پاکستانی ادب کے معمار مجید امجد شخصیت و فن ڈاکٹر ناصر عباس نیئر پیش نامہ اکادمی ادبیات پاکستان نے 1990ء میں پاکستانی زبانوں کے ممتاز تخلیق کاروں کے بارے میں ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ کے عنوان سے ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ معماران ادب کے احوال و آثار کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابی سلسلہ بہت مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ اکادمی، پاکستان کی تمام زبانوں کے نامور ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور نقادں کے بارے میں کتابیں شائع کر رہی ہے۔ مجید امجد اردو کے عہد ساز اور صاحب اسلوب نظم گو کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ شب رفتہ اور شب رفتہ کے بعد، جیسے مہتمم بالشان شعری مجموعوں نے اردو ادب کو بے حد ثروت مند بنایا۔ اردو غزل جیسی طاقت ور صنف سخن کی موجودگی میں نظم گوئی کے میدان میں قدم جمانا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا بلاشبہ مجید امجد ہی کا کارنامہ تھا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جدید اردو نظم گوئی کے بنیاد گذاروں میں مجید امجد کا نام بہت نمایاں اور وقیع ہے۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شعری روایت سے منسلک رہتے ہوئے جدید تقاضوں کا خیال بھی رکھا اور ایسی تازہ شاعری کی جو اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ بن گئی ہے۔ آنے والے زمانوں میں مجید امجد کے بغیر اردو شاعری کی تاریخ کسی صورت مکمل تصور نہیں کی جا سکے گی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر معروف محقق اور صاحب نظر تنقید نگار ہیں۔ انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کی درخواست پر ’’ مجید امجد: شخصیت اور فن‘‘ لکھ کر ادب کی غیر معمولی خدمت سر انجام دی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان کا اشاعتی منصوبہ ’’ پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا۔ افتخار عارف ٭٭٭ پیش لفظ مجید امجد اس اعتبار سے خوش قسمت شاعر ہیں کہ ان کی شاعری پر باقاعدہ تنقیدی ڈسکورس ان کی وفات کے بعد قائم ہوا ہے۔ وجوہ اس کی خواہ کچھ رہی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کو اس جمالیاتی فاصلے سے دیکھنے، معرض فہم و تعبیر میں لانے اور اس کی قدر متعین کرنے کی باضابطہ روش وجود میں آئی ہے، جس کے بغیر ادب میں غیر جانب دارانہ اور صائب ادبی فیصلے ممکن نہیں۔ جو تخلیق کار اپنی زندگی میں باقاعدہ تنقیدی مباحث کا موضوع بنتے ہیں (اور اکثر اپنے سماجی تعلقات، مرتبے و منصب یا عوامی مقبولیت کی وجہ سے بنتے ہیں) بعد از مرگ ان مباحث پر نظر ثانی کا عمل شروع ہوتا ہے اور عام طور پر ان مباحث کی بنیادوں او رمضمرات کو چیلنج کیا جانے لگتا ہے۔ تاریخ ادب میں زمانی/جمالیاتی فاصلے کی بے حد اہمیت ہے۔ اس فاصلے کی روشنی میں ہی وہ ساری دھند دور ہوتی ہے جو تخلیق کاروں اور ان کی ادبی کار گزاریوں کو ان کے زمانے میں گھیرے ہوتی ہے۔ اس دھند میں کاہ پر کوہ کا شائبہ ہوتا ہے، مگر دھند کے چھٹتے ہی کاہ اپنی اصل کے ساتھ سامنے آ جاتی اور تاریخ ادب میں اپنے اصل حاشیائی مقام پر دکھائی دیتی ہے۔ مجید امجد پر تنقیدی ڈسکورس، چوں کہ مذکورہ فاصلے کی روشنی میں قائم ہوا ہے، اس لیے کسی دھند کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، نہ ان کی شاعری سے متعلق تنقیدی گلیوں کو مسمار کرنا پڑا ہے۔ مجید امجد پر تنقیدی ڈسکورس ، چونکہ مذکورہ فاصلے کی روشنی میں قائم ہوا ہے، اس لیے کسی دھند کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، نہ ان کی شاعری سے متعلق تنقیدی کلیوں کو مسمار کرنا پڑا ہے۔ مجید امجد پر تنقیدی ڈسکورس ، چونکہ مذکورہ فاصلے کی روشنی میں قائم ہوا ہے، اس لیے کسی دھند کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، نہ ان کی شاعری سے متعلق تنقیدی کلیوں کو مسمار کرنا پڑا ہے۔ مجید امجد پر تنقیدی ڈسکورس کے قائم ہونے کا ہرگز مطلب نہیں کہ یہ مکمل بھی ہو چکا ہے۔ نہ تو امجد کی شاعری سادہ اور اکہری ہے اور نہ وہ سارے تنقیدی پیمانے اور وسائل آزمائے گئے ہیں، جن کے بغیر شاعری کے پرت در پرت جہان کو منکشف نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کتاب امجد کی شاعری کے ڈسکورس میں شرکت کی تازہ کوشش سے زیادہ نہیں۔ کسی کلامیے میں شرکت اسی وقت ممکن ہوتی ہے، جب اس کی زبان معیارات اور پیراڈایم کو سمجھا جائے۔ راقم نے مجید امجد پر اب تک لکھی گئی تنقید کی زبان اور معیارات کو سامنے رکھا، انہیں سمجھنے کی کوشش کی اور پھر ایک رائے قائم کی ہے۔ کہیں اتفاق اور کہیں اختلاف کی صورتیں پیدا ہوئی ہیں، مگر دونوں صورتوں میں، مقصود امجد کے جہان شعر کے دریافت شدہ گوشوں کی تعبیر نو اور نادریافت پہلوؤں تک رسائی ہے۔ راقم اس مقصود کو حاصل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے، اس کا فیصلہ اہل نظر کریں گے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا ممنون ہوں کہ اس ممتاز شاعر پر یہ کتاب لکھنے کی ذمے داری مجھے سونپی۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر ٭٭٭ مجید امجد کی سوانح و شخصیت مجید امجد کی سوانح مرتب کرنا بے حد مشکل کام ہے اور یہ مشکل خود مجید امجد نے پیدا کی ہے، گمان غالب ہے کہ دانستہ پیدا کی ہے۔ کسی تخلیق کار کی سوانح کا معتبر ماخذ وہ تحریریں ہوتی ہیں جو وہ خود اپنے بارے میں یا اس کے اعزہ، اقربا اور احباب اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ مجید امجد کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں اپنے متعلق لکھنے سے خود دل چسپی تھی نہ اپنے متعلق دوسروں کے لکھے سے کوئی تعلق تھا۔ وہ اپنے تخلیقی اظہار میں جس قدر فعال اور سرگرم تھے، اپنے ذاتی احوال کے ذکر و اظہار سے اسی قدر اجتناب برتتے تھے۔ اس کی وجہ، اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہیں اپنی تخلیقی ذات سے جس قدر گہرا لگاؤ تھا ’’ اپنی نجی ذات‘‘ سے اسی قدر کم لگاؤ تھا۔ آثار بتاتے ہیں کہ وہ اظہار کی رمز سے پوری طرح آگاہ تھے، اس لیے وہ اپنی تخلیقی ذات کے اظہار کے بعد کسی دوسری طرح کے اظہار سے بے نیاز تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ ایک ممتاز وصف ہے کہ وہ اپنے اور اپنی شاعری سے متعلق اظہار کو غیر ضروری خیال کرتے تھے۔ وہ خطوط میں دوسروں کے نجی حالات اور ان کی تخلیقی سرگرمیوں کے بارے میں تجسس کا اظہا رکرتے اور بسا اوقات اوروں کی تخلیقات پر رائے کا اظہار بھی کرتے تھے، مگر اپنے بارے میں اخفا سے کام لیتے تھے۔ اس عمل سے ان کے تخلیقی اظہار میں تکمیلیت کی کون سی سطح پیدا ہوئی، یہ سوال اپنی جگہ، مگر اس سے ان کی سوانح کی ترتیب ایک مشکل کام ضرور ثابت ہوئی۔ مجید امجد کو اپنے نجی حالات کے اظہار سے کس قدر کم دلچسپی تھی، اس کا اظہار محمد حیات خاں سیال کے نام خط میں ہوا ہے جو 27ستمبر1970ء کو لکھا گیا تھا۔ محمد حیات خاں سیال نے مجید امجد سے ان کے سوانحی کوائف کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں انہوں نے محض چند سطریں رقم کی ہیں اور یہ مجید امجد کی تعلیم و ملازمت کے انتہائی مختصر احوال پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح مجید امجد نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل خواجہ محمد زکریا اور پی ٹی وی کو انٹرویو دیا، ان میں بھی وہ کھل کر اپنے اور اپنی نظموں سے متعلق اظہار خیال سے گریز کرتے ہیں۔ اپنے ملنے والوں سے وہ بے تکلف بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ اپنے بعض پرانے احباب سے ان کی بے تکلفی ضرور تھی، مگر اس بے تکلفی میں بھی اپنے نجی حالات و جذبات کا بے محابا اظہار نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سوانح کے بعض اہم ترین واقعات سے متعلق بھی مستند معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان معلومات کو مجید امجد کی نظموں سے دریافت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ بلاشبہ یہ کوششیں مجید امجد کے تخلیقی ذہن کا خیال افروز انکشاف تو کرتی ہیں، مگر ان کے حقیقی خارجی سوانحی کوائف کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہیں۔ ان کوششوں سے یہ توقع بھی غیر مناسب ہے۔ یہ صورت حال مجید امجد کی سوانح کی ترتیب کو مشکل ضرور بناتی ہے، مگر ان کی سوانح کی ضرورت سے بے نیاز نہیں کرتی۔ اپنے بیان کے مطابق مجید امجد29 جون1914ء کو جھنگ مگھیانہ میں پیدا ہوئے۔ 1۔ (جھنگ دو حصوں پر مشتمل ہے: جھنگ شہر، جو پرانا شہر ہے اور جھنگ صدر جو نسبتاً نیا ہے۔ پہلے جھنگ صدر، کو جھنگ مگھیانہ کہا جاتا تھا) والد کا نام علی محمد تھا۔ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں نائب قاصد تھے۔ ان کا نام عبدالمجید رکھا گیا۔ دو ڈھائی برس کے تھے کہ ان کے والد نے دوسری شادی کر لی۔ ناقابل رشک معاشی حیثیت اور پہلوٹھی کی اولاد نرینہ ہونے کے باوجود، علی محمد نے دوسری شادی کیوں کی، یہ راز اب تک پردۂ اخفا میں ہے۔ تاہم یہ حقیقت بہرحال عیاں ہے کہ اپنے والد کی دوسری شادی نے مجید امجد کی زندگی پر گہرے اور بعض صورتوں میں فیصلہ کن اثرات ڈالے۔ مجید امجد کی والدہ نے اپنے شوہر کی دوسری شادی کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ دو ڈھائی سالہ عبدالمجید کو اپنی گود میں لے کر اپنے میکے آ گئیں، کبھی واپس نہ جانے کا مصمم ارادہ باندھے! حقیقت یہ ہے کہ اس انکار نے ہی عبدالمجید کو مجید امجد بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجید امجد باپ کی محبت سے ضرور محروم ہوئے، مگر دوسری طرف اپنی ماں کی غیر منقسم محبت کے بلا شرکت غیرے مستحق ٹھہرے۔ کیا ماں کی غیر منقسم محبت، باپ کی محبت سے محرومی کا مداوا بن سکی؟ مجید امجد کی شخصیت کے مطالعے میں یہ ایک اہم سوال ہے۔ غالباً نہیں بن سکی۔ چنانچہ مجید امجد عمر بھر ماں کی محبت سے حد درجہ مغلوب رہے۔ جنس اور شادی کے معاملے میں مجید امجد ماں کی طرح ہی ثابت قدم رہے! نہ مجید امجد کی والدہ نے دوسری شادی کی اور نہ مجید امجد نے! اور جب بھی انہیں دوسری شادی کے لیے کسی نے قائل کرنے کی کوشش کی تو وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ جس دکھ سے ان کی والدہ گزری ہے، وہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کی بیوی بھی اس دکھ سے گزرے! مجید امجد کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے نانا مولوی نور محمد ’’ اپنے عہد کے متجر حنفی العقیدہ عالم، مفسر قرآن، شارح حدیث رسول، فارسی کے شاعر، منجم اور مشہور حکیم تھے۔ ان کو علم ورثے میں ملا تھا اور ان کے خاندان کو اسی علمی مرتبے کی وجہ سے سیال حکمران نواب احمد خاں، چنیوٹ سے جھنگ لایا اور ان کے (جد) میاں نور احمد نقشبندی کو شہر کی امامت پر فائز کیا۔‘‘ (2)نقشبندی سلسلے میں حکومت وقت سے ٹکرانے کی جرأت تاریخی طور پر ودیعت ہے۔ چنانچہ میاں نور احمد نقشبندی نے ’’ 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا اور اس جرم میں قید ہوئے تھے۔‘‘ (3) وہ سید احمد شہید کی تحریک سے بھی متاثر تھے۔ کیا خبر یہی نقشبندی عنصر، مجید امجد کی والدہ کی شخصیت میں بھی سرایت کر گیا ہو! یہ عنصر مجید امجد کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے، مگر نمایاں اور غالب نہیں ہے۔ بظاہر مجید امجد کی شخصیت میں بغاوت اور انکار کے عناصر نظر نہیں آتے۔ وہ شکایت کرنے اور بر سر پیکار ہونے کا بالعموم مظاہرہ نہیں کرتے، اس کے برعکس خاموشی، تسلیم اور ایک نوع کی داخلی علیحدگی کے قائل محسوس ہوتے ہیں، لیکن ان کی یہ شخصیت، پوری شخصیت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی خاموشی بزدلانہ اور ان کی تسلیم کی خوانفعالی نہیں تھی اور نہ ان کی داخلی علیحدگی، باطنی بے حسی تھی۔ خواجہ محمد زکریا نے لکھا ہے: ’’ نہ انکسار کرتے تھے نہ تعلی۔۔۔۔ ہمیشہ انہیں مدح و ذم سے مستغنی پایا۔۔۔۔ معلوم نہیں کہ وہ عظمت انسانی کی کس منزل پر تھے۔ اپنے نظر انداز کیے جانے کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے تھے۔‘‘ 4؎ خواجہ صاحب نے عظمت انسانی کی جس منزل پر استعجاب کا اظہار کیا ہے، وہ دراصل ہر شے کی اصل و مدعا کے عرفان کی منزل ہے، جس تک مجید امجد بہ ہر حال رفتہ رفتہ پہنچے تھے۔ تاہم عرفان کے اس سفر کی سمت نمائی ان کے بچپن اور خاندانی حالات نے ہی کر دی تھی۔ مجید امجد کے ننھیال کی فضا مذہبی، علمی اور ادبی تھی۔ مجید امجد کے نانا مذہبی عالم اور ایک مدرسے کے (جو ان کے خاندان نے ہی قائم کیا تھا) مہتمم تھے مگر ساتھ ہی شاعر بھی تھے اور یہی صورت مجید امجد کے ماموں منظور علی کے ساتھ تھی۔ وہ فارسی، عربی اور اردو کے شاعر تھے اور فوق تخلص کرتے تھے۔ مجید امجد کو اپنے انہی ماموں سے فیض صحبت کا زیادہ موقع ملا۔ منظور علی فوق، اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں فارسی کے استاد تھے۔ اسی سکول سے مجید امجد نے 1930ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مذہبی علم او رشاعری کے امتزاج نے مجید امجد کے ننھیال میں ایک خاص ذہنی فضا کو جنم دیا ہو گا۔ مذہبی علم آدمی کو اگر ماورا سے جوڑتا ہے تو شاعری زمین اور اس کے معاملات سے اسے کو منسلک کرتی ہے۔ ان دونوں کے مثالی امتزاج سے ایک اعلیٰ درجے کی بصیرت جنم لیتی ہے۔ قوی شہادتوں کی غیر موجودگی میں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مجید امجد کے ننھیال میں یہ بصیرت، اعلیٰ درجے کے ساتھ موجود تھی یا نہیں، مگر یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ خاندان دنیا اور ماوراء دونوں کی اہمیت کا احساس رکھتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مجید امجد کے ننھیال، مذہب میں ترقی پسندانہ رحجانات کے حامل تھے۔ ان لوگوں نے ہر چند انگریزوں کے سیاسی اقتدار کے خلاف فتویٰ دیا اور اس کے نتیجے میں سختیاں جھیلی تھیں، مگر وہ جدید تعلیم سے متنفر نہیں تھے، جو انگریزی اقتدار کے بعد ہی ہندوستان میں رائج ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجید امجد جب چار سال، چار ماہ اور چار دن کے ہوئے، یعنی تین نومبر1903ء کو ان کی رسم بسم اللہ ہوئی اور انہیں مولوی غلام قاسم کے مدرسے میں بھیجا گیا، جہاں مجید امجد نے روایتی مذہبی تعلیم حاصل کی، عربی و فارسی پڑھی اور پھر فلسفہ، علم جفر اور علم طب کا درس بھی لیا۔ وہاں مجید امجد کو کالج کی تعلیم بھی دلوائی گئی۔ ایسا نہیں ہوا کہ مجید امجد کو مدرسے اور مکتب تک محدود رکھا گیا ہو، جس کا بظاہر امکان تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو مجید امجد شاید شاعر تو ہوتے مگر غالباً اسی طرح اور اسی سطح کے، جس طرح کے منظور علی فوق تھے اور گمان غالب ہے کہ انہی کی طرح گم نام بھی ہوتے۔ مجید امجد نے ساتویں جماعت سے شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ (5)یہ شعر کیسے تھے، اس بارے میں کوئی رائے دینا ممکن نہیں۔ کہ ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، تاہم قیاس سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اشعار محض موزونی طبع اور شوق کا اظہار ہوں گے، وہ شوق جو انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول نے ودیعت کیا ہو گا۔ تب مجید امجد اسلامیہ ہائی سکول میںپڑھتے تھے اور منظور علی فوق کے شاگرد تھے۔ مجید امجد نے ا پنے ماموں اور استاد سے اصلاح لی اور یہ بھی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ماموں نے مجید امجد کی حوصلہ افزائی کی ہو گی۔ انہیں ایک طرف اپنی مطلقہ بہن کے اکلوتے بیٹے سے ہمدردی ہو گی تو دوسری طرف انہیں اپنے خاندانی شوق کو اپنے بھانجے میں اظہار کرتے دیکھ کر خوشی ہوئی ہو گی۔ مجید امجد سکول کی بزم ادب میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ لہٰذا ان کے شوق شعر گوئی کو جاری رکھنے کا پورا سامان موجود تھا۔ 1930ء میں مجید امجد نے گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ (جو1947ء میں ڈگری کالج بنا) میں داخلہ لیا اور 1932ء میں یہاں سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ افسوس ان دو سالوں کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ مجید امجد نے انٹر میں کیا مضامین لیے اور کن اساتذہ سے انہوں نے فیض اٹھایا۔ صرف یہ بات علم میں آ سکی ہے کہ ’’ گورنمنٹ کالج جھنگ کی لائبریری بہت اچھی تھی۔ وہاں پر انگریزی زبان کا جتنا بھی ادب تھا وہ تمام انہوں نے پڑھ ڈالا۔‘‘ (6) ہر چند اس رائے میں مبالغے کا عنصر محسوس ہوتا ہے اور یہ یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے کہ ایک بڑی لائبریری میں ایک زبان کے ادب کی جملہ کتابیں انٹر کا کوئی طالب علم پڑھ ڈالے، تاہم اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مجید امجد کو انگریزی ادب کے مطالعے کی عادت انٹر میں ہی ہو گئی تھی۔ 1932ء کے بعد مجید امجد نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا اور 1934ء میں بی اے کی ڈگری لی۔ مستند معلومات اور قابل بھروسا شواہد کی عدم موجودگی میں، یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ 1930ء سے 1934ء تک مجید امجد کن ذہنی تبدیلیوں سے گزرے اور ان تبدیلیوں کا محرک کون سے واقعات اور افراد تھے، تاہم یہ بات واضح ہے کہ مجید امجد کا جھنگ سے لاہور آنا، ان کی زندگی کا نہایت اہم واقعہ تھا۔ صفدر سلیم سیال کا خیال ہے کہ مجید امجد کے والد کے لیے لاہور میں تعلیم دلوانا، ان کے بس میں ہی نہ ہوتا، جس کے نتیجے میں شاید مجید امجد صرف عبدالمجید ہی رہ جاتے (7) سیال صاحب نے یہ بات مجید امجد کے والد کی معاشی حالت کے پیش نظر لکھی ہے۔ ممکن ہے کہ مجید امجد کے والد انہیں لاہور اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنے میں کامیاب ہو جاتے کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی، لیکن مجید امجد اگر لاہور نہ آتے تو یقینا ان کی نظر میں وسعت پیدا نہ ہوتی۔ لاہور اس زمانے میں بھی اہم تہذیبی اور تعلیمی مرکز تھا، جو یہاں آنے والوں کو فیض یاب کرتا تھا۔ جن دنوں مجید امجد اسلامیہ کالج لاہور میں تھے، انہی دنوں فیض احمد فیض اور ن، م راشد گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کر رہے تھے۔ مجید امجد نے خواجہ محمد زکریا کو ایک انٹرویو میں اس تعلق سے چند باتیں کہی ہیں: ’’ اس زمانے میں جہاں تک مجھے خیال پڑتا ہے، فیض صاحب کی نظمیں ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ‘‘ اور’’ سو رہی ہے گھنے درختوں پر چاندنی کی تھکی ہوئی آواز‘‘ بڑی مقبول تھیں۔ اسی طرح راشد صاحب اس زمانے میں پابند کہتے تھے۔ شگفتہ و شادماں رہے گی میری محبت جواں رہے گی بعد میں جب وہ خود ادبی دنیا کے ایڈیٹر ہوئے، ان کا کلام دیکھا، لیکن میں اس وقت Free Verse کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا تھا۔‘‘(8) اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجید امجد قیام لاہور کے دوران میں ہی اس زمانے کے ان نئے شعراء سے واقف ہو گئے تھے، مگر ان سے اثر پذیر نہیں ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجید امجد اپنے عہد کی ادبی فضا کے سلسلے میں لاتعلق تھے۔ اصل یہ ہے کہ تب مجید امجد اس عہد کی ادبی فضا کی ایک دوسری پرت سے اثر پذیر ہو رہے تھے اور اس پرت کے نمائندے ظفر علی خاں اور علامہ اقبال تھے۔ خواجہ محمد زکریا ہی کے بقول ’’ ان دنوں مولانا ظفر علی خاں نے لاہور کے لوگوں کو برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی۔ اس پر مجید امجد احتجاج کے لیے مقررہ مقام پر پہنچے لیکن آنے والوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ مایوس ہو کر لوٹ گئے۔۔۔۔ جب ایک بار اقبال اسلامیہ کالج گئے تو مجید امجد نے انہیں دیکھ کر بڑی مسرت محسوس کی۔‘‘ (9) ان دو واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہو گا کہ انہوں نے اس زمانے میں فیض اور راشد میں کوئی کشش محسوس نہ کی، مگر مولانا ظفر علی خاں اور علامہ اقبال کے لیے والہانہ لگاؤ محسوس کیا۔ یہ محض کم معروف اور نئے شعر اپر دو بے حد معروف اور سینئر شعراء کو ترجیح دینے اور شہرت عام سے متاثر ہونے کا معاملہ نہیں تھا، یہ اس افتاد ذہنی کا اظہار تھا، جو نو کلاسیکی شعریات کو نئی حسیت پر ترجیح دے رہی تھی۔ مجید امجد اپنے ننھیال سے نو کلاسیکی شعریات کو لے کر آئے تھے۔ا گرچہ انہوں نے جھنگ کالج سے انگریزی ادب کے مطالعے کا آغاز کر دیا تھا، مگر کچھ ایسا لگتا ہے کہ وہ جدید انگریزی ادب نہیں تھا۔ یوں بھی 1930ء کے دہے میں، جھنگ میں معاصر انگریزی ادب کی کتب کا دستیاب ہونا امر محال تھا۔ خود مجید امجد کی شاعری معاصر جدید انگریزی ادب (جس کے نمائندے ایلیٹ، ایذرا پونڈ، لارنس، ورجینیا وولف، ڈولٹل وغیرہ ہیں) کے اثرات کی نشان دہی نہیں کرتے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی ادب نے ابھی ان کے ہاں نو کلاسیکی شعریات کو بے دخل کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ ان کا فری ورس کو شروع میں پسند نہ کرنا، ظفر علی خاں سے لفظیات قبول کرنا اور اقبال کو 1933ء اور1938ء میں دو نظموں میں خراج تحسین پیش کرنا دراصل نو کلاسیکی شعریات سے ان کی غیر معمولی وابستگی کا ہی مظہر ہے۔ تب مجید امجد تشکیلی دور سے گزر رہے تھے اور اس دور میں، شعوری یا غیر شعوری طور پر کئے گئے فیصلے عموماً فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ مگر مجید امجد کی شخصیت کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے کسی شخصیت سے مستقل اثر قبول نہیں کیا۔ اپنے تشکیلی دور کے ’’ فیصلوں‘‘ کو ہمیشہ کے لیے خود پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ وہ ابتدا میں اثر پذیر ضرور ہوئے، مگر پھر رفتہ رفتہ ان اثرات سے خود کو آزاد کروانے میں کامیاب بھی ہوئے۔ نو کلاسیکی شعریات کی جگہ جدید شعریات کے علم بردار بنے، مگر اس جدید شعریات پر نہ فیض کا سایہ پڑنے دیا نہ راشد کا۔ 1934ء مجید امجد کی زندگی کا اہم سال تھا۔ وہ بی اے کر چکے تھے اور آگے تعلیم حاصل کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ چنانچہ اب انہیں کسی معقول ملازمت کی تلاش تھی۔ وہ زمانہ عالمی کساد بازاری کا تھا۔ اچھی سرکاری ملازمتیں آسانی سے نہیں ملتی تھیں، اس لیے مجید امجد نے ابتداء میں دو ایک چھوٹی موٹی ملازمتیں قبول کیں۔ ان میں بظاہر مجید امجد نے اپنی مرضی اور انتخاب کے تحت کوئی ملازمت حاصل نہیں کی، بلکہ جو فوری طور پر اور آسانی سے مل گئی، اسے قبول کر لیا، تاہم قرائن سے یہ لگتا ہے کہ انہیں اپنے کیریر کے ضمن میں ننھیال کی روش پر چلنا پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے نانا اور ماموں کی طرح تدریس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ وہ تدریس کے شعبے میں جانے کے لیے کبھی کوشاں نظر نہیں آئے۔ بی اے کے بعد ہ سیدھے جھنگ پہنچے۔ انہوں نے لاہور میں ملازمت کی تلاش نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اس بڑے شہر کے سحر سے آزاد رہے۔ وہ کچھ عرصہ شاہدرہ میں بسلسلہ ملازمت ضرور مقیم رہے، مگر پھر ان کا تبادلہ ہو گیا۔۔۔۔ بہرکیف اول اول انہوں نے جھنگ میں قاضی فضل دین گرو اور کی معیت میں ووٹوں کی فہرست سازی کا کام کیا، یہ کام جلد ہی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ایمپائر آف انڈیا انشورنس کمپنی میں ایجنٹ کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ (10)گمان غالب ہے کہ یہ کام انہیں سخت دشوار لگا ہو گا۔ انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ انشورنس ایجنٹ سماجی طور پر کتنا عدم مقبول ہوتا ہے! تاہم مجید امجد کو سماجی عدم مقبولیت کی آزمائش سے زیادہ دیر نہیں گزرنا پڑا۔ انہیں جلد ہی ایک ایسی ملازمت مل گئی جو ان کی طبع کے لیے موزوں تھی اور سماجی مقبولیت کا ایک اہم وسیلہ بھی تھی! یہ اور بات ہے کہ مجید امجد کو سماجی مقبولیت سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ ان دونوں جھنگ ڈسٹرکٹ بورڈ نے دیہات سدھار کا ایک پروگرام شروع کر رکھا تھا۔ مجید امجد اس پروگرام میں1936ء میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر تعینات ہوئے اور دیہات سدھار پروگرام کے تحت ہی اصلاحی ڈرامے لکھے جو ان کی اپنی نگرانی میں ہی سٹیج ہوئے۔ 1937ء میں مجید امجد جھنگ سے نکلنے والے ہفت روزہ ’’ عروج‘‘ سے بحیثیت مدیر وابستہ ہو گئے۔ اس وابستگی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کسی نے جھنگ کے معروف شاعر شیر افضل جعفری کو انہی دنوں یہ اطلاع دی کہ انہیں ’’ عروج‘‘ کی ادارت کے لیے نامزد کیا گیا ہے، تب تک مجید امجد’’عروج ‘‘ کی ادارت سنبھال چکے تھے۔ اب تک دونوں ایک دوسرے سے متعارف نہیں تھے۔ جعفری کو جب اطلاع کے بیس نوں تک ادارت کا حکم نامہ نہ ملا تو وہ بھاگم بھاگ ’’ عروج‘‘ کے دفتر پہنچے ۔ خود جعفری مرحوم کی زبانی سنیے: ’’ پتہ لگا کہ یہاں تو کسی مجید امجد کی تعیناتی ہو چکی ہے۔ دل پر بم برس گیا۔ جل بھن کر انتقام کی ٹھان لی۔ کچھ بھڑوے بھیے ساتھ لیے اخبار کے دفتر جا گھسا۔ وہاں ایک لانبا لانجا، جوان جمان، اللہ دی امان، عروج مچان پر برا جمان تھا۔ میں نے اوچھے پن کی طرح ڈالی۔ وہ شخص طرح دے گیا۔ دوبارہ تلخی پیدا کرنی چاہی تو اس کے مصریلے جواب نے میرے کانوں میں رس گھول دیا۔ پھر چھیڑا تو اس کے لبوں پر ایک معصوم مسکراہٹ مچل گئی اور میں بے لڑے ہی شکست کھا کر رہ گیا ۔ یہ تھا میری اور مجید امجد کی سنگت کا دھوپ چھاؤں آغاز۔‘‘ (11) یہ واقعہ دونوں نامور شعراء کی دوستی کے دلچسپ آغاز پر ہی روشنی نہیں ڈالتا، بلکہ جھنگ کے ادبا میں ’’ عروج‘‘ کی مقبولیت اور اہمیت بھی باور کراتا ہے۔ اس اخبار سے کسریٰ منہاس اور شیخ محمد اسماعیل پانی پتی بھی وابستہ رہ چکے تھے۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ مجید امجد اور شیر افضل جعفری کے مزاج کے فراق کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ جعفری مرحوم کے مزاج میں تندی اور سیما بیت تھی، جس کا اظہار مجید امجد کے ساتھ تعلقات میں آئندہ بھی ہوتا رہا، جب کہ مجید امجد کے مزاج میں تحمل اور ٹھہراؤ تھا۔ مجید امجد کی زندگی تصادم اور جھگڑے کے واقعات سے خالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف تصادم سے بچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کسی طرف سے تصادم کی کوشش کے جواب میں مصالحت سے کام بھی لیتے تھے۔ انہیں کسی میدان میں کسی کے مد مقابل آنا منظور نہیں تھا۔ صفدر سلیم سیال نے لکھا ہے: ’’ ایک مرتبہ حضرت شیر افضل جعفری نے انہیں کسی غلط فہمی کی بناء پر بہت ہی دل خراش خط لکھا۔۔۔۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ پتہ نہیں جعفری صاحب کیوں ناراض ہیں، میں نے تو کوئی گستاخی نہیں کی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے بعد مجید امجد نے جعفری صاحب کے مجموعہ کلام ’’سانو لے من بھانولے‘‘ کا شاندار دیباچہ لکھا۔ یہ حوصلہ کس میں ہے!‘‘(12) اس سے یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ مجد امجد تعلقات توڑنے کے بجائے جوڑنے میں یقین رکھتے تھے۔مجید امجد کے سوانح نگار کے سامنے یہ ایک اہم سوال ہے کہ مجید امجد نے یہ یقین کہاں سے اور کیسے حاصل کیا؟ کیا یہ مجید امجد کی کسی طبعی یا نفسیاتی کمزوری کا پیدا کردہ تھا یا وہ انسانی تعلقات کی اعلیٰ بصیرت رکھتے تھے؟ دوسری بات ہی درست لگتی ہے ۔ نفسی سطح پر کمزور شخص اس پر تیقن اسلوب میں نظم یا شعر نہیں کہہ سکتا، جو مجید امجد کے یہاں بالعموم موجود ہے اور نہ ایسا شخص زندگی کے بعض اصول اپنے لیے طے کرنے اور پھر ان اصولوں پر سدا قائم رہنے کے قابل ہوتا ہے، جیسا کہ مجید امجد تھے۔ ہر چند ’’ عروج‘‘ سے وابستگی سے پہلے مجید امجد شعر گوئی کا آغاز کر چکے تھے مگر ’’ عروج‘‘ نے انہیں اپنی متنوع تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا۔ مجید امجد نے اس میں اداریے، صحافتی مقالے، تاریخی، اسلامی اور ہلکے پھلکے مضامین لکھے۔ تقریباً پورا پرچہ مجید امجد ہی لکھتے تھے۔ا گرچہ وہ دیہات سدھار پروگرام کے تحت ڈرامے لکھ کر نثر کا آغاز کر چکے تھے ، تاہم ’’ عروج‘‘ میں انہوں نے کم و بیش چار برس تک نثر لکھی۔ افسوس اس نثر کے چند نمونے ہی منظر عام پر آ سکے ہیں۔ مجید امجد اس اخبار میں اپنی شاعری بھی شائع کرتے رہے۔ اور بعد ازاں یہی شاعری عروج سے ان کی سبک دوشی کا سبب بنی۔ انہوں نے 1939ء میں قیصریت کے عنوان سے اپنی نظم عروج میں شائع کی تو اہل اقتدار نے اسے بغاوت پر محمول کیا اور مجید امجد کو اخبار کی ادارت کے منصب سے معزول کر دیا۔ ’’ قیصریت‘‘ واضح طور پر دوسری جنگ عظیم سے متعلق ہے۔ مجید امجد نے اس نظم میں اپنے ننھیال کی روایت کو ہی با انداز دیگر زندہ کیا ہے۔ مجید امجد کے پرنانا نے 1857ء کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف فتویٰ دیا اور جیل کاٹی تھی۔ مجید امجد نے چوں کہ کہ فتوے کے لیے شاعرانہ پیرایہ اختیار کیا، اس لیے جیل جانے سے محفوظ رہے! ’’ عروج‘‘ کی ادارت سے الگ کیے جانے کے بعد انہیں بے روزگاری کا عذاب نہیں جھیلنا پڑا۔ انہیں فوراً ڈسٹرکٹ بورڈ میں ہی ملازمت مل گئی۔ ایک اخبار کا سابق مدیر، ابھرتا ہوا شاعر اور بی اے پاس نوجوان کلرکی کا اہل سمجھا گیا۔ وہ آئندہ چار برس تک ڈسٹرکٹ بورڈ کی فائلوں پر کام کرتے رہے۔ اس طرح مجید امجد نے دس برس جھنگ میں ملازمت کر کے گزارے۔ مجید امجد کی زندگی ہنگامی خیزیوں سے کم و بیش تہی ہے، تاہم ان کی زندگی میں اگر سرگرمی اور قدرے ناہمواری کے کچھ عناصر ہیں تو یہ جھنگ میں ان کے دس سالہ قیام کی ہی دین ہیں۔ شیر افضل جعفری کا بیان ہے کہ ان دنوں جھنگ میں ’’ پنج بھیے‘‘ مشہور تھے۔ نواب سرفراز خان، کرنل سکندر علی حامی، شیر محمد شعری، لالہ امر ناتھ سہگل اور خود شیر افضل جعفری۔ ان دنوں جھنگ میں پانچ قسم کے پروگرام : فکری بیٹھکوں، علمی اکٹھوں، شعری چوکیوں، راگ رس اور چناب رنگ چلتے تھے جن میں یہ شریک ہوتے تھے۔ (13)قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تین پروگراموں کے محرک مجید امجد و شیر افضل جعفری تھے اور آخری دو کے محرک باقی اصحاب تھے تاہم ان میں ’’ سب کی‘‘ یکساں دلچسپی تھی۔ ان پروگراموں کی وساطت سے مجید امجد کو جھنگ کے لینڈ سکیپ اور کلچر کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بقول شیر افضل جعفری چناب رنگ کی محفل دریائے چناب کے کنارے برپا ہوتی۔ ’’ مسن پتن پرسرفراز خان اپنی غزل پال، جواں سال اور اندر چال ٹولی لے کر چنھاں کنارے بھرپور و مخمور قسم کا موج میلا جمایا کرتے تھے۔ گانے والیاں ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ روز انگور اور ساوی کے لال گلال اور ہرے بھرے جام چڑھائے جاتے تھے۔ پھر گھڑے لے کر سب مے بوٹی رنگے سینے سے نیچے تک رہتے ہوئے پانی میں اتر جاتے اور سریلی گائیکنیں سنگیت کی صورت میں لنگھ آ جا پتن چنھاں دا او یار لنگھ آ جا پتن چنھاں دا‘‘ کچھ اس دلبری سے الاپتیں کہ ایک مست سماں بندھ جاتا۔ راگ بھری کڑیوں، چڑیوں کی ٹکڑی بیچ میں ہوتی اور سننے والے متوالے ان کے گرد ہالہ باندھتے۔۔۔۔ مجید امجد ایسے میں پریوں کے مولا ناچ کا نشے ورگا مزہ لیتے۔ پھر وہیں دریائی مشاعرہ شروع ہو جاتا۔ اس کھارے کے دولھا مجید امجد ہوا کرتے تھے۔ (14) اسی زمانے میں جھنگ میں ’’ آتشیں نفس مغنیہ‘‘ خورشید کا چرچا ہوا۔ ناصر شہزاد نے مغنیہ کا نام اختر بائی لکھا ہے اور اسے چھوٹے غلام علی خاں کی شاگردہ بتایا ہے، مگر چونکہ شیر افضل جعفری خود اس مغنیہ کی محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں، اس لیے ان کا بیان ہی مستند سمجھنا چاہیے۔ ذوق نظر و ذوق سماعت کی تسکین کے لیے ’’ پنج بھیے‘‘ خورشید کے یہاں بھی پہنچے۔ ایک چھوٹے اخبار کے مدیر اور کمپلسری ایجوکیشن افسر کی بساط کہاں کہ وہ دربار حسن میں شرف بازیابی حاصل کر سکیں۔ ان کی بازیابی کا بھرم نواب سرفراز خاں کے دم سے تھا۔ چنانچہ ایک بار جب نواب صاحب نہیں تھے مگر ان کا دل رامش گاہ میں جانے کو مچل اٹھا تو شیر افضل جعفری کے ذہن رسا میں یہ تجویز آئی کہ شناساؤں سے لائبریری کے لیے چندہ اکٹھا کرنا چاہیے۔ آخر کمپلسری ایجوکیشن افسر اور شاعر تھے، لائبریری کا خیال نہ آتا تو کیا آتا! تھوڑے ہی وقت میںان کی ’’ نیک نیتی‘‘ رنگ لائی اور انہوں نے چالیس روپے بارہ آنے جمع کر لیے۔ اتنی رقم محفل نغمہ میں شریک ہونے کے لیے کافی تھی۔ لہٰذا انہوں نے دونوں کان بھر کر غالب سنا اور ’’ چہرۂ خورشید‘‘ کا تماشا کیا۔ا س نوع کی زندہ دلی کے واقعات مجید امجد کی زندگی میں دوبارہ نہیں ہوئے۔ شراب اور سگریٹ بھی انہوں نے جلد ہی ترک کر دی، پھر دونوں کو کبھی منہ نہیں لگایا۔ مجید امجد میں بلا کی قوت ارادی تھی! تاہم زندہ دلی کا عنصر ان میں بعد میں بھی موجود رہا۔ ناصر شہزاد نے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ اکرم خاں قمر کا ہے، جو دوسروں کی زمینوں میں شعر کہنے کے عادی تھے۔ وہ مجید امجد کی غزلوں میں شعر کہتے اور پھر انہیں سنانے، ان کے یہاں پہنچ جاتے۔ ایک مرتبہ اکرم خان قمر نے ایک مصرع لکھا اور ناصر شہزاد کو سنایا: دیکھا گیا نہ مج سے شب انتظار چاند او رکہا کہ دوسرا مصرع نہیں لکھا جا رہا۔ ناصر شہزاد نے اس پر مصرع لگایا اور مجید امجد کو قصہ سنایا۔ مجید امجد نے کہا کہ آؤ اس زمین میں غزل کہیں، دونوں نے مل کر غزل مکمل کی اور پھر اگلے چند روز میں ’’ نوائے وقت‘‘ میں چھپوا دی اور اخبار اکرم خاں قمر کو بھجوا دیا۔ (15)مجید امجد اور ناصر شہزاد نے اس واقعے سے لطف لیا۔ تاہم یہ زندہ دلی یہیں تک تھی اور اس کا مقصود لطف طبع تھا، دوسروں کی دل آزادی نہیں تھا۔ عروج کے زمانہ ادارت کی دوسری قابل ذکر سرگرمی اس کنکر سے شروع ہوتی ہے جو گھر سے دفتر عروج، واقع کھتیانوالہ بازار جاتے ہوئے مجید امجد کی طرف پھینکا گیا اور جب مجید امجد نے نظر اٹھا کر اس سمت دیکھا جہاں سے کنکر پھینکا گیا تھا تو ایک سلام خاموش نے ان کا استقبال کیا(16) یہ ایک معمولی واقعہ مجید امجد کی زندگی پر غیر معمولی اثرات چھوڑ گیا۔ مجید امجد نے ’’ پس پردہ‘‘ (1937) میں یہ سارا واقعہ نظم کیا ہے۔ نہ صرف لڑکی کے گھر کا پورا نقشہ کھینچا ہے، بلکہ اس کا نام بھی بتایا ہے: آمنہ۔ مجید امجد کے بچپن کے دوست اور انٹر تک ہم جماعت شیر محمد شعری نے آمنہ کو قصاب کی لڑکی بتایا ہے۔ ان کے گھر میں بیری کا درخت ہوا کرتا تھا۔ میونسپل کمیٹی نے اس درخت کی ایک شاخ پر لالٹین لٹکا رکھی تھی۔ مجید امجد نے اسے چراغ دیار حبیب کہہ کر اپنی نظم میں باندھا۔(17) لرز گئی تری لو میرے ڈگمگانے سے چراغ گوشہ کوئے حبیب کیا کہنا شیر محمد شعری مجید امجد کے محرم راز ہیں، انہوں نے مجید امجد کی آمنہ سے محبت کو خبط ٹھہرایا ہے، جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس محبت نے مجید امجد کے قلب و ذہن کو جکڑ لیا تھا اور اس بات کو مبالغہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ’’ ان دنوں وہ کھانا کھاتے ہوئے اس قدر کھو جاتے کہ ان کے سامنے سے سالن کی پلیٹ اٹھا کر خالی پلیٹ رکھ دی جاتی، انہیں کچھ پتہ نہ چلتا اور وہ خالی پلیٹ میں لقمہ ڈبو رہے ہوتے۔‘‘ (18) اس وارفتگی نے مجید امجد کی ’’ گرفتاری‘‘ کا حال کھول دیا اور ان کی والدہ کو فکر ہونے لگی، جو بالآخر مجید امجد کی شادی پر منتج ہوئی۔ ایک تو مجید امجد یقینا اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے، مگر ایک تو ان کی والدہ اپنی بہن کی بیٹی حمیدہ بیگم سے ان کی نسبت بچپن سے ہی طے کر چکی تھیں اور دوسرا آمنہ کی شادی بھی جلد ہی کر دی گئی تھی۔ مجید امجد کی طبیعت تصادم اور صریحاً انکار سے نفور تھی، اس لیے انہوں نے والدہ کے حکم کی تعمیل کی، چنانچہ 1939ء میں مجید امجد کی شادی اپنی خالہ زاد سے ہو گئی۔ مگر کیسے؟ یہ قصہ دلچسپ ہے۔ بیگم شعری کی زبانی سنیے: ’’ شادی کی تمام تقریبات منعقد ہوئیں اور مجید امجد نے ان میں بہ جبر و کراہ حصہ لیا۔ شادی والے دن مجید امجد نے لنگی باندھ رکھی تھی۔۔۔ رخصتی کے بعد مجید امجد اپنے گھر نہ گئے بلکہ ہمارے گھر آ گئے اور دلہن ان کے گھر اکیلی گئی۔ ان کو زبردستی پکڑ پکڑا کر ان کے گھر بھیجا گیا مگر وہ صبح سویرے 4بجے ہمارے گھر آ گئے۔‘‘ (19) مجید امجد کا حمیدہ بیگم سے گریز مسلسل رہا۔ مجید امجد کو نہ تو اپنی بیوی سے علیحدہ ہو سکے، نہ بیگم شعری کے بقول، بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر سکے اور نہ ہی دوسری شادی پر آمادہ ہو سکے۔ ازدواجی تعلقات سے گریز کیا ایک ناکام محبت کا زبردستی شادی کے کلاف نیم منتقمانہ رد عمل تھا یا بیوی سے شدید مزاجی اختلاف کا شاخسانہ تھا، کچھ وثوق سے کہنا مشکل ہے، شاید دونوں باتیں درست ہیں اور ان دونوں باتوں نے مجید امجد کی داخلی نفسیاتی زندگی کو غیر معمولی پیچیدگی کا شکار کیا ہو گا۔ اگر وہ واقعی ازدواجی تعلقات سے گریزاں رہے ہیں تو یہ محبت کے اس روایتی تصور پر صدق دل سے ایمان لانے کا نتیجہ ہے، جو محبت میں کسی دوسرے کی شرکت کو شرک و کفر قرار دیتا ہے۔ ساتھ جینے اور ساتھ مرنے، کے اس افلاطونی تصور محبت کو دل سے عزیز رکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ مجید امجد نے اپنے ایک دوست اور اس کی محبوبہ کے خود کشی کے واقعے کے آرزو مندانہ احساس کے تحت نظم کیا ہے اور نظم کا خاتمہ اس آرزو مندی پر کیا ہے: آؤ نا! ہم بھی توڑ دیں اس دام زیست کو سنگ اجل پہ پھوڑ دیں اس جام زیست کو مگر مجید امجد خود کشی کر سکے نہ دوسری شادی اور نہ ہی بیوی سے علیحدگی اختیار کر سکے۔ انہیں جتنا پاس محبت تھا اتنا ہی اپنی والدہ سے محبت اور اس کے حکم کا پاس تھا۔ دو محبتوں کے پاس میں شاید مجید امجد نفسی سطح پر برباد ہو جاتے، مگر ان کی خوش قسمتی کہ انہیں واقعات کو ریشنلائز کرنا آتا تھا۔ وہ ایک واقعے کو وسیع تر انسانی اور تاریخی حقائق کے تناظر میں رکھ کر سمجھنے اور پھر ایک خاص بصیرت اخذ کرنے اور بعد ازاں اس بصیرت سے اپنے اندر کی تاریکی کو روشن کرنے کے اہل تھے۔ مجید امجد کے اکثر احباب انہیں دوسری شادی کا مشورہ دیتے تھے۔ مجید امجد دوسری شادی کو جرم خیال نہیں کرتے تھے، مگر دوسری شادی نہ کرنے کے ان کے پاس جواز تھے۔ ایک جواز اخلاقی نوعیت کا ہے اور دوسرا اعلیٰ درجے کی بصیرت سے ماخوذ ہے۔ شیر محمد شعری نے لکھا ہے کہ: ’’ جب میں نے مجید امجد کو دوسری شادی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ میرے والد نے دوسری شادی کر کے کوئی گناہ تو نہیں کیا تھا لیکن اس حرکت کو میں نے کبھی پسند نہ کیا۔ کہنے لگے کہ میں حیران ہوں کہ آپ مجھے بھی وہی حرکت کرنے پر اکسا رہے ہیں جو مجھے اور میری والدہ کو ناپسند تھی۔‘‘ (20) گویا ان کے نزدیک دوسری شادی کو پسند نہ کرنے کا یہ جواز اور اخلاقی اصول کافی تھا کہ یہ ان کی والدہ کو سخت ناپسند تھی۔ نفسیاتی طور پر یہ والدہ کے ساتھ خود کو تماثل کے رشتے میں منسلک کرنے کا عمل ہے، خود کو اسی ذہنی صورت حال میں مبتلا محسوس کرنا ہے، جو ان کی والدہ کی تھی، والدہ کے کرب کو اپنا کرب بنا لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ حمیدہ بیگم سے ہمدردی کے بجائے اپنی والدہ کے درد میں شرکت کا مساویانہ (Empathic)عمل تھا۔ اس سے حمیدہ بیگم کو کیا ملا؟ حمیدہ بیگم کو بلاشرکت غیرے شوہر ملا، مگر اس کی محبت نہیں۔ مجید امجد ساہیوال رہے اور ان کی بیگم جھنگ۔ تاہم جب وہ جھنگ آتے تو ان کی بیگم سے ملاقات ضرور ہوتی۔ صفدر سلیم سیال نے دونوں کے جدا رہنے کی یہ توجیہہ کی ہے کہ ان کی اہلیہ کا تحصیل کیڈر تھا۔ انہیں اپنی تحصیل سے باہر تبدیل نہیں کیا جا ستا تھا اور مجید امجد آئے دن تبادلوں کی زد میں رہتے تھے۔ (21)یہ درست ہے کہ مجید امجد کے کئی شہروں میں تبادلے ہوئے، مگر اپنی عمر کے آخری اٹھائیس برس انہوں نے ساہیوال میں ہی گزارے۔ دونوں میں اگر خوشگوار تعلقات ہوتے تو باہم رہنے کی کوئی صورت نکالی جا سکتی تھی یا کم از کم گرما کی تین ماہ کی تعطیلات حمیدہ بیگم، مجید امجد کے ساتھ ساہیوال میں گزار سکتی تھیں، مگر وہ برابر جھنگ میں ہی رہیں۔ بالفرض دونوں میں محض سنگینی حالات حائل تھی تو پھر ان کے یہاں اولاد کیوں نہیں ہوئی؟ ظاہر ہے، اس کا سبب دونوں میں ازدواجی تعلقات کا نہ ہونا ہے۔ اولاد کی غرض سے ہی مجید امجد کے احباب چاہتے تھے کہ وہ دوسری شادی کر لیں۔ مگر اس کے جواب میں وہ اس اعلیٰ تر بصیرت کو بطور جواز پیش کرتے، جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ا ولاد کی خواہش کے کئی محرکات ہیں، جن سے اولاد کی خواہش کرنے والے اکثر واقف نہیں ہوتے، وہ فقط اس خواہش کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ حقیقتاً یہ خواہش آدمی کی ہے ہی نہیں۔ آدمی کی خواہش، جنس ہے، وہ جنسی آسودگی چاہتا ہے۔ فطرت آدمی (اور دوسری انواع) کو اس آسودگی کا لپکا دے کر اپنی بقا اور اپنا تسلسل چاہتی ہے اور آدمی کو اس فریب میں مبتلا کرتی ہے کہ یہ بقا خود آدمی کی ہے۔ بقا کی خواہش کی زد پر آ کر آدمی بطور شخص اور بطور نوع کے فرق کو بھول جاتا ہے۔ فطرت نوع کو قائم رکھنا چاہتی ہے، مگر آدمی اپنی شخصی بقا، اپنی اولاد میں دیکھتا ہے۔ مجید امجد فطرت کی اس کارکردگی کاعرفان رکھتے تھے، اس لیے اولاد کے ذریعے اپنی شخصی بقا کے فریب میں مبتلا نہیں تھے۔ شیر محمد شعری ایک مرتبہ ایک رشتہ لے کر مجید امجد کے پاس گئے۔ تب مجید امجد شاہدرہ، لاہور میں تعینات تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ رات کو میں نے ان سے بات کی تو کہنے لگے: صبح اس مسئلے پر گفتگو ہو گی۔ صبح ہوئی تو مجھے مقبرہ جہانگیر پر لے گئے اور کہنے لگے: آپ یہ ہزار کوٹھڑیاں دیکھ رہے ہیں، یہاں ایک ہزار حفاظ دن رات تلاوت قرآن پاک میں مصروف رہ کر مرحوم بادشاہ جہانگیر کی روح کو ثواب پہنچایا کرتے تھے اور آج اس واقعے کو صرف500 سال گزرے ہیں اور آج آپ اگر ایک آدمی بھی ڈھونڈ لائیں جو میرے پاس آ کر یہ کہہ دے کہ میں جہانگیر کا حقیقی وارث ہوں تو میں دوسری شادی کر لوں گا۔‘‘ (22) شیر محمد شعری کا واقعے پر تبصرہ ہے کہ مجید امجد اس سلسلے میں لا علاج تھے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مجید امجد نے اولاد کے ذریعے بقا کے غم کا علاج دریافت کر لیا تھا۔ اولاد کے ذریعے کوئی باقی نہیں رہتا۔ نہ عام آدمی نہ بادشاہ! عام طور پر تیسری پیڑھی اپنے پرکھوں کو فراموش کرنا شروع کر دیتی ہے۔ غالباً اسی تلخ حقیقت کے پیش نظر بادشاہ خود کو باقی رکھنے کے لیے عظیم الشان یادگاریں بنواتے ہیں، مگر وقت ان کے ساتھ کیاسلوک کرتا ہے، یہ بھی مجید امجد کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ اسے مجید امجد نے چند برسوں بعد (1956ء میں) اپنی نظم ’’ مقبرہ جہانگیر‘‘ میں پیش کیا۔ زنگ آلود کمر بند، صدف دوز عبا یہ محافظ، تہ محراب عصا تھامے ہوئے کھانستی صدیوں کا تھوکا ہوا اک قصہ ہیں اسی گرتی ہوئی دیوار کا اک حصہ ہیں گویا وقت کے آگے ہر شے گرتی ہوئی دیوار ہے۔ کوئی شے، کوئی شخص ہمیشہ کے لیے سلامت و باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر کیا مجید امجد بقا کی خواہش سے یکسر آزاد تھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے اولاد کے ذریعے بقا کی خواہش کو شاعری کے ذریقے بقا کی خواہش میں ضم کر لیا تھا؟ بظاہر ایسا لگتا ہے اور ان کی شاعری کا مطالعہ اس زاویے سے کیا جا سکتا ہے۔ بقا کی خواہش کو ان کی شاعری کے عمومی محرک کے طور پر اور بعض نظموں میں خصوصی محرک کے طور پر نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر مجید امجد بقا کی خواش کے اسیر محسوس نہیں ہوتے۔ وہ یہ عرفان رکھتے تھے کہ وقت کے سیل میں کسی شے کو بقا حاصل نہیں ہے، نہ آدمی کو نہ اس کے فن کو! ہر شے کو مخصوص عرصہ حیات حاصل ہے، اس کے بعد تیرگی لازوال ہے۔ آدمی کے پاس جو کچھ ہے، وہ لمحہ موجود ہے۔ مجید امجد اسی لیے لمحہ موجود کو اہمیت دیتے تھے، یہ دوسری بات ہے کہ یہ لمحہ بھی فنا کے احساس سے تہی نہیں۔ مجید امجد کو اگر فسردگی مجسم کہا گیا ہے تو اس کے پس منظر میں زندگی سے متعلق مجید امجد کے اس زاویہ نظر کو دیکھا جانا چاہیے۔ 1944ء میں سول سپلائز ڈیپارٹمنٹ قائم ہوا ’’ اشیاء کی قلت کی وجہ سے ان دنوں اشیائے خوردنی، ایندھن اور کپڑا راشن پر ملا کرتا تھا اور راشننگ کا کام اسی محکمے کے سپرد تھا۔ مجید امجد نے لاہور آ کر ٹیسٹ دیا۔ منتخب ہوئے اور انسپکٹر سول سپلائز مقرر ہو گئے۔ چند برسوں کے بعد ترقی پا کر اسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بن گئے۔‘‘ (23) مجید امجد نے پھر ساری عمر اسی محکمے (جسے بعد میں محکمہ خوراک بنا دیا گیا) میں اسی عہدے پر کام کرتے گزار دی۔ اسسٹنٹ فوڈ کنٹرول کے عہدے سے ہی وہ 29 جون1973ء کو ریٹائر ہوئے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں عہدے اور ترقی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عہدے اور ترقی سے صرف ان اصحاب کو غرج ہوتی ہے جو اختیارات، برتری اور دولت چاہتے ہوں، جو بنیادی ضرورتوں پر ’’ میٹا ضرورتوں‘‘ (خصوصاً شہرت، سماجی مرتبہ) کو ترجیح دیتے ہوں۔ مجید امجد ملازمت کو بنیادی ضرورتوں (مکان، خوراک، لباس) کی کفالت کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ تاہم وہ صرف اپنی ضرورتوں کا ہی خیال نہیں کرتے تھے، کئی دوسرے ضرورت مندوں کی بھی باقاعدہ مدد کیا کرتے تھے، مگر خود کسی سے کبھی قبول نہیں کرتے تھے۔ ناصر شہزاد نے اس ضمن میں کئی واقعات درج کیے ہیں۔ ایک واقعہ یہ ہے: ’’ ادب لطیف کی ادارت سے فراغت کے بعد قاسمی صاحب (احمد ندیم قاسمی) کے حالات بہت ہی عسرت سے گزرنے لگے۔ مجید امجد اس وقت جھنگ میں تھے۔ جب وہ اس امر سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اپنے نام سے چندہ جمع کیا اور قاسمی صاحب کو بھجوا دیا۔‘‘ (24) اسی طرح وہ اپنے عزیزوں کے اکثر کام آتے۔ مہمانوں کی تواضع خوشی سے کرتے۔ جب احباب جمع ہوتے تو بل ہمیشہ مجید امجد ادا کرتے۔ گویا وہ اپنی بنیادی ضرورتوں میں اپنے عزیزوں اور احباب کی بنیادی ضرورتوں کو شامل سمجھتے تھے۔ چونکہ یہ ضرورتیں، بہرحال مختصر تھیں، اس لیے انہیں عہدے اور ترقی سے غرض نہ تھی۔ یوں بھی بڑے عہدوں پر ترقیاں عموماً انہی لوگوں کو ملتی ہیں، جو اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں تعلقات بنانے اور انہیں بروئے کار لانے کا ہنر جانتے ہیں۔ مجید امجد اس ہنر سے عاری تھے۔ ان کی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ان کے بارے میں وہ خفیہ رپورٹیں بھی ہیں، جن میں انہیں ان کی انقلابی نظموں کی بناء پر اشتراکی نظریات کا علم بردار قرار دیا گیا تھا۔ (25) اسے ایک افسوس ناک واقعہ ہی قرار دیا جائے گا کہ نہ صرف ان کی ترقی روکی گئی بلکہ ان کی تنزلی بھی عمل میں آئی۔ انہیں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر سے انسپکٹر بنا دیا گیا۔ مجید امجد نے اپنے خلاف اس الزام کی صفائی میں کچھ کہنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تنزلی ان کی سماجی انا کو ٹھیس پہنچانے سے قاصر رہی، نیز انہیں اپنے امور منصبی میں صادق ہونے کا یقین حاصل رہا۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ انہیں ترقی پسندانہ نظریات رکھنے کی سزا دی گئی مگر ترقی پسند حضرات انہیں رجعت پسند خیال کرتے تھے، ان کی شاعری کو تاریخی شعور اور استحصال کے خلاف موقف سے عاری سمجھتے تھے! سول سپلائز ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے پہلے سات برسوں میں مجید امجد کا تبادلہ پنجاب کے کئی شہروں میں ہوا۔ انہیں لائل پور (فیصل آباد) گوجرہ، سمندری، تاندلیانوالہ، جڑانوالہ، چیچہ وطنی، مظفر گڑھ، لیہ، پاک پتن، اوکاڑہ، عارف والا، راولپنڈی، شاہدرہ، لاہور میں کام کرنا پڑا۔ اندازہ ہے کہ انہیں سال میں دو مرتبہ کسی نئی جگہ کے لیے رخت سفر باندھنا پڑتا ہو گا تاہم انہیں 1951ء میں اس اذیت سے نجات مل گئی، جب ان کا تبادلہ منٹگمری (ساہیوال) ہو گیا۔ بقیہ مدت ملازمت اور عمر عزیز انہوں نے وہیں گزار دی۔ یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ساہیوال ان کا انتخاب نہیں تھا۔ وہ سفارش اور خوشامد کے طبعاً اہل نہیں تھے، سرکاری ملازمت میں جس کی ضرورت کسی عہدے کے لیے اہلیت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ساہیوال میں ان کا تبادلہ اور وہاں ان کا قیام اتفاقات میں سے ہے۔ تاہم انہیں اگر ترقی مل جاتی تو پھر شاید یہ شہر چھوڑنا پڑتا۔ ساہیوال، ان کا انتخاب نہ ہونے کے باوجود انہیں بے حد پسند آ گیا تھا۔ اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے تھے۔ جعفر شیرازی کی یہ بات تسلیم کرنا تو مشکل ہے کہ انہوں نے جھنگ سے رابطہ نہ رکھا۔ (26) تاہم یہ درست ہے کہ ان کا جھنگ آنا جانا کم ہو گیا تھا۔ گویا رابطہ ٹوٹا نہیں، کم اور کمزور ہوا تھا۔ جھنگ بہ ہر حال ان کی روح میں بسا رہا خود ان کا کہنا ہے کہ ’’ جہاں بھی رہا ہوں، دیار جھنگ کی عطا کی ہوئی وارفتگی میرے ساتھ رہی ہے۔‘‘ (27) اس میں کلام نہیں کہ جھنگ ان کی روح میں بسا رہا ۔ مگر انہوں نے اس دیار میں مستقل قیام کا کبھی نہیں سوچا۔ وہ جھنگ آتے، مگر جوگی والے پھیرے کی طرح! یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جھنگ سے ان کی کئی تلخ یادیں وابستہ تھیں۔ انہوں نے 1937ء میں اپنی نظم ’’ جھنگ‘‘ میں اسے ’’ظلمستان‘‘ جحیم سوزاں اور پاپ کی بھٹی قرار دیا ہے اور ا سسے نکلنے کی خواہش کی ہے۔ یہ خواہش ان کی سات برس بعد پوری ہو گئی۔ نظم کو اگر سوانحی زاویے سے دیکھیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ نظم کا محرک حسد اور عداوت کا کوئی واقعہ ہے، جس نے انہیں جھنگ کو تنگ و تیرہ و بے رنگ و بو دیار مہیب او ریہاں کی زندگی کو دوزخ کی کالی رات سمجھنے پر مجبور کر دیا۔ امکان غالب ہے کہ یہ واقعہ ’’قلم قبیلے‘‘ کے کسی فرد کی طرف سے ہی پیش آیا ہو گا اور مجید امجد کو سخت آزردہ کر گیا ہو گا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ اگلے برس ہی جھنگ سے باہر گئے اور ریل میں واپس آ رہے تھے تو یہی جحیم سوزاں، خطہ نور و رنگ بن گیا۔ مرا خطہ نور و رنگ آ گیا ہے مرا سکھ بھرا دیس جھنگ آ گیا ہے خیر! یہ دونوں واقعات ایک شاعر کے دل پر گزرنے والی واردات کا قصہ سناتے ہیں۔ شاعر کا دل، فلسفی کے ذہن سے مختلف ہوتا ہے۔آخر الذکر کو غیر جذباتی اور مستقل صداقت کی تلاش ہوتی ہے، جب کہ شاعر کے لیے ہر لمحے کی الگ جذباتی صداقت ہوتی ہے !مجید امجد کا جھنگ سے تعلق رہا، مگر کم کم! وہ جب تک حیات رہے، جھنگ آتے جاتے رہے۔ والدہ زندہ تھیں تو ان سے ملنے آتے۔ اپنے احباب شعری، تقی الدین انجم، جعفر طاہر اور جعفری سے بطور خاص ملنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ساہیوال میں مستقل قیام کے نتیجے میں، مجید امجد کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان سب کو سمجھنا تو ممکن نہیں کہ اس امر کی دستاویزی شہادتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم اتنی بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ساہیوال آنے کے بعد ان کی زندگی ایک مخصوص ڈھب پر گزرنے لگی۔ مجید امجد چوں کہ اپنے نجی معاملات پر گفتگو کرنا پسند کرتے تھے نہ انہیں احاطہ تحریر میں لانے کے روادار تھے، اس لیے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ روز روز کے تبادلوں کو جھنجھٹ خیال کرتے تھے۔ ہر قسم کی صورت حال کو قبول کرنا اور شکوہ و شکایات نہ کرنا، ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ چند برس تک پنجاب کے مختلف شہروں میں سرگرداں رہنے کے باوجود تخلیقی سطح پر فعال رہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی نظم نگاری کا مخصوص ڈھنگ بھی قائم رہا۔ اپنے تخلیقی سیلف کو باہر کی مسلسل متغیر صورت حال کے پریشان کن اثرات سے محفوظ رکھنے کا غیر معمولی ملکہ ان میں تھا! اب مجید امجد کی زندگی میں پیڑن پیدا ہو گیا تھا۔ ان کے شب و روز ایک نظم کے تابع ہو گئے تھے۔ وہ صبح دفتر جاتے ’’ دفتر کے اختتام کے بعد4 بجے بزم فکر و ادب کی لائبریری میں جاتے۔ ایک گھنٹہ لائبریری میں گزارتے۔ وہاں سے 5 بجے روانہ ہو کر سٹیڈیم ہوٹل میں جا کر چائے پیتے۔ جوگی صاحب (صادق حسین جوگی سٹیڈیم ہوٹل کے مالک) کے پاس بیٹھتے اور 6 بجے کے قریب سیدھے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے۔‘‘ (28)ان کا گھر سیٹلائٹ ٹاؤن (اب فرید ٹاؤن) کے بلاک ایف کے کواٹر نمبر207میں تھا۔ گھر میں وہ اور ان کا ملازم علی محمد رہتے تھے۔ مجید امجد کی بقیہ زندگی کم و بیش اسی نظم کے تحت گزری ہے۔ لائبریری اور لائبریری میں ہونے والے ادبی جلسوں میں شرکت، ہوٹل او رگھر! اوقات آگے پیچھے ہو جاتے تھے، تاہم یہ سب ان کا معمول بن گیا تھا۔ اسرار زیدی نے لکھا ہے کہ مجید امجد ’’ سرکاری مصروفیات سے فارغ ہو کر بالعموم ڈیڑھ دو بجے میرے اخبار (روزنامہ ’’ خدمت‘‘ ) کے دفتر تشریف لے آتے تھے۔۔۔۔ ہم دونوں پیدل ’’ روز کیفے‘‘ پہنچ جاتے جہاں دوسرے احباب منتظر ہوتے۔۔۔۔ شام کو سٹیڈیم ریسٹورنٹ میں‘‘ (29)ظاہر ہے یہ نظم ہفتے کے چھ دن رہتا ہو گا۔ چھٹی کے دن وہ اپنے ساہیوال کے احباب کے ساتھ دیگر قریبی شہروں میں چلے جاتے تھے، دوستوں سے ملنے یا مشاعرے پڑھنے کے لیے! مجید امجد کے معمولات میں سب سے اہم لائبریری جانا تھا۔ انہوں نے اپنے گھر میں کتابوں کا کچھ زیادہ ذخیرہ نہیں کیا تھا۔ ان کے پاس کتابوں کی دو الماریاں تھیں۔ رسائل کے نمبر خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ یہ رسائل غالباً وہ تھے جن میں ان کی نظمیں وغیرہ شائع ہوئی تھیں۔ کتابوں میں زیادہ کتابیں اردو کی تھیں اور چند انگریزی کی۔۔۔۔ انگریزی کتابوں میں بیش تر جدید شاعری اور تنقید کے بارے میں تھیں۔ (30)ظاہر ہے مطالعے سے مسلسل اور غیر معمولی رغبت رکھنے والے شخص کے لیے یہ کتابیں ناکافی تھیں۔ چنانچہ وہ مطالعے کی پیاس بجھانے کے لیے باقاعدگی سے لائبریری جاتے تھے اور کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے۔ مجید امجد سب سے زیادہ ادب (بالخصوص شاعری) کا مطالعہ کرتے تھے۔ معاصر ادب سے انہیں بالخصوص گہری دلچسپی تھی، جس کی گواہی رسائل کی اس بڑی تعداد سے ملتی ہے جو ان کے گھر موجود تھی۔ وہ معاصر ادب کی چھوٹی بڑی کروٹوں سے برابر آگاہ رہتے تھے اور اس آگاہی میں اپنے احباب کو بھی شریک کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے دوستوں کے نام خطوط میں اشعار لکھ کر بھیجتے تھے۔ مگر یہ اشعار عموماً ان کے اپنے نہیں، معاصر شعراء کے ہوتے تھے، جنہیں وہ تازہ رسائل میں دیکھتے اور انہیں پسند آتے تھے۔ ان اشعارے مجید امجد کے ذوق شعر کی کیفیت اور معیار شعر کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کبیر انور جعفری کے نام خط محررہ18ستمبر1962ء میں احسن شیرازی کی غزل کا ذکر کرتے اور اس کی خوبی کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (احسن شیرازی) کی ایک غزل حال ہی میں ’’ ادبی دنیا‘‘ کے تازے شمارے میں چھپی ہے۔ زمین اس کی بڑی اچھوتی ہے۔ لب ردیف اور ملا ہوا قافیہ۔ ان کا ایک مصرع ہے: اب تک ہیں اس آگ کے افسانہ سرا لب یہ شعر سنیے: ضرور کہا تھا کہ تم بھی کرو کرم سے گریز ہمیں تو یاد تھی بے مہری جہاں یوں بھی انگریزی ادب پر بھی ان کی اچھی نگاہ تھی، تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے انگریزی فکشن کتنا پڑھا اور انگریزی شاعری کا مطالعہ کس قدر کیا؟ اندازہ ہے کہ انہیں فکشن سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ ان کے بارے میں لکھی گئی کسی تحریر میں اس طرف اشارہ تک موجود نہیں۔ تاہم جدید انگریزی شاعری سے انہیں رغبت تھی۔ انہوں نے 1958ء میں جدید امریکی شعراء کی نظموں کے تراجم بھی کیے تھے۔ سائنسی موضوعات پر بھی وہ اکثر کتب اور مضامین کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ اس امر کی تائید ان کی نظموں سے بھی ہوتی ہے اور سائنس میں انہیں زیادہ دلچسپی فلکیات سے تھی۔ انہوں نے فلکیات پر اردو میں ایک کتاب لکھنا شروع کی، مگر پھر یہ سوچ کر کہ ’’ یورپ اور امریکا میں اس موضوع پر اچھی سے اچھی کتاب موجود ہے‘‘ (31) اسے نامکمل ہی رہنے دیا۔ مجید امجد کی فلکیات سے دلچسپی محض اتفاقیہ نہیں تھی۔ وہ زندگی اور اس کے مقصد و منشا سے متعلق جس وژن کے علم بردار تھے، فلکیات کا علم اس وژن کو تجربی بنیاد مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس علم میں ان کی دلچسپی حقیقی اور ان کی باطنی طلب کی پیداوار تھی۔ مجید امجد کی تربیت حنفی العقیدہ سنی دینی گھرانے میں ہوئی، اس لیے ابتداء میں وہ مذہبی تصور کائنات (World View)کے علم بردار تھے۔ نہ صرف مذہبی شعائر اور رسومات کی پابندی کرتے تھے بلکہ زندگی اور کائنات کی تفہیم بھی مذہبی زاویے سے کرتے تھے۔ تاہم ان سب میں وہ غلو نہیں کرتے تھے، جس کی توقع ان کے خاندانی پس منظر سے کی جا سکتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان کے تصور کائنات میں تبدیلی آتی چلی گئی اور وہ سائنسی تصور کائنات کے حامل ہو گئے۔ اس کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ابتداء میں وہ حالی اور اقبال کے مداح تھے۔ یہ مداحی محض ان اکابر کی شعری شہرت و عظمت کے سبب نہیں تھی مجید امجد ان کے تصور کائنات میں خود کو باطنی طور پر شریک محسوس کرتے تھے، مگر1940ء کے لگ بھگ مجید امجد باطنی طور پر ایک نئی دنیا میں خود کو محسوس کرنے لگے۔ نتیجتاً ان کی دنیا حالی و اقبال کی دنیا سے الگ ہو گئی اور یہ دنیا سائنسی تصور کائنات کی پیدا کردہ ’’ دنیا‘‘ تھی! خواجہ محمد زکریا کا یہ کہنا بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ ’’ مجید امجد نے اردو شاعری۔۔۔۔ کے روایتی پس منظر کو بالکل بدل دیا ہے۔ وہ حیاتیات کے علماء کی پیروی میں جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانوں کو ایک سلسلے میں منسلک کر دیتا ہے۔ وہ ماہرین طبقات الارض کی تحقیقات کی روشنی میں زمین کے طبقات، اس کی عمر اور اس کی بدلتی ہوئی کیفیات کی طرف واضح اشارے کرتا ہے۔ اس طرح جدید علم ہیئت کے اضافوں سے مدد لیتے ہوئے مسدود اور مقفل کائنات کے تصور کو بے حد و بے کنار کائنات کے تصور میں بدل دیتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جدید اردو شاعری میں سائنسی پس منظر رکھنے والا پہلا شاعر ہے۔‘‘ (32) سائنسی تصور کے مطابق کائنات مسدود و مقفل نہیں، بے حد و بے کنار ہے۔ یہ کروڑوں کہکشاؤں پر مشتمل ہے، اور کروڑوں نوری فاصلوں کی حامل ہے۔ اتنی بڑی کائنات، جس کی بے کرانیت انسان کے عظیم الشان تخیل میں نہیں سما سکتی، انسان کو اس شرف سے محروم کرتی ہے، جو مدود و مقفل کائنات کے تصور کے تحت انسان اپنے لیے فرض کر لیتا ہے۔ بے کراں کائنات میں انسان ایک معمولی اور حقیر مخلوق ہے اور اسی لیے اس کے مقاصد بھی حقیر ہیں۔ انسان کی عظمت بس یہ ہے کہ وہ واحد مخلوق ہے جو آگاہی رکھتی ہے، مگر یہ آگاہی، انسان کو روایتی کائناتی تصور کے تحت حاصل شرف نہیں لوٹاتی۔ مجید امجد کی زندگی اگر تکبر، برتری و فضیلت کے احساس سے تہی ہے اور حقیقی انکسار سے عبارت ہے تو اس کی وجہ یہی سائنسی تصور کائنات ہے۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد نے اخلاقی تصورات، سائنسی تصور کائنات سے اخذ کیے اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا۔ اور یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آدمی سائنسی نظریات کو رٹنے کے بجائے، سائنسی شعور حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ مجید امجد اپنی آخری عمر میں خاصے مذہبی ہو گئے تھے۔ خواجہ محمد زکریا نے ہی لکھا ہے کہ فروری1974ء میں ان کی آخری ملاقات مجید امجد صاحب سے ہوئی تو دونوں نے مولوی احمد یار کی امامت میں جمعے کی نماز ادا کی۔ خواجہ صاحب نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے لیے مجید امجد کی زندگی کا یہ رخ بالکل نیا تھا۔ (33)جس کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے مجید امجد کو مذہبی رسومات کی پابندی کرتے نہیں دیکھا تھا۔ کچھ نقادوں نے ان کی آخری نظموں میں بھی ان کے مذہبی میلان کی نشان دہی کی ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آدمی ڈھلتی عمر میں اسی طرف لوٹ آتا ہے، جس سے وہ چڑھتی جوانی میں دور ہو گیا ہوتا ہے۔ مگر یہ مراجعت صرف انہی لوگوں کی زندگی میں ہوتی ہے جن کا انکار جذباتی یا رواجی ہوتا ہے، وہ محض جذبات کے زیر اثر یا پھر دوسروں کی دیکھا دیکھی انکار کرتے ہیں، پھر جب جذبات کا طغیان باقی نہیں رہتا اور وہ صحبتیں بھی بکھر جاتی ہیں تو آدمی اپنی ’’ اصل‘‘ کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اس واپسی میں ایک کردار اس خوف کا بھی ہے جو آخری عمر میں جسم کی دیوار کے لمحہ بہ لمحہ گرنے کے مسلسل احساس سے طاری ہوتا ہے۔ مگر مجید امجد کے ساتھ تو یہ معاملہ نہیں تھا۔ مجید امجد کے یہاں انکار موجود تھا، مگر یہ پر خروش نہیں، خاموش تھا، جذباتی اور رواجی نہیں، عقلی تھا۔ مجید امجد بے کراں کائنات میں خود کو معمولی مخلوق خیال کرتے تھے، اس لیے اس مخلوق کا انکار و اثبات کچھ ایسا اہم واقعہ نہیں تھا کہ اس کا بلند بانگ اعلان کیا جاتا۔ ان کا انکار نہایت بالواسطہ طور پر ان کی نظموں کی گہری تہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ آخری عمر میں مذہبی رسومات کی پابندی، خوف مرگ کے باعث نہیں، اظہار عجز کے طور پر تھی۔ اور اگر ان کی آخری نظموں میں تصور خدا کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اس تصور سے مختلف تصور ہے، جو انہیں خاندانی تربیت اور ماحول سے عطا ہوا تھا! لہٰذا یہ مراجعت نہیں، ایک نئے تصور کی طرف ان کی پیش قدمی تھی! مجید امجد کی تنہائی پسندی، کم آمیزی، کم گوئی اور افسردگی کا ذکر ان کے اکثر ملنے والوں نے کیا ہے۔ مقصود زاہدی نے ان سے ملاقات کے بعد اپنے تاثرات میں لکھا ہے۔ ’’ یہ خاموش سا انسان اتنا ممتاز شاعر ہونے کے باوجود ان سب سے کس قدر مختلف ہے، نہ رعب دار شخصیت نہ پوشاک کا زیب و زینت، نہ لطیفے نہ شاعرانہ کاہلی کے سہارے، اپنے فرائض سے گریز کی سعی نہ نمائش، نہ ستائش باہمی کا منافقانہ سلوک، بس خاموشی ہی خاموشی، جیسے کسی تارک الدنیا سنیاسی کے پاس چلا آیا ہوں اور اس کے ذہنی سکون میں خلل انداز ہوا ہوں۔‘‘ (34) ہر چند مجید امجد ساہیوال کی ادبی مجالس میں شریک ہوتے تھے اور وہاں گفتگو بھی کیا کرتے تھے، دوسروں سے اختلاف بھی کر لیا کرتے تھے، مگر وہ مزاجاً کم آمیز اور کم گو تھے۔ کم آمیز لازماً کم گو بھی ہوتا ہے۔ کم آمیزی اور کم گوئی کی ایک وجہ نفسیاتی اور دوسری وجہ عرفانی ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو بے دخل کرنے والی (Mutually Exclusive)نہیں ہیں۔ کسی کے ہاں یہ دونوں موجود ہو سکتی ہیں، مگر صرف اس صورت میں کہ نفسیاتی وجہ کو عرفانی وجہ کی بنیاد بنایا جائے، یا پہلی کو، دوسری سے بدل دیا جائے۔ بہرکیف کچھ لوگ اس لیے کم لوگوں سے ملتے اور کم گفتگو کرتے ہیں کہ وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی سوشلائزیشن میں کہیں کوئی رخنہ رہ جاتا ہے۔ جب کہ بعض لوگوں کی کم آمیزی اور کم گوئی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ انہیں میل جول اور بات چیت کی ضرورت و عدم ضرورت کا عرفان ہوتا ہے۔ چنانچہ نہ وہ ہر ایک سے میل جول رکھتے ہیں اور نہ وہ ہر وقت اور ہر موضوع پر گل افشانی گفتار کا مظاہرہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ کون سی بات کب کہنی، کتنی کہنی، کس سے کہنی اور کس وقت کہنی ہے۔ مجید امجد کی سوشلائزیشن میں ایک رخنہ تو فی الفور نظر آتا ہے۔ ان کا والد کے بغیر اپنی عمر کے وہ ماہ و سال گزارنا، جو سما جیا نے کے ضمن میں بے حد اہم ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے ماں کی شدید محبت اور والد کی توجہ سے محرومی نے مجید امجد میں جھجک ایسا نسائی عنصر پیدا کر دیا ہو اور ان کی طبیعت میں دروں بینی شامل ہو گئی ہو اور وہ سماجی تعلقات میں اعتماد کی کمی کے شکار ہوئے ہوں۔ اس بات کی تائید ایک حد تک مشاعروں میں ان کی شعر خوانی سے بھی ہوتی ہے۔ ’’ مشاعروں میں مجید امجد صاحب کلام پڑھتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کلام والا کاغذ اس طرح پھڑکتا جیسے کوئی پرندہ آزادی حاصل کرنے کے لیے پر پھڑپھڑا رہا ہو۔‘‘ (35) تاہم مجید امجد کی کم آمیزی و کم گوئی کی واحد وجہ یہ نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو مجید امجد کسی نفسیاتی پیچیدگی (کمپلیکس) کا لازماً شکار ہوتے اور اس کا اظہار ان کے رویوں میں بے اعتدالی کی صورت میں ہوتا۔ نفسیاتی وجہ سے کم آمیزی کے عادی لوگ دوسروں سے شاکی رہتے ہیں ان کے رویوں، عادات اور طرز عمل کے نکتہ چیں رہتے اور اپنی حقیقی یا فرضی خوبیوں کی مدح سرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسروں کی ہر وقت شکایت کرنے والے، اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کے مداح ہوتے ہیں جب کہ مجید امجد کا معاملہ یہ تھا کہ: ’’ ہمیشہ انہیں مدح و ذم سے مستغنی پایا‘‘ (36) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اشیائ، افراد، تعلقات، گفتگو سب کا عرفان رکھتے تھے۔ انہیں خبر تھی کہ کیا شے اہم اور کیا غیر اہم ہے۔ لوگ اور ان سے تعلقات کی ضرورت و اہمیت کیا ہے، کیا بولنا ضروری اور کیا نہ بولنا مناسب ہے؟ گمان غالب ہے کہ انہیں یہ عرفان تلخ تجربات اور نفسیاتی اسباب کی بدولت ہی حاصل ہوا تھا، مگر کچھ اس طور کہ انہوں نے تلخ تجربات کی ناگزیریت کو قبول کر لیا تھا اور نفسیاتی اسباب پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ اس عرفان کی بناء پر ہی وزیر آغا نے یہ رائے ظاہر کی کہ ’’ اس نے (مجید امجد صاحب) اپنی شاعرانہ عظمت کے عرفان کے باوصف ایک درویش کی سی زندگی بسر کی۔‘‘ (37) بے شبہ مجید امجد درویش تھے۔ وہ نہ دنیا کے پیچھے بھاگتے تھے، نہ شہرت اور دولت کا تعاقب کرتے تھے اور نہ سماجی مرتبے کی تمنا سے ان کا دل آلودہ تھا۔ دولت اور سماجی مرتبے کی تمنا سے ان کے دل کے خالی ہونے کی ایک قابل قبول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی اور نہ اولاد سے محرومی کا دکھ ان پر غالب تھا۔ دولت کی خواہش کا اگر ایک محرک آسائش پسندی، طاقت و تصرف اور نمود و نمائش کے جذبات ہیں تو دوسرا اور غالباً قوی محرک اولاد ہے۔ آدمی جب اپنی بقا اولاد میں دیکھتا ہے تو ان کی بقا و بہتری کے لیے مادی اسباب جمع کرنے لگتا ہے۔ مجید امجد کس کے لیے دولت جمع کرتے اور کس کو وراثت میں بڑا سماجی مرتبہ دینے کی خواہش کرتے؟ وہ چونکہ کم آمیز اور کم گو تھے، اس لیے کسی کو دکھ بھی نہیں پہنچاتے تھے نہ زبان سے، نہ عمل سے اور نہ زبان قلم سے! تاہم انہیں کئی لوگوں نے دکھ پہنچائے مگر وہ ان کا گلہ نہیں کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ وہ دکھ کو محسوس نہیں کرتے تھے۔ صرف پتھر دل ہی دکھ کو محسوس نہیں کرتے۔ مجید امجد پتھر دل نہیں تھے۔ دکھ کو شدت سے محسوس کرتے تھے مگر اسے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ مجید امجد کی خاموشی و تنہائی کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ انہیں کئی لوگوں نے دکھ دیے۔ اپنے ذاتی تجربوں اور مشاہدوں کی بناء پر وہ ان لوگوں سے کٹ جاتے تھے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان سے دوستی اور محبت کا دعویٰ کرتے تھے۔ اس قسم کے تجربوں اور مشاہدوں نے مجید امجد کی نجی زندگی میں زہر گھول دیا اور ایسے لمحات بھی آئے جب وہ بالکل تنہا ہو کر رہ گئے مگر یہ تنہائی ان کی اپنی پیدا کردہ نہ تھی بلکہ ان منافقتوں کا رد عمل تھی جو گرد و پیش کے بعض لوگوں کے رویوں سے ظاہر ہوئیں۔ (38) انسانی تعلقات ہوں یا عادات، مجید امجد جب ایک بار ان سے کنارہ کش ہوتے تھے تو مراجعت نہیں کرتے تھے۔ شراب اور سگریٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے پر تادم مرگ قائم رہے۔ ’’ مراتب اختر اور انہوں (مجید امجد صاحب) نے اکٹھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ مراتب اختر نے تھوڑا عرصہ بعد پھر سگریٹ پینے شروع کر دیے لیکن مجید امجد آخری دم تک اس فیصلے کے پابند رہے۔‘‘ (39) وہ انسانی تعلقات کی استواری و انقطاع میں بھی اسی استقامت مزاج کا مظاہرہ کرتے تھے۔ خود تعلقات منقطع نہیں کرتے تھے۔ ان کے دوستوں کا حلقہ وہی رہا جو جھنگ اور ساہیوال میں بنا تھا۔ جھنگ میں شیر محمد شعری، تقی الدین انجم، شیر افضل جعفری، جعفر طاہر، خواجہ محمد زکریا، صفدر سلیم سیال اور کبیر انور جعفری سے آخری دم تک تعلقات قائم رہے۔ ساہیوال کے احباب جعفر شیرازی، ناصر شہزاد، اسرار زیدی، منیر نیازی سے بھی دوستانہ رسم و راہ باقی رہی۔ تاہم بشیر احمد بشیر سے جب رنجش ہوئی تو ان سے ہمیشہ کے لیے تعلقات منقطع کر لیے۔ سردار تخت سنگھ بھی مجید امجد کے احباب میں شامل تھے، جو ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں میں مدرس تھے، مجید امجد جدید نظم کے اس قابل ذکر شاعر سے ملنے اکثر جاتے تھے۔ ان کی ’’ نظم کنواں‘‘ تخت سنگھ کے گاؤں کی ہی یادگار ہے۔ مجید امجد دوسروں کی عزت نفس اور ان کی فلاح و بہتری کا مقدور بھر خیال کرتے تھے اور احسان جتانے سے گریز کرتے تھے۔ ناصر شہزاد نے انکشاف کیا ہے کہ: ’’ مجید امجد سے بہت سارے شاعر اپنی شعری تخلیقات درست کرایا کرتے تھے لیکن کمال ہے اس آدمی کا کہ اس نے ایک بار بھی اپنی زبان سے یہ کہا ہو کہ فلاں شاعر کی فلاں چیز میں میرے اتنے شعر ہیں۔۔۔ مجید امجد بعض شعرا کو تو پوری پوری چیزیں لکھ دیا کرتے تھے، جن میں ہم بھی شامل ہیں۔ مراتب اختر، اشرف قدسی، جعفر شیرازی اور راقم الحروف۔‘‘(40) ان کے علاوہ جعفر طاہر، کبیر انور جعفری اور احسن شیرازی بھی مجید امجد سے اصلاح لیتے رہے ہیں۔ اگرچہ جعفر شیرازی نے اس امر کا اعتراف نہیں کیا مگر ناصر شہزاد کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی کتاب ’’ ہوا کے رنگ‘‘ میں متعدد اشعار مجید امجد کے ہیں۔ ناصر شہزاد نے یہ چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا ہے کہ جب منیر نیازی نے اپنے اشاعتی ادارے اورنگ پبلشرز کے تحت ہفت روزہ ’’ سات رنگ‘‘ نکالنا شروع کیا اور مجید امجد نے ان کی معاونت و راہنمائی کی وہ انہی دنوں اپنا مجموعہ ’’ تیز ہوا اور تنہا پھول‘‘ مرتب کر رہے تھے تو وہ بھی مجید امجد سے مشورہ کرتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ مجید امجد نے اپنے شاگردوں کی کتابوں کے دیباچے بھی لکھے۔ ان میں منیر نیازی، جعفر شیرازی اور ناصر شہزاد شامل ہیں۔ مجید امجد نے کبھی انہیں اپنے شاگرد نہ کہا، انہیں اپنے احباب میں ہی شمار کیا۔ مجید امجد کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتے تھے مگر دوسروں کے کام آنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ مجید امجد کو وراثت میں کم زور بینائی اور تپ دق کا موذی مرض ملا تھا (ان کے ماموں زاد اور دوست اختر علی کی موت اسی مرض سے ہوئی۔ ان کی والدہ کی مرگ بھی تپ دق سے ہی ہوئی۔)1972ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بیمار رہنے لگے تھے، مگر کسی کو اپنی بیماری سے آگاہ نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی صحت کی بابت پوچھتا بھی تھا تو کسی فکر مندی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اکثر احباب کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی پنشن جاری ہونے میں کم و بیش دو سال لگ گئے۔ بعض لوگوں نے ان کے علاج کے لیے سرکاری امداد کی کوشش بھی کی، اچھا ہوا وہ اس وقت کامیاب ہوئی جب مجید امجد رخت سفر باندھ چکے تھے۔ ورنہ مجید امجد کبھی قبول نہ کرتے۔ صفدر سلیم سیال، جاوید قریشی اور دیگر نے ان کے علاج کے لیے ان سے درخواست کی، مگر انہوں نے سب کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ وہ اپنے معالج سے مطمئن ہیں۔ سٹیڈیم ہوٹل کے مالک صادق حسین جوگی نے ’’ ان کی بیماری کے علاج کے لیے ایک دوا 500 روپے کی خرید کر دی۔ یہ مجید امجد کی بیماری کے لیے نہایت ضروری تھی لیکن مجید امجد نے یہ دوا اس وقت تک کھانے سے انکار کر دیا جب تک وہ اس کی قیمت نہ چکا چکے۔‘‘ (42) دوسری طرف اپنی زندگی میں وہ کئی لوگوں کے کام آئے۔ وہ اپنی تنخواہ کا معقول حصہ اپنی بیوی اور خالہ زاد سردار بیگم کے نام منی آرڈر کر دیا کرتے تھے۔ مجید امجد بھلے ہی حقوق زوجیت ادا نہ کرتے ہوں، شرعی اور قانونی حقوق کی ادائیگی سے انہوں نے کبھی پہلو تہی نہ کی۔ مجید امجد کی کشادگی قلب کا ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ’’ اشرف قدسی مجید امجد کے کہیں قریب ہی سیٹلائٹ ٹاؤن میں مقیم تھے۔ مجید امجد انہیں روزانہ صبح کے وقت کالج کی سمت پیدل جاتے ہوئے دیکھتے۔ ایک دن صبح سویرے مجید امجد نے اپنی سائیکل تھامی اور اشرف قدسی کے کوارٹر کی طرف چلے گئے۔ انہیں بلایا اور کہنے لگے: اشرف صاحب! اب آپ اس سائیکل پر کالج جایا کریں۔ میں اپنے لیے کوئی اور خرید لوں گا تب سائیکل پرمٹ پر ملا کرتے تھے، جو کہ محکمہ فوڈ ہی جاری کرتا تھا۔ ‘‘ (43)اسے حقیقی ایثار ہی کہنا چاہیے: اپنی وہ چیز بے طلب اور پورے خلوص کے ساتھ کسی کو پیش کر دینا، جس کی آدمی کو اتنی ہی ضرورت ہو جتنی دوسرے کو۔ اپنی ضرورت سے زائد چیز دوسروں کی نذر کرنا خیرات ہے، مگر اپنی ضرورت کی شے دوسروں کی خدمت میں پیش کرنا ایثار ہے۔ اسی طرح پانچ چھ ماہ تک احمد ہمیش کی مہمان نوازی کی۔ احمد ہمیش ایک مرتبہ کمالیہ کسی سے لڑ بھڑ کر سر اور ماتھے پر پٹیاں بندھوا کر ساہیوال مجید امجد کے پاس آئے تو انہوں نے پہلے دو دن ناصر شہزاد کے پاس اسے ٹھہرایا، پھر بشیر احمد بشیر کے باغ میں ٹیوب ویل کے ساتھ والا سے کمرہ لے کر دیا، پھر ڈسٹرکٹ کونسل کے سیکرٹری شیخ ظفر علی سے کہہ کر ان کے لیے نوکری کا بندوبست کیا۔ سعید الرحمان فرخ (جو بعد میں جسٹس بنے) سے فرمائش کر کے احمد ہمیش کو سائیکل دلوا دی اور ان کے ناشتے اور دو وقت کے کھانے کا انتظام پاک پتن بازار میں ایک اعلیٰ ہوٹل پر خود کرایا، جس کا ماہ بہ ماہ بل مجید امجد ہی ادا کرتے رہے۔ (44) معلوم نہیں تشکیل کے مدیر احمد ہمیش کی یادوں میں اس درویش شاعر کی یادوں کا کبھی گزر ہوتا ہے کہ نہیں! خود احسان نہ لینے، مگر دوسروں کے کام آنے کے لیے ہر دم اور بساط بھر آمادہ رہنے کا سبب غالباً یہ تھا کہ مجید امجد کسی کو ذرا بھر دکھ نہیں دینا چاہتے تھے۔ جب لوگ ان کے کام آنے کا عزم کرتے تھے تو کچھ نہ کچھ زحمت انہیں ہوتی تھی۔ مجید امجد کسی کو زحمت دینے کے روادار نہ تھے، اسے مجید امجد کی انانیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، خود احسان نہ لینے کو اگر مجیدامجد کی انانیت قرار دیا جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دوسروں کی مدد کر کے ان کی انا ہی تسکین پاتی تھی اور دوسروں کا احسان ان کی انا پر چوٹ کی طرح پڑتا تھا، مگر یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ اگر دوسروں کی مدد میں وہ تسکین انا کا سامان ڈھونڈتے تو پھر اس کا ڈھنڈورا ضرور پیٹتے کہ انا تو ہر حال میں اور ہر جگہ اپنا اعلان چاہتی ہے۔ جب کہ مجید امجد نے کسی کے ساتھ بھلائی کا ذکر تک نہیں کیا۔ وہ نیکی اور خیر کے اس تصور پر یقین رکھتے تھے جس کے مطابق ایک ہاتھ کی نیکی کا علم دوسرے ہاتھ کو نہیں ہوتا۔ مجید امجد کو 1973ء میں ان کے اعزہ نے ایک مقدمے میں ملوث کر دیا تھا۔ مجید امجد کو ناچار جھنگ کا سفر کرنا پڑا اور بیماری اس پر مستزاد! مگر انہوں نے مقدمے کا جواب دعویٰ داخل کرتے وقت پورا اہتمام کیا کہ ان کے کسی عزیز کے ساتھ نہ تو نا انصافی ہو اور نہ کسی کو تکلیف پہنچے۔ قصہ یہ تھا کہ مجید امجد کے بھانجے غالب علی نے یہ مقدمہ دائر کیا کہ مجید امجد کے والد علی محمد نے اپنی جائیداد تقسیم کرتے وقت اس کی والدہ کے ساتھ انصاف نہ کیا۔ چنانچہ اس نے مجید امجد اور ان کے سوتیلے بھائیوں عبدالکریم اور محمد بخش تینوں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ اسے مجید امجد کی خوش قسمتی اور نیک نیتی کا پھل کہنا چاہیے کہ انہیں اس مقدمے میں جھنگ کے زیادہ سفر نہیں اختیار کرنے پڑے جو ان کی علالت کی وجہ سے ان کے لیے اچھی خاصی زحمت کا باعث ہوتے۔ جلد ہی فریقین میں مصالحت ہو گئی۔ قیام ساہیوال میں مجید امجد کی شخصیت دیوتا سے کم نظر نہیں آتی۔ لوبھ، موہ اور کرودھ، کسی سے ان کی شخصیت داغ دار دکھائی نہیں دیتی۔ واحد واقعہ جو اس دیوتا کی شخصیت میں بشریت کی نمود کرتا ہے، وہ شالاط سے ان کی محبت ہے ۔ تاہم یہ واقعہ جس طور رونما ہوا ہے، اس سے نہیں لگتا کہ بشریت ان کے لیے داغ بنی ہو۔ مجید امجد جمال پسند تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں گلاب اور موتیا کے پودے لگائے ہوئے تھے، جن کی آبیاری اور دیکھ بھال وہ بذات خود کرتے تھے۔ (45) سٹیڈیم ہوٹل میں نئے سال کے کیلنڈر پر فلم سٹار صبیحہ خانم کی خوش آمیز اور جلوہ خیز تصویر دیکھی، انہماک اتنا تھا کہ ہاتھ لرزا اور پیالی ہاتھ سے گر گئی (46) گویا حسن کہیں ہوتا، مجید امجد کی توجہ کھینچتا، پھولوں، تصویروں، شعروں اور انسانوں سب کا حسن ان کی روح کے تار چھیڑ دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ حسن کے مظاہر سے متاثر ہونے کے تجربات ان کی کئی نظموں کا محرک ثابت ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تصویر، زینیا اور گلاب کے پھول، ردیف والی غزل بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں ستمبر1959ء میں جرمنی کی سیاح شالاط ساہیوال وارد ہوئی۔ وہ سٹیڈیم ہوٹل میں ہی آ کر ٹھہری جو مجید امجد کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ شالاط ’’ ایک لڑکی تھی اور منٹگمری شہر میں گھومنے پھرنے کی خواہاں بھی تھی۔ اس نے جوگی صاحب سے خود یہ خواہش کی تھی کہ اسے کسی ایسے شخص سے ملایا جائے جو اس خطے کی تہذیب اور اس تہذیب کے پس منظر سے اسے آگاہ کر سکے۔ سو مجید امجد صاحب سے بہتر جوگی صاحب کو کوئی آدمی نظر نہ آیا۔‘‘ (47) تجرد کی زندگی بسر کرنے والے چوالیس سالہ، جمال پسند، مجید امجد نے سراپا حسن شالاط کے ساتھ ساہیوال اور ا سکے گرد و نواح کی سیر و سیاحت کئی دن کی۔ کبھی دونوں سائیکل پر شہر میں نظر آتے، کبھی تانگے میں، کبھی پیدل چلتے ہوئے۔ تصویر حسن کو دیکھنے سے جس کے ہاتھوں سے چائے کی پیالی گر گئی تھی، سراپا حسن کی معیت میں کیا اسے دل پر اختیار رہا ہو گا؟ یقینا نہیں۔ مجید امجد شالاط کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ یہ آمنہ کے بعد دوسری لڑکی تھی جو مجید امجد کی زندگی میں داخل ہوئی۔ مگر ایک چڑھتی جوانی کے وقت اور دوسری ڈھلتی عمر کے آغاز میں۔ تاہم دونوں کے سلسلے میں مجید امجد کا طرز عمل اور تقدیر یکساں تھی۔ مجید امجد میں پیش قدمی اور پیش دستی کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور ان کی تقدیر میں اپنی محبوباؤں سے سدا کے لیے بچھڑ جانا لکھا تھا۔ شالاط واپس چلی گئی۔ مجید امجد اسے کوئٹہ تک چھوڑنے گئے، جہاں سے وہ آگے ایران کی سیاحت کے لیے روانہ ہوئی۔ مجید امجد شالاط کو تحفے میں چوڑیاں دینا چاہتے تھے۔ چوڑیاں ان کے پاس تھیں، مگر نہ دے سکے۔ کیا اس لیے کہ مجید امجد کو ہمت نہیں ہوئی؟ یا اس لیے کہ وہ چوڑیوں کی علامتی معنویت سے آگاہ تھے، جس سے شاید ایک مغربی لڑکی آگاہ نہ تھی۔ انہیں اندیشہ تھا کہ ان کے تحفے کی مشرقی علامتی معنویت ایک آزاد خیال مغربی لڑکی نہ سمجھ سکے گی؟ یا اس لیے کہ چوڑیاں ان کی محبت کا وہ راز آشکار کر دیتیں، جسے غالباً انہوں نے دل میں چھپا رکھا تھا؟ غالباً یہ تمام باتیں وجہ بنی ہوں گی۔ شالاط چلی گئی مگر مجید امجد کو ایک گہرے غم کے سپرد کر کے! ان کی نظم کوئٹے تک اس غم کا اظہار ہے۔ شالاط سے مجید امجد کی خط کتابت رہی۔ مجید امجد کے پاس شالاط کی تصویریں بھی موجود رہیں، مگر اصل یہ ہے کہ شالاط مجید امجد کی روح کے دریافت و نادریافت منطقوں میں اترتی چلی گئی۔ اس امر کا خیال افروز مطالعہ ڈاکٹر وزیر آغا نے کیا ہے۔ ’’ 1958ء اور اس کے فوراً بعد مجید امجد کی شاعری میں شالاط کا وجود واضح جسمانی حوالوں کے ساتھ تو موجود ہے۔ 1965-66ء تک پہنچتے پہنچتے بھی ایک جڑی ہوئی شبیہہ اور اس کی بے آواز چاپ کے شواہد مل جاتے ہیں مگر اس کے بعد اس تمثال دار آئنے کی طرح جو ٹوٹ کر ہزار چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ مجید امجد کے ہاں بھی شالاط کا حوالہ کچھ یوں تقسیم ہوا ہے کہ آواز، آنکھ، خوشبو، سرسراہٹ اور لمس زندگی کے دیگر لاتعداد موضوعات کی بنت میں چمکتے ہوئے ذرات کی طرح شامل ہو کر لو دینے لگے ہیں۔‘‘ (48) اس طرح مجید امجد اپنی محبوباؤں کے جسمانی قرب اور لمس سے تو محروم رہے مگر ان کی روح میں پہلے آمنہ اور پھر شالاط کے دم سے نور کی بارش ضرور ہوتی رہی۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ مجید امجد نے کبھی عورت کے لمس کا تجربہ کیا تھا۔ ابن آدم کی یہ بڑی محرومی ہے، جسے دیوتا، درویش یا صوفی کے مرتبے پر پہنچنے والے ہی سہار سکتے ہیں۔ وگرنہ یہ محرومی، پرورشن کا باعث بنتی ہے ۔ مجید امجد اگر نفسیاتی اسباب پر غالب آنے اور نفسیاتی وجوہ کو وژن میں منقلب کرنے کا، ایک نوع کا روحانی ملکہ نہ رکھتے یعنی درویش نہ ہوتے تو یقینا عورت کے لمس سے محرومی انہیں پرورشن کا شکار کرتی۔ مجید امجد29جون1972ء کو اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ بقیہ عمر انہوں نے ساہیوال میں ہی بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جھنگ میں ان کی اہلیہ تھی، سوتیلے بھائی تھے، کچھ احباب بھی رہتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے جھنگ میں قیام پذیر ہونے سے گریز کیا۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ مجید امجد کو ساہیوال اور یہاں کے لوگوں سے محبت تھی۔ مگر مجید امجد کے احوال اور مزاج کو پیش نظر رکھیں تو یہ بات درست نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ مجید امجد کے لیے یہاں، وہاں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ ان کے لیے کیا جھنگ اور کیا ساہیوال دونوں یکساں تھے۔ ساہیوال رہنے کی غالباً یہ وجہ تھی کہ ان کی پنشن کا معاملہ مسلسل لٹکتا اور الجھتا جاتا تھا، جس کے لیے انہیں اپنے سابق دفتر کے چکر لگانے پڑتے ہوں گے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مجید امجد نے ساہیوال فرید ٹاؤن میں اپنا مکان خرید لیا تھا، یہاں انہیں وہ تنہائی میسر تھی جو انہیں نہایت عزیز تھی اور جو جھنگ میں انہیں میسر نہ آتی وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ساہیوال میں بھی مجید امجد کے حقیقی دوست موجود نہیں تھے۔ اس بات کی سچائی کا ثبوت مجید امجد کی وفات اور اس کے فوری بعد کے واقعات سے مل جاتا ہے۔ مجید امجد11 مئی 1974ء کو فوت ہوئے۔ ان کی وفات کسمپرسی کی حالت میں ہوئی۔ وہ اپنے کوارٹر میں تنہا تھے۔ ان کا ملازم باہر سے تالا لگا کر کہیں گیا ہوا تھا۔ غالباً سہ پہر کے وقت کچھ لوگوں نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو انہیں مجید امجد فرش پر مردہ حالت میں نظر آئے۔ وہ دیوار پھاند کر اندر داخل ہوئے اور میت کو تکریم دی، اسے چارپائی پر ڈالا۔ اس وقت ساہیوال کے وہ سارے احباب کہاں تھے، جو آج مجید امجد سے اپنی محبت اور عقیدت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ حالانکہ انتظار حسین نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مجید امجد کے کچھ دن کے مہمان ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا۔ خوجاہ محمد زکریا نے بھی لکھا ہے کہ ان کی آخری ملاقات فروری1974ء میں مجید امجد سے ہوئی، یعنی وفات سے تین ماہ قبل۔۔۔۔ میں کئی کئی گھنٹے ان کے ہاں بیٹھا رہا۔ اسے اتفاق کہیے یا معمول۔۔۔ ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ملنے والا آ نکلا ہوا (49)اگر ساہیوال میں ان کے حقیقی دوست واقعی موجود تھے تو ان کی عیادت کو باقاعدہ کیوں نہیں آتے تھے؟ امجد صاحب کی وفات کے فوری بعد کے واقعات اس سے بھی الم ناک ہیں۔ اس وقت کے ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر جاوید قریشی نے لکھا ہے: ’’ عصر کے لگ بھگ مجھے اطلاع ملی کہ مجید امجد کا انتقال ہو گیا ہے۔ اب فوری طور پر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں دفن کہاں کیا جائے۔ ساہیوال میں جہاں انہوں نے ایک عمر بیتائی یا جھنگ میں جو ان کا آبائی وطن تھا۔ باہمی صلاح و مشورے سے یہی طے پایا کہ ان کی میت کو جھنگ بھیجا جائے۔۔۔ سٹیڈیم ہوٹل، ساہیوال کے بابا جوگی نے۔۔۔ ایک ٹرک کا بندوبست کر دیا۔ اس ٹرک کو جب میں نے دیکھا تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ ایک تو مجید امجد صاحب کی موت خود ہی کوئی چھوٹا سانحہ نہ تھا، دوسرے جس بے سرو سامانی میں انہوں نے جان دی، وجہ کرب بنی ہوئی تھی اور پھر یہ ٹرک جس میں مجید امجد صاحب کی میت کو ساہیوال اور جھنگ کے درمیان آخری سفر طے کرنا تھا، گندگی اور غلاظت سے پاک نہ تھا۔ غالباً اسے مویشیوں کی بار برداری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ میں نے ٹرک کو ڈھلوایا اور صاف کروا کے ایک دری اس میں بچھوا دی۔ ادھر ادھر برف کی سلیں رکھوا کے ٹرک کو مجید امجد کی میت کے لیے تیار کروا لیا گیا۔۔۔۔ پندرہ بیس افراد، جن میں ایک بھی مجید امجد کا دوست نہ تھا اور جو خدا جانے اس جگہ میت کی خبر سن کر جمع ہو گئے تھے یا ڈپٹی کمشنر کی موجودگی دیکھ کر، مجید امجد کو خدا حافظ کہا ۔ مغرب کے وقت ٹرک مجید امجد صاحب کی میت ان کے دیرینہ ملازم کی نگرانی میں لے کر جھنگ کے لیے روانہ ہوا۔‘‘ (50) مجید امجد کی وفات سے لے کر ان کی میت کی جھنگ روانگی تک، ساہیوال کے ادباء و شعراء کی عدم موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، جو مجید امجد سے دوستی اور رفاقت کے دعوؤں پر آج بھی ثبت ہے ۔ یہ تو ممکن نہیں کہ انہیں مجید امجد کی وفات کی اطلاع نہ ملی ہو آخر جاوید قریشی نے کن لوگوں سے مجید امجد کی میت ساہیوال یا جھنگ بجھوانے کا مشورہ کیا تھا؟ مجید امجد کے رشتہ دار تو ساہیوال میں تھے نہیں، ادبا و شعراء سے ہی مشورہ کیا ہو گا۔ انہوں نے سوچا ہو گا، کون تجہیز و تکفین کا کشٹ اٹھائے! اگر مجید امجد کی مٹی پر ان کے آبائی شہر جھنگ کی مٹی کا حق فائق سمجھ کر ان کی میت کو جھنگ بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو ساہیوال کے ادبا مجید امجد کی میت کی جھنگ روانگی کے وقت تو موجود ہو سکتے تھے اور ٹرک کے ساتھ جھنگ جا سکتے اور اس درویش شاعر کے سفر آخرت میں شریک ہو کر کم از کم رسم دنیا ہی نبھا سکتے تھے! سوالیہ نشان اس بات پر بھی ہے کہ ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر نے اپنے ممدوح شاعر کی میت کے لیے ایمبولینس کا انتظام کیوں نہ کیا؟ بار برداری کے لیے مختص ٹرک اس بڑے شہر کے آخری سفر کے ہرگز شایان شان نہیں تھا۔ مجید امجد زندگی میں ٹرک سے بہت ڈرتے تھے۔ ان کے سان گمان میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ ان کے آخر سفر کے لیے اسی دیوہیکل مشین کا انتخاب ہو گا جسے دیکھتے ہی وہ اپنی سائیکل سے اتر کر سڑک سے ہٹ کر چلنا شروع کر دیتے تھے۔ ادھر جھنگ میں بھی مجید امجد کے سفر آخرت کے سلسلے میں سنگ دلی کی حد تک پہنچی ہوئی لا تعلقی کا مظاہرہ ہوا۔ رات کے کسی وقت جب وہ ٹرک جھنگ پہنچا تو درجن بھر لوگ اس کے انتظار میں تھے۔ شیر افضل جعفری کا بیان ہے: ’’ میں شہید فکر و تنہائی کے ماتمی جلوس میں شامل ہونے کے لیے تیز گام ہوا تو لوگوں نے پوچھا اتنی جلدی کہاں جا رہے ہو، میں نے کہا، مجید امجد کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے۔ مجمع کے منہ سے نکلا کون مجید امجد؟ میرے دل پر تیر لگا اور جگر کے پار ہو گیا۔ غالب ثانی کی لاش اٹھی تو موت کے بنرے کی برات میں شامل ہونے والوں کی تعداد تیس پینتیس سے زیادہ نہ تھی۔‘‘ (51) اور جب اس ممتاز شاعر کو سپرد خاک کیا جا رہا تھا تو صرف مٹھی بھر لوگ موجود تھے، جن میں شیر افضل جعفری، بلال زبیری، قدیر، معین تابش اور احمد تنویر شامل ہیں (52)صفدر سلیم سیال نے راقم کے استفسار پر بتایا کہ وہ اور تقی الدین انجم بھی مجید امجد کے جنازے میں شریک تھے، البتہ جھنگ کے بعض نام ور غزل گو قصداً امجد کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ تاہم مجید امجد کے سوئم میں ساہیوال کے اکثر ادبا اور جھنگ کے فقط چند ادبا نے شرکت کی۔ بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ساہیوال کو اپنے ’’ کیے‘‘ پر ندامت ہوئی اور اس کے ازالے کے لیے انہوں نے مجید امجد کے مزار کو پختہ کرنے کے لیے چندہ جمع کیا۔ چندہ اگاہنے کی مہم میں ناصر شہزاد پیش پیش تھے۔ یہ ناصر شہزاد اور دیگر لوگوں کی مجید امجد صاحب سے عقیدت کا یقینی اظہار تھا، مگر اس سے مجید امجد کی روح پر کیا گزری ہو گی؟ مجید امجد کسی کے زیر بار ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر انہیں اس کا ذرا بھی اندازہ ہوتاکہ ان سے محبت کا اظہار اس طور ہو گا تو وہ ضرور وصیت کر جاتے کہ ان کی قبر کو کچا رہنے دیا جائے! اور اگر وہ کسی کو محبت کے اظہار کی اجازت دیتے بھی، فقط یہ کہتے کہ ان کی قبر پر بس گلاب اگا دیے جائیں۔ کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد مری لحد پر کھلیں جاوداں گلاب کے پھول شاعری مجید امجد کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ ہر چند انہوں نے ابتدا میں ڈرامے لکھے۔ عروج کے لیے مختلف موضوعات پر علمی مضامین تحریر کیے فکاہیہ کالم نگاری کی شیر افضل جعفری، کبیر انور جعفری، ڈاکٹر وزیر آغا، جعفر شیرازی، ناصر شہزاد، اشرف قدسی، سید منظور احمد، مولوی محمد عمر، تخت سنگھ اور منیر نیازی کے شعری مجموعوں کے دیباچے تحریر کیے، مگر ان کی بنیادی دلچسپی شاعری سے تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ دنیا، کائنات، زندگی اور خود اپنے آپ سے ان کا تعلق شاعری کے وسیلے سے قائم تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کے یہاں ہر قابل ذکر تجربہ نظم میں ڈھل جاتا تھا یا کسی نظم کا محرک بن جاتا تھا۔ چنانچہ مجید امجد نظم نگاری میں غیر معمولی طور پر فعال تھے۔ 1932ء سے 1974ء تک بیالیس برس تک انہوں نے مسلسل لکھا۔ نظمیں زیادہ اور غزلیں کم! مجید امجد کی نظمیں ادبی رسائل میں برابر شائع ہوتی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی میں صرف ایک شعری مجموعہ شب رفتہ کے نام سے 1957ء میں چھپا۔ اس مجموعے میں انہوں نے اپنی شاعری کا کڑا انتخاب پیش کیا تھا۔ مجید امجد کی وفات کے بعد ان کے تمام مسودات جاوید قریشی نے تحویل میں لے کر بینک لا کر میں رکھوا دیے اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے سے کہ کر ایک کمیٹی بنوا دی جس کے سپرد مجید امجد کی شاعری کی اشاعت کا کام تھا۔ دو برس بعد عبدالرشید، امجد اسلام امجد اور جاوید قریشی (جو اس کمیٹی میں شامل تھے) نے مل کر شب رفتہ کے بعد کے نام سے مجید امجد کا دوسرا شعری مجموعہ شائع کر دیا۔ یہ مجموعہ بھی دراصل مجید امجد کے انتخاب پر مشتمل تھا۔ کچھ دوسرے انتخابات بھی شائع ہوئے۔ ان میں گلاب کے پھول (مرتبہ محمد حیات سیال) مرے خدا مرے دل(مرتبہ تاج سعید) ان گنت سورج (مرتبہ خواجہ محمد زکریا) طارق ابد(مرتبہ شمیم حیات سیال) قابل ذکر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شب رفتہ کی اشاعت کے تیس برس بعد تک مجید امجد کی شاعری کا معیاری اور قابل بھروسا نہ تو مجموعہ سامنے آیا نہ انتخاب۔ 1988ء میں خواجہ محمد زکریا نے پہلی بار مجید امجد کا کلیات شائع کروا دیا۔ اسے مجید امجد کی شاعری کا ہی نہیں، اردو شاعری کا اہم واقعہ سمجھا جانا چاہیے۔ خواجہ صاحب نے اس کلیات میں مجید امجد کا دستیاب کلام (جو انہیں کسریٰ منہاس اور جاوید قریشی کے ذریعے حاصل ہوا) سنہ وار شامل کیا۔ سنین کے تعین میں زیادہ دقت نہیں تھی کہ مجید امجد اپنی نظموں پر تاریخ تخلیق درج کرنے کے عادی تھے۔ چونکہ کلیات میں مجید امجد کا بیش تر دستیاب کلام شامل تھا اور سنہ وار شامل تھا، اس لیے اوسط اور اول درجے کی نظمیں ایک ساتھ آ گئی تھیں اور اس سے مجید امجد کے قارئین، ان کی شاعری کے اس تاثر کی توثیق نہیں کر پاتے تھے جو شب رفتہ کے مطالعے سے ان پر طاری ہوتا تھا۔ غالباً اسی عمومی شکایت کے پیش نظر خواجہ صاحب نے 2003ء میں کلیات مجید امجد کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ اسے شب رفتہ، روز رفتہ، امروز اور فردا کے عنوانات سے چار حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ہر حصے میں مجید امجد کے خاص مزاج کا کلام شامل کیا ہے۔ اس سے مجید امجد کی شاعری کے ادوار اور جہات کو سمجھنے میں کافی سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ مجید امجد کی زندگی میں انہیں وہ توجہ اور پذیرائی نہ ملی، جس کا استحقاق ان کی شاعری رکھتی ہے۔ ہم ایک انصاف گریز معاشرے کے شہری ہیں۔ یہاں کسی کو محض اس کے استحقاق کی بنیاد پر توجہ اور پذیرائی نہیں ملتی۔ تعلقات، عہدے اور سماجی مراتب ہوں تو استحقاق کے بغیر بھی توجہ حاصل ہو جاتی ہے۔ مجید امجد ان سب سے دور بھاگتے تھے۔ مجیدا مجد کو اپنی پذیرائی کی طلب ہی نہ تھی، اس لیے وہ اس ضمن میں کسی محرومی کا شکار نہیں تھے۔ بہ ہر کیف مجید امجد کی زندگی میں وزیر آغا، مظفر علی سید، سید عبداللہ، محمد حسن اور وحید قریشی نے ان کی شاعری پر لکھا تھا۔ ان کی وفات کے بعد قند، محفل، القلم اور دستاویز نے ان کی شخصیت اور شاعری پر نمبر ایع کیے۔ وزیر آغا نے مجید امجد کی داستان محبت کے نام سے مجید امجد پر پہلی کتاب لکھی۔ اس کے بعد ناصر شہزاد نے کون دیس گئیو میں مجید امجد کی شخصیت اور شاعری کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جامعات میں ان کی شخصیت وکلاء پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کا تحقیقی و تنقیدی کام ہوا ہے۔ اب تک کا قابل ذکر کام ڈاکٹر سید عامر سہیل کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہیجو زکریا یونیورسٹی نے لکھوایا ہے۔ تاہم ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے! ٭٭٭ مجید امجد کی نظم نگاری مجید امجد کی نظم نگاری کا آغاز عمومی اور رواجی انداز میں ہوا۔ یہ انداز تخلیق کار کو انتخاب کا موقع دیتا ہے نہ حق، محض قبولیت کا رویہ پروان چڑھاتا ہے۔ جو کچھ ارد گرد کی فضا میں اور جس ترجیحی اور اقداری ترتیب کے ساتھ موجود ہوتا ہے، اسے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے۔ کوئی سوالیہ نشان نہ اس فضا پر لگایا جاتا اور کسی دوسری ممکنہ یا حقیقی طور پر موجود فضا کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور نہ اس فضا میں موجود اشیاء کی ترجیحی و اقداری ترتیب کو بدلنے کی تڑپ دل میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ تڑپ پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے، جب کوئی دوسری ترتیب، پوری وضاحت کے ساتھ یا مبہم طور پر موجود ہو۔ عمومی اور رواجی انداز میں دستیاب فضا کو قائم رکھنے اور اس میں موجود اشیاء و تصورات کی قدرتی ترتیب کو مستحکم کرنے کا جذبہ فراواں ہوتا ہے۔ مجید امجد کی ابتدائی نظموں میں یہ فرواں جذبہ با آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ موج تبسم، اقبال، حسن، جوانی کی کہانی، محبوب خدا سے، حالی اور بعض دیگر نظموں میں مجید امجد 1930ء کی دہائی کی عمومی فضا کے تابع نظر آتے ہیں۔ کسی بھی عہد کی عمومی فضا تہ در تہ ہوتی ہے۔ ابتداء میں کسی تخلیق کار کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان سب تہوں سے آگاہ ہو سکے۔ 1930ء کی دہائی میں ایک طرف قومی آزادی کی تحریکیں جاری تھیں تو دوسری طرف اردو ادب میں، انقلاب کی داعی، ترقی پسند تحریک کا غلغلہ بلند تھا اور اسی کے ساتھ اختر شیرانی کی رومانوی، جوش کی انقلابی اور سب سے بڑھ کر اقبال کی ملی شاعری نے فضا میں گرمی پیدا کی ہوئی تھی اور انہی کے پہلو بہ پہلو حسرت، اصغر، ظفر علی خان، حفیظ کی آوازیں تھیں تو فیض اور راشد اپنی نئی آوازوں کو شامل شور جہاں کرنے کی تگ و دو میں تھے۔ مجید امجد کی ابتدائی نظمیں اس فضا کی جس تہ سے وابستگی کا مظاہرہ کرتی ہے، وہ ایک طرف قومی و ملی طرز احساس سے عبارت ہے تو دوسری طرف اردو کی کلاسیکی شعریات سے مرتب ہوئی ہے۔ اس وابستگی کو بھی مجید امجد کے انتخاب کے بجائے ان مواقع کا نتیجہ قرار دینا چاہیے، جو انہیں فطرت اور زمانے نے دیے تھے۔ مجید امجد کی ابتدائی تربیت ان کے ماموں میاں منظور علی فوق نے کی جو روایتی علوم کے ماہر اور شاعر تھے۔ ان دونوں کے اجتماع کا مطلب شاعری اور زندگی سے متعلق ان کا کلاسیکی اقدار کا حامل ہونا تھا جن کی آبیاری عربی، فارسی ادبیات سے ہوئی تھی اور جو انیسویں صدی کے وسط تک برصغیر میں پوری طرح مستحکم تھیں، مگر بیسویں صدی کے اوائل میں انہیں قبول کیے چلے جانے کا مطلب، دراصل انہیں ایک ارفع تہذیبی یافت کے طور پر محفوظ کرنا اور مشنری جذبے کے ساتھ نئی نسل میں انہیں منتقل کرنا تھا۔ کلاسیکی اقدار کے مفہوم میں یہ تبدیلی مغربی اثرات کی وجہ سے آئی تھی، جو نو آبادیاتی مقاصد سے بری طرح مملو تھے۔ یہ اندازہ لگانا بے جا اور غلط نہیں ہو گا کہ منظور علی فوق نے مجید امجد کو کلاسیکی اقدار کا یہی مفہوم منتقل کیا ہو گا۔ اقبال اور حالی کو پیش کیے گئے مجید امجد کے خراج عقیدت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ عمومی اور رواجی انداز کے تحت مجید امجد صرف چند برس (چار یا پانچ برس) ہی نظمیں لکھتے ہیں اور پھر نظم نگاری کا ایک ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں جو ان کا اپنا ہے۔ بجا کہ عمومیت سے انفرادیت کی طرف ان کا سفر اچانک نہیں، رفتہ رفتہ طے ہوا ہے، مگر عمومیت سے انفرادیت کی جانب ان کی پیش قدمی ادھوری نہیں، مکمل ہے، نیم دلانہ نہیں، فیصلہ کن ہے۔ چنانچہ ان کی نظموں کو تاریخی ترتیب میں پڑھتے ہوئے قاری چونکتا نہیں، اس گہرے اور مکمل احساس سے خود کو شرابور محسوس کرتا ہے، جو کئی سادہ تجربات کے بعد ایک پیچیدہ مگر اکمل تجربے سے گزرنے پر اس پر طاری ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تبدیلی مجید امجد کے دو سالہ قیام لاہور(1932ء تا1934ئ) اور اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے سطح کی تعلیم حاصل کرنے کا ثمر ہو۔ اگر یہ لاہور کا ثمر ہے بھی تو بالواسطہ ہے۔ ایک اس لیے کہ مجید امجد نے ان دو سالوں میں رواجی اور عمومی انداز کی ہی نظمیں لکھیں۔ لاہور کی ادبی فضا میں شامل ہونے والے نئے رحجانات سے فوری طور پر متاثر ہونے کا کوئی ثبوت ان کی نظموں سے نہیں ملتا۔ جن دو ایک نقادوں نے (خصوصاً حمید نسیم) مجید امجد پیر، میرا جی، جوش، فیض اور راشد کے اثرات کا ذکر کیا ہے، وہ مفروضہ ہے۔ مجید امجد کے بعض مصرعوں کی لفظیات یا لحن کی دیگر شعراء کے مصرعوں سے سطحی مماثلت سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ مجید امجد ان سے متاثر ہیں۔ صرف اس وقت ایک شاعر دوسرے شاعر سے متاثر قرار دیا جا سکتا ہے، جب پہلا، دوسرے کے طرز ادراک یا تصور کائنات میں شریک ہو۔ نظم میں کہیں کہیں اور غزل میں قافیے کی پابندی کی وجہ سے اکثر شعراء کے مضامین ایک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ بہر کیف امکان غالب ہے کہ پہلے گورنمنٹ کالج جھنگ اور پھر لاہور کے قیام کے دوران میں مجید امجد نے انگریزی شاعری کا مطالعہ شروع کیا ہو گا، جسے انہوں نے آگے بھی جاری رکھا۔ا سی مطالعے کا فیض تھا کہ مجید امجد کا تخیل شاعری کے رواجی و عمومی دائرے سے باہر قدم رکھنے اور نظم نگاری کے نئے آفاق کی جستجو کرنے کے قابل ہوا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کلاسیکی اقدار اور شعریات کی جو آگہی انہیں اپنے ماموں سے ملی اور جسے اس زمانے کی عمومی فضا نے مزید راسخ کیا، وہ مغربی شاعری کے اثرات قبول کرنے کے بعد یکسر زائل ہو گئی اور مجید امجد کے شعری تخیل نے ایک بالکل نئے مدار میں جست لگائی۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ بغاوت ہوتی اور بغاوت کلاسیکی شعریات کے خلاف تحقیر اور توڑ پھوڑ کا جذبہ ابھارتی، جیسا کہ راشد کے یہاں ہمیں یہ جذبہ ملتا ہے۔ مگر مجید امجد کے سلسلے میں یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انگریزی شاعری نے آہستہ آہستہ انہیں نظم کی نئی شعریات سے روشناس کیا اور پھر یہی شعریات ان کی نظم نگاری کے ہمہ جہاتی عمل پر حاوی ہوتی چلی گئی۔ یعنی کلاسیکی شعریات اگر ان کے یہاں بے دخل نہیں ہوئی تو مذکورہ نئی شعریات کے تابع ضرور ہوئی ہے۔ گذشتہ سطور میں مجید امجد کی عمومیت سے انفرادیت کی طرف پیش قدمی کا جو ذکر ہوا ہے وہ مغربی نظم کی شعریات کے انجذاب کا ہی دوسرا نام ہے۔ ان معروضات کا صریحاً مطلب یہ ہے (اور یہ مطلب منطقی ہی نہیں، مجید امجد کی نظمیں اس کی تائید کرتی ہیں) کہ مجید امجد کی ابتدائی نظموں سے قطع نظر ان کی باقی نظموں کا پس منظر اردو نظم نہیں ہے۔ نہ کلاسیکی اردو نظم، نہ جدید نظم اور نہ نئی نظم! واضح رہے کہ جدید نظم مجید امجد کو چہرہ اور روپ ضرور دیتی ہے۔ یعنی مجید امجد نے جدید نظم کی شعریات کا شعور اردو میں جدید نظم کے بنیاد گزاروں میرا جی، ن، م راشد، اختر الایمان اور فیض وغیرہ سے اخذ نہیں کیا۔ ان شعرا کی نظم کو مجید امجد کی نظم کے پس منظر میں نہیں، مجید امجد کی نظم کے متوازی رکھا جانا ہی قرین انصاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد کی نظم کو سمجھنے میں مذکورہ شعراء کوئی کلید مہیا نہیں کرتے، بلکہ جدید اردو نظم کو سمجھنے کے لیے مذکورہ شعراء کی نظم کے علاوہ نظم مجید امجد ایک نئی کلید فراہم کرتی ہے اور انہی معروضات کا ایک دوسرا اور صاف مطلب یہ ہے کہ مجید امجد نے مغربی نظم کی شعریات کو اس طور قبول نہیں کیا، جس طرح انہوں نے کلاسیکی شعریات کو جذب کیا تھا اور جس کے تحت رواجی شاعری تصنیف کی۔ اگر قبولیت کی سطح اور درجہ یکساں ہوتا تو مجید امجد بھی ایک دوسری قسم کی رواجی شاعری تصنیف کرتے۔ وہ مغربی شاعری کے مضامین کو مغربی شاعری کے پیرائے میں لکھتے اور بس! اس صورت میں ان کی نظم شاید ’’ نئی‘‘ ہونے کا تاثر ابھارنے میں تو کامیاب ہوتی، مگر یہ تاثر بلبلے کی طرح ہوتا، جس کے عارضی ارتعاش کو تاریخ میں محفوظ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی جاتی۔ اصل یہ ہے کہ مجید امجد کا کلاسیکی شعریات کو قبول کرنا ثقافتی عمل تھا اور مغربی شعریات کو جذب کرنا انتخابی عمل تھا۔ بعض شعراء عمر بھر ثقافتی عمل انجام دیتے رہتے ہیں، یعنی جو کچھ انہیں اپنی ثقافتی فضا میں دستیاب ہوتا ہے، اس کی تقلید آنکھیں بند کر کے کرتے رہتے ہیں اور انتخابی عمل کی سعادت سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے شعراء کی شاعری بدنصیبی کی انوکھی مثال ہوتی ہے! مجید امجد کی نظم کے مغربی پس منظر کے ضمن میں بائرن، رابرٹ فراسٹ، سیمس ہینی کا ذکر ہوا ہے اور خود مجید امجد نے خواجہ محمد زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے سیون برن، کیٹس اور شیلے کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح مجید امجد نے ڈونؒڈ بابکوک، فلپ بوتھ، رابرٹ فرانس، فلپ مرے کی نظموں کے تراجم کیے ہیں۔ مگر یہ تراجم اس زمانے میں(1958-59)کیے۔ جب ان کی نظم کا مخصوص پیٹرن بن چکا تھا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مجید امجد نے مغربی شعریات کا تصور جس مغربی نظم سے اخذ کیا وہ عمومی طور پر انیسویں صدی کی انگریزی نظم اور خصوصی طور پر شیلے اور ورڈز ورتھ کی نظم ہے۔ مجید امجد کے زمانے میں مغرب میں جدیدیت کی تحریک چل رہی تھی اور امیجسٹ شعراء کے اثرات بھی مغرب کی ادبی فضا میں ارتعاش پیدا کیے ہوئے تھے۔ مجید امجد کے معاصر انگریزی شعراء میں ایذر اپونڈ، ٹی ایس ایلیٹ، لارنس، ڈولٹل قابل ذکر ہیں، مگر مجید امجد نے جدید مغربی نظم کے ان آئمہ سے اثرات قبول نہیں کیے۔ اسی طرح فرانسیسی علامت نگار شعراء کی گونج بھی مجید امجد کے یہاں سنائی نہیں دیتی۔ یہ گونج میرا جی کے یہاں بہت واضح ہے۔ علامت نگاروں، جدیدیت پسندوں اور امیجسٹ شعراء سے اثرات قبول نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ان کے یہاں بغاوت کی لے پیدا نہیں ہوئی اور نہ مجید امجد کو اپنی نظم کے دفاع میں کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ راشد اور میرا جی نے علامت پسندوں اور جدیدیت پسندوں سے استفادہ کیا تھا، اس لیے ان کے یہاں (راشد کے یہاں بالخصوص) روایتی اور معاصر شاعری کے خلاف باغیانہ میلان ملتا ہے اور اس میلان کے جواز اور دفاع میں دونوں نے تنقیدی مقالات بھی تحریر کیے ہیں۔ یہ مقالات اگر جدید اردو نظم کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نظم کی نمائندگی دیگر کے علاوہ میرا جی اور راشد کی نظم کرتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجید امجد کی نظم کی تفہیم آسان ہے۔ مجید امجد کی نظم کو سمجھنا بھی مشکل ہے، مگر یہ اس طرح کی مشکل نہیں ہے، جس کا سامنا راشد اور میرا جی کے قاری کو ہوتا ہے۔ راشد اور میرا جی کی نظم استعارہ سازی اور علامت سازی میں نامانوس مماثلتوں اور اجنبی نسبتوں کو بروئے کار لانے کی وجہ سے ابہام کا شکار ہوتی اور کلاسیکی شاعری کے قاری کے لیے مشکل ثابت ہوتی ہے، مگر مجید امجد کی نظم اپنے تصورات کے انوکھے پن کی وجہ سے مشکل محسوس ہوتی ہے۔ مجید امجد نے انگریزی شاعری سے پہلی بات یہ سیکھی کہ نظم، خیالات کوغنائی رنگ دینے کا نام ہے۔ یعنی نظم میں جتنی اہمیت خیالات کو حاصل ہے اتنی ہی توجہ انہیں غنائیت بہ کنار کرنے کے عمل کو دی جانی چاہیے۔ شاعر کو خیالات ہی تخلیق نہیں کرنی چاہیں، نئے نئے غنائی پیرائے بھی وضع کرنے چاہیں۔ شیلے کے یہاں نظم نگاری کا یہ تصور غالب تھا۔ شیلے نے اس بنا پر اپنی نظموں میں متعدد ہیئتی تجربات کیے اور اپنی نظم میں کئی قسم کے آہنگ تخلیق کیے۔ (53) مجید امجد کے یہاں نت نئی ہیئتوں کی تخلیق کی خواہش کا محرک بڑی حد تک شیلے کی نظم کی مذکورہ خصوصیت ہی ہے۔ انگریزی شاعری سے مجید امجد نے دوسری اہم بات یہ اخذ کی کہ نظم کا موضوع وہ مانوس حقیقتیں ہیں، جو ہمارے ارد گرد بکھری اور گرد و پیش کی دھڑکتی زندگی کی ضامن ہیں مگر جنہیں بالعموم نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نہ صرف سماجی اسٹیبلشمنٹ بلکہ ادبی اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں حاشیے پر دھرتی ہے۔ نظم کا یہ تصور ورڈز ورتھ کے یہاں موجود تھا۔ اس کے نزدیک دہقانی زندگی اور فطرت مانوس دراصل حقیقتیں ہیں اور انہی کو وہ اپنی نظم کا موضوع بناتا ہے۔ یہ تصور ٹی ایس ایلیٹ کے تصور شاعری سے یکسر مختلف ہے، جس کے مطابق شاعری کے ’’ موضوعات‘‘ شاعری کی روایت میں ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے شخصی جذبات کو شاعری کے ’’ روایتی جذبات‘‘ پر نثار کر دیتا ہے۔ ورڈز ورتھ نے شاعری کو ارد گرد کی دھڑکتی زندگی سے جوڑا، وہ زندگی جو سادہ اور اسی بنا پر فطری اور حقیقی ہے۔ اس کے قریب ترین رویہ مجید امجد کے یہاں ملتا ہے۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ مجید امجد محض دہقانی اور فطری زندگی کے بجائے ہر اس زندہ وجود کو اپنی نظم میں لاتے ہیں جو نظر انداز کردہ اور دکھ میں مبتلا ہے۔ نیز زبان کے سلسلے میں بھی مجید امجد ورڈز ورتھ کی پیروی نہیں کرتے۔ ہر چند بعض مقامات پر مجید امجد اپنی نظموں میں ہندی اور پنجابی کے الفاظ لاتے ہیں اور اس نیت سے لاتے ہیں کہ وہ جس مظہر یا خیال یا واقعے کو پیش کر رہے ہیں، وہ حقیقی محسوس ہو، مگر بالعموم وہ ورڈز ورتھ کے اس خیال سے متفق نظر نہیں آتے کہ فقط دیہی زندگی کی زبان ہی شاعری کی زبان ہے۔ تیسرا عنصر جسے انگریزی رومانوی نظم سے استفادہ کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے، وہ انا کی خود مختاری کا محدود و مخصوص تصور ہے۔ رومانوی انا مطلق و خود مختار ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنے اظہار و انکشاف کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ تاہم چونکہ انگریزی رومانوی شعراء Pantheism کے بھی قائل تھے، جس کے مطابق کائنات کی ہر شے ایک مقدس موجودگی سے لبریز ہے، ایک روشنی ہے جو ہر شے کے باطن کو جگمگا رہی ہے اور جس کے وفور سے اشیاء کا ظاہر بھی تمتما رہا ہے، اس لیے خود مختار انا، اشیاء سے بیگانگی اختیار کرنے کے بجائے ان سے موانست کا رشتہ استوار کرتی ہے۔ مجید امجد کی نظم میں رومانوی انا کا یہ تصور تمام و کمال موجود نیں ہے اور نہ ہو سکتا تھا کہ کسی بھی دوسری ثقافت میں پیدا ہونے والے کسی تصور کو اس کی تمام سطحوں کے ساتھ اختیار کرنے کے لیے ایک مکمل ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ محدود صورت میں خود مختار انا کا یہ تصور مجید امجد کی نظم میں رواں دواں بہرحال ہے۔ مجید امجد کی نظم میں اشیاء سے موانست کا رشتہ بے حد گہرا ہے۔ تمام ا شیاء ایک ہی بنیادی حقیقت کی زنجیر سے منسلک دکھائی دیتی ہیں۔ غبار راہ ہو کہ طوائف، بار کھینچنے والا جانور ہو کہ ہالی، بجلی کے تار پر جھولنے والی لالی ہو کہ خود شاعر۔۔۔۔ سب ایک ہی رشتے کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ اسے محدود مفہوم میں ہی Pantheisticرویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ رویہ اپنی باطنی سطح پر متصوفانہ رویہ ہے، جب کہ مجید امجد کے یہاں اشیاء اس باطنی روشنی میں شرابور نظر نہیں آتیں، جس سے صوفی لمحہ کشف میں آگاہ ہوتا ہے۔ بلکہ اشیاء موانست کے جس رشتے میں بندھی ہیں وہ دکھ کا رشتہ ہے اور جو ان کی تقدیر بنا ہے۔ یہاں مجید امجد کی نظم پر ایک اعتراض کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ آفتاب اقبال شمیم نے لکھا ہے کہ مجید امجد’’ زمانے کے آشوب اور عصری مسائل و حالات سے زیادہ نگاہ کو اشیاء اور عناصر و مظاہر پر مرکوز رکھتے ہیں۔‘‘ (54)گویا انہیں اعتراض یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم اپنے زمانے کے آشوب سے لاتعلق ہے کہ وہ نگاہ کو (زمانے کے آشوب کے بجائے) اشیا و عناصر پر مرکوز رکھتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ اعتراض سے زیادہ مجید امجد کی نظم کی جہت کا انکشاف ہے، مگر فاضل نقاد ترقی پسندانہ جہت کے تحت اس بات کو شاعر کے فرائض میں شامل قرار دیتے ہیں کہ وہ اپنی نگاہ کو عصری مسائل و حالات کی طرف جمائے رکھے اور وہ اس فرض سے کوتاہی قابل گرفت متصور کرتے ہیں، اس لیے وہ معترض ہیں کہ مجید امجد ’’ تیسری دنیا کی جاگتی ہوئی آنکھ میں ابھرنے والے خوابوں کو اپنے آدرش کا حصہ نہ بنا سکے۔‘‘ (55)ہر چند اس اعتراض کے جواب میں مجید امجد کی نظمیں جہان قیصر و جم، روداد زمانہ، کہانی ایک ملک کی، دریں ایام، طلوع فرض، قیصریت جیسی نظمیں پیش کی جا سکتی ہیں جو آشوب دہر سے ہی متعلق ہیں، مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم میں واقعات کے مقابلے میں اشیا و مظاہر کی کثرت کیوں؟ اس کی ایک وجہ مجید امجد کا تصور تاریخ ہے، جو ان کے تصور وقت سے جڑا ہوا ہے (اس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا) اور دوسری وجہ ایک خاص مفہوم میں ظاہر ہونے والا Pantheisticرویہ ہے، جس نے ایک طرف مجید امجد کے یہاں حقیقت کے اس تصور کو تشکیل دیا کہ ظاہر میں تنوع و تعدد ہے، مگر باطن میں وحدت ہے (اسے وحدت الوجود سے گڈ مڈ نہیں کرناچاہیے) اور دوسری طرف مجید امجد کی نظم کی شعریات کے اس مرکزی اصول کی تشکیل کی کہ شاعری جو ہر کی تلاش سے عبارت ہے۔ جو ہر مستقل اور غیر مبدل ہوتا ہے اور بالعموم ان تبدیلیوں کا ذمے دار بھی ہوتا ہے جو اشیا، عناصر، مظاہر اور واقعات میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ شاعری کا یہ اصول تبدیلیوں کے پیچھے سرگرداں ہونے کے بجائے، تبدیلیوں کی ذمے دار علت اور جوہر تک رسائی میں کوشاں ہوتا ہے۔ یہ علت اور جوہر جس طرح اشیا میں موجود ہوتی ہے، اسی طرح واقعات میں بھی تہ نشین ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس وضع کی شعریات واقعات عالم کو اسی طرح اور اسی سطح پر لیتی ہے، جس طرح اور جس سطح پر اشیاء کو لیتی ہے۔ اس شعریات کے تحت تخلیق ہونے والی شاعری میں واقعات بھی اشیاء کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں جو ایک زاویے سے Pantheisticرویہ ہی ہے۔ ٭٭٭ مجید امجد کی پہلی قابل ذکر نظم ’’ شاعر‘‘ (1938)ہے، جس میں وہ رواجی و تقلیدی شاعری کے مجسس سے آزاد ہوتے اور ’’ حقیقی شاعری‘‘ کی آزاد فضا میں سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم ابھی آزادی ان معنوں میں نہیں ہے کہ وہ روایتی شاعری کی جملہ نسبتوں، تاثرات اور رشتوں سے کاملاً آزاد ہو گئے اور بالکل نئی نسبتیں، نئے تاثرات اور نئے رشتے قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔ یہ آزادی کامل نہیں، اس کی جانب اہم قدم ہے۔ اس نظم میں وہ تاثرات کو منفعل انداز میں قبول کرنے کے برعکس، ان کی گہرائی میں اترتے اور انہیں کھنگالتے ہیں۔ اس کے بعد رد و قبول کی منزل ہوتی ہے، جو آدمی کے انتخاب و اختیار کے مظاہرے کا دوسرا نام ہے۔ ’’ شاعر‘‘ میں مجید امجد کا خود آگاہ سیلف پہلی بار اظہار کرتا ہے۔ وہ بے ربط سی زنجیر کی مانند دنیا کو رد کرتا اور اس کی جگہ ایک نئی دنیا کا تصور باندھتا ہے۔ سیلف خود آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود اعتماد بھی ہے۔ اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا جدید عہد میں (17ویں صدی کے بعد سے) انسانی سیلف کو مطلق و خود مختار قرار دیا گیا ہے اور خود مختاری کا مطلب وہی لیا گیا ہے جو خدا سے منسوب ہے۔ ایک طرح سے خود مختار انسانی سیلف کو خدا کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ انسانی سیلف، خدا کی مانند ہی تصرف اور اختیار کا جو یار ہا ہے۔ یہاں اس بحث کی گنجائش نہیں کہ انسانی سیلف کے اس تصور کے مذہبی مضمرات کیا ہیں اور جدید عہد کی سائنس اور جدید ادب پر اس تصور نے کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ انسانی سیلف کے اس خدائی تصور نے دنیا کو انسانی خوابوں اور عزائم کے تحت تشکیل دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔ تاہم انسانی تاریخ میں گڑ بڑ یہ ہوئی کہ انسانی خوابوں اور عزائم کے تحت تشکیل دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔ تاہم انسانی تاریخ میں گڑ بڑ یہ ہوئی کہ انسانی خوابوں اور عزائم کے تحت تشکیل کے عمل پر مغربی استعمار نے اجارہ داری حاصل کر لی اور نتیجتاً یہ خواب انسانی کم اور استعماری زیادہ ہو گئے۔ بہرکیف مجید امجد کی مذکورہ نظم میں بھی دنیا کو ’’انسانی خواب‘‘ کے مطابق از سر نو تشکیل دینے کی آرزو ملتی ہے۔ مگر ابھی شاعر کا خواب محبت کے اس تجربے کی روشنی میں دیکھا گیا ہے، جسے سماجی مزاحمت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ عالم گیر انسانی خواب نہیں، محدود طور پر خود آگاہ سیلف کا محدود تجربے کے حصار میں دیکھا گیا خواب ہے۔ مجید امجد کی نظم نگاری کے سلسلے میں اس نظم کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں وہ ایک طرف بطور شاعر خود آگاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسری طرف انسانی سماج، انسانی زندگی اور انسانی تقدیر سے متعلق بعض بنیادی سچائیوں کا فعال ادراک کرتے ہیں کہ انسانی سماج محلوں، تختوں اور تاجوں سے عبارت ہے اور دکھ اور اجل انسانی تقدیر ہیں۔ ان کی بعد کی نظموں میں یہی بنیادی سچائیاں پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہیں۔ حقیقی شاعری کی طرف اگلا اہم قدم نظم ’’ خدا (ایک اچھوت ماں کا تصور)‘‘ میں اٹھایا گیا ہے۔ اس نظم میں مجید امجد اپنے حافظے کے بجائے، اپنے مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہیں۔ سنی سنائی اور کتابی باتوں کو نظم کرنے کا رویہ ترک کرتے اور ارد گرد کی حقیقی سچائیوں پر اپنی نظم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہ اس اعتبار سے تو پہلے ہی لیس ہو چکے ہیں، جس کے بل پر وہ سماجی اور ادبی اسٹیبلشمنٹ کے وضع کردہ کلیوں، قاعدوں سے روگردانی کرتے ہیں۔ اس نظم میں وہ ہندوستانی سماج کے اس طبقے کی داخلی دنیا میں جھانکتے ہیں جسے سماجی مقتدرہ نے حاشیے پر دھکیلا ہوا ہے۔ وہ ایک اچھوت ماں کے تصور خدا کو سامنے لاتے ہیں۔ حمید نسیم مرحوم نے اس نظم سے متعلق لکھا ہے کہ ’’ اس نظم کے لیے مجھے اردو میں کوئی مناسب لفظ نظر نہیں آیا۔ ’’ پوچ‘‘ بہت سخت لفظ ہے، جو میں مرحوم شاعر کے کلام کے سلسلے میں استعمال نہیں کر سکتا۔ قدرت کی تلاش میں ایک تاحال نامعتبر فکر و وجدان رکھنے والا شاعر بہک گیا ہے۔‘‘ (56) حمید نسیم کے اس تبصرے کو ادبی اسٹیبلشمنٹ کی ناگواری ہی کہا جا سکتا ہے اور اس کا باعث بھی سمجھ میں آتا ہے کہ نظم میں خدا کے اس بلند و برتر تصور پر حرف گیری کی گئی ہے، جسے مختلف مقتدر طبقے اور قوتیں اپنے مفادات کے جواز یا اپنی قوت میں استحکام اور اضافے کے لیے بروئے کار لاتی ہیں۔ حمید نسیم کی توجہ اس طرف گئی ہی نہیں کہ یہ نظم خدا پر نہیں، ایک اچھوت طبقے کی ماں کے تصور خدا سے متعلق ہے۔ حمید نسیم کا اعتراض اس نظم کو الٰہیاتی تصور خدا سے متعلق سمجھنے کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ نظم میں اگر خدا کو من موہنا راجا، اونچی ذات والا اور تاروں کی پگڈنڈی پر جھاڑو دینے والا کہا گیا ہے تو اس لیے کہ اچھوت ماں کا تخیل انہی عناصر سے مرتب ہوتا ہے۔ وہ خدا کا تصور اپنے طبقاتی شعور سے ہٹ کر ہرگز نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے عظمت کا تصور وہی ہو سکتا ہے، جو اسے اس کے طبقاتی شعور نے دیا ہے۔ نظم میں پیش کردہ تصور خدا میں اگر منطقی تربیت و تنظیم نہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ خود اچھوت ماں کی داخلی دنیا اس ترتیب سے خالی ہے، جس کا انعکاس نظم میں ہوا ہے۔ مجید امجد کا کمال یہ ہے کہ وہ اس نظم میں خود کو نظم کے موضوع سے علیحدہ رکھتے ہیں۔ اپنے شخصی تصورات کو اچھوت ماں کے تصور خدا پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ یہ نظم مجید امجد کے شعری سفر میں ایک منزل ہے۔ یہ ایک راستے پر چلتے رہنے اور آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کے مسلسل عمل کا حاصل ہے۔ اس نظم میں ان کا شعری باطن فیصلہ کن انداز میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اسے اپنی نسبت سماج کے کس طبقے سے قائم کرنی ہے اور کس طور کرنی ہے۔ بعض لوگوں نے اس نظم کو مجید امجد پر ترقی پسند تحریک کے اثرات کا نتیجہ قرار دیا ہے کہ 1940ء میں جب یہ نظم تخلیق ہوئی ہے تو ادبی فضا پر ترقی پسند تحریک کا غلبہ تھا۔ یہ رائے دو وجہوں سے درست نہیں ہے۔ ایک یہ کہ نظم اچھوت ماں کے طبقاتی شعور کی پیداوار ہونے کے باوجود اس طبقاتی، جدلیاتی عمل کو پیش نہیں کرتی، جسے فارمولا کے انداز میں ترقی پسندوں نے بالعموم پیش کیا ہے اور نہ نظم میں تاریخی مادیت کے اس شعور کی کوئی سطح دکھائی دیتی ہے، جو طبقاتی آویزش کو رجائی اسلوب میں سامنے لاتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ نظم، نظم کی اسی شعریات کے تحت تخلیق ہوئی ہے، جس کا ذکر گذشتہ سطور میں آ چکا ہے اور جس کے مطابق اشیاء کے جوہر یا مرکزی تنظیمی اصول تک رسائی کی کوشش ہوتی ہے۔ اس نظم میں اچھوت ماں کے ’’ جوہر ذات‘‘ کو گرفت میں لینے کی سعی ملتی ہے۔ اچھوت ماں کے لیے خدا، اس کی مظلوم ذات کا آسرا بھی ہے (اور یہ اس کے لیے خدا کا بلند اور ماورائی تصور ہے) اور خود خدا اس کی مانند مظلوم بھی ہے کہ جس طبقے نے اچھوت ماں کو نچلی ذات قرار دے کر دور رکھا ہوا، اور مظالم کی سزاوار بنایا ہوا ہے، اسی طبقے نے خدا کے تصور کا استحصال بھی کیا ہے۔ اس لیے اسے اپنی اور خدا کی تقدیر یکساں دکھائی دیتی ہے۔ کسی مظہر یا طبقے کی ایک سے زائد پرتیں ترقی پسند ادب میں بالعموم نہیں ملتیں۔ اس نظم کو ترقی پسند تحریک کے اثرات سے آزاد قرار دینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ شاعر نے جس طبقے سے جس نوع کی نسبت قائم کی ہے، اسے آگے بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ طلوع فرض، پنواڑی، جاروب کش اور متعدد دوسری نظموں میں یہ نسبت برقرار رہتی اور وسعت پذیر ہوتی ہے! اشیا و مظاہر کے جوہر کی تلاش میں مجید امجد تاریخ کے در پر بھی دستک دیتے ہیں۔ تاریخ کے جوہر کا مخصوص تصور مجید امجد کی متعدد اہم نظموں کی روح رواں ہے، مگر عجیب بات یہ ہے کہ مجید امجد کے کسی ناقد کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔ بعض ترقی پسند نقادوں نے مجید امجد پر یہ الزام تو رکھا ہے کہ وہ معاصر زندگی کے آشوب سے لاتعلق اور سماجی زندگی کی جدلیاتی تعبیر سے بے نیاز نظر آتے ہیں، مگر مجید امجد کے یہاں تاریخ کے جوہر یا تاریخ کے بنیادی عمل کو جس ’’ تاریخی بصیرت‘‘ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس کا یک سطری اعتراف تک نہیں کیا گیا۔ اپنے تصور ادب کی رو سے ادبی متون کا مطالعہ کرنا اور پھر ان متون کو اپنے تصور سے غیر ہم آہنگ پا کر ہدف ملامت بنانا، اردو تنقید کا ایک بڑا المیہ ہے۔ ادبی متن کے دیانت دارانہ ہی نہیں، نشاط جو مطالعے کے لیے بھی ضروری ہے کہ قاری/نقاد اپنے اعتقادات کو معطل اور اپنے نظریات کو غیر فعال رکھے۔ تاہم مجید امجد کے تصور وقت کو عام طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ وزیر آغا کی یہ رائے معنی خیز ہے کہ ’’ مجید امجد کے ہاں ’’ حال‘‘ ایک نقطہ آغاز ہے اور اسی نقطے پر کھڑے ہو کر اس نے کائنات کی لامحدود وسعت اور انسانی زندگی کے تدریجی ارتقاء کا ادراک کیا ہے اور اس پر انکشاف ہوا ہے کہ موجود کا یہ لمحہ مختصر جو اس کی ہتھیلی پر ایک لبالب پیالے کی صورت موجود ہے، امکانات کا منبع اور مخزن ہے اور اسی مقام سے ہر بار ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘ (57)اور خواجہ محمد زکریا کا یہ کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ ’’ مجید امجد اس دور کا واحد فلسفی شاعر ہے جس کے ہاں سب سے زیادہ جو تصور ابھرتا ہے وہ وقت کے بارے میں ہے۔۔۔۔ کبھی کبھی تو یہ خیال آنے لگتا ہے کہ اس کے ہاں خدا کا متبادل وقت ہے۔‘‘ (58) یہ دونوں آرا مجید امجد کی نظموں میںوقت اور بالخصوص لمحہ موجود کی کارفرمائی کا درست تجزیہ کرتی ہیں، مگر دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ اسی تصور وقت سے مجید امجد کا تصور تاریخ جڑا ہوا ہے، اس حد تک اور اس طور کہ دونوں کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اس لیے نہیں کہ تاریخ، وقت کے محور پر وجود رکھتی ہے، بلکہ اس لیے کہ مجید امجد کے یہاں وقت کا نہ خالص فلسفیانہ تصور موجود ہے اور نہ سائنسی۔ مجید امجد کو وقت کے حوالے سے فلسفی شاعر قرار دینا، مجید امجد سے اس گہری عقیدت کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے، جو محبوب ہستی کو تمام مثالی کمالات سے متصف دیکھتی ہے۔ زماں حادث ہے یا قدیم، زماں خالق ہے یا مخلوق، زمان مطلق اور زمان مسلسل میں کیا فرق اور رشتہ ہے، زماں اور مکاں میں کیا رشتہ ہے، اس نوع کے بنیادی فلسفیانہ سوالات اور تاریخ فلسفہ میں ان کے پیش کیے گئے جوابات کا ذکر یا تفسیر، مجید امجد کے یہاں نہیں ملتی۔ اسی طرح وقت داخلی ہے یا خارجی؟ وقت ہمارے اندر ہے یا باہر کی ایک معروضی حقیقت ہے، جو ہمارے ادراک کے بغیر بھی وجود رکھتی ہے، وقت واقعات و مظاہر کے لیے (Container) ہے یا واقعات و مظاہر میں شامل ہے؟ وقت، مکاں سے الگ ہے یا مکاں میں شامل ہے، وقت، مکاں کی چوتھی جہت ہے یا نہیں، ان سائنسی سوالات کی گونج اور تاریخ سائنس میں ان کے وضع کیے گئے جوابات کی باز گشت بھی مجید امجد کی نظموں میں موجود نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ مجید امجد کے یہاں وقت سے متعلق مذکورہ فلسفیانہ و سائنسی سوالات کے بعض اجزاء اس صورت میں ظاہر ہو گئے ہوں کہ یہ بنیادی سوالات ہیں جو وقت پر باقاعدہ یا بے قاعدہ غور و فکر کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔ راقم کا موقف یہ ہے کہ فلسفہ و سائنس میں وقت کو جس طرح ’’ نظر یا یا‘‘ گیا ہے، وہ مجید امجد کا مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم کائنات کے ارتقاء کے سائنسی تصورات مجید امجد کے یہاں پیش ہوئے ہیں، ان کے ضمن میں وقت کسی حد تک سائنسی تصور کے ساتھ معرض بیان میں آ گیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مجید امجد کو وقت کے تصورات سے نہیں، وقت کے اس عمل سے دلچسپی ہے، جو انسانی زندگی اور تاریخ میں وہ انجام دیتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے نظموں سے یہ چند ٹکڑے: اور اک نغمہ سرمدی کان میں آ رہا ہے، مسلسل کنواں چل رہا ہے پیاپے مگر نرم رو اس کی رفتار، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش عدم سے ازل تک، ازل سے ابد تک، بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش نہ جانے لیے اپنے دولاب کی آستینوں میں کتنے جہان اس کی گردش رواں ہے رواں ہے تپاں ہے تپاں ہے یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے کنواں چل رہا ہے (کنواں) ٭٭٭ صبح بھجن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے ایک چتا کی راکھ ہوا کے جھونکوں میں کھو جائے شام کو اس کا کم سن بالا بیٹھا پان لگائے جھن جھن، ٹھن ٹھن چونے والی کٹوری بجتی جائے ایک پتنگا دیپک پر جل جائے، دوسرا آئے (پنواڑی) یہ صہبائے امروز، جو صبح کی شاہزادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر بدور حیات آ گئی ہے، یہ ننھی سی چڑیاں جو چھت میں چہکنے لگی ہیں ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے پڑوسن کے آنگن میں، پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں جو چھنکنے لگی ہیں یہ دنیائے امروز میری ہے، میرے دل زار کی دھڑکنوں کی امیں ہے یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں، یہ آہوں سے معمور دو چار شامیں انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے (امروز) پہنائے زماں کے سینے پر اک موج انگڑائی لیتی ہے اس آب و گل کی دلدل میں اک چاپ سنائی دیتی ہے اک تھرکن سی، اک دھڑکن سی، آفاق کی ڈھلوانوں میں کہیں تانیں جو ہمک کر ملتی ہیں، چل پڑتی ہیں، رکتی ہی نہیں ان راگنیوں کے بھنور بھنور میں صدہا صدیاں گھوم گئیں اس قرن آلود مسافت میں لاکھ آبلے پھوٹے، دیپ بجھے اور آج کسے معلوم، ضمیر ہستی کا آہنگ یہاں کس دور دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں رقصاں رقصاں اس سانس کی رو تک پہنچا ہے اس میرے میز پہ جلتی ہوئی قندیل کی لو تک پہنچا ہے (راتوں کو) یہاں دانستہ مجید امجد کی معروف نظموں سے وہ اقتباسات درج کیے گئے ہیں جو ان کے تصور وقت کے سلسلے میں عموماً پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو ان میں کہیں بھی وقت کو ایک تجرید یا تصور کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ وقت کے اس عمل کو اجاگر کیا گیا ہے جو انسانی زندگی میں کارفرما ہے۔ مزید غور کریں تو وقت کا یہ عمل مسلسل، ابدی اور غیر متغیر دکھائی دے گا۔ نغمہ سرمدی مسلسل کان میں آ رہا ہے، کنواں برابر چل رہا ہے، وقت کا یہ چکر جاوداں ہے، ایک پتنگا وقت کے دیپک پر جل مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے اور ضمیر ہستی کا آہنگ تپاں ہر انسانی سانس کی رو تک پہنچتا ہے۔ وقت کے اسی مسلسل اور غیر متغیر عمل کا نتیجہ ہی تاریخ ہے۔ وقت محض تاریخ کو جنم ہی نہیں دیتا، تاریخ کی جہت کی تشکیل بھی کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تاریخ کی جہت وہی ہے، جو وقت کی ہے۔ وقت اگر جاوداں اور ابدی ہے تو تاریخ کی جہت بھی جاوداں، مستقل اور غیر متغیر ہے اور یہی تاریخ کا جوہر ہے۔ مجید امجد کا مسئلہ چونکہ تاریخ کے جوہر تک رسائی اور اس کا انکشاف ہے، اس لیے وہ کسی ایک خطے اور کسی ایک عہد کی تاریخ تک خود کو محدود نہیں کرتے بلکہ عمومی انسانی تاریخ پر توجہ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ تاریخ کسی ایک خطے یا عہد کی ہو یا عمومی انسانی، وہ واقعات سے ہی عبارت ہوتی ہے۔ وقت کے کسی ایک لمحے میں، مخصوص اور مکانی تناظر میں رونما ہونے والا واقعہ ہی تاریخ کی بنیاد ہوتا ہے۔ تاہم دونوں میں فرق یہ ہے کہ کسی ایک خطے یا عہد کی تاریخ کی بنیاد بننے والے واقعات اپنے محدود مکانی و زمانی تناظر سے جڑے ہوتے ہیں، جب کہ عمومی انسانی تاریخ کے واقعات علامتی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں یا انہیں علامت کے طور پر متصور کر لیا جاتا ہے۔ مجید امجد نے بھی عمومی انسانی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے واقعات کو علامتی سطح پر لیا ہے۔ واقعہ بطور علامت ہی تاریخ کے بنیادی عمل کو منکشف کرتا ہے یعنی جب کسی تاریخی واقعے کو علامت کا درجہ مل جاتا یا دے دیا جاتا ہے تو وہ تاریخ کے ’’ فی نومی نن‘‘ کو سمجھنے کی کلید بن جاتا ہے اور ظاہر ہے واقعے کی علامت بننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ واقعہ اپنے محدود مکانی و زمانی تناظر سے آزاد ہو گیا اور امکانات سے لبریز ہو گیا ہے۔ اس موقف کی تائید میں مجید امجد کی نظمیں پیش رو، روداد زمانہ، کہانی ایک ملک کی، درس ایام بطور خاص پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً روداد زمانہ کے تمہیدی بند میں اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھ ہے یہی کچھ کہ ہر اک دور زماں، یعنی زماں کے ہر دور میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ تاریخ کا عمل غیر متغیر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مجید امجد تاریخ کے غیر متغیر عمل کو کس طور پر مشخص کرتے ہیں، یعنی کس واقعے کو علامت بناتے ہیں؟ اس نظم کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے۔ کیا وہ شوریدگی آب و دخاں کی منزل کیا یہ حیرت کدہ لالہ و گل کی سرحد جا بجا وقت کے گنبد میں نظر آتے ہیں یہی عفریت، خدایان جہاں کے اب وجد زیب اورنگ کہیں، زینت محراب کہیں ان کی شعلہ سی زباں ہے کہ ازل سے اب تک چاٹتی آئی ہے ان کانپتی روحوں کا لہو جن کے ہونٹوں کی ڈلک، جن کی نگاہوں کی چمک زہر میں ڈوب کے بھی بجھ نہ سکی، بجھ نہ سکی گویا مجید امجد کے نزدیک تاریخ کا یہ واقعہ کہ ’’ جابجا وقت کے گنبد میں خدایان جہاں ہیں، ان کی شعلہ سی زباں کانپتی روحوں کا لہو چاٹتی آئی ہے، ازل سے ابد تک لہو چاٹتے چلے جانے کے باوجود ان کے ہونٹوں کی پیاس بجھ نہیں سکی۔۔۔۔۔‘‘ علامت یا پروٹو ٹائپ ہے۔ ظاہر ہے یہ واقعہ پوری انسانی تاریخ کا پروٹو ٹائپ نہیں ہو سکتا کہ انسانی تاریخ میں ظالم و مظلوم کی کہانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ انسانی تاریخ میں انسان کی ثقافتی، فکری، تخلیقی فتوحات بھی شامل ہیں۔ مگر مجید امجد انسانی تاریخ میں مقتدر و محروم طبقات کی کہانی کو مرکزیت دیتے ہیں کہ یہ کہانی نہ صرف نمایاں ہے بلکہ دیگر انسانی فتوحات پر سوالیہ نشان بھی لگاتی ہے۔ نیز یہ وہ کہانی ہے جو ازل سے ابد تک دہرائی جا رہی ہے۔ جو کچھ کل ہوا تھا وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ اسی بات میں مجید امجد کی شاعری پر ہونے والے اس عمومی اعتراض کا جواب بھی موجود ہے کہ مجید امجد اپنے عصر کے آشوب سے الگ تھلگ تھے۔ اصل یہ ہے کہ مجید امجد کو اپنے عصر کا آشوب انسانی تاریخ کے ازل سے دہرائے جانے والے ڈرامے کا ہی روایتی منظر لگ رہا تھا۔ اس ڈرامے میں محض اشخاص تبدیل ہوتے ہیں، کردار اور واقعات وہی رہتے ہیں۔ تاریخ کا غیر متغیر تصور جبری اور مطلق تصور بھی ہے، جو یہ قرار دیتا ہے کہ تاریخ میں حرکت تو ہے مگر یہ حرکت دوری ہے، مستقیمی نہیں۔ اس نوع کی حرکت، تاریخ میں ارتقا کے بجائے تکرار کو جنم دیتی ہے۔ اس امر کا احساس مجید امجد کی نظموں میں بین السطور موجود ہے۔ چنانچہ وہ تاریخ انسانی میں تکرار تو دیکھتے ہیں، مگر اس تکرار کو حتمی اور مطلق نہیں سمجھتے۔ ان نظموں سے یہ تیقن کہیں نہیں ابھرتا کہ تاریخ انسانی میں بار بار دہرائے جانے والے ڈرامے میں کوئی نیا منظر شامل کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تاریخ انسانی کے سکرپٹ میں اضافے و ترامیم کو ممکنات میں خیال کرتے ہیں۔ او ریہیں ان کے تصور تاریخ میں فرد کا ظہور ہوتا ہے۔ فرد ہی تاریخ کے غیر متغیر عمل میں تغیر لا سکتا ہے۔ وہ فرد جو تاریخ کے عمل کا شعور رکھتا ہے۔ مجید امجد اگر تاریخ کو غیر متغیر دیکھتے اور خدایان جہاں کے عفریت کے منحوس سائے کو انسانی تاریخ پر مسلط دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ آگاہ فرد کی عدم موجودگی ہے۔ ’’ ہڑپے کا ایک کتبہ‘‘ میں انہیں اگر تین ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کی چھل بل (اس نظم میں امجد سہو زمانی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہڑپہ کی تہذیب تین نہیں، پانچ ہزار برس پرانی ہے) دو بیلوں کی جیوٹ جوڑی، اک ہالی اور اک ہل کی صورت نظر آتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ ہالی آگاہ فرد نہیں ہے۔ چنانچہ اپنی نظموں میں خدایان جہاں کے آگے کانپتی روحوں کو یہ آگاہی دیتے نظر آتے ہیں کہ عفریت سے نجات ممکن ہے۔ زندگی قہر سہی، زہر سہی، کچھ بھی سہی آسمانوں کے تلے، تلخ و سیاہ لمحوں میں تو اگر چاہے تو ان تلخ و سیاہ راہوں پر جابجا اتنی تڑپتی ہوئی دنیاؤں میں اتنے غم بکھرے پڑے ہیں کہ جنہیں تیری حیات قوت یک شب کے تقدس میں سمو سکتی ہے کاش تو حیلہ جاروب کے پرنوچ سکے کاش، تو سوچ سکے، سوچ کے (جاروب کش) یا پھر: یہ ہات، جھریوں بھرے، مرجھائے ہات، جو سینوں میں اٹکے تیروں سے برستے لہو کے جام بھر بھر کے دے رہے ہیں تمہارے غرور کو یہ ہات، گلشن غم ہستی کی ٹہنیاں اے کاش! انہیں بہار کا جھونکا نصیب ہو ممکن نہیں کہ ان کی گرفت تپاں سے تم تادیر اپنی ساعد نازک بچا سکو تم نے فصیل قصر کے رخنوں میں بھر تو لیں ہم بے کسوں کی ہڈیاں لیکن یہ جان لو اے وارثان طرۂ طرف کلوہ کے! سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے (درس ایام) یہاں وہ نکتے بطور خاص توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ مجید امجد اپنے تصور تاریخ میں اس انسانی گروہ سے نسبت قائم و استوار رکھتے ہیں، جس سے وہ اول اول ’’ خدا (ایک اچھوت ماں کا تصور)‘‘ میں متعارف ہوئے ہیں۔ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ وہ تاریخ کو حاشیے پر دھکیلے گئے گروہ انسانی کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ فرد کو جس آگاہی سے ہم کنار کرتے ہیں، اسے ایک شاعر کی محض آرزو مندی نہیں بننے دیتے، اسے بھی ایک تاریخی حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یعنی اس ضمن میں وہ مثالیت پسند نہیں ہیں۔ وہ فرد کا ایک ایسا فلسفیانہ تصور پیش نہیں کرتے ہیں جس میں ہر غیر معمولی اور فوق البشر کارنامہ سر انجام دینے کا ملکہ مثالی طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس باب میں وہ حقیقت پسند ہیں۔ وہ جب فرد کو تاریخ کے عمل کو تبدیلی کرنے کی آگاہی دیتے ہیں تو اسے اولاً اس تلخ حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ اس کی تڑپتی ہوئی دنیاؤں میں جابجا غم بکھرے پڑے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ وہ گلبن غم ہستی کی ٹہنی ہے، جسے اگر بہار کا جھونکا (آگاہی) نصیب ہو جائے تو وہ حیلہ جاروب کے پر نوچ سکتا ہے اور وارثان طرۂ طرف کلاہ، کی ساعد نازک کو اپنی گرفت تپاں سے شکار کر سکتا ہے۔ گویا وہ تاریخی حقیقتوں کو قبول اور سمجھ کر نئی تاریخی حقیقتوں کو جنم دے سکتا ہے! ٭٭٭ انسانی زندگی کیا ہے؟ یہ مجید امجد کی نظم کا ایک اہم سروکار ہے۔ اس کا اظہار ان کی نظم میں ایک سوال کی صورت نہیں، ایک درپیش صورت حال کے طور پر ہوا ہے۔ ان کی نظم زندگی کے مفہوم و مدعا کو کسی مخصوص فکری زاویے یا عمومی فلسفیانہ نگاہ سے جاننے سے کچھ زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتی۔ ان کی نظم میں زندگی ایک معما نہیں جو سمجھنے سمجھانے کا نہ ہو، ایک تجربہ ہے جو حقیقی طور پر انسان کو درپیش ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی نظم میں زندگی سے متعلق فکری موشگافیوں کے بجائے زندگی ایک واردات اور تجربے کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ زندگی کے باب میں مجید امجد کا رویہ وجودی تخلیق کار کا ہے۔ وجودی تخلیق کار کو زندگی کے بارے میں جاننے سے اتنی ہی گہری اور اتنی ہی حقیقی دلچسپی ہوتی ہے، جتنی کسی فلسفی کو ہوتی ہے، مگر وہ زندگی سے متعلق اس نوع کے فارمل سوالات تشکیل دینے سے اجتناب کرتا ہے جن پر بڑے بڑے فلسفیانہ نظاموں کی عمارت استوار ہے۔ اس کے برعکس وجودی فنکار کو جو زندگی حقیقتاً درپیش ہوتی ہے، اس کے تجربے کے دوران میں، زندگی کا علم حاصل کرتا ہے۔ مجید امجد نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ وہ زندگی کے ہر سوال کا جواب خود زندگی میں تلاش کرتے ہیں۔ اس زندگی میں جسے وہ بیتار ہے اور بھگت رہے ہیں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ مجید امجد نے اپنی نظموں میں اپنی سوانح پیش کی ہے۔ ان کی بعض نظموں کے محرکات ان کی سوانح میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ گلی کا چراغ، کوئٹے تک، میونخ جیسی نظمیں سوانحی نوعیت کی ضرور ہیں، مگر مجید امجد کی نظموں میں ان کی سوانح کہیں بھی کوڈ کا درجہ اختیار نہیں کرتی کہ جسے ڈی کوڈ کیے بغیر نظم کی تفہیم ممکن نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ زندگی کی اصل کو خود زندگی کے تجربے میں دریافت کرنا، شعریاتی اصول ہے اور اسی طرح کا اصول ہے جس طرح کا یہ اصول کہ نظم میں، میں کے صیغے میں شاعر اپنی ذات کو پیش نہیں کرتا بلکہ تجربے کے استناد کو باور کراتا ہے۔ غائب کا صیغہ اگر تجربے کو بیان (Narrate)کرتا ہے تو ’’ میں‘‘ کا صیغہ تجربے کو مستند بنا کر پیش کرنے کا ایک شعری حربہ ہو سکتا ہے۔ مجید امجد کی نظم میں ’’ زندگی کی درپیش صورت حال‘‘ حزن سے عبارت ہے۔ جعفر طاہر کی اس رائے میں صداقت موجود ہے کہ ’’ اردو میں ان (مجید امجد) کی طرح حزن و ملال(Melancholy)کی سچی شاعری کسی نے نہیں کی۔‘‘ (59) مگر اس حزن کے جس سبب کی نشان دہی ڈاکٹر محمد صادق نے کی ہے، وہ خاصی مضحکہ خیز ہے۔ ان کے مطابق بیوی سے جدائی کا المیہ، مجید امجد کی نظموں میں دکھ کو جنم دیتا ہے (60) یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بیوی سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ کسی قدر آسودہ ہو گئے ہوں! (تاہم واضح رہے کہ امجد بیوی سے علیحدہ ضرور ہوئے تھے، اسے طلاق نہیں دی تھی۔) خیر، یہ ایک جملہ معترضہ ہے۔ مجید امجد کے نظمیہ متن میں حزن ایک جاری و ساری کیفیت ہے۔ اس نوع کی کیفیت کو کسی ایک واقعے سے منسوب کرنا اگر ایک طرف واقعے کے نفسیاتی عواقب سے عدم آگاہی کا اعلامیہ ہے تو دوسری طرف تخلیقی عمل کے وسیع تر محرکات سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ حزن زندگی کی درپیش صورت حال کا تجربہ کرنے اور اسے بھگتنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس صورت حال کے دو پہلو مجید امجد کی توجہ کا بطور خاص مرکز بنے ہیں۔ مجید امجد دیکھتے ہیں کہ ہر وجود خود کو باقی رکھنے کی کاہش میں مبتلا ہے۔ پنچھی ہو، اندھی بھکارن ہو، طوائف ہو، کیچڑ میں پڑا کیڑا ہو، گداگر ہو، بادشاہ ہو یا خود شاعر، سب کو ایک ہی صورت حال درپیش ہے جہد حیات! اسے جب مجید امجد کا فسوں ساز قلم گرفت میں لیتا ہے تو یہ ناقابل فراموش مصرعے تخلیق ہوتے ہیں۔ یہ پھیلا پھیلا، میلا میلا دامن یہ کاسہ، یہ گلوے شور انگیز میرا دفتر، مری مسلیں، مری میز کہ جس کی رو میں بہتا جا رہا ہے گداگر کا کدو بھی جام جم بھی کلہاڑی بھی، درانتی بھی، قلم بھی (طلوع فرض) جہد حیات حزن کا باعث کیوں ہے؟ مجید امجد کے نظمیہ متن کی گہری سطحوں کو مس کرتے ہی اس سوال کا سامنا ہوتا ہے۔ بقائے وجود، ہر عضویے کی جبلت میں شامل ہے اور کسی بھی جبلی تقاضے کی تکمیل سرشاری کا باعث ہوتی ہے نہ کہ حزن کا۔ پھر مجید امجد کے یہاں، بقائے وجود کے مراحل طے کرتے ہوئے اشیا بہ چشم تر کیوں ہیں؟ بعض نقادوں نے اس ضمن میں مجید امجد کے ترقی پسندانہ میلان کی نشان دہی کی ہے۔ ان کے نزدیک مجید امجد جس جہد حیات کی طرف اشارہ کرتے اور پھر جس کے دوران اور نتیجے میں اشیا کو کرب میں مبتلا دیکھتے ہیں ’’ وہ اصل میں معاشی اور طبقاتی ہے۔‘‘ پہلی نظر میں یہ بات درست بھی لگتی ہے، اس لیے کہ مجید امجد اپنی نظموں میں جہد حیات کے ضمن میں جہد معاش کو سامنے لاتے ہیں۔ جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدام سیم و زر کے دیوتاؤں کے سیہ قسمت غلام جس جگہ اٹھتی، ہے یوں مزدور کے دل سے فغاں فیکٹری کی چمنیوں سے جس طرح نکلے دھواں جس جگہ دہقاں کو رنج محنت و کوشش ملے اور نوابوں کے کتوں کو حسیں پوشش ملے تیرے شاعر کو یقیں آتا نہیں، رب العلا! جس پہ تو نازاں ہے اتنا، وہ یہی دنیا ہے کیا؟ (یہی دنیا۔۔۔۔؟) جیسا کہ اس اقتباس سے ظاہر ہے، مجید امجد جہد معاش کو سامنے لاتے ہوئے نظام زر کو انسانوں کے دکھ کے ایک اہم سبب کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں مگر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ یعنی وہ جہد حیات کو جہد معاش کے مترادف خیال نہیں کرتے، جیسا کہ ترقی پسندانہ/مارکسی فکر میں عام ہے۔ مجید امجد کے یہاں جید حیات کے ڈانڈے واضح طور پر جبلت حیات (Eros) سے ملتے ہیں۔ جبلت حیات، بقائے وجود کا وسیع تصور دیتی ہے۔وجود اپنی بقا کے لیے فقط معاشی سطح پر جدوجہد نہیں کرتا۔ وجود اپنے ’’ باطن‘‘ میں خود اپنے متعلق اتنا محدود تصور نہیں رکھتا۔ وجود کئی سطحوں پر جب اپنی بقا کے لیے کاوش کرتا ہے تو گویا جبلت حیات اپنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وجود، جہد بقا کے عمل میں خود اپنے آپ کو، اپنی گہرائیوں، اپنی سطحوں، اپنے مقامات، اپنے آسمانوں، اور اپنی زمینوں کو بھی دریافت کرتا ہے۔ مجید امجد کی نظم میں وجود جب جہد بقا کے عمل میں اپنے مقامات سے آشنا ہوتا ہے تو ہر مقام پر اس کی آنکھ بھیگ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی نظم میں دکھ کی ایک کیفیت تو شاید ہوتی، حزن کی ایک جاری و ساری لہر نہ ہوتی۔ اس امر کی نمائندہ مثال ان کی نظم ’’ نہ کوئی سلطنت غم ہے نہ اقلیم طرب‘‘ ہے۔ اس نظم میں شخص و شاعر مجید امجد کی آواز دم توڑ دیتی ہے اور اس کی راکھ سے انسانی انا کی آواز جنم لیتی ہے۔ یہاں مجید امجد اپنے کسی شخص تجربے یا نجی وقوعے کو نظم نہیں کرتے۔ (یوں بھی لسانی پیرایہ اختیار کرتے ہی کوئی تجربہ نجی نہیں رہ جاتا) وہ کرۂ ارض پر موجود انسان کے اس مجموعی تجربے کا جوہر پیش کرتے ہیں جو کرۂ ارض پر موجودگی کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ مجموعی تجربہ دراصل تجربہ زیست ہے۔ انسان کے لیے زندگی کا یہ تجربہ مجموعاً کیسا ہے؟ یہ اس نظم کا مرکزی سوال اور کلیدی سروکار ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ سوال نظم میں فلسفیانہ انداز میں اٹھایا گیا ہے، نہ پیش کیا گیا ہے، بلکہ اسے انسان کی حقیقی وجودی صورت حال کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔ فلسفیانہ انداز کا اہم جز تشکیک ہے، جسے رفع کرنے کے لیے تجریدی عقلی طریق استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقی وجودی تجربہ حسی اور یقینی ہوتا ہے (اسے شاعرانہ یا تخلیقی بھی قرار دیا جا سکتا ہے) درج ذیل ٹکڑے کو دیکھیے جس کا طور استفہامیہ مگر جس میں تیقن و اصرار کے وہ عناصر ہیں جو کسی تجربے کو اپنے وجود کی تمام گہرائیوں سے جھیلنے کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ سوچتا ہوں یہی دو گھونٹ جو میں نے خم دوراں سے پیے یہی دو سانس، شبستان ابد میں یہی دو بجھتے دیے دوش و فردا کی فصیلوں میں یہی دو رخنے یہی جو سلسلہ زندگی فانی ہے کیا اسی ساعت محرومی غم تاب کی خاطر میں نے وسعت وادی ایام میں کانٹوں کے قدم چومے تھے؟ لاکھوں دنیاؤں کے لٹتے ہوئے کھلیانوں سے میرا حصہ یہی میری تہی دامانی ہے؟ تہی دامانی اور زندگی فانی، بس یہی دو حقیقتیں ہیں جو انسان کو گھیرے ہیں اور یہی اسے اس حزن میں مبتلا کرتی ہیں، جس کو صرف انسانی روح ہی محسوس کر سکتی اور جس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ نشان خاطر رہے کہ تہی دامانی، وسیع مفہوم کی حامل ترکیب ہے۔ اس میں انسانی وجود کی ان تمام تمناؤںکی عدم تکمیل اور اس کے نتیجے میں انسان کو ملنے والی نا آسودگی شامل ہے، جنہیں انسانی وجود خود اپنے رفیع الشان تصور کی وجہ سے اپنے دل میں دھڑکتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ مجید امجد کی اس نظم میں گویا ہونے والا انسانی وجود خود اپنا رفیع الشان تصور محض خود نگری کے سبب نہیں بلکہ آفاقی شعور کے تحت قائم کرتا ہے، تاہم آفاقی شعور کے مرکز میں انسان کو رکھتا ہے۔ مگر دوسری طرف انسان کی یہی وجودی صورت حال انسان کے عظیم المیے کا باعث بھی ہے انسان آفاق کے مراکز میں ہونے کے باوجود تہی داماں اور بے سر و ساماں ہے۔ کیا اسی واسطے ماضی کے یخستانوں سے اک موج حیات اپنے ہم راہ لیے ناچتی گاتی ہوئی صدیوں کی برات آ کے ساحل گل پوشی سے ٹکرائی ہے؟ کیا یہی مقصد عالم امکانی ہے؟ کہ جب اس سطح خروشندہ پہ ڈھونڈوںمیں کوئی رخت طرب کوئی مکھ، کوئی نگہ، کوئی تبسم، کوئی جینے کا سبب آسمانوں سے صدا آئے ’’تو کیا ڈھونڈھتا ہے تیرا ساماں تو یہی بے سروسامانی ہے‘‘ اسی حقیقت کے سبب کہ انسان مرکز آفاق مگر بے سر وساماں ہے، خود آفاق کی حقیقت اور مقاصد معرض سوال میں آ جاتے ہیں۔ اگر ہمیں بھری دنیا میں مسکرانہ سکے تو ڈول جائیں گے یہ سلسلے ضرور کہیں مجید امجد کی نظم میں بقائے وجود (Eros) کی کثیر السمتی خواہش اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے، تاہم یہ خواہش بین اور ننگی حالت میں ظاہر نہیں ہوئی، اس کا اظہار بالواسطہ ہوا ہے۔ یہ خواہش ان مشکلات، خطرات اور مزاحمتوں کے پردے میں ظاہر ہوئی ہے، جو اس کی تکمیل کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ یہی خطرات اور مزاحمتیں، وجود کو حقیقی طور پر در پیش ہیں اور چونکہ حقیقی طور پر درپیش ہیں، اس لیے وجود کو دکھ میں بھی مبتلا کرتی ہیں۔ مجید امجد کی نظم میں ظاہر ہونے والا انسانی وجود اپنا عظیم الشان تصور تو قائم کرتا ہے، مگر اس تصور کو تمام ممکنہ حدود تک نہیں لے جاتا، خصوصاً ان حدود میں یہ تصور داخل ہونے سے اجتناب کرتا ہے جو مابعد الطبیعیات کے حدود ہیں۔ انسانی انا کا جدید تصور مابعد الطبیعاتی حدود میں داخل ہی نہیں ہوتا، اپنی انتہائی صورتوں میں انہیں پامال بھی کرتا ہے اور پھر انہی حدود میں اپنی برتری اور خود مختاریت کا علم بھی گاڑتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجید امجد کی غزل میں انا کی خود مختاری کا جدید تصور اظہار کرتا ہے، مگر1968ء سے پہلے لکھی گئی نظم میں بالعموم نہیں، تاہم آخری دور کی نظموں میں اس کا اظہار برنگ خاص ضرور ہوا ہے شاید اس لیے کہ غزل کا علامتی نظام ممنوعات کے اظہار کی زیادہ گنجائش رکھتا ہے۔۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم انسانی وجود کے رفیع الشان تصور کو وجود مطلق کے مابعد الطبیعیاتی تصور سے ٹکرانے کا منظر نہیں دکھاتی اور اسے اپنی بقا کے راستے کی رکاوٹ یا وسیلہ خیال کرنے کے سوال سے بھی احتراز کرتی ہے۔ مجید امجد کے بعض نقادوں نے، ان کی نظموں میں صوفیانہ روایت کی کارفرمائی کی نشان دہی کی ہے خصوصاً ان کی آخری دور کی نظموں میں۔ مثلاً تبسم کاشمیری کا خیال ہے کہ مجید امجد کے آخری دور کی نظموں میں پنجاب کے صوفیا کی مقامی روایت کا احیا ہوا ہے ۔ اس روایت کے اہم عناصر انسان دوستی، انسان کو مظہر حقیقی سمجھنا اور حکمرانوں کو فنا کا احساس دلانا ہیں۔۔۔۔ یہ تجربہ بابا فرید سے شروع ہو کر خواجہ فرید تک پہنچتا ہے اور اس سارے تجربے میں انسانی وجود کے تحفظ کا احساس نمایاں ہے۔ انسانی وجود کے تحفظ کا یہ طرز احساس مثالی حوالوں سے پہلی بارت ایک جدید شاعر کے وژن کی گرفت میں آیا ہے۔(61)اس سے یہ گمان ہوسکتا ہے کہ مجید امجد کی نظم میں ظاہر ہونے والا انسانی وجود صوفیانہ روایت کے راستے سے مابعد الطبیعیاتی حدود میں قدم رکھتا ہے مگر یہ گمان ہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مجید امجد کے یہاں صوفیانہ تجربے کے کہیں آثار نہیں۔ صوفیانہ تجربے کی بنیاد نفی ذات اور نفی وجود خود ہے تاکہ وجود مطلق کا اثبات کیا جا سکے۔ مجید امجد کی نظم کو کسی طرح بھی صوفیانہ تجربے یا صوفیانہ واردات کی شاعری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم صوفیانہ روایت کے بعض عناصر سے مماثلت، ان کی نظموں سے تلاش کی جا سکتی ہے، خصوصاً وہ روایات جو اخلاقی مضامین اور تلقین و ارشاد سے عبارت ہے اور ایسا بھی صرف اسی وقت کیا جا سکتا ہے، جب ہم صوفیانہ روایات کو صوفیانہ تجربے کا ثمر یا تشکیلی جز قرار نہ دیں بلکہ اسے تصوف پر قائم ہونے والے عمومی ڈسکورس کا حصہ سمجھیں۔ لہٰذا مجید امجد کی نظموں میں انسان کو مظہر حقیقی سمجھنے اور اس کے تحفظ کے مضامین ظاہر ہوتے ہیں تو ان کی ظاہری مماثلت صوفیانہ روایت سے ضرور ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم انسانی وجود کا ایک ارفع تصور تشکیل دیتی، اسے آفاق کے مرکز میں رکھتی، پھر اسے بے سروساماں دیکھتی ہے بے سروساماں قرار دینے کا صاف مطلب ہے کہ وہ مابعد الطبیعیاتی آسرے کی طرف متوجہ نہیں (ورنہ بے سروسامانی کے بجائے ساز و سامان کا ذکر ہوتا!) انسانی وجود کا تحفظ بلاشبہ مجید امجد کی نظم کا اہم مسئلہ ہے۔ تحفظ کی خواہش انسانی وجود کے ارفع تصور کے سبب ہی پیدا ہوئی ہے۔ اس ارفع تصور کو سب سے بڑی زک اس خطرے کے ہاتھوں پہنچتی ہے جو وجود کو حقیقتاً درپیش ہے یعنی موت! یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مجید امجد موت کے آگے ہی وجود کے تحفظ کو خواہش کرتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت سے مصالحت میں بے حد دقت محسوس ہوتی ہے کہ انسانی وجود جیسی ارفع حقیقت فنا ہو جائے گی۔ موت اپنی اصل میں ایک ناقابل بیان و ترسیل تجربہ ہے۔ مجید امجد اسے تجربے کے بجائے ایک ایسی حقیقی صورت حال کے طور پر لیتے ہیں، جو ہر لمحہ زندگی پر سایہ فگن ہے اور یہی بات ان کی نظم میں غیر معمولی حزن کو پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا مجید امجد کا حقیقی غم نہ محض غم عشق ہے، نہ غم زمانہ اور نہ سماجی ناقدری کا پیدا کردہ اندوہ ہے۔ ان کا غم محرومی حیات جاوید کا زائیدہ ہے۔ یہ نہیں کہ ان کی نظم میں دیگر غموں کا بیان نہیں، اصل یہ ہے کہ تمام چھوٹے بڑے غم اس عظیم حزن کی فروع بن گئے ہیں، جو انسانی وجود کی فنا پذیری کے یقینی احساس کا پیدا کردہ ہے۔ یہ یقینی احساس ان کی نظم شاعر سے لے کر ان کی آخری نظم ’’ یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن‘‘ تک متعدد نظموں میں دھڑک رہا ہے۔ میں جب سوچتا ہوں کہ انساں کا انجام ہے مٹی کے اک گھر کی آغوش آرام تو سینے میں اٹھتا ہے اک درد بے نام (شاعر) یہ ہستی کا دریا بہا جا رہا ہے ہم آہنگ سیل فنا جا رہا ہے (دنیا) کون اس گتھی کو سلجھائے، دنیا ایک پہیلی دو دن ایک پھٹی چادر میں دکھ کی آندھی جھیلی دو کڑوی سانسیں لیں، دو چلموں کی راکھ انڈیلی اور پھر اس کے بعد نہ پوچھو، کھیل جو ہونی کھیلی پنواڑی کی ارتھی اٹھی، بابا اللہ بیلی (پنواڑی) نگاہوں کے آگے اجل کی سیاہی کرے کیا بچاا تھکا ہارا راہی (سفیر حیات) کس کی خاطر، یہ ایک صبح؟ کس کی خاطر آج کا یہ ایک دن؟ کیسا دن؟ یہاں تو ہے بس ایک وہی اندھیر دنوں کا جس کی رو روحوں میں اور جسموں میں چکراتی ہے! (یہ سب دن) کتنے اچھے ہیں یہ سب الجھیڑے، سمے کی رو میں دھب دھب چلتے دھندے کتنی بھلی ہے اک یہ بے مصرف سی مصروفیت ذہن پہ اک یہ پردہ، جس کے اوجھل ہیں وہ باتیں جن کا دھیان بھی مجھ کو سب خوشیوں سے ناخوش کر سکتا ہے دھیان ان کا، جن کے قدموں کے نیچے میرے باطن کی مٹی ہے! اک دن یہ مٹی ان کے قدموں کے نیچے سے سرک گئی۔۔۔ تو۔۔! (جدھر جدھر بھی) اس علم کو ہے اب وہ ایک سیاہ گڑھے کے دہانے پر ہے آگے۔۔۔ اک وہ گڑھا ہے اور اس کا وہ اگلا قدم ہے، (اس کو علم ہے۔۔۔) یہ چند اقتباسات مشتے نمونہ از خروارے ہیں، وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی درجنوں نظموں میں ’’ موت‘‘ مرکزی یا ضمنی تھیم کے طور پر ظہور کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسانی وجود کے یقینی خاتمے کے غم پر غالب آنے کی کوئی تدبیر اور کوئی چارہ، ان کی نظم میں ملتا ہے یا نہیں؟ مجید امجد، غالب کی طرح موت کو غم ہستی کا علاج تصور نہیں کرتے، الٹا غم ہستی کا ذمے دار خیال کرتے ہیں۔ موت پر غالب آنے کو تو ناممکن خیال کرتے ہیں، تاہم موت سے پیدا ہونے والے غم کی شدید اور کڑی گرفت سے فقط ایک حد تک آزاد ہونے کی ایک تدبیر ضرور آزماتے ہیں اور وہ ہے لمحہ موجود کو لبالب پیالے کے طور پر محسوس کرنے کا تجربہ! تاہم یہ تجربہ موت پر غالب آنے کے احساس سے عبارت نہیں بلکہ، موت کے وار سے فی الوقت محفوظ ہونے کے ڈانواں ڈول یقین، سے مملو ہے۔ چنانچہ ان کے لیے لمحہ موجود کا تجربہ بھی اے پی کیورین کی طرح لذت اندوزی کا نہیں بلکہ زندگی کے معارف کو جاننے اور سمجھنے کا عمل ہے۔ درست کہ لمحہ موجود کے ادراک کے وقت ان کی تمام حسیات بے دار ہو جاتی ہیں، وہ چھت میں چہکنے والی ننھی چڑیوں کی چہکار سنتے، اپنے گھر کے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزتے محسوس کرتے، پڑوسن کے آنگن میں پانی کے نل پر چوڑیوں کے چھنکنے کو محسوس کرتے ہیں، مگر یہ سب لمحہ موجود کی معرفت ہے۔ یہ کہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں اور آہوں سے معمور دو چار شامیں ہی ہیں۔ گویا لمحہ موجود کے تجربے میں حسی اجزا ضرور موجود ہیں، مگر وہ حسی لذت کا ذریعہ بننے کے بجائے، زندگی کی بصیرت کو پہچاننے کا وسیلہ بنتے ہیں، ایک ایسی بصیرت جو تجریدی اور فلسفیانہ نہیں، زندگی کی حسی و واقعی اساس سے کشید کی گئی بصیرت ہے۔ یہ بصیرت نظم ریوڑ میں ’’ غم ہستی کی شاداں سی امنگ‘‘ ہے اور۔۔۔۔ ’’ پیش رو‘‘ میں۔۔۔ ’’یخ کدہ یقین غم میں ناز نمو‘‘ کی صورت ہے! زندگی کے لمحہ موجود کو لبالب پیالے کے طور پر محسوس کرنے کا تجربہ، مجید امجد کے یہاں دو طرفہ آگہی کو جنم دیتا نظر آتا ہے۔ ایک طرف لمحہ موجود کے مختصر اور اشکوں سے شاداب ہونے کی آگہی اور دوسری طرف ان لمحات مسلسل کی آگہی، لمحہ موجود جن کا حصہ ہے۔ گویا لمحہ موجود کا مختصر اور فانی ہونا، وقت کے مستقل اور لافانی بہاؤ کے مقابلے میں ہے۔ ’’سوچتا ہوں یہی دو گھونٹ جو میں نے خم دوراں سے پیے یہی دو سانس شبستان ابد میں، یہی دو بجھتے دیے دوش و فردا کی فصیلوں میں یہی دو رخنے یہی جو سلسلہ زندگی فانی ہے‘‘ (نہ کوئی سلطنت غم ہے نہ اقلیم طرب) ’’تیرے طاق پہ میں اک دیپ تو صدیوں کے گارے میں اک گندھی ہوئی دیوار میں۔۔۔۔ اک دھڑکن کی ہوک جل گئی عود کی شمع گر گئی بے بس راکھ رات کے پربت سے ٹکرا گئی خوشبو کی اک لہر پھر وہی رنگ اور پھر وہی روپ نگری نگری، موہن مکھ بام بام پر چاند کرن کرن، گلنار!‘‘ (دنیا سب کچھ تیرا) حقیقت یہ ہے کہ مجید امجد کا نظمیہ تخیل جب بھی موجود لمحے کو گرفت میں لیتا ہے تو وقت کا لافانی بہاؤ مقابل آ جاتا ہے۔ انہیں انسانی زندگی شبستان ابد میں بجھتے دیے کی مانند ایک پل کی راکھ محسوس ہوتی ہے۔ زندگی اپنے عارضی ہونے کا احساس، وقت کے ابدی تسلسل کے مقابلے میں کرتی ہے اور مجید امجد کی نظم میں ظاہر اور رواں ہونے والے حزن کا ایک بڑا باعث یہی ’’ جدلیاتی ادراک‘‘ ہے۔ زندگی اپنے عارضی اور مختصر ہونے کا ادراک جب دنیا اور وقت کے ابدی ہونے کے مقابل کرتی ہے تو گویا ایک نوع کی محرومی کا شکار ہوتی ہے۔ سمندر سے پیاسے کو شبنم ملے تو اس کی پیاس کا دکھ اور محرومی کا احساس دو چند ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد کی نظموں میں محرومی کا جو فراواں احساس ملتا ہے، اس کی نوعیت شخصی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہ محرومی اور اس سے پیدا ہونے والا دکھ بھی اس سبب سے ہے کہ مجید امجد کا طرز فکر صوفیانہ نہیں، سائنسی ہے۔ اگ وہ صوفیانہ طرز فکر کو کام میں لاتے تو انہیں زندگی کے عارضی اور فانی ہونے کا پر تیقن احساس تو لازماً ہوتا مگر ساتھ ہی انہیں اس کا حل بھی دستیاب ہو جاتا۔ جو سبب نہیں فنا کے احساس سے دوچار کرتا وہی سبب، فنا پر غالب آنے کا حل بھی پیش کرتا، یعنی وقت کا لافانی بہاؤ! وہ خود کو اس لافانی بہاؤ کی ایک لہر سمجھتے، جس سے وہ جدا ہیں اور اور دوبارہ وصال کو فنا پر غالب آنے کا ذریعہ خیال کرتے، مگر سائنسی طرز فکر نے انہیں اس کے برعکس لمحہ موجود و ابد کے رشتے کا تصور قائم کرنے پر مائل کیا ہے۔ خواجہ محمد زکریا کا یہ کہنا درست ہے کہ مجید امجد ’’ جدید اردو شاعری میں سائنسی پس منظر رکھنے والا پہلا شاعر ہے۔‘‘ (62) ٭٭٭ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں مذکور ہو چکا ہے، مجید امجد ان اشیاء اور مظاہر کو اپنی نظم میں بطور خاص اور خصوصی جگہ دیتے ہیں جنہیں ادبی اشرافیہ حاشیے پر دھکیلتی ہے۔ اگرچہ مجید امجد کے یہاں ادبی اشرافیہ کی مقتدرہ اور اس کی رائج کردہ شعریات کو بلند بانگ انداز میں چیلنج کرنے کا رویہ نہیں ملتا، تاہم ادبی اشرافیہ کی شعریات کو ترک کرنے اور ایک نئی شعریات وضع کرنے کا خاموش مگر پوری طرح فعال پراسس ضرور ملتا ہے۔ وہ عام معمولی، حقیر اور کم تر اشیاء کو اپنی نظم کے قلب میں لاتے ہیں۔ بذاتہ یہ کوئی کارنامہ نہیں، اس لیے کہ نظیر اکبر آبادی سے خوشی محمد ناظر تک کئی شعراء اس روش پر گامزن رہ چکے ہیں۔ جو بات اسے غیر معمولی اور کانامہ بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ مجید امجد نے ان اشیاء کی لسانیاتی اور معنیاتی تقلیب کر دی ہے۔ یعنی مجید امجدکی نظم میں شامل ہونے کے بعد یہ اشیاء معمولی، حقیر اور کم تر نہیں رہیں۔ اشیاء کا معمولی یا حقیر ہونا ان کا جوہری وصف نہیں، انہیں تاریخی عمل، سیاسی ترجیحات یا مقتدر ادبی شعریات کے دریے گئے مفاہیم ہیں۔ مجید امجد کی نظم اشیاء کے یہ مفاہیم بدل دیتی ہے، بغیر سیاسی ترجیحات اور مقتدر شعریات کو بلند بانگ انداز میں چیلنج کیے! مجید امجد کے اس طرز عمل کی توجیہہ میں وزیر آغا نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ درد مندی کا جذبہ ہے جو اپنی ساری گہرائی اور تنوع کے ساتھ ابھرا ہے اور اس نے جمادات، حیوانات، حشرات الارض، پھل پھول اور بچوں کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیا ہے۔ (63) اور سہیل احمد خاں نے رائے ظاہر کی ہے کہ ’’ اشیا کے ساتھ موانست اور ہمدردی کا رویہ مجید امجد کی کائنات میں ایک نئی مظہریات کو تخلیق کرتا ہے۔‘‘ (64) گویا یہ مجید امجد کا دل درد مند و ہمدرد ہے جو اشیاء کو ان کی نظم میں کھینچ لاتا ہے، مگر کس شاعر کا دل درد مند اور ہمدرد نہیں ہوتا؟ سہیل احمد خاں کی رائے کا یہ نکتہ بلاشبہ چونکاتا ہے کہ اشیاء کے ساتھ ہمدردی مجید امجد کی شاعری میں ایک نئی مظہریات کو تخلیق کرتی ہے مگر وہ اس نئی مظہریات کی وضاحت سے قاصر رہتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس مظہریات کے خدو خال کیا ہیں؟ کیا یہ یا Phenomenalismہے یاPhenomenology؟ کیا مجید امجد کی نظم اس فلسفیانہ موقف کی کسی نئی سطح کو پیش کرتی ہے کہ تمام انسانی علم مظاہر(Phenomena) تک محدود ہے اور مظاہر اور حسی ادراکات سے باہر کوئی حقیقت موجود نہیں ہے؟ یا مجید امجد کی نظمPhenomenonاور Noumenon میں امتیاز قائم کر کے، ان سے موانست کا رشتہ استوار کرتی اور کسی نئی سطح پر استوار کرتی ہے تاکہ نئی مظہریات تخلیق ہو سکے! سوال یہ ہے کہ مجید امجد کی نظم میں اشیا کے ساتھ کس قسم کے رشتے کا تصور ابھرتا ہے؟ اصل یہ ہے کہ مجید امجد کا نظمیہ تخیل اشیاء کے ساتھ یک رخا اور یک سطحی رشتہ استوار نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کی نظم تکرار کی اس نحوست کی زد میں آ جاتی، جس سے محفوظ رہے بغیر جدید نظم اپنا اعتبار قائم نہیں کر سکتی۔ مجید امجد کی نظم اشیاء کے ساتھ ایک سے زائد سطحوں پر ہم رشتہ ہوتی ہے اور ہر جگہ یہ رشتہ موانست، ہمدردی یا درد مندی کا نہیں ہے۔ مجید امجد کی نظم تین سطحوں پر اشیاء سے ربط قائم کرتی ہے۔ پہلی سطح ہم آہنگی کے تفاعل (Empathy)سے عبارت ہے۔ اس سطح پر نظم اور شے کے درماین وجودیاتی فاصلہ مٹ جاتا ہے اور فاصلہ مٹنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ شے تو اپنی جگہ اور پنے وجودیاتی مقام پر قائم اور مستحکم رہتی ہے، مگر متکلم اپنی جگہ اور وجودیاتی مقام کو ترک کرنے کے تجربے سے گزرتا ہے۔ تاہم نظم میں ترک کے تجربے کا اظہار کم ہوتا اور شے کے وجودیاتی مقام کو قبول کرنے اور اپنے اوپر طاری کرنے کے تجربے کا اظہار زیادہ اور شدت سے ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں مید امجد کی نظمیں بندا، سوکھا تنہا پتا، خدا: ایک اچھوت ماں کا تصور، بھکارن، زینیا، ایکٹریس کا کنٹریکٹ پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان نظموں میں کم یا زیادہ متکلم اشیا و افراد کے تجربے سے ہم آہنگی محسوس کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ہم آہنگی دوسرے کے تجربے کو اپناتجربہ بنا لینے اور اس دوران میں اپنے محسوسات کے وقتی تعطل سے عبارت ہوتی ہے۔ مبادا غلط فہمی پیدا ہو، یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم آہنگی کا تفاعل ہمدردی کے تجربے سے جوہری طور پر مختلف ہے۔ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ مجید امجد کے یہاں اشیاء کے ساتھ ہمدردی، دردمندی کا رشتہ بھی موجود ہے۔ اور اشیاء کے ساتھ ربط کی یہی دوسری سطح ہے جو ان کی نظم میں ظاہر ہوئی ہے۔ ہمدردی (Sympathy)میں جذبات معطل نہیں، بے دار ہوتے ہیں اور جذبات کی بے داری کا محرک اشیاء کی خاص دولت ہوتی ہے۔ ہم آہنگی کے عمل میں اشیاء کا لازماً کسی مخصوص حالت میں ہوتا شرط نہیں ہے۔ ہر قسم کی حالت میں اشیاء سے ہم آہنگی محسوس کی جا سکتی ہے، مگر ہمدردی کے لیے لازم ہے کہ شے دکھ اور الم کی حالت میں ہو۔ یہی حالت ہمدردی کے جذبات کو تحریک دیتی ہے۔ طلوع فرض، پنواڑی، بن کی چڑیا، ریوڑ، جاروب کش، پکار، ہڑپے کا کتبہ، توسیع شہر، سفر درد، بارکش، ہوٹل میں، ایکسیڈنٹ اور گوشت کی چادر جیسی نظموں میں اشیاء و مخلوقات سے ہمدردی کا ہی رشتہ استوار ہوا ہے۔ ان تمام نظموں میں پہلی مشترک بات یہ ہے کہ ان میں ظاہر ہونے والی اشیاء و مخلوقات ’’ عام او رمعمولی‘‘ ہیں، جنہیں عام طور پر شاعری کا موضوع نہیں بنایا گیا اور اس لیے نہیں بنایا گیا کہ روایتی طور پر شاعری کا پر عظمت تصور نالی کے گندے پانی، پان لگانے والے معمولی آدمی، حقیر چڑیا اور لالی، بھیڑ جیسی عام مخلوق، درخت، بوجھ کھینچنے والا گھوڑا اور بیل، کسان اور ہر روز ہماری طشت میں سجنے والے مرغ کو شاعری کا موضوع تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ان نظموں میںدوسری قدر مشترک، تمام اشیاء کا دکھ میں مبتلا ہونا ہے اور یہی بات مجید امجد کی نظموں کے متکلم کے باطن میں ہمدردی و دردمندی کے جذبات کو انگیز کرتی ہے۔ مجید امجد کی نظموں کا متکلم اپنے باطن کی گہری سطحوں میں ان سب کے لیے دردمندانہ جذبات کو موجزن محسوس کرتا ہے اور جب یہ جذبات اپنے کلائمکس کو پہنچتے ہیں تو متکلم بے اختیار کہہ اٹھتا ہے: آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل (توسیع شہر) ہے بھی یہاں غریب کی ہستی کا کوئی مول میں پوچھتا ہوں، مدعی عدل، کچھ تو بول (سفر درد) لیکن تیری ابلتی آنکھیں، آگ بھری پر آپ سارا بوجھ اور سارا کشٹ، ان آنکھوں کی تقدیر لاکھوں گیانی، من میں ڈوب کے ڈھونڈیں جگ کے بھید کوئی تیری آنکھوں سے دیکھے دنیا کی تصویر (بارکش) مجید امجد کی مندرجہ صدر تمام نظموں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ظاہر ہونے والے درد مندی کے جذبات کہیں بھی نمائشی ہیں نہ سطحی۔ ان کی نظموں کا متکلم شے کی حالت درد سے گہری باطنی سطح پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس دوران میں نہ تفاخر محسوس کرتا ہے نہ مصنوعی ترحم! بارکش مجید امجد کی ہی نہیں اردو کی انوکھی نظم ہے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ ہمدردی کے موضوع پر اس سے بہتر نظم اردو میں موجود ہی نہیں ہے۔ خود مجید امجد اس نظم میں اشیاء و مخلوقات سے ہمدردی کے رشتے کو جو سطح تقویض کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ سطح کسی دوسری نظم میں نظر نہیں آتی۔ ہر چند توسیع شہر میں بھی وہ دردمندانہ جبات کو ایک ارفع سطح پر محسوس کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں جہاں اس نظم کا متکلم درختوں کے ساتھ کٹ مرنے کی خواہش کرتا ہے، مگر بارکش میں ہمدردی انتہا کو مس کرتی ہے۔ ہمدردی کے باقی تمام رشتوں میں ہمدردی کرنے والا خود آگاہ رہتا ہے، وہ دوسرے کے درد کو اپنا درد بناتا بھی ہے تو اس عمل اور اپنی وجودیاتی شناخت سے برابر آگاہ رہتا ہے اور اسے قائم رکھتا ہے، مگر بارکش میں متکلم اپنی وجودیاتی شناخت کو ترک کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دوسری مخلوقات سے دکھ کو اس وقت تک محسوس کیا جا سکتا ہے نہ اس دکھ کے مفہوم کو سمجھا جا سکتا ہے جب تک کہ ہم اپنے تصور کائنات کو ترک کرنے کا اقدام نہ کریں۔ بے شبہ یہ ایک ایسی نظم ہے جس میں انسانی علم کی اک متھ کو توڑا گیا ہے۔ یہ ایک متھ ہی ہے کہ علم کی ارفع اور انسانی سطح گیان کی ہے۔ انسان اپنے من میں ڈوب کر گیان اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے برتر علم کی کوئی صورت نہیں ہے اور اس کے علاوہ علم کی کوئی صورت اسے درکار نہیں ہے۔ مجید امجد کی یہ نظم اس متھ کو اجتماعی انسانی نرگسیت قرار دینے کا شائبہ ابھارتی ہے اور اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ من کی آنکھ کے بجائے ’’ آگ بھری پر آب، ابلتی آنکھوں‘‘ سے بھی دنیا کو دیکھنا چاہیے۔ پھر دنیا کیسی لگے گی اور اس سے حاصل ہونے والا علم کس نوعیت کا ہو گا؟ مجید امجد کی نظم اس کا قطعی جواب دینے کے بجائے فقط امکانات کا در کھولتی ہے۔ مجید امجد کی نظم میں اشیاء سے ربط کی تیسری سطح کو جمالیاتی سطح کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ سطح پہلی دونوں سطحوں سے مختلف ہے۔ پہلی دونوں سطحوں پر اشیاء و مخلوقات کی کسی نہ کسی جذباتی حالت میں شرکت کی جاتی ہے، جب کہ جمالیاتی سطح میں شے سے ایک فاصلہ اختیار کیا جاتا ہے تاکہ شے کی اصل تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ جذباتی حالت شے کی اصل پر ایک طرح کا پردہ ڈال دیتی ہے۔ جمالیاتی فاصلہ قائم کر کے گویا اس پردے کو چاک کر دیا جاتا ہے۔ جمالیاتی ربط کی سطح مجید امجد کی ان نظموں میں بالعموم ظاہر ہوئی ہے، جو فطرت، مناظر یا موسموں سے متعلق ہیں۔ ان میں زینیا، بہار، صبح کے اجالے میں، بھادوں اور صاحب کا فروٹ فارم بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں فطرت کو کسی انسانی جذبے کا ترجمان بنا کر پیش کیا گیا ہے نہ انہیں کسی ایسی جذباتی حالت میں گرفتار دکھایا گیا ہے، جو اصل میں انسانی حالت ہوتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں فطرت کو انسانی اور شاعرانہ مقاصد کے تحت بروئے کار لایا جاتا ہے اور ان کی اصل اور روح سے ، بڑی حد تک روگردانی کا اقدام کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فطرت کو ایک لسانی نشان متصور کیا جاتا ہے اور اس کے لغوی معنی سے گریز کر کے، اس کو استعاراتی اور علامتی معانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ فطرت کو مقصود بالذات کے بجائے ذریعہ خیال کیا جاتاہے، مگر جمالیاتی فاصلہ قائم کر کے، فطرت بطور لسانی نشان کی لغوی حرمت کا احترام کیا جاتا ہے، اس کو مقصود بالذات سمجھا جاتا اور اس کی اصل اور روح تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں فطرت کی اصل اور روح، حسن اور مسرت سے عبارت ہے۔ ان کی نظم میں بین السطور یہ اصرار ملتا ہے کہ فطرت کی روح سے دوری انسان کے لیے ایک بڑی محرومی ہے۔ ہر بار اسی طرح سے بوندیں رنگوں بھری بدلیوں سے چھن کر آتی ہیں مسافتوں پہ پھیلے تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے (بہار) سدا رہے یہ سماں سہانا رت یہ سلگتی سانوں کی پھیلتی انگنی میں بل کھاتی گیلی دھرتی، دھندلا امبر کھلتی کونپل بھادوں کی (بھادوں) تمام چاندی جو نرم مٹی نے پھوٹتے بور کی چٹکتی چنبیلیوں میں انڈیل دی ہے تمام سونا جو پانیوں ٹہنیوں شگوفوں میں بہ کے ان زرد سنگتروں میں ابل پڑا ہے تمام دھرتی کا دھن جو بھیدوں کے بھیس میں دور دور تک سرد ڈالیوں پر بکھر گیا ہے رتوں کا رس ہے۔ سبو میں بھر لو (صاحب کا فروٹ فارم) یہ نظمیں اس عمومی رائے کی تکذیب کے لیے کافی ہیں کہ مجید امجد کے یہاں محض یاسیت اور زندگی کی مسرتوں سے گریز موجود ہے۔ اصل یہ ہے کہ مجید امجد کے یہاں تنوع ہے۔ وہ بعض مقامات پر یاسیت کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ ایک طرف انسانی زندگی کا انجام ان کے پیش نظر رہتا ہے، جو الم ناک ہے اور دوسری طرف یاسیت بھی زندگی کا حصہ ہے، انسان لاکھ کوشش کے باوجود اس سے بچ نہیں سکتا۔ یاسیت خواہ کتنی ہی خوفناک اور تباہ کن ہو انسانی دنیا کی حقیقت ہے اور اتنی ہی بڑی حقیقت جتنی رجائیت ہے۔ بعض اوقات رجائیت کھوکھلی اور یاسیت حقیقی ہوتی ہے۔ تاہم مجید امجد زندگی اور فطرت کے دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ یہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ان پہلوؤں اور موضوعات کو خصوصی اہمیت اور توجہ دیتے ہیں جو مستقل ہیں یا اپنے اثر کے اعتبار سے قوی ہیں۔ وہ جہاں بعض ہنگامی واقعات کو نظم کا موضوع بناتے ہیں وہاں بھی وہ ہنگام کے اندر استحکام کو اسی طرح دریافت کرتے ہیں، جس طرح لمحہ موجود کے اندر ابد کو یا تاریخ کے اندر اس کے مستقل و ابدی اصول کو یا پھر فطرت کی اصل اور روح کو! ٭٭٭ مجید امجد کی نظموں میں اجل مجید امجد کی نظموں میں جن بنیادی مسائل کو اہمیت تفویض ہوئی ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ اور سروکار وہ نظام فنا ہے جس کی زد میں سیل ہستی ہے۔ اجل ایک کلیدی سروکار کے طور پر ان کی نظم نگاری کے پورے سفر میں ان کے ہم رکاب رہی ہے۔ ایک ہی موضوع، خواہ کتنا ہی اہم اور بنیادی کیوں نہ ہو، جب کسی تخلیق کار کو گرفت میں لے لے تو اس تکرار کا موجب بن سکتا ہے جو اس تخلیق کار کی تخلیقی موت کا اعلامیہ ہے۔ مجید امجد کو سب گوارا تھا، مگر تخلیقی موت نہیں۔ چنانچہ وہ موت کو اپنے پورے نظمیہ سفر میں ہم رکاب رکھنے کے باوجود تکرار کے مرتکب نہیں ہوتے۔ ان کے یہاں اجل کے کئی روپ اور بہروپ ہیں۔ وہ ایک نظم میں موت کے جس رخ یا جس عمل سے آگاہ ہوتے ہیں، اسے دوسری نظم میں کسی نئے رخ کی نقاب کشائی کا وسیلہ تو بنا لیتے ہیں، مگر اسے دہراتے نہیں مجید امجد کے شعری تخیل میں اجل پہلے پہل سماج کے روپ میں ظاہر ہوئی ہے، ایک ایسا سماج جس کی رسموں ریتوں میں موت کا سا جبر ہے اور جو نہ صرف فرد کی نرم و نازک خواہشوں بلکہ فریاد تک کو موت کی سی سرد مہری کے ساتھ مسل ڈالنے میں ذرا تامل نہیں کرتا۔ جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش کہ لائے ذرا لب پہ فریاد جوش اجل آ کے کہتی ہے خاموش! خاموش آخری مصرعے میں موت کی ظالمانہ آواز صاف سنائی دے رہی ہے۔ یہ لائنیں نظم ’’ شاعر‘‘ کی ہیں جس میں مجید امجد نے اپنے شاعرانہ تشخص کا ادراک کیا ہے اور یہ تشخص قائم ہوا ہے اس جمالیں نگاہ سے جو ذرے اور مہ میں فرق نہیں کرتی، مگر اس نگاہ کو درپیش ہے ایک ایسی دنیا جو محلوں، تختوں، تاجوں اور محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا ہے، چنانچہ شاعر کا جمال پرست اور ایکتا کا قائل تخیل اس بٹی ہوئی دنیا اور محبت کے دشمن کو اجل متصور کرتا ہے۔ آگے ایک نظم ’’ سفر حیات‘‘ میں مجید امجد زندگی کے منہاج، منزل اور سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں راستے خاموش، لاشوں اور گزرے ہوئے راہرووں کے نشانوں سے اٹے دکھائی دیتے ہیں، مسافر ان سے آنکھیں میچ کرآگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر دوسری طرف قضا کے دام ان کے منتظر ہیں۔ گویا انسان ایک جانب ماضی اور تاریخ سے نظریں پھیر کر اور دوسری جانب اپنے مستقبل اور انجام سے نگاہیں چرا کر سفر حیات طے کرنے کی کوشش میں ہیں، یعنی فرار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مجید امجد کے ہاں اس نظم تک پہنچ کر موت کے ساتھ وقت کا تصور نتھی ہو جاتا ہے اور سماج اپنی رسموں سمیت پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ مجید امجد کے شعری فکری نظام میں یہ ایک موڑ ہے، مگر آگے بڑھنے سے قبل اسی نظم کے ایک خاص پہلو کا ذکر ضروری ہے۔ نظم کا آخری بند کچھ یوں ہے: نگاہوں کے آگے اجل کی سیاہی کرے کیا بچارا تھکا ہارا راہی چلا تو ہے تقدیر کو آزمانے یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے گو حد نگاہ پر موت کی تاریکی مسلط ہے، مگر زندگی کا مسافر اپنی تقدیر آزمانے اور اپنی آواز کو شامل شور جہاں کرنے کے لیے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ جو راستہ اس کے پاؤں کی دسترس میں ہے، وہ کہاں ختم ہو گا اور موت کی سیاہی حد نگاہ سے اتر کر کب خود نگاہ میں ترازو ہو جائے گی۔ موت کو اپنے آگے حاضر ناظر جان کر تقدیر آزمانا دراصل زندگی کے ممکنات کو آزمانا ہے اور شرط ہے: تھکے ہارے راہی کا، بس بڑھے چلے جانا۔ اس سلسلے کی اگلی نظم ’’ کنواں‘‘ ہے جو بلا شبہ مجید امجد کی شاہکار نظموں میں شامل ہے۔ پہلی لائن دیکھیے: کنواں چل رہا ہے، مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ فصلیں، نہ خرمن، نہ دانہ ہم روایتاً پانی کے رواں دھارے کو زندگی کی علامت گرداننے کے خوگر ہیں پر شاعر کی تخلیقی اپج کنوئیں وک زندگی کا سمبل قرار دیتی ہے۔ دونوں کا فر ق ظاہر ہے! کنواں زیر زمین اور پس پردہ قوت حیات کو کھودنے اور خود اپنے زور بازو سے کھینچ کر نکالنے کا عندیہ دیتا ہے۔ گویا ایک طرف انسانی مساعی پر زور دیتا ہے اور دوسری طرف زندگی کو اسرا اور امکانات سے لبریز قرار دیتا ہے۔ اگرچہ زندگی کے اسرار اور امکانات کے آگے انسان کی کوشش بڑی حد تک نامشکور ہے کہ کنواں تو چل رہا ہے مگر نہ فصلیں ہیں نہ خرمن! اس نظم میں بیلوں کا جوڑا گذشتہ نظم ’’ سفر حیات‘‘ کے مسافروں کا ہی روپ ہے۔ اس بیلوں کے جوڑے کے آگے طویل اور لامنتہی راستے پر بچھا رکھے ہیں دام اپنے قضا نے اس کے باوجود یہ بیل کنویں کی نفیری سے پیدا ہونے والے پر اسرار گانے کو سن کر رقصاں ہیں اوروں ہیں نہ جانے /کدھر؟ کس ٹھکانے؟ ٹھکانے اور منزل کے کسی حتمی شعور کے بغیر مسافر اس لیے رواں ہیں کہ وہ منزل کے تعین میں آزاد نہیں ہیں۔ اس آزادی کو سلب کرنے والے دو عناصر ہیں۔ ایک اجتماعی و معاشرتی فضا اور دوسری فطرت یا تقدیر۔ ’’ کنواں‘‘ 1941ء میں لکھی گئی تھی اور یہ وہ زمانہ ہے جب برصغیر اجتماعی تحریکوں کی زد پر آیا ہوا تھا اور تحریکیں خواہ کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہوں، فرد کے انفرادی شعور کو معطل کر کے ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ اجتماعی فضا بالعموم فرد کے اندر ایک قسم کے جبر اور میکانکی رویوں کی نمو کرتی ہے اور انفرادی شعور کے تعطل کی وجہ سے ہی فرد اپنی ذات میں مقصد اور منزل کا شعور پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے اور بیلوں کے جوڑے کی سطح پر پہن جاتا ہے۔ برسبیل تذکرہ منٹو نے اپنی کہانی ’’ سوراج کے لیے‘‘ میں اجتماعی سیاسی تحریکوں کے ’’ سحر انگیز دباؤ‘‘ میں انسانی فطرت کے مسخ ہونے کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ بایں ہمہ مجید امجد نے کدھر؟ کی بات اس لیے بھی کی ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو کسی آئیڈیالوجی کا اسیر قرار نہیں دیتے اور زندگی کے معانی کی اطراف کھلی رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ نظم کے آخری حصے میں ’’ کنواں‘‘ وقت کی علامت بن جاتا ہے۔ زندگی اور وقت ایک ہو جاتے ہیں: اور اک نغمہ سرمدی کان میں آ رہا ہے، مسلسل کنواں چل رہا ہے پیا پے مگر نرم رو اس کی رفتار، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش عدم سے ازل تک، ازل سے ابد تک بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش نہ جانے لیے اپنے دولاب کے آستینوں میں کتنے جہان اس کی گردش مجید امجد نے یہاں وقت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ دائروی گردش سے عبارت ہے۔ یعنی وقت میں تغیر کا عنصر جاودانی ہے اور اس تغیر میں کئی جہان پوشیدہ ہیں، ایک جہان رخصت ہوتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا جہان لے لیتا ہے۔ جہانوں کے اس چل چلاؤ کے پیچھے جاوداں وقت کا رونا ہے۔ نظم ’’ طلوع فرض‘‘ میں شاعر نے وقت کی کوکھ سے نظام زیست کو پھوٹتے ہوئے دیکھا ہے: وہ نکلا پھوٹ کر نور سحر سے نظام زیست کا دریائے خونناب پشینوں آنسوؤں کا ایک سیلاب کہ جس کی رو میں بہتا جا رہا ہے گدا گر کا کدو بھی جام جم بھی کلہاڑی بھی، درانتی بھی، قلم بھی! شاعر کو زندگی کا نظام محض اس لیے آنسوؤں اور پسینوں کے سیلاب میں ڈوبا ہوا نظر نہیں آیا کہ جینا نہایت کڑی مشقت کا طالب ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ جینا دو سانس کا ہے۔ گویا زندگی اندر اور باہر کے جبر کی گرفت میں ہے۔ مجید امجد نے ’’ ایک نظم‘‘ میں اندر اور باہر کے جبر کو یوں پیش کیا ہے: موت کتنی تیرہ و تاریک ہے ہو گی، لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف اس طرف، باہر، اندھیرا کم نہیں موت یعنی اندر اور معاشی و معاشرتی یعنی باہر کی تیرگی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ۔ مگر یہ دونوں طرح کی تاریکی شاعر کو خوف یا فرار میں مبتلا کرنے کے بجائے اسے ذہنی اور تخلیقی سطح پر بیدار اور متحرک کرتی ہے۔ موجودی فلاسفر ہائیڈ گرنے بالخصوص موت کو زندگی میں معانی پیدا کرنے والی قوت قرار دیا ہے۔ موت کم از کم ذاتی سطح پر حقیقت سے زیادہ تصور ہے۔ موت کو ہم دیکھتے ہیں (جب وہ اوروں کو پیش آتی ہے) مگر خود کو ہمیشہ اس سے فاصلے پر محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہم اسے اپنی طرف بڑھتے بھی محسوس کرتے ہیں مگر یہ خیال ہمیں اس کے مہلک خوف سے بچائے رکھتا ہے کہ فی الحال ہم اس کی دسترس سے ذرا دور ہی ہیں۔ چنانچہ موت ہمیشہ ایک ذہنی تصور رہتی ہے، اس تیقن کے ساتھ کہ یہ کبھی دوسرے وقت پر حقیقت بنے گی۔ لہٰذا موت کے اس ذہنی تصور کے سلسلے میں آدمی تین قسم کے طرز ہائے عمل اپنا سکتا ہے وہ اس سے ہر دم خوفزدہ رہے اور مرنے سے پہلے مر جائے موت سے ذہنی فرار حاصل کرے، جس کی ایک صورت نشہ ہے یا پھر جی کڑا کر کے موت کی ناگزیریت کا سامنا کرے۔ آخری صورت میں موت ایک باطنی تجربہ بن کر زندگی میں معانی اور ذمے داری کا شدید احساس ابھارتی ہے۔ مجید امجد نے خوف اور فرار کے بجائے موت کا سامنا کیا ہے۔ مار مرگ کی زہر ناکی کو اپنے خون کی حدت میں شامل کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں زندگی کے جن معانی کی افزائش ہوئی ہے، وہ مذکورہ نظم میں بیان ہوئے ہیں: ہاں اسی گم سم اندھیرے میں ابھی بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے ہمیں راکھ ان دنیاؤں کی، جو جل بجھیں راکھ جس میں لاکھ خونیں شبنمیں زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ پھوٹتیں جانے کب سے، جذب ہوتی آئی ہیں کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر اپنے اشکوں میں سموتی آئی ہیں یہاں بھی شاعر موت کے تصور سے براہ راست وقت کے تصور تک پہنچتا ہے۔ وقت بھی موت کی مانند ’’ زمانوں‘‘ کو راکھ کرتا اور انہیں ماضی اور تاریخ کے مدفن کے سپرد کر دیتا ہے۔ مگر جس طرح موت ایک ذہنی تجربے کو طور پر اور آفرینش معانی کا منبع بن کر زندگی کی رگوں میں رواں دواں رہتی ہے، اسی طرح ماضی اور تاریخ بھی لمحہ حال میں جاری و ساری رہتے ہیں۔ چنانچہ مجید امجد کے ہاں حال کا لمحہ اور زندگی ایک ہو جاتے ہیں، دونوں امکانات سے معمور! اگر حال کا لمحہ گرفت میں آ جائے تو گویا زندگی کے امکانات بروئے کار آ جائیں۔ اورآدمی اندر اور باہر کی گم صم تاریکی کے عذاب سے نکل کر ایک نرالی صبح کے درشن میں کامیاب ہو جائے: زیست امکانات کا اک ہیر پھیر کیا عجب ہے، میرے سینے کا شرر اک تمنائے بغلگیری کے ساتھ وقت کے مرگھٹ پہ باہیں کھول دے اک نرالی صبح بن جائے یہ رات اس سلسلے کی اگلی نظم ’’ امروز‘‘ ہے جو کئی حوالوں سے ایک غیر معمولی نظم ہے۔ نظم کی پہلی لائن شاعر کے منفرد طرز ادراک کو دلآویز شاعرانہ پیرائے میں پیش کرتی ہے: ابد کے سمندر کی اک موج جس پر مری زندگی کا کنول تیرتا ہے ابد جس ہمیشگی کا استعارہ ہے اس میں گذشتہ، آئندہ اور موجود زمانے مضمر ہیں۔ گذشتہ اور آئندہ تو ’’ بے صورت‘‘ ہوتے ہیں مگر موجودہ زمانہ موج کی طرح ابھرا ہوا اور نسبتاً نمایاں ہوتا ہے۔ تاہم سمندر سے الگ نہیں ہوتا۔ اس کے داخلی اور تخلیقی تموج کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک کنول کی صورت اس ابھری ہوئی موج پر تیر رہا ہے۔ غور کیجئے اپنی موجودگی کا یہ ادراک کتنا خوفناک اور کس قدر مسرت زا ہے! خوفناک اس لیے کہ وہ موج کسی سمے ابد کے سمندر میں تحلیل ہو سکتی ہے اور مسرت بخش یوں کہ وہ کنول کی صورت زمانے کی لا محدود وسعتوں میں کھلا تو ہے، اپنی انفرادی ہستی کے اظہار میں کامیاب تو ہوا ہے۔ اس ادراک میں موت کا مہلک پن اور ’’ہونے‘‘ کا نایاب تجربہ بیک وقت موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت کے ظاہر اور غیاب دونوں رخوں کو اپنے دائرہ ادراک میں سمیٹا گیا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ شاعر کا یہ تجربہ صوفیانہ تجربے سے ہٹ کر ہے کہ صوفی اپنی ہستی یا انفرادی انا کو مٹانے اور ایک بڑے کل میں تحلیل کرنے میں سرگرم ہوتا ہے جب کہ یہاں شاعر اپنے منفرد وجود کا اثبات کر رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہاں مجید امجد لامحدود بجھے ہوئے زمانوں اور لامنتہی منتظر شہود زمانوں کے بیچ اپنے عصر اور اپنے وجود کی شناخت چاہتے ہیں۔ ان کا مسئلہ وقت اور آفاق کے اندر انسانی وجود کی شناخت اور اثبات ہے۔ یہاں مجید امجد اس حد تک ضرور موجودی (Existentialist) ہیں کہ وہ انسانی وجود کے بنیادی اور ناگزیرConcernsکو شدت سے محسوس کرتے ہیں (جیسے موت) تاہم وہ اکثر موجودیوں کی مانند متلی یا اضطراب(Anxiety)کی زد پر نہیں آئے۔ اس لیے بھی ان کے لیے یہ دو چار لمحوں کی معیاد جو اگرچہ (بقول شاعر) تھرتھراتے اجالوں کے رومان، کچھ سنسناتے اندھیروں کے قصے یا یہ لمحہ مختصر جو ایک مہلت کاوش ہستی اور فرصت کوشش آہ و نالہ سے عبارت ہے، مگر شاعر کو اپنی زندگی اور اپنا زاد سفر نظر آتا ہے۔ شاعر اس مختصر معیاد پر دکھی تو ضرور ہے (یعنی موت سے ہراساں ہے) مگر اس کے لیے یہ بات کچھ کم اہم نہیں ہے کہ مرے ساتھ ہے، میرے بس میں ہے، میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ لمحہ حال کے لبالب پیالے کا اپنے بس اور اپنی ہتھیلی پر ہونا اس قدر گہرا، بھرپور، خود مکتفی اور باہر کی طرف پھیلنے پر آمادہ، تجربہ ہے کہ اس میں ڈوب کر شاعر اس سے لاتعلق ہو جاتا ہے کہ وقت کے دیوتا کی حسین رتھ کے پہیوں تلے مقدر کے کتنے کھلونے پس چکے ہیں اور اس امر سے بے پرواہ ہو جاتا ہے کہ اس کی آخری سانس کے بعد دوش گیتی پر مچلنے والے ماہ و سال کے آبشار رواں کا آنچل تاروں کو چھولے گا۔ اسے اپنے کمرے کی چھت پر چہکنے والی ننھی چڑیاں، ہوا کا جھونکا جو دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا جاتا ہے اور پڑوسن کے آنگن میں پانی کے نلکے پر چھنکنے والی چوڑیاں۔۔۔۔ اپنی اصل کائنات نظر آتی ہے یعنی شاعر یہاں ایک گہری داخلیت اور پر اسراریت میں گم ہونے یا فلسفی کی طرح ماضی و مستقبل کے دھندلے خاکوں میں الجھنے کے بجائے لمحہ حال سے جڑی ٹھوس ارضی دنیا سے گہری وابستگی محسوس کرتا ہے اور موت کے مہلک احساس پر غالب آنے میں کامیاب ہے۔ ’’ امروز‘‘ میں شاعر لمحہ حال کی افقی جہت سے مربوط ہے، اس لیے ماضی و مستقبل سے لاتعلق ہے، مگر لمحہ موجود کی عمودی جہت بھی ہے جو بیک وقت گزرے اور آنے والے زمانے میں پیوست ہے۔ چنانچہ لمحہ حاضر وہ ’’ گریزاں سرحد‘‘ ہے جہاں مستقبل کی نمود اور ماضی کی تشکیل کا عمل برابر جاری ہوتا ہے۔(نیز اس نمود و تشکیل کے پیچھے زماں بطور ایک تخلیقی قوت کے کار فرما ہوتا ہے۔ غور کریں تو وقت کی تین زمانوں میں تقسیم انسانی ذہن کی اس خصوصیت کی پیدا کردہ ہے جو شے کی تفہیم کے لیے اسے اجزا میں تقسیم کرتی ہے) لہٰذا جب حال کا لمحہ گرفت میں آتا ہے تو گویا ماضی و مستقبل کی تشکیل و نمود کا پورا عمل بھی حیطہ ادراک میں سمٹ آتا ہے اور زندگی نے ماضی سے لے کر اب تک جو سفر کیا ہے وہ بھی نگاہ بصیرت کے روبرو آ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حال کے اندر زندگی و کائنات کے تخلیقی ارتقا اور ممکنات سب مضمر ہوتے ہیں۔ نظم ’’ راتوں کو۔۔۔۔‘‘ میں مجید امجد لمحہ حاضر کی بنت میں شامل سب زمانوں اور اس کی تہ میں کار فرما سب قوتوں کا عرفان پاتے ہیں۔ وہ تخلیق کائنات کے ابتدائی مرحلے کو یاد کرتے ہیں جب کائنات سیال حالت میں تھی۔ پھر پہنائے زماں کے سینے پر موج حیات نے انگڑائی لی۔ یعنی وقت کا آغاز ہوا اور زندگی شروع ہوئی۔ زندگی نے ’’ آب و گل کی دلدل‘‘ میں آنکھ کھولی تھی (ظاہر ہے یہ کائنات کی تخلیق اور زندگی کے آغاز کا سائنسی تصور ہے) شاعر زندگی کی اولین چاپ کو اک تھرکن سی اور ایک دھڑکن سی خیال کرتا ہے۔ زندگی قائم ہی اسی تھرکن اور دھڑکن پر ہے۔ ہر زندہ وجود آج بھی اصلاً ! اسی ابتدائی، اولیں چاپ اور دھڑکن سے منسلک ہے: اور آج کسے معلوم، ضمیر ہستی کا آہنگ تپاں کس دور کے دیس کے کہروں میں لرزاں لرزاں رقصاں رقصاں اس سانس کی رو تک پہنچا ہے اس میرے میز کی جلتی ہوئی قندیل کی لو تک پہنچا ہے کون آیا ہے؟ کون آتا ہے؟ کون آئے گا؟ انجانے من کی مورکھتا کو کیا کیا دھیان گزرتا ہے دل ڈرتا ہے! ضمیر ہستی کے آہنگ تپاں کو شاعر کے سانس کی رو اور سامنے پڑے میز کی قندیل کی لو تک پہنچنے کے لیے صرف ایک طویل اور کٹھن سفر ہی طے نہیں کرنا پڑا بلکہ وقت کی اس تخریبی قوت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے جو موت کے مترادف ہے اور جس نے کتنے ہی دیپ بجھائے ہیں، تاہم وہ آہنگ تپاں کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یعنی موت کا وار انفرادی سطح پر تو کارگر ہوتا ہے، مگر انواع کی سطح پر نہیں۔ چنانچہ زندگی کا آہنگ جو مظاہر حیات کے تنوع میں کار فرما ہے، فنا سے محفوظ ہے۔ شاعر اسی آہنگ تپاں کا عرفان پا کر اور اپنے سانس کی رو اور اپنی قندیل کی لو کو اس سے مربوط کر کے اصلاً موت کی سفاکی اور وقت کی تخریبی قوت کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ انسان کو جب اپنے انجام (یعنی موت) یاد آتا ہے تو وہ اندر کی بے حسی و بے عملی اور خارج کی بے معنویت بلکہ لایعنیت کی گرفت میں بھی آ جاتا ہے۔ مجید امجد احساس فنا کی اس گرفت سے آزاد ہونے کے لیے لمحہ حال کو زماں کے اس ازلی بہاؤ سے منسلک محسوس کرتے ہیں جو زندگی کے کبھی نہ رکنے والے دھارے کا استعارہ ہے اور جس کے اندر قوت یعنی سانس کی رو اور باہر روشنی (یعنی قندیل کی لو) ہے۔ یہاں ایک اہم نکتے پر توجہ ضروری ہے۔ مجید امجد نے موت اور زندگی کے تعلق میں کوئی تھیوری یا فلسفہ پیش نہیں کیا۔ گو ان کے مزاج میں مفکرانہ عنصر موجود ہے مگر انہوں نے موت کو ایک خالص مفکر اور فلسفی کی نظر سے نہیں دیکھا اور نہ موت کے مسئلہ کی فلسفیانہ تعبیر سے اعتنا کیا ہے۔ فلسفی موت کو غیر ذاتی، غیر جذباتی زاویے سے دیکھتا اور اس کے زندگی اور تہذیب پر اثرات کا جائزہ لیتا ہے اور اس سلسلے میں اس سرد مہری کو روا رکھتا ہے جو کسی موضوع کی علمی پیش کش کے لیے ناگزیر ہے۔ موت بنیادی طور پر انسانی مسئلہ ہے (دیگر انواع موت سے مسئلے کے طور پر دو چار نہیں ہوتیں) اور بڑی حد تک ایک ذاتی تجربہ ہے۔ مجید امجد کی ’’ شاعرانہ فکر‘‘ میں موت کے یہ دونوں پہلو اجاگر ہوئے ہیں۔ اصلاً انسانی انا (Ego) موت کی قوت فنا سے خوفزدہ اور متاثر ہوتی ہے۔ یعنی یہ انا ہی ہے جسے اپنی بقا کی سب سے زیادہ فکر لاحق رہتی ہے۔ انا بالعموم تین بڑے خطرات میں گھری رہتی ہے۔ پہلا خطرہID ہے۔ دوسرا Super Ego اور تیسرا موت ہے آخری دو خطرات زیادہ شدید اور گھمبیر ہیں۔ مجید امجد پہلے پہل موت کو سماج یا Super Ego کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر وہاں ایغو اپنی ابتدائی اور محدود سطح پر ہے۔ آگے جب شاعر کی انا علم اور کائنات کے رشتوں کے شعور سے وسعت آشنا ہوتی ہے تو موت ایک تخریبی قوت کے طور پر۔۔۔۔ یعنی کائنات کا نظام فنا شاعر کو ڈراتا ہے۔ شاعر کی ایغو جب سپر ایغو سے نبرد آزما ہوتی ہے تو وہ شاعری میں اپنا ایک انفرادی اسلوب وضع کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ وہ مروج اور روایتی اسالیب بیان کے انبوہ میں بے نشان ہونے کے بجائے ایک اپنی شناخت قائم کرنے کی سعی مشکور کرتا ہے اور جب شاعر کی انا کائناتی نظام فنا سے دوچار ہوتی ہے تو زماں کے در پر دستک دیتی ہے اور محدودیت کو تج کر کائنات میں جاری تخلیقی قوت سے ہم آہنگ ہونے کے تجربے سے گزرتی ہے۔ اس تجربے کی اکناف میں بجھے ہوئے جہانوں کے خاکے بھی ہیں اور نئے جہانوں کی ڈولتی پرچھائیاں بھی۔ مثلاً مجید امجد کی غزل کے دو شعر دیکھیے: ضمیر راز داں ہے اور میں ہوں جہاں اندر جہاں ہے اور میں ہوں یہ دو ساتھی نہ جانے کب بچھڑ جائیں میری عمر رواں ہے اور میں ہوں گویا میں یا ایغو اب عمر کی مختصر معیاد کا سمبل نہیں رہی۔ اب تک مجید امجد نے موت کو ذاتی حوالے سے دیکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جب موت کو باہر دیکھتے ہیں تو کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ مجید امجد نے موت کو جب کسی بھی ذی حیات پر طاری ہوتے دیکھا ہے تو بھی اپنے اندر ڈوب گئے ہیں اور ایک ذاتی رد عمل ظاہر کیا ہے۔ یہ رد عمل دو طرح کا ہے۔ طنزیہ اور درد مندانہ۔ طنزیہ رد عمل وہاں ظاہر ہوا ہے جہاں وہ موت کو سماج کی طرف سے وارد ہوتا دیکھتے ہیں۔ یہاں وہ سماج کے بے روح اور میکانکی رسوم و روایات کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں، جو فرد سے بطور ایک انسان تعرض نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں ’’ صدا بھی مرگ صدا‘‘ ،’’ کارخیر‘‘،’’ توسیع شہر‘‘ اور’’ ہوٹل‘‘ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ ’’ صدا بھی مرگ صدا‘‘ گہرے دکھ یاس اور طنز میں ڈوبی ہوئی نظم ہے۔ ہر ایک ایسے صاحب سخن کی داستان بھی ہے جو رہ زمانہ سے دور اور اپنی فصیل خیال میں محصور ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تخلیق فن کی لذت (شاعر نے اس سکوت سینہ یک چوب نے میں ڈوبنے کے استعارے میں بیان کیا ہے) جس میں ڈوب کر نظام دنیا (جس میں سماجی رسوم سے لے کر عصری ابدی شعریت تک کا مفہوم شامل ہے) سے بے پروا ہے۔ ایسے شخص کا انجام کیا ہوتا ہے؟ دنیا اور تقدیر دونوں اسے بے نام و نشان بنا دیتی ہیں۔ ایسا صاحب سخن جب اپنی روح کی دھیمی آگ کو قالب حرف میں ڈھالتا ہے تو روح کی آگ جامہ برف پہن لیتی ہے۔ یعنی ایک تو روح کی آگ کو وہ الفاظ اور اسالیب بیان کیوں کر اپنے دامن میں ’’ سمیٹ‘‘ سکتے ہیں، جو معاشرتی کنونشنز کی پیداوار ہوتے ہیں اور جنہیں شاعر رہ زمانہ کہہ کر مسترد کر چکا ہے۔دوسرا جامہ برف کی ترکیب عصر کی بے حسی کا پتہ دیتی ہے۔ چنانچہ اس نظم میں دنیا اور تقدیر دونوں کو نشانہ طنز بنایا گیا ہے۔ نظم کی آخر لائن میں کتنا گہرا طنز ہے: مقدروں کے دھوئیں سے ابھرتے راہ گیرو نشان اس کا مٹاتے چلو، زد پا سے جبین دنیا سے! ’’ کار خیر‘‘ ایک لاوارث، اپاہج، بھکارن بڑھیا کی موت پر لکھی گئی ہے۔ نظم میں دو گونہ طنز ہے اور طنز کا نشانہ وہ معاشرتی رویے اور ان کے حامل لوگ ہیں جو خیرات اور دان کی حصول جنت کا ذریعہ خیال کرتے ہیں اور عمل میں بے غرض نہیں ہوتے۔ لوگوں کی ہوس جنت ہی ایک طرح سے بھیک اور دان کے سلسلے کو باقی رکھتی ہے مگر اس سے انسانی انا کی کتنی تحقیر ہوتی ہے، اس کی پروا کوئی نہیں کرتا۔ چنانچہ شاعر طنز کرتا ہے کہ وہ اپاہج بڑھیا کتنی اچھی تھی جو جیتے جی لوگوں کے چرنوں میں ان کے بچے کھچے ٹکڑوں کے عوض جنت کی جاگیر رکھ گئی اور کیسی بھاگ والی تھی کہ ایک سفید کفن کے بدلے خیرات کرنے والوں کے چہروں پر کوثر کی ایک اجلی موج کی چاندی برسا گئی۔ نظم کے آخر میں شاعر اعلان کرتا ہے کہ اس کا دھن والوں کے اس قبیلے سے کوئی تعلق نہیں: میری روح کا ڈھانپ گیا اک زہر بھرا طوفان ننگی موت کے بھینٹ ہوا جب بیس روپے کا دان ذرا ان لائنوں میں مستور طنز پر غور کیجئے۔ شاعر دان کے خود غرضانہ عمل سے اپنی روح کو ننگا محسوس کر رہا ہے۔ یہ ننگی روح انسانیت کا سمبل قرار دی جا سکتی ہے۔ اس ننگی روح کو زہر بھرا طوفان ڈھانپتا ہے۔ بڑھیا کی ننگی میت بھی شاعر کو انسانیت کی ننگی روح کا استعارہ محسوس ہوتی ہے۔ بیس روپے کا دان (یعنی کفن) جب اسے اسے ڈھانپنا ہے تو گویا انسانیت کی ننگی روح ایک زہر بھرے طوفان کے عذاب سے دوچار ہوتی ہے۔ ’’ توسیع شہر‘‘ بھی ایک غیر معمولی نظم ہے اپنے مرکزی تاثر کے لحاظ سے طنز یہ ہے۔ مجید امجد کی طبعی درد مندی جملہ مخلوقات عالم کو محیط ہے۔ شہر کی توسیع کے خاطر جب بیس برس پرانے درختوں کو بیس ہزار میں فروخت کیا جاتا ہے (’’ کارخیر‘‘ اور’’ توسیع شہر‘‘ میں بیس کا ہندسہ مشترک ہے۔ معلوم نہیں اس ہندسے کا کیا طلسم ہے!) مجید امجد اسے قتل قرار دیتے ہیں۔ جب وہ سہمی دھوپ کے زرد کفن میں درختوں کی لاشوں کے انبار دیکھتے ہیں تو آل آدم سے گہرے دکھ اور شدید طنز کے لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں: آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار اس مقتل میں صرف اک میری سوچ، لہکتی ڈال اس پر بھی اب، کاری ضرب اک، اے آدم کی آل گاتی نہر کے دوار کھڑے ہو کر شاعر خود بھی ایک درخت بن جاتا ہے، مگر جو ’’ مقتول درختوں‘‘ میں واحد زندہ درخت ہے۔ وہ آدم کی آل سے اک کاری ضرب کا مطالبہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ توسیع پسند، مادہ پرست، خود غرض معاشرے میں جینا بے معنی خیال کرتا ہے نیز وہ فطرت اور انسان کے تعلق کے کٹنے سے جو خلا محسوس کرتا ہے، وہ موت کی مانند ہے۔ نظم ’’ ہوٹل میں‘‘ شاعر کا دل در دمندان مرغوں، مرغیوں کی موت کے دکھ کو محسوس کرتاہے جنہیں بارش کے موسم میں ہوٹلوں میں ذبح کیا جاتا ے اور مے کے پیالوں کے ساتھ لوگوں کو پیشکیا جاتا ہے۔ شاعر اس منظر میں صرف کراہت کے آثار ہی نہیں دیکھتا، ’’ بھوکی مایا کے مان‘‘ بھی دیکھتا ہے اور ہوٹل سے اٹھ آتا ہے۔ باہر ۔۔ٹھنڈی رات کا گہر کیچڑ۔۔۔ درد بھرے آدرش چلو یہاں سے۔۔۔ ہمیں پکارے ننگی سوچوں کا رتھ بان باہر کی ٹھنڈی رات کے گہرے کیچڑ سے عبارت ہونا گہرا معانی کا حامل ہے۔ صرف رات اور بارش کی ٹھنڈک اور کیچڑ ہی اس سے مراد نہیں بلکہ یہ الفاظ پورے سماج کی علامت بن گئے ہیں، جس کے رویے ٹھنڈی رات کی طرح بے حسی اور تاریکی میں ہی ملفوف نہیں، کیچڑ کی طرح غلیظ اور ایسے ’’ دلدلی‘‘ بھی ہیں کہ حساس فرد کی ان سے ہم آہنگی محال ہے۔ چنانچہ چلو یہاں سے کا مطلب فقط ہوٹل سے اٹھنا نہیں بلکہ دنیا سے اٹھنا بھی ہے۔ ان چاروں نظموں میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ شاعر سماج اور نظام دنیا کو ہوس زدہ، مفاد پرست، بے حس، سنگدل اور اخلاقی و انسانی اقدار سے خالی قرار دیتا ہے۔ اس سماجی نظام کی انسان دشمنی اور روحانی کھوکھلے پن کو اجاگر کرنے کے لیے وہ ہر نظم کے آخر میں اپنے وجود کے انہدام کی بات کرتا ہے۔ ممکن ہے اس طلب مرگ کے پیچھے جبلت مرگ (Thanatos)بھی کر فرما ہو! مگر یہ نمایاں نہیں ہے۔ مجید امجد ایک ایسا فنکار تھا، جسے تخلیق فن کی حرمت اور مسرت و بصیرت سب سے زیادہ عزیز تھی۔ نیز وہ اسے عمل خیر کا تسلسل قرار دیتے تھے۔ یوں تخلیقی عمل ان کی نظر میں ایک اعلیٰ تر درجے کی اخلاقی قدر کا حامل تھا وہ جب معاشرتی سطح پر اخلاقی اقدار (اپنے وسیع مفہوممیں) کو جا بجا منہدم ہوتے دیکھتے ہیں تو انہیں تخلیق/عمل خیر کے سلسلے میں ایک بے معنویت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بے معنویت ان کی نظر میں موت کے مترادف ہے۔ موت کے سلسلے میں مجید امجد نے درد مندانہ طرز عمل وہاں ظاہر کیا ہے، جہاں موت انہیں ایک فطری عمل اور تقدیر کے جبر کی پابند نظر آئی ہے۔ (یوں لگتا ہے جیسے ان نظموں میں ان کی روح کی وہ باریک اور لطیف ترین پرت ہم کلام ہے جو کائنات کی معمولی حقیر اشیاء سے لے کر عظیم کہکشاؤں کی ان کہی سننے پر بھی قادر ہے) اپنی ایک ابتدائی نظم ’’ پژ مردہ پیتاں‘‘ میں وہ جب جور خزاں کے ہاتھوں سپرد اجل ہونے والے خشک پتوں کے لاشے دیکھتے ہیں تو ان سے درد مندی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہاں انہیں موت سفاک نہیں بلکہ ایک ہمدردانہ فطری عمل دکھائی دیتی ہے جو ایک نئی زندگی کا پیش خیمہ ہی نہیں، نئی ارتقا یافتہ حیات کے لیے ناگزیر بھی ہے۔ گویا موت تجدید و ارتقا کا ذریعہ ہے۔ اس نظم میں مجید امجد موت کے کلاسیکی تصور کے حامل ہیں جس کے مطابق زندگی جسم و روح کی محویت سے عبارت ہے اور موت کا وار صرف جسم پر پڑتا ہے تو روح آزاد ہو جاتی ہے۔ نیز موت ماندگی کا ایک وقفہ ہے اور ایک پڑاؤ ہے۔ نظم ’’ پکار‘‘ میں وہ جب ایک لالی کو بجلی کے کھمبے پر موت کی زد پر آیا ہوا دیکھتے ہیں تو ایک پکار سے اڑا کر اسے موت کی بانہوں میں جھولنے سے بچا لیتے ہیں۔ اس نظم میں لالی کے ساتھ درد مندی کے گہرے جذبات کے علاوہ ایک خفیف سا طنز بھی ہے، جس کا ہدف شاعر کا اجتماعی شعور ہے۔ لالی جب پکار پر اڑ جاتی ہے تو شاعر آسودگی کا ایک سانس لے کر اپنے اندر جھانکتا ہے: ادراک تم ہو انگاروں پر بیٹھے ہو اور پھولوں کے سپنوں میں گم ہو میرے دل کی اک اک چیخ تمہیں بے سود پکارے انگاروں پر بیٹھ کر پھولوں کے سپنوں میں گم ہونا۔۔۔ زندگی کے معروضی، کھردرے حقائق سے آنکھیں بند کر کے، متخیلہ کے تراشے ہوئے بتوں میں کھوئے رہنے کے مترادف ہے جو ظاہر ہے، ایک فراری رویہ ہے۔ تخلیقی رویہ تو انگاروں کی جلن اور حدت یعنی تلخ سنگین حقیقتوں کو سہنے کے لیے اپنی سائیکی میں مضمر قوتوں کو کچھ اس طور منکشف کرنے سے عبارت ہے کہ خود کھردری حقیقتوں کی قلب ماہیت ہو جائے۔ یعنییا تو وہ اپنے کسی داخلی معنی کی وجہ سے انسانیت کے لیے قابل قبول اور حسین ہو جائیں یا پھر سائیکی کی قوتیں ان کی ماہیت ہی بدل دیں۔ خود انگارے پھول بن جائیں۔ مجید امجد کے لیے انسان کے فراریت پسندانہ رویے پر چوٹ کرتے ہیں کہ وہ موت جیسی تلخ اور سفاک حقیقت کو بھلا کر ایک خیالی اور سرابی جنت کے خوابوں میں گم ہیں۔ ان لائنوں کی ایک ان کہی یہ بھی ہے کہ موت سے آنکھیں بند کر لینے سے موت ٹل نہیں جاتی۔ نیز انسان بڑا کٹھور واقع ہوا ہے کہ لالی تو ایک پکار پر بام اجل سے اڑ کر زندگی کی بیکراں فضا میں پرواز کر جاتی ہے مگر انسان دل کی مسلسل چیخ پکار پر بھی بے حس رہتا ہے۔ گو موت ہر زندہ وجود کا مقدر ہے مگر صرف انسان نے اسے اپنی زندگی کے بنیادی Concernکے طور پر لیا ہے۔ علم و تہذیب کا کوئی گوشہ، مسئلہ فنا کو نظر انداز نہیں کر سکا۔ مذہب نے (جو ہزاروں برسوں سے انسان کی جذباتی اور معاشرتی زندگی کی سب سے بڑی موثر قوت رہا ہے) دیگر تہذیبی شعبوں کے مقابلے میں موت کے مسئلے کو زیادہ اہمیت دی ہے اور بالعموم اسے زندگی کے لامنتہی راستے کا محض ایک پڑاؤ، نجات کا ذریعہ اور ابدی حیات کے ماورائی عالم میں داخلے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ ایک اعتبار سے یہ موت کے نفسیاتی خوف کو کم کر کے زندگی کو بامعنی بنانے کی کوشش بھی ہے۔ بایں ہمہ موت شخصی سطح پر مختلف اور متنوع معانی کی حامل رہی ہے۔ عمر کے بڑھنے اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ موت کے معانی بدلتے جاتے ہیں۔ گو معانی کی تبدیلی کا یہ سارا عمل ایک بنیادی پیٹرن کے تابع رہتا ہے جو کسی شخص کی زندگی کو جینے اور الجھنے کی ہمہ جہت کوششوں سے مرتب ہوتا ہے۔ یوں گویا موت ایک نفسی واقعے کے طور پر زندگی کے قدم بہ قدم ہمراہ رہتی ہے۔ موت کے نفسی اثرات اس وقت زیادہ شدید اور گہرے ہوتے ہیں، جب یہ ہمارے پیاروں کو پیش آتی ہے۔۔۔ مجید امجد نے کچھ نظمیں رفتگاں پر لکھی ہیں۔ اس حوالے سے تین نظمیں اہم ہیں۔ ’’ بے نشان‘‘ ،’’ صدائے رفتگاں‘‘ اور چہرہ مسعود پہلی نظم میں شاعر اپنے نادیدہ پیش رو کی قبر پر جاتے ہیں جو آندھیاں آنے اور بدلیان برسنے سے (یعنی وقت کے ہاتھوں) بے نشان ہو چکی ہے۔ شاعر اندازے سے کچھ کنکریاں ایک جگہ رکھ کر مقام قبر نشان زد کرتا ہے مگر اس کا ذہن لاکھ خانوں میں بٹ جاتا ہے تو وہ کنکریاں بکھیر دیتا ہے: بے نشاں خاک، میرے سامنے اب ان جہانوں کا ایک حصہ ہے جن کے بھیدوں کی تھاہ میں تو ہے جن کے سایوں کی قبر میں میں ہوں گویا موت پہلے انسان کے جسمانی وجود کی تنظیم کو بکھیرتی ہے۔ پھر زمانہ انسان کی سب نشانیوں کو مٹا ڈالتا ہے۔ زمانے کے مدلول میں دنیا اور وقت دونوں شامل ہیں۔ ہر چند یہ دونوں، انسان اور اس کی نشانیوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیتے ہیں مگر انسان علم، عرفان اور تخلیق کی مدد سے فنا کے سب حربوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس فنا پذیر جہان سے ایسے جہانوں کا حصہ بن جاتا ہے جو نہ صرف فنا سے ماورا ہیں بلکہ جن کا اسرار بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یوں مجید امجد کو موت ایک ایسا پردہ نظر آتی ہے جو فانی اور بھید بھرے جہانوں کے بیچ حائل ہے۔ ممکن ہے شاعر ان خیالات تک اس لیے پہنچتا ہو کہ موت کے ساتھ عدمیت کامل کا جو احساس وابستہ ہے، وہ اس پر غالب آنا چاہتا ہو۔ انسان جیسی باشعور اور انا کی حامل ہستی خود کو عدم محض کے سپرد کر کے مکمل طور پر فنا ہو جانے پر کیوں کر آمادہ ہو سکتی ہے؟ صوفیا جب اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں تو دراصل ایک بڑے کل کی نسبت سے ذات کے اثبات کی منزل طے کرتے ہیں۔ اگلی دو نظمیں ’’ صدائے رفتگاں‘‘ اور’’ چہرہ مسعود‘‘ 65ء کی جنگ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں ہیں۔ خود کشی اور شہادت دونوں خود اختیاری امور ہیں مگر ایک زندگی کی ناقابل برداشت بے معنویت اور دوسری زندگی کی اعلیٰ تر درجے کی معنویت کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ آخر الذکر موت ایک نئے عہد اور نئے عصر کی نمود کرتی ہے۔ دونوں نظموں میں شہید کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ موت کے حوالے سے مجید امجد کی ایک نہایت اہم نظم ’’ مسلخ‘‘ ہے۔ نظم میں دھرتی کے تھال کو مسلخ کہا گیا ہے، جس میں روزانہ ڈھیروں گوشت کٹتا اور دنیا کے بازاروں اور گلیوں میں ٹکڑوں کی شکل میں تقسیم ہوتا ہے۔ دنیا میں موت کی فراوانی اور ارزانی کے لیے دھرتی کے مسلخ کے استعارے سے بہتر اور جامع استعارہ شاید ہی کسی نے پیش کیا ہو۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ اس استعارے سے بہتر اور جامع استعارہ شاید ہی کسی نے پیش کیا ہو۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ اس استعارے میں، موت کے سلسلے میں شاعر کا تاثر اس قدر شدید ہے کہ دھرتی کی صفت نمو دب کر رہ گئی ہے۔۔۔ یہاں پوری نظم کی جملہ معانی پر بحث کی گنجائش نہیں۔ نظم کے مرکزی نکتے کے سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں۔ شاعر جب مسلخ میں کھالیں، بھیجے اور انتڑیاں دیکھتا ہے تو (کراہت اور) حیرت کا اظہار کرتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہے! شاعر یاد کرتا ہے کہ برسوں پہلے کی تصویر کے مطابق یہ سب خود آگاہ جیالے لوگ تھے، جن کے دھڑ جیتے ریشوں کے کس بل میں سنبھلے ہوئے تھے، مگر اب ان کی بو تک بھی شہر ابد کے تہ خانوں سے نہیں آتی۔ یعنی بے نشان ہو چکے ہیں (اور فقط شاعر کے تصور کے ایک نقطے کی صورت زندہ ہیں۔ انسانی یادداشت اور تصور میں باقی رہنا بھی موت پر زندگی کی جیت کی ایک شکل) دوسری بات یہ کہ باقی صرف سورج کی اک چنگاری۔۔۔۔ اور اس چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی جس کی ہر پتی کا ماس فرد۔۔۔۔! عصر۔۔۔۔! حیات۔۔۔! گویا ہست ایک کلی ہے، جو سورج کی چنگاری کے دل میں (بصورت دل ہی) دھڑک رہی ہے۔ زندگی عین موت کے قلب میں سانس لے رہی ہے۔ ہست کی کلی تو بہر طور ’’ دھڑک‘‘ رہی ہے مگر اس کی پتیاں۔۔۔۔ فرد، عصر اور حیات۔۔۔۔ دھرتی کے مسلخ میں ماس کی طرح کٹ کر تقسیم ہو رہی ہیں۔ یہ پتیاں پارول ہیں اور کلی لانگ ہے۔ 1968ء کا سال مجید امجد کی شاعری میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس برس انہوں نے نہ صرف سب سے زیادہ (35)نظمیں تخلیق کیں بلکہ ان کی نظموں کی جہت بھی بدل گئی۔ عمر کے اس حصے (یعنی 54ویں برس) میں مجید امجد سوت کی چاپ کو اپنے جسم کی قلمرو میں بار بار ابھرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ یوں تو جسم جن خلیوں سے بنا ہے وہ ہر دم فنا ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیے لے رہے ہیں (گویا زندگی اور موت کا کھیل ہر لمحہ جاری ہے) مگر ایک مرحلے پر خلیوں کی تخلیق کا عمل سست پڑنا شروع ہو جاتا ہے، جس سے قویٰ میں اضمحلال پیدا ہوتا اور عناصر سے اعتدال رخصت ہو جاتا ہے۔ اس عمل کا احساس اتنا شدید ہوتا ہے کہ براہ راست موت کی آمد کا تیقن پیدا کرتا ہے۔ موت کو اپنے بدن میں رینگتے ہوئے اور جسم کے حصار کے انہدام کو محسوس کرنا گہری نفسیاتی اور روحانی تبدیلیوں پر منتج ہوتا ہے۔ بعض پودے اور جاندار جب چراغ عمر کو ہوائے فنا کی زد پر محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے بنیادی مقصود تخلیق یعنی تولیدی سطح پر غیر معمولی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (خود جنسی و تولیدی فعالیت بالواسطہ طور پر موت کو شکست دینے کا ایک حربہ ہے) دوسرے لفظوں میں یقین مرگ جب کسی زندہ عضویے کی فزیالوجی میں ’’ سرگرم‘‘ ہوتا ہے تو وہ عضویہ اپنے مقصود تخلیق سے آشنا اور اس کے حصول میں متحرک ہو جاتا ہے۔ اس طرح زندگی موت کا مقابلہ مقاصد، اقدار اور تخلیق کے میدان میں کرتی ہے۔ مجید امجد جب موت کے یخ ہاتھوں کے لمس کو اپنے وجود کے رگ و پے میں محسوس کرتے ہیں تو تخلیقی اور روحانی سطح پر بے حد فعال ہو جاتے ہیں۔ مجید امجد کی اس دور کی نظموں کے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے مضمون ’’موت کی دستک‘‘ (جو مجید امجد کی نظموں میں موت کا اولیں مطالعہ بھی ہے) میں لکھا ہے: ’’ ۔۔۔۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری چار پانچ سالوں میں جو نظمیں لکھیں ان میں عرفان (Isnessیا موجودگی کا عرفان) زیادہ توانااور بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ وجہ یہ کہ خود جسمانی نظام انسان کی عارفانہ تیز نگاہی کے راستے میں مزاحم ہے۔ انسانی حسیات کی زد (Range) محدود ہے اور زد کے ہالے میں انسان محبوس پڑا ہے مگر جب بعض بحرانی تجربات، شدید علالت یا آمد پیری کے مواقع پر انسانی جسم کا قلعہ ٹوٹنے لگتا ہے تو اس کے نتیجے میں قلعے کی دیواروں میں روزن اور جھریاں سی نمودار ہو جاتی ہیں جن میں سے اس کے لیے مظاہر کی کنہ میں دیکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ مجید امجد کے کلام میں Isness کے اس تجربے نے اگر جابجا اپنی جھلک دکھائی ہے تو اس کے پس منظر میں مجید امجد کی شدید تنہائی، علالت اور قویٰ کے اضمحلال کی ایک پوری کہانی با آسانی پڑھی جا سکتی ہے۔‘‘ (مجید امجد کی داستان محبت۔ ص140-139) ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ خود جسم عارفانہ تجربے کی راہ میں حائل ہے۔ علالت یا بڑھاپے کی وجہ سے جب جسم منہدم ہونے لگتا ہے تو گویا معرفت کے راستے کی دیوار گرنے لگتی ہے، مگر ایسا صرف مجید امجد جیسے حساس اور صاحب بصیرت شعرا کے ساتھ ہوتا ہے۔ مجید امجد بڑھاپے، اضمحلال اور تنہائی کی واقعیت کو ’’ موجودگی‘‘ کے عرفان کی سیڑھی بناتے ہیں۔ اس زمانے کی نظموں میں مجید امجد کا باطن کائنات گیر وسعت اور لا محدودیت سے ہم آہنگ ہے۔ وہ اپنے وجود کی گہرائیوں میں کائناتی اسرار کی دھڑکن محسوس کرنے لگے ہیں، جسے احساس بحر آسا (Oceanic Feeling) کہا گیا ہے۔ ’’ دور ادھر‘‘ ،’’ جدھر جدھر بھی‘‘ ،’’ گہرے بھیدوں والے‘‘ ،’’ میری عمر اور میرے گھر‘‘ ،’’ گرے ہوئے اس اک ڈھانچے‘‘ اس ضمن میں قابل ذکر نظمیں ہیں۔ مجید امجد کی اس آخری دور کی نظموں میں آدمی کے لیے مٹی اور مٹی کی مورت کا استعارہ بار بار پیش ہوا ہے۔ یہ موت کا خاکی اور ’’ کنکریٹ‘‘ روپ بھی ہے موت کے آگے آدمی مٹی کی مورت سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں۔ مٹی اور موت کے استعارے کی پیشکش کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شاعر کو آخری ٹھکانہ قبر بھی اکثر یاد آتا ہے، جس میں آدمی یعنی مٹی کی موت کو مآل کار پہنچنا ہے۔ علاوہ ازیں اس عہد کی نظموں میں مٹی کے گھروندے، اینٹوں کے محلے، گڑھوں کا ذکر بھی بکثرت ہوا ہے کہ مٹی کی موت کو مٹی یا اینٹوں کے ایک گھروندے سے اٹھ کر مٹی کے دوسرے گڑھے میں جانا ہے۔ ان کی روح کے ایک پرانے گڑھے سے خلوص کا لاوا ابل پڑتا ہے وہ روتے ہیں ٭٭٭ تیری نورانی مٹی سے باہر جو مٹی ہے جانے اس مٹی میں کیسے کیسے کافر تیری محبت میں چمٹے ہیں تو نے دیکھا۔۔۔۔؟ (زائر) ٭٭٭ میری عمر اور میرے گھر سے باہر!۔۔۔۔ اس دائم آباد محلے۔۔۔ اس اینٹوں کے ابد میں وہ جو کچھ عمریں ہیں نیچی نیچی چھتوں کے نیچے۔۔۔ (میری عمر اور میرے گھر) ٭٭٭ اپنے غرور میں جینے والی مٹی کی اس اک مورت کو دیکھ کے ڈرنے والے ڈر جاتے ہیں اور میں اس تیری مورت کی بے علمی سے ڈر جاتا ہوں جس کو علم نہیں وہ کرنوں کی بوچھار میں ہے اور ان جھالوں میں جھڑ جائے گی (بندے) مجید امجد کی آخری چھ برسوں میں تخلیق ہونے والی ہر نظم گہری اور تہ دار معنویت کی حامل ہے اور مفصل تجزیے کی متقاضی ہے۔ تاہم ان نظموں کا مجموعی مزاج ایک ایسے صاحب عرفان کے احساسات اور خیالات سے مرتب ہوا ہے، جسے زندگی کی فنا پذیری کے یقین نے اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے۔ ایقان فنا نے بیک وقت ڈر، کرموں کا حساب، ان دیکھی دنیا سے متعلق متنوع تصورات اور لوگوں کی موت کی طرف سے بے علمی وغیرہ کو شاعر کے فکر اور وجدان کا حصہ بنا رکھا ہے۔ وہ اپنی کئی نظموں میں ڈر کو زندگی کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ موت کے مقابلے میں ڈر کا ہونا بھی زندہ ہونے کی نشانی ہے۔ نیز خوف اجل عمر کی مہلت کے مختصر ہونے کا واضح شعور عطا کرتا ہے اور پھر یہ شعور زندگی کے مقاصد اور اقدار کی تعین و تخلیق اور کرموں کے حساب پر مائل کرتا ہے۔ ان دیکھی دنیا سے متعلق شاعر کا وژن روشنی اور نور سے عبارت ہے۔۔۔ مجید امجد جب آدمی کو مٹی کی مورت کہتے ہیں تو روایتاً استعارہ نہیں برت رہے ہوتے بلکہ ان معانی میں کہ مورت اپنے آپ سے اور باہر سے لاعلم ہوتی ہے۔ یہ لاعلمی، بے حسی اور سنگدلی کے مترادف بھی ہے۔ مجید امجد آخری عمر میں جس ذہنی اور ادراکی سطح پر مسلسل فائز رہے، وہ جب اسی سطح پر سے ارد گرد کے لوگوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں لوگ بے خبری کے راستے پر پڑے ہوئے پتھر اور کنکر دکھائی دیتے ہیں۔ ادراک کی بلند سطح سے انہیں ارض و سما بھی دو پہیے نظر آتے ہیں جن کا دستی دستہ شاعر کے ہاتھ میں ہے، بالکل ان کے سائیکل کی طرح! احساس فنا کے تحت مجید امجد کے سب سرمایہ فکر کو پیش کرنا فی الوقت ممکن نہیں تاہم دو نظمیں اس ضمن میں خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں۔ پہلی نظم ’’ جانے اصلی صورت۔۔۔۔‘‘ ہے۔ اس نظم میں موت اور زندگی کا ’’ رشتہ و پیوند‘‘ ایک اوریجنل اسلوب میں پیش ہوا ہے۔ یہاں ذہن کی اک رو ہے، جس کے ساتھ شاعر کی سوچ، عمر اور دنیا بہا کی ہے۔ یعنی زندگی یا ہست ایک تخلیقی دھارا ہے، جس سے خیالات، عمریں اور دنیا بہتی ہے (وہی نظم ’’ مسلخ‘‘ کا فرد، عصر اور حیات) اس دھارے میں بہتے بہتے یوں جب بھی دیکھا، میرا دل اک وہ قوت تھی جس کے آگے پہاڑ بھی تنکا تھے۔۔۔ یہ حقیقت کا ایک رخ ہے جو زندگی ہے، دوسرا رخ کیا ہے؟ اک یہ دراڑ جو میرے پہیہ دماغ میں ہے کون اس کو پھلانگ سکے گا اک یہ دراڑ، کہ جس کے ادھر ٹھٹک کر رہ جاتے ہیں سارے خیال اور سارے ارادے جس کے ادھر میری ذلت ہے جس کے ادھر میں اک بے بس قوت ہوں موت (سائیکل کے پہیے کی) اس دراڑ کی مانند ہے، جس کو پھلانگنا آسان نہیں۔ یہ حقیقت کا دوسرا رخ ہے۔ حقیقت کا پہلا رخ (جو پیاڑ کو تنکے برابر سمجھتا ہے) چونکہ شاعر پر روشن ہے، جب وہ دوسرے رخ (جو محض ایک دراڑ کی مثل ہے) سے متعارف ہوتا ہے تو ایک جدلیاتی احساس سے دو چار ہوتا ہے اور ذلت اور بے بسی محسوس کرتا ہے۔ شاعر ذلت اور بے بسی کو انسانی تقدیر نہیں سمجھتا کیونکہ اسے یہ عرفان حاصل ہے کہ اس دراڑ کے ورے اک یہ دراڑ کہ جس کے درے وہ مقدس آگ ہے جس کی لو میں کلیوں کی برکھا ہے سوال یہ ہے کہ شاعر کو یہ کیسے یقین ہے کہ موت کی دراڑ سے پرے ایک ایسی مقدس آگ ہے (جو جل کر راکھ کر سکتی ہے مگر) جس کی لو میں کلیوں کی برکھا ہے۔ کیا یہ لسانی ثقافتی نظام ہے جو شاعر کو بعد از موت کی زندگی کو ایک مثالی صورت میں دکھا رہا ہے۔ خصوصاً حضرت ابراہیم ؑ کے آتش نمرود میں جلائے جانے اور آگ کے گلزار بننے کے مذہبی واقعے کی پرچھائیں صاف نظر آ رہی ہے۔ کیا شاعر ایک کشف کی زد پر ہے؟ دونوں باتیں ممکن ہیں۔ مگر ایک نہایت اہم نکتہ یہ کہ شاعر کی نظر میں آگ کی لو میں کلیوں کی برکھا بھی خود ذہن کی ہی تخلیق ہے۔ (یہاں بھی نظم ’’ مسلخ‘‘ کی وہ لائنیں دہرائی جا رہی ہیں، جن میں ہست کو سورج کی چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی کہا گیا ہے۔) آگے وہ سرشاری ہے جس کی کشید بھی میرے ہی ذہن میں ہوتی ہے! زندگی کا ذہن کی رو، موت کا پہیہ، دماغ کی دراڑ اور (بعد از موت کی) سرشاری کا ذہن کی کشید ہونا۔۔۔۔ گہرے معانی کا حامل ہے۔ گویا اصل حقیقت اور ازلی سچائی ذہن ہی ہے کہ جو نہ صرف فنا کی دسترس سے دور بلکہ زندگی کے ہزار پیرایوں کی تخلیق پر قادر بھی ہے۔ غور کریں تو یہاں ’’ ذہن‘‘ کوانٹم ویکیوم (Quantum Vacunm)کی علامت ہے۔ طبی کائنات میں فنا (مستقل خاتمے کے معنی میں) کوانٹم ویکیوم ابدی طور پر وجود رکھتا ہے۔ بقول ڈینا زوہر(Dana Zohar) اسے ’’ وجود کا کنواں‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں تمام بنیادی خصوصیات۔۔۔ کمیت/توانائی، چارج وغیرہ۔۔۔ محفوظ و مامون ہیں۔ انفرادی ذرے (Individual Particles) کوانٹم ویکیوم سے اٹھتے، کچھ دیر باہر رہتے اور دیگر ذرات سے ٹکراتے ہیں۔ پھر یا تو واپس اپنے مرکز میں چلے جاتے ہیں یا پھر ایک نئے ’’ وجود‘‘ میں ڈھل جاتے ہیں۔ ذرات کا ویکیوم سے اٹھنے کا عمل بے سود اور تفنن طبع کی خاطر نہیں ہوتا۔ اگر دو ذرات باہم ٹکرائیں تو ان میں سے ہرایک اپنی انفرادی حیثیت کا بلیدان دے دیتا ہے، لیکن نیا ذرہ ان کی کمیت کے مجموعے کا حامل ہوتا ہے۔ یوں ذرات کا ٹکراؤ بظاہر تو انفرادی ذروں کی فنا ہے مگر حقیقتاً ایک ایسے ذرے کی تخلیق کا ذریعہ بھی ہے، جس میں ’’ فنا ہونے والے‘‘ ذات کی بنیادی خصوصیت موجود ہوتی ہے۔ انسان کی ساری زندگی کی کہانی انہی ذرات کی مذکورہ داستان کا ہی روپ ہے۔ انسانی زندگی اور جینے کی کوشش (بشمول موت پر غالب آنا) بے سود نہیں ہیں۔ ارادہ، کوشش اور مخالف عناصر (پہیہ دماغ کی دراڑ) سے آویزش بالآخر ایک سرشاری پر منتج ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی اگلی اور آخری نظم ’’ ہر جانب ہیں۔۔۔۔‘‘ اس نظم میں شاعر ایک حرف زندہ کے اپنے لبوں پر آنے کی تمنا اور دعا کر رہا ہے! میرے نسیانوں میں جہندہ، حرف زندہ، تیرے معنوں میں مواج ہیں وہ سب علم جو روحوں کو کھیتے ہیں اس اک گھات کی سمت جہاں امید اور خوف کے ڈانڈے مل جاتے ہیں امید اور خوف کے ڈانڈے، پہیہ دماغ کی اس دراڑ کی مانند ہیں، جس کے ایک طرف ذلت و بے بسی (بمنزلہ خوف) اور دوسری سمت سرشاری(بمعنی امید) ہے۔ نیز وہ گھاٹ ہے جہاں ڈوبنے اور ابھرنے، زندگی اور موت کی حد فاضل مٹ جاتی ہے۔ اب تو ساری دنیا میں سے جس اک شخص کو ڈوبنا ہے، وہ میں ہوں اب تو ساری دنیا میں وہ شخص جو تیر کے بچ نکلے گا، میں ہوں اس نظم میں مزید دو نکتے اہم ہیں۔ اول یہ کہ نظم شاعر کی فردیت(Individuation) کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔فردیت، انفرادیت کی ترقی و نشوونما سے الگ اور جدا مفہوم کی حامل ہے۔ انفرادیت کا تعلق شعور سے ہے جس کا مرکز انا ہے، جب کہ فردیت شعور اور لاشعور کی ایک ایسی کلیت کا احاطہ کرتی ہے جس میں جز اور کل کی دوئی باقی نہیں رہتی۔ آدمی جب تک جزو سے وابستہ رہتا ہے خوف، دکھ اور بے بسی میں مبتلا رہتا ہے، مگر جب کل سے یکجائی اختیار کر لیتا ہے تو امید اور سرشاری پاتا ہے۔ بعض اوقات تو خوف اور امید دونوں سے ماوراء بھی ہو جاتا ہے۔ ایک زاویے سے یہ بے حسی (Apathy)ہے مگر دوسرے زاویے سے یہ بے نیازی ہے۔۔۔۔ فردیت بقول ژونگ تفاعل کے اعتبار سے مذہبی ہے اور اپنے مقصود کے لحاظ سے ’’ جمالیاتی‘‘ ہے یعنی تکمیل ذات ہے۔ تکمیل ذات صرف ایک واردات نہیں، اپنے اندر ایک کامل انسان (The Wholeman)کا مسلسل شعور بھی ہے۔ اور کامل انسان کا ظہور زندگی اور موت کی ثنویت، ڈوبنے اور ابھرنے کے امتیاز، امید اور خوف کے فرق کو دور کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ نظم کے سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ شاعر جس حرف زندہ کا طالب ہے وہ ان تمام معانی (اور علوم) کا علمبردار ہے جو زندگی کی ساری بے معنویت اور لغویت کا مداوا ہیں۔ انسان کی جملہ سرگرمیاں حاصل اور معنی کی تلاش پر مرکوز رہتی ہیں۔ ظاہراً تو حاصل اور معنی اسی طرح جبلی تقاضے کے تابع ہیں، جیسے جنس، بھوک وغیرہ۔ مگر اصلاً یہ فنا کے خوف پر غالب آنے کی خاطر ہیں۔ آدمی جب حرف و معنی میں اپنی روح کی دھیمی آگ کو منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ بقا حاصل کر لیتا ہے۔ بقا کا مفہوم وہ نہیں ہے جو زندگی کا ہے۔ دونوں میں وہی فرق ہے جو لفظ اور علامت میں ہے۔ ایک اپنے لغوی معنی میں قید ہے جب کہ دوسری مقرر معنی کی قید سے آزاد اور تکثیر معانی کی حامل ہی نہیں افزائش معانی کا منبع بھی ہے۔ شاعر کا مطلوب ’’ حرف زندہ‘‘ میں بھی معانی مواج حالت میں ہیں اس لیے یہ بقا کا استعارہ ہے۔ لفظ کن کی طرح جس میں ہست و بود کے تہ بہ تہ نظام سمٹے ہوئے تھے! ٭٭٭ مجید امجد کی آخری دور کی نظمیں مجید امجد کی آخری دور کی نظمیں الگ اور خصوصی مطالعے کی متقاضی ہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ ان نظموں کو عام طور پر مشکل اور مبہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا گیا اور مجید امجد کی شاعرانہ اہمیت و مرتبے سے متعلق تنقیدی محاکموں میں ان سے صرف نظر کیا گیا ہے، بلکہ اس لیے بھی یہ نظمیں خصوصی توجہ چاہتی ہیں کہ ان میں مجید امجد خود اپنی نظم کے ان سانچوں سے انحراف کرتے ہیں، جنہیں وہ کم و بیش چار دہائیوں تک برتتے رہے ہیں۔ (یہ نظمیں1968ء تا1974ء کے زمانے میں لکھی گئیں)(65) اس سے قطع نظر کہ اپنے ہی سانچوں کو توڑنا دل گردے کا کام اور نئے سانچے کی تشکیل کسی نئے وژن کی محتاج ہے، مجید امجد کی ان نظموں کی اہمیت کا اہم زاویہ یہ ہے کہ یہ ’’ فوق شاعری‘‘ (Super Poetry)کی مثال ہیں۔ مجید امجد کی آخری دور کی نظمیں اس مفہوم میں ’’ فوق شاعری‘‘ نہیں کہ ان میں شاعری سے نفسی سطح پر برتر کوئی چیز پیش کی گئی ہے۔ شاعری سے برتر چیزیں ممکن اور موجود ہیں، مگر وہ شاعری کے وجودیاتی نقطہ نظر سے ’’ ناشاعری‘‘ ہوتی ہیں۔ ’’ فوق شاعری‘‘ ناشاعری نہیں، ایک مختلف اور بعض صورتوں میں ممتاز تصور کے تحت تخلیق کی گئی شاعری ہے۔ مجید امجد کی زیر مطالعہ نظمیں اس مفہوم میں ’’ فوق شاعری‘‘ ہیں کہ یہ مجید امجد کے ان شاعرانہ تصورات سے فیصلہ کن انحراف کرتی ہیں، جو انہیں چار دہوں تک عزیز رہے۔ مجید امجد ان نظموں میں خود اپنی وضع کردہ اور اختیار کردہ روایتوں سے وراء ہوئے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھئے کہ چار دہائیوں تک مجید امجد اپنی نظم کے لیے نئی نئی ہیئتوں کی تلاش اور تخلیق میں مگن رہے اور نئے اسالیب کی دریافت سے انہیں غیر معمولی دلچسپی رہی، جس کے نتیجے میں ان کے یہاں ہیئتوں اور اسالیب کا تنوع وجود میں آیا، مگر اپنی آخری نظموں میں وہ ہیئت و اسلوب میں تنوع کی طلب سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔ تمام نظمیں ایک ہی قسم کی ہیئت، یکساں بحر اور ایک ہی طرح کے اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بے نیازی کسی تخلیقی تھکن کا نتیجہ نہیں، ایک نئے اور بڑی حد تک ممتاز تخلیقی وژن کی نمود کا ثمر ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی پہلی نظموں میں ان کی تخلیقی توانائی کا اظہار ہوا ہے تو آخری نظموں میں وژن کا۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد کی دونوں طرح کی نظموں میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا توانائی اور وژن میں ہے۔ تخلیقی توانائی کو اپنے اظہار سے غرض ہوتی ہے، وہ اس سلسلے میں ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلی کی تلاش میں رہتی ہے، مگر وژن اظہاری پیرایوں میں تنوع کے پیچھے بھاگنے اور ان کے ذریعے خود کو ظاہر کرنے کی خواہش سے ہی بے نیاز ہوتا ہے۔ وژن، نفس انسانی، دنیا اور کائنات سے متعلق حکیمانہ نظر ہے، جس میں بے نیازی کا عنصر ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وژن کی شاعری، عمومی اور روایتی شاعری نہیں ہوتی ۔ وہ نفسی طور پر شاعری مگر اقداری طور پر فوق شاعری ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے شاعری کے عام پیمانوں سے نہ سمجھا جا سکتا ہے نہ اس کی قدر متعین کی جا سکتی ہے۔ عام شاعری کا پیمانہ اسلوبی و ہیئتی سطح پر اختراع پسندی ہے، جب کہ فوق شاعری کا پیمانہ نظر یا وژن ہے۔ نشان خاطر رہے کہ فوق شاعری میں شاعری کی بنیادی شعریات و آہنگ و علامتی اسلوب کی نفی نہیں ہوتی، صرف اس پر اصرار نہیں ہوتا اور انہیں ایک ایسے فطری انداز میں برتا جاتا ہے کہ نگاہ ان پر نہیں، اس نظر یا وژن پر پڑتی ہے، جس پر فوق شاعری کا مدار ہوتا ہے۔ یہ بات تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر کہی جا سکتی ہے کہ مجید امجد کی آخری دور کی نظمیں ایک حکیمانہ نظر یا وژن کی پیداوار ہیں۔ یہ اسی نظر کا ہی فیضا ہے کہ وہ ا یک طرف اپنے ہی نظمیہ اسلوب کو تج دینے کا عمل کرتے اور یک سر مختلف اسلوب اختیار کرتے (تجربہ نہیں کرتے) ہیں اور دوسری طرف خود کو، دنیا کو اور کائنات کو دیکھنے کے لیے ایک نیا فریم آف ریفرنس اختیار کرتے ہیں اور یہ فریم آف ریفرنس ذات ہے۔ ان نظموں میں ذات مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا، کائنات اور تمام مظاہر کو ذات کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ لہٰذا ان نظموں کو سفر نامہ ذات بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ سفر فقط ذات کے اندر نہیں، ذات کے ذریعے کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان نظموں میں شاعر ذات کے اندر سفر پیما ہوتا، احوال و کیفیات ذات سے آگا ہوتا اور ان کا کہیں ذکر، کہیں تجزیہ کرتا ہے، مگر وہ صرف اسی پر اکتفا نہیںکرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان نظموں کو باآسانی خود کلای یا تجزیہ ذات کی مثال قرار دیا جا سکتا تھا۔ جن لوگوں نے ان نظموں میں، میں اور مجھ کا ذکر اور میں اور مجھ کے ذریعے ذکر پر سرسری توجہ کی ہے، انہوں نے ان نظموں کو خود کلامی قرار بھی دیا ہے، جو ہرگز درست نہیں ہے۔ بعض نظموں میں خود کلامی کا انداز ضرور ظاہر ہوا ہے، مگر سب نظموں میں نہیں۔ اصل یہ ہے کہ شاعر ان نظموں میں ذات سے باہر موجود افراد، مظاہر، دنیا اور کائنات پر بھی نظر کرتا ہے، مگر اس طور کہ باہر ذات ہی سفر پیما ہوتی ہے، یعنی باہر کے سفر میں ذات کو گم یا فراموش نہیں کیا جاتا، اس چشم بینا سے باہر کو دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، جو ’’ ذاتی‘‘ ہے۔ مجید امجد کی ان آخری نظموں میں ذات کے مطلق و خود مختار ہونے کا غرور نہیں، مگر ذات کے مستند ہونے کا یقین ضرور موجود ہے۔ ان تمام نظموں میں یہ عقیدہ تہ نشین ہے کہ دنیا میں (وہ دنیا جس کا تصور شاعر کی حکیمانہ نظر کرتی ہے) واحد مستند چیز ذات ہے۔ لہٰذا ہر وہ تجربہ اور ہر وہ معرفت جو ذات کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی مستند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام نظموں میں ذات، ایک بنیادی حوالے اور بنیادی فریم آف ریفرنس کے طور پر موجود ہے۔ چیونٹیوں کے ان قافلوں کے اندر، میں وہ مناد ہوں جس کی آنکھوں میں جب آتی آندھیوں اور طوفانوں کی اک خبر ابھرتی ہے تو ان آندھیوں اور طوفانوں کی آواز کو قافلے سن نہیں سکتے (چیونٹیوں کے ان قافلوں) مجھ سے روز یہی کہتا ہے، پکی سڑک پر وہ کالا سا داغ جو کچھ دن پہلے سرخ لہو کا تھا اک چھینٹا، چکنا، گیلا، چمکیلا چمکیلا (ایکسیڈنٹ) تب میرا دل بچھ جاتا ہے، میں ہوں جگ جیون کے جوہر ڈھونڈنے والے جوہریوں کا جویا میرا دل بچھ بچھ جاتا ہے (تب میرا دل۔۔۔) اتنے بڑے نظام میں صرف اک میری ہی نیکی سے کیا ہوتا ہے میں تو اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہوں میز پر اپنی ساری دنیا کاغذ اور قلم اور ٹوٹی پھوٹی نظمیں ساری چیزیں بڑے قرینے سے رکھ دی ہیں (فرد) جدھر جدھر بھی دیکھوں۔۔۔۔ ہر سو پھول ہیں، کانٹے ہیں، کرنیں ہیں اندھیرا ہے (جدھر جدھر بھی۔۔۔۔) جانے اصلی صورت کیا ہو، ذہن کی اس رو کی جس کے ساتھ بہا کی مری سوچ اور میری عمر اور میری دنیا (جانے اصلی صورت۔۔۔۔) میں کس جگ مگ میں تھا اب تک۔۔۔۔ کہاں تھا اب تک اک یہ خیال کہ جس کی روشنی میں آج اپنی بابت سوچا ہے تو خود کو اک ظلمت کی منزل میں پایا ہے۔ (میں جگ مگ میں تھا۔۔۔۔) مجھ کو ڈر نہیں اس کا، آج اگر میں ڈرتا ہوں اس قہقہے سے جو میری اس آواز سے ٹکرایا۔۔۔۔ یہ میری آواز جو اک اور شخص کے دل سے سدا ابھری ہے!۔۔۔ (مجھ کو ڈر نہیں۔۔۔۔) یہ چند مثالیں ہیں، وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی بیش تر نظموں میں ذات مرکزی حوالے کے طور پر موجود ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ذات کو مرکزیت دے کر کس قسم کے نتائج یا معارف حاصل کیے گئے ہیں؟ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ ذات مجید امجد کے لیے ایک فلسفیانہ تصور نہیں، ایک تجربی اور اخلاقی وجود ہے۔ اگر وہ ذات کا فلسفیانہ تصور قائم کرتے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپنے عہد کی Wpistemeکے مطابق قائم کرتے اور اسے مطلق اور خود مختار تسلی کرتے۔ یعنی وہ جدید اے پس ٹیم، کی راہنمائی میں انسانی ذات کے Autonomous, Absolute sufficient Selfہونے میں یقین رکھتے۔ نتیجتاً ان کے لیے انسانی ذات غیر معمولی قوتوں اور لا محدود تجسس کی علم بردار ہوتی اور فطرت اور مظاہر پر تصرف کے وسیع اور بے روک اختیارات کی حامل ہوتی۔ (ان کی غزل میں ذات کی خود مختاری کا تصور ضرور ابھرا ہے) ان کے شاعرانہ عقائد کچھ اسی قسم کے ہوتے جن کا اظہار اطالوی استقبال پسند (Futurist) فیلپو تو سومیر نیتی نے ’’ استقبال پسندی کا منشور‘‘ میں کیا ہے۔ (66) استقبال پسند دراصل جدیدیت کی تحریک سے منسلک ہیں اور ان کے منشور میں ذات کی خود مختاری و مطلقیت کا تصور، اساسی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ ا۔ ہمارا ارادہ خطرے کی محبت، قوت اور بے خوفی کے گیت گانے کا ہے۔ ب۔ جرأت، دلیری اور بغاوت ہماری شاعری کے لازمی عناصر ہوں گے۔ ج۔ جدوجہد کے بغیر حسن ممکن نہیں۔ جارحانہ خصوصیت کے بغیر کوئی تحریر شاہکار نہیں ہو سکتی۔ د۔ شاعری کو نامعلوم قوتوں پر متشدد حملہ سمجھا جائے تاکہ انہیں آدمی کے آگے جھکایا جا سکے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مجید امجد کی آخری نظموں میں نہ خطرے کی محبت ہے اور نہ بے خوفی کا گیت ہے۔ وہ بغاوت اور جارحیت بھی نہیں ہے، جنہیں ذات کی خود مختاری میں یقین رکھنے والوں نے تخلیق شعر اور تخلیق جمال کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔ مجید امجد کے یہاں نامعلوم قوتوں پر متشدد حملے کے برعکس، ان کے آگے اظہار تسلیم ملتا ہے اور بعض مقامات پر خوف اور عجز کی ملی جلی کیفیت بھی ظاہر ہوئی ہے۔ مثلاً یہ ٹکڑا دیکھیے: لیکن اس پاتال کے پاس جہاں میں ہوں بڑا ہی گدلا اور کٹیلا۔۔۔ کالی مٹی والا پانی ہے زہر کدوں سے آنے والی ندیوں کا پانی جس کی دھارتری پتھریلی دیواروں سے جب ٹکراتی ہے تو میرے سینے میں دل کی ٹوٹی کنکری ڈوبنے لگتی ہے (کوہ بلند) ذات کے فلسفیانہ تصور کے بنیادی اوصاف اگر عظمت و جلالت اور خطر پسندی ہیں تو تجربی اور اخلاقی تصور عجز سے عبارت ہے۔ پہلے تصور کے مطابق ذات اپنی حدوں کو غیر متعین اور بے کنار دیکھتی ہے تو دوسرے تصور کی رو سے ذات اپنی حدوں کو پہچانتی اور انہی کے اندر بعض اصولوں کی راہنمائی میں کار فرما ہوتی ہے۔ ذات ان حدوں سے تجربی طور پر آشنا ہوتی ہے۔ برسبیل تذکرہ، جدید ادب میں نہ صرف ذات کے فلسفیانہ اور تجربی تصور میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے بلکہ اس تصادم میں تجربی تصور کو فلسفیانہ تصور ذات پر غالب آتے بھی دیکھا گیا ہے۔ سادہ لفظوں میں جدید تخلیق کار ذات کے خود مختار و مطلق ہونے کا تصور لے کر حقیقی دنیا سے دوچار ہوتا ہے تو دنیا کو اپنے تصور سے ہم آہنگ نہیں پاتا۔ وہ اپنی ذات میں لا محدود قوتوں کو موجود نہیں پاتا، جو باہر کے حقیقی خطرات اور طاقتوں پر غالب آ سکیں۔ نتیجے میں وہ یاسیت اور خوف کا شکار ہوتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لکھے جانے والے مغربی ادب میں بالخصوص اس صورت حال کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ جدید شاعری میں رات، آسیب، جنگل کی علامتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰا مجید امجد کی آخری نظمیں انسانی ذات کی حدوں کی معرفت کو پیش کرتی ہیں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجید امجد کے یہاں اس معرفت کی نوعیت روحانی کشف کی نہیں، تجربی وقوف اور اخلاقی شعور کی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی آخری نظموں میں ’’ شاید تیرے کرم۔۔۔‘‘ ،’’ اپنے بس میں۔۔۔۔‘‘ ،’’ میں کس جگ مگ میں۔۔۔۔‘‘ ،’’ تو تو سب کچھ۔۔۔۔‘‘ اور دو ایک اور نظموں میں اس قوت کا ذکر ضرور ہوا ہے جو اپنی اصل میں نامعلوم مگر اپنی بے کراں موجودگی کے اعتبار سے پوری طرح محسوس و معلوم ہے، مگر مجید امجد کے یہاں اس قوت کا ذکر روحانی مکاشفے اور واردات کی صورت نہیں ہے، بڑی حد تک اپنے عجز اور اپنی حدوں کے اعتراف کی صورت میں ہے۔ اسی طرح ان نظموں میں روح کا ذکر بھی کثرت سے ہوا ہے، مگر اخلاقی مفہوم میں۔ زیادہ تر مجید امجد روح کے خالی پن کا اظہار کرتے ہیں اور عموماً ان مواقع پر کرتے ہیں، جہاں ہوس اور حرص کا ذکر آتا ہے۔ روح کی مجرد کیفیات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظمیں روحانی ہیں نہ مابعد الطبیعیاتی نوعیت کی ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ روحانی تجربے میں اشیا و مظاہر کے بجائے ان کے اعیان یا From کا اظہار ہوتا ہے اور ما بعد الطبیعیاتی تجربے میں بھی اشیا و مظاہر کے بجائے ان کے تعلقلات(Concepts)ظاہر ہوتے ہیں، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مجید امجد کی ان نظموں میں اشیاء بھی ہیں، افراد بھی ہیں، مظاہر بھی ہیں، لوگوں کے رویے اور اعمال بی اور ان کے نتائج کا ذکر بھی ہے۔ تاہم ان سب کو حکیمانہ نظر یا وژن کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ اب دیکھیے مجید امجد کے یہاں ذات کے تجربی وقوف کی نوعیت کیا ہے؟ اس ضمن میں ان کی دو نظمیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک ’’ کمائی‘‘ اوردوسری ’’ جانے اصلی صورت۔۔۔‘‘ ہے اگر کمائی کو مجید امجد کی آخری نظموں کا پروٹو ٹائپ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا، اس لیے کہ اس نظم میں ان تمام تصورات کا خاکہ پیش کر دیا گیا ہے جو ان کی آخری نظموں میں ظاہر ہوتے چلے گئے ہیں۔ نیز اس نظم میں ان استعاروں کو بروئے کار لایا گیا ہے جو دیگر بیش تر نظموں میں ظاہر ہوئے ہیں اور کم و بیش انہی مطالب کے اظہار کے لیے یہ استعارے لائے گئے ہیں، جنہیں دیگر نظموں میں پیش کیا گیا ہے مٹی اور لہو، مجید امجد کی آخری نظموں کے مرکزی استعارے ہیں اور اس نظم کے کلیدی استعارے ہیں۔ یہ نظم اصلاً آدمی اور اس کی ذات کی تجربی حقیقت سے متعلق ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ یہ مصرعے دیکھیے: ’’ بندے، جب مٹی کے اندر بھر جاتا ہے لہو کا دھارا۔۔۔۔ پھر جب آنکھیں روح کی ٹھنڈی سطح کو چھو کر دیکھتی ہیں دنیا کو پھر جب یوں لگتا ہے، جیسے اس پنڈے میں کھلی ہے سارے دیس کی سرسوں‘‘ گویا دنیا کا سارا حسن اس لیے ہے کہ مٹی کے اندر لہو کا دھارا بھرا ہوا ہے۔ آدمی مٹی ہے اور یہ مٹی محض لہو کی وجہ سے دنیا کو دیکھنے، دنیا کے حسن کو محسو س کرنے اور اپنے بدن کی ترنگ کا تجربہ کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں، آدمی اپنا شعور بھی مٹی اور لہو کے رشتے کی وجہ سے حاصل کرتا ہے۔ ذات کا کوئی بھی تصور ہو، وہ شعور خود ہے اپنے ہونے کی آگہی سے عبارت ہے لہٰذا ذات کا وجود بھی مٹی کی وجہ سے ممکن ہے۔ اس سے آگے آدمی جب نازک اور لطیف خیالات، ارتفاعی تجربات سے گزرتا ہے، اپنی اور مٹی کی حدوں سے آگے دیکھتا اور نئی دنیاؤں کا تصور کرتا ہے تو وہ بھی مٹی (اور لہو) کی بنا پر ہیں اور بعینہ یہی تھیم، مجید امجد کی نظم ’’ جانے اصلی صورت۔۔۔۔‘‘ کا ہے۔ ’’ جانے اصلی صورت کیا ہو، ذہن کی اس رو کی جس کے ساتھ بہا کی میری سوچ اور میری عمر اور میری دنیا ٭٭٭ اک یہ دراڑ جو میرے دماغ میں ہے کون اس کو پھلانگ سکے گا ٭٭٭ اک یہ دراڑ کہ جس کے ورے وہ مقدس آگ ہے جس کی لو میں کلیوں کی برکھا ہے اک یہ دراڑ جو میرے۔۔۔۔ دماغ میں ہے کب اس کو پاٹ سکوں گا اپنی حدوں کی حد سے آگے کب یہ قدم اٹھے گا آگے جہاں و سرشاری ہے جس کی کشید بھی اس میرے ہی ذہن میں ہوتی ہے!‘‘ اس نظم کا اسلوب خود کلامی کا ہے، مگر اس کا موضوع انکشاف خود ہے۔ خود جو مٹی ہے اور مٹی جس میں لہو دوڑ رہا ہے۔ یہی مٹی اپنے بارے میں سوچتی، دنیاکو سوچتی اور ورائے دنیا کا تصور کرتی ہے اور ورائے دنیا کی جن مسرتوں کا تصور کرتی ہے، ان مسرتوں کا ماخذ بھی دراصل مٹی ہے۔ ناموجود اور موجود کی تخلیق، آدمی کے اندر، اس کے دماغ میں ہوتی ہے۔ دماغ کی حدیں ہی موجود اور ناموجود کی حدیں ہیں اور یہ محض شاعرانہ بات نہیں ہے۔ دنیا، جتنی اور جیسی ہمیں دکھائی دیتی ہے، اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ انسانی ذہن کی ساخت خاص قسم کی ہے۔ مثلاً ذہن کی ساخت میں ضد مخالف (Binary Opposite) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس لیے ہم اشیا کا ادراک۔۔۔ جوڑوں کی صورت میں کرتے ہیں ہر شے کو اس کی ضد سے پہچانتے ہیں، لہٰذا یہ بات قابل فہم ہے کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے آخر عقبیٰ کا تصورکیوں کرتے ہیں؟ یہ بات قرین قیاس ہے کہ انسانی ذہن میں اپنی مذکورہ ساخت کی وجہ سے دنیا کو پہچاننے کے لئے ورائے دنیا کا تصور تشکیلد یتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں بھی یہی تصور موجود ہے کہ ’’ وہ مقدس آگ جس کی لو میں کلیوں کی برکھا ہے‘‘ وہ اس کے پہیہ دماغ کی دراڑ کے ورے ہے۔ مگر دماغ کے اندر ہی ہے۔ پہیے میں دراڑ آ جائے تو اس کی روز مرہ کی دوری حرکت رک جاتی ہے۔گویا دراڑ، پہیے کی ضد ہے جو باہر سے نہیں پہیے کے اندر سے ہی نمودار ہوتی ہے۔ لہٰذا پہیہ دماغ کی دراڑ، جو ورائے دنیا کا تصور قائم کرتی ہے، دماغ کے اندر سے ہی نمودار ہوتی ہے۔ آدمی مٹی ہے، یہ عقیدہ بھی ہے اور سائنسی صداقت بھی۔ عہد نامہ عتیق سے یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی ہے کہ آدمی کو مٹی سے تخلیق کیا گیا اور سائنسی طور پر بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ آدمی انہی عناصر سے بنا ہے، جن سے مٹی اور دیگر اشیاء بنی ہیں۔ لہٰذا آدمی کا مٹی ہونا ایک سچائی ہے۔ اس سچائی سے عام طور پر اخلاقی نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ آدمی مٹی ہے اور مٹی حقیر ہے، لہٰذا آدمی کو اپنی اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے اور تکبر سے بچنا چاہیے۔ تسلیم شدہ سچائی سے اخلاقی نکات کا اخذ، یونانی فلسفہ، بالخصوص افلاطون سے موجودہ زمانے تک چلا آتا ہے۔ مجید امجد کی آخری نظموں میں بھی یہی حکیمانہ رویہ موجود ہے نظم کمائی کے آخری حصے میں وہ آدمی کی حقیقت کو اس طنزیہ لہجے میں پیش کرتے ہیں جو مجید امجد کا عمومی لہجہ نہیں ہے۔ ’’ کون اس بھید کو پالے بندے! کون یہ دیکھے لہو کی لہر کا سب روغن تو اس بھوجن کا رس ہے وہ بھوجن جو کوڑا کرکٹ ہے اور جس کو کتے بھی نہیں کھاتے‘‘ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آدمی مٹی میں جاری لہو کی لہر ہے اور یہ لہر اس خوراک کی پیداوار ہے جو بالآخر فضلے کی شکل میں کوڑا کرکٹ بنتی ہے اور جسے (ہمارے خیال میں) ذلیل مخلوق بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتی۔ یہاں امجد اس بنیادی سچائی کو سامنے لاتے ہیں، جس سے گریز کی لمبی روایت انسانی فکر میں موجود ہے۔ یہ گریز ایک پیراڈاکس کی اذیت ناک کیفیت سے محفوظ رہنے کی تدبیر ہے۔ انسان اپنا عظیم الشان تصور قائم کرتا ہے اور اس تصور میں اس حقیقت کو دفن کر دیتا ہے کہ وہ حقیر مٹی سے بنا، نطفے سے پیدا ہوا اور ساری عمر فضلا خارج کرتا رہتا ہے۔ یہی پیراڈاکس ہے۔ امجد اس پیراڈاکس کی اذیت ناکی کا سامنا کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اس تلخ سچائی سے ہی آدمی کے لیے اخلاقی اقدار کشید کرتے ہیں۔ یعنی ذات کا تجربی تصور ہی اخلاقی تصور کی بنیاد بنتا ہے۔ ’’ اسی کرے کے جوف سے تم نے کشید کیا انگاروں سے بھرا ہوا سیال غرور لیکن کس کی تھی یہ مٹی؟ ہم سب کی اسی مٹی کے وریدوں سے یہ کھچا ہوا سیال غرور سب میں بٹ جاتا تو یہ دیس دلوں کے سجدوں سے بس بس جاتا تم نے بجھتے بھڑکتے ان انگاروں کو اپنی روحوں میں بویا اور نفرت کاٹی!‘‘ (بے ربط) ’’ کیسے مانگوں تجھ سے وہ دنیا جس کا سورج اک دن تیرے دل سے ابھرا تھا اپنے پاس تو اس دنیا کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں ہوتے جس دن ہوں بھی اس دن اپنا ارادہ نہیں ہوتا تیری نورانی مٹی سے باہر جو مٹی ہے جانے اس مٹی میں کیسے کیسے کافر تیری محبت میں جیتے ہیں تو نے دیکھا۔۔۔۔؟‘‘ (زائر) ’’ بندے، جب پلکوں کے جڑے جڑے گچھوں کے نیچے تیری آنکھوں میں اک لمبے گھیرے والے عندیے کا ہلکا سا پھیرا پڑتا ہے۔۔۔ ٭٭٭ سب ڈرنے والے ڈر جاتے ہیں اپنے غرور میں جینے والی مٹی کی اس اک مورت کو دیکھ کے ٭٭٭ اور میں اس تیری مورت کی بے علمی سے ڈر جاتا ہوں جس کو علم نہیں وہ کرنوںکی بوچھاڑ میں ہے اور ان جھالوں میں جھڑ جائے گی اور یہ میرا ڈر ہی میری سب سے بڑی ڈھارس ہے، میری اس بے اطمینانی میں تو میری اس ڈھارس سے ڈر، اپنے کالے ارادوں میں جینے والی مٹی کی مورت‘‘ (بندے) ’’ ورنہ تیرا وجود تو سچ کے سمندر میں ہے مٹی کا وہ پشتہ جس کے باطن کی جھوٹی خود بستگیاں ہی اس کو سنبھالے ہوئے ہیں ٭٭٭ بندے، جانے کتنے لوگ ہیں جن کو تیری آس پہ جینا آساں ہے اور تو خود وہ پشتہ، جس کی جڑوں کو بھنور کی درانتی پیہم کاٹ رہی ہے تو کیا کر سکتا ہے بندے تو خود اپنے باطن کی جھوٹی خود بستگیوں کے سہارے پر باقی ہے‘‘ (ورنہ تیرا وجود۔۔۔۔) مجید امجد کی ان نظموں میں ذات کے تجربی تصور میں دو باتیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ ذات کا تصور مٹی کی پیداوار ہے۔ دوسری یہ کہ آدمی کا وجود مٹی کا وہ پشتہ ہے، جسے بھنور کی درانتی مسلسل کاٹ رہی ہے۔ مٹی سے پیدا ہونا اور مٹی کا بکھر جانا یا زندگی کی اساس کا کمزور اور فنا پذیر ہونا، یہ دوسچائیاں مجید امجد کے تمام اخلاقی تصورات کی اساس ہیں۔ ان نظموں میں اخلاقی تصورات کی بنیاد کو واضح اور روشن کرنے پر جتنا زور ملتا ہے، اتنا زور تصورات کو واضح کرنے پر نہیں ملتا۔ اور یہ ان نظموں کے حق میں بہتر ہے۔ اگر اخلاقی اقدار و تصورات کو شرح و بسط سے پیش کرنے کی منظم کوشش کی جاتی تو یہ نظمیں شاعری کے دائرے سے نکل کر محض پند و نصائح کا بشتارہ بن کر رہ جاتیں یا اخلاقیات کی درسی کتاب کا ایک باب! یہ نظمیں ایک طرف شاعری اور نصیحت اور دوسری طرف شاعری اور درس کے فرق کو ملحوظ رکھ کر تخلیق کی گئی لگتی ہیں۔ اخلاقی تصور کو اپنی بنیاد میں شامل کرنے کے باوجود یہ نظمیں اگر اپنی شاعرانہ نہاد کو قائم رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی تصور کو ان سچائیوں سے ماخوذ اور مربوط بنا کر پیش کیا گیا ہے جو تجربی ہیں عمومی، عقیدتی اور سائنسی طور پر تجربی! یہ نظمیں اخلاقی تصورات کی تجرباتی وضاحت کی بجائے، ان کے تمثیلی اور علامتی بیان پر اکتفا کرتی ہیں۔ ا س ضمن میں اہم ترین تمثیل سیاہی ہے۔ شاعر کے نزدیک آدمی جب ایک اخلاقی وجود کے بجائے ’’ ٹیڑھے منہ اور کالی باتوں‘‘ والے وجود میں بدل جاتا ہے تو اس کا باعث اس کے لہو میں پیدا ہونے والی سیاہی ہے۔ ’’ جانے ان لوگوں کے لہو میں چکنی سی یہ سیاہی کہاں سے آئی ہے، جو مجھ کو دیکھ کے ان کے چہروں کو فولادی رنگ کا کر دیتی ہے۔‘‘ (لوگ۔۔۔۔) سیاہی اور اس کے سیاہ تلازمات، مجید امجد کی ان نظموں میں ظاہر ہونے والے اخلاقی تصورات کی علامت ہیں ۔ ان تصورات کو کہیں وہ کالے ارادے اور کہیں کالے ضمیر اور کہیں کالی باتیں کا نام دیتے ہیں۔ سیاہی کا تلازمہ فولاد (جو سیاہ رنگ کا ہے) بھی ہے۔ فولاد کی رعایت سے وہ ٹین کی تمثیل بھی لاتے ہیں، جو شدید نوعیت کی بے حسی اور سنگ دلی کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔ اسی طرح وہ ٹین کی صفاتی نسبت سے کاٹھ اور پتھر کی تمثیل بھی لاتے ہیں اور کم و بیش ٹین اور فولاد کے مفہوم میں! حقیقت یہ ہے کہ ٹین، کاٹھ، پتھر، سیسہ، سیاہی، فولاد یہ سب مجید امجد کی آخری نظموں میں ایک ہی طرح کا معنیاتی عمل انجام دیتے ہیں۔ مجید امجد کی ان نظموں میں مٹی اورٹین (اور اس کے جملہ تلازمات) کی جدلیات ابھری ہیں۔ مجید امجد کے یہاں ان دونوں کے وہ نشانیاتی دوائر(Singnifying Circles) ظاہر ہوئے ہیں، جو روایتی طور پر ان سے متعلق سمجھے گئے ہیں۔ مٹی کا نشانیاتی دائرہ، ٹین کے نشانیاتی دائرے کا یکسر الٹ ہے۔ آدمی جب مٹی سے ٹین یا کاٹھ میں بدلتا ہے تو ایک نشانیاتی دائرے سے دوسرے دائرے میں آ جاتا ہے۔ مٹی سے ٹین میں آدمی کی تقلیب ایک مکمل نشانیاتی تقلیت ہے۔ آدمی کی تقلیب (Metamorphasis)کا تصور مذہبی اساطیر میں اسے بندر میں بدلنے اور جدید ادب میں (بہ حوالہ کافکا) کاکروچ میں بدلنے کی صورت موجود ہے۔ مجید امجد کی ان نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آدمی کی تقلیب کو نشانیاتی سطح پر رونما ہوتے دکھاتی ہیں۔ روایتی طور پر مٹی کا نشانیاتی دائرہ دراصل مٹی کو اپنی حقیقی نہاد کے طور پر قبول کرنے کے مخلصانہ عمل سے تشکیل پاتا ہے۔ واضح رہے، نشانیاتی عمل میں یہ بات اہم نہیں کہ جس چیز، واقعے یا مظہر کو حقیقت قرار دیا جا رہا ہے وہ حقیقت ہے بھی یا نہیں۔ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اسے حقیقت کے طور پر صدق دل سے قبول کیا جا رہا ہو اور ا س سے وہی نتائج حاصل کیے جا رہے ہوں جو واقعی حقیقت سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ مٹی کے نشانیاتی دائرے میں اہم بات یہ ہے کہ مٹی کو اپنی حقیقی نہاد کے طور پر قبول کیا جائے تاکہ اس سے اخلاقی نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ ’’ اور یہ انسان۔۔۔۔ جو مٹی کا اک ذرہ ہے۔۔۔ جو مٹی سے بھی کم تر ہے اپنے لیے ڈھونڈے تو اس کے سارے شرف سچی تمکینوں میں ہیں ٭٭٭ قاہر جذبوں کے آگے، بے بس ہونے میں، مٹی کا یہ ذرہ اپنے آپ میں جب مٹی سے بی کم تر ہو جاتا ہے، سننے والا اس کی سنتا ہے سننے والا جس کی سنے، وہ تو اپنے مٹی ہونے میں بھی انمول ہے‘‘ (اور یہ انسان۔۔۔۔) جیسا کہ اس نظم سے ظاہر ہے، مجید امجد کے لیے اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ انسان اپنی مٹی ہونے کو قبول کرے، یعنی خود کو مٹی کے نشانیاتی دائرے کے سپرد کرے اور پھر اس سپردگی کا نتیجہ اپنے محدود دائرے سے آزاد ہونے اور حقیقت عظمیٰ سے ہمکنار ہونے کی صورت نکلے گا۔ ظاہر ہے مٹی کی نشانیات کا یہ روایتی تصور ہے۔ ہر چند اس تصور میں مٹی کا حقیقت عظمیٰ سے ہمکنار ہونا، صوفیانہ تجربے کا مفہوم رکھتا ہے، مگر مجید امجد کے یہاں یہ تصور اخلاقی مفہوم سے عبارت ہے۔ لہٰذا جب سننے والا، مٹی سے خود کو کمتر سمجھنے والے کی سنتا ہے تو وہ انمول ہوتا ہے، شرف اور سچی تمکین حاصل کرتا ہے، مگر خود کو بے کنا رمحسوس کرنے کے تجربے سے نہیں گزرتا۔ ’’ اپنی بابت تو ہم تم یہ جانتے ہیں کہ ہماری منزلت اور ہمارے منصب مٹی کے رشتے ہیں۔‘‘ (اپنی بابت) اور جب آدمی ٹین کی روح میں منقلب ہوتا ہے، یا اس کی روح میں سیسہ جم جاتا ہے تو وہ دراصل اپنے شرف اور تمکین سے محروم ہو جاتا ہے اور اس محرومی کا اظہار خود سے یکسر لاعلمی کی صورت ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’ مٹی‘‘ میں خود آگاہی اور نمو پذیری کا امکان نشانیاتی سطح پر ہے تو کاٹھ، ٹین اور سیسے میں یہ امکان یکسر غائب ہے۔ ٹین یہ جاننے سے قاصر ہے کہ وہ ٹین ہے۔ لہٰذا ٹین کی روح کی سب سے بڑی محرومی المیہ یہ ہے کہ وہ خود سے بے خبر اور خود سے لاتعلق ہے۔ خود سے لاتعلق ہیں تو اوروں سے تعلق کا کیا سوال؟ اور اس کا نتیجہ سن دلی کی و بے حسی ہے۔دوسرے لفظوں میں امجد کے یہاں خود آگاہی، دوسروں سے شناسائی کی بنیاد اور انسان کے اخلاقی وجود کی اساس ہے۔ ’’ اک اک شخص کی شکل اس کی اپنی مشکل ہے کاش اپنی اپنی مشکل کو سمجھ سکتے یہ لوگ کہ جن کی شکلیں جن کے کرموں کے پھل ان کی نظروں سے اوجھل ہیں جن کی اصل مخفی شکلیں تو خود کی روحوں کے آئنوں میں بھی ان کے آگے نہیں اترتیں‘‘ (سبھوں سے مل مل لیں۔۔۔۔) ’’ بندے، اپنی آنکھوں میں اک گدرائی ہوئی للچاہٹ لے کر مت پھر اس دنیا میں تیرے دل کے گڑھے میں تیری لحد کچھ اور بھی گہری ہو جائے گی۔‘‘ (بندے تو یہ کب یہ مانے گا۔۔۔۔) مجید امجد کی آخری نظموں میں وہ نظمیں بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جو دسمبر1971ء اور 1972ء میں لکھی گئیں۔ دسمبر1971ء میں پاکستان اپنی تاریخ کے عظیم سانحے سے گزرا۔ یہ سانحہ ان لوگوں کی روحوں کو گھائل کر گیا جو اس ملک کو ایک آئیدیالوجیکل مملکت خیال کرتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا دولخت ہونا محض ایک وسیع خطہ ارضی کا الگ ہونا نہیں تھا، آئیڈیالوجی کا ٹوٹنا تھا۔ مجید امجد بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جن کی روحیں71ء کے سانحے نے گھائل کیں۔ چنانچہ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نظمیں (اور ایک غزل) تخلیق کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نظمیں اسی جدلیات کے تحت اپنے معانی کی تشکیل کرتی ہیں، جسے گذشتہ صفحات میں مٹی اور ٹین کی جدلیات کہا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ نظمیں ان لوگوں کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں جو مٹی (اور اس کی نشانیات) کے شرف میں یقین رکھتے ہیں اور کچھ ان کو مخاطب کر کے جن کی روحوں میں سیاہی (جو ٹین کا تلازمہ ہے) بھری ہوئی ہے۔ اول الذکر کی نمائندگی سپاہی اور قوم کرتے ہیں اور ثانی الذکر کے نمائندے سیاسی طالع آزما ہیں۔ جو نظمیں قوم اور قوم کے سپاہیوں کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں، ان کا لہجہ رجائی ہے۔ زخموں پر مرہم رکھنے کا عمل اور انتہائی نامساعد حالات میں حوصلہ مندی سے جینے کی ترغیب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ نظمیں قومی شاعری کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ اور اس وجہ سے مثال ہیں کہ یہ اس حکیمانہ نظر کی پیداوار ہیں، جو ان تمام نظموں کے عقب میں موجود ہے۔ اے قوم محض سانحہ 71ء کی وجہ سے ہی نہیں، زخموں سے نڈھال دنیا کی ہر قوم کو وقار اور استقامت سے جینے کی ترغیب دینے کی وجہ سے یادگار نظم سمجھی جائے گی۔ ’’پھولوں میں سانس لے کہ برستے بموں میں جی اب اپنی زندگی کے مقدس غموں میں جی جب تک نہ تیری فتح کی فجریں طلوع ہوں بارود سے اٹی ہوئی ان شبنموں میں جی بندوق کو بیان غم دل کا اذن دے اک آگ بن کے پوربوں اور پچھموں میں جی‘‘ اسی طرح نظم ’’ 21دسمبر1971ء ‘‘ بھی حکیمانہ نظر کی پیداوار اور رجائیت کو پیش کرتی ہے۔ یہاں قوم کے لیے سفید گلاب کے پھولوں کی تمثیل لائی گئی ہے۔ ہر چند یہ پھول رات کو آسمانوں پر اڑنے والے بارودی عفریت کی زد پر ہیں، مگر شاعر انہیں یہ یقین اور اعتماد دلاتا ہے کہ ’’ ۔۔۔۔ اور یوں مت سمجھو۔۔۔ کل پھر یہ ٹہنیاں پھوٹیں گی۔۔۔ کل پھر سے پھوٹیں گی سب ٹہنیاں آتی صبحوں میں پھر ہم سب مل کے کھیلیں گے، اس پھلواڑی میں‘‘ غور کیجئے کیا سفید گلابوں کی تمثیل، مٹی کے ہی نشانیاتی دائرے میں داخل نہیں؟ گلاب، مٹی کی قوت نمو کا سب سے عمدہ اور سب سے نفیس اظہار نہیں ہے؟ اور یہ قوت نمو وہی چیز ہے جسے مجید امجد ایک دوسری نظم ’’ اندر روحوں میں‘‘ (جو جنوری 1973ء میں ہی لکھی گئی) میں روحوں میں موجود روشن روشن قوت کا نام دیتے ہیں اور جسے بے تسخیر قرار دیتے ہیں اور اس نورانی قوت کو مٹی کے رابطوں کی پیداوار کہتے ہیں۔ جو نظمیں سیاسی طالع آزماؤں کے حوالے سے لکھی گئی ہیں، ان میں دکھ اور یاسیت کی وہی لہر موجود ہے، جو ٹین سے بنی روحوں کے ذکر کے ضمن میں ان کی نظموں میں ظاہر ہوئی ہے۔ سیاسی طالع آزماؤں کو مجید امجد نے ظالم آنکھوں والے خدا اور کالی تہذیب کی رات، لانے والے ٹھہرایا ہے۔ کالی تہذیب کی رات کتنا دکھ لائی ہے مجید امجد کے لفظوں میں دیکھییـ: ’’ ان سالوں میں سیہ قتالوں میں چلی ہیں کتنی تلواریں بنگالوں میں صدیوں تک روئیں گی قسمتیں۔۔۔ جکڑی ہوئی جنجالوں میں ظالم آنکھوں والے خداؤں کی ان چالوں میں دکھوں، وبالوں میں قحطوں، کالوں میں کالی تہذیب کی رات آئی اجالوں میں‘‘ بطور شاعر، مجید امجد کا اس نظم میں سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ کالی تہذیب کی اس رات، میں اس کی حکیمانہ نظر کا اجالا غائب ہے۔ ظالم آنکھوں والے خدا پہلے زخم لگاتے ہیں، پھر ان زخموں کے اندر مال کے لیے بے مصرف قیلوں قالوں میں جٹ جاتے ہیں اور اس کے شور میں شاعر کی خاموش حکیمانہ نظر اور اس کی بے زبانی کے معنی دب جاتے ہیں۔ سیاسی مقتدرہ کے آگے شاعر اور قومی دانشور کی بصیرت اسی طرح بے مصروف ٹھہرتی ہے، جس طرح ٹین کی روح کے آگے نورانی مٹی! ٭٭٭ مجید امجد کی غزل گوئی مجید امجد کی نظم اردو تنقید کا ایک باقاعدہ موضوع بننے میں تو کامیاب ہو گئی ہے مگر ان کی غزل کی طرف اردو تنقید کا رویہ بے توجہی سے زیادہ سرد مہری کا ہے۔ کیا اس لیے کہ مجید امجد نے غزلیں کم اور نظمیں زیادہ لکھی ہیں؟ خواجہ محمد زکریا کے مرتبہ کلیات میں ستاون غزلیں اور تین سو چوالیس نظمیں شامل ہیں۔ اس طرح مجید امجد کے یہاں غزل و نظم کی نسبت ایک اور چھ کے لگ بھگ بنتی ہے، مگر مجید امجد کی شاعری پر لکھی گئی تنقید میں غزل و نظم پر مضامین کی شرح ایک اور سو سے بھی کم ہو گی۔ مجید امجد کے اہم ترین نقادوں نے ان کی غزل کو موضوع گفتگو ہی نہیں بنایا۔ ساری توجہ ان کی نظم کو دی ہے۔ لے دے کے انور سدید کا ایک مقالہ (جو تعارفی و توضیحی نوعیت کا ہے) محمد کلیم خان کا ایک سرسری مضمون یا پھر نظم پر بعض مضامین میں چند سطریں ان کی غزل پر ملتی ہیں۔ ان تحقیقی مقالات کو اس بحث میں لانا لا حاصل ہے، جن میں ضرورتاً ایک آدھ باب مجید امجد کی غزل پر باندھا گیا ہے۔ یہ صورت حال اس انوکھی منطق کی پیداوار لگتی ہے کہ چونکہ مجید امجد نے غزل پر نظم کو ترجیح دی ہے، اس لیے ان کی جملہ تخلیقی توانائی ان کی نظم میں ظاہر اور مجسم ہوئی ہے اور اسی بنا پر نظم ہی زیادہ توجہ کی مستحق ہے، مگر یہ منطق مجید امجد کی غزل کی طرف سرد مہری روا رکھنے کے لیے گھڑ لی گئی ہے۔ بجا کہ مجید امجد نے نظم کو غزل پر ترجیح دی ہے، مگر یہ ترجیح مقداری ہے، اقداری نہیں۔ مجید امجد کی شاعری میں غزل و نظم کا جو اقداری شعور رواں اور ان کی غزل و نظم کو مخصوص رنگ میں ڈھالتا ہے، وہ کسی ایک کو برتر یا کم تر (قدری سطح پر) قرار نہیں دیتا۔ کم تر قرار دینے کی صورت میں مجید امجد سے ڈھنگ کی ایک غزل بھی تخلیق نہ ہو سکتی جب کہ انہوں نے اول درجے کی کئی غزلیں اردو شاعری کو دی ہیں۔ اشیاء کے کم تر و برتر ہونے کا اقداری شعور، ان اشیاء کی طرف ہمارے رویے ان کو برتنے کے طریقوں اور ان کے معنی و مقصد کے طے کرنے کے عمل پر شدت سے اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر مجید امجد غزل و نظم کو اقداری سطح پر کم تر و برتر قرار نہیں دیتے تھے تو پھر غزل و نظم کی شرح ایک اور چھ کیوں ہے؟زیادہ نظمیں تخلیق کرنے کا سیدھا سادہ مطلب نظم کو زیادہ اہمیت دینا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ مجید امجد کی غزلیں ان کی نظموں کے مقابلے میں کم ضرور ہیں، مگر یہ بہرحال معقول مقدار میں ہیں اور ایک معقول ضخامت کا پورا مجموعہ خالد شریف نے ان سے تیار کر کے شائع کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجید امجد غزل و نظم میں اقداری فرق نہیں کرتے تھے، مگر شعریاتی فرق ضرور کرتے تھے اور اسی فرق کا لحاظ کرنے کی بنا پر انہوں نے نظمیں زیادہ اور غزلیں کم کہی ہیں۔ شعریاتی فرق ہی یہ واضح کرتا ہے کہ غزل و نظم کے صنفی امتیازات کیا ہیں، کون سے ضابطے اور رسمیات کو ایک غزل اور دوسری کو نظم بناتے ہیں۔ دونوں کے جداگانہ حدود اور نقطہ ہائے اشتراک کا علم بھی شعریات سے ہوتا ہے اور یہ علم کسی تخلیق کار کو یہ فیصلہ کرنے میں سہولت دیتا ہے کہ اسے کس صنف میں زیادہ اور کس میں کم اظہار کرنا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ فیصلہ وہی تخلیق کار کر سکتا ہے جو ایک طرف اپنے تخلیقی سیلف میں مضمر تخلیقی توانائی کی ’’ جہات‘‘ اور اصناف کی شعریات کا یکساں علم رکھتا ہو، اور دوسری طرف تخلیقی توانائی کی ’’ جہات‘‘ کے لیے موزوں اصناف کے شعور سے بہرہ ور ہو۔ ابتدا میں صنف کا انتخاب رواداری اور تقلید کا معاملہ ہوتا ہے، مگر بعد میں ایک گہرا سنجیدہ مسئلہ! مجید امجد نے خواجہ زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ میری ابتدا کی جتنی چیزیں ہیں، نظم میں ہیں، غزل کے ساتھ بھی کچھ عرصہ میرا لگاؤ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں ہر روز غزل کہتا تھا پھر نظم اور اس کی مختلف اشکال کی طرف میری توجہ ہوئی۔‘‘ (67) مجید امجد اپنی شاعری (اور زندگی) سے متعلق کھل کر اظہار خیال کرنے کے عادی نہیں تھے، تاہم ان کے اس بیان سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ نظم اور اس کی مختلف اشکال کی طرف ان کی توجہ درحقیقت نظم و غزل کے شعریاتی فرق کے شعور کا ہی نتیجہ تھی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان کی تخلیقی توانائی کی ’’ غالب جہات‘‘ کے لیے نظم موزوں ہے اور تخلیقی توانائی کی بعض جہات کے لیے غزل مناسب ہے۔ تاہم نظم و غزل دونوں کی تخلیق میں مجید امجد نے یکساں سنجیدگی اور ارتکاز کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تخلیقی توانائی کی ’’ جہات‘‘ اپنے ہدف اور ’’ پھیلاؤ‘‘ کے اعتبار سے یکساں ہوتی ہیں یا نہیں؟ یہ سوال عمومی طور پر اہم ہے تو مجید امجد کی غزل کی جہات کو سمجھنے کے لیے اہم ترین ہے۔ سادہ لفظوں میں کیا نظم اور غزل میں مجید امجد کی تخلیقی توانائی کی ظاہر ہونے والی جہات یکساں ہیں یا مختلف ہیں؟ اور سادہ ترین لفظوں میں کیا وہی موضوعات و مسائل غزل میں مجید امجد ظاہر کرتے ہیں، جنہیں وہ نظم میں منکشف و مجسم کرتے ہیں یا؟ غزل کے لیے مختلف موضوعات و مسائل کا انتخاب کرتے ہیں؟ یہ سوال ایک طرف شخصیت کے اجزاء کے ارتباط و انفعال سے متعلق ہے تو دوسری طرف اصناف کی شعریاتی گنجائشوں کی بابت ہے۔ نظری طور پر صنف کے موضوعات وسائل مختلف ہوتے ہیں، اس لیے کہ صنف کی رسمیات اور ضابطے مختلف ہوتے ہیں۔ رسمیات اور ضابطے محض صنف کی ہیئت کو ہی تشکیل نہیں دیتے، ان میں ظاہر ہونے والے موضوعات کی نوعیت اور حدود پر بھی فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں، مگر عملاً مجید امجد کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی غزل بعض مقامات پر ان کی نظم کے زیر اثر ہے اور دوسرے مقامات پر آزاد و مختار ہے۔ مجید امجد کی غزل پر خود انہی کی نظم کے اثر کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کی غزل دوسروں کے اثرات سے آزاد ہے۔ مجید امجد کے اہم معاصرین میں حسرت، اصغر، فانی، جگر، فراق، ناصر، فیض ایسے شعراء شامل ہیں، مگر مجید امجد نے ان میں سے کسی کا اثر قبول نہیں کیا۔ ہر چند مجید امجد کی دوچار غزلیں دوسرے شعراء کی زمینوں میں ہیں ان کی پہلی غزل ’’ عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں‘‘ اور1973ء کی ایک غزل:’’ بچا کے رکھا ہے جس کو غروب جاں کے لیے‘‘ غالب کی زمین میں ہیں۔ مگر مجموعی طور پر ان کی غزل نہ صرف معاصرین اور پیش روؤں کے اثرات سے آزاد ہے بلکہ معاصر غزل کی حسیت میں بھی ان کی غزل شریک نظر نہیں آتی۔ کلاسیکی غزل کا سایہ بھی سوائے ابتدائی دو ایک غزلوں کے کہیں دکھائی نہیں دیتا۔(68) حقیقت یہ ہے کہ جس نوع کی انفرادیت ان کی نظموں میں ہے، اسی نوع کی انفرادیت ان کی غزلوں میں بھی ہے۔ ان کی غزل پر ان کی نظم کے اثر کی ایک صورت یہ بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں مجید امجد نظم کی تخلیق میں جس فنی اہتمام کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے غزل میں بھی روا رکھتے ہیں۔ مجید امجد کی غزل پران کی نظم کے اثر کی دوسری مگر اہم صورت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزل کے متعدد اشعار میں کم و بیش یہی تمثالیں استعمال کی ہیں۔ ان کی نظمیہ تمثالوں کا اختصاص یہ ہے کہ یہ تقلیدی نہیں اختراعی ہیں۔ مجید امجد نے معاصر اور ماقبل شاعری سے تمثالیں اخذ کرنے، انہیں بعینہ یا بہ ترمیم استعمال کرنے کے بجائے اپنے ارد گرد سے منتخب کی ہیں۔ یہی اختراعی رویہ ان کی غزلیہ تمثالوں میں بھی موجود ہے۔ بیشتر مقامات پر ان کی نظم، بیش تر غزل میں تمثالیں دہرائی گئی ہیں۔ (68)دوسری طرف ان کی بعض نظمیں غزل کے بہت قریب ہیں۔ مثلاً نظم مسافر کا اگر عنوان ہٹا دیں تو وہ غزل ہے۔ مجید امجد کی نظمیہ تمثالوں کی طرح ان کی غزلیہ تمثالیں کہیں بھی آرائشی نہیں ہیں۔ یوں بھی مجید امجد کی شاعری (کچھ ابتدائی نظموں کو چھوڑ کر) آرائشی اور غیر ضروری عناصر سے پاک ہے۔ وہ ہر لفظ کے سیاق اور مقام سے متعلق مثالی آگاہی رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ شعری تجربے کے ضمن میں انفرادیت پسندی، روایت میں عدم تسلسل اور پیرایہ اظہار میں تجربہ پسندی کے قائل تھے، جو ایک جدید رویہ ہے مگر شاعرانہ زبان کی طرف ان کا رویہ کلاسیکی تھا۔ وہ زبان کے استعمال اور زبان کے امکانات کی تلاش کے عمل میں اسی حزم و احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو ہمارے کلاسیکی شعراء سے مخصوص ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے کلاسیکی ادب سے زبان مستعار لینے سے زیادہ زبان کی طرف رویہ مستعار لیا تھا۔ اس سے بہت فرق پڑا یعنی ان کی غزل کی زبان میں اجنبیت یا مانوسیت کے عناصر ظاہر نہیں ہوتے۔ چونکہ ان کی تمثالیں آرائشی نہیں ہیں اس لیے وہ تجربے، خیال، تصور یا منظر سے اسی طرح جڑی ہیں، جس طرح رنگ کسی تصویر سے جڑے ہوتے ہیں۔ مجید امجد کی غزل میں تین قسم کی تمثالیں ملتی ہیں: حقیقی استعاراتی اور علامتی تمثالوں کی یہی تین قسمیں ہیں جو اہم شاعری میں برتی گئی ہیں۔ حقیقی تمثالیں وہ ہیں جو روزمرہ کے کسی حقیقی منظر کی لسانی باز آفرینی کرتی ہیں۔ ان تمثالوں پر مبنی شعر یا نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے فوری دھیان حقیقی منظر کی طرف جاتا ہے۔ بیش تر شعرا اسی نوعیت کی تمثالیں کام میں لاتے ہیں کہ یہ ایک سہل کام ہے۔ ہم حیاتیاتی اور ثقافتی جبر کے تحت باہر کی زندگی سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے مشاہدے، حافظے اور تصور میں باہر کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی باز آفرینی ہمارے لیے فطری ہے اور اسی بنا پر آسان ہے۔ مجید امجد حقیقی تمثالوں میں بھی اختراعی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ محض منظر کشی یا پرانی اصطلاح میں محاکات کے ساتھ ساتھ نکتہ طرازی سے بھی کام لیتے ہیں۔ یہ نکتہ طرازی کہیں کسی استفہامیہ کلمے، کہیں لفظوں اور مثالوں کے تلازماتی محرک اور کہیں ڈرامائی بیان کے ذریعے کی گئی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے: یہ بدلیوں کا شور، یہ گھنگھور قربتیں بارش میں بھیگتے یہ دو رہگیر کون ہیں؟ جب اک چراغ رہگزر کی کرن پڑے ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات ہر سو وہ خامشی کہ نہ تاب سخن پڑے اس منور پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا؟ سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا دو طرف بنگلے، ریشمی نیند میں اور سڑک پر فقیر اک نانگا استعاراتی تمثالیں بھی حقیقی منظر یا واقعے سے متعلق ہوتی ہیں، مگر وہ اس منظر کی لسانی باز آفرینی کے بجائے اس کی معنیاتی توسیع کرتی ہیں۔ منظر یا واقعہ اپنی جسمیت کو قائم رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ کسی اور شے کا قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ استعاراتی تمثالوں سے عبارت شعر یا نظم پڑھتے ہوئے قاری دو سطحی تجربے سے گزرتا ہے۔ وہ ایک سطح پر روزانہ کی حقیقی اور مانوس تجربات کی دنیا کا نئے سرے سے تجربہ بھی کرتا ہے اور دوسری سطح پر ایک تخیلی او رنامانوس معنیاتی فضا بھی محسوس کرتا ہے۔ استعاراتی تمثالوں میں معنیاتی فضا چونکہ نامانوس ہوتی ہے، اس لیے فوری متوجہ کرتی ہے۔ ہر اجنبی چہرہ اور منظر فوری توجہ کھینچتا ہے۔ یہ عمل بڑی حد تک حقیقی او رمانوس تجربات کی دنیا سے اوپر اٹھنے اور اسے کچھ اس طور عبور کرنے سے عبارت ہوتا ہے کہ یہ دنیا ٹریس کی صورت موجود رہتی ہے۔مجید امجد کے یہاں استعاراتی تمثالوں کے علمبردار کئی اشعار مل جاتے ہیں۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی اختراع پسندی سے کام لیتے ہوئے نئی اور انوکھی تمثالیں وضع کی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے: صبح کی دھوپ ہے کہ رستوں پر منجمد بجلیوں کا اک دریا پھر کہیں دل کے برج پر کوئی عکس فاصلوں کی فصیل سے ابھرا شفق کے رنگ آنکھوں پر، سحر کی اوس پلکوں پر نہ آئے پھر بھی لب پر چرخ نیلی فام کے شکوے افق افق پر زمانوں کی دھند سے ابھرے طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول دلوں کی آنچ سے تھا، برف کی سلوں پہ کبھی سیاہ سانسوں میں لتھڑا ہوا پسینہ بھی استعاراتی تمثالوں میں اگر مانوس تجربات کی دنیا کے ٹریس موجود رہتے ہیں تو علامتی تمثالوں میں ٹریس غائب ہو جاتے اور ان کی جگہ محض سپیس پیدا ہو جاتی ہے، جس میں کچھ طے نہیں ہوتا، مگر کئی باتیں، خیالات، تصورات، معانی طے کرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ علامتی تمثالیں اگرچہ دیگر تمثالوں کی طرح ارد گرد کی دنیا سے ہی لی جاتی ہیں، مگر انہیں کچھ اس انداز اور کچھ ایسے سیاق میں لایا جاتا ہے کہ وہ اپنے منبع سے کٹ جاتی مگر ممکنات کے کئی منابع سے جڑ جاتی ہیں۔ استعاراتی تمثالوں میں مانوس دنیا سے اوپر اٹھنے کا تجربہ قاری کرتا ہے، جب کہ علامتی تمثالوں میں یکسر نئی دنیا میں اترنے کا تجربہ اسے حاصل ہوتا ہے۔ اس وضع کی تمثالیں ہمیشہ بڑی شاعری میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں وہی شاعر تخلیق کر سکتا ہے جو کیٹس کے لفظوں میںNegative Capabilityکا حامل ہو۔ یعنی وہ لایقینیت، اسرار، تذبذب کی حالت میں رہنے کی اہلیت رکھتا ہو اور اسے روز مرہ کی حقیقتوں اور منطق کی طرف پلٹنے کی خواہش بے چین نہ کرتی ہو۔(70) دوسرے لفظوں میں مذکورہ پلٹنے کی خواہش مثبت صلاحیت ہے اور اس کے برعکس منفی صلاحیت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس شاعری میں پلٹنے کی محض مذکورہ خواہش ہی موجود ہو، وہ حقیقی یا زیادہ سے زیادہ استعاراتی تمثالوں کو تخلیق اور پیش کرنے کی اہل ہوتی ہے اور اس نوع کی شاعری اوسط درجے کی شاعری ہی ہوتی ہے۔ مجید امجد کی پوری غزل علامتی تمثالوں کے علمبردار تو نہیں مگر خاصی تعداد میں ایسے اشعار موجود ہیں، جن کی تمثالیں علامت کے درجے کو پہنچ گئی ہیں۔ ان کی نظموں میں علامتی تمثالوں کی کارفرمائی کہیں زیادہ ہے۔ بہرکیف کچھ اشعار دیکھیے: باگیں کھنچیں، مسافتیں کڑکیں، فرس رکے ماضی کی رتھ سے کس نے پلٹ کر نگاہ کی سانس کی رو میں، رونما طوفاں تیغ کی دھار پر بہے دھارا کیا رو تھی جو نسیب افق سے مری طرف تیری، پلٹ پلٹ کے، ندی کے بہاؤ سے ان ریزہ ریزہ آئنوں کے روپ میں بتا صدیوں کے طاق پر، فلک پیر، کون ہیں؟ بکھرتی لہروں کے ساتھ ان دنوں کے تنکے بھی تھے جو دل میں بہتے ہوئے رک گئے، نہیں گزرے غزل کو عام طور پر ریزہ خیالی سے عبارت قرار دیا گیا اور اسے غزل کا ہیئتی اور مزاجی لوازمہ شمار کیا گیا ہے۔ نیز یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ غزل میں کوئی دوسری صورت ممکن نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف دوسری صورت ممکن ہے بلکہ غزل کے لیے احسن بھی ہے۔ ریزہ خیالی کا مطلب مختلف اور متنوع خیالات ہیں۔ ایک ہی غزل ہجر کے رونے اور وصال کی سرشاری کو یا زمانے کی ناقدری کی شکایت اور زمانے سے بے نیازی ایسے متضاد مضامین پیش کر سکتی ہے اور اس خوبی پر فخر بھی کر سکتی ہے کہ وہ زندگی کے تضاد اور تنوع کی نمائندگی کر رہی ہے اور اس کا یہ جواز بھی پیش کر سکتی ہے کہ غزل گو محض اپنی ذات اور اپنے تجربات کا اظہار نہیں کرتا، دیگر لوگوں کے دیگر تجربات کو بھی زبان دیتا ہے جو اس کے تجربات سے یکسر مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس لیے غزل کی ریزہ خیالی، شاعر کے انتشار فکر اور باطنی بے نظمی کی ترجمان نہیں۔ یہ سب بجا، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ریزہ خیالی، خیالات کے ایک پیٹرن یا تجربات کے ایک نظام کے قیام کی اس خواہش کا منہ چڑاتی ہے جو سنجیدہ ادب کے صاحب نظر نقاد کے دل میں لازماً پیدا ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ غزل کی ریزہ خیالی ایک متھ ہے، جسے اوسط اور دوسرے درجے کے غزل گوؤں نے تشکیل دیا ہے تاکہ ان کی باطنی بے نظمی پر پردہ پڑا رہے۔ صف اول کے غزل گوؤں کے یہاں ریزہ خیالی کی متھ ٹوٹ گئی ہے اور ان کی غزل ایک باقاعدہ ساخت، خیالات کے پیٹرن یا تجربات کے ایک نظام کی علمبردار ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ ساخت یا پیٹرن نظم کی ساخت یا پیٹرن کی مانند نہیں ہے، جس کے اجزاء میں ارتقائی تنظیم ہوتی ہے۔ غزل کی ساخت میں نظم کی ساخت ایسا کساؤ اور گٹھا ہوا نظم نہیں ہوتا۔ مجید امجد کی غزل کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہ ریزہ خیالی کی تہمت سے محفوظ ہے۔ واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی غزل کے تمام اشعار میں موضوعاتی ربط ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ مسلسل غزل ہو گی، جو اصلا نظم کے قریب ہوتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں بعض غزلیں ایسی مل بھی جاتی ہیں۔ (71) اصل یہ ہے کہ مجید امجد کی غزل میں تجربات کا تضاد اور خیالات کی تردیدی صورتیں نہیں ہیں، تجربات کا تنوع اور خیالات کی کثرت (ایک حد تک) ضرور ہے (بعض لوگ ناروا طور پر تجربات کے تضاد کو تجربات کے تنوع کا نام دے دیتے ہیں) مگر ان میں داخلی ربط ہے۔ داخلی ربط اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب خیالات، تجربات ایک دوسرے کی تکذیب کے بجائے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے اور ایک دوسرے کی نمو میں مدد دیتے ہوں۔ ایک خیال اپنے مقام کے لیے دوسرے کا محتاج اور دوسرا اپنے جواز کے لیے پہلے کا دست نگر ہو! مجید امجد کی غزل خیالات کے جس پیٹرن کو جنم دیتی ہے، اس کا مرکزہ ’’ انسانی انا‘‘ ہے۔ اثبات اور فعالیت اس پیٹرن کے اجزاء ہیں۔ اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ کیجئے: مجید امجد کی غزل میں ’’ انسانی انا‘‘ کا باقاعدہ فلسفیانہ تصور موجود نہیں ہے۔ ان کی شاعری سے اس بات کی تائید نہیں ہوتی کہ وہ فلسفے کے باقاعدہ قاری تھے، تاہم سائنس (بالخصوص فلکیات) کے بعض تصورات سے آگاہی کی شہادت ان کی شاعری سے ضرور ملتی ہے۔ انسانی انا کا جو تصور مجید امجد کی غزل میں ظاہر ہوا ہے، وہ بڑی حد تک جدید مغربی ادب کے تصور انا سے مماثلت رکھتا ہے۔ جدید مغربی ادب انسانی انا کی خود مختاری کے تصور کو اپنے پس منظر میں لیے ہوئے ہے۔ (انسان مرکز فلسفے یعنی ہیومن ازم اور ماڈرنیٹی نے اس نظریے کو فروغ دیا تھا) دوسرے لفظوں میں مجید امجد کی غزل میں خیالات کا جو پیٹرن موجود ہے، وہ ارد وغزل کی روایت سے ماخوذنہیں ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی غزل کا کوئی رشتہ اردو غزل کی روایت سے نہیں ہے۔ سچ یہ کہ ان کے یہاں بعض مضامین اردو غزل کی روایت کے تتبع میں ضرور مل جاتے ہیں، مگر ان مضامین کی وجہ سے ان کی غزل نہ تو ممتاز ٹھہرتی ہے نہ منفرد مثلاً یہ اشعار دیکھیے: پیار کی پہلی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں چراغ بجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی مگر ابھی مری جدائیوں کی رات، رات ہے اک طرفہ کیفیت، نہ توجہ، نہ بے رخی میرے جنون دید کو یوں آزمانا تھا قاصد مست گام، موج صبا کوئی رمز خرام، موج صبا دونوں کا ربط ہے تری موج خرام سے لغزش خیال کی ہو کہ ٹھوکر نگاہ کی یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اشعار اپنے مضامین اور اسلوب ہر دو حوالوں سے اردو غزل کی عمومی روایت سے وابستہ ہیں۔ ان اشعار میں مجید امجد کی آواز منہا ہو گئی اور اردو غزل کا روایتی آہنگ بلند ہو گیا ہے۔ راقم کے نزدیک اس وضع کے اشعار مجید امجد نے رسماً لکھے ہیں یا پھر اردو غزل کی شعریات کے اس دباؤ کے تحت لکھ گئے ہیں، جو غزل کی فارم اختیار کرنے کے ساتھ ہی ہر غزل گو پر پڑتا ہے۔ تاہم مقام مسرت ہے کہ ایسے اشعار کی تعداد مجید امجد کے یہاں کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ مجید امجد مذکورہ دباؤ سے آزاد ہو گئے ہیں۔ یہ دباؤ جتنا فطری ہے اس سے آزادی اتنی ہی ضروری ہے۔ جن اشعار کی بناء پر مجید امجد کی غزل قابل اعتنا ہے انہیں غیر روایتی اور جدید کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی صورت اور ساخت مختلف اور نئی ہے۔ یہ اشعار رسماً نہیں، باطنی ضرورت کے تحت لکھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، اس لیے خیالات کے قابل شناخت پیٹرن کو تشکیل دیتے ہیں۔ مجید امجد غزل میں انسانی انا کے اظہار و انکشاف، اثبات اور فعالیت کی باہم دگر مربوط صورتیں ملتی ہیں۔ ایک سطح پر وہ فقط انا کا اظہار و انکشاف کرتے ہیں۔ کہنے کو یہ اظہار ہے مگر حقیقتاً یہ انا سے متعارف ہونے کا ایک مرحلہ ہے۔ انا کے بعض پہلوؤں سے ان کا تعارف ہوتا ہے اور کچھ ان کہے رہ جاتے ہیں اور یہی ان کہی انہیں انا کے اثبات اور بعد ازاں اس کی فعالیت کے تصور کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر انا ان کے یہاں ایک فلسفیانہ تصور کے طور پر موجود ہوتی تو ’’ کہی‘‘ میں ’’ان کہی‘‘ یا ایک مرحلے کے بعد دیگر مراحل موجود نہ ہوتے۔ یہ مراحل ہمیشہ شعری اظہار میں ہوتے ہیں۔ فلسفیانہ تصور مکمل ہوتا اور اس کے تمام اجزاء ایک ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اسے فلسفیانہ تصور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم مجید امجد کے یہاں انا کو ظاہر و منکشف کرنے کے پس پردہ یہ تصور ضرور کار فرما ہے کہ انا خود مختار ہے۔ اس تصور کے بغیر نہ تو انا کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے نہ اس کا اظہار ممکن ہوتا ہے۔ تاہم واضح رہے کہ ان کے یہاں انا خود مختار ضرور ہے، خود سر نہیں ہے۔ انا کے نام پر اپنی شخصیت کے منفی اور غیر تہذیب یافتہ گوشوں کا متکبرانہ اظہار نہیں کیا گیا۔ نیز مجید امجد کے لیے انا، شخصیت کے مترادف بھی نہیں ہے، اس لیے انا کا اظہار شخصیت کا اظہار بھی نہیں بنا۔ شخصیت، انسان کے روزمرہ اعمال میں ایک انفرادی اسلوب کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور اپنے روز مرہ کے ہر عمل کو کائنات کا منفرد واقعہ قرار دینے کے دھوکے کا شکار ہوتی ہے۔ مجید امجد نے اپنے اشعار میں روز مرہ کی شخصی و نجی ڈائری پیش نہیں کی۔ ان کے لیے انا، ایک خالص انسانی یافت ہے جو زندگی، سماج اور کائنات پر آزادانہ سوالات قائم کرتی، اس راستے میں ملنے والے تمام دکھوں اور الجھنوں کا باوقار انداز میں سامنا کرتی اور شکست قبول کرنے کو اپنی توہین قرار دیتی ہے۔ مجید امجد کے یہاں انا اولین سطح پر اپنے اظہار کے لیے تنہائی کو بطور تناظر قائم کرتی ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے: جس کو دیکھو اپنے سفر کی دنیا بھی، اپنے سفر میں تنہا بھی قدم قدم پر اپنے آپ کے ساتھ ہے اور اپنے آپ سے اوجھل ہے تیری آہٹ قدم قدم اور میں اس معیت میں بھی رہا تنہا ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے کوئی گزرا ہے بارہا تنہا خود اپنے غیب میں بن باس بھی ملا مجھ کو میں اس جہان کے ہر سانحے میں حاضر بھی مجید امجد کے بعض نقادوں نے تنہائی کا سبب ان کی ذاتی زندگی میں تلاش کیا ہے۔ اسے نقادوں کی سہل پسندی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے! انہوں نے تنہائی کا افسوس ناک حد تک محدود تصور قائم کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ مجید امجد نے چونکہ خانگی زندگی بسر نہیں کی، اس لیے تنہا تھے نیز چونکہ بڑے شہروں سے دور رہے اور کم آمیز تھے، اس لیے بھی تنہا تھے۔ اس ضمن میں ایک بات تو یہ ہے کہ مجید امجد کا چنیدہ حلقہ احباب تھا جس سے ان کی میل ملاقاتیں اور رابطے مسلسل تھے۔ وہ مردم بے زار ہرگز نہیں تھے۔ دوسری بات یہ کہ خانگی زندگی بسر کرنے کے باوجود بھی آدمی تنہا ہو سکتا ہے۔ خود مجید امجد کا شعر ہے: روح کے دربستہ سناٹوں کو لے کر اپنے ساتھ ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہو میں گھومیے اصل یہ ہے کہ مجید امجد کی غزل میں (اور نظم میں بھی) تنہائی کا ایک مگر اہم سبب یہ ہے کہ اس کے بغیر انا کی خود مختاری کا تصور قائم ہی نہیں کیا جا سکتا۔ انا اگر خود مختار ہے تو لازماً تنہا بھی ہے۔ دوسرا ہماری خود مختاری کو چیلنج کرتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں دوسرے کی موجودگی کا احساس موجود ہے۔ اپنی انا کی خود مختاری کا پرچم بلند کرتے ہوئے، دوسرے کی موجودگی کا احساس رکھنا سخت کٹھن مرحلہ ہے۔ اس ضمن میں دو رویے ممکن ہیں یا تو دوسرے کو اپنا جہنم سمجھا جاتا ہے (جیسا کہ وجودیوں نے سمجھا) یا پھر اس کی خود مختاری کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے، مگر آخری صورت میں اسی وقت ممکن ہوتی ہے، جب دوسرے کی خود مختاری کی حدود طے کر دی جائیں۔ مجید امجد کے یہاں دوسرے کی حدود طے کرتے ہوئے اس کی قبولیت کا رویہ موجود ہے۔ یہ اشعار اس صداقت کے گواہ ہیں: تیرے فرق ناز پہ تاج ہے، مرے دوش غم پہ گلیم ہے تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے شاخ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں یہ لوگ جن کے رخ پہ گمان چمن پڑے میلی چادر تان کر اس چوکھٹ کے دوار صدیوں کے کہرام میں سو گئے کیا کیا لوگ گٹھڑی کالی رین کی سونٹی سے لٹکائے اپنی دھن میں دھیان نگر کو گئے کیا کیا لوگ مجید امجد کے یہاں تنہائی کے تناظر میں انا کی خود مختاری کا تجربہ شدید کرب سے عبارت ہے۔ یہ کرب اتنا واضح اور اتنا شدید ہے کہ مجید امجد کے ہر قاری کو فی الفور محسوس ہوتا ہے اور پھر ہر قاری نقاد اس کی من مانی توجیہہ بھی کرتا ہے۔ مثلاً انور سدید کا خیال ہے کہ ’’ مجید امجد کا غم کسی عالمگیر اندوہ کا حصہ نظر آتا۔‘‘ (72) گویا ان کا غم نجی غم تسلیم کر لیں تو اسے معمولی ہونا چاہیے۔ انسان کی نجی زندگی کائنات گیر تناظر میں از حد معمولی واقعہ ہے، اس لیے اس سے وابستہ خوشی و غم بھی معمولی ہو گا۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی تخلیق کار کے یہاں ظاہر ہونے والے غم کا محرک نجی ہو، مگر جب تک غم نجی زندگی کے محدود دائرے کو توڑنے اور آفاق گیر تناظر سے وابستہ ہونے میں کامیاب نہ ہو، یہ غم نہ تو بامعنی ہو سکتا ہے نہ غیر معمولی! مجید امجد کی شاعری میں رواں غم غیر معمولی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے مجید امجد کی تنہائی اور غم کو وجودیت سے جوڑا ہے جبکہ ان کی غزل میں وجودی تجربے یا وجودی فلسفے کے بین نقوش نہیں ملتے۔ مجید امجد کی غزل میں تنہائی اور وجودی تجربے یا فلسفے میں تنہائی کی موجودگی، یہ رائے دینے کی بنیاد نہیں بن سکتی کہ مجید امجد وجودی شاعری ہیں۔ تنہائی ایک عالمگیر موضوع ہے، وجودیت میں یہ موضوع ایک خاص فلسفیانہ پس منظر میں آتا ہے۔ ان کی غزل میں یہ پس منظر نہیں ملتا۔ بایں ہمہ مجید امجد کی نظم وجودی نقطہ نظر سے معرض بحث میں لائی جا سکتی ہے، اس غرض سے کہ وجودی تنہائی میں فرق کی حدیں کہاں ہیں۔ بہرکیف مجید امجد کے غم کی نوعیت سمجھنے کے لیے یہ اشعار دیکھیے: غموں کی راکھ سے امجد وہ غم طلوع ہوئے جنہیں نصیب اک آہ سحر گہی بھی نہ تھی رستوں پر اندھیرے پھیل گئے، اک منزل غم تک شام ہوئی اے ہم سفرو! کیا فیصلہ ہے، اب چلنا ہے یا ٹھہرنا ہے جہان گریہ شبنم سے کس غرور کے ساتھ گزر رہے ہیں، تبسم کناں گلاب کے پھول سلگتے جاتے ہیں، چپ چاپ، ہنستے جاتے ہیں مثال چہرۂ پیغمبراں، گلاب کے پھول میں اک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا مرجھا گئے زمانے میرے انتظار میں گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر یہ سوز دروں، یہ اشک رواں، یہ کاش ہستی کیا کہیے مرتے ہیں کہ کچھ دن جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے مجید امجد کے غم کو جو چیز غیر معمولی بناتی ہے، وہ ہے غم کو پوری استقامت اور قابل رشک انسانی وقار کے ساتھ قبول کرنا۔ یہ غم نہ نجی ہے نہ سماجی بلکہ ایک سطح پر تقدیر انسانی کا دیا ہوا غم ہے اور دوسری سطح پر یہ اپنی انا کی خود مختاری کو درپیش حتمی خطرے کے حقیقی احساس کا پیدا کردہ ہے۔ یہ حقیقی خطرہ فنا ہے۔ مجید امجد کے یہاں یہ احساس یقینی اور قوی ہے کہ انسانی انا کی خود مختاری بس اس چلتی سانس تک ہے، یہی دو چار صبحیں اور دو چار شامیں ہیں۔ اس حقیقت کو انہوں نے اس شعر میں جس عمدگی سے سمیٹا ہے، تعریف سے بالاتر ہے: انہی حدوں تک ابھرتی، یہ لہر جس میں ہوں میں اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا اس حقیقت کا ترجمان یہ شعر بھی دیکھتے چلیے: اک سانس کی مدھم لو تو یہی، اک پل تو یہی، ایک چھن تو یہی تج دو کہ برت لو دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو دن تو یہی یہ غم یعنی، حقیقی اور حتمی ہے۔ جب خود مختار انا اس کا سامنا کرتی ہے تو یہ غم شدید ہو جاتا ہے اور اس میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر انا خود کو ایک دوسری وسیع انا کا حصہ تصور کرے، یعنی اپنی خود مختاری میں یقین کی حامل نہ ہو تو اس غم کو آسانی سے سہارا جا سکتا ہے۔ پھر فنا، انا کے لیے خطرہ نہیں، نوید ہوتی ہے، ایک نئے جنم کی ! اس کی اہم مثال صوفیانہ مسلک ہے، جو جز (انائے محدود) کو کل (انائے محدود) پر منحصر اور اس کا حصہ قرار دیتا ہے۔ اسے مجید امجد کے تخلیقی ظرف کا کمال کہنا چاہیے کہ وہ اتنے بڑے غم کا سامنا کر کے بھی انفعالیت، انجماد اور بے بسی کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ایک خاص طرز کی فعالیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے یہاں انا لازمی فنا کی حد تک، اپنی حد کا عرفان حاصل کر کے شدید غم سے تو دوچار ہوتی ہے، مگر نہ تو میسر لمحہ موجود سے لاتعلق ہوتی ہے اور نہ خود تر حمی کی ذلت آمیز حالت میں مبتلا ہوتی ہے۔ یہاں ایک نکتے کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ مجید امجد کی غزل کے مذکورہ مسائل اور موضوعات کے پیش نظریہ اعتراض کی جا سکتا ہے کہ ان کی غزل سماجی اور عصری شعور سے عاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی غزل میں وہ سماجی و عصری شعور تو بالکل نہیں ہے، جو ہر فرد کو محض اس بناء پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ سماج کا حصہ ہے۔ اس نوع کے شعور کے لیے کسی کاوش کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ خود کار طریقے سے آدمی کی شخصیت کا جز بن جاتا ہے۔ اکثر لکھنے والے تو بس اسی سطح کے شعور کو منظوم کرتے رہتے یا کہانی کے پیرائے میں اگلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ زندگی، کائنات اور تقدیر کے مسائل پر توجہ کرنے سے متعدد سماجی مسائل غیر اہم محسوس ہونے لگتے ہیں اور آدمی یا تو ان مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنے لگتا ہے پھر ان سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں ایک اور صورت ملتی ہے۔ انہوں نے سماج سے لاتعلقی نہیں، ایک فاصلہ اختیار کیا ہے اور اس فاصلے سے انہیں اپنے عصر کے واقعات و مسائل اور طرح سے دکھائی دیے ہیں۔ یہ فاصلہ دراصل ایک وژن ہے جو زندگی، انجام زندگی اور عرصہ زندگی سے متعلق ایک خاص قسم کی آگاہی سے عبارت ہے۔ مجید امجد نے اپنے عصر کے واقعات اور سانحات کو اپنی غزل کا موضوع بنایا ہے۔ تاہم مذکورہ وژن کے تحت انہوں نے کسی واقعے کی اہمیت کا ایک الگ تصور قائم کیا ہے، اور پھر یہ وژن اس واقعے پر شعری رد عمل میں گہرے طور پر سرایت کر گیا ہے ۔ اس کی مثال1971ء کی جنگ کے واقعے پر ان کے لکھے ہوئے اشعار ہیں: جنگ بھی، تیرا دھیان بھی، ہم بھی سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی سب تری ہی اماں میں شب بیدار مورچے بھی، مکان بھی، ہم بھی تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں چھاؤنی کے جوان بھی، ہم بھی فنا کی حد تک اپنی حد کا عرفان، مجید امجد کے یہاں شدید غم کو تو جنم دیتا ہے مگر یہ غم ان کی کمزوری نہیں بنتا، ان کے قلب کو مضمحل اور طرز فکر کو یاسیت سے دو چار نہیں کرتا۔ مجید امجد کے یہاں یاسیت کی عموماً نشان دہی کی گئی ہے، وہ اصلاً تمکنت آمیز افسردگی ہے، جو زندگی اور انا کی حقیقی صورت حال کے کشف کا لازمی نتیجہ ہے۔ یاسیت اور افسردگی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا بے عملی اور عمل میں ہے۔ مجید امجد کی غزل انفعالیت، انجماد اور بے بسی و بے عملی کے بجائے ایک برتر سطح کی سنجیدگی اور فعالیت کے مضامین پیش کرتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مجید امجد نے غالب کی طرح زندگی کی حقیقی صورت حال کا مضحکہ نہیں اڑایا اور اپنی انا کے اثبات کے لیے دوسرا رویہ اختیار کیا ہے۔ زندگی کی حقیقی صورت حال، غالب کی انا کے درپے ہوتی ہے تو وہ خوف زدہ ہونے یا جھکنے کے بجائے، اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں جو اپنی انا کے اثبات کی ہی نفسیاتی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی داخلی طور پر منظم و مستحکم شخص ہی اختیار کر سکتا ہے۔ امجد نے ایک دوسری قسم کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ مجید امجد کی غزل میں ان کی فعالیت کی ایک صورت وہ ہے جس میں انا اپنے مرکزے کو قائم رکھتے ہوئے اپنی حدود وسیع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ ایک یکسر غیر صوفیانہ طریق ہے۔ صوفیانہ طریق میں انا اپنے مرکزے کو تحلیل کرتی ہے اور انائے مطلق میں گم ہو جاتی ہے، جب کہ مجید امجد کے یہاں انا اپنی مرکزیت کی استواری و توسیع کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔ اور یہ کوشش دراصل ’’دور زماں کی ہر کروٹ‘‘ کو گرفت میں لینے سے عبارت ہے۔ا نا وقت کی گردشوں اور کروٹوں کو اپنے عرفان کے محیط میں لا کر، لمحہ موجود کی محدودیت (جس میں خود انا اسیر ہے) سے آزادی پاتی ہے۔ مری نگاہ میں دور زماں کی ہر کروٹ لہو کی لہر، دلوں کا دھواں، گلاب کے پھول ایک نئی صبح، ایک نئے دن کی تلاش بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ تاریخ اور حافظے میں محفوظ وقت کی تمام کروٹوں کو محیط میں لانے پر انا کی سیری نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایسے دن اور ایسی صبح کا تخیل بھی باندھتی ہے، جو آج تک طلوع نہیں ہوا۔ دوسرے لفظوں میں انا زماں کی اس تخلیقی قوت سے ہم رشتہ ہونے کی کوشش کرتی ہے، جو تمام تغیرات شب و روز کی ذمے دار ہے۔ عمروں کے اس معمورے میں ہے کوئی ایسا دن بھی، جو روح میں ابھرے، پھاند کے سورج کے سیال سمندر کو جو دن کبھی نہیں بیتا، وہ دن کب آئے گا انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا اس ایک دن کو۔۔۔۔ جو سورج کی راکھ میں غلطاں انہی دنوں کی تہوں میں ہے۔۔۔ کون دیکھے گا مجید امجد کے یہاں انا کی فعالیت کی دوسری صورت کائنات میں انا کی مرکزیت کا اعلان ہے۔ یہ اعلان محض اپنی انا کی برتری و خود سری کا کھوکھلا نعرہ نہیں ہے، بلکہ عناصر اور متھ کے تناظر میں جاری کیا گیا فیصلہ ہے۔ کائنات اور فطرت کے عناصر کے مقابلے میں، ان کی قوت تخلیق کے مقابلے میں انا کی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کا اعلان کیا گیا ہے یا پھر ا س متھ کے تناظر میں یہ اعلان سامنے آیا ہے، جو انا کی خود مختاری اور تخلیقی فعالیت کے تصور کو ہی محال بناتی ہے یہ متھ انسانی ارادے اور جوہرکو تشکیل دینے کا عقیدہ قائم کرتی اور پھر اسے انسانی انا سے تسلیم کرواتی ہے۔ انا اگر اسے تسلیم کر لے تو وہ ایک طرف اپنی آزادانہ حرکت سے محروم ہو جاتی ہے جو اس کی نامعلوم جہات میں تخلیقی فعالیت کے لیے لازم ہے اور دوسری طرف ان ذمے داریوں سے آزاد ہو جاتی ہے، جو اپنی آزادانہ حرکت سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ تسلیم سے انا میں ایک اطمینان ضرور پیدا ہوتا ہے، جو اصل میں مجہول ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں انا ایک دشت غم کے سپرد ہو جاتی ہے، مگر یہ دشت غم ایک نا مختتم تخلیقی اضطراب سے عبارت ہوتا ہے۔ مجید امجد کے یہاں اس متھ کو توڑا گیا ہے اور جس آہنگ اور اسلوب میں توڑا گیا ہے، وہ بے مثال ہے۔ صرف دو شعر ملاحظہ کیجئے: مرے نشان قدم دشت غم پہ ثبت رہے ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا طلوع صبح کہاں ہم طلوع ہوتے گئے ہمارا قافلہ بے درا روانہ رہا اگر حمید نسیم زندہ ہوتے تو ان کی خدمت میں یہ اشعار ضرور پیش کرتا جنہوں نے فتویٰ صادر فرمایا تھا کہ مجید امجد کے یہاں غزل میں کوئی تازہ آہنگ اور تازہ مضمون نہیں۔ مجید امجد کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ شاعری میں آرٹ اور کرافٹ کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے نظم میں ہیئت کے متعدد تجربات کیے، مگر کہیں بھی ان تجربات کو مقصود بالذات نہیں بنایا۔ یہ تجربات نظم کے موضوع، تھیم مواد کو نظر انداز کرنے کی قیمت پر نہیں کیے گئے۔ اس نوع کے تجربات مجید امجد نے غزل میں نہیں کیے۔ اس زاویے سے ان کی غزل ان کی نظم کے اثرات سے آزاد ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی غزل کو یک رنگ نہیں بننے دیا۔ انہوں نے بعض غزلیں گیت کے انداز میں لکھی ہیں تو ایک آدھ غزل دوہے کی بحر میں بھی لکھی ہے (73)(مگر واضح رہے کہ اسے غزل کا ہیئتی تجربہ قرار نہیں دیا جا سکتا) اسی طرح ان کی بعض غزلوں کے اسلوب پر فارسی تراکیب حاوی نظر آتی ہیں تو کچھ غزلوں میں ہندی الفاظ بھی موجود ہیں اور آخری دور کی غزلوں میں تو نہ فارسیت ہے نہ ہندیت، خالص اردو کا رنگ غالب ہے۔ (74) نیز یہ غزلیں نثر اور بول چال کی زبان کے بہت قریب ہو گئی ہیں۔ مجید امجد کی غزل کا اسلوبی تنوع اگر ایک طرف ان کی قدرت بیان کا مظہر ہے تو دوسری طرف ایک اپنے اور منفرد اسلوب کی تلاش و تشکیل کی کوشش سے بھی عبارت ہے۔ اس کوشش میں ان کی کامیابی ہر شک سے بالاتر ہے۔ آکر میں چند اشعار جن پر مجید امجد غزل گو کے دستخط ثبت ہیں۔ یہ اشعار مجید امجد کے نمائندہ اشعار تو ہیں ہی اردو غزل کے ناقابل فراموش اشعار بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے کوئی گزرا ہے بارہا تنہا دل سے ہر گزری بات گزری ہے کس قیامت کی رات گزری ہے ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ جن کی دھن میں حیات گزری ہے اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے امجد طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط اک داغ بھی کہیں نہ سر پیرہن پڑے ہے جو یہ سر پہ گیان کی گٹھڑی کھول کر بھی اسے کبھی دیکھا؟ امجد ان آنسؤں کو آگ لگے کتنا نرم اور گراں ہے یہ دریا وہ ایک ٹیس جسے تیرا نام یاد رہا کبھی کبھی تو میرے دل کا ساتھ چھوڑ گئی کسی کی روح تک اک فاصلہ خیال کا تھا کبھی کبھی تو یہ دوری رہی سہی نہ تھی۔ ٭٭٭ مجید امجد کی کتب مجید امجد کے شعری مجمودے 1۔ شب رفتہ نیا ادارہ، لاہور (اول) 1958ء شب رفتہ نیا ادارہ، لاہور (دوم) 1981ء شب رفتہ ماوراء پبلشرز، لاہور 1989ء شب رفتہ الحمد پبلی کیشنز، لاہور 2007ء 2۔ میرے خدا میرے دل (مرتبہ، تاج سعید) مکتبہ ارژنگ، پشاور 1975ء 3۔ شب رفتہ کے بعد (مرتبہ، عبدالرشید) تیسری دنیا کا کتاب گھر، لاہور 1976ء 4۔ ان گنت سورج (مرتبہ، خواجہ محمد زکریا) ضیائے ادب، لاہور 1979ء 5۔ چراغ طاق جہاں (مرتبہ، تاج سعید) سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 1980ء 6۔ طاق ابد (مرتبہ، شمیم حیات سیال ) آئینہ ادب، لاہور 1981ء 7۔ مرک صدا (مرتبہ، محمد امین) کاران ادب، ملتان 1982ء 8۔ اے دل تو ہی بتا (مرتبہ، ساحل احمد) اردو رائٹرس گلڈ، الٰہ آباد (بھارت) 1986ء 9۔ لوح دل (مرتبہ، تاج سعید) مکتبہ ارژنگ، پشاور 1987ء 10۔ کلیات مجید امجد (مرتبہ، خواجہ محمد زکریا) ماورا پبلشرز، لاہور 1989ء 11۔ انتخاب مجید امجد (مرتبہ، سعد اللہ شاہ) خزینہ علم و ادب، لاہور 2001ء 12۔ انتخاب مجید امجد (مرتبہ، خواجہ محمد زکریا) الحمد پبلی کیشنز، لاہور 2003ء 13۔ کلیات مجید امجد (مرتبہ، خواجہ محمد زکریا) الحمد پبلی کیشنز، لاہور 2003ء 14۔ گلاب کے پھول (مرتبہ، خالد شریف) ماورا پبلشرز، لاہور 2004ء رسائل کے مجید امجد نمبر 1۔ نصرت (لاہور) ہفت روزہ، شمارہ نمبر158، 20 تا22مئی 1974ء 2۔ قند (مردان)، جلد3، شمارہ9-8، جون1975ء 3۔ آواز جرس (لاہور) ہفت روزہ، 9تا15مئی1991ء 4۔ دستاویز (لاہور) جلد 2، شمارہ5، اپریل تا جون1991ء 5۔ محفل (لاہور) جلد37، شمارہ7، جولائی 1991ء 6۔ القلم (جھنگ) (مجید امجد۔۔۔ ایک مطالعہ، مرتبہ، حکمت ادیب)1994ء مجید امجد پر کتب 1۔ وزیر آغا مجید امجد کی داستان محبت، معین اکادمی، لاہور 1991ء 2۔ عامر سہیل بیاض آرزو بکف، بیکن بکس، ملتان 1995ء 3۔ ناصر شہزاد کون دیس گئیو، الحمد پبلی کیشنز، لاہور 2005ء ٭٭٭ مجید امجد پر تحقیقی مقالات 1۔ نسیم اختر، مجید امجد بحیثیت شاعر، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، زکریا یونیورسٹی ملتان، 1977ء 2۔ نوازش علی، مجید امجد کی غزل، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور،1979ء 3۔ فوزیہ اشرف، مجید امجد کی شاعری میں ہیئت کے تجربے، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور،1987ء 4۔ نزہت بانو، کلام مجید: فرہنگ و اشاریہ، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، زکریا یونیورسٹی، ملتان1989ء 5۔ فرحانہ منظور، کلام مجیدـ: فرہنگ و اشاریہ، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، زکریا یونیورسٹی، ملتان 1989ء 6۔ اختر عباس، مجید امجد کاشعری اسلوب، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، 1991ء 7۔ رضیہ رحمن، لفظیات مجید امجد کا سماجی تناظر، تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اردو، زکریا یونیورسٹی ملتان، 1989ء 8۔ محمد عارف کلیم، مجید امجد کے دور آخر کا کلام: فکری و فنی جائزہ، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور،1995ء 9۔ افتخار بیگ، مجید امجد کی شاعر اور فلسفہ وجودیت، تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،1995ء 11۔ ڈاکٹر عامر سہیل، جدید اردو شعری تناظر میں مجید امجد کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی، زکریا یونیورسٹی، ملتان2004ء 12۔ اکمل علی شہزاد، مجید امجد کی نثر نگاری، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور2006ء 13۔ اظہر خاں شیروانی، مجید امجد کی شعری فرہنگ (حصہ اول)، تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور،2006ء 14۔ شبر عباس، مجید امجد کی شعری فرہنگ (حصہ دوم) تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، پنجاب یونیورسٹی لاہور،2006ء 15۔ خالد محمود، فرہنگ کلام مجید امجد، تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اردو، جی سی یونیورسٹی لاہور، 2007ء ٭٭٭ حواشی/کتابیات 1۔ مکتوب بنام محمد حیات خاں سیال، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (مرتب حکمت ادیب) ص729 2۔ محمد ابراہیم قاسم، مجید امجد کی زندگی پر ایک نظر، مشمولہ روزنامہ ’’ غریب‘‘ لائل پور11جون1976ء 3۔ ایضاً 4۔ خواجہ محمد زکریا، ’’ مجید امجد: چند یادیں، چند تاثرات‘‘ مشمولہ قند (مردان) مجید امجد نمبر، مئی جون1975ء ص11تا 12 5۔ حکمت ادیب، مجید امجد، فن اور شخصیت (غیر مطبوعہ) 6۔ شیر محمد شعری ’’ انٹرویو‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ 7۔ صفدر سلیم سیال’’ قدح قدح تیری یادیں‘‘ مشمولہ سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد، شمارہ 54، 2001 ء ص282 8۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، چند اہم جدید شاعر، سنگت پبلشرز، لاہور2003ء ص164(مجید امجد رسالہ ’’ ادبی دنیا‘‘ کا نام غلطی سے کر گئے ہیں فیض صاحب ’’ ادبی دنیا‘‘ کے کبھی ایڈیٹر نہیں رہے۔) 9۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا’’ اقبال اور مجید امجد، ایک سرسری مطالعہ‘‘ مشمولہ ماہنامہ الحمرا (لاہور) نومبر2007ء ص272 10۔ مکتوب بنام محمد حیات خاں سیال (محولا بالا) ص729 11۔ شیر افضل جعفری ’’ مجید امجد۔۔۔کوی سدھارتھ‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا) ص12 12۔ صفدر سلیم سیال’’ قدح قدح تیری یادیں‘‘ مشمولہ سہ ماہی ادبیات (محولا بالا) ص284 13۔ شیر افضل جعفری ’’ مجید امجد۔۔۔ کوی سدھارتھ‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا) ص12 14۔ ایضاً ص22 15۔ ناصر شہزاد ’’ کون دیس گئیو‘‘ الحمد پبلی کیشنز، لاہور2005ء ص40-41 16۔ حکمت ادیب، مجید امجد، فن و شخصیت (محولا بالا) ص18 17۔ شیر محمد شعری ’’ انٹرویو‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا)ص707 18۔ حکمت ادیب، مجید امجد، فن و شخصیت (محولا بالا) ص25 19۔ بیگم شعری، انٹرویو، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا)ص710 20۔ شیر محمد شعری ’’ انٹرویو‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا) ص707 21۔ صفدر سلیم سیال ’’ قدح قدح تیری یادیں‘‘ مشمولہ سہ ماہی ادبیات (محولہ بالا) ص282 22۔ شیر محمد شعری ’’ انٹرویو‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ (محولا بالا) ص707 23۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا’’ مجید امجد، سوانحی خاکہ‘‘ مشمولہ کلیات مجید امجد، ماوراء پبلشرز، لاہورص19 24۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو (محولا بالا)ص24 25۔ صفدر سلیم سیال ’’ قدح قدح تیری یادیں‘‘ مشمولہ سہ ماہی ’’ ادبیات‘‘ (محولا بالا) ص282 26۔ جعفر شیرازی، مجید امجد اور میں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص42 27۔ مکتوب محمد حیات خاں سیال، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص729 28۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو (محولا بالا) ص15 29۔ اسرار زیدی، مہرباں قربتیں بے ریا ساعتیں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص54 30۔ خواجہ محمد زکریا، چند اہم جدید شاعر (محولا بالا) ص121 31۔ ایضاً 32۔ ایضاً ص151 33۔ ایضاً ص125 34۔ مقصود زاہدی ’’ فسردگی مجسم‘‘ مشمولہ قند (محولا بالا) ص18 35 ۔ جعفر شیرازی، مجید امجد او رمیں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص38 36۔ خواجہ محمد زکریا’’ مجید امجد:ـ چند یادیں، چند تاثرات‘‘ مشمولہ قند، ص12 37۔ وزیر آغا، مجید امجد کی داستان محبت، معین اکادمی، لاہور،1991ء ص36 38۔ اسرار زیدی، مہرباں قربتیں، بے ریا ساعتیں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص62 39۔ محمد امین میں عمر اپنے لیے بھی تو بچا رکھنا مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص63 40۔ ناصر شہزاد، کون دیو گئیو (محولا بالا) ص19 41۔ ایضاً ص45 42۔ جعفر شیرازی، مجید امجد اور میں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ ص43 43۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو (محولا بالا) ص5۔24 44۔ ایضاً ص26 45۔ اسرار زیدی، مہرباں قربتیں، بے ریا ساعتیں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص57 46۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو (محولا بالا) ص34-5 47۔ ایضاً ص36 48۔ وزیر آغا، مجید امجد کی داستان محبت (محولا بالا) ص116 49۔ خواجہ محمد زکریا، چند اہم جدید شاعر، ص124 50۔ جاوید قریشی، حرف معذرت (شب رفتہ کے بعد) مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص674 51۔ شیر افضل جعفری، مجید امجد۔۔۔ کوی سدھارتھ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص24 52۔ احمد تنویر، مجید امجد کی یادیں اور باتیں، مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ، ص98 53۔ He has experimented with all rhythms, the suppiness and variety of his prosody are extraordinary the spenserian stanzas of adonais the terza rima of the triumph of life the metrical combinations of prometheus are the variations of master upon accepted themes or the inventions of an original genius. p1057 54 ۔ آفتاب اقبال شمیم، مجید امجد کی شاعری ایک جائزہ، مشمولہ دستاویز مجید امجد نمبرا پریل تا جون1991ء ص56 55۔ ایضاً ص61 56۔ حمید نسیم، کچھ اور اہم شاعر، فضلی سنز، کراچی 1997ء ، ص87 57 ۔ وزیر آغا، مجید امجد کی داستان محبت، معین اکادمی، لاہور،1991ء ص61 58۔ خواجہ محمد زکریا، چند اہم جدید شاعر، سنگت پبلشرز، لاہور2000ء ص130 59۔ جعفر طاہر’’ ریزہ درد مجید امجد کی شاعری‘‘ مشمولہ مجید امجد: ایک مطالعہ مرتب حکمت ادیب، جھنگ1997ء ص251 60۔ ڈاکٹر محمد صادق ’’ مجید امجد کے کلام میں تنوع‘‘ مشمولہ مجید امجد ایک مطالعہ ص243 61۔ تبسم کاشمیری ’’ مجید امجد آشوب زیست اور مقامی وجود کا تجربہ‘‘ مشمولہ دستاویز، مجید امجد نمبر، محولہ بالا ص266 62۔ خواجہ محمد زکریا، چند اہم جدید شاعر محولہ بالاص151 63۔ وزیر آغا، مجید امجد کی داستان محبت محولہ بالا ص70, 71 64۔ سہیل احمد، مجید امجد اور نئی شعری صورت حال مشمولہ ’’ قند‘‘ محولہ بالا ص69 65۔ تاہم اس وضع کی نظمیں لکھنے کے میلان کا اظہار1962ء سے ہونے لگا تھا۔ نظم حربے کم و بیش اسی میلان کا اظہار ہے، جو1968ء کے بعد مجید امجد کا واحد شعری رحجان بن جاتا ہے، علاوہ ازیں مرے خدا مرے دل (1964ئ) سپاہی (1967ئ) بھی 1968ء کے بعد لکھی گئی نظموں کی پیش رو قرار دی جا سکتی ہیں۔ 66۔ Filippo Tomanaso Marinetti: The founding and manifesto of futurism in European literature from romanticism to postmodernism (ed Martin Travers) Lanodn, Coditnuum, 2001. p161 67۔ مجید امجد سے ایک انٹرویو، مجید امجد ایک مطالعہ (مرتبہ حکمت ادیب) ص799 68۔ابتدائی غزلوں کے یہ اشعار اردو کی کلاسیکی غزل کے اثرات لیے ہوئے ہیں۔ پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے تلخیاں سب زندگی کی لطف ساماں ہو گئیں شمع کے دامن میں شعلہ، شمع کے قدموں میں راکھ اور ہو جاتا ہے ہو منزل پہ پروانے کا نام 69۔ مثلاً دن، شام، صبح، رات، راکھ، دریا، مٹی کی متعدد مثالیں ان کی غزل و نظم میں آئی ہیں۔ 70۔ کیٹس نے اس صلاحیت کا ذکر اپنے بھائیوں، جارج اور تھامس کے نام اپنے مکتوب، محررہ 21دسمبر1817ء میں کیا تھا۔ دراصل کیٹس جاننا چاہتا تھا کہ آخر وہ کیا خصوصیت ہے جو عظیم ادب کی تخلیق کے لیے لازم ہے، جو شیکسپیئر کے پاس تھی۔ اس سوال کے جواب میں اس نے منفی اہلیت کا خیال پیش کیا۔ اس کے اپنے لفظ یہ تھے: i mean negative capability, that is when a man is capable of being in uncertainties, mysteries, doubts without any irritable reaching after fact and reason. (Dictionary of literary terms and literary theory (ed: J.A Cuddon) Penguin Books, 1994, p577) 72۔ مثلاً یہ غزل جو دل نے کہ دی ہے وہ بات ان کہی بھی نہ تھی یا یہ غزل جنگ بھی تیرا دھیان بھی ہم بھی 72 ۔ انور سدید’’ مجید امجد کی غزل‘‘ مجید امجد۔۔۔ ایک مطالعہ (مرتب حکمت ادیب) ص681 73۔ مثلاً یہ غزل گیت کے انداز میں ہے: میں جو تیری راگ سبھا میں راس رچانے آیا تھا یا یہ غزل کیا سوچتے ہو، اب پھولوں کی رت بیت گئی، رت بیت گئی یا پھر یہ غزل جھونکوں میں رس گھولے دل دوہے کی بحر میں یہ غزل اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ 74۔ چند فارسی تراکیب ملاحظہ کیجئے: طلسم شب و روز، صید سبک مراد، فریب رنگ و بو، حسن زہر خند، نالہ صد عندلیب، شور قافلہ رنگ و بو، خرام موج نسیم، کنج سمن پوش، قافلہ ہائے خندہ گل پیر مغاں، رطل گراں دور زماں، رسم فغاں، قلب تپاں وغیرہ۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End