آب حیات محمد حسین آزاد زبان اردو کی تاریخ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری زبان اردو ، برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے ۔ لیکن وہ ایسی زبان نہیں کہ دنیا کے پردے پر ہندوستان کے ساتھ آئی ہو۔ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پنجاب میں اب قطعے قطعے کی زبان کہیں کچھ کچھ اور کہیں بالکل اختلاف رکھتی ہے اوریہی حال اوراضلاع ہند میں ہے۔ اسی طرح اس عہد میں بھی اختلاف ہو گا اور اس عہد کی نامی زبانیں وہ ہوں گی جن کی نشانی تامل‘ اوڑیا اورتیلگو وغیرہ اضلاع دکن اور مشرق میں اب تک یادگار موجود ہیں۔ بلکہ اس حالت میں بھی ان کی شاعری اور انشاء پرداز ی کہتی ہے کہ یہ گٹھلی کسی لذیذ میوے کی ہے اور سنسکرت سے اسے لگائو تک نہیں۔ فتح یابوں نے ہندو کش کے پہاڑ سے اتر کر پہلے تو پنجاب ہی میں ڈیرے ڈالے ہوں گے پھر جوں جوں بڑھتے گئے ہوں گے اصلی باشندے کچھ تو لڑتے مرتے دائیں بائیں جنگلوں میں گود اور پہاڑوں کے دامن میں گھستے گئے ہوں گے کچھ بھاگے ہوں گے وہ دکن اور مشرق کو ہٹتے گئے ہوں گے کچھ فتح یابوں کی غلامی اور خدمت گاری میں کام آئے ہوں گے اور وہی شودر کہلائے ہوں گے ۔ چنانچہ ابھی تک ان کی صورتیں کہے دیتی ہیں کہ یہ کسی اوربدن کی ہڈی ہیں۔ مدت درا زتک ایران بھائیوں کے کاروبار ہندوستانی بھائیوں کے ساتھ ساتھ لے جلے رہے ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ ایران کی تاریخ قدیم میں مہ آباد اور اس کے زمانے کی تقسیم برہما کے زمانے اور اس کے رسوم و قواعد کے مطابقت دکھاتی ہے اور چاروں برنوں کا برابر پتہ لگتاہے۔ یہاں بدھ نے انہیں توڑا اور وہاں زرتشت کے مذہب نے اسے جلال کر خاک کر دیا۔ مگر ہندوئوں نے بدھ کے بعد پھر اپنے حال کو سنبھال لیا۔ ایرانی اپنی بدحالی کو نہ سنبھال سکے۔ چاروں برنوں کی تقسیم اور ان کا الگ تھلگ رہنا دور کے دیکھنے والوں کو غرور کے لباس میں نظر آیا۔ مگر حق پوچھو تو یہ کچھ بری بات نہ تھی۔ اسی کی برکت ہے کہ آج تک چارو ں سلسلے صاف الگ الگ چلے آتے ہیں۔ جو ہندو ہو گا ماں باپ دونوں کی طرف سے خالص ہو گا۔ اور برابر اپنی قوم کا پتا بتا سکے گا۔ جو دوغلا ہو گا اسا کا سلسلہ الگ ہو جائے گا۔ اگر یہ قیدیں اس سختی سے ساتھ ہ ہوتیں تو تمام نسلیں خلط ملط ہوجاتیں۔ نجیب الطرفین آدمی چاہتے توڈھونڈنے سے نہ ملت۔فتحیابوں کی ان سخت قیدوں نے آپس کی بندشوں میں عجیب طرح کے پھندے ڈالے۔ چنانچہ سب نسلوں کی حفاظت کا پورا بندوبست کر چکے تو خیال ہوا کہ شودروں کے ساتھ آٹھ پہر بات چیت رہنے سہنے اور لین دین کرنے میں بزرگوں کی زبان دوغلی ہو جائے گی اس واسطے کہاکہ ہماری زبان زبان الٰہی ہے۔ اور الٰہی عہد سے اسی طرح چلی آتی ہے۔ چنانچہ اس کے قواعد او راصول باندھے اور ایسے جانچ کر باندھے‘ جن میں نقطے کا فرق نہیں آ سکتا۔ اس پاکیزگی نے غیر لفظ کو اپنے دامن میں ناپاک دھبا سمجھا اور سوا برہمن کے دوسرے کی زبان بلکہ کان تک گزرنا بھی ناجائز ہوا۔ اس سخت قانون نے یہ بڑا فائدہ دیا کہ زبان ہمیشہ اپنی اصلیت اور بزرگوں کی یادگار کا خالص نمونہ نمایاں کرتی رہے گی۔ برخلاف ایرانی بھائیوں ے ان کے پاس زبانی سند بھی نہ رہی۔ اسی بنیاد پر فتحیابوں کی بلند نظری نے اس کا نام سنسکرت رکھا۔ جس کے معنی آراستہ پیراستہ منقیٰ منزہ صفا مقدس جو چاہے سمجھ لو۔ ان کے قواعد زبان بھی ایسے ہی مقدس ہوئے کہ بزرگان دین ہی اسے پڑھائیں تو پڑھائیں بلکہ اس طرح پکار کر پڑھناا بھی گناہ ہوا کہ شودر کے کان میں آواز پڑے اس زبان کا نا مدیو بانی ہوا۔ یعنی زبان الٰہی زبان شاہی دید کے سنہ ترتیب جس سے اس عہد کی زبان کا پتہ چلے گا۔ ۱۴ سو برق قبل سنہ عیسوی خیال کرتے ہیں۔ اس وقت ان فتح یابوں کی باتیں اس ملک اورملک والوں کے ساتھ ایسی سمجھ لو جیسے ہندوستان میں پہلے پہلے مسلمانوں کی حالتیں ان کے سنسکرت زبان کے مخرج اور تلفظ یہاں کے لوگوں میںآ کر کچھ اور ہو گئے ہوں گے۔ اس لیے گھروں اور بازاروں میں باتیں کرنے کو قطعے قطعے میں پراکرت زبانیں جو خود بخود پیدا ہو گئی ہوں گی۔ جیسے اسلام کے بعد اردو چنانچہ ماگدھی (پالی) سورسینی‘ مہاراشٹری وغیرہ قدیمی پراکرتیں اب بھی اپنی قدامت کا پتا بتاتی ہیں۔ ان کی سیاہی میں سینکڑوں لفظ سنسکرت کے چمکتے نظر آتے ہیں۔ مگر بگڑے ہوئے ہیں۔ دیکھا! پرکت کے معنی ہیں طبیعت اور جو طبیعت سے نکلے چنانچہ ہیم چند لغات سنسکرت کا جامع بھی یہی کہتا ہے۔ اس کے علاوہ سنسکرت مہذب اور مقدس اور پراکرت غیر مہذب لوگوں کو کہتے ہیں۔ پس ایسی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فہمیدہ لوگ ہیں۔ ہر بات کو خوب سمجھتے تھے اور جو کچھ انہوںنے کیا سمجھ کر کیا۔ راجہ بھوج کے عہد کی ناستک پستکیں کہتی ہیں کہ ان عہدوں میں علمی کتابی اور مادری زبان تو سنسکرت تھی مگر چونکہ معاملہ خاص و عام سے پڑتا ہے اس لیے گفتگو میں پنڈتوں کو بھی پراکرت ہی بولنی پڑتی ہے۔ پراکرت صاف سنسکرت کی بیٹی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں ہزاروں لفظ سنسکرت کے ہیں اور ویسے ہی قاعدے صرف و نحو کے بھی ہیں۔ سنسکرت کی اتنی حفاظت ہوئی پھر بھی منو سمرتی دیدوں کی ترتیب سے کئی سو برس بعد لکھی گئی تھی اس میں اور وید کی زبان میں صاف فرق ہے اوراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ لیکن چونکہ سلطنت اور معتبر تصانیف پر مذہب کا چوکیدار بیٹھا تھا۔ اس لیے نقصان کا بہت خطرہ نہ تھا کہ دفعتاً ۵۴۳ برس قب عیسوی میں بدھ مذہب کے بانی شاک منی پیدا ہوئے۔ وہ مگدھ دیس سے اٹھے تھے ااس لیے وہیں اس کی پراکرت میں وعظ شروع کیا۔ کیونکہ زیادہ تر کام عوام سے تھا۔ عورت مرد سے لے کر بچے بوڑھے تک یہی اس دیس کی زبان تھی۔ ان کی آتش بیانی سے مذہب مذکور ایسا پھیلنا شروع ہوا جیسے بن میں آگ لگے۔ دیکھتے دیکھتے دھرم حکومت رسم و رواج دین آئین سب کو جلا کر خاک کر دیا اور مگدھ دیس کی پراکرت کل دربار اور کل دفتروں کی زبان ہو گئی اقبال کی یاوری نے عوم و فنون میں بھی ایسی ترقی دی کہ تھوڑے ہی دنوں یں عجیب و غریب کتابیں تصنیف ہو کر اسی زبان یمں علوم کے کتب خانے سج گئے اور فنون کے کارخانے جاری ہو گئے۔ کہیں کہیںکونے گوشے میں جہاں کے راجہ دید کو مانتے رہے۔ وہاں دیدوں کااثر رہا۔ باقی راج دربار اور علمی سرکار سب ماگدھی ہی ماگدھی ہو گئی ان کے حوصلے وسیع ہوکر دعوے پڑھے اور بآواز بلند کہہ دیا کہ ابتدائے عالم سے تمام زبانوں کو اصل ماگدھی ہے۔ برہمن اور کل انسان بات کرنے کے لائق بھی نہ تھے۔ اصل میں ان کی بھی اور قادر مطلق بدھ کی زبان یہی ہے۔ اس کی صرف و نحو کی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں۔ خدا کی قدرت دیکھو جو لونڈی تھی وہ رانی بن بیٹھی اوررانی منہ چھپا کر کونے میں بیٹھ گئی۔ زمانے نے اپنی عادت کے بموجب (تخمیناً ۱۵ سو برس بعد) بدھ مذہب کو بھی رخصت کیا اور اس کے ساتھ اس کی زبان بھی رخصت ہوئی۔ شنکر اچارج کی برکت سے برہمنوں کا ستارہ ڈوبا ہوا پھر ابھر کر چکا اور سنسکرت کی آب و تاب بھی شروع ہوئی۔ راجہ بکر ماجیت کے عہد می جو روشنی اس کی فصاحت نے پائی۔ آج تک لوگوں کی آنکھوں کا اجالا ہے ۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دربار سلطنت اور اعلیٰ درجے کے لوگوں کو سنسکرت سے بولنا اعتبار و افتخار کی سند تھا اور پراکرت عوام کی زبان تھی۔ کیونکہ اس عہد میں کالی داس ملک الشعراء نے شکنتلا کا ناٹک لکا ہے سبھا میں دیکھ لو بادشاہ امراء اور پنڈت سنسکرت بول رہا ہے۔ کوئی عام آدمی کچھ کہتا ہے تو کوئی پراکرت میں کہتا ہے۔ گیارہویں صدی عیسویں سے پہلے راجہ بھرت کے عہد میں برج ے قلعے کی وہ زبان تھی۔ جسے ہم آج کی برج بھاشا کی اصل کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت بھی ہر قطعے میں اپنی اپنی بولی عام لوگوں کی حاجت روائی کرتی تھی او رسنسکرت تصنیفات اور خواص کی زبانوں کے لیے برکت تھی کہ دفعتاً زمانے کے شعبدہ باز نے ای اوررنگ بدلا یعنی اسلا م کا قدم ہندوستان آیا ۔ اس نے پھر ملک و مذہب کو نیا انقلاب دیا اور اسی وقت سے زبان کا اثر زبن پر دوڑنا شروع ہو گیا۔ سنسکرت اور اصل فارسی ژند داستا کی زبان ایرین کے رشتے سے ایک دادا کی اولاد ہیں مگر زمانے کے اتفاق دیکھوکہ خدا جانے کے سو برس یا کے ہزار برس کی بچھڑی ہوئی بہنیں اس حالت سے آ کر ملی ہں کہ ایک دوسری کی شکل نہیں پہچان سکتی۔ ہندوستانی بہن کی کہانی تو سن چکے اب ایرانی بہن کی داستان بھی سن لو کہ وس پر وہاں کیا گزری۔ اول تو یہی قیاس کرو کہ اس ملک نے جو ایران نا م پایا شاید وہ لفظ ایراین ہی کی برکت ہو۔ پھر ہی بھی کچھ تھوڑے تعجب کا مقام نہیں کہ جس طرح ہندوستانی بہن پر وقت بوقت بدھ مت وغیرہ کے حادثے گزرے اسی طرح اس پر بھی وہاں انقلاب پڑتے رہے۔ باوجود س کے اب تک ہزاروں لفظ فارسی اور سنسکرت کے صاف ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ ایرانی بہن جب اس ملک میں جا کر بسی ہو گی اول تومدت تک ان کے مذہب رسم و رواج اور زبانی جیسے تھے۔ ویسے ہی رہے ہوں گے۔ مگر اس زمانے کی کوئی تصنیف ہاتھ نہیں آئی۔ کچھ ٹوٹا پھوٹا پتا ملتا ہے۔ توزرتشت کے وقت سے ملتا ہے جسے آج تخمیناً ۲۴ سو برس ہوئے۔ اس نورانی موحد نے شعلہ آتش کے پردے یں توحید کے مسئلے کو رواج دیاا۔ مذہب مذکور نے سلطنت کے بازوئوں سے زور پکڑا اور ایران سے نکل کر دو سو برس کے قریب اطراف و جوانب کو دبا تا رہا۔ یہاں تک کہ یونان سے سکندر طوفان کی طرح اٹھا اور ایشیا کے امن و امان کو تہہ و بالا کر دیا۔ جو مصیبت بدھ کے ہاتھ سے بید شاستر پر پڑی تھی۔ وہاں وہی مصیبت شند استا پر آئی۔ چنانچہ جس آگ نے زرتشت اور جاما سپ کے تبرک ہاتھوں سے آتش خاانوں کو روشن کی اتھا۔ جس کے آگے گشاتسپ نے تاج اتار کر رکھاتھا۔ جس کی درگاہ میں اسفند یار نے گرز اور تلوار چڑھائی اور یونانی ے آب شمشیر سے بجھائی گئی اور آتش خانے راکھ ہو کر اڑ گئے۔ افسوس یہ ہے کہ ژند و پازند کے ورق ورق برباد کیے گئے اورہزاروں کتابیں فلسفہ الٰہی اور علون و فنون کی تھیںخہ نابود ہو گئیں۔ جب کہ یونانیوں نے ملک پر غلبہ پایا تو زبان نے زبانوں پر بھی زور دکھایا ہو گا تھوڑ ے ہی دلوں میں پارتھیا والوں کا عمل دخل ہو گیا۔ وہ ایران جیسے ہزاروں برس سے کملک گیری کے نشان سلامی اتارتے تھے اور تہذیب و شائستگی اس کے دربار میں سر جھکاتے تھے۔ پانچ سو برس تک ظفر یابو ں کے قبضے میں دبا رہا اورزندگی کی کتب مقدسہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر فنا کی گئیں۔ ۲۰۰ء یں پھر تن بے جان میں سانس او ر ساسانیوں کی تلواروں میں قدیمی اقبال نے چمک دکھائی۔ ان بادشاہوں نے ملک و ملت کی قدامت کے ساتھ بجھے ہوئے مذہب کو بھی روشن کیا۔ گرے ہوئے آتش خانوں کو پھر اٹھایا اور جہاں جہاں سے پھٹے پرانے اوراق پریشان ہاتھ آئے بہم پہنچائے۔ ان ہی کی کوششوں کی کمائی تھی جو پھر ساڑھے چار سو برس بعد علم اسلام کے قربان ہوئی اس معاملے میں ہمیں نیک نیت پارسیوںکا شکریہ نہ بھولنا چاہیے ۔ کیونکہ باوجود تباہی کے خانہ بربادی کے جو پرانا کاغذ کسی بااعتقاد کے ہاتھ آیا۔ وہ جا ن کے ساتھ ایمان کو بھی لیتا آیا کہ بند ر سورت گجرات وغیرہ ملکوں میں آج تک اسی نور سے آتش خانے روشن ہیں۔ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ ان تصنیفاات کا بقیہ ہے جو ساسانیوں کے عہد میں ہوئیں۔ کتب مذکور دونوں زبانوں ککا لفظی اتفاق ہی نہیں ثابت کرتیں۔ بلکہ ان کے نئے اتحاد و اعتقاد پر بھی شہادت دیتی ہیں۔ جو چار برن ہندوئوں میں وہی ایران میں تھے۔ اجرام آسمانی کی عظمت واجب تھی۔ حیوانات بے آزاد کا مارنا گناہ عظیم تھا تناسخ کا مسئلہ دونوں میں یکساںنظر آتا تھا۔ آتش‘ آب خاک باد‘ ابر ‘ بجلی‘ گرج‘ ہوا وغیرہ وغیرہ اشیاء کے لیے ایک ایک دیوتا مانا ہوا تھا۔ جس کے اظہار عظمت کے لیے خاص خاص طریقے تھے۔ یاد الٰہی کے زمزمے تھ جس کو وہ اپنی اصطلاح میں گاتھا کہتے تھے۔ یہی وہ لفط ہے جس کے نام پر یہاں گیتا کتاب ہے۔ کیونکہ اس میں بھی یاد الٰہی کے گیت ہیںَ فارسی مروجہ کے چند الفاظ تمثیلا لکھتا ہوں کہ سنسکرت سے ملتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ فارسی سنسکرت فارسی سنسکرت پدر پتر برابر بھراتر پور پتر دختر دوہتر مادر ماتر انگشت انگشٹ زانو جانو پا پائو بار بھار بیم بھئے بوم بھوم خاشاک کشیا اسپ اشو خر کھر ایرانی بہن پر ایران میں پہلے اسلا کے ہاتھ سے وہ صدمہ گزر تھا جو یہاں دو سو برس کے بعد گزرا اور اس سے اس کی حیثیت بالکل بدلی گئی تھی۔ بہرحال یہی وہ ایسی حالت کے ساتھ پہنچی کہ عربی اور ترکی الفاظ اور بہت سے لفظی اور ترکیبی تبدیلیوں کے سبب سے اس کی صورت نہ پہچانی جاتی تھی۔ یہاں جو مسلمان آئے وہ آپس میں وہی رائج الوقت فارسی بولتے تھے۔ اور ہندوئوں سے ہندی کے الفاظ ملا جلا کر گزرہ کر لیتے تھے۔ ادھر سنسکرت تو دیوبانی یعنی زبان آسمانی تھی۔ اس میں ملکش کو دخل کہاں؟ البتہ برج بھاشا نے اس بن بلائے مہمان کو جگہ دی ۔ دھرم دان ہندو سالہا سال تک ملیکش بھاشا سمجھ کر غیر زبان سے متنفر رہے۔ مگر زبان کا قانون دھرم اور حکمت کے قانون سے بھی سخت ہے کیونکہ اسے گھڑی گھڑی اور پل پل کی ضرورتیں مدد دیتی ہیں۔ جو کسی طرح بند نہیں ہوتیں۔ غرض آٹھ پہر ایک جگہ کا رہنا سہنا لین دین کرنا تھا لفظوں کے بولے بغیر گزارہ نہ تھا۔ دو قوموں کے ارتبط میں ایسا اختلاط ضرور ہوتا ہے اور اس کے کئی سبب ہیں۔ اول: تو یہ کہ اکثر نئی چیزیں ایسی آتی ہیں کہ جو اپنے نام کے ساتھ لاتی ہیں۔ دوم: اکثر معانی ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں انہی کی زبان میں کہیں تو ایک لفظ میں ادا ہو جاتے ہیں ترجمہ کریں تو ایک فقرہ بنتا ہے۔ پھر بھی نہ وہ مزہ آتا ہے نہ مطلب کا حق ادا ہوتا ہے اس صورت میں گویا قانون زبان اور آئین بیان مجبور کرتاہے کہ یہاں لفظ وہی بولنا چاہیے دوسرا لفظ بولنا جائز نہیں۔ سوم: جو لوگ اکثر غیر ملکوں میں سفر کرتے ہیں وہ اس لطف کو جانتے ہیں کہ جب دو غیر زبان والے ایک جگہ رہتے ہیں تو کبھی کام کاج کی شدت مصروفیت میں کبھی اس عالم میں ضروری بات جلد ہی کہہ دینے کی غرض سے کبھی آسانی سے مطلب سمجھانے کو اایک دوسرے کے لفظ خواہ مخواہ بول جانے پڑتے ہیںَ کہ بے اس کے گزارہ نہیں ہوتا۔ چہار م: پھر جب ایک جگہ رہ کر شیر و شکر ہوتے ہیں تو اکثر پیار محبت سے کبھی آپس میں دل لگی کے لیے ایک دوسرے کے لفظ بول کر جی خوش ہوتاہے۔ جس طرح دوست کو دوست پیارا ہوتاہے اسی طرح اس کے لفظ بھی پیارے معلوم ہوتے ہیں یا یوں سمجھو کہ جس طرح وطن دار اپنے مہمانوں کے رہنے کو جگہ دیتے ہیں اسی طرح زبان ان کی زبان مہمان لفظوں کو جگہ دیتی ہے۔ پنجم: بڑی بات یہ ہے کہ فتحیابوں کے اقبال کی چمک ان کی بات بات کو بلکہ لباس دستار رفتار گفتار کو بھی ایسی آب و تاب سے جلوہ دیتی ہے کہ وہی سب کی آنکھوں میں بھلے معلوم ہوتے ہیں اور لوگ اسے فقط اختیار ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ پھر اس میں بہت سے فوائد بھی عقلی دلائل سے پیدا کرتے ہیں۔ اس زمانے کے عہد بعہد کی ہندی تصنیفیں آج نہیں ملتیں جن سے وقت بوقت اس کی تبدیلیوں کا حال معلوم ہو البتہ جب ۱۹۳ء میں شہاب الدین غوری نے رائے پتھورا پر فتح پائی تو چند کوئی (ایک نامی شاعر) نے پرتھی راج راسا لکھا اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زبان مذکورنے کتنا عربی فارسی کے اثر کو قبول کر لی اہے ہر صفحے پر کئی کئی لفط نظر آتے ہیں ساتھ ہی یہ معلوم ہوتاہے کہ اس وقت میںیہاں کی بھاشا بھی کچھ اور بھاشا تھی۔ …سنسکرت… …سنسکرت… …سنسکرت… یہ اگرچہ مختلف جگہ کے ٹکڑے ہیںَ مطلب ان کا اصل کتاب کے دیکھنے سے کھلتا ہے۔ مگر حرف شناس آدمی بھی اتنا جان سکتا ہے کہ یہ لفظ عربی فارسی کے اس میں موجود ہیں۔ محل ‘ پروردگار‘ پگام(پیغام) ‘ کریم سرطان (یعنی سلطان) بات شاہ(بادشاہ) دیوان‘ خلک(خلق) عالم حجرت(حضرت) ملک۔ پہرمان (فرمان) سلام۔ ترجمہ اور تصنیف کے تجربہ کار جانتے ہیں کہ ان می عبادت میں کسی زبان کا اصل لفط جو اپنا مطلب لیتا جاتاہے۔ سطر سطر بھر عبارت یں ترہ کریں تو بھی وہ بات حاصل نہیں ہوتی جو مجموعہ خیالات کا اور اس کے صفات و لوازمات کا اس کا ایک لفط سے سننے والے کے سامنے آئینہ ہو جاتا ہے ۔ وہ ہماری سطر بھر سے پورا نہیں ہوتا۔ مثلاً چند کوی اپنی نظم میں سلطان کی جگہ اگر راجہ ملکہ مہاراجہ لکھ دیتا ہے تو بھی جو صفات اور اس کے لوازمات نیک یا بد رحم یا عدل زور یا ظلم یہ لفظ اس کی نظم میں دکھا رہاہے۔ وہ بات راجہ مہاراجہ سے ممکن نہیں۔ اسی طرح لفظ سلا م کہ ا س کے مطلب کا حق خواہ ڈنڈوت خواہ پرنام کوئی لفظ ادا نہیں کر سکتا۔ نظیر اس کی انگریزی کے فظ میں سینکڑوں لفظ ہیں۔ اگر ترجمہ کریں تو سطروں میں بھی مطلب پورا نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک ہندوستانی شخص اپنے دوست سے کہتا ہے لاٹ صاحب چھ بجے سٹیشن پر پہنچیں گے۔ پروگرا م کے بموجب شہر کی سیر کریں گے ۵ بجے آنا وہیں چل کر تماشا دیکھیں گے۔ اب خواہ صحیح خواہ بگڑے مگرجواصلی لفظ اپنے آپ معنی سننے والے کو سمجھا رہے ہیںَ کئی کئی سطروں میں ترجمہ کیے جائیں تو بھی حق مطلب بجا نہ لا سکیں گے۔ آخر پندرہ صدی عیسوی میں کہ سکندر لودی کا زمانہ تھا اتنا ہوا کہ اول کایستھ فارسی پڑھ کر شاہی دفتر میں داخل ہوئے اور اب ان لفظوں کو ان کی زبانوں پر اانے کا زیادہ موقع ملا۔ رفتہ رفتہ اکبر کے عہد سے کہ مسلمان شیر و شکر ہو گئے ۔یہ نوبت ہوئی کہ ادھر بادشاہ اور اس کے اعلیٰ درجہ کے اہل دربار نے جبہ و دستاار کے ساتھ ڈاڑھیوں کو خدا حافط کہا اور جامے پہن کرکھڑکی دار پگڑیاں باندھ کر بیٹھ۔ ادھر ہندو شرفا بلکہ راجہ مہاراجہ ایرانی لباس پہنے اور فارسی بول سکنے پر فخر کرنے لگے۔ بلکہ مرزا کے خطاب کو بڑے شوق سے لینے لگے۔ اب جس قدر ممکن ہے عہد بعہد کی زبانوں کے نمونے دکھاتا ہوں۔ امیر خسرو جو کہ ۷۲۵ھ ۱۳۲۵ء میں فوت ہوئے ان کی ایک غزل نظم اردو کی تاریخ میں دیکھیں۔ جس کا پہلا مصرع ہے ۔ زحال مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں اس سے آ پ کو کچھ کچھ حال اس وقت کی زبان کابھی معلوم ہو گا خالق باری بھی انہیں کے مخلوقات فکر سے ہے باریک بین اشخاص اس سے بھی بہت سے الفاظ اور فقرے دیکھ کر یہ نکتے سمجھ سکتے ہیں: بیا برادر آئورے بھائی ہنشیں مادر بیٹھ ری مائی ایک مجرب نسخہ آنکھوں کا دوہروں کی بحر میں کہتے ہیں: لود پھٹکری مردہ سنگ ہلدی زیرہ ایک ایک ٹنگ افیون چنا بھر مرچیں چار ارد برابر تھوتھا ڈار پوست کے پانی پوٹلی کرے ترت پیڑ نینوں کی ہرے نظم اردو کی تاریخ میں ان کی عمدہ پہیلیاں مکرنیاں دو سخنے انمل مینے لکھ دیے ہیں۔ انہیں دیکھ اور خیال کرو کہ بحریں دوہروں کی ہیں مگر فارسیت کس قدر اپنا زور دکھا رہی ہے۔ ہندو شاعروں کے دوہرے برج بھاشا میں ہیں مگر عہد بعہد کی زبان کا پتا بتااتے ہیں۔ چنانچہ سکندر لودی کے زمانے میں کبیر شاعر بنارس کے رہنے والے علم میں ان پڑھ تھے۔ گرورامانند کے چیلے ہو کر ایسے ہوئے کہ خود کبیر پنتھیوں کا مت نکالا۔ تصنیفات اگر جمع ہوں تو کئی جلدیں ہوں ۔ ان کے دوہروں میں فارسی عربی کے لفظوں کو دیکھو۔ دین گو ایودنی سے دنی نہ آئیو ہاتھ پیر کہاڑی ماریو گا پھل اپنے ہاتھ کبیر سریر سرائے ہے کیوں ہوئے سکھ چین کوچ نگارا سانس کا باجت ہے دن رین گرونانک صاحب کی تصنیفات بہت کچھ ہیں۔ اگرچہ خاص قطعہ پنجاب کی زبان ہے مگر جس بہتات سے ا ن کے کلام میں عربی فارسی کے لفظ ہیں اتنے کسی کلام میںنہیں۔ اور چونکہ ۹۰۰ھ کے بعد فوت ہوئے تو اس کے چار سو برس پہلے کی پنجابی کا نمونہ بھی معلوم ہو سکتا ہے: دوہرا: سانس ماس سب جیو تمہارا تو ہے کہرا پیارا نانک شاعر ایوکہت ہے سچے پروردگارا بلکہ اکثر چیزیں وظیفہ عبادت کے طور پر ہیںَ ان میں بھی الفاظ مذکورہ اسی کثرت سے نظر آتے ہیں۔ جپ جی کے دو فقرے دیکھو: وارن جائوں ان ایک بار تو سدا سلامت جی نرنکار مسلمان بھی اس زمانے میں یہاں کی زبان سے محبت رکھتے تھے۔ چنانچہ سولہویں صدی عیسوی شیر شاہی عہد میں ملک محمد جالسی ایک شاعر ہوا ہے۔ اس نے پدماوت کی داستان نظم کی۔ اس سے عہد مذکور کی زبان ہی نہیں معلوم ہوتی بلکہ ثابت ہوتاہے کہ مسلمان اس ملک میں رہ کر یہاں کی زبان کو کس پیار سے بولنے لگے تھے۔ اس کی بحر بھی ہندی رکھی ہے اور ورق کے ورق الٹتے چلے جائو فارسی عربی کا لفظ نہیں ملتا۔مطلب اس کا آج مسلمان بلکہ ہندو بھی تو نہیں سمجھتا۔ کتاب مذکور چھپ گئی ہے اور ہر جگہ مل سکتی ہے ۔ اس لیے نمونہ نہیں لکھتا۔ ہمایوں نے جب گجرات دکن پر فوج کشی کی تو سلطان بہادر کا وہاں کا بادشاہ تھا اور جانپانیر کا قلعہ بڑا مستحکم تھا کہ سلطان خود بھی وہاں رہتا تھا اورتمام خزائن و دفائن وہیں رکھتا تھا محاصرے کے وقت رومی خاں میر آتش(باوجودیکہ معتبر اور مصاحب منظور نظر سلطان کا تھا) ہمایوں سے مل گیا اور قلعہ (تمام نفائس اموال اور خزائن بے حساب سمیت ) ہمایوں کے قبضے میں آیا۔ سلطان بہادر کے پاس ایک طوطا تھا کہ آدمی کی طرح باتیں کرتاا تھا اور سمجھ کر بات کا جواب دیتا تھا سلطان اسے ایسا چہتا تھا کہ سونے کے پنجرے میں رکھاتھا اورایک دم جدا نہ کرتاتھا۔ وہ بھی لوٹ میں آیا جب دربار میں لائے رومی خاں بھی موجود تھا۔ طوطے نے دیکھ کر پہچانا اور کہا: پھٹ پاپی رومی خان نمک حرام سب کو تعجب ہوا اور ہمایوںنے کہا: رومی خاں چکنم کہ جانور است ورنہ زبانش می بریدم اس نے شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں۔ غرض اس نقل سے یہ ہے کہ اس وقت بھی لوگوں کی زبان پر عربی فارسی کے لفظ چڑھے ہوء تھے ۔ جب ہی طوطے کی زبان سے نمک حرام کا لفظ نکلا ۔ جانو رجو سنتا ہو گا وہی بولتا ہو گا۔ سترہویں صدی عیسوی میں بابا تلسی داس برہمن ضلع باندہ رہنے والے کہ پنڈت بھی تھے شاعر بھی تھے فقیر بھی تھے۔ انہوں نے رامائن کو بھاشا میں اس طرح ترجمہ کیا کہ وہ لاثانی کتاب مطبوع خاص و عام ہوئی۔ ان کے دہروں میں بہت اور کتاب مذکور میں کہیں کہیں لفظ فارسی عربی کے موجود ہیں۔ دہرا رامائن: سنکارے سیوک سکل چلے سوای رکھ پائے گھر تروتر دبن دباگ دبر ڈیرا دیو لگائے گھر بسواس بچن ہٹ بولے کتنی بھنگ کلہ بھی کھولے رام انیک گریب نوا جے لوک بید بر برو بر اجے گنی گریب گرام نر ناگر پنڈت موٹے ملیں او جاگر مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ تلسی داس گریب کو کوئی نہ پوچھے بات انہی دنوں میں سو ر دس جی نے سر کشن جی کے ذکرسے اپنے کلام کو مقبول خاص و عام کیا۔ ان کی تصنیف میں شاید ہی کوئی شعر ہو گا کہ فارسی عربی لفظ سے خالی ہو گا۔ مایا دھام دھن ونتا باندھیوں ہوں اس ساج (یعنی ساز) سنت سبھی جانت ہوں تو نہ آئیو باج (یعنی باز نہ آیا) کھیت بہت کاہے تم تانے سبن سنی آواج (یعنی آواز) دیو جات پار اتر آئے چاہت چڑہیں جہاج (یعنی جہاز) لیجیے پار اتار سور کوں مہاراج برج راج نئیں کرت کہت پربھو تم سوں سد غریب نواج (غریب نواز) خیال کرو کہ جب یہ بزرگان مذہب اپنے دوہروں میں فارسی لفظ بول جاتے تھے تو گفت گو میں عام ہندو لوگ اس سے کچھ زیادہ نہ بولتے ہوں گے؟ اخیرمیں حسن خوبی برج بھاشا کی راجہ جے سنگھ سوائی کی قدر دانی سے ظاہر ہوئی۔ انہوںنے ایک ایک اشرفی دہرہ گوئی اور گنواں پنڈتوں کو انعام دے کر دہلی اور نواح دہلی میں شوق پھیلایا ۔ اس عہد میں مسلمانوں کی زبان کاکیا حال ہو گا۔ ظاہر ہے کہ کئی کئی سو برسوں سے اسلا م آیا ہوا تھا جن کے باپ دادا کئی کئی پشت یہیں کی خاک سے اٹھے اور یہیں پیوند زمین ہوئے انہیں آپس کے رشتوں اور معاملات کے سر رشتوں سے ضرور یہاں کی زبان یعنی برج بھاشا بولنی ہوتی ہو گی۔ تازہ ولایت آدھی اپنی آدھی ان کی ملا کر ٹوٹی پھوٹی بوتے ہوں گے۔ ان زبانوں کی کوئی نثر تصنیف نہیں وہی امیر خسرو کی ایک غزل اور پہیلیاں اور مکرنیاں اور گیت پتا بتاتے ہیں کہ ۷۰۰ء میں یہاں کے مسلمان خاصی بھاشا بولتے ہوں گے۔ بلکہ یہی کلام یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ مسلمان بھی اب یہیں کی زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے تھے اور اس کو کس شوق اور محبت سے بولتے تھے شاید بہ نسبت ہندوئوں کے فارسی عربی ان کی زبا ن پر زیادہ آ جاتے ہوں گے۔ اور جتنا یہاں رہنا سہنا اور استقلال زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی روز بروز فارسی ترکی نے ضعف اوریہاں کی زبان نے زورپکڑا ہو گا۔ رفتہ رفتہ شاہجہان کے زمانے میں کہ اقبال تیموری کا آفتاب عین عروج پر تھا شہر اور شہر پناہ تعمیر ہو کر نیء دلی دارلخلافہ بنی۔ بادشاہ اور ارکان دولت زیادہ یہاں رہنے لگے۔ اہل سیف‘ اہل قلم‘اہل حرفہ اور تجار وغیرہ ملک ملک اور شہر شہر کے آدمی ایک جگہ جمع ہوئے۔ ترکی میں اردو بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ اردوئے شاہی اور دربار میں ملے جلے الفاظ زیادہ بولتے تھے وہاں کی بولی کا نام ارد و ہو گیا۔ اسے فقط شاہجہان کا اقبال کہنا چاہیے کہ یہ زبان خاس و عام میں اس کے اردو کی طرف منسوب کی گئی ۔ ورنہ جو نظم و نثر کی مثالیں بیان ہوئیںَ ان سے خیال کو وسعت دے کر کہہ سکتے ہو کہ جس وقت سے مسلمانوں کو قدمہندوستان میں آیا ہو گا۔ اسی وقت سے ان کی زبان نے یہاں کی زبا ن پر اثر شروع کر دیا ہو گا۔ چند کوی کا کلام مل گیا۔ اس میں الفاظ موجو د ہیںمحمود کے وقت کی نظم یا نثر مل جائے ت ا سمیں بھی ضروری ہوں گی۔ بیان ہائے مذکورہ بالا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو کچھ اس میں ہوا کسی تحریک یا ارادے سے نہیں ہوا۔ بلکہ زبان مذکورکی طبیعت ہی ایسی ملنسار واقع ہوئی ہے کہ ہر زبان سے مل جاتی ہے۔ سنسکرت آئی اس سے مل گئی۔ عربی فارسی آئی اسے بسم اللہ خیر مقدم کہا اب انگریزی الفاظ کو اس طرح جگہ دے رہی ہے کہ گویا اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اسی زبان کو ریختہ بھی کہتے ہیں کیونکہ مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کہا ہے۔ جیسے دیوار کو اینٹ مٹی چونا سفیدہ وغیرہ پختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری پڑی پریشان‘ چیز چونکہ اس میں الفاظ پریشان جمع ہںٰ اس لیے اسے ریختہ کہتے ہیںَ یہی سبب ہے کہ اس میں عربی فارسی ترکی وغیرہ کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور اب انگریزی داخل ہوئی جاتی ہے اور ایک وقت ہو گا کہ عربی فارسی کی طرح انگریزی زبان قابض ہو جائے گی ۔ چنانچہ میں ایک نواب زادے کی گفتگو لکھتاہوں کہ جس کی پرورش اور تعلیم گھریلو ہے۔ یعنی نہ عربی فارسی کی لفاظی نے اس پر رنگ چڑھایا ہے نہ انگریز ی نے روغن پھیرا ہے۔ یہ فقط دوستانہ بے تکلفانہ باتیں ہیں ۔ بڑے آکا کی پنشن لینے کل کچہری گیا تھا۔ڈپٹی صاحب کے کمرے میں آگے کچھ قرقی کا مال نیلام ہو رہا تھا کمریان کوٹ اور واسکٹیں نئی تھیں۔ کنٹر اور گلاس بھی ولایتی تھے۔ کرسیاں میزیں چقیں باریک خوش رنگ تھیں۔ میں نے کہا چلو کوئی ڈھب ک یچیر ہو تو لے لیں۔ منجھلے آکا بولے جانے دو جس مال نے مالک سے وفا نہ کی ہم سے کیا وفا کرے گا۔ آئے ہوئے ریل سٹیشن ے پاس دیکھتاہوں کہ کھبے مرزا جان چلے آتے ہیں۔ شکرم ٹھیر ا کر بڑ تپاک سے ملے۔ بڑھاپنے نے بچارے کا رنگ و روپ سب کھو دیا تھا۔ وہ شکل ہی نہیں وہ صورت ہی نہیں کیسے گورے چنے سجیلے جوان تھے لو تصویریں اترواتے تھے۔ میں نے کہا میاں ہم نے تو جانا تھا تم دکھن سے خوب چاق وچوبند سرخ سفید ہو کر آئو گے۔ تم تو سوکھ کر قاق ہو گئے۔ غضب کیا اگلا جوبن بھی گنوا آئے۔ ٹھنڈا سانس بھر کے بولے ہائے جوانی۔ فارسی عربی کے الفا ظ ظاہر ہیں مگر خیال کیجیے کہہ قرق چق‘ چاق‘ قاق‘ آکا ترکی ہیں میز نامعلوم‘ نیلام پرتگالی ہے۔ کمر ا اطالی ہے ریل اسٹیشن کوٹ واسکٹ کنٹر گلاس‘ انگریزی ہیں۔ چٹا کھبا پنجابی ہے۔ مگر اتنا ہے کہ ہم چٹا بغیر گورے کے اور اسی طرح چنگا بغیر بھلے کے نہیں بولتے وہ اکیلا ہی بولتے ہیں ۔ کھبا پنجابی یں عام ہے خاص صفت کے ساتھ بولتے ہیں ۔ بھانڈا پھوڑنا اردو میں کسی بات یا راز کو کھول دینے کو کہتے ہیں۔ پنجابی میں باسن کو بھانڈا ہی کہتے ہیں۔ گلا گھونٹنا اردو میں بولتے ہیں۔ پنجابی میںکھینچ کر باندھنے یا مضبوط پکڑنے کو کہتے ہیں۔ مثلاً گھٹ کر باندھو یا گھٹ کر پکڑو۔ بھننا بھناناا توڑنا اور تڑوانا ہے۔ اور اسی سبب سے پنجابی میں روپے کے لیے بھی بھنانا کہتے ہیں۔ اردو میں پہلے معنے متروک ہو گئے دوسرے معنی رہے وہ بھی کوکر کے ۔ کہ جائو روپے کے ٹکے بھنا لائو اوراس اصلیت کا سراغ یوں لگا کہ فارسی می روپے کے لیے خوردہ کردن بولتے ہیں اور اردو میں بھی کہتے ہیں کہ صبح کو روپیہ خوردہ کیا تھا دوپہر کو دیکھو تو برکت یعنی سب پیسے اٹھ گئے۔ کسوٹی: گھسنا مرادف فرسودن اردو میں بالکسر ہے۔ پنجابی میں اس طرح بولتے ہیںکہ کاف مفتوح معلوم ہوتاہے اور وہ کا تلفظ عجیب ہے کہ ان ہی کے لہجے کے لیے خاص ہے بہرحال اس سے کس وٹی (گھسنے کی بٹیا) معیار کانام ہوا۔ اردو میں یہی لفظ کسوٹی ہو گیا۔ روپ سجیلا جوبن گنوایا برج بھاشاہے۔ ان کے علاوہ روز مرہ کی باتوں پر خیال کرو یوسف‘ یارون‘ موسی عیسیٰ وغیرہ عبرانی ہیں۔ کیمیا فیلسوف‘ اصطرلاب یونانی ہیں ارو یعنی ماش تامل ہے ننھا یعنی خرد گجراتی ہے ۔ بڑا جو کڑاہی میں تلتے ہیں تلنگو ہے۔ گدام ملایا کہ زبان ہے تمباکو کو امریکہ کا لفظ ہے یورپ کے رستے سے ہو کر اکبر کے عہد میں یہاں پہنچا۔ اردو میں اس وقت نثر کی کوئی کتاب نہ لکھی گئی۔ جس سے سلسلہ ان تبدیلیوں کا معلوم ہو۔ میر جعفر ز ٹل کے کلا م میں محمد شاہی بلکہ اس سے پہلے زمانے کا نمونہ کہتا۔ مگر زٹل کا اعتبار کیا ۔ البتہ محمد شاہ کے عہد میں ۱۱۴۵ھ میں فضلی تخلص کے ایک بزرگ نے وہ مجلس لکھی اس کے دیباچے میں سبب تالیف لکھے ہیں اور غالباً یہی نثر اردو کی پہلی تصنیف ہے۔ پھر دل میں گزراکہ ایسے کام کو عقل چاہیے۔ کامل اور مددکسو طرف کی ہوئے شال کیونکہ بے تائید صمدی اور بے مدد جناب احمدی یہ مشکل صورت پذیر نہ ہووے اور گوہر مر اد رشتہ امید میںنہ آوے۔ لہٰذا کوی اس صنعت کا نہیں ہوا۔ مخترع ااور اب تک ترجمہ فارسی بعبارت ہندی نثر نہیں ہوا۔ مستمع پس اس اندیشہ عمیق میں غوطہ کھایا اور بیان تامل و تدبیر میں سرگشتہ ہوا۔ لیکن راہ مقصود کی نہ پائی ناگاہ نسیم عنایت الٰہی دل افگار پر اہتراز میں آئی۔ یہ با ت آئینہ خاطر میں منہ دکھائی۔ میرکی مثنوی شعلہ عشق کے مضمون کو بھی مرز ا رفیع نے نثر کیا ہے۔ افسوس کہ اس وقت موجود نہیں۔ اس کا انداز بالکل یہی ہے کہ چند فقرے سودا کے ایک دیباچے سے نقل کرتا ہوں جو کلیات میں موجود ہیں۔ نثر مرزا رفیع ضمیر منیر پر آئینہ داران معنی کے مبرہین ہو کہ محض عنایت الٰہی کی ہے جو طوطی ناطقہ شیریں سخن ہو۔ پس یہ چند مصرعے کے از قبیل ریختہ در ریختہ خامہ د و زبان اپنی سے صفحہ کاغذ پر تحریر فرمائے لاز ہے کہ تحویل سخ سامعہ سنجان روزگار کروں۔ تازبانی ان اشخاص کی ہمیشہ مورد تحسین و آفرین رہوں۔ قیمت قدر شناساہی سے پہنچے ہے بہم ورنہ دنیا میں خزف بھی نہیں گوہر سے کم مضمو ن سینے میں بیش از مرغ اسیر نہی کہ ہو بیچ قفس کے‘ جس وقت زبان پر آیا فریاد بلبل ہے واسطے گوش دا درس کے غرض جس اہل سخن کا در منصفی زینت لب ہے سر رشتہ حسن معانی کا اس کلا م کے اس سے انصا ف طلب ہے۔ اگر حق تعالیٰ نے صبح کاغذ سفید کی مانند شام سیاہ کرنے کو یہ خاکسار خلق کیاہے۔ توہر انسان کے قانوس دماغ میں چراغ ہوش دیا ہے۔ چاہیے کہ دیکھ کر نکتہ چینی کرے وگرنہ ندز ہر آلود سے بے ال کاہے کو مرے۔ ا س تصنیف سے تخمیناً ۳۰ برس کے بعد جب کہ میرا انشاء اللہ خاں اورمرزا جان جاناں مظہر کی دلی میں ملاقات ہوئی تو اس گفتگو کے چند فقرے بھی قابل غور ہیں۔ سید انشاء اللہ مرز ا جان جاناں سے فرماتے ہیں۔ سید انشاء فرماتے ہیں ابتدائے سن صبا سے تا اوائل ریعان او راوائل ریعان سے الی الآن اشتیاق مالا یطاق تقبیلی عتبہ عالیہ نہ بحدے تھا کہ سلک تحریر و تقریر میں منتظم ہو سکے۔ لہٰذا بے واسطہ و وسیلہ حاضر ہو ا ہوں۔ مرز ا صاحب جواب میں فرماتے ہیں اپنے تئیں کوں بھی بدو طفلی سے تمہیں ایسے اشخاص کے ساتھ موانست اورمجالست رہا کی ہے ۔ لیکن میر غفر غینی کے نم سیای گفت گو سید انشا نے دریائے لطافت میں رکھی ہے۔ اسے پڑھ کر تعجب آتا ہے کہک اس صاحب کمال نے یہ زبان کس فصاحت کے قابل میں ڈھالی ہے کہ ان عبارتوں یں اوراس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاید مرزاجاناں اور سودا وغیرہ بزرگوں کی تحریر کچھ او رہو گی۔ تقریر کا انداز اور ہو گا۔ بہرحال اس وقت تک انشا پردازی اور ترقی اور وسعت زبان اردو کہ فقط شعراء کی زبان پر تھی۔ جن کی تصنیفات غزلیں عاشقانہ اور قصیدے مدحیہ ہوتے تھے اور غرض ان سے فقط اتنی تھی کہ امراء و اہل دل سے انعام لے کر گزارہ کریں یا تفریح طبع یا یہ کہ چشموں میں تحسین و آفرین کا فخر حاصل کریں وہ بھی فقط نظم و نثر کے حال پر کسی کو اصلاً توجہ نہ تھی کیونکہ کارروائی مطالب ضروری کی سب فارسی میں ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت دیکھو تھوڑے عرصے میں کئی قدرتی سامان جع ہو گئے اور سب سے مقدم سبب اس کی عام فہم تھی کہ ہر شخس سجھتا تھا کہ اس لیے لکھنے والوں کو اسی میں واہ وا لینے کا شوق ہواا۔ میرا محمد حسین خاں تحسین نے چہار درویش کا قصہ اردو میں لکھ کر نو طرز مرصع نام رکھا۔ شجاع الدولہ کے عہد میں تصنیف شروع ہوئی ۱۷۹۷ء ؍ ۱۲۱۳ھ نواب آصف الدولہ کے عہد میں ختم ہوئی۔ ادھر تو یہ چونچال لڑکا شعراء کے جلسوں اور امراء کے درباروں میں اپنے بچپنے کی شوخیوں میں سب کے دل بہلا رہا تھا۔ ادھر دانائے فرنگ جو کلکتہ میں فورٹ ولیم کے قلعے پر دوربین لگائے بٹھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نظر باز تاڑ گیا کہ لڑکا ہونہار ہے۔ مگر تربیت چاہتا ہے۔ تجویز ہوئی کہ جب وقت پر حکمرانی کرتے ہیں اس کی زبان سیکھنی واجب ہے۔ چنانچہ ۱۷۹۹ئ؍۱۲۱۴ھ میں میر شیر علی افسوس نے ’’باغ اردو‘‘ اور ۱۸۰۵ئ؍۱۲۲۰ھ میں ’’آرائش محفل‘‘ لکھی ۔ میر امن دہلوی نے ہی جان گلکرسٹ صاحب ے انگریزی میں قواعد اردو لکھی ۱۸۰۲ء ؍ ۱۲۰۵ھ میں شرحی للوجی لال کوی نے پریم ساگر لکھی اور بیتال پچیسی جو محمد شاہ کے زمانے میں سنسکرت سے برج بھاشا میں آئی تھی۔ اب عام فہ اردو ہوکر ناگری میں لکھی گئی۔لیکن اس نقارہ فخر کی آواز کو کوئی دبا نہیں سکتا کہ میر انشا ء اللہ خاں پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۸۰۷ئ؍ ۱۲۲۲ھ میں قواعد اردو لکھ کر ایجاد کی ٹہنی میں ظرافت کے پھول کھلا ئے تھے۔ عجیب بات ہے کہ زبان اردو کی عام فہی دیکھ کر مذہب نے بھی اپنی برکت کا ہاتھ اس کے سر پر رکھا یعنی ۱۸۰۷ء ؍ ۱۲۲۲ء میں مولوی شاہ عبدالقادر صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ اردو میں کیا۔ بعد اس کے مولوی اسماعیل صاحب نے بعض رسالے عام اہل اسلا کی فہمائش کے لیے اردو میں لکھے ۔ ۱۸۳۵ء سے دفاتر سرکاری بھی اردو ہونے شروع ہوئے۔ چند سال کے بعد کل دفتروں میں اردو زبان ہو گئی۔ اسی سن میں اخباروں کو آزادی حاصل ہوئی ۱۸۳۶ء میں اردو کا اخبار دلی سے جاری ہوا اور یہ اس زبان میں پہلا اخبار ھتا کہ میرے والد مرحوم کے قلم سے نکلا۔ غرض اپنی آسانی کے وصف سے اور اس لحاظ سے ملکی زبان یہی ہے۔ دفتری زبان بھی یہی ٹھہری۔ اردو نے آہستہ آہستہ فارسی کو پیچھے ہٹانا اور اپنا قدم آگے بڑھانا شروع کیا تب سرکار نے مناسب سمجھا کہ اس ملک کے لوگوں کو ا ن ہی کی زبان میں انگریزی علوم و فنون سکھائے جائیں۔ چنانچہ ۱۸۴۲ء سے دلی میں سوسائٹی قائم ہو کر ترجمے ہونے لگے اور ضرورت علمی الفاظ بہم پہنچانے لگی۔ خیال کرو کہ جس زبان کی فقط اتنی بنیاد ہو وہ زبان کیا اور اس کی وسعت کا میدان کیا۔ البتہ اب امید کر سکتے ہیں کہ شاید یہ بھی ایک دن علمی زبانوں کے سلسلے میں کوئی درجہ پائے۔ اردو اس قدر جلد جلد رنگ بدل رہی ہے کہ ایک مصنف اگر خود اپنی ایک سن کی تصنیف کو دوسرے سن کی تصنیف سے مقابلہ کرے تو زبان میں فرق پائے گا۔ باوجود اس کے اب بھی اس قابل نہیں کہ ہر قسم کے مضمون خاطر خواہ ادا کر سے یا ہر علم کی کتااب کو بے تکلف ترجمہ کر دے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اکثر علوم اور ہزاروں مسائل علمی ممالک فرنگ میں ایسے نکلتے ہیں کہ زمانہ سلف میں بالکل نہ تھے۔ اس واسطے عربی فارسی سنسکرت بھاشا وغیرہ جو کہ اردو کے بزرگ ہیں ان کے خزانے میں بھی اس کے ادائے مطلب کے لیے لفظ نہیں اور اس میں ہم اردو بچاری کے افلاس پر چنداں تعجب نہیں کر سکتے۔ خصوصاً جب کہ ہندو مسلمان اپنے اپنے بزرگوں کی میراث کو بھی ہاتھے سے کھوئے بیٹھے ہیں۔ برج بھاشا پر عربی اور فارسی زبانوں نے کیا کیا اثر کیے جب دو صاحب زبان قومیں باہم ملتی ہیں تو ایک کے رنگ روپ کا دوسرے پر ضرور سایہ پڑتا ہے۔ اگرچہ اس کے اثر گفتگو لباس خوراک نشست برخاست مختلف رسوم بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن چونکہ مجھے اس مقام پر زبان سے غرض ہے۔ اس لیے اسی میں گفتگو کرتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک قوم دوسری قوم میںآتی ہے تو اپنے ملک کی صد ہا چیزیں ایسی لاتی ہے کہ جویہاں نہیں تھیں۔ اشیاء مذکور کبھی ضروری اور کبھی ایسی باعث آرام ہوتی ہیں کہ انہیں استعمال میںلانا ضروریات زندگی سے نظر آتا ہے اس لیے یہ لوگ انہیں غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔ اور بخوشی کام میںلاتے ہیں۔ ان اشیاء میں سے بہتیری چیزیں تو نام اپنے ساتھ لاتی ہیں اور بہتیری نئی ترکیب سے یا ادل بدل کر یہاں نیا نام پاتی ہیں اوریہ پہلا اثر دوسری زبان کا ہے اس کے علاوہ جب یہ دونوں ایک جگہ رہ سہہ کر شیر و شکر ہوتیہیں تو ایک زبان میں دوسری زبان کے لفظ بھی گھل مل جاتے ہیںَ جب مہما ن کومیزبان ایک دوسرے کی زبا سمجھنے لگتے ہیں تو ایک خوش نما اور مفید تبدیلی کے لیے رستہ پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ طبع انسانی کے اتحاد سے سب کے خیالات متفق یا قریب قریب ہوں مگر انداز بیان سب کا جدا جدا ہے اور طبیعت ہمیشہ نئے انداز کو پسند کرتی ہے۔ اس لیے ادائے مطلب میں ایک دوسرے کے انداز بیان سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیںَ پھر نئی نئی تشبیہیں لطیف استعارے لے کر اپنی پرانی تشبیہوں اور مستعمل استعاروں کا رنگ بدلتے ہیں اور جس قدر زبان میں طاقت ہے ایک دوسرے کے خیالات اور نئی طرز کو لے کر اپنی زبان میں نیا مزہ پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ انقلاب حقیقت میں وقت بوقت ہرایک زبان پر گزرتاہے۔ چنانچہ قوم عرب نے جو اک زمانے میں روم یونان اور ہسپانیہ وغیرہ سے خلط لط ہوئی تھی۔ ہزاروں لفظ علمی اور غیر علمی وہاں سے لیے اسی طرح فارسی زبان عربی و ترکی وغیرہ الفاظ سے مالا مال نظر آتی ہے۔ انگریزی کے باب میں مجھے کہنا زیبا نہیں۔ کیونکہ اب روشن ضمیر انگریزی خواں بہت ہیں اور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ جس طرح ایک مہذب سلنطت میں تمام ضروریات سلطنت کے کارخانے اورملکی سامان موجود ہونے چاہئیں۔ اسی طرح سب قسم کے الفاظ اور تمام ادائے خیالا ت کے انداز انگریزی زبان میں موجود ہیں۔ اب مجھے اپنی زبان میں گفت گو کرنی چاہیے۔ لیکن اتنا یاد دلانا واجب ہے کہ اردو کہاں سے نکلی ہے اور کیوں کر نکلی ہے۔ اردو زبان اول لین دین نشست برخاست کی ضرورتوں کے لیے پیدا ہو گئی۔ ہندوئوں کے ساتھ ہندی مسلمان جو اکثر ایرانیوں یا ترکستانیوں کی اولاد تھے۔ ہندوستان کو وطن اور اس کی زبان کو اپنی زبان سمجھنے لگے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس طرح زمین بے روئیدگی کے نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی زبان بے شاعری کے نہیں رہ سکتی۔ محمد شاہی دور تھا اور عیش و عشرت کی بہار تھی۔ ان شرفا کو خیال آیا ہو گا کہ جس طرح ہمارے بزرگ اپنی فارس کی انشاء پردازی میں گلزارکھلاتے تھے۔ اب ہماری یہی زبان ہے۔ ہ بھی اس میں کچھ رنگ دکھائیں۔ چنانچہ وہی فارسی کے خاکے اردو میں اتار کر غزل خوانیاں شروع کر دیں اور قصیدے کہنے لگیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ قوت بیان یا لفظوں کی تراش یا ترکیبوں کی خوب صورتی یا تشبیہ اور استعاروں کی رنگینی غرض اول جو کچھ نصیب ہواشعرائے اردو کی بدولت ہوا اور یہی سبب ہے کہ جو کچھ سامان ایک ملکی اور ٹکسالی زبان کے لیے دریار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ زبان مفلس رہی۔ کیونکہ اس عہد می علوم و فنون تاریخ فلسفہ ریاضی وغیرہ کا چرچا عام ہوتا تھا تواس کے لیے الفاظ بھی ہو جاتے جن جن باتوں کا چرچا تھا۔ انہیں سامانوں کے الفاظ اور خیالات پیدا ہوئے۔ ہا ں یہ کہنا بھی ضرور چاہیے کہ جو کچھ ہو ا تھا اپنے رنگ پر خوب ہوا تھا۔ اب ہمیں پھر مطالب پر آنا چاہیے کہ بھاشا نے اردو کپڑے پہننے کے لیے فارسی سے یا کیا لیا۔ ۱۔ ان چیزوں کے نا م لیے جو عرب اور فارس سے آئیں اوراپنے نا اپنے ساتھ لائیں مثلاً لباس یں فرغل ‘ لبادہ‘ کرتااقبا‘ چوغا‘آستین‘ گریبان ‘ پاجامہ‘ ازار ‘ عمامہ‘ رومال‘ شال ‘ دوشالہ‘تکیہ‘ گائو تکیہ‘ برقع ‘ پوستین وغیرہ۔ کھانے کے لیے ذیل میں: دسترخوان ‘چپاتی‘ شیر مال باقر خانی‘ پلائو‘ زردہ‘مزعفر‘قلیہ‘ قورمہ ‘متنجن‘ فرنی‘یاقوتی‘ حریرہ‘ ہریسہ‘ لوز‘ مربی‘اچار‘ فالودہ ‘ گلاب بید مشک خوان‘ طبق‘ رکابی ‘ تشتری‘ کفگیر‘ چمچہ‘ سینی ‘ کشتی‘ چائے جوش وغیرہ۔ متفرقات میں: حمام‘کیسہ سابون‘ شیشہ‘ شمع‘ شمعدان‘ فانوس‘ گلکیر‘تنور‘ رفیدہ‘ مشک‘نماز‘روزہ‘ عید‘ شب برات‘ قاضی‘ساقی‘ حقہ‘ نیچہ ‘ چلم‘ تفنگ‘ بندوق‘ تختہ نرد‘ گنجفہ‘ اور ان کی اصطلاحیں۔ یہ سب چیزیں اپنے ساتھ نام لے کر آئیں۔ بہت سی چیزیں آئیں کہ بھاشا میں ان کے لیے نا م نہیں سنسکرت کی کتابوں میں ہوںگے۔ پستہ بادام‘ منقی شہتوت‘ بیدانہ‘ خوبانی‘ انجری‘ سیب ‘ بہی ‘ ناشپاتی اور انار وغیرہ۔ ۲۔ بہت سے عربی فارسی کے لفظ کثرت استعمال سے اس طرح جگہ پکڑ بیٹھے ہیں خہ اب ان کی جگہ کوئی سنسکرت یا قدیمی بھاشا کا لفظ ڈھونڈ کر لانا پڑتا اہے۔ مگر اس میں یا تو مطلب اصلی فوت ہو جاتا ہے۔ یا زبان ایسی مشکل ہو جاتی ہے کہ عوام تو کیا خواص ہنود کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مثلاً دلال‘ فراش‘ مزدور‘ وکیل‘ جلاد‘صراف‘ سخرا‘نصحیف‘ لحاف‘ توشک ‘ چادر ‘ صورت‘ شکل‘چہرہ‘ طبیعت‘ مزاج‘ برف‘فاختہ‘ قمری‘کبوتر‘بلبل‘ طوطا‘ پر‘دوات‘قلم‘ سیاہی ‘جلاب‘ رقعہ‘ عینک‘ صندوق ‘کرسی‘ تخت ‘لگام ]رکاب‘ زین ‘ تنگ ‘پوزی ‘نعل‘ کوتل‘عقیدہ ‘وفا‘ جہاز‘مستول‘ بادبان‘تہمت‘ در‘پردہ‘دالان‘تہ خانہ‘ تنخواہ‘ ملاح ‘ تازہ‘غلط ‘صحیح‘ رسد‘سرباری‘ کاریگر‘ ترازو‘ شطرنج کے باب میں تعجب ہے کہ خاص ہند کا ایجاد ہے۔ گر عرب اور فارس سے جو پھر کر آئی تو سب اجزاا کے نام اور اپنی اصطلاحیں بدل آئی۔ سینکڑوں لفظ عربی فارسی کے یہاں آئے مگر موافق نہ آئی۔ اس لیے مزاج اور صورت بگڑ گئی مثلاً مرغا وغیرہ۔ صرف میں فارسی سے کچھ نہیں لیا۔ خود اتنا کیا کہ وں علامت جمع ہندی کو عربی فارسی پر بھی لگادیاا مثلا ً آدمیوں‘ انسانوں‘ درختوں‘ میووں۔ اسم فاعل فارسی عربی کے بے شمار لیے اور ان میں شطرنج باز کے قیاس پر چوپڑ باز اور وفادار کے قیاس پر ظرفاً سمجھ دار ‘ سمجھ ناک بھی بول دیتے تھے۔ باغبان کے قیاس پر گاڑی بان‘ ہاتھی بان ‘ بہلبان‘ مگر بان‘ اور دان حقیقت میں ایک ہیں‘ کیونکہ اصل میں دونوںزبانیںایک دادا کی اولاد ہیں۔ اس کی تحقیق جیسی کہ چاہیے فارسی لیکچروں میں لکھی ہے۔ اسم ظرف قلم دان وغیرہ کے قیاس پر خاصدان ‘ پاندان‘ ناگردان‘ پیک دان‘ وویخانہ‘پاخانہ۔ باب حروف کا بھی یہی حال ہے۔ مثلا ً حرف تشبیہہ کو ئی نہیں لیا ۔ مگر چنانچہ اورچونکہ موجود ہیں اور ا س طرح آتے ہیں کہ ترجمے کے لیے ہندی حرف معلو ہی نہیں ہوتا۔ حروف شرط اگر اور اس سے اگرچہ بھی لیا۔ وائو عاطفہ سمیت معطوف اورمعطو ف علیہ اردو عبار ت میں لے لیے مثلاً آب و ہوا‘ شب وروز‘ صبح و شام‘ زور و شور حروف استثناء میں سے مگر اور عربی کے سوا ماسوا الاولا نہ لیکن ولیکن لے لیے اپنے حرفوں کو گم کر دیا۔ حروف نفی نا اور بنا اکی جگہ نہ اور نے آ گئے۔ حروف ایجاب زہے ‘ مگر ادب کی جگہ میں ‘ ست بچن وغیرہ کی جگہ بجا‘ درست واقعی حق بے شک ‘ برحق بہ سر و چشم آ گئے اصل زبان کے لفظ نہ رہے۔ حروف تاکید کہ جگہ ہرگز‘ زنہار‘ ضرور‘ البتہ آ گئے اصلی لفظ نہ رہے۔ حروف تردید کہ جگہ یا خواہ ہیں اصل گم حروف تمنا میں سے کوئی حرف نہیں ‘کاش ‘ فارسی کا لفظ ہے۔ حروف ترقی میں بل تو نہیں بولتے مگر بلکہ اپنے موقع پر آتا ہے۔ اسم کی بحث میں اسمائے اشارہ میں سے کچھ نہیں لیا۔ مگر از انجا کہ با آنکہ ‘ با اینکہ مرکب ہو کر بہت آتے ہیں۔ موصولات میں سے کچھ نہیںلیا۔ مگر کاف بیانیہ اس طرح آنے لگا کہ بے اس کے کلام ہی بے مزہ ہو جاتا ہے کیسا ایسا جیسا کی جگہ کس طرح وغیرہ‘ کس وضع وغیرہ ‘ کتنا اتنا‘ جتنا کی جگہ‘ کس قدر وغیرہ بھی بولنے لگے۔ یائے نسبت کی ترکیبوں میں فارسی عمومی کے بموجب نسبتی الفاظ بولنے لگے۔ چونکہ دلی والی کی جگہ دہلوی بولتے ہیں۔ اسی طرح اور الفاط میں اور عورتوں میں شیخانی ‘ سیدانی‘ استانی وغیرہ وغیرہ۔ باوجودیکہ ہندی کے مصدر موجود تھے۔ مگر صد ہا مصادر مرکبہ بنالیے۔ مثلاً ماننا اب کہتے ہیںہر چند سمجھایا اس نے منظور نہ کیا کسی عنوان قبول نہ کیا یعنی نہ مانا۔ مکرنا اب کہتے ہیں پہلے تو قبول کر دیا تھا۔ پھر انکار کر گیا یعنی مکر گیا۔ سوچنا اب کہتے ہیں کہ ہر چند فکر کرتا ہوں عقل کام نہیں کرتی۔ پچھتانا اپنے کیے پر بہت پشیمان ہوں مگراب کیا ہو سکتا ہے یعنی پچھتایا۔ اسی طرح خوش ہونا‘ غصے ہونا‘ خفا ہونا‘ تنگ ہونا‘ دق ہونا‘ غمگین ہونا تماشا دیکھنا‘ سیر کرنا‘ انتظار کرنا‘ راہ دیکھنا‘ یہاں تک کہ بہتیرے مصدروں کی ہندی گم ہو گئی اس سے بڑھ کر یہ کہ عربی فارسی کے مصدر یا مشتقات لے کر ہندی کا اشتیاق کر لیا۔ گزشتن سے گزرنا اور اس کے افعال‘ محاورہ ہے کہ گئی گزری بات کا اب کیا کہنا۔ فرمودن سے فرمانا اس کے بہت سے افعال ہیں۔ قبول سے قبولنا محاورہ ہے بڑا بادی چور تھا۔ ہرگز نہ قبولا۔ بدل سے بدلنا اوراس کے بہت سے افعال محاورہ ہے کہ ادلے کا بدلا ہے صاحب۔ بخشیدن سے بخشنا لرزیدن سے لرزنا نواختن یا نوازش سے نوازنا شرم سے شرمانا کاہلی سے کہلانا‘ میاں مجبور ایک قدیمی شاعر تھے ۔ استاد مرحوم ان کی باتیں کیا کرتے تھے کہ بڈھے دیرینہ سال تھے۔ مکتب پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میرے مشاعر ے میں غزل پڑھی۔ دیکھنا کس خوب صورتی سے فعل بٹھایاہے: باتیں دیکھ زمانے کی جی بات سے بھی کہلاتا ہے خاطر سے سب یاروں کی مجبور غزل کہہ لاتا ہے نحو میں ترکیب اضافی‘ ترکیب توصیفی‘ کہیں مبتدا کہیںخبر ہو کر تمام ہندی پرچھا گئی اس سے پہلے فائدہ یہ ہوا کہ اختصار کے لحاظ سے لفظوں کا پھیلائو کم ہو گیا۔ دوسرے جمع موصوف ہوا تو اسم صفت موصوف کو بھی اس کے لیے جمع لاتے تھے اب واحد لاتے ہیں: ملایم ہو گئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں پہر کٹنے لگے ان بن نہ کٹتیں جن بنا گھڑیاں اب کڑی ساعتیں بولتے ہیں۔ تیسرے صیغہ مضارع بہ معنی حال۔ سودا نالہ سینے سے کرے عزم سفر آخر شب راہ رو چلنے پہ باندھے ہے کمر آخر شب چوتھے۔ یہ کہ اقسام اضافہ میں تشبیہ اور استعارے کے رنگ سے سیدھی سادی زبان رنگین ہوگئی۔ چنانچہ بھاشا میں کہنا ہو تو کہیں گے ‘ راج کنور کے دل کے کنول کی کملاہٹ دربار کے لوگوں سے نہ دیکھی گئی اور اردو میں کہیں گے شہزادے کے غنچہ دل کی کملاہٹ اہل دربار سے نہ دیکھی گئی۔ ولی وغیرہ متقدمین کے کلاموں میں ایسی ترکیبیں بہت ہیں بلکہ آدھے سیدھے اور سارے سارے مصرعے فارسی کے ہیں‘ مگر کچھ اور طرح سے علی ہذا القیاس بھاشا کے الفاظ اور ترکیبیں بھی زیادہ ہیں اور اس طرح ہیں کہ آج کے لوگوں کو فصیح نہیں معلوم ہوتیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ گویا دودھ میں مٹھاس ملائی۔ مگر وہ ابھی اچھی طرح گھلی نہیں ایک گھونٹ خاصا میٹھاا ایک بالکل پھیکا ہے ۔ پھر ایک میںمصری کی ڈلی دانتوں تلے آ گئی۔ ہاں اب گھل مل کے وہ مرتبہ حاصل ہوا ہے جسے شیر و شکر کہتے ہیں۔ بعض اشخاص یہ بھی کہتے ہیں کہ خالی بھاشا میں کچھ مزہ نہیں اردو خواہ مخواہ طبیعت کو بھلی معلو م ہوت ہے۔ مگر میری عقل دانوں باتوں پر حیران ہے کیونکہ جب کوئی کہے کہ آج ایک شخص آیا تھایا یہ کہیں کہ ایک منش آیاتھا تو دونوں یکساں ہیں کیونکہ کہوں کہ منش مخالف طبع ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بچپن سے شخص سنتے ہیں۔ اس لیے ہمیں منش یا مانس نامانوس معلوم ہوتاہے اسی طرح اور الفاظ جن کی تعداد بے شمارسے باہر ہے۔ اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بہت سے لفظ متروک ہیں۔ مگر دوسرے لفظ کے ساتھ مل کر ایسے ہو جاتے ہیں کہ نصحا کے محاورے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ مثلاً یہی مانس کہ اکیلا محاورے میں نہیں لیکن سب بولتے ہیں کہ احمد ظاہر میں تو بھلا مانس معلوم ہوتاہے باطن کی خبر نہیں۔ بندھو بھاشا میںبھائی یا دوست کو کہتے ہیں۔ اب محاورے میں بھائی بند کہتے ہیں نہ فقط بندھو نہ بھائی بندھو اور ان استعمالوں کی ترجیح کے لیے دلیل کسی کے پاس نہیں۔ جو کچھ جس زمانے میں رواج پا گیا وہی فصیح ہو گیا۔ ایک زمانہ آئے گا ہمارے محاورے کو لوگ بے محاورہ کہ کر ہنسیں گے۔ اگرچہ یہ بات بغیر تمثیل کے دیکھنے کے بھی ہر شخص کے خیال میں ہے کہ سنسکرت اور برج بھاشا کی مٹی سے اردو کا پتلا بنا ہے۔ باقی اور زبانوں کے الفاظ نے خط و خال کا کام کیا ہے۔ مگر میں چند فقط مثالاً لکھتا ہوں۔ دیکھو سنسکرت الفاظ جب اردو میں آئے تو ان کی اکثریت نے انقلاب زمانہ ے ساتھ کیونکرصورت بدلی۔ ۱۔ چورن سنسکرت ہے یعنی آٹا بھاشا میں چون کہتے ہیں اور اردو میں چورن پسی ہوئی دوا کو کہتے ہیں اور کٹی ہوئی چیز کے نیچے جو باریک اجزاء رہ جائیں وہ چورا ہے۔ ۲۔ پشٹ سنسکرت ہے ۔ برج بھاشام میں پسان اسی سے ہے پسنہاری اردو میں پیٹھی پسی ہوئی دال کے لیے خاص ہو گئی اور پیسنا مصدر ہو گیا۔ ۳۔ اٹ جسے برج بھاشا میں اوراردودونوں میں آتا کہتے ہیں۔ ۴۔ وارتا یاورت اردو میں بات ہو گئی۔ ۵۔ چتر دھر اردو میں چوہدری ہو گیا۔ ۶۔ چندر چاندری سنسکرت ہے اردو میں چاند اورچاندی ہو گاا۔ ۷۔ گڈھ گڑھ گھر یعنی خانہ اور کیا عجب ہے کہ فارسی میں کدیا کدہ بھی یہی ہو۔ ۸۔ ہست ہاتھ ہے۔ ۹۔ ہستی کا ہاتھی ہو گیا۔ ۱۰۔ بارد سنسکرت ہے بھاشا بارد اردو بادل یعنی ابر ہو گیا۔ ۱۱۔ دل ایک ایک چیزکے دو دو ٹکڑے کرنے کوکہتے ہیں۔ بھاشا اور اردو میں دال خاص غلہ کے لیے اور دلنا مصدر نکل آیا۔ ۱۲۔ کشیر دود ۔ بھاشا کھیر یا چھیرا ردو میں دودھ چاول سے تیار ہوتی ہے۔ ۱۳۔ دگدھ سنسکرت ہے بھاشا دودھ ہوا۔ اب اردو میں دودھ کہتے ہیں۔ ۱۴۔ ماش یا ماکھ ‘ ماس اردو میںمہینہ ہو گیا۔ ۱۵۔ گانڈا اردو میںگنا ہو گیا مگر گنڈیری میں ڈال باقی رہی۔ بہت سے الفاظ ہیں خہ عربی فارسی نے اردو کو دیے اردو نے کہیں تو لفظوں میں کچھ تصرف کیا معنی وہی رکھے۔ کہیں لفظوں میں سلات رکھا معنی کچھ سے کچھ کر لیے مثلاً فیلسوف یونانی لفظ ہے بمعنی محب الحکمت جسے عربی میں حکیم اور انگریز ی میں ڈاکٹر یا فلوزفر کہتے ہیں مگر اردو والے دگا باز اورمکار کو کہتے ہیں اور قلیسوفی مکاری۔ ابا…اما اب اورا م سے نکلتے ہیں۔ خصم عربی میں بمعنی مقابل یا دشمن مگر اردو میں خاوند بمقابل جورو کے ہے۔ جس سے زیادہ دنیا میں کوئی عزیز نہیں۔ تماشا سیر عربی میں فقط بمعنی رفتار ارد و میں کہتے ہیں چلو باغ کی شیر کر آتئیں عجب تماشا ہے۔ اخلاص عربی میں خالص کو کہتے ہیں اردو والے پیار سے اخلاص محبت ایک معنی میں بولتے ہیں۔ خیرات عربی لفظ ہے ‘ یعنی نیکیاں اردو میں خیرات دو صدقہ اتارو۔ تکرار عربی میں دوبارہ کہنے یاکام کرنے کو کہتے ہیں اردو میں نزاع یا جھگڑے کو کہتے ہیں۔ طوفان عربی لفظ ہے فارسی میںکسی شے کی حالت افراط کو کہتے ہیں اردو بہ معنی تہمت بھی آتاہے۔ خفیف عربی میں ہلکی شے کو کہتے ہیں۔ ہندی میں خہتے ہیں وہ جھ سے ذرا ملے تو سہی دیکھو کیسا خفیف کرتا ہوں یعنی شرمندہ۔ مصالح جمع مصلحت یا ماصلح کامخفف ہے اردو میں گرم مصالح وغیرہ اور سامان عمارت کو بھی مصالح کہتے ہیں۔ خاطر عربی فارسی میں دل یا خیال کے موقع پر بولتے ہیں اردو میں کہتے ہیں کہ بھال ایک گھونٹ تو ہماری خاطر سے بھی لو یا ان کی بڑی خاطر کی۔ دستوری جن معنی میں یہاں بولتے ہیں ہی ہمیں کا ایجاد ہے۔ پنجابی میں جھونگا کہتے ہیں۔ روزگار فارسی میں زمانہ کو کہتے ہیں۔ ہندی میںروزگار نوکری ہے۔ رومال جن معنی میں یہاں بولتے ہیں یہ یہیں کا ایجاد ہے۔ فارسی میںرد پاک یا دست پاک ہے۔ خیر و صلاح عوام الناس خیر سلا کہتے ہیں یعنی سحت و سلامت رسد اگرچہ فارسی کا لفظ معلوم ہوتا ہے۔ مگر اہل فارس ان معنی میں نہیں بولتے بہت الفاظ اس طرح لیے کہ معنی کے ساتھ ان کی صورت بھی بدل گئی۔ اگرچہ ان میںسے عوام الناس بولتے ہیں مگر الفاظ خواص کی زبانوں تک بھی پہنچ گئے۔ مثلاً ارداوہ کہ اصل آدوابہ تھا۔ شروا شوربہ یا شورابہ کھیسا کیسہ کہگل کاہ‘گل ہمام دستہ ہاون دستہ بجاز بزاز قبور قربوس دسپناہ دست پناہ‘ یہیں کی فارسی ہے۔ مردار سنگ مرد ہ سنگ گڈری گزری بازار وقت شام پجاوہ پزاوہ پزیدن سے ٹاٹ بافی تار بافی زری کونا زری کہنہ تارتلا تارطلا یعنی زری کہنہ تانے تشنے طعن و تشنیع بک بک جھک جھک زق زق‘ بق بق توبہ تنسوہا توبتہ نصوحا تاشہ تاسہ اور تاسک فارسی لفظ ہے۔ سہ بندی سپہ بندی نو نگہداشت فوج غرفش غرش افراتفری یعنی افراط و تفریط۔ اصل میں نہایت بہتات اور نہایت کمی کے معنی ہیں۔ اب کہتے ہیں خہ عجب افراتفری پڑ رہی ہے یعنی ہل چل پڑ رہی ہے۔ قلانچ قلاش یا قلاچ ترکی میں دونوں ہاتھوں کے درمیانکی وسعت کو کہتے ہیں اس لیے کپڑا ماپنے کا پیمانہ ہے۔ یہاں خرگوش یا ہر ن وغیرہ جانور دوڑتے ہیں تو کہیں گے کہ قلانچیں بھرتے ہیں۔ ذوق وحشی کودیکھا ہم نے اس آہو نگاہ کے جنگل میں بھر رہا ہے قلانچیں ہرن کے ساتھ آکا ترکی میں بڑے بھایء کوکہتے ہیں۔ یہاں آکا یادوست کو بولتے ہیں اوراس میںکچھ بانکپن کو بھی دخل ہے۔ قیورق ترکی میں شے محفوظ کو کہتے ہیں۔ یہاں جو شے حاکم کی ضبطی میںآئے اسے قرق کہتے ہیں۔ مشاطہ مشط عربی میں کنگھی کو کہتے ہیںَ فارسی میں مشاطہ اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کو بنائو سنگار کروائے جیسے ہندوستان میں نائن اردو میں: مشاطہ بضم اول اور بتخفیف ثانی اس عورت کو کہتے ہیں کہ جو زن و مرد کی نسبت تلاش کرے اور شادی کروائے۔ مرغا فارسی میںمرغ فقط پرندہ ہے اردو میں مرغا خروس مرغی ماکیان کو کہتے ہیں اور ان کے ہاں ہر جمعہ کو مرغوں کی پالی بندھتی ہے۔ چغ یا چق ترکی میں باریک پردے کو کہتے ہیں۔ کتا ترکی میں بڑے کو کہتے ہیں۔ یہاں کٹا موٹے کو کہتے ہیں ہٹا کٹامحاورہے۔ نظر بالتحری ہے مگر جمع اس کی بسکون اوسط ہ بولتے ہیں ۔ وزیر؎ ترچھی نظروںسے نہ دیکھو عاشق دلگیرکو کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو خط مشدد ہے مگر اب کہتے ہیں کہ آج کل خطو ں میں آداب و القاب کا دستور ہی نہیں رہا کسی استاد کا شعر ہے: صاف تھا جب تک کہ خطہ تب تک جواب صاف تھاا اب جوخط آنے لگا شایدکہ خط آنے لگا غم بھی عربی میں مشدد ہے۔ فارسی اور اردو میں بالتخفیف بولتے ہیں۔ طرح عربی میں بالتسکین ہے اردوکے اہل محاورہ اور شاعر بھی بالتحریک باندھتے ہیں۔ محل بالتشدید ہے۔ مگر کہتے ہیں کل بھولی بھٹیاری کے محلوں پر بسنت ہے۔ بھولی بھٹیاری کوئی بو علی بختیاری کا مخف و مبدل کہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بھولی بھٹی کا۔ بجے منڈل بدیع منزل کا مخفف و مبدل ہے۔ دلی کے باہر شاہان قدیم کی تعمیرات سے ایک مشہور عمارتہے۔ مرزاحسن کو پیار سے مرزا حسنو کہتے ہیں اور یہاں س ساکن ہی بولنا فصیح ہے۔ کلمہ لام کی زیر سے ہے۔ محاورے میں بہ سکون لوام بھی بولتے ہیں اور وہی بھلا معلوم ہوتا ہے جرات نے کیا خوب کہا ہے: کلمہ بھرے ترا جسے دیکھے تو نظر بھر کافر اثر یہ ہے تری کافر نگاہ کا نشاہ اہل محاورہ اسے نشا بھی کہتے ہیں۔ ذوق نے کیا خوب کہا ہے: جتنے نشے ہیں یاں روش نشہ شراب ہو جاتے بدمزہ ہیںجو بڑھ جاتے حد سے ہیں کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کا میر سمندر ناز کو اک اور تازیانہ ہوا اس طرح سینکڑوں لفظ ہیں جن کی تفصیل بے فائدہ طویل ہے۔ انگریزی زبان بھی اپنی عمل داری بڑھائی جا رہی ہے۔ ہندو مسلمان بھائیوں کواس دن کا انتظار کرنا چاہیے کہ عربی فارسی کے لفظ جواب تک ہمارے تمہارے باپ دادا بولتے رہے آئندہ ان کی جگہ کثرت سے انگریز ی لفظ نظر آئی گے کہ عربی فارسی کے لفظ خود جگہ چھوڑ چھوڑ کر بھاگ جائیں گے چند لفظ ایسے بھی دکھانے چاہئیں جو مختلف ممالک یورپ کے ہیں اوراب ہماری زبان میں اس طرح پیوند پا گئے ہیں کہ جوڑ تک نہیںمعلوم ہوتا۔ مثلاً کمرا اطالو ی ہے ۔ اسٹام سٹمپ انگریزی ہے۔ نیلام… پرتگالی ہے… وہ لیلام کہتے ہیں بسکٹ بسکٹ انگریزی ہے۔ پادری… زبان لاطینی سے آیا ہے پنشن … انگریزی ہے لالٹین… لین ٹرن انگریزی ہے۔ بوتام… بوتان فرنچ ہے۔ پستول …پسٹل انگریزی ہے بٹن… انگریزی ہے فرانیل …یا فلالین فلینل انگریزی ہے بگی …انگریزی ہے بابنٹ…بابی نٹ ایک جالی کی قسم کا کپڑا گلاس…انگریزی میں عام شیشہ ہے۔ میم میڈم انگریزی ہے آردلی …آرڈر یل انگریزی ہے بوتل …باٹل انگریزی ہے درجن …ڈزن انگریزی ہے اسی طرح اسٹیشن‘ ٹکٹ‘ریل‘ پولیس وغیرہ ہا لفظ ہیں کہ خاص و عام سے بڑھ کرعورتوں کی زبان تک پہنچ گئے ہیں اور جو الفاظ دفتوں اورکچہریوں اور صاحب لوگوں کے ملازم بولتے تھے۔ اگر سب لکھے جائیں تو ایک ڈکشنری بن جائے۔ ہر زبان کے فصحا کا قاعدہ ہے کہ اپنی زبان میں تصرفات لطیف سے کچھ ایجاد کر کے نئے الفاظ اور اصطلاحیں پیدا کرتے ہی۔ ہماری اردو بھی اس میدان یمں کسی سے پیچھے نہیں رہتی۔ ان اصطلاحوں کی بنیاد اگرچہ اتفاقی پڑتی ہے لیکن ان لوگوں کی طبیعت سے ہوتی ہے جو علم کے ساتھ فکر عالی طبیعت براق ذہن پر ایجاد اور ایجاد دل پذیر رکھتے ہیں۔ انہی کے کلام کا خاص اور عام کے دلوں میںبھی اثر ہوتا ہے۔ کہ بات سب کے دلوں کو بھلی لگتی ہے اوراسے اختیار کر لیتے ہیں۔ مثلاً گھوڑے کارنگ جسے ہندوستان میں سرنگ ار پنجابی میں چنبا یا ککا کہتے ہیں۔ فارسی میں اسے کرنگ کہتے ہیں۔ چونکہ بھاشا میں اک علامت بدی اور س علامت خوبی ہے اس لیے اکبر نے اس کا نام سرنگ رکھا۔ گھوڑے کی اندھیری کا نام اجیالی رکھا کہ نیک شگون ہے۔ خاکروب کو حلال خور کا خطاب بھی اسی ذرہ نواب بادشاہ کا بخشا ہوا ہے۔ جہانگیر کی رنگیلی طبیعت ے شراب کا نام رنگی رکھا او ر اس کو فارسی کے شعراء نے اشعار یںبھی باندھا۔ طالب آملی: نہ ایم منکر صہبا و لیک می گویم کہ رام رنگئی مانشہ دگر دارد سنگترہ کو اس کی خوبی و خوش رنگی کے سبب سے محمد شاہ نے رنگترہ کہا بلبل ہندوستان کا نام گلدم نام رکھا۔ ہار کے لفظ کو بدشگون سمجھ کر پھلمال کہوایا۔ شاہ عالم نے سرخاب کو بھی گلسہرہ کہا مگر اس نے رواج نہ پایا۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم نے ملائی کانام باالئی رکھاکہ لکھنو میں عام اور دلی وغیرہ میں کم رائج ہے مذا ق سلیم دونوں کے لطف میں امتیاز کر سکتا ہے۔ بھاشا کی ساخت دیکھو کہ ہر ایک زبان کے ملاپ کے لیے کیسی ملنسار طبیعت رکھتی ہے۔ نظم و نثر پر غور سے نظر کرو۔ اس نے اپنے مہمان کے لیے فقط لفظوں ہی میں جگہ خالی نہیں کی بلکہ بہت سے الفاظ و خیالات جو کہ ملکی خصوصیت عربی و فارسی سے رکھتے تھے۔ وہ بھی لے لیے کہ چنانچہ بہادری کا میدان رستم و سام کو دیا۔ حالانکہ وہ یہاں بھی اور ارجن کا تھا۔ سوداکہتے ہیں: رستم رہا زمین پہ نہ سام رہ گیا مردوں کا آسماں کے تلے نام رہ گیا رستم سے بھلا کہہ تو سر تیغ تلے دھر دے پیارے یہ ہمیں سے ہو ہر کارے و ہر مردے حسن و جمال کے شبستان میں لیلیٰ و شیریں آ گئیں اورجب وہ آئیں تو رانجھے کی جگہ مجنوں و فرہاد کیوں کر نہ آئے۔ مجنوں و فراہد کی آنکھوں سے گنگا جمنا تو بہہ نہ سکیں ‘ مجبور جیجوں سجوں ہندوستان آ گئے۔ ہمانچل اور بندھیا چل کوچھوڑ کر وہ بیستون قصر شیریں کوہ الوند سے سر پھوڑتے رہہے۔ گر جب کوئی خوش طبع چاہتا ہے تو یہں کے پھولوں سے بھی یہاں کے مکان سجا دیتاہے۔ اور وہ عجیب بہاردتے ہیں۔ ایک زبان کے محاورے کو دوسری زبان میں ترجمہ کرنا جائزنہیں۔ مگر ان دونوں زبانوں میں ایسا اتحاد ہوگا کہ یہ فرق بھی اٹھ گیا اروانے کار آمد خیالوں کے اداکرنے کے لیے دل پذیر اور دل کش ا ور پسندیدہ محاورات جو فارسی میں دیکھے انہیں کبھی بجنسہ اور کبھی ترجمہ کر کے لیا مثلاً برآمدن اور بسر آمد ہندی میں اس کا ترجمہ ڈھونیںتو نہیں ہے۔ گر اہل زبان نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ تضمین کر لیاا اور سودا نے کہا: سودا؎ اس دل کی تف آہ سے کب شعلہ بر آئے بجلی کو دم سرد سے جس کے حذر آئے افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آئے وہ زلف سیہ اپنی اگر لہر پر آئے درآمدن یعنی گھس آنا۔ سودا؎ یاں تک نہ دل آزار خلائق ہو کہ کوئی مل کر لہو منہ سے صف محشر میں در آئے عرق عرق شدن آب شدن ذوق؎ آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی جب یہ عاصی عرق شرم میں تر جائیں گے حرف آدن اور دل خون شدن ذوق؎ حرف آئے مجھ پہ دیکھیے کس کس کے نام سے اس درد سے عقیق کا دل خوں یمن میں ہے سید انشاء ؎ لب وہ کہ لعل کے بھی نگینے پہ حرف ہے چشمک زدن ذوق؎ لب پر ترے پسینے ک بوند اے عقیق لب چشمک زنی کرے ہے سہیل یمن کے ساتھ پیمانہ پر کردن مار ڈالنا سودا؎ ساقی چمن میں چھوڑ کے مجھ کو کدھر چلا پیمانہ میری عمر کا ظالم تو بھر چلا دامن افشاندہ برخاستن‘ بیزار ہو کر اٹھ کھڑے ہونا۔ سودا؎ کیا اس چمن میں آن کے لے جائیھ گا کوئی دامن تو میرے سامنے گل جھاڑ کر چلا از جامہ بیرون شدن سودا؎ نکلا پڑے ہے جامے سے کچھ ان دنوں رقیب تھوڑے ہی دم دلاسے میں اتنا ابھر چلا ذوق؎ کب صبا آئے ترے کوچے سے اییار کہ میں جوں حباب لب جو جامے سے باہر نہ ہواا فلکش خبر ندارد یہ محاورہ بھی اہل ہند کا ہے۔ کیونکہ یہاں اکاس ہے فلک نہیں۔ اہل ہند اس کا مضمون کیوں باندھتے مگر سودا کہتے ہیں: تجھ رخ میں ہے جو لطف ملک کو خبر نہیں خورشید کیا ہے اس کے فلک کو خبرنہیں دل از دست رفتن… بے اختیار ہو جانا۔ سودا کا مصرع ہے۔ ہاتھ سے جاتا رہا دل دیکھ محبوباں کی چال دل دادن عاشق ہونا ظفر دل دے کے تم کو جان پہ اپنی بری بنی شیریں کلامی آ پ کی میٹھی چھری بنی میر صاحب ایسا نہ ہو دلدادہ کوئی جاں سے گزر جائے از جان گزشتن جان پرکھیل جانا ظفر کا شعر ہے: وہاں جائے وہی جو جان سے جائے گزر پہلے ا ز سر چیزے گشتن دست بردار ہونا سید انشاء خدا کے واسطے گزرا میں ایسے جینے سے ذوق؎ پہنچیں گے رہگزر یار تلک کیوں کر ہم پہلے جب کہ نہ دو عالم سے گزر جائیں گے آصف الدولہ تو اپنے شیوہ جورو جفا سے مت گزرے تری بلا سے مرا دم رہے رہے نہ رہے سودا؎ چاہے تجھ چشم کے آگے جو ہو بادام سفید کھینچ کر پوست کرے گردش ایام سفید سفید شدن پوست کشیدن بھی فارسی کا محاورہ ہے جس کا ترجمہ انہوںنے کر لیا ہے اردو میں کھال اتارنا ناسخ؎ بھاگئی کون سی وہ چیز بتوں کی ہم کو نہ کمر رکھتے ہیں ظالم نہ دہن رکھتے ہیں یہ حقیقت میں لفظی ترجمہ فارسی محاورے کا ہے کہ نہ کمر دارند نہ دہن دارند ہندی کا محاورہ بھی ہے کہ نہ کمر ہے نہ دہن ہے۔ بعض جگہ اصل اصلاح فارسی کی لے کر اس پر اپنے شعر کی بنیاد قائم ک ہے۔ مثلاً تر دامن اصطلاح فارسی میں پر گناہ ہے۔ دیکھو اسی بنیاد پر کیا مضمون پیدا کیا ہے۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ذوق؎ کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاک دامنی ہے چراغ سحری بیمارجان بلب ٹک میر جر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا اور دیکھو اردو فارسی دو محاورو کو کس خوب صورتی سے ترکیب کیا ہے۔ آشیانے میں میر بلبل کے آتش گل سے رات پھول پڑا پنبہ دہن یعنی کم گو زبان دراز بے ادب پر گو ااستاد مرحو نے ساق نامہ میں کہا: شیشہ مے کی یہ دراز زبان اس پہ ہے ستم یہ کہ پنبہ وہاں شیشے کے منہ میں سے عرق یا شربت وغیرہ نکتے وقت جو دھار بندھتی ہے اسے اصطلاح فارسی میں زبان شیشہ کہتے ہیں۔ آتش زیرپا بے قرار موئے آتش دیدہ جسے آگ کا سینک پہنچاہو بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا مردن چراغ ‘ کشتن چراغ‘ چراغ کے بجھنے اور بجھانے کو کہتے ہیں اس سے شمع مردہ دچراغ مردہ دیکھنا ذوق مرحوم نے کس لطف سے جان ڈالی ہے۔ شمع مردہ کے لیے ہے دم عیسیٰ آتش سوزش عشق سے زندہ ہوں محبت کے قتیل داغ دل فسردہ پہ پھاہا نہیں نہ ہو کام اس چراغ مردہ کو کیا ہے کفن کے ساتھ کمر کوہ اور دامن کوہ سے بھی دیکھو کیامضمون نکالاہے۔ ذوق؎ حاضر ہیں جلو میںترے وحشی کے ہزاروں باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے گردن مینا آتش نے کیاخوب مضمون نکالا ہے: ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے دست سبو خواجہ وزیر نے کس خوبصورتی سے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ہوں وہ مے کش گر نہ آیا مے کدے میں ایک دن ہر سبو نے ہاتھ پھیلائے دعا کے واسطے سوسن دہ زبان فارسی والوں کا خیال ہے۔ میروزیرعلی صبا کہتے ہیں: کھولا بہار نے جو کتب خانہ چمن سوسن نے دس ورق کا رسالہ اٹھا لیا سرو کو آزاد فارسی والوں نے کیا تھا کہ بہار و خزاں اور ثمر اور بے ثمری کی قید سے آزاد ہے ۔ ذوق مرحوم اس بنیاد پر فرماتے ہیں: پابزنجیر آب جو کی موج میں سب سرد ہیں کیسی آزادی کہ یاں یہ حال ہے آزاد کا قافلہ نگہت گل‘ سید انشاء نے خوب ترجمہ کیا ہے: جو ٹھنڈے ٹھنڈے جلی ہے اے آہ چھانو تاروں کی چل نکل تو گلوں کی نگہت کا قافلہ بھی چمن سے ہے لاد پھاند نکلا آسمان زمین کے قلابے ملانے بھی ایجاد اہل اردو کا ہے ذوق؎ قلابے آسمان و زمین کے نہ تو ملا ا بت سے کوئی ملنے کی ناصح بتا صلاح طوفان باندھنا بھی انہی کی ایجاد ہے ہندی میں نہ تھا: اشک آئے نہیں مژگاں پہ کہ یاروں نے ابھی پانی سو نیزہ دیا باندھ کے طوفان چڑھا بعض فارسی کے محاورے یا ان کے ترجمے ایسے تھے کہ میر و مرزا وغیرہ استادوں نے لیے مگر متاخرین نے چھوڑ دیے۔ چنانچہ فارسی کا محاورہ ہے: ترآمدن یعنی شرمندہ شدن میر صاحب کہتے ہیں: کھلنے میں ترے منہ کی کلی پھاڑے گریبان آگے ترے رخسار کے گل برگ تر آوے تو گوئی میر حسن اس کا ترجمہ فرماتے ہیں: کہے توکہ خوشبوئیوں کے پہاڑ ایک اور موقع پر کہتے ہیں: کہے تو کہ دریا تھا اک نور کا میر صاحب اب کوفت سے ہجراں کی جہاں دل پہ رکھا ہاتھ جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ یہیں تھا نمود کردن بمعنی ظہور کردن بھی فارسی کا محاورہ ہے۔ نمود کر کے وہیں بحر غم بیٹھ گیا کہے تو میر بھی اک بلبلا تھا پانی کا حیف آنا یا حیف کسانیکہ میر صاحب حیف دے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت ان کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا اب اگر کہیں گے تو یہ کہیں گے کہ حیف ہے ان لوگوں کے حال پر جن کے پاس تو گیا اور وہ بچارے اشارے سے بھی حال نہ کہہ سکے کنے ہندی ہے ۔ مگر اب متروک ہے۔ بے تہی یعنی کم مائیگی میر صاحب کا شعر ہے: اس زمانے میں تری سے لہر بہر اگلی نہیں بے تہ کرنے لگے دریا دلوں کے حوصلے خوشم نمے آید مجھے بھلا نہیں لگتا میر صاحب فرماتے ہیں: ناکامی صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ اب جی سے گزر جانا کچھ کام نہیں رکھتا خوشا بحال کسانیکہ میر صاحب فرماتے ہیں: احوال خوش انہوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا داغ ایں حسرت ام میر صاحب کہتے ہیں: داغ ہوں رشک محبت سے کہ انتا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا اے کہ یا اے آنکہ۔ میر صاحب کہتے ہیں: اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ ایک بار جائے گا ایک قصیدہ مدحیہ کے مطلع ثانی میں سودا کہتے ہیں: اے تو کہ کار جن و بشر تجھ سے ہے رواں تیری وہ ذات جس سے دو عالم ہے کامراں فارسی میں بیان امر کا صیغہ شعر کے اول میں لاتے ہیں اور وہ بہت مزہ دیتا ہے: بیا کہ گر یہ من آں قدر زمیں نگزاشت کہ در فراق تو خاکے بسر تواں کردن عرنی؎ بیا کہ بادلم آں ے کند پریشانی کہ غمزہ تونکر وہ است با مسلمانی میاںرنگین اس کا ترجمہ کرتے ہیں: آ تجھ بغیر مملکت کا دل اجاڑ ہے چھاتی پہ راحت ہجر کی کالا پہاڑ ہے دستے دریں کار دارد یعنی وہ اس کا م میں واقفیت یامہارت رکھتاہے۔ سودا؎ کون ایسا ہے جسے دست ہے دل سازی میں شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہنر سے پیوند ودہن ایں کارنداد۔ سودا نے کہا نہیں ہے بحث کا طوطی ترا دہن مجھ سے سخن تو دیکھ ہے رنگیں ترا چمن مجھ سے گوش گردن سننا سودا نے ترجمہ کیا: کب اس کو گوش کرے تھا جہاں میں اہل کمال یہ سنگ ریزہ ہوا ہے در عدن مجھ سے بوکردن سونگھنا سودا نے ترجمہ کیا ہے دیکھوں نہ کبھی گل کو ترے منہ کے میں ہوتے سنبل کے سوا زلف تری بونہ کروں میں اور میر صاحب نے اس سے بڑھ کر کہا ہے: گل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا خوابم بردیا خوابم درد بود… یعنی مجھے نیند آ گئی…جرات کل واں سے آتے ہی جو ہمیں خواب لے گیا دیکھا تو پھر وہیں دل بے تاب لے گیا ہندی کا محاورہ نیند آتی ہے خواب کا لے جانا محاورہ نہیں۔ زنجیر کردن قید کرنا…سید انشاء سوداز وہ دل ہے تو یہ تدبیر کریں گے اس زلف گرہ گیرسے زنجیر کریں گے خاک برسرکردن۔ سودا نے ترجمہ کیا ہے: تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی شبنم بھی اس چمن سے صبا چشم تر گئی ہندی میں سر چاک ڈالنی کہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض رسمیں اور ٹوٹکے جو ایران اور توران میں ہوتے تھے اس کے اشارے اردو میں کرنے لگے ۔سودا دوانہ ان لٹوں کا ہوں قسم ہے روح مجنوں کی نہ مارو مجھ کو چوب گل بغیر از بید کی چھڑیاں میر اور سودا کے حال میں ان مطالب کی توضیح کی ہے۔ داغ جنوں استاد مرحوم عالم طفولیت کی ایک غزل میں فرماتے ہیں: دیوانہ ہوں تیرا مجھے کیا کام کہ لوں گل زیبائش سر کو ہے مرے داغ جنوں گل اور میر صاحب مثنوی میں کہتے ہیں سر تا پا آشفتہ دماغی داغ جنوں دے جس پہ چراغی ولایت میں رسم ہے کہ قعلے کے محاصرے میںیا ایک لشکر سے دوسرے لشکر میںجب قاصد کا پہنچنا ممکن نہیں ہوتاتو خط کا پرزہ تیر میں باندھ کر پھینکتے ہیں۔ چنانچہ میر اور سودانے اسے اردو میں باندھا ہے۔ نامہ جوداں سے آئے ہیں سو تیر میں بندھا کیا دیجیے جواب اجل کے پیام کا نہ تھا پیکاں پہ کیا جو ہر جو نامہ تیر پر لکھا اشارہ قتل کا قاتل نے کس تقصیر پر لکھا اگرچہ ان باتوں پر فصاحت کے اصول عامہ کے بموجب بہت اعتراض ہوئے۔ مگر احتراز نہ ہوئے کیونہ بولنے ولوں کی نسلیں اور اصلیں اور گھر اور گھرانے فارسی سے شیر و شکر ہو رہے تھے ۔ جتنا اس کا دخل زیادہ ہوتا تھا اتناہی مزہ زیادہ ہوتا تھا اور آج دیکھتے ہیں کہ تو اور ہی رنگ ہے ہمارے قادر الکلام انشاء پرداز ترجمے کر کے انگریزی کے خیالوں کے چربے اتارتے ہیں اور ایسا ہی چاہیے ۔ جہاں اچھا پھول دیکھا چن لیا اور دستار نہیں تو کوٹ میں زیب گریبان کر لیا۔ ہمارے انشاء پردازوں نے جب دیکھا کہ فارسی والوں نے اپنی قادر سخنی کے زور یا ظرافت طبع کے شور سے عربی ترکیبوں کا استعمال کیا توانہوںنے بھی اپنے پیارے ملک کی زبان کو اس نمک سے بے لطف نہ چھوڑا سودا فرماتے ہیں: جیسے کہتا ہے کوئی ہو ترا صفاً صفا سید رضی خاں رضی مرحوم نے کیا خوب کہا ہے: تری وہ مثل ہے کہ اے رضی نہ الی الذی نہ الا الذی دونوں زبانوںکے باب تشبیہات میں ایک نکتہ ہے بغیر مجھ سے آگے نہیں بڑھا جاتا یعنی مختلف افراد انسان کے طبائع پر غور کرو کہ ہزاروں کوس پر پڑے ہوں اور مختلف طبعیت کے ملکوں یں ہوں لیکن چونکہ طبیعت انسانی متحد ہے‘ اس لے دیکھو کہ ان کے خیالات کس قدر ملتے جلتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بالوں کی تعریف میں ناگوں کے لہرانے اور بھنوروں کے اڑنے سے تشبیہ دیتے تھے۔ فارسی میں زلف کی تشبیہ سانپ کے ساتھ آئی ہے۔ اس لیے اردو میں سانپ رہے۔ مگر بھونرے اڑ گئے اور اس کی جگہ شک بنقشہ‘ سنبل‘ ریحان آ گئے اور جو کبھی یہاںدیکھے بھی نہیں مگر عرب کاا سادہ مزاج فصیح اپنی نیچر کا حق ادا کرتا ہے اور زلف کو کویلے سے تشبیہ دیتاہے۔ سانولی رنگت کی تعریف میں شام برن اور میگھ برن کہتے ہیں۔ اس سے کھلتا رنگ ہوتا تو چنبک برنی کہتے تھے۔ اب سمن رنگ اور سیم رنگ کے الفاظ حسن کو بہار دیتے ہیں۔ مگر چندر مکھ او رماہ رخ مشترک ہے۔ آنکھ کی تعریف میںیہاں مرگ کی آنکھ اور کنول کے پھولل اورممولا کی اچپلاہٹ سے تشبیہ دیتے تھے اردو میں آہو چشم رہے مگر ممولے ہوا ہو گئئے اور کنول کی جگہ ساغر لبریز اور نرگس شہلا آ گئی جو کسی نے یہاں دیکھی بھی نہ تھی۔ بلکہ ترک چشم شمشیر نگاہ سے قتل کرنے لگے۔ رفتار کے لیے بھاشا میں ہتنی اور ہنس کی چال ضرب المثل ہے۔ اب ہنس کے ساتھ ہاتھی بھی اڑ گیا فقط کبک دری‘ شور محشر اور فتنہ قیامت نے آفت برپا کر رکھی ہے۔ بھاشا میں ناک کی تشبیہ طوطے کی ناک سے تھی۔ اب زنبق کی کلی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ آتش کا شعر ہے: توڑنے والے گل زنبق کے ہیں کاٹنے والے چمن کی ناک کے فارسی والو ں نے کمر کی نزاکت میں بڑی باریکیاں نکالی ہیں۔ مگر سنسکرت نے بھی اپنی جگہ مبالغے میں کچھ کمی نہیں کی۔ چنانچہ آنکھوں کی تعریف میں ای شاعر نے کہا: گوشے ان کے کانوں سے جا ملے تھے۔ پہلے یہاں ہوایا ابر یا ہنس کو قاصد کہتے تھے ۔انہوںنے نسیم اور صبا کو قاصد رکھا بلکہ نالہ و آہ اور اشک سے بھی پیغام رسانی کا کام لیا۔ استاد مرحوم کا شعر ہے: نالہ ہے ان سے بیاں درد جدائی کرتا کام قاصد کا ہے یہ تیر ہوائی کرتا ظفر گر نہیں ہے کوئی نامہ بر تم آنسو ہی اپنا روانہ کر دو سودا: قاصد اشک آ کے خبر کر گیا قتل کوئی دل کا نگر کر گیا فارسی والے طفل اشک باندھتے تھے۔انہوںنے اسے بھی لڑکا بنایا اور دیکھو استاد مرحوم نے اس کے لیے دامن کیا خوب تیار کیاہے: طفل اشک ایسا گرا دامانمژگاں چھوڑ کر اور ظفر نے کہا : کیا ہی شریر لڑکے یہ اوپر تلے کے ہیں اور معروف نے کہا ہے: ابھی سے نام خدا کرنے قاصد نکلا یہ طفل اشک بڑا پائوں کابلی نکلا بیاں کیا کروں اشک کی ابتری کا یہ لڑکا بد اطوار پیدا ہواہے یہ نہ سمجھنا کہ فارسی زبان ہندی میں تصرف حاکمانہ کرتی رہی۔ نہیں اسے بھی یہاں کے الفاظ لیے بغیر چارہ نہیں ہوا۔ چنانچہ جو الفاظ فارسی اور سنسکرت کے اصلیت میں متفق ہیں۔ ان سے قطع نظر کر کے کہتا ہوں کہ سلاطین چغتائیہ کے دفتروں میں صد ہا لفظ ہندی تھے جو کہ فارسی عبارتوں میں بے تکلف مستعل ہوتے تھے اور اب بھی عہد مذکور کی تاریخوں میں موجو دہیں۔ مثلاً جھروکہ درشن اورپھول کٹارہ اورکھپوہ مرصع‘ جہانگیر بادشاہ اپنی توزک میں لکھتا ہے کہ میرا بھائی شاہ مراد کوہستان فتح پور سیکری میں پیدا ہوا تھا۔ اسی واسطے میرے والد اسے پہاڑی راجہ کہا کرتے تھے۔ اور آرام بانو بیگم میری چھوٹی بہن کو بہت پیار کرتے تھے۔ اور اکثر مجھ سے کہتے تھے کہ بابا بجہت خاطر من با ایں خواہر کہ خود کہ لاڈلہ من است بعد دعا باید کہ بہ روشے سلوک کنی کہ ن بادمی کنم ناز او برداشتہ بے ادبی شوخی ہائے اور اہگزرانی اسی کتاب سے معلوم ہوتاہے کہ شاہجہان بچپن میں اکبر بادشاہ کو شاہ بابا اور جہانگیر کو شاہ بھائی کہا کرتا تھا۔ اسی طرح شعراء نے اپنے تصرفت رنگین کے ساتھ اشعار فارسی کو رونق دی ہے۔ امیر خسرو سو برس پہلے کہتے ہیں: بنشستہ چوں در پالکی نہ چرخ کہا رآمدہ قرآن السعدین میں کہتے ہیں: خان کرہ چھجوئے کشور کشا کز لب شاہاں کرہ دارد بپا اور دہلی کی یاد میں فرماتے ہیں: اے دہلی والے بتان سادہ پگ بستہ و چیرہ کج نہادہ سرآں و دچشم گردم کہ چوہندوان رہزن ہمہ راہ بنوک مژگاں زدہ بر جگر کٹارہ عرفی در چاشت کہ از شبنم گل گرد فشانست آں باد کہ در ہند گر آید جکر آید سیر گشتم زکچرئے ایام ہوس سیم و زر نمے دارم ظہوری: سپہر از سرافرازیش در حساب ز چوکھنڈ یش سایہ بر آفتاب اشرف چوکھنڈی شکوہش اگر سایہ افگند خیل سپہر شنہ بدوز و بزیر باز طغرا: شوخ سوسن رابگو دل مے رباید فشقہ ات ذات راجپوت است ترس دست برجمد جرکند خسرو: پاں خوردہ بمن دادہ اگال آں بت ہندی ایں بوسہ بہ پیغام چہ رنگین مزہ دارد ظہوری: شود چہرہ زرد خورشید لال دہندش اگر ناز نپیاں اگال اور سہ نثر میں بادشاہ کے لیے کیا خوب کہا ہے: یار جگت گردئی عالم برخود گرفتہ بیان مذکورہ بالا سے تمہیں اجمالاً معلوم ہو گیا ہو گاا کہ اردو کا درخت اگرچہ سنسکرت اور بھاشا کی زمین میں اگامگر فارسی کی ہوا میں سرسبز ہوا ہے البتہ مشکل یہ ہوئی کہ بیدل اورناصر علی کا زمانہ قریب گزر چکا تھا اور ان کے معتقد باقی تھے۔ وہ استعارہ اور تشبیہ کے لطف سے مست تھے۔ اس واسطے گویا اردو بھاشا میں استعارہ و تشبیہ کا رنگ بھی آیا اور بہت تیزی سے آیا یہ رنگ اگر اسی قدر آتا کہ جتنا چہرے پر ابٹنے کا رنگ یا آنکھوں میں سرمہ تو خوشنمائی اور بینائی دونوں کو مفید تھا۔ مگر افسوس کہ اس کی شدت نے ہماری قوت بیان کی آنکھوں کو سخٹ نقصان پہنچایا داورزبان کو خیالی باتوں سے فقط توہمات کا سوانگ بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھاشا اور اردو میں زمین آسمان کا فرق ہوگیا چاہتا ہوں کہ دونوں کے نمونے آمنے سامنے رکھ کر ان کے فرق کو دکھائوں مگر اس سے پہلے دو تین باتی خیال میں رکھنی چاہئیں اول تو شاعرانہ اردو کا نوجوان جس نے فارسی کے دودھ سے پرورش پائی اس کی طبیعت میں بہت سے بلند خیالات اور مبالغہ مضامین کے ساتھ وہ حالات اور ملکی رسمیں اور تاریخی اشارے آ گئے جو فارس اور ترکستان سے خاص تعلق رکھتے تھے اور بھاشا کے طبعی مخالف تھے ۔ ساتھ اس کے فارسی کی نزاکت اور لطافت طبعی کے سبب سے اردو کے خیالات اکثر ایسے پیچیدہ ہو گئے تھے کہ بچپن سے ہمارے کانوں میں پڑتے اور ذہنوں پر جمتے چلے جاتے ہیںاس لیے ہمیں مشکل نہیں معلوم ہوتے ان پڑھ انجان یا غیر زبان والا انسان سنتا ہے تو منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ کہ یہ کیا کہا۔ اس لیے اردو پڑھن والے کو واجب ہے کہ فارسی کی انشاء پردازی سے ضرور آگاہی رکھتا ہو۔ فارسی اور اردو کی انشاء پردازی میں جو دشواری ہے اور ہندی کی انشاء پردازی میں آسانی ہے۔ اس میںایک باریک نقطہ غور کے لائق ہے وہیہ ہے کہ بھاشا زبان جس شے کا بیا کرتی ہے ا س کی کیفیت ہمیں ان خط و خال سے سمجھاتی ہے جو خاص اسی شے کے دیکھنے سننے سونگھنے چکھنے یا چھونے سے حاصل ہوتی ہے اس بیان میں اگرچہ مبالغے کے زور یا جوش و خروش کی دھو دھام نہیں ہوتی مگر سننے والے کو جو اصل شے کے دیکھنے میں مزہ آتا ہے وہ سننے سے آ جاتاہے برخلاف شعرائے فارس کے کہ یہ جس شے کا ذکر کرتے ہیں صاف اسی کی برائی نہیں دکھا دیتے بلکہ اس کے مشابہ ایک اور شے جسے ہ نے اپنی جگہ اچھایا برا سمجھا ہوا ہے اس کے لوازمات کو شے اول پر لگا کر ان کا بیان کرتے ہیں مثلاً پھول کی نزاکت رنگ اورخوشبو میں معشوق سے مشابہ ہے۔ جب گرمی کی شدت میں معشوق کے حسن کا انداز دکھاتاہے تو کہیں گے کہ مارے گرمی کے پھول کے رخساروں سے شبنم کا پسینہ ٹپکنے لگتاہے اوراسی طرح رنگ میں شاعر کہتا ہے خواجہ وزیر: ہوں وہ بلبل جو کرے ذبح خفا تو ہو کر روح میری گل عارض میں رہے بو ہو کر یہ تشبیہیں اور استعارے اگر پاس پاس کے ہوں اور آنکھوں کے سامنے ہوں تو کلام میں نہایت لطافت اور نزاکت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب دور جا پڑیں اور بہت باریک پڑ جائیں تو دقت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہمارے نازک خیال کسی بادشاہ کے اقبال اور عقل کے لیے اس قدر تعریف پر قناعت نہیںکرتے کہ اقبال میں سکندر یونانی اور عقل میں ارسطو ئے ثٓنی ہے بلکہ بجائے اس کے کہتے ہیں کہ اگر اس کا ہمارے عقل اوج اقبال سے سایہ ڈالے تو ہر شخص کشور دانش و دولت کا سکندر و ارسطو ہو جائے بلکہ اگر اس کے سینے میں دلائل عقلی کامادہ جوش مارے تو طبقہ یونان کو غرق کردے۔ اول تو ہما کی ہ صفت خود ایک بے بنیاد فرض ہے اور وہ بھی اس ملک کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر اقبال کا ایک فلک الافلاک تیار کرنا اور اس پر نقطہ اوج کا دریافت کرنا دیکھیے وہاں ان کے فرضی ہما کا جانا دیکھیے پھر زمین پر اس خیالی آاسمان کے نیچے ایک تدبیر کا یونان بسانا دیکھیے پھر اس فرضی ہما کی برکت کا اس قدر عام کرنا دیکھیے۔ جس سے دنیا کے جاہل اس خیالی یونان میں جا کر ارسطو ہوجائیں برکت کا اس قدر عام کرنا دیکھیے۔ جس سے دنیا کے جاہل اس خیالی یونان میں جا کر ارسطو ہو جائیں۔ دوسرے فقرے میں اول تو علماء ہند نے تنور سے طوفان کا نکلنا ماناہی نہیں۔ اس پرطبقہ طوفانی کا اپنے فلسفے کی تہمت میں تباہ ہونا وغیرہ وغیرہ ایسی باتیں اور روایتیں ہیں کہ اگرچہ ہمارے معمولی خیالات ہوں مگر غیر قوم بلکہ ہمارے بھی عام لوگ اس سے بے خبر رہیں۔ اس لیے بے سمجھائے نہ سمجھیں گے اور جب بات کو زبان سے کہہہ کر سمجھانے کی نوبت آئی تو لطف زبان کجا اور یہ نہیں تو تاثیر کجا۔ مزہ وہی ہے کہ آدھی ات کہی آدھی منہ میں ہے اور سننے والا پھڑک اٹھا۔ تار باجا اور راگ پوجھا‘ ان خیالی رنگینیوں اور فرضی لطافتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو باتیں بدیہی ہیں اور محسوسات میں عیاں ہیں ہماری تشبیہوں اور استعاروں کے پیچ در پیچ خیالوں میں آ کر وہ بھی عام تصور می جا پڑتی ہیں۔ کیونکہ خیالات کے ادا کرنے میں ہم اول شیاء بے جان کو جاندار بلکہ اکثر انسان فرض کرتے ہیں۔ بعد اس کے جانداروں میں ہم اول اشیاء بے جان کو جاندار بلکہ اکثر انسان فرض کرتے ہیں۔ بعد اس کے جانداروں اور عاقلوں کے لیے جو باتیں مناسب حال ہیں۔ ان بے جانوں پر لگا کر ایسے ایسے خیالات پیدا کرتے ہیں جو اکثر ملک عرب یا فارس یا ترکستان کے ساتھ قومی یا مذہبی خصوصیت رکھتے ہیں۔ مثلا رات کو اہل محبت کے جلسے میں اول تو ساقی کا آنا واجب ہے پھر معشوق بجائے ایک نازنین عورت کے پریز ا د لڑکاہے۔ اس کی پیشانی اور رخسار سے نور صبح روشن ہے۔ مگر زلف کی شام بھی برابر مشک افشاں ہے۔ صراحی کبھی سرکشی کرتی ہے۔ اسی لیے جگر خون ہو کر ٹپکتا ہے۔ کبھی جھکتی ہے اور خند ہ قلقل سے ہنستی ہے۔ کبھی وہ قلقل حق حق ہو کر یاد الٰہی میں صرف ہوتی ہے۔ مگر پیالہ اپنے کھلے منہ سے ہنستا ہے اور اس کے آگے دامن پھیلاتا ہے ۔ فلک تیر حوادث کا ترکش کمان کہکشاں لگائے کھڑا ہے۔ مگر عاشق کا تیر آہ اس کے سینے کے پار جاتا ہے۔ پھربھی زحل منحوس کی آنکھ نہیں پھوٹتی کہ عاشق کی صبح مراد روشن ہو۔ یہاں کی محفل میں شمع برقع فانوس میں تاج و زر سر پر رکھے کھڑی ہے۔ اس لیے پروانے کا آنا بھی واجب ہے۔ وہ عاشق زار آتے ہی جل کر خاک ہو جاتا ہے۔ چراغ کو ہنساتے ہیں اور شمع کو عاشق کے غ میں رلاتے ہیں۔ وہ باوفا عشق کی تپ میں سراپا جلتی ہے۔ اس کی چربی گھل گھل کر بہتی ہے۔ مگرپائے استقامت اسکا نہیں ٹلتا۔ یہاں تک کہ سفیدہ سحری کبھی آ کر کافور کردیتا ہے اور کبھی طباشیر شمع کا دل اس کے لیے بھی گداز ہے کہ شب زندگی کا دامن بہت چھوٹا ہے لیکن صبح دونوں کے ماتم میں گریباں چاک کرتی ہے۔ عاشق بادہ خوار کے لیے مرغ سحر بڑا موزی ہے۔ اس کے ذبح کو ہمیشہ تیغ زبان تیز رہتی ہے باد سحر قاصد خجستہ گام ہے کہ پیغام یار کا بہت جلد لاتاہے اور لے جاتا ہے۔ اسی عالم میں آفتاب کبھی تو پنجہ شعاع سے آنکھ ملاتا ہے سر برہنہ حجرہ مشرق سے نکلتاہے۔ کبھی فلک پر سبزہ گھوڑے پر سوارکرن کا تاج زرنگار سر پر چمکاتا شفق کا پھریرا اڑاتا آتا ہے۔ کیونکہ اپنے حریف شاہ انجم کی فوج کو پریشان کر کے فتح یاب آیا ہے۔ ان ہی بنیادوں پر جب گلزار کی شگفتگی یا باغ کی بہار دکھاانی ہو تو ایسے خیالات میں دکھائیں گے کہ شاہد گل کے کان میں قاصد صبا کچھ ایسا فسوں پھونک گیا ہے کہ وہ مارے ہنسی کے فرش سبزہ پر لوٹ گیا۔ طفل غنچہ مسکرا کر اپنے عاشق بلبل شید کا دل لبھاتا ہے۔ کبھی خزاں کا غارت گر آتا ہے۔ تو گل اپنا جام اور غنچہ اپنی صراحی لے کر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے باغ میں بہار خود ایک معشوق ہے اس کا چہرہ چمن ہے۔ گل رخسار ہیں۔ سنبل بال ہیں۔ بنفشہ زلف ہے۔ نرگس آنکھیں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر بہار موسم جوانی ہے۔ درخت جوانان چمن ہیں کہ عروسں گلشن سے گلے مل مل کر خو ش ہوتے ہیںَ شاخیں انگڑائیاں لیتی ہیں تاک کا سیہ مست پڑا اینڈتا ہے۔ اطفال نبات دایہ بہار کی گود میں پرورش پاتے ہیں۔ خضر سبزہ کی برکت سے نسیم سحری مردہ ہزار سالہ میں دم عیسوی ک اکام دیتی ہے۔ مگر بلبل زار عاشق شاہد گل میں اداس ہے آب رواں عمر گزران ہے اس کی موج کی تلوار سے دل کٹتے جاتے ہیں۔ سرو کے عکس کا اژدھا نگلے جاتا ہے۔ شبنم کے آنسو جاری ہیں بلبل کبھی خوش ہے کہ گل اس کا پیارا پاس ہنس رہا ہے۔ کبھی افسردہ ہے کہ خزاں کا خونریز ان سب کو قتل کر دے گا یا اس کے دشمن یعنی گل چین و صیاد اسے یہاں سے نکالیں گے۔ سر و یا شمشاد کے عشق میں قمری کا گیروا لباس ہے۔ اس کے نالے کا آرا دلوں کو چیرتا ہے۔ کبھی عاشق زار بھی وہیں آ نکلتا ہے۔ وہ بجائے اپنے معشوق کے حسرت و غم سے ہمکنار ہے۔ روتا ہے اور قاصد صبا کو پیغام دیتا ہے کہ میرے تغافل شعار کو ذرا میرے حال کی خبر دینا۔ بیان مذکورہ بالا سے معلوم ہوا ہو گا کہ ان میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو خاص فارسی اور ترکستان کے ملکوں سے طبعی اور ذاتی تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض خیالات میں اکثر ان داستانوں یا قصوں کے اشارے بھی آگئے ہیں۔ جو خاص ملک فارس سے علاقہ رکھتے تھے۔ مثلاً بجائے عورت کے لڑکوں کاعشق‘ ان کے خط کی تعریف‘ شمشاد‘ نرگس‘ سنبل‘ بنفشہ‘ موے کمر‘ قدر سرو وغیرہ کی تشبیہیں لیلیٰ شیریں‘ شمع‘ گل سرو وغیرہ کا حسن‘ مجنون ‘ فرہاد ‘بلبل‘قمری‘ پروانہ کا عشق‘ فانوس کا برقع‘ غازہ اور گلگونہ ‘مانی و بہزاد کی مصوری رستم و اسفندیار کی بہادری‘ زحل کی نحوست‘ سہیل یمن کی رنگ افشانی‘ مشاہیر فارس یونان اور عرب کے قصے‘ راہ ہفتخوان‘ کوہ الوند‘ کوہ بے ستون‘ جوئے شیر‘ قصر شیریں جیجوں سیحوں وغیرہ وغیرہ ہر چند یہ سب معاملات عرب اور فارس سے متعلق ہیں۔ مگر اردو میں بہت سے خیالات انہی بنیاد پر نظم و نثر میں پیدا ہوتے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ ان خیالوں نے وہاں کی تشبیہوں نے اس قدر زور پکڑاکہ ان کے مشابہ جو یہاں خی باتیں تھیں۔ انہیں بالکل مٹا دیا۔ البتہ سودا اور سید انشاء کے کلام میں کہیں کہیں ہیں اور وہ اپنے موقع پر نہایت لطف دیتی ہیں۔ غرض کہ اب ہماری انشاء پردازی ایک پرانی یادداشت ان تشبیہوں اور استعاروں کی ہے کہ صد ہا سال سے ہمارے بزرگوں کی دست مال ہو کر ہم تک میراث پہنچی ہیں۔ ہمارے متاخرین کو نئی آفرین لینے کی آرزو ہوئی وت بڑا کمال یہ ہے کہ کبھی صفت بعد صفت کبھی استعارہ اور استعارہ سے اسے اور تنگ کر دیا ہے جس سے ہو اتویہ ہوا یک بہت غور کے بعد فقط ایک وہمی نزاکت اور فرض لطافت پیدا ہو گئی کہ جسے محالات کامجموعہ کہنا چاہیے لیکن افسوس یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ کلام ان کا خاص و عام کے دلو ں پر تاثیر کرے ۔ وہ مستعد لوگوں کی طبع آزمائی کے لیے ایک دقیق معما اور عوام کے لیے ایک عجیب گورکھ دھندا تیار ہو گیا اور جواب ان کا یہ ہے کہ کوئی سمجھے تو سجھے جو ہ سمجھیں وہ اپنی جہالت کے حوالے۔ اب اس کے مقابلے میں دیکھو۔ بھاشا کا انشاء پرداز برسات میں اپنا باغ کیوں کر لگاتا ہے۔ درختوں کے جھنڈ چھائے ہیںَ گھن کے پتے ہیں۔ ان کی گہری گہری چھائوں ہے۔ جامن کی ٹہنیاں آم کے پتوں میں کھچڑی ہو رہی ہیں کھرنی کی ٹہنیاںفالسے کے درخت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ چاندنی کی بیل کمرک کے درخت پر لپٹی ہیں۔ عشق پیچہ ککروندے پر چڑھ جاتاہے۔ اس کی ٹہنیاں لٹکتی ہیں۔ جیسے سانپ لہرا رہے ہیں اور پھولوں کے گچھے پڑے جھوم رہے ہیں۔ میوے دانے زمین کو چوم رہے ہیں۔ نیم کے پتوں کی سبزی اور پھولوں کی سفیدی بہار پر ہے۔ آ م کے مور میں اس کے پھولوں کی مہک آتی ہے۔ بھینی بھینی بو جی کو بھاتی ہ۔ جب درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں تومولسری کے پھولوں کا مینہ برستاہے۔ پھل پھلاری کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔ دھیمی دھیمی ہوا ان کی بو باس میں بسی ہوئی روشوں پر چلتی ہے ٹہنیاں ایسی ہلتی ہیں جیسے کوئی جوبن کی متوالی اٹکھیلیاں کرتی چلی آتی ہو۔ کسی ٹہنی میں بھونرے کی ٓٓوز کسی میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ الگ ہی سما باندھ رہی ہے۔ پرند درختوں پر بول رہے ہیں اور کلول رہے ہیں۔ حوض میں چادر اس زور سے گرتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس سے چھوٹی چھوٹی نالیوںمیں پانی لہرا جاتا ہے تو عجب بہار دیتا ہے۔ درختو ں سے جانور اترتے ہیںنہاتے ہیں اور آپس میں لڑتے جاتے ہیں۔ پروں کو پھڑپھڑاتے ہیں اور اڑ جاتے ہیں چرند زمین پرچوکڑیاں بھرتے پھرتے ہیں۔ ایک طرف سے کوئل کی کوک‘ ایک طرف سے کوکلے کی آواز‘ اسی جمگھٹ میں عاشق مصیبت زدہ بھی کہیں اکیلا بیٹھا جی بہلا رہا ہے اوراپنی جدائی کے دکھ کو مزے لے لے کر اٹھاتا ہے۔ برسات کا سماں باندھتے ہیں تو کہتے ہیںَ سامنے سے کالی گھٹا جھوم کر اٹھی اورابر دھواں دھار ہے۔ بجلی کوندتی چلی آ رہی ہے۔ سیاہی میں سارس اور بگلوں کی سفید سفید قطاریں بہاریں دکھا رہی ہیں۔ جب بادل کڑکتا ہے اور بجلی چمکتی ہے تو پرندے کبھی دبک کرٹہنیو ں میں چھپ جاتے ہیں اور کبھی دیواروں سے لگ جاتے ہیں۔ مور جدا جھنگارتے ہیں۔ پپیہے الگ پکارتے ہیں۔ محبت کا متوالا چنبیلی کے جھرمٹ میں آتاہے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لہک کر پھوا ربننے لگتی ہے۔ مست ہو کر وہین بیٹھ جاتا ہے اور شعر پڑھنے لگتاہے۔ جب ایک شہر کی کوبی بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں شام ہو تے ایک مقام پر پنچا۔ دیکھتا کہ پہاڑیاں ہری بھری ہیں۔ اردگرد میدانوں میں بسے ہوئے گائوں آباد ہیںَ پہاڑ کے نیچے ایک دریا میں نرمل جل بہہ رہا ہے۔ جیسے موتی کی آب بچوں بیچ میں شہر آباد جب اس کے اونچے اونچے مکانوں اوربرجیوں کا عکس پڑت اہے تو پانی میں کلیساں جگ مگ جگ مگ کرتی ہیں اور دوسرا شہر آباد نظر آتا ہے۔ لب دریا کے پٹربوٹوں اورزمین میں سبزی کو برسات نے ہرا کیا ہے کہ دو د ھیلن گایوں اور بکریوں کا چارہ ہوجائے۔ جب اداسی اور پریشانی کا عالم دکھاتے ہیںتو کہتے ہیں کہ آدھی رات ادھر آدمی رات ادھر جنگل سنسان اندھیرا بیابان مرگھٹ میں دور دور تک راکھ کے ڈھیر لگیہوئے لکڑ پڑے۔کہیں کہیں جتا میں آگ چمکتی ہے۔ بھوتوں پریتوں کی ڈرائونی صورتیں اور بھیانک مورتیں ہیںَ کوئی تاڑ سا قد لال دید سے پھاڑ سے لمبے لمبے دانت نکالے گلے میں کھوپڑیوں کی مالا ڈالا کھڑا ہنس رہا ہے ۔ کوئی ایک ہاتھی کو بغل میں مارے بھاگا جا رہا ہے۔ کوئی ایک کالارنگ ککڑی کی طرح کھڑا چبا رہا ہے۔ پیچھے غل ہوتا چلا آ رہا ہے کہ لیجیو لیجیو ماریو جاانے نہ پائے دم بھر میں یہ بھوت پریت غائب ہوتے ہیں۔ غل شور تھمتا ہے پھر مرگھٹ کا میدان سنسان ہے۔ پتے ہوا سے کھڑکتے ہیں۔ ہوا کا سناٹا پانی کا شور الو کی ہوک گیدڑوں کا بولنا اور کتوں کا رونا۔ یہ ایسی وحشت ہے کہ پہلے ڈر بھی بھول جاتے ہیں۔ دیکھو یہ باغ دونوں آمنے سامنے لگے ہیں۔ تم نے مقابلہ کیا؟ دونوں کے رنگ ڈھنگ میں کیا فرق ہے۔ بھاشا کا فصیح استعارے کی طرف بھول کر بھی قدم نہیں رکھتا۔ جو جولطف آنکھوں سے دیھکتاہے اور جن خوش آوازیوںکو سنتاہے۔ یا خوشبوئیوں کو سونگھتا ہے انہی کو اپنی میٹی زبان سے بے تکلف بے مبالغہ صاف صاف کہہ دیتا ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھنا کہ ہندوستان میں مبالغے کا زو ر تھاہی نہیں سنسکرت کا انشاء پرداز ذرا بگڑ جائے تو زمین کیھ ماتے پر پہاڑ تیوری کے بل ہو جائیں اوروہاں غار پتھروں سے دانت پیسنے لگیں ان مضامین کو دیکھ کر اول ہمیں وہ عام قاعدہ یاد آتاہے۔ کہ ہر ملک کی انشاء پردازی اپنے جغرافیے اور سرزمین کی صورت حال کی تصویر‘ بلکہ رسم و رواج اور لوگوں کی طبیعتوں کا آئینہ ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جو کچھ شاعر یا انشاء پرداز کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہی اس کی تشبیہوں اور استعاروں کا سامان ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایران خراسان اور توران میں زمین میں بہار کا موسم دلوں کو شگفتہ کرتا ہے یہاں برسات کا موسم سردیوں میں ذوق و شوق پیدا کرتا ہے۔ وہاں بہار میں بلبل ہزار داستان ہے۔ یہاں کویل اورپپیہا ہے۔ برج بھاشا کے انشاء پرداز برسات کے لطف اور اس کی کیفیتیں بہت خو ب دکھاتے ہیںَ جہانگیر نے اپنی توذک میں سچ کہا ہے کہ ہندوستان کی برسات ہماری فصل بہار ہے اور کویل یہاں کی بلبل ہے۔ اس موسم میں عجب لطف سے بولتی ہے اور مستیاں کرتی ہے۔ بہار کے موسم کا لطف کچھ یہاں ہے۔ تو بسنت رت کا سما ہے۔ جس میں ہولی کے رنگ اڑتے ہیں۔ پچکاریا ں چلتی ہیں۔ گلا ل کے قمقمے چلتے ہیں۔ وہ باتیں نہیں جو فارسی والے بہار کے سے پر کرتے ہیں۔ بہرحال ہمیں اپنے بزرگوں کی اس صنعت کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے کہ ہندی بھاشا میں جو اضافت کی طوالت کا کے کی سے ادا ہوتی ہے وہ فارسی کی اضافت میں آ کر مختصر ہو گی اور اس کے علاوہ استعارہ و تشبیہ جو بھاشا میں شاید اس ببب سے کم لاتے تھے وہ کتاب یا انشاء پردازی کی زبان تھی۔ یا اس سبب سے کہ برابر کاکا اور ک ے آنے سے کلام مرتبہ فصاحت سے گر جاتا تھا۔ اب انہوںنے فارسی کو اس میں داخل کر کے استعارہ و تشبیہ سے مرضع کر دی۔ جس سے وہ خیالوں کی نزاکت اورترکیب کی پختگی اور زور کلام اور تیزی و طراری میں بھاشا سے آگے بڑھ گئی اور بہت سے نئے الفاظ اورنئی ترکیبوں نے زبان میں وسعت بھی پیداکی۔ اس فخر کے ساتھ یہ افسوس پھر بھی دل سے نہی بھولتا کہ انہوںنے ایک قدرتی پھول کو جو اپنی خوشبو سے مہکتا اوررنگ سے لہکتا تھا۔ مفت ہاتھ سے پھینک دیا۔ وہ کیا ہے؟ کلام کا اثر اور اظہار اصلیت ہمارے نازک خیال اور باریک بین لوگ استعاروں اور تشبیہوں کی رنگینی اور مناسب لفظی کے ذوق شوق میں خیال سے خیال پیدا کرنے لگے اور اصلی مطالب کے ادا کرنے میں بے پروا ہو گئے۔ انجام اس کایہ ہوا کہ زبان کا ڈھنگ بدل گیا اورنوبت یہ ہوئی کہ اگر کوشش کریں تو فارسی کی طرح پنج رقعہ اور مینا بازار یا افسانہ عجائب لکھ سکتے ہیںَ لیکن ایک ملکی معاملہ یا تاریخی انقلاب اس طرح بیان نہیں کر سکتے۔ جس سے معلوم ہوتا جائے واقعہ مذکور کیونکر ہوا اور کیونکر اختتام کو پہنچا۔ اوراس سے پڑھنے واے کو ثابت ہو جائے کہ روئید اد قت کی اور صورت حال معاملے کی ایسی ہو رہی تھی کہ جو کچھ ہوا اسی طرح ہو سکتاتھا۔ دوسری صورت ممکن نہ تھی اور یہ تو ناممکن ہے ایک فلسفے یا حکمت اخلاق کا خیال رکھیں جس کی صفائی کلام لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لگائے اور اس کے دلائل جو حسن بیان کے پردے میں برابر جلوہ دیتے جاتے ہیں۔ وہ دلوں کے تصدیق کے ارار لیتے جائیں اورجس بات سے روکنا یا جس کا م پر جھکنا منظور ہو۔ اس میںپوری پوری اطاعت سننے والوں سے لے سکیںَ یہ قباحت فقط نازک خیالی نے پیدا کی استعارہ و تشبیہہ کے انداز و مترادف فقر سے تکیہ کلام کی طرح ہماری زبان قلم پر چڑھ گئے بے شک ہمارے متقدمین اس کی رنگنی اور نزاکت کو دیکھ کر بھولے مگر نہ سمجھے کہ یہ خیالی رنگ ہمارے اصلی جوہر کو خاک میںملانے والا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج انگریزی ڈھنگ پر لکھنے میں یا ان مضامین کے پورا پورا ترجمہ کرنے میں ہم بہت قاصر ہیں۔ نہیں ہماری اصلی انشا پردازی اس رستے سے قاصر ہے۔ انگریزی تحریر کے عام اصول یہ ہیں کہ جس شے کا حال یا دل کا خیال لکھیے تو اسے اس طرح ادا کیجیے کہ خود وہ حالت گزرنے سے یا اس کے مشاہدہ کرنے سے جو خوشی یا غم یا رحم یا خوف یا جوش دل پر طاری ہوتا۔ یہ بیان وہی عالم اور وہی سماں دل پر چھا دیوے۔ بے شک ہماری طرز بیان اپنی چست بندش اور قافلوں کے مسلسل کھٹکوں سے کانوں کو اچھی طرح خبر دار کرتی ہے۔ اپنے رنگین الفاظ اور نازک مضمونوں سے خیال میں شوخی کا لطف پیدا کرتی ہے۔ ساتھ اس کے مبالغہ کلا م او رعبارت کی دھوم دھام سے زمین آسمان کو تہ و بالا کر دیتی ہے۔ مگر اصل مقصود یعنی دلی اثریا اظہار واقعیت ڈھونڈ و تو ذرا نہیں۔ چند مضمون ہیں کہ ہماری زبانوں پر بہت رواں ہیں مگر حقیقت میں ہم ان یں بھی ناکام ہیں۔ مثلاً ہم اگرکسی کے حسن کی تعریف کرتے ہیں تو رشک حور اور غیرت پر قناعت نہ کرتے اسے ایک پتلا ناممکنات و حالات کا بنا دیتے دل ہی جانتے ہیں۔ بس اسی کو اس طرح کیوںنہیںادا کردیتے کہ سننے والے بھی کلیجا پکڑ کے رہ جائیں۔ ایک بلونت جوان کی تریف کریں گے تو رستم تمتہن اسفند یار‘ روئٰں تن شیر بیشہ و غا نہنگ قلزم ہیجا وغیرہ وغیرہ لکھ کر صفحے سیاہ کر دیں گے۔ لیکن ان کی بلند گردن بھرے ہوئے دنٹر ‘ چوڑا سینہ‘ بازئوں کی گلاوٹ‘ پتلی کمر‘ غرض خوشنما بدن اور موزوں ڈیل ڈول بھی ایک انداز رکھتا ہے۔ اس کی اپنی دلاوری اور ذاتی بہادری بھی آخر کچھ نہ کچھ ہے۔ جس کے کارناموں نے اسے اپنے عہد میں ممتاز کر رکھاہے اسی کو ایک وضع سے کیوں نہیں ادا کر دیتے جسے سن کر مردار خیالوں میں اکڑ تکڑ میں کملائے ہوئے دلوں میں امنگ پیدا ہو جائے۔ ایک چمن کی تعریف سے کبھی فلک کے سبز باغ اور گلشن انجم کے دل پر داغ دیں گے۔ کبھی اسے فردوس بریں اور جنات روئے زمیں بنائیں گے بلکہ ایک ایک پھول اور ایک ایک پتے کہ تعریف میں رنگ رنگ سے ورق سیاہ کر دیں گے مگر اس کی ہریاول کا لہلہانا‘ پھولوں کا چہچہانا‘ میٹھی میٹھی خوشبوئوں کا آنا‘ آب رواں کا لہرانا‘ موزوں درختوں گزار کے تختوں کی بہار ہوا کی مہک اور طوطی کی چہک پپیہے کی کوک ‘کویل کی ہوک جو کہ روحانی تفریح کے ساتھ ساتھ انسان کے دل میں اثر کرتی ہیںَ اس کا بیان اس طرح نہیں کرتے جس کے پڑھنے سے آنکھوں میں سماچھ اجائے میدان جنگ ہو تو زمین کے طبقوں کو اڑا کر آسمان میں تلپٹ کر دیتے ہیں اور خون کے دریا ملکوں سے ملکوں میں بہادیتے ہیں۔ مگر اپنے موقع پر وہ تاثیر سے ایک بہادر کی بہادری دیکھ کر دلوں میں قوم کی ہمدردی اور رفیق پر جان نثار کرنے کا ولولہ پیدا ہو وہ نہیں۔ دوسرے کوچے میں آ کر علم کی تعریف پر اترتے ہیں۔ تو اس کی برکت سے ہر پیر پیغمبر‘ ملائک‘ فرشتہ بنا دیتے ہیں کاش اس کے عوض میں چند کھلے کھلے فائدے بیان کریںَ جس سے ہر شخص کے دل میں اس کا شوق پیدا ہو اورعالم جاہل سمجھ جائے کہ اگر بے علم رہوں گا تو خواری و ذات کی زندگی سے دین و دنیا دونوں خراب ہوں گے۔ ہماری تصنیفات میں اس کا کچھ ذکر ہی نہیں اور افسوس ہے کہ اب تک ہم نے اس پر توجہ نہیں کی۔ انگریزی میں بہت خیالات ومضامین ایسے ہیں کہ ہماری زبان تک ادا نہیں کر سکتی۔ یعنی جو لطف ان کا انگریزی زبان میں ہے وہ اردو میںپورا پورا ادا نہیں ہو سکتا۔ جو کہ حقیقت میں زبان کی ناطاقتی کا نتیجہ ہے۔ اور یہ اہل زبان کے لیے نہایت شرم کا مقام ہے۔ اگر شائستہ قوموں کی انشاء پردازی سوال کرے کہ اردو کی انشاء کیوں اس حالت میں مبتلا رہی؟ تو حاضر جوابی فوراً بول اٹھے گی کہ قوم کی انشاء پردازی بموجب اس کے حالات کے ہوتی ہے اور خیالات اسکے بموجب حالات ملک اور تربیت ملکی کے ہوتے ہیں۔ جیسی ہندوستان کی تعلیم و شائستگی تھی اور بادشاہوں اور امیروں کی قدردانی تھی۔ ویسی ہی انشاء پردازی رہی اور خاتمہ کلا م اس فقرے پر ہو گا کہ کوئی پرند اپنے بازوئوں سے بڑھ کر پر نہیں مار سکتا۔ اس کے بازو فارسی سنسکرت بھاشا وغیرہ تھے۔ پھر اردو بے چاری انگلینڈ یا روم یا یونان کے محلوں پر کیونکر جا بیٹھی مگر حقیقت میں عقدہ اس سوال کا ایک اور گرہ میں بند ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر ایک شے کی ترقی کسی ملک میں اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ جس قدر شے مذکور کو سلطنت سے تعلق ہوتاہے۔ یورپ کے ملکوں میںقدیم سے دستور ہے کہ سلطنت کے اندرونی اور بیرونی اور قوم کی ذاتی اور علمی لیاقتوں پر منحصر ہوتے تھے اور سلطنت کے کل انتظام اور اس کے سب قسم کے کاروبار انہیں کے شمول اور انہیں کی عرق ریز تدبیروں کے قرار پاتے تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کی تجویزوں کی بنیاد علمی اور تاریخی تجربے کے زوروںپر قائم ہوتی تھی۔ پھر لیاقت مذکورہ بھی سینکڑوں ہی میں منحصر نہیں بلکہ ہزاروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں جہاں اورمہمات سلطنت ہیں وہاں ایک یہ تھا کہ ہر امر تنقیح طلب جلسہ عام کے اتفاق رائے سے تحریروں اور تقریروں پر منحصر تھاا۔ موقع پر جب ایک شخص جلسہ عا م میں استادہ ہو کر کوئی مطلب ادا کرتا تھا تو ادھر کی دنیا ادھر پھر جاتی تھی۔ پھر جب طرف ثانی اس کے مقابل میںجواب ترکی بہ ترکی دیتاتھا تو مشرق کے آفتاب کو مغرب سے طلوع کردیتاتھا۔ اوراب تک بھی فقط تحریروں اور تقریروں کے زور سے ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو متفق کرکے ایک رائے سے دوسری رائے پرپھیر لیتے ہیں خیال کرنا چاہیے کہ ان کے بیان میں کیسی طاقت اور زبان میں کیا کیا زور ہوں گے۔ بر خلاف ہندوستان کے کہ یہاں کی زبان میں اگر ہوجائے تو ایک بادشاہ کی خوش اقبالی میں چند شعرا کے دیوان ہوئے جو فقط تفریح گاہوں اور دل لگی کا سامان ہے۔ کجا زمین کجا آسمان نہ وہ جوہر پیدا ہوا۔ نہ کسی نے ان کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا۔ باوجو د اس کے اردو کی خوش اقبالی اور خوش رواجی قابل رشک ہے۔ کیونکہ اس کی اصل تو برج بھاشاہے۔ جو اپنی بہار جوانی میںبھی فقط ایک ضلع میں لین دین کی زبان تھی۔ خو د اردو دلی سے نکلی جس کاچراغ دلی کی بادشاہت کے ساتھ گل ہوجانا چاہیے تھا۔ پھر بھی اگر بیچوں بیچ ہندوستان میں کھڑے ہو کر آوازیں دیں کہ اس ملک کی زبان کی اہے تو جواب یہی سنیں گے کہ اردو کے ایک کنارے مثلاً پشاور سے چلو تو اول افغانی ہے۔ اٹک اتر تو پوٹھواری کچھ اور ہی ہتے ہیں۔ جہلم تک داہنے پر کشمیر پکار رہا ہے کہ یورولا یعنیادھر آئوبائیں پر ملتان کہتا ہے کتھے گھنیا یعنی کہاں چلے؟ آگے بڑھیں تووہ بولی ہے کہ پنجابی خاص اسی کو کہتے ہیں کہ اس کے بائیں پر پہاڑی ایسی زبان ہے کہ تحریر و تقریر سب سے الگ ہے ستلج اتریں تو پنجابیت کی کمی سے لوگوں کی وضع و لباس میں بھی فرق شروع ہوتا ہے۔ دلی پہنچے تو اور ہی سما بندھا ہوا ہے میرٹھ سے بڑھے تو علی گڑھ میں بھاشا سے ملا جلا پوربکا انداز شروع ہو گیا کانپور لکھنو الہ آباد تک یہی عالم ہے جنوب کو ہٹیں تو مار واڑی ہو کر گھبراتی ہے اور دکھنی ہو جاتی ہ۔ پھر ادھر آئے تو آگے بنگلہ ہے اورکلکتہ پہنچ کر تو عالم گوناں گوں خلق خدا ور ملک خدا ہے۔ جس کا امتیاز دحد انداز سے باہر ہے۔میرے دوستو تم جانتے ہو کہ ہر شے کی اصلیت اور حسن و قبح کے واسطے ایک مقام ایسا ہوتاہے جیسے سکے کے لیے ٹکسال کیا سبب ہے کہ ابتدامیں زبان کے لیے دلی ٹکسال تھی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دارالخلافہ تھی۔ دربار ہی میں خاندانی امرا اور امیر زادے خود صاحب علم ہوتے تھے۔ ان کی مجلسیں اہل علم اور اہ کمال کا مجمع ہوتی تھیں۔ جن کی برکت سے طبیعتیں گویا ہر شے کے سلیقے اور شائستگی اور لطافت و طرافت کا قالب ہوتی تھیںَ اس واسطے سے گفتگو لباس ادب آداب نشست برخاست بلکہ بات بات ایسی سنجیدہ اورپسندیدہ ہوتی تھی کہ خواہ مخواہ سب کے دل قبول کرتے تھے۔ ہر شے کے لیے ہمیشہ نئی نئی تراش اورنئی نئی اصطلاحیں اور ایجاد و اختراع وہاںسے ہوتے تھے۔ اور چونکہ دارالخلافے میں شہرشہر کا آدمی موجود تھا۔ اس لیے وہ د ل پذیر ایجاد اور اصطلاحیں شہر می جلد عا م ہوجاتی تھیں۔ چنانچہ بہادر شاہ سے پہلے دلی ہر بات کے لیے سند رہی اور انہی صنعتوں سے لکھنونے سند افتخار حاصل کی۔ لکھنو کو دیکھ کر سمجھ لو کہ دل پسند ایجادوں اور رنگین باتوں کا ایجاد ہونا کسی شہر کے اینٹ پتھر کی تاثیر نہیں ہے۔ جہاں شائستہ اوررنگین مزاج لوگ جمع ہوں گے اور دل پذیر باتوں کے سامان موجود ہوں گے۔ وہیںسے وہ پھول کھلنے لگیں گے چنانچہ وہ دلی کے لوگ اور ان کی اولاد تھی۔ کہ جب تباہی سلطنت اور آبادی لکھنو کے سبب سے وہاں پہنچے تو چند روز میں ویسی ہی تراشیں وہاں سے نکلنے لگیں۔ لکھنو دارالحکومت ہو گیا اور اس کے ضمن میں زبان بھی دلی کی اطاعت سے آزاد ہو گئی۔ اس آزادی کی ناسخ آتش ضمیرخلیق وغیرہ اہ کمال نے بنیاد ڈالی اور انیس دبیر رند‘ خواجہ وزیر اور سرور نے خاتمہ کر دیا۔ انہوںنے زبان کو ترقی دی مگر اکثر ان یمں ایسے ہوئے کہ جنگل کے صاف کرنے کو اکٹھے تھے۔ مگر اسا میں دریا کا دہانہ لا ڈالا۔ یعنی صفائی زبان کی جگہ للغات کی بوچھاڑ کر دی۔ یہاں تک کہ لکھنو کا ورق بھی زمانے ے الٹ دیا۔ اب آفتاب ہماری ملکہ آفاق کانشان ہے۔ جسے حکم نہیںکہ لکھنو کا ورق بھی زمانے نے الٹ دیا۔ اب آفتاب ہماری ملکہ آفاق کا نشان ہے۔ جسے حکم نہیں کہ ان کے قلمر و کے خط سے باہر حرکت کر سکے۔ ڈاکوئوں اور ریل گاڑیوں ے پورب سے پچھم تک دوڑ کر بھانت بھانت کا جانور ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ دلی برباد لکھنو ویران ان دونوںکے سندی اشخاص کچھ پیوند زمین ہو گئے ۔ کچھ در بدر خاک بسر۔ اب جیسے اور شہرو یسے ہی لکھنو جیسے چھائونیوں کے بازار اور ویسی ہی دلی بلکہ اس سے بھی بدتر کوئی شہر ایسا نہیں رہا۔ جس کے لوگوں کی زبان عموماً سند کے قابل ہو۔ کیونکہ شہر میں ایسے چیدہ اوربرگزیدہ اشخاص جن سے کہ وہ شہر قابل سند ہو صرف گنتی کے لوگ ہوتے ہیں اوروہ زمانے کی صدہا سالہ محنتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مر گئے۔ کوئی بڈھا جیسے خزاں کا مارا پتا کسی درخت پر باقی ہے۔ اس بڈھے کی آواز کمیٹیوں کے غل او راخباروں کے نقار خانوں میں سنائی بھی نہیں دیتی۔ پس اب اگر دلی کی زبان کو سندی سمجھیں تو وہاں کے ہر شخص کو زبان کیونکر سندی ہو سکتی ہے؟ ہواکا رخ اور دریا کا بہائو کسی نہ کسی کے اختیار میں ہے۔ نہ کسی کو معلوم ہے کہ کدھر پھرے گا۔ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اب زبان کیا رنگ بدلے گی؟ ہم بھی جہاز بے ناخدا ہیں۔ تو کل بخدا کر بیٹھے ہیں۔ زمانے کے انقلابوں کو رنگ چمن کی تبدیلی سمجھ کر دیکھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ آزاد: قسمت میں جو لکھا تھا سو دیکھا ہے اب تلک اور آگے دیکھیے ابھی کیا کیا ہیں دیکھتے نظم اردو کی تاریخ فلاسفہ یونان کہتے ہیں۔ شعر خیالی ہیں جن کو واقعیت اور اصلیت سے تعلق نہیں۔ قدرتی موجودات یا اس کے واقعات کو دیکھ کر جو خیالات شاعر کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مطلب کے موقع پر موزوں کر دیتا ہے۔ اس خیال کو سچ کی بلندی نہیں ہوتی۔ جب صبح کانور و ظہور دیکھتا ہے تو کبھی کہتا ہے کہ ا س دیگ مشرق سے دودھ ابلنے لگا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ دریائے سیماب موج مارنے لگا کوئی مشرق سے کافور اڑاتا آتاہے۔ صبح طباشیر بکھیرتی آتی ہے یا مثلاً سورج نکلا اور کرن ابھی اس میں نہیں پیدا ہوئی۔ وہ کہاں ۃے کہ سنہری گیند ہوا میں اچھالی ہے۔ صبح طلاعئی تھال سر پر دھرے آتی ہے۔ کبھی مرغان سحر کا غل اور نور کا جلوہ آفتاب کی چمک دمک اور شعاعوںکاخیال کر کے صبح کی دھوم کھاتا ہے اورکہتا ہے کہ بادشاہ مشرق سبز خنک فلک پر سوار تاج مرصع سرا پر رکھے کرن کا نیزہ لیے مشرق سے نمودار ہوتا ہے۔ شام کو شفق کی بہار دیکھتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ مغرب کے چھپر کھٹ میں آرا م کیا اورشنگرفی چادر تان کرسورہا۔ کبھی کہتا ہے کہ جام فلک خون سے چھلک رہاہے۔ نہیںمغرب کے ایوان میںآگ لگ گئی ہے۔ تاروں بھری رات میںچاندکو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ لاجوردی چادر میں تارے ٹنکے ہوئے ہیں۔ دریائے نیل میں نور کا جہاز چلا جاتا ہے۔ باوجود اس کے ضعف گاہ عالم میں نظم ایک عجیب صنعت صنائع الٰہی سے ہے۔ اسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اول ایک مضمون کو ایک سطر میں لکھتے ہیں اور نثر میںپڑھتے ہیں۔ پھر اسی مضمون کو فقط لفظوں کے پس و پیش کے ساتھ لکھ کر دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی عالم ہو جاتاہے۔ بلکہ اس میں چند کیفیتیںپیدا ہو جاتی ہیںَ ۱۔ وہ وصف خاص ہے جسے سب موزونیت کہتے ہیں۔ ۲۔ کلام میں زور زیادہ ہو جاتاہے اور مضمون میں ایسی تیزی آ جاتی ہے کہ اثر کا نشتر دل پر کھٹکتا ہے۔ ۳۔ سیدھی سادی بات میں ایسا لطف پیداہو جاتاہے کہ سب پڑھتے ہیںاور مزے لیتے ہیں۔ تجربے سے معلو م ہوتاہے کہ جب خوشی یا غم و غصہ یا کسی کے ذو ق و شوق کا خیال دل میں جوش مارتا ہے اور وہ قوت بیان سے ٹکراتاہے تو زبان سے خود بخود وزوں کلام نکلتاہے۔ جیسے پتھر اور لوہے کے ٹکراے سے آگ نکلتی ہے ۔ اس واسطے شاعر وہی ہے جس کی طبیعت میں صنعت خداداد ہو قدرتی شاعر اگرچہ ارادہ کر کے شعر کہنے کوخاص وقت میں بیٹھتا ہے۔ مگر حقیقت میں اس کا دل اور خیالات ہر وقت کام میںلگے رہتے ہیں۔ قدرت کے کارخانے میںجو چیز اس کے حواس میںمحسوس ہوتی ہے اور ا س سے کچھ اثر اس کی طبیعت اٹھاتی ہے۔ وہ ہر شخص کو نصیب نہیں۔ خواہ لطف و شگفتگی ہو۔ خواہ آزادگی یا بیزاری یہ ضرور ہے کہ وہ کیفیت وہ اٹھاتا ہے۔ اس کے لیے ڈھونڈتا رہتا ہے کہ کیسے لفظ ہوں اور کس طرح انہیں ترکیب دوں تاکہ جو کیفیت اس کے دیکھنے سے میرے دل پر طار ی ہے وہی کیفیت سننے والوں کے دل پر چھا جائے اوروہ بات کہوں کہ دل پر اثر کر جائے۔ شاعر کبھی ایک حجرے میں تنہا بیٹھتا ہے۔ کبھی سب سے الگ اکیلا پھرتاہے۔ کبھی کسی درخت کے سائے میں تنہا نظر آتا ہے۔ اور اسی میں خوش ہوتاہے۔ وہ کیسی ہی خستہ حالی میںہو مگر مزاج کا بادشاہ اور دل کا خاتم ہوتاہے۔ بادشاہ کے پاس فوج و سپاہ دفتر دربار اور ملک داری کے سب کارخانے اور سامان موجود ہیں۔ اس کے پاس کچھ نہیں مگر الفاظ اورمعانی سے وہی سامان بلکہ اس سے ہزاروں درجے زیادہ تیار کر کے دکھا دیتا ہے۔ بادشاہ سالہا سال میں کن کن خطرناک معرکوں سے ملک یاخزانہ جمع کرتا ہے۔ یہ جسے چاہتا ہے گھر بیٹھے دے دیتا ہے اور خود پروا نہیں کرتاا۔ بادشاہ کو ایک ولایت فتح کر کے وہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ جو اسے ایک لفظ کے ملنے پر ہوتی ہے جو اپنی جگہ پر موزں سجا ہو ا ہے اور حق یہ ہے کہ اسے ملک کی پروا بھی نہیں۔ اس بات میں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ یہ ہے کہ شیخ ابراہیم ذوق جس مکان میں بیٹھے تھے۔ تنگ و تاریک تھا۔ گرمی میں دل دق ہو جاتا تھا۔ بعض قدیمی احباب کبھی جاتے تو گھبراتے اور کہتے کہ مکان بدلو گھڑی بھر بھی بیٹھنے کے قابل نہیں تم کیونکر رات دن یہیں کاٹتے ہو ؟ وہ ہو ہاں کرتے اور چپکے ہو رہتے۔ کبھی مسکراتے کبھی جو غزل کہتے ہوتے اسے دیکھنے لگتے۔ کبھی ان کامنہ دیکھتے خدا نے مکانات باغ آرام و آسائش کے سامان سب دیے تھے مگر وہ وہیں بیٹھے رہے اور اسیے بیٹھے کہ مر کر اٹھے۔ اچھا ان کے قصائد اور غزلیں دیکھ لو کسی بادشاہ کی سلطنت میں اس شا ن و شوکت اور دھو م دھام کے سامان موجود ہیں؟ گویا سلطنت کے سامان انہی کا مال تھے کہ جس طرح چاہتے تھے اپنے کام میں لاتے تھے۔ جب وہ اپنے کلام کو پڑھتے تھے تو بادشاہ کو جو مالک سلطنت ہوتاتھا۔ کچھ ان سے زیادہ خوشی نہ ہوتی ہو گی کیونکہ اسے ا ن کا فکر بھی رہتا ہے انہیں پرواہ بھی نہیں تھی۔ جس طرح کوئی زمین اپنی قابلیت کے موافق بے کچھ نہ کچھ روئیگی کے نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح کوئی زبان اپنے اہل زبان کی حیثیت سے بموجب نظم سے خالی نہیں رہ سکتی ۔ ہر روئیدگی کی رنگینی اور شادابی اپنی سر زمین کی خاصیت ظاہر کرتی ہے۔ زبانوں کے سلسلے میں ہر ایک نظم اپنی زبان اور اہل زبان کی شائستگی اور تہذیب علمی کے ساتھ لطافت طبع کے درجے دکھاتی ہے۔ زبان اردو کے ظہور پر خیال کریں اور اس کی تصنیفات پر نگاہ کریں تو اس میں نثر سے پہلے نظم آئے گی اوریہ عجیب بات ہے کہ ایک بچہ پہلے شعر کہے پھر باتیں کرنی سیکھے۔ ہاں نظم جوش طبع تھا۔ اس لیے پہلے نکل پڑا۔ نثر شائستگیء کے بوجھ سے گراں بار تھی۔ اپنی ضرورت کے وقت ظہور کیا نثر اردو کی تصنیف ۱۱۴۵ھ سے پہلے نظر نہیںآتی۔ البتہ نظم کی حقیقت زبانی حکایتوں اور کتابی روایتوں کی خاک چھان کر یہ نکلتی ہے کہ جب برج بھاشا نے اپنی وسعت اخلا ق سے عربی فارسی الفاظ کے مہمانوں کو جگہ دی تو طبیعتوں میں س قدر روئیدگی نے بھی زور کیا۔ لیکن وہ صد ہا سال تک دہروں کے رنگ میں ظہور کرتی رہی یعنی فارسی کی بحریں اور فارسی کے خیالات نہ آتے تھے۔ امیر خسرو نے کہ جن کی طبیعت اختراع میں اعلیٰ درجہ صنعت و ایجاد کا رکھتی تھی۔ ملک سخن میں برج بھاشا کی ترکیب سے ایک طلسم خانہ انشاء پردازی کا کھولا خالق باری جس کا اختصار آج تک بچوں کا وظیفہ ہے۔ کئی بڑی بڑی جلدوںمیں تھی۔ اس میں فارسی بحروں نے اول اثر کیا۔ اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس وقت کون کون سے الفاظ مستعمل تھے۔ جواب مترو ک ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی پہیلیاں عجیب و غریب لطافتوں سے ادا کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کے نمک نے ہندی کے ذائقے میں کیا لطف پیدا کیا ہے۔ مکرنی‘ انمل دو سنجے‘ وغیرہ خاص ان کے آئینے کا جوہر ہے۔ ہر ایک کی مثال لکھتاہوں کیونکہ ان سے بھی وقت کی زبان کا کچھ نہ کچھ پتا لگتا ہے۔ نبولی کی پہیلی تر در دے اک تریا اتری اس نے بہت رجھایا باپ کا اس نے نام جو پوچھا آدھا نام بتایا آدھا نام پتا پر چاوا بوجھ پہیلی موری امیر خسرو یوں کہیں اپنے نام بنولی آئینے کی پہیلی فارسی بولی آئینہ ترکی سوچی پائی نا ہندی بولتے آ سی آئے نہ دیکھو جو اسے بتائے ناخن کی پہیلی بیسیوں کا سر کاٹ لیا نا مارا نا خون کیا لال کی پہیلی اندھا گونگا بہرا بولے گونگا آپ کہائے دیکھ سفیدی ہوت انگارا گونگے سے بھڑ جائے بانس کا مندر واہ کا باشا باشے کا وہ کھا جا سنگ ملے تو سر پر راکھیں واہ کور اور راجا سی سی کر کے نام بتایا تا میں بیٹھا ایک الٹا سیدھا ہر پھر دیکھو وہی ایک کا ایک بھید پہیلی میں کہی تو سن لے میرے لال عربی ہدی فارسی تینوں کرو خیال دہلی بلکہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں رسم ہے کہ عام عورتیں برسات کے بہار میں گھم گڑوااتی ہیں۔ درخت ہو تو ااس میں جھولا ڈلواتی ہیں۔ مل مل کر جھولتی ہیں اور گیت گا کر جی خوش کرتی ہیں۔ ان میں شاید کوئی ہو جو یہ گیت نہ گاتی ہے۔ جو پیا آو ن گئے اجھوں نہ آئے سوامی ہو‘ اے ہو جو پیا آون کہہ گئے وغیرہ وغیرہ یہ گیت بھی انہیں امیر خسر و کا ہے اور برواراگ میں لے بھی انی کی رکھی ہوئی ہے۔ واہ کیا زبانیں تھیں کہ جو کچھ ان سے نکل گیا عالم کو بھایا۔ گویا زمانے کے دل پر نقش ہو گیا۔ بنانے والوں نے ہزاروں گیت گائے اور گانے والوں نے گائے۔ آج ہوئے‘ کل بھول گئے۔ چھ سو برس گزرے۔ یہ آج تک ہیں اور ہر برسات میں ویساہی رنگ دیے جاتے ہیں۔ اس حسن قبول کو خداداد نہ کہیے تو کیا کہیے۔ بڑی بڑی عورتوں کے گانے کے لیے تو ویسے گیت تھے۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو پیا اور سوامی کی یاد میں اس طرح گانا مناسب نہ تھا۔ لیکن دل میں امنگ تو وہ بھی رکھتی تھیںَ انہیں بھی فصل کی بہار منانی تھی ان کے لیے اور گیت رکھے تھے۔ چنانچہ ایک لڑکی گویا سسرال میں ہے۔ برسات کی رت آئی۔ وہ جھولتی ہے اور ماں کی یاد میں گاتی ہے۔ اماں میرے باوا جی کو بھیجو جی کہ ساون آیا یعنی مجھے آ کر لے جائے بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا یعنی وہ کیوں کر آ سکتا ہے؟ اماں میرے بھائی کو بھیجو جی کہ ساون آیا بیٹی تیرا بھائی تو بالاری کہ ساون آیا یعنی بچہ اکیلا اتنی دور کیوں کر آئے؟ اماں میرے ماموںکو بھیجو ری کہ ساون آیا یعنی اس کے لیے تو وہ عذر نہیں بیٹی تیرا ماموں تو بانکا ری کہ ساون آیا بھلا وہ کب میری سنے گا؟ ذرا غور سے دیکھو کہ باوجود علم و فضل اور اعلیٰ درجہ خیالات شاعرانہ کے جب یہ لوگ پستی کی طرف جھکتے تھے تو ایسے تہہ کو پہنچتے تھے کہ زمین کی ریت تک نکال لاتے تھے۔ ان الفاظ و خیالات کے نظر کرو کیسے نیچر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کے فطری خیالات اور دلوں کے ارمانوں کو کیا اصلی طور سے ظاہر کرتے ہو۔ مکرنیوںکا انہیں موجد کہنا چاہیے۔ مکرنی سگری رین موہے سنگ جاگا بھور بھئی تب بچھڑن لاگاا اس کے بچھڑے پھاٹت ہیا اے سکھی ساجن نا سکھی دیا مکرنی سرب سلونا سب گن نیکا وابن سب جگ لاگے پھیکا وا کے سر پر ہووے کون اے سکھی ساجن نا سکھی لون مکرنی وہ آوے تب شادی ہوئے اس بن دوجا اور نہ کوئے میٹھے لاگے وا کے بول اے سکھی ساجن نا سکھی ڈھول ایک کنوئیں پر چار پنہاریاں پانی بھر رہی تھیں۔ امیر خسرو کو رستہ چلتے چلتے پیاس لگی۔ کنوئیں پر جا کر ایک سے پانی مانگا۔ ان میںسے ایک انہیںپہچانتی تھی۔ اس نے اوروں سے کہا دیکھو خسرو یہی ہے انہوںنے پوچھ اکیا تو خسرو ہے۔ جس کے سب گیت گاتے ہیں اور پہیلیاں اور مکرنیا ں انمت سنتے ہیں۔ انہوںنے کہا ہاں۔ اس پر ایک ان میں سے بولی کہ مجھے کھیر کی بات کہہ دے۔ دوسری نے چرخے کا نا م لیا تیسری نے ڈھول چوتھی نے کتے کا انہوںنے کہا کہ مارے پیاس دم نکلا جاتا ہے۔ پہلے پانی تو پہلا دو وہ بولیں جب تک ہمار ی بات نہ کہہ دے گا۔ نہ پلائیں گی انہوںنے جھٹ کہا: انمل کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا۔ آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا لا پانی پلا۔ اسی طرح کبھی کبھی ڈھکوسلہ کہا کرتے تھے۔ وہ بھی انہیں کا ایجاد ہے۔ ڈھکوسلا بھادوں پکی پیپلی چو چوپڑی کپاس بی مہترانی دال پکائو گی یا ننگا ہی سو رہوں۔ دو سخنے گوشت کیوںنہ کھایا ڈوم کیوںنہ گایا؟ گلا نہ تھا جوتا کیوں نہ پہنا‘ سنبوسہ کیوںنہ کھایا؟ تلا نہ تھا انار کیوںنہ چکھا ‘ وزیر کیوںنہ رکھا؟ دانا نہ تھا دو سخنے فارسی سوداگر راچہ مے باید‘ بوچے کو کیا چاہیے؟ دوکان اردو تشنہ راچہ ے باید ملاپ کو کیا چاہیے؟ چاہ شکار بہ چہ مے باید کرو‘ قوت مغز کوکیا چاہیے؟ بادام موسیقی میں ان کی طبیعت ایک بین تھی کہ بن بجائے پڑی بجتی تھی۔ اس لیے دھریت کی جگہ قول و قلبانہ بنا کر بہت سے راگ ایجاد کیے کہ ان میں سے اکثر گیت ان کے آج تک ہندوستان کے زن و مرد کی زبا ن پر ہیں۔ بہار را گ اوربسنت کے میلے نے انہی کی طبیعت سے رنگ پکڑا ہے بین کو مختصر کر کے ستاار بھی انہی نے نکالا ہے۔ لطیفہ سلطا ن جی صاحب کے ہاں ایک سیاح فقیر مہمان آئے۔ رات دستر خوان پر بیٹھے کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں سیاح نے ایسے دفتر کھولے کہ بہت رات گئی ختم ہی نہ ہوں۔ سلطان جی صاحب نے کچھ انگڑائیاں کچھ جمائیاں بھی لیں وہ سادہ لوح کسی طرح نہ سمجھے ۔ سلطان جی صاحب مہمان کی دل شکنی سمجھ کر کچھ نہ کہہ سکے۔ مجبور بیٹھے رہے۔ امیر خسرو بھی موجود تھے۔ مگر بول نہ سکتے تھے کہ آدھی رات کی نوبت بجی۔ اس وقت سلطان جی نے کہا کہ خسرو یہ کیا بجا! عرض کی آدھی رات کی نوبت ہے۔ پوچھا اس میں کیا آواز آتی ہے؟ انہوںنے کہاا سمجھ میں تو ایسا آتاہے۔ نان کہ خوردی‘ خانہ برد‘ نان کہ خوردی خانہ برد‘ خانہ برد‘ خانہ برد‘ نان کہ خوردی‘ خانہ برد ‘ نہ کہ بدست تو کردم خانہ گرد خانہ برد خانہ برد‘ حرف حرف کی حرکت و سکون پر خیال کرو‘ ایک ایک چوٹ کو کیا پورا پوراا دا کر رہے ہیں۔ او ر نہ بدست تو کردم خانہ گرد کو دیکھو دیکھو اس نے کام کیا ۔ نقل ایک دن کسی کوچے میں سے گزر ہوا۔ دھنیا ایک دکاان میں روئی دھنک رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ جس دھنیے کو دیکھو ایک ہی انداز پر روئی دھنکتا ہے۔ سب ایک ہی استاد شاگرد ہیں۔ کوئی بولا کہ قدرتی استاد نے سب کو ایک ہی انداز پر سکھایا۔ آپ نے کہا کہ سکھایا ہے اور ایک حرکت میں بھدی تال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کوئی بولا کہ لفظوں میں کیونکر لا سکیں ؟ فرمایا: درپئے جاناں جاں ہم رفت‘ جان ہم رفت‘ جاں ہم رفت‘ رفت رفت‘ جاں ہم رفت‘ ایں ہم رفت و آں ہم رفت‘ آنہم رفت‘ آنہم رفت‘ اینہم ‘ آنہم ‘ آنہم ‘ اینہم‘ آنہم رفت رفتن‘ رفتن رفتن‘ وہ وہ زفتین رف ‘ رف ‘ وہ رفتن دہ۔ نقل محلے کے سرے پر ایک بڑھیا ساکن کی دکان تھی۔ چمو اس کا نام تھا۔ شہر کے بیہودہ لوگ وہاں بھنگ چرس پیا کرتے تھے۔ جب یہ دربار سے پھر کر آتے یا تفریحاً گھر سے نکلتے تو وہ بھی سلا م کرتی۔ کبھی کبھی حقہ بھر سامنے لے کھڑی ہوتی یہ بھی اس کی دل شکنی کا خیال کر کے دو گھونٹ لے لیا کرتے۔ ایک دن اس نے کہا کہ بلا لوں۔ ہزاروں غزلیں گیت راگ راگنی بناتے ہو۔ کتابیں لکھتے ہو۔ کوئی چیز لونڈی کے نام پر بھی بنا دو۔ انہوںنے کہا بی چمو! بہت اچھا کئی دن کے بعد اس نے پھر کہا کہ بھٹیاری کے لڑکے کے لیے خالق باری لکھ دی زرا لونڈی کے نام پر بھی کچھ لکھ دو گے تو کیا ہو گا؟ آپ کے صدقے سے ہمارا نا بھی رہ جائے گا۔ اس کے بار بار کہنے سے ایک دن خیال آ گیا ۔ بی چمو! سنو۔ اوروں کی چوپہری باجے چمو کی اٹھ پہری یعنی یہ بادشاہوں ؤسے بھی بڑی ہیں جنگلی باہر کا کوئی آئے ناہیں آئیں سارے شہری گنواروں کا کام نہیں سفید پوش کرتے ہیں صاف صوف کرے آگے راکھے جن میں ناہیں توسل پیالہ بھنگ صاف مصفیٰ حاضر کرتی ہے جس میں اوروں کے جہاں سینک سماوے چمو کے وہاں موسل تس تنکا نہ ہو … بھنگڑ یہ فخریہ کہا کرتے ہیں۔ کہ وہ ایسی بھنگ پیتا ہے ہ جس میں گاڑھے پن کے سب سے سینک کھڑی رہے۔ آپ مبالغہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی بھنگ بناتی ہے کہ جس میں موسل کھڑا رہے۔ خیران کی بدولت چمو کانام بھی رہ گیا۔ حق پوچھو تو جس طرح ہر جاندا رکی عمر ہے۔ اسی طرح کتاب کی بھی عمر ہے مثلاً شاہناہ کو ۹ سو برس ہوئے ۔ سکندر نامہ کو ۷ سو برس سمجھو۔ گلستان بوستان کو ۹ سو برس کہو۔ زلیخا کی عمر قریب ۳ سو برس کے ہوئی۔ مگر اب تک سب جوان ہیں۔ اردو میں باغ و بہار بدر منیر وغیرہ جوان ہیں۔ فسانہ عجائب جاں بلب ہو گیا۔ بہت کتابیں اول شہر ت پاتی ہیں۔ پھر گمنام ہو جاتی ہیں۔ یہ گویا بچے پہ تھے کہ مر گئے بہتیری تصنیف ہوتی ہیں اور چھپتی ہیں مگرکوئی پوچھتا نہیں۔ یہ بچے مرے ہوئے پیدا ہوتے ہیں ۔ بعض کتابوں کی عمریں معیاد معلوم پر ٹھہری ہوئی ہیں وہ مدراس سرکاری تصنیفیں ہیں۔ کیونکہ جب تک تعلیم میں داخل ہیں تب تک چھپتی ہیں او ر خواہ مخواہ بکتی ہیں۔ لوگ پڑھتے ہیں جب تعلیم سے خارج ہو گئیں تو مر گئیں کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ قبول خاطر و لطف سخن خداداد است خدا یہ نعمت نصیب کرے غرض اس جوش طبع او ر ہنگامہ ایجاد میں ایک تازہ ایجاد اور ہوا ۔ جس میں ہمارے لیے تین باتیں قابل لحاظ ہیں ۔ ۱۔ مضامین عاشقانہ سے وہ سلسلہ اشعار کا ہمارے ہاتھ آیا۔ جسے غزلیں کہتے ہیں۔ وہی قافیے یا ردیف یا ردیف اور قافیے دونو ں کی پابندی اسی طرح اول مطلع یا کئی مطلعے پھر چند اشعار اخیر میں مقطع اور اس کے تخلص۔ ۲۔ عروض فارسی نے پہلا قدم ہندوستان میں رکھا۔ ۳۔ فارسی اور بھاشا کولون مرچ کی اس انداز سے ملایا یہ کہ زبان پر چٹخا ر ا دیتی ہے ۔ ا س میں یہ سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے کہ انہوںنے بنیاد عشق کی عورت ہی کی طرف سے قائم کی تھی۔ جو کہ خاصہ نظم ہندی کا ہے۔ مگریہ نہیں کہہ سکتے کہ اس تعشق کا انقلاب کس وقت ہوا۔ غزل مذکور یہ ہے: زحال مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تاب ہجراں ندرام اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز و صلت چو عمر کوتاہ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں یکایک از ول دو چشم جادو بصد فریبم بببرو تسکیں کسے پڑی ہے جو جا سنا دے پیارے پی کوں ہماری بتیاں چو شمع سوزاں‘ چو ذرہ حیراں ز مہرآں مہ بکشتم آخر نہ نیند نیناں نہ انگ چینا نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں بحق روز وصال دلبر کہ داد مارا فریب خسرو سپیت منکے ورائے راکھوں جو جائے پائوں پیا کے کھتیاں ابتدائے ایجاد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ زمانہ مبتدیوں کا اصلاح دینے والا ہے۔ پھر تراشیں دے کر اعلیٰ درجہ خوبی و خوش اسلوبی پر پہنچا لیتاہے۔ مگر اس وقت اس طرف کسی اور نے ایسی توجہ نہ کی کہ جس ے اس طرز کا رواج جاری ہو جاتا۔ البتہ ملک محمد جائسی نے مثنوی پدماوت کے علاوہ دوسرے اور گیت بھی لکھے ہیں اور وہ ایسے اعلیٰ درجے کے ہیں کہ ڈاکٹر گلکرسٹ صاحب کی تصنیف میں نہایت مدد کرتے ہیں تعجب یہ ہے کہ فارسی کی بحروں میں کوئی شعر اس کانہیں۔ دکن میں ایک سعدی گزرے ہیں ان کا فقط اتناحال معلو م ہے کہ اپنے تئیں ہندوستان کا سعدی شیرازی سجھتے تھے اور تعجب ہے کہ مرزا رفیع سودا نے اپنے تذکرے میں ان کے اشعار مندرجہ ذیل کو شیخ سعدی شیرازی کے نام پر لکھاہے۔ قشقہ چودیدیم بر رخت گفتم کہ یہ کاویت ہے گفتا کہ در سو باورے اس شہر کی یہ ریت ہے ہمنا تمہن کو د دیا‘ تم دل لیا اور دکھ دیا ہم یہ کیا تم وہ کیا‘ ایسی بھلی یہ پیت ہے سعدی کہ گفتہ ریختہ در ریختہ در ریختہ شیر و شکر ہم ریختہ ہم ریختہ ہم گیت ہے کبیر اور تلسی داس وغیرہ کے دوہرے عالم میں زبان زد ہیں‘ مگر وہ فقط اتنی سند کے لیے کار آمد ہیں کہ اس عہد میں فارسی الفاظ کا دخل ہندوئوں کی زبانوں پر بھی ہو گی اتھا۔ انہیں اس نظم سے علاقہ نہیں جو فارسی سے آ کر اردو کے لباس میں ظاہر ہوئی اور ملکی مالک کو بے دخل کر کے گوشے میں بٹھا دیا۔ حامد کوئی شخص ہوئے ہیں۔ ان کا زمانہ معلو م نہیں ہے کہتے کہ حامد باری انہیں کی تصنیف ہے ان کی فقط سات شعر کی ایک غزل دیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کوئی پنجابی بزرگ ہیں اس میں سے مطلع پر قناعت کرتا ہوں۔ عزم سفر چوں کر دی ساجن نینوں نیند نہ آئی جی قدر وصالت نادانستم تم بن رہ ستائی جی اگر یہی شعر ہیں تو جب سے اب تک بے شمار شاعر پنجاب میں نکل آئیں گے۔ یہاں کی شاعری اب تک انہیں بتیوں میں جا رہی ہے۔ لیک یہ شاعر اور ان کی شاعری وہ نہیںہے۔ جس سے ہم بحث کرتے ہیں ۔ احمد گجراتی ہم عہد وہم وطن ولی کے ہیں وہ فرماتے ہیں: گر بیضہ زاغے کسے درز پرسی مرغے نہد از اصل خود ناید بروں آخر گلیلا ہوئے پر گر طفلکے بازی گرے خوانندہ و عالم شود اصلے کہ دارد کے رود آخرز نبورا ہوئے پر گر بچہ شیرے کسے باشیر رو بہ پر ورد مردی کہ دارد کے رود آخر بگیلا ہوئے پر سیوا ایک مصنف دکن میں گزراہے۔ جس نے روضتہ الشہدا کا دکنی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ مرثیے اس کے اب تک وہاں کے امام باڑوںمیں پڑھے جاتے ہیں اور غالب ہے کہ اس طرح کے شاعراان عہدوںمیں بہت ہوں گے۔ مگر ایسی شاعری کوعلمی شاعری نہیں کہہ سکتے۔ نواز نام ایک مصنف نے فرخ سیر کے عہدمیں شکنتلا کا ترجمہ بھاشا میں کیا تھا۔ اس عہد میں نظم اردو کے ضعف کا یہی سبب ہو گا ج ذی استعداد ادو کے اہل زبان ہوتے تھے۔ وہ ارو کی شاعری کو فخر نہ سمجھتے تھے۔ کچھ کہنا ہوتا تھا توفارسی میں کہتے تھے البتہ عوام الناس موزون طبع دل کی ہوس پوری کرنے کو جو منہ میں آتا تھا‘ کہے جاتے تھے۔ جو اہل ولایت شاعر ہوتے تھے۔ وہ فارسی شعر کہتے اردو انہیںآتی نہ تھی۔ کہتے تھے کہ تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا تمسخڑ کرتے ہیں۔ چنانچہ مرزا موسوی خاں فطرت کے زبدہ شعرائے ایران اور عمدہ شعرائے عالمگیری سے تھے اور بعد ان کے قزلباش خان امید کے متفر ق اشعا ر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اس وقت ٹوٹی پھوٹی زبان تھی اسے پورا ادا نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ میر معجز فرماتے تھے۔ از زلف سیاہ تو بدل دوم پری کیا درخانہ آئینہ گتا جوم پری ہے فزلباش خاں امید باوجودیکہ فارسی میں بڑے نامور ہیں اوراہل ہند کے ساتھ ان کے جلسوں کی گر م جوشیاں بھی مشہور ہیںَ مگر اردو میں جو اظہار کمال کیا ہے وہ یہ ہے: بامن کی بیتی آج مری آنکھ موں پری غصہ کیا وگالی دیا اور دگر لری اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ نظم موجودہ نے دکن سے ظہور کیا۔ چنانچہ میر تقی میر نے بھی ایک غزل میں شاعرانہ اندا ز سے اشارہ کیا ہے: خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا ورقائم ان کے ہم عصر نے صاف کہہ دیا ہے: قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ اک بات لچر سی بزبان دکنی تھی بہرحال عالمگیر کے عہد میں ولی نے اس نظم کا چراغ روشن کیا اور جو محمد شاہ کے عہدمیں آسمان پر ستارہ ہو کر چمکا اور شاہ عالم کے عہد میں آفتاب ہو کر اوج پر آیا۔ نظم اردو کے آغازمیں یہ امر قابل اظہار ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں ۔ اسی واسطے اس میں او ربرج بھاشا میں اس کی شاخ ذومعنین الفاظ اور ایہام پر دوہروں کی بنیاد ہوتی تھی۔ فارسی میں یہ صنعت ہے مگر کم۔ اردو میں پہلے پہلے شعر کی بنا اسی پر رکھی گئی اور دور اول کے شعراء برابر وہ قانون جاری رہا۔ اس عہد کے چند اشعار بھی نمونے کے طور پر لکھتا ہوں۔ لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے کیوں نہ ہو ہم سے وہ سجن باغی قد ہو جس کانہال کی مانند تو جو دریا کے پار جاتاہے دل مرا وار وار جاتا ہے تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سلام کرنا یہ تو قدیمی ہی سے سر پر ہمارے کر ہے نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے کہ آخر بدنما لگتا ہے دیکھو چاند کو گہنا سج دکھا بانکی نہیں چھوڑے گا میرا نقد دل آج وہ افغاں پسر آتا یہی ہے دل پہ ٹھان نہ دیوے لے کے دل وہ جعد مشکیں اگر باور نہیں آتا تو مانگ دیکھو شاہ حاتم نے بڑ ی کوشش کرکے ان رنگ آمیزیوں سے اردو کو پاک کیا۔ چنانچہ ان کے حال میں معلوم ہو گا۔ سودا کے عہد میں بھی اس مادہ فاسد کا بقیہ چلا آتاتھا۔ چنانچہ انہوںنے بھی ایک قصیدے میں ان بزرگوں کی شکایت کی ہے۔ جس کے اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے: مونہو پرورش شانہ تو پھر ہے موسل رام پور کی ہو کٹاری تو کہیں ستیا پھل مگر لطف یہ ہے کہ خود بھی موقع پاتے تھے۔ تو کہیں نہ کہیں جاتے تھے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ حکاک کا پسر بھی مسیحا سے کم نہیں فیروزہ ہوئے مردہ تو دیتاہے وہ جلا اگرچہ وہ انداز پہلے کی نسبت بالکل نہیں رہے۔ پھر بھی جس قدر ہیں وہ ایسے زبا ن پر چڑھے ہیں کہ جن مضامین کے ادا کرنے کی ہمیں آج کل ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے خلل انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہماری زبان بھی اپنے الفاظ کو بدلتی چلی آئی ہے۔ چنانچہ بہت سے الفاظ ہیں جن کا بہ دور شعراء کے کلام میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ اظہار قابل افسس ہے کہ ہماری شاعری چند معمولی مطالب کے پھندوں میں پھنس گئی ہے ۔ یعنی مضاماین عاشقانہ ے خواری مستانہ ‘ بے گل و گلزار وہمی رنگ و بوکا پیدا کرنا ہجرت کی مصیبت کا رونا‘ وصل موہوم پر خوش ہونا دنیاسے بیزاری اسی میں فلک کی جفا کاری اور غضب یہ ہے کہ اگرکوئی اصلی ماجرا بیان کرنا چاہتے ہیں تو بھی خیالی استعاروں میں ادا کرتے ہیں۔ نتیجہ جس کا یہ کہ کچھ نہیںکر سکتے۔ میرے دوستو! دیکھتا ہوں کہ علوم و فنون کا عجائب خانہ کھل اہے اور ہر قوم اپنے اپنے فن انشا کی دستکاریاں بھی سجائے ہوئے ہے کای نظر نہیں آتا۔ ہماری زبان کس درجے پر کھڑٰ ہے؟ ہاں صاف نظر آتاہے کہ پا انداز میں پڑی ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے دلی میں اول مرزا رفیع سودا‘ پھر شیخ ابراہیم ذوق نے زبان کی پاکیزگی اور الفاظ کی شستگی اور ترکیب کی چستی سے کلام میں خوب زور پیدا کیا۔ میر تقی میر اور خواجہ میر دردنے زار نالی افسردہ دلی دنیاسے بیزاری کے مضامین کو خوب ادا کیا۔ غالب نے بعض مواقع پر ان کی عمدہ پیروی کی۔ مگرمعنی آفرینی کے عاشق تھے اور زیادہ توجہ ان کی فارسی پر رہی۔ اس لیے اردو میں غالباً صاف اشعار کی تعداد سو دو سو شعر سے آگے نہ نکل سکی۔ جرا ت نے عاشق و معشوق کے معاملا ت اور دونوںکے دلی خیالات کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے بیان کیا۔مومن خان نے باوجود مشکل پسندی کے پیروی کی۔ لکھنو میں اامام بخش ناسخ ‘ اور خواجہ حیدر علی آتش رند ‘ صبا ‘ وزیر وغیرہ نے شاعری کا حق ادا کیا مگر پھر خیال کرو کہ فقط زبانی طوطے مینا بنانے سے کیا حاصل کیا۔ جو شاعر ہمارا ہر قسم کا مطلب اور ہمارے دل کا ہر ایک ارمان پورانہ نکال سکے گویا ایک ٹوٹا ہوا قلم ہے۔ جس سے پورا حرف نہ نکل سکے۔ دارالخلافہ دہلی جو کہ انشاء پردازی اور شاعری اردو کے لی دار الضرب تھاوہاں ذوق اورغالب نے رسمی شاعری رپ خاتمہ کیا۔ لکھنومیں ناسخ و آتش سے شروع ہو کر رند وزیر صبا تک سلسلہ جاری رہا۔ ایک زمان میں مثل مشہور تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویہ دمرثیہ خواں لیکن لکھنو میں ان دونوں شاخوں کے ایسے صاحب کمال بھی پیدا ہوئے ہیں کہ اصلوں کو رونق دے دی۔ اسی اعتبار سے کہہ سکتے ہیں خہ میر انیس اور مرزا دبیر خاتمہ شعرائے اردو کا ہیں اور چونکہ اس فن کے صاحب کمال کا پیدا ہونا نہایت درجے کی آسودگی اور زمانے کی قدردانی اور متعدد سامانوں پر منحصر ہے اور اب زمانے کا رنگ اس کے بالکل برخلاف ہے اس لیے ہندوستان کو اس شاعری کی ترقی اور ایسے شعراء کے پیدا ہونے سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے ۔ البتہ کوئی نیا فیشن نکلے پھر اس میں خدا جانے کیا کیا کما ل ہوںاور کون کون اہل کمال ہوں۔ خاتمہ کلام میں عقل کے نجومی سے سوال ہوا کہ اس شاعری کا ستارہ جو نحوست زوال میں آ گیا ہے۔ کبھی اوج کمال پر بھی طلوع کرے گا۔ یا نہیں؟ جواب ملا کہ نہیں۔پوچھا گیا کہ سبب؟ جواب ما کہ یہ حکام وقت کی یہ زبان نہیں۔ نہ ا ن کے کارآمد ہے۔ اسی لیے وہ اس کے قدر دان نہیں ۔ نہ وہ اسے جانتے ہیں۔ نہ اس کے جاننے کو کچھ فخر جانتے ہیںَ وہاں سے ہمارے شعرا کو جھوٹے خوشامی کا خطاب ملا ہے ۔ اچھا یا قسمت یانصیب! جن لوگوں کے کلا م ہماری زبان کے لیے رہے جن کی دردناک آوازیں کبھی کبھی آہ سرد کے سروں میں بلند ہو کر سینوں میں رہ جاتی ہیںَ کبھی وہ دل آسودہ ہوتے ہیں تو ایک مشاعرہ کر کے مل بیٹھتے ہیں اورآپس میں ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے جی خوش کر لیتے ہیں۔ شاعر غریب اپنے بزرگوں کی قبریں قائم رکھنے کو اتنی ہی تعریف پر قناعت کرلیں مگر پیٹ کو کیا کریں۔ یہ دوزخ تو بہت سی تعریف سے نہیں بھرتا۔ پھر سوال ہی ہے کہ ایسی تدبیر ہے کہ جس سے اس کے دن بھی پھریں اورپھر ہماری نظم کاباغ لہلہاتا نظر آئے۔ جواب ملا کہ ہاں ہمت و تدبیر کو خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ صورت یہی ہے کہ ایشیا میں ایسے کمالوں کی رونق حکام کی توجہ سے ہوتی ہے۔ شاعرو ں کو چاہیے کہ اسے حاکموں کے کار آمد یا ان کی پسند کے قابل بنائیں۔ ایسا کریں گے تو شعر کہنے والوں کو کچھ فائدہ ہو گا اور جس قدر فائدہ ہو گا اسی قدر چرچا زیادہ ہو گا۔ اسی قدر ذہن فکر و جودت کریںگے اور دلچسپ ایجاد اور خوش نما اختراع نکالیں گے۔ اسی کو ترقی کہتے ہیں۔ یہ تو تم نے دیکھ لیا کہ اردو میں جو سرمایہ انشا پردازی کا ہے۔ فارسی کی بدولت ہے۔ قدمائے فارس ہر قسم کے مضامین سے لطف اٹھاتے ہیں۔ متاخرین فقط غزل میں منحصر ہو گئے۔ ذی استعداد قصیدے بھی کہتے رہے۔ اردو والوں نے بھی آسان کام سمجھ کر اور عوام پسندی کو غرض ٹھہرا کر حسن و عشق وغیرہ کے مضامین کو لیا اور ا س میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ کیا۔ بہت خوب کیا۔ لیکن وہ مضمون اس قدر مستعمل ہو گئے کہ سنتے سنتے کان تھک گئے۔ وہی مقرری باتیں ہیں۔ کہیں ہم لفظوں کو پس وپیش کرتے ہیں اور کہیں ادل بدل کرتے ہیں اورکہے جاتے ہیں۔ گویا کھاتے ہوئے بلکہ اوروں کے چبائے ہوئے نوالے ہیں ۔ انہیںکو چباتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ خیال کرو اس میں کیا مزا رہا؟ حسن و عشق سبحان اللہ بہت خوب لیکن تابہ کے؟ حور ہو یا پری گلے کا ہار ہوجائے تواجیرن ہو جاتی ہے۔ حسن و عشق سے کہاں تک جی نہ گھبرائے اور اب تو وہ بھی سو برس کی بڑھیا ہو گئی۔ ایک دشواری یہ بھی ہے کہ ان خیالات کے ادا کرنے کے لیے ہمارے بزرگ الفاظ و معنی اور استعاروں اور تشبیہوں کے ذخیرے تیار کر گئے ہیں اور اس قدر الفاظ و معنی اور استعاروں اور تشبیہوں کے ذخیرے تیار کر گئے ہیں اور اس قدر زبان پر رواں ہو گئے ہیں کہ ہر شخص تھوڑے فکر سے کچھ نہ کچھ کر لیتاہے۔ اگر اور خیال نظم کرنا چاہیے تو ویسا سامان نہیں۔ البتہ ذی استعداد مشاق چاہیں توکر بھی سکتے ہیں۔ لیکن کم بخت حسن و عشق کے مضمون‘ اس کے خط و خال اور بہار و گلزار کے الفاظ ان کی زبان و دہان میں رچے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ کہنا چاہیں تو اول اسے بھلائیں۔ پھراس کے مناسب مقام ویسے ہی نرالے استعارے نئی تشبیہیں انوکھی ترکیبیں اور لفظوں کی عمدہ تراشیں پیدا کریں اور یہ بڑی عرق ریزی اور جاں کا ہی کا کام ہے۔ بے ہمتی جو ہماری قوم پر حاکم با اختیار بنی ہوئی ہے۔ اسے اس سے زیادہ روکنے کا موقع کا ملے سکتا ہے؟ اس اتفاقی معاملے نے او رتو جو کیا سو کیا؟ بڑی قباحت یہ پیدا کی کہ ارباب زمانہ نے متفق اللفظ کہہ دیا کہ اردو نظم مضامین عاشقانہ ہی کہہ سکتی ہے۔ اسے ہر ایک مضمون کے ادا کرنے کی طاقت اور لیاقت بالکل نہیں اوریہ ایک بڑا داغ ہے جو ہماری قومی زبان کے دامن پر لگا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اسے کون دھوئے اور کیوں کر دھوئے؟ ہاں یہ کام ہمارے نوجوانوں کا ہے۔ جو کشور علم میں مشرقی اور مغربی دونوں دریائوں کے کناروں پر قابض ہو گئے ہیں۔ ان کی ہمت آبیاری کرے گی۔ دونوں کناروں سے پانی لائے گی اور اس داگ کو دھوئے گی۔ بلکہ قوم کے دامن کو موتیوں سے بھردے گی۔ ٭٭٭ پہلا دور تمہید نظم اردو کے عالم کا پہلا نو روز ہے۔ نفس ناطقہ کی روح یعنی شاعری عالم وجود میں آئی تھی۔ مگر بچوں کی نیند پڑی سوتی تھی۔ دلی نے آ کر ایسی میٹھی آواز سے غزل خوانی شروع کی ہے کہ اس بچے نے ایک انگڑائی لے کر کروٹ لی اور اس کا اثر درجہ حرارت برقی کی طرح دل دل میں دوڑ گیا۔ گھر گھر شاعری کا چرچا ہے جس امیر اور جس شریف کو دیکھو۔ شعر کی سوچ میں غرق بیٹھا ہے ان بزرگوں کی باتیں تو ان کے شعروں سے بھی سن سکتے ہو۔ مگر حیران ہوں کہ صورت کیوں کر دکھائوں جو اول تو حرفوں میں تصویر کھینچنی مشکل اس پر میں زبان کا اپاہج اس رنگ کے الفاظ کہاں سے لائوں۔ جو ایسے لوگوں کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر کھینچ دکھائوں کہ ادب کی آنکھ ان کی متانت پر نظر نہیں اٹھا سکتی اور محبت کی آنکھ ان کی پیاری حالت سے نگاہ نہیں ہٹا سکتی ۔ دیکھو جلسہ مشاعرہ کا امرا و شرفا سے آراستہ ہے۔ معقول معقول بڈھے اورجوان برابر لمبے لمبے جامے موٹی موٹی پگڑیاں باندھے بیٹھے ہیں کوئی کٹاری باندھے ہے۔ کوئی سیف لگائے ہے۔ بعض وہ کہن سال ہیں کہ جن کے بڑھاپے کو سفید ڈاڑھی نے نورانی کیا ہے۔ بعض ایسے ہیں کہ عالم جوانی میں اتفاقاً دڑھی کو رخصت کیا تھا۔ اب کیوں کر رکھیں کہ وضع داری کا قانون ٹوٹتا ہے۔ اس پرخوش مزاجی کا یہ عالم ہے کہ ان کے بڑھاپے کی زندہ دلی سے آج نوجوانوں کی جوانی پانی پانی ہوتی ہے۔ ان شوخیوں سے انہیں کچھ اور مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ اپنے اوپر آپ ہنسیں اور وں کو خوش کریں۔ اس دور میں دلی تو مجلس کی شمع ہیں اور اہل مجلس دلی اور دکن کے شریف اور نجیب فصیح زبان میں کہ جو کچھ دیکھتے ہیں۔ اس روشنی سے دیکھتے ہیں کہ ان کی زبان ایک ہی سمجھنی چاہیے۔ مگر ولی نے اپنے کالم میں ایہام اورالفاظ ذومینین سے اتنا کام نہیں لیا۔ خدا جانے ان کے قریب العہد بزرگوں کو پھر اس قدر شوق اس ا کیوں کر ہو گیا؟ شاید دوہروں کا انداز جو ہندوستان کی زبان کا سبزہ خورو تھا اس نے اپنا رنگ دیا ۔ اگرچہ دلی کے بعد دلی میں سینکڑوں صاحب طبع دیوان بنانے پر کمر بستہ ہو گئے۔ مگر میں اس مشاعرے میں چند ایسے بزرگوں کو لاتا ہوں جن کے ناموں پراس وقت کے معرکوں میں استادی کا چتر شاہی سایہ کیے تھا اور غالباً اس زبان کا نمونہ شعر کا انداز دکھانے کو اس قدر ہو گا۔ ان بزرگوں کے کلام میں تکلف نہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے دل میں جو خیالات گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ ایج پیچ کے خیال دور دور کی تشبیہیں نازک استعارے نہیں بولتے۔ اسی واسطے اشعاربھی صاف اور بے تکلف ہیں اور یہ دلیل ہے ا س بات کی کہ ہر ایک زبان او ر اس کی شاعری جب تک عالم طفولیت میں ہوتی ہے تب تک بے تکلف عام فہم اوراکثر حسب حال ہوتی ہے۔ اسی واسطے لطف انگیز ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے محاورات قدیمی اورمضمون بھی اکثر سبک اور متبذل ہوں گے۔ مگر کلام کی سادگی اور بے تکلفی ایسی دل کو بھلی لگتی ہے۔ جیسے ایک حسن خداداد ہو کہ اس کی قدرتی خوبی ہزاروں بنائو سنگار کا کام کر رہی ہے۔ میں خود نہیں کہتا فلاسفہ سلف کا قول سنتا ہوں کہ ہر شے اپنی مختلف کیفیتوں میں خوبصورتی اور بدصورتی کا ایک عالم رکھتی ہے پس انسان وہی ہے کہ جس پیرائے میں خوبصورتی جوبن دکھائے یہ اس سے کیفیت اٹھائے نہ کہ فقط حسینوں کے زلف و رخسار میں پریشان رہے۔ خوش نظر اسے نہیںکہتے کہ فقط گل و گلزار ہی پر دیوانہ پھرے نہیں‘ ایک گھاس کی پتی بلکہ سڈول کانٹا خوشنما ہو تو اس کی نوک جھوک پر بھی پھول ہی کی طرح لوٹ جائے۔ ٭٭٭ شمس ولی اللہ یہ نظم اردو کی نسل کا آدم جب ملک عدم سے چلا تو اس کے سرپر اولیت کا تاج رکھا گیا۔ جس میں وقت کے محاورے نے اپنے جواہرات خرچ کیے اور مضامین کی رائج الوقت دست کاری سے مینا کاری کی ۔ جب کشور وجود میں پہنچا تو ایوان مشاعرہ کے صدر میں اس کا تخت سجایا گیا۔ شہرت عام نے جو اس کے بقائے نام کا ایوان بنایا ہے۔ اس کی بلندی اور مضبوطی کو ذرا دیکھو اور جو کتابے لکھے میں انہیں پڑھو۔ دنیا تین سو برس دور نکل آئی ہے۔ مگر وہ آج تک سامنے نظر آتے ہیہں۔ اور صاف پڑھے جاتے ہیں۔ اس زمانے تک اردو میں متفرق شعر ہوتے ہیں۔ ولی اللہ کی برکت نے اسے وہ زور بخشا کہ آج کی شاعری نظم فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیںبلکہ تمام بحریں فارسی کی اردومیں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا ردیف وارد دیوان بنایا۔ ساتھ اس کے رباعی قطعہ‘ خمس اورمثنوی کا راستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی کی نظم میں چاسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اورعربی میں مہلہل کو ۔ وہ کسی کے شاگرد نہ تھے اوریہ ثبوت ہے کہ فصیح عرب کے قول کا کہ الشعرا ء تلامیذ الرحمن اسی کو دانائے فرنگ کہتا ہے کہ شاعر اپنی شاعری ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں کہ ہماری زبان زور بیان میں ایک طفل نو رفتار تھی جوانگلی کے سہارے بغیر چل نہ سکے پس جتنے قدم کہ آگے بڑھی انہی کی پرورش کے سہارے سے بڑھی اردو زبان اس وقت سوا ہندی دہروں اور بھاشا کے مضامین کے اور کسی قابل نہ تھی۔ انہوںنے اس میں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو بھی داخل کیا۔ ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین کے مشہور خاندان میں سے تھے۔ ان کی علمی تحصیل کی حال ہماری لا علمی کے اندھیرے میں ہے۔ کیوں کہ اس عہد کی خاندانی تعلیم اور بزرگوں کی صحبتوںمیں ایک تاثیر تھی کہ تھوڑی نوشت و خواند کی لیاقت کا بھی استعداد کاپردہ نہ کھلنے دیتی تھی۔ پھر بھی کلام کہتا ہے کہ فارسیت کی استعداد درست تھی۔ ان کی انشاء پردازی اور شاعری کی دلیل اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ ایک زبان کو دوسری زبان سے ایسابے معلوم جوڑ لگایاہے کہ آج تک زمانے نے کئی پلٹے کھائے ہیںمگر پیوند میں جنبش نہیں آئی۔ علم میں درجہ فضیلت نہ رکھتے ہوئے مگر کہتے ہیں: اک دل نہیں آرزو سے خالی ہر جا ہے محال اگر خلا ہے یہ سیر کتاب کا شوق اور علماء کی صحبت کی برکت ہے۔ دلی کی طبیعت میں بلند پروازی بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگرچہ سودا کی طرح کسی سے دست و گریبان نہیںہوئے۔ مگر اپنے ہم عصروں پر چوٹیں کی ہیں۔ چنانچہ ناصر علی سر ہندی کے معاملے سے ظاہر ہے اگرچہ ایشیا کے شاعروں کا پہلا عنصر مضمون عاشقانہ ہے‘ مگر جس شوخی سے اخلاق کی شوخی ظاہرہو ا س کا ثبوت ان کے کلام سے نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے صلاحیت اورمتانت ان کا جوہر طبی تھا۔ ان کے پاس سیاحی اور تجربے کا توشہ یہی معلوم ہوتاہے۔ کہ جس عہد میں تھوڑا سا سفر بھی بڑی سیاس کی قیمت رکھتاتھا۔ اس میں یہ اپنے وطن سے ابو المعالی کے ساتھ دلی میں آئے۔ یہاں شاہ سعد اللہ گلشن کے مرید ہوئے ۔ شاید ان کے شعرمیں اصلاح لی ہو گی مگر دیوان کی ترتیب فارسی کے طور پر یقینا ان کے اشارے سے کی۔ ان کا دیوان اس عہد کے مشاعروں کی بولتی تصویر ہے۔ کیونکہ اگر آج دریافت کرنا چاہیں کہ اس وقت کے امرا شرفا کی کیا زبان تھی؟ تو اس کیفیت کو سوا دیوان دلی کے اورکوئی نہیں بتاسکتا۔ انہی کے دیوان سے ہم اس وقت اور آج کی زبان کے فرق بخوبی نکا ل سکتے ہیں۔ سوں اور سیں سیتی بجائے سے بھیتر بجائے اندر کوں بہ واو معروف = کو مجھ دل = میر ا دل ہم نکوں = ہم کو موہن ‘ سریجن‘ پی ‘ پیتم = معشوق جگ منے = دنیا میں انجھواں بجائے آنسو کی جمع برمنے بجائے بر میں فارسی کا ترجمہ سے پیراہنے دربر بھواں پلکاں = بھویں پلکیں تجھ لب کی صفت بجائے تیرے لب کی صفت نین = آنکھ نمن یعنی طرح یا مثل دہن = دہن جگ = جہاں دنیا مرا = میرا بچن = کلام یوہ = یہ نت = ہمیشہ مکھ = منہ بعض قافیے مثلاً تسبی بجائے تسبیح گھوڑا‘ موڑا‘ گورا سہی = صحیح دھڑ ‘ سر بگانہ بجائے بیگانہ گھوڑی گوری مرض (یہ سکون را) = مرض اکثر غزلیںبے ردیف ہیں چونکہ نظم فارسی کی روح اسی وقت اردو کے قالب میں آئی تھی۔ اسی واسطے ہندی لفظوں کے ساتھ فارسی کی ترکیبیں اور ’’بر‘‘ اور ’’در‘‘ بلکہ بعض جگہ افعال فارسی بھی منہ میںکھٹکتے ہیں۔ وہ خود دکنی تھے۔ اس لیے ان کے کلام میں بعض بعض الفاظ دکنی بھی ہوتے ہیں۔ آج اس وقت کی زبان کو سن کر ہمارے اکثر ہم عصر ہنستے ہیں۔ لیکن یہ ہنسی کا موقع نہیں۔ حوادث گاہ عالم میں ایساہی ہوا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ آج تم ان کی زبان پر ہنستے ہو کل ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ تمہاری زبان پر ہنسیں گے۔ اس انجمن غفلت کے ممبر اگر تھوڑی دیر کے لیے عقل دوربین کو صدر انجمن کر لیں تو یہ اس تدبیر کے سوچنے کا موقع ہے کہ آج ہم کیوں کر اپنے کلام کو ایسا کریں جس سے ہماری زبان کچھ مدت تک زیادہ مطبوع خلائق رہے ۔ اگرچہ سامنے ہمارے اندھیرا ہے لیکن پیچھے پھر کر دیکھنا چاہیے او ر خیال کرنا چاہیے کہ زبان نے جو ترقی کی ہے تو کن اصول پر اور کس جانب میں قدم رکھتی گئی ہے۔ آئو ہم آج کے کاروبار اور اس کے آئندہ حالات کو خیال کریں اور اسی انداز پر قدم ڈالیں شاید ہمارے کلام کی عمر میں کچھ برس زیادہ ہو جائیں۔ شاعر قدرت کے دیوان میں ایک سے ایک مضمون نیا ہے۔ مگر یہ لطیفہ بھی کچھ کم نہیں کہ شاعری کا چراغ تو دکن میں روشن ہوا اور ستارے اس دلی افق سے طلوع ہوا کریں۔ اس عہد کی حالت اور بھاشا زبان کو خیال کرتا ہوں تو سوچتا رہ جاتاہوں کہ یہ صاحب کمال زبان اردو اور انشائے ہادی میں کیوں کر ایک نئی صنعت کا نمونہ دے گیا اور اپنے پیچھے آنے والوں کے واسطے ایک نئی سڑک کی داغ بیل ڈالتا گیا۔ کیا اسے معلوم تھا کہ اس طرح یہ سڑک ہموار ہو گی۔ اس پر دکانیںتعمیر ہوں گی لالٹینوں کی روشنی ہو گی اہل سلیقہ دکان دار جواہر فروشی کریں گے اور اردوؤئے معلیٰ اس کا خطاب ہو گا۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری زبان کے مورخ اور ہمارے شعراء کے تذکرہ نویسوں نے اس کے ولی اور خدا رسیدہ ثابت کرنے میں تو بڑی عرق ریزی کی ‘ لیکن ایسے حال نہ لکھے ۔ جن سے اس کے ذاتی خصائل و حالات مثلاً دنیا داری یا گوشہ گیری‘ اقامت یا سیاحی راہ علم و عمل کی نشیب و فراز منزلیں یا اس کی صحبتوں کی مزے مزے کی کیفیتیں معلوم ہوں بلکہ برخلاف اس کے سنہ ولادت اور سال فوت تک بھی نہ بتایا اتنا ثابت ہے کہ ان کا ابتدائے عہد شاید عالمگیری کا آخر زمانہ ہو گا اور وہ مع اپنے دیوان کے سنہ محمد شاہی میں پہنچے۔ قاعدہ ہے کہ جب دولت کی بہتات اور عیش و نشاط میں کچھ نیکی پر خیالات آتے ہیں۔ تو صوفیانہ لباس میں ظاہر ہوا کرتے ہیںَ اس وقت محمد شاہی دور نے در و دیوار کو دولت سے مست کر رکھا تھا۔ جس سے کہ تصوف کے خیالات عام ہو رہے تھے۔دوسرے ولی خود فقر کے خاندان عالی سے تھے اور فقیر ہی کے دیکھنے والے بھی تھے۔ تیسرے زبان اردو کے والدین یعنی بھاشا اور فارسی بھی صوفی ہیں اوران جذبوں نے انہیں تصوف شاعرانہ ڈالا اور دل کی امنگ نے پیش قدمی کا تمغہ حاصل کرنے کو اس کام پر آمادہ کیاکہ جو سلف سے اس وقت تک کسی کو نہ سوجھا تھا۔ وہ یہی کہ فارسی کے قد م بقدم چلیں اور پورا دیوان مرتب کریں۔ چنانچہ ان کے پیر کا اشارہ اس کی تائید کرتا ہے۔ غرض جب کہ ان کا دیوان دلی میں پہنچا تو اشتیاق نے ادب کے ہاتھوں پر یا قدردانی نے غور کی آنکھوں سے دیکھا۔ لذت نے زبان سے پڑھا۔ گیت موقوف ہو گئے۔ قوال اور معرفت کی محفلوں میں انہیں کی غزلیں گانے بجانے لگے۔ اربا ب نشاط یاروں کو سنانے لگے۔ جو طبیعت موزوں رکھتے تھے انہیں دیوان بنانے کا شوق ہوا۔ اگرچہ اس اعتبار سے یہ نہایت خوشی کا موقع ہے کہ عمدہ جو ہر انسانیت پسندیدہ لباس پہن کر ہماری زبان میں آیا۔ مگر اس کوتاہی کا افسوس ہے کہ کوئی ملکی فائدہ اس سے نہ ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی علمی یاآئینی رستے سے نہیں آیا بلکہ فقیرانہ شوق یا تفریح کی ہوا سے اڑ کر آ گیا تھا۔ کاش شاہنامہ کے ڈھنگ سے آتا کہ محمد شاہی عیاشی اور عیش پرستی کا خون بہاتا اور اہل ملک کو پھر تیموری اور بابری میدانوں میں لا ڈالتا یا تہذیب و شائستگی سے اکبری عہد کو پھرزندہ کر دیتا۔ باوجودیکہ ا س کی زبان آج کل بالکل متروک ہے ‘ مگر دیوان اب تک ہر جگہ ملتا اور بکتا ہے۔ یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیا ہے۔ اس میں علاوہ ردیف وار غزلوں کی رباعیاں‘ قطعے دو تین مخمس قصیدے ایک مثنوی مختصر معرکہ کربلا کے حال میں ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے۔ واسوخت اس وقت میں نہ تھا۔ اس ایجاد کا فخر میر صاحب کے لیے چھوڑ گئے۔ بادشاہ یا کسی امیر کی تعریف بھی نہیں۔ شاید خواجہ میر درد کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح بادشاہ وقت کے نام سے اپنے شعر کو شان و شکوہ دیتے تھے۔ چنانچہ ولی کی تصنیفات میں سے ایک غزل میں کہتے ہیں۔ دل ولی کا لے لیا دلی نے چھین جا کہو کوئی محمد شاہ سوں رسالہ نور المعرفت تصوف میں لکھا ہے کہ اس میں کہتے ہیں کہ میں محمد نور الدین صدیقی سہروردی کے مریدوں کا خاک پا ہوں اور شاہ عبداللہ گلشن کا شاگرد ہوں مگر یہ نہیں لکھا کہ کس امر میں۔ لطیفہ ولی نے اپنے جوش ریختہ گوئی میں ناصر علی سرہندی کو کہ علی تخلص کرتے تھے یہ شعر لکھا: اچھل کر جا پڑے جوں مصرع برق اگر مطلع لکھوں ناصر علی کوں ناصر علی نے جواب میں لکھا: باعجاز سخن گر اوڑ چلے وہ ولی ہرگز نہ پہنچے گا علی کوں اب ان کے کلام سے اس وقت کی زبان کا نمونہ دکھانا ضرور ہے۔ لیکن ہمارے تذکرہ نویسوں کا دستور ہے کہ جب شاعر کا حال لکھتے ہیں تو اس کے اشعار منتخب کر کے لکھتے ہیں اوری ہ ظاہر ہے کہ فیضان سخن رائیگاں نہیں جاتا۔ نظیر کے بعض شعر ایسے ہیں کہ میرے پہلو مارتے ہیں۔ پس اگر نظیر کا ذکر لکھ کر اس کے چند شعر منتخب لکھ دیے تو ناواقف سوائے اس کے کہ نظیر کو میر کا ہم پلہ شاعر بھی سمجھے اور کیا تصور کر سکتاہے۔ بڑی قباحت اس میں ہے کہ شاعر مذکور میں اور ہم میں سالہا سال کے عرصے حائل ہیں۔ پس ان شعروں سے ان کی اصلی قابلیت اور طبیعت کی کیفیت کھلنی مشکل ہو جاتی ہے۔ میں ان کے دیوان سے نیک نیتی کے ساتھ چند غزلیں پوری کی پوری لکھ دوں گا تاکہ اصلیت حال ظاہر ہو جائے ہاں اگر کسی کی پوری غزلیں ہاتھ نہ آئیں تو مجبوری ہے۔ تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سے کہوں گا جادو ہیں تیرے نین غزالاں سے کہوں گا دی حق نے تجھے باد شہی حسن نگر کی یہ کشور ایراں میں سلیماںسے کہوں گا زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سے کہوںگا بے صبر نہ ہو اے ولی اس درد سے ہر گاہ جلدی سے ترے درد کی درماں سے کہوں گا دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا ہے مطالع مطلع انوار کا یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا ہے وظیفہ جھ دل بیمار کا آرزوئے چشمہ کوثر نہیں تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا عاقبت ہو وے گا کیا معلوم نئیں دل ہوا ہے مبتلا دیدار کا بلبل و پروانہ کرنا دل کے تئیں کا تھا تجھ چہرہ و گلنار کا کیا کہے تعریف دل ہے بے نظیر حرف حرف اس مخزن اسرار کا گر ہوا ہے طالب آزادگی بندہ مت ہو سبحہ و زنار کا مسند گل منزل شبنم ہوئی دیکھ رتبہ دیدہ بیدار کا اے ولی ہونا سریجن پر نثار مدعا ہے چشم گوہر بار کا بے وفائی نہ خدا سوں ڈر جگ ہنسائی نہ کر خدا سو ڈر ہے جدائی میں زندگی مشکل آ جدائی نہ کر خدا سوں ڈر اس سوں جو آشنائی ڈر کر ہے آشنائی نہ کر خدا سوں ڈر آ ر سی دیکھ کر نہ ہو مغرور خود نمائی نہ کر خدا سوں ڈر اے ولی غیر آستانہ یار جبہہ سائی نہ کر خدا سوں ڈر جب صنم کو خیال باغ ہوا طالب نشہ فراغ ہوا فوج عشاق دیکھ ہر جانب نازنیں صاحب دماغ ہوا مان سیں تجھ لباں کے سرخ ہوا جگر لالہ داغ داغ ہوا دل عشاق کیوںنہ ہوں روشن جب خیال صنم چراغ ہوا اے ولی گلبدن کو باغ دیکھ دل صد برگ باغ باغ ہوا جس وقت اے سریجن تو بے حجاب ہوگا ہر زرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا مت جا چمن سوں لالہ بلبل پہ مت ستم کر گرمی سوں تجھ نگہ کی گل گل گلاب ہو گا مت آئینے کو دکھلا اپنا جمال روشن تجھ مکھ کی تاب دیکھے آئینہ آب ہو گا نکلا ہے وہ ستمگر تیغ ادا کوں لے کر سینے پہ عاشقاں کے اب فتح یاب ہو گا رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم محشر میں تجھ سیں آخر میرا حساب ہو گا مجھ کو ہوا ہے معلوم اے مست جام خونیں تجھ انکھڑیاں کے دیکھے عالم خراب ہو گا ہاتف نے یوں دیا ہے مجھ کو ولی بشارت اس کی گلی میں جا تو مقصد شتاب ہو گا تخت جس بے خانماں کا دشت ویرانی ہو سر اوپر اس کے کمولا تاج سلطانی ہوا تجھ حسن عالمتاب کا جو عاشق و شیدا ہوا ہر خوبرو کے حسن کے جلوہ سوں بے پروا ہوا سینے میں اب محشر تلک کونین کو بسراے وہ تجھ نین کے جو جام سوں مے پی کے متوالا ہوا پایا ہے جگ میں اے ولی وہ لیلی مفصود کوں جو عشق کے بازار میں مجنوں نمن رسوا ہوا لیا ہے جب سوں موہن نے طریقہ خود نمائی کا چڑھا ہے آرسی پر تب سے رنگ حیرت فزائی کا کیوں کرے آلودہ زر جگ منے صید مراد ہے علم اوپر معطل صورت شیر طلا بوالہوس رکھتے ہیں دائم فکر رنگ عاشقاں ہے مہوس کی صدا سینے میں تدبیر طا یو کنارے مکھ پہ تیرے اے زلیخاوش نہیں سورہ یوسف کو لکھا گرد تحریر طلا ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا چمن موں آج آیا ہے مگر گلی پیرہن میرا خمار ہجر نے جس کے دیا ہے درد دل مجھ کو رکھوں نشہ نمن اکھیاں میں وہ گروہ مست ناز آوے عجب نین گر گلاں دوڑیں پکڑ کر صورت قمری اداسوں جب چمن بھیتر وہ سروسر فراز آوے تاحشر رہے بوے گلاب اس کے عرق سے جس برمنے یکبار وہ گل پیرہن آوے سایہ ہو میرا سبز برنگ پر طوطی گر خواب میں وہ نو خط شیریں بچن آوے کھینچیں پس انکھیاں منے جوں کحل جواہر عشاق کے گر ہاتھ وہ خاک چرن آوے ہرگز سخن سخت کو لاوے نہ زباں پر جس دہن میں یک بار وہ نازک بدن آوے یہ تل تجھ مکھ کے کعبے میں مجھے اسود حجر دستا زنخداں میں ترے مجھ چاہ زمزم کا اثر دستا ٭٭٭ شاہ مبارک آبرو آبر و تخلص مشہور شاہ مباک اصلی نام نجم الدین تھا۔ شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں سے تھے۔ باوجودیکہ بڈھے شاعر اور پرانے مشتاق تھے۔ مگر خان آرزوکو اپنا کلام دکھا لیتے تھے۔ دیکھو اس زمانے میںلوگ کیسے منصف اور طالب کمال تھے یہ اپنے زمانے میں مسلم الثبوت شاعر زبان ریختہ کے اور صاحب ایجاد نظم اردو کے شمار ہوتے تھے۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ اخلاص کو وسواس اور دھڑ کو سر کا قافیہ باندھ دیتے تھیے اورعیب نہ سمجھتے تھے۔ ردیف کی کچھ صورت نہ تھی۔ البتہ کلام کی بنیاد ایہام اور ذو معنیں لفظوں پر ہوتی تھیں اور محاورے کو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ وہ ایک آنکھ سے معذور تھے ۔ ان کی اور مرزاجناں مظہر کی خوب خوب چشمکیں ہوتی تھیں۔ بلکہ ان کی آنکھ کا بھی اشارہ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ مرزا صاحب نے کہا: آبرو کی آنکھ میں اک گانٹھ ہے آبرو سب شاعروں کی ہے شاہ آبرو نے کہا: کیا کروں حق کیے کو کور میری چشم ہے آبرو جگ میں رہے تو جان جاناں ریشم ہے شاید کمال بخاری اس زمانے میںایک بزرگ شخص تھے۔ ان کے بیٹے پیر مکھن تھے اور پاکباز تخلص کرتے تھے شاہ مبارک کو ان سے چڑ تھی۔ چنانچہ اکثر شعروں میں ان کا نام یا کچھ اشارہ کرتے تھے۔ دیکھنا کیا مزے کا سجع کہا ہے: عالم ہمہ دوغ است و محمد مکھن ان کی علمی استعداد کا حال معلوم نہیں کلام سے ایسا تراوش ہوتاہے کہ صرف و نحو عربی کو جانتے تھے اور مسائل علمی سے بے خبر نہ تھے۔ ان کے شعرجب تک پیر مکھن پاک باز کے کلام سے چپڑتے نہ جائیں تب تک مزہ نہ دیں گے۔ اس لیے پہلے ایک شعر ان کا ہی لکھتا ہوں۔ اس زمانے کے خیالات پر غور کرو: مجھے درد و الم گھیرے ہے نت میرے میاں صاحب خبر لیتے نہیں کیسے ہو تم؟ میرے میاں صاحب آیا ہے صبح سے اٹھ رسمسا ہوا جامہ گلے میں رات کا پھولوں بسا ہوا کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد سونا وہ ہے کہ ہووے کسوٹی کسا ہوا انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں جو خال اپنے حد سے بڑھا سو مسا ہوا قامت کا سبھ جگت منیں بالا ہوا ہے نام قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا دل یوںڈرے ہے زلف کا مارا بھونک سیں ری سیں اژدھا کا ڈرے جوںڈسا ہوا اے آبرو اول تو سمجھ پیچ عشق کا پھر زلف سے نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا پلنگ کو چھوڑ خالی گود سیں اٹھ گئے سجن میتا چتر کاری لگے کھانے ہمن کو گھر ہوا چیتا لگائی بینوا کی طرح سیں جب وہ چھری تم نے تج اوروں کو لیا ہے ہاتھ اپنے ایک تو میتا جدائی کے زمانے کی سجن کیا زیادتی کہیے کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھری گزری سو جگ بتیا لگا دل یار سے تب اس کو کیا کام آبرو ہم سیں کہ زخمی عشق کا پھر مانگ کر پانی نہیں پیتا نین سے نین جب ملائے گیا دل کے اندر مرے سمائے گیا نگہ گرم سیں مرے دل میں خوش نین آگ سی لگائے گیا تیرے چلنے کی سن خبر عاشق یہی کہتا ہوا کہ ہائے گیا سہو کر بولتا تھا مجھ سیتی بوجھ کر بات کو چھپائے گیا آبرو ہجر بیچ مرتاتھا مکھ دکھا کے اسے جلائے گیا یہ رسم ظالمی کی دستور ہے کہاں کا دل چھین کرہمارا دشمن ہواہے جاں کا ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں کچھ یوہ تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا بو پائے کہ ہماری آ باندھتا ہے ناں کا خندوں کے طور گویا دیوار قہقہا ہے پھر کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا رستم دہل ے دل میں ڈالے انجھو سو پانی دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا فاسق کے دل پر ڈالی جب نفس بد نے برکی رجواڑے کی گلی کا تب جا غبار پھانکا سب عاشقوں میں ہم کو مژدہ ہے آبرو کا ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا مت قہر سیتی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں جلتا ہے کیوں پکڑتا ہے ظالم انگارے کوں ٹک باغ میں شتاب چلو اے بہار حسن گل چشم ہو رہا ہے تمہارے نظارے کوں مرتا ہوں ٹک رہی ہے رمق آدرس دکھا جا کر کہو ہماری طرف سے پیارے کوں میں آ پڑا ہوں عشق کے ظالم بھنور کے بیچ تختہ اوپر چلاوتے ہیں جی کے آرے کوں اپنا جمال آبرو کوں ٹک دکھائو آج مدت سے آزردہ ہے درس کی بچارے کوں رستم اس مرد کی کھاتے ہیں قسم زوروں کی تاب لا دے جو کوئی عشق کے جھک جھوروں کی قدرداں حسن کے کہتے ہیں اسے دل مردہ سانورے چھوڑ کے جو چااہ کرے گوروں کی گانٹھ کاٹی ہے مرے دل کی تری انکھیاں نے وہ پلک نئیں یہ کترنی ہے مگر چوروںکی لب شیریں پہ سریجن کے نہیں خط سیاہ ڈار چھوٹی ہے مٹھائی پہ شکر خوروں کی چلکیں سورج منیں جوں خط شعاع کے شعلے دیکھ انکھیوں منیں یہ لال جھمک ڈوروں کی قادری جبکہ سجی بر میں سجن بونٹہ دار عقل چکر میں گئی دیکھ کے چھب موروں کی آبرو کون نہیں کم ظرف کی صحبت کا دماغ کس کو برداشت ہے ہر وقت کے نکتوروں کی افسوس ہے کہ مجکوں وہ یار بھول جاوے وہ شوق وہ محبت وہ پیار بھول جاوے رستم تری آنکھوں کے ہو وے اگر مقابل انکھیوں کو دیکھ تیری تلوار بھول جاوے عارض کے آئینے پر تمنا کے سبز خط ہے طوطی اگر جو دیکھے گلزار بھول جاوے کیا شیخ و کیا برہمن جب عاشقی میں آویں تسبی کرے فرامش زنار بھول جاوے یوں آبرو بناوے دل میں ہزار باتاں جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے پانی پت آج چھوڑ جو گنور تم چلے تو راہ بیچ جائیو جاناں سنبھال کے گنجی اس زبان شیریں ہے دل مرا قفل ہے بتاشے کا کیوں چھپا ظلمت میں گر اس لب سے شرمندہ نہ تھا جان کچھ پانی رے ہے چشمہ حیواں کے بیچ اب دین ہوا زمانہ سازی آفاق تمام دہریا ہے تم نے بجاد نے کو جب ہاتھ بیچ نے لی مجنون ہو گئے سب یہ اس طرح کی لے لی سجا ہے نرگسی بوٹے کا جاہ کرے کیونکر نہ مجھ سے چشم پوشی آبرو کے قتل کو حاضر ہوئے کس کے کمر خون کرنے کو چلے عاشق کو تہمت باندھ کر دو بھواں لگے ہیں جس کے نین وہ کہا تھا ہے حاجی الحرمین عزت ہے جوہری کی جو قیمتی ہو جوہر ہے آبرو ہمن کو جگ میں سخن ہمارا جہاں اس خو کی گرمی تھی نہ تھی واں آگ کو عزت مقابل اس کے ہو جاتی تو آتش لکڑیاں کھاتی اسی انداز میں حافظ عبدالرحمن خاں احسان نے بھی ایک شعر کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے: دخت رز سے کہا مے خانے میں شب رندوں نے آج تو خوب ہی ختکے تری سوکن کو لگے یعنی بھینگر خانے میں بھنگڑوں نے خوب سبزیاں گھونٹیں اور طرے اڑائے تم بھی بھنگڑوں پرنظر عنایت کرو۔ مبارک نام تیرے آبرو کا کیوں نہ ہوجگ میں اثر ہے وہ تیرے دیدار کی فرخندہ فالی کا نالہ ہمارے دل کا غم کا گواہ بس ہے اپنے تئیں شہادت انگشت آہ بس ہے تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے ہاں ہے؟ کس طرح کی ہے؟ کدھر ہے تخلص آبرو برجا ہے میرا ہمیشہ اشک غم سے چشم تر ہے اس ناتواں کی حالت واں جا کہے ہے اڑ کر میرا یہ رنگ رو ہے گویا مکھی کبوتر مکھن میاں خفاہیں فقیروں کے حال پر آتا ہے ان کو جوش جمالی کمال پر پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے دے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے خدمت گار ‘ خان‘ بادشاہی خواجہ سرا تھا اور سرکار شاہی میں بڑا صاحب اختیار تھا۔ اکثر بادشاہی نوکر اس کی سخت گیری کی وجہ سے اور بدمزاجی سے دق رہتے تھے۔ انہیں بھی اس سے کام پڑتا تھا۔ کبھی آسانی سے مطلب نکل آتا تھا۔ کبھی دشواری سے چنانچہ ایک موقعہ پر یہ شعر کہا: یارو خدمت گار خاں خوجوں کے بیج ہے تو مستثنیٰ و لیکن منقطع ٭٭٭ شیخ شرف الدین مضمون مضمون تخلص شیخ شرف الدین نام شیخ فرید الدین گنج شکر کی اولاد میں سے تھے۔ جاجمو علاقہ اکبر آباد وطن اصلی تھا۔ دلی میں آ رہے تھے۔ اصلی پیشہ سپہ گری تھا۔ تباہی سلطنت سے ہتھیار کھول کر مضمون باندھنے پر قناعت کی اور زینت المساجد میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اٹھے۔ اس عالم میں بھی ایک خوش مزاج بااخلاق یار باش آدمی تھے۔ دور اول کے استادوںمیں شمار ہوتے تھے اورانہی کا انداز تھا کیونکہ رواج یہی تھا او رخاص وعام اسی کو پسند کرتے تھے۔ اس زمانے کے لوگ کس قدر منصف اور بے تکلف تھے۔ باوجودیکہ مضمون سن رسیدہ تھے۔ اور خان آرزو سے عمر میں بڑے تھے۔ مگر انہیں غزل دکھاتے اور اصلاح لیتے تھے نزلے سے دانت ٹوٹ گئے تھے اور اس لیے خان موصوف انہیں شاعر بیدانہ کہتے تھے۔ مرزا رفیع نے بھی ان کا عہدپایا تھا۔ چنانچہ جب انتقال ہوا تو مرزا نے غز ل کہی جس کا مطلع و مقطع بھی لکھتا ہوں۔ لیے مے اٹھ گیا ساقی مرا بھی پر ہو پیمانہ الٰہی کس طرح دیکھوں میں ان آنکھوں سے میخانہ بنائیں اٹھ گئیں یارو غزل کے خوب کہنے کی گیا مضمون دنیا سے رہا سودا سو مستانہ اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس صاحب کمال نے زمانے کے دل پر کیا اثر کیا تھا۔ ہائے دلی ولی خدا تجھے بہشت نصیب کرے۔ کیسے کیسے لوگ تیری خاک سے اٹھے اور خاک میں مل گئے۔ استاد مرحوم نے ایک دن فرمایا کہ شیخ مضمون کے زمانے میں کوئی امیر باہر سے محل میں آئے اور پلنگ پر لیٹ گئے۔ ایک بڑھیا مامانئی نوکر ہوئی تھی۔ وہ حقہ بھرلائی اور سامنے رکھانواب صاحب کی زبان پر اس وقت مضمون کا یہ شعر تھا۔ ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا صبر ایوبؑ کیا گریہ یعقوبؑ کیا ماما سن کر بولی الٰہی تیری امان اس گھر مین تو آپ ہی پیغمبری وقت پڑ رہا ہے بے چارے نوکروںپر کیا گزرے گی چلو بابا یہاں سے۔ تعجب ہے کہ اس مضمون کومخلص کاشی نے بھی باندھا ہے۔ در فراق تو چہار اے بت محبوب کنم صبر ایوب کنم گریہ یعقوب کنم کرے ہے وار کو کامل بھی سرتاج ہوا منصور سے نکتہ حل آج خط آ گیا ہے اس کے مرے ہے سفید ریش کرتاہے اب تلک بھی وہ ملنے میں صبح شام کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید کہ دادا ہمارا ہے بابا فریدؒ ہنسی تیری پیارے پھلجھڑی ہے یہی غنچے کے دل میں گلجھڑی ہے مے کدے میں گر سراپا فعل نامعقول ہے مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے تیر مژگاں برستے ہیںمجھ پر آب پیکاں کا اس طرف ہے ڈھال ٭٭٭ محمد شاکر ناجی ناجی تخلص سید محمد شاکر نام شرافت اور سعادت کے ساتھ کمال شاعری سے اپنے زمانے میں نامور تھے ۔ اہل سخن نے انہیں طبقہ اول کے ارکان میں تسلیم کیا ہے۔ عمدہ الملک امیرخاں‘ جو محمد شاہی دربار کے رکن اعظم تھے۔ یہ ان کے نعمت خانے کے داروغہ تھے۔ شاہ مبارک آبرو نے جہاں ان کے کما ل کی تعریف کی ہے ۔ وہاں اس امر کا بھی اشارہ کیاہے۔ سخن سنجاں میں ہیگا آبرو آج نہیں شیریں زباں شاکر سریکا مگر تیز مزاج اور شوخ طبع بہت تھے۔ راہ چلتے سے الجھتے تھے اور جس کے گرد ہوتے تھے اسے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔ زلف کے حلقے میں دیکھا جب سے دانہ خال کا مرغ دل عاشق کاتب سے صید ہے اس جال کا گندمی چہرے کو اپنے زلف میں پنہاں نہ کر ہندداں سن کر مبادا شور ڈالیں کال کا بینوائوں سے نہ مل اے مو کمر مت پیچ کھا مونڈ سر لڑکوں کو کرتے ہیں وہ اپنا بال کا مہر کی بے جا ہے چرخ بے مروت سے امید پیر زالوں سے نہیں احسان کرا اک بال کا ایک دم ناجی کے تئیں آ کر جلا لے پیار سے جاں بلب ہوں اے سجن یہ وقت نئیں اہمال کا نہ تھا آزردہ دل کنعاں سے یوسف ڈرا تھا خواب میں اخواں سے یوسف نہ ہوتا راہ میں گلبانگ شہرت جو روتا راہ میں خاراں سے یوسف کنوئیں میں جا پڑا یعقوب کا دل چلا جب نالہ و افغاں سے یوسف زلیخا نے بہائے شیر کے نیل جو رویا درد کے انجھواں سے یوسف جو ناجی ڈنہ ہوتا معصیت کا نہ گردن پھیرتا فرماں سے یوسف دیکھ موہن تری کمر کی طرف پھر گیا اپنے گھر کی طرف ج نے دیکھے ترے لب شیریں نظر ان کی نہیں شکر کی طرف ہے محال ان کا دام میں آنا دل ہے ان سب بتاں کا زر کی طرف تیرے رخسار کی صفائی دیکھ چشم دانا نہیں ہنر کی طرف حشر میں پاکباز ہے ناجی بدعمل جائین گے سقر کی طرف اے صبا کہ بہار کی باتیں اس بت گل غدار کی باتیں کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز کیا کرے ہے شکار کی باتیں چھوڑتے کب ہیں نقد دل کو صنم جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں معشوق مل کر آپ سے گر دلبری کرے گر دیو ہو تو چاہیے آدم گری کرے شیشہ اسی کے آگے بجا ہے کہ رخ ستی پیالے کو جب لے ہاتھ میں رشک پری کرے اس قد سے جب چمن میں خراماں ہو تو اے جاں شمشاد سرو آ کے تیری چاکری کرے دشمن ہے دیں کا خال سیہ مکھ اوپر ترے ہندو سے کیا عجب ہے اگر کافری کرے ناجی جو کوئی صاف کرے دل کا آئینہ وہ عاشقی کے ملک میں اسکندری کرے کفن ہے سبز تیرے گیسوئوں کے ماروں کا مکان غم ہے ترے در کے بے قراروں کا رکھے اس لالچی لڑکے کو کوئی کب تک بہلا چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا کبھی وہ لا موزوں قد اس کا چشم کی میزاں میں جب تلا طوبیٰ تب اس سے ایک قدم او کسا ہوا اگر ہو وہ بت ہندو کبھی اشنان کو ننگا بھنور میں دیکھ کر جمنا اسے غوطے میں جا گنگا دیکھ ہم صحبت کی دولت سے نہ رکھ چشم امید لب صدف کے تر نہیں ہر چند گوہر میں ہے آب بہا سستا ہو یا مہنگا نہیں موقوف غلے پر یہ سن خرمن اسی کے ہیں خدا ہے جس کے پلے پر انگوٹھی لال کی کرتی قیامت آج گر ہوتی جنہوںکی آن پہنچی لڑ موئے وہ ایک چھلے پر روئے روشن کی جو کوئی یاد میں مشغول ہے مہر اس کے روبرو سورج مکھی کا پھول ہے نہ ٹوکو یار کو خط رکھا تا یا منڈاتا ہے مرے نشے کی خاطر لطف سے سبزی بناتا ہے جہاں دل بند ہونا صح وہاں آوے خلل کرنے رقیب نا ولد ناجی گویا لڑکو کا بابا ہے نادر پر چڑھائی اور محمد شاہی لشکر کی تباہی میں خود شامل تھے۔ اس وقت دربار دہلی کا رنگ شرفا کی خواری پاجیوں کی گرم بازاری اور اس پر ہندوستانیوں کی آرا م طلبی اور ناز پروری کو ایک طولانی مخمس میں دکھایا ہے۔افسوس ہے کہ اس وقت دو بند ا س کے ہاتھ آئے: لڑے ہوئے تو برس بیس ان کو بیتے تھے دعا کے روز سے دائی دوا کے جیتے تھے شرابیں گھر کی نکالی ہوئی مزے سے پیتے تھے نگار و نقش میں ظاہر گویا کہ چیتے تھے گے میں ہنسلیاں بازو و اوپر طلا کے نال قضا سے بچ گیا مرنا نہیں تو ٹھانا تھا کہ میں نشان کے ہاتھی اوپر نشانا تھا نہ پانی پینے کو پایا وہاں نہ کھانا تھا ملے تھے دھان جو لشکر تمام چھانا تھا نہ ظرف و مطبخ دوکاں نہ غلہ نے بقال ٭٭٭ محمد احسن احسن احسن تخلص ‘ محمد احسن نام یہ بھی انہی لوگوں کے ہم عصر و ہم زبان تھے۔ چنانچہ ایک غزل اور تین شعر ان کے ہاتھ آئے وہی لکھے جاتے ہیں: صبا کہیو اگر جاوے ہے تو اس شوخ دلبر سوں کہ ککر کر قول پرسوں کا گیا برسوں ہونے برسوں عجب نئیں ابر گر جلتوں کو تو جل سوں جلا دے گا گیا ہے یار میرے برسوں کہتا ہے کہ میں برسوں یو قاصد وعدہ رکت اہے جو پرسوں کا کہ پھر آوے کبوتر پھر نہیں آتا گلی اس کی سیتی برسوں ترس تجھ کو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے ترسائی ترے دیدار کو میں دیدہ ترسوں کھڑا ترسوں ترے تل سوں مجھے نت مینہ کا سودا ہے اے ظالم عجب نئیں ہے اگر وہ تیل نکسا دے مرے سرسوں زلف تیری معطر ہے عطر فتنے سیتی ظالم الٰہی آبرو رکھیو پڑا ہے کام ابتر سوں غزل اس طرح سے کہنی بھی احسن تجھ سوں بن آوے جواب اب آبرو کب کہہ سکے مضمون بہتر سوں لام نستعلیق کا ہے اس بت خوشخط کی زلف ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے یہی مضمون خط ہے احسن اللہ کہ حسن خوبرویاں عارضی ہے نازک بدن پہ اپنے کرتے ہو تو جو غرہ موسی کمر نے تجھ کو فرعون سا بنایا ٭٭٭ غلا م مصطفی خاں یکرنگ یکرنگ تخلص غلام مصطفی خاں نام قدیمی تذکروں میں انہیں طبقہ اول کے شاعروں میں لکھا جاتاہے۔ مگر یہ لوگ با انصاف ہوتے تھے اور ہر کام کے حسن و قبح کو خوب سمجھتے تھے اس لیے باوجود کہن سالی اور کہنہ مشقی کے آخر عمر میں کلام اپنا مرزا جان جاناں مظہر کو بھی دکھاتے تھے لیکن جو کلام ان کا موجود ہے ۔ بزرگوں سے سنا اور تذکروں میں بھی دیکھا بڑے مشتاق تھے اور اپنے آپ وقت میں سب انہیں خوش فکر اور باکمال مانتے تھے ااور لطف یہ ہے کہ تخلص کی طرح عالم آشنائی میں یک رنگ و یکتا تھے۔ یکرنگ پاس اور سجن کچھ نئیں بساط رکھتا ہوں میں دو نین کہو تو نذر کروں زبان شکوہ ہے ہندی کا ہر پات کہ خوباں نے لگائے ہیں مجھے ہات اس زلف کا یہ دل ہے گرفتار بال بال یکرنگ کے سخن میں خلاف ایک مو نہیں جو کوئی توڑتا ہے غنچہ گل دل بلبل شکستہ کرتا ہے یکرنگ نے تلاش لیا ہے بہت ولے مظہر سا اس جہاں میں کوئی میرزا نہیں پارسائی اور جوانی کیونکہ ہو ایک جاگہ آگ پانی کیونکہ ہو نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے دل سے صبر و قرار جاتا ہے گر خبر لینی ہو تو لے صیاد ہاتھ سے یہ شکار جاتا ہے مرزاجاناجاناں کی استادی اور اپنی شاگردی کا اشارہ ہے۔ جس کے درد دل میں کچھ تاثیر ہے گر جواں بھی ہے تو میرا پیر ہے لگے ہیں خوب کانوں میں بتوں کے سخن یکرنگ کے گویا گہر ہیں اس کو مت جانو میاں اوروں کی طرح مصطفی خاں آشنا یکرنگ ہے جدائی سے تری اے صندلی رنگ مجھے یہ زندگانی درد سر ہے خدا جانے ان باتوں کو سن کر ہمارے شائستہ زمانے کے لوگ کیا کہیں گے کچھ تو پرو ا بھی نہیں نہ کریں گے اورکچھ واہیات کہہ کر کتاب بند کر دیں گے مگر تم ان باتوں کو ہزل نہ سمجھو ایک پل کی پل آنکھیں بند کر لو اور تصور کی آنکھیںکھول دو دیکھو وہی محمد شاہی عہد کے کہن کے کہن سال درباری لباس پہنے بیٹھے ہیں اور باوجود اس متانت ومعقولیت کے مسکرا مسکرا کر آپس میں اشعار پڑھتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ کیا ان نورانی صورتوں پر پیار نہ آئے گا؟ کلام کی تاثیر بیٹھنے دے گی محبت کا جوش ان کے ہاتھ نہ چوم لے گا ؟ وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں میرے دوستو! غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمہارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے کل اوروں کے سامنے یہی تمہارے کلام کا حال ہونا ہے ایک وقت میں جو بات مطبوع خالالق ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ دوسرے وقت بھی ہو۔ خیال کرو انہی بزرگوں کے جلسے میں آج ہم اپنی وضع اور لباس سے جائیں اوراپناکلا م پڑھیں تو وہ سنجیدہ اور برگزیدہ لوگ کیا کہیں گے؟ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے اور مسکرائیں گے۔ گویا سفلہ اور چھچھورا سمجھیں گے۔ ان بزرگوں کو کوئی بات ناپسند ہوتی تھی تو اتنا ہی اشارہ کافی ہوتاتھا۔ اس خیال کی تصدیق اور اس زمانے کی وضع و لباس دکھانے کو دریائے لطافت کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں۔ سید انشاء جن کی کوئی بات ظرافت سے خالی نہیں ایک اپنے عہد کے بڈھے میر صاحب کی تقریر ایک کسی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ یہ دونوں دلی کے رہنے والے ہیں اور لکھنو میں باتیں کر رہے ہیں۔ بی نورن کہتی ہیں اجی آئو میرے صاحب! تم عید کا چاند ہو گئے ہو۔ دلی میں آتے تھے اور دو دوپہر رات تک بیٹھتے تھے اور یختے پڑھتے تھے لکھنو میں تمہیں کیا ہو گیاا ہے کہ کبھی صورت بھی نہیں دکھاتے اب کے کربلا میں کتنا میں نے ڈھونڈا تمہارا اثر آثار معلوم نہیں ہوا۔ ایسا نہ کیجیو کہیں آٹھوں میں بھی تم نہ چلو تہیں علی کی قسم آٹھوں میں مقرر چلیو اب جس رنگ سے سید انشاء میر صاحب موصوف کی تصویر کھینچتے تھے اسے ملاحظہ فرمائیے اور اتنا خیال اور بھی رہے کہ یہ پر اتم دیرینہ سال ایک زمانے کے ایک خوش طبع رنگین مزاج شخص تھے کوئی متقی پرہیز گار نہ تھے باوجوداس کے تازہ اوضاع و اطوار اور نئی رفتار و گفتار پر کیا خیالات رکھتے تھے۔ بیان صورت میر موصوف اینکہ سیاہ رنگ کوتاہ قد فربہ گردن دراش گوش بندش دستار بطور بعض قندسازا کہنہ رنگش سبز یا اگر کوئی والا ااکثر سفید گایہ گلسرخ ہم در گوشہ دستارمے زنند و جامہ مصطلح ہندوستان نہ جامہ لغوی در بر مبارک بسیار پاکیزہ مے باشد چوں لباس باریک رازیں جہت کہ برائے زنا ن مقر راست نمے پوشند درخت پوشاکی ملازمان شریف ایشاں اکثر گندہ است لیکن قیمت دونیم روپیہ ایک تھا ن تمام دریک جامہ صرف مے شود۔ چولی زیر پستان بالائے آں دوپٹہ پستولیہ دامن بر زمین جاروب مے کشد و مسی ہم بردندان مبارک مے مالندو پاپوش از سقر لات زرد و در حاق و وسط آں ستارہ از تار ہائے طلائی وغیرہ خالص حالانکہ ہیت معلوم شر طرز کالم با کسبی باید شنید میر صاحب فرماتے ہیں۔ اجی بی نورن! یہ کیا بات فرماتی ہو تم انے جیوڑے کی چین ہو۔ پر کیا کہیں جب سے دلی چھوڑی ہے کچھ جی افسردہ ہو گیا ہے اور شعر پڑھنے کو جو کہو تو کچھ لطف اس میں بھی نہیں رہا مجھ سے سنیی ریختے میں استاد ولی ہوئے ان پر توجہ شاہ گلشن صاحب کی تھی۔ پھر میاں آبرو اور میاں ناجی اور میاں حاتم سب سے بہتر مرزا رفیع سودا اور میر تقی صاحب پھر حضرت خواجہ میر درد صاحب برداللہ مرقدہ جو میرے بھی استاد تھے۔ وہ لوگ تو سب مر گئے اور ا ن کی قدردانی کرنے والے بھی جاں بحق تسلیم ہو ئے اب لکھنو کے جیسے چھوکرے ہیں ویسے ہی شاعر ہیں اور دلی میں بھی ایسا ہی کچھ چرچا ہے۔ تخم تاثیر صحبت کا اثر سبحان اللہ یہ کون میاں جرات بڑے شاعر پوچھو تو تمہارا رائے مانا کس دن شعر کہتاتھا اور رضا بہادر کا کون سا کلام ہے اور دوسرے میاں مصحفی کہ مطلق شعور نہیں رکھتے۔ اگر پوچھیے کہ ضرب زید عمرو کی ترکیب تو ذرا بیان کرو تو اپنے شاگروں کو ہمراہا لے کر لڑنے آتے ہیں اور میاں حسرت کو دیکھو اپنا عرق بادیان اور شربت انارین چھوڑ کے شاعری میں آ کے قدم رکھا ہے اورمیر انشاء اللہ خانبچارے میر ماشاء اللہ خاں کے بیٹے آگے پریزاد تھے ہم بھی گھورنے کو جاتے تھے اب چند روز سے شاعر بن گئے مرزا مظہر جاناں صاحب کے روز مرہ کو نام رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ ایک اور سنیے کہ سعادت یار طہماسپ کا بیٹا انوری ریختہ آپ کو جانتا ہے رنگین تخلص ہے کہ ایک قصہ کہا ہے اس مثنوی کا نام دلپذیر رکھا تھا رنڈیوں ی بولی اس میں باندھی ہے میر حسن پر زہر کھایاہے اور ہر چند اس مرحوم کو بھی کچھ شعور نہ تھا بدر منیر کی مثنوی نہیں کہی گویا سانڈے کا تیل بیچتے ہیں ۔ بھلا اس کو شعر کیو نکر کہیے سارے لوگ دلی کے لکھنو کی رنڈی سے لے کر مرد تک پڑھتے ہیں: چلی داں سے دامن اٹھاتی ہوئی کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی سواس بچارے رنگین نے بھی اسی طور پر قصہ کہا ہے کوئی پوچھے کہ بھائی تیرا باپ رسالدار مسلم لیکن بچارا برچھی بھالے کا ہلا نے والا تیغے کا چلانے والا تھا تو ایسا قابل کہاں سے ہوا اور شہد پن جو بہت مزاج میں رنڈی بازی سے آ گیا ہے تو ریختہ کے تئیں چھوڑ کر ایک ریختی اایجاد کی ہے اس واسطے کہ بھلے آدمیوں کی بہو بیٹیاں پڑھ کر مشتاق ہوں اور ان کے ساتھ اپنا منہ کالا کرے بھلایہ کلام کیا ہے: ذرا گھر کو رنگیں کے تحقیق کر لو یہاں سے ہے کے پیسے ڈولی کہارو مرد ہو کر کہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کمبخت میں ماری جائوں اور ایک کتاب بنائی ہے۔ اس میں رنڈیوں کی بولی لکھی ہے جس میں اوپر والیاں چیلیں اوپر والا چاند اجلی دھوبن وغیرہ وغیرہ ان بزرگوں کا خیال کرو کہ مصحفی اور سید انشاء اور جرات کو اپنی جگہ پریہ کچھ سمجھتے تھے پھر ہم اپنی بولی اپین تراش اور ایجادوں کو قبولیت دوام کا سرٹیفکیٹ دے کر کس طرح نازاں ہوں جو نئی امت ہمارے بعد آئے گی وہ خدا جانے کیا کچھ میں میکھ نکالے گی خیر اپے اپنے وقت پر یوں ہی ہوا یہ اور یوں ہی ہوتا رہے گا۔ خاتمہ پہلا دو ر برخاست ہوتا ہے ۔ ان مبارک صدر نشینوں کو شکریے کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے کہ مبارک جانشینوں کے لیے جگہ خالی کر کے اٹھے ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے ملک کی زبان میں جو کچھ کیا چھا کیا اورکام باقی ہے اچھے نکتہ پردازوں کے لیے چھوڑ کر چلے گئے ہر مکان جلسے کے بعد درہم برہم معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو ان کے بعد آئیں گے آرائش و زبیائش کے انداز سوچ سوچ کرپیدا کریںگے اب زیادہ گفتگو کا موقع نہیں کہ دور دوم کو زیب دینے والے آن پہنچے۔ ٭٭٭ دوسرا دور تمہید دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اس فصل میں زبان کے حسن قدرتی کے لیے موسم بہار ہے یہ وقت ہے کہ مضامین کے پھول گلشن فصاحت میں اپنے قدرتی جوبن دکھا رہے ہیں حسن قدرتی کیا شے ہے؟ ایک لطف خداداد ہے جس میں بنا ئو سنگار کا نام بھی آ جائے تو تکلف کا داغ سمجھ کر سات سات پانی سے دھوئیں۔ ان کا گلزر نیچر کی گلکاری ہے صنعت کی دست کاری یہاں آ کر قلم لگائے تو ہاتھ کاٹے جائیں۔ اس میں تو کلا نہیں کہ یہ باکمال بھی ای ہی شہد کی مکھی ہیں اورمعلوم ہوتا ہے کہ دریائے محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اس خوبی کا وصف کسی زبان سے ادا نہیں ہوتا۔ جو کچھ دل میں ہوتا ہے جوں کا توں ادا کر دیتے ہیں۔ خیالی رنگوں کے طوطے مینا نہیں بناتے ۔ ہاں طوطی و بلبل کی طرح صاف زبان اور قدرتی الحان لائے ہیں انہوںنے اپنے نغموں میں گٹکری اپچ پلٹٰ تان کسی گویے سے لے کرنہیں ڈالی تم دیکھنا بے تکلفی بطولی اور سیدھی سادی باتوں سے جو کچھ دل میں آئے گا بے ساختہ کہہ دیں گے کہ سامنے تصویر کھڑی کر دیں گے۔ اور جب تک سنن واالے سنیں گے کلیجے پکڑ کر رہ جائیں گے۔ اس کا سبب کیا ؟ وہی بے ساختہ پن جس کے سادہ پن پر ہزار بانکپن قربان ہوتے ہیں۔ ہے حسن وہی جس میں بے ساختہ پن نکلے ان کی اصلاح نے بہت سے لفظ ولی کے عہد کے نکال ڈالے مگر پھر بھی بھلہ رہے اور گھیرے گھیرے اور مرے ہے بجائے مرتا ہے اور دوانہ بجائے دیوانہ اور میاں اور فقط جان کا لفظ بجائے معشوق موجود ہے۔ متاخرین ا س کی جگہ جان جاں یا جاناں یا یار یا دوست یا دلبر وغیرہ بولنے لگے مگر موہن دور دو میں نہ رہا۔ سجن رہا اور بل گیا یعنی جل گیا یعنی صدقہ گیا اور من بجائے دل بھی ہے۔ سید انشاء ایک جگہ بعض الفاظ مذکور ہ کا ذکر لکھتے ہیں کہ اس عہد کی گفتگو میںاسی قسم کے الفاظ شرفا بولتے تھے۔ پروٹھا بجائے پراٹھا اور دھیر ا بجائے آہستہ یا متوقف اوربمعنی طرف اوربھیچک بمعنی حیران (یہ دو لفظ سودا نے بھی باندھے ہیں اورتکوں بجائے کو اوراپنے تئیں اور جانے ہارا بجائے جانے والا فرائیتا ہے بجائے فرماتا ہے اورجائیتا ہے بجائے جاتا ہے۔) ٭٭٭ شاہ حاتم دستور دنیا کا یہ ہے کہ بیٹا باپ کے نام سے شاگرد اپنے نامی استاد کے نشان سے روشناس ہوتاہے۔ مگر اس حاتم کو نصیبے ک بھی حاتم کہنا چاہیے کہ جو اس نام سے نشان دیا جائے کہ وہ استاد سودا کا تھا خوش نصیب اس باپ کی جس کی نسل کمال سے وہ فرزند پیدا ہوا کہ خانوادہ کمال کے لیے باعث فکر شمار کیا جانے لگا ان کا تخلص حاتم اور شیخ ظہور الدین نام تھا۔ والد کا نام فتح الدین تھا خود کہا کرتے تھ کہ ظہور ۱۱۱۱ھ میرے تولد کی تاریخ ہے۔ رہنے والے خاص شاہ جہاں آباد کے تھے۔ یہ معلو م نہیں کہ بزرگ ان کے کہاں سے آئے کسی تذکرہ سے ان کی علمیت تحصیلی کا حال معلوم نہیں ہوتا ہے نہ کچھ ان کے کلام سے ثابت ہوتا ہے۔ مگر اس قدر استعداد ضرور رکھتے تھے کہ ان کی انشاء پردازی میں خل نہیں آنے دیتی اور یہ جوہر اس عہد کے شریف خاندانوں کے لیے عام تھا۔ اصل حال یہ ہے کہ بعد عالمگیر کے جب اولاد میںکشاکشی ہوئی اور سلطنت تباہ ہو گئی تو جو شرفا منصب دار اور قیا م سلطنت کی طرف سے لوگ بالکل مایو س ہوئے تو اکثروں نے نوکری چھوڑ کر بسبب بے علی کے مختلف حرفے اور پیشے اختیار کرلیے اور بعض لوگ باوجودیکہ صاحب علم تھے۔ مگر دنیا سے دل برداشتہ ہو کر چھوڑ ہی بیٹھے۔ شاہ حاتم پہلے ہی سپاہی پیشہ تھے۔ عمدۃ الملک امیر خاں کی مصاجت میں عزت اور فارغ البالی بلکہ عیش و عشرت سے بسر کرتے تھے۔ اور چونکہ محمد شاہی دور تھا اس لیے آئیں زمانہ کے بموجب جو اس وقت کے نوجوانوں کے شوق تھے سب پورے کرتے تھے دلی میں قدم شریف کے پا س میر بادل علی شاہ کا تکیہ ایسے رند مشرب لوگوںکا ٹھکانا تھا یہ بھی وہیں جایا کرتے تھے چنانچہ فقیر کی صحبت نے ایسا ہی کیا کہ انہی کے مرید ہو گئے۔ رفتہ رفتہ سب گناہوں سے توبہ کی بلکہ زمانے کی گردش نے دنیا کے تعلقات سے بھی توبہ کروا دی۔ توکل پر گزارہ کیا اور فقط ایک رومال اور ایک پتلی سی چھڑی جو کہ ہندوستان کے فقرائے آزاد منش کا تحفہ ہے وہ پاس رہ گئی۔ شاہ موصوف نے باوجودیکہ نہایت مہذب اور متین تھے ۔ وار عمر میں بھی سن رسیدہ ہو گئے تھے مگر بہت خوش مزاج اور نہایت خلیق اور ظریف تھے۔ فقیری اختیار کر لی تھی مگر بانکوں کی طرح دوپٹہ سر پر ٹیڑھا ہی باندھتے تھے ۔ راج گھاٹ کے راستے میں قلعے کے نیچے شاہ تسلیم کا تکیہ تھا وہاں کچھ چمن تھے کچھ درختوں کا سایہ تھا اورسامنے فضا کا میدان تھا شا م کو زور وہاں جا کر بیتھا کرتے تھے اور چند احباب اور شاگردوں کے ساتھ شعر و سخن کا چرچا رکھتے تھے چنانچہ ۵ برس تک اس مضمون کونبھایا۔ گرمی برسات‘ آندھی جائے مینہ جائے ہاں کی نشست قضا نہ ہوتی تھی اہل دہلی کے قدیمی بزرگوں کا دستور تھا کہ جو بات ایک دفعہ اختیار کر لیتے تھے پھر اسے مرتے دم تک نباہ دیتے تھے اور اسے وضع داری یا پاس وضع کہتے تھے یہ ایک قانون تھا کہ آئین شریعت کے برابر پہلو مارتا ہوا جاتا تھا ایسی پابندیاں بعض معاملات مین استقلال بن کرملک اور اہل ملک کے لیے قابل فخر ہوتی ہیں اور بعض جزئیات میں تکلیف بیجا و کر خاندانوں اور گھرانوں کو بلکہ عام ہو کر ملک کو برباد کردیتی ہیں۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفی اپنے تذکرہ میں ان کی شاعری کی ابتدا یہ لکھتے ہیں کہ ۳ محمد شاہی کے عہد میں ولی کا دیوان دکن س دہلی آیا۔ اس زمانے کے حال بموجب وہی غنیمت تھا اس واسطے خاص و عام میں اس کا بہت چرچا تھا۔ شاہ حاتم کی بطبیعت موزوں نے بھی جوش مار اشعر کہنا شروع کیا۔ اورہمت و لیاقت سے اسے انتہا کو پہنچایا۔ پہلے رمز تخلص کرتے تھے پھر حاتم ہو گئے۔ یہ پہلے شعرائے طبقہ اول کے منتخب شاعروں میں سے تھے ۔ اس وقت بھی زبان ان کی فصیح اور کلام بے تکلف تھا مگر پھر طبقہ دوم میں داخل ہو گئے۔ کلیات ان کا بہت بڑا ہے۔ جو اکثر زبان قدیم کی غزل اور قصائد اور رباعیات و مثنوی وغیرہ پر مشتمل ہے کتب خانہائے قدیم لکھنو اور دہلی میں دیکھا وہ شاہ آبرو اور ناجی کی طرز میں ہے۔ لیکن آخر میں کلیات مذکور سے خود انتخاب کر کے ایک چھوٹا سا دیوان مرتب کیا ارو اس کانام دیوان زادہ رکھا ۔ کیونکہ دیوان سے پیدا ہوا تھا وہ صاحبزادہ بھی پانچ ہزار سے زیادہ کا مال بغل میں دبائے بیٹھا ہے بہرحال یہ کارنامہ ان کا استحقاق پیدا کرتا ہے کہ طبقہ دوم سے نکال کر طبقہ سووئم کی اولیت کا طرہ ان کی زیب دستار کیا جائے یا ان کا ایک رکن اعظم قرار دیا جائے انہوںنے دیوان زادہ پر ایک دیباچہ بہت مفیدلکھا ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ خوشہ چین خرمن سخنور ان عالم بصورت محتاج و معنی حاتم کہ از ۱۱۲۹ھ تا ۱۱۶۹ھ کی چہل پہل ال باشند معر درین فن صرف کہ وہ در شعر فارسی پیر و مرزا صاحب و در ریختہ ولی ر ااستاد مے داند اول کسے کہ دریں فن دیوا ن ترتیب نمودہ او بود فقیر دیوان قدیم پیش ازنادر شاہی درلا د ہند مشہور دارد بعد ترتیب آں تا امروز کہ ۳ عزیز الدین عالمگیر ثانی باشد ہر رطب دیا بس کہ از زبان این بے زبان برآمدہ داخل دیوان قدیم نمودہ کلیات مرتب ساختہ از ہر ردیف دو سہ غزلے راز ہر غزل دو سہ بیتے ورائے مناقب و مرثیہ و چند مخمس و مثنوی از دیوان قدیم نیز داخل نمودہ۔ بہ دیوان زدہ مخاطب ساختہ و سرخی غزلیات بسہ قسم منقسم ساختہ یکے طرحی دوم فرمائشی سوم جوابی تا تفریق آں معلوم گردد و معاصر ان فقیر شاہ مبارک آبرو د شرف الدین مضمون و مرزا جان جاناں مظہر و شیخ احسن اللہ احسن میر شاکر ناجی و غلا م مصطفی یکرنگ است و لفظ و در و برد ااز و الفاظ و وفعال دیگر کہ درد دیون قدیم خود تقید دار وور ینجابیادہ دواز وہ سال اکثر الفاظ را از نظر انداختہ و الفاظ عربی و فارسی کہ قریب الفہم و کثیر الاستعمال باشندہ و روزمرہ دہلی کہ میرا زایاںہندو فصیحان رند در محاورہ آرند منظور وارد پھر ایک جگہ کہتے ہیں کہ زبان ہندی بھا کھارا موقوف کردہ محض روزمرہ کہ عام فہم و خاص پسند باشد اختیار نمو د و شمہ ازاں الفاظ کہ تقید دارد بہ بیان مے آڑد چنانہ عربی و فارسی مثلاً تسبیح را تسبی و صحیح را صحی و بیگانہ را بگانا و دیوانہ را دوانہ و مانند آں یا متحرک را ساکن و ساکن را متحرک مرض را مرض و نیز الفاظ ہندی مث نین و جگ و نت وغیرہ و لفظ مرا و میرا و ازیں قبیل کہ برآں قباحت لازم آید یا بجائے سی ستحا ادھر را اودھر و کدرھ را کیدھر کہ زیادتی حرف باشد یابجائے پر پہ یاں و وہاںرا واں کہ درمخرج تنگ بود یا قافیہ را با راء ہندی مثل گھوڑ ا و بورا و دھڑ و سرد مانند آں مگر ہائے ہوز را بدل کردن با الف کہ از عام تا خاص محاورہ دارند بندہ دریں امر بہ متابعت جمہورمجبوراست چنانچہ بندہ را بندا و پردہ را رپد و انچہ ازیں قبیل باشد و ایں قاعدہ راتا کے شرح و ہد مختصر کہ لفظے غیر فصیح انشاء اللہ نخواہد بود۔ مضمون ان کے صاف عاشقانہ و عارفانہ ہیں۔ شعر آپس کی باتیںاور زبان شستہ و رفتہ ہے لیکن لفظ اب اویہاں وغیرہ اکثر ہوتے ہیں۔ غرض اسی دیوان کے دیباچے میں اپنے شاگردوں کی ذیل میں ۴۵ آدمیوں کے نام درج کرتے ہیں اور انہی میں مرزا رفیع بھی ہیں۔ میاں ہدایت کی زبانی ہدایت ہے کہ شاہ حاتم جب سودا کی غزل کی اصلاح دیتے تھے تو اکثریہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ از ادب صائب خموشم ورنہ در ہر وادیے رتبہ شاگردی من نیست استاد مرا اور احباب سے کہتے تھے کہ یہ شعر صائب نے میری استادی اور مرزا رفیع کی شاگردی کے حق میں کہا ہے لکھنو سے مرزا کے قصیدے اور غزلیں آتیں تو آپ دوستوں کو پڑھ پڑھ کر سناتے اور خوش ہوتے۔ سعادت یار خاں رنگین ان کے شاگرد و رشید اپنی مجالس رنگین میں لکھتے ہیں کہ تیسرے پہر کو بھی اکثر شاہ صاحب کے پاس شاہ تسلیم کے تکیے میں حاضر ہو اکرتا تھا ایک دن میاں محمد امان نثار لالہ مکندرائے فارغ اکبر علی اکبر وغیرہ شاگرد خدمت میں موجود تھے اور میر ی نومشقی کے دن تھے کہ حسب معلوم وہاں حاضر ہوا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ آج رات کو مطع کہا ہے۔ سر کو پٹکا ہے کبھو سینہ کبھو کوٹا ہے رات ہم ہجر کی دولت سے مزا لوٹا ہے میاں رنگین لکھتے ہیں کہ ابتدا سے میرے مزاج میں چالاکی بہت تھی اور شعور کم تھا اپنی نادنی کے گستاخانہ بول ٹھا کہ اگر مصرع ثانی میں اس طرح ارشاد ہو تو اچھا ہے: سر کو پٹکا ہے کبھو سینہ کبھو کوٹا ہے ہم نے شب ہجر کی دولت سے مزا لوٹا ہے شاہ صاحب بہت خوش ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا آفریں آفرین ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات انشاء اللہ تمہاری طبیعت بہت ترقی کرے گی۔ مشق نہ چھوڑنا ان کے دوستوں میں سے ایک شخص بولے کہ صاحبزادے استاد کے سامنے یہ گستاخی زیبا نہ تھی۔ حضرت نے پھر فرمایاکہ مضائقہ کیا ہے واللہ میں دیوان میں اسی طرح لکھوں گا بعد اس کے یہ قطعہ پڑھا۔ ن وآں سادہ دل کہ عیب مرا ہم چو آئینہ رو برد گوید نہ چو شانہ بصد زبان و دو رو پس سر رفتہ موبمو گوید اس میں شک نہیں کہ یہ نیک نیتی اور دریا دلی شاہ حاتم کی قابل رشک ہے۔ کیونکہ شعراء میں اپنے لیے خود پسندی اور دوسرے کے لیے ناتواں بینی ایک ایسی عادتہے کہ اگر اسے قدرتی کہیں وت کچھ مبالغہ نہیں بلکہ شاگردوں کو استادوں سے دست و گریباں ہوتے دیکھا تو اکثر اسی فن میں دیکھا۔ یہ وصف یا اس فرشتہ سیرت میں پایا مرزا محمد علی ماہر ہیں کہ مرزا محمد افضل سرخوش کے استاد تھے۔ نقل مرزا محمد علی ماہر عہد عالمگیر میں ایک مشتاق اور مسلم الثبوت شاعر اپنے زمانے کے تھے اور مرزا سر خوش ان کے قدیمی شاگرد تھے۔ مگر طبع مناسب اور کثرت مشق سے یہ بھی درجہ کمال کو پہنچ گئے کہ مرزا ماہر اکثر فرمائش کر کے ان سے شعر کہلوایا کرتے تھے اور یہ سعادت سمجھ کر کہہ دیا کرتے تھ کہ سرخوش لکھتے ہیں کہ انہوںنے ایک مثنوی بہار بہ تحفتہ العراقین کے ڈھنگ میں لکھی تھی چنانچہ مطلع میں نے کہہ دیا کہ: اے بر سر نامہ گل زنامت باران بہار شیخ جامت اورمیرے سانی نامہ کے لیے انہوں نے مطلع کہہ دیا: بودنامہ نشہ بخش ادا کہ برسرکشد جام حمد خدا پھر لکھتے ہیں ک ایک شب قطب الدین مائل کے ہاں شعرا کاجلسہ تھا چاندنی رات تھی سب مہتابی پر بیٹھے تھے مجھ سے شعر کی فرمائش کی میں نے اسی دن مطلع کہا تھا وہ پڑھا۔ کے تو انم دید زاہد جام صہبا بشکند مے پرورنگم حبا بے گربہ دریاا بشکند سب نے تعریف کی اور آدھی رات تک اس مصرعے کے لوگوں کی زبان پر تھے حکیم محمد کاظم صاحب تخلص حکیم کہ اپنے تئیں مسیح البیان بھی کہتے تھے کہ بار بار یہ شعر پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا کی قدرت ہندوستان میں ایک شخص پیدا ہوا ور فارس کی زبان میں ایسے شعر کہے کہ دوسرے دن دانشمند خاں کے مکان پر جلسہ ہوا وہاں میں نہ تھا مگر مرزا ماہر موجود تھے سب نے پھر اس مطع کا ذکر کیا اورکہا کہ تمہارا شاگرد کتنا خوش فکر نکلا ہے۔ اس کے شعر کی کیفیت میں عجب لطف سے کل رات کئی آفرین ہے آپ کی محنت پر خوب تربیت کیا انہوںنے کہا کہ وہ میرے شاگرد نہیں باہم اتحاد ہے وہ مجھے شعر دکھاتے ہیں اور انہیں میں شعر دکھاتا ہوں۔ حکیم نے کہا سرخوش سے بارہا گفتگو آئی۔ وہ با اصرار کہتے تھے کہ میں شاگرد ہوں اور ماہرنے کہا کہ بزرگ زادہ ہے جو چاہا کہہ دیا مجھے اس کی استادی کی لیاقت کب ہے؟ دوسرے دن میں خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمایا کہ بم نے اپنے تئیں میرا شاگرد کیوں کہا؟ مجھے تو فخر ہے کہ تم جیسا شخص میرا شاگرد ہو مگر دنیا میں ایسے بلند فکر لوگ بھی ہیں کہ وہ مجھ کو اور میرے شعر کو خاطر میں نہیں لاتے ان کی نظر میں میرے شاگرد کی کیاقدر منزلت ہو گی شعر خدا کے شاگرد ہیں ان کو کسی کی شاگردی کی پروا نہیں۔ شاہ حاتم کاایک دیوان فارسی میں بھی ہے۔ مگر بہت مختصر میں نے دیکھا کہ وہ ۱۱۷۹ھ کا خود ان کے قلم کا لکھا ہوا تھا۔ غزل ۹۰ صفحے رباعی و فرو وغیرہ ۶۵ صفحے ولادت ان کی ۱۱۱۱ھ میں ہے اور ۹۶ برس کی عمر میں ماہ رمضان ۱۲۰۷ھ میں دہلی میں فوت ہوئے اوروہین دلی دروازہ کے باہر دفن ہیں مگر مصحفی نے تذکرہ فارسی میں لکھا ہے کہ ۱۱۹۶ء میں فوت ہوئے اور ۸۳ برس کی عمر پائی۔ یار کا مجھ کو اس سبب ڈر ہے شوخ ظالم ہے اور ستم گر ہے دیکھ سرد چمن ترے قد کوں خجل ہے پابگل ہے بے بر ہے حق میںعاشق کا تجھ لباں کا بچن قند ہے نیشکر ہے شکر ہے کیونکہ سب سے تجھے چھپا نہ رکھوں جان ہے دل ہے دل کا انتر ہے مارنے کو رقیب کے حاتم شیر ہے ببر ہے دھنتر ہے یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا عبث دیکھے ہے زاہد استخارا میں پایا ہوں ولے تجھ چشم کا بھید نہ مانگوں کبھی ان کا اشارا نہال دوستی کو کاٹ ڈالا دکھا کر شوخ نے ابرو کا آرا لیا اس گلبدن کا ہم نے بوسہ تو کیا چوما رقیبوں نے ہمارا کئی عالم کیے ہیں قتل ان نے کرے کیا ایکلا حاتم بچارا چھپا نئیں جا بجا حاضر ہے پیارا کہاں وہ چشم! جو ماریں نظارا جدانئیں سب ستی تحقیق کر دیکھ ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے منزل بج ہے کوچ کا ہر دم نقارا مثال بحر موجیں مارتا ہے کیا ہے جس نے اس جگ سوں کنارا سیانے خلق سے یوں بھاگتے ہیں کہ جوں آتش ستی بھاگے ہے پارا سمجھ کر دیکھ سب جگ سیکھ ماہی کہاں ہے گا سکندر کہاں ہے داراا کہیں ہیں اہل عرفاں اس کو جیتا جو مر کر عشق میں دنیا سوں ہارا صفا کر دل کے آئینے کو حاتم دیکھا چاہے سجن گر آشکارا جب سنا موتی نے تجھ دندان کے موتی کا بہا آب نیں شرمندگی سوں ڈوب جوں پانی بہا مردماں کو دیکھ کر بسمل ترے کوچے کے بیچ ڈر گیا اور چشم سے آنسو کے چاہے خوں بہا لب تمہارے سرخ ہم نے تاڑ کر پوچھا تھا مول جوہری کہنے لگے یہ لعل ہے گاہے بہا حاتم اس بے مہر نے مچھی نہ دی اس غم ستی جا کنارے بیٹھ کر اس غم ستی دریا بہا آب حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا مانند خضر جگ میں اکیلا جیا تو کیا شیریں لباس سوں سنگ دلوںکو اثر نہیں فرہاد کام کوہ کنی کا کیا تو کیا جلنا لگن میں شمع صفت سخت کام ہے پروانہ جوں شتاب عبث جی دیا تو کیا ناسور کی صفت ہے نہ ہو گا کبھی وہ بند جراح زخم عشق کا آ کر سیا تو کیا محتاجگی سوں مجھ کو نہیں ایک دم فراغ حق نے جہاں میں نام کو حاتم کیا تو کیا خال اس کے نے دل لیا میرا تل میں ان نے لہو پیا میرا جان بے درد کو ملا کیوں تھا آگے آیا مرے کیا میرا اس کے کوچے میں مجھ کو پھرتا دیکھ رشک کھاتی ہے آسیا میرا نہیں شمع و چراغ کی حاجت دل ہے مجھ بزم کا دیا میرا زندگی درد سر ہوئی حاتم کب ملے گا مجھے پیا میرا کاملوں کی یہ سخن مدت سوں مجھ کو یاد ہے جگ میں بے محبوب جینا زندگی برباد ہے بندگی سوں سرو قد کی اک قدم باہر نہیں سرو گلشن بیچ کہتے ہیں مگر آزاد ہے بے مدد زلفوں کی اس کے حسن نے قیدی کیا صید دل بے دام کرنا صنعت استاد ہے خلق کہتی ہے بڑا تھا عاشقی میں کوہ کن تجھ لب شیریں کی حسرت میں ہر اک فرہاد ہے دل نہاں پھرتاہے حاتم کانجف اشرف کے بیچ گو وطن ظاہر میں اس کا شاہجہاں آباد ہے اے خرد مند مبارک ہو تمہیں فرزانگی ہم ہوں اور صحرا ہو اور وحشت ہو اور دیوانگی بے مروت بے وفا بے دید اے نا آشنا آشنائوں سے نہ کر بے رحمی و بے گانگی ملک دل آباد کیوں کرتا ہے حاتم کا خراب اے مرے بستی! خوش آتی ہے تجھے دیوانگی ٭٭٭ سراج الدین علی خاں آرزو خان آرزو کو زبا ن اردو پر ہ دعویٰ نہیں پہنچتا جو کہ ارسطو کو فلسفہ و منطق پر ہے۔ جب تک کہ کل منطقی ارسطو کے عیال کہلائیں گے تب تک اہل ارد و خا ن آرزو کے عیال کہلاتے رہیں گے ان کا دلچسپ حال قبل تحریر تھا۔ لیکن چونکہ فارسی تصنیفات کی مہموں نے انہیں کوئی دیوان اردو میں نہ لکھنے دیا۔ اس لیے یہاں ان کے باب میں اس قدر لکھنا کافی ہے کہ خان آرزو وہی شخص ہیں جن کے دامن میں تربیت سے ایسے شائستہ فرزند تربیت پا کر اٹھے جو زبان اردو کے اصلاح لینے والے کہلائے اور جس شاعری کی بنیاد جگت اور ذو معنی لفظوں پر تھی اسے کھینچ کر فارسی کی طرز اور ادائے مطالب پر لے آئے یعنی مرزا جان جاناں مظہر مرزا رفیع میر تقی خواجہ میر درد وغیرہ۔ خان آرزو اردوکے شاعر نہ تھے نہ اس زمانے میں اسے کچھ کمال سمجھتے تھے البتہ بعض متفرق اشعار کہے تھے۔ وہ زمانے کی گردشوں سے اس طرح گھس پس کر اڑ گئے تھے کہ امانت رکھے وہ کاغذ کے سپرد کرتا ہوں یقین ہے کہ یہ امانت دار ضائع نہ کرے گا خان موصوف نے ۱۱۲۹ھ میں رحلت کی اصل وطن ان کے بزرگوں کا اکبر آباد ہے۔ مگر یہ دلی سے خاص دل لگی رکھتے تھے۔ چنانچہ لکھنو میں انتقال کیا ۔ ہڈیوں کی خاک میں دلی میں آ کر زمین کا پیوند ہوئی۔ آتا ہے ہر سحر اٹھ تیری برابری کو کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خادری کو تجھ زلف میں لٹک نہ رہے دل تو کیا کرے بیکار ہے اٹک نہ رہے دل تو کیا کرے رکھے سیپارہ دل کھول آگے عندلیبوں کے چمن میں آج گویا وہ پھول ہیں تیرے شہیدوں کے کھول کر بند قبا کو ملک دل غارت کیا کیا حصار قلب دلبرنے کھلے بندوں کیا اس زلف سیاہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے آئینے کے گلشن میں گتا جھوم رہی ہے دریائے اشک اپنا جب سربہ اوج ارے طوفان نوح بیٹھا گوشے میں موج مارے مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا مغاں مجھ مست بن پھر خندہ قلقل نہ ہووے گا مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے روئے گا باوجودیکہ عزت خاندان اور نفس کمالات کی حیثیت سے خان موصوف کو امراء و غربا سب معزز و محترم سمجھتے اور علم و فضل کے اعتبار سے قاضی القضات کا عہدہ دربار شاہی سے حاصل کیا مگر مزاج کی شگفتگی اور طبیعت کی ظرافت نے دماغ میں خود پسندی اور تمکنت کی بو نہیں آنے دی تھی۔ چنانچہ لطیفہ شاگردوں میں ایک نوجوان بچپن میں حاضر رہتا تھا حسن اتفاق یہ کہ چہرہ اس کانمک حسن سے نمکین تھا وہ کسی سبب سے چند روز نہ آیا۔ ایک دن کہیں سرراہ بیٹھے تھے کہ وہ ادھر سے گزرا انہوںنے بلایا شاید اسے ضروری کام تھا کہ وہ عذر کر کے چلا انہوںنے پھر روکا اور با کر یہ شعر پڑھا کہ لطافت طبع سے اسی وقت شبنم کی طرح ٹپکا تھا۔ یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تونہ تھا کیا تم جوان ہو کے بڑے آدمی ہوئے لطیفہ ایک دن کہیں مشاعرہ تھا۔ ایک جانب چند فہمیدہ اورسخن شناس بیٹھے شعر و سخن سے دماغ تازہ کر رہے تھے کہ ایک شخص نے خان موصوف کی تعریف کی اور اس میںبہت مبالغہ کیا حکیم اصلح الدین خاں صاحب مسکرائے اورکہا کہ: آرزو خوب است‘ اما ایں قدر ہا خوب نیست سب ہنسے اور خود خاں صاحب دیر تک اس مصرع لطیف کی داد دیتے رہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی ٭٭٭ اشرف علی خاں فغاں فغاں تخلص اشرف علی خاں نام احمد بادشاہ کے کوکہ ھتے بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ زبان سے پھلجھڑی کی طرھ پھول جھڑتے تھے۔ اس لیے ظریف الملک کو کہ خاں خطاب تھا اگرچہ شاعری پیشہ نہ تھے مگر شعر کا مزہ ایسی بری بلا ہے کہ اس کے چٹخارے کے سامنے سارے بے مزہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسے ہی صاحب کمالوں میں ہیں ابتدائے عمر میں شعر گوئی کا اتفاق ہوا۔ طبیعت ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ جبھی سے اس کام میںنام پیدا کر لیا۔ مصحفی نے اپنے تذکرہ میں قزلباش خاں امید شاگرد لکھاا ہے۔ مگر ان کی اردو بھی سن چکے شاہد فارسی میں اصلاح لی ہو گلزار ابراہیم میں لکھا ہے کہ ندیم کے شاگرد تھے اور خود بھی جا بجا کہتے ہیں۔ ہرچند اب ندیم کا شاگرد ہے فغاں دو دن کے بعد دیکھیو استاد ہو گیا دشت جنوں میں کیوںنہ پھروں میں برہنہ پا اب تو فغاں ندیم مرا رہنماہوا الغرض جب احمد شاہ درانی کے حملوں نے ہندوستان کو تہ و بالاکیا اور دلی میں دربار کا طور بے طور دیکھا تو مرشد آباد میں ایرج خان اس کے چچا کا ستارہ عروج پر تھا ان سے ملنے گئے اور وہاں سے علاقہ اودھ پہنچے اور اس زمانے میں دلی کا آدمی کہیں جاتا تھا تو لوگ ایسا سمجھتے تھے کہ گویا پیرزادے آئے بلکہ اس کی نشست برخاست کو سلیقے اور امتیاز کا دستور العمل سمجھتے تھے۔ اس وقت شاہ اودھ بھی نواب وزیر ہی کہلاتے تھے۔ نواب شجاع الدولہ مرحوم حاکم اودھ ان کے ساتھ بہت تعظیم سے پیش آتے تھے اوراعزاز و اکرام کے ساتھ رکھا لیکن معلوم ہوتاہ کہ یہ نازک مزاج بہت تھے اور زمانہ بھی ایسا تھاا کہ ایسے مزاجوں کی نزاکتیں پیش کی جاتیں ۔ چنانچہ ایک دن اختلاط میں ان کا کپڑا نواب صاحب کے ہاتھ سے جل گیاا ی سنجیدہ ہو کر عظیم آباد چلے گئے وہاں جا کر اس سے زیادہ عزت پائی اور راجہ شتاب رائے کی سرکار میں اختیار و اقتدار حاصل کیا راجہ صاحب بھی علاوہ خاندانی بزرگی کے ان کے کمال ذاتی اورشیریں کلامی اورعلم مجلسی کے سبب سے نہایت عزیز رکھتے تھے چنانچہ وہیں رہے اور باقی عمر خوشحالی میں بسر کر کے دنیاسے انتقال کیا۔ ان کے کمال کی سند اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ مرزا رفیع جیسے صاحب باکمال اکثر ان کے اشعار مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے۔ اور بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ حقیقت میں مرزا کا خود بھی یہی اندا ز تھا کیونکہ ان کے کلام میں ہندی کے محاورے نے فارسیت کے ساتھ نئے لطف سے پختگی پائی ہے اور ہر خیلا کو لطافت اور چوچلے کے ساتھ ادا کرتے ہیں ا ن کے جس دیوان سے میری آنکھیں روشن ہوئیں میرے استاد ظاہر و باطن شیخ ابراہیم ذوق کے لڑکپن کا لکھا ہوا تھا۔ اگرچہ فغاں کی زبان اسی زمانے کی زبان ہے مگر فن شاعری کے اعتبار سے نہایت با اصول اور برجستہ ہے۔ اور الفاظ کی بندش ان کی مشق پر گواہی دیتی ہے ۔مقدارمیں دیوان درد سے کچھ بڑا تھا مگر فقط غزلوں کا دیوان تھا ۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت ایشیا کی شاعری کے لیے نہایت مناسب تھی۔ ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیزی اور طراری کو ان کے مزاج سے وہ لگائو تھا کہ جو باروت اور حرارت کو لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں ایسی تھی کہ جیسے تلوار میں جوہر۔ لطیفہ ایک دن راجہ صاحب کے دربار میں ایک غزل پڑھی جس کا قافیہ تھا لالیاں اورجالیاں سب سخن فہموں نے بہت تعریف کی۔ راجہ صاحب کی صحبت میں جگنومیاں ایک مسخرے تھے ان کی زبان سے نکلا کہ نواب صاحب سب قافیے آپ نے باندھے مگر تالیاں رہ گئیں۔ انہوںنے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا۔ راجہ صاحب نے خود فرمایا کہ نواب صاحب سنتے ہو؟ جگنو میاں کی کہتے ہیں؟ انہوںنے کہا مہاراج اس قافیے کو متبذل سمجھ کر چھوڑ دیاتھا اور حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے۔ مہاراج ے کہا کہ ہاں کچھ کہنا تو چاہیے انہوں نے اسی وقت پڑھا: جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں تمام دربا ر چمک اٹھا اور میں جگنو مدھم ہو کر رہ گئے۔ افسوس یہ ہے کہ اس قسم کے لطائف بڑھتے بڑھتے ان سے او راجہ صاحب سے بھی شکررنجی ہو گء یاس کی بنیاد یہ ہوئی کہ احمد شاہ درانی نے جو سلطنت پر حملے کیے ایک دن اس کی دست درازی اور بے اعتدالیوں کا ذکر ہو رہا تھا کہ خدا جانے طنز سے یا سادہ مزاجی سے راجہ صاحب نے کہا کہ نواب صاحب ملکہ زمانی کو احمد شاہ درانی کیونکر لے گیا انہیں یہ بات ناگوار ہوئی افسردہ ہو کر بولے کہ مہاراج جس طرح سیتا جی کو راون لے گیا تھا اسی طرح وہ لے گیا۔ اسی دن سے دربار میں جانا چھوڑ دیا۔ ان کی لیاقت اور حسن تدبیر کو اس بات سے قیاس کر سکتے ہیں کہ حکام فرنگ سے اس عالم میں اس طرح رسائی پیداکی کہ باقی عمر فارغ البالی اور خوشحالی میں گزاری ۱۱۸۶ھ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ مبتلائے عشق کو اے ہمدماں شادی کہاں آ گئے اب تو گرفتاری میں آزادی کہاں کوہ میں مسکن کبھی ہے اور کبھی صحرا کے بیچ خانہ الفت ہو ویراں ہم کو آبادی کہاں ایک تو میں قتل سے خوش ہوں ولیکن مجھ سوا پیش جاوے گی مرے قاتل یہ جلادی کہاں کاش آ جاوے قیامت اور کہے دیوان حشر وہ فغاں ہے جو گریبان چاک فریادی کہاں خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر کہیں باد صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا عالم کو مت ڈبوئیو اے چشم تر کہیں میری طرف سے خاطر سیاد جمع ہے کیا اڑ سکے گا طائر بے بال و پر کہیں تیری گلی میں خاک بھی چھانی کہ دل لے ایسا ہی گم ہوا کہ نہ آیا نظر کہیں رونا جہاں تلک تھا مری جان رو چکا مطلق نہیں ہے چشم میں نم کا اثر کہیں باور گر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے آنسو کہیں ڈھلک گئے لخت جگر کہیں ایذا فغاں کے حق میں یہاں تک روا نہیں ظالم یہ کیا ستم ہے خدا سے بھی ڈر کہیں بے فائدہ ہے آرزوئے سیم و زر فغاں کس زندگی کے واسطے یہ درد سر فغاں چلتے ہیں اس گلی میں فرشتے کے پر فغاں کیونکر پھرے وہاں سے ترا نامہ بر فغاں بوئے کباب سوختہ آتی ہے خاک سے دامن سے کیا گرا کوئی لخت جگر فغاں یاں تک تو گرم ہے مرے خورشید رو کا حسن دیکھے اگر کوئی تو نہ ٹھیرے نظر فغاں کہتے ہیں فصل گل تو چمن سے گزر گئی اے عندلیب تو نہ قفس بیچ مر گئی شکوہ تو کیوں کرے ہے مرے اشک سرخ کا تیری کب آستیں مرے لو ہو سے بھر گئی اتنا کہاں رفیق بصارت ہے چشم کا دل بھی ادھر گیا مری جید نظر گئی تنہا اگر میں یار کو پائوں تو یوں کہوں انصاف کو نہ چھوڑ مروت اگر گئی آخر فغاں وہی ہے اسے کیوں بھلا دیا وہ کیا ہوئے تپاک وہ الفت کدھر گئی مجھ سے جو پوچھتے ہو تو ہر حال شکر ہے یوں بھی گزر گئی مری دوں بھی گزر گئی مفت سودا ہے ار یار کہاں جاتا ہے آ مرے دل کے خریدار کہاں جاتا ہے کج کلہ تیغ بکف چین برابر و بے باک یا الٰہی یہ ستم گار کہاںجاتاہے لیے جاتی ہے اجل جان فغاں کو اے یار لیجیو تیرا گرفتار کہاں جاتا ہے صنم بتا تو خدائی کا مجھ کو کیا نہ ہوا ہزار شکر کہ تو بہت ہوا خدا نہ ہوا کباب ہو گیا ہے آخر کو کچھ برانہ ہوا عجب دل ہے جلا تو بھی بے مزا نہ ہوا شگفتگی سے ہے غنچے کے تئیں پریشانی بھلا ہوا کبھی کافر تو مجھ سے وا نہ ہوا موانہ میں جیا آخر کو نیم بسمل ہو غضب ہوا مرے قال کا مدعانہ ہوا نپٹ ہوا ہوں فضیحت بہت ہواہوں خراب تری طفیل اے خانہ خراب کیا نہ ہوا طرف سے اپنی تو نیکی میں ہے مرا صاحب مری بلا سے فغاں کا اگر بھلا نہ ہوا کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں ظالم اسی لیے میں نے زلفیں تھیںپالیاں تنہا نہ در کو دیکھ کے گرتے ہیں اشک چشم سوراخ دل میں کرتی ہیں کانوں کی بالیاں دیکھا کہ یہ تو چھوڑنا ممکن نہیں مجھے چلنے لگا وہ شوخ مرا تب یہ چالیاں ہر بات بیچ روٹھنا ہر دم میں ناخوشی ہر آن دو کھنا مجھے ہر وقت گالیاں ایذا ہر ایک طرح سیں دینا غرض مجھے کچھ بس نہ چل سکا تو یہ طرحیں نکالیاں ہم نے شب فراق میں سنتا ہے اے فغاں کیا خاک سو کے حسرتیں دل کی نکالیاں یہ تھا خیال خواب میں ہیگا یہ روز وصل آنکھیں جو کھل گئیں وہی راتیں ہیں کالیاں خاتمہ دوسرے دور کے شعرا رخصت ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ اس بڑھاپے پر ایسے زندہ دل اس کمال پر ایسے بے تکلف سادہ مزاج۔ کیا خوب آدمی تھے خدا مغفرت کرے نہ استعاروں کے پیچ نہ تشبیہوں کی رنگا رنگی اپنے خیالات کو کیسی صاف صاف زبان اور سیدھے سیدھے محاورے میں کہہ گئے کہ آج تک جو سنتا ہے سر دھنتا ہے ان کا کلا م حا ل تھا جو خیال شعر میں باندھتے تھے اس کا عالم ان کے دل و جان پر چھا جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ جس شعر کو دیکھو تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اسی کو آج اہل فرنگ ڈھونٹے ہیںاورکہتے ہیں کہ ہر شے کی اصلی حالت دکھانی چاہیے۔ مگر حالت کون دکھائے کہ اپنی حالت بگڑی ہوئی ہے۔ صحبت گل یہ فقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی آج کل سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی آدمی کہتے ہیں جس کو ایک پتلا کل کا ہے پھرکہاں کل اس کو جب کل ہو ذرا بگڑی ہوئی دل شکستوں کا سخن ہووے نہ کیونکر نا درست ساز بگڑے ہے تو نکلے ہے صدا بگڑی ہوئی ٭٭٭ تیسرا دور تمہید اس مشاعرے میں ان صاحب کمال لوگوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے۔ اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے۔ زبان اور ابتدا میں کچا سونا تھا۔ ان بزرگوں نے اسے اکثر کدورتوں سے پاک صاف یا ار ایسا بنا دیا۔ جس سے ہزاروں ضروری کا اور آرائشوں کے سامان حسینوں کے زیور بلکہ بادشاہوں کے تاج و افسر تیار ہوتے تھے ۔ اگرچہ بہت سے مرصع نگار کار مینا نگار پیچھے آئے۔ مگر اس فکر کا نولکھا ہار انہیں بزرگوں کے گلے میں رہا ۔ جب یہ باکمال چمن کلام میں آئے تو اپنے بزرگوں کی چمن بندی کی سیر کی۔ فصاحت کے پھول کو دیکھا کہ قدرتی بہار حسن خداداد کا جوبن دکھا رہا ہے۔ چونہ انہیں بھی ناموری کا تمغہ لینا تھا۔ اس لیے بڑوں سے بڑھ کر قدم مارنے چاہیے۔ یہ گردو پیش کے میدانوںمیں بڑے دوڑے۔ سب پھول کام یمں آئے ہوئے تھے۔ جب سامنے کچھ نہ پایا تو ناچار اپنی عمارتوں کواونچا اٹھایا ۔ تم دیکھناوہ بلندی کے مضمون نہ لائیں گے۔ آسمان سے تارے اتاریں گے۔ قدردانوں سے فقط داد نہ لییں گے پرستش لییں گے لیکن وہ پرستش کہ سامری کی طرح عارضی نہ ہو۔ ن کے کمال کا دامن قیامت کے دامن سے بندھا پائو گے۔ یہ اپنی صنعت میںکچھ کچھ تکلف بھی کریں گے۔ مگر ایسا جیسے گلاب کے پھول پر شبنم یا تصویر آئینہ ۔ ان کا تکلف بھی اصلی لطافت پر کچھ زیادہ کرے گا۔ اصل کی خوبی پر پردہ نہ ہو گا۔ تم میر صاحب اور خواجہ میر درد کو دیکھوگے کہ اثر میں ڈوبے ہوں گے۔ سودا کا کلام باوجود بلندی مضمون اور چستی بندش کے تاثیر طلم ہو گا۔ اتنی بات کا افسوس ہے کہ اس رقی میں طبیعت کی بلند پروازی سے اوپر کی طرف رخ کیا۔ کاش آگے قدم بڑھاتے تاکہ حسن و عشق کی انتہا ہے نہ عجائب و لطائف کا شمارہے اس با ت کو بھولنا نہ چاہیے کہ خان آرزو کے فیض صحبت نے ان نوجوانوں کے کمال کو اس طرح پیش کیا ہے جس طرح دایہ اپنے دامن میں ہونہار بچوں کو پالتی ہے۔ میں نے طبقہ دوم اور سوم کے اکثر استادوں کے حال مھمل طورپر حواشی لکھے ہں اور اکثر کے نام و کلام سے یہ جام خالی ہے۔ حقیقت میں ان سب کو زبان اردو کی اصلاح کا حق حاصل ہے۔ لیکن اپنے استادوں اور بزرگو ں سے یہی سن اہے کہ مرزا جان جاناں سودا‘ میر خواجہ میر درد‘ چار شخس تھے جنہوں نے زبان اردو کو خراد اتارا ہے۔ ہمارے زبان دانوں کا قول ے کہ ۶۰ برس کے بعد ہر زبان میں ایک واضح فرق پید اہو جاتاہے۔ ۔ طبقہ سوم کے اشخاص جو حقیقت میں عمارت اردو کے معمار ہیں۔ انہوںنے بہت سے الفاظ پرانے سمجھ کر چھوڑ دیے اوربہت سی فارسی ترکیبیں جو مصری کی ڈلیوں کی طرح دودھ کے ساتھ منہ میں آتی تھیں۔ انہیں گھلایا۔ پھر بھی بہ نسبت حال کی بہت سی باتیں ان کے کلام میں ایسی تھیں کہ اب متروک ہیں۔ چنانچہ فارسیت کی ترکیبوں کے اشعار دیباچے میں لکھے گئے۔ لیکن پرانے الفاظ جواب متروک ہیں۔ ان کی مثال کے چند اشعار میر اور مرزا اور خواجہ میر درد کے کلام سے لکھتاہوں۔ پھر بھی انصاف سے نہیں گزرا جاتا۔ ان میں انی اپنی جگہ ایک ایک لفظ ایسا جڑا ہواہے کہ جسے اٹھانا مشکل ہے۔ میر صاحب فرماتے ہیں: ہونا تھا مجلس آرا گر غیرکا تو مجھ کو مانند شمع مجلس کا ہے کو تیں جلایا نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا دیر و حرم میں کیوں کہ قدم رکھ سکے گا میر ایدھر تو اس سے بت پھرا اودھر سے خدا پھرا ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تو نے کی نگاہ اک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا گل و آئینہ؟ خورشید و مہ کیا جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے رسم قلمرو عشق مت پوچھ تو کہ ناحق ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا لو ہو لگتاہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں اب تو یہ رنگ ہے اس دیدہ اشک افشاں کا کیوں کر تمہاری بات کرے کوئی اعتبار ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا سیمیں تنوں کا ملنا چاہے ہے کچھ تمول شاہد پرستیوں کا ہم پاس زر کہاں ہے تا بمقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا خون جگر ہو بہنے لاگا پلکوں پر ہی رہنے لاگا پی پی کے اپنا لوہو ر ہیں گو کہ ہم ضعیف جوں رینگتی نہیں ہے انہوںکے تو کان پر کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ دتیے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر تازہ جھمک تھی شب کو تاروں میںآسماں کی اس آسیا کو شاید پھر سے کہیو نے راہا زمانے نے مجھ کو جرعہ کش کو ندان کیاخاک و خشت سر خم کیا دل لے کے میری جان کا دشمن ہوا ندان جس بے وفا سے اپنے تئیں پیار ہو گیا گہے خون جگر کہ اشک گاہے لخت دل یارو کسی نے بھی نہیںدیکھا ہے یہ بستار رونے کا کہا تھا میں نہ دیکھو غیر کی اور سواس نے آنکھ مجھ سے ہی چھپائی آنکھوں نے میر صاحب قبلہ ستم کیا حضرت بکا کیا نہ کر درات کے تئیں باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا ہر ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رل گیا آتش تیر جدائی سے یکایک اس بن یوں جلا دل کہ تنگ جی بھی جلایا نہ گیا رہے خیال تنک ہم بھی روسیاہوں کا لگے ہوخون بہت کرنے بے گناہوں کا ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی نالے میں مرے اثر نہ ہوگا مت رنج کر کسی کو کہ انپے تو اعتقاد دل ڈھائے کہر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا بس طبیب اٹھ جا مرے بالیں سے مت دے درد سر کا جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا؟ دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا حیف دے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت ان کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے ایسے وحشی کہاںؓ ہیں اے خوباں میر کو تم عبث اداس کیا اس عہد میں استمرای جمع مونث میں دونوں فعل جمع لاتے تھے مثلاً عورتیں آتیاں تھیں اور گاتیاں تھیں اب پہلے فعل کو واحدلاتے ہیں۔ مثلا عورتیںآتی تھیں اور گات بجاتی تھیں۔ بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں نہ چوب گل نے دم ارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہلنا بالفتح بولتے تھے۔ چنانچہ سودا بھی ایک غزل میںکہتے ہیں۔ جس کا قافیہ و ردیف ہے چلتے دیکھا نکلتے دیکھا۔ تیغ تیرے کا سدا شکر ادا کرتے ہیں لبوں کو زخم کے دن رات میں ہلتے دیکھا اسی طرح اکثر اشعار مرزا رفیع کے ہیں کہ باوجود محاورہ قدیمانہ آج کل کے ہزار محاورے ان پر قربان ہیںچنانچہ فرماتے ہیں: آ خدا کے واسطے اس بانکپن سے درگزر کل میں سود ایوں کہا دامان کھکر یار کا بے وفائی کیاکہوں دل ساتھ تجھ محبوب کی تیری نسبت تومیاں بلبل سے گل نے خوب کی جس کے دل کو تری زلفوں سے یہاں لاگ لگے اس کی آنکھوں میں جو رسی بھی ہو تو ناگ لگے تجھ عشق میں پیارے وہ زیر چوب گل ہیں نے پھول کی کسی ے جن کو چھڑی لگائی خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے نہیں ہے وقت مری جان یہ تائل کا نہ جانے حال کس ساقی کویاد آتا ہے شیشے کا کہ لے لے ہچکیاں جیوڑا نکل جاتا ہے شیشے کا نہ جانے یاد کر روتا ہے کس کے دل کے صدمے کو کہیںٹکڑاا جو سودا کو نظر آتا ہے شیشے کا بیہودہ اس قدر نہیں آتا ہے کام ناز مکھ پر خط آچکانہ کرو صبح و شام ناز عالم کو مار رکھا ہے تین با قد دوتا زاہد یہ کاٹ ہے تری تیغ دو نیم کا سودا کہے تھا یار سے یک مو نہیں غرض اودھر کھلی جو زلف ادھر دل بکھر چلا سودا نہ نکل گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے لڑکے پھریں ہیں پتھروں سے دامن بھرے ہوئے تسلی اس دوا نے کی نہ ہو جھولی کے پتھروں سے اگر سودا کو چھیڑا ہے تو لڑکو مول لو چھڑیاں نگر آٓباد ہیںبسے ہیں گانوں تجھ بن اجڑے پڑے ہیں اپنے بھانوں قیس و فرہاد کا نہیںکچھ ذکر اب تو سودا کا باجتا ہے نانوں جاتے ہیں جو لوگ قافے کے پیش و پس چلے ہے یہ عجب سرا کہ جہاں آئے بس چلے اس غزل میں قفس چلے اور بس چلے قافیہ ہے اسی میں کہتے ہیں: صیاد اب تو کر دے قفس سے ہمیں رہا ظالم پھڑک پھڑک کے پرو بال گھس چلے صبا سے ہر گھڑی مجھ کو لہو کی باس آتی ہے چمن میں آہ گلچیں نے یہ کس بلبل کا دل توڑا موجب میری رنجش کا جو پوچھے ہے تو اے جان موندوں گانہ میں کھول کے جو غنچہ وہاں کو داغ تجھ عشق کا جھمکے ہے مرے دل کے بیچ مہر ذرے میںدرخشاں نہ ہوا تھا سو ہوا دے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں بل بے ساقی تیری بے پروائیاں جانیںمشتاقوں کی لب تک آئیاں اسی طرح ہندی صفت میں اب جمع نہیں لاتے۔ ملائم ہو گئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں یہ انکھیاں کیوں مرے جی کے گلے کی ہار ہو پڑیاں چیز کیا ہو جو کریں قتل وہ انکھیاں مجھ کو پھر گئے دیکھ کے منہ خنجر براں مجھ کو خیال ان انکھڑیوں کا چھوڑ مت مرنے کے بعدا ز بھی دلا آیا جو تو اس مے کدے میں جام لینا تھا ناتوانی بھی عجب شے ہے کہ گلشن میں نسیم نت لیے پھرتی ہے دوش اوپر برنگ بو مجھے فارسی کی جمع کو اس وقت سب فصحا عموماً بولتے تھے۔ اب بغیر حالت صفت یا اضافت کے نہیں بولتے سودا کہتے ہیں: سودا غزل چمن می تو ایسی ہی کہہ کے لا گل پھاڑیں سنکے جیب کو دیں بلبلاں صدا ہاتھ سے جاتا دل دیکھ محبوباں کی چال ایک اور جگہ کہتے ہیں: یا الٰہی میں کہوں کس سیتی اپنا احوال زلف خوباں کی ہوئی ہے مرے جی کو جنجال خوباںاور محبوباں مرزا کی زبان پر بہت چڑھے ہوئے ہیں۔ او ر خواجہ میر درد علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں: پرورش غم کی تیرے یاں تئیں کی تو دیکھا کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا تو کب تئیں مجھ سات مری جان ملے گا ایسا بھی کبھی ہو گا کہ پھر آن ملے گا گو ناں نا رسا ہو نہ ہو آہ میں اثر میں نے تو درگزر نہ کی جو مجھ سے ہو سکا ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا اے آنسو ونہ آوے کچھ دل کی بات منہ پر لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا ہم جانتے نہیں ہیں اے درد کیا ہے کعبہ جیدھر ملے وہ ابرو اودھر نماز کرنا کہا میں مرا حال تم تک بھی پہنچا کہا تب اچٹتا سا کچھ میں سنا تھا مرے دل کو جو ہر دم تو بھلا اتنا ٹٹولے ہے تصور کے سوا تیرے بتا تو اس میں کیا نکلا؟ جائیے کس واسطے اے درد مے خانے کے بیچ اور ہی ہستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ سو بار دیکھیاں ہیں تیری بے وفائیاں تسپر بھی نت غرور ہے دل میں گناہ کا جگ میں نہ ٹک کوئی ہنسا ہو گا کہ نہ ہنستے ہی رو دیا ہو گا درد کے ملنے سے اسے یار برا کیوں مانے اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا اے شانہ تو نہ ہو جو دشمن ہمارے جی کا کوں دیکھیو نہ ہووے زلفوں کا بال بیکا اگر تجھ کو چلنا ہے چل ساتھ میرے یہ کب تک تو باتیں بناتا رہے گا؟ بعد مدت کے درد کل مجھ سے مل گیا راہ میں وہ غنچہ دہن میری اس کی جو لڑ گئی نظریں ہو گئے آنکھوں میں ہی دو دو بچن ان کے عہد میں زبان میں کچھ کچھ اصلاح ہو گئی۔ مگر رسم الخط میں بہت کچھ بزرگوں کی میراث باقی تھی۔ ایک مجموعہ میرے ہاتھ آیا کہ 1170ھ کی تحریر ہے۔ وہ کسی فہمیدہ شخص نے بڑے شوق سے لکھا ہے اس میں میر، سوز، تاباں، فغاں، سودا، خواجہ میر درد انعام اللہ خاں، خواجہ آبرو، میر محمد، باقی حزیں، میر کمال الدین شاعر، خواجہ احسن اللہ خاں بیان، قائم الدین، قائم کے دیوانوں کی انتخاب غزلیں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد میں کو علامت معقول کوں لکھا جاتا تھا۔ چنانچہ شاہ آبرو اور کمال الدین شاعر وغیرہ نے جن غزلوں میں کوردیف ہے۔ انہیں ردیف ن ہی میں لکھا ہے۔ متاخرین نے ن کو دور کیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ داد کو معروف ہی بولتے تھے۔ چنانچہ خواجہ میر اثر نے کہ خواجہ میر درد کے بھائی تھے اور ایک بے ردیف غزل میں مو، رو قافیہ رکھا ہے اور کو، استفہامیہ باندھا ہے۔ مرزا رفیع نے بھی ایک جگہ ایسا کہا ہے۔ ان کی ایک غزل ہے قفس کو، جرس کو، نفس کو، اس کا مقطع یہ ہے۔ ترغیب نہ کر سیر چمن کی ہمیں سودا ہر چند ہوا خوب ہے واں لیک ہوس کو ایک غزل ہے ابرو نہیں، گیسو نہیں، اس میں کہتے ہیں۔ خط سبز اس کا سیہ کچھ رو ہوا مریا اسفید خواہش ترک نیاز و ناز دونو کو نہیں سن کے ترک عشق میرا ہنس کے کہتا ہے وہ شوخ نیل بگڑا ہے کہیں یارو یقیں مجھ کو نہیں الفاظ مفصلہ ذیل کی رسم الخط اس عہد میں اس طرح تھی۔ تو۔۔۔۔توں مجھے۔۔۔۔مجھ سیں اس نے۔۔۔۔انے تجھ کو۔۔۔۔تجھ کوں سے۔۔۔۔سیں تو نے۔۔۔۔ تونہیں جس نے۔۔۔۔جنے کسے۔۔۔کسو اس سے۔۔۔اس سیں جوں۔۔۔۔جیوں جی۔۔۔جیو۔۔۔ اشعار مذکورہ بالا جو کہ حقیقت میں محاورہ مرحوم کے نقش مزار ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ نئے ہونہار یا اگلے وقتوں کی یادگار جو باقی ہیں انہیں پڑھ کر کہاں تک خیالات کو وسعت دیں گے۔ مجھے اس لکھنے سے فقط یہی مطلب نہیں کہ اس عہد تک زبان پر اس قدر قدامت کا اثر باقی تھا بلکہ ایک بڑی بات کا افسوس ظاہر کرنا منظور ہے۔ وہ یہ ہے کہ سودا کی 75 برس کی اپنی عمر اور تخمیناً55,60 برس ان کی شاعری کی عمر۔ میر کی 100 برس کی عمر، شاعری کی 80,85 برس کی عمر اور اس بات سے کسی کو انکار ن ہو گا کہ جو زبان دلی کی ان کے اوائل کلام میں تھی وہی اوسط میں نہ تھی۔ پھر وہی اواخر میں نہ تھی۔ یقینا یہ تینوں زبانوں میں ظاہر اور واضح امتیاز ہوئے ہوں گے۔ مگر چونکہ رسم ملک نے دیوانوں کی ترتیب حروف تہجی پر رکھی ہے۔ اس لیے آج ہم معلوم نہیں کر سکتے کہ ان کے عہدوں میں وقت بوقت ملکی زبانوں میں کیا کیا انقلاب ہوئے یا مختلف وقتوں میں خود ان کی طبیعت کے میلان اور زور کلام کے اتار چڑھاؤ کس کس درجے پر تھے۔ اس اندھیرے میں فقط دو شاعر ہمارے لیے چراغ رکھ گئے ہیں کہ حسب تفصیل ذیل چند قسموں میں اپنے کلام کو تقسیم کیا۔ اوائل عمر عہد جوانی سن کہولتہ پیرانہ سالی امیر خسرو تحفتہ الصغر غزۃ الکمال وسط الحیوۃ بقیہ نقیہ جامی فاتحتہ الشباب واسطہ العقد خاتمتہ الحیوۃ خیر یہ سمجھ لو کہ جن الفاظ پر ہم لوگوں کے بہت کان کھڑے ہوتے ہیں یہی ان کے اوائل عمر یا جوانی کے کلام ہیں۔ منشی احمد حسن خاں صاحب میر تقی مرحوم کے شاگرد رشید تھے ان کی زبانی ڈپٹی کلب حسین خان صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ اکثر الفاظ جو میر صاحب پہلے دوسرے دیوان میں کہہ گئے ہیں وہ چوتھے پانچویں میں نہیں ہیں جو دوسرے تیسرے میں ہیں۔ وہ پانچویں چھٹے میں نہیں۔ بہرحال اخیر عمر میں ان کی زبان کا اندازہ ہو گا جو کہ سید انشائ، مصحفی جرات کی زبان ہے۔ ٭٭٭ مرزا جان جاناں مظہر اگرچہ نظم کے جوش و خروش اور کثرت کلام کے لحاظ سے میر اور سودا کے ساتھ ان کا نام لیتے ہوئے تامل ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ صانع قدرت نے طبیعت کی لطافت اور اصلی نفاست اور ہر بات میں انداز کی خوبی اور خوبصورتی ان کے مزاج میں رکھی تھی اور زمانہ بھی سب کا ایک تھا۔ اس کے علاوہ پرانے پرانے تذکرہ نویس لکھتے ہیں۔ بلکہ بزرگوں کی زبان سے بھی یہی سنا کہ زبان کی اصلاح او رانداز سخن اور طرز کے ایجاد میں انہیں ویسا ہی حق ہے جیسا کہ سودا اور میر کو اسی واسطے ان کا حال بھی اس سلسلے میں لکھنا واجب ہے۔ ان کے والد عالمگیر کے دربار میں صاحب منصب تھے۔ نسب ان کا باپ کی طرف سے محمد بن حنفیہ سے ملتا ہے کہ حضرتعلی کے بیٹے تھے۔ماں بیجاپور کے شریف گھرانے سے تھیں۔ دادا بھی دربار شاہی میں صاحب منصب تھے۔ دادی اسد خاں وزیر عالمگیر کی خالہ زاد بہن تھیں۔ پردادا سے اکبر بادشاہ کی بیٹی منسوب ہوئی تھیں۔ ان رشتوں سے تیموری خاندان کے نواسے تھے 1111ھ میں جب کہ عالمگیر دکن پر فوج لیے پڑا تھا ان کے والد نوکری چھوڑ کر دلی کو پھرے یہ کالا باغ علاقہ مالوہ میں رمضان میں جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔ عالمگیر کو خبر گزری۔ آئین سلطنت تھا کہ امرا کے ہاں اولاد ہو تو حضور میں عرض کریں ۔ بادشاہ خود نام رکھیں یا پیش کیے ہوئے ناموں میں سے پسند کر دیں۔ کسی کو خود بھی بیٹا یا بیٹی کر لیتے یہ امور طرفین کے دلوں میں اتحاد اور محبت پیدا کرتے تھے۔ ان کے لیے ایک وقت پر سند ترقی ہوتے تھے اور بادشاہوں کو ان سے وفاداری اور جان نثاری کی امیدیں ہوتی تھیں۔ شادی بھی اجازت سے ہوتی تھی۔ کبھی ماں باپ کی تجویز کو پسند کرتے تھے۔ کبھی خود تجویز کر دیتے تھے۔ غرض عالمگیر نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے۔ باپ مرزا جان ہے اس کا نام ہم نے جان جاناں رکھا۔ پھر اگرچہ باپ نے شمس الدین نام رکھا ۔ مگر عالمگیری نام کے سامنے نہ چمکا۔ مظہر تخلص انہوں نے آپ کیا کہ جان جاناں کے ساتھ مشہور چلا آتا ہے۔ مرزا جان بھی شاعر تھے اور جانی تخلص کرتے تھے۔ 16برس کی عمر تھی کہ باپ مر گئے۔ اسی وقت سے مشک خاک کو بزرگوں کے گوشہ دامن میں باندھ دیا۔ 30برس کی عمر تک مدرسوں اور خانقاہوں میں جھاڑو دی اور جو دن بہار زندگی کے پھول ہوتے ہیں۔ انہیں بزرگوں کے روضوں پر چڑھا دیا۔ اس عہد میں تصوف کے خیالات ابر کی طرح ہندوستان پر چھائے ہوئے تھے۔ چنانچہ قطع نظر کمال شاعری کے ہزار ہا مسلمان بلکہ ہندو بھی ان کے مرید تھے اور دل سے اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کے باب میں بہت سے لطائف ایسے مشہور ہیں کہ اگر آج کسی میں پائے جائیں تو زمانے کے لوگ اچھا نہ سمجھیں۔ لیکن وہ ایک زمانہ تھا کہ صفات مذکورہ داخل فضائل تھیں۔ کچھ تو اس اعتقاد سے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست اور کچھ اس سبب سے کہ اگر لطیف اور شفاف سطح پر کوئی داغ ہو اور وہ ایک عمدہ نظر گاہ میں جلوہ گر ہو تو وہاں وہ دھبا بدنما نہیں بلکہ گل کاری معلوم ہوتا ہے اور جسے برا معلوم ہو وہ خوش عقیدہ نہیں۔ میں روسیاہ بزرگوں کی ہر بات کو چشم عقیدت کا سرمہ سمجھتا ہوں۔ مگر مقتضائے زمانے پر نظر کر کے نمونے پر اکتفا کرنا چاہئے۔ وہ خود بیان کرتے تھے کہ حسن صورت اور لطف معنی کا عشق ابتدا سے میرے دل میں تھا۔ چھوٹے سن میں بھی مصرع موزوں زباں سے نکلتے تھے۔ شیر خوارگی کے عالم میں حسن کی طرف اس قدر میلان تھا کہ بدصورت کی گود میں نہ جاتا تھا۔ کوئی خوب صورت لیتا تھا تو ہمک کر جاتا تھا اور پھر اس سے لیتے تھے تو بمشکل آتا تھا۔ ٭٭٭ میر عبدالحی تاباں ان کے عہد میں میر عبدالحی تاباں تخلص ایک نوجوان شریف زادہ حسن و خوبی میں اس قدر شہرہ آفاق تھا کہ خاص و عام اس کو یوسف ثانی کہتے تھے۔ گوری رنگت پر کالے کالے کپڑے بہت زیب دیتے تھے۔ اس لیے ہمیشہ سیاہ پوش رہتا تھا۔ اس کے حسن کی یہاں تک شہرت پھیلی کہ بادشاہ کو بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ معلوم ہوا کہ مکان حبش خاں کے پھاٹک میں ہے اور وہ بڑا دروازہ جو کوچہ مذکور سے بازار لاہوری دروازہ میں نکلتا ہے۔ اس کے کوٹھے پر نشست ہے۔ زمانے کی تاثیر اور وقت کے خیالات کو دیکھنا چاہئے کہ بادشاہ خود سوار ہو کر اس راہ سے نکلے۔ انہیں بھی خبر ہو گئی تھی۔ بنے سنورے اور بازار کی طرف مونڈھا بچھا کر آ بیٹھے، بادشاہ جب اس مقام پر پہنچے تو اس لیے کہ ٹھہرنے کا ایک بہانہ ہو۔ وہاں آب حیات مانگا اور پانی پی کر دیکھتے ہوئے چلے گئے۔ الغرض تاباں خود صاحب دیوان تھے۔ شاہ حاتم اور میر محمد علی حشمت کے شاگرد تھے اور مرزا صاحب کے مرید تھے۔ مرزا صاحب بھی چشم محبت اور نگاہ شفقت سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور ان کی صحبت میں جہاں کبھی وعظ و ارشاد اور کبھی نظم و اشعار کا جلسہ رہتا تھا۔ تاباں بھی حاضر ہیں اور با ادب اپنے مرشد کی خدمت میں بیٹھے ہیں۔ حضرت اگرچہ محفل ارشاد کے آداب سے گرم جوشی ظاہر نہ کرتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں اور مارے خوشی کے باغ باغ ہوئے جاتے ہیں۔ تاباں بھی مزاج داں تھے۔ اشعار اور لطائف نمکیں کہتے۔ حضرت سن سن کر خوش ہوتے۔ کوئی بات سب کے سامنے کہنی خلاف ادب ہوتی تو جو اہل عقیدت میں ادب کا طریقہ ہے، اسی طرح دست بستہ عرض کرتے کہ کچھ اور بھی عرض کیا چاہتا ہوں۔ حضرت مسکرا کر اجازت دیتے۔ وہ کان کے پاس منہ لے جاتے اور چند کلمے چپکے چپکے ایسے گستاخانہ کہتے کہ سوا اس پیارے عزیز کے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ جسے بزرگوں کی محبت نے گستاخ کیا ہو۔ پس حضرت مسکراتے اور فرماتے کہ درست ہے ۔ پھر وہ اسی قسم کی کچھ اور باتیں کہتے۔ پھر آپ فرماتے کہ یہ بالکل درست ہے۔ جب تاباں اپنی جگہ پر آ بیٹھتے تو حضرت خود کہتے کہ ایک بات کا تمہیں خیال نہیں رہا۔ تاباں پھر کان کے پاس منہ لے جاتے۔ اس وقت سے بھی تیز تر کوئی لطیفہ آپ اپنے حق میں کہتے اور اپنے پیارے عزیز کی ہم زبانی کا لطف حاصل کرتے۔ نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتا گر پڑا (ہائے میری دلی تیری جو بات ہے جہان سے نرالی ہے) جب اس یوسف ثانی نے عین جوانی میں دلوں پر داغ دیا تو تمام شہر نے اس کا سوگ رکھا میر تقی میر نے بھی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے۔ داغ ہے تاباں علیہ الرحمتہ کا چھاتی پہ میر ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا مرزا صاحب کی تحصیل عالمانہ نہ تھی مگر علم حدیث کو با اصول پڑھا تھا۔ حنفی مذہب کے ساتھ نقشبندی طریقے کے پابند تھے اور احکام شریعت کو صدق دل سے ادا کرتے تھے۔ اوضاع و اطوار اور ادب آداب نہایت سنجیدہ اور برجستہ تھے کہ جو شخص ان کی صحبت میں بیٹھتا تھا ہوشیار ہو کر بیٹھتا تھا۔ لطافت مزاج اور سلامتی طبع کی نقلیں ایسی ہیں کہ آج سن کر تعجب آتا ہے۔ خلاف وضع اور بے اسلوب حالت کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ نقل: ایک دن درزی ٹوپی سی کر لایا۔ اس کی تراش ٹیڑھی تھی۔ اس وقت دوسری ٹوپی موجود نہ تھی۔ اس لیے اسی کو پہنا مگر سر میں درد ہونے لگا۔ نقل: جس چارپائی میں کان ہو، اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ دلی دروازہ کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک بنیے کی چارپائی کے کان پرنظر جا پڑی۔وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کا کان نہ نکلوا لیا آگے نہ بڑھے۔ نقل: ایک دن نواب صاحب کہ ان کے خاندان کے مرید تھے، ملاقات کو آئے اور خود صراحی لے کر پانی پیا۔ اتفاقاً آنجوراجورکھا تو ٹیڑھا۔ مرزا کا مزاج اس قدر برہم ہوا کہ ہرگز ضبط نہ ہو سکا اور بگڑ کر کہا کہ عجب بے وقوف احمق تھا۔ جس نے تمہیں نواب بنا دیا۔ آنجورا بھی صراحی پر رکھنا نہیں آتا۔ نقل: مولوی غلام یحییٰ فاضل جلیل، جنہوں نے میر زاہد پر حاشیہ لکھا ہے۔ یہ ہدایت غیبی مرزا کے مرید ہونے کو دلی میں آئے۔ ان کی ڈاڑھی بہت بڑی اور گھن کی تھی۔ جمعہ کے دن جامع مسجد میں ملے اور ارادہ ظاہر کیا۔ مرزا نے ان کی صورت کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اگر مجھ سے آپ بیعت کیا چاہتے ہیں تو پہلے ڈاڑھی ترشوا کر صورت بھلے آدمیوں کی بنائیے پھر تشریف لائیے۔ اللہ جمیل و یحب الجمال بھلا یہ ریچھ کی صورت مجھ کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تو خدا کو کب پسند آئے گی۔ ملا متشرع آدمی تھے۔ گھر میں بیٹھ رہے۔ تین دن تک برابر خواب میں دیکھا کہ بغیر مرزا کے تمہارا عقدہ دل نہ کھلے گا۔ آخر بے چارے نے ڈاڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا، ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہوئے۔ اسی لطاف مزاج اور نزاکت طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجہ کی اور اسے تراشا کہ جو شعرا پہلے گزرے تھے۔ انہیں پیچھے ہی چھوڑ کر اپنے عہد کا طبقہ الگ کر دیا اور اہل زبان کو نیا نمونہ تراش کر دیا۔ جس سے پرانہ رستہ ایہام گوئی کا زمین شعر سے مٹ گیا۔ ان کے کلام میں مضامین عاشقانہ عجب تڑپ دکھاتے ہیں اور یہ مقام تعجب نہیں کیوں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیال ہیں۔ ان کے اصل حال، زبان ان کی نہایت صاف و شستہ و شفاف ہے۔ اس وقت کے محاورے کی کیفیت کچھ ان کے اشعار سے اور کچھ اس گفتگو سے معلوم ہو گی جو ایک دفعہ بر وقت ان سے اور سید انشاء ہوئی۔ چنانچہ اصل عبارت دریائے لطافت سے نقل کی جاتی ہے۔ ٭٭٭ سید انشاء اللہ خاں اور مرزا جان جاناں مظہر کی ملاقات درز مانیکہ راقم مذنب ہمراہ والد مرحوم مغفور وارد دار الخلافہ بود، از بسکہ آوازہ فصاحت و بلاغت جناب فیض مآب مرزا جان جاناں مظہر علیہ الرحمتہ گوش راقم را مقر خود داشت دل با دیدہ مستعد ستیزہ شد کر چرا از دیدار مرزا صاحب خود را ایں ہمہ محروم می پسندی و مرا از لذت جادوانی و عیش روحانی کہ در کلام معجز نظام آنحضرت است باز میداری چار دنا چار خط را تراش دادہ جامہ ململ ڈھاکہ پوشیدہ دستار سرخ باندھیو بر سر گز اشتم و دیگر لباس ہم ازیں قبیل داز سلاح آنچہ با خود گرفتم کٹار بسیار خوبے۔ بود کہ بکمر زدہ بودم۔ بایں ہیئت بسواری فیل روانہ خدمت سراپا افادت ایشاں شدم۔ چوں بالائے بام کہ کیول رام بانیہ متصل جامع مسجد ساختہ پیش کش مرزا صاحب کردہ بود برآمدم۔ دیدم کہ جناب معزی الیہ با پیراہن و کلاہ سفید دو دو پٹہ نا سپالی رنگ بصورت سموسہ بر دوش گزاشتہ نشستہ اندبہ کمال ادب سلامے برایشاں کردم از فرط عنایت و کثرت مکارم اخلاق کہ شیوہ ستودہ بزرگان خدا پرست است بجواب سلام ملتفت شدہ برخاستند و سراین بے لیاقت رادرکنار گرفتہ بہ پہلوئے خود جا دند۔ مرزا صاحب ایک دیوان فارسی ہے کہ خود60برس کی عمر1170ء میں20ہزار شعر میں سے ایک ہزار شعر انتخاب کیا تھا۔ اسی واسطے اکثر غزلیں ناتمام اور بے ترتیب ہیں۔ اس کو انتہائی درجے کی منصفی اور سلامتی طبع سمجھنا چاہئے ورنہ اپنے اشعار کہ اولاد معنوی ہوتے ہیں۔ کس کا جگر ہے کہ اپنے ہاتھ سے کاٹے۔ فارسی بھی بہت شستہ ہے اور مضامین عاشقانہ ایک انداز کے ساتھ بندھے ہیں۔ مراچہ جرم کہ ہر نالہ ام زموزدنی غلط کنند عزیزاں بمصرعہ استاد اردو میں بھی پورا دیوان نہیں۔ غزلیں اور اشعار ہیں جو سودا اور میر کی زبان ہے۔ وہی ان کی زبان ہے۔ لیکن سودا بھلا کسے خاطر میں لاتے ہیں۔ چنانچہ سب آداب اور رعایتوں کو بالائے طاق رکھ کر فرماتے ہیں۔ مظہر کا شعر فارسی اور ریختہ کے بیچ سودا یقین جان کہ روڑا ہے باٹ کا آگاہ فارسی تو کہیں اس کو ریختہ واقف جو ریختہ کے ذوا ہووے ٹھاٹھ کا سن کر وہ یہ کہے کہ نہیں ریختہ ہے یہ اور ریختہ بھی ہے تو فروزشہ کی لاٹھ کا القصہ اس کا حال یہی ہے جو سچ کہوں کتا ہے دھوبی کا کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا خریطہ جواہر: ایک مختصر انتخاب اساتذہ فارس کے اشعار کا ہے کہ اپنی پسند کے بموجب لکھتے گئے تھے۔ وہ حقیقت میں خریطہ جواہر ہے۔ جب کہ صحرائے فنا میں 79 منزلیں عمر کی طے کر 80 میں قدم رکھا تو دل کو آگاہی ہونے لگی کہ اب روح مسافر بدن کا بوجھ پھینکا چاہتا ہے۔ چنانچہ خود اکثر تحریروں اور تقریروں میں صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ نقل: ایک معتقد کا بیٹا حسن اعتقاد سے غزل لے کر آیا کہ شاگرد ہو اور اصلاح لے انہوں نے کہا کہ اصلاح کے ہوش و حواس کسے ہیں اب عالم کچھ اور ہے۔ عرض کی کہ میں بطور تبرک سعادت حاصل کرنی چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ اس وقت ایک شعر خیال میں آیا ہے اسی کو تبرک اور اسی کو اصلاح سمجھ لو۔ لوگ کہتے ہیں مر گیا مظہر فی الحقیقت میں گھر گیا مظہر غرض ساتویں محرم کی تھی رات کے وقت ایک شخص مٹھائی کی ٹوکری ہاتھ میں لیے آیا۔ دروازہ بند تھا آواز دی اور ظاہر کیا کہ مرید ہوں نذر لے کر آیا ہوں۔ وہ باہر نکلے تو قرابین ماری کہ گولی سینے کے پار ہو گئی۔ وہ تو بھاگ گیا مگر انہیں زخم کاری آیا۔ تین دن تک زندہ رہے اس عالم اضطراب میں لوٹے تھے اور اپنا ہی شعر پڑھتے تھے۔ بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطید خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را یہ تین دن نہایت استقلال اور ثابت قدمی سے گزارے بلکہ جب شاہ عالم بادشاہ کو خبر پہنچی تو بعد تحقیقات کے کہلا بھیجا کہ قاتل نہیں ملتا۔ نشان بتائیے تو ہم اسے سزا دیں جواب میں کہا کہ فقیر کشتہ راہ خدا ہیں اور مردے کا مارنا قتل نہیں۔ قاتل ملے تو آپ سزا نہ دیں۔ یہاں بھیج دیں۔ آخر دسویں کو شام کے وقت دنیا سے انتقال کیا۔ بہت لوگوں نے تاریخیں کہیں۔ مگر درجہ پر میر قمر الدین منت کی تاریخ ہے جس کا مادہ خاص الفاظ حدیث ہیں اور اتفاق یہ کہ موزون ہیں۔ عاش حمیداً مات شہیداً۔ اس قتل کا سب دلی کے خاص و عام میں مشہور تھا کہ بموجب سم کے ساتویں کو علم اٹھے تھے۔ یہ سر راہ اپنے بالا خانے پر خاص خاص مریدوں کو لیے بیٹھے تھے۔ جیسا کہ عوام جہلا کی عادت ہے۔ شاید طرفین سے کچھ کچھ طعن و تعریض ہوئے ہوں۔وہ کسی جاہل کو ناگوار ہوئے۔ ان میں کوئی سنگدل فولاد خاں نام سخت جاہل تھا۔ اس نے یہ حرکت کی۔ لیکن حکیم قدرت اللہ قاسم اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے کلام میں اکثر اشعار حضرت علی کی مدح میں کہا کرتے تھے، اس پر بگڑ کر کسی سنی نے یہ حرکت کی۔ نہ کرو مظہر ما طاعتے درفت بخاک نجات خود بہ تو لائے بو تراب گزاشت جد مرحوم ایک اردو کا شعر ان کے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ ہوں تو سنی پر علی کا صدق دل سے ہوں غلام خواہ ایرانی کہو تم خواہ تورانی مجھے دلی میں چتلی قبر کے پاس گھر ہی میں دفن کر دیا تھا کہ اب خانقاہ کہلاتی ہے۔ قبر پر انہی کا شعر لکھا ہے۔ بہ لوح تربت من یافتند از غیب تحریرے کہ ایں مقتول راجز بیگناہی نیست تقصیرے تاریخ مرزا رفیع سودا نے بھی کہی۔ مرزا کا ہوا جو قاتل ایک مرتد شوم اور ان کی ہوئی خبر شہادت کی عموم تاریخ از روے درد یہ سن کے کہی سودا نے کہ ہائے جانجان مظلوم اس لکھنے سے مجھے اظہار اس امر کا منظور ہے کہ ہجو ہماری نظم کی ایک خار دار شاخ ہے جس کے پھل سے پھول تک میں بے لطفی بھری ہے اور اپنی زمین اور دہقان دونوں کی کثافت طبع پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ اس میں بھی مرزا رفیع مرحوم سب سے زیادہ بدنام ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ ان کی زبان سے جو کچھ نکلتا تھا باعث اس کا فقط شوخی طبع یا کوئی عارضی جوش ناراضی کا ہوتا تھا اور مادہ کثافت فقط اتنا ہوتا تھا کہ جب الفاظ کاغذ پر آ جاتے تھے تو دل صاف ہو جاتا تھا۔ چنانچہ تاریخ مذکور کے الفاظ دل کی صفائی کا حال ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارا زمانہ ایسے مہذب اور شائستہ لوگوں سے آراستہ ہے کہ لفظ ہجو کو گالی سمجھتے ہیں مگر دلوں کا مالک اللہ ہے۔ ان کے شاگردوں میں میر محمد باقر حزیں بساون لعل بیدار، خواجہ احسن اللہ خاں بیان، انعام اللہ خان یقین، مشہور صاحب دیوان اور اچھے شاعر ہوئے۔ ان کی غزلیں تمام و کمال نہ ملیں۔ جو کچھ سر دست حاضر تھا، درج کیا۔ چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے کی زندگی کٹتی اگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا الم یہ یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا ڈبا یا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خانداں اپنا رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشق بدگماں اپنا مرا جی جلتا ہے اس بلبل بے کس کی غربت پر کہ جن نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم کہ دولت خواہ اپنا مظہر اپنا جان جاں اپنا گرچہ الطاف کے قابل یہ دل زار نہ تھا لیکن اس جور و جفا کا بھی سزاوار نہ تھا لوگ کہتے ہیں موا مظہر بے کس افسوس کیا ہوا اس کو وہ اتنا بھی تو بیمار نہ تھا جواں مارا گیا خوباں کے بدلے میرزا مظہر بھلا تھا یا برا تھا زور کچھ تھا خوب کام آیا ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک جی نکل جاتا ہے جب سنتے ہیں آتی ہے بہار یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے نہیں آتا اسے تکیے پہ آرام یہ سر پاؤن سے تیرے ہل رہا ہے اگر ملیے تو خفت ہے وگر دوری، قیامت ہے غرض نازک دماغوں کو محبت سخت آفت ہے کوئی لیوے دل اپنے کی خبر یا دلبر اپنے کی کسی کا یار جب عاشق کہیں ہو کیا قیامت ہے توفیق دے کہ شور سے اک دم تو چپ رہے آخر مرا یہ دل ہے الٰہی جرس نہیں غزل ہائے تاباں نہیں ہے دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا سناؤں کس کو غم اپنا الم اپنا بیاں اپنا بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دل کو صبر آوے نہ یار آیا نہ صبر آیا دیا جی میں نداں اپنا قفس میں تڑپے ہیں یہ عندلیباں سخت بے بس ہیں نہ گلشن دیکھ سکتے ہیں نہ یہ اب آشیاں اپنا مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباں نہ یار اپنا نہ دل اپنا نہ تن اپنا نہ جاں اپنا رہتا ہوں خاک و خوں میں سدا لوٹتا ہوا میرے غریب دل کو الٰہی یہ کیا ہوا میں اپنے دل کو غنچہ تصویر کی طرح یا رب کبھو خوشی سے نہ دیکھا کھلا ہوا ناصح عبث نصیحت بیہودہ تو نہ کر ممکن نہیں کہ چھوٹ سکے دل لگا ہوا ہم بے کسی پہ اپنی نہ روویں تو کیا کریں دل سا رفیق ہائے ہمارا جدا ہوا جفا سے اپنی پشیماں نہ ہو، ہوا سو ہوا تری بلا سے مرے جی پہ جو ہوا سو ہوا سب جو میری شہادت کا یار سے پوچھا کہا کہ اب تو اسے گاڑ دو ہوا سو ہوا یہ درد عشق ہے میرا نہیں علاج طبیب ہزار کوئی دوائیں کرو ہوا سو ہوا بھلے برے کی تیرے عشق میں اڑا دی شرم ہمارے حق میں کوئی کچھ کہو ہوا سو ہوا نہ پائی خاک بھی تاباں کی ہم نے پھر ظالم وہ ایک دم ہی ترے روبرو ہوا سو ہوا سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں کیا بلبلوں نے دیکھو دھومیں مچائیاں ہیں بیمار ہے، زمیں سے اٹھتی نہیں عصا بن نرگس کو تم نے شاید آنکھیں دکھائیاں ہیں آئینہ رو برو رکھ اور اپنی چھب دکھانا کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں دیکھے سے آئینہ بھی حیران ہے تیرا رو چہرے کے بیچ تیرے کیا کیا صفائیاں ہیں خورشید گر کہوں میں تو جان ہے وہ پیلا جو مہ کہوں ترا رو اس پر تو چھائیاں ہیں جب پان کھا کے پیارا گلشن میں جا ہنسا ہے بے اختیار کلیاں تب کھل کھلائیاں ہیں کہتے تھے ہم کسی سے تم بن نہیں ملیں گے اب کس کے ساتھ پیارے دے دلربائیاں ہیں عاشق سے گرم ملنا پھر بات بھی نہ کہنا کیا بے مروتی ہے کیا بے وفائیاں ہیں افسوس اے صنم تم ایسے ہوئے ہو ابتر ملتے تو غیر سے جا ہم سے روکھائیاں ہیں قسمت میں دیکھیں کیا ہے جیتے رہیں کہ مر جائیں قاتل سے ہم نے یارو آنکھیں لڑائیاں ہیں اب مہرباں ہوا ہے تاباں ترا ستمگر آہیں تری کسی نے شاید سنائیاں ہیں ٭٭٭ مرزا محمد رفیع سودا سودا تخلص مرزا محمد رفیع نام، شہر دہلی کو ان کے کمال سے فخر ہے۔ باپ مرزا محمد شفیع میرزا یان کابل سے تھے۔ بزرگوں کا پیشہ سپاہ گری تھا۔ مرزا شفیع بطریق تجارت وارد ہندوستان ہوئے۔ ہند کی خاک دامنگیر نے ایسے قدم پکڑے کہ یہیں رہے بعض کا قول ہے کہ باپ کی سوداگری سودا کے لیے وجہ تخلص ہوئی۔ لیکن بات یہ ہے کہ ایشیا کے شاعر ہر ملک میں عشق کا دم بھرتے ہیں اور سودا اور دیوانگی عشق کے ہمزاد ہیں۔ اس لیے وہ بھی ان بزرگوں کے لیے باعث فخر ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے سودا تخلص کیا اور سوداگری کی بدولت ایہام کی صنعت روکن میں آئی۔ سودا1125ھ میں پیدا ہوئے۔ دہلی میں پرورش اور تربیت پائی۔ کابلی دروازہ کے علاقہ میں ان کا گھر تھا۔ ایک بڑے پھاٹک میں نشست رہتی تھی۔ شیخ ابراہیم ذوق علیہ الرحمتہ اکثر ادھر ٹہلتے ہوئے جا نکلتے تھے۔ میں ہمرکاب ہوتا تھا۔ مرزا کے وقت کے حالات اور مقامات کے ذکر کر کے قدرت خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔ سودا بموجب رسم زمانہ کے اول سلیمان قلی خاں دداد کے پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے شاہ موصوف نے بھی اپنے دیوان کے دیباچے میں جو شاگردوں کی فہرست لکھی ہے، اس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے، جس سے فخر کی خوشبو آتی ہے۔ خوشا نصیب اس استاد کے جس کی گود میں ایسا شاگرد پل کر بڑا ہو۔ خان آرزو کے شاگرد نہ تھے۔ مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل کیے۔ چنانچہ پہلے فارسی شعر کہا کرتے تھے۔ خان آرزو نے کہا کہ مرزا فارسی اب تمہاری زبان مادری نہیں۔ اس میں ایسے نہیں ہو سکتے کہ تمہارا کلام اہل زبان کے مقابل میں قابل تعریف ہو۔ طبع موزوں ہے۔ شعر سے نہایت مناسبت رکھتی ہے۔ تم اردو کہا کرو تو یکتائے زمانہ ہو گے۔ مرزا بھی سمجھ گئے اور دیرینہ سال استاد کی نصیحت پر عمل کیا۔ غرض طبیعت کی مناسبت اور مشق کی کثرت سے دلی جیسے شہر میں ان کی استادی نے خاص و عام سے اقرار لیا کہ ان کے سامنے ہی ان کی غزلیں گھر گھر اور کوچہ و بازار میں خاص و عام کی زبانوں پر جاری تھیں۔ جب کلام کا شہرہ عالمگیر ہوا تو شاہ عالم بادشاہ اپنا کلام اصلاح کے لیے دینے لگے اور فرمائشیں کرنے لگے۔ ایک دن کسی غزل کے لیے تقاضا کیا۔ انہوں نے عذر بیان کیا۔ حضور نے فرمایا۔ بھئی مرزا کے غزلیں روز کہہ لیتے ہو؟ مرزا نے کہا پیر و مرشد جب طبیعت لگ جاتی ہے۔ دو چار شعر کہہ لیتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بھئی ہم تو پاخانے میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی، حضور! ویسی بو بھی آتی ہے یہ کہہ کر چلے آئے۔ بادشاہ نے پھر کئی دفعہ بلا بھیجا اور کہا کہ ہماری غزلیں بناؤ۔ ہم تمہیں ملک الشعراء کر دیں گے۔ یہ نہ گئے اور کہا کہ حضور کی ملک الشعرائی سے کیا ہوتا ہے۔ کرے گا تو میرا کلام ملک الشعرا کرے گا اور ایک بڑا مخمص شہر آشوب لکھا کہا میں آج یہ سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول بے درد ظاہر بین کہتے ہیں کہ بادشاہ اور دربار بادشاہ کی ہجو کی ہے۔ غور سے دیکھو تو ملک کی دلسوزی میں اپنے وطن کا مرثیہ کہا ہے۔ مرزا دل شکستہ ہو کر گھر میں بیٹھ رہے۔ قدر دان موجود تھے۔ کچھ پروا نہ ہوئی ان میں اکثر روسا امرا خصوصاً مہرباں خاں اور بسنت خاں ہیں۔ جن کی تعریف میں قصیدہ کہا ہے۔ کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو بولا نصیب تیرے سب دولت جہاں ہو حرص کی زبانی دنیا کی دولت اور نعمتوں کا ذکر کر کے خود کہتے ہیں کہ اے حرص! جو کچھ کہا ہے تو نے یہ تجھ کو سب مبارک میں اور میرے سر پر میرا بسنت خاں ہو ان بزرگوں کی بدولت ایسی فارغ البالی سے گزرتی تھی کہ ان کے کلام کا شہرہ جب نواب شجاع الدولہ نے لکھنو میں سنا تو کمال اشتیاق سے برادر من مشفق مہرباں من لکھ کر خط مع سفر خرچ بھیجا اور طلب کیا۔ انہیں دلی کا چھوڑنا گوارا نہ ہوا۔ جواب میں فقط رباعی پر حسن معذرت کو ختم کیا۔ سودا پے دنیا تو بہر سو کب تک آوارہ ازیں کوچہ بہ آں کوکب تک حاصل یہی اس سے نہ کہ دنیا ہووے بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک کئی برس کے بعد وہ قدر دان مر گئے۔ زمانے بدل گئے۔ سودا بہت گھبرائے اس عہد میں ایسے تباہی زدوں کے لیے دو ٹھکانے تھے۔ لکھنو حیدر آباد، لکھنو پاس تھا اور فیض و سخاوت کی گنگا بہ رہی تھی۔ اس لیے جو دلی سے نکلتا تھا ادھر ہی رخ کرتا تھا اور اتنا کچھ پاتا تھا کہ پھر دوسری طرف خیال نہ جاتا تھا۔ اس وقت حاکم بلکہ وہاں کے محکوم بھی جویائے کمال تھے۔ نکتے کو کتاب کے مولوں خریدتے تھے۔ غرض60یا66برس کی عمر میں دلی سے نکل کر چند روز فرخ آباد میں نواب بنگش کے پاس رہے۔ اس کی تعریف میں بھی کئی قصیدے موجود ہیں۔ وہاں سے 1185ھ میں لکھنو پہنچے۔ نواب شجاع الدولہ کی ملازمت حاصل کی۔ وہ بہت اعزاز سے ملے اور ان کے آنے پر کمال خرسندی ظاہر کی۔ لیکن یا تو بے تکلفی سے یا طنز سے اتنا کہا کہ مرزا وہ رباعی تمہاری اب تک میرے دل پر نقش ہے اور اسی کو مکرر پڑھا۔ انہیں اپنے حال پر بڑا رنج ہوا اور بپاس وضعداری پھر دربار نہ گئے۔ یہاں تک کہ شجاع الدولہ مر گئے اور آصف الدولہ مسند نشیں ہوئے۔ لکھنو میں مرزا فاخر مکیں زبان فارسی کے مشہور شاعر تھے۔ ان سے اور مرزا رفیع سے بگڑی اور جھگڑے نے ایسا طول کھینچا کہ نواب آصف الدولہ کے دربار تک نوبت پہنچی (عنقریب) اس کا حال بہ تفصیل بیان کیا جائے گا) انجام یہ ہوا کہ علاوہ انعام و اکرام کے چھ ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ہو گیا اور نواب نہایت شفقت کی نظر فرمانے لگے۔ اکثر حرم سرا میں خاصہ پر بیٹھے ہوتے اور مرزا کی اطلاع ہوتی فوراً باہر نکل آتے تھے۔ شعر سن کر خوش ہوتے اور انہیں انعام سے خوش کرتے تھے۔ جب تک مرزا زندہ رہے، نواب مغفرت مآب اور اہل لکھنو کی قدر دانی سے ہر طرح فارغ البال رہے۔ تقریباً 70 برس کی عمر میں1195ھ میں وہیں دنیا سے انتقال کیا۔ شاہ حاتم زندہ تھے۔ سن کر بہت روئے اور کہا کہ افسوس ہمارا پہلوان سخن مر گیا۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ اواخر عمر میں مرزا نے دلی چھوڑی۔ تذکرہ دلکشا میں ہے کہ 66برس کی عمر میں گئے تعجب ہے کہ مجموعہ سخن جو لکھنو میں لکھا گیا۔ اس میں ہے کہ مرزا عالم شباب میں وارد لکھنو ہوئے۔ غرض چونکہ شجاع الدولہ 1188ھ میں فوت ہوئے تو مرزا نے کم و بیش70برس کی عمر پائی۔ ان کے بعد کمال بھی خاندان سے نیست و نابود ہو گیا۔ راقم آثم 1858ء میں لکھنو گیا۔ بڑی تلاش کے بعد ایک شخص ملے کہ ان کے نواسے کہلاتے تھے۔ بے چارے پڑھے لکھے بھی نہ تھے اور نہایت آشفتہ حال تھے۔ سچ ہے۔ میراث پدر خواہی علم پدر آموز بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کاندریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست ان کا کلیات ہر جگہ مل سکتا ہے اور قدر و منزلت کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے حکیم سید اصلح خان نے ترتیب دیا تھا اور اس پر دیباچہ بھی لکھا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے پرانے محاوروں سے قطع نظر کر کے دیکھیں تو سر تاپا نظم اور انشاء اردو کا دستور العمل ہے۔ اول قصائد اردو بزرگان دین کی مدح میں اور اہل ودل کی تعریف میں۔ اسی طرح چند قصائد فارسی24 مثنویاں ہیں بہت سی حکایتیں اور منظوم ہیں۔ ایک مختصر دیوان فارسی کا تمام و کمال دیوان ریختہ جس میں بہت سی لاجواب غزلیں اور مطلع رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں،پہیلیاں، داسوخت، ترجیع بند، مخمس سب کچھ کہا ہے اور ہر قسم کی نظم میں ہجویں ہیں، جو ان کے مخالفوں کے دل و جگر کو کبھی خون اور کبھی کباب کرتی ہیں۔ اب تذکرہ شعرائے اردو کا ہے اور وہ نایاب ہے۔ غزلیں اردو میں پہلے سے بھی لوگ کہہ رہے تھے۔ مگر دوسرے طبقے تک اگر شعرا فے کچھ مدح میں کہا تو ایسا ہے کہ اسے قصیدہ نہیں کہہ سکتے۔ پس اول قصائد کا کہنا اور پھر دھوم دھام سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاحت پر پہنچانا ان کا فخر ہے۔ وہ اس میدان میں فارسی کے نامی شہسواروں کے ساتھ عناں در عناں ہی نہیں گئے۔ بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے۔ ان کے کلام کا زور شور انوری اور خاقانی کو دباتا ہے اور نزاکت مضمون میں عرفی و ظہوری کو شرماتا ہے۔ مثنویاں24 ہیں اور حکایتیں اور لطائف وغیرہ ہیں وہ سب نظم اور فصاحت کلام کے اعتبار سے ان کا جوہر طبعی ظاہر کرتی ہیں۔ مگر عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبے کے کلام کے اعتبار سے ان کے مرتبے کے لائق نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا میر صاحب کے شعلہ عشق اور دریائے عشق کو بھی نہیں پہنچیں۔ فارسی کے مختصر دیوان میں سب ردیفیں پوری ہیں ۔ زور طبع اور اصول شاعرانہ سب قائم ہیں۔ صائب کا انداز ہے مگر تجربہ کار جانتے ہیں کہ ایک زبان کی مشق اور مزاولت دوسری زبان کے اعلیٰ درجہ کمال پر پہنچنے میں سنگ راہ ہوتی ہے۔ چنانچہ شیخ مصحفی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے آخر آخر خیال شعر فارسی ہم پیدا کرو۔ مگر از فہم و عقلش ایں امر بعید بود کہ کرد۔ غرض غزلہائے فارسی خود نیز کہ در لکھنو گفتہ بقید ردیف ترتیب دادہ داخل دیوان ریختہ نمودہ د ایں ایجاد ادست دیوان ریختہ (وقت کی زبان سے قطع نظر کر کے) با اعتبار جوہر کلام کے سرتاپا مرصع ہے۔ بہت سی غزلیں دلچسپ اور دل پسند بحروں میں ہیں کہ اس وقت تک اردو میں نہیں آئی تھیں۔ زمینیں سنگلاخ ہیں اور ردیف قافیے بہت مشکل۔ مگر جس پہلو سے انہیں جما دیا ہے ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی بٹھائے تو تمہیں معلوم ہو۔ گرمی کلام کے ساتھ ظرافت جو ان کی زبان سے ٹپکتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بڑھاپے تک شوخی طفلانہ ان کے مزاج میں امنگ دکھاتی تھی۔ مگر ہجووں کا مجموعہ جو کلیات میں ہے اس کا ورق ورق ہنسنے والوں کے لیے زعفران زار کشمیر کی کیاریاں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی شگفتگی اور زندہ دلی کسی طرح کے فکر و تردد کو پاس نہ آنے دیتی تھی۔ گرمی اور مزاج کی تیزی بجلی کا حکم رکھتی تھی اور اس شدت کے ساتھ کہ نہ کوئی انعام اسے بجھا سکتا تھا نہ کوئی خطرہ اسے دبا سکتا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ذرا سی ناراضی میں بے اختیار ہو جاتے تھے کچھ اور بس نہ چلتا تھا۔ جھٹ ایک ہجو کا طومار تیار کر دیتے تھے۔ غنچہ نام ان کا ایک غلام تھا۔ ہر وقت خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ساتھ قلم دان لیے پھرتا تھا۔ جب کسی سے بگڑتے تو فوراً پکارتے، ارے غنچہ لا تو قلمدان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں۔ یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔ پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے۔ عربی اور فارسی دو ذخیرہ دار اردو کے ہیں۔ ان کے خزانے میں ہجووں کے تھیلے بھرے ہیں۔ مگر اس وقت تک اردو کے شاعر صرف ایک دو شعروں میں دل کا غبار نکال لیتے تھے۔ یہ طرز خاص کہ جس سے ہجو ایک موٹا ٹہنا اس باغ شاعری کا ہو گئی۔ انہی کی خوبیاں ہیں۔ عالم، جاہل، فقیر، امیر، نیک، بد کسی کی ڈاڑھی ان کے ہاتھ سے نہیں بچی۔ اس طرح پیچھے پڑتے تھے کہ انسان جان سے بیزار ہو جاتا تھا۔ مگر میرضاحک، فدوی، مکین، بقا وغیرہ اہل کمال نے بھی چھوڑا نہیں ان کا کہنا انہیں کے دامن میں ڈالا ہے۔ البتہ حسن قبول اور شہرت عام ایک نعمت ہے کہ وہ کسی کے اختیار میں نہیں۔ انہیں خدا نے دی۔ وہ محروم رہے۔ مرزا نے جو کچھ کہا بچے بچے کی زبان پر ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ انہیں میں سے ایک شعر ہے کہ فدوی کی طبع موزون سے مرزا صاحب کی شان میں واقع ہوا ہے۔ کچھ کٹ گئی ہے پیٹی کچھ کٹ گیا ہے ڈورا دم داب سامنے سے وہ اڑ چلا لٹورا بھڑوا ہے مسخرا ہے سودا اسے ہوا ہے مرزا نے جو راجہ نرپت سنگھ کے ہاتھی کے ہجو میں مثنوی کہی ہے۔ اس کے جواب میں بھی کسی نے مثنوی لکھی ہے اور خوب لکھی ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں۔ تم اپنے فیل معنی کو نکالو مرے ہاتھی سے دو ٹکر لڑا لو سید انشا نے لکھا ہے کہ دو ٹکریں چاہئے۔ یہ سید صاحب کی سینہ زوری ہے۔ ہجوؤں میں ایک ساقی نامہ ہے۔ جس میں فوقی شاعر کی ہجو ہے۔ اصل میں قیام الدین قائم کی ہجو میں تھا۔ وہ بزرگ باوجود شاگردی کے مرزا سے منحرف ہو گئے تھے۔ جب یہ ساقی نامہ لکھا گیا تو گھبرائے اور آ کر خطا معاف کروائی۔ مرزا نے ان کا نام نکال دیا اور فوقی ایک فرضی شخص کا نام ڈال دیا۔ مرثیے اور سلام بھی بہت کہے ہیں۔ اس زمانے میں مسدس کی رسم کم تھی۔ اکثر مرثیے چو مرصع ہیں مگر مرثیہ گوئی کی ترقی دیکھ کر ان کا ذکر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ شاید انہی مرثیوں کو دیکھ کر اگلے وقتوں میں مثل مشہور ہوئی تھی۔ کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویا مرثیہ خواں۔ حق یہ ہے کہ مرثیہ کا شاعر گویا ایک مصیبت زدہ ہوتا ہے کہ اپنا دکھڑا روتا ہے۔ جب کسی کا کوئی مر جاتا ہے تو غم و اندوہ کے عالم میں جو بے چارے کی زبان سے نکلتا ہے سو کہتا ہے اس پر کون بے درد ہے جو اعتراض کرے۔ وہاں صحت و غلطی اور صنائع و بدائع کو کیا ڈھونڈنا یہ لوگ فقط اعتقاد مذہبی کو مدنظر رکھ کر مرثیے سلام کہتے تھے۔ اس لیے قواعد کی احتیاط کم کرتے تھے اور کوئی اس پر گرفت بھی نہ کرتا۔ پھر بھی مرزا کی تیغ زبان جب اپنی اصالت دکھاتی ہے تو دلوں میں چھریاں ہی مار جاتی ہے۔ ایک مطلع ہے۔ نہیں ہلال فلک پر مہ محرم کا چڑھا ہے چرخ پہ تیغا مصیبت و غم کا ایک اور مرثیے کا مطلع ہے۔ یارو سنو تو خالق اکبر کے واسطے انصاف سے جواب دو حیدر کے واسطے وہ بوسہ گہ بنی تھی پیمبر کے واسطے یا ظالموں کی برش خنجر کے واسطے باوجود عیوب مذکورہ بالا کے جہاں کوئی حالت اور روئداد دکھاتے ہیں، پتھر کا دل ہو تو پانی ہوتا ہے اور وہ ضرور آج کل کے مرثیہ گویوں کو دیکھنی چاہئے۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنے زور کمال میں آ کر اس کوچے سے نکل گئے ہیں۔ واسوخت مخمس، ترجیع بند، مستزاد، قطعہ، رباعیاں، پہیلیاں وغیرہ اپنی اپنی طرز میں لاجواب ہیں۔ خصوصاً تاریخیں بے کم و کاست ایسی برمحل و برجستہ واقع ہوئی ہیں کہ ان کے عدم شہرت کا تعجب ہے۔ غرض جو کچھ کہا ہے اسے اعلیٰ درجہ کمال پر پہنچایا ہے۔ مرزا کی زبان کا حال نظم میں تو سب کو معلوم ہے کہ کبھی دودھ ہے کبھی شربت مگر نثر میں بڑی مشکل ہوتی ہے۔ فقط مصری کی ڈلیاں چبانی پڑتی ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ نثر اردو ابھی بچہ ہے۔ زبان نہیں کھلی چنانچہ شعلہ عشق کی عبارت سے واضح ہے کہ اردو ہے مگر مرزا بے دل کی نثر فارسی معلوم ہوتی ہے۔ کتاب مذکور اس وقت موجود نہیں۔ لیکن ایک دیباچے میں انہوں نے تھوڑی سی نثر بھی لکھی ہے۔ اس سے افسانہ مذکور کا انداز معلوم ہو سکتا ہے۔ کل اہل سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں استاد مسلم الثبوت تھے۔ وہ ایسی طبیعت لے کر آئے تھے۔ جو شعر اور فن انشاہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی۔ میر صاحب نے بھی انہیں پورا شاعر مانا ہے۔ ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس پر سب رنگوں میں ہمرنگ اور ہر رنگ میں اپنی ترنگ۔ جب دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز۔ نظم کی ہر فرع میں طبع آزمائی کی ہے اور رکے نہیں چند صفتیں خاص ہیں۔ جن سے کلام ان کا جملہ شعرا سے ممتاز معلوم ہوتا ہے۔ اول یہ کہ زبان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہیں۔ کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیسے آگ کے شعلے میں گرمی اور روشنی، بندش کی چشتی اور ترکیب کی درستی سے لفظوں کو اس در و بست کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑتے ہیں۔ گویا ولایتی طپنچے کی چانپیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خاص ان کا حصہ ہے۔ چنانچہ جب ان کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے جائیں، شعر مزا ہی نہیں دیتا۔ خیالات نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں۔ مگر اس باریک نقاشی پر ان کی فصاحت آئینے کا کام دیتی ہے۔ تشبیہ اور استعارے ان کے ہاں ہیں۔ مگر اسی قدر کہ جتنا کھانے میں نمک یا گلاب کے پھول پر رنگ، رنگینی کے پردے میں مطلب اصلی گم نہیں ہونے دیتے۔ ان کی طبیعت، ایک ڈھنگ کی پابند نہ تھی نئے نئے خیال اور چٹختے قافیے جس پہلو سے جمتے دیکھتے تھے، جماد یتے تھے اور وہی ان کا پہلو ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ سننے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے یا زبان کی خوبی تھی کہ جو بات اس سے نکلتی تھی اس کا انداز نیا اور اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ہمعصر استاد خود قرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں وہ اس شخص کے پیش پا افتادہ ہیں۔ جن اشخاص نے زبان اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزا کا ان میں پہلا نمبر ہے انہوں نے فارسی محاوروں کو بھاشا میں کھپا کر ایسا اپک کیا ہے۔ جیسے علم کیمیا کا ماہر ایک مادے کو دوسرے مادے میں مہذب کر دیتا ہے اور تیسرا مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ کسی تیزاب سے اس کا جوڑ کھل نہیں سکتا۔ انہوں نے ہندی زبان کو فارسی محاوروں اور استعاروں سے نہایت زور بخشا۔ اکثر ان میں سے رواج پا گئے۔ اکثر آگے نہ چلے۔ انہی کا زور طبع تھا۔ جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پا کر تیسری زبان پیدا ہو گئی اور اسے ایسی قبولیت عام حاصل ہوئی کہ آئندہ کے لیے وہی ہندوستان کی زبان ٹھہری، جس نے حکام کے درباروں اور علوم کے خزانوں پر قبضہ کیا۔ اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشا پردازی کا تمغا لے کر شائستہ زبانوں کے دربار میں عزت کی کرسی پائے گی۔ اہل ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سر جھکانا چاہیے۔ ایسی طبیعتیں کہاں پیدا ہوتی ہیں کہ پسند عام کی نبض شناس ہوں اور وہی باتیں نکالیں جن پر قبول عام رجوع کر کے سالہا سال کے لیے رواج کا قبالہ لکھ دے۔ ہر زبان کے اہل کمال کی عادت ہے کہ غیر زبان کے بعض الفاظ میں اپنے محاورے کا کچھ نہ کچھ تصرف کر لیتے ہیں۔ اس میں کسی موقع پر قادر الکلامی کا زور دکھانا ہوتا ہے۔ کسی موقع پر محاورہ عام کی پابندی ہوتی ہے۔ بے خبر کہہ دیتا ہے کہ غلطی کی۔ مرزا نے بھی کہیں کہیں ایسے تصرف کیے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ کہتے ہیں۔ جیسے کہتا ہے کوئی ہو ترا صفا صفا ایک غزل میں کہتے ہیں۔ لب و لہجہ ترا سا ہیگا کب خوبان عالم میں غلط الزام ہے جگ میں کہ سب مصری کی ڈلیاں ہیں کل تو مست اس کیفیت سے تھا کہ آتے دیر سے بھر نظر جو مدرسہ دیکھا سو وہ مے خانہ تھا ساق سیمیں کو ترے دیکھ کے گوری گوری شمع مجلس میں ہوئی جاتی ہے تھوری تھوری اپنے کعبے کی بزرگی شیخ جو چاہے سو کر از روئے تاریخ تو بیش از صنم خانہ نہیں فارسی محاورے کو بھی دیکھنا چاہئے کہ کس خوبصورتی سے بول گئے ہیں۔ ہے مجھے فیض سخن اس کی ہی مداحی کا ذات پر جس کی مبرہن گنہ عزوجل بہت ہر ایک سے ٹکرا کے چلے تھے کالا ہو گیا دیکھ کے وہ زلف سیہ فام سفید خیال ان انکھڑیوں کا چھوڑ مت مرنے کے بعد از بھی دلا آیا جو تو اس مے کدے میں جام لیتا جا سودا تجھے کہتا ہے نہ خوباں سے مل اتنا تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا عاشق بھی نامراد ہیں پر اس قدر کے ہم دل کو گنوا کے بیٹھ رہے صبر کر کے ہم یہاں ردیف میں تصرف کیا ہے کہ ’’ ے‘‘ حدف ہو گئی ہے اسی طرح عاجز میں ’’ ع‘‘ حکیم کی ہجو میں کہتے ہیں۔ لکھ دیا مجنون کو شیر شتر کہہ دیا مستسقی سے جا فصد کر ایک کہانی میں لکھتے ہیں۔ قضا کار وہ والی نامدار ہوا درد قولنج سے بے قرار مرزا اکثر ہندی کے مضمون اور الفاظ نہایت خفیف طور پر تضمین کر کے زبان ہند کی اصلیت کا حق ادا کرتے تھے۔ اس لطف میں یہ اور سید انشاء شامل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ترکش الینڈ سینہ عالم کا چھان مارا مژگاں نے تیرے پیارے ارجن کا بان مارا محبت کے کروں بھج بل کی میں تعریف کیا یارو ستم پر بت ہو تو اس کو اٹھا لیتا ہے جوں رائی نہیں ہے گھر کوئی ایسا جہاں اس کو نہ دیکھا ہو کنہیا سے نہیں کچھ کم صنم میرا وہ ہرجائی ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے بوندی کے جمدھروں سے وہ بھڑتے ہیں ہمدگر لڑکے مجھ آنسوؤں کے غضب منکرے ہوئے اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوج اشک لخت جگر کی لاش کو آگے دھرے ہوئے مرزا خود الفاظ تراشتے تھے اور اس خوبصورتی سے تراشتے تھے کہ مقبول خاص و عام ہوتے تھے۔ آصف الدولہ مرحوم کی تعریف میں ایک قصیدہ کہا ہے، چند شعر اس کے لکھتا ہوں۔ مضامین ہندی کے ساتھ الفاظ کی خوبصورت تراش کا لطف دیکھو۔ تیرے سائے تلے تو ہے وہ مہنت پشہ کر جائے دیو و دد سے لڑنت نام سن پیل کوہ پیکر کے بہ چلیں جوئے شیر ہو کر دنت سحر صولت کے سامنے تیرے سامری بھول جائے اپنی پڑھنت تیری ہیبت سے نہ فلک کے تلے کانپتی ہے زمین کے بیچ گڑنت تکلے کی طرح بل نکل جاوے تیرے آگے جو دو کرے اکڑنت دیکھ میدان میں اس کو روز نبرد منہ پہ رادن کے پھول جائے بسنت تکگ پا اگر سنے تیرے داب کر دم کھسک چلے ہنونت آوے بالفرض سامنے تیرے روز ہیجا کے سور یا ساونت تن کا ان کے زرہ میں ہوں یوں حال مرغ کی دام میں ہو جوں پھڑکنت اسی طرح باقی اشعار ہیں مرغ کی پھڑکنت جل کربھسمنت، تیر کی کمان سے سرکنت زمین میں کھدنت، گھوڑے کی کڑکنت اور ڈپننت، جودنت (مقابل) دبکنت (ڈر کر دبکنا) روباہ شیر کو سمجھتی ہے۔ کیا پشمنت، پخنت (بے فکر) روپیوں کی بکھرنت تاروں کی چھٹکنت، لپٹنت (لپٹنا) پڑھنت (پڑھنا)، کھٹنت (کھٹنا)، عام شعرائے ہندو ایران کی طرح سب تصنیفات ایک کلیات میں ہیں۔ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ کون سا کلام کس وقت کا ہے اور طبیعت نے وقت بوقت کس طرف میل کیا ہے۔ خصوصاً یہ کہ زبان میں کب کب کیا کیا اصلاح کی ہے۔ یہ اتفاقی موقع میر صاحب کو ہاتھ آیا کہ چھ دیوان الگ الگ لکھ گئے۔ متقدمین اور متاخرین کے کلاموں کے مقابلہ کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کے دفتر تصنیفات میں ردی بھی ہے اور وہ بہت ہے۔ چنانچہ جس طرح میر صاحب کے کلام میں بہتر72 نشتر بتاتے ہیں۔ ان کے زبردست کلام میں سے بہتر خنجر تیار کرتے ہیں اس رائے میں مجھے بھی شامل ہونا پڑتا ہے کہ بے شک جو کلام آج کی طرز کے موافق ہے۔ وہ ایسے مرتبہ عالی پر ہے جہاں ہماری تعریف کی پرواز نہیں پہنچ سکتی اور دل کی پوچھو تو جن اشعار کو پرانے محاوروں کے جرم میں ردی کرتے ہیں۔ آج کے ہزار محاورے ان پر قربان ہیں، سن لیجئے۔ گر کیجئے انصاف تو کی روز وفایں خط آتے ہی سب ٹل گئے اب آپ ہیں نا میں تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے ان کی لیکن ٹک ادھر دیکھیو اے یار بھلایں کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں استاد مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب سودا کے سامنے کوئی یہ شعر پڑھ دیتا تھا یا اپنی ہی زبان پر آ جاتا تھا تو وجد کیا کرتے تھے اور مزے لیتے تھے۔ اسی انداز کا ایک شعر نظیری کا یاد آ گیا۔ اگرچہ فارسی ہے مگر جی نہیں چاہتا کہ دوستوں کو لطف سے محروم رکھوں۔ بوئے یار من ازیں سست وفا می آید گلم از دست بگیرید کہ از کار شدم بہار سخن کے گلچینو! وہ ایک زمانہ تھا کہ ہندی بھاشا کی زمین جہاں دوہروں کا سبزہ خود روا گا ہوا تھا، وہاں نظم فارسی کی تخم ریزی ہوئی تھی۔ اس وقت فارسی کی بحروں میں شعر کہتا اور ادھر کے محاورات کو ادھر لینا اور فارسی مضامین کو ہندی لباس پہنانا ہی بڑا کمال تھا۔ اس صاحب ایجاد نے اپنے زور طبع اور قوت زبان سے صنعتوں اور فارسی کی ترکیبوں اور اچھوتے مضمونوں کو اس میں ترتیب دیا اور وہ خوبی پیدا کی کہ ایہام اور تجنیس و غیر صنائع لفظی جو ہندی دہروں کی بنیاد تھے۔ انہیں لوگ بھول گئے۔ ایسے زمانے کے کلام میں رطب دیا بس ہو تو تعجب کیا ہم اس الزام کا برا نہیں مانتے۔ اس وقت زمین سخن میں ایک ہی آفت تو نہ تھی۔ ادھر تو مشکلات مذکورہ ادھر پرانے لفظوں کا ایک جنگل جس کا کاٹنا کٹھن۔ پس کچھ اشخاص آئے کہ چند کیاریاں تراش کر تخم ریزی کر گئے۔ ان کے بعد والوں نے جنگل کو کاٹا۔ درختوں کو چھانٹا۔ چمن بندی کو پھیلایا۔ جوان کے پیچھے آئے۔ انہوں نے روش، خیاباں، دار بست، گلکاری نہال، گلبن سے باغ سجایا۔ غرض عہد بعہد اصلاحیں ہوتی رہیں اور آئندہ ہوتی رہیں گی۔ جس زبان کو آج ہم تکمیل جادوانی کا ہار پہنائے خوش بیٹھے ہیں۔ کیا یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟ کبھی نہیں ہم کس منہ سے اپنی زبان کا فخر کر سکتے ہیں۔ کیا دور گزشتہ کا سما بھول گئے؟ ذرا پھر کر دیکھو تو ان بزرگان متقدمین کا مجمع نظر آئے گا کہ محمد شاہی دربار کی کھڑکی دار پگڑیاں باندھے ہیں پچاس پچاس گز گھیر کے جامے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہاں اپنے کلام لے کر آؤ۔ جس زبان کو تم نئی تراش اور ایجاد اور اختراع کا خلعت پہناتے ہو کیا وہ اسے تسلیم کریں گے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ ہماری وضع کو سفلہ اور گفتگو کو چھیچھورا سمجھ کر منہ پھیر لیں گے۔ پھر ذرا سامنے دوربین لگاؤ۔ دیکھو ان تعلیم یافتہ لوگوں کا لین دین ڈوری آچکا ہے جو آئے گا اور ہم پر ہنستا چلا جائے گا۔ یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں مرزا قتیل چار شربت میں فرماتے ہیں۔ مرزا محمد رفیع سودا اور ریختہ پایہ ملا ظہوری رار و د غیر ازینکہ زبان ہر دو باہم تخالف وارد فرقے نتواں کرد مرزا قتیل مرحوم صاحب کمال شخص تھے۔ مجھ بے کمال نے ان کی تصنیفات سے بہت فائدے حاصل کیے۔ مگر ظہوری کی کیا غزلیں کیا قصائد دونوں استعاروں اور تشبیہوں کے پھندوں سے الجھا ہوا ریشم ہیں۔ سودا کی مشابہت ہے تو انوری سے ہے کہ محاورے اور زبان کا حاکم اور قصیدہ اور ہجو کا بادشاہ ہے۔ یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ تصوف جو ایشیا کی شاعری کی مرغوب نعمت ہے۔ اس میں مرزا پھیکے ہیں، وہ حصہ خواجہ میر درد کا ہے۔ کہتے ہیں کہ مرزا قصیدے کے بادشاہ ہیں۔ مگر غزل میں میر تقی کے برابر سوز و گداز نہیں یہ بات کچھ اصلیت رکھتی ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے بھی اس بات کے چرچے تھے۔ چنانچہ خود کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوب ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا یعنی دیکھو تو سہی غزل کچھ کم ہے۔ قدرت اللہ خاں قاسم بھی اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں۔ زعم بعضے آنکہ سرآمد شعرائے فصاحت آقا مرزا محمد رفیع سودا اور غزل گوئی بوئے نہ رسیدہ اما حق آنست کہ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است مرزا دریائیست بے کراں و میر نہر یست عظیم الشان در معلومات قواعد میر رابر مرزا برتری ست دور قوت شاعری مرزا رابر میر سروری۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ قصیدہ غزل مثنوی وغیرہ اقسام شعر میں کوچے کی راہ جدا جدا ہے۔ جس طرح قصیدے کے لیے شکوہ الفاظ اور بلندی مضامین چستی ترکیب وغیرہ لوازمات ہیں۔ اسی طرح غزل کے لیے عاشق معشوق کے خیالات عشقیہ ذکر وصل شکایت فراق، درد انگیزی اور الم ناک حالت، گفتگو ایسی بے تکلف و صاف صاف نرم نرم گویا وہی دونوں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ اس کے ادائے مضامین کے الفاظ بھی اور ہیں اور اس کی بحریں بھی خاص ہیں۔ میر صاحب کی طبیعت قدرتی درد خیز اور دل حسرت انگیز تھا کہ غزل کی جان ہے۔ اس لیے ان کی غزلیں ہی ہیں اور خاص خاص بحور و قوافی میں ہیں۔ مرزا کی طبیعت ہمہ رنگ اور ہمہ گیر، ذہن براق اور زبان مشاق رکھتے تھے۔ تو سن فکر ان کا منہ زور گھوڑے کی طرح جس طرف جاتا تھا رک نہ سکتا تھا۔ کوئی بحر اور کوئی قافیہ ان کے ہاتھ آئے تغزل کی خصوصیت نہیں رہتی تھی۔ جس برجستہ مضمون میں بندھ جائے بندھ لیتے تھے۔ بے شک ان کی غزلوں کے بھی اکثر شعر چستی اور درستی میں قصیدے کا رنگ دکھاتے ہیں۔ ایک دن لکھنو میں میر اور مرزا کے کلام پر دو شخصوں نے تکرار میں طول کھینچا۔ دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ انہیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ آپ فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں صاحب کمال ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام آہ ہے اور مرزا صاحب کا کلام واہ ہے۔ مثال میں میر صاحب کا شعر پڑھا۔ سرہانے میر کے آہستہ بولو ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے پھر مرزا کا شعر پڑھا۔ سودا کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے لطیفہ در لطیفہ: ان میں سے ایک شخص جو مرزا کے طرف دار تھے۔ وہ مرزا کے پاس بھی آئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ مرزا بھی میر صاحب کے شعر کو سن کر مسکرائے اور کہا شعر تو میر کا ہے مگر داد خواہی ان کی دوا معلوم ہوتی ہے۔ رسالہ عبرۃ الغافلین طبع شاعر کے لیے سیڑھی کا کام دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا فقط طبعی شاعر نہ تھے بلکہ اس فن کے اصول و فروع میں ماہر تھے۔ اس کی فارسی عبارت بھی زباندانی کے ساتھ ان کی شگفتگی اور شوخی طبع کا نمونہ ہے۔ اس کی تالیف ایک افسانہ ہے اور قابل سننے کے ہے۔ اس زمانے میں اشرف علی نام ایک شریف خاندانی شخص تھے۔ انہوں نے فارسی کے تذکروں اور استادوں کے دیوانوں میں سے 15 برس کی محنت میں ایک انتخاب مرتب کیا اور تصحیح کے لیے مرزا فاخر مکیں کے پاس لے گئے کہ ان دنوں فارسی کے شاعروں میں نامور وہی تھے انہوں نے کچھ انکار کچھ اقرار بہت سی تکرار کے بعد انتخاب مذکور کو رکھا اور دیکھنا شروع کیا مگر جا بجا استادوں کے اشعار کو کہیں بے معنی سمجھ کر کاٹ ڈالا کہیں تیغ اصلاح سے زخمی کر دیا۔ اشرف علی خاں صاحب کو جب یہ حال معلوم ہوا تو گئے اور بہت سے قیل و قال کے بعد انتخاب مذکور لے آئے۔ کتاب اصلاحوں سے چھلنی ہو گئی تھی۔ اس لیے بہت رنج ہوا۔ اسی عالم میں مرزا صاحب کے پاس لا کر سارا حال بیان کیا اور انصاف طلب ہوئے۔ ساتھ اس کے یہ بھی کہا کہ آپ اسے درست کر دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فارسی زبان کی مشق نہیں۔ اردو میں جو چند لفظ جوڑ لیتا ہوں، خدا جانے دلوں میں کیونکر قبولیت کا خلعت پا لیا ہے۔ مرزا فاخر مکین فارسی دان اور فاری کے صاحب کمال ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہو گا۔ سمجھ کر کیا ہو گا۔ آپ کو اصلاح منظور ہے۔ تو شیخ علی حزیں مرحوم کے شاگرد شیخ آیت اللہ ثنا، میر شمس الدین فقیر کے شاگرد مرزا بھچوذرہ تخلص موجود ہیں۔ حکیم بو علی خاں ہاتف بنگالہ میں نظام الدین صانع بلگرامی فرخ آباد میں۔ شاہ نور العین واقف شاہجہان آباد میں ہیں، یہ ان لوگوں کے کام ہیں۔ جب مرزا صاحب نے ان نامور فارسی دانوں کے نام لیے تو اشرف علی خاں نے کہا کہ ان لوگوں کو تو مرزا فاخر خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ غرض کہ ان کے اصرار سے مرزا نے انتخاب مذکور کو رکھ لیا۔د یکھا تو معلوم ہوا کہ جو جو باکمال سلف سے آج تک مسلم الثبوت چلے آتے ہیں۔ ان کے اشعار تمام زخمی تڑپتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر مرزا کو بھی رنج ہوا۔ بموجب صورت حال کے رسالہ عبرت الغافلین لکھا اورمرزا فاخر کی غلط فہمیوں کو اصول انشاء پردازی کے بموجب کماحقہ ظاہر کیا۔ ساتھ ان کے دیوان پر نظر ڈال کر اس کی غلطیاں بھی بیان کیں اور جہاں ہو سکا۔ اصلاح مناسب دی۔ مرزا فاخر کو بھی خبر ہوئی۔ بہت گھبرائے اور چاہا کہ زبانی پیاموں سے ان داغوں کو دھوئیں۔ چنانچہ بقا اللہ خاں کو گفتگو کے لیے بھیجا وہ مرزا فاخر کے شاگرد تھے، بڑے مشتاق اور باخبر شاعر تھے۔ مرزا اور ان سے خوب خوب گفتگوئیں رہیں اور مرزا فاخر کے بعض اشعار، جن کے اعتراضوں کی خبر اڑتے اڑتے ان تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ان پر رد و قدح بھی ہوئی چنانچہ ایک شعر ان کا تھا۔ گرفتہ بود دریں بزم چوں قدح دل من شگفتہ رویے صہبا شگفتہ کرد مرا مرزا کو اعتراض تھا کہ قدح کو گرفتہ دل کہنا بے جا ہے۔ اہل انشا نے ہمیشہ قدح کو کھلے پھول سے تشبیہ دی ہے۔ یا ہنسی سے کہ اسے بھی شگفتگی لازم ہے۔ بقا نے جواب میں شاگردی کا پسینہ بہت بہایا اور اخیر کو باذل کا ایک شعر بھی سند میں لائے۔ چہ نشاط بادہ بخشد بمن خراب بے تو بہ دل گرفتہ ماند قدح شراب بے تو مرزا رفیع سن کر بہت ہنسے اور کہا اپنے استاد سے کہنا کہ استادوں کے شعروں کو دیکھا کرو تو سمجھا بھی کرو۔ یہ شعر تو میرے اعتراض کی تائید کرتا ہے۔ یعنی باوجودیکہ پیالہ ہنسی اور شگفتگی میں ضرب المثل ہے اور پیالہ شراب سامان نشاط ہے۔ مگر وہ بھی دل افسردہ کا حکم رکھتا ہے۔ غرض جب یہ تدبیر پیش نہ کی گئی تو مرزا فاخر نے اور راہ لی۔ شاگرد لکھنو میں بہت تھے۔ خصوصاً شیخ زادے کہ ایک زمانے میں وہی ملک اودھ کے حاکم بنے ہوئے تھے اور سینہ زوری اور سرشوری کے بخارا بھی تک دماغوں سے گئے نہ تھے۔ ایک دن سودا تو بے خبر گھر میں بیٹھے تھے، وہ بلوا کر کے چڑھ آئے۔ مرزا کے پیٹ پر چھری رکھ دی اور کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سب لو اور ہمارے استاد کے سامنے چل کر فیصلہ کرو۔ مرزا کو مضامین کے گل پھول اور باتوں کے طوطے مینا تو بہت بناتے آتے تھے مگر یہ مضمون ہی نیا تھا سب باتیں بھول گئے۔ گرد وہ لشکر شیطان تھا۔ یہ بیچ میں تھے چوک میں پہنچے تو انہوں نے چاہا کہ یہاں انہیں بے عزت کیجئے۔ کچھ تکرار کر کے پھر جھگڑنے لگے۔ مگر جسے خدا عزت دے، اسے کون بے عزت کر سکتا ہے؟ اتفاقاً سعادت علی خاں کی سواری آ نکلی۔ مجمع دیکھ کر ٹھہر گئے اور حال دریافت کر کے سودا کو اپنے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر لے گئے۔ آصف الدولہ سرا میں دستر خوان پر تھے۔ سعادت علی خاں اندر گئے اور کہا بھائی صاحب بڑا غضب ہے آپ کی حکومت اور شہر میں یہ قیامت! آصف الدولہ نے کہا کیوں بھئی خیر باشد انہوں نے کہا مرزا رفیع جس کو باوا جان نے برادر من مشفق مہربان کہہ کر خط لکھا۔ آرزوئیں کر کے بلایا اور وہ نہ آیا آج وہ یہاں موجود ہے اور اس حالت میں ہے کہ اگر اس وقت میں نہ پہنچتا تو شہر کے بدمعاشوں نے اس بے چارے کو بے حرمت کر ڈالا تھا۔ پھر سارا ماجرا بیان کیا۔ آصف الدولہ فرشتہ خصال گھبرا کر بولے کہ بھئی مرزا فاخر نے ایسا کیا تو مرزا کو کیا گویا ہم کو بے عزت کیا۔ باوا جان نے انہیں بھائی لکھا تو وہ ہمارے چچا ہوئے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ اس میں کیا شبہ ہے۔ اسی وقت باہر نکل آئے ۔ سارا حال سنایا بہت غصے ہوئے اور حکم دیا کہ شیخ زادوں کا محلے کا محلہ کھڑوا کر پھینک دو اور شہر سے نکلوا دو۔ مرزا فاخر کو جس حال میں ہو اسی حال سے حاضر کرو۔ سودا کی نیک نیتی دیکھنی چاہیے۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ جناب عالی! ہم لوگوں کی لڑائی کا غلہ قلم کے میدان میں آپ ہی فیصل ہو جاتی ہے۔ حضور اس میں مداخلت نہ فرمائیں۔ غلام کی بدنامی ہے، جتنی مدد حضور کے اقبال سے پہنچی ہے وہی کافی ہے۔ غرض مرزا رفیع با عزاز و اکرام وہاں سے رخصت ہوئے۔ نواب نے احتیاطاً سپاہی ساتھ کر دئیے۔ حریفوں کو جب یہ راز کھلا تو امرائے دربار کے پاس دوڑے۔ صلاح ٹھہری کہ معاملہ روپیہ یا جاگیر کا نہیں۔ تم سب مرزا فاخر کو ساتھ لے کر مرزا رفیع کے پاس چلے جاؤ اور خطا معاف کروا لو۔ دوسرے دن آصف الدولہ نے سردربار مرزا فاخر کو بھی بلایا اور کہا تمہاری طرف سے بہت نازیبا حرکت ہوئی اگر شعر کے مرد میدان ہو تو اب روبرو سودا کے ہجو کہو۔ مرزا فاخر نے کہا ایں از مانمے آید۔ آصف الدولہ نے بگڑ کر کہا۔ درست ایں از شمانمے آید، ایں مے آید کہ شیاطین خودرا ابر سر میرزائے بے چارہ فرستادید از خانہ ببازارش کشید ندومے خواستند آبرویش بخاک ریزند پھر سودا کی طرف اشارہ کیا یہاں کیا دیر تھی۔ فی البدیہہ رباعی پڑھی تو فخر خراسانی وفا ساقط ازد گوہر بدہاں داری رہا ساقط ازد روزاں و شباں ز حق تعالیٰ خواہم مرکب و ہدت خدا دبا ساقط ازد یہ جھگڑا تو رفع ہوا مگر دور دور سے ہجوؤں میں چوٹیں چلتی رہیں۔لطف یہ ہے کہ مرزا فاخر کی کہی ہوئی ہجویں کوئی جانتا بھی نہیں، سودا نے جو کچھ ان کے حق میں کہا وہ ہزاروں کی زبان پر ہے۔ مرزا فاخر مکین: اصل میں کشمیری تھے۔ اول قنوت حسین خاں کشمیری سے اصلاح لیتے تھے۔ پھر عظیمائے کشمیری کے شاگرد ہوئے۔ ان کے کمال میں کلام کی جگہ نہیں۔ صحت الفاظ اور تحقیق لغت میں بڑی کوشش کی۔ دیوان نے رواج نہیں پایا۔ مگر اشعار متفرق بیاضوں میں ہیں یا وہ مشہور ہیں کہ انہوں نے سودا کے حق میں کہے، سودا نے تضمین کر کے انہیں پر الٹ دئیے۔ کچھ اشعار سودا نے عبرۃ الغافلین میں اعتراضوں کی ذیل میں لکھے۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ کیفیت سے خالی نہ تھے۔ زمانے نے بھی پورا حق ان کی قدر دانی کا ادا کیا۔ سینکڑوں شاگرد غریب اور توانگر لکھنو اور اطراف میں ہو گئے۔ پیشہ تو کل تھا اور بے دماغی سے اسے رونق دیتے تھے۔ نقل:ـ مولوی غلام ضامن صاحب رتبے کے فاصل تھے۔ ایک دن غزل لے کر گئے کہ مجھے شاگرد کیجئے اور اصلاح فرمائیے۔ مرزا فاخر نے ٹال دیا۔ مولوی صاحب نے پھر کہا انہوں نے پھر انکار کیا اور کج خلقی کرنے لگے۔ جو عجز و انکسار کے حق تھے، سب مولوی صاحب نے ادا کیے۔ ایک نہ قبول ہوا۔ ناچار یہ شعر پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرزا مکین مانشود چوں بکین ما کین است جزو اعظم مرزا مکین ما یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتدا سودا کی طرف سے کم ہوتی تھی ۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا تو پھر یہ بھی حد سے پرے پہنچا دیتے تھے۔ چنانچہ میرضا حک مرحوم کے حال سے معلوم ہو گا آصف الدولہ ایک دفعہ شکار کو گئے۔ خبر آئی کہ نواب نے بھیلوں کے جنگل میں شیر مارا۔ وبا وجودیکہ ہمیشہ انعام و اکرام کے انباروں سے زیر بار تھے۔ مگر فوراً کہا یارو یہ ابن ملجم پیدا ہوا دوبارہ شیر خدا کو جس نے بھلیوں کے بن میں مارا نواب کو بھی خبر ہوئی۔ جب پھر کر آئے تو خود شکایت دوستانہ کے طور پر کہا کہ مرزا تم نے ہمیں کو شیر خدا کا قاتل بنایا؟ ہنس کر کہا جناب عالی! شیر تو اللہ ہی کا تھا نہ حضور کا، نہ فدی کا۔ لطیفہ: آصف الدولہ مرحوم کی انا کی لڑکی خروسال تھی۔ نواب فرشتہ سیرت کی طبیعت میں ایک تو عموماً تحمل اور بے پروائی تھی۔ دوسرے اس کی ماں کا دودھ پیا تھا۔ ناز برداری نے اس کی شوخی کو شرارت کر دیا ۔ ایک دن دوپہر کا وقت تھا۔ نواب سوئے تھے۔ ایسا غل مچایا کہ بد خواب ہو کر جاگ اٹھے۔ بہت جھنجھلائے اور خفا ہوتے ہوئے باہر نکل آئے۔ سب ڈر گئے کہ آج نواب کو غصہ آیا ہے، خدا خیر کرے۔ باہر آ کر حکم دیا کہ مرزا کو بلاؤ۔ مرزا اسی وقت حاضر ہوئے۔ فرمایا کہ بھئی مرزا! اس لڑکی نے مجھے بڑا حیران کیا ہے۔ تم اس کی ہجو کہہ دو۔ یہاں تو ہر وقت مصالحہ تیار تھا۔ اسی وقت قلمدان لے کر بیٹھے گئے اور مثنوی تیار کر دی کہ ایک شعر اس کا لکھتا ہوں۔ لڑکی وہ لڑکیوں میں جو کھیلے نہ کہ لونڈوں میں جا کے ڈنٹر پیلے بعض بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ دلی میں نالے پر ایک دکان میں بھٹیاری رہتی تھی۔ وہ آپ بھی لڑاکا تھی۔ مگر لڑکی اس سے بھی سوا چنچل ہوئی۔ آتے جاتے جب دیکھتے لڑتے ہی دیکھتے۔ ایک دن کچھ خیال آ گیا۔ اس پر یہ ہجو کہی تھی۔ لطیفہ: شیخ قائم علی ساکن اٹاوہ ایک طباع شاعر تھے۔ کمال اشتیاق سے مقبول نبی خاں، انعام اللہ خاں یقین کے بیٹے بار ادہ شاگردی ان کے پاس آئے اوراپنے اشعار سنائے۔ آپ نے پوچھا۔ تخلص کیا ہے۔ کہا امیدوار مسکرائے اور فرمایا۔ ہے فیض سے کسی کے شجران کا بار دار اس واسطے کیا ہے تخلص امیدوار بے چارے شرمندہ ہو کر چلے گئے۔ قائم تخلص اختیار کیا اور کسی اور کے شاگرد ہوئے۔ ان کی طبیعت میں شوخیاں تھیں۔ وہ حقیقت میں اتنی نہ تھیں جتنا انہیں لوگوں نے خطرناک بنا رکھا تھا۔ بے شک جوان سے لڑتا تھا، اسے خوب خراب کرتے تھے۔ مگر اخلاق و انصاف سے خالی نہ تھے۔ نقل: راسخ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے۔ بہت سنجیدہ کلام ہے ۔ پرانے مشاق تھے اور سب ادھر کے لوگ انہیں استاد مانتے تھے۔ مرزا کے پاس شاگرد ہونے کو آئے۔ مرزا نے کہا کہ کوئی شعر سنائیے۔ انہوں نے پڑھا۔ ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہے پلک پر اپنی آنسو صبح پیری کا ستارا ہے مرزا نے اٹھ کر گلے لگا لیا۔ ایسی ہی معاملہ جرات سے ہوا تھا۔ لطیفہ:ـ ایک دن میاں ہدایت ملاقات کو آئے بعد رسوم معمولی کے آپ نے پوچھا کہ فرمائیے میاں صاحب آج کل کیا شغل رہتا ہے۔ انہوں نے کہا افکار دنیا فرصت نہیں دیتے۔ طبیعت کو ایک مرض یاوہ گوئی کا لگا ہوا ہے۔ گاہے ماہے غزل کا اتفاق ہو جاتا ہے۔ مرزا ہنس کر بولے کہ غزل کیا کہنا۔ کوئی ہجو کہا کیجئے۔ بیچارے نے حیران ہو کر کہا کہ ہجو کس کی کہوں؟ آپ نے کہا کہ ہجو کو کیا چاہئے۔ تم میری ہجو کہو ۔ میں تمہاری ہجو کہوں۔ لطیفہ: ایک ولایتی نے کہ زمرہ اہل سیف میں معمر ملازم تھا۔ عجب تماشا کیا یعنی سودا نے اس کی ہجو کہی اور ایک محفل میں اس کے سامنے ہی پڑھنی شروع کر دی۔ ولایتی بیٹھا سنا کیا۔ جب ہجو ختم ہوئی اٹھ کر سامنے آ بیٹھا اور ان کی کمر پکڑ کر مسلسل و متواتر گالیوں کا جھاڑ باندھ دیا۔ انہیں بھی ایسا اتفاق آج تک نہ ہوا تھا۔ حیران ہو کر کہا کہ خیر باشد؟ جناب آغا اقسام ایں مقالات شایان شان سما نیست ولایتی نے پیش قبض کمر سے کھینچ کر ان کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا نظم خودت گفتی حالا ایں نثر را گوشن کن۔ ہر چہ تو گفتی نظم بود۔ نظم از ما نمے آید ما بہ نژاد کردیم۔ لطیفہ: سید انشاء کا عالم نوجوانی تھا۔ مشاعرے میں غزل پڑھی۔ جھڑ کی سہی ادا سہی چین جبیں سہی سب کچھ سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی جب یہ شعر پڑھا کہ گر نازنیں کہے سے برا مانتے ہو تم میری طرف تو دیکھیے میں نازنیں سہی سودا کا عالم پیری تھا۔ مشاعرے میں موجود تھے۔ مسکرا کر بولے دریں چہ شک نقل: ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی 12,13 برس کی عمر تھی۔ اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔ پوچھا یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا، حضرت یہ صاحبزادہ ہے۔ سودا نے بھی بہت تعریف کی۔ بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ میاں لڑکے جوان تو ہوتے نظر نہیں آتے۔ کدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔ جب فخر شعرائے ایران زمین شیخ علی حزیں دارد ہندوستان ہوئے۔ پوچھا کہ شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحب کمال ہے۔ لوگوں نے سودا کا نام لیا اور سودا خود ملاقات کو گئے۔ شیخ کی عالی دماغی اور نازک مزاجی شہرہ آفاق ہے۔ نام نشان پوچھ کر کہا کہ کچھ اپنا کلام سناؤ۔ سودا نے کہا۔ ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپھے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں شیخ نے کہا کہ تڑپھے چہ معنی دار؟ سودا نے کہا کہ اہل ہند طپیدن را تڑ پھنامے گویند۔ شیخ نے پھر شعر پڑھوایا اور زانو پر ہاتھ مار کر کہا کہ مرزا رفیع قیامت کر دی۔ یک مرغ قبلہ نما باقی بود آنرا ہم نگذاشتی۔ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بغل گیر ہو کر پاس بٹھایا مگر بعض اشخاص کی روایت ہے کہ شیخ نے کہا در پوچ گویان ہند بد نیستی۔ لطیفہ: خان آرزو کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا۔ سودا ان دنوں نوجوان تھے۔ مطلع پڑھا۔ آلودہ قطرات عرق دیکھ جبیں کو اختر پڑے جھانکیں ہیں فلک پر سے زمین کو یا تو لا علمی یا ان کی آتش بیانی کے ڈر سے کوئی نہ بولا مگر خان آرزو جن کی دایہ قابلیت کے دودھ سے مظہر، سودا، میر، درد وغیرہ نوجوانوں نے پرورش پائی ہے۔ انہوں نے فوراً یہ شعر پڑھا کہ قدسی کے مطلع پر اشارہ ہے۔ شعر سودا حدیث قدسی ہے چاہئے لکھ رکھیں فلک پہ ملک آلودہ قطرات عرق دیدہ جبیں را اختر ز فلک مے نگرد دردے زمیں را سودا بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے۔ خاں صاحب کے گلے سے لپٹ گئے اور اس شکریے کے ساتھ خوشی ظاہر کی گویا حقیقتاً خاں صاحب ان کے کلام کو مثل حدیث قدسی تسلیم کیاہے۔ ان کا ایک اور شعر ایسا ہی ہے۔ بہار پے سپر پام و یار گزرے ہے نسیم تیر سی سینے کے پار گزرے ہے فارسی میں کوئی استاد کہتا ہے بہار بے سپر جام دیار مے گزرد نسیم ہم چو خدنگ از کنار مے گزرد مگر اہل تحقیق کا قول ہے کہ ایسی صورت خاص کو سرقہ نہیں ترجمہ سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ شعر کو شعر ہی میں ترجمہ کرنا بھی ایک دشوار صنعت ہے۔ قطع نظر اس کے اسی مطلع کے بعد اور اشعار کو دیکھ کیا موتی پروئے ہیں اور کلیات ایک دریا ہے کہ اقسام جواہر سے بھرا ہوا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس رتبے کا شاعر ایک مطلع کا محتاج تھا۔ اس لیے چرا لیا ہے۔ ابو الفضل نے ایک مراسلے میں لکھا ہے۔ دلد الزنا ست حاسد منم آنکہ طالع من دلد الزنا کش آمد چو ستارہ یمانی یہ شعر قصائد نظامی میں موجود ہے اور اسی مضمون کو عربی میں متنبی کہتا ہے۔ وتنکر موتھم وانا سھیل طلعت لموت اولاد الزناء خود سوداسے زبان بزبان روایت پہنچی ہے کہ غزل فارسی کی ان کی ہجو میں مولوی ندرت کشمیری نے کہی اور مرزا نے اسے مخمس کر کے اسی پر الٹ دیا۔ اس کے مطلع پر خان آرزو نے مصرع لگا دئیے تھے۔ باقی تمام مخمص مرزا کا ہے۔ شعر ناموزوں سے تو بہتر ہے کہنار ریختہ کب کہا میں قتل کر مضمون کسی کا ریختہ بے حیائی ہے یہ کہنا سن کے میرا ریختہ خون معنی تا رفیع بادہ پیما ریختہ نقل: معتبر لوگوں سے سنا ہے کہ کسی شخص نے سودا سے پوچھا۔ بلبل مذکر ہے یا مونث؟ مسکرا کر بولے نوع انسان میں ایک ہو تو مرد سے عورت ہو جاتی ہے۔ لفظ کو دیکھو دو موجود ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ انہوں نے ایک جگہ مذکر بھی باندھا ہے۔ چنانچہ غزل ہے اثر لگا کہنے، چشم تر لگا کہنے۔ تار نظر لگا کہنے۔ اس میں کہتے ہیں کہ سنے ہے مرغ چمن کا تو نالہ اے صیاد بہار آنے کی بلبل خبر لگا کہنے اکثر اہل لکھنو اب مذکر باندھتے ہیں۔ چنانچہ سرور کا شعر ہے۔ کرے گا تو مرے نالوں کی ہمسری بلبل شعور اتنا تو کر جا کے جانور پیدا آتش سیر چمن کو چلیے بلبل پکارتے ہیں۔ رندع، جانور کا جو ہوا شوق تو پالے بلبل۔ مگر حق یہ ہے کہ اس وقت تک تذکیر و تانیث لفظوں کی مقرر نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے الفاظ ہیں کہ مرزا اور میر صاحب نے انہیں مذکر باندھا ہے۔ بعد ان کے سید انشا، جرات، مصحفی سے لے کر آج تک سب مونث باندھتے چلے آتے ہیں۔ چنانچہ میر صاحب کی طرح میرزائے موصوف بھی فرماتے ہیں۔ کہا طبیب نے احوال دیکھ کر میرا کہ سخت جان ہے سودا کا آہ کیا کیجئے بتاں کا دید میں کرتا ہوں شیخ جس دن سے حلال تب سے ہے مے مو بمو مرے دل پر کریں شمار بہم دل کے یار داغوں کا تو آ کہ سیر کریں آج دل کے باغوں کا ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا بسکہ پونچھوں ہوں میں اپنی چشم خوں آلود کا جامہ کا ہر ایک تختہ سیر ہے گلزار کا جب مرزا رفیع لڑکے تھے۔ اس وقت میر جعفر زٹل کا بڑھاپا تھا۔ اگلے وقتوں کے لوگ رنگین جریبیں جن پر نقاشی کا کام ہوتا تھا۔ اکثر ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔ ایک دن شام کے وقت میر موصوف ایک سبز رنگ جریب ٹیکتے ٹہلنے کو باہر نکلے۔ مرزا بغل میں کتابوں کا جزوان لیے سامنے سے آتے تھے اس زمانے میں ادب کی بڑی پابندی تھی۔ بزرگوں کو سلام کیا اور ان کی زبان سے دعا لینے کو بڑی نعمت سمجھتے تھے۔ مرزا نے جھک کر سلام کیا۔ انہوں نے خوش ہو کر دعا دی۔ چونکہ بچپن ہی میں مرزا کی موزونی طبع کا چرچا تھا۔ میر صاحب کچھ باتیں کرنے لگے۔مرزا ساتھ ہو لئے۔ انہوں نے نوخیز طبیعت کے بڑھانے کے لیے کہا کہ مرزا بھلا ایک مصرع پر مصرع تو لگاؤ۔ لالہ در باغ داغ چوں دارد؟ مرزا نے سوچ کر کہا عمر کوتا است غم فزوں دارد میر صاحب نے فرمایا واہ مرزا دن بھر کے بھوکے تھے کھا گئے۔ مرزا نے پھر کہا۔ از غم عشق سینہ خوں دارد میر صاحب نے فرمایا: واہ بھئی دل خون ہوتا ہے۔ جگر خون ہوتا ہے۔ بھلا سینہ کیا خون ہو گا۔ سینہ پر زخون ہوتا ہے۔ مرزا نے پھر ذرا فکر کیا اور کہا چہ کند سوزش دروں دارد میر صاحب نے کہا کہ ہاں مصرع تو ٹھیک ہے لیکن ذرا طبیعت پر زور دے کر کہو۔ مرزا دق ہو گئے تھے، جھٹ کہہ دیا۔ یک عصا سبز زیر۔۔۔ ۔دارد میر جعفر مرحوم ہنس پڑے اور جریب اٹھا کر کہا۔ کیوں! یہ ہم سے بھی؟ دیکھ کہوں کا تیرے باپ سے۔ بازی بازی بریش بابا ہم بازی۔ مرزا لڑکے تو تھے ہی بھاگ گئے۔ چند اشعار جن سے میر اور مرزا کے کلام میں امتیاز ہوتا ہے، لکھے جاتے ہیں۔ ان شعروں میں دونوں استادوں کی طبیعت برابر لڑی ہے۔ مگر دونوں کے انداز پر خیال کرو۔ ہمارے آگے تیرا جب کسی نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم ے تھام تھام لیا (میر) قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا صبا نے تیغ کا موج رواں سے کام لیا (سودا) کمال بندگی عشق ہے خداوندی کہ ایک زن نے مہ مصر سا غلام لیا گلہ میں جس سے کروں تیری بے وفائی کا جہاں میں نام نہ لے پھر وہ آشنائی کا (میر) گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا (سودا) دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفت دیں کو خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا (میر) برابری کا تری گل نے جب خیال کیا صبا نے مار طمانچہ منہ اس کا لال کیا (سودا) دل پہنچا ہلاکت کو بہت کھینچ کسالا لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ (میر) میں دشمن جاں ڈھونڈ کے اپنا جو نکالا سو حضرت دل سلمہ اللہ تعالیٰ (سودا) ایک محروم چلے میر ہمیں دنیا سے ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ (میر) سودا جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا جاتا ہوں ایک میں دل پر آرزو لیے (سودا) رات ساری تو کٹی سنتے پریشان گوئی میر جی کوئی گھڑی تو بھی تو آرام کرو (میر) سودا تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات اب آئی تحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی (سودا) ہوتی نہیں ہے صبح نہ آتی ہے مجھ کو نیند جس کو پکارتا ہوں وہ کہتا ہے مر کہیں (سودا) کفر کچھ چاہئے اسلام کی رونق کے لیے حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا (میر) ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی نہ ٹوٹے شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی (سودا) مت رنج کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا (میر) کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ یہ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا (سودا) نہ بھول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے نہیں ہے اعتبار اس کا یہ منہ دیکھے کی الفت ہے (میر) بگولے سے جسے آسیب اور صر صر سے زحمت ہے ہماری خاک یوں برباد ہو اے ابر رحمت ہے (سودا) چند مقالے اسی طرح کے جرات کے حال میں بھی ہیں۔ غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں دل کے پرزوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر کوئی تو بولو میاں منہ میں زباں ہے کہ نہیں پاس ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل ورنہ یاں کون سا انداز فغاں ہے کہ نہیں آگے شمشیر تمہاری کے بھلا یہ گردن موسے باریک تراے خوش کمراں ہے کہ نہیں پوچھا سودا سے میں اک روز کہ اے آوارہ تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا وہ کہنے کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں دیکھا میں قصر فرید دن کے اوپر اک شخص حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں سینے میں ہوا نالہ و پہلو میں دل آتش دھڑکے ہے پڑا دل کہ نہ ہو مشتعل آتش اشک آتش و خواں آتش و ہر لخت دل آتش آتش پہ برستی ہے پڑی متصل آتش یک لحظہ طرف ہو کے مرے دیدۂ دل سے نادم تو سمندر ہے سدا منفعل آتش یاقوت نہیں ہے وہ ترے لعل سے اے شوخ جا ڈوب موئی آگ میں ہو کر خجل آتش داغ آج سے رکھنا نہیں ان سنگدلوں کا مدت سے ہوتی ہے مری چھاتی پہ سل آتش دل عشق کے شعلے سے جو بھڑکا تو رہا کیا اے جان نکل جا کہ لگی متصل آتش یک قطرہ مے لے اڑی سودا کو جگہ سے باروت کے تودے کو ہے بس ایک تل آتش دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش یہ سبحہ فراموش وہ زنار فراموش دیکھا جو حرم کو تو نہیں دیر کی وسعت اس گھر کی فضا کر گیا معمار فراموش بھولے نہ کبھی دل سے میرا مصرع جانکاہ نالہ نہ کرے مرغ گرفتار فراموش دل سے نہ گئی آہ ہوس سیر چمن کی اور ہم نے کیا رخنہ دیوار فراموش یا نالہ ہی کر منع تو، یا گریہ کو ناصح دو چیز نہ عاشق سے ہو یک بار فراموش بھولا پھروں ہوں آپ کو اک عمر سے لیکن تجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار فراموش دل درد سے کس طرح مرا خالی ہو سودا وہ ناشنوا حرف میں گفتار فراموش جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو کوئی سیو کوئی مرہم کرو ہوا سو ہوا کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بیرحم یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا خدا کے واسطے آور گزر گنہ سے مرے نہ ہو گا پھر کبھو اے تند خو ہوا سو ہوا یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں کیونکر نہ چاک چاک گریبان دل کروں دیکھوں جو تیری زلف کو میں دست شانے میں زینت دلیل مفلسی ہے ٹک کماں کو دیکھ نقش و نگار چھٹ نہیں کچھ اس کے خانے میں اے مرغ دل سمجھ کے تو چشم طمع کو کھول تو نے سنا ہے دام جسے ہے وہ دانے میں چلے میں کھینچ کھینچ کیا قد کو جوں کماں تیر مراد پر نہ بٹھا یا نشانے میں پایا ہر ایک بات میں اپنے میں یوں تجھے معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں دست گرہ کشا کو نہ تزئیں کرے فلک مہندی بندھی نہ دیکھی میں انگشت شانے میں ہمسا تجھے تو ایک ہمیں تجھ سے ہیں کئی جا دیکھ لے تو آپ کو آئینہ خانے میں سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آورے وہ زلف سیہ اپنی اگر لہر پر آوے صورت ہمیں اس مہر کی پہچان اگر آوے ہر ذرے میں کچھ اور ہی جھمکا نظر آوے مجھ چشم سے اب تک نہیں آنے کا ناصح آوے بھی غم دل سے تو لخت جگر آوے پھرتا ہوں ترے واسطے میں در بدر اے یار تجھ سے نہ ہوا یہ کہ کبھو میرے گھر آوے گویا دل عاشق بھی ہے اک فیل سیہ مست رکتا نہیں روکے سے کسو کے جدھر آوے کہہ کہہ کے دکھ اپنا میں کیا مغز کو خالی اتنا نہ ہوا سن کے تری چشم پھر آوے شیشہ نہ کہے راز مرے دل کا تو اے جام سرگوشی سے اس کی نہ تری چشم بھر آوے کیا ہو جو قفس تک مرے اب صحن چمن سے دو برگ لیے گل کے نسیم سحر آوے سب کام نکلتے ہیں فلک تجھ سے ولیکن میرے دل ناشاد کی امید بر آوے جب پھونکئے ناقوس صنم خانہ دل شیخ کعبے کا ترے وجد میں دیوار و در آوے نامے کا جواب آنا تو معلوم ہے اب کاش قاصد کے بدو نیک کی مجھ تک خبر آوے میں بھی ہوں ضعیف اس قدر اے مور کہ وہ آب گزرے مرے سر سے جو ترے تا کمر آوے سب سے کہے دیتا ہوں یہ کہہ دیں کہ پھر آنا بالیں پہ مرے شور قیامت اگر آوے دیتا ہے کوئی مرغ دل اس شوخ کو سودا کیا قہر کیا تو نے غضب تیرے پر آوے اب لے تو گیا ہے پر اسے دیکھو نادان پل میں نہ اڑانا وہ اگر بال و پر آوے خوبوں میں دلد ہی کی روش کم بہت ہے یاں خواہان جاں جو چاہو تو عالم بہت ہے یاں غافل نہ رہ تو اہل تواضع کے حال سے تیغ و کماں کی طرح خم و چم بہت ہے یاں چشم ہوس اٹھا لے تماشے سے جوں حباب تا دیدنی کا دید بس اک دم بہت ہے یاں خون جگر بآدم و لوزینہ ہے بکاؤ صورت معاش خلق کی برہم بہت ہے یاں آنکھوں میں دوں اس آئینہ رو کو جگہ ولے ٹپکا کرے ہے بسکہ یہ گھر نم بہت ہے یاں کہتا ہے حال ماضی و مستقبل ایک ایک جام جہاں نما تو نہیں، جم بہت ہے یاں دیکھا جو باغ دہر تو مانند صبح و گل کم فرصتی ملاپ کی باہم بہت ہے یاں آیا ہوں تازہ دیں بحرم ثیخنا مجھے پوجنا نماز سے بھی مقدم بہت ہے یاں سودا کر اس سے دل کی تسلی کے واسطے گوشے سے چشم کے نگہ کم بہت ہے یاں ابراہیم علی خاں تذکرہ گلزار ابراہیمی میں کہتے ہیں کہ مرزا غلام حیدر مجذوب مرزا رفیع کے بیٹے ہیں اور اب کہ 1196ھ میں لکھنو میں رہتے ہیں۔ درستی فہم اور آشنا پرستی کے اوصاف سے موصوف ہیں۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ایک مغل بچہ خوش اخلاق جوان ہے۔ مرزا سودا کا متنبی ہے۔ سپاہ گری کے عالم میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے مربی کی شاگردی کا دم بھرتا ہے۔ عداوت سے تمہاری کچھ اگر ہووے تو میں جانوں بھلا تم زہر دے دیکھو اثر ہووے تو میں جانوں نہ اندیشے کرو پیارے کہ شب ہے وصل کی تھوڑی تم اپنی زلف کو کھولو سحر ہووے تو میں جانوں ہمارے تم سے جو عہد وفا ہوں ان کو تم جانو مرے پیماں میں کچھ نوع وگر ہووے تو میں جانوں ذرا تم مار کا کل کو مرے لب سے لگا دیکھو ہزاروں سانپ کاٹیں پھر اثر ہووے تو میں جانوں خوباں سے جو دل ملا کرے گا ڈرتا ہوں یہی کہ کیا کرے گا آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو بیمار یہ ایسا تو نہیں جس کو شفا ہو جور و جفا پہ یار کی دل مت نگاہ کر اپنی طرف سے ہووے جہاں تک نباہ کر خاک و خوں میں صورتیں کیا کیا نہ رلیاں دیکھیں اے فلک باتیں تیری کوئی نہ بھلیاں دیکھیاں آہ میں اپنی اثر ڈھونڈے ہے اے مجذوب تو بید مجنوں کی نہ شاخیں ہم نے پھلیاں دیکھیاں بس اب تیری تاثیر اے آہ دیکھی نہ آیا وہ کافر بہت راہ دیکھی خاموش جو اتنا ہوں مجھے گنگ نہ سمجھو اب عرض تمنا ہے کہ آ لب پہ اڑی ہے چاہوں مدد کسی سے نہ اغیار کے لیے میں بھی تو یار کم نہیں دو چار کے لیے طوبیٰ تلے میں بیٹھ کے روؤں گا بار بار جنت میں تیرے سایہ دیوار کے لیے ہے درد سر ہی بلبل آزاد کی صفیر موزوں ہے نالہ مرغ گرفتار کے لیے میر تقی مرحوم کی زبان سے ان کے باب میں کچھ الفاظ نکلے تھے۔ اس پر فرماتے ہیں۔ اے میر سمجھیو مت مجذوب کو اوروں سا ہے وہ خلف سودا اور اہل ہنر بھی ہے اشک آنکھ میں ہو عشق سے تاول میں غم رہے یہ گھر ہے وہ خراب کہ آتش میں نم رہے نکلے اگر قفس سے تو خاموش ہم صفیر صیاد نے سنا یہ ترا نہ تو ہم رہے ٭٭٭ میر ضاحک میر مرحوم کو سودا کے دیوان میں بہت مداخلت ہے اور ان کے سلسلہ اولاد میں بھی ایسے عالی رتبہ کمال پیدا ہوئے کہ خود صاحب طرز کہلائے اس لیے ابتدا سے دل چاہتا تھا کہ اس خانوادہ سیادت کا سلسلہ مسلسل لکھوں مگر پھول نہ ہاتھ آئے جو لڑی پروتا۔ اسی واسطے طبع اول میں مقصر رہا بے درد بے انصاف اصول فن سے بے خبر ہیں۔ کیا جانیں۔ انہیں اپنے مضامین اخباروں میں چمکانے کے لیے روشنائی ہاتھ آئی اور جہاں اور شکایتیں چھاپیں۔ ان میں ایک نمبر شمار یہ بھی بڑھایا۔ راقم آثم نے اطراف مشرقی اور خاص لکھنو میں بھی احباب کو لکھا۔ کہیں سے آواز نہ آئی۔ البتہ مولوی غلام محمد خاں تپش نے اس شفقت کے ساتھ جواب یاس دیا کہ دل مشقت تلاش سے رہا ہو گیا اب کہ طبع ثانی کا موقع ہے آرزوے قدیم پھر دل میں لہرائی۔ ناچار برسوں کے سوکھے مرجھائے پھول جو دل افسردہ کے طاق میں پڑے تھے۔ انہی کا سہرا بنا کر سادات عظام کے روضوں پر چڑھاتا ہوں۔ اور جس ابتداء تک دست آگاہی نے رسائی کی وہاں سے شروع کرتا ہوں۔ میر ضاحک مرحوم کا نام سید غلام حسین تھا۔ ان کے بزرگ ہرات سے آ کر پرانی دلی میں آباد ہوئے۔ خاندان سیادت ان کا سندی تھا۔ امامی ہردی کی اولاد میں تھے اور شاعری بھی گھرانے میں میراث چلی آتی تھی۔ میر موصوف نہایت خوش طبع شگفتہ مزاج خندہ جبیں ہنسنے اور ہنسانے والے تھے۔ اسی واسطے یہ تخلص اختیار کیا تھا۔ وضع اور لباس قدمائے دہلی کا پورا نمونہ تھا۔ سر پر سبز عمامہ بوضع عرب، بڑے گھیر کا پاجامہ، جبہ کہ وہ وہ بھی اکثر سبز ہوتا تھا گلے میں خاک پاک کا کنٹھا۔ داہنے ہاتھ میں ایک چڑی۔ اس میں کچھ کچھ دعائیں کندہ۔ چھنگلی بلکہ اور انگلیوں میں بھی کئی انگوٹھیاں۔ داڑھی کو مہندی لگاتے تھے۔ بہت بڑی نہ تھی مگر ریش بچہ منڈاتے تھے۔ کبھی کبھی ہاتھوں کو بھی مہندی ملتے تھے۔ میانہ قد، رنگ گورا۔ دیوان اب تک نظر سے نہیں گزرا۔ جس پر کچھ رائے ظاہر کی جائے۔ خواص میں جو کچھ شہرت ہے ان ہجووں کی بدولت ہے جو سودا نے ان کے حق میں کہیں۔ سلطنت کی تباہی نے ان سے بھی دلی چھڑوائی اور فیض آباد کو آباد کیا۔ سودا نے جوان کے حق میں گستاخی کی ہے اس کا سبب یہ ہوا کہ اول کسی موقع پر انہوں نے سودا کے حق میں کچھ فرمایا۔ سودا ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ بزرگ میں خورد۔ آپ سید، میں آپ کے جد کا غلام۔ عاصی اس قابل نہیں کہ آپ اس کے حق میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ ایسا نہ کیجئے کہ مجھ گنہگار کے منہ سے کچھ نکل جائے اور قیامت کے دن آپ کے جد کے سامنے رو سیاہ ہوں۔ تلامیذ الٰہی کے دماغ عالی ہوتے ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ نہیں بھئی یہ شاعری ہے اس میں خردی و بزرگی کیا۔ سودا آئیں تو کہاں جائیں۔ پھر جو کچھ انہوں نے کہا خدا نہ سنوائے۔ یہ بھی بزرگوں سے سنا کہ مرزا نے جو کچھ ان کی جناب میں یاوہ گوئی کی ہے۔ میر موصوف نے اس سے زیادہ خراب و خوار کیا تھا۔ لیکن وہ کلام عجیب طرح سے فنا ہوا۔ میر حسن مرحوم ان کے صاحب زادے سودا کے شاگرد تھے۔ میر ضاحک کا انتقال ہوا تو سودا فاتحہ کے لیے گئے اور دیوان اپنا ساتھ لیتے گئے۔ بعد رسم عزا پرسی کے اپنی یاوہ گوئی پر جو کہ اس مرحوم کے حق میں کی تھی۔ بہت سے عذر کیے اور کہا کہ سید مرحوم نے دنیا سے انتقال فرمایا۔ تم فرزند ہو جو کچھ اس روسیاہ سے گستاخی ہوئی معاف کرو بعد اس کے نوکر سے دیوان منگا کر جو ہجو یں ان کی کہی تھیں۔ سب چاک کر ڈالیں۔ میر حسن نے بمقتضائے علو حوصلہ و سعادت مندی اسی وقت دیوان باپ کا گھر سے منگایا اور جو ہجویں ان کی تھیں۔ وہ پھاڑ ڈالیں، لیکن چونکہ سودا کی تصنیف قلم سے نکلتے ہی بچے بچے کی زبان پر پھیل جاتی تھی۔ اس لیے سب قائم رہیں۔ ان کا کلام کہ اسی مجلد کے اندر تھا۔ مفقود ہو گیا۔ سودا کے دیوان میں میر ضاحک مرحوم کی یہ ہجو جب میں دیکھتا تھا۔ یا رب یہ دعا مانگتا ہے تجھ سے سکندر تو حیران ہوتا تھا کہ سکندر کا یہاں کیا کام؟ میر مہدی حسن فراغ کو خدا مغفرت کرے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن حسب معمول مرزا سلیمان شکوہ کے ہاں پائیں باغ میں تخت بچھے تھے۔ صاحب عالم خود مسند پر بیٹھے تھے۔ شرفا و شعراء کا مجمع تھا۔ مرزا رفیع اور میاں سکندر مرثیہ گو بھی موجود تھے کہ میر ضاحک تشریف لائے اور ان کی وضع اور لباس پر کہ ان دنوں میں بھی انگشت نما تھی۔ صاحب عالم مسکرائے میر صاحب آ کر بیٹھے۔ مزاج پرسی ہوئی۔ حقہ سامنے آیا۔ اتفاقاً صاحب عالم نے مرزا رفیع سے کہا کہ کچھ ارشاد فرمائیے (دونوں صاحبوں کے معاملات تو انہیں معلوم ہی تھے۔ خدا جانے چھیڑ منظور تھی یا اتفاقاً زبان سے نکلا )سودا نے کہا کہ میں نے تو ان دنوں میں کچھ نہیں کہا مرزا سکندر کی طرف اشارہ کیا کہ انہوں نے ایک مخمس کہا ہے صاحب عالم نے فرمایا کیا؟ سودا نے پہلا ہی بند پڑھا تھا کہ میر ضاحک مرحوم اٹھ کر میاں سکندر سے دست گریباں ہو گئے۔ سکندر بے چارے حیران کہ نہ واسطہ نہ سبب یہ کیا آفت آ گئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں صاحبوں کو الگ کیا۔ اور سودا کو دیکھئے تو کنارا کھڑے مسکرا رہے ہیں (یہ شان نزول ہے اس مخمس کی) ہر چند چاہا کہ ان کے جلسے اور باہمی گفتگو کے لطائف و ظرائف معلوم ہوں۔ کچھ نہ ہو تو چند غزلیں ہی پوری مل جائیں۔ کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ جب ان کے چراغ خاندان سید خورشید علی نفیس بھی شعاع توجہ سے دریغ فرمائیں تو غیروں سے کیا امید ہو۔ انہوں نے آزاد خاکسار کو آب حیات کی رسید سے شاداب نہ کیا۔ تشنہ بودم زدم تیغ چو آبم دادند در جواب لعل تو جوایم داند تاریخ وفات بھی نہ معلوم ہوئی۔ ممکن نہیں کہ باکمال صاحبزادے نے تاریخ نہ کہی ہو مگر آزاد کو کون بتائے۔ صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی 1196ھ میں کہتے ہیں کہ فیض آباد میں ہیں اور وارستگی سے گزران کرتے ہیں۔ جس تذکرے میں دیکھا ایک ہی شعر ان کا درج پایا۔ کیا دیجئے اصلاح خدائی کو وگرنہ کافی تھا ترا حسن اگر ماہ نہ ہوتا ٭٭٭ خواجہ میر درد درد تخلص، خواجہ میر نام، زبان اردو کے چار رکنوں میں سے ایک رکن یہ ہیں۔ سلسلہ مادری ان کا خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی سے ملتا ہے۔ خواجہ محمد ناصر عندلیب تخلص ان کے باپ تھے اور شاہ گلشن صاحب سے نسبت ارادت رکھتے تھے۔ خاندان ان کا دلی میں بباعث پیری و مریدی کے نہایت معزز اور معظم تھا۔ علوم رسمی سے آگاہ تھے۔ کئی مہینے مفتی دولت صاحب سے مثنوی کا درس حاصل کیا تھا۔ ملک کی بربادی سلطنت کی تباہی آئے دن کی غارت و تاراج کے سبب سے اکثر امراء و شرفاء کے گھرانے شہر چھوڑ چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے پائے استقال کو جنبش نہ آئی۔ اپنے اللہ پر توکل رکھا اور جو سجادہ بزرگوں نے بچھایا اسی پر بیٹھے رہے۔ جیسی نیت ویسی برکت خدا نے بھی نباہ دیا۔ دیوان اردو مختصر ہے۔ سوا غزلیات اور ترجیع بند اور رباعیوں کے اور کچھ نہیں قصائد و مثنوی وغیرہ کہ عادات شعرا کی ہے۔ انہوں نے نہیں لکھے۔ باوجود اس کے سودا اور میر تقی کی غزلوں پر جو غزلیں لکھی ہیں ہر گز ان سے کم نہیں ایک مختصر دیوان غزلیات فارسی کا بھی ہے۔ تصنیف کا شوق ان کی طبیعت میں خدا داد تھا۔ چنانچہ اول پندرہ برس کی عمر میں بحالت اعتکاف رسالہ اسرار صلوٰۃ تھا۔ انتیس برس کی عمر میں واردات درد نام ایک اور رسالہ اور اس کی شرح میں علم الکتاب ایک بڑا نسخہ تسخیر کیا کہ اس میں ایک سو گیارہ رسالے ہیں نالہ درد، آہ سرد، درد دل، سوز دل، شمع محفل وغیرہ جنہیں شائق تصوف نظر عظمت سے دیکھتے ہیں اور واقعات درد اور ایک رسالہ حرمت غنا میں ان سے یادگار ہے۔ چونکہ اس زمانے کے خاندانی خصوص اہل تصوف کو شاعری واجب تھی۔ اس واسطے ان کے والد کا بھی ایک دیوان مختصر مع اس کی شرح کے اور ایک رسالہ نالہ عندلیب موجود ہے۔ ان کے بھائی میاں سید محمد میر اثر تخلص کرتے تھے۔ وہ بھی صاحب دیوان تھے بلکہ مثنوی خواب و خیال ان کی مشہور ہے اور بہت اچھی لکھی ہے۔ خواجہ میر درد صاحب کی غزل سات شعر نو شعر کی ہوتی ہے۔ مگر انتخاب ہوتی ہے۔ خصوصاً چھوٹی چھوٹی بحروں میں جو اکثر غزلیں کہتے تھے۔ گویا تلواروں کی آب داری نشتر میں بھی دیتے تھے۔ خیالات ان کے سنجیدہ اور متین تھے۔ کسی کی ہجو سے زبان آلودہ نہیں ہوئی۔ تصوف جیسا انہوں نے کہا اردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا میر صاحب نے انہیں آدھا شاعر شمار کیا ہے۔ ان کے عہد کی زبان سننی چاہو، تو دیوان کو دیکھ لو، جو میر، مرزا کی زبان ہے وہی ان کی زبان ہے۔ زمانے کے کلام بموجب ان کے کلام میں بھی نت یعنی ہمیشہ اورٹک یعنی ذرا، تئیں یعنی کو، اور یہاں تئیں یعنی یہاں تک اور مجھ ساتھ یعنی میرے ساتھ اور ایدھر، کیدھر، جیدھر، نہیں بہ حذف ہ وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ چنانچہ درد کی تمہید میں میر اور سودا کے اشعار کے ساتھ کچھ اشعار ان کے بھی لکھے گئے ہیں۔ دو تین شعر نمونے کے طور پر یہاں بھی لکھتا ہوں۔ چلیے کہیں اس جاگہ کہ ہم تم ہوں اکیلے گوشہ نہ ملے گا کوئی میدان ملے گا جاگہ کے علاوہ اکثر جگہ کی کے اور ہے وغیرہ دب دب کر نکلتے ہیں۔ اک لحظہ اور بھی وہ اڑاتا چمن کا دید فرصت نہ دی زمانے نے اتنی شرار کو اس سے اعتراض مقصود نہیں وقت کی زبان یہی تھی۔ سید انشا نے بھی لکھا ہے کہ خواجہ میر اثر مرحوم مثنوی میں ایک جگہ وسا بھی کہہ گئے ہیں اور بڑے بھائی صاحب تلوار کو تروار کہا کرتے تھے۔ لیکن اس سے قطع نظر کر کے دیکھا جاتا ہے۔ تو بعض الفاظ پر تعجب آتا ہے۔ چنانچہ میر درد کی ایک پر زور غزل کا مطلع ہے۔ مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم سبھی مہمان تھے تو آپہی صاحب خانہ تھا گویا بت خانہ کو کثرت استعمال کے سبب سے ایک لفظ تصور کیا کہ دیر کے حکم میں ہو گیا ورنہ ظاہر ہے کہ یہ قافیہ صحیح نہیں اگلے وقتوں کے لوگ خوش اعتقاد بہت ہوتے تھے۔ اسی واسطے جو لوگ اللہ کے نام پر توکل کر کے بیٹھ رہتے تھے۔ ان کی سب سے اچھی گزر جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ خواجہ صاحب کو نوکری یا دلی سے باہر جانے کی ضرورت نہ ہوئی۔ دربار شاہی سے بزرگوں کی جاگیریں چلی آتی تھیں۔ امیر غریب خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ یہ بے فکر بیٹھے اللہ اللہ کرتے تھے۔ شاہ عالم بادشاہ نے خود ان کے ہاں آنا چاہا اور انہوں نے قبول نہ کیا۔ مگر ماہ بماہ ایک معمولی جلسہ اہل تصوف کا ہوتا تھا۔ اس میں بادشاہ بے اطلاع چلے آئے۔ اتفاقاً اس دن بادشاہ کے پاؤں میں درد تھا۔ بادشاہ نے عذر کیا کہ معاف کیجئے۔ عارضے سے معذور ہوں۔ انہوں نے کہا عارضہ تھا تو تکلیف کرنی کیا ضرور تھی۔ موسیقی میں اچھی مہارت تھی۔ بڑے بڑے باکمال گویے اپنی چیزیں بنظر اصلاح لا کر سنایا کرتے تھے۔ راگ ایک پر تاثیر چیز ہے۔ فلاسفہ یونان اور حکمائے سلف نے اسے شاخ ریاضی قرار دیا ہے۔ دل کو فرحت اور روح کو عروج دیتا ہے۔ اس واسطے اہل تصوف کے اکثر فرقوں نے اسے بھی عبادت میں شامل کیا ہے۔ چنانچہ معمول تھا کہ ہر مہینے کی دوسری اور 24 کو شہر کے بڑے بڑے کلاونت۔ ڈوم، گویے اور صاحب کمال اور اہل ذوق جمع ہوئے تھے اور معرفت کی چیزیں گاتے تھے۔ یہ دن ان کے کسی بزرگ کی وفات کے ہیں۔ محرم غم کا مہینا ہے۔ اس میں2کو بجائے گانے کے مرثیہ خوانی ہوتی تھی۔ مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب کا گھرانہ اور یہ خاندان ایک محلے میں رہتے تھے۔ ان کے والد مرحوم کے زمانے میں شاہ صاحب عالم طفولیت میں تھے۔ ایک دن اس جلسے میں چلے گئے اور خواجہ صاحب کے پاس جا بیٹھے۔ ان کی مرید بہت سی کنچنیاں بھی تھیں اور چونکہ اس وقت رخصت ہو اچاہتی تھیں۔ اس لیے سب سامنے حاضر تھیں باوجودیکہ مولوی صاحب اس وقت بچہ تھے۔ مگر ان کا تبسم اور طرز نظر دیکھ کر خواجہ صاحب اعتراض کو پا گئے اور کہا کہ فقیر کے نزدیک تو یہ سب ماں بہنیں ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ماں بہنوں کو عوام الناس میں لے کر بیٹھنا کیا مناسب ہے۔ خواجہ صاحب خاموش رہے۔ ان کے ہاں ایک صحبت خاص ہوتی تھی۔ اس میں خواجہ میر درد صاحب نالہ عندلیب یعنی اپنے والد کی تصنیفات اور اپنے کلام کچھ بیان کرتے تھے۔ ایک دن مرزا رفیع سے سر راہ ملاقات ہوئی۔ خواجہ صاحب نے تشریف لانے کے لیے فرمائش کی۔ مرزا نے کہا صاحب مجھے یہ نہیں بھاتا کہ سوکوے کائیں کائیں کریں اور بیچ میں ایک پدا بیٹھ کر چوں چوں کرے اس زمانے کے بزرگ ایسے صاحب کمالوں کی بات کا تحمل اور برداشت کرنا لازمہ بزرگی سمجھتے تھے۔ آپ مسکرا کر چپکے ہو رہے۔ مرزائے موصوف نے ایک قصیدہ نواب احمد علی خاں کی تعریف میں کہا ہے اور تمہید میں اکثر شعرا کا ذکر انہیں شوخیوں کے ساتھ کیا ہے۔ جو ان کے معمولی انداز ہیں۔ چنانچہ اسی کے ضمن میں کہتے ہیں۔ درد کس کس طرح بلاتے ہیں کر کے آواز منحنی و حزیں اور جو احمق ان کے سامع ہیں وبمبدم ان کو یوں کریں تحسین جیسے سبحان من یرانی پر لڑکے مکتب کے سب کہیں آمین کوئی پوچھے ذرا کہ عالم میں فخر کس چیز کا ہے ان کے تئیں شعر و تقطیع ان کے دیواں کی جمع ہوئے تو جیسے نقش نگیں اس میں بھی دیکھیے تو آخر کار یا توارد ہوا ہے یا تضمین اتنی کچھ شاعری یہ کرتے ہیں میخ در۔۔۔۔ آسمان و زمین خیر یہ شاعرانہ شوخیاں ہیں۔ ورنہ عام عظمت ان کی جو عالم پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کے اثر سے سودا کا دل بھی بے اثر نہ تھا۔ چنانچہ کہا ہے۔ سودا بدل کے قافیہ تو اس غزل کو لکھ اے بے ادب تو درد سے بس دوبدونہ ہو نقل: ایک شخص لکھنو سے دلی چلے۔ مرزا رفیع کے پاس گئے اور کہا کہ دلی جاتا ہوں کسی یار آشنا کو کچھ کہنا ہو تو کہہ دیجئے۔ مرزا بولے کہ بھائی میرا دلی میں کون ہے ہاں خواجہ میر درد کی طرف جانکلو تو سلام دینا۔ ذرا خیال کر کے دیکھو مرزا رفیع جیسے شخص کو دلی میں (دلی بھی اس زمانے کی دلی) کوئی آدمی معلوم نہ ہوا، الا وہ کیا کیا جواہر تھے اور کیاکیا جوہری۔ سبحان اللہ، استاد مرحوم نے کیا کیا موتی پروئے ہیں۔ دکھلائے ہم نے آنکھ سے لے کر جو در اشک قائل ہماری آنکھ کے سب جوہری ہوئے لطیفہ: خواجہ صاحب کا ایک شعر ہے۔ بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ بندہ گر آئے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ اسی مضمون کا شعر فارسی کا ہے۔ بسکہ در چشم و دلم ہر لحظہ اے یارم توئی ہر کہ آید در نظر از دور پندارم توئی جب یہ شعر شاعر نے جلسے میں پڑھا ملا شیدا ایک شوخ طبع، دہن دریدہ شاعر تھے انہوں نے کہا کہ اگر سگ در نظر آیا۔ شاعر نے کہا۔ پندارم توئی۔ مگر انصاف شرما ہے۔ خواجہ صاحب نے اپنے شعر میں اس پہلو کو خوب بچایا ہے۔ اے درد یہ درد جی کا کھونا نامعلوم جوں لالہ جگر سے داغ دھونا معلوم گلزار جہاں ہزار پھولے لیکن میرے دل کا شگفتہ ہونا معلوم شاہ حاتم کی رباعی بھی اسی مضمون میں لاجواب ہے۔ رباعی: ان سیم بروں کے ساتھ سونا معلوم قسمت میں لکھی ہے خاک سونا معلوم حاتم افسوس دی و امروز گزشت فردا کی رہی امید، سو نا معلوم میر تقی اور سودا اور مرزا جان جاناں مظہر ان کے ہمعصر تھے۔ قیام الدین قائم ان کا وہ شاگرد تھا جس پر استاد کو فخر کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہدایت اللہ خاں ہدایت ہوئے۔ کسی مرید با اعتقاد نے تاریخ کہی۔ حیف دنیا سے سدھارا وہ خدا کا محبوب غزلیات جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا جان سے ہو گئے بدن خالی جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا نالہ فریاد آہ اور زاری آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا ان لبوں نے نہ کی مسیحائی ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا زور عاشق مزاج ہے کوئی درد کو قصہ مختصر دیکھا ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا سب کے یاں تم ہوئے کرم فرما اس طرف کو کبھی گزر نہ کیا دیکھنے کو رہے ترستے ہم نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا تجھ سے ظالم کے پاس میں آیا جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا کتنے بندوں کو جان سے کھویا کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا آپ سے ہم گزر گئے کب کے کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا کون سا دل ہے جس میں خانہ خراب خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا سب کے جوہر نظر میں آئے درد بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا باوجودیکہ پرو بال نہ تھے آدم کے وہاں پہنچا کر فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا درد کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانے اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا کہ نہ ہنسنے میں رو دیا ہو گا اس نے قصداً بھی میرے نالے کو نہ سنا ہو گا گر سنا ہو گا دیکھئے غم سے اب کے جی میرا نہ بچے گا بچے گا کیا ہو گا دل زمانے کے ہاتھ سے سالم کوئی ہو گا کہ رہ گیا ہو گا حال مجھ غمزدہ کا جس تس نے جب سنا ہو گا رو دیا ہو گا دل کے پھر زخم تازہ ہوتے ہیں کہیں غنچہ کوئی کھلا ہو گا یک بیک نام لے اٹھا میرا جی میں کیا اس کے آ گیا ہو گا میرے نالوں پہ کوئی دنیا میں بن کیے آہ کم رہا ہو گا لیکن اس کو اثر خدا جانے نہ ہوا ہو گا یا ہوا ہو گا قتل سے میرے وہ جو باز رہا کسی بد خواہ نے کہا ہو گا دل بھی اے درد قطرہ خوں تھا آنسوؤں میں کہیں گرا ہو گا مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے خدا جانے کیا ہو گا انجام اس کا میں بے صبر اتنا ہوں وہ تندخو ہے تمنا ہے تیری اگر ہے تمنا تری آرزو ہے اگر آرزو ہے کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے کسو کو کسو طرح عزت ہے جگ میں مجھے اپنے رونے سے ہی آبرو ہے غنیمت ہے یہ دید وا دید یاراں جہاں مند گئی آنکھ، میں ہوں نہ تو ہے نظر میرے دل کی پڑی درد کس پر جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا ایک دم آئے ادھر اودھر چلے آہ بس مت جی جلا تب جانیے جب ترا افسوں کوئی اس پر چلے شمع کی مانند ہم اس بزم میں چشم تر آئے تھے دامن تر چلے ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے شیخ صاحب چھوڑ گھر باہے چلے ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے جوں شرر ہے ہستی بے بودیاں بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے ساقیا لگ رہا ہے چل چلاؤ جب تلک بس چل سکے ساغر چلے درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے تجھ سوا بھی جہان میں ہے دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے بے خبر تیغ یار کہتی ہے باقی اس نیم جان میں کچھ ہے ان دنوں کچھ عجب ہے دل کا حال دیکھتا کچھ ہے دھیان میں کچھ ہے درد جو تو کرے ہے جی کا زیاں فائدہ اس کا زیان میں کچھ ہے؟ گلیم بخت سیہ سایہ دار رکھتے ہیں یہی بساط میں ہم خاکسار رکھتے ہیں بسان کاغذ آتش زدہ مرے گلرو ترے جلے بھنے اور ہی بہار رکھتے ہیں یہ کس نے ہم سے کیا وعدہ ہم آغوشی کہ مثل بحر سرا سر کنار رکھتے ہیں ہمیشہ فتح نصیبی ہمیں نصیب رہی جو کچھ کہ اپجی ہے جی میں سومار رکھتے ہیں بلا ہے نشہ دنیا کہ تا قیامت آہ سب اہل قبر اسی کا خمار رکھتے ہیں جہاں کے باغ سے ہم دل سوا نہ پھل پایا فقط یہی ثمر داغ دار رکھتے ہیں اگرچہ دختر رز کے ہے محتسب در پے جو ہو سو ہو پر اسے اب تو یار رکھتے ہیں ہر ایک شعلہ غم عشق ہم سے روشن ہے کہ بے قراری کو ہم برقرار رکھتے ہیں ہمارے پاس ہے کیا جو کریں فدا تجھ پر مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں فلک سمجھ تو سہی ہم سے اور گلو گیری یہ ایک جیب ہے سو تار تار رکھتے ہیں بتوں کے جور اٹھائے ہزار ہا ہم نے جو اس پہ بھی نہ ملیں، اختیار رکھتے ہیں بھری ہے آ کے جنہوں میں ہوائے آزادی جباب وار کلہ بھی اتار رکھتے ہیں نہ برق ہیں نہ شرر ہم نہ شعلہ نے سیماب وہ کچھ ہیں پر کہ سدا اضطرار رکھتے ہیں جنہوں کے دل میں جگہ کی ہے نقش عبرت نے سدا نظر میں وہ لوح مزار رکھتے ہیں ہر ایک سنگ میں ہے شوخی بتاں پنہاں خنک یہ سب ہیں پہ دل میں شرار رکھتے ہیں وہ زندگی کی طرح ایک دم نہیں رہتا اگرچہ درد اسے ہم ہزار رکھتے ہیں رباعی: پیدا کرے ہر چند تقدس بندہ مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل بر کندہ جنت میں بھی اکل و شرب سے نہیں ہے نجات دوزخ کا بہشت میں بھی ہو گا دھندہ ٭٭٭ سید محمد میر سوز سوز تخلص سید محمد میر نام۔ وہی شخص ہیں جنہیں میر تقی نے پاؤ شاعر مانا ہے۔ پرانی دلی میں قرا دل پورہ ایک محلہ تھا۔ وہاں رہتے تھے مگر اصلی وطن بزرگوں کا بخارا تھا۔ باپ ان کے سید ضیاء الدین بہت بزرگ شخص تھے۔ تیر اندازی میں صاحب کمال مشہور تھے اور حضرت قطب عالم گجراتی کی اولاد میں تھے۔ سوز مرحوم پہلے میر تخلص کرتے تھے۔ جب میر تقی مرحوم میر کے تخلص سے عالمگیر ہوئے تو انہوں نے سوز اختیار کیا۔ چنانچہ ایک شعر میں دونوں تخلصوں کا اشارہ کرتے ہیں۔ کہتے تھے پہلے میر میر تب نہ موئے ہزار حیف اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو جو کچھ حال ان کا بزرگوں سے سنا یا تذکروں میں دیکھا۔ اس کی تصدیق ان کا کلام کرتا ہے۔ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبع موزوں کے آئینے کو جس طرح فصاحت نے صفائی سے جلا کی تھی، اسی طرح ظرافت اور خوش طبعی نے اس میں جوہر پیدا کیا تھا۔ ساتھ اس کے جس قدر نیکی و نیک ذاتی نے عزت دی تھی۔ اس سے زیادہ وسعت اخلاق اور شیریں کلامی نے ہر دلعزیز کیا تھا اور خاکساری نے جب جوہروں کو زیادہ تر چمکایا تھا۔ آزادگی کے ساتھ وضعداری بھی ضرور تھی۔ جس کا نتیجہ تھا کہ باوجود مفلسی کے ہمیشہ مسند عزت پر صاحب تمکین اور امراء اور رؤسا کے پہلو نشین رہے اور اسی میں معیشت کا گزارہ تھا۔ شاہ عالم کے زمانے میں جب اہل دہلی کی تباہی حد سے گزر گئی تو 1191ھ میں لباس فقیری اختیار کیا اور لکھنو چلے گئے۔ مگر وہاں سے 1212ھ میں ناکام مرشد آباد گئے۔ یہاں بھی نصیب نے یاوری نہ کی۔ پھر لکھنو میں آئے۔ اب قسمت رجوع ہوئی اور نواب آصف الدولہ ان کے شاگرد ہوئے چند روز آرام سے گزرے تھے کہ خود دنیا سے گزر گئے نواب کی غزلوں کو دیکھو انہیں کا انداز ہے۔ صاحب تذکرہ گلزار ابراہیمی لکھتے ہیں۔ اب کہ 1196ھ ہیں، میر موصوف لکھنو میں ہیں۔ اب تک ان سید والا تبار سے راقم آثم کی ملاقات نہیں ہوئی۔ مگر اسی برس میں کچھ اپنے شعر اور چند فقرے نثر کے اس خاکسار کو بھیجے ہیں۔ میر سوز شخصے ست کہ ہچکس را از حلاوتے جز سکوت وا کراہ حاصل نہ شود۔ ایں نیز قدرت کمال الٰہی ست ہر یکے بلکہ خارو خسے نیست کہ بکار چند بیاید۔ س:ـ اگر منکرے سوال کند کہ ناکارہ محض بیا فتاد است ج: ایں ست کہ نامش سوختنی ست خط شفیعا اور نستعلیق خوب لکھتے تھے۔ ممالک ایران و خراسان وغیرہ میں قاعدہ ہے کہ جب شرفا ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں تو ہم لوگوں کی طرح خالی نہیں بیٹھتے مشق خط کیا کرتے ہیں۔ اسی واسطے علی العموم اکثر خوشنویس ہوتے ہیں۔ پہلے یہاں بھی دستور تھا۔ اب خوشنویسی تو بالائے طاق بد نویسی پر بھی حرف ہے۔ میر موصوف سواری میں شہسوار اور فنون سپاہ گری میں ماہر خصوصاً تیر اندازی میں قدر انداز تھے۔ ورزش کرتے تھے۔ اور طاقت خدا داد بھی اس قدر تھی کہ ہر ایک شخص ان کی کمان کو چڑھا نہ سکتا تھا۔ غرض1213ھ میں شہر لکھنو میں70برس کی عمر میں فوت ہوئے ان کے بیٹے شاعر تھے اور باپ کے تخلص کی رعایت سے داغ تخلص کرتے تھے۔ جوانی میں اپنے مرنے کا داغ دیا اور اس سے زیادہ افسوس یہ کہ کوئی غزل ان کی دستیاب نہ ہوئی۔ خود حسین تھے اور حسینوں کے دیکھنے والے تھے۔ آخر غم فراق میں جان دی۔ میر سوز مرحوم کی زبان عجب میٹھی زبان ہے اور حقیقت میں غزل کی جان ہے۔ چنانچہ غزلیں خود ہی کہے دیتی ہیں۔ ان کی انشاء پردازی کا حسن ، تکلف اور صناعی مصنوعی سے بالکل پاک ہے۔ اس خوشنمائی کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہری بھری ٹہنی پر کٹورا سا دھرا ہے اور سر سبز پتیوں میں اپنا اصلی جوبن دکھا رہا ہے۔ جن اہل نظر کو خدا نے نظر باز آنکھیں دی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک حسن خدا داد کے سامنے ہزاروں بناوٹ کے بناؤ سنگار قربان ہوا کرتے ہیں۔ البتہ غزل میں دو تین شعر کے بعد ایک آدھ پرانا لفظ ضرور کھٹک جاتا ہے۔ خیر اس سے قطع نظر کرنی چاہئے۔ فکر معقول بفر ما گل بے خار کجاست غزل، لغت میں عورتوں سے باتیں چپتیں ہیں اور اصطلاح میں یہ ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے ہجر یا وصل کے خیالات کو وسعت دے کر اس کے بیان سے دل کے ارمان یا غم کا بخار نکالے اور زبان بھی وہ ہو کہ گویا دونوں آمنے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ بس وہ کلام ان کا ہے۔ معشوق کو بجائے جانا کے فقط جان یا میاں میاں جان کہہ کر خطاب کرنا ان کا خاص محاورہ ہے۔ مجالس رنگین کی بعض مجلسوں سے اور ہمارے عہد سے پہلے کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام صفائی محاورہ اور لطف زبان کے باب میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔ ان کے شعر ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چہیتے عزیز سے باتیں کر رہا ہے۔ وہ اپنی محبت کی باتوں کو اس طرح باندھتے تھے کہ شعر کی موزونیت کے لیے لفظوں کا آگے پیچھے کرنا بھی گوارا نہ سمجھتے تھے۔ میر تقی کہیں کہیں ان کے قریب قریب آ جاتے ہیں۔ پھر بھی بہت فرق ہے۔ وہ بھی محاورہ خوب باندھتے تھے۔ مگر فارسی کو بہت نباہتے تھے اور مضامین بلند لاتے تھے۔ سودا بہت دور ہیں، کیونکہ مضامین کو تشبیہ و استعارہ کے رنگ میں غوطے دے کر محاورے میں ترکیب دیتے تھے اور اپنے زور شاعری سے لفظوں کو پس و پیش کر کے اس بندوبست کے ساتھ جڑتے تھے کہ لطف اس کادیکھے ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ میر سوز جیسے سیدھے سیدھے مضمون باندھتے تھے۔ ویسے ہی آسان آسان طرحیں بھی لیتے تھے۔ بلکہ اکثر ردیف چھوڑ کر قافیے ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ ان کے شعر کا قوام فقط محاورے کی چاشنی پر ہے۔ اضافت، تشبیہ، استعارہ، فارسی ترکیبیں ان کے کلام میں بہت کم ہے۔ ان لحاظوں سے انہیں گویا اردو غزل کا شیخ سعدی کہنا چاہیے اگر اس انداز پر زبان رہتی۔ یعنی فارسی کے رنگین رنگین خیال اس میں داخل نہ ہوتے اور قوت ایمانی کا مادہ اس میں زیادہ ہوتا تو آج ہمیں اس قدر دشواری نہ ہوتی۔ اب دہری مشکلیں ہیں اول یہ کہ رنگین استعارات اور مبالغے کے خیالات گویا مثل تکیہ کلام کے زبانوں پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ عادت چھڑائی چاہیے۔ پھر اس میں نئے انداز اور سادا خیالات کو داخل کرنا چاہئے کیوں کہ سالہا سال سے کہتے کہتے اور سنتے سنتے کہنے والوں کی زبان اور سننے والوں کے کان اس کے انداز سے ایسے آشنا ہو گئے ہیں کہ نہ سادگی میں لطف زبان کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ سننے والوں کو مزا دیتا ہے۔ زیادہ تر سود اور کچھ میر نے اس طریقے کو بدل کر استعاروں کو ہندی محاوروں کے ساتھ ملا کر ریختہ متین بنایا۔ اگر میر و سودا اور ان کی زبان میں فرق بیان کرنا ہو تو یہ کہہ دو کہ بہ نسبت عہد سودا کے دیوان میں اردو کا نوجوان چند سال چھوٹا ہے اور یہی امر با اعتبار مضمون اور کیا بلحاظ محاورہ قدیم ہر امر میں خیال کر لو۔ چنانچہ کو کہ علامت مفعول ہے لہو اور کبھو کا قافیہ بھی باندھ جاتے تھے۔ انہوں نے سوائے غزل کے اور کچھ نہیں کہا اور اس وقت تک اردو کی شاعری کی اتنی ہی بساط تھی۔ 12 سطر کے صفحے سے 300 صفحے کا کل دیوان ہے۔ اس میں سے 288 صفحہ غزلیات 12 صفحہ مثنوی رباعی، مخمس، باقی والسلام آغاز مثنوی کا یہ شعر ہے۔ دعویٰ بڑا ہے سوز کو اپنے کلام کا جو غور کیجئے تو ہے کوڑی کے کام کا نقل: ایک دن سودا کے ہاں میر سوز تشریف لائے۔ ان دنوں میں شیخ علی حزیں کی غزل کا چرچا تھا۔ جس کا مطلع یہ ہے۔ مے گرفتیم بجاناں سر راہے گاہے اوہم از لطف نہاں داشت نگاہے گاہے میر سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔ نہیں نکسے ہے مرے دل کی اپاہے گاہے اے فلک بہر خدا رخصت آہے گاہے مرزا سن کر بولے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا تو جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچارے ہنس کر چپکے ہو رہے۔ پھر مرزا نے خود اسی وقت مطلع کہہ کر پڑھا۔ نہیں جوں گل ہوس ابر سیا ہے گاہے کاہ ہوں خشک میں اے برق نگاہے گاہے میاں جرات کی ان دنوں میں ابتدا تھی۔ خود جرات نہ کر سکے۔ ایک اور شخص نے کہا کہ حضرت! یہ بھی عرض کیا چاہتے ہیں۔ مرزا نے کہا۔ کیوں بھئی کیا؟ جرات نے پڑھا۔ سرسری ان سے ملاقات ہے گاہے گاہے صحبت غیر میں گاہے سر راہے گاہے سب نے تعریف کی اور مرزائے موصوف نے بھی تحسین و آفرین کے ساتھ پسند کیا اسی پر ایک اور مطلع یاد آیا ہے۔ چاہو ظفر کا کہو چاہو ذوق کا سمجھو۔ اس طرف بھی تمہیں لازم ہے نگاہے گاہے دمبدم لحظہ بہ لحظہ تمہیں گاہے گاہے نقل: کسی شخص نے ان سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ سوز گوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انہوں نے کہنے والے کا نام پوچھا اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرے میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوز مرحوم نے کہا خیر کچھ مضائقہ نہیں اب کے صحبت کے مشاعرے میں تم مجھ سے بر سر جلسہ یہی کرنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور با آواز بلند پوچھا۔ حضرت آپ کا تخلص کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ صاحب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر وہ میر تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوز تخلص کیا (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا) سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرے میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنو میں ہزاروں آدمی مشاعرے میں جمع ہوتے تھے۔ سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی۔ کئی کئی دفعہ کہوا کر سنا۔ ادھر شخص موصوف ادھر میر تقی صاحب دونوں چپ بیٹھے سنا کیے۔ انہوں نے علاوہ شاعری کے شعر خوانی کا ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا کہ جس سے کلام کا لطف دو چند ہو جاتا تھا۔ شعر کو اس طرح ادا کرتے تھے کہ خود مضمون کی صورت بن جاتے تھے اور لوگ بھی نقل اتارتے تھے مگر وہ بات کہاں؟ آواز درد ناک تھی شعر نہایت نرمی اور سوز و گداز سے پڑھتے تھے اور اس میں اعضاء سے بھی مدد لیتے تھے۔ مثلاً شمع کا مضمون باندھتے تو پڑھتے وقت ایک ہاتھ سے شمع اور دوسر ے کی اوٹ سے وہیں فانوس تیار کر کے بتاتے۔ بے دماغی یا ناراضی کا مضمون ہوتا تو خود بھی تیوری چڑھا کر وہیں بگڑ جاتے اور تم بھی خیال کر کے دیکھ لو ان کے اشعار اپنے پڑھنے کے لیے ضرور حرکات و انداز کے طالب ہیں۔ چنانچہ یہ قطعہ بھی ایک خاص موقع پر ہوا تھا اور عجیب انداز سے پڑھا گیا۔ گئے گھر سے جو ہم اپنے سویرے سلام اللہ خاں صاحب کے ڈیرے وہاں دیکھے کئی طفل پریرو ارے رے رے ارے رے رے ارے رے چوتھا مصرع پڑھتے پڑھتے وہیں زمین پر گر پڑے۔ گویا پری زادوں کو دیکھتے ہی دل بے قابو ہگ ای اور ایسے ہی نڈھال ہوئے کہ ارے رے رے کہتے کہتے غش کھا کر بے ہوش ہو گئے۔ ایک غزل میں قطعہ اس انداز سے سنایا تھا کہ سارے مشاعرے کے لوگ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ او مار سیاہ زلف سچ کہہ بتلا دے دل جہاں چھپا ہو کنڈلی تلے دیکھیو نہ ہووے کاٹا نہ ہفی؟ ترا برا ہو پہلے مرصع پر ڈرتے ڈرتے۔ بچ کر جھکے، گویا کنڈلی تلے دیکھنے کو جھکے ہیں اور جس وقت کہا۔ کاٹا نہ ہفی! بس دفعتاً ہاتھ کو چھاتی تلے مسوس کر، ایسے بے اختیار لوٹ گئے کہ لوگ گھبرا کر سنبھالنے کو کھڑے ہو گئے (صحیح افعی ہے، محاورے میں ہفی کہتے ہیں) نوازش ان کے شاگرد کا نام ہم لڑکپن میں سنا کرتے تھے اور کچھ کہتے تھے تو وہی اس انداز میں کہتے تھے۔ مرزا ارجب علی سرور صاحب فسانہ عجائب ان کے شاگرد تھے۔ مطلع سرد یوان سر دیوان پر اپنے جو بسم اللہ میں لکھتا بجائے مد بسم اللہ مد آہ میں لکھتا محو کو تیرے نہیں ہے کچھ خیال خوب وزشت ایک ہے اس کو ہوائے دوزخ و باغ بہشت حاجیو! طوف دل مستاں کرو تو کچھ ملے ورنہ کعبے میں دھرا کیا ہے بغیر از سنگ و خشت ناصحا گر یا رہنے ہم سے خفا تو تجھ کو کیا چین پیشانی ہی ہے اس کی ہماری سر نوشت سوز نے دامن جو ہیں پکڑا تو ووہیں چھین کر کہنے لاگا ان دنوں کچھ زور چل نکلا ہے ہشت بھلا رے عشق تیری شوکت و شان بھائی میرے تو اڑ گئے اوساں ایک ڈر تھا کہ جی بچے نہ بچے دوسرے غم نے کھائی میری جاں بس غم یار ایک دن دو دن اس سے زیادہ نہ ہو جیو مہمان نہ کہ بیٹھے ہو پاؤں پھیلا کر اپنے گھر جاؤ خانہ آباداں عارضی حسن پر نہ ہو مغرور میرے پیارے یہ گو ہے یہ میداں پھر ہے نے زلف و خال زیر زلف چار دن تو بھی کھیل لے چوگاں اور تو اور کہہ کے دو باتیں سوز کہلایا صاحب دیوان مرا جان جاتا ہے یارو بچا لو کلیجے میں کاٹنا گڑا ہے نکالو نہ بھائی، مجھے زندگانی نہ بھائی مجھے مار ڈالو مجھے مار ڈالو خدا کے لیے میرے اے ہم نشینو! وہ بانکا جو جاتا ہے اس کو بلا لو اگر وہ خفا ہو کے کچھ گالیاں دے تو دم کھا رہو کچھ نہ بولو نہ چالو نہ آوے اگر وہ تمہارے کہے سے تو منت کرو دھیرے دھیرے منا لو کہو ایک بندہ تمہارا مرے ہے اسے جان کندن سے چل کر بچا لو جلوں کی بری آہ ہوتی ہے پیارے تم اس سوز کی اپنے حق میں دعا لو ہوا دل کو میں کہتا کہتا دوانا پر اس بے خبر نے کہا کچھ نہ مانا کوئی دم تو بیٹھے ہر پاس میرے میاں میں بھی چلتا ہوں ٹک رہ کے جانا مجھے تو تمہاری خوشی چاہیے ہے تمہیں گو ہو منظور میرا کڑھانا گیا ایک دن اس کے کوچے میں ناگاہ لگا کہنے چل بھاگ رے پھر نہ آنا کہاں ڈھونڈوں ہے ہے کدھر جاؤں یا رب کہیں جاں کا پاتا نہیں میں ٹھکانا کہوں کس سے حکایت آشنا کی سنو صاحب یہ باتیں ہیں خدا کی دعا دی، تو لگا کہنے کہ در ہو سنی میں نے دعا تیری دعا کی کہا میں نے کہ کچھ خاطر میں ہو گا تمہارے ساتھ جو میں نے وفا کی گریباں میں ذرا منہ ڈال دیکھو کہ تم نے اس وفا پر ہم سے کیا کی تو کہتا ہے کہ بس بس چونچ کر بند وفا لایا ہے، دت تیری وفا کی عدم سے زندگی لائی تھی بہلا کہ دنیا جائے ہے اچھی فضا کی جنازہ دیکھتے ہی سن ہوا دل کہ ہے ظالم دغا کی رے دغا کی تجھے اے سوز کیا مشکل بنی ہے جو ڈھونڈے ہے سفارش اغنیا کی کوئی مشکل نہیں رہتی ہے مشکل محبت ہے اگر مشکل کشا کی دل کے ہاتھوں بہت خراب ہوا جل گیا بل گیا کباے ہوا اشک آنکھوں سے پل نہیں تھمتا کیا بلا دل ہے دل میں آب ہوا جن کو نت دیکھتے تھے اب ان کا دیکھنا بھی خیال و خواب ہوا یار اغیار ہو گیا ہیہات کیا زمانے کا انقلاب ہوا سارا دیوان زندگی دیکھا ایک مصرع نہ انتخاب ہوا سوز بے ہوش ہو گیا جب سے تیری صحبت سے باریاب ہوا عاشق ہوا، اسیر ہوا مبتلا ہوا کیا جانیے کہ دیکھتے ہی دل کو کیا ہوا سرمشق ظلم تو نے کیا مجھ کو واہ واہ تقصیر یہ ہوئی کہ ترا آشنا ہوا دل تھا بساط میں سوکوئی اس کو لے گیا اب کیا کروں گا اے مرے اللہ کیا ہوا پاتا نہیں سراغ کروں کس طرف تلاش دیوانہ دل کدھر کو گیا آہ کیا ہوا سنتے ہی سوز کی خبر مرگ خوش ہوا کہنے لگا کہ پنڈ تو چھوٹا بھلا ہوا آج اس رہ سے دل ربا گزرا جی پہ کیا جانیے کہ کیا گزرا آہ ظالم نے کچھ نہ مانی بات میں تو اپنا سا جی چلا گزرا اب تو آیا ربس خدا کو مان پچھلا شکوہ تھا سو گیا گزرا رات کو نیند ہے نہ دن کو چین ایسے جینے سے اے خدا گزرا سوز کے قتل پر کمر مت باندھ ایسا جانا ہے کیا گیا گزرا یار گر صاحب وفا ہوتا کیوں میاں جان! کیا مزا ہوتا ضبط سے میرے تھم رہا ہے سر شک ورنہ اب تک تو بہہ گیا ہوتا جان کے کیا کروں بیاں احسان یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا روٹھنا تب تجھے مناسب تھا جو تجھے میں نے کچھ کہا ہوتا ہاں میاں جانتا تو میری قدر جو کہیں تیرا دل لگا ہوتا ٭٭٭ بلبل کہیں نہ جائیو زنہار دیکھنا اپنے ہی من میں پھولے گی گلزار دیکھنا نازک ہے دل نہ ٹھیس لگانا اسے کہیں غم سے بھرا ہے اے مرے غمخوار دیکھنا شکوہ عبث ہے یار کے جوروں کا ہر گھڑی غیروں کے ساتھ شوق سے دیدار دیکھنا سودا کی بات بھول گئی سوز تجھ کو حیف جو کچھ خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا کچھ کہہ تو قاصد آتا ہے وہ ماہ الحمد للہ، الحمد للہ جھوٹے کے منہ میں آگے کہوں کیا استغفراللہ استغفراللہ یار آتا ہے ترے یار کی ایسی تیسی آزماتا ہے، ترے پیار کی ایسی تیسی ٭٭٭ میر محمد تقی میر میر تخلص، محمد تقی نام حلف میر عبداللہ شرفائے اکبر آباد سے تھے۔ سراج الدین علی خاں آرزو۔ زبان فارسی کے معتبر مصنف اور مسلم الثبوت محقق ہندوستان میں تھے۔ گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ میر صاحب کا ان سے دور کا رشتہ تھا اور تربیت کی نظر پائی تھی۔ عوام میں ان کے بھانجے مشہور ہیں۔ در حقیقت بیٹے میر عبداللہ کے تھے۔ مگر ان کی پہلی بی بی سے تھے۔ وہ مر گئیں تو خان آرزو کی ہمشیر سے شادی کی تھی۔ اس لیے سوتیلے بھانجے ہوئے۔ میر صاحب کو ابتدا سے شعر کا شوق تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد دلی میں آئے اور خان آرزو کے پاس انہوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی مگر خاں صاحب حنفی مذہب تھے اور میر صاحب شیعہ، اس پر نازک مزاجی غضب۔ غرض کسی مسئلے پر بگڑ کر الگ ہو گئے۔ بدنظر زمانے کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے امن شہرت کو ہوا میں اڑتے دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے ۔ چنانچہ ’’ تذکرہ شورش‘‘ میں لکھا ہے کہ خطاب سیادت انہیں شاعری کی درگاہ سے عطا ہوا ہے۔ کہن سال بزرگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ جب انہوں نے میر تخلص کیا تو ان کے والد نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ایک دن خواہ مخواہ سید ہو جاؤ گے۔ اس وقت اہوں نے خیال نہ کیا۔ رفتہ رفتہ ہو ہی گئے۔ سودا کا ایک قطعہ بھی سن رسیدہ لوگوں سے سنا ہے۔ مگر کلیات میں نہیں شاید اس میں یہی اشارہ ہو۔ بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کر کے میر کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر اخیر میں کہتے ہیں۔ میری کے اب تو سارے مصالح ہیں مستعد بیٹا تو گند نابنے اور آپ کوتھ میر پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی و غربت اور صبر و قناعت تقویٰ و طہارت محضر بنا کر ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہئے اور زمانے کا کیا ہے کس کس کو کیا نہیں کہتا۔ اگر وہ سید نہ ہوتے تو خود کیوں کہتے۔ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی غرض ہر چند کہ تخلص ان کا میر تھا۔ مگر گنجفہ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے قدر دانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پھولوں کی مہک بنا کر اڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ نحوست اور فلاکت قدیم سے اہل کمال کے سر پر سایہ کیے ہیں۔ ساتھ اس کے میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انہیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارغ البالی سے محروم رکھا اور وہ وضعداری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ یہ الفاظ گستاخانہ جو زبان سے نکلے ہیں، راقم رو سیاہ ان کی روح پاک سے عفو قصور چاہتا ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ جو کچھ لکھا گیا فقط اس لیے ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں گزارا کرنا ہے۔ وہ دیکھیں کہ ایک صاحب جوہر کا جوہر یہ باتیں کیوں کر خاک میں ملا دیتی ہیں۔ چنانچہ انہی کے حالات و مقالات عنقریب اس بیان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ دلی میں شاہ عالم کا دربار اور امراؤ شرفا کی محفلوں میں ادب ہر وقت ان کے لیے جگہ خالی کرتا تھا اور ان کے جوہر کمال اور نیکی اطوار اعمال کے سبب سے سب عصمت کرتے تھے۔ مگر خالی آدابوں سے خاندان تو نہیں پل سکتے اور وہاں تو خود خزانہ سلطنت خالی پڑا تھا۔ اس لیے 1190ھ میں دلی چھوڑنی پڑی۔ جب لکھنو چلے تو ساری گاڑی کاکرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چین بجیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے۔ مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے۔ باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ لکھنو میں پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ کھڑکی دار پگڑی پچاس گز کے گھیر کا جامہ ایک پوران تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹڑی دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائچے۔ ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک۔ کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار۔ دوسری طرف کٹار۔ ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنو۔ نئے انداز نئی تراشیں۔ بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ میر صاحب بے چارے غریب الوطن، زمانے کے ساتھ ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھے گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہاں ہے۔ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا۔ کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میر صاحب تشریف لائے رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کر دیا۔ عظمت و اعزاز جوہر کمال کے خادم ہیں، اگرچہ انہوں نے لکھنو میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مگر انہوں نے بد دماغی او رنازک مزاجی کے جوان کے ذاتی مصاحب تھے، اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔ ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے، تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب ! ہماری غزل لائے! میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا جناب عالیٰ! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کر دے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا۔ خیر میر صاحب، جب طبیعت حاضر ہو گی کہہ دیجئے گا۔ ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوص کے کنارے کھڑے ہیں، ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بجیں ہوتے تھے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے۔ نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا آپ تو مچھلیوں سے کھیلتے ہیں متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب نے کہا جو شعر ہو گا آپ متوجہ کرے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ تر ناگوار گزری۔ غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے۔ نواب کی سواری سامنے سے آ گئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا۔ کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا بازار میں باتیں کرنا آداب شرفا نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور فقر و فاقہ میں گزارہ کرتے رہے۔ آخر 1225ھ میں فوت ہوئے اور سو برس کی عمر پائی۔ ناسخ نے تاریخ کہی کہ واویلا مردشہ شاعراں تصنیفات کی تفصیلات یہ ہے کہ چھ دیوان غزلوں کے ہیں چند صفحے ہیں۔ جن میں فارسی کے عمدہ متفرق شعروں پر اردو مصرعے لگا کر مثلث او رمربع کیا ہے اور یہ ایجاد ان کا ہے۔ رباعیاں، مستزاد چند صفحے۔ 4 قصیدے منقبت ہیں اور ایک نواب آصف الدولہ کی تعریف میں۔ چند مخمس اور ترجیع بند مناقب ہیں۔ چند مخمس شکایت زمانہ ہیں جن سے بعض اشخاص کی ہجو مطلوب ہے۔ دو واسوحت ایک ہفت بند ملا حسن کاشی کی طرز پر حضرت شاہ ولایت کی شان میں ہے۔ بہت سی مثنویاں جن کی تفصیل عنقریب واضح ہوتی ہے۔ تذکرہ نکات الشعراء شاعران اردو کے حال کا کہ اب بہت کمیاب ہے۔ ایک رسالہ مسمے بہ فیض میر۔ مصحفی اپنے تذکرہ فارسی میں لکھتے ہیں۔ دعوے شعر فارسی نہ وارد۔ مگر فارسیش ہم کم از ریختہ نیست، مے گفت کہ سالے ریختہ موقوف کردہ بودم۔ درآں حال دو ہزار شعر گفتہ تدوین کردم معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب کو تاریخ گوئی کا شوق نہ تھا علیٰ ہذا القیاس مرثیہ بھی دیوان میں نہیں۔ غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب و یابس سے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں اردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آتے ہیں کہ ستر اور دو بہتر نشتر ہیں۔ باقی میر صاحب کا تبرک ہے۔ لیکن یہ بہتر کی رقم فرضی ہے۔ کیونکہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سنا جاتا ہے کہ دیکھے یہ انہیں بہتر نشتروں میں سے ہے۔ انہوں نے زبان اور خیالات میں جس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی ہے۔ اتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غزل اصول غزیست کے لحاظ میں سودا سے بہتر ہے۔ ان کا صاف اور سلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دکھاتا ہے اور فکر کو بجائے کاہش کے لذت بخشتا ہے۔ اسی واسطے خواص میں معزز اور عوام میں ہر دلعزیز ہے۔ حقیقت میں یہ انداز میر سوز سے لیا۔ مگر ان کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں ہیں۔ انہوں نے اس میں مضمون داخل کیا اور گھریلو زبان کو متانت کا رنگ دے کر محفل کے قابل کیا۔ چونکہ مطالب کی دقت، مضامین کی بلند پردازی، الفاظ کی شان و شکوہ، بندش کی چستی لازمہ قصائد کا ہے، وہ طبیعت کی شگفتگی اور جوش و خروش کا ثمر ہوتا ہے۔ اسی واسطے میر صاحب کے قصیدے کم ہیں اور اسی قدر درجے میں بھی کم ہیں۔ انہوں نے طالب سخن پر روشن کر دیا ہے کہ قصیدے اور غزل کے دو میدانوں میں دن اور رات کا فرق ہے اور اسی منزل میں آ کر سودا اور میر کے کلام کا حال کھلتا ہے۔ امرا کی تعریف میں قصیدہ نہ کہنے کا یہ بھی سبب تھا کہ توکل اور قناعت انہیں بندے کی خوشامد کی اجازت نہ دیتے تھے یا خود پسندی اور خود بینی، جو انہیں اپنے میں آپ غرق کیے دیتی تھی، وہ زبان سے کسی کی تعریف نکلنے نہ دیتی تھی۔ چنانچہ کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں۔ مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں کل جا کے ہم نے میر کے در پر سنا جواب مدت ہوئی کہ یاں وہ غریب الوطن نہیں چند مخمس شکایت زمانہ میں بطور آشوب کے کہے ہیں اور ان میں بعض اشخاص کے نام بھی لیے ہیں۔ مگر ایسے کمزور کہے ہیں کہ گویا کچھ نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ قسام ازل نے ان کے دستر خوان سے مدح اور قدح کے دو پیالے اٹھا کر سودا کے ہاں دھر دئیے ہیں۔ واسوخت دو ہیں اور کچھ شک نہیں کہ لاجواب ہیں اہل تحقیق نے فغانی یا وحشی کو فارسی میں اردو میں انہیں واسوخت کا موجد تسلیم کیا ہے۔ سینکڑوں شاعروں نے واسوخت کہے۔ لیکن خاص خاص محاوروں سے قطع نظر کریں تو آج تک اس کوچے میں میر صاحب کے خیالات و انداز بیان کا جواب نہیں۔ مناقب میں جو مخمس اور ترجیع بند وغیرہ کہے ہیں، حقیقت میں حسن اعتقاد کا حق ادا کر دیا ہے۔ وہ ان کے صدق دل کی گواہی دیتے ہیں۔ مثنویاں مختلف بحروں میں ہیں۔ جو اصول مثنوی کے ہیں وہ میر صاحب کا قدرتی انداز واقع ہوا ہے۔ اس لیے بعض بعض لطف سے خالی نہیں۔ ان میں شعلہ عشق اور دریائے عشق نے اپنی خوبی کا انعام شہرت کے خزانے سے پایا۔ مگر افسوس یہ کہ میر حسن مرحوم کی مثنوی سے دونوں پیچھے رہیں۔ جوش عشق میں لطافت او رنزاکت کا زور ہے مگر مشہور نہ ہوئی۔ اعجاز عشق و خواب و خیال مختصر ہیں اور اس رتبے پر نہیں پہنچیں۔ معاملات عشق ان سے بڑی ہے۔ مگر رتبے میں گھٹی ہوئی ہے۔ مثنوی شکار نامہ، نواب آصف الدولہ کے شکار کا اور اس سفر کا مفصل حال لکھا ہے۔ اس میں جو متفرق غزلیں جا بجا لگائی ہیں وہ عجیب لطف دیتی ہیں۔ ساقی نامہ بہار یہ لکھا ہے مگر اعلیٰ درجہ لطافت و فصاحت پر ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی مختصر مختصر مثنویاں ہیں۔ ایک مثنوی اپنے مرغے کے مرثیے میں لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا پیارا مرغا تھا۔ بڑا اصیل تھا۔ بہت خوب تھا۔ اس پر بلی نے حملہ کیا۔ مرغے نے بڑی دلاوری سے مقابلہ کیا اور اخیر کو مارا گیا۔ مثنوی تو جیسی ہے، ویسی ہے۔ مگر ایک شعر اس کے وقت آخر کا نہیں بھولتا۔ جھکا بسوئے قدم سرخروس بیجاں کا زمیں پہ تاج گرا ہد ہد سلیماں کا ایک مثنوی میں کہتے ہیں کہ میری ایک بلی تھی بڑی وفادار تھی۔ بڑی قانع تھی۔ اس کے بچے نہ جیتے تھے۔ ایک دفعہ 5بچے ہوئے پانچوں جیے 3بچے لوگ لے گئے دو رہے۔ وہ دونوں مادہ تھے۔ ایک کا نام مونی تھا۔ ایک کا نام مانی۔ مونی ایک میرے دوست کو پسند آئی وہ لے گئے۔ مانی کے مزاج میں مسکینی اور غبت بہت تھی۔ اس لیے فقیر کی رفاقت نہ چھوڑی۔ اس کے بیان اور حالات کو بہت طول دیا ہے۔ ایک کتا اور ایک بلا بالا تھا۔ اس کی ایک مثنوی لکھی ہے۔ ایک امیر کے ساتھ سفر میں میرٹھ تک گئے تھے۔ اس میں برسات کی تکلیف اور رستے کی مصیبت بہت بیان کی ہے۔ اس سے یہ بھی قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہم وطن ہمیشہ سے سفر کو کیسی آفت سمجھتے ہیں۔ ایک بکری پالی اس کے چار تھن تھے بچہ ہوا تو دودھ ایک ہی تھن میں اترا وہ بھی اتنا تھا کہ بچے کی پوری نہ پڑتی تھی۔ بازار کا دودھ پلا کر پالا۔ پھر بچے کی سر زوری اور سر شوری کی شکایت ہے۔ ایک مثنوی آصف الدولہ مرحوم کی آرائش کت خدائی میں کہی ہے۔ ایک مختصر مثنوی جھوٹ کی طرف سے خطاب کر کے لکھی ہے اور اس کی بحر مثنوی کی معمولی بحروں سے علیحدہ ہے۔ مثنوی اور اژ در نامہ کہ اس کا حال آگے آتا ہے۔ یا اجگر نامہ۔ ایک مثنوی مختصر برسات کی شکایت میں لکھی ہے۔ گھر کا گرنا اور مینہ برستے میں گھر والوں کا نکلنا عجب طور سے بیان کیا ہے۔ اگر خیال کرو تو شاعر کی شورش طبع کے لیے یہ بھی موقع خوب تھا۔ مگر طبیعت مکان سے بھی پہلے گری ہوئی تھی۔ وہ یہاں بھی نہیں ابھری۔ سودا ہوتے تو طوفان اٹھاتے۔ مثنوی تنبیہ الخیال اس میں فن شعر کی عزت توقیر کو بہت سا طول دے کر کہا ہے۔ اس فن شریف کو شرفا اختیار کرتے تھے۔ اب پواچ اور ارازل بھی شاعر ہو گئے۔ اس میں ایک بزاز لونڈے کو بہت خراب کیا ہے اس کے علاوہ کئی اور چھوٹی مثنویاں کہ چنداں ذکر کے قابل نہیں۔ نکات الشعرائ۔ شائق کے لیے بہت مفید ہے۔ اس میں شعرائے اردو کی بہت سی باتیں اس زمانے کے لوگوں کے لیے دیکھنے کے قابل ہیں۔ مگر وہاں بھی اپنا انداز قائم ہے۔ دیباچے میں فرماتے ہیں کہ یہ اردو کا پہلا تذکرہ ہے اس میں ایک ہزار شاعر کا حال لکھوں گا۔ مگر ان کو نہ لوں گا۔ جن کے کلام سے دماغ پریشان ہو۔ ان ہزار میں ایک بے چارہ بھی طعنوں اور ملامتوں سے نہیں بچا۔ دلی کی بنی نوع شعراء کا آدم ہے۔ اس کے حق میں فرماتے ہیں۔ دے شاعر یست از شیطان مشہور تر ۔ میر خاں کمترین اس زمانے میں ایک قدیمی شاعر دلی کے تھے۔ انہیں اس فقرے پر بڑا غصہ آیا۔ ایک نظم میں اول بہت کچھ کہا آخر میں آ کر کہتے ہیں۔ ولی پر جو سخن لائے اسے شیطان کہتے ہیں یہ تھی مختصر کیفیت میر صاحب کی تصنیفات کی۔ میر صاحب کی زبان شستہ کلام صاف۔ بیان ایساپاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں۔د ل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں۔ محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔ اسی واسطے ان میں بہ نسبت اور شعراء کے اصلیت کچھ زیادہ قائم رہتی ہے۔ بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے گویا نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دلوں پر بھی اثر زیادہ کرتی ہیں۔ وہ گویا اردو کے سعدی ہیں۔ ہمارے عاشق مزاج شعرا کی رنگینیاں اور خیالات کی بلند پروازیاں ان کے مبالغوں کے جوش و خروش سب کو معلوم ہیں۔ مگراسے قسمت کا لکھا سمجھوکہ ان میں سے بھی میر صاحب کو شگفتگی یا باہر عیش و نشاط یا کامیابی وصال کا لطف کبھی نصیب نہ ہوا۔ رہی مصیبت اور قسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، اس کا دکھڑا سناتے چلے گئے، جو آج تک دلوں میں اثر آور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے مضامین اور شعرا کے لیے خیالی تھے۔ عاشقانہ خیال بھی ناکامی زار نالی۔ حسرت مایوسی، ہجر کے لباس میں خرچ ہوئے۔ ان کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جس دل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پتلا نہیں، حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے تھے۔ بس جو دل پر گزرتے تھے، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لیے نشتر کا کام کر جاتے تھے۔ ان کی غزلیں ہر بحر میں کہیں شربت اور کہیں شیر و شکر ہیں۔ مگر چھوٹی چھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بہاتے ہیں۔ جو لفظ منہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔ مگر یہ بھی بزرگوں سے معلوم ہوا کہ مشاعروں یا فرمائش کی غزلیں ایسی نہ ہوتی تھیں، جیسے کہ اپنی طبع زاد طرح میں ہوتی تھیں۔ میر صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کویا ان کے ترجموں کو اردو کی بنیاد میں ڈال کر ریختہ کیا اور اکثروں کو جوں کا توں رکھا۔ بہت ان میں سے پسند عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور معاصرین نے کہیں برتا، مگر بہت کم۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھاؤ کی ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان میں کیا کہیے حسن عشق کے آپ ہی طرف ہوا دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا دل کہ یک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا ہر دم طرف ہے دل سے مزاج کرخت کا ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت کا اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم گو چمن میں غنچہ پژ مردہ تجھ سے کھل گیا خوا ہے پیالہ خواہ سبو کر ہمیں کلال ہم اپنی خاک پر تجھے مختار کر چلے یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا ہر گلی کوچہ مجھے کوچہ رسوائی تھا اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا یہ قافلہ رہے گا نہ زنہار جائے گا اس کے علاوہ فارسی کے بعض محاوروں اور اس کی خاص خاص رسموں کا اشارہ بھی کر جاتے تھے کہ انہیں بھی پھر کسی نے پسند نہیں کیا۔ چنانچہ دیوناے کو پھول کی چھڑیاں مارنے کا ٹونکا انہوں نے بھی کیا ہے اور داغ جنوں بھی دیا ہے۔ جاتی ہے نظر حسن پہ گہ چشم پریدن یاں ہم نے پرکاہ بھی بیکار نہ دیکھا بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ہر چند ناتواں ہوں پر آ گیا جو دل میں کویں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میر ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے ہمارے عندیے میں تو ہے وہ پلیت و خبیث ردیف تاء مثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انہیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہئے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورے کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔ اے خوشا حال اس کا جس کو وہ ہے حال عمداً تباہ کرتے تھے ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم نکلے پردے سے کیا، خدا معلو میں بے قرار خاک میں کب تک ملا کروں کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر رہوں جا کے مر حضرت یار میں یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اس کی میر سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سو وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد جز مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا ابر اٹھا تھا کعبے سے اور جھوم پڑا مے خانے پر بادہ کشوں کا جھرمٹہے گا شیشے اور پیمانے پر کسی شخص نے کہا کہ حضرت، اصل محاورہ فارسی کا ہے۔ اہل زبان نے ابر قبلہ کہا ہے، ابر کعبہ نہیں کہا۔ میر صاحب نے کہا کہ ہاں قبلہ کا لفظ بھی آ سکتا ہے۔ مگر کعبہ سے ذرا مصرع کی ترکیب گرم ہو جاتی ہے اور یہ سچ فرمایا۔ جنہیں زبان کا مزا ہے، وہی اس لطف کو سمجھتے ہیں۔ خیال کے لفظ میں جو تصرف میر صاحب نے فرمایا ہے۔ عنقریب واضح ہو گا۔ اکثر الفاظ ہیں کہ اب مونث ہیں۔ میر صاحب نے انہیں مذکر باندھا ہے۔ ملائے خاک میں کس کس طرح کے عالم یاں نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا کل جس کی جاں کنی پر سارا جہاں ٹوٹا آج اس مریض غم کا ہچکی میں جان ٹوٹا احوال خوش انہوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا بعض جگہ مذکر و مونت بھی کہہ جاتے ہیں۔ کیا ظلم ہے اس خونی عالم کی گلی میں جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں مثنوی شعلہ عشق میں کہتے ہیں خلق یک جا ہوئی کنارے پر حشر برپا ہوئی کنارے پر میر صاحب میانہ قد، لاغر اندام، گندمی رنگ تھے۔ ہر کام متانت اور آہستگی کے ساتھ۔ بات بہت کم ، وہ بھی آہستہ، آواز میں نرمی اور ملامت ضعیفی نے ان سب صفتوں کو اور بھی قوی کیا تھا۔ کیونکہ سو برس کی عمر آخر ایک اثر رکھتی ہے۔ مرزا قتیل مشاعرے سے آ کر کسی دوست کو خط تحریر کرتے ہیں۔ اس میں جلسے کے حالات بھی لکھتے ہیں۔ خنجرۂ میر صاحب با وصف خوش گوئی بدستور بودہ تمام جسم مبارک ایشاں رعشہ داشت۔ آواز ہم کس نمے شیند مگر من و خدا کہ غزلہا خوب گفتہ بودند۔ عادات و اطوار نہایت سنجیدہ اور متین اور صلاحیت اور پر ہیز گاری نے اسے عظمت دی تھی۔ ساتھ اس کے قناعت اور غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اطاعت تو درکنار نوکری کے نام کی برداشت نہ رکھتے تھے لیکن زمانہ جس کی حکمت سے کوئی سر نہیں اکسا سکتا، اس کا قانون بالکل اس کے بر خلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بد دماغی کے سایے میں دنیا و اہل دنیا سے بیزارگھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان شکایتوں کے جو لوگوں میں چرچے تھے۔ وہ خود بھی اس سے واقف تھے۔ چنانچہ ایک مخمس شہر آشوب کے مقطع میں کہتے ہیں۔ حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ دل سوزش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ ہے نام مجلسوں میں مرا میر بے دماغ از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار باوجود اس کے اپنے سرمایہ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پروانہ کرتے تھے بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اور اسی عالم میں معرفت الٰہی پر دل لگاتے تھے چنانچہ ان کی اس ثابت قدمی کا وصف کسی زبان سے نہیں ادا ہو سکتا کہ اپنی بے نیازی اور بے پرواہی کے ساتھ دنیائے فانی کی مصیبتیں جھیلیں اور جو اپنی آن تان تھی اسے لیے دنیا سے چلے گئے اور جس گردن کو خدا نے بلند کیا تھا، سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روز عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے اسے دنیا کے نا اہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں۔ باوجود اس کے اپنے ملک خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دنیا کی سختی زیادہ ہوتی اسی قدر بلند نظری سے دماغ زیادہ بلند ہوتا تھا۔ سب تذکرے نالاں ہیں کہ اگر یہ غرور اور بے دماغی فقط امراء کے ساتھ ہوتی تو معیوب نہ تھی۔ افسوس یہ ہے کہ اوروں کے کمال بھی انہیں دکھائی نہ دیتے تھے اور یہ امر ایسے شخص کے دامن پر نہایت بدنما دھبا ہے جو کمال کے ساتھ صلاحیت اور نیکو کاری کا خلعت پہنے ہو۔ بزرگوں کی تحریری روایتیں اور تقریری حکایتیں ثابت کرتی ہیں کہ خواجہ حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر بلانا گناہ سمجھتے تھے۔ کسی او ر کی کیا حقیقت ہے جو اشخاص اس زمانے میں قدر دانی کے خزانچی تھے۔ ان کے خیالات اعلیٰ اور حوصلے بڑھے تھے اس لیے یہ بے دماغیاں ان کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی ہیں، خوش نصیب تھے کہ آج کا زمانہ نہ دیکھا۔ میر قمر الدین منت دلی میں ایک شاعر گزرے ہیں کہ علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے۔ وہ میر صاحب کے زمانے میں مبتدی تھے۔ شعر کا شوق بہت تھا۔ اصلاح کے لیے اردو کی غزل لے گئے۔ میر صاحب نے وطن پوچھا۔ انہوں نے سونی پت علاقہ پانی پت بتلایا۔ آپ نے فرمایا کہ سید صاحب اردوئے معلی خاص دلی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجئے، اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجئے۔ سعادت یار خاں رنگین نواب طہماسپ بیگ خاں قلعدار شاہی کے بیٹے تھے۔ 15-14 برس کی عمر تھی۔ بڑی شان و شوکت سے گئے اور غزل اصلاح کے لیے پیش کی۔ سن کر کہا کہ صاحبزادے آپ خود امیر ہیں اور امیر زادے ہیں، نیزہ بازی، تیر اندازی کی کسرت کیجئے۔ شہسواری کی مشق فرمائیے۔ شاعری دل خراشی و جگر سوزی کا کام ہے۔ آپ اس کے درپے نہ ہوں۔ جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن سے مناسب نہیں۔ یہ آپ کو نہیں آنے کا۔ خواہ مخواہ میری اور اپنی اوقات ضائع کرنی کیا ضرور ہے۔ یہی معاملہ شیخ ناسخ کے ساتھ گزرا۔ دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعرائے عصر میں سے کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کنکھجور ا وغیرہ وغیرہ ٹھہرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدھا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہو کر اس سے لڑنے گئے جب سامنا ہوا تو اژدہے نے ایک ایسا دم بھرا کہ سب فنا ہو گئے۔ اس قصیدے کا نام اجگر نامہ قرار دیا اور مشاعرے میں لا کر پڑھا۔ محمد امان نثار، شاہ حاتم کے شاگردوں میں ایک مشتاق موزوں طبع تھے انہوں نے وہیں ایک گوشے میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اسی وقت سر مشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی یہ بات کسی کو پسند نہ آئی تھی۔ اس لیے اس قطعے پر خوب قہقہے اڑے اور بڑی واہ واہ ہوئی اور میر صاحب پر جو گزرنی تھی سو گزری، چنانچہ مقطع قطعہ مذکور کا یہ ہے۔ حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثار ایک دم میں ووکروں اژدر کے کلے چیر کر لکھنو میں کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے؟ کہا ایک تو سودا دوسرا یہ خاکسار ہے اور تامل کر کے کہا آدھے خواجہ میر دردکوئی شخص بولا کہ حضرت اور میر سوز صاحب؟ چین بجیں ہو کر کہا کہ میر سوز صاحب بھی شاعر ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی۔ مگر شرفا میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سنے۔ میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ بیچارے نے میر تخلص کیا تھا، وہ آپ نے چھین لیا، ناچار اب انہوں نے ایسا تخلص اختیارکیا کہ نہ آپ کو پسند آئے نہ اسے چھینیں۔ لکھنو کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں۔ دروازے پر آکر آواز دی۔ لونڈی یا ماما نکلی۔ حال پوچھ کر اندر گئی ایک بوریا لا کر ڈیوڑھی میں بچھایا۔ انہیں بٹھایا اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائش اشعار کی۔ میر صاحب نے اول تو ٹالا۔ پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہو۔ مگر بنظر آداب و اخلاق انہوں نے اپنی نارسائی طبع کا اقرار کیا اور پھر درخواست کی۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا کہ حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں، آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے؟ میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے مگر ان کی شرحیں مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لیے فقط محاورہ اہل اردو ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا۔ عشق برے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ی، کو ظاہر کر دو، پھر کہیں گے کہ ی تقطیع میں گرتی ہے۔مگر یہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔ جب نواب آصف الدولہ مر گئے، سعادت علی خاں کا دور ہوا تو یہ دربار جانا چھوڑ چکے تھے۔ وہاں کسی نے طلب نہ کیا۔ا یک دن نواب کی سواری جاتی تھی۔ یہ تحسین کی مسجد پر سر راہ بیٹھے تھے۔ سواری سامنے آئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے، میر صاحب اسی طرح بیٹھے رہے۔سید انشاء خواصی میں تھے۔ نواب نے پوچھا کہ انشاء یہ کون شخص ہے۔ جس کی تمکنت نے اسے اٹھنے بھی نہ دیا؟ عرض کی جناب عالی یہ وہی گدائے متکبر جس کا ذکر حضور میں اکثر آیا ہے۔ گزارے کا وہ حال اور مزاج کا یہ عالم آج بھی فاقے ہی سے ہو گا۔ سعادت علی خاں نے آ کر خلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا۔ جب چوبدار لے کر گیا۔ میر صاحب نے واپس کر دیا اور کہا کہ مسجد میں بھجوائیے، یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ سعادت علی خان جواب سن کر متعجب ہوئے۔ مصاحبوں نے پھر سمجھایا۔ غرض نواب کے حکم سے سید انشاء خلعت لے کر گئے اور اپنی طرز پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پر رحم کیجئے اور بادشاہ وقت کا ہدیہ ہے، اسے قبول فرمائیے۔ میر صاحب نے کہا کہ صاحب وہ اپنے ملک کے بادشاہ ہیں میں اپنے ملک کا بادشاہ ہوں۔ کوئی ناواقف اس طرح پیش آتا تو مجھے شکایت نہ تھی، وہ مجھ سے واقف، میرے حال سے واقف، اس پر اتنے دنوں کے بعد دس روپے کے خدمت گار کے ہاتھ خلعت بھیجا۔ مجھے اپنا فقر و فاقہ قبول ہے، مگر یہ ذلت نہیں اٹھائی جاتی۔ سید انشاء کی لسانی اور لفاظی کے سامنے کس کی پیش جا سکتی۔ میر صاحب نے قبول فرمایا اور دربار بھی کبھی کبھی جانے لگے۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم ان کی ایسی خاطر کرتے تھے کہ اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے اور اپنا بیچواں پینے کو عنایت فرماتے تھے۔ میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنو کے ایک نواب انہیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت اور خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے۔ کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں۔ کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔ ایک دن کوئی دوست آئے۔ انہوں نے کہا کہ ادھر باغ ہے آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟ میر صاحب بولے کیا ادھر باغ بھی ہے؟انہوں نے کہا کہ اسی لیے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے۔ غزلوں کے پڑے تھے۔ ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں یہ کہہ کر چپکے ہو رہے۔ کیا محویت ہے کئی برس گزر جائیں۔ پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر، ثمرہ اس کا یہ ہوا کہانہوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے۔ آج تک لوگ ورق الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ استاد مرحوم ایک دیرینہ سال شخص کی زبانی بیان کرتے تھے کہ ایک دن میر صاحب کے پاس گئے۔ نکلتے جاڑے تھے۔ بہار کی آمد تھی۔ دیکھا کہ ٹہل رہے ہیں۔ چہرے پر افسردگی کا عالم اور رہ رہ کر یہ مصرع پڑھتے تھے۔ اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے یہ سلام کر کے بیٹھے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھے اور سلام کر کے چلے آئے۔ میر صاحب کو خبر بھی نہ ہوئی۔ خدا جانے دوسرے مصرع کے فکر میں تھے یا اس مصرع کی کیفیت میں محو تھے۔ گورنر جنرل اور اکثر صاحبان عالی شان جب لکھنو میں جاتے تو اپنی قدر دانی سے یا اس سبب سے کہ ان کے میر منشی اپنے حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی ترقیب واجب سمجھتے تھے۔ میر صاحب کو ملاقات کے لیے بلاتے مگر یہ پہلو تہی کرتے اور کہتے کہ مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب ملتا ہے صاحب کو خاندان سے غرض ہیں۔ میرا کلام سمجھتے نہیں۔ البتہ کچھ انعام دیں گے۔ ایسی ملاقات سے ذلت کے سوا کیا حاصل۔ محلے کے بازار میں عطا رکی دکان تھی۔ آپ بھی کبھی کبھی اس کی دکان پر جا بیٹھتے تھے۔ اس کا نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا۔ میر صاحب کو برا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر فرماتے ہیں۔ کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت ہیں اس نسخے کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد کسی وقت طبیعت شگفتہ ہو گئی ہو گی، جو فرماتے ہیں۔ میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں اسی عہد میں بقاء اللہ خاں بقا نے دو شعر کہے۔ ان آنکھوں کا نت گریہ دستور ہے دو آبہ جہاں میں یہ مشہور ہے سیلاب آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں ٹکڑے جو مرے دل کے بستے ہیں دو آبے میں میر صاحب نے خدا جانے سن کر کہا یا تو ارد ہوا۔ وہ دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبہ اس پر بقا نے بگڑ کر یہ قطعہ کہا۔ میر نے گر ترا مضمون دو آبے کا لیا اے بقا تو بھی دعا دے جو دعا دینی ہو یا خدا میر کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تربینی ہو لیکن میر صاحب نے اسی کوچے میں ایک مضمون اور نکالا ہے کہ وہ سب سے الگ ہے۔ میں راہ عشق میں تو آگے ہی دو دلا تھا پر پیچ پیش آیا قسمت سے یہ دوراہا بقا نے اور مضامین بھی میر صاحب کے باب میں صرف کیے ہیں ان میں سے ایک قطعہ ہے۔ میر صاحب پھر اس سے کیا بہتر اس میں ہووے جو نام شاعر کا لے کے دیواں پکارتے پھرئیے ہر گلی کوچے کام شاعر کا توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے چلے بیٹھے تو شیخ چلی ہے پگڑی اپنی سنبھالیے گا میر اور بستی نہیں یہ دلی ہے کسی استاد کا شعر فارسی ہے بہ گرو تربتم امشب ہجوم بلبل بود مگر چراغ مزارم زر وغن گل بوہ میر صاحب کے شعر میں بھی اس رنگ کا مضمون ہے مگر خوب بندھا ہے۔ جائے روغن دیا کرے ہے عشق خون بلبل چراغ میں گل کے شیخ سعدی کا شعر ہے۔ سعدی: دوستاں منع کنندم کر چرا دل تبود ادم باید اول بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی میر: چاہئے کا ہم پہ یہ خوباں جو دھرتے ہیں گناہ ان سے بھی پوچھو کوئی تم اتنے کیوں پیارے ہوئے ناصر علی: دست خواہم زد بد امان سکندر روز حشر شوخ لیلیٰ زادہ ام رار شک مجنوں کردہ است میر صاحبـ: دیکھ آئینے کو یار ہوا محو ناز کا خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا بیدل: زندگی بر گرونم افتاد بیدل چارہ نیست شاد باید زیستن ناشاد باید زیستن میر: گوشہ گیری اپنے بس میں ہے نہ ہے آواردگی کیا کریں اے میر صاحب بندگی بیچاردگی محمد امان نثار میر صاحب کے شعروں پر ہمیشہ شعر کہا کرتے تھے۔ ان کا شعر ہے۔ نثار: ہم آگے ہی سمجھے تھے وہ گھر کو سدھاریں گے جس وقت گجر باجا ما تھا مرا ٹھنکا تھا میر: بھووں تئیں تم جس دن سج نکلے تھے اک چیرا اس دن ہی تمہیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا اکثر اشعار میں میر اور مرزا کے مضمون لڑ گئے ہیں۔ اس رتبے کے شاعروں کو کون کہہ سکتا ہے کہ سرقہ کیا۔ دوسرے ایک عہد تھا۔ ایک شہر تھا اسی وقت غل مچتا۔۔۔ ان دونوں بزرگوں کے کلام میں چشمکیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ مرزا فرماتے ہیں۔ نہ پڑھیو یہ غزل سودا تو ہرگز میر کے آگے وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا سمجھے سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ ہونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرف میر صاحب فرماتے ہیں۔ طرف ہونا مرا مشکل ہے میر اس شعر کے فن میں یوں ہی سودا کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے مرزا رفیع سودا، خواجہ میر درد، مرزا جان جاناں مظہر، قائم، یقین وغیرہ ان کے ہم عصروں تھے اور مصحفی، جرات اور میر انشاء اللہ خاں نے آخر عہد میں ظہور کیا۔ میر صاحب کے بیٹے لکھنو میں ملے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے۔ مگر بدنصیبی میں فرزند خلف تھے۔ ایک پیر مرد بے پروا مستغنی المزاج تھے۔ میر عسکری نام میر کلر مشہور تھے۔ عرش تخلص تھا خود شاعر صاحب دیوان تھے اور چند شاگرد بھی تھے۔ ایک شعر ان کی غزل مشاعرہ کا لکھنو میں زبان زد خاص و عام ہے۔ آسیا کہتی ہے ہر صبح بآواز بلند رزق سے بھرتا ہے رزاق دہن پتھر کا ٭٭٭ میر صاحب کی غزلیں برقع کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے اے ناقہ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر مجنون زخود رفتہ کبھو راہ پر آوے ٹک بعد مرے میرے طرفداروں کنے تو کوئی بھیجیو ظالم کہ تسلی تو کر آوے کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو آشوب فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے مت ممتحن باغ ہو اے غیرت گلزار گل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے کھلنے میں ترے منہ کے کلی پھاڑے گریبان ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گلبرک تر آوے ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں اے جان بلب آمدہ رہ تاخبر آوے کہتے ہیں ترے کوچے سے میرا آنے کہے ہے جب جانئے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے شاید کہ نظیری کے بھی عہدے سے بر آوے جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے صناع ہیں سب خوار از انجملہ ہوں میں بھی ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار کہیو جو کبھو میر بلا کش ادھر آوے مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے خدر آوے کوفت سے جان لب پہ آئی ہے ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر شوق نے بات کیا بڑھائی ہے آرزو اس بلند بالا کی کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے دیدنی ہے شکستگی دل کی کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب یعنی اک بات سی بنائی ہے دل سے نزدیک اور اتنا دور کسے اس کو کچھ آشنائی ہے بے ستوں کیا ہے کوہ کن کیسا عشق کی زور آزمائی ہے جس مرض میں کہ جان جاتی ہے دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے یاں ہوئے خاک سے برا برہم واں وہی ناز خود نمائی ہے ایسا ہوتا ہے زندہ جاوید رفتہ یار تھا جب آئی ہے مرگ مجنون سے عقل گم ہے میر کیا دوانے نے موت پائی ہے کعبے میں جاں بلب تھا ہم دوری بتاں سے آئے ہیں پھر کے یار واب کے خدا کے یاں کے تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں رکھتی ہے چھیڑ میری خاشاک آشیاں سے کیا خوبی اس کے منہ کی اسے غنچے نقل کرئیے تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے وہاں سے آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو حیران ہوں یہ شوخی آئی تمہیں کہاں سے سبز ان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے دھوئے ہیں ہاتھ میں نے اس دن سے اپنی جان سے خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب ہر اک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے اے نوکیلے یہ تھی کہاں کی ادا کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ ہائے رے چشم دلبراں کی ادا بات کہنے میں گالیاں دے ہے سنتے ہو میرے بدزباں کی ادا دل چلے جائے ہیں خرام کے ساتھ دیکھی چلنے میں ان بتاں کی ادا خاک میں مل کے میر ہم سمجھے بے ادائی تھی آسماں کی ادا سخن مشتاق ہے عالم ہمارا بہت عالم کرے گا غم ہمارا پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے رہے گا دیر تک ماتم ہمارا نہیں ہے مرجع آدم اگر خاک کدھر جاتا ہے قدخم ہمارا زمین و آسماں زیر و زبر ہیں نہیں کم حشر سے ادھم ہمارا کسو کے بال پر ہم دیکھتے میر ہوا ہے کام دل برہم ہمارا جان اپنا جو ہم نے مارا تھا کچھ ہمارا اسی میں دارا تھا کون لیتا ہے نام مجنوں کا جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا کوہ و فرہاد سے کہیں آگے سر مرا اور سنگ خارا تھا ہم تو تھے محو دوستی اس کے گو کہ دشمن جہاں ہمارا تھا لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی جب تلک لطف کچھ تمہارا تھا آستاں کو کسو کے خاک ہوا آسماں کا بھی کیا ستارا تھا پاؤں چھاتی پہ میرے رکھ چلنا یاں کبھو اس کا یوں گزارا تھا موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف گشت تھا دید تھا نظارا تھا اس کے ابرو جو ٹک جھکے ایدھر قتل کا تیغ سے اشارا تھا عشق بازی میں کیا موئے ہیں میر آگے ہی جی انہوں نے ہارا تھا آیا ہے ابر جب کا قبلے تے تیرا تیرا مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت سی خیرا خجلت سے ان لبوں کی پانی ہو بہ چلے ہیں پندو نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا مجنوں نے حوصلے سے دیوانگی نہیں کی جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وطیرا اس راہزن سے مل کر دل کیونکہ کھو نہ بیٹھیں انداز و ناز اچکے غمزہ اٹھائی گیرا کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی شعروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعر یرا آئینے کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا نیت پہ سب بنا ہے یاں مسجد اک پڑی تھی پیر مغاں موا سو اس کا بنا خطیرا ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا غیرت سے میر صاحب سب جذب ہو گئے تھے نکلا نہ بوند لو ہو سینہ جو ان کا چیرا مت صبح و شام تو پئے ایذائے میر ہو ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو جنت کی منت ان کے دماغوں سے کب اٹھے خاک رہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو کیا لو گے آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق سوکھے جگر کا خوں تو رداں جوئے شیر ہو چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو یاں برگ گل اڑاتے ہیں پر کالہ جگر جا عندلیب تو نہ مری ہم صفیر ہو اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی صریر ہو زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید پھوٹا دو سار جس کے جگر کا نہ تیر ہو ہوتے ہیں مے کدے کے جواں شیخ جی برے پھر در گزر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو کس طرح آہ خاک مذلت سے میں اٹھوں افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو حد سے زیادہ جو رو ستم خوش نما نہیں ایسا سلوک کر کہ تدراک پذیر ہو دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو جس خان و ماں خراب کا یہ دل مشیر ہو تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس انصاف کرئیے کب تئیں مخلص حقیر ہو اک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو تم بھی تو میر صاحب قبلہ فقیر ہو دل پر خوں کی اک گلابی سے عمر بھر ہم رہے شرابی سے جی ڈہا جائے ہے سحر سے آج رات گزرے گی کس خرابی سے کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے برقع اٹھتے ہی چاند سا نکلا داغ ہوں اس کی بے حجابی سے کام تھے عشق میں بہت پر میر ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے دل عجب شہر تھا خیالوں کا لوٹا مارا ہے حسن والوں کا جی کو جنجال دل کو ہے الجھاؤ یار کے حلقہ حلقہ بالوں کا موئے دلبر سے مشکبو ہے نسیم حال خوش اس کے خستہ حالوں کا نہ کہا کچھ نہ آ پھرا نہ ملا کیا جواب ان مرے سوالوں کا دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا میر کاٹا جئے نہ کا لوں کا ہے غزی میر یہ شفائی کی ہم نے بھی طع آزمائی کی اس کے ایفائے عہد تک نہ جئے عمر نے ہم سے بے وفائی کی وصل کے دن کی آرزو ہی رہی شب نہ آخر ہوئی جدائی کی اسی تقریب اس گلی میں رہے منتیں ہیں شکستہ پائی کی دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر آہ نے آہ نارسائی کی کاسہ چشم لے کے جوں نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے پہ آشنائی کی ہو گئی شہر شہر رسوائی اے مری موت تو بھلی آئی یک بیاباں برنگ صوت جرس مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی نہ کھنچے تجھ سے ایک جانقاش اس کی تصویر وہ ہے ہرجائی سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن دست قدرت یہ میں کہاں پائی میر جب سے گیا ہے دل تب سے میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی اہلی شیرازی کے شعر پر مصرعے لگا کر مثلث کا ایجاد اپنی زبان میں دکھاتے ہیں۔ کل تک تو فریبندہ ملاقات تھی پہلی امروز یقیں شد کہ ندای سراہلی بے چارہ ز لطف تو بدل داشت گماں ہا کیا کہوں میں عاشق و معشوق کا راز و نیاز ناقہ رامے راند لیلی سوئے خلوت گاہ ناز سارباں در رہ حدی مے خواند و مجنوں مے گریست ایک مثلث سید انشاء کا یاد آ گیا۔ کیا خوب مصرع لگایا ہے۔ اگرچہ سینکڑوں اس جا پہ تھے کھڑے زن و مرد نشد قثیل و لیکن کہ یک کس از سر درد سرے بہ نعش من خستہ جاں بجنباند مربع پانچویں دیوان میں سے جو اے قاصد وہ پوچھے میر بھی ایدھر کو چلتا تھا تو کہیو جب چلا تھا میں تب اس کا دم نکلتا تھا ہما افسوس بیتابی سے تھا کل قتل میں میرے تڑپتا تھا ادھر میں یار اودھر ہاتھ ملتا تھا مربع فارسی پر سکندر ہے نہ دارا ہے نہ کسرا ہے نہ قیصر ہے یہ بیت المال ملک بے وفا بے وارثا گھر ہے نہ ور جانم ہوا باقی نہ اندر دل ہوس ماندہ بیا ساقی کہ ایں ویرانہ از بسیار کس ماندہ خاتمہ رات آخر ہو گئی مگر جلسہ جما ہوا ہے اور وہ سما بندھ رہا ہے کہ ہر دل سے صدا آتی ہے۔ یا الٰہی تا قیامت بر نیاید آفتاب اس مشاعرے کے شعرا کا کچھ شمار نہیں خدا جانے یہ کتنے ہیں اور آسمان پر تارے کتنے ہیں، سننے والے ایسے مشتاق کہ شمع پر شمع پانی ہوتی ہے۔ مگر ان کے شوق کا شعلہ دھیما نہیں ہوتا۔ یہی آواز چلی آتی ہے۔ ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ جب تلک بس چل سکے ساغر چلے آزاد بھولتے ہو؟ دلوں کی نبض کس نے پائی ہے؟ جانتے نہیں کہ دفعتاً اکتا جاتے ہیں۔ پھر ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ بس اب باقی داستان فردا شب۔ ایلو صبح ہو گئی طول کلام کو ملتوی کرو۔ عزیزو مست سخن ہو ویا کہ سوتے ہو اٹھو اٹھو کہ بس اب سر پر آفتاب آیا چوتھا دور تمہید قہقہوں کی آوازیں، دیکھنا اہل مشاعرہ آن پہنچے۔ یہ کچھ اور لوگ ہیں۔ ان کا آنا غضب کا آنا ہے ایسے زندہ دل اور شوخ طبع ہوں گے کہ جن کی شوخی اور طراری طبع بار متانت سے ذرا نہ دبے گی۔ اتنا ہنسیں اور ہنسائیں گے کہ منہ تھک جائیں گے۔ مگر نہ ترقی کے قدم آگے بڑھیں گے۔ نہ اگلی عمارتوں کو بلند اٹھائیں گے۔ انہیں کوٹھوں پر کودتے پھاندتے پھریں گے۔ ایک مکان کو دوسرے مکان سے سجائیں گے اور ہر شے کو رنگ بدل بدل کر دکھائیں گے۔ وہی پھول عطر میں بسائیں گے۔ کبھی ہار بنائیں گے۔ کبھی طرے سجائیں گے۔ کبھی انہیں کو پھولوں کی گیندیں بنا لائیں گے اور وہ گلبازی کریں گے کہ ہولی کے جیسے گرد ہو جائیں گے۔ ان خوش نصیبوں کو زمانہ بھی اچھا ملے گا۔ ایسے قدر دان ہاتھ آئیں گے کہ ایک پھول ان کا چمن زعفراں کے مول بکے گا۔ اس دوران میاں رنگین سب سے نئے گلدستے بنا کر لائے اور اہل جلسہ کے سامنے سجائے یعنی ریختہ میں سے ریختہ نکالی۔ ہم ضرور کہتے کہ ہندوستان کی عاشقانہ شاعری نے اپنے اصل پر رجوع کی۔ لیکن چونکہ پہلے کلام کی بنیاد اصلیت پر تھی اور اس کی بنیاد فقط یاروں کے ہنسنے ہنسانے پر ہے۔ اس لیے سوائے تمسخر کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اگر لکھنو کے قیصر باغ اور وہاں کے معاملات کی تخم ریزی دیوان رنگین اور دیوان سید انشاء کو کہیں تو کچھ بدگمانی یا تہمت میں داخل نہیں۔ اگرچہ اصل ایجاد میاں رنگین کا ہے۔ مگر سید انشا نے ان سے کچھ زیادہ ہی سگھڑا پا دکھایا ہے۔ ان صاحب کمالوں کے عہد صد ہا باتیں بزرگو ں کی متروع ہو گئیں۔ پھر بھی جس قدر باقی ہیں وہ اشعار مفصلہ ذیل سے معلوم ہوں گی۔ البتہ شیخ مصحفی کے بعض الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بزرگوں کی میراث سے محبت زیادہ ہے۔ سید انشاء اور جرات نے ان میں سے بہت کچھ چھوڑ دیا۔ مگر نت، ٹک، انکھڑیاں، زور (یعنی بہت) بے تکلف بولتے ہیں اور واچھڑے۔ بھلہ رے، جھمکڑا، جی سید موصوف کا انداز خاص ہے۔ ہاں انہوں نے کلام کا انداز ایسا رکھا ہے کہ جو چاہتے ہیں۔ سو کہہ جاتے ہیں نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا روز مرہ یہی ہے کہ مسخرہ پن کرتے ہیں بہرحال چند شعر لکھتا ہوں جن سے معلوم ہو کہ اس وقت تک کیا کیا قدیمی محاورے باقی تھے جواب متروک ہیں اور باقی الفاظ ان بزرگوں کی غزلوں سے معلوم ہوں گے جو ان کے حال کے بعد لکھی گئی ہیں۔ چنانچہ شیخ مصحفی کہتے ہیں۔ اور درمن اٹھا کے جانے والے ٹک ہم کو بھی خاک سے اٹھا لے تربت پہ میری پائے حنائی نہ رکھ میاں کر رحم اب تو قبر میں آتش فشاں نہ ہو شب ہجر صحرائے ظلمت سے نکلی میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی تو اے مصحفی اب تو گرم سخن ہو شب آئیں دراز اور بہت رات نکلی دل مرے سوگ میں مت کر تو برادر میلا یاں سمجھ جاتے ہیں ہوتا ہے جو تیور میلا ہے لطف سیر شب ماہ ان حسینوں میں جنہوں کے رہتی ہے افشاں چنی جبینوں میں انہوں کو صاحب خرمن سبھی سمجھتے ہیں جو مصحفی کے ہیں کہلاتے خوشہ چینوں میں باغباں ہے مجھے کیا کام تیرے گلشن سے ہرتے پھرتے کبھی ایدھر بھی میں آ جاتا ہوں ہوں تو گٹھڑی پون کی مثل حباب لیکن آب و ہوا کے ہاتھ میں ہوں تم جو پوچھ ہو سدا حال، رقیباں ہم سے یہ ہنسی خوب نہیں، اے گل خنداں ہم سے حیراں سی جو نگاہیں رہ جاتیاں ہیں تیری کیا آنکھیں آرسی سے شرماتیاں ہیں تیری اس گل کی باغ میں جو حنا نے چلائی بات غنچے نے مسکرا کے کہا ہم نے پائی بات شہرت بزیر آسماں رکھتی تھی حاتم کی سخا اس کا نہیں ملتا نشاں کیا جانے وہ کیدھر گئی تن کے نشیمن سے سفر دشوار اسے آیا نظر سو بار جان مضطرب ایدھر گئی اودھر گئی ناسور داغ سینہ کو ماء الحیات اپنا سمجھ تن خاک کا پھر ڈھیر ہے کجلا جو یہ اخگر کئی گویا زمین کربلا تھی قتل گاہ عاشقاں جو بدلی آئی اس طرف یاراں بچشم تر گئی بکھیر دے جو وہ زلفوں کو اپنے مکھڑے پر تو مارے شرم کے آئی ہوئی گھٹا پھر جائے مصحفی نظم غزل میں ہے یہ کس کا مقدور جو یہ طرزیں کہ ہم ایحاد کیا کرتے ہیں نرگس نے گل کی دید کو آنکھیں جو کھولیاں کچھ جی میں جو سمجھ گئیں کلیاں نہ بولیاں دہشت نے حیلہ جو ہی رکھانت مسیح کو آخر نہ پٹیاں مرے زخموں کی کھولیاں میں ہی جانوں ہوں جو کچھ مجھ سے ادائیں کی ہیں تیری آنکھوں نے جفائیں سی جفائیں کی ہیں کیا روٹھ گیا مجھ سے مرا یار الٰہی کیوں آنکھ ملاتا وہ نہیں کچھ تو سبب ہے نہ ترے حسن کے دن اور نہ بہاریں وہ رہیں نہ وہ جالی نہ وہ محرم نہ ازاریں وہ رہیں منہ نہ کھولے کبھی گھر آ کے مرے حوریوں نے جب تلک بیٹھی رہیں رونٹ ہی مارے وہ رہیں تیرے بن ہم نے نہ دیکھا کبھی پریوں کی طرف گو خط و خال کو نت اپنے سنوارے وہ رہیں دم شماری ہے اب انجام ریاکاری شیخ نہ وہ تسبیح کے دانے نہ شماریں وہ رہیں مل گئے خاک میں وہ کیا کیا نہ ذیشان بزرگ نہ وہ لوحیں نہ محجر نہ مزاریں وہ رہیں اے خوشا حال انہوں کا کہ جو کوچے میں ترے خاک پنڈے پہ ملے بیٹھے ہیں آسن مارے اور سید خوشاء اللہ خاں کہتے ہیں۔ دشت جنوں میں اے وائے ویلا سونے نہ پائے ٹک پاؤں پھیلا انکھڑیاں سرخ سو گئیں جب سے دیکھ لیجیے کمال بوسے کا ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا تسپر پہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا ایک چھوڑا یہ زندہ جاں تو نے ٹھور رکھا سبھوں کو ہاں تو نے بھلہ رے یہ دماغ سمجھا ہے آپ کو شاخ زعفراں تو نے جو ہاتھ اپنے سبزے کا گھوڑا لگا تو سلفے کا اور اس پر کوڑا لگا اجی چشم بد دور نام خدا تمہیں کیا بھلا سرخ جوڑا لگا چہرہ مریض غم کا ترے زرد ہے سوہے عیسیٰ کنے دوانہ رہی درد ہے سوہے نکل کے وادی وحشت سے دیکھ اے مجنوں کہ زور دھوم سے آتا ہے ناقہ لیلیٰ ہے نام خدا واچھڑے کچھ اور تماشا یہ آپ کی رنگت گات ایسی غضب قہر پھن اور جھمکڑا اللہ کی قدرت اور جرات کہتے ہیں۔ نالہ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا زور یہ مطلع مرا سر دفتر دیواں ہوا جنہوں کے نامے پہنچتے ہیں یار تک دن رات انہیں کا کاش کہ جرات بھی نامہ بر ہوتا وہ تو ایک ہے بھبھوکا ساتس پہ اے جرات اکڑ تکڑ ہے قیامت ہے بانکپن کی سی دیکھنا ٹک یا وہیں ہم کو بھی کیا عیاریاں تیری خطار کرتے ہیں غیروں کی خاطر داریاں بہ گیا جوں شمع تن سارا اگر اچھا ہوا نت کے رونے سے چھٹی اے چشم تر اچھا ہوا سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے کبھی تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر خبر اس کو نہیں کرتا کوئی کہ میاں مفت ہے مرتا کوئی کسی گل کے لیے تم آپ گل ہو گل نہ کھاؤ جی ابھی ننھا کلیجا ہے نہ داغ اس کو لگاؤ جی آتش عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا اب کہو کھینوں ہوں میں آہ شرر بار کہ تو کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات جرات کے ہو گھر رات کو مہمان گئے ہم کیا جانیے کمبخت نے کیا ہم پہ کیا سحر جو بات نہیں تھی ماننے کی مان گئے ہم تم اور کسی شہر چلے ہو تو بس اپنے عالم ہی وہ نظروں میں نہیں سارے نگر کا یا ہم ہی نہیں ہیں یا نہیں غیر اودھر کو جو تو نظر کرے گا ہر دم جو اپنے سامنے وہ گلعذار ہے جیدھر کو آنکھ اٹھاتے ہیں باغ و بہار ہے کھینچ کر آہ جو میں ہاتھ جگر پر رکھا دامن اس نے بھی اٹھا دیدہ تر پر رکھا تھی مری شکل کل اس بن یہ گلستان کے بیچ جیسے بیٹھے خفقانی کوئی زندان کے بیچ لے چلے غیر کو گھر اپنے بلاسئین سے تم انکھڑیوں سے کبھی یوں ہم کو اشارہ نہ ہوا جس پہ نت تیغ کھنچے اور سدا جور رہے تو ہی انصاف کر اب کیونکہ نہ وہ ٹھور رہے جرات یہ غزل سن کے بہ تغییر قوافی تکلیف سخن گوئی کو دی پھیر کسی نے اس غزل میں اک غزل تو اور جرات پڑھ سنا زور ہی لذت ہمیں تو دی ترے اشعار نے یار کا آستان پایا ہے زور دل نے مکان پایا ہے ٭٭٭ شیخ قلندر بخش جرات جرات تخلص، شیخ قلندر بخش مشہور، اصلی نام یحییٰ خان تھا۔ اکبر آبادی مشہور تھے۔ مگر باپ ان کے حافظ امان خاص دلی کے رہنے والے تھے۔ ہر تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کا سلسلہ رائے امان شاہی سے ملتا ہے اور امان کا لفظ اکبری زمانہ سے ان کے ناموں کا خلعت چلا آتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ان کے بزرگ دربار شاہی میں دربانی کی خدمت رکھتے تھے۔ لطیفہ: بزرگوں کا قول سچ ہے کہ اگر کسی کے والدین اور بزرگوں کی لیاقت اور حیثیت دریافت کرنی ہو تو اس کے نام کو دیکھ لو۔ یعنی جیسی لیاقت ہو گی۔ ویسا ہی نام رکھیں گے حقیقت حال ہے کہ رائے امان محمد شاہی عہد میں دربان تھے۔ اگرچہ اس زمانے کے دربان بھی آج کل کے بڑے بڑے عہدہ داروں سے بہتر ہوتے تھے۔ مگر زیادہ تر وجہ شہرت یہ ہوئی کہ جس وقت نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا تو بعض اشخاص نے ننگ و ناموس کا پاس کر کے جان کا خیال نہ کیا اور اپنے اپنے گھر کا بندوبست رکھا۔ نادر کے سپاہی جب وہاں پہنچے تو تلوار کا تلوار سے جواب دیا۔ اس میں طرفین سے جانیں ضائع ہوئیں۔ امن کے بعد جب نادری مقتولوں کی اور ان کے اسباب قتل کی تحقیقات ہوئی تو وہ لوگ پکڑے آئے، ان میں رائے امان بھی تھا۔ چنانچہ شال پٹکوں سے ان کے گلے گھونٹے اور مار ڈالا۔ جرات میاں جعفر علی حسرت کے شاگرد تھے۔ علاوہ فن شاعری کے نجوم میں ماہر تھے اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ستار کو خوب بجاتے تھے۔ اول نواب محبت خاں حلف حافظ رحمت خاں نواب بریلی کی سرکار میں نوکر ہوئے۔ میر انشاء اللہ خاں کی اور ان کی صحبتیں بہت گرم رہتی تھیں۔ چنانچہ حسب حال یہ شعر کہا تھا۔ بسکہ گل چیں تھے سدا عشق کے ہم بستاں کے ہوئے نوکر بھی تو نواب محبت خاں کے 1215ھ میں لکھنو پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ ایک دفعہ تنخواہ کو دیر ہوئی۔ حسن طلب میں ایک غزل کا مطلع لکھا۔ جرات اب بند ہے تنخواہ تو کہتے ہیں یہ ہم کہ خدا دیوے نہ جب تک تو سلیماں کب دے فارسی کی ضرب المثل ہے، تا خدا نہ دہد سلیماں کے دہد۔ میاں جرات کے حال میں۔ بلکہ ساری کتاب میں افسوس کی بات ہے تو یہ ہے کہ عین جوانی میں آنکھوں سے معذور ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حادثہ چیچک سے ہوا۔ استاد مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بھائی زمانے کی دو آنکھیں ہیں۔ نیکی کی آنکھ نے ان کے کمال کو بڑی قدر دانی سے دیکھا۔ بدی کی آنکھ نہ دیکھ سکی اور ایک بدنما داغ ان کے دامن پر دکھایا۔ مشہور کرتے ہیں کہ پہلے وہ اصلی اندھے نہ تھے ، بعض ضرورتوں سے کہ شوخی عمر کا مقتضا ہے، خود اندھے بنے، رفتہ رفتہ اندھے ہی ہو گئے۔ بزرگوں کا قول ہے کہ شرافت، نجابت غریبی پر عاشق ہے، دولت اور نجابت آپس میں سوکن ہیں یہ حق ہے او رسب اس کا یہ ہے کہ شرافت کے اصول و آئین غریبوں ہی سے خوب نبھتے ہیں۔ امارت آئی قیامت آئی۔ دولت آئی شامت آئی میاں جرات کی خوش مزاجی، لطیفہ گوئی مسخرہ پن کی عادت حد سے زیادہ گزری ہوئی تھی اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری کوئی کام، نہ اس سے زیادہ کوئی نعمت ہے، کہتے ہیں۔ مرزا قتیل، سید انشاء کا اور ان کا یہ حال تھا کہ گھر میں رہنے نہ پاتے تھے۔ آج ایک امیر کے ہاں، دوسرے دن دوسرے امیر آئے سوار کیا اور ساتھ لے گئے۔ 4,5 دن وہاں رہے کوئی اور نواب آئے۔ وہاں سے وہ لے گے۔ جہاں جائیں آرام و آسائش سے زیادہ عیش کے سامان موجود۔ رات دن قہقہے او رایک بیگم صاحب نے گھر میں ان کے چٹکلے اور نقلیں سنیں بہت خوش ہوئیں اور نواب صاحب سے کہا کہ ہم بھی باتیں سنیں گے۔ گھر میں لا کر کھانا کھلاؤ۔ پردے یا چلمنیں چھٹ گئیں۔ اندر وہ بیٹھیں، باہر یہ بیٹھے۔ چند روز کے بعد خاص خاص بیبیوں کا برائے نام پردہ رہا۔ باقی گھر والے سامنے پھرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یگانگی کی یہ نوبت ہوئی کہ آپ بھی باتیں کرنے لگے۔ گھر میں کوئی دادا، نانا کوئی ماموں،چچا کہتا۔ شیخ صاحب کی آنکھیں دکھنے آئیں چند روز ضعف بصر کا بہانہ کر کے ظاہر کیا کہ آنکھیں معذور ہو گئیں۔ مطلب یہ تھا کہ اہل حسن کے دیدار سے آنکھیں سکھ پائیں۔ چنانچہ بے تکلف گھروں میں جانے لگے۔ اب پردے کی ضرورت کیا؟ یہ بھی قاعدہ ہے کہ میاں بیوی جس مہمان کی بہت خاطر کرتے ہیں، نوکر اس سے جلنے لگتے ہیں ایک دن دوپہر کو سو کر اٹھے۔ شیخ صاحب نے لونڈی سے کہا کہ بڑے آفتابے میں پانی بھر لا۔ لونڈی نہ بولی۔ انہوں نے پھر پکارا۔ اس نے کہا کہ بیوی جائے ضرور میں لے گئی ہیں۔ ان کے منہ سے نکل گیا کہ غیبانی دوانی ہوئی ہے۔ سامنے تو رکھا ہے، دیتی کیوں نہیں؟ بیوی دوسرے دلان میں تھیں۔ لونڈی گئی اور کہا کہ دوئی بیوی یہ موا کہتا ہے کہ وہ بندہ اندھا ہے یہ تو خاصا سجکھا ہے۔ ابھی میرے ساتھ یہ واردات گزری اس وقت یہ راز کھلا۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ آخر آنکھوں کو رو بیٹھے۔ مزن فال بد کا ورد حال بد مبادا کسے کو زند فال بد جرات اگرچہ علوم تحصیلی میں ناتمام تھے، بلکہ عربی زبان سے ناواقف تھے۔ لیکن اس کوچے کے رستوں سے خوب واقف تھے اور طبع موزون طوطی و بلبل کی طرح ساتھ لائے تھے۔ آخر عمر تک لکھنو میں رہے اور وہیں1225 ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ ناسخ نے تاریخ کہی۔ جب میاں جرات کا باغ دہر سے گلشن فردوس کو جانا ہوا مصرع تاریخ ناسخ نے کہا ہائے ہندوستان کا شاعر موا کلام ہر جگہ زبان پر ہے۔ دیوان تلاش سے مل جاتا ہے۔ اس میں ہر طرح کی غزلیں ہیں۔ رباعیاں، چند مخمس، واسوخت، چند ہجویں اور تاریخیں ہیں۔ دیوان میں رطب و یابس بہت نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو استادوں کے طریقے پائے ہیں۔ انہیں سلیقے سے کام میں لائے ہیں۔ اس پر کثرت مشق نے صفائی کا رنگ دیا ہے کہ سب کوتاہیوں کا پردہ ہو گیا اور انہیں خود صاحب طرز مشہور کر دیا۔ ان کی نکتہ یابی اور سخن فہمی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ قصیدہ وغیرہ اقسام شعر پر ہاتھ نہ ڈالا، بلکہ زبان فارسی کی طرف خیال بھی نہیں کیا۔ مناسب طبع دیکھ رک غزل کو اختیار کیا اور امراء اور ارباب نشاط کی صحبت نے اسے اور بھی چمکایا۔ انہوں نے بالکل میر کے طریقے کو لیا مگر اس کی فصاحت و سادگی پر ایک شوخی اور بانکپن کا انداز ایسا بڑھایا۔ جس سے پسند عام نے شہرت دوام کا فرمان دیا۔ عوام میں کمال کی دھوم مچ گئی اور خواص حیران رہ گئے۔ ان کی طرز انہیں کا ایجاد ہے اور آج تک انہیں کے لیے خاص ہے جیسی اس وقت مقبول خلائق تھی۔ آج تک ویسی ہی چلی آئی ہے۔ خصوصیت اس میں یہ ہے کہ فصاحت اور محاورے کی جان ہے۔ فقط حسن و عشق کے معاملات ہیں اور عاشق و معشوق کے خیالات گویا اس میں شراب ناب کا سرور پیدا کرتے ہیں، ان کی طبیعت غزل کے لیے عین مناسب واقع ہوئی تھی۔ حریف ظریف، خوش طبع، عاشق مزاج تھے۔ البتہ استعداد علمی اور کاوش فکری شاعری کا جزو اعظم ہے۔ ان کی طبیعت بجائے محنت پسند ہونے کے عشرت پسند تھی۔ تعجب یہ ہے کہ زمانے نے شکر خورے کو شکر دے کر تمام عمر قدر دان اور ناز بردار امیروں میں بسر کرو، جہاں رات دن اس کے سوا اور چرچا ہی نہ تھا۔ اگر ان کی طبیعت میں یہ باتیں نہ ہوتیں اور وہ استعداد علمی سے طبیعت میں زور اور فکر میں قوت خود پیداکرتے تو اتنا ضرور ہے کہ اصناف سخن پر قادر ہو جاتے۔ مگر پھر یہ لطف اور شوخیاں کہاں؟ بلبل میں شوریدہ مزاجی نہ ہوتی تو یہ چہچے کب ہوتے؟ نہیں گلہائے بہاری تمہاری ہوا پر ہوتے تو فصل بہار کے مزے کب ہوتے؟ یہ بات ہے کہ طبیعت میں تیزی اور طراری تھی۔ مگر نزلے کا زور اور طرف جا گرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ کلام میں بلند پردازی، لفظوں میں شان و شوکت اور معنوں میں وقت نہیں جس نے قصیدے تک نہ پہنچنے دیا اور غزل کے کوچے میں لا ڈالا۔ اس عالم میں جو باتیں ان پر اور ان کے دل پر گزرتی تھیں سو کہہ دیتے تھے، مگر ایسی کہتے تھے کہ اب تک دل پھڑک اٹھتے ہیں۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے تھے۔ جلسے کے جلسے لوٹ لوٹ جاتے تھے۔ سید انشاء باہمہ فضل و کمال رنگا رنگ کے بہروپ بدل کر مشاعرے میں دھوم دھام کرتے تھے۔ وہ شخص فقط اپنی سیدھی سادی غزل میں وہ بات حاصل کر لیتا تھا۔ مرزا محمد تقی خاں ترقی کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا او رتمام امرائے نامی و شعرائے گرامی جمع ہوتے تھے۔ میر تقی مرحوم بھی آتے تھے۔ ایک دفعہ جرات نے غزل پڑھی اور غزل وہ ہوئی کہ تعریفوں کے غل سے شعر تک سنائی نہ دئیے۔ میاں جرات یا تو اس جوش سرور میں جو کہ اس حالت میں انسان کو سرشار کر دیتا ہے یا شوخی مزاج سے میر صاحب کے چھیڑنے کے ارادے سے ایک شاگرد کا ہاتھ پکڑ کے ان کے پاس آ بیٹھے اور کہا کہ حضرت اگرچہ آپ کے سامنے غزل پڑھنی بے ادبی بے حیائی ہے۔ مگر خیر اس بیہودہ گونے جویا وہ گوئی کی، آپ نے سماعت فرمائی؟ میر صاحب تیوری چڑھا کر چپکے ہو رہے۔ جرات نے پھر کہا۔ میر صاحب کچھ ہوں ہاں کر کے پھر ٹال گئے۔ جب انہوں نے بہ تکرار کہا تو میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں کیفیت اس کی یہ ہے کہ تم شعر تو کہہ نہیں جانتے ہو، اپنی چوما چوٹی کہہ لیا کرو۔ میر صاحب مرحوم شاعروں کے ابو آلابا تھے، کیسے ہی الفاظ میں فرمائیں، مگر جوہری کامل تھے۔ جواہر کو خوب پرکھا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ عاشق و معشوق کے راز و نیاز اور حسن و عشق کے معاملوں کو جس شوخی اور چوچلے سے انہوں نے برتا ہے، وہ انہیں کا حصہ تھا۔ آج تک دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔ میر اور سودا کی غزلوں پر اکثر غزلیں لکھی ہیں۔ ان کے کلام ملوک الکلام تھے۔ مگر یہ اپنی شوخی سے جو لطف پیدا کر جاتے ہیں، تڑپا جاتے ہیں۔ میر: برقع کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آئے اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے سودا: اس دل کی تف آہ سے کب شعلہ بر آئے بجلی کو دم سرد سے جس کے حذر آئے مصحفی: ہرگز نہ مراد دل معشوق بر آئے یا رب نہ شب وصل کے پیچھے سحر آئے جرات: اس پردہ نشیں سے کوئی کس طرح برائے جو خواب میں بھی آئے تو منہ ڈھانک کر آئے ذوق: ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آئے جو کور ہو عینک سے اسے کیا نظر آئے فردوس میں ذکر اس لب شیریں کا گر آئے پانی دہن چشمہ کوثر میں بھر آئے میرــ: اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے سودا: جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے جرات: ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے لو ہم تمہیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے میرـ: مدعی مجھ کو کھڑے صاف برا کہتے ہیں چپکے تم سنتے ہو بیٹھے، اسے کیا کہتے ہیں سودا: تو نے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں جرات: آئینہ رخ کو ترے اہل صفا کہتے ہیں اس پہ دل اٹکے ہے میرا اسے کیا کہتے ہیں سودا کا ایک مطلع مشہور ہے ۔ استاد مرحوم اس پر جرات کا مطلع پڑھا کرتے تھے۔ ایک مصرعہ یاد ہے دوسرا بھول گیا۔ اب سارا دیوان چھان مارا نہیں ملتا، معلوم ہوتا ہے کہ زبان بزبان یہاں تک آ پہنچا۔ وہاں دیوان میں نہ درج ہوا۔ ناسخ اور آتش کے اکثر اشعار کا بھی یہی حال ہے۔ معتبر اشخاص کی زبانی سن چکا ہوں جو کہ خودان کے مشاعروں میں شامل ہوتے تھے۔ مگر اب دیوانوں میں وہ اشعار نہیں ملتے۔ استاد مرحوم کے صد ہا شعروں کا حال راقم آثم جانتا ہے کہ خود یاد ہیں یا ایک دو زبانوں پر ہیں یہ رہیں تو فراموشی کا مال ہے۔ کار ساز کریم ان کے مجموعے کو بھی تکمیل کو پہنچائے۔ سودا کا مطلع ہے۔ سودا: کہہ دیکھ تو رستم سے سر تیغ تلے دھر دے پیارے یہ ہمیں سے ہو ہر کارے و ہر مردے جرات: کہہ دیکھ تو رستم سے سر تیغ تلے دھر دے ہر شہرے و ہر رسمے، ہر کارے و ہر مردے میر: ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا سودا: چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا صبا نے تیغ کا موج رواں سے کام لیا جرات: پاس جا بیٹھا جو میں کل اک ترے ہمنام کے رہ گیا بس نام سنتے ہی کلیجا تھام کے میر: چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا سودا: برابری کا تری گل نے جب خیال کیا صبا نے مار تھپیڑا منہ اس کا لال کیا جرات: جو تیغ یار نے خون ریزی کا خیال کیا تو عاشقوں نے بھی منہ اس کا خوب لال کیا طائر شہرت نے ابھی پر پرواز نہ نکالے تھے جو مرزا رفیع اور میر سوز کے جلسے میں ایک لطیفہ ہوا۔ شاعر اپنی شاعری ماں کے پیٹ سے لے کر نکلتا ہے۔ ان کے کلام میں بعض نکتے ایسے بھی ہیں کہ جن پر خاص لوگوں کی نظریں اٹکتی ہیں۔ مثلاً ہو کے آزردہ جو وہ ہم سے پرے پھرتے ہیں ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں مصرع گرم ہے لیکن پرے پرے پھرتے ہیں کہتے تو محاورہ پورا ہو جاتا۔ کبھی وہ چاند کا ٹکڑا ادھر بھی آ نکلے ذرا تو دیکھ منجم مرے ستارے دن دکھاوے شکل کہ دیوار و در سے سر اپنا کہاں تلک کوئی تیرے قرار پر مارے ہجوم داغ نے یہ کی ہے تن پہ گلکاری کہ پہنے ہوں تن عیراں لباس پھلکاری ظہور اللہ خاں نواسے کسی معاملے میں بگاڑ ہو گیا تھا۔ انہوں نے ان کی ہجو میں ایک ترجیع بند کہا اور حقیقت میں بہت خوب کہا جس کا شعر ترجیع یہ ہے۔ ظہور حشر نہ ہو کیوں جو کلچڑی گنجی حضور بلبل بستاں کرے نوا سنجی خاں موصوف نے بھی بہت کچھ کہا۔ اس نے شہرت نہیں پائی۔ چنانچہ ان کے ترجیع بند کافی الحال یہی ایک شعر یاد ہے۔ رات کو کہنے لگا جورو کے منہ پر ہاتھ پھیر قدرت حق سے لگی ہے ہاتھ اندھے کے بٹیر کریلا۔ ایک پراتم بھانڈولی کا رہنے والا، نواب شجاع الدولہ کے ساتھ گیا تھا اور اپنے فن میں صاحب کمال تھا۔ ایک دن کسی محفل میں اس کا طائفہ حاضر تھا۔ شیخ جرات بھی وہاں موجود تھے۔ اس نے نقل کی۔ ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دوسرا ہاتھ اندھوں کی طرح بڑھایا۔ ٹٹول ٹٹول کر پھرنے لگا کہ حضور شاعر بھی اندھا، شعر بھی اندھا مضمون بھی اندھا۔ صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے؟ شیخ صاحب بہت خفا ہوئے۔ مگر یہ بھی سید انشاء اور مرزا قتیل کے جتھے کے جزو اعظم تھے، گھر آ کر انہوں نے بھی اس کی ہجو کہہ دی اور خاک خوب اڑائی۔ اسے سن کر کریلا بہت کڑوایا۔ چنانچہ دوسرے جلسے میں پھر اندھے کی نقل کی۔ اسی طرح لاٹھی لے کر پھرنے لگا۔ ان کی ایک غزل ہے۔ امشب تری زلفوں کی حکایت ہے واللہ کیا رات ہے کیا رات ہے کیا رات ہے واللہ ہر رات کے لفظ پر لکڑی کا سہارا بدلتا تھا۔ کیا رات ہے کیا رات ہے کیا رات ہے واللہ اس غزل کے ہر شعر کا دوسرا مرصع ایک ہی ڈھنک پر ہے۔ چنانچہ ساری غزل کو اسی طرح محفل میں پڑھتا پھرا۔ شیخ صاحب اور بھی غصے ہوئے اور پھر آ کر ایک ہجو کہی ترجیع بند تھا۔ بگلا جھولے بگلا جھولے ساون ماس کریلا پھولے اس کو بھی خبر ہوئی، بہت جلا بھنا، پھر کسی محفل میں ایک زچہ کا سوانگ بھرا اور ظاہر کیا کہ اس کے پیٹ میں بھتنا گھس گیا ہے۔ خود ملا بن کر بیٹھا اور جس طرح جنات اور سیانوں میں لڑائی ہوتی ہے اسی طرح جھگڑے جھگڑتے بولا کہ ارے نامراد کیوں غریب ماں کی جان کا لاگو ہوا ہے۔ جرا تہے تو باہر نکل آ کہ ابھی جلا کر خاک کروں۔ آخر اب کی دفعہ انہوں نے ایسی خبر لی کہ کریلا خدمت میں حاضر ہوا، خطا معاف کروائی اور کہا کہ میں اگر آسمان کے تارے توڑ لاؤں گا تو بھی اس کا چرچا وہیں تک رہے گا جہاں تک دائرہ محفل ہے۔ آپ کا کلام منہ سے نکلتے ہی عالم میں مشہور ہو جائے گا اور پتھر کی لکیر ہو گا کہ قیامت تک نہ مٹے گا۔ بس میری خطا معاف فرمائیے۔ اگرچہ روایت کہن سال لوگوں سے سنی ہے مگر کئی نسخے کلیات کی نظر سے گزرے جو ہجو اس میں ہے وہ ایسی نہیں ہے۔ جس پر ایک بھانڈ اس قدر گھبرا جائے کہ آ کر خطا معاف کروائے۔ لطیفہ: ایک دن میر انشاء اللہ خاں، جرات کی ملاقات کو آئے۔ دیکھا تو سرجھکائے بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کس فکر میں بیٹھے ہو۔ جرا ت نے کہا کہ مصرع خیال میں آیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ہے؟ جرات نے کہا کہ خوب مصرع ہے۔ مگر جب تک دوسرا مصرع نہ ہو گا تب تک نہ سناؤں گا۔ نہیں تو تم مصرع لگا کر اسے بھی چھین لوگے۔ سید انشاء نے بہت اصرار کیا۔ آخر جرات نے پڑھ دیا۔ اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی سید انشا نے فوراً کہا کہ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی جرا ت ہنس پڑے اور پنی لکڑی اٹھا کر مارنے کو دوڑے دیر تک سید انشاء آگے آگے بھاگتے پھرے اور یہ پیچھے پیچھے ٹٹولتے پھرے۔ اللہ اکبر!کیا شگفتہ مزاج لوگ تھے کہ خوش دلی اور فارغ البالی کے زمانے تھے۔ لطیفہ: سید انشاء نے ان کے نام کا معمہ کہا تھا۔ سرمونڈی نگوڑی گجراتن۔ اس میں گجراتن ان کی ماں کا نام تھا۔ نواب محبت خاں کے مختار نے ایک دفعہ جاڑے میں معمولی پوشاک دینے میں کچھ دیر کی جرات نے رباعی کہہ کر کھڑے کھڑے خلعت حاصل کیا۔ مختاری پہ آپ کیجئے گا نہ گھمنڈ کہتے ہیں جسے نوکری ہے بیخ ارنڈ سرمائی دلائیے ہماری ورنہ تم کھاؤ گے گالیاں جو ہم کھائیں گے ٹھنڈ غزل لگ جا گلے سے تاب اب اے نازنیں نہیں ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں کیا رک کے وہ کہے ہے جو ٹک اس سے لگ چلوں بس بس پرے ہٹو شوق پہ اپنے تئیں نہیں پہلو میں کیا کہیں جگر و دل کا کیا ہے رنگ کس روز اشک خونی سے تر آستیں نہیں فرصت جو پا کے کہئے کبھو درد دل سو ہائے وہ بدگماں کہے ہے کہ ہم کو یقیں نہیں آتش سی پھک رہی ہے مرے تن بدن میں آہ جب سے کہ روبرو وہ رخ آتشیں نہیں اس بن جہاں میں کچھ نظر آتا ہے اور ہی گویا وہ آسمان نہیں وہ زمیں نہیں کیا جانے کیا وہ اس میں ہے، لوٹے ہے جس پہ دل یوں اور کیا جہان میں کوئی حسیں نہیں سنتا ہے کون کس سے کہوں درد بے کسی ہمدم نہیں ہے کوئی مرا ہمنشیں نہیں ہر چند ہے بہ لطف شب ماہ سیر باغ اندھیر پر یہی ہے کہ وہ مہ جبیں نہیں آنکھوں کی راہ نکلے ہے کیا حسرتوں سے جی وہ روبرو جو اپنے دم واپسیں نہیں طوفان گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں موج سرشک تا فلک ہفتمیں نہیں حیرت ہے مجھ کو کیوں کہ وہ جرات ہے چین سے جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں امشب کسی کا کل کی حکایات ہے واللہ کیا رات ہے کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ دل چھین لیا اس نے دکھا دست حنائی کیا ہات ہے، کیا ہات ہے کیا ہات ہے واللہ عالم ہے جوانی کا جو ابھرا ہوا سینہ کیا گات ہے کیا گات ہے کیا گات ہے واللہ وشنام کا پایا وہ مزہ اس کے لبوں سے صلوٰت ہے صلوٰت ہے صلوٰت ہے واللہ جرات کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ طرح مشاعرہ کا مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے طبع آزمائی کی ہے ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو۔ انہوں نے سراپا باندھا ہے۔ جادو ہے نگہ چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا اور قد ہے قیامت غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا اللہ کی قدرت اٹکھیلی ہے رفتار میں گفتار کی کیا بات ہر بات جگت ہے اور رنگ رخ یار ہے گویا کہ بھبھوکا پھر تسپہ ملاحت ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے پہ دھواں دھار جوں دود بشعلہ حسن بت کافر ہے خدائی کا جھمکڑا ٹک دیکھیو صورت ابرو فن خونیریزی میں اس کے ہیں غضب طاق شمشیر برہنہ آنکھوں کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں سے نہ دیکھا افسوں ہے اشارت کان ایسے کہ کانوں سے سنے ویسے نہ اب تک نے آنکھوں سے دیکھے بالے کے تصور میں مجھے گھیرے ہے گویا اک حلقہ حیرت بینی یہ خوش اسلوب کہ نتھنوں کی پھڑک دیکھ تڑپے ہے دو عالم ہے اس کو لب یار کے بوسے کی تمنا ارمان ہے حسرت دانتوں کی صفا کیا کہوں موتی کی لڑی ہے لب لال کے ٹکڑے مستی ہے بلا تسپہ رکھے پان کا بیڑا سو شوخی کی رنگت دل خوں کرے وہ دست حنا بستہ پھر اس میں سمرن کی پھین ہائے ہے وضع تو سادی سی پہ کیا کیا نہیں پیدا شوخی و شرارت اس ابھرے ہوئے گات کی کیا بات جسے دیکھ سب ہاتھ ملے ہیں اور ہائے رے ہر بات میں گردن کا وہ ڈورا ہے دام محبت گلشن میں پھرے ٹک تو وہیں آتش گل کی گرمی سے عرق آئے ہر گام پہ چلنے میں کمر کھائے ہے لچکا اللہ رے نزاکت ہیں قہر سریں گول وہ اور ہائے کہوں کیا رانوں کی گدازی فرق اس میں نہیں فرق سے لے تابہ کف پا ہے طرفہ لطافت ہے عشوہ و انداز و ادا ناز و کرشمہ اور گرمی و شوخی ہر عضو پہ آنکھ اٹکے وہ کافر ہے سراپا اک موہنی مورت بھولے سے جو ہم نام لیں تو رک کے کہے یوں اس نام کو کم لو پھر اس میں جو رک جائیے تو جھٹ سے یہ کہنا بس دیکھ لی چاہت جرات یہ غزل گرچہ کہی ایسی ہے تو نے ہے خوب سراپا پر کہہ کے وہ اشعار کر اب اس کو دو غزلا ہو جس سے کہ وحشت جز بے کسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا ہے اپنی وہ تربت افسوس کرے کون بجز دست تمنا ہوں کشتہ حیرت جو میں کہا اس سے دکھا مجھ کو رخ اپنا بس دے نہ اذیت تو کیا کہوں کس شکل سے جھنجھلا کے وہ بولا تو دیکھے گا صورت یہ راہ تکی اس کی کہ بس چھا گئی اک بار آنکھوں میں سپیدی پیماں گسل آیا نہ وہ دے وعدہ فردا تا صبح قیامت سودائے محبت جو نہیں ہے تجھے اے دل تو پھر مجھے بتلا کیوں چاک کیے اپنے گریباں کو ہے پھرتا آنکھوں پہ ہے وحشت سو بار زباں گرچہ مری کٹ گئی جوں شمع اور پھر ہوئی پیدا پھر محفل قاتل میں مرے منہ سے نہ نکلا یک حرف شکایت اب گھر میں بلانے سے اگر آتی ہیں سو سوچ بدنام سمجھ کر آواز ہی تو در پہ مجھے آ کے سنا جا از راہ مروت آلودہ ہوا خوں سے دلا دامن قاتل بسمل ہو جو تڑپا افسوس صد افسوس کہ یہ تو نے کیا کیا اے ننگ محبت جو ولولہ شوق سے ہو مضطر و بے تاب نکلا ہی پڑے دل کیا قہر ہے کیا ظلم ہے محبوب گر اس کا ہو صاحب عصمت کیا خاک رہیں چین سے بے چینی کے مارے بس ہے یہ پریکھا ہم ہو گئے جس کے وہ ہوا ہائے نہ اپنا کیا کیجئے قسمت چپ ان دنوں رہتا ہے جو وہ صورت تصویر کچھ اور ہے خفقان لگ جائے پھر اس سے مرے کیوں دل کو نہ دھڑکا ہے موجب حیرت دل دے کے عجب ہم تو مصیبت میں پھنسے ہیں اک پردہ نشیں کو نے جانے کا گھر اس کے ہے مقدور ہمارا نے رہنے کی طاقت یا مجھ کو بلاتا تھا وہ یا آئے تھا مجھ پاس صحبت کی تھی گرمی اب اس کو خدا جانے دیا کس نے یہ بھڑکا جو ایسی ہے نفرت لے نام مرا کوئی تو دے سینکڑوں وشنام گن گن کے وہ قاتل بے رحمی و بے دردی سے پروا ہو نہ اصلا سن مرگ کی حالت آنا میرا سن در پہ کہیں گھر سے چلا جائے دیکھوں تو نہ دیکھے اور کوئی سفارش جو کرے میری تو کیا کیا کھینچے وہ ندامت گر خواب میں دیکھے مجھے تو چونک اٹھے اور پھر موندے نہ آنکھیں آواز جو میری سی سنے تو وہیں گھبرا کھانے لگے دہشت افسوس کہ گردوں نے عجب رنگ دکھایا نقشہ ہی وہ بدلا لے جان مری! خانہ تن سے تو نکل جا ہو جائے فراغت کس منہ سے کروں عشوہ گری اس کی بیاں میں اللہ رے ادائیں مل بیٹھے ہیں ہم اور وہ جو قسمت سے جو یک جا طرفہ ہوئی صحبت بے تاب ہو لگ چلنے کا جو میں نے کیا عزم دے بیٹھے وہ گالی کچھ اور کیا قصد تو کس ناز سے بولا بل بے تری جرات اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے تو پھر بجائے فرشتہ پری مزار میں آئے بھلا پھر اس کے اٹھانے میں کیوں نہ دیر لگے کسی کی موت کسی کے جو انتظار میں آئے بیک کرشمہ جو بے اختیار کر ڈالے وہ عشوہ ساز کسی کے کب اختیار میں آئے پس از فنا جو ترے دل جلے کی خاک اٹھے تو مضطرب سا دھواں اک نظر غبار میں آئے خراب کیونکہ نہ ہو شہر دل کی آبادی ہمیشہ لوٹنے والے ہی اس دیار میں آئے فغاں پھر اس کی ہو لبریز یاس کیونکہ نہ آہ بزیر دام جو مرغ چمن بہار میں آئے بلائیں لے لے جو ہونے لگوں نثار تو بس کہے ہے ہنس کے وہ ایسے جی اب پیار میں آئے نہ پوچھ مجھ سے وہ عالم کہ صبح نیند سے اٹھ جب انکھڑیوں کو وہ ملتے ہوئے خمار میں آئے نہ کیونکہ حد سے فزوں تر ہو رتبہ گریہ کہ اب تو حضرت دل چشم اشک بار میں آئے ٹلیں نہ واں سے اگر ہم کو گالیاں لاکھوں وہ دینے غیرت گل ایک کیا ہزار میں آئے مگر نہ کہیے کہ مضطر ہو تو نہ کیوں کہ بھلا وہ دوڑ دوڑ تمہارے نہ رہگزر میں آئے اٹحے جہاں سے نہ جرات اٹھا کے درد فراق الٰہی موت بھی آئے تو وصل یار میں آئے یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی اور جو بولے بھی ہے کچھ منہ سے تو شرمایا ہوا جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سرگرم جنگ میں تو ہوں حیراں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا وہ کرے عزم سفر تو کیجئے دنیا سے کوچ ہے ارادہ دل میں مدت سے یہ ٹھہرایا ہوا نوک مژگاں پر دل پژمردہ ہے یوں سرنگوں شاخ پر جھک آئے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے اجی بیٹھے رہو ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا تیری دوری ہے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ عنقریب مرگ ہ رایک اپنا ہمسایا ہوا کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک دل پہ بے تابی کا اک پتلا ہے بٹھلایا ہوا ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبراتا ہوا حکم بار مجلس اب جرات کو بھی ہو جائے جی یہ بچار کب سے دروازے پہ ہے آیا ہوا نہ جواب لے کے قاصد جو پھر اشتاب الٹا میں زمیں پہ ہاتھ مارا بصد اضطراب الٹ ادم وصل اس نے رخ سے جو نہ ٹک نقاب الٹا ہمیں لگ گیا دم اس دم بصد اضطراب الٹا ترے دور میں ہو مے کش کوئی کیا فلک کہ تیری وہ ہے شکل جوں دھرا ہو قدح شراب الٹا یہ وفا کی میں نے تسپر مجھے کہتے بے وفا ہو مری بندگی ہے صاحب یہ ملا خطاب الٹا مرے بخت ہیں وہ روکش کہ وہ دے جو وعدہ شب تو پہنچ کے تا بمغرب پھرے آفتاب الٹا کسی نسخے میں پڑھے تھا وہ مقام دلنوازی مجھے آتے جوں ہی دیکھا ورق کتاب الٹا وہ بہا کے کاسہ سر مرے خوں میں شکل کشتی کہے ہے کہ دیکھو نکلا یہ موا حباب الٹا مرے دل نے داغ کھایا جو یہ بوئے سوختہ سے یہ جلا بس ایک پہلو نہ کیا کباب الٹا غزل اور پڑھ تو جرات کہ گیا جو یاں سے گھر کو تو کلام سننے تیرا میں پھرا شتاب الٹا میں تڑپھ کے سنگ تربت بصد اضطراب الٹا مری قبر پر وہ آ کر جو پھر اشتاب الٹا مرے سو سوال سن کر وہ رہا خموش بیٹھا نہیں یہ بھی کہنے کی جا کہ ملا جواب الٹا جو رکھے ہے بخت واژوں وہ غنی سے مل ہو مفلس کہ رہے یہ آب دریا قدح حباب الٹا شب وصل یہ قلق تھا پہ وہ سو گیا تو منہ سے نہ ذرا بھی میں دوپٹہ زرہ حجاب الٹا ہمیں ہے خیال اس کا کہ جو آیا خواب میں وہ تو زباں پہ اس کے ڈر سے نہ وہ ہم نے خواب الٹا اسی حد تک آؤں گا میں کہ نہیں ہے دل کہے ہیں مجھے پھیرتے عبث ہو زرہ عتاب الٹا طلب اس سے کل جو مے کی تو پھر اہواز میں پر مجھے شوخ نے دکھا کر قدح شراب الٹا جو کنار مقصد اپنی لگے بہ کے ناؤ گاہے تو ہوا تھپیڑ مارے لگے بہنے آب الٹا کسی تذکرے میں پڑھنے مرے شعر جو لگا وہ تو ہوا نے ووں ہی جرات ورق کتاب الٹا اس ڈھپ سے کیا کیجئے ملاقات کہیں اور دن کو تو ملو ہم سے رہو رات کہیں اور کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے بولے ہے جو ہم سے تو اشارت کہیں اور اس ابر میں پاؤں میں کہاں دختر رز کو رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور جس رنگ مری چشم سے برسے ہے پڑا خوں اس رنگ کی دیکھی نہیں برسات کہیں اور گھر اس کو بلا نذر کیا دل تو وہ جرات بولا کہ یہ بس کیجئے مدارات کہیں اور ججب یہ سنتے ہیں کہ ہمسائے ہیں آپ آئے ہوئے کیا در و بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے آپ سے میں تو نہ جاؤں پہ کروں کیا کہ وہیں دل بے تاب لیے جائے ہے دوڑائے ہوئے گھر میں بے یار ہے شکل اپنی یہ دل کے ہمراہ دو گنہگار ہوں جوں قید میں بٹھلائے ہوں آئے ہو دست بہ قبضہ ہو تو پھر دیر ہے کیا سر تسلیم کو ہم بیٹھے ہیں نہواڑے ہوئے آج بھی اس کے جو آنے کی نہ ٹھیری تو بس آۃ ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دل میں ہیں ٹھیرائے ہوئے پیرہن چاک تیرے در پہ جو کل کرتا تھا آج لوگ اس کو لیے جاتے ہیں کفنائے ہوئے مردنی پھر گئی منہ پر مرے جن کی خاطر رنگ رو کیا وہ پڑے پھرتے ہیں چمکائے ہوئے ابر تصویر کی مانند ہم اس محفل میں رو نہیں سکتے پہ آںکھوں میں اشک آئے ہوئے لوگ گرہم سے یہ کہتے ہیں کہ چلتے ہو جی واں اپنے بیگانے سب اس بزم میں ہیں آئے ہوئے دل میں تب سوچ کے اس بات کو رو دیتے ہیں کیا کہیں ان سے کہ ہیں ہم تو نکلوائے ہوئے کر کے موزوں انہیں جرات غزل اک اور بھی پڑھ دل میں جو تازہ مضامین ہوں ٹھہرائے ہوئے خوف کو کچھ کھاتے ہی بیدار ہم اے وائے ہوئے شب کو تم خواب میں پھر آئے تو گھبرائے ہوئے بے خودی پر نہ ہماری متحیر ہو کوئی آئیں کیا آپ میں جی ہم ہیں کہیں آئے ہوئے رنگ اور اس میں نظر آئے ہے کچھ حضرت دل اشک سرخ آنکھوں میں پھرتے ہو جو چمکائے ہوئے رشک کی جا ہے غرض شہر خموشاں بھی کہ واں سوتے کیا چین سے ہم پاؤں کو پھیلائے ہوئے دیکھیو شوخی کہ کوچے میں دل عاشق کو کیسی اٹکھیلی سے جاتا ہے وہ ٹھکرائے ہوئے جوش وحشت سے گریبان کو کرچاک ہم آہ سرخ آنکھیں کیے کیا بیٹھے ہیں جھنجھلائے ہوئے جام دیتے نہیں مجھ کو جو دم بادہ کی یہ تو فرماؤ کہ تم کس کے ہو بہکائے ہوئے حسرت اے ہم نفشاں سیر چمن مفت گئی نخل بستاں سے قفس ہیں کئی لٹکائے ہوئے دور چھوڑا ہمیں گلشن سے یہ رونے کی ہے جا کہ سزاوار اسیری بھی نہ ہم ہائے ہوئے دم رخصت کہے جرات کوئی اس کافر سے اک مسلمان کو کیوں جاتے ہو تڑپھائے ہوئے ٭٭٭ میر حسن حسن تخلص، میر غلام حسن نام خاص دہلوی تھے۔ پرانی دلی میں سید واڑہ ایک محلہ تھا۔ وہاں پیدا ہوئے تھے۔ عالم شباب میں والد کے ساتھ فیض آباد گئے اور نواب سرفراز جنگ خلف نواب سالار جنگ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ کچھ مدت مقام مذکو رمیں رہے پھر لکھنو میں آ گئے۔ خندہ جبیں، شگفتہ مزاج، ظریف طبع تھے اور اس میں تہذیب و شائستگی کو کبھی ہاتھ نہ دیتے تھے۔ میانہ قد، خوش اندام، گورا رنگ، جملہ قوانین شراقت اور آئین خاندان میں اپنے والد کے پابند تھے۔ اتنا تھا کہ داڑھی منڈاتے تھے۔ اللہ اللہ عہد جوانی بھی ایک عالم رکھتا تھا۔ جوانی کجائی کہ یادت بخیر سر پر بانکی ٹوپی، تن میں تن زیب کا انگرکھا، پھنسی ہوئی آستینیں، کمر سے دوپٹہ بندھا۔ رہے اک بانکپن بھی بے دماغی میں تو زیبا ہے بڑھا دو چین ابرو پر ادائے کج کلاہی کو جب تک دلی میں رہے، پہلے اپنے والد سے پھر خواجہ میر درد سے اصلاح لیتے رہے اودھ میں جا کر میر ضیاء الدین ضیاء کے شاگرد ہوئے اورمرزا رفیع سودا کو بھی غزل دکھائی۔ لکھنو میں آ کر ان کے کلام نے شہرت کا رنگ اڑایا۔ ان کے اشعار غزل کے اصول میں گلاب کے پھول ہیں اور محاورات کی خوش بیانی مضامین عاشقانہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میر سوز کا انداز بہت ملتا ہے۔ اہل تذکرہ کہتے ہیں کہ قصیدہ اس رتبے پر نہ تھا اور کچھ اس کا تعجب نہیں کیونکہ دونوں کوچوں میں مسافت بعید کا فاصلہ ہے۔ حقیقت سحر البیان بے نظیر اور بدر منیر کا قصہ بے نظیر لکھا اور اس مثنوی کا یہ نام سحر البیان رکھا ہے۔ زمانے نے اس کی سحر البیانی پر تمام شعرا اور تذکرہ نویسوں سے محضر شہادت لکھوایا اس کی صفائی بیان اور لطافت محاورہ اور شوخی مضمون اور طرز ادا اور ادا کی نزاکت اور جواب سوال کی نوک جھوک حد توصیف سے باہر ہے۔ اس کی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کسی سناوٹ رکھی تھی کیا اسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں؟ کہ جو کچھ اس وقت کہا، صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو ہے۔ جو آج ہم تم بول رہ ہیں۔ اس عہد کے شعرا کا کلام دیکھو! ہر صفحے میں بہت سے الفاظ اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ آج متروک اور مکروہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کا کلام (سوا چند الفاظ کے) جیسا جب تھا، ویسا ہی آج دل پذیر و دلکش ہے۔ کیا کہتا ہوں؟ آج کس کا منہ ہے جو ان خوبیوں کے ساتھ پانچ شعر بھی موزوں کر سکے؟خصوصاً ضرب المثل (کہاوت) کو اس خوبصورتی سے شعر میں مسلسل کر جاتے ہیں کہ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی ہے کہ یہ کیا میوہ ہے۔ عالم سخن کے جگن گر و مرزا رفیع سودا اور شاعروں کے سرتاج میر تقی میر نے بھی کئی کئی مثنویاں لکھیں فصاحت کے کتب خانے میں اس کی الماری پر جگہ نہ پائی۔ کتاب مذکور ہر گھر، ہر دکان بلکہ اس کے اشعار ہر زبان پر جاری ہیں، اس لیے یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ملک سخن میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئیں، مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی ایک سحر البیان دوسرے گلزار نسیم اور تعجب یہ کہ دونوں کے رستے بالکل الگ الگ ہیں۔ اس واسطے آزاد کو واجب ہے کہ کچھ لکھے اور اہل سخن سے اپنی رائے کی صحت و سقم کا حال پوچھے۔ مثنوی حقیقت میں ایک سرگزشت یا بیان ماجرا ہے۔ جسے تاریخ کا شعبہ سمجھنا چاہئے، اس واسطے اس کے اصول میں لکھا ہے کہ چاہنے، نہایت سیس گفتگو میں ہو جس طرح ہم تم باتیں کرتے ہیں۔ میر حسن مرحوم نے لکھا اور ایسی صاف زبان، فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں اور اس کیفیت کے ساتھ ادا کیا، جیسے اب رواں، اصل واقعے کا نقشہ آنکھوں میں کھچ گیا او ران ہی باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں، جو اس وقت وہاں ہو رہی تھیں۔ باوجود اس کے اصول فن سے بال بھر ادھر یا ادھر نہ گرے۔ قبول عام نے اسے ہاتھوں میں لے کر آنکھوں پر رکھا اور آنکھوں نے دل و زبان کے حوالے کیا اس نے خواص اہل سخن کی تعریف پر قناعت نہ کی۔ بلکہ عوام، جو حروف تہجی بھی نہ پہچانتے تھے وظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔ ارباب نشاط نے محفلوں میں اس کی نغمہ سرائی کر کے لوگوں کو لٹایا اور لایا۔ پنڈت دیا شنکر نے گلزار نسیم لکھی او ربہت خوب لکھی۔ اس کا رستہ اس سے بالکل الگ تھا۔ کیونکہ پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہ کے پردے اور استعارے کے پیچ میں ادا کیا اور وہ ادا معشوقانہ خوش ادائی نظر آئی۔ اس کے پیچ وہی بانکپن کی مروڑ ہیں، جو پریز ادیں بانکا دوپٹہ اوڑھ کر دکھاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنایوں کے رنگ میں دکھایا ہے۔ باوجود اس کے زبان فصیح اور کلام شستہ اور پاک ہے۔ اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے، جس کا ذکر کرنا واجب ہے۔ کیونکہ ہر معاملے کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے، جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں سے نکال لو تو داستان برہم ہو جاتی ہے۔ ان باتوں کے لحاظ سے جواب تھا کہ کتاب خاص پسند ہوتی۔ باوجود اس کے عام و خاص سب میں شہرت پائی۔ اس کے نکتوں اورباریکیوں کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ مگر سب لیتے ہیں اور پڑھتے ہیں جتنی سمجھ میں آتی ہے اسی پر خوش ہوتے ہیں اور لوٹے جاتے ہیں۔ مثنوی مذکور جب پہلے انہوں نے لکھی تو بہت بڑی تھی خواجہ آتش اپنے استاد کے پاس اصلاح کو لے گئے۔ انہوں نے کہا، بھیا اتنی بڑی کتاب کو دیکھے گا کون؟ وہ اپنا ذہ یک کا قانون یہاں بھی جاری کرو (اس کنایے میں یہ اشارہ تھا کہ پنڈت صاحب فوج شاہی میں منشی تھے اور بموجب قانون حکومت کے سب کی تنخواہوں میں سے وہ یکی کاٹ لیے تھے۔ گھر گھر میں اس شکایت کا چرچا تھا۔ یہ مثنوی مذکور لے گئے اور اختصار کیا تو ایسا نچوڑا کہ عطر نکال لیا) ایک موقع پر میر حسن مرحوم کا سفر شاہ مدار کی چھڑیوں کے ساتھ مطابق پڑا۔ چنانچہ سفر مذکور کا حال ایک مثنوی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس میں فیض آباد کی تعریف اور لکھنو کی ہجو کی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عورتوں کی پوشاک وہاں کیا تھی اور چھڑیوں کے اور جانے والوں کے جزئیات رسوم کیا کیا تھے۔ میں نے یہ مثنوی دلی کی تباہی سے پہلے دیکھی تھی، اب نہیں ملتی لوگ بہت تعریف لکھتے ہیں، مگر حق یہ ہے کہ بدر منیر کو نہیں پہنچتی۔ تیسری مثنوی اور بھی تھی مگر مشہور نہ ہوئی۔ دیوان اب نہیں ملتا۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ انواع سخن سے لبریز ہے۔ صاحب گلزار ابراہیم 1196ھ میں کہتے ہیں کہ سید موصوف نے کلام مجھے بھیجا ہے اور جو خط لکھا ہے اس کی اصل عبارت یہ ہے ۔ از صائر اقسام اشعار ابیات مدونہ من ہش تہزار بیت است، تذکرہ در ریختہ ہم نوشتہ و اصلاح سخن از میر ضیا گرفتہ ام۔ مرتیست کہ از دہلی وارد لکھنو گشتہ بانواب سالار جنگ و خلف ایشاں ملقب بہ نوازش علی خاں۔ سرفراز جنگ بہادر میگزرانم۔ افسوس خدا نے رشید اولاد وی، مگر کسی نے اپنے بزرگ کے نام کو روشن کرنے کا خیال نہ کیا۔ اس کے کئی سبب ہوئے۔ بیٹوں کو نہ زمانے نے وسعت دی، نہ حصول ثواب نے فرصت دی اور اس وقت چھاپا بھی کلکتہ سے اس طرف نہ آیا تھا۔ پوتے میر انیس وغیرہ ہوئے انہیں ان کے پاک اعتقاد اور حسن نیت نے مبارک زمانہ دیا اور زمانے نے ایسے بلند درجے پر بٹھایا، جہاں سے دادا کا کمال بہت چھوٹا نظر آیا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہمارا ذاتی کمال داد ا کی تعریف اور شہرت سے بے نیاز ہے۔ یہ سب درست لیکن موجودہ نسل چند روز کے بعد اور آئندہ نسلیں مدت تک افسوس کریں گی۔ زمانہ بدل گیا اور بدلتا جاتا ہے۔ وقت تو گیا، پھر یہ وقت بھی نہ پائیں گے۔ آج یہ نوبت ہے کہ پانچ غزلیں بھی پوری نہ ملیں جو اس کتاب میں درج کرتا۔ خلاصہ کمال کا یہ کہ 1201ھ اول محرم کو دار فانی سے رحلت کی۔ مفتی گنج میں نواب قاسم علی خاں کے باغ کے پچھواڑے دفن ہوئے عمر کا حال نہ کھلا۔ لکھتے ہیں کہ 50برس سے زیادہ عمر پائی۔ دو صاحبزادوں نے نام پایا۔ میر خلیق، میر خلق، شیخ مصحفی نے تاریخ کہہ کر حق آشنائی ادا کیا۔ تاریخ چوں حسن آن بلبل خوش داستاں رو ازیں گلزار رنگ بوبتافت بسکہ شیریں بود نطقش مصحفی شاعر شیریں زباں تاریخ یافت غزل جو چاہے آپ کو تو اسے کیا نہ چاہئے انصاف کر تو چاہئے پھر یا نہ چاہیے مجھ ایسا تجھ کو چاہے نہ چاہے عجب نہیں تجھ سا جو چاہے مجھ کو تو پھر کیا نہ چاہئے کس کو سنا کے کہتے ہو میں چاہتا نہیں اب کیوں جی ہم برے ہوئے اچھا نہ چاہئے گر پاس تیرے بیٹھوں تو معذور رکھ مجھے جس جا پہ شمع ہوئے تو پروانہ چاہئے عیش و وصال و صحبت یاراں، فراغ دل اس ایک جان کے لیے کیا کیا نہ چاہئے دیتے ہو تم دکھائی جو ہمراہ غیر کے اس طرح سے غرض تمہیں دیکھا نہ چاہئے اب جیسے اک حسن سے ہنسے تھے تو ہنس لیے پر اس طرح ہر ایک سے ٹھٹھا نہ چاہئے یہ طرفہ تر کہ تیری سنبھلتی نہیں زباں اور تیرے سامنے مری چلتی نہیں زباں میرا تو دل جلا تری باتوں سے شمع رو تو بھی دیکھ کیا تری جلتی نہیں زباں کل عہد کچھ کیا تھا، دیا قول آج کچھ پھر کہیو تو کہ میری بدلتی نہیں زباں سر گرم سوز عشق رہے ہے یہ مثل شمع تن گھل گیا ہے اور پگھلتی نہیں زباں سو سو طرح سے کرتا ہوں تقریر میں حسن عہدے سے حال دل کے نکلتی نہیں زباں وہ جب تک کہ زلفیں سنوارا کیا کھڑا اس پہ میں جان وارا کیا ابھی دل کو لے کر گیا میرے آہ وہ چلتا رہا میں پکارا کیا قمار محبت میں بازی سدا وہ جیتا کیا اور میں ہارا کیا کیا قتل اور جاں بخشی بھی کی حسن اس نے احساں دوبارا کیا ٭٭٭ سید انشاء اللہ خاں انشا تخلص سید انشا اللہ خاں نام، بیٹے حکیم میر ماشا ء اللہ خاں کے تھے۔ اگرچہ خاندان کے اعتبار سے بھی نامی گرامی شخص تھے۔ مگر ان کی اپنی ناموری نے باپ کے نام کو بلکہ تمام خاندان کو نئی شہرت سے جلوہ دیا۔ بزرگ ان کے ہندوستان میں نجف اشرف سے آئے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ خطہ کشمیر کے سادات صحیح النسب سے ہیں۔ وہاں کسی زمانے میں سمرقند سے آئے تھے۔ پھر دلی میں آ کر سکونت اختیار کی۔ رفتہ رفتہ امرائے شاہی میں داخل ہوئے اور بعض ان میں طبل و نقارہ سے بلند آواز ہوئے۔ بموجب پیشہ خاندانی کے میر ماشاء اللہ خاں دربار شاہی میں طبیب تھے اور زمرہ امرا میں داخل تھے۔ ان کے خاندان کی خوبیوںاور گھر کے چال چلن کو دلی اور لکھنو کے شرفا سب مانتے تھے۔ ادنیٰ نمونہ یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ ہے کہ ان کے ہاں عورتوں کی پوشاک گھر میں دھوتے تھے یا جلا دیتے تھے، دھوبی کو نہ دیتے تھے کہ نامحرم کے ہاتھ میں عورتوں کا لباس نہ جائے۔ غرض سلطنت چغتائیہ کے ضعف میں میر ماشاء اللہ خاں کو مرشد آباد جانا پڑا۔ وہاں بھی اعزاز و اکرام سے رہے اور جس طرح اگلے وقتوں میں خاندانی امیر زادے تعلیم پاتے تھے۔ اسی طرح سید انشاء کو سب ضروری علوم و فنون سے ماہر کیا۔ باپ کے لیے مثال دے سکتے ہیں کہ عزیز بیٹے کو اس خوبصورتی سے تعلیم کیا۔ مگر بیٹا جو جوہر دار طبیعت اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ جب یہ ہونہار نونہال تعلیم کے چمن سے نکلا تو ہر ریشے میں کونپل، پتے پھول، پھل کے قرائے مختلفہ موجود تھیں۔ اس طرح کہ جس سر زمین پر لگے وہیں کی آب و ہوا کے بموجب بہار دکھلانے لگے۔ ایسا طباع اور عالی دماغ آدمی ہندوستان میں کم پیدا ہو گا۔ وہ اگر علوم میں سے کسی ایک فن کی طرف متوجہ ہوتے تو صد ہا سال تک وحید عصر گنے جاتے۔ طبیعت ایک ہیولی تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑ سکتی تھی۔ باوجود اس کے شوخی قدر کہ سیماب کی طرح ایک جا قرار نہ تھا۔ چنانچہ کلیات ان سب مراتب کے لیے محضر شہادت ہے۔ ان کی طبیعت جو شیر کی طرح کسی کا جھوٹا شکار نہ کھاتی تھی۔ پیشہ آبائی پر مائل نہ ہوتی لیکن چونکہ ایسے رنگا رنگ خیالات کا سوائے شاعری کے اور فن میں گزارا نہیں، اس لیے شاعری کی طرف جھکے، جس سے انہیں ربط خداداد تھا۔ اس کوچے میں بھی اپنا رستہ سب سے جدا نکال کر داخل ہوئے۔ انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ والد کو ابتدا میں کلام دکھایا۔ حق یہ ہے کہ شاعری کا کوچہ جہان سے نرالا ہے۔ جو لوگ ذہن کے بھدے ہیں ان کے لیے تو استار کی محنت ہی برباد ہے۔ مگر یاد رہے کہ جس قدر مبتدی زیادہ تیز طباع ہوا، اتنا ہی زیادہ استاد کا محتاج ہے۔ جیسے ہونہار بچھیرا کہ اچھے چابک سوار کے کوڑے تلے نکلتا ہے جب ہی جوہر نکالتا ہے نہیں تو بے ڈھنگے ہاتھ پاؤں مارتا ہے بلکہ بدہو جاتا ہے۔ اسی طرح تیز اور نوجوان طبیعت زبردست استاد کے قلم کے نیچے نہ نکلے تو گمراہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پرکھنے والوں نے عرفی کے کلام میں یہی کھوٹ نکالی ہے۔ الغرض جب ہندوستان میں تباہی عام ہوئی تو سید انشاء مرشد آباد سے دلی میں آئے۔ اس وقت دلی کا دربار ایک ٹوٹی پھوٹی درگاہ اور سجادہ نشین اس کے شاہ عالم بادشاہ تھے۔ شاہ موصوف نے کہ خود بھی شاعر تھے، خواہ قدر دانی شاعرانہ سے خواہ اس نظر شفقت سے جو بادشاہوں کو اپنے خانہ زادوں سے چاہے (اور یہ خاندان تیموریہ کا خاصا تھا) اس نوجوان پر خلعت عزت کے ساتھ شفقت کا دامن اڑھایا۔ سید انشاء اہل دربار میں داخل ہوئے چنانچہ اپنے اشعار کے ساتھ لطائف و ظرائف سے ایک چمن زعفران تھا، گل افشانی کر کے محفل کو لٹا لٹا دیتے تھے اور یہ عالم ہوا کہ شاہ عالم کو ایک دم جدائی ان کی ناگوار ہو گئی۔ دلی میں اس وقت سودا اور میر جیسے لوگ نہ تھے مگر بڈھے بڈھے شوقین تھے کہ ان ہی بزرگوں کے نام لینے والے تھے۔ مثلاً حکیم ثناء اللہ خاں فراق شاگرد میر درد، حکیم قدرت اللہ خاں قاسم شاگرد خواجہ میر درد، شاہ ہدایت، میاں شکیبا شاگرد میر، مرزا عظیم بیگ شاگرد سودا، میر قمر الدین منت والد میر ممنون ساکن سونی پت، شیخ ولی اللہ محبت وغیرہ حضرات تھے کہ دربار شاہی سے خاندانی اعزاز رکھتے تھے اور خاص و عام انہیں چشم ادب سے دیکھتے تھے۔ اگر یہ لوگ نوشت و خواند میں پختہ اور بعض ان میں سے اپنے اپنے فن میں بھی کامل ہوں، مگر وہ جامعیت کہاں، اور جامعیت بھی ہو تو وہ بے چارے بڈھے پراتم پرانی لکیروں کے فقیر، یہ طبیعت کی شوخی، زبان کی طراری، تراشوں کی نئی پھبن، ایجادوں کا بانکپن کہاں سے لائیں۔ غزلیں رشک بھی تلامیذ رحمانی کا خاصہ ہے یا تو غریب الوطن نوجوان کو بے رفیق و بے یار سمجھ کر کہن سال مشاقوں نے کچھ تعریفیں کیں یا یہ کہ مشاعرے میں اس بلند نظر کے حسب دل خواہ اس کے کلام کی عزت نہ ہوئی۔ بہرحال سید انشاء کو شبہ ہوا کہ میری مخالفت پر سب دلی والے موافق ہو گئے۔ اگرچہ یہ بزرگ بھی پرانے مشاق تھے۔ مگر وہ نوجوان شہباز جس کے سینے میں علوم و فنون کے زوربھرے تھے اور طراری اور براقی کے بازو اڑائے لیے جاتے تھے کسی کو خاطر میں کب لاتا تھا۔ خدا جانے طرفین نے زبان سے کیا کچھ کہا ہو گا، مگر غزلوں کے مقطع میں فخریہ چشمکیں ہونے لگیں اور ساتھ ہی یہ نکتہ چینی کی عینکیں لگ گئیں، ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعویٰ شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے ان کا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے، مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاء اللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی، مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشاء بھی موجود تھے۔ تاڑ گئے، حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ مرزا صاحب اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں، مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا۔ اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاء نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو کچھ گزری، مگر سید انشاء نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مار سکا، بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا، جس کا مطلع یہ ہے۔ گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے اگرچہ مرزا عظیم بیگ نے بھی گھر جا کر اسی مخمس کی طرح اپنی بساط بموجب دل کا بخار نکالا مگر وہ مشت بعد از جنگ تھی چند بند اس کے انتخاباً لکھتا ہوں، کیونکہ اور بند بسبب بے لفظی اور نادر سستی کے قابل تحریر بھی نہیں، مرزا عظیم بیگ کہتے ہیں۔ وہ فاضل زمانہ ہو تم جامع علوم تحصیل صرف و نحو سے جن کی مچی ہے دھوم رمل و ریاضی حکمت و ہیت جفر نجوم منطق بیان معانی کہیں سب زمیں کو چوم تیری زباں کے آگے نہ دہقاں کا ہل چلے اک وو غزل کے کہنے سے بن بیٹھے ایسے طاق دیوان شاعروں کی نظر سے رہے بہ طاق ناصر علی نظیری کی طاقت ہوئی ہے طاق ہر چند ابھی نہ آئی ہے فہمیدہ جفت و طاق ٹنگڑی تلے سے عرفی و قدسی نکل چلے تھا روز فکر میں کہ کہوں معنی و مثال تجنیس و ہم رعایت لفظی و ہم خیال فرق رجزر مل نہ لیا میں نے گو سنبھال نادانی کا مرے نہ ہو دانا کو احتمال گو تم بقدر فکر یہی کر حمل چلے نزدیک اپنے آپ کو کتنا ہی سمجھو دور پر خوب جانتے ہیں تجھے جو ہیں ذی شعور وہ بحر کون سی ہے، نہیں جس پہ یاں عبور کب میری شاعری میں پڑے شبہ سے قصور بن کر قمل نکالنے کو تم خلل چلے موزونی و معانی میں پایہ نہ تم نے فرق تبدیل بحر سے ہوے بحر خوشی میں غرق روشن ہے مثل مہریہ از غرب تابہ شرق شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے کم ظرفی سے تمہیں تو یہی آئی ہے امنگ کیجئے نمود خلق میں اب کر سخن کی جنگ اپنے تئیں تو بخشنے آتا ہے یار ننگ اتنا بھی رکھئے حوصلہ فوارہ ساں نہ تنگ چلو ہی بھر جو پانی میں گز بھر اچھل چلے کیوں جنگ گفتگو کو تم اٹھ دوڑے اس قماش کرتے جو بھاری پائچہ ہوتا نہ پر وہ فاش پر سمجھیں کب یہ بات جو کندے ہوں نا تراش تیغ زباں کو میان میں رکھتے تم اپنے کاش ناحق جو تم ازار سے باہر نکل چلے اب سید انشاء کے طائر فخر کی بلند پروازی اور بھی زیادہ ہوئی۔ ہر غزل میں مضامین فخریہ کا جوش ہونے لگا۔ یہاں تک کہ میرا او ران لوگوں کا کلام ایسا ہے جیسے کلام الٰہی او رمسیلمہ کذاب کا الفیل، مالفیل۔ مشاعرے میں بادشاہ بھی اپنی غزل بھیجا کرتے تھے اور بادشاہوں کا کلام جیسا ہوتا تھا وہ ظاہر ہے۔ سید انشاء نے حضور میں عرض کی کہ فلاں فلاں حضور کی غزل پر تمسخر اور مضحکہ کرتے ہیں۔ بادشاہ اگرچہ ان خانہ زادان قدیم پر ہر طرح قدرت رکھتے تھے۔ مگر اتنا کیا کہ مشاعرے میں غزل بھیجنی موقوف کر دی۔ یاروں کو بھی خبر لگ گئی۔ نہایت رنج ہوا۔ چنانچہ بعد اس کے جو مشاعرہ ہوا تو اس میں کمریں باندھ باندھ کر آئے اور ولی اللہ محب نے یہ قطعہ پڑھا۔ مجلس میں چکے چاہنے جھگڑا شعرا کا ویسے ہی کسی صاحب توقیر کے آگے یہ بھی کوئی دانش ہے کہ پہنچے یہ قضایا اکبر تئیں یا شاہ جہانگیر کے آگے مرزا عظیم بیگ نے کہا، بابا میں نے اپنی عرض میں اپنے استاد کے ایک شعر پر قناعت کی ہے کہ ابھی تضمین ہو گیا۔ عظیم اب گو ہمیشہ سے ہے یہ شعر کہنا شعار اپنا طرف ہر اک سے ہو بحث کرنا نہیں ہے کچھ افتخار اپنا کئی سکھن باز کھنڈ گویوں میں ہو نہ ہو اعتبار اپنا جنہوں کی نظروں میں ہم سبک ہیں دیا انہی کو وقار اپنا عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پر ڈالا جو بار اپنا دریائے مواج کے آگے گھاس پھوس کی کیا کیفیت تھی، سید انشاء غزل فخریہ کہہ کر لائے تھے، وہ پڑھی جس کا ہر شعر دلوں پر توپ کے گولے کا کام کرتا تھا۔ اک طفل دبستاں ہے فلاطوں مرے آگے کیا منہ ہے ارسطو جو کرے چوں مرے آگے کیا مال بھلا قصر فریدوں مرے آگے کانپے ہے پڑا گنبد گردوں مرے آگے مرغان اولی اجنحہ مانند کبوتر کرتے ہیں سدا عجز سے غوں غوں مرے آگے منہ دیکھو تو نقارچی پیل فلک بھی نقارے بجا کر کہے دوں دوں مرے آگے ہوں وہ جبروتی کہ گروہ حکماء سب چڑیوں کی طرح کرتے ہیں چوں چوں مرے آگے بولے ہے یہی خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں بادل سے چلے آتے ہیں مضموں مرے آگے مجرے کو مرے خسرو پرویز ہو حاضر شیریں بھی کہے آ کے بلا لوں مرے آگے کیا آ کے ڈراوے مجھے زلف شب یلدا ہے دیو سفید سحری جوں مرے آگے وہ مار فلک کا ہکشاں نام ہے جس کا کیا دخل جو بل کھا کے کرے فوں مرے آگے بعد ان کے حکیم میر قدرت اللہ خاں قاسم کے سامنے شمع آئی۔ انہوں نے اتنا کہا کہ سید صاحب ذرا الفیل مالفیل کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اسی وقت اٹھے کہ دونوں میں صلح کروا دی۔ سید انشاء نے بھی شرافت خاندانی اور علو حوصلہ کا کام کیا۔ اٹھ کر حکیم صاحب کے گلے لپٹ گئے اور کہا کہ حضرت حکیم صاحب آپ میرے بنی عم، اس پر صاحب علم، صاحب فضل، خاک بند ہنم، بھلا آپ پر طنز کروں گا۔ البتہ مرزا عظیم بیگ سے شکایت ہے کہ وہ خواہ مخواہ بد دماغی کرتے ہیں اور داد دینی تو درکنار شعر پر سر تک نہیں ہلاتے آخر کس مرتے پر؟ غرض کہ سب کی صلح پر خاتمہ ہو گیا۔ دلی میں اگرچہ بادشاہ اس وقت فقط بادشاہ شطرنج تھا، یہاں تک کہ مال و دولت کے ساتھ غلام قادر نقد بصارت تک بھی لے گیا تھا۔ مگر یہ اپنا مطلب ہزار طرح سے نکال لیتے تھے مثلاً جمعرات کا دن ہوتا تو باتیں کرتے کرتے دفعتاً خاموش ہوتے اور کہتے کہ پیر و مرشد غلام کو اجازت ہے؟ بادشاہ کہتے خیر باشد کہاں؟ یہ کہتے حضور آج جمعرات ہے، غلام، نبی کریم جائے۔ شاہ دین و دنیا کا دربار ہے کچھ عرض کرے۔ شاہ عالم بہ ادب کہتے کہ ہاں بھئی ضرور چاہئے۔ سید انشاء اللہ خاں ہمارے لیے بھی کچھ عرض کرنا۔ یہ عرض کرتے کہ حضور! غلام کی اور آرزو کون سی ہے۔ یہی دین کی آرزو یہی دنیا کی مراد، یہ کہہ کر پھر خاموش ہوتے۔ بادشاہ کچھ اور بات کرنے لگتے۔ ایک لمحہ کے بعد پھر یہ کہتے کہ پیر و مرشد! پھر غلام کو اجازت ہو۔ بادشاہ کہتے ہیں اے بھئی میر انشاء اللہ خاں ابھی تم گئے نہیں؟ یہ کہتے، حضور! بادشاہ عالی جاہ کے دربار میں غلام خالی ہاتھ کیونکر جائے؟ کچھ نذر نیاز کچھ چراغی کو تو مرحمت ہو! بادشاہ کہتے: ہاں بھئی درست، درست! مجھے تو خیال ہی نہیں رہا۔ جیب میں ہاتھ ڈالتے اور کچھ روپے نکال کر دیتے۔ میر انشاء اللہ خاں لیتے اور ایک دو فقرے دعائیہ کہہ کر پھر کہتے کہ حضور دوسری جیب میں دست مبارک جائے تو فدوی کا کام چلے۔ کیونکہ وہاں سے پھر کر بھی تو آنا ہے۔ بادشاہ کہتے کہ ہیں! ہاں بھئی! سچ ہے سچ ہے۔بھلا وہاں سے دو دو کھجوریں تو کسی کو لا کر دو، بال بچے کیا جانیں گے کہ تم آج کہاں گئے تھے۔ اگرچہ ان فقروں سے یہ کام نکال لیتے تھے۔ لیکن پھر کب تک؟ آخر دلی سے دل اچاٹ ہوا۔ لکھنو میں آصف الدولہ کی سخاتوں نے حاتم کے نام کا خاتمہ کر دیا اور لوگ بھی کمال کے ایسے جویا تھا کہ جو دلی سے گیا، پھر نہ آیا۔ اس لیے ادھر کا رخ کیا۔ جاتے ہی علم و فضل کے زور اور کمال کے شور سے توپ خانے لگا دئیے کہ تمام مشاعرے گونج اٹھے اور اسی نمک خواری قدیم کے سلسلے سے مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں پہنچے۔ وہ شاہ عالم کے بیٹے تھے۔ باپ دادا کے خانہ زادوں پر شفقت واجب تھی۔ اس کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ چنانچہ عام اہل دلی کے علاوہ شعرا کا مجمع دونوں وقت ان کے ہاں رہتا تھا۔ سودا میر ضاحک، میر سوز وغیرہ کا ورق الٹ چکا تھا۔ مصحفی و جرات ، مرزا قتیل وغیرہ شاعروں اور شعر فہموں کے جلسے رہتے تھے، جو محفل ایسے گلشن فصاحت کے گلدستوں سے سجائی جاوے، وہاں کی رنگینیاں کیا کچھ ہوں گی۔ جی چاہتا تھا کہ ان کی باتوں سے گلزار کھلا دوں، مگر اکثر پھول ایسے فحش کانٹوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ کاغذ کے پرزے ہوئے جاتے ہیں۔ اس لیے صفحہ پھیلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ پہلے مرزا سلیمان شکوہ مصحفی سے اصلاح لیا کرتے تھے، جب سید انشاء پہنچے تو مصحفی کا مصحف طاق پر رکھا گیا۔ بزرگوں سے سنا اور طرز کلام سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ موصوف کے سر دیوان کی غزل اور غزلیں بھی سید ممدوح کی اصلاح کی ہوئی یا کہی ہوئی ہیں۔ چنانچہ پہلا ہی مطلع اس مطلب کو روشن کرتا ہے۔ دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا توکلت علی اللہ تعالیٰ کیونکہ سید انشاء ایسی تضمینوں کے بادشاہ تھے۔ سید انشاء اگرچہ شہزادہ موصوف اور تمام امرا و روسا کے درباروں میں مغز و مکرم تھے، مگر ہمت عالی کا عقاب ہمیشہ اپنے پروں کو دیکھتا رہتا ہے۔ وہاں تفضل حسین خاں ایک شخص تھے کہ بعد ابو الفضل اور سعد اللہ خاں شاہجہانی کے علامہ کا خطاب اگر ہوا تو ان کے لیے تسلیم ہوا ہے۔ وہ اپنے علم اور حسن تدبیر سے ادھر معتمد سرکار انگریزی کے ادھر رکن سلطنت لکھنو کے اور مشیر تدبیر سعادت علی خاں کے تھے۔ ان کی صحبت، ایک مجموعہ فضل و کمال کا تھا۔ وہاں سید انشاء بھی جایا کرتے تھے۔ وہ بھی ان کی لیاقت اور خاندان کے لحاظ سے پہلوئے عزت میں جگہ دیتے تھے اور فکر میں تھے کہ کوئی مناسب حال صورت نکالیں۔ ایک دن جوش تقریر میں سید انشاء ایک لفظ بول گئے کہ اس کے دو معنی تھے مگر اردو میں جو معنی ہیں، وہ اس قابل نہیں کہ ایسے جلسوں میں ذکر آئے۔ چونکہ یہ خود بھی مزاج شناسی کے ارسطو تھے۔ اس لیے کہتے تو کہہ گئے، مگر خاں علامہ کی نظر تاڑ کر بولے کہ زبان مارواڑی میں بے وقوف کو کہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ سوچ کر کہا کہ خیر خاں صاحب انداز معلوم ہو گیا۔ جلد کوئی صورت ہو جائے گی۔ انشا اللہ تعالیٰ دوسرے ہی دن سعادت علی خاں سے ان کی بزرگی اور ان کے ذالی کمالات کا ذکر کر کے کہا کہ آپ کی صحبت میں ان کا ہونا شغل صغریٰ و کبریٰ سے بہتر ہو گا۔ وہ سن کر مشتاق ہوئے دوسرے دن خاں صاحب سید انشاء کو لے گئے اور ملازمت ہوتے ہی ایسے شیر و شکر ہوئے کہ پھر نواب کو ان کے سوا کسی کیبات میں مزاہی نہیں آتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ تہذیب طبعی کی آگ اور شوق انتظام نے نواب کے دماغ کو خشک کر دیا تھا۔ مگر جیتی جان کے لیے شگفتگی کا بھی ایک وقت ضرور ہوتا ہے اور سید انشاء تو وہ شخص تھے کہ ہر بزم میں گلدستہ اور ہر چمن میں پھول چنانچہ کوئی خاص خدمت نہیں حاصل، مگر دربار داری کے ساتھ ہر دم کی مصاحبت تھی۔ اس عالم میں انہوں نے علامہ خلائق خصوصاً اہل کمال اور اہل خاندان کی کار برآری سے نیکی او رنیک نامی کی دولت کمائی کہ جس سے زیادہ کوئی خزانہ نہیں ہو سکتا۔ ہزاروں کو مراتب اعلیٰ پر پہنچا دیا، مگر آپ شاعر ہی رہے چنانچہ عنقریب ان کے حال سے کچھ اشارے معلوم ہوں گے۔ زمانے کا دستور ہے کہ صحت میں سے بیماری اور زندگی میں سے موت پیدا کر دیتا ہے۔ اسی مصاحبت سے ہنسی ہنسی میں مخالفت پیدا ہو گئی۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ چہکتا ہوا بلبل اپنے گھر کے پنجرے میں بند کیا گیا اور وہاں سے اس گمنامی کے ساتھ زمین کا پیوند ہوا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی، بسنت سنگھ نشاط کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1233ھ میں فوت ہوئے۔ خبر انتقال میر انشاء دل غم دیدہ تا نشاط شنفت سال تاریخ اوز جان اجل عرفی وقت بود انشاء گفت 3 1230 1333ھ ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تصنیفات کا ذخیرہ بہت کچھ ہو گا مگر جو کچھ میری نظر سے گزرا ہے۔ ان میں سے ایک کلیات ہے اس میں اردو غزلوں کا دیوان تمام و کمال دیوان ریختی اور ریختی میں پہیلیاں اور مستزاد طلسمات کے نسخے قواعد پشتو، قصائد اردو، حمد، نعت، مدح بزرگان دین، مدح بادشاہ دہلی اور تعریف امرا میں قصائد زبان فارسی، دیوان غزل ہائے فارسی تمام ہے مگر مختصر ہے، مثنوی شیر برنج فارسی میں، مثنوی فارسی، بے نقط، اس کی سرخیوں کے مصرعے بھی بے نقط ہیں، شکار نامہ نواب سعادت علی خاں کا بزبان فارسی ہجویں، گرمی، بھڑوں، کھٹملوں ، مکھیوں، پسووں وغیرہ کی شکایت میں اور متفرق اشخاص کی ہجویں مثنوی عاشقانہ، ہاتھی اور چنچل پیاری ہتھنی کی شادی، متفرق اشعار معمے رباعیاں، قطعے، فارسی اردو وغیرہ تاریخیں جن میں اکثر مادے قابل یاد رکھنے کے ہیں۔ پہیلیاں، چیستانیں، دیوان بے نقط مائتہ عامل زبان عربی کی فارسی میں، مرغ نامہ اردو میں مرغ بازی کے قواعد مثنوی کے طور پر لکھتے ہیں۔ مگر جو اپنے تمسخر کے قواعد ہیں وہ اس میں نہیں بھولے۔ دریائے لطافت: قواعد اردو، منطق، معانی بیان وغیرہ میں۔ ایک داستان: نثر اردو میں ایسی لکھی ہے کہ ایک لفظ بھی عربی فارسی کا نہیں آنے دیا۔ باوجود اس کے اردو کے رتبے سے کلام نہیں گرا۔ وہی چوچلے وہی چہلیں اس میں بھی چلی جاتی ہیں۔ مقدار میں50 صفحے کی ہو گی۔ تھوڑی عبارت نمونے کے طور پر لکھتا ہوں۔ اب یہاں سے کہنے والا یوں کہتا ہے، ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ بات اپنے دھیان چڑھی کوئی کہانی ایسی کہیے جس میں ہندی چھٹ اور کسی بولی کی پٹ نہ ملے۔ باہر کی گولی اور گنواری کچھ اس کے بیچ میں نہ ہو۔ تب میرا جی پھول کر کلی کے روپ میں کھلے۔ اپنے ملنے والوں میں سے ایک کوئی بڑے پڑھے لکھے پرانے دھرانے ٹھاگ بڑے ڈھاگ پر کھڑاگ لائے۔ سر ہلا کر منہ تھتا کر، ناک بھون چڑھا کر گلا پھیلا کر، لال لال آنکھیں پتھرا کر کہنے لگے۔ یہ بات ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہندوی پن بھی نہ نکلے اور بھاکھا پن بھی نہ ٹھس جائے۔ جیسے بھلے مانس اچھوں سے اچھے لوگ آپس میں بولتے چالتے ہیں۔ جوں کا توں وہی سب ڈول رہے اور چھاؤں کسی کی نہ پڑے۔ یہ نہیں ہونے کا۔ میں نے ان کی ٹھنڈی سانس کی پھانس کا ٹہوکا کھا کر جھنجھلا کر کہا۔ میں کچھ ایسا بڑا بڑبولا نہیں جو رائی کو پربت کر دکھاؤں اور جھوٹ سچ بول کر انگلیاں نچاؤں اور بے سری بے ٹھکانے کی الجھی سلجھی تانیں لیے جاؤں۔ مجھ سے نہ ہو سکتا تو بھلا منہ سے کیوں نکالتا۔ جس ڈھب سے ہوتا، اس بکھیرے کو ٹالتا، اب اس کہانی کا کہنے والا یہاں آپ کو جتاتا ہے اور جیسا کچھ لوگ اسے پکارتے ہیں، کہہ سناتا ہے۔ اپنا ہاتھ منہ پر پھیر کر موچھوں کو تاؤ دیتا ہوں اور آپ کو جتاتا ہوں جو میرے داتا نے چاہا تو وہ تاؤ بھاؤ اور راؤ چاؤ اور کود پھانڈ اور لپٹ جھپٹ دکھاؤں۔ آپ کے دھیان کا گھوڑا جو بجلی سے بھی بہت چنچل اچپلاہٹ میں ہے دیکھتے ہی ہرن کے روپ اپنی چوکڑی بھول جائے، چوتکا۔ گھوڑے پہ اپنے چڑھ کے آتا ہوں میں کرتب جو جو ہیں سب دکھاتا ہوں اس چاہنے والے نے جو چاہا تو ابھی کہتا جو کچھ ہوں کر دکھاتا ہوں میں غزلوں کا دیوان، عجب طلسمات کا عالم ہے زبان پر قدرت کامل ، بیان کا لطف محاوروں کی نمکینی، ترکیبوں کی خوش نما تراشیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ مگر یہ عالم ہے کہ ابھی کچھ ہیں۔ ابھی کچھ ہیں، جو غزلیں یا غزلوں میں اشعار با اصول ہو گئے، وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں اور جہاں طبیعت اور طرف جا پڑی وہاں ٹھکانا نہیں۔ غزلوں میں غزلیت کے اصول کی پابندی نہیں۔ سبب یہ ہے کہ وہ سخن آفرین ایک ذخیرہ وافر مضامین و الفاظ کا اپنے پاس رکھتا تھا اس سے جس قسم کی مخلوق چاہتا تھا پیدا کر لیتا تھا۔ جس مشاعرے میں انہوں نے یہ غزل طرح کی پڑھی ہے۔ لگا کے برف میں ساقی صراحی مے ملا جگر کی آگ بجھے جلد جس سے وہ شے ملا کل پانچ شعر کی غزل تھی۔ جرات اور مصحفی تک سب موجود تھے، مگر سب نے غزلیں ہاتھ سے رکھ دیں کہ اب پڑھنا بے حاصل ہے۔ ایک مستزاد کی طرح میں جب انہوں نے مسلسل تین غزلیں پڑھیں تو مشاعرے میں ایک قیامت برپا ہو گئی تھی۔ مصحفی و جرات جب بھی موجود تھے اور غزلیں اب بھی حاضر ہیں۔ یہ عالم ہے، جیسے مرصع زیور کے سامنے تنکوں کا کھیل جرات ایک موقع پر کہتے ہیں۔ اب تلک آنکھوں میں ساقی ہے نشہ چھایا ہوا چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا اور سید انشاء کہتے ہیں برق چشمک زن ہے ساقی ابر ہے آیا ہوا جام مے دے تو کدھر جاتا ہے مچلایا ہوا ریختی کا شوخ رنگ سعادت یار خاں رنگین کا ایجاد ہے۔ مگر سید انشاء کی طبع رنگین نے بھی موجد سے کم سگھڑاپا نہیں دکھایا۔ یہ ظاہر ہے کہ عیش و نشاط اور صحبت ارباب نشاط ایسی پلید باتوں کے حق میں وہ تاثیر رکھتی ہے جو نباتات کے حق میں کھات اثر کرتی ہے۔ چنانچہ دلی کے فاقہ مستوں میں کم اور لکھنو میں قرار واقعی ترقی اس کی ہوئی۔ قطع نظر وضع اور لباس کے، جان صاحب کا دیوان اس کا نمونہ موجود ہے۔ اس صورت میں زمانہ مزاجی اور بے ہمتی اور بزدلی جو عام لوگوں میں پیدا ہوئی۔ اس کا ایک محرک اسی ایجاد کو سمجھنا چاہئے۔ اس انداز میں جو پہیلیاں اور طلسمات کے نسخے لکھے ہیں۔ ان کا انداز بیان عجب لطف دکھاتا ہے۔ ہندوستان کی مختلف زبانیں ان کے گھر کی لونڈی ہیں۔ ابھی پنجاب میں کھڑے ہیں۔ ابھی پورب میں بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ ابھی برج بھاشی ہیں، ابھی مرثیے، ابھی کشمیری، ابھی افغان، سب زبانوں میں کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ یہاں پوربی کے دو شعر ہیں، وہ لکھتا ہوں کہ قریب الفہم ہیں۔ مطلع و مقطع پوربی زبان میں۔ متپھکری میں پھکر بھئی مپھت آئے کے جھاؤ میاں کو بھنو پہ جو پٹکس گھمائے کے انسالہ کھاں میاں بڑے پھاجل جہین ہیں صدرہ پڑھیں ہیں جن سیتی طالبعلم آئے کے ان کے الفاظ جو موتی کی طرح ریشم پر ڈھلکتے آتے ہیں۔ اس کا سبب یہی کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی فصاحت اور صفائی کلام کے سبب سے ہے اور کلام کا بندوبست جو ارگن باجے کی کساوٹ رکھتا ہے، یہ بندش کی چستی اور استخواں بندی الفاظ کی خوبی سے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان کی زبان جو فصاحت کا سانچا ہے۔ اس سے اگر بے معنی الفاظ بھی ترکیب کھا کر نکلتے ہیں تو مزہ ہی دیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ان ہجووں سے ثابت ہوتا ہے، جو شیخ مصحفی کے معرکوں میں لکھیں اور یہاں شدت فحش کے سبب سے قلم انداز ہوئیں۔ قصائد بڑی دھوم دھام کے ہیں۔ الفاظ کی شکوہ، طبیعت کی بلند پروازی کی کوئی حد نہیں، مگر سیدھے چلتے چلتے ایک ایسی چال بدلتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ وہ یہی بات ہے کہ اپنی زبان دانی کے جوش اور قوت بیانی کے مزے میں آ کر کبھی کوئی شوخ مضمون، کبھی کوئی خوش آئند ترکیب اور نئی تراش ایسی سوجھ جاتی ہے کہ اسے باندھے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہاں قصیدے کی متانت اور وقار کے اصول ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں۔ اس میں کبھی تو کلام میں شوخی اور ایک قسم کا بانکپن پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی مبتذل ہو جاتا ہے، مگر پھر لطف یہ ہے کہ قدرتی لذت جو زبان میں ہے، وہ کلام کو بدمزہ نہیں ہونے دیتی اور اسی واسطے جسے دربا زیا جلسے میں قصیدہ پڑھتے تھے، سبحان اللہ اور واہ وا کہنے کے سوا سننے والوں کو ہوش نہ ہوتا تھا۔ اس بے اعتدالی کا یہ سبب تھا کہ طبیعت میں طاقت بہت تھی۔ مگر اس پر قابو نہ تھا۔ ان قصیدوں میں مزہ وہاں آتا ہے، جہاں ممدوح کی تعریف کرتے کرتے دفعتہ کہتے کہ دارائے ایران تجھے ایران میں بیٹھا کہہ رہا ہے اور جھٹ چند شعر فارسی کے اس طرح کہہ جاتے ہیں، گویا ایک آغائے تازہ ولایت آیا اور اپنی چنیں و چناں کے ساتھ شیرہ شیراز کے دو دو گھونٹ سب کو پلا گیا۔ اس کے برابر گویا ایک عرب العریا جبہ پہنے، عبا اور عمامہ سجے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر شاہ بخارا ترکستان سے ترکی میں آواز دیتا ہے اور ساتھ ہی عالی جاہ کا بل اپنی افغانی میں یہ کہتا ہے اور برج کی گوپیاں یوں کہتی ہیں اور پنجاب میں جھنگ سیالے کی جنیاں یوں کہتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض اس بیان کی کیفیت ان کے دیوان کے دیکھنے سے معلوم ہوتی ہے۔ فارسی میں انتہائی درجے کی قدرت رکھتے تھے اس میں جب نظم یا نثر کہتے تو یہی معلوم ہوتا تھا گویا بلبل شیراز سامنے بول رہا ہے۔ مگر قباحت مذکور کا پردہ یہاں زیادہ تر کھلتا ہے، کیونکہ لفاظی کا لشکر ان کے آگے مسلح حاضر ہے۔ مضمون چاہے تو آسمان سے تارے توڑ لائیں۔ مگر فارسی قصائد میں بھی طبیعت کو روکتے نہیں۔ قصیدے کے اصول کو کھو کر، محاورے کی نمکینی اور بول چال کی شوخی سے کلام میں مزہ پیدا کرتے ہیں اور بے شک اس مطلب میں کامیاب ہوتے ہیں، کیونکہ ادائے مطلب اور فصاحت کلام کے لحاظ سے اس زبان پر بھی قدرت کامل رکھتے تھے۔ ایک قصیدہ بے نقط کو بہت سی صنعتوں سے مرصع کر کے زور طبع دکھایا ہے۔ بلکہ بڑے فخر کے ساتھ اس کا نام طورا الکلام رکھا ہے اور اس پر انہیں خود بھی بڑا ناز ہے۔ دیوان فارسی کا یہی حال ہے۔ باتوں ہی باتوں کا مزہ ہے جس غزل کو دیکھو، گویا دو ایرانی ہیں کہ کھڑے باتیں کر رہے ہیں اور فقط مسخرہ پن، مضمون کو دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ یہ سب کچھ ہے مگر لطف زبان اور خوبی بیان کی تعریف نہیں ہو سکتی اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اگر چند ساعت کے لیے اپنے رفیق طبعی یعنی تمسخر سے جدا ہوتے اور ذرا زبان کو قابو میں رکھتے تو خدا جانے اپنے زمانے کے خاقانی و انوری ہوتے یا سعدی و خسرو۔ چنانچہ ایک ایرانی تازہ وارد کو کسی موقع پر نظر میں رقعہ لکھ کر بھیجا ہے۔ اس سے قدرت زبان اور لطف بیان کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت گھر سے نکلنا بند تھا۔ رقعہ منظوم: تو اسے نسیم سحر گہ ز جانب انشاء برو بخدمت حاجب علی شیرازی سلام شوق دسان و بگو بعجز و نیاز کہ مے سزد بہ کمال تو ہر قدر نازی بلے زنفخہ روح القدس مدد داری ازاں مسیح زمان و سرا سر اعجازی ہمائے عالم قدسی سہیم تو عنقاست چو طائران بہشت بریں خوش آوازی قصیدہ غزل فی البدیہہ ات دیدم علو مرتبہ داری بلند پروازی کسے بہ پیش تو دیگر چہ لاف شعر زند بفکر سعدی شیراز را تو انبازی بسان رستم و ستانی اے نکو کردار بہر طرف کہ کنی قصدر رخش مے تازی ہنوز قید نہ داری چو سرو آزادی بہر کجا کہ دلت مے کشد سرافرازی تو سر بمہر نہ ری ہم چونامہ شاہان اگرچہ فقرہ مخصوص مطلب رازی بایں جریمہ کہ حاضر بخدمت نشدم توقع اینکہ ز چشم خودم نیند ازی بدون حکم وزیر الممالک اے آغا چساں کنم حرکت نوکری ست یا بازی نماز و روز معاف است عذر اگر باشد بگہ برائے چہ دیگر بشکوہ پردازی بعید نیست پے سیر اگر بخانہ من قدم گزاری وگا ہے ز لطف بنوازی عربی میں بھی وہ خاموش تھے، چنانچہ یہ قطعے نمونہ دکھاتے ہیں۔ قطعہ سکت الجیب متسانۃ بقی التلذ دساریا جلسائ، یستحنون ویرعمون محاکیا رب علیٰ رحمتک الوافیہ اسئلک الصحۃ والعافیہ انت مغیث الفقراھب لنا عافیہ کافیۃ شافیہ عربی فقرے اس خوبی سے تضمین کرتے ہیں، جیسے انگوٹھی پر نگینہ، چنانچہ سر دیوان غزل کا مطلع ہے ۔ صنما برب کریم یاں وہ ہر ایک تیرا ہے مبتلا کہ اگر الست بربکم تو کہے تو کر دیں ابھی بلی اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھالا قم خذی بیدی وفقک اللہ تعالیٰ مجھے کیا ملائک عرش سے مجھے عشق تیرا ہے اے خدا بہت انکو لکھوں تو والسلام علی من تبع الھدیٰ بھاتا ہے یہ بھوک پیاس سب کچھ سہنا اور روزوں میں انتظار مغرب رہنا آپس میں سحر گہی کی چہلیں اور پھر بالصوم غد نویت ان کا کہنا آرام و نشاط و عیش کردند ہجوم ایجاب و قبول جملگی شد معلوم با دختر رز پیر مغاں عقدم بست قد قلت قبلت بالصدق المعلوم میں کوچہ عشق کی جو کرتا ہوں سیر آرام میں اور اس میں تو ذاتی ہے بیر ہر گام مری زبان پہ جاری انشاء رب یسر ہے اور تمم بالخیر مثنوی شیر برنج فارسی زبان میں مولانا روم کی طرز میں لکھی ہے، مگر یہیں معلوم ہوتا ہے کہ تمسخر کرتے ہیں یا تصنع کرتے ہیں، کیونکہ زبان کہیں فقط روز مرہ ہے کہیں عالم جبروت ولاہوت سے پرے کے الفاظ لفاظی کرتے ہیں اور جا بجا عربی زبان کہیں شعر کہیں مصرعے ہوتے ہیں۔ مضامین فقط ظرافت کی باتیں اور حکایاتیں ہیں۔ انہیں نظم کر کے معرفت و طریقت میں لاتے ہیں۔ غرض کھیر میں لون ڈال کر تصوف کو تمسخر کر دیا ہے مگر یہ بچپن کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ شکار نامہ سعادت علی خاں کا فارسی میں ہے۔ زبان کی شیرینی اور ترکیب کی چستی ور اس میں طبیعت کی شوخیوں نے جو لطف پیدا کیا ہے، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اس مقام پر چند شعر لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شکار نامہ:ـ ایں کہ کنوں مے گزرد در شمار بست فزوں از دو صد ویک ہزار ساختہ در خامہ انشاء وطن چند ہزار آ ہوئے مشک ختن بہ کہ کنوں صید مضامیں کنم بارگی ناطقہ را زیں کنم در تمہید کلام ز مدد شیر خدائے درود صورت عنقائے طرب پر کشود ذہن وذ کار قص چوطاؤس کرد مست شدہ آہوئے صحرا نورد طائر اقبال بہ نشوونما سایہ فگن گشت بسان ہما خیز دلا صبح سعادت دمید فصل گل دباد بہاری وزید در تعریف حضور پر نور اشرف خیل وزارائے زماں ناظم ملک ہمہ ہندوستان صفدر و منظور و سخی و شجاع بست کمر از پے قتل سباع تاختہ از خاونہ بعزم شکار کرد برو برج اسد جاں نثار در تعریف خیمہ و خرگاہ نوبت و نقارہ ما یتعلق بذالک تاکہ بزو خیمہ زریں طناب آمدہ در برج حمل آفتاب گشت ز نقارہ صدائے بلند زندہ بماں، زندہ بماں بے گزند وزد ہل نقرہ بر آمد بجوش تابتواں، تابتواں، ہاں خروش حلت صید است در آئین من دین من دین من دین من واشدہ زیں ساں دہن کرنا باد بدہ، باد بدہ، با دعا دشمن ایں خانہ جگر خوں بود دوں بو دو دوں بودو دوں بود عیش بروں از حدو اندازہ شد رسم کہن از سر نو تازہ شد غلغلہ کوس بہ کیواں رسید آب شدہ زہرہ دیو سفید کوہ چو غریدن پیلش شنید صورت خرطوم وے از دور دید گفت برون آمدہ از زیر ابر صور سرافیل پے صید ببر وقت ہمانست کہ سیمرغ قاف بگزر داز قلہ لاف و گزاف آنچہ ند یدست فریدوں بخواب جملہ مہیا ست ورا در رکاب چونکہ بدید ایں ہمہ عزم و شکوہ لرزہ بر افتاد بر اندام وہ تاریخ: فوج ظفر موج بایں عزد جاہ گرد رسانید چو بر اوج ماہ شوکتش انسا بخط زر نوشت فقرہ تاریخ مظفر نوشت 1220ھ تعریف اسپ خود چو بر اسپ عربی بزنشست آمدہ بر فوج غزالاں شکست اسپ چہ اسپ اشہب باد صبا اسپ مگوشہ رخ گلگوں قبا اسپ بایں شوخی دلچسپ کو حور بگو،ا سپ مگو، اسپ کو؟ اسپ مداں لمعہ شرق است ایں اسپ کجا چشمک برق است ایں پیش رو جو دت طبع سلیم گام نہد بر برو دوش نسیم زیب دہ کوہ و بیابان نجد قیس اگر بنگر و آید بہ وجد سیرت لیلیٰ رسدش در خیال باہمہ چالاکی و حسن و جمال بیندش ار نادر کشور ستاں وصف کند باہمہ ایرانیاں آگے نادر کی زبانی جو اشعار ہیں وہ ترکی میں کہے ہیں اور پھر مطلب شروع کیا ہے۔ ہجویں اردو میں ہیں۔ خیال کر لینا چاہئے کہ جنہیں بانکپن غزل اور قصیدے میں سیدھا سیدھا نہیں چلنے دیتا، انہوں نے وہاں کیسا کچھ رنگ اڑایا ہو گا۔ مثنوی عاشقانہ مختصر ہے اور کوئی بات اس کی قابل اظہار نہیں۔ ایک ہاتھی ا ور چنچل پیاری ہتھنی کی حکایت کہیں انگریزی سے ان کے ہاتھ آ گئی ہے، نظر باز کی آنکھ خود ایسے مضامین کی تاک میں رہتی تھی۔ یہ تو تیار مال تھا۔ غرض اس کی شادی جس سامان سے کی ہے، وہ تماشا دیکھنے کے قابل ہے۔ متفرق اشعار، قطعے، خطوط منظوم اور رباعیاں اور پہیلیاں، چیستانیں، لطائف سے دیوان مالا مال ہیں۔ مگر بنیاد سب کی تمسخر پر ہے ۔ طالب علم کو سمجھ چاہیے کہ بہت کچھ اس میں قابل لینے کے ہے اور بہت کچھ مہملات۔ دیوان بے نقط ایک معمولی طبع آزمائی ہے، اس میں کوئی بات قابل تحریر نہیں۔ مثنوی ماتہ عامل، زبان عربی کی نظم فارسی میں ہے۔ اگرچہ وہ بڈھے ہو کر بھی بچوں سے آگے دوڑتے تھے مگر یہ بھی اوائل عمر کی معلوم ہوتی ہے۔ دریائے لطافت: قواعد اردو میں ہے اس کتاب میں بھی اگرچہ چند انداز کلام میں وہی تمسخر اور شوخی ہے مگر یہ پہلی کتاب قواعد اردو کی ہے، جو ہمارے اہل زبان نے اردو میں لکھی ہے۔ اس میں اول اردو بولنے والے کے مختلف علاقوں کی زبانوں کے نمونے دکھائے ہیں۔ اردو زبان میں حق زباندانی اور سخن فہمی کا ادا کیا ہے، پھر قواعد بیان کئے ہیں اور ظرافت سے لے کر فحش تک کوئی بات نہیں چھوڑی۔ لیکن طالب فن اس میں سے بھی اکثر نکتے ایسے حاصل کر سکتا ہے کہ چند روز کے بعد ڈھونڈے گا اور نہ پائے گا۔ بعد اس کے کئی بابوں میں عروض قافیہ، منطق، معانی، بیان وغیرہ فروغ بلاغت کو زبان اردو میں لائے ہیں۔ یہ مرزا قتیل کی تصنیف ہے مگر اس حمام میں سب ننگے تھے۔ ان کے ہاں بھی سوا شہد پن کے دوسری بات نہیں۔ پھر بھی حق یہی ہے کہ جو کچھ ہے لطف سے خالی نہیں ہے۔ عروض میں ان کے اصول اور قواعد لکھے ہیں۔ مگر تقطیع میں مفاعیلن، مفاعیلن، مفاعیلن کی جگہ کہتے ہیں۔ پری خانم، پری خانم، پری خانم اور فاعلن، فاعلن، فاعلن، فاعلن، چت لگن، چت لگن، چت لگن، چت لگن اور مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن بی جان پری خانم بی جان پری خانم اور فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن چت لگن پری خانم چت لگن پری خانم اصلاحین بھی نئی نئی رکھی ہیں چنانچہ نظم کی قسموں میں مثلث کا نام ٹکڑا اور مربع کا نام چوکڑا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ منطق میں بھی اپنی اصطلاحیں الگ نکالی ہیں۔ چنانچہ علم: : : : گیان نسبت ثبوتیہ : مان لینا علم حصولی : : : : پر دھیان نسبت سلبی پورا پورا توڑ علم حضوری : : : : آپ گیان بدیہی : پرگھٹ تصور : : : : دھیان نظری : گپت تصدیق : : : : جوں کا توں تسلسل : الجھا سوت موضوع : : : : بول دور : ہیر پھیر محمول: : : : : بھرپور مطابقت : ٹھیک ٹھیک رابطہ : : : جوڑ تضمنی : کہسر نسبت : : : : ملاپ التزامی : اوپری لگاؤ قضیہ : : : : بات اسی طرح معانی بیان وغیرہ میں۔ ہندی اور ملکی خصوصیتوں کے مضامین کو سودا نے بہت اچھی طرح سے باندھا ہے۔ مگر انشاء نے بھی اچھلتے کودتے خوب قدم مارے ہیں اور یہ بات لطف سے خالی نہیں۔ کیونکہ اپنے ملک کے ہوتے، عرب سے نجد، ایران سے بے ستون اور قصر شیریں توران سے جیحون و سیحون کو ہندوستان میں لانا کیا ضرور ہے۔ ایسی باتوں سے فصاحت میں دو اری اور اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ سید موصوف کہتے ہیں۔ لیا گہ عقل نے منہ میں دل بے تاب کا گٹکا تو جوگی جی دھرا رہ جائے گا سیماب کا گٹکا صنم خانے میں جب دیکھا بت و ناقوس کا جوڑا لگا ٹھا کر کے آگے ناچنے طاؤس کا جوڑا ملے پارے سے جوہڑ تال کر کے راکھ کا جوڑا تو تانبے سر جی اگلیں کوئی نوے لاکھ کا جوڑا نہیں کچھ بھید سے خالی یہ تلسی داس جی صاحب لگایا ہے جو اک بھونرے سے تم نے آنکھ کا جوڑا لپٹ کر کشن جی سے رادھکا ہنس کر لگیں کہنے ملا ہے چاند سے ایلو اندھیرے ماکھ کا جوڑا یہ سچ سمجھو کو انشاء ہے جگت سیٹھ اس زمانے کا نہیں شعر و سخن میں کوئی اس کے ساتھ کا جوڑا اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ ڈنڈوت ہے تم کو کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہی کے سر چٹ اک آن میں چٹ پٹ یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر ہے نور بصر مرد مک دیدہ میں پنہاں، مانند کنہیا سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور آنکھیں ہیں پنگھٹ دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا ہمارے قبلے کو وہابیوں نے لوٹ لیا سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا یوں چلے مژگاں سے اشک خونفشاں کے میدنی جیسے بہڑائچ چلے بالے میاں کی میدنی اور مقطع کی اکڑ تکڑ دیکھنے کے قابل ہے۔ رستمانہ دیکھ انشاء کو قشون شاہ میں سب یہ کہتے ہیں کہ آئی سیستان کی میدانی پھن، اکڑ، چھب، نگاہ، سج دھج، جمال و طرز خرام آٹھوں نہ ہوویں اس بت کے گر پجاری تو کیوں ہو میلے کا نام آٹھوں غرض کل تصنیفات کی ہیئت مجموعی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ نئے نئے تصرف اور ایجادوں کے لحاظ سے سید انشاء فن انشاء کی قلم رو میں بادشاہ علی الاطلاق تھے اور اس اعتبار سے انہیں اردو کا امیر خسرو کہیں تو بے جا نہیں بلکہ قصیدہ طور الکلام میں جہاں صنائع مختلفہ کی ذیل میں انہوں نے ایک مصرع لکھا ہے کہ تین زبانوں میں پڑھا جاتا ہے وہاں فخر کی موچھوں پر خوب تاؤ دیے ہیں اور کہا ہے کہ امیر خسرو نے تین لفظ کا ایک جملہ ایسا لکھا تھا اور فخر کیا تھا، مجھے ایسا پورا مصرع ہاتھ آیا۔ یہ فقط ممدوح کی مدح کی برکت ہے۔ اگرچہ آج یہ صنعتیں بیکار ہیں۔ مگر اس احسان کا شکریہ کس زبان سے ہو کہ ہماری زبان میں نئی نئی تشبیہیں، شگفتہ استعاروں کے رستے کھولے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں فارسی اضافت کی گرہ کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھولا ہے۔ غزلوں میں اس کے اشارے معلوم ہوں گے۔ اس میں بھی کچھ کلام نہیں کہ جو جو تصرف یا ایجاد کیے ان میں بعض جگہ سینہ زوری بھی ہے، مگر خوش نمائی اور خوش ادائی میں کچھ شبہ نہیں۔ در حقیقت ان کی تیزی طبع نے عالم وجود میں آنے کے لیے بھی تیزی دکھائی۔ اگرو ہ سو برس بعد پیدا ہوتے تو ہماری زبان کا فیشن نہایت خوبصورتی سے بدلتے۔ دیکھو وہ قصیدہ جو انہوں نے جارج سوم کی تہنیت جشن میں کہا ہے۔ قصیدہ در تہنیت جشن بگیاں پھولوں کی تیار کراے بوئے سمن کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانان چمن عالم اطفال نباتات پہ ہو گا کچھ اور گورے کالے سبھی بیٹھیں گے نئے کپڑے پہن کوئی شبنم سے چھڑک بالوں پہ اپنے پوڈر کرسی ناز پہ جلوے کی دکھاوے گا پھبن شاخ نازک سے کوئی ہاتھ میں کراک کیت ہو الگ سب سے نکالے گا نرالا جوبن نسترن بھی نئی صورت کا دکھاوے گا رنگ کوچ پر ناز کی جب پاؤں رکھے گا بن ٹھن اپنے گیلاس شگوفے بھی کریں گے حاضر آ کے جب غنچہ گل کھولیں گے بوتل کے دہن اہل نظارہ کی آنکھوں میں نظر آویں گے باغ میں نرگس شہلا کے ہوائے چتون اور ہی جلوے نگاہوں کو لگیں گے دینے اودی بانات کی کرسی سے شکوہ سوسن پتے مل مل کے بجاویں گے فرنگی طنبور لالہ لاوے گا سلامی کو بنا کر پلٹن کھینچ کر تار رگ ابر بہاری سے کئی خود نسیم سحر آوے گی بجاتی ارگن اپنی سنگینیں چمکتی ہوئی دکھلا دیں گے آ پڑے گی جو کہیں نہر پہ سورج کی کرن نے نوازی کے لیے کھول کر اپنی منقار آگے دکھلا دے گی بلبل بھی جو ہے اس کا فن اردلی کے جو گراں ڈیل ہیں ہوں گے سب جمع آن کر اپنا بگل پھونکے گا جب سکھ درشن آئے گا نذر کو شیشے کی گھڑی لے کے حباب یاسیمیں پتوں کی پینس میں چلے گی بن ٹھن نگہت آوے گی نکل کھول کلی کا کمرا ساتھ ہولے گی نزاکت بھی جو ہے اس کی بہن حوض صندوق فرنگی سے مشابہ ہوں گے اس میں ہوویں گے پریزاد بھی سب عکس فگن ایک جگہ گھوڑے کی تعریف میں کہتے ہیں۔ ہے اس آفت کا سبک سیر کہ راکب اس کا حاضری کھائے جو کلکتہ تو لنڈن میں ٹفن ان کا پڑھنا بھی ایک انداز خاص رکھتا تھا۔ جس سے شعر کی شان اور لطف کلام دوبالا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اکثر اشخاص مشاعرے میں اپنی غزل ان سے پڑھوایا کرتے تھے۔ کیونکہ ان کی زبان آتش تاثیر کی چقماق تھی۔ اس سے نکل کر گرمی سخن ایک سے دو چند ہو جاتی تھی۔ بے شک انہیں میر و مرزا کے صاف کیے ہوئے رستے ہاتھ آئے مگر ان رستوں میں اچھلتے کودتے ایسے بے باک اور بے لاگ جاتے ہیں جیسے کوئی اچھا پھکیت منجھے ہوئے ہاتھ تلوار کے پھینکتا جاتا ہے۔ دیوان د یکھنے سے ان کے حالات و عادات کی تصویر سامنے کھنچ جاتی ہے۔ جب کہ وہ مشاعرے میں آتے تھے۔ یاد ربار کو جاتے تھے۔ ایک طرف آداب معقولیت سے سلام کیا۔ ایک طرف مسکرا دیا۔ ایک طرف منہ کو چڑھا دیا۔ کبھی مقطع مرد معقول کبھی دلی کے بانکے، کبھی آدھی داڑھی اڑا دی، کبھی چار ابرو کی صفائی بتا دی۔ کلیات کو دیکھو تو یہی حالت اشعار کی ہے اور اس میں شک نہیں کہ تفریح و تضحیک کے اعتبار سے کسی جلسے میں ان کا آنا بھانڈ کے آنے سے کم نہ تھا۔ پس مصحفی نے ان کی ہجویات کے ضمن میں کچھ جھوٹ نہیں کیا۔ واللہ کہ شاعر نہیں تو بھانڈ ہے بھڑوے اگرچہ جس محدود دائرے میں ہمارے فارس و ہند کے شعرا پابز نجیر پھر رہے ہیں، یہ بچارے بھی دوڑتے پھرتے ہیں۔ پھر بھی وہ شعرائے رائج الوقت کے اصول مفروضہ میں عاشقانہ مضامین کے پابند نہیں، اس کا سبب ایک یہ بھی تھا کہ اول تو اکثر غزلیں اور قصائد ان کے سنگاخ زمین میں ہوتے تھے۔ پھر اس میں قافیے ایسے کڈھب لیتے تھے کہ عاشقان مضمون کم آ سکتے تھے۔ اسی واسطے قانون کلام یہ رکھا تھا کہ کیسا ہی قافیہ ہو اور کیسا ہی مضمون، جس پر جستہ پہلو سے بندھ جائے چھوڑنا نہیں چاہئے۔ ساتھ اس کے یہ کہ شاعر کو زیادہ تر کام عوام سے ہوتا ہے۔ جنہیں مضامین عشقیہ کے بعد کچھ لطف ہے تو ظرافت میں ہے اس لیے ان کی طبیعت جو اسی آسمان کی زہرہ ہے، ہر آن نیا جلوہ دیتی ہے۔ چنانچہ پابندان رسوم و قیود کے اپنے گھر بیٹھ کر جو چاہیں سو کہیں، و ہ جب یاروں کے جلسے میں یا مشاعرے کے معرکے میں آ کر فانوس جادو روشن کرتے تھے تو تحسین اور واہ وا سے دھواں دھار ہو کر محفل بیلون ہو جاتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ اپنی طرز کے آپ بانی تھے اور آپ ہی اس کا خاتمہ کر گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سید انشاء کا کلام ہر ایک مقام پر قابل سند نہیں۔ یہ بات درست ہے مگر ان کی بے اعتدالیاں کچھ جہالت کے سبب سے نہ تھیں۔ بلکہ عمداً تھیں یا بے پروائی کے سبب سے تھیں کہ اپنی طبع وقار اور جامعیت استعداد کے سامنے قواعد اور اہل قواعد کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ سچ ہے کہ ان کے جوش کمال نے تیزی کے تیزاب سے اصول اور قواعد کو پانی پانی کر دیا۔ الفاظ اور محاورات میں بہت سے تصرف کیے۔ یہ تصوف اگر صرف معدود مقاموں میں ہوتے تو شکایتیں نہ ہوتیں۔ کیونکہ اس زبان آور سے زیادہ قادر زبان اور زبان دان کون ہے۔ خصوصاً جبکہ استعداد علمی سے مسلح ہو۔ لیکن افراط نے ہمیں بھی خاموش کر دیا ہے اور یہ نشہ کمال کا مست کسی کے کہنے کی پروا بھی نہ کرتا تھا۔ بلکہ جب کوئی شامت کا مارا گرفت کو بیٹھتا تھا تو کبھی سند سے کبھی دلائل بجا و بے جا سے اور ساتھ ہی ہجووں کے توپ خانوں سے چاند ماری کا نشانہ بن جاتا تھا۔ بہرحال ان کے کلام سے واقف حال اور طالب کمال بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اکثر اچھوتے ایجاد ہیں کہ گل نو بہار کی طرح سر پر رکھنے کے قابل ہیں۔ بہت ہی تھوڑی تبدلی یا تراش سے انوکھے ہو جاتے ہیں۔ بہت سے وہ ہیں جن پر سوا اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست لوگ کہتے ہیں کہ سید انشاء کا کلام رندانہ ہے اور جو اس میں ہزل ہے نہ بقدر نمک ہے بلکہ غذا کی مقدار سے بڑھی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے مگر اس کا سبب یہ ہے کہ وقت حاکم جابر ہے اور پسند عام اس کا واضع قانون ہے۔ اس وقت وہ و امراء سے لے کر گدا اور غربا تک انہیں باتوں سے خوش ہوتے تھے اور قدر دانی یہ کہ ادنیٰ ادنیٰ نظموں پر وہ کچھ دیتے تھے جو آج کل کے مصنفوں کو کتابوں پر نصیب نہیں ہوتا ۔ سید انشاء اگر یہ نہ کرتے تو کیا کرتے؟ پیٹ کو کاٹ کر کہاں پھینک دیتے؟ ہنگامہ ہستی کے جوانمرد اسے بھی ایک قسم کا کمال سمجھتے ہیں کہ کسی رستے میں درماندہ نہ رہیں۔ جو پتھر سد راہ ہوا سے ٹھوکر مار کر ہٹائیں اور آگے نکل جائیں انصاف کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ جو کچھ کامل ہزار فن کر گیا ہے ہر ایک کا کام نہ تھا۔ نواب مصطفی خاں شیفتہ اک گلشن بے خار جب دیکھتا ہوں تو خار نہیں کٹار کا زخم دل پر لگتا ہے۔ سید موصوف کے حال میں لکھتے ہیں وہیج صنف را بطریقہ را سخہ شعرانہ گفتہ۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے رستوں میں قدم کیوں رکھا، جو ایسے کیچڑ میں دامن آلودہ ہوئے۔ لیکن شہر ستان تجارب کے سیر کرنے والے جانتے ہیں کہ جب رواج عام کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول دھندار اشخاص اس کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر دو ستار پر لیتے ہیں۔ پس وہ اور ان کے معاصر ملک چھوڑ کر کہاں نکل جاتے؟ یہیں رہنا تھا اور انہیں لوگوں سے لے کر گزران کرنی تھی اور لطف یہ تھا کہ اس میں بھی آن تان اور عظمت خاندان قائم تھی۔ ان کے آقا بھی ان سے اپنایت کے طریقے سے پیش آتے تھے اور انہی چاہنے والوں کی فرمائشیں ہوتی تھیں، جو نہ دھری جاتی تھیں۔ نہ اٹھائی جاتی تھیں اور وہ کچھ چھوٹے لوگ نہ تھے جو سمجھانے سے سمجھ جائیں یا ٹالے سے ٹل جائیں۔ کبھی تو شاہ عالم بادشاہ دہلی تھے، کبھی مرزا سلیمان شکوہ تھے کبھی سعادت علی خاں والیے اودھ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اکثر غزلیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عام میں سعادت علی خاں کی زبان سے ایک مصرع نکل گیا۔ اس کی غزل کا پورا کرنا ان کا کام تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص کی پگڑی بے ڈھنگی بندھی تھی۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ پگڑی تو نہیں ہے یہ فرایس کی ٹوپی تمام غزل دیکھو ان کی غزلوں میں۔ سعادت علی خاں نواڑے میں لیتے ہوئے میر انشاء اللہ خاں کی گود میں سر دھرا ہوا سرور کے عالم میں دریا کی سیر کرنے چلے جاتے ہیں۔ لب دریا ایک حویلی پر لکھا دیکھا حویلی علی نقی بہادر کی۔ کہا کہ انشاء دیکھو کسی نے تاریخ کہی، مگر نظم نہ کر سکا بھئی تم نے دیکھا، بہت خوب مادہ ہے، اسے رباعی کر دو۔ اسی وقت عرض کی نہ عربی نہ فارسی نہ ترکی نہ سم کی نہ تال کی نہ سر کی یہ تاریخ کہی ہے کسی لر کی حویلی علی نقی خاں بہادر کی تائید اس کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب شاہ نصیر دہلوی لکھنو میں گئے اور زمین سنگلاخ میں گلزار لگا کر مشاعروں کو رونق دی تو سید انشاء سے بھی ملے، جو کہ دہلی والوں کے رواج کار کا بیڑا اٹھائے بیٹھے تھے اور کہا کہ بھئی میر انشاء اللہ خاں میں فقط تمہارے خیال سے یہاں آیا ہوں ورنہ لکھو میں میرا کون بیٹھا تھا جس کے پاس میں آتا۔ اس وقت بہت رات گئی تھی۔ میر انشاء اللہ خاں نے کہا کہ شاہ صاحب یہاں کے دربار کا عالم کچھ اور ہے کیا کہوں۔ لوگ جانتے ہیں کہ میں شاعری کر کے نوکری بجا لاتا ہوں۔ مگر میں خود نہیں جانتا کیا کر رہا ہوں؟ دیکھو صبح کا گیا شام کو آیا تھا۔ کمر کھول رہا تھا، جو چوبدار آیا کہ جناب عالی پھر یاد فرماتے ہیں۔ کیا تو دیکھنا ہوں کہ کولھے پر فرش ہے۔ چاندنی رات ہے پہیے دار چھپر کھٹ میں آپ بیٹھے ہیں۔ پھولوں کا گہنا سامنے دھرا ہے ایک گجرا ہاتھ میں ہے۔ اسے اچھالتے ہیں اورپاؤں کے اشارے سے چھپر کھٹ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ میں نے سلام کیا۔ حکم ہوا کہ انشاء کوئی شعر تو پڑھو اب فرمائیے ایسی حالت میں کہ اپنا ہی قافیہ تنگ ہو، شعر کی خاک یاد آئے۔ خیر اس وقت یہی سمجھ میں آیا، وہیں کہہ کر پڑھ دیا۔ لگا چھپر کھٹ میں چار پہیے اچھالا تو نے جو لے کے گجرا تو موج دریائے چاندنی میں وہ ایسا چلتا تھا جیسے بجرا یہ مطلع سن کر خوش ہو گئے فرمائیے اسے شاعری کہتے ہیں اسی طرح کی اور تقریبیں انہیں پیش آتی تھیں کہ بیان آئندہ سے واضح ہو گا۔ غرض اس معاملے میں میاں بے تاب کا قول لکھ رکھنے کے قابل ہے کہ سید انشاء کے فضل و کمال کو شاعری نے کھویا اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبو دیا۔ ایک دن نواب صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور گرمی سے گھبرا کر دستار سر سے رکھ دی تھی۔ منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب کی طبیعت میں چہل آئی، ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ایک دھول ماری۔ آپ نے جلدی سے ٹوپی سر پر رکھ لی اور کہا۔ سبحان اللہ ! بچپن میں بزرگ سمجھایا کرتے تھے۔ وہ بات سچ ہے کہ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں تو شیطان دھولیں مارا کرتا ہے۔ سعادت علی خاں کہ ہر امر میں سلیقہ اور صفائی کا پابند تھا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ اہل دفتر خوشخط لکھیں اور فی غلطی ایک روپیہ جرمانہ۔ اتفاقاً اعلیٰ درجے کے اہل انشاء میں ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے فرد صاحب میں اجناس کو اجنا لکھ دیا۔ سعادت علی خاں تو ہر شے پر خود نظر رکھتے تھے۔ ان کی بھی نگاہ پڑی۔ مولویوں کو جواب دینے میں کمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کچھ قاموس، کچھ صراح سے اجنا کے معنی بتائے، کچھ قواعد نحو سے ترخیم میں لے گئے۔ نواب نے انہیں اشارہ کیا۔ انہوں نے مارے رباعیوں اور قطعوں کے اتو کر دیا۔ رباعی: اجناس کی فرد پیدا جنا کیسا؟ یاں ابر لغات کا گرجنا کیسا؟ گوہوں اجنا کے معنی جو چیز اے لیکن یہ نئی اپج ایچنا کیسا؟ ان مولوی صاحب کا نام مولوی سجن تھا چنانچہ اس کا شارہ کرتے ہیں۔ ترخیم کے قاعدے سے سجنا لکھیے اور لفظ خروجنا اس کو خجنا لکھیے گرہم کو اجی نہ لکھیے ہووے لکھنا تو کر کے مرخم اس کو اجنا لکھے اجناس کے بدلے لکھیے اجنا کیا خوب قاموس کی رعد کا گرجنا کیا خوب؟ از روئے لغت نئی اپج کی لی ہے اس تان کے بیج کا اپجنا کیا خوب پوربی لہجے میں: اجناس کے موقعن میں اجنا آیا سلمائے علوم کا یہ سجنا آیا اجنا چیزیست کاں بروید ززمیں یہ تخم لغت کا لو اپجنا آیا رات بہت گئی تھی اور ان کے لطائف و ظرائف کی آتش بازی چھٹ رہی تھی۔ یہ رخصت چاہتے تھے اور موقع نہ پاتے تھے۔ نواب کے ایک مصاحب باہر کے رہنے والے اکثر اہل شہر کی باتوں پر طعن کیا کرتے تھے اور نواب صاحب سے کہا کرتے تھے کہ آپ خواہ مخواہ سید انشاء کے کمال کو بڑھاتے چڑھاتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اتنے نہیں ۔ اس وقت انہوں نے بقا کا یہ مطلع نہایت تعریف کے ساتھ پڑھا۔ دیکھ آمینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں اس کا میں دیکھنے والا ہوں بقا واہ رے میں سب نے تعریف کی۔ نواب نے بھی پسند کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضور سید انشاء سے اس مطلع کو کہوائیں۔ نواب نے ان کی طرف دیکھا۔ مطلع حقیقت میں لا جواب تھا انہوں نے بھی ذہن لڑایا۔ فکر نے کام نہ کیا۔ انہوں نے پھر تقاضا کیا۔ سید موصوف نے فوراً عرض کی کہ جناب عالی مطلع تو نہیں ہوا مگر شعر حسب حال ہو گیا ہے حکم ہو تو عرض کروں۔ ایک ملکی کھڑا دروازے پہ کہتا تھا رات آپ تو بہتیرے جا پاڑہ رہے باہرے میں بہت سے لطائف ان کے بباعت شدت سے بے اعتدالی کے قلم انداز کرنے پڑے جو کچھ کہ لکھتا ہوں، یہ بھی لائق تحریر نہیں سمجھتا۔ لیکن اس نظر سے بے جا نہیں کہ جو لوگ خار حنظل سے گل عبرت چنتے ہیں۔ انہیں اس میں سے ایک مشہور صنف کی شوخی طبع کا نمونہ معلوم ہو گا اور دیکھیں گے کہ اس صاحب کمال کو زمانہ شناسی اور اہل زمانہ سے مطلب بر آری کا کیسا ڈھب تھا ۔ ایک دن نواب نے روزہ رکھا اور حکم دیا، کوئی آنے نہ پائے۔ سید انشاء کو ضروری کام تھا یہ پہنچے۔ پہرہ دار نے کہا کہ آج حکم نہیں۔ آگے آپ مالک ہیں۔ باوجود انتہائے مرحمت کے یہ بھی مزاج سے ہشیار رہتے تھے۔ تھوڑی دیر تامل کیا۔ آکر کمرل کھول دستار سر سے بڑھا قبا اتار ڈالی اور دوپٹہ عورتوں کی طرح سے اوڑھ کر ایک ناز و انداز کے ساتھ سانے جا کھڑے ہوئے۔ جونہی ان کی نظر پڑی، آپ انگلی ناک پر دھر کر بولے۔ میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ نواب بے اختیار ہنس پڑے۔ جو کچھ کہنا سننا تھا وہ کہا اور ہنستے کھیلتے چلے آئے۔ ان کے حالات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عامہ خلائق خصوصاً اہل دہلی کی رفاقت اور رواج کار کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ چنانچہ لکھنو میں میر علی صاحب ایک مرثیہ خواں تھے کہ علم موسیقی میں انہوں نے حکماء کا مرتبہ حاصل کیا تھا۔ مگر اپنے گھر ہی میں مجلس کر کے پڑھتے تھے کہیں جا کر نہ پڑھتے تھے۔ نواب نے ان کے شہرہ کمال سے مشتاق ہو کر طلب کیا۔ انہوں نے انکار کیا اور کئی بار پیغام سلام کے بعد یہ بھی کہا کہ اگر وہ حاکم وقت ہیں تو میں بھی سیادت کے اعتبار سے شہزادہ ہوں انہیں میرے ہاں آنے سے عذر کیا ہے؟ نواب نے کہا کہ سید میرے ہاں ہزاروں سے زیادہ ہیں۔ میر صاحب نے اگر فخر پیدا کیا تو یہی کیا کہ سید تھے؟ اب ڈوم بھی گئے، خیر انہیں اختیار ہے۔ میر علی صاحب نے یہ سن کر خیالات چند در چند سے فوراً دکن کا ارادہ کیا۔ سید انشاء جو شام کو گھر آئے تو دیکھا کہ کچھ سامان سفر ہو رہا ہے۔ سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ میر علی صاحب لکھنو سے جاتے ہیں چونکہ آپ کے بھتیجے بھانجے بھی ان کے شاگرد ہیں۔ وہ بھی استاد کی رفاقت کرتے ہیں۔ میر علی صاحب کے جانے کا سبب پوچھا تو یہ معلوم ہوا۔ اسی وقت کمر باندھ کر پہنچے۔ سعادت علی خاں نے متحیر ہو کر پوچھا کہ خیر باشد! پھر کیوں آئے؟ انہوں نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ ہے۔ دولت بنی ہے اور سعادت علی بنا یا رب بنا بنی میں ہمیشہ بنی رہے پھر کہا حضور! غلام جو اس وقت رخصت ہو کر چلا تو دل نے کہا کہ اپنے دولہا کی دلہن (عروس سلطنت) کو ذرا دیکھوں! حضور! واقعی بارہ، بھرن سولہ سنگار سے بجی تھی۔ سر پر جھومر، وہ کون؟ مولوی دلدار علی صاحب۔ کانوں میں جھمکے وہ کون؟ دونوں صاحبزادے، گلے میں نولکھا ہار، وہ کون؟ خان علامہ۔ غرض اسی طرح چند زیوروں کے نام لے کر کہا کہ حضور غور جو کرتا ہوں تو ناک میں نتھ نہیں۔ دل دھک سے ہو گیا کہ اللہ سہاگ کو قائم رکھے یہ کیا؟ نواب نے پوچھا کہ پھر وہ کون؟ کہا حضور! نتھ میر علی صاحب، بعد اس کے کیفیت مفصل بیان کی۔ نواب نے ہنس کر کہا کہ ان کی دور اندیشیاں بے جا ہیں، میں ایسے صاحب کمال کو فخر لکھنو سمجھتا ہوں۔ غرض اس شہرت بے اصل کے لیے ترقی کا پروانہ اور 500 روپے کا خلعت لے کر وہاں سے پھرے۔ جان بیلی صاحب کہ اس عہد میں ریذیڈنٹ اودھ تھے۔ اگرچہ سید انشاء کا نام اور شہرہ عام سنتے تھے۔ مگر دیکھا نہ تھا۔ جب سید انشاء نواب سعادت علی خاں کے پاس ملازم ہوئے تو ایک دن صاحب کے آنے کی خبر ہوئی۔ نواب نے کہا کہ انشاء آج ہم تمہیں بھی صاحب سے ملائیں گے۔ عرض کی کہ حضور کی ہر طرح پرورش ہے۔ مگر فدوی کے باپ میں کچھ تقریب ملاقات کی ضرورت نہیں غرض جس وقت صاحب ممدوح آئے، نواب اور وہ آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے۔ سید انشاء نواب کے پیچھے کھڑے ہو کر رومال ہلاتے تھے۔ باتیں کرتے کرتے صاحب نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ایک چہرے کی لی۔ انہوں نے آنکھیں نیچی کر لیں، مگر دل میں حیران ہوئے کہ اس آدمی کی کیسی صورت ہے؟ یہ خیال کرتے ہی پھر نظر پڑی۔ اب کی دفعہ انہوں نے ایسا چہرہ بدلا کہ اس سے بھی عجیب وہ شرما کر اور طرف دیکھنے لگے۔ پھر جو دیکھا تو انہوں نے ایسا منہ بنایا کہ اس سے بھی الگ تھا۔ آخر نواب سے پوچھا کہ یہ مصاحب آپ کے پاس کب ملازمت میں آئے میں نے آج ہی انہیں دیکھا ہے۔ نواب نے کہا کہ ہاں آپ نے نہیں دیکھا، سید انشا اللہ خاں یہی ہیں۔ جان بیلی صاحب بہت ہنسے۔ ان سے ملاقات کی۔ پھر ان کی جادو بیانی نے ایسا تسخیر کیا کہ جب آتے پہلے پوچھتے کہ سید انشاء کجا است؟ جان بیلی صاحب کے ساتھ علی نقی خاں میر منشی ریذیڈنٹی بھی آیا کرتے تھے۔ ان کی ان کی عجب لطف کی چوٹیں ہوتی تھیں۔ ایک دن اثنائے گفتگو میں کسی کی زبان سے نکلا۔ شاید کہ پلنگ خفیہ باشد انہوں نے کہا کہ گلستان کے ہر شعر میں مختلف روایتیں ہیں اور لطف یہ ہے کہ کوئی کیفیت سے خالی نہیں۔ چنانچہ ہو سکتا ہے۔ شاید کہ پلنگ خفیہ باشد سعادت علی خاں نے سید انشا کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور! امیر منشی صاحب بجا فرماتے ہیں۔ غلام نے بھی ایک نسخہ گلستان میں یہی دیکھا تھا۔ تا مرد سخن نگفیہ باشد عیب و ہنرش نہفیہ باشد ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی ست شاید کہ پلنگ خفیہ باشد بلکہ وہ نسخہ بہت صحیح اور محشی تھا۔ اس میں گفیہ اور نہفیہ کے کچھ معنی بھی لکھے تھے۔ میر منشی صاحب آپ کو یاد ہیں؟ وہ نہایت شرمندہ ہوئے۔ جب وہ رخصت ہوتے تو سید انشاء کہا کرتے، میر منشی صاحب کا اللہ بیلی۔ ایک دن اسی جلسے میں کچھ ایسا تذکرہ آیا کہ سعادت علی خاں نے کہا، ہجر بالفتح بھی درست ہے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ خلاف محاورہ ہے۔ سعادت علی خاں بولے کہ خیر لغت کے اعتبار سے جب درست ہے تو استعمال میں کیا مضائقہ۔ اتنے میں سید انشاء آ گئے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ کیوں سید انشاء ہجر اور ہجر میں تم کیا کہتے ہو۔ انہیں یہاں کی خبر نہ تھی۔ بے ساختہ کہہ بیٹھے کہ ہجر بالکسر! مگر سعادت علی خاں کی تیوری تاڑ گئے اور فوراً بولے کہ حضور جب ہی تو جامی فرماتے ہیں۔ شب وصل است و طے شد نامہ ہجر سلام ھی حتیٰ مطلع الفجر یہ سنتے ہی سعادت علی خاں شگفتہ ہو گئے اور اہل دربار ہنس پڑے۔ مرزا سلیمان شکوہ کا مکان لب دریا تھا۔ معلوم ہوا کہ کل یہاں ایک اشنان کا میلا ہے۔ سید انشاء نے کہ رنگت کے گورے، بدن کے فربہ، صورت کے جامہ زیب تھے پنڈتان کشمیر کا لباس درست کر کے سب سامان پوجا پاٹ کا تیار کیا۔ صبح کو سب سے پہلے دریا کے کنارے ایک مہنت دھرم مورت بن کر جا بیٹھے اور خوب زور شور سے اشلوک پڑھنے اور منتر جپنے شروع کر دیے۔ لوگ اشنان کے لیے آنے لگے۔ مگر عورت، مرد بچہ، بوڑھا جو آتا، الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی دیکھ کر انہی کی طرف جھکتا۔ یہ انہیں پوجا کرواتے تھے۔ تلک لگاتے تھے۔ جن دوستوں سے یہ راز کہہ رکھا تھا۔ انہوں نے مرزا سلیمان شکوہ کو خبر کی۔ وہ مع جلسہ اسی وقت لب بام آئے دیکھیں تو فی الحقیقت اناج، آٹا، پیسے، کوڑیوں کے ڈھیر لگے ہیں، وہ بھی اس قد رکہ سب سے زیادہ۔ اس میں تفریح طبع یا لیاقت ہر فنی کے اظہار کے ساتھ نکتہ یہ تھا کہ حضور خانہ زاد کو وبال دوش نہ سمجھیں، نہ اس شاعری کا پابند جانیں، جس کوچے میں جائے گا۔ اوروں سے کچھ اچھا ہی نکلے گا۔ فائق تخلص ایک فلک زدہ شاعر تھا۔ خدا جانے کس بات پر خفا ہوا کہ ان کی ہجو کہی اور خود لا کر سنائی۔ انہوں نے بہت تعریف کی۔ بہت اچھلے بہت کودے اور پانچ روپے بھی دئیے۔ جب وہ چلا تو بولے ذرا ٹھہرئیے گا۔ ابھی آپ کا حق باقی ہے، قلم اٹھا کر یہ قطعہ لکھا اور حوالے کیا۔ فائق بے حیا چو ہجوم گفت دل من سوخت سوختہ بہ صلہ اش پنج روپیہ وادم دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ دلی میں حافظ احمد یار ایک معقول صحبت یافتہ نامور حافظ تھے اور سرکار شاہی میں حافظان قرآن میں نوکر تھے۔ اگرچہ دنیا میں ایسا کون تھا جس سے سید انشاء یارانہ برتیں مگر حافظ احمد یار کے بڑے یار تھے۔ ان کا سجع کہا تھا۔ اللہ حافظ احمد یار حافظ صاحب ایک دن ملنے گئے۔ رستے میں مینہ آ گیا اور وہاں پہنچنے تک موسلا دھار برسنے لگا۔ یہ جا کر بیٹھے ہی تھے۔ جو حرم سرا سے ننگے مننگے ایک کھار دے کی لنگی باندھے۔ آپ دوڑے آئے۔ انہیں دیکھتے ہی اچھلنے لگے۔ ہاتھ پھیلا پھیلا کر گرد پھرتے تھے اور کہے جاتے تھے۔ بھر بھر چھاجوں برست نور روبلیاں دشمن دور حافظ مذکور جب رخصت ہوتے تھے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے۔ اللہ حافظ احمد یار ایسے ایسے معاملے ہزاروں تھے کہ دن رات بات بات میں ہوتے رہتے تھے۔ نہایت افسوس کے قابل یہ بات ہے کہ سعادت علی خاں کے ہاتھوں سید انشاء کا انجام اچھا نہ ہوا۔ ا سکے مختلف سبب ہیں۔ اول تو یہ کہ اگرچہ اپنی ہمہ رنگ طبیعت کے زور سے انہوں نے انہیں پرچالیا تھا۔ مگر در حقیقت ان کے اور ان کے معاملے کا مصداق ان کا مطلع تھا۔ رات وہ بولے مجھ سے ہنس کر چاہ میاں کچھ کھیل نہیں میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع میرا تیرا میل نہیں مثلاً اکثر میلوں تماشوں میں چلنے کے لیے کچھ احباب کا تقاضا، کچھ ان کی طبیعت اصلی کا تقاضا، غرض انہیں جانا ضرور اور سعادت علی خاں کی طبع کے بالکل مخالف، اکثر ایسا ہوا کہ وہا پنے کاغذات دیکھ رہے ہیں۔ مصاحبوں کے ساتھ ہی بھی حاضر ہیں۔ اس میں ایک آدھ لطیفہ بھی ہوتا جاتا ہے۔ انہوں نے عرض کی حضور غلام کو اجازت ہے؟ وہ بولے کہ ہوں کہاں؟ انہوں نے کہا حضور آج آٹھواں میلہ ہے۔ انہوں نے کہا لا حول ولا قوۃ سید انشاء بولے کہ مناسب تو یہ تھا کہ حضور بھی تشریف لے چلتے۔ نواب نے کہا انشا ء ایسے ناروا مقاموں میں جانا تمہیں کس نے بتایا ہے؟ عرض کی حضور وہاں تو جانا ایک اعتبار سے فرض عین ہے اور ایک نظر سے واجب کفائی ہے، ایک لحاظ سے سنت ہے۔ پھر سب کی توجہیں بھی الگ الگ بیان کیں۔ آخر اسی عالم مصروفیت میں سنتے سنتے دق ہو کر نواب نے کہہ دیا، قصہ مختصر کرو اور جلدی سدