مردم دیدہ چراغ حسن حسرت یباچہ مشاہیر کے سوانح حیات پر ہماری زبان میں کتابوں کی کمی نہیں۔ لیکن اپنی بعض قابل قدر خصوصیات کے اعتبار سے ’’ مردم دیدہ‘‘ اردو میں ایک نئی قسم کی کتاب قرار دی جا سکتی ہے۔ اس میں جن مشاہیر پر مضامین ہیں ان کے حالات زندگی سوانح نگاری کے پرانے انداز کے مطابق پیدائش سے وفات تک سنہ وار بیان کئے گئے نہ ان میں ان کی زندگی کے متنازعہ فیہ واقعات پر کسی قسم کی بحث ہے۔ نہ ان مضامین میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مشاہیر کی زندگی کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات پڑھنے والوں کو بہم پہنچا دی جائیں۔ ’’ مردم دیدہ‘‘ میں چند ایسے مشاہیر کی زندگی کے متعلق مضامین ہیں جن سے مصنف کے ذاتی طور پر عرصہ تک مراسم رہے۔ چنانچہ تعلقات اور واقفیت کی بنا پر ان کی شخصیت نے جو تاثر مصنف کے دل میں پیدا کیا اسے مصنف نے ان مضامین میں منتخب واقعات کے ذریعے پیش کیا ہے۔ اور ان واقعات کو ایسی ترتیب سے اور ایسے انداز میں لکھا ہے کہ ان مشاہیر کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس اعتبار سے ’’ مردم دیدہ‘‘ میں ’’ تاریخ‘‘ نہیں بلکہ ایک ذاتی تصور کا اظہار یعنی ’’ تخلیق‘‘ ہے۔ مغرب میں جدید سوانح نگاری (بیوگرافی) اپنی اسی خصوصیت کے باعث ادب کی ایک جدید صنف قرار پا چکی ہے۔ جن مشاہیر پر اس کتاب میں مضامین جمع کئے گئے ہیں چونکہ ان کا تعلق زمانہ موجودہ سے ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ ان کی شخصیت کے متعلق آج کل کے بعض دوسرے ادیبوں کا تاثر حسرت صاحب کے تاثر سے بہت مختلف ہو لیکن اس کے متعلق حسرت صاحب غالباً یہی فرمائیں کہ جب جدید سوانح نگاری انفرادی تصور سے تعلق رکھتی ہے تو ایک ہی شخص پر دو ایسے مضامین لکھے جانا جن میں اس کی دو مختلف تصویریں ہوں ناممکن اور ناجائز نہ فرض کر لینا چاہئے۔ حسرت صاحب کی خوش طبعی اور لطیف و شگفتہ انداز بیان نے کتاب کو اس درجہ دلاویزی بخش دی ہے کہ اسے ختم کرنے کے لئے کسی کو بھی ایک سے زیادہ نشست کی ضرورت محسوس نہیں ہو سکتی۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ مردم دیدہ‘‘ میں سوانح نگاری کی جو جدید طرز اردو میں پیش کی گئی ہے اس پر کئی ادیب طبع آزمائی کرنا پسند فرمائیں گے۔ سید امتیاز علی تاج ٭٭٭ موید الاسلام آقائے موید الاسلام جلال الدین طہرانی ایران کے ایک مشہور خانوادہ سیادت کے چشم و چراغ اور سیاسیات میں سید جمال الدین اسد آبادی کے مرید تھے۔ ناصر الدین شاہ قاچار کے عہد حکومت میں سید اسد آبادی مرحوم کی کوششوں سے جمہوریت پسندوں کا جو گروہ پیدا ہو گیا تھا، اس میں یہ بھی شریک تھے اور جمہوریت کے اصولوں کی تائید و حمایت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ حکام کو ان کی سرگرمیاں خوش نہ آئیں اور ان کی گرفتاری کے احکام نافذ کر دئیے گئے۔ اتفاق سے انہیں پہلے ہی اس بات کی اطلاع ہو گئی تھی۔ یکہ و تنہا گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور صعوبتیں اٹھاتے پولیس اور سرکاری جاسوسوں سے بچتے بچاتے ہندوستان پہنچے۔ پہلے کچھ دن کلکتہ میں رہے۔ وہاں سے پٹنہ پہنچے۔ پٹنہ سے علی گڑھ کا رخ کیا اور سرسید احمد خاں مرحوم سے ملے وہ بہت اخلاق سے پیش آئے۔ اور مدرستہ العلوم میں فارسی کی پروفیسری پیش کی لیکن ان کی اور سید احمد خاں کی طبیعتوں میں زمین و آسمان کا فرق تا۔ وہ فرنگی دوست تھے اور یہ فرنگی دشمن۔ اس لئے صاف انکار کر دیا اور کلکتہ اٹھ آئے۔ کلکتہ آتے ہی انہوں نے ’’ حبل المتین‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کیا۔ جس میں شرق قریب خصوصاً ایران کے سیاسی اور معاشرتی مسائل کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ یہ اخبار سارے اسلامی ملکوں میں پہنچتا اور بڑی قدر و منزلت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ خاص طور پر ایرانیوں کا تو یہ حال تھا کہ وہ اسے ’’ حبل المتین‘‘ مقدس کہتے تھے اور اس کے لفظ لفظ کو وحی و الہام سمجھتے تھے۔ آج تو ایران کے ہر شہر اور قصبہ سے کئی کئی اخبار نکل رہے ہیں۔ مگر اس زمانے میں ملک کے اندرانے گنے اخبار تھے اور ان میں سے بھی کسی کو ناصر الدین شاہ قاچار کے استبداد اور انگریزوں اور روسیوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے خلاف احتجاج کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن موید الاسلام تیغ بے نیام تھے۔ انہوں نے قلم سنبھالا تو ناصر الدین شاہ کی انشاء 1؎ پردازی نے اس کی روشن خیالی کا جو نظر فریب طلسم باندھ رکھا تھا۔ اس کے دھوئیں اڑا دئیے۔ وہ موید الاسلام سے انتقام لینے کی فکر میں تھا کہ آزادی کے ایک فدائی نے اس کا کام تمام کر دیا۔ موید الاسلام کی بصارت عین شباب میں ہی جواب دے گئی تھی مگر ان کی چشم 1؎ ناصر الدین شاہ قاچار کے سفر نامہ نے اس ظالم بادشاہ کے بہت سے عیوب پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ بصیرت روشن تھی اور قدرت نے انہیں سیاسی مسائل کے فہم و درک کی غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ مشرق قریب کے مسائل کے متعلق وہ سند الوقت سمجھے جاتے تھے اور اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر مسٹر آرتھر مور کو جب کوئی مشکل پیش آتی تھی تو انہیں سے رجوع کرتے تھے۔ ان کا انداز تحریر بہت سنجیدہ ہوتا تھا۔ شاعرانہ عبارت آرائی سے وہ ہمیشہ احتراز کرتے تھے اور جو کچھ کہنا ہوتا تھا استعارہ و تشبیہہ کا سہارا لئے بغیر سیدھے سادے الفاظ میں کہہ دیتے تھے۔ ایران کے امور ملکی پر وہ ہمیشہ بڑی شدت سے تنقید کرتے تھے لیکن ان کا انداز تنقید ہمدردانہ ہوتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ جو رائے قائم کر لیتے تھے اس پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ لیکن انہیں جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا تھا تو رائے بدلنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ رضا خاں پہلوی جب تک جمہوریت کا دم بھرتا رہا موید الاسلام اس کے حامی تھے لیکن جب اس نے تمام وعدوں کو یک قلم فراموش کر کے تاج سلطنت سر پر رکھ لیا تو انہوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ یہ مخالفت کوئی معمولی چیز نہیں تھی۔ جسے حکومت ایران بآسانی برداشت کر لیتی چنانچہ ان کو ہموار کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن وہ ایسے شخص نہیں تھے کہ روپے کے لالچ یا کسی دباؤ سے مخالفت ترک کر دیتے۔ ہاں جب انہوں نے خود محسوس کیا کہ رضا شاہ کا وجود ایران کے لئے مفید ہے تو کسی بیرونی اثر کے بغیر مخالفت ترک کر دی۔ ہندوستان کے مسائل سے بظاہر انہیں کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ خود بھی ہندوستانی سیاسیات سے بے تعلقی ظاہر کرتے تھے۔ لیکن در پردہ ہندوستان کی تمام قومی تحریکوں میں برابر حصہ لیتے رہتے تھے اور جب کوئی ایسی تحریک شروع ہوتی جس سے برطانیہ کے اقتدار پر زد پڑ سکتی تھی تو وہ ضرور اس کی مدد کرتے تھے لیکن اس معاملہ میں وہ اس قدر اخفا اور راز داری سے کام لیتے تھے کہ خاص خاص لوگوں کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی تھی۔ ہندوستان کے برطانوی حکام انہیں بہت خطرناک شخص سمجھتے تھے لیکن ان کی تحریر و تقریر میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی تھی جس پر انگلی ر کھنے کی گنجائش نکل سکتی۔ جنگ عظیم سے کئی سال پہلے انہوں نے ’’ حبل المتین‘‘ میں حج کے متعلق ایک مضمون لکھا جس میں حج کی مذہبی اہمیت کے ساتھ اس کی سیاسی اہمیت کا بھی ذکر تھا اور اس سلسلہ میں وہ یہ بھی لکھ گئے تھے کہ حج اصل میں عالم اسلام کے نمائندوں کا سیاسی اجتماع ہے جو بدقسمتی سے ایک مذہبی رسم بن کر رہ گیا ہے۔ا گرچہ یہ مضمون بظاہر بے ضرر تھا لیکن اس پر سرکاری حلقوں میں بڑا شور مچا۔ اور گورنر بنگال نے ایک خیر خواہ سرکار ہندوستانی سے اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے کیا موید الاسلام کو ایسے مضامین لکھنے سے روکو۔ اگر حج کے متعلق اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو مشرق میں یورپ کی کسی قوم کے قدم نہیں جم سکیں گے۔ ۱۹۲۶ء میں موید الاسلام کے قلم سے برطانیہ کی مشرقی حکمت عملی کے خلاف کچھ ایسے تیز مضامین نکل گئے کہ انگریزی حکومت نے انہیں ہندوستان سے نکال دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ہندوستان سے موید الاسلام کا تعلق ایک دو برس کا نہیں بلکہ پورے چالیس سال کا تھا۔ انہوں نے کلکتہ میں شادی کر لی تھی اور یہاں ان کی کچھ جائیداد بھی تھی۔ اس لئے اس پیرانہ سالی میں انہیں کلکتہ چھوڑنا بہت ناگوار تھا۔ ابھی وہ اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں کر پا ئے تھے کہ ہندوستان چھوڑ کے کس طرف کا رخ کریں کہ اسلامی دنیا کے ہر حصہ سے دعوتیں آنے لگیں۔ مصطفیٰ کمال انہیں اپنے ہاں بلا رہے تھے۔ رضا شاہ پہلوی کی آرزو تھی کہ وہ اپنے آبائی وطن میں زندگی کے باقی ایام گزار دیں اور امان اللہ خاں چاہتے تھے کہ وہ ا فغانستان میں مستقل طور پر سکونت اختیار کر لیں۔ ان کے علاوہ شاہ فواد والئے مصر اور سلطان ابن سعود بھی انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے تھے گویا بالکل یہ کیفیت تھی کہ ہمہ آہواں صحرا سر خود فہادہ بر کف بامید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد لیکن عجیب بات یہ ہے کہ موید الاسلام نے جس ملک میں زندگی کے چالیس برس گزار دئیے وہاں کے بہت کم لوگ ان کے مرتبہ سے واقف تھے۔ کلکتہ میں تو اکثر لوگ انہیں جانتے تھے لیکن کلکتہ کے باہر تو ایسے لوگ بہت کم تھے جنہوں نے ان کا نام بھی سنا ہو۔ ایک دو اخباروں نے اس واقعہ پر بیدلی سے چند سطریں لکھ دیں۔ کلکتہ میں ایک بے رونق سا جلسہ بھی ہوا اور بس۔ با ایں ہمہ اسلامی ملکوں میں حکومت ہند کی اس حرکت کے خلاف جس قدر پر زور احتجاج ہوا اس سے متاثر ہو کر حکومت نے خود ہی ان کے اخراج کا حکم واپس لے لیا۔ اس واقعہ سے کوئی سال ڈیڑھ سال کے بعد میں نے پہلی مرتبہ انہیں دیکھا۔ البرٹ ہال میں زاغلول پاشا کی وفات پر ایک ماتمی جلسہ ہوا جس کے صدر سر عبدالرحیم تھے۔ کلکتہ کے اکثر معززین جلسہ میں موجود تھے۔ ہال میں کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ پہلے سر عبدالرحیم نے افتتاحی تقریر کی اور مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ سر عبدالرحیم کی تقریریں عام طور پر بہت خواب آور ہوتی ہیں۔ وہ ہر لفظ کو اس طرح کھینچتے ہیں ۔ گویا الفاظ ربڑ کے بنے ہوئے ہیں۔ جنہیں وہ کھینچ کھینچ کے لمبا کر رہے ہیں۔ ان کی تقریر کے بعد ایک دو اور پھیکی اور بے مزہ سی تقریریں ہوئیں ۔ صدر نے آقائے موید الاسلام کا نام لیا اور وہ ایک شخص کے کندے پر ہاتھ رکھے لمحہ بھر میں اسٹیج پر آ گئے۔ موید الاسلام دبلے پتلے سے آدمی تھے۔ رنگت کبھی بہت گوری ہو گی لیکن کلکتہ کی گرمی میں کسی قدر سنولا گئی تھی۔ پتلے پتلے ہونٹ۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ پاؤں۔ خشخسی داڑھی۔ سیاہ قبا اور اس پر سیاہ عمامہ جو ایران کے علماء کا عام لباس ہے۔ انہوں نے فارسی میں تقریر شروع کی لیکن مجمع میں فارسی جاننے والے بہت کم تھے کوئی پندرہ منٹ تقریر کی ہو گی کہ لوگ اٹھ اٹھ کر جانے لگے۔ معلوم ہوتا ہے انہیں فوراً اس بات کا احساس ہو گیا کہ اس اجتماع میں فارسی جاننے والے بہت کم ہیں کیونکہ انہوں نے تقریر جلد ختم کر دی اور بیٹھ گئے۔ مجھے ان سے ملنے کی آرزو پہلے بھی تھی لیکن انہیں دیکھنے اور ان کی تقریر سننے کے بعد میرا اشتیاق بڑھ گیا چنانچہ ایک دن حضرت خیال مرحوم اور مولانا شائق احمد عثمانی کے ساتھ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ شہر سے باہر بنیاپوکھر روڈ پر ایک وسیع مکان میں رہتے تھے۔ مکان کے ایک حصے میں چھاپہ خانہ اور حبل المتین کا دفتر تھا۔ دوسرے میں ان کی سکونت تھی۔ ان کے ملازم نے ہمیں ایک وسیع کمرہ میں لے جا کر بٹھا دیا۔ کمرہ میں نہ فرش تھا۔ نہ کوئی آرائش کا سامان۔ وسط میں ایک بیضوی میز تھی۔ اس کے گرد چند کرسیاں پڑی تھیں ۔ چند منٹ کے انتظار کے بعد وہ تشریف لائے۔ اس وقت وہ سر سے ننگے اور ایک لمبا سپید کرتا پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ جو راستہ ٹٹولنے کے کام آتی تھی۔ سب کے ساتھ بڑے تپاک سے ملے۔ مزاج پرسی کے بعد اسلامی ممالک کی سیاسیات کے متعلق بحث چھڑ گئی۔ ان دنوں سلطان ابن سعود کی مخالفت کی کجلائی ہوئی آگ پھر سلگ اٹھی تھی۔ لکھنو سے علامہ ہندی خاص طور پر اسی غرض سے کلکتہ تشریف لائے ہوئے تھے کہ لوگوں کو ابن سعود کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے۔ یہ تذکرہ چھڑا تو مولانا شائق کی زبان سے نکل گیا ۔ ’’ ابن سعود سے قبہ گرانے کے معاملہ میں غلطی تو ضرور ہوئی۔‘‘ موید الاسلام بولے ’’ مسلمانوں کو قبوں میناروں اور قبروں سے جتنا شغف ہے کاش اس سے آدھا زندہ انسانوں سے ہوتا۔‘‘ پھر کہنے لگے’’ تم مردوں کو روتے ہو اور مجھے صرف زندوں کی فکر ہے۔‘‘ ’’ یہ جو تھوڑے بہت آزاد مسلمان دنیا میں نظر آ رہے ہیں یہ یورپ والوں سے بچے رہیں تو اسے غنیمت سمجھو۔‘‘ حضرت خیال مسکرائے۔ مولانا شائق نے مجھے کنکھیوں سے اس طرح دیکھا گویا کہہ رہے ہیں کہ یہاں آ کے تم بھی وہابی بن گئے مگر میں چپکا بیٹھا رہا۔ اتنے میں موید الاسلام کی آواز پھر گونجی’’ بابا شائق اگر ابن سعود دنیا بھر کی قبریں کھود ڈالے۔ تو مسلمانوں کا کیا بگڑ جائے گا۔‘‘ یہ گویا ٹیپ کا بند تھا۔ مجھے اس موقع پر سیٹھ چھوٹانی اور مولوی قحبندی یاد آ گئے کہ اس محفل میں وہ بھی موجود ہوتے تو کیا کہتے؟ ہم تینوں اگرچہ فارسی جانتے تھے اور فارسی میں گفتگو کر سکتے تھے لیکن موید الاسلام سے اردو میں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اس خیال سے ایک آدھ مرتبہ فارسی میں بات کرنے کی کوشش کی کہ شاید اس ترکیب سے یہ اردو کا پنڈ چھوڑ دیں لیکن انہوں نے رسید تک نہ دی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ خود فارسی بولنا نہیں چاہتے تھے بلکہ انہیں ہماری ہندوستانی قسم کی فارسی سنانا گوارا تھا۔ ان کی اردو بھی ہماری فارسی سے کسی طرح بہتر نہیں تھی۔ یعنی خالص ایرانی لہجہ میں اردو بولتے تھے اور تذکیر و تانیث کی بھی چنداں پرواہ نہیں کرتے تھے پھر بھی ہم نے اسے بزرگوں کا تبرک سمجھ کر گوارا کر لیا۔ باتوں باتوں میں میں نے پوچھا۔’’ رضا شاہ پہلوی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’ وہ مصطفیٰ کمال تو نہیں لیکن بہرحال غنیمت ہے۔ ایرانیوں کو مدت سے ایسا رہنما نہیں ملا۔‘‘ میں نے کہا اور ’’ ابن سعود‘‘ کہنے لگے ’’ بڑا دانش مند شخص ہے۔‘‘ میں نے کہا’’ ابھی تک تو انگریزوں کے اشارے پر ہی چل رہا ہے۔‘‘ فرمایا ’’ بیچارا کیا کرے مجبور ہے۔ لیکن اسے موقع مل گیا تو دیکھ لینا کیا کرتا ہے؟‘‘ میں نے پھر کہا’’ امان اللہ خاں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے’’ تم ایک سانس میں ساری دنیا کے متعلق میری رائے معلوم کر لینا چاہتے ہو۔‘‘ ان دنوں امان اللہ خاں یورپ کی سیاحت میں مصروف تھا۔ خیال مرحوم بولے ’’ یورپ میں اس کی آؤ بھگت تو خوب ہوئی ہے۔‘‘ کہنے لگے’’ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ آؤ بھگت ہی اس کے لئے وبال ثابت نہ ہو۔‘‘ میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگے’’ امان اللہ خاں بڑا ہونہار لڑکا ہے۔ اس کے خیالات بھی اچھے ہیں لیکن ابھی ناتجربہ کار ہے۔ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ یہ کہتے کہتے وہ جوش میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کی بے نور آنکھیں بحد وسعت کشادہ ہو گئیں۔ دہنا ہاتھ مغرب کی طرف پھیل گیا اور وہ کہنے لگے ’’ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھ سکتے۔ امان اللہ خاں اگر سیدھی راہ چلا تو کوئی عجب نہیں کہ خلافت کا منصب اس کے ہاتھ آ جائے۔ وسط ایشیا کی قوموں میں پھر قومی شرف کا سچا احساس پیدا ہو جائے۔ اور ہم مشرق میں کامرانی کی ایک نئی صبح طلوع ہوتے دیکھیں۔ یاد رکھو۔ ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ ایک شدید طوفان۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے رک گئے۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ افق کے اس پارسنانوں کی بجلیاں چمک رہی ہیں۔ شمال کی تیز ہوا میں سفید عمامے لہرا رہے ہیں اور کہیں بہت دور سے قرناؤں کے پھنکنے اور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اتنے میں پھر ان کی آواز گونجی ’’ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ وہ تباہی کا راستہ ہے۔ ابھی ہمیں کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ یہ الفاظ انہوں نے بہت جلد جلد کہے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ اندھیری رات میں ایک بجلی سی کوند گئی۔ جس نے سنگلاخ چٹانوں کے پر ہیبت چہرہ کو لمحہ بھر کے لئے بے نقاب کر دیا۔ اب جو میں نے نظر اٹھا کے دیکھا تو آقائے موید الاسلام کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں جھکی جا رہی تھیں۔ اور چہرہ زرد تھا۔ ہم کچھ دیر بیٹھے رہے۔ لیکن وہ کچھ کھوئے کھوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ اس لئے ہم نے اجازت چاہی۔ دروازہ سے نکلتے وقت خیال مرحوم کہنے لگے ‘‘ میں نے موید الاسلام کو اس عالم میں کبھی نہیں دیکھا۔ راستہ بھر ہم نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ ہم تینوں اپنے اپنے خیالات میں کھوئے ہوئے تھے۔ آقائے موید الاسلام کی زندگی بڑی عزت اور گوشہ نشینی کی زندگی تھی۔ وہ گھر سے بہت کم نکلتے تھے اور ان کے اوقات کا بیشتر حصہ لکھنے پڑھنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ اس سے جو وقت ملتا تھا۔ وہ مقدمہ بازی کی نذر ہو جاتا تھا کیونکہ ان کی جائداد کے متعلق ہمیشہ کوئی نہ کوئی جھگڑا ضرور رہتا تھا۔ شہرت سے انہیں سخت نفرت تھی۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ بھئی کام ہونا چاہئے۔ نام و نمود کی طلب بے سود ہے۔ انہوں نے کوئی تصنیف یادگار نہیں چھوڑی۔ لیکن اکثر کتابیں جو دوسرے لوگوں کے ناموں سے چھپیں ان کی تصنیف میں موید الاسلام کا ہاتھ تھا اور اکثر لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیاحت نامہ ابراہیم بیگ بھی اصل میں انہیں کی تصنیف ہے۔ یہ خیال تو صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب انہیں کے ایماء سے لکھی گئی ہو۔ عقاید کے اعتبار سے وہ شیعی تھے اور شیعی بھی کیسے؟ بہت بڑے مجتہد زادے لیکن تشیع کو وہ محض ایک سیاسی عقیدہ سمجھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جن لوگوں کے باہمی جھگڑوں نے تشیع کو پیدا کیا وہ بھی نہ رہے۔ جس نے خلافت کے لئے جھگڑا تھا وہ بھی ختم ہو گئی۔ اب شیعیت کیس؟ ہاں وہ پکے وطن پرست ضرور تھے اور وطنیت کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ حساس۔ ایران کے خلاف کسی نے کچھ کہا اور وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ ان کے ملنے والوں میں ایک صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ تم موید الاسلام کو کیا سمجھتے ہو۔ اس کا بس چلے تو ہندوستان پر ایران کا قبضہ کرا دے۔ ہندوستان کے متعلق ان کی رائے یہ تھی کہ اول تو حقوق کی تقسیم کے لئے سمجھوتے کرنا ہی بے سود ہے اور اگر سمجھوتا ہی کرنا ہے تو مسلمانوں کو ہر چیز میں نصف کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ ایک دن یہی بحث ہو رہی تھی۔ ایک کانگریسی بزرگ نے کہا کہ مسلمان تو تہائی کے حقدار ہیں۔ نصف کیسے مانگیں؟ یہ سن کر مسکرائے۔ آدھا مانگو تو بڑی رد و قدح کے بعد تہائی ملے گا۔ تم نے تہائی سے شروع کیا ہے دس سال کے بعد چوتھائی پر آ رہو گے۔ کوئی شخص کوئی اچھا مضمون لکھتا۔ یا کوئی اچھی بات کہتا تو بہت خوش ہوتے اور فرماتے تھے۔ ’’ آخر شاگرد ماست‘‘ ہندوستان کے مسلمان سیاست دانوں میں صرف مولانا ابو الکلام آزاد کے قائل تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ’’ ابو الکلام بہت ہونہار لڑکا ہے۔ چرانہ باشد۔ آخر شاگرد ماست‘‘ اور یہ فقرہ ان کی زبان پر اس طرح چڑھا ہوا تھا کہ جن لوگوں سے ان کی جان پہچان تک نہ تھی ان کے متعلق بھی کوئی اچھی بات سنتے تو آخر ’’ شاگرد ماست‘‘ کہہ کر ہی داد دیتے تھے۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہندوستان آئے انہیں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ بصارت سے محروم ہو گئے۔ اس لئے لکھنے پڑھنے کے معاملہ میں وہ بہت حد تک دوسروں کے محتاج تھے۔ صبح اٹھتے ہی اخباروں کے اہم حصے پڑھوا کے سنتے۔ لیکن جو کچھ سنتے اسے ذہن میں اس طرح محفوظ کر لیتے تھے کہ جب حبل المتین کے لئے مضمون لکھوانا شروع کرتے تو محض حافظہ کی مدد سے دوسروں کی تحریروں کے لمبے لمبے اقتباسات لکھوا دیتے تھے۔ ان کے ڈھب کی کوئی کتاب چھپتی تو ضرور منگواتے۔ اور ایک دفعہ پڑھوا کے سننے کے بعد اس کی جستہ جستہ عبارتیں تو انہیں یاد ہو جاتی تھیں لیکن وہ زیادہ تر وہی کتابیں پڑھوا کے سنتے تھے جن کا تعلق سیاسیات تاریخ اور فلسفہ سے ہوتا تھا۔ شعر و شاعری کا چنداں مذاق نہیں رکھتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ ایران اور ہندوستان دونوں کو شاعری نے ڈبویا۔ ایرانیوں کو ان سے اس درجہ عقیدت تھی کہ کلکتہ سے کوئی شخص ایران چلا جاتا تھا تو لوگ اس کی ملاقات کو باعث شرف سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر ظفر احمد جو حکیم سید قاسم علی مرحوم کے فرزند اور کلکتہ کے نامور ڈاکٹر ہیں کہتے تھے کہ میں ایران گیا۔ تو جدھر جاتا تھا لوگ مجھ سے ملنے کو ٹوٹ پڑتے تھے اور ہر شخص مجھے اپنا مہمان بنانے کا آرزو مند نظر آتا تھا اور مجھ میں لے دے کے صرف یہ خوبی تھی کہ میں اور موید الاسلام مدت سے ایک ہی شہر میں رہتے ہیں۔ کلکتہ میں موید الاسلام کا امکان ایرانیوں کے لئے اچھی خاصی سیاسی درسگاہ تھا۔ ایران سے بعض نوجوان محض ان سے سیاسیات کے گر سیکھنے کلکتہ آتے اور مہینوں بلکہ بعض اوقات برسوں ان کے ہاں پڑے رہتے تھے۔ موید الاسلام نے ۱۹۳۲ء میں انتقال کیا۔ نعش ان کی وصیت کے مطابق ایران بھیج دی گئی۔ انہوں نے کوئی اولاد نرینہ یادگار نہیں چھوڑی۔ البتہ دو صاحبزادیوں نے باپ کے نام کو روشن کیا۔ ان میں سے بڑی بیگم امیر الدین ہیں جو نسوانی تحریکوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں اور چھوٹی فرخ سلطان موید زادہ۔ جنہوں نے ہندوستان کی مسلمان عورتوں میں سب سے پہلے وکالت کا امتحان پاس کیا اور کلکتہ میں وکالت کر رہی ہیں۔ مرحوم کو سید جمال الدین اسد آبادی سے بے حد عقیدت تھی۔ اور اکثر اس بات پر افسوس کیا کرتے تھے کہ سید موصوف کے حالات میں کوئی مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ خود کئی مرتبہ ارادہ کیا لیکن جس پایہ کی کتاب وہ لکھنا چاہتے تھے اس کے لئے سامان فراہم نہ ہو سکا۔ دوسروں سے کہا اور اس کام کے لئے روپیہ صرف کرنے پر بھی آمادہ ہو گئے لیکن کسی کو اس کام کا بیڑا اٹھانے کی ہمت نہ پڑی۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ خود ان کے ساتھ بھی زمانے نے یہی سلوک کیا۔ یعنی آج تک ان کے حالات میں کوئی چھوٹی موٹی کتاب بھی نہیں لکھی گئی۔ ٭٭٭ خیال عظیم آبادی پنجاب فائن آرٹ پریس والے برج لال بابو کو رسالہ نکالنے کا شوق تھا اور مجھے ایڈیٹر بننے کا۔ آخر ہم دونوں کے اشتراک سے ۲۵ء کے اواخر میں رسالہ آفتاب نکلا۔ میں نیا نیا اخبار نویسی کے میدان میں آیا تھا۔ پہلے پرچہ کے تقریباً سارے مضامین خود لکھے۔ ایک دو افسانے تھے دو تین غزلیں۔ تین چار ذرا سنجیدہ قسم کے مضامین۔ پہلا پرچہ تو خیر جوں توں کر کے نکل گیا لیکن ہر مہینے سارے مضامین خود لکھنا ذرا ٹیڑھا کام تھا اس لئے اچھے اچھے مضمون نگاروں کی جستجو ہوئی۔ سید نجیب اشرف ندوی پاس ہی رہتے تھے۔ پہلے انہیں گانٹھا۔ پھر ان کے توسط سے پروفیسر محفوظ الحق سے ملا۔ اور انہوں نے حضرت خیال کی خدمت میں پہنچا دیا۔ سید سلیمان ندوی کلکتہ آئے ہوئے تھے۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ میں عربوں کی جغرافیہ دانی پران کی تقریر تھی۔ اور خیال اس جلسے کے صدر تھے۔ میں نے اس سے پہلے انہیں نہیں دیکھا تھا۔ سید سلیمان تقریر کر چکے۔ تو وہ اٹھے اور چند جملے کہہ کر بیٹھ گئے۔ اسی رات کو میں محفوظ میاں کے ساتھ ان سے ملا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میر انیس کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے ’’ میر انیس کے متعلق ابھی اردو میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ لے دے کے ایک مولانا شبلی کا موازنہ ہے۔ لیکن مولانا کہیں کہیں دھاندلی کر جاتے ہیں۔ میں نے کہا کسی صاحب نے موازنہ کا جواب لکھا ہے۔ شبلی نے انیس کو بڑھایا ہے۔ انہوں نے دبیر کو انیس پر فوقیت دی ہے۔ ’’ مکاتیب شبلی‘‘ میں مولانا کا ایک خط چھپا ہے جس میں انہوں نے اسی کتاب کی تعریف کی ہے۔‘‘ میں کہنے کو تو یہ بات کہہ گیا۔ لیکن اب جو غور کرتا ہوں تو حضرت خیال کے چہرہ کی رنگت متغیر ہے اور محفوظ میاں کے ابر پر بل پڑے ہیں۔ کچھ دیر تو سناٹا رہا۔ پھر خیال کہنے لگے ’’ ہاں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو شیخ امام بخش ناسخ اور مرزا دبیر کو شاعر سمجھتے ہیں۔‘‘ میں کچھ کہنے کو تھا کہ محفوظ صاحب نے کوئی اور تذکرہ چھیڑ دیا اور بات کا رخ دوسری طرف پلٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں رخصت ہوئے۔ سڑک پر پہنچ کر میں نے محفوظ صاحب سے کہا ’’ معلوم ہوتا ہے دبیر کا نام لینے میں میں نے سخت غلطی کی ہے؟‘‘ کہنے لگے’’ یہ بات تو نہیں۔ البتہ تم نے جس انداز میں انیس اور دبیر کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ تم خود بھی دبیر کو انیس سے بہتر سمجھتے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت خیال بڑے پکے انیسئے ہیں۔ میں نے تمہیں بہتیرے اشارے کئے لیکن تم کب رکتے تھے؟ اب یہ تو آفتاب کے لئے مضمون لکھنے سے رہے۔‘‘ میں نے کہا’’ فکر نہ کرو۔ دو تین ملاقاتوں میں انہیں ڈھب پر لے آؤں گا۔‘‘ اور یہی ہوا خیال پڑھتے بہت تھے۔ لکھتے بہت کم تھے اور لکھتے بھی تھے تو کسی رسالے میں نہیں چھپواتے تھے۔ لیکن اب جو انہوں نے لکھنا شروع کیا تو آفتاب کا کوئی نمبر ان کے مضمون سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ وہ شہر سے باہر تالتلہ کے پاس رہتے تھے۔ میں تقریباً ہر شام کو کام سے فارغ ہو کر ان کے ہاں پہنچ جاتا تھا۔ رات کے بارہ بجے تک صحبتیں رہتی تھیں اور اتوار کو سارا دن انہیں کے ہاں گزرتا تھا۔ انہیں صحبتوں میں کبھی مولانا شائق احمد عثمانی ہوتے تھے کبھی نواب زادہ ایف ایم عبدالعلی باقی غازی پوری۔ خان بہادر رضا علی وحشت پروفیسر محفوظ الحق اور پروفیسر عبدالرحیم تشریف لے آتے تھے۔ خیال کا پورا نام سید نصیر حسین خیال تھا۔ ان کے والد سید نو روز حسین عظیم آباد کے مشہور شرفاء میں سے تھے اس کا سلسلہ نسب سادات بارہہ کی اس شاخ سے ملتا تھا۔ جس میں سید عبداللہ اور سید حسین ہوئے ہیں۔ یہ وہی دو بھائی ہیں جو تاریخ میں بادشاہ گھر سیدوں کے نام سے مشہور ہیں۔ شاد عظیم آبادی خیال کے سگے ماموں ہوتے تھے۔ خیال نے عربی بقدر ضرورت پڑھی تھی۔ فارسی میں ان کی استعداد فاضلانہ تھی۔ انگریزی بھی اچھی خاصی جانتے تھے۔ بچپن سے کلکتہ ان کا آنا جانا تھا۔ چونکہ ان کی شادی مٹیا برج میں ہوئی تھی۔ اس لئے جوانی ہی میں کلکتے اٹھ آئے۔ اور ساری عمر وہیں گزار دی۔ جب سید علی امام حیدر آباد میں وزیراعظم مقرر ہوئے تو ان کے ساتھ یہ بھی حیدر آباد پہنچے اور کئی خدمتوں پر مامور ہوئے۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد سے ان کے تعلقات گہرے تھے۔ حیدر آباد سے واپس آنے کے بعد بھی برابر ان سے خط و کتابت جاری رہی۔ سر علی امام کے ساتھ ولایت بھی گئے اور انگلستان کے علاوہ فرانس، جرمنی، آسٹریا، مصر وغیرہ ملکوں کی سیر کی۔ واپس آئے تو حسن خدمت کے صلے میں ادیب الملک نصیر یار جنگ کا خطاب پایا۔ حیدر آباد سے تعلقات منقطع ہونے پر کچھ دنوں کے لئے خیر پور بھی رہے لیکن وہاں کی فضا انہیں راس نہ آئی۔ خیال کی رنگت گوری چٹی تھی۔ قد مولوی غلام محی الدین قصوری سے کسی قدر نکلتا ہوا۔ دبلا پتلا جسم۔ بڑی بڑی آنکھیں۔ سوتواں ناک۔ کھلی پیشانی، داڑھی منڈی ہوئی، مونچھیں نکیلی زیادہ تر انگریزی لباس پہنتے تھے۔ کبھی کبھی شیروانی اور گھٹنا بھی پہن لیتے تھے۔ میں نے انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو سیاہ سوٹ پہنے ہوئے تے۔ جو ان کی گوری رنگت پر عجب بہار دے رہا تھا۔ اس وقت ان کی عمر پچپن سال کی تھی لیکن طبیعت بے اختیار ان کی طرف کھینچتی تھی۔ جوانی میں خدا جانے کیا قیامت ہوں گے۔؟ عقیدہ کے لحاظ سے شیعہ تھے۔ لیکن غلو ان کی طبیعت میں نام کو نہ تھا۔ میں نے انہیں نہ کبھی محرم کی مجلسوں میں شریک ہوتے دیکھا۔ نہ انہوں نے تعزیہ داری میں شرکت کی۔ خود کہتے تھے کہ ان چیزوں سے کیا حاصل؟ تعزیہ داری اصل میں پروپیگنڈے کا ایک طریقہ تھا۔ جن لوگوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا جب وہ نہ رہے تو تعزیہ داری کیا ضرورت باقی رہ گئی؟ سیاسیات میں وہ سرسید اور ان کے ساتھیوں کے معتقد تھے اور پرانی مسلم لیگ سے جو سوٹ ایبل سلف گورنمنٹ کو معراج سمجھتی تھی۔ مدت تک وابستہ رہے تھے وہ سیاسی قضیوں میں خود آگے نہیں آتے تھے البتہ پس پردہ بیٹھ کے ڈور ضرور ہلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ سر عبدالرحیم کو سیاسیات کی طرف لانے میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ سر عبدالرحیم مدراس سے نئے نئے آئے تھے۔ یہاں یار لوگوں نے انہیں بہلا پھسلا کے علی گڑھ مسلم لیگ کی صدارت پر آمادہ کر لیا۔ اس اجتماعی میں انہوں نے ایسی تقریر کی کہ مدت تک ان کا نام ڈاکٹر مونجے کے نام کے ساتھ ایک ہی سانس میں لیا جاتا رہا۔ شاعری کے معاملے میں مرحوم کا عجب حال تھا۔ وہ لوگوں میں زیادہ اپنے تخلص سے مشہور تھے لیکن خود شعر نہیں کہتے تھے بلکہ ہمیشہ شعر و شاعری کی مذمت کرتے اور جہاں تک ہو سکتا نوجوانوں کو شعر کہنے سے روکتے تھے۔ مشاعروں سے تو انہیں چڑھ سی تھی۔ کہتے تھے کہ مشاعروں نے شاعری کی اہمیت کو کھو دیا ہے۔ ایک دن مشاعروں کا ذکر ہو رہا تھا میں نے کہا’’ نواب صاحب آپ جوانی میں تو مشاعروں میں شریک ہوئے ہوں گے؟‘‘ کہنے لگے ’’ میں آج تک کبھی مشاعرہ میں نہیں گیا۔ پٹنہ کے اکثر بڑے بڑے مشاعرے ہمارے مکان میں ہی ہوئے ہیں اور ان میں بعض مشاعرے ایسے بھی تھے جن میں داغ اور امیر بھی شریک ہوتے رہے لیکن میں پاس کے کمرے میں مزے سے سوتا رہتا تھا۔ ہاں کبھی کبھی داد کے شور و غل سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ تو میں بھی دو تین شعر سن لیتا تھا۔‘‘ میں نے کہا ’’ آپ نے شعر تو ضرور کہے ہوں گے؟‘‘ کہنے لگے جوانی میں کبھی کبھی کہہ لیا کرتا لیکن جو کچھ کہا نہ کسی مشاعرہ میں پڑھا نہ کہیں چھپوایا۔ پھاڑ کے پھینک دیا اس قصہ کو بیس پچیس سال ہو چکے ہیں۔ ان دنوں ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ گورنر بنگال نے سر عبدالرحیم کو وزارت مرتب کرنے کے لئے کہا۔ لیکن وہ علی گڑھ والی تقریر کی وجہ سے ہندوؤں میں بہت بدنام ہو چکے تھے۔ کوئی ہندو ان کے ساتھ مل کر وزارت مرتب کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ گورنر نے مجبور ہو کر مسٹر بی سی چکرورتی کو طلب کیا اور انہوں نے سرائے کے غزنوی کے ساتھ مل کر وزارت قائم کر لی۔ سر عبدالرحیم موقع پا کر کانگریس سے جا ملے اور وزارت کا تار پود بکھیر کر رکھ دیا۔ اس واقعہ پر اخباروں میں بڑے زناٹے کے مضامین نظم و نثر چھپے۔ ان میں ایک مزے کی نظم بھی تھی جو مولانا محمد علی کے اخبار ہمدرد دہلی میں شائع ہوئی تھی۔ ہمدرد نے شاعر کا نام نہیں بتایا تھا البتہ اس کے ابتداء میں ایک نوٹ لکھ کر واضح کر دیا تھا کہ یہ نظم کلکتہ کے ایک صاحب ذوق بزرگ کے قلم سے نکلی ہے۔ کوئی پچاس پچپن شعر کی نظم تھی لیکن سارے شعر ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ مجھے صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔ غزنوی کون کہے تجھ سے دنی فطرت کو نام محمود نما اور غلامی میں ایاز یہ نظم پڑھ کے بہت حیرت ہوئی کہ کلکتہ میں کون ہے جو ایسے شعر لکھے۔ ہر پھر کے حضرت خیال پر ہی نظر پڑتی تھی لیکن اس معاملہ میں ان کا یہ حال تھا کہ شعر کا نام لیتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھتے تھے۔ دوسرے دن میں ان سے ملنے گیا تو ہمدرد کا پرچہ ان کی میز پر پڑا تھا۔ میں نے پرچہ اٹھا کے کہا ’’ آپ نے یہ نظم ملاحظہ فرمائی۔‘‘ کہنے لگے ’’ ہاں‘‘ میں نے کہا’’ کیا خیال ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’ خاصی ہے‘‘ میں نے کہا’’ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کلکتہ میں ایسی نظم لکھنے والا کون ہے؟‘‘ مسکرا کر کہنے لگے’’ بہتیرے اللہ کے بندے پڑے ہیں۔‘‘ میں نے کہا’’ کہیں آپ تو نہیں؟‘‘ یہ سن کر مسکرا پڑے اور پہلو بدل کے کوئی اور ذکر چھیڑ دیا۔ میں تو یہ سمجھ گیا کہ یہ نظم انہوں نے ہی لکھی ہے لیکن انہیں اخفا منظور تھا۔ اس لئے میں نے بھی زیادہ اصرار مناسب نہ سمجھا۔ اگلے پچھلے شعرا میں وہ دو تین کے سوا کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ لکھنو کے شاعروں میں صرف آتش کے قائل تھے۔ غالب اور میر کے کمال کے بھی معترف تھے لیکن جتنی عقیدت انہیں انیس اور درد سے تھی اور کسی سے نہیں تھی۔ آخری زمانہ کے شعرا میں شاد کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ زبان کی صحت اور صفائی کا انہیں بہت خیال تھا لیکن اس معاملہ میں لکھنو اور دہلی کے تفوق کے چنداں قائل نہیں تھے۔ ایک دن میں نے کہا اقبال پر لکھنو والوں نے بڑے بڑے اعتراضات کئے ہیں۔ کہنے لگے ’’ اقبال کی زبان پنجاب والوں کے لئے مستند ہے۔ لکھنو کے شاعروں کو کیا حق ہے کہ ان پر اعتراض کریں۔ وہ زمانہ گیا جب لکھنو کی زبان آوری کا سکہ سارے ہندوستان پر چلتا تھا۔‘‘ ایک دن کہنے لگے’’ بھئی دلی میں بھی کوئی شخص اچھے شعر کہتا ہے؟‘‘ میں نے کہا’’ دلی میں بیخود کی بڑی تعریف سنی ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’ ان کا کوئی شعر سناؤ۔‘‘ میں نے یہ دو شعر سنائے: سلسلہ دل کا بندھے زلف گرہ گیر کے ساتھ اپنی تقدیر ملا دو میری تقدیر کے ساتھ کبھی قسمت کی شکایت کبھی رونا دل کا رات دن رہتی ہیں باتیں تری تصویر کے ساتھ دوسرا شعر سن کے مسکرائے اور کہنے لگے۔ ’’ خیالات سے تو میں بحث نہیں کرتا۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ ’’ ساتھ‘‘ کا یہ موقع نہیں۔ دلی والوں کی برتری زبان کی وجہ سے تھی۔ زبان بھی نہ رہی تو دلی کے پاس کیا رہ گیا۔‘‘ میں نے کہا’’ شاعری نہ سہی نثر نگاری میں تو راشد الخیری اور حسن نظامی کی بڑی شہرت ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’ راشد الخیری اچھا لکھتے ہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ نذیر احمد کی طرح وہ بھی محاروں پر جان دیتے ہیں۔ نذیر احمد نے قرآن کا ترجمہ کیا لیکن محاورے لکھنے کی دھن میں اسے باہر والوں کے لئے چیستان بنا دیا ہے۔ کہیں کہیں ایسے الفاظ اور محاورات لکھ گئے ہیں جنہیں دلی سے بارہ کوس ادھر کوئی نہیں سمجھتا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’ اور خواجہ حسن نظامی‘‘ کہنے لگے ’’ میں خواجہ صاحب کے دوسرے کمالات کا قائل ہوں لیکن ان کی زبان کو مستند نہیں سمجھتا۔‘‘ میر انیس سے انہیں اس درجہ عقیدت تھی کہ سارے شاعروں کا کمال ان کی شاعری کے سامنے ہیچ نظر آتا تھا کبھی کبھی میں حاضر ہوتا تھا تو وہ انیس کا کوئی مرثیہ پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ ایک ایک بند پر خود وجد کرتے دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ میر حسن سے بھی انہیں بڑی عقیدت تھی اور شاید اس عقیدت کی وجہ یہ تھی کہ وہ میر انیس کے دادا تھے۔ خیال کبھی کوئی پرانا قصہ بیان کرتے تھے تو سماں باندھتے تھے اور لکھنے بیٹھتے تھے تو موتی رولتے چلے جاتے تھے۔ نثر میں ان کا انداز محمد حسین آزاد سے بہت ملتا جلتا ہے لیکن آزاد اپنی تحریروں کو بہت کاٹ چھانٹ کے بعد شائع کرتے تھے۔ انہوں نے جہاں کوئی چیز قلم برداشتہ لکھی ہے۔ اس میں ان کے حقیقی انداز کی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ ان کے خطوں کا مجموعہ مکتوبات آزاد کے نام سے چھپ گیا ہے۔ دو تین خطوں کے سوا باقی سب پھیکے ہیں۔ خیال کا یہ حال نہیں تھا۔ وہ قلم برداشتہ بھی لکھتے تھے۔ تو ماہر فن مرصع نگار کی طرح الفاظ کے نگینے جڑتے چلے جاتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دوستوں کو وقتاً فوقتاً جو خط لکھے ہیں ان میں بھی عجب کیفیت ہے کئی مضمون انہوں نے مجھے لکھوا دئیے اور نظر ثانی کئے بغیر چھپنے بھیج دیئے۔ انہوں نے پہلا مضمون غالباً رسالہ حسن میں لکھا تھا جو نواب محسن الملک کی ایڈیٹری میں دکن سے نکلتا تھا۔ پھر جب پٹنہ سے ان کے دوست سید علی سجاد عرف پیارے صاحب نے رسالہ ادیب نکالا تو اس میں مضامین لکھنے لگے۔ کچھ دیر تک ضامن کنتوری کے رسالے لسان الملک میں بھی لکھتے رہے چنانچہ خالاؤں کا مارا آغا پہلے پہل لسان الملک میں ہی چھپا تھا۔ اس مضمون میں انہوں نے ایک تازہو ارد ایرانی کا قصہ بیان کیا تھا جو بلیوں سے بہت ڈرتا تھا۔ اس قصے میں آدھی اردو تھی۔ آدھی فارسی لیکن فارسی ایسی شستہ و رفتہ کہ کسی ایرانی کو بھی حرف گیری کی جرأت نہیں ہو سکتی تھی۔ ۱۹۱۶ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے جلسوں کے ساتھ ساتھ لکھنو میں ایک دھوم دھامی کانفرنس ہوئی جس کے صدر نواب خیال تھے۔ انہوں نے اس جلسے میں خطبہ پڑھا۔ اس میں انہوں نے زبان اردو کی پوری تاریخ بیان کر دی تھی۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ لکھنو گیا اور مولانا شرر کے ہاں کئی دن رہا۔ ان کے کتب خانہ میں اس خطبہ کا ایک نسخہ تھا۔ میں نے اسے پڑھا تو تحریر کا انداز بہت پسند آیا۔ مولانا سے کتاب مانگنے کی ہمت تو نہ پڑتی تھی۔ آخر ایک دن جی کڑا کر کے ان سے کہہ دیا کہ یہ کتاب مجھے دے دیجئے۔ وہ کہنے لگے ’’ میاں میرا کتب خانہ حاضر ہے جو کتاب چاہے لے جاؤ لیکن یہ نہ مانگو۔‘‘ خیال نے اسی خطبہ کو بڑھا کے زبان اردو کی ایک مبسوط تاریخ لکھ ڈالی اور اس کا نام ’’داستان اردو‘‘ رکھا۔ سہیل علی گڑھ، آفتاب کلکتہ اور بعض دوسرے رسالوں میں اس داستان کے کچھ ٹکڑے چھپے ہیں۔ اس کا ایک بات ’’ مغل اور اردو‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی چھپ چکا ہے۔ لیکن پوری کتاب چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ انہوں نے ’’ تزک خیال‘‘ کے نام سے اپنی سرگزشت بھی لکھی تھی۔ اس کا ایک حصہ حکیم حبیب الرحمان جو ان دنوں ڈھاکہ سے رسالہ جادو نکالتے تھے۔ اپنے رسالے میں چھاپنے کے ارادے سے لے گئے جادو میں تین چار قسطیں ہی نکلی تھیں کہ یہ رسالہ ہی بند ہو گیا۔ اس کتاب میں خیال نے اپنے حالات کے ساتھ ساتھ اکثر معاصرین کے سوانح بھی بیان کر دیئے تھے۔ یہ کتاب پوری ہو جاتی تو عجب چیز ہوتی۔ ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے میں نے پوچھا ’’ کوئی نئی کتاب شروع کی ہے؟‘‘ کہنے لگے بھئی کہاں کی کتاب۔ امیر نواب (صاحبزادہ کا نام) کو اردو پڑھانا چاہتا ہوں۔ کوئی ڈھب کی کتاب نہیں ملتی۔ اس کے لئے ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے۔ کوئی سو ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب تھی۔ ہند اور اہل ہند اس کا نام رکھا تھا۔ اس میں ہندوستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لباس، رسم و رواج، خیالات و عادات اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیئے گئے تھے۔ اس کے چند اجزاء میں نے ’’ آفتاب‘‘ میں بھی چھاپے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے چھوٹے بڑے بیسیوں مضامین لکھے جو مختلف رسالوں میں شائع ہوئے۔ ان میں ایک دلچسپ مضمون ہمارے پانچ ملک الشعراء ’’ آفتاب‘‘ میں چھپا تھا۔ یہ ملک الشعراء کون تھے۔ سر عبدالرحیم، سر علی امام، عبداللہ یوسف علی، صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اور ڈاکٹر ضیاء الدین۔ لطف یہ کہ ان پانچوں میں ایک بھی ایسا نہیں جسے شاعری سے کوئی تعلق ہو۔ طنزیہ مضمون تھا لیکن طنز کے پردے میں وہ بہت سی کام کی باتیں کہہ گئے ہیں۔ ایک دفعہ نواب صدر یار جنگ حبیب الرحمن خاں شیروانی اور خیال مرحوم میں معرکہ کی بحث ہوئی۔ میر انیس کا مشہور مصرع ہے۔ پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں انیس کے جو مرثیے مطبع نول کشور میں چھپے ہیں ان میں یہ مصرع اسی طرح ہے۔ آب حیات میں مولانا آزاد نے بھی یوں ہی لکھا ہے۔ مولانا شیروانی کو بھی اصرار تھا کہ یہ مصرع یوں ہی درست ہے لیکن خیال کہتے تھے کہ مصرع میں پانچویں پشت کی بجائے ساتویں پشت ہونا چاہئے۔ جادو ڈھاکہ میں دیر تک دونوں طرف سے مضامین شائع ہوتے رہے۔ آخر نظم طباطبائئی کو حکم مقرر کیا گیا اور انہوں نے اپنے محاکمہ میں خیال کی تائید کر کے اس بحث کو ختم کر دیا۔ ایک اور طویل مضمون جو انہیں دنوں آفتاب میں چھپا خیال کے ہم مکتب اور بچپن کے رفیق سید علی عرف پیارے صاحب کا تذکرہ ہے۔ جس میں ان کا قلم کہیں گلفشاں اور کہیں خونبابہ بار نظر آتا ہے۔ یعنی اس میں کہیں چوچلے اور چہلیں ہیں کہیں زمانہ کی قدر ناشناسی کا ماتم۔ اس قسم کی چیزوں کے لئے خیال کا انداز تحریر بہت موزوں ہے۔ چنانچہ جب کبھی اگلی محبت کا حال بیان کرتے ہیں صحیح تصویر کھینچ دیتے ہیں اور روکھے پھیکے مضامین کو ایسا بامزہ بنا دیتے ہیں کہ قصہ کہانی کا سا مزہ آتا ہے لیکن میری رائے میں دقیق علمی مسائل کیلئے ان کی زبان موزوں نہیں۔ وہ سبک ترکیبوں اور ہلکے پھلکے الفاظ کو بہت پسند کرتے اور مغلق الفاظ اور بھاری بھر کم ترکیبوں سے بہت بچتے رہتے تھے۔ کہیں کہیں تو ان کا یہ حال ہے کہ صفحوں کے صفحے پڑھتے چلے جایئے۔ فارسی عربی کی ایک بھی ترکیب نظر نہیں آئے گی۔ میں نیا نیا کلکتہ گیا تو فارسی کی گرانبار ترکیبیں زبان قلم پر چڑھی ہوئی تھیں۔ بہت الجھی ہوئی نثر لکھتا تھا لیکن ان کے فیض صحبت سے آہستہ آہستہ میری زبان میں بھی سلجھاؤ پیدا ہو گیا۔ لیکن انہوں نے کبھی مجھے ثقیل ترکیب یا الجھے ہوئے جملے پر ٹوکا نہیں۔ ہاں کسی ایسے طریقے سے جتا دیا کرتے تھے کہ مجھے بالکل ناگوار معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا ’’ نواب صاحب آپ بھی کسی زمانہ میں عربی آمیز اردو لکھتے ہوں گے؟‘‘ کہنے لگے ’’ ہاں ابتداء میں میری طبیعت کا رحجان بھی اسی طرف تھا۔ لیکن ایک دن بیٹھا انشائے ابو الفضل پڑھ رہا تھا۔ ایک تازہ ولائت ایرانی پھرتا پھراتا آنکلا۔ مجھے ابو الفضل پڑھتے دیکھ کر کہنے لگا بابا نصیر چہ می خوانی؟ میں نے جواب دیا ’’ انشائے ابو الفضل‘‘ اس نے یہ سن کر کتاب اٹھا لی۔ اسے پلٹ کے دیکھا اور پھر کہنے لگا کدام زبان است۔ میں نے کہا’’ فارسی‘‘ وہ حیرت زدہ ہو کر بولا کہ ’’ بابا ایں چہ فارسی است کہ ور فہم مانمی آید‘‘ اس فقرہ سے مجھے ہمیشہ کے لئے کان ہو گئے۔ انسان جس زبان میں لکھے وہ ایسی تو ہو کہ اہل زبان اسے سمجھ سکیں۔‘‘ پھر کہنے لگے’’ مولوی عبدالماجد صاحب نے برکلے کی ایک کتاب کا ترجمہ اردو میں کیا ہے میں نے بہت غور سے پڑھی ہے لیکن اکثر مقامات کا مطلب سمجھنے کے لئے اصل سے رجوع کرنا پڑا۔ حالانکہ میں انگریزی سے زیادہ اردو جانتا ہوں۔ تمہیں کہو کہ ایسے ترجمہ کا کیا فائدہ؟‘‘ زبان کے معاملہ میں وہ لکیر کے فقیر نہیں تھے بلکہ کہیں کہیں عام اصول و قواعد سے انحراف بھی کر جاتے تھے۔ داستان اردو کا مسودہ پہلی مرتبہ میری نظر سے گزرا تو اس میں کئی ایسی ترکیبیں نظر آئیں جو قاعدہ کی رو سے غلط تھیں۔ مثلاً بعض جگہ انہوں نے فارسی اور بھاشا کے الفاظ کو آپس میں ترکیب دے کر کوئی اصطلاح گھڑ لی ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’ نواب صاحب فارسی اور بھاشا کے الفاظ میں عطف و اضافت قاعدہ کے رو سے غلط ہے۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’ اتنا تو میں بھی جانتا ہوں لیکن تم نے دیکھا نہیں میں نے بھاشا کے جن الفاظ کو فارسی سے ترکیب دیا ہے وہ باعتبار صوت فارسی سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے الفاظ کوباہمدگر ترکیب دینے میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘ الفاظ کی تذکیر و تانیث کے معاملہ میں ان کی رائے یہ تھی کہ کہیں کہیں الفاظ کی تذکیر و تانیث کا انحصار عبارت کے سیاق و سباق پر ہوتا ہے۔ یعنی ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے کہ ایک لفظ جو اہل زباں کے نزدیک مذکر ہے کسی خاص عبارت میں مونث ہی اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ایک دن الفاظ کی تذکیر و تانیث کا ذکر چھڑا تو کہنے لگے کہ میں نے اودھ پنچ میں ایک مضمون لکھا۔ جس میں ایک جگہ قلم (پیوند کے معنوں میں) بالتذکیر آیا تھا۔ فقرہ غالباً یہ تھا ’’ یہاں بھانت بھانت کے جانور آئے اور قسم قسم کے قلم لگائے گئے۔‘‘ بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے کہا میں نے سیاق عبارت کا لحاظ کر کے اسے مذکر لکھا ہے۔ پہلے ٹکڑے میں ’’ جانور آئے‘‘ لکھا گیا ہے۔ دوسرے ٹکڑے میں ’’قلمیں لگائی گئیں‘‘ کہا جاتا تو بہت ناگوار معلوم ہوتا۔ جلال لکھنوی اس زمانے میں زندہ تھے۔ ان سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے بھی میری تائید کی۔ خیال مرحوم واقعات کو ترتیب دے کر ان سے نتائج اخذکرنے کا بھی خاص سلیقہ رکھتے تھے لیکن مولانا محمد حسین آزاد کی تحریریں جس نقص کی وجہ سے لوگوں میں انگشت نما ہیں وہ ان کے ہاں بھی موجود ہے۔ یعنی وہ بھی مستند اور غیر مستند روایتوں میں تمیز نہیں کرتے۔ جہاں کوئی چٹکلہ یا لطیفہ کوئی مزے کی حکایت یا کہانی نظر آتی ہے فوراً اسے قبول کر لیتے ہیں۔ ہزار کہئے کہ اس کا راوی ضعیف ہے۔ قرائن سے بھی کوئی شہادت نہیں ملتی لیکن کون مانتا ہے؟ جن دنوں وہ داستان اردو کو ترتیب دے رہے تھے اور میں روز ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہتے تھے۔ مجھے کھلم کھلا ٹوکنے کی جرأت تو نہ ہوتی تھی۔ پھر بھی لوازم ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اعتراض کر ہی دیتا تھا۔ مثلاً ایک دفعہ انہوں نے نور جہاں کے چند اردو اشعار سنائے جن کی زبان بہت صاف تھی۔ میں نے کہا’’ اشعار تو بہت اچھے ہیں لیکن لوگوں کو یقین دلانا بہت مشکل ہے کہ واقعی نور جہاں کا کلام ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’ صغیر بلگرامی نے تذکرہ جلوۂ خضر میں یہ اشعار نقل کئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’ صغیر بلگرامی نے اپنے تذکرہ میں بہت سی غلط سلط باتیں بھی لکھ دی ہیں۔‘‘ یہ سن کر ان کے ابروؤ ں پر بل پڑ گئے اور کچھ سوچنے لگے۔ اتنے میں کوئی اور صاحب آ گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ انہیں اظہار خیال کے نئے نئے ڈھنگ یاد تھے اور وہ ادائے مطالب کے لئے ہمیشہ کوئی ایسی نئی راہ تلاش کر لیتے تھے کہ ان کی ذہانت اور سوجھ بوجھ پر حیرت ہوتی تھی۔ حکیم سید قاسم علی کلکتہ کے ایک نامور طبیب تھے جنہیں انتقال کئے ہوئے کوئی بیس پچیس سال ہو چکے تھے ایک مرتبہ خیال نے ان کے حالات لکھے جو رسالہ خیابان لکھنو میں شائع ہوئے۔ اس مضمون میں انہوں نے حکیم صاحب کے عادات و خیالات اور ان کی خاص خاص صحبتوں کے نقشے کھینچے ہیں۔ ان میں ایک خاص صحبت کی کیفیت مجھے یاد ہے۔ ’’ حکیم صاحب احباب کے حلقے میں بیٹھے ہیں کہ کوئی شخص مولانا شبلی کی کتاب موازنہ انیس و دبیر پیش کرتا ہے۔ حکیم صاحب اسے بڑے شوق سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اتنے میں وہ شخص کہتا ہے کہ حکیم صاحب مولانا شبلی نے انیس کی زبان پر کچھ اعتراضات بھی کئے ہیں۔ یہ سن کر ان حکیم صاحب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ذرا میں بھی سنوں کیا کیا اعتراضات ہیں وہ؟ وہ جواب دیتا ہے انیس نے ایک جگہ خوشی کو خوش کر کے معنوں میں استعمال کیا ہے اور مولانا کے نزدیک یہ صحیح نہیں۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں مولانا شبلی کو غلط فہمی ہوئی خوشی ان معنوں میں بھی درست ہے۔ مثلاً آتش کہتے ہیں‘‘ خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے غرض وہ شخص شبلی کے سارے اعتراضات ایک ایک کر کے سناتا ہے اور حکیم صاحب انیس کی تائید میں اساتذہ کے کلام سے سندیں پیش کرتے جاتے ہیں۔ میں نے خیابان میں یہ مضمون پڑھ کر حضرت خیال سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے حکیم سید قاسم علی بڑے صاحب علم بزرگ تھے۔ کہنے لگے ’’ ہاں! ان کے صاحب علم ہونے میں کیا شک ہے؟‘‘ لیکن ان کی اس ہاں سے میری تسلی نہ ہوئی۔ پھر کہا’’ مرحوم نے اساتذہ کے ہزاروں شعر یاد کر رکھے ہوں گے جہاں کسی نے ٹوکا سند میں فوراً شعر پڑھ دیا۔‘‘ یہ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے’’ معلوم ہوتا ہے کہ تم بات کو پا گئے۔ خیر تم سے کیا پردہ؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارا سارا خاندان انیس کا معتقد ہے اور میں اس عقیدت مندی میں سب سے آگے رہا ہوں۔ موازنہ انیس و دبیر شائع ہوئی تو اس میں انیس پر اعتراضات دیکھ کر طبیعت بہت بے چین ہوئی کئی مرتبہ سوچا کہ ان اعتراضات کا جواب ضرور ہونا چاہئے لیکن شبلی مرحوم میرے بزرگ اور بزرگوں کے ملنے والے تھے اس لئے خون کے گھونٹ پی کے خاموش ہو رہا۔ آخر یہ خلش پچھلے دنوں دور ہوئی یعنی حکم سید قاسم علی کے حالات لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ شبلی کے اعتراضات کا جواب ان سے کیوں نہ دلوایا جائے۔ حکیم صاحب شبلی مرحوم کے ہم سن اور عزت اور رتبہ میں ان کے برابر تھے۔ میں نے ان کی زبانی شبلی مرحوم کے متعلق جو باتیں کہلوائی ان میں سوئے ادب کا پہلو کہیں نہیں نکلتا۔ حالانکہ یہی باتیں اگر میں کہتا تو انگلیاں اٹھتیں۔ سب کہتے کہ کل کا لڑکا مولانا شبلی کی برابری کرنے چلا ہے۔‘‘ دراصل خیال ان لوگوں میں سے تھے جو وضع داری کو لازمہ شرافت سمجھتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ یہ رکھ رکھاؤ اور ادب قاعدے انہیں لوگوں کے ساتھ ختم ہو گئے اب تو چھوٹے بڑے کی تمیز ہی اٹھ چکی ہے جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ مخاطب کون ہے؟ اس قسم کے خالص مشرقی خیالات کے باوجود بعض باتوں میں مغرب کے پیرو تھے۔ مثلاً وہ مغربی لباس کو بہت پسند کرتے تھے اور خود بھی یہی لباس پہنتے تھے۔ جب کبھی ہندوستانیوں کے لباس کا ذکر آیا انہوں نے یہی کہا کہ بھئی ہندو مسلمانوں میں بڑا اختلاف معاشرت کا ہے یہ تو ہونے سے رہا کہ ہندو مسلمانوں کی وضع اختیار کر لیں یا مسلمان ہندوؤں کا سا لباس پہننا شروع کر دیں۔ باہمی اتحاد کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں اپنا اپنا طریق معاشرت چھوڑ کے یورپ کی پیروی شروع کر دیں اور ایک نہ ایک دن یہ ہو کے رہے گا ۔ وہ پردے کے بھی سخت مخالف تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ بدصورت عورتوں کو پردہ میں بٹھا دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن حسین عورتوں کو کیوں پردہ میں رکھا جائے؟ غرض یوں کہنا چاہئے کہ خیال مشرقیت اور مغربیت کے امتزاج کا عجیب و غریب نمونہ تھے۔ بظاہر ان کے خیالات بالکل مغربیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے تھے لیکن بہت سی باتوں میں وہ خالص مشرقی تھے۔ مثلاً وہ باہر نکلتے تو انگریزی لباس پہن لیتے تھے گھر میں اکثر اوقات صرف تہہ بند اور بنیان میں نظر آتے تھے۔ نشست و برخاست کے طریقے میل جول کے ادب آداب میں بھی ان پر مشرقیت کا اثر غالب نظر آتا تھا۔ خاص طور پر جب کبھی کسی پرانی صحبت یا اگلے وقتوں کے کسی بزرگ کا ذکر کرتے تھے تو ان کی مشرقیت بالکل بے نقاب ہو جاتی تھی۔ اس وقت وہ پرانے زمانے کی کوئی داستاں گویا الف لیلہ کا کوئی کردار معلوم ہوتے تھے۔ بعض ایسے موقعوں پر میں نے انہیں آبدیدہ بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں صبح و شام اچھی خاصی محفل جمی رہتی تھی جس میں زیادہ تر ادبی ذکر اذکار رہتے تھے۔کبھی کبھی سیاسی اور مذہبی بحثیں بھی چھڑ جاتی تھیں لیکن جس طرح مولانا ظفر علی خاں گفتگو کرتے وقت ادیبات مذہب سے گریز کر کے سیاسیات پر آ رہتے ہیں اسی طرح خیال مرحوم کو یہ سلیقہ حاصل تھا کہ بحث سیاسی ہو یا مذہبی وہ بڑی خوبی سے اس کا سرا ادبیات سے ملا دیتے تھے اور پھر اپنا یا کسی دوسرے بزرگ کا کوئی مضمون، میر انیس کا کوئی مرثیہ، شاد کی کوئی غزل یا میر حسن کی مثنوی کا کوئی ٹکڑا پڑھ کر سنانا شروع کر دیتے تھے اور اس دھن میں انہیں بالکل اس بات کا خیال نہیں رہتا تھا کہ محفل میں جو لوگ موجود ہیں ان میں کتنے ایسے ہیں جنہیں اس موضوع سے دلچسپی ہے؟ اگر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ اہل محفل میں سے دو تین تو ان کی باتیں غور سے سن رہے ہیں باقی کا یہ حال ہے کہ کبھی ان کا منہ تکنے لگتے ہیں کبھی سننے والوں کا۔ میں حضرت خیال سے پہلے پہل ملا تو وہ بڑے ٹھاٹھ سے زندگی بسر کرتے تھے تین چار نوکر تھے۔ کوٹھی اگرچہ کرایہ کی تھی لیکن اس کا کرایہ بھی ڈھائی تین سو سے کم کیا ہو گا؟ کوئی تیس سال سے ان کی زندگی کا یہی ہنجار تھا لیکن آخر میں ان کی مالی حالت اگلی سی نہیں رہی تھی۔ مجھے اس بات کا بالکل احساس نہ ہوتا لیکن جب میرے لئے سٹیٹ اکسپریس کے بجائے گھٹیا قسم کے سگریٹ آنے لگے اور چار نوکروں کے بجائے صرف دو رہ گئے تو مجھے خیال ہوا کہ ان کی حالت دگرگوں ہے۔ تھوڑے دنوں کے بعد انہوں نے کوٹھی چھوڑ دی اور مٹیا برج اٹھ گئے۔ اب روز کی ملاقاتیں ختم ہو چکی تھیں۔ کبھی کبھی وہ مجھے اور مولانا شائق کو بلا بھیجتے تھے اور چاند پال گھاٹ پر ان سے ملاقات ہو جاتی تھی لیکن یہ صحبتیں بھی جلد برہم ہو گئیں۔ یعنی دو تین مہینے گزرے تھے کہ میں لاہور چلا آیا۔ یہاں مجھے ان کے دو خط ملے۔ ایک خیر پور سے آیا تھا، دوسرا حیدر آباد سے۔ پھر دو تین سال تک ان کی کوئی خبر نہ ملی۔ ۱۹۳۳ء کا ذکر ہے۔ میں دار الاشاعت پنجاب میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے ایک لفافہ لا کر دیا۔ کھولا تو سوا د تحریر آنکھوں کو آشنا معلوم ہوا۔ غور کیا تو حضرت خیال کا خط تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ میں دو دن سے لاہور ہی میں ہوں۔ موچی دروازہ کے اندر مرزا مہدی حسین صاحب کے ہاں قیام ہے۔ ہوسکے تو آج شام کو مجھ سے آ کے مل جاؤ۔ میں شام کو کوئی ساڑھے پانچ بجے مرزا صاحب کے ہاں ان سے ملا اور جب تک وہ یہاں رہے بلاناغہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ اگرچہ اب ان کے چہرے پر نہ وہ اگلی سی رونق تھی۔ نہ وہ توانائی۔ پھر بھی ان کی آن تان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہی گفتگو کا انداز تھا وہی تبسم۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس شخص کا دل دنیا کے فکروں اور اندیشوں سے خالی ہے۔ یہاں وہ کوئی دو مہینے رہے۔ ان دو مہینوں میں یہاں کے اکثر ادیبوں اور شاعروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ پنجاب والے پورب کے اہل قلم سے بہت بدظن تھے کیونکہ اب تک لکھنو، آگرہ اور دلی سے جو شاعر لاہور آئے تھے ان میں کوئی بھی یہاں کے لوگوں کو متاثر نہیں کر سکا تھا۔ لیکن خیال کا معاملہ ہی دوسرا تھا جب کسی مسئلہ پر گفتگو شروع کرتے تھے سماں بندھ جاتا تھا۔ ’’ مغل اور اردو‘‘ کے چند اجزاء ان کے ساتھ تھے۔لوگوں کے اصرار سے بعض محفلوں میں پڑھ کر سنائے اور سالک اور تاثیر جیسے ’’ کافروں‘‘ کو ایمان لانے پر مجبور کر دیا۔ وہ دو مہینے لاہور رہ کر جولائی کے مہینے میں کشمیر چلے گئے وہاں سے اکتوبر میں لوٹے اور لاہور میں دو راتیں رہ کر کلکتہ کا رخ کیا۔ اس واقعہ پر کوئی آٹھ نو مہینے گزرے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کا قصہ بھی عجیب ہے۔ کلکتہ سے نواب چھتاری کو ملنے علی گڑھ آئے ہوئے تھے۔ ایک دن سیر کو نکلے اور چلتے چلتے گر پڑے۔ لوگوں نے اٹھایا تو معلوم ہوا کہ روح پرواز کر چکی ہے۔ ’’ داستان اردو‘‘ ان کی عمر بھر کی کمائی تھی۔ لیکن مسودہ تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملا۔ فردوسی پر ایک طویل مضمون ان کے آخری زمانی کا کارنامہ ہے جو کتابی صورت میں چھپ گیا ہے۔ افسوس کہ اردو نثر نگاری میں جتنا اونچا ان کا پایہ ہے اتنی شہرت نہیں پائی۔ ان کے کارناموں سے آشنا ہونا تو درکنار اکثر لکھے پڑھے لوگ ان کا نام تک نہیں جانتے۔ حضرت خیال نے صرف ایک فرزند نرینہ (سید امیر نواب سلمہ) اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ نہال عظیم آبادی جو اچھے خوشگوار شاعر ہیں مرحوم کے سوتیلے بھائی ہیں۔ ٭٭٭ آغا حشر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے پہلی مرتبہ آغا حشر کا نام کب سنا؟ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’ ڈرامہ‘‘ کا نام سننے سے پہلے اس نام سے میرے کان آشنا ہو چکے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد میری معلومات میں اتنا اضافہ اور ہوا کہ آغا حشر جو کچھ کہتا ہے اس کا نام ڈراما ہے۔ ڈرامہ کی اصل کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ ڈراما اور ڈرانا کے معنی میں بہت تھوڑا فرق ہو گا۔ ہمارے پڑوس میں ایک افغان سردار رہتے تھے ان کا ایک نوکر تھا جسے سب ’’ آغا آغا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ بڑے کلے ٹھلے کا دیدار و جوان تھا۔ سیاہ گنجا داڑھی، زلفیں چھٹی ہوئیں۔ وہ جدھر سے گزرتا تھا لڑکے ’’ آغا آغا‘‘ کہہ کے اس کے پیچھے دوڑ پڑتے تھے۔ وہ اکثر اوقات تو ہنستا ہوا گزر جاتا لیکن کبھی کبھی جب وہ چرس کے نشے میں ہوتا لڑکوں کے نعرے سن کے چلتے چلتے رک جاتا۔ اپنی زبان میں چلا چلا کے کچھ کہنا اور سرخ سرخ آنکھیں نکال کے ہماری طرف اس طرح دیکھا کہ سب سہم جاتے۔ انہیں دنوں ہمارے قصبہ میں ایک اور آغا وارد ہوئے۔ یہ بینک بیچنے آئے تھے۔ لمبی داڑھی، بال شانوں پر بکھرے ہوئے۔ صدری پر میل کی تہہ جمی ہوئی۔ وہ ایک ہاتھ سے گٹھڑی سنبھالے سڑک پر کھڑے رہتے اور ’’ اینگ لے لو، اینگ لے لو‘‘ پکارا کرتے تھے لیکن میں نے کبھی کسی شخص کو ان سے ہینگ خریدتے نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی وہ جھنجھلا کے چلا چلا کے کچھ کہتے۔ غالباً بستی کے لوگوں کو جن میں کوئی ہینگ کا قدر شناس نہیں تھا گالیاں دیتے رہے ہوں گے۔ اس عالم میں کوئی شخص آ نکلا تو اسے پکار کے کہتے ’’ خواینگ لے لو‘‘ اگر وہ چپ چاپ گزر جاتا تو کچھ دیر تک بک جھک کر خاموش ہو رہتے۔ ورنہ اگر وہ جواب میں کہتا کہ مجھے ہینگ کی ضرورت نہیں تو چلا کے فرماتے۔ ’’ خوام تمہارے باپ کا نوکر ہے کہ تمہارا واسطے اتنی دور سے اینگ لایا اینگ لو۔ ام سے مسخری مت کرو۔‘‘ ہماری پڑوسن بی۔۔۔۔ کا خیال تھا کہ یہ موا بردہ فروش ہے۔ ننھے ننھے بچوں کو چرا کے لے جاتا ہے اور بابا خلیل جو موچیوں کے پیر تھے۔ اس باب میں اس کے ہم خیال تھے۔ غرض آغا1؎ حشر اور ڈراما تینوں لفظ میرے نزدیک بہت ڈراؤنے اور 1؎ لفظ ’’ حشر‘‘ سے جس قسم کے تصورات ہیں۔ ان کے متعلق نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ کشمیری زبان میں حشر گالی ہے) بھیانک تھے۔ اور انہوں نے میرے ذہن پر کوئی خوشگوار اثر نہیں چھوڑا۔ پھر جب ہمارے ہاں ایک ’’ ڈرامیٹک کلب‘‘ کی بنیاد پڑی۔ اور اسیر حرص۔ سفید خون، خواب ہستی ہملٹ کے نام ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگے۔ تو آغا حشر کا نام بھی بار بار زبانوں پر آنے لگا۔ اس دور افتادہ مقام میں لے دے کے یہی ایک تفریح تھی۔ اس لئے بوڑھے بچے، جوان سب تھیٹر دیکھنے جاتے تھے۔ مستری خدا بخش سے جو تھیٹر کے پردے بھی بناتے تھے اور میلوں میں اپنا ہنڈولا لے کر بھی پہنچ جاتے تھے۔ سہیلیوں تک جن میں اکثر اسکول کے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔ میں سب کو جانتا تھا۔ لیکن ان میں آغا حشر کوئی بھی نہیں تھا مجھے یقین تھا کہ آغا حشر پردوں کے پیچھے کھڑا ہے۔ اس کا سر چھت سے لگا ہوا ہے۔ لمبی داڑھی ہے۔ گیسو کمر تک پہنچتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں ہینگ کی گٹھڑی ہے۔ دوسرے میں جادو کا ڈنڈا۔ اسی کے حکم سے پردے اٹھتے اور گرتے اور ایکٹر بھیس بدل بدل کر نکلتے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ خیال آیا کہ کسی طرح پردے کے پیچھے جا کر اس کی ایک جھلک دیکھ لوں۔ لیکن پھر ہمت نہ پڑی۔ میں نے جس زمانے کا ذکر کیا ہے۔ ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈرامائسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب مائل سب کے سب ناٹک کی لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کیا تھی؟ بچارے ڈراماٹسٹ تھیٹر کے منشی کہلاتے تھے۔ اور یہ لقب اتنا ذلیل ہو چکا تھا کہ تھانہ کے محرر، نہر کے پٹواری، ساہوکاروں اور تاجروں کے گماشتے بھی اسے اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہچکچاتے تھے۔ پنجاب میں اگرچہ تھیٹر نے چنداں ترقی نہیں کی۔ اور یہاں منشی غلام علی دیوانہ اور ماسٹر رحمت کے کینڈے کے لوگ اس فن میں سند الوقت سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ۱۹۲۱ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ جن لوگوں نے انہیں انجمن حمایت اسلام میں نظمیں پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ ان کے انجمن کے جلسے میں آنے اور نظم سنانے کی کیفیت اور ذوق شوق سے بیان کرتے تھے۔ گویا کربلائے معلی کے محرم کا حال بیان کر رہے ہیں۔ ’’ موج زمزم‘‘ اور ’’ شکریہ یورپ‘‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اگرچہ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ یعنی جو ثقہ حضرات ڈرامہ کو بد وضع اور آوارہ لوگوں سے مخصوص سمجھتے تھے۔ ان کی رائے اس فن کے متعلق بدل گئی۔ اور کیوں نہ بدلتی؟ اسی گروہ کے ایک شخص نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں جو ان دنوں ایک قومی میلہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا۔ اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہو سکا۔ اس نے کر دکھایا۔ یہ تو خواص کا حال تھا۔ آغا کے لاہور آنے نے عوام کے مذاق پر بھی اثر ڈالا۔ اور جو لوگ ماسٹر رحمت کی غزلوں پر سر دھنتے اور ان کے ڈراموں کو اس فن کی معراج سمجھتے تھے وہ بھی یک بیک چونک پڑے اور انہوں نے جان لیا کہ اس فن میں اس سے اونچا کوئی مقام بھی ہے اور ماسٹر رحمت سے بہتر ڈراما ٹسٹ بھی دنیا میں موجود ہیں۔ میں ۱۹۲۵ء میں کلکتہ گیا۔ تو آغا صاحب کلکتہ چھوڑ مہاراجہ ٹکاری کے ہاں جا چکے تھے۔ لیکن ان کے ہزاروں مداح ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کلکتہ میں موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات ان کے لطیفے، اشعار، پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد ایک دن کسی نے آ کر کہا کہ آغا آئے ہیں۔ فائن آرٹ پریس والے لالہ برج لال اروڑہ آغا کے بڑے عقیدت مند تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آغا آ گئے ان سے کب ملوائے گا؟ وہ کہنے لگے ابھی چلو نیکی اور پوچھ پوچھ۔ میں نے رسالہ آفتاب کے کچھ پرچے بغل میں دبائے لالہ برج لال نے ٹوپی ٹیڑھی کر کے سر پر رکھی اور نجط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔ وہ ان دنوں سکی اسٹرپٹ میں رہتے تھے۔ بڑا وسیع مکان تھا۔ ڈیوڑھی سے داخل ہوتے ہی صحن تھا۔ اس کے دہنے بائیں کمرے لالہ برج لال نے ان کے نوکر سے پوچھا آغا صاحب کہاں ہیں اس نے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کیا صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھی چارپائی آغا صاحب لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھتے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو ہینگ والے آغا اور اس آغا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال داڑھی منڈی ہوئی چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے۔ پہلے لالہ برج لال سے خیر و عافیت پوچھی پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے نفیس کپڑے پہننے کا بھی شوق نہ تھا۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے۔ ایک بنیان پہنے کھری چارپائی پر بیٹھے ہیں باہر نکلے ہیں تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا اور زندگی کے آخری ایام میں جب لاہور آئے ان کی یہی وضع تھی۔ ہاں اکثر لوگوں سے اتنا سنا ہے کہ لاہور آنے سے پہلے وہ کلکتہ میں بڑے ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس زمانے میں انہوں نے شراب چھوڑ دی تھی اور گھر کی آرائش اور ٹھاٹھ باٹھ میں طبیعت کے حوصلے نکال کے اس کمی کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔ آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے جس محفل میں جا بیٹھتے تھے سب پر چھا جاتے تھے ۔ ان کے ملنے والوں میں اکثر لوگ ضلع جگت میں طاق اور پھبتی میں مشاق تھے۔ اور جب شام کو صحبت گرم ہوتی تین تین چار چار آدمی مل کے آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے۔ لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بانکا پھکیت سردہی کے ہاتھ پھینکتا چلا جا رہا ہے کبھی کمر کو بتا کے سر پر وار کیا۔ کبھی پالٹ کا ہاتھ مارا کبھی دہنے سے کبھی بائیں سے۔ اس فن میں ان کا کوئی حریف نہیں تھا۔ البتہ حکیم 1؎ صاحب سے آغا کو بھی کور دیتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا۔ اسے اس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے۔ کہ بچارا حیران رہ جاتا تھا۔ ’’ گالی ‘‘ کا نام سن کر کچھ لوگ کہیں گئے کہ گالی دینا کہاں کا اخلاق ہے؟ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے ’’ گالی‘‘ کو ادب و شعر سے ترکیب دے کر ایسی خوش نما چیز بنا دیا تھا۔ کہ مرحوم اگر کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو ان کا شمار فنون لطیفہ میں ہونے لگتا۔ اصل میں آغا ایک تو یوں بھی بڑے ذہین اور طباع شخص تھے۔ پھر انہوں نے جوانی میں ہی تھیٹر کی طرف توجہ کی جہاں دنیا بھر کے بگڑے لوگ جمع تھے۔ رات بھر نوک جھونک کا بازار گرم رہتا تھا۔ کچھ تو ان صحبتوں میں ان کی طبیعت نے جلا پائی۔ اس پر مطالعہ کا شوق سونے پر سہاگہ ہو گیا۔ وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں اخباروں رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ اور فضل بک ڈپو سے دار المصنفین تک وہ سارے اداروں کی سرپرستی 1؎ اشفاء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی نظامی مرحوم جو آغا مرحوم کے جگری دوست تھے۔ فرماتے تھے۔ کلکتہ میں ان کا معلوم یہ تھا کہ سہ پہر کو گھر سے نکلے اور نجط مستقیم اخبار عصر جدید کے دفتر میں پہنچے پہلے سارے اخبار پڑھے پھر رسالوں کی نوبت آئی۔ کبھی ریویو کے لئے کوئی کتاب آ گئی تو وہ بھی آغا صاحب کی نذر ہوئی کچھ اخبار اور رسالے تو وہیں بیٹھے بیٹھے دیکھ لئے جو بچ رہے انہیں گھر لے گئے۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آ گئی کھڑے ہو گئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے بنئے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیا باندھ کے دی ہیں یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی۔ نوکر سے پوچھ رہے ہیں اس پڑیا میں کیا ہے؟ شکر! اچھا شکر ڈبے میں ڈالو۔ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ اسے کہیں پھینک نہ دیجئو یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے خدا جانے کسی اخبار کے ورق ہیں یا کسی کتاب کے بہرحال مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آ رہا ہے۔ مطالعہ سے ان کے اس شغف کا حال سن کر شاید بعض لوگوں کا خیال ہو کہ آغا نے بہت بڑا کتب خانہ جمع کر لیا ہو گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کتب خانہ چھوڑ ان کے ہاں دس پانچ کتابیں بھی نہیں تھیں ایک تو ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ دوسرے ان کی طبیعت علائق سے گھبراتی تھی۔ کتابیں سینت سنبھال کے رکھنے کے جھنجھٹ میں کون پڑے۔ ان کا تو بس یہ حال تھا کہ کتاب آئی پڑھ کے مکان کے کسی گوشے میں ڈال دی کوئی ملنے والا آیا اور اٹھا کر لے گیا۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ شاعری ہو یا ادب کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ اور جہاں علم ساتھ نہیں دیتا تھا وہاں ان کی ذہانت آڑے آ جاتی تھی۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کر دی۔ چمڑے کی مختلف قسموں دباغت کے طریقوں۔ جوتی کی وضع قطع ایک ایک چیز پر اس تفصیل سے بحث کر رہے ہیں۔ گویا کسی نہایت اہم مسئلہ پر گفتگو ہو رہی ہے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد جب ان کی تقریر ختم ہوئی تو سننے والوں کو یہ احساس تھا کہ آغا صاحب کی جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ ایک دن آغا عصر جدید کے دفتریں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بت بنے بیٹھے سن رہے تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جوان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سیکرٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری ہیں۔ پھرتے پھراتے آ نکلے تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کئے۔ لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ کچھ تو انہیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کئے جا رہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا۔ کیونکہ سید صاحب خود بھی بڑے بزلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں۔ اور انہوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں۔ اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آ گیا تھا۔ جسے سنانے کے لئے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہمعصر شعراء پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔ سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خداجانے یہ کون شخص ہے۔ جو اقبال، ابو الکلام، ظفر علی خان کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے۔ گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہو سکا اور کہنے لگے یہ کون بزرگوار ہیں ذرا ان سے میرا تعارف تو کرا دیجئے۔ مولانا شائق بولے آپ انہیں نہیں جانتے آغا حشر یہی ہیں۔ آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں۔ کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سیکرٹری مولانا شوکت علی نے انہیں بمبئی سے بھیجا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہو جائے گا لیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے۔ آغا حشر؟ کون آغا حشر؟ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہو گیا۔ آغا صاحب کڑک کر بولے’’ آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا سید ذاکر علی نے جواب دیا نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔‘‘ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟ مولانا شائق نے فرمایا ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ انہوں نے بڑی مسمی صورت بنا کے کہا۔ مجھ سے قسم لے لیجئے میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔ خدا جانے وہ بن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سیکرٹری مدتوں اہل ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔ خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھئے یہ آغا حشر ہیں بہت بڑے شاعر بہت بڑے ڈراماٹسٹ۔ لوگ انہیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں تو ان کی سمجھ میں بات آ گئی اور کہنے لگے۔ا چھا تو آپ شاعر ہیں میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجئے اپنا کوئی شعر سنایئے۔ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہو گئے۔ اور کہنے لگے سنئے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنئے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں پھر جو انہوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اور سید ذاکر علی پر تو سینکڑوں گھڑے پانی کے پڑ گئے۔ ایک سید ذاکر علی پر کیا موقوف ہے۔ آغا مناظرہ کے میدان کے شیر تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے تھے۔ سب پر چھا جاتے تھے۔ باقاعدہ تعلیم تو واجبی تھی۔ لیکن مطالعہ نے انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ایک دن میں نے کہا آغا صاحب جی چاہتا ہے آپ کے سوانح حیات لکھ ڈالوں۔ کہنے لگے میرے سوانح حیات میںکیا پڑا ہے۔ حاصل عمرم سہ حرف است و بس خام بدم پختہ شدم سو ختم بزرگوں کا وطن کشمیر ہے۔ وطن میں ان پر کچھ ایسی افتاد پڑی کہ امرت سر اٹھ آئے۔ وہاں سے والد مرحوم شالوں کی تجارت کے سلسلہ میں بنارس پہنچے اور وہیں ڈیرے ڈال دیئے۔ ہر چند انہوں نے میری تعلیم میں سعی کی لیکن جی نہ گا فارسی کی چند کتابیں پڑھ کر چھوڑ دیں۔ وہ پرانی وضع کے آدمی تھے اور مجھے ملائے مکتبی بنانا چاہتے تھے لیکن مجھے ملائیت سے نفرت تھی۔ ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ بنارس سے بھاگ کر بمبئی پہنچا۔ وہاں پارسیوں نے تھیٹر کا ایسا طلسم باندھ رکھا تھا کہ ادنیٰ اور اعلیٰ سب اس پر غش تھے۔ میں نے بھی ڈرامہ لکھنے کو ذریعہ معاش بنایا اور ایک دو ڈرامے لکھ کر شیکسپیئر پر ہاتھ صاف کیا۔ اگرچہ ان دنوں بمبئی میں بڑے بڑے انشاء پرداز اور شاعر موجود تھے۔ لیکن خدا کی قدرت کہ تھوڑے دنوں میں سب گرد ہو گئے۔ لو میرے سوانحی حیات کا بہت بڑا حصہ تو چند لفظوں میں ختم ہو گیا۔ ایک دن کہنے لگے۔ تمہیں معلوم ہے۔ جوانی کے زمانے میں ہمارے دوست کون کون لوگ تھے؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگے۔ بزرگوں میں مولانا شبلی مرحوم۔ نوجوانوں میں ابو نصر غلام یٰسین آہ، یہ تمہارا ابو الکلام اور حکیم فقیر محمد چشتی۔ لیکن بھائی میں نے ابو النصر آہ جیسا ذہین آدمی نہیں دیکھا جانتے ہو آہ کون تھا؟ ابو الکلام کا بڑا بھائی۔ بے چارے نے جوانی میں انتقال کیا۔ زندہ رہتا تو لوگ ابو الکلام کو بھول جاتے۔ آہ نے وفات پائی ابو الکلام اور میں دونوں برسوں سے ایک ہی شہر میں رہتے ہیں۔ لیکن سلام و کلام تک ترک ہے۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر بولے۔ وہ زمانہ بھی عجیب تھا میں ڈرامے بھی لکھتا تھا شراب بھی پیتا تھا نہ کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا۔ لیکن دینی حرارت سے دل گداز تھا آریہ اور عیسائی اسلام میںاعتراض کرتے تھے۔ اور میں اور ابو الکلام انہیں جواب دیتے تھے۔ اسی شوق میں مختلف مذاہب کی کتابیں پڑھیں۔ آریوں اور عیسائیوں کے رسالے لکھے۔ مناظرے کئے اور جس دنگل میں اترا فتح پائی ۔ ان دنوں پادری احمد مسیح کا بڑا زور تھا۔ ایک تو اندھا اور دوسرا حافظ قرآن۔ کترنی کی طرح زبان چلتی تھی۔ وہ دلی میں فوارہ پر اکثر تقریریں کیا کرتا تھا۔ میرے اور اس کے کئی معرکے ہوئے اور ہمیشہ میدان میرے ہی ہاتھ میں رہا۔ وہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ صرف مجھ سے اس کی کور دیتی تھی۔ اکثر مناظروں میں تو تکارتک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ میں اس پر پھبتیاں کہتا وہ مجھ پر ایک دفعہ پادری احمد مسیح بمبئی آیا۔ اور ایک دو معرکے کی تقریریں کیں۔ ان دنوں میرے قیام کا کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ کبھی کلکتہ کبھی دلی لیکن اتفاق یہ ہوا کہ احمد مسیح کو بمبئی آئے ہوئے صرف دو دن ہوئے تھے کہ میں بھی پہنچا۔ لوگوں نے مجھے مناظرے کے لئے کہا میں نے کہا میں چلنے کو تو تیار ہوں لیکن اسے میرا نام نہ بتانا۔ غرض وہ مجھے لے گئے اور احمد مسیح سے صرف اتنا کہا کہ ایک مولوی صاحب مناظرہ کرنے آئے ہیں۔ لیکن میں نے تقریر شروع کی تو وہ آواز پہچان کر بولا۔ آغا صاحب ہیں میں نے کہا جی ہاں! وہ کہنے لگا۔ ارے کسی مولوی کو لائے ہوتے۔ اس بھانڈ کو کیوں لے آئے؟ میں بولا پادری صاحب کسی بھلے مانس کے ہاں کتا گھس آئے تو خود اٹھ کر اسے نہیں دھتکارتا بلکہ نوکر سے کہتا ہے کہ اسے نکال دو۔ پھر تمہارے مقابلے پر کوئی مولوی کیوں آئے؟ پادری چیخ کر بولا یہ مجلس مناظرہ ہے یا بھانڈوں کی منڈلی؟ میں نے کہا بھانڈوں کی منڈلی ہی سہی۔ لیکن ان میں چست خورے تم ہو پادری نے کہا ارے تو تو تھیٹر کا نچنیا ہے۔ تجھ سے کون زبان لڑائے؟ میں نے کہا اب تمہیں تھیٹر میں نچاؤں گا۔ غرض میں نے مارے پھبتوں کے الو کر دیا۔ اور وہ صاف انکار کر گیا۔ کہ میں آغا سے بحث نہیں کرتا۔ اکثر لوگوں کو یہ بات بہت ناگوار گذرتی تھی کہ آغا خود اپنی تعریفیں کرتے ہیں اور اپنے مناسب سب کو ہیچ سمجھتے ہیں۔ لیکن آغا صاحب کا خیال تھا کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی تعریف کرنا بہت ضروری ہے ایک مرتبہ کسی اخبار میں میری ایک نظم جو غالباً عید کے متعلق تھی شائع ہوئی۔ آغا نے اخبار دیکھا تو نظم کی بڑی تعریف کی خصوصاً آخری شعر کئی مرتبہ پڑھا اور پھر بولے اماں تم بہت خوب کہتے ہو۔ اس سے اچھا کوئی کیا کہے گا؟ میں نے کہا آغا صاحب آپ تو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں۔ میں کیا اور میری نظم کیا؟ کہنے لگے کیا کہا؟ ہم تعریف کرتے ہیں اور تم اپنی مذمت سننا چاہتے ہو اچھا صاحب یوں ہی سہی۔ نظم بہت بری ہے تم نے جھک ماری جو یہ نظم لکھی۔ اور ہم نے جھک ماری جو تمہاری تعریف کی کہو کہو اس ہیچ مدان پنبہ دہان کج کج زبان خفیر فقیر سراپا تقصیر کو کیا شعور ہے۔ کہ نظم لکھ سکے حضور کی ذرہ نوازی ہے اور سیدھی سادی زبان میں یہ مضمون ادا کرنا چاہو تو کہو میں نے یہ نظم نہیں لکھی۔ اور تم جھوٹے ہو جو اس کی تعریف کر رہے ہو۔ ارے بھائی میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر تمہارے انکسار کا یہی حل رہا تو فاقے کرو گے سینہ تان کہ کیوں نہیں کہتے کہ جی ہاں میری نظم تعریف کے قابل ہے۔ میں تو یہی کرتا ہوں ترکی حور لکھ کے رستم جی کو سنایا سب نے واہ وا کی لیکن سرگوشیاں بھی برابر ہو رہی تھیں حریف اس تاک میں تھے کہ موقع ملے۔ تو ایسی اکھیڑ ماریں کہ آغا چاروں شانے چت جا گرے اتنے میں کڑک کے کہا کون ہے جو آج ایسا ڈرامہ لکھ سکے؟ یہ سن کر سب کے سر جھک گئے۔ اور ہر طرف سے آوازیں آئیں پیر و مرشد بجا و درست۔ آغا سے یہ بات سن کے مجھے ہمیشہ کے لئے کان ہو گئے اگرچہ میں ان کی طرح اپنی تعریفیں آپ نہیں کرتا لیکن کوئی تعریف کرے تو یہ بھی نہیں کہتا کہ حضرت میں تو بالکل جاہل ہوں۔ آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے۔ اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی ان محفلوں میں جب کہیں کوئی تھیٹر اور ڈرامے کا ذکر چھیڑ دیتا تھا۔ تو بیچارے شیکسپیئر کی شامت آ جاتی تھی۔ لیکن شیکسپیئر غریب کی گت صرف انہیں محفلوں میں بنتی تھی۔ ورنہ عام طور پر آغا اس کا ذکر ہمیشہ عزت و احترام سے کرتے تھے۔ وہ چھپ کر پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کہ سامنے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بیج کھیت پیتے تھے۔ اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے۔ لیکن موت سے کوئی تین سال پہلے شراب ترک کر دی۔ یوں دفعتہ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ اس حالت میں آپ کے لئے شراب کا استعمال مفید ہے۔ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا اور مرتے مر گئے۔ شراب نہ پی ہاں یہ ضرور تھا کہ اس حالت میں بھی ان کا کوئی پرانا دوست آ جاتا تھا تو اسے شراب منگوا کے اپنے سامنے پلواتے اور اس کی باتیں سن سن کر ہنستے۔ آغا ہاتھ کے سخی تھے اور دل کے صاف ان ملنے والوں میں ہر قسم کے لوگ تھے۔ تھیٹر کے ایکٹروں اور ڈوم ڈھاڑیوں سے لے کر بڑے بڑے اہل علم تک سب سے ان کی بے تکلفی تھی۔ او روہ ان سب سے بڑے خلق اور مروت کے ساتھ پیش آئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی آغا محمود کو یہ بات ناگوار تھی۔ کہ آغا چھوٹی امت کے لوگوں سے کیوں بے تکلفی سے ملتے ہیں۔ لیکن ان کے جن لوگوں سے جس قسم کے تعلقات تھے۔ انہیں مرتے دم تک نبھائے چلے گئے۔ اور وضع داری میں فرق نہ آنے دیا وہ ہر شخص سے ان کی لیاقت اور مذاق کے مطابق گفتگو کرتے تھے عالموں میں بیٹھے ہیں تو حدوث و قدم مادہ کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے۔ یا احادیث کی حیثیت پر بحث کر رہے ہیں۔ اسلام عیسائیت اور آریہ سماج کے اصولوں پر تقریریں کی جا رہی ہیں۔ ایکٹروں میں جا پہنچے۔ تو ضلع جگت شروع ہو گئی۔ پھبتیاں کہی جا رہی ہیں قہقہے اڑ رہے ہیں۔ آغا نے اگرچہ لاکھوں کمائے اور لاکھوں ہی اڑائے لیکن وہ تنہا خوری کے عادی نہیں تھے جب روپیہ آتا تھا اس میں سب عزیزوں کے حصے لگائے جاتے تھے قریب کے رشتہ داروں کو تو انہوں نے ہزاروں لاکھوں دے ڈالے والدہ کی ایسی خدمت کی کہ کوئی کیا کرے گا لیکن دور کے رشتہ داروں کو بھی وہ کبھی نہ بھولے۔ ان کے عزیزوں میں کئی بیوہ عورتیں اور یتیم بچے تھے۔ ان سب کے درما ہے مقرر تھے۔ روپیہ آتا تھا۔ تو جس کا جو حصہ مقرر تھا۔ اسے گھر بیٹھے پہنچ جاتا تھا۔ غرض آغا کی ذات کئی بیکسوں کی زندگی کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ ان کے اٹھتے ہی یہ سہارا مٹ گیا۔ آغا کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ وہ اکثر بیٹے کی بے قیدی اور آزادہ روی دیکھ دیکھ کے بہت کڑھتے تھے۔ شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی مرحوم فرماتے تھے۔ کہ جب آغا لاہور آئے۔ مولانا ظفر علی خان کے ہفتہ وار اخبار ستارہ صبح میں ان کی ایک نظر چھپی جس کا روے سخن اگرچہ خواجہ حسن نظامی کی طرف تھا۔ لیکن جگہ جگہ تمام صوفیوں پر چوٹیں کی گئی تھیں۔ حکیم صاحب مرحوم تو ایک ہی زندہ دل بزرگ تھے۔ انہوں نے آغا دق کرنے کے لئے ان کے والد کو یہ نظم پڑھ کر سنائی اور کہا کہ دیکھئے آپ کا صاحبزادہ اب صوفیوں پر طعن کرنے لگا وہ یہ نظم سن کر بیٹے پر بہت بگڑے پھر کہنے لگے دیکھ لینا بڑھاپے میں یہ ان تمام حرکتوں سے توبہ کر لے گا معلوم نہیں آخری عمر میں صوفیوں کے متعلق آغا صاحب کا کیا عقیدہ تھا۔ البتہ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا ہے کہ موت سے پہلے انہوں نے شراب سے توبہ کر لی۔ آغا کے کلام اور ان کے ڈراموں پر تبصرہ کرنا میرا فرض نہیں البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ وہ شعر بہت جلد کہتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کے بعد اگر میں نے کسی کو اس قدر جلد شعر کہتے دیکھا ہے تو وہ آغا تھے۔ شعر خود نہیں لکھتے تھے بلکہ دوسروں کو لکھوا دیتے تھے۔ ڈراموں کا بھی یہی حال تھا اصل میں انہیں لکھنے سے نفرت سی تھی۔ عمر بھر کسی کو خط کا جواب نہیں دیا اور جواب دیا بھی تو اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا۔ کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ میں نے ایک مصرع پڑھا انہوں نے برجستہ دوسرا مصرع کہہ دیا اور چند منٹوں میں غزل ہو گئی۔ ان کی غزلوں میں ایک خاص سر مستی اور جو ش ہے جو اردو زبان میں ان کے سوا کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ غزل گوئی کا اثر ان کے ڈراموں پر بھی پڑا ہے۔ یعنی جس طرح غزل میں ہر شعر مستقل حیثیت رکھتا ہے اسی طرح ان کے ڈراموں مختلف اجزاء تو اپنی اپنی جگہ خوب ہیں۔ لیکن آپس میں مل کر وہ اپنا حسن کسی حد تک کھو بیٹھے ہیں۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ آغا کے ڈراموں کا حسن اجزاء میں ہے کل میں نہیں۔ اسی مفہوم کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مکان کا گارا چونا، اینٹیں اور لکڑی تو اپنی اپنی جگہ بہت اچھے ہیں۔ لیکن جب ان سے مل کر مکان بنتا ہے۔ تو اس میں بہت سے نقص نظر آتے ہیں۔ پھر بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اردو ڈرامے کو بہت اونچے مرتبہ پر پہنچا دیا اور اس معاملہ میں ان کا کوئی حریف نہیں تھا۔ وہ خود بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ میں لوگوں کے مذاق کو ملحوظ رکھ کر ڈرامے لکھتا ہوں۔ ورنہ اگر میں عوام کے مذاق کی پروا نہ کر کے اپنے اصلی رحجان طبیعت کے مطابق کچھ لکھوں تو اور ہی عالم نظر آئے میں نے ایک مرتبہ کہا کہ آغا صاحب اپنی طبیعت کے حقیقی جوش کا ظاہر کیوں نہیں ہونے دیتے۔ اور عوام کے مذاق کا اتنا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ یہ سن کر آغا کے ابرو پر بل پڑ گئے۔ اور کہنے لگے کہ اگر میں اپنی طبیعت کے صحیح رحجان کی پیروی کرتا تو جوتیاں چٹخاتا پھرتا وہ تو بڑی خیر گزری کہ میں نے زمانے کی نبض کو پہچان لیا۔ لوگوں کے مذاق کے مطابق ڈرامے لکھتا ہوں۔ اور موٹروں میں اڑا پھرتا ہوں۔ ۱۹۲۸ء کے اواخر میں آغا حشر ٹکاری سے کلکتہ آئے ہوئے تھے کہ ایک دن میں ان سے ملنے گیا پہلے تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے ارے میاں اس اخبار نویسی میں کیا پڑا ہے اسے چھوڑو اور میرے ساتھ ٹکاری چلو ڈرامہ لکھنے میں برق نہ کر دوں تو میرا ذمہ میں نے اس وقت تو کہہ دیا کہ اچھا آغا صاحب یوں ہی سہی۔ مگر گھر آ کر سوچا تو خیال آیا اب تو آغا صاحب سے نیا زمندانہ تعلق ہے۔ ملازمت کا قصہ ہو گا تو اور بات ہو جائے گی کیا عجب کہ کسی بات پر ان سے بگڑ جائے۔ اور جو صاحب سلامت آج ہے یہ بھی نہ رہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ آغا سے اقرار کر چکا تھا اب انکار کی ہمت نہیں پڑتی اتفاقاً اسی درمیان کچھ ایسے پیچ پڑے کہ میں نے کلکتہ چھوڑ لاہور آنے کا تہیہ کر لیا چلنے سے پہلے ایک دن آغا سے ملنے گیا مجھے دیکھتے ہی بولے ٹکاری چلتے ہو نا؟ میں نے کہا میں تو لاہور جانے کا ارادہ کر چکا ہوں۔ وہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے۔ میرے ساتھ لاہور اور لاہور کے اخباروں اور اخبار نویسوں کو بھی لے ڈالا۔ میں تھوڑی دیر بیٹھا ان کی باتیں سنتا رہا پھر اٹھ کر چلا آیا۔ دوسرے تیسرے دن معلوم ہوا کہ آغا ٹکاری چلے گئے۔ کوئی سات سال کے بعد پھر آغا سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ میں حکیم فقیر محمد مرحوم کے ہاں ملنے گیا تو وہ چھ سات آدمیوں میں گھرے بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن میں نے انہیں بالکل نہیں پہچانا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ گالوں میں گڑھے، ہڈیاں نکلی ہوئیں اور گردن کا گوشت لٹکا ہوا۔ پہلے کچھ دن حکیم صاحب کے ہاں ٹھہرے پھر شہر کے باہر ایک کوٹھی کرایہ پر لی ور وہاں اٹھ گئے۔ میں کبھی کبھی وہاں جاتا تھا اگرچہ اب بھی ان کی طبیعت اور وضعداری کا وہی عالم تھا لیکن یک لخت شراب چھوڑ دینے سے جہاں انہیں امراض نے آ گھیرا تھا وہاں طبیعت میں وہ اگلی سی جودت بھی نہیں رہی تھی۔ البتہ وہ کبھی نہیں مانتے تھے کہ شراب چھوڑ دینے سے ان کے دماغ پر کوئی اثر پڑا ہے۔ میں نے اس بات کا ذکر کیا تو کہنے لگے تم غلط کہتے ہو میں نے جب سے شراب چھوڑی ہے میری طبیعت زیادہ رواں ہو گئی ہے۔ ایک دن میں میکلوڈ روڈ سے گذر رہا تھا کہ کسی نے آواز دی مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ آغا صاحب ایک دکان کے سامنے بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ یہاں کہاں؟ فرمانے لگے آج مجھے امرت سر جانا ہے اور موٹر خراب ہو گئی ہے اس کی مرمت کرانے یہاں بیٹھا ہوں۔ پھر بولے یہ کیا حرکت ہے تم ہمارے ہاں آتے کیوں نہیں؟ میں نے کہا آغا صاحب فرصت نہیں ملتی بولے چل چلاؤ لگ رہا ہے ہم مر جائیں گے تو افسوس کرو گے کہ آغا سے اس کی زندگی کے آخری دنوں میں بھی نہ ملے میں نے کہا آغا صاحب کل ضرور حاضر ہوں گا فرمانے لگے آج تو میں امرت سر جا رہا ہوں پرسوں واپس آؤں گا۔ مجھے فون کر لینا۔ دوسرے دن فون کیا تو معلوم ہوا کہ آغا صاحب ابھی نہیں آئے تیسرے دن رات کے وقت کسی نے کہا کہ آغا صاحب سخت بیمار ہیں میں نے سوچا کہ اس وقت تو ان سے ملنا مناسب نہیں صبح چلیں گے۔ صبح میں اٹھ کر کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہو گیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہو گی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کر دیا گیا جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے ان میں بھی یا تو ان کی فلم کمپنی کے لوگ تھے یا بعض بعض خاص خاص نیاز مند کوئی دس بجے جنازہ اٹھا اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے افسوس ہے کہ آج تک کسی کو ان کی قبر پختہ بنوانے یا لوح مزار تک نصب کرنیکی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ شفاء الملک مرحوم آپ کی نظر سے شفاء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی کی آخری تصویر ضروری گزری ہو گی، جو انہوں نے موت سے صرف چند مہینے پہلے کھچوائی تھی۔ لیکن تصویر آخر تصویر ہے۔ اس سے نہ ان کے سن و سال کا اندازہ ہوتا ہے نہ قد و قامت کا پھر اس تصویر سے نہ وہ طبیب معلوم ہوتے ہیں۔ خدا دیب اگر تصویر کے نیچے ان کا نام نہ لکھا ہوتا۔ تو بہتیرے لوگ جنہوں نے مرحوم کو ان کی زندگی میں نہیں دیکھا یہی سمجھتے کہ اخباروں والوں نے کسی صوبے دار میجر یا سرحد کے کسی لیڈر کی تصویر چھاپ دی ہے اور تصویر پر کیا موقوف ہے۔ اگر یہ لوگ حکیم صاحب کو دیکھ لیتے جب بھی یہی کہتے۔ اصل میں ادیبوں اور شاعروں کے لئے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کہ وہ بہت دبلے پتلے اور ہمیشہ کے روگی ہوں۔ اگرچہ پنجاب کے بعض ادیبوں نے بہت حد تک اس خیال کی تردید کر دی ہے اور جس لوگوں نے صرف اسی قسم کے بعض پنجابی ادیب دیکھے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اچھا ادیب گاماں پہلوان سے کیا کم ہوتا ہو گا؟ لیکن ابھی تک یوپی کے بعض پان دھان شاعروں کی وجہ سے اکثر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہے کہ فطری ادیب کو فسانہ آزاد کے میاں خوجی کا ہم سنگ ہونا چاہیے باقی رہا طبیب تو جب تک اس کے چہرے سے یہ معلوم نہ ہو کہ بو علی سینا نے جتنے امراض کا ذکر کیا ہے وہ بچارا ان سب میں مبتلا ہو چکا ہے لوگ اس کی طبابت اور حذاقت پر کیسے ایمان لائیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت شفاء الملک مرحوم طبیب بھی تھے۔ اور ادیب بھی۔ لیکن طبیبوں اور ادیبوں کی اس مشترک خصوصیت سے بالکل محروم۔ قد کوئی چھ فٹ کے قریب چوڑا سینہ۔ بڑے بڑے ہاتھ پاؤں گھنی داڑھی گندمی رنگت چار کم ستر سال کی عمر میں وفات پائی لیکن پچاس سال سے زیادہ کاسن معلوم نہیں ہوتا تھا۔ سید احمد شاہ بخاری جو پہلے پطرس کے لقب سے مشہور تھے اور اب ریڈیو تخلص فرماتے ہیں ان کا قد و قامت شکل و شمائل دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ حکیم صاحب کو تو شادی بیاہ کی محفلوں کے لئے کرایہ پر چلانا چاہیے۔ یعنی جہاں کوئی برات ہو حکیم صاحب کو بیعانہ بھیج دیا جائے کہ اپنے دوستوں1؎ سمیت تشریف لے آیئے۔ مجھے یقین ہے کہ برات کی رونق دوبالا ہو جائے گی۔ حکیم صاحب کا وطن مالوف جگراؤں تھا۔ جو ضلع لدھیانہ کا ایک قصبہ ہے حکیم صاحب کے برض ہم سن دوست جن سے ان کی بے تکلفی تھی انہیں کی طرح ہمارے قوی ہیکل اور خوش پوش تھے نوجوانی میں دلی چلے گئے۔ اور حکیم عبدالمجید خان سے طب پڑھی۔ پھر چند سال ان کے مطب میں رہ کر طب کی عملی تعلیم حاصل کی۔ طبیعت بچپن سے شوخ تھی دلی کا قیام سونے پر سہاگہ ہو گیا۔ ایک دن مطب میں بیٹھے تھے۔ کہ ایک نازک اندام ہندو عورت آئی اس کا دوپٹہ گوٹے سے لپا ہوا تھا حکیم عبدالمجید خاں کے سامنے اور تو کچھ کہہ نہ سکتے تھے اپنے ایک ہم درس کو جو دوائیں دے رہا تھا۔ پکار کر کہا: ’’خمیرہ گاؤ زبان بہ ورق نقرہ پیچیدہ‘‘ شاہ نصیر کے متعلق اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ مشہور ہے۔ ایک عورت وسمے کی رضائی اوڑھے گزری شاہ صاحب نے فورا کہا اودی وسمے کی نہیں ہے یہ رضائی سر پر مہ جبیں رات ہے تاروں بھری چھائی سر پر لیکن ’’ خمیرہ گاؤ زبان بہ ورق نقرہ پچیدہ کا جواب نہیں ایک تو حکیم عبدالمجید خاں جیسے باکمال کی صحبت دوسرے زبان اور محاورہ کی تحقیق کا خدا داد ذوق۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب کی زبان بہت منجھ گئی۔ الفاظ کی تذکیر و تانیث محاورات کا محفل استعمال۔ فصحا اور اہل بازار کی زبان کے فرق پر وہ بہت غور کرتے رہتے تھے۔ اگرچہ دلی سے آ کے وہ بتیس تینتیس سال تک لاہور میں رہے۔ یہاں انہیں ہر طبقہ کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا۔ لیکن ان کی زبان پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ ہمیشہ نہایت شستہ و رفتہ اردو بولتے رہے۔ یہ بات باہر کے لوگوں کو تو درکنار خود دلی والوں کو بھی میسر نہیں۔ وہاں کے بڑے بڑے شرفا کچھ انگریزی کے تال میل اور کچھ کر خنداروں کی خاص زبان کے اثر سے ایسی بولی بولتے ہیں۔ جسے کسی طرح دلی کی زبان نہیں کہا جا سکتا۔ معلوم نہیں حکیم صاحب نے زبان سیکھنے میں کتنی محنت کی۔ دلی میں کن کن لوگوں سے ملتے رہے؟ یہ کسے معلوم تھا کہ ان کا انتقال یوں اچانک ہو جائے گا۔ ورنہ یہ سب کچھ پوچھ لیتا۔ البتہ یہ تو ظاہر ہے کہ محنت کے سوا زبان پر اتنا عبور حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ تو میں نے خود دیکھا کہ بڑے بڑے مدعیان زبان دانی کو وہ ٹوک دیتے تھے۔ تو کوئی جواب بن نہیں پڑتا تھا۔ خود مجھ سے اس قسم کے واقعات گزرے کہ حکیم صاحب نے ٹوکا۔ اور مجھے اپنی غلطی ماننی پڑی۔ لیکن انہیں اپنی زبان دانی کا کوئی بڑا دعویٰ نہیں تھا۔ کوئی ان سے یہ ذکر چھیڑ دیتا۔ تو کہا کرتے تھے۔ کہ میں بنفشہ گاؤ زبان خسانیدہ جو شانیدہ مالیدہ صاف کردہ بخورند لکھنے والا زبان کو کیا جانوں۔‘‘ حکیم صاحب ۱۹۰۵ء میں دلی سے لاہور آئے۔ اور نواب محبوب سبحانی کی حویلی میں جو سوتر منڈی میں ہے۔ مطب کھولا موت سے تین سال پہلے جب انہیں شفاء الملک کا خطاب ملا تو اپنے مکان شفا منزل واقع بارود خانہ میں اٹھ گئے۔ لوگوں سے ان کے لمبے چوڑے تعلقات نہیں تھے۔ صرف شہر کے چند شرفاء سے بے تکلفی تھی۔ یا پھر ادیبوں اور شاعروں سے کھل کے ملتے تھے۔ ان کے ہاں اس گروہ کے لوگوں کا تو تانتا لگا رہتا تھا۔ کسی کو جگر کا عارضہ کوئی اسہال میں مبتلا کسی کو کھانسی کسی کو زکام، لیکن جہاں ان کے ہاں پہنچے اور انہوں نے ایک دو پھبتیاں کہیں۔ مرض آدھا رہ گیا یوں تو وہ نبض بھی دیکھتے تھے۔ نسخہ بھی لکھ دیتے تھے مگر میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اصل مرض کا علاج وہ پھبتیوں سے کرتے تھے۔ اور نسخہ محض مریض کا جی بہلانے کے لئے لکھ دیا جاتا تھا۔ ورنہ بازار میں بنفشہ اب بھی ملتا ہے۔ اور خیسا نیدہ جوشانیدہ صاف کردہ بخورند اب بھی لکھا جاتا ہے لیکن ویسا اثر نہیں دراصل انہوں نے پورا نسخہ کسی کو لکھ کر نہیں دیا۔ ورنہ اس کی صورت یہ ہوتی۔ ہو الشافی اول نزد شفاء الملک رفتہ ’’پھبتی با سماعت فرمایندو بعد ازاں ادویہ ذیل جوش دادہ صاف کردہ بخورند‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ حکیم نے پھبتیوں کا ایک علیحدہ قرابا دین مرتب کر رکھا تھا۔ جس میں ہر مرض کے لئے علیحدہ علیحدہ پھبتیاں مخصوص کر دی گئی تھیں۔ کچھ چھوٹی کچھ بڑی۔ کچھ ہلکی پھلکی کچھ بھاری بھر کم کچھ مشتہی۔ کچھ مقوی کچھ قابض۔ کچھ ملین، کچھ دافع طحامل دورم جگر، کچھ محلل اورام۔ کچھ شربت انار کی طرح میٹھی کچھ شاہترہ چرایتہ کے جوشاندہ کی طرح کڑوی۔ وہ جیسا موقع سمجھتے تھے مناسب بدرقہ کے ساتھ استعمال کراتے تھے اور مریض کو بہت فائدہ ہوتا تھا۔ آغا حشر سے ان کی بے تکلفی تھی۔ آپس میں ہمیشہ نوک جھونک رہتی تھی۔ لیکن آغا ہمیشہ حد اعتدال سے بڑھ جاتے تھے۔ مثلاً ایک مرتبہ آغا صاحب نے گاندھی ٹوپی پر ایک بڑی معرکہ کی پھبتی کہی۔ جسے لکھنا درکنار بے تکلف احباب کی صحبتوں میں بھی سنایا نہیں جا سکتا۔ لیکن حکیم صاحب نے فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے الٹا کھرل سر پر رکھ لیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ سفر میں تھے۔ لکھنو کے کسی بزرگ سے پنجابیوں کی زبان اور روز مرہ کے متعلق گفتگو چل نکلی لکھنوی بزرگ بولے پنجاب کے شاعر تذکیر و تانیث کا خیال ہی نہیں رکھتے حکیم صاحب نے جواب دیا۔ اور آپ کو تذکیر و تانیث کا خیال کب ہے؟ پورب میں دنیا کے سب سے بڑے مذکر یعنی ہاتھی کو مونث بولا جاتا ہے۔ لکھنوی بزرگ نے پنجابیوں کی پگڑیوں کا ذکر چھیڑا اور کہا صاحب پنجاب کے لوگ کیسے اتنا بوجھ اٹھاتے پھرتے ہیں؟ حکیم صاحب نے ان کی دو پلڑی ٹوپی کی طرف اشارہ کر کے کہا شکر ہے۔ کہ آپ کو نہ ٹوپی سے غرض نہ پگڑی سے واسطہ ایک پیسہ دے کر فرق مبارک کی چوحدی پر قلعی کرا لی۔ چلو چھٹی ہوئی۔ ایک دن آغا حشر اور حکیم صاحب آم کھا رہے تھے آغا آم کھاتے جاتے تھے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے تھے کہ بھئی حکیم بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں لکھنو کا سفیدہ اس کے آگے کیا مال ہے؟ حکیم صاحب نے کہا جی ہاں لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پر لٹو ہیں۔ آغا پھڑک گئے۔ بات یہ تھی کہ آغا مرحوم بنارس کے رہنے والے تھے اور ایک ٹانگ سے لنگڑے۔ اس لئے بنارس کے لنگڑے کی پھبتی ان پر ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ بیٹھتا ہے۔ زندگی کے آخری زمانے میں آغا مختار بیگم پر بڑے مہربان تھے۔ دنیا کے عام قاعدہ کے مطابق اس تعلق کے سلسلہ میں طرح طرح کی افواہیں مشہور ہوئیں حکیم صاحب ایسے موقع پر کب چوکتے تھے۔ کئی پھبتیاں کہیں انہیں دنوں آغا کلکتہ سے لاہور آئے اور مختا ربیگم وہیں رہ گئی تو مجھے ایک دن ٹیلی فون پر حکیم صاحب سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ کہنے لگے اور سنا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا ؟ فرمایا آغا صاحب خود مختار ہو گئے۔ یعنی لاہور تشریف لے آئے ہیں۔ آغا نے موت سے کوئی تین سال پہلے شراب دفعتہ ترک کر دی۔ ان کی صحت پر اس واقعہ کا بہت ناگوار اثر پڑا۔ گردن کا گوشت لٹک گیا آنکھیں اندر کو گھس گئیں حکیم صاحب اس زمانے میں انہیں دیکھ دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایڑی سے جراب سمٹ گئی ہے۔ ایک دفعہ سیر کو نکلے دیکھا کہ ایک بابو صاحب جو ایک ٹانگ سے لنگڑے ہیں بڑی تیزی سے چلے جا رہے ہیں حکیم صاحب نے انہیں دیکھ کر کہا ۔ ذرا انہیں دیکھنا پاؤں سے ٹائپ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پھبتی تشبیہہ کی ہی ایک قسم ہے تشبیہہ میں یہ ضروری ہے کہ مشبہ ادنیٰ ہو اور مشبہ بہ اعلیٰ لیکن پھبتی کا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی اعلیٰ کو ادنیٰ سے تشبیہ دی جاتی ہے یوں تو شاید ہم اور آپ بھی غور کریں۔ تو اچھی اچھی بہت سی پھبتیاں سوچ لیں۔ لیکن وقت پر اچھی پھبتی بڑی مشکل سے سوجھتی ہے اور حکیم صاحب کا تو یہ حال تھا کہ وقت پر ایسی برجستہ پھبتی دماغ سے اتار لیتے تھے۔ کہ جو سنتا تھا حیران رہ جاتا تھا۔ حکیم صاحب ایک مرتبہ کسی مریض کو دیکھنے گئے۔ ایک کالا بھجنگ معمر آدمی جو صاحب خانہ کا قریبی رشتہ دار تھا۔ مریض کی پٹی سے لگا پنڈلی کھجلا رہا تھا۔ حکیم صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری لیکن کچھ کہہ نہ سکے جب مریض کو دیکھ کر چلنے لگے۔ تو اس شخص کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ یہ صاحب زادے کس درجہ میں پڑھتے ہیں؟ صاحب خانہ نے کہا حکیم صاحب انہیں آپ نے صاحب زادہ کیسے کہ دیا ان کی عمر تو پچپن سال کے لگ بھگ ہو گی حکیم صاحب نے کہا اچھا یہ سلیٹ پر کچھ لکھ رہے تھے اس لئے میں یہ سوال کر بیٹھا۔ ان کے ہاں ہر قسم کے لوگ علاج کرانے کے لئے آتے تھے جن میں بعض نامی طوائفیں بھی تھیں۔ یہ لوگ ضلع جگت اور پھبتی میں تاق ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی ان سے نوک جھونک ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ ایک سیاہ فام طوائف علاج کروانے کے لئے آئی حکیم صاحب کی حاضر جوابی اور بذلہ سجی کی شہرت اس نے سن رکھی تھی۔ اس لئے آتے ہی ان پر ایک دو پھبتیاں کہہ دیں۔ گرمی کے دن تھے اور وہ جالی کا کرتہ پہنے ہوئے تھی جس سے ان کا جسم جھلکتا نظر آتا تھا حکیم صاحب اس کی باتیں سن کر بولے آپ اپنی کہیے یہ باورچی خانہ میں سفیدی کیسی کرا رکھی ہے؟ میں جن دنوں تہذیب نسواں میں نیا نیا گیا تھا۔ ایک مرتبہ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے لگے کوئی نئی خبر سناؤ۔ میں نے آج کا اخبار نہیں دیکھا میں نے کہا صاحب میں خود کئی کئی دن اخبار نہیں دیکھتا ہنس کے فرمایا جی ہاں! عشق کا حال بیسوا جانیں ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں ایک مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تومیرے ساتھ مظفر حسین صاحب شمیم بھی تھے۔ میں نے حکیم صاحب سے ان کا تعارف کرایا تو پوچھا وطن مالوف؟ شمیم صاحب نے کیا رائیپور کہنے لگے رائے پور کہاں ہے؟ وہ بولے سی پی میں کہنے لگے اچھا یوں کہئے آپ سی پی سے آئے ہیں تو پھر شمیم تخلص کیسا ’’ موتی‘‘ تخلص کیا کیجئے۔ حکیم صاحب مرحوم جس طرح خود صاحب کمال تھے اسی طرح اہل ہنر کے قدر شناس بھی تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے ملنے والوں میں سے کسی کی اچھی نظم یا اچھا مضمون پڑھیں یا کوئی شوخ فقرہ یا اچھی پھبتی سنیں اور داد نہ دیں کبھی کبھی یار لوگ خود ان پر پھبتیاں کہہ جاتے تھے۔ اور وہ بڑی فیاضی سے داد دیتے تھے۔ میں ایک دن حاضر ہوا تو وہ خضاب کئے اور ڈھاٹا باندھے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کیا آج کیا بات ہے کہ حضور نے چہرے کو گل حکمت کر رکھا ہے۔ ہر چند کہ پھبتی پرانی تھی لیکن موقع کے لحاظ سے ایسی مناسب کہ وہ سنتے ہی اچھل پڑے۔ اخبار نویسوں کی نوک جھوک میں انہیں بڑا لطف آتا تھا مجھ سے بار ہا کہا کہ بھئی کچھ سالک صاحب کے متعلق ضرور لکھو۔ سالک صاحب سے بھی کئی مرتبہ کہا کہ آپ سے اور حسرت سے چل جائے تو بڑا لطف رہے۔ لیکن ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ میں نے سالک صاحب کو چھیڑا اور وہ طرح دئیے گئے یا انہوں نے میرے متعلق کچھ لکھا اور میں پی گیا یا کبھی سلسلہ چھڑ گیا تو صرف دو تین دن تک ہلکی ہلکی چوٹیں چلتی رہیں اور قصہ ختم ہو گیا۔ جن دنوں مولانا عبدالباقی نے آزاد نکالا میں زمیندار میں تھا دونوں اخباروں میں کئی زور کے معرکے ہوئے پہلے ایک عروضی بحث چھڑی۔ پھر بعض اصلاحات کے متعلق گرما گرم باتیں ہوئیں۔ مقالہ سے مقالہ لڑا۔ شذرات سے شذرات اور فکاہات سے فکاہات۔ یہ جنگ ابتدا میں علمی لیکن اخیر میں چلمی ہو کر رہ گئی۔ یعنی اس کا خاتمہ پھبتیوں پر ہوا۔ حکیم صاحب کا تو ان دنوں یہ حال تھا کہ ادھر اخبار ان کی نظر سے گزرا ادھر انہوں نے ٹیلی فون پر داد دی اور پھر داد اس طرح کہ ایک ایک جملہ پر داد ہر نکتہ اور ہر پھبتی پر تحسین۔ سچ پوچھئے تو ہم لوگ اکثر چیزیں صرف حکیم صاحب کی خاطر لکھتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد لکھنے کا لطف ہی اٹھ گیا۔ چچا چھکن سید امتیاز علی تاج کی مشہور تصنیف ہے۔ یہ کتاب انہوں نے کہہ کہہ کر لکھوائی۔ ورنہ امتیاز صاحب تو شاید اس سلسلہ کا ایک آدھ ہی مضمون لکھ کر بس کر چکے تھے۔ شیرازہ نکالنے کی تحریک بھی ابتدا میں ان کی ہی طرف سے ہوئی۔ اور اس کے لئے سب سے زیادہ خریدار بھی انہوں نے ہی دیئے۔ حکیم صاحب کچھ عرصہ تک فکر سخن بھی کرتے رہے۔ اور اچھی اچھی غزلیں کہیں لیکن مشاعرہ میں خود غزل نہیں پڑھتے تھے اکثر یہ حال ہوتا تھا کہ سالک صاحب مشاعرہ میں ان کی غزل پڑھ رہے ہیں اور وہ کچھ فاصلہ پر ٹہل رہے ہیں لیکن ان کی شاعری کا زمانہ بہت مختصر تھا۔ صرف چند غزلیں کہیں اور انہیں کسی اخبار یا رسالہ میں شائع نہیں کرایا۔ آغا حشر مرحوم نے بہتیرا کہا کہ تمہاری طبیعت شاعری کے لئے بہت موزوں ہے۔ ضرور شعر کہا کرو۔ لیکن انہوں نے ٹال دیا۔ اشعار کے علاوہ کسی زمانے میں انہوں ’’ بابا رلدو ‘‘ کے فرضی نام سے چند مضامین بھی لکھے تھے۔ ’’ شیرازہ‘‘ نکالا تو میں نے پھر اس ڈھرے پر لانا چاہا لیکن میں نے جب یہ سلسلہ چھیڑا ادھر سے جواب ملا ارے بھائی میں ’’ بنفشہ گاؤ زبان‘‘ لکھنے والا مضمون لکھنا کیا جانوں؟ طبیب کی حیثیت سے حکیم صاحب کا جو مرتبہ تھا۔ اس کے متعلق کوئی طبیب ہی اظہار رائے کر سکتا ہے۔ مجھے کچھ کہنا زیب نہیں دیتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہمارے سامنے انہوں نے ایسے ایسے مریضوں کا علاج کیا۔ جنہیں ڈاکٹر متفقہ طور پر نقابل علاج بتا چکے تھے۔ اور ہمارا تو یہ حال تھا کہ کیسی ہی تکلیف کیوں نہ ہو؟ جہاں انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا آدھا مرض دور ہو گیا۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان لڑکی کو ان کے پاس لایا گیا جو بصارت سے محروم تھی پوچھا تو معلوم ہوا کہ لڑکی کو میعادی بخار ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی بصارت زائل ہو گئی۔ حکیم صاحب نے نسخہ لکھ دیا اور کہا کہ اس نسخہ کے استعمال سے اسے زور کا بخار ہو گا لیکن تشویش کی کوئی بات نہیں یہ دوا برابر پلاتے رہنا۔ وہ کوئی مہینہ بھر بخا رمیں مبتلا رہی۔ اور اسی زمانہ میں اس کی بصارت بھی عود کر آئی۔ جب بخار اترا تو اس کی آنکھیں بالکل بھلی چنگی ہو چکی تھیں۔ بعض لوگوں نے اس علاج پر حیرت ظاہر کی تو انہوں نے فرمایا معمولی بات ہے اس لڑکی کو میعادی بخار ہوا۔ معالج ناتجربہ کار تھا اس لئے ایسی دوائیں دیں کہ بخار ایکبارگی اتر گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تپ اترتے وقت کچھ مواد فاسد آنکھوں کے اعصاب کے قریب تھا۔ جسے خارج کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی او راس طرح آنکھیں ماؤف ہو گئیں۔ میں نے ایسی دوائیں دیں کہ مریضہ کو پھر بخار ہوا اور یہ مواد فاسد بخار کی حرارت سے پگھل کر آہستہ آہستہ خارج ہو گیا۔ سید امتیاز علی تاج کو ایک مرتبہ گلے میں ایک مرض ہو گیا تھا جس کے متعلق ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ ہندوستان میں اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ امتیاز صاحب وی آنا جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ کہ اتفاقاً حکیم صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے ایک معمولی سا نسخہ لکھ دیا۔ جس کے استعمال سے چند دنوں میں تکلیف رفع ہو گئی۔ سر سکندر حیات خاں پر بھی یہی مہاجرا گزرا یعنی پٹنہ میں انہیں درد گردہ کا شدید دورہ پڑا۔ کلکتہ جا کر ڈاکٹروں کے ایک بورڈ سے معائنہ کرایا۔ انہوں نے کہا پتھری اور اس کا علاج وی آنا کے سوا اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ سر سکندر لاہور آئے اور حکیم صاحب سے علاج شروع کرایا دو تین مہینہ کے علاج میں شفا ہو گئی۔ اس قسم کے واقعات ہیں تو بہت لیکن اس لئے نہیں لکھتا کہ کہیں یہ مضمون رموز الاطبابن کر نہ رہ جائے۔ حکیم صاحب کی زندگی افکار و آلام سے خالی نہیں تھی۔ سب سے بڑا داغ تو بے اولادی کا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی طبعی شگفتگی کا یہ حال تھا کہ کبھی میں نے انہیں ملول و متفکر نہیں پایا۔ جب دیکھا مسکراتے ہی دیکھا جہاں دو چار خوش ذوق آدمی ان کے پاس جا بیٹھے پان سے ان کی تواضع کی خود ایک گلوری کلے میں دبائی اور مسکرانے لگے۔ یہ مسکرانا گویا اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ کوئی پھبتی کہنے کو ہیں۔ سنبھل جایئے پھبتی کے ساتھ وہ اس طرح قہقہ لگاتے تھے کہ در و دیوار گونج اٹھتے تھے اور پھر یہ نہیں کہ دوسرا کچھ کہے تو جھینپ جائیں۔ بلکہ اسی طرح قہقہہ سے داد دیتے تھے۔ بس یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے ذہن میں نسخوں کے ساتھ ساتھ لطیفے بھرے پڑے تھے۔ پیٹ میں قہقہے تھے۔ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ اور یہ تینوں اس ترتیب سے باری باری اپنا اپنا جلوہ دکھاتے تھے۔ تبسم پھبتی قہقہہ یا کبھی یوں کہ قہقہہ، لطیفہ، تبسم۔ مرحوم مرنج و مرنجان بے ہمہ و با ہمہ قسم کے انسان تھے۔ خود وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ اور ان کے دل میں قوم کا درد بھی تھا۔ لیکن دوسروں کے سیاسی اور مذہبی عقائد سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ اور حجت تکرار بخشا بحثی سے ہمیشہ محترز رہتے تھے پرانے بزرگوں میں وضع داری لازمہ شرافت سمجھی جاتی تھی۔ حکیم صاحب مرحوم بھی اسی قسم کے باوضع انسان تھے۔ ساری زندگی ایک ہی ڈھنگ پر گزار دی۔ معمولات میں کبھی فرق نہیں آیا۔ جس سے جو تعلق تھا۔ اسے نباہے گئے اپنے نیاز مندوں پر ہمیشہ شفقت فرماتے تھے لیکن سرکشوں کے ساتھ سرکشی سے پیش آتے تھے۔ ہرچند کہ انہیں علاج کے سلسلہ میں بڑے بڑے رؤسا اور ارباب جاہ سے سابقہ پڑتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی لایہ گری کو شعار نہیں بنایا۔ مرحوم کی اپنی صحت بہت اچھی تھی۔ وہ ہمیشہ ایسی دوائیں استعمال کرتے رہتے تھے جن سے مرض قریب نہیں آنے پاتا تھا۔ ۱۹۳۷ء کی گرمیوں میں بمبئی گئے وہاں طبیعت بگڑی اور اسہال شروع ہو گئے۔ انہوں نے پروا نہ کی اور کمار صاحب ٹکاری کے ساتھ ڈیرہ دون چلے گئے۔ وہاں مرض نے زور پکڑا تو لاہور چلے آئے لیکن اپنے آنے کی خبر کسی کو نہ دی۔ یہاں پہلے کچھ دن علاج کرتے رہے پھر کچھ دوستوں نے ڈاکٹر یار محمد اور ڈاکٹر وشوا ناتھ کو بلا بھیجا۔ ان کے علاج سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو دلی سے حکیم فرید احمد کو بلایا گیا۔ مگر کوئی تدبیر نہ چلی اور آخر مرحوم نے دو مہینے کی علالت کے بعد ارسٹھ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ راحل ہوشیار پوری نے تاریخ کہی شفاء الملک حکیم فقیر محمد مرحوم۔ مرحوم نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ ان کی موت کے ساتھ مطب درہم برہم ہو گیا۔ دواخانہ ابھی تک ہے لیکن اس کی بھی حالت اچھی نہیں۔ ٭٭٭ علامہ اقبال میکلوڈ روڈ پر لکشمی انشورنس کمپنی کی عمارت سے کچھ آگے سینما ہے۔ سینما سے ادھر ایک مکان چھوڑ کے ایک پرانی کوٹھی ہے۔ جہاں آج کل آنکھوں یا دانتوں کا کوئی ڈاکٹر رہتا ہے۔ کسی زمانے میں علامہ اقبال یہیں رہا کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۳۰ء میں یہیں پہلی مرتبہ ان کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اب بھی میں اس طرف سے گزرتا ہوں تو اس کوٹھی کے قریب پہنچ کر قدم رکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور نظریں بے اختیار اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ کوٹھی اچھی خاصی تھی ۔ صحن بھی خاصا کشادہ۔ ایک طرف شاگرد پیشہ کے لئے دو تین کمرے بنے ہوئے تھے۔ جن میں علامہ اقبال کے نوکر چاکر علی بخش رحمان، دیوان علی وغیرہ رہتے تھے۔ لیکن کوٹھی کی دیواریں سیلی ہوئی۔ پلستر جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا۔ چھتیں ٹوٹی پھوٹی۔ منڈیر کی کچھ اینٹیں اپنی جگہ سے اس طرح سرکی ہوئی تھیں کہ ہر وقت منڈیر کے زمین پر آرہنے کا اندیشہ تھا۔ میر کا مکان نہ سہی۔ بہرحال غالب کے بلی ماراں والے مکان سے ملتا جلتا نقشہ ضرور تھا۔ کوٹھی کے صحن میں چارپائی بچھی تھی۔ چارپائی پر اجلی چادر اس پر علامہ اقبال ململ کا کرتہ پہنے تہ بند باندھے تکیہ سے ٹیک لگائے حقہ پی رہے تھے۔ سرخ و سپید رنگت بھرا ہوا جسم سر کے بال کچھ سیاہ کچھ سپید۔ داڑھی گھٹی ہوئی چار پائی کے سامنے کچھ کرسیاں تھیں۔ ان پر دو تین آدمی بیٹھے تھے۔ دو تین اٹھ کے جا رہے تھے۔ سالک صاحب میرے ساتھ تھے۔ علامہ اقبال نے پہلے ان کی مزاج پرسی کی پھر میری طرف توجہ فرمائی۔ ان دنوں نمک کی ستیا گرہ زوروں پر تھی۔ ڈانڈی کے مارچ کے چرچے جگہ جگہ ہو رہے تھے۔ لاہور میں روز جلوس نکلتے۔ جلسے ہوتے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگتے تھے۔ میں نے پہلے کبھی کھدر کا لباس نہیں پہنا تھا۔ مگر یہ تو کھدر کا خاص موسم تھا۔ کچھ رواج عام کااثر کچھ کفایت کا خیال۔ میں نے بھی یہی لباس پہننا شروع کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کا ذہن میرے کھدر کے لباس سے چرخے چرخے سے گاندھی اور گاندھی سے کانگریس کی جانب منتقل ہو گیا کیونکہ اس رسمی تعارف کے بعد انہوں نے جو گفتگو شروع کی۔ اس کی لپیٹ میں گاندھی کانگریس اور اہنسا سب کے سب آ گئے تھے۔ موضوع روکھا پھیکا تھا۔ مگر بیچ بیچ میں لطیفے بھی ہوتے جاتے تھے۔ میں تو ہوں ہاں کر کے رہ جاتا تھا۔ مگر سالک صاحب کب رکتے تھے۔ جہاں موقع ملتا تھا کوئی لطیفہ کوئی چٹکلہ۔ کوئی پھبتی ضرور کہہ دیتے تھے۔ ہم جب گئے تھے تو سورج چھپنے میں کوئی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ مگر اٹھے تو اچھی خاصی رات ہو چکی تھی۔ مجھے لاہور آئے ہوئے سوا سال سے اوپر ہو چکا تھا۔ لیکن زیادہ لوگوں سے ربط نہیں تھا۔ یا تنہا گھر میں بیٹھا ہوں۔ یا سالک صاحب کے ہاں ہفتہ میں ایک دو مرتبہ حکیم فقیر محمد صاحب چشتی کے ہاں بھی چلا جاتا تھا لیکن اب جو علامہ اقبال کی خدمت میں باریاب ہونے کا موقع ملا۔ تو ایک اور ٹھکانا ہاتھ آ گیا۔ کچھ دنوں میں یہ کیفیت ہوئی کہ اول تو دوسرے تیسرے ورنہ ساتویں آٹھویں ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا تھا۔ کبھی کسی دوست کے ساتھ کبھی اکیلا۔ مگر جب جاتا تھا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ ضرور بیٹھتا تھا کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بارہ بارہ بجے تک برابر محفل جمی ہے۔ لوگ آ رہے ہیں جا رہے ہیں۔ ادب، شاعری، سیاست، مذہب پر بحثیں ہو رہی ہیں لیکن ان محفلوں میں سب سے زیادہ علامہ اقبال باتیں کرتے تھے دوسرے لوگوں کی حیثیت زیادہ تر سامعین کی ہوتی تھی۔ میرا مقصود یہ نہیں کہ وہ دوسروں کو بات کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے۔ یا بات کاٹ کے بولنا شروع کر دیتے تھے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ کے متعلق ان کی معلومات دوسروں سے زیادہ ہوتی تھیں۔ اور اہل محفل کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ چند جملے کہہ کے چپکے ہو رہیں۔ ان کے مکان کے دروازے غریب و امیر ادنیٰ و اعلیٰ سب پر کھلے تھے۔ نہ کوئی حاجب نہ دربان، نہ ملاقات کے لئے کارڈ بھجوانے کی ضرورت، نہ تعارف کے لئے کسی واسطہ کی حاجت جو آتا ہے کرسی کھینچ کے بیٹھ جاتا ہے اور یا تو خود اپنا تعارف کرا دیتاہے۔ یا چپ چاپ بیٹھا باتیں سنتا رہتا ہے۔ علامہ اقبال باتیں کرتے کرتے تھوڑی دیر کے لئے رکتے ہیں تو اس کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور پوچھتے ہیں ’’ فرمائیے کہاں سے آنا ہوا؟‘‘ وہ اپنا نام بتاتا ہے۔ کوئی حاجت ہوتی ہے تو بیان کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر کہتے ہیں کہ ایک رات کو میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر تھا کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے کہ ایک شخص جس کے سر کے بال بڑھے ہوئے تھے اور کچھ بدحواس معلوم ہوتا تھا آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔ علامہ اقبال کچھ دیر کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ’’فرمائیے‘‘ کہاں سے تشریف لائے؟ وہ کہنے لگا’’ یوں ہی آپ سے ملنے چلا آیا تھا‘‘ خدا جانے علامہ اقبال نے اس کے چہرے سے معلوم کر لیا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا یا کوئی اور بات تھی ۔ بہرحال انہوں نے پوچھا’’ کھاناکھائیے گا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’ جی ہاں کھلا دیجئے‘‘ علامہ اقبال نے علی بخش کو بلا کے کہا’’ انہیں دوسرے کمرے میں لے جا کے کھانا کھلا دو یہ سن کر وہ کہنے لگا میں کھانا یہیں کھاؤں گا۔ غرض علی بخش نے وہیں دستر خوان بچھا کر اسے کھانا کھلایا۔ وہ کھانا کھا کے بھی نہ اٹھا۔ اور وہیں چپ چاپ بیٹھا رہا رات اچھی خاصی جا چکی تھی۔ اس لئے میں اسے وہیں چھوڑ کے گھر چلا آیا۔ دوسرے دن علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ کیوں ڈاکٹر صاحب رات جو شخص آیا تھا اس کا کیا ہوا؟ کہنے لگے تمہارے جانے کے بعد میں نے اس سے کہا۔ اب سو جایئے لیکن وہ کہنے لگا کہ آپ کے کمرے میں ہی پڑ رہوں گا۔ چنانچہ علی بخش نے میرے کمرے کے دروازہ کے ساتھ اسے چارپائی بچھا دی صبح سویرے اٹھ کر وہ کہیں چلا گیا!‘‘ ان سے جو لوگ ملنے آتے تھے۔ ان میں کچھ تو روز کے آنے والے تھے کچھ دوسرے تیسرے اور کچھ ساتویں آٹھویں آتے تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے۔ جنہیں عمر بھر میں صرف ایک آدھ مرتبہ ان سے ملنے کا موقع ملا۔ پھر بھی ان کے ہاں ہر وقت میلا سا لگا رہتا تھا۔ جب جاؤ دو تین آدمی بیٹھے ہیں۔ کوئی سفارش کرانے آیا ہے۔ کوئی کسی شعر کے معنی پوچھ رہا ہے۔ کسی نے آتے ہی سیاسیات کے متعلق بحث چھیڑ دی ہے اور کوئی مذہب کے متعلق اپنے شکوک بیان کر رہا ہے۔ اکثر لوگ جو باہر کے کسی شہر سے لاہور کی سیر کرنے آتے تھے ان کی کوٹھی پر حاضر ہونا واجبات میں سے سمجھتے تھے۔ کیونکہ لاہور آ کے ڈاکٹر اقبال کو نہ دیکھا۔ تو کیا دیکھا؟ ایسے لوگ بھی تھے جو ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا دیکھ کر ان سے علاج کرانے آ جاتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص ان سے دانت نکلوانے چلا آیا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر اقبال علاج کرنا نہیں جانتے تو وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کیسے ڈاکٹر ہیں جنہیں دانت نکالنا بھی نہیں آتا! بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں۔ جنہیں علامہ اقبال سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا اشتیاق عمر بھر رہا۔ مگر ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو ان کی طبیعت کا حال معلوم نہیں تھا۔ وہ ان کے عظمت کے ذکر و اذکار سن کر اور ان کے ساتھ سر جیسا پر رعب خطاب دیکھ کر دل میں سمجھتے تھے کہ ان کے حضور میں ہم ایسے غریب لوگوں کی رسائی کہاں؟ میرے ایک عزیز دوست جو علامہ اقبال کے سچے عقیدت مند ہیں۔ ان کی وفات سے کوئی دو مہینے کے بعد مجھ سے ملنے آئے اور جب تک بیٹھے رہے انہیں کا ذکر کرتے رہے جب انہیں میری زبانی معلوم ہوا کہ علامہ اقبال سے ہر شخص مل سکتا تھا تو انہوں نے بے اختیار رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے ’’ تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا؟ مجھے کئی سال سے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی تمنا تھی مگر حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ جی میں سوچتا تھا کہ کسی تقریب کے بغیر کیسے ملوں؟ کیا عجب ہے کہ وہ ملنے سے انکار ہی کر دیں۔ کئی دفعہ اس شوق میں ان کی کوٹھی تک گیا مگر اندر قدم رکھنے کی ہمت نہ پڑی۔ اس لئے باہر سے ہی الٹے پاؤں لوٹ آیا۔‘‘ علامہ اقبال بہت سیدھی سادی زندگی بسر کر تے تھے۔ گھر میں تو وہ ہمیشہ تہ بند اور کرتے میں نظر آتے تھے البتہ باہر نکلتے تو کبھی کوٹ پتلون پہن لیتے تھے۔ کبھی فراک کوٹ کے ساتھ شلوار اور ترکی ٹوپی ہوتی تھی۔ ولایت جانے سے پہلے وہ پنجابیوں کا عام لباس پہنتے تھے یعنی کبھی مشہدی لنگی فراک کوٹ اور شلوار کبھی سپید ململ کی پگڑی۔ وہ شروانی اور چسٹ گھٹنا بھی پہنتے رہے ہیں۔ مگر بہت کم میں نے اس لباس میں انہیں دیکھا تو نہیں البتہ قیاس کہتا ہے کہ شروانی اور چست گھٹنا ان کے جسم پر بہت کھلتا ہو گا۔ وہ کھانا کم کھاتے تھے مگر ہمیشہ اچھا کھاتے تھے مدت سے ان کا یہ دستور تھا کہ رات کو کھانا نہیں کھاتے تھے صرف نمکین کشمیری چائے پر اکتفا کرتے تھے۔ دسترخوان پر ہمیشہ دو تین سالن ضرور ہوتے تھے۔ پلاؤ اور کباب انہیں بہت مرغوب تھے۔ شبدیگ بھی بہت پسند تھی۔ جاڑے کے دنوں میں بڑے چاؤ سے شبدیگ پکواتے اور خشکہ کے ساتھ کھاتے تھے۔ پھلوں میں صرف آموں سے رغبت تھی۔ آموں کی فصل میں لگن اور سینیاں بھر کے بیٹھ جاتے۔ خود کھاتے احباب کو کھلاتے لطیفے کہتے۔ آپ ہنستے دوسروں کو ہنساتے تھے۔ جوانی کے زمانے میں ان کا معمول یہ تھا کہ صبح اٹھ کے نماز پڑھتے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ پھر ورزش کرنا شروع کر دیتے۔ ڈنٹر پیلتے۔ لدر ہلاتے اور جب سارا جسم عرق عرق ہو جاتا تو مگدر ہاتھ سے چھوٹتا سن زیادہ ہو گیا تو ورزش چھوٹ گئی۔ البتہ قرآن کریم کی تلاوت آخر تک جاری رہی۔ عام طور پر پنجابی بولتے تھے ۔ کبھی کبھی اثنائے گفتگو میں انگریزی بولنا بھی شروع کر دیتے تھے۔ یوپی کے جو شاعر اور ادیب ان سے ملنے آتے تھے۔ انہیں علامہ اقبال کے ڈیل ڈول لب و لہجہ اور گفتگو کے انداز پر حیرت ہوتی تھی کیونکہ ان لوگوں کے ذہن میں شاعر کا تصور یہ ہے کہ تیکھے تیکھے نقش۔ جس دھان پان بلکہ بالکل مشت استخواں کلے میں گلوری جس کی پیک بہ کر ٹھوڑی تک پہنچی ہے۔ سر پر پٹے اور ان پر دوپلڑی ٹوپی۔ بات بات پر تسلیمات بجا لاتا اور دہرا ہوا جاتا ہے۔ بغل میں کاغذوں کا پلندہ جس میں کچھ ادھوری اور کچھ پوری غزلیں۔ مخاطب کے مزاق اور خیالات کا لحاظ نہیں کرتا جو ملنے آتا ہے۔ اسے اپنا کلام سنانا شروع کر دیتا ہے اور اس وقت تک خاموش نہیں ہوتا جب تک سننے والا اکتا نہیں جاتا۔ مجھ سے یوپی کے ایک مشہور شاعر نے جو علامہ اقبال سے مل چکا تھا۔ استعجاب کے انداز میں کہا اجی صاحب ! ڈاکٹر اقبال اپنے لب و لہجہ اور ڈیل ڈول سے بالکل پنجابی معلوم ہوتے ہیں۔ ’’ گویا ان لوگوں کے نزدیک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لب و لہجہ اور ڈیل ڈول سے پنجابی معلوم نہ ہو۔‘‘ ایک دفعہ یوپی کے ایک شاعر صاحب آئے اور تھوڑی دیر کے بعد علامہ اقبال سے ان کا کلام سننے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ انہوں نے ٹالنا چاہا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ یوپی کا شاعر شعر سننے اور سنانے کے معاملہ میں ہمیشہ بے پناہ ہوتا ہے۔ انہوں نے علامہ مرحوم کے انکار کو شاعرانہ انکسار سمجھا اور برابر تقاضا جاری رکھا جب یوں کام نہ نکلا تو اپنی ایک غزل سنانا شروع کر دی۔ علامہ اقبال کچھ دیر تو چپ بیٹھے سنتے رہے لیکن جب دیکھا کہ مدعی سامعہ خراشی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ داد کا بھی طالب ہے۔ تو ان سے ضبط نہ ہو سکا صاف کہہ دیا کہ اس قصے کو جانے دیجئے میں شعر سننے سنانے کا قائل نہیں وہ تھوڑی دیر چپکے بیٹھے رہے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ مگر ان کے تیوروں سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہاں سے نکلتے ہی خود کشی کر لیں گے اور اس معاملہ میں وہ حق بجانب بھی تھے۔ انہیں یقینا عمر بھر میں کبھی اس قسم کے شاعر سے سابقہ نہیں پڑا ہو گا۔ جی میں کہتے ہوں گے کہ یہ کیسے شاعر ہیں جو نہ شعر سناتے ہیں نہ سنتے ہیں نہ داد لینے کا شوق نہ داد دینے کا سلیقہ۔ علامہ اقبال جوانی میں کبھی کبھار مشاعروں میں بھی شریک ہو جاتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ انہیں اس قسم کے اجتماعات سے نفرت سی ہو گئی۔ ایک دن مشاعروں کا ذکر آ گیا تو فرمایا اردو شاعری کو ان مشاعروں نے کھویا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے مشاعروں میں برے بھلے سب شریک ہوتے ہیں۔ اور داد کو شعر کے حسن و قبح کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو شاعری نے عوام کے مذاق کو اپنا رہنما بنا لیا میں نے عرض کیا۔ ’’ ان مشاعروں نے تو اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔‘‘ فرمایا’’ ہاں زبان کو فائدہ پہنچایا۔ اور شاعری کو غارت کر ڈالا۔‘‘ مرحوم کی طبیعت میں ظرافت بہت تھی۔ خشک فلسفیانہ مسائل کو بھی وہ لطیفوں اور پھبتیوں میں ایسا دلچسپ بنا دیتے تھے کہ جی چاہتا تھا پہروں بیٹھے ان کی باتیں سنتے رہیں یوں تو ہر روز دو تین لطیفے ہو جایا کرتے تھے لیکن جو پھبتیاں انہوں نے سر شہاب الدین کے متعلق کہی ہیں انہیں تاریخی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دیکھ کر علامہ اقبال کو لطیفوں او رپھبتیوں کے سوا کچھ نہیں سوجھتا تھا۔ سر شہاب الدین کی رنگت سیاہ ہے ایک دفعہ وہ سیاہ سوٹ پہن کر اسمبلی میں تشریف لے آئے۔ علامہ اقبال نے انہیں دیکھا تو ہنس کے فرمایا ’’ چودھری صاحب آج تو آپ ننگے ہی چلے آئے۔‘‘ چودھری صاحب نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ لباس کے انتخاب کا معاملہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔ سیاہ رنگت پر سیاہ سوٹ واقعی بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ لوگوں کو یہ معلوم کرنے میں دقت ہوتی ہے کہ کوٹ کا کالر کہاں ہے؟ اور ٹھوڑی کہاں۔ یہ سوچ کے سیاہ سوٹ کے بجائے سپید سوٹ پہننا شروع کر دیا۔ سپید پتلون، سپید کوٹ، سپید قمیض، سپید پگڑی چونکہ وہ خود بھی پنجابی کے شاعر ہیں۔ اس لئے سپید سوٹ زیب تن کر کے سمجھ لیا کہ اب حریف کے لئے اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ سپید لباس میں سیاہ چہرہ اسی طرح معلوم ہو گا جس طرح گورے گالوں پر سیاہ تل ۔ اور خال رخ یار کی تعریف میں تو دیوانوں کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ علامہ اقبال نے انہیں دیکھا تو سر سے پاؤں تک ایک نظر ڈالی اور بے اختیار ہنس پڑے چودھری صاحب نے جھنجھلا کے کہا۔ ’’ آپ ہنستے کیوں ہوں؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آپ ہیں یا کپاس کے کھیت میں ارنا بھینسا ایک مرتبہ پھر ایسا ہی موقع پیش آیا تو مرحوم نے ان پر بجھے ہوئے سگریٹ کی پھبتی کہی۔ ایک مرتبہ بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ چودھری شہاب الدین کا ذکر چھڑ گیا۔ ’’ میں نے عام مثال میں ایک بڑھیا دیکھی۔ جو اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی میں نے پوچھا تو کون ہے؟ کہنے لگی میں طاعون ہوں میں نے کہا تو بھاگ کے کہاں جا رہی ہے؟ کہنے لگی میں شہر کی طرف جانا چاہتی تھی لیکن وہاں شہاب الدین پہلے ہی موجود ہے میری کیا ضرورت رہ گئی۔‘‘ ایک دن سر شہاب الدین سے کہنے لگے ’’ چودھری صاحب آپ سچے مسلمان ہیں‘‘ چودھری صاحب نے پوچھا’’ آپ کو کیونکر معلوم ہوا‘‘ کہنے لگے مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا ہے۔ اور بحمد اللہ کہ آپ کا ظاہر و باطن یکساں ہے۔ جن دنوں ابھی چودھری شہاب الدین نہ سر تھے نہ کونسل کے صدر بلکہ صرف لاہور میونسپلٹی کی صدارت فرماتے اور نرے چودھری جی کہلاتے تھے۔ مہتر صاحب چترال لاہور تشریف لائے اور یہاں کے معززین نے ان کے اعزاز میں ایک شاندار پارٹی دی۔ چونکہ علامہ اقبال کے سوا مہتر صاحب سے کسی کی شناسائی نہیں تھی۔ اس لئے مہمان سے میزبانوں کا تعارف کرانے کی خدمت انہیں کے سپرد ہوئی۔ چودھری شہاب الدین کی باری آئی۔ تو علامہ مرحوم نے فرمایا اعلیٰ حضرت مہتر چترال۔۔۔۔ چودھری شہاب الدین۔ اتنا کہہ کے بڑی متانت سے فرمایا۔ ’’ ایں ہم مہتر لاہور است‘‘ اور اس ایک فقرہ میں چودھری صاحب کی تمام صوری اور معنوی حیثیتیں ان کا طول و عرض او رعمق یعنی پورے ابعا و ثلثہ آ گئے۔ اس قسم کے لطیفے جو صرف چودھری سر شہاب الدین سے متعلق ہیں۔ ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں ضرور ہیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ علامہ اقبال کا انتقال ہو گیا۔ اور چودھری صاحب بتاتے نہیں دوسرے لوگوں کو جو لطیفے یا درہ گئے ہیں۔ ان میں سے بعض حاضر ہیں۔ کچھ اور بھی ہیں لیکن انہیں اس لئے نہیں لکھتا کہ میں تعزیرات ہند اور ضابطہ دیوانی دونوں سے بہت ڈرتا ہوں تو خیر کچھ زیادہ ڈرنے کی چیز نہیں لیکن ضابطہ دیوانی کی زد میں آنے کے لئے ذرا جیب میں ’’ زرد‘‘ ہونا چاہیے۔ آپ کو ممکن ہے اس موقع پر غالب یاد آ جائے اور آپ فرمائیں کہ عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا لیکن میں عرض کروں گا کہ یوں ہی سہی بلا سے ڈگری اور قرقی کا خطرہ تو نہیں۔ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ ان سے ہر قسم کے لوگ ملنے آتے تھے۔ اور وہ سب کی باتیں غور سے سنتے اور ان کا جواب دیتے تھے۔ دوسرے تیسرے کالجوں کے کچھ طلبہ بھی آ جاتے تھے۔ ان میں سے کوئی ان کے اشعار کے معنی پوچھتا تھا۔ کوئی مذہب کے متعلق سوالات کرتا تھا۔ کوئی فلسفہ کی بحث لے بیٹھتا تھا۔ ایک دفعہ گورنمنٹ کالج کے چار پانچ طالب علم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ جانتے ہیں کہ کالج کی مخلوق میں بننے سنورنے کا شوق زیادہ ہے۔ پوڈر اور سرخی کا استعمال روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ ابروؤں کو خم دینے زلفوں میں بل ڈالنے ہونٹوں کو سرخی کے استعمال سے ’’ لعلین‘‘ بنانے کا شوق زیادہ ہوتاجا رہا ہے ۔ ایک تو یہ چاروں پانچوں گلچرہ اور نازک اندام اس پر بناؤ سنگار کا خاص اہتمام۔ انہوں نے آتے ہی پردہ کی بحث چھیڑ دی۔ اور ایک نوجوان کہنے لگا ’’ ڈاکٹر صاحب اب مسلمانوں کو پردہ اٹھا دینا چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرا کے بولے ’’ آپ عورتوں کو پردہ سے نکالنا چاہتے ہیں اور میں اس فکر میں ہوں کہ کالج کے نوجوانوں کو بھی پردہ میں بٹھا دیا جائے۔‘‘ علی بخش ان کا پرانا نوکر ہے اور کوئی چالیس سال تک برابر ان کے ساتھ رہا ہے۔ ملازمت اختیار کی تو مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں اب داڑھی مونچھیں سپید ہو چکی ہیں۔ داڑھی تو خیر منڈا دی اور پردہ ڈھک گیا مونچھوں کو خضاب کیا مگر چند دنوں میں خضاب اڑ گیا اور مونچھوں کی رنگ کچھ عجیب سی ہو گئی۔ انتقال سے ایک دو مہینے پہلے کا ذکر ہے۔ کہ علامہ مرحوم تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ارد گرد کچھ بے تکلف احباب بیٹھے تھے۔ علی بخش پاس کھڑا تھا۔ کہ اس کی مونچھوں کی رنگت کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک صاحب کہنے لگے۔ ’’ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ کہ آخر علی بخش کی مونچھوں کی رنگت کیا ہے؟‘‘ دوسرے بولے خاکستری؟ ایک اور صاحب نے کہا خاکستری نہیں اگرئی ڈاکٹر صاحب بھی سن رہے تھے مسکرا کر بولے نہ اگرئی نہ خاکستری مچھئی کہو مچھئی۔ علامہ اقبال کے ملنے والوں میں دو شخص بہت دلچسپ تھے۔ مولانا گرامی اور عبداللہ چغتائی گرامی ہوشیار پور کے رہنے والے اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے لیکن ان کی صورت شکل چہرے مہرے سے قطعاً ذہانت کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ سر پر بڑا پگڑ جس کے پیچ کھلے ہوئے بڑے بڑے ہاتھ پاؤں۔ ہاتھ میں ڈنڈا علامہ اقبال سے انہیں سچی محبت تھی۔ لاہور آتے تھے تو مہینوں انہیں کے ہاں رہتے تھے کبھی وہ دیر تک نہ آتے تھے تو علامہ اقبال انہیں خود بلوا بھیجتے تھے۔ ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ گرامی جالندھر آئے ہوئے ہیں۔ حضرت مرحوم نے علی بخش کو جالندھر بھیجا۔ کہ گرامی کو لے آؤ۔ گرامی نے اسے دیکھ کے کہا ’’ ارے علی بخش تم کہاں؟‘‘ کہنے لگا’’ آپ کو لینے آیا ہوں۔‘‘ ارشاد ہوا میں تو خود لاہور چلنے کی تیاری کر رہا ہوں۔ ارے کوئی ہے تانگہ والا ہم اسٹیشن تک جائیں گے۔ اچھا سا تانگہ ہو۔ لاہور جا رہے ہیں لاہور وقت پر اسٹیشن پہنچ جائے۔ تانگہ آیا اور تانگہ والے نے اسے دھوپ میں کھڑا کر دیا۔ تھوڑی دیرمیں مولانا گرامی گھر سے نکلے اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ لیکن لمحہ بھر بیٹھ کے اتر گئے اور علی بخش سے کہنے لگے ’’ تم لاہور چلے جاؤ میں نہیں جاتا۔‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’ وہ کیوں؟‘‘ کہنے لگے ’’ تانگہ گرم ہو گیا۔ ڈاکٹر کو میرا بہت بہت سلام کہنا اور کہہ دینا تانگہ گرم ہو گیا تھا۔ اس لئے نہیں آئے۔ اگلے مہینے آئیں گے۔ اگلے مہینے ہاں یہ ضرور کہہ دینا کہ تانگہ گرم ہو گیا تھا۔‘‘ گرامی کے لطیفے تو بے شمار ہیں لیکن اس خیال سے نہیں لکھتا کہ یہ مضمون کہیں ’’ لطائف گرامی‘‘ بن کر نہ رہ جائے۔ عبداللہ چغتائی گرامی کو نہیں پہنچتے۔ البتہ وہ بھی اپنے انداز کے ایک ہی بزرگوار ہیں۔ جتنا تیز بولتے ہیں اتنا ہی تیز چلتے ہیں اور لکھنے میں بولنے اور چلنے دونوں سے تیز۔ آدھا فقرہ ذہن میں ہے آدھا کاغذ پر یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر غالب اور بیدل کی نظم سے زیادہ مشکل ہوتی ہے ڈاکٹر اقبال انہیں چھیڑ چھیڑ کے ان کی باتیں سنتے اور لطف اٹھاتے تھے۔ مرحوم زندگی کے بعض معاملات میں خاص ضابطوں کے پابند تھے۔ وہ گھر کا سارا حساب کتاب باقاعدہ رکھتے تھے۔ اور ہر شخص کے خط کا جواب ضرور دیتے تھے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کوئی شخص ان سے کوئی سند یا کسی تصنیف پر ان کی رائے لینے آتا تھا تو کہتے تھے خود لکھ لاؤ میں دستخط کر دوں گا۔ اور یہ بات صرف ٹالنے کی غرض سے نہیں کہتے تھے بلکہ جو کچھ کوئی لکھ لاتا تھا اس پر دستخط کر دیتے تھے۔ ان کی طبیعت میں بلا کی آمد تھی۔ ایک ایک نشست میں دو دو سو شعر لکھ جاتے تھے۔ پلنگ کے پاس ایک تپائی پر پنسل اور کاغذ پڑا رہتا تھا۔ جب شعر گوئی پر طبیعت مائل ہوتی تھی۔ لکھنا شروع کر دیتے تھے۔ کبھی خود لکھتے تھے کبھی کسی کو لکھوا دیتے تھے۔ عشق رسول نے ان کے دل کو گداز کر رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے وقت ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتی تھیں اور قرآن پڑھتے پڑھتے بے اختیار رو پڑتے تھے۔ غرض ان کی شخصیت بے حد دلآویز تھی۔ جن لوگوں نے صرف ان کا کلام پڑھا ہے۔ اور ان سے ملے نہیں و ہ اقبال کے اعلیٰ کمالات سے بے خبر ہیں۔ موت سے کوئی ڈھائی سال پہلے وہ میو روڈ پر اپنی نو تعمیر کوٹھی میں اٹھ گئے۔ وہاں گئے ابھی تھوڑے دن ہی ہوئے تھے کہ ان کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا۔ انہیں اس واقعہ کا بہت صدمہ ہوا۔ میں نے اس حالت میں انہیں دیکھا کہ مرحومہ کی قبر کھودی جا رہی ہے اور وہ پیشانی پر ہاتھ رکھے پاس بیٹھے ہیں۔ اس وقت وہ بہت بوڑھے معلوم ہو رہے تھے۔ کمر جھکی ہوئی تھی اور چہرہ زرد۔ اس واقعہ کے بعد ان کی صحت برابر بگڑتی چلی گئی۔ آخر ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو انتقال کیا اور شاہی مسجد کے باہر دفن ہوئے۔ ٭٭٭ ظفر علی خاں اب سے کوئی دس سال ادھر کا ذکر ہے کہ میں اخبار ’’ نئی دنیا‘‘ کلکتہ کے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے آ کے کہا کہ ’’ جمیندار‘‘ صاحب آئے ہیں۔ میں لنگی باندھے بیٹھا تھا۔ سر کے بال پریشان۔ داڑھی کئی دن کی بڑھی ہوئی۔ ’’ جمیندار‘‘ صاحب کا نام سنتے ہی ہڑبڑا کے اٹھا۔ پوچھا کون جمیندار صاحب؟ وہ بچارا کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ مولانا شائق 1؎ احمد عثمانی آئے اور کہنے لگے ’’بھئی ! مولانا ظفر علی خاں آئے ہیں۔ چچا صدیق2؎ انصاری نے جو اپنے گدیلے پر بیٹھے پانوں کی جگالی فرما رہے تھے۔ انگڑائی لی اور نیم باز آنکھوں سے۔۔۔۔ ادھر ادھر دیکھ کر ایک اور گلوری کلے میں دبا لی۔ ان دنوں نئی دنیا کا دفتر چونا گلی میں ہوا کرتا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا مکان تھا۔ باہر ایک 1؎ مولانا شائق احمد عثمانی ایڈیٹر عصر جدید کلکتہ 2؎ پہلے کتابت کرتے تھے۔ پھر اخبار نویس بنے۔ اب فلم ایکٹر ہیں یہ مصرع انہیں کا ہے۔ غلہ چوں ارزاں شود امسال سیدی شوم طرف عصر جدید پریس دوسری طرف حکیم غلام مصطفی کا مطب دروازے سے اندر گھسو تو دہنی طرف نئی دنیا آباد تھی۔ اور بائیں طرف مولانا شائق احمد عثمانی نے اپنی پرانی دنیا بسا رکھی تھی۔ یعنی اپنے اہل و عیال اور عربی کی بھاری بھر کم کتابوں سمیت رہتے تھے۔ میں اس نئی دنیا کا کولمبس تھا اور مقالہ افتتاحیہ کے جہاز کے ساتھ ساتھ نکاہات کی کشتی بھی چلاتا تھا۔ افسوس کہ یہ محفل سال بھر کے اندر اندر برہم ہو گئی۔ نہ نئی دنیا رہی نہ پرانی دنیا۔ رہے نام اللہ کا۔‘‘ تھوڑی دیر میں مولانا ظفر علی خاں کھٹ کھٹ کرتے تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ تصویریں ضرور دیکھی تھیں لیکن تصویروں سے کسی شخص کی صورت شکل کے متعلق صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا بہرحال اتنا تو یقین تھا کہ ان کی توند ضرور بڑھی ہوئی ہو گی۔ آخر جب معمولی قومی کارکنوں کا قبہ شکم گنبد فلک سے ہمسری کرتا ہے تو مولانا ظفر علی خاں کو جنہیں آل انڈیا لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک عد د گرانڈیل توند کا مالک ہونا چاہیے لیکن انہیں دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ توند نہ عمامہ آخر یہ کیسے مولانا اور کیسے لیڈر ہیں ! یہ راز لاہور آ کے کھلا کہ مولانا توند سے کیوں محروم رہے؟ غرض مولانا تشریف لائے اور آتے ہی سائمن کمیشن ہندوستان کی جدید اصلاحات راؤنڈ ٹیبل کانفرنس اور کامل آزادی کا قصہ چھیڑ دیا۔ مولانا شائق احمد عثمانی ان دنوں کانگریس سے باغی ہو چکے تھے اور سائمن کمیشن سے تعاون کے حامی تھے۔ ان سے اس مسئلہ پر بحثیں رہتی تھیں۔ اب مولانا نے یہ حکایت شروع کی تو پھر یہی بحث چھڑ گئی لیکن دراصل مجھے اس بحث سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ مولانا کے نزدیک آئینی کمیشن کا ہندوستان آنا بہت اہم واقعہ تھا۔ اور ہمارے نزدیک مولانا ظفر علی خاں کا کلکتہ تشریف لانا بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔اب کھینچا تانی شروع ہوئی میں چاہتا تھا کہ مولانا شعر و شاعری کی طرف آئیں اور مولانا ہم سب کو سیاست کی طرف کھینچے لئے جاتے تھے۔ میں نے غالب کا نام لیا۔ مولانا نے برکن ہیڈ کا ذکر شروع کر دیا۔ میں نے اقبال کی رجائیت کی داستان چھیڑ دی۔ مولانا نے اقبال سے سائم کمیشن اور سائمن کمیشن سے ٹو ڈیٹ کی طرف گریز کی اور ہندوستان کے ٹوڈیوں کی فہرست ایک سانس میں بیان کر گئے۔ بس اب یہ کیفیت تھی کہ میں انہیں میر کی طرف لاتا ہوں۔ اور وہ مجھے بالڈون کی طرف لئے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مومن وہ فرماتے ہیں۔ سائمن غرض دیر تک یہی جھگڑا رہا آخر مولانا کو فتح ہوئی۔ یعنی ہم نے مجبوراً شعر و ادب کا پنڈ چھوڑا۔ اور خاموشی سے ان کی باتیں سننے لگے۔ مولانا ظفر علی خاں اگلے سال پھر کانگریس کے موقع پر کلکتہ تشریف لے گئے۔ ان کے جانے اور آنے تک مجھ پر کئی سانحے گزر چکے تھے۔ نئی دنیا چھوٹی تو کچھ دنوں عصر جدید دامن پکڑے رہا۔ یہ سہارا بھی نہ رہا تو بعض دوستوں کے ساتھ مل کر حمبورہ کے نام سے ایک نیا اخبار نکالا اتنے میں نہرو رپورٹ کا فتنہ شروع ہوا۔ راقم الحروف نے اخبار میں نہرو رپورٹ کی حمایت کی۔ بس یہ حمایت قیامت ہو گئی۔ اخبار کے خلاف طوفان امڈا۔ تو گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ آخر گھبرا کے پنجاب کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں مولانا سے ملاقات ہو گئی۔ وہ بھی نہرو رپورٹ کی حمایت کے صدقے نہر وانی مخلوطی ہندوؤں کا غلام اور اس قسم کے دوسرے خطابات حاصل کر چکے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ اب کیا قصد ہے میں نے عرض کیا کہ۔ باز ہو ائے چمنم آرز دست کہنے لگے۔ آؤ میرے ساتھ چلو میں نے کہا بہ چشم وہ تو کانگریس کا اجلاس ختم ہوتے ہی چلے آئے۔ لیکن میں کچھ دنوں ٹھہر گیا۔ کیونکہ کلکتہ سے دامن چھڑانا آسان نہیں تھا۔ میں لاہور آیا تو کچھ دنوں زمیندار کے دفتر میں ہی قیام رہا۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ کسی نے پچھلے پہر میرا شانہ ہلایا میں آنکھیں ملت ہوا اٹھ بیٹھا۔ لیکن ابھی صبح کاذب تھی۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ صرف اتنا معلوم ہوا کہ کوئی شخص میرے سرہانے کھڑا ہے میں گھبرایا کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ اتنے میں مولانا کی آواز آئی۔ کہ اٹھو میرے ساتھ سیر کو چلو میں سمجھ گیا۔ کہ مولانا سیر کو جا رہے ہیں اور مجھے شرف رفاقت بخشنا چاہتے ہیں۔ لیکن خدا بھلا کرے قاضی احسان 1؎ اللہ کا مرحوم کا انہوں نے مجھے پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ اگر مولانا تمہیں اپنے ساتھ سیر کو لے جانا چاہیں تو ہرگز نہ جائیو میں نے پوچھا یہ کیوں کہنے لگے۔ وہ تو پچھلے پہر اٹھ کر نہر کے کنارے میلوں دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ڈنٹر پیلتے ہیں۔ تم ساتھ گئے تو تمہیں بھی دوڑائیں گے۔ اور جب تم نڈھال ہو جاؤ گے تو اپنے ساتھ نماز پڑھائیں گے۔ اب جو مولانا نے ساتھ چلنے کو کہا تو قاضی صاحب کی نصیحت یاد آگئی۔ اور آنکھوں تلے موت کا نقشہ پھر گیا۔ میں نے نہایت مضمحل آواز میں کہا کہ مولانا میں تو۔۔۔۔ میں تو سخت بیمار ہوں۔ رات بخار ہو گیا تھا۔ اب سر میں سخت درد ہے۔ پیٹ میں بھی درد ہو رہا ہے۔ غالباً قولنج ہے۔ مجھے پہلے بھی یہ مرض ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ ہائے اللہ یہ کہہ کے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ 1؎ زمیندار کے ایڈیٹر تھے۔ فارسی کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ کوئی ۴۵ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ یہ تدبیر کارگر ہوئی۔ مولانا نے مجھ سے ہمدردی ظاہر کی علاج کے متعلق چند معقول مشورے دیئے اور تشریف لے گئے میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اور جی میں تہیہ کر لیا کہ اب دفتر میں نہیں رہوں گا۔ اب یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی کہ مولانا توند سے کیوں محروم ہیں؟ آگے چل کے معلوم ہوا کہ انہیں صرف دوڑنے اور ڈنٹر پیلنے کا ہی شوق نہیں۔ مگدر بھی ہلاتے ہیں۔ نیزہ بازی اور شہسواری میں بھی برق ہیں۔ پیرا کی اور کشتی گیری میں بھی بند نہیں۔ نشانہ بھی بہت اچھا لگاتے ہیں۔ حیدر آباد کی ملازمت کے زمانے میں کچھ دن فوج میں بھی رہے۔ یہ قصہ عجیب ہے۔ سپاہی نیزہ بازی کے کرتب دکھا رہے تھے۔ ان کی بھی طبیعت لہرائی۔ گھوڑے پر سوار ہو کے نیزہ تانا اور آن کی آن میں میخ اکھیڑ لی۔ ہر طرف سے تحسین و آفرین کا غلغلہ بلند ہوا۔ اور ان کی خدمات فوج کے صیغہ میں منتقل کر دی گئیں۔ لیکن افسر الملک سے نباہ نہ ہو سکا۔ اس لئے استعفیٰ دے دیا۔ وہ جو راقم الحروف نے اپنی ایک جہازی غزل میں لکھا تھا کہ حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے اور عاشق میں کیا برائی ہے تو وہ دراصل مولانا ظفر علی خاں کے ہی متعلق ہے بات یہ ہے کہ مولانا حقہ کے بڑے رسیا ہیں۔ جب شعر کہتے ہیں تو حقہ ضرور پیتے ہیں۔ اور حقہ پیتے ہیں تو شعر ضرور کہتے ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز یہ ہے کہ حق بھرا والیا اور شعر کہنے بیٹھ گئے۔ طبیعت کی روانی کا یہ حال کہ کبھی کبھی فی کش ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی خود لکھتے ہیں کبھی کسی کو لکھوا دیتے ہیں۔ اس وقت ان کا انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ سا بناتا ہوا گھومتا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ فیضی چتوڑ کے محاضرہ کے زمانے میں پہلی مرتبہ اکبر کے سامنے پیش ہوا تو پچاس ساٹھ شعر کا قصیدہ ارتجالاً کہہ ڈالا۔ لیکن ہم نے ایسے معرکے بارہا دیکھے ہیں کہ باتوں باتوں میں پندرہ بیس شعر ہو گئے۔ ادھر حقہ کی نے منہ میں آئی۔ ادھر انگوٹھا انگشت شہادت پر پہنچا۔ پیشانی پر بل پڑے۔ دھواں ہوا میں منتشر ہوا اور کھٹ سے شعر سامنے آ گیا۔ اب بندش پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ کل کا بنا ہوا شعر ہے ہاتھ کا بنا ہوا ہی نہیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب کہنے لگے کہ مولانا ظفر علی زبان اور محاورہ کے استاد ہیں ۔ اشعار کی بندش خوب ہوتی ہے لیکن ان کے ہاں حقیقی شاعری بہت کم ہے۔ میں نے کہا ذرا بحیرہ قلزم۔ لندن کی ایک صبح رامائن کا ایک سین پڑھ کر دیکھئے کہنے لگے میں نے یہ نظمیں تو نہیں پڑھیں لیکن مولانا کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قلب عشق و محبت کے لطیف جذبات سے خالی ہے۔ میں نے گفتگو کا پہلو بدل کے شعر خوانی شروع کر دی۔پہلے فارسی کے ایک دو شعر سنائے جب وہ جھومنے لگے تو شاد کا یہ شعر پڑھا۔ دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے انہوں نے دو تین مرتبہ یہ شعر پڑھوایا۔ میں نے پھر کہا۔ سلیقہ مے کشی ہو تو کر لیتی ہے محفل میں نگاہ مست ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی وہ یہ شعر سن کر تڑپ گئے کہنے لگے کس کا شعر ہے؟ میں نے پوچھا’’ جو شخص ایسا شعر کہہ سکتا ہے۔ اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ کہنے لگے اس کے شاعر ہونے پر کیا شک ہے۔ میں نے کہا تو پھر سن لیجئے کہ یہ شعر مولانا ظفر علی خاں کا ہے۔ ’’ یہ سن کر ان کا اوپر کا سانس اوپر اور تلے کا تلے رہ گیا۔ کہنے لگے در خرابات مغاں نور خدامی بینم دراصل مولانا کی شاعری پر تنقیدی کرنا میرا موضوع نہیں یونہی برسبیل تذکرہ یہ باتیں آ گئیں۔ مجھے تو یہ کہنا ہے کہ مولانا نے اپنی تمام نظمیں بہت تھوڑے وقت میں کہی ہیں۔ شاید ہی کوئی نظم ایسی ہو جو انہوں نے گھنٹۃ دو گھنٹۃ میں کہی ہو۔ ورنہ ایک نظم پر عموماً آدھہ گھنٹہ سے زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا۔‘‘ پتھر نکال ہمسر نکال بڑے معرکے کی نظم ہے۔ سترہ شعر ہیں جو گھنٹہ بھر میں لکھے گئے ہیں اس کا آخری شعر مجھے نہیں بھولتا۔ تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خوا جوئے وقت زلف عنبر بار سے کثردم بکھیر اژدر نکال ہم نے اکثر شاعروں کو دیکھا ہے کہ شعر کہنا چاہتے ہیں۔ تو شفاء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی سے رجوع کرتے ہیں۔ اور ہفتہ بھر کا مسہل لے لیتے ہیں۔ پھر فی یوم ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کرتے تو بیوی کو پیٹتے ہیں یا اس سے پٹتے ہیں بچوں کو گھر کتے ہیں۔ ذرا گھر میں شور ہوا۔ اور وہ سر کے بال نوچنے لگے۔ ’’ ہائے عنقائے مضمون دام میں آ کے نکل گیا۔ کم بختو ملعو نو تمہارے شور نے اسے اڑا دیا۔‘‘ مولانا ظفر علی خاں کا یہ حال نہیں جس طرح ہم اور آپ شعر کہتے ہیں اسی طرح وہ شعر کہتے چلے جاتے ہیں۔ میں دفتر زمیندار میں آیا ہوں۔ تو ابھی سالک اور مہر سے معرکے ہو رہے تھے۔ ایک طرف سارا پنجاب دوسری طرف تنہا یہ بوڑھا پہلوان سخن۔ مدتوں چومکھی لڑتا رہا۔ اور ہنس ہنس کے لڑتا رہا۔ ایک مرتبہ سالک صاحب نے لکھا کہ یہ خلافت کی بلیاں ہمارا کھمبا نوچنے پر کیوں آمادہ ہیں؟ مولانا نے جواب میں فکاہات لکھے۔ جن میں یہ چبھتا ہوا فقرہ تھا کہ کیوں حضرت! خلافت کے ابوہریرہ یعنی مولانا عبدالقادر قصوری کے متعلق کیا ارشاد ہوتا ہے؟ شنواریوں کی بغاوت کے متعلق زمیندار میں جو مقالہ شائع ہوا ہے اس کا آغاز اس شعر سے ہوتا تھا۔ جنگ کا کب ہے سلیقہ کسی شنواری میں کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں جس روز بچہ سقا کے کابل پہنچنے اور امان اللہ خاں کے بھاگنے کی خبر آئی۔ مولانا نے برجستہ دو شعر کہے۔ گدھوں کی آج کل کابل میں ہے ایسی فراوانی گماں ہوتا ہے یہ انساں وہاں پیدا نہیں ہوتے ہوا کرتے ہیں پیدا رات دن سقوں کے گھر بچے مگر ہر روز امان اللہ خاں پیدا نہیں ہوتے مسٹر جینا سے بعض باتوںمیں اختلاف ہو گیا۔ مولانا نے فوراً ایک گرما گرم مقالا گھسیٹ ڈالا جس کا عنوان یہ شعر تھا۔ کیونکر اس کی نگہ ناز سے جینا ہو گا زہر دے اس پہ یہ تاکید کہ پینا ہو گا مولانا جب تک دفتر میں رہتے تھے۔ بڑی چہل پہل رہتی تھی۔ نظم لکھی اور پکار کے کہا۔ کہ بلاؤ قاضی کو بلاؤ اختر کو۔ کہاں ہے زاہدی۔ کہاں ہے حسرت؟ سب جمع ہوئے اور مولانا نے نظم پڑھ کے سنائی۔ پھر انہیں نت نئی تجویزیں سوجھتی رہتی تھیں۔ جو دو تین دن کے چرچے میں غائب غلہ ہو جاتی تھیں۔ ہم میں سے کوئی اچھا شعر کہتا یا کوئی اچھا مضمون لکھتا۔ تو تعریف کر کے دل بڑھاتے۔ اور انعام بھی دیتے۔ ایک مرتبہ راقم نے فکاہات لکھے۔ بہت خوش ہوئے بٹوا نکلا کر دے دیا اور کہنے لگے ’’ اس میں جو کچھ ہے لے لو‘‘ لیکن اکثر لوگ پھر بھی دعائیں مانگتے رہتے تھے کہ اللہ کرے مولانا کہیں دورے پر چلے جائیں اور عموماً یہ دعائیں قبول ہی ہوتی تھیں۔ اصل میں مولانا کو اخبار کی زبان اور کتابت کی صحت کا بڑا خیال رہتا تھا۔ کاتبوں کی جان الگ آفت میں۔ اڈیٹر الگ مصیبت میں مبتلا۔ جب تک مولانا دفتر میں ہیں۔ غل غپاڑا مچا ہوا ہے جوں ہی کاپی پر نظر پڑی۔ شور مچ گیا۔ ’’ ارے یہ کیا کیا؟ یہ عبارت تو بالکل مہمل ہے۔ اس مراسلہ کی تصحیح نہیں ہوئی۔ یوں ہی کاتب کو دے دیا گیا ہے خبروں کی عبارت چست نہیں۔ کتابت کی غلطیاں تو دیکھو ایک ایک کالم میں پچاس پچاس غلطیاں اور کتابت کیسی عجیب ہوئی ہے۔ کوئی دائرہ بھی تو صحیح نہیں۔ غضب خدا کا قرآن کی آیت غلط لکھ دی۔ اتنا خیال نہ آیا کہ کلا م الٰہی ہے ستیاناس کر دیا اخبار کا۔ ان تمام کاپیوں کو جلا دو از سر نو اخبار مرتب کرو کیا کہا؟ اب اخبار مرتب نہیں ہو سکتا۔ اعلان کر دو کہ کل اخبار نہیں نکلے گا۔ بلاؤ اختر کو۔ اختر! اختر کہاں ہے؟ کہاں ہے قاضی۔ بند کرو جی اخبار کو بند کر دو میں یوں اخبار نہیں نکالنا چاہتا۔ مولانا ظفر علی خاں کی آرزو ہے کہ دنیا کے سارے کام ان کے ہاتھوں انجام پا جائیں۔ لیکن ایک سر ہزار سودا بچارے کیا کیا کریں۔ غم عالم فراواں اس و من یک غنچہ دل دارم چساں در شیشہ ساعت کنم ریگ بیاباں را پھر حالات ناموافق سروسامان ناپید، وقت ساتھ نہیں دیتا۔ اور رفقا ہمرہان سست عناصر دو قدم ساتھ نہیں چل سکتے۔ مسئلہ فلسطین کی گتھی کون سلجھائے؟ مسلمانوں کی تجارت کا انتظام کون کرے؟ مسجدوں کی تنظیم کے لئے کہاں سے کارکن آئیں؟ مسلم لیگ کی شاخیں کون کھولے، تحریک ملت تو چل رہی ہے لیکن اس تحریک کو سارے ہندوستان میں پھیلانا ہے۔ تبلیغ کا کام بھی تھوڑا بہت ہوتے رہنا چاہیے۔ اور ان جھگڑوں میں اردو کی خدمت تو رہ گئی اردو میں کام کی کتابیں انگلیوں پر گننے کے لائق ہیں یورپی زبانوں کی ساری قابل ذکر کتابوں کا ترجمہ اردو میں ہونا چاہیے۔ ایک دن زمیندار کے دفتر میں کسی نے کہا۔ کہ چین جاپان، انگلستان، جرمنی اور فرانس کے لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہیں لیکن انہیں تبلیغ کون کرے؟ مولانا نے فرمایا’’ بات تو آپ نے ٹھیک کہی۔ اچھا سالک صاحب اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیجئے کہ اگر ہم ایک تبلیغی ادارہ کھول لیں تو کیسا ہے؟ ذرا مہر صاحب کو بھی بلوائیے۔۔۔۔ آ گئے مہر صاحب؟ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر یہاں لاہور میں ایک مرکزی تبلیغی ادارہ کھول لیا جائے۔ اور اس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلا دی جائیں تو کیا ہرج ہے؟ کوئی دس لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے؟ سات کروڑ نہیں آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہو گی اگر ہر مسلمان سے ایک ایک پیسہ وصول کیا جائے تو کتنے روپے ہوئے؟‘‘ ریاضی کا سوال تھا کسی سے حل نہ ہوا سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اتنے میں مولانا نے کہا۔ ’’ آٹھ کروڑ پیسے ہوتے ہیں نا؟ آٹھ کروڑ کو ۶۴ پر تقسیم کیجئے ساڑھے بارہ لاکھ روپے ہوئے۔ چلئے دس لاکھ ہی سہی دس لاکھ بہت ہے۔ یہ مرحلہ تو طے ہو گیا اب سوال یہ ہے کہ تبلیغ کا کام کن کن لوگوں کے سپرد کیا جائے؟ لیکن مبلغ بھی چوٹی کے آدمی ہوں۔ مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد فرانس جرمنی وغیرہ میں تبلیغ کریں۔ اور ڈاکٹر اقبال کو چین بھیج دیا جائے۔ سالک صاحب آپ اور مہر صاحب مل کے اخبار سنبھالئے۔ میں تو اب تبلیغ اسلام کا کام کروں گا۔‘‘ کچھ دیر تو دفتر بھر میں سناٹا رہا۔ آخر ایک صاحب نے جی کڑا کر کے کہا کہ مولانا اس میں کوئی شک نہیں کہ تجویز بہت خوب ہے لیکن روپیہ جمع کیسے ہو گا؟ آخر مسلمانوں سے دس لاکھ روپیہ جمع کرنے کے لئے بھی ایک لاکھ روپیہ چاہیے۔ آپ کہیں سے ایک لاکھ روپے کا انتظام کر دیجئے۔ باقی کام ہم سنبھال لیں گے۔‘‘ مولانا نے فرمایا ’’ ہاں بھئی یہی تو مشکل ہے‘‘ یہ کہہ کے منہ پھیر کر حقہ کی نے سنبھالی۔ انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ بناتا گھومنے لگا۔ اور اس تبلیغی ادارہ کے اجزاء حقہ کے دھوئیں کے ساتھ فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئے۔ میرے سامنے بھی ایسے ایسے معرکے گزر گئے ایک مرتبہ دار الترجمہ کھولنے کی تجویز ہوئی۔ اور مولانا نے تہیہ کر لیا کہ اخبار کوچھوڑ کر کرم آباد جا بیٹھیں۔ اور مترجموں کی ا چھی خاصی فوج جمع کر کے انگریزی ادب پر دھاوا بول دیں۔ لیکن دو تین لاکھ روپے سے کم میں یہ مہم شروع نہیں ہو سکتی تھی اس لئے یہ خواب بھی پریشان ہو کر رہ گیا۔ ترجمہ و تالیف۔ تبلیغ اسلام تو خیر ایسے کام ہیں۔ جن سے مولانا کی طبیعت کو مناسبت ہے۔ لیکن کبھی کبھی وہ ایسے کاموں پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ بھی کر بیٹھتے ہیں جن سے ان کی طبیعت کو کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک مرتبہ مولانا کرم آباد میں شکو سازی کا کارخانہ کھولنے کا ارادہ کر بیٹھے تھے۔ حالانکہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کو شکر سازی کا کیا تجربہ ہے۔ تو ان سے بجز اس کے اور کچھ بن نہیں پڑے گا۔ کہ سند میں یہ شعر پڑھ دیں۔ کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید مولانا ہاتھ کے سخی ہیں۔ اور دل کے نرم جو لوگ ان کی طبیعت کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہیں وہ با سانی انہیں اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ مولانا کو خیال ہوا کہ جیش رضا کاران اسلام مرتب ہونا چاہیے۔ ادھر ادھر سے کچھ نوجوان جمع ہوئے۔ انہوں نے کئی دن پلاؤ قورمے پر ہتھے مارے۔ نقد روپے بھی وصول کئے اور دفتر کے لئے ایک مکان کرایہ پر بھی لیا گیا۔ اب تقاضا ہوا کہ فرنیچر دلوائیے۔ چنانچہ مولانا نے اپنے ہاں سے چار پانچ کرسیاں اور ایک دری بھجوا دی۔ چند دن اس دفتر میں اچھی خاصی رونق رہی جلسوں میں زندہ باد کے نعرے بھی لگتے رہے۔ پھر یہ لوگ ایسے غائب ہوئے کہ کئی دن ان کا سراغ نہ لگا۔ دفتر پہنچ کر دیکھا تو خاک اڑتی پائی۔ نہ کرسیاں نہ میز، نہ دری، ہاں آموں کی گٹھلیاں اور تاش کے پتے ضرور فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ کالجوں کے طلبہ کے لئے ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ والدین بمشکل اتنا روپیہ بھیجتے ہیں جس میں کالج کی فیس اور ہوسٹل کا خرچ نکل سکے۔ بہت ہوا تو چار پانچ روپے بچ رہے۔ اب ان میں سینما دیکھیں یا ہوٹل کا بل چکائیں چنانچہ ایک مرتبہ لاہور کے ایک کالج کے بعض طلبہ نے فیصلہ کیا کہ مولانا ظفر علی خاں قوم کے لیڈر ہیں۔ اس لئے سینما کے دام ان سے وصول کرنا چاہیے دوسرے دن ایک طالب علم مولانا کے پاس پہنچا۔ اور سیاسی مسائل پر گفتگو شروع کی۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ جب اس نے دیکھا کہ مولانا پر اچھی طرح رنگ جم چکا ہے تو اپنے کالج کے پروفیسروں کا ذکر چھیڑا اور کہا مولانا یہ کم بخت سب کے سب ٹوڈی ہیں۔ سیاسیات کا نام لو۔ تو بگڑ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے اور میرے دو تین ساتھیوں نے چاہا کہ کالج میں آپ کی تقریر کرا دی جائے۔ بس صاحب کالج بھر میں شور مچ گیا۔ ٹیوٹر نے مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو بھئی! تم نے اگر ظفر علی خاں کو کالج میں تقریر کرنے کی دعوت دی تو کان پکڑ کر نکال دیئے جاؤ گے۔ بھول گئے ہمارے احسانات؟ فیس تمہاری معاف ہے۔ اڑے تھڑے وقت سارے پروفیسر تمہاری مدد کرتے ہیں۔ تم اور کیا چاہتے ہو؟ یہ سن کر پہلے تو میرے جی میں آئی۔ کہ کالج چھوڑ کر چلا جاؤں لیکن پھر سوچا کہ جاؤں گا کہاں؟ چنانچہ پروفیسر سے دبنا پڑا۔ مولانا نے اور حالات پوچھے تو معلوم ہوا کہ بچارا یتیم ہے بچپن میں ماں باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ میٹرک تک ماموں نے پڑھایا۔ وہ بھی چل بسے کالج میں فیس معاف ہے۔ کتابوں اور دوسرے اخراجات کے لئے بعض اہل خیر کا سہارا ہے۔ ارادہ ہے کہ بی اے کا امتحان پاس کر کے اپنے آپ کو قومی خدمت کے لئے وقف کر دے فرنگی کی نوکری کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ غرض اس بہانے سے یہ نوجوان جو خوش حال گھرانے کا چشم و چراغ تھا مولانا سے بہت کچھ لے مرا۔ پھر تو مولانا کہ ہاں روز آنا جانا ہو گیا۔ دسویں پندرویں سینما کے لئے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا تھا۔ اس کینڈے کے دو تین اور طالب علم بھی تھے۔ وہ بھی اکثر مولانا کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور جب آتے تھے تو مولانا سے چند روپے اینٹھ لیتے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کی سیرت چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یوں کہنا چاہئے کہ وہ ہاتھ کہ سخی دل کے نرم کان کے کچے اور دھن کے پکے ہیں۔ جس طرف جھک پڑے جھک پڑے جو کچھ دل میں ہے وہی زبان پر ہے۔ موقع و محل کا کیا ذکر؟ گھر کے اندر یا گھر کے باہر سیاسی صحبتوں یا ادبی محفلوں میں دلی دروازے کے جلسوں میں یا ’’ زمیندار کے صفحات پر نثر میں یا نظم میں تقریر میں یا گفتگو میں بس ایک ہی رٹ لگی ہے۔ آپ کچھ کہے جایئے ادھر سے ایک ہی جواب ملے گا۔ آپ کی اور ہماری دلیل بازی بے کار ہے کیونکہ آندھی بروزن گاندھی اسی کا نام ہے۔‘‘ مولانا کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا ہے۔ شعرا آتے ہیں غزلیں پڑھتے ہیں جب سب اپنا کلام سنا چکتے ہیں تو مولانا اٹھتے ہیں پہلے شاعروں کو ڈانٹ بتاتے ہیں۔ پھر شاعری کی شامت آ جاتی ہے۔ کچھ نظم کچھ نثر کبھی ترنم سے کبھی تحت اللفظ ۔ آخر سیاسیات پر تان ٹوٹتی ہے۔ ہندوستان کے افلاس کی شکایت، مسلمانوں کی زبوں حالی کا گلہ، قادیانی جماعت، ہندو مسلم اتحاد، برطانی استعمار غرض چند لمحوں میں مشاعرہ دلی دروازے کا جلسہ بن کر رہ جاتا ہے۔ غالب کی شاعری دکن میں اردو، قطب شمالی کی مہم نظریہ اضافت چغتائی کی مصوری، شاہ دولہ کے چوہے، آم آلو کا بھرتا، ٹماٹر، غرض دنیا بھر کا کوئی موضوع ہو۔ مولانا ظفر علی خاں دو تین جھٹکوں میں اسے اس طرح اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں کہ لوگ منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ آم شاہ پسند پھل ہے بابر نے تزک میں اس کی بہت تعریف کی ہے بابر بھی عجیب و غریب انسان تھا بارہ ہزار ترک اور مغل لے کر آیا اور ہندوستان پر قبضہ کر لیا افسوس کہ آج مسلمانوں میں بابر جیسے جواں مرد پیدا نہیں ہوتے۔ ایک طرف ہندو ہے ایک طرف انگریز ہے۔ غالب کا کیا کہنا ہے غالب علیٰ کل غالب۔ لیکن زمانے کی قدر ناشناسی نے اسے انگریزوں کی قصیدہ نگاری پر مجبور کر دیا۔ پھر بھی اسے ہم ٹوڈی نہیں کہہ سکتے ٹوڈی تو یہ لوگ ہیں جو۔۔۔۔ الخ۔ غرض مولانا کو جو کچھ زمیندار کے مقالہ افتتاحیہ میں لکھنا ہے۔ جلوت خلوت میں وہی کہنا ہے۔ آپ ہزار کہئے کہ ان باتوں کا موضوع بحث سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کب مانتے ہیں دراصل جن لوگوں کو کسی کام کی دھن ہوتی ہے وہ اسی قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ یہ او ربات ہے کہ مولانا ظفر علی خاں اس معاملہ میں دوسروں سے کسی قدر آگے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں کو تقریر کرتے دیکھا ہے حاضرین جلسہ کی تعداد ان کے جوش کا پیمانہ ہے۔ یعنی تقریر سننے والوں کی تعداد کے مطابق ان کا جوش گھٹتا اور بڑھتا ہے لیکن دو ہزار کا جلسہ ہو یا پچاس ہزار کا وہ ہر حالت میں لوگوں کے ساتھ اسکول کے طلبہ کا سا سلوک کرتے ہیں۔ جو خدا کو ایک مانتا ہے۔ ہاتھ کھڑا کر دے۔ جو محمد مصطفیٰ ﷺ ختم المرسلینی پر یقین رکھتا ہے ہاتھ کھڑا کر دے۔ جس کا ایمان ہے کہ مسلمان ساری دنیا کی حفاظت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہاتھ کھڑا کر دے۔ حاضرین جلسہ کی تعداد کے متعلق ان کا اندازہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔ یعنی دس ہزار کا مجمع ہو تو کہیں گے چالیس ہزار اور چالیس ہزار ہوں تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچا دیں گے۔ لیکن یہ چیز ریاضی سے تعلق رکھتی ہے۔ اور ریاضی کے معاملہ میں مسلمان ہمیشہ انگشت نما رہے ہیں۔ ان کے اکثر دوستوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ سیاسیات ان کے ڈھب کی چیز نہیں او ریہ بات بہت صحیح ہے۔ آج سے پچیس سال پہلے کی سیاسیات کے لئے شاید وہ کسی حد تک موزوں ہوں لیکن سیاسیات حاضرہ کے ایچ پیچ سمجھنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ نہ سیاست ان کے ڈھب کی رہی اور نہ وہ سیاست کے ڈھب کے یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں آج سے بیس سال پہلے تھے آج بھی وہیں ہیں مدت تک کانگریس میں رہے لیکن ورکنگ کمیٹی کی ممبری چھوڑ صوبہ کی کانگریس کے صدر بھی منتخب نہ ہو سکے۔ لیگ میں گئے وہاں بھی ان سے یہی سلوک کیا گیاا گر وہ سیاسیات کو چھوڑ کر ادب و شاعری کی طرف جھکتے تو قیامت ہوتے لیکن مصیبت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سیاسیات سے قطع تعلق کر لینے کا مشورہ دے تو فورا ً بگڑ جاتے تھے۔ میں ایک مرتبہ اس قسم کی گستاخی کر بیٹھا تھا اس پر ایسے بگڑے کہ بس خدا کی پناہ۔ جن دنوں تحریک شہید گنج کے سلسلہ میں حکومت نے انہیں کرم آباد نظر بند کر رکھا تھا سالک صاحب اور میں کئی مرتبہ ان سے ملنے گئے ہم دونوں ہر بار گھر سے یہی ارادہ کر کے چلتے تھے کہ مولانا کو سیاسیات کے متعلق بات نہ کرنے دیں گے اور اس منصوبہ میں ہمیں کسی حد تک کامیابی بھی ہوتی۔ پھر بھی زیادہ وقت سیاسی بکھیڑوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں ہم نے یہ بھی چاہا کہ انہیں کوئی کتاب لکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ بعض خاص خاص موضوعوں پر جن کے لئے ان کی طبیعت زیادہ موزوں ہے۔ گفتگو بھی ہوئی۔ پھر بھی سیاسی جھگڑوں نے انہیں کچھ کرنے نہ دیا۔ مولانا کی مستقل تصانیف ان کے ادبی پایہ سے بہت فروتر نظر آتی ہیں۔ جنگل میں منگل، سیر ظلمات، سنہری گھونگا وغیرہ تو خیر پھر غنیمت ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے مسٹریز آف لندن کا ترجمہ کرنے میں بہت وقت ضائع کر دیا۔ ایک مرتبہ مولانا ابو الکلام آزاد سے ان کے تراجم کا ذکر آیا۔ کہنے لگے ’’ ظفر علی خاں نے جتنا وقت مسٹریز آف لندن کے ترجمہ پر صرف کیا۔ اے کاش کسی علمی کتاب کے ترجمہ پر صرف ہوتا۔ معرکہ مذہب و سائنس البتہ کام کی چیز ہے۔ سورہ روم کی تفسیر بھی اچھی لکھی ہے۔ سکاٹ کی تاریخ اندلس کا ترجمہ بھی شروع کیا تھا۔ جو ادھورا ہی رہ گیا۔ ڈرامہ روس و جاپان ڈرامہ کی حیثیت سے شاید زیادہ اہم نہ ہو۔ البتہ ان کی قادر الکلامی کا اچھا نمونہ ہے۔ ان کی نظموں کا ایک مجموعہ ’’ بہارستان‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اب نگارستان کے نام سے ایک اور مجموعہ چھپنے والا ہے۔‘‘ بااینہمہ مولانا ظفر علی خان اس دور میں بہت غنیمت ہیں۔ اور آج جو لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں کل وہی انہیں یاد کر کے روئیں گے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی ٭٭٭ ابو الکلام آزاد میرے ایک دوست جنہیں ادب سے فطری مناسبت ہے۔ پچھلے دنوں کلکتہ گئے۔ وہاں سے لوٹے تو میں نے پوچھا۔ ’’ کلکتہ میں کیا کیا دیکھا؟‘‘ کہنے لگے ’’ وکٹوریہ میموریل اور میوزیم کی سیر کی۔ نیو مارکیٹ میں گھوما۔ ایک دن ڈائمنڈ ہاربر تک سمندر کی سیر دیکھنے بھی چلا گیا تھا۔‘‘ میں نے پوچھا’’ ابو الکلام کو بھی دیکھا؟‘‘ وہ گھبرا کے میرا منہ تکنے لگے۔ میں نے کہا’’ خدانخواستہ میرا مطلب یہ نہیں کہ مولانا بھی محض پرانے تبرکات میں سے ہیں۔ لیکن انہیں پنجاب کے نام سے چڑھ سی ہو گئی ہے۔ ابھی سرحد کا دورہ کر کے لوٹے ہیں لاہور راستہ میں پڑتا تھا۔ چاہتے تو ایک دن کے لئے یہاں بھی ٹھہر جاتے۔ مگر انہیں اتنا بھی گوارا نہ ہوا۔ تم کلکتہ گئے تھے۔ ایک دن ان سے بھی مل لیتے۔ کلکتہ جا کے بھی ابو الکلام کو نہ دیکھا تو کیا دیکھا؟‘‘ میں پہلی مرتبہ شملہ میں مولانا سے ملا تھا۔ ایڈورڈ گنج میں ان کی تقریر تھی۔ تقریر ہو چکی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن چند منٹ کی ملاقات تھی اور ملنے والوں میں ایک میں ہی نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کا ایک وفد سا تھا۔ جس میں اسلامیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے لے کر ایڈورڈ گنج کے تنبولی تک سب شامل تھے۔ میں بھی گھس پیٹھ کے ان لوگوں میں شامل ہو گیا۔ لوگ سوال کر رہے تھے۔ اور وہ جواب دے رہے تھے۔ اس وقت ان کی صورت شکل کے عام انداز سے ان پر عقاب کا دھوکا ہوتا تھا۔ لیکن ایسا عقاب نہیں جو محض شکاریوں کا بازیچہ ہو۔ بلکہ ایسا عقاب جوسنگ خارا کی چٹانوں میں آشیانہ بناتا ہے۔ اگلے سال کلکتہ جانا ہوا تو مدت تک مولانا سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔ اصل میں میں ان سے ملنے کے لئے بے تاب تھا لیکن کسی تقریب کے بغیر جا دھمکنا کچھ معیوب سا معلوم ہوتا تھا۔ اسی طرح سات آٹھ مہینے گزر گئے۔ آخر جب مولانا نے دوسری دفعہ الہلال نکالنے کا ارادہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک روزانہ اخبار نکالنے کی تجویز ہوئی تو انہوں نے مجھے بلا بھیجا۔ مولانا ان دنوں بالی گنج میں رہتے تھے۔ بڑی خوش قطع کوٹھی تھی۔ بیچ میں گھاس کا ایک قطعہ ایک طرف البلا غ پریس دوسری طرف مولانا کا سکونتی مکان پریس مدت سے بند پڑا تھا۔ لیکن اس کے عملہ کے بہت سے لوگ ابھی تک مولانا کے ساتھ تھے۔ مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی بھی ان دنوں انہیں کے پاس رہتے تھے اور شاید جب سے وہ مصر سے آئے تھے ان کا قیام وہیں تھا۔ میرے ساتھ غلام احمد جامعی بھی تھے۔ جو کلکتہ کے کئی اخباروں میں کام کر چکے تھے۔ ہم دونوں اپنے بعض مضامین ساتھ لے گئے تھے۔ مولانا نے انہیں دیکھنے کے لئے رکھ لیا۔ پھر دیر تک ہم دونوں کے حالات پوچھتے رہے۔ دوسرے تیسرے دن پھر بلایا۔ اور کہنے لگے میرے بھائی دس پندرہ دن تک اخبار نکال لینا چاہتا ہوں۔ تم سے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم تمام اطراف سے انقطاع کر کے اپنے اوقات اسی ایک کام کے لئے وقف کر دو کیونکہ تمہاری دوسری مصروفیات بھی ہیں اور انہیں بھی بہرحال جاری رہنا چاہیے۔ البتہ تمہیں ہر صبح کو ڈھائی تین گھنٹے یہاں کام کرنا ہو گا۔ خیر اوقات کی تعیین بعد میں ہو جائے گی۔ فی الحال میں چاہتا ہوں کہ معاوضہ کا فیصلہ ہو جائے۔ ہم دونوں مولانا کے پرانے عقیدت مند تھے۔ ’’ الہلال‘‘ کی اکثر عبارتیں ہمیں زبانی یاد تھیں۔ تذکرہ کے جستہ جستہ فقرے زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ غزل گو شاعروں میں حسرت موہانی کا کلام پسند تھا۔ اور نثر نگاروں میں ابو الکلام کے سوا کسی کا انداز جچتا نہیں تھا۔ تذکرہ پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تو حسرت کا کلام پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ اور حسرت کے کلام سے طبیعت اکتا جاتی تھی تو یہ شعر پڑھ کر تذکرہ اٹھا لیتے تھے۔ جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر نظم حسرت میں بھی مزا نہ رہا اب جو مولانا نے معاوضہ کا ذکر کیا تو ہم بگڑ گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہیں آخر مولانا نے ہمیں اس زحمت سے بچا لیا۔ یعنی خود معاوضہ متعین کر کے فرمایا آپ کو اتنے روپے پر کام کرنا منظور ہے؟ یہاں قیل و قال کی جرات کس میں تھی۔ ہم نے کہا ’’ بسر و چشم‘‘ مولانا نے فرمایا تھا کہ اخبار دس پندرہ دن میں نکلے گا لیکن یہ دس پندرہ دن پورے ڈیڑھ مہینے میں ختم ہوئے۔ پہلے ابتدائی انتظامات مکمل ہونے میں نہ آتے تھے۔ انتظامات مکمل ہوئے تو اچھے خوشنویس نہ مل سکے۔ خوش نویس مہیا ہوئے تو کئی اور رخنے نکل آئے۔ ایک دفعہ گھبرا کے مولانا سے پوچھا کہ آخر اخبار کب تک نکلے گا؟ فرمانے لگے ’’ میرے بھائی میں تو جلد نکالنا چاہتا تھا لیکن چند مراحل درپیش ہیں جو طے ہونے میں نہیں آتے۔ خیر عرفت ربی بفسخ الغرائم۔ مولانا نے انگریزی کے چند مضامین ترجمہ کے لئے دیئے تھے۔ جب تک اخبار نہ نکلے۔ ان مضامین کا ترجمہ ہوتا رہے غلام احمد کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا۔ البتہ میں نے بڑی کاوش سے ترجمہ کیا تھا۔ اور اس میں کہیں کہیں مولانا کے انداز خاص کا چربا اتارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب تو یاد نہیں رہا کہ ترجمہ کیسا تھا۔ تتبع کامیاب تھا یا صرف ان کے طرز تحریر کا منہ چڑایا گیا تھا۔ ہاں مولانا کے فیض و اثر سے اتنا ضرور ہوا کہ ہم دونوں کا انداز گفتگو کسی قدر بدل گیا یعنی کوئی بات ہو ہم اسے ہمیشہ میرے بھائی سے شروع کرتے اور ’’ تو خیر‘‘ پر ختم کر دیتے تھے۔‘‘ ایک دن مولانا نے فرمایا کہ کل صبح سے تم باقاعدہ آنا شروع کر دو۔ پرسوں تک اخبار ضرور نکل آئے گا۔ صبح سویرے ہم دونوں حاضر ہوئے۔ مولانا نے ہمیں لائبریری میں بٹھا دیا۔ صبح کے انگریزی اخبار موجود تھے۔ مولانا نے اہم خبروں پر سرخ پنسل سے نشان بھی کر دیئے تھے۔ ہم دونوں نے دو گھنٹے میں تراجم کا انبار لگا دیا۔ لیکن ساری محنت اکارت گئی یعنی اخبار کئی دن کے بعد نکلا۔ اس اخبار کا نام پیغام تھا اور وہ کوئی مہینہ بھر چل کر بند ہو گیا ۔ لیکن ہم اس سے بہت پہلے اخبار سے الگ ہو چکے تھے۔ اصل میں پیغام کے منیجر مولوی عبدالوالی سے ہمارے کچھ اختلافات تھے اور یہ اختلافات بھی کیا تھے۔ مولوی صاحب اچھے سانحوردہ آدمی تھے۔ اور کسی زمانے میں لکھنو سے رسالہ معلومات بھی نکالتے رہے تھے۔ بس ان کی یہ کہن سالی اور تجربہ ہمارے حق میں آفت ہو گیا۔ جب دیکھو دخل در معقولات فرما رہے ہیں۔ ایک دن ہم نے پوچھا آپ کو دخل دینے کا کیا حق ہے؟ فرمایا معلومات۔۔۔۔ ہم نے انہیں زیادہ بات کرنے ہی نہیں دی۔ فوراً استعفیٰ دے دیا۔ در حقیقت اس معاملہ میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ان کی تو عادت تھی کہ جب تک دن بھر میں دس پندرہ مرتبہ معلومات کا نام نہیں لیتے تھے۔ کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ہم بھی اپنی پنجابیت سے مجبور تھے ایک دفعہ بگڑ گئے تو بگڑ گئے۔ یہاں تک تو خیر تھی لیکن میں نے غصہ میں مولانا کو ایک خط لکھا جس میں ’’ مزدوری اور سرمایہ داری‘‘ کی طرف تیز تیز اشارے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا کا خادم ایک لفافہ دے گیا۔ اسے کھولا تو اس میں میرے خط کا جواب اور کچھ نوٹ تھے۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ تمہارے خط سے مجھے دلی اذیت ہوئی ہے۔ خیر تم نے انقطاع کا ارادہ کر لیا ہے۔ تو یوں ہی سہی۔ میں کچھ ایسے ناگوار حالات میں پیغام سے علیحدہ ہوا تھا کہ مجھے مولانا سے کچھ حجاب سا تھا۔ ان سے ملنے کو جی تو بہت چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی۔ آخر جب سائمن کمیشن کی آمد آمد کا شور مچا۔ اور گانے اور باجہ کے مسئلہ کو سلجھانے کے لئے کلکتہ میں لیڈروں کی ایک کمیٹی بیٹھی تو میں مولانا سے ملا۔ میں ان کے چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا۔ کہ کہیں ان کی طبیعت میں میری طرف سے کوئی تکدر تو نہیں۔ لیکن بظاہر اس قسم کے آثار بالکل نظر نہیں آتے تھے۔ اس ملاقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جو ایک جھجک سی تھی۔ وہ دور ہو گئی او رمیں پھر ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ نہرو رپورٹ کے خلاف کلکتہ میں جو طوفان اٹھا تھا ہندوستان میں کہیں اس کی نظر نہیں ملتی۔ اس موقع پر بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے۔ اور مسلمان قومی کارکنوں میں تو صرف انے گنے آدمی ایسے رہ گئے تھے جو ابھی تک کانگریس سے وابستہ تھے میں اگرچہ نہ کانگریس کا پرانا کارکن تھا۔ نہ خلافت کمیٹی سے میرا زیادہ تعلق رہا تھا۔ لیکن میری طبیعت کا رحجان ہمیشہ سے کانگریس کی طرف تھا۔ اس لئے میں نے نہرو رپورٹ کی حمایت میں کئی مضمون لکھے اور اس طرح بہت سے دوستوں کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ان دنوں میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور ان سے اکثر مسائل پر گفتگو رہتی تھی۔ ایک دن میں حاضر ہوا کہنے لگے ’’ کیا حال ہے؟‘‘ میں نے کہا مولانا یہ جو طوفان اٹھا ہے اس سے پناہ پانا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اب تک تو خیر کلکتہ خلافت کمیٹی ہی مخالفت کر رہی تھی لیکن جب سے مولانا شوکت علی آئے ہیں شہر میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ کہنے لگے ’’ خیر میرے بھائی یہ موسمی ہوائیں ہیں۔ گزر جائیں گی۔‘‘ لیکن اس معاملہ میں مولانا کا انداز غلط نکلا۔ نہرو رپورٹ کی مخالفت میں جو پروپیگنڈا ہوا تھا۔ اس کا اثر مدت تک زائل نہ ہو سکا۔ اتفاق سے عید میلاد انہیں دنوں تھی۔ کلکتہ میں یوم میلاد بڑے سرو سامان سے منایا جاتا ہے۔ بلکہ ربیع الاول کے مہینے میں تو تیسوں دن بڑی چہل پہل اور گہما گہمی رہتی ہے۔ محلہ محلہ میں میلاد کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں۔ باہر سے مولود خوان اور واعظ منگوائے جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ ان محفلوں کا عجب انداز تھا۔ ایک محفل کا حال سنئے۔ ایک مولوی صاحب جن کا منہ ان کی داڑھی کا ضمیمہ معلوم ہوتا تھا۔ مولود خوانی کے لئے کھڑے ہوئے تو بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ لوگوں نے پوچھا کیوں حضرت خیر تو ہے؟ مولوی صاحب نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔’’ میں آخری دفعہ یہاں آیا ہوں۔ اگلی دفعہ میلادی محفل نہیں ہو گی۔ مجمع سے آوازیں بلند ہوئیں وہ کیسے؟‘‘ مولوی صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ نہرو نے جو ہندوؤں کا لیڈر ہے۔ مسلمانوں کے خلاف رپٹ لکھوا دی ہے۔ اس لئے اب نہ میلاد ہو سکے گا نہ ہم تم نماز پڑھ سکیں گے۔ لوگ جوش میں کھڑے ہو گئے اور آوازیں آئیں کس کی مجال ہے کہ ہمیں نماز پڑھنے سے روکے۔‘‘ مولوی صاحب نے ایک زہرخند کے ساتھ کہا۔’’ جب مسجدوں کے سامنے باجہ بجانے کا قانون بنا تھا۔ تو تم نے کیا کر لیا تھا۔ جواب میلاد کے بند ہونے پر کر لو گے؟ اور اصل میں خود مسلمانوں کا سارا فساد ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ بہت سے مسلمان لیڈر روپیہ لے کے ہندوؤں کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کے لوگوں کے جوش غضب کی انتہا نہ رہی ہر طرف سے غلغلہ بلند ہوا۔ ’’ ذرا ان کے نام تو بتایئے؟‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا ’’ مولانا ابو الکلام آزاد، مولوی اکرم خان، مولوی مجیب الرحمن سب نہرو رپورٹ کے حق میں ہیں۔‘‘ لوگوں نے نہایت حیرت و استعجاب سے پوچھا’’ اچھا مولوی آجاو کلام بھی ہندوؤں کے ساتھ ہیں۔ وہ تو بہت اچھا واج وغط کیا کرتے ہیں؟‘‘ مولوی صاحب کہنے لگے ’’ لیکن اب وہ ہندوؤں کے مندروں میں جا کے وعظ کیا کریں گے۔‘‘ اس قسم کا پروپیگنڈا ایک دو جگہ نہیں ہوا ۔ بلکہ ہر محلہ میں اسی طرح لوگوں کو بھڑکایا گیا۔ کلکتہ کے مسلمانوں میں پڑھے لکھے بہت کم ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ نہرو رپورٹ کیا ہے مولویوں نے جو کچھ کہا انہوں نے اس پر یقین کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جو مولوی ’’ آجا و کلام‘‘ کا آواج سن سن کر سر ہلایا کرتے تھے۔ ان کی جان کے لاگو بن گئے۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں کلکتہ کی حالت عجیب تھی۔ اخباروں کے دفتروں، قہوہ خانوں، سیر گاہوں، بیاہ شادی کی محفلوں میں جہاں کچھ لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ نہرو رپورٹ کا ذکر چھڑتا تھا۔ اور بحث میں لپاڈگی تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ کچھ دنوں تک تو یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا۔ کہ کس فریق کا پلہ بھاری ہے۔ لیکن جب مولانا شوکت علی خلافت کانفرنس کا انتظام کرنے آئے۔ اور یہ افواہ پھیل گئی کہ سیٹھ گھنشام داس برلانے مسلمانوں کے ’’ ایمان‘‘ خریدنے کے لئے دس لاکھ روپیہ کانگریس کو دیا ہے۔ تو کانگریسیوں کے قدم اکھڑتے معلوم ہونے لگے۔ جہاں کسی مسلمان نے کانگریس کی حمایت میں زبان کھولی۔ لوگوں نے گھیر لیا اور ہر طرف سے چاؤں چاؤں ہونے لگی۔ کوئی کہتا ہے یہ مسلمان ہی نہیں آریہ ہے کوئی کہتا ہے کہ برلا کے روپے سے اسے بھی حصہ ملا ہے۔ دسمبر کے آخری دنوں میں تو یہ حال تھا کہ کانگریسی مسلمانوں کے لئے بازاروں میں نکلنا مشکل ہو گیا تھا۔ مولانا شوکت علی کو خیر کھلم کھلا کانگریس کے مخالف تھے البتہ رئیس الاحرار محمد علی مرحوم کی طبیعت کا رحجان ابھی تک کانگریس کی طرف تھا۔ اتفاق سے کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ ان کی طبیعت بھی کانگریس سے اچاٹ ہو گئی۔ یعنی پہلے وہ کنونشن میں گئے تو کچھ بنگالی نوجوانوں نے ان پر آوازے کسے۔ پھر خلافت کانفرنس میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ان سے الجھ پڑے۔ اور دونوں طرف سے ایسی باتیں کہی گئیں کہ اگر کچھ لوگ بیچ بچاؤ نہ کر دیتے تو بڑا خون خرابا ہوتا اس واقعہ نے مولانا محمد علی کی طبیعت کو ایسا برانگیختہ کیا۔ کہ وہ کانگریس سے بالکل الگ ہو گئے۔ مولانا آزاد بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ان کی طبیعت کو ان باتوں کی تاب کہاں؟ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں پنڈال کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ کہ مولانا آزاد نکلے اس وقت ان کا چہرہ سرخ تھا۔ اور وہ بار بار کہہ رہے تھے نہایت افسوسناک واقعہ ہے ان کے ساتھ تصدق احمد خاں شروانی مرحوم اور چودھری خلیق الزمان بھی تھے۔ شروانی مرحوم زار و قطار رو رہے تھے۔ اس وقت تو مجھے ان کے رونے کا سبب معلوم نہ ہوا لیکن وہ جا چکے۔ تو لوگوں نے بتایا کہ جب پنجاب کے کچھ کارکنوں نے مولانا محمد علی کی شان میں گستاخیاں کیں تو شروانی سے ضبط نہ ہو سکا۔ دوسرا کوئی ہوتا تو پٹھان شاید لڑ مرتا۔ لیکن اپنے پرانے رفیقوں پر کیسے ہاتھ اٹھتا۔ اس لئے اور کچھ نہ ہو سکا تو رونا شروع کر دیا۔ مولوی شوکت علی کلکتہ آئے تھے۔ تو ان کا اچھا خاصا جلوس نکلا تھا اور مولانا محمد علی مرحوم کا جلوس تو خاص طور پر پر رونق تھا۔ لیکن جب مولانا ظفر علی خاں اور پنجاب کے دوسرے لیڈر کانگریس اور خلافت کے جلسوں میں شریک ہونے کلکتہ پہنچے تو کسی نے انہیں پوچھا تک نہیں۔ ان میں بعض لوگوں کو جلوس نکلوانے کا بڑا شوق تھا۔ ادھر کانگریس اور خلافت کے اجلاس ہو رہے تھے۔ ادھر یہ لوگ جلوس نکلوانے کی تدبیروں میں مصروف تھے۔ آخر امرت سر اور لاہور کے بعض لوگوں نے جو کلکتہ میں بسلسلہ تجارت مقیم ہیں ان کا جلوس نکلانے کی حامی بھر لی۔ یار لوگوں نے مولانا آزاد کو بھی کھینچنا چاہا تھا لیکن وہ اس دام میں نہ آئے۔ میں نے خود یہ جلوس دیکھا ہے۔ اس میں ڈیڑھ دو سو سے زیادہ آدمی نہیں تھے۔ اور جب تک اہل جلوس میں کوئی شخص خود نہیں بتا دیتا تھا کہ یہ پنجاب کے لیڈروں کا جلوس ہے۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر اتنے لوگ اللہ اکبر اور زندہ باد کے نعرے کیوں لگا رہے ہیں؟ جب بڑے بڑے لیڈروں کا یہ حال ہو۔ تو ہمہ شما کا کیا ذکر۔ ان جھگڑوں نے ایسا طول کھینچا کہ میں تنگ آ کر لاہور چلا آیا۔ چلتے وقت مولانا سے ملا کہنے لگے میرے بھائی! میں تمہارے حالات سن چکا ہوں میرے عندیہ میں تمہارے لئے لاہور چلا جانا ہی مناسب ہے کیونکہ۔۔۔۔ تو خیر سیاسی زندگی میں ایسے واقعات پیش آیا ہی کرتے ہیں۔ میرے دل پر مولانا کی جس خصوصیت کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ وہ ان کی ذہانت اور علمی تبحر ہے۔ فارسی عربی میں تو ان کی فضیلت مسلم ہے۔ انگریزی انہوں نے علی پور جیل میں پڑھی تھی اور ان کے انگریزی پڑھنے کا بھی یہ حال تھا کہ کنگ پرائمر کے چند صفحے سبقاً پڑھے۔ اور چھوٹی موٹی کتابیں اور اخبار دیکھنے لگے۔ تھوڑی عرصہ میں ہی یہ کیفیت ہو گئی کہ انگریزی کی بڑی بڑی دقیق کتابیں پڑھنے اور ان کا مطلب سمجھنے لگے۔ الہلال دوسری مرتبہ نکلا۔ تو اس کے لئے خود انگریزی کے ایک آدھ مضمون کا ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ اس قدر پاکیزہ ہے کہ اسے دیکھ کر ان کی خدا داد صلاحیت پر حیرت ہوتی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد انگریزی بول بھی لیتے ہیں۔ لکھنے میں بھی بند نہیں۔ البتہ ان کا انگریزی تلفظ کچھ اچھا نہیں۔ میں نے انہیں ایک مرتبہ انگریزی کی ایک عبارت پڑھتے سنا تھا۔ جس کی بناء پر میں نے یہ رائے قائم کی ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے انگریزی باقاعدہ نہیں پڑھی بلکہ مطالعہ سے اس میں استعداد بہم پہنچائی ہے۔ مطالعہ کا انہیں بہت شوق ہے۔ وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ہر فن کے متعلق معلومات رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے افسانہ نگاری کے متعلق انہیں اپنا ایک مضمون دکھایا۔ پڑھ کے کہنے لگے ’’ تم نے فلاں فلاں فرانسوی اور قصہ نویس کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ ان کے تذکرہ کے بغیر اس موضوع پر کوئی مضمون مکمل نہیں ہو سکتا۔‘‘ پھر افسانہ نگاری کے متعلق ایک تقریر شروع کر دی۔ اور اس سلسلہ میں ایسے ایسے مصنفوں اور ان کی تصانیف کا ذکر کر گئے ہیں جن کے نام بھی میں نے نہیں سنے تھے۔ پٹنہ میں بڑی دھوم سے طبی کانفرنس ہوئی۔ غالباً حکیم مسیح الملک مرحوم اس کے صدر تھے۔ چونکہ مولانا آزاد بھی اتفاق سے وہیں موجود تھے۔ اس لئے بعض طبیبوں نے ان سے استدعا کی۔ کہ آپ کانفرنس میں طب یونانی کے متعلق چند کلمات کہہ دیجئے۔ حکیم اجمل خاں مرحوم نے بھی سفارش کی۔ لیکن مولانا تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو پورے دو گھنٹے طب قدیم و طب جدید کے نظریوں اور طریق علاج وغیرہ پر بحث کرتے رہے اور منضج مسہل تبرید تکمید سے لے کر رشید خطبی اور خمیرہ گاؤ زبان تک کو لے ڈالا۔ حکیم نثار احمد نے جو کلکتہ کے مشہور طبیب ہیں۔ اور اس اجتماع میں موجود تھے۔ خود مجھ سے بیان کیا ہے کہ مولانا نے اپنی تقریر میں جو باتیں بیان فرمائیں وہ بڑے بڑے نامور طبیبوں کو بھی معلوم نہیں۔ ان کا حافظہ بہت اچھا ہے عر بی فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار بلکہ عربی کی بڑی بڑی کتابوں کی طویل عبارتیں انہیں زبانی یاد ہیں۔ تذکرہ ان کی مشہور تصنیف ہے، یہ کتاب انہوں نے اپنی نظر بندی کے زمانے میں بمقام رانچی لکھی ہے۔ رانچی میں کوئی کتب خانہ تو تھا نہیں۔ کہ اس سے رجوع کرتے۔ اس لئے انہیں محض حافظہ پر منحصر کرنا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے جگہ جگہ عربی کی طویل عبارتیں محض حافظہ کی مدد سے لکھ دی ہیں۔ تحریر و تقریر دونوں کا جامع ہونا بہت مشکل ہے اور غالباً ہندوستان بھر میں تنہا مولانا ابو الکلام آزاد کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہیں قلم اور زبان دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ ان کی تحریر میں خطابت کا انداز ہے اور تقریر میں انشاء کا اسلوب یعنی ان کی تحریر دیکھو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شیوا بیان مقرر کسی بہت بڑے مجمع سے خطاب کر رہا ہے۔ اور تقریر کو لکھ لو تو بہت اچھا مضمون مرتب ہو جائے گا جس میں کہیں انگلی رکھنے کی گنجائش نظر نہیں آئے گی۔ اکثر مقرر تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں۔ تو موضوع سخن سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔ سید عطاء اللہ شاہ کی جادو بیانی مسلم ہے۔ لیکن ان کی تقریر کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا۔ بلکہ بات سے بات نکالتے جاتے ہیں۔ اگر ان کی تقریر لکھ دی جائے تو ایسا معلوم ہو گا کہ بہت سے چٹکلے اور لطیفے ایک جگہ جمع کر دیئے گئے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی تقریر اچھی خاصی الف لیلہٰ ہوتی ہے کہ ایک کہانی میں سے کئی کہانیاں نکلتی چلی آتی ہیں۔ یہ تشبیہہ آپ کے مذاق پہ بار ہو تو اسے غزل کہہ لیجئے جس کے اشعار اپنی اپنی جگہ تو خوب ہیں۔ مگر ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے لیکن مولانا آزاد کی تقریر مسلسل نظم ہے کہ اس میں سے ایک شعر طبی نکال دیاجائے۔ تو بے معنی ہو کہ رہ جائے۔ ۱۹۲۷ء میں مولانا ابو الکلام آزاد نے ہالیڈے پارک کلکتہ میں ایک تقریر کی تھی۔ جس کی یاد سے ابھی تک دل لذت یاب ہے۔ ان دنوں گانے باجے کا جھگڑا بڑے زوروں پر تھا۔ ہندو مسلمانوں کے تعلقات بہت بگڑے ہوئے تھے۔ کلکتہ میں ایک دو سخت ہنگامے ہو چکے تھے باریسال میمن سنگھ اور بنگال کے بہت سے دوسرے علاقوں میں برابر فسادات کی خبریں چلی آتی تھیں۔ کانگریس کا اقتدار مٹ چکا تھا۔ نہ ہندو اسے مانتے تھے نہ مسلمان انہیں دنوں مولانا آزاد سبحانی کلکتہ آئے۔ خلافت کمیٹی نے ہالیڈے پارک میں جلسہ کا انتظام کیا۔ بڑی مشکل سے کہیں دو سو ڈھائی سو آدمی جمع ہوئے۔ لیکن جب مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور ایک پھڑکتا ہوا شعر پڑھ کر صدر جلسہ کی طرف دیکھا تو لوگ اٹھ کر چل دیئے۔ وہ ’’ حضرت!‘‘ کہہ کر پلٹے۔ تو جناب صدر چپکے سے کھسک گئے۔ اب جلسہ گاہ میں صرف میں تھا۔ یا مولانا آزاد سبحانی وہ مقرر میں سامعین انہوں نے کچھ کہنے کو منہ کھولا۔ میں نے عرض کیا مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر کیجئے اور گھر چلئے شکر ہے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی۔ ورنہ اگر وہ اپنی پوری خطابت تنہا مجھ غریب پر صرف کر ڈالتے تو میں ان کا کیا کر لیتا۔ اس واقعہ کو تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ خلافت کمیٹی نے اسی پارک میں مولانا ابو الکلام کی تقریر کا انتظام کیا۔ کلکتہ کے مسلمان ان سے پہلے ہی ناراض تھے۔ کیونکہ فسادات کے زمانے میں وہ چپ چاپ گوشے میں بیٹھے رہے تھے۔ کانگریس کے دشمنوں نے انہیں اور بھڑکایا۔ بلکہ ایک صاحب نے جو کلکتہ کے بہت بڑے لیڈر اور نامی گرامی رئیس تھے۔ اپنے بہت سے آدمی بھیج دیئے کہ لوگ مولانا کی تقریر سننے پر آمادہ ہو جائیں تو کوئی ایسا اشقلہ چھوڑیں کہ جلسہ نہ ہو سکے۔ ان میں سے کچھ لوگ لاٹھیاں اور چھریاں لے کے آئے تھے۔ میں سر شام ہی ہالیڈے پارک میں پہنچ گیا۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ اور جلسہ گاہ میں میدان کار زار کا نقشہ کھچا ہوا تھا۔ دو دو تین تین آدمی جگہ جگہ کھڑے آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اتنے میں مولانا کی کار پہنچی کچھ نیاز مندوں نے بڑھ کر عرض کی کہ لوگوں کے تیور بے ڈھب معلوم ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیں انہوں نے فرمایا’’ پہلے معلوم ہوتا تو میں نہ آتا لیکن اب تو میں تقریر کر کے ہی جاؤں گا۔‘‘ مولانا تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو مجمع کی یہ حالت تھی کہ کچھ لوگ کھڑے ہیں۔ کچھ بیٹھے ہیں۔ کچھ سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ کچھ کھانس رہے ہیں۔ اس لئے تقریر کے ابتدائی جملے کسی نے سنے کسی نے نہ سنے۔ لیکن ان کی آواز بتدریج بلند ہوتی گئی۔ اور تھوڑی دیر میں یہ کیفیت ہوئی کہ لوگ بت بنے کھڑے تھے۔ جلسہ گاہ کے کسی گوشہ سے کوئی ہلکی سے ہلکی صدا بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ مولانا نے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے تقریر کی۔ تقریر میں سیدھی سادی باتیں تھیں۔ اور انہوں نے بظاہر لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ پھر بھی جو لوگ گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلے تھے کہ ابو الکلام کو جلسے میں دو لفظ کہنے نہیں دیں گے۔ ان میں بعض جھوم رہے تھے اور بعض کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر تھیں۔ انہیں اپنے وقار اور عزت کا بڑا خیال رہتا ہے۔ اس لئے وہ ایسے مجمعوں میں جہاں لڑائی بھڑائی کا اندیشہ ہو۔ سرے سے شریک نہیں ہوتے۔ لیکن جب کبھی وہ کسی ایسے مجمع میں گئے انہوں نے کسی نہ کسی طرح لوگوں پر قابو پا لیا مسلمانوں کو عام جلسوں میں تو مدت سے شریک نہیں ہوتے تھے لے دے کر سال میں دو مرتبہ عید کی نماز پڑھا دیا کرتے تھے۔ اور اس طرح مسلمانوں کو ان کے خیالات سننے کا موقع مل جاتا تھا۔ لیکن جب مسلم لیگ والوں نے ان کی امامت عید پر اعتراض کیا تو وہ خود بہ خود امامت سے دست بردار ہو گئے استقامت اور وضعداری ان کی طبیعت کے خاص جوہر ہیں۔ ان کی استقامت کا حال تو ساری دنیا کو معلوم ہے۔ مسلمانوں کے اکثر بڑے بڑے لیڈروں کی یہ کیفیت رہی ہے۔ کہ آج کانگریس کے حامی ہیں کل اس کے مخالف لیکن مولانا آج سے بیس برس پہلے جہاں تھے آج بھی وہیں ہیں۔ شاعر نے شاید انہیں کے لئے کہا ہے۔ واغط زدیں برآمدو صوفی ز اعتقاد ترسا محمدی شدہ عاشق ہماں کہ ہست ان کی طبیعت میں نفاست بہت ہے۔ کسی زمانے میں وہ بہت نفیس اور قیمتی لباس پہنا کرتے تھے۔ لیکن جب سے کانگریس میں شریک ہوئے ہیں گاڑھے پر گزر کر رہے ہیں۔ البتہ سگریٹ ہمیشہ اچھے پیتے ہیں اور بہت پیتے ہیں کھانا بھی اچھا کھاتے ہیں لیکن کم کھاتے ہیں۔ تدبر و سیاست میں یگانہ ہیں۔ مگر گھر کے انتظام کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی لوگ انہیں دھوکا دے جاتے ہیں۔ چنانچہ اخبار اور پریس کے کام میں انہوں نے کئی سخت نقصان اٹھایا۔ ترجمان القران کی طباعت کے سلسلے میں بھی ایک شخص نے انہیں سخت دھوکا دیا۔ یعنی ان سے کاغذ کی دگنی قیمت وصول کر لی گئی اور انہیں خبر بھی نہ ہوئی۔ جس طرح جلسوں میں وہ عوام پر چھا جاتے تھے اسی طرح نج کی صحبتوں میں وہ خواص کو مسحور کر لیتے ہیں۔ ان کے تلفظ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اور کو اور اور غور کو غور (واؤ مجہول کے ساتھ) بولتے ہیں۔ کسی دوسرے کا تلفظ اس قسم کا ہوتا تو لوگوں میں انگشت نما ہو جاتا۔ لیکن انہیں ٹوکنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی بلکہ اکثر لوگ تو تلفظ کے معاملہ میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام کسی زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور مشاعروں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ چنانچہ میں نے بعض لوگوں کی زبانی سنا ہے کہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے کلکتہ کے مسلم انسٹی ٹیوٹ میں جو مشاعرے ہوتے تھے۔ ان میں وہ ہمیشہ طرح پر غزل کہہ کے لاتے اور خود پڑھ کے سناتے تھے۔ لیکن یہ قصہ ہے جب کا جب آتش جوان تھا۔ اور جوانی بھی کہاں یہ ان کے لڑکپن کا ذکر معلوم ہوتا ہے کیونکہ جوانی میں وہ بڑے بوڑھوں سے آگے تھے۔ ان کے والد بزرگوار مولانا خیر الدین ایک مشہور خانوادہ طریقت سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ اب بھی ان کے عقیدت مند ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ لیکن مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کے بڑے بھائی ابو نصر غلام یسین1؎ آہ دونوں نے پیری مریدی سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔ا ٓہ تو جوانی میں انتقال کر گئے۔ ابو الکلام وضعداری نباہتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی سال کے سال ان کے والد کا جو عرس ہوتا ہے۔ اس میں شریک ہو جاتے ہیں۔ 1؎ آہ بڑے ذہین شخص تھے اور اکثر اکباروں اور رسالوں میں مضامین لکھتے رہتے تھے۔ چنانچہ حکیم محمد علی کے مشہور رسالہ مرقع عالم میں ان کے بعض مضامین میری نظر سے گزرے ہیں۔ مولانا کا پایہ ملک کے سیاسی رہنماؤں میں بہت اونچا ہے۔ لیکن یقین جانئے۔ انہوں نے کبھی اس قسم کی چھچھوری حرکات نہیں کیں۔ جو لیڈر لوگ شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر آج ان کا نام گاندھی اور جواہر لال کے نام کے ساتھ ساتھ لیا جا رہا ہے۔ تو اس کا باعث ان کی غیر معمولی قابلیت اور سیاسی بصیرت ہے پروپیگنڈا کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس ملک میں اگر کوئی شخص بہت بڑا لیڈر بننا چاہے۔ تو اس کے لئے قابلیت شرط نہیں۔ بلکہ اسے ذرا نیاز مند قسم کا انسان بھی ہونا چاہیے۔ اس کی ایک مثال خان عبدالغفار خان ہیں۔ جو ابھی کل کانگریس میں آئے اور آج پرانے پرانے لیڈروں سے آگے نظر آتے ہیں۔ لیکن مولانا سے خان عبدالغفار خان کا مقابلہ کیجئے تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ ایک مجمع میں خان عبدالغفار خان اور مولانا ابو الکلام آزاد دونوں موجود تھے۔ پہلے خان عبدالغفار خان آئے اور ہاتھ جوڑ کے سب کو پرنام کیا۔ پھر مولانا تشریف لائے۔ لیکن نہ ان کا ہاتھ سلام کے لئے اٹھا نہ سر جھکا۔ پھر بھی یہ حال تھا کہ جدھر وہ جاتے تھے خلقت اسی طرف جھک پڑتی تھی۔ اور خان عبدالغفار خان اپنی نیاز مندی کے باوجود یوسف بے کارواں بنے ہوئے تھے۔ مولانا آزاد پر اگر لوگوں کو کوئی اعتراض ہے تو صرف یہی کہ وہ رند بلا کش نہیں۔ یعنی ان میں اتنی ہمت نہیں کہ ہاتھ میں علم لئے گھر سے نکل کھڑے ہوں۔ ہر شہر اور قریہ میں تقریریں کرتے پھریں۔ لوگوں سے گالیاں بھی سنیں داد بھی حاصل کریں۔ مار بھی کھائیں جلوس بھی نکلوائیں اور اس طرح مولانا حبیب الرحمن بن کر رہ جائیں۔ اور یہ اعتراض صحیح ہے انہیں اپنے وقار کا بہت خیال ہے وہ ان مجمعوں میں شریک نہیں ہوتے۔ جہاں گالیاں کھانے اور پٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ اس چیز کے لئے بڑے دل گردہ کی ضرورت ہے۔ مولانا پر بڑے بڑے کڑے وقت بھی آئے ہیں۔ لیکن اس غیرت کے پتلے نے کبھی کسی کا احسان نہیں اٹھایا۔ ان کے والد بزرگوار کے مریدوں میں بہتیرے لوگ ایسے ہیں۔ جو اپنا سب کچھ انہیں دے ڈالنے کو تیار ہیں ان کے بعض عقیدت مندوں نے جو الہلال کے دور اول سے آج تک ان کے مداح چلے آتے ہیں۔ کئی مرتبہ ان کی مالی اعانت کرنا چاہی لیکن انہوں نے گوارا نہ کیا۔ ان میں اکثر لوگوں نے بڑی بڑی رقموں کے منی آرڈر اور چک بھیجے جو واپس کر دیئے گئے۔ غیر معمولی ذہانت اور علمی تبحر کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور استغنا ان کے دو اہم وصف ہیں۔ ان کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ وہ کبھی کوئی لطیفہ یا پھبتی بھی کہتے ہیں۔ تو اس میں بھی گونہ سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ ہنستے ہیں تو اس میں بھی وقار ہوتا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سنجیدگی کے معاملہ میں ان کی نقالی کرتے ہیں۔ اور اپنے آپ پر ان کی سی متنانت طاری کر لینا چاہتے ہیں لیکن مولانا کی طبیعت کا یہ بھاری بھر کم پن فطری ہے۔ جسے نقل اور مشق سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ان کی عمر زیادہ نہیں۔ ان کا سال ولادت ۱۸۸۸ء ہے اور اس حساب سے پنڈت جواہر لال نہرو کے ہم عمر ہیں۔ لیکن طبعی سنجیدگی کی وجہ سے وہ بہت زیادہ بوڑھے معلوم ہوتے ہیں۔ دراصل وہ اپنی غیر معمولی ذہانت و فطانت کے باعث لڑکپن میں ہی وہاں تھے۔ جہاں دوسرے لوگ بڑھاپے میں بھی نہیں پہنچتے۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اخبار نویسی شروع کی۔ بائیس سال کی عمر میں الہلال نکالا۔ اور تیس برس کی عمر میں تذکرہ لکھا گویا ان کی جن تحریروں پر آج بھی سارا ہندوستان سر دھن رہا ہے۔ وہ ان کے عنوان شباب کا کارنامہ ہیں۔ باایں ہمہ شباب کی ان تحریروں میں جوانی کی شوخی اور کج رائی کہیں نہیں۔ بلکہ جگہ جگہ بڑھاپے کی پختگی اور متانت جھلکتی نظر آتی ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ابو الکلام کو زمانے نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا۔ جوانی ان پر کبھی آئی ہی نہیں اور آئی بھی تو اس کا زمانہ بہت مختصر تھا۔ اس غیر معمولی سنجیدگی اور وقار کے ساتھ استغنا کا جامعہ ان کے قامت احوال پر بہت کھلتا ہے۔ اس معاملہ میں ان کا یہ حال ہے۔ کہ کوئی بڑے سے بڑا سانحہ بھی انہیں بے نیازی کے زاویہ سے قدم باہر نکالنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ذرا غور کیجئے کہ یہ جو دو لفظ تو خیر میرے بھائی ان کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں کس قدر بے پروائی کا انداز ہے۔ شدید سے شدید حادثہ پر وہ صرف لمحہ بھر کے لئے غور کرتے ہیں اور پھر تو خیر میرے بھائی کہہ کر اس طرح باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End