہ کریں۔ کوئی بیوقوف ہی ایسا کرے گا۔ انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسا صرف عقلمند، برداشت کرنے والے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ دوسرا شخص ایسا کیوں سوچتا ہے اور ایسا کیوں کرتا ہے اس کی ایک وجہ ہے اس وجہ کو دور کر دیں تو آپ اس عمل کر کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے آپ سے کہیں اگر میں اس کی جگہ پر ہوتا تو میں کیا محسوس کرتا۔ کس طرح اپنے رد عمل کا اظہار کرتا۔ اس طرح آپ کو اپنے غصے پر بھی قابو پانے میں آسانی رہے گی بلکہ آپ اس شخص کا مسئلہ بھی بخوبی سمجھ جائیں گے اور اس کے علاوہ انسانی تعلقات بنانے میں آپ کی مہارت بھی بڑھے گی۔ کینیتھ ایم گوڑے اپنی کتاب ’’ لوگوں کو سونا کیسے بنایا جائے‘‘ میں کہتا ہے ’’ ایک منٹ کے لیے رکو اور کسی دوسرے کے معاملے میں تشویش کے اظہار اور خود اپنے معاملات میں دلچسپی کا باہمی مقابلہ کرو۔ پھر یہ محسوس کریں کہ اس دنیا میں ہر شخص اسی انداز میں محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ کو بھی لنکن اور روز ویلٹ کی طرح انسانی تعلقات کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے میں مہارت حاصل ہو جائے گی مثلاً لوگوں سے میل جول کا دار و مدار اس بات میں ہے کہ آپ دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو کس قدر ہمدردانہ انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ نیویارک کا سام ڈگلس اپنی بیوی سے ہمیشہ یہ شکایت کیا کرتا تھا کہ وہ باغ میں پودوں کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ وقت صرف کرتی ہے۔ مگر اس کے باوجود باغ اس قدر اچھا اور خوبصورت دکھائی نہیں دیتا۔ اب قدرتی طور پر مسز ڈگلس کو ان ریمارکس سے سخت مایوس ہوئی اور جب بھی ڈگلس ایسے ریمارکس دیتا تو باقی کا دن غارت ہو جاتا۔ ہمارے کورس میں شرکت کرنے کے بعد مسٹر ڈگلس کو احساس ہوا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے اپنی بیوی کے کام کے بارے میں ایسے ریمارکس دے کر کس قدر بے وقوفی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کے کام کی کبھی تعریف کی ہو یا باغ کی حالت دیکھ کر کبھی یہ کہا ہو ’’ اوہو یہ تو بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔‘‘ ایک شام رات کے کھانے کے بعد اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ وہ باغ میں لگی ہوئی چند خود رو جھاڑیاں اکھاڑنا چاہتی ہے اور وہ اس کے ساتھ باغ میں چلے۔ مسٹر ڈگلس نے پہلے تو انکار کیا مگر بعد ازاںاس کے ساتھ باغ میں جانے پر رضا مند ہو گیا۔ ڈگلس اپنی بیوی کے ساتھ مل کر باغ سے خود رو جھاڑیوں کو اکھاڑتا رہا۔ اس کی بیوی بہت خوش ہوئی اور وہ بہت اچھے اور خوشگوار ماحول میں اکٹھے ایک گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ اس کے بعد تو مسٹر ڈگلس کا یہ معمول بن گیا اور وہ اکثر و پیشتر اپنی بیوی کے کام میں ہاتھ بٹانے لگا اور وہ اپنی بیوی کے کام کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے باغ کی تعریف کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کی باقی ماندہ زندگی بڑے خوشگوار ماحول میں گزری کیونکہ ڈگلس نے یہ تکنیک سیکھ لی تھی کہ وہ کبھی بھی معاملے کو دوسرے شخص کے نکتہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ ڈاکٹر جیرالڈ ایس نیرن برگ نے اپنی مشہور کتاب کسی انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے باہمی گفتگو میں تعاون اس وقت حاصل ہوتا ہے جب آپ دوسرے پر یہ ظاہر کریں کہ آپ اس کے نظریات اور خیالات کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں اس سے دوسرے شخص کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ کھل کر اپنے خیالات اور نظریات آپ کے سامنے رکھ دے گا اور اس کے جواب میں وہ خود بھی آپ کے نظریات اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا اس سے باہمی تعاون پیدا ہو گا اور آپ دونوں بغیر لمبی چوڑی بحث کئے اپنے مسئلے کا حل تلاش کر لیں گے۔ میں نے ہمیشہ اپنے گھر کے قریبی پارک میں گھڑ سواری اور پیدل چلنے میں لطف اٹھایا ہے۔ پارک کے آخر میں ایک سائن بورڈ تھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’ جو شخص یہاں آگ جلائے گا اسے جرمانے کے ساتھ ساتھ گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس میں ایک خرابی تھی کہ یہ سائن بورڈ پارک کے ایک ایسے کونے میں لگایا گیا تھا جہاں بہت کم لوگوں کی اس پر نظر پڑتی تھی۔ پارک کی ایک اونچی منڈیر پر بیٹھا ایک پولیس مین پارک میں آنے جانے والوں پر نظر رکھا کرتا تھا مگر وہ اکثر اوقات اپنی ڈیوٹی زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیا کرتا تھا اور اس کے نتیجے میں ہر برس وہاں آگ لگ جایا کرتی تھی۔ ایک موقعہ پر جب ٓگ لگی میں بھاگ کر پولیس مین کے پاس گیا اور اسے پارک میں لگنے والی آگ کے بارے میں بتایا میں چاہتا تھا کہ وہ فائر بریگیڈ والوں کو اطلار کر دے۔ مگر میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ مجھے پولیس مین کے جواب پر بہت دکھ ہوا اس کے بعد جب میں گھڑ سواری کر کے ان لڑکوں کے پاس گیا جنہوں نے شرارت کر کے پارک کو آگ لگائی تھی اور انہیں اس سے منع کیا کہ اگر وہ اس سے باز نہیں آئیں گے تو انہیں پولیس گرفتار بھی کر سکتی ہے اس طرح میں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لڑکوں نے بادل نخواستہ میری بات مان تو لی مگر صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ اس طرح منع کئے جانے پر سخت ناراض ہیں جب میں واپس چلا گیا تو غالباً انہوں نے دوبارہ آگ لگ ادی اور پارک جل کر راکھ ہو گیا۔ کئی برس گذرنے کے بعد میں نے انسانی تعلقات کے بارے میں مزید علم حاصل کیا مجھے اس فن میں مزید مہارت حاصل ہوئی اور میں حالات اور واقعات کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق سمجھنے لگا اور اب میں لوگوں کو حکم دینے کی بجائے جہاں آگ لگی ہوئی ہو وہاں جاتا ہوں اور اس طرح بات کرتا ہوں۔ ’’ لڑکو بڑا اچھا وقت گذار رہے ہو آپ اس آگ کو جلا کر کیا پکانا چاہتے ہیں؟ کوئی شکار کی ہوئی مرغابی یا ہرن کا گوشت بھوننا چاہتے ہو۔ میں جب بچہ تھا تو میں بھی اسی طرح آگ جلانا پسند کرتا تھا اور یہ اب بھی مجھے پسند ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ پارک میں ایسا کرنا بہت خطرناک ہے مجھے معلوم ہے کہ اگر جلانے سے آپ کا مقصد کسی قسم کا نقصان نہیں کرنا ہے۔ لیکن بعض دوسرے لڑکے جو آپ کو آگ جلاتے ہوئے دیکھ لیں وہ شاید آپ جتنی احتیاط نہ کر سکیں۔ وہ یہاں آ کر آپ ہی کی طرح آگ جلا سکتے ہیں اور پھر اسے بجھائے بغیر گھر واپس چلے جائیں گے اور پھر آگ پھیل کر پارک میں گرے ہوئے خشک پتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس طرح یہ بڑھتے ہوئے درختوں کو بھی جلا ڈالے گی۔‘‘ لیکن میں آپ کی خوشی میں منحل نہیں ہونا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ خوب لطف اندوز ہوں لیکن کیا آپ آگ کے ارد گرد پڑے تمام سوکھے پتوں کو ہٹا نہیں دیں گے؟ اور پھر اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے آگ پر مٹی ڈال کر اسے بجھا دیں گے؟ اور اگلی دفعہ جب آپ لطف اندوز ہونا چاہیں گے تو کیا آپ پہاڑی کے اوپر ریتلی زمین پر آگ نہیں جلائیں گے۔ وہاں آگ جلانے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ لڑکو آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری باتیں سنیں اب آپ ایک بہت اچھا وقت گزاریں۔ اس قسم کی گفتگو کرنے سے کیا فرق پڑا۔ اس سے وہ لڑکے جنہوں نے پارک میں آگ جلائی تھی۔ میرے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہو گئے۔ ان کو تعاون پر زبردستی مجبور نہیں کیا گیا۔ میری گفتگو نے انہیں گرفتاری سے بچا لیا تھا۔ وہ بھی خوش تھے اور میں بھی خوش تھا۔ میں نے اس صورت حال کو ان کے نقطہ نظر کے مطابق سنبھال لیا تھا۔ دوسرے شخص کے نقطہ نظر کے مطابق معاملات کو دیکھنے سے تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز، آسٹریلیا کی الزبتھ نے اپنی کار کی پے منٹ میں چھ ہفتوں کی دیر کر دی تھی۔ اس نے ایک جمعہ کے روز بتایا ’’ میں نے ایک ٹیلی فون کال ریسیو کی جو اس شخص کی طرف سے تھی جو میرے اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس نے مجھے اطلاع دی کہ اگر میں نے سوموار کے دن تک ۱۲۲ ڈالر کمپنی کے دفتر میں جمع نہ کرائے تو میرے خلاف ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ ان تین دنوں میں میرے پاس کہیں سے بھی رقم آنے کے آثار نہیں تھے لہٰذا میں بڑی فکر مند تھی کہ اب کیا ہو گا۔ میری کار مجھ سے چھن جائے گی۔‘‘ تھوڑی دیر اپ سیٹ رہنے کے بعد میں نے سارے حالات کو کار کمپنی کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے بڑے خلوص کے ساتھ معذرت کی کہ میری طرف سے وقت پر رقم جمع نہ کرانے کے باعث کمپنی کو خاص زک پہنچائی اور یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ میں نے رقم کی ادائیگی میں دیر کی ہو۔ میرے اس طرح بات کرتے ہی اس شخص کا لہجہ بالکل بدل گیا اور وہ مجھے بہت سی ایسی مثالیں دینے لگا کہ اس کا واسطہ کس قسم کے گستاخ گاہکوں سے پڑتا ہے وہ کس طرح جھوٹ بولتے ہیں یا وہ ملنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ کہلا بھجواتے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں لیکن آپ نے تو بڑے خلوص اور اچھے موڈ میں مجھ سے بات کی۔ اس کے بعد اس نے بغیر کسی میری درخواست کے کہا کہ کوئی بات نہیں اگر میں ساری رقم سوموار تک نہیں جمع کرا سکتی۔ لیکن یہ بہت اچھی بات ہو گی کہ اگر آپ اس ماہ کے آخر تک ۲۰ ڈالر جمع کرا دیں اور باقی رقم جب آپ کے پاس ہو گی۔ جمع کرا دیں۔ کل کسی کو آگ لگانے سے روکنے یا کسی کو اپنی مصنوعات فروخت کرتے وقت کیوں نہ چند سیکنڈ کے لیے اپنی آنکھیں بند کر کے دوسرے شخص کے نقطہ نظر کے مطابق سوچنے کی کوشش کریں؟ یہ صحیح ہے کہ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر اس سے آپ بہتر نتائج حاصل کر سکیں گے۔ ہاورڈ بزنس سکول کے ڈین ڈورنم نے ایک بار کہا کہ میں انٹرویو سے پہلے انٹرویو لینے والے کے دفتر کے سامنے دو گھنٹے تک مٹر گشت کرنا پسند کروں گا۔ اس کے بعد کمرے میں داخل ہوں گا۔ اس وقت میرا ذہن بالکل صحیح اور واضح ہو گا اور مجھے معلوم ہو گا کہ میں کیا کہوں گا اور انٹرویو لینے والا شخص کیا کہے گا، مجھے یہ علم ہو گا کہ انٹرویو لینے والے شخص کے کیا مفادات ہیں اور میں کیا چاہتا ہوں۔ اگر اس کتاب کو پڑھنے کے نتیجے میں آپ صرف ایک اصول پکڑ لیں اور وہ یہ کہ دوسرے شخص کے نقطہ نظر کے مطابق سوچیں او رحالات کا دوسرے شخص کے نقطہ نظر کے مطابق جائزہ لیں۔ اگر آپ صرف ایک یہی اصول بنا لیں تو یہ آپ کے کیرئر کو سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اصول نمبر ۸ ’’ بڑی ایمانداری کے ساتھ دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب نہم ہر شخص کیا چاہتا ہے کیا آپ ایک ایسا سحر انگیز جملہ استعمال کرنا پسند کریں گے۔ جس سے بحث ختم ہو جائے ہر قسم کے مخالفانہ جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں۔ خیر سگالی کا جذبہ پیدا ہو اور دوسرا شخص آپ کی بات کو زیادہ توجہ کے ساتھ سننا شروع کر دے۔ ہاں؟ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ وہ جملہ ہے ’’ میں آپ کو ذرا برابر بھی قصور وار نہیں سمجھتا ہوں۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو بلا شبہ میں بھی اس طرح کرتا۔‘‘ آپ کا یہ جملہ ایک سخت قسم کے جھگڑالو شخص کو بھی نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دے گا۔ آپ یہ جملہ کہتے وقت سو فیصدی خلوص کا مظاہرہ کریں کیونکہ اگر آپ اس شخص کی جگہ ہوتے تو آپ بھی یہی کرتے۔ الکیپون کی مثال لیں۔ فرض کریں کہ آپ کا جسم، ذہن اور مزاج الکیپون کی طرح ہے۔ فرض کریں کہ آپ کو اس طرح کے ماحول سے واسطہ پڑا ہے۔ آپ من و عن وہی ہوں گے جو الکیپون تھا۔ آپ صرف اس لیے سانپ نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ کے والدین ایسے نہ تھے۔ آپ جو کچھ بھی ہیں اس میں آپ کا بہت ہی کم کریڈٹ ہے اور یاد رکھیں کہ آپ کا واسطہ جن نامعقول، گنوار اور بپھرے ہوئے لوگوں سے پڑتا ہے۔ وہ بھی جو کچھ ہوتے ہیں ان میں ان کا اپنا بہت کم کریڈٹ ہوتا ہے ان کو ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے ان سے ہمدردی کا اظہار کریں۔ تین چوتھائی لوگ جن سے آپ ملیں گے۔ وہ ہمدردی کے بھوکے پیاسے ہوتے ہیں یہ انہیں دے دیں۔ وہ آپ سے محبت کریں گے۔ میں نے ایک مرتبہ ’’ لٹل وومن‘‘ کی مصنفہ لیوس مے ایکوٹ کے لئے ریڈیو سے ایک پروگرام کیا۔ میں جانتا تھا کہ اس نے اپنی لازوال کتابیں کونکورڈ میسا جوسٹیں میں لکھی تھیں۔ لیکن یہ سوچے بغیر کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں نیو ہمشائر کونکورڈ میں اس کے گھر گیا۔ اگر میں نے پروگرام کے دوران صرف ایک بار نیو ہمیشائر کا ذکر کیا ہوتا تو میں معافی کا مستحق تھا مگر افسوس کہ میں نے اس کا دوبار ذکر کیا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد ہی گھر میں خطوط، تاروں اور پیغامات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ بہت سے خطوط میں مجھ پر بہت زیادہ لعن طعن کیا گیا، کچھ خطوط میں میری سخت بے عزتی کی گئی تھی۔ فلاڈلفیا کی ایک خاتون نے مجھ پر اس قدر تنقید کی کہ اگر میں نے لیوس ایکوٹ کو نیوگنی کی ایک جنس خور قرار دیتا تو وہ شاید مجھ پر اس قدر تنقید نہ کرتی۔ جوں جوں میں اس خاتون کا خط پڑھتا گیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’ خدا کا شکر ہے کہ میری اس خاتون سے شادی نہیں ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس عورت کو لکھوں کہ اگرچہ میں نے غلطی کی ہے۔ مگر اس نے اس سے بھی بڑی فاش غلطی کی ہے اور یہ میرا پہلا فقرہ ہوتا اور اس کے بعدمیں آستین چڑھا کر اس خاتون کو بتاتا کہ میں اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوں۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے اپنے اوپر قابو رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ غلطی کروں تو میں بھی ان احمقوں کی فہرست میں شامل ہو جاؤں گا جو ایسے موقعوں پر اس طرح کرتے ہیں۔‘‘ لیکن میں احمق بننا نہیں چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے اس خاتون کی دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ میرے لیے ایک چیلنج تھا میں نے اپنے آپ سے کہا ’’ اگر میں اس خاتون کی جگہ ہوتا۔ میرے جذبات بھی وہی ہوتے جو اس خاتون کے ہیں۔ ‘‘ لہٰذا میں نے اس خاتون کے ساتھ ہمدردانہ رویہ روا رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگلی دفعہ جب میں فلاڈلفیا گیا تو میں نے اس خاتون کو ٹیلی فون کیا۔ اور اس کے ساتھ میری جو دلچسپ قسم کی گفتگو ٹیلی فون پر ہوئی وہ آپ کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہا ہوں۔ کارنیگی: مسز مارٹن میں کارنیگی بول رہا ہوں۔ آپ نے چند ہفتے قبل مجھے جو خط لکھا تھا۔ میں اس کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مسز مارٹن: (بڑے مہذب اور شائستہ انداز میں) کون ڈیل کارنیگی۔ جس نے ریڈیو پر لیوسی مے ایکوٹ کے بارے میں ایک پروگرام کیا تھا۔ کارنیگی: ہاں۔ مسز مارٹن اس پروگرام میں مجھ سے ایک فاش غلطی ہو گئی تھی جس کے لیے میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے میری غلطی کی نشاندہی کرائی۔ مسز مارٹن: مسٹر کارنیگی مجھے افسوس ہے کہ میں نے وہ خط لکھا۔ دراصل میں شدید غصے میں تھی اور میں آپ سے معافی کی خواہستگار ہوں۔ کارنیگی: نہیں نہیں۔ مسز مارٹن آپ کیوں معافی مانگیں۔ معافی تو مجھے مانگنی چاہیے کیونکہ ایک سکول کا بچہ بھی جانتا ہے کہ لیوسی ایکوٹ کا تعلق کونکورڈ نیو ہمیشائر سے نہیں کونکورڈ میسا چوسٹیس سے تھا۔ میں نے پروگرام کے دوسرے روز ریڈیو کے ذریعے ہی اپنی غلطی کی معافی مانگی تھی اور آج میں ذاتی طور پر آپ سے معافی مانگ رہا ہوں۔ مسز مارٹن: میں کونکورڈ میسا چوسٹیس میں پیدا ہوئی۔ میری فیملی پچھلی دو صدیوں سے میسا چوسٹیس کے معاملات میں نمایاں رہی ہے اور مجھے اپنی آبائی ریاست پر بہت فخر ہے۔ مجھے پروگرام کے دوران یہ سن کر بڑی کوفت ہوئی کہ لیوسی مے ایکوٹ نیو ہمیشائر کی رہنے والی تھی۔ مگر اس کے باوجود مجھے اپنے احمقانہ خط پر شرمندگی ہے۔ کارنیگی: میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو اس کوفت کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوا ہو گا جو کوفت مجھے اس غلطی کا احساس ہونے کے بعد ہوئی۔ میری غلطی سے صرف میسا چوسٹیس کے رہنے والوں کے جذبات ہی مجروح نہیں ہوئے۔ خود میرے جذبات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ جیسے معیار اور رتبے کے حامل افراد شاید ہی ان لوگوں کو خط لکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں جو ریڈیو پروگرام کرتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگر آئندہ مجھ سے ریڈیو پرورگرام کے دوران کوئی غلطی ہوئی تو آپ مجھے اس سے ضرور آگاہ کریں گی۔ مسز مارٹن: مسٹر کارنیگی مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے میری نکتہ چینی کو اس انداز سے قبول کیا ہے آپ واقعی ایک بہت ہی نفیس انسان ہوں گے میں آپ کو مزید جاننا چاہوں گی۔ اس گفتگو کو پڑھ کر آپ کیا اندازہ لگاتے ہیں۔ چونکہ میں نے مسز مارٹن سے معافی مانگی اور اس کے نقطہ نظر سے ہمدردی کا اظہار کیا اور وہ معافی مانگنے لگ گئی اور میرے نقطہ نظر سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگی۔ مجھے اس بات کا اطمینان تھا کہ میں نے اپنے غصہ پر قابو رکھا اور بے عزتی کے بدلے میں مہربانی سے جواب دیا۔ ہر وہ شخص جو وائٹ ہاؤس میں ایک با اختیار شخص کی حیثیت سے رہتا ہے تقریباً روزانہ ہی انسانی تعلقات کے بارے میں اس قسم کی پیچیدہ مسائل سے دو چار ہوتا ہے ۔ صدر ٹیفٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور انہوں نے تجربے سے سیکھا کہ جذبات کے تیزاب کو ہمدردی کے کیمیکلز کے ذریعے کیسے نیوٹرل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ نوکری یا خدمت کے آداب‘‘ میں کھا ہے کہ اس نے ایک مایوس اور پر شوق قسم کی ماں کا غصہ کس طرح ٹھنڈا کیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک دلچسپ طریقہ ہے۔ ’’ واشنگٹن کی ایک خاتون کا خاوند جس کا کچھ سیاسی اثر تھا۔ چھ ہفتے مسلسل میرے پاس آ کر ایک اہم منصب پر اپنے بیٹے کی تقرری کے لیے مجھے قائل کرتی رہی۔ اس کے ساتھ سنیٹروں اور کانگرس کے بعض اہم ارکان بھی تھے۔ انہوں نے بھی مجھ پر زور دیا کہ خاتون کے بیٹے کو اس اہم منصب پر فائز کر دیا جائے۔ مگر یہ منصب ایک ٹیکنیکل شخص کے لیے تھا اور میں نے بیورو کے سربراہ کی سفارش کے بعد کسی اور اہل شخص کو اس منصب پر فائز کر دیا تھا۔ لہٰذا میں نے بڑی شائستگی کے ساتھ انکار کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے خاتون ماں کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ جس میں اس نے لکھا تھا کہ میں انتہائی احسان فراموش کم ظرف انسان ہوں کیونکہ تم نے میری بات نہ مان کر مجھے خوشی نہیں دی تھی جبکہ میں اس کے ساتھ بہت اچھائیاں کر چکی ہوں۔ اس نے مزید شکایت کی کہ اس نے بڑی سخت محنت کے بعد اپنی ریاست کے تمام ووٹ اس بل کے حق میں دلائے جس میں صدر صاحب آپ کی تمام تر دلچسپی مرکوز تھی کہ یہ منظور ہو جائے۔ اور آپ نے اس کے بدلے میں مجھے اچھا صلہ دیا۔‘‘ ’’ جب آپ کو اس قسم کا خط ملے تو پہلا کام آپ کا کیا ہو گا؟ آپ کس طرح ایک ایسے شخص کے ساتھ اس قدر سخت ہو سکتے ہیں جس نے بے ہودگی کی ہو اور جو اس قدر بے لگام ہو۔ پھر آپ خود ہی اپنا جواب تیار کر سکتے ہیں اور اگر آپ ذرا سے بھی عقل مند ہیں تو آپ اس خط کو دراز میں رکھ کر اسے تالا لگا دیں گے۔ دو دنوں بعد اس خط کو دراز سے نکالیں آپ اس کا جواب اس قدر غصے سے نہیں دے پائیں گے۔ یہی طریقہ میں نے اپنایا۔ اس کے بعد میں نے ناراض خاتون کا ایک بہت ہی خوش اخلاق قسم کا خط لکھا۔ میں نے لکھا کہ مجھے ایک ماں کی مایوسی کا اندازہ ہے مگر ان حالات میں اس منصب پر اس کے بیٹے کو فائز کرنا صرف میرے اختیار میں ہی نہیں تھا۔ بیورو کو اس کے لیے ایک ٹیکنیکل شخص کی ضرورت تھی اور بیورو کے سربراہ نے اپنے ہی محکمے کے شخص کی سفارش کی تھی جو بہرحال ایک ٹیکنیکل شخص تھا میں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کا بیٹا اس وقت جس منصب پر فائز ہے اس میں بھی وہ ترقی کر کے ایک اہم منصب پر پہنچ سکتاہے میرے اس خط سے اس کی تسلی ہو گئی او راس نے مجھے ایک خط لکھا جس میں اس نے اپنے پہلے خط پر معذرت کا اظہار کیا تھا۔‘‘ لیکن میں نے اس خاتون کو اس کے بیٹے کے لیے جس اہم منصب کے لیے پیش کش کی تھی وہ فوراً ہی کنفرم نہیں ہو سکی اور کچھ ہفتوں کے وقفے کے بعد مجھے ایک خط ملا۔ جو اس خاتون کے سیاسی اثر و رسوخ والے شخص نے اپنی بیوی ہی سے لکھوایا تھا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ اس معاملے میں دوسری بار مایوسی کے بعد میری بیوی کے اعصاب جواب دے چکے ہیں وہ بستر پر لگ گئی ہے اور اسے معدے کا کینسر ہو گیا ہے۔ کیا صدر صاحب آپ میرے بیٹے کو اس اہم منصب پر فائز کر کے میری بیوی کو صحت یاب ہونے میں مدد نہیں دیں گیَ مجھے ایک اور خط لکھنا پڑا اور یہ خط میں نے خاتون کے شوہر کو لکھا۔ میں نے لکھا کہ مرض کے لیے جو دوا آپ نے تجویز کی ہے وہ نامناسب ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس کی بیوی کی بیماری کا بھی بے حد افسوس ہے مگر اس مرحلے پر اس کے بیٹے کو اس اہم منصب پر فائز کرنا ناممکن ہے کہ جس شخص کو اس منصب پر فائز کیا گیا۔ وہ کنفرم ہو چکا ہے دو دن بعد ہم نے اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب بھی کی۔ جس میں یہ شوہر اور بیوی بھی شریک ہوئے۔ جسے مینگم اوکلوہاما کی ایک لفٹ تیار کرنے والی کمپنی کا نمائندہ تھا۔ جس نے اوکلوہاما کے ایک بہترین ہوٹل میں لفٹ کی دیکھ بھال کا ٹھیکہ لے رکھا تھا ایک مرحلے پر جبکہ لفٹ کی کچھ ضروری مرمت درکار تھی۔ ہوٹل کا منیجر اس بات پر رضا مند نہ تھا کہ وہ لفٹ کو دو گھنٹے سے زیادہ بند رکھے اور ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کو کسی طرح کی کوئی تکلیف ہو۔ مگر لفٹ کی مرمت کا کام تقریباً آٹھ گھنٹوں میں مکمل ہونا تھا۔ جب مینگم نے ایک ایسے ماہر انجینئر کا بندوبست کر لیا جو لفٹ کی مرمت کا کام دو یا تین گھنٹوں میں ختم کر سکتا تھا تو اس نے ہوٹل کے منیجر کو فون کیا اور اس سے بحث کرنے کی بجائے اس نے کہا۔ ’’ رک میں جانتا ہوں کہ آپ کا ہوٹل بہت مصروف ہے۔ اور آپ لفٹ کو صرف ایک محدود مدت کے لیے ہی بند کر سکتے ہیں میں اس بارے میں آپ کی تشویش سے آگاہ ہوں اور ہم اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آپ کا مرمت کیلئے کم از کم وقت لگے تاہم اس وقت تک ہم نے جس صورت حال کا اندازہ لگایا ہے۔ اس کے پیش نظر اگر ہم نے فوری طور پر اس کی مرمت نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ اس سے لفٹ کو زیادہ نقصان پہنچے گا اور اس سے اس خطرے کا بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ یہ لفٹ خود ہی زیادہ دیر کے لیے بند ہو جائے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ اپنے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کو چند گھنٹوں کے لیے تو زحمت دے سکتے ہیں مگر زیادہ دنوں تک آپ انہیں یہ زحمت دینا یقینا پسند نہیں کریں گے۔‘‘ منیجر اس بات پر رضا مند ہو گیا کہ آٹھ گھنٹے تک لفٹ کو مرمت کے لیے بند کر دیا جائے۔ اس طرح میں نے منیجر کے نقطہ نظر سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس کے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کو تکلیف نہ ہو ہم ہوٹل کے منیجر کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس کے لیے ہمیں زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑی۔ میسوری کے شہر سینٹ لوئس کے ایک پیانو ٹیچر جوائس تورس نے بتایا کہ اس نے کس طرح ایک مسئلے کو حل کیا جو اکثر پیانو سکھانے والی ٹیچروں کو جواں سال لڑکیوں کو پیانو سکھاتے وقت پیش آتا تھا۔ ایک لڑکی باربرا کے لمبے لمبے ناخن تھے اور یہ پیانو صحیح بجانے اور سیکھنے کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ ’’ مسز تورس نے ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوے بتایا‘‘ مجھے معلوم تھا کہ اچھی طرح پیانو بجانا سیکھنے کی راہ میں باربرا کی انگلیوں کے لمبے لمبے ناخن حائل ہیں۔ پیانو کی کلاس میں آنے سے پہلے بھی میں نے اس کے لمبے لمبے ناخن دیکھے تھے میں نے اس وقت اس لیے باربرا کو ناخن کٹوانے پر مجبور نہیں کیا کہ جب وہ پیانو بجانا سیکھنے لگے گی تو اسے خود ہی اس رکاوٹ کا احساس ہو گا اور وہ اپنے لمبے لمبے ناخن کٹوا دے گی مگر اسے تو اپنے لمبے لمبے ناخنوں پر بڑا فخر تھا۔ پہلے سبق کے بعد جب میں نے محسوس کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ باربرا کو اس کے ناخنوں کے بارے میں بات چھیڑ دوں۔ تو میں نے باربرا سے کہا۔ باربرا تمہارے ہاتھ بڑے پرکشش اور ناخن خوبصورت ہیں۔ اگر تم پیانو بجانا سنجیدگی سے سیکھنا چاہتی ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم جلد پیانو بجانا سیکھ سکتی ہو اگر تم اپنے ناخنوں کو چھوٹا کر لو۔ اس کے بارے میں سوچو۔ اوکے؟ اس کے چہرے پر جو تاثرات ابھرے وہ بڑے منفی تھے میں نے باربرا کی ماں سے بھی اس مسئلے پر گفتگو کی۔ اس کی ماں کا بھی رد عمل بڑا منفی تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ باربرا کے خوبصورت تراشے ہوئے ناخن اس کی ماں کے لیے بھی بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ ’’ ایک ہفتے بعد باربرا اپنے دوسرے سبق کے لیے کلاس میں آئی تو میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اس کے لمبے لمبے ناخن کٹے ہوئے تھے۔ میں نے یہ قربانی دینے پر اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے خراج تحسین پیش کیا۔ میں نے باربرا کی ماں کا بھی شکریہ ادا کیا کہ اس نے اپنی بیٹی کو ناخن کٹوانے پر آمادہ کیا۔ اس کی ماں کا جواب تھا نہیں نہیں۔ اس نے باربرا کو ناخن کٹوانے پر آمادہ نہیں کیا بلکہ باربرا نے خود ہی یہ فیصلہ کیا ہے اور یہ پہال موقعہ ہے کہ اس نے کسی کے لیے اپنے ناخن کٹوائے ہیں۔‘‘ کیا مسز لورس نے باربرا کو دھمکی دی؟ کیا اس نے باربرا سے کہا کہ وہ ایسی طالبہ کو پیانو نہیں سکھائے گی جس کے لمبے لمبے ناخن ہوں گے؟ نہیں اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے کے اس احساس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے ناخن خوبصورت ہیں اور ان کو کاٹنا ایک بڑی قربانی ہو گی۔ مسز لورس کے الفاظ تھے مجھے تم سے ہمدردی ہے میں جانتی ہوں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے مگر اس سے میوزک سیکھنے کے فن میں تمہیں بڑی مدد ملے گی۔ سول ہوروک امریکہ میں کھیل تماشوں کا بہترین منتظم تھا تقریباً نصف صدی سے وہ کھیل تماشے کراتا آ رہا تھا۔ مسٹر ہوروک نے مجھے بتایا کہ دنیا کے عظیم ترین آرٹسٹوں کے ساتھ میل جول سے اس نے جو پہلا سبق سیکھا وہ زیادہ سے زیادہ ہمدردی اور خلوص تھا۔ وہ گذشتہ تین برسوں سے فیو ڈور کے منیجر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا۔ مگر وہ اس کے لیے ایک مسلسل مسئلہ بنا ہوا تھا۔ وہ ایک بگڑے ہوئے بچے کی مانند تھا۔ مثال کے طور پر وہ ہو روک کو دوپہر کے وقت بلا لیتا اور اسے بتاتا کہ آج چونکہ میرا گلا بہت خراب ہے اس لیے میں شو میں گانا نہیں گا سکوں گا۔ کیا ہو روک اس کے ساتھ بحث کرتا؟ نہیں وہ جانتا تھا کہ ایک منیجر اس طرح کے بگڑے ہوئے آرٹسٹوں کو کس طرح قابو کرتا ہے۔ لہٰذا وہ فیو ڈور سے کہتا ’’ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ تمہارا گلا خراب ہے بے شک تم گانا نہیں گا سکتے۔ میں ابھی فوراً ہی شو کو منسوخ کرنے کا اعلان کرتا ہوں اس سے تمہیں چند ہزار ڈالروں کا نقصان تو ہو گا مگر یہ تمہاری شہرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس پر فیوو ڈر اسے کہتا کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ میرا گلا شام تک ٹھیک ہو جائے تو شام پانچ بجے مجھے ٹیلی فون کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس وقت تک ٹھیک ہو جاؤں اور تمہیں شو منسوخ نہ کرنا پڑے۔ شام پانچ بجے ہو روک دوبارہ فیوڈور کے ہوٹل میں جاتا اور ا س سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا کہ اگر اس کا گلا بالکل ٹھیک نہیں ہے تو میں شو کینسل کرنے کا اعلان کر دیتا ہوں اور فیو ڈور دوبارہ اسے کہتا ہے کہ میں پہلے سے کچھ بہتر ہوں۔ شام ساڑھے سات بجے تک میں شاید بالکل ٹھیک ہو جاؤں اس لیے تم ساڑھے سات بجے فون کر کے مجھ سے معلوم کر لینا۔ ساڑھے سات بجے شام فیو ڈور شو میں گانا گانے کے لیے اس شرط پر تیار ہو جاتا کہ شو شروع ہونے سے قبل ہو روک سٹیج پر آ کر یہ اعلان کرے گا کہ فیو ڈور کی طبیعت سخت ناساز تھی اور وہ اس کے باوجود سٹیج پر آپ کو گانا سنانے کے لیے آ گیا ہے۔ ہو روک جانتا تھا کہ صرف یہی ایک جھوٹ فیو ڈور کو سٹیج پر لے آئے گا اور اسے شو کینسل نہیں کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر آرتھر نے اپنی شاندار کتاب ’’ تعلیمی نفسیات‘‘ میں لکھا ہے ’’ ہمدردی کا اظہار دنیا بھر میں نتائج برآمد کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنا زخمد کھا کر آپ سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح بالغ لوگ بھی اپنے زخم اپنی بیماری اور اپنے مسائل سنا کر آپ کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔‘‘ اس لیے اگر آپ لوگوں سے اپنا نقطہ نظر منوانا چاہتے ہیں آپ اس اصول پر بڑی باقاعدگی کے ساتھ عمل کریں۔ اصول نمبر ۹ ’’ دوسروں کے نظریات اور خواہشات کو ہمدردی سے سنو اور انہیں اپنی ہمدردی کا احساس دلائیں۔‘‘ ٭٭٭ باب دہم ایک درخواست جوہر کوئی پسند کرتا ہے میں جیسی جیمز کے میسوری والے فارم میں چھٹیاں گزار رہا تھا۔ جیسی جیمز کا بیٹا میرا دوست تھا اور وہ ان دنوں وہاں رہ رہا تھا۔ اس کی بیوی نے مجھے وہ تمام قصے سنائے کہ کس طرح جیسی ٹرینوں میں ڈاکے ڈالا کرتا تھا، بینکوں کو لوٹ لیا کرتا تھا اور پھر اپنے علاقے کے غریب کسانوں میں بانٹ دیا کرتا تھا تاکہ وہ اس سے اپنی گروی رکھی ہوئی چیزوں کو چھڑائیں۔ جیسی جیمز اپنے آپ کو ایک نظریہ پرست قرار دیا کرتا تھا۔ جس طرح ڈچ شلز، ٹوگن، کرولی، الکیپون اور اس طرح جرائم کے بے شمار گریٹ فادر اپنے آپ کو سمجھتے تھے حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں سے آپ ملتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو بڑے نظریہ پرست سمجھتے ہیں اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں اس طرح سمجھا جائے۔ جسے پریونٹ مورگن نامی ایک شخص نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ عام طور پر کوئی شخص دو وجوہات کی بناء پر کوئی کام کرتا ہے ایک یہ کہ اس کے خیال میں یہ اچھاہو تا ہے اور صحیح ہوتا ہے۔ ایک شخص خود بخود کسی کام کو کرنے کی صحیح وجہ کے بارے میں سوچے گا۔ آپ کو اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہم میں سے سب جو بڑے نظریہ پرست ہوتے ہیں۔ ہم اس کام کے اصل مقاصد کے بارے میں سوچتے ہیں جو اس کام کے ہو جانے سے پوری ہونگے۔ اس لیے لوگوں کی سوچ کو بدلنے کے لیے ان سے صحیح مقاصد کے لیے کوئی کام کرنے کی اپیل کریں۔ کیا کاروبار میں بھی نظریہ پرستی کام کرتی ہے؟ آئیے ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم پنیلونیا کے شہر گلیفلڈن کی فیرل مچل کمپنی کے سربراہ ہملٹن جے فیرل کا معاملہ لیتے ہیں۔ مسٹر فیرل کا ایک کرایہ دار بہت ہی بدمعاش قسم کا شخص تھا جو اس کا اپارٹمنٹ خالی کرر ہا تھا جبکہ کرایہ دار کی لیز ختم ہونے میں چار ماہ ابھی باقی تھے مگر وہ گھر خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے جا رہا تھا۔ مسٹر فیرل نے بتایا کہ یہ لوگ میرے گھر میں تمام سردیاں رہے اور میں جانتا ہوں کہ اب اگلی سردیوں سے قبل یہ مکان کرائے پر نہیں اٹھ سکے گا۔ مسٹر فیرل کو ہم نے اپنے کورس میں ایک لیکچر دینے کے لیے بلایا اور انہوں نے وہاں جو کچھ بتایا آپ بھی پڑھیں۔ ’’ میں اس کرایہ دار کے پاس جا کر اسے یہ کہتا کہ وہ ایک بار پھر لیز کی شرائط کو پڑھے۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر وہ اپارٹمنٹ کو خالی کر دیتا ہے تو اس کے کرائے کا بیلنس اسے فوراً ادا کرنا ہو گا اور اس کرائے کو وصول کرنے کے لیے مجھے وہاں جانا پڑے گا۔‘‘ تاہم میں نے دوسرے طریقے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا میں نے اس کرائے دار سے اس طریقے سے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’ مسٹر ڈومیں نے آپ کا مسئلہ سنا ہے اور مجھے ابھی بھی یقین نہیں ہے کہ آپ اپارٹمنٹ خالی کر رہے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلنگ کے کاروبار میں کئی برس گزارنے کے بعد مجھے انسانی فطرت کے بارے میں کچھ سبق ملے ہیں۔ مگر اس کے برعکس میں تمہارے الفاظ کو صحیح سمجھتے ہوئے ان پر یقین کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ ’’ لہٰذا میری تجویز سنو اپنے فیصلے کو ایک کاغذ پر لکھ کر چند دنوں کے لیے میز کی دراز میں رکھ دو۔ اگر چند دنوں بعد تم میرے پاس آ کر یہ کہتے ہو کہ تم واقعی اپارٹمنٹ کو چھوڑنے کا پکا ارادہ رکھتے ہو تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے فیصلے کو حتمی مان لوں گا۔ لیکن میں اب بھی یہ یقین کرنے کو تیار ہوں کہ آپ اپنے الفاظ کا پاس کریں گے اور لیز کے کنٹریکٹ میں لکھی گئی شرائط کا خیال رکھیں گے۔ کیونکہ ہم انسان ہیں یا پھر بندر اور اس بارے میں بھی ہم خود ہی فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ بہرحال چند دنوں بعد مسٹر ڈومیرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے اس ماہ کا پورا کرایہ دیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کے ہمراہ اس مسئلے پر ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ہم لیز کے مطابق اس اپارٹمنٹ میں بقیہ چار ماہ گزاریں گے۔ جب لارڈ نارتھ کلف نے ایک اخبار میں اپنی ایک ایسی تصویر شائع کئے جانے کے بارے میں سنا جسے وہ شائع نہیں کرانا چاہتا تھا تو اس نے اخبار کے ایڈیٹر کو ایک خط لکھا۔ لیکن کیا اس نے یہ لکھا ’’ میری تصویر اخبار میں شائع نہ کریں۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے؟‘‘ نہیں اس نے ایڈیٹر سے درخواست کی اور لکھا ’’ اس تصویر کو مہربانی کر کے شائع نہ کریں کیونکہ میری ماں کو یہ پسند نہیں ہے۔‘‘ جب جان ڈی راکفیلر جونمیر نے یہ چاہا کہ اخبارات کے فوٹو گرافر اس کے بچوں کی تصاویر نہ اتاریں۔ اس نے بھی بڑی ملائمت کے ساتھ درخواست کی۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ میں اسے پسند نہیں کرتا؟ نہیں اس نے کہا کہ ’’ آپ جانتے ہیں کہ لڑکے کیسے ہوتے ہیں آپ لوگوں کے بھی بچے ہونگے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو اوائل عمری میں زیادہ پبلسٹی نہیں دی جانی چاہیے۔‘‘ جب سائرس ایچ کے کرٹس نامی ایک غریب لڑکا اپنے کیرئیر کا آغاز کر رہا تھا تو شروع میں اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے اخبار کے لیے لکھنے والوں کو دوسرے اخبارات کے مقابلے میں معاوضہ دے سکے مگر بعد ازاں یہی غریب لڑکا ’’ دی سیچرڈے ایوننگ پوسٹ‘‘ اور ’’لیڈیز ہوم جرنل‘‘ کا کروڑ پتی مالک بنا۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا۔ آپ بھی پڑھیے۔ ’’ سائرس کرٹس کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تھی کہ وہ اخبارات میں لکھنے والوں کو وہ معاوضہ فراہم کر سکے جس کے وہ حقدار تھے۔ اس لیے اچھے قسم کے ادیب اور صحافی اسے میسر نہیں آ سکے تھے۔ لہٰذا اس نے ایسے ادیبوں اور صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ اس کی مدد کو آئیں۔ مثال کے طور پر ا سنے کونکورڈ میسا چوسٹس کی لیوسی مے ایکوٹ سے جو ایک لازوال کتاب ’’ ٹسل وویمن‘‘ کی مصنفہ تھی اپیل کی کہ وہ اس کے اخبار کے لیے لکھے۔ یہ وہ وقت تھا جب لیوسی ایکوٹ اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھی۔ لیوسی ایک خیراتی ادارے کو امداد دیا کرتی تھی۔ کرٹس نے اس ادارے کو ۱۰۰ ڈالر کا ایک چیک بھیجا اور لیوسی مے ایکوٹ کو اپنے اخبار میں لکھنے پر آمادہ کر لیا۔‘‘ یہاں پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کی بات نارتھ کلف اور راکفیلر کے لیے تو ٹھیک ہو سکتی ہے اور یا پھر ایک جذباتی قسم کے ناول نگار کے لیے۔ مزہ تو تب ہے جب آپ کسی ایسے مصنف یا ادیب سے ایسا کام کروائیں جو پیسے کیے بغیر اس نے کبھی نہ کیا ہو۔ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہر معاملے میں ہر طریقہ صحیح نہیں ہوتا۔ اگر آپ نتائج سے مطمئن ہیں تو اسے تبدیل کرنے کا کیا فائدہ۔ یعنی جو لوگ آپ کے ہاں بغیر معاوضے کے کام کر رہے ہیں اور ان کے کام سے آپ کے علاوہ دیگر قارئین بھی مطمئن ہیں تو انہیں تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب آپ کا کام چل نکلے تو ان کے اگلے پچھلے تمام حسابات چکا دیں اور اگر آپ مطمئن نہیں ہیں تو یہ ایک تجربہ ہی سمجھ لیں۔ آپ کسی بھی قیمت پر جیمز ایل تھامس کی بتائی ہوئی یہ سچی کہانی پڑھنا ضرور پسند کریں گے۔ ایک آٹو موبائل کمپنی کے چھ گاہکوں نے سروس کے بل دینے سے انکار کر دیا۔ کسی بھی گاہک نے سارے بل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس بل میں یہ اعتراض کیا کہ اس میں فلاں فلاں سروس کے اخراجات زیادہ چارج کئے گئے ہیں۔ لیکن سب گاہکوں نے بل پر دستخط کر دیئے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ پہلی غلطی تھی۔ اب ہم یہاں مرحلہ وار آپ کو وہ تفصیل بتا رہے ہیں کہ آٹو موبائل کمپنی کے کریڈٹ ڈیپارٹمنٹ نے ان گاہکوں سے بل وصول کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا۔ کیا وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئے؟ ۱۔ کریڈٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے عملے کو ہر ایک گاہک کے پاس بھیجا اور انہیں صاف طور پر بتا دیا گیا کہ وہ ان سے کافی دنوں سے واجب الاد بل وصول کرنے آئے ہیں۔ ۲۔ انہوں نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ کمپنی ہر معاملے میں مکمل طور پر اس بات کی مجاز ہے کہ وہ آپ سے اپنا بل وصول کرے اور آپ کو بغیر کسی شرط کے اپنا بل ادا کر دینا چاہیے۔ ۳۔ انہیں یہ بتا دیا گیا کہ آٹو موبائل کمپنی آٹو موبائل کے بارے میں آپ لوگوں سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ لہٰذا اس میں بحث یا اختلاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ۴۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان گاہکوں نے اس سے اختلاف کیا۔ کیا ان میں کوئی بھی طریقہ کارگر ثابت ہوا۔ اور گاہکوں نے خوش دلی کے ساتھ بل ادا کر دیا۔ آپ خود ہی اس کا جواب دیں۔ اس مرحلے پر کریڈٹ منیجر ابھی اپنے دلائل شروع کرنے ہی والا تھا کہ خوش قسمتی سے یہ معاملہ کمپنی کے جنرل منیجر کے نوٹس میں آ گیا۔ جنرل منیجر نے جب اس سارے معاملے کی چھان بین کی تو اسے معلوم ہوا کہ یہ گاہک ہمیشہ اپنے بل وقت پر ادا کرتے رہے ہیں اور انہوں نے کبھی ان بلوں کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ہو سکتا ہے کہ ان سے بل وصول کرنے کے طریقہ کار میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ لہٰذا اس نے جیمز ایل تھامس کو بلایا اور اسے تاکید کی کہ وہ ان گاہکوں کے پاس فرداً فرداً جائے اور ان سے بل وصول کرے۔ جیمز ایل تھامس نے ہمارے کورس کے دوران لیکچر دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے یہ بل کس طرح وصول کیے۔ ۱۔ ہر گاہک کے پاس جانا بالکل اسی طرح تھا کہ جیسے میں ان سے کوئی پرانا بل وصول کرنے آیا ہوں۔ ایک ایسا بل جسے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بالکل صحیح ہے لیکن میں نے ان گاہکوں سے اس قسم کی کوئی بات نہ کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ ہماری کمپنی نے ایسی کون سی بات کر دی ہے یا کہنے میں ناکام رہی ہے جس سے آپ لوگ ہم سے خائف ہیں۔ ۲۔ میں نے انہیں صاف بتا دیا کہ جب تک میں ان کا موقف نہیں سن لوں گا۔ میں اپنی طرف سے کوئی رائے نہیں دوں گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ کمپنی نے کبھی ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ قصور وار نہیں ہے۔ ۳۔ میں نے ان گاہکوں کو بتایا کہ ان کی کاروں کے بارے میں جتنا ہماری کمپنی جانتی ہے کوئی دوسری کمپنی نہیں جانتی کیونکہ آپ عرصہ دراز سے ہمارے گاہک ہیں۔ ۴۔ اس کے بعد میں نے گاہکوں کو بولنے کا موقعہ دیا اور ان کی باتیں بڑی ہمدردی اور انہماک سے سنیں۔ ۵۔ بالآخر جب میں نے محسوس کیا کہ اب گاہک کا رویہ بہت مناسب ہے تو میں نے ان سے درخواست کی۔ انہیں میں نے کہا ’’ میں جانتا ہوں کہ اس معاملے کو صحیح طرح سلجھانے کی اب تک کوشش ہی نہیں کی گئی۔ آپ لوگوں کو زحمت دی گئی ناحق پریشان کیا گیا اور آپ کو غصہ دلایا گیا۔ یہ سارا قصور ہمارے ان ملازمین کا ہے جو اس سے پہلے آپ سے بل وصول کرنے آتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اس لیے میں آپ سے شرمندہ ہوں اور کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے آپ سے معافی کا خواہستگار ہوں۔ اب جبکہ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کا موقف سنا ہے تو میں آپ کے حوصلے اور دریا دلی کی داد دیتا ہوں جو آپ نے اس سے قبل روا رکھا۔‘‘ اور چونکہ آپ دریا دل اور با حوصلہ شخص ہیں اس لیے میں آپ اسے کہوں گا کہ آپ میرے لیے کچھ کریں۔ یہ آپ ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کا بل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے لیے یہ بڑا آسان ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ آپ اس سے بل میں ردو بدل کر لیں اپنی مرضی سے میں یہ بل آپ کے پاس چھوڑے جارہا ہوں۔ آپ اس میں جو تبدیلی کرنا چاہئیں آپ کو اس کا حق ہے۔ کیا انہوں نے بل میں رد و بدل کیا؟ یقینا کیا۔ یہ بل ۱۵۰ ڈالر سے ۴۰۰ ڈالر تک تھے۔ کیا کسی گاہک نے تمام کا تمام بل ادا کر دیا۔ ہاں ایک گاہک نے سارا بل ادا کر دیا۔ ایک نے اس سروس کے اخراجات کی ایک بھی پائی ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر اسے اعتراض تھا لیکن باقی گاہکوں نے ۹۵ فیصد بل ادا کر دیا۔ اور اس کا بعد ازاں جو نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ ہم نے دو برس کے اندر اندر ان چھ گاہکوں کو نئی کاریں فروخت کیں۔ مسٹر تھامس نے بتایا ’’ تجربے نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ جب گاہک کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں تو صرف ایک ہی واحد طریقہ ہوتا ہے جس کو استعمال کر کے آپ اس کے ساتھ گفتگو کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اپنے گاہک کے بارے میں یہ نظریہ اپنائیں کہ وہ ایماندار، سچا اور پر خلوص شخص ہے اور وہ آپ کا بل ادا کرنا چاہتا ہے بشرطیکہ آپ اسے یہ باور کرا دیں کہ آپ اس سے صحیح بل وصول کر رہے ہیں۔ ایسے بہت کم افرادہوتے ہیں جن میں یہ صفات موجود نہ ہوں اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ جو لوگ دھوکہ بازی کرنا چاہتے ہیں وہ بہت سے معاملات میں آپ کی توقع کے مطابق رویہ اپناتے ہیں اگر آپ انہیں اس بات کا احساس دلا دیں کہ وہ بہت پر خلوص، ایماندار اور سچے ہیں۔‘‘ اصول نمبر ۱۰ ’’ لوگوں سے بڑے خلوص کے ساتھ درخواست کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب یازدہم ٹیلی ویژن اور فلمیں ایسا کرتی ہیں آپ ایسا کیوں نہیں کرتے بہت عرصہ گذرا فلاڈلفیا ایوننگ بلیٹن کے خلاف ایک بہت ہی خطرناک قسم کی مہم چلائی جا رہی تھی۔ جس کا مقصد اسے بدنام کرنا تھا اشتہارات دینے والوں کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ اب اس اخبار کو بہت کم لوگ پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں اشتہارات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور خبریں کم۔ اس مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت تھی۔ لیکن کیسے؟ یہ بات یقینا آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی۔ بلیٹن نے اپنے باقاعدہ ایڈیشن سے ہفتے میں ایک دن تمام خبریں اور مضامین ختم کر دیئے اور اس کو ایک کتاب کی شکل میں چھاپنا شروع کر دیا۔ جس میں اس دن اشتہارات کی بھرمار ہوتی تھی۔ اس بلیٹن کا نام ’’ ون ڈے‘‘ تھا اور اس کے تین سو سات صفحے ہوتے تھے اس کے باوجود اس بلیٹن میں خبروں اور مضامین کو بھی جگہ دی جاتی تھی اور یہ بلیٹن کئی ڈالر میں فروخت کرنے کی بجائے صرف چند سینٹ میں فروخت کیا جاتا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت سے لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ اس بلیٹن میں پڑھنے کے لیے بڑے دلچسپ مضامین اور خبریں ہوتی ہیں۔ اس سے ایک حقیقت سامنے آئی کہ اگر آپ کسی چیز کو دلچسپ اور ڈرامائی بنا دیں تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ ایسا فلموں میں ہوتا ہے یا پھر ٹیلی ویژن کی سکرین پر دکھایا جاتا ہے اور آپ کو بھی ایسا کرنا پڑے گا اگر آپ توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوکانوں کے باہر خوبصورت شیشوں کے پیچھے اپنی مصنوعات کی نمائش کرنے والے اس حقیقت کو جانتے ہیں اور وہ ڈرامائی انداز میں لوگوں کی دلچسپی کو ابھارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چوہوں کو مارنے کے لیے ایک دوائی بنائی گئی۔ فرم نے اسے خوبصورت شیشوں کے پیچھے ایک بڑے شوکیں میں رکھ دیا۔ اس میں دو زندہ چوہے بھی چھوڑ دیئے گئے۔ جس ہفتے یہ مظاہرہ کیا گیا۔ اس ہفتے اس فرم کی سے معمول سے پانچ گنا زیادہ بڑھ گئی۔ ٹیلی ویژن پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں ان میں مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے ڈرامائی انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔ کسی دن ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں اور تمام اشتہارات کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح ایک صابن ایک میلی کچیلی قمیض کو بالکل صاف کر دیتا ہے جبکہ دوسرا صابن اسی قمیض کے داغ دھبے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ان مصنوعات کی اچھائیوں کے بارے میں بتانے والوں کے چہروں کی خوبصورتی اور اطمینان دیکھ کر بھی آپ کی دلچسپی ان مصنوعات میں مرکوز ہو جاتی ہے۔ آپ بھی کاروبار یا زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنے خیالات کو ڈرامائی انداز دے سکتے ہیں۔ یہ بہت آسان ہے۔ رچمنڈ ورجینیا کے رجم نے مجھے بتایا کہ اس نے کس طرح اپنی مصنوعات کی ڈرامائی انداز میں نمائش کر کے انہیں فروخت کیا۔ جم نیشنل کیش رجسٹر بنانے والی کمپنی کا نمائندہ تھا۔ ’’ گذشتہ ہفتے جب میں ایک پنساری کی دکان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے کاؤنٹر پر بہت ہی پرانا بڑا کیش رجسٹر ہے۔ میں نے دوکان کے مالک سے کہا کہ تم ہر وقت اپنی دوکان پر آنے والے گاہکوں میں اس طرح پیسے بانٹ رہے ہو اور اس کے ساتھ ہی میں نے چند سکے زمین پر پھینک دیئے۔ اس سے وہ زیادہ چونک گیا اور اس کی توجہ میری طرف مرکوز ہو گئی اور اسے اس بات سے دلچسپی ہو گئی کہ میں اور کچھ کہوں۔ میں اس سے اپنی فرم نیشنل کیش رجسٹر کے لیے آرڈر حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ ایسا اکثر گھریلو زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ جب آپ اپنی بیوی سے کہتے ہیں کہ کیا اب جبکہ ہماری شادی کو کافی برس گزر چکے ہیں تم اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے محض الفاظ کا استعمال کرتی ہو؟ نہیں۔ وہ اس کے گھنٹوں میں جھک گئی اور اس طرح ایک ڈرامائی انداز اختیار کر کے اس نے اپنے خاوند کو اپنی لازوال محبت کے بارے میں بتا دیا۔ یہ ڈرامائی انداز بچوں کو بہلانے میں بھی کام آتا ہے۔ برمنگھم کے جو بی فائٹ جو فیئر کو اپنے پانچ برس کے بیٹے اور تین برس کی بیٹی کے لیے کھلونوں کے انتخاب میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ لہٰذا اس نے ایک ٹرین بنائی جوئی اس کا بیٹا اپنی ٹرائی سائیکل پر بیٹھا ہوا ہے اور فائٹ کی بیٹی جینٹ کی ویگن کو اس نے ٹرائی سائیکل کے ساتھ جوڑ دیا اور وہ دونوں اس ٹرین سے لطف اندوز ہونے لگے۔ شام کو جینٹ نے گھر میں پڑی جلی ہوئی ماچس کی تیلیاں، کاغذ کے فضول ٹکڑے اور اس طرح کا غیر ضروری کچرا اپنی ویگن میں لاد دیا۔ پھر خود بھی اس میں بیٹھ گئی جبکہ جوئی ٹرین کو چلاتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا اور وہاں پر ڈسٹ بن کے پاس جا کر سارا کوڑا کرکٹ پھینک آیا۔ اس طرح ان بچوں کو لیکچر دیئے بغیر کمرہ بالکل صاف ہو گیا۔ ریاست انڈیانا کی میری کیتھرائن کو دفتر میں اپنے کام کے دوران دشواری پیش آ رہی تھی۔ لہٰذا اس نے اپنے باس سے اس معاملے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوموار کے ان اس نے اپنے باس سے ملاقات کا وقت مانگا۔ مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ بہت مصروف ہے اور اس ہفتے کے آخری دنوں میں ملاقات کرنے کا وقت مل سکتا ہے۔ باس کی سیکرٹری نے بتایا کہ باس کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں مگر وہ کوشش کرے گی کہ باس سے اس کی ملاقات کرا دے۔ آگے کیا ہوا۔ کیتھرائن کی زبانی سنیں۔ ’’ میں سارا ہفتہ انتظار کرتی رہی۔ مگر مجھے ملاقات کے لیے کوئی بلاوا نہیں آیا۔ جب بھی سیکرٹری سے معلوم کرتی وہ مجھے کوئی نہ کوئی وجہ بتا دیتی کہ باس بے حد مصروف ہے۔ جمعہ آ گیا۔ میں صبح دفتر آئی اور مجھے حتمی طور پر کوئی بات معلوم نہیں ہوئی کہ باس سے میری ملاقات کب ہو گی۔ میں باس سے ملنا چاہتی تھی کہ اس سے اپنے مسئلے کے بارے میں گفتگو کر سکوں۔ لہٰذا میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ مجھے کس طریقے سے باس سے ملنا چاہیے؟‘‘ ’’ بالآخر میں نے جو کیا وہ یہ تھا میں نے باس کو ایک رسمی خط لکھا۔ میں نے لکھا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ گذشتہ ہفتے بہت مصروف تھے۔ لیکن میں ایک بہت ہی اہم مسئلے پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اپنے خط میں ایک کاغذ اور ایک لفافہ جس پر میرا ایڈریس لکھا ہوا تھا بھی ڈال دیا اور خط میں مزید لکھا کہ اگر خود اس کا جواب دے دیں یا اپنی سیکرٹری کے ذریعے اس کا جواب دیں تو مجھے بڑی خوشی اور اطمینان ہو گا۔ میں نے جو خط لکھا اس کا متن یہ تھا۔‘‘ مس کیتھرائن میں آپ سے۔۔۔۔۔ کے دن دوپہر کو۔۔۔۔ بجے ملوں گا اور میں آپ کو اپنی مصروفیات میں سے صرف۔۔۔۔۔ منٹ دے سکوں گا۔ میں نے یہ خط صبح گیارہ بجے اپنے باس کے کمرے کے باہر لگی ہوئی ٹوکری میں ڈال دیا۔ دو بجے میں نے اپنی ڈاک کو چیک کیا تو اس میں میرا ایڈریس لکھا ہوا لفافہ موجود تھا۔ باس نے میرے خط کا جواب دیا تھا اس نے لکھا تھا کہ میں دوپہر کے بعد اس سے مل لوں اور وہ مجھے دس منٹ ملاقات کے لیے دے گا۔ میں اس سے ملی مگر ہم تقریباً ایک گھنٹے تک گفتگو کرتے رہے اور میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ اگر میں اس سارے معاملے کو ڈرامائی رنگ نہ دیتی کہ میں واقعی اسے ملنا چاہتی ہوں تو میں اب تک ملاقات کے انتظار میں بیٹھی ہوتی۔ اور میرا مسئلہ حل بھی نہ ہوتا۔ جیمز بی بونٹن کو ایک فرم کے لیے ایک طویل مارکیٹ رپورٹ تیار کرنی تھی۔ اس فرم نے حال ہی میں ایک کولڈ کریم کے بارے میں مارکیٹ کا جائزہ لیا تھا۔ اب اس کی تفصیل کی فوری ضرورت تھی۔ اس کریم کا خریدار اشتہارات کے کاروبار میں بہت ہی طاقتور قسم کا شخص تھا۔ جب میں پہلی بار اس با اثر اور طاقت ور انسان سے ملنے کے لیے گیا تو میری پہلی کوشش ناکام ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں اس شخص کے ساتھ بڑی فضول قسم کی بحث کر رہا ہوں۔ ہم دونوں بحث کرتے رہے۔ وہ مجھے غلط ٹھہراتا رہا اور میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں سچا ہوں۔ بالآخر اپنی تسلی کے لیے میں نے اپنا نقطہ نظر منوا لیا مگر میرا انٹرویو کا وقت ختم ہو چکا تھا اور میں کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اگلی بار میں جب اس شخص سے ملنے کے لیے گیا تو میں نے اسے کولڈ کریم کے بارے میں اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار نہیں بتائے بلکہ میں نے انہیں ڈرامائی انداز دیا۔ ’’ جونہی میں اس کے دفتر میں داخل ہوا۔ وہ فون پر کسی سے گفتگو کر رہا تھا جب اس نے اپنی گفتگو ختم کی تو رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اس کی میز پر گولڈ کریم کی بتیس ڈبیاں رکھ دیں۔ ہر ڈبی پر میں نے اس کریم کے بارے میں مارکیٹ سے اکٹھا کیا جانے والا مواد ایک ٹیگ کی صورت میں لگایا ہوا تھا تاکہ مجھے بولنے کی ضرورت نہ رہے وہ خود مجھ سے سوالات کرے۔‘‘ کیا ہوا؟’’ وہ کافی دیر تک ٹیگ پر لکھے ہوئے اعداد و شمار پڑھتا رہا۔ یہ سب کچھ اس کے لیے نیا تھا۔ اس نے ایک ڈبی اور پھر دوسری ڈبی اٹھائی اور پھر دوستانہ ماحول میں ہماری گفتگو شروع ہو گئی اس نے بعض ضروری سوالات کیے۔ جن کے میں نے اسے تسلی بخش جوابات دیئے۔ میرا اس کے ساتھ صرف دس منٹ کے لیے انٹرویو تھا مگر ایک گھنٹہ گزر چکا تھا مگر ہم اب بھی گفتگو میں مصروف تھے‘‘ میں اس ملاقات میں بھی وہی اعداد و شمار پیش کر رہا تھا جو اس سے قبل ملاقات میں پیش کیے تھے مگر فرق صرف یہ تھا کہ میں اب ان اعداد و شمار کو بڑے ڈرامائی اندا ز میں پیش کر رہا تھا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ وہ میری توقعات سے بھی بڑھ کر تھا۔ اصول نمبر ۱۱ اپنے خیالات اور نظریات کو ڈرامائی انداز میں پیش کریں۔ ٭٭٭ باب دو از ہم جب کوئی طریقہ نہ چلے تو اسے استعمال کریں چارلس شواب کا ایک مل منیجر تھا۔ جس کے کارکن اپنے کوٹے کے مطابق کام نہیں کر رہے تھے۔ شواب نے منیجر کو بتایا اور اس سے پوچھا کہ تم کیسے منیجر ہو جو کارکنوں سے ان کے کوٹے کے مطابق کام نہیں لے رہا اور اس طرح مل کا نقصان ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ منیجر نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتا۔ اس نے تو ہر شخص کو کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ہر طریقہ آزمایا ہے کہ وہ کام کریں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ میں نے تو انہیں نکال دینے تک کی دھمکی بھی دی ہے مگر یہ بھی کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ یہ گفتگو دن کے اختتام پر ہوئی۔ اس وقت مزدوروں کی نائٹ شفٹ کام پر آ ر ہی تھی۔ چارلس شواب نے منیجر سے ایک چاک مانگا اور پھر قریب کھڑے ایک کارکن سے پوچھا۔ تمہاری شفٹ میں آج کتنا کام ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا۔ چھ ایک لفظ کہے بغیر شواب نے سامنے لگے ہوئے بورڈ پر لکھا ’’ تم سے پہلی والی شفٹ نے چھ بھٹیاں تیار کیں‘‘ اور چلا گیا۔ رات کی شفٹ نے جب بورڈ پر چھ کا ہندسہ پڑھا تو انہوں نے پوچھا اس کا مطلب کیا ہے انہیں بتایا گیا کہ بڑا باس آج یہاں آیا تھا اس نے ہم سے پوچھا کہ کتنا کام کیا ہے اور ہمارا جواب اس بورڈ پر لکھ کر کچھ کہے بغیر واپس چلا گیا ہے۔ اگلی صبح چارلس شواب دوبارہ مل میں آیا۔ اس نے مزدوروں کو کام کرتے دیکھا۔ رات والی شفٹ نے سات بھٹیاں تیار کیں اور وہ بورڈ پر لکھ کر اپنا کام ختم کرنے کے بعد واپس چلی گئی۔ دوسری صبح جب دن کی شفٹ کام کرنے کے لیے آئی تو اس نے بورڈ پر لکھا ہوا دیکھا کہ رات والی شفٹ سات بھٹیاں تیار کر کے گئی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ زیادہ بہتر کام کر سکتی ہے لہٰذا وہ نائٹ شفٹ کو بتائیں گے کہ کام کیسے کیا جاتا ہے اور جب دن کی شفٹ اپنا کام ختم کر کے واپس گئی تو نائٹ شفٹ والوں بورڈ پر لکھا دیا۔ ’’ دس بھٹیاں۔‘‘ اس طرح دونوں شفٹوں کی کارکردگی بڑھتی رہی اور جلد ہی یہ مل جس کی پیداوار بہت کم ہو کر رہ گئی تھی اس کی پیداوار علاقے میں موجود دوسری ملوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گئی۔ چارلس شواب کا کہنا ہے ’’ اگر آپ بہتر کارکردگی چاہتے ہیں تو صحت مند مقابلے کی فضا قائم کریں ۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس طرح آپ کی کمائی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا بلکہ اس طرح آپ کی کارکردگی کا معیار بہتر ہو۔‘‘ آگے بڑھنے کی خواہش یا چیلنج دوسرے شخص کو قصور وار ٹھہرائے بغیر اس سے بہترین کارکردگی لینے کا طریقہ ہے۔ چیلنج کے بغیر تھیوڈور روز ویلٹ کے لیے امریکہ کا صدر بن جانا ممکن نہیں تھا۔ رگ رائڈر جو ابھی کیوبا سے واپس آیا تھا۔ اسے نیو یارک کا گورنر مقرر کر دیا گیا۔ اپوزیشن نے اس پر احتجاج کیا کہ وہ نیو یارک ریاست کا رہائشی نہیں ہے اور روز ویلٹ اس پر ڈر گیا اور اس نے صدارتی امیدوار کے طور پر دستبردار ہونے کی پیش کش کر دی۔ اس کے بعد نیو یارک سے ایک سینیٹر تھامس کولیئر نے تھیو ڈور روز ویلٹ کو چیلنج کر دیا گیا۔ ’’ سان جون ہل‘‘ کا ہیرو ایک بزدل شخص ہے؟ اس نے بڑے طنز کے ساتھ روز ویلٹ کو کہا۔ یہ چیلنج ملنے کے بعد روز ویلٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ میدان میں رہے گا۔ اس چیلنج نے نہ صرف اس کی زندگی بدل دی بلکہ اس کا اس کی قوم کے مستقبل پر بھی گہرا اثر پڑا۔ ’’ ہر انسان کو خدشات ہوتے ہیں مگر بہادر لوگ ان خدشات کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ موت کی طرف مگر ہمیشہ کامیابی کی طرف‘‘ یہ قدیم یونان میں بادشاہ کے حفاظتی دستے کا مقولہ تھا۔ سب سے بڑا چیلنج اپنے خدشات اور خوف پر قابو پانا ہوتا ہے۔ جب سمتھ نیویارک ریاست کا گورنر تھا وہ اس کے سخت خلاف تھا۔ اس وقت خطرناک مجرموں کے لیے مشہور جیل ’’ سنگ سنگ‘‘ کا کوئی وارڈن نہیں تھا۔ پوری جیل میں سیکنڈل اور افواہیں پھیل رہی تھیں۔ سمتھ کو ایک مضبوط شخص کی ضرورت تھی جو جیل کا نظم و نسق سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن ایسا کون تھا؟ اس نے نیو ٹمین کے لیوس کو مقرر کیا۔ سنگ سنگ جیل کا وارڈن مقرر کیا جانا کیسا لگا؟ سمتھ نے لیوس سے پوچھا جب وہ اس کے پاس تقرر نامہ لینے کے لیے آیا۔ ’’ انہیں ایک ایسا شخص چاہئے تھا جو تجربہ کار ہو۔‘‘ سمتھ نے مزید کہا۔ لیوس اس پر حیران و پریشان ہو کر رہ گیا۔ اسے سنگ سنگ جیل میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہی تھی۔ یہ ایک سیاسی قسم کی تقرری تھی۔ سنگ سنگ جیل میں کئی وارڈن آئے کئی گئے۔ ایک وارڈن تو صرف تین ہفتے ٹھہر سکا اور اسے آئندہ کے لیے یہ سوچنا پڑا کہ آیا مجھے محکمہ جیل خانہ جات میں رہنا بھی چاہئے کہ نہیں۔ جب سمتھ نے لیوس کے چہرے پر ہچکچاہٹ کی ایک ہلکی سی لہر دیکھی تو وہ کرسی پر پیچھے کی طرف جھک گیا اور مسکرایا۔ اس نے کہا ’’ نوجوان میں اس تقرر نامہ کو قبول کرنے میں تمہاری ہچکچاہٹ کے لیے تمہیں الزام نہیں دیتا۔ یہ ایک مشکل ملازمت ہے یہ ایک بڑے شخص کے لیے ہے جو وہاں جائے اور وہاں ٹھہرے۔‘‘ اس طرح سمتھ لیوس کے سامنے ایک چیلنج پیش کر رہا تھا۔ اس کے بعد لیوس نے فیصلہ کیا کہ اسے اس چیلنج کو قبول کر لینا چاہیے اور ایک بڑا آدمی بننے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ لہٰذا وہ سنگ سنگ جیل میں وارڈن بن گیا اور وہ اپنے وقت کا سب سے مشہور وارڈن تھا۔ اس کی کتاب ’’ سنگ سنگ میں ۲۰ ہزار برس‘‘ کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس کتاب پر فلم بنانے کے لیے بیشمار فلم سازوں نے اسے لاکھوں ڈالر بطور معاوضہ دینے کی پیش کش کی۔ دنیا کی مشہور ترین فائر سٹون، ٹائر اینڈ ربڑ کمپنی کے سربراہ ہارو سے ایس فائر سٹون کا کہنا ہے ’’ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ صرف اور صرف اچھی تنخواہ ہی اچھے کام کرنے والوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہے میرے خیال میں یہ بذات خود ایک فن ہے کہ لوگوں سے اچھا کام کس طرح لیا جائے۔‘‘ انسانی برتاؤ کے بارے میں ایک بہت ہی نامور سائنس دان ڈاکٹر فریڈرک ہرز برگ نے فیکٹری میں کام کرنے والے کارکنوں سے لے کر بڑی بڑی فرموں میں کام کرنے والے سینئر ایگزیکٹوز کے کام کرنے کے بارے میں بہت گہرا مطالعہ کیا۔ آپ کے خیال میں اس نے اس مطالعے کے دوران کونسا ایسا عنصر دیکھا جو ان لوگوں کو اپنا کام بہتر انداز میں کرنے کی ترغیب دیتا ہے؟ پیسہ؟ اچھی سہولتیں؟ کام کرنے کا اچھا ماحول۔ نہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ سب سے بڑا عنصر جس نے ان لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دی وہ بذات خود کام تھا۔ اگر ان کا کام دلچسپ اور مزیدار تھا تو انہوں نے بڑی خوشی خوشی یہ کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کامیاب انسان گیم کو پسند کرتا ہے۔ جس میں اس کو کھل کر اظہار کرنے کا موقعہ ملے۔ اپنی قابلیت منوانے کا موقعہ ملے۔ آگے بڑھنے اور جیتنے کا موقعہ ملے کیونکہ اس طرح ان کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کا انہیں ہمیشہ سے احساس رہتا ہے آگے بڑھنے اور اپنی اہمیت کا احساس دلانے کی یہی خواہش انسان میں ایک تحریک پیدا کرتی ہے اور وہ بڑے جوش اور جذبے سے ہر وہ کام کرتا ہے۔ جو اسے سونپا گیا ہو۔ اصول نمبر ۱۲ ’’ مد مقابل کو بڑی ملائمت سے چیلنج کریں۔‘‘ ٭٭٭ لوگوں کو اپنی طرح سوچنے پر آمادہ کرنے کے طریقے پہلا اصول: اختلاف سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بحث سے بچیں۔ دوسرا اصول: دوسرے شخص کی رائے کا احترام کریں اور کبھی یہ نہ کہیں کہ ’’ آپ غلط ہیں۔‘‘ تیسرا اصول: اگر آپ غلطی پر ہیں تو فوراً اپنی غلطی کو مان لیں۔ خلوص کے ساتھ چوتھا اصول: گفتگو بڑے دوستانہ انداز میں شروع کریں۔ پانچواں اصول: کوشش کریں کہ دوسرے شخص سے ایسے سوالات کئے جائیں کہ اسے ہر سوال کے جواب میں ’’ ہاں‘‘ ’’ ہاں‘‘ کہنا پڑے۔ چھٹا اصول: کوشش کریں کہ دوسرے شخص کو زیادہ گفتگو کرنے کا موقعہ ملے۔ ساتواں اصول: آپ جو نظریات یا خیالات پیش کریں اور آپ کا مد مقابل ان سے متفق ہو جائے تو یہی کہیں کہ یہ اس کے خیالات اور نظریات ہیں۔ آٹھواں اصول: کسی بھی مسئلے پر بات کرتے وقت دوسروں کے نقطہ نظر کو ایمانداری سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ نواں اصول: دوسرے شخص کے نظریات اور خواہشات کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں۔ دسواں اصول: دوسروں سے گفتگو کے دوران بڑا شریفانہ انداز اپنایئے۔ گیارہواں اصول: اپنے نظریات کو ڈرامائی انداز سے پیش کریں۔ بارہواں اصول: اپنے مد مقابل کو چیلنج کریں۔ خلوص کے ساتھ۔ ٭٭٭ چوتھا حصہ لوگوں کو ناراض کیے بغیر ان کو کیسے تبدیل کیا جائے باب اول اگر آپ غلطی ڈھونڈ لیں تو اس طریقے سے شروع کریں کیلون کولڈی کی انتظامیہ کے وقت میر اایک دوست ایک بار اختتام ہفتہ پر وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب پر مدعو تھا۔ صدر کے پرائیویٹ کمرے میں داخل ہوتے وقت اس نے کولڈی کو اپنی سیکرٹری سے یہ کہتے سنا۔ ’’ یہ بہت ہی اچھا لباس ہے جو تم نے پہن رکھا ے اور تم ایک پرکشش نوجوان خاتون ہو۔‘‘ غالباً یہ کسی سیکرٹری کی نہایت ہی مناسب الفاظ میں سب سے مکمل تعریف ہے۔ یہ اس قدر غیر متوقع اور غیر معمولی تھی کہ سیکرٹری شرما گئی۔ اس کے بعد کولڈی نے کہا اب اس میں نہ کھو جاؤ۔ میں نے یہ الفاظ اس لیے کہے ہیں تاکہ تم خوشی محسوس کرو۔ آج کے بعد میں توقع کرتا ہوں کہ تم وقت کی پابندی کے بارے میں پہلے سے زیادہ احتیاط کرو گی۔ اس کا طریقہ کار اگرچہ بالکل واضح تھا۔ مگر اس کا سیکرٹری کو سرزنش کر نے کا انداز بہت عمدہ تھا۔ یہ طریقہ بہت آسان ہے کہ اگر پہلے کوئی ہماری تعریف کرے تو بعد ازاں ہم معمولی سی تنقید بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ ایک نائی شیو بنانے سے پہلے اپنے گاہک کے چہرے پر کریم لگاتا ہے اور یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح میکنلے نے ۱۸۹۶ء میں کیا تھا۔ جب وہ امریکہ کا صدارتی امیدوار تھا۔ اس وقت کے ایک نامور ریپبلکن نے اس کے لیے ایک تقریر لکھی۔ بڑی خوشی کے ساتھ اس شخص نے اپنی یہ تقریر اونچی آواز میں میکنلے کو پڑھ کر سنائی۔ اس تقریر میں بہترین نقاط تھے مگر اس کا مثبت اثر نہیں ہوتا تھا اور میکنلے اس شخص کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جس نے یہ شاندار تقریر لکھی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اسے نہیں کہنا پڑا اور اس نے یہ کس طرح کیا۔ آپ بھی پڑھیں۔ میرے دوست یہ ایک نہایت ہی شاندار تقریر ہے اور کوئی اس سے بہتر تقریر نہیں لکھ سکتا تھا۔ بہت سے مواقع ایسے ہونگے اور آئیں گے، جب یہ تقریر اپنا بہترین تاثر قائم کرے گی۔ لیکن کیا یہ اس موقعہ کے لیے مناسب ہے؟ جیسا کہ یہ تمہارے نقطہ نظر کے مطابق ایک سنجیدہ قسم کی تقریر ہے۔ میں اس کے اثرات کے بارے میں غور کر رہا ہوں اپنے اور پارٹی کے نقطہ نظر سے اب تم ایک اور تقریر لکھو اور اس کے پوائنٹس میں تمہیں لکھواتا ہوں اور تقریر لکھنے کے بعد اس کی ایک کاپی مجھے بھیج دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ میکنلے نے اس کو دوبارہ تقریر لکھنے میں مدد دی۔ اور وہ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک بہترین مقرر تسلیم کیا گیا۔ یہاں ہم ابراہام لنکن کا لکھا ہوا دوسرا سب سے اہم خط آپ کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ اس نے پہلا خط مسز بگیسی کو اس کے پانچ بیٹوں کی موت پر تعزیت کے طور پر لکھا تھا۔ مسز بکسی کے بیٹے ایک جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ لنکن نے یہ دوسرا خط غالباً صرف پانچ منٹوں میں لکھ لیا ہو گا۔ مگر ۱۹۲۶ء میں ایک نیلام عام کے دوران یہ خط بارہ ہزار ڈالر میں فروخت ہوا اور یہ اتنی رقم تھی۔ جو لنکن نصف صدی تک مشقت کرنے کے بعد بھی نہیں جمع کر سکا تھا۔ یہ خط ۲۶ اپریل ۱۸۶۳ء کو سول وار کے سیاہ ترین دور میں جنرل جوزف ہو کر کو لکھا گیا تھا۔ اٹھارہ ماہ سے لنکن کے جنرل ایک محاذ اور پھر دوسرے محاذ پر شکست کا سامنا کر رہے تھے کوئی نتیجہ نہیں نکل ہا تھا سوائے انسانی قتل عام کے قوم آہ و پکار کر رہی تھی۔ ہزاروں سپاہی فوج سے بھاگ گئے تھے۔ حتیٰ کہ ری پبلکن پارٹی کے متعدد سینیٹر ارکان بھی بغاوت پر تل گئے تھے۔ اور وہ لنکن کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے لنکن نے کہا ’’ ہم اس وقت تباہی کے کنارے پر ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے خدا بھی ہمارے خلاف ہے مجھے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ یہ وہ بھیانک ترین پس منظر تھا۔ جس میں لنکن نے یہ خط لکھا۔‘‘ میں یہاں یہ خط پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لنکن نے ایک جنرل کے ذہن کو کس طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسے وقت میں جبکہ قوم کی بہت سی توقعات اس جنرل سے وابستہ تھیں۔ یہ غالباً ایک سخت ترین خط تھا جو لنکن نے صدر بننے کے بعد لکھا تاہم پھر بھی آپ یہ محسوس کریں گے کہ لنکن نے جنرل ہوکر کی غلطیاں بیان کرنے سے قبل اس کی بڑی تعریف کی ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ہوکر نے بہت سی سنگین غلطیاں کیں لیکن لنکن نے انہیں غلطیاں نہیں کہا۔ لنکن بہت ڈپلومیٹک اور قدامت پرست تھا۔ لنکن نے لکھا ’’ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں تم لے میں اتفاق نہیں کرتا ہوں۔‘‘ یہ وہ خط ہے جو جنرل ہوکر کو لکھا گیا۔ ڈیئر جنرل میں نے آپ کو پوٹومیک میں فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ بے شک میں نے یہ اس لیے کیا تھا کیونکہ اس کی نمایاں وجوہات تھیں لیکن اس کے باوجود میں یہ ضرور کہوں گا اور آپ کے لیے بھی یہ جاننا بہت ضروری ہو گا کہ آپ کے کچھ ایسے اقدامات ہیں جن سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ایک بہادر اور ماہر جنرل ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ آپ اپنے پیشے میں سیاست کو شامل نہیں کرتے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ آپ کو اپنے آپ پر اعتماد ہے جو کہ ایک بہت ہی قابل قدر بات ہے۔ آپ پر وشوق جنرل ہیں جو مناسب حدوں میں نقصان کی بجائے فائدے مند ہے لیکن میرا خیال ہے کہ جنرل برن سائیڈ کی کمان کے دوران آپ نے اپنے آپ سے مشورہ ضرور کیا ہو گا اور اسے اس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جتنی کہ آپ مزاحمت کر سکتے ہیں لیکن اس طرح کرنے سے آپ نے ملک و قوم کے ساتھ اچھا نہیں کیا بلکہ آپ نے اپنے بھائی جنرل کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ جو کہ ایک لائق اور قابل عزت جنرل ہے۔ کیا آپ اس پر غور کرنے کو تیار ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس انداز میں سنا ہے کہ مجھے اس پر یقین کرنا پڑا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ فوج اور حکومت دونوں کو ایک آمر کی ضرورت ہے۔ بے شک ان سب باتوں کے باوجود میں نے آپ کو فوج کی کمان سونپی تھی اور آپ پر اعتماد کیا تھا۔ صرف وہی جنرل جو اپنی مہم میں کامیاب ہوتے ہیں وہ ڈکٹیٹر بن سکتے ہیں لیکن اب میں جو آپ سے پوچھوں گا وہ فوجی کامیابی ہے۔ اور اس کے لیے ڈکٹیٹر ہونے کا بھی رسک لینے سے باز نہیں رہوں گا۔ حکومت آپ کو اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق مدد دے گی۔ جو کہ دوسرے فوجی کمانڈروں کو دی جانے والی مدد کے مقابلے میں کسی بھی طرح سے کم نہیں ہو گی۔ مجھے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ جو جذبہ آپ نے اپنی فوج میں پیدا کیا ہے یہ جذبہ اپنے کمانڈر پر نکتہ چینی کرنے کا ہے۔ اب یہ جذبہ آپ پر بھی کارفرما ہو گا۔ میں اس کو ختم کرنے کے لیے آپ کی مدد کروں گا۔ نہ ہی آپ اور نہ نپولین (اگر وہ دوبارہ زندہ ہو جائے) ایک ایسی فوج سے کوئی کارنامہ انجام نہیں دلوا سکتے جس میں اپنے کمانڈر پر نکتہ چینی کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ اب مزید جھنجھلانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بہت ہی ہوشیاری اور قوت کے ساتھ آگے بڑھو اور ہمارے لیے فتوحات حاصل کرو۔ ہم سب اس کے منتظر ہیں۔ ابراہام لنکن آپ کولڈی۔ میکنلے اور لنکن نہیں ہیں۔ آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ فلسفہ آپ کے روز مرہ کے کاروباری امور میں کام آ سکتا ہے؟ آیئے ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں اور اس ضمن میں ہم ڈبلیو پی گون کا معاملہ لیتے ہیں جو وارک کمپنی فلاڈلفیا کا مالک تھا۔ وارک کمپنی نے فلاڈلفیا میں ایک بڑے دفتر کی عمارت مکمل کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ اسے یہ عمارت ایک مقرر جرمدت کے اندر تیار کرنی تھی۔ ہر کام تسلی بخش ہو رہا تھا اور عمارت تقریباً مکمل ہو چکی تھی کہ اچانک عمارت کی بیرونی دیواروں پر لگنے والے پتھر کے سب کنٹریکٹر نے اعلان کیا کہ وہ وقت پر پتھر سپلائی نہیں کر سکے گا۔ اس سے سارا کام رک گیا۔ جس سے بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا اور وہ بھی صرف ایک شخص کی وجہ سے۔ اس کے بعد ٹیلی فون پر گفتگو کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا۔ کافی طویل مذاکرات ہوتے رہے جس میں بعض اوقات تلخی بھی آئی۔ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد مسٹر گون کو نیو یارک بھیجا گیا تاکہ وہ عمارت کے لیے مطلوبہ پتھر لائے۔ گون نیویارک پہنچا اور اس کا سب کنٹریکٹنگ فرم کے صدر سے تعارف ہوا۔ مسٹر گون نے کہا ’’ صدر صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے نام کے لحاظ سے بروکلین واحد شخص ہیں‘‘ صدر حیران و پریشان ہو گیا اس نے جواب دیا ’’ نہیں میں نہیں جانتا۔‘‘ اس کے بعد گون نے کہا کہ ’’ جب میں ٹرین سے اترا تو میں نے ٹیلی فون ڈائریکٹری سے آپ کا فون نمبر اور ایڈریس دیکھنا چاہا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس شہر میں آپ اپنے نام کے واحد شخص ہیں۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’ مجھے کبھی یہ معلوم نہیں تھا۔‘‘ اس نے ٹیلی فون ڈائریکٹری میں چیک کیا ’’ اچھا یہ ایک غیر معمولی نام ہے۔‘‘ اس نے بڑے فخر سے کہا کہ ’’ میری فیملی ہالینڈ سے آ کر یہاں آباد ہوئی یہ دو سو برس پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنے خاندان اور آباؤ اجداد کے بارے میں گفتگو کرنی شروع کر دی جب اس کی گفتگو ختم ہوئی تو مسٹر گون نے صدر سے کہا کہ آپ کا پلانٹ بہت بڑا ہے اور اس نے مزید کہا کہ اس نے اس جیسے جتنے پلانٹ دیکھے ہیں۔ بلا شبہ یہ ان سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ صاف ستھرا پلانٹ ہے۔ صدر نے جواب دیا ’’ میں نے اپنی زندگی اس کاروباری میں گزاری ہے اور مجھے اس پر فخر ہے کیا آپ فیکٹری کا ایک راؤنڈ لگانا پسند کریں گے؟‘‘ اس راؤنڈ کے دوران گون سب کنٹریکٹر کے فیبریکشن نظام کی تعریف کرتا رہا اور اسے بتاتا رہا کہ دوسرے پلانٹ کی بہ نسبت یہ پلانٹ کیوں اچھا اور عمدہ ہے۔ گون نے بعض غیر معمولی مشینوں کی بھی تعریف کی۔ جس پر صدر نے اسے بتایا کہ یہ مشین اس نے خود ایجاد کی ہے۔ اس نے گون کو فیکٹری دکھانے میں کافی وقت خرچ کیا۔ اس کے بعد گون کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا اور اس دوران آپ یہ خیال کریں کہ پتھر کی سپلائی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا جو کہ اس دورے کا واحد مقصد تھا۔‘‘ لنچ کے بعد سب کنڈیکٹر نے کہا کہ ’’ اب کچھ کاروبار کے بارے میں بھی بات ہو جائے۔ یہ قدرتی بات ہے میں جانتا ہوں کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ مجھے امید نہیں تھی کہ ہماری ملاقات اس قدر پر لطف ہو گی۔ آپ میرے اس وعدے کے ساتھ فلاڈلفیا چلے جائیں کہ آپ کا میٹریل فیبریکیٹ کیا جائے گا اور پہلی فرصت میں آپ کو بھیج دیا جائے گا۔‘‘ گون کا نیویارک کا دورہ کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ جس مقصد کے لیے یہاں آیا تھا۔ اس میں اسے ایک لفظ کہے بغیر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ پھر وقت پر پہنچ گیا اور عمارت مقررہ وقت پر مکمل ہو گئی۔ اگر گون نیویارک میں جا کر سب کنٹریکٹر کے دفتر میں اس سے جھگڑا کرتا اور اسے پتھر سپلائی نہ کرنے پر برا بھلا کہتا۔ تو کیا وہ فرم کے لیے مقررہ وقت پر پتھر حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا؟ ریاست نیو جرسی کے شہر فورٹ مون ماؤتھ کی فیڈرل کریڈٹ یونین کی برانچ منیجر ڈور تھی نے ہمارے کورس میں ایک لیکچر کے دوران بتایا کہ اس نے اپنے دفتر کے ایک ملازم کی کارکردگی کو کس طرح مزید بہتر بنایا۔ ’’ ہم نے حال ہی میں ایک خاتون ٹرینی کو ملازم رکھا۔ اس کا ہمارے دفتر میں آنے والوںلوگوں کے ساتھ سلوک اور رویہ بہت شاندار تھا۔ وہ ہر کسی کے ساتھ بڑی ہمدردی اور توجہ سے پیش آتی تھی اور اس کا کام بھی تسلی بخش تھا مگر شام کو جب سارے دن کا حساب کتاب بیلنس کرنا پڑتا تو اس وقت اسے مشکل پیش آتی تھی۔‘‘ ٹرینی شعبے کا سربراہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں اس خاتون کو ملازمت سے فارغ کر دوں کیونکہ وہ اپنی توجہ اور ہمدردی کے ساتھ جب ہر آنے والے سے بات کرتی ہے تو اس سے وقت کا بڑا ہرج ہوتا ہے اور پھر اس کے علاوہ وہ بیلنس کرنے میں بھی بہت دیر لگاتی ہے میں نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر اس پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسے فارغ کرنا ہی پڑے گا۔ اگلی صبح میں نے اس خاتون کو معمول سے زیادہ تیزی سے کام کرتے ہوئے دیکھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر شخص کے ساتھ پہلے ہی کی طرح خوشگوار موڈ میں گفتگو بھی کر رہی تھی۔ مجھے یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ اسے بیلنس کرنے میں کیا مشکل پیش آتی تھی۔ جب دفتر کا وقت ختم ہو گیا تو میں اس کے پاس گئی اور اس سے بات کی۔ ظاہر ہے کہ وہ نروس اور پریشان تھی میں نے اس کی تعریف کی کہ دفتر میں آنے والے ہر شخص کی بات وہ بڑی توجہ اور ہمدردی کے ساتھ سنتی ہے۔ پھر میں نے اسے تجویز کیا کہ ہم بیلنس کرنے کے دوران جو طریقہ کار استعمال کرتے ہیں اس کا جائزہ لیں۔ جب اسے یہ احساس ہو گیا کہ مجھے اس پر اعتماد ہے۔ اس نے بڑی آسانی کے ساتھ میری تجویز مان لی اور بہت جلد اپنے کام میں ماہر ہو گئی اور اس کے بعد سے اب تک ہمیں اس کے کام کے بارے میں معمولی سی بھی شکایت نہیں ہوئی۔ کسی کی تعریف کرنے سے آپ اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے ایک دندان ساز دانتوں کی صفائی سے پہلے نووکین استعمال کرتا ہے۔ اس کے بعد مریض کی ڈرلنگ ہوتی ہے لیکن نووکین کی وجہ سے اسے درد نہیں ہوتا اور مریض کو تکلیف پہنچائے بغیر وہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے۔ اصول نمبر ۱ ’’ دوسرے کے ساتھ گفتگو کا آغاز اس کی ایماندارانہ تعریف سے کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب دوئم نکتہ چینی کس طرح کی جائے کہ دوسرا ناراض بھی نہ ہو چارلس شواب ایک روز اپنی سٹیل مل سے گزر رہا تھا کہ اس نے راستے میں اپنے ملازمین کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھا جس جگہ وہ بیٹھ کر سگریٹ نوشی کر رہے تھے اس جگہ پر ایک سائن بورڈ لگا ہوا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ’’ یہاں سگریٹ نہ پئیں‘‘ کیا چارلس شواب نے وہیں بیٹھے ملازمین کو سائن بورڈ پڑھنے کی تاکید نہیں کی۔ وہ ملازمین کے پاس پہنچا اور ہر ایک کو سگار دیا اور کہا ’’مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہو گی کہ اگر آپ یہ سگار مل کے احاطے سے باہر جا کر پئیں۔‘‘ ملازمین کو معلوم تھا کہ چارلس شواب جانتا ہے کہ ان سے اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور انہوں نے چارلس کی تعریف کی کہ اس نے اس ضمن میں انہیں کچھ نہیں کہا بلکہ انہیں ایک ایک سگار بطور تحفہ دیا ہے اور اس طرح ان کی عزت افزائی کی ہے کیا آپ ایسے شخص کی عزت نہیں کریں گے؟ جان وانیمیکر نے بھی یہی تکنیک استعمال کی وہ روزانہ فلاڈلفیا میں اپنے سٹور میں جایا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے دیکھا کہ ایک گاہک کافی دیر سے کاؤنٹر پر کھڑی سیلزمین کا انتظار کر رہی ہے اور کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کر رہا ہے اور سیلزمین سٹور کے ایک کونے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ وانیمیکر نے ایک لفظ نہیں کہا وہ بڑی خاموشی سے کاؤنٹر پر آیا اور اس نے خود اس گاہک کو خریداری کرائی اور پھر اس نے ایک سیلزمین سے کہ وہ اس خریداری کو ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر خاتون گاہک کے حوالے کر دے۔ اس کے بعد وہ سٹور سے چلا گیا۔ عموماً پبلک آفیسروں کے بارے میں یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ وہ بہت مصروف ہوتے ہیں اور اس شکایت کی ایک بڑی وجہ ان کا ماتحت عملہ ہوتا ہے جن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے باس پر زیادہ کام کا دباؤ نہ پڑے۔ ریاست فلوریڈا کے شہر ولانڈو کے میئر کارل لینگفورڈ کا یہ معمول تھا کہ وہ اکثر اپنے ماتحت عملے کی سرزنش کرتا تھاکہ وہ لوگوں کو اس سے ملنے سے نہ روکیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھلا ہے مگر اس کے باوجود ماتحت عملہ اس کے ملاقاتیوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے تھے۔ آخر کار اس نے اس کا یہ نتیجہ نکالا۔ اس نے اپنے دفتر سے دروازہ نکال دیا۔ اس کا عملہ ساری بات سمجھ گیا اور اس روز کے بعد میئر کی ملاقاتیوں کو اس سے ملنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہوئی۔ بہت سے لوگ دوسروں پر نکتہ چینی کا آغاز پر خلوص تعریف کے ساتھ کرتے ہیں اور اس کے بعد لیکن کا استعمال کرنے کے بعد سخت نکتہ چینی سے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچے کا پڑھائی کے بارے میں غیر محتاط رویہ تبدیل کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ ’’ جانی ہمیں فخر ہے کہ تم نے اپنی محنت سے باغ کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے اب یہ بہت خوبصورت ہو گیا ہے لیکن اگر تم اس طرح اپنی پڑھائی میں سخت محنت کرو تو تم اپنی کلاس میں اول آ سکتے ہو۔‘‘ اس طرح جانی ’’ لیکن‘‘ کا لفظ سننے سے پہلے تک اپنی حوصلہ افزائی کو محسوس کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنی اصلی تعریف کے بارے میں خود سے سوال کر سکتا ہوں۔ اسے یہ احساس ہو گیا کہ میری تعریف صرف اس لئے کی گئی ہے کہ بعد ازاں مجھ پر تنقید کی جا سکے اور اس احساس کے ساتھ ہی ہم جانی کا پڑھائی کے۔۔۔۔ بارے میں غیر محتاط رویہ تبدیل کرنے میں شاید کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس رویے میں آپ بڑی آسانی سے لفظ ’’ اور‘‘ کا اضافہ کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں۔ مثلاً آپ جانی سے کہیں جانی ہمیں فخر ہے کہ تم نے اپنی محنت سے باغ کا حلیہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ بہت خوبصورت ہو گیا ہے۔ اور یہی مسلسل محنت کو جاری رکھتے ہوئے تم پڑھائی میں اس قدر دلچسپی لو تاکہ تم کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر سکو۔ اس طرح جانی اپنی تعریف ہونا قبول کرے گا کیونکہ اس میں لیکن کا لفظ شامل نہیں ہے۔ ہم نے اس کی توجہ اس رویے کی طرف مرکوز کر دی ہے جسے ہم تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے امکانات ہیں کہ وہ ہماری توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ بلواسطہ طریقے سے کسی شخص کی توجہ اس کی غلطی پر مرکوز کرانے سے ایسے حساس قسم کے لوگوں سے آپ حیرت انگیز نتائج برآمد کر سکتے ہیں۔ جو براہ راست تنقید سے بہت ناراض ہو سکتے ہوں۔ روڈ سے آئی لینڈ کے شہر وون سوک کی مارج جیکب نے ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے کس طرح اپنے گھر میں اضافی کمروں کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کو قائل کیا کہ وہ اپنے کام کے بعد جگہ کی صفائی کر دیا کریں۔ کام کے پہلے چند دنوں میں جب مارج جیکب اپنے دفتر سے گھر واپس پہنچی تو اس نے نوٹ کیا کہ اس کا لان فضول اور نکمی چیزوں سے بھرا پڑا ہے۔ وہ مزدوروں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جہاں تک تعمیری کام کا تعلق تھا بڑی عمدگی سے کر رہے تھے۔ اس لیے جب مزدور کام ختم کر کے واپس چلے گئے تو اس نے اپنے بچوں کے ہمراہ تمام فضول قسم کی چیزیں لان سے اٹھائیں اور ان کو ایک کونے میں رکھ دیا دوسری صبح اس نے مزدوروں کے ٹھیکیدار کو بلایا اور اسے کہا ’’ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ گذشتہ روز جب مزدوروں نے کام ختم کیا تو انہوں نے سامنے والے لا ن کی بڑی اچھی طرح صفائی کر دی تھی۔ یہ بہت عمدہ اور صاف ستھرا دکھائی دیتا ہے اور اس سے ہمسایوں کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس دن کے بعد سے مزدوروں نے کام ختم کر کے تمام فضول اور ناکارہ ساز و سامان ایک کونے میں ڈھیر کرنا شروع کر دیا اور ٹھیکیدار ہر روز وہاں آ کر اس بات کی تسلی کرتا کہ مزدوروں نے کام ختم کرنے کے بعد لان کی اچھی طرح صفائی کر دی ہے۔‘‘ فوج کے ریزرو اور باقاعدہ سپاہیوں کے درمیان سب سے بڑا فرق بالوں کی کٹائی کا ہوتا ہے۔ ریزرو سپاہی اپنے آپ کو سویلین خیال کرتے ہیں اور اپنے بال کٹوانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس سے بعض اوقات بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یو ایس اے آر کے سلو ماسٹر سارجنٹ ہارلے میتھر کو اس قسم کے ایک مسئلے سے دو چار ہونا پڑا جب وہ نان گمشنڈ ریزرو افسروں کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ ایک ماسٹر سارجنٹ ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے سپاہیوں اور ماتحت افسروں کو حکم دے سکتا تھا کہ وہ اپنے بال کٹوائیں۔ لیکن اس نیا س کی بجائے بلواسطہ طریقے سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی۔ اس نے ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوئے بتایا۔ اس نے کہا ’’ جنٹلمین آپ لیڈر ہیں۔ آپ کا اس وقت دوسروں پر بڑا موثر قسم کا اثر پڑے گا جب آپ خود کسی کام میں مثال بنیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ بالوں کی کٹائی کے بارے میں فوج کے کیا ضابطے ہیں۔ میں آج اپنے بال کٹوا رہا ہوں۔ اگرچہ یہ آپ میں سے بہت سوں کے مقابلے میں ابھی بھی چھوٹے ہیں۔ آپ شیشے میں اپنے آپ کو دیکھیں اور اگر آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کو بال کٹوانے کی ضرورت ہے تو بال کٹوا کر ایک اچھی مثال پیش کریں۔ آپ خود فیصلہ کریں باقی انتظام ہم خود کریں گے۔ سواری کا ہر طرح سے انتظام ہے جو آپ کو باربر کی دوکان تک لے جائے گی۔‘‘ اس کا نتیجہ توقع کے مطابق تھا۔ بہت سے آفیسروں نے شیشے میں اپنے بال دیکھے اور وہ بال کٹوانے چلے گئے دوسری صبح سارجنٹ میتھر نے کہا کہ وہ اپنے آفیسروں میں لیڈر شپ کی صلاحیت بہت پہلے بھانپ لیتا ہے۔ ۸ مارچ ۱۸۸۷ء کو ہنری وارڈ نامی خوش گفتار شخص فوت ہو گیا۔ وہ ایک گرجے میں تقریر کرتا تھا اس کی موت کے بعد پہلی اتوار کو لیمن ایبٹ نامی ایک دوسرے شخص کو گرجے میں تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا۔ ایبٹ جانتا تھا کہ ہنری وارڈ کس قدر خوش بیان مقرر تھا لہٰذا وہ اپنی طرف سے بہترین کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی تقریر لکھی پھر اس میں تبدیلی کی پھر لکھی اور پھر تبدیلی کی اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کو یہ تقریر پڑھ کر سنائی یہ بہت سی دوسری لکھی ہوئی پڑھی جانے والی تقریروں کی طرح بور تھی۔ اگر اس کی بیوی کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا اس نے اپنے شوہر سے کہا ’’ ایبٹ یہ بڑی بور تقریر ہے۔ یہ گرجے میں لوگوں پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی۔ لوگ اس تقریر کو سنتے ہی سو جائیں گے یہ انسائیکلو پیڈیا کی طرح لگتی ہے تمہیں تو اس کے بارے میں زیادہ اندازہ ہونا چاہیے آخر تم اتنے دنوں سے تبلیغ کا کام کر رہے ہو۔ خدا کے لیے تم ایک عام انسان کی طرح تقریر کیوں نہیں کرتے؟ تم اپنی بے عزتی کرأ گے اگر تم یہ تقریر کرو گے۔‘‘ کیا یہی کچھ اس کی بیوی نے کہا ہو گا؟ نہیں اس نے ایسا نہیں کہا اسے معلوم تھا کہ ایسا کہنے سے کیا اثر ہو گا۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ ’’ نارتھ امریکن ریویو‘‘ کے لیے اچھا آرٹیکل ثابت ہو سکتا ہے اس نے تقریر کی تعریف کی اور ساتھ ہی بڑی شائستگی کے ساتھ کہہ دیا کہ گرجے میں یہ تقریر کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ لیمن ایبٹ نے اپنی محنت سے تیار کردہ تقریر کو پھاڑ دیا اور اگلی اتوار کو گرجے میں بغیر لکھی ہوئی تقریر کی۔ اصول نمبر ۲ ’’ لوگوں کا بلواسطہ طریقے سے ان کی غلطی بتاؤ۔‘‘ ٭٭٭ باب سوئم پہلے اپنی غلطی کے بارے میں بات کریں میری بھانجی جوزفین کارنیگی میری سیکرٹری بننے کے لیے نیویارک آئی اس کی عمر انیس برس تھی اور تین برس قبل اس نے ہائی سکول سے گریجویشن مکمل کر لی تھی اور اس کا تجربہ زیرو سے کچھ زیادہ ہو گا۔ مگر اس کے باوجود وہ سویز کے مغرب میں بہترین سیکرٹریوں میں سے ایک سیکرٹری بنی لیکن شروع شروع میں اس کی کارکردگی ایسی تھی کہ جس میں صرف اور صرف اصلاح اور بہتری کی گنجائش موجود تھی۔ ایک روز جب میں اس پر نکتہ چینی کرنے کے موڈ میں تھا تو میں نے اپنے آپ سے کہا ’’ ذرا ایک منٹ رکو ڈیل کارنیگی تم جو زفین سے عمر میں دوگنا بڑے ہو۔ تمہارا کاروباری تجربہ اس سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔ تم اس سے کس طرح یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ تمہارے نقطہ نظر کے مطابق تمہارے معیار پر پورا اترے؟ اور ایک منٹ سوچو ڈیل تم خود انیس برس کی عمر میں کیا تھے؟ ذرا ان فاش غلطیوں اور حماقتوں کے بارے میں غور کرو جو تم اس عمر میں کیا کرتے تھے؟‘‘ یہ سب باتیں سوچنے کے بعد بڑی ایمانداری اور غیر جانبداری کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جوزفین اپنی عمر میں مجھ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ میں جوزفین کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کر رہا ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد جب بھی میں جوزفین کی توجہ کسی غلطی کی طرف دلانا چاہی تو میں اسے یہ کہتا ’’ جوزفین تم نے یہ غلطی کی ہے مگر خدا جانتا ہے کہ میں تمہاری عمر میں اس سے بڑی غلطی کیا کرتا تھا۔ تم فیصلہ کرنے کی قوت لے کر تو پیدا نہیں ہوئی ہو۔ یہ تو تجربے سے آتا ہے میں آج تک اپنی ان بے شمار غلطیوں کے بارے میں جب سوچتا ہوں تو بہت شرمندہ ہوتا ہوں۔ تم پر یا کسی اور پر نکتہ چینی کرنے کا میرا ذرا سا بھی ارادہ نہیں ہے لیکن کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ اگر تم اس کام کو دوبارہ اس طریقے سے کرو دوبارہ کام کرنے سے تمہیں خود ہی یہ اندازہ ہو جائے گا کہ پہلے طریقے سے کام کرنے کے دوران تم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی تھی اور یہ جان لینا ہی تمہارا تجربہ ہو گا۔ جو آئندہ کے لیے تمہارے بہت کام آئے گا۔‘‘ ای جی ڈلی سٹون جو کینیڈا کے صوبے مینیٹوبا کے شہر براڈن میں ایک انجینئر تھا کو اپنی نئی سیکرٹری کو خطوط لکھاتے وقت بڑی دشواری کا سامنا تھا۔ جب یہ خطوط ٹائپ ہونے کے لیے اس کی میز پر دستخطوں کے لیے آتے تو ہر ایک خط میں دو تین ہجوں کی غلطیاں ضرور ہوتیں۔ مسٹر ڈلی سٹون نے ہمارے میں لیکچر دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے اس مسئلے پر کیسے قابو پایا۔ بہت سے دوسرے انجینئروں کی طرح میں نے بھی اپنی شاندار انگریزی اور ہجوں کو نوٹ نہیں کیا تھا۔ کئی برسوں سے میں نے ایک چھوٹی ڈکشنری اپنے پاس رکھی ہوئی تھی اور جن الفاظکے ہجوں کے بارے میں مجھے مشکل پیش آتی تھی وہ اس میں سے دیکھ لیا کرتا تھا جب یہ واضح ہو گیا کہ محض سیکرٹری کو اس کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے غلطیوں کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ایک اور طریقہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ جب دوسری مرتبہ میرے پاس خطوط دستخطوں کے لیے آئے اور ان میں غلطیاں تھیں۔ میں ٹائپسٹ کے ہمراہ بیٹھ گیا اور کہا۔ یہ لفظ کسی طرح سے یہاں ٹھیک نہیں لگتا ہے یہی وہ ایک لفظ ہے جس سے مجھے بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے میں نے اپنے پاس ہجوں کی ایک کتاب رکھی ہوئی ہے اس کے ساتھ ہی میں نے ڈکشنری کھولی اور اس لفظ والا صفحہ نکالا اور کہا کہ یہی وہ لفظ ہے۔ میں اپنے ہجوں کے بارے میں بہت محتاط رہتا ہوں کیونکہ لوگ ہمیں ہمارے خطوط کی وجہ سے پہچانتے ہیں اور الفاظ کے ہجوں کی غلطی سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہم کاروباری نہیں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے میرے طریقے کو اپنایا یا نہیں مگر اس کے بعد اس کے ٹائپ شدہ خطوط میں غلطیاں کم ہونا شروع ہو گئیں۔ شہزادہ برن ہارڈ بلو نے اس کی اشد ضرورت کو ۱۹۰۹ء میں ہی محسوس کر لیا۔ ہرن ہارڈ اس وقت جرمنی کی سلطنت کا چانسلر تھا اور دام دوم نامی ایک گستاخ اور بد زبان بادشاہ تخت نشین تھا جو جرمنی کے قیصروں میں آخری بادشاہ تھا۔ ولہم دوم ایک ایسی فوج اور بحریہ کی تیاری کر رہا تھا جو اس کے خیال میں دنیا میں سب سے طاقتور تھی۔ اس کے بعد ایک حیران کن بات ہو گئی ایک ایسی بات جس نے پورے بر اعظم کو ہلا کر رکھ دیا اور دنیا کے ارد گرد ایسے دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ معاملات کو بگاڑنے میں ولہم دوم کے عوام میں اس احمقانہ اور خود پرستانہ اعلان نے مزید کردار ادا کیا۔ وہ اس وقت انگلینڈ کے دورے پر شاہی مہمان تھا۔ اس نے ایک تعزیت سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا۔ اس کے بارے میں اخبار ’’ ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کو اس نے شاہی فرمان کے ذریعے اجازت دے دی کہ وہ اس کی تقریر کو شائع کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے کہا کہ وہ واحد جرمن ہے جو انگلینڈ سے دوستی رکھنا چاہتا ہے اور وہ جاپان کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی بحری قوت میں اضافہ کر رہا ہے اور اس نے تنہا ہی انگلینڈ کو فرانس اور روس کی یلغار کے سامنے مغلوب ہونے سے بچایا ہے اور یہ اس کی مہم کا ہی منصوبہ تھا جس نے جنوبی افریقہ میں ’’ بوئرز‘‘ کو شکست دینے میں انگلینڈ کے لارڈ رابرٹ کی مدد کی۔ اس قسم کے تعریفانہ الفاظ امن کے زمانے میں گذشتہ سو برسوں میں شاید ہی کسی یورپی بادشاہ نے اپنی ہی تعریف میں اس طرح سر عام ادا کئے ہونگے۔ ’’ ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ میں یہ تقریر شائع ہونے کے بعد پورا بر اعظم اس طرح بھڑک اٹھا کہ جیسے بھیڑوں کا چھتہ چھیڑ دیا گیا ہو۔ انگلینڈ نے اس کا برا منایا۔ خود جرمن کے سیاستدان برانگیختہ تھے اور اس تمام سراسیمگی کے دوران قیصر بھی خوفزدہ ہو گیا او راس نے چانسلر برن ہارڈ کو کہا کہ وہ سارا الزام اپنے سر لے لے اور دنیا کو بتائے کہ دراصل اس نے بادشاہ کو غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ جس کی وجہ سے بادشاہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اس نے چانسلر سے کہا کہ وہ اس بات کا اعلان کرے کہ یہ ساری غلطی اس کی اپنی ہے اور وہ اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ یہ سننے کے بعد چانسلر نے احتجاج کیا۔ ’’ یور میجسٹی! جرمنی اور انگلینڈ میں کوئی بھی ذی شعور شخص یہ تسلیم کرنے پر رضا مند نہیں ہو گا کہ میں نے آپ کو اس قدر غلط قسم کے مشورے دیئے ہونگے۔‘‘ جونہی یہ الفاظ چانسلر کے منہ سے ادا ہوئے اسے احساس ہو گیا کہ اس نے ایک فاش غلطی کی ہے۔ بادشاہ یہ جواب سنتے ہی آگ بگولا ہو گیا۔ وہ چلایا ’’ تم مجھے گدھا سمجھتے ہو کہ میں ہی فاش غلطیاں کرتا ہوں کیا تم سے کبھی کوئی فاش غلطی نہیں ہو سکتی اور کیا تم نے کبھی کوئی فاش غلطی نہیں کی۔‘‘ چانسلر کو علم تھا کہ اسے بادشاہ پر نکتہ چینی کرنے سے قبل اس کی تعریف کرنی چاہیے تھی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی لیکن اس نے ایک اور بہترین قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نکتہ چینی کرنے کے بعد بادشاہ کی تعریف کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے ایک معجزہ ہو گیا۔ اس نے بڑی عزت کے ساتھ بادشاہ کو جواب دیا۔ ’’ میں کبھی بھی آپ کو اس قسم کا مشورہ نہ دوں یورمجیسٹی! آپ کو بہت سے معاملات میں مجھ سے سبقت حاصل ہے نہ صرف بحری اور فوجی معلومات میں بلکہ قدرتی سائنس میں بھی آپ کو کمال حاصل ہے۔ میں نے ہمیشہ آپ کی باتوں کو تعریفی انداز میں سنا ہے۔ جب آپ نے بیرومیٹر، وائرلیس، ٹیلی گرافی اور یا پھر شعاعوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ میں قدرتی سائنس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی مجھے فزکس کیمسٹری کے بارے میں کچھ علم ہے لیکن مجھے کچھ تاریخ کے بارے میں علم ہے اور شاید میری صلاحیتیں سیاسی اور ڈپلومیسی کے شعبے میں کار آمد ثابت ہو سکیں۔‘‘ بادشاہ کا چہرہ کھل اٹھا۔ چانسلر نے اس کی تعریف کی تھی۔ اس کی عزت افزائی کی تھی اور خود کو نہایت ہی کم تر ظاہر کیا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ چانسلر کی ہر خطا معاف کرنے کو تیار تھا۔ اس نے بڑے جوش کے ساتھ کہا ’’ کیا میں تمہیں ہمیشہ نہیں کہتا رہا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں اور اور ہمیں ہر حالت میں ایک ساتھ رہنا چاہیے اور ہم اکٹھے رہیں گے۔‘‘ بادشاہ نے چانسلر سے ہاتھ ملایا۔ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اور بعد میں شام کے وقت وہ چانسلر کی اس قدر تعریف کر رہا تھا کہ کوئی اسے چانسلر کے خلاف کچھ کہتا تو وہ اس کو زندہ درگور کر دیتا۔ چانسلر نے اپنے آپ کو بروقت بچا لیا تھا۔ اور جیسا کہ وہ ایک کاٹیاں قسم کا ڈپلومیٹ تھا۔ اس نے ایک غلطی ضرور کی تھی۔ اسے بات اپنی کمزوریوں سے شروع کرنی چاہیے تھی اور پھر وہ بادشاہ کی بڑائی بیان کرتا۔ اگر قیصر جیسے گھمنڈی اور خود سر بادشاہ کو چند تعریفی جملے نارمل انسان بنا سکتے ہیں تو پھر ذرا سوچیں کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں یہ تعریفی جملے کس قدر شاندار نتائج برآمد کر سکتے ہیں۔ ان جملوں کا صحیح وقت پر استعمال آپ کو بے شمار کامیابیاں دلا سکتا ہے۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے سے آپ دوسرے شخص کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔ یہی بات میری لینڈ کے ایلفرڈرسل کی مثال سے ثابت ہوتی ہے جب اس نے اپنے پندرہ برس کے بیٹے کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ہمارے کورس میں ایک لیکچر کے دوران بتایا ’’ قدرتی طور پر میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا بیٹا سگریٹ پیئے لیکن میں اور ڈیوڈ کی ماں سگریٹ پیتے تھے اور ہم اسے ہمیشہ یہی تلقین کیا کرتے تھے کہ سگریٹ نوشی بری عادت ہے۔ میں نے ڈیوڈ کو بتایا کہ میں جب اس کی عمر کا تھا تو میں نے کس طرح سگریٹ پینے شروع کئے اور کس طرح سگریٹ کی نیکوٹین نے میری جسمانی طاقت کا بہترین حصہ مجھ سے چھین لیا ہے اور اب میرے لیے یہ بالکل ناممکن ہے کہ میں سگریٹ پینا چھوڑ دوں۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ مجھے ان سگریٹوں کے باعث کس قدر کھانسی آتی ہے۔ اور وہ خود کس قدر مجھے قائل کرنے کی کوششیں کیا کرتا تھا کہ ابو سگریٹ پینا چھوڑ دیں۔‘‘ ’’ میں نے ڈیوڈ کو سگریٹ نوشی سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسے سگریٹ چھوڑنے کے لیے کوئی دھمکی دی۔ نہ ہی سگریٹ کے نقصانات کے بارے میں خبردار کیا۔ میں نے ڈیوڈ کو صرف یہ بتایا کہ کس طرح میں نے سگریٹ نوشی کا آغاز کیا اور اس سے مجھے کیا نقصان ہوا ہے۔‘‘ ’’ ڈیوڈ نے میری باتیں سنیں۔ کچھ دیر تک ان پر غور کیا اور پھر وعدہ کیا کہ وہ جب تک اپنی گریجویشن مکمل نہیں کرے گا سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ سال گزرتے گئے ڈیوڈ نے اپنا وعدہ نبھایا اس کی گریجویشن بھی مکمل ہو گئی مگر اس کے باوجود اس نے سگریٹ نہیں پیا اور نہ ہی اس نے سگریٹ نوشی شروع کرنے کا کوئی ارادہ کیا۔‘‘ اپنے بیٹے سے گفتگو کے بعد خود میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بھی آئندہ سگریٹ نہیں پیوں گا۔ اور میری بیوی نے بھی میرے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا کہ وہ بھی سگریٹ نہیں پیئے گی اور ہم اپنے اس فیصلے پر قائم رہنے میں ابھی تک کامیاب ہیں۔ یہ اصول صرف ایک اچھا لیڈر ہی اپناتا ہے۔ اصول نمبر ۳ ’’ دوسروں پر نکتہ چینی کرنے سے قبل پہلے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں۔‘‘ ٭٭٭ باب چہارم کوئی بھی حکم لینے کو تیار نہیں ہوتا ایک بار مجھے امریکہ کی ایک مشہور خاتون مس اداٹریبل کے ساتھ رات کے کھانے کا اتفاق ہوا۔ وہ امریکی بائیو گرافرز کی ڈین تھی۔ جب میں نے اس کو بتایا کہ میں یہ کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو نے میرے ساتھ اس موضوع پر گفتگو شروع کر دی کہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے یا شناسا ہونے کے کیا طریقے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ جب وہ ڈاکٹر ینگ کی سوانح عمری لکھ رہی تھی تو اس نے ایک ایسے شخص کا انٹرویو کیا جو گذشتہ تین بر س سے اس دفتر میں تھا جہاں ڈاکٹر ینگ تھے۔ اس شخص نے بتایا کہ اس پورے عرصے کے دوران اس نے ایک بار بھی ڈاکٹر ینگ کو براہ راست احکامات دیتے ہوئے نہیں سنا وہ ہمیشہ احکام دینے کی بجائے تجاویز دیا کرتا تھا۔ ڈاکٹر ینگ نے مثال کے طور پر کبھی یہ نہیں کہا۔ ’’ یہ کہو۔ اور وہ کرو ‘‘ یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو وہ یہ کہتے تھے کہ ’’ آپ اس کے بارے میں سوچیں‘‘ اور’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے کام چل جائے گا۔‘‘ جب بھی وہ کوئی خط لکھواتا تو اکثر وہ یہ کہتا کہ ’’ اس خط کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘ اپنے ایک اسسٹنٹ کا ایک خط پڑھتے ہوئے ایک بار ڈاکٹر ینگ نے کہا۔’’ اگر ہم اسے اس طریقے سے لکھیں تو یہ زیادہ بہتر ہو جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر ینگ نے ہمیشہ لوگوں کو یہ موقعہ دیا کہ وہ خود اپنی سوچ سمجھ کے مطابق کام کریں۔ اس نے کبھی اپنے ماتحتوں سے نہیں کہا کہ وہ کام کریں۔ وہ یہ سب کچھ ان پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ خود کام کرتے۔ غلطی کرتے اور خود اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح ان کا اعتماد بھی بڑھتا اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا۔ اس قسم کی تکنیک کا استعمال دوسرے شخص کے لیے اپنی غلطی کو درست کرنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ اس کا استعمال دوسرے شخص کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچا لیتا ہے اور اسے اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ اس سے بغاوت کی بجائے تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک درشت لہجے میں دیا جانے والا حکم دیرپا ناراضگی پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ خواہ یہ حکم ایک بڑی ہی واضح قسم کی غلطی درست کرنے کے لیے ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ پینسلونیا کے شہر وومنگ کے ایک ووکیشنل سکول کے ٹیچر ڈان سنتا ریلی نے ہمارے کورس میں لیکچر کے دوران بتایا کہ ایک بار اس کے ایک طالب علم نے اپنی کار کو غیر قانونی طور پر پارک کر کے کس طرح سکول کی ایک دوکان کو جانے والا راستہ روک دیا تھا۔ ایک اور ٹیچر اس دوران بڑے غصے کے ساتھ کلاس روم میں آیا اور کہا کہ کس بیہودہ نے کار وہاں پارک کی ہے؟ جب طالب علم جس نے کار پارک کی تھی کھڑا ہوا تو اس ٹیچر نے بڑے درشت لہجے میں اسے کہا کہ وہ کار وہاں سے ہٹا لے۔ وگرنہ میں ایک لوہے کی تار اس کے ساتھ باندھ کر اسے وہا ں سے اٹھوا دوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالب علم کی غلطی تھی۔ کار وہاں پارک نہیں کرنی چاہیے تھی مگر اس دن کے بعد سے نہ صرف اس طالب علم نے بلکہ دوسرے طلباء نے بھی ٹیچر کے اس درشت لہجے کا برا منایا اور پھر انہوں نے ہر وہ کام کیا۔ جس سے مذکورہ ٹیچر کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مشکلات پیش آئیں۔ یہ ٹیچر بڑے دوستانہ ماحول میں بھی آ کر کہہ سکتا تھا کہ جس طالب علم نے وہاں کار پارک کی وہاں سے ہٹا لے۔ تاکہ دوسری آنے جانے والی کاروں کو پارکنگ کے لیے مشکل پیش نہ آئے تو وہ طالب علم بڑی خوشی کے ساتھ اپنی کار وہاں سے ہٹا لیتا اور پوری کلاس ناراض نہ ہوتی۔ سوالات کا پوچھنا نہ صرف ایک حکم کو پسندیدہ بنا دیتا ہے بلکہ اکثر یہ اس شخص کے تخیل کو بھی تحریک دیتا ہے جس سے آپ سوالات پوچھتے ہیں۔ لوگ اکثر ایسے حکم مان لیتے ہیں۔ جن کے جاری کیے جانے کے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ہے جب جوہانسبرگ کے ایک چھوٹے سے مینوفیکچرنگ پلانٹ کے جنرل منیجر آبن میکڈانلڈ کو ایک بار کچھ مشینوں کے پرزے بڑی مقدار میں تیار کرنے کا آرڈر ملا تو اسے یقین تھا کہ وہ ڈلیوری کو مقررہ وقت پر پورا نہیں کر سکے گا۔ پلانٹ پر پہلے ہی کام ہو رہا تھا جو ابھی مکمل ہونا تھا اور فوری طور پر دوسرے آرڈر پر کام کرنا مشکل تھا۔ دوسروں کو کام تیز کرنے کا حکم دینے کی بجائے جنرل منیجر نے سب کارکنوں کو اکٹھا بلا کر اس کے سامنے ساری صورتحال رکھی۔ انہیں بتایا کہ یہ کمپنی اور خود ان کے لیے ایک طرح کا چیلنج ہے کہ وہ اس کام کو مقرر ہ وقت پر مکمل کر کے یہ ثابت کر دیں کہ ان میں ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے اس کے بعد اس نے کارکنوں سے سوالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ ۱۔ ہم اس آرڈر کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کے لیے کس طرح کام کریں یعنی ہمیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے؟ ۲۔ کیا کسی کے ذہن میں کوئی طریقہ کار ہے جس کے مطابق ہم یہ کام مقررہ وقت پر مکمل کر سکتے ہیں تو وہ بتائے تاکہ ہم اس آرڈر کو قبول کر لیں۔ ۳۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اس آرڈر کو مکمل ہونے تک اپنی بعض غیر ضروری نجی مصروفیات کو ملتوی کر دیں؟ کارکنوں نے بہت سے طریقے پیش کئے اور زور دیا کہ ہمیں یہ آرڈر فوراً لے لینا چاہیے۔ انہوں نے اس آرڈر کو اس یقین کے ساتھ لیا کہ ’’ ہم اسے مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ اور پوری تن دہی اور جان فشانی سے کام کیا۔ انہوں نے اپنی ضروری نجی مصروفیات تک ملتوی کر دیں اور ایک بڑا آرڈر مقررہ مدت سے دو روز پہلے مکمل کر لیا۔ اب اگر ان کارکنوں کو اچانک اعتماد میں لیے بغیر اچانک یہ حکم دیا جاتا کہ وہ اس آرڈر کو جلد از جلد مکمل کریں تو نہ ہی وہ ذہنی طور پر تیار ہوتے اور نہ ہی ان میں تحریک پیدا ہوتی اور اعتماد میں نہ لیے جانے کا احساس بھی پیدا ہوتا۔ جس سے ان کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے اور آرڈر مقررہ مدت میں مکمل نہ ہوتا۔ اصول نمبر ۴ ’’ دوسروں کو احکامات جاری کرنے کی بجائے ان سے سوالات کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب پنجم دوسرے شخص کو شرمندگی سے بچائیں کئی برس پہلے جنرل الیکٹرک کمپنی کو اپنے ایک ملازم چارلس سیمنٹنر کو اس کے شعبے کی سربراہی سے علیحدہ کرنے کا ایک بڑا نازک مرحلہ درکار تھا۔ سیمنٹنر جب پہلی بار اس کمپنی میں آیا تو وہ الیکٹرک سٹی ڈیپارٹمنٹ کا ایک جینئس تھا مگر جمع تفریق کے محکمے میں وہ ناکام ثابت ہوا۔ اس کے باوجود کمپنی اسے علیحدہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بہت حساس تھا۔ لہٰذا کمپنی نے اسے ایک نیا عہدہ دیا۔ اسے کنسلٹنگ انجینئر بنا دیا گیا۔ اب وہ جنرل الیکٹرک کمپنی کا انجینئر تھا۔ یہ اس کے کام کا ایک نیا عہدہ تھا اور کسی دوسرے شخص کو محکمے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ سیمنٹنر بہت خوش تھا اور دیگر افسر بھی خوش تھے۔ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنی کمپنی کے سب سے حساس شخص کو مطمئن کر لیا تھا اور ایسا انہوں نے بغیر کسی ہنگامے کے انجام دیا تھا۔ اس طرح سیمنٹنر بھی شرمندگی سے بچ گیا تھا۔ دوسرے کو شرمندگی سے بچانا کس قدر اہم ہے اور ہم میں سے کتنے اس اہم کام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم دوسروں کے جذبات کے ساتھ برے طریقے سے کھیلتے ہیں۔ دوسروں کی غلطیاں نکالتے ہیں انہیں دھمکیاں دیتے ہیں۔ کسی بچے یا ملازم کو دوسروں کے سامنے ڈانٹتے ہیں۔ ہم اس بات کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اس سے اس کے جذبات مجروح ہونگے۔ ’’ ہمارا کاروبار زیادہ تر موسمی ہے اس لیے جب انکم ٹیکس کا رش ختم ہو جائے تو بہت سے ملازمین کو نکالنا پڑتا ہے۔‘‘ ’’ ہمارا طریقہ کار یہ تھا کہ جب ایسی کبھی کوئی ضرورت پیش آتی تو ہم دوسرے روز اس شخص کو بلاتے اور اسے بڑی ملائمت سے کہہ دیا جاتا کہ آپ کے لیے اب ہمارے پاس کوئی اور کام نہیں ہے اور آپ کو بھی یہ معلوم ہو گا کہ ہم نے صرف ایک سیزن کے لیے ہی آپ کو ملازم رکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ان لوگوں پر اس کا بہت برا اثر پڑتا تھا۔ انہیں یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ کمپنی میں کام کر کے اس کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں بڑے آرام سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ’’ میں نے حال ہی میں یہ فیصلہ کیا کہ ہماری کمپنی میں سیزن کی بنیاد پر کام کرنے والے ملازمین کو کسی اور باعزت طریقے سے فارغ کیا جائے۔ لہٰذا میں نے اس پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ایک ایک ملازم کو بلایا اور میں نے ہر ایک سے کہا۔ دیکھو دوست آپ نے پورے سیزن کے دوران بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس دفعہ ہم نے آپ کو زیادہ سخت کام دیا اور ہمیں فخر ہے کہ آپ نے اس کام کو بخوبی انجام دیا۔ جہاں بھی آپ کام کریں گے ہمیں یقین ہے کہ آپ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ہماری کمپنی آپ پر اعتماد کرتی ہے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ آپ اس کمپنی کو بھول جائیں۔‘‘ ’’ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن لوگوں کو فارغ کیا گیا۔ انہوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا اور یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کی بے عزتی وہئی ہے انہیں فارغ ہوتے وقت یہ معلوم تھا کہ اگر کمپنی کے پاس مزید کام ہوتا تو وہ ہمیں ضرور رکھتی فارغ نہ کرتی اور جب سیزن آنے پر ہمیں دوبارہ ان کی ضرورت پڑتی تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ ہمارے پاس کام کرنے کے لیے آتے۔‘‘ پینسلونیا کے فریڈ کلارک نے ایک پرانا قصہ سنایا جو اس کی کمپنی میں ہوا تھا۔ ’’ ہمارے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک میٹنگ کے دوران نائب صدر ہمارے پروڈکشن سپروائزر سے بڑے الٹے سیدھے سوالات کر رہا تھا۔ اس کی آواز جارحانہ تھی اور لگتا تھا کہ وہ پروڈکشن سپروئزار کی کارکردگی پر شک کر رہا ہے۔ سپروائزر جو کمپنی کے اتنے بڑے بڑے افسروں کے سامنے شرمندگی سے بچنا چاہتا تھا خاموش تھا۔ اس سے نائب صدر اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکا اور اس نے سپروائزر کو بہت برا بھلا کہا۔‘‘ ’’ اس ذرا سے واقعے کے بعد کئی برسوں کے ورکنگ تعلقات خراب ہو گئے۔ یہ سپروائزر جو بنیادی طور پر ایک اچھا کارکن تھا۔ اس دن کے بعد سے ہماری کمپنی کے لیے بیکار تھا کیونکہ اسے فارغ کر دیا گیا تھا۔ وہ ہماری مد مقابل ایک فرم میں چلا گیا جہاں اسے ایک اچھی ملازمت مل گئی۔‘‘ ایک اور طالب علم اینا مزون نے بتایا کہ اس کی ملازمت کے دوران بھی اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ پیش آیا لیکن وہ اپروچ او رنتائج کے لحاظ سے ذرا مختلف تھا ۔ مس مزون ایک خوراک پیک کرنے والی فرم میں مارکیٹنگ سپیشلسٹ تھی۔ اسے مارکیٹ میں جا کر ایک نئی پروڈکٹ کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کو کہا گیا۔ اس نے ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوئے کہا۔ جب اس پروڈکٹ کی مارکیٹنگ سروے کے نتائج سامنے آئے تو میں تباہ ہو چکی تھی۔ میں نے تمام سروے کی منصوبہ بندی میں ایک بڑی سنگین قسم کی غلطی کر دی تھی اس لیے مجھے یہ سروے دوبارہ کرنا پڑا۔ اس پر مزید برا یہ ہوا کہ میرے پاس اپنے باس کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں تھا اور ادھر اجلاس کا وقت قریب آ رہا تھا۔ جس میں مجھے اپنی سروے رپورٹ پیش کرنی تھی۔ ’’ جب اجلاس میں مجھے رپورٹ پڑھنے کے لیے بلایا گیا تو میں خوف کے مارے کانپ رہی تھی اور میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے انتہائی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں بالکل نہیں چلاؤں گی اگر ان تمام آدمیوں نے میری رپورٹ سننے کے بعد یہ ریمارکس دیئے کہ عورتیں اس قسم کا کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتیں۔ کیونکہ وہ بہت زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ میں نے مختصراً اپنی رپورٹ پڑھی اور اس کے ساتھ ہی بتا دیا کہ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے لہٰذا میں اگلی میٹنگ میں دوبارہ سروے کے بعد نئی رپورٹ پیش کروں گی۔ اس کے بعد میں اس امید پر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی کہ اب یہ لوگ مجھ پر برسیں گے۔‘‘ ’’ مگر انہوں نے مجھ پر برسنے کی بجائے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ میرے باس نے مجھ سے کہا کہ ایسے شخص کے لیے جسے کوئی کام دیا گیا ہو۔ غلطی ہو جانا معمول کی بات ہے اس نے مزید کہا کہ اسے یقین ہے کہ سروے بالکل ٹھیک ہو گا اور کمپنی کیلئے بامقصد ہو گا۔ اس نے سب کے سامنے مجھے یقین دلایا کہ اسے مجھ پر اعتماد ہے اور اسے معلوم ہے کہ میں نے اپنی طرف سے بہترین کوشش کی تھی اور یہ قابلیت کی کمی نہیں بلکہ تجربے کی کمی تھی۔‘‘ میں بڑے فخر سے اس اجلاس سے باہر آئی اور میں نے اس کے بعد مصمم ارادہ کر لیا کہ میں اپنے باس کو دوبارہ کبھی مایوس نہیں کروں گی اور ایسی غلطی بھی دوبارہ نہیں ہو گی۔ اگر ہم سچائی پر ہوں اور دوسرا شخص صریحاً غلطی پر ہو ہم اسے شرمندہ کر کے اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ فرانس کا شہرہ آفاق مصنف اور ہوا بازی کا معمار اینتھونی ڈی سینٹ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا۔ ’’ مجھے ایسی کوئی بات کہنے کا اور کرنے کا حق نہیں ہے۔ جس سے کسی دوسری شخص کو شرمندگی کا احساس ہو اور وہ اپنی نظروں میں گر جائے۔ بات یہ نہیں کہ میں اس کے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔ کسی شخص کی عزت نفس کو مجروح کرنا میں ایک سنگین جرم خیال کرتا ہوں۔