تربیت اولاد ڈاکٹر محمد عبدالسمیع پہلا باب:بچے کی ابتدائی زندگی بچے کی پیدائش عام طور پر ہر گھرانے میں بچے کی پیدائش پر خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی بڑی خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے پیدا ہونے پر والدین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کو زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔ مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ا س سوال کے جواب میں کہ لڑکے کی پیدائش پر کیوں زیادہ خوشی منائی جاتی ہے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ لڑکا اپنے باپ داد ا کا نام روشن کرے گا اور اپنے باپ کا وارث ہو گا لیکن لڑکی پرایا دھن ہے کیونکہ جب لڑکی جوان ہو جاتی ہے تو اسے قدرت کے قانون کے مطابق اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں آباد ہونا پڑتا ہے۔ مگر ایسا خیال ظاہر کرنے والوں کی یہ نادانی ہے کہ وہ قدرت کے قانون اور خداوند کریم کی حکتم پر غور کرنا نہیں چاہتے۔ ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ خالق اکبر جو کچھ کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر اسی طرح توجہ کی جائے جس طرح لڑکوں کی تعلیم و تربیت پر کی جاتی ہے تو اسلام کی بیٹیوں کی معاملہ فہمی سلیقہ مندی اور کفایت شعاری کی بدولت پاکستان کے وہی گھر جنت ارضی بن سکتے ہیں جن کے مکین اس وقت بے اطمینانی اور پریشانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو قریباً دو ہفتوں تک اپنے کمرے میں آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خاوند اور گھر کے ایک دو قریبی رشتہ داروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچے کی ماں کے پاس بیٹھیں اور اس کی خدمت کا فرض بجا لائیں۔ لیکن دوسرے رشتہ داروں اور سہیلیوں کو اس کے آرام میں مخل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ جسمانی کمزوری کے باعث ایک مریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی کمزوری کا علاج یہی ہے کہ اسے چند دنوں تک آرام کرنے اور سونے کا پورا موقعہ ملے۔ اس کے بعد اس کی صحت بحال ہوجائے گی۔ اور وہ گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ نظر آئے گی بچے کو دیکھ کر ماں کو اور زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ بچہ جو ماں کے رحم میں ایک تاریک زندگی بسر کر رہا تھا۔ دنیا میں آتے ہی سب سے پہلے روشنی اور ہوا کو محسوس کرتا ہے۔ رحم کی تاریک کوٹھڑی میں مکمل خاموشی تھی لیکن اب آوازیں اس کے ننھے منے کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ پہلے وہ ایسی جگہ تھا جہاں کوئی چیز اسے نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اب رنگا رنگ کی شکلیں اس کے گرد متحرک نظر آتی ہیں۔ جب سے اس نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے اسے محبت اور یپار سے اٹھانے لٹانے والے ہر وقت اس کے گرد جمع رہتے ہیں۔ وہ ایک شیر خوار بچہ ہے۔ لیکن دنیامیں آتے ہی وہ اپنی خاص شخصیت کا حامل ہے۔ کیونکہ خود انسانی بردادری اس کی شخصیت کو تسلیم کرتی ہے اور وہ اس عظیم الشان اور عالم گیر برادری کا ایک ننھا رکن شمار کیا جاتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسے اس برادری کا کوئی علم نہیں۔ پیدائش کے بعد ننھا بچہ اپنا زیادہ وقت سونے میں گزارتا ہے۔ اسے کچھ معلوم نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ۔ وہ اپنی آنکھیں اس وقت کھولتا ہے۔ جب اسے نہلایا اور دودھ پلایا جاتا ہے۔ بچے کی پرورش بچے کی پیدائش سے پہلے والدین کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے آنے سے ان کی اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ یعنی انہیں اپنے عادات و اطوار اور خیالات و محسوسات کو بھی گھر کے نئے ممبر کی وجہ سے بدلنا پڑے گا۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں اور اس کی پرورش اور دیکھ بھال کے متعلق اپنی ذمہ داری محسوس کرتی ہے۔ اور باپ بھی اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اب اسے اس قدر کمانا چاہیے کہ بچے کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ بچے کی پیدائش کے متعلق ماں کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے کہ جو بچہ ہو وہ تندرست ہو۔ اس سلسلے میں عام رواج کے مطابق یا تو وہ کسی ہسپتال میں داخل ہوتی ہے یا نرسنگ ہوم میں اگر یہ اس کا پہلا بچہ ہے تو اسے اس کی پرورش اور دیکھ بھال کے متعلق اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کچھ پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ مگر یہی پریشانی اس کے مشک کام کا راستہ صاف کرتی ہے۔ گو اسے ہسپتال کے ڈاکٹر یا نرس کی ہدایت کے مطابق بچے کو مقررہ وقت پر دودھ پلانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لیکن جب بچہ بھوک کی وجہ سے رونا شروع کر دیتا ہے تو اسے اس وقت اپنی قوت فیصلہ سے کام لینا پڑتاہے۔ وہ بچے کی صحت کو قائم رکھنا اور اسے آڑام پہنچانا اپنا مادرانہ فرض سمجھتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے سلسلے میں خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی جو بات خاص طور پر گھر والوں اور بالخصوص والدین کے لیے خوشی کا باعث ہے اور جس کے لیے انہیں مبارکباد دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خداوند کریم نے انہیں ایک تندرست اور خوب صورت بچہ عطا کیا ہے۔ اس عطیے کے لیے والدین خالق حقیقی کا جس قدر بھی شکریہ ادا کریں بجا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے ضمن میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں اور ان کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ کہ مائیں ایسے بچوں کو بھی جنم دیتی ہیں جن کی جسمانی بناوٹ میں پیدائشی نقص پایا جاتاہے یعنی ان کے کسی نہ کسی عضو کی قدرتی ساخت اور موزونیت میں جسمانی حسن کے اعتبار سے نمایاں طورپر ایسا عیب نظر آتا ہے جس سے والدین کا متاثر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ لیکن خداوند کریم کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ پرورش اور صحیح تربیت کی بدولت یہی بچے جب بڑے ہو کر عملی زندگی شروع کر تے ہیں تو وہ اپنے علم و عمل اور سیر ت و کردار کی طاقت سے اپنے مستقبل کی شاہراہ خود تیار کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اپنی برادری میں وقعت اور عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں قدرت ایسے محنتی اور فرض شناس بچوں کی جنہیں سوسائٹی کا ظاہر میں طبقہ انہیں جسمانی عیوب کے باعث حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا ہے۔ خود سرپرست بن جاتی ہے اور ان میں دنیا کی مشکلات پر غابل آنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ اگر کوئی بچہ بینائی سے محروم ہے تو قدرت اسے قوت حافظہ کی نعمت عطا کرتی ہے۔ یہ نعمت اسے علم و فضل کا پرستار اور علم پرور بنا دیتی ہے۔ ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں کہ بیناء سے محروم ہونے کے باوجود نابینا یا کسی اور عضو میں کمزوری یا خامی کے حامل اشخاص دینی اور دنیاوی پہلو سے ایک کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صانع حقیقی نے بچے کی صورت بنائی ہے تو اس کی تخلیق کا مقصد صرف صورت گری نہیں بلکہ تخلیق کا اصل مقصد بچے کی سیرت و کردار ہے جو اس کی پرورش اور تربیت کے عمل سے نشوونما کے مدارج طے کرنے کے بعد اسے ایسی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیتی ہے جو اس کی خوشنودی اور رضا جوئی کا باعث ہو۔ دنیا میں اس کا آنا بظاہر ایک مسرت خیز واقعہ ہے لیکن اس کے آنے سے والدین کو لازمی طور پر اپنی زندگی کا پروگرام بدلنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ مادرانہ فرائض کی بجا آوری کے سلسلے میں اس کی ذمہ داریاں دفعتہ اس قدر زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ جن کی نوعیت سے وہ پہلے بالکل بے خبرتھی۔ جب بچہ آٹھ نو مہینے کا ہو جاتا ہے تو ماں اس ننھے شخص کی شخصیت اور خوصیت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتی ہے ۔ اس سوال کے جواب میں کہ بچہ کیا چاہتا ہے اور اسے کیا تکلیف ہے۔ ماں کی رائے دوسروں کی رائے کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کی رائے البتہ نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماں اپنے بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کے سلسے م میں جو تجربہ حاص ہوتا ہے وہ اس کی صحت و سلامتی کی ایک مضبوط بنیاد ہے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ماں کو دوسروں کے صلاح مشورے کی ضرورت نہیںپڑتی ۔ ڈاکٹروں نرسوں دوسرے والدین اور کتابوں سے بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے متعلق اس کی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ماں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تمام بچے اپنی پیدائش کے وقت ہی سے قدرتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اختلاف نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ کسی بڑے ہسپتال کی نرسری میں بھی ان ننھے بچوں کو جن کی عمر دو ہفتوں سے بھی کم ہے غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ نہ صرف جسمانی اعتبار سے ان کی شکلیں ایک دوسرے سے نہیںملتیں بلکہ جہاں تک ان کی غذا نیند اوررونے اور چلانے کا تعلق ہے۔ ان کا وجود ایک دوسرے سے مختلف پایا جاتا ہے۔ بچے کی تربیت بچے کی تربیت کے متعلق ماں کو جو مشورہ دوسرے لوگوں اور کتابوں سے ملے وہ خواہ کسی نوعیت کا ہو لیکن ماں اگر عقل مند ہے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ قدرت نے بچے سے ماں کا جو تعلق قائم کر رکھا ہے اس کی بناپر وہ اپنے بچے کی تربیت کا فرض انجام دینے کی خاص اہلیت رکھتی ہے۔ اور اس خدمت کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ وہ اگر دوسروں کا مشورہ بھی لے تو اس میں مناسب ترمیم کر سکتی ہے۔ ماں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اگر ایک طرف قدرت اس کی نشوونما کا عمل شروع کر دیتی ہے تو دوسری طرف ماں کو بھی اس معاملے میں اپنے مادرانہ فرائض سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ماں جس طریقے اور توجہ سے اس کی پرورش اور دیکھ بھال کا فرض انجام دیتی ہے وہ گو اس کے بچپن کی نشوونما کے پیش نظر کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہر مرتبہ جو کچھ بچے کے لیے کرتی ہے اس سے دراصل اس کی تربیت ہو رہی ہے بچہ اس تربیت کی بدولت جو اثر قبو ل کرتا ہے اس کا بعد کی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی پیدائش کے بعد یہ ایک اہم سوال ہے کہ ماں اس کو اپنا دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ قدرت کے قانون کا تو یہی منشا ہے کہ جب وضع حمل کے بعد ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے تو یہی بچے کی قدرتی غذا ہے۔ لیکن دور جدید کی تہذیب نے مائوں کو مصنوعی طریقوں سے بچوں کو دودھ پلانے کا سبق پڑھا رکھا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی غذا کے لیے خاص طور پر موزوں ہے کیونکہ ماں کے دودھ میں جو اجزا پائے جاتے ہیں اور یہ وہی اجزا ہیں جو ماں کے پیٹ میں بھی بچے کی پرورش کا ذریعہ تھے۔ ماں کے دودھ کو بچہ نہ صرف آسانی سے ہضم کر لیتا ہے بلکہ ایہ قدرتی غذا اس کے معدے کو بھی صاف رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنی ماں کا دودھ پینے سے بچے میں وہ طاقت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے متعدی بیماریوں کے حملے سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ آج کل اکثر بچے بوتل کا دودھ پی کر بھی چاق و چوبند اور تندرست نظر آتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر اپنے تجربوں کی بنا پر وثوق کے ساتھ یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ گائے کے دودھ میں خواہ کتنی ہی احتیاط سے پانی ملایا جائے مگر یہ دودھ بچے کی صحت اور طاقت کے پورے طور پر ضامن نہیں ہو سکتا۔ بچوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض صورتوں میں جن بیمار بچو ںکی مائیں ان کی پرورش کا فرض بجا نہ لا سکیں انہیں جب ایسی عورتوں کے حوالے کیا گیا ہے جنہوںنے ان کو اپنا دودھ پلایا تو ان کی صحت اور طاقت حیرت انگیز طو ر پر بحال ہو گئی۔ وضع حمل کے بعد عورت کے رحم ا منہ کشادہ ہو جاتاہے۔ لیکن جب وہ اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانا شروع کر دیتی ہے تو یہ قدرت کا بڑا احسان ہے کہ اس کا رحم سکڑ کر پھر اپنی اصلی حالت پر قائم ہو جاتاہے۔ ڈاکٹروں اور انائوں کے نزدیک وہ عورت بڑی خوش قسمت ہے۔ جس کی چھاتیوں میں بچے کی غذا کے لیے کافی مقدار میں دودھ موجود ہوتا ہے۔ اس میں اگر پوری مادرانہ خوشی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں کہ بچے کو اپنا دودھ پلائے۔ ماڈرن عورتیں افسوس ہے کہ بہت سی ماڈرن عورتیں جب وضع حمل کے بعد ہسپتال سے اپنے گھر کو واپس پہنچتی ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد ان کی چھاتیوں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے۔ اس خرابی کی عام طور پر یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ انہیں اپنے قدم ماڈرن زندگی کی تیز رفتار کے مطابق بڑھانے پڑتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اعصابی کمزوری بے احتیاطی اور ضرورت سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے پریشان حال رہتی ہیں۔ اس بے اطمینانی اور پریشان حالی کے باعث ماں کا دودھ یا تو خشک ہو جاتا ہے یا اس کی مقدار بچے کی غذا کے لیے ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ چھاتیوں میں دودھ کی کافی مقدار قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں ایسی زندگی بسر کرے جس میں اسے اطمینان قلب حاصل ہو۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنی غذا کا خاص طور پر خیال رکھے ماں اور بچے کا فطری تعلق اس قدر اہم ہے کہ اسے قائم رکھنے کے لیے ماں کو جہاں ت ممکن ہو زیادہ دیر تک اپنا دودھ پلانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے ماں کی مامتا اسی طریقے سے قائم رہ سکتیہے۔ ماں کے ساتھ بچے کی محبت کا سرچشمہ بھی یہی دودھ ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ جن بچوں کی بوتل کے دودھ سے پرورش کی جاتی ہے ماں کے ساتھ ان کے فطری تعلق میں وہ خصوصیت نہیں پائی جاتی جو ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں پائی جاتی ہے۔ بچے کو قدرتی طور پر ماں کا دودھ پینے سے جو خوشی محسوس ہوتی ہے وہ پہلی مرتبہ منہ سے ماں کے بدن کو چھوتا ہے۔ پھر اس کے جسم میں یہ حس پیدا ہوتی ہے کہ یہ کپڑا گیلا ہے یا خشک پھر جب ماں اسے اٹھاتی پکڑتی اور لاڈ پیار کرتی ہے تو اسے زندگی کا ابتدائی تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بوتل سے دودھ پینے والے بچے کو یہ تجربہ حاصل نہیں ہوتا اس لیے ماں کے ساتھ بچے کی فطری محبت کو قائم رکھنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے بچے کی پرورش بوتل کے دودھ سے کی جائے تو بھی دودھ پلانے کے بعد ماں اسے پیا رکرے اسے اپنی چھاتی سے لگائے اور اسے بازوئوں سے پکڑ کر اوپر نیچے اٹھائے اور ساتھ ہی پیار کی باتیں بھی کرتی جائے تاکہ بچے میں ماں کی محبت کا احساس پیدا ہو۔ اس بات کا خیال رہے کہ ماں بچے کو خواہ اپنا دودھ پلائے یا بوتل کا دودھ اسے یہ اپنا فرض سکون اور اطمینان سے بجا لانا چاہیے۔ کیونکہ جلد بازی کے باعث بچہ اس خوشی سے محروم ہو جاتا ہے جو اسے دودھ پینے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ خوشی بچے کی صحت قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ انگلستان کے ایک شفا خانے میں تجربے سے معلوم ہوا کہ جن نرسوں نے بیمار بچوں کے تندرست ہونے ر ان سے لاڈ پیار نہ کیا اور انہیں صرف بچوں والی گاڑی میں تھوڑی سی سیر کرائی گئی ان کا وزن نہ بڑھا۔ لیکن جب انہٰں گاڑی میں لٹانے کی بجائے ان سے لاڈ پیار کیا گیا اور اوپر نیچے اٹھایا گیا تو ان کا وزن بڑھ گیا۔ ما ں کو اس بات کا بھی خیال رہے کہ وہ بچے کو صرف اس قدر دودھ نہ پلائے جو اس کی صحت اور طاقت کے لیے ضروری ہے اگر ضرورت سے زیادہ دودھ پلایا گیا تو اس سے بچے کے بیمار پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ بچے کو حد سے زیادہ پیار اور لاڈ کا بھی عادی نہ بنایا جائے۔ بچے کا فائدہ اسی بات میں ہے کہ دودھ پلانے اور لاڈ پیار کرنے میں بھی اعتدال سے کام لیا جائے۔ بے اعتدالی ہر صورت میں نقصان پہنچاتی ہے۔ ماں کے لیے اس بات کا خیال رکھنا بھی بڑا ضروری ہے کہ جب وہ بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اسے گھر کی ضروریات کے متعلق پورا اطمینان حاصل ہو کیونکہ اگر وہ پریشان اور فکر مند رہے گی تو اس کا بچے کی صحت پر اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ مثلاً اگر کسی رشتہ دار کی موت کی خبر سے اس کو رنج پہنچانا ہے یا کسی اور بری خبر سے ا س کو صدمہ پہنچانا ہے تو اس ورنج یا صدمے کا اثر فورا ً ا س کے دودھ پر پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بچے کے معدے میں خرابی پیدا ہوجائے گی۔ ا س لیے بچے کی صحت کی خاطر ماں کا فرض ہے کہ اپنی طبیعت کو جہاں تک ممکن ہو خوش اور مطمئن رکھے۔ اگرایسی حالت میں ماں اپنی طبیعت پر قابوپانے کی اہلیت نہیں رکھتی تو پھر اسے بچے کو اپنا دودھ نہیں پلانا چاہیے اور اسے بوتل کا دودھ دینا چاہے۔ ہاں اگر کچھ عرصہ کے لیے ماں اپنا دودھ چھوڑ دے اور طبیعت کے ٹھیک ہوجانے پر پھر اپنا دودھ پلانا شروع کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ حقیقت دودھ پلانے والی ماں کے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ غم یا صدمے کے اثر سے ماں کا دودھ بچے کے پینے کے قابل نہیں رہتا اور وہ بیمار ہو جاتاہے۔ ماں جب بچے کو دودھ پلائے تو ا س بات کا خیال رکھے کہ اس کے ننھے کانوں تک شور کی آواز نہ پہنچے کیونکہ شور کی آواز سے وہ اطمینان کے ساتھ دودھ نہیں پی سکتا۔ گائے کا دودھ جب کسی وجہ سے ماں بچے کو اپنا دودھ نہ پلائے تو عام طور پر اسے گائے کا دودھ پلایا جاتا ہے جو اس کی خوراک کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ لیکن گائے کے دودھ کے متعلق اطمینان کر لینا چاہیے کہ یہ اچھی قسم کا ہو یعنی کسی تندرست اور اچھی پلی ہوئی گائے کا ہو۔ دودھ صاف ہو اور اس میں نقصان پہنچانے والے جراثیم نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب گائے کے تھنوں سے دودھ صاف برتن میں ڈالا جائے تو استعمال کرنے سے پہلے اسے ابال لیا جائے اور اس میں پانی ا س غرض سے ملایا جائے کہ بچہ اسے آسانی سے ہضم کر سکے۔ دودھ کو شیشے کی بوتلوں میں بند کر کے اسے دھوپ میں نہ رکھا جائے۔ کیونکہ سورج کی روشنی سے وٹامن بی ۲ کا قیمتی جوہر جو بچے کی نشوونما کے لیے ضروری ہے ضائع ہو جاتا ہے۔ گائے کے دودھ کے بجائے خشک دودھ بھی بچے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بھی ضرورت کے مطابق پانی ملا لیا جاتا ہے۔ تین کے جس ڈبے میں یہ سفوف ہو اگر ا س کے ڈھکنے میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کر دیے جائیں تو سفوف اچھی حالت میں رہتاہے بشرطیکہ اسے کسی صاف ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھا جائے۔ لیکن اگر ٹین کا ڈبہ دو دن سے زیادہ کھلا رہے تو پھر اس دودھ بچے کو نہیںپلانا چاہیے۔ گائے کے دودھ کی طرح بکری کا دودھ بھی بچے کو پلایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غذائیت کے اعتبا ر سے گائے کے دودھ اور بکری کے دودھ میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ گو بچے کی خوراک میں پانی کاجزو شامل ہوتا ہے لیکن اگر چمچے کے ذریعے اسے پانی پلایا جائے تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ابلا ہوا پانی دیا جائے۔ بوتل میں دودھ ڈالنے سے پہلے اسے اچھی طرح صاف کر لینا چاہیے دودھ کو پانچ منٹ تک ابلنے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اسے چمچے سے ہلاتے رہنا چاہیے۔ دودھ بوتل میں قیف کے ذریعے ڈالا جائے آٹھ اونس (ایک پائو) دودھ ہو تو اس میں چار اونس پانی ملا دیا جائے دودھ میں پانی بھی ابلا ہوا ڈالا جائے۔ پانی کو پورے ۲۵ منٹ تک ابلتے رہنا چاہیے شکر پائے کے ایک چمچہ کے برابر پھر اس پر چوسنی فٹ کر دی جائے۔ اس طرح ۲۴ گھنٹوں کے لیے دودھ کی بوتلیں اگر خشک صاف اور ٹھنڈی جگہ رکھی جائیں تو ماں کو بوتل کا دودھ پلانے میں بڑی آسانی ہو گی۔ جو بوتل خالی ہو جائے اسے اسی وقت صاف کر دیا جائے اور اس کے ساتھ اس کی چوسنی کو بھی گرم پانی میں ابال کر رکھا جائے۔ دودھ پلانے کا ضروری سامان بچے کو دودھ پلانے والے سامان کی حسب ذیل چیزیں ہر وقت ماں کے پاس ہونی چاہئیں۔ (۱) ایک ایسا بکس جس کے ڈھکنے پر جالی لگی ہوئی ہو ۔ جالی کو سوراخ اتنے بڑے ہوں کہ دود ھ والی خالی بوتل کو صاف کرنے کے بعد اس میں اس طرح لٹکا دیا جائے کہ منہ نیچے کی طرف اور پیندا اوپر کی طرف ہو تاکہ وہ اچھی طرح خشک ہوجائے اور اس میں مکھی داخل نہ ہونے دیں۔ (۲) بوتل کو صاف کرنے والا ایک برش جس کا دستہ لمبا ہو برش کے سرے ایسے نکیلے ہوں کہ ان کے پھر انے سے بوتل بالکل صاف ہو جائے برش کا نچلا حصہ جھکا ہو ا ہو تاکہ اس کے نکیلے سروں سے بوتل کا پیندا صاف کرنے میں دقت پیش نہ آئے۔ (۳) چمچوں ا سیٹ جس میں ناپ کے مطابق دودھ یا پانی لیا جائے۔ (۴) ایسی پیالی جس میں اونسوں کے نشان لگے ہوئے ہوں اور بوتل میں دودھ ڈالنے کے لیے اس میں منہ بنا ہوا ہو۔ (۵) دودھ کا مکسچر تیار کرنے کے لیے د و کوارٹ کا ساس پین فرئنگ پین کی شکل کا۔ (۶) ایک چھوٹا ’’ساس پین‘‘ جس میں پانی نکالنے کا راستہ بنا ہوا ہو۔ اس پین میں چوسنیاں ابالی اور رکھی جا سکتی ہیں ۔ (۷) بوتل میں دودھ ڈالنے کے لیے قیف ۔ اگر بوتل میںدودھ انڈیلنے کے لیے ساس پین میں راستہ بنا ہوا ہے تو پھر قیف کی ضرورت نہیں قیف اگر پلاسٹک کی ہو تو پھر ایسی وہنی چاہیے جسے ابالا جا سکے (۸) ایک لمبے دستے کا چمچہ (۹) اگر بچے کے لیے خشک دودھ استعمال کیا جائے تو اس کے کھولنے کا آلہ (۱۰) ایک کھلے منہ کاچھوٹا برتن ڈھکنے والا جس میں مستعمل چوسنیاں رکھی جائیں۔ (۱۱) دودھ کے مکسچر کے لیے اتنی بوتلیں جو بچے کی چوبیس گھنٹوں کی خوراک کے لیے کافی ہوں (۱۲) چوسنیاں اور ان کی ٹوپیاں۔ شیر خوار بچوں کو کب دودھ پلانا چاہیے پرانے زمانے کی مائوں کایہ دستور تھااور پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں اب بھی یہی دستورہے کہ ماں بچے کو اپنا دودھ اس وقت پلاتی ہے جب وہ روئے چیخے اور چلائے اور پھر بچے کو اتنا دودھ پلاتی ہے جتنا وہ چاہے۔ مگر اب مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ؤبچے کو دودھ باقاعدہ اور مقررہ وقت پر پلایا جائے۔ مروجہ طریقے کے مطابق ماں اپنے بچے کو دن میں چھ مرتبہ دودھ پللاتی ہے چار چار گھنٹوں کے وقفے کے بعد۔ جب بچہ دو ہفتے کا ہو جاتا ہے تو ماں اپنی سہولت کی خاطر بچے کو پانچ مرتبہ دودھ پلانا شروع کر دیتی ہے۔ مضبوط تندرست اور قانع بچے تو بغیر کسی دقت کے ان وقفوں کی پابندی برداشت کر سکتے ہیں لیکن جو بچے نسبتاً کمزور ہیں انہیں ان وقفوں کی پابندی سے نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے وقفوں کی پابندی پر عمل کرنے سے پہلے ماں کو اپنے بچے کی جسمانی طاقت اور اس کی غذا کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے ۔ بچوں کی طبیعتوں میں نمایاں طور پر فرق پایا جاتاہے۔ بعض بچے کافی مقدار میں دودھ پی کرزیادہ دیر تک سوئے رہتے ہیں۔ بعض بچے ہضم نہیں کر سکتے اور اگل دیتے ہیں اور اس طور پر ان کے دودھ کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔ ایسے بچے بھی ہیں جو پیدائش کے وقت ہی ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انہیں بھوک لگتی ہے بلکہ اس لیے ہ انہیں ماں کی چھاتی میں دودھ پینے میں خوشی اوراطمینان محسوس ہوتاہے۔ خود بچے کی جسمانی صحت کے لیے بچے کا خوش اور مطمئن ہونا بڑا ضروری ہے۔ جس بچے کو وقت پر دودھ نہیں پلایا جاتا ہے تو وہ بھوک سے بے تاب ہو کر رونا اور چلانا شروع کر دیتے ہیں اور جب ماں کسی وجہ سے اس کے رونے پر توجہ نہیں کرتی تو بھوک سے بے تاب ہو کر وہ بڑے زور سے ہاتھ پیر مارتا ہے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو ماں کے پیا رکا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ رونے اور چلانے کی شدت کے باعث اسے سانس لینے میں دشواری نظر آتی ہے۔ یہ کیفیت بچے کی صحت کے لیے مضر ہے۔ ماں کو اپنے خانگی کاموں میں اس قدرمصروف نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ ہر وقت پر دودھ سے محروم رہے وقت پر دودھ نہ ملنے سے بچے کی قوت ہاضمہ بھی ٹھیک نہیں رہتی۔ بعض بچے فطرتاً خاموش طبیعت کے ہوتے ہیں انہیں جب بھوک لگتی ہے تو رونے اور چلانے کے بجائے زیادہ دیر تک جاگتے رہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ وقت پر دودھ نہ ملنے کی صورت میں ایسے بچوں کا خاموش رہنا اور زیادہ دیر تک جاگتے رہنا ان کی جسمانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ بچہ رات کے وقت بھی دودھ پیتا ہے جو ماں رات کے وقت جاگنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے نیند کو مقدم سمجھتی ہے۔ اسے اپنے مادرانہ فرض بجا لانے کی سا بچے کی کمزوری اور بے اطمینانی کی شکل میں یقینی طور پر ملے گی۔ جو بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پیتا ہے وہ عام طور پر قریباً بیس منٹ کے بعد مطمئن ہو جاتا ہے۔ بوتل سے دودھ پینے والے بچے کے لیے بھی اتنا ہی وقت چاہیے۔ بوتل کی چوسنی میں جب سوراخ بڑے ہوجاتے ہیں تو بچہ زیادہ جلدی دودھ پیتاہے اور ا س لیے زیادہ دیر تک چوسنی کو اپنے منہ میں نہیں رکھ سکتا۔ بعض ایسے بچے بھی ہیں جنہیں دن میں تین مرتبہ دودھ پلایا جاتا ہے۔ ان کا وزن بھی ٹھیک ہے اور صحت بھی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر پیدائش کے بعد ابتدائی مہینوںمیں انہیں چھاتی سے دودھ پینے کا موقع نہیں مال تو وہ اس کی کمی کو انگوٹھا کھلونا یا کپڑا چوسنے میں پورا کر لیتے ہیں۔ بچے کے محسوسات پیدائش کے بعد ایک ہفتے کے اندر نو زائیدہ بچے کے دل میں سوائے اس با ت کے اور کوئی احساس نہیں پایا جاتا کہ وہ ماں کی چھاتی سے اپنی خوراک حاصل کرے۔ ماں کی چھاتی اس کے جسم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ بوتل کا اس کے جسم سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ آخر میں اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتاہے کہ وہ دودھ پیتا ہے تو ماں کی چھاتی سے اور جب اسے بھوک لگتی ہے تو وہی اسے غذا بہم پہنچاتی ہے۔ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں ایک جداگانہ شخصیت ہے۔ وہی آرام پہنچاتی ہے۔ اور وہی اس کی خوشحالی کا خیال رکھتی ہے۔ وہی اسے محبت اور پیار سے اٹھاتی ہے اور اس سے باتیں کرتی ہے۔ ماں کی یہی وہ مادرانہ روش یا مامتا ہے جس کی بدولت وہ اس پر بھروسہ کرتا ہے کہ سخت بھوک لگنے سے پہلے وہی اسے دودھ پلائے گی اور جب اسے کوئی تکلیف ہو گی تو وہی اسے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جائے گی۔ اور اگر شور کی وجہ سے وہ ڈر جائے تو وہی اسے پیار سے تسلی دے گی اور اسے چھوڑکر کہیں باہر نہیں جائے گی۔ جب بچہ چار پانچ مہینے کا ہو جاتا ہے اور قدرت اسے یہ بتا دیتی ہے کہ ماں ہی اس سے محبت اور اس کی حفاظت کرتی ہے تو وہ بھوک کی حالت میں رونے اور چلانے کے بجائے صبر سے کام لیتا ہے اور غور سے دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں سے اسے کوئی ڈر نہیں لگتا اور نہ اسے غصہ آتا ہے۔ کیونکہ جس دنیا میں وہ آیا ہے اس کی باتیں اسے بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ بچے کو زبردستی دودھ پلانا ماہرین کی رائے ہے کہ نوزائیدہ یا اس سے ذرا زیادہ عمر کے بچے کو کبھی اس کی خواہش کے خلاف دودھ نہیں پلانا چاہیے ۔ اس معاملے میں زیادہ مناسب اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ خود ماںاس بات کا خایل رکھے کہ بچے کو کب اور کس قدر دودھ پلانے کی ضرورت ہے۔ جس بچے کو اس کی خواہش کے خلاف دودھ پلایا جائے گا و ہ نہ تو دودھ ہضم کر سکے گا اورنہ اس کی صحت کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ جن بچو ں کو ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق بوتل کے ذریعے دودھ پلایا جاتا ہے۔ ان کے متعلق زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو مائیں ان بچو کو جو بوتل کا سارا دودھ نہیں پینا چاہتے اپنی اس ہٹ دھرمی پر قائم رہتی ہیں کہ وہ انہیں بوتل کا سارا دودھ پلا کر چھوڑیں گی اور ان کی ااس روش کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ بچے پھر شوق اور رغبت سے دودھ نہیں پیے گا۔ جو ماں اس بات کا خیال خاص طور پر رکھتی ہے کہ بچے کو اتنا دودھ پلایا جاء جتنا اس کے لیے ضروری ہے اور کبھی بچے کی خواہش کے خلاف اسے زیادہ دودھ پینے پر مجبور نہ کرے اس کا بچہ ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ تندرست اور گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ نظر آئے گا جن کی مائیں خوراک کے معاملے میں اپنی خود رائی پر قائم رہتی ہیں۔ بچے کو جبراً خوارک کھلانے کا نتیجہ بعض بچے اس طبیعت کے ہوتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ دودھ پینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کا جسم بھاری ہو جائے گا اور وہ موٹے ہو جائیں گے۔ ان کے جسمانی اعضا سے پھرتی اور شوخی جھلکتی نظر نہیں آئے گی۔ وہ اسی عمر کے بچوں کے مقابلے میں دیر کے بعد چلنا سیکھیں گے۔ ایسے بچے بھی ہیں جن کی مائیں ضرورت سے زیادہ انہیں کھلاتی ہیں۔ کھانا ہضم نہیں ہوتا اور قے کے ذریعے خارج ہو جاتاہے۔ ایسے بچوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ جنہیں اگر جبراً کھلایا جائے تو وہ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ماں زیادہ کھلانے پر مصر ہے تو بچہ منہ پھیر لیتا ہے۔ غرض ماں کے اصرار اور بچے کے انکار سے ایک دلچسپ صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب ماں مایوسی کی حالت میں زیادہ سختی سے کام لیتی ہے تو بچہ بھی اپنے انکار پر قائم رہتاہے۔ تعجب ہے کہ ایسی مائیں اپنے بچوں کی فطرت اور مزاج سے کیوں بے خبر رہتی ہیں ۔ حالانکہ بچے کی صحت کا معیار قائم رکھنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ماں غذا کے معاملے میں اعتدال کے اصول پر سختی سے کاربند رہے۔ بچے کو اس کی خواہش کے خلاف زبردستی کھلانے کا طریقہ کسی صورت میں مستحسن اور مفید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج کل بچے کی زندگی کے ابتدائی دور میں دودھ کے علاوہ کھانے کی اورکئی چیزیں رائج ہو گئی ہیں۔ اگرچہ ذائقہ اور غذائیت کے اعتبار سے وہ بچے کے لیے نئے چیزیں ہیں۔ لیکن بچے کو خوراک کی نئی چیزیں کھلانے سے پہلے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ اسے چمچہ سے دودھ پینے کا عادی بنایا جا ئے۔ سنترے کا رس جس میں پانی ملا ہوا ہو بچے کو چمچہ کے ذریعے سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ رس اسے خوش گوار معلوم ہو گا۔ سبزیوں کا رس بھی دودھ میں ملا کر بچوں کو پلایا جا سکتا ہے۔ بچے کو خوراک کی نئی چیزوں کی طرف راغب کرنے کے یے ماں کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ جن بچوں کے سامنے خوارک کی مختلف چیزیں رکھی گئیں انہوںنے بعض چیزیں بڑی رغبت سے کھائیں کیونکہ اس رغبت میں ان کی اپنی خواہش کا دخل تھا۔ ماں کی خوراک بچے کی غذا کے لیے یہ ضروری کہ ماں کی چھاتیوں میں دودھ کافی مقدار میں موجود رہے۔ اس مقصد کے لیے ماں کو اپنی غذا کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کیونکہ دودھ کا اثر براہ راست بچے کی صحت پر پڑتا ہے۔ ماں کو چٹ پٹی مصالحہ دار غذائوں سرکہ شراب اور کچے پھلوں کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ پھل سبزی دودھ مکھن ہلکی چائے ہلکا قہوہ‘ مارگرین‘ بند ڈبوں کے پھل‘ انڈا پنیر اور اسی طرح کی چیزوں کے استعمال سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ کی کافی مقدار پیدا ہوجائے گی۔ تجربے سے ثابت ہوق ہے کہ ماں جس قدر زیادہ مقدار میں پھلوں کا رس اور خوش گوار اور خوش ذائقہ چیزیں پیے گی اور اسی قدر اس کی چھاتیوں کا دودھ زیادہ بڑھ جائے گا۔ اور وہ بچے کے لیے بہترین غذا ثابت ہو گا جن مائوں کی چھاتیوں میں دودھ کی مقدار اتنی کم ہوتی ہیکہ وہ بچے کی غذا کے لیے کافی نہیں ہوتا انہیں دیگر غذائوں کے علاوہ پھلوں کا رس خصوصیت سے زیادہ پینا چاہیے ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو وہ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھے کہ اس کی چھاتی میں دودھ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی پینے کی کوئی چیز استعمال کرے۔ ہر مرتب جب بچے کو دودھ پلایا جائے تو اسے بھی دودھ پھلوں کا رس یا چائے پی لینی چاہیے۔ اگر ان میں سے کوئی شے نہ ہو تو سادہ پانی ہی پی لیا جائے۔ غرض کچھ نہ کچھ پی لینا ضروری ہے۔ لیکن ا س بات کا بھی خیال رہے ہ ماں کے دودھ سے صرف اسی صورت میں بچے کی صحت قائم رہ سکتی ہے کہ وہ خوش و خرم رہے اور کسی قسم کی پریشانی اور فکر کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ اس لیے جب ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے تو ایسی حالت میں کہ اسے پورے طور پر اطمینان قلب حاصل ہو۔ بچے کا پہلا دانت عام طور پر بچے کا پہلا دانت چھٹے سے آٹھویں مہنے تک نکلتا ہے ۔ اس کے پہلے سٹ کے بیس دانتوںکا آخری دانت ڈھائی سال تک نکل آتا ہے۔ دانت نکالنے سے بہت عرصہ پہلے وہ بہت سی چیزوں کے متعلق جنہٰں وہ اپنے منہ میں لے جاتا ہے یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ کس طرح انہیں اپنے مسوڑھوں میں دبائے اور انہیں چوسے۔ جب وہ ماں چھاتی سے دودھ پیتا ہے تو چھاٹی کاٹنے کا شغل بھی اختیار کرتا ہے۔ کاٹنے سے اسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے جبڑے کی مضبوطی کے لیے یہ ضروری ہے کہ کاٹنے کی مشق کا سلسلہ جاری رہے۔ جب نئے دانت نکلتے ہیں تو بچہ اپنے کھلونوں کو بھی کاٹتا ہے۔ ماں جب اپنی چھاتی کو غصہ ظاہر کیے بغیر ا س کے منہ سے ہٹالیتی ہے تو اس وقت بچے کو پہلی باریہ محسوس ہوتا ہے کہ ماں اس کی اس حرکت کو پسند نہیں کرتی اوراگر پھر اس نے اگر ایسی حرکت کی تو وہ دودھ سے محرو م ہو جائے گا۔ اس دوران میں ماں کو اپنے بچے کے سامنے ربڑکے چھلے اور ربڑ کے بنے ہوئے جانور رکھ دینے چاہیی تاکہ وہ انہیں چوسنے کاٹنے اور ان سے کھیلنے کا لطف اٹھاتا رہے۔ جب بچہ اپنی ماں کی چھاتی کو کاٹتا ہے تو وہ غصے کی حالت مٰں اسے چپت لگاتی ہے۔ جھڑکتی ہے۔ اور اس ے ناملائم الفاظ استعمال کرتی ہے۔ بچہ ماں کے اس سلوک سے قدرتی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ بچہ یہ نہیں جانتا کہ جب دودھ پینے کے وقت وہ ماں کی چھاتی کو اپنے دانت سے کاٹتا ہے تو ماں کو اس کی اس حرکت سے تکلیف ہوتی ہے ۔ اس لیے زیادہ مناسب یہی ہے کہ ماں صبر و تحمل سے کام لے اور نرمی کے ساتھ بچے کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ کہ اس کی یہ حرکت ٹھیک نہیں ۔ کیونکہ چپت لگانے اور جھڑکنے سے بچہ ڈر جاتا ہے۔ اس عمر میں بچے کا ڈر جانا اس کی صحت کے لیے مفید ہے۔ دودھ چھڑانا بچے کے دودھ چھڑانے کے متعلق ڈاکٹروں کی یہ رائے ہے کہ یہ عمل فوری طور پر نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ہونا چاہیے اکثر مائوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بچے کا دودھ جلد چھڑا دیا جائے اور چھاتی کے دودھ کے بجائے اسے چمچہ یا پیالی کے ذریعے غذا بہم پہنچائی جائے لیکن ماں کو یہ حقیقت نظر انداز نیں کرنی چاہیے کہ بچہ قدرتی طور پر ماں سے اس لیے غیر معمولی طورپر مانوس ہوتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے کہ وہ اس کی چھاتی سے براہ راست غذا حاصل کرتا ہے گویا دودھ اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتیںَ یہ دونوں چیزیں بچے کے رگ و پیشہ میں سرایت کر چکی ہیں۔ اس لیے جب ماں اپنے بچے کو چھاتی کا دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہے تو بچے کے ساتھ اس کی اب محبت میں بھی فرق آ جاتاہے جو چھاتی سے دودھ پلانے کے وقت ماں میں پائی جاتی تھی یہ نہ بھولنا چاہیے کہ بچہ ماں کی چھاتی سے دودھ پیتے وقت ماں کی محبت کا بھی بھوکا تھا اور وہ اسے خاص طور پر محسوس کرتاتھا اس لیے ماں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب وہ کسی مجبوری کے باعث بچے سے اپنی چھاتی کا دودھ چھڑاتی ہے تو اسے بچے کو اپنی محبت کا عملی ثبو ت دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ چمچے یا پیالی کے ذرعیعے سے بچے کو غذا تو بہم پہنچائی جا سکتی ہے لیکن چمچہ یا پیالی اسے محبت کی غذا بہم پہنچا سکتی ہے۔ بچے کے د میں محبت کے اس جذبے کا قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جو بچے اس محبت سے محروم رہ جاتے ہیں وہ بڑے ہو کر خشک مزاج اور محبت کے اظہار میں نسبتاً لے پروا ثابت ہوتے ہیں جس نوجوان کی سیرت و کردار میں خشک مزاجی اور بے پروائی پائی جائے گی وہ اپنے کاروبار میں پورے طور پر کامیاب نہیں ہو گا۔ جو مائیں اپنے بچوں کو پہلے چند مہینوں تک اپنی چھاتی کا دودھ پلاتی ہیں اور اس کے بعد رفتہ رفتہ انہیں بوتل کا دودھ پینے کی رغبت دلاتی ہیں۔ انہیں ان کاد ودھ اس وقت چھڑانا چاہیے کہ جب وہ نو مہینے کے ہو جائیں۔ اور موسم بھی موافق ہو۔ اگر بچہ تندرست اور خوش رہتا ہے اور ہر چیز رغبت سے کھا لیتا ہے تو اس پر دودھ چھڑانے کا کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر بچہ کمزورہے یا بیمار رہ چکا ہے یا خوش نہیں رہتا تو پھر وہ ماں کی خالص توجہ کا محتاج ہے اور اس کا دودھ نہیں چھڑانا چاہیے۔ اگر بچہ دانت نکال رہا ہو اور گرمی کا موسم ہو تو دودھ چھڑانے کے معاملے میں ماں کو اور زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ بعض اوقات جن بچوں کا دودھ چھڑایا جاتا ہے وہ اس تبدیلی پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ اس امر کی علامت ہے کہ ابھی بچہ اس قابل ہیں کہ اس کا دودھ چھڑایا جائے اس لیے دودھ چھڑانے کی تاریخ کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کی جا سکتی ہے۔ بہرحال دودھ چھڑانے کے عمل کا انحصار ماں اور بچے کے فطری تعلقات پرہے اگر قدرت نے اس کو ماں پر بھروسہ کرنا سکھادیا ہے اور ماں محبت اور نرمی سے رفتہ رفتہ اس کو نئے طریقوں سے غذا بہم پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے تو و ہ آسانی کے ساتھ چمچہ یا پیالی کے ذریعہ سے اپنی غذاحاصل کر نے کی طرف مائل ہو جائے گا اس لحاظ سے دودھ چھڑانے کے بعد اس کی جسمانی نشوونما کا بھی ابتدائی دور بھی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ جس بچے کا دودھ دفعتہ چھڑایا جاتا ہے یا اس معاملے میں سختی سے کاملیا جاتا ہے وہ لازمی طور پر کمزور رہے گا اور اس سے اس کی سیرت کی تعمیر میں بھی آگے چل کر رکاوٹ پیش آئے گی۔ بعض مائیں اپنے بچوں کو چھاتی سے دودھ پلانے میں اس قدر خوشی اور اطمینان محسوس کرتی ہیں کہ وہ انہیں ڈیڑھ سال یا دو سال تک دودھ پلانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں ۔ لیکن بعض ڈاکٹروں کے نزدیک خود بچے کے حق میں یہ بات اچھی نہیں ہے۔ کہ اسے ایک سال کے بعد بھی دودھ پلانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے کیونکہ جو بچہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک ماں کا دودھ پیے گا اس میںماں کا محتاج رہنے کامیلان لازمی طورپر پیدا ہو جائے گا۔ حالانکہ فطرت یہ چاہتی ہے کہ جب وقت آئے تو اس کی یہ محتاجی قائم نہ رہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ماں اسے چمچہ یا پیالی کے ذریعے غذا بہم پہنچا کر اس کی جسمانی نشوونما کا خیال رکھے۔ چھاتی کی احتیاط بچے کو چھاتی سے دودھ پلانے کے دوران ماں کو اپنی چھاتی کی حفاظت کا خاص طورپر خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی وہ دن رات ایسی چوسنی پہننے کی عادت ڈالے جس سے اس کی چھاتیاںاپنی اصلی حالت پر قائم رہیںَ دودھ کی وجہ سے چھاتیاں بھاری ہو جاتی ہیں۔ بچے کو دودھ پلانے کے بعد چھاتیوں کو اگر چونی کے ذریعے اپنی اصلی حالت پر قائم رھنے کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ لازمی اور یقینی طور پر ڈھلک جائے گی۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جب چاھتیاں ایک دفعہ ڈھلک جاتی ہیں تو پھر انہیں اپنی اصلی حالت پر قائم رکھنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ چھاتی کے سرے نہایت صاف رہیں اور آن پر باسی دودھ کو کوئی نشان نہ ہو اورنہ اس سے دودھ ٹپکتا رہے۔ اگر ایسی احتیاط نہ کی جائے تو باسی دودھ کی وجہ سے چھاتی کے سروں کے تڑخ جانے یا زخمی ہو جانے کا اندیشہ لاحق رہے گا۔ بچے کو ہر مرتبہ دودھ پلانے سے پہلے اور اس کے بعد چھاتی کے سروں کو احتیاط سے صاف کرلینا چاہیے۔ اگر احتیاط کے باوجود چھاتی کے سرے ٹحیک حالت میں نہ رہیں تو ڈاکٹر کے مشورے سے ان کا علاج کرنا چاہیے۔ چاھتی کو اپنی اصلی حالت پر قائم رکھنے کے سلسلے میں ماں کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چھاتیوں کی شکل اگر ٹھیک نہیں رہتی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے۔ بلکہ ار بچے کو دودھ پلانے کے بعد چونی کو باقاعدہ استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی چھاتی سے زائد دودھ ہاتھ سے دبا کر نکال دیا جائے تو چھاتیاں اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی۔ چھاتیاں اگر ڈھلک جاتی ہیں تو ماں کی غفلت بے پروائی اور بدذوقی کی وجہ سے۔ اگر ایک طرف ماں کے دل میں خیال پیدا ہونا قدرتی امر ہے کہ اس کا بچہ خوب صورت اور طاقت ور ہو تو دوسری طرف قدرت نے اسے یہ سہولتیںبھی عطا کی ہیں کہ اس کی اپنی جسمانی صحت اور جسمانی حسن بدستور قائم رہے اگر دنیا کی سٹیج پر اسے صحیح معنوں میں گھر کی ملکہ کا پارٹ ادا کرنا ہے تو اسے جسمانی صحت اور جسمانی حسن اور نسوانی شرافت واخلاق کا معیار قائم رکھنے کے لیے ان ظاہری اورباطنی قوتوں سے کام لینا پڑے گا جن سے اسلام کی بیٹیوں کو مستفید ہونے کاپورا حق حاصل ہے۔ انگوٹھا چوسنے کی عادت اکثر بچے چیزوں کو اپنے منہ میں ڈال لینے اور ان کو چوسنے کے عادی ہو جاتے ہیںَ بعض بچے پورے اطمینان کے ساتھ ماں کا دودھ پیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ انگوٹھا چوسنے کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ اس عادت کو کسی طرح نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ایسے بچے بھی ہیں جن کی پرورش پر پوری توجہ نہیں کی جاتی اور انہیں دودھ کی غذا بھی پوری مقدار میں نہیں ملتی۔ لیکن وہ انگوٹھا چوسنے کی عادت میں مبتلا نہیں ہوتے انگوٹھا چوسنے کی تحریک فطری قرار دی جا سکتی ہے۔ بظاہر یہ بات ہے کہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کے باوجود بچے میں فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ اسے چوسنے کے لیے کوئی چیز مل جائے ۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اگر بچہ ماں کی چھاتی کی طرف مائل ہے تو اسے اس عادت سے نہ روکا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کا دودھ جلدی چھڑا دیا جائے عام طور پر بچہ صرف اسی وقت انگوٹھا چوستا ہے جب وہ بھوک تکان سستی اور افسردتی کی وج سے شگفتہ نظر آتا ہے ایسی حالت میں انگوٹھا چوسنے سے اسے ایک قسم کی راحت اور تسکین محسوس ہوتی ہے ۔ جو کم سن لڑکے سگریٹ پیتے ہیں وہ بھی اسی وجہ سے انگوٹھا چوسنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر بچے کو مختلف کھلونے دیے جائیں تاکہ وہ ان سے کھیلتا رہے یا اسے ہاتھ سے چلانے والی گاڑی میں زیادہ دیر تک نہ بٹھایا جائے یا اس ی خوارک آرام اور خوشی کا پورا خیال رکھا جائے تو ایسی صورت میں انگوٹھا چوسنے کی عادت نمایاں طورپر کم ہو جائے گی۔ اگر ماں بچے کی انگوٹھا چوسنے کی عادت پر برا نہ منائے اور ا س پر کوئی توجہ نہ کرے تو اس صورت میں بھی یہ عادت رفتہ رفتہ چھوٹ جائے گی۔ بچے کو جھڑکنے اور اس کے انگوٹھے پر ایسی چیز مل دینے کا طریقہ بھی جو اس کو ناگوار گزرے نامناسب ہے۔ اس سے بچے میں فطری طور پر ضد کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ انگوٹھا چوسنے کی عادت نہیں چھوڑتا۔ ماں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس معاملے میں صبر سے کام لے۔ ٭٭٭ دوسرا باب:والدین کے فرائض ماں کا فرض بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو والدین بالخصوص اس کی ماں گھر کی بڑی بوڑھیوں کے صلاح مشورے کے مطابق بچے کی پرورش کا خاص طور پر خیال رکھتی ہے۔ ماں کا سب سے بڑا فرض یہ سمجھاجاتا ہے کہ وہ اسے مقررہ وقت پر دودھ پلائے گرمی اور سردی کا خیال رکھتے ہوئے اسے نہلائے اور صاف رکھے اور اسے ہر طرح سے آرام پہنچائے۔ گھر میں چھوٹے بڑے سب اسے پیار کرتے ہیں اورگو د میں اٹھائے لیے پھرتے ہیں۔ وہ بول نہیں سکتا مگر پھر بھی اس سے سب بولتے ہیں وہ سب کچھ سنتا ہے مگر کسی کو جواب نہیں دے سکتا۔ وہ آس پاس کی تمام چیزوں کو دیکھتا ہے دنیا کی ہر چیز اس کے لیے نئی اور عجیب و غریب ہے ۔غرض بچہ ایک زندہ کھلونا ہے جس سے گھر والے اپنا دل بہلاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ یہ صورت اس وقت تک قائم رہتی ہے کہ جب تک بچہ بولنے یا چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہو جاتاہے۔ مگر جب بچہ اپنی توتلی زبان سے بولنا اور لڑکھڑاتے پائوں سے چلنا شروع کر تا ہے تو والدین اور اس کے قریبی رشتہ دار وں کو اور زیادہ پیارا لگتا ہے۔ سوال پیداہوتاہے کہ کیا بچے کے والدین کی محبت صرف اسی حدتک قائم رہنی چاہیے کہ وہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کا فرض انجام دینے کے بعد چار یا پانچ سال کی عمر میں اسے تعلیم کی غرض سے کسی مدرسے یا مکتب میں داخل کر دیں اور ان ذمہ داریوں سے کوئی سروکار نہ رکھیں جو اخلاقی اور معاشرتی تربیت کے اعتبار سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ زندگی کا مقصد پاکستانی والدین دل سے تو یہی چاہتے ہیں کہ جو بچہ پنگوڑے میں سویا پڑا ہے وہ بڑا ہو کر علم و عمل کی طاقت کی بدولت ایک کامیاب زندگی بسر کرے اور اس کے وجود سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ لیکن ان کی یہ خواہش صرف اسی صورت میں پوری ہو سکتی ہے کہ وہ ا س چھوٹے سے شخص کے مستقبل کو روشن بنانے کے لیے ابھی سے اس اصول پر عمل کرنا شروع کر دیں کہ بچے کی تعلیم و تربیت اس کی پیدائش کے وقت ہی سے شروع ہو جانی چاہیے یہ بات والدین کو بڑی عجیب اورانہونی معلوم ہوگی۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتاہے کہ بچہ ابھی غوں غاں کرنے کے قابل بھی نہیںہوتا کہ جو باتیں وہ سنتا ہے اور جوچیزیں وہ دیکھتا ہے ان کا لازمی طور پر اس کے دل و دماغ پر اثر پڑتا ہے۔ یہ اسی اثر کا نتیجہ ہے کہ جب بچہ ڈیڑھ یادو سال کی عمر کا ہو جاتاہے تو وہ ہر ایک ایسی چیز تک جو اسے اچھی معلوم ہوتی ہے پہنچنے اور ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں اگر وہ چیز اس سے ٹوٹ جاتی ہے تو ماں یا گھر کا کوئی اور آدمی چیز کے ٹوٹ جانے پر اسے جھڑکتے ہیں یا ایسے الفاظ میں اسے ڈانٹتے ہیں جو بچے کو ناگوار گزرتے ہیں۔ وہ رونے لگ جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہنازیادہ صحیح ہو گا کہ اس جھڑکی اور ڈانٹ سے تھوڑی دیر کے لیے ننھے میاں کا دل ٹوٹ جاتاہے۔ حالانکہ اگر اسے جھڑکا اور ڈانٹا نہ جاتا تو وہ کبھی نہ روتا ننھے میاں کو اس بات کی پروا نہیں کہ جو چیز اس کے ہاتھ سے ٹوٹ گئی ہے وہ تمہارے لیے بڑی کارآمد یا قیمتی ہو سکتی ہے۔ قدرت کے قانون کے مطابق بچے کی جسمانی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعضا س یکام لے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان اعضا کی حرکت کو اس خیال سیروکا گیا کہ گھر کی چیزیں اس کی توڑ پھوڑ سے محفوظ رہیں تو جسمانی نشوونما میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ یہ رکاوٹ بچے سے صریح دشمنی ہو گی بچے سے والدین کی محبت کا اصلی اور حقیقی رنگ یہ ہے کہ اس کے جسمانی اعضا کی حرکت میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اگر وہ لڑکھڑاتا ہوا گزر جائے تو اس کی صحیح تربیت یہ ہے کہ اسے گر کر پھر اٹھنے اور چلنے کا موقع دیا جائے او ر اس معا ملہ میں اس کا حوصہ بڑھایا جائے۔ یہی زندگی ہے اور زندگی حرکت ہے۔ یہ حرکت بچے کی پیدائش ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد معذور اور بے بس ہونے کے باوجود وہ پنگوڑے یا چارپائی پر لیٹے ہوئے بھی اپنے ہاتھ پائوں اس زور سے ہلاتا ہے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتاہے۔ کیا ایک معذور اور بے بس بچے کی زندگی اور حرکت کا یہ روح افز ا منظر اس کے والدین کے لیے عملی سبق نہیں ہے کس قدر نادان ہیں وہ مائیں جنہوں نے محبت اور پیار کا یہ مطلب سمجھ رکھا ہے کہ ان کا بچہ ہر وقت پھول کی طرح شگفتہ نظر آئے اور وہ کانٹوں کی چھبن سے بچا رہے۔ حالانکہ بڑا ہو کر اگر وہ ایک کامیاب زندگی بسر کرسکتا تو صرف اسی صورت میں کہ اس کا جسم اس قدر مضبوط اور اس کا د ل اس قدر قوی ہو کہ مشکلات کے کانٹے اس پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ اور ایک تربیت یافتہ اور اچھا شہری بننے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ جو اوصاف بچے کی فطرت اور شخصیت میں پائے جاتے ہیں وہ علم و عمل کی بدولت روشن ہوں تاکہ جب وہ مدرسے کی چار دیواری سے نکل کر اس ٹھوس حقائق والی دنیا میں اپنی زندگی کا نیا دور شروع کرے تو سیرت و کردار کے اعتبار سے اس کا درجہ اس قدر بلند ہو کر وہ صحیح معنوں میں ایک بڑا آدمی سمجھاجائے۔ اگر زندگی کے اس نظریے کے پیش نظر ابتدا ہی سے بچے کی پرورش اور تربیت کا خاص طور پر خاص خیال رکھا جائے تو خود والدین کو اپنی محنت اور قربانی کا صلہ یقینی طور پر سچی خوشی اور اطمینان قلب کی شکل میں ملے گی۔ والدین کی شدید ذمہ داریاں جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بچے میں اپنی پیدائش سے سال دو سال کے بعد اپنے گرد و پیش کی چیزوں کو غور سے دیکھنے پیار سے خوش ہونے اور ڈانت سے رونی صورت بنانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے تو والدین کو اسی عمر میں اس امر کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالیں جو اس کے دل و دماغ پر برا اثر ڈالے۔ مثلاً جب دو ڈھائی سال کی عمر کا بچہ کسی وجہ سے مچلنا اور رونا شروع کر دیتا ہے تو ماں ااسے چپ کرانے کے لیے ہوا کا نام لیتی ہے تاکہ وہ ڈر جائے اور چپ ہو جائے۔ بچہ اس طریقے سے چپ تو ہو جاتا ہے لیکن اس سے بچہ خوف یا ڈر کا اثر قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس اثر کا یہ نتیجہ ہو گا کہ بچہ سہما رہے گا دو تین سال کا بچہ جب بونے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ زندگی اور حرکت کے قانون کے تحت وہی کام کرنا شروع کر دیتا ہے جو ماں باپ کو کرنے دیکھتا ہے۔ مثلاً جب وہ باپ کو نماز پڑھنے سے دیکھتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کے اس فعل کو اپنی سمجھ کے مطابق اچھا سمجھتا ہے۔ اگر والدین کی یہ دلی آرزو ہے کہ ان کا بچہ بری باتوں سے بچا رہے۔ اس میں اچھی عادتیں پیدا اور اپنے اور پرائے سب اسے اچھا سمجھیں تو پھر گھر کے لوگوں اور بالخصوص والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ علم و عمل کے اعتبار سے خود نمونہ بنیں تاکہ بچے کے اوصاف اور عادات و اطوار اس نمونہ بنیں تاکہ بچے کے اوصاف اور عادات و اطوار اس نمونہ کے مطابق ہوں۔ دانائوں کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بچے کا سب سے پہلا مدرسہ یا درسگاہ اس ماں کی گود ہے۔ لکھی پڑھی ماں اپنے بچے کو باتوں باتوں میں ان اشیاء کی ماہیت اور اصلیت سے آگاہ کر دیتی ہے۔ جنہیں وہ دیکھتا ہے بچے کو نیک بنانے کے لیے والدین کو اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ خود جھوٹ نہ بولیں کس کا مامل نہ چرائیں۔ اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آئیں کسی کو گالی نہ دیں اوراپنی روز مرہ کی زندگی کے معاملات میں سچائی اور انصاف کے اصو ل پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں۔ والدین کی سیرت و کردار کے اس رنگ کا لازمی طور پر بچے کی عادات و اطوار پر اچھا اثر پڑے گا۔ اکثر والدین کو اپنے بچے سے اس قسم کی شکایت سننا گوارا نہیںکرتے بعض والدین تو بچے کی محبت کے جوش میں شکایت کرنے والے کوالٹی صلواتیں سناتے ہیں۔ حالانکہ صحیح طریق کار یہ ہے کہ اگر شکایت درست ہے تو بچے کو سمجھایا جائے کہ آئندہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرے کہ جس سے کسی کو شکایت کو موقعہ ملے۔ بچے کی بے جا حمایت کرنے والے والدین یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی حمایت سچائی اور نیکی کے سنہری اصول کی رو سے خود بچے کے لیے مضر ثابت ہو گی۔ بعض والدین اپنے بچے کی نسبت بڑی متانت سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ بچے بچے ہوتے ہیں بڑے ہو کر خود ٹھیک ہو جائیںگے۔ مگر یہ ان کی جہالت ہے یہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ اگر کم سنی میں بچوں کی غلطیوں یا بے عنوانیوں کی اصلاح نہ کی جائے گی تو آٹھ دس سال کی عمر میں بھی یہی غلطیاں اور بے عنوانیاں والدین کے لیے پریشانی اور رنج کا باعث ہوں گی۔ کیا والدین نے کبھی اس حقیقت پر غور کیا ہے جب بچہ جھوٹ بولنا شروع کرتا تو اس کی ذمہ داری ککس پر عائد ہوتی ہے۔ خود والدین پر اور وہ اس طرح کہ جب بچے سے کوئی چیز نوٹ کی جاتی ہے تو وہ ڈانٹ یا مار سے بچنے کے لیے جھٹ صاف کہہ دیتا ہے کہ یہ چیز میں نے نہیں توڑی ۔ اس انکار کی بدولت وہ ڈر یا مار سے تو بچ جاتا ہے مگر جھوٹ بولنے سے اس کی سیرت داغ دار ہو جاتی ہے کاش والدین کو اس بات کا احساس ہو کہ گھر کسی چیز کے ٹوٹ جانے سے جو نقصان انہیں پہنچا ہے وہ اس نقصان کے مقابلے میں کچھ حقیقت نہیں رکھتا جو بچے کے بگڑ جانے سے انہیں پہنچ چکا ہے۔ لیکن جسے وہ اس لیے محسوس نہیں کرتے کہ ان کی اپنی زندگی اسلام کے ضابطہ حیات کے مطابق نہیں۔ مہذب اور شائستہ زندگی گو بچے کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں ہم کو اس کی فطری خواہشات کا خیال رکھناپڑتا ہے لیکن خود بچے اس کے خاندان او ر ملت اسلامیہ کا مفاد اس امر کا مقتضی ہے کہ اس مفاد کو اس کی خواہشات پر مقدم سمجھا جائے اور اس کی تربیت ایسے طریقے سے کی جائے کہ جو اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ وہ تعلیم و تربیت کے بار کو مطلق محسوس نہ کرے اور ا س کی فطری زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی میں ذرا فرق نہ آئے۔ چونکہ بچے میں اچھی چیز کو اچھا سمجھنے اوربری چیز کو برا سمجھنے کی صلاحیت نہیںپائی جاتی اس لیے یہ والدین اور خاص کر ماں کا فرض ہے کہ وہ اسے اچھے یا برے میں تمیز کرنے کا سبق دے۔ مثلاً وہ کیچڑ میں کھیلتا چاہتا ہے اس کو یہ معولم نہیں کہ کیچڑ میں کھیلنے سے اس کا جسم ناپاک ہو جائے گا اور اس کے کپڑے خراب ہو جائیں گے مگر ماں اس کو خشک مٹی ریت اور رنگین چیزیں کھلنے کے لیے دے سکتی ہے۔ اس طریقے سے بچہ صاف چیزیں سے کھیلنے کی طرف مائل ہو جائے گی۔ بچہ بڑی دیر سے سیکھتا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اسے صرف اتنا ہی سکھایا جائے۔ جتنی اس میں صلاحیت ہو۔ جبر سے کام نہ لیا جائے۔ ہمیں بچے سے اس کی قابلیت اور عمر کے اعتبار سے اپنی توقعات قائم رکھنی چاہئیں۔ اگر بچے کی ذہنی قابلیت اور سرگرمی کے مقابلے میں ہماری توقعات زیادہ ہوں گی تو وہ ہمت ہار جائے گا اور اگر اس معاملے میں اس کے جذبات کاخیال نہ رکھا گیا تو وہ خوش نہیں رہے گا عمر کے پڑھنے کے ساتھ بچہ صرف اسی صورت میں حقیقی خوشی محسوس کر سکتاہے۔ جبکہ ہر کام میں جو وہ کرتا ہے ۔ خواہ وہ کیسا ہی حقیر ہو والدین کی طرف سے اس ک پوری حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگرچہ عام طور پر والدین اپنے اس بچے سے زیادہ پیار کرتے ہیں جومدرسے میں اچھے نمبر لیتا ہے۔ گھر میںاس کا وجود مفید سمجھا جاتا ہے عادات و اطوار کے لحاظ سے بھی وہ شائستہ ہے اور والدین کا کہا ماننے کے لیے تیار رہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان سے اس امر کی توقع رکھتا ہے کہ اس کے والدین اس سے صرف اس لیے محبت کریں کہ وہ ان کا بچہ ہے اور والدین اس کی شخصیت کی قدر کریں۔ یہ بچے سے والدین کی فطری محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ جب ذرا بڑا ہو جاتا ہے تو اور تعلیم وتربیت کے قابل سمجھا جاتا ہے تو والدین اس کی ضروریات اور خواہشات کا خیال رکھتے ہیں اور اپنی مقدرت کے مطابق ان ضروریات اور خواہشات سے متعلق ذمہ داریوں سے بشرطیکہ وہ جسمانی صحت کے اعتبار سے معقول ہوں سبکدوش ہونا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسا بچہ صحیح معنوں میں کنبے کا ممبر سمجھا جاتا ہے۔ پھر ممبر بھی ایسا جس کی ابتدائی تعلیم و تربیت پر کنبے کی نیک نامی کا انحصار ہے۔ معدے کی صفائی اس میں شک نہیں کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے کہ پیشاب اور پاخانے کی آلائش سے بچے کو صاف سھرا رکھنے کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن دور جدید کے ڈاکٹروں اور نفسیات کے ماہری کی رائے ہے کہ اگر ابتدائی مہینوں ہی میں بچے سے یہ توقع رکھی جائے اور اس بات کی تربیت کی جائے کہ وہ ایک مقررہ وقت پر پیشاب پاخانہ کرے تو اس سے بچے کے کمزور اعضا پر بوجھ پڑنے کے باعث اسے تکلیف پہنچے گی۔ اس لیے اس معاملے میں ماں کو صبر اور احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ آنتوں سے فضلے کے خارج ہوجانے پر خود بچہ اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ماں کے لیے بچے کی یہ عمر اس لحاظ سے بڑی صبر آزما ہوتی ہے۔ نہ صرف دن بلکہ رات کے وقت بھی پیشاب اور پاخانے سے بچے کے لت پت ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیی بچے کی صحت اور تندرستی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کمزوری اور بے بسی کی عمر میں اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی جائے پابندی عائد کرنے کی صورت میں یہ خظرہ ہے کہ بچہ قبض کے عارضے میں مبتلا نہ ہوجائے۔ بچے کی صحت او رآرام کے پیش نظر زیادہ مناسب یہی ہے کہ ماں اس وقت تک صبر سے کام لے جب تک وہ مختلف اشارو ںیا حرکتوں سے ماں کو اپنی خواہشوں اور تکلیفوں سے آگاہ کرنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔ مثلاً یہ اشارے اور حرکتیں اس قسم کی ہیں کہ وہ اپنے خصیوں پر ہات رکھتا ہے یا بے چینی کا اظہار کرتاہے یا س کی ٹانگوں میں دتنائو نظر آتا ہے۔ گویا یہ اشارے اور حرکتیں آٹھویںمہینے میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی غیر اغلب نہیں ہے کہ جب تک بچہ سال سوا سال کا نہیں ہو جاتا اس میں ان اشاروں یا حرکتوں کے اظہار کی صلاحٰت نہیںپائی جاتی۔ اگر ماں اپنے بچے کو صاف ستھر ا رکھنے کی تربیت دینا چاہتی ہے تو پھر یہ عمل اس وقت شروع کیا جائے جب بچہ آٹھ مہینے کا ہو جائے کیونکہ اس عمر میں بچے کے اعضا اس قدر مضبوط ہو جاتے ہیں کہ وہ ماں کی نگرانی کی تاب لانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ لیکن زیادہ مناسب اور بہتر یہی ہے کہ صاف ستھر ا رہنے کی تربیت کا عمل سال سواسال کی عمر سے شروع کیا جائے۔ اس لیے کہ اس عمر میں بچہ بھی آسانی سے ایسی تربیت کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور تربیت دینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ پوتڑے بچے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے پوتڑوں کی صٖفائی ماں کا ایک اہم فرض ہے جس کی بجا آوری پر اسے خاص توجہ کرنا پڑتی ہے آج کل پوتڑوں کی صفائی کے سلسلے میں ایک اور طریقہ رائج ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پوتڑوں کے اندر باریک نرم کاغذ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ پوتڑے پاخانے کی آلائش سے صاف رہیں۔ اس طرح ماں پوتڑوں کو دھونے کے ناخوش گوار فڑض سے بچ جاتی ہے۔ پوتڑوں کی روز مرہ دھلائی سے بچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک بڑے ٹین میں بہت سے پوتڑے ڈال دیے جائیں اور اس میں ہلکے درجے کے دافع عفونت دوا کا لوشن ڈال دیا جائے پھر ٹین کا منہ اچھی طرح بند کر کے اس میں کپڑوں کو اچھی طرح آگ پر ابال کر خشک کر لیا جائے جو مائیں پوتڑوں کے استعمال کو ایک ناخوشگوار فرض سمجھتی ہیں وہ بچے کے بستر کے اوپر ربڑ کا ایک چھوٹا سا کپڑا استعمال کر سکتی ہیں۔ مگر ربڑ کے کپڑے میں سردیوں میں بچے کو تکلیف پہنچے گی۔ چونکہ بچے کا آرام اور اس کی صحت سب باتوں پر مقدم ہے اس لے ماں کو اس معاملے میں وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے بچے کو آڑام و اطمینان حاصل ہو۔ بچے کی فطرت بچہ اپنی زندگی کے پہلے سال میں قدرتی طور پر ہر چیز کو متجسس نگاہوں سے دیکھتا ہے اور جو شے اس کے ہاتھ میں آ جائے اس سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔ اسے بہت جلد معلوم ہوجاتاہے کہ اسے اپنے ہاتھوں سے کام لینا چاہیے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے گھماتا ہے۔ انہیں کھولتا ہے انہیں بند کر دیتا ہے۔ انہیں اپنے منہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اورپھر اپنا انگوٹھا چوستا ہے۔ اس کے بعد بچہ اپنے پائوں کی طرف دیکھتا ہے۔ لیٹے لیٹے بڑے زور سے اپنی دونوں ٹانگوں کو ہلاتا ہے۔ پھر پائو ں کو منہ میں لینے کی کوشش کرتاہے ۔ اسی طرح وہ اپنے بال کان ناک حتیٰ خہ خصیوں تک کاجائزہ لیتا ہے جس کے یہ سب اعضا اسے عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ وہ غیر شعوری طور پر اپنے خصیوں اورپیشاب کرنے والے عضو کوملتا ہے۔ والدین ککو معلوم ہو جاتا ہے کہ شیر خوار بچے کی یہ عادت یا حرکت بالکل بے ضرر اور ناقابل توجہ ہے۔ جب بچے کا دھیان کسی اور طرف لگ جاتا ہے تواسے ان باتوں کا مطلق خیال نہیں رہتا۔ لیکن اس کے باوجود ماں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کے جسم کے ان نازک حصوں پر کپڑا کس کر نہ باندھاجائے۔ کیونکہ کپڑے کی رگڑ سے ان حصوں میں خراش پیدا ہوتی ہے اور خراشہی کی وجہ سے وہ انہیں ملنے کا عادی ہو جاتاہے۔ نیند اگرچہ اکثر تندرست بچے اپنی زندگی کے پہلے چند مہینوں میں زیادہ سوئے رہتے ہیں لیکن جس حد تک نیند کی طوالت اور اس کی گہری نوعیت کا تعلق ہے بچے مختلف طبیعتوںکے پائے جاتے ہیں۔ بعض بچے گہری نیند سوئے ہیں اور بعض کی آنکھ خفیف سے شور یا بلند آواز کے باعث کھل جاتی ہے۔ لیکن عام طورپر یہی دیکھا گیا ہے کہ جو بچے مقررہ اوقات پر ماں کا دودھ یا بوتل کا دودھ پی لیتے ہیں وہ آرام و اطمینان سے سو جاتے ہیں۔ ماں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کو ہمیشہ ایسی جگہ سلایا جائے جہاں کسی قسم کا شور یا ہنگامہ نہ ہو۔ چوتھے مہینے تک بچہ قریب قریب بیس گھنٹے یومیہ سوتا ہے اس کے بعد وہ زیادہ دیر تک جاگتا رہتا ہے۔ گو یہ ضروری ہے کہ بیداری کے دوران وہ تھوڑی دیر کے لیے باقاعدہ سوجایا کرے۔ لیکن اسی وقت اس کے سونے اور جاگنے کی ایسی عادت شروع ہوجاتی ہے جو لڑکپن یا جوانی میں مستقل صورت اختیار کر لیتی ہے۔ چونکہ چھ ماہ سے زیادہ عمر کے بچے کبھی کبھی رت کے وقت جلدی سونانہیں چاہتے اس لیے ماں کو بچے کی خواہش کے پیش نظر اسے دفعتا اور جبراً چارپائی پر لٹانے اور سلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں اگر ایسے موقعہ پر ماں بچے سے پیار کرے اور اسے تھپک کرسلانا چاہے تو بچہ مطمئن ہو جائے گا اور اسے نیند آ جائے گی۔ رات کے وقت ماں کو بچے کی خاطر اپنی نیند کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بعض بچے رات کو رونا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر بچے کا بستر پیشاب کی وجہ سے گیلا ہو گیا ہے تو ماں کو فوراً بچے کے نیچے خشک اور نرم کپڑا بچھا دینا چاہیے سردی کے موسم میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بچے کو سردی گ جائے اور وہ بیمار ہو جائے۔ چھ اور نو مہینوں کے درمیانی عمر کے بچے عام طور پر صبح اور سہ پہر کے وقت صرف تھوڑی دیر تک سوتے ہیں۔ بچہ جاگتا ہے تو بہتریہی ہے کہ اسے پرام سیر والی گاڑی سے نکال کر فرش پر جہاں غالیچہ اور موٹا کمبل بچھاہوا ہو لٹا دیا جائے تاکہ وہ اچھی طرح اپنے ہاتھ پیر ہلائے اور اس کے اعضا کھل جائیں۔ جب وہ ایک سال کا ہو جائے گا تو اسے دن میں صرف ایک مرتبہ سونے کی ضرور ت ہو گی۔ اب اس بات کا فیصلہ کرنا ماں کا ام ہے کہ آیا بچے کو صبح سونا چاہیے یا سہ پہر کو۔ ماں کو اختیار ہے کہ اسے اپنی سہولت کے پیش نظر کس وقت سلانا چاہیے بچے کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دودھ پلانے سے پہلے اسے فرش یاچارپائی پر لٹا کر ہاتھ پیر ہلانے کاموقع دیا جائے۔ اس معاملے میں قدرت خود بچے کی رہنمائی کرتی ہے۔ بچہ ہاتھ پیر ہلانے کی ورزش کرتا ہے تواسی رہنمائی کی بدولت کس قدر نادان ہیں وہ مائیں جنہوںنے یہ سمجھ لیا ہے کہ بچے سے پیار اور اس کی پرورش کا یہی تقاضا ہے کہ اسے بروقت گود میں رکھا جائے۔ اور وقت بے وقت اسے دودھ پلا دیا جائے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ امیر گھرانے کی نوکرانیاں کم سن بچے تو کہیں رہے کچھ چھ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے بچوں کو گود میں سے نہیں اتارتیں۔ ان کی مائیں انہیں اس قدر لاڈلا رکھتی ہیں کہ کوئی نوکر یا نوکرانی بچے کو غالیچے والے فرش پر لٹانے کی جرات نہیں کر سکتی۔ ایسے لاڈلے بچے شاید پاکستان میں نہ ہوں۔ مگر بیان کیا جاتا ہے کہ برعظیم کی تقسیم سے پہلے دھلی اور لکھنو کے امیر گھرانوں میں ایسے بچے موجود تھے ظاہر ہے کہ ایسے لاڈلے بچے بڑے ہو کر یقینی طورپر ننگ خاندان یا ننگ ملت ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو بچے قدرت کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔ اور اس کی رہنمائی میں اپنی زندگی کی منزلیں طے کرتے ہیں وہی بچے اپنے علم و عمل اور سیرت و کردار کی بدولت کامران اور سربلند نظر آتے ہیں۔ ددن کے وقت بچہ خواہ تھوڑی دیر تک سوئے یا زیادہ دیر تک مگر بچے کو اس بات کا عادی بنانا چاہیے کہ وہ شام کے چھ بجے دودھ پینے کے بعد سو جائے۔ پیدائش کے بعد چھ ماہ تک تو بچہ اپنی ماں کے اپس ہی سوتا ہے کیونکہ اس عمرمیں ماں کو اس کی خوراک دودھ نیند اور آرام کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن چھ ماہ کے بعد مناسب یہی ہے کہ وہ اپنی چارپائی کے ساتھ اس کی چھوٹی سی چارپائی بچھاوے۔ تاکہ وہ الگ سونے کاعادی ہو جائے۔ رات کے وقت جب اس کی آنکھ کھل جائے تو اسے یہ اطمینان ہو کہ میری ماں میرے پاس ہے۔ اگر بچے کو علیحدہ چارپائی پر سلانے کا انتظام نہ کیا گیا تو بچہ قدرتی طور پر یہ چاہے گا کہ رات کے وقت ماں کے ساتھ ہی سویا کرے۔ ماں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کا بستر نہایت صاف اور خشک رہے۔ بچہ اس قدر نازک بدن ہوتاہے کہ اس کی صحت کسی گندی شے کے اثر سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہے۔ اس معاملے میں ماں کی بے پروائی سے بچے کو بیمارہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اگر بچہ منہ کے بل سویا ہوا ہے یا اس کا بستر کے کپڑوں کی وجہ سے ڈھکا ہوا ہے تو ماں کو چاہیے کہ بچے کا منہ اوپر کی طرف کر دے اور اس کے سر سے کپڑے ہٹا لے۔ منہ کے بل سونے اور بستر کے کپڑوں سے سر کے ڈھک جانے سے اس امر کا خطرہ ہے کہ بچے کو تنفس نہ ر ک جائے غرض ماں کو اپنی نیند پوری کرنے سے پہلے بچے کی نیند کے متعلقہ فرائض بجا لانے کے معاملے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ بچے کی حرکتیں جب بچہ نو مہینے کا ہو جاتا ہے تو وہ تھوڑے سے سہارے کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے۔ بعض اوقات وہ رینگ کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنا سر اونچا رکھتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے۔ جو چیز اس کے ہتے چڑھ جائے اسے پکڑ لیتاہے اور اسے چوستا ہے اور کاٹتا ہے۔ وہ ان کھلونوں سے خوش ہوتا ہے جو حرکت کرتے ہیں یا جن سے آواز نکلتی ہے۔ اس عمر میں بچہ نہ صرف غوں غاں کرتا ہے بلکہ ٹوٹے پھوٹے لفظ بھی منہ سے نکالتا ہے۔ کبھی کبھی کسی چیز کو دیکھ کر یا آواز سنکر ہنستا ہے۔ وہ اپنوں کو پہچانتا ہے اور غیروں سے جھجکتا ہے۔ وہ ا ن لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اسے ہنسانے اور خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بڑوں کا کام کرتے غور سے دیکھتا ہے اور ان کی نقل اتارنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ غرض جب تک وہ جاگتا رہتاہے نچلا نہیں بیٹھتا۔ گیارہ مہینے کی عمر میں وہ جب مکان کے دروازے پر موٹر کار کی آواز سنتا ہے تو کھڑخی سے اسے دیکھنے کی کوشش کؤرتا ہے کسی اور قسم کا شور ہو تو وہ ا س کی طرف توجہ نہیںکرتا۔ کسی اور قسم کا شور ہو تو وہ اس کی طرف توجہ نہیںکرتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کار کی تصویر کا نقش اس کے دل پر قائم ہو جاتا ہے۔ آج کل بچے کے لیے جو کپڑے اورکھلونے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں وہ بھی اس کی دلچسپی اور غور و فکر کا باعث ہوتے ہیں جو ماں یہ چاہتی ہیکہ گھر کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اس کے توڑ پھور سے محفوظ رہیں اسے ان چیزوں کو ایسی جگہ رکھ دینا چاہیے جو اس کی دسترس سے باہر ہوں۔ گھر کی جس چیز کو ماں اس کے لیے ضروری اور مفید سمجھتی ہے کہ وہ اس کے کام آتی ہے اور اس کو سہولت بہم پہنچاتی ہے یہی چیزبچے کے یے بے حقیقت ہے کیونکہ اسے اس کی ضرورت نہیں۔ لباس بچے کے لیے لباس موسم کے اعتبار سے تیار کرانا چاہیے۔ صرف وہی لباس بچے کے لیے مفید ہے جس سے اس کو آرام پہنچے اور اس کی صحت قائم رہے۔ ما ں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کا لباس اس قدر فٹ نہ ہو کہ بچے کے اعضاا س میں جکڑے رہیں صحت اور آرام کے اعتبار سے اس کا لباس نسبتاً ڈھیلا ہونا چاہیی۔ بچے کا لبا س ہر وقت ایسا صاف سھترا رہنا چاہیے کہ خود اس کے دل میں لباس کو صاف سھتر ا رکھنے کا خیا ل پیدا ہو جائے۔ اسے گندی اور غلیظ جگہ پر کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسی عمر میں بچے کو محبت اورپیار سے گندگی اور صفائی میں تمیز کرنے کا سبق پڑھانا چاہیے۔ یہ نہ خیال یا جائے کہ بچے ایسی باتوں کو نہیں سمجھتے۔ وہ بو ل نہ سکنے کے باوجود سمجھانے سے ایسی باتیں آسانی سے سمجھ لیتے ہیں۔ کھلونے ایک سال سے کم عمر کا بچہ کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھاتاہے۔ اس سے کھیلتا ہے اور اپنے منہ میں لیتا ہے۔ بچے کو ایسے کھلونے نہیں دینے چاہئیں جن پر رنگ چڑھا ہوا ہے ۔ وہ جب رنگین کھلونے کو منہ میں لے کر اسے چباتا یا چوستا ہے تو اس امر کا قوی اندیشہ ہے کہ رنگ دار کھلونا اسے نقصان نہ پہنچائے کیونکہ بعض رنگوں میں زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے۔ ربڑ کے کھللونے بچے کے لیے زیادہ موزوں ہیں اسے صاف دری پر بٹھانا چاہیے تاکہ جب وہ اپنے کھلونوں سے دل بہلائے تو اس کے کھلونے بھی صاف ستھرے رہیں لیکن اس احتیاط کے باوجود ماں یا نرس کا فرض ہے کہ وہ کھلونوں کو دھو کر رکھے۔ بعض مائیں جو اپنے بچوں کو پختہ یا کچے فرش پر بٹھا کر ان کے سامنے کھلونے رکھ دیتی ہیں تو وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ جن کھلونوں کو مٹی لگ جاتی ہے انہیں جب وہ منہ میں لیتے ہیں تو یہی مٹی ان کے معدے میں پہنچ کا ان کی جسمانی تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ بچے جب کھلونوں سے فارغ ہوجائیں تو انہیں صاف کپڑے سے دھو کر احتیاط سے بکس میں بند کردیا جائے۔ ایک وقت میں بچے کے لیے دو یا تین کھلونے کافی ہیں۔ دوسرے کھلونے اس کی نظر سے غائب رہنے چاہئیں تاکہ جب وہ ان کھلونوں سے جو اسے دن کے وقت دیے جائیں بیزار ہوجائے تو اسے دوسرے وقت نئے کھلونے دے کر خوش رکھا جائے۔ کھلونے بچے کا دل صرف بہلتا ہی نہیں بلکہ ان کی شکلیں حرکتیں اور ان کی آوازیں اس کے لیے ایک عملی سبق ہیں جو اس کم سنی میں اس کی ذہنی نشوونما کا بہترین ذریعہ ہیں۔ حافظے کی ابتدا پہلی مرتبہ جب بچہ اپنا کھلونا فرش پر پھینک دیتا ہے تو پھر عام طور پر وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ لیکن وہ وقت جلد آ جاتا ہے جب اسے خیال آتا ہے کہ وہ کھلونا جس سے وہ کھیل رہا تھا کدھر گیا۔ یہ خیال اس کی یاد کو تازہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کم سنی کے باعث اس کی قوت حافظہ تھوڑی دیر تک قائم رہتی ہے۔ مثلاً چھ ماہ کے بچے کو جب ٹیکہ لگایا گیا تو وہ اس واقعہ کو بھول گیا تھا اس یلے جب اسے ڈاکٹر کے پاس ٹیکہ کے لیے بھیجا گیا تو وہ ذرا نہ ڈرا۔ مگر اب اسمیں بات کو زیادہ دیر تک یاد رکھنے کی صلاحیت پیداہو گئی ہے اس لیے وہ تیسری مرتبہ ڈاکٹر کی شکل یا اس کی سوئی کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ آوازیں سنتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ ان کا کیا مطلب ہے۔ جب وہ باورچی خانہ سے آواز سنتا ہے تو اسے معلو م ہوجاتاہے کہ اس کی ماں کھانا تیار کر رہی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ آوازوں کا متعلقہ واقعات سے سلسلہ ملانا شروع کر دیتا ہے۔ جب مقررہ وقت پر وہ بوتلوں کی آواز سنتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ دودھ دینے والا ہے جب کار مکان کے برآمدے میں داخل ہوتی ہے تو بچہ اپنے کمرے میں بیٹھاہوا سمجھ جاتاہے کہ اس کا باپ گھر آ گیا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آ جاتا ہے جب بچے کو اس کا باپ یا اس کی ماں ا س کے نام سے پکارتی ہے۔ تو ہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھتا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا نام نہیں پہچانتا۔ یہ اسی قوت حافظہ کا نتیجہ ہے کہ وہ باپ یا ماں کے ہنے پر انہیں اپنے کھلونے دیتا ہے۔ یا ان سے اپنے مطلب کی چیز لیتاہے۔ اگر باپ اپنے کسی کام کے سلسلے میں باہر جانے کے لیے تیار ہوتا ہے تو بچہ بھی ماں باپ کے ساتھ جانے کے لیے ضد کرتا ہے۔ اور جب اس کی یہ ضد پوری نہیں ہوتی تو بڑے زور سے رونا شروع کر دیتا ہے۔ آخر ماں اسے کوئی نیا کھلونا دے کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ غرض روز مرہ کی زندگی میں یہ چھوتے چھوٹے واقعات جن سے اسے سابقہ پڑتاہے اس کا حافظہ بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ سب سے بڑی چیز جس کی بدولت اس کا حافظہ بڑھتا ہے وہ اس کی اپنی کوشش ہے کوشش س مراد اس کی یہ فطری خواہش ہے کہ وہ ہر نئی چیز کو اپنے ہاتھ میں لے اسے منہ میں ڈالے یا اس سے کھیلے یہی چیزیں اس کی یاد کو تازہ رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ بچے کی افسردہ دلی جو ماں اپنے گھر کے کسی کمرے کے اندر کام کاج میںمصروف رہتی ہے وہ بچے کو اسی کمرے میں کھٹولے کے اندر لٹا دیت ہے تاکہ وہ بچے سے غافل نہ رہے۔ اس سلسلے میں یہ رائے بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ بچوں کو زندگی کے ابتدائی دور میں ہی تنہاء کا عادی بنانا چاہیے تاکہ ان میں آزادی اور تصور کی کیفیت نشوونما پائے لیکن اکثر بچے جنہیں تنہا رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے وہ افسردہ دل اور خاموش پائے جاتے ہیں۔ یہ اسی افسردہ دلی اور خاموشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنا انگوٹھا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا جب وہ کھڑے ہونے کے قابل ہو جاتے ہیں تو غیر شعوری طور پر جسم کے بالائی حصے کوآگے پیچھے کی طرف حرکت دینے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس بچے کے ساتھ کھیلنے اور باتیں کرنے کا سلسلہ قائم رکھا جائے تووہ اپنی ضروریات کے لیے تقاضا کرتا رہتا ہے بچے کو مطمئن اور خوش رکھنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ اس کا تعلق گھر کے ایسے لوگوں سے قائم رہے جن سے وہ مانوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن انہیں ضرورت سے زیادہ بچے کی طرف متوجہ ہونے کی رہنا چاہیے۔ درمیانی راستہ اکثر والدین کے دل میں یہ خیال پیداہوتا ہے کہ انہیں اپنے بچے کو ڈسپلن نظم و ضبط کا پابند نانے کے لیے ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے کہ ان کا بچہ جس کی عمر ابھی ایک سال کی بھی نہیں بگڑنے نہ پائے۔ فرض شناس ماں کے لیے یہ ایک اہم سوال ہے کہ پہلے اس بات پر غور کر لیا جائے کہ بچے کی ہر بات کو مان لینے یا اسے نظم و ضبط کا پابند بنانے کا کیا نتیجہ ہو گا۔ جن بچوں کے والدین ان کی ہر خواہش کو پورا کردیتے ہیں انہیں بہت جلد یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان یک رونے یا مانگنے سے ان کی ہر خواہش خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز پوری ہوجاتی ہے۔ وہ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو استادوں ساتھیوں اور دوستوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی ہر بات مان لی جائے اور جب ان بگڑے ہوئے بچوں کی بات نہیں مانی جاتی تو انہیں مایوسی ہوتی ہے۔ انہیں دوسروں سے اپنی بات منوانے اور زندگی کی مشکلات پر قابو پانے میں بڑی دقت پیش آتی ہے۔ انہوںنے یہ سمجھ رکھ اہے کہ ان کے ساتھ محبت کرنے کا اصلی ثبوت یہ ہے کہ محبت کرنے والے ان کی کسی خواہش کو رد نہ کریں اور اگر ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو والدین کے یہ لاڈلے اپنے ساتھیوں یا دوستوں سے سچ مچ بگڑ جاتے ہین اور ان کے خلاف ایسی جابرانہ روش اختیار کرتے ہیں جس کا انجام جرم کے ارتکاب کی صورت میں نمودار ہوجاتاہے۔ یہ ایک قابل غور سوال ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کیوں بگاڑتے ہیں؟ یا بعض اوقات والدین اپنی جوانی میں نظم وضبط کے اصول پر کاربند نہرہے ۔ وہ خود بگڑے ہوئے بچوں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے۔ ایسی حالت میں وہ اپنے بچے کے ساتھ محبت کے یہی معنی ہیں کہ جو کچھ وہ مانگیں انہیں دے دیا جائے۔ بعض والدین کو اپنے بچوں سے اس قدر پیار ہوتاہے کہ وہ بڑی آسانی سے ان کے مکر و فریب کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں ان کی ہر خواہش کے پورا کرنے میں بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی بجائے ان کی تربیت کے معاملے میں زیادہ سختی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ چھوٹے بچے ک ابتدا ہی سے ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ کتے کے پلے کی طرح حکم ماننے کے لیے تیار رہے اگر بچے کی ایسی تربیت نہ کی گئی تو وہ بگڑ جائے گا۔ وہ اپنے بچے سے پوری اطاعت کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن ایسے والدین کو یاد رکھناچاہیی کہ اگر ا ن کے بچے کی طبیعت میں سرکشی کا مادہ موجود ہے تو وہ بڑ ا ہو کر یقینی طورپر ایسی روش پر کاربند ہو گا جسے وہ اپنے لیے آسان سمجھتا ہے ایسے بچے بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو فطرتاً اطاعت شعار واقع ہوئے ہیں اور والدین کا کہا ماننا اپنا ضروری فرض سمجھتے ہیں۔ والدین ایسے بچے سے خوش ارہتے ہیںؒ۔ لیکن اس کے ساتھ بعض ماہرین کی رائے میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ والدین کی فرماں برداری اور اطاعت شعاری کا یہ جذبہ انہیں اس جوہر سے محروم کر دیتا ہے۔ جو قیادت کے مردانہ وصف کے لیے ضڑوری ہے۔ یہی جذبہ ان یی آزادی آزاد خیالی اور قوت عمل کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ نہ تو والدین کی یہ روش بچے کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے کہ وہ لاڈ پیار کے جذبے کے تحت اس کی ہر خواہش کوپورا کر کے اس کی سیرت کو بگاڑ دیں اور نہ اس کی تربیت کے مقابلے میں حد سے زیادہ سختی کے اصول پر کاربند ہونے سے وہ خوش گوار اور مستحسن نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر میانہ روی کے اصول کو ملحوظ رھاجائے اور ماں اور باپ دونوں اپنے بچے کی تربیت کے متعلق ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کریں تو اس سے بہتر نتائج پیدا ہو سکتے ہیں متفقہ لائحہ عمل کا مرتب کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بچے کے متعلق ماں اور باپ کی ہدایت میں اختلاف یا تضاد نہ پایا جائے۔ مثلاًماں نے اگر اپنے چار سالہ بچے کو یہ سمجھایا کہ لڑنا بری بات ہے اچھے بچے لڑا نہیں کرتے۔ مگر باپ اپنے لڑکے سے یہ کہتا ہے کہ تم اس لڑکے سے ہرگز نہ ڈرو۔ اس پر رعب جمانے کے لیے اسے ایسی پٹخی دو کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے اب بچہ ماں کا حکم مانے یا باپ کا مطلوبہ نتائج کے زاویہ نگاہ سے بچے کی تربیت کا پروگرام صرف اسی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے کہ خود والدین کی سیرت و کردار کا معیار بھی بلند رہے۔ پاکستان کا ننھا شہری اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو اپنے بچوں سے قدرتی طورپر والہانہ محبت ہوتی ہے وہ اپنی اس خواہش کے اظہار میں بالکل حق بجانب ہیں کہ ان کے بچے تندرست ہوں اور پرورش اور تربیت کے عمل کی بدولت جو والدین کی قربانی پر مبنی ہوتاہے بڑے ہو کر ایک کامیاب زندگی بسر کریں۔ گواسلامی گھرانوں میں بچو ں کی پرورش سے متعلقہ فرائض کی بجا آوری کا ایکبری حد تک خیال رکھا جاتا ہے لیکن عام طور پر بچوں کی محبت کے نشے میں والدین اس قدر سرشار ہو جاتے ہیں کہ ان میں ایک سال سے کم عمر کے بچوں کے متعلق اس سوال پر غور کرنے کا احساس ہی نہیں پایا جاتاہکہ اگھر کے اس نوزائیدہ ممبر کا تعلق صرف والدین یا ان کے قریبی رشتہ داروں سے ہی نہیں بلکہ ملک اور ملت سے بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ گھر کا یہ نوزائدہ ممبر اپنی ملکیت کا ایک ننھا شہری اور ملت اسلامیہ کا ایک منھا فرد ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے ننھے شہری کی شخصیت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مملکت پاکستان کے طبقہ متوسط کے والدین اس ننھے شہری کی شخصیت کو اس قدر اہمت نہیں دیتے جتنی کہ دینی چاہیے۔ اگر یہ ہمت پیش نظر رکھی جائے تو پھر پاکستانی والدین کو بچوں کی پرورش اور تربیت کے متعلق اپنی موجودہ روش اور ذہنیت کا بہت جلد جائزہ لینا چاہیے۔ یہ کہنا ذر ا مبالغہ نہیںہے کہ مملکت پاکستان کے درمیان مستقبل کا انحصار اس کے ننھے شہریوں کی پرورش اور تربیت پر ہے اگر پاکستانی والدین کی بے پروائی کی وجہ سے بگڑے ہوئے بچوں کی تعداد زیادہ بڑھ گیئی ہے تو یہ بگڑے ہوئے بچے بڑے ہو کر بھی بگڑے رہیں تو اس سے ہماری ملکی اور ملی مفاد کو شدید نقصان پہنچے گا قومی اندیشہ ہے۔ پاکستان کو صرف انہیں بچوں کے وجود پر فخر ہو سکتا ہے جنہو ں نے اسلامی ماحول میں تربیت پائی ہو۔ اسی نقطہ خیال سے پاکستان کے والدین کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑے گاکہ بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ کی محبت ا س نظریے کے تابع ہو کہ ان کی تربیت یافتہ بچے دراصل پاکستان کی لازوال دولت ہیں۔ تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ اسلام کے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اعظم کے مبارک دور می ہر نوزائیدہ بچے کا حکومت کی طرف سے وظیفہ مقرر کر دیا جاتا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج سے چودہ صدی پہلے خلافت اسلامیہ کے نزدیک جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے بچے کی پیدائش کس قدر اہم اور قابل قدر سمجھی جاتی ہے۔ سبق آموز مثال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔ ماں اگر تعلیم یافتہ اور روشن خیالہے تو وہ توتلی زبان والے ننھے طالب علم کے ہر سوال کا جواب بڑی آسانی کے ساتھ ایسا دے سکتی ہے کہ جس سے اس کا اطمینان ہو جائے ماں باتوں باتوں میں بچے کو ان تمام چیزوں کی ماہیت سے آگاہ کر دیتی ہے جو اس کے لیے نئی ہوتی ہیںَ اور جنہیں وہ بڑے غور سے دیکھتا ہے یہ ماں کی اسی انقلاب پیدا کردینے والی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ۳۷۱ قبل مسیح میں جب ایک بچہ پیدا ہوا جو چین اورشمالی صوبہ شانٹنگ میں پیداہوا بڑ ا ہوا تو اس ملک کاسب سے بڑا آدمی بن گیا۔ اتنا بڑ ا کہ اس ملک کا بادشاہ بھی جو بڑا جابرتھا اس کی عزت کرنے اور اس کی سچی باتیں سننے پر مجبور ہو گیا اس نامور آدمی کانام منگ زا تھا۔ منگ کی ماں چنگ شائی کو ابتدا ہی سے یقین تھا کہ قدرت نے اس کے بیٹے کو کسی عظیم الشان مقصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیا ہے وہ اس نکتے سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ ماں بننے کے بعد وہ جو کام کرے گی اس کا بچے کی زندگی پر اثر پڑے گا۔ اس احساس سے اس نے اپنی سیرت کو نیکی اور سچائی کے سانچے میں ڈھالا تاکہ اس کے جوہر اس کے بچے کی زندگی میں چمکیںَ منگ ابھی تین سال ہی کا تھا کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ چنگ شائی کے پاس دولت نہ تھی کہ وہ منگ کو ناز و نعمت سے پالتی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری ور قسم کھائی کہ چاہے پیٹ پر پتھر باندھ کر زندگی بسرکرنی پڑے لیکن میں ضرور اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنائوں گی تاکہ وہ میرے محبوب شوہر کا نام روشن کرے۔ افلاس کی وجہ سے منگ اور اس کی ماں کو مجبوراً ایک قبرستان کے پاس رہنا پڑا۔ ننھا منگ ہر روز مردوں کی تجہیز و تکفین دیکھتا تھا اوران کی نقل اتارا کرتا تھا۔ جب ماں کو یہ محسوس ہوا کہ اس کا اثر بچے کے لیے مضر ثابت ہو گا تو وہ اسے اپنے ساتھ لے کر شہر میں جارہی ان کا مکان بازار میں واقع تھا۔ لیکن جب چنگ شائی نے یہ دیکھا کہ شہر میں جھوٹ کا بازار گرم ہے اور سوداگر اپنی اشیاء کی تعریف میں بے سروپ]ا باتیں کہنے سے دریغ نہیں کرتے اور گاہک بھی قیمت کم کرانے کے لیے غلط بیانی سے نہیں شرماتے تو اس نے اپنے ہونہار بیٹے کی تربیت کے لیے شہر والے مکان کو بھی موزوں نہ سمھا چنگ شائی نے پھر مکان تبدیل کیا اور اس مرتبہ ایک مدرسے کے پاس رہنے کو جگہ مل گئی منگ ہر روز علما کی نشست و برخاست کو غو ر س دیکھتتا ان کی تقریریں سنتا اور ان کی نصیحتوں کو دل میں جگہ دیتا۔ چنگ شائی کو اطمینان ہو گیا کہ اب منگ کے لیے ترقی اور شہر ت کا راستہ صاف ہو گیا ہے گو بچے کی تربیت کے متعلق چنگ شائی کے عزائم بہت بلند تھے لیکن افلاس اور ناداری کی وجہ سے وہ بڑی پریشان رہتی تھی۔ مکان کے پا س ایک قصاب کی دکان تھی ایک دن ننھے منگ نے پوچھا اماں یہ قصاب جانوروں کو کیوں ذبح کرتا ہے ؟ ماں کے منہ سے بے ساختہ یہ بات نکل گئی کہ بیٹا اس لیے کہ تم کھائو یہ کہ کر وہ پشیمان ہوئی کہ کیونکہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ اس نے نادانستہ جھوٹ بولا ہے اور اسے دیکھ کر منگ کو بھی جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے گی۔ اس لیے اس نے محنت مزدوری کر کے اتنی رقم مہیا کر لی جس سے وہ بچے کو گوشت کھلانے اور اپنی بات کو سچ کر دکھانے کے قابل ہو گئی۔ بچپن میں منگ کتابوں کی طرف کم توجہ دیتا تھا۔ ماں اس کی اس بے توجہی پر کڑھتی ایک دن منگ اس وقت ماں کے پاس پہنچا جب وہ سوت کات رہی تھی۔ ماں نے جب اسے پڑھنے کے متعلق پوچھا تو اس نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا اچھا دیکھا جائے گا۔ کتابووں میں رکھا ہی کیا ہے؟ بیٹے کے اس جواب پر ماں کو اس قدر غصہ آیا کہ اس نے چاقو سے سوت کی اٹی کو کاٹ ڈالا منگ نے حیران ہو کر پوچھا کہ اماں اس حرکت کا کیا مطلب ہے؟ ماں نے جواب دیا کہ جو کچھ میں نے اس سوت کے ساتھ کیا وہی تم اپنی زندگی سے کر رہے ہو۔ تم میری ان امیدوں کے خوب صورت مکان کو گرا رہے ہو جو تم سے وابستہ ہیں… یہ نصیحت ایسی کارگر ثابت ہوئی کہ اس کے بعد چنگ شاء کو اپنے بیٹے کے متعلق کبھی پریشانی کی شکایت کا موقعہ نہ ملا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد منگ نے رفاہ عامہ کی طرف توجہ مبذول کی۔ لیکن چونکہ حالات نامساعد تھے اس لیے اسے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ ایک دن غصے اورپریشانی کی حالت میں ایک ستون کے ساتھ کھڑا تھا کہ ما ں نے اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کی۔ منگ نے زمانے کی ناقدری کاشکوہ کرتے ہوئے افسوس ظاہر کیا کہ جب بادشاہ اپنی رعایا سے غافل رہے اور سلطنت کے ارکان رشوت کی شکل میں دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کی لعنت میں مبتلا ہوں تو کمزوروں اور مظلوموں کو عدل و انصاف کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔ منگ نے اصلاحات کے نفاذ کے لیے انتہائی کوشش کی لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ آخر اس نے تکر وطن کا ارادہ کر لیا مگر وہ اپنی ما ں کو بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتاتھا۔ لیکن چنگ شائی نے یہ الفاظ میں اس کی ڈھارس بندھائی عورت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ مرد کے حکم سے سرتابی کرے۔ بچپن میں اس کافرض والدین کی اطاعت ہے شادی کے بعد اس کا شوہر اس کا مختار ہے رنڈاپے میں اسے چاہیے کہ اپنے بیٹے کی خوشنودی کو اپنی خواہشات پر ترجیح دے تمہارا ضمیر تمہیں جس بات کی اجازت دے اس پر مجھے کیا اعتراض ہو سکتاہے آزاد ی کی جنگ میں بوڑھی ماں کا کچھ غم نہ کرو اور خدا کی راہ میں جا ن تک لڑا دو۔ ماں کی حوصلہ افزائی سے منگ اپنے ارادے پر پہاڑ کی طرح قائم ہو گیا۔ اس نے جسم اور دماغ کی پوری طاقت سے ملوکیت کی مخالفت شروع کر دی۔ اس نے ملک کی دردناک حالت کے متعلق ایک پرجوش خط بادشاہ کو لکھا اور اس میں لوگوں کے افلاس کا ان رقت انگیز الفاظ میں ذکر کیا۔ امرا کے باورچی خانوں میں لذیذ اور مرغن کھانے پک رہے ہیںَ اور ان کے اصبطل میں موٹے تازے گھوڑے بندھے ہیں ۔ لیکن غریب سوکھے ٹکڑوں کو ترس رہے ہیں اور صحرائوں میں بھوکے آدمیوں کے پنجر پڑے ہوئے ہییں اگر یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب جنگلی جانور انسانوں کو اور انسان ایک دوسرے کو کھا نے دوڑیں گے۔ اس خط سے بادشاہ کے دل پر ایسا رعب بیٹھ گیا کہ اس نے منگ کو اپنے مصاحبوںمیں شامل کر لیا۔ لیکن وہ جمہور کی ترجمانی اور ان کے حقوق کی حفاظت کے فرض کو اس قدر اہم اور ضروری سمجھتا تھا کہ اس نے کبھی بادشاہ کی بے جا خوشامد نہ کی۔ اسے اپنی خودداری اور وقار کا اس قدر پاس تھا کہ ایک دفعہ جب وہ بادشاہ سے ملاقات کرنے کے لیے درباری لباس پہن رہا تھا تو اسے پیغام ملا کہ آج اعلیٰ حضرت کی طبیعت ناسازہے اس لیے کل تمہیں شرف بازیابی بخشا جائے گا۔ منگ نے اس کے جواب میں بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ بندہ علیل ہے اس لیے حاضر ہونے سے معذور ہے۔ اگلے دن وہ دربار میں جانے کے بجائے ایک دوست سے ملنے چلا گیا اور اس طرح ملوکیت پر ایک کاری ضڑب لگائی۔ منگ کی بیباکانہ حق گوئی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک دن بادشاہ نے اس سے سوال کیا کہ آیا ایک وزیر کے لیے بادشاہ کو قتل کرنا جائز ہے تو منگ نے جواب دیا کہ جو شخص رعایا کا مال غضب کرتا ہے وہ ڈاکو ہے۔ جورعایا کی آبرو کی پرواہ نہیں کرتا وہ بدمعاش ہے ایک ڈاکو اور بدمعاش کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں۔ بچے کس طرح اپنی بات منواتے ہیں؟ چھ ماہ سے ایک سال تک کا بچہ قدرتی طور پر نسبتاً مضبوط نظر آتا ہے اور وہ اپنے جسمانی اعضا سے بھی کام لیتا ہے ۔ وہ زیادہ دیر تک جاگتا رہتا ہے اورآس پاس کی چیزوں میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کے د ل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ بڑی عمر کے لڑکے اس کی طرف زیادہ توجہ کریں ۔اس سے پیار کریں اور اس کے ساتھ کھیلیں اور اس سے باتیں کریں خود ہنسیں اور اسے ہنسائیں۔ وہ خوش رہنا چاہتا ہے اور فطری طور پر اس امر کی توقع رکھتا ہے کہ جو آدمی عمر میں اس سے بڑے ہیں وہ اسے خوش رکھیں۔ اس کے سامنے طرح طرح کے کھلونے موجود رہیں۔ منگ کے حالات فروری ۱۹۳۴ء کے ماہنامہ ہمایوں لاہور سے ماخوذ ہیں۔ تاکہ وہ ان سے کھیلے اور اپنا دل بہلائے پھر کھلونے بھی ایسے ہوں کہ جن کی آواز اور رفتار اسے اچھی طرح معلوم ہو فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ نچلا نہ بیٹھا رہے۔ اس لیے مصروف اور خوش رہنے کی غرض سے فطرت ہی اسے یہ سبق پڑھاتی ہے کہ وہ بڑوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اگر اشاروں سے کام نہ نکلے تو چلانا یا رونا شروع کر دے۔ اسے اپنی زندگی کے ابتدائی مہینوں میں اس بات کا تجربہ ہو چکاہے کہ جب اسے بھوک لگتی ہے یا کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ بڑی دیر تک اور بڑے زور سے چلانا یا رونا شروع کر دیتاہے۔ ماں اس کے رونے کی آوا ز سن کر اس کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اور جب وہ ماں کایا بوتل کا دودھ پینا شروع کردیتاہے تو خاموش ہو جاتا ہے چھ مہینے کی عمر والے بچے میں اس بات کا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ زیادہ دیر تک اور زیادہ زور سے رونا ہی ایک ایسا عمل ہے جس کی بدولت وہ اپنی مشکل کو حل کر سکتا ہے۔ اور جب یہ عمل ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے بچوں میں ضد سے اپنی بات منوانے کا میلان پیداہو گیا ہے۔ جب بچہ چھ مہینے کا ہو جاتا ہے تو والدین میں عام طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ بچے کے رونے کی آواز سن کر ہی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کیوں رو رہا ہے مثلاً اگر بچہ کسی شدید درد میں مبتلاہے تو ماں کو چاہیے کہ اسے اپنی گود میں لے کر محبت اورپیار سے اس کے درد کا علاج کرے۔ اگر درد کی حالت میںاسے اکیلا چھوڑ دیا گیا تو وہ ڈر جائے گا۔ اور اس کی تکلیف زیادہ بڑھ جائے گی۔ اگر بچہ درد سے بیتاب ہے تو ماں کی گود میں جانے کے بعد بھی روتا رہے گا۔ جب بچہ بلند شور یا دفعتاً جگا دینے کے باعث ڈر جائے تو ماں کو چاہیے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اسے گو د میں لے کر محبت اور پیار سے اسے چپ کرائے تاکہ اس کا ڈر زائل ہو جائے۔ جو مائیں بچپن میں بچوں کے ڈر سے بے پرو ا رہتی ہیں انہیں معلوم ہوجاناچاہے کہ وہ بڑے ہو کر بھی ڈڑ جایا کریں گے،۔ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں بڑے مشکل پیش آئے گی۔ ہر بچے کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی دلیر بنانا چاہیے۔ بچے کے دل میں دلیری کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے تو صرف ماں کی تربیت سے۔ بچے کے رونے کی عام وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت رونا شروع کر دیتا ہے کہ جب اس کی خواہش پوری نہیںہوتی۔ مثلا ً وہ اپنے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور ماں اپنے کام میں مصروف ہے۔ اس نے ماں کو پاس جاتے دیکھ لیاہے۔ اور اس مقصد سے رونا شروع کردیا ہے کہ ماں اسے اٹھا لے۔ ماں اگر عقل مند ہے تو وہ اس کے رونے کی پرواہ نہیں کرتی اور بچہ بھی تھوڑی دیر تک رو کر خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن جب رونے کی وجہ بھوک یا پیاس یا درد ہوتو پھر ماں کو غافل نہیں رہنا چاہیے۔ بچے کا غسل بچے کو نہلانے سے پہلے ماں کو حسب ذیل اشیاء اپنے قریب رکھ لینی چاہئیں تاکہ وہ وقت پر کام آ سکیں۔ بچے کے لیے نہانے کا ٹب۔ باتھ تھرما میٹر۔ گرم اورسرد پانی۔ صابن۔ منہ دھونے کے لیے ململ کا کپڑا۔ سارے جسم کودھونے کے لیے اسی قسم کا بڑا کپڑا ۔ بوراسک لوشن۔ بیبی پائوڈر۔ دو گرم تولیے۔ نہانے کے ٹب میں قریباً پانچ انچ کی گہائی تک پہلے ٹھنڈ اپانی ڈالا جائے اور پھر گرم۔ بچے کو نہلانے سے پہلے اس امر کااطمینان کر لینا چاہیے کہ پانی سو درجے فارن ہیٹ تک گرم ہے۔ ابلے ہوئے پانی میں بوراسک بقدر ایک چمچہ ملا لینا چاہیے۔ بوراسک والے گرم پانی میں روئی کے چند ٹکڑے ڈال دینے چاہئیں۔ بچے کو نہلانے سے پہلے ماں کو اپنے ہاتھ دھو لینے چاہئیں۔ بچے کو گھنٹے پر رکھ کر یا کسی نرم کپڑ؁ پر لٹاکر بنیان سے نیچے کے کپڑے اتار لیے جائیں۔ اس کے بعد بوراسک لوشن میں سے روئی کا ٹکڑا نکال کر اسے نچوڑ لیا جائے اور اس سے بچے کی ناک کے بیرونی حصے کو اوپر سے نیچے کی طرف ملا دیا جائے۔ پھر روئی اور ایک ٹکڑے کو نچوڑ کر ملا جائے پھر بڑی احتیاط سے بچے کے نتھنوں کو روئی کے ٹکڑے سے نچوڑنے کے بعد صاف کیا جائے۔ اس عمل کے دوران اگر بچے کو چھینک آئے تو یہ اچھی بات ہے۔ کیونکہ چھینک سے نتھنے بالکل صاف ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں یا منہ کو ابھی صاف نہ کیا جاے آنسو او ر منہ کی رال بجائے خود جسم کے ان حصوں کو صاف کرنے میں مدد دیتی ہے اس کے بعد چہرے کے باقی حصے کو کانوں کو گرم پانی سے دھول لیا جائے۔ پھر انہیں خشک کر لیا جائے۔ بچے کا سر دھونے سے پہے اس کی بنیان اتار لی جائے اور اسے ایک گرم تولیے میں لپیٹ لیا جائے۔ پھر پانی میں انگلی ڈال کر اطمینان کر لیا جائے کہ یہ زیادہ گرم نہ ہو اس کے بعد بڑی نرمی سے اس کے بال دھوئے جائیں اور انہیں خش کر لیا جائے۔ ہفتے میں ایک دفعہ صابن سے اور دوسرے دنوں میں گرم پانی سے نہلایا جائے۔ جب صابن سے نہلانا ہو تو ماں دونوں ہاتھوں پر صابن اچھی طرح مل لے اور پھر نرمی سے بچے کے جسم اور اعضا پر صابن والے ہاتھ پھیرے۔ صابن ملتے وقت ہاتھ ہمیشہ بچے کے دل کی جانب اوپر کی طرف پھیرے جائیں۔ جب بچے کے جسم پر صابن اچھی طرح مل لیاجائے تو اسے گرم پانی والے ٹب میں آہستگی اور نرمی سے رکھاجائے جیسا کہ تصویر نمبر ۱ میں دکھایاگیاہے بائیں ہاتھ اور بازو سے بچے کی گردن اور اس کے کندھوں کو تھاما جائے پھر بچے کا بایان کندھا انگلیوں سے پکڑا جائے دایاں ہاتھ اس کے چوتڑوںکے نیچے رکھ کر اسے ٹب میں تھاما جائے۔ جب وہ ٹب میں آرام کے ساتھ لٹا دیا جے تو دائیں ہاتھ سے اس پر تھوڑا سا پانی ڈالا جائے جیسا کہ تصویر نمبر ۲ میں ظاہر ہوتا ہے۔ بچے کو موقع دیا جائے کہ چند منٹ تک پانی میں اپنی ٹانگیں زو ر سے چائے اور اپنے اوپر پانی کے چھینٹے اڑائے اورپھراسے دوسری طرف پلٹ کر اس کی پیٹھ پر تھوڑا ساپانی ڈالا جائے اس کے بعد اسے ٹب میں اٹھا کر تولیے میں لپیٹ دیا جائے پھر دوسرے تولیے سے اس کے جسم کو اچھی طرح یعنی نرمی اور آہستگی کے ساتھ خشک کر لیا جائے جب بچے کا جسم خشک ہو جائے تو اس کے جسم پر تھوڑا سا پائوڈر مل دیاجائے۔ پھر اسے بنیان پہنا دی جائے اگرنہانے کے بعد بچہ پیشاب پاخانہ کر دے تو صرف اس کے اعضا دھو دیے جائیں اوران پر پھر پائوڈر مل دیا جائے اگر کسی وجہ سے جسم کا چمڑا سرخ نظر آئے تو بجائے پائوڈر کے بیبی کریم استعمال کرنا چاہیے۔ آخر میں اسے کپڑے پہنا دیے جائیں اور اس کی رانوں کو صاف رومال باندھ دیا جائے جیسا کہ تصویر نمبر ۳ سے ظاہرہوتا ہے۔ سورج کی روشنی اور ہوا کا غسل ماں کو چاہیے کہ بچے کی ابتدائی زندگی ہی سے اسے سورج کی روشنی اور تازہ اور صاف ہوا کا غسل دیتی رہے۔ اچھے اور خوشگوار موسم میں وہ بچے کو مکان سے باہر کھلی اور صاف جگہ پر چٹائی یا غالیچہ میں بچھا کر کچھ دیر کے لیے اس پر ٹنگا لٹا دے پہلے دن وہ تھوڑی دیر کے لیے بچے کو صاف اور تازہ ہوا میں لٹائے رکھے۔ تاکہ اس کے جسم پر سورج کی کرنیںاپنا اثر ڈالتی رہیں۔ رفتہ رفتہ بچے کو کھلی ہوا میں اور سورج کی روشنی میں لٹانے کا وقت بڑھا دیا جائے۔ سورج کی روشنی اور ہواکے غسل کے لیے بہترین وقت صبح سویرے اورپھر چاء کا وتقت ہے کیونکہ سورج کی بنفشی شعاعیں اس وقت زیادہ مفید ثابت ہوتی ہیں۔ سورج کی تپش بھی نہیں ہوتی۔ اگر بادل کی وجہ سے سورج کی چمک نظر نہ آئے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ صحت بخشنے والی شعاعیں بادلوں میں سے بھی گز ر جاتی ہیں۔ لیکن گرمی کے موسم میں جب سورج کی تمازت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو بچے کے لیے بہتر یہی ہے کہ اسے کسی سایہ دار درخت کے نیچے کھلی ہوا میںلٹا دیاجائے۔ ہوا کا غسل یہی ہے کہ صاف اورتازہ ہوا نہ صرف بچے کے پھیپھڑوں میں داخل ہو جائے بلکہ اس کے جسم سے بھی ٹکرائے اگر تمہارا اپنا باغ نہیں ہے تو بچے کو قریب کے پارک میں لے جا کر ہوا اور سورج کی روشنی کا غسل دیا جائے۔ اگر نہ باغ ہو نہ پارک توماں کو چاہیے کہ بچے کومکان کی کسی کھلی کھڑکی میں سامنے لٹا دے لیکن کھڑکی کسی صورت میں بند نہ کی جائے۔ کیونکہ سورج کی روشنی کی مفید اور صحت بخش شعاعیں کھڑکی کے عام شیشوں یں سے نہیں گزر سکتیں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بچے کے سر آنکھوں اور گردن کو سورج کی تیز چمک سے محفوظ رکھاجائے جسم کے یہ اعضا سائے میں رہنے چاہئیں۔ ٭٭٭ تیسرا باب : بچے کی نشوونما بچے کی ورزش ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں خہ جانوروںکے بچے خواہ وہ پرندے ہو یا چوپائے قدرت کے قانون کے مطابق بہت جلد اپنے جسمانی اعضا سے کام لینے یعن اڑنے اور چلنے پھرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں مرغی کے بچوں کو ہی دیکھیے کہ انڈوں سے نکلتے ہی زمین پر چلنا اور دانہ چگنا شروع کر دیتے ہیں۔ انسان کے بچے کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا جا سکتا ہے۔ ماہر ڈاکٹر اس بات پر زیادہ زور د ے رہے ہیں کہ مائو ں کو چاہیے کہ پیدائش سے دو ماہ بعد ہی وہ اپنے بچوں کو نہایت سادہ اور آسان طریقے سے ورزش کرائیں جس کی بدولت ان کے جسمانی اعضا متناسب موزوں اور ٹھیک حالت میں رہیں گے۔ ابتدا میں یہ ورزش ایک منٹ سے بھی کم عرصہ کے لیے شروع کرنی چاہیے۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جب بچہ بڑا ہو جائے تو چھ منٹ کی ورزش اس کے لیے کافی ہے۔ ورزشوں کی تفصیل یہ ہے ۔ دو تین ماہ تک کے بچے کے لیے: بچے کو اس کی پیٹھ کے بل لٹایاجائے یا ماں اپنے گھٹنے پرلٹائے ۔ اسے بنیان پہنا دی جائے اس عمل کی بدولت بچے کو اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کو زور سے چلانے کا موقع دیا جائے۔ اس ورزش کے لیے بہترین وقت یا تو صبح کے غسل سے پہلے ہے یا پھرجائے کے وقت کے بعد۔ ٹب میں نہلاتے وقت ماں بائیں ہات سے بچے کے سر گردن کندھوں اور پیٹھ کو سہارا دے۔ اور دائیں ہاتھ سے اس کی ٹانگیں پکڑے رکھے ماں نرمی سے بچے کو پانی ہی میں آگے پیچھے ہلائے بچے کے ہاتھ کھلے رہیں تاکہ وہ جب چاہے انہیں اچھی طرح ہلا سکے۔ ماں بچے کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح لٹائے کہ اس کا چہرہ نیچے کی طرف ہو ۔ اسے جرسی پہنا دی جائے کہ اپنا سر اٹھائے رکھے اور ادھر ادھر دیکھے یہ ورزش بچے کی پیٹھ کے عضلات کو مضبوط رکھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔ تین سے چھ ماہ تک کے بچے کے لیے… ماں بچے کو پیٹھ کے بل اپنے گھٹنوں پر لٹائے اور اس کے پیروں کے تلوئوں کو اس طرح سہارا دے کہ خفیف سے دبائو سے بچہ اپنے پیروں کی انگلیاں ماں کی ہتھیلی سے ٹکرائے۔ اس ورزش سے بچے کی ٹانگیں مضبوط رہیں گی اور پیٹ کے عضلات بھی ٹھیک حالت میں رہیں گے۔ بچے کو میز کے اوپر کسی موٹے اور نرم غالیچے میں اس طرح لٹایا جائے کہ اس کا سر ماں کے سامنے رہے اور اس کے دونوں ہاتھ ماں کی انگلیوں کی طرف پھیلے رہیں۔ ماں بچے کو اشاروں اور باتوں سے اسے موقع دے کہ اپنے ہاتھوں سے ماں کی انگلیاں پکڑے اور بچے کو چند انچ اوپر کی طرف اٹھنے اور سرکنے کا موقع ملے۔ چھ سے نو ماہ تک کے بچے کے لیے بچے کو اس کی پیٹھ کے بل لٹایا جائے۔ ماں اس کی دونوں ٹانگوں کو ہاتھوں میں لے کر انہیں نرمی سے اس طرح ہلائے جس طرح لڑکا اپنی ٹانگوں سے سائیکل کے پیڈل چلاتا ہے۔ ماں بچے کو مضبوطی سے اس کے بازوئوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر پکڑے اور اسے گھٹنوں پر اوپر اچھالے یہ بچے کے چھلانگ مارنے کی ورزش ہو گی۔ ماں اپنے ایک ہاتھ سے بچے کی پنڈلیوں کو پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ اس کے سینے کو تھامے رہے۔ پھر اسے اوپر کی طرف سے بلایا جائے۔ بچہ قدرتی طور پر حیرت سے اپنا سر اٹھائے گا اور اپنی پیٹھ موڑے گا۔ نو سے بارہ ماہ تک کے بچے کے لیے ماں بچے کو میز پر لٹا کر اسے اس طرح پکڑ رکھے کہ اس کے ہاتھ سے اس کی پنڈلیوں کو پکڑے رکھے اور دوسرا ہاتھ اس کی چھاتی کے نیچے ہو۔ پھر اسے ہاتھوں کے بل آگے کی طرف رینگنے کا اشارہ کیا جائے۔ ماں بچے کو اوندھے منہ ایسی میز پر لٹائے جس پر موٹا اور نرم غالیچہ بچھا ہو۔ اس کی دونوں ٹانگیں پنڈلیوں سے مضبوط پکڑی جائیں اور بچے کو آہستہ آہستہ اتنا اوپر اٹھائے کہ گویا وہ ہوا میں لٹک رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میز کی سطح پر اوپر لٹک رہے ہوں۔ پھر بچے کو آہستہ سے میز پر لٹا دیا جائے۔ بچے کو میز پر لٹا دیا جائے ماں ایک ہاتھ سے اس کی پنڈلیوں کو پکڑ رکھے اور دوسرے ہاتھ سے اس کی کلائیوں کو۔ پھر اس کے پیروں کو میز پر لٹکا کر اسے اس طرح اوپر اٹھنے کا اشارہ کرے کہ وہ بیٹھا ہو ا نظر آئے۔ جب بچہ بڑا ہو جائے تو ایک ہاتھ سے اس کی کلائیوں کو اور دوسرے ہاتھ سے اس کے دونوں پائوں پکڑ کر اسے اس طرح اٹھائے کہ وہ میز پر اپنے پائوں لٹکا کر کھڑا ہو سکے۔ اچھی صحت کی نشانی بچے کی ابتدائی زندگی کے چند دنوں کے دوران اس کے پاخانے کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے ۔ جب یہ سیاہی مائل مادہ بچے کے جسم سے خارج ہو جاتا ہے تو پاخانے کی رنگ تازہ پھینٹے ہوئے انڈے کی زردی کی طرح نظر آتی ہے۔ بوتل سے دودھ پینے والے بچے کے مقابلے میں ماں کی چھاتی سے دودھ پینے والے بچے کے پاخانے کا رنگ زیادہ زرد ہوتا ہے۔ پاخانے میں سفید پھٹکیاں نہیں ہونی چاہئیں اول اول بچہ چوبیس گھنٹوں میں دو یا تین دفعہ پاخانے کرتاہے۔ لیکن جب بچہ ماں کی چھاتی کے دودھ کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ دن میں صرف ایک مرتبہ یا ہر دوسرے یا تیسرے دن پاخانہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چھاتی کا دودھ بچہ آسانی سے ہضم کر لیتاہے۔ اس دود ھ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو ضائع ہونے والی ہو۔ ماں کے لیے اس حقیقت کا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ کیونکہ اکثرمائیں اور بالخصوص پہلے بچے والی مائیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ اگر بچہ دیر کے بعد پاخانہ کرتا ہے تو ان کے خیا ل میں بچے کو قبض ہے چنانچہ وہ قبض دور کرنے کے لیے دوا استعما ل کرتی ہیں۔ حالانکہ دوا کا استعمال کرنا غلطی ہے۔ جب تک بچہ بظاہر تندرست نظر آتا ہے اس کی صحت کی رفتار میں کوئی رکاوٹ نہیں پائی جاتی وہ خوب سوتا ہے خوش رہتا ہے اور شگفتہ دکھائی دیتا ہے۔ اور پاخانہ کرنے کی وجہ سے اس کا معدہ بھی صاف رہتا ہے۔ ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے قبض نہیں ہے۔ جب تک کہ ماں کی چھاتی کا دودھ اس کی قدرتی غذا ہے کسی علاج یا دوا کی مطلق ضرورت نہیں ۔ نشوونما کی رفتا رکا نقشہ اس نقشہ کے تین کالم ہیں پہلے کام میں ایک ماہ سے اٹھارہ ماہ تک بچے کی حرکتوں کی تفصیل بتائی گئی ہے دوسرا کالم عمر کا ہے اور تیسرا کالم بچے کے ریکارڈ کا ہے جو خالی دکھایا گیا ہے ماں اگر چاہے تو اس خای کالم میں اپنے بچے کا ریکاڑ درج کر سکتی ہے۔ بچے کی حرکتوں کی تفصیل عمر بچے کا ریکارڈ کھڑکی کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے ایک ماہ چہروں کی طرف دیکھتا ہے ۲ماہ آواز اور باجہ سننے کے لیے رک جاتا ہے ۲ ماہ دیکھتا رہتا ہے کہ ماں کس طرف جا رہی ہے ۲ ماہ اپنی انگلیوں سے کھیلتا ہے ۳ ماہ ماں کے نزدیک آنے پر مسکراتا ہے ۳ ماہ بلند آوا ز سے ہنستا ہے ۴ ماہ جب بچے کواٹھایا جائے تو خود بھی اٹھنے کی کوشش کرتاہے ۴ ماہ بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے ۴ ماہ آواز دینے والے کھلونے سے کھیلتا ہے ۵ ماہ جب اس کی بات نہ مانی جائے تو ناراض ہوتا ہے ۵ ماہ بچے کے جبڑے کا پہلا دانت نکلتا ہے ۶ ماہ اپنے پائوں کے انگوٹھوں سے کھیلتا ہے ۶ ماہ اجنبی آدمیوں کے پاس جانے سے رکتا ہے ۶ ماہ میز پر ہاتھ مارتا ہے ۷ ماہ کھلونا لینا چاہتا ہے ۷ ماہ ابا ابا کہہ کر پکارتاہے ۷ ماہ بالائی جبڑے کا پہلا دانت نکلتاہے ۸ ماہ تالی بجاتا ہے ۸ ماہ رینگنا شرع کر دیتا ہے ۹ ماہ بغیر سہارے کے کھڑا ہو جاتا ہے ۱۲ ماہ اس کے آٹھ دانت نکل آتے ہیں ۱۲ ماہ چند قدم بغیر سہارے کے چلتا ہے ۱۵ ماہ چمچہ سے کام لینا شروع کرتا ہے ۱۵ ماہ چار لفظ بول سکتا ہے ۱۵ ماہ پہلا جملہ بولتا ہے ۱۸ ماہ کرسی کی نشست اگر اونچی نہ ہو تو اس پر چڑھ جاتا ہے ۱۸ ماہ دریافت کرنے پر ہاتھ سے اپنی ناک بتا سکتا ہے ۱۸ ماہ انفرادی طورپر بچوں کی نشوونما کی رفتار میں بڑا فرق پایا جاتا ہے مثلا بعض بچے چلنے سے پہلے بولنا شروع کر دیتے ہیں اور بعض بوللنے سے پہلے چلنا سیکھ جاتے ہیں۔ اکثر بچے ایک سال کی عمر میں آٹھ دانت نکال لیتے ہیں۔ اگر بچے کی نشوونما کی رفتار میں نمایاں طورپر کمی پائی جاتی ہے تو البتہ ماں کو پریشانی کا ازالہ کرنے کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے پہلے خود ماں کو بچے کی پرورش کے متعلق اپنی روش کا جائزہ لینا چاہیے۔ بچے کب بولنا شروع کر تے ہیں؟ بچے کے منہ سے جب پہلی مرتبہ اپنے باپ کے لیے با یا ابو یا ماں کے لیے ما ں کا لفظ نکلتا ہے تو اسے قدرتی طورپر خوشی ہوتی ہے ۔ اسی خوشی سے وہ گھر کے سب آدمیوں کو بتاتی ہے کہ آج منے نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ وہ بھی ماں اور باپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ دنیا میں سب سے پہلے اپنا تعلق براہ راست ماں اور باپ سے ظاہر کرتا ہے اور اس بنا پر وہ ما کی گو د کو اپنی جائے پناہ سمجھتا ہے حالانکہ وہ با یا ابو کا مفہوم بالکل نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن با پ اور ماں کے لیے جو آواز ا س کے منہ سے نکلی ہے اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ خود قدرت اسے یہ بتا رہی ہے کہ دیکھو یہ تمہاری ماں ہے یہ تمہارا باپ ہے جنہیں تمہاری پرورش اور تربیت کا کام سپرد کیا گیا ہے بعض بچے جب آٹھ یا نو مہینوں کے ہوجاتے ہیں تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی قوت گویائی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اکثر پہلے بولنا شروع کر دیتی ہیں ڈیڑھ دو سال کی عمر میں بعض لڑکیوں کی زبان میں اس قدر روانی پیدا ہو جاتی ہے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ رینگ کر اور لڑکھڑا کر چلنے الے بچے کی قوت گویائی کو گھر کی اشیاء سے بڑی مدد ملتی ہے۔ وہ جس چیز کو چھوتا ہے یا پکڑتا ہے اپنی ماں سے اس کا نام دریافت کرتاہے اور جب ماں نام بتاتی ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ب گھر کی چیزوں کے نام بارہا سنتا ہے تو وہ خود بھی نہ صرف ان کے نام بلکہ ان سے کام بھی لیتا ہے۔ مثلاً جب وہ صبح کے وقت میز پر جائے دانی چمچے پرچ پیالیاں دیکھتا ہے اور اپنے باپ کے ساتھ ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو ان سب چیزوں کے نام اسے یاد ہو جاتے ہیں وہ انہیں خوب یاد رکھتاہے۔ پیدائش سے چار پانچ ماہ کے بعد بلکہ ا س سے بھی پہلے ماں بچے سے پیار کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس سے یہ باتیں بھی کرتی جاتی ہے گھر کی بڑی بوڑھیاں بھی ا س سے باتیں کرتی ہیں وہ گو ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتالیکن ماں اور قریبی رشتہ داروں کی جو محبت بھری آوازیں اس کے کانوںکے اندر داخل ہوتی ہیں وہ یقینا بے اثر نہیں رہتیں۔ اس عمر کا کمسن بچہ گو ما ں کی باتوں کو خوب پہچانتا ہے۔ کیونکہ وہ بچے کے ساتھ سایے کی طرح لگی رہتی ہے اوراس ک آرام کا خیال رکھتی ہے ۔ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ جب بچہ بولنا شروع کر دے تو کبھی اس کی باتوں کا جواب لفظوں کو بگاڑ کر نہ دیاجائے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں بچے سے ایسے الفاظ میں بات کرنی چاہیے جو صاف اور سیدھے ہوں اور جنہیں وہ فوراً سمجھ جائے ۔ جو بچہ پیدائشی بہرا ہو اور کچھ عرصے تک ماں باپ کو اس کے بہرا ہونے کا علم نہ ہو تو اس میں باتیں خرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی ظاہر ہے کہ جب وہ ماں کی آواز ہی نہیں سنے گا تو وہ اس کی باتوں کا جواب کیسے دے سکتا ہے۔ لیکن ماں کو پہلے بھی اس بات کا یقین ہوجانا چاہیے کہ قدرت نے اس کے بچے کو قوت گویائی کی نعمت سے محروم کر رکھا ہے۔ آزمائش کا طریقہ یہ ہے کہ ماں بچے کے پیچھے کھڑی ہوجائے کہ بچہ اسے نہ دیکھ سکے پھر وہ ایک رکابی پر جو بچے کے سامنے پہلے سے رکھ دی گئی ہو پیسہ یا کوئی سخت چیز گرائے ۔ اگر بچے نے رکابی پر پیسے کے گرنے کی آواز سن لی تو وہ فوراً مڑ کر دیکھے گا۔ یا ا س کے کان کے نزدیک شیشے کے گالس پر چمچے کی ہلکی ضرب لگائی جائے تو وہ فوراً پلٹ کر دیکھے گا کہ یہ آواز کہا ں سے آ رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک انگریز خاتون اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر لکھتی ہے کہ مجھے دو ایسے بچوںکا علم ہے جو تین سال کی عمر میں ایک لفظ بھی نہ بول سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے ذہین اورہونہار نظر آٹے تھے وہ فی الحقیقت بہرے تھے۔ مگر ان کی مائیں اس المناک حقیقت سے بے خبر ہیں۔ اگر دویا تین سال کی عمر کا باتیں نہیں کرتا تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہے کہ وہ فی الحقیقت بہرا ہے دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے ہونہار بچے بھی پائے جاتے ہیں جنہوںنے والدین کی توقع کے خالف بڑی دیر کے بعد بولنا سیکھا اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن بچوں نے دو تین سال تک ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا انہوںنے جب بولنا شروع کیا تو انہوںنے پورا فقرہ استعمال کیا۔ تامس کارلائل انگلستان کا ایک مشہور مصنف ہو گزرا ہے۔ وہ اسلام کی صداقت اور عظمت کا بہت بڑا مداح تھا۔ اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے بہت دیر کے بعد بولنا شروع کیا تھا اور جب بولا تھا تو اس نے ایک اور بچے کو روتا ہوا دیکھ کر یہ فقرہ استعمال کیا What ails thee jock(جاک تجھے کیا شکایت ہے)؟ جب ماں اپنے پڑوسی کے بچے کو توتلی زبان سے باتیں کرتا سنتی ہے اور اس کے مقابلے میں اپنے بچے کو خاموش دیکھتی ہے تو وہ قدرتی طورپر رنج محسوس کرتی ہے اس کے د ل میں یہ خیال گزرتاہے کہ کہیں میرا بچہ دماغی طور پر کمزور نہ ہو۔ مگر اسے اس معاملے میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ جوبچہ دیر تک بیٹھنا سیکے دیر کے بعد ہی رینگ کر چلے اور دودھ پینے کے لے بھی بے تاب نظر نہ آئے تو ظاہر ہے کہ وہ باتیں بھی شروع کر ے گا تو دیر سے ۔ گو اس بارے میں ماں کا پریشان ہونا ایک فطری امر ہے لیکن ماہرین کی اس رائے سے اسے باخبر ہوجانا چاہیے کہ بچہ اس وقت تک بولنے کے قابل نہیں ہوتا جب تک اس میں بولنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے جو ماں اپنی خواہش کے مطابق بچے کو چلنے یا بات کرنے یا صاف رہنے کی ترغیب دیتی ہے اس کی یہ روش بچے کی فطرت اور جسمانی حالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مستحسن قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس کی اس روش کا بچے پر اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ جب لڑکھڑا کر چلنے والا بچہ اپنی باتیں شروع کر دیتا ہے اور اپنی ما ں سے کچھ کہنا چاہتا ہے تو ماں کو اس بات کا خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے کہ وہ ننھے کی بات کو توجہ سے سنے اور خندہ پیشانی سے اس کی بات کا جواب دے اگر بچے کی بات کا جواب نہ دیا گیا اور نہ اس کی بات سمجھنے کی کوشش کی گئی تو بچہ اس بات کو محسوس کرے گا کہ ماں نے اس کی بات نہیں سنی۔ وہ الفاظ کے ذریعے خواہ وہ ٹوٹے پھوٹے ہی ہوں اپنی ماں سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اگر ماں اس کی بات سنے بغیر گھر کے کسی کام میں مصڑوف ہو گئی تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اس کی بے پروائی سے بچے کے الفاظ کی آمد رک گئی ہے تو اس کی رکاوٹ کا یہ نتیجہ ہو گاکہ بچہ لکنت کے عارضے میں مبتلا ہو جائے گا۔ کیا ماں اس بات کو پسند کرے گی کہ اس کا بچہ بات کرتے وقت تھتھلانے کے عارضے میں مبتلا ہو جائے۔ لڑکھڑا کر چلنے والے بچے کی ماں کو اپنی اس ذمہ داری کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ اسے شدید سے شدید مصروفیت کے دوران میں بھی اپنے بچے کی بات کو توجہ اور صبر کے ساتھ سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بچہ جو بات ماں سے کہنا چاہتا ہے وہ اس کے نزدیک نہایت اہم ہے۔ خواہ ماں کے خیال میں اس کی کیسی ہی لغو اور فضول ہو۔ بچے کی خوشی اور زندہ دلی کا معیار قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں اپنی مادرانہ شفقت کے ساتھ اس کی ہرممکن طریقے سے ؤحوصلہ افزائی کرے۔ اس کی باتوں میں روانی پیدا ہو سکتی ہے تو اسی حوصلہ افزائی سے۔ دانت نکالنے کا زمانہ دودھ کے دانت جو بچے کے جبڑوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں مسوڑھوں سے اس وقت تک نہیں نکلتے جب تک بچہ چھ مہینے کا نہ ہوجائے اگربچہ تندرست ہے اور اس کی پرورش یعنی غذا وغیرہ کے معاملے میں ماں نے پوری احتیاط سے کام لیا ہے تودانت نکلتے وقت بچے کو زیادہ تکلیف نہیں پہنچے گی۔ یہ صحیح ہے کہ بعض بچوں کو دوسرے بچوں کے مقابلے میں دانت نکالنے میں زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ ماں کے دل میں اس خواہش کا پیداہونا ایک قدرتی امر ہے کہ اس کے بچے کے دانت آسانی سے نکل آئیں اوراسے کوئی تکلیف نہ ہو اس بارے میں ماں کو چند باتوں کو خیال خاص طو ر پر رکھنا چاہے۔ دانت نکالنے کے زمانے میں بچے کے کپڑے بالکل خشک رہنے چاہئیں اور اگر ضرورت پڑے تو بچے کو جرسی کے نیچے ربڑ کا بب پہنا دیا جائے۔ اگر بچے کے کپڑے اور بب گیلے ہیں تو اس سے بچے کو سردی لگ جائے گی اور دانت نکالتے وقت اسے بڑی تکلیف ہو گیی۔ بچے کو پیٹھ کے بل نہ سونے دیا جائے۔ بلکہ ا س بات کا خیال رکھے کہ وہ کبھی ایک کروٹ کے بل پر سوئے اور کبھی دوسری کروٹ کے بل اس احتیا ط کی بدولت رالیں ا س کے منہ سے خارج ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ یہی رالیں اگر حلق سے اتر کر جسم میں داخل ہو گئیں تو اس سے سوزش پیدا ہونے کا احتمال ہے بچے کو چبانے کے لیے ایسی ہڈی دی جائے جسے وہ آسانی سے منہ میں رکھ سکے اسے ہڈی کو چبانے کی ترغیب دی جائے۔ ایسا کرنے سے بچے کے مسوڑوں میں خون پیدا ہوجائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مسوڑوں سے اچھے دانت نکلیں گے ڈبل روٹی کے توش کو خشک اور سخت ٹکڑے بھی یہی کام دے سکتے ہیں۔ اس ٹکڑے کو نہ تو دودھ میں بھگویا جائے اور نہ اسے ریزہ ریزہ کر کے دیا جائے۔ اگرمسوڑھے اتن نرم ہوں کہ بچہ کسی سخت چیز کو چبانے سے منہ پھیر لیتا ہے تو خشک انگوروں کو جنہیں پہلے اچھی طرح دھو لیا گیا ہو ایک صاف ستھرے ململ کے کپڑے میں باندھ کر ان کی ایک چھوٹی سی پوٹلی بنائی جائے اور یہ بچے کے منہ میںرکھ دی جائے یہ پوٹلی نہ صر ف مسوڑھوں کے لیے ہڈی یا توس کے خشک ٹکڑے کا کام دے گی بلکہ انگوروں کا رس بچے کے لیے مزے دار اور خوش گوار ثابت ہو گا۔ اگر بچے کو چمچے سے ٹھنڈ ا ابلا ہوا ہپانی یا باری باری ہلکا گرم پانی قطرہ قطرہ کر کے پلایا جائے تو اس کے بچے کو سکون حاصل ہو گا۔ یہ بات خاص طور پر ماں کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ دانت نکالنے کے زمانے میں اس کی مادرانہ شفقت اور خاص توجہ کی بدولت بچے کے دانت آسانی سے نکل آتے ہیں اگر بچے کا جسم گرم ہے یا اسے حرارت ہو گئی ہے تو ایسی صورت میں اسے ایسی غذا ہرگز نہیں کھلانی چاہیے کہ جسے وہ پسند نہ کرتا ہو اسے آرام پنچانے کے خیال سے جو دوا یا پائوڈر دیاجائے۔ اس کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہو۔ اگر بچہ کان کی تکلیف میں رو رہا ہے اور جب ماں یہ دیکھتی ہے کہ بچہ اپنے دونوں ہاتھ کان کی طرف لے جا رہا ہے تو پھر مناسب یہی ہے کہ وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ جب پہلے دانت نکل آئیں تو انہیں بڑ ی نرمی سے دن میں ایک مرتبہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف بڑے نرم ٹوتھ برش سے صا ف کرنا چاہیے۔ دانتوں کے لیے کوئی اچھا سا پیسٹ یا کیمیائی چاک بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہفتے میں ایک مرتبہ تھوڑا سا نمک اور ہفتے میں ایک مرتبہ تھوڑا سا سادہ نمک اور ہفتے میں ایک مرتبہ بائی کاربونیٹ آف سوڈا دانتوں کی صفائی کے لیے بہت مفید ہے۔ جب آٹھ سے دس دانت پورے نکل آئیں تو انہیں دن میں ایک مرتبہ سے دو مرتبہ صاف رکھنا چاہیے۔ اور جب بچہ اٹھارہ ماہ کا ہو جائے تو اسے ہر کھانے کے بعد سیب کا ایک ٹکڑا یا کوئی اور ایسی چیز دینی چاہیے جس کے کھانے سے دانت صاف رہ سکیں۔ پاکستان کی بہت سی مائوں کو یہ معلوم کرکے تعجب ہو گا کہ بچے کے دانت اس کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہی دانت اس کے تمام بچپن کے دوران نشوونما کے مدراج طے کرتے رہتے ہیں۔ دودھ کے دانتوں کا پہلا سٹ بچے کی پیدائش پر جزوی یا کلی طور پر سخت ہوتا ہے پہلے دانت عام طور پر قریباً چھ سے آٹھ ماہ تک کی عمر میں نکلنے شروع ہو جاتے ہیں اور پہلے سیٹ کے بیس دانتوں کے آخری دانت ڈھائی برس کی عمر میں نکل آتے ہیں۔ مستقل دانت بچے کی زندگی کے پہلے سال کے دوران بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن مسوڑوں میں سے دیر تک نکلتے ہیں۔ مستقل دانتوں کے پہلے چار دانت بچے کے چھٹے سال کی عمر میں نکلتے ہیں آیا یہ دانت ایک دوسرے دانت جو آئندہ چند سال کے دوران میں نکلیں گے مضبوط اور پائیدار رہیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے اطمینان بخش جواب کا انحصار زیادہ تر اس خوراک پر ہے جو بچے کو اچھی طرح چبانے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کے مستقل دانت سیدھے مضبوط اور باقاعدہ ہوں اور اوپر کے اور نیچے کے دانتوں کے سیٹ صحیح طور پر مل جائیں۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بچے کے دانت نہایت صاف رکھے جائیں کیونکہ اس کے یہ دانت خوارک چبانے سے بھی زیادہ کار آمد ہیں۔ کارآمد اس لحاظ سے کہ یہی دانت اس کے جبڑوں کی ایسی شکل قائم کرتے ہیں کہ مستقل دانتوں کے لیے کافی جگہ پیدا ہو جاتی ہے۔ جب بچے کے دانت نکلتے ہیں تو وہ رات کے وقت زیادہ جاگتا ہے یا اسے اس قدر نیند نہیں آتی جیسی کہ پہلے آیا کرتی تھی۔ ماں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دانت نکالنے والے بچے کو زیادہ پیاس لگتی ہے۔ اسے ایسے موقعہ پر یاتو پانی یا پھلوں کا رس پینے کے لیے دیناچاہیے پانی یا رس پلانے ہی سے اسے تسکین ہو گی اسے بار بار پیاس محسوس ہوتی ہے۔ چیچک کا ٹیکہ بچے کو چیچک کے ناگہانی اور خطرناک حملے سے بچانے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اسے چھ ماہ کی عمر سے پہلے ہی ٹیکہ کرا لیا جائے اس برعظیم میں ایک زمانہ ایسا گزر چکا ہے کہ شہری اور بالخصوص دیہاتی مائیں اپے بچوں کو چیچک کا ٹیکہ لگوانے کے اس قدر خلاف تھیں کہ جب ٹیکہ لگانے والے کسی گائو ں میں پہنچتے تو وہ اپنے بچوں کو چھپا لیتیں۔ تاکہ انہیں ٹیکہ نہ کرانا پڑے حالانکہ حکومت ا س معاملے میں جبر سے کام لیتی تھی۔ اس کی وجہ ان کی عام جہالت تھی۔ لیکن جب دیہات کے لوگوںکو اس بات کا یقین ہو گیا کہ جن بچوں کو ٹیکہ نہیں لگایا جاتا ان کے جبڑے چیچک کے داغوں سے بدنما ہو جاتے ہیں یا ایک آنکھ کے بگڑ جانے سے ہمیشہ کے لیے کانے کہلاتے ہیں اور ان کے مقابلے میں جن بچوں کو ٹیکہ لگایا گیا وہ ان عوارضات سے محفوظ رہتے ہیں۔ تو پھر ان کی ذہنیت بدل گئی یعنی پھر وہ وقت آ گیا جب ٹیکہ لگانے والے ویکسینٹر گائوں میں پہنچتے تومائیں اپنے بچوں کو بڑی خوشی سے ٹیکہ کراتیں۔ اکثر ماہرین کے نزدیک ٹیکہ کرنے کے لیے بہترین وقت وہ ہے جب بچہ تین یا چار ماہ کا ہو جائے۔ گو بعض مائیں اس سے بھی پہلے بچوں کو ٹیکہ کرانا مناسب سمجھتی ہیںَ ٹیکہ کراتے وقت بیچ کو کوئی درد نہیں ہوتا۔ بازو یا ٹانگ پر ٹیکے کا ایک چھوٹا سانشان باقی رہ جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب بچے کو ٹیکہ کرایا جائے تو وہ بالکل تندرست ہو۔ بعض بچون کو ٹیکہ کرانے کے بعد ایک یا دو دن کے لیے ہلکا بخار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بچے کو اور کسی قسم کی تکلیف نہیںہوتی۔ پاکستان میں ہربچے کو چیچک کا ٹیکہ لگانا لازمی قرار دیا جا چکا ہے اس لیے جب ڈاکٹر ٹیکہ لگانے کامشورہ دے ت بچے کو ٹیکہ لگانے سے گریز نہ کرنا چاہیے۔ بچے کو چھوٹی سی عمرمیں ٹیکہ لگانے کی کئی وجوہ ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہوائی اور بحری سفر کی روز افزوں سہولتوں کی وجہ سے اس خطرناک وبا کے پھوٹ پڑنے کا امکان ہمیشہ پایا جاتاہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ بچے کوچھوٹی عمرمیں ہی ٹیکہ لگا دیاجائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عام طور پر سکولوں میں داخؒے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ داخلے سے پہلے بچوں کو چیچک کا ٹیکہ لگایا جائے۔ مدرسے کے جب بچے یا بالغ لڑکے نے بچپن میں ٹیکہ نہ لگوایا ہو انہیں ٹیکہ لگانے سے کبھی کبھی تکلیف پہنچتی ہے۔ اس یے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی ٹیکہ لگوا لیا کریں۔ جو مسافر یاسیاح باہر سے پاکستان آئے ہیں اور جو غیر ملکی اشخاص سرکاری ملازم کی حیثیت سے یہاں پہنچتے ہیں انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ ٹیکہ لگوائیں۔ بچے کیوں ڈر جاتے ہیں شیر خوارگی کے زمانے ہی میں بچے کے دل میں کھٹولے یا چارپائی سے گرنے اور شور کی آواز سے متاثر ہوئے کا فطری احساس پایاجاتاہے۔ والدین کا فرض ہے کہ بچے کو خوف یا ڈر کے احساس سے بچانے کے لیے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں خہ دروازہ اس زور سے بند کیا جائے کہ بچہ ڈر جائے اورنہ اس سے پیار کرتے ہوئے اسے ہوا میں بہت اونچا اچھالا جائے۔ جوں جوں بچہ بڑ اہوتا ہے وہ اور باتوں سے بھی ڈرنا شروع کر دیتا ہے۔ مثلاً نہاتے وقت ٹب میں بچہ اتفاقاً زیادہ گہرے پانی میں چھوڑ دیا جائے تو وہ پانی سے ڈر جائے گا۔ یا بلی کے پنجوں سے اس کے بدن کو زیادہ خراش آ گئی تو وہ ایسے جانوروں سے ڈرنا شروع کر دے گا گھر کے جو بالغ لڑکے اس کی دیکھ بھال کا خیال رکھتے ہیں وہ اگر کسی بات سے ڈر جائیں تو بچہ ان کے ڈر کا اثر قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر ماں بادل کی گرج سے ڈر جاتی ہے تو اسے ڈرتا دیکھ کر بچہ سہم جاتا ہے۔ چونکہ بچے کا حافظہ قدرتاً کمزور ہوتا ہے اس لیے وہ چوٹ یا خراش کے اثر کو بہت جلد بھول جاتاہے۔ گو آس پاس کی چیزیں اس کے لیے بالکل نئی ہیں لیکن وہ ان سے بالکل نہیں ڈرتا مثلاً اگر اس کے پاس کتا کھڑاہے تو وہ اپنا ہاتھ بغیر کسی خوف کے اس کے منہ میں ڈال دیتا ہے۔ یا تیز چھری کو پکڑ لیتا ہے یا کسی گرم چیز پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ اس کی اس حرکت کو حماقت پر نہیں بلکہ لاعلمی اور ناتجربہ کاری پرمحمول کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کی سلامتی کے خیال سے ماں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھے کہ اسے ایسی باتیں بتا دی جائیں جن سے اس کونقصا ن پہنچنے یا چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔ مثلا اگر مکان کی سیرھیاں ٹوٹی ہوئی ہوں اور ماں کو اندیشہ ہے کہ بچہ ان پر چڑھ کر گر جائے گایامکان کے باغیچے میں پانی کا حوض گہرا ہے تو وہ دونوں جگہ ایسا بند بنا دیا جائے جس سے خطر ے کا سد باب ہو جائے۔ خود فطرت اسے یہ سبق پڑھا دیتی ہے کہ اسے آگ سے بچنا چاہیے۔ یہ اسی سبق کا نتیجہ ہے کہ جب بچہ کسی انگیٹھی کے قریب جاتاہے تو آگ کی تیز ی کے باعث وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ کیونکہ فطرت نے اسے بتا دیا ہے کہ اگر اس نے انگیٹھی کو ہاتھ لگایا تو اس کا ہاتھ جل جائے گا۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر بچے کے دل میں حد سے زیادہ ڈرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تو وہ بڑا ہو کر بھی اس قدر بزدل ہو جائے گا کہ وہ بڑے بڑے خطرات تو کہیں رہے چھوٹے چھوٹے خطرات میں بھی جی چھوڑ بیٹھے گا ا س لیے عقل مند ماں کا فرض ہے کہ اگر ایک طرف بچے کی سلامتی کی غرض سے مناسب تدابیر اختیار کرے تو دوسری طرف اسے ذاتی تجربہ حاصل کرنے کا موقع دے اور اگر اس تجربے کے دوران اسے تھوڑی سی چوٹ بھی آ جائے تو پروا نہ کرے لیکن بچے کو اس کم سنی میں دلیر اور بہادر بنانے کا پروگرام صرف اسی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے کہ خود ماں اپنے بچے کی آنکھیں شیر خوارگی کے عالم ہی میں ماں کی طرف لگی رہتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ قدرتی طور پر ماں کی حرکتوں اور باتوں سے متاثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات والدین بچوں پر کنٹرول قائم رکھنے اور انہیں فرمانبردار بنانے کے یے انہیں یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہوا آ جائے گا اور تمہیں لے جائے گا۔ یہ والدین کی صریح احمقانہ حرکت ہے۔ اندھیرے میں سونے کی بری عادت پاکستا ن کے اکثر دیہات اور شہروں کے باشندے عام طور پر اندھیرے میں سونے کے عادی ہیں۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد جب سونے کا وقت آتا ہے تو دیا بجھا دیا جاتاہے ۔ رات کی تایکی میں اگر چوہے یا بلی کی وجہ سے کوئی چیز گرتی ہے تو اس کی آواز سے بچے کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ تاریکی میں اس آواز سے بچے کے ڈر جانے کا زیادہ امکان ہے۔ اس لیے والدین کو تاریکی میں سونے کی عادت فوراً ترک کر دینی چاہیے اور بچے والے کمرے میں ایک چھوٹا سا لیمپ رکھ دینا چاہیے جو ساری رات جلتاہے۔ روشنی تیز نہ ہو بلکہ مدھم ہو مہینے بھر میں زیادہ سے زیادہ چار آنے کا تیل خرچ ہو گا۔ یہ چھوٹا لیمپ گھر کا روشن چوکیدار ہے جو رات بھر چوکیداری کا فرض انجام دیتاہے۔ ویسے بھی بچہ قدرتی طورپر رات کے وقت روشنی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ اور اس کی آنکھیں لیمپ کی طرف جمی رہتی ہیں مان کے لیے یہ کس قدر آسانی ہے کہ اس چھوٹے سے لیمپ کی بدولت جس کانام ایک صاحب نے ٹمٹما رکھا ہے اسے روشنی میں بچے کے بستر کو صاف اور خشک رکھنے اور اسے وقت پر پیشاب کرانے میں سہولت حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوست نے پچاس سال قبل کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ اس نے اپنے بچے سے جس کی عمر اس وقت تین سال سے بھی کم ہو گی کہا کہ فلاں کمرے میں میری ٹوپی رکھ آئو۔ باپ کے کہنے پر وہ ٹوپی تو لے گیا لیکن چونکہ کمرہ تاریک تھا اس لیے ٹوپی واپس لے آیا اور کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔ باپ نے کہا ڈر کس بات کا ؟ چلو میں تمہارے ساتھ چلتاہوں۔ بچہ باپ کے ساتھ اندھیرے کمرے میںبلا تامل چلا گیا۔ اس کے بعد یہ بچہ اندھیرے کمرے میں اسی طرح چلا جاتا جس طرح روشنی والے کمرے میں۔ پاکستان میں ڈھائی تین سال یا ا س سے زیادہ عمر کے بچے بھی ہیں جو سونے سے پہلے اپنی ماں یا دادی اماں سے کہانی سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ بچے کہانی سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔ لیکن بہت کم مائیں یا بڑی بوڑھیاں اس بات کا خاص طورپرخیال رکھتی ہیں کہ جو کہانی بچوں کو سنائی جائے اس میں ایسی اچھی باتیں بتائی جائیں جو اس کے دل و دماغ پر اچھا اثر ڈالیں۔ اگر انہیں اس عمر میں جنوں دیوئوں اور پریوں کی کہانیاںیا ایسی کہانیاں سنائی جائیں گی جو ان کی سمجھ میں نہ آئیں تو اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ وہ سونے میں ڈر جائیں گے۔ پاکستان کے جو لوگ کفایت شعاری کے خیال سے رات کے وقت مکان میں لیمپ جلانا ضروری نہیں سمجھتے یا رات کی تاریکی میں سونے کے عادی ہو چکے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی یہ روش کسی صورت مستحسن اور معقول قرار نہیں دی جا سکتی۔ بچے کی چپت کا جواب جو بات والدین اور بالخصوص ماں کی زیادہ توجہ کے قابل ہے وہ ڈر کی ایسی کیفیت ہے جو بچے کے دل میں پیدا ہوتی ہے بعض دفعہ بچہ معصومانہ طورپر اور فطری شوخی کی وجہ سے ماں یا باپ کے لیے ناشائستہ لفظ استعمال کرتاہے یا کسی گستاخانہ حرکت کا مرتکب ہو تا ہے۔ مثلاً بچے نے ماں یا باپ کے منہ پر چپت جمائی۔ اس کے جواب میں اگر ماں یا باپ نے بھی غصے میں آ کر بچے کے سر پر اس زور سے چپت جما دی کہ اس نے رونا شروع کر دیا تو اس کا لازمی طور پریہ نتیجہ ہو گا کہ بچہ اپنی ماں یا باپ کی اس حرکت سے خوف زدہ ہو جائے گا۔ اور وہ اس وقت تک ان کے پاس جانے سے ڈرے گا کہ جب تک وہ پھر پیار اور محبت سے اسے اپنے سینے کے ساتھ نہ لگا لیں اور اس کے دل سے ڈر نکالنے پر فوری توجہ نہ کریں۔ جب بچے سے کسی وقت ایسی گستاخانہ حرکت سرزد ہوجائے تو ی ماں یا باپ کی مناسب حرکت ہو گی اگر بچے کی چپت کا جواب چپت سے دیا جائے بچے کی چپت کا بہترین جواب یہ ہے کہ اسے پیار سے سمجھا دیا جائے کہ اچھے بچے ایسا نہیں کرتے ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمسے نہ پیار کروں گی نہ تمہیں اپنی گود میں لوں گی اور نہ تم سے بات کروں گی۔ بچے کے دل میں قدرتی طورپر یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ اس کی ا س حرکت سے میری اماں ناراض ہو گئی ہے اور اسے اس بات کا احساس ہو گا کہ آئندہ اسے ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ بچے کے دل کا ڈر نکالنے پر فوری توجہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس کے د ل و دماغ میں ڈڑ کا اثر قائم رہے گاتو اس سے بچے کی قوت گویائی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یعنی بڑاہو کر وہ تتلا کر بولے گا اس کا بستر پیشاب سے گیلا رہے گا۔ خواب کی حالت میں وہ بڑے زور سے بڑبڑائے گا۔ اور اس کے جسمانی اعضا میں صحت کا توازن قائم نہیں رہے گا۔ یہ نہ سمجھاجائے کہ بارہ یا اٹھارہ ماہ کے بچوں میں اپنی غلطی کا احساس نہیں پایا جاتا۔ ان میں ماں کے عادات و اطوار کوشبانہ روز دیکھنے اور اس کی تربیت سے متاثر ہونے کے بعد غیر شعوری طورپر اپنی سمجھ کے مطابق اچھے اور برے کی تمیز کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آس پاس کی چیزوں سے ان کی دلچسپی یا نفرت اسی صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ کیا سزا سے بچہ سدھر سکتاہے؟ پاکستان میں ایسے مغلوب الغضب والدین کی تعداد کم نہیں ہے کہ جن کے بچے شوخی یا شرارت سے کسی ایسی حرکت کے مرتکب ہوں جو انہیں ناگوار گزرے تو وہ بڑے صبر اور تحمل کا ثبوت دیں اور انہیں ایسے طریقے سے سمجھائییں کہ وہ یہ سمجھ جائیں کہ ان سے یہ حرکت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ماں باپ کے مغلوب الغضب ہونے کی بھی یہی وجہ ہے کہ ان کے والدین نے بھی اپنے زمانے میں بچوں کے ساتھ صبروتحمل سے پیش آنے اورانہیںنرمی سے سمجھانے کی تربیت نہیں پائی تھی۔ یہ اسی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے کہ مغلوب الغضب والدین اپنے بچوں سے دلی محبت رکھنے کے باوجود ان کی شوخی یا شرارت کے متحمل نہیں ہو سکتے حالانکہ شوخی یا شرار ت بچے کی فطرت میں داخل ہے۔ بچہ نشوونما کے ارتقائی مدارج صرف اسی صورت میں بطریق احسن طے کر سکتاہے کہ اسے پوری آزادی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کا موقع دیا جائے اس کی آزادی پر صرف وہی پابندی جائز قرار دی جا سکتی ہے جو اسے محسوس نہ ہو۔ اگر والدین اور بالخصوص ماں ذرا ذر ا سی بات پر بچے کو جھڑکنا یا ڈانٹنا شروع کر دے تو ا س سے بچہ قدرتی طور پر سہما رہے گا۔ بچے کی قدرتی نشوونما کے یے یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کا دل گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ رہے ۔ شگفتگی کی اس حالت کو قائم رکھنے کے لیے مغلوب الغضب والدین کو اپنی ذہنیت دلنی پڑے گی۔ یعنی انہیں اپنے بچے کی خاطر اپنے آپ کو صبر و تحمل کا عملی سبق دینا پڑے گا۔ اس لیے بعض ڈٓکٹر اپنی اس رائے کے اظہار میں بالکل حق بجانب قرار دیے جا سکتے ہیں۔ کہ بچے کی پیدائش سے پہلی ہی میاں بیوی دونوں کو ٹھنڈے دل کے ساتھ اپنی ذہنییت اور مخصوص عادات و اطوار کا جائزہ لینا چاہیے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد اس کی پرورش اور ترتیب کی متعلقہ ذمہ داریاں ماں کے لیے بلا مبالغہ ایک شدید آزمائش ثابت ہوتی ہیں۔ وہ اس آزمائش میں پوری اتر سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں کہ اسے اپنی ان ذمہ داریوں کا پورا احساس ہو اور اس راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے۔ غور کیا جائے تو بچے کی پیدائش کے بعد عورت کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ دور اس لحاظ سے نہایت اہم سمجھنا چاہیے کہ بچے کی پیدائش سے ملک و ملت کے مفاد وابستہ ہیں۔ ااس لیے یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر ماں بچے کی پرورش اور تربیت کے فرائض صحیح طور پر بجا لاتی ہے تو یہ بھی ایک طرح سے ملک و ملت کی خدمت ہے۔ ہماری قومی آرزوئوں اور امنگوں کا انحصار انہی بچوں کی پرورش اور تربیت پر ہے۔ بچے کی پریشانی اس بات کا اکثر مشاہدہ کیا گیاہے کہ جب برس یا ڈیڑھ برس کی عمر کا بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی ماں ایک ننھے بچے کو چھاتی سے لگائے دودھ پلا رہی ہے تو وہ پریشانی محسوس کرتا ہے۔ کیوکہ ماں ننھے سے بچے کی طرف جو اسی کا بھائی یا بہن ہے زیادہ توجہ کرتی ہے۔ وہ پہلے ماں کی پوری توجہ کا مرکز تھا مگر اب یہ توجہ بٹ گئی ہے یہ نہیں کیا جا سکتا کہ نومولود کی وجہ سے اس کے دل میں حسد یا جلن کاجذبہ پیدا ہو گیا ہے لیکن اس کی حرکتوں سے بظاہر یہ پایا جاتاہے کہ دنیا میں نئے بچے کے آنے سے اسے خوشی نہیں ہوئی۔ مثلاً جب اسے غذا دی جاتی ہے تو بے پروائی کا اظہار کرتا ہے۔ رات کے وقت سوتے میں ڈر جاتا ہے۔ یا چیزو ں کو توڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یا انہیں ادھر ادھر پھینک دیتا ہے ۔ مان کو اپنے بڑے بچے کی یہ حرکتیں کیسی ہی ناگوار گزریں مگر اس کا فرض یہی ہے کہ صبر و تحمل سے کام لے اور پیار و محبت سے اس کو خوش رکھے۔ اس کو ایسا کھلونا دے جس سے وہ بہل جائے یا کھانے کے لیے کوئی ایسی چیز دے جو اسے پسند ہو مگر اس بات کا خیال رکھاجائے کہ وہ اس کی صحت کے لیے مضر نہ ہو ماں کی اس مشفقانہ توجہ کا یہ نتیجہ ہو گا کہ بڑے بچے کے دل میں اپنے ننھے بھائی کی طرف سے اجنبیت کی جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی وہ زائل ہو جائے گی۔ ڈیڑھ یا دو سال کے بچے کی نسبت یہ سمجھ لینا کہ ننھے بچے کی پیدائش سے اس کے دل میں رقابت کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے ظاہر بینوں کی غلطی ہے جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہوتاہے کہ جب بڑا بچہ بیٹھا ہوا ہو اور ماں اس کے ننھے بھائی کو اس کے سامنے اس طرح لٹا دے کہ ننھے کا سر اس کے بازوئوں میں ہو تو وہ اسے دیکھ کر خو ش ہو گا۔ اور اس سے پیار کرے گا۔ رقابت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ نئے بچے کے پیدا ہونے کے بعد ماں کی مامتا میں ذرا فرق نہیں آتا۔ وہ بڑے بچے سے بھی اتنا ہی پیار کرت ہے جتنا چھوٹے بچے سے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ننھا بچہ بتقاضائے فطرت ماں کی محبت اور اس کی دیکھ بھال کا زیادہ محتاج ہے۔ زندگی کا ایک نیادور جب بچہ اپنی ما ں کا دودھ یا بوتل کا دودھ پینا چھوڑ دیتاہے یا والدین کی مرضی سے اس کا دودھ چھڑا دیا جاتاہے تو وہ دوسری غذائیں کھانا شروع کر دیتاہے۔ وہ نسبتاً بڑ ا ہو گیا ہے عام طور پر دو سال کے بچے میں خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں باتیں کرنے کی صلاحیت پیداہو جاتی ہے۔ جب تک بچہ ماں کا دودھ یا بوتل کا دودھ پیتا ہ تو وہ غذا کے معاملے میں اپنی ماں کا محتاج رہتا ہے۔ اس کی دوسری خواہشوں اور حرکتوں کامان کے سوا اور کسی کو علم نہیں ہوتا۔ لیکن ماں کا دودھ یا بوتل کا دودھ چھوڑنے اور دوسری غذائیں کھانے سے اس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کا تعلق پہلے صرف ماں تک محدود تھا لیکن اب وہ اپنی زبان سے کام یتا ہے اور اپنے مطالبات یا خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ مطالبات اور خواہشات اس لیے بڑھ گئی ہیں کہ اب اس کے تعلق کا دائرہ گھر کے دوسرے لوگوں سے بھی قائم ہو گیا ہے۔ اب آس پاس کی چیزوں کے متعلق اس کی معلومات بھی زور بروز زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔ معلومات بڑھنے کا سب سے بڑا ذریعہ گھر کے وہ قریبی رشتہ دار ہیں جو اسے باہر لے جاتے ہیں۔ اسے نئی نئی چیزیں دکھاتے ہیں۔ کھلونے اور کھانے کی جو شے وہ مانگتا ہے اسے مہیا کر دیتے ہیں۔ بچے ضد کیوں کرتے ہیں؟ روزمرہ زندگی میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ بچہ جب کوئی چیز مانگتا ہے تو ماں اس کے دینے سے اس لیے انکار کر دیتی ہے کہ اس کے کھانے سے بچے کو تکلیف ہو گی اور جب بچے کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ مچلتا یا ضد کرتا ہے یا رونے لگ جاتاہے۔ ماں اگر عقل مند اور روشنخیال ہے تو وہ کبھی بچے کے مچلنے یا رونے کی پروا نہ کرے گی۔ بچے کو جب اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ رونے سے وہ جو چیز مانگتا ہے اسے نہیں ملے گی تو اسے آخر چپ ہوجانا پڑتا ہے۔ ابھی بچے میں یہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں کہ جو چیز اسے کھانے کو نہیں دی جاتی ا س سے واقعی اسے تکلیف پہنچے گی۔ مگر جاہل اور بے سمجھ مائیں بچے کا رونا کسی صورت گوارا نہیں کرتیں اور جو چیز وہ مانگتا ہے وہ فورا اسے دے کر خوش اور مطمئن ہو جاتی ہیں ان کے دل میں یہ خیال کبھی پیدا نہیں ہوتا کہ بچے کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے اسے صرف یہی نقصان نہیں پہنچے گا کہ بے وقت کھانے سے اس کا معدہ ٹھیک حالت میں نہیں رہے گا بلکہ زیادہ حریص اور لالچی ہونے کے باعث وہ چیزوں کو چرا کر کھانے اور جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جائے گا۔ لیکن نادان مائوں کے دلوں میں یہ خیال کیسے پیدا ہو سکتا ہے کہ رونے سے بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بچے کے تجربات دو سال کی عمر والے بچے کی حرکتیںاور عادتیں والدین کی خاص توجہ کے قابل ہیں کیونکہ اسی عمر میں بچہ بیرونی اثرات قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ بچے کو قدرتی طور پر ایسی چیزوں کے مل جانے سے خوشی ہوتی ہے جنہیں وہ اچھا سمجھتا ہے۔ لیکن جب گھر کے بڑے آدمی اس چیز کو بچے کے لیے مضر سمجھتے ہیں تو چے کی خواہش اور گھر یک بڑے آدمی کی پسند میں تصادم ہو جتا ہے مثلاً اگر بچہ ہر نئی چیز کو جو اس کے ہتے چڑھ جائے چکھنے یا دانت سے کاٹنے یا اسے چوسنے میں لطف حاصل کرتا ہے تو اس کی یہ حرکت گھر کے ہر بڑے آدمی اور بالخصوص والدین کو ناگوار گزرتی ہے۔ بچے کو اپنی اس چھوٹی عمرمیں پہلی مرتبہ یہ تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ جس چیز کو وہ بے سوچے سمجھے چکھنے یا دانت سے کاٹنے یا اسے چوسنے کی حرکت کا مرتکب ہوتاہے اسے اچھا نہیں سمجھا گیا۔ اس کے برعکس جب ماں اس سے خوش ہوتی ہے اور اس کی تعریف کرتی ہے تو وہ خاص طورپر خوشی محسوس کرتاہے۔ خوشی کا یہ احساس بھی اس کے لیے ایک تجربہ ہے غرض اس دو سال کی عمر میں اسے نئی نئی چیزوں کو دیکھنے اور ان سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ سبق اسی طرح حاصل ہو تا ہے کہ گھر کے بعض بڑے آدمی اور بالخصوص ماں سایے کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اسے ہر وقت آگاہ ککرتے رہتے ہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ جب اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی یا اس کی بات مانی نہیں جاتی تو اسے غصہ آتاہے اور اس غصے میں کوئی چیز توڑ دیتا یا پھینک دیتاہے۔ تو ماں کو ڈانٹنے یا جھڑکنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس ڈانٹ اور جھڑک سے بھی اسے اس بات کا تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ ماں کا کہا ماننے کی بدولت ہی وہ ماں کی ڈانٹ سے بچا رہے گا۔ اسے ماں سے محبت ہے لیکن اب وہ اس سے ڈرتا بھی ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اگر ایک طرف ماں اسے دودھ پلاتی کھانا کھلاتی ہے اور اس سے پیار کرتی ہے تو دوسری طرف گھر کی کسی چیز کو توڑنے یا پھینکنے پر اس سے ناراض بھی ہو جاتی ہے۔ بچے کا ضمیر پاکستان کے دیہات اور چھوٹے قصبات کی جاہل اور بے سمجھ مائیں تو کہیں رہیں اچھے اچھے تعلیم یافتہ گھرانوں کی مائیں بھی دو سال کے بچے کی تربیت کو خاص طور پر اہم اورقابل توجہ قرار دینے کی ضرورت محسوس کرتی ہیںَ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہ کہ پاکستانی مائوں اور بڑی بوڑھیو ں کے علاوہ گھر کے مرد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب بچہ بڑا ہو گا اور اسے مدرسے میں بٹھایا جائے گا تو ٹھیک ہو جائے گا اس مسلمہ حقیقت کا اعادہ بے محل نہ ہو گا کہ ماں کی گود ہی اس کا پہلا مدرسہ ہے۔ جہاں قدرت نے اس کی ابتدائی تعلیم کے سب امکانات مہیا کر رکھے ہیں۔ بچے کی ماں او گھر کے بڑے آدمیوںکو معلوم ہونا چاہیے کہ دو سال کا بچہ بھی ضمیر رکھتا ہے اور اس کا ضمیر بھی اسی طرح نشوونماپاتا ہے جس طرح اس کے جسم کے دوسرے اعضا مثلا ایک طر ف بچے کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق چیز حاصل کرے اور اپنی سمجھ کے مطابق اس سے لطف اٹھائے ۔ دوسری طرف گھر کے بڑے آدمیوں نے اس پر یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ فلاں چیز اس کے لیے اچھی ہے اور فلاں چیز اس کے لیے مضر۔ بچے کی خواہش اور اس پابندی میں یہی تصادم ہے جس کی بدولت اس کاضمیر نشوونما پاتا ہے۔ بچوں کے نفسیات کے ماہرین صاف اور واضح الفاظ میں یہ رائے کرتے ہیں کہ جب بچہ کسی ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے کہ جو اس کے والدین اور خصوصاً ماں کو ناگوار معلوم ہوتی ہے تو اسے اپنی غلطی یا شوخی کا احساس ہوتا ہے۔ مثلاً اگراس نے غصے میں آ کر اپنی ننھی بہن کو مارا اور جب اس مار سے اس کی ماں نے بھی غصے میں بچے کو چت کرلگائی تو وہ غلطی یا شوخی کے اسی احساس کی وجہ سے وہ پشیمان دکھائی دیتا ہے۔ پشیمانی کا یہ جذبہ بھی ا س کے ضمیر کی نشوونما کا محرک ثابت ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بچے کے متعلق والدین کی یہ روش زیادہ پسندیدہ اور مفید ثابت ہوتی ہے کہ وہ بچے کے اس احساس کو زائل کرنے کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ وہ غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔ نہ اس کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کریں کہ تم بڑے خراب اور شریر ہو۔ کیونکہ ایسے الفاظ جب بچے کے کان مین پڑین گے تو وہ انہیں سن کر کبھی خوش نہیں ہو گا نہ اسے نظم یا ضابطے کا پابند بنانے کے خیال سے کسی قسم کی جسمانی سزا دی جائے۔ جو والدین اپنے بچے کو اس کم سنی کے عالم میں ایک سپاہی کی طرح نظم یا ضابطے کا پابند بنانے کی غرض سے جسمانی سزا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ انہوںنے اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا ہے کہ اس سزاکا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ بچہ نہ صرف ہر وقت سہما رہے گا بلکہ اسے اپنے ماں باپ سے اگر نفرت نہیں تو محبت بھی نہیں ہوگی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کی فطری نشوونما کے لیے غذا کے بعدماں باپ کا پیار اور باپ کی محبت ایسی روحانی خوراک ہے جس کے بغیر بچہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ عام مائیں اپنے بچو ں کو جھڑکتی اور ڈانٹتی ہیں۔ بعض اوقات بچہ اس جھڑک اور ڈانٹ سے رونا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ جھڑک اور ڈانٹ بچے کے لیے کبھی مضر ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے مقالبے میں اس سے اس قدر پیار کیا جاتا ہے کہ وہ ماں کی ناراضی کا خفیف سے خفیف اثر بھی قبول نہیں کرتا۔ اگر ماں کسی وجہ سے بچے کومارتی بھی ہے تو بھی وہ اس کی گود کو اپنی جائے پناہ سمجھتا ہے۔ اہم سوال سوال صرف بچے کی تربیت اور پرورش کا ہی نہیں بلکہ والدین کو پرورش اور تربیت کے مقصد سے پورے طور پر آگاہ رہنا چاہیے ملت اسلامیہ کے بڑے آدمیوں یعنی دانائوں اور فلسفیوں کے نزدیک ماں باپ دونوں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ اس ننھے انسان کو صحیح معنوں میںایسا انسان بنایا جائے کہ اس کا وجود علم و عمل کے اعتبار سے ملک و ملت کے لیے باعث فخر ہو۔ اس مقصد عظیم کے حصول کے لیے والدین اور بالخصوص ماں پر شدید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ماں صرف اسی صورت میں ان ذمہ داریوں سے بطریق احسن سبکدوش ہو سکتی ہے کہ وہ بچے کی پرورش اور تربیت کے اہم فرائض کو مذکور بالا مقصد یا نصب العین کی تکمیل کا ذریعہ سمجھے۔ والدین کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ اگر وہ اس مقصد اور تربیت جس پر جس قدر محنت کی گئی اور روپیہ خرچ کیا گیا وہ سب ضائع گیا۔ اس غفلت کا لازمی طور پر یہ نتیجہ ہو گا کہ کم سنی ہی میں بچے کے عادات و اطوار ان اوصاف سے عاری ہوں گے جن کی بدولت اس میں انسانیت کی امتیازی خوبیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ جن لوگو ں کا یہ خیال ہے کہ یہ خوبیاں چار سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں میں پیدا ہو سکتی ہیں وہ یقینا غلطی پر ہیں کیونکہ بچوں کی نفسیات کے ماہرین اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں میں خواہ وہ قوت گویائی سے محروم ہی ہوں ایسا خارجی اثر قبول کرنے کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے جو انسانیت کی مطلوبہ خوبیوں کی محرک قرار دی جا سکتی ہیں اگر پاکستانی بچوں میں یہ خوبیاں نہیںپائی جاتیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ خود مائوں میں ان خوبیوں کے پیدا کرنے کا احساس نہیں پایا جاتا دوسرے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ پاکستانی مائیں اس احساس یا قابلیت سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ انہیں خود اس حقیقت کا علم نہیں کہ بچے کی کم سنی کے عالم ہی میں خارجی اثر قبول کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستانی مائوں کی یہ لا علمی یا بے خبری کا نتیجہ ہے کہ اس بات کا کہ وہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال نہیں ہیں۔ کم سن بچے پاکستان کی ملت اسلامیہ کا پیش قیمت سرمایہ ہیں ایسا سرمایہ جس پر پاکستان کے درخشاں مستقبل اور اس کی شوکت و عظمت کا انحصار ہے۔ کیا یہ رنج و افسوس کا مقام نہیں ہے کہ اس سرمایہ کی غیر معمولی اہمیت اور حفاظت اس خاص توجہ کی مستحق نہیں سمجھی جاتی جو اس کے قیام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بچے کا دوسرا سوال جب بچہ اپنی زندگی کے دوسرے سال میں قدم رکھتا ہے تو گرد و پیش کی چیزوں کو دیکھنے پکڑنے اور منہ میں ڈالنے کے فطری عمل کے باعث ا س کے عادات و اطوار میں بھی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں ایک بڑی اور اہم تبدیلی یہ ہے کہ جب تک وہ شیر خوار تھا اس کا تعلق زیادہ تر ماں تک محدود تھا۔ گو سال کے دوران میں باپ نے اسے بیسیوں مرتبہ اٹھایا اور اس سے پیار کیا۔ لیک باپ نے بچے کے متعلق اپنی خوشی خاص طور پر اس وقت محسوس کی جب اس نے زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا یا اس کی زبان سے پہلی مرتبہ ’’با‘‘ (ابا) کا لفظ نکلا۔ ماں کی قدرتی طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ باپ کے نقش قدم پر چلے۔ لیکن اس کے باوجود بچے کو فطرتاً ماں سے زیادہ انس ہے لیکن اس کے باوجود بچے کو فطرتا ً ماں سے زیادہ انس ہے کیونکہ وہ چوبیس گھنٹے ماں کے پاس ہی رہتا ہے اس کے پاس سوتا ہے اور اسی کے ساتھ سے کھانے کی چیزیں لیتا ہے۔ مگر بچے کی تربیت کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ جو کچھ ماں باپ اس سے کہیں اس میں اختلاف نہ پایا جائے۔ اختلاف کی صورت میں بچے کے دل میں الجھن پیدا ہوجائے گی کہ وہ ماں کا کہا مانے یا با پ کا۔ اس لیے میاں بیوی دونوں کو اس بارے میں وہ بچے کو ہدایت کرنا چاہیے تو دونوں کی ہدایت میں خفیف کا اختلاف بھی نہ پایا جائے مثلاً ماں نے بچے کو یہ ہدایت کی ہے کہ اسے کھانے کے بعد سوجانا چاہیے لیکن باپ کہتا ہے کہ چلو بیٹا میں تمہیں باہر لے چلوں غرض اس معاملے میں ماں اور باپ دونوں میںپوری ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ پاکستان کے طبقہ متوسط کے ان گھروں کی جن میں بچے کی ماں اس کی دادی اس کی پھوپھی وغیرہ سب ایک جگہ رہتے ہیں عام حالت یہ ہے کہ گھریلو معاملات یا تنازعات میں نہ صرف عورتیں بلکہ مرد بھی ایک دوسرے کے خلا ف ایسے تلخ اور ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کی تہذیب اجازت نہیں دیتی بچے جب اپنے بڑوں کو اس رنگ میں دیکھتے ہیں تو وہ ایک خاموش تماشائی کی طرح چپکے کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس بدتہذیبی کا مظاہرہ کرنے والوں نے جس میں ساس بہو اور نند خاص طور پر زیادہ سرگرم دکھائی دیتی ہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اس بات پر غور نہیںکیا کہ ان کی اس بدکلامی کا بچو ں کے دلوںپر کتنا گہرا اثر پڑا ہو گا۔ حالانکہ گھر کے لوگوں میں بھی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر قرار نہیںدیے جا سکت یکہ بچوں کے اخلاق اور عادات و اطوار کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں کہ گھر کے تمام آدمی اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ ان کی زبان سے ایسے ناشائستہ اور غیر مہذب الفاظ نہ نکلیں جنہیں سن کر وہ خود ان الفاظ کو بے تکلفی سے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن حکیم میں بھی جو مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے صاف اور واضح الفاظ میں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جو بات کہیں احسن طریقے سے کہیں۔ یہی بچے جو اپنے بڑوں کی زبان سے گندے اور ناپاک الفاظ سنتے ہیں بڑے ہو کر کل کے باپ ہوں گے۔ کیا ہم نے ان کل کے باپوں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ یہ اپنے بچوں کے سامن ناپاک اورشائستہ الفاظ استعمال نہیںکریں گے؟ اسلام کا یہی ضابطہ حیات ہمیں اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ مسلمانوں میں مومن وہی شخص ہے جس کے قول اور فعل سے کسی مسلمان کو دکھ نہ پہنچے۔ پاکستان کے یہ ننھے شہری صرف اسی صورت میں اسلامی مملکت کا سرمایہ نازش ثابت ہو سکتے ہیں کہ سیرت و کردار کے اعتبار سے ان کی سربلندی کا ابھی سے خیال رکھا جائے گھر کے آدمیوں کے علاوہ باہر سے جو شخص گھر کے کسی بڑے آدمی کی ملاقات کے لیے آتا ہے اس سے بھی اکثر بچے اس قدر شرماتے ہیں اورکئی کتراتے ہیںکہ وہ اگر پیار اور محبت بھی بچوں کو اپنے پاس بلائے تو یہ اس کے نزدیک نہیں جائیں گے۔ حالانکہ بچوں کو اس بات کی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ نہ صرف باہر سے آنے والے کو سلام کریں بلکہ اس کی باتیں توجہ سے سنیں بچے عام طور پر فطرتاً معصوم اور نیک ہوتے ہیں۔ وہ اگر بگڑتے ہیں تو خارجی اثرات قبول کرنے کی وجہ سے اس لیے والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہے اپنے طر ز عمل سے بچے کو ایسے خارجی اثرات سے بچانے کا خیال رکھیں جن کی بدولت وہ ایسی حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہے جو والدین کو ناگوار گزرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دوست کا بیان قابل ذکر ہے کہ جب وہ گرمی کا موسم گزرنے کے لیے مری جاتے تو صبح کی سیر کے وقت شریف گھرانوں کے بچے بھی نوکروں کے ساتھ سیر کے لیے مری کی مال روڈ پر نظر آتے۔ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ ان ننھے بچوں سے مصافحہ کرتے گویہ بچے بول نہیں سکتے تھے لیکن جب مصافحہ کے لیے ان کی طرف ہات بڑھایا جاتا تو وہ بھی ایک ننھا ہاتھ بڑھاتے اور اس طرح وہ سلام کا جواب سلام سے دیتے ایک فعہ جب پانچ چھ سال کی عمر کے چند بچے ان کے پا س سے گزرے تو انہوں نے ان بچوں کو السلام علیکم کہا لیکن انہوںنے اس کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ اور چلے گئے۔ اتفاق سے دوسرے دن پھر وہی بچے ان ے پاس سے گزرے لیکن اس مرتبہ دو تین بچوں نے انہیں سلام کیا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ جب بڑی عمر کے یہ بچے سیر سے فارغ ہو نے کے بعد اپنے گھروں کو واپس گئے ہوں گے تو انہوںنے اپنی مائوں اور باپوں سے ذکر کیا ہو گا۔ کہ آج ایک بڑے میاں نے ہمیں سلام کیا لیکن ہم نے ان کے سلام کا جواب نہ دیا۔ اس پر سب نہیں کہ ان کی مائوں نے انہیں یہ ہدایت کی ہو گی کہ جب کوئی بڑی عمر کا آدمی تمہیں سلام کرے تو تم بھی چپ رہنے کی بجائے سلام کا جواب سلام سے دو ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان بچوں کے ضمیر نے انہیں ملامت کی ہو اور اس ملامت کی وجہ سے انہوںنے ایک دوسرے دن بڑے میاںکو دیکھتے ہی سلام کے لیے اپنے اپنے ہاتھ اٹھائے ہوں مقصود ان واقعات کے اظہار سے یہ ہے کہ بچوں میں اچھے اور نیک کام کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہو بچے اگر اس صلاحیت سے کام نہیں لیتے تو اس کی ذمہ داری بڑی حد تک والدین او ر بالخصوص ماں پر عائد ہوتی ہے۔ ٭٭٭ چوتھا باب : تربیت کا نیا دور بچے کی ذہنی نشوونما عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے ان بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں جو پیدائش کے بعد زیادہ سے زیادہ دو سال تک ماں کی خاص توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ اسی پرورش اور دیکھ بھال کا نتیجہ ہے کہ وہی بچہ جو پیدائش کے بعد نہایت کمزور اور بے بس نظر آتا تھا اب مکان کے صحن میں دوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ تاکہ ماں اسے اپنا یا بوتل کا دودھ پلائے۔ لیکن وہ اب صرف ماں سے ہر چیز خود مانگ لیتا ہے۔ بلکہ جب بھوک لگی ہوئی ہو اور ماں موجود نہ ہو تو نعمت خانے سے اپنے مطلب کی چیز نکال لیتا ہے۔ پہلے ما ںیا دادی اماں اسے گود میں لے کر اس سے باتیں کرتی تھیں۔ وہ یہ باتیں سنتا تھا لیکن جواب نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن اب وہ ایسی پیاری باتیں کرتا ہے کہ سننے والے اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ماں کو اپنی دو سال کی محنت کا پھل اس شکل میں مل گیا ہے کہ اب وہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کے بار کو ہلکا محسوس کرتی ہے اوراس میں شک نہیں کہ بظاہر یہ بار ہلکا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب بچے کی تربیت کے زاویہ نگاہ سے ماں کی ذمہ داری پر غور کیا جائے تو ہم بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دو سے چھ سال کی درمیانی عمر کے بچے نہ صرف ماں بلکہ باپ کی خاص توجہ کے اس طرح مستحق ہیں جس طرح دو سال سے کم عمر کے بچوں کی پرورش اور نشوونما کے لیے ماں کی خاص توجہ کی ضرورت ایک لازمی امر ہے ۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتاہے کہ جب بچہ اپنی عمر کے دو سال ختم کر لیتا ہے تو اپنی دو سالہ زندگی کے تجربات کی بنا پر اپنے گرد و پیش کی چیزوں کو بہ نظر غائر دیکھنے اور ان سے کام لینے کی طرف مائل ہوتاہے۔ روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق اس کی معلومات کا دائدہ وسیع ہوجاتا ہے مثلاً قدرت اسے بتا دیتی ہے کہ چاقو تیز ہوتا ہے۔ شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آگ گرم ہوتی ہے اور اگر بلی کے بچے کی دم کو زور سے کھینچا جائے گا یا اس کی آنکھوں میں انگلیاں ڈالی جائیں گی تو وہ اپنے ناخنوں سے اس کا جسم چھیلے گی۔ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ چیزیں اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں اس لیے وہ احتیاط سے کام لیتا ہے وہ جوں جوں بڑا ہے مکان کے باہر اپنی عمر بچوں سے ملتا ہے اور اپنے سے بہت زیادہ عمر کے لوگوں کو محنت سے کام کرتے دیکھتا ہے تو اس میل ملاپ اور آنکھوں دیکھے واقعات کا اس کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر پڑتا ہے یہی اثر اس کی ذہنی نشوونما میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کا کلب گھر عام طور پر تین چار سال کے عمر کے بچے بڑے ذہین اور ہونہار ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ والدین اس عمر کے بچوں کی تربیت سے غافل رہتے ہیں بچے گھر سے نکل کر گلی میں چلے جاتے ہیں۔ وہ قدرتی طور پر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں خہ گلی میں کون لوگ رہتے ہیں اور گلی کا نقشہ کیسا ہے اورجب وہ گلی میں جو ان کے مکانوں کی نسبت ایک کھلی جگہ ہے اپنی عمر کے بچوں کو دیکھتے ہیں ان کے لباس پر نظر جماتے ہیں۔ اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرنا چاہتے ہیں اور انہیں گھر کے مقابلے میں گلی زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ گلی کے بچے تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ وہ گلی کے بچوں کی ایسی باتیں سنیں گے یا ان کی ایسی حرکتیں دیکھیں گے کہ جو تہذیب اور اخلاق کے درجے سے گری ہوئی ہیں گلی کے بچے کیوں بدنام ہیں؟ صرف اس لیے کہ ان کے والدین اپنے بچوں کی تربیت سے دیدہ و دانستہ غافل رہتے ہیں۔ ان کے وقت کا بڑا حصہ گلی میں گزرتا ہے وہ صرف اس وقت اپنے گھروں کو جاتے ہیں جب انہیں بھوک لگتی ہے یا والدین انہیں خود لے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ گلیاںملت اسلامیہ کے ان کم سن بچوں کے لیے کلب گھر کا درجہ رکھتی ہیں۔ جن کے علم و عمل اور سیرت و کردار میںملک و ملت کی شوکت و عظمت کا را ز مضمر ہے۔ اس کلب گھر میں بچوں کو پوری آزادی حاصل ہے۔ کوئی بڑا آدمی ان کا نگران نہیں کوئی ان کو سمجھانے والا نہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہ اس کلب گھر میں اس لیے جمع ہو جاتے ہیں کہ بمصداق کندھ جنس باہمجنس پرواز انہیں اپنی سوسائٹی مل جاتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ان کے گلی میں جمع ہونے کی یہ ہے کہ گلی میں پھیری سے چیزی بچے بڑے شو ق سے خریدتے ہیں۔ یہ پھیری والے اپنے کم سن گاہکوں کے مزاق اور مزاج سے پورے طور سے باخبر ہوتے ہیں۔ یہ روزمرہ کا واقعہ ہے کہ بچے ان کی چٹپٹی چیزیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں اور بڑے مز ے لے لے کر کھا تے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پھیری والے جو چیزیں بچوں کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں وہ گھٹیا درجے کی ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے ننھے گاہکوں کی صحت سے کوئی دلچسپی نہیں ان کی دلچسپی صرف ان کے پیسوں سے وابستہ ہے انہیں ماں یا باپ سے پیسے وصول کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ والدین کے ان لاڈلے بچوں کو بغیر تقاضا کرنے کے پیسے مل جاتے ہیں۔ غریب والدین کو بی اس بات کا بڑا خیال ہوتاہے کہ ان کا بچہ جب گلی میں جائے تو ا س کا ہاتھ خالی نہ رہے۔ ایسے بچے بھی ہیں جو پھیری والے سے چیز خرید کر اپنی ماں کے پاس گھر لے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے بچوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے جو حرص اورلالچ کے باعث پھیری والے سے چیز خرید کر سے وہیں چٹ کر جاتے ہیں ماں باپ کو بھی یہ معلوم کر کے اطمینان ہو جاتا ہے کہ ان کے بچے نے اپنی مرضی کے مطابق چیز خرید کر اپنا دل خوش کر لیا۔ کڑی نگرانی کی ضرورت سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو اور چھ سال کی درمیانی عمر کے بچے جب اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ گلی میں گزارتے ہیں تو پھر وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے انہیں گندے اور ناشائستہ الفاظ سننے اور استعمال کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب گلی کے نوجوان لڑکے کسی چھوٹی سی بات پر آپس میں جھگڑتے ہیں اور ان کے اس جھگڑے کی نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو نہ صرف ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ناک پرگھونسہ جمانے میں بھی تاملل نہیں کرتے۔ اانہیں کوئی روکنے یا سمجھانے والا نہیں اور انہیں روکے اور سمجھائے بھی کون جبکہ روکنے اور سمجھانے والے یعنی والدین خود گندے اور ناپاک الفاظ استعمال کرنے کے اخلاقی مرض میں مبتلا ہیں۔ گلی کے کم سن بچے یہ گالیاں سنتے ہیں اور چونکہ ان کا حافظہ اب نسبتاً زیادہ قوی ہے اس لیے یہ گلی کے بڑے لڑکوں کی گندی اورناشائستہ باتیں یاد رکھتے ہیں اور بعض اوقات گھروں میں معصومانہ طور پر اپنے والدین کو بتا دیتے ہیں۔ اس سے پہلے بیان ہو چکاہے کہ اس عمر کے بچے خارجی اثر وہ خوشگوار ہو یا ناگوار بہت جلد قبول کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی شائستگی کے اعلیٰ معیار کے مطابق اگر مذکورہ بالا عمر کے بچوں کی تربیت کا خیال رکھا جائے تو ماں اور باپ دونو ں پر شدید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ شدید اس لحاظ سے کہ اگر اس عمر میں بچو ں کی تربیت پر توجہ نہ کی گئی تو بچے یقینی طور پر بگڑ جائیں گے۔ اور پھر ان کے سدھرنے میں بڑی دقت پیش آئے گی۔ والدین کویہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ مدرسے میں داخل کراتے ہی وہاں کی تعلیم سے یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے والدین کو اسی عمر میں بچوں کے عادات و اطوار کی نگرانی رکھنی چاہیے۔ بری عادتیں جب رائج ہو جاتی ہیں تو بچوں کو ان کے چھوڑنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ بچہ کس طرح سیکھتا ہے؟ یہی وہ عمر ہے جب بچہ دنیا کی نئی نئی چیزیں دیکھتا ہے۔ اور ان کی ماہیت دریافت کرتا ہے۔ یہ تجسس اسے سیکھنے میں مدد دیتاہے۔ قدرت نے اسے کان یعنی سماعت کا آلہ عطاکر رکھا ہے اس کے پاس نہ تو کتاب ہے نہ استاد اور نہ اس میں پڑھنے کی قالیب ہے لیکن ا س کے باوجود وہ قدرت کے اس بیش بہا عطیے کی بدولت اپنی ماں کی زبان میں بولنا اور اپنی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیتاہے۔ اسے اس کم سنی کے عالم میں مشاہدے اور تجربے کے ذریعہ سے معلوم ہو جاتاہے کہ جو لڑکا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے اس سے کمزور لڑکے مار کھاتے ہیں بھاری چیز کیوں زمین پر جلدی گرتی ہے اور ہلکی چیز مثلاً روئی جو دیکھنے میںبھاری یچز سے بڑی نظر آتی ہے۔ کیوں زمین پر جلدی نہیں گرتی۔ گرمی میں لوگ کیوں باریک کپڑے پہنتے ہیں اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے کیوں انہیں گرم کپڑے پہننے پڑتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں لوگ چلتے پھرتے ہیں اور کام کرتے ہیں جب سورج ڈوب جاتا ہے اور رات آتی ہے تو لوگ سو جاتے ہیں چاند کی روشنی ٹھنڈی اور اسے دیکھ کر خوش ہوتی ہے کتا بھونکتا ہے بلی میائوں میائوں کرتیہے گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتاہے چڑیاں چوں چوں کرتی ہیں اور مرغ صبح کے وقت بڑے زو ر سے آواز نکالتا ہے۔ کوا کائیںکائیں کرتا ہے اور منڈیر پر بیٹھے ہوئے سال ڈیڑھ سال کے بچے کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکرا چھین لے جانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ بچہ غیر شعوری طور پر قدرت کے ان مظاہروں اور چوپائوں اور پرندوں کی آوازوں سے متاثر ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنابالکل صحیح ہے کہ قدرت خود اسے تعلیم دے رہی ہے جس پر اس کی ذہنی نشوونما کا انحصارہے۔ قدرت کی یہی تعلیم ہے کہ جس کی بدولت اس کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح اسے چلنے دوڑنے کودنے اور چڑھنے کے فن میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ غرض اس کی زندگی کا ہر لمحہ اس کے سیکھنے میں صرف ہوتا ہے وہ اگر کسی وقت مٹی میں کھیلتا ہے اور کیچڑ میں لت پت ہوجاتا ہے و ماں اس کے کیچڑ سے بھر ے ہوئے کپڑے اتار دیتی ہے۔ اسے نہلاتی ہے۔ اسے صاف کپڑے پہناتی ہے۔ پھر اسے کچھ کھانے کو دیتی ہے۔ اس سے بچہ ماں سے صفائی اور پاکیزگی کاسبق سیکھتا ہے۔ غور کیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماں بھی بچے کی تربیت کے معاملے میں قدرت کے ایجنٹ کی حیثیت سے اپنے مادارنہ فرائض اؤنجام دیتی ہے۔ بچہ اپنی نشوونما کے ارتقائی مدارج طے کر رہا ہے تو اس میں بھی اہل نظر کو قدرت کا زبردست ہاتھ کارفرما دکھائی دیتا ہے یہی ہاتھ اس کے لیے زندگی کے وسائل بہم پہنچاتا ہے اور یہی ہاتھ صحیح معنوں میں اس کی رہنمائی اور حفاظت کا فرض انجام دیتا ہے ماں کو قدرت کے اسی زبردست ہاتھ کے اشارے پر اپنے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔ تین یا چار سال کی عمر کے بچے کے سامنے اس کے سیکھنے کے لیے ہزاروں نئی چیزیں موجود ہوتی ہیں اور باوجودیکہ اس کے جسمانی اور ذہنی قوا عمر کے اعتبار سے اس کی قدرتی خواہش میں ذرا کمی نہیں پائی جاتی کہ وہ ہر چیز کی ٹوہ لگائے اس خواہش کے پورا کرنے میں اسے قدم قدم پر ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اور اس سے بے شمار غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن والدین کی ہر وقت امداد سے وہ سنبھل جاتا ہے یہی غلطیاں اس کا راستہ صاف کرتی ہیں اور اس کی ذہنی نشوونما میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ حوصلہ افزائی کی ضرورت تین چار یا پانچ سال کے بچے کو اپنی زندگی میں بنیادی طورپر جس شے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ کامل سکون اور اطمینان کی روحانی کیفیت ہے جس کا سرچشمہ ماں کی مامتا ہے۔ مامتا کا یہ فطری جذبہ بچے کے آرام و آسائش کا محرک ہے۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ والدین اس سے ہر وقت پیار کرتے ہیں۔ اگر بچے کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ والدین کے پیار میں کمی آ گئی ہے تو اسے بے چینی سی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں اپنے والدین سے مدد اور حوصلہ افزائی کی توقع رکھتاہے اس لیے اگر بچے سے کسی وقت ایسی غلطی یا شرارت سرزد ہو جائے تو جو والدین کو ناگوار گزرے تو بھی انہیں اپنے بچے سے ملامت کے طور پر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ تم خڑاب بچے ہو کیونکہ بچوں کی نفسیات کے ماہرین کی رائے میں اگر بچے کو اپنے جرم اور ولدین کی ناراضگی کا احساس پیداہوجائے تو اس کی خود اعتمادی ک جذبے کو ٹھیس پہنچے گی۔ اور وہ یہ محسو س کرے گا کہ میرے ماں اور باپ دونوں مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ اس لیے جن والدین کو اپنے بچوں کی بھلائی اور بہتری سے گہری دلچسپی ہے انہیں اس امر کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں والدین کی محبت کے متعلق پورا اطمینان حاصل ہو۔ ماہرین کی رائے میں یہی اطمینان ایک ایسی چیز ہے کہ جو نہ صرف انہیں زندگی کی مشکلات سے عہدہ برا ہرنے میں مدد دیتی ہے۔ بلکہ اپنی ذات پر بھروسہ کرنے اور اس میں کسی کام کو خود سوچنے اور شروع کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کر تی ہے۔ کھانا پاکستان میں بہت کم ایسے والدین ہوں گے جو اپنے بچوں کو کھانے کے طریقے یا آداب سکھانا اور ان پر عمل کرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ عام طور پریہی دیکھا جاتا ہے کہ جب بچے کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو بڑی بے صبری کا اظہار کرتیہیں اور جب کھانا شروع کرتے ہیں تو وہ کھانا کھاتے نہیں بلکہ نگلتے ہیں والدین یہ تو جانتے ہیں کہ انسان کی صحت اور طاقت کا دارومدار اچھی غذا پر ہے لیکن غذا کے اچھا ہونے سے بھی زیادہ ان باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ: (الف) کیسا ہونا چاہیے؟ (ب) کب کھانا چاہیے؟ (ج) کتنا کھانا چاہیے؟ (د) کس جگہ کھانا چاہیے؟ (ہ) اور کس طرح کھانا چاہیے؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کھانا سادہ ہونا چاہیے تاکہ پیٹ کے لیے بوجھ ثابت نہ ہو اور ا س کے ہضم ہونے میں دیر نہ لگے۔ کیونکہ ہضم ہونے ہی سے خون صاف رہتا ہے اور کھانے والے کی طاقت بحال رہتی ہے۔ لیکن جو لوگ زیادہ خوش حال اور امیر ہیں وہ سادہ کھانا کھانے کے ااس یے قائل نہیں کہ وہ شروع ہی سے مرغن اور مکلف کھانوں کے عادی ہیں۔ جب تک ان کے دستر خوان یا میز پر روٹی کے ساتھ تین چار قسم کے سالن اور کوئی میٹھی چیز نہیںہوتی انہیں کھانے کا لطف نہیں آتا۔ چونکہ ایسا مزیدار کھانا عام طور پر ضرورت سے زیادہ کھایا جاتا ہے اس لیے یہ خوش حال اور امیرلوگ زبان کے چسکے کی وجہ سے انجام کار بدہضمی کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور باوجودیکہ وہ پانی کی جگہ سوڈ ا استعال کرتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس عارضے سے نجات نہیں ملتی۔ جب معدہ اپنی ٹھیک حالت میں نہیںرہتا تو اس کے سلسلے میں اور کئی بیماریوں کو ان زیادہ کھانے والے اصحاب پر حملہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ان کی صحت کی خرابی ڈاکٹرو ں یا حکیموں کی مستقل آمدنی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ حضرات کھانے کے معاملے میں اپنے نفس کے غلام ہوتے ہیں ان کے نزدیک دولت کا صحیح مصرف یہ ہے کہ کھانے کے معاملے میں نفس کوخوش رکھا جائے خواہ اس کی غلامی انہیں ود یا بدیر بیماری اور موت کا رستہ دکھائے۔ کھانا مقررہ وقت پر کھانا چاہیے بیان کیا جاتا ہے کہ کسی شخص نے ایک فلسفی سے دریافت کیا کہ کھانا کب کھانا چاہیے؟ اس نے جواب دیا کہ غریب کو جب مل جائے اورامیر کو جب بھوک لگے۔ گو فلسفی کا جواب بالکل صحیح ہے لیکن تمام حکیموں اور ڈاکٹروں کی یہ مفقہ رائے ہے کہ کھانا مقرر ہ وقت پر کھانا چاہیے اکہ انسان کی صحت اور طاقت قائم رہے۔ چونکہ چار پانچ سال کی عمر کے بچوں کا وقت زیادہ تر کھیل کود میں گزرتا ہے۔ اس لیے وہ جو چیز کھاتے ہیں وہ انہیں جلد ہضم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں بھی مقررہ وقت پر کھانے کا عادی بنانا چاہیے۔ خواہ بڑوں کے مقابلے میں ان کے مقررہ اوقات کا وقفہ تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ مقررہ وقت پر کھانے کی عادت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ان کی صحت یقینی طور پر ٹھیک رہے گی۔ اگر کھانے کے سلسلے میں وہ وقت کے پابند رہیں گے تو اس پابندی کی بدولت ان کی سیرت و کردار کا معیار بلند رہے گا۔ اس معاملے میں ان کی تربیت کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے ک اگر مقررہ وقت سے پہلے انہیں کھانے کی کوئی چیز اچھی نظر آئے توماں کی غیر موجودگی میں بھی وہ اس چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں بچوں کو اسی عمر میںسادہ غذا کھانے کا عادی بنانا چاہیی۔ اس سادہ غذا میں دودھ دہی مکھن اور انڈے کے علاوہ موسمی پھل بھی شامل ہیں۔ یہ چیزیں بچوں کی جسمانی نشوونما کے لیے ضروری ہیں سادہ غذا سے مراد وہ غذا ہے جس میں غذائیت زیادہ ہو اور اس کے ساتھ ہی سریع الہضم ہو سادہ غذا روٹی کے ساتھ ایک سالن سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے سالن خواہ گوشت کا ہو یا دا ل کا یا سبزی کا۔ مگر سالن اچھا پکا ہوا ہو اور خوش ذائقہ ہو روٹی باریک آٹے کی نہیں بلکہ موٹے آٹے کی ہو۔ پینے کا پانی پینے کا پانی شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں کھانے کی چوکی پر سب سے پہلے رکھا جائے۔ گلاس صاف ہوں ہر بچے کا اپنا گلاس ہو بچوں کو بتا دیاجائے کہ وہ کبھی جھوٹا پانی نہ پئیں۔ خود ماں اورباپ بھی ا س بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنے بچون کو اپنا جھوٹا پانی پینے کے لیے نہ دیں۔ ہر گھر میں اس بات پر خاص توجہ دی جائے کہ پینے کا پانی نہایت صا ف ہو۔ ہینڈ پمپ (نلکہ) کا پانی پینے کے لیے بلا تامل استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن کنوئیں کے پانی کو ابال کر پینا چاہیے کیونکہ برسات کے موسم میں کنوئوں کا پانی جس میں درختوں کے پتے گرتے ہیں اور ہوا سے مٹی اور خشک گوبر کے اجزا بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ صرف اسی کنوئیں کا پانی بغیر ابالے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس کا منہ لکڑی کے تختوں سے بند رہتاہو۔ اور پانی ہینڈ پمپ سے نکالا جائے غرض پانی کے معاملے میں حد سے زیادہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔ انسان کی صحت کا دارومدار ایک بڑی حد تک پانی کی صفائی پر ہے گرمی کے موسم میں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کھانے کے دوران میں جہاں تک ممکن ہو پانی بہت کم مقدار میںپیاجائے اور اگر سکون اور اطمینان کی حالت میں کھانا کھایا جائے گا اور وہ بھی چبا چبا کر تو پانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔ کھانے سے ایک گھنٹہ کے بعد البتہ پان کا ایک گلاس پیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک دم گلاس ختم کرنے سے زیادہ مناسب اور مفید طریقہ یہ ہے کہ پانی ذرا ٹھہر ٹھہر کر پیا جائے۔ شہروں کے اکثر لوگ گرمی کے موسم میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے برف استعمال کرتے ہیں لیکن ضرورت سے زیادہ ٹھنڈے پانی کا استعمال بالخصوص ایسی حالت میں کھانا گرم کھایا جائے دانتوں کے لیے مضر بتایا جاتاہے پانی صرف اسی قدر ٹھنڈاپینا چاہیے جس سے پیاس بجھ جائے۔ بچوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جسے کھا کر انہیں اطمینان ہو جائے۔ مگر اس بات کا خیال خاص طور پر رکھا جائے کہ وہ پیٹو نہ بن جائیں اور جب مل کر کھانا کھائیں تو اپنے اپنے حصے کا کھانا کھائیں۔ کھانے سے پہلے ماں یا خادمہ ایک مقررہ جگہ پر بچو ں کے لیے چوکی بچھا دے جو تین فٹ لمبی دو فٹ چوڑی اور زمین سے ایک فٹ اونچی ہو۔ اس چوکی پر سفید کپڑا بچھا دیا جائے۔ اس پر ہر بچے کے سامنے چینی یا تام چینی کی خالی رکابیاں رکھ دی جائیں اور بچہ چمچہ سے سالن کے پیاللے سے ضرورت کے مطابق اپنی رکابی میں سالن ڈالے۔ چوکی پر اپنی جگہ بیٹھنے سے پہلے ہر بچے کو اپنے ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھو لینے چاہئیں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ صابن سے دھولیے اور تولیے سے خشک کر لیے جائیں۔ شروع میں چوکی پر کھانا کھلانے کا فرض ماں کو انجام دینا چاہیے ۔ زہین بچے فوراً سمجھ جائیں گے کہ چوکی کے گرد بیٹھنا اور مل کر کھانا بڑی اچھی بات ہے۔ اگر بچے پندرہ بیس دن تک ماں کی نگرانیمیں چوکی کے گر د بیٹھنے اور ایک جگہ سلیقے اور صفائی سے کھانا کھانے کے عادی ہو جائیںگے تو پھر کبھی تنہا کھانے یا بیوقت کھانے کی طرف مائل نہیں ہوں گے ۔ لیکن بچوں کی اس پابندی کا انحصار ماں کی سلیقہ شعاری اورنفاست پسندی پر ہے۔ کھانے کے وقت ماں باپ کی موجودگی بڑی ضروری ہے۔ بلکہ باپ اگر بچوں کے ساتھ کھانا کھائے تو اس کی شرکت بچوں کے لیے مفید ثابت ہو گی۔ کھانا چباچبا کر کھانا چاہیے بھوک خواہ کتنی ہی تیز ہو لیکن کھانے کے وقت بے صبری طاہر نہیں کرنی چاہیے۔ کھانا پورے سکون اور اطمینا ن کے ساتھ شروع کرنا چاہیے۔ اور اس بات کا خاص طور پر خیال رکھاجائے کہ نہ صرف کھانے کے وقت ہاتھ بالکل صاف رہیں بلکہ چوکی یا چھوٹی میز کے کپڑے پر نہ تو شورے کا کوئی دھبہ پڑے اورنہ ہی اپنی قمیض یا پاجامے پر ایسا دھبہ نظر آئے۔ جن بچوں کے ہاتھوں اور کڑوں پر چکناہٹ کے نشان پڑ جاتے ہیں انہیںبدتمیز سمجھا جاتا ہے۔ اگر بچو کو اس عمر میں صفائی اور پاکیزگی کی طرف توجہ نہیں دلائی جائے گی تو بڑے ہو کر انہیں اپنی گندی عادتوں سے پیچھا چھڑانے میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔ نوالہ اتنا بڑا نہ ہو کہ حلق سے اتارنے میں دقت پیش آئے۔ نوالے چھوٹے ہوں اور جو کچھ کھایا جائے خوب چبا چبا کر کھایا جائے۔ اگر کھانا چبا کر نہیں کھایا جائے گا تو اس کے ہضم ہونے میں دیر لگے گی۔ خدا نے یہ دانت اسی لیے بنائے ہیں کہ اس سے غذا چبائی جائے۔ گویا اوپر کے جبڑے اور نیچے کے جبڑے کے دانتوں کی دونوں قطاریں چکی کے دو پاٹ ہیں جن میں کھانے کے اجزا غلے کی طرح پسے جاتے ہیں خود دانتوں کی صحت اور مضبوطی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان سے پوراکام لیا جائے۔ جو بچے اپنے دانتوں سے پورا کام نیںلیتے اور بغیر چبائے نرم غذا کھانے کے عادی ہو گئے ہیں ان کے دانت لازمی طورپر کمزور ہو جائیں گے۔ دانت صرف اسی صورت میں مضبوط رہ سکتے ہیں کہ انہیں نہ صرف نہایت صاف رکھا جائے بلکہ ان سے وقتاً فوقتاً سخت چیزوں کے چبانے کا کام لیا جائے۔ مثلاًہڈی گنا نخود اورمکا کے بھنے ہوئے دانے اور اسی نوعیت کی اور ایسی چیزیں جن کے چبانے کے لیے دانتوں کی طاقت صرف ہو۔ دانتوں کی صفائی اور مضبوطی کا تعلق براہ راست معدے سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر غذا کو اچھی طرح چبانے کے لیے دانتوں سے وہ کام نہیں لیا جائے گا جس کے لیے صانع حقیقی نے انہیں بنایا ہے تو معدہ بھی کمزور رہے گا معدے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دانتوں کا کام دے حماقت اور لاعلمی کا بین ثبوت ہے۔ حکیموں اور ڈاکٹروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ معدے کی کمزوری سے بدہضمی اور بدہضمی سے قبض کی شکایت پیدا ہوجائے گی اور یہ وہ عارضہ یہ جو ام الامراض (بیماریوں کی ماں) کے نام سے مشہور ہے۔ اس لیے یہ کہنامبالغہ نہیں کہ جس گھر کے لوگ چھوٹے بڑے اپنے معدوں کو پرہیز یا احتیاط کے عمل سے ٹھیک حالت میں رکھتے ہیں وہ بیماری کے حملوں سے اکثر محفوظ رہتے ہیں۔ کھانے کے معاملے میں بچوں کو خاص طور پر تاکید کرنی چاہیے کہ جو کچھ انہیں کھانے کے لیے دیا جائے وہ اسے رغبت اور پورے اطمینان کے ساتھ کھائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کسی بچے کو کھانے کی کوئی چیز پسند نہیں ہے تو وہ روٹھ جائے اور کھانا چھوڑ دے جو بچہ اس بری عادت میں مبتلا ہو گا اس کی اصلاح کی یہی صورت ہو سکی ہے کہ اسے ہرگز نہ منایا جائے۔ جب اسے بھوک لگے گی تو وہ اپنی ضد چھوڑ دے گا۔ یاد رکھنا چاہیی کہ صرف وہی کھانا کھانے والوں کے لیے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا برکت کا باعث ہو سکتا ہے جو رغبت سے کھایا جائے برکت سے مراد وہ طاقت ہے جو کھانے سے قائم رہتی ہے۔ کھانا رازق حقیقی کا نام لے کر کھانا شروع کیا جائے یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مقدس الفاظ پڑھ لیے جائیں اورکھانے سے فاغ ہو کر دلی خلوص سے اس کا شکر ادا کیا جائے۔ اس سے زیادہ ناشکر گزاری اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم خداوند کریم کی نعمتوں سے تو بہرہ اندوز ہوں لیکن اس کا شکر ادا کرنے سے جان بوجھ کر غافل رہیں۔ پراسرار دماغی طاقت والدین کے لیے اس بات کا جاننا بڑا ضروری ہے کہ اگر معدہ ٹھیک حالت میں رہے اور کھانا وقت پر ہضم ہوجایا کرے توجسم کے اندر خون پاک و صاف رہے گا اور اس کی گردش میں ذرا فرق نہیں آئے گا ماہرین کی رائے ہے کہ معدے کی درستی اور خون کی صفائی اور باقاعدہ گردش کی وجہ سے جسم کے اندر خود بخود ایک ایسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے جس کی بدولت ابتدائی بیماریوں کا حملہ جسم پر کارگر نہیں ہوتا۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میںیہ ہے کہ اگر آدمی بیمار بھی ہوجائے تو یہ پراسرا ر دفاعی طاقت کی سحت کی بحالی میں مدد دے گی جسم کے اندر یہ دفاعی طاقت جو بیماری کے مقابلے میں سپر کا کام دیتی ہے صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ ہر انسان بچہ ہو یا بڑا جوان ہو یا بوڑھا اتنا کھائے جتنا اس کی زندگی کے یے اور صحت کی بقا کے لیے ضڑوری ہے۔ اگر وہ اپنے نفس کو خوش رکھنے کے لیے لذیذ اور پرتکلف کھانے ضرورت سے زیادہ کھانے کا عادی ہو جائے گا تو وہ اس دفاعی طاقت سے جو قدرت کا بہترین عطیہ ہے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گا اور آخر بیماری اس پر اسی طرح حملہ کرے گی جس طرح ایک درندہ جنگل میں اپنے شکار پر جھپٹتا ہے ۔ بھوک کیوں نہیں لگتی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ جو بچہ بڑی رغبت سے کھانا کھاتا ہے اس کی بھوک دفعتاً کم ہو جاتی ہے۔ اگر بچہ کالی کھانسی کے عارضے میں مبتلا رہا ہے جو ایک متعدی بیماری ہے تو ا س سے شفا پانے میں دیر لگتی ہے۔ کھانسی کے دوران میں بچہ رغبت سے کھانا نہیںکھا سکتا۔ بھوک کی کسی کمی کا باعث موسم کی خرابی اور بالخصوص گرمی کی شدت بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ ایسے موسم میں بچے کو بدرجہ مجبوری کمرے کے اندر رہنا اور وہیں اپنا وقت گزارنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ بچہ کھانے میں بے اعتدالی بھی کر جاتا ہے اور وہ کم کھانا شروع کر دیتا ہے۔ اگر بھوک کی کمی کاباعث یہ باتیں نہیں ہیںتو پھر ماں یا باپ کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اس کمی کا باعث دریافت کریں کہیں اس کا سبب یہ تونہیں کہ بھر میں اسے وہ خوشی اور اطمینان حاصل نہیں ہے جو بھوک کو تیز کرنے کے لیے ضروری ہے۔ کیا وہ اپنی ننھی بہن کویہ دیکھ کر ناراض رہتا ہیکہ ماں اس کی طرف زیادہ توجہ کرتی ہے؟ کیا اس کا بڑا بھائی اسے دق تو نہیں پہنچاتا؟ کیا اس کے ہمجولی اس کے ساتھ اچھی طرح پیش نہیں آتے؟ کیا ماں اور باپ کے درمیان کسی بات پر جھگڑا تو نہیں ہو گیا ہے؟ یا دونوں کسی خانگی معاملے میں اسے پریشان تو نہیں دکھائی دیتے؟ اگر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ مذکورہ بالا اسباب بچے کی بھوک کی کمی کا باعث نہیں ہیں تو پھر ماں یا باپ کو چاہیے کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ اگر ایسا بچہ جو اپنی زندگی کے پہلے دو سال تک اندازے سے کم خوراک کھاا رہا ہے اور اس کی جسمانی حالت سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اتنی خوراک نہیں کھائی جتنی اسے کھانی چاہیے تھی تو ماں یا باپ کو اس معاملے پر خاص توجہ کرنا چاہیے اس بارے میں بچے کے متعلق جس شخص سے مشورہ لیاجائے وہ یا تو ہیلتھ وزیٹر ہو یا فیملی ڈاکٹر یا ایسا ڈاکٹر جس کا تعلق بچے کے ویلفئر سنٹر (بچے کی فلاح و بہبود کا مرکزی ادارہ) ہو کم خوراک کھانے والے بچے کے متعلق ایک ڈاکٹر نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ایسے بچے کو دوسرے بچوں کے ساتھ کھانا کھانے کا موقعہ دینا چاہیے۔ جب بچہ دوسرے بچوں کو رغبت اور خوشی سے کھانا کھاتے دیکھے گا تو اس امر کا امکان ہے کہ کم خور بچہ بھی کھانے کی وہی مقدار کھاؤئے جو دوسرے بچے کھاتے ہیں۔ ایک صورت یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب باپ گھر کا سودا سلف لینے کے لیے بازار جائے و بچے کو بھی ساتھ لیتا جائے بالکل ممکن ہے کہ دکانوں میں کھانے کی مختلف اشیاء مثلاً پھل وغیرہ دیکھ کر اس کی اشتہا بڑھ جائے۔ ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ برس یا ڈیڑھ برس کی عمر کے بچے قوت گویائی سے محروم رہنے کے باوجود حسا س واقع ہوئے ہیں یعنی ماں کے پیار سے خوش ہوتے ہیں اور اس کی جھڑک یا ڈانٹ سے سہم جاتے ہیں۔ جب کم سن بچوں کا یہ حال ہے تو تین یا چار سال کی عمر کے بچے جن کی زندگی کا تجربہ کم سن بچوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہوتا ہے اور اکثر باتوں کے متعلق ان میں اچھے بڑے کی پہچان کی صلاحیت پیداہو جاتی ہے۔ گھر کے ماحول یا ماں باپ کے رویے سے قدرتی طور پر جلد متاثر ہو سکتے ہیں۔ بچے گھر کے اندر صرف اسی صورت میں شگفتہ مزاج رہ سکتے ہیں کہ گھر کے تمام لوگ اور بالخصوص والدین بچوں کو شگفتہ مزاج نظر آئیں۔ بچوں کو اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ وہ خوش رہ سکتے ہیں تو ماں یا باپ کا پیار اور ان کے مشفقانہ سلوک کی وجہ سے اس معاملے میں والدین کو اپنی ذمہ داری خاص طور پر محسوس کرنی چاہیی۔ اس لیے بچوں کی تربیت کے زاویہ نگاہ سے یہ نہایت ضروری ہے کہ والدین جو کچھ کہیں یا کریں وہ بچوں کے لیے سبق ہو ایسا سبق جس پر وہ بتقاضائے فطرت پہلے ہی عمل کر نے پر تیار ہوں۔ چونکہ چار سال سے پہلے بچے عام طور پر مدرسے نہیں جاتے اس لیے گھر ہی ان کا مدرسہ ہے۔ جہاں انہیںماں اور باپ کی باتوں کو غور سے سننے اور ان کی حرکتوں کو دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ان باتوں اور حرکتوں کا ان کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے بچوں کی بھلائی اور بہتری اس بات پر ہے کہ اخلاقی پہلو سے ان کی باتیں اور حرکتیں بچوں کے لیے قابل تقلید ہوں۔ ماں کو اپنے بچوں کی نفسیات سے بخوبی آگاہ رہنا چاہیے مثلاً جب وہ یہ دیکھے کہ اس کاایک بچہ دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہے تو اسے فوراً خوش رکھنے کے لیے اسے محبت اورپیار سے اٹھا لینا چاہیے اور اس کے ہاتھ میں کوئی نیا کھلونا تھما دینا چاہیے۔ ماں کی اس روش سے بچے کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں گی اور اس کی افسردگی زائل ہو جائے گی۔ بچوں کی بعض عادتیں دو یا تین سال کی درمیانی عمر بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کا بچہ کبھی کبھی اپنا انگوٹھا یا انگلیاں چوستا ہے۔ اس سے پہلے جب وہ ایک سال یا اس سے ذراکم و بیش عمر کا تھا و وہ اس وقت اپنا انگوٹھا چوسا کرتا تھا جب اسے تکان یا بے اطمینانی محسوس ہوتی تھی۔ جب اول الذکر عمر کے بچے نے ماں کا دودھ یا بوتل کا دودھ پینا چھوڑ دیا و ااس کے بجائے اس نے انگوٹھا چوسنا شروع کر دیا دو سال سے زیادہ عمر کا بچہ بھی جس کے پیچھے کے دانت نکل رہے ہیں انگوٹھا چوسنے کی طرف مائل پایا جاتاہے۔ ایسے بچے کو جو انگوٹھا چوسنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے کھانے اور چبانے کے لیے رس روٹی کا سخت ٹکڑا اورہڈی دینی چاہیے۔ اسے سنگترے اور ابلے ہوئے آلو بھی دیے جا سکتے ہیں۔ جب بچہ زیادہ دانت نکالتا ہے تو وہ انگوٹھا چوسنے کی طر ف مائل ہو جاتا ہے مگر یہ ایک عارضی کیفیت ہے۔ چونکہ بچے کے کل دانتوں کی تعداد بیس ہوتی ہے اس لیے والدین جلد اس بات اندازہ کر سکتے ہیں کہ آیا انگوٹھا چوسنے کی عادت کی وجہ یہ تو نہیں کہ بچے کے دانت نکل رہے ہیں گو انگوٹھا چوسنے کی عادت پسندیدہ قرار نیں دی جاتی لیکن اگر والدین بچے کی اس عادت کو چھڑانا چاہیں تو پھر ان کو اس کے لیے کھلونے بہم پہنچانے چاہئیں تاکہ اس کا دل بہلایا جا ئے کھلونوں سے اسے دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو انگوٹھا چوسنے کی خواہش کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس میں یہ احساس پیدا ہنا چاہیے کہ اس کی ماں اس سے زیادہ پیار کر رہی ہے اور اس کی دیکھ بھال کا خاص طور پر خیال رکھتی ہے۔ یہی ایک ایسا طریق کار ہے جس کی بدولت انگوٹھا چوسنے کی عادت بالک رک سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اس عادت کو چھڑانے کے لیے جبر سے کام لیا جائے یعنی منہ سے انگوٹھا کھینچ لینے یا انگلیوں پر رنگ مل دینے کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے کیونکہ جب بچہ رنگ دار انگلیاں منہ میں ڈالے گا تو رنگ کا اثر اس کی صحت کے لیے مضرثابت ہو گا اس کے علاوہ سختی کرنے کا اثر الٹا پڑے گا بچہ اپنی عادت سے باز نہیں آئے گا زیادہ صحیح اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ بچے کی توجہ کا رخ دوسری طرف پھیرنے کا خیال رکھا جائے۔ انگوٹھا چوسنے کی طرح ناخن کاٹنا بھی بچے کی ایک ایسی عادت ہے کہ اس کے چھڑانے پر براہ راست کوئی توجہ نہیں کرنی چاہیے۔ اورنہ اس کے روکنے کے لیے کوئی ایسی کارروائی کی جائے۔ جس سے بچے کے سکون اور اطمینان میں فرق آئے۔ بچے کو ناخن کاٹنے کی عادت سے باز رکھنے کے لیے سب سے آسان ترکیب یہ ہے کہ قینچی سے اس کے ناخن اس قدر چھوٹے رکھے جائیں کہ بچے کے دل میں ان کے کاٹنے کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ بہت سے بچے چھوٹے سے نرم کپڑے سے خواہ وہ ریشمی ہو یا اونی اسی طرح بہلاتے ہیں جس طرح ایک کھلونے سے۔ جس طرح وہ انگوٹھا چوسنے یا اپنے ناخن کاٹنے کے عادی ہو جاتے ہیں اسی طرح وہ اس نرم ریشمی یا اونی کپڑے کو کھلونا سمجھ کر اس سے پیار کرتے ہیں جب بچہ سونے لگتا ہے یا تکان محسوس کرتا ہے تو اسے اس چھوٹے سے کپڑے کو دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے۔ ایک سال یا ڈیڑھ سال کی عمر کے بچے جب زمین پر بیٹھتے ہیں تو مٹی کھانی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ مٹی بچوں کو ایسی مرغوب ہوتی ہے کہ وہ ماں کی ڈانٹ کے باوجو د متی کھانے سے باز نہیں آتے۔ اگرچہ مٹی کھانے سے بچوں کے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتاہے۔ اور مائیں انہیں اس بری عادت سے روکنے کا خاص طور پر خیال رکھتی ہیں لیکن اس عادت کے چھڑانے میں انہیں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ اچھے بچے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں والدین اور بالخصوص ماں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ تین یا چار سال کی عمر کا بچہ جب گھر سے باہر نکل جاتا ہے تو وہ اس کی عادات و اطوار کی ایسی کڑی نگرانی رکھے کہ اس کی کوئی عادت ایسی صورت اختیار نہ کرے کہ جو اس کی معصوم فطرت کے اوصاف کے منافی ہو۔ چونکہ خارجی اثرات بچے کی عادات و اطوار پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی محلے کے ہم عمر اور بڑے بچوں کے میل جول سے وہ نئی باتیں سیکھتا ہے او ران کی باتوں اور حرکتوں کو غو ر سے دیکھتا ہے اس لیے والدین کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ ان کا بچہ کیا سیکھ رہا ہے۔ اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ آج ان کا بچہ ایسی باتین سن کر آیا ہے کہ جو سچائی اور اخلاق کے زاویہ نگاہ سے گری ہوئی ہیں تو انہیں اپنے بچے کو بری باتوں یا بری حرکتوں کے اثر سے بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ چونکہ بچے میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اچھی اور بری با ت میں تمیز کر سکے۔ اور اس لیے والدین کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے بچے کی رہنمائی کریں یعنی اسے محبت اورپیار سے صاف اور واضح طورپر سمجھا دیں کہ یہ بات اچھی ہے اوریہ بری اور اچھے بچے وہی ہیں جو اچھی بات کریں اور اچھا کام کریں۔ اچھا کام وہی ہے جو سب کو پسند ہو۔ بچے کو اسی عمرمیں اس بات کا یقین دلانا چاہیے کہ اچھے کام سے خدا بھی خوش ہوتا ہے۔ اگر بچہ ماں سے یہ پوچھے کہ خدا کون ہے اور کہاں ہے تو اسے اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ خد ا وہ ہے جس نے سورج چاند زمین بنائی ہے جو ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے جو ہمیں روٹی کپڑا دیتا ہے جو ہر جگہ موجود ہے۔ اور ہماری حفاظت کرتا ہے۔ صحیح عادات و اطوار جب تک بچہ بھر میں رہتا ہے اس کے عادات و اطوار کی نگرانی کا فرض ماں کو بجا لانا پڑتا ہے۔ لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو پھر جہاں تک ہو سکے یہ فرض باپ کو انجام لانااچاہیے ہاں اگر باپ نوکری یا کاروبار کے سلسلے میںگھر سے دور کسی اور جگہ رہنے پر مجبور ہے تو پھر گھر کے کسی بڑے آدمی کو بچے کی نگرانی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر گھر کے آدمی بچے کی نگرانی سے غافل رہیں گے تو پھر بچے کے عادات و اطوار کا رنگ لازمی اور یقینی طور پر وہی ہو گا جس کے لیے گلی کے بچے بدنام ہو چکے ہیں۔ بچے کے عادات و اطوار کی طرف والدین کو صرف اس لیے توجہ دلائی جاتی ہے کہ ان کا اثر نہ صرف بچے کی اپنی ذات پر پڑتا ہے بلکہ والدین اور گھر کے قریبی رشتہ دار بھی ان سے متاثرہوتے ہیں۔ مثلاً اگر بچے کے ہاتھ سے کوئی چیز گر گئی ہے یا ٹوٹ گئی ہے تو اس کا فوری اثر بچے کے دل پر یہ ہوتا ہے کہ چیز کے ٹوٹ جانے سے اسے حیرانی اور پشیمانی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ ٹوٹی ہوئی چیز کی شکل وہ نہیں رہی جو گرنے سے پہلے اس کے ہاتھ میں تھی۔ پھر ماں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ گھر کی ایک کارآمد شے بچے نے توڑ دی ہے تو وہ غصے میں اس کو سخت ڈانٹ بتاتی ہے بچے کی زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے کہ گھر کی ایک چیز کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس کی ماں جو اسے پیار کیا کرت ہے اس سے ناراض ہو گئی ہے ماں کا ناراض ہونا بھی اس کی زندگی کا ایک تلخ تجربہ ہے ۔ یہ اسی تلخ تجربے کا نتیجہ ہے کہ جب دوسری مرتبہ اس کے ہاتھ سے کوئی چیز گرتی ہے یا ٹوٹتی ہے تو وہ ماں کے غصے یا ڈانٹ سے بچنے کے لیے ماں کے دریافت کرنے پر یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ میں نے نہیں توڑی وہ ماں کی ڈانٹ سے تو بچ جاتا ہے لیکن اس نے اس کم سنی میں پہلی مرتبہ جھوٹ بول کر ایسا کام کیا جو اس کی معصوم فطرت کے خلاف تھا فطرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ماں سے صاف کہہ دیتا کہ یہ چیز مجھ سے ٹوٹ گئی ہے اور ماں بھی یہ کہہ دیتی ک بیٹا آئندہ خیال رکھنا کہ تمہارے ہاتھ سے کوئی چیز نہ گرے۔ مگرماں کو اس وقت بچے کے مقابلے میںگھر کی چیزجس سے وہ روز مرہ کے کام کیا کرتی تھی زیادہ عزیز تھی اور اس یلے جب وہ بچے سے ٹوٹ گئی تو اس نے ی نہ سوچا کہ اس غصے یا ڈانٹ کی بدولت بچہ جھوٹ بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھے گا۔ بعض بچے لاڈ پیار کی وجہ سے اس قدر شوخ ہو جاتے ہیں کہ وہ اپن سے بڑو ں کے منہ پر تھوکنا بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے دل میں یہ خیال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اپنے سے بڑوں کے منہ پر تھوکنا ایک بری بات ہے۔ اس لیے جو بچہ ایسی حکت کا مرتکب ہوتا ہے اسے نرمی سے اور محبت سے سمجھا دینا چاہیے کہ اچھے بچے ایسی بات نہیں کیا کرتے۔ پھر بچے ہی سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی تمہارے منہ پر تھوکے تو کیا تم اس کی اس بات سے خوش ہو گے؟ ماں کو بچے سے صاف کہہ دینا چاہیے کہ اگر تم نے پھر ایسی حرکت کی تو تمہیں کھانے کو کوئی چیز نہیں ملے گی ۔ اس طرح سمجھانے سے بچہ سمجھ جائے گا کہ کسی نے منہ پر تھوکنا اچھی بات نہیں ہے۔ پھر یہ بچے گلوں میں ننگے بدن پھرتے اور گلی کی نالیوں پر بیٹھ کر رفع حاجت کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں ان کی اس ناشائستہ عادت کی ذمہ داری ان کے والدین پر عائد ہوتی ہے جنہیںمعلوم ہوجانا چاہیے کہ اسلامی تہذیب انہیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت سے غافل رہیں غرض والدین کو اس کم سنی کے عالم میں بچوں پر یہ حقیقت واضح کر دینی چاہیے کہ عادات و اطوار کے اعتبار سے ان کا درجہ بلند رہنا چاہیے۔ جھوٹ بولنے کا پہلا سبق جھوٹ بولنے یا جھوٹی بات سننے کی عادت اس قدر عام ہو گئی ہے کہ عوام تو کہیں رہے خواص بھی واقعت کو صحیح رنگ میں پیش کرنے کے قائل نہیں۔ و ہ کسی واقعہ یا بات کو دلچسپ بنانے کے لیے اپنی طرف سے اس میں رنگ آمیزی کے فعل کو معیوب نہیں سمجھتے۔ بلکہ سننے والے ایسے شخص کی پیٹھ پیچھے بھی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے کہ فلاں شخص جب بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں لیکن اسلام کا ضابطہ حیات (قرآن حکیم) کسی مسلمان کو ایسی رنگ آمیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ ایسی رنگ آمیزی سے فتنہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ ہم مشاہدے اور تجربے کی بنا پر اس تلخ حقیقت کا اعادہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بچہ اگر جھوٹ بولنا سیکھتا اور اس کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری براہ راست والدین پر عائد ہوتی ہے کہ یا دوسرے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ بچے کو جھوٹ بولنے کا پہلا سبق دینے والے خودوالدین ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے جھوٹ بولنے کی بری عادت سے بچے رہیں لیکن یہ آرزو اس وقت تک عملی صورت اختیار نہیں کر سکتی کہ جب تک والدین پہلے اپنی سیرت کا جائزہ نہ لیں اور اپنے علم و عمل سے بچوں کے لیے خود تقید نمونہ نہ بنیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے مشہور اور برگزیدہ ہستی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی زندگی کا یہ واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جب شیخ موصوف کو لڑکپن کے زمانے میں تحصیل علم کے لیے گھر سے باہر سفر پا جانا پڑا تو ان کی والدہ محترمہ نے ان کو چالیس دینار کی رقم سفر کے اخراجات کے لیے دی۔ ان کے ساتھ کچھ اور بھی ساتھی تھے۔ جب وہ ساتھیوں سمیت گھر سے دور نکل گئے تو ڈاکوئوں نے نوعمر شیخ اور ان کے ساتھیوں کو گھیر لیا اور جو قیمتی چیزیں ان کے ساتھیوں کے پاس تھیں وہ ان سے چھین لیں جب ایک ڈاکو نے نوعمر شیخ سے دریافت کیا کہ بتا تیرے پاس کیا ہے تو انہوںنے بتایا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ جو میری ماں نے مجھے سفر کے اخراجات کے لے دیے ہیں۔ ڈاکو کو یقین نہ آیا اور وہ حیران رہ گیا آخر وہ انہیں اپنے ڈاکو سردار کے پاس لے گیا اور جب سردار نے اس نوعمر مسافر سے وہی سوال کیا تو انہوںنے بھی یہی جواب دیا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں اور جب میں گھر سے سفر پر روانہ ہو تو والدہ محترمہ نے یہ رقم مجھے سفر کے اخراجات کے لیے دی اور اس کے ساتھ ہی یہ تاکید فرمای کہ بیٹا تم علم حاصل کرنے کے لیے جا رہے ہو لیکن میری اس نصیحت پر کاربند رہنا کہ ہمیشہ سچ بولنا اور خواہ جھوٹ بولنے میں تمہیں تکلیف اٹھانا پڑ ے ڈاکو سردار کے دل پر شیخ جیلانی ؒ کی حق گوئی کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ اس نے ڈکیتی سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی اور ان کے ساتھیوں کا جو مال دوسرے ڈاکوئوں نے چھینا تھا وہ انہیں واپس کر دیا۔ یہ عادا ت واطوار کی پاکیزگی ذہانت اور محنت کا نتیجہ ہے کہ ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی دنیائے اسلام میں شیخ عبدالقادر کا نام نہ صرف ادب و احترام سے لیا جاتا ہے بلکہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت انہیں اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے۔ جھوٹ بولنے کی عادت ا س لیے بھی قابل مذمت ہے کہ جھوٹ بولنے والا خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا جوا ن ہو یا بوڑھا حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ آئندہ لوگ خواہ اپنے ہو یا بیگانے اس کی بات کا اعتبارنہیںکرتے۔ کیونکہ جب سچائی ظاہر ہو جاتی ہے تو جھوٹے آدمی کو شرمندہ ہونا پڑتاہے جب بچے اپنی مائوں سے کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں اور ضد کرنے لگتے ہیں تو بہت سی مائیں ان سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے جھوٹا وعدہ کرتی ہیں کہ تمہیں یہ چیز شام کو مل جائے گی۔ لیکن جب یہ چیز انہیں شام کے وقت نہیں ملتی تو انہیں کوئی اور بات بتانی پڑتی ہے۔ گو بچہ اس وقت خاموش ہو جاتا ہے لیکن بچہ کم سن ہونے کے باوجود سمجھ جاتا ہے کہ میری بات نہیں مانی گئی اور مجھے ٹال دیا گیاہے ۔ ماں کی اس غلط روش سے بچہ یقینی طورپر بگڑ جائے گا۔ اگر ماں تحکمانہ لہجے میں بچے سے یہ کہہ دیتی ہے کہ یہ چیز گھر میں نہیں ہے تو تمہیں ضد نہیں کرنی چاہیے توبچہ ماں کے اس جواب سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ جو مائیں اپنے بچوں کو پیار اور محبت کے جو ش میںلاڈلا بنا دیتی ہیں وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ ان کا یہ لاڈ صحیح تربیت کے نقطہ نظر سے بچوںکو بگاڑ رہا ہے جو بچے ایک دفعہ بگڑ جاتے ہیں ان کے عادات و اطوار کی خرابی ایک متعدی بیماری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ یہی بتاتا ہے کہ بگڑا ہوا بچہ دوسرے بچوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو سچا اور حق بجانب سمجھتا ہے اور اس لیے وہ اپنے کم سن ہمجولیوں کے دلوں پر اپنا اثر جمانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بچہ اس بنا پر اپنے آپ کو سچا خیال کرتاہے کہ خود والدین نے محبت کے غلط مفہوم یا ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اسے اس کی کسی ناشائستہ یا بری حرکت سے کبھی نہیں ٹوکا۔ اس پر طرہ یہ کہ اگر قریبی رشتہ دار خواہی کے طور پر والدین کو یہ سمجھاتا ہے کہ اگر آپ نے بچے کی تربیت پر جلد توجہ نہ کی تو یہ شتر بے مہار ہو جائے گا اورآخر میں آپ کو پچھتانا پڑے گا۔ بجائے اس کے کہ والدین اپنے رشتہ دارکے شکر گزار ہوں اور اس کے مشور ے پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھیں وہ الٹا اس کے مشورے کا برا مانتے ہیں اس ذہنیت کے والدین کی مادرانہ اور پدرانہ محبت کاتجزیہ کیا جائے توہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ والدین بچے سے صرف اس لیے محبت کرتے ہیں کہ انہیں اس محبت سے ذاتی طورپر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ بچے کی وجہ سے اپنا دل خوش رکھنا چاہتے ہیں گویا وہ اپنی خوشی کو بچے کے عادات و اطوار کی اصلاح پر مقدم سمجھتے ہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ جس اندازمیں وہ اپنے بچے سے محبت کر رہے ہیں اس کا اس کے عادات و اطوار پر برا اثر پڑرہا ہے حالانکہ اسلامی زاویہ نگاہ سے بچے کے والدین کی محبت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس کی اچھی بات کو سراہا جائے ۔ اور بری بات پر اسے فوراً ٹوکا جائے۔ تاکہ بچے میں اچھے کام اوربرے کام میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے فرض شناس اور روشن خیال والدین اپنے بچے سے صرف اس لیے محبت کرتے ہیں کہ وہ علم و عمل اور سیر ت و کردار کے اعتبار سے سربلند اور ممتاز نظر آئے۔ لین دین سب جانتے ہیں کہ جو آدمی روزمرہ کی زندگی میں لین دین کا کھرا ہوتا ہے اسے سب اچھا سمجھتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں۔ چونکہ والدین سے بچوں کے تعلق میں بھی لین دین کی صورت پائی جاتی ہے اس لیے فریقین یعنی ماں اور بچے کو بھی اس لین دین میں کھرا ہونا چاہیے۔ مثلاً ماں جب اپنے چار یاپانچ سال کے بچے کو گلی کے دوکاندار کے پاس ایک آنے کی چیز لانے کے لیے بھیجتی ہے تو گھر واپس پہنچتے ہی بچہ خوشی خوشی دوکان دار سے لائی ہوئی چیز ماں کے حوالے کر دیتا ہے جب ماں یہ دیکھتی ہے کہ بچہ دوکاندار سے مطلوبہ چیز ٹھیک طورپر لایا ہے اور وزن بھی پورا ہے تو وہ خوش ہوتی ہے اور بچے کو شاباش کہتی ہے۔ بچہ اس شاباش سے خوش ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی تربیت سے بچے کے عادات و اطوار پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے اگر کسی دن بچہ کوئی چیز کم مقدار میں لایا ہے تو ماں کواطمینان ہوجاتاہے کہ دوکاندار نے کمی پوری کر دی ہے تو بچے کو یہ تجربہ حاصل ہوتا ہے کہ دوکاندار سے کس طرح چیذ لینی چاہیے اور اسے چیز لیتے وقت اپنی نگاہ ترازو کی طرف رکھنی چاہیے۔ یہ بچے کی زندگی کا عملی سبق ہے۔ خود قدرت بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے ایسا عملی سبق ضروری سمجھتی ہے۔ انعام کا لالچ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جس گھر میں تین سے پانچ سال تک کی عمر کے کئی بچے ہوتے ہیں وہاں بچوں کے کھیل کود اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے گھر میں صفائی او ر باقاعدگی نظر نہیں آتی۔ ماں کی احتیاط کے باوجود چیزیں ادھر ادھر بکھری رہتی ہیں ۔ لیکن جب ان بچوں کو سمجھایا جائے کہ انہیں اپنے کھلونے کھیل چکنے کے بعد اپنی مقررہ جگہ رکھ دینے چاہئیں تو وہ بڑی خوشی سے ماں کا یہ کہا مان جائیں گے بشرطیکہ اس معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے یعنی انہیں ایک یا دو پیسے بطور انعام دے دیے جائیںَ انعام کے لالچ میں بچے کی ماں ہر بت مان جایا کریں یگ۔ بچے فطرتاً اپنی ماں یا گھر کے کسی بڑے آدمی کے ہاتھ سے پیسے لینے کے بڑے خواہش مند ہوتے ہیں۔ پیسے میں اتنی کشش پائی جاتی ہے کہ ایک سال کی عمر کے بچہ کو بھی جو ابھی ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا جب پیسہ دکھایا جاتا ہے تو وہ اپنا دایاں یا بایاں ہاتھ پیسہ لینے کے لیے بڑھا دیتا ہے۔ بچے کو روزانہ ایک یا د و پیسے دینے میں کوئی حرج نہیںبشرطیکہ ماں اس بات کا خیال رکھے کہ پیسے کے لیے بچے کی حرص ا س قدر نہ بڑھ جائے کہ وہ ماں کے صندوقچے یا بٹوے سے پیسہ چرانے اور جھو ٹ بولنے کی طرف مائل ہوجائے بچے کو پیسہ چرانے کی بری حرکت سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ صورت زیادہ موثر معلوم ہوتی ہے کہ بچے کو ایک چھوٹا سا بکس دے دیاجائے جس کے ڈھکنے میںانتا بڑا سوراخ ہو کہ جب پیسہ اس میں ڈالا جائے تو وہ بکس میں گر پڑے۔ اب ماں بچے کو یہ سمجھا دے کہ تم اپنے روز کا پیسہ یا پیسے اس میں ڈال دیا کرو اور جب یہ بہت سے ہو جائیں تو تمہیں کوئی اچھی سی چیز منگوا دی جائے گی لیکن اسی کے ساتھ ماں اس بات کا خیال رکھے کہ مقررہ وقت پر بچے کو کھانا مل جایا کرے تاکہ اس کے دل میں پھیری والے کی چیز کھانے کی خواہش پیدا نہ ہو۔ بچوں میں عام طورپر یہ بازاری چیزیں کھانے کی عادت اس لیے پڑ جاتی ہے کہ یہ چیزیں انہیں گھر میں نہیں ملتیں۔ اس لیے باپ کو چاہیے کہ جب بچہ ا س کے ساتھ بازار کو جائے تو وہ اس کی پسند کے مطابق اس کے لیے ایسا پھل خریدے جس کے کھانے سے اس کی صحت ٹھیک رہے۔ پیشاب خانہ ریل کا انجن مسافروں سے بھری ہوئی چالیس پچاس گاڑیوں کو اس وقت تک چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لے جانے کے قابل نہیں ہوتا جب تک کہ جتنی لکڑی یا کوئلہ بائلر کی سٹیم کو قائم رکھنے کے لیے خرچ ہو چکتا ہے وہ راکھ کی شکل میں بائلر سے خارج نہیں کر دیا جاتا اور اس کی بجائے اس میں نیا کوئلہ نہیں ڈالا جاتا۔ انسان کا معدہ بھی بائلر کی طرح ہے۔ زندگی کی گاڑی اگرچ سکتی ہے تو اسی بائلر کی طاقت سے ۔ اس بائلر کی سٹیم یا حرارت کو قائم رکھنے کی غرض سے معدے کے لیے ضرورت کے مطابق خوراک استعمال کرنا پڑتی ہے۔ جب قوت ہاضمہ کے عمل سے یہ خوراک فضلہ بن جاتی ہے تو اسے فطرت کے قانون کے مطابق ایک مقررہ وقت پر خارج کردینا پڑتا ہے جب فضلہ جسے پاخانہ کہا جاتا ہے معدے سے خارج ہو جائے گا تو معدے کو پھر مناسب غذا سے پر کرنے کی ضرورت پڑ ے گی۔ غرض انسان کی روز مرہ زندگی میں اس عمل کا سلسلہ باقاعدہ جاری رہتا ہے۔ تین چار سال کے بچوں کو فطرت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے گھر کے قواعد کا پابند ہونا پڑتاہے۔ شیر خوار بچو ں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بستر پر لیٹے لیٹے پیشاب پاخانہ کر دیں اور ماں خندہ پیشانی سے ان کے بستر کو صاف اور خشک رکھنا اپنا فرض سمجھے۔ لیکن فطرت کے قانون نے تین یا چار سال کے بچے کو اس حق سے محروم کر دیا ہے اب اسے پیشاپ پاخانہ کرنے کے لیے ماں کی ہدایت کے مطابق ایک جگہ پر پہنچ کر اپنے معدے کو خالی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یا تو اسے پاٹ والی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے یا جہاں ایسی کرسی کا بندوبست نہ ہو سکے واہں دو بڑی اینٹیں ہی رکھ دی جاتی ہیں تاکہ بچہ ان پر آسانی سے بیٹھ جائے جب تک بچہ پاخانے سے فارغ نہ ہولے ماں کو اس کے قریب ہی رہنا چاہیے۔ تاکہ فارغ ہونے کے بعد ماں اس کے جسم کو پانی سے صاف کر دے۔ بچے کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے کہ جو مادہ اس کے پیٹ سے خارج ہوا ہے وہ ایک گندی شے ہے اور اگر وہ ہاتھ کو لگ جائے تو ہو ناپاک ہو جاتا ہے اوراسے صابن سے دھوناپڑتا ہے قدرت کی طرف سے جسم کوصاف رکھنے کا یہ وہ سبق ہے کہ جو اس کے ذہن میں تازہ رہتا ہے۔ گو عام طور پر اس عمر کے بچے جسم کو متحرک رکھنے یعنی کھیلنے چلنے اور دوڑنے کے باعث قبض کی بیماری سے بچے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے بچے کو قبض ہو جائے تو وہ شدید صورت اختیار کر لے تو پھر ماں یا باپ کو چاہیے کہ اسے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس لے جائے۔ ٭٭٭ پانچواں باب :فطرت کی رہنمائی بچے کی دوسری درس گاہ جب تک بچہ پیدائش کے بعد ماں کی گود میں رہتا ہے اسی کا دودھ پیتا ہے اور پرورش کے لیے اسی کا محتاج رہتاہے پہلی گود اس کی پہلی درس گا ہ ہے۔ ماں اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے اور اس سے باتیںکرتی ہے۔ وہ بول نہ سکنے اور جواب نہ دینے کے باوجود ماں کے پیار کا اثر قبول کرتا ہے اور معصومانہ مسکراہٹ کے اظہار سے اپنی شکر گزاری کا ثبوت دیتا ہے۔ آخر ڈیڑھ دو سال گزر جانے کے بعد وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ جب وہ بولنے چلنے اور پھرنے کے قابل ہو کر گھر کی ہر چیز کا جائزہ لیتا ہے اسے غور سے دیکھتا ہے۔ اسے اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے۔ اور اسے سونگھتا ہے۔ وہ چیز کے رنگ بناوٹ اور اس کے وزن وغیرہ پر بھی توجہ کرتاہے۔ وہ جب چیز کو پکڑ کر اسے پختہ فرش پر پھینکتا ہے تو اس کے ٹوٹنے کی آواز سنتا ہے۔ جب کوئی چیز اس کے ہاتھ سے ٹوٹتی ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ چیز کے ٹوٹنے سے ماں ناراض ہو جائے گی۔ لیکن جب ماں گھر کی ایک کارآمد چیز کے ٹوٹ جانے پر اسے ڈانٹتی ہے تو وہ سہم جاتا ہے۔ اب پہلی مرتبہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اچھا کام نہیں کیا ۔ اس موقع پر عقل مند ماںکا فرض یہ ہونا چاہیی کہ ڈانٹ کے بعد بچے کو پیار اور محبت سے سمجھائے کہ اچھے بچے چیزیں نہیں توڑا کرتے۔ بلکہ زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ اس کے لیے بازار سے ایک نیا کھلونا منگوا دیا جائے اور اس کے بارے میں اسے یہ سمجھایا جائے کہ جب کھلونے سے کھیل چکو تو اسے الماری کے کونے میں رکھ دیا کرو۔ ماں بچے کو اس کی انگلی پکڑ کر الماری کا وہ کونہ بتا دے جہاں کھلونا رکھا جائے عام طور پر بچے فطرتاً بڑے ذہین ہوتے ہیں جب ماںاپنے تین سال کی عمر کے بچے کو پیار سے یہ سمجھا دے گی کہ تمہاری طرح کھلونا بھی اس کونے میںرات بھر سوتا رہے گا تو وہ بھی صبح کے وقت تمہارے ساتھ کھینے کے لیے تیار رہے گا۔ یہ ایسا عملی سبق ہے جو بچہ بڑی آسانی سے سمجھ سکتاہے آسانی سے سمجھنے کی یہ وجہ ہے کہ اسے اپنے کھلونے سے دلچسپی ہے۔ اگر والدین اس عمر کے بچوں کو ابتدا ہی سے اپنی چیزوں کو مقررہ جگہ پر رکھنے کا عادی بنائیں گے تو بڑے ہو کر اس عادت کی بدولت وہ بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رہیں گے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر گھر کے تمام آدمی خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے اس اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں کہ ہر چیز اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دی گئی ہے تو اس سے سب کو سہولت حاصل ہو گی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ چھوٹے اور خاص کر چار پانچ سال کی عمر کے بچے تو کہیں رہے خود گھر کے بڑے آدمی اس نہایت مفید اصول پر عمل کرنے کے قائل نہیں اور صرف اس لیے قائل نہیں کہ ان کے لیے اپنی چیز کو خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو مقررہ جگہ پر رکھنے کی پابندی ایک ایسی تکلیف ہے جسے وہ کاہلی یا آرام طلبی کی وجہ سے برداشت کرنا نہیں چاہتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب مطلوبہ چیز ضرورت کے وقت نہیں ملتی تو پریشانی کے باعث تھوڑی دیر کے لیے ان آرام طلب اور تساہل دوست میاں صاحب یا شیخ صاحب یا شاہ ساحب کا دماغی توازن قائم نہیں رہتا اور اس وقت ان کی حالت واقعی قابل رحم ہوتی ہے۔ ا س اعتبار سے یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ ماں کی گود کے بعد بچے کی دوسری درسگاہ اس کا وہ گھر ہے جہاں وہ پیدا ہوا اور جس کی تمام چیزیں اس کی خاص توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ یہ چیزیں اس لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ ا س کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں حصہ لیتی ہیں۔ والدین کی قابل اصلاح ذہنیت پاکستانی والدین بچوں کے لیے اس قسم کی تربیت کی قیمت اور افادیت کو اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک یہ خیال ان کے دلوں سے نہ نکل جائے کہ بچہ جب بڑا ہوگا اور مدرسے میں داخل ہو گا تو خود بخود ٹھیک ہو جائے گا حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خود ہر بچے کے لیے ایک ایسا مدرسہ یا درسگاہ ہے جہاں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ فطرت کی رہنمائی میں اپنے جسمانی اور ذہنی قوا سے پورا کام لیتا ہے جو قدرت نے اسے عطاکر رکھے ہیں غور سے دیکھا جائے تو اس کے تمام کھیل اس کے لیے ایک عملی سبق ہیں۔ کیونکہ انہیں کھیلوں کی بدولت اسے تجربہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق اس تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ا س کم سنی کے عالم میں بھی وہ بسا اوقات اپنے والدین یا دوسرے قریبی رشتہ داروں سے جو اس سے پیار کرتے ہیں مظاہر قدرت کے متعلق ایسے عجیب و غریب سوال کرتا ہے کہ اس کے جواب دینے میں انہیں دشواری پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک بزرگ دوست کا بیان ہے کہ جب میں لڑکپن کے زمانے مین ایک دن گھوڑے پر سوار اپنے گائوں سے شہر جا رہا تھا تو ایک بچہ جو میرا عزیز تھا میرے آگے بیٹھا ہوا تھا بچے کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی۔ وہ راستے میں مجھ سے باتیں کرتا رہا لیکن حافظے کی کمزوری کے باوجود میں اس کا یہ سوال اب تک نہیں بھولا کہ بھائی جان سڑک کے ساتھ یہ درخت ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے؟ یہ کیوں اپنی جگے پر ایسے ہی چپ چاپ کھڑے ہیں گویا کسی نے انہیں بڑی مضبوطی سے گاڑ رکھا ہے۔ الفاظ شاید یہ نہ ہوں مگر مفہوم ان کا یہی تھا۔ مجھ یاد نہیں کہ میں نے اس سوا ل کا کیا جواب دیا لیکن سوال کی نوعیت سے بچے کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی بزرگ دوست سے معلوم ہوا کہ یہ ذہین لڑکا بڑا ہوکر تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد ایک اسلامی یونیورسٹی کے اہم علمی شعبے کا پروفیسر مقرر ہوا اوراپنے عہدہ کے متعلقہ فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتا رہا۔ اس کا نام مغربی پاکستان کے علی اور ادبی حلقوں میں اب بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ صحت پرور مشاغل بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے ا س کے جسمانی اور ذہنی قوا میں نشوونما کی رفتار نمایاں طورپر بڑھتی جاتی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ ان قوا کی نشوونما کا دارومدار ایک بڑی حد تک بچے کے کھیل کود پر ہے۔ وہ بظاہر کھیلتا کودتا دوڑتا نظر آتا ہے اور اس دوران جب گر پڑتا ہے اور اسے ذرا سی چوٹ لگ جاتی ہے تو روتا بھی دکھائی دیتاہے۔ لیکن تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتاہے کہ ایسے کیل کود کی بدولت اس کی صحت قائم رہتی ہے یاد رکھنا چاہیے کہ جس بچے کے ان مشاغل میں ذرا سی بھی کمی پائی جائے تو والدین اور بالخصوص ماںکو فوراً اس کمی کی طرف توجہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ کمی اس امر کی علامت ہے کہ بچے کی طبیعت ناساز ہے۔ بچہ فطرتاً اپنی عمر کے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور ان کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا ہے۔ اسی عمر میں ذہنی نشوونما کے زیر اثر وہ بچوں میں سے بعض کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اور انہیں بڑے شوق سے اپنا کھلونا دکھاتا ہے۔ اور جب ان بچوں میں سے کوئی اس سے یہ کھلونا اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو وہ یا تو اسے مارتا ہے یا رونا شروع کر دیتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچہ پھیری والے ؤسے کوئی چیز خریدتا ہے تو وہ اپنے کم سن دوست کی بھی تواضع کرتا ہے۔ جب روزمرہ میل جول سے محبت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتاہے غرض کھیل کے دوران ہی میں فطرت کم سن بچوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے کا سبق پڑھا دیتی ہے۔ ممکن ہے بچوں میں محبت کے بجائے نفرت کرنے یا بدلہ لینے کا بھی جذبہ پایا جاتا ہو مگر عام طور پر اس غیر فطری جذبے کا عملاً کوئی وجود نہیں نظر آتا۔ بلکہ وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کم سن بچوں کی فطرت اس قدر پاک ہوتی ہے کہ ان کے دلوں میں نفرت یا انتقام کا خیال تک پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسی بنا پر کم سن بچوں کو خواہ وہ کسی ملک کسی مذہب یا کسی ملت کے ہوں معصوم سمجھا جاتا ہے اور ان کی فطرت بھی یکساں ہوتی ہے۔ بچے کے دل میں نفرت یا انتقام کا خیال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ اپنے اور پرائے سب اس سے پیار کرتے ہیں۔ وہ جہاں جاتا ہے پیار اور محبت کی آوازیں ا س کے کان میں پڑتی ہیں۔ بڑے اور چھوٹے سب اس کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں اور اسے اچھی طرح چیزیں کھانے کو دیتے ہیں۔ اگر گھر میں کسی وقت کسی بات پر اسے ڈانٹ بتائی جاتی ہے تو پیار سے اسے ڈانٹ کا اثر فوراً زائل ہو جاتاہے۔ وہ محبت اورپیار کی فضا میں بچپن کی زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسی فضا میں ایک معصوم دل کے اندر نفرت یا انتقام کا جذبہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ سبق آموز کھلونے کوئی چیز بچے کے لیے اس قدر خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی جس قدر ایک خوب صورت کھلونا۔ اگر بچہ لڑکی ہے تو باپ یا ماں اس کے لیے گڑیا خریدتے ہیں۔ وہ گڑیا سے پیار کرتی ہے۔ اسے کپڑے پہناتی ہے اس سے باتیں کرتی ہے۔ گڑیا ہی کی وجہ سے اس کے دل میں یہ خیال پیداہوتا ہے کہ اس کے لییی گھر بنانا چاہیے کیونکہ گھر ہی اس کے رہنے کے لیے ایک اصلی اور مستقل جگہ ہے وہ اس معاملے میں اپنی کم سن سہیلیوں سے مدد لیتی ہے۔ سب مل کر اینٹوں کا ایک چھوٹا سا مکان بناتی ہیں۔ پھر اس میں گڑیا رکھی جاتی ہے اور گڑیا کے ساتھ دوسری چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی۔ غرض وہ سب مل کر گڑیا کے گھر کو اس طرح سجاتی ہیں کہ جس طرح اپنے گھر کو سجا ہوا دیکھتی ہیں۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے باپ نے اپنی بچی کے لیے بازار سے ایک گڑیا خرید لایا اور بچی اسے دیکھ کر خوش ہو گئی مگر بہت کم والدین کے دلوں میں یہ خیا پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو کھلونا اپنے بچے کے لیے خرید رہے ہیں وہ اس کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ کم سن معمار باپ جب اپنے کم سن لڑکے کے لیے ایک چھوٹی سی موٹر کار خریدتا ہے تو وہ اس میں باپ کی ہدایت کے مطابق چابی دیتا ہے اور جب وہ اس ننھی سی کار کو تیز چلتا دیکھتاہے تو بڑا خوش ہوتاہے۔ کار ہی اس کے دل میں یہ خیا ل پیدا کرتی ہے کہ جب جگہ وہ چلائی جائے وہ صاف اور ہموار کہو کیونکہ کار ہی کی بدولت اسے یہ تجربہ حاصل ہوتاہے کہ جب جگہ صاف اور ہموار ہو تو کار الٹ جائے گی۔ اور چلنے کے قابل نہیں رہے گی اوراسی طرح بچے جب کسی ریتلی جگہ پر کھیلنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں تو وہ معمار کی طرح گیلی ریت سے گھر بناتے ہیں۔ پھرجب ان میں سے کوئی بچہ یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ ان گھروںکے پاس ایک کنواں بھی ہونا چاہیے تو دیکھتے دیکھتے ان کی مشترکہ کوشش سے کنواں بھی تیار ہو جات اہے اوریہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہی کم سن بچے تجربہ کار معماروں اور مزدوروں کی طرح مل کر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ انہیں بچوں میں سے جب کوئی شوخ اور شریر بچہ جو دوسروں کے مقابلے میں نسبتاً طاقت ور ہوتا ہے کسی بات پر اپنے ساتھیوں سے بگڑ جاتا ہے تو وہ غصے میں آ کر بنا بنایا کھیل بگاڑ دیتا ہے۔ اسے بھی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیے۔ مگرکھیل کے بگڑ جانے کے باوجود جب وہ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں تو ان کے معصوم دل نفرت غصے اور کینے کے ناپاک اثرات سے بالکل پاک اور صاف ہوتے ہیں۔ یہ اسی معصوم فطرت کا نتیجہ ہے کہ جب وہ دوسرے دن پھر اکٹھے ہوتے ہیں تو ہنسی خوشی ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ بڑوں کی طرح شکوہ شکایت کریں اور اپنے دل کو صاف نہ رکھیں۔ استاد کی غیر مشفقانہ روش یورپین ممالک میں بچو ںکی ذہنی نشوونما کے لیے لکڑی کے بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔ بچہ لکڑی کے ان ٹکڑوں کو جو ڑکرہتھوڑے سے غور و فکر کے بعد گھوڑا موٹر کار کشتی اور مکان تیار کر سکتاہے۔ بڑی عمر یعنی پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے ایسے بلاک بنائے جاتے ہیں کہ وہ انہیں جوڑ کر نہ صر ف ریلوے لائن اور ریل گاڑی بنا لیتا ہے بلکہ اسے سگنل بکس پل اور ٹنل تک تیار کر لینے میں کوئی دشوار ی پیش نہیں آتی۔ ظاہر ہے کہ جو بچہ خواہ وہ تین سال کا ہو یا چار پانچ سال کا اس قسم کے کھیل کھیلنے کا عادی ہو جائے اور اس کے والدین بھی اس کے لیے ایسے کھیلوں کا سامان بہم پہنچاتے رہیں۔ وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں ذہانت کے اعتبار سے یقیناً سر بلند نظر آئے گا۔ ایسے سائنٹفک علمی کھیلوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچے علم کی طرف زیادہ مائل ہو جاتے ہیں جسے باقاعدہ حاصل کرنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری مدرسے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں غریب والدین کے بچے جن کی تعداد تشویش انگیز طور پر زیادہ بڑھ رہی ہے اول تو مالی مشکلات کی بنا پر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے اور جو بچے مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں انہیں محض اس لیے تعیلم سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جس طریقے سے انہیں پڑھایاجاتاہے او راستادوں کی جانب سے جو غیر مشفقانہ سلوک ان سے روا رکھا جاتا ہے اس کے باعث انہیں علم سے اور زیادہ نفرت ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا کہ استاد کے غیر ہمدردانہ یا غیر مشفقانہ سلوک کی وجہ سے بچے عام طور پر سہمے رہتے ہیں انہیں طوطے کی طرح سبق رٹایا جاتاہے۔ جو بچے اپنا سبق یاد نہیں کر سکتے انہیں استاد غضب آلود نگاہوں سے دیکھتا ہے اور ڈانٹا ہے۔ حالانکہ طریقہ تعلیم ایساہونا چاہیے کہ بچے دل لگا کر پڑھیں اور شوق سے پڑھیں۔ تعلیم کا صارف وہی طریقہ قابل ستائش اور قابل تقلیدقرار دیا جا سکتا ہے جس سے بچوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ معصومیت کا خاتمہ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ابتدائی مدارس میں خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی ایک قلیل عرصے کے اندر کم سن طلبہ کی معصومیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ معصومیت کے اس خاتمے کی ذمہ داری کم سن طلبہ پر نہیں بلکہ ان استادوں پر عائد ہوتی ہے جو بچوں کی نفسیات سے باخبر ہونے اور ان کی معصومیت کو بحال رکھنے کے قابل نہیں وہ عام طور پر اپنا فرض صرف اسی قدر سمجھتے ہیں کہ خاک آلود بورے یافرش زمین پر بیٹھے ہوئے بچوں کو محکمہ تعلیم کے مقررہ قواعد کے مطابق اتنا لکھنا پڑھنا سکھا دیں کہ سال کے خاتمے کے بعد دوسری جماعت میں چڑھنے کے قابل ہوجائیں اورصدر مدر س یا ہید ماسٹر صاحب ان کے کام سے اس قدر مطمئن رہیں کہ جب ان کی ترقی یعنی تنخواہ میں اضافے کا وقت آئے تو صدر مدرس کی طرف سے ا س ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ کم سن طلبہ کی معصومیت کے خاتمے سے ہماری یہ مرا د ہے کہ عادات و اطور میں ایسی تبدیلیاں نمایاں طور پر پیدا ہوجاتی ہیں جو فطری یا معصومانہ پاکیزگی کے زاویہ نگاہ سے قابل مذمت قرار دی جا سکتی ہیںَ مثلاً بچے استاد کی ڈانٹ یا مار سے بچنے کے لیے جھوٹ بولنا یا بہانے بنانا شروع کردیتے ہیں اور جب اس طریقے سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں اپنی اسی کامیابی پر خوشی ہوتی ہے۔ اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ جھوٹ بونایا بہانے بناناکوئی بری بات نہیں۔ دوسرے بچے بھی جب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ سزا سے بچ گئے تو ان کے دل میں بھی اس خیال کا پیدا ہونا ایک آسان اور سہ لطریقہ ہے۔ جب خود استاد بچوں کی فطرت میں اس افسوسناک تبدیلی کے محسوس کرنے اور انہیں محبت اورپیار کے ساتھ سمجھانے کی صلاحٰت یا اہلیت نہ رکھتا ہو تو بچے جھوٹ بولنے کی بری اور فتنہ خیز عادت سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ جو بچے جھوٹ بولنے کے عادی ہو جاتے ہیں ان کے دلوں میں قطعاً یہ خیا ل پیدا نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور جھوٹا آدمی ہر جگہ پر برا اور ذلیل سمجھا جاتاہے۔ انہیں اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے اور ایسی باتیں بنانا پڑتی ہیں جن کا سچائی سے ذر ا تعلق نہیں ہوتا۔ چونکہ استاد والدین گھروں کے لوگ اور دوسرے قریبی رشتہ دار بھی اسلام کے ضابطہ حیات (قرآن حکیم) کے احکام کے مطابق کھرے کھوٹے اور لین دین کے معاملات میں سچائی اور انصاف کا معیار قائم رکھنا نہیں چاہتے اس لیے اگر وہ اپنے نونہالوں کی دروغ دوئی سے بے خبر ہیں یا باخبر ہونے کے باوجود ان کی اس بری عادت کو اصلاح کو قابل توجہ نہیں سمجھتے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ بلکہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ جب والدین اوربالخصوص باپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے تو وہ اس بات پر دیل رنج کااظہار کرتاہے اوراپنے بچوں کو اس بات پر دلی رنج کا اظہار کرتا ہے۔ اور اپنے بچوں کو اس بری عادت سے بچانے کے لیے کوئی ایسا معقول اور مستحسن طریق اختیار نہیں کرتا جس سے اس کی اصلاح ہو جاتی۔ کنڈررگارٹن یورپین ماہرین نے بڑے غور و فکر کے بعد کم سن بچوں کی تعلیم و تربیت کے یلے اس اصول کو عملی جامہ پہنایا ہے کہ انہیں کھیلوں اور کھلونوں کے ذریعے سے تعلیم دی جائے۔ یہ طریقہ تعلیم کنڈرگارٹن کے نام سے مشہور ہے۔ جو بچے اس درس گاہ میں داخل ہوتے ہیں انہیں یہ محسوس ہی نہںٰ ہوتاکہ وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مقصد اس طریقہ تعلیم کا یہ ہے کہ بچوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا جائے اور انہیں اس قدر محنت نہ کرنا پڑے جس سے وہ اکتا جائیں اورانہیں علم سے نفرت پیدا ہو جائے ۔ کنڈر گارٹن کا طریقہ تعلیم نتائج کے اعتبار سے بڑا کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ استاد جب بچوں کو کھیلوں اور کھلونوں کے ذریعہ سے تعلیم دیتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ خود بھی بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پاکستان میں کنڈر گارٹن کا نظام تعلیم ابھی وسیع نہیں ہوا۔ جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ طریقہ تعلیم مالی وجوہ کی بنا پر سر دست قابل عمل نہ سمجھا گیا ہو بیان کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں کنڈر گارٹن کے علاوہ ماہرین تعلیم نے اس نظرے کی بنا پر کہ بچے فطرتاً تصویریں دیکھنے کے زیادہ شائق ہوتے ہیں انہیں سینما کی تصویروں کے ذریعہ سے تعلیم دینے کا تجربہ شروع کیا جس میں انہیںامید سے زیادہ کامیابی ہوئی۔ ایک طرف پاکستان نے جہاں غریبوں کو مٹی کے فرش پر بیٹھ کر بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اور دوسری طرف امریکہ ہے جہاں بچوں کوتعلیمی سہولتیں بہم پہنچانے اور ان کی ذہنی نشوونما کی رفتا ر کوبڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیاجاتا۔ انگلستان اورامریکہ میں سفید فام بچوں کو عورتیں تعلیم دیتی ہیں جنہیں معقول تنخواہیں دی جاتی ہیں ان کے مقابلے میں یہاں کے استادوں کو انقاب ۵۸ء سے پہلے کی حکومتوں کے دورمیں جو قلیل تنخواہیں متیتھیں وہ بھی انہیں کئی کئی مہینوں تک نہیں ملتی تھیں۔ گرانی کے باعث وہ مالی پریشانیوںمیں مبتلا رہتے تھے۔ انہیں مجبوراً حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کا حربہ اختیار کرنا پڑتاتھا جس سے صورت حالات اس لیے زیادہ خراب اور پیچیدہ ہو گئی کہ اس زمانے کے خود غرض نفس پرست اور اقتدار پسند وزراء کو بچوں کی تعلیم اور ان کے استادوں کے جائز مطالبات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اقتدار کی کرسی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر وقت جوڑ توڑ میں لگے رہتے تھے۔ آخر انقلاب نے ان تمام روح فرسا خرابیوں کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا یہ امر موجب طمانیت ہے کہ انقلابی حکومت بچوں کی تعلیم کے مسئلہ پر خاص توجہ مبذول کر رہی ہے۔ بچوں کے تعمیری کام بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کا مقصد اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ خود والدین اس بات کا خاص طورپر خیال رکھیں کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ انہیں ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچانا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا اپنا فرض سمجھیں۔ مثلاً اگر کم سن بچہ اپنے باپ کو یا کسی اور شخص کو بکس یا اسی قسم کی کوئی اور چیز بناتے دیکھتا ہے تو ااس کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہے کہ وہ بھی اسی طرح کی کوئی چیز کر لیتا ہے تو ہو گھر کے ردی سامان ہی میں سے اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کرتا ہے۔ وہ کاغذ کے گتوں یا لکڑی کے نرم ٹکڑوں اور کیل کانٹوں ہی سے اپنے لیے ایک چھوٹا سا بکس تیار کرتاہے۔ یہ چھوٹا سا بکس دیکھنے والوں کے نزدیک خواہ کیسا ہی بھداہو لیکن کم سن کاریگر کو اپنی بنائی ہوئی بھدی چیز سے جس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے اس کا ہم صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔ جو بات زیادہ قابل تحسین اور قابل قدر ہے وہ یہ ہے کہ بچے نے ایک تعمیری کام کیا آج جو چیز ہمیں اس کم سن کاریگر کی بنائی ہوئی بھدی نظر آتی ہے وہی محنت مشق اور تجربے کی بدولت کاریگری کا ایک اعلیٰ نمونہ بن سکتی ہے۔ گھر کی جس قدرٹوٹی پھوٹی چیزیں جو بظاہر ردی اور ناکارہ دکھائی دیتی ہیں وہ سب بچوں اور بچیوں کے لیے ایسے کھلونے کا کام دے سکتی ہیں جن سے وہ اپنی سمجھ کے مطابق طرح طرح کی چیزیں بنا کر خوش ہوتے ہیں اور جب ماں اور باپ بھی ان کی بنی ہوئی چیزوں کی تعریف کرتے ہیں تو ان کا حوصلہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ اسی حوصلہ افزائی کانتیجہ ہے کہ بچے پھر کسی اور نئی چیز کے بنانے کے لیے اپنے مطلب کی چیزوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ ماں کی صحیح رہنمائی یہ نہ سمجھا جائے کہ بچہ اپنے گرد و پیش کی چیزوں اور چلنے پھرنے والوں کو غور سے نہیں دیکھتا اور جو آوازیں اس کے کان میں پڑتی ہیں ان سے متاثر نہیں ہوتا۔ وہ سب کچھ دیکھتا ہے او رسنتا ہے اوران سے نتیجہ نکالتا ہے۔ مثلاً ڈاکیا جب چھٹی دینے کے لیے آواز دیتا ہے تو وہ فوراً اس کی آواز کو پہچانتا ہے اور اس کی چٹھی لے کر اپنے باپ یا ماں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کار کے ہارن کی آوا ز سنتا ہے تو فوراً سمجھ جاتا ہے کہ میرا باپ دفتر یا دورے سے واپس آیا ہے اور جب وہ اپنے باپ سے پھل یا نیا کھلونا لیتا ہے تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھتی ہیں اگر شام سے پہلے باپ کا کوئی بے تکلف دوست ملاقات کے لیے آواز دیتا ہے تو یہ اسی وقت باپ کو اطلاع دیتا ہے کہ فلاں صاحب جنہیں وہ چچا کہا کرتاہے ملنے کے لیے آتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ جائو انہیں اپنے ساتھ لے آئو وہ خود بھی اپنی ماں کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ ابا کے پاب چچا آئے ہیں ان کے یے چائے بنا کر بھیج دو۔ جب وہ ماں یا باپ کے ساتھ ایسے گھر میں جاتا ہے جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گیا تو ماں کی سہیلی چائے کے ساتھ طشتری میں بسکٹ یا مٹھائی اس کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ مگر وہ اس وقت تک چائیے اور بسکٹ کی طرف توجہ نہیں کرتا جب تک ماں اسے چائے اور بسکٹ کھانے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ ماں نے اسے گھر میں یہ سبق پڑھا رکھا ہے کہ جب تم باہر جائو تو کبھی کھانے پینے والی چیزوں کو للچائی ہوئی نظر سے نہ دیکھو۔ اگر تم نے ان چیزوں کو دیکھتے ہی کھانا شروع کر دیا تو گھر والے تمہیں بھوکا بدتمیز اور پیٹو سمجھیں گے۔ اس لیے جب تک میری طرف سے تمہیں اجازت نہ ملے تمہیں نہ تو چائے کی پیالی کو ہاتھ لگانا چاہیے اورنہ بسکٹ یا مٹھائی والی طشتری پر نظر جمانی چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگ تمہیں اچھا آدمی سمجھیں اور تمہاری تعریف کریں بیٹا بڑا آدمی بننے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ تمہار ا طور طریقہ ایسا ہو کہ تمہیں سب اچھا سمجھیں اور یاد رکھو کہ اچھی اور مزیدار چیزیںں کھانے سے آدمی کبھی بڑا نہیں بن سکتا۔ بڑا آدمی وہی ہوتا ہے جو اچھے کام کرے اور اچھے کام وہی ہوتے ہیں جنہیں لوگ اچھا سمجھیں۔ تم اپنی کم سنی کے باعث ابھی اچھے اور برے کاموں میں تمیز نہیں کر سکتے میں اس معاملے میں تمہیں ہدایت دیتی ہوں کہ اگر تم میرے یا اپنے باپ کے کہنے پر چلتے رہے تو خدا کے فضل و کرم سے تم ہمیشہ خوش رہو گے۔ سیرت و کردار کی غیر معمولی اہمیت چار یا پانچ سال کی عمر کا بچہ خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ماں کی ہر نصیحت کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کھیلوں اور کھلونوں کے ذریعہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما کا ہی نتیجہ ہے کہ کم سن ہونے کے باوجود وہ اچھی باتوں کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ جس طرح ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو پودا ہم اپنے مکان کے صحن میں سایہ یا پھل دینے کے لیے لگاتے ہیں وہ سیدھا اوپر کی طرف جائے خوبصورت نظر آئے اور خوب پھل دے اور اس کے ساتھ ہی ہم اس کی حفاظت کے لیے باڑ یا جنگلا لگا دیتے ہیں تاکہ وہ محفوظ رہے ٹھیک اسی طرح ہماری یہ آرزو ہونی چاہیے ک بچے کی سیرت و کردار کے پودے کی حفاظت اور نگہداشت کا فرض گلشن فطرت کے مالی کی ہدایات کے مطابق بجا لایا جائے۔ اسلام کے ضابطہ حیات (قرآن حکیم) میں ان ہدایات کی پوری تفصیل درج ہے۔ اس عجیب و غریب اورنہایت قیمتی پودے کی سرسبزی اور شادابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان ہدایات پر پوری پابندی اور خا ص توجہ سے عمل کیا جائے۔ تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ جن فرزندان توحٰد نے اپنی سیرت و کردار کے پودے کو مذکورہ ہدایات کی بنا پر پروان چڑھایا وار اس کے حیات آفرین ثمر سے بہرہ اندو ز ہوئے وہ زندہ جاوید ہو گئے۔ ان کے نام صدیوں کے بعد بھی ہمارے لیے مشعل راہ کا حکم رکھتے ہیں اور ہم ان پر اپنی عقیدت اور ارادت کے پھول برسانا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس جن مسلمانوںنے دولت کی فراوانی عیش پسندی اور نفس پرستی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی سیرت و کردار کو نفس کی ذلیل اور ناپاک خواہشات کے تابع قرار دیا وہ دینی اور دنیاوی پہلو سے سخت گھاٹے میں رہے اوردائمی ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں ایسے گرے کہ اب شیطان بھی ان کا نام لینے کا روادار نہیں۔ پسندیدہ اوصاف ایک ہی ماں کے کئی بچے ہوتے ہیں۔ اگرچہ والدین سب بچوں کو یکساں پیا ر کرتے ہیں اور وہ دل سے چاہتے ہیں کہ فطرت کے قانون کے مطابق وہ جسمانی اور ذہنی نشوونما کے اعتبار سے ایک قابل رشک زندگی بسر کریں۔ لیکن بجز شاذ مستثیات کے عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے ہ سارے بچے یکساں طور پر ترقی کے منازل طے نہیں کرتے۔ جو بچہ اپنی کم سنی کے باوجود زیادہ محنتی زیادہ ہشیار اور زیادہ اطاعت شعار ہے اور عادات واطوار کے اعتبا ر سے بھی امتیازی حیثیت کا حامل ہے وہ زیادہ محبوب سمجھا جاتاہے گھر کے دوسرے قریبی رشتہ دار بھی دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس کو افضل سمجھتے ہیں۔ اس کی ہر دل عزیزی کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ اوصاف کی وجہ سے نہ صرف اپنوں بلکہ پرایوں تک کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ خود بچہ بھی اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ سب لوگ اسے اچھا سمجھتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ اور قابل غور سوال ہے کہ گو اس کی ایک بہن اور ایک بھائی عمر میں اس سے بڑے ہیں لیکن پسندیدہ اوصاف کے اعتبار سے وہ کیوں ممتاز نظر آتا ہے؟ اور وہ کسن سے اسباب ہیں جن کی بدولت چار سال کی عمر کے اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں ایسے بچے ہوںگے جن کی حیرت انگیز ذہانت اور قوت حافظہ دانشوران پاکستان کے لیے ایک معمہ ہے اسباب خواہ کچھ ہوں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی انسان خواہ وہ بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا لوگوں کے دلوں پر اپنی برائی ارو ہر دل عزیزی کا سکہ اس وقت تک نہیں بٹھا سکتا کہ جب تک سیرت و کردار کے اعتبار سے وہ امتیازی حیثیت کا حامل نہ ہو۔ گھر کا کنڈر گارٹن اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یورپ کے ماہرین تعلیم نے غور و فکر کے بعد کنڈر گارٹن کا طریقہ تعلیم صر ف اسی خیال کی بنا پرتجویز کیا ہے کہ بچوں کو کھیلوں اور کھلونوں کے ذریعہ سے تعلیم دی جائے۔ غور کیا جائے تو گھر کی درسگاہ کنڈر گارٹن سے کسی طرح کم نہیں بلکہ ا س اعتبار سے کنڈر گارٹن پر فوقیت رکھتی ہے کہ اول الذکر میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے زاویہ نگاہ سے ایسی سہولتیں اور آسائشیں موجود ہیں جو شاید کنڈر گارٹن میں نہ پائی جاتی ہوں گھر کی درس گاہ میں بچوں کو پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں اور جتنی دیر تک چاہیں اپنے مشاغل میں منہمک رہتے ہیں۔ گھر کا کوئی بڑا آدمی ان کے مشاغل میں مخل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ بڑوں کو اس امر کا اطمینان ہو کہ سب بچے م کر کھیل رہے ہیں اور وہ خوش اورمطمئن نظر آتے ہیں اورجب وہ اکتا جاتے ہیں اور تھک جاتے ہیں تو اپنے اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں وہ کھانا کھانے اور آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ گھر کی اس درس گاہ کی صدر معلمہ بچوں کی ماں ہے جس پر بچوں کی نگرانی اورہدایت کے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ باپ کو چونکہ ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے اور وہ شام سے پہلے گھر واپس نہیںآ سکتا۔ اس لیے وہ اس ذمہ داری کا بار اٹھانے سے معذور ہے۔ یہ ذمہ داری ایسی اہم ہے کہ اور شدید نوعیت کی ہے کہ پاکستان میں بہت کم مائیں اس بار سے بطریق احسن سبکدوش ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہیںَ یہ کام اگر نوکروں کے سپرد بھی کیا جائے تو پھر گھر کی مالکہ کو بچوں کے علاوہ نوکروں کی نگرانی بھی کرنی پڑے گی کیونکہ عام طورپر نوکروں کو والدین کے اس مقصد سے کوئی ہمدردی نہیں کہ ان کے بچے سیرت و کردار کے اعتبار سے ممتاز اور سربلند نظر آئیں۔ شوخ اور شریر بچے والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ تین سے پانچ سال تک کی عمر کے بچے ان کی خاص توجہ اور نگرانی کے زیادہ محتاج ہیں۔ کیونکہ اس عمر کے بچے زیادہ ذہین اورشریر ہوتے ہیں۔ ماں کا اگر ایسے بچوں پر کنٹرول نہیں ہو گا اور وہ ان کی صحیح رہنمائی کے فرض سے غافل رہے گی تو اسوے اپنی اس فرض شناسی کا خمیازہ اس شکل میں بھگتنا پڑے گا کہ عادات و اطوار کے ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بچے جلد بگڑ جائیں گے مشاہدہ اور تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جن والدینوں کی غفلت یا بے پروائی سے بچے بگڑ جاتے ہیں اور ان کی اصلاح پر فوری توجہ نہیں کی جاتی انہیں سیدھے راستے پر لانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ بچوں کے بگڑنے کی بڑی بڑی علامتیں یہ ہیں: ا۔ ان کی شوخی اور شرارت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ ب۔ جب ان کی بات نہی مانی جاتی تو وہ ضد کرتے ہیں۔ ج۔ اگر کھانا ان کی پسند کے مطابق نہ ہوتو وہ شوق سے نہیں کھاتے۔ د۔ وہ جھوٹ بولنا اور چوری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہ۔ وہ ماں باپ کی معمولی ڈانٹ یا فہمائش سے ذرا متاثر نہیں ہوتے۔ بچے کے بگڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وقت ماں نے غصہ میں آ کر اسے مارنا یا ڈانٹنا شروع کر دیا تو بچے کی دادی یا پھوپھی بچے کو گود میں لے کر الٹا ماں کو اس قدر ڈانٹ پلاتی ہے کہ بچے کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ میری ماں بڑی بے رحکم یہ گھر کی معمر عورتیں تو کہیں رہیں مرد بھی بچے کی حمایت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اب پرانی وضع کے ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ ان کی اس بے جا حمایت سے بچہ اور زیادہ بگڑ جائے گا۔ زمانہ جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پرانے فیشن کے لوگوں کا وجود بھی چراغ سحری ہے اوران کی اس ذہنیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔ گھر کا ٹریننگ سکول گھر کی درس گاہ اس لحاظ سے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کہ اسے بجا طور پر ٹریننگ سکول سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ گھر کے اس ٹریننگ سکول کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس کے کم سن طلبہ اور طالبات صدر معلمہ( ماں) کی نگرانی میں کھیلوں اور کھلونوں ہی کی عملی تعلیم کی بدولت زندگی کے اصی اور حقیقی کھیل میں صدر معلمہ کا ہاتھ بٹاتے دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کے اس اصلی اورحقیقی کھیل کا مقصد یہ ہے کہ گھر جو پاکستان کا ایک یونٹ ہے اوراس لحاظ سے ایک ننھا سا پاکستان ہے اسلام کے ضابطہ حیات (قرآن حکیم) کی ہدایات کے مطابق رہنے کے قابل بنایا جائے اس گھر کے رہنے والے بچے جوان اور بوڑھے صرف اسی صورت میں سبھی خوشی اور اطمینان کی زندگی بسر کر سکتے ہیں کہ گھر کے بڑے آدمی خصوصیت کے ساتھ اپنے اس ایمان کا عملی ثبوت دیں کہ وہ اس جہاں اور دوسرے جہانوں کے بنانے والے کو حاضر و ناظرسمجھتے ہیں جس سے ان کی کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی وہی ان کو رزق پہنچاتا ہے اوروہی ان کو طاقت بخشتا ہے۔ جب گھر کے بڑے آدمی اپنے خالق سے ڈرتے رہیں گے اور دنیا کے کامل انسان (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نقش قدم پر چلنا اپنی زندگی کا مقصد وحید قرار دیں گے تو گھر کے بچے بھی ان کا یہ رنگ دیکھ کر لازمی اور یقینی طور پر ایسے عادات و اطوار اور اوصاف کے حامل ہو جائیں گے جن کی بدولت ان کا گھر جنت ارضی بن سکتا ہے۔ یہ گھر کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی مالکہ عابدہ خانم اخلاقی اور روحانی پہلو سے ایک فرض شناس اور روشن خیال خاتون ہے جو بچوں کی تربیت کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کا خاص طورپر خیال رکھتی ہے اوران کے ساتھ سایے کی طرح لگی رہتی ہے۔ اگر ایک طرف گھر میں اس کی مالکہ کے حسن انتظام کی بدولت آرام و اطمینان کی زندگی بسر کرنے کے تمام مواقع موجود ہیں تو دوسری طر ف یہی گھر اس کا ٹریننگ سکولہے جس میں بچوں کی سیرت کو اسلامی تہذیب کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ یہ اسی ٹریننگ یعنی تربیت کا نتیجہ ہے کہ یہ گھر دوسرے گھروں سے نرالا نظرآتا ہے۔ نرالا اس اعتبار سے کہ دوسرے گھروں کی طرح یہاں کے بچے غل غپاڑہ مچاتے ہوئے نظرنہیں آتے۔ وہ جب باہر سے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو ماں کے علاوہ گھر کے بڑے آدمی کو بھی سلام کرتے ہیں اپنے کھلونوں کو مقررہ جگہ پررکھتے ہیں کھانے کے وقت جو کچھ موجود ہو خوشی اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ اگر کسی وقت بتقاضائے فطرت وہ ایک دوسرے سے لڑتے بھی ہیں تو ماں کے اشارے پر فوراً خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ جب دروازہ بند کرتے ہیں تو اس قدر آہستہ کہ دروازہ بند کرتے وق خفیف سی آواز بھی سنائی نہیں دیتی پیشاب اور پاخانے کے وقت صفائی اور پاکیزگی کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جہاں چاہا پیشاب اور جہاں چاہا پاخانہ کر دیا۔ اگر کسی نابینا بھکاری کی آواز سن پاتے ہیں تو اپنی اماں سے اس کے یے یا تو پیسے لیتے ہیں یا روٹی۔ گھر کے صحن میں اگر کوئی چیز گری ہوئی دیکھتے ہیں تو اسے اٹھا کر کسی علیحدہ جگہ رکھ دیتے ہیں۔ اگر چینی کی پرچ یا پیالی یا پلیٹ کسی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہے تو بچہ ماں سے صاف کہہ دیتا ہے کہ اماں یہ مجھ سے ٹوٹ گئی ہے۔ ماں صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ بیٹا آئندہ خیال رکھنا بچے اپنی ماں یا باپ سے روزانہ خرچ کرنے کے لیے پیسے وصول کرتے ہیں مگر وہ انہیں خرچ کرنے کے بجائے ایک چھوٹے سے بکس میں جو بند ہوتا ہے اس کے سوراخ میں ڈال دیتے ہیں۔ ماں انہیں سمجھا دیتی ہے کہ جب یہ بکس پیسوں سے بھر جائے گا تو تم ان سے ایسی چیزیں خرید سکتے ہو جنہیں دیکھ کر تمہیں خوشی ہو۔ اس طریقے سے بچوں میں کفایت شعاری کی عادت پیدا ہو جاتی ہے بچوں کے ان عادات و اطوار اور اوصاف کی وجہ سے گھر اس قدر صاف اور خوبصورت نظر آتا ہے کہ دوسرے گھر اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ مکان کی صفائی عام طور پر متوسط درجے کے ہر پاکستانی گھر میں گھر کی مالکہ صبح کا ناشتہ تیار کرنے سے پہلے مکان کی صفائی پر توجہ کرتی ہے۔ لیکن چارپانچ گھنٹوں کے بعد نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے مکان صاف ستھرا نہیں رہتا۔ مثلاً جب بچوں اور بڑوں نے گنا یا سنگترے یا خربوزے یا کوئی اور پھل کھانا شروع کر دیا تو چھلکے ہر جگہ بکھرے نظر آئیں گے اور ان پر بے شمار مکھیاںجمع ہو جائیں گ۔ حالانکہ نفاست پسندی اور خوش ذوقی کا یہ تقاضا ہے کہ ایسی چیزیں ایک جگہ بیٹھ کر کھائی جائیں اور ان کے چھلکے کسی برتن میں ڈالے جائیں تاکہ انہیں گھر کے کوڑے کرکٹ والی جگہ پر پھینک دینے میں آسانی ہو کمروں کے اندر کی چیزیں بھی قرینے اور ترتیب سے نہیں رکھی جاتیں۔ لیکن جب گھر کی مالکہ کو اس کا شوہر یہ اطلاع دیتا ہے کہ اس کافلاں رشتہ دار جو بڑا خوش حال اور مال دار ہے پرسوں آنے والا ہے اوریہ ہدایت کرتا ہے کہ گھر کی ہر چیز صاف اور خوشنما نظر آئے اور کھانا وقت پر تیار رکھا جائے تو مالکہ گھر کی صفائی کمروں کی آرائش اور چیزوں کو قرینے اور ترتیب کے ساتھ رکھنے کے عمل پر خاص توجہ کرتی ہے ۔ وہ نہ صرف گھر کے برآمدے میں پھولوں کے گملے رکھوانے کا بندوبست کرتی ہے بلکہ گھر کی بھنگن اس کی ہدایت کے مطابق گندی نالیوں کو بھی اس قدر صاف کر دیتی ہے کہ پاس سے گزرنے واے کو تعفن مطلق محسوس نہیں ہوتا گھر کی اس کایاپلٹ کو دیکھ کر شوہر بھی دنگ رہ جاتا ہے اور وہ بیوی کی اس سلیقہ مندی کا محبت کے لہجے میں اعتراف کرتا ہے۔ مہمان بھی پر تکلف کھانا کھانے اور گھر کی چیزوں کو سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد کسی نہ کسی پیرا میں اپنے میزبان اور بالخصوص گھر کی مالکہ کی خوش مزاقی اور سلیقہ شعاری کی داد دینا اپنا فرض سمجھتاہے۔ مہمان کے رخصت ہوتے ہی مکان کی خوب صورتی اور آرائش بھی مہمان کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتی ہے۔ اور مکان پھر اپنی اصی حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ دعوت کیاس اہتمام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گھر کی مالکہ اور اس کے شوہر نے مکان کی زیبائش اور آرائش کو ضروری خیال کیا تو فطری نفاست پسندی اور خوش مذاقی کے اعلیٰ جذبہ کے تحت اپنے دلوں کو خوش کرنے کے لیے نہیںبلکہ مہمان کے دل میں صرف یہ خیال پیدا کرنا مقصو د تھا کہ مہمان کے مقابلے میں میزبان بھی صاحب حیثیت ہے۔ دنیا داری یا ظاہر دادری کی یہ نمائش ہر جگہ ضرور ی سمجھی جاتی ہے۔ اور پاکستان کی موجودہ معاشرتی زندگی میں اس نمائش کو اس قدر وقعت اور اہمیت حاصل ہے کہ نمائش کرنے والا برادری کا کنبے میں خاص طو رپر معزز سمجھاجاتاہے۔ یہ ہے ہماری مصنوعی زندگی کا ایک مصنوعی عمل جسے فطرت کی سادگی اور پاکیزگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کے ضابطہ حیات کی رو سے فطرت کی سادگی پاکیزگی اور باقاعدگی کا قانون ہمیں اپنے گھروں میں ایسی زندگی بسر کرنے کی تاکید کرتا ہے کہ جس میں کسی قسم کا تصنع یا بناوٹ نہ پائی جائے۔ اس قانون کے مطابق ہمارے گھر ہر وقت صاف ستھرے اور پاکیزہ رہنے چاہئیں تاکہ گھر کی اس روح پرور فضا میں اس کے مکین حقیقی راحت و مسرت سے بہرہ اندوز رہیں اور ہر وقت شگفتہ خاطر نظر آئیں ایسی حالت میں اگر کوئی معزز مہمان بھی آ جائے تو اس کے لیے خاص اہتمام یا تکلف کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ جس گھر کی آرائش و زیبائش فطرت کے معیار کے مطابق ملحوظ رکھی جائے وہاں گھر کی مالکہ کو کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آ سکتی کیونکہ بچے گھر کی درس گاہ یا ٹریننگ سکول کی تربیت اور اس کی صدر معلمہ کی کڑی نگرانی میں کھیلوں اور کھلونوں کے عملی سباق کی بدولت سادہ پاکیزہ اور باقاعدہ زندگی بسر کرنے ک ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ خود بھی گھر کو صاف ستھر ا اور خوشنما رکھنے کے معاملے میں ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہائے دعوت شیراز اس سلسلے میں پیغمبر سخن شیخ سعدی شیرازی کے متعلق یہ ایک مشہور رایت ہے کہ جب شیخ ایک سفر کے دوران اپنے ایک دوست کے گھر پہنچے تو اس نے شیخ کی آمد پر جس کے ساتھ اسے گہری عقیدت تھی بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ جب رات کے کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا گیا تو اس پر قسم قسم کے کھانے چن دیے گئے۔ شیخ صاحب جب کھانے سے فارغ ہو چکا تو بے ساختہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نک گیا ہائے دعوت شیراز دوست نے اپنے دل میں محسوس کیا کہ کھانا شیخ کو پسند نہیں آیا۔ اس لیے اس نے دوسرے دن نوکر کو اور زیادہ پرتکلف کھانا تیار کرنے کی ہدایت کی۔ جب کھانے کا وقت آیا اور دستر خوان پر کھانا چن دیا گیا تو شیخ نے کھانے سے فارغ ہوکر پھر وہی فقرہ دہرایا ہائے دعوت شیراز دوست اپنے دل میں حیران تھا کہ لیکن اس نے بتقاضائے اخلاق اور مہمان نوازی کے آداب کے پیش نظر شیخ سے اس فقرے کی توجیہ دریافت کرنی مناسب نہ سمجھی اسنے کھانے کے معاملے میں زیادہ تکلف سے کام لیا بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ نے تیسری دفعہ اپنافقرہ تو نہ دہرایا لیکن خاموش رہا میزبان کے لیے مہمان عزیز کی یہ خاموشی بھی ایک ناقابل فہم معما تھی۔ شیخ نے اپنے دوست کے پاس دو دن قیام کیا اور تیسرے رو ز رخصت ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اس دوست کو کاروبار کے سلسلے میں شیراز جانے کا اتفاق ہوا تو مہمان کی حیثیت سے شیخ کے مکان پر قیام کیا ۔ دوست کو شیخ کا مذکورہ بالا فقرہ یاد تھا۔ اس کے دل میں اس خیا کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا کہ دیکھیں شیراز کی دعوت کیسی ہوتی ہے۔ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق یہ اندازہ لگا رکھا تاھ کہ شیخ کی دعوت نہایت پرتکلف ہو گی لیکن جب کھانے کا وقت آیا اور نوکر ہاتھ دھلا چکا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی… کہ شیخ نے خود دستر خوان بچھایا جس پر ایک قسم کے سالن اور خمیری روٹیوں کے سوا اور کوئی چیزنہ تھی۔ شیخ اور اس کا مہمان دونوں کھانا کھاتے رہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر شیخ نے جو اپنے مہمان کی ذہنیت کی طر ف سے بے خبر نہ تھا گفتگو کے دوران میں اس سے کہا کہ میرے دوست تمہیں یاد ہو گا کہ جب میں نے گزشتہ مرتبہ تمہارے مکان پر قیام کیاتو تم نے میری خاطر و مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میں نے جب یہ فقرہ استعمال کیا کہ ہائے دعوت شیراز تو تم نے یہ سمجھ لیا کہ تمہارا کھانا میری پسند کے مطابق نہ تھا۔ تم نے اور زیادہ تکلف سے کام لیا۔ میں نے پھر وہی فقرہ استعمال کیا۔ تم نے پھر یہی سجھا کہ تمہارا کھانا میری مرضی کے مطابق نہیں اورکھان میں اس قدر تکلف سے کام لیا جو میرے لیے ناقابل برداشت تھا میں تمہارے کھانے پر تکلف کھانوں کے باعث مجھے وہاں سے جلد رخصت ہونا پڑا۔ میرے دوست ا ب تم میرے مکان میں جتنا عرصہ چاہو قیام کر سکتے ہو۔ مجھے تمہاری کھانے کے متعلق کسی قسم کے اہتمام کی ضرورت نہیںپڑتی۔ سادگی اور پاکیزگی سادہ اور پاکیزہ زندگی بسرکرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کھانا بھی سادہ ہو اور پاکیزہ ہو۔ تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ ہماری جسمانی اور روحانی صحت کا دارومدار ایسی خوراک پر ہے جو ہماری جسمانی طاقت کو بحال رکھے اور ہمارے جسم کا خون پاک اور صاف رہے۔ خوراک کا انسان کے عادات و اطوار اور اس کی سیرت و کردار کی تعمیر سے ایک گہرا تعلق ہے۔ خوراک جس قدر سادہ اور پاکیزہ ہو گی کھانے والے کے عادات و اطوار سے بھی سادگی اور پاکیزگی کی جھلک نمایاں طور پر نظر آئے گی ۔ اور سیرت و کردار کے اعتبار سے بھی وہ سربلند نظر آئے گا۔ سعدی شیرازی کا یہ شعر ہر پاکستانی مسلمان کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تو معتقد کہ زیستن از بہر خوردن است ترجمہ : انسان اس لیے کھانا کھاتا ہے کہ زندہ رہے اور ذکر میں مشغول رہے لیکن تو اس بات کا قائل ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ رہے۔ ذکر کردن سے مراد یہی ہے کہ نیکی کی طاقتوں کو فروغ دیا جائے نیکی کی طاقتیں صرف اسی صورت میں فروغ پاسکتی ہیں کہ انسان اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے صرف وہی غذا کھائے اور اتنی مقدار میں کھائے جس سے جسمانی صحت اور طاقت بحال رہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ لزید اور پرتکلف غذائوں کے عادی ہو چکے ہیں وہ فی الحقیقت اپنی نفسانی خواہش کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ علانیہ اور دیدہ و دانستہ صحت کے مسلمہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس خلاف ورزی کا خمیازہ انہیں بد ہضمی اور قبض جیسے موذی عارضے کی شکل میں بھگتنا پڑتاہے اور بہت بری طرح۔ کیونکہ بدہضمی اور قبض ہی کی وجہ سے وہ اور کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جو شخص ان عارضوں میں مبتلا رہتا ہے وہ ااس قدر بد اخلاق اور غصیلا ہو جاتاہے کہ کوئی شریف اور باوقار انسان اس کے پاس بیٹھنا گوارانہیں کرتا۔ صرف وہی لوگ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں اور اس کی بدخلقی اور بدمزاجی برداشت کرتے ہیں کہ جو اس کی دولت کے سہارے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ ٭٭٭ چھٹا باب : گھر کی ٹریننگ اسلام کے منھے سپاہی چونکہ گھر کی مالکہ جو گھر کے ٹریننگ سکول کی صدر معلمہ کے فرائض بھی انجام دیتی ہے قرآن حکیم کی تلاوت اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے پوری طرح باخبر ہے اس لیے وہ ملت اسلامیہ کے مفاد اور اپنی مملکت کی حفاظت کے پیش نظر اپنے بچوں کو کم سنی کے عالم میں اسلام کے ننھے سپاہی سمجھتی ہے۔ اس کا شوہر بھی اپنی بیوی کے اس نظریے سے پورے طور پر متفق ہے دونوں کی یہ آرزو ہے کہ ان کی تربیت ایسے طریقے سے ہونی چاہیے کہ ان ننھے سپاہیوں کو یہ محسوس ہی نہ ہو کہ انہیں تعلیم دی جارہی ہے۔ وہ اپنے کھیلوں اور کھلونوں ہی کے ذریعے جسے جو عملی سبق حاصل کرتے ہیں اور ا س دوران جن نئی چیزوں کو غور سے دیکھنے کے بعد اپنی سمجھ کے مطابق نتیجے نکالتے ہیں وہی ان کی ذہنی نشوونما کا اصلی سرچشمہ ہیں۔ جب وہ اپنی ماں یا باپ کے ساتھ دوسرے گھروں کے بچوں سے ملتے ہیں ان کے کھلونوں کو بھی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور جب گھر واپس جاتے ہیں تو ان کے دماغوں میں نئی معلومات کا ذخیرہ جمع ہو جاتاہے۔ معلومات کے اس ذخیرے کی بدولت انہیں اور نئی باتیں سوجھتی ہیں ان کا دماغ فوٹو گراف کا ریکارڈ سمجھنا چاہیے جس پر ان معلومات کے نقش ایسے گہرے قائم ہو جاتے ہیں کہ وہ بڑھاپے تک قائم رہتے ہیں۔ بچوں کی قوت حافظہ اس قدر زبردست ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ سنتے اور دیکھتے ہیں اسے ایسا یاد رکھتے ہیں کہ خود والدین حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ ضڑورت کے وقت باتوں باتوں میں مہینوں پہلے کسی واقعے کا مثلاً مداری کے تماشے کا ذکر کرتے ہیں جسے وہ دیکھ چکے ہیں۔ وہ بندر اور ریچھ کے تماشے کو کیسے بھول سکتے ہیں ان کی یہ عادت بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ وہ جو کچھ بھی باہر دیکھتے یا سنتے ہیں اس کی تفصیل سے ماں کو آگاہ کر دیتے ہیں۔ وہ کوئی بات ماں یا باپ سے نہیں چھپاتے اس کا فائدہ یہ ہے کہ تفصیل سے بیا ن کرنے کی نہ صرف ان میں صلاحیت پییدا ہو جاتی ہے بلکہ ماں انہیں سمجھا دیتی ہے کہ یہ اچھی بات ہے اور یہ بری بات ہے۔ وہ انہیں بری بات سے بچنے کی تاکید کر دیتی ہے۔ پاکستان میں طبقہ متوسط کے اکثر اسلامی گھروں کے کسی نہ کسی کمرے میں قائد اعظم کی تصویر کے علاوہ ملت کے دوسرے مشہور اکابر سرسید احمد خاں مولانا شبلی ‘ نواب وقار الملک‘ مولانا محمد علی‘ مولانا ظفر علی خاں کی تصویریں آویزاں نظر آتی ہیں۔ بچے جب قائد اعظم کی تصویر دیکھتے ہیں تو ماں سے دریافت کرتے ہیں کہ امان جان یہ کس کی تصویر ہے؟ توماں کو بتانا پڑتا ہے کہ بیٹا یہ وہ بڑا آدمی ہے جس نے ہمارے لیے پاکستان بنایا۔ ہمارا گھر جس میں ہم سب آرام اور اطمینان کے ساتھ رہتے ہیں اسی پاکستان میں ہے۔ جو ایک بہت بڑا ملک ہے۔ اسی طرح بچے دوسری تصویروں کو غور اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور ماں سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں تو ماں انہیں مختصر طور پر ان کی زندگی کے حالات کہانی کے طورپر سناتی ہے وہ بڑی دلچسپی اورتوجہ سے سنتے ہیں۔ دلچسپ تصویریں بچے فطرتاً تصویریں دیکھنے کے بڑے شائق ہوتے ہیں۔ ماں انہیں جو تصویریں دکھاتی ہے ان میں وہ بڑے بڑے درختوں جھیلوں اورپہاڑوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جھیلوں میں طرح طرح کے جانور تیرتے دکھائی دیتے ہیںَ جب کسی تصویر میں انہیں بچوں کے ہنستے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں تو وہ بڑی توجہ سے ان پر اپنی آنکھیں جما دیتے ہیں۔ پھر جب ماں انہیں یہ تصویریں اپنے پاس رکھنے کے لیے دیتی ہے تو وہ اور زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ اور اس سے کہتے ہیں کہ اچھی اماں جان تم ہمیں تصویریں دو گی تو م انہیں اپنے بکس میں سنبھال کر رکھیں گے اور انہیں خراب نہیں کریں گے۔ ان تصویروں کو دیھک کر بھی نہیں اکتاتے اور دیکھنے کے بعد انہیں سنبھال کر رکھ دیتے ہیںَ یہ تصویریں بھی ان کے لیے عملی سبق ہیں جس سے ان کے دلوں میں نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں جس سے ان کے دلوں میں نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ گھر کی زندہ اور چلنے پھرنے اور دوڑنے والی تصویروں یعنی کتے بلی گائے یا بھینس سے انہیں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی حالانکہ ان جانوروں میں ختا ان سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ بچوں کے ذہنی نشوونما کا دارومدار جسم کے دو نہایت اہم اجزا پر ہے آنکھ اور کان ۔ خالق اکبر نے آنکھ دنیا کی چیزوں کو دیکھنے اور کان اس کی آوازوں کو سننے کے لیے عطا کر رکھے ہیںَ یہ دونوں اجزا اس کا ایسا حیرت انگیز اور قابل قدر عطیہ ہیں کہ انسان اپنے صانع حقیقی کا شکر ادا کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کا اپنا فائدہ اس بات میں ہے کہ وہ ایک شکر گزار بندے کی حیثیت سے اپنی طرف سے شکر گزاری کا حق ادا کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ اس حق کے ادا کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ آنکھ اور کان سے وہی کام لیا جائے جس سے اس کی جسمانی اور روحانی صحت قائم رہے۔ جب مملکت پاکستان کے درخشاں مستقبل کا انحصار اس کے کروڑوں کم سن بچوں کی ذہنی نشوونما پر ہے جو پاکستان کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں تو کیا یہ والدین کا اہم ترین فرض نہیں ہے کہ وہ اس امر کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ بچوں کی آنکھیں وہی چیز یں دیکھتی ہیں اور ان کے کان وہی باتیں سنیں جن پر ان کی جسمانی نشوونما اورروحانی صحت کا دارومدار ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کو کم سنی کے عالم میں بھی ایسی چیزیں دیکھنے اور ایسی باتیں سننے کا موقعہ ملتا ہے جن سے ان کے معصوم قلوب پر ناگوار اثر پڑنے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے لیکن اگر گھر کے ٹریننگ سکول کی تربیت کا اثر بچوں کی طبیعتوں پر غالب رہے تو بیرونی اثر خواہ اخلاقی اور روحانی پہلو سے کیسا ہی برا اور ناپسندیدہ ہو بچوں کی سیرت و کردار پر اثر انداز نہیں ہو سکتا گھر کے ٹریننگ سکول کے متعلقہ فرائض میںیہ اہم فرض شام ہے کہ اس کی معلمہ اور منتظمہ رات کے کھانے کے بعد سونے سے پہلے بچوں کو ایسی کہانیاں سنانے کا سلسلہ جاری رکھے کہ جن کے سننے میں ان میں بڑا آدمی بننے نیک کام کرنے اور تکلیف اٹھا کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ پیدا ہو۔ جس طرح کالجوں کے فرض شناس پروفیسر اپنے طلبہ کے لیے خاص طور پر لیکچر تیار کرتے ہیں اسی طرح بچوں کی معلمہ یا ماں کو انتظام کے ساتھ کہانی کا سبق تیار رکھنا چاہیے۔ ایک تعلیم یافتہ روشن خیال اور فرض شناس ماں کا اس سے زیادہ دلچسپ اور مسرت خیز فرض اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بزرگان دین اور بہادران اسلام کی زندگی کے روح پرور کارناموں کی داستان ایسے سادہ اور دل نشیں پیرائے میں سنائے کہ بچوں کی آنکھیں اپنی ماں کے منہ کی طرف لگی رہیں اور وہ داستان کے ختم ہونے تک سونے کا نام نہ لیں۔ مگر ماں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے ایک مقررہ وقت کے بعد سو جائیں دیوئوں جنوں پریوں اور اسی نوعیت کے فضول اور لغو قصے یقینا اس قابل نہیں ہیں کہ بچوں کو سنائے جائیں اور نہ ان کے دلوں منیں ایسے قصوں کے سننے کا شوق پیدا کرنا چاہیے۔ ایسے فضول اور لغو قصوں کایہ برا پہلو گھر کے تمام آدمیوں کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ رات کے وقت بچوں کو سنانے کے یلے اس امر کا قوی احتمال ہے کہ کہیں وہ خواب میں ڈر نہ جائیں اور رونا شروع نہ کر دیں کیونکہ ماہرین کی رائے میں جب بچہ کوئی ڈرائونا خواب دیکھتا ہے تو ڈر کے مارے اٹھ بیٹھتا ہے اور چلا اٹھتا ہے۔ ماں بھی جاگ پرتی ہ اور اس کی پریشانی میں اسے پھر تھپک کر سلانے کی کوشش کرتی ہے۔ پدرانہ فرائض گو ماں کو گھرکے ٹریننگ سکول کی معلمہ کی حیثیت سے بچوں کی نگرانی اور تربیت کے بیشتر فرائض انجام دینے پڑتے ہیں لیکن باپ بھی ان فرائض کی متعلقہ ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے ان کی بجا آوری سے غافل نہیں ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت یا کاروبار میں شدید مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں کی نگرانی یا تربیت کے لیے زیادہ وقت نہیں دے سکتا لیکن پھر بھی اس نے اپنی رفیقہ حیات سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا پروگرام مرتب کر رکھا ہے کہ جس کی بدولت وہ گھر پہنچ کر بچوں سے نہ صرف ان کی باتیں سنتاہے بلکہ انہیںاپنی باتیں بھی سناتاہے۔ باپ کی باتیں ماں کی باتوں سے لازمی طور پر مختلف ہوتی ہیں۔ باتوں کے اس اختلاف سے بچوں کی معلومات میں اورزیادہ اضافہ ہوتاہے۔ اس کے علاوہ باپ کو جب ہفتہ میں ایک دن کی تعطیل کی وجہ سے کچھ فرصت ملتی ہے تو وہ انہیں اپنے ساتھ کار میں بٹھا کر بازار لے جاتا ہے اورپھر انہیں باغ کی سیر یا دیگر تاریخی عمارتیں دکھانے کے لیے ایک لمبا چکر لگاتا ہے ۔ بازار کی سجی ہوئی خوب صورت اور عالی شان دکانیں جن میں لاکھوں روپے کا قیمتی سامان سجا ہوتا ہے بچوں کے یے ایک نئی دنیا ہیں جس کی ہر چیز کو وہ بڑے غور سے دیکھتے ہیں باپ ب ایک دکان سے ان کے لیے نئے کھلونے خریدتا ہے اور کھلونوں کے ساتھ انہیں انگریزی مٹھائی کے پیکٹ بھی مل جاتے ہیں تو وہ اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ خود باپ ان کی اس خوشی سے لطف محسوس کرتا ہے اسی طرح جب وہ باغ کی سیر کرتے ہیں یا تاریخی عمارتیں دیکھتے ہیں تو راستے کی ہر چیزانہیں دلچسپ اور عجیب نظر آتی ہے۔ ایک جگہ جب وہ کار سے اترتے ہیں تو انہیں پاس ہی ایک بوڑھا نابینا ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتاہے۔ بوڑھے نابینے کا بچہ جس یک جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے ہیں بڑی دردناک آواز میں بچوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ بچوں کا باپ جو ایک دوست سے باتیں کر رہا ہے کار میں بیٹھنے سے پہلے کم سن بھکاری کو ایک چونی دیتا ہے۔ بچوں سے کہتا ہے کہ ابا میرے پیسے تو بکس میں بند ہیں۔ آپ نے اسے چونی دی ہے میں اسے مٹھائی دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اسے اپنے چھوٹے سے پیکٹ میں سے انگریزی مٹھائی کے کچھ گول دانے دیتا ہے دوسرے بچے بھی اس پیکٹ کو کھولتے ہیں یاور کم سن بھکاری کے میلے کچیلے ہاتھوں میں مٹھائی ڈال دیتے ہیں۔ بوڑھا نابینا جو سب کچھ سن رہا ہے بچوں کو دعائیں دیتا ہے۔ بچے یہ دعائیں بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ بچوں کی سیر کی کہانی گھر پہنچتے ہی بچے اپنے نئے کھلونے ماں کو دکھاتے ہیںل ماں انہیں پیار سے سمجھاتی ہے کہ جس طرح تم نے اپنے پہلے کھلونوں کو سنبھال کر رکھا ہے اسی طرح ان کو بھی سنبھال کر رکھنا ان کھلونوں میں ایک کشتی ہے جسے پانی سے بھرے ہوئے کھلے برتن میں ڈٓل دیا جائے تو برتن کے چاروں طرف چکر لگاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے کھلونوں کی نقل و حرکت ان کی دلچسپی کا باعث ہے اور بچے انہیں دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ رات کے وقت سونے سے پہلے ماں اپنے بچوں سے کہتی ہے کہ آ ج میں تمہیں کوئی یکہانی نہیں سنائوں گی بلکہ تم سے ساری سیر کی کہانی سنوں گی۔ تم اپنے ابا کے ساتھ کار میں گئے تو کیا کیا چیزیں دیکھیں۔ بڑے بچے سلیم نے جواب دیا اماں پہلے ہم بازار گئے۔ جہا ں اس قدر آدمی چل رہے تھے کہ ابا کار کو تیز نہ چلا سکے۔ ایک دوکان سے جس میں بہت سی خوبصورت چیزیں تھیں ابا نے ہمارے لیے کھلونے خریدے ار مٹھائی کے پیکٹ لیے۔ میں نے جب ابا سے کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے تو دوکان والے نے اسی وقت نوکر سے کہا کہ بچوں کے لیے پانی لے آئو ہم سب نے گلاسوں مین ٹھنڈا رنگدار پانی پیا بڑا مزہ آیا۔ ماں نے کہا کہ بیٹا تمہاری یہ بات پسند نہیں آئی کہ تم نے دوکان میں پہنچ کر دوکاندار سے پانی منگوایا۔ اور پیا اگر تم گھر آ کر مجھے پانی مانگتے تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی اور میں سمجھتی کہ میرا بیٹا بڑا بہادر ہے کہ اس نے اپنی پیاس کو روکا۔ دوسرے بچے رحیم نے کہا ماں میں نے ابا سے پانی اس لیے نہیں کہا تھا نسیم نے جس کی عمر تین سال کے قریب سے کہا اماں ہمیں تمہاری یہ بات اچھی طرح یاد ہے ک ہمیں بازار میں کبھی کھانے پینے کا خیال نہیں رکھنا چاہیے ماں نے بچو ں کو سمجھایا کہ اچھے بچے بازار میں کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ کر کبھی اپنی ما ں یا باپ سے یہ نہیں کہتے کہ ہمیں یہ چیزیں دے دو۔ جب خڈا کے فضل و کرم سے ؤگھر میں سب کچھ موجود ہے تو تمہیں بازار میں کھانے پینے کی چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرنا چاہیے۔ بچے سلیم نے جواب دیا کہ اماں تم ٹھیک کہتی ہو آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ سلیم نے بتایا کہ ابا نے بوڑھے نابینا کے بچے کو جب چونی دی تو میں نے بھی اسے اپنے پیکٹ میں سے مٹھائی دی۔ ماں نے سلیم کی پیٹھ پر تھپکی دیتے ہوئے کہا شاباش تم ایک بڑا اچھا اور نیک کام کیا۔ سلیم نے کہا ماں بوڑھے نابینا کے بچے کی قمیض اورپاجامہ جگہ جگہ سے پھٹے وہئے تھے۔ اس کا بوڑھا باپ اسے نئی قمیض اور پاجامہ کیوں سلوا نہیں دیتا؟ ماں نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سلیم کو جواب دیا کہ بیٹا اگر بوڑھے کے پاس روپیہ ہوتا تووہ ضرور اپنے بچوں کو نئے کپڑے بنوا دیتا۔ اس بوڑھے بھکاری کا گزارہ لوگوں کی خیرات پر ہے۔ اللہ میاں سے دعا ہم سب کو خدا کا سچے دل سے شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم اس کے فضل و کرم سے آرام و اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیںَ وہ ہم پر بڑا مہربان ہے یہ اسی کی مہربانی ہے کہ آسمان پر جب بادل چھا جاتے ہیں تو موسلام دھار بارش سے سوکھی اور تپتی ہوئی زمین دیکھتے دیکھتے جل تھیل ہو جاتی ہے۔ اسی بارش کے باعث زمین سے طرح طرح کے غلے اور سبزیاں پھل اور سینکٹروں چیزین پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا رزق اس قدر بے حساب ہے کہ آدمیوں کے علاوہ چاپائے اورپرندے بھی اس رزق سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ رحیم نے ماں سے پوچھا کہ اماں خدا کہاں رہتا ہے او ر اس کا گھر کیسا ہے وہ ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ ماں نے جواب دیا کہ بیٹا خدا ہر جگہ موجود ہے۔ اور وہ اس وقت بھی تمہاری باتیں سن رہا ہے۔ وہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ لیکن جو کچھ ہم کرتے ہیں اسے وہ دیکھتا رہتاہے۔ جب ہم کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو وہ ہم سے خوش ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس کے حکم کے مطابق نہ چلیں تو ناراض ہو جاتا ہے۔ ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم وہی کام کریں جس سے وہ ہم سے خوش رہے اورجا بوجھ کر کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے وہ ناراض ہو جائے اور اگر ہم سے خطا ہوجائے اور ہم اس سے معافی مانگ لیں تو وہ ایسا رحیم و کریم ہے کہ ہمیں معاف کر دیتا ہے۔ سلیم نے بات کاٹ کر کہا کہ اچھا ماں اب میں سمجھ گیا کہ تم نماز کیوں پڑھتیہو اورابا کیوں نماز پڑھتے ہیں اماں! جب ابا اور تم نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے ہو تو خدا سے کیا مانگتے ہو؟ ماں نے جواب دیا بیٹا ہم اللہ میاں سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی اپنے فضل و کرم کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھ۔ ہمیں رحمت کی نظر سے دیکھ۔ ہمیں عقل دے کہ ہم تیری نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمیں علم دے کہ ہم اس کی بدولت دوسروں کو نیک کام کرنے کا پیغام پہنچائیں۔ ہمارے دلو ںکو روشن کر تاکہ ہم تجھے پہچان سکیں۔ ہمیں احسان کرنے کی توفیق دے ایسے احسان کی جس کی دوسروں کو بالکل خبر نہ ہو۔ ہمیں صبر کرنے کی توفیق دے کیونکہ صبر ہی سے ہمارے دلوں کو آرام حاصل ہوتاہے۔ ہمیں وہ زبان عطا کر کہ ہم تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیںَ ہمیں ایساج سم عطا کر جو تیری یاد سے غافل نہ رہے۔ ہمیں اتنا رزق د ے کہ ہم بے فکر ہو کر تیرے احکام کے مطابق اپنے فرائض بجا لائیں۔ ہماری کوششوں میں برکت دے تاکہ ہم اپنی محنت اور مشقت کا پھل نہ صرف خود کھائیں بلکہ دوسروں کو بھی کھلائیں ہم سے اگر کوئی خطاہوگئی ہوتوہمیں معاف کر دے تجھے خوش رکھن کے لیے ہم نے جس محنت سے کام کرتے ہیں اسے قبول فرما اور ہماری دعا منظور کر ۔ ہم جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو ہمیں بہشت میں جگہ دے۔ بچوں کی نماز سلیم نے دعا سننے کے بعد کہا اماں یہ تو بڑی اچھی دعا ہے۔ اماں ہم تو نماز نہیں پڑھتے۔ کیا اللہ میاں ہم سے نارا ض نہیں ہوں گے؟ ماں نے جواب دیا نہیں بیٹا ابھی تم چھوٹے ہو اور خدا تمہیں سلامت رکھے آٹھ دس سال یکے بعد تم نماز پڑھان شروع کر دو گے۔ اس وقت تمہاری نماز یہی ہے کہ تم بھی ہماری طرح اللہ کو یاد کرو۔ تمہارے لیے اللہ کو یاد رکھنے کی سب سے آسان صورت یہ ے کہ جب کوئی کام شروع کرو تو اللہ کا نام لے کر شروع کرو۔ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم ضرور پڑھ لیا کرو۔ جب کھاناکھانے لگو تو بھی یہی پاک الفاظ تمہارے منہ سے نکلنے چاہیے۔ اللہ کانام لینے سے تمہارے ہر کام میں برکت ہو گی۔ آج ہی سے میری اس نصیحت پر عمل کرنا شروع کر دو۔ اپنے بڑوں کا ادب کرو۔ ماں باپ کے کہنے کے مطابق چلو۔ اپنے بھائی کو اور بہن سے کبھی نہ لڑو اوران سے محبت کے ساتھ پیش آئو۔ گھر کے اندر اور باہر اس طرح رہو کہ سب لوگ تمہیں اچھا سمجھیں اور پیٹھ پیچھے تمہاری تعریف کریں۔ اس بات کا بھی خیال رکھو کہ تمہیں ایک بڑا آدمی بننا ہے۔ اور خدا سے میری دعا ہے کہ وہ تمہیں بڑا آڈمی بنائے صرف وہی آدمی بڑا بن سکتا ہے کہ جو اس بات کا خاص طورپر خیال رکھے کہ خدا اس سے خوش رہے۔ خدا صرف اسی صورت میں اس سے خوش رہ سکتا ہیکہ وہ نیک کام کرے اوربری باتوں سے بچا رہے۔ رحیم اورنسیم دونوں ایک آواز کے ساتھ بول اٹھے کیا ہم بڑا آدمی نہیں بن سکتے۔ ماں نے جواب دیا کیوں نہیں بن سکتے۔ میں اپنے تمام بچوں کے لیے دعا مانگا کرتی ہوں کہ خداوند میرے بچے بڑے ہو کر ایسے اچھے کام کریں کہ تو بھی ان سے خوش رہے اور اپنے اور بیگانے بھی انہیں اچھا سمجھیں میں تمہیں بار بار اس بات کی صرف اس لیے تاکید کرتی ہوں خہ جو بچے ماں باپ کی ہدایت کے مطابق اچھے کام کرتے ہیں اور خدا کی کوشش رکھتے ہیں وہ زیادہ تندرست اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ محلے کے نیک آدمی بھی ان سے پیار کرتے ہیں اورانہیں دعائیں دیتے ہیںَ اس کے برعکس جو بچے گھر میں زیادہ شور مچاتے ہیں۔ ذرا ذر ا سی بات پر مچلتے ہیں اپنے کھلونوں اور دوسری چیزوں کو سنبھال کر نہیں رکھتے او ر گالی دینے اور جھوٹ بونے سے ذرا نہیں شرماتے انہیں محلے والے بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ ایسے بچے لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں ان کے بگڑنے کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ جو جہالت یا بے خبری کے باعث بچوں کی تربیت کے متعلقہ فرائض کی بجا آوری سے غافل رہتے ہیںَ افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسے بے خبر والدین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مدرسوں کے بگڑے ہوئے بچے جو بچے پاکستان کے سرکاری یا غیر سرکاری مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں وہاں عام طور پر انہیں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن ان کی تربیت پر اتنی توجہ نہیں کی جاتی کہ جتنی گھر کے ٹریننگ سکول میں ضروری بلکہ لازمی سمجھی جاتی ہے۔ اس سکول کی ٹریننگ کی مفصل کیفیت اوپر بیان ہو چکی ہے پاکستان کے تعلیم یافتہ گھرانوں میں ایسی خواتین کی تعداد ہے جو اپنے بچوں کی تربیت میں خاص دلچسپی لیتی ہیں اور جنہوںنے ان کی سیرت و کردار کو خالص اسلامی سانچے میں ڈھالنا اپنی زندگی کا مقصد وحید قرار دے رکھا ہے ااس قدر قلیل ہے کہ ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس ٹریننگ کا مقصد ہی یہ ہے کہ جب پانچ سال کی عمر کے بچے مدرسے میں داخل کرا دیے جائیں تو وہاں وہ غیر تربیت یافتہ یعنی بگڑے ہوئے بچوں کی بری عادتیں کے دائرے سے محفوظ رہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ جب گھر کے ٹریننگ سکول کے تربیت یافتہ بچے مدرسے میںداخل ہو جاتے ہیں تو اس ٹریننگ کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ جب تک طلبہ یہ طالبات اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسے میں داکل نہ ہو جائیں گھرکے بگڑے ہوئے بچوں کے والدین اپنی دانست میں تو یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے نونہالوں تعلیم میں ترقی کر رہے ہیں اور ہوہ سالانہ امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے بگڑے ہوئے بھولے کم سن طلبہ میں ایسے بچوں کی تعداد کم نہیں ہوتی جو اپنی فطری ذھانت اور محنت کی وجہ سے جماعت میں ہشیار سمجھے جاتے ہیں اورپھر امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوت ہیں لیکن اگر اسلامی اخاق سچائی اور باقاعدگی کے زاویہ نگاہ سے ان کی عملی زندگی کا جائزہ یا جائے تو اس معیار میں وہ یقینا پورے نہیں اتریں گے۔ مثلاً جب وہ مدرسے سے پڑھائی کے بعد گھر پہنچیں گے تو وہ اپنے والدین کو سلام نہیں کریںگے۔ اپنی کتابوں کا تھیلہ مقررہ جگہ پر رکھنے کے بجائے کسی اور جگہ رکھ دیں گے اور ایسی بے صبری سے کھانا مانگیں گے کہ گویا بھوک کے مارے ان کی جان نکل رہی ہے۔ کھیلنے کے لیے گھر سے باہر نکل جائیں گے۔ تو گلی یا محلے کے آوارہ لڑکوں کو اپنا دوست سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے باتیں کریں گے۔ یہ بے تکلفی آوارہ لڑکوں کی رفاقت اور صحبت کے باعث رفتہ رفتہ بدتمیزی اور بداخلاقی کی شرمناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ آوارہ لڑکوں کی رفاقت اور صحبت ہی کا نتیجہ ہے کہ جب وہ جماعت میں سبق یاد کرتے ہیں تو ماسٹر یعنی استاد کی موجودگی کے باوجود جماعت کے غبی اور شریر لرکوں کو جو اس کی قمچی یا بید کی مار کے عادی ہو چکے ہیں نئی شرارتیں سوجھتی ہیں اور وہ سب کو اپنا ہم خیال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ماسٹر صاحب مطمئن ہیں کہ بچے دل لگا کر سبق یاد کر رہے ہیںَ اس میں شک نہیں کہ جو کتابیں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں ان میں ان کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کن طریقوں سے ایسی زندگی گزارنے کی قابلیت پیدا کر سکتے ہیں کہ جس سے نہ صرف ان کی اپنی ذات بلکہ ملک و ملت کو بھی فائدہ پہنچے وہ کس طرح جسمانی اور روحانی صحت حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ دنیا کی مشکلات پر کیونکر غالب آ سکتے ہیں وہ اسلام کے ضابطہ حیات کے مطابق اپنی سیرت و کردار کا معیار کس طریق کار سے قائم رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی کتابیں پڑھنے کے باوجود ہمارے طلبہ کی زبردست اکثریت علم کو عمل میں منتق کرنے کی مطلق قائل نہیں اور اس لیے قائل نہیں کہ انہوںنے اپنے مشاہدے اور غور و فکر کے بعد یہ رائے قائم کر رکھی ہے کہ خود استادوں کی عملی زندگی قابل تقلید نہیں ہے۔ جب استادوں کی سیرت و کردار کامعیار بلند ہو تو ہم ان کے شاگردوں سے اس امر کی کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں سر بلند نظر آئیں۔ استاد کا اصلی فرض بچے خواہ وہ کم سن ہوں یا بڑی عمر کے جب سالانہ امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ قدرتاً اپنی کامیابی پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مگر کتنے استاد ہیں جنہوںنے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ استاد کا اصلی فرض یہ نہیں کہ بچے طوطے کی طرح سبق رٹ لیا کریں اور دوسرے دن اپنا اموختہ فر فرسنا دیا کریں۔ بلکہ ان کی زندگی کا اہم ترین مقصد یہ ہونا چاہیے ک جو بچے تعلیم کی غرض سے ان کے سپر د کیے جائیں انہیں صحیح معنوں میں انسان بنایاجائے۔ اگر بڑی عمر کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے باوصف اور انسانیت یا سیرت و کردار کے اعلیٰ معیار کے مفہوم سے بالکل بے خبر ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ جو وقت ان کی تعلیم پرصرف ہوا ہے اور جس قدر روپیہ ان کے پرھانے پر خرچ کیا گیاہے وہ سب ضائع گیا۔ جو والدین صرف اس مقصد سے اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہٰں کہ وہ اس کی بدولت آرام و اطمینان کی زندگی بسر کرنے ار ماں باپ کی خدمت کا حق بج لانے کے قابل ہو جائیں ان کی یہ ذہنیت مستحسن قرار نہیں دی جا سکتی علم کا مقصد یہ ہے کہ یہ اس ے طالب کا دل اور دماغ روشن کرے اور پھر یہی طالب اس روشنی کو وہاں پہنچائے جہاں اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ علم کا ایسا شیدائی دولت سے بے نیاز رہتا ہے مشاہدہ اور تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو نوجوان اپنی علمی سند کی بدولت ملازمت کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان پر آئندہ ترقی کا دروازہ صرف اس لیے بند ہوجاتا ہے کہ سیرت و کردار کے اعتبار سے وہ گھٹیا درجے کے ثابت ہوتے ہیں اور جب وہ کسی ؤناجائز طریقے سے اپنی آمدنی بڑھانا چاہتے ہیں تو انجام کار انہیں اپنی بددیانتی کا خمیازہ بہت بری طرح اٹھانا پڑتاہے۔ اس کے برخلاف دنیا کے ہر حصے میں ایسے نوجوان بھی پائے جاتے ہیں جو علمی سند نہ رکھنے اور نامساعد حاات میں گھرے رہنے کے باوجود ہمیشہ تصویر کا روشن پہلو دیکھتے ہیں اور اپنے غیر متزلزل عزم اور استقال کی بدولت کامیابی کو اپنا پیدائشی حق سمجتے ہیں۔ جو نوجوان اس عزم کے ساتھ منزل مقصود کی طرف قدم اٹھاتے ہیں بڑی سے بڑی اور شدید سے شدید مشکل بھی ان کے سد راہ نہیں ہو سکتی بلکہ یہ مشکل انہیںمنزل مقصود کا سفر طے کرنے مین ان کی رفتا ر کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے ایسے نوجوان اس امر کے آرزو مند ہوتے ہیں کہ انہیںکام کرنے کا موقعہ مل جائے خواہ و ہ کیسا ہی حقیر ہو اور تب انہیں موقع مل جاتا ہے تو وہ سرکاری دفترکے اعلیٰ افسر یا کارخانے کے مالک کے دل پر اپنی ذہانت محنت اور فرض شناسی کی بدولت ایسے حاوی ہوجاتے ہیں کہ آئندہ کے لیے ان کی ترقی اور کامیابی کا راستہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ حادثے اور ان کی روک تھام جب بچہ رینگ کر چلنے کے قابل ہو جائے تو اس کی سلامتی اور حفاظت کے ییل گھر کے لوگوں اور بالخصوص ماں کا فرض ہے کہ وہ ایسی اشیاء کو فرش سے ہٹا دے جن سے اسے چوٹ لگنے یا نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو مثلاً چے کے قریب ہی ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پڑی ہے وہ اسے دیکھتے ہی اس پر بیٹھنا چاہے گا۔ کیونکہ وہ کرسی پر اپنے باپ یا چچ اکو بیٹھے ہو دیکھ چکا ہے۔ وہ جب اس ٹوٹی ہوئی کرسی کا سہارا لے کر کھڑ ا ہو گا تو گر جائے گا اور اسے چوٹ لگے گی۔ اسی طرح گھر کے صحن میں لوہے کی انگیٹھی پڑی ہوئی ہے جس کے کوئلے ابھی ٹھنڈ؁ نہیں ہوئے۔ ظاہر ہے کہ جب بچہ اس کے قریب جائے گا اور انگیٹھی کو ہاتھ لگائے گا تو اس کا ہاتھ فوراً جل جائے گا اور وہ چیخیں مار کر رونا شروع کر دے گ۔ا یا گھر کے صحن میں پانی کی نالی یا چھوٹا سا گڑھا ہے بچہ جب نالی کے کنارے جائے گا تو اس کا پائوں پھسل جائے گا گڑھے میں قدم رکھے گا تو بھی وہ گرپڑے گا۔ غرض بچے کو اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہی چھوٹے چھوٹے حادثات سے دو چار ہونا پڑتا ہے بچے کو ان حادثات سے بچانے کی صرف یہی صورت ہو سکتی ہے کہ اس بارے میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صحن میں یا فرش پر ایسی چیزیں جن سے بچنے کو نقصان پہنچ سکتا ہے نہ ہوں کسی کمرے کے کونے میں ایک بکس کے اندر رکھ دی جائیں اور یہ بکس ہر وقت مقفل رہے۔ مگر جو بات ماں کی خاص توجہ کی محتاج ہے وہ یہ ہے کہ دوائوں کی شیشیوں اور گولیوں کو کسی بکس کے اندر ایسی جگہ رکھنا چاہیے جہاں بچے کا ہاتھ نہ پہنچ سکیں۔ انگریزی دوائیں اورگولیاں اکثر زہریلی ہوتی ہیں جن کے کھانے سے بچے کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ترقی یافتہ گھروں میں بورک ایسڈ امونیا‘ پٹرول‘ مچھروں اور چوہوں کو مارنے والی دوائیں اور اسی نوعیت کی ااور کئی اشیا موجود رہتی ہیں۔ بچوں کے لیے یہ تمام چیزیں خطرناک ہیں۔ اس لیے احتیاط اس امر کی مقتضی ہے کہ ایسی اشیاء کسی بکس کے اندر ایسے کمرے میں رکھ دی جائیں جسے قفل لگا رہے۔ بچہ فطرتاً ہر چیز کی ماہیت دریافت کرنے کے لیے اس کی ٹوہ میں لگا رہتاہے ماں اس کی اس فطری خواہش کو نہیں دبا سکتی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا یہ مادرانہ فرض ہے کہ وہ گھر کو ایسا صاف اور بچے پر ایسا کنٹرو ل رکھے کہ جس کی بدولت وہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ رہے اور اس سلسلہ میں ہر ماں کو ذیل کی ہدایات پر کاربندرہنا چاہیے۔ ۱۔ جب ماں کسی کام کے لیے گھر سے باہر جائے تو کبھی اپنے بچے کو تنہا چھوڑ کر نہ جائے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر وہ ایسی حاتل میں گھر سے باہر گئی ہے کہ بچہ سویا پڑاہے تو اس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ اس کی غیر حاضری میں بھی سویا رہے گا۔ لیکن جب وہ جاگے گا تو ماں کی غیر حاضری کو بری طرح محسوس کرے گا۔ ۲۔ وہ کبھی بچے کو چھوٹے بچوں کے حوالے کر کے گھر سے باہر قدم نہ رکھے۔ ۳۔ وہ کبھی بچے کو ایسے کمرے میںبند کر کے باہر نہ جائے جس میں سردی سے بچنے کے لیے لکڑی کے کوئلے جل رہے ہوں۔ کیونکہ لکڑی کے کوئلے سے جو گیس خارج ہوتی ہے وہ انسان کو موت کا پیغام دیتی ہے۔ ۴۔ بچے کے جس کمرے میں کھڑکیاں ہوں وہ ہمیشہ روشنی او رہوا کے لیے اوپر سے کھولی جائیں۔ ۵۔ اس امر کا خیال رکھا جائے کہ سکے یا پنیں یا اسی قسم کی چھوٹی چیزیں رینگ کر چلنے والے بچے کے قریب نہ ہوں۔ کیونکہ ان کے نگل لینے سے اسے بڑی تکلیف ہو گی۔ ۶۔ کھانے کی ایسی چیزیں بچے سے دور رکھی جائیں جن سے گلے میں اٹک جانے کے باعث اسے تکلیف پہنچے۔ ۷۔ جب سٹوو یا انگیٹھی پر کوئی چیز پک رہی ہو تو بچے کو دور رکھنے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ اسے کھانے کو کوئی چیز دے کر اسے کھلونے سے کھیلے کے لیے دوسرے کمرے میں بھیج دیا جائے۔ ۸۔ جس گھر میں بجلی کی روشنی ہو وہاں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ بجلی کے تار ایسے محفوظ ہوں کہ اگر بچے کا ہاتھ اتفاقیہ ان تاروں سے لگ جائے تو اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ۹۔ جس چھوٹی میز پر چائے کا سامان رکھا جائے اس پر ٹیبل کا ہاتھ نہ بچھایا جائے ۔ خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر رینگ کر چلنے والے بچے نے میز کے کپڑے کا سراپکڑ کر کھینچنا شروع کیا تو گرم چائے دانی اور پرچیں پیالیاں فرش پر گر کر ٹوٹ جائیں گی اور گرم چائے سے بچے کا جسم بھی جھلس جائے گا۔ ۱۰۔ بڑی عمر کے بچوں کو سکھا دیا جائے کہ قینچیاں چاقو‘ پنسلیں اور دوسری چیزیں جن سے ننھے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کے ہتھے نہ چڑھنے دیں۔ ۱۱۔ ماں کے ہوتے اور کسی شخص کو بچنے کے ساتھ سونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ جو شخص بچے کے ساتھ سوئے گا اس کی نسبت اس امر کا اندیشہ ہے کہ سوتے میں وہ جو کپڑا بچے کے اوپر ہے غیر شعوری طور پر اسے اپنے اوپر نہ لے لے۔ یا اس کی کروٹ سے بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر ماں سوتے میںبھی اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ اس کا بچہ آرام و اطمینان سے سوئے اور اسے خفیف سے خفیف تکلیف بھی نہ پہنچے۔ ۱۲۔ بچے کے لیے جو خوراک شیشے کے کسی چھوٹے برتن میں تیار کی جائے اس کے متعلق اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ اس برتن کے بالائی کنارے بالکل صاف ہوں۔ یہ نہ ہو کہ کنارے کا کوئی ریزہ خوراک میں شامل ہو جائے بعض اوقات ڈھکنے کی رگڑ سے کنارہ ٹوٹ جاتا ہے اس کام کے لیے تام چینی کا برتن زیاد ہ موزوں ہے۔ بشرطیکہ اس کی چینی اکھڑ نہ گئی ہو۔ ۱۳۔ مکان کی سیڑھیاں ہمیشہ صاف ستھری رکھنی چاہئیں۔ اگر زینے پر کوئی روڑا یا اسی قسم کی کوئی اور چیز پڑی ہوئی ہو تو اسے فوراً ہٹا دینا چاہیے۔ اگرماں بچے کو گود میں لیے ہوئے ایسے زینے پر قدم رکھے گی تو اندیشہ ہے کہ عدم توازن سے وہ بچے سمیت گر نہ جائے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے سیڑھیوں پر کھیلتے ہوئے کوئی نہ کوئی چیز زینے پر گرا دیتے ہیں ماں کا فرض ہے کہ وہ بچوںکو سمجھا دے کہ انہیں زینے پر کبھی نہیں کھیلنا چاہیے۔ نگلی ہوئی ٹھوس چیزیں اگربچہ کوئی صاف چیز مثلاً پیسہ یا اکنی یا بند سیفٹی پن یا اس قسم کی کوئی اور چھوٹی چیز نگل گیا ہو ت وہ بچے کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی آنتوںمیں داخل ہو جاتی ہے۔ لیکن ماں کو چاہیے کہ بچے کی اس نگلی ہوئی چیز کا خیال رکھے اور ا س بارے میں ڈاکٹر سے رجوع کرے اگرپاخانے کے راستے سے یہ چیز نکل آئے تو ماں کی پریشانی رفع ہو جائے گی۔ لیکن اگر یہ چیز بچے کے معدے سے خارج نہ ہو تو پھر ڈاکٹر یک مشورے کے بغیر نہ تو کوئی دوا پلائی جائے نہ غذا میں تبدیلی کی جائے اگر بچے نے کوئی تیز یا نوک دار شے نگل لی ہو تو پھر فوراً ڈاکٹر کو بلا نا چاہیے۔ اگر بچے کے گلے میں کوئی چیز پھنس گئی ہے اور کھانسنے کی وجہ سے وہ اچھی طرح سانس نہیںلے سکتا تو اسے اوندھے منہ لٹا دیا جائے اور ٹانگوں اور گھنٹیوں کو پکڑ کر اس کی پیٹھ کو تھپکایا جائے اور اس طریقے سے جو چیز اس نے نگلی ہے وہ باہر آ جائے گی۔ اگر یہ چیز باہر نہ آئے تو پھر بچے کو جس قدر ممکن ہو قریب ترین ہسپتال میں لے جانا چاہے۔ بچے کے گلے میں انگلیاں ہرگز نہ ڈالی جائیں کیونکہ انگلیاں ڈالنے سے جو چیز بچے کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے وہ گلے سے نیچے اتر جائے گی۔ جب بچہ کوئی ایسی گولی یا چیزنگل لے جس سے اس کے جسم میں زہر سرایت کر جائے تو فوراً ڈاکٹر بلانا چاہیے یا اسے بلاتاخیر ہسپتال پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ماں کو چاہیے کہ وہ اس کے گلے میں نرمی سے اس طرح انگلی ڈالے کہ اسے قے ہوجائے قے کرانے کے لیے شیشے کے گلاس میں گرم پانی ڈالیں اور ا س میں چائے کا ایک چمچہ نمک ملا دیا جائے یا پانی کے گلاس میں خشک رائی ملا دی جائے۔ بچے کو یہ پانی جس قدر وہ پی سکے پلایا جائے۔ قے ہوجانے کے بعد یا نہ ہونے کی صورت میں بھی بے کو کچھ دودھ پلایا جائے اور اس کے بعد اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے۔ اگرماں کواس بات کا علم ہے کہ بچے نے کیروسین(مٹی کا تیل) پیا ہے تو پھر اسے قے نہیں کرانی چاہیے بلکہ ڈاکٹر کو بلایا جائے یا اسے ہسپتا ل پہنچایا جائے۔ اگرہلکی جلن کی وجہ سے بچے کا جسم صرف سرخ ہو گیا ہے یا چھوٹی چھوٹی پھنسیاں نکل آئی ہیں تو جلے ہوئے حصے کو چند منٹ تک ہلکے گر م پانی میں رکھا جائے اور اس کے بعد پانی کاربونیت آف سوڈا اور پانی کی پلٹس بنا کر حصہ مذکور پر اس کا لیپ کردیا جائے۔ لیپ پر کپڑے کی ایک صاف اور خشک پٹی باندھ دی جائے اس بات کا خیال رہے کہ کوئی پھنسی ٹوٹنے نہ پائے کیونکہ ٹوٹی ہوئے پھنسی سے اور پھنسیوں کے نکل آنے کا اندیشہ ہے۔ روٹی کی پٹی استعمال نہ کی جائے۔ کیونکہ یہ جلی ہوئی جگہ پر چپک جائے گی۔ اگر کوئی مرہم استعمال کرنا ہوتو پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کر یا جائے۔ اگر جلن کے شدید ہونے کی وجہ سے جسم پر پھنسیاں بہت زیادہ نک آئی ہیں تو ڈاکٹر کو بلایا جائے یا بچے کو فوراً ہسپتال پہنچایا جائے بچے کو ڈاکٹر کے پاس ہسپتال لے جانے سے پہلے اسے ایک صاف کپڑے میں لپیٹ لینا اور اگر سردی کا موسم ہو تو کپڑے پر کمبل ڈال لینا چاہیے۔ بچے کے جسم پر ایسا سوتی کپڑا نہ ڈالا جائے جو پھنسیوں کے چپک جائے اور نہ اس کی پھنسیوں پر تیل یا کوئی روغنی شے لگائی جائے۔ اگر بچے کے کپڑوں کو آگ لگ جائے تو اس کے جسم پر فوراً کمبل یا کوئی اور موٹا کپڑا ڈال دیاجائے۔ شعلے فوراً بجھ جائیں گے اور بچے کی جان بچ جائے گی۔ اگر کسی تیز چیز کے لگنے سے جسم کا چمڑا کٹ گیا ہے تو زخم کو پانی اور صابن سے اچھی طرح صاف کر دینا چاہیے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے ایسی دوا استعمال کی جائے کہ جس سے زخم جلدی مندمل ہو اور خراب ن ہونے پائے اگر زخم سے خون بہہ رہا ہو تو اس پر ایک صاف کپڑے کی پٹی باندھ دینی چاہیے۔ اور زخمی جگہ کو ہاتھ سے دبا دیاجائے۔ اگر زبان یا منہ کا کوئی حصہ کٹ گیا ہے تو فوراً ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔ گھر کا شفاخانہ جس گھر میں بچے ہوں گے وہاں ان کا کسی نہ کسی وقت بیمار یا کسی تکلیف میں مبتلا ہونا ایک یقینی امر ہے۔ بیماری وقت نہیں دیکھا کرتی۔ خواہ وہ دن کے وقت حملہ کرے یا رات کے وقت اس یلے دور اندیشی اور سلیقہ شعاری کا تقاضا یہی ہے کہ ہر ترقی یافتہ اور خوشحال گھر کی مالکہ انگریزی اور یونانی دوائیوں کا ایک بکس اپنی تحویل میں رکھے۔ یہ بکس جو مقفل ہو کسی الماری کے سب سے اوپر کے خانے میں رکھا جائے تاکہ بچے اس بکس کا جائزہ نہ لے سکیںَ اگر دوائیوں کا بکس فرش پر کھلا پڑا رہے گا تو خطرہ ہے کہ بچے کسی زہریلی دوا کومیٹھی چیز سمجھ کر کھا جائیں گے۔ اور ماں کو اپنی اس بے پروائی کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اور بکس میں ڈاکٹر اور حکیم کے مشورہ سے کرنے کے بعد ایسی دوائیں رکھی جائیں جنہیں تعلیم یافتہ ماں اور اپنی طبی معلومات یا تجربے کی بنا پر بغیر کسی تامل کے استعمال کر سکتی ہے۔ ذیل میں ان اشیا اور ادویہ کی فہرست درج کی جاتی ہے جو گھرمیں موجودرہنی چاہئیں۔ اسپرین ۵ گرین والی ٹکیاں ٹنکچر آیوڈین بائی کاربونیٹ آف سوڈا گلیسرین آف تھائل ایسی مٹھائی جو چینی کے قوام سے تیار کی جائے گرم پانی والی بوتل تھرما میٹر دوا کھلانے والا چمچہ صاف سوتی کپڑا سیفٹی پن کف مکسچر انجیر کا شربت بچے کو دوا پلانے والی پیالی ٹالکم پائوڈر زخم پر باندھنے کے لیے سفید پٹی کاولن پولٹس کا ڈبہ تین سائز کی پٹیاں دافع عفونت دوا بورییلسک آئنٹمنٹ روغنی ریشم کیلمین آئنٹمنٹ بیروکسائڈ آف ہائیڈروجن اونٹ کے بالوں کا برش پاکٹ ٹارچ اور قینچی سلفونامائیڈ کریم ان ادویہ اور اشیا کے علاوہ ایسی یونانی دوائیں بھی ضرور موجود رہنی چاہئیں جو دیہاتی علاقوں میں بھی مفید سمجھی جاتی ہیں مثلاً سونف‘ سونٹھ‘ ہرڑ‘ ہرڑ کا مربہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ دوائیں صر ف اسی صورت میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں کہ اگر گھر کی مالکہ یا بچے کی ماں و نہ صرف ان دوائوں کی خاصیتون کا علم ہو بلکہ وہ یہ بھی جانتی ہو کہ دوا بچے کو کتنی مقدار میں دینی چاہیے۔ لیکن پڑھی لکھی ماں کے لیے یہ کام کچھ مشکل نہیں۔ طبی کتابوں میں یہ سب معلومات درج ہیںَ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اگر بچہ زیادہ بیمار ہو جائے تو پھر اسے اپنے علاج پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ فوراً بچے کو ڈاکٹر کے پا س لے جانا اور اس کے مشورے کے مطابق علاج کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ عام طور پر مائیں پہلے اپنے بچوں کا اپنا علاج کرتی ہیں۔ وہ یونانی دوائوں سے زیادہ کام لیتی ہیں کیونکہ ان دوائوں کے فائدہ مندہونے کا انہیں پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ گھر کے شفاخانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر گھر کی مالکہ خیرات کی قائل ہے تو محلے کے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ گھریلوشفاخانہ قائم ہونے کے بعد گھر کی مالکہ کو چاہیے کہ وہ پرانے نسخوں کو دیا سلائی دکھا دے اور صرف وہ نسخے محفوظ رکھے جائیں جن کا رکھناڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ضروری ہے۔ ٭٭٭ ساتواں باب : بچوں کی بیماریاں اور ان کا علاج بھینگا پن جو بچے بھینگے ہوتے ہیں ان کی نسبت ماہرین کی یہ رائے ہے کہ وہ اپنی آنکھوںکے عضلات پر کنٹرول رکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اسی لیے ان کی آنکھیںمختلف سمتوں میں دیکھتی ہیں بہت سے بچوں کی زندگی کے پہلے سال کے دوران ہی میں ان کی آنکھوں کی یہ خرابی زائل ہو جاتی ہے اور دونوں آنکھوں کے مشترکہ عمل کی بدولت ان کی بینائی پھر ٹھیک ہوجاتی ہے۔ بھینگا پن کی خرابی صرف اس لیے نظر آتی ہے کہ بچے کی آنکھوں کے کام کرنے والے حصوں میں نقص پیدا ہوجاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ابتدائی مہینوں میں ماں آسانی سے یہ معلوم کر لیتی ہے کہ آیا اس کا بچہ واقعی بھینگا ہے یا نہیں اگر ۳ ماہ کی عمر والے بچے کی آنکھیں ٹھیک دکھائی نہیں دیتیں تو ماں کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ اور جب چھ ماہ کی عمر والے بچے کی آنکھوں م یں بھی یہی نقص پایا جائے تو ڈاکٹر ماں کو یہی مشورہ دے گا کہ وہ بچے کو آنکھوں کے ماہر کے پاس لے جائے۔ علاج جس قدرجلسی شروع کیا جائے گا اتنا ہی اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ بچے کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو جائیں بچے کی ایک آنکھ کی بینائی کو پردے پر روکا جا سکتا ہے تاکہ دوسری آنکھ کو تقویت پہنچے۔ جب بچہ دوسرے سال میں قدم رکھے تو اسے عینک لگانی چاہیے ماں کو ڈاکٹر کی اس ہدایت پر پوری پابندی کے ساتھ کاربند رہنا چاہیے کہ یا تو بچے کی آنکھوں میںعینک لگائی جائے یا ایک آنکھ کی بینائی کو پردے سے روکا جائے بعض اوقات کچھ عرصے کے بعد آنکھ کا ایک معمولی اپریشن کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ صرف آنکھ کا ماہر ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے کہ بچے کے لیے اس قسم کا علاج زیادہ موزوںہے کیونکہ بھینگا پن ایک ایسا نقص ہے جس کے مختلف اسباب ہیں۔ بہرحال اگر بچے کو بھینگے پن کی خرابی سے بچانا مقصود ہے تو اس کا علاج شروع کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ہچکی بچوں کو اکثر ہچکی آتی ہے لیکن ماں کے لیے یہ پریشانی کی بات نہیں ۔ بچے کو جب ہچکی آئے تو اسے تھوڑا سا گرم پانی پلایا جائے یا اسے فرش پر لٹا کر اس کی پیٹھ تھپکی جائے۔ یا اسے اٹھا لیاجائے۔ اس عمل کی بدولت ہچکی بند ہو جائے گی۔ ٹیکے ہر بچے کو خناق کالی کھانسی Tetanusاور چیچک کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے فوری طور پر علاج شروع کر دینا چاہیے۔ جب بچہ ایک سال کا ہو جائے تو خاص حالات مثلاً سفر کی حالت یا گندی فضامیں دور اندیشی اس امر کی مقتضی ہے کہ بچے کو میعادی بخار کا ٹیکہ لگایا جائے۔ پیدائش کے بعد بچے کالی کھانسی چیچک یا Tetanus کی بیماریوں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے انسدادی کاروائی جو قدر جلس ممکن ہو شروع کر دینی چاہیے۔ شیر خوارگی یا کم سنی کے زمانے میں یہ بیماریاں بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ہیں اور سوائے چیچک کے باقی بیماریاں ایسی ہیں کہ بچوں میں ان کی مدافعت کی طاقت پیدا کرنے کے لیے کئی مہینے صرف ہو جاتے ہیں۔ اب ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے جدید ترین ٹیکوں سے کام لیا جاتا ہے لوگ چیچک کے ٹیکے کواس قدر مفید سمجھتے ہیں کہ بعض مقامات میں بچوں کو پیدائش کے بعد ہی چیچک کا ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے۔ بچوں کو بیماریوں کے حملوں سے بچانے کا معاملہ اس قدر اہم سمجھاجاتاہے کہ ہر بیماری کا جداگانہ ٹیکہ لگانے کے بجائے اب ایک خاص ٹیکہ ا س غرض سے تیار کیا گیا ہے کہ جو ان تمام بیماریوں کے دفیعہ کے لیے کارگر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بیماریوں کے علاج کے لیے صرف چند ٹیکے لگانے پڑیں گے۔ بیمار بچہ ہر ماں پر زود یا بددیر اس امر کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیا اس کا بچہ بیمار ہے اور کیا اسے بچے کے علاج کے لیے ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔ وہ ہر روز اپنے بچے کو دیکھ کر یہ معلوم کرتی ہے کہ وہ کیسا نظر آتا ہے اور کس طرح خوش اور شگفتہ دکھائی دیتا ہے وہ مطمئن ہے کہ اس کا بچہ تندرست ہے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی بچہ بیمار ہے تو پھر وہ یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ اس کی بیماری کی کیا علامتیں ہیں۔ بعض اوقات بیماری کی علامتوں کونمودار ہونے میں بہت دیر لگتی ہے اور بعض دفعہ بیماری کی علامتیںماں کے دیکھتے دیکھتے ظاہر ہو جاتی ہیں۔ بچے کو باقاعدہ دیکھنے والا ڈاکٹر بھی اس امر سے بے خبر نہیں کہ بچے کے بہت زیادہ بیمار ہونے سے پہلے اس کی بیماری جب کی علامتیں بھی بڑی آہستہ آہستہ ظاہر ہوئیں۔ لیکن جب بچہ دفعتاً بیمار ہو جاتا ہے تو دوسرے شخص کے مقابلے میں ماں کو بیماری کی علامات دیکھنے کا زیادہ موقع حاصل ہے کیونکہ ماں اپنے بچے کو اچھی طرح جانتی ہے۔ وہ اس کے مزاج سے واقف ہے مثلاً وہ بتا سکتی ہے کہ بچہ بیماری کی وجہ سے کیوں زیادہ چڑچڑا ہو گیا ہے۔ وہ کم کھانا کھاتا ہے یانیند کی حالت میں بھی بے چین رہتا ہے۔ اکثر بچے دفعتہ بیمار ہو جاتے ہیں انہیں تیز بخار آتا ہے لیکن جب علاج کیا جائے تو ان کی صحت جلد بحال ہوجاتی ہے۔ جو بچہ دیر کے بعدبیمار ہوتا ہے تو اس کی عام وجہ یہ ہے کہ اسے مناسب مقدار میں ایسی خوراک نہیں ملتی کہ جو اس کی جسمانی صحت کے لیے ضروری ہے۔ یا تو خوراک کی مقدار نسبتاً قلیل ہوتی ہے یا خوراج میں غذائیت کے اجزا نہیں ہوتے جب خوراک کافی نہ ہو تو بیمار ی کی علامتیں بھی دیرکے بعد نمودار ہوتی ہیں ابتدا میں یہ علامتیں حقیر اور ناقابل توجہ خیال کی جاتی ہیں لیکن بچہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ وہ ہلکی بیماری سے بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ اس کا چہرہ جو پہلے سرخ تھا اب زرد نظر آ تا ہے اور وہ سست اور افسردہ دکھائی دیتا ہے۔ بیماری کی ابتدائی علامتیں جب روزمرہ کے معمول کے خلاف بچہ سست بے چین او رکمزور نظر آئے تو ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ بچے کی جسمانی مشین میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے عام طور پر بیماری کی ابتدائی علامتیں یہ ہوتی ہیں: ۱۔ بچہ جب تندرست ہوتا ہے تو کھیلتارہتا ہے اور خوش نظر آتاہے لیکن جب بیمار ہوتا ہے تو بات بات پر ضد کرتاہے اور رونا شروع کر دیتا ہے۔ ۲۔ اس پر نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے وہ معمول کی بہ نسبت زیادہ سونا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے اس وقت کھیلا کرتا تھا۔ ۳۔ بے چینی کی وجہ سے بچہ اکثر جاگتا رہتا ہے۔ اس کے وقت کا زیادہ حصہ رونے میں گزرتا ہے۔ ۴۔ بخار کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور جسم گرم ہو جاتا ہے ۔ بخار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بیماری متعدی نوعیت کی ہے۔ ۵۔ بچہ مقرر ہ وقت پر دودھ پینے سے انکار کرتا ہے۔ اگر دودھ کے بجائے اسے کوئی اور چیز کھانے کو دی جائے تو بھی منہ پھیر لیتا ہے۔ ۶۔ دودھ یا کوئی اور چیز جو بچے کو خوراک کے طور پر دی جائے وہ اسے ہضم نہیں کرتا۔ وہ قے کر دیتا ہے قے کسی متعدی بیماری کی ابتدائی علامت ہے۔ ۷۔ بچے کو دفعتاً پتلے پتلے دست آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ۸۔ جب بچہ روتاہو یا چڑچڑا ہو گیا ہو تو ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ بچے کو درد کی تکلیف ہے۔ اب یہ معلوم کرنا ماں کا کام ہے کہ درد کس جگہ ہو رہا ہے۔ اگر بچہ روتے وقت اپنی ٹانگوں کو پیٹ کے اوپر لے جائے تو ماں کو سمجھ لینا چاہیے کہ بچے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ اگر بچہ سر گھما رہاہے تو یا کان کو کھینچتا ہے تو یہ کان کے در د کی علامت ہے۔ بعض اوقات ماں کو بھی یہ معلوم نہیںہوتا کہ بچے کی کس جگہ درد ہو رہا ہے۔ حالانکہ وہ بڑے زور سے رو رہا ہے۔ ایسی صورت میں ماں کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ۹۔ جب بچے کی ناک بہہ رہی ہوتو یہ زکام کی علامت ہے یا کسی اور متعدی بیماری کی مثلاً خسرہ۔ ۱۰۔ جب بچہ کھانسی کے عارضے میں مبتلا ہو تو اسے ایک بالغ شخص کی بیمار ی کے مقابلے میں بیماری کی علامت سمجھنی چاہیے یہ نزلے یا زکام کی علامت ہے۔ اگر اس کا جلدی علاج نہ کیا جائے تو بچہ نمونیا کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ۱۱۔ جب بچے کا ا س قدر گلا بیٹھ جاتا ہے کہ اس کے رونے کی آواز بھی مدھم پڑ جاتی ہے۔ ۱۲۔ اکثر بچے ام الصبیان کے شدید عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ننھا مریض دفعتاً بڑے زور سے ہاتھ پائو ں مارتا ہے۔ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں پھر جاتی ہیں اس کے ہاتھ پائوں اکڑجاتے ہیں۔ وہ مشکل سے سانس لیتا ہے اور اس کا رنگ ایسا پیلا پڑ جاتا ہے کہ خود ماں پر دہشت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ایسی حالت میں ڈاکٹر کو فوراً بلانا چاہیے ڈاکٹر کے آنے سے پہلے بچے کو فوراً بسترپر لٹا دینا چاہیے۔ اگر اس کے منہ سے رطوبت خارج ہوتی ہے تو اس کے سر کو اس طرح رکھاجائے کہ یہ مادہ اس کے منہ سے نکلتارہے۔ اگر بخار کی وجہ سے جسم گرم ہے تو بچے کی پیشانی پر ٹھنڈے پانی کا ایک تر کپڑ ا رکھ دیا جائے اور اگر ٹمپریچر بہت زیادہ ہے تو ہلکے گرم پانی میں اسفنج بھگو کر اس بچے کے جسم پرپھیرا جائے۔ اس عمل سے بخارہلکا ہو جائے گا۔ بیمار بچے کے متعلق ضروری ہدایات ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے مناسب یہی ہے کہ بچے کے متعلق ذیل کی باتوں پر عمل کیا جائے: ۱۔ بچے کو اس قدر آرام سے رکھیے کہ اسے نیند آ جائے۔ اگر ماںنے بچے کو اپنے بازوئوں میں لے رکھا ہے تو اسے آرام ہے تو اسے کچھ دیر تک ایسی حالت میں رکھنا چاہیے۔ ۲۔ بچے کی بیماری خواہ متعدی ہو یا نہ ہو مگر دوسرے بچوں کو اس سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ ۳۔ اگر بچے کو قے آ رہی ہو یا اسے دست آ رہے ہوں تو اسے کسی قسم کی خوراک نہ دی جائے۔ اگر صرف اسہال ہو تو بچے کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ابلا ہوا پانی پلایا جائے۔ اگر قے آ رہی ہو تو کچھ دیر کے لیے پانی نہیں پلانا چاہیے۔ اگر قریباً دو گھنٹوں تک قے نہ آئی ہو تو ابلے ہوئے پانی کی خفیف مقدار پلانی چاہیے۔ اگر دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی قے نہ آئے تو اسے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ابلا ہوا پانی ہی پلاتے رہنا چاہیے۔ ۴۔ اگر بچہ قے یا اسہال کے عارضے میں مبتلا ہے تو پھر اس کی بھو ک کا اندازہ لگا کر ضرورت کے مطابق اسے باقاعدہ دودھ پلانا چاہیے۔ ۵۔ اگر بچے کو ۱۰۳ درجے کا بخار ہو اور وہ اتنا بے چین ہے کہ اسے نیند نہیں آتی تو ٹھنڈے پانی والا اسفنج اس کے جسم پر ملا جائے۔ اس عمل سے بچے کو آرام آ جائے گا۔ ۶۔ بچے کی بیماری کا ریکارڈ رکھا جائے جس سے یہ ظاہر ہو کہ (ا) قریباً ہر چار گھنٹے کے بعد بچے کا ٹمپریچر کتنا ہے (ب) اسے کتنی مرتبہ حاجت ہوئی اورپاخانے کا رنگ کیسا ہے (ج) اس نے کتنی مرتبہ پیشاب کیا ہے (د) اسے کتنی مرتبہ قے ہوئی ہے اور کس قدر ہوئی ہے (ہ) بیماری کے متعلق کوئی اور ایسی بات جو تمہارے نزدیک قابل ذکر ہو۔ ۷۔ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر بچے کو کوئی دوا نہ دی جائے۔ بیمار بچہ عام طور پر اپنے بستر پر خاموش پڑا رہتا ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ بچے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی کروٹ وقتاً فوقتاً بدلتی رہے۔ جب وہ بے چین نظر آتا ہو تو آہستہ آہستہ تھپکنے سے اسے سکون حاصل ہو گا۔ بیمار بچے کی نگرانی ماں کو بیمار بچے کے متعلق قدرتی طور پر تشویش محسوس ہوتی ہے وہ بیماری کا سبب معلوم کرنا چاہتی ہے۔ مگر بچے کی خاطر اس کے دل کی کیفیت ایسی رہنی چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ اس کے علاج کا خیال رکھے۔ اگر ڈاکٹر نے بچے کی بیماری کے سلسلے میں ماں کو خاص احتیاط ملحوظ رکھنے کا مشورہ دیا ہے تو ماں کو ڈاکٹر کی ہدایت پر پوری توجہ سے کاربند رہنا چاہیے۔ قریباً تمام بیماریوں میں ڈاکٹر کی ہدایت قابل عمل ہوتی ہے۔ مثلاً بچے کو بستر پر آرام سے پڑے رہنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اسے نیند آ جائے یاس اس کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ بیمار بچے کے کمرے میں لوگ جمع نہ ہونے پائیں۔ خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے۔ بیمار بچے کے لئے آرام اتنا ہی ضروری ہے جتنی دوا۔ بچے کو آرام پہنچانے کی خاطر ماں اسے کبھی اٹھائے رکھتی ہے۔ کبھی اسے جھولے میں ڈالتی ہے یا اس کے کان سے منہ لگا کر اسے گیت سناتی ہے۔ کبھی اس کے پاس کھلونے رکھ دیتی ہے تاکہ اس کا دل بہلا رہے۔ جب وہ ذرا تندرست دکھائی دیتا ہے تو وہ اسے زیادہ دیر تک تنہا چھوڑ دیتی ہے۔ بیماری کے دوران میں صفائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے اس کا جسم صاف رہنا چاہیے۔ دن میں ایک یا دو مرتبہ بچے کو اسفنج کے ذریعہ سے گرم پانی کا غسل کرانا چاہیے۔ اس بات کا خیال رہے کہ غسل کے دوران میں بچے کو ٹھنڈی ہوا سے محفوظ رکھا جائے جب تک کمرہ گرم نہ ہو اس کے کپڑے نہیں اتارنے چاہئیں۔ اگر بچہ اتنا دودھ نہیں پی رہا ہے جتنا اس کی صحت کے قیام کے لئے ضروری ہے تو اس کا معدہ معمول کے مطابق صاف نہیں رہے گا۔ اگر تین دن تک اسے اجابت نہیں ہوئی یا اس کے پیٹ میں درد ہے تو پھر ڈاکٹر بچے کے لئے گرم پانی کا انیما تجویز کریگا ڈاکٹر سے مشورہ کئے بغیر بچے کو کبھی جلاب دینا نہیں چاہیے بالخصوص ایسی حالت میں کہ قے کر رہا ہو یا اس کے پیٹ میں درد یا اس کا پیٹ متورم ہو۔ اگر بچہ معمول کے مطابق میں کم پیشاب کرتا ہے اور وہ قے بھی نہیں کرتا تو اسے زیادہ پانی دیا جائے۔ بیمار بچہ بیماری کی حالت میں کبھی اتنا دودھ نہیں پیتا جتنا تندرستی کی حالت میں پیتا ہے۔ وہ معدے کے کمزور ہو جانے کے باعث دودھ ہضم نہیں کر سکتا۔ اگر بچہ قے کے عارضے میں مبتلا ہے تو اسے کوئی چیز پینے کے لیے نہیں دینی چاہیے۔ مناسب یہی ہے کہ دودھ دینے سے پہلے ڈاکٹر کی رائے دریافت کر لی جائے۔ اگر تم ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے تو قے کے رک جانے کے بعد دودھ کی خفیف مقدار بچے کو پلائی جا سکتی ہے۔ اسہال کی صورت میں مناسب یہی ہے کہ بچے کی ایک یا دو وقت کی غذا بند کر دی جائے یا اگر دی جائے تو کم مقدار میں۔ بچے کو خوراک کی کم مقدار دینے کے بارے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر بچہ ماں کی چھاتی سے دودھ پیتا ہے تو اسے اس مقدار سے نصف دودھ پلایا جائے جو وہ تندرستی کی حالت میں پیتا تھا۔ دودھ پلانے کے بعد اسے ابلا ہوا پانی اتنا پلایا جائے جتنا وہ پی سکے۔ اگر وہ بوتل کا دودھ پیتا ہے تو دودھ میں ابلے ہوئے پانی کی مساوی مقدار ملا لی جائے۔ بچہ جس قدر چاہے یہی دودھ پئے۔ اور جب بچہ اچھا ہو جائے اور زیادہ غذا کھانے کے قابل ہو جائے تو پھر اسے اسی مقدار میں غذا دی جائے جتنی وہ بیمار ہونے سے پہلے کھایا کرتا تھا۔ جن بیماریوں میں بچے کی قوت ہاضمہ ٹھیک رہتی ہے ان کے دوران میں بچے کو دودھ کے علاوہ ٹھوس غذائیں مثلاً انڈا پھل کا عرق اور سبزی دی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ ایسی چیزوں کے کھانے کا عادی اور خواہشمند ہو لیکن! اگر ڈاکٹر نے بچے کے لئے خاص خوراک تجویز کر رکھی ہے تو پھر یہ ٹھوس چیزیں نہیں دینی چاہئیں۔ اگر بچے کا ٹمپریچر زیادہ ہے اور وہ پانی مانگتا ہے تو ایسے ابلا ہوا پانی جسے ٹھنڈا کر لیا جانے دینا چاہیے۔ یہ بات نوٹ کر لی جائے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں کتنا پانی پیتا ہے۔ اگر بچے کو بدہضمی نہیں ہے تو پانی میں تھوڑا سا سنترے کا رس ملا لیا جائے۔ بشرطیکہ بچہ ایسا پانی زیادہ پینا چاہتا ہو۔ اگر وہ قے کر رہا ہو تو پھر تھوڑی دیر کے لیے پانی بھی نہیں دینا چاہیے۔ لیکن جب قے رک جائے تو پانی پھر خفیف مقدار میں چائے کے چمچہ کے برابر دیا جا سکتا ہے۔ پانی کی مقدار رفتہ رفتہ بڑھائی جا سکتی ہے۔ اگر بچہ اس قدر بیمار ہے کہ اسے غذا ہضم نہیں ہوتی تو اسے بھوک بھی کم لگتی ہے۔ ایسی صورت میں مناسب یہی ہو گا کہ تم بچے کو وہی چیزیں کھانے کو دو۔ جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔ ایسے موقعہ پر اسے ایسی چیز کھانے پر ہرگز مجبور نہ کیا جائے جو اسے ناپسند ہو۔ بلکہ ایسی چیز جس سے بچے کو رغبت نہ ہو کبھی بھی کھانے کے لئے نہیں دینی چاہیے۔ جب بچے کو بھوک نہ ہو تو اسے نئی چیزیں کھانے کے لئے نہ دی جائیں۔ اگر بچے کو بوتل سے دودھ پلایا جاتا ہے تو جب تک وہ بیمار ہے یا تندرست نہیں ہو جاتا اسے نئی باتیں سکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اینیما عام طور پر اینیما کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن اگر معدے کی صفائی کے متعلق قبض رفع کرنے کے لئے ڈاکٹر بچے کو اینیما کرنے کا مشورہ دے تو اس عمل کے لئے ایک بچکاری لی جائے جس کے ساتھ نرم ربڑ کی نالی لگی ہوتی ہے۔ جس میں دو سے تین اونس تک پانی کی گنجائش ہو۔ پہلے شیشے کے گلاس میں ہلکا گرم پانی ڈالا جائے (پانی ہرگز زیادہ گرم نہ ہو) اس پانی میں بقدر نصف چمچہ چائے نمک ملا دیا جائے۔ پچکاری کو بھرنے کے لئے اس کا سرا پانی میں ڈبویا جائے اور بلب کو دبایا جائے۔ بلب کو چھوڑ دیا جائے۔ نمک والا پانی پچکاری میں خود بخود داخل ہو جائے گا۔ ماں بچے کو اپنے گھٹنوں یا میز پر پست کے بل لٹا دے۔ بچے کے پیٹ کے نیچے تولیہ تہ کر کے رکھ دیا جائے۔ تاکہ اس کی رانیں اٹھی رہیں۔ پچکاری کے سرے پر ’’ فیسرین‘‘ (چکناہٹ والی چیز) مل دی جائے۔ ایک ہاتھ سے بچے کی ٹانگیں اٹھائی جائیں اور دوسرے ہاتھ سے پچکاری کا سرا قریباً ایک انچ تک جسم کے اندرونی حصے میں داخل کیا جائے اور بلب کو آہستہ دبایا جائے تاکہ پانی اندر چلا جائے اگر اس عمل میں احتیاط اور آہستگی ملحوظ رکھی جائے تو بچے کو کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہو گی۔ جب پانی اندر چلا جائے تو پچکاری کا ربڑ والا سرا آہستہ آہستہ نکال لیا جائے۔ اور بچے کی رانیں چند منٹوں تک ملا دی جائیں تاکہ پانی اندر رہے اور اپنا اثر دکھائے۔ اس کے بعد بچے کو پاٹ پر بٹھا دیا جائے۔ بعض اوقات پچکاری نکالتے وقت پانی بھی باہر نکل آتا ہے۔ ایسے موقعہ پر ماں کو چاہیے کہ احتیاط کے طور پر ربڑ یا پلاسٹک کا رومال یا کاغذ کے اوراق اپنے گھٹنوں پر رکھ لے تاکہ اس کے کپڑے گندے نہ ہونے پائیں۔ اگر بچے کے جسم کے اندرنوی حصے سے پانی نکل آیا ہے اور اسے اینیما کے بعد دو یا تین گھنٹوں کے اندر پاخانہ نہیں آیا تو اینیما دوبارہ کرنا چاہیے اس سے بچے کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر بھی یہ مشورہ دے گا ممکن ہے ڈاکٹر اینیما کی بجائے صابن ’’کاسٹک‘‘ یا کوئی اور علاج تجویز کرے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کا معدہ صاف رکھنے کے معاملے میں اینیما یا کوئی اور علاج ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز شروع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اس سے بچے کے پاخانے والی جگہ میں سوزش پیدا ہونے کا احتمال ہے اور اس امر کا اندیشہ ہے کہ ایسے علاج سے بچہ پاخانہ کرنے کی اس سہولت سے محروم نہ ہو جائے جو قدرت نے اسے عطا کر رکھی ہے۔ بیماریوں کا ریکارڈ جب بچہ بیمار ہو تو تعلیم یافتہ ماں کو چاہیے کہ بیماری کے دوران میں بچے کے متعلق تمام قابل ذکر باتیں لکھ لی جائیں۔ اس ریکارڈ سے نہ صرف ڈاکٹر کو صحیح علاج تجویز کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ دوسرے بچوں کی صحت قائم رکھنے کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور چونکہ اس ریکارڈ میں ہر قسم کی بیماری کی تفصیل درج ہو گی اس لیے ماں بچوں کی بیماریوں کے متعلق ضروری معلومات سے پورے طور پر باخبر ہو جائے گی اور وہ ضرورت کے وقت ڈاکٹر کے آنے سے پہلے اپنے تجربے کی بنا پر بچوں کے لئے ایسے علاج تجویز کر سکتی ہے جو ان کی صحت کے ممد و معاون ثابت ہوں۔ تھرمامیٹر کا استعمال ہر ماں کو بچے کا ٹمپریچر لینے کا طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے جو تھرما میٹر خریدا جائے ماں کو اس کے استعمال کرنے کی ترکیب سے اچھی طرح باخبر رہنا چاہیے۔ بچوں والے گھر میں تھرمامیٹر کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ماں کو صحیح طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ بچے کو کتنے درجے کا بخار ہے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جب کیمسٹ سے تھرمامیٹر خریدا جائے تو وہ موٹے بلب کا ہو۔ گھر کے ڈاکٹر یا کیمسٹ یا ہیلتھ وزیٹر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پہلے اس کا پارہ کس طرح گرانا چاہیے اور پھر اس کے نشانات اور ہندسے غور کے ساتھ پڑھ لئے جائیں۔ بچے کا ٹمپریچر لینے سے پہلے ماں کو اس امر کا اطمینان کر لینا چاہیے کہ تھرما میٹر کا پارہ جھٹکنے کے باعث ’’نارمل‘‘ نشان سے نیچے گر گیا ہے۔ بلب پر ’’ ویسلین‘‘ یا ’’ کولڈ کریم‘‘ مل دینی چاہیے بچے کو گھٹنوں میں یا میز یا بستر پر پشت کے بل لٹا دیا جائے۔ ایک ہاتھ سے اس کے بازو پکڑے جائیں اس کے بعد تھرما میٹر کا سرا بچے کی پاخانے والی جگہ میں قریباً ایک انچ تک رکھا جائے۔ بچے کی ٹانگیں مضبوطی سے پکڑی جائیں تاکہ تھرمامیٹر ٹوٹنے نہ پائے جب تک تھرمامیٹر خاص جگہ میں رہے بچے کو نہ چھوڑا جائے۔ جب تین منٹ گذر جائیں تو تھرما میٹر نکال لیا جائے۔ جب بچے کو چارپائی پر لٹا دیا جائے تو اس وقت تھرما میٹر سے ٹمپریچر معلوم کیا جا سکتا ہے یہ بات نوٹ کر لی جائے کہ ٹمپریچر کس تاریخ کو اور کتنے بجے لیا گیا۔ تاکہ ڈاکٹر کو ضرورت پڑے تو صحیح اطلاع دی جا سکے۔ استعمال کرنے کے بعد تھرما میٹر کو کسی خشک کپڑے یا روئی کے ٹکڑے سے صاف کر لیا جائے اور اس کے بعد اسے صابن ملے ہوئے سرد پانی سے اچھی طرح دھو لیا جائے۔ گرم پانی سے ہرگز نہ دھویا جائے۔ تھرمامیٹر ٹوٹ جائے گا کسی محفوظ جگہ رکھنے سے پہلے اس کا پارہ پھر گرا دیا جائے۔ اگر ماں اس بات کو پسند کرتی ہے کہ بچے کا ٹمپریچر بغل کے نیچے لیا جائے تو پھر وہ بچے کے کپڑے اتار کر تھرمامیٹر کے بلب کا سرا اس کی بغل میں رکھ دے اور اس کے بازو کو اپنے جسم کے ساتھ دبائے رکھے تاکہ تھرمامیٹر اپنی جگہ قائم رہے۔ صحیح ٹمپریچر معلوم کرنے کے لئے بچے کو کم سے کم پانچ منٹ تک اسی حالت میں رہنا پڑے گا۔ بچے کا ٹمپریچر عام طور پر ۶ء ۹۸ سے ۶ء ۹۹ ڈگری فارن ہائٹ تک رہتا ہے۔ لیکن جب تھرما میٹر کا پارہ ۱۰۱ درجے فارن ہیٹ یا اس سے زیادہ درجے تک چڑھ جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ بچہ بخار میں مبتلا ہے اور ڈاکٹر کو اس کی اطلاع کر دینی چاہیے۔ بالغ کی بیماری کے مقابلے میں جب بچہ بیمار ہوتا ہے تو اس کا بخار نسبتاً زیادہ تیز ہوتا ہے بچے کے جسمانی اعضا چونکہ کمزور اور نازک ہوتے ہیں اس لئے تھوڑی سی خرابی کے باعث بھی اس کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے۔ اگر بچے کو ہر روز ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ تک خفیف بخار آتا ہے تو یہ اس زیادہ ٹمپریچر کے مقابلے میں جو صرف تھوڑی دیر تک رہے تشویش انگیز صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جو بچہ بیمار ہے اسے دن یا رات کے کسی حصے میں بخار آ سکتا ہے۔ لیکن اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ صبح کے مقابلے میں سہ پہر کے بعد اس کا بخار تیز ہو جائے بیماری سے شفایابی کے دوران بچے کا ٹمپریچر صبح کے وقت ’’ نارمل‘‘ یعنی ۶ء ۹۸ ڈگری سے بھی کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بچہ ا پنی ماں کی خاص توجہ اور آرام کا محتاج ہے۔ نزلہ اور زکام نزلے اور زکام کی بیماری متعدی ہوتی ہے اور تمام بچوں کو ایسے شخص سے جو اس بیماری میں مبتلا ہو دور رکھا جائے۔ بالغ کی یہ بیماری جب بچے کو لاحق ہو جاتی ہے تو خطرہ ہے کہ وہ کھانسی یا نمونیا کے خطرناک عارضے میں مبتلا ہو جائے گا۔ نزلہ اور زکام ہی سے بسا اوقات بچے کے کان میں درد شروع ہو جاتا ہے اور اس کا کان بہتا ہے۔ اگر ماں کو نزلہ اور زکام ہو گیا ہے تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک ماں کا یہ عارضہ رفع نہ ہو جائے بچے کو چند دن کے لئے گھر کے کسی دوسرے آدمی کے سپرد کر دیا جائے۔ اگر ماں اپنے بچے کو اس بیماری سے بچانا چاہتی ہے تو اسے ہر قسم کی احتیاط ملحوظ رکھنی پڑے گی۔ بچے یا اس کی خوراک کو چھونے سے پہلے ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھو لینا چاہیے۔ بچے کے چہرے کے قریب سانس لینے یا اس کا منہ چومنے سے پرہیز کرنا چاہئے جب بچہ زکام میں مبتلا ہو جائے تو اسے دوسرے بچوں سے علیحدہ رکھنا چاہیے اور ماں اس بات کا خیال رکھے کہ بچہ اس کے منہ کے قریب نہ کھانسنے پائے۔ جب بچے میں زکام کی پہلی علامتیں نمودار ہوں تو بچے کو ایسے کمرے میں لٹا دینا چاہیے جہاں اس کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کے لئے بھی اچھا ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ لیٹا رہے۔ اکثر بچے اس بیماری میں معمول سے زیادہ سوتے ہیں۔ لیکن جب زکام کی شدت کی وجہ سے ناک بند ہو جاتی ہے اور سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے تو پھر انہیں نیند نہیں آتی۔ جب بچے کی ناک اور گلے میں بہت سا مادہ جمع ہو جاتا ہے تو اسے معدے یا پیٹ کے بل سلانے سے نسبتاً زیادہ آرام محسوس ہو گا اگر اس کی چارپائی کے سرھانے کے پائے چند انچ اونچے کر دیئے جائیں تو اس کی ناک اور منہ سے جو مادہ خارج ہو گا وہ اس کے پھیپھڑوں میں داخل ہونے یا نکل جانے کے بجائے اس کے بستر کی چادر پر بہتا رہے گا۔ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز ناک میں نہیں ڈالنی چاہئے بعض اوقات ڈاکٹر زکام والے بچے کی ناک میں دوا ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ ایسی دوائیں ہوں جن کے استعمال سے ناک کا اندرونی حصہ سکڑ جاتا ہے۔ تاکہ بچہ آسانی کے ساتھ سانس لے سکے اگر بچے کی ناک بہتی ہے تو کسی نرم پرانے رومال سے بچے کی ناک صاف کر دینی چاہئے تاکہ وہ خشک رہے۔ یہ کام کسی نرم کاغذ سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ اگر ناک کے نتھنوں میں تھوڑی سی ’’ کولڈ کریم‘‘ مل دی جائے تو ناک کے پانی سے چمڑا متاثر نہیں ہو گا۔اگر زکام کے ساتھ کوئی اور خرابی پیدا نہ ہو جائے تو چند دن کے بعد وہ رفع ہو جاتا ہے او ربخار بھی بہت کم ہو جاتا ہے۔ اگر بچے کے زکام اور کھانسی کی بیماری زیادہ طول پکڑ جائے اور افاقہ کی صورت نظر نہ آئے تو پھر ڈاکٹر کو اطلاع دینی چاہیے۔ کان کا درد جو بچہ بخار کی وجہ سے چڑچڑا ہو جائے اپنے ہاتھ سر کی طرف رکھے سر کو کبھی ایک رخ کی طرف جھٹکے اور کبھی دوسرے رخ کی طرف یا اپنے کانوں کو کھینچے، اس کی نسبت ماں کو سمجھ لینا چاہے کہ اس کے کان میں درد ہے۔ اگر ایسی صورت میں ڈاکٹر کا مشورہ حاصل نہ ہو سکے تو ماں کو چاہیے کہ بچے کے کان پر کوئی گرم چیز رکھے اس گرمی سے بچے کے کان کا درد کم ہو جائے گا کسی نرم کپڑے کو تہ کر کے اسے آگ کے سامنے رکھ کر گرم کر لیا جائے اور اسے کان پر رکھا جائے۔ مگر اس بات کا خیال رہے کہ کپڑا زیادہ گرم نہ ہو۔ ربڑ کی تھیلی کو جس میں گرم پانی یا گرم کیا ہوا نمک ہو، کان پر رکھنے سے درد کم ہو جائے گا اور بچہ آرام محسوس کرے گا۔ کان پر ماں کے جسم یااس کی ہتھیلی کی گرمی کے اثر سے بھی بچہ آرام محسوس کرے گا۔ کان کو دوسرے طریقوں سے گرمی پہنچانے کے مقابلے میں یہ طریقہ زیادہ مفید ہے۔ اگر ماں کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ بچے کو کان کے درد کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے تو ماں کو ا س سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد شروع ہی میں بعض دواؤں کے استعمال سے کان کا درد رفع ہو سکتا ہے۔ اگر مائیں ’’ پرہیز علاج کی بہترین صورت ہے‘‘ کے اصول پر کاربند رہیں تو وہ ان پریشانیوں سے جو انہیں بچوں کی بیماری کی شکل میں اٹھانا پڑتی ہیں بڑی حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ جہاں تک ہو سکے ماں کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ لباس اور خوراک کے معاملے میں وہ بچوں کی دیکھ بھال کا خاص طور پر خیال رکھے۔ گلے کی بیماری بعض اوقات نزلے اور زکام کی وجہ سے بچے کے گلے میں بھی خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ شروع میں نزلے کی بیماری کا حملہ اس قدر خفیف ہوتا ہے کہ اس پر کوئی توجہ نہیں کی جاتی حالانکہ یہ گلے کی بیماری کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ بارھا ایسا ہوتا ہے کہ جو بچہ بظاہر چنگا بھلا سو جاتا ہے جب رات کے وقت بیدار ہوتا ہے تو اسے سانس لیتے وقت اس قدر دشواری محسوس ہوتی ہے کہ وہ شور مچاتا ہے۔ اسے بڑے زور سے خشک کھانسی شروع ہو جاتی ہے۔ کھانسنے وقت اس کی آواز کتے کے پلے کی طرح سنائی دیتی ہے۔ وہ روتا ہے تو اس کی آواز بڑی مشکل سے نکلتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈر گیا ہے۔ ڈر کی وجہ سے اس کی بیماری کی علامات زیادہ نمودار ہوتی ہیں۔ اگر ایسی حالت میں ماں بچے کو گود میں رکھے اور مادرانہ شفقت سے اس کو ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کرے تو نہ صرف اس کا ڈر زائل ہو جائے گا بلکہ اسے سانس لینے میں بھی آسانی ہو گی۔ گلے کی یہ بیماری تشویش انگیز صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس لئے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر گلے کی بیماری کا حملہ ابتدائی صورت میں ہے تو ڈاکٹر کی ہدایت پر کاربند ہونے کی بدولت بچے کی صحت دوسرے دن تک بالکل بحال ہو جائے گی۔ لیکن اگر ا سکے برعکس بیماری کا حملہ سخت ہے تو بچے کی آواز بیٹھ جائے گی اور گلے کی کھانسی زیادہ تکلیف دہ ہو گی۔ ایسی صورت میں بچے کی حالت سے ڈاکٹر کو آگاہ رکھنا چاہیے۔ گلے کی خرابی کی وجہ سے بچے کو سانس لینے میں دشواری پیش آئے گی اور اس امر کا زیادہ خطرہ ہے کہ اس کی آواز بالکل بیٹھ جائے۔ بخار کی وجہ سے وہ اور زیادہ کمزور نظر آتا ہے بیماری کی یہ علامتیں صاف بتا رہی ہیں کہ بچے کی حالت تشویش انگیز صورت اختیار کر رہی ہے گو ایسی متعدی بیماریاں لا علاج نہیں ہوتیں لیکن ٹیکوں کے علاج سے بھی بیمار بچے کے شفا یاب ہونے میں بہت دیر لگ جاتی ہے۔ کھانسی اور نمونیا بچہ جب زکام یا نزلے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو یہ کھانسی یا نمونیا کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ زکام یا نزلے سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ کھانسی یا نمونیا اسی اثر کا نتیجہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ جب زکام کا حملہ سخت ہو اور چند دنوں کے اندر مریض کی صحت بحال نہ ہو جائے تو پھر ڈاکٹر کو اطلاع دینی چاہیے کھانسی اور بخار بران کائٹس (شدید کھانسی کی قسم) یا نمونیا کی عام علامتیں ہیں۔ کھسرہ یا کالی کھانسی یا کسی دیگر متعدی بیماری کے بعد بچہ نمونیا کے مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچہ پہلے زکام یا کھانسی کے عارضے میں مبتلا نہ ہو اور نمونیا اسے دفعتہ دبوچ لے ڈاکٹر کے آنے تک ماں کو انہی ہدایات پر کاربند رہنا چاہئے جو نزلے اور زکام کے متعلق اوپر بیان کی جا چکی ہیں۔ ڈائریا اور اسہال ڈائریا کسی بیماری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک بیماری کی علامت ہے۔ ڈائریا کا مفہوم یہ ہے کہ بچے یا بالغ کو بار بار پاخانہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پاخانہ بہت ڈھیلا اور پانی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔ اس خرابی کا سبب یا تو نامناسب خوراک ہے یا متعدی بیماری کا اثر۔ اگر جسم کے اندر متعدی بیماری کے جراثیم داخل ہو گئے ہیں تو اس سے ڈائریا کی صورت پیدا ہو جائیگی جب جسم کے اندرونی حصے میں خرابی پیدا ہونے کے باعث معدہ ٹھیک حالت میں نہیں رہتا تو بچہ اسہال کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ڈائریا اس کی سب سے بڑی علامت ہے۔ پاخانہ بستہ نہیں ہوتا بلکہ پانی کی طرح پتلا ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں خون اور آنوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ عام طور پر جو بچہ اسہال کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے اسے بخار بھی آ جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت بیمار نظر آتا ہے۔ بچے کو پیچش ہو جاتی ہے اور اس کا وزن بھی کم ہو جاتا ہے ڈائریا سے بچے کو بچانے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ماں بچے کی صحت کا خاص طورپر خیال رکھے۔ اس کی غذا کے تیار کرنے میں احتیاط سے کام لیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اسے زکام نزلہ، کھانسی اور دوسری متعدی بیماریوں سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ معدے کی خرابی کا سبب وہ جراثیم ہیں جو عام طور پر جسم کے اندر خوراک یا پانی کے ذریعہ سے داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری ان لوگوں کے ذریعہ سے بھی پھیلتی ہے جو اس میں مبتلا ہیں یا جن کے اندر ایسے جراثیم ہیں جن سے ڈائریا پیدا ہوتا ہے۔ مکھیاں بھی پانی کے کھلے گڑھوں یا نالیوں کے جراثیم کو خوب پھیلاتی ہیں۔ جراثیم متعدی بیماری کے جراثیم سے بچنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ صفائی پر زیادہ توجہ کی جائے بچے کو ابلا ہوا پانی دیا جائے اور اس کے مکسچر کو بڑی احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے خوراک کی دوسری چیزیں بھی صاف اور تازہ ہونی چاہئیں جن برتنوں میں یہ چیزیں ہوں انہیں ڈھک کر رکھنا چاہیے۔ جن جن خوشحال گھروں میں ریفریجریٹر ہیں ان میں کھانے پینے کی چیزیں زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔ جب بچے نے بوتل کا دودھ اپنی خواہش کے مطابق پی لیا ہو تو اس کی بوتل علیحدہ رکھ دینی چاہیے خواہ وہ خالی نہ ہو۔ اگر یہ بچے کی چارپائی پر پڑی رہے گی تو جراثیم دودھ میں داخل ہو کر غیر معمولی سرعت سے بڑھنا شروع کر دیں گے۔ بوتل کی چوسنی پر گندی ہونے کی وجہ سے مکھیاں بیٹھیں گی۔ ا سلئے جب تک چوسنی گرم پانی میں نہ ابال لی جائے وہ ہرگز بچے کے منہ میں نہیں ڈالنی چاہیے۔ احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ بچے کو بوتل کا دودھ پلانے یا اس کی غذا تیار کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لئے جائیں۔ اسہال کی بیماری صرف اسی گھر میں نمودار ہوتی ہے جہاں صفائی اور پاکیزگی کا خیال نہ رکھا جائے اور جہاں گندے پانی کے نکاس کا کوئی قابل اطمینان انتظام نہ ہو۔ مکھیاں ہمیشہ گندی جگہ بیٹھتی ہیں۔ اگر پینے کا پانی صاف نہیں ہے تو ایسا پانی پینے والا بچہ اسہال یا پیچش کی بیماری سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ غسل خانے کی چیزوں کو بھی مکھیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ بچے کے گیلے رومال بھی کھلے نہ رکھے جائیں۔ بلکہ یہ کسی بکس میں بند رہنے چاہیئے۔ کھلے رکھنے سے ان رومالوں پر مکھیوں کی بھنبھناہٹ شروع ہو جائے گی۔ اینیما اینیما اس کیفیت کا نام ہے۔ جب بچے کے جسم میں خون کم ہو جاتا ہے خون کی کمی کا باعث یہ ہے کہ جسم میں خون کے خلیوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے یا یوں کہیے کہ جسم میں وہ مادہ بہت قلیل رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے خون میں سرخی پیدا ہوتی ہے عام طور پر بچے میں خون کی کمی کے اسباب یہ ہیں۔ ۱۔ بچے کی خوراک یا اس کی پیدائش سے پہلے ماں کی غذا میں لوہے کے جوہر کی کمی ہے۔ یہ جوہر اس مادے کی تخلیق کے لیے ضروری ہیں۔ جس کی بدولت خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ عام طور پر پیدائش کے وقت صحیح و سالم بچے کے جسم میں لوہے کے جوہر کی مقدار اس قدر ہوتی ہے جو تین سے پانچ ماہ تک اس کی ضروریات کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے۔ اس عمر کے بعد اس کی غذا میں یہ جوہر موجود رہنا چاہیے۔ غذا کی جن چیزوں میں لوہے کا جوہر پایا جاتا ہے وہ گوشت انڈے کی زردی، سبز پتوں والی سبزیاں اور غلے ہیں۔ ۲۔ بچے کے جسم میں خون کی کمی کا دوسرا باعث یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سخت بیمار رہ چکا ہو بچہ اگر اینیما سے محفوظ رہ سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں کہ ماں اس کی اچھی یعنی ایسی غذا کا خیال رکھے جس میں لوہے کے جوہر موجود ہو۔ رکٹ رکٹ شیر خوار بچوں اور ان سے ذرا زیادہ عمر کے بچوں کی ایک ایسی بیماری ہے جو ان کی غذا میں وٹامن ڈی کے نہ ہونے سے نمودار ہوتی ہے۔ا گر بچے کو ایسی غذا دی جائے جس میں وٹامن ڈی موجود ہو تو اس میں کیلشیم (چونے کا جزو) اور فاسفورس کے موجود ہونے کے باعث بچے کی ہڈیاں بڑی مضبوط ہو جاتی ہیں اور دانت بھی اچھے نکلتے ہیں۔ جب بچہ رکٹ کی بیماری میں مبتلا ہو تو ہڈی کے بڑھنے والے سرے نرم رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب بچہ کھڑا ہونا یا چلنا شروع کرتا ہے تو ہڈی کے سخت نہ ہونے کے باعث ٹانگوں میں خمیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے بچے کی جسمانی نشوونما کے سارے عرصے میں ماں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی غذا میں وٹامن ڈی موجود ہے۔ سکروی سکروی اس بیماری کا نام ہے جو خوراک میں وٹامن سی کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بیماری کی ایک سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ جسم کی ہڈیوں، چہرے اور مسوڑوں سے خون نکلتا ہے۔ ہڈیوں سے خون کے نکلتے وقت بچے کو ہلنے میں درد محسوس ہوتا ہے جب اسے اٹھایا جاتا ہے یا اس کا رومال بدلا جاتا ہے تو وہ روتا ہے اگر ایسی حالت میں اس کی ایک یا دونوں ٹانگیں یا بازو حرکت نہیں کرتے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اسے سکتہ ہو گیا ہے۔ جو بچہ سکروی کے مرض میں مبتلا ہو تو وہ ایسی غذا کے کھانے سے جس میں وٹامن سی زیادہ ہو جلد شفایاب ہو جاتا ہے سنترے، انگور اور ٹماٹر کے رس میں وٹامن سی کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ سنترے کا رس عام طور پر زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اس کو نہ تو بالا جائے نہ گرمی پہنچائی جائے۔ کیونکہ گرمی سے وٹامن سی کا جوہر ضائع ہو جاتا ہے اس کو استعمال کرنے سے پہلے باریک کپڑے میں چھان لیا جائے۔ یہ غذا روزانہ چائے کے ایک چمچہ سے شروع کی جائے۔ اس میں تھوڑا سا ٹھنڈا ابلا ہوا پانی ملا لیا جائے۔ اس کی یہ مقدار بتدریج بڑھا دی جائے تا آنکہ بچہ جب بارہ مہینے کا ہو جائے تو چار چمچے رس پی سکے جس میں پانی نہ ملایا جائے سکروی ایک ایسا مرض ہے کہ بچہ خواہ وہ کتنی ہی عمر کا ہو اس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالغ بھی اس کے حملے سے نہیں بچتے یہ مرض چھ سے پندرہ ماہ تک کے بچوں میں جو بوتل کا دودھ پیتے ہیں اکثر پایا جاتا ہے۔ تھرش تھرش ایک خود بخود پیدا ہونے والی بیماری ہے جو منہ کے اندرونی حصے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شیر خوار بچوں میں یہ زیادہ پائی جاتی ہے جب کبھی بچہ اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو چھوٹے چھوٹے سفید چھالے جو دہی کی شکل کے ہوتے ہیں بچے کے رخساروں کے اندر نظر آتے ہیں۔ زبان مسوڑوں یا ہونٹوں پر نسبتاً کم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ماں کو یہ شبہ ہے کہ بچہ تھرش کے عارضے میں مبتلا ہے تو بچے کو پانی پلانا چاہیے۔ پانی سے یہ چھالے رفع ہو جائیں گے۔ لیکن تھرش کے سفید چھالے منہ کے اندرونی حصے سے اچھی طرح چمٹے رہیں گے بچے کے منہ میں تھرش کا مادہ داخل ہوتا ہے تو گندی چیزوں کے ذریعہ سے یہ گندی چیزیں بوتل کی چوسنیوں یا باتلوں پر پائی جاتی ہیں جنہیں ابال کر صاف نہیں کیا جاتا۔ ماں کے پستانوں یا ہاتھوں پر بھی یہ خود بخود پیدا ہونے والا گندہ عنصر سے نہیں پونچھنا چاہیے یا اس کے منہ میں ربڑ کی ایسی چوسنی نہ ڈالی جائے جیسے پہلے ابال نہ لیا جائے اگر بچے کے منہ میں سفید داغ رخساروں کے اندرونی طرف چپکے ہوئے ہوں تو ڈاکٹر کو اطلاع دینی چاہیے۔ فوری علاج سے یہ بیماری جلد رفع ہو جاتی ہے۔ اگر دودھ پیتے وقت بچے کا منہ دکھتا ہے اور اسے تکلیف ہوتی ہے تو چند نوں تک دودھ چمچے یا پیالی کے ذریعے سے دینا چاہیے۔ دودھ پلانے کے بعد ہر مرتبہ بچے کو ابلا ہو پانی دینا چاہیے تاکہ اس کے منہ کے اندر سفید چھالوں کے داغ زائل ہو جائیں جب منہ میں یہ داغ نہیں رہیں گے تو تھرش کا اثر بھی زائل ہو جائے گا۔ تپ دق بچوں کو ایسے شخص سے جو ٹیوبر کلوس (تپ دق) کی بیماری میں مبتلا ہو دور رکھنا چاہیے۔ اگر بچے کی پیدائش کے وقت ماں اس بیماری میں مبتلا ہے تو اسے نہ تو بچے کو اپنا دودھ پلانا چاہیے اور نہ اس کی دیکھ بھال کا فرض اپنے ذمہ لینا چاہیے بچوں کو ایسے شخص سے بھی علیحدہ رکھا جائے جو ایسی کھانسی کے عارضے میں مبتلا ہو جو متعدی نوعیت کی ہے۔ بچوں کو ایسے بوڑھے آدمیوں سے بھی علیحدہ رہنا چاہیے جو دمہ کی کھانسی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ دمے کی کھانسی تپ دق کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ اگر بچے والے گھر کا کوئی آدمی خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا تپ دق کا بیمار ہے تو وہ یا تو اس گھر سے کسی دوسری جگہ چلا جائے۔ یا بچے کو کسی اور جگہ فوراً پہنچا دیا جائے۔ اس کے علاوہ گھر کے تمام ممبروں کا طبی معائنہ ہونا چاہیے کہ وہ تپ دق کے مرض میں مبتلا تو نہیں۔ ان حالات میں بچے کی نگرانی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں جہاں اعلیٰ ہسپتال موجود ہیں تپ دق کے علاج کے لئے ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ ایکس رے کے ذریعہ سے مریض کا طبی معائنہ کرایا جائے تو ڈاکٹر کو علاج میں زیادہ سہولت حاصل ہو گی۔ اگر بچہ اس مرض میں مبتلا ہو گیا ہے تو والدین کو بچے کے شفا یاب ہونے کی قوی امید رکھنی چاہیے بشرطیکہ وہ ڈاکٹر یا حکیم کی ہدایات کے مطابق علاج اور پرہیز کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ پت اگرچہ عام طور پر پت کے سرخ دانے بچوں کے جسم پر موسم گرما میں نکلتے ہیں لیکن اگر سردی کے موسم میں گرم کمرے کے اندر بچے کو زیادہ گرمی پہنچائی جائے یا اس کے جسم پر زیادہ کپڑے ہوں تو بچے کو پت نکل آئے گی۔ پت کے دانے بچے کی گردن بازو سینہ یا چہرے پر زیادہ نظر آتے ہیں بعض اوقات تمام جسم سرخ دانوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ پت کی حالت میں بچہ بے چینی اور چڑچڑا پن ظاہر کرتا ہے جسم پر بے بی پاؤڈر ہلکی مقدار میں استعمال کیا جائے۔ ایگزیما ایگزیما میں بچے کے جسم کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ ایگزیما یا تر ہوتا ہے یا خشک عام طور پر اس کے نشان بچے کے رخساروں پر نظر آتے ہیں لیکن جب یہ شدید نوعیت کا ہو تو ہتھیلیوں اور تلوؤں کے سوا یہ سارے جسم پر پھیل جاتا ہے۔ بچے اس بیماری میں اپنی زندگی کے ابتدائی مہینوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ بچے بھی جنہیں بوتل کے دودھ اور ماں کی چھاتی کے دودھ کے علاوہ اور غذائیں بھی دی جاتی ہیں۔ گو غذا کے اعتبار سے بچے کی حالت قابل اطمینان ہوتی ہے لیکن وہ بسا اوقات چڑچڑا نظر آتا ہے اور اسے نیند بھی اچھی طرح نہیں آتی کیونکہ جسم میں خارش کی وجہ سے وہ بے چین رہتا ہے۔ جب بچہ اگزیما کے زخموں پر ہاتھ ملتا ہے یا انہیں چھیلتا ہے تو یہ اور زیادہ تکلیف دیتے ہیں اور متعدی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس خیال سے کہ بچہ اپنے منہ کے زخموں کو چھیلنے نہ پائے اس کی کہنیوں کو کسی مضبوط گتے سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ اس کے ہاتھ چہرے تک نہ جا سکیں۔ اسی طرح اس کے بازوؤں کو چارپائی کے بازو کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے جسم کو نہ چھیل سکے۔ اس کے ناخن بھی کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ علاج کے لئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچہ کون سی خوراک کی طرف زیادہ مائل ہے یا وہ کس خوراک کو رغبت سے کھاتا ہے۔ لیکن جن غذاؤں کا وہ عادی ہے ان کے بند کر دینے کے بعد بھی اس کا جسم ایگزیما کے زخموں سے اس وقت تک شفایاب نہیں ہو سکتا جب تک بدن کے زخم چھلنے صابن کے استعمال کرے اور کپڑے پہننے کے علاوہ پانی ہوا یا دوسری چیزوں کی وجہ سے تروتازہ رہیں گے اس لئے بچے کے شفایاب ہونے کی صرف یہی صورت ہے کہ بچہ ڈاکٹر کی براہ راست نگرانی میں رہے تاکہ اس کی ہدایت کے مطابق بچے کو خوراک دی جائے اور اس کا علاج کیا جا سکے۔ بعض اوقات جسم میں کسی خاص مادے کے پھوٹ پڑنے کے باعث غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بچہ ایگزیما کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس لئے اسے اہم اور ضروری غذاؤں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بچے کے ہونٹوں پر جو پھنسیاں نکل آتی ہیں ان کی نسبت اس امر کا امکان ہے کہ وہ اس سوزش کی وجہ سے ہوں جو پھلوں کی خوراک جیسی غذا سے پیدا ہوتی ہیں۔ ایسا بچہ بغیر کسی تکلیف کے غذا کھا سکتا ہے۔ بشرطیکہ غذا جسم کے ماؤف حصے پر نہ گرے۔ متعدی پھنسیاں یہ ایک متعدی جلدی بیماری ہے۔ ابتداء میں یہ چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ پھوٹ پڑنے پر یہ زرد نظر آتی ہیں اور سخت یعنی ٹھوس زخم کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ حتیٰ کہ سر کی چندیا بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہتی یہ بیماری ان اشخاص اور عام طور پر ان بچوں کے ذریعہ سے پھیلتی ہے جو ا س میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اس قدر متعدی ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ متعدی پھنسیاں جب جسم کے ایک حصے پر نکلتی ہیں تو دوسرے حصوں پر بھی پھیل جاتی ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھوں پر یہ پھنسیاں نکلتی ہیں تو جو رطوبت ان سے خارج ہوتی ہے اس سے تولیے اور دوسری چیزیں محفوظ نہیں رہ سکتیں اس بیماری کے جراثیم صرف اسی صورت میں ہلاک ہو سکتے ہیں کہ تولیوں منہ پونچھنے کے کپڑوں اور بستر کے ان کپڑوں کو جنہیں اس متعدی بیماری والے مریض استعمال کرتے رہے ہیں یا تو دھر ڈالا جائے یا ان پر گرم استری پھیری جائے یا انہیں ابالا جائے۔ بچے کو اس بیماری سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے اس شخص سے دور رکھا جائے جس کے بدن پر پھنسیاں ہوں۔ اگر بچے کے جسم پر یہ پھنسیاں نکل آئی ہیں تو اس امر کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ وہ ان پھنسیوں کو چھیلنے نہ پائے۔ کیونکہ چھیلنے سے پھنسیاں اور زیادہ پھیل جائینگی جن سے بچے کو تکلیف ہو گی۔ بچے کی انگلیوں کے ناخن اگر بڑھے ہوئے ہوں تو انہیں کٹوا دینا چاہیے ڈاکٹر سے اس بیماری کے متعلق ضرور مشورہ لیا جائے۔ بچہ بہت جلد شفایاب ہو سکتا ہے بشرطیکہ زخموں پر دوا لگانے سے پہلے انہیں گرم پانی سے جس میں صابن ملا ہوا ہو اچھی طرح تر کر لیا جائے۔ قبض قبض کو بیماری نہیں سمجھنا چاہیے یہ بے اعتدالی کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے اس کے کئی اسباب ہیں، جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔ ۱۔بچے کو ضرورت سے زیادہ خوراک دی جاتی ہے۔ ب۔ بچے کو ضرورت سے کم خوراک کھلائی جاتی ہے۔ ج۔ غذا میں پینے والی چیز کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ د۔ بچے کے جسمانی اعضا یعنی ہاتھ پیر حرکت میں نہیں آتے۔ ہ۔ دواؤں کا زیادہ استعمال قبض کا علاج یہی ہے کہ غذا ٹھیک ہو اور بچے کو ضرورت کے مطابق دی جائے۔ بچے کو پینے کی چیز زیادہ مقدار میں دی جائے خوراک میں تھوڑی سی چینی بڑھا دی جائے۔ بچے کو کھیل کود کی طرف راغب کیا جائے۔ پھلوں کا رس چائے کے ایک یا دو چمچوں کے برابر دیا جائے۔ا گر قبض شدید قسم کا ہو تو دائیں طرف پسلیوں کے نیچے پیٹ پر اوپر سے نیچے اور پھر نیچے سے اوپر تک مالش کی جائے لیکن اگر اس طریق سے قبض رفع نہ ہو تو پھر ڈاکٹر کو اطلاع دینی چاہیے جب تک ڈاکٹر مشورہ نہ دے بچے کا قبض رفع کرنے کے لئے اسے کوئی جلاب نہ دیا جائے نہ اینیما کیا جائے اور نہ ’’ سوپ سٹک‘‘ استعمال کی جائے۔ کیونکہ اینیما اور ’’ سوپ سٹک‘‘ سے کم سن مریض بے چینی محسوس کرتا ہے بچے میں سستی اور کاہلی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور مرض میں کوئی ازالہ نہیں ہوتا بلکہ اس امر کا اندیشہ ہے کہ اگر اینیما یا ’’ سوپ سٹک‘‘ کا استعمال جاری رکھا جائے تو بچہ اس طریق علاج کا عادی نہ ہو جائے۔ عادی ہو جانے کی صورت میں یہ عمل جاری رکھنا پڑے گا۔ دوائیں بچے کو جو دوا دی جائے وہ پہلے ایسے چمچے میں ڈالی جائے جس میں مقدار کے اعتبار سے نمبر لگے ہوئے ہوں تاکہ دوا صحیح مقدار میں دی جائے۔ چمچے سے یہ دوا پیالی میں ڈال لی جائے۔ اگر بچہ جاگتا ہو تو دوا ہمیشہ اسے وقت پر دی جائے لیکن جب تک ڈاکٹر اجازت نہ دے بچے کو کبھی جگا کر دوا نہ پلائی جائے۔ اگر ایک دو خوراکوں کے بعد بھی بچے کی حالت ناقابل اطمینان ہے تو دوا نہیں دینی چاہیے اور ڈاکٹر کو مریض کی کیفیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اگر دوا بدمزہ ہے تو بچے کو پہلے بتا دینا چاہیے اور دوا پینے کے بعد اسے کوئی میٹھی چیز دینی چاہیے۔ جب بچہ کھانسی کے مرض میں مبتلا ہو تو اسے چمچے کے ذریعے سے ٹھنڈا پانی اس طرح پلایا جائے جس طرح چائے پی جاتی ہے۔ اسے گرم دودھ بھی پلایا جائے۔ چمچے کے ذریعہ سے تھوڑا سا شہد بھی کھلایا جائے۔ اس کے سر کے نیچے اور تکیہ رکھ دیا جائے یا اسے کسی اور جگہ لٹا دیا جائے۔ ان طریقوں سے بھی کھانسی رفع ہو سکتی ہے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End