ہوم اکنامکس سیدہ کنیزنرحس زہرہ باب ۱:ہوم اکنامکس کی اہمیت و ضرورت آج سے چند سال قبل ہمارے تعلیمی اداروں میں کھانے پکانے اور سینے پرونے سے متعلق چند باتیں سکھائی جاتی تھیں۔ اور یہ تصور کر لیا جاتا تھا۔ کہ بچیوں کو خانہ داری کے فرائض سنبھالنے کا اہل بنا دیا گیا ہے۔ لیکن تجربے سے ثابت ہو ا ہے کہ تعلیم کو سینے پرونے اور کھانے پکانے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ خانہ داری کو بخوبی سر انجام دینے کے لیے اوربھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ تعلیم انہیں ہوم اکنامکس کے مضمون کے ذریعے آسانی سے دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو ہماری گھریلوں زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے ہماری بچیاں صرف کھانے پکانے سینا پرونا اور گھر کا انتظام کرنا ہی نہیں سیکھتیں بلکہ ان میں خانہ داری کے مختلف مسائل اور معاملات کو سمجھنے اور ان کے حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہوم اکنامکس کے معنی گھریلو معاشیات ہے یہ بہت وسیع مضمون ہے اور اس کا تعلق گھر کے تمام معاملات اور کام کاج سے ہے ۔ عام طور پر خانہ داری میں کھانا پکانا کپڑے سینا بچوں کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ تمام کام کیسے انجام پاتے ہیں۔ ا س کا انحصار خاتون خانہ کی ذہانت تربیت اور انتظام کرنے کی صلاحیتوں پر ہے۔ ہوم اکنامکس ایک ایسی سائنس ہے جس کے پڑھنے سے انسان اپنے ذرائع کا بہترین استعمال کر کے اپنے گھر کا انتظام ایسے طریقے سے کرتا ہے جو خاندان کی زیادہ سے زیادہ بھلائی اور فائدے کا سبب ہوتاہے۔ ہوم اکنامکس پس منظر اس دار فانی کے آغاز سے عورت ہی گھر کے نظام کو چلاتی آئی ہے۔ اور تمام چھوٹی بچیاں نسل در نسل اپنی مائوں سے خانہ داری اور گھریلو امور کے رموز و اوقاف سیکھتی آتی ہیں۔ یہ تربیت ہمہ وقتی طو رپر ہے۔ مائیں کھیل کھیل کے ذریعے اپنی بچیوں کو گھریلوذمہ داری اور امور سے آگاہ کرتی آئی ہیں۔ مگر وقت اور حالات کے تقاضے کے تحت بعض مائیں خانہ داری کی گھریلو تعلیم کے علاوہ دیگر مضامین کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسے جانے لگیں۔ اس طرح ماں اور بیٹی دونوں گھر کی تربیت کو کل وقتی تربیت کے طور پر جاری نہ رکھ سکیں اور امور خانہ داری میں غفلت کا اثر گھر اور کنبے کی زندگی پر پڑے گا۔ گھر اور کنبہ معاشرے کا اہم جزو ہیں۔ اور ان میں کوئی نقص یا خرابی آ جائے تو سارا معاشرہ متاثرہ ہوتا ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کو اس صورت حال سے تشویش ہوئی اور اس کاحال ڈھونڈنے کی فکر میں لگ گئے۔ انیسویں صدی کے شروع میں امریکا میں شکاگو کے مقام پر پہلے ایک اور پھر کچھ اورکھانے پکانے کے سکول کھلے۔ جو بہت جلد پھر دلعزیز اور کامیاب ہوئے ان کی کامیابی دیکھ کر اس کی جگہ 1821میں ایک خانگی آرٹ سکول اور 1935میں سینے پرونے کا سکول بھی کھل گیا۔ یہ تینوں مدرسے بڑے کامیاب رہے اور ان کی کامیابی سے متاثر ہو کر ایک امریکی خاتون کیتھرائن ای ہچر نے اپنی تصانیف کے ذریعے ایک مہم شروع کی۔ 1841میں اس نے ایک کتاب Treatise on Domestic Economyاور 1869میں ایک اورکتاب Principles of Domestic Science شائع کی۔ ان دونوں کتابوں میں اس نے اس چیز کی تائید کی کہ گھریلو رہن سہن بھی ایک علم ہے اور اسے جمع کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ 1893ء میں شکاگو کے عالمی میلے کے موقع پر ایک ہوم اکنامکس ایسوسی ایشن بھی قائم ہو گئی اوراس طرح ایک عالمی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک کا مقصد گھر کے کنبے کے مسائل اور ان کا حل پر روشنی ڈالنا اور گھر اور کنبے کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تحریک ہوم اکنامکس کی تحریک کہلانے لگی اور آہستہ آہستہ یہ تحریک پوری دنیا پر ہاوی ہو گئی۔ ابتدا و آغاز تحریک ہوم اکنامکس اس تحریک کا بنیادی فلسفہ اگر انسانوں کو اس زمین پر اپنے عارضی قیام میں حقیقی خوشی صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ اگر اسے اپنے گھرانے میں ایک تسکین بخش اور بافراد زندگی میسر آ جائے اس تحریک کے رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ پھر انسان میں فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ گھریلو زندگی کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرے لیکن لا علمی اور جہالت کی وجہ سے وہ اپنی اس فطری استعداد سے کماحقہ فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے۔ اس طرح وہ گھریلو زندگی کی خوشیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس لاعلمی اور جہالت کو دور کرنے کے لیے اس چیز کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ کہ ان تمام معلومات کو یکجا کر کے ایک علم مرتب کیا جائے اور پھر اس کی تدریس کی جائے ۔ اورپھر اس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے تمام علوم سے وہ معلومات اخذ کر لی جائیں۔ جن کا کوئی تعلق خاندان کے رہن سہن اور زندگیوں سے ہے دوسرا مفید یہ کہ خوش گوار گھریلو زندگی گزارنے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں خصوصی تحقیق کے ذریعہ سے دور کیا جائے۔ پھر اس دوہری کوشش سے جو معلومات حاصل ہوں انہیں موثر تدریس کے ذریعے عام کیا جائے اس خصوصی تحقیق سے حاصل کردہ ذخیرہ علم کو یکجا کر کے اسے ہوم اکنامکس کا نام دیا گیا۔ اور اس طرح ہوم اکنامکس کو بطور تدریس مضمون عالم وجود میں لایا گیا۔ ہوم اکنامکس کی ضرورت ہوم اکنامکس کے تاریخی پس منظر کے تحت جو مقاصد متعین کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ فرد کو کنبے کی مشترک زندگی کے لیے بذریعہ تعلیم تیار کرنا۔ ۲۔ گھریلو زندگی کے سامان اور ان کے استعمال کے طریقوں کو بہتر بنانا۔ ۳۔ افراد کی مختلف عمروں میں بدلتی ہوئی ضروریات کے بارے میں تحقیق کرنا اور اس کی ضرورت کا پورا کرنے کے طریقے اور ذرائع دریافت کرنا۔ ۴۔ گھر بستی اور قوم میں ایسے حالات پیدا کرنا کہ جن سے گھریلو زندگی پر مفید اثرات مرتب ہوں۔ ۵۔ انسان کی بعض بنیادی اہلیتیں ایسی ہیں۔ جو ہر کنبے کی زندگی کو خواہ وہ کنبہ کسی طبقے یا درجے کا کیوںنہ ہو بہتر بناتی ہیںَ اور ان خاص اہلیتوں کو فروغ دینا ہوم اکنامکس کا وہ واضح مقصد ہے جس کے ذیلی مقاصد کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں۔ ۶۔ ان اقدار کا یقین کرنا جو انفرادی کا اجتماعی زندگی کو بامعنی بناتی ہیں۔ اور پھران اقدار کی روشنی میں تدریس کے مقاصد متعین کرنا گھر اور بستی میں وہ ماحول پیدا کرنا جس میں تمام افراد اپنی عمروںکے ہر دور میں صحت مند زندگی گزار سکیں۔ اور مزید ترقی کر سکیں۔ ۷۔ کنبے کے اندر اور بستی میں افراد کے باہمی تعلقات کو بہترین طریقے پر قائم کرنا اور فروغ دینا۔ ۸۔ بچوں کی ذہنی معاشرتی اور جسمانی ترقی کی طرف خاص توجہ دینا۔ ۹۔ کنبے کے مالی اثاثے کے استعمال کے ایسے طریقے دریافت کرنا جن سے کنبہ بہترین اقتصادی زندگی گزار سکے۔ ۱۰۔ مستقبل کے بارے میں ایسے انتظامات تجویز کرنا جن سے کنبے اور اس کے افراد کا مالی تحفظ ہو۔ ۱۱۔ خوراک لباس اور دیگر خانگی اخراجات کے بارے میں ایسے منصوبے بنانا جو اس کنبے کے لیے متعین کردہ اقدار اور مقاصد کے حل کرنے میں مدد دیںَ ۱۲۔ خانگی سامان اور اجناس کی خریداری کے لیے ایسے منصوبے بنانا جن کے ذریعے کنبے کے اقتصادی اور مالی اثاثے کا استعمال ہو سکے۔ ۱۳۔ گھرمیں ایسا ماحول پیدا کرنا جن سے افراد کے ذاتی مقاصد اور کنبے کے اجتماعی مقاصد پوری طرح ہو سکیں۔ ۱۴۔ ادب اور جن کے ذریعے افراد کی ذاتی زندگی کو زیادہ سلکش بنانا اور فارغ لمحات کو مفید مشاغل میں استعمال کرنے کے مواقع بہم پہنچانا۔ باوجود ذہنی یا معاشرتی اختلاف کے باہمی تعاون کے ساتھ زندگی گزارنے کی تربیت دینا۔ ہم ہوم اکنامکس کے مقصد اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ گھریلو زندگی کو صحیح خطوط پر قائم کر کے اسے زیادہ موثرمفید اور خوشگوار بنایا جائے۔ تاکہ فرد کا گھریلو زندگی سے ایک بامعنی گہرا اور مضبوط رابطہ ااستوار ہو جائے۔ فرد کنبے کی برکات سے مستفید ہو کر اپنی زندگی خوشی و کامرانی سے گزار سکے۔ فرد کو دہن سہن کے اصول سکھائے جائیں اور اجتماعی زندگی کی وہ بنیادی اقدار سمجھائی جائیں جن کی وجہ سے وہ معاشرے کا ایک مفید اور داپسند فرد بن جائے۔ فرد ایک خوشگوار ماحول میں زندگی سکون اطمینان ومسرت سے گزار سکے۔ ہوم اکنامکس کی اہمیت گھرکو چلانے کی ذمہ داری عورت پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایسی تربیت حاصل کرے جس سے گھریلو امور نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام پائیں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک قوم کی ترقی کی عکاسی اس کے طریقہ رہائش سے ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لڑکیاں وقت کے تقاضوں کے مطابق گھریلومعاشیات کی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ پہلے زمانے میں زندگی نہایت سادہ تھی اور عورتیں گھروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ اور گھر کے تمام امور خود سرانجام دیتی تھیں اس لیے ہوم اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی لیکن موجودہ دور میں جبکہ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم ضروری سمجھی جاتی ہے۔ آج کے دور میں زمانے کے تقاضوں کے ساتھ معیار زندگی بھی بلند ہو گیا ہے۔ او رساتھ ہی گھریلو مسائل بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ اب خاتون خانہ کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ وقت قوت اور باقی تمام ذرائع کا استعمال بہتر طور پر کرے۔ گھر اورباہر دونوں کی مصروفیات کے ساتھ اپنی ساری ذمہ داری بہتر طور پر نبھائے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی مناسب غذا لباس اور تربیت کے اچھے طریقے کیا ہیں۔ افراد خانہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا گھریلو کاموں کو سلیقے کے ساتھ سر انجام دینا اور اپنے ماحول کو خوشگوار رکھنا وغیرہ لڑکیوں کے فرائض میں شامل ہے۔ ہوم اکنامکس پڑھنے کے بعد ایک لڑکی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی خوش اسلوبی سے استعمال کر سکتی ہے۔ ہوم اکنامکس کے نصاب اورتدریس پر قومی تعلیمی پالیسی میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ بلکہ اس مضمون کو مڈل کی سطح پر لازمی کر دیا گیا ہے قومی تعلیمی پالیسی میں ہوم اکنامکس کو ایک خاص اہمیت اور مقام عطا کیا گیا ہے۔ دیہات کا ماحول شہر کے ماحول سے مختلف ہے۔ اور دونوں کے کاموں کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے مگر کام کرنے کے اصول ایک ہی ہیں۔ جو دونوں جگہوں کے ماحول کی ضرورت کے مطابق استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہوم اکنامکس کی تدریسی اہمیت ہر کام کرنے سے پہلے ہم اس کی تیاری یعنی منصوبہ بندی کرتے ہیںَ اس طرح ایک اچھی تدریسی اور خاص طور پر ہوم اکنامکس کی تدریس کے لیے بھی منصوبہ بندی ایک اہم ضرورت ہے۔ تدریسی طریقے اور مواد کا انتخاب منصوبہ بندی کے تحت موزوں تدریسی طریقے اور مواد کا انتخاب استاد کی دماغی اختراع اور تصورات پر مشتمل ہے بعض دفعہ ہم دیکھیں گے کہ استاد کا فیصلہ کرنے میں بعض عناصر ہوتے ہیں کہ وہ بے بس ہو جاتی ہے اور اس کی تدریس موثر نہیں ہوتی مثلاً کم وقت بڑی کلام ہوم اکنامکس کا کمرہ یا لیبارٹری جو مناسب چیزوں سے آراستہ نہیں اور مالی وسائل کی کمی بعض دفعہ استاد کے لیے بے حد مشکل ہوجاتاہے کہ انفرادی تدریس یا گروہی کام کروا سے۔ یہ دونوں چیزیں ہوم اکنامکس کی تدریس کے اہم جزو ہیںَ ہر حال میں استاد کو صورت حال مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ردوبدل کرنا پڑتی ہے۔ اوریہی ایک خوبی ہوم اکنامکس کے استاد میں ہونا ضروری ہے۔ ہوم اکنامکس کی تدریس کا مقصد گھریلو اور کنبے کے ماحول کو بہتر بنانا ہے۔ لہٰذ ا تدریس کا عمل گھر اورکنبے کے گرد گردش کرتا ہے۔ دوران تدریس کنبے کے افراد کی زندگیوں کے بچپن سے بڑھاپے تک کے تمام دور اور ان کی خصوصی نفسیات او ر ضروریات کنبے کے تمدنی پس منظر اور ا س کی سماجی اور اقتصادی حقیقت اور ضروریات ہمہ وقت پیش نظر رکھنا پڑتی ہیںَ پھر کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں بلا لحاظ ہر حال میں طالبات کے ذہن نشین کرانی ہوتی ہیں مثلاً ۱۔ صحیح فیصلہ کرنے کے طریقے ۲۔ صحیح طرز استدلال ۳۔ مسائل کو جذباتی انداز کے بجائے عاقلانہ انداز سے حل کرنے کا گر ۴۔ تفتیش و تجویز کا سائنسی طریقہ ۵۔ اتفاق رائے کی برکات ۶۔ باہمی تعاون کے اصول اور طریقہ کار ۷۔ صحیح اقدار کا تعین ۸۔ شخصیت کا احترام جس میں فرد کی اپنی قدر شناسی بھی شامل ہے ۹۔ دوسروں کی بہبود میں دلچسپی وغیرہ ہوم اکنامکس کی تدریس خیالات اور عادات میں تبدیلی کرنے اور ہنر سلائی لینے کا ذریعہ ہے۔ اور یہ دوسرا مقصد صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ استاد اور شاگرد میں باہمی تعاون ہو ۔ اس لیے ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہوم اکنامکس کی تدریس میں تعاون کے ماحول کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ بغیر تعاون کے طالبات کے خیالات اور اطوار میںگھریلو رہن سہن کے متعلق وہ تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جو گھریلو زندگی کو مفید اور خوش گوار بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ٭٭٭ باب ۲:ہوم اکنامکس کا دوسرے مضامین سے تعلق ہوم اکنامکس ایک وسیع مضمون ہے۔ یہ بذات خود ایک سائنس بھی ہے اور آرٹ بھی۔ بنیادی طور پر اسے سائنس کا درجہ دیا جاتاہے۔ لیکن آرٹ اور سائنس کے مضامین کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ ہوم اکنامکس اور نفسیات ہوم اکنامکس میں ہر عمر کے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کے مسائل کے بارے میں ہوتا ہ۔ یعنی ان کے لیے مناسب لباس ‘ رہن سہن‘ اور پرورش کے اصول و طریقے سیکھتے ہیں۔ ان سب کاموں میں بچوں کی نفسیا ت کا سمجھنا ضروری ہے نفسیات میں بچوں کی شخصیت ان کی نشوونما ان کی ضروریات اور خواہشات کو سمجھنے کے اصول اور طریقے بتائے جاتے ہیں۔ ہوم اکنامکس میںنفسیات کی مدد سے بچوں کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہوم اکنامکس اور اکنامکس ہوم اکنامکس میں پیسوں کے صحیح استعمال پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر چیز کی صحیح خریداری اور صحیح استعمال کے طریقے بتائے جاتے ہیں تاکہ اچھی اور معیاری چیز لی جائے اور پیسے کی بچت ہو۔ معاشیات کا ایک اہم پہلو بجٹ بھی ہے۔ لہٰذا بجٹ بنانے اور صحیح طورپر خرچ کرنے کا ہوم اکنامکس سے بڑا اہم تعلق ہے۔ ہوم اکنامکس اور آرٹ گھریلو سجاوٹ اور لباس کی زیبائش میں آرٹ کے تمام عناصر اور اصول یعنی خطوط رنگ سطحی کیفیات شک وہیئت ہم آہنگی توازن تسلسل اور قوقیت سے مدد لی جاتی ہے۔ لباس کے انتخاب اور آرائش خانہ میں ان کو سمجھنا اور رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہوم اکنامکس اور آرٹ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق اور رابطہ ہے۔ ان دونوں کو کسی طرح بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہوم اکنامکس اورشہریت ہوم اکنامکس کی تعلیم کا مقصد شخصیت کو پروقار صحت مند دلکش اورہر دل عزیز بنانا بھی ہے اس ضمن میں اس میں ایسے موضوعات شامل ہیں جن سے ایک لڑکی ایک اچھی بہن خدمت گزار بیٹی تابعدار بہو اور وفادار اور سلیقہ شعار بیوی بن سکتی ہے۔ یہ ساری خاصیتیں صرف لڑکیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک ملک کے ہر فرد کو ایک اچھا شہری بننے میں مددگار اور معاون ثابت ہوتی ہیں۔ علم شہریت کا ایک بنیادی مقصد ہے اچھا شہری بنانا اور ہوم اکنامکس اس مقصد کو پورا کرتی ہے۔ ہوم اکنامکس اور کیمسٹری ہوم اکنامکس کا کیمسٹری کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے ۔ غذا او ر غذائیت اور کیمسٹری دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں کیونکہ ہماری غذا کے بنیادی اجزاء کیمیائی قسم کے ہیں اور اس کے علاوہ خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے جن اصولوں سے مدد لی جاتی ہے سب ہی علم کیمیا سے متعلق ہیں۔ لہٰذا غذا اور غذائیت کو جو ہوم اکنامکس کی شاخ ہے کیمسٹری سے الگ نہیںکر سکتے۔ ہوم اکنامکس اور بیالوجی ہوم اکنامکس اور بیالوجی کا بظاہر کوئی تعق نظر نہیں آتا کیونکہ بیالوجی زیادہ تر پودوں اور جانوروں سے متعلق ہے لیکن بیالوجی کا ایک پہلو انسانی نشوونما کے متعلق ہے۔ ہوم اکنامکس میں بھی لڑکیوں کو بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی حفاظت نشوونما تعلیم و تربیت کے اصول و طریقے بتائے جاتے ہیں ہوم اکنامکس میںبیالوجی کے اصول مبادیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہوم اکنامکس اور فزکس فزکس بظاہر سائنسی علوم کا نام ہے لیکن ہوم اکنامکس کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ ہوم اکنامکس میں فزکس کی طرح ایک جسمانی مشین میں جوڑے جانے والے آلات سے آگاہی دلائی جاتی ہے تاکہ جسمانی اور سائنس یعنی مشینری کے تمام امور اور کارکردگی کے متعلق ایک انسان مکمل طور پر جان سکے ۔ جس طرح مشین کو چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک جسم کو حرکت کرنے چلنے پھرنے غرض تمام حرکات و سکنات میں توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فزکس کے علم کی طرح ہوم اکنامکس بھی انسانی مشین میں استعمال ہونے والے آلات و توانائی سے آگاہ کرتی ہے۔ غرض یہ کہ ہوم اکنامکس ایک ایسا مضمون ہے کہ جس کا معاشرتی و اخلاقی و روحانی تمام علوم سے گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ پورا معاشرہ حیات انسانی کا دارومدار غذا اور ہوم اکنامکس کے دائرہ کے گرد گھومتا ہے۔ زندگی میں انسان کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار اس کی اپنی شخصیت پر ہوتا ہے۔ یعنی آپ کی طرح گھر کے افراد سہیلیوں ہمسایوں اور اساتذہ کے ساتھ کامیابی سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یہ بات نہ صرف فرد کی اپنی خوشی کے لیے ضروری ہے بلکہ معاشرے کے باقی افراد کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ معاشرے کے ایک فرد کی مجلسی ناکامی بہت سے لوگوں کی خوشیاں برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ اور زندگی کے ہر قدم پر دوسروں کا محتاج ہے۔ پیدائش سے لے کر آخری دم تک اسے دوسرے کے سہارے کی اور دوسروںکو ا س کے سہارے کی ضرورت ہتی ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کے دل میں یہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ اسے دنیا کی کوئی پروا نہیں مگر یہ بات غلط ہے کہ اگر ہمیں دنیا کی کوئی پروا نہیں رہی تو ہم دوسروں سے تحسین و آفرین حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہ کرتے۔ بچپن ہی سے بچے کو دوسرے سے ملنے جلنے کی تربیت دینا ضروری ہے۔ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو بتدریج زیادہ پختہ ہوتا جاتا ہے۔ شخصیت کی تعمیر کے ٹھوس پن میں انسان کا تصور ذات یا ذاتی عکس بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اگر اپنے بارے میں ذہنی تصور حقائق پر مبنی ہویعنی محض خیالی نہ ہو اوریہ تصور مثبت (Positive)ہو تو بچوں کی شخصیت میں خود اعتمادی‘ حقیقت پسندی اور ٹھوس پن کے خواص پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان حالات سے مقابلہ کرنے کی اہلیت حقائق کو سمجھنے اور دور اندیشی کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔ معاشرتی ماحول میں دوسروںکے ساتھ تعلقات کی صحیح سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔ اور ماحول میں ہم آہنگی اور مطابقت کی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے بارے میں صحیح ذاتی نقشہ تیار نہیں کر پاتے ان کی شخصیت سراب پر مبنی ہوتی ہے۔ جو تمام اچھے خواص سے محروم رہ جاتی ہے۔ ایسے بچے نہایت کمزور اور ٹوٹی پھوٹی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ جو خود اعتمادی کے خواص سے مبرا ہوتے ہیں اور وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ جو انہیںماحول میں مطابقت پیدا کرنے میں آڑے رہتی ہے۔ ایسے بچے نہایت کمزور (Poor)شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سلسلہ تعمیر شخصیت خود اس امر کا گواہ ہے کہ شخصیت کی بناوٹ میں دو بڑے عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں وراثتی عطیات کا خواص (Hereditary Endowments) انسان کو قدرتی خاصیتیں عطا کرتے ہیں۔ ماحول تعلیم اور تربیت (Learning is Education)قدرتی خصوصیات کو مخصوص شکل میں ڈھالتا ہے۔ بچے کے سیکھنے کے عمل (Learning)دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو بچے میں فطری و وراثتی طورپر موجو د ہوتا ہے اور نشوونما کے ساتھ ساتھ اپنی نسل کے متعلق عمل وہ از خود سیکھتے ہیں اوراس کے لیے و کسی بھی تربیت کا محتاج نہیں جبکہ چند عوامل ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے تعلیم و تربیت لازمی ہوتی ہے اس کے تغیر بچہ نہیں سیکھ سکتا ہے اسے مہارتی عمل کہتے ہیں۔ دراصل سیکھنے کا عمل ابتدائی طور پر نشوونما ئی اہلیتوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ جوں جوں انسان نشوونما جاتا ہے۔ اس میں جسمانی و ذہنی طور پر اہلیتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی اہلیتیں اضافہ یا تبدیلی اسے کچھ کرنے اور جاننے پر اکساتی رہتی ہے۔ اور بچے میں پیدا شدہ اہلیت کو استعمال کرنے کی طاقت کے ساتھ ساتھ تجسس بھی بڑھتا جاتا ہے اور پھر بچوں کے اندر بطور تحریکی قوت کام کرتا ہے۔ جو بچے کے عمل اور رویوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ رویے عام زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہماری سوچ اور کردار کے رخ کو متعین کرتے ہیں اور ان میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ رویے عام ذہنی میلانات ہوتے ہیں اور یہ ہمار ی اقدار اور ہیجانی احساسات کی پشت پر کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ خیالات اعتقادات علم تجربے کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اور اس میں فرد کی پسند اور ناپسند کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ یہ فرد کے میلانات اور توقعات کا کسی دوسرے فرد گروہ شے یا واقعہ کے متعلق مجموعی تاثر ہے جو فرد کے طرز عمل کا رخ متعین کرتا ہے اور فرد اسی کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ تفکر کرتا ہے اور عمل کرتا ہے۔ رویے کے تین اہم اجزا ہوتے ہیں: ۱۔ اعتقادات Beliefs عقاید میں حقائق آراء اور فرد یا شے وغیرہ کے متعلق معلومات عامہ سبھی شامل ہوتی ہیں۔ ماہرین کے نزدیک رویے کا پہلا جزو یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ یا شے کے متعلق کیا عقیدہ یا نظریہ قائم کیا گیا ہے۔ یا اس کا ادراک اور وقوف کیسے کیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے شے فرد مسئلے نظریے گروہ قوم کے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان کی چھان بین کر کے کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔ اور جب یہ موافقانہ یا مخالفانہ رائے پختہ ہو جاتی ہے تو وہ رویہ بن جاتا ہے ۔ ۲۔ تاثرات Feelings رویے کا دوسرا جزو تاثرات ہیں اور ان کا تعلق ان ہیجانی احساسات سے ہوتاہے جو اعتقادات سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان میں محبت نفرت پسند نا پسند اور اسی قسم کے دوسرے جذبے (Passions) اور عواطف (Sentiment) شامل ہوتے ہیں۔ ایسے احساسات کی وجہ سے کسی شے یا نظریے سے محبت کی جاتی ہے۔ یا نفرت کی جاتی ہے۔ اگر کسی شے فرد یا قوم کی طرف احساسات خوشگوار ہوں تو پھر اس کی طرف رویہ مثبت ہوتا ہے اور اگر تاثرات ناخوشگوار ہوں تو پھر اس کی طرف رویہ منفی ہوتا ہے اور اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ ۳۔ کرداری میلان Tendency to Behave اس سے مراد کسی خاص انداز میں جوابی رد عمل کے اظہار کے لیے ذہنی آمادگی ہے۔ یہی ذہنی آمادگی فرد کے طرز عمل کے رخ کر تعین کرتی ہے۔ اور فرد مخصوص رد عمل کا مظاہرہ کرتاہے۔ جیسے اپنی پارٹی کے لیے کام کرنا اور انتخابات میں ووٹ مانگنا وغیرہ۔ رویہ اور حقیقت Behavious and Fact رویے اور حقیقت میں جو بنیادی فرق پایا جاتاہے وہ یہ ہے : ۱۔ پسند اور ناپسند سچائی میں کوئی ہیجانی لگائو موجود نہیں ہوتا اور اس میں ذاتی پسند یا ناپسند کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ چاند زمین سے 250000میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے برعکس رویے میں لازمی طور پر ذاتی پسند یا ناپسند کو دخل حاصل ہوتا ہے۔ اور اس میں ہیجانی لگائو پایا جاتا ہے۔ ۲۔ ماحول اورتعلیم کا اثر سچائی تعلیم تجربے یا ماحول کے بدل جانے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ زمین سے چاند کا فاصلہ ایک پاکستانی کے نزدیک بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ ایک امریکی کے نزدیک لیکن رویہ اکتسابی ہوتا ہے اور یہ تعلیم تجربے اور ماحول کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے تبدیل ہو سکتا ہے تاہم ایک بار جو رویہ تشکیل پاجاتا ہے۔ اسے تبدیل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب نئے حقائق دریافت ہو جاتے ہیں تو پرانے حقائق کو چھوڑنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے۔ ۳۔ رویہ انفرادی ہوتا ہے جبکہ سچائی عالمگیر ہوتی ہے۔ ایک فرد میں رویہ پیدائشی نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ماحول سے سیکھے جاتے ہیں۔ فرد جن لوگوں میں رہتا ہے اور جس ماحول میں زندگی گزارتا ہے اور وہ اس کے رویوں کی تشکیل میںبڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چونکہ رویے ماحول سے سیکھے جاتے ہیں اس لیے انہیں سماجی آموزش کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر بڑوں کے رویے اپنا لیے جاتے ہیں۔ رویوں کی بنیاد اگرچہ حیاتیاتی محرکات ہوتے ہیں۔ لیکن رویے بذات خود عضویاتی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر بھوک کی تسکین عضویاتی ہے اوریہ رویہ نہیں ہے لیکن کسی خاص کھانے کو رغبت سے کھانا اور کسی خاص انداز میں کھانا خوارک کی جانب رویہ ہے اور یہ ماحول سے سیکھا جاتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک رویہ کسی فرد یا شے کی جانب موافقانہ یا مخالفانہ رد عمل کا مستقل میلان ہوتا ہے۔ اور ان میں تبدیلی لانا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح رویہ مستقل ضرور ہوتا ہے لیکن جامد نہیں ہوتا۔ چونکہ رویہ سماجی آموزش ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بامقصد بھی ہوتے ہیں۔ رویے محرکاتی اوراحساساتی ہوتے ہیں۔ رویوں کے تحت ہم کسی شے کو خوشگوار یا ناخوشگوار محسوس کرتے ہیں۔ اسے حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح ہمارے رویے کا کردار کا بھی تعین کرتے ہیں۔ رویے چونکہ ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اورایک جیسے ماحول میں عام طور پر سبھی افراد کی سماجی آموزش بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ اس لیے گروہ کے بیشتر افراد کے رویوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ رویے میں ایک خاص حد تک جذباتی اور تاثری شدت پائی جاتی ہے اور اسی شدت کے زیر اثر فرد اپنی پسن و ناپسند کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم بعض رویے زیادہ شدید ہوتے ہیں اور بعض رویے کم شدید ہوتے ہیں۔ رویے ہماری کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ رویے کے زیر اثر کسی شے کو اہمیت دیتے ہیں۔ نفرت کرتے ہیں یا خوشگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ اور یہ ہماری ذہنی آمادگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ذہنی آمادگی کا میلان کسی شے فرد یا واقعہ کے حق میں مخالف میں فیصلہ دیتی ہے۔ رویہ ہمیشہ کسی فرد یا شے کے حق میں ہوتا ہے۔ یا حق میں نہیں ہوتا اور رویہ بھی کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ رویہ کامطالعہ براہ راست نہیں کیا جاتا بلکہ کسی فرد گروہ یا قوم کے کردار کے حوالے سے رویے کا مطالعہ بالواسطہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ گھر کا ماحول خاندان کا سماجی اور معاشی سیاسی اور مذہبی ماحول جس میں فرد رہتا ہے۔ اور فرد کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے۔ سبھی رویے کی تشکیل اور نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رویہ کوئی جامد اور ساکن شے نہیں ہے۔ وقت کے گزرنے اور حالات کے بدلنے سے اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ رویوں کی تشکیل کوئی ایک دن میں نہیں ہو جاتی۔ بلکہ ان کی نشوونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اور اس عرصے میں فرد اپنے تجربات اور عزیز و اقارب ماحول سکول کالج و مذہب ذرائع ابلاغ اور بے شمار دوسری اشیاء اور افراد سے سیکھتا رہتا ہے۔ تجربات اور معلامات کا یہی مجموعہ رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے پہلے خیال کیا جاتا ھتا کہ رویے فرد کے کردار کا تعین کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فرد جس سیاست دان کو پسند کرتا ہے وہ سگریٹ پیتا ہے وغیرہ رویوں اور کردار کے درمیان مثبت تعلق پایا جاتا ہے۔ تاہم اس کا انحصار اس موقع و محل پر ہوتا ہے۔ جس میں اس کردار کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکی کے نزدیک خارجی اور داخلی دونوں قسم کے اسباب کسی فرد کی شخصیت کردار اور رویوں کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ہائیڈر (Heider) کے مطابق ایک فرددوسرے افراد کے ساتھ تعلقات قائم کرتے وقت اندرونی توازن حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر فرد محسوس کرتا ہے ک اس کے دوسرے افراد کے ساتھ اور دوسرے افراد کے آپس کے تعلقات بہت اچھے ہیں تو پھر وہ اپے آپ کو متوازن محسوس کرتا ہے۔ رویوں کی تشکیل میں مندرجہ ذیل عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں: ٭ خاندان اور دوستوں کے رویے کا اثر فرد جن لوگوں میں رہتا ہے اور جن کے درمیان زندگی گزارتا ہے وہ اس کے رویے کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر والدین یا عزیز و اقارب کسی دوسرے فرد یا گروہ یا خاندان کے خلاف ہوں تو فرد ا س کے خلاف معاندانہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ بھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اگر والدین اور عزیز و اقارب کسی دوسرے فرد گروہ یا خاندان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور خوشگوار تعلقات رکھتے ہوں تو فرد کا رویہ اس کے ساتھ مثبت اور اچھا ہوتا ہے۔ یہی حال سیاسی پارٹی اور مذہبی فرقوں کا ہے۔ ٭ رویے پر تعلیم اور ذہانت کا اثر رویے اکتسابی ہوتے ہیں اور ذہانت اور تعلیم فرد کے جذبے اور آموزش پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے رویوں پر بھی پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جتنا فرد زیادہ تعلیم یافتہ ہو گا اور اس نے جتنے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہو گی وہ اتنا ہی زیادہ بالغ نظر اور وسیع النظر ہوتاہے۔ یہی حال ذہانت کا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے رویے عام طور پر سائنسی اورمثبت ہوتے ہیں۔ ٭ مخصوص واقعات او ر تجربات کا اثر اگر فرد کو چند مخصوص قسم کے تجربات اور واقعات سے دوچار ہونا پڑا ہوتو ایسے واقعات اور تجربات اس کے رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مثال کے طور پر اگر کسی برادری کے چند افراد ایک فرد کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں اور سختی سے پیش آئیں تو فرد کہنے لگتا ہے کہ وہ ساری برادری ہی ایسی ہے اور اگر برادری یا خاندان کے چند افراد وعدے کا پاس نہ رکھیں۔ تو وہ ساری برادری یا خاندان کو وعدہ خلاف کہتے ہیں۔ ٭ فرد کی ذاتی ضروریات وظیفیت کے نظریے کے حامی ماہرین کے نزدیک رویے اس لیے اپنائے جاتے ہیں کیونکہ وہ مقصد کو حاصل رکنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جو افراد یا ماحولی قوتیں فرد کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہییں فرد ان کے متعلق مثبت اور اچھا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور خاص طور پر وہ فرد جو مشکل کے وقتکام آٹا ہے اور کسی لالچ یا دبائو کے بغیر مدد کرتاہے اس کی طرف اس کا رویہ بہت ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو فرد یا افراد اس کی ضروریات پوری کرنے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں یا جن سے فرد یا افراد اس کی ضروریات پوری کرنے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں یا جس سے فرد بہت سی توقعات وابستہ کر لیتا ہے اور وہ توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ ان کے متعلق مخالفانہ رویہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ ٭ گروہ یا فرقے سے وابستگی فر د جس گروہ فرقے یا پارٹی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے خیالات نظریات کو بہت جلد اور بعض دفعہ تو بلا سوچے سمجھے اپنا لیتا ہے۔ اس طرح وہ گروہ فرقہ یا پارٹی اس کے رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فرد دوسرے فرقے پارٹی کے متعلق وہی رویہ اپنا لیتا ہے جو اس کے گروہ فرقے یا پارٹی کا ہوتا ہے۔ فرد گروہ فرقے یا پارٹی کے پسندیدہ معیار اپنا لیتا ہے۔ اور ناپسندیدہ معیار ترک کر دیتا ہے۔ ٭ معلومات دوسرے فرد یا شے کے متعلق معلومات بھی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر معلومات نامکمل یا ناقص یا غلط ہوں خواہ یہ فرد کی اپنی کم علمی کی وجہ سے ہو یا کسی دوسرے نے جان بوجھ کر فراہم کی ہوں تو اس کے متعلق مخالفانہ رویہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ ٭ گروہی وابستگی گروہی وابستگی رویوں کی تشکیل میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فرد جس گروہ برادری یا قوم سے وابستہ ہوتا ہے یا جو اس کی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں ان کے متعلق اس کا رویہ دوستانہ ہوتا ہے اور دوسرے کے متعلق اس کا رویہ مخالفانہ ہوتا ہے اور گروہی معیاروں کے زیر اثر فرد کے رویے تشکیل پاتے ہیں۔ ٭ مزاج ماہرین کے نزدیک اگرچہ رویے سماجی تعلیم کے زیر تشکیل پاتے ہیں لیکن رویوں پر فرد کی شخصیت اور خاص طور پر فرد کے مزاج کا بھی بڑا اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی ماحول بلکہ ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے افراد کے رویوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ گھر کا ایک فرد غریبوں کا ہمدرد ہوتا ہے اور دوسرا ان کا اسحصال کرتا ہے۔ ٭ نسلی تعصب تعصبات سیکھے جاتے ہیں اورا ن کا اظہار مشروطیت کے تحت خود بخود ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کی وجہ سے ہمارے مختلف رویے مختلف اقوام اور نسلوں کی طرف ہوتے ہیں۔ ٭ غیر اخلاقی عوامل رویوں کی تشکیل میں غیر اخلاقی عوا مل بھی اہم کردا ر ادا کرتے ہیں۔ غیر اخلاقی عوامل سے مراد وہ عوامل ہیں جو اخلاقی اور سماجی اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہوتے۔ ٭٭٭ باب ۳:غذا اور غذائیت Food As Nutrition Concept of food nutrition ہر جاندار کو زند ہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ ہر چیز جو کہ ایک جان دار کھاتا ہے پیتا ہے۔ غذا کہلاتی ہے۔ غذا سے جسم کی پرورش ہوتی ہے۔ اس میں طاقت آتی ہے۔ اور وہ گرم رہتاہے۔ قبام صحت اور بقائے حیات کے لیے غذا ایک نہایت ضروری چیز ہے۔ چنانچہ اگر ایک تندرست و توانا آدمی کو آٹھ دس روز تک غذا نہ ملے تو وہ بھوک سے مر جائے گا۔ جب غذا جسم کی پرورش کرتی ہے اور اسے گر م رکھتی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ غذا ہمیشہ ایسی کھائی جائے جس میں زیادہ سے زیادہ غذائیت ہو اور وہ آسانی سے جزو بدن بھی بن جائے اوراس قسم کی غذا سے ہماری مراد مرغن نہیں بلکہ متوازن غذا (Balanced Diet)ہے۔ متوازن غذا سے مراد وہ غذا ہے جس میں وہ تمام غذائی اجزاء موجود ہیں جس سے جسم کی مناسب نشوونما ہو صحت برقرار رہے اورانسان اپنے روز مرہ کے فرائض عمدگی سے سر انجام دے سکے۔ اگر غذا ان تمام خصوصیات کی حاصل نہیں تو اسے ناقص یا غیر متوازن غذا ہا جائے گا۔ اور چونکہ ناقص غذا جسم کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔ اس لیے انسان کمزور اور لاغر ہو کر مختلف قسم کے امراض میں مبتلاہو جاتا ہے۔ ہر غذا غذائیت کے لحاظ سے دوسری غذا سے مختلف ہو ا کرتی ہے۔ غذائیت (Nutrition)سے مراد غذا کی وہ خصوصیات ہوا کرتی ہیں جن سے انسان کی نشوونما اور صحت و تندرسی برقرار رہتی ہے۔ اس لیے متوازن غذا (Balanced Diet)میں تمام غذائی اجزا کا شامل ہونا لازمی ہے۔ یعنی غذائیت وہ عمل ہے جس سے جاندار اشیاء اپنے جسموں میں خوراک سے غذائی اجزا حاصل کرتے ہیں وہ غذائی اجزا جو ہمارے جسم کو توانائی یا حرارت فراہم کرتے ہیں۔ لحمیات چکنائی اور نشاستہ ہیں اگر یہ اجزا کسی غذا میں موجود ہوں تو اس کے استعمال سے باقی اجزاخود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ Importance of Food Nutritents غذائیت سے مراد بہتر غذا اور کھانے کی عادات کے ذریعے صحت کو قائم رکھنا ہے۔ یعنی غذائیت وہ عمل ہے جس سے جاندار اشیا ء اپنے جسموں میںخوراک سے غذائی اجزاء حاصل کرتے ہیں یوںتو غذائی اجزا بہت سے ہیں۔ مگر مندرجہ ذیل چھ (۶) اجزا بے حد ضرور ی ہیں اگریہ اجزاء کسی غذا میں موجود ہوں تو اس کے استعمال سے باقی اجزا خود بخود حاصل ہو جاتے ہیں۔ ۱۔ پروٹین ۲۔ کاربوہائیڈریٹ ۳۔ چکنائی ۴۔ نمکیات ۵۔ وٹامن ۶ ۔ پانی جب ہماری غذا میں کسی ایک غذائی چیز کی فراوانی ہو اور باقی اجزا کا تناسب صحیح نہ ہو تو ایسی غذا کو غیر متوازن غذا کہا جاتاہے۔ ایسی صورت میں انسان بیماریوں کا جلد شکار ہو جاتاہے۔ متوازن غذا حاصل کرنے کے لیے خوراک کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہ تمام اشیا جن میں تقریباً ایک جیسے غذائی اجزاء موجود ہوں ان کو ایک گروپ بنایا جائے گا۔ ٭ غذا کے مختلف گروہ 1958ء میں متوازن غذا کے حصول کے لیے غذا کو مندرجہ ذیل چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱۔ دودھ اور دودھ بے بنی ہوئی اشیائ۔ ۲۔ گوشت اور گوشت سے بنی ہوئی اشیائ۔ ۳۔ سبزیاں اور پھل۔ ۴۔ اناج اور اناج سے بنی ہوئی اشیائ۔ Degrees of Nutritional Status سنکلیر (Sinelclair)ایک مشہور سائنس دان نے تندرستی کو پانچ مدارج میں تقسیم کیا ہے ۔ ۱۔ مقررہ مقدار سے زیادہ کھانے کی صورت میں جسم بھدا موٹا ہوجاتا ہے۔ چونکہ موٹاپا بذات خود ایک مرض ہے۔ اس لیے ایسے شخص کو تندرست نہیں کہا جا سکتا۔ ۲۔ اچھی اور معیاری غذا کا مقصد جسم کی صحیح نشوونما کرنا اور اس کی قوت اور توانائی کو برقرار رکھنا ہوتا ہے تاکہ جسم کے اجزاء اپنے ضروری افعال کو مناسب طریقے سے انجام دے سکیں۔ ۳۔ غذا کی بے اعتدالی سے انسان کانظام ہضم متاثر ہوتا ہے۔ جس سے قوت و توانائی برقرار نہیں رہتی اور یوں جسم کی مناسب نشوونما نہیں ہو پاتی۔ ۴۔ جب غذائیت کی کمی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسے سوء تغذیہ (Clinical Malnutrition)کہتے ہیں جس کے سبب مختلف امراض پیدا ہو جاتے ہین۔ ۵۔ سوء تغذیہ (Malnutrition)صرف جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ اس سے امراض پیدا نہیں ہوتے۔ غذا جسمانی اعمال کو درست رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ پانی لحمیات معدنی نمکیات اور حیاتین چند ایسے ہیی غذائی اجزا ہیں جو مختلف اعصاب غدود ہڈیوں دانتوں اور عضالت کی مناسب کار کردگی کے لیے ضرور ی ہیں۔ مثلاً پانی مختلف غذائی اجزا کو بافتوں تک پہنچانا ہے۔ اور جس کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنا ہے اور ہضم ہونے والے اجزا کے اخراج کے کا م آتا ہے۔ لوہا کیلشم فاسفورس اور دوسرے نمکیات اعصاب کی قوت اور پٹھوں کی حرکت کو قائم رکھتے ہیں۔ خون بندہونے میںمدددیتے ہیں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی آمدورفت میں بھی مدد دیتے ہیں۔ حیاتین کا بنیادی کام بھی افعال کی درستی ہے اس کے علاوہ ان میں نائٹروجن بھی موجود ہوتی ہے۔ حیاتین کا بنیادی کام بھی افعال کی درستی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں نائٹروجن بھی موجود ہوتی ہے۔ جو زندگی کے لیے بہت ضروی ہے۔ اس کے علاوہ حیاتین اور معدنی نمکیات جسم میں قوت مدافعت بھی پیدا کرتے ہیں جس سے جسم مختلف بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ جسمانی پرورش کے علاوہ خوراک ہماری زندگی میں بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم بہت سی تقریبات کے بعد چائے یا کھانا پیش کرتے ہیں۔ تقریبات میں چائے یا کھانا پیش کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس تقریب میں شامل ہوں اور سماجی تعلقات استوار ہوں۔ غذا ہمارے جسم کی نشوونما کرتی ہے اور تعلقات بڑھانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ یہ ہماری نفسیاتی ضروریات کی بھی تکمیل کرتی ہے۔ کئی دفعہ ہماری خوراک متوازن ہونے کے باوجود ہمیں سیر نہیں کرسکے گی اسی طرح ایک معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے پسندیدہ کھانے دوسرے معاشرے کے افراد کو ضروری نہیں کہ پسند آئیں۔ کئی دفعہ جذبات کے اظہار کے لیے بھی غذا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو کوئی کھانے کی چیز بھیجنا دوستی کی علامت ہے۔ کسی کی پسند کے مطابق کھانا بنانا کسی کو خاص توجہ دینے کی علامت ہے۔ ٭ غذا میں غذائی اجزا کی اہمیت ۱۔ پروٹین Proteins پانی کے بعد جسم میں سب سے زیادہ مقدار پروٹین کی ہی ہے۔ یہ عضلات بافتوں خون دانتوں اور ہڈیوں میں ہوتی ہے۔ اس میں کاربن ہائیڈروجن آکسیجن اور نائٹروجن پائے جاتے ہیں ۔ کچھ پروٹین میں سلفر فاسفورس لوہا آیوڈین اور کوبالٹ بھی ہوتے ہیں۔ پروٹین سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے اور اس کے علاوہ یہ جسم کو طاقت اور حرارت بخشتی ہے۔ چنانچہ روز مرہ استعمال ہونے والی غذا میں پروٹین کی ایک معقول مقدار ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ بچپن میں جب کہ جسم کی نشوونما ہو رہی ہو تی ہے پروٹین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پروٹین حیوانی اور نباتاتی غذائوں یعنی گوشت انڈا مچھلی دودھ دہی وغیرہ میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نباتاتی غذائیں مثلاً گیہوں مٹر لوبیا‘ سیم ‘ ماش ‘ مونگ وغیرہ میں بھی پروٹین سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ایک دن میں ایک آدمی کو تقریباً ۹۰ سے ۱۲۰ گرام پروٹینی غذائیں کھانی چاہئیں۔ 2. نشاستہ دار غذائیں Carbohydrates اس قسم کی غذا کا سب سے بڑافعل یہ ہوتا ہے کہ یہ جسم میں حرارت پید اکرتی ہیں اور اسے قوت بخشتی ہے۔ انہضام کے دوران نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور یہ شکر بعد میں گلائی کو جن (Glycogen)یا حیوانی کشر میں بدل جاتی ہے۔ اور جسم میں حرارت اور طاقت پیدا کرنے کے لیے صرف ہوتی ہے۔ اس قسم کی غذا کی ضرورت سے زیادہ کھائی جائے تو جسم کا وزن بڑھنے لگتاہے۔ ایک جوان آدمی کو چوبیس گھنٹے میں 720سے 180گرام نشاستہ دار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ شکر چاول‘ گندم‘ اراروٹ اور آلو وغیرہ میں کثیر مقدار میں نشاستہ پایا جاتا ہے۔ ۳۔ چکنائی Fats چربی گھی اور تیل وغیرہ جیسی غذائیں چکنائی میں شمار ہوتی ہیں۔ چکنائی والی غذا جسم میں گرمی اور قوت پیدا کرتی ہے۔ ایک جوان آدمی کو دن رات میں کم از کم ۴۵ گرام اور زیادہ جسمانی مشقت کرنے والے کو ۹۰ گرام چکنائی کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اگر ضرورت سے زیادہ چکنائی کھائی جائے تو اس سے یا تو ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے۔ یا وہ جسم میں جمع ہو کر ضرورت سے زیادہ موٹا کر دیتی ہے۔ اور موٹاپا بذات خود ایک پریشان کن مرض ہے۔ چکنائی والی غذا شکر اور نشاستہ دار غذا کے مقابلے میں جسم میں دوگنی سے زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے۔ ۴۔ نمکیات Salt معدنی (Mineval)اور دوسرے نمکیات کے بغیر کبھی انسان تندرست نہیں رہ سکتا۔ یہ خون ہڈیوں اور گوشت کی ساخت میں کام آتے ہیں۔ جسم کے ان تمام کیمیاوی اعمال میں جن پر کہ زندگی کا انحصار ہے ان نمکیات کا ہونا لازمی ہے۔ جب جسم میں نمکیات کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو وران خون سست ہو جاتا ہے۔ عام کھانے کا نمک تو غذا میں ساتھ ہی کھایا جاتا ہے لیکن دوسرے نمکیات جو سبزیوں اور دیگر غذائوں میں پائے جاتے ہیں کا بھی جسم میں پہنچنا نہایت ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب غذا میں دیر تک سبزی ترکاری یا پھل نہیں کھائے جاتے تو مذکورہ نمکیات کی کمی سے کئی امراض پیدا ہوجاتے ہیں ایک جوان آدی کو رات دن میں ۱۵ سے ۳۰ گروم تک مختلف قسم کے نمکیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۵۔ حیاتین Vitamins حیاتین ایسے اجز اکا مرکب ہیں جو کئی قسم کی خوراک میں تھوڑی بہت مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ انسانی صحت کی بقا کے لے بے حد ضروری ہیں۔ غذا میں ان کی عدم موجودگی سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ۶۔ پانی Water بقائے حیات کے لیے ہوا کے بعد پانی کا ہی درجہ آتا ہے۔ ہمار ے جسم کی بناوٹ میں دوتہاء سے زیادہ پانی ہوتا ہے۔ پانی غذا میں بدرقہ کا کام دیتا ہے یعنی یہ غذا کے اجزا کو جسم کے تمام حصوں میں لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غذا کے اجزاء اس میں آسانی سے حل ہو جاتے ہیں اور ان کا سارے جسم میں منتقل ہونا سہل ہو جاتاہے۔ اس کے علاوہ پانی جسم کے عضلات سے پاک بھی کرتا ہے۔ باقی غذا کے ہضم میں بھی مدد دیتا ہے۔ دوران خون کو قائم رکھنے میں بھی پانی بڑا اہم کام کرتا ہے۔ ٭ متوازن غذا کی اہمیت انسانی جسم اپنی سبافت اور افعال کے لحاظ سے ایک مشین یا انجن سے بہت حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ جس طرح مشین کو چلانے کے لیے پٹرول کوئلہ پانی اور تیل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے انسانی جسم کو صحت مند اور چاق و چوبند رکھنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ غذ ا سے مراد یہ نہیں کہ جو چیز بھی مل جائے انسان کھا لے۔ بلکہ انسانی جسم کو ٹھیک حالت میں رکھنے اور اس کی نشوونما کے لیے ہمیں ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تمام غذائی اجزاء مثلاً پروٹین چکنائی‘ کاربوہائیڈریٹ وٹامن‘ نمکیات اور پانی مناسب مقدار میں موجود ہوں۔ جسم کی مناسب نشوونما اور صحیح کارکردگی کے لیے متوازن غذا (Balanced Diet)ضروری ہے۔ متوازن غذا اس غذا کو کہتے ہیں۔ جس میں وہ تمام غذائی اجزا مناسب مقدار میں موجود ہوں جن سے انسان کی صحت برقرار رہے جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو اور وہ صحت مندی اور تندرستی سے اپنے روزمرہ کے فرائض بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکے۔ اگر غذا میں ان اجزا کا تناسب صحیح نہ ہو تو ایسی غذا کو ہم غیر متوازن غذا (Unbalanced Diet) کہیں گے۔ غیر متوازن غذا سے جسم کی تمام ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے انسان کمزور ہو کر باسانی مختلف امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ غذا کے غیر متوازن ہونے سے وزن کی کمی بھوک نہ لگنا خڑاب دانت‘ بینائی کی کمزوری جیسے امراض لاحق ہو جاتے ہیں اس لیے صحت کو برقرار رکھنے کے لیے متوازن غذا نہایت ضروری ہے۔ متوازن غذا میں درج ذیل مخصوص کام انجام دیتی ہے۔ متوازن غذا کو ایندھن مہیا کرتی ہے۔ متوازن غذا جسم کی تعمیر و مرمت کرتی ہے۔ متوازن غذا جس کو مختلف کام صحیح طور پر انجام دینے میں مدد دیتی ہے۔ ہم اپنی غذا کے متوازن ہونے کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔ اور پیٹ بھرنے کی غرض سے زیادہ کھاتے ہیں۔ او ر اچھے ذائعقے اور اچھی مقدار ہی کو اہیت دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم بظاہر تو صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ اندرونی طور پر ہم کسی کمزوری یا بیماری میں مبتلا ہوں۔ اس لیے ہمیںمتوازن غذا استعمال کرنی چاہیے۔ جس میں تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار میں موجود ہوں۔ کیونکہ ہر شخص کی غذائی ضروریات کے مطابق اس کی خوراک میں جس قدر غذائی اجزا موجود ہوں وہ خوراک کے لیے اتنی ہی متوازن ہوتی ہے۔ اس لیے جسمانی افعال کی باقاعدگی اور درستگی اور جسمانی نشوونما کے لیے ہر جز کا دن بھر کی خوراک کا ایک حصہ اور تناسب ہونا چاہیے۔ انسان کو بچپن ہی سے ہر قسم کی غذا مناسب مقدر میں کھانے کی عادت ہونی چاہیے۔ اگر کوئی بھی غذائی چیز (Nutrient)کم ہو تو اس کا اثر انسان کی نشوونما اور صحت پر پڑتا ہے۔ مثلاً دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک شخص نے پروٹین سے بھرپور غذائیں یعنی دودھ دہی لسی انڈا اور گوشت کا استعمال بچپن ہی سے کم رکھا ہے تو اس کا قدوقامت کم ہو گا بانسبت اس آدمی کے جس نے شروع سے ان غذائوں کی مناسب مقدار استعمال کی ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو ولوگ پھل اور سبزیاں کم کھاتے ہیں ان کی صحت بھی خراب ہوتی ہے۔ اور وہ کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ جو لوگ ملی جلی غذائیں کھاتے ہیں وہ زیادہ توانا اور تندرست رہتے ہیں۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں ہمیں چاہیے کہ اپنی خوراک میں بنیادی تبدیلی پیدا کریں۔ اس کے انتخا ب میں پوری توجہ دیں تاکہ جسم کو تمام ضروری بنیادی اجزاء مناسب مقدار میں مہیاہو سکیں نہ وہ ضرورت سے زیادہ ہوں اور نہ کم ایسی ہی غذا کو ہم متوازن غذا کہتے ہیں۔ لہٰذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اپنی آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی غذا کا انتخاب کیا جائے کہ جو جسم کی تمام ضروریات پوری کر سکے۔ متوازن غذا حاصل کرنے کے چند اصول ۱ ۔ جسم کے لیے حراروں کی مقدار کا تعین حرارت ناپنے کے لیے اکائی حرارت (Clorie)کہا جاتا ہے۔ یہ حرارت کی وہ مقدار ہے جو ایک کلو گرا م پانی کے درجہ حرارت کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھا دیتی ہے۔ ہر ناسان کو حراروں کی ضرورت الگ الگ ہوتی ہے۔ جو لو گ محنت مزدوری یا جسمانی مشقت زیادہ کرتے ہیں انہیں زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے یہ نسبت ان لوگوں کے جو دفاتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں اچھل کود اور بھاگ دوڑ کرنے والے بچو کو بھی زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں بیٹھ کر لکھنے پڑھنے والے بچوں کو کم حراروں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ہر غذا میں حراروں (Calories)کی تعداد بھی مختلف ہوتی ہے۔ غذا چونکہ ایک کیمیائی مرکب ہے ا س لیے حراروں کی تعداد غذا کی کیمیاوی بناوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ مثلاً گھی تیل اور چکنائی میں سب غذائوں سے زیادہ حرارے ہوتے ہیں۔ اگر جسم کو ضرورت کے مطابق حرارے (Calories)میسر نہ آئیں تو وہ جسمانی بافتوں (Body Tissues) سے حرارت حاصل کرنا شروع کر دیتاہے۔ جس سے بافتوں پر بر ااثر پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے جسم میں حراروں کی مناسب مقدار کا ہونا ضروری ہے جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات اور جسمانی محنت و مشقت میں بھی کمی آتی جاتی ہے۔ لہٰذ ا عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ غذا میں حراروں کی کمی کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ عورتوں میں جبکہ وہ حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہوں حراروں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ قدر و قامت مڈبل ڈیل اور جسمانی محنت و مشقت کے لحاظ سے بھی حراروں کی ضرورت کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ جسم کے ۱ کلو گرام وزن کے لیے ایک گھنٹے میں ۱ کلو ری درکاری ہوتی ہے۔ (۱) وزن ٭ جسم جسم کے لیے مطلوبہ حرارے ۱ دن کے لیے (۲) ۲۴ گھنٹوں کے لیے مطلوبہ حرارے مختلف کام کاج میں استعمال ہونے والے حرارے ایک دن میں حراروں کی ضرورت ۲ ۔ جسم کے لیے پروٹین کی ضرورت جسم میں حراروں کے علاوہ لحمیات (Protiens)کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ لحمیات (Proteins)میں وہ تمام غذائیں شامل ہیں جو حیوانی غذائیں کہلاتی ہیں۔ مثلاً دودھ گوشت مچھلی انڈا وغیرہ اس کے علاوہ نباتاتی غذائیں مثلاً گیہوں مٹر‘ لوبیا‘ ماش ‘مونگ‘ مسور وغیرہ میں پروٹین سے بھرپور ہوتی ہیں۔ پانی کے بعد جسم میں سب سے زیادہ مقدار پروٹین کی ہی ہے پروٹین کی دو اقسام ہیں سادہ پروٹین (Simple Protein)اور مرکب پروٹین (Conjugated Protein)جو کہ جسم کی نشوونما میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ روز مرہ استعمال ہونے والی غذا میں پروٹین کی ایک معقول مقدار ہر شخص کے لیے ضروری ہے بچپن میں جب کہ جسم نشوونما پا رہا ہوتا ہے۔ پروٹین کی بڑی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم کے ہر کلو گرام وزن کے لیے ۱ گرام پروٹین درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک دن میں ایک آدمی کو تقریباً ۹۰ تا ۱۲۰ گرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۳۔ جسم میں مزید غذائی اجزا کی ضرورت ایک فرد کو دن بھر کی غذا میں نشاستہ دار غذائیں (Carbohydrates) استعمال کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ایک جوان آدمی کو چوبیس گھنٹوں میں ۷۲۰ سے ۷۸۰ گرا م نشاستہ دار غذا کی ضرورتی ہوتی ہے یہ جسم کی حرارت پیدا کرتی ہے اوراسے قوت بخشتی ہے۔ لیکن اگر اس قسم کی غذا ضرورت سے زیادہ کھائی جائے تو جسم بڑھنے لگتاہے۔ چکنائی (Fats) میں چربی ‘ گھی اور تیل وغیرہ جیسی غذائیں شامل ہیں جو جسم کی گرمی اور قوت پیدا کرتی ہیں۔ ایک جوان آدمی کو دن رات میں کم از کم ۴۵ گرام چکنائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ ضرورت سے زیادہ چکنائی سے ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے اور جسم ضڑورت سے زیادہ موٹا ہو جاتاہے نمکیات (Salt)کے بغیر بھی انسان تندرست نہیں رہ سکتا۔ یہ خون ہڈیوں اور گوشت کی سیاخت کے کام آتے ہین جسم کے ان تمام کیمیائی اعمال میں جن پر کہ زندگی کا انحصار ہے ان نمکیات کا ہونا لازمی ہے ایک جوان آدمی کو دن رات میں ۱۵ سے ۳۰ گرام تک مختلف قسم کے نمکیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ متوازن غذا حاصل کرنے کے لیے ہم خوراک کو چار گروہوں میں تقسیم کر تے ہیں۔ وہ تمام اشیاء جن سے تقریباً ایک جیسے غذائی اجز ا موجود ہوں ان کو ایک گروپ سمجھا جاتا ہے۔ 1958ء میں متوازن غذا کے حصول کے لیے غذا کو مندرجہ ذیل چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیائ۔ ۲۔ گوشت اور گوشت سے بنی ہوئی اشیاء ۳۔ سبزیاں اور پھل ۴۔ اناج اور اناج سے بنی ہوئی اشیائ۔ ۱۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء دودھ کو مکمل خوراک کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں تقریباً تمام ضروری غذائی اجزا موجود ہیں لیکن کئی غذائی اجزا اس میں دوسرے غذائی اجزا کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ دودھ اور اس سے بنی ہوئی اشیاء ہمیں کیلشیم فاسفورس اور وٹامن بنی فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ لوہا اور وٹامن کسی اور دودھ سے حاصل نہیں ہوتا۔ دودھ سے بنی ہوئی اشیا ہماری کیلشیم کی ضرورت کو پور اکرتی ہیں۔ دودھ کے ۱ گرام سے ہمیں ۱ ملی گرام کیلشیم حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دودھ میں مکمل پروٹین پائی جاتی ہے۔ تقریباً ایک اونس یا ۳۰ گرام دودھ سے ۱ گرام پروٹیم ملتی ہے۔ دودھ کے ۱ کپ یا ۲۴۹ گرام میں ۱۶۰ حرارے ۹ گرام پروٹین ۲۸۸ گرا کیلشیم جبکہ ۱۴ فیصد وٹامن حاصل ہوتے ہیں۔ ٭ غذائی اجزا کی کمی کے اثرات ۱۔ کیلشیم اور فاسفورس کی کمی سے بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے دانت اور ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یا ٹیڑھی ہو جاتی ہیں ۲۔ پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں اور کئی اعصابی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ۳۔ خون دیر سے جمتا ہے اور چوٹ وغیرہ کی صورت میں بہت دیر میں بند ہوتا ہے۔ ۴۔ پروٹین کی کمی سے بچوں کی نشوونما کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ۵۔ بچے کا اوسط وزن کم ہوجاتا ہے اور اگر کافی دیر تک اس کی کمی رہے تو بچہ مر بھی سکتا ہے۔ ۶۔ بالغ آدمی ہوں تو وہ بھی کمزور ہوجاتے ہیں اور ان میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔ ۲ گوشت اور گوشت سے بنی ہوئی اشیاء گوشت مرغ ‘ مچھلی اور انڈے ان تمام غذائوں میں تقریباً ایک جیسے غذائی اجزا موجود ہوتے ہیں ان سب میں پروٹین اور لوہا پایاجاتاہے اوراس کے ساتھ ساتھ کچھ مقدار فاسفورس اور وٹامن بی کی بھی موجود ہوتی ہے۔ گوشت کے تقریباً 100گرام سے ہمیں 20 گرام پروٹین حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح گردے کلیجی وغیرہ میں لوہے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ گوشت میں کیلشیم کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ کلیجی میں وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں انڈوں سے بھی ہمیں لوہا فاسفورس وٹامن اے اور بی حاصل ہوتے ہییں۔ ایک انڈے میں تقریباً 6گرام پروٹین پائی جاتی ہے۔ گائے 302گرام گوشت میں 245حرارے 23گرام پروٹین 301u وٹامن اے پائی جاتی ہیں۔ ٭ لوہے اور وٹامن بی کی کمی سے ہونے والے اثرات ۱۔ لوہے کی کمی سے انسان خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ۲ اس کے نتیجے میں انسان کو کمزوری محسوس ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے بھوک نہیں لگتی۔ قے آتی ہے ہاتھ پائوں سیدھے نہیں ہوتے۔ ۳۔ وٹامن بی کی کمی سے بیری بیری کی بیماری ہو جاتی ہے۔ ۴۔ وٹامن بی یا رائبو فلیون کی کمی سے سب سے پہلے منہ اور آنکھوں پر اثر پڑتا ہے۔ ہونٹ اور باچھین سوجھ کر پک جاتی ہیں۔ پپوٹوں میں جلن سی رہتی ہے۔ اور بینائی کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کمی سے زخم بھی جلد مندمل نہیں ہوتے۔ ۵۔ وٹامن بی جلد کی تندرستی اور اعصاب کی درستی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ میں درد رہتا ہے۔ سستی محسوس ہوتی ہے گفتگو بے ربط ہونے لگتی ہے۔ ۳۔ سبزیاں اور پھل اس گروہ سے حاصل ہوانے والی تمام غذائیں مجموعی طور پر ہمیں وٹامن بی نمکیات اور سیلولوز فراہم کرتی ہیںَ اس کے علاوہ یہ ہماری غذائیں رنگ ذائقہ اور تنوع بھی پیدا کرتی ہیں سبزیوں اور پھلوں ی بہت زیادہ اقسام موجود ہیں اس لیے ہم غذائی اعتبار سے ان کو ہم دو گروہوںمیں تقسیم کرتے ہیں۔ وہ تمام سبزیاں اور پھل جن کے رنگ سبز اور زردی مائل ہوں ان سے ہمیں وٹامن اے وافر مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔ شکر قندی گاجر حلوہ‘ کدو خوبانی اور آم وغیرہ میں سے کسی کو اگر دن میں ایک دفعہ استعمقل کر لیا جائے تو اس سے ہماری ایک دن کی وٹامن اے کی مقدار کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ اس کے برعکس گہرے سبز رنگ کی یا ہرے پتوں والی سبزیاں کیلشیم لوہا وٹامن سی اور وٹامن بی کے اہم ذریعوں میں شمار ہوتی ہیں۔ سلا د بند گوبھی اور ہلکے سبز رنگ کی سبزیاں سیلولوز کا اہم ذریعہ ہیں۔ کچی بند گوبھی بھی وٹامن سی کا اہم ذریعہ ہے۔ ترش پھل اور ٹماٹر وٹامن سی کا اہم ذریعہ ہیں۔ ہری مرچ حلوہ کدو میں اتنی ہی وٹامن سی پائی جاتی ہے لیکن یہ چیزیں غذا میں صرف ایک حد تک استعمال ہوتی ہیں۔ وٹامن سی کھانا پکانے یا محفوظ کرنے سے کافی حد تک ضائع ہو جاتی ہے کئی سبزیاں جن میں شلجم مولی آلو مٹر پھلیاں اورم کئی نشاستے کا اہم ذریعہ ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں میں مجموعی طور پر پروٹین اور چکنائی بہت کم مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ ٭ وٹامن اے اور سی کی کمی کے اثرات ۱۔ وٹامن اے کی کمی سے جلد کھردری ہو جاتی ہے۔ کیل چھائیاں بالوں کا سوکھنا یا ٹوٹنا بھی اس کی کمی کے اثرات ہیں۔ ۲۔ دانتوں کی ہڈی اور اس کی بیرانی چمکدار تہہ کے بننے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ۳۔ اس کی کمی سے انسان اعصاب کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے علاوہ پپوٹے سوج جاتے ہیں اورآنکھیں سوج جاتی ہیں۔ سانس اور سینے کے امراض بھی اس کی کمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ۴۔ وٹامن سی کی کمی سے طبیعت چڑچڑی ہو جاتی ہے۔ ناک اور منہ سے خون نکلنے لگتاہے۔ ۵۔ مسوڑھے پھول جاتے ہیں اور کئی دفعہ دل کے امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ ۴۔ اناج اور اناج سے بنی ہوئی اشیاء گندم چاول مکئی جو باجرہ سب کے سب پودوں سے حاصل ہونے والے بیج ہیں۔ جن کو ہم اناج کہتے ہیں۔ ان سے آٹا بنایا جاتا ہے۔ مثلاً گندم کا آٹا مکئی کا آٹا وغیرہ اور پھر ان سے کھانے پینے کی اشیاء مثلاً چپاتی ڈبل روٹی کیک اور دلیا وغیرہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ستر فیصد اناج سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ثابت اناج سے ہمیں نشاستے کی صورت میں حرارے لوہا ‘ تھایا بین رائیو خلیون اوار کچھ نامکمل لحمیات حاصل ہوتے ہیں۔ تمام اناج پکنے کے بعد زود ہضم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سیلولوز ہوتی ہے اس لیے اگرہچ ناج میں موجود لحمیات بہت کم ہوتی ہیں۔ لیکن اگر اس میں دودھ یا انڈہ وغیرہ شامل کر دیں تو یہ ایک مکمل غذا کی صورت اختیار کر لیں گے۔ اناج سے ہمیں لوہا ‘ تھایابین ملے گا جبکہ دودھ سے لحمیات ‘ کیلشیم وٹامن اے فراہم کرے گا۔ ٭٭٭ باب ۴:کھانا پکانا اور پیش کرنا Cooking and Laying of Meals خاندان کے سب افراد کی تندرستی کا انحصار متوازن غذا پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کھانا پکانا اور کھانا کھلانا دونوں بہت اہم کام ہیں۔ کھانا پکاتے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ کھانا ا س طرح پکایا جائے کہ اس کے غذائی اجزاء محفوظ رہیں اور کھانے والوں کو متوازن غذا فراہم ہو سکے اس کے علاوہ کھانا دیکھنے میں خوش نما اور ذائقے میں لذیذ ہو۔ کھانا پکاتے وقت گوشت اور انڈے کو دھیمی آنچ پر پکانا چاہیے۔ سبزیوں کو کاٹ کر پھر سے پانی میں دھونے اور دیر تک ابالنے یا پکانے سے ان کی اپنی میں حل پذیری نمک اور وٹامن ضائع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا انہیں پکاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جونہی سبزیاں گل جائیں انہیں فوراً چولے سے اتار لیا جائے اگر سبزیوں کو ابالا جائے تو انہیںکم پانی میں ڈا ل کر ابالا جائے۔ کھانا پکانے میں باورچی خانے کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے۔ باورچی خانہ ایسا ہونا چاہیے کہ بڑا ہو یا چھوٹا ا س میں مناسب ترمیم کر کے اسے حسب منشا بنایا جا سکتا ہے۔ باورچی خانہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس میں اچھی طرح روشنی اور ہوا آ سکے اور آج کل عام طور پر باورچی خانہ 12فٹ لمبا اور 10فٹ چوڑا بنایا جائے۔ اور اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی الماریاں چولہا اورسنک (Sink)اس ترتیب سے بنائے جائیں کہ وہ انگریزی حرف یو U یا انگریزی حرف ایل L کی طرح ہوں۔ اس سے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ چولہے کے قریب کھانا پکانے کے برتن چمچے کڑاہی فرائنگ پین نمک مرچ اور مسالہ وغیرہ کے رکھنے کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔ نلکے کے نیچے برتن دھونیکی جگہ پختہ بنائی جاتی ہے۔ اسی کے قریب برتن دھونے کا سامان مثلاً صابن راکھ یا پائوڈر رکھا جاتا ہے۔ تاکہ کام کرنے کے دوران زیادہ اٹھنا بیٹھنا نہ پڑے۔ چیزوں کو اگر اس ترتیب کے ساتھ مناسب اور مقررہ جگہوں پر رکھا جائے تو انہین تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ باورچی خانے میں برتنوں کو مانجھنے کے بعد سکھانے اور رھکھنے کی جگہ بھی الگ ہونی چاہیے۔ جب برتن سوکھ جائیں تو انہیں الماری یا نعمت خانہ (Cup Board)میں رکھ دینا چاہیے الماری یا نعمت خانہ اس قسم کا ہونا چاہیی کہ اس کے خانوں میں کھانا پکانے کے برتن اور دوسری چیزیں ترتیب سے رکھی جائیں۔ کھاناجن برتنوںمیں نکال کررکھنا چاہیے انہیں کھانے کے کمرے میں کسی الماری میں رکھنا چاہیے تاکہ ضرورت کے وقت انہیں نکال کر میز یا دستر خوان پر رکھا جا سکے۔ اسی طرح جھاڑن ٹیپ کن وغیرہ رکھنے کے لیے بھی الگ جگہ ہونی چاہیے۔ چمچے اور کانٹے ایک الگ خانے میں رکھنے چاہئیں تاکہ نکالتے وقت ہاتھ زخمی نہ ہوجائے۔ برتن دھوتے وقت چھریوں کو بھی دھو کر احتیاط کے ساتھ علیحدہ رکھنا چاہیے۔ ٭ باورچی خانے کی صفائی باورچی خانے میں ہوا اور روشنی کے لیے روشن دان وار کھڑکیاں ہونی چاہئیں تاکہ صاف ہوا آتی جاتی رہے اور روشنی بھی اتنی ہو کہ کھانا پکاتے وقت دقت محسوس نہ ہو۔ باورچی خانے کا فرش پختہ اور صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ بہتر تو یہ ہے کہ باورچی خانے کی دیواروں اور فرش پر ٹائل لگے یہوئے ہوں تاکہ انہیں آسانی سے صاف کیا جا سکے۔ اگریہ ممکن نہ ہو تو فرش کو روزانہ دھو کر صاف کیا جائے۔ اگر فرش پر پانی یا کھانے کی کوئی چیز گر جائے تو اسے فوراً صاف کر دیا جائے۔ ٭ باورچی خانہ اور کیڑے مکوڑے باورچی خانے میں رکھی ہوئی چیزوں کو کیڑے مکوڑے سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کے وقت کیڑے مکوڑوں کو مارنے والی دوا باورچی خانے میں چھڑک کر دروازہ بند کر دیا جائے اور صبح کو ہر چیز اچھی طرح پونچھ کر رکھ دی جائے۔ جو برتن ڈھکنوں کے بغیر ہوں انہیں اچھی طرح دھونا بے حد ضروری ہے۔ ہفتے میں ایک بار باورچی خانے کی دیواروں اور الماریوں کو اچھی طرح صاف کرنا چاہیے۔ تاکہ ان پر مکڑی کا جالا اور گرد و غبار جمنے نہ پائے ۔ باورچی خانے کا کوڑا کرکٹ نکالنے کے بعد اسے اچھی طرح دھو کر صاف کر دینا چاہیے۔ باورچی خانے میں کام کرنے والے خود بھی صاف ستھرا رہنا چاہیے۔ وہ جب باورچی خانے میں داخل ہو تو کام شروع کرنے سے پہیل اپنے ہاتھ صابن سے دھو لے۔ اس کے علاوہ اس کے ناخن تراشے ہوئے ور میل کچیل سے پاک صاف ہونے چاہئیں۔ اسے نہ تو باورچی خانے میں کنگھی کرنی چاہیے اورنہ کھلے سر کھانا پکانا چاہیے۔ کھانا پکاتے وقت اگر پیش بند (Aporn)استعمال کیا جائے تو اس کے پہننے پر کپڑوں پر دھبے نہیں پڑنے چاہئیں۔ ٭ باورچی خانے میں حفظان صحت کے اصولوں کا لحاظ ۱۔ کھانا پکانا شروع کرنے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کر لیے جائیں۔کوڑے کے ڈبوں کو ہاتھ لگا نے جھاڑو دینے یا بیت الخلا سے آنے کے بعد بھی ہاتھوں کو صابن سے دھو کر صاف کرنا ضروری ہے۔ ۲۔ اگر کسی جگہ کھانا گر جائے تو اسے فوراً صاف کر دینا چاہیے۔ ۳۔ کھانا ہمیشہ صاف دھلی ہوئی قلغی شدہ یا بے داغ لوہے (Stain Less Steel)کی دیگچیو ں میں پکانا چاہیے۔ ۴۔ پیالیوں اور گلاسوں کو اس طرح پکڑا جائے کہ جس طرف منہ لگایا جائے وہ حصہ ہاتھ سے نہ چھوئے۔ ۵۔ اگر کھانا پکاتے وقت کسی چمچے سے نمک چکھا جائے تو اسے دھوئے بغیر دوبارہ پتیلی میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ۶۔ کھانا جس جگہ بھی رکھا جائے وہ صاف ستھری ہو نی چاہیے۔ اگر گھر میں فریج ہے تو اسے ہر روز صاف کیا جائے اور ہفتے میں ایک بار اس کی پوری صفائی کی جائے۔ ٭ آگ جلانا کھانا پکانے کے لیے جو چیز بھی استعمال کی جائے مثلاً لکڑی کوئلہ تیل گیس یا بجلی وغیرہ تو اس کے جلانے یا استعمال کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ماچس کی تیلی جلانے کے بعد فرش پر ہرگز نہ پھینکی جائے بلکہ جلی ہوئی تیلیاں کسی چیز میں الگ ڈالتے جائیں کوئلوں کو باہر سے سلگا کر باورچی خانے میں لایا جائے تاکہ کوئلوں کو مضر صحت گیس باورچی خانے میں نہ پھیلے۔ اگر کھانا پکانے کے لیے گیس استعمال ہوتی ہو تو جونہی گیس کھولیں اسے ماچس دکھا دیں۔ اگر تیلی بجھ جائے تو گیس کو بند کر دیں اور پھر سے ماچس جلائیں اور گیس کھول کر اسے آگ لگا دیں۔ باورچی خاے میں کام کرتے وقت کبھی کبھی کام کرنے والا آگ سے جل جاتا ہے۔ اس لیے گھر میں ایسی کوئی دوا مثلا برنول (Burnol)وغیرہ ضرورموجود ہونی چاہیے جسے جلے ہوئے مقام پر لگایا جا سکے۔ جب کھانا پک جائے تو آگ فوراً بجھا دینی چاہیے۔ کھانا پکاتے وقت اپنے آپ کو بھاپ سے بچا کررکھنا چاہیے۔ مثلاً پریشر کوکر کھولنے سے پہلے اس کے اندر سے تمام بھاپ ننکال دینی چاہیے۔ اسی طرح گرم دیگچی کو نہایت احتیاط سے کپڑے سے پکڑنا چاہیے۔ گرم دیگچی میز پر ہرگز نہیں رکھنا چاہیے اس لیے کہ اس طرح میز کی پالش خراب ہو جاتی ہے۔ ٭ باورچی خانے کا فرش باورچی خانے کے فرش کو صاف ستھرا رکھنا نہایت ضروری ہے۔ فرش پر جب بھی کوئی چیز گر جائے اسے فوراً پانی سے صاف کر کے کپڑے سے خشک کر دینا چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو آدمی کے پھسل کر گر جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ دوائیں اور دوسری زہریلی چیزیں باورچی خانے سے دور رکھنی چاہئیں۔ ٭ کھانے پکانے میں ناپ تول کھانا پکاتے وقت دو مختلف چیزوں کا صحیح ناپ تول ضروری ہے۔ اگر کوئی چیز پیالی یا چمچوں سے ناپی جائے تو اسے ہمیشہ ہموار کر کے ناپنا چاہیے۔ اسی طرح بعض اوقات بعض چیزیں تول کر استعمال میں لائی جاتی ہیںَ انہیں ترازو سے تول کر ہی استعمال کرنا مناسب ہوتا ہے۔ ٭ برتنوں کا استعمال باورچی خانے میں جس قدر برتن ہوتے ہیں ہر ایک کا مصرف جدا جدا ہوتا ہے۔ مثلا ًمٹی کی ہانڈی عام طور پر کھٹی چیزیں پکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اکثر دالیں بھی ان میں پکائی جاتی ہیں۔ جس سے دال کے ذائقے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لکڑی کے چمچے کھانا پکاتے وقت اس لیے استعما ل کیے جاتے ہیں کہ ہاتھ نہ جلنے پائیں۔ دھات کے چمچے کے آفر میں لکڑ ی کا ہینڈل بھی اسی لیے لگوایا جااتا ہے کہ ہاتھ جلنے سے محفوظ رہیں۔ اس طرح فرائنگ پین بھگار لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کڑاہی عموماً تیل یا گھی میں مختلف چیزیں تلنے کے لیے استعما ل کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس میں پوری پکوڑے یامچھلی تلی جاتی ہے۔ پیالیاں اور چمچے عام طو پر ناپ تولکے بھی کام آتے ہیں۔ اگرایک چیز کو دوسری چیز کے بجائے استعمال کیا جائے توا س میں یہ خرابی پیدا ہو تی ہے کہ جب کسی خاص چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ صا ف نہیں ہوتی تو اسے صاف کرنے میں بہت سا وقت ضائع ہو جاتاہے۔اس لیے جو چیز جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہو اسے اسی مقصد کے لیے پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ٭ کھانا پکانے میں احتیاط کھانا پکاتے وقت مندرجہ ذیل احتیاطو ں پر پوری طرح عمل کیاجائے۔ ۱۔ نائیلون وغیرہ کی ساڑھی یا دوپٹی پہن کر کھانا پکایا جائے کیونکہ اس میں آگ جلد لگ جاتی ہے۔ اور اسے بجھانا مشکل ہوتا ہے۔ جس سے جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ۲۔ پریشر ککر میں سے جب تک پوری طرح بھاپ نہ نکل جائے اسے کھولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ۳۔ ہر چیز پکاتے وقت (Temperature)اور دبائو (Pressure)کا خیال رکھنا چاہیے۔ ۴۔ اگر پریشر ککر کھولنے سے پہلے اس کا سوراخ کھول کر ساری بھاپ نکال دینی چاہیے اس کے بعد ڈھکنا کھولنا چاہیے۔ اگر ڈھکنا آسانی سے نہ کھلے تو سمجھ لیں کہ اس میں بھاپ ابھی موجود ہے اور ساری بھاپ نکلنے کا انتظار کریں۔ ۵۔ پریشر ککر میں وہ چیزیں نہ پکائی جائیں جو آسانی سے گل جاتی ہیں۔ ۶۔ اگر پریشر ککر میں گوشت سبزی یا دالیں پکائی جائیں تو دبائو (Pressure)اوار ان چیزوں کے پککنے کے لیے دیے ہوئے وقت کا خیال رکھا جائے۔ ٭ ریفریجریٹر Refrigerator جن گھروں میں ریفریجریٹر موجود نہیں انہیں چاہیے کہ وہ ریفریجریٹر کو خوب صاف ستھرا رکھیں تاکہ اس میں رکھی ہوئی اشیا جراثیم سے محفوظ رہیں۔ کوئی بھی چیز ریفریجریتر میں رکھنے سے پہلے اچھی طرح صا ف کر لینی چاہیے۔ ریفریجریٹر میں سے جو چیز بھی نکالی جائے اسے دوچار منٹ ابال کر کھایا جائے تاکہ اگر اس میں کوئی جراثیم موجو د ہوں تو ابانے سے اان کاا خاتمہ ہو جائے۔ ٭ چولہے چولہے بجلی کیہوں تیل یا گیس کے ان کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ انہیںر وزانہ صاف کرانا چاہیے۔ تاکہ ان کی تیل یا گیس والی نالی بند نہ ہو جائے۔ جس سے تیل یا گیس کی آمد میں رکاوٹ ہونے لگے۔ چولہا جب جلایا جائے تو اس سے زرد رنگ کا شعلہ نہیں نکلنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں کاربن زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف برتن سیاہ ہوجاتے ہیں۔ بلکہ کھانے پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح بجلی کے چولہے اور اس کے تنور (Oven)کو بھی ہمیشہ صاف کرتے رہنا چاہیے۔ مٹی کے تیل یا گیس سے جلنے والے چولہے کو ہمیشہ بند کر کے صاف کرنا چاہیے اگر کوئی کھانا چولہے پر گر جاء یتو اسے فورا ً صاف کرناچاہیے۔ ٭ باورچی خانے کا سٹور باورچی خانے کا سٹور باورچی خانے کے برابر میں ہونا چاہیے۔ اس میں کافی روشن دان اور کھڑکیاں ہونی چاہئیں تاکہ ہوا اور روشنی مناسب مقدار میں پہنچتی رہے۔ اس میں ان چیزوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ جن کی ہر وقت ضرورت نہیںہوا کرتی سٹور کر بھی ہر وقت صاف کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ ا میں کیڑے مکوڑے پیدا نہ ہو سکیںَ اس میں الماریاں نعمت خانے (Cup Board)اور شیلف ہونے چاہئیں تاکہ متفرق چیزیں آسانی سے رکھی جائیں۔ کھانے کے برتنوں کی الماری علیحدہ ہونی چاہیے۔ جھاڑن اور دستر خوان کے لیے الگ شیلف ہونا چاہیے۔ اسی طرح کھانے کا سامان مسالہ اور دالیں وغیرہ بھی صاف ڈبوں میں بھر کر سٹور میں رکھی جا سکتی ہیں گھی تیل آٹا اور چاول بھی سٹور میں رکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ مٹی کا تیل بہت احتیاط سے رکھنا چاہیے۔ ٭ کھانا پکانے کے غذا پر اثرات کھانے کے بعض چیزیں ایسی ہیں جو کہ اگر تازہ حالت میں کھائی جائیں تو زیادہ مفید ہیں جیسے کہ پھل سبزیاں وغیرہ۔ انہیں ہمیشہ دھو کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ جراثیم باقی نہ رہیں۔ ان کے علاوہ بعض ایسی چیزیں ہیں مثلاً دال گوشت انڈے چاول وغیرہ جن کو پکانا ضروری ہے ۔ ورنہ ہمارا جسم ان کو ہضم نہیں کر پائے گا۔ اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا۔ خوراک کو پکانے سے یہ خوش ذائقہ ہو جاتی ہ ارو اس غذائیت میں اضافہ ہو جاتاہے۔ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔ پکانے سے خوراک خوش رنگ ہو جاتی ہے۔ اور نرم ہو کر آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے۔پکانے سے خوراک گرم ہوجاتی ہے اور اسے یہ گرمی بھی خوراک کے ہضم ہونے میں مدد دیتی ہے۔ ٭ لحمیات والی غذا کو پکانا لحمیات (Protein)میں وہ تمام غذائیں شامل ہیں جو حیوانی غذائیں کہلاتی ہیں۔ مثلاً دودھ گوشت مچھلی انڈہ وغیرہ۔ دودھ میں ایسے تمام غذائی اجزا موجود ہیںٰ جو صحت کے لیے ضروری ہیں اس میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو تپ دق پیدا کرتے ہیں۔ ابالنے سے یہ جراثیم مر جاتے ہیں اسی طرح گوشت مچھلی اور انڈوں کو بھی پکانے سے ان میں موجود جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اورپکنے سے زود ہضم ہو جاتے ہیں۔ ٭ انڈے کو پکانا Eggs انڈے کو کبھی کچا استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں ٹرپ سین (Trypsin)جو کہ ایک مائع مادہ ہے۔ انڈے کے پروٹین کو کم کر دیتا ہے پکانے سے یہ مادہ ختم ہو جاتاہے لیکن زیادہ تیز آنچ پر پکانے سے اس میں موجود پروٹین ضائع ہو جاتے ہیں۔ انڈے کی سفیدی تیز آنچ کی وجہ سے سخت ہوجاتی ہے جبکہ ہلکی آنچ پر نرم رہتی ہے۔ نرم پختہ انڈا تیار کرنے کے لیے پانی کو درجہ کھولائو سے تقریباً 85Cپر رکھ کر انڈے کو پانچ منٹ کے لیے پانی میں رکھیں۔ اور پھر نکال کر ٹھنڈے پانی میں ڈال دیں اس سے چھلکا بھی آسانی سے اترے گا اور زردی کے ارد گرد سیاہی مائل سبزسی تہہ بھی پیدا نہیں ہو گی۔ انڈے کا کسٹرڈ بناتے وقت تیز آنچ پر گرم کرنے سے پھٹکیاں بن جائیں گی لیکن اگر تیز ی سے ہلایا جائے تو پھٹکیاں نہیں بنیں گی۔ اس کے علاوہ اگر انڈے میں چینی کو ملا کر پکایا جائے تو زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوگی۔ انڈے کی سفیدی خالص پروٹین ہوتی ہے۔ اسے بیکار سمجھنا غلط ہے۔ سفیدی کمزور معدے والے افراد کے لیے بہترین ہے۔ کیونکہ پکنے پر سفیدی سخت ہو جات ہے۔ اور دیر تک سے ہضم ہوتی ہے۔ اس طرح تلا ہوا انڈا ابلے ہوئے انڈے کی نسبت زیادہ دیر تک ہضم ہوتا ہے۔ انڈوں کی مندرجہ ذل دو طریقوں سے پکانا چاہیے۔ کانٹے یا انڈہ پھینٹنے والی مشین سے انڈے کو پھینٹ لیں۔ پھر اایک انڈے کے لیے ایک چھوٹا چمچ پانی ڈالیں نمک مرچ کٹا ہوا پیاز اور دھنیا ڈال دیں اور اچھی طرح ملا لیں۔ چولہے پر فرائی پین رکھیں اور اس میں گھی ڈال دیں گھی گررم ہونے پر آنچ ہلکی کر دیں اور پھینٹے ہوئے انڈے ڈال دیں جب آملیٹ ایک طرف سے پک جائے تو تلنے والے چمچ سے اسے دوسری طرف پلٹ دیں۔ جب پک جائے تو پلیٹ میں نکلا کر گرم گرم پیش کریں۔ اجزائ: دو یا تین انڈے‘ پانی حسب ضرورت نمک کالی مرچ حسب ذائقہ طریقہ: فرائی پین کو نصف تک پانی سے بھر دیں چٹکی بھر نمک ڈال کر پانی ابالیں پانی ابلنے پر آنچ ہلکی کر دیںَ دو یا تین انڈے پیالی میں الگ الگ توڑ کر فرائی پین میں انڈیل دیں اور ہلکی آنچ پر ۲ منٹ تک پکائیں ۔ انڈے کو کفگیر کی مدد سے نکالیں اور مکھن لگے توس پر نمک کالی مرچ چھڑ ک کر پیش کریں انڈے سے خون زیادہ پیدا ہوتا ہے دل و دماغ کو انڈا قوت بخشتا ہے۔ کمزور مریضوں کے لیے عمدہ غذا ہے اس کی زردی کا روغن بال جلد بڑھاتاہے۔ جب بچوں کو قے اور دست آتے ہوں اور کوئی غذاہضم نہیں ہوتی ہو تو انڈے کی سفید ی مفید ثابت ہوتی ہے۔ خود پیدا کرنے ارو عام جسمانی کمزوری کو دور کرنے کے لیے انڈا بہترین غذا ہے۔ مشروبات Soft Drinks ہمارے جسم کی سیلیں یا وہ باریک اور بے شمار جاندار ذرے جن کے مجموعے کا نام جسم ہے پانی ہی میں خوش رہتے ہیں۔ بقائے حیات کے لیے ہوا کے بعد پانی ہی کا درجہ آتا ہے۔ جسم کی بناوٹ میں دو تہائی سے زیادہ پانی ہوتا ہے۔ پانی کو زندگی اور جیون سے منسوب کیا گیا ہے۔ بہت جگہ امرت اور آب حیات کہہ کر اسے یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہماری زندگی کی نائو بھی پانی پر چلتی ہے۔ پانی غذا کے اجزا کو جسم کے تمام حصو ں میں لے جاتاہے۔ اس کی وجہ سے غذا کے اجزا آسانی سے حل ہو جاتے ہیں اور سارے جسم میں ان اجز اکا متنقل ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ دوران خون کو قائم رکھنے میں بھی پانی بڑا اہم کردار کرتا ہے۔ ولایت کے زمانہ سلف کے ڈاکٹر سپنگٹ ٹیڈو کی بابت کہا ہے۔ کہ اسے ایک ہی نسخہ آتا تھا۔ کوئی بھی مرض ہوتا کسی کو گھنٹہ بعد کسی کو آدھ گھنٹہ بعد چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر کر گرم پانی کا گلاس پلاتا رہتا تھا۔ اور اکثر لوگ اسی سے صحت یاب ہو جاتے تھے۔ پاکستان چونکہ گرم ممالک میں شمار ہوتا ہے اور موسمگ رما میںگرمی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور جسم کو اس گرمی سے بچناے اور ٹھنڈک پہنچانے کے لیے پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو شعور آتا گیا اور بہت زیادہ گرمی سے محفوظ رہنے اور صحت کو برقرار رھنے کے لے پانی کی جگہ مشروبات نے لے لی اور مختلف طریقوں سے پھلوں سے مشروبات بننے لگے۔ جو کہ صحت کے لیے بھی مفید ہوں اور جسم کی ضرورت کو بھی پورا کریں مشروبات بنانے کے لیے ایسے پھل استعمال کیے جاتے ہیں جن کی تاثیر ٹھنڈی ہو جن میں مالٹا فالسا لیموں گنا اور آم شامل ہیں۔ عام طور پر لیموں کا شربت بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیموں وٹامن سی فراہم کر نے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس میں قدرتی طور پر کافی ترشی پائی جاتی ہے۔ اس لیے یہ شربت تیار کرنے کے لیے نہایت مفید ہے اس کے علاوہ گرمیوں میں لیموں کی سکنجبیں بھی ایک ہر دل عزیز مشروب ہے۔ لیموں ا استعمال ہمیں متعدی امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہمارے اعصاب مضبوط بناتا ہے۔ بدہضمی کو روکتا ہے دانت اور مسوڑھے مضبوط کرتا ہے۔ نیز خون کو روکنے اور زخم ٹھیک کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ٭ لیموں کا سکنجبین تیار کرنے کا طریقہ ۱۔ جگ کو صاف کر کے اس میں ناپ کر 1/1/2گلا س پانی ڈال دیں۔ ۲۔ چینی اور نمکن کو پانی میں حل کر لیں۔ ۳۔ لیموں دھو کر کاٹ لیں اور بیج نکال لیں۔ ۴۔ لیموں نچوڑ کر رس نکال لیں اور چھلنی سے چھان لیں۔ ۵۔ برف باریک کوٹ کر رس والے پانی میں ڈال دیں۔ ۶۔ ٹرے میں ٹرے کور بچھا کر جگ کو ٹرے میں رکھیں۔ چھوتی پلیٹ میں گلاس اور چھوٹا چمچ رکھیں اور سلیقے سے پیش کریں ہمارے ملک میں لسی بھی بہت زیاد ہ استعمال کی جاتی ہے۔ خصوصا ً دیہات میں رہنے والے عام طور پر گرم اور سرد دونوں موسموں میں لسی پیتے ہیں۔ اس کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے۔ خصوصاً گرمیوں میں نمکین اور ٹھنڈی لسی فرحت کا احسا س دلاتی ہے۔ لسی کو مزید گاڑھا لذیذ اور خوشبودار بنانے کے لیے اس میں مغزیات دودھ اور خوشبو بھی ڈالی جا سکتی ہے۔ یا پھر صرف پانی ڈال کر ہی لسی بنائی جاتی ہے۔ لسی بڑے اور بچے سبھی شوق سے پیتے ہیں یہ جلد ہضم ہو جاتی ہے۔ اس لیے گرمیوں کے موسم میں صبح اور سہ پہر لسی پینا زیادہ مفید ہے۔ ٭ لسی بنانے کا طریقہ ۱۔ دہ کو ایک بڑے پیالے میں ڈا ل کر اچھی طرح ہلائیں۔ ۲۔ جب وہ بالائی کی طرح پتلا ہو جائے تو اس میں چینی نمک اورٹھنڈ ا پانی ڈال کر خوب ہلائیں اور جگ میں ڈال دیں۔ ۳۔ برف کو باریک کوٹ کر یا چھوٹے ٹکروں میں توڑ کر جگ میں ڈال دیں۔ ۴۔ چھوٹی ٹرے میں جگ اور گلاس رکھ کر پیش کریں۔ ٭ سبزیاں Vegetables سبزیاں ہر گھر میں ہر روز کھائی جاتی ہیں۔ یہ ہماری جسمانی نشووما کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ سبزیاں وٹامن خصوصاً وٹامن سی اور معدنی نمکیات وافر مقدار میں فراہم کرتی ہیں۔ سبزیاں قبض کشا ہوتی ہیں اور ہمارے نظام ہضم کے لیے بھی ضروری ہیں۔ سبز رنگ کے پتوں والی سبزیوں میں کیروٹین (Carotene)کیلشیم (Calcium) اور رویبو فلیوین (Riboflavin)اور وٹامن سی پائی جاتی ہے۔ زرد رنگ کی گاجر اور زرد شلجم میں بھی کیروٹین اور وٹامن سی پائی جاتی ہے۔ زمینی سبزیوں میں کاربوہائیڈریٹ کا اچھا خاصا خزانہ موجود ہوتا ہے۔ سبزیوں میں وٹامن سی اور نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے انہیں جسم کی محافظ غذائیں (Protective Foods)کہا جاتا ہے مختلف سبزیوں کی غذائیت ایک دوسرے سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے۔ زیادہ تر سبزیوں میں فاضل مادہ (Refuse)کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے سبزیاں ملین (Laxative)سمجھی جاتی ہیں پتوں والی سبزیوں میں پانی کی مقدا ر کافی ہوتی ہے۔ سیلولوز بھی کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو ہضم نہیں ہوتا اور صرف معدے پر بھوک (Residue)کی صورت میں رہ جاتا ہے۔ اور قبض نہیں ہونے دیتا۔ ٭ سبزیاں پکانے کے اصول سبزیاںپکاتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ان میں موجود غذائی اجزا ضائع نہ ہوں مثلاً: ۱۔ سبزیاںہمیشہ تازہ استعمال کرنی چاہئیں ۔ ۲ ۔ استعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح دھو لینا چاہیے۔ ۳۔ چھلکا نہایت باریک اتاراجائے تاکہ غذائیت میں کمی نہ ہو جائے۔ ۴۔ سبزیوں کو کاٹ کر زیاد ہ دیر پانی میں نہ بھگوئیں اس طرح وٹامن اورمعنی نمکیات پانی حل ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ ۵۔ پکانے سے نمکیات اور وٹامن ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ سبزیوں کو سلاد وغیرہ کی صورت میں استعمال نہ کریں۔ سبزیوں کو تازہ اور جراثیم سے پاک رکھنے کے لیے پانی میں دو تین چمچ سرکہ ڈالنا چاہیے۔ ۶۔ سبزیوں کو پکانے سے کچھ دیر پہلے چھیلیں یا کاٹیں تاکہ وٹامن‘ نمکیات اور وٹامن سی ضائع نہ ہوں۔ ۷۔ سبزیوں کوہمیشہ بڑے بڑے ٹکڑوںمیں کاٹنا چاہیے۔ کیونکہ جتنا باریک کاٹیں گے اتنا ہی وٹامن ضائع ہوتے ہیں۔ ۸۔ کم سے کم وقت میں سبزیاںپکائیں بلکہ جونہی سبزی گل جائے اس کو اتار لیں۔ ۹۔ سبز پتوں والی یا تیز خوشبو والی سبزی پکاتے وقت تھوڑی دیر کے لیے ڈھکن کھلا رکھیں۔ لیکن کچھ دیر کے بعد ڈھکن ضرور دیں کیونکہ ہوا کی آمیزش سے وٹامن سی ضائع ہو جاتے ہیں۔ ۱۰۔ سبزیاں پکاتے وقت پانی استعمال نہ کریں۔ بلکہ سبزیوں کو اس کے قدرتی پانی میں ہی پکنے دیں۔ زیادہ پانی میں پکانے سے نمکیات اور وٹامن ضائع ہوجاتے ہیں۔ ٭ سبزیوں کی بھجیا کا طریقہ ۱۔ کوئی بھی سبزی کاٹ کر دھو لیں۔ ۲۔ پیاز باریک کاٹ کر گھی میں سرخ کر یں۔ ۳۔ لہسن چھیل کر باریک کاٹ لیں اور تمام مصالحے گھی میں ڈالیں۔ ۴۔ ان سب چیزوں کو بھونیں اور پانی کا چھینٹا لگائیں۔ ۵۔ سبزی ڈال کر ہلائیں۔ ۶۔ پہلے چند منٹ بغیر ڈھکن کے پکنے دیں۔ ۷۔ تھوڑا سا پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں حتیٰ کہ گل جائیں۔ ۸۔ تھوڑا سا سبز دھنیا ڈال کر نیچے اتار لیں۔ ٭ سلاد Salads سلاد ہماری غذا کا ایک اہم جزو ہے ۔ سلاد سبزیوں سے بھی تیار کی جاتی ہے اور پھلوں سے بھی اس میں کچی اور ابلی ہوئی سبزیاں اور پھل استعمال ہوتے ہیں۔ سبزیوں کا سلاد کھانے کے ساتھ ہر روز استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ کچی سبزیاں ہماری جسم کو وافر مقدار میں وٹامن سی فراہم کرتی ہیں اس کے علاوہ دیگر وٹامن اور نمکیات کا توازن برقرار رہتا ہے۔ سلاد درج ذیل سبزیوں کو یکجا کر کے بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ ۱ ٹماٹر‘ کھیرا ‘ لیموں ‘ ہری مرچ پیاز وغیرہ۔ ۲۔ ٹماٹر کھیر ‘ کچی گاجر یا مولی اور سلاد کے پتے وغیرہ۔ ۳ بند گوبھی ‘ ٹماٹر‘پیاز ‘ کھیرا وغیرہ۔ ۴۔ ابلے ہوئے آلو اور مٹر ٹماٹر سلاد کے پتے اور ابلے ہوئے انڈے وغیرہ۔ ۵۔ مولی ‘ گاجر‘ ابلے ہوئے چقندر‘ ٹماٹر یا پیاز وغیرہ۔ بعض خاص موقعوں پر پھلوں کی سلاد بھی بنائی جاتی ہے۔ اس میں کچے یا نیم پکے پھل (Steamed Fruit)استعمال ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کے پھلوں مثلاً سیب ناشپاتی مالٹے یا گریپ فروٹ کی پھانکیں آڑو خوبان وغیرہ کے قتلے کاٹ کر آراستہ کیے جاتے ہیں۔ عموماً پھلوں کے سلاد میں تمام پھل چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک پیالے میں ملا دیے جاتے ہیں اور ان کے اوپر نمک مرچ اور لیموں کا عرق ڈالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کریم میں چینی ملا کر پھلوں کے سلاد میں دینے سے اسے کھانے کے بعد میٹھے کے طورپر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ٭ سلاد کی جسمانی نشوونما میں اہمیت سلاد ہماری غذا کا ایک نہایت اہم جزو ہے۔ کیونکہ یہ وٹامن اور معدنی نمکیات فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو جسمانی نظام کو درست رکھتے ہیں۔ سلاد کی غذائیت کا انحصار اس میں شامل کیے جانے والی سبزیوں اور پھلوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً سبز پتوں والی سبزیوں میں وٹامن سی اور اے کے علاوہ کیلشیم اور آئرن وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ گورے والی سبزیوں مثلاً آلو شکرقندی اور تمام میٹھے پھلوں میں کاربوہائیڈریٹ کی وافر مقدار ہونے سے یہ جسم کو قوت و حرارت فراہم کرتے ہیں۔ ٭ سلاد کی تیاری سلاد کی تیاری میںمندرجہ ذیل نکات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے مثلاً: ۱۔ سلاد تیار کرنے سے پہلے سبزیوں اورپھلوں کو دھونا نہایت ضروری ہے۔ ۲۔ سلاد ہمیشہ ہی تازہ پیش کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ دیر تک پڑے رہنے سے سبزیاں اپنی تازگی اور غذائیت کھو دیتی ہیں اور ان کی خوشبو بھی کم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر گھر میں فریج ہو تو سلاد پہلے سے تیار کر کے اس میں رکھی جا سکتی ہے۔ ۳۔ ابلی ہوئی سبزیوں کا سلاد تیار کرنے کے لیے سبزیوں کو ابالتے وقت پانی میں ذرا سا نمک شامل کر لیں اور اس طرح ان کی غذائیت محفوظ رہتی ہے۔ ہر سبزی کو علیحدہ علیحدہ مگر مناسب مقدر کے پانی میں ابالیں۔ ۴۔ سلاد کے لیے سبزیاں درمیانہ سائز کے ٹکڑوں میں کاٹیں تاکہ کھانے میں آسانی رہے۔ ٭ اناج Cereals اناج سے مراد وہ خوراک ہے ۔ جو سالم دانوں کی صورت میں پیش آئے گی صورت میں استعمال میں لائی جائے گی۔ مثلاً گندم‘ مکئی‘ جوار‘ باجرہ چاول اور دالیںوغیرہ۔ہماری غذا کا بیشتر حصہ اناج پر مشتمل ہے ان سے ہمیں نشاستہ لحمیات اور حیاتین حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں زیادہ تر گندم کا آٹا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم بغیر چھنا ہوا آٹا استعمال کریں تو غذائیت کے اعتبار سے وہ زیادہ مفید ہے بہ نسبت باریک پسے ہوئے آٹے کے کیونکہ چھلکا اتارنے سے معدنی نمکیات ضائع ہوجاتے ہیں اناج کو جب بھون کو یا پکا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں موجود نشاستہ پھول کر زیادہ ہضم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ خوشبو بھی بہتر ہو جاتی ہے اس لیے چاول آٹا دالیں وغیرہ سب کو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ دالیںپکاتے وقت اگر سوڈا بائیکارب ڈال دیا جائے تو اس سے وٹامن بی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر چاولوں کو بار بار دھویا جائے یا پکاتے وقت ان کی پیچ پھینک دی جائے تو اس طرح وٹامن بی اور معدنی نمکیات ضائع ہو جاتے ہیں اور ان کی غذائیت بھی کم ہو جاتی ہے۔ اناج اور دالیں کچی ہوں تو انہیں ہمارا معدہ پوری طرح ہضم نہیں کر سکتا۔ اس لیے انہیں قابل ہضم بنانے کے لیے پکانا ضروری ہے۔ اناج اور دالوں کوجب پانی میں ڈال کر پکایا جائے تو ان کے اندر کا نشاستہ (Starch)پھول جاتا ہے اور دوانے پھٹ کر نرم ہو جاتے ہیں اور گل جاتے ہیں اس طرح معدہ بڑی آسانی سے انہیں ہضم کر لیتا ہے۔ دالوں میں کاربوہائیڈریٹ کے علاوہ پروٹین بھی پائی جاتی ہے۔ اگر انہیں مناسب طریقے سے پکائے بغیر کھایا جائے تویہ ہضم نہیں ہوتیں بلکہ پیٹ میں درد ہونے لگتاہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ دالوںکو پکار کر یا بھون کر استعمال کیا جائے تاکہ ان کے اندر کاربوہائیڈریٹ پھول کر قابل ہضم ہو جائیں بعض اوقات دالیں پکاتے وقت گلنے کا نام نہیں لیتیں۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے انہٰں ذرا سا میٹھا سوڈا (Soda Bicarb)ڈال دیا جائے۔ ایسا کرنے سے دال تو گل جائے گی لیکن اس میں سے وٹامن بی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو دال میں سوڈا نہیں ڈالنا چاہیے۔ ٭ کھانے کے آداب Meal Manners جس طرح کھانا پینا زندگی اور توانائی کے لیے ضروری ہے ویسے ہی کھانے کے آداب سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ کھانا چاہے فرش پر دستر خوان بچھا کر کھایا جائے یا میز لگا کر اس کے چند آداب ہوتے ہیں جن کا ہر گھر میں خیال رکھاجاتا ہے۔ کھانے کے دوران خاموش بیٹھنے کی بجائے ہلکی پھلکی دلچسپ اور خوش گوار گفتگو کرتے رہنا چاہیے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا چاہیے اور چھوٹے چھوٹے نوالے توڑ کر کھانا چاہیے۔ کھانا چبا کر کھانا چاہیے لیکن منہ سے بے جا طور پر آواز نہیں نکلنی چاہیے۔ کھانا کھاتے وقت چمچہ پیالی میں نہیں رکھنا چاہیے ۔ بلکہ اسے نیچے پلیٹ میں رکھنا چاہیے کھانا کھا چکنے کے بعد چھری اور کانٹا پلیٹ کے ساتھ ساتھ رکھ دینے چاہئیںَ جب دستر خوان پر کھانے کے لیے آئیں تو لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے اور کھانا شروع کرنے سے پہلے صابن سے ہاتھ اچھی طرح دھو لینے چاہئیں۔ کیونکہ گندے ہاتھوں سے جراثیم جسم کے اندر داخل ہو کر جسم کو کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ کھانا کھانے کے لیے ہمیشہ وقت پرپہنچنا چاہیے۔ کیونکہ کھانے پر دیر سے پہنچنے سے کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا اور دستر خوان پر بیٹھے ہوئے افراد کو بھی انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے گی۔ جب تک گھر کے بزرگ کھانے کے لیے نہ بیٹھ جائیں باقی افراد کو کھانے کے لیے نہیں بیٹھنا چاہیے اور جب تک سب لوگ پلیٹوں میں کھانا نہ ڈال لیں کھاناشروع نہیں کرنا چاہیے۔ کھانا کھانے کے دوران ایک دوسرے کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کھانا اچھی طرح چبا چبا کر کھانا چاہیے تاکہ اچھی طرح ہضم ہو سکے اور کھانے کے دوران ناک کان سر کو نہیں کھجانا چاہیے۔ کھانا کھاتے وقت اگر کھانا پسندنہ آئے تو اس میں نقص نہ نکالیںاورنہ ہی دستر خوان پر بیٹھے ہوئے ناک منہ چڑھائیں کیونکہ اس طرح دستر خوان پر بیٹھے ہوئے دوسرے افراد کا جی بھی کھانے کو نہیں چاہے گا۔ دستر خوان پر ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو اپنے قریب رکھی ہوئی چیزیں پیش کرتے رہنا چاہیے جب کوئی چیز آپ کو پیش کی جائے تو شکریہ کے ساتھ قبول کرنی چاہیے یا انکار کرتے ہوئے شکریہ بھی کہیں کھانا ڈالتے وقت احتیاط کرنی چاہیے تاکہ دستر خوان پر سالن وغیرہ نہ گرے اور آپ کو سب کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ جب تک سب لوگ کھانا ختم نہ کر لیں دستر خوان پر بیٹھے رہنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی ضرورت کے تحت اٹھنا ضروری ہو تو معذرت کر کے اٹھنا چاہیے۔ ٭ دستر خوان پر کھانا پیش کرنا Meal Service کھانا پیش کرنا بھی ایک آرٹ ہے۔ اور کھانا خواہ کتنا ہی اچھا اور خوش ذائعہ کیوں نہ ہو اگر اسے نفاست اور سلیقے سے پیش نہ کیا جائے تو کھانے کا لطف ہی نہیں آتا۔ ایک اچھے اور پرکشش انداز میں پیش کیا گیا سادہ اور معمولی سا کھانا بھی نہ صرف کھانے والوں کو اپنی طرف راغب کر لیتا ہے۔ بلکہ یہ کھانے کی اشتہا بڑھاتا ہے۔ جس سے پیش کرنے والے کو بھی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا کھانا پیش کرتے وقت مندرجہ ذیل اقدامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ۱۔ مناسب جگہ کا انتخاب گھرانے کے سب افراد کھانے کے وقت اکٹھے مل کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے کھانا ایسی جگہ پیش کرنا چاہیے جہاں سب افراد مطمئن اور سکون کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکیں کھانا صاف ستھری جگہ پر پیش کرنا چاہیے جہاں مکھیاں اور گرد و غبار نہ ہو۔ کھانا سلیقے سے پیش کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ کے گھر میں اگر کھانے کا کمرہ ہو تب ہی آپ کھانا صحیح طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ بلکہ گھر کے کسی بھی کمرے میں یا ایسی جگہ میں جہاں گھر کے افراد آرام و سکون سے بیٹھ سکتے ہیں کھانا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ۲۔ برتنوں کا انتخاب کھانا پیش کرنے کے لیے قیمتی اور مہنگے برنوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ سستے مناسب اور صا ف ستھرے برتنوں میں بھی کھانا پیش کیا جا سکتا ہے۔ برتنوں کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تمام برتنوں کی وضع اور سائز یکساں نہ ہوں کیونکہ اس سے یکسانیت اور غیر دلکش تاثیر پیدا ہو تی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف وضع اور سائز کے ڈونگے اور ڈشیں وغیرہ دیکھنے میں بھی خوشنما لگتی ہیں۔ اور ان سے کم جگہ میں بھی زیادہ چیزیںپیش کی جا سکتی ہیں۔ ۳۔ دستر خوان یا میز پوش کا انتخاب دستر خوان یا میز پوش ہمیشہ سادہ اور ہلکے رنگ کا ہونا چاہیے نیز اس کا صاف ستھراہونا اور بے داغ ہونا ضروری ہے برتنوں اورمیز پوش کے رنگوں اور ڈیزائن میں تھوڑا بہت فرق ہونا چاہیے رنگوںاور ڈیزائن کی بھر مار کھانے کی سجاوٹ اوررنگ روپ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہاتھ پونچھنے کے لیے نیپکن (Napkin)بھی ساف ستھرے اور ہلکی کلف لگے ہوئے اور استری شدہ ہونے چاہئیں۔ ۴۔ پھولوں کی سجاوٹ کھانے کی رونق بڑھانے کے لیے میز یا دستر خوان کے درمیان اور ٹرے کے بائیں طرف تازہ پھولوں کی ہلکی پھلکی آرائش ہونی چاہیے جو کھانوں پر حاوی نہ ہو۔ اگر میز چھوٹا ہوتو درمیان میں آرائش نہ رکھیں بلکہ اس جگہ پر سلاد رکھ دیں کیونکہ سلاد کی وجہ سے میز یا دستر خوان اتنا سج جاتا ہے کہ پھولوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ۵۔ دستر خوان لگانا دستر خوان لگاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ دستر خوان یا میز پر رکھا ہوا کھانا آنکھوں کو بھلا معلوم ہو۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں اس طریقے سے رکھی جائیں کہ کھانے والوں کے لیے ان تک ہاتھ بڑھانا مشکل نہ ہو۔ اور چمچ کے دستے پلیٹ یا پیالی کے کنڈے کا رخ اور دیگر اشیاء کا رخ انہیں استعمال کرنے والے کے دائیں طرف رہے میز پر چیزوں کی بھرمار نہ ہو۔ جو کھانے گرم کھائے جاتے ہیں انہیں گرم ہی پیش کیا جائے اور جو کھانے ٹھنڈے کھانے ہوں انہیں ٹھنڈا پیش کریں اس طرح کھانے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ جو کھانے آخر میں پیش کرنے ہوں انہیں دوسری میز پر رکھیں۔ میز یا دستر خوان پر کھانا کھانے کے لیے جو جگہ ایک شخص کے سامنے آتی ہے وہ کور (Cover) کہلاتی ہے۔ کور پر ایک بڑی پلیٹ ایک درمیانی پلیٹ گلاس نیپکن کانٹا چمچ وغیرہ رکھا جا سکتا ہے۔ افراد کی تعداد کے مطابق ہر شخص کے سامنے اتنی جگہ ضروری ہونی چاہیے کہ جہاں کھانے کے تمام برتن بآسانی آ سکیں۔ میز پوش بچھانے سے پہلے مناسب ہو گا کہ میز پر کوئی موٹا سا کپڑا بچھا لیا جائے تاکہ میز پوش جلدی اکٹھا نہ ہو جائے۔ میز پوش بچھاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے کنارے دونوں طرف سے یکساں طور پر باہر نکلے ہوئے ہوں۔ میز پوش اچھی طرح استری کیا ہونا چاہیے اسے ہمیشہ لمبای میں کرنا چاہیے تاکہ شکن درمیان میں نظر آئے لیکن اگر میز پوش چھوٹا ہو تو اس صاف بغیر شکن کے استری کرنی چاہیے۔ میز پورش کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹیبل میٹس (Table Mats)بھی میز پر بچھائے جاتے ہیں۔ ایک شخص کے سامنے رومال پھیلا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس قدر بڑا ہونا چاہیے کہ اس پر ہر شخص کا گلاس پلیٹ کانٹا اور چمچہ آسانی سے رکھا جا سکے۔ میز اتنی بڑی ہونی چاہیے کہ ہر شخص کے حصے میں کم از کم ۲۰ انچ جگہ ضرورآئے اوراس کے سامنے کھانے کی تمام چیزیں اچھی طرح رکھی جا سکیں۔ چھری دائیں ہاتھ رکھنی چاہیے اس کے بعد چمچے رکھنے چاہئیں بائیں ہاتھ کی طرف سب سے پہلے بڑا کانٹا اوراس کے ساتھ سلاد کھانے کا چھوٹا کانٹا رکھنا چاہیے۔ میٹھی چیز کھانے کا سامان میز پر اس وقت تک نہیں رکھنا چاہیے جب تک مہمان کھانے سے فارغ نہ ہوں اس کے بعد چھوٹے برتن ہو ہٹا کر میٹھی چیز کھانے کے لیے پلیٹ چمچہ یا کانٹا دیا جاتا ہے۔ ٭ کھانا پیش کرنے کا مشرقی طریقہ یہ طریقہ ہمارے ہاں اکثر گھرانوں میں رائج ہے۔ اس میں کھانا دو طریقے سے پیش کیا جاتا ہے یعنی دستر خوان بچھا کر کھانے کی اشیاء کسی بڑے کے قریب رکھ دی جاتی ہے۔ سب افراد دستر خوان پر بیٹھ جاتے ہیں اور وہ سب کو پلیٹوں میں کھانا نکال کر دیتی ہیں۔ دوسرے طریقے میں کھانا دستر خوان پر چن دیا جاتا ہے اور سب افراد حسب منشا کھانا ڈال کر کھاتے ہیں۔ اس میں کھانے کی ڈشیں ایک فرد سے دوسرے فرد کو اس طرح منتقل (Pass)کی جاتی ہیں کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک بیٹھے ہوئے تمام افراد بار باری لیتے ہیں۔ ٭٭٭ باب ۵:سبزیوں اورپھلوں کو محفوظ کرنا Preservation of Vegetables and Fruits گندم چاول اور چینی جیسی خوراک با آسانی ذخیرہ کر کے محفوظ کی جا سکتی ہے۔ لیکن پھل سبزیاں اور گوشت دودھ وغیرہ کو زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا۔ پھل اور سبزیاں چند دن کے بعد ہی خراب ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ سب سے پہلا مقصد خوراک کو محفوظ کرنے کا یہی ہے کہ ہر قسم کی خوراک ہر موسم میں دستیاب ہو سکے اور اس کی قدرتی خصوصیات میں کم سے کم تبدیلی پیدا ہو اورقیمت بھی مناسب ہو ۔ پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ کرنے سے متوازن غذا حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ان کی بنی ہوئی اشیا کے ذریعے سے ہماری غذا میں تنوع بھی پیدا ہو گا۔ پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کو اچار چٹنیوں جام اور مربوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب خوراک میں رنگ پیدا کرتے ہیں اورذائقے کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ذریعے دستر خوان کو خوشنما بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ٭ پھلوں کا جام تیار کرنا Preparation of Fruit Jam پھلوں کا جام نہایت غذائیت بخش ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن مدنی نمکیات اور کاربوہائیڈریٹ وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ جس سے جسم کو قوت اور توانائی حاصل ہوتی ہے نیز یہ تمام اجزا جسمانی نظام کی درستی کی ضامن ہوتے ہیں۔ ٭ جام تیار کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جام مختلف پھلو ں کا بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ناشپاتی آلو بخارا‘ آم ‘ انجیر خوبانی سیب امرود آڑو وغیرہ جام بنانے کے لیے پھل موسمی تازہ بے داغ اور ترش ہونے چاہئیں بہت زیادہ گلے سڑے اور پکے ہوئے پھل کا جام نہیں بنانا چاہیے جام بنانے کے لیے چھوٹے سائز کے پھلوں کو ثابت اور بڑے پھلوں کو ٹکڑوں میں کاٹ کر نرم کرنا چاہیے۔ جام میں پھل کے مطابق ترشی اور چینی استعمال کرنی چاہیے۔ اچھے جام میں درج ذیل خصوصیات کا موجود ہونا لازمی ہے: ۱۔ جام کی سطح صاف ہونی چاہیے۔ ۲ جام شیرے والا یا گوند کی مانندنہ ہو ۔ بلکہ موزوں حد تک گاڑھا نرم اور یکجان ہو۔ ۳۔ جام میں پھل کا قدرتی رنگ اور خوشبو موجود ہو۔ ۴ جام میں ترشی اور چینی موجود ہو۔ ۵۔ جام بنانے سے پہلے بوتل کو جراثیم سے پاک (Sterilize) کر لیں۔ ۶۔ جس پھل سے مربہ تیار کرنا ہو اسے پہلے سادہ پانی سے ابالیں۔ اس کے بعد اس میں شکر مناسب مقدار میں شامل کر کے جوش دیںَ ٭ جام بنانے کا طریقہ ۱۔ موسمی پھلوں کو کھلے پانی میں اچھی طرح دھولیں۔ ۲۔ ایسے پھل جن کے چھلکے سخت ہوں مثلاً آم آڑو سیب اور ناشپاتی وغیرہ کے چھلکے اتار لیں پھلوں کے بیج والے حصے بھی نکال دیں ااور پھل کو کاٹ کر ۲ سے ۳ فیصد نمک کے محلول میں ڈالتے جائیں۔ تاکہ پھل کا رنگ نہ بدلنے پائے۔ ۳۔ رس دار پھل میں چینی ڈال کر ڈوئی سے اچھی طرح ہلا کر آگ پر ایک گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ ان میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیںہے۔ لیکن کم رس دار پھلوں میںدو پیالی پانی ڈا ل کر انہیں ابال کر نرم کر لیں تاکہ پھلوں کا گودا آسانی سے تیار ہو سکے۔ اب اس میں چینی ڈال دیں۔ ۴۔ دیگچی کو دوبارہ چولہے پر رکھیں۔ آنچ ہلکی رکھیں تاکہ قوام کو جوش آ جائے پھر درمیانہ آنچ پر پکائیں پکانے کے دوران مسلسل ہلاتے رہیں۔ ۵۔ جب قوام گاڑھا ہو جائے تو اس میں لیموںکا رس دو بڑے چمچ ڈال کر آٹھ سے دس منٹ تک پکائیں اس سے چینی کی قلمیں نہیں بننے پائیں گی۔ ۶۔ جام کو آگ سے اتار کر ۸۵ درجے سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کر لیں۔ پوٹاشیم میٹا بائی سلفائیٹ کو پانی میں حل کر کے جام میں ملا دیں اور پھر ان بوتلوں میں بھر لیں۔ جام بھرتے وقت خیال رکھیں کہ بوتل میں ہوا کا کوئی بلبلہ نہ ہو۔ ۷۔ بوتلوں میں جام کو مزید ٹھنڈا ہونے دیں۔ پھر پگھلی ہوئی موم کی پتلی سی تہ جام کی سطح پر جما کر ڈھکنا لگا دیں تاکہ نمی پیدا نہ ہو سکے۔ ٭ سبزیوں کا اچار بنانا Preparation of Vegetable Pickles ہمارے ملک میں اچار بہت شوق سے کھائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ کھانے کے لطف کو دوبالا کرتے ہیں۔ نیز یہ دستر خوان کی زینت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ سبزیوں کا اچار تقریباً ہر گھر میں بنایا جاتا ہے۔ جو سستا بھی ہوتا ہے اور اس کے بنانے میں زیادہ محنت بھی درکارنہیں ہوتی۔ سبزیوں کے اچار کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے۔ سبزیاں اپنے موسم بکثرت ہوتی ہیں۔ نیز سستی اور غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اچار کی صورت میں محفوظ کر لینے سے پیسے کی بچت بھی ہوتی ہے۔ ٭ سبزیوں کے اچار کی غذائی اہمیت سبزیاں ہماری غذا کا اہم جز ہیں۔ ان میں وٹامن سی اور معدنی نمکیات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ سبزیوں میں توانائی فراہم کرنے کی اہلیت بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن یہ خوراک کو اچھا ذائقہ دیتی ہیں اور جسم میں ہضم نہ ہونے والا کھر در ا مادہ (Roughage)فراہم کرتی ہیں۔ وٹامن اور معدنی نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے انہیں محافظ غذائیں بھی کہا جاتاہے۔ تیل سرکہ اور مصالحے سبزیوں کوئی اچار کی شکل محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس سے پھپھوندی او ر جراثیم کی افزائش نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ان مصالحوں کی بدولت اچار خراب ہونے سے محفوظ رہتاہے۔ اچار بنانے کے لیے تازہ سبزیاں اچھی سمجھی جاتی ہیں۔ اچار کو چٹنی اورم ربے کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اچار میں سرسوں کا تیل ڈالنا چاہیے کیونکہ سرسوں کے تیل کی غذائیت سے اچارکو اور بھی مفید بنا دیتی ہے۔ سبزیوں کا اچار بنانے کے بارے میں ضروری ہدایات سبزیوں کا اچار بناتے وقت درج ذیل کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ۱۔ اچار کے لیے سبزیوں کا انتخاب سبزی بیماری سے پاک تازہ اور بے داغ ہونی چاہئیں اور اچار بنانے کے لیے کچے پھل مثلاً کیریاں اور لسوڑے بہتر رہتے ہیں۔ اچار بنانے کے لیے لیموں قدرے پکے ہوئے ہونے چاہیئں اچار بنانے کے لیے بہترین سبزیاں بہترین تیل اور بہترین مصالحے استعمال کرنے چاہئیں۔ ۲۔ اچار ڈالنے کے لیے برتنوں کا انتخاب اچار ڈالنے کے لیے ہمیشہ پلاسٹک کے برتن استعمال کرنے چاہئیں۔ دھات کے چمچ یا برتن استعمال نہیں کرنے چاہیے۔ اچار ہمیشہ چٹنی شیشے یا روغنی مرتبان میں ڈالنا چاہیے۔ ۳۔ اچار محفوظ کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اچار محفوظ کرنے کے لیے ہمیشہ جراثیم سے پاک بوتلیں اور جار استعمال کریں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ اچار میں پانی یا نمی شامل نہ ہونے پائے۔ ورنہ پھپھوندی لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جس سے اچار خراب ہو جاتاہے۔ مرتبان کے منہ پر ہمیشہ ململ کا کپڑٓ باندھیں تاکہ اس میں کیڑے مکوڑے یا مٹی داخل نہ ہو سکے۔ اچار میں ہمیشہ تیل کی مقدار اتنی ڈالیں کہ جس سے اچار ڈوبا رہے۔ اچار نکالنے کے لیے ہمیشہ خشک ڈوئی استعمال کریں اچار حسب ضرورت نکالیں اور زائد اچار مرتبان مٰں واپس نہ ڈالیں ورنہ اچار ہمیشہ خشک ہو اور ہوادار جگہ پر رکھیں۔ ٭ سبزیوں کا اچار بنانے کا طریقہ ۱۔ تمام سبزیوں کو اچھی طرح دھو لیں چھلکے والی سبزیوں کا چھلکا نہایت باریک اتار لیں کیونکہ موٹا چھلکا اتارنے سے ان کی غذائیت میں کمی آ جاتی ہے۔ ۲۔ سبزیوں کو چھلکے کے بعد مناسب سائز کے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اور ململ کے کپڑے میں باندھ کر ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیں لیکن صرف دو منٹ کے لیے اس کے بعد جب سبزیاں نرم ہوجائیں توانہیں لکڑی کے خشک تختے یا صرف کپڑے پر پھیللا دیں تاکہ قدرے خشک ہو جائیں۔ ۳۔ جس مرتبا ن یا بوتل میں اچار ڈالنا ہو تو اس کو جراثیم سے پاک کر لیں اور اچار ڈالنے سے پہلے صاف کپڑے سے مرتبان کو پونچھ لیں۔ ۴۔ مرتبان کے منہ پر باندھنے کے لیے استعمال ہونے والا کپڑا بھی صاف ستھرا خشک اور جراثیم سے پاک ہونا چاہیے۔ ۵۔ تیار شدہ سبزیاں صاف و شفاف مرتبان میں ڈالیں اور تمام مصالحہ جات اچھی طرح پیس کر سبزیوں میں ملا دیں۔ ۶ سردیوں کے موسم میں مرتبان کو چار پانچ روز تک اور گرمیوں میں دو تین روز تک خوب اچھی طرح لگوائیں اور دن میں دو تین بار اس کو ہلالیں تاکہ مصالحہ جات یکساں طورپر سارے اچار میں رچ جائیں۔ ۷۔ دھوپ میں رکھنے کے بعد جب سبزیوں کی کچی بو کی بجائے اچار کی مخصوص خوشبو آنے لگے تو اس میں سرسوں کا تیل ڈا ل لیں۔ تیل کی مقدار اتنی ہو کہ تمام سبزیاں کے ٹکڑے تیل میں ڈوب جائیں۔ ۸۔ مزید تین چار روز کے لیے اچار کو دھوپ میں رکھیں تاکہ تیل کی خوشبو پر اچار کی خوشبو اثر انداز نہ ہو جائے۔ ۹۔ اچار والے برتن کو اچھی طرح ڈھانپ کر ہوا دار اور خشک جگہ پر رکھیں۔ چٹنی بنانا Preparation of Sauces پھلوں اور سبزیوں سے تیار کردہ چٹنیاں مشرقی طعام کا اہم جزو ہیں۔ ہمارے ملک میں املی پودینہ ‘ انار دانہ‘ امچور ‘ ہری مرچ ‘پیاز لہسن‘ آم آلو بخارا‘ ٹماٹر وغیرہ کی چٹنیاں عام طورپر استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں چٹ پٹے مصالحے اور سرکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کھانے کے لطف کو دوبالا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اشتہا انگیز اور غذائیت بخش بھی ہوتی ہیں۔ چٹنی چونکہ پھلوں اور سبزیوں سے تیار کی جاتی ہے۔ اس لیے یہ غذائیت سے بھرپو ر ہوتی ہے۔ اور اس میں معدنی نمکیات کاربوہائیڈریٹ اور وٹامن وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جو جسمانی نشوونما اور صحت و تندرستی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ۷ چٹنی بنانے کے بارے میں ضروری ہدایات چٹنی بناتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے مثلاً ۱۔ چٹنی ہمیشہ سبزیو ں اورپھلوں کے اپنے موسم میں بنانی چاہیے تاکہ تازہ غذائیت بخش اور سستی سبزیاں اورپھل دستیاب ہوسکیں۔ ۲۔ پھل اور سبزیاں درمیانہ پکے ہوئے اور اچھی قسم کے ہونے چاہئیں۔ ۳۔ مصالحہ جات صاف ستھرے ہونے چاہئیں۔ ۴۔ چٹنی محفوظ کرنے والی بوتلیں جراثیم سے پاک (Sterilized)ہونی چاہئیں۔ ۵۔ چٹنی ہمیشہ دھیمی آنچ پر پکانی چاہیے۔ ۶ ۔ گرم مصالحہ کو ململ کے صاف کپڑ ے میں ڈال کر پوٹلی سی بنا کر سبزی یا پھل میں ڈالیں۔ اس طرح چٹنی کے رنگ پر اثر نہیں پڑے گا۔ چٹنی تیار ہونے پر مصالحے کی پوٹلی کو اچھی طرح نچوڑ کر چٹنی میں سے نکال لیں۔ ۷۔ سرکہ اور پسا ہوا گرم مصالحہ چٹنی تیار ہونے سے تقریباً ۱۵ منٹ پہلے ڈالیں اور تھوڑا سا پکا کر اتار لیں۔ ۸۔ چٹنی پکانے کے لیے دھات کے برتن استعمال نہ کریں۔ نیز چلانے کے لیے لکڑی کی ڈوئی استعمال کریں۔ ۹۔ محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بوتل دوبار ہلائیں تاکہ بلبلے پیدا نہ ہوں۔ ٭ آم کی چٹنی بنانے کا طریقہ اشیائ: کچے آم (کیری) ایک کلو گرام‘ چینی 800گرام سرکہ 100گرام نمک 25گرام ‘ سرخ مرچ 15گرام‘ گرم مصالحہ 30گرام ‘ لہسن 25گرام ‘ ادرک 50گرام ‘ پیاز 100گرام ‘ بادام 50گرام کلونجی 2چائے کے چمچ۔ طریقہ: ۱۔ آم صاف پانی سے دھو لیں ۔ اور چھیل کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوںمیں کاٹ لیں یا کدو کش کر لیں۔ ۲ ایک دیگچی میں آدھی پیالی پانی ڈالیں۔ اس میں آم کے ٹکڑے ڈالیں اور آگ پر رکھ کر ایک دو جوش دے لیں تاکہ ٹکڑے نرم ہو جائیں۔ ۳۔ ململ کے کپڑے صا ف میں لہسن پیاز اور ثابت گرم مصالحہ جات ڈال کر پوٹلی بنا لیںَ ۴۔ نمک مرچ کلونجی اور پوٹلی کو نرم کیے گئے آ م کے ٹکڑوں میں رکھ کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں۔ اس دوران ڈوئی سے مسلسل ہلاتے رہیں تاکہ یہ پیندے سے نہ لگنے پائے۔ ۵۔ جب محلول ذرا گاڑھا ہو نے لگے تو دیگچی کو چولہے سے اتار لیں۔ ۶۔ مصالحے والی پوٹلی کو محلول سے نکال کر ٹھنڈا کر لیں اور ا س کو دبا کر اس کا رس اچھی طرح سے چٹنی میں نچوڑ دیں۔ ۷۔ چٹنی میں سرکہ کٹا ہوا ادرک اور چٹنی ڈال کر اس دوبارہ پکائیں۔ ذرا گاڑھا ہونے پر اس میں چھیلے اور کٹے ہوئے بادام ڈال دیں اور چولہے سے اتار لیں۔ ۸۔ جب چٹنی قدرے ٹھنڈی ہوجائے تو اس کو بوتل میں بھر کرمحفوظ کر لیں۔ ٭٭٭ باب ۶:کپڑوں کی سلائی کڑھائی Clothing and Stitching لباس کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جو کسی علاقے یا معاشرے کے رہن سہن اوروہاں کے معاشرتی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ ہر علاقے کے اپنے اپنے مخصوص لباس ہیں جو کہ اس ملک یا علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ ضرورت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ۱۔ مذہبی ماحول کی ضرورت ۲۔ جغرافیائی ماحول کی ضرورت معاشرے کے رسموں اور ضوابط اور قانون کی بنیاد ہمیشہ اس جگہ کے لوگوں کے مذہب و اعتقاد پر استوار ہوتی ہے۔ جن ممالک میں سال کا بیشتر حصہ سردی پڑتی ہے۔ وہاں کے لوگوں کی لباس کی ضرورت ان ملکوں کے باشندوں سے بالکل مختلف بلکہ برعکس ہوتی ہیں۔ جہاں سال میں زیادہ موسم گرم اور خشک رہتا ہے۔ مرطوب اوربارانی علاقے کے لوگوں کا لباس خشک علاقوں کے رہنے والوںسے نہایت مختلف ہوتا ہے۔ رنگین دیدہ زیب اور خوبصورت چیزیں کس شخص کو مرعوب نہیں ہوتیں۔ ہر شخص کی نگاہ غیر دلکش اشیاء کو رد کر کے خوشنما اور دلکش چیزوں کی طرف راغب ہوتی ہے چیزوں کو اس طرح توجہ کا مرکز بنانے کا انحصار ان کے رنگوں ڈیزائن اور فن کاری کی نفاست پر مشتمل ہوتاہے۔ فن کاری کی مہارت کا اظہار کسی بھی طریقے سے بنایا جا سکتا ہے۔ جن میں کڑھائی نہایت دلچسپ اور آسان قسم کا فن ہے سلیقہ مندی کا تقاضا ہے کہ اپنی چیزوں کا اچھی طرح سنبھال کر اور مناسب جگہ پر رکھا جائے تاکہ بوقت ضرورت ادھر ادھر ڈھونڈا نہ پڑے۔ کیونکہ کام کرتے وقت اگر چیزوں کو ادھر ادھر سے تلاش کرنا پڑے تو اس سے پریشانی بھی ہوتی ہے نیز تھکن ہوجانے سے طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے اور کام میں دل نہیں لگتا۔ ٭ سلائی کا ڈبہ بنانا Preparation of Sewing Box سلائی کڑھائی کے لیے ہمیں کسی قسم کی چیزیں درکارہوتی ہیں۔ مثلاً سوئیاں دھاگے قینچی پن وپن کش انگشانہ ‘ ناپنے کا فیتہ فریم وغیرہ ان تمام متعلقہ اشیا کا یکجا ہونا لازمی ہے۔ تاکہ دلچسپی اور لگن سے کام لیا جا سکے اور سلائی کرتے ہوئے بار بار اٹھنا نہ پڑے۔ کیونکہ بعض اوقات چیزیں نہ ملنے کی وجہ سے طبیعت اچاٹ ہو جاتیہے۔ اور کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ لہٰذا ان تمام باتوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سلائی کی تمام چیزوں کو ایک جگہ رکھن کی عادت ہو اور اس سہولت کے پیش نظریہ ضروری ہے کہ سلائی کے لیے علیحدہ ڈبہ یا ٹوکری ہوجس میں ضرورت کے پیش نظر تمام چیزیں رکھی جا سکیں۔ آج کل بازار میں پلاسٹک کے بنے ہوئے سلائی کے ڈبے Sewing Boxعام مل جاتے ہیں جن میں مختلف اشیاء کو رکھنے کے خانے بناے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھاگے کی ریلیں رکھنے کے لیے بھی جگہ بنی ہوتی ہے۔ یہ ڈبہ بہت کارآمد ہوتا ہ سلائی کی چیزوں کو حفاظت سے رکھنے کے لیے سلائی کاڈبہ خود بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ڈبہ جوتے کے عام ڈبے سے باآسانی بنایا جا سکتا ہے اس پر رنگین کاغذیا کپڑ ا چڑھا کرڈبے کو زیادہ خوشنما بنایا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ ڈبے کے ڈھکن کو ڈبے کے ساتھ الاسٹک لگا کر جوڑابھی جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوتے کا مضبوط ڈبا موٹا رنگین سادہ یا پھول دار کاغذ ایک رول الاسٹک گوند اور قینچی وغیرہ۔ ٭ بنانے کا طریقہ ۱ ۔ ڈبے کی اندرونی اطراف اور نچے حصے پر لگانے کے لیے کاغذ ناپ کر کاٹ لیں۔ یہ کاغذ سے ذرا بڑا کاٹیں۔ ۲۔ ڈبے کے چاروں اندرونی اطراف پر گوند لگائیں۔ اور اس پر کاغذ صفائی سے چپکا ئیں زائد کاغذ کو باہر کی طرف موڑ دیں۔ اسی طرح ڈبے کے نچلے حصے پر بھی گوند لگا کر کاغذ چپکادیں۔ ۳۔ اب ڈبے کی بیرونی اطراف ناپ کر کاغذ کاٹ لیں۔ ڈبے پر گوند لگا کر صفائی سے کاغذ چپکا دیں ڈبے کے نچلے کونے مضبوط بنانے کے لیے 4س م چوکوڑ ٹکڑے کات لیں ان پر گوند لگائیں اور کاغذ کو درمیان سے کونے پر رکھ کر ایک طرف سے دبائیں اس سے کونا سا بن جائے گا جو خوبصورت بھی لگے گا اور ڈبہ بھی مضبوط ہو جائے گا۔ ۴۔ ڈبے کے ڈھکن کی اندرونی اور بیرونی اطراف کے لیے ناپ کا کاغذ کاٹیں اور گوند لگا کر صفائی سے چپکا دیں۔ اس کے بعد ڈھکن کے دونوں اطراف الاسٹک سے جوڑ کر ڈھکن کو ڈبے کے ساتھ لگا دیں یوں سلائی کی چیزیں ڈالنے کے لیے سلائی کا ڈبہ تیار ہو جائے گا اس ڈبے کے اندر سلائی کی تمام اشیا ترتیب سے رکھ دیں اور ڈبے کو ایسی جگہ پر رکھیں جہاں بچوں کی پہنچ نہ ہو۔ استعمال کے بعد اشیاء کو اس ڈبے میں رکھ دیں تاکہ ڈھونڈنے کی زحمت نہ ہو۔ ٭ سلائی کاسامان اس کا استعمال اور حفاظت Safety and use of Sewing Materials یوں تو سلائی کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوت ہے۔ لیکن چند چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: سوئیاں ‘ دھاگے کی ریلیں‘ انگشتانہ‘ پن کشن‘ چھوٹی اور بڑی قینچی‘ ناپنے کا فیتہ‘ کڑھائی کا فریم ‘ کڑھائی کے دھاگے ‘ پن کاربن پیپر‘ ٹریسنگ پیپر‘ پنسل‘ فٹ ‘ ربڑ وغیرہ سلائی کے ڈبے میں موجود اشیا کے استعمال اور ان کی حفاظت و دیکھ بھال کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ بہتر استعمال اور مناسب دیکھ بھال سے یہ اشیا خراب نہیں ہوتیں۔ ٭ قینچی Shears and Scissors اچھی کٹائی و سلائی کے لیے مناسب قینچی کا ہونا ضروری ہے۔ مناسب قیچی سے مراد تیز اور صحیح سائز کی قینچی ہے۔ کپڑوں کی کٹائی کے لیے بڑی قینچی استعمال ہوتی ہے۔ جس کو Shearsکہتے ہیں جبکہ چھوٹی قینچی دھاگے کاٹنے اور عام کانٹ چھانٹ میں استعمال ہوتی ہے اس کو Scissorsکہتے ہیں صحیح کٹائی کے لیے قینچی کا تیز ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ کند یا خراب دھار والی قینچی سے کام کرنے میں الجھن پیدا ہوتی ہے اس لیے کپڑا کاٹنے والی قینچی کو کبھی بھی گتہ یا کاغذ کاٹنے کے لیے استعمال نہ کریں کیونکہ اس طرح ا س کی دھار خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے استعمال کے بعد کبھی کبھار اس کے پیچ والے حصے میں ایک قطرہ تیل ڈال کر صفائی کریں۔ اس سے قینچی ہمیشہ درست حالت میں رہتی ہے۔ استعما ل کے بعد قینچی کو سلائی کے ڈبے میں حفاظت سے رکھ دیں تاکہ بوقت ضرورت ادھر ادھر تلاش نہ کرنا پڑے۔ سوئیاں Needles سلائی کرھائی کے لیے سوئیاں بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ بازار میں مختلف سائز کی سوئیاں ملتی ہیں۔ گھروں میں بھی مختلف سائز کی سوئیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان سوئیوں کے مختلف نمبر ہوتے ہیں مثلاً چھ سات آٹھ اور نو نمبر وغیرہ۔ چھ نمبر کی سوئی سب سے موٹی ہوتی ہے اوراس سے اگلے نمبر کی سوئیاں باریک ہوتی ہیں۔ مثلاً نو نمبر کی سوئی سب سے باریک ہوتی ہے اور یہ موتی پرون کے کام آتی ہے ۔ عام سلائی کے لیے استعمال ہونے والی سوئیوں کا ناکا چھوٹا ہوتا ہے۔ ان کو (Sharp Needle)کہتے ہیں کشیدہ کاری کے لیے استعمال ہونے والی سوئیوں کا ناکا لمبا ہوتاہے۔ جس میں دھاکہ کے دو یا تین تار باآسانی سے ڈالے جا سکتے ہیںَ ان سوئیوں کو (Crewel Needles)کہتے ہیں۔ اسی طرح لحاف یا گدے سینے کے لیے لمبی اورموٹی سوئی استعمال ہوتی ہے۔ یہ لحاف سینے والی سوئی کے نام سے ہی ملتی ہے اس کا ناکا بھی کافی لمبا ہوتاہے۔ سوئیوں کا استعمال کپڑوں کی نوعیت کے مطابق کرنا چاہیے۔ سوئی ہمیشہ ہموار اور صحیح نوک کی استعمال کرنی چاہیے۔ نیز استعمال کے بعد ان کو حافظت سے پن کشن یا دھاگے کی ریل پر لگا دینا چاہیے تاکہ ان کی نو ک خراب نہ ہو۔ ٭ پن اورپن کشن Pins and Pincushion سلائی کڑھائی میں پن اور پن کشن نہایت اہم ہیں اور سلائی کے ڈبے میں ان کا موجود ہونا ضروری ہے پن کپڑے کے دو ٹکڑوںکو آپ میں جوڑنے ترپائی کا گھیرا موڑنے اور ذرافٹ کو کپڑے پر لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ خصوصاً زیادہ پھسلنے والے کپڑوں کو اپنی جگہ قائم رکھنے کے لیے ان کا استعمال ضروری ہے۔ پن گتے کی ڈبیا میں ملتے ہیں۔ ان کو خریدتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پن اچھی قسم کے ہوں اوران کی نوک تیز ہو تا کہ کپڑے پر نشان نہ پڑیں استعمال کے بعد ان کو پن کشن میںلگا کر رکھنا چاہیے۔ پن کشن کا مقصد سوئیوں اور پنوں کو محفوظ کرنا اور درست حالت میں رکھنا ہے۔ یہ مختلف قسم اور سائز میں ملتے ہیں پن کشن کا استعمال سوئیوں اور پنوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ پن یا سوئیاں اگر ادھر ادھر پڑی رہیں تو ان کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پائوں میں چبھنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ ٭ انگشتانہ Thimble یہ ایک چھوٹی لیکن کارآمد چیز ہے یہ ٹوپی کی شکل میں انگلی کے ناپ کا ایک خول بنا ہوتا ہے۔ جس کو سلائی کرتے وقت ہاتھ کی بڑی انگلی میں پہنا جاتا ہے۔ یہ پلاسٹک یا دھات کا بنا ہوتا ہے۔ اس کی اوپر والی سطح پر دندانے بنے ہوتے ہیں۔ جس سے سوئی سلائی کرتے ہوئے انگلی میں نہیں چبھتی۔ ٭ دھاگے Threads سلائی اور کڑھائی کے لیے الگ الگ قسم کے دھاگے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سلائی کے دھاگے ریلوں پر لپٹے ہوتے ہیں۔ ان کو خریدتے وقت دھاگے کی مضبوطی اور رنگ کی پختگی کا اطمینان کر لینا چاہیے۔ کیونکہ کچا دھاگہ سلائی میں دقت پیدا کرتا ہے۔ دھاگے کی مضبوطی کا اندازہ لگانے کے لیے ریل سے تھوڑا سا دھاگہ توڑ کر دیکھ لینا چاہیے۔ کچے رنگ کے دھاگے کپڑے پر دھلائی کے بعد رنگ اترنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ریل میں سے تھوڑا سا دھاگہ لے کر اس کو سفید کپڑے پر رگڑ کر اس کے رنگ کی پختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ استعمال کے بعد دھاگے کو احتیاط سے سلائی کے ڈبے میںرکھنا چاہیے۔ دھاگے کی ریلوں پر دھاگہ اٹکانے کے لیے ایک کاٹ (Cut) بنی ہوتی ہے۔ استعمال کے بعد دھاگے کے سر ے کو ریل کے اس حصے پر اٹکا دیں تو اس سے ریلوں کے آپس میں الجھ کر ضائع ہونے کا امکان نہیں رہتا ہے۔ کشیدہ کاری کے لیے مختلف قسم کے دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔ عام طور پر گچھیوں میں کھلے ملتے ہیں۔ ان کو خریدتے وقت بھی دھاگے کی مضبوطی وار رنگ کی پختگی کے بارے میں اطمینان کر لینا چاہیے۔ رنگ کی پختگی کے لیے دھاگے کے ایک سرے کو تھوڑا سا گیلا کر کے کپڑے پر رگڑ کر ٹیسٹ کر لیں اگر دھاگے کا رنگ کچا ہو تو اس کو استعمال سے پہلے دھو لیں۔ تاکہ بعد ازاں کپڑا خراب نہ ہونے پائے۔ کڑھائی کے دھاگوں کو بھی استعمال کے بعد احتیاط سے سنبھال کر رکھ دینا چاہیے۔ تاکہ آئندہ کڑھائی کے کام آ سکیں۔ ناپنے کا فیتہ Measuring Tape کپڑا ناپنے کے لیے یا جسم کا ناپ لینے کے لیے فیتہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پلاسٹک یا کینوس ک ابنا ہوتا ہے۔ اور عام طور پر ڈیڑھ میٹر لمبا ہوتا ہے۔ اس پر ڈیسی میٹر‘ سینٹی میٹر‘ اور انچ کے نشان بنے ہوتے ہیںَ فیتہ خریدتے وقت اس بات کا اطمینان کر لینا چاہیے کہ اس کے اوپر دیے ہوئے نمبر اور نشانات واضح ہوں استعمال کے بعد فیتہ ہمیشہ گول لپیٹ کر رکھنا چاہیے تاکہ گرہ لگنے یا بل پڑنے سے فیتہ خراب نہ ہو۔ ٭ چھوٹا سکیل یا فٹ Scale or Ruler یہ اسکیل کپڑے کے کناروں کو یکساں ناپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لکڑی یا پلاسٹک کا بنا ہوتا ہے اور۱۵ س م اور ۳۰ سینٹی میٹر لمبا ہوتاہے۔ اس کو خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس پر دیے ہوئے انچ اور سنٹی میٹر کے نشانات واضح ہوں استعمال کے بعد اس کو حفاظت سے سلائی کے ڈبے میں اس کی مخصوص جگہ پر رکھ دینا چاہیے۔ کڑھائی کا فریم Frame کڑھائی کرنے کے لیے فریم استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ فریم لکڑی یا سٹیل کا بنا ہوتاہے۔ اور ہر سائز میں دستیاب ہوتاہے۔ عام کڑھائی کے لیے درمیانہ سائز کا فریم مناسب رہتا ہے۔ استعمال کے بعد فریم کو حفاظت سے رکھنا چاہیے۔ ٭ ٹیلرز چاک Tailor's Chalk یہ کپڑوں کے نشانات لگانے اور نمونے کو کپڑے پر اتارنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ عموماً درزی اس چا ک کو کٹائی کے وقت کپڑے پر نشانات لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چاک مختلف رنگوں اور مختلف شکلوں میں عام ملتے ہیں ان کا رنگ کچا ہوتا ہے جو دھونے پر نکل جاتا ہے۔ استعمال کے بعد چاک کو حفاظت سے رکھنا چاہیے تاکہ ضائع نہ ہو۔ ٹریسنگ ویل Tracing Wheel یہ ایک چھوٹا سا دندانے دار پہیہ ہوتا ہے جو لکڑی کے ہینڈل کے ساتھ لگا ہوتا ہے کپڑے کے نشان اتارنے کے لیے یہ ایک نہایت کارآمد چیز ہے۔ ٭ کڑھائی کے ٹانکے Embroidery Stitches کشیدہ کاری کا فن زمانہ قدیم ہی سے شرو ع ہو گیا تھا۔ جب انسان نے پہلے پہل جانوروں کی کھالوں سے لباس بنانا شروعکیا۔ ان لباسوں میںخوبصورتی پیدا کرنے کے لیے انہوںنے چند ٹانکے لگائے جو کشیدہ کاری کے فن کی بنیاد ہیںَ گو پرانے زمانے کے کشیدہ کاری والے لبا س گھس کر ضائع ہو چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے نمونے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ مورخوں کی تصانیف میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ زمانہ قدیم کے نوابوں اور بادشاہوں نیز مصر کے نمونوں کی تصاویر میں جو لباس دکھایا گیا ہے اس میں کشیدہ کاری واضح طور پر نمایاں ہے۔ مصر میں نفیس سوتی کپڑو ں کی کشیدہ کاری کی کشدیہ کاری کی جاتی ہے۔ اور مصری ممیوں کو بھی کشیدہ کاری کیے ہوئے نفیس کپڑوں میں لپیٹا جاتا ہے۔ مصری کشیدہ کاری کیے ہوئے نفیس کپڑوں میں لپیٹا جاتا تھا۔ مصری قدیم کشیدہ کاری کے نمونوں سے پتہ چلتا کہ وہاں پر زمانہ قدیم میں کشیدہ کاری کا رواج عام تھا۔ ا س فن کا رواج مشرق بعید میں بھی زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ریشمی دھاگے کی کڑھائی چین سے شروع ہوئی اور قدیم جاپان کی فن کشیدہ کاری نے مصوری کو فروغ دیا۔ برصغیر میں بھی کشیدہ کاری کے نادر نمونے عجائب گھروں میں ملتے ہیں۔ ان میں قیمتی چمکیلے دھاگے سے بنے ہوئے کشیدہ کاری کے خوبصورت نمونے بھی ملیں گے۔ اس فن کا رواج آج بھی برصغیر میں اپنے عروج پر ہے۔ سلمے اور تلے کی کشیدہ کاری آج کل بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ شیشے ک کشیدہ کاری کا رواج بھی زمانہ قدیم سے ہے۔ اور پاکستان کے صوبے سندھ اور بلوچستان میں یہ کام بہت مقبول ہے۔ پاکستان میں زمانہ قسیم کے کشیدہ کاری کے نمونے اسلام آباد میںلوک ورثہ کے ادارے میں محفوظ ہیں اور ملک اور ملک کے عجائب گھروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ٭ کشیدہ کاری کے لیے کپڑے کا انتخاب کشیدہ کاری کے لیے ایسے کپڑے کا انتخاب کرنا چاہیے جن کی بنائی سے کشیدہ کاری کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس کے علاوہ کپڑا مضبوط اور پکے رنگوں کا ہونا چاہیے عام طورپر وہ کپڑا لیا جاتا ہے جس کے دھاگے گنے جا سکتے ہوں۔ ضروری نہیںکہ کپڑا سوتی ہو اونی نائیلون یا ریشمی بھی ہو سکتا ہے اور موٹا یا باریک بھی چنا جا سکتاہے۔ ٭ دھاگے کا انتخاب دھاگے کا انتخاب نمونے کپڑے اور کپڑے کے رنگ کی مناسبت سے کیا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں کے دھاگے منتخب کرتے وقت ان کو ایک دوسرے کی مناسبت سے چنا جاتاہے۔ عام طور پر سوتی اور ریشمی کپڑے پر ریشمی دھاگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بازارمیں دھماکہ گولوں گچھیوں اور کھلی حالت میں ملتا ہے کھلی حالت میں دھاگہ وزن کے حساب سے بکتا ہے۔ دھاگہ ایک تار یا چھ تار والا ہوتاہے۔ کشیدہ کاری کے لیے عام طور پر چھ تار والا دھاگہ استعمال کیاجاتاہے۔ کشیدہ کاری میں اگر چمکیلا تاثر دینا ہو تو چمکیلی دھاتی تار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں میں دھاتی تار مل جاتی ہے۔ کشیدہ کاری کے ٹانکے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ۱۔ سادہ کشیدہ کاری کے ٹانکے ۲۔ جدید کشیدہ کاری کے ٹانکے ۳۔ روایتی کشیدہ کاری کے ٹانکے ٭ ڈنڈی ٹانکا Stem Stitch ڈنڈی ٹانکا بہت آسان ٹانکا ہے۔ اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ٹانکا پھولوں اور پتوں کی ڈنڈیاں باننے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اس ٹانکے سے شکلوں کا حاشیہ یا حد بندی کی جاتی ہے۔ اور اس کے علاوہ اس ٹانکے میں دھاگے کے مختلف شیڈا استعمال کر کے یا لکیریں ساتھ ساتھ دہرانے سے کسی بھی ڈیزائن میں بھی بھرائی کی جا سکتی ہے اس ٹانکے کا استعمال ہر قسم کے کپڑوں پر کیا جاتا ہے۔ ڈنڈی ٹانکا بائیں سے دائیں یا دائیںسے بائیں جانب بنایا جاتا ہے۔ اور اس میں ٹانکے ترچھے ترچھے اور نزدیک نزدیک لیے جاتے ہیں۔ ٭ ڈنڈی ٹانکا بنانا ڈنڈی ٹانکا بنانے کے لیے درج ذیل اشیاء درکار ہیں۔ سوتی کپڑے کا ٹکڑا 20*20س م کڑھائی کا دوتار کا دھاگہ فریم سلائی کا ڈبہ۔ ٭ بنانے کا طریقہ ۱۔ سوتی کپڑے پر ایک چھوٹا پھول ٹریس کر لیں نمونہ اتارنے کے لیے تیز نوک دار پنسل استعمال کریں۔ ۲۔ کڑھائی کرنے کے لیے کپڑے کو عموماً فریم میں لگا کر کڑھائی کی جاتی ہے تاکہ کڑھائی میں صفائی آ سکے ۔ کپڑ ے کو فریم میں لگانے کے لیے فریم کا پیچ ڈھیلا کر دیں۔ اس کے چھوٹے حصے کو کپڑے کی اندرونی طرف رکھیں اس کے اوپر فریم کا بڑا حصہ رکھیں اور کپڑے کو اچھی طرح کھینچ کر پیچ کر دیں۔ ۳۔ سوئی میں دھاکہ ڈال کر سوئی کو کپڑے کی سیدھی طرف اس جگہ پر لے آئیں جہاں سے کام شروع کرنا ہو۔ اب سوئی کو تھوڑا آگے لے جا کر خاکے کے مطابق نمبر ۲ نکال لائیں اور نیچے لے جائیں اب سوئی کو سیدھی طرف نمبر ۱ اور نمبر ۲ کے درمیان نمبر ۳ پر نکال لیں اور کھینچ لیں۔ ۴۔ اب سوئی کو نمبر ۴ میں ڈال کر نمبر ۵ میں سے نکال لائیں نمبر ۵ کا مقام بھی نمبر ۲ والا سوراخ ہے اس طریقے سے یہ عمل جاری رکھیں ۔ زنجیری ٹانکا Chain Stitch زنجیری ٹانکا ڈنڈیاں اور ٹہنیاں بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹانکے سے شکلوں کے حاشیے اور حد بندی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے بھرائی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نیز اس ٹانکے سے چھوٹے چھوٹے پھول اور پتیاں بنائی جاتی ہیں۔ جو دیکھنے میں نازک اور خوبصورت معلوم دیتی ہیں۔ اور اس کو تیزی ڈیزی ٹانکے کی کڑھائی Lazy Daisy Stitchکہتے ہیں۔ یہ ٹانکا ہر قسم کے کپڑوں پر کڑھائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خصوصاً بچوں کے فراک اس کی کڑھائی میں بہت دیدہ زیب لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کڑھائی قمیض میز پوش دوپٹے ٹیکن رومال وغیرہ بھی کی جاتی ہے۔ ٭ زنجیری ٹانکا بنانا زنجیری ٹانکا بنانے کے لیے درج اشیا درکار ہوں گی سوتی کپڑے کا ٹکڑا 20*20س م کڑھائی کا دو تار کا دھاگہ سلائی کا ڈبہ۔ ٭ بنانے کا طریقہ ۱۔ جہاں سے ٹانکا شروع کرنا ہو وہاں سے سوئی دھاگے کو اوپر کی طرف لے آئیں۔ ۲۔ جس سوراخ سے دھاگہ نکالا ہے۔ اس سوراخ میں سوئی ڈال کر تھوڑے سے فاصلے پر سوئی نکالیں۔ ۳۔ اب دھاگے کو سوئی کے آگے لے جائیں اور جو بل بنے گا اس میں سے سوئی کھینچ لیں۔ نیچے دیے ہوئے خاکے سے ٹانکے لگانے کا طریقہ صاف پتہ چل جائے گا۔ ٭ مچھلی ٹانکا اس ٹانکے کو مچھلی ٹانکا اس لیے کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کی بناوٹ مچھلی کے کانٹے کی طرح ہے۔ مچھلی ٹانکا کڑھائی کا ایک ایسا ٹانکا ہے۔ جس کے کئی استعمال ہیں۔ اگر ہم باریک کپڑے پر الٹی طرف سے بنائیں تو شیڈ واک کہلاتا ہے۔ سندھی کڑھائی کا بنیادی ٹانا بھی یہی ہے خانے والے کپڑے پر یہ ٹانکا بنائیں تو سمو کنگ تاثر لیا جاتا ہے۔ ٭ مچھلی ٹانکا بنانا مچھلی ٹانکا بنانے کے لیے درج اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوتی کپڑے کا ٹکڑا 20*20س م کڑھائی کا دوتا ر کا دھاگہ فریم سلائی کا ڈبہ۔ ٭ بنانے کا طریقہ اس جگہ جہاں شروع کرنا ہو سوئی دھاگے کو اوپر کی طرف لے آئیں۔ ۲۔ پھر نمبر ۲ میں سے سوئی ڈا کر نیچے لے جائیں اور نمبر ۳ سے سوئی کو اوپر لے آئیں اور پھر نمبر ۴میں ڈال کر نیچے لے جائیں اور اسی طرح لائن پوری بنا لیں۔ ۳۔ جہاں پر لائن گولائی وغیرہ پر ہو تو ٹانکے کے سائز کو اس کے مطابق چھوٹا بڑا کر لیتے ہیں۔ روایتی یا علاقائی ٹانکے Traditional Stitiches اب تک جن ٹانکوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایسے ٹانگے ہیں جو ہر دور میں دنیا کے ہر حصے میں مقبول رہے ہیں۔ اور مختلف کپڑوں پر کڑھائی کے لیے ان ٹانکوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کڑھائی کے چند ٹانکے ایسے بھی ہیں۔ جو کسی خاص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ روایتی یا علاقائی کشیدہ کاری سنتے ہی ہمارے ذہن مین کشمیری سندھی بلوچی سواتی کام کا عکس ابھرتا ہے۔ یہ ٹانکے مختلف ٹانکوں کے باہم امتزاج سے بنتے ہیں۔ اور ان کو بنانے کے لیے کڑھائی کے تمام ٹانکوں پر مہا رت ہوتا ضروری ہے۔ ٭ سندھی ٹانکا Sindhi Stitch جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ سندھ کا مشہور معروف ٹانکا ہے اور سندھی کشیدہ کاری اسی ٹانکے میں کی جاتی ہے۔ یہ ہر قسم کے کپڑوں پر کڑھائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ٹانکے کا بنانا بہت آسان ہے۔ لیکن اس کو بنانے میں خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں کپڑے پر چند بنیادی ٹانکے ہی لیے جاتے ہیں۔ جبکہ باقی کڑھائی دھاگے کو ان بنیادی ٹانگوں میں سے گزارنے ہوتی ہے ۔ اس کو بیل کی شکل میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اور ٹکڑیوں کی صورت میں بھی۔ بیل کی شکل میں اس سے چاروں کے حاشیے بنائے جاتے ہیں اور ساری چادر پر ٹکڑوں کا جال سا بنا کر کڑھائی کی جاتی ہے جو نہایت دیدہ زب لگتی ہے۔ ٭ پھلکاری یا سوتی ٹانکا Phulkari or Swati Stitch یہ ٹانکا سوات چترال اور گلگت میں خصوصاً بنایا جاتا ہے۔ اس ٹانکے کو بنانے کے لیے ایسا کپڑا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے تار با آسانی گنے جا سکیں ۔ اس ٹانکے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو اپنی طرف سے بنایا جاتا ہے اور اس پر کچے ریشم سے کڑھائی کی جاتی ہے۔ کڑھائی کے لیے آتشی گلابی پیلا عنابی ہرا اور جامنی رنگ کا ریشم استعمال ہوتا ہے عموماً یہ کڑھائی سیاہ سفید رنگ کے کھدر پر کی جاتی ہے کرتوں کے گلے عام طور پر کڑھائی سے بھرے ہوئے ہیں اور باقی حصے پر پھول بکھرے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گلے کے نمونے میں مناسب ترمیم کر کے آستین کے کف دامن اور شلور کے پائنچے بنانے جاتے ہیں۔ چادر وغیرہ پر پھلکاری کے نمونے عموماً ایسے ہوتے ہیں کہ پورا کپڑا کڑھائی سے بھرا ہوتاہے اور کپڑا بالکل نظر نہیں آتا۔ لیکن بعض نمونے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کپڑانظر آتا رہتا ہے۔ ٭ کشمیری ٹانکا Kashmiri Stitch کشمیری کڑھائی کے لیے خاص قسم کا ٹانکا اور ڈیزائن استعمال ہوت ہیں اور کڑھائی کے لیے گہرے رنگ کا ریشم استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹانکا پھولوں اور پتیوں کو بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیزائن کے اندر کا حصہ اس ٹانکے سے بھرا جاتا ہے اور باہر کا حاشیہ بنانے کے لیے دھاگے سے مچھلی ٹانکا بنایا جاتاہے۔ مکمل ہونے پر کڑھائی قدرے ابھری ہوئی اور گتھی ہوئی نظر آتی ہے یہ کڑھائی موٹے باریک یا کسی بھی ہموار سطح والے کپڑے پر کی جاتی ہے۔ کشمیری کڑھائی کرتوں دوپٹوں اور گرم چادروں وغیرہ پر نہایت دیدہ زیب لگتی ہے۔ خصوصاً گرم چادروں پر اس کڑھائی سے حاشیہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پوری چادر میں بھی کڑھائی کی جاتی ہے قمیضوں کے گلے دامن آستین اور شلوار کے پائنچوں پر بھی کشمیری کڑھائی نہایت دلکش لگتی ہے۔ ٭ بلوچی ٹانکا Balochi Stitch بلوچی ٹانکا کشمیری ٹانکے کے طریقے ہی سے بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس ٹانکے سے عموماً تکوں یا چوکور کی شکل میں بھرائی کی جاتی ہے اورحاشیہ کے لیے کالا دھاگا استعمال ہوتا ہے۔ اس ٹانکے کو قمیضوں کے گلے بنانے کے لیے عموماً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چادروں وغیرہ پر بھی کڑھائی کی جاتی ہے۔ ٭ شیشے کا کام Mirror Work شیشے کا کام سندھ اور بلوچستان میں رائج ہے۔ لیکن اسے ہر جگہ یکساں پسند کر لیا جاتاہے۔ اور اس سے بہت خوبصورت چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ شیشے کا کام چھوٹے چھوٹے گول شیشوں کے ساتھ ٹانکے ملا کر کیا جاتا ہے اور ا س کو بیل کی شکل میں یا سارا ابھر کر بنایا جاتا ہے۔ شیشے کا کام چھلے کے ساتھ یا چھلے کے بغیر دھاگے کا جال بنا کا کیا جاتا ہے۔ چھلے کے ساتھ بنانا زیادہ آسان ہے۔ جبکہ چھلے کے بغٰر بنانے کے لیے تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیشے کے کام سے تھوڑی سی توجہ سے دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جا سکتے ہیں۔ جو کہ دلکش اور بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ ٭ سلائی مشین کی اہمیت Importance of Sewing Machine کپڑوں کی سلائی ایک ایسا ہنر ہے جس کے لیے محنت کوشش اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے لڑکیوں میں سلائی کا شوق ابتدائی عمر ہی سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سلائی کے شوق کو مزید فوقیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ انہیںابتدا ہی سے مشین سے سلائی کرنے کے بنیادی اصول سے واقفیت کروائی جائے۔ موجودہدور میں سلائی کی مشین ہر گھر کاایک لازمی جزو بن گئی ہے۔ معمولی نوعیت سے لے کر لباس کی مکمل تیاری تک کے لیے مشین کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج کل کے مشینی دور میں یہ ہر گھر کی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ سلائی مشین کی مختلف اقسام ہیں۔ پاکستان کی تیار کردہ سلائی مشین مختلف میں معقول قیمت پر دستیاب ہیٰں یہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔ اور ان سے سلائی کرنے میں کوئی دقت بھی پیش نہیں آتی ہے۔ لباس کی بناوٹ اور پائیداری میں مشین اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سلائی کو صاف ستھرا دکھانے کے لیے اس کے کنارے پر مختلف طریقوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ جو سیون کی پختگی Seem Finish کہلاتی ہے۔ اس لباس کی سلائی میں پائیداری آ جاتی ہے اورکپڑے کے کناروں سے دھاگے بھی نہیں نکلتے ۔ سلائی مشین کی بجائے اگر کپڑوں کی سلائی ہاتھ سے سوئی کی ساتھ کی جائے تو اس سے ایک وقت بہت زیادہ صرف ہو گا ایک گھنٹے کے کام کو کئی گھنتے لگ جائیں گے۔ دوسرا سلائی بھی عمدہ اور پائیدار نہیں ہوگی بلکہ غیر مناسب اور ناپائیدار سلائی ہو گی اس کے علاوہ یہ دیکھنے میں بھلی بھی معلوم نہیں ہو گی اور لباس کو بد شکل بنا دے گی۔ لہٰذا مشین ہر گھر کی ضرورت ہے اور بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ ٭ سلائی مشین کے مختلف حصوں کے کام Function of different parts sewing machine مشین کو مہارت سے استعمال کرنے کے لیے نہ صرف اس کے ہر حصے سے واقفیت ہونی چاہیے بلکہ ایک حصے کا دوسرے حصے اور پوری مشین سے تعلق بھی معلوم ہونا چایے۔ اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ اگر اتفاقاً کوئی چھوٹی موٹی خرابی ہو جائے تو اسے خود دور کر سکیں۔ یا کم از کم سمجھ سکیں۔ یا کم از کم سمجھ سکیں۔ سلائی مشین مختلف پرزوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ پرزے درج ذیل کا م سر انجام دیتے ہیں۔ ۱۔ بیڈ Bed یہ مشین کا نچلا ہموار سطح والا حصہ ہے جس کے نیچے تمام پرزے ہوتے ہیں جن کی مدد سے مشن کا شٹل چلتا ہے اور نیچے دھاگہ پرونے کے آلات ہوتے ہیں۔ ۲۔ بازو Arm یہ مشین کے سامنے والا حصہ ہے۔ جہاں سے دھاگہ شروع کر کے سوئی میں لاتے ہیں اگر پھرکی میں کچھ پھنس جائے یا نچلے حصے کی صفائی کرنی ہو تو اس حصے سے مشین کو اٹھایا جاتاہے۔ ۳۔ دبائو کا پیچ Pressure Bar یہ عمودی ہوتی ہے جس میں دبانے والا پرزہ لگاہوتا ہے اس کے گرد ایک کمانی لگی ہوتی ہے جو کپڑے کو آگے کھسکانے والے پرزے کے بالمقابل دبائے رکھتی ہے۔ ۴ ۔ دھاگے کا لیور Thread Lever یہ سوئی میں دھاگے کی روانی کو قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ۵۔ پیراٹھانے والا پرزہ Pressure Bar Lifter مشین کی پشت پر نصب یہ پرزہ پیر کو اٹھانے یا نیچا کرنے کے کام آتا ہے۔ ۶۔ دھاگا کسنے والا پرزہ Tension Regulator اس پرزے کی مدد سے دھاگے کو بخیہ درست رکھنے کے لیے کسا یا ڈھیلا کیا جاتا ہے۔ ۷۔ دھاگا کاٹنے والا پرزہ Thread Cutter اس پرزے کی مدد سے دھاگے کو بخیہ درست رکھنے کے لیے کسا یا ڈھیلا کیا جاتا ہے۔ ۸۔ پیر Foot یہ کپڑے کو دندانے میں دبائے رکھتا ہے۔ ۹۔ سلائیڈ پلیٹ Slide Plate یہ ایک چپٹی پلیٹ ہے جو شٹل اور پھرکی کو ڈھکے رکھتی ہے اور پھر کی کو نکالنے کے لیے آگے پیچھے کی جاتی ہے۔ ۱۰۔ دندانے Feed Dog یہ دندانے دار پرزہ ہے جو Throat Platمیں بنے ہوئے سوراخوں سے اوپر اٹھ کر کپڑ؁ کو پہیہ چلنے کی وجہ سے ٹانکے پر آگے کی طرف بڑھاتا ہے۔ ۱۱۔ جامد پلیٹ Throat Plate مشین کی ہموار سطح پر بالکل سوئی کے نیچے ہوتی ہے اور اس میں سے گزر کر سوئی نیچے ہوتی ہے اور جس پر کپڑے کو آگے کھسکانے والا دندانے دار پرزہ Feed Dogاوپر کو اٹھتا ہے۔ ۱۲۔ نلکی لگانے کی کیل Spool Pin یہ کیل مشین کے سامنے والے حصے پر مشین کے بازو (Arm)پر ٹکا ہوتا ہے اور نلکی رکھنے کے کام آتا ہے۔ ۱۳۔ پہیہ Balance Wheel پہیہ (Balance Wheel)مشین کی سیدھی طرف ہوتا ہے جو دھاگے کے لیور اور سوئیکی حرکت کو کنٹرول کرتا ہے جس کی مدد سے مشین حرکت میں آتی ہے اور ہم سلائی کر سکتے ہیں۔ ۱۴۔ پھر کی میں دھاگا بھرنے والا پرزہ Bobbin Winder یہ وہ پرزہ ہے جس کی مدد سے پھرکی خود بخود پھر جاتی ہے اور ہاتھ سے دھاگہ لپیٹنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے جب پھرکی بھر جاتی ہے تو خود بخود باہر نکل آتی ہے۔ ۱۵۔ ٹانکا چھوٹا بڑا کرنے والا پرزہ Stitch Length Dial اس پرزے کے اوپر نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2.5س م میں کتنے ٹانکے لگتے ہیں اور اس پرزے کو پورا اوپر کی طرف سے کرنے سے مشین پیچھے کی طرف چلنے لگتی ہے۔ ۱۶۔ پھرکی کا دھاگا کسنے والا پرزہ Bobbin Regulator یہ پرزہ پھرکی بھرتے وقت دھاگے کو مناسب مقدار میں چھوڑتا ہے۔ ۱۷۔ نلکی کے لیے کیل Spool Pin پھرکی میں دھاگا بھرنے کے لیے نلکی اس میں لگائی جات ہے یہ کیل مشین کے بیڈ پر لگا ہوا ہوتا ہے۔ ۱۸۔ سوئی کسنے والا پیچ Needle Screw Clamp یہ پرزہ سوئی کو مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم رکھتا ہے۔ یہ میشن پر دھاگا کاٹنے والے پرزے کے نزدیک واقع ہوتاہے۔ سلائی مشین میں واقع یہ تمام پرزے مل کر مشین کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں اور ان میں سے کس ایک پرزے کی غیر موجودگی ساری مشین کو ناکارہ کر دیتی ہے۔ مشین نہایت نفیس اور نازک آلات پر مشتمل ہوتی ہے اور اگر اس کے کسی بھی پرزے کو زنگ لگ جائے تو اس سے مشین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ استعمال کے بعد اسے اچھی طرح صاف کرکے رکھا جائے اور مناسب وقت پر تیل بھی دیا جائے اور اس کی دیکھ بھال اور صفائی کے صحیح طریقے سے کرنا چاہیے۔ ٭ جسم کا ناپ لینا Talxing Measurement of Body بہترین اور عمدہ لباس کی سلائی کا انحصار بہت حد تک اس کی کٹائی پر ہوتا ہے اور بہترین کٹائی کے لیے جسم کا صحیح ناپ لینا ضروری ہے کیونکہ صحیح ناپ لے کر جو کپڑے تیار کیے جاتے ہیں اس سے لباس کی فٹنگ بھی صحیح آتی ہے اور لباس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بہتر فٹنگ کے لیے ضروری ہے کہ ناپ صحیح طریقے سے لیاجائے تاکہ لباس میں کم سے کم نقص ہوں کیونکہ مناسب نمونے کا انتخاب اور اس میں کی جانے والی تبدیلیوں کا انحصار بھی صحیح ناپ پر ہے۔ ناپ لیتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ۱۔ ناپ لینے کے لیے کمر پر رسی باندھ لیں اور ناپ لیتے ہوئے کپڑے زیادہ موٹے نہ پہنے ہوئے ہوں ناپ جسم کے مطابق پورا پورا لیں اور اس میں سلائی کی گنجائش بھی رکھ لیں۔ ۲۔ ناپ دیتے وقت اپنے سر کے بال اوپر کی طرف باندھ لیں۔ دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھ دیں اور اپنے جسم کو آرام دہ حالت میں رکھیں۔ ۳۔ ناپ لیتے وقت پنسل اور کاپی اپنے پاس رکھ لیں تاکہ ناپ ساتھ ساتھ لکھا جا سکے۔ ۴۔ تمام پیمائش قدرے ڈھیلی کریں۔ کسائو ہرگز نہ پیدا ہونے دیں۔ آسائش کے لیے گنجائش رکھنی چاہیے اور تمام ناپ جسم کے داہنے حصے کے ہونے چاہئیں۔ ۵۔ چھاتی اور کولہے کا ناپ سب سے ابھرے ہوئے حصے سے لیا جاتاہے۔ بازوئوں کا ناپ کہنی موڑ کر لییت ہیں کندھے کمروغیرہ کا ناپ بھی صحیح ہونا چاہیے۔ کندھے اور کمر کی لمبائی سے سوا باقی تما م ناپ جسم کے سامنے رخ سے لیتے ہیں چھاتی کمر اور کولہے جیسے بنیادی ناپ لینے کے بعد باقی جسم کا ناپ لیا جاتا ہے۔ ہر لباس کے لیے سب ناپوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہنگا غرارہ پینٹ کوٹ جیکٹ کھلی قمیض کرتے وغیرہ کے لیے کولہے کا ناپ نہیں چاہیے۔ قمیض کی لمبائی کے لیے گدی سے گھٹنے تک اور شلوار کے لیے کمر سے ٹخنے تک ناپ لیتے ہیں۔ ٭ ناپ لینے کا طریقہ جسم کے مختلف حصوں کا ناپ لینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ کار اپنایا جاتاہے۔ ۱۔ تیرے کا ناپ Across Back فیتے کوے سرے کوکندھے کے اختتام پر جہاں ہڈی ختم ہوتی ہے رکھین اور اس کو دوسرے کندھے کی ہڈی کے آخری سرے تک لے جاکر ناپ لیں تیرے کا ناپ لیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ فیتے کوکندھے کی صحیح جگہ پر ہی رکھا جائے کیونکہ صحیح ناپ نہ لینے سے قمیض کندھے سے لٹکے گی یا اوپر کی طرف اٹھے گی جس سے کھچائو پیدا ہو گا۔ ۲۔ گدی سے کمر تک کا ناپ Centre Back Length فیتے کو گردن کی پچھلی درمانی ہڈی پر رکھیں جو کہ چھونے سے محسوس ہوتی ہے اور سب سے زیادہ ابھری ہوئی ہوتی ہے۔ اور لمبائی میں کمر تک ے جائیں۔ یہ ناپ قمیض میں ڈارٹ بنانے کے لیے لیا جاتاہے۔ اس لیے صحیح ناپ نہ لینے سے قیمض کی فٹنگ متاثر ہوتی ہے۔ ۳۔ چھاتی کا ناپ Bust یہ ناپ چھاتی کے ابھار سے لیا جاتا ہے اس لیے فیتے کو چھاتی سے ابھرے ہوئے حصے پر رکھیں اور فیتے کے دونوں طرف سروں کو درمیان میں ملا کر دائیں یا بائییں ہاتھ کی دو انگلیلوں اور انگوٹھے سے اس طرح ملائیں کہ ناپ سامنے نظر آئے ناپ لیتے وقت ا س بات کا خاص خیال رکھیں کہ فیتہ انگلی اور پچھلی طرف سے ہیی ایک ہی سطح پر رہے اور فیتے میں کوئی بل نہ ہو ورنہ ناپ غلط ہو جائے گا۔ ۴۔ کمرکاناپ Waist فیتے کو کمر کے گرد لائیں فیتے کے دونوں سروں کے اندر کی طرف اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں رکھیں تاکہ ناپ تنگ نہ ہو۔ ۵۔ کولہے کا ناپ Hips یہ ناپ کمر سے تقریباً ۲۰ سینٹی میٹر نیچے لیا جاتاہے۔ اس کے لیے فیتے کو کولہوں کے پورے ابھار والے حصے پر رکھ کر دونوں سروں کے درمیان میں ملا کر ناپ لیں۔ ۶۔ قمیض کی لمبائی Full Length قمیض کی لمبائی فیشن کے مطابق بدلتی رہتی ہے اور اس کے لیے فیتے کو اوپر کندھے کے پاس رکھ کر جتنی لمبائی رکھنی ہو اس کے مطابق ناپ لیں۔ ۷۔ آستین کا ناپ Sleeve آستین کے ناپ میں آستین کی لمبائی اور چوڑائی لی جاتی ہے۔ آستین کی لمبائی ناپنے کے لیے فیتے کو کندھے پر رکھیں اور بازو کو ذرا خم دیں اور فیتے کو کلائی تک لے جائیں اگر آستین تین چوتھائی بنائی ہو تو اس صورت میں بازو کوسیدھا رکھیں آستین کی چوڑائی ناپنے کے لیے فیتے کو کلائی کے گرد رکھ کر ناپ لیں۔ ٭ شلوار اور کرتے کا ڈرافٹ بنانا Drafting of Shalwar and Shirt ۱۔ کرتے کا ڈرافٹ بنانا کرتاایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے۔ جو گرمیوں کے موسم میں پہننے کے لیے انتہائی موزوں اور آرام دہ رہتا ہے۔ کرتے میں تقریباً تمام سلائیاں سیدھی ہوتی ہیں اور یہ عام طور پر باریک کپڑے کا بنایا جاتا ہے۔ کرتے کا ڈرافٹ چار حصوں میں تیار کیا جاتا ہے یعنی کرتے کا درمیانی حصہ بغلی اور آستین کرتے کا ڈرافٹ بنانے کے لیے درج ذیل ضروری ناپ لیے جاتے ہیں۔ ۱۔ تیرے کا ناپ (Across Back) ۲۔ چھاتی کا ناپ (Bust) ۳۔ کل لمبائی ۴۔ آستین کی لمبائی (Sleeves) کرتے کے اگلے اور پچھلے حصے کا ناپ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ماسوائے گریبان کے اگلے پچھلے حصے کی کٹائی کے جبکہ بغلی اورآستین وغیرہ کے لیے ایک ایک ڈرافٹ بنایا جاتاہے۔ ڈرافٹ بنانے کے لیے معیاری ناپ۔ تیرہ 30س م (12) چھاتی 76چ س م (30) کل لمبائی 90س م (36) آستین کی لمبائی 46س م (18) ڈرافٹ بنانے کا طریقہ: ۱۔ کرتے کا درمیانی حصہ Central Penel of Kurta ۱۔ ایک عمودی لائن الف سے ج تک کھینچیں الف ج = 90 س (کل لمبائی) ۲۔ ایک افقی لائن الف سے ب تک کھینچیں الف ب = 15 س م ( 1/2تیرہ) ۳۔ الف ب ج د نقاط کو ملا لیں۔ ۴۔ ڈرافٹ کو درمیان میں سے کاٹ لیں اس پر +++کا نشان لگا لیں اور درج ذیل طریقے سے کرتے اگلے اور پچھلے حصے کا گلا بنائیں۔ ۵۔ الف اگلے حصے کا گلا ۶۔ الف ج لائن پر الف سے 7.6س م نیچے تک نشان لگائیں۔ ۷۔ الف ‘ ک= 7.6س م پر نشان ل لگائیں ۸ ۔ الف ل =7.6س م (1/10چھاتی) ۹۔ ک کو ل سے گولائی میں ملائیں۔ ۱۰۔ ب پچھلے حصہ کا گلا۔ ۱۱۔ الف ج لائین پر الف سے 2.5س م نیچے نشان لگا ئیں الف م = 2.5س م ۱۲۔ الف ب لائین پر الف سے 7.6س م پر نشان ن لگائیں الف ن = 7.6س م (1/10چھاتی) ۱۳۔ م کو ن سے گولائی میں ملائیں۔ ۲۔ کرتے کی آستین ۱۔ ایک عمودی لائین الف ب کھینچیں۔ ۲۔ الف ب = 16 سم (آستین کی چوڑائی) ۳۔ ایک افقی لائن الف سے ج اور ب سے د کی طرف کھینچیں الف ب ج د =46سم (آستین کی لمبائی)۔ ۴۔ الف ب ج د نقاط کو ملا لیں اور الف ج لائن پر +++نشان لگا لیں۔ ۳۔ کرتے کی گلی ۱۔ ایک عمودی لائن الف ب کھینچیں۔ الف ب = 76 سم (کل لمبائی آستین کی چوڑائی) ۲۔ کلی کے اوپر کا حصہ بنانے کے لیے الف سے ج کی طرف نشان لگائیں الف ج = 6.4 سم (1/10) ۳۔ کلی کا نچلا حصہ بنانے کے لیے ب سے د کی طرف نشان لگائیں ب د = 13 س م ۴۔ ب کود سے ملا لیں۔ ۵۔ اب ایک کلی کا ڈرافٹ تیار ہو جائے گا۔ ۴۔ کرتے کی بغلی ۱۔ ایک چوکور الف ب ج د بنا لیں۔ الف ب ج د = 6.4 سم (1/12چھاتی) ۲۔ سلائی کرتے ہوئے +++کے نشان پر کپڑے کو دہرا کر لیں۔ ٭ قمیض کا اگلا حصہ ۱۔ ایک افقی لائن الف بے بنائیں جو کہ کندھے کا نصف یعنی 18 سینٹی میٹر ہو۔ ۲۔ لائن ا ج قمیض کی لمبائی کے برابر ہے۔ ۳۔ لائن پ ج اور ا خ برابر ہو گی۔ لائن الف ب جس سے ظاہر ہوا کہ کندھا نصف تیرے کے برابر ہوتا ہے۔ ۴۔ دڈ 2.5 سینٹی میٹر ہو گا۔ ۵۔ نکتہ ب سے 2.5 سینٹی میٹر ایک نکتہ ہے ۔ جس کو آپ نکتہ س سے ملائیں۔ ۶۔ نکتہ س کو الف خ پر لگاتے ہوئے نکتہ ش سے گولائی میں ملا ئیں۔ یہ قمیض کا گلہ بنانے میں مدد دے گی۔ ٭ چھاتی کی پیمائش 1/4 Chest 2cm Case Allowance 1/4 چھاتی کی پیمائش+2سنٹی میٹر برائے ؤگنجائش 16 سینٹی میٹر +2سینٹی میٹر = 18 سینٹی میٹر۔ ٭ کمر کی پیمائش 1/4Chest+2cms-dart +1cm case allowance 1/4کمر کی پیمائش +2سینٹی میٹر برائے پلیٹ +1سینٹی میٹر 2+برائے گنجائش 14 سینٹی میٹر 2+سینٹی میٹر 1+سینٹی میٹر = 17 سینٹی میٹر ٭ کولھے کی پیمائش 1/4 Hips+3cms Case Allowance 1/4کولھے کی پیمائش 3+سینٹی میٹر برائے گنجائش 22سینٹی میٹر 3+سینٹی میٹر 25= سینٹی میٹر۔ ۷۔ ح اور خ لائن بنائیں جو کہ چھاتی کی پیمائش ہے اور 18سینٹی میٹر ہو گی۔ ۸۔ اب بغل کے نیچے پلیٹ بنانے کے لیے خ سے 9سینٹی میٹر نیچے ایک نشان م لگائیں۔اور ل تک 7 سینٹی میٹر بڑھائیں م کے دونوں اطراف میں س م دو نشان لگائیں اور نشانوں کو ل سے ملائیں اب ایک نقطہ الف ج خط پر کمر سے گدی تک کی لمبائی جتنا لگائیں جو کہ 30 سم ہو گا۔ ۹۔ اس نقطعہ سے ایک خط ط ظ بنائیے جو کہ کمر کی چوڑائی کے برابر ہو۔ اور ح خ کے متوازی ہو جس کی لمبائی 17 س م ہو۔ ۱۰۔ اسی طرح ایک خط نقطعہ ک سے کھینچیں جو کہ ط ظ کے متوازی ہو جس کی لمبائی 25سینٹی میٹر ہو جو کہ کولھے کی پیمائش کے مطابق ہے۔ ۱۱۔ ک ط کمرے سے کولہے تک کی لمبائی ہے جو 18 سینٹی میٹر ہے اس کے بعد کل لمبائی کے لیے ایک متوازی خط بنائیں جو کہ گ ک کے متوازی ہو۔ ٭ قمیض کا پچھلا حصہ قمیض کا پچھلا حصہ میں اگے حصے کی نسبت چند تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ اس کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے۔ ۱۔ پچھلے حصہ میں گلے کی گہرائی اگلے حصے کی نسبت کم ہو گی یعنی تقریباً 3.5سینٹی میٹر۔ ۲۔ ڈ نشان سے ایک سنٹی میٹر دور ہو گا ف ۳۔ لائن چ 2.5سینٹی میٹر ہو گی کیونکہ پچھلا کندھا کم گہرا ہوتا ہے۔ ۴۔ پچھلے حصہ کی کمر کی لمبائی میں 2سینٹی میٹر کمی ہو گی ۔ کیونکہ پچھلے حصہ میں بغل کے نیچے پلیٹ نہیں ہو گا۔ آستین کا ڈرافٹ Sleeves سب سے پہلے ایک مستطیل بنائیں جس میں: ۱۔ ایک لائن اب کندھے کے برابر بنائیں 36=س م ۲۔ لائن ا ج آستین کی لمبائی ہے ۔ اب ا ب کے نیچے ر د کو اب کے متوازی کھینچیں اد = ب ر = 8س م ۔ ۳۔ لائن ا ب کے نصف میں ایک نشان س لگائیں۔ ۴۔ لائن د ج کے نصف میں ایک نشان ش لگائیں۔ ۵۔ س کو ش سے ملائیں۔ ۶۔ س کو ر سے ملائیں اور اسی طرح س کو د سے ملا دیں اور اب لائن س ر اور س د نصف پر نشان لگائیں ک اور گ لگائیں۔ ۷۔ آستین کی گولائی بنانے کے لیے س سے ایک لائن گولائی میں س ر کے نصف ک تک لائیں کہ اس کی گولائی 1.5س م ابھری ہوئی ہو۔ اب لائن کو ب د سے نیچے کی طرف بڑھا دیں۔ یہ گولائی ک د سے ایک سینٹی میٹر نیچے رکھتے ہوئے ر سے ملائیں۔ ۸۔ اسی طرح آستین کی دوسری گولائی ملائیں۔ ۹۔ آستین کے کف یا موری کے لیے نقطعہ ج سے ا اندر کی طرف نقطعہ ل اور د سے دائیں جانب ا اندر کی طرف م کے نقاط لیں۔ ’ل‘ کو ’ر‘ سے اور ’م‘ کو ’د‘ سے ترچھے خطوط کے ذریعے ملا دیں۔ ٭ شلوار کا ڈرافٹ بنانا شلوار دو طریقوں سے بنائی جاتی ہے۔ یعنی سادہ شلوار اور بیلٹ والی شلوار ۔ سادہ شلوار میں پائنچہ اور کندھے کل لمبائی کی برابر ہوتے ہیں۔ جبکہ بیلٹ والی شلوار کے لیے کل لمبائی میں سے بیلٹ کی لمبائی منفی کی جاتی ہے۔ اور باقی ناپ سے پائنچہ اور کندھے سادہ شلوار کی طرح ہی بنائے جاتے ہیں۔ سادہ شلوار کا ڈرافٹ دو حصوں میں تیار کیا جاتاہے۔ یعنی پانچے اور کندے۔ پانچے کی لمبائی =شلوار کی لمبائی 5+ س م نیفے کے لیے پانچے کی چوڑائی = پانچے کی درکار چوڑائی 2.5 س م کندے کی لمبائی=پانچہ کی لمبائی + میانی 5+س م کندے کی چوڑائی=پانچے کی کل چوڑائی سے 5سے7 س م بڑی ٭ سادہ شلوار کا معیاری ناپ لمبائی= 100س م 5+س م (نیفہ) میانی = 45س م (1/2لمبائی 5-س م ) پانچہ کی چوڑائی= 30س م (1/4لمبائی 5+س م ) ٭ ڈرافٹ بنانے کا طریقہ پائنچے: ۱۔ ایک عمودی لائن الف ج کھینچیں۔ الف ج = پائنچہ کی کل لمبائی 105=س م ۲۔ الف ’ج‘ سے ایک افقی لائن ب د کھینچیں۔ ب د =پائنچہ کی چوڑائی 30= س م ۳۔ الف ب ج د مستطیل کو مکمل کر لیں۔ ۴۔ الف ب س نیچے کی طرف نیفے سے لے کر 5س م پر نشان لگائیں۔ ۵۔ پائنچے کی اطراف کی سلائی کے لیے 1.2س م پر نشان لگائیں ۶۔ اس طرح پائنچے کا ڈرافٹ مکمل ہوجائے گا۔ ٭ کندے ۱۔ ایک افقی لائن الف ب کھینچیں الف ب 45=س م ۲۔ الف سے ایک عمودی لائن ج کھینچیں۔ الف ج =پائنچہ +میانی 5+س م (نیفہ کے لیے) 155=5+45+105س م ۳۔ الف ب ج د مستطیل کو مکمل کر لیں۔ ۴۔ الف سے 50س م نیچے نشان لگائیں الف ش = میانی +نیفہ ۵۔ اسی طرح د سے 50 س م اوپر نشان گائیں س الف س =میانی +نیفہ ۶۔ الف ج لائن پر ش سے 2.5س م دائیں طرف نشان ش لگائیں۔ ۷۔ ب د لگائیں پر س سے 2.5س م بائیں طرف نشان س لگائیں۔ ۸۔ س کو ش پر ترچھا ملا لیں۔ ۹۔ الف ب لائن پر 5 س م نیچے اور ج د لائن پر 5س م اوپر نشان لگائیں ۔ یہ نیفے کی سلائی کی لائن ہے۔ ۱۰۔ چاروں اطراف پر 2.5س م سلائی کے حق پر نشان لگائیں۔ دو کندوں کا ڈرافٹ مکمل ہوجائے گا۔ ٭ شلوار اور کرتے کی کٹائی Cutting of Shalwar and Shirt کرتے کی کٹائی سلائی سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کم قیمت کے کپڑوں پر سلائی سیکھی جائے اورا س کے لیے سوتی کپڑا سب سے بہتر رہتاہے ۔ سوتی کپڑے کو استعمال سے پہلے سکیڑنا ضروری ہے سکیڑنے کے لیے کپڑے کو پانی میں چند گھنٹوں کے لیے بھگو دیں بعد ازاں سکھا کر استری کر لیں۔ ۱۔ کرتے کے اگلے اور پچھلے ڈرافٹ کو دوہرے کپڑے کر رکھ کر پن لگائیں اور لگائے گئے نشانات پر کٹائی کر لیں۔ ۲۔ کرتے کی آستین کے ڈرافٹ کو دوہرے کپڑ ے پر رکھ کر کاٹ لیں۔ ۳۔ کرتے کی بغلی کے ڈرافٹ کر دوہرے کپڑے پر رکھ کا کاٹ لیں ۴۔ کرتے کی چونکہ چار کلیاں کاٹی جائیں گی۔ اس لیے کپڑے کو دوہر ا کر کے کلی کا خاکہ پن کر لیں اور نشان لگا کر کٹائی کر لیں۔ ۵۔ گلے کے اگلے حصہ کی مغذی کاٹنے کے لیے کپڑ ے کو دوہر اکر لیں ارواس پر اگلا درمیانی حصہ رکھیں اور گلے کی گولائی پر کپڑا کاٹ لیں۔ اب اس گولائی سے 2.5س م اندر کی طرف نشان لگا کر گولائی میں کاٹ لیں۔ اسی طریقے سے پچھلے حصے کی مغذی کاٹ لیں۔ ۶۔ کرتے کے الگ حصے پر بٹن ٹیپ بنانے کے لیے اگلے گلے کے درمیان میں سے 6س م دائیں طرف نشان لگا کر 20س م لمبائی میں کاٹیں اور آخری سرے پر دونوں طرف چھوٹا سا ٹک لگا لیں۔ ۷۔ مسلسل بٹن ٹیپ کے لیے 2پٹیاں کاٹیں جن میں سے ایک پٹی 4س م چوڑی اور 23 س م لمبی اور دوسری پٹی 7.5 س م چوڑی اور س م لمبی ہو۔ ٭ شلوار کی کٹائی عام سوتی کپڑے کا عرض 90س م ہوتا ہے۔ عرض کے مطابق کپڑے کو دوہرا کر کے استری کر لیں اس پر پائنچہ کا خاکہ پن لگا کرکاٹ لیں۔ اس طرح دو پائنچے بن جائیں گے۔ اب باقی کپڑے پر کندے کا خاکہ رکھ کر پن لگا لیں اور کٹائی کر لیں۔ ٹرے کور اور ٹی کوزی کور بنانا Prepatation of Tray Cover and Tea Cosy سلائی سیکھنے کے بعد گھریلو استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں مثلا کوزی کا غلاف ٹرے کا کور اور گڑیاو غیرہ بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان کو بنانے کے لیے زیادہ محنت بھی درکار نہیں ہوتی اور شوق و دلچسپی سے انہیں باآسانی بنا بھی سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف گھر کے خرچ میں کفایت ہو سکتی ہے۔ بلکہ ان چیزوں کو بوقت ضرورت فروخت کر کے اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور گھریلو مزید خوبصورت اور آرام دہ بنایا جاسکتا ہے۔ ٭ ٹی کوزی کا غلاف Tea-Cosy Cover ٹی کوزی باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیاء میں سے ایک مفید چیز ہے۔ چائے کو زیادہ دیر تک گرم رکھنے کے لیے ٹی کوزی کااستعمال کیا جاتاہے۔ ٹی کوزی روئی بھر کر یا فوم لگا کر بنائی جاتی ہے اور اس کے اوپر غلاف چڑھایا جاتا ہ تاکہ فوم یا روئی خراب نہ ہو۔ ٭ ٹی کوزی کے غلاف کے لیے کپڑے کا انتخاب ٹی کوزی چونکہ بہت زیادہ استعمال میں آتی ہے اس لیے اس کا غلاف جلد میلا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غلاف بنانے کے لیے ایسے کپڑے کا انتخاب کیاجائے جو پائیدار ہو آسانی سے دھل سکے اور اس کا رنگ زیادہ دھلائی سے خراب نہ ہو۔ نیز اس کا رنگ اور ڈیزائن ٹرائی سیٹ یا ٹرے کور کے رنگ اور ڈیزائن سے مطابقت رکھتاہو۔ عام استعمال کے لیے چھوٹے چھوٹے پرنٹ والا غلاف مناسب رہتا ہے جب کہ خاص خاص مواقع کے لیے سادہ کپڑے پر خوبصورت کڑھائی مناسب رہتی ہے۔ ٭ بنانے کا طریقہ ۱۔ جس ٹی کوزی کا غلاف بنانا ہو اس کے نچلے حصے اور اوپر کی گولائی ناپ لیں۔ ٹی کوزی کا خاکہ آڈھے حصے کا بنے گا اور کٹائی میں کپڑا دوہرا رکھنے سے سائز مکمل ہو جائے گا۔ مثلاً اگر ٹی کوزی 40 س م لمبی ہو اور 32 س م چوڑی ہو تو اس کا خاکہ اس طریقے سے بنے گا۔ الف ب 16=س م الف ج 40= س م الف ب ج د مستطیل کو مکمل کر لیں اور خاکے کے مطابق اس کی گولائی کر لیں کناروں اوراطراف کی سلائی کے لیے ۱ س م اور نچلے حصے کی ترپائی کے لیے ۳ س م سلائی کا حق رکھ کر نشان لگا لیں اور ڈرافٹ کو کاٹ لیں۔ ۲۔ کپڑے کو لمبائی کے رخ دوہرا کر لیں۔ اس پر ڈرافٹ کو پن کر لیں اور ٹریس کر کے کپڑے کو کاٹ لیں۔ سلائی کے حق پر سلائی کر لیں۔ گولائی والے حصوں پر ٹک لگا لیں۔ اور نچلے حصے کو موڑ کر ترپائی کر لیں۔ ۳۔ اگر ٹی کوزی پر کڑھائی کرنا ہو تو سلائی بعد میں کرنا چاہیے پہلے کڑھائی مکمل کر لینا چاہیے۔ ٭ ٹرے کور بنانا Tray Cover ٹرے کور ٹرے کے اوپر بچھایا جاتا ہے اور اس کا استعمال بھی گھروں میں عام ہوتا ہے۔ ٭ ٹرے کور کے لیے کپڑے کا انتخاب ٹرے کور بنانے کے لیے ایسے کپڑ ے کا انتخاب کیا جائے جو ذرا وزنی اور پائیدار ہو اور آسانی سے دھل سکے اور زیادہ دھلائی سے اس کا رنگ خراب نہ ہو۔ ٹرے کور کے لیے عام طور پر سوتی کپڑے کا استعمال موزوں رہتا ہے۔ کیونکہ یہ ٹرے پر مضبوطی سے جما رہتا ہے۔ عام استعمال کے لیے چھوٹے چھوٹے پرنٹ والے کپڑے کا کور موزوں رہتاہے۔ جبکہ خاص خاص مواقع کے لیے سادہ کپڑے پر خوبصورت کڑھائی کی جاتی ہے۔ ٭ بنانے کا طریقہ ۱۔ جس ٹرے کا کور بنانا ہو اس کی اندرونی لمبائی اور چوڑائی ناپ لیںَ ٹرے کور چونکہ ٹرے کے ناپ کے مطابق بنا ہوا ہی مناسب رہتاہے اس لیے اس کا ناپ بہت احتیاط سے لینا چاہیے۔ تاکہ یہ بڑا یا چھوٹا نہ رہ جائے۔ ۲۔ کپڑ ے پر کاٹتے وقت چاروں اطراف پر 2.5س م سلائی کا حق رکھ کر کٹائی کر لیں۔ ۳۔ سلائی کے حق پر کپڑے کو الٹی طرف موڑ کر ترپائی کر لیں۔ ۴۔ ترپائی کرنے کے بعد اس کو استری کر لیں۔ ۵۔ اگر اس پر کڑھائی کرنا ہو تو مناسب نمونے کا انتخاب کر کے ٹرے کور کو چاروں طرف یا مقابل کے کونوں پر خوشنما رنگوں کے دھاگے استعمال کر کے کڑھائی کر لیں۔ ٭ کپڑے کا رنگنا Introducing Tie and Dye Technique کپڑے کی بناوٹ کے بعد اہم ترین پہلو ان کی رنگت یا ڈیزائن کا ہوتا ہے۔ جس سے اس کی خوشنمائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کپڑوں کی خریداری کا زیادہ تر انحصار بھی اس کے نت نئے رنگ اور ڈیزائنوں پر ہوتا ہے۔ رنگ اگر کپـڑے پر اس کی پائیدار ی تک قائم اور ترو تازہ رہے تو اس سے کپڑے کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو تا ہے۔ اس کے برعکس کچے رنگوں سے عمدہ ترین کپڑے کی شان و شوکت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ کپڑوں کے رنگ مختلف طریقوںسے نکلتے ہیں۔ ۱۔ رسنے سے Bleeding پانی میں دھوتے وقت رنگ نہیںنکلتا لیکن اگر کپڑا پانی میں پڑا رہنے دیا جائے تو رنگ اس میں سے رس رس کر نکلتاہے۔ ۲۔ رگڑ سے Crocking بعض اوقات کپڑا پہننے سے اس کا رنگ جسم کے ساتھ رگڑ کھا کر اترتا رہتا ہے۔ ۳۔ منتقلی سے Migration مختلف رنگوں کے پرنٹ یا چھاپ دار کپڑوں کے رنگ گیلا ہونے پر ایک دوسرے پر چڑھ جاتے ہیں۔ اور منتقل ہو جاتے ہیں۔ رنگوںمیںبخارات پسینے دھوپ یا روشنی کی وجہ سے جو تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کی اصل وجہ کیمیای عمل ہوتا ہے ۔ مثلاً پسینے سے تیزابی یا اساسی عمل رنگ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ روشنی رنگ کے ساتھ عمل تکسید (Oxidation) کاباعث بنتی ہے۔ جو رنگوں کے خراب ہونے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات کپڑے کے لیے بھی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ ان عملوں سے بذات خود رنگ سوتی اوررے اون کے کپڑوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثلاً رنگ میں موجود سلفر یا گندھک جب پسینے یا نمی کے ساتھ ملتی ہیں تو ان سے گندھک کا تیزاب بن جاتا ہے۔ جو سیلولوز کے کپڑے کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتا ہے۔ رنگوں کی اقسام کپڑوں کے رنگ نہایت اہم ہوتے ہیں شروع میں استعمال ہونے والے رنگ نباتات اور کپڑوں وغیرہ سے حاصل کیے جاتے تھے لیکن آج کل رنگ کیمیاوی طریقے سے بھی حاصل کیے جاتے ہیں۔ او راس طرح زیادہ تعداد میں اور ہر طرح کا حسب خواہش رنگ حاصل کیا جاتا ہے رنگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ۱۔ غیر جاذب رنگ Pigments یہ ایسا رنگین مادہ ہوتاہے جو ناحل پذیر ہوتا ہے۔ اور اس سے کسی چمٹنے والی خاصیت (Boiding Agent) کی کیمیا کے ساتھ ملا کر کپڑے کی سطح پر لگایا جاتا ہے۔ جو نہایت باریک سی تہہ بنا کر کپڑ؁ کو رنگدار بناتا ہے اس کا استعمال آسان اور کفایت شعاری پر مبنی ہے۔ اور کوئی بھی رنگ کسی بھی طرح کے کپڑے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ عمل مشینی Mechanical یا ہاتھ سے بھی ہوتاہے۔ لیکن ان کے استعمال سے کپڑے میں اکڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ رنگ رگڑ سے اتر نے گھسنے اور ٹوٹنے لگتے ہیں۔ ان رنگین مادوں کو بعض اوقات کاٹنے کے دوران کیمیائی محللول میں ہی شامل کر کے دھاگے کو رنگ دیا جاتا ہے۔ ۲۔ جاذب رنگ Dye رنگ کی اصطلاح سے مراد ایسے مرکب ہیں جو کپڑوں اور ریشوں پر کسی حد تک اس کے رنگ کے طور پر استقلال سے قائم رہے کوئی مرکب یا مادہ محض رنگدار ہونے کی بنا پر کپڑوں کا رنگ نہیں کہلا سکتا ہے بلکہ کپڑوں کے رنگوں میں خاصیت لازمی ہوتی ہے۔ کہ وہ کسی دوسر ے ماید یا خاص طور پر کپڑوں کو اپنا رنگ اس طرح دے دے کہ وہ کپڑے کے ساتھ مستقل طور پر اس کا رنگ بن کر قائم رہے اور وہ کپڑے جو باآسانی رنگے جا سکتے ہیں ان میں جاذب ہونے کی خاصیت کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ وہ رنگ جذب کر سکیں۔ دوسرے یہ کہ ان رنگوں کو اپنے اندر محفوظ اور مقید کرنے کی خاصیت اور رغبت ہونی چاہیے۔ ایسے تمام مرکب جو رنگ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ان میں کروموفور (Chromophore) گروپ موجود ہوتا ہے جو رنگ بخشتاہے اور خاص کپڑے میں خاص رنگت پیدا کرنے کی خاصیت اوگزوکروم (Ouxochrome) گروپ کی موجودکی بنا پر ہوتی ہے۔ ایک مفید اور عمدہ قسم کے رنگ کے لیے پکاہ تیز اور مستحکم ہونا ضروری ہے جو دھوپ کی روشنی میں پیش سے جلد ماند نہ پڑ سکے اس کے لیے کپڑوں کے اندر زیادہ سے زیادہ جذب ہونا ضروری ہے کپڑوں کو رنگنا مندرجہ ذیل اقدامات پر مشتمل ہے۔ ۱۔ کپڑے کو گیلا کرنا یا بھگونا۔ ۲۔ رنگ میں تیزاب یا کوئی دوسری استقلامی خاصیت کا مادہ شامل کرنا تاکہ رنگ میں اس خاص کپڑے کے لیے رغبت میں اضافہ ہو سکے۔ ۳۔ رنگ کپڑے پر منتقل کرنے کے لیے کپڑا اس میں کچھ دیر ڈبوئے رکھنا زیادہ تر کپڑے کو کھولتے ہوئے رنگدار محلول میں کچھ دیر ابالا جاتاہے۔ مخصوص قسم کے ریشوں کے لیے اگر تپش کی احتیاط درکار ہو تو انہیں ململ کے تھیلے میں ڈال کر ابالا جاتاہے اور پھر ٹھنڈے یا نیم گرم رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٭ رنگنے کا عمل اور طریقے رنگنے کا عمل اس ماحول پر مشتمل ہوتا ہے کہ جس میں رنگ کو ریشوں پر پابند کیا جاتاہے اور اس کے لیے گرم پانی یا بھاپ میں رنگ کو حل کر کے اس میں کپڑا یا ریشے ڈبوئے جاتے ہیں رنگنے کا عمل ہاتھوں اور مشینوں سے بھی کیا جاتا ہے۔ جس میں سادہ سے لے کر پیچیدہ تک سب عمل شامل ہیں۔ جو ریشے سے کپڑا بنانے تک کے دوران جتنی حالتیں بدلتی ہیں انہیں ان میں سے کسی بھی حالت پر رنگا جا سکتا ہے۔ رنگ کے مختلف عمل مندرجہ ذیل ہیں: ۱ ریشے رنگنا (Stocle Dyeing) ۲۔ دھاگے رنگنا (Yarn Dyeing) ۳۔ ملے جلے ریشوں کا کپڑا رنگنا (Cross Dyeing) ٭ کپڑے کے پرنٹ بنانا کپڑا رنگن کے لیے دو طرح کے رنگ استعمال ہوتے ہیں: ٭ ناحل پذیر رنگ Pigment جسے کپڑا جذب نہیں کر سکتا بلکہ اسے کسی طریقے سے صرف کپڑے کی سطح پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ کپڑے کے رنگ کے طور پر اس کی سطح پرچپک اور چمٹ جائے ان رنگوں سے کپڑے پر ڈیزائن اور پرنٹ بنانے کے لیے مندرجہ ذی طریقے ہیں۔ ۱۔ چھاپے میں پرنٹ بنانا (Blocke Print) ۲۔ رولر سے چھپائی (Ruller Printing) ۳۔ سٹینسل سے ڈیزائن بنانا (Stensil Printing) کیمرے سے پرنٹ بنانا (Screen Printing) ۲۔ رنگنے کے ذریعے کپڑے پرنٹ کرنا کپڑوں کو محض سادہ رنگ میں ڈبو دینے سے ہی رنگ نہیں دیا جاتا بلکہ رنگ میں ڈبونے سے پہلے اگر کوئی مخصوص طریقہ اور عمل استعمال کیا جائے اور پھر رنگ میں ڈبویا جائے تو اس سے بڑے خوبصورت ڈیزائن تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔ یہ طریقے مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ باطیک (Batik) ۲۔ چتری کا کام (Tie and Dye) ۱۔ باطیک Batik اس طریقے سے ڈیزائن ہاتھ سے بنائے جاتے ہیں لیکن اس میں ایک انوکھی بات یہ ہے کہ ڈیزائن موم سے بنائے جاتے ہیں۔ موم کو اچھی طرح پگھلا کر گرم کیا جاتا ہے کپڑے کو کاغذ پر پھیلا کر ڈیزائن کی صورت میں بمطاببق کسی منتخب ڈیزائن کے کپڑے پر برش لگایا جاتا ہے۔ گرم ہونے کی وجہ سے موم کپڑے کے اندر تک رس جاتی ہے۔ جب ٹھنڈی ہو کر موم جم جاتی ہے تو کپڑے کو ہلکا ہلکا ہاتھوں میں دبا کر رنگدار محلول میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ جس سے بغیر موم لگے حصوں پر رنگ چڑھ جاتاہے اور موم لگے حصول میں پانی نہ جا سکنے کی وجہ سے وہ کپڑا اپنی اصلی رنگت برقرار رکھتا ہے۔ البتہ دبانے سے جہاں جہاں موم میں دڑاڑیں پڑ جاتی ہیں اس میں رنگ پہنچ کر باریک شریانوں کی صورت میں پھیل جاتا ہے۔ جس کا ا س قدر خوب صورت اور نازک تاثر سوائے باطیک کے کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوتا۔ ٭ چتری کا کام Tie and Dye اس میں کپڑے کو کسی خاص جگہ سے دھاگہ لپیٹ کر اور اچھی طرح کس کر باندھ دیا جاتا ہے دھاگہ چنری سے وہ حصہ بنا رنگے سفید یا کپڑے کی اصلی رنگت میں رہ جاتا ہے۔ جو دوسرے رنگ میں سے ابھرتا ہوا نہایت دیدہ زیب دکھائی دیتا ہے۔ یہ کام ہمارے دیہاتوں میں اس قدر عام ہے کہ چنری کے کام سے پرنت شدہ کپڑے کا استعمال کہیںنہ کہیں ضرور دھائی دیتا ہے۔ عموماً دوپٹوں اور پتلی اوڑھنے والی چادروں پر اس طریقے سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ چاول مکئی چنے یا کوئی چھوٹی چھوٹی بجری وغیرہ کے دانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جن کا ہر دانہ الگ الگ کپڑ ے میں تھوٹے فاصلوں پر موٹے دھاگوں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ دھاگے کو اتنے بل ضرور دینے چاہئیں کہ رنگ اس میں سے گزر کر کپڑے تک نہ پہنچ سکے۔ جب سارے کپڑے پر یہ دانے بندھ جاتے ہیں تو انہیں رنگین محلول میں ڈبو دیا جاتاہے۔ تھوڑی دیر بعد نکال کر اسی حالت میں سکھایا جاتا ہے۔ جب اچھی طرح کپڑا سوکھ جائے تو اس کے دھاگے کھولے اتیہیں جوں جوں دھاگے کھلتے جاتے ہیں کپڑے پر خوشنما اور سادہ ڈیزائن نمودار ہوتا جاتا ہے۔ سارا کپڑا ایک رنگ میں ہوتا ہے جس میں سفید یا کپڑے کے باندھنے سے پہلے رھگ کے گول یا چورس چھلے ابھرتے دکھائی دیتے ہیں یہ ڈیزائن مختلف رنگوں مختلف سائزوں کے چھلوں میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔ دانے اس لیے باندھے جاتے ہیں کہ چھلوں کا سائز یکساں رہے۔ ورنہ ان کے بغیر بھی چنری کا کام ہو سکتا ہے۔ آج کل اس کام سے خوب صورت رنگوں میں رنگے پردے دوپٹے قمیض ساڑھی وغیرہ دستیاب ہیں۔ اس کام میں مزید تنوع پیدا کرنے کے لیے کپڑوں میں بارڈر لہریاں چھوٹے بڑے چھلے مختلف رنگوں میں سے ایک رنگ کے چھلے وغیرہ کے علاوہ مختلف ڈیزائن تیار کئے جا سکتے ہیں۔ لہریاں یا پٹیاں ڈالنے کے لیے بعض اوقات کپڑے کو تہہ لگا کر باندھا جاتا ہے اور مندرجہ بالا طریقے سے رنگا جاتا ہے۔ ٭ کپڑے کے کھلونے بنانا Making of Stuffed Toys کپڑے کی گڑیاں بنانا کو ئی نیا فن نہیں بلکہ یہ گڑیاں آج سے سو سال پہلے ہماری دادیوں اور نانیوں کے زمانے میں بھی بنائی جاتی تھیں۔ جبکہ بچوں کے لیے دوسری قسم کے کھلونے اتنی تعداد میں مہیا نہیں تھے۔ مائیں گھر کے بچے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑوں کو جمع کر کے اپنے ہاتھ سے بچوں کے لیے گڑیاں بناتی تھیں۔ تاکہ لڑکیوں میں گھر گرہستی کا شوق بچپن ہی سے پرورش پائے اور گڑیوں سے کھیلتے ہوئے ان کے چھوٹے چھوٹے کپڑ ے سی کر اوردوسرے کام کر کے ان میں کام کاج کرنے کا شوق پیدا ہو اور اس کے علاوہ کپڑے کے کھلونے بنانے کا فن بھی دراصل گڑیاں بنانے کے فن کی ہی ایک کڑی ہے بنیادی طور پر کھلونے اور گڑیاں بنانے کا فن اور طریقہ ایک ہی ہے۔ ان گڑیوں اور کھلونوں کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ گھر کے بچے کھچے کپڑے نئی اور پرانی اونیں اس کے علاوہ پرانے سوئٹر سکاف دستانے جرابیں اور دوسرے چھوٹے بیکار اونی سوتی ریشمی کپڑوں کو مصرف میں لانے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر کوئی خاص قسم کا کھلونا یا گڑہ بنانے کے لیے کسی خاص قسم کے کپڑے کی ضرورت ہو تو لنڈا بازار سے بھ یسستے داموں خریدا جا سکتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے کیا ہوا کام اور اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے کھلونے نہ سرف بچوں کے لیے خوشی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ بنانے والے کے لیے بھی تسکین بخشتے ہیں کپڑو ں یااون کے بنے ہوئے نرم نرم کھلونے چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی دیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے بچے کو جسمانی طور پرکسی قسم کا نقصان پہنچنے یا چوٹ لگنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ یہ کھلونے بنانے کے لیے کسی خاص مہارت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑی سی سلائی بنائی اور کروشیہ استعمال کرنے سے بھی اچھے سے اچھے کھلونے بنائے جا سکتے ہیں۔ کھلونے بنانے کے لیے اگر بچوں کو بھی اپنے ساتھ اس کام میں شامل کر لیا جائے تو بہت اچھا ہے ان سے تصویریں بنوا کر ان کی سوچ اور رجحان کے مطابق کھلونے بنائے جا سکتے ہیں یا چھوٹے چھوٹے کاموں میں ان کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ ا س طرح جو کھلونے تیار کیے جاتے ہیں وہ ان بچوں کے لیے زیادہ فخر اور خوشی کا باعث ہوں گے۔ ٭ کھلونے اور گڑیاں بنانے کے لیے ضروری ہدایات اشیاء کھلونے بنانے کے لیے بچے ہوئے کپڑے نئی اور پرانی اون پرانے دستانے اور جرابیں وغیرہ آنکھیں بنانے کے لیے بٹن یا موتی دھاتے قینچی ؤبنائی والی سلائی روئی بھرنے کے لیے بیلس اور رنگ وغیرہ۔ ٭ بنیادی خاکے خاکہ اتارنا اور کپڑے کے اوپر چھاپنا ضروری اہمیت کا حامل ہے۔ عام طور پر جو خاکے کتابوں میں کھلونے بنانے کے لیے موجود ہوتے ہیں ان کو بڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر اگرخاکہ ٹھیک سائز کا دیا گیا ہو تو پھرہ یممکن ہے کہ آپ اس سے بھی بڑا کھلونا یا گڑیا بنانا چاہتے ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو خاکہ بڑا کرنے صحیح طریقہ آتا ہو۔ خاکہ بڑا کرنے کا طریقہ جو خاکہ بڑا کرنا مقصود ہو ا س کو پہلے کاغذ پر چھاپ لیں اب اس خاکے کے اوپر ایک ہی فاصلہ رکھتے ہوئے اس طرح لکیریں کھینچیں کہ شکل نمبر ۱ میں دیے ہوئے طریقے کے مطابق چوکور خانے بن جائیں اور اگر تصویر یا خاکے کے سائز کو دوگنا کرنا ہو تو ایک کاغذ اور لے کر اس پر بھی اسی طرح چوکور خانے بنائیں اور لیکن خانوں کا سائز دوتنا رکھیں یعنی اگر پہلا چوکور ایک سینٹی میٹر کا ہے تو دوسرے کاغذ پر دو دو سینٹی میٹر چوکور خانے بنائیں اور اس طرح جو نیا خاکہ تیار ہو گا وہ پہلے والے خاکے سے دوگنا ہو گا۔ اگر خانے کو اس سے بھی زیادہ بڑا یا چھوٹا کرنا ہو تو اس مناسبت سے چوکور خانتوں کا سائز چار یا پانچ گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ اب پہلے خاکے کو دیکھتے ہوئے دوسرا خاکہ بنانا شروع کر دیں اور لکیریں اس طرح کھینچیں کہ جس طرح پہلے خاکے میں تھیں تاکہ خود بخود دوگنا یا چار گنا بڑا ہو جائے گا خاکہ بڑا کرنے اور اس کے لیے ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ اسے بالکل صحیح طریقے پر اتارا جائے اور پہلے خاکے پر بنے ہوئے تمام نشان دوسرے خاکے پر بنانے نہایت اہم اور ضروری ہیں۔ اگر ایک خاکے کو ایک سے زیادہ دفعہ استعمال کرنا ہو تو اسے پتلے گنے کے اوپر اتار لیں اور باہر والی لکیر کاٹ لیں اسی طرح باقی کے سارے خاکوں کو بھی پتلے گنے بنا کر رکھ لیں۔ پھر کھلونے کے خاکوں کو الگ الگ برے لفافے لے کر ان میں رکھیں۔ اور پھر لفافے پر کھلونے کا نام خاکوں کے اعداد وغیرہ صاف طورپر لکھ کر رکھیں۔ ٭ کانٹے کا طریقہ کاٹنے سے پہلے پھر خاکے کو بغو ر دیکھیں اور ہدایات اچھی طرح پڑھیں کہ خاکے کے اوپر جو بھی نشانات لگائے گئے ہوں ان کو بھی اچھی طرح سمجھیں اور اس بات کا خٰال رکھیں کہ کون سے خاکے کو کتنی مرتبہ کاٹنے کی ضرورت ہے اگر خاکے تہہ پر کاٹنا ہو تو کپڑے کی سیدھی طرف اندر کر کے خاکے کو کاٹیں اور اگر کپڑا سیدھا ہی کاٹنا ہو تو اس پر لگے ہوئے نشانات کو الٹی طرف چھاپیں لیکن اس سے پہلے کہ کپڑے پر خاکہ چھاپی اس پر لگے ہوئے تیروں کے نشانات کو غور سے دیکھ لیں اور اس بات کا دھیا رکھیں کہ نشانات کا رخ کپڑے کی کنی کے مطابق ہو اور کپڑا اگر یر والا ہے تو یہ نشان کے مطابق ہوں۔ سب سے پہلے کپڑا بچھا کا اس پرخاکوں کو مناسب ترتیب سے اس طرح رکھیں کہ ان کے درمیان فاصلہ مناسب ہو اور اگر خاکوں میں سلائی کا حق نہیں رکھا گیا تو وہ بھی چھوڑ دیں اور اب ان خاکوں کو بہت احتیاط کے ساتھ کپڑے پر چھاپ کر تیز قینچی کے ساتھ کاٹ لیں۔ سلائی کرنا کان ٹانگ اوربازو وغیرہ کی جگہ پر مختلف رنگ کے دھاگوں سے نشان لگائیں جو حصہ بھرائی کے لیے کھلا چھوڑنا ہے اس کے کناروں پر بھی سلائی کرنے سے پہلے نشان لگا لینے چاہئیں۔ حصوں پر گولائی زیادہ ہو۔ ان پر مشین سے بھی سلائی کی جا سکتی ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ جگہیں ہاتھ کے ساتھ ہی لی جائیں جو ٹکڑے آپس میں جوڑے ہوئے ہوں اور ایسے کپڑے ے ہوں جن کے کناروں سے دھاگے نہ نکلیں ان کو ساتھ ساتھ رکھ کر چھوٹے ٹانکوں میں ہاتھ سے بخہ کریں۔ جو نشان مختلف ٹکڑوں پر لگائے گئے ہوں ان کو پہلے آپس میں چلائیں اورپھر ان پر سلائی شروع کریں جہاں پر بھی سلائیی میں کوئی موڑ ہو اس کو بہت احتیاط کے ساتھ بنائیں تاکہ اس جگہ پر چنٹ نہ پڑے کھلونے کے مختلف حصوں کو سینے کے بعد الگ الگ ان میں روئی بھر لیں اور پھر باہر سے س دیں اس کے سینے کے لیے چھوٹاٹانکا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ مضبوط ہونا چاہیے اور اس طرح سب چیزیں مضبوطی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہیں دوسرے اگر اس ٹانکے کو کس کس باندھ دیا جائے تو یہ نظر بھی نہیں آتے اور اس طرح ٹانکے سینے سے کپڑے کے کیے ہوئے کنارے بھی خود بخود اندر کو مڑ جاتے ہیں۔ تاکہ ان سے دھاگے نہ نکلیں۔ ٭ کھلونوں اور گڑیوں کے بھرنے کا طریقہ کھلونوں اور گڑیوں میں بھرنے کے لیے مختلف چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔ مثلاً روئی بچے کھچے کپڑوں کے ٹکڑے اگر کھلونا اچھا بنانا ہو اور سلا ہوا ہو لیکن اس کی بھرائی ٹھیک سے نہ کی جائے تو اس کی شکل بالکل بدل کر خراب ہو جاتی ہے۔ بھرائی کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر حصے میں بھرائی کرتے وقت اس بات کا خاص خیا ل رکھیں کہ روئی تھوڑی تھوڑی کر کے اندر ڈالیں اور سلائی یا پنسل کی مدد سے ساتھ ساتھ اس کے اندر دبائیں ٹانگیں بازو اور سر کو پہلے بھریں اور سب سے آخر یں ڈھر کو بھریں بھرائی کرنے کے بعد سارے اعضاء کو سیدھی ٹانکہ کی مدد سے ایک دوسرے کے ساتھ جو ڑ دیں۔ اگر آپ کھلونوں کو ذرہ نرم بنانا چاہتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان میں روئی کی بھرائی زیادہ دبا دبا کر نہ کی جائے اگر یہ ضرورت سے زیادہ روئی کے ساتھ بھر دیے جائیں تو بہت سخت بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ بچہ اتنے سخت کھلونوں سے کھیلنا پسند نہ کرے۔ ٭ مختلف عمر کے بچوں کے لیے کھلونوں کا انتخاب ہر عمر کے بچوں کی ضروریات اور شوق مختلف ہوتے ہیں کھلونے اس بات کو مخلوط خاطر رکھ کر بنانے چاہئیں کہ یہ کس عمر کے بچوں کے لیے ہیں ان کی ضروریات یا شوق کس قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ٭ دو سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے اس عمر کے بچوں کو ایسے کھلونے دینے چاہئیں جو نرم ہوں اور بچے کو جسمانی طور پر کوئی نقصان نہ پہنچائیں مثلاً آنکھوں پر بٹن یا موتی لگانے کی بجائے کڑھائی کی جائے یا کپڑا لگایا جائے اگر گڑ یا کے بال بنانے ہوں تو ایسے ہونے چاہئیں کہ بچہ ہاتھ میں لے کر آسانی سے اکھیڑ نہ سکے۔ کھلونوں کے رنگ زیادہ شوخ ہوں تاکہ بچہ ان کی طرف متوجہ ہو اور سائز بھی ایسا کہ بچہ آسانی کے ساتھ ہاتھ میں کھلونے لے کر کھیل سکے کپڑے جو کھلونوں اور گڑیوں کے لیے استعمال کیے جائیں ان کا رنگ پکا ہونا چاہیے کیوکنہ بچے ان کو منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کھلونے ایسے ہوں جو بآسانی دھوئے جا سکیں کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو اکثر کھلونے گندے ہونے کے باعث بچوں کے لیے بہت سی بیماریوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ ٭ دو سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے اس عمر کے بچوں کے لیے کسی بھی سائز کے کھلونے بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن جو گڑیاں کھلونا بھی بنایا جائے اس میں زیادہ سے زیادہ تفصیلات ہونی چاہئیں کیونکہ اس عمر کر بچہ ہر چیز کا بغور جائزہ لیتا ہے اور نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں ہر نئی بات سیکھی ہوئیی بات اس کے دماغ پر نقش ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گڑیوں اور کھلونوں کی سب تفصیلات قدرت کے قریب تر ہونی چاہئیں اور رنگوں کا انتخاب بھی صحیح کرنا چاہیے۔ ٭ پانچ سال سے بڑی عمر کے بچوں کے لیے اس عمر میں بچہ کافی سمجھ دار ہو چکا ہوتاہے۔ اور چاہتا ہے کہ وہ ہر کام میں خود حصہ لے اس لیے جو بھی کھلونا اس کے لیے بنایا جائے اس میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے بچے کا مشورہ بھی شامل کر لیں مثلاً کھلونے کی قسم کپڑوں کا رنگ وغیرہ تاکہ بچے کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو اور اس میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔ مختلف قسم کی گڑیاں جو کہ روز مرہ زندگی کے مختلف پہلوئوں کی نمائندگی کرتی ہیں ایک ہی قسم کے کھلونے مثلاً بھالو خرگوش وغیرہ کا پورا خاندان یعنی ماں با پ اور بچے تک تاکہ کھیل کھیل میں بچہ اپنے آپ کو بحقیقت ایک خاندان کے مرد کے پہچان سکے۔ ایسے کھلونے جن سے کھیلتے وقت وہ خود بھی ان کا حصہ ہو مثلا ً انگلیوں پر چڑھانے والی پتلیاں Puppetsوغیرہ۔ ٭ ہر عمر کے بچوں کے لیے کچھ کھلونے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ہر عمر کے بچوں کے لیے مناسب اور تقریباً ہر عمر کے بچے ان کو لے کر خوش ہوتے ہیں یہ وہ گدی نما کھلونے ہیںجو کہ کھلونوں اور تکیوں دونوں کے طور پر کام دے سکتے ہیں ان سے بچوں کے کمرے میں بھی سجائے جا سکتے ہیں اور بچے رات کو ان کو لے کر سو بھی سکتے ہیں جس کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہو گا کہ ان کو پاس رکھنے سے بچے میں احساس تنہائی کم ہو جائے گا۔ ٭ گڑیوں اور کھلونوں سے نفع کمانا کھلونے اور گڑیاں گھر میں بنانے سے گھر کے فالتو کپڑوں کے ٹکڑے اونی اور چھوٹے بڑے سب کپڑے استعمال ہو جاتے ہیں۔ اور ان پر کوئی خاص لاگت بھی نہیں آتی یہ چند فالتو وقت میں یا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر بھی آرام سیبنائی جا سکتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تو گا کہ آپ کو اپنے بچوں کے لیے زیادہ کھلونے بازار سے نہیں لینے پڑیں گے۔ جس کی وجہ سے گھر کے بجٹ میں کافی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کھلونے اور گڑیاں آمدنی بڑھانے کا بھی ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں اگر محنت سے اچھے اور خوبصورت کھلونے اور گڑیاں بنائی جائیں تو یہ بازار میں بھی اچھے داموں فروخت ہو سکتی ہیں۔ یہ کھلونے اور گڑیاں بچوں کو سالگرہ یا کسی اور موقع پر ان کو تحفے کے طور پر بھی دیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ پسے جو کہ گھر کے بجٹ پر ایک گراں بار ہو سکتے ہیں ان کی آسانی سے بچت کی جا سکتی ہے۔ اور گڑیوں کا سٹال بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ کھلونے اور گڑیاں بنانا نہ صرف گھر کے فالتو وقت گزارنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے بلکہ ان کو خواتین کے کلبوں اور خواتین کی دوسری تنظیموں میں بھی باقاعدہ تربیتی پروگراموں کے تحت سکھایا جا سکتا ہے۔ سکولوں میں دستکاری کے اوقات میں بچوں کو یہ کھلونے اور گڑیاں بنانے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ ہسپتالوں میں ایسے مریض جن کو مصروف رکھنے کی ضرورت ہو ان کے لیے بھی یہ وقت گزارنے کا ایک اچھا ذریعہ اور موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ گڑیوں کے بالوں کی کئی اقسام ہیں اور ان کے بنانے کا انداز بھی مختلف ہے البتہ گڑیوں کی مناسبت سے انہیں بنانا چاہیے گڑیا نوجوان لڑک ہے یا بچی یا عورت ہے چھوٹی بچی کے بال لمبے ہونے چاہئیں بڑی اور بالغ گڑیا کے بال اپنے تصورات کے مطابق بنائیں وول نٹنگ یا رن اسٹرپ اور ایمبرائڈری تھریڈ سے بالوں کو بنانے کے علاوہ بنے بنائے بال بھی خرید سکتے ہیں۔ بازار میں اس حوالے سے آپ کو کئی رنگا رنگ اشیا دستیاب ہو سکیں گی جو گڑیوں کو سجانے اورسنوارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بالوں کی بناوٹ کے لیے یارن بہت موزوں ہوتا ہے۔ آپ چاہیں تو اونی دھاگہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ انہیں گوندھنا اور ان کی چٹیا بنانا آسان ہوتاہے۔ اور بھی کئی طریقوں سے ان کی آرائش کی جاسکتی ہے۔ جس اونی دھاگوں کی فٹنگ اچھی نہیں ہوتی ہے ان سے گھنگھرے بال بنانا آسان نہیں ہوتا ہے انہیں کھلا رکھ کر ایک ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ان پر رنگین ربن لگا کر مزید خوبصورت بنایا جا سکتا ہے ان کی مدد سے پرانے طرز کی گڑیوں کو بھی نیا انداز عطا کیا جا سکتا ہے۔ ٭ اپ سویٹ سٹائل اس سٹائل کے لیے آپ کو ایسے ٹیپ کی ضرورت ہے جس کی لمبائی ۱۴ انچ ہو اور چوڑائی ایک سینٹی میٹر ہو دھاگہ اپنی پسند کا استعمال کریں جس کی لمبائی ۹ انچ ہو دھاگوں کو ٹیپ سے گائیے ٹیپ کے دونوں کناروں پر مشین سے دھاگہ سمیت سلائی کر لیں۔ اس جھالر کو پن کی مد د سے گڑھا کے سر پر لگائیں اور ایسا کرنے کے بعد گڑیا کو الٹا کر کے دیکھیں کہ بالوں کی لمبائی یکساں ہے یا نہیں۔ اگر چھوٹے بڑے ہوں تو انہیں برابر کاٹ لیٰں پن نکالنے سے قبل جھالر کو سی لیں اوپر کے بالوں کو یکساں کر کے دھاگے سے ہی سختی سے باندھ لیں اور اس کے بعد اس پر ایک رنگین ربن یا کپڑے کی بو لگا دیں جو ڈریس سے صحیح کرتی ہو۔ چوٹی اور گچھا اٹھارہ انچ کی لمبائی میں یارن کاٹ لیں اوران کی تعداد اتنی ہو جائے کہ گڑیا کا سر آسانی سے ڈھک جائے تو ان کے درمیان میںٹیپ رکھ کر انہیں قریب قریب چپکا لیں اس کے بعد انہیں اسٹیج کر لیں۔ بالوں کو اس طرح سر کے پیچھے کی طرف پھیلا دیں کہ یہ سر کو ڈھک لیں۔ بالوں کو ایک اور جگہ رکھنے کے لیے بیگ اسٹیج کر لیں۔ اب پیچھے سے بالوں کو یکساں تعداد میں کانوںکی طرف لے آئیں اور چوٹی بنانا ہو تو چوٹی بنا لیں اور اگر گچھا بنانا ہو تو گچھا بنا لیں۔ متفرقات نائیڈہیئر کسی ہلکے پھلکے کپڑے کو پٹی کی شکل میں پھاڑ لیں اور پٹی کی لمبائی چار انچ اور چوڑائی 3/8انچ ہو ۔ سوئی کا استعمال کرتے ہوئے باریک ٹانکے کے ذریعے پٹیوں کو سر پر ٹانک دیں اس طرح دیگر پٹیاں بھی لگا دیں اورہر پٹی کے درمیان میں 3/8انچ کا گیپ ہونا چاہیے۔ ایمپرائیڈ لوپس بڑے سوراخ کی سوئی کا استعمال کریں اور بیک وقت کئی رنگوں کے دھاگے استعمال میں لاتے ہوئے سر پر بال بنائیں۔ ٭٭٭ باب ۷:کپڑوں کی دھلائی Washing and Laundry Service ہر وہ چیز جوہمارا جسم ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتی ہے ہمارا لباس کہلاتی ہے زمانہ قدیم میں بڑے بڑے پتوں درختوں کی چھال اور جانوروں کی کھالوں سے تن ڈھانپا جاتا تھا۔ اور یہی اس وقت انسان کے لباس کا کام کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہی درختوں سے نکلنے والے ریشوں اور جانوروں کی کھال سے بال علیحدہ کر کے دھاگہ اور پھر کپڑا تیار کیا جانے لگا۔ جس سے لباس تیار ہوتاہے۔ یہ مختلف نوع و اقسام کے کپڑے طرح طرح کے رنگوں اور ڈیزائنوں میں دسیتاب ہوتے ہیں۔ جنہیں مختلف وضع میں تراش خراش کر کے نت نئے لباس بنائے جاتے ہیں۔ لباس زیب تن کرنے کے متعدد مقاصد ہوتے ہیں۔ ٭ ستر پوشی کرنا لباس کا اہم ترین مقصد انسانی جسم کو ڈھانپنا اور ننگے پن سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس طرح بال جسم کی ستر پوشی کر کے شرم و حیا کو برقرار رکھتا ہے۔ لباس موسمی تاثرات سے محفوظ رکھنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ لباس معاشرتی ماحول کی نشاندہی کرتاہے۔ لباس شخصیت ابھارنے میں معاون ہوتاہے۔ لباس حسن و ذوق کا مظہر ہوتا ہے۔ بیماریوں کے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لباس کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتاہے۔ جو کسی علاقے یا معاشرے کے رہن سہن اور وہاں کے معاشرتی ماحول کی عکاسی کرتاہے۔ ہر علاقے کے اپنے اپنے مخصوص لباس ہیں جو کہ اس ملک یا علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنائے جاتے ہیں۔ یہ ضروریات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ۱۔ مذہبی ماحول کی ضروریات ۲۔ جغرافیائی ماحول کی ضروریات معاشرے کے رسموں و ضوابط اور قانون کی بنیاد ہمیشہ اس جگہ کے لوگوں کے مذہب و عقائد پر استوار ہوتی ہے کہ زندگی کے باقی شعبوں کی طرح لباس تراش خراش کا بھی زیادہ انحصار مذہبی عقائد پر ہوتا ہے۔ ٭ کپڑوں کی دھلائی کے لیے معلومات Knowledge of Detergents لباس انسان کی شخصیت اس کی نفاست اور سلیقہ شعاری کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اپنی شخصیت کو پرکشش اور مقبول بنانے کے لیے محض عمدہ اور طرح طرح کے کپڑے خریدلینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کپڑوں کی اچھی اور مناسب دیکھ بھال بھی نہایت ضروری ہتی ہے تاکہ کپڑوں کا نیاپن خوبصورت سلائیاں اور ڈیزائن وغیرہ لمبے عرصے تک قائم رہیں۔ اور دیکھنے والوں کومتاثر کرنؤے کے علاوہ خود پہننے والے کو مزید وقت دے سکیں۔ کپڑوں کی دیکھ بھال کرنے سے وہ زیادہ عرصہ تک ساتھ دیتے ہیں۔ اور قیمت سے زیادہ ادا کر سکتے ہیں۔ روپے پیسے کی بچت کے ساتھ ساتھ ذہنی پریشانی اور کافی حد تک محنت اور وقت کی بھی بچت کرنے میں معاون ہوتے ہیں کھانا کھانے کی طرح روزانہ باقاعدگی سے صرف چند منٹ کپڑوں کو بھی ٹیک کرنے میں صرف کر لیتے ہیں۔ اور زیادہ وقت طلب کاموں کے لیے ہفتے میں ایک وقت مقرر کرنے یا ریڈیو سننے یا ٹی وی وغیرہ دیکھنے کے اوقات کے ہمراہ گپ شپ کی تھوڑی بہت فرحت کر لی جائے تو ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے اور کپڑوں پر زائد اور خاص وقت صرف کیے بغیر ہی انکی بہت سی مطلوبہ ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ کپڑو ں کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کرنے کے لیے چند اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے جو مہنگی نہیں ہوتیں بلکہ شوقین لوگ خود گھر میں ان سے کئی اشیاء بنا بھی سکتے ہیں یہ اشیاء مندرجہ ذیل ہیں۔ کپڑوں کی حفاظت کے لیے ضروری اشیاء Essential things for Protection of Clothes دراز الماری ہینگرز جوتو ںکے لیے ریک مخصوص خانہ یا تھیلا ٹوپی کے لیے تکوں یا سٹیند برش بیگ لٹکانے کے لیے جگہ یا کھونٹی: کپڑے لٹکانے والا حفاظتی تھیلا (Dress Bags) سلائی کا ڈبہ (Mending Bose) استری ٭ کپڑوں کی مناسب دیکھ بھال لباس کا صاف ستھرا ہونا جو سے مبرا ہونا اور اچھی سلائی کے ساتھ ساتھ شکنوں سے بالکل پاک ہونا بھی شخصیت کی مقبولیت کا کافی حدتک مناسب ہے۔ کیونکہ ظاہر دیکنے سے صاف ستھرا نفیس ملبو س انسان کی توجہ کا مرکز بناتا ہے اس لیے لباس کی دیکھ بھال حفاظت اور نہایت ضروری ہے۔ جس کے لیے چند عمل روزانہ کیے جا سکتے ہیں ۔ بعض کچھ دنو ںکے وقفوں کے بعد اور بعض موسم کی تبدیلی پر عمل میں لائے جانے ضروری ہوتے ہیں۔ اسی نوعیت اور لحاظ سے لباس کی حفاظت اور دیکھ بھال کے طریقوں کو مندرجہ ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ سہولت رہے۔ ۱۔ روزانہ دیکھ بھال (Daily Care) ۲۔ ہفتہ وار دیکھ بھال (Weekly Care) ۳۔ موسمی دیکھ بھال (Seasonal Care) روزانہ دیکھ بھال روزانہ استعمال کے بعد اگر کپڑوں کو بے ہنگم طریقے سے ادھر ادھر پھینک دیں یا پھر اتار کر فورا ً تہہ لگا دیں او ر ایسے ہی لپیٹ کر کسی الماری یا صندوق میں رکھ دیں تو اس سے کپرے کی رنگت اورمعیاد آدھی رہ جاتی ہے۔ اور اس میں بو پیدا ہو جائے گی اور ایسے کپڑے پر ٹڈیاں وغیرہ جلدی حملہ کر سکیں گی۔ اس کے علاوہ اگلی مرتبہ پہننے کے لیے کپڑے تیار نہیں ملیں گے۔ تو پریشانی بھی ہو گی اس لیے روزانہ مندرجہ ذیل باتوں پر عمل رک کے کپڑوں کی مناسب دیکھ بھال کرنا نہایت ضروری ہے۔ جس میں کوئی وقت درکار نہیں ہوتا۔ بلکہ تھوڑی سی توجہ سے کپڑے کی عمر اور خوبصورتی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے یا انہیں بر قرار رکھا جا سکتاہے یہ روز مرہ کے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں: ٭ کپڑوں کو ہوا لگانا کپڑو ں کو اتار کر ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے انہیں ہینگر پر کھونٹی یا کرسی کی پشت پر پھیلا یا لٹکا دیں تاکہ تھوڑی دیر کے لیے ان میں سے ہوا گزر سکے۔ اس سے جسم کی بو وغیرہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور کپڑا اگر نمدار ہو تو سوکھ جاتا ہے اگر بغلوں میں پسینہ آتا ہو تو روزانہ قمیض کی دھلائی سے بچنے کے لیے قمیض کو اتارتے ہی فوراً بغلوں والے حصے کو نل کے پانی سے دھو کر تھوڑی دیر ہوا میں لٹکا کر خشک کر لیں اس سے بغلیں بالکل باقی کپڑے کی طرح نرم رہیں گی۔ اور صاف ستھری اور بو سے پاک بھی ایسا نہ کرنے پر پسینہ کے اندر ہی خشک ہو کر اسے کمزور کر دے گا۔ اور وہ حصہ اکڑ جائے گا اور کپڑے میں بو پیدا ہو جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کیڑے مکوڑے بھی رغبت سے اسے کاٹیں گے۔ ٭ متعین مقام پر رکھنا پہنائو کے لیے ہر چیز کے لیے ایک خاص جگہ مقرر ہونی چاہیے خشک کپڑوں کو استری لگا کر تہہ کر کے الماری میں ہینگر پر لٹکا لیں یا پھر تہہ لگا کر دراز میں یا الماری کے خانے میں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح جوتوں کو اتار کر تھوڑی دیر ہوا میں رہنے دین تاکہ پسینہ وغیرہ یا پائوں کی بو جاتی رہے۔ بعد ازاں برش اور کپڑے سے صاف کر کے انہیں مقررہ جگہ پر حفاظت سے رکھیں قمیضوں دستانوں سوئٹروں رومالوں‘ ٹائیوں‘ شمیضوں اور انڈروئیر بنیان کے یلے دراز مناسب رہتی ہے۔ جبکہ کوٹ بوشرت اور بڑے کپڑوں کے لیے جنہیں لٹکانا مقصود ہو انہیں الماری کے بڑے خانے میں لٹکانا چاہیے ۔ گر د و غبار سے محفوظ رکھنے کے لیے مومی حفاظتی تھیلے Dress Bags چڑھا کر رکھنا بہترین رہتا ہے اس طرح الماری کے باہر بھی کسی جگہ پر لٹکائے جا سکتے ہیں۔ مرمت کرنا چھوٹی چھوٹی مرمتیں فوراً کر لینی چاہئیںمثلا کسی جگہ سے بٹن یا ہک کے ڈھیلے ہونے کا احتمال ہویا گر یا ٹوٹ گیا ہوتو کپڑا اتارتے ہی فوراً اسے لگانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اگر کسی سلائی میں دھاگہ ٹوٹنے یا ادھڑنے سے سوراخ پیداہو گیاہو تو اس پر سلائی لگا لینی چاہیے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مرمتیں روزانہ ہی کپڑے اتار کر ان کا جائزہ لے کر حسب ضرورت کر لینی چاہئیں۔ ان پر نہ تو چند منٹ سے زیادہ وقت صرف ہوتا ہے اور نہ ہی محنت اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ اس طرح کپڑے کی ساتھ ساتھ حفاظت ہو جاتی ہے۔ دھلائی کرنا شلوار قمیض ڈوپٹے وغیرہ تو اتنے چھوٹے کپڑے نہیں ہوتے کہ انہیں روزانہ دھو لیا جائے ۔ کیونکہ ان کی دھلائی میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن بعض کپڑے ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں روزانہ دھونا نہایت ضروری ہے۔ اور وہ کپڑے اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہاتھ دھوتے دھوتے انہیں بخوبی ہاتھوں سے مسلا جا سکتا ہے۔ تمام زیر جامے اور ایسے کپرے جو براہ راست بدن پر پہنے جاتے ہیں مثلاً شمیض بنیان انڈروئر جرابیں رومال اور دستانے وغیرہ انہیں روزانہ دھونا ا س لیے ضروری ہے کہ یہ بدن سے بو میل اور پسینہ براہ راست زیادہ سے زیادہ مقدار میں جذب کرتے ہیں اور انہیں اگلے روز پہننے سے ان میں سے بو آنے لگتی ہے۔ ہر شخص کے پاس کم از کم دو جوڑے ضرور ہونا چاہئیں تاکہ ایک جوڑا پہنا جائے اور دوسرا اتار کر روزانہ دھو لینا چاہیے ان کے علاوہ کف ار کالر بھی اکثر اوقات روزانہ دھلائی کا تقاضا کرتے ہیں البتہ سردیوں میں چونکہ بدن میں پسینہ خارج نہیں ہوتا اس لیے اگر وقت کی بچت کرنا ہو تو زیادہ سے زیادہ پھر دوسرے دن دھلائی ضروری ہے۔ لیکن رومال اور جرابین بہر صورت روزانہ دھونی ضروری ہیں۔ ہوزری اور زیر جاموں کی دھلائی نیم گر م پانی میں صابن کی خوب جھاگ بنا کر پانچ سات منٹ تک کپڑوں کو اس طرح بھگوئے رکھیں تاکہ سارا میل کچیل نرم ہو جائے ریشمم ناکن اور رمے اون کے بنے ہوئے کپڑوں کو رگڑنے سے نقصان کا احتامل ہوتا ہے اس لیے انہیں احتیاط س ملنا چاہیے۔ اور پانی کے اندر ہی اٹھا اٹھا کر بار بار انہیں دبانا چاہیے متعدد مرتبہ پانی بدل کر صاف پانی سے دھونا چاہیے۔ ان کپڑوں کو نچوڑنا نہیں چاہیے بلکہ دونوں ہاتھوں میں دبا کر زائد پانی خارج کر لینا چاہیے۔ استری کرنا روزانہ کپڑے اتار کر انہیں ہوا لگوانے دھونے کے بعد خشک ہونے پر استری کر کے تہہ لگائیں یا ہینگر پر لٹکا کر رکھیں تاکہ اگلی مرتبہ پہننے کو کپڑے فوراً تیار ملیں استری کا درجہ حرارت کپڑے کے ریشے کے مطابق رکھنا چاہیے تاکہ ریشے کو نقصان نہ پہنچے۔ ہفتہ وار دیکھ بھال ایسے کپڑے جنہیں روزانہ دھویا یا مرمت نہ کیا جاسکتا ہو تو ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ہفتے میں بہ آسانی اور سہولت کے مطابق ایک دن مقرر کر لینا چاہیے۔ جب ان تمام کپڑوں کو مطلوبہ توجہ دی جا سکتی ہو تو ہفتہ وار حفاظت میں مندرجہ ذیل اقدامات زیر عمل لانا ضروری ہیں۔ مرمت کپڑوں کی ادھڑی سلائیوں کی مرمت رفو پیوند کاری بٹن لگانا کاج کی مرمت یا حسب ضڑورت جس قسم کی مرمت درکار ہو کپڑوں کا صحیح جائز ہ لے کر انہیں ٹھیک کرنا چاہیے تاکہ دھلائی کے دوران یہ مزید بڑھ کر پھٹ نہ جائیں۔ داغ دھبے اتارنا کپڑوں پر کسی بھی چیز کے گرنے یا داغ دھبے لگتے ہی فوراً دھو کر یا مناسب دوائی کے استعمال سے دغ رفع کر دینا چاہیے ۔ اکثر دھبے نل کے پانی اور صابن ہی سے صاف ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات زیادہ مہارت اور محنت طلب کام کو فوری طور پر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ یا پھر ویسے ہی دھبہ نظر انداز ہو کر کپڑوں ُر لگا رہ جاتا ہے۔ تو کپڑوں کو دھونے سے پیشتر مخصوص قسم کے دھبے پہلے اتار لینے چاہئیں تاکہ دھلائی میں اس کے نشان رہ جانے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ دھلائی ہفتے بھر میں جمع شدہ مختلف قسم کے ریشوں سے بنے کپڑوں کو ان کی خاصیت کے اعتبار سے الگ الگ کر لینا چاہیے ایسے ریشے جنہیں دھلائی میں ایک جیسے عمل اور محلول درکار ہوں انہیں اکٹھا دھویا جا سکتا ہے۔ مثلاً کاٹن اور لیس وغیرہ پھر سفید کپڑوں کو الگ اور رنگین کو الگ کر کے حسب ضڑورت ان نکی دھلائی کرنی چاہیے۔ مختلف کپڑوں کو ان کے ریشے کی قسم رنگت کے کچے پکے ہونے اور موٹائی یا نزاکت کے اعتبار سے دھلائی کے مختلف عمل درکار ہوتے ہیں۔ کاٹن اور لیس کو سخت دھلائی کے بعد مروڑا اور نچوڑا جا سکتا ہے۔ جبکہ ریشم اون رے اون وغیرہ کو ہاتھوں میں دبا کر پھر تولیے میں لپیٹ کر دبا کر پانی نکالنا چاہیے۔ کاٹن لیس ریشم اور رے کی طرح اون کو تار پر نہیں پھیلانا چاہیے۔ اسی طرح ان سے مختلف عمل معدنیاتی ریشوں کا ہوتاہے۔ جنہیں محض جھٹکے ہی سے ان کا سارا پانی بہہ کر خشک ہو جاتا ہے۔ اس لیے ریشوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے لیے مطلوبہ اور مناسب طریقے اختیار کرنے چاہئیں ۔ استری کرنا دھلائی کی طرح استری کرتے ہوئے بھی مختلف قسم کے ریشوں کو مختلف سلوک اور احتیاطوں کی ضرورت ہے مثلاً کاٹن لیس کو تیز گرم استری جبکہ ریشم رے اون کو ہکی استری اور اون کو درمیانے درجے کی گرم استری درکار ہوتی ہے ۔ا س کے علاوہ کپڑے کے اوپر ململ کا نمدار کپڑا رکھ کر استری لگائی جاتی ہے۔ متعین مقام پر رکھنا ہفتے بھر کی دھلائی اور استری کے بعد کپڑوں کو اچھی طرح تہہ لگا کر یا ہینگر پر لٹکا کر الماری یا محفوظ جگہ پر لٹکانا یا رکھ دینا چاہیے۔ اس سے کپڑوں کی شان دوبالا ہو جاتی ہے۔ اور ہر وقت کپڑے تیار ملتے ہیں جو سہولت اور وقت کی بچت کا باعث بنتے ہیں۔ کپڑوں کے داغ دھبے دور کرنا جب بھی کپڑوں پر کوئی ایسی چیز رکھی جائے یا لگ جائے جسے کپڑا اپنے اندر جذب کرے کہ اس کے ا س رابطے کی جگہ سے کپڑے کا رنگ تبدیل ہوجائے اور اس چیز کا رنگ کپڑے کے اس ھصے پر آ جائے یا پھر کپڑے کے اصلی رنگ میں تبدیلی پید ا ہوجائے تو اس نشان کو دھبہ یا داغ کہا جاتا ہے۔ بعض دھبے محض پانی اور صابن سے دھو دینے سے صاف ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بعض دھبوں کے لیے خاص قسم کی ادویات اور طریقوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے تمام قسم کے دھبے ایک ہی سلوک کے طالب نہیں ہوتے بلکہ اس لحاظ سے دھبوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے تاکہ ان کی خاصیت کے اعتبار سے انہیں متقاضی طریقے سے صاف کیا جا سکے۔ یہ مختلف خاصیتوں کے دھبے مختلف اجسام سے پید ا ہوتے ہیں اور انہی پر دھبوں کی اقسام کا انحصار ہوتاہے۔ یہ اقسام مندرجہ ذیل ہیں: دھبے کی اقسام اجسام و ذرائع حیواناتی دھبے حیوانات (Animal Stain) نباتاتی دھبے نباتات(Vegetable) روغنی دھبے چکنائی (Grease) رنگوں کے دھبے رنگ (Dye) معدنیاتی دھبے معدنیات (Mineral) حیواناتی دھبے ان میں خون انڈے دودھ گوشت کے پانی وغیرہ کے دھبے شامل ہیں جو جاندار و حیوانات کی وجہ سے لگتے ہیں۔ چونکہ بنیادی طور پر ان پر تمام کی خاصیت پروٹین کی ہوتی ہے اس لیے انہین دور کرنے کے لیے گرمی اور تپش وغیرہ کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے۔ ورنہ پروٹین گرمی سے گرم پانی سے کپڑے کے اوپر چپک جائیں گے۔ نباتاتی دھبے نباتات سے حاصل ہونے والی اشیاء مثلاً چائے ک فی کو کو پھل سبزیان وغیرہ سے جو دھبے لگتے ہیں وہ نباتاتی دھبے کہلاتے ہیں اور ان تمام کی خاصیت Adidicہوتی ہے اس لیے انہیں دور کرنے کے لیے اساسی خاصیت کی ادویات وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔ روغنی دھبے ان میں گھی بالائی مکھن سالن تیل والا سینٹ اور وارنش اور تیل وغیرہ شامل ہیں انہیں دور کرنے کے لیے کسی ایسے محل کا استعمال کرنا ضروری ہے جو چکنائی کو خود میں حل یا جذب کرے۔ بعد ازاں سالن یا دوسری چیزوں کا رنگ دور کیا جاتا ہے اس مقصد کے لیے کپڑوں پر چکنائی والا ملل صابن استعمال کرنا نہایت مفید رہتاہے۔ رنگوں کے دھبے کپڑے رنگنے کے لیے جو رنگ استعمال ہوتے ہیں وہ تیزابی اور سیاہی دونوں خاصیتوں سے ہو سکتے ہیں۔ جس کے لیے پہلے اس رنگ کی خاصیت کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاکہ وہ کامیابی سے رفع کیا جا سکے۔ معدنیاتی دھبے دھاتوں سے لگنے والے دھبے معدنیاتی دھبے کہلاتے ہیں۔ مثلاً لوہے کا رنگ کالی سیاہی اور چند ادویات کے دھبے وغیرہ جو دھاتو ںاور رنگوں کے مجموعہ ہوتے ہیں انہیں پہلے کسی تیزابی مادے سے عمل کر کے دھات حل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اساس کے محلول سے تیزابی اثر کو نیوٹرل اور بے اثر کر دیا جاتا ہے اور پھر رنگ کا دھبہ بھی اتار دیا جاتا ہے۔ پسینے اور دپش کے داغ Sweat Scroch یہ دونوں اس طرح کے دھبے ہیں کہ مندرجہ بالا کسی قسم میں شامل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ پسینہ تیزابی خاصیت رکھنے کے باوجود ظاہر ہے نباتات کے گروہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں پروٹین کی خاصیت موجود ہی نہیں ہوتی اوس لیے اسے حیواناتی دھبوں میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جھلسنے Scroch کا داغ اس وقت پڑتا ہے جب کسی کپرے پر ضرورت سے زیادہ تیز استری کا استعمال کیا جائے یا اسے شعلے کے قریب رکھ کر سکھایا جائے تو اس سے کپڑے پر میلا نما برائون سا داغ پڑ جاتاہے جو جھلسنے یا تپش کا داغ کہلاتا ہے۔ گھاس گو گھاس کا دھبہ نباتاتی دھبہ ہے لیکن اسے دور کرنے کے لیے تمام نباتاتی طریقوں کی نسبت ذرا فرق طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں کلوروفل سبز مادہ ور کرنے کے لیے مختلف طریقہ درکار ہوتا ہے۔ داغ دھبے دور کرنے کا طریقہ مختلف قسم کے کپڑوں پر سے داغ دھبے دور کرنے کے لیے ان کی وضع اور خاصیت کے مطابق ان پر عمل کر کے دھبے دور کرنے چاہئیں تاکہ ریشے کو کوئی نقصان نہ پہنچے یہ عم اور طریقہ مندرجہ ذیل ہیں۔ ڈبوئے رکھنا Dipping Method اس طریقہ میں یا تو سارے کا سارا کپڑا یا پھر محض داغ والے حصے کو داغ نرم یا جذب کرنے والے محلل میں کچھ دیر ڈبوئے رکھتے ہیں۔ بعد ازاں اسے صابن سے دھویا جا تا ہے اور یہ داغ دور کرنے کا آسان ترین طریقہ ہوتا ہے۔ بھاپ دینا عموماً رنگدار ریشمی اور اونی کپڑوں کے یلے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کھلے منہ والے برتن میں تقریباً آدھے کے قریب کھولتا پانی ڈال کر اس میں دھبے دور کرنے والی دوائی ڈال دی جاتی ہے اور کپڑے کے داغ والے حصہ کو کس کر پھیلا اور باندھ دیا جاتاہے۔ اس طرح گرم پانی سے دوائی سمیت اٹھتی ہوئی بھاپ کو نرم بھی کرتی ہے اور اس حصے کو گیلا کر کے داغ کو ٹپکا بھی دیتی ہے دھبہ نرم ہونے پر اسے جازب کاغذ پر رکھ کر دبانے سے دھبہ اس میں جذ ب ہو جاتاہے اور پھر اس عمل کو دہرایا جاتاہے حتیٰ کہ داغ بالکل دور ہو جائے۔ قطرے یا بوندیں گرنے کا طریقہ Drop Method کپڑوں کے داغ والے حصے کو کسی برتن میں پھیلا کر اس پر ڈاکٹری ڈراپر کے ذریعے قطرہ قطرہ کر کے دھبہ دور کرنے والی کیمیا گرائی جاتی ہے۔ جس سے دھبہ دھل کر نیچے ٹپکتا ہے۔ اور صاف ہو جاتا ہے۔ سینچ کرنا Sponging Method یہ طریقہ بھی گھروں میں بہت کثرت سے استعمال ہوتا ہے اور آسان بھی ہے لیکن اگر احتیاط نہ برتی جائے تو یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہوتا دھبے والے حصے کے نیچے جاذب کاغذ یا موٹا کپڑا رکھ کر اوپر سے صاف نرم ار سفید کپرے کی گدی سی بنا کر اسے دھبہ دور کرنے والی دوائی یا کیمیا میں ڈبو ڈبو کر داغ کے اوپر رگڑا جاتا ہے ۔ اور اس سے دھبہ گیلا ہونے کے باوجو د مزید نہیں پھیلتا۔ کیونکہ گدی بہت زیادہ گیلی استعمال نہیں کی جاتی اس کے علاوہ نیچے جاذب کاغذ یا کپڑا دھبے کے نرم ہوتے ہی اسے جذب کرتا رہتا ہے جوں ہی نیچے والا کاغذ یا کپڑا داغ پکڑنے لگے جلدی سے گدی دونوں کو تبدیل کر دینا چاہیے اور اس طریقہ میں ایک احتیا ط یہ بھی برتنی چاہیے کہ دھبے کو نرم ہاھتوں سے باہر سے اندرونی جانب گولائی میں رگڑتے ہوئے وسط تک بڑھانا چاہیے۔ اور دھبے کے کنارے کے عین وسط دائرہ سا نہ بنائیں بلکہ چھوٹی بڑی رگڑیں لگائیں تاکہ واضع دائرہ سا Ring نہ بننے پائے اور دھبے کو جلد ا زجلد خشک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بالفرض دائرہ بن جائے تو اسے دور کرنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بھاپ دینی چاہیے بعد ازاں استری کر لیں۔ دافع دھبہ محلل و کیمیا مختلف قسم کے دھبے مختلف خاصیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ جس کی بنا پر انہیں رفع کرنے کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق اور ریشوں کی خاصیت کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے مختلف کیمیا ادویات درکار ہوتی ہیں جو عام طورپر محلل کی صورت میں ہوتی ہیں پان میں ان کی قدرتی طور پر بہت وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ معتدل خاصیت رکھتا ہے اسی لیی اسے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے پانی کے علاوہ دوسری دافعہ دھبہ کیمیا میں تیزابی خاسیت کے محلل و کیمیا الکلی یا اساسی خاصیت کی کیمیا اور چکنائی کے محلل شامل ہیںَ لیکن تمام اشیاء میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں کہ جو تمام قسم کے ریشے سے بنے کپڑوں پر سے ہر قسم کا دھبہ اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ حتیٰ کہ پانی جیسی معتدل چیز بھی اس خوبی عمل سے قاصر ہے۔ مثلاً اونی اور ریشمی کپڑوں کے لیے الکلی کا استعمال نقصان دہ ہے مگر الکلی کاٹن اور لیس وغیرہ پر اتنی تیز ترین شکل میں بھی استعمال ہو سکتی ہے اسی طرح کاٹن اور لیس پر تیزاب کا اثر بالکل برعکس ہوتاہے۔ اور ہلکی قسم کا تیزاب بھی ان ریشوں کو نقصان پہنچاتاہے۔ جبکہ اون اور ریشم پر مختلف عمل کرنے کے لیے تیزابی خاصیت کے دافعہ دھبہ کیمیا استعمال کی جاتی ہیں۔ کیوپرامونیم (Cupramonium) اور وکسوز Vicsose رے اون کے لیے دھبے دور کرنے کے لیے وہی طریقے اور کیمیا ومحلل استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو کاٹن کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ایسی سینٹ Cecitateکے رستے کے لیے بہت سی احتیاطیں درکار ہیں کیونکہ یہ سرکے کے Acetic Acid ایسی ٹون Acetone اور کلوروفارم Chlofoform تینوں کیمیا میں حل ہو جاتے ہیں۔ اور گرم استری بھی رے ارن اور کاٹن کے برعکس اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ان کپڑوں پر اگر تیزاب کا استعمال ناگزیر ہو جائے تو نہایت ہلکی قسم کے تیزاب کو استعمال کرنا چاہیے۔ اور پھر اس کا اثر زاء لکرنے کے لیے فوری طورپر ہلکی قسم کی الکلی مثلاً سوڈا بائی کاربونیٹ وغیرہ سے یا ایمونیا کے محلول Ammonia Solutionسے تیزابی اثرزائل کیا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں کپڑے کو صاف پانی سے دھو نا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر الکلی کا استعمال کسی اونی یا ریشمی کپڑے پر کرنا نہایت ضروری ہو جائے تو نہایت ہلکی استعمال کر کے فوری طور پر اس کے بعد لیموں کا رس سرکہ یا ایسا ہی ہلکی قسم کا تیزاب استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ اساسی اثر زائل ہوجائے۔ بعد ازاں کپڑے کو پانی سے دھو دینا ضروری ہے۔ تاکہ کپ۔رے پر لگا تیزاب اس کا رنگ نہ کاٹ دے۔ سوڈیم بائیو کلورائٹ وغیرہ کے رنگ کاٹ محلول کاٹن اور رے اون پر استعمال ہو سکتے ہیں۔ جبکہ اون ار ریشم پر ان کا قطعی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رنگ کاٹ کے برے اثرات سے محفوظ رکھنے کے یے بھاپ دینے اور بوندین گرانے کے دونوں عمل بیک وقت کر کے جلد از جلد دھبہ رفع کر دینا چاہیے۔ کیونکہ ذرا سی بھی کوتاہی کپڑ ے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کلورین کے رنگ کاٹ (Bleech)کے دور رس اثرات سے حفاظت کرنے کے لیے چند قطرے اگزیلک ایسڈ (Oxalid acid)یا سوڈیم تھائیو سلفیٹ (Sodium Thiosulphate) اثر زائل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دھات کے یا سیاہی کے دھبے کو اتارنے کے لیے Sperborate سوڈیم پروبوریٹ یا آگزیلک ایسڈ Oxalic Acidہوتے ہیں یہ تمام رنگ کاٹوں سے Bleechesریشے کے لیے کم نقصان دہ ہوتے ہیں۔ لیکن سوڈیم کاربونیٹ Sodium Corborateاور اون ریشم کے یے خصوصاً سفید اون کے یلے خاص طور پر نقصان دہ ہیں۔ تقریباً ہر قسم کے ریشے پر سے پھپھوندی سیاہی لوہے کی زنگ آیوڈین گھا س اور پھلوں کے داغ دور کرنے کے لیے ایک گلاس پانی میں ایک چھوٹا چمچ سوڈیم ہائیڈرو سلفیٹ محلول بہترین کیمیا ہے۔ اسی طرح ہائیڈروجن پر آکسائیڈ بھی کمزور قسم کا رنگ کاٹ ہونے کی بنا پر تقریباً ہر کپڑے سے رنگوں کے دھبے اتارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگراس میں ایمونیا کا محلول بھی ملا لیا جائے تو زیادہ موثر ہو جاتا ہے۔ چکنائی کے محلل Fat Solvents تمام کپڑوں سے چکنے دھبوں کو محض کاربن ٹیٹرا کلورائیڈ ایتھر گیسولین اورتارپین وغیرہ میں سے کسی بھی محلل کے استعمال سے بالکل رفع کیا جا سکتاہے۔ داغ دھبے اتارنے کے اصول تازہ ترین داغ اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ پرانا دھبہ دور کرنا مشکل ہو جاتاہے۔ بلکہ بعض اوقات ریشے کو بھی نقصان پہنچتاہے۔ داغ دور کرتے وقت مناسب کیمیا کا استعمال کرنے کے لیے کپڑے کی خاصیت اور ٹیکسچر کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے تاکہ اس کے مطابق اس پر عمل کیا جائے۔ کاٹن لینن اور نباتاتی ریشوں کو ہلکا تیزاب بھی خرا ب کر دیتا ہے۔ جبکہ ہلکی قسم کی الکلی حیواناتی ریشوں مثلاً اون اور ریشم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر بلیچ یا رنگ کاٹ استعمال کرنا مقصود ہوتا ایک سائینٹ پانی میں ایک چھوٹی سی چمچ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ ڈال کر کمزور سا محلول تیار کر کے ریشم اور اون کے لیے استعمال کیا جا سکتاہے۔ لیکن رے اون کے لیے صرف سوڈیم پربوریٹ S. Perborate استعمال کرنا چاہیے۔ ہلکے محلول سے زیادہ عمل کرنے کی بجائے کم مرتبہ نسبتاً تیز محلولل کا استعمال زیادہ بہتر رہتا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بع د کپڑے کو اپنی سے دھو دینا چاہیے تاکہ دوائی کا اثر زائل ہو سکے۔ ہر دھبے کو بنا سوچے سمجھے ہی گرم پانی اور صابن سے نہیں دھونا چاہیے۔ بعض اوقات اس سے غلط عمل ہو جانے کے باعث داغ کم ہونے کی بجائے پکا ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہر داغ کا علم ہونا ضروری ہے۔ کہ وہ کس چیز کا داغ ہے۔ تاکہ اس کے مطابق صحیح کیمیا کا استعمال کر کے دھبہ رفع کیا جا سکے اگر دھبے کاعلم نہ ہو سکے تو اسے پہلے نلکے کے ٹھنڈے پانی میں ڈبوئے رکھیں پھر نیم گرم پانی اور صابن کے محلول میں ڈبوئے رکھنے کے بعد دھوئیں اگر داغ کم نہ ہو۔ تو ہلکی قسم کی کیمیا کا استعمال کریں اور سب سے آخر میں رنگ کاٹ کا استعمال کریں۔ کپڑوں پر محلل و کیمیا کا صرف اتنی ہی دیر تک استعمال ہونا چاہیے جب تک کہ دھبہ دور کیا جا رہا ہو۔ اس کے فوراً بعد اس حسے اور کیمیا کو پانی سے اچھی طرح دھو دینا چاہیے۔ تاکہ وہ ریشوں میں رہ کر اسے نقصان نہ پہنچائے۔ تیزابی خاصیت کی تمام کیمیا کے اثر زائل کرنے کے لیے فوراً ہلکی الکلی کا محلول استعمال کریں اور الکلی کے فوراً بعد تیزاب بعد ازاں پانی سے اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔ اگر دھبہ تپنچ کے طریقے سے رفع کیا جا رہا ہو تو ہمشہ دھبے کے بیرونی کناروں پر عمل کرتے ہوئے اندرونی جانب مرکز کی طرف پڑھنا چاہیے اس سے دھبہ پھیلنے سے حفاظت ہو جاتی ہے۔ دھلائی کے لیے صفا Cleansing Materials کپڑے دھونے اور انکی صفائی کے لیے محض پانی کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ میل کچیل نکالنے کے لیے اور جراثیموں سے کپڑوں کو پاک رکھنے کے لیے مختلف اشیاء استعمال ہوتی ہیں۔ جنہیں مصفا کہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر مصفا سستی ہوتی ہیں او ر آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔ جبکہ بعض مصفا قدرے مہنگی ہوتی ہیں دھلائی کے لیے چند مصفا یہ ہیں۔ ریٹھے ریٹھے جنوبی ہندوستان اور بنگال میں بہتات سے پائے جاتے ہییں۔ یہ درختوں پر لگتے ہیں پکنے پر نہایت سخت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوٹ کر پانی میں ملانے سے بہت نرم اربہتات میں جھاگ پیدا ہوتا ہے جو سوتی اونی کپڑوں کی نسبت ریشمی کپڑوں کے لیے زیادہ مناسب رہتی ہے۔ ویسے اس جھاگ میں اونی سوتی کپڑے بھی بخوبی دھوئے جا سکتے ہیں۔ بازار میں پسے ہوئے ریٹھے بھی دستیاب ہوتے ہیں اور یہ بہت سستے ہونے کے باعث غریب لوگوں میں استعمال کے لیے بہت مقبول ہیں۔ سیکاکائی یہ بھی جنوبی ہندوستان میں درختوںپر پھلوں کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ جنہیں بالوںکے شیمپو کے طورپر عام استعما ل کیا جاتا ہے ریٹھوں کی طرح سیکا کائی بھی کپڑوں کی دھلائی کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے لیکن اس مقصد کے لیے زیادہ مقبول نہیں۔ صابن دیہاتوں میں تو گھروں پر ضرورت کے مطابق صابن تیار کر لیا جاتاہے۔ لیکن شہروں میں مختلف جگہوں میں صابن بآسانی دستیاب ہونے کے باعث زیادہ تر لوگ صابن بازار ہی سے خریدتے ہیں جو گھر کے صابن کی نسبت کافی مہنگا نسخہ ہے۔ صابن مندرجہ ذیل مختلف حالتوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ ٹکیہ (Soap Cake) صابن کا چورا (Soap Tlakes) صابن کی بار یا سلاخ (Soap Bars) صابن کا پائوڈر (Soap Powder) صابن کا محلول (Soap Solution) مصفا محلول (Cleaning Fluid) صابن کی جیلی (Soap Jelly) بھوسی کا محلول Bran Solution بھوسی یک پانی میں رنگوں کو قائم رکھنے اور کپڑوں کے میل کچیل نکالنے کی صلاحیت ک بنا پر اسے عام طور پر دھلائی کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اس کی خاصیت میں اضافہ کرنے کے لیے اس میں تھوڑے سے صابن کے ٹکڑے بھی ملائے جا سکتے ہیں۔ دھوبی سوڈا Washing Soda صابن بنانے میں بھی دھوبی سوڈا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر سستا ہونے اورمیل کچیل اور بو نکالنے کی خاصیت رکھنے کی بنا پر غریب لوگوں میں اس کا استعمال بہت ہے عموماً گرم یا ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر محلول تیار کریںاس میں کپڑے رات بھر بھگوئے جاتے ہیں بعد ازاں انہیں صرف صاف پانی سے دھویا جاتاہے ایک چاول کا چمچ سوڈا ایک بالٹی پانی۔ اکڑاہٹ پیدا کرنے والے اجزا دھلائی کے بعد کپڑوں کو خصوصاً سوتی اور یس کے کپڑوں کو مزید خوبصورت باننے کے لیے ان میں اکڑاہٹ مطلوب ہوتی ہے جس سے کپڑے کے ٹیکسچر میں خوبصورتی اور شان پیدا ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کوئی بھی ایسا عنصر جو کپڑے کے اندر جذب ہو کر اس میں قدرتی اکڑاھٹ کا تاثر پیدا کر ے کلف کے طور پر استعمال کیا جاتاہے اور کلف سے مراد ہر وہ عنصر ہے جو محض کپڑے کے اوپر تہہ نہ لگائے بلکہ اندر جذب ہو کر اس میں قدرتی اکڑاہٹ پیدا کرنے کا تاثر پیدا کرے کلف کہلاتا ہے اوراس سے کپڑ ے کی نرمی بہت متاثر نہیں ہونی چاہییے۔ کلف کثیر مقدار میں قدرتی طورپر ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسے مصنوعی اور کیمیاوی ذرائع سے بھی حاصل کیاجاتا ہے۔ قدرتی ذرائع پودوں کی ٹہنیاں مثلاً پام بیچ اور دانے مثلا چاول گندم مکئی سا گودانہ اناج وغیرہ جڑیں یا جڑوں والی سبزیاں مثلاً آلو شکر قندری اراروٹ کلف بنیادی طورپر نشاستہ ہوتی ہے اور مختلف ذرائع سے حاصل کرنے کے باوجود کلف ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔ اجزائے ترکیبی چاول ایک چمچ ایک کپ بودکس 1/2چائے کے چمچ موم 1/4چائے کا چمچ چاولوں کو پانی میں اس وقت تک ابالیں جب تک وہ اچھی طرح گل نہ جائیں پھر انہیں ململ کے موٹے کپڑے میں سے چھان لیں اور ملائم سی پیسٹ حاصل کر لیں۔ بورکس اور موم کو ابلتے ہوئے پانی میں حل کر کے چاولوں کی پیسٹ بھی اچھی طرح ملا دیں اس میں ٹھنڈا پانی ملا کر محلول کو ہلکا کر لیں اور استعمال کریں۔ چاولوں کی کلف اسے عام زبان میں پیچھ بھی کہا جاتا ہے جو چاول ابالنے کے بعد پانی خارج کیاجاتاہے۔ وہ کپڑوں میں عمدہ قسم کی کف دینے کے کام آتاہے اس کلف میں دانے نہ ہونے کی وجہ سے بآسانی ٹھنڈے پانی میں حل ہو کر استعمال ہوتی ہے۔ گندم کی کلف گندم کے میدہ سے پکانے کے بعد گاڑھا سا بہت لیس دار مادہ حاصل کیا جاتا ہے جو مائع یا میدہ کی کلف کہلاتی ہے اورعمدہ قسم کی کلف مہیا کرتی ہے۔ مکئی کی کلف اس کے آٹے سے چھانا ہو ا ناشتہ پکا کر اس سے گاڑھی سی کلف حاصل ہوت ہے جو کپڑے میں بہت زیادہ اکڑاہٹ پیداکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن سستی ہونے کے باوجود زیادہ استعمال نہیں کی جاتی کیونکہ یہ کپڑے میں قدرتی لچک اور نرمی کو بالکل ختم کر دیتی ہے بلکہ کھردراپن پیدا کر تی ہے۔ آلو کی کلف آلو کی نشاستہ سے جو کلف حاصل ہوتی ہے وہ اس کے ذرات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ کپڑوں پر لگانے کے لیے مناسب نہیں ہوتی۔ کمرشل کلف بازار میں تیار کلف بھی دستیاب ہوتی ہے۔ جسے عموماً دو تین مختلف قسم کی نشاستہ سے حاصل کر کے ملایا ہوا ہوتا ہے۔ ڈب Dip مغربی ممالک میں چند قسم کی کلف میں ڈپ نامی کلف دستیاب ہوتی ہے۔ جو مصنوعی اور کیمیائی ذرائع سے تیار ہوتی ہے۔ کلف کی تیاری کلف خواہ کسی بھی چیز کے نشاستہ سے حاصل کی جائے اسے پانی مین ڈال کر ابالنا ضروری ہوتاہے۔ تاکہ اس میں کیمیائی عمل ہو کر نشاستہ کے دانے پھول جائیں اورپھٹ کر نشاستہ کو پانی میں حل ہونے میں مدد دیں اس سے نشاستہ اورپانی لیس دار مادہ بنتا ہے جو کلف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کلف ٹھنڈے پانی میں بھی ملائی جا سکتی ہے لیکن یہ اس وقت استعمال ہوتی ہے جب کسی کپڑے میں اکڑاہٹ دینا مقصود ہو۔ نیل Blue سفید کپڑوں کی دھلائی کے بعد ان میں کچھ عرصے بعد نیلاہٹ نمایاں ہونے لگتی ہے خصوصاً دھوپ میں ڈالنے یا استری کرنے سے سفیدی کی اثرات یہ نماسی پیلاہٹ میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس سے کپڑ انہایت پرانا اور غیر دلکش لگنے لگتا ہے اس اثر سے دور کرنے اور کپڑے کی سفیدی برقرار رکھنے کے لیے دھلائی کے بعد اسے ہلکے نیلے رنگ کے پانی میں ڈبو کر نکالا جاتا ہے۔ یہ نیلے رنگ کا پانی نیلے سے مادے سے جسے نیل کہا جاتا ہے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ نیل پائوڈر یا سفوف نیلے محلول یا چھوٹی چھوٹی ٹکیہ میں بھی دستیاب ہوتا ہے جس کا رنگ جامنی نما نیلا سے لے کر خالص نیلے تک ہوتا ہے۔ یہ نیل مندرجہ ذیل ہوتے ہیں۔ پروشین نیل Prussian Blue اس کی کیمیائی بناوٹ میں آئرن یا لوہے کا عنصر بھی شامل ہوتاہے جس کی وجہ سے سوکھنؤے پر کپڑے پر رنگ کے ہلکے ہلکے نشان رہ جانے کا احتمال ہوتا ہے اس لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انڈیگو نیل Indigo Blue درختوں کے پتوں سے حاصل کیا جاتاہے نسبتاً مہنگا ہوتاہے اوراس کا رنگ گہرا نیلا ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر استعمال نہیں ہوتا۔ اینالن نیل Aniline Blue یہ کپڑوں کو رنگنے والے رنگ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کا رنگ کاسنی سے نیلے کے درمیان اور ان کے امتزاج کی رنگت کا ہوتا ہے۔ یہ پانی میں فوری طور پر حل ہونے کے باعث دھلائی میں کثرت سے اور بہترین طورپر استعمال ہوتا ہے۔ طریقہ استعمال تھوڑے سے پانی میں نیل گھول کر سفید ململ کے ٹکڑے کواس میں ڈبو کر اس کی رنگت کے معیار کا ٹیسٹ کرلیں حسب ضرورت محلول میں مزید پانی یا مزید نیل شامل کرکے مناسب رنگ حاصل کر لیں اور پھر اس میں دھلے ہوئے نچوڑے ہوئے نم دار کپڑے کو اچھی طرح کھول کر پانی میں ڈالیں اور نیل دینے کے دوران ہلاتے رہیں تاکہ کپڑے پر رنگ چڑھ جائے۔ رنگ کاٹ یا سفید کرنے والے کیمیا ہر وہ کیمیا یا عنصر جس سے کپڑے کا رنگ کٹنا ہوا اور نکلتا ہو وہ کپڑے کی پیلاہٹ کاٹ کر اس میں سفیدی اور اجلا پن پیدا کر سکے وہ رنگ کاٹ یا بلیچنگ ایجنٹ کہلاتا ہے یہ کپڑوں پر سے داغ دھبے دور کرنے کے لیے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اوریہ دو قسم کے ہوتے ہیں تکسیدی رنگ کاٹ Oxidising Bleaches ان میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جو کپڑے پر دھبے کے ساتھ عمل کر کے اسے دور کر دیتی ہے۔ Reducin Bleaches تحویلی رنگ کاٹ یہ کیمیا دھبے کی آکسیجن کو ختم کر کے دھبے کے رنگ کود ور کر دیتے ہیں۔ تکسیدی رنگ کاٹ Oxidising سورج کی روشنی و دھوپ پانی کی نمی اور ہوا کے ساتھ مل کر رنگ کاٹتی ہے اوریہ قدرتی بلیچ سستی بھی نہیں بلکہ مفت قسم کی ادویہ کا کام کرتی ہے۔ کپڑ ے کو گیلا کر کے یا دھو کر نیز دھوپ اور ہوامیں ڈالنے سے داغ دھبے دور کیے جاتے ہیں خصوصاً سوتی اور یس کے کپڑوں کے لیے کثرت اور سہولت سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ سوڈیم ہائیو کلورائیڈ یا جیول واٹر اسے باآسانی بنایا جاتا ہے۔ سوڈیم پربوریٹ Sodium Perborate بورکس کاسٹک سوڈے اور ہائیڈروجن پر آکسائیڈ میں گرم پانی ملانے سے آکسیجن خارج ہوت ہے اور اساسی خاصیت کا رنگ کاٹ بنتا ہے جو سوڈیم پربوریٹ کہلاتا ہے۔ ہائیڈروجن پر آکسائیڈ Hydrogen Peroxide یہ رنگ کاٹ یا بلیچ ریشی اونی اور رے اون کے کپڑوں کے لیے استعمال ہوتاہے یہ بھی پانی اور آکسیجن میں منقسم ہو جاتاہے اور ہر قسم کے ریشوں پر استعمال ہو سکتا ہے۔ کاٹن اور لینن کے لیے اس کے محلول کو کمزور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پوٹاشیم پر میگنیٹ Potassium Permanganate یہ بھی تکسیدی بلیچ ہے اور سیاہ جیسے رنگ اور پھوندی کے دھبے رفع کرتا ہے۔ تحویلی عناصر سوڈیم ہائیڈرو سلفائیٹ پانی میں اس پائوڈر کو حل کرنے سے یہ آکسیجن جذب کر کے ہائیڈروجن گیس خارج کرتاہے۔ اور ان دونوں انجذاب اور اخراج کے عملوں سے دھبے دور کرنے اور کپڑوں کے رنگ کاٹنے میں مدد ملتی ہے۔ رافع روغنیات کپڑوں پر سے چکنائی یا روغنی دھبے دور کرنے کے لیے جو اجزا استعمال ہوتے ہیں انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ محلل (Solvents) ۲۔ جاذب (Absorbants) ۱۔ محلل Solvents یہ مائع یا سیال حالت میں ہوتے ہیں مثلاً پٹرول بنزین ایسی ٹون تارپینی پر امین میتھیلیٹڈ سپرٹ یہ تمام محلل آتش گیر خاصیت کے ہوتے ہیں ان کی یہ خوبی کسی میں قدرے کم اور کسی میں قدرے زیادہ ہے پٹرول اور سپرٹ ان میں سب سے زیادہ آتش گیر ہوتے ہیں اور اس لیے انہیں ہمیشہ گرم جگہ اور تپش اورآگ سے دور رکھنا چاہیے۔ ۲۔ جاذب Absorbants یہ خشک پائوڈر کی حالت میں ہوتے ہیں مثلاً بھوسی چاک پسا ہوا اور عام مٹی وغیرہ۔ کپڑوں کی دھلائی کے طریقے اور اصول کپڑوں کی دھلائی کے دو قسم کے عملوں پر مبنی ہے۔ ٭ کپڑوں پر سے گرد و غبار اور میل کچیل صاف کرنا ٭ صاف کپڑوں پر اس کے عمل کرنا کہ وہ دیکھنے میں نہایت نفیس اور نئے پن کا تاثر دیں۔ گرد اور میل کچیل صاف کرنا مختلف قسم کے کپڑوں پر گرد جمنے یا اسے جذب کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ بعض کپڑوں کی صرف سطح پر بھی گرد پڑ جاتی ہے اور انریشوں میں جذب نہیں ہوتی ایسے کپڑوں کومحض اچھی طرح جھاڑنے یا برش سے صاف کرنے سے بھی صفاء ہو جاتی ہے۔ لیکن اگرمٹی کے ذرات اور میل کچیل جسمانی چکنائی کے ساتھ مل کر کپڑے کے اندر جذب ہو گئی ہو تو کپڑوں کو کسی مناسب محلل میں بھگوئے رکھے سے ایک خاص عمل ہوتاہے۔ ج سے میل پھول جاتی ہے اور می کے ذرات نرم ہو کر محلل میں شامل ہوتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اسے ذرا سا ملنے سے کپڑا صاف ہو جاتا ہے چکنائی والے گندے کپڑوں پر سے پہلے چکنائی رفع کرنا ضروری ہے۔ جس کے لیے چکنائی کو جذب کرنے والے محلل کا استعمال ہوتاہے اور پھر حسب ضڑورت تھوڑا سا زیادہ دبائو ڈالتے ہوئے کپڑے کو مل کر صاف کیا جاتا ہے۔ کپڑے ملنے کے لیے مختلف درجوں کا دبائو مندرجہ ذیل طریقوں سے ڈالا جاتا ہے۔ ۱۔ پٹخنے اور رگٹنے سے ۲۔ ہلکا سا ہاتھوں میں دبا کر ۳۔ سکشن پمپ کے ذریعے ۴۔ دھلائی کی مشین کے ذریعے اختتامی عمل Methods of Finishing دھونے کے بعد خشک ہونے پر کپڑوں میں ضرور دھلائی کے بل اور سلوٹیں رہ جاتی ہیں۔ جنہیں سیدھا کرنے سے کپڑ ا خوبصورت صاف اور ملائم لگنے لگتا ہے بلکہ اکثر اوقات کپڑوں میں نیا پن پیدا ہو جاتاہے جو ا س میں مزید دلکشی پیدا کرتا ہے اس خاصیت کے لیے کپڑوں کو استری کرنے بھاپ دینے اور کلف وغیرہ لگانے کے عمل کیے جاتے ہیں استری کرنے کے لیے کپڑوں میں اتنی نمی ضروری ہونی چاہیے جس سے اس میں نرمی پیداہو جائے اور اسے استری کرنے سے کپڑا اصلی حالت میں اور نیا لگنے لگے کاٹن لیس اور اون وغیرہ کے کپڑے خشک کر لیے جائیں اور استری سے کچھ دیر پہلے ان مین نمی لگا کر استری کی جاتی ہے۔ دھونے کے طریقے Methods of Washing پٹخنے اور رگڑنے کے ذریعے کپڑے دھونا کپڑے دھونے کا طریقہ ہمارے گھروں میں بہت عام ہے اورپھر دھوبی بھی گھاٹ پر کپڑے اسی طریقے سے دھوتے ہیں یہ طریقہ چونکہ بے احتیاطی برتنے کا طریقہ ہے اس لیے ہر قسم کے کپڑے اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے بلکہ اس طریقہ سے صرف مضبوط موٹے اور سوتی کپڑے دھونے چاہئیں۔ خصوصاً باورچی خانہ کیناھے کے میز کے کپڑے اور بستر کی چادریں وْغیرہ رگڑنے کے طریقے میں کپڑوں پر صابن لگا کر یا تو انہیں اہاتھ سے ہی دوہرا کر کے کپڑے کے ایک حصے کے اوپر دوسرا حصہ رگڑا جاتا ہے یا پھر سخت قسم کے برش سے کپڑوں کو رگڑ کر صاف کیا جاتا ہے۔ یوں بے ہنگم طریقے سے کپڑے کو کھینچ کر رگڑنے سے اکثر کپڑوں کے ریشے کھینچے جانے والے حصے سے لمبے ہو جاتے ہیں اورنتیجتاً کپڑے کی وضع برقرار نہیں رہتی۔ اور مختلف حصوں سے کپڑے لٹک جاتے ہیں یا ان میں جھول پڑجاتاہے اور اس طرح کپڑے نسبتاً جلدی پھٹ جاتے ہیں کپڑوں کو رگڑنے کے ذریعے دھونے کا عمل بھی مندرجہ ذیل مختلف طریقوں پر مبنی ہے۔ ہاتھوں میں رگڑنا اور ملنا کم میل اور چھوٹے کپڑوں مثلاً دستی رومال بلائوز ڈوپٹے اور شمیضوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر رگڑے کا طریقہ مناسب ہے۔ اس کے لیے صابن کی ٹکیہ گرم پانی اور تسلہ درکار ہوتا ہے۔ سکشن کے عمل کے ذریعے دھلائی Suction Washing اس طریقے سے چھوٹے بڑے رنگین یا سفید تمام قسم کے کپڑے دھوئے جا سکتے ہیں خاص طور پر ایسے کپڑے جنہیں ہلکا دبائو ڈال کر صاف نہ کیا جا سکتا ہو یا جو ملنے رگڑنے اورنچوڑنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہو جو زیادہ ونی اور بڑے ہوں مثلاً کمبل پتلون وغیرہ سکشن پمپ سے دھوئے جاتے ہیں۔ استری کرنا Ironing استری کرنے کاعمل کپڑے کے ذریعے دبائو اور تپش پہنچا کر اس کی شکنیں دور کرنے پر مشتمل ہے۔ استری کا درجہ حرارت کپڑے کے ریشوں کی قوت برداشت کے مطابق ہونا چاہیے ورنہ کپڑے جل جاتے ہیں اور بیکار ہوجاتے ہیں مثلاً درجہ حرارت کم ہونے کی صورت میں شکنیں ٹھیک طرح سے دور نہیں ہوتیں سوتی اور لینن کے کپڑوں میں تپش کے لیے قوت برداشت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ان کی شکنیں رفع کرنے کے لیے دبائع بھی زیادہ درکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں ریشے ۳۰۰ ڈگری فارن ہائیٹ تک بخوبی تپش برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کے بعد ان پر جلنے کے داغ سے پڑنے لگتے ہیں اور تقریباً ۴۷۵ ڈگری فارن ہائیٹ پر یہ ریشے جلنے لگتے ہیں ۔ لینن کو قدرے زیادہ نم لگا کر استری کرنا چاہیے کیونکہ دھلائی پر سوتی کی نسبت زیادہ سکڑتا ہے۔ زیادہ تر اونی کپڑوں کو قدرتی لچک کے باعث استر ی کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ اگر ضروری ہو تو نہایت ہلکے درجے کی استری لگانی چاہیے کیونکہ اونی کپڑوں میں ۲۶۶ پر جلنے کی بوآنے لگتی ہے اور ۵۷۲ پر یہ جلنے لگتاہے۔ اونی کپڑٓ استری کرتے وقت خاص احتیاط درکار ہوتی ہے اسے یا تو بھاپ والی استری سے استری کرنا چاہیے یا پھر اس میں نم دارململ کا کپڑا رکھ کر یہ پریس کرنا چاہیے۔ ریشم میں تپش برداشت کرنے کی قوت اون سے بھی کم ہوتی ہے اور یہ ۳۳۰ فارن ہائیٹ پر ہی جلنے لگتاہے۔ اس لیے ریشم پر زیادہ تی ز استری سے پرہیز کریں۔ رے اون بھی جلدی جلنے والا ریشہ ہے اس پر تقریباً اون کے برابر درجہ حرارت برداشت رکنے کی صلاحیت ہوتی ہے ایسی ٹیٹ ۳۵۰ پر پگھل کر استیری کے ساتھ چپک جاتاہے اور زیادہ گرم ہونے پر شعلہ بھی دینے لگتا ہے۔ اس لیے رے اون سے کم تپش کی استری اس پر استعمال کرنی چاہیے نائییلون پر نہایت ہی ہلکی گرم استری استعمال کرنی چاہیے کیونکہ کم ٹمریچر سے ہی اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے۔ Kinds of Fabrics ۱۔ کاٹن اور لینن کی دھلائی ۲۔ کاٹن اور لینن کے رنگین کپڑوں کی دھلائی ۳۔ اونی کپڑوں کی دھلائی ۴۔ ریشم کی دھلائی ۵۔ رے اون اور کیمیائی و معدنیاتی ریشوں کی دھلائی کاٹن اور لینن کاٹن اور لینن پاک و ہند میں زیادہ استعمال ہونے والا کپڑا ہے۔ کیونکہ یہاں دونوں پودوں کی کاشت بہت کثرت سے ہوتی ہے اور پاکستان میں یہی سب کپڑا سب سے ستا اور پائیدار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہر طبقہ کے لوگ اس کپڑے کا استعمال بخوبی کرتے ہیں۔ لیکن اگر اندازہ لگائیں تو معلوم ہو گا کہ کاٹن لینن سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ویسے یہ دونوں کپڑے بے شمار مختلف نوع و اقسام میں دستیاب ہوتے ہیں جن کا انحصار ان کی بنائی ہوئی اور چند مخصوص عمل پر ہوتاہے۔ کاٹن اور لینن کے رنگین اور پرنٹ والے کپڑوں کی دھلائی کے وقت یہ بات یاد رکھیں کہ ان کے رنگ پرنٹ خراب نہ ہوں رنگین کپڑں کو سفید کپڑوں کے برعکس دھلائی سے پہلے صابن اور پانی کے محلول میں نہیں بھگونا چاہیے اگر کوئی بہت زیادہ گندا ہو جائے جسے بھگونا ضروری ہو تو اسے بہت تھوڑی دیر کے لیے نل کے عام درجہ حرارت والے پانی سے بھگونا چاہیے اوراس پانی میں کوئی استقلالی کیمیا Mordant مثلاً نمک یا سرکہ بھی ڈال دینا چاہیے۔ اس سے رنگ اترنے اور نکلنے کا عمل کم ہو جاتاہے۔ رنگدار کپڑوں کو زیادہ زور زور سے کوٹنا اور ملنا نہیں چاہیے۔ اون حیواناتی ریشہ ہوتا ہے جو نازک ٹکسچر ہونے کے باعث دھلائی میں بہت رگڑنا نہیں چاہیے۔ دھلائی کے دوران مختلف درجہ حرارت والا پانی استعمال نہ کریں گیلے کپڑے کو لٹکانا نہیں چاہیے الکلی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے رے اون کو بھی ریشم کی طرح محتاط طریقے سے دھونا چاہیے۔ Clothing کپڑوں کی دیکھ بھال اور حفاظت میں دھلائی کے علاوہ دھلائی سے قبل ان کی مرمت بھی شامل ہے۔ تاکہ دھلائی کے دوران ادھڑی پھٹ اور سوراخ والی جگہ مزید پھٹ نہ جائے ا س کے علاوہ اگر کہیں بٹن ٹوٹا ہوا ہو تو یا ہک وغیرہ لگانا مقصو د ہو تو وہ بھی دھلائی کرنے سے پہلے ہی نکالنے چاہئیں اس طرح ہر وقت کپڑے جب بالکل صحیح حالت میں تیار ملتے ہیں تو نہ تو ذہنی پریشانی ہوتی ہے نہ وقت ضائع نہ ہی گھر میں غصے سے بدمزگی پیداہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات کہیں جانے کی اس قدر جلدی ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ کئی دوسرے کام بھی کرنے پڑتے ہیں اور کپڑا دیکھنے کی مہلت یا فرصت بھی نہیں ملتی۔ جس سے کئی مرتبہ عجیب عجییب جگہ سے محض سلائی ادھڑی ہونے کی وجہ سے بدن ننگا ہونے لگتا ہے اور باہر کے لوگوں میں شرمندگی اٹھانا پڑت ہے کبھی گلے کے عین سامنے کی پٹی پر بڑا سا ٹانکہ یا سیفٹی پن وغیرہ لگا کر لوگ اپنے بھونڈے پن کا اظہار کرتے ہیں یا پھر جلدی جلدی میں کپڑا صرف بٹن لگانے یا سلائی کی مرمت کرنے کے لیے قریب کے درزی کے پاس بھیج دیا جاتاہے۔ جو مسئلہ کی نوعیت بھانپتے ہوے فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور اس طرح پیسے بے جا خرچ ہو جاتے ہیں اس لیے محںت الجھن پیسوں اور بے عزتی دے بچت کے لیے ضروری ہے کہ ذرا سی عقل مندی سے کام لے کر یہ چھوٹی چھوٹی مرمتیں پندرہ بیس منٹ لگا کر کر لی جائیں ان مرمتوں میںبٹن لگانا ہک لگانا سیدھی لائنوں کی مرمت کرنا پیوند لگانا اور رفو وغیرہ کرنا شامل ہیں۔ بٹن لگانا ڈھیلے لگے ہونے کی وجہ سے یا بد احتیاطی سے دھلائی میں خصوصاً دھوبی کی سلائی میں یا تو بٹن نکل کر گر جاتے ہی یا پھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ جس سے صڑف گلے یا کف پر ایک بٹن نہ ہونے کی وجہ سے اتنا نفیس اور عمدہ سلا ہوا سمارٹ لباس بدنما لگنے لگتا ہے کہ ہر مرتبہ بٹن مضبوط کر کے دھاگے توڑ لینا چاہیے تاکہ دھاگے کو چند ٹانکے بھر کے دوسرے بٹن تک لے جایا جائے۔ ٭٭٭ باب ۸:گھر اور خاندانی رہن سہن Home and Family Living پس منظر گھریلو زندگی گھر یا مکانیت سے ہٹ کر ایک اہم چیز ہے۔ گھر محض چار دیواری کا نام نہیں بلکہ یہ اس چاردیواری میں رہنے والے لوگوں کی روز مرہ زندگی کا نام ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ چلتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے زندگی کو ہر شخص اپنے طور طریقوں سے اپنے اہل و اعیال کے ساتھ عزیز و اقارب کے ساتھ گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو اس کو بعد میں اتنی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ خاندان اور کنبے میںفرق خاندان بنیادی معاشرتی اکائی ہے معاشرتی اس لیے کہ اس میں انسان کا طرز عمل کس جسمانی تحریک کے باعث نہیں بلکہ تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے مطابق ہوتا ہے۔ خاندان و ہ افراد مل کر جو شادی خون کے رشتے کی وجہ سے متحد ہوں کنبے کے افراد ایک منفرد گھرانہ بناتے ہیں جس میں بعض اوقات تین چار یا پانچ پشتیں ساتھ ساتھ رہتی ہیں یا صرف والدین اور بچے ہوتے ہیں بوگارڈ Bogardus نے خاندان کی تعریف میں کہا ہے کہ یہ ایک موثر گروہ ہے جو عام طور پر ایک باپ ایک ماں اورایک یا زیادہ بچوں پرمشتمل ہے یونڈ اور میک Yound, Makeکہتے ہیں کہ خاندان دو یا دو سے زیادہ افراد کا مجموعہ ہے جو خونی ازدواجی یا متبنی کے رشتے میں جڑا ہوا اور سب اکٹھے رہتے ہوں۔ خاندان اپنے اندر ایک سے زیادہ کئی کنبوں کی پرورش کرتاہے۔ کنبہ ایک چھوٹے یونٹ کانام ہے جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک خصوصی رشتہ کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر میاں بیوی کا رشتہ شادی و نکاح کا رشتہ ہے۔ بہن بھائیوں میں خون کا رشتہ ہے والدین و اولادمیں قانونی و جسمانی رشتہ ہے۔ بلکہ جو فرد خاندان سے خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود اولاد کا مقام حاصل کرتہے وہ بھی اولاد کی طرح اس رشتے کا حق یا وراثت کا حق طلب کرتا ہے ویسے تو ہمارے معاشرہ میں والدین بھی دادا دادی بھی کنبے کے افراد میں شامل ہیں اور ان کا مقام ہماری طرز رہائش میں باقی افراد سے اعلیٰ ہے یہ سب افراد اپنے اپنے کردار کو کنبے کی فلاح و بہبود کے لیے نبھاتے ہیں او ر اس امر کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ ایک فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ گھر کا سربراہ ان کی کفالت کرتا ہو اور وہ سب ایک چھت کے نیچے ایک دستر خوان پر کھانے پینے میں اور وہ اس طرح سب م کر ایک صحت مند خوش حال اور مسائل سے کسی حدتک دورکنبہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خاندان ایک حقیقت کا نام ہ کنبے کے افراد دانستہ یا نادانستہ اپنے عمل کو کنببے کی فلاح کے لیے اس کی ضروریات کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں یہ سلسلہ اور لین دین جاری رہتا ہے کیونکہ کنبے کے افراد کنبے سے نہ صرف جسمانی ضروریات بلکہ ذہنی روحانی سماجی و معاشرتی ضروریات و حقوق کے حصول کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اپنے گھر اپنے والدین اپنے بہن بھائی اور اپنی بیوی اور اولاد سے ایسے رشتے ہیں جن کے لیے انسان زندہ رہتا ہے اور زندگی میں تگ و دو کرتا ہے خاندان سے واسطہ اس سے عظیم رشتہ و بندھن ہے جس کے نام سے وہ پہچانا جاتا ہے جسے سے معاشرے میں اس نے ایک مقام حاصل کیا ہوتا ہے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے آپ کو محفوظ اور صاحب جائیداد سمجھتا ہے اور اس میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ ایک روحانی سکون حاصل کرتا ہے آ پ نے دیکھ اہو کہ ایک فرد جسے اپنے گھر یا خاندان سے سارے حقوق حاصل ہیں وہ اپنی ساری محبت اور شفقت کے باوجود اپنے خون و خاندان کا متلاشی ہوتا ہے جبکہ ان کا اپنا کبتہ آپ کو جسمانی و روحانی دونوں سکون فراہم رکتے ہیں ۔ تمام افراد ایک ہی چھت کے سائباں کے نیچے اکٹھے رہتے ہیں تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود گھر سے وابستگی اپنی شناخت انہیں عزیز ہوتے ہیں۔ تقریباً ایک ہی جیسے اصول اور رسم و رواج کے پابند ہوتے ہیں۔ عارضی قیام رہائش کو گھر نہیں کہتے جیسے پڑھائی یا نوکری کے لیے دوسرے مقام پر رہنا جیسے ہوسٹل وغیرہ ان تفریقوں سے ظاہر ہے کہ یہ سب سے چھوٹا ادارہ ہے جس میں کم از کم دو افراد پائے جاتے ہیں اور اس ادارے کی بنیاد شادی پر قائم ہوتی ہے۔ جو ایک فرد اور ایک عورت کے درمیان اس معاشرے کے مطابق طے پائی ہے تمام تہذیبوں نے شادی کو معاشرتی بہبود کے لیے لازمی قرار دیا ہے اور اس کے متعلق قوانین کی پابندی کو اہم سمجھا ہے۔ خاندانی زندگی کا چکر خاندانی زندگی کا یہ چکر ایسا ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا دنیا میں ہزاروں قسم کی تبدییاں آتی ہیں۔ پہلے زمانے میں خاندان بڑے ہوتے تھے سب بھائی اپنے اپنے خاندان کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے بعض دفعہ ایک گھر میں چار نسلیں اکٹھی ہو جاتی تھیں مگر اب زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ خاندان سمٹ سمٹ کر میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل ہو گیا ہے کنبے کی ابتدا میاں بیوی سے ہوتی ہے کچھ عرصہ کے بعد جب خاندان میں بچوں کو اضافہ ہوتا ہے تو خاندان پھیل کر بڑا ہو جاتا ہے جب بچے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد خود ملازمت اختیار کر لیتے ہیں تو بیٹیاں شادی کے بعد شوہروں کے گھر چلی جاتی ہیں تو بیٹے بہوئوں کے ساتھ علیحدگی میں پر سکون زندگی بسر کرنے لگتے ہیں تو وہ خاندان جس کی ابتدا صرف شوہر بیوی سے ہوئی تھی پھر سکڑ کر دو آدمیوں پر مشتمل ہو جاتا ہے۔ اور جب بڑی عمر میں دونوں میں سے کسی ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے تو یہ خاندان کی انتہا کہلاتی ہے اور پھر یونہی نیا جوڑا پھر سے خاندان کی بنیاد رکھتا ہے۔ معاشرہ معاشرہ لوگوں کے آپس میں رہن سہن کے انداز کا نام ہے ہم بہت سے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ہم میں سے بہت سے آدمی دیہاتوں میں رہتے ہیں اور بہت سے شہروں میں مقیم ہیں کچھ کاروبار کرتے ہیں کچھ مزدوری اور ملازمت کچھ صنعتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے زرعی کاموں میں معاشرے کی اکثریت افراد میں تھوڑے بہت امیر و کبیر کافی تعداد میں درمیانے درجے کی زندگی گزارتے ہیں اور ادنیٰ درجے میں ہیں جن کی گزر اوقات مشکل سے ہوتی ہے سب درجے کے افراد اکٹھے ہی رہتے ہیں ریلوں سڑکوں بسوں اور ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کرنے والے پیدل چلنے والے سب ایک ہی معاشرہ بناتے ہیں۔ استاد اور شاگرد دوکاندار اورگاہک ڈاکٹر اور مریض سب مل کر معاشرے کو وجود میں لاتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی رسم و رواج بچوں کی پیدائش کی رسومات اورموت کی صورت میں غم کی رسومات ایک ہی معارے کے تانے بانے ہیں۔ معاشرے کی تعریف افراد کے باہمی تعلقات کے تانے بانے کو معاشرہ کہتے ہیں معاشرے کے بارے میں ماہرین کی رائے میکائیور Maciverکے مطابق معاشرتی ساخٹ کا وہ نظام ہے جس میں اور جس کی بنیاد پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے سے الگ تھلگ کوئی بھی زندہ انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ جنگل میں رہنے والا راھب ہی کیوں نہ ہو ینگ اور میک Young and Mackکے قول کے مطابق معاشرہ وہ سب سے بڑا معاشرتی گروہ یا مجموعہ ہے جس میں مشترکہ ثقافتی انداز موجود ہوں جو جملہ بنیادی اداروں کا احاطہ کیے ہوئے ہوں گڈنگز Giddings کہتا ہے کہ معاشرہ افراد کا ایک گروہ ہے جس مشترک مفاد یا دلچسپی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتاہے۔ معاشرے کے مطابق سماجی و نفسیاتی تربیت انسانی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن ہر قسم کے احساسات اور تاثرات سے پاک ہوتاہے جو بعد مٰں دوسرے افراد کے ساتھ رہنے سے کام کرنے سے متاثر ہوتاہے۔ پیدائش کے فوراً بعد اسے ماں کی حیثیت کا احساس ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے کنبے کے دوسرے افراد سے متعارف ہوتا ہے۔ پھر اس کے ہمسایے واقف بنتے ہیں اورآخر میں اس طبقے اور برادریوں وغیرہ کی باری آتی ہے ان تمام لوگوں سے وہ نرمی سختی شفقت اور لاتعلقی کا رویہ سیکھتا ہے۔ یہ اثر پذیری دو گونہ ہوتی ہے یعنی جب بچہ دوسروں سے سیکھ رہا ہے تو بیک وقت دوسرے لوگ بھی اس کے ذہنی رد عمل کا تاثر قبول کرتے ہیں یہ عمل معاشرتی تربیت کہلاتاہے اور تربیت سے فرد کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ گویا کمزور چڑچڑی یا شخصیت کا انحصار مکمل طورپر اس بات پر ہے کہ متعلقہ فرد کی تربیت کسی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے تمام خاندانوں کے چند مقاصد ہوتے ہیں یہ مقاصد یکساں بھی ہوتے ہیں اور مختلف بھی۔ اس کاانحصار خاندان کی قسم پر ہے مثلاً پاکسان میں خاندان کا مقصد رہائش مہیا کرنا ہے بچوں کے لیے تعلیم ہو سکتا ہے پھر بھی بعض مقاصد ایسے ہیں جن کی کوئی نام دینا مشکل ہے جسے آرام خوبصورتی یا صفائی ستھرائی کے لیے مل جل کر کام کرنا سب خاندانوں کو ؤپاس انسانی ذرائع ہوتے ہیں جیسے ذہانت قابلیت ہنر تعلیم اور طاقت مادی ذرائع جیسے پیسہ اشیاء جو خاندان کی ذاتی ملکیت ہیں اور کچھ وہ ذرائع جو اجتماعی زندگی سے حاصل ہوتے ہیں مثلاً تعلیم و تدریس اور طبی سہولتیں اور اسی طرح ہمیں زندگی کے لیے بھی تیار رہنا چاہے۔ شخصیت کی نشوونما بہت چھوٹی عمر میں ہو جاتی ہے مثلاً والدین کا اثر عادات کی تشکیل طرز عمل اور مزاج وغیرہ۔ خاندان کے افراد کی نشوونما ایک اہم مقصد ہے کیونکہ اس انسان کی ذہنی سماجی اور جذباتی صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ نفرت اور خوف و ہراس شخصیت کو عیب دار کر رہے ہیں جبکہ محبت اور خوشی اس میں خاطر خواہ خصوصیات کا اضافہ کرتے ہیں یہ تمام چیزیں ہم اپنے گھروں اور والدین سے ہی سیکھتے ہیں جو محبت اور شفقت بچے کو اپنے خاندان سے ملتی ہے اور جو وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لیے محسوس کرتا ہے کسی اور گروہ کی طرف داری اور خلوص سے بھی نہیں بدلی جا سکتی پیدائش کے بعد ہی بچے میں حس اعتماد پیدا ہوتا ہے اور یہ حس دودھ پیتے میں ماں کی گود کی گرمی کو گھر کے دوسرے افراد کی گود میں کھیلنے اور گیلے کپڑے بدلتے وقت شفقت بھرے ہاتھوں کے لمس سے پیدا ہوتی ہے شروع کے چند سالوں میں بچوں کی جسمانی اور معاشرتی ضروریات ہوتی ہیں جو وہ اپنی دست نگری اور مجبوری کی وجہ سے خود پوری نہیں کر سکتے ۔ بچوں کی تمام ضروریات اگر ہر وقت پوری شفقت اورپیار و محبت سے پوری ہوتی ہیں تو بچوں میں تحفظ چاہے جانے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے بچے کا دائرہ عم اورمعاشرتی حلقہ بڑھتا جاتاہے اس میں نفسیاتی تحفظ کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔ اور یہ احساس سزا اور جزا کے یکساں اصول کی پابندی معاشرتی تعلقات کے استحکام تربیت اور اس کی زندگی میں ادا کرنے والے کردار کے لیے تیار کرنے تہذیب سے روشناس کرانے پر منحصر ہے۔ جس طرح جسمانی تربیت ضروری ہے اسی طرح سماجی اور معاشرتی تربیت کے لیے ہر معاشرہ میں خاندان کے فرائض منصبی میں معاشرتی تربیت کو اہم تصور کیا جاتا ہے خاندان کے علاوہ اس تربیت میں رشتہ دار تعلیمی ادارے ؤکھیل کے گروہ مختلف ادارے اور ابلاغ عام کے ذرائع کا بھی ہاتھ ہوتاہے۔ معاشرتی تربیت کا تعلیم سے گہرا تعلق ہے تعلیم ذہنی مہارت کی تربیت کرتی ہے اور اس کے ذریعے انسان فہم و فراست اور اخلاق سے متعلق تہذیبی روایات کو پہچانتا ہے معاشرتی آداب و اطوار سیکھتا ہے اور اصلاح اخلاق کرتاہے اصلاح اخلاق کے لیے سزا و جزا کا عنصر نمایاں طور پر کارگر ہوتاہے۔ بچے کو معاشرتی تربیت دینے میں سب سے اہم کردار اس کی ماں ادا کرتی ہے کیونکہ بچوں کی پرورش کی زیادہ ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے بچوں کو تہذیب و تمدن اورمعاشرتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اس کے خاندان ہی میں شرع ہوتا ہے کہ والدین سب سے پہلے معلم ہوتے ہں روز مرہ کے بے شمار واقعات سے والدین بچوں کو صحیح طرز عمل سکھاتے ہیں والدین کی سمجھ کے مطابق تہذیبی طرز عمل سیکھنے کی وجہ سے بچہ اپنی انفرادی شخصیت بناتا ہے۔ واٹس Watsonکہتا ہے کہ عموماً بچہ اپنی ماں کے ساتھ مستقل رابطہ رکھتا ہے کھلانا پلانا محبت سے کھیلنا بچے سے باتیں کرنا اس کے کپڑے بدلنا اس کو گود میں لینا کے درمیان رابطے کی چند مثالیںہیں یہ رابطے بچے کو بولنا سیکھنے پلنے چلنے کھیلنے اور بیٹھنے کھڑے ہونے چلنے پر اکساتے ہیں ٹرکسل Truxallنے موجودہ خاندانوں کے کرداروں کو یوں بیان کیا ہے کہ بچے ہر انفرادی توجہ جس سے وہ انسان بنتاہے یہی ایک خاندان کی مرکزی سرگرمی ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ معاشرتی اقدار ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بعض مرتبہ کسی خاص شے عمل یا معاشرتی مظہر کو اچھا یا برا سمجھنے لگتے ہیں۔ مثلاً داھی رکھنا وقار کا موجب ہے حج سے واپس آنے والے افراد کو اپنی کمیونٹی میں معزز گردانے جاتے ہیں اور اسی طرح ریفریجریٹر یار یا ٹیلی فون وغیرہ خریدنا بھی گھر والوں کی عزت کا باعث بن جاتا ہے اس کے برعکس جھگڑالو میاں بیوی کو ان ک ہمسایے اچھی نظر سے نیہیں دیکھتے حالانکہ یہ باہمیت وتکار فقط گھر کی چار دیواری تک محدود ہے او رمیاں بیوی کا بالکل ذاتی مسئلہ ہوتاہے قصبات میں پردہ نہ کرنے والی عورووں کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا بات پر قسمیں کھانے والا شخص اپنا وقار گنوا بیٹھتا ہے بد سلیقہ اورجھگڑالو میاں بیوی محلے بھر میں بدنام ہو جاتی ہے اچھائی اور برائی پسند اور حقارت کے ان معیاروں کو معاشرتی اقدار کہا جاتا ہے۔ معاشرتی اقعار ہمارے رویے اور باہمی تفاعل کے رخ کا تعین کرتا ہے گویا معارے کے تمام آداب و معمولات میں قوانین کی بنیادیں اور معیار ہیں انسانی سوچ کے تمام دھارے معاشرتی اقدار کی رنگا رنگی سے پھوٹتے ہیں اور کسی شے کا حقیقی استعمال اور افادہ اس کی معاشرتی قدر سے بالکل الگ بلکہ بعض دفعہ تو برعکس ہوتا ہے مثلاً پاکستان میں خواتین کو سونے کے زیورات بہت پسند ہیں کیونکہ یہ عزت بڑھاتے ہیں لیکن سونے کے زیورات کا کوئی فائدہ نہیں۔ نئے ماحول سے مطابقت ہمارے معاشرے میں رسم ہے کہ شادی کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ یہ گھر اور اس کے افراد لڑکی کے یلے نئے ہوتے ہیں خواہ رشتے دار ہوں یا غیر۔ یہ خاندان میں تربیت کے لحاظ سے ماحول میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہوتا ہے زندگی میں کامیابی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک خود دوسرے خاندان کے ماحول کو اپنا نہ لیا جائے یا پھر اپنے ماحول کو عقل مندی کے ساتھ دوسرے ماحول میںسمو نہ دیا جائے کسی خاندان اور نئے ماحول میں گھل مل جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اس کے لیے ماحول کو سمجھنے کی اہلیت دوسروں کے خیالات کو جانچنے کی قابلیت اور خیالات کی پختگی اور لچک کا ہونا ضروری ہے۔ خاندان یا کنبہ کی اقسام واحد کنبہ جس میں میاں بیوی اور بچے شامل ہوتے ہں عزیز رشتہ دار وغیرہ کا دخل نہیں ہوتا۔ وسیع کنبہ اس میں میاں بیوی بچوں کے علاوہ ساس سسر اور قریبی رشتہ دار مثلاً چچا تایا اور ان کے اہل خانہ شامل ہوتے ہیں۔ خاندان کا رہائشی نظام حاکمانہ نظام جمہوری نظام حاکمانہ نظام اس نظام میں ایک ہستی مختار کل ہوتی ہے جو اقدار و مقاصد کا تعین کرتی ہے او رفیصلوں کا اختیار بھی اسی بادشاہ کی حیثیت جیسی ہستی کو ہوتا ہے۔ جمہوری نظام یہ نظام حاکمانہ نظام کے برعکس اور زیادہ تر واحد کنبوں میں رائج ہوتا ہے۔ اس نظام میں گھر کی تمام ذمہ داریاں گھریلو مسائل اور ان کے حل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ کنبوں کے فرائض اور زمہ داریاں حیاتیاتی فرائض و ذمہ داریاں معاشی فرائض و ذمہ داریاں معاشرتی فرائض و ذمہ داریاں تحفظ مہیا کرنا خاندان کے باہمی اشتراک کے لیے لائحہ عمل اطاعت شعاری حقیقت پسندانہ رویہ دوسروں کا احساس اکرام و تفریح خود اعتمادی مفاہمت و ہم آہنگی عمل اور رویوں پر قابو باہمی سمجھوتے جذباتی پختگی سسرال میں مل جل کر رہنا شوہر اور بیوی خاندان کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیںاگر یہ دونوں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا اثر خاندان کے ہر فرد پر پڑے گا لیکن ان کی الجھن اور کشمکش پورے گھر کی تباہی کا باعث ہو سکتی ہے عام طور پر لڑکی کو ہی اپنے آپ کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنا پڑتاہے اس لیے اگر بہو ہی اپنی طرف سے چند باتوں کا لحاظ رکھے تو یہ ساری پریشانی دور ہو سکتی ہے سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ گھر میں ساس کا حق مانے گھر کے کاموں اور اخراجات میں ساس کے مشورے لے لیا کرے۔ روز مرہ کے خرچ میں اس کے تجربوں کا لحاظ رکھے۔ اس سے ہمدردانہ رویہ رکھے اور عزت و توقیر ملے گی۔ کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے سسرال کے ابتدائی ادوار کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے اور موجودہ حالات کی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینا سسرال میں مقام و حیثیت حاصل کرنے میں مددگار ہوتاہے۔ خاندان کے ابتدائی دور میں میاں بیوی کی ذمہ داریاں میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ ہی خاندان کی بنیاد ہے کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے چند رویے ہر شادی شدہ کے لیے اپنی شخصیت میں شامل کرنا ضروری ہیں مثلاً یہ احساس کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اس کا اپنے سسرالی رشتہ داروں سے کس قسم کا رویہ اور کیسا برتائو ہو نیز رفیق حیات کی ذاتی خصوصیات اور برائیوں کو قبول کرن اور ان کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھنا وغیرہ۔ شادی کے بعد پہلے بچے کی آمد تک خاندانی زندگی کا ابتدائی دور کہلاتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکے کو شوہر کا کردار نبھانے کے لیے شادی شدہ آدمی کی توقعات پر پورا اترنا پڑتا ہے شادی شدہ جوڑے کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے کئی مقاصد کو مدنظر رکھ کر ذمہ داریوں کو نبھانا پڑتا ہے اور یہ مقاصد گھر آمدنی جذباتی اور ذہنی تعلق ذمہ داریوں کی تقسیم کنبوں دوست احباب شرکائے کار معاشرتی تنظیم اور مذہبی روابط استوار کرنے کے لیے دونوں کے تعلقات پر مبنی ہے۔ میاں بیوی کی باہمی ذمہ داریاں روپیہ پیسہ کمانا اور ایک دوسرے کے مشورے سے خرچ کرنا باہم مل کر اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا اور ان کا نبھانا جنسی ذہنی اور جذباتی رابطے قائم کرنا رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوا رکرنا دوستوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ ملتے جلتے رہنا بچوں کی آمد اور استقبال کی تیاری کرنا شادی شدہ جوڑے کی حیثیت سے کامیاب زندگی کا قابل عمل فلسفہ بنانا بچوں کی پیدائش اور پالنے پوسنے کے بارے میں مفید معلومات حاصل کرنا۔ میاں بیوی کی ذمہ داریاں اورکام گھر کا سربراہ ذمہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے اخراجات کے مطابق معقول رقم مہیا کرنا گھریلو ضروریات کے مطابق مناسب اور پر سکون رہائش کا انتظام کرنا روز مرہ زندگی کی چھوٹی بڑی مشکلات مثلاً بجلی پانی سوئی گیس وغیر ہ کے بارے میں گھر والوں کی وقتاً فوقتاً مدد کرنا۔ اپنے اور سسرالی رشتہ داروں کی عزت کرنا اور دیکھ بھال میںبیوی کا ساتھ دینا بیو ی کو ماں بننے کے دوران تسلی دینا اور خوش آئند مستقبل کے منصوبے بنانا۔ شوہر کو اپنی بیوی اپنے گھر والوں مثلاً ماں باپ بہن بھائیوں کے کردار میں توازن پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہونا چاہیے۔ بچے کی موجودگی کے شوروغل سے سونے کی عادات پیدا کرنا پہلے بچے کی آمد پر خاص طور پر خاتون خانہ کی ذمہ داریوں ار کام میں فرق پڑ جاتا ہے۔ شوہر کو کام کی زیادتی کی وجہ سے بیوی کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے اور بچے کی نگہداشت میں مددگار ثابت ہونا چاہیے۔ بچے کی پیدائش کے دوران جوتفریحات ملتوی کر دی گئی تھیں ان کو بحال کنا اور بیرونی حالات سے بیوی کو باخبر رکھنا۔ بیوی کی انفرادی ذمہ داریاں اور فرائض باپ کو بڑھتے ہوئے خاندان اور اخراجات کے لیے آمدنی میں اضافے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ گھر میں خاوند کی حیثیت اگر بادشاہ جیسی ہے تو بیوی کو اس کی وزیر اعلیٰ کہا جاتا ہے۔ اس لیے اسے خاوند کی کمائی ہوئی رقم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔ البتہ ماہانہ بجٹ بنا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ گھر کو سگھڑ طریقے سے آرائش کرنا۔ ٭ اپنے اورسسرالی رشتہ داروں کی عزت اور خدمت کرنا۔ ٭ بچے کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنا اور دوران حمل اپنی صحت اور خوش مزاجی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٭ گھر میں مختلف لوگوں مثلاً ساس سسر دیور اور نندوں کے رویوں اور کردار میں توازن برقرار رکھنے میں شوہر کی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ جنسی جذباتی ذہنی اور فطری تعلقات خوش گوار طریقے سے استوار کرنا گھر کے ماحول فرنیچر اور ساز و سامان کی تربیت وقتاً فوقتاً اپنے ذرائع و سائل کے مطابق تبدیل کرتے رہنا تاکہ ماحول یکسانیت کاشکار نہ ہو۔ گھر میں خود اعتمادی اور سکون کا ماحول پیدا کرنا۔ روایتی طورپر شوہر اور بیوی اپنے کرداروں پر سختی سے پابند ہیں۔ جس میں عورت اور مرد کا کام الگ الگ ہے۔ مرد کنبے کے سربراہ اور بیوی بچے اس کے دست نگر ہیں۔ ان کومرد کی عزت و احترام لازم ہے۔ اسی طرح بیوی کا کام بچوں کی پرورش و تربیت اور گھر کی چاردیواری کے متلق تمام تر ذمہ داریاں سنبھالنا ہے۔ آج کل عورت اور مرد کے کرداروں میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ عورتیںمردوں کے کام بھی کر رہی ہیں۔ او ر اس طرح مردوں نے گھر کے کاموں میں عورت کا ہاتھ بنانا شروع کر دیا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ والدین کے باہمی فرائض والدین کے لیے چھوٹے بچوں کی جسمانی معاشرتی اور نفسیاتی نشوونما کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ تاکہ ان کو بچوں میں آنے والی مختلف تبدیلیوں کا علم ہو۔ بچوں کی پرورش والدی پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اور پرورش کس قسم کی پسند سے کرتے ہیں آیا کہ والدین بچوں کو خود مختار خود اعتمادی سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں۔ یا عمر بھر فیصلہ کرنے سے پہلے دوسروں کی نسبت دست نگر ردیکھنا چاہتے ہیں خود اختیار اور قوت فیصلہ کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں اگر والدین بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کے لیے شروع سے بچوں کو نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی پڑتی ہے بلکہ ایسی چیزیں مہیاکرنی پڑتی ہیں کہ جو اس صلاحیت کو فروغ دیں۔ والدین کو چاہیے کہ قبل از سکول بچوں کی بڑھتی ہوئی مہارتوں اورسرگرمیوں کو قبول کریں اور ایسے کردار اختیار کریں جس میں بچوں کے لیے جسمانی مدد بتدریج کم ہو تی جائے بچے کی نگرانی اور ذمہ داری نبھائیں مگر بچے کی جسمانی بڑھتی ہوئی معاشرتی تبدیلیوں اور دلچسپیوں کے متعلق بے کار خوف و پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتاہے وہ خود مختار ہوتا جاتا ہے۔ لیکن والدین کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچہ ابھی نو عمر ہے۔ دست نگر ہے اور اسے بہت سی باتوں میں آرام و آسائش اور مدد کی ضرورت ہے۔ بچے کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہونا چاہیے کہ والدین اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کو کامیابیوں پر داد دیتے ہں اوراس کی ذات سے خوشی حاصل کرتے ہیں ۔ والدین کو بچے کی بہتر تربیت کے لیے احساسات اور اس کی طرف خوشگوار رویے اور بہتر خیالات کا ہونا ضروری ہے یہ والدین اپنی خوشگوار اور پر مسرت ازدواجی زندگی سے قائم کر سکتے ہیں۔ غیر شعوری طور پر قبل از سکول بچہ رویہ اور رجحان قائم کر رہا ہوتا ہے۔ جس طرح اور جس قدر شفقت بچے کو ملی ہو وہ اس کو محبت ردعمل کی صلاحیت رکھنے والا اور مزاخ دل یا ڈرپوک اور بے خس بناتی ہے۔ والدین کے لیے باہم سلوک سے رہنا اپنی ناگزیر غلطیوں خامیوں اور ناکامیوں کو بغیر الزام دیئے قبول کرنا ضروری ہے اس کے لیے ایک دوسرے کی غلطیوں پر نادم ہونے پر الزام دینے کے بجائے ہمدردی کا جذبہ رکھنا بہتر ہے۔ زندگی کے بہت سے مساء کی طرح ایک اہم مسئلہ ہماری خاندانی اور سماجی زندگی کی ضروریات ہیں۔ دنیا کے ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرے جس کو پورا کرنے کے لیے امیر لوگ اپنے بچوں کو روپے پیسے کی مدد سے اعلیٰ سے اعلیٰ سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں۔ غریب بھی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ والدین کی گود ہی ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں بچہ سب سے پہلے آنکھ کھولتا ہے۔ اور بچے کے لیے یہی سب سے پہلا رشتہ اور یہی سب سے پہلا مکتب ہوتا ہے۔ والدی ہی کے احساست سے بچہ محتاجی کے ادوارسے نہایت حفاظت سے نکل کر خود احتیاجی تک پہنچتا ہے۔ والدین بچوں کو مختلف رسوم و روایات اور زندگی کے نشیب و فراز سے روشناس کراتے ہیں۔ تعلیم اور ہنر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اور زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھاتے ہیںوالدین نے ایک زمانہ دیکھا ہوتا ہے اور وہ بہت سی ایسی باتیں جانتے ہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں زمانے کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ایسی روایات جنہیں وہ اپنی اولاد یا خاندان کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں انہیں قائم کر لییتے ہیں چونکہ زمانے میں بہت سرعت سے تبدیلی آتی جاتی ہے۔ لیکن ایسا خیال کرنا ہو سکتا ہے کہ حقیقت پر مبنی نہ ہو اور اگر تبدیلی ہو تو آہستہ آہستہ ان کے خیاات کو قائل کرکے تبدیلی لائیں۔ معاشرہ ایسے افراد کے گروہ کا نام ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کر کام کرتے ہیں اور باہمی تعاون سے اس گروہ کے زدگہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا انتظام کرتے ہیں بچہ بھی اس گروہ کا فرد ہے اس یے جس طرح اس کی جسمانی نشوونما ضروری ہے اسی طرح اس کی معاشرتی نشوونما بھی ضروری ہے اپنے آپ کو سمجھنا اپنا خاندان کو سمجھنا اہل خانہ کے خیالات احساسات کو سمجھنا اور قدر و منزلت پہچاننا۔ شخصیت ایک ایسی اصطلاح کا تصور ہے جو کسی فرد کی مجموعی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہے اور یہ ورثہ اور ماحول سے متعلق بھی ہے اور جسمانی معاشرتی عناصر سے بھی گویا تصور ذات کوئی جبلت نہیں جو ماحول سے متعلق بھی ہے اور جسمانی معاشرتی عناصر سے بھی۔ گویا تصور ذات کوئی جبلت نہیں جو پیدائش کے وقت خطرے کی طرف سے عطا کی جاتی ہو۔ بلکہ یہ ایک اکتسابی رجحان ہے۔ جو تربیت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور جسے زیر اثر فرد یا بچہ اپنے کار منصب اور دوسروں کے رد عمل کے پیش نظر اپنے ذہن میں قائم کر لیتا ہے مثلاً جب ایک بے کو ا س کے نام کا علم ہو جاتا ہے تو یہ نام بھی اس کی شخصیت میں شامل ہو جاتا ہے اور جب اسے کہا جائے کہ نام تو تمہارا شریف ہے مگر کتنی پیاری شرارتیں کرتے رہتے ہو تو وہ شریف کے لفظ کی خاطر ہی شرارتوں سے باز آ جائے گا۔ یا جب کسی بچے کو بار بار کہا جائے کہ تم بڑے نیک ہو یا تم بڑ عقل مند اور لائق ہو یا تم بڑے خوبصورت ہو تو وہ اس کی تکرار کی وجہ سے خود بخود اپنے آپ کو نیک یا عقل مند اورلائق تصور کرنے لگ جائے گا۔ خدائے عظیم و برتر نے آدمی کوپیدائشی طور پر بہت کچھ دیا ہے۔ ا س کو صحت مند جسم اور روز مرہ زندگی میں کام آنے والے اعضا مثلاً ہاتھ پائوں ناک کان وغیرہ دیے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے احساسات اور جذبات بھی دیے ہیں جو دنیا میں معاشرتی زندگی خوش اسلوبی سے گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً دوسروں کی خوشی میں کوشی کے ساتھ شریک ہونا۔ ان تمام جذبات اور احساسات کے ساتھ پیدائشی طور پر یا فطری طور پر آدمی کو کچھ جبلات بھی ملتی ہیں۔ دوسروں کی چیزوں کی قیمت اپنی نظر سے نہ لگائیں ایک صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے لیے جہاں اور بہت سی باتیں ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام افراد ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کریں ۔ ان کو ٹھنڈے دل سے سنیں محض اپنی ذاتی الجھنوں اور ناکامیوں کو تنقید کی شکل میں ظاہر نہ کریں۔ لیکن شخصیتوں میں ایسا صحت مند رجحان اسی وقت پیدا ہو سکتاہے ک جب گتھر سے ہی اس قسم کی عادتیں جزو شخصیت بن چکی ہوں اور اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اپنے گھر میں تمام بہن بھائیوں اور والدین کی بھی کسی چیز کو حقیر نہ جانیں بلکہ دوسروں کی چیز آپ کی نظر میں وہی اہمیت ہونی چاہیے کہ جو آپ کی اپنی چیز کی ہے ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی ہر بات کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور اگرکبھی ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ وہ در حقیقت خود غلطی پر ہیں۔ مثلاً آپ کو کڑھائی کا دھاگہ چاہیے توچھوٹی بہن کی ڈبیہ سے نکا ل کر استعمال کرلیا ۔ اب جب اس بے چایر کو ضروری پڑتی تو آپ کو بار بار یاد دانے کے باوجود دھاگہ منگوانا یا دنہیںرہتا۔ آخر مجبور ہو کر اس نے آپ سے تقاضا کیا کہ آپ بجائے اس کے کہ اپنی غلطی کا احساس کریں الٹا اس پر برس پڑتی ہیں۔ آپ اس طرح برافروختہ ہو جانا معاملات کو خراب کر دیتا ہے۔ خاص طور پر جب رسول پاکؐ کا یہ قول نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے کہ: ’’جس کسی نے مسلمان کاحق مار لیا تو اللہ نے اس پر دوزخ واجب کی اور جنت حرام کی ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہؐ اگر معمولی چیز ہو آپؐ نے فرمایا اگرچہ ایک پیلو کی لکڑی (مسواک) ہو۔‘‘ ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گھڑی کے پرزوں کی طرح گھر کا ہر فرد اہم ہوتاہے۔ گھر کسی ایک فرد کا نہیں ہوتا۔ والدین بہن بھائی سب مل کر ہی گھر بناتے ہیں۔ گھر میں موجود تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب تک بہن بھائی اپنے اپنے فرائض ادا کرتے رہتے ہیں۔ گھر جنت رہتا ہے اور جب اپنے اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں اور فرائض سے چشم پوشی کرتے ہیں اسی دن گھر دوزخ بن جاتا ہے۔ ماں باپ مل کر گھر کے لیے تمام سہولتیں اور ضرورتیںمہیا کرتے ہیں۔ او رگھر کا ہر فرد ان سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتاہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ خود غرضی اس کے عمل میں ظاہر نہ ہو گھر کی ہر سہولت کو گھر کا کوئی فرد اپنی ملکیت نہ سمجھے بلکہ اپنی ضرورت کے مقابلے میں دوسروں بہن بھائیوں کی ضرورتوں کا زیادہ خیال رکھے گھر کے ایک کامیاب رکن ہونے کے لیے صرف اپنے بوجھ ہی سنبھال لینا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے والدین اور گھر کے دوسرے افراد کا سہارا بننا بھی ضروری ہے۔ ہر گھرانے یا کنبے میں کچھ مقاصد اورپابندیاں ہوتی ہیں جو ماں باپ نے کئی قسم کی مصلحتوں کی بنا پر عائد کی ہوتی ہیں۔ اچھے اور شریف بچے ماں باپ کی ذمہ داریوں وار ان کے فرائض کا احترام کرتے ہیں۔ اور ان پابندیوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کبھی کسی حد سے تجاوز کرنے پر سزا بھی ملے تو ان کے دل میں والدین کے متعلق نفرت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے والدین کے اصول عقائد اور خاندانی روایات کو سمنجھنے کی کوشش کریں اور ان کا احترام کریں کیونکہ ایک فرد اسی وقت تک با غیرت زندگی گزار سکتا ہے جب تک کہ وہ کسی شریف خاندان یا سوسائٹی کے ساتھ نسبت رکھتاہے۔ خاندان اپنے افراد کو مذہبی اصولوں اور اخلاقی قدروں سے آگاہ کرتا ہے اور مختلف فرائض انجام دے کر ان کے ذریعے افراد کو ماحول کی صورت حال اوردوسرے حالات کے بارے میں سکھاتاہے۔ مذہبی تربیت اب گھروں میں کافی کم ہو گئی ہے تاہم خاندان بچوں کے مذہبی اعتقادات بنانے میں بڑا ہاتھ ہوتاہے۔ بچہ اپنا فلسفہ زندگی اور اخلاق گھر ہی سے سیکھتا ہے۔ اور یہ اخلاق وہ ہوتا ہے جو گھر میں رائج دیکھتا ہے صحیح اور غلط کا تصور خاندان سے ہی حاصل ہوتا ہے اگرچہ گھر سے حاصل ہونے واللے مشاہدات باہر کے لوگوں سے ملنے جلنے سے ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی ایسا ہونا شاز و نازر ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بچہ اپنے والدین کا مذہب قبول نہ کرے جن گھروں میں مذہبی رسومات مثلاً میلاد قرآنی خوانی نذر نیاز اور نماز روزے کی پابندی ہو وہاں بچے بھی مذہبی رجحان رکھتے ہں اور جن گھرانوں میں ایسا نہ ہو وہان بچے بھی بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ ہمارے لیے اس مختصر یا طویل زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے کے لیے کچھ رسم و رواج ہیں۔ جن کو ہم خوشی یا ناراضگی سے اپنانا پڑتا ہے۔ ان اصولوں اور ضوابط کو ہماری اپن سوسائٹی مقرر کرتی ہے۔ جس کے مطابق ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں اورا سی کو ہماری کامیابی اور ناکامی تصور کیا جاتا ہے کہ ہم نے سوسائٹی کا کس قدر اثر قبول کیا ہے اور کتنا سوسائٹی کے مقرر کردہ ضوابط کو سمجھا اور قبول کیا ہے اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کے دوران ہم دوسروں کی شخصیتوں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ اور اس طرح ہم اس بات کا بھی یقین کر لیتے ہیں کہ دنیا میں کوئی اچھے سے اچھا انسان بھی مکمل نہیں اس تجزیے سے انسان خود بخود اپنے احساس کمتری پر قابو پر کر اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتاہے اور اس کے علاوہ اپنی کمزوریوں سے سبق حاصل کرنے دوسروں کی کمزوریوں کو خلوص دل اور ہمدردی سے سمجھ سکتا ہے ایک بالغ اور پختہ شخصیت رکھنے والا شخص مندرجہ ذیل باتوں سے اپنے آپ کو اپنے لیے خاندان کے لیے اور سوسائٹی کے لیے مفید بنا سکتاہے۔ ۱۔ فرد زندگی کی مشکلات سے شکست کھانے کی بجائے ان کو صحیح طور پر سمجھ کر اپنے ارادوں کو ان کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایسا شخص امیدوں کے تصور میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ اپنے حالات کا جائزہ لینے کے بعد جو مواقع اسے میسر آتے ہیں ان کو صحیح طور پر استعمال میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ۲۔ فرد زندگی کے واقعات اور تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے اور بعض اوقات زندگی میں فوری واقعات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً حادثات بیماریا ں آتش زدگی سیلاب وغیرہ ایک پختہ شخصیت والا شخص ایسے واقعات میں سنبھل کر جلد ہی صورت حال پرقابو پا لیتا ہے۔ اسی طرح زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ جو نئے خیالات اور نئی باتیں رائج ہوتی ہیں وہ ان کے تقاضوں کے مطابق اپنی دلچسپیوں اور عادات کافی حد تک تبدیل کر لیتا ہے۔ ۳۔ اپنی دماغی الجھنوں پریشانیوںاور تفکرات کو صحیح طریقے سے قابو میں لا سکتے ہیں یعنی اگرکوئی مشکل مسئلہ پیدا ہو تو اس کا تجزیہ کر کے اس کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اس طرح وہ نہ تو اپے آپ کو ناجائز طور پر الزام دیتا ہے اور نہ ہی خواہ مخواہ کسی بات کو غور کرتا ہے۔ ۴۔ وہ دوسروں سے کچھ لینے اور حاصل کرنے سے زیادہ دوسروں کو اپنی چیزیں اور محبت دے کر تسکین حاصل کرتاہے۔ سوسائٹی میں کامیابی کا راز اسی بات میں ہے کہ انسان دوسروں کی مدد کر سکے۔ یہ مدد صرف روپے پیسے سے ہی نہیں کی جا سکتی بلکہ محبت اورخلوص ہمدردی سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آنے سے بھی ہو سکتی ہے اگر ہم دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کی کمزوریوں کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھیں۔ ۵۔ وہ اپنے غصے حسد اور دشمنی کے جذبات کو قابومیں رکھ سکتاہے۔ اگر زندگی میں کوئی نقصان پہنچے تو وہ بجائے اس کا بدلہ لینے کے یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کے خود اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ۶۔ وہ بنی نوع انسان سے محبت رکھتا ہے بہن بھائیوں سے پیار اور غریبوں سے ہمدردی کا سا سلوک کرتا ہے۔ اگرکوئی اپنے آپ کو اپنے لیے خاندان کے لیے اور معاشرے کے لیے فعال بنانا چاہتا ہے تو جان لے کہ انسان کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار اس کی اپنی پشت کی خوبیوں پر ہوتا ہے یعنی یہ کہ کس طرح گھر کے افراد سہیلیوں ہمسایوں اور اساتذہ کے ساتھ اپنی کامیابی سے زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ یہ بات نہ صرف ہماری اپنی خوشی کے لیے ضروری ہے بلکہ سوسائٹی کے باقی افراد کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ سوسائٹی کے ایک فرد کی مجلسی ناکامی بہت سے لوگوں کی خوشیاں برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بچوں کی نشوونما اور دیکھ بھال Child Care پیدائش سے لے کر ۱۲ سال تک بچپن کا زمانہ کہلاتا ہے بچے کا ذہن ہر وقت صاف اور کوری ہوتی ہے اوراس مدت میں بچے کی شخصیت کی بنیاد پڑتی ہے بچپن کے اثرات تمام عمر کے لیے شخصیت اور ذہن کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بچپن میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بچوں کی پرورش کرنا چاہیے بچوں کی ضروریات مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱۔ جسمانی ضروریات خوراک لباس کھیل کود آرام پیار محبت اور تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۔ ذہنی ضروریات ذہن کے لحاظ سے تجربات کے مناسب مواقع فراہم کرنا علم و تعلیم کی سہولت کی وجہ سے ذہن استعمال کروانا۔ ۳۔ معاشرتی ضروریات معاشرے میں قبولیت کے ادب و آداب کو سمجھنے اور آگاہ کرنے میں مددگار ثابت ہونا۔ ۴۔ جذباتی ضروریات جذبات کے اظہار اور جذباتی تنظیم کی تربیت دینا۔ نشوونما کے مدراج شیر خوارگی کی عمر ۰ سے ایک سال رینگنے کی عمر 1سے 1/2سال قبل اس سکول اڑھائی سال سے 5سال زمانہ سکول 5سے 12سال کالج کی عمر 13سے 14سال ابتدائے بلوغت 15سال نوجوانی 16سے 18سال صحت مند شخصیت کی نشوونما اس سے مراد صرف جسمانی صحت اور بیماریوں سے تحفظ نہیں ہے بلکہ اندرونی اور نفسیاتی طور پر بھی مستحکم اور مضبوط شخصیت ہے اور ایسی شخصیت میں مندرجہ ذیل حسیات کا پایا جاناضروری ہے۔ ۱۔ حس اعتماد بچپن سے دوسروں سے پر شفقت اور ہمدردانہ تجربات بچے میں حس اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ ۲۔ حس خود اختیاری مضبوط و مقوی احساسات ۳۔ حس ہدایت یا پیش قدمی اپنے بارے میں واضح احساسات خیالات منصوبے ۴۔ حس تکمیل احساس اہمیت پایا جانا ۵۔ حسن ماہیت یا شناخت خود شناسی کی حس بیدار ہونا۔ ۶ ۔ حس تعلق بالغ ہونے پر بطور فرد حیثیت و کردار کو سمجھنا۔ ۷۔ والدین کی حس چھوٹے بچوں کے لیے ممتا یا پیار رکھنا ۸۔ حس سالمیت ذہن اور جذبات میں ہم آہنگی بیچ ہمیشہ اپنے ارد گرد کے ماحو سے اثر لیتے ہیں اور ان کا سب سے نزدیکی ماحول ان کا اپنا گھر بہن بھائی ماں ارو باپ ہوتے ہیں ہر بچہ عادات و اطوار میں اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔ سب سے پہلے شیر خوار بچہ اپنے ماحول سے آگاہ اپنی جسمانی اور جذباتی ضروریات کے واسطے سے ہوتا ہے۔ اگر اس کی ضرورتیں اس وقت پوری ہو جائیں تو بچہ دنیا میں اچھی مستحکم محفوظ اور حوصلہ افزا جگہ سمجھتا ہے۔ ایسی جگہ میں پر اعتماد کر سکے نوزائیدہ کی شروع میں صرف جسمانی ضروریات ہوتی ہیں اور ان میں بھوک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ غذ ا دینا نہ صرف جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ بچے کی نفسیاتی نشوونما کے لیے بھی ضروری ہے ۔ غذا ملنے کے خوش گوار تجربے بچے کے جسم اور اس کی جذباتی صحت اور تحفظ کے احساسات کی نشوونما کرتے ہیں۔ بچے کی تعلیم و تربیت میں سب سے ضروری ور اہم چیز اس کے قدرتی حقیقی اور مسرت انگیز اظہار خیال کی نمو ہے۔ لیکن بہت کم بچوں کو فطری طریقوں پر تربیت دی جاتی ہے تاکہ ان کی قدرتی نشوونما میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ جب بچوں سے ان کی طبیعت اور منشا کے خلاف جبر اور زور سے کام لیا جاتا ہے تو ان کے زہنی قوی سست اور کمزور ہوجاتے ہیں اور جب آپ دیکھین کہ ایک بچہ اپنے کام اور مطالعے میں دلچسپی نہیں لیتا تو سمجھ لیں کہ کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے۔ کیونکہ ہرمعاملے میں شوق اور دلچسپی لینا بچے کے لیے ایسا ہی ہے قدرتی اور ضروری ہے جیسا کہ پرندوں کے لیے چہچہانا اگر آپ چاہتے ہی کہ وہ اپنے کام میں بہت جلد ترقی کرے تو اس کے دل سے مطالعے یا کام کو مصیبت سمجھنے کا خیال دور کرنے کی کوشش کریں موجودہ نظام تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیی کہ اس کے حصول میں مسرت اور خوشی کااظہار نہ ہو کہ ایک بوجھ بچے کی پیدائش والدین کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے جس سے ہر خاندان زندگی کے ایک نئے دور کی ابتدا کرتا ہے۔ بچے کو وجود اور اس کی نشوونما کے تقاضوں کو سمجھنے اور پورا کرنے کے لیے ذمہد ار ہوتا ہے گھر بچے کی زندگی کا اول او راہم ترین ماحول ہوتاہے ۔اس لیے بچوں کے رویوں اور شخصیت کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے اس کی نشوونما کے بارے میں جانناضروری ہے اس کے علاوہ گھر کے ماحول او رافراد خانہ کے باہمی تعلقات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ بچوں کی نشوونما سے مراد صرف ان کی جسمانی تقاضوں جسمانی اٹھان اور جسمانی ڈھانچے وزن اور قدرو قامت ہی سے نہیں بلکہ ہر بچے کی ذہنی جذباتی اور نفسیاتی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں اور یوں ہر بچے کی نشوونما مختلف پہلوئوں سے مربوط ہوتی ہے۔ ۱۔ جسمانی نشوونما Physical Development جسمانی نشوونما کے مراد ہے بچے کی جسمانی ڈھانچے کی اندرونی اور بیرونی ساخت کی نشوونما ہے اس میں بچے کی جسامت موٹا دبلا گداز بے ڈھب بے ڈول چاک و چوبند وغیرہ قدوقامت میں لمبا چھوٹا اور درمیانہ قدوبت جسمانی حالت یا کیفیت بیمار‘ صحت مند‘ معذور‘ مضبوط‘ طاقت ورکے علاوہ بچے کا وزن رنگت اور اس کے نقوش اور بالوں کی ساخت اور ہیئت وغیرہ شامل ہیں۔ ورثے میں ملی ہوئی صلاحیتیں قابلیت اہلیت اور ماحول مل کر بچے کی نشوونما پر اثر اندا زہوتے ہیں تو جسمانی نشوونم امیں کچھ خصوصیات موروثی ہوتی ہیں جن پر ماحول اثر انداز نہیں ہوتا۔ مثلاً بالوں آنکھوں کا رنگ اور جسم کی رنگت وغیرہ۔ کچھ موروثی صلاحیتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جو بچے کی شخصیت اور ذہانت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ جن کا انحصار ایک حد تک ماحول پر ہوتا ہے۔ غرض بچہ جس قسم کی صلاحیت یا خصوصیت لے کر پیدا ہوتا ہے اگر اسے بہتر سے بہتر ماحول میںپھیلنے پھولنے کاموقع دیا جائے تو اس کی انفرادی صلاحیت کی نشوونما بھرپور طور پر ہو گی ماحول اور موروثی صلاحیتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے دونوں مل کر بچے کی جسمانی نشوونما کرتے ہیں اور اس کے کردار و شخصیت کو خاص رنگ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جسمانی نشوونما کی رفتار بچے کی جسمانی نشوونما ایک ہی رفتار سے نہیں ہوتی بلکہ یہ چار مختلف ادوار کی صورت میں ہوتی ہے ہر دور کی نشوونما اپن پوری رفتار سے ہوتی ہے جو ہر بچے کے لیے ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۔ پیدائش سے دو سال کی عمر تک جسمانی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے نوزائیدہ بچے میں چند انعکاسی افعال (Reflex)موجود ہوتی ہیں مثلاً وہ آنکھیں جھپک سکتا ہے جمائی لے سکتاہے اپنی خوراک کو کسی حد تک نگل سکتاہے دو سال کی عمر کو پہنچنے تک وہ جسمانی حرکات پر کافی حد تک قابو پا لیتا ہے۔ ۲۔ دو سے آٹھ سال کی عمر تک جسمانی نشوونما کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے آٹھ سے گیارہ سال کی عمر میں بلوغت شروع ہو جاتی ہے۔ اور جسمانی نشوونما میں پھر اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ ۳۔ نشوونما کی رفتار پندرہ سولہ سال کی عمر میں پھر سے تیزی اختیار کر لیتی ہے۔ اس عمر میں جنسی بلوغت آ جاتی ہے۔ ۴۔ نشوونما کا چوتھا اور بلوغت کے بعد شروع ہوتاہے۔ جو تقریباً ۱۸ سے ۲۱ سال میں شروع ہوتاہے اس میں جسمانی نشوونما کی رفتار ایک دم کم ہو جاتی ہے۔ مثلاً قد جتنا بڑھ چکا ہوتاہے وہ باقی عمر تک قائم رہتا ہے۔ غرض جسمانی نشوونما چار ادوار کی صورت میں ہوتی ہے پہلے تیسرے دورمیں بچے کی جسمانی نشوونما کی رفتار تیز ہوتی ہے ۔ اور ان کے دوران جسم کی نشوونما کے باعث نمایاں جسمانی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں دیگر دو ادوار میں جسمانی نشوونما کی رفتار سست ہوتی ہے ۔ اس عرصے میں خاص جسمانی تبدیلیاں تو نہیں آتیں مگر بچہ مختلف جسمانی حرکات اور ان کی ہم آہنگی پر عبور حاصل کرتاہے اوراس کی حرکات اور ان کی ہم آہہنگی آ جاتی ہے۔ بچے کی نشوونما ایک خاص اصول کے تحت دو سمتوں میں ہوتی ہے۔ یعنی بڑھنے میں پہلے بچے کے سر کی نشوونما ہو گی اور پھر سر اورگردن کی اس کے بعد دھڑ کی اور سب سے آخر میں بازوئوں اور ٹانگوں کی۔ تین ماہ کی عمر میں اگر بچے کو پیٹ کے بل لٹایا جائے تو وہ سر کے ساتھ اپنے سامنے اور سینے کو بھی اونچا کر سکتا ہے۔ اور چند ماہ تک وہ وہ ٹانگوں کو سکیڑ نے اور فرش پر کھسکنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح بچہ بیٹھنا پہلے شروع کرتا ہے اور کھڑا ہونا بعد میں۔ ۲۔ عضلاتی نشوونما Motor Development اس نشوونما کا تعلق بچے کے پٹھوں اور رگوں پر ہوتا ہے اور جسم پر مختلف عمر میں مختلف حالتوں میں قابو رکھنے اور جسم کو متوازن رکھنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے مثلا کھڑے ہونے چلنے بھاگنے بیٹھنے کھیلنے پکڑنے یا جسمانی کام کرنے کے طریقے اور استطاعت سے جسمانی پٹھوں کی کمزور ی یا مضبوطی کا اظہار ہوتاہے ایک نوزائیدہ بچہ جیسے جیسے بڑھتا ہے اس کی جسمانی حرکات میں پختگی کا عنصر بھی بڑھتا ہے بچے کی جسمانی حرکات کی نشوونام کا رخ عمومی حرکات سے بامقصد حرکات کی طرف بڑ ھ جاتا ہے یعنی وقت کے ساتھ ساتھ بچے کو اپنی جسمانی حرکات پر کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے رفتہ رفتہ اس سے وہی جسمانی حرکات سرزد ہوتی ہیں جو اس کے کسی مقصد کو پورا کرتی ہیں۔ پختگی نشوونما کے تسلسل کو کہا جاتاہے جس کی وجہ سے ہڈیاں عضلات اور غدودوں میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جس سے نشوونما کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ جب تک ہڈیاں اور عضلات ایک کام کے لیے طبعی طورپر تیار نہیں ہوں تب تک وہ خاص کام یا حرکات سر انجام نہیں دے سکتے مثال کے طور پر جب تک بچہ خاص عمر تک نہیں پہنچ جاتا وہ چلنا نہیں سیکھتا۔ چلنے کی حرکت سیکھنے سے پہلے وہ بیٹھنے اور رینگنے کی جسمانی حرکات سیکھتا ہے اس کے بعد و ہ کھڑا ہونا سیکھتا ہے۔ اور پھر اس کی ہڈیاں اور عضلات اس حد تک تیار ہو جاتے ہیں کہ وہ چلنا شروع کر دے۔ مشاہدے سے معلوم ہوا ہے ک تین سال کے بچے سیڑھیوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ مگر وہ ایک ٹانگ سے کودنا یا چار یا پانچ سال کی عمر سے پہلے نہیں سیکھتے اور رسی پھلانگنا ایک ایسا عمل ہے جو عام بچے چھ سے بارہ سال کی عمر میں جا کر سیکھتے ہیں۔ کسی خاص جسمانی حرکت کو سیکھن کے لیے بچے کے عضلات اور ہڈیوں کی پختگی ضروری ہے مثال کے طور پر اگر ایک سال کے بچے کو سائیکل چلانے کے لیے دے دی جائے اور اسے سائیکل چلانے پر مجبور کر دیا جائے تو یہ بالکل غلط توقع ہے۔ کیونکہ ایک سال کے بچے کے عضلات اور ہڈیوں کی نشوونما اس حد تک نہیں ہوئی ہوتی کہ وہ سائیکل چلا سکے۔ سب بچے ایک وقت اور ایک ساتھ جسمانی حرکات میں مہارت حاصل نہیں کرتے ہر بچے کی نشوونما اپنی ایک رفتار ہوتی ہے جو ہر دوسرے بچے سے مختلف ہوتی ہے اور ایک ہی والدین کے ہاں بچے ہونے والے تمام بچوں کی جسمانی نشوونما کی رفتار مختلف ہوتی ہے حتیٰ کہ جڑواں بچے بھی مختلف خصوصیات رکھتے ہیں گو کہ ان سب بچوں کو ایک جیسا ماحول حاصل ہوتاہے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خاندان کا پہلا بچہ ہونے کی حیثیت سے والدین اس کو زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ اس کے بعد آنے والے بچوں پر توجہ نہیں دے سکتے۔ گویا ماحول بچے کی جسمانی نشوونما پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ماحول کے علاوہ بچے کی موروثی صلاحیتیں بھی اس کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور نشوونما کے مختلف مراحل میں اس کے انفرادی امتیاز کو برقرار رکھتی ہیں۔ عام طور پر عضلاتی نشوونما میں جسمانی حرکات کی مہارت کا انحصار دو قسم کی حرکات کی نشوونما پر ہے۔ ۱۔ چلنا سیکھنا ۲۔ ہاتھوں کے استعمال کی مہارت نوزائیدہ بچہ خود بخود نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ اپنا سر سیدھا نہیں رکھ سکتا اگر اسے بٹھانے کی کوشش کی جائیتو اس کا سر پیچھے کی طرف لڑھک جاتا ہے تقریباً بچہ پانچ ماہ بعداپنا سر مضبوطی سے تھام سکتا ہے۔ اسے اس فعل میں کسی قسم کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ بچہ جس کی نشوونما معمول کے مطابق ہو اس عمر میں پیٹ کی مدد سے کروٹ لیتا ہے اور اپنے جسم کو کھینچ کر حرکت کرتا ہے وقتاً فوقتاً وہ چیزوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ا س کے ہاتھ کی گرفت سخت ہوجاتی ہے پانچ مہینے کی عمر میں بچے بیٹھنا شروع کر دیتے ہیںَ لیکن نو ماہ کی عمر میں تقریباً سب بچے بغیر کسی سہارے کے بیٹھ سکتے ہیں۔ عموماً چھ ماہ سے سات ماہ کی عمر میں بچہ اپنے جسم کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے آٹھویں اور دسویں مہینے میں بچہ مختلف چیزوں کو پکڑ کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتاہے۔ بارہ ماہ کی عمر میں وہ اس عمل یعنی چیزوں کو پکڑنے اور کھڑا ہونے میں بہت حد تک ماہر ہو جاتا ہے۔ دسویں اوراٹھارویں مہینے کے دوران وہ مختلف چیزوں مثلاً کرسیوں وغیرہ کو پکڑ کر یا بغیر کسی سہارے کے چل سکتا ہے۔ چلنا ایک ایسا عمل ہے جس کو سیکھنے کے لیے بچے کو پہلے بیٹھنا سیکھنا پڑتا ہے۔ اور اس کے بعد کسی سہارے کے ساتھ کھڑا ہونا سیکھنا پڑتا ہے جب بچہ بیٹھنا سیکھ لیتا ہے تو اس کے دیکنے کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ مختلف چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مختلف آوازوں پر اپنا ر د عمل ظاہر کرتاہے اوسطاً تیرہ یا چودہ ماہ کی عمر میں بچہ چلنا سیکھ لیتا ہے لیکن بعض بچے اس سے بھی پہلے چلنا سیکھ لیتے ہیں۔ اور بعض دیر سے تین چار سال کی عمر یں بچہ خوب بھاگ دوڑ سکتا ہے۔ اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے بچائو کر سکتا ہے۔ چار اورپانچ سال کی عمر میں وہ بڑی اچھل کود بڑی مہارت سے سیکھ لیتاہے۔ اشیا کو مضبوطی سے پکڑنے کی خصوصیت تقریباً آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جاتی ہے لیکن اٹھانے اور رکھنے کی قالبیت ڈیڑھ سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ اس عمر میں انگوٹھے کے عضلات کافی مضبوط ہوتے ہیں پہلے سال کے آخر میں یا دوسرے سال کے شروع میں بچے کی بول و براز کی تربیت شروع کر دینی چاہیے۔ ایک سال سے چھوٹے بچے میں عضلات کی پختگی نہیں ہوتی۔ ایک سال کی عمرمیں بچہ تربیت کے لیے تیار ہو جاتاہے۔ ۳۔ ذہنی نشوونما Mental Development ذہنی نشوونما سے مراد بچے عقل و شعور ذہانت یاد رکھنے سمجھنے سمجھانے سوچنے غور و خوص کرنے بصیرت اور بین الفہمی کی نشوونما سے ہے۔ جس کا تعلق بچے کے ہوا خمسہ کی تربیت سے ہوتا ہے۔ بچے کی ذہنی نشوونما کا مطلب یہ ہے کہ بچے میں وہ تمام قابلیتوں اور صلاحیتوں کا پیدا ہونا جو بچہ عمر کے ساتھ ساتھ حاصل کرتاہے۔ اپنے ماحول کو نہ صرف سمجھ لیتا ہے بک ہاس میں رہتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے ۔ بعض اوقات وہ ماحول میں کچھ تبدیلیاں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تاکہ اس کی اپنی ذہنی اور جسمانی ضروریات پوری ہو سکیں۔ چنانچہ ان تمام قابلیتوں اور صلاحیتوں کے لیے ایک بنیادی استعداد اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کوذہانت Intelligenceکہتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ بچہ خعود کی اور لوگوں کی پہچان کے لیے اورپھر ماحول سے مطابقت (Adoptation) اور معاشرتی آمیزش (Socialization) میں کامیاب رہنے کے لیے جو بہت ساری صلاحیتیں اور قابلیتیں کام میں لاتا ہے۔ ان کا مجموعی نام ذہانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ذہنی نشوونما کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے سب سے بنیادی اوراہم پہلو ذہانت کی نشان دہی کررہے ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہانت سے مراد وہ قابلیت ہے جس سے انسانی زندگی میں پیش آنے والے کاموں اور مسائل کو ذہنی طورپر سوچنا سمجھنا اور حل کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ می یہ و ہ قابلیت ہے جس کی مددسیانسان زندگی کے امور میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابقت (Adoptation) میں مدد دینے والی قابلیت کہتے ہیں یعنی وہ ذہنی استعاد جو انسان کو اپنے ماحول میں بہت یا احسن طریقے سے زندگی گزارنا سکھاتی ہے۔ ذہانت اگرچہ ذہنی استعدد ہے لیکن بچے کے ذہن کو ذہن یا کم فہم ہونے کا اندازہ صرف اس کے عمل سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً اپنے عمر کے مطابق وہ کام یا امور جوبچے سے متوقع ہیں۔ اگر وہ بخوبی سمجھ کر سر انجام دے تو ہم کہتے ہیں کہ بچہ زہین ہے۔ مثلاً جب ایک یا ڈیڑھ سال کا بچہ رسی کے سرے پر بندھے ہوئے کھلونے کو رسی پر کھینچ کر پکڑ لے یا دو اڑھائی سال کا بچہ اونچے شیلف سے کوئی چیز اتارنے کے لیے چھوٹی میز کا استعمال کرے تین سال کا بچہ بوتل کا ڈھکن گھما کر بند کر کے یا چار سال کا بچہ تالے کے سوراخ کے مطابق چابی کا انتخاب کر کے اسی طرح بچہ اگر جماعت میں اچھے سوال کرے اور امتحان میں اچھے نمبر لے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ذہین ہے۔ پس ہم بچوں کے اعمال سے ان کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہیں انسان کے تمام کاموںمیں ذہانت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر کام ایک وقت میں انسان کے لیے نیا ہوتا ہے اور جب ہم ا س سے دوچار ہوتے ہیں اس کو سمجھتے اور سیکھتے ہیں تو وہ ہماری عادت بن جاتاہے ذہانت کاموں کو کامیابی سے سرانجام دینے اور مسائل حل کرنے کا نام ہے۔ انسانوں میں عمومی استعداد کے ساتھ ساتھ خصوصی استعداد بھی ہوتی ہے۔ عمومی استعداد کم و بیش ہر انسان کے حصے میں آتی ہے۔ اس سے انسان روز مرہ کے مسائل کو حل کرتاہے۔ اور اپنے ماحول سے مطابقت اختیار کرتا ہے۔ لیکن خصوصی استعداد سے انسان کی شاندار کامیابی حاصل کرتاہے۔ یہ کامیابیاں مخصوص نوعیت کی ہوتی ہیں۔ مثلاً حساب میں ماہر ہونا موسیقی بجانا اچھا انجینئر ڈاکٹر یا استاد بننا وغیرہ ایسے امور ہیں جو مخصوص نوعیت کے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں یہ مخصوص استعداد مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً جو موسیقی بجانے میں ماہر ہے وہ اچھا مکینک نہیںہو سکتا اور ایک ریاضی کا اچھا استاد ضروری نہیںکہ لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہنے کا طریقہ بھی جانتا ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کے ذہنی رجحان اورم خصوص قابلیت کو مدنظررکھنا ضروری ہے بچے کی فطری رجحان اور قدرت نے جو قابلیتیں اور صلاحیتیں اسے دی ہیں اس کے خلاف بچے کی تعلیمی اور پیشہ ورانہ منصوبہ بندی بچے اور معاشرے دونوں کے لیے غیر سود مندی ہوتی ہے مثلاً عام دیکھنے میں آتا ہے کہ بچہ فنون لطیفہ کی طرف راغب ہے۔ لیکن وادین اسے ڈاکٹر یا سائنس دان بنانے پر تلے ہوئے ہیں اب ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر یا سائنس دان کے پیشے میں مخصوص ذہنی قابلیت درکار ہوتی ہے بچہ اس سے محروم ہو اور موسیقی ادب فلسفہ نفسیات اور آرٹ میں وہ بڑ ا ہنر مند اور فنکار بننے کے قابل ہو اگر اسے اس کی دلچسپی رجحان اور مخصوص ذہنی استعداد کے مطابق پیشہ اور کام اپنانے میں رہنمائی کی جائے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نہ صرف خود خوش و کامران ہو گا بلکہ ملک و قوم اور معاشرے کا ایک مفید فرد بنے گا۔ ۴۔ معاشرتی نشوونما Social Development معاشرتی نشوونما سے مراد لوگوں سے ملنے جلنے دوسروں سے تعلقات اور دوستی کی نشوونما پہلے ہے جس میں وراثت کا کوئی عمل دخل نہیںہوتا۔ اس کا کل انحصار ماحولی تربیت اور لوگوں سے ملنے جلنے کے مواقع کی فراہمی یا تجربات پر ہوتا ہے۔ معاشرہ افراد کے ایسے گروہ کا نام ہ جس میں لو گ ایک دوسرے سے مل جل کر کام کرتے ہیں اور باہمی تعاون سے زندہ رہنے کا انتظام کرتے ہیں یہ بھی اسی گروہ کا ایک فرد ہے اس لیے جس طرح اس کی جسمانی نشوونما ضروری ہے اسی طرح اس کی معاشرتی نشوونما بھی ضروری ہے ابتدائی برسوں میں خوشگوار تعلقات بچے کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ایسے تجربات کی تاش جاری رکھے جن میں باہمی تعاون او ریک جہتی کے عناصر نمایاں ہوں حتیٰ کہ بچہ ایک ایسا اندا زاپنا لیتا ہے جس کو سماجی معاشرتی کہا جاتاہے۔ یعنی وہ اپنے آپ کو معاشرتی حدود میں ڈھال لیتاہے۔ ہر معاشرے کی اپنی حدود ہوتی ہے مثلاً اگر ایک معاشرے میں بچہ چمچ سے کھانا سیکھتا ہے تو دوسرے میں ہاتھ سے اس طرح جن گھرانوں میں بچے کی ضروریات اور خواہات کا احترام کیا جاتا ہے وہ بچہ دوسروں کا احترام کرنا سیکھتاہے۔ اس کے برعکس ابتدائی برسوں میں ناخوشگوار معاشرتی تجربات یعنی ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ناخوشگوار تعلقات منفی معاشرتی رویوں کو جنم دیتے ہیںَ بچے کے ابتدائی چند برسوں کے تجربات تمام عمر بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرتی نشوونما میں سب سے اہم کردار ماں کا ہے اس کے بعد باپ کااور پھر گھر کے باقی افراد کا اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماں باپ کو اس بات کا علم ہو کہ انہیں اپنے بچے کے ساتھ کیسا برتائو کرنا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جو رویے ابتردائی عمر میں اپنا لیتے ہیں وہ تمام عمر جاری رہتے ہیں۔ مثلا ً بچے نے اگر ایسے گھر میںپرورش پائی ہے جہاں لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کیا جاتا تو بڑا ہو کر وہ بچہ بھی تنہائی پسند ہو گا۔ بچہ جب اس دنیا میں آتاہے تو بالکل بے کار و مددگار ہوتاہے۔ باقی تمام جاندااروں کے بچوں کی نسبت انسانی بچہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسے میں اسے ایک نظر لے آتی ہے۔ جو اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور وہ ماں ہے بچہ بول نہیں سکتا لیکن سنتا اورمحسوس کرتا ہے۔ ماں بچے کو گود میں لیتی ہے تو بچے کی تسکین اور تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ماں بچے کو گود میں لے کر دودھ پلائے اگر دودھ پلاتے وقت ماں مسکرائے یا گنگنائے تو بچے کے ہاضمے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ ماں کی حرکات و سکنات کے نقوش اس کے ذہن میں پختہ ہوتے جاتے ہیں ا س لیے ماں کو چاہیے کہ وہ بچے سے جس قسم کے کردار کی توقع رکھتی ہے پہلے خود اسی کردار کواپنائے گویا ماں سب سے پہلے بچے کے لیے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے پہلے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچے کی دیکھ بھال باپ کا نہیں ماںکا ذمہ ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ ماں کی طرح باپ کی شخصیت بھی بچے پرپوری طرح اثر اندا زہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں چونکہ باپ کی اہمیت زیادہ ہے اس یلے باپ کا پیار اور ناراضگی دونوں ہی بچے کی شخصیت پر نمایاں اثرات ڈالتے ہیں مثلاً اگر بچپن میں کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کو لڑتا جھگڑتا یا حاکمانہ رویہ کا حامل دیکھے تو بڑی ہو کر ہو سکتا ہے کہ تمام مردوں کے بارے میں اس کا رویہ منفی ہو۔ اس کے برعکس اگر باپ اور بچے کے تعلقات خوش گوار ہوں باپ بچے سے دوستانہ انداز میں گفتگو کرے اس کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرے تو بچے میں احساس تحفظ تقویت پائے گا اور وہ اپنے باپ کو اپنا آئیڈیل بھی بنا سکتاہے۔ معاشرتی نشوونما کا شخصیت پر بہت زیادہ اثر پڑتاہے بچہ اپنے والدین بہن بھائیوں استاد یا دوستوں کی حرکات و سکنات کی نقل کرتاہے۔ اس لیے والدین بہن بھائیون ااور پھر استاد کافرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے سامنے ہر پہلو سے مثالی کردار بن کر رہیں تاکہ ان کی پیروی کرنے میں بچوں کی شخصیت اچھے سانچے میں ڈھل سکے۔ ۵۔ جذباتی نشوونما Emational Development جذباتی نشوونما سے مراد ہر قسم کے احساسات کی نشوونما اور ان احساسات کے اظہار کے مناسب طریقے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہے مثلاً غصہ حسد نفرت ڈر خوف خوشی اور غمی وغیرہ کے احساسات شامل ہیں۔ ان کی نشوونما سے مراد ان پر قابو رکھنا اور اس کی تنظیم کرنا ہے۔ عام طور پرخیا ل کیا جا تا ہے کہ چھوٹے بچوں میں جذبات نہیں ہوتے لیکن یہ خیال غلط ہے بچو ں میں جذبات اول روز سے ہی ودیعت ہوتے ہیں۔ لیکن محتاج اور دست نگر ہون یکی بنا پر انہیں اظہار نہیں کر سکتے بچہ اپنے ماحول سے ملنے والی توجہ پیار محبت یا لاپرواہی کو شروع دن سے ہی محسوس کرنے لگتاہے۔ مثلاً بچہ ماں کی آواز مسکراہٹ یا گود میں لینے کے انداز سے ماں کی اندرونی کیفیت محسوس کر لیتا ہے۔ اسے احساس ہو جاتا ہے کہ ماں غصے میں ہے۔ پیار کریں یا سر مہری کا اظہار بچہ اپنے جذبات کا اظہار رونے اور ہنسنے کی کیفیات سے کرتاہے مثلاً جب کسی خوشگوار تجربے سے گزرتا ہے تو خوشی کا اظہار اپنے منہ سے آوازیں نکال کر یا پھر اچھلنے اور مسکرانے سے کرتاہے لیکن ناخوشگوار جذبات کا اظہار بچہ جسم اکڑانے اور رونے وغیرہ سے کرتاہے ابتدا میں اس کے جذبات کا اظہار غیر واضح ہوتا ہے۔ لیکن بچہ جسمانی طورپر جوں جوں بڑا ہوتا جاتاہے اس کے جذباتی اظہار کے طریقے بھی زیادہ واضح اور مختلف ہوتے جاتے ہیں مثلاً بچہ ماحول میں ناپسندیدہ اشیا اور آوازوں یا اجنبی لوگوں سے خوفزدہ ہو کر ماں کے پیچھے چھپ کر پناہ لینے دوڑتاہے چوٹ لگنے یا تکلیف کی صورت میں وہ رونے لگتاہے۔ حسد اور عدم تحفظ کی صورت میں جذبات کا اظہار کس طریقے سے کرتا ہے اس کا انحصار اس کی جذباتی نشوونما پر ہوتا ہے۔ جذباتی نشوونما کے لحاظ سے بچوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ جذباتی بچے یہ خوشگوار یا نا خوشگوار عوامل کے لیے اپنے جذبات کا اظہار نہایت واضح اور کھلم کھلا انداز سے کرتے ہیں اور ان میں خوب جوش اور ولولہ موجود ہوتا ہے مثلاً زور زور سے چلانا یا قہقہوں سے جذبات کو ظاہر کرتے ہیں یہ جذباتی طور پر ناپختہ ہوتے ہیں۔ ۲۔ جذباتی طورپر پختہ بچے ایسے بچے ہر قسم کے حالات میں اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں ان میں جذباتی عمل اور ضبط موجود ہوتا ہے یہ اپنے جذبات کو نہایت دھیمے اور اچھے اندا ز میں ظاہر کرتے ہیں۔ ۳۔ بے حس بچے یہ بچے غمی خوشی سختی یا نرمی کسی بھی موقع پر جذبات کا اظہار نہیں کرتے اور جذبات سے عاری کہلاتے ہیں جذباتی نشوونما بچے کے اندر تصورات پیدا کرنے کی متحمل ہوتی ہے اسے زدگی میں کامیاب یا ناکام بنانے کی ضامن ہوتی ہے اس کے علاوہ ناخوشگوار جذبات بچے کی شخصیت میں گہرا گھائو لگا دیتے ہیں اور اسے زندگی کی مایوسیوں میں دھکیل دیتے ہیںَ جذبات کے اظہار کے جس طریقے کو بار لگا دیتے ہیں اور اسے زندگی کی مایوسیوں میں دھکیل دیتے ہیں جذبات کے اظہار کے جس طریقے کو بار بار دھرایا جائے وہ عادت بن جاتا ہے۔ اور بچہ ہر وقت اس عادت کو دہراتا ہے جس سے اسے سکون ملتاہے۔ یا اس کی خواہش کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ جسے شروع میں تو ختم کیا جا سکتاہے لیکن پختہ ہونے پر اس کا رفع کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جو بچے جذبات کا شدت سے کھل کر اظہار کرتے ہیں وہ اپنے چلبلے پن اور بے وجہ ہنسنے سے اپنی ناپختگی کا ثبوت دیتے ہیں جسے لو گ ناپسند کرتے ہیں اور اسی طرح جذبات کو مکمل طور پر دبانے والے لوگوں کے ذہن میں میانہ روی نہیں پائی جاتی البتہ جذبات پرمکمل قابو رکھنے کے لیے جو صحیح طریقے سے اظہار کرنا جانتے ہیں معاشرے میں کامیاب اور پسندیدہ شخصیت ہوتے ہیںَ خاندان ہر بچے کے لیے سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ہے جہاں ابتدائی عمر میں باپ اورماں اورخاندان سے ہی بچہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ان کانظم و ضبط رو رہنمائی حوصلہ افزائی ماں باپ کی ذمہ داری ہے بہت سے مان باپ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مکمل بالغ انسانوں کی طرح سمجھتے ہیں اور جب چھوٹا بچہ ان کے معیار کے مطابق کوئی کام نہیں کرتا تو انہیں بہت رنج ہوتاہے اور وہ خواہ مخواہ بچے سے ناراض ہوتے ہیں اگر انہیں مندرجہ ذیل تین چار باتوں کا خیال رہے تو وہ کبھی اس قسم کی مایوسیوں سے دو چار نہ ہوںَ ۱۔ بچہ ہمیشہ اس حالت میں نہ رہے گا۔ وہ آہستہ آہستہ زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہوتا جائے گا اور اس کے پٹھے اور جسم میں بھی بتدریج مضبوطی آتی جائے گی۔ ۲۔ اگر بچے کو کسی قسم کا نقصان یا تکلیف پہنچے تو وہ جلد بھول جاتاہے اس لیے اگر آپ اس کو کسی بات پر ناراض بھی ہوں تو وہ اس کو اپنے دل میں نہیں رکھتا۔ ۳۔ ہر ایک بچہ الگ انفرادی شخصیت رکھتاہے اس لیے اس کا مقابلہ اس کے کسی بہن بھائی یاہمسایے یا کسی دوست بچے سے نہیں کرنا چاہیے۔ ۴۔ بچہ اگر کوئی کام خرا ب کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اسے اس کام کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس قسم کی چھوٹی موٹی عادتیں وہ سیکھتا بھی رہے گا اورا نہیں بھولتا بھی رہے گا۔ کیونکہ یہ سب اس کے سن بلوغت تک پہنچنے کی کڑیاں ہیں۔ ۵۔ بچے میں بھی احساسات ہوتے ہیں اس لیے اس کی ہر حرکت پر غور کرنے کے لیے اور اس کے چہرے پر جذبات کے اظہار کو سمجھنے سے ہم بچے کی بہت سی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ بچوں کی رہنمائی اور مسائل حل کرنے کے لیے چند تجاویز ۱۔ بچے کے لیے خود مثال بننا ۲۔ اصول و قواعد پر کاربند ہونا۔ ۳۔ مشفقانہ اور نرم برتائو کرنا۔ ۴۔ بے جا روک ٹوک سے پرہیز کرنا۔ ۵۔ جزا اور سزا کی کمی۔ ۶۔ بچے کی غلط عادات اور رویے کا تجربہ کرنا اور پھر اس کا حل۔ نوزائیدہ و قبل از سکول کے بچوں کے مسائل بچہ اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس کی ہربات انوکھی بات ہے۔ زندگی جو کہ اب روز مرہ کی بات بن کر رہ گئی ہے بچے کے لیے ابھی بہت انوکھی دلچسپ مگر مشکل چیز ہے۔ حتیٰ کہ پائوں کی معمولی حرکت بھی اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے اور اگر آپ اس کی ہمت بڑھاتی رہیں گی اور اس کی کوششوں پر خوشی ظاہر کریں گی تو بچہ بھی آپ کی محبت کو محسوس کرے گا اور خوش رہے گا۔ جب بچے کے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی پیدا ہوتے ہیں تو اس وقت اسے بہت زیادہ ہمدردی اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ وہ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ گھر میں ایک اور بچے کے آ جانے سے اس کی ضرورت نہیں رہی ا س کا ننھا سا دماغ ابھی بہن بھائیوں کی محبت اورزندگی کے فلسفے کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ کیونکہ شروع میں نوزائیدہ بچے میں احساسات کم ہوتے ہیں اس لیے آپ پہلے بچے کی طرف زیادہ توجہ کریں اور وقتاً فوقتاً اسے اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کاموقع دیں اور بچوں کی ضروریات اور مختلف مشکلات کو خلوص اور محبت سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ جو والدین ہی کر سکتے ہیں اگر ااس میں ذرا بھی کوتاہی ہو جائے تو درج ذیل مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ۱۔ انگوٹھا چوسنا۔ ۲۔ بستر پر پیشاب کرنا۔ ۳۔ کھانا ٹھیک طریقے اور وقت پر نہ لینا۔ ۴۔ دوسرے بہن بھائیوں کو قبول نہ کرنا۔ ۵۔ خوف کھانا (اندھیرے وغیرہ سے) کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ جو والدین اور دیگر لوگوں کے غلط رویوں اور غلط رہنمائی سے بچوں میں پیداہوتے ہیں مثلاً ۱۔ کھانے سونے اور رفع حاجت میں غلط طریقوں کا استعمال۔ ۲۔ کوئی جسمانی بعض یا صحت کی خرابی کونہ سمجھنا ۳۔ غیر ضروری دخل اندازی یا نکتہ چینی۔ ۴۔ ناموزوںکھلونے۔ ۵۔ والدین کے آپس میں ناخوشگوار تعلقات۔ ۶۔ گھر کے دوسرے افراد کی غیر موثر اور بری مثال۔ یہ مسائل بچوں میں کیوں پیدا ہوتے ہیں اوران کا کیا حل ہو سکتاہے اور ہم ان کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟ ۱۔ انگوٹھا چوسنا بعض بچے چیزوں کو منہ میں لینے او ران کو چوسنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر ماں کا یا بوتل کا دودھ پینے کے باوجود بچہ انگوٹھا چوسنے کی طرف مائل ہوتو اسے اس عادت سے نہ روکا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کا دودھ جلد نہ چھڑایا جائے۔ عام طور پر بچہ اس وقت انگوٹھا چوستا ہے جب وہ بھوک تھکان سستی اورافسردگی کی وجہ سے شگفتہ نظر نہ آئے۔ ایسی حالت میں انگوٹھا چوسنا اسے ایک قسم کی راحت اور تسکین محسوس ہوتی ہے۔ بچے کو مختلف کھلونے دیے جائیں تاکہ وہ ان سے کھیلتا رہے اگر ماں بچے کے انگوٹھا چوسنے کی عادت کا برانہ مانے تو بھی یہ عادت رفتہ رفتہ چھوٹ جائے گی۔ بچے کو جھڑکنے اور اس کے انگوٹھے پر ایسی چیز مل دینے کا طریقہ بھی جو اس کو ناگوار گزرے نامناسب ہے۔ اس سے بچے کی فطری ضد کا جذبہ پیداہوجاتاہے اور وہ انگوٹھے چوسنے کی عادت نہیں چھوڑتا۔ ماں کے لیے یہی بہترہے کہ وہ اس معاملے میں صبر سے کام لے بچے کو بار بار منع نہ کرے ورنہ وہ ضد میں اس عادت کو مزید پختہ کر لے گا۔ ڈر اور خوف کھانا شیر خوارگی سے لے کر چار پانچ سال کی عمر بچوں کی نشوونما کا دور ہے۔ شیر خوارگی کے زماے میں ہی بچے کے د میں کھٹولے سے گرنے اور شور کی آواز سے متاثر کرنے کا فطری احساس پایا جاتاہے۔ والدین کا فرض ہے کہ بچے کو خو ف اور ڈر کے احسس سے بچانے کے لیے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ دروازہ اس زور سے بند نہ کیا جائے کہ بچہ ڈرجائے اور نہ اسے پیارکرتے ہوئے ہوا میں بہت اونچا اچھالا جائے۔ جوں جوں بچہ بڑاہوتا ہے وہ ور باتوں سے بھی ڈرنا شروع کردیتا ہے مثلاً اندھیرے میں نہاتے وقت اتفاقاً گہرے پانی میں چلا جائے تووہ پانی سے ڈرنا شروع کر دے گا۔ اگر ماں بادل کی گرج سے ڈر جاتی ہے تو اسے ڈرتا دیکھ کر بچہ سہم جاتا ہے۔ اکثر لوگ رات کو بلب بند کر کے اندھیرے میں سوتے ہیں جیسا کہ بچے شور سے خوف کھاتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں اگر تاریکی میں بلی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کوئی چیز گر جائے اور بچوں کی آنکھ کھل جائے تو بچوں کے ڈر جانے کے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین کو کمرے میں چھوٹاسا بلب ضرور جلانا چاہیے اگر بچے کے دل میں حد سے زیادہ ڈر نے کا جذبہ پیدا ہو گیا تو بڑا ہو کر بھی اس قدر بزدل ہوجائے گا کہ وہ بڑے بڑے تو ایک طرف چھوٹے چھوٹے حادثات میں بھی دل چھوڑ بیٹھے گا۔ ۳۔ بستر پر پیشاب کرنا اگرچہ بہت چھوٹے بچوں کے بول و براز پر اختیار کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر بھی ایک خاص عمر کے بعد اور قبل از سکول کے بچوں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے کپڑے گیلے اور خراب نہ کریں ایک دفعہ جب بچہ حیاتیاتی طور پر آمادہ ہو جائے تو پھر بالعموم والدین کے اخراج سے متعلق اشارات پر عمل کرتا ہے۔ بستر پر پیشاب نہ کرنے کی عادت بچہ ذر ا بڑی عمر میں سیکھتاہے۔ ۴۔ غذائی مسائل ماہرین کی رائے ہے کہ نوزائیدہ یا اس سے بڑے بچے کو کبھی اس کی خواہش کے خلاف دودھ نہیں پلانا چاہیے۔ اس معاملے میں زیادہ مناسب اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود ماں اس بات کا خیال رکھے کہ بچے کو کب اور کس قدر دودھ پلانے کی ضرورت ہے۔ جس بچے کو اس کی خواہش کے خلاف دودھ پلایا جائے وہ نہ تو ہضم کر سکے گا اور نہ ہی اس کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ ۵۔ حسد کرنا سوا سال سے ڈیڑھ سال کی عمر میں حسد و جللن کا جذباتی رد عمل بھی بچے میں پیدا ہو جاتا ہے۔ مانوس اور بچے میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ بچے کے لیے تسکین کا باعث ہوتی ہے۔ جب یہ توجہ ہٹائی جاتی ہے اور خاص طورپر جب یہ ہی توجہ کسی اور کو ملنے لگے تو بچہ شدید جلن اور حسد کا مظاہرہ کرتاہے۔ بعض بچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں یاحریف کی طرف شدید غصے اور جارحیت کا اظہار کرتے ہیں اور وہ اس اظہار کو دوسروں کے بچو ں یا اپنے بہن بھائیوں کو مارنے بال نوچنے اور کاٹنے سے کرتاہے ۔ حسد وجلن کے جذبے میں خوف اور غصہ دونوں شامل ہوتے ہیں اس پر بڑوں کا طرز عمل بھی بچوں کو اکساتا ہے ۔ سکول کی عمر کے بچوں کے مسائل سکول کی عمر سے لے کر قبل از بلوغت تک وہ زمانہ جس میں بچوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے ان کی چھوٹی چھوٹی الجھنیں مشکلات بڑھ جاتی ہیں مثلاً ہم جماعت سے دوستی گھر میں اچھے تعلقات سکول میں نمایاں کامیابی یا ایک کمزور طالب علم ہونا۔ ا س کے علاوہ اس عمر کے بچوں میں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ بڑوں کی طرح کپڑے پہنیں۔ گھر کے ہر معاملے میں مشورہ دینا بڑوں کی طرز سلوک کرنا۔ اور توجہ کا مرکز بننا۔ اورکھیلوں میں انعام حاصل کرنا جب بچوں کو اپنی اس قسم کی خواہشات میں ناکامی یا تاخیر کا احساس ہو تو مختلف قسم کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیںمثال کے طور پر : ۱۔ جھوٹ بولنا ۲۔ چوری کرنا ۳۔ بڑوں سے بے ادبی سے پیش آنا ۴۔ اندھیرے سے ڈرنا ۵۔ حسد کرنا ۶۔ لڑنا جھگڑنا ۷۔ بحث کرنا ۸۔ منہ پھلا کر بیٹھنا بے ایمانی کرنا ۹۔ ناخن چبانا ۱۰۔ خوف کھانا یا اندھیرے سے ڈرنا ۱۱۔ بستر پر پیشاب کرنا جھوٹ بولنا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ ہمیشہ سچ بولیں جب بچہ کوئی سوال کرے تو وہی معلومات بہم پہنچائی جائیں جو وہ چاہتے ہوں اور جہاں تک ممکن ہو سادہ طریقے سے سمجھایا جائے کہ اگر بچے کو چھوٹی عمر میں جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے تو یہ عادت ساری عمر تک ہوتی ہے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ بچے اس وقت جھوٹ بولتے ہیں جب وہ اپنی کسی کمزوری کو چھپانا چاہتے ہیں یا جب وہ نقصان کر بیٹھے ہوں اور سزا سے بچنے کے لیے گریز کر رہے ہوں اس کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ بچے کے دل سے ڈر خوف دور کر دیا جائے۔ جس کی وجہ سے وہ جھوٹ بولتا ہے سچائی دیانتداری اوراس قسم کے فضائل زبردستی اور غصے اور سزاسے انہیں نہیں سکھائے جا سکتے بلکہ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے تو ترغیب دلانے میں آسانی سے سیکھ جاتا ہے۔ چوری کرنا چوری کرنا اور جھوٹ بولنا تقریباً ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے ہ بچے وہ چیزیں چراتے ہیں جن کی ان کو بالکل ضرورت نہیں ہوتی وہ ایسا یا تو کسی سے بدلا لینے کے لیے یا اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے کرتے ہیںملک میں چوری کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے جب بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات گھر میں پوری نہیں ہوتیں تو وہ مجبور ہو کر دوسروں کی چیزوں کو چرا لیتے ہیں سات سے د س سا کی عمر کے بچے بہت جلد اچھائی اور برائی کا اثر قبول کرتے ہیں اس لیے گھر میں اور سکول میں اچھی تربیت دینی اور دنیاوی تعیلم دی جائے تو ہمارے بچے اچھے اور دیانت دار بن جائیں گے۔ بڑوں سے بے ادبی سے پیش آنا اس دور میں بہت سے اچھے گرانوں کے بچے بھی خراب عادتیں سیکھ جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ سکول میں اپنے سے بڑے لڑکوں سے ملتے ہییں اور ان کو زیادہ طاقت ور اور لائق دیکھتے ہیں تو انہیں احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے اس لیے جو باتیٰں وہ اپنے سکول میں اپنے بڑے لڑکوں کوے سامنے نہیں کر سکتے وہ اپنے بہن بھائیوں ماں باپ نوکروں کے سامنے کرتے ہیں یعنی گستاخی سے بولنا منہ چڑانا جھگڑا کرنا وغیرہ ایسے موقعوں پر بڑوں کو چاہیے کہ بچے کو مارنے کی بجائے عقل مندی سے سمجھا دیں کہ بڑوں کے ساتھ کیسے ادب سے پیش آنا چاہیے اور چھوٹے بچوں کے آپ پر کیا حقوق ہیں اگر سمجھانے کا انداز اچھا ہو تو بچہ ضرور سمجھ جائے گا۔ روٹھا منہ پھلا کر بیٹھنا یہ سب اس عمر کے بچوں کی مخصوص عادات ناراض ہو کر منہ پھلا کر بیٹھ جاتے ہیں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا وقت ضائع کرنا نقل یا دھوکا دینے کی کوشش کرنا اور سب باتوں سے بچوں کو کسی نہ کسی قسم ی تسکین ملتی ہے۔ اور وہی بچہ ایسی باتیں سیکھ جاتا ہے جس کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہو۔ ماں باپ کو بچے کے ساتھ ایسے حالات میں ہمدردی اور محبت سے پیش آنا چاہیے۔ ناخن چبانا ناخن چبانے اور انگوٹھا چوسنے کی عادت زیادہ تر حساس بچوں میں پائی جاتی ہے ایسے بچے کو زیادہ ڈانٹنا اور شرمندہ نہیںکرنا چاہے کیوؤنکہ سخی اور سز ا سے یہ عادتیں اور بھی پختہ ہو جاتی ہیں اس کا بہتر علاج یہ ہے کہ آپ بچے کو محبت اور پیار سے سمجھائیں اور یقین دلائے کہ آپ سب اس کو اچھا سمجھتے ہیں اس طرح بچہ آہستہ آہستہ ان عادتوں کو بھلا دے گا جو بچے اپنے ناخن چباتے ہیں ان کو ایسے کاموں میں مصروف کر دیں جس سے وہ اپنے ہاتھو ں کو استعمال کرے مثلاً کرکٹ کھیلنا ڈرائنگ کرنا وغیرہ ان تمام تربیت کے مراحل الجھنوں حاجتوں کو پیش نظر رکھے ہوئے والدین واساتذہ کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان فطرتاً معاشی حیوان ہے۔ اپنے ہم عمر بچوں کی صحبت ان یس مل جل کر کھیل کود سیر و تفریح وغیرہ بچوں کو اہم حاجات ہیں گھر بچے کا معاشرتی ماحول ہے۔ گھر میں بچوں میں دوسروں سے تعاون کرنے معاشرتی صحبت اور گروہی فکر و عمل میں خندہ پیشانی سے شرکت کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔ اس کے برعکس اگر بچوں کی ابتدائی عمر میں معاشرتی اختلاط کے وافر مواقع میسر نہ آئیں تو ان کی زندگی میں طرح طرح کی معاشرتی برائیاں سرایت کر جانے کاخطرہ ہ۔ بچوں کو ان تمام گھریلو اور معاشرتی الجھنوں سے بچانے کے لیے والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ان تمام حیاتیاتی نفسیاتی ار معاشرتی تقاضوں کو اچھی طرح سمجھیں اوران کی مناسب تشفی کے سامان پیدا کرنے کے لیے باضابطہ کوشش کریں تاکہ بچوں کی زندگی میں ان تمام الجھنوں سے محفوظ رہے جو ان بنیادی حاجتوں کو نظر اندا ز کرنے سے پید ا ہو جاتی ہے۔ عہد بلوغت کے مسائل بلوغت کا دور انتہائی ہیجان انگیز دور ہے لڑکیاں عموماً ۱۲ سے ۲۱ برس اور لڑکے عموماً ۵ برس کی عمر کے دوران اس ہنگامی دور سے گزرتے ہیں۔ بلوغت کا سفر خاردار صحرائوں اور پیچ و خم کھاتے ہوئے راستوں سے طے ہوتاہے۔ اس میں قدم قدم پر ہنگاموں حادثوں معرکوں صدموں تجربوں تلخیوں آندھیوں اور گردابوں کا سامنا ہوتاہے۔ اس دور میں بچ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ مناسب تفریحوں اور سرگرمیوں کے میسر نہ آنے سے ان کی طرح طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہو جانے کا خدشہ سخت ہوتاہے۔ اس لیے ا س بات کی خصوصی احتیاط کرنی چاہیے کہ اس دور میں بچے طرح طرح کی دلچسپ تفریحوں میں خوب مصروف رہں تاکہ ان کی بڑھتی ہوئی جسمانی توانائی ان کے فکر و عمل کو بھٹکانے میں ناکام رہے۔ وقت کی منصوبہ بندی Time Management انتظام عام لغت میں انتظام سے مراد یہ ہے استعمال کی چیزوں روپے پیسے اور وقت اور دیگر اشیاء کو شعوری طور پر یا لا شعوری طور پر استعمال کرنے اور رکھنے کے طور طریقوں سے ہے۔ مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع وسائل کا استعمال کرنا انتظام کہلاتا ہے۔ ہر وہ کام جو دوسروں سوچ بچار ک بعد عمل میں لایا جائے انتظام کہلاتاہے۔ کام بے ڈھنگے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے اور منظم طریقے سے بھی بے ڈھنگے طریقے پر کام انجام دینے سے ذؤرائع اور وسائل کے ضائع ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور حصول مقاصد کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ہر وہ کام جو کم از کم ذرائع کے استعمال کرنے سے زیادہ سے زیادہ اطمینان اور خوشی یککا باعث ہو بہتر اورمنظم طریقہ کہلاتاہے۔ دوسرے الفاظ میں اسی کو انتظام کہا جاتاہے۔ پس انتظام منظم سوچ اورعمل کا نام ہے۔ انساان کے وسائل محدود ہیٰں اور ان کو بہتر طور پر استعمال کرکے ہی زیادہ سے زیادہ فائدہ اور تسکین حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں وہ اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرتے ہوئے زیادہ خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں اس کے برعکس جو انتظام سے بے خبر ہیں وہ اپنے وسائل ضائع کرتے رہتے ہیں اور جس قدر فوائد ان کو پہنچنے چاہئیں ان سے محروم ہو جاتے ہیں جس گھر میں انتظام سلیقے سے ہوتا ہے وہاں لوگ خوش اور اطمینان بخش زندگی بسر کرتے ہیں۔ انتظام ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے خاندانی مقاصد کا حصول ممکن ہے کیونکہ انتظام خاندانی مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع درکار کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ آسان زبان میں یوں سمجھیں کہ انتظام خاندانی اثاثوں کو استعمال میں لاتے ہوئے خاندانی ضروریات خواہشات اور تمنائوں کی تکمیل ہے۔ اب چونکہ ہر شخص او رہر کنبہ مختلف ہے کوئی دو کنبے اپنے ذرائع اور وساء اپنے اور مقاصد میں یکساں نہیں۔ اس لیے ان کے انتظامات بھی مختلف ہیں انتظام ایک انفرادی عمل ہے جب یہ عمل گھر کے ذرائع وسائل کے استعمال کے لیے کیا جائے تو انتظام خانہ داری یا گھریلوانتظام کہلاتاہے۔ جس میں خاندانی مقاصد کو پیش نظررکھ کر کنبے کے ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ غرض انتظام مسلسل سوچ بچار کا عمل ہے۔ بہتر انتظام سے گھر کنبہ اور معاشرہ کی اقتصادی و معاشرتی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ انتظام کی اہمیت آج کل کے زمانے میں کم و بیش ہر گھرانے کی یہ مشکل ہے کہ گزر بسر نہیں ہوتی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ضروریات اور ذرائع وسائلل میں توازن نہیں ہے۔ آمدنی وقت اوردوسرے ذرائع نہایت قلیل اورمحدود ہیں جب کہ انسانی ضروریات اور تقاضے لامحدود اسی دشواری کے پس منظرمیں سوجھ بوجھ اور انتظام کی انتہائی ضرورت ہے۔ بہتر انتظام اور قلیل اور محدود ذرائع بھی بہترمعیار اورخوشحالی سے حاصل ہوتے ہیں جبکہ بنا سوچے سمجھے روپے وقت اور قوت وغیرہ کے استعمال کے تمام ذرائع ضائع ہو جاتے ہیں اوراس کنبے کی بد انتظامی اور پھوہڑ پن کو ظاہر کرتے ہیں اوریہی انتظام کی بڑی اہمیت ہے کہ وہ ضیائع سے محفوظ رکھنے کی ترغیب دیتاہے۔ اور قلی و محدود ذرائع کے باوجو د مقاصد حاصل کرنے میں معاون ہوتاہے اس کے علاوہ اچھا انتظام خوشحالی و کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اور کنبہ کا اقتصادی اور معاشرتی مقام بلند کرتا ہے۔ انتظام کاعمل انتظام منظم سوچ اور عمل کا نام ہے۔ اس کا عمل تین حصوںپر مشتمل ہے۔ ذہنی منصوبہ بندی سوجھ بوجھ Planning انتظام کے عمل کا پہلا پہلو ذہنی منصوبہ بندی ہے یعنی کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ و بچار کا م کی اچھائی برائی اس کے نتائج پرکھ اور پھر جب طے ہو جائے کہ کام باعث اطمینان ہے تو اس کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ ذہنی منصوبہ بندی کے لیے ذہنی اہلیت و صلاحیت درکار ہے۔ مثلاً خاتون خانہ ایک ہنڈیا پکانے سے پہلے اس کی غذائی اہمیت خاندان کے افراد کی پسند و ناپسند قیمت موسمی سبزیوں کے بارے میں سوچتی ہے۔ اس سب باتوں کا انحصار خاتون خانہ کی ذہنی صلاحیت پر ہے۔ اسی طرح زندگی کا ہر عمل جس میں فیصلہ منصوبہ بندی مقاصد کا تعین اور عمل درآمد کے طریقے شامل ہیں انسان کی ذہنی قابلیت پر مبنی ہوتاہے۔ منصوبہ بندی کے ذریعے ہی سے عمل کے راستے کی ہموار ہوتے ہیں اور مقاصد تک پہنچ ممکن ہوتی ہے۔ جتنا منصوبہ ٹھوس ہو گا کامیابی اتنی ہی یقینی ہو گی۔ منصوبہ کا انصرام یا حکمت عملی Contalling منصوبہ کا انصرام یا حکمت عملی سے مراد منصبوبے کو عملی جامہ پہنچانا ہے۔ منصوبہ بندی کی کامیابی کا انحصار ذرائع وسائل کے مناسب اور صحیح استعمال پر ہے۔ اس کے علاوہ منصوبہ پر سختی سے کاربند رہنا اوردوسری خواہشات و ضروریات پر ضبط قائم رکھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل عملوں پر کاربند ہونا ضروری ہے۔ ۱۔ تنظیم جو کام کرنا ہو اس پر عمل اور کام بانٹنا کام عمر تجربے اورصلاحیت کے مطابق بانٹنے بہتر ہیں۔ ۲۔ نگرانی کام کے دوران کام پر نگرانی رکھنا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کام صحیح طریقے سے انجام پا رہا ہے یاا کوتاہی برتی جا رہی ہے عمر اور صلاحیت کے مطابق بنے ہوئے کام زیادہ بہتر طورپر انجام پا سکتے ہیں۔ ۳۔ ہدایات کام کے دوران جہاں ضرورت ہو رہنمائی کرنا کام سکھانا کام کی ترغیب دینا یا کام پر اکسانا وغیرہ شامل ہیں۔ ۴۔ رابطہ کام کرنے والوں سے رابطہ قائم رکھنا تاکہ کام کے معیار اور رفتار کا صحیح اندازہ رہے اس کے علاوہ کام کرنے والوں سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنا تاکہ کام بہتر طور پر انجام پائے۔ ۳۔ جائزہ لینا کام مکمل ہونے پر ا س کا تجزیہ کیا جائے حاصل شدہ نتائج (کامیابی یا ناکامی) کی روشنی میں پہلے دونوںاقدام یعنی منصوبہ بندی اور حکمت عملیاں موجودہ نقائص اور خامیوں سے پاک رہ سکیں۔ یہ پہلو محض پرکھنے کا عمل ہے جو مستقبل کے لیے رہنمائی کرتا ہے جب کوئی کام خواہش اور منصوبے کے مطابق انجام پاتا ہے تو کامیابی کہلائی جاتی ہے۔ اوراگر کسی کام میں مکمل کامیابی نہیں ہوتی تو اس کی وجہ تلاش کرنا آئندہ کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ وقت Time وقت زندگی کی اہم ترین قدر ہے۔ وقت کی قدر کرنا گویا زندگی کی قدر کرنا ہے۔ وقت ہمارے پاس گھنٹوں دنوں مہینوں اور برسوں کی صورت میں موجود ہے۔ مثلاً دن بھر میں وقت چوبیس گھنٹوں کی صورت میں ہمارے پاس کام اور آرام کے لیے دستیاب ہے دن کے چوبیس گھنٹوں کو نہ تو بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی گھٹایا جا سکتا ہے۔ وقت کا شمار انسانی ذرائع وسائل میں ہوتاہے۔ اسے بھی قوت کی طرح نہ دیکھ اورنہ ہی چھوا جا سکتا ہے۔ دوسرے ذرائع وسائل کی طرح یہ بھی محدود ہے اس لیی اسکے انتظام کی ضرورت بھی نہایت اہم ہے وقت کے انتظام کا مقصد کام کاج میں ایسے طریقے اختیار کرنا جن سے وقت میں کمی واقع ہو یا کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام ہو سکے۔ اس کے علاوہ کچھ وقت کی بچت بھی ہو سکتی ہے اکثڑ و بیشتر گھریلو کام کاج کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ایک کام ختم ہونے لگے توفوراً دوسرا کام یاد آ جاتا ہے… اور یوں کاموں سے کام نکلتے ہی چلے جاتے ہیں جس سے وقت کی کمی کا احساس شدید ہو جاتا ہے۔ اور انتظام کی ضرورت اہم ہو جاتی ہے۔ کنبے کے مشاغل افراد کی عمر اور کنبے کی آمدنی آسائش ایسے عوامل ہیں جو وقت کے استعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً ایسا کنبہ جس میں مشاغل کی تعداد اور زیادہ ہو یقینا کام کاج میں اضافے کا باعث ہو گا۔ اسی طرح اگر کنبہ زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے تو بھی کام کاج میں اضافہ ہو گا۔ آمدنی زیادہ ہونے کی صورت میں کام کاج کا بوجھ نوکر چاکر یا بجلی کے آلات وغیرہ سے ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ ہر انسان صبح ہوتے ہی کام کاج میں لگ جاتا ہے اور رات گئے تک مصروف رہتا ہے۔ اکثر و بیشتر سارے کام ٹھیک ٹھاک اپنے وقت پر ختم ہو جاتے ہیں مگر کبھی چند کام ایسے لٹکتے ہیں کہ دنوں مہینوں اور برسوں تک مکمل نہیں ہوتے۔ اور ذہنی کوفت کا سبب بنتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ وقت کے انتظام سے نا آشنائی ہے۔ وقت کا انتظام وقت کی منصوبہ بندی وقت کی منصوبہ بندی کا دراصل مقصد کام کام کرنے کے ایسے سادہ اور آسان طریقوں کو اپنانا ہے جن سے ووقت کی بچت کی جا سکے۔ کام سادہ اور آسان کرنے کے طریقے ۱۔ کام ہر کام کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے غیر ضروری اقدامات نکال دیں اور ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن سے وقت کی بچت ہو سکے۔ ۲۔ کام کرنے والے شخص کام کرنے والے شخص کی حرکات و سکنات کا تجزیہ کیا جائ۔ جسم کے مختلف اعضاء کے صحیح استعمال سے وقت کی بچت ہو۔ ۳۔ کام کی جگہ کام کرنے کی مناسب جگہ مناسب اونچائی اور چیزوں کے مناسب ٹھکانوں مناسب روشنی اور ہوا وغیرہ کے صحیح بندوبست سے وقت اور قوت کی بچت ہو سکتی ہے۔ ۴۔ کام کے آلات کام کرنے کے مناسب آلات اور اشیاء نہ صرف کام کے معیار کو ہی بڑھا سکتے ہیں بلکہ وقت اور قوت میں بھی تبدیلی کا باعث ہوتے ہیں۔ مثلاً مشینی آلات کے استعمال سے گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہو جاتا ہے۔ وقت کی منصوبہ بندی کے چند معاون اقدام وقت کی منصوبہ بندی کے لیے مندرجہ ذیل اقدام منصوبہ بندی کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ منصوبہ بندی کے اقدام ۱۔ ضروری کام کو منصوبہ میں پہلے جگہ دی جائے۔ ۲۔ کام کا تسلسل ایسا رکھا جائے کہ جو خاندان کے افراد کی ضرورت دلچسپی مزاج عادات و اطوار کے مطابق ہو۔ ۳۔ وقت بچانے والے آلات اور ساز و سامان استعمال میںلانے کی کوشش کی جائے۔ ۴۔ ہر کام کرنے کے لیے کافی وقت دیا جائے تاکہ کام خوش اسلوبی سے ہو سکے۔ ۵۔ اپنے خاندان کے تمام افراد کے تفریحی مشاغل کے لیے وقت ضروری رکھا جائے۔ ۶۔ کام کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ تمام افراد اپنی ذمہ داری اور احساس سے شریک کار ہوں۔ ۷۔ منصوبہ بندی میں اتنی لچک ہو کہاچانک ناگہانی دخل اندازی کھپت کی جا سکے یا قطعی طور پر روزانہ یا ہفتہ وار منصوبے کو ملتوی کیا جا سکے۔ ۸۔ روزانہ ہفتہ وار‘ ماہانہ‘ ششماہی اور سالانہ ضروریات یا کام کاج کی فہرست بنائی جائے اوراسی کے مطابق وقت اور کام کی تقسیم کی جائے۔ ۹۔ بحث اور تنقید کے لیے خاندان کے تمام افراد کا وقت منصوبے میں ضرور مقرر کیاجائے خواہ یہ روزانہ ہو یا ہفتہ وار یا ماہانہ۔ منصوبہ بندی پر عمل کرنا محض منصوبہ تیار کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر صحیح طریقے سے عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ وقت کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے وقت اگر مندرجہ ذیل ہدایات کو ذیل عمل میں رکھا جائے تو منصوبہ بندی کامیاب ثابت ہو گی۔ ۱۔ منصوبہ بندی سادی اورلچک دار ہو ار کام کے مقررہ اوقات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دن بھر کی منصوبہ بندی میںشامل کوئی کام رہ نہ جائے۔ ۲۔ بڑے بڑے کاموں کو اگر چھوٹے چھوٹے کاموں میں تقسیم کر لیا جائے تو س سے بھی کام میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کام کم وقت اور کم محنت سے انجام پاتے ہیں اور چھوٹے موٹے کاموں کاجائزہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ۳۔ دن کے مختلف اوقات میں گزشتہ گھنٹوں کی کارگزاری کا سرسری جائزہ لینا چاہیے تاکہ اندازہ رہے ک منصوبہ بندی پر کتنی کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔ ان چھوٹے وقفوں کے جائزوں سے وقت کا احساس اور اندازہ لگانے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ جو منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے دوران نہایت معاون ہوتی ہے۔ ۴۔ اگر دن بھر کی منصوبہ بندی کو ذہن نشین کرنا مشکل ہو تو چوبیس گھنٹوں کی تحریر شدہ منصوبہ بندی کو کسی مناسب جگہ لٹکا دینا چاہیے تاکہ آتے جاتے اس پر نظر پڑتی رہے اور کام کاج اپنی ترتیب سے یاد آتے رہیں۔ تنقیدی جائزہ لینا انتظام کا تیسرا عمل منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے نتائج کو پرکھنے کا ہے۔ یعنی انجام تسلی بخش ہو تو منصوبہ بندی اور اس پر عم کا گہر ا جائزہ لینا ضروری ہے۔ تاکہ آئندہ کے لیے طریقے و تدابیر اختیار کیے جائیں بہتر طریقہ یہ ہے کہ بجائے دن بھر یا ہفتے بھر کی منصوبہ بندی کے اختتام پرجائز ینے کے دن بھر میں وقتاً فوقتاً کی منصوبہ بندی کی کارکردگی پر نظر ثانی کی جائے اس سے ایک تو وقت کے اصراف اور منصوبہ بندی پر کامیابی سے عمل درآمد کرن کا اندازہ ہو جائے گا۔ دوسرے اگر زائد وقت خرچ ہوا ہو گا تو اسے آنے والے لمحات میں پوراکیا جا سکے گا۔ کام کے دوران اگر صحیح اندازہ ہوتا رہے تو فوراً ترمیم کی جا سکتی ہے۔ دوسرے انسان میں لاشعوری طورپر وقت کی پابندی اور وقت کی قدر پیدا ہو گی۔ وقت کے انتظام کے فوائد ۱۔ گھر کی مالکہ کو گھریلو کام اور وقت کی اہمیت معلوم ہو جاتی ہے۔ ۲۔ وہ ضروری کام جو بعض اوقات لاپرواہی سے رہ جاتے ہیں منصوبہ بنانے سے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں۔ ۳۔ غیر ضروری ہدایات اور کام کی مدت کو بڑھانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ ۴۔ مستقبل کے کام کاج کو زیادہ موثر کارآمد و رفت بہتر بناانے میں موجودہ منصوبہ معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ۵۔ وقت کی اچھی منصوبہ بندی معاون گھر کی مالکہ کو گھریلون ضبط و نسق میں قابلیت و اہلیت کا احساس دلاتی ہے۔ ۶۔ ذہن سے غیر ضروری بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ ۷۔ الجھنوں اور کشیدگیوں کا کم ہونا منصوبہ بندی کا ایک جزو ہے۔ جو خاندان کے آرام و سکون کا بہترین ذریعہ ہے۔ ۸۔ خوف و ہراس کو ختم کرتا ہے۔ جو وقت پر تسلی بخش کام نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ ۹۔ منصوبہ بندی ذہن کو نت نئے تشکیل و ترتیب دینے میں مدد کرتی ہے۔ گھریلو بجٹ کی تیاری Houre Budget Planing بجٹ Budget بجٹ سے مراد نقد آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگانے سے ہے تاکہ آمدنی اور اکراجات کے لیے آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کیا جا سکے۔ بجٹ دراصل نقد آمدنی کے انتظام کا پہلا عمل ہے جو مستقبل کے اخراجات کے لیے آمدنی کی منصوبہ بندی مشتمل ہوتا ہے۔ جو کنبے کو رقم خرچ کرنے کا ایسا رہنما خاکہ یا نمونہ مہیاکرتا ہے جس پر کاربند رہ کر متعلقہ کنبہ یا افراد اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی بھی بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ وہ کس قدر حقیقی ہے۔ جس شخص یا کنبے کے لیے بنایا گیاہے اس کے مخصوص حالات کے پیش نظر بنایا گیا ہے یا کسی دوسرے کنبے کا بجٹ ٹھونس دیا گیا ہے بجٹ میں تبدیلیوں کے کس قدر لچک اور بنجائش موجود ہے ااور اس پر کس حد تک پابندی سے عمل درآمد کیا جاتاہے بجٹ کے حقیقی ہونے سے مراد یہ ہے کہ بجٹ فرضی آمدنی فرضی اخراجات اور فرضٰ قیمتوں کے انداز سے مبرا ہو اور وہ کنبے کی بنیادی اور اہم ترین ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ متعدد دوسرے تقاضے بھ پورے کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ جس کے لیے گھر میں مخلتف ذرائع سے آنے والی تمام آمدنی کا صحیح علم ہونا ضروری ہے صحیح اخراجات جن میں بنیادی اخراجات سر فہرست رہنے چاہیے اور ہر استعمال کی چزی یا رقم کی طلب مد کی قیمت کا بالکل صحیح علم ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ حساب لگانے میں غلطی کا احتمال نہ رہے۔ اس کے علاوہ کسی فرد اور کنبے کی ضروریات و اخراجات یکساں نہیں ہوتے۔ اس لیے آمدنی مساوی بھی ہو تو تب بھی کسی دو کنبوں کے لیے ایک بجٹ ان کے مقاصد کے حصو ل میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔ ایک کنبے کا کامیاب بجٹ دوسرے کے لیے رہنما مثالی ہو سکتاہے۔ لیکن عین معاون نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے بنابنایا تیار بجٹ استعمال کرنے کے بجائے ہمیشہ مخصوص افراد کنبوں کی اپنی اپنی آمدنی اور اخراجات کو مدنظررکھ کر الگ الگ بجٹ بنانا چاہیے۔ بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس کی اس خصوصیت پر بھی ہوتا ہے کہ اس میں تبدیلیوں کی کس قدر گنجائش موجود ہے۔ کیونکہ اگر بجٹ بالکل عین ضروریات اور آمدنی کے اخراجات کو مساوی کرنا ہو ا ہو تو بعض اوقات اچانک اور فور ی طور پر ایسے اخراجات پیدا ہو سکتے ہیں جو بالکل غیر متوقع ہوں۔ سوان ناگہانی اخراجات کے لیے اور مندرجہ مدات میں بھی اچانک تبدیلی کے لیے بجٹ ہی خراب نہ ہو جائے اورپھر آمدنی اور اخراجات کی صرف منصوبہ بندی سے زائد اندراج یا اخراج سے سارا بجٹ ہی خراب نہ ہو جائے ارو پھر آمدنی کی صرف منصوبہ بندی کر لینا ہی اور بجٹ بنا لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ جب تک اس بجٹ کے مطابق اپنی دیگر دوسری خواہشات پر قابو رکھ کر بجٹ کے مطابق عمل درآمد نہ کیا جائے اور خرچ کرتے وقت اس بجٹ کی پابندی نہ کی جائے تو عمل بغیر کے بجٹ کا بنا لینا بیکار ہے۔ بجٹ کنبوں کی آمدنی اور اخراجات کے لیے بہترین رہنما ہو سکتاہے لیکن یکسر معالج نہیں ہو سکتا کیونکہ اچھے سے اچھے بجٹ میں بھی چند تحدید و کمزوریاں (Limitations)ہوتی ہیں اور انہیں صرف انسان خود اپنی اہلیتوں ہی سے رفع کر سکتاہے۔ مثلاً کسی کنبے کی انتہائی قلیل آمدنی کی صورت میں بھی بجٹ تو بنا یا جا سکتا ہے جو ان اخراجات جنہیں خود افراد کنبہ غیر ضرووری یا کم از کم اہم قرار دیتے ہوں۔ خارج کر کے انتہائی اہم جرویات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔ لیکن بجٹ کسی بھی حالت میں کم ناکافی یا قلیل آمدنی کے ادراک یا اضافے کا باعث نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی بجٹ کسی شخص میں اچھے انتخاب کی اہلیت پیدا کرنے کاضامن یا اہل ہو سکتا ہے۔ بلکہ بجٹ صرف کسی مد پر مناسب رقم مختص کرکے خریداری کی حد بندی کر سکتاہے انتخاب کی اہلیت انسان کو خود علم و تجربات سے پیدا کرنی ہوتی ہے۔ بجٹ کے فوائد Advantages بڑے بڑے ملکی کاروبار اور بزنس میں بجٹ کے اس قدر جامع ٹھوس اور مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں کہ گھریلو پیسے اور اخراجات کا حساب کتاب رکھنے کے لیے بھی اسے اپنا لیا گیا ہے اوریوں دراصل گھریلو بجٹ بزنس بجٹ کی پیداوار ہے بجٹ کے مدلل فوائد مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ افراد خانہ کے مقاصد کو واضح آشکار کرتا ہے۔ جس سے مستقبل کی ضروریات کی پیش بندی اور منصوبہ بندی ہو جاتی ہے جس کے لیے تمام دستیاب وسائل و ذرائع نگاہ میں آ جاتے ہیں۔ ۲۔ کنبے کے ذرائع اور اخراجات کی تفصیلات کو منظر پر لانے کا تفصیلی جائزہ بجٹ ہی کا مرہون منت ہے جس سے وسائل اور اخراجات سے آگاہیی اور بجٹ کو متوازن رکھنے کی ترغیب ملتی ہے اور فضول خرچی سے پرہیز کا رجحان پیدا ہوتاہے۔ ۳۔ بجٹ سے کنبے کی معاشی حالت اور انتظٓم خانہ داری کی بہتری اور اصلاح ہوتی ہے جو بجٹ پر دارومداار رکھتی ہے۔ ۴۔ افراد خانہ کی باہمی افہام و تفہیم میں اضافہ ہوتا ہے اور اختلافات اور غلط فہمیاں رفع ہو جاتی ہیں۔ اور بجٹ کا باہمی مشورے سے بنائے جانے کی وجہ سے افراد خانہ ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ۵۔ ضبط و تفہیم اور مقصد کی لگن کی ترغیب ملتی ہے اہمیت کے لحاظ سے ضروریات کی درجہ بندی کر کے ان پر مختص رقم کا تعین چونک افراد خانہ خود کرتے ہیں اس لیے وسائل کی قلت کا احساس انہیں خود پر قابو رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً اٹھنے والے پرکشش غیر ضروری اخراجات سے پرہیز رہتی ہے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر کاروباری اورتجارتی ادارے بجٹ ہی کے ذریعے اپنے ذرائع پر قابو رکھ کر کاروبار میں اضافہ کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے اہل ہوتے ہیں۔ ۶۔ مستقبل کے تحفظ اور ناگہانی اخراجات کے لیے بجٹ ہی بچت کی ترغیب دیتاہے اور بنا سوچے سمجھے ہاتھ لگی ہوئی دولت خرچ کرتے رہنے کی عادت سے نجات ملتی ہے۔ ۷۔ بجٹ قرض کی لعنت سے محفوظ رکھتاہے اور وقتی ضروریات یا خواہشات پر بے ا روپیہ خرچ کرنے کی عادت پرقابو رہتا ہے۔ جس سے باقی ماندہ ضروریات کے لیے قرض نہیں لینا پڑتا جس کی ہمارے ہاں عموماًلوگوں کی عاد ت بن چکی ہے۔ ۸۔ بجٹ افراد خانہ کی اشد ضروری خواہشات و ضروریات کے حصول میں معاون ہوتا ہے کیونکہ بجٹ کا نام ہی آمدنی کی منصوبہ بندی کا ہے اور منصوبہ بندی کا مقصد ہی ضروریات کا حصول ہوتا ہے۔ ۹۔ بجٹ خاتون خانہ اور اہل خانہ کے سلیقہ و اہمیت اور عقل و شعور کا عکاس ہوتاہے او ر کنبے کے انتخاب اور فیصلے اس امر کی واضح دلیل ہوتے ہیں ۔ ۱۰۔ بجٹ خاتون خانہ میں اہمیت و شعور پیداکرنے اور اس میں اضافہ کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ کیونکہ منصوبہ بندی اور فیصلوں کا عمل عقل و شعور کو للکارتا بھی ہے اور متعدد بار بجٹ بنانے سے کئی ایسی خامیوں سے آگاہی پیدا ہوتی ہے جن کے بارے میں دگرنہ ہم لا علم اور لا پرواہ رہتے ہیں۔ ۱۱۔ بجٹ کسی بھی کنبے کی لمبی مدت کے مقاصد کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ بجٹ کا مفہوم و اہمیت بجٹ کا مفہوم صرف روپے پیسے یا آمدنی کی منصوبہ بندی تک ہی محدو د نہیں ہے بلکہ کسی کنبے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے بھی صرف اس کے معاشی منصوبے کے بارے میں تحقیقات مشاہدے یا علم ہی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں بجٹ ہی سے کنبے کے دوسرے ذرائع وسائل کا استعمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور بجٹ ہی کنبے کے اندر پیدا ہونے والی دلچسپیوں کو بھی منعکسکرتا ہے مثلاً ایک ایسا شخص جو اپنے کنبے کی نقدی میں اضافے کا متمنی ہے وہ اوور ٹائم ملازمت بھی کرتاہے اوراس خواہش سے اس کے اندر خاص قسم کی تنظیم ضبط اور دلچشپیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جن کا تعلق روپے پیسے کے اصراف اور چیزوں کے انتخاب سے ہے مثلاً کم آمدنی والے لوگوں کے انتخاب کا رخ ہمیشہ سستی چیزوں کی طرف ہوتا ہے تاکہ ان کے بجٹ پر بوجھ نہ پڑے اور اسی طرح جس گھرانے کے بجٹ میں ملازموں کی سہولت کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے یقینی طور پر ایسے بجٹ پر طائرانہ نگاہ میں اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ کہ خاتون خانہ کے اوقات کا ایک بہت بڑا حصہ فارغ ہوتا ہو گا۔ جسے وہ دوسری مصروفیات یا ملازمت اور تفریحات پر صر ف کر سکتی ہے وغیرہ بجٹ ہی سے اندازہ گایا جا سکتا ہے کہ ایک کم آمدنی والے گھرانے کے افراد تفریحات کے لیے یقینی طورپر رفاہی سہولتوں کا بکثرت استعمال کرتے ہوں گے۔ ان تمام رازوں کا انکاب اکثر کنبوں کے لیے ناپسندیدہ افعال ہوتاہے مگر یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بچت کنبے کے رہن سہن میعار زندگی اور ذرائع وسائل کے کئی راز منکشف کر دیتا ہے بجٹ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ باقی سارے انتظام کی طرح معاشی منصوبہ بندی بھی حرکتی اور اثر آفرین ہوتی ہے۔ جو سارے گھریلو نظام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہر طرح کی تبدیلیوں اور حالات سے نبرد آزماہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسی لیے اس کی ضرورت و اہمیت خاندان کو نازیست رہتی ہے۔ جب کنبے کی حیاتی زندگی میں پید اہونے والی مختلف تبدیلیاں اور مسائل جواب دہی کا تقاضا کرتی ہیں تو ان کے حل اور ترمیمم کے لیے بجٹ سربکف رہتا ہے۔ اور خاندان کے ہر نئے مرحلے کے ذرائع وسائل کی طلب و تقاضے پورے کرنے کے لیے بجٹ بدستور ہمہ تن معاون اور اہم رہتا ہے۔ خاندانی تبدیلیوں کے دوران بجٹ بدلتے میںسے کسی کا بھی منصوبہ بنانا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا کہ سب سے پہلے بجٹ کا منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ بعد کے بجٹ بنانے کے لیے بھی اصول تو پہلے بجٹ ہی کے مدنظر رکھے جاتے ہیںَ بلکہ متعدد تبدیلیوں کے باوجود بیشتر اخراجات کا طریقہ گزشتہ بجٹ کے پیٹرن کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بجٹ خواہ کس قدر بہترین اور عمدہ ہی کیوں نہ بنا ہو ذرائع اور وسائل اور ضروریات کی تبدیلیوں کے لیے وہ جوں کا توں بجٹ نہایت نامناسب اورغیر عملی رہے گا یعنی ذرائع اور وسائل اور ضروریات میں تبدیلیوں کے ساتھ بجٹ میں تبدیلیاں پیدا کرنا ضروری ہیںَ کیونکہ لچک بجٹ کی کامیابی کاراز ہے۔ اس کے علاوہ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تنظیمی عمل بھی ضروری ہے۔ کنبے کے لیے بجٹ کی تیسری بڑی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ روپے پیسے کے علاوہ متعدد دوسرے مسائل کو منظر عام پر لانے کی خدمت کرتا ہے۔ کیونکہ روپے پیسے کے مسائل تو عام طورپر زیر بحث رہتے ہیں۔ لیکن ان کے متعلقہ اور منسلک متعدد دوسرے وجود ہی مسائل کا تذکرہ کرتے وقت لوگ ہچکچانے لگتے ہیں جنہیں رفع کرنے سے روپے پیسے کے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیںَ مثلاً اگر ایک بچہ صرف اس لیے والدین کی شفقت اور محبت پرشا کی ہو جاتا ہے اور باغی ہو جاتا ہے کہ اس کے سارے معاشی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے تو یہ راز صرف اسے بجٹ سے آگاہ کرنے پر ہی اسی پر منکشف ہو سکے گا۔ کہ اس میں والدین یا گھر والوں کی نیت یا محبت میں کوئی فرق نہیں بلکہ کنبے کی مالیت یا مالی حالت اجازت ہی نہیں دیتی یا پھر وہ خاوند جو بیوی سے اخراجات سے متعلق غلط فہمیوں شکار ہو کر ہر وقت جھگڑتا رہتاہے اس کو صرف بجٹ سے آگاہ کرنے اور دکھانے پر ہی اس پر واضح ہو سکے گا کہ واقعی اس کے کنبے کی اتنی زیادہ ضروریات اور اخراجات کے لیے گھریول آمدنی نہایت ناکافی ہے اور بیوی کے بارے میں پیدا شدہ بدظنی اس کی ستائش میں تبدیل ہو سکے گا یا پھر وہ لڑکی جس کے پاس نت نئے کڑوں کا ڈھیر ہے۔ اسے صڑف اسی وقت احساس ہو گا کہ کنبے کی کتنی ضروریات میں سے رقم کھینچ کر یا کنبی ضروریات کوقربان کردینے یا دبا کے اس کے کپڑوں کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں جبکہ اسے بجٹ دکھایا جائے۔ اسی طرح جب تمام افراد خانہ آمدنی و اخراجات کے حقائق سے بخوبی واقف ہوں تو بدگمانیاں بدمزگیاں اور کئی مسائل ابھرنے سے بیشتردب بھی جاتے ہیںَ بجٹ سے افراد کنبہ کو آگاہ کرنے کے بارے میں متعدد خیالات صادر ہیں مثلاً کئی دانش مندوں کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچے بہت حساس اور نازک جذبات کے مالک ہوتے ہیں۔ انہیں اگر گھر کے اندرون حالات اور مسائل کا علم ہو جائے تو مضحمل رہنے لگتے ہیں۔ ان کی ننھی منی طبیعتوں پر بوجھ پڑنے لگتا ہے۔ جو ان کے جذبات کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اور ان کی پریشانی کا باعث احساس کمتری کا باعث بنتاہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کے ذہن اتنے کچے ہوتے ہیں کہ وہ گھر کے اخراجات کے تمام راز اگل یدییت ہیں اورہر ایک کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے پھرتے ہیں۔ اس لیے بچوں کو کم آمدنی کا علم مختلف بہتر طریقوںسے بھی دیا جا سکتا ہے۔ مثلا یہ کہ آج ہمارا ہاتھ اس لیے تنگ ہے کہ مکان یا زمین خریدنی ہے یا فلاں کی بیماری پر ضرورت سے زیادہ خرچا اٹھا ہے وغیرہ۔ ایسے طریقوں سے بچوں کو فضول خرچی سے روکنے اور خرچ میں ضبط کی تلقین کرنے سے ایک تو انہیںسمجھ آ جاتی ہے اور ان کا تعاون حاصل ہوتاہے دوسرے یہ کہ بچوں میں احساس کمتری پریشانی یا بوجھ کے بجائے ایک امید اور خوشی کی آس بندھ جاتی ہے۔ جس سے ایک پنتھ اور دو کاج ہو جاتے ہیں۔ یعنی بچے کی غیر ضروری اخراجات سے پرہیزز بھی کرنے لگتے ہیں اوران کی شخصیت میں نکھار بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ البتہ سمجھداری کی عمر کے بچوں کو اگر ضروری ہو تو اعتماد میں لے کر بجٹ سے آگاہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی جوانی اور لا ابالی کی عمر میں غلط سلط قسم کے شکوے اور خیالات نہ گھڑنے لگیںَ بہرحال اس کا انحصار بچوں اور والدین کے درمیان مفاہمت پر ہوتا ہے نقدی مختلف لوگو ں کے لیے مختلف مصرف اور اہمیت رکھتی ہے اور مختلف لوگوں کے لیے مختلف مقاصد حاصل کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص نقدی کے بارے میں غیر پختہ خیالات و رویے کا متحمل ہو تو وہ نقدی کے اچھے انتظام کی راہ میں حائل ہو گا اور روپے پیسے سے متعلق مسائل میں اضافے کا باعث ہو گا اور میاں بیوی ایک دوسرے کو تنگ کرنے کا ایک ذریعہ نقدی کو بنا سکتے ہیں۔ خاوند بیوی کو ناکافی رقم سے تنگ دست رکھ سکتاہے یا بیوی بے جا اخراجات اور فضول خرچی سے خاوند کی تنخواہ برباد کر کے اسے تنگ کر سکتی ہے۔ بعض لوگ صرف مادی اشیاء کے اجتماع ہی سے سکون و تحفظ حاصل کرتے ہیں۔ جس سے ان کے زیورات زمین مکان اور دیگر اشیاء بنانے کا طمع کبھی پورا نہیں ہوتا اور نتیجتاً انہیں تنخواہ یا خاندانی رقم کبھی مطمئن کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ بعض لوگوں کی نقدی دوسرے افراد خانہ کی فلاح پر مختص رہتی ہے جس سے وہ افرادکنبہ پر رقم خرچ کر کے انہیں خود مختار کرنے کے اہل بنا دیتے ہیں۔ بجٹ کی اقسام Kinds of Budget بجٹ لمبی یا تھوڑی مدت اور دورانیے کے لیے بنایا جا سکتاہے۔ گھروں میں بہت لمبی مدت کا بجٹ بنانا قدرے مشکل ہو جاتاہے۔ اس لیے عموماً تھوڑی مدت کا بجٹ بنایاجاتاہے۔ اس لحاظ سے بجٹ کی دو اقسام ہیں۔ ۱۔ بجٹ کا خاکہ ۲۔ تفصیلی بجٹ بجٹ کا خاکہ Out Line Budget یہ بجٹ چونکہ لمبی مدت کے لیے مثلاً کم از کم ایک سال کے دورانیے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں اخراجات کی چیدہ چیدہ مد شامل نہیں کی جا سکتیں۔ بلکہ سال بھر کے موٹے موٹے اخراجات کی موٹی موٹی رقموں کا اندازہ لگایا جا سکتاہے اور ایسا بجٹ گھریلوپیمانے پر کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا کیونہ گھر کی محدود آمدنی چھوٹی چھوٹی مدات کے خرچ سے بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایسا بجٹ کمپنیوں اور فیکٹریوں کی پیداوار اور سالانہ اخراجات اور منافع کے حساب کے لیے استعمال کی جاتا ہے پھر گھر میں شادی کے موقعوں پر موٹا موٹا حساب لگانے کے لیے یہ بجٹ تیار کیا جاتا ہے۔ تفصیلی بجٹ Detailed Budget اس بجٹ میں آمدنی کے ہر وسیلے و ذریعے اور گھر میں ہونے والے چیدہ چیدہ اخراجات کا بہت تفصیلی حساب لگایا جاتا ہے۔ یہ بجٹ چھوٹی مدت کے لیے بنایاجاتا ہے۔ مثلاً دن بھر کے لیے ہفتے کے لیے یا پھر عموماً گھروں میں پورے مہینے کا بجٹ بنایا جاتا ہے جس میں مہینے میں ہر ذریعے سے آنے والی آمدنی اور مہینے بھر میںہونے والی تمام اخراجات کا موازنہ کر کے تخمینہ تیار کیا جاتاہے۔ بجٹ بنانے کے اقدامات بجٹ چونکہ آمدنی کا انتظام ہی ہوتاہے اس لیے اس پر بھی انتظام کے تینوں اقدامات کا اطلاق ہوتا ہے۔ مثلاً ۱۔ آمدنی کی منصوبہ بندی ۲۔ بجٹ کی منصوبہ بندی ۳۔ نتائج کا تنقیدی جائزہ ۱۔ منصوبہ بندی Planning بجٹ کی منصوبہ بندی کے لیے چند اقدامات ہوتے ہیں۔ جن پر عمل درآمد کیے بنا بجٹ بنانا قطعی ناممکن ہوتاہے۔ ان اقدامات کا انحصار رقم کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں اور فیصلوں کی اہلیت پر بھی ہوتاہے اور یہ بجٹ بنانے والے کی عقل و شعورکا بڑا امتحان ہوتا ہے۔ اسی لیے بجٹ بنانا اس قدر آسان نہیں جتنا بظاہر محسوس ہوتاہے بجٹ میں منصوبہ بندی کے یہ اقدامات مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ ایک ایسی فہرست تیار کریں جس میں کنبے کے تمام افراد کی اس خاص مدت کے لیے ضروریات تفصیلی طور پر مندرج ہوں جس مدت کے لیے بجٹ بنایا جا رہا ہو۔ ۲۔ دوسری فہرست ان تمام اشیاء اور ساز و سامان پر مشتمل ہونی چاہیے جو نمبر ایک کی ضروریات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہوں۔ ۳۔ تمام مطلوبہ اشیاء اور ضروریات پر اٹھنے والی صحیح رقم کا اندراج کریں رقم کے خرچ کا بھی میزان بنائیں۔ ۴۔ کنبے میں تمام مختلف ذرائع سے اس مخصوص مدت میں آنے والی متوقع آمدنی کا پورا پورا اندازہ درج کر لیں اور ٹوٹل میزان تیار کر لیں۔ ۵۔ آمدنی اور اخراجات کے کل میزان کا موازنہ کر لیں اورانہیں متوازن کرنے کی راہ تلاش کریں۔ ۶۔ بجٹ کی منصوبہ بندی کا ایک بار پھر جائزہ لیں ااور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کی خصوصیت پیدا کریں۔ ضروریات کی فہرست بندی کے لیے گھروں میںعموماً چھوـٹی مدت کے لیے ہی بجٹ بنائے جاتے ہیں جنہیں بنانا اور جن پر عمل درآمد کرنا دونوں آسان ہوتے ہیں۔ لیکن کئی گھروں میں جہاں آمدنی کا ذریعہ عموماً تجارت پر منحصر ہوتا ہے۔ وہاں سال بھر کے لیے بھی بجٹ بنائے جاتے ہیں۔ جس میں سال بھر کے تمام موسموں کے لیے لباس اورجوتوں کی ضرورت سال کی فصلوں میں گندم چاول اور چینی اور دیگر خشک راشن کی اشیا کاحساب لگایا جاتا ہے۔ بہرحال بجٹ جتنی بھی مدت کے لیے بنایا جا رہا ہو اس میں سب سے پہلا قدم گھرانے کی مجموعی ضروریات سے لے کر تمام ارکان خانہ کی چیدہ چیدہ ضروریات کی فہرست بندی کرنے پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جس کا اس مخصوص مدت کے دوران پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ لسٹ دو بڑی خصوصیات کی متحمل ہونی چاہیے۔ جس کے مطابق یہ اپنے دیگر حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ مثلا ً تمام ضروریات چند مخصوص ضروریات کی درجہ بندی کو بلحاظ اہمیت کے فہرست میں درج کرنا چاہیے۔ مخصوص ضروریات کے تحت تقسیم سے مراد یہ ہے کہ تمام ضروریات کی چند اہم ضروریات کے تحت گروپ بندی کر دی جائے۔ جس سے بعض ایسی ضروریات بھی یاد آتی ہیں جو اکثر اوقات ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ مثلاً بڑی بڑی ضروریات میں خوراک لباس اور رہائش سب سے پہلے شامل ہوتی ہیں۔ اسی طرح تفریحات علاج معالجے وغیرہ کی ضروریات ہوتی ہیںجن کے تحت گھرانے کی تمام ضروریات کی گروہ بندی ہو سکتی ہے۔ فہرست بلحاظ اہمیت سے مراد یہ ہے کہ ضرورت کے تمام گروہوں میںسب سے پہلے اسے لکھیں جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے بعد دوسری اہمیت کی حامل ضرورت اور تیسرے نمبر پر اس سے کم اہم ضرورت اور یونہی سب سے کم اہم ضرورت آخر میں رکھنی چاہیے۔ ضروریات کے گروہوں کو بلحاظ اہمیت بتدریج درج کرنا چاہیے۔ اس طرح سے پہلی فہرست کی دو نقول ہوں گی۔ پہلی فہرست بے ترتیب و بے ہنگم سی ہو گی ۔ جب کہ دوسری اہمیت کے اعتبار سے ترتیب شدہ ہو گی۔ اب ایک فہرست تیار کریں جس میں ہر ضرورت کے لیے اشیاء ضروری کا شمار ہونا چاہیے۔ جن کے ساتھ ان اشیاء کی تعداد اور مقدار بھی درج ہونا ضروری ہے۔ مثلاً خوراک کی ضرورت میں خشک راشن مثلاً آٹا سوجی میدہ چینی نمک ‘ مرچ ‘ ثابت گرم مصالحہ‘ گھی ‘ دالیں وغیرہ وغیرہ۔ تازہ اشیائے خوردنی میں گوشت انڈے دودھ‘ پھل ‘ سبزیاں وغیرہ اور اسی طرح لباس میں بچوں کے لیے درکار لباس سوٹ ‘ قمیض‘ دوپٹہ‘ جوتا وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ان کی مقدار یا تعداد بھی مندرج ہونی چاہیے۔ بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس امر میں مضمر ہے کہ چیزوں کے لیے مختص رقم کا اندازہ صحیح ہو قیمتیں جس قدر صحیح ہوں گی اسی بجٹ اسی قدر حقیقی اور کامیاب رہے گا او ل تو روز مرہ کی خریدی جانے والی اشیا جن میں راشن شبزیان گوشت دودھ پھل اور دیگر اسی طرح کی متعدد اشیاء شامل ہیں۔ ان کی صحیح قیمتیں خاتون خانہ کو ازبر یاد ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قیمت کا علم ہونا ضروری ہے جو کنبے کے بجٹ میں شامل ہے۔ قیمتوں کے اندراج کے لیے صرف خاتون خانہ اگر کلی طور پر تحقیق نہ کر سکتی ہو تو پھر گھر کے کسی دوسرے فرد کو بھی یہ ذہ داری بانٹ لینی چاہیے اور مختلف افراد کو اشیاء کی قیمتوں کا پتہ لگانے کا ذمہ لے لینا چاہیے۔ سکول یا کالج میں جاتے بچے کتابوں اور سکول کے تعلیمی اخراجات کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کر سکتے ہیںَ کوئی بیٹی مختلف قسم کے کپڑوں اور جوتوں کی قیمت والا چند اشیا اسی طرح اپنے ذمے اور چند اشیاء والدہ اپنے ذمے لے کر ہر استعمال ہونے والی چیز کی قیمت کا اندازہ لگا کر بجٹ بنانے میں تعاون کر سکتی ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر چیز کی قیمت مختلف دکانوں یا بازاروں سیم معلوم کی جائے۔ کیونکہ چھوٹے بازاروں اور تھوک کے بھائو فروخت کرنے والی دکانوں میں قیمتیں قدرے کم ہوتی ہیں۔ چیزوں کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ ان کی کوالٹی یا خصوصیات کے بارے میں علم ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تاکہ صرف کم قیمت کی خاطر کم پائیدار چیز خرید کر رقم بچانے کے لالچ میں اسے ضائع نہ کر بیٹھیں اسی ضمن میں یہ بت ہمیشہ یاد رکھیں کہ زیادہ پائیدار نفیس اور خصوصیات کی حامل چیز کے لیے اگر کچھ رقم زائد بھی صرف کر دی جائے تو اس کی چند ماہ کی بجائے برسوں کی خدمت اور فیض ایک مرتبہ کے بجٹ پر بوجھ ڈالنے کے ساتھ کئی برسوں کے بجٹ میں بچت اور اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ البتہ ایک ہی کوالٹی چیز اگر دو مختلف قیمتوں میں دستیاب ہو تو اس میں سے کم قیمت پر رجوع کرنا عقل مندی کا ثبوت ہو گا۔ لیکن یہاں بھی ایک اور بات قابل وضاحت ہے کہ ایک کپڑا مثلاً فلیٹ کریپ اگر قریبی بازار سے ایک دوروپے مہنگا بھی ملتا ہو تو بعض اوقات سستا رہتا ہے کہ دور کے بازار جان کے رکشہ یا بس کے کرایے وقت کی اور قوت کی بچت کا باعث بنتا ہے۔ البتہ اگر ایک دوپٹہ یا ایک سوٹ کے بجائے چار پانچ سوٹ اکٹھے خریدنے ہوں تو دور کے بازار سے جہاں سے ایک آدھ میٹر کم دستیاب ہو تو وہیں سے خریدنا چاہے۔ اس طرح بیس گز کپڑے کے پیچھے بیس روپے کی بچت کم نہیں قیمتوں کے اندازے کے بارے میں ایک اور ضوری بات یہ ہے کہ صرف ایک بار ہی کسی چیز کی قیمت کو اس کی حتمی قیمت نہیںسمجھ لینا چاہیے۔ قیمتیں دونوں میں اور مقامات کے ساتھ مختلف ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی بھی چیز کی قیمت کا تعین کئی بار کی خریداری یا محض کئی بار کی پوچھ گچھ کے بعد کرنا چاہیے۔ جب تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں فہرست میں درج ہو جائیں تو ان سب کا گروہ میں الگ الگ اور پھر سب کا اکٹھا ایک میزان بنا لینا چایے تاکہ الگ الگ گروہ پر اور کل ضروریات پر درکار اخراجات کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ گھر میں ہر فرد کی اور ہر ممکن کے ذریعے سے آنے والی متوقع آمدنی مثلاً کرایہ منافع تنخواہوں وغیرہ کا صحیح اندازہ لگا کر اس کا کل میزان کر لیں تاکہ اخراجات سے اس کا موازنہ کرنا آسان ہو سکے۔ جس طرح قیمتوں کے غلط اندازے بجٹ کی ناکامی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی طرح آمدنی کا غلط اندازہ بھی بجٹ کو بیکار کر سکتا ہے۔ زمینوں سے آنے والے اناج وغیرہ کا بھی اندازہ ضروری ہے۔ خود کو بہت زیادہ رجائیت پسند یا پر امید (Optimist)یا بہت زیادہ قنوطی یا مایوس (Pessimist) ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ذریعوں سے آنے والی آمدنی کو دو عنوانات کے تحت تقسیم کر لیا جائے۔ یقینی آمدنی مثلاً ماہوار تنخواہ کرایہ دار وغیرہ اور ممکن آمدنی بزنس کا منافع وغیرہ۔ جب ان طریقوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا الگ الگ میزان حاصل ہو جائے تو پھر یقینی آمدنی ان اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں جو اشد ضروری ہوں ۔ اس طرح اگر ممکن آمدنی حسب توقع حاصل ہو جائے تو مثلاً بزنس میں متوقع عرصے میں کسی چیز کی متوقع منافع پر فروخت وغیرہ ہو جائے تو پھر بنیادی ضروریات اور اہم اخراجات کے ساتھ کم ااز کم ضروریات بھی پوری ہو سکیں گی۔ یقینی آمدنی کا بجٹ تو وثوق سے بنایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایک خاص مدت کے بعد آمدنی کی ایک بندھی مقدار بطور تنخواہ وغیرہ کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ لیکن ممکن آمدنی میں چونکہ صرف قیاس ہونا ہے کہ کسی خاص مدت کے دوران اگر یہ اتنا مال فروخت ہو گیا ہو تو اتنی رقم حاصل ہوجائے گی۔ اس لیے یہ آمدنی وغیرہ غیر یقینی یا ممکن آمدنی ہے۔ جس کا انحصار ممکنات پر ہوتا ہے۔ آمدنی کا بجٹ بنانا گو قدرے مشکل ہوتا ہے مگر دراصل بجٹ کی اشد ضرورت ہی ایسی آمدنی والے گھرانے کو ہوتی ہے۔ غیر یقینی یا ممکن قسم کی آمدنی کے لیے بجٹ بنانے کی تین تراکیب ہو سکتی ہیں۔ مثلاً اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد جتنی بھی رقم بچتی ہو اسے غیر ضروری خواہشات پر صرف کر دینے کی بجائے ججمع رکھنا چاہیے تاکہ جس عرصے میں آمدنی کم ہو گزشتہ بجٹ کو اس دوران استعمال کیا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ اپنے اخراجات کا طریقہ ہی آمدنی کے مطابق مرتب کیا جائے۔ زیادہ آمدنی کی صورت میں ہر اہم اور کم اہم ضرورت بھی پوری کر لی جائے اور جب ہاتھ تنگ ہو تو اخراجات کا دامن بھی کھینچ لیا جائے۔ لیکن یہ طریقہ کار پہلے کی نسبت کم موثر ہوتاہے۔ تیسرا طریقہ یہ بی ہے کہ اپنے اخراجات کو خاص وضع کردہ منصوبے کے مطابق ہی جاری رکھا جائے۔ اور جہاں آمدنی کم ہو جائے بینک سے قرض لے کر وقت گزارا جائے ار جب آمدنی زیادہ ہو جائے تو سارا قرض اتار دیا جائے۔ لیکن اس قرض کے لینے والے طریقہ کار میں ایک بڑی قباحت تو یہ ہے کہ قرض بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی مقوی ضمانت ہو یا جب بینک یا کوئی بھی قرض دینے والے شخص یا ادارے کو قرض خواہ کا ٹھوس تجربہ ہو۔ آمدنی کا اندازہ لگاتے وقت چند باتیں جو زیر عمل رکھنی چاہئیں وہ یہ ہیں۔ ۱۔ تمام ذریعوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا مجموعہ کیا جائے جس میں گھر کے ہر فرد کی کمائی شامل ہونی چاہیے۔ ۲۔ اقتصادی آمدنی کے ساتھ ساتھ اصل آمدنی کی بھی فہرست بندی کی جائے۔ تاکہ جہاں رقم کم پڑ جائے وہاں گھریلو افراد کی آمدنی (قابلیتوں اور ہنر وغیرہ) سے فائدہ حاصل کر کے رقم کی قلت رفع کی جاسکے اور ضروریات خانہ پوری کی جا سکیں۔ بجٹ کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ تمام یا زیادہ سے زیادہ اخراجات سوچے سمجھے منصوبے کے تحت متوقع آمدنی ہی میں پورے کیے جا سکیں بلکہ بچت بھی کی جا سکے تاکہ کنبہ خوشحال زندگی بسر کر سکے اور اپنے مقاصد کو احسن طریقے سے ادا کر سکے۔ اس کے لیے ایک معمولی سے معمولی بجٹ میں بھی اخراجات اور آمدنی میں توازن کی خصوصیت کا ہونا لازمی ہے۔ یعنی اخراجات آمدنی کے اندر برابر رہیں لیکن جب بجٹ بنانے کے لیے ضروریات کی فہرست تیار کی جائے تو شاز ہی ضروریات آمدنی کے برابر ہوتی ہیں۔ زیادہ تر بلکہ ہمیشہ ضروریات کے مقابلہ میں آمدنی کم ہی رہ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے بجٹ کی تین سٹیج ہو سکتی ہیں۔ ۱۔ گھاٹے کا بجٹ ۲۔ مساوی بجٹ ۳۔ اضافے کا بجٹ آمدنی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اور بجٹ میں اخراجات و آمدنی میں توازن پیدا کرنے کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں نمبر ۱ آمدنی میں اضافہ کرنا اور دوسرا طریقہ اخراجات میں تخفیف کرنا۔ یہ کنبے کا ذاتی فیصلہ اورمعاملہ ہوتاہے کہ وہ بجٹ کو متوازن رکھنے کے لیے آمدنی میں اضافے کے طریقے اختیار کرتا ہے یا اخراجات میں کمی کر کے یہ حاصل کرتاہے۔ لیکن اس حقیقت میں جو اس ضمن میں واقعی قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آمدنی میں اضافے کرنے کی منصوبہ بندی یا فیصلہ تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آمدنی میں اضافے کی سہولتیں ہمیشہ یا عین بمطابق امید مہیا نہیں ہوتیںَ اس لیے بجٹ کے توازن کے لیے اخراجات میں کمی کرنے کاطریقہ اختیار کرنا زیادہ قابل عمل اور حقیقی ہے۔ IIبجٹ یا آمدنی کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد یا نضباط Controlling ہر ذرائع کے انتظام کی طرح آمدنی کے انتظام میں بھی اس کی منصوبہ بندی بالکل بیکار ہے۔ جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ جس کے لیے ہر کس و ناکس خواہش کو پورا کرنے کے بجائے اپنی خواہشات پر ضبط رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ اخراجات میں غیر ضروری اضافہ نہ ہونے پائے اس انضباط کے لیے چند ایسے مفید اقدامات کیے جا سکتے ہیں مثلاً ذہنی انضباط سے بجٹ میں ہر مد یا ضرورت کے لیے مختص رقم کو چھوٹی چھوٹی ضروریات کے اخراجات میں تقسیم کر لینا چاہیے۔ جیسے کہ ایک طالب علم کے لیے 250روپے ماہانی ایک بڑی رقم محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب اسے معلوم ہو جائے کہ اس سے اس کے تعلیمی اخراجات کرائے تفریحات اور چند ایک لباس کی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں تو اتنی بڑی رقم خود بخود ذہنی طو ر پر چھوٹی چھوٹی مدات میں تقسیم ہونے لگتی ہے۔ بے جا بضول خرچ نہیں ہو جاتی۔ اس لیے ذہنی انضباط بھی عمل درآمد کی ایک مضبوط کڑی ہے۔ ذہن انضباط سے مراد اخراجات کی (Visual)یا تخیاتی ذہنی تصویر اور محسوسات سے ہے جو اخراجات سے شناخت کراتی ہے مشینی انضباط کا انحصار اس عمل سے ہے جو ہم رقم خرچ کرتے وقت زیر عمل رکھتے ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے اخراجات کے لیے مختلف تھیلے یا لفافے بنا کر ان میں ان سے متعلق رقم الگ الگ رکھی جا سکتی ہے۔ تاکہ خرچ کرتے وقت مختص رقم ہی استعمال ہو سکے اس کے علاوہ کاغذ پنسل یا کاپی میں حساب کتاب درج کرتے رہنے سے بھی احساس ہوتا رہتا ہے کہ کس قدر ضروریات پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور کنٹرول رہتا ہے۔ بجٹ پر خرچ کرنے کے دوران ضبط پیدا کرنے کا انحصار تطابق پذیری پر بھی ہوتا ہے مثلاً اگر کسی ایک مد پر مختص رقم سے زیادہ خرچ ہو جائے تو اس کا ازالہ کرنے کے لیے دوسری ضروریات کے اخراجات میں تبدیلی پیدا کرکے آمدنی و اخراجات میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ IIIتنقیدی جائزہ Evaluation مہینے کے اختتام پر اگر اپنی بچت اور بجٹ پر گہری نظر ڈالی جائے تو بہت سی مفید باتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ اگر بجٹ کامیاب رہا تو اس کی وجوہات تاکہ انہیں برقرار رکھا جائے اوراگر ناکامی ہو تو اس کے نقائص دو وجوہات تاکہ انہیں اگلے بجٹ میں رفع کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ اگر بجٹ توقع سے زیادہ ہے تو کن عوامل کے تعاون سے ہوئی ہے اوراگر کم ہوئی ہے تو کس طرح اصل آمدنی کی مدد سے آمدنی میں اور بجٹ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔ اقتصادی و اصل آمدنی کے بجٹ پر عمل درآمد سے بھی جو بھی نتائج حاصل ہوں گے اور وہ اس کنبے کی نفسیاتی آمدنی میںاضافے یا تخفیف کا باعث ہوں گے۔ پھول بنانا Flower Making پھول قدرت کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے انسان جب بھی کسی پھول کو کھلا ہوا دیکھتا ہے تو اس کا بے اختیار دل چاہتا ہے کہ قدرت کے اس انمول تحفے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لے تاکہ ہر موسم میں اس سے لطف اندوز ہو سکیں یہ ایک قدرتی اور فطری بات ہے کہ وہ دنیا میں موجود ہر خوبصورت چیزکو اپنی مرضی کے مطابق اپنے ارد گرد دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ جو پھول ایک بار کھلتے ہیں وہ جلد ہی مرجھا بھی جاتے ہیں یہی ان کی خوبصورتی کا راز ہے کہ ایک ننھی منی کلی چٹک کر ایک خوبصورت پھول میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ جس کو دیکھ کر دل میں جوش پیدا ہوتا ہے کہ قدرت کا بہت قریب سے مطالعہ کرکے اس کی نقل بنائی جائے۔ درحقیقت نقلی پھول بنانے کا راز صرف یہی ہے کہ کوشش کر کے ایسے پھول بنائے جائیں جو قدرتی پھولوں سے قریب ترین ہوں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپن دماغ سے کوئی ایسا پھول بنائیں جو کسی قدرتی پھول کی نقل نہ ہو بلکہ کسی خاص کمرے کو منفرد بنانے کے لی یاس کی سجاوٹ اور رنگوں کے عین مطابق ہو۔ یہ کمرہ کوئی خواب گاہ کسی دوکا ن کی کھڑکی یا ہوٹل کا ہال بھی ہو سکتا ہے۔ پھول بنانے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی سجاوٹ دیرپا ہوتی ہے۔ نہ ان کے مرجھانے کا ڈر اورنہ ہی پانی دینے کی فکر۔ اس کے علاوہ یہ ہر موسم میں آپ کی مرضی اور خیال کے مطابق جو پھول جی چاہے بنا سکتے ہیں۔ خواہ یہ آپ کے گھر کے چھوٹے باغ میں کھلا ہو یا کوئی ننھا سا پھول ہو یا کوئی ایسا پھول جو آپنے صر ف کتابوں اور تصویروں میں ہی دیکھا ہو۔ ان پھولوں کو خوبصورت گلدستوں میں آراستہ کر کے سجایا جائے تو یہ کمرے کی سجاوٹ کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔ پھول جو ہم اپنے ہاتھ سے بناتے ہییں ہماری پسند اور شخصیت کے اظہار کا بھی ایک اچھا طریقہ ہو سکتے ہں۔ جب بھی ان کو دیکھیں ایک دلی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین جو سارا دن گھر میں رہتی ہیں گھر کا کام کاج کرنے کے بعد ان کے پاس بہت سا فالتو اور بیکار وقت بچ جاتا ہے۔ جس کو اگر وہ چاہیں تو تھوڑی سی محنت کر کے گھر میں بیٹھے بیٹھے بہت سے کار آمد کام کر کے گزار سکتی ہیں پھول بنانا ایک ایسا فن ہے جس کو جو بھی چھوٹا بڑا چاہے بآسانی تھوڑے ہی عرصے میں سیکھ سکتا ہے۔ اگر ا س فن میں ایک دفعہ مہارت حاصل کی لی جائے تو تھوڑے سے وقت میں بآسانی بہت سے پھول بنائے جا سکتے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اگر پھو ل بنانے کے لیے تھوڑے سے بنیادی اقدامات کو اچھے طریقے سے ذہن نشین کر لیا جائے اور صرف تین یا چار فرق اقسام کے پھول بنانے سیکھ لیے جائیں تو اس فن میں بآسانی مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پھر اس میں کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں ہوتا۔ گھر میں قیمتی سجاوٹ کی چیزوں کے بجائے اگر ان پھولوں کو بنا کر سستے برتنوں میں (جو کہ مٹی کے بھی ہو سکتے ہیں) آراستہ کر کے گھر میں مختلف جگہوں پر سجایا جا ئے تو سستے ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کریں گے۔ سال کے ہر موسم میں ہر رنگ اور ہر قسم کے پھول بنائے اور سجائے جا سکتے ہیں۔ جو تازہ پھولوں سے زیادہ دیرپا بھی ہوں گے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ پھول آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اچھے بنے ہوئے پھول بازار میں بہت اچھی قیمت پر فروخت ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان پھولوں کو خوبصورتی سے آراستہ کر کے گلدانوں میں ڈال کر فروخت کیا جائے تو ان کی آمدنی اور بھی اچھی ہو گی۔ کیونکہ اس طرح یہ پھول ہوٹلوں اور کلبوں کے ہال کمروں دوکانوں کی کھڑکیوں اور شوکیسوں اور ہسپتالوں وغیرہ میں آراستہ کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔ جوڑے یا کوٹ کے کالر میں لگانے کے لیے بھی پھول بنائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو کانوں اور ہاتھ کے زیور اور سر کے کلیپوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔ یہ پھول دوستوں کو شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقعے پر تحفے میں دینے کے بھی کام آتے ہیں اس طرح تحفے کی اہمیت اور قدر و قیمت اس لیے اور بھی بڑھ جائے گی کیونکہ بازار سے لے کر تو ہر کوئی تحفہ دے دیتا ہے لیکن اپنی محنت سے تو کوئی کوئی کوئی بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پھول بنا کر ان کو تحفوں کے ڈبے میں آراستہ کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پھول بنانے کے لیے ضروری سامان پھول بنانے کے لیے مختلف قسم کی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو پھول بنانے سے پہلے ہی اکٹھی کر لینی چاہیے۔ مثلاً چنٹ دار کاغذ ربن یا کپڑا اور اسفنج وغیرہ۔ اس کے علاوہ ٹہنی بنانے کے لیے تار قیچی گوند اور دھاگہ وغیرہ۔ ۱۔ چنٹ دار کاغذCrepe Paper یہ کاغذ پھول بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو مختلف رنگوں میں دستیاب ہے۔ جن میں سے لال گلابی پیلا نارنجی اور ایسے ہی دوسرے رنگ پھولوں کے لیے جبہ سبز مہندی نسواری ٹہنیوں اور پتوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ۲۔ کپڑا یا ربن پھول بنانے کے لیے جو ربن استعمال کیے جاتے ہیں وہ خاص اسی مقصد کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یعنی جن کے کناروں کاٹنے سے ڈھاگے نہ نکلیں۔ یہ ربن مختلف چوڑائی میں جو کہ ایک سینٹی میٹر سے لے کر آٹھ سینٹی میٹر تک کی چوڑائی کے ہوتے ہیں جو تقریباً ہر رنگ میں مل جاتے ہیں۔ اگر یہ ربن آسانی سے دستیاب نہ وہں تو عام ربن یا کپڑا مثلا سائن کریپ لون وائل اور مخمل سے بہترین پھول بنائے جا سکتے ہیںَ لیکن ان کو استعمال کرنے کے لیے ان کی الٹی طرف کلف لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک تو یہ تھوڑے سے سخت ہو جائیں اور دوسرے کاٹنے سے ان کے دھاگے نہ نکلیں۔ ۳۔ تاریں پھول بنانے کے لیے مختلف گیج کی تاریں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ ۱۶ سے ۳۰ تک کی ہوتی ہیں (نمبر جتنا زیادہ ہو گا تار اتنی ہی باریک ہو گی) پھول اور پتے ٹہنی کے ساتھ جوڑنے کے لیے باریک تار یعنی تیس گیج کی استعمال کی جاتی ہے اور ٹہنیاں بنانے کے لیے یا تو بہت سی تاریں ملا کر بنائی جاتی ہیں یا پھر سولہ گیج کی تاراستعمال ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ٹہنی کی موٹائی کی مناسبت سے گیج استعمال کی جا سکتی ہے۔ بنیادی اقدامات ا۔ خاکوں کا استعمال سب سے پہلے پتے یا پھول کا خاکہ کاغذ پر چھاپ کر کاٹ لیں پھر اس کو کاغذ یا کپڑے کے الٹی طر ف رکھ کر پنس سے چاروں طرف بنا لیں۔ ب۔ کاٹنے کا طریقہ کاغذ یا ربن کاٹنے سے پہلے اس کا رخ دیکھنابہت ضروری ہے۔ تاکہ اس میں لہروں اور گولائی کا تاثر دیا جا سکے خاکے پر بنائے گئے تیر کے نشانات کو کاغذ یا کپڑے کے رخ کے مطابق رکھنا ضروری ہے۔ خاکہ چھاپنے کے بعد کٹائی کرتے وقت اس بات کاخاص خیال رکھیں کہ کاغذ یا کپڑے کو اپنی جگہ سے گھما لیں لیکن قینچی نہ گھمائیں تاکہ کٹائیی میں گولائی صحیح آئے۔ اگر پتی دونوں طرف سے بالک ایک جیسی ہو تو پہلے کاغذ یا کپڑے کو درمیان سے کاٹ کر تہہ لگا یں اور تیر کے نشانوں کا خیا ل رکھتے ہوئے خاکے کے مطابق کاٹ لیں۔ کپڑے میں اگر ایسی پتیاں کاٹنی مقصود ہوں تو پہلے اسے چوکور کاٹ لیں پھر دو کونوں سے تہہ کر لیں۔ کاٹنے سے پتی میں گہرائی زیادہ بہتر دی جا سکتی ہے۔ ج۔ گہرائی اور لہروں کا تاثر دینا گہرائی اور لہروں کا تاثر دینے کے لیے چنٹ دار کاغذ میں انگوٹھوں کی مدد سے چوڑائی کے رخ کھینچیں۔ لیکن کپڑے یا ربن کو یہ تاثر دینے کے لیے زیادہ زور لگانا ہو گا۔ پھر کسی چمچے کو آگ پر گرم کر کے پتی کو کسی نرم گدی پر رکھ کر گرم چمچے سے دبائیں پتی کے اوپر والے کنارے کو ذرا سا باہر کی طرف موڑنے کے لیے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اور پہلی انگلی کی مدد سے لمبائی کے رخ کھینچیں۔ پتوں کو پیچھے کی طرف ذرا سی گولائی دینے کے لیے قینچی کی موٹی طرف سے ذر ا سا دبائو ڈال کر پیچھے کو کھینچیں۔ د۔ پتی کو تار کے ساتھ جوڑنا پتی کو تار کے ساتھ جوڑنے کے لیے پہلے اس میں نیچے والے حصے میں تھوڑی سی چنٹ ڈالیں۔ پھر اس کو تار اوپر رکھ کر باریک تار سے کس دیں یاپھر دھاگے سے کس کر باندھ لیں۔ اسی طرح جب سار ی پتیاں ٹہنی پر پھول کی شکل میں لگ جائییں تو سبز چنٹ دار کاغذ کی ایک سینٹی میٹر چوڑی پتی کاٹ کر پھول کے نیچے والے حصے پر لپیٹ دیں تاکہ تار نظر نہ آئے۔ ر۔ پتوں پر تار لگانا باریک تار پہلے سبز رنگ کے کاغذ کی پتی لپیٹ لیں۔ پھر اس کو تار کے پتے کے پیچھے کی طرف تقریبا ً اوپر سے ایک سینٹی میٹر کا فاصلہ چھوڑ کر اور نیچے کی طرف تقریباً چھ یا سات سینٹی میٹر بڑھاہوا رکھ کر چپکا دیں۔ س۔ ٹہنی کے اوپر کاغذ لپیٹنا ٹہنی چونکہ تار کی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کو سبز یا نسواری کاغذمیں لپیٹنا ضروری ہے۔ اس کے لیے کاغذ کی پٹی جس کی چوڑائی ایک سے ڈیڑھ سینٹی میٹر کاٹی جاتی ہے۔ اس کے بعد پتی کے ایک کنارے کو گوند لگائیں اور اس کو پھول کے نیچے والے حصے سے لپیٹنا شروع کر دیں۔ اب پھول کو بائیں ہاتھ میں پکڑ کر پٹی کو دائیں ہاتھ سے ذرا سا کھینچیں اور پھول کو گھمانا شروع کر دیں۔ اس طرح پوری ٹہنی پر کاغذ لپیٹ دیں اور آخری کنارے پر گوند لگا کر اس کو چپکا دیں۔ اگر ٹہنی کو موٹا کرنا مقصود ہو تو پہلے سبز پتی لپیٹ دیں پھر وہ سینٹی میٹر چوڑا ٹشو پیپر کاٹ کر ٹہنی کو ایک بارپھر سے سبز کاغذ کی پتی سے لپیٹ کر ڈھک دیں۔ Interior Decoration خوبصورتی انسان کی کمزوری ہے۔ یہ ایسی خاصیت ہے کہ ہر کوئی انسان اپنی ذات میں اپنے سے متعلق ہر چیز میں ماحول میں اور اپنے گھروں میں جہاں تک ممکن ہو سکے خوبصورتی کو اپنا نا اورپیدا کرنا پسند کرتاہے۔ کیونکہ خوبصورتی سے دل کو ذہن کو نگاہوں کو اور حسن لطیف کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ یہ فروخت کا باعث ہوتی ہے اور لوگوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نفسیاتی خوشی فراہم کرتی ہے اور نگاہوں کو پرکشش مرکز فراہم کرتی ہے مثلاً کسی گھر میں داخل ہوتیے ہی ذہن ایک خاص قسم کا تاثر لیتاہے۔ کبھی کبھار کمرے کی خوبصورتی سے نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ اور قدم دروازے پر ہی رکنے لگتے ہیں اور لا شعوری طور پر آگے بڑھنے سے بیشتر کئی بار ٹھٹھکی نگاہیں پر ستائش طور پر کمرے کا مائزہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ کس چیز سے کمرہ ا س قدر پر کشش و پر رونق لگ رہا ہے۔ ہر چیز پرکھنے کے بعد بعض اوقات کمر ے میںپڑی ایک دو چیزیں سارے ماحول پر حاوی اورنمایاں محسوس ہوتی ہیں۔ جنہیںعین بعین نقل کر کے ہم بھی اپنے گھر میں بنا کر یا خرید کر سجا لیتے ہیںَ لیکن اس تقلید سے ہمارے کمرے میں رونق دوبالا ہونے کے بجائے کمرے میں زیادہ ہی عجیب و بدنما تاثرپیدا ہونے لگتاہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کمرے میں صرف وہ ایک تصویر ہی کی وجہ سے حسن نہیں بلکہ کمرے کے دیگر دوسرے ساز و سامان ان کے رنگ ان کے ڈیزائن سائز اور وضع کے علاوہ ان کی ترتیب اور دیگر دوسرے ساز و سامان ان کے رنگ انکے ڈیزائن بھی اس کمرے کو خوبصورت بنانے کے ضامن ہیں۔ جس میں انہیں منتخب کرنے اور ترتیب دینے والے کا ذوق یا حس لطیف انسانی زندگی میں خوشگواری کی رمک ہوتی ہے۔ اسی کی موجودگی سے چیزوں کی بناوٹ اور رنگ و روپ انتخاب یا ترتیب سے تشکیل پاتے ہیں یہی انسان کے اندر خوبصورتی کا معیار (Standard of Beauty) پیدا کرتی ہے۔ یہی انسان کو ذوق جمال (Easthetic Sense)بخشتی ہے اور یہی پسند کو جنم دیتی ہے۔ اور چونکہ ہر شص میں آرٹ کی یہ حس دوسرے سے قدرے مختلف ہوتی ہے اس لیے لوگوں کی پسند بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ جو ان کے انتخاب و آرائش کو تابع کر لیتی ہے۔ جس کا اظہار ہو زندگی کے ہر پہلو میں کرتے ہیں۔ خواہ وہ لباس ہو زیورات بالو ں کے سٹائل یا گھریلو آرائش ہو یا کوئی اور شعبہ اس طرح انسانی پسند ذوق اور آرٹ کا ہماری زندگی سے نہایت گہرا تعلق رہا ہے۔ آرٹ انسان کی ایسی ذہنی و اندرونی کیفیت ہے جس کا براہ راست تعلق حس جمال سے ہوتا ہے جو ذوق کو جنم دیتا ہے اور جس کے اظہار کے لیے کوئی بھی فنون و لطیفہ کا ذریعہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ آرٹ کا ہماری زندگی سے اس قدر گہرا تعلق ہے کہ کوئی بھی پہلو اس سے عارضی نہیں بلکہ اس کی مدد سے ہم اپنی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو کو نہایت سادگی اور خوبصورتی سے سنوارنے کے اہل ہوتے ہیں اس لیے آرٹ کسی خاص موقع کے لیے نہیں بلکہ روز مرہ زندگی سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔ ہمارے آرٹ اور ذوق کی نشوونما چند عوامل کے زیر اثر تربیت پاتی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔ گھریلو یا گرد و پیش کا ماحول ایسا گھر یا ماحول جس میں خوبصورتی کا معیار بلند ہو ماحول میں موجود ہر چیز خوش رنگ خوبصورت اور صاف ستھری ارو نفیس ہو۔ اس میں پرورش پانے والے بچے اعلیٰ ذوق کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت اور مزاج میں نفاست عمدگی اور خوبصورتی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ جبکہ گندے بچے ماحول کے بچوں کے ذوق جمال کو انسانی ماحول میں ڈھل کر بھی ادنیٰ اور نہایت غیر معیاری ہو جاتی ہے۔ اشیاء کی دستیابی مختلف ادوار میں کسی خاص علاقے میں جو بھی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں وہاں کے لوگوں کے لیے انہی میں سے انتخاب مجبوری ہو جاتی ہے۔ جس سے ان کی پسند یا ناپسند بھی ایک مخصوص و محدود انداز میں ڈھل جاتاہے۔ آمدنی آمدنی بھی انسانی ذوق پر اثر انداز ہوتی ہے محدود آمدنی حسب پسند اشیاء خریدنے میں مانع رہتی ہیں۔ جبکہ وافر آمدنی سے بیرون ملک تک سے حسب ذوق اشیاء منگوا کر تسکین حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ذوق کو محدود یا وسیع انداز میں ڈھالنے میں روپے پیسے کی فراہمی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مشترکہ تقاضے جہاں انسان گروپ کی صورت میں رہ رہے ہوں۔ مثلاً گھر میں وہاں انفرادی پسند کو پیش نظر رکھنا نہایت مشکل کام ہے۔ گھر یا گروپ کے ہر فرد کی پسند کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جس سے انسانی معیار ذوق آزادی سے پنپ نہیں سکتا۔ بلکہ گروہی تقاضوں کے مطابق ڈھلنے لگتا ہے۔ چونکہ ہر انسان میں آرٹ کی حس یا ذوق دوسرے سے قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں کی پسند اور رائے میں بھی اختلاف ہوتا ہے ۔ اس غیر یکسانیت کا اظہار انسان کے ہر انداز میں جھلکتا ہے ۔ مثلاً جس شخص کو بھرپور شوخ رنگ اور چمکتی چیزیں پسند ہوں گی اس کے کمرے میں داخل ہوت ہی انسان کے ذوق کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ چمکتے شوخ رنگ کی سرخ یا نارنجی سائن کے پردے شیشوں سے بھری گدیاں اور اسی طرح چمکتے ہوئے تیز رنگ کے صوفے شوخی مائل سرخ قالین اور خوب گلابی یا نیلی دیواریں اس شخص کے ذاتی ذوق کا بہترین عکس ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک دوسرے شخص کے کمرے میں چھت دیواریں فرش پلنگ کرسیوں گدیوں غرضیکہ ہر سمت پھیلا ہوا سفید یا بادامی رنگ اس کی حس لطیف کا مظہر ہو گا۔ مگر ایک عام شخص کے لیے یہ دونوں طرح کے ذوق غیر معیاری ہو سکتے ہیںَ پہلے میں اس قدر شوخی کی بھرمار سے آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں اور طبیعت گھبرانے لگتی ہے۔ جبکہ دوسرے کمرے میں انتہائی صوفیانہ پن اس میں ڈل یا غیر دلکش تاثرات کا حامل ہو گا۔ پہلے میں سادگی اوردوسرے میں قدرے شوخی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے ان کے ذوق کو ایسی تربیت درکار ہے جس سے وہ ایسا انتخاب اور سجاوٹ کر سکیں جو کم و بیش ہر شخص کو قابل قبول ہو۔ ایسا ذوق معیاری یا اچھازوق کہلاتا ہے۔ اچھا ذوق ہمارے اندر کی روح کی خاصیت ہے۔ اس کے لیے مشہور ہے کہ لاشعوری طور پر صحیح وقت پر صحیح انتخاب صحیح طریقے سے ترتیب اور استعمال اور صحیح عمل کرنا اچھے یا معیار ذوق کا مظہر ہیں۔ خوش قسمت لوگوں میں اچھا یا معیاری ذوق خدائی عطیہ ہوتا ہے۔ جبکہ عام لوگوں کو اسے سیکھنا پڑتا ہے۔ ذوق یا پسند کو بہتر اور معیاری بنانے کی تعلیم کے لیے چند ایسے اصول مرتب ہیں جنہیں سمجھنا اور ان کی مشق کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ اصول آرٹ یا ڈیزائن کے اصول کہلاتے ہیں۔ چونکہ ا س کائنات میں موجود ہر چیز اپنا وجود رکھتی ہے اور یہ وجو د ڈیزائن کے بغیر قطعی ناممکن ہے خواہ کس قدر باریک یا چھوٹی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی ضرور کوئی نہن کوئی شکل اور رنگ حجم اور وجود ہوتاہے یہ وجود کسی نہ کسی قسم کے مادے سے تشکیل پاتا ہے اور جس طرح بھی اسے ڈھال دیا مثلاً گول لمبوتری چپٹی بیضوی نوکدار ہیر ا وضع وغیرہ۔ مادہ اسی میں ڈھل جاتاہے۔ یہی وضع اس کا ڈیزائن کہلاتا ہے۔ اس طرح لباس میں ذاتی زیبائش میں گھریلو آرائش میں پھولوں کی سجاوٹ میں یا جس پہلو کے بھی ہم کسی چیز میں اپنے ذوق کا فن مہارت یا حسن جمال کا مظاہرہ کرنا چاہیں وہ ضرورکسی نہ کسی ڈیزائن میںہوں گی۔ اس طرح ڈیزائن یا آرٹ ہی ایک فن کے دو نام ہی ہیں اچھا ڈیزائن آرٹ کا اچھا نمونہ اور بڑا ڈیزائن آرٹ کی بڑی نمائش ہوتا ہے۔ اوریون ڈیزائن اشیاء کے وجود کے لیے اولین او راشد ضرورت ہوتے ہیں۔ جس کے بنانے انتخاب کرنے اور ترتیب دینے میں آرٹ کی حس کا پہلا عمل دخل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی چیز ہمارے تصور میں بھی ہو گی یا اس کا نقشہ یا خاکہ صرف پنسل سے ہی سارے کاغذ پر کھینچنا ہو گا تو اس کی کوئی نہ کوئی وضع یا ڈیزائن یا ہئیت ضرور نمود میں آئے گی۔ جسے ہم اپنی عقل احساس اور مہارت سے خوبصورت بناتے یا کہتے ہیں۔ اگر ڈیزائن نہ ہو تو آرٹ کی خصوصیت صرف فضا اور ہوا میں معلق نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ آرٹ کا دوسرا نام یا مطلب بھی ڈیزائن ہے ڈیزائن ہی خوبصورت یا بدصورت ہو سکتا ہے۔ وہی آرٹسٹک یا غیر آرٹسٹک ہو سکتا ہے اور ڈیزائن بھی آرٹ ہے۔ ڈیزائن کے بغیر آرٹ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر کسی بھی چیز کے ڈیزاین کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کوئی ڈیزائن بھی کسی ایک عنصر سے نہیں بنا ہو گا۔ بلکہ ہر ڈیزائن متعدد اجزا کا مرکب ہوتاہے۔ تجزیے سے احساس ہوتا ہے کہ ڈیزائن خواہ کسی بھی چیز کا ہو۔ کتنا ہی بڑا یا چھوٹا یا باریک کیوںنہ ہو۔ اس کی ضرور کوئی خصوصی وضع و شک ہوتی ہے۔ مثلاً گول چوکور لمبی وغیر۔ ذرا گہرا غور کریں تو انکشاف ہو گا کہ یہ اشکال خود سے ہی ظہور میں نہیں آ جاتی بلکہ ان کی بناوٹ کا کل انحصار بھی خطوط پر ہوتا ہے۔ جس ڈیزائن میں اوپر اٹھے ہوئے عمودی خطوط استعمال ہوتے ہیں وہ لمبابن جاتا ہے۔ جس میں قوسی خطوط شامل ہووں وہ گول نیم گول یا بیضوی شکل میں ڈھل جاتے ہیں وغیرہ۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ خطوط کے بغیر کوئی ڈیزائن بھی تعمیر نہیں رہا پا سکتا۔ کوئی وضع ظہور میں نہیں آ سکتی۔ اس کے علاوہ ڈیزائن خواہ کسی وضع کا بھی ہو ا س کا کچھ سائز او رحجم بھی ضرور ہوتاہے۔ جس سے مراد اس کی لمبائی چوڑائی ار موٹائی ہے۔ اور جس کے مطابق ہر ڈیزائن جگہ گھیرتا ہے۔ چیزوںکاڈیزائن خواہ کس وضع کا بھی ہو ا سکے وجود کے لیے مادے کا استعمال ہوتا ہے۔ کانچ مٹی پلاسٹک لکڑی روٹی یا کوئی اور مادہ۔ آپ غور کریں کہ ہر چیز خواہ کسی بھی ماد سے بنی ہو اس کی ایک مخصوص سطح یا ٹیکسچر بھی موجود ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اشیاء چمک دار کھردری ہموار ڈل یا کسی بھی سطح کی حامل ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ڈیزائن یا چیز جس میں بھی مادے سے بنی ہوتی ہے۔ ا س کا کچھ نہ کچھ رنگ بھی موجود ہوتا ہے۔ چونکہ خطوط وضع حجم ٹیکسچر اور رنگ چند ایسے بنیادی عناصر ہیں جن میں سے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی سے ڈیزائن تعمیر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے انہیں ڈیزائن یا آرٹ کے اجزاء یا عناصر کہا جاتا ہے او ر ہر ڈیزائن انہی اجزا کا مرکب ہوتا ہے۔ جب بھی کسی چیز یا ڈیزائن کی تخلیق و تعمیر درکار ہوتی ہے۔ خالق کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ کہ اس کی بنائی چیز نہ صرف کارآمد ہو بلکہ اس میں پوشیدہ اس کے ہنر اور مہارت سے اتنی خوبصورتی پیدا ہو سکے کہ کوئی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ جذبہ ستائش دراصل اس کی محنت اورعقل مندی کی وصولی ہوتی ہے۔ اور ہر چیز کی تعمیر کے پیچھے بھی یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ لیکن اتنی محنت و مشقت کے باوجود ڈیزائن کا معیار ی طور پر خوب صورت ہونا یا قابل ستائش ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی وجہ بنانے والے اور دیکھنے والے ہر شخص کے اپنے اپنے ذوق جمالیت میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن چند اشیاء ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں ہر شخص کی پسند اور ذوق کا معیار دوسرے سے فرق ہونے کے باوجود عام لوگ کثرت سے پسند کرتے ہیں۔ ایسی اشیاء یا ڈیزائن معیاری ڈیزائن یا معیاری خوبصورتی کے حامل ڈیزائن کہلاتے ہیں۔ اس کامیابی کی بڑی وجہ آرٹ کے عناصر مثلاً خطوط وضع اور رنگوں وغیرہ کی نہایت مناسب طریقے سے ترتیب اور استعمال ہوتی ہے۔ جس کا علم اور ہنر ہر شخص میں نہیں ہوتا۔ سو ڈیزائن کو معیاری اور خوبصورت بنانے کے لیے چندایسے اصول موجود ہیں جن کی تعلیم انسان میں ایسی صلاحیت اجاگر کرنے کا ذمہ دار ہوتی ہے جو ڈیزائن کے عناصر (رنگوں خطوط ‘ ٹیکسچر) کو مناسب اور صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ اصول ڈیزائن کے یاآرٹ کے اصول کہلاتے ہیں۔ جن میں توازن تسلسل قوت کشش تناسب اور ہم آہنگی جیسے اصول شامل ہیں۔ ڈیزائن کے عناصر اور اصولوں میں ایک گہرا رشتہ موجود ہے۔ یعنی عناصر ڈیزائن بنانے کے لیے خام مادے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جبکہ اس خام مادے (خطوط اشکال ٹیکسچر رنگ وغیرہ) کو ایک خوبصورت ڈیزائن میں ڈھالنے کے لیے یہ اصول (توازن تسلسل تناسب وغیرہ) انتہائی رہنما اور معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ڈیزائن جن کے بنانے میں آرت کے اصولوں کا اطلاق ہو۔ وہ یکسر متوازن متناسب اور متسلسل ہونے کے علاوہ خوبصورتی کی متعدد خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ خوبصورتی کامعیار تو وقت اور مقامات کے ساتھ بدلتا رہتاہے۔ نت نئے فیشن اور فرنیچر اور گھریلو اشیاء کے بدلتے ڈیزائن کی اس کی واضح مثال ہیںَ لیکن اس بدلتے ہوئے معیار کے ساتھ نہ تو آرٹ یا ڈیزائن کے عناصر ہی میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی ان کے اصولوں میں بلکہ جوں کے توں رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایسے جامد نہیں ہوتے کہ بدلتے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکیں۔ بلکہ ان میں لچک موجو د ہوتی ہے اور ہر تبدیلی کے ساتھ مفاہمت کر کے اس کے خوبصورتی کے متقاضی معیار میں اس کی رہنمائی کرنے میں معاون رہتے ہیں۔ آرٹ کے یہ اصول آرٹ کے عناصر کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کا آلہ کار ہوتے ہیں۔ اچھا ذوق اورمعیاری ذوق پیدا کرنے میں کسی بھی ڈیزائن میں مضمر ذوق کے پرکھنے یا اس کے معیار کا اندازہ لگانے کے لیے بطور پیمانہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ڈیزائن ایک ایسا منصوبہ بندی کا مرکب ہوتاہے جس میں اس کے اجزا مثلاً خطوط اشکال رنگ ٹیکسچر اور حجم وغیرہ کو ایک خاص منصوبے کے تحت ترتیب دیا جاتا ہے۔ ڈیزائن کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ماہر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ تعبیری اور مادی چونکہ ڈیزائن بنتا ہی عناصر کے امتزاج سے ہے اس لیے ڈیزائن بھی انہی عناصر پر منحصر طر ح کا ہوتا ہے بصیری ڈیزائن اور مادی ڈیزائن۔ بصیری ڈیزائن Visual Disign بصیری ڈیزائن سے مرا د ایسا ڈیزان ہے جس میں بصیری عناصر کا استعمال ہوا ہو۔ یعنی اس ڈیزائن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ ڈیزائن ذہن میں صرف تخیلات و تصورات میں کسی چیز کی بناوٹ کا نقشہ ہوتا ہے۔ اس کا تعلق صر ف سوچ تک ہی محدود ہوتاہے۔ مگر بعد ازاں اسے کاغذ پر یا کسی مادے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ مادی ڈیزائن Material Design جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ جب کسی چیز کے تصوراتی یا بصیری ڈیزائن کو مادے پرمنتقل کر کے اسے حقیقی اور طبعی ظہور اور وجود دیا جاتا ہے تو وہ مادی ڈیزائن کہلاتاہے یہ کاغذ پنسل مٹی ‘ شیشہ‘ روئی دھات وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس مادی ڈیزائن کی بھی دو اقسام ہیں۔ ا۔ بنیادی یا بناوٹی ڈیزائن ب۔ آرائشی یا سجاوٹی ڈیزائن ا۔ بناوٹی یا بنیادی ڈیزائنStructural Design چیزوں کے حجم رنگ وضع اور ٹیکسچر سے جو ڈھانچہ یا خاکہ تشکیل پاتا ہے وہ بناوٹی یا بنیادی ڈیزائن کہلاتا ہے۔ جو کسی بھی چیز کے وجود کے لیے بنیادی طورپر ہونا ضروری ہوتاہے۔ کسی چیز کی تعمیر یا بناوٹ کا انحصار اسی ڈیزائن پر ہوتاہے۔ خواہ یہ ڈیزائن خاکے یا نقشے کی صورت میں کاغذ پر موجود ہو اور خواہ یہ ڈیزائن مادی وجود میں ڈھل کر کسی جگہ پر پڑا ہو۔ مثلاً کرسی ‘ میز ‘ پیالہ‘ گلدان‘ قلم وغیرہ۔ ب۔ آرائشی یا سطحی ڈیزائن Decorative Disign کسی بنیادی ڈیزائن میںخوبصورتی پیدا کرنے یا اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے یے اس کی سطح پر رنگوں اور خطوط وغیرہ کے امتزاج سے ہئیت وضع کی جاتی ہے۔ وہ ا س کا آرائشی یا سطحی ڈیزائن کہلاتی ہے۔ کسی بھی چیز کا بنیادی ڈیزائن اس کے سجاوٹی ڈیزائن سے بہت اہم ہوتاہے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز بنانے کے لیے اس کا بنیادی ڈیزائن ہوناضروری ہے۔ اس کے بغیر اس کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ اور اس کا وجود ظہور میں نہیں آ سکتا۔ جبکہ سجاوٹی ڈیزائن کی حیثیت اس لیے ثانوی ہوتی ہے کہ یہ محض سطح کو خوشنما اور دلکش بنانے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ استعمال میں یا تعمیر میں اس سطحی ڈیزائن کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور اس کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ جب بھی چیزوں کو اکٹھا رکھ کر سجایایا ترتیب دیا جاتاہے۔ تو خود بخود ان چیزوں میں اچھا یا برا تناسب او ر تعلق ظہور میں آ جاتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں اور دو دن خانہ آرائش کے لیے ہمیشہ دلکشی اور تناسب پیدا کرنے کے لیے جو مسائل درپیش ہوتے ہیں انہیں حل کرنے کے طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱۔ سجاوٹ میں دلکشی پیدا کرنے کے لیے رقبے کی خوبصورت تقسیم کے بارے میں جاننا نہایت ضروری ہے۔ ۲۔ سجاوٹ کو متناسب تاثر دینے کے لیے مختلف اشیاء میں رنگوں اور خطوط کی مختلف خصوصیات کے ذریعے ان کی لمبائی چوڑائی اور حجم کے تاثرات میں تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ۳۔ چیزوں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرنے کے لیے تشکیل یا پیمائش کے اصولوں سے واقفیت ضروری ہے۔ رقبے کی تقسیم کے ذریعے خوبصورتی پیدا کرنا Division of Space کمرے میں کسی بھی ترتیب سے رکھی چیزیں اس کے رقبے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس تقسیم کی دلکشی یا غیر دلکشی کا انحصار چیزوں کے رکھے جانے کے طریق پر مبنی ہے۔ جس طرح گھڑی کی ٹک ٹک چند ساعتوں کے لیے توجہ کا مرکز بنتی ہے پھر متواتر برابر وقفوں کے بعد بجتے رہنے کے باعث قطعی طور پر نظر انداز ہو جاتی ہے اور اس کی آواز میں کوئی دلکشی نہیں رہتی۔ اسی طرح جو چیز برابر وقفوں یا برابر فاصلوں پر ایک ہی طرزمیں دہرائی جائے تو لمحہ بھر کے یے نگاہیں اس پرپڑتی ہیں۔ پھر اس سجاوٹ یا ترتیب میں دلکشی اور دلچسپی پیدا ہونے کے بعث نگاہیں اس کی طرف راغب نہیںہوتیںَ لیکن اگر گھڑی کی آواز یا ساز غیر معمولی طورپر ٹھہر ٹھہر کر وقفوں میں بجے تو فوری توجہ کا مرکز بنتی ہے مثلا تین مربع حصوں میں سجاوٹ کرنے کے بجائے اگر دو مربعوں اور ایک مستطیل میں سجاوٹ کی جائے تو زیادہ دلچسپ تاثر پیدا کرے گی۔ خواہ یہ تناسب اچھا ہو یا بر ا دلکش ہو یا بدنما چند لوگوں میں قدرتی عطیہ ہوتا ہے کہ جو چیز بھی ترتیب دیں وہ ان کے قدرتی ہنر کی وجہ سے خود بخود نہایت اچھے تناسب میںمرتب ہو جاتی ہے۔ جو نگاہوں میں خوشگوار تناسب پیدا کرتی ہے۔ لیکن عام لوگوں کو یہ ہنر سیکھنے اور خود مین پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے ہمیں تناسب کا ایک معیار مقرر کر کے اس کے مطابق چیزوں کو ترتیب دینا چاہیے اور پھر نتائج کو پرکھ کر بہتر تناسب مقرر کیا جا سکتا ہے۔ رقبے کو خوبصورت حصوں میں تقسیم کرنا گھر میں ‘ کمروں میں ‘ کسی بھی جگہ پر چیزوں کو سجانے کے لیے ہموار سطح کو مختلف حصون میں تقسیم مندرجہ ذیل طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ یونانی تناسب کے مطابق ۲۔ غیر یکساں تقسیم ۳۔ یکساں تقسیم ۴۔ یکساں اورغیر یکساں کاامتزاج ۱۔ یونانی تناسب کے مطابق تقسیم کسی دیوار کی سجاوٹ کے لیے مختلف حصوں میں تقسیم کرنے یا چیزوں کو مختلف گروپوں کی صورت میں ترتیب دینے کے لیے اگر جگ کو خوبصورت متناسب حصوں میں تقسیم کیاجائے تو وسطی مقام سے قدرے ایک طرف زیادہ ہٹ کر فاصلے پر کوئی اہم چیز رکھنی چاہیے اوربقیہ سطح خود بخود خوبصورت تناسب سے حصوں میں بٹ جائے گی۔ ۲۔ غیر یکساں تقسیم اس میں تمام منقسم حصے پیمائش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ رقبے کے ہر حصے کی پیمائش کے ساتھ ساتھ ہر حصے میں فاصلے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ایسی تقسیم اور تناسب عموماً چھوٹے رقبے کے لیے بہترین رہتا ہے۔ لیکن تنوع اور جدت پیدا کرتے کرتے اگر فاصلے اور پیمائشوں کافرق ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو اس سے چیزوں میں لاتعلقی اور بے ہنگم تاثر پیدا اہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ۳۔ یکساں تقسیم اس میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تمام منقسم حصے ایک جیسی پیمائش کے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ رقبے کو بالکل یکساں فاصلوں اور مساوی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا تناسب بہت سے رقبے پر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ حد درجہ یکسانیت سے تناسب میں ٹھیرائو اور غیر دلکشی کے تاثرات نمایان ہونے لگتے ہیں۔ یکسانیت اور جمود کو رفع کرنے کے لیے رنگوں اور ٹیکسچر کو بھی فرق کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔ ۴۔ یکساں اور غیر یکساں کا امتزاج اس میں بعض اوقات پیمائش کا ایک یونٹ یا پیمانہ مقرر کر کے اسے مختلف فاصلوں پر دہرانے سے ورائٹی کی خصوصیت بھی برقرار رہتی ہے اور خوبصورتی کے علاوہ یہ تناسب ہم آہنگی کا بھی ضامن ہوتا ہے۔ گروپ میں چیزیں سجانے میں تناسب جس بھی چیز کا انتخا ب کیا جائے اسے کسی نہ کسی ٹھکانے پر رکھا یا سجایا بھی جاتاہے۔ جس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اختیار کرنے چاہئیں تاکہ چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ صحیح تناسب میںرہیں۔ ۱۔ کسی چیز کے سائز حجم اور وضع کو ایک یونٹ یا پیمائش کی ایک اکائی تصور کیا جائے یا پھر چند اکٹھی رکھی ہوئی چیزوں کے ایک گروپ کو ایک یونٹ یا اکائی تصور کیا جا سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جگہ یا وہ رقبہ جس پر متعینہ اکائی یا یونٹ کو رکھا یا ترتیب دیا گیا ہے اس ’’یونٹ‘‘ کے حجم سے کافی چوڑا اور قدرے زیادہ ہونا چاہیے۔ ۲۔ جب متعدد اکٹھی رکھی گئی چیزوں سے ایک گروپ کو اکائی یا یونٹ مقرر کیا جائے تو ان میں ہر دو اشیاء کا درمیانی فاصلہ ان چیزوں کے حجم خصوصاً چوڑائی سے کم ہونا چاہیے۔ ۳۔ ایک چیزوں کے گروپ میں تعلق ربط اور ہم آہنگی و تناسب پیدا کرنا ہوتو دونوں گروپوں کا درمیانی فاصلہ ہر گروپ کے حد و د اربعے سے کم ہونا چاہیے۔ ۴۔ جفت کے بجائے طاق کی گنتی میں چیزوں کی تعداد زیادہ خوبصورت اور دلکش لگتی ہے۔ مثلاً تین چیزوں کے دو گروپ یا چار چیزوں کے گروپ کی نسبت کہیں زیادہ خوشنما اور بھلے دکھائی دیں گے یا پھر دو اور تین چیزوں کے گروپ بھی نگاہوں میں خوبصورتی اور دلچسپی پیدا کرنے کا باعث ہوں گے۔ ۲۔ تاثرات سے تناسب پیدا کرنا بعض اوقات چیزوں یا کمروں کی سجاوٹ حقیقی طورپر جس وضع حجم یا سٹائل کی ہوتی ہے اگر اسے تقاضوں کے مطابق عملی طور پرلمبا چوڑا چھوٹا یا بڑا نہ کیا جا سکتا ہوتو رنگوں خطوط یا اسی طرح کے کئی اور عناصر کو مخفی طریقوں سے اس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کہ چیز بظاہر اپنے حقیقی وجود کے تناسب کے برعکس نہایت مختفل تاثرات دینے لگتی ہے۔ جس سے بصیری ایسے تاثرت پیداکرنے کے لیے آرٹ کے عناصر کی صحیح خصوصیات کے بارے میں علم ہونا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً عمودی خطوط کی لمبائی افقی خطوط کی چوڑائی اور پھیلائو کا تاثر دیتے ہیں۔ جبکہ ہلکے رنگ پھیلائو اور بڑے پن کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اور گہرے رنگ چیزوں کو دور کرنے اورچھوٹا دکھائی دینے کا تاثرپیدا کرتے ہیں وغیرہ۔ خطوط کے ذریعے بظاہر تناسب میں ترمیم کرنا مشہور مقولہ ہے لکیریں بولتی ہیں۔ اسی لیے خطوط یا لکیریں کسی چیز کے حجم یا رقبے کے تناسب کو کم زیادہ لمبا چوڑا ہونے کے تاثر پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عمودی لکیریں رقبہ کی لمبائی میں اضافہ کرنے اور افقی لکیریں رقبہ کی چوڑائی میں اضافہ کرنے کے تاثرات پیداکرتی ہیں۔ کمرے کی ہئیت پر خطوط اور رنگوں کا اثر مختلف لکیروں کی خاصیتوں کے بارے مین یہ صحیح علم ہونے سے کہ کون سی لکیر ظاہراً کسی قسم کے تاثرات پیدا کرتی ہے۔ گھریلو سجاوٹ میں تناسب پیداکرنے کے لاتعداد مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایسا کمرہ جس کی چھت نیچی ہو۔اس کی دیواروں کو چھت کی نسبت شوخ یا گہرا رنگ کرنے سے چھت میں بلندی کا احسا س پیدا ہو گا یا پوری دیوار کے ساتھ عمودی لکیروں کے ڈیزائن میں پردے یا دیوار کا کاغذ وال پیپر لگا کر کمرے میں اونچائی کا تاثر پیداکیا جا سکتاہے۔ اور اونچی چھتوں والے کمرے میں اس کے برعکس عمل کرنا چاہیے۔ ایسے کمرے جن میں چھت کا کچھ حصہ ترچھان میں ہو یا ڈھلوان میں ہو اور اس ڈھلوان کو اونچائی دینا مقصود ہو تو دیوار کے ساتھ رنگ کرتے وقت ڈھلوان کا بھی کچھ حصہ بارڈر کی صورت میں دیوار کر ہم آہنگ کر دینا چاہیے اور ڈھلوان کا باقی حصہ دیوار کے رنگ سے ہلکے رنگ میں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس اسے نیچایا کم اونچا تاثر دینے کے لیے چھت کا رنگ چھت سے ملتے ہوئے دیوار کے حصے پر بھی بارڈر کی صورت میں کر دینا چاہیے۔ اسی طرح کم اونچی کھڑکیوں پر عمودی لکیروں والے ڈیزائن کے پردے لگا کر لمبائی میں اضافے کا تاثر پیداکیا جاسکتا ہے۔ کم اونچائی کی کرسیوں پر لکیر دار پوشش جس میں لکیروں کا رخ نیچے کی طرف ہو اونچائی کے تاثر میں اضافہ پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ اسی طرح کمرے میں رقبے میں لمبائی یا چوڑائی کے متقاضی تاثرات پیدا کرنے کے لیے تصویریں اورسجاوٹ کی دیگر اشیاء بہت اہم کردار اداکرتی ہیں مثلاً ٭ عمودی رخ میں لٹکائی گئی تصویریں اور اشیاء اونچائی تاثر پیداکرتی ہیں۔ ٭ اونچے چھت کے کمرے میں چھت پر گہرا رنگ کرنے سے چھت کی اونچائی کم لگنے لگتی ہے۔ ٭ چھت کی بلندی کم کرنے کے لیے چھت کا رنگ نیچے دیوار پر کھڑکیوں کے اوپر کے کنارے تک بارڈر کی شکل میں لے آئیں۔ ٭ کم اونچا فرنیچر کتابوں کے چوڑائی کے رخ شیلف انگیٹھی کا افقی ڈیزائن اور دیگر افقی خطوط والی اشیاء ااستعمال کرنے سے کمرے کی چوڑائی میں اضافہ اور اونچائی میں کمی کے تاثرات پیدا کرتے ہیں۔ ٭ زیادہ بلند چھت والے کمرے میں اہم اور بڑے فرنیچر کو دیواروں کے ساتھ گلانے کی بجائے اگر انہیں گروپ کی صورت میں اکٹھا کمرے کے وسط میں سجایا جائے تو یہ ترتیب بھی اونچائی اور پھیلائو کم کرنے میں معاون ہو گی۔ ٭ ایک سے زائد قالین یا دریاں یا بچھونے ایک ہی کمرے میں استعمال کرنے سے کمرے کے رقبے اور پھیلائو میں کمی کاا حساس پیدا ہوتا ہے۔ ٭ کمرے کی چوڑائی میں اضاف پیدا کرنے کے لیے ا س میں قالین اس طرح بچھانی چاہیے کہ اس کے سر سے نگاہوں کو کمرے کے آر پار ایک طرف سے دوسری طرف لے جائیں۔ ۳ سکیل یا پیمائش Scale کسی بھی چیز کی بناوٹ میںاس کے مختلف اجزا یا عناصر ایک تو آپس میں ایک دوسرے کی پیمائش کے مطابق تناسب میں ہوں اور دوسرے یہ کہ تمام اجزا اس چیز کی کل بناوٹ کے ساتھ اس کے حجم اور پیمائش کے اعتبار سے خوشنما تناسب میں ہوں۔ کسی خاص چیز کا جسم اس کے ساتھ یا آس پاس رکھی گئی مختلف اشیاء کے ساتھ ان کی وضع حجم اور پیمائش کے لحاظ سے متناسب ہو۔ مثلاً کوئی بھی بہت چھوٹی چیز جب زیادہ بڑی چیز کے ساتھ یا اس کے قریب رکھی جائے تو وہ مزید چھوٹی لگنے لگتی ہے۔ کیونکہ ایسی غیر متناسب چیزیں ایکد وسرے کے سائز میں مزید اضافے کا تاثر دے کر ان کے تضاد کو زیادہ نمایاں کرنے لگتی ہیں۔ جو پیمائش کے اعتبار سے خواہ مخواہ غیر متناسب لگنے لگتی ہیں اوران کا آپس میں کوئی جوڑ یا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے یہ سکیل سے باہر اور غیر متناسب کہلاتی ہیں۔ گھریلو سجاوٹ میں پیمائش کا استعمال اشیا کا انتخاب کرنے اور انہیں خوشنما طریقے سے اکٹھا رکھ کر ترتیب دینے کے لیے سکیل یا پیمائش کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ایک عام کمرے میں جہاں درمیانے اور چھوٹے سائز کے متعدد فرنیچر اور اشیا با ٓسانی رکھے جا سکتے ہیں وہاں ایک یا دو ہی بڑے حجم والے فرنیچر رکھ دینے سے کمرہ یوں بھر جائے گا کہ ا س میں مزید کچھ رکھنے کی گنجائش نہیں ہو گی۔ اسی طرح بڑے سائز کے کمرے میں کم یا چھوٹے سائز کا فرنیچر نہایت نامناسب رہے تگا اور بکھرا اور اکیلا ہونے کا تاثر دے گا اور کمرہ نسبتاً زیادہ بڑا لگنے لگے گا۔ جو پیمائش سکیل کے لحاظ سے تناسب کی بدترین مثال ہے۔ اگرکسی مجبوری کے تحت چھوٹے کمرے میں نسبتاً بڑے حجم کے ایک دو فرنیچر رکھنے پڑ جائیں تو انہیں کم نمایاں کرنے کے لیے کسی نہایت ہلکے رنگ کے کپڑے سے پوشش کر دینا چاہیے۔ اس کے برعکس بڑے کمرے میں نسبتاً چھوٹے فرنیچر اور اشیاء کو رکھنے کی مجبوری کی صورت میں چیزوں کو الگ الگ پھیلا کر رکھنے کے بجائے انہیں اکٹھا ایک گروپ کی صورت میں ترتیب دے کر یونٹ بنا کر سجایا جا سکتا ہے۔ جس سے کافی حد تک تاثرات کے ذریعے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اکٹھی رکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی چیزیں کمرے کے سائز کو اس طرح زیادہ وضع کرنے میں مانع ہوں گی۔ پیمائش کا تعلق محض کسی چیز کو پوری بناوٹ یا حجم سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد چیزوں کے ہر حصے کا ایک دوسرے سے اور مجموعی طور پر اس چیز کے ڈیزائن سے متناسب تعلق ہے۔ اسی لیے بڑے سائز کے میز کے لیے ٹانگیں چھوٹی یا درمیانی میز کی نسبت موٹائی اور بڑی ہوتی ہیں۔ کیونکہ اچھی پیمائش اور اچھے تناسب کا یہی تقاضا ہے کہ اور پھر ایک ٹانگ باریک اور تین یا دو موٹی ایک زیادہ لمبی اور باقی چھوٹی نہیںہوتیں۔ عام لوگوں میںیہ خیال پایا جاتا ہے کہ آرام دہ فرنیچر وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا سائز بڑا ہو جو کہ بہت غلط ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کے درمیانی سائز میں آرام دہ بناوٹ اور ڈیزائن والا فرنیچر کہیں زیادہ دیدہ زیب ہوتا ہے اور ان کی عام گھرانوں میں سجاوٹ دلفریب ہو سکتی ہے۔ رنگوں اور سائز کی طرح ٹیکسچر میں بھی پیمائش کا پہلو ہوتا ہے۔ مثلاً (عمدہ ‘ نفیس ملائم اورنرم) ٹیکسچر یا چھوٹا سکیل کھردرا اور سخت ٹیکسچر بڑ ا سکیل اور درمیانی یا ثانوی سکیل یاایسا ٹیکسچر جو نہ زیادہ نفیس ہو اور نہ ہی زیادہ کھردرا۔ ثانوی سکیل کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ جہاں چھوٹے اور بڑے سکیل کا استعمال انہیں انتہائی تضا دکی وجہ سے ایک ساتھ استعمال نہیں ہو سکتا۔ ثانوی سکیل ان دونوں کے ساتھ الگ الگ ابھی اور ان دونوں کے درمیان ملاپ کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً نازک اور نفیس پرنٹ اور ہلکے مائم رنگ اور پارچات ہلکی قسم کے چھوٹے فرنیچر کے ساتھ استعمال ہو سکتے ہیں ایسی سجاوٹ میں جہاں نزاکت کا تاثر پیدا ہونا مقصود ہوتا ہے اسی طرح بڑے بڑے تیز اور گہرے رنگوں کے پرنٹ کھردرے پارچات اوروزنی او ر موٹے کپڑے وزنی اور بڑے سائز کے فرنیچر کے ساتھ استعمال کے لیے مناسب رہیں گے۔ جو بڑے رقبے کے کمرے کے لیے متناسب ہیں۔ نمایاں کرنا Emphasis کسی سجاوٹ کے متوازن ہونے متناسب ہونے اور اس میں ہم آہنگی کی تمام خاصیتیں موجود ہونے کے باوجود دلکشی اور خوبصورتی کی عدم موجودگی کا احساس موجود ہو سکتا ہے۔ اتنی تمام خوبیوں کے باوجود نگاہ ان تمام چیزوں پر سے بغیر کسی خاص توجہ کے گزر جائے گی کیونکہ نگاہوں کو اپنی خوبصورتی کی طرف راغب اور مرکوز کرنے کے لیے سجاوٹ میں کوئی ایسامخصوص مقام موجود نہیں کہ نگاہیں وہاں مقید ہوسکیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسی سجاوٹ جس میں کوئی خاص حصہ باقی سجاوٹ کی نسبت زیادہ نمایاں ہوتا ہے اس میں نگاہوں کو اپنی جانب کھینچ لینے کی خاصیت نہیں ہوتی اور ایسی سجاوٹ جس میں قوت کشش موجود نہ ہو وہ دلکشی کا تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ نمایاں کرنا آرٹ کا ایسا اصول ہے کہ جس کے ذریعے نگاہیں سب سے پہلے سجاوٹ میں اہم ترین چیز یا مقام پر پڑتی ہیں۔ اور پھر قوت کشش کے اعتبار سے بالترتیب دوسری چیزوں پر حرکت کرتی جاتی ہیں جب بھی کوئی چیز ظاہری ہئیت کے اعتبار سے منتخب کی جائے گی یا سجائی جائے گی تو نمایاں کرنے میں یا اسے سجانے یا اسے اجاگر کرنے کا یہ اصول استعمال ہوتاہے۔ اس اصول کے اطلاق میں کامیابی کا انحصار مندرجہ ذیل معلومات پر ہوتا ہے۔ ٭ کس چیز کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ ٭ کس چیز یا سجاوٹ کو کس حد تک نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ ٭ اہم چیز یا نمایاں کی جانے والی چیز یا مقام میں کس طرح سب سے زیادہ قوت کشش پیدا کی جا سکتی ہے۔ ٭ سجاوٹ کے کون سے حصے کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ ۱۔ کس چیز کو نمایاں کیا جاسکتا ہے آرائش کی تمام اشیاء میں جو چیز یا چیزیں رنگ وضع یا سائز یا کسی بھی اعتبار سے عام چیزوں کی نسبت قدرے غیر معمولی خصوصیات خوبصورتی اور زیادہ اہمیت کی متحمل ہوں آرائش میں انہیں ہی نمایاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایسی ہی اشیاء کو فوقیت دینی چاہیے۔ جن میں متذکرہ خصوصیات موجود ہوں مثلا (۱) مقصد کے مطابق مناسبت (۲) سادگی (۳) خوبصورتی ۲۔ کس طرح نمایاں کیا جا سکتا ہے چیزوں کو نمایاں کرنے کا عمل دو اصولوں پر مبنی ہے۔ ۱۔ سادگی ۲۔ منصوبہ بندی سادگی Simplicity نمایاں کرنے کے اصول میں سادگی نہایت اہم اصول ہے۔ کسی بھی چیز کو نمایاں کرنے کے لیے سادگی کو مدنظر رکھنا اس کا بنیادی پہلو ہے۔ کیونکہ رنگوں ڈیزائن یا کسی بھی چیز کی زیادگی نگاہوں میں گھبراہٹ او ر الجھن کا باعث بنتی ہے جس سے متعدد خوبصورت اور نفیس اکٹھی رکھی گئی اشیا میں ہر چیز دوسری چیز کی نمائش اور خوبصورتی پر زور ڈالتی ہے۔ جس سے کوئی بھی چیز خوبصورت ہونے کے باوجود نمایاں ہونے سے قاصر رہتی ہے۔ اوراپنی مخصوص حیثیت کھو دیتی ہے۔ اس کے برعکس سفید ہلکے رنگوں یا کسی طرح کی بھی سادہ سطح کے ساتھ رکھی گئی معمولی چیزیں بھی اجاگر اور نمایاں ہونے لگتی ہیں اور جو نگاہوں کو بھلی لگتی ہیں۔ اسی لیے کسی بھی چیز کونمایاں کرنے کے لیے اس کا پس منظر سادہ ہونا نہایت ضروری ہے۔سلیٹی رنگ کے پس منظر کو صفر درجے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جو ہر چیز کو نمایاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ منصوبہ بندی Planning کسی بھی سجاوٹ اور ترتیب کے تاثرات کو واضح طور پر عیاں کرنے کے لیے اس کے ڈیزائن کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔ کیونکہ اس طرح اہمیت کے اعتبار سے چیزوں کی صحیح گروپ بندی ہو سکتی ہے کہ کن چیزوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ مثلاً ہر سجاوٹ میں سب سے نمایاں رکھی جانے والی چیز پس منظر ہوتاہے۔ جس کے سامنے دوسری اشیاء رکھ کر سجائی جاتی ہیں۔ آرٹ میں پس منظر کے بارے میں اصول مرتب ہے کہ اسے ہمیشہ سادہ اورکم نمایاں ہونا چاہیے تاکہ اس کے ساتھ رکھی گئی اشیاء زیادہ نمایاں اور اجاگر ہو سکیں چیزوں کو نمایاں کرنے کے متعدد طریقے ہیں مثلاً : ۱۔ چیزوں کو نمایاں کرنے کے لیے انہیں اکیلا رکھنے کے بجائے اکٹھا گروپ میں رکھنااور استعمال کرنا چاہیے۔ ۲۔ ایسے رنگ استعمال کرنے چاہئیں کہ جن میں تضاد او ر تفریق موجود ہو۔ ۳۔ سجاوٹ اور آرائش کا استعمال کرنا چاہیے۔ ۴۔ نمایاں کی جانے والی چیز کے ارد گرد کا پس منظر سادہ ہونا چاہیے۔ ۵۔ متضاد خاصیتوں والے خطوط اشکال اورحجم استعمال کرنا چاہیے۔ ۱۔ چیزوں کی گروپ بندی کرنا جب چیزو ں کو ان کی خاصیتوں رنگ وضع یا ٹیکسچر کے اعتبار سے گروپ میں اکٹھا رکھا جاتا ہے تو ان میں موجود مخصوص خاصیت ابھر کر نمایاں ہو جاتی ہے جبکہ یہی چیزیں الگ الگ مختلف مقامات پر بڑی ہونے سے ان کی خصوصیات تقسیم ہو کر بالکل غیر نمایاں ہو کر رہ جاتی ہیں۔ چیزوں کو ان کی خاصیتوں کے لحاظ سے مختلف گروپوں میں تقسیم کرنے کے بعد چیزوں کے اہم گروپ کو نمایاں گروپ کے ساتھ یا قریب رکھنے سے ان کی خصوصیت کو نمایاں طور پر مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جس سے وہ گروپ بہت نمایاں ہو سکتاہے۔ ۲۔ متضاد رنگ کے استعمال کر کے نمایاں کرنا رنگوں کے ہلکے اور گہرے پن کا شدید تضاد فوراً نگاہوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ اسی لیے کسی چیز یا چیزوں کے گروپ کو نمایاں کر نے کے لیے اسے ایسی چیز کے ساتھ رکھنا چاہیے جس کا رنگ اس کے رنگ سے بالکل مختلف اور متضاد ہو۔ روشنی اور دھندلے پن میں بھی ا س قدر تضاد ہوتا ہے کہ روشنی اور ہلکے رنگ کی اکٹھی چیزیں فوراً توجہ کو راغب کرتی ہیں۔ ۳۔ سجاوٹ کے ذریعے نمایاں کرنا خوبصورتی ہر شخص کو دلی اور ذہنی خوشی فراہم کرتی ہے۔ گاہوں کو فرحت بخشتی ہے اور ہر شخص اپنے معیار کے مطابق خوبصورت چیزیں منتخب کرتا ہے اور انہیں سجاتا ہے۔ اور جتنی مرتبہ اس کی نگاہ اس خوبصورت چیز پر جاتی ہے اتنی ہی مرتبہ وہ کوئی خوشیاں سمیٹ کر اس کے وجود میں بھر دیتی ہے۔ سجاوٹ اور آرائش کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اگر کسی چیز کا بنیادی یا بناوٹی ڈیزائن اس کے استعمال کے مقصد کو پورا کرتاہے تو اسی پر اکتفا نہیںکیا جاتا بلکہ اس میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے اس پر آرائشی ڈیزائن بھی بنائے جاتے ہیں تاکہ استعمال کے ساتھ ساتھ وہ محفوظ بھی کر سکے اور اسی مقصد کے لیے پارچات پر نئے نئے ڈیزائن اور پرنٹ بنائے جاتے ہیں۔ فرنیچر میں گھریلو اشیاء میں نت نئے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔ کڑھائیاں کی جاتی ہیں پینٹ کیا جاتا ہے وغیرہ۔ لیکن سجاوٹ اس حد تک کرنی چاہیے کہ جس سے بنیادی ڈیزائن میں خوبصورتی پیدا ہو سکے۔ آرائش کی زیادتی کا برعکس اثر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی گلدان بذات خود نہایت خوبصورت ہو تو اس میں پھول سجانے کے لیے ایک آرائشی چیز کے طور پر سجاوٹ میں استعمال کریں۔ ۴۔ چیزوں کے گرد پس منظر سادہ رکھ کر نمایاں کرنا سادگی کی اہمیت جاننے کے بعد لوگوں میں پہلے کی نسبت زیادہ سادگی اختیار کرنے کی طرف توجہ ہو گئی ہے۔ جس کا اثر ماحول میں عمارتوں کی بناوٹ و سجاوٹ پر لبا س پر اور طرز زندگی کے عام پہلوئوں پر پڑنے کی وجہ سے ماحول میں سکون پیداہو گیا ہے۔ چیزوں کی خوبصورتی کو ابھارنے اور نمایاں کرنے کے لیے سجاوٹ میں مندرجہ ذیل دو اصول مدنظر رکھنا چاہئیں۔ ٭ نمایاں کی جانے والی چیز کے ارد گرد پس منظر کا کافی رقبہ سادہ ہونا چاہیے۔ ٭ قوت کشش پیدا کرنے کے لیے چیزوں کو اکٹھا گروپ کی صورت میں رکھنا چاہیے۔ ۵۔ غیر معمولی خطوط اشکال و رنگوں سے نمایاں کرنا کسی چیز کو نمایاں کرنے کے لیے اسے محض سادہ پس منطر کے ساتھ رکھ دینا ہی کافی نہیںہوتا یا اس کے بڑے حجم کی وجہ سے اسے نمایاں نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اگر اس مخصوص چیز کا رنگ اور وضع پس منظر یا گردو پیش میں بڑی چیزوں سے کافی مختللف ہو تو تب بھی اسے نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر انگیٹھی کے سامنے رکھے جانے وال سکرین کے لیے باریک باریک عمودی خطوط والا کپڑا استعمال کیا گیا ہو تو اس کے اوپر پرانی وضع اور پھول وغیرہ دوسرے کپڑے کے کاٹ کرلگانے یا پینٹ کرنے سے یہ چیزیں ایک دم نمایاں ہو ں گی اور ان نگاہوں کو اپنی جانب راغب کر لیں گی۔ پودے لگانے میں نمایاں کرنے کی ضرورت گھر کی بیرونی سجاوٹ اور پودے گلانے میں بھی نمایاں کرنے کے وہی اصول استعمال ہوتے ہیں جو گھر کی اندرونی سجاوٹ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سادگی اور ترتیب و تنظیم کا احساس پیدا کرنے کے لیے پودوں کو قطار کی صورت میں اور گروپ میں اکٹھے لگانا چاہیے۔ خصوصاً گھر کے برآمدوں وغیرہ کی بنیادوں کے ساتھ اور گھر کی بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ باغ یا پودے لگانے والا رقبہ ہو یا چھوٹا۔ اس کے وسط میں کھلی اور صاف جگہ کافی ہونی چاہیے اوراس درمیانی رقبے میں پودے نہیں لگانے چاہئیں۔ کیونکہ سارے باغ میں ادھر ادھر لگے ہوئے پودے بد نظمی اور بے ترتیبی کے احساس سے نگاہوں میں بدنمائی پیدا کریں گے۔ ۴۔ نمایاں کرنے کا تناسب گھروں کے اندرونی حصوں میں سجاوٹ کرتے وقت کسی حصے کو نمایاں کرنے کی حد بندی کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ اس کی زیادتی سے نگاہوں میں الجھن نہ پیدا ہو مثلاً ایسے کمرے جن میں گھر کے لوگوں کا زیادہ تر وقت گزرتا ہو اور وہ گھریلو مشاغل اور کام کاج میں زیادہ استعمال میں رہتا ہو۔ وہاں سجاوٹ میں زیادہ سادگی اختیار کرنی چاہیے۔ اور ہلکی پھلکی آرائش کرنی چاہیے۔ اسی طرح کھانے والے کمرے یا بیٹھک میں جہاں دن کا کچھ حصہ گزارا جاتاہے اور وہ بھی مہمانوں کے ساتھ پر تکلف گفتگو اور مشاغل سے گزرتاہے وہاں البتہ سجاوٹ اپنے اپنے معیار اورپسند کے مطابق نسبتاً زیادہ کی جا سکتی ہے۔ استعمال کے لحاظ کے علاوہ عام طور پر رقبے کے اعتبا ر سے بھی نمایاں کرتے وقت یونانی تناسب کو مدنظر رکھنا ہی بہتر رہتاہے۔ کسی کمرے میں قوت کشش کی تقسیم کمرے میں سادہ ڈیزائن اور دونوں قسم کے رقبوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سجانے والے کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کون سی جگہ نمایاں کی جائے اور کیسے نمایاں کی جائے۔ مثلاً اگر کمر میں دیواریں اور قالین میں سے تین حصے بالکل سادہ رکھے جائیں تو صوفوں پردوں تصویروں اورباقی کمروں کی اشیاء میں شوخ تیز رنگوں والے ڈیزائن دار پرنٹ وغیرہ استعمال کرنے کی کافی کھلی گنجائش رہ جاتی ہے اور ان چیزوں کو نمایاں کرنے کے لیے آزادانہ آرائش کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر دیواریں اور قالین میں ڈیزائن موجود ہو تو یہ نہایت ضروری ہو جاتاہے کہ فرنیچر کی پوشش اور پردے وغیرہ کسی مناسب اورسادہ رنگ میں ہوں اور ان میں کوئی ڈیزائن نہ ہو۔ اکثر لوگ دیواریں اور فرش سادہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس طرح چھوٹی چھوٹی متعدد اشیاء میں اپنی پسند کا وسعت کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی کمرے میں یا سجاوٹ کے حصے میں ڈیزائن والے حصے کا استعمال ایک خاص حدتک ہونا چاہیے۔ اس لیے اس ات کا جائزہ پہلے ہی لے ینا چاہیے کہ یہ ڈیزائن کمرے کے کس حصے پر استعمال کیا جائے تاکہ باقی اشیاء قوت کشش اور اہمیت کے اعتبار سے اس کے تابع رہیں اوریہ ڈیزائن اس قدر اجاگر اور نمایاں رہے کہ دیکھنے والے کی نگاہیں اس پر مرکوز ہو جائیں اور محفوظ رہ سکیں۔ اکثر لوگ ورائٹی کرنے کے لیے کمرے کے پردوں صوفوں گدیوں اور دیگر اشیاء کے مختلف قسم کے ڈیزائنوں سے اس قدر بھر دیتے ہیں کہ ان میں کوئی چیز بھی توجہ کا مرکز نہیں بن سکتی۔ حالانکہ یہی ورائٹی سادہ قسم کے پارچات اور کم کامدار اشیاء وغیرہ کے ذریعے بھی نہایت آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ مختلف رنگوں کے سادہ کپڑوں کو مختلف جگہوں اور کمرے کے مختلف حصوں پر استعمال کرنے سے ان کا مجموعی تاثر ایک ڈیزائن ہی کا پیدا کرتا ہے۔ جو نہایت انفردی حیثیت رکھتا ہے۔ کھانے کی میز پر قوت کشش نمایاں کرنے کے اصولوں کا استعمال کمرے کی ہر چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز پر کیا جاتا ہے۔ اگر یہ دیواریں اور قالینوں پر استعمال ہوتا ہے تو چھوٹے سے گلدانوں میں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن کھانے کی میز پر قوت کشش پیدا کرتے وقت یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ میز یا اس کا میز پوش بطور پس منظر استعما ل ہوتا ہے اور چیزوںکے ارد گرد کا رنگ اور ڈیزائن نمایاں دکھائی دے گا۔ اگر میز سادہ رنگ کا ہو تو اس پر ڈیزائن اور پھول دار برتن استعمال ہو سکتے ہیں اور ڈیزائن دارنیپ کنز بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ لیکن پرنٹ دار میز یا میز پوش پر سادہ میٹس اور سادہ برتن ہی درکار ہوں گے ہلکے پھلکے پس منظر پر گہرے شوخ اور کرھائی وایل خوبصورت ڈیزائن دار میٹس اور برتن استعمال کرنے چاہئیں۔ جبکہ گہرے یا شوخ پس منظر میں اس کے برعکس سادے اورہلکے رنگوں کی چیزیں استعمال کرنی چاہیئں۔ اس کے علاوہ کھانے کی چیزیں اگرچہ سادہ ہلکے یا ڈل رنگ کی ہوں تو انہیں متضاد رنگ کے کھانے والے برتن میں یا متفرق ومختلف رنگوں کی چیزوں مثلاً ہری مرچ ‘ ٹماٹر‘ چقندر‘ گاجر مولی پودینے‘ انڈے‘ آلوئوں وغیرہ سے مناسب رنگ کی چیز استعمال کر کے سجایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام غذائیں شوخ رنگوں سے بھرپور ہیں اورکسی ڈل رنگ کے کھانے پر اس کا استعمال اسے خوبصورت اور دلکش بنا سکتا ہے۔ اسی طرح پستہ ‘ بادام‘ ورق ناریل وغیرہ ایسے میوہ جات ہیں جنہیں سویٹ ڈش اور بیکری کی سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان چیزوں سے سادے سے کھانوں کو بھی سجا کر میز میں دلکشی اور رونق پیدا کی جا سکتی ہے۔ کھانے کی میز پر چیزوں کو نمایاں کرنے کا ایک اور طریقی یہ بھی ہے کہ پلیٹوں یا ڈونگوں میں کھانا کبھی اس قدر کم نہ دالیں کہ برتن خانے ہونے کا احساس ہو اور نہ ہی اس قدر بھر دیں کہ کنارے تک پہنچ کر باہر گرنے لگیں۔ برتن کے کنارے ہمیشہ تقریباً 1/3ضرور خالی ہونے چاہئیں۔ اگر چیز کم ہو تو بڑے برتن کی بجائے اس کی مناسبت سے اسے چھوٹے برتن میں ڈالیں تاکہ وہ بھر جائے اور چیز کم ہونے کے باوجود زیادہ احساس پیدا ہو سکے۔ ۵۔ کونسا حصہ نمایاں کرنا چاہیے مختلف جگہوں کی سجاوٹ اور ترتیب کے لیے مختلف حصے نمایاں کرنے مقصود ہوتے ہیں مثلاً ایسی چیز کو جو کسی افقی سطح پر اس طرح رکھی جائے کہ ہر سمت سے دکھائی دیتی ہو۔ تو اسے رقبے کے عین درمیان میں رکھنا چاہیے تاکہ چاروں طرف خالی رقبہ بارڈر کے طور پر یکساں رہے۔ اس طرح ہر طرف سے وہ چیز برابر طور پر نمایاں رہ سکتی ہے۔ اس قسم کی منصوبہ بندی کی مثال میز کے درمیان میں گلدان اوراس میں پھولوں کی سجاوٹ ہو سکتی ہے۔ جب کوئی چیز عمودی رخ میں سجائی جائے تو نمایاں کی جانے والی اشیاء کو لمبائی کے رخ درمیان میں اس طرح سجایا جانا چاہیے کہ اوپر اور دائیں بائیں طرف کے بارڈر خالی خاکہ برابر ہوں جبکہ بارڈر کے نیچے کا حصہ نسبتاً زیادہ چوڑا ہو نا چاہیے۔ اس کی مثال کسی تصویر کو ڈیزائن کرنے یا تصویر کو فریم کرنے سے پہلے جو نیچے سادہ کاغذ کا بارڈر بنایاجاتاہے اس مائونٹ کرنا چاہیے مائونٹ کرنے کے علاوہ کسی صفحے پر لکھائی وغیرہ کر تے وقت بھ یعام استعمال میں آتا ہے۔ جتنا کسی چیز کو اس رخ میں سجا کر نمایاں کرنا مقصود ہو اتنا ہی اس کے گرد و پیش بارڈر کی صورت میں مائونٹ خالی اور سادہ جگہ کا ہونا ضروری ہے۔ جب کسی چیز کو دائیں یا بائییں رخ میں سجایا جائے تو اس پر نمایاں کرنے کی جگہ اس چیز کے رخ میں ہو گی۔ کیونکہ نگاہیں چیزوں کے اصلی رخ میں رک کر زیادہ فروخت حاصل کرتی ہیں۔ ایسی پوزیشن میں اشیاء کو رکھ کر قوت کشش پیدا کرنے کے لیے سارے رقبے کو پانچ برابر حصوں میں تقسیم کر دیں کیونکہ دو حصوں کاتین حصوں کے ساتھ نہایت خوبصورت تناسب ہوتا ہے اور دو یا تین حصوں کے درمیان لیکیریں کھینچ کر وہ پوائنٹ یا وہ نقطہ جہاں یہ دونوں لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں ایسی ترتیب کے لیے بہترین قوت کشش پیدا کرنے کا مقام ہوتاہے۔ اس نقطے کو ذرا سا اوپر یا نیچے کی جانب متقاضی رخ میں اشیاء کو نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ اس نقطہ کے اردگرد چار نئے الفاظ کے درمیان چیزوں میں قوت کشش پیدا کرنی چاہیے۔ ٭٭٭ باب ۹:ذاتی صحت اور صفائی Personal Health and Cleanliness اچھی صحت زندگی کی متاع عزیز ہے۔ یہ جسم کی توانائی کی اعلیٰ صلاحیتو ں کو روئے کا لانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ زندگی کا صحیح لطف اٹھانے اور اس سے مستفید ہونے کے لیے انسان کی صحت کا برقرار رہنا بے حد ضروری ہے۔ صحت سے مراد ذہنی اور جسمانی تندرستی ہے۔ جب جسم کے تمام اعضاء اپنے معمول کے مطابق کام کریں غیر ضروری تھکان نہ ہو انسان ہشاش بشاش رہے حوصلہ ہمت اور ذہنی بیداری ساتھ دے اور سماجی بہبود میں دلچسپی ہو تو انسان صحت مند سمجھا جاتا ہے ۔ کیونک ہایک صحت مند انسان حقیقت میں تفکرات سے آزاد ہوتا ہے اوروہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ گزر بسر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صاف ستھر ا اجلا مناسب لباس‘ جسمانی اعضاء کی صفائی اور ذاتی آرائش و زیبائش شخصیت کو مزید دل کش اور جاذب نظر بنانے کے لیے ضروری عوامل ہیں اور ان عوامل سے مستفید ہونے کے لیے اچھی صحت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ عوامل درج ذیل ہیں: ۱۔ متوازن غذا (Balanced Diet) ۲۔ مناسب ورزش (Proper Exercise) ۳۔ جسمانی صفائی (Body Cleanliness) ۴۔ بدبو سے نجات (Treating the foul smell) ۵۔ مناسب نیند اور آرام (Proper Sleep and Rest) ۶۔ صاف اور مناسب لباس (Clean and Proper Dress) ۷۔ فرصت کے اوقات میں مشاغل (Leisure time Hobbies) متوازن غذا Balanced Diet متوازن غذا کے استعمال سے صحت اور جسم کے اعضا کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے ۔ اس یے ہمیں انی روز مرہ غذا اور دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء اناج سبزیاں‘ پھل ‘ گوشت ‘ انڈے‘ مچھلی‘ مکھن گھی وغیرہ میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور شامل کرنی چاہیے۔ مناسب ورزش Proper Exercise صبح سویرے صاف ستھری اور تازہ ہوا میں لمبے لمبے سنس لینا صبح اور شام کے کھانے کے بعد تھوڑی سی سیر کرنا سکول میں پی ٹی یا ڈرل کرنا‘ دوڑیں لگانا اایسے ہی کھیلوں میں حصہ لینے سے پھیپھڑے کھلتے ہیں دوران خون تیز ہوتاہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہن بھی تروتازہ رہتا ہے۔ جسمانی صفائی Physical Cleanliness ہاتھوںکی صفائی ہاتھوں کی خوبصورتی اور صفائی سے انسان کی شخصیت پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاتھ سارا وقت استعمال میں رہتے ہیں اور ہر وقت نظر آتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہاتھوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ان کی جلد کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ ناخنو ں کو ہر روز صاف کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے اندر میل جمع نہ ہو سکے۔ جو صحت کے لیے مضر ہے۔ نیز اس سے ناخن بدنما لگتے ہیں۔ اپنے ناخنوں کو باقاعدگی سے ہفتے میں ایک بار ضرور تراشیں تاکہ نہ تو وہ اتنے لمبے ہو جائیں کہ ان کے اندر گندگی جمع رہے اور نہ ہی وہ اتنے چھوٹے ہوں کہ ان کے نیچے کا گوشت نظر آنے لگے۔ دانتوں کی صفائی دانت انسان کے چہرے پر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ باتیں کرتے یا مسکراتے وقت دانت دکھائی دیتے ہیں اور اگر یہ گندے ہوں تو اس سے دیکھنے والوں کو گھن آتی ہے۔ نیز معدے اور مسوڑھوں کی بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس لیے دانتوں کو چمکار اور خوبصورت بنانے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ۱۔ ہمیشہ متوازن غذا کھائیں جس میں دودھ انڈے ‘ سبزیاں پھل گوشت اور مختلف قسم کے اناج شامل ہوں۔ دانتوں کے لیے دودھ خاص طورپر بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں کیلشیم وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ جو دانتوں کی بناوٹ اور نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ۲۔ زیادہ میٹھی چیزیں کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ اس کے داتنوں کی چمک زائل ہو جاتی ہے۔ اور ان میں کیڑابھی جلدی لگ جاتا ہے۔ ۳۔ دانتوں کی روزانہ صفائی کریں دانتوں کے اندر باہر اور نیچے اور ہر سطح پر اچھی طرح برش کریں صبح ناشتے سے پہلے ناشتے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے ضرور صاف کرنے چاہئیں تاکہ مسوڑھوں اوردانتوں میں پھنسے یا لگے ہوئے ذرات رات بھر گلنے سڑنے سے بدبو اور بیماری کے جراثیم پیدا نہ کر سکیں۔ ۴۔ دانتوں کے ماہر ڈاکٹر سے وقتاً فوقتاً دانتوں کا معائنہ کرواتے رہنا چاہیے۔ آنکھوں کی حفاظت آنکھیں انسان کے نہایت ضروری اعضا ہیں۔ یہ انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں اس لیے ان کو چمک دار اور صاف ستھرا رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ آنکھیں ؟صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک مسلسل کام کرتی رہتی ہیں۔ آنکھوں کی حفاظت کے لیے درج ذیل باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ۱۔ آنکھوں کے لیے متوازن غذا بہت ضروری ہے۔ ۲۔ آنکھوں کو ٹھیک رکھنے کے لیے اپنی عمر کے مطابق مناسب گھنٹوں کی نیند ضروری ہے۔ کیونکہ نیند پوری ہونے سے آنکھوں میں چمک نہیں رہتی۔ پپوٹے سوج جاتے ہیں نیز آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بھی پڑ جاتے ہیں۔ ۳۔ پڑھنے یا کام کاج کرتے ہوئے روشنی مناسب ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگر روشنی مدھم ہو بائیں یا پیچھے کی طرف سے آ رہی ہو تو اس سے آنکھوں پر بوجھ پڑتاہے۔ چلتی ہوئی بس یا کار میں پڑھنا آنکھوں کے لیے مضر ہے۔ ہمیشہ سیدھے بیٹھ کر اور کتاب کو ایک سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر رکھ کر پڑھنا چاہیے۔ ۴۔ آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر سے وقتاً فوقتاً اپنی نظر چیک کرواتے رہنا چاہیے۔ بالوں کی حفاظت اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے اور قدرتی خوبصورتی کو دوبالا کرنے کے لیے بالوں کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ گرد آلود میلے اور خشکی سے اٹے ہوئے بال بہت برے لگتے ہیں۔ جبکہ خوبصورت بال ایک مخصوص حسن رکھتے ہیں۔ اس لیے بالوں کو ہفتے میں کم از کم چار مرتبہ اور گرمیوں کے موسم میں تین چار روز کے بعد دھونا چاہیے۔ صابن بالوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے اپنا سر کسی اچھے شیمپو سے دھوئیںاور بعد میں کھلے پانی سے خوب اچھی طرح دھوئیں تاکہ جھاگ باقی نہ رہ جائے۔ اس کے بعدتولیے سے اچھی طرح رگڑ کر خشک کر لیں۔ بالوں کی صحت کے لیے متوازن غذا بھی ضروری ہے پھل سبزیاں انڈے دودھ اور گوشت کھانے سے بالوں میںچمک اور ملائمت آ جاتی ہے۔ اگر آپ اپنے بال خشک ہیں تو ان پر سر دھونے سے پہلے اچھی طرح تیل کی مالش کریں۔ اس سے بال نرم ہو جاتے ہیں۔ اگرآپ کے بال چکنے ہیں تو ایسی صورت میں زیادہ مرتبہ سر دھونے سے یہ خرابی دو ہو سکتی ہے۔ بالوں کے لیے برش یا کنگھی علیحدہ استعمال کریں اور ان کو خوب اچھی طرح برش کر لیں۔ اس سے دوران خون تیز ہوتا ہے۔ جو بالوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کانوں کی حفاظت کانوں کی صفائی بھی نہایت ضروری ہے نہاتے وقت کانوں کے اندر سے بھی صاف کر لیں تاکہ ان میں سے صابن یا میل وغیرہ نکل جائے دھونے کے بعد نرم کر لیں مہینے میں دو مرتبہ تنکے پر روئی لگا کر اندر کی صفائی کریں۔ بدبو سے نجات Treating the Fould Smell جسم کے جوحصے نظر نہیں آتے ان کی صفائی بھی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ مثلاً بغلوں کی بدبو کے لیے غسل نہایت ضروری ہے۔ غسل کے بعد جسم کو اچھی طرح خشک کر نے کے بعدبغلوں میں خوشبودار پائوڈر اور ڈیوڈرینٹ (Deodorant)لوشن لگا لینا چاہیے۔ اس لوشن کو پائوں کی بدبو دور کرنے کے لیے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ منہ کی بدبو دور کرنے کے لیے بازر میں طرح طرح کی خوشبو والی پیسٹ کے علاوہ مختلف لوشن ملتے ہیں۔ برش کرنے کے بعد اس لوشن سے کلی کر لینی چاہیے اس طرح منہ سے بدبو کچھ گھنٹوں کے لیے دور ہو جاتی ہے۔ صاف اورمناسب لباس Clean and Proper Dress لباس ہماری زندگی کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔ ا س کا بنیادی مقصد جسم کو ڈھانپنا اور آرام مہیاکرنا ہے۔ اس کے علاوہ لباس معاشرہ میں ہماری شخصیت کو اجاگر کر دیتاہے۔ اس لیے ہمیں اپنی شخصیت اپنے مشاغل موقع محل اور آب و ہوا کے مطابق صاف ستھری اور مناسب لباس پہننا چاہیے۔ 9.2گھر کی صفائی House Cleanliness گھر چھوٹا ہو یا بڑا س میں خواہ کس قدر خوبصورت خوشنما نفیس یا کس قدر ہی قیمتی ساز و سامان اور اشیاء کیوں نہ موجود ہوں۔ اگر وہ گرد آلود ہوں گی یا داغ دھبوں سے بھری ہو ں گی تو ان کی قیمت ان کی خوبصورتی و نفاست سب گرد و آلائش کے نیچے دب کرنہ صرف ماند ہو جائیں گی بلکہ وہ چیزیں گندی ہونے کی وجہ سے بھدی اور بدنما بھی لگنے لگیں گی۔ مثلاً مخمل کے صوفے اور پردے جن پر میل کچیل اور گرد کی وجہ سے دھبے اور لکیریں پڑی ہوں۔ ان کا ریکسین یا سوتی کپڑے کی پوشش والے ایسے صوفے سے موازنہ کریں جو بالکل صاف ستھرا ہو۔ پھر ذرا چاندی کی گراں قیمت اور منقش ایسی سجاوٹی پلیٹ کا جو اسے صاف نہ کرنے کی وجہ سے اس پر داغ دھبے اور مٹی جمی ہو مٹی کے صاف ستھرے اور چمکتے ہوئے گلدان سے تصور میں بصیری مقابلہ کریں تو آپ یقینا مٹی کے گلدان یا سوتی پوشش والے صوفے کو ہی پسند کریں گے۔ کیونکہ گندی چیزوں کو نہ صرف نگاہیں ہی رد کرتی ہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے یا ہاتھ لگانے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ کسی کچ مکان کے فرش و دیوار اگر لیپ شدہ اور صاف ستھرے ہوں تو ذہن کو اور نگاہوں کو چپس اور ٹائلوں کے اس فرش سے کہیں زیادہ سکون وار فرحت فراہم کرتے ہیں جس پر جگہ جگہ دھبے پڑے ہوئے ہوں جو مٹی سے اٹا ہو یا جو گندہ ہو اس لیے خوبصورت گھر بنانے میں صڑف اس کا ڈیزائن اور رنگ روپ ی اقیمتی سامان ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ جب تک گھر اور اس میں پڑا سازوسامان صا ف ستھرا نہیں ہو گا نفیس ترین یا قیمتی ترین چیزیں بھی اپنی قدر کھو دیتی ہیں صفائی نہ صرف نگاہوں کے لیے باعث تسکین ہوتی ہے بلکہ یہ چیزوں کے رنگ روپ کی بحالی اور ان کا نیا پن برقرار رکھنے یا شن میں اضافہ کرنے کے لیے بھی ضامن ہوتی ہے۔ صفائی سے چیزوں کی پائیداری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صفائی کا سب سے بڑا فائدہ و مقصد صحت اور تندرستی کو قائم رکھنا ہے۔ ہمارے مذہب میں جو صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اس کے پس پشت یہی بڑے بڑے فوائد موجود ہیں۔ اس لیے اپنی ذات ہو یا گھر یا کوئی بھی ماحو صفائی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ گھر میں سینکڑوں طرح کی چیزیں موجود ہوتی ہیں جن میں سے بعض کو تو ہر روز متعدد بار استعمال کیا جاتا ہے۔ اوربعض کو کبھی کبھار استعمال کیا جاتاہے۔ چیزیں خواہ کیسی ہی نوعیت کی کیوں نہ ہوں ان میں سے ہر ایک کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔ لیکن گھر کی ہر ایک چیز کی چونکہ روزانہ تفصیلی صفائی کرنابالکل ہی ناممکن عمل ہے۔ اس لیے گھریلو صفائیاں تین حصوں میں منقسم کی جا سکتی ہیں۔ مثللاً روزانہ صفائی ہفتہ وار صفائی اور موسمی صفائی۔ ۱۔ روز مرہ کی صفائی Daily Cleaning روز مرہ صفائی میں ایسی صفائیاں شامل ہیں جو روزانہ بآسانی کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً گھر میں جھاڑو لگاناا فرش پر کپڑا لگانا چیزوں کی جھاڑ پونچھ کرنا باورچی خانے اورغسل خانے کے برتنوں مثلاً فلش بیسن وغیرہ اورکوڑے کرکٹ کی ٹوکریوں اور ڈبوں کی صفائی دھلائی وغیرہ۔ روزانہ صفائی کے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ گھر کو تازہ ہوا لگوانا Airing صبح اٹھتے ہی پہلا کام گھروں کے دروازے کھڑکیاں وغیرہ کھولنا اور پردے ہٹانا ہے تاکہ رات بھر کی بند و تنقید اور جراثیم آلود ہوا خارج ہو کر تازہ ہوا گھر میں داخل ہو سکے اس طرح بدبو اور فضا میں گھٹن کے علاوہ کئی بیماریوں سے بھی تحفظ رہتا ہے۔ بستروں کی درستگی Stripping Beds بستر سے اٹھتے ہی انہیں بچھا دینے کے بجائے اس کی چادریں گدوں وغیرہ کو تھوڑی دیر کے لیے ہوا لگوانا ضروری ہے۔ تاکہ انہیں بھی تازگی پیدا ہو سکیل اگر بستر ہکے ہوں تو کمرے سے باہر ہوا میں یا دھوپ میں پھیلا دیں اور وزنی بستروں کی صورت میں مثلا ً فوم یا سپرنگ کے گدوں کو پلنگ پر ہی موڑ کر دوہرا کردیں۔ تاکہ ان کے نیچے سے ہوا خوری ہو سکے۔ اور ان کی چادریں صحن میں پھیلا دیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد انہیں جھاڑ کر صحیح طریقے سے بچھایا جا سکتا ہے۔ اور اگر جھاڑوں بھی صبح ہی لگانا ہو تو جھاڑو کے بعد انہیں بچھایا جا سکتا ہے۔ اس کا انحصار صفائی کے اوقات پر ہے۔ جھاڑو لگانا Sweeping جھاڑ و مختلف قسم کے ہوتے ہیں جن کا انتخاب فرش کی سطح کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فرش پر برش بھی استعمال کیا جاستکا ہے۔ صورت کچھ بھی ہو جھاڑو لگانے سے بیشتر مندرجہ ذیل اقدامات پر عمل کرنا چاہیے۔ ۱۔ متعدد چھوٹی چھوٹی اشیاء جو ایک گروپ میں اکٹھی پڑی ہوں۔ مثلاً کتابیں سجاوٹی چیزیں کھلونے وغیرہ۔ ان کو کپڑے یا کاغذ سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ گرد آلود ہو کر ان کی صفائی میں دقت پیدا نہ ہو۔ ۲۔ کمرے میںپڑے ہوئے ایش ٹرے یا انگیٹھی وغیرہ کی راکھ اور سگریٹ کے ٹکڑے جمع کر کے انہیں کمرے میںپڑی ہوئی ٹوکری یا ڈبے میں گرا کرخالی کر لیں۔ خاکستر دان کو حسب ضرورت دھو کر خشک ہونے کے لیے اوندھا رکھ دیں۔ ۳۔ کمرے میں جھاڑ و لگانے سے بیشتر کمرے میں میز پوش پلنگ پوش یا اسی طرح کے لٹکتے کپڑوں کے کناروں کو اٹھا کر اوپر کی طرف موڑ دیں۔ یا دوہرا کریں تاکہ وہ محفوظ رہیں اور صفائی بھی چیزیں کے نیچے تک ٹھیک طرح ہو سکے۔ ۴۔ قالین غالیچے یا فرشی دری پر برش یا بانسی جھاڑو لگائیں اور چھوٹے چھوٹے غالیچوں اور پائیدان کو الٹا کر کے دھوپ میں کسی چیز کے سہارے ڈال دیں۔ ۵۔ قالین کی صفائی کرتے وقت برش اس کے بر کے رخ پھیریں تاکہ گرد و غبار اندھر دینسنے کے بجائے ٹھیک طرح سے نکل سکے اور بر بھی نہ اکھڑے۔ قالین کے کناروں تک صفائی کر کے انہیں اندرونی جانب موڑدیں تاکہ فرش کی صفائی کے دوران اس کے نیچے تک صفائی ہو سکے ۔ ۶۔ دیواروں اور کونوں میں جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتا ہے جھاڑوں سے پہلے ان اونچی جگہوں سے صفائی کریں تاکہ ان کی گرد زمین پر گر جائے۔ ۷۔ جھاڑ و لگاتے وقت جس قدر ہو سکے دیوار کے ساتھ ساتھ فرش کے کونوں تک جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتا ہو کونوں کھدروں سے بھی صفائی کرنی چاہیے۔ تاکہ لگے جالے صاف ہو جائیں اور آئندہ جالوں سے حفاظت رہے۔ اس کے علاوہ کرسیوں میزوں چارپائیوں اور دیگر فرنیچر کے پائے اٹھا کر نیچے سے صفائی کریں اور سارے کمرے کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ جمع کر کے کمرے میں رکھے ڈبوں یا ٹوکری میں ڈال دیں اور اسے کمرے سے باہر نکال دیں۔ ۸۔ جھاڑو لگاتے وقت زور سے تیز تیز ہاتھ چلا کر صفائی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے دھول ایک جگہ سے اڑ کر دوسری چیزوں پر پڑنے لگتی ہے۔ اس لیے جھاڑو یا برش ہمیشہ آہستگی سے مگر قدرے دبا کر لگانا چاہیے۔ کوڑے کے ڈبے یا ٹوکری صاف کرنا Cleaning of Dust Bins ہر کمرے میں کوڑے کرکٹ کے لیے الگ الگ ڈبے یا ٹوکری کا ہونا ضروری ہے تاکہ پنسل کا برادہ پھٹے کاغذ‘ فالتو کترنیں اور دیگر فالتو گند ادھر ادھر پھیکنے کے بجائے اس میں پھینکے جا سکیں۔ جھاڑو لگانے کے بعد سارا کوڑا کرکٹ ڈسٹ بن پر جمع کر کے اس میں ڈال لیں اور کمرے سے باہر نکال دیں۔ سارے گھر میں جھاڑو لگا لینے کے بعد ساری ٹوکریاں گھر کے صحن میں رکھے ہوئے ڈبے میں الٹا کر خالی کر لیں اور ان کی دھلائی یا حسب ضرورت صفائی کر کے ہلکے فینائل کے محلول سے کھنگالیں اور دھوپ میں اوندھا کر دیں۔ صفائی ختم ہونے تک خشک ہو جائیں گے۔ پھر انہیں دوبارہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس رکھ دیں کپڑے یا کاغذ لگے ڈبوں کو دھونے کے بجائے جھاڑاپونچھا جاتا ہے۔ جھاڑ پونچھ کرنا Dusting ہمارے ملک میں موسم اور فضائی ماحول کومدنظر رکھتے ہوئے جھاڑو لگانے کے بعد جھاڑ پونچھ کرنی بہتر رہتی ہے۔ جبکہ مغربی ممالک میں فضا کے صاف سھتر ا ارو گرد سے پاک ہونے کی بنا پر چیزوں کی جھاڑ پونچھ پہلے کی جاتی ہے۔ اگر جھاڑ پونچھ پہلے کرنی مقصود ہو تو صاف کیے ہوئے فرنیچر وار دوسری چیزوں پر اخبار کا کاغذ یا چادریں وغیرہ ڈال کر ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ یہ فرش کی گرد سے محفوظ رہیں کیونکہ چیزوں پر ذرا سی گرد بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ جھاڑ پونچھ کے مندرجہ ذیل اصول ہیں۔ ۱۔ چیزوں کی جھاڑ پونچھ کرتے وق ہمیشہ پہلے ااونچی اونچی اور بڑی چیزوں کی صفائی کریں۔ مثلا کھڑکیاں دروازے۔ ۲۔ پوشش شدہ فرنیچر مثلاً صوفہ سیٹ گدیاں کرسیاں اور دیگر فرنیچر صاف کریں۔ اگر گدیاں اور پوشش شدہ فرنیچر کر برش سے صاف کریں تو احتیاط رکھیں کہ ان کی گرد زمین پر نہ گرے بلکہ ایک کونے میں اکٹھا کرلیں اور ڈسٹ پین (Dust Pan)پر اتار لیں۔ گدیاں جھاڑ کربرش سے صا ف کریں۔ ۳۔ بستر کی چادریں اگدے اور میز پورش وغیرہ جھاڑ کر دوبارہ بچھائیں تاکہ ان میں تازگی پیداہو سکے اول تو پلنگ بچھانے کے بعد ان پر ہاتھ پھیر کر تمام شکنیں رفع کر دین اورکنارے تہہ کے انداز مین اوپر اٹھا دیں تاکہ فرش پرکپڑا لگانے وقت خراب ہونے کا احتمال نہ رہے ورنہ بے ڈھنگے انداز میں انہیں اکٹھا مت کریںَ شکنیںپڑ جائیں گی اور نہایت بدنما تاثرات پیدا ہوں گے۔ ۴۔ پھر کمرے میں بڑی بڑی چیزیں اور فرنیچر مثلاً انگیٹھی صوفے کرسیاں دیوار پر لگ ہوئی تصویریں میز اور کتابوں والے شیلف وغیرہ صاف کریں۔ گروپ میں اکٹھی پڑی چیزوں کی روز مرہ جھاڑ پونچھ کے لیے پروں کا برش نہایت مناسب رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سجاوٹی اشیاء کی صفائی آخر میں کریں تاکہ کمرے میں موجود ہر چیز کی اچھی طرح صفائی ہو جائے۔ ۵۔ چیزوں کی جھاڑ پونچھ کے لیے ہمیشہ نرم جاذب اور سوتی قسم کا کپڑا جس کا بریا رواں نہ نکتا ہو استعمال کرنا چاہیے۔ مثلا قالین کا کپڑا۔ دھلا پرانا تولیا یا کوئی وار موٹا نرم اور ملائم سوتی کپڑا۔ ۶۔ جھاڑن کو ہمیشہ معمولی سا نم دار کر لیں اور اس کا ایک کونہ یا پھر الگ کوئی چھوٹا سا ٹکڑا گیلا کر کے ساتھ رکھیں تاکہ زیادہ جمے ہوئے دھبوں کو اتارنے کے لیے آسانی ہو نم دار کپڑے سے گرد اڑ نے سے بچ جاتی ہے۔ وار وہ گرد کو خود میں جذب کر لیتا ہے یا چمٹا کر اٹھا لیتاہے۔ جس سے چیز میں چمک سی پیدا ہو جاتی ہے۔ ۷۔ جھاڑ پونچھ کبھی چیزوں پر زو ر زور سے کپڑا مار کر نہیںکرنی چاہییے۔ اس سے گرد ایک چیز سے اڑ کر دوسری چیزپر بیٹھ جاتی ہے۔ اور صفائی کر چکنے کے بعد بھی ہر چیز گندی ہی رہتی ہے۔ اس یلے ہمیشہ ہاتھ نرم سے گولائی کے رخ چیزوں پر ہاتھ پھیریں۔ ۸۔ کسی بھی میز کی سطح کو چمکانے کے یلے ان پر دبا کر کپڑا پھیرنا غلط امر ہوتاہے۔ ہلکے ہاتھ سے بار بار کپڑا پھیرنے سے صفائی زیادہ ہوتی ہے اور چمک میں اضافہ ہوتاہے۔ ۹۔ روئی کاغذ یا کپڑے سے بنی چیزوں پر بھی نم دار کپڑا نہیں لگانا چاہیے۔ بلکہ برش سے یا انگلی سے جھٹک کر انہیں جھاڑ ا جا سکتا ہے۔ جھاڑ پونچھ کرنے کے بعد صفائی والا کپڑا صابن سے دھو کر خش کر لیں تاکہ ا س میں بدبو بھی نہ پیدا ہونے پائے۔ کپڑا لگانا Mopping جھاڑو لگانے سے کوڑا کرکٹ اور زیادہ تر گرد و غبار صاف ہوتا ہے۔ مگر نہایت باریک اور پائوڈر نما ملائم گرد اکثر جھاڑو سے اچھی طرح جمع نہیں ہو سکتی۔ جس کی وجہ سے فرش میں چمک بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ فرش پر لگے داغ دھبے صاف کرنے اور اس میں چمک پیدا کرنے کے لیے اس پر کپڑا لگانا ضروری ہے۔ کپڑ ے پر چونکہ فینائل کا استعما ل بھی کیا جاتا ہے اس لیے یہ صفائی کے ساتھ ساتھ نہایت جراثیم کش فضا بھی پیدا کرتا ہے۔ فرش پر لگانے والا کپڑا نرم جاذب او رموٹا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ گرد و غبار اور دھبے وغیرہ جذب کر سکے۔ غیر جاذب کپڑے سے دھبے اٹھائے نہیں جاسکتے بلکہ فرش پر ہی ملتے ہیں۔ اس لیے پرانا تولیا ٹاٹ یا بوری یا کوئی موٹا کپڑا کھیس وغیرہ اس مقصد کے لیے بہترین رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں مختلف کپڑوں سے بچی کپڑوں کی کترنوں کو ایک طرف سے اچھی طرح کسی ڈنڈے یا رسی سے باندھ کر بھی استعمال کیا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ بالٹی میں فینائل والا پانی ملا لیں اور ہر کمرے مین لگانے سے پہلے کپڑا دھو کر فینائل کے پانی میں بھگوئیں اور دبا کر نچوڑیں۔ اگرہو سکے تو دو تین منٹ ہو یا دھوپ میں پھیلا دیں تاکہ نرم کپڑانم دار ہو جائے۔ کیونکہ گیلا کپڑا لکیریں چھوڑتاہے اور نم حالت میں کپڑا بہترین صفائی کرتا ہے جھاڑو کی طرح کپڑا لگاتے وقت بھی فرنیچر کے پائے اٹھا کر اور نیچے چیزوں کے نیچے تک کپڑا لگانا چاہیے۔ اگر زیادہ دورتک ہاتھ نہ جائے تو کسی ڈنڈے پر کپڑا ڈال کر جس قدر ممکن ہو دور تک صفائی کرنی چاہیے۔ کمرے کے ایک کونے سے صفائی شروع کریں۔ کپڑا سامنے کی طرف رکھ کر دائیں بائیں دونوں جانب جہاں تک ہاتھ جائے کپڑٓ لگاتی جائیں۔ داغ دھبے اتارنے کے لیے تھوڑا سا رگڑ لیں۔ بیشتر دھبے اسی طرح صاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن چند مخصوص قسم کے دھبے کی صفائی کے طریقے بھی مخصوص ہوتے ہیں۔ سمینٹ یا اینٹوں کے کھردرے فرش کو دھونا بہتر ہوتا ہے یا پھر وہاں خوب گیلا کپڑا لگانا چاہیے۔ جس سے دھلائی کا کام لیا جا سکتا ہوں۔ اس مقصد کے لیے پانی کی بالٹی کے ساتھ رکھنی چاہیے اور تھوڑے تھوڑے حصے پر کپڑا لگا کر اسے ہر بار بالٹی میں دھول لینا چاہیے اور ہر کمرے کے لیے تازہ اور صاف پانی لینا چاہیے۔ بالٹی میں آخری بار فینائل کا ڈالنا بھی ضروری ہے تاکہ کونوں کھدروں میں کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا نہ ہو سکیں۔ صفائی کے بعد کپڑے کو اچھی طرح دھو کر اورنچوڑ کر دھوپ میں خشک ہونے کے بعد کسی مخصوص جگہ پر رکھنا چاہیے۔ چیزیں واپس ٹھکانے پر رکھنا Replacing Things Back کمروں کے اندر کی صفائی مکمل کر لینے کے بعد تمام وہ چیزیں جنہیں صفائی کے دوران باہر دھوپ دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا یا اپنے مقام سے ہٹایا گیا تھا انہٰں اپنے مقام پر واپس رکھیں مثلاً ۱۔ پائیدان یا فٹ پیڈز وغیرہ کو جھاڑ کر یا برش لگا کر واپس اپنی جگہوں پررکھیں۔ ۲۔ کمروں سے نکالی ہوئی ٹوکریاں یا کوڑے کے ڈبوں کو واپس رکھیں۔ ۳۔ پردے نیچے گرا کر حسب ضرورت پھیلا دیں یا بند کر دیں اور بستر میز پوش اور چادروں کے کنارے درست کر کے نیچے گرا دیں۔ ۴۔ روز مرہ کی استعمال کی کتابوں جوتوں اور کپڑوں کو اپنے ٹھکانوں پر رکھیں۔ کتابیں شیلف یا میز پر صحیح طریقے سے ترتیب دیں۔ جوتوں کو ریگ الماری کے نچلے خانوں یا لٹکانے والے تھیلے کی بنی ہوئی میزوں میں ڈال دیں۔ میلے کپڑے متین مقام پر کسی ٹوکری یا تھیلے میں ڈال دیں اور صاف کپڑے ہینگرز میں لٹکا کر الماری میں لٹکا دیں یا تہہ لگا کر رلماری یا دارازوغیرہ میں رکھیں۔ پھولوں سے آرائش کرنا Arranging Flowers جب کمرہ بالکل صاف اور چمک دار ہو جائے تو اس کے حسن میں اضافہ کرنے کے لیے تازہ یا خشک پھول پتوں سے آرائش کر لینے سے کمرے کی شان دوبالا ہو جاتی ہے۔ اگر آرائش تازہ پھول پتوں سے کی جائے تو کمرے میں مہک تازگی جاویدانی اور رنگت پھیل جاتی ہے۔ جیسے انگیٹھی کونے کے میز کافی ٹیبل یا درمیانی میز وغیرہ کے علاوہ دیوار کے ساتھ بھی رکھا جا سکتا ہے اور یہ آرائش گل گھر والوں کے ذوق کا مظہر ہونے کے علاوہ صفائی اور گھریلو خوبصورتی کو بھی چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ۱۱۔ ہفتہ وار صفائی اور ماہوار صفائی Weekly Monthly Cleanings گھرداری ایک ایسا مشغلہ ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہیںہونے پاتا صرف گھر کی صفائی ہی ایک ایسا پہلوہے جسے ایک دن میں مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ کئی گھنٹوں کی روزانہ صفائی کے باوجود گھروں میں صفائی کا ایک بڑا حصہ ہر وقت ہماری توجہ کا منتظررہتا ہے۔ جسے روازانہ صفائی میں شامل کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے اوراس سے پہلو تہی بھی نہیں کی جا سکتی مثلاً برتنوں کپڑوں مصالحوں وغیرہ کی الماری کے اندرونی تفصیلی صفائی کے ڈبوں شیشوں مختلف آرائشی چیزوں کی دھلائی صفائی اور پالش وغیرہ کھڑکیوں شیشوں کی صفائی چھتوں اور دیواروں کی صفائی وغیرہ چونکہ یہ سب کام قدرے محنت طلب ہیں اس ییل انہیں ہفتے میں کوئی مناسب دن مقررکر کے انجام دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے چھٹی کا دن بہتر رہتا ہے۔ مگر اتنے ڈھیر سارے کام ایک ہی دن میں مکمل کرنے سے بھی ناممکن اور اعث تھکن ہوتے ہیں اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان تمام کاموں کو سارے ہفتے میں پھلیلا کر یوں بانٹ لیا جائے کہ ہر دن ایک کام باآسانی سے تکمیل پا سکے۔ مثلاً فرش کو اییک دن دھات کی چیزوں کو دوسرے دن پالش کر لیاجائے۔ پھر کسی دن دیواریں اور جالے صا ف کیے جا سکتے ہیںوغیرہ ۔ ان کاموں میں سے بھی بعض کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہفتہ وار کرنے کی بجائے اگر مہینے کے دنوںمیں بھی ایک بار کر لیا جائے تو ان کو اگلے مہینے تک کے لیے صفائی کافی ہوتی ہے۔ اس طرح کاموں کی یہ تقسیم ہفتے کے دنوں کے علاوہ مہینے کے دنوں میں بھی کی جا سکتی ہے تاکہ کم وقت میں کم محنت سے تمام کام بہ احسن طریق انجام پا سکیں۔ اس کے علاوہ چھٹی کے دن ایسی صفائیاں مقرر کرنی چاہئیں جن میں گھر کے دوسرے افرادکا تعاون بھی شامل ہو تاکہ ایک ہی دن میں متعدد بار اور بڑے بڑے کام نمٹ سکیں۔ گھر کی ہفتہ وار صفائیوں میں مندرجہ ذیل صفائیاں شامل ہیں۔ ۱۔ جالے اتارنے ۲۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں مثلاً بستر وغیرہ کو دھوپ لگوانا۔ ۳۔ قالین کی صفائی ۴۔ غلاف اور چادریں تبدی کرنا۔ ۵۔ حسب ضرورت پوشش کی صفائی۔ ۶۔ کھڑکیوں کی صفائی ۷۔ الماریاں درست کرنا۔ ۸۔ دھات کی چیزوں کی پالش ۹۔ بیسن فلش وغیرہ کی صفائی۔ وقت کی کمی یا کام کی زیادتی کے باعث اگر مندرجہ ذیل کاموں کو ہفتے میں ایک بار نہ کی اجائے تو انہیں کم از کم مہینے میں ایک بار کرنا ضرور ی ہے۔ علاوہ ازیں ہفتہ وار صفائیوں میں بعض اشیاء مثلاً الماریاں وغیرہ کی صفائی تفصیلی نہیں ہو سکتی۔ محض بے ترتیب اشیا کو درست کیا جا سکتاہے۔ جبکہ ماہوار صفائی قدرے زیادہ تفصیلی ہوتی ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل صفائیاں شامل ہیں۔ ۱۔ کمرے کی دیواریں‘چھتیں صا ف کرنا ۲ پردے جھاڑنا ۳۔ قالین کی صفائی۔ ۴ فرش کی پالش۔ ۵۔ بیسن فلش کی صفائی۔ ۶۔ کھڑکیوں کے شیشے ‘ آئینوں وغیرہ کی صفائی۔ ۷۔ کتابوں کے ریک‘ شیلف وغیرہ کی صفائی۔ ۸۔ الماریوں کی صفائی۔ ۹۔ فرنیچر کی پالش۔ کمرے کی صفائی ۱۔ کمروں کی ایسی چیزیں جو آسانی سے باہر نکالی جا سکتی ہوں۔ مثلاً گدیاں گدے تکیے پائیدان چھوٹی قالین وغیرہ انہیں باہر دھوپ اور ہوا میں رکھ دیں اور دھاتی شیشوں کی بنی ہوئی اور دیگر ایسی سجاوٹی اشیاء جنہیں پالش کرنا درکار ہو اکٹھا کرکے باہر ایک طرف رکھ دیں۔ ۲۔ اگر قالین بڑے ہوں تو پہلے اس کا وسطی حصہ اچھی طرح صاف کر لیں پھر اس پر پڑی ہوئی کرسیاں میز صوفے یا پلنگ وغیرہ ہل اکر اس کے وسطی صاف حصے پر رکھ دیں۔ خیال رہے کہ اگر فرنیچر پوشش شدہ ہے تو قالین سے بیشتر اس کی صفائی ہو گی پھر قالین کے کناروں اور بیرونی حصوں کو اچھی طرح برش لگا کر صاف کریں اور انہیں زیادہ سے زیادہ اندر کی طرف موڑ دیں۔ قالین اور اس پر پڑے ہوئے فرنیچرکر کسی پرانی چادر یا اخبار کے کاغذوں سے ٹھیک طرح ڈھانپ لیں تاکہ دیواروں کی صفائی کے دوران ان پر گرد نہ پڑے۔ ۳۔ بانس پر جھاڑو باندھ کر یا بہتر طریقہ بالوں والے برش کا ہے۔ اسے باند ھ کر جہاں تک ممکن ہو چھتوں کے وسط میں علاوہ کونوںاور کناروں کی بھی صفائی کریں۔ تاکہ سارے جالے اتر جائیں پھر اسی سے دیوار کے کونوں کو بھی چھت سے لے کر زمین تک صاف کریں ۔ دیواروں کی صفائی کے لیے بانس پر پرانا کپڑا لپیٹ کر بھی صفائی کی جا سکتی ہے۔ دیواروں کو بالائی حصہ جہاں تک ہاتھ نہ جائے بانس سے صاف کریں اور نچلا حصہ ہاتھ میں جھاڑو و برش یا کپڑے کی مدد سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے۔ اگر جالوں والے برش کے اوپر نرم سا کپڑ لپیٹ کر گدی سی بنا لیں تو دیواروں پر مٹی اچھی طرح صاف ہو جاتی ہے۔ ۴۔ مہینے میں ایک بار اگر پردوں کو کھول کر کسی برش یاجھاڑو سے ویسے ہی لٹکے لٹکے دونوں طرف سے جھاڑ لیا جائے تو مدتوں ان کی دھلائی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ۵۔ کھڑکیوں کے فریم سلیس وغیرہ صاف کرکے ان کے شیشے بھی صف کریں چھوٹی تصویریں اتار کر ان کی صفائی کریں اور بڑی تصویروں کو ہلا جلا کر ان کے پیچھے کی دیوار کپڑے سے صاف کریں۔ ۶۔ فرش پرجھاڑو اور کپڑ ا لگا کر صاف کر لیں اور قالین کی عدم موجودگی میں فرش کو دھویا بھی جا سکتا ہے۔ دیواروں کے ساتھ لگی فرشی پٹی اور کونے بھی اچھی طرح صاف کر یں۔ حسب ضرورت اس کی رگڑائی کریں۔ ۷۔ جتنے عرصے میں فرش اچھی طرح سوکھتا ہے۔ اتنی دیر میں آپ کمروں سے اکٹھی کی ہوئی مختلف دھاتوں سے بنی سجاوٹی اشیاء کی اچھی طرح صفائی کر لیں۔ جنہیں پالش درکار ہو انہیں پالش کرنا چاہیے ورنہ انہیں ہفتے کے اور دن یں بھی پالش کیا جا سکتا ہے۔ ۸۔ فرش خشک ہونے پر قالین اور فرنیچر پر سے کاغذ اور چادریں احتیاط سے لپیٹ کر باہر لے جائیں انہیں ٹھیک طرح بچھا دیں اور چیزوں کو اپنے ٹھکانوں پر واپس رکھ دیں۔ ۹۔ کھڑکیوں اور تصویروں کے شیشوں اور آئینوں کے لیے دھوبی سوڈے کا محلول میتھلیٹڈ سپرٹ یا سرکے میں بھیگا ہوا کپڑ ا نہایت موثر رہتا ہے۔ IIIموسمی صفائی Seasonal Cleanings ہرموسم کے اپنے تقاضے اپنا فضائی ماحول ہوتاہے جو انسانی ضروریات کے علاوہ کئی دوسرے گھریلو مشاغل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ موسموں کی تبدیلی گھریلوں صفائیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور مخسوص طریقوں کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریبا ہر تین ماہ بعد موسم تبدیل ہوجاتاہے۔ جن کے تقاضوں کے مطابق لباس ک علاوہ استعمال کی چند گھریلو اشای میں بھی تبدیلی لانا ضروری ہو جاتا ہے۔ مثلاً گرمیوں اور برسات میں قالینوں کا اٹھا دینا ہلکے اور ٹھنڈے بستر نکالنا وغیرہ۔ جبکہ سردیوں میں فرش جو کہ قالین یا بچھونے کے بغیر دکھائی دیتا ہے۔ اسے دیکھتی ہی ٹھنڈ سی لگنے لگتی ہے۔ اس موسم کے تقاضوں کے مطابق موٹے گدے لحاف اور گرم بستر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام موسموں میں برسات کا موسم سب سے زیادہ صفائی طلب ہوتا ہے۔ جو بھرپور کیڑوں مکوڑوں کی یلغار کے ساتھ آتا ہے۔ اور جاتے جاتے گھر عمارات اور درودیوار رپ اپنے نشانات چھوڑ جاتاہے۔ مسلسل بارشوں سے کمروں کی دیواروں میں نمی آ جاتی ہے۔ کالی لکیریں بھی پڑ جاتی ہیں۔ سفیدیاں جگہ جگہ سے نرم ہو کر اکھڑ جاتی ہیں۔ جالیاں زنگ آلود ہو جاتی ہیں اور دروازوں کے رنگ و روغن تک خراب ہو جاتے ہیں مغربی ممالک میں برف باری کے بعد اور ہماری ملک میں موسم برسات کے بعد گھر کے درو دیوار مکمل صفائی سفیدیوں اور روغن پالش کے محتاج ہوتے ہیں۔ جبکہ چند صفائیاں دوسرے موسموں کی تبدیلی پر بھی کی جاتی ہیں۔ ان موسمی صفائیوں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔ ۱۔ دیواروں پرسفیدی روغن یا ڈسٹمپر وغیرہ کرانا۔ ۲۔ چھتوں میں حسب ضرورت پڑی دراڑوں کی بھرائی کرانا۔ کچی چھتوں پر لپائی کرنا وغیرہ۔ ۳۔ دروازوں کھڑکیوں کی دھلائی پالش یا حسب ضرورت روغن کرانا۔ ۴۔ جالیاں سوڈے سے دھونا اور ان پر چاندی رنگ کرانا۔ ۵۔ رنگ روغن کے بعد فرش اور دیواروں پر لگے دھبے صاف کرنا۔ ۶۔ قالین دریوں وغیرہ کی سالانہ صفائی کرنا جس میں دھلائی ڈرائی کلیننگ اور ایسی ہی تفصیلی صفائی شامل ہے۔ ان کی موسمی صفائی موسم گرما میں انہیں اٹھا کر اندر رکھنے سے بیشتر ہی کی جا سکتی ہے۔ ۷۔ فرنیچر کی تفصیلی صفائی جس میں حسب ضرورت پوشش کی تبدیلی فرنیچر پرپالش یا روغن وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ۸ پردوں کی دھلائی یا صفائی۔ ۹۔ الماریوں کے اندر کی ہر چیز مثلاً ڈبے بوتلیں ٹین کپڑے وغیرہ تفصیلی صفائی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کمرے کی موسمی صفائی کا طریقہ چھتوں پر ٹھیک لپائی کا دراڑوں میں بھرائی کے بعد کمرووں کو سفیدی کرانے کا مسئلہ آتاہے جس کے لیے ساز وسامان باہر نکا ل کر دھوپ میں رکھنا اس لیے بہتر ہوتاہے کہ سال میں ایک آدھ مرتبہ اگر چیزوں کو چند گھنٹوں کے لیے دھوپ دکھائی جائے تو اس کے کونوں چھدروں اور سلائیوں کے اندر دھنسی ہوئی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے اور ان کے انڈے ختم ہوجاتے ہیں اور مزید پیدا نہیں ہوتے۔ اگر فرنیچر باہر نکالا جائے تو حسب ضرورت اس کی بھی صفائی کر کے ان پر کوئی فالتو کپڑا یا کاغذ وغیرہ ڈال کر ڈھانپ دینا چاہیے۔ تاکہ ان کی پالش یا رنگت تیز دھوپ میں خراب نہ ہو۔ کمرہ خالی کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ اس میں بھرپور ہو ا اور دھوپ کا گزر ہو سکتا ہے۔ جس سے دیواروں کی نمی باقی نہیں رہتی۔ اگر چیزوں کو باہر نکالنا مقصود نہ ہوتو کم از کم قالین اور سارے بچھونے اٹھا کر لپیٹ دیں۔ یا اہیں بھی صفائی کے مقصد سے دھوپ میں ڈال دیںَ دیوار کے ساتھ لگا بڑا بڑا فرنیچر اورالماریاں دیوار سے ہٹا کر جس قدر ہوسکے کمرے کے وسط میں یا وسطی جانب کر دیںتاکہ دیواریں اچھی طرح صاف ہو سکیں اور ان کے پیچھے سے ہوا بخوبی گزر سکے۔ اور وہ آسانی سے خشک ہو جائیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی انہی کے درمیان کھپت کر دیں اور تمام چیزیں گروپ میں ایک جگہ اکٹھی کر دیں ناپر کوئی بڑی سی فالتو چادر اخباروں کے کاغذ یا مومی کاغذ میں ڈال کر اچھی طرح ڈھانپ دیں۔ تاکہ سفیدی یا روغن کے دھبے ان پر نہ گریں۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر بھی اگر کاغذ ڈال کر ٹیپ کہیں کہیں جما دیں تو ان کی بھی حفاظت رہتی ہے اور سفیدی کے بعد کام میں بے جا اضافہ نہیں ہونے پاتا۔ اسی طرح اگر فرش کو بھی سفیدی اور رنگ و روغن کے دھبوں سے محفوظ رکھنا ہو تو اس پر بھی مومی کاغذ یا اخبار یا فالتو کاغذ بچھا کر ان پر کہیں کہیں پتھر یا وزن رکھ دیںَ یا کہیں کہیں ٹیپ لگا دیں تو کاغذ کام کے دوران اڑتے نہیں۔ اسی طرح کھڑکیوں کی سلوں پر بھی کاغذ وغیرہ بچھانا چاہیے سفیدی ختم ہونے کے بعد یہی کاغذ وغیرہ دوسرے کمرے کی اشیاء پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاکہ فرنیچر اور دیگر ڈھانپی گی اشیاء کی حفاظت رہے کیونکہ دھبے نہ صڑف اتارنے ہ کا مشکل مرحلہ ہوتا یہ بلکہ انہیں اتارتے وقت اکثر اوقات چیزوں کی رنگت پالش اور چمک بھی خراب ہو جاتی ہے۔ دھبے اتارنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ خصوصاً فرنیچر اور فرش پر پڑے دھبے وقت کے ساتھ ساتھ محنت طلب بھی ہوتے ہیں اور جو خواہ مخواہ تھکن اور وقت کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں اگر کام شروع کرنے سے پیشتر ان چیزوں کو ڈھانپنے میں چند منٹ صرف کر لیے جائیں تو سفیدی کے اختتام پر کئی گھنٹوں کے وقت اور محنت کی بچت کسی دوسرے مفید کام میں استعمال ہو سکتی ہے۔ 9.3 Good Grooming سیٹھی کشن کو صوفوں کے اوپر نمایاں جگہ رکھیں اور وہ ان کے حسن میں اضافہ کرتے ہییں اور کمرہ جان دار لگنے لگتا ہے۔ پہلا قدم تو یہ اٹھائیں کہ کشن کے خدوخال میں تبدیلی کر کے انہیں اپنی اصلی شک میں لے آئیں اور پھر ان کے غلاف تبدیل کر دیں۔ ضرورت محسوس ہو تو ان کی تعداد میں اضافہ کر کے صوفہ پر ٹکے ہوئے داغ دھبوں کو چھپا دیں۔ اگر سیٹھی پلین رنگ کی ہے تو پھر پھولدار اور شو خ رنگوں کا غلاف انتخاب کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ گہرے سرخ یا نیلے رنگ کے ملٹی کلر غلاف خرید لیں۔ اگر آپ کی سیٹھی پہلے سے پھولدار ہے تو پھر سادہ رنگوں والے کشن خریدیں۔ جن کے شیڈ ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔ ڈیکوریشن پیس نما کشن سے کمرہ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتاہے۔ یکسانیت کا شکار کمرہ پھیکا نظر آنے لگتاہے۔ اس لیے فرنیچر کو دوسرے حصہ میں ؤمنتقل کر کے اس کی ترتیب میں تبدیلی لائیں۔ Welfare Services بنیادی طورپر انسان بھی ایک ایسا معاشرتی جانور ہے جس کی اپنی پسند ناپسند عادات و اطوار امیدیں خواہشات ہوتی ہیں۔ لیکن عموماً دوسروں سے قدرے مختلف تاہم یہ خصوصیت سب میں مشترک ہے کہ انہیں چاہا جائے۔ معاشرے میں اعلیٰ مقام دیا جائے۔ روزمرہ کا یہی مشاہدہ ہے کہ کچھ لوگ زیادہ پسند کیے جاتے ہییں اور کچھ کم۔ ان میں سے بعض کو ان کے اقتدار دولت خوبصورتی کے باعث پسند کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض دوسروں کو ان کی اپنی ذاتی خصوصیات اور کردار کے باعث فوقیت دی جاتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ بعض اعلیٰ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان کی اعلیٰ خصوصیات کو سمجھ لیں اور انہیں اپنے اندر پید اکرنے کی سنجیدہ کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان خصوصیات کے باعث ہم بھی ان کی طرح خوبصورت اور چاہے جانے کے قابل نہ بن سکیں۔ ذوق ظرافت پیدا کریں ذوق ظرافت کا حامل شخص زندگی کے کٹھن مسائل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو پر سکون رکھ سکتا ہے وار اس طرح اپنے اطراف کے انسانوں کا اعتماد بھی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ گھبرا گھبرا کر چہار جانب ایسی نظروں سے نہیں دیکھتا جیسے دنیا بھر کے مسائل اس کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیے گئے ہوںَ اس کے برعکس وہ کٹھن گھڑیوں میں بھی زندگی کے روشن پہلوئوں کو مدنظر رکھتا ہے ایسا شخص عمر بھر کے لیے دوست بنا لیتا ہے اور دوسروں کی نظروں میں چاہے جانے کے قابل بن جاتا ہے۔ شیخی ہرگز نہ ماریں کوئی شخص بھی شیخی خوروں کی صحبت میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ ہم سب ایسی خواتین سے ملتے ہیں جو کچھ اس قسم کے جملے بھی دہراتی رہتی ہیں۔ آپ تو جانتی ہیں کہ میرے پاس ساڑھیوں کا بہت نفیس ذخیرہ ہے یا یہ کہ میری والدہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس قسم کے الفاظ سننے والوں کے لییی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہاں اگر کوئی خود امارت پسند یا شیخی خواہ ہو تو پھر دوسری بات ہے۔ عام طور پر بڑے انسان کثیر النفس ہوتے ہیں۔ اسے بھی وسیع القلب صفت کار دیکھتے ہیں۔ جو بس اسٹینڈ سے مسافروں کو اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے گھروں تک چھوڑ آتے ہیں اور اپنی اصل شخصیت کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ انہیں ڈرائیونگ سمجھ بیٹھے لیکن ان کے ماتھے پر بل تک نہیںآتا اور وہ خاموش ہو کر مسکرا کر ہر گئے۔ ایک پرانی کہاوت آپ نے ضرور سنی ہو گی کہ پھلوں سے بھری ڈالی زمین کی طرف جھک جاتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہیں پرخلوص انسان دوسروں کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ پر خلوص انسانوں پر ہمیشہ بھروسہ کریں کیونکہ جہاں تک ممکن ہو گا وہ آپ کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ آپ خود بھی مخلص بننے کی کوشش کریں تاکہ دوسرے لوگ آ پ سے دوستی کرنے میں فخر محسوس کریں۔ میں نے اکثر کسی کے بارے میں اس قسم کے جملے بار بار سنے ہیں کہ وہ کتنی مخلص دوست ہے ہر باس یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت ایماندار محنتی اورمخلص ہوں۔ دوسروں کو سراھنا سیکھیں کیا آپ کے پاس دوسروں کی خوبیوں کو پرکھنے کی صلاحیت اور انہیںسراہنے کے لیے وسیع القلمی موجود ہے۔ مثبت جواب کی صورت مین آپ بلا شبہ چاہی جانے والی شخصیت ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو احساس نہیں کہ وہ اپنے میں کس قدر منہمک رہتے ہیں۔ اگر ہم صرف تھوڑی سی دیر کے لیے اپنی ذات کی سوچ کے دھارے میں سے نکل کر دوسروں کے اندر پائی جانے والی خوبیوں کو سراہنا شروع کریں تو اس طرح ہم اپنی دوستی کو زیادہ پائیدار بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی عزیز دوست سے کافی عرصہ کے بعد ملیں تو اس سے یہ ضرور کہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور صحت مند لگ رہی ہے یا اس کے اعزاز حاصل کرنے پر آپ کو کس قدر مسرت ہے۔ اگر آپ اپنی سہیلی کے کسی کمزور پہلو سے آگاہ ہیں تو اپنی ملاقات میں اس کا تذکرہ نہ کریں بعض لوگوں کی یہ عادت بڑی تکلیف دہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ پہلی ہی ملاقات میں گفتگو کا آغاز منفی انداز میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ہائے اتنے دنوں میں آپ اتنی دبلی اور کمزور ہو گئی ہیں کیا آپ بیمار رہتی ہیں یقین رکھیں کہ اگر آپ اس کی دوست ہیں تو وہ خود ہی اپنی بیماری کے بارے میں آپ کو بتا دے گی۔ اس لیے پہلے جملے سے ہی اسے تکلیف پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے کسی جسمانی نقص کا مذاق ہرگز نہ اڑائیں بلکہ اپنے خاندان کے اندر بھی دوسروں کو سراہنے کی عادت ڈالیں سراہنے سے دوسرے شخص کی ہمت افزائی ہوتی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ بہتتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتی ہے اس طرح کچھ فائدہ آپ کو بھی ہوتا ہے۔ سکون اور اطمینانی کی خوبی غصہ کی کیفیت میں ا س کا اظہار کر دینا ہی اچھا ہے۔ دل میں گھٹ کر رہنے اور باورچی خانہ اور آفس میں سامان کو توڑنے سے بہتر ہے کہ اپنی غصہ متعلقہ شخص پر اتار لیں۔ تاہم ایک مکمل انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر اطمینان و سکون پیدا کریں اور دوسروں کی پر خلوص معذرت قبول کرکے اسے برداشت کرنا سیکھیں۔ غصہ کی حالت میں ہم اکثر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جس کے کہنے کی نیت نہیں ہوتی۔ اس لیے معافی مانگ لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ دوسروں پر ایک برا تاثر چھوڑیں گے بار بار غلطی کر کے معافی مانگنا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے ایسے عمل سے آپ کے الفاظ اپنی قدر کھو بیٹھتے ہیں۔ دوسروں کے کہے ہوئے طنزیہ الفاظ کا شکار نہ ہو جائیں بلکہ انہیں نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیں۔ اکثر لوگ زندگی میں سنسنی خیزی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی سنسنی خیزی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دوسرو ں پر چبھتے ہوئے جملے سے وار کریں۔ اور پھر ان کے تڑپنے کا تماشہ دیکھیں۔ کسی شخص کی تعریف کر دینے سے آپ کوئی زیادہ بڑی شے نہیں بن جاتیں۔ اسی طرح دوسروں کے سامنے کسی کی بے عزتی کر دینے سے آپ کی شخصیت چھوٹی نہیں بن جاتی۔ اس سے ہونے والی بے جا نکتہ چینی کو سن کر اسے نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیں اور پھر پر سکون ارو پر اطمینا ن ہی رہیںَ اگر آپ واضح کر دیں کہ اس کے الفاظ کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو وہ آپ کا پیچھا چھڑا کر کسی دوسرے شکار کی تلاش میں نکل جائے گا۔ مذہبی خیالات پر کبھی بحث نہ کریں تمام مذاہب کی بنیاد محض اعتقاد پر ہوتی ہے۔ اس لیے بحث کی گنجائش نہیں ایسی بات ہرگز نہ کریں کہ خدا ہمارا زیادہ بڑا ہے۔ یا یہ کہ ہم نے تو خدا کو کبھی دیکھا نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ آسمانوں پر سکون سے ہیں اس طرح ہمیں زمین پر بھی سکون سے رہنا چاہیے۔ زبان پر عبور حاصل کرنا معاشرتی پیش وارانہ تجارتی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس طرح نہ صرف اعتماد پیدا کریں گی بلکہ خیالات کو عمدگی سے پیش کریں گی۔ ٭٭٭ باب ۱۰:Assessment جانچ کا تصور ؍تخمین تعارف Assessmentکے معنی اندازہ قیاس کرنا یا سرسری حساب لگانا ہے۔ استاد پڑھانے کے دوران میں اپنی تدریس کے تاثر کا اندازہ لگانے کے لیے طلبہ کی دلچسپی توجہ محویت اور فہم پر نظر رکھتا ہے تاکہ بہتر تعلی کے لیے موزوں ماحول برقرار رکھا جا سکے۔ ہر تعلیمی سر گرمی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکے اور غیر موثر حالات پر بروقت قابو پایا جا سکے۔ نار س گرون لنڈ کے مطابق ایک طرز عمل ہے جس میں بروقت برمحل اور برجستہ اندازے لگائے جاتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں کئی تخمینے لگائے جا سکتے ہیں مثلاً استاد ایک ہی وقت میں اپنے طلبہ کے درجہ فہم حیرانی‘ جوش و جذبہ‘ دلچسپی بوریت توجہ وغیرہ کے متعلق اندازہ گا سکتا ہے۔ تخمین (Assessment)کے عمل میں کسی خاص وقت پر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ طالب علم نے تعلیم کے مقررہ مقاصد کی طرف کس حد تک پیش رفت کی ہے۔ گویا طلبہ کا انفرادی طور پر پوری جماعت یا پورے سیشن یا پورے سال کی کامیابیوں کا درجہ کا اندازہ لگایا ہے۔ اس میں نہ تو کسی تعلیمی پروگرام ہی کسی طریقہ تدریس اور نہ ہی ان عوامل کا مطالعہ کیا جاتاہے جو طلبہ کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ تخمین میں کوئی فرضیت قائم کر کے انہیں ثابت کرنے یا رد کرنے کی بھی کوشش نہیں کی جاتی اورنہ ہی تخمین کی بنیاد پرکوئی سفارشات مرتب کی جاتی ہیں بلکہ صرف کچھ اندازے پیش کر دیے جاتے ہیں تاکہ انفرادی طور پر طلبہ کی اور اجتماعی طور پر جماعت مدرسے اورپروگرام کی کارکردگی کے متلق تسلی ہو جائے مسلسل تخمین کا عمل جاری رکھنے سے ترقی و تنزلی کے گراف کی تیاری میں مدد ملتی ہے جس سے بروقت اندازے لگانے آسان ہو جاتے ہیں جن کے پیش نظر غیر موزوں پروگرام کو ختم کرنے کے فیصلے کیے جا سکتے ہیں اورموزوں پروگرام جاری رکھے جاتے ہیں ا س کتاب کے اس آخری باب میں اس مقصد کے پیش نظر تخمین کا طریقہ رکھا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے استاد اورطالب علم کی کارکردگی کے بارے میں اندازے لگائے جا سکیں۔ کیونکہ استاد کے بہت سے تدریسی فیصلوں کا انحصار غیر رسمی مشاہدے اور اندازوں پر ہوتا ہے۔ Fill in the Blanks ۱۔ ہوم اکنامکس کو گھریلو … کہتے ہیں ۔ (معاشیات) ۲۔ حرارت ناپنے کی اکائی کو … کہتے ہیں ۔ (حرارہ Clorie) ۳۔ … ہمارے جسم کی نشوونما کرتی ہے ۔ (غذا) ۴۔ لحمیات کے ۴ گرام سے ہمیں … حرارے ملتے ہیں ۔ (۱۶ یا ۳۶) ۵۔ دو ثانوی رنگوں کو برابر مقدار میں ملانے سے … رنگ بنتا ہے ۔ (ٹرشری) ۶۔ جب ایک بنیادی اور ایک ثانوی رنگ کو برابر مقدار میں ملایا جائے تو … رنگ بنتا ہے ۔ (درمیانی) ۷۔ ایک پرہیز … علاج ۔ (سو) ۸۔ کھانے کو ہمیشہ … کر رکھیں ۔ (ڈھانپ) ۹۔ کم درجہ حرارت پر جراثیم مرتے تو نہیں لیکن ان کی کارکردگی … ہو جاتی ہے ۔ (کم) ۱۰۔ جام جیلی اور مربہ میں چینی کی کثافت ۷۰ فیصد سے … نہ رکھیں۔ (کم ؍ زیادہ) ۱۱۔ جام مرتبان میںبھرنے کے بعد بوتل کے کارک پر … لگائیں۔ (موم) ۱۲۔ خوراک کو زیادہ دیر تک محفوظ کرنے کے لیے نمک اور … استعمال کریں ۔ (سرکہ)۔ ۱۳۔ پوٹاشیم میٹا بائی سلفیٹ خوراک کو … کرتی ہے ۔ (محفوظ) ۱۴ ۔ ۵ کلو گرام سکوائش کے لیے … پوٹاشیم میٹا بائی سلفیٹ درکار ہو گی ۔ (۲۸ گرام) ۱۵۔ خوارک ذخیرہ کرنے کے لیے گودام یا سٹور میں مکمل …ہونا چاہیے ۔ (اندھیرا) ۱۶۔ پیاز لہسن گندم اور چاول وغیرہ کو ہوا دار اور … کمرے میں رکھیں۔ (خشک) ۱۷۔ نقطہ انجماد یا … کے ذریعے خوراک کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ (کم درجہ حرارت) ۱۸۔ پکنے کے بعد چاول حجم سے … گنا بڑھ جاتے ہیں ۔ (تین گنا) ۱۹۔ چاول پکانے سے پہلے … گنا پانی ڈالنا چاہیے۔ (دو) ۲۰۔ اناج میں نشاستہ لحمیات اور … حاصل ہوتے ہیں۔ (حیاتین) ۲۱۔ انڈے کی سفیدی خالص … ہوتی ہے ۔ (لحمیات) ۲۲۔ انڈے کی کچی سفیدی کمزور … والے افراد کے لیے بہترین ہے۔ (معدے) ۲۳۔ ابلے ہوئے انڈے کی نسبت تلا ہوا انڈا زیادہ دیر سے … ہوتاہے۔ (ہضم) ۲۴۔ سردیوں میں انڈوں کو چھ سے سات ماہ تک … کیا جا سکتا ہے ۔ (ذخیرہ) ۲۵۔ انڈوں کو دھو کر … نہیں کرنا چاہیے (ذخیرہ) ۲۶۔ مچھلی کو تلتے ہوئے درجہ حرارت … ہونا چاہیے ۔ (36 F) ۲۷۔ مچھلی کی ساخت بہت … ہوتی ہے ۔ (نازک) ۲۸ حرارت گوشت کی … کو منجمد اور مسخ کر دیتی ہے (لحمیات)۔ ۲۹۔ آنچ جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زیادہ حیاتین… ہوں گی ۔ (ضائع) ۳۰۔ بغیر ابلا دودھ استعمال کرنے سے … کا مرض ہو جاتاہے۔ (تپ دق) ۳۱۔ معدنی نمکیات اور … ہمیں سبزیوں پھلوں دودھ کلیجی سے حاصل ہوتے ہیں۔ (حیاتین)۔ ۳۲۔ بھڑکے کاٹنے سے زخم پرامونیا سرکہ یا سپرٹ لگانا … ہوتا ہے ۔ (مفید) ۳۳۔ بھڑکے کاٹنے پر سر سکوں کا تیل پیاز یا لہسن کا عرق لگانا … ہے۔ (مفید)۔ ۳۴۔ بچھو کا کاٹنا … تو نہیں ہوتا اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ (مہلک) ۳۵۔ بیکنگ سوڈے کو پان میں ملا کر اس کا یپ کرنا بچھو کے کاٹنے میں … ہے ۔ (مفید) ۳۶۔ آئیوڈین … میں جا کر کیمیائی مرکبات بناتی ہے۔ (غدود ) ۳۷ تھائروکسین دماغی اور جسمانی… کے لیے اہم ہے۔ (نشوونما)۔ ۳۸۔ تھائروکسین جسم میں عمل تکسید کی رفتار کو … طور پر انجام دینے میں مدد دیتی ہے اور توانائی پیدا کرتی ہے۔ (صحیح)۔ ۳۹۔ وٹامن B12ٹیکے لگائے جائیں تو … ذرات کی کمی پوری ہو سکتی ہے۔ (سرخ) ۴۰۔ غذا میں آیوڈین کی کمی بچوں اور بڑوں میں گلھڑ کی … ہو جاتی ہے۔ (بیماری) ۴۱۔ گلھڑ میں … کی کم سے تھائرائیڈ غڈود بننے کا عمل سست ہو جاتاہے۔ (آیوڈین)۔ ۴۲۔ آیوڈین کی کمی سے Thyroidغدود بڑھ جانے سے گلے میں … پیدا ہو جاتی ہے۔ (رسولی)۔ ۴۳۔ تھائیرکسن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زبان باہر نکلی ہوئی بازو اور ٹانگیں چھوٹی مٹکہ نما پیٹ اور کوتاہ … ہوتا ہے ۔ (عقل) ۴۴۔ ہمارے جسم کا تقریباً … فیصد حصہ پانی ہے۔ (۷۰) ۴۵۔ خالص پانی ہوا سے ۷۰۰ گنا … ہوتا ہے ۔ (بھاری) ۴۶۔ ایک لمبے وزنی بڑے ڈیل ڈول والے آدمی کو ایک پتلے اور چھوٹے ڈیل ڈول کے آدمی کے مقابلے میں زیادہ … کی ضرورت ہوتی ہے۔ (کلوریز) ۴۷۔ اچھی غذا سے ہم اچھی… حاصل کر سکتے ہیں۔ (صحت) ۴۸۔ سر ملکوں کے لوگ گرم ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں … خوراک استعمال کرتے ہیں (زیادہ)۔ ۴۹۔ بہترپکوائی سے کھانے کی … بڑھ جاتی ہے ۔ (لذت) ۵۰۔ جاذب نظر بیکش سے بھوک … اختیار کر لیتی ہے۔ (شدت) ۵۱۔ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں … خوراک کی ضرور ت ہے۔ (کم) ۵۲۔ غذا پکانے سے سیلولوز (Cellulose)نرم ہو کر قابل … ہو جاتا ہے۔ (ہضم)۔ ۵۳۔ کاربوہائیڈریٹ سب سے چھوٹا سالمہ …ہے ۔ (گلوکوز) ۵۴۔ پروٹین کی کمی سے نشوونما …جاتی ہے ۔ (رک) ۵۵۔ خون میں ہیموگلوبن سرخ ذرات اور مدافعتی اجزا بھی … س بنتے ہیں۔ (لحمیات)۔ ۵۶۔ خون میںلحمیات کی کمی ہو جانے سے … میںپانی جمع ہونا شروع ہو جاتاہے ۔ (بافتوں)۔ ۵۷۔ روغنیات کو… میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (تین اقسا م)۔ ٭٭٭ مختصر سوالا ت ؍ جوابات س: ہوم اکنامکس کی تعریف کریں؟ ج: ہوم اکنامکس ایک ایسی سائنس ہے جس کے پڑھنے سے انسان اپنے ذرائع کا بہترین استعمال کر کے اپنے گھر کا انتظام ایسے طریقے سے کرتا ہے جو خاندان کی زیادہ سے زیادہ بھلائی اور فائدے کا سبب ہوتا ہے۔ س: ہوم اکنامکس بنیادی طور پر کون سا علم ہے؟ ج: ہوم اکنامکس بذات خود ایک سائنس بھی ہے اور آرٹ بھی ۔ بنیادی طورپر اسے سائنس کا درجہ دیا جاتاہے۔ لیکن آرٹ اور سائنش کے مضامین کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ س: ہوم اکنامکس اور نفسیات کا کیا تعلق ہے؟ ج: ہوم اکنامکس میں نفسیات کی مدد سے بچوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ س: ہوم اکنامکس اور معاشیات کا کیا تعلق ہے؟ ج: بجٹ بنانا اور صحیح طور پر خرچ کرنے کا ہوم اکنامکس سے بڑ ا اہم تعلق ہے۔ س: ہوم اکنامکس اور آرٹ کا تعلق کیا ہے؟ ج: ہوم اکنامکس اور آرٹ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق اور ربط ہے۔ ان دونوں کو کسی طرح بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ س: ہوم اکنامکس اور شہریت کا تعلق واضح کریں؟ ج: علم شہریت کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ اچھا شہری بنانا ہوم اکنامکس اس مقصد کو پورا کرتی ہے ۔ س: ہم اکنامکس اور کیمسٹری کا تعلق بیان کریں؟ ج: غذا اور غذائیت کا کورس اگر ہم کہیں کہ کیمسٹری کا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کیونک ہماری غذا کے بنیادی اجز ا کیمائی قسم کے ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے جن اصولوں میں مدد لی جاتی ہے۔ سب ہی علم کیمیاء سے متعلق ہیں۔ س: ہوم اکنامکس اور بیالوجی کا تعلق واضح کریں؟ ج: بیالوجی کا ایک پہلو انسانی نشوونماا سے متعلق ہے۔ ہم ہوم اکنامکس میں بھی لڑکیوں کو بے کی پیدائش سے لے کر اس کی حفاظت نشوونما او ر تعلیم و تربیت کے اصول و طریقے تک پڑھاتے ہیں۔ س: ہوم اکنامکس کا جن مضامین سے تعلق ہے تحریر کریں؟ ج: ۱ ۔ کیمسٹری ۲۔ شہریت ۳۔ بیالوجی ۴۔ آرٹ ۵۔ معاشیات ۶۔ نفسیات س: ہوم اکنامکس کے معنی کیا ہیں؟ ج: ہوم اکنامکس کے معنی گھریلومعاشیات ہے۔ س: ہوم اکنامکس کا انحصار کس بات پر ہے؟ ج: اس کا انحصار خاتون خانہ کی ذہانت تربیت اور انتظام کرنے کی صلاحیتوں پر ہے۔ س: ہوم اکنامکس کی تحریک کی بنیاد کب اور کہاں ہوئی؟ ج: اس تحریک کا بنیادی فلسفہ کہ انسان کو اس زمین پر اپنے عارضی قیام میں حقیقی خوشی صر ف اس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ اگر اسے اپنے گھرانے میں ایک تسکین بخش اور بامراد زندگی میسر آ جائے اس تحریک کے رہنما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگرچہ ہر انسان میں فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ گھریلو زندگی کی برکتوں سے استفادہ کرے۔ لیکن لا علمی اور جہالت کی وجہ سے وہ اپنی ا س فطری استعداد سے کماحقہ اٹھانے سے قاصر رہ جاتے ہین اور اس طرح وہ گھریلو زندگ کی حقیقی خوشی سے محروم رہ جاتاہے۔ اس لاعلمی اور جہالت کو دور کرنے کے لیے اس چیز کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان تمام معلومات کو یکجا کر کے ایک علم مرتب کیا جائے اور پھر اس کی تدریس کی جائے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اول تمام علوم سے وہ معلومات اخذ کر لی جائیں جن کا تعلق کنبے کی زندگی سے ہے اور دوم خوشگوار گھریلو زندگی گزارنے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں خصوصی تحقیق کے ذریعہ دور کیا جائے۔ پھر اس دوہری کوشش سے جو معلومات حاصل ہوں۔ انہیںموثر تدریس کے ذریعے عام کیا جائے اس خصوصی تحقیق سے حاصل کردہ ذخیرہ علم کو یکجا کر ک اسے ہوم اکنامکس کا نام دیا گیا ہے اور اس طرح ہوم اکنامکس بطور تدریس مضمون عالم وجود میں آیا۔ س: ہوم اکنامکس کے مقاصد بیان کریں؟ ج: فرد کو کنبے کی مشترک زندگی کے لیے بذریعہ تعلیم تیار کرنا۔ گھریلو زندگی کے سامان اور ان کے استعمال کے طریقوں کو بہتر بنانا گھر ہستی اور قوم میں ایسے حالات پیدا کرنا جن سے گھریلو دزندگی پر مضر اثرات مرتب ہوں۔ مستقبل کے بارے میں ایسے انتظامات تجویز کرنا جن سے کنبے اور اس کے افراد کا مالی تحفظ ہو۔ ادب اور فن کے ذریعہ افراد کی ذاتی زندگی کو زیادہ دلکش بنانا اور فارغ لمحات کو مفید مشاغل میں استعمال کرنے کے مواقع بہم پہنچانا۔ س: ہوم اکنامکس کی اہمیت بیان کریں؟ ج: ہم اکنامکس فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کو خوش اسلوبی سے استعمال کر سکتی ہے۔ س: ہوم اکنامکس کی تدریسی اہمیت بیان کریں؟ ج: ہر کام کرنے سے پہلے ہم اس کی تیاری یعنی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اس طرح ایک اچھی تدریس اور خاص طور پر ہوم اکنامکس کی تدریس کے لیے بھی منصوبہ بندی ایک اہم ضرورت ہے ۔ س: ہوم اکنامکس کا تدریسی طریقے او رمواد اکا انتخاب کریں؟ ج: گفتگو ‘ لیکچر۔ ملاقات۔ بحث و مباحثہ۔ تمثیل۔ مظاہر۔ دور۔ سیمینار۔ کانفرنسیں۔ گروہی کا م ۔ خصوصی رپورٹیں وغیرہ۔ س: بجٹ کی کتنی اقسام ہیں ؟ نام تحریر کریں۔ ج: بجٹ عام طور پر تین اقسام کے ہوتے ہیں: ۱۔ متوازن بجٹ (جس میں آمدنی و خرچ برابر ہوں) ۲۔ خسارے کا بجٹ (جس میں آمدن کم اور خرچ زیادہ ہو) ۳۔ بچت کا بجٹ (جس میںآمدنی زیادہ ہے اور خرچ کم ہو) س: بجٹ کے ضروری مدات کیا ہیں؟ ج: خوراک ‘ لباس۔ کرایہ ۔ مکان ۔ تعلیم ۔ صحت ۔ خوشی۔ غمیَ سفر ۔ رسم و رواج۔ اتفاقیہ اخراجات۔ مہمان نوازی۔ بجلی پانی گیس وغیرہ۔ س: گھرمیں توجہ کامرکز Emphasisسے کیا مرادہے؟ ج: توجہ کا مرکز سے مراد ہے ۔ کسی بھی چیز کو مرکزی اہمیت دینا۔ اسے نمایاں جگہ پر رکھنا کہ نظر سے پہلے اس کی طرف متوجہ ہو۔ س: درجہ بندی کے لحا ظ سے رنگوں کی کتنی اقسام ہیں: ج: چار اقسام ہیں: ۱۔ بنیادی رنگ (Primary Colour) ۲۔ ثانوی رنگ (Secondary Colour) ۳۔ درمیانی رنگ (Intermediate Colour) ۴۔ ٹرٹری یا دوہرے ثانوی رنگ (Teritary Colour) س: بنیادی رنگ سے کیا مراد ہے؟َ ج: بنیادی رنگ تین ہیں ۱۔ سرخ ۲۔ نیلا ۳۔ پیلا کائنات کے باقی سب رنگ ان تین رنگوں سے مل کر بنے ہیں۔ اس لیے ان کو بنیادی رنگ کہا جاتاہے۔ س: ثانوی رنگ کون سے ہیں؟ ج: کسی دو بنیادی رنگوں کو برابر مقدار میں ملانے سے جو تیسرا رنگ بنتا ہے اسے ثانوی رنگ کہتے ہیں۔ مثلا نیلا +پیلا=سبز سرخ +پیلا=نارنجی نیلا+سرخ =کاسنی ٭٭٭ True False Questions ۱۔ کنبہ کے گھر کے افراد سے مل کر بنتاہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۲ ورزش کرنے سے دوران خون بڑھ جاتاہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۳۔ برتن جن میں کھانا پکایاجائے بڑی احتیاط سے صاف کرنے چاہئیں۔ (صحیح ؍ غلط) ۴۔ شب کوری یا اندھراتا Night Blindness زیادہ تر بالغوں کو ہوتا ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۵۔ چکنائی کاربن ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۶۔ چکنائی کا ایک گرام ہمارے جسم میں ۲۴ کلوریز حرارت دیتا ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۷ پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ صرف ۴۴ حرارے حرارت دیتے ہیں۔ (صحیح ؍ غلط) ۸ پروٹین ہمیں کسی ذرائع سے حاصل نہیں ہوتی۔ (صحیح ؍ غلط) ۹۔ اچھی او رمتوازن غذا وہ ہے جو جسم کے ہر خلیے (Living Cell)کو طاقت بخشے۔ (صحیح ؍ غلط) ۱۰۔ متوازن غذا (Balanced Diet) میں تمام غذائی اجزا کا شامل ہونا ضروری ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۱۱۔ غذاجسم کو ایندھن مہیا کرتی ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۱۲۔ غذا کا مقصد انسان کی بقا اس کے اعضا جسم کی نشوونما مرمت اور کام کرنے کے لیے ان کو توانائی پہنچانا ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۱۳۔ تندرست و توانا رہنے کے لیے صرف اچھا موحول ضروری ہے۔ (صحیح ؍ غلط) ۱۴۔ نشاستے دار اجزا جسم میں وہی کام کرتے ہیں جو ایندھن مشین مین کرتاہے۔ (صحیح ؍ غلط)۔ ۱۵۔ چکنائی کا کام جس میں صر ف حرارت اور طاقت پیدا کرنا ہی نہیں بلکہ یہ جسم کی چربی اور بافتوں کی مرمت بھی کرتی ہے۔ (صحیح)۔ ۱۶۔ جسم کا دسواں حصہ معدنی نمکیات پر مشتمل ہے۔ (غلط) ۱۷۔ وٹامنز ہماری غذا کے لیے ضروری اجزا نہیں ۔ (غلط) ۱۸۔ انسان کے وزن کا تقریباً ۵ سے ۶۰ فیصد حصہ پانی ہے۔ (صحیح)۔ ۱۹۔ پانی انسانی جسم کے نشوونما کے لیے ضرور ی نہیں۔ (غلط) ۲۰۔ ایک نوجوان کو روزانہ دو گلاس پانی چاہیے۔ (غلط) ۲۱۔ دودھ کی ضرورت کو دہی یا لسی سے پورانہیں کیا جا سکتا۔ (غلط)۔ ۲۲۔ کچی سبزیاں کھانے سے پرہیز کریں۔ (غلط) ۲۳۔ موسمی کچی سبزیاں اور پھل کھانوں میں زیادہ نہ ہوں۔ (غلط) ۲۴۔ اگر ہم کم قیمت گائے کا گوشت خریدیں تو اس میں نہ صرف کفایت ہی ہو گی بلکہ غذائیت میں بھی کوئی نہ کوئی کمی نہ ہو گی۔ (صحیح) ۲۵۔ انڈے کو زیادہ ابال کر کھانا چاہیے۔ (غلط) ۲۶۔ تلا ہوا انڈہ جلدی ہضم ہوتاہے۔ (غلط) ۲۷۔ ابلا ہوا دودھ زود ہضم ہوتاہے۔ (غلط) ۲۸۔ ابلے ہوئے دودھ میں بیکٹیریا زیادہ ہوجاتا ہے۔ (غلط) ۲۹۔ گوشت اور مچھلی میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی۔ (غلط) ۳۰۔ زیادہ گھی میں تنے کے عمل سے غذائی اجزا ضائع ہوتے ہیں۔ (غلط) ۳۱۔ پریشر ککر میں پکانے سے غذائی اجزا کم ضائع ہوتے ہیں۔ (صحیح) ۳۲۔ گوشت کو زیادہ دھونے سے غذائی اجزا ضائع نہیںہوتے۔ (غلط)۔ ۳۳۔ گوشت کو زیادہ گلا دیا جائے تو اس کی غذائیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ (غلط) ۳۴۔ پھلوں سے بھری ڈالی زمین کی طرف جھک جاتی ہے۔ (صحیح)۔ ۳۵۔ بجٹ کی اصطلاح سے مراد آمدنی کا وہ حصہ ہے جو اخراجات اور ٹیکس کی ادائیگی کے بعد بچ جاتا ہے۔ ۳۶۔ دانتوں اور اس پرچڑھے ہوئے اینامل کو کیڑوں کے خلا ف مضبوط بنانے کے لیے فلورائیڈ کا استعمال سود مند ہے (صحیح) ۳۷۔ دانتوں کی بہتر نشوونما کے لیے دانت صاف کرنا ضروری نہیں۔ (غلط) ۳۸۔ سوتے وقت شیر خوار بچوں کے منہ میں سودھ کی بوتل یا چینی دے دینی چاہیے۔ (غلط)۔ ۳۹۔ چھ سالہ بچہ کی پہلی مرتبہ نکلنے والی ڈاڑھ خصوصی توجہ کی مستحق نہیں۔ (غلط) ۴۰۔ بچوں کی بوتل سے دودھ لینے کی عادت ایک برس کی عمر میں چھڑوا دیں۔ (صحیح) ۴۱۔ چینی کا مسلسل استعمال بلیک کے اندر تیزابی مقدار میں کمی کرتی ہے۔ (غلط) ۴۲۔ پہلی مرتبہ نکلنے والے دانتوں کی تکلیف کے باعث چھوٹا بچہ چڑچڑا ہو جاتاہے۔ (صحیح)۔ Multiple Choice Questions ۱۔ ہوم اکنامکس کی تحریک کب شروع ہوئی تھی؟ 1983-4 1869-3 1841-2 1821-1 جواب: 1821ء میں ۲۔ ہوم اکنامکس کی تحریک کی بنیاد کہاںرکھی گئی ؟ ۱۔ نیویارک ۲ شکاگو ۳۔ واشنگٹن ۴۔ کیلی فورنیا جواب: واشنگٹن ۳۔ کیتھرائن ای ہیچر نے اپنی مہم کتنی کتابوں کے ذریعے شروع کی؟ ۱۔ دو کتابوں سے ۲۔ ایک کتاب سے ۳۔ پانچ کتابوں سے ۴۔ تین کتابوں سے جواب: دو کتابوں سے ۴۔ ہوم اکنامکس کی تحریک کا مقصدکیا تھا؟ ۱۔ گھر کے کنبے کے مسائل حل کر کے گھریلو زندگی کو بہتر بنانا۔ ۲۔ بالغوں میں لاعلمی اور جہالت دورکرنا۔ ۳۔ گھریلو زندگی کی برکتوں سے استفادہ کرنا۔ ۴۔ کھانے پکانے اور سینے پرونے کے بہتر طریقے سکھانا۔ ج: گھر کے کنبے کے مسائل حل کر کے گھریلو زندگی کو بہتر بنانا۔ ۵۔ ہڈیاں ٹوٹنے کی اقسام کیا ہیں؟ ۱۔ ۶ اقسام ۲۔ ۵ اقسام ۳۔ ۴ اقسام ۴۔ ۲ اقسام جواب: ۶ اقسام۔ ۶۔ بھیڑ کا کاٹنا انسانی جسم کو مہیا کرتاہے۔ ۱۔ چین یا سکون ۲۔ بے چینی ۳۔ سکون جواب: بے چینی ۷۔ بھڑ کے کاٹنے پر لگائی جاتی ہے۔ ۱۔ آئیوڈیکس (Iodex) ۲۔ نمک ۳۔ سرکہ جواب: آئیوڈیکس ۸۔ حیاتین ک Vitamin K دریافت ہوئی؟ ۱۔ 1935ء میں ۲۔ 1940ء میں ۳۔ 1945ء میں ج۔ 1935ء میں ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End