‘‘ ایک سچا لیڈر ہمیشہ اس اصول کی پیروی کرے گا۔ اصول نمبر ۵ ’’ دوسروں کو شرمندہ نہ کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب ششم لوگوں کو کامیابی کی راہ پر کیسے ڈالا جائے پیٹ ہارلو میرا ایک بہت ہی پرانا دوست ہے۔ اس نے اپنے ایک کتے اور بلی کے ساتھ مختلف شہروں میں سرکس کے مظاہرے کرتے ہوئے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیا۔ مجھے بڑا شوق تھا کہ میں دیکھوں کہ پیٹ کتے کو کس طرح سدھارتا ہے۔ اس کو کس طرح حیرت انگیز کرتب سکھاتا ہے اور جنہیں دیکھ کر سرکس دیکھنے والے لوگ بہت خوش ہوتے اور داد دیتے ہیں۔ میں ایک دن اس کے گھر گیا ۔ وہ اس وقت اپنے کتے کو کرتب سکھا رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ جب پیٹ کا کتا کرتب سیکھتے وقت ذرا سی بھی بہتری کا مظاہرہ کرتا تو پیٹ اسے پچکارتا اور تھپکی دیتا اور اسے کچھ کھانے کو دیتا۔ یہ کوئی نئی بات یا نیا طریقہ نہیں ہے۔ جانوروں کو تربیت دینے والے صدیوں سے اسی طرح سے ہی اپنے جانوروں کو سدھار رہے ہیں اور انہیں مختلف کرتب سکھا رہے ہیں۔ لیکن مجھے جس بات کا خیال کر کے زیادہ تعجب ہوا وہ یہ تھی کہ ہم لوگوں کی تربیت کرتے وقت یا ان کا ذہن تبدیل کرتے وقت یہی تکنیک استعمال کیوں نہیں کی جاتی؟ ہم لوگوں کو سدھارتے وقت اسے ڈنڈا مارنے کی بجائے کچھ کھانے پینے کو کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں لوگوں کو سکھاتے وقت ان کی کارکردگی میں ذرا سی بہتری پیدا ہونے پر ان کی تعریف کرنی چاہیے۔ اس سے ان میں اپنی کارکردگی میں مزید نکھار پیدا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مشہور نفسیات دان جیس لیئر نے اپنی ایک کتاب I Ain't Much. Baby.... But I'm all i Gotمیں لکھتا ہے ’’ تعریف انسانی حوصلے کے لیے، انسانی عزم کے لیے اور انسان کی ذہنی نشوونما کے لیے سورج کی پہلی کرن ہے۔ ہم اس کے بغیر نہ تو آگے بڑھنے کی ہمت کرتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اس کی ترغیب ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے بہت سے ہر وقت دوسروں پر نکتہ چینی کی بوچھاڑ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہم ان کی تعریف نہ کر کے انہیں سورج کی گرم روشنی سے محروم رکھتے ہیں۔‘‘ میں جب اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ہر وہ لمحہ اپنے ذہن کی سکرین پر بڑا واضح دکھائی دیتا ہے کہ زندگی کے کس کس موڑ پر میری تعریف کی گئی اور جس سے میرا تمام مستقبل بدل گیا۔ کیا آپ اپنی زندگی کے بارے میں اس طرح جانتے ہیں؟ ہماری تاریخ تعریف کی اس طرح کی بیشمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ مثال کے طور رپ کئی برس گزرے نیپلز کی ایک فیکٹری میں ایک دس برس کا بچہ کام کر رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک گلوکار بنے۔ لیکن اس کو پرائمری سکول میں پہلے ہی دن اس کے ٹیچر نے اس خواہش کے اظہارپر برا بھلا کہا۔ اس کے ٹیچر نے کہا کہ ’’ تم گلوکار نہیں بن سکتے تمہاری بھی بھلا کوئی آواز ہے یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے تیز ہوا چلنے سے کھڑکیوں اور دروازوں کے کواڑ بند ہوتے ہیں۔‘‘ لیکن اس بچے کی غریب کسان ماں نے اپنے بیٹے کو بازوؤں میں لے کر خوب پیار کیا۔ جب وہ سکول سے منہ بسورتا ہوا گھر واپس آیا۔ ماں نے اپنے بیٹے کی خوب تعریف کی اور اسے یقین دلایا کہ وہ گلوکار بن سکتا ہے۔ ماں اس سے قبل اپنے بیٹے کو کئی بار گنگناتے ہوئے سن چکی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس کی آواز واقعی اچھی تھی۔ کسان ماں کی اس پیار بھری تعریف نے اس کے دس سالہ بیٹے کی زندگی بدل کر رکھ دی اس کا نام انیریکو کیروسو تھا اور وہ اپنے وقت کا ایک عظیم ترین اوپراسنگر تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں لندن میں ایک نوجوان ادیب بننے کی خواہش رکھتا تھا مگر حالات اس کے خلاف جا رہے تھیو ہ چار برس سے زیادہ سکول کی پڑھائی حاصل نہ کر سکا تھا۔ اس کا باپ قرض ادا نہ کرنے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند تھا اور اس نوجوان کو اکثر فاقے کرنے پڑتے تھے۔ بالآخر اسے ایک ویئر ہاؤس میں بوتلوں پر لیبل لگانے کا کام مل گیا۔ اسے اپنی تحریروں کے بارے میں اس قدر کم اعتماد تھا کہ اس نے رات کے اندھیرے میں دوسروں کی نظروں سے چھپ کر اپنا پہلا مسودہ لکھا۔ مگر ایک اخبارکے ایڈیٹر نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اس کے بعد اس نے کئی مسودے لکھے جو اسی طرح ردی کی ٹوکری کی زینت بنتے رہے۔ آخر کار بڑے صبر آزما لمحات کے بعد وہ دن آگیا۔ جب اس کا لکھا ہوا ایک مسودہ اشاعت کے لیے منظور ہو گیا۔ لیکن اس کو اس کا معاوضہ نہیں ملا۔ مگر ایڈیٹر نے اس کے کام کی بے حد تعریف کی اور اسے ایک رائٹر تسلیم کر لیا گیا۔ وہ اس قدر خوش ہوا کہ بغیر کسی مقصد کے لندن کی سڑکوں پر مٹر گشت کرتا رہا۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو لڑھک کر اس کی گالوں پر گر رہے تھے۔ اپن ایک مسودہ اشاعت کے لیے منظور کئے جانے اور ایڈیٹر کی تعریف سے اس کی ساری زندگی بدل گئی۔ اگر اس کی زندگی میں تعریف کے یہ لمحات نہ آئے ہوتے اور ایک مشہور اخبار میں اس کا مسودہ نہ شائع ہوا ہوتا تو وہ اب تک کسی فیکٹری میں کام کر رہا ہوتا۔ آپ نے اس نوجوان کا نام تو ضرور سنا ہو گا وہ انیسویں صدی کا ایک مشہور ترین ادیب بنا اور اس کانام تھا چارلس ڈکنز جس کی تحریروں کے بڑے بڑے قابل ادیب بھی معترف تھے۔ لندن کے ایک اور لڑکے نے ایک سٹور پر ایک کلرک کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہ صبح پانچ بجے اٹھتا۔ سٹور کی صفائی کرتا اور چودہ گھنٹے تک وہاں مزدوروں کی طرح کام کرتا۔ یہ محض غلامی تھی اور وہ اس طرح کام کرنے سے نفرت کرتا تھا۔ دو برس تک مسلسل چودہ گھنٹے کام کرنے سے وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔ ایک صبح وہ معمول کے مطابق نیند سے بیدار ہوا اور ناشتہ کیے بغیر پندرہ میل دور ایک قصبے میں اپنی ماں سے ملنے چلا گیا جو وہاں ایک ہاؤکیپر کی حیثیت سے کام کر رہی تی۔ وہ سخت جذباتی وہ رہا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ ہر پہلو پر گفتگو کی ۔ وہ رویا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ مزید اس سٹور میں کام کرتا رہا تو ایک دن خود کشی کر لے گا۔ اس کے بعد اس نے اپنے سکول کے زمانے کے ایک ٹیچر کو بڑا درد ناک قسم کا خط لکھا۔ ٹیچر نے اس کی بڑی تعریف کی اور اسے لکھا کہ وہ ایک بہت ہی قابل لڑکا ہے اور وہ اس سے بھی اچھے کام کر سکتا ہے۔ اس نے اسے اپنے سکول ہی میں پڑھانے کی پیش کش کی۔ اس تعریف نے اس لڑکے کی تقدیر ہی بدل دی اور اس لڑکے نے انگریزی ادب کی تاریخ میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے اس لڑکے نے بعد ازاں بہت سی لازوال کتابیں لکھیں اور اپنے قلم سے لاکھوں ڈالر کمائے۔ آپ نے اس لڑکے کا نام تو ضرور سنا ہو گا اس کا نام ایچ جی ویل تھا۔ نکتہ چینی کی جگہ تعریف کا استعمال بی ایف سکز کے لیکچر کا بنیادی خیال ہوتا تھا۔ اس عظیم نفسیات دان نے جانوروں اور انسانوں پر مختلف تجربات کر کے ثابت کیا کہ جب نکتہ چینی کو کم از کم کر کے تعریف پر زور دیا جائے تو اچھے کام کرنے والوں کی کارکردگی مزید بہتر ہو گی اور خراب کام کرنے والے خود ہی اچھے کام کرنے لگیں گے۔ جنوبی کیرولینا کے شہر راکی ماؤنٹ کے جان رنگل پیگ نے اپنے بچوں کے ساتھ ادبی تکنیک کو استعمال کیا۔ا یسا اکثر ہوتا ہے کہ ہمارے گھروں میں والدین کا بچوں کے ساتھ زیادہ تر واسطہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے سنورنے کی بجائے بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور ا سکے ساتھ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا۔ مسٹر ونگل پیگ نے ہمارے ایک کورس میں شرکت کرنے کے بعد جو اصول سیکھے۔ اس نے انہیں اپنے گھر میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بتایا۔ ’’ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بچوں کو ان کی غلطیوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے ان کی تعریف کیا کریں گے۔ یہ اتنا آساں نہیں تھا جبکہ اکثر اوقات وہ غلطیاں زیادہ رکتے تھے اور ان غلطیوں میں ان کی تعریف کا پہلو ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا تھا لیکن ہم نے بڑی سوچ بچار کے بعد اس پہلو کو بھی ڈھونڈ لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ہی دنوں میں انہوں نے بہت سی غلطیاں کرنا بند کر دیں۔ اب وہ اس انتظار میں رہتے کہ وہ کوئی اچھا کام کریں گے تو ہماری تعریف کی جائے گی اور اس کے لیے انہوں نے اپنی بساط سے بھی بڑھ کر کام کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ ہم میں سے کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی بچے ہیں جو چند ہفتے قبل بہت غلطیاں کیا کرتے تھے۔‘‘ ’’ اب ہمارے لیے یہ ضروری نہیں رہا تھا۔ کہ ہم ان کی تعریف کرتے رہیں۔ وہ اپنا راستہ متعین کر چکے تھے کیونکہ اب ان سے غلطی کا احتمال بہت کم تھا یہ سب کچھ ان کی تعریف کرنے کی وجہ سے تھا۔‘‘ یہ تکنیک دفتری کام کے دوران بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ریاست کیلیفورنیا کے شہر وو ڈلینڈ کے کیتھ روپر نے اپنی کمپنی میں ایک خاص قسم کی صورت حال پیدا ہونے پر اس تکنیک کو استعمال کیا۔ اس کے پاس کچھ مال ایسا آیا جو بہت اعلیٰ معیار کا تھا۔ جس شخص نے یہ مال تیار کیا تھا وہ ایک نیا ملازم تھا۔ جسے اپنی اس نئی ملازمت پر سیٹ ہونے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اس کا سپروائزر اس سے ناراض رہتا تھا کیونکہ وہ اسے ایک منفی رویہ خیال کرتا تھا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نئے ملازم کو کس طریقے سے ملازمت سے فارغ کر دے کیونکہ اس کا کام بہت بہتر تھا اورسپروائزر کو کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا کہ اس کو کس طرح فارغ کرے۔ جب کیتھ روپر کو اس صورت حال کے بارے میں علم ہوا تو وہ خود فیکٹری میں گیا اور اس نے بذات خود اس نوجوان سے گفتگو کی۔ اس نے بتایا کہ اس کا کام جو ابھی حال ہی میں اس نے مکمل کیا ہے وہ بہت اعلیٰ معیار کا ہے اور وہ اس کام سے بہت خوش ہے۔ اس نے نوجوان کو بتایا کہ اب تک اس کی فیکٹری میں تیار ہونے والا یہ سب سے معیاری مال ہے۔ اس نے بڑے واضح الفاظ میں نوجوان کو بتایا کہ کمپنی کو اس کی خدما ت کی بڑی ضرورت ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اس سے نوجوان ملازم کے رویے میں کچھ تبدیلی آئی؟ چند ہی دنوں میں اس کے رویے میں حیرت انگیز تبدیلی آئی اس نے بڑے فخر سے اپنے ساتھی کارکنوں کو باس کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کے بارے میں بتایا اور اس دن کے بعد سے وہ کمپنی کا ایک وفادار کارکن تھا اور اس کے سپروائزر کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ کیتھ روپر نے اس ملازم کی محض یہ کہہ کر چابلوسی نہیں کی کہ ’’ تمہارا کام بہت اچھا ہے‘‘ اس نے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کا کام کیوں ہے اور اس طرح ملازم جسے اپنے کام پر بڑا اعتماد تھا۔ اسے بھی اپنی تعریف بڑی بامقصد لگی ہر کوئی اپنی تعریف کو پسند کرتا ہے لیکن یہ خلوص سے لبریز ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں کہ ہم تعریف کروانے کے لیے تقریباً ہر کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ اس کی چاپلوسی کی جائے اور اگر کوئی شخص چاپلوسی کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا شخص اگر ذرا سا بھی ذی شعور ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ سب مکھن بازی کر رہا ہے اور یہ شخص صرف اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ مجھے یہ بات دہرانے دیں اس کتاب میں جو تعریف کا اصول بتایا گیا ہے وہ صرف اس صورت میں فائدہ مند ہو گا، جب تعریف پورے خلوص دل سے کی جائے گی اور دوسرے شخص کو بھی یہ احساس ہو گا کہ میری تعریف کی جا رہی ہے چاپلوسی نہیں۔ میں یہاں کسی طریقے کی وکالت نہیں کر رہا ہوں بلکہ زندگی گزارنے کے ایک نئے طریقے کا ذکر کر رہا ہوں۔ آیئے لوگوں کو تبدیل کریں۔ اگر آپ لوگوں کی تعریف کر کے انہیں ان کے اندر چھپی ہوئی خدا داد صلاحیتوں کے بارے میں بتا دیں تو ہم ان کی زندگی بدل کر رکھ سکتے ہیں او رہم واقعتا ان کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ مبالغہ آرائی؟ یہاں آپ ولیم جیمز کے یہ عاقلانہ الفاظ ہمیشہ یاد رکھیں جو امریکہ میں پیدا ہونے والا سب سے مشہور نفسیات دان اور فلسفہ دان تھا۔ ’’ اگر ہم اس بات سے اپنے آپ کامقابلہ کریں کہ ہمیں کیا ہونا چاہیے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہیں اپنی بہت سی خوابیدہ صلاحیتوں کا علم نہیں ہے۔ ہم اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ استعمال کر رہے ہیں۔ اسے واضح طریقے سے بیان کرنے سے ہمیں معلوم ہو گا کہ ایک انسان اپنی حدود سے بہت دور زندگی بسر کر رہا ہے اس کے پاس بہت سے کام کرنے کے اختیارات اورصلاحیتیں ہوتی ہیں مگر وہ انہیں استعمال کرنے میں ناکام رہتا ہے۔‘‘ ہاں۔ آپ لوگ بھی جو یہ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ان خوابیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو آپ کے اندر چھپی ہوئی ہیں۔ یاد رکھیں کہ کسی بھی شخص کی صلاحیتیں حوصلہ افزائی سے بیدار ہوتی ہیں۔ اور نکھرتی ہیں اور لوگوں کے ایک موثر رہنما بننے کے لیے اس اصول پر عمل کریں۔ اصول نمبر ۶ ’’ کسی شخص ے کام میں ذرا سی بھی بہتری محسوس کرتے ہی بڑے خلوص دل سے خوبصورت الفاظ میںاس کی تعریف کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب ہفتم کتے کو بھی اچھے نام سے پکاریں آپ کیا کرتے ہیں جب آپ کا ایک بہت اچھا کام کرنے والا شخص بناوٹی کام کرنے لگتا ہے؟ آپ اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ مگر اس سے کام نہیں چلتا اور ا س سے آپ کا ملازم ناراض ہو سکتا ہے۔ ریاست انڈیا نہ کے شہر لوول کے ایک بڑے ٹریکٹر ڈیلر کے سروس منیجر ہنری ہینک کے پاس ایک مکینک تھا جس کا کام اب تسلی بخش نہیں رہا تھا۔ اس پر برسنے اور اسے دھمکی دینے کی بجائے ہینک نے اسے ایک دن اپنے دفتر میں بلایا اور اس سے بذات خود بات کی۔ اس نے کہا کہ ’’ بل آپ بڑے عمدہ مکینک ہیں اور گذشتہ کئی برسوں سے اس ورکشاپ میں کام کر رہے ہیں۔ آپ نے ہمارے کئی گاہکوں کی بے شمار گاڑیوں ان کی تسلی کے مطابق ٹھیک کی ہیں لیکن اب کچھ دنوں سے ایسے لگ رہا ہے کہ اب کام میں آپ کا دل نہیں لگتا اور آپ اپنا کام پہلے کی نسبت زیادہ دیر سے کرتے ہیں اور اب آپ کا کام بھی پہلے جیسا تسلی بخش نہیں ہوتا اور چونکہ آپ گذشتہ کئی برسوں سے ہمارے ساتھ ہیں۔ اس لیے آپ یہ جاننا ضرور پسند کریں گے کہ میں اس صورت حال سے خوش نہیں ہوں۔ میں نے آپ کو یہاں اس لیے بلایا ہے کہ ہم دونوں بیٹھ کر اس صورت حال کا تدارک کریں۔‘‘ بل نے جواب دیا کہ اس نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ اس کے کام کا معیار گر رہا ہے۔ اس نے باس کو یقین دلایا کہ اس کو ان دنوں جو کام مل رہا ہے وہ اس میں ماہر نہیں ہے۔ بہرحال وہ آئندہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا۔ کیا اس نے ایسا کیا؟ آپ یقین کریں کہ اس نے ایسا کر دکھایا۔ وہ ایک بار پھر ایک ماہر اور تسلی بخش کام کرنے والا مکینک بن گیا۔ بالڈون لوگو مویٹو ورکس کے صدر سیموئیل وکلین نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ ایک اوسط درجے کا شخص بھی بڑی خوشی سے کام کرنے پر رضا مند ہو جاتا ہے اگر آپ اس کی عزت کریں اور اسے بتائیں کہ آپ کو اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔‘‘ مختصراً یہ کہ اگر آپ کسی شخص سے کسی کام میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں تو اسے یہ یقین دلائیں کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے شیکسپیئر نے کہا تھا۔ ’’ اگر آپ کے اندر کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو آپ فرض کر لیں کہ آپ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔‘‘ جور گیسٹی لیبلا ٹک اپنی مشہور کتاب Souvenirs, My Life with Macter Linckمیں بیلجیئم کی ایک سنٹریلا کے بارے میں بیان کرتی ہے۔ ’’ ایک خادمہ ایک قریبی ہوٹل سے میرے لیے کھانا لے کر آتی تھی۔ اسے میری ڈش واشر کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ کیونکہ اس نے ہوٹل میں اپنی ملازمت کا آغاز وہاں برتن دھونے سے کیا تھا۔ لوگ اکثر اسے اپنے مذاق کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ میرے لیے کھانا لے کر آئی میں نے اسے کہا ’’ میری کیا تم جانتی ہو کہ تمہارے اندر کتنی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔‘‘ جذبات سے مغلوب میری نے چند سیکنڈ انتظار کیا اور پھر کھانا میز پر رکھا ایک آہ بھری اور بڑی سادگی سے جواب دیا۔ میڈم! میں نے اس بات کا کبھی یقین نہیں کیا تھا ۔ اس نے مجھ پر شک نہیں کیا اور کوئی سوال نہیں پوچھا۔ وہ باورچی خانے میں واپس گئی اور جو کچھ میں نے کہا تھا اسے دہرانے لگی اور اس دن کے بعد اسے اپنے اوپر اس قدر اعتماد ہو گیا کہ کسی نے دوبارہ اس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہیں کی اور اب اسے قابل توجہ سمجھا جانے لگا۔‘‘ ’’ لیکن خود میری میں بہت زیادہ خوشگوار تبدیلی آئی اور اس نے اپنے جسم اور لباس کا اس طرح خیال رکھنا شروع کر دیا کہ اس کی جوانی نکھرنے لگی اور اب وہ اکثر نگاہوں کا مرکز بن گئی۔‘‘ ’’ صرف دو ماہ بعد میری نے اعلان کیا کہ وہ شادی کر رہی ہے اور اس کا شوہر ہوٹل کے ایک بڑے افسر کا بھانجا ہے ’’ اب میں ایک خاتون بن جاؤں گی۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اس کی صلاحیتوں کو جگایا تھا۔‘‘ فلوریڈا کے شہر ڈے ٹوما بیچ کے ایک سیلز آفیسر کو جو ایک فوڈ کمپنی کے لیے کام کرتا تھا۔ کمپنی کی طرف سے نئی متعارف کی جانے والی اشیاء کے بارے میں بڑا انتظار تھا۔ اس سیلز آفیسر کا نام بل پار کر تھا جب وہ اشیاء تیار ہو گئیں اور وہ انہیں فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ میں لے کر گیا تو اسے بہت مایوسی ہوئی۔ جب مارکیٹ منیجر نے ان اشیاء کو خریدنے سے انکار کر دیا۔ بل سادا دن اس پر افسوس کا اظہار کرتا رہا اور اس نے فیصلہ کیا کہ شام کو گھر واپس جانے سے قبل وہ ایک بار پھر منیجر کے پاس جائے گا اور ان اشیاء کو فروخت کرنے کی دوبارہ کوشش کرے گا۔ وہ منیجر کے پاس گیا اور اسے کہا۔‘‘ ’’ جیک آج صبح جب میں تم سے مل کر گیا تو مجھے بعد میں خیال آیا کہ میں نے تمہیں ان نئی اشیاء کے بارے میں سب باتیں نہیں بتائیں۔ اور میں چاہوں گا کہ تم کچھ وقت دو تاکہ میں ساری تفصیل سے تمہیں آگاہ کر سکوں۔ تم نے پہلے بھی میری باتیں بڑے غور سے سنی ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر تمہیں کوئی بات تمہاری سمجھ میں آ جائے تو تم اپنا ذہن تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرو گے۔‘‘ کیا جیکب نے اسے دوبارہ وقت دینے سے انکار کر دیا ؟ نہیں اپنی تعریف کے بعد اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کے ایک دندان ساز ڈاکٹر مارٹن کو اس وقت بڑا صدمہ ہوا۔ جب اس کے ایک مریض نے بتایا کہ اپنا منہ دھونے کے لیے اس نے جو میٹل کپ استعمال کیا۔ وہ صاف ستھرا نہیں تھا۔ جب مریض چلا گیا اور ڈاکٹر مارٹن اپنے پرائیویٹ دفتر میں آیا اور اس نے اپنے دفتر کی صفائی کرنے والی خادمہ برجیٹ کے نام ایک پیغام لکھا۔ مائی ڈیئر برجیٹ ’’ میری تم سے بہت کم ملاقات ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم جس قدر عمدگی کے ساتھ میرے کلینک کی صفائی کا کام کرتی ہو۔ اس پر تمہارا شکریہ ادا کروں۔ مجھے خیال آیا ہے کہ یہاں میں ذکر کروں کہ ایک ہفتے میں دو بار صرف دو گھنٹے اتنے بڑے کلینک کی صفائی کرنے لیے ناکافی ہیں۔ مہربانی کر کے اگر تم محسوس کرو کہ تمہارے پاس وقت ہے تو کسی کسی دن آدھ گھنٹہ زیادہ کام کر دیا کرنا۔ جس میں میٹل کپ، پانی پینے کے گلاس اور جگ وغیرہ شامل ہیں۔ میں تمہیں اس فالتو کام کے بھی پیسے دوں گا۔‘‘ خیر اندیش۔ ڈاکٹر مارٹن ڈاکٹر مارٹن نے بتایا اگلی صبح جب وہ اپنے دفتر میں آیا تو میں نے دیکھا کہ میری منیر چمک رہی ہے جیسے اس پر پالش کی گئی ہو۔ جب میں اپنے کلینک میں گیا تو دیکھا کہ وہاں میٹل کپ اس قدر چمکا ہوا ہے کہ میں نے پہلے کبھی بھی اسے اس قدر صاف اور چمکدار نہیں دیکھا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب کام اس نے فالتو وقت میں زیادہ پیسوں کے لالچ میں کیا ہو گا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ اس نے اسی وقت اور اسی تنخواہ میں یہ سب کام کیا۔ دراصل میرے خط میں اس کی جو تعریف کی گئی تھی وہ اس کے لیے سب سے بڑا اثاثہ تھی۔ ایک پرانی کہاوت ہے ’’ ایک کتے کو برا نام دینا بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے آپ نے اسے پھانسی دے دی ہو۔‘‘ اسے ایک اچھا نام دیں اور پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔ نیویارک کے علاقے بروکلین کے سکول ٹیچر روتھ ہوپکنز جب پہلے روز سکول پہنچی تو اس نے اپنا ڈیوٹی چارٹ دیکھا تو پہلے ہی روز اسے ایک ایسی کلاس دی گئی جس میں سکول کا سب سے شرارتی بچہ ٹومی بھی تھا۔ اس لڑکے سے سکول کی ہر ٹیچر بدظن تھی۔ وہ صرف شرارتی نہیں تھا بلکہ کلاس کے نظم و ضبط کی بھی سنگین خلاف ورزی کرتا تھا۔ وہ لڑکوں سے لڑتا تھا لڑکیوں کو چھیڑتا تھا۔ اس میں صرف ایک ہی اچھائی تھی کہ وہ اپنا سبق بہت جلد یاد کر لیتا تھا اور اسے جو گھر میں کام کرنے کے لیے دیا جاتا تھا وہ باقاعدگی سے کیا کرتا تھا اور امتحانات میں ہمیشہ بڑے اچھے نمبر حاصل کرتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اسے سکول کا کام نہ کرنے پر کبھی سزا ملی ہو۔ مسز روتھ ہوپکنز نے ٹومی کے مسئلے سے نبٹنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس نے پہلے دن کلاس میں بچوں کو خوش آمدید کہا تو نے ہر بچے کے بارے میں تعریفی جملے کہے۔ ’’ روز تم نے بڑا اچھا لباس پہنا ہوا ہے۔‘‘ ایلیا تم نے بڑے خوبصورت بال بنا رکھے ہیں۔ جب وہ ٹومی کے پاس پہنچی تو اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا ’’ ٹومی میں جانتی ہوں کہ تم کلاس کے لیڈر ہو میں تم سے یہ توقع رکھوں گی کہ تم اس کلاس کو سکول کی سب سے بہترین کلاس بنانے میں میری مدد کرو گے۔‘‘ اس نے کلاس میں اپنے پہلے چند روز ہر معمولی بات پر ٹومی کی تعریف کی اور اس تعریف اور رویے نے ایک نو برس کے بچے کو بالکل تعاون کرنے پر آمادہ کر دیا اور وہ نظم و ضبط کا پابند ایک لائق طالب علم بن گیا۔ اگر آپ لیڈر شپ کے اس مشکل کردار میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں اور دوسروں سے پیارا اور اچھا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس اصول کا استعمال کریں۔ اصول نمبر۷ ’’ دوسروں کو ایسی شہرت دیں کہ وہ اس شہرت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔‘‘ ٭٭٭ باب ہشتم غلطی کو اتنا آسان بنائیں کہ اسے درست کر لیا جائے میرے ایک چالیس برس کے کنوارے دوست کو اس کی منگیتر نے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اس عمر میں ڈانس کرنا سیکھے۔ اس نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا۔ ’’ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مجھے ڈانس سیکھنے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ بیس برس قبل جب اس نے پہلی بار ڈانس سیکھنا شروع کیا تو اس کی ٹیچر نے اسے بتایا کہ وہ ڈانس نہیں کر سکتا۔ اسے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوبارہ اسے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر اس کے لیے مجھے سخت محنت کرنی پڑی اور پھر میں نے اپنی ٹیچر بدل لی۔ ’’ دوسری ٹیچر نے ہو سکتا ہے میرے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو مگر وہ مجھے پسند تھی اس نے مجھے صاف الفاظ میں کہا کہ میرے ڈانس کرنے کا انداز بہت پرانا ہے۔ مگر اس نے مجھے یقین دلایا کہ مجھے ڈانس کرنے کے نئے طریقے سیکھنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہو گی۔ پہلی ٹیچر نے میری غلطیوں کی نشاندہی کر کے میری حوصلہ شکنی کی تھی اور یہ ٹیچر میرے ڈانس کی تعریف کی کر رہی تھی۔ جس میں میرے پاؤں صحیح تھرکتے تھے۔ اس نے مجھے کہا ’’ تم میں ایک پیدائشی ڈانسر والی صفات موجود ہیں‘‘ جبکہ میں جانتا تھا کہ میں ایک نہایت ہی معمولی قسم کا ڈانسر ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میرے دل کی گہرائیوں میں یہ خواہش ابھرتی تھی کہ شاید میری ٹیچر ٹھیک ہی کہتی ہو اور صاف بات تو یہ ہے کہ میں اسے صرف اس بات کی فیس دیتا تھا کہ میری تعریف زیادہ کرتی تھی۔‘‘ ’’ مجھے کسی بھی قیمت پر یہ معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ میں ایک اچھا ڈانسر بن سکتا ہوں۔ اگر میری ٹیچر مجھے نہ بتاتی۔ اس نے میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے امید دلائی اورمیرے دل میں یہ خواہش ابھری کہ میں بہتر طریقے سے ڈانس کروں۔‘‘ اپنے بچے، اپنی بیوی یا اپنے ملازم کو کسی بات پر سخت بے وقوف کہنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس بچے میں اپنی اصلاح کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس کے برعکس طریقہ استعمال کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کو یہ احساس دلانے کی کوشش کریں کہ یہ بہت معمولی غلطی ہے۔ اس کا ازالہ فوراً ہو سکتا ہے تو ان کے اندر اپنی اصلاح کرنے کی خواہش پیدا ہو گی اور اس طرح وہ دوبارہ ایسی غلطی کرنے سے باز رہیں۔ انسانی تعلقات جوڑنے کا ایک ماہر لوول تھامس نے اس طریقے کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا۔مثال کے طور پر ایک دفعہ میں نے ہفتے کی رات مسٹر اینڈ مسز تھامس کے ساتھ گذاری کھانا کھانے کے بعد انہوں نے مجھے برج کھیلنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا کہ میں برج کھیلنا نہیں جانتا۔ یہ کھیل میرے لیے ہمیشہ بہت مشکل رہا ہے۔ ’’ کیوں ڈیل۔ اس میں کوئی کاریگری نہیں ہے۔‘‘ یہ تو تمہاری یادداشت اور قوت فیصلہ پر منحصر ہے کہ تم کس طرح کھیلتے ہو۔ تمہیں یاد ہو گا کہ تم نے یادداشت کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا۔ برج تمہارے لیے کوئی کونین کی گولی نہیں ہے یہ تو تمہاری ساتھی ہے۔ تھامس نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی اور پھر کیا ہوا۔ میں برج کھیل رہا تھا ایسا اس لیے ہوا کہ تھامس نے میرے اندر کا قدرتی وجدان جگا دیا تھا جس سے یہ کھیل مجھے بہت آسان لگ رہا تھا۔ برج کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے ایلی کلبرٹسن کی یاد آتی ہے۔ جس کی برج کے کھیل پر لکھی ہوئی کتابیں دنیا کی بہت سی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں اور اس نے ان کتابوں کی فروخت سے لاکھوں ڈالر کمائے ہیں اس نے مجھے بتایا کہ وہ برج کے کھیل کے علاوہ کتابیں لکھنے کا مشغلہ نہ اپناتا۔ اگر ایک نوجوان عورت اسے یہ نہ بتاتی کہ اس کے ایک اچھا مصنف بننے کی قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ جب وہ ۱۹۲۲ء میں امریکہ آیا تو اس نے فلاسفی اور سوشیالوجی میں ٹیچر کی ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوا۔ پھر اس نے کوئلہ بیچنا شروع کر دیا مگر وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہوا۔ اس کے بعد اس نے کافی بیچتی شروع کردی۔ مگر ا سمیں بھی ناکام رہا۔ اس نے ایک زمانے میں برج کھیلی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت اس نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن اسے برج کے کھیل کے بارے میں لیکچر دینے پڑے گے۔ وہ کوئی اتنی اچھی برج نہیں کھیلتا تھا اور کھیل کے دوران اپنے ساتھیوں سے اکثر جھگڑ پڑتا تھا اس لئے کوئی بھی اس کے ساتھ برج کھیلنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ پھر ایک دن اچانک اس کی ملاقات ایک خوبصورت برج ٹیچر سے ہوئی جس سے وہ محبت کرنے لگا۔ اس ٹیچر کا نام جوزفین تھا۔ ایک دن ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ جوزفین نے نوٹ کیا کہ وہ بہت احتیاط کے ساتھ اپنے تاش کے پتوں کا تجزیہ کرتا تھا۔ اس نے کلبرٹس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ برج کھیلا کرے کیونکہ وہ بہت اچھی برج کھیلتا ہے۔ کلبرٹس نے مجھے بتایا کہ صرف یہی حوصلہ افزائی تھی۔ جس نے مجھے برج کے کھیل کو ایک پیشے کے طور پر اپنانے پر آمادہ کیا۔ میری لینڈ میں ہمارے کورس کی ایک ٹیچر مسز جونز نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کر کے کس طرح اس کی اصلاح کی۔ ۱۹۷۰ء میں میرا پندرہ سالہ بیٹا میری لینڈ میں میرے پاس رہنے کے لیے آیا۔ اس نے ایک بڑی فضول سی زندگی گزاری تھی۔ تین برس کی عمر میں اس کا سر ایک حادثے میں بری طرح پھٹ گیا تھا۔ جس سے اس کی پیشانی پر ایک بد نما داغ پڑ گیا تھا۔ جب وہ پانچ برس کا تھا تو میں نے اس کے باپ سے طلاق لے لی تھی اور وہ اپنے باپ کے پاس رہنے کے لیے ڈیلاس چلا گیا تھا۔ ڈیلاس میں اس نے اپنا بہت سا وقت ایک ایسے سکول میں تعلیم حاصل کرتے گذارہ تھا۔ جہاں بہت سست طریقے سے پڑھائی ہوتی تھی۔ شاید اس کی پیشانی کے داغ کی وجہ اسے اس کا دماغ زخمی ہو چکا تھا اور اب وہ معمول کے مطابق کام نہیں کرتا اس لئے وہ اپنی عمر کے لحاظ سے دو برس پیچھے تھا۔ ساتویں کلاس میں پڑھ رہا تھا مگر اس کے باوجود اسے پہاڑے نہیں آتے تھے۔ وہ بامشکل پڑھ سکتا تھا اور جمع تفریق کے معمولی سوال بھی وہ اپنی انگلیوں پر گن کر نہیں کر سکتا تھا۔ ’’ تاہم اس میں ایک مثبت بات تھی وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بارے میں جاننا بے حد پسند کرتا تھا۔ وہ ایک ٹی وی انجینئر بننا چاہتا تھا۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے بتایا کہ اس کے لیے اسے میتھ پڑھنا پڑے گا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون میں عبور حاصل کرنے کے لیے میں اس کی بھرپور مدد کروں گی۔ ایک مہینے کی محنت کے بعد جب میں نے اس کے کام میں کچھ بہتری محسوس کی تو میں نے اس کے باپ کو فون کر کے بلایا۔ ہم دونوں نے اپنے بیٹے کو خوب پیار کیا۔ اس کا باپ اس کے لیے بڑے تحفے لے کر آیا تھا۔ وہ ان تحفوں کو پا کر بہت خوش تھا اس نے اس خوشی کے موڈ میں ہمیں بتایا کہ اس کے لیے اب جمع تفریق کے سوال کرنا بہت دلچسپ اور آسان ہو گئے۔‘‘ ’’ اب یہ قدرتی بات تھی کہ سکول میں اس کی کارکردگی بہتر ہونے لگی۔ ایک دن الجبرے کا ٹیسٹ تھا۔ ٹیسٹ کے بعد جب وہس کول سے گھر واپس آیا تو بہت خوش تھا۔ وہ آتے ہی میرے ساتھ لپٹ گیا اور مجھے بتانے لگا امی میں بہت خوش ہوں کہ میں نے الجبرے میں بی گریڈ لیا ہے۔‘‘ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب اس کے اندر دوسری تبدیلیاں بھی تیزی سے آنے لگیں۔ اس کی پڑھنے کی صلاحیت بہتر ہوئی اور وہ ڈرائنگ کرتے وقت بھی اپنا قدرتی سٹائل استعمال کرنے لگا۔ اس نے مختلف قسم کے ماڈل بنانے شروع کر دیئے اور سکول کی ایک نمائش میں اس کے بنائے ہوئے ماڈل کو اول انعام ملا اور اس کے بعد وہ شہر میں ایک نمائش کے دوران تیسرا انعام لینے میں کامیاب ہوا۔ ’’ ہاں یہ وہی لڑکا تھا جو اپنی عمر سے دو برس پیچھے تھا۔ جس کے بارے میں اس کے ٹیچروںکا خیال تھا کہ اس کا دماغ زخمی ہے اور وہ معمول کے مطابق کام نہیں کر سکتا۔ اچانک اس نے یہ جان لیا کہ وہ سیکھ سکتا ہے اور کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب اسے معلوم ہو گیا کہ پڑھنا آسان بات ہے تو اس کی ساری زندگی بدل گئی۔‘‘ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کریں تو یہ اصول استعمال کریں۔ اصول نمبر ۸ ’’ دوسروں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ معمولی غلطی ہے اس کا ازالہ ممکن ہے۔‘‘ ٭٭٭ باب نہم لوگوں سے خوشی کے ساتھ وہ کام کرائیں جو آپ چاہتے ہیں ۱۹۱۵ء میں امریکہ پر دہشت کی سی کیفیت طاری تھی ۔ ایک برس سے یورپ کی اقوام ایک دوسرے کا خون بہا رہی تھیں۔ اس سے پہلے تاریخ میں اتنا انسانی خون نہیں بہایا گیا تھا۔ کیا اس امن قائم ہو سکتا تھا؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر صدر ووڈ روولسن امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے متحارب یورپی اقوام کے پاس اپنے خصوصی ایلچی بھیجے۔ جنہوں نے ان سے جنگ ختم کرنے کی اپیل کی۔ امریکی وزیر خارجہ ولیم جیننگ بران کی خواہش تھی کہ وہ اس مرحلے پر تمام یورپی ممالک میں جائے اور تاریخ میں اپنا نام امر کر جائے۔ مگر ولسن نے اپنے ایک بہترین دوست اور مشیر کرنل ایڈورڈ ایم ہاؤس کو اپنا خصوصی ایلچی بنا کر بھیجا اور کرنل کے لیے یہ بہت ہی پر خطر کام تھا اور یہ خبر ان کو اس طرح دی گئی کہ وہ ناراض بھی نہیں ہوا کرنل ایڈورڈ نے بتایا۔ جب بران کو معلوم ہوا کہ مجھے صدر ولسن یورپی اقوام کے پاس اپنا خصوصی ایلچی بنا کر بھیج رہے ہیں۔ تو اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے خود یہ کام کرے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ صدر ولسن کا خیال ہے کہ سرکاری طور پر یہ کرنا دانشمندی نہیں ہو گی اور وزیر خارجہ کا اس مقصد کے لیے جانا بہت سے لوگوں کو چونکا دے گا کہ وہ یہاں کس مقصد کے لیے آیا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ کرنل ایڈورڈ نے کس قدر آسانی اور خوبصورتی سے بران کی ناراضگی دور کر دی اور اسے یہ بتا دیا کہ اس کا اپنا منصب اس کام سے بلند تر ہے اور اس سے بران کی تشفی ہو گئی۔ کرنل ایڈورڈ جیسا ماہر اور تجربہ کار شخص انسانی تعلقات کے بارے میں اس اہم اصول کی پیروی کر رہا تھا کہ ’’ ہمیشہ دوسروں کو اپنی خواہش کے مطابق کام کرا کر انہیں خوش رکھیں۔‘‘ صدر ووڈ ولسن نے اکثر یہ پالیسی اپنائی۔ حتیٰ کہ جب اس نے اپنی کابینہ کا رکن بننے کی ولیم سیز مکیڈو کو دعوت دی۔ یہ ایک بلند ترین اعزاز تھا جس کے لیے ولیم گیز کو دعوت دی جا رہی تھی مگر اس کے باوجود صدر ولسن نے ولیم کو کابیانہ کا رکن بننے کی اس طرح دعوت دی کہ جس سے اسے یہ احساس ہوا کہ وزارت کو ولیم کی ضرورت ہے ولیم کو وزارت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے اور یہ ولسن کا ہی کام تھا۔ ولیم گبز کے اپنے الفاظ میں سارا واقعہ پڑھیں۔ ’’ صدر ولسن نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی کابینہ بنا رہا ہے اور اسے بڑی خوشی ہو گی اگر آپ وزیر خزانہ کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کر لیں۔ اس نے مجھے یہ پیش کش اس طرح کی کہ جیسے میں وزارت قبول کر کے صدر ولسن پر کوئی احسان کروں گا۔‘‘ بدقسمتی سے صدر ولسن نے ہمیشہ اس اصول کو نہیں اپنایا۔ اگر اس نے یہ اصول اپنایا ہوتا تو اس کے بعد کی تاریخ آج بالکل مختلف ہوتی۔ مثال کے طور پر صدر ولسن نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت اختیار کر کے سینٹ اورریپبلکن صدر ولسن نے لیگ آف نیشنز میں شمولیت اختیار کر کے سینٹ اور ری پبلکن پارٹی کو ناراض کیا۔ صدر ولسن نے امن کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے وقت اپنی ہی پارٹی کے نامور ترین رہنماؤں ایلیوروٹ، چارلس ایونز ہییوز اور ہنری کیبڈ لاج کو اپنے ہمراہ لے جانے سے انکار کر دیا۔ ان کی بجائے وہ اپنی پارٹی کے غیر اہم ارکان کو لے کر گیا اور اس طرح انسانی تعلقات کی بری طرح پامالی سے اس نے اپنا مستقبل خراب کر لیا۔ اس کی صحت خراب ہو گئی۔ زندگی کم ہو گئی۔ امریکہ کو لیگ آف نیشنز سے الگ ہونا پڑا اور دنیا کی تاریخ کو ایک بار پھر خطرہ پیدا ہو گیا۔ صرف سیاستدان اور سفارت کار ہی لوگوں کو خوش کرنے کا یہ طریقہ نہیں اپناتے۔ انڈیانا کے شہر فورٹ وائن کے ڈیل فیرئیر نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے بچوں کی ایک کام کرنے میں کس طرح حوصلہ افزائی کی۔ ’’ جیف کا کام یہ تھا کہ وہ ناشپاتیوں کے ایک درخت کے نیچے سے ناشپاتیوں کو اکٹھا کرے۔ لیکن اس کارکھوالا اسے ناشپاتیاں اٹھانے سے نہ روک سکے۔ جیف کو یہ کام پسند نہیں تھا اور اکثر وہ اسے کر نہیں سکتا تھا کیونکہ جب بھی وہ یہ کرتا تو وہ رکھوالا اس سے پہلے زیادہ تر ناشپاتیوں کو خود اٹھا لیتا۔ ایک دن میں نے جیف سے کہا ’’ میں تمہیں ناشپاتیوں سے بھری ہوئی ہر ٹوکری کے بدلے میں ایک ڈالر دوں گا۔ لیکنا گر اس کے بعد مجھے باغ میں کوئی ناشپاتی پڑی نظر آئی تو میں ہر ناشپاتی کے بدلے ایک سینٹ کاٹ لیا کروں گا اور اس کے بعد میری توقع کے عین مطابق اس نے باغ میں کوئی ناشپاتی زمین پر نہیں چھوڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس بات کا خیال بھی رکھا کہ وہ درختوں سے ناشپاتیاں تو نہیں توڑتا۔ کیونکہ اس کا کام صرف نیچے گری ہوئی ناشپاتیوں کو اٹھانا تھا۔‘‘ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس نے اپنے دوستوں اور ایسے لوگوں کی خواہش کے باوجود جن کا وہ ممنون تھا، تقریر کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس نے یہ انکار اس طریقے سے کیا کہ ان لوگوں کو برا نہ لگا۔ اس نے ایسا کیسے کیا؟ اس طرح نہیں کہ اس نے کوئی بہانہ بنا دیا کہ میں بہت مصروف ہوں بلکہ اس نے دعوت پر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے قبول نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ کسی دوسرے مقرر سے تقریر کروا لیں۔ اس نے دوسرے شخص کو اپنے انکار پر سوچنے کی بجائے ایک متبادل شخص کا نام دے دیا۔ تاکہ اس کے بارے میں سوچا جائے اور جو ان کی دعوت کو قبول کر سکتا تھا۔‘‘ مغربی جرمنی میں ہمارے کورس میں لیکچر دیتے ہوئے شمٹ نامی ایک شخص نے بتایا کہ اس نے اپنے فوڈ سٹور پر کام کرنے والے ایک کاہل سیلز مین کو کام کرنے پر کس طرح آمادہ کیا۔ یہ سیلزمین مختلف اشیاء پر ان کی قیمتوں کے ٹیگ لگانے میں غفلت کرتا تھا۔ اس سے بعض اوقات قیمت کے سلسلے میں پریشانی ہوتی تھی اور گاہک جھگڑا کرتے تھے۔ آخر کار میں نے اسے اپنے دفتر بلایا کہ میں اسے پرائس ٹیگ سپروائزر کے عہدے پر ترقی دے رہا ہوں اور اس کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر چیز پر اس کی قیمت کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔ اس تھوڑی سی ذمہ داری سے اس کے کام کرنے کے بارے میں سارا نظریہ ہی بدل گیا اور پھر اس نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کیا اور دوبارہ مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ نپولین نے جب اپنے پندرہ ہزار سپاہیوں کو تمغے دیئے اور اٹھارہ جنرلوں کو ’’ فرانس کا مارشل بنا دیا‘‘ اور اپنی آرمی کا نام ’’ گرینڈ آرمی‘‘ رکھا تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک بچگانہ حرکت قرار دیا۔ نپولین پر ہر طرف سے یہ نکتہ چینی ہوئی کہ وہ اپنی فوج میں کھلونے تقسیم کر رہا ہے نپولین کا جواب تھا ’’ آدمی کھولونوں سے حکومت کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح انعام تقسیم کرنا اور اختیارات بانٹنا ہمارے لیے بھی اسی طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ جس طرح نپولین کے لیے ہوا۔ مثال کے طور پر میری ایک دوست مسز ارنسٹ کو اس بات کی شکایت تھی کہ لڑکے اس کے لان کو خراب کر رہے ہیں۔ اس نے لڑکوں پر نکتہ چینی کی۔ اس نے انہیں بہلایا پھسلایا۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس کے بعد اس نے ان میں سے سب سے شرارتی لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ آج سے تم میرے جاسوس ہو۔ میں تمہیں پورے اختیار دیتی ہوں تم ذرا اس بات کا خیال رکھنا کہ کون لڑکا میرے لان کو خراب کرتا ہے۔ اس سے اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔ اس جاسوس نے تمام لڑکوں کو خبردار کیا کہ وہ آئندہ لان میں داخل ہونے کی جرأت نہ کریں۔ ایک با اثر لیڈر کے لیے ہم مندرجہ ذیل اصول پیش کر رہے ہیں۔جو اسے لوگوں کا ذہن اور رویہ بدلنے میں بہت مدد دے گا۔ ۱۔ خلوص کا مظاہرہ کریں۔ کسی ایسی بات کا وعدہ نہ کریں جو آپ پوری نہ کر سکیں۔ اپنے فائدے کو بھول جائیں اور دوسروں کے فائدے کا خیال رکھیں۔ ۲۔ اس بارے میں صحیح طرح جان لیں کہ آپ دوسرے شخص سے کیا کام کروانا چاہتے ہیں۔ ۳۔ بڑے ہمدردانہ طریقے سے اپنے آپ سے پوچھیں کہ دوسرا شخص کیا چاہتا ہے۔ ۴۔ اس بات پر غور کریں کہ آپ نے دوسرے شخص کو جو کام سونپا ہے اس سے اسے کیا فائدہ ہو گا۔ ۵۔ آپ ان فائدوں کا ان سے موازنہ نہ کریں جو وہ شخص حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ۶۔ جب آپ کوئی درخواست کریں تو اس طریقے سے کریں کہ دوسرے شخص کو یہ احساس ہو کہ اسے اس سے فائدہ پہنچے گا۔ ہم یہ حکم اس طریقے سے بھی دے سکتے ہیں۔ جس میں جان کو یہ احساس دلایا جائے کہ اس میں اس کا بھی فائدہ ہے۔ مثلاً ’’ جان ایک کام ہے جسے جلد ہی مکمل کرنا چاہیے۔ اگر یہ ابھی ہو جائے تو پھر صبح ہمیں پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ کل صبح کچھ گاہکوں کو اپنے شو روم میں لے کر آ رہا ہوں۔ تاکہ انہیں یہ بتایا جائے کہ ہمارے ہاں گاہکوں کو کیسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ میں انہیں سٹاک روم دکھانا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ بری حالت میں ہے اگر تم اسے صاف کر سکوں، چیزوں کو خوبصورتی سے شیلفوں میں سجا سکوں اور کاؤنٹر پالش کر سکوں تو شو روم میں آنے والے گاہکوں کو اندازہ ہو گا کہ ہم واقعی اپنے گاہکوں کو ایک صاف ستھرے ماحول میں سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور اس طرح شو روم کے وقار کو بڑھانے میں تمہارا حصہ سب سے زیادہ ہو گا۔‘‘ کیا جان ایسا کر کے خوش ہو گا؟ ہاں کیونکہ آپ نے اسے یہ کام کرنے کا فائدہ بھی بتا دیا ہے۔ فرض کریں آپ جانتے ہیں کہ جس طرح سٹاک روم کی حالت ہے۔ جان کو اس پر فخر ہے اور وہ شو روم کے وقار کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ تو وہ آپ کی تجویز ماننے میں زیادہ تعاون کرے گا۔ اس میں جان کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر وہ ابھی یہ کام کر لے تو صبح اسے پریشانی نہیں ہو گی۔ یہ یقین کر لینا غلط ہو گا کہ جب آپ کسی شخص کو کوئی کام تجویز کریں گے تو ہمیشہ آپ کو اس کا مثبت جواب ملے گا لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ان اصولوں کے استعمال سے آپ لوگوں کا رویہ بدل سکتے ہیں اور وہ آپ کا کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اگر آپ ان اصولوں کو استعمال کر کے صرف دس فیصد کامیابی حاصل کرتے ہیں تو آپ ایک لیڈر کی حیثیت سے دس فیصد زیادہ با اثر ہو گئے ہیں جبکہ پہلے آپ زیرو تھے۔ یاد رکھیں کہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ لوگ آپ کی بات مان لیں اگر آپ اس اصول کو اپنائیں۔ اصول نمبر ۹ ’’ دوسرے شخص کو یہ خوشی بھرا احساس دلائیں کہ اس کام میں ان کا بھی فائدہ ہے۔‘‘ ٭٭٭ لیڈر بنیں ایک لیڈر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے رویے اور سلوک میں تبدیلی لائے۔ اس ضمن میں چند تجاویز رہنمائے اصول درج ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ اصول نمبر ۱: اپنی گفتگو کا آغاز پر خلوص تعریف اور تحسین کے ساتھ کریں۔ اصول نمبر ۲ـ: بلواسطہ طریقے سے دوسروں کو ان کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اصول نمبر ۳: دوسروں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ اصول نمبر ۴: دوسروں کو احکام جاری کرنے کی بجائے ان سے سوالات کریں۔ اصول نمبر ۵: دوسروں کو ان کی غلطیوں پر شرمندہ نہ کریں۔ اصول نمبر ۶: دوسروں کے کام میں معمولی سی بہتری کی بھی دل کھول کر تعریف کریں ان کی تعریف کرنے میں بخل سے ہرگز کام نہ لیں۔ انہیں احساس دلائیں کہ وہ واقعی اس تعریف کے لائق ہیں۔ اصول نمبر ۷: دوسرے شخص کو ایسی شہرت دیں کہ وہ اپنی اس شہرت کو قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ اصول نمبر ۸: دوسروں کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں بتائیں کہ ان کی غلطی بہت معمولی ہے جس کا ازالہ ممکن ہے۔ اصول نمبر ۹: دوسرے شخص کو یہ خوش بھرا احساس دلائیں کہ اس کام کے کرنے میں اس کا بھی فائدہ ہے۔ لوول تھامس ڈیل کارنیگی کے بارے میں یہ معلومات ہم آپ کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیں۔ جنوری ۱۹۳۵ء کی ایک سر درات تھی لیکن موسم کی شدت ان ڈھائی ہزار مرد اور خواتین کو نیویارک کے ہوٹل پینسلونیا کے ڈائننگ ہال میں جمع ہونے سے نہیں روک سکا تھا۔ ساڑھے سات بجے تک ہال میں تمام سیٹوں پر لوگ برا جمان ہو چکے تھے مگر آٹھ بجے تک لوگ آ رہے تھے۔ بالکونیاں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں حتیٰ کہ اب ہال میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی اور دن بھر اپنے کام کرنے والے لوگ تھکن کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے تک مسلسل کھڑے ہو کر ایک شو دیکھ رہے تھے۔ کیا؟ کیا وہ ایک فیشن شو دیکھ رہے تھے؟ کیا وہ کوئی سائیکل ریس دیکھ رہے تھے جو چھ روز سے جاری تھی یا وہ کلارک گیبل کو سٹیج پر دیکھ رہے تھے ؟ نہیں یہ لوگ ایک اخبار میں اشتہار پڑھ کر اس ہال میں جمع ہوئے ہیں دو روز قبل ان لوگوں نے نیویارک کے اخبار ’’ سن‘‘ میں ایک پورے صفحے کا اشتہار پڑھا تھا جو کچھ اس طرح تھا۔ ’’ موثر طریقے سے گفتگو کرنا سیکھئے اور لیڈر شپ کے لیے تیار رہیں۔‘‘ آپ یقین کریں یا نہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ روئے زمین پر سب سے مہذب شہر کے ڈھائی ہزار افراد شدید ترین سردی کے باوجود صرف اخبار کا اشتہار پڑھ کر اس ہوٹل کے ہال میں جمع ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کاروباری، ایگزیکٹوز، ملازمین اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ یہ مرد و خواتین ’’ ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیر اہتمام ’’ انسانی تعلقات اور موثر گفتگو‘‘ کے موضوع کے تحت ایک کورس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ وہ یہاں اس لیے آئے تھے کہ انہیں اس ڈیپرشن کے ماحول میں مزید تعلیم کی اچانک ضرورت محسوس ہوئی تھی؟ نہیں۔ کیونکہ گذشتہ چوبیس برسوں سے نیویارک میں یہ کورس باقاعدگی سے ہو رہے تھے۔ اس دوران پندرہ ہزار سے زیادہ بزنس مین اور دوسرے پیشہ ور لوگ ’’ ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے استفادہ حاصل کر چکے تھے۔ حتیٰ کہ امریکی کی بڑی بڑی کمپنیوں مثلاً واشنگٹن ہاؤس الیکٹر ک کمپنی، میگر ایل پبلشنگ کمپنی، بروکلین یونین گیس کمپنی، بروکلین چیمبر آف کامرس امریکن انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرک انجینئرنگ، اور نیو یارک ٹیلی فون کمپنی نے بھی اپنے ہاں بھی ’’ ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ کے توسط سے اس طرح کے کورس کرانے کا اہتمام کیا۔‘‘ ایک بالغ شخص واقعتاً کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور اس کا جواب دینے کے لئے شکاگو یونیورسٹی ، تعلیم بالغاں کی امریکی ایسوسی ایشن اور یونائیٹڈ، وائی ایم سی اے نے مشترکہ طور پر دو برس کے عرصے میں ایک سروے کیا۔ اس سروے سے معلوم ہوا کہ بالغوں کا سب سے پہلا مسئلہ صحت کا ہے اور ان کی دلچسپی کا دوسرا مرکز انسانی تعلقات کو قائم کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرنا ہے۔ وہ عوامی مقرر نہیں بننا چاہتے اور نہ ہی وہ نفسیات کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ انہیں کچھ مشورے چاہیے جنہیں وہ اپنے کاروبار میں استعمال کر سکیں۔ سماجی رابطوں اور اپنے گھر میں ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ تو سروے کے مطابق یہ وہ کچھ ہے جن کے بارے میں بالغ افراد مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ سروے کرنے والے نے کہا کہ اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو ہم یہ سب کچھ نہیں دیں گے۔ انہوں نے نصابی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن اس میں اس قسم کا کوئی مواد نہیں تھا، جو بالغ افراد کو انسانی تعلقا ت کے ضمن میں روز مرہ لپش آنے والے مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتا۔ ذرا سوچیں لاطینی، یونانی، عبرانی، اور انگریزی زبان میں الجبرا، میتھمیٹکس، نفسیات اور فلسفہ کی بے شمار کتابیں لکھی گئیں لیکن ایک موضوع پر کہ جس کے بارے میں بہت سے لوگ بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا اور لوگ پیاسے رہے۔ اسی پیاس نے نیویارک کے پنسلونیا ہوٹل میں جنوری کی سرد ترین رات کو ڈھائی ہزار افرا دکو اکٹھے ہونے پر مجبور کیا تھا۔ یہاں وہ کچھ ایسی باتیں جاننا چاہتے تھے جن کے وہ عرصہ سے متلاشی تھے۔ اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں وہ جو کچھ پڑھ کر آئے تھے، ان نظریات اور خیالات کی ترجمانی جس کا عملی زندگی کا نقشہ تو بالکل ہی الٹ تھا جبکہ نصابی کتابوں میں یہ سب کچھ بڑا شاندار دکھایا گیا تھا اس لیے یہ لوگ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی مایوسی کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے کاروبار میں ان لوگوں کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھا جنہوں نے نصابی کتابوں میں بتائے گئے اصولوں سے بھی ہٹ کر کچھ تعلیم حاصل کی تھی۔ نیویارک کے ’’ سن‘‘ اخبار میں دیئے جانے والے اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ یہ اجتماع بہت پر لطف ہو گا اور یہ ایسا ہی تھا۔ اٹھارہ افراد جو انسانی تعلقات کے بارے میں پہلے کورس میں حصہ لے چکے تھے۔ ان کو لاؤڈ سپیکر کے سامنے بلایا اور ہر ایک کو صرف پچھتر سیکنڈ دیئے۔ پہلا مقرر پیٹرک آئرلینڈ میں پیدا ہوا تھا اور صرف چار برس تک سکول میں تعلیم حاصل کر سکا تھا۔ بعد میں امریکہ آ گیا اور یہاں پہلے ایک مکینک کے طور پر کام کیا اور پھر شوفر بن گیا۔ اس کی عمر چالیس برس تھی۔ اس کی فیملی بڑی تھی اور اسے پیسے کی ضرورت تھی۔ اس لیے اس نے ٹرک فروخت کرنے شروع کر دیئے مگر اس میں اس کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی مایوسی کے عالم میں اس کو ’’ ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی طرف سے ان کے ایک کورس میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی۔ اس کورس کا موضوع تھا کہ ’’ موثر گفتگو کیسے کی جاتی ہے۔‘‘ لیکن وہ اس کورس میں شرکت کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں سب پڑھے لکھے لوگ ہونگے اور ان کے درمیان میں اپنے آپ کو انتہائی کمتر محسوس کرے گا۔ لیکن ا س کی بیوی نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس نے کہا ’’ پیٹرک ہو سکتا ہے اس میں تمہارے لیے کوئی اچھی بات ہو۔‘‘ وہ اس کورس میں شرکت کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ جب وہ وکرس میں شرکت کرنے کے لیے پہنچا تو ایک طرف ہو کر پانچ منٹ تک کھڑ اہر ااور پھر اس کا کچھ اعتماد بحال ہوا۔ پہلی بار وہ دوسرے لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ بہت نروس اور خوفزدہ تھا لیکن جب کورس کو دو ہفتے گزر گئے تو اس کا سارا خوف جاتا اور جلد ہی اسے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ تقریر کر سکتا ہے اب اسے اپنے سے کمتر اور برتر کسی کا بھی خوف نہیں تھا۔ وہ جس کمپنی میں ملازم تھا اس نے اس کی ترقی کر دی اور وہ اپنی کمپنی کا ایک بہت ہی قیمتی کارکن بن چکا تھا۔ اس رات پیٹرک نے پنسلونیا ہوٹل کے ہال میں ڈھائی ہزار افراد کے سامنے کھڑے ہو کر بڑی جاندار تقریر کی اور انہیں بتایا کہ سک طرح اس نے کامیابی حاصل کی۔ اس کی تقریر کے دوران لوگ قہقے پر قہقہے لگاتے رہے اس کی کارکردگی اس قدر اچھی رہی کہ بہت کم ہی مقرر اس جیسی تقریر کر سکے ہوں گے۔ دوسرا مقرر گوڈ فرے میئر نامی سفید بالوں کا ایک بینکار تھا۔ جس کے گیارہ بچے تھے۔ اس نے پہلی بار کورس میں بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ جب بات کرنے لگا تو اس کا ذہن جیسے بالکل ماؤف ہو گیا تھا۔ اس کی کہانی اس بات کی واضح مثال ہے لیڈر شپ میں انسان کے لیے کشش موجود ہے۔ وہ وال سٹریٹ میں کام کرتا تھا اور گذشتہ پچیس برسوں سے نیو جرسی کے علاقے کلفٹن میں رہ رہا تھا۔ اس عرصے میں اس نے اپنے علاقے میں ہونیوالی تقریبات میں کبھی شرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی علاقے کے مسائل میں کبھی دلچسپی لی تھی اور اس علاقے کے تقریباً پانچ سو افراد کو وہ جانتا تھا۔ ڈیل کارنیگی کے کورس میں حصہ لینے کے کچھ ہی دیر بعد اسے انکم ٹیکس بل موصول ہوا۔ جس نے اسے بہت غضب ناک کر دیا۔ کیونکہ اس کے خیال میں یہ ناجائز تھا۔ عام حالات میں وہ اس موقع پر گھر میں بیٹھ جاتا اور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا لیکن اس رات اس نے اپنا ہیٹ سر پر رکھا اور اپنے علاقے میں ہونے والی ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے چلا گیا اور وہاں جاتے ہی بڑے زور و شور سے اپنا مسئلہ بیان کر دیا۔ اس کی تقریر سے اس کے علاقے کے لوگوں نے اس پر زور دیا کہ وہ علاقے کی کونسل کا انتخاب لڑے اس کے بعد وہ کئی ہفتوں تک اپنے علاقے میں لوگوں سے ملتا رہا۔ گوڈفرے نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ا س کے مقابلے میں پچانوے امیدوار میدان میں تھے جب پولنگ ختم ہوئی تو گوڈ فرے الیکشن جیت چکا تھا۔ راتوں رات وہ ایک عوامی ہیرو بن چکا تھا اور الیکشن کی وجہ سے اس نے چند ہفتوں میں گذشتہ پچیس برسوں کے مقابلے اسی فیصد دوست زیادہ بنائے۔ تیسرا سپیکر فوڈ تیار کرنے والی نیشنل ایسوسی ایشن کا سربراہ تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے پہلی بار کسی بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس میں اپنے خیالات پیش کئے۔ اس دوران دو حیرت انگیز باتیں ہوئیں۔ اسے ایسوسی ایشن کا صدر بنا دیا گیا۔ اور اس حقیقت میں امریکہ بھر میں اجلاسوں سے اسے خطاب کرنا تھا۔ اس کی تقریروں کو اخبارات اور تجارتی رسالوں میں نمایاں جگہ ملتی تھی اور اس طرح وہ امریکہ کے تجارتی حلقوں میں ایک نمایاں شخصیت بن چکا تھا۔ دو برسوں میں زیادہ موثر طریقے سے گفتگو کرنے کا فن سیکھنے کے بعد اس نے اپنی کمپنی کی تیار کردہ مصنوعات کے لیے خود پبلسٹی کرنا شروع کر دی۔ جبکہ اس سے پہلے اس نے اس مقصد کے لیے اشتہارات پر تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس نے تسلیم کیا مین ہیٹن نیویارک کے اہم کاروباری افراد کو دوپہر کے کھانے پر بلایا اور اس دوران اس نے ان سے جو باتیں کیں۔ ان سے متاثر ہو کر ان کا روباری افراد نے فرداً فرداً اسے ٹیلی فون کر کے اپنے ساتھ لنچ کرنے کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی معذرت بھی کی کہ وہ اس کے قیمتی وقت کا حرج کر رہے ہیں۔ تقریر کرنے کی صلاحیت شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک آسان راستہ ہے۔ یہ صلاحیت انسان کو شہرت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے اور جو شخص ایسی تقریر کر سکتا ہو جسے لوگ پسند کرتے ہوں اور جسے لوگ قبول کرتے ہوں وہ عوام کا منظور نظر ہوتا ہے۔ اس وقت قوم میں تعلیم بالغاں کی تحریک بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس تحریک کے پیچھے سب سے بڑی قوت ڈیل کارنیگی کی شخصیت ہے۔ ڈیل کارنیگی کا اپنا کیرئیر ایسی بہت سی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ جس سے آپ کو اندازہ وہ گا کہ اس شخص کی زندگی میں بھی ایسے بے شمار موڑ آئے جہاں اسے قدم قدم پر زمانے کی تلخ حقیقتوں سے واسطہ پڑا اور اس پر ان حقائق کے بارے میں کیا راز ظاہر ہوئے۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ کالج اور یونیورسٹی میں جو تعلیم حاصل کر کے آیا۔ عملی زندگی میں اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسے ابھی مزید تعلیم کی ضرورت ہے اور پھر لوگوں کو تعلیم دینا اس کا مشن بن گیا۔ ڈیل کارنیگی ریاست میسوری کے ایک فارم میں پیدا ہوا۔ جو ریلوے لائن سے دس میل دور تھا۔ اس نے بارہ برس کی عمر تک کوئی کار نہیں دیکھی تھی اور چھیالیس برس کی عمر میں اسے دنیا کے کونے کونے کے بارے میں معلومات حاصل تھیں اور خود وہ بھی دنیا بھر میں جانا چاہتا تھا۔ میسوری کا یہ لڑکا جو کبھی درختوں سے سیب اور ناشپاتیاں توڑا کرتا تھا بعد ازاں دنیا بھر میں ایگزیکٹوز کو تربیت دینے والا مہنگا ترین انسٹرکٹر بنا۔ وہ ان ایگزیکٹوز کو گفتگو کرنے کے فن پر لیکچر دیا کرتا تھا۔ یہ لڑکا جو بچپن میں خرگوش، کتوں کے پیچھے بھاگا کرتا تھا۔ بعد ازاں لندن گیا اور وہاں اس نے شاہی خاندان کی سرپرستی میں کئی کورس منعقد کئے جن پر برطانیہ بھر کے ایگزیکٹوز، پیشہ ور لوگ اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے پروفیسر ز تک شریک ہوئے۔ ڈیل کارنیگی خود جب پہلی بار تقریر کرنے لگا تو وہ بری طرح ناکام ہوا۔ نہ صرف پہلی بار بلکہ تقریر کرنے کی اس کی پہلی چھ کوششیں ناکام ہوئیں۔ بعد ازاں میرا ذاتی منیجر بنا، اور میری کامیابی کا زیادہ تر راز اس تربیت میں ہے جو میں نے ڈیل کارنیگی کی زیر پرستی حاصل کی۔ نوجوان ڈیل کارنیگی کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی سخت جدوجہد کرنا پڑی اور میسوری کے اس پرانے طرز کے فارم میں قسمت ہمیشہ اس سے روٹھ جایا کرتی تھی۔ سال گذرتے گئے اور ایک مرتبہ دریائے ۱۰۲ میں طغیانی آ گئی اور اس نے میسوری کے اس پرانے فارم کی تیار فصلوں کو غارت کر دیا۔ ہر برس اس کے فارم میں پلنے والے سٹور بیماری کے باعث مر جاتے۔ جو کچھ باقی بچتا اس میں خچروں اور دوسرے مویشیوں کے لیے مارکیٹ سے چارہ خریدنے کے بعد گھر کی گزر اوقات کے لیے بہت کم بچتا تھا اور ادھر بینک نے ان کی گروی رکھی ہوئی جائیداد کو نیلام کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ ان نقصانات کے باعث اس مایوس خاندان نے اپنا فارم فروخت کر دیا اور میسوری کے ایک دوسرے شہر وار نسبرگ میں سٹیٹ ٹیچرز کالج کے قریب ایک دوسرا فارم خرید لیا۔ اس کالج میں پڑھائی اور ہوسٹل میں رہنے کا خرچہ ایک ڈالر روزانہ تھا مگر یہ ڈیل کارنیگی کی پہنچ سے باہر تھا لہٰذا وہ فارم میں ہی رہتا اور روزانہ گھوڑے پر بیٹھ کر تین میل دور واقع اس کالج میں پڑھنے کے لیے جاتا۔ فارم میں وہ اپنی بھینسوں کا دودھ دھوتا، لکڑیاں کاٹتا، مویشیوں کو چارہ ڈالتا اور تیل کا لیمپ جلا کر اس کی روشنی میں کالج کی پڑھائی کرتا رہتا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں تھک جاتی اور وہ سو جاتا۔ سونے سے قبل وہ گھڑی پر صبح تین بجے کا الارم لگاتا اور جب گھڑی کا الارم بجتا تو وہ فوراً بستر سے اٹھتا اور سور کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنہیں سردی کے باعث گرم کمروں میں سلایا جاتا تھا لے کر ان کی ماؤں کے پاس جاتا اور اس وقت تک انتظار کرتا کہ وہ اچھی طرح دودھ پی لیں اور پھر انہیں دوبارہ گرم کمروں میں واپس لے آتا۔ سٹیٹ ٹیچرز کالج میں تقریباً چھ سو کے قریب طالب علم زیر تعلیم تھے اور وہ سب کے سب ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ڈیل کارنیگی کو اس بات کا بڑا احساس ہوتا تھا کہ وہ اپنی غربت کی وجہ سے ہوسٹل میں اور لڑکوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔ اسے اپنے پرانے کوٹ کو پہنتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی تھی۔ ا سکی پتلونیں تنگ ہو چکی تھیں اور اس میں بڑی تیزی سے احساس کمتری پیدا ہو رہا تھا او راسے شہرت کے لیے کسی شارٹ کٹ کی ضرورت تھی۔ اس نے جلد ہی اندازہ کر لیا کہ کالج میں بعض طلباء نے اپنے گروپ بنائے ہوئے ہیں۔ جن کی کالج میں عزت بھی ہے اور اثر بھی۔ ان میں فٹ بال اور بیس بال کھیلنے والے طلباء اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلباء شامل تھے۔ ڈیل کارنیگی نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ ایک اچھا ایتھلیٹ نہیں بن سکتا۔ اس نے ڈیبیٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، وہ کئی مہینوں تک اس کی تیاری کرتا رہا۔ وہ فارم سے کالج اور کالج سے واپس فارم جاتے ہوئے راستے میں تقریر کرنے کی پریکٹس کرتا۔ بھینسوں کا دودھ دھوتے وقت اور مویشیوں کو چارہ ڈالتے ہوئے بھی وہ تقریر کرنے کی مشق جاری رکھتا۔ لیکن ان سب تیاریوں اور کوششوں کے باوجود اسے تقریری مقابلوں میں یکے بعد دیگرے کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت اس کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ جس میں کوئی لڑکا بہت حساس ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا مغرور بھی ہوتا ہے یعنی اسے اپنے اوپر بڑا ناز ہوتا ہے۔ ڈیل کارنیگی ان ناکامیوں سے اس قدر مایوس ہو چکا تھا کہ ایک بار تو اس نے خوشی کرنے کا بھی سوچا اور پھر اچانک اسے کامیابیاں حاصل ہونے لگیں۔ اور اب وہ کالج میں ہونے والا ہر تقریری مقابلہ جیتنے لگا۔ اب دوسرے طلباء اس کے پاس آتے اور اس سے تربیت حاصل کرتے اور پھر وہ بھی ان مقابلوں میں انعام حاصل کرتے۔ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد اس نے خط و کتابت کے ذریعے تعلیمی کورس فروخت کرنے شروع کر دیئے۔ لیکن اس میں اسے زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وہ اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ وہ تیبراسکا میں اپنے ہوٹل میں واپس آ گیا۔و ہ رات کو اپنے بستر پر لیٹا روتا رہا۔ اسے نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ اس نے خواہش کی کہ وہ واپس کالج چلا جائے۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ لہٰذ ااس نے ایک اور شہر اوماہا میں جا کر قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پاس ٹرین کے ذریعے وہاں جانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ لہٰذا اس نے ایک مال گاڑی میں سفر کیا۔ اوہاما پہنچ رک اسے آرمر اینڈ کمپنی میں سٹور کا نمکین گوشت اور صابن فروخت کرنے کی ملازمت مل گیا اور ان چیزوں کو فروخت کرنے کے لیے اسے جنوبی علاقے ڈکوٹا جانا پڑتا تھا۔و ہ وہاں جانے کے لیے مال گاڑی میں سفر کرتا اور ایک معمولی سے ہوٹل میں ٹھہرتا۔ جہاں ایک کمرے کے درمیان چادر تان کر اس کے دو حصے کئے ہوتے تھے۔ وہ سیلزمین شپ کے بارے میں کتابیں پڑھتا۔ ڈکوٹا میں رہنے والے انڈین لوگوں کے ساتھ تاش کھیلتا اور اس طرح ان میں گھل مل جاتا اور ایک بار جب اس نے سٹور کیپر کا سٹور کا نمکین گوشت اور صابن فروخت کیا تو سٹور کیپر کے پاس اتنی رقم نہیں تھی تو ڈیل کارنیگی سے اس سے ایک درجن جوتوں کے جوڑے لے لئے اور انہیں فروخت کر کے اپنی کمپنی کو سٹور کے نمکین گوشت اور صابن کی قیمت ادا کر دی۔ وہ اکثر ایک دن میں مال گاڑی پر سو میل کا سفر کرتا اور راستے میں جہاں بھی مال گاڑی سامان اتارنے کے لیے رکتی۔ وہاں وہ موقعہ سے فائدہ اٹھا کر قریبی علاقے میں جا کر چند ایک تاجروں سے ملتا اور ان سے آرڈر حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور جونہی انجن کی وسل سنائی دیتی اور وہ بھاگتا ہوا آتا اور حرکت کرتی ہوئی ٹرین میں سوار ہو جاتا۔ صرف دو برسوں میں وہ اپنی کمپنی کے سیلزمینوں کی فہرست میں پچیسویں نمبر پر تھا۔ کمپنی نے اسے یہ کہتے ہوئے ترقی دے دی۔ ’’ تم نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو ان دو برسوں میں ناممکن تھا۔‘‘ لیکن اس نے ترقی لینے سے انکار کر دیا اور استعفیٰ دے کر چلا گیا۔ اب وہ نیویارک میں امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں تعلیم حاصل کرنے لگا اور اس نے ایک سٹیج ڈرامے کے سلسلے میں پورے ملک کا دورہ کیا۔ اس ڈرامے کا نام ’’ پولی آف دی سرکس‘‘ تھا اور ڈیل کارنیگی نے اس میں ڈاکٹر ہارٹلے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے بکارڈ موٹر کمپنی میں سیلزمین کی ملازمت اختیار کر لی۔ وہ مشینری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا اور اس کی زیادہ پرواہ بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ وہ مزید پڑھے، کتابیں لکھے، اس لیے اس نے یہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔ اب اس نے دن کو ناول اور کہانیاں لکھنا شروع کر دیں اور شام کو ایک کالج میں پڑھانے لگ گیا۔ کالج میں وہ کیا پڑھاتا تھا؟ اب جب ڈیل کارنیگی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ آرمر اینڈ کمپنی کی ملازمت کے دوران ایک سیلزمین کی حیثیت سے مختلف قسم کے لوگوں سے گفتگو کرنے کے بعد اس نے جو تجربہ حاصل کیا۔ وہ کالج میں پڑھانے میں مددگار ثابت ہوا۔ اس لیے اس نے نیویارک میں وائی ایم سی اے سکولز کو لکھا کہ وہ اسے کاروباری لوگوں کو گفتگو کرنے کا فن سکھانے کے بارے میں کورس کرانے کی اجازت دے۔ کیا؟ اب وہ کاروباری لوگوں کو بھی مقرر بنائے گا؟و ائی ایم سی اے اس قسم کے کورس پہلے کرا چکی تھی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ اس نے وائی ایم سی اے والوں کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مکشن کی بنیاد پر یہ کورس کرائے گا اور منافع میں ان کا بھی حصہ ہو گا۔ اس نے دو ڈالر فی لیکچر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور تین برسوں میں وہ تیس ڈالر فی لیکچر لینے لگا۔ یہ کورس لوگوں میں مقبول ہونے لگے۔ کسی نے ان کی تعریف کی اور کسی نے ان پر نکتہ چینی کی۔ ڈیل کارنیگی جلد ہی نیویارک، فلاڈلفیا، بالٹی مور اور بعد ازاں لندن اور پیرس تک جانے لگا۔ اس کے بعد اس نے کاروباری افراد کے لیے ایک کتاب لکھی جو تمام وائی ایم سی اے سکولز کی ایک نصابی کتاب بن گئی۔ ا سکے علاوہ امریکن بینکرز ایسوسی ایشن اور نیشنل کریڈٹ فیز ایسوسی ایشن نے بھی اس کتاب کو اپنے نصاب میں شامل کر لیا۔ ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ جب تمام لوگ پاگل وہ جاتے ہیں تو وہ گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر آپ قصبے کے سب سے جاہل شخص کو اس کے منہ پر طمانچہ لگائیں گے تو وہ آپ کے ساتھ وہی سلوک کرے گا۔ ڈیل کارنیگی نے دعویٰ کیا کہ ہر شخص تقریر کر سکتا ہے اگر اسے اپنے اوپر اعتماد ہے اور اگر اس کے ذہن میں کچھ خیالات اور نظریات ہیں۔ خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ آپ وہ کام کریں جن میں آپ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح آپ کو ایک کامیاب تجربہ حاصل ہو گا۔ لہٰذا اس نے ہر طالب علم کو مجبور کیا کہ وہ کلاس میں کچھ نہ کچھ ضرور بولے۔ اس کو سننے والے بھی اسی طرح کے ہیں۔ لہٰذا وہ اسے بڑی ہمدردی سے سنیں گے۔ ڈیل کارنیگی نے اتنا عرصہ صرف لوگوں کو گفتگو کرنے کا فن سکھانے میں نہیں گذارا بلکہ اس کا اصل کام لوگوں کے اندر موجود خوف اور اندیشوں کو دور کر کے ان میں ہمت اور خود اعتمادی پیدا کرنا تھا۔ لہٰذا کارنیگی نے جلد ہی تربیت کا ایک انوکھا نظام اختیار کیا۔ اس میں گفتگو کرنے کا فن، سیلزمین شپ، انسانی تعلقات اور اطلاعاتی نفسیات کا ایک امتزاج تھا۔ اس کلاس میں طلباء دور دراز علاقوں سے بھی آتے تھے۔ جب اس کا کورس ختم ہوا تو اس کے طلباء نے اپنا ایک کلب بنا لیا اور اب وہ ہر پندرہ دنوں بعد ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور آپس میں گفتگو کرتے اور ایک دوسرے سے استفادہ کرتے کہ اس کورس نے عملی زندگی میں انہیں کیا فائدے پہنچائے ہیں۔ پروفیسر ولیم جیمز جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا نے ایک بار کہا تھا کہ ایک اوسط درجے کا شخص اپنے اندر چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں سے صرف دس فیصد فائدہ حاصل کرتا ہے۔ ڈیل کارنیگی نے کاروباری افراد کو ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں بروئے کار لانے میں ان کی مدد کی اور اس طرح تعلیم بالغاں کی ایک بہت نمایاں تحریک کا آغاز ہوا۔ لوول تھامس ۱۹۳۶ء اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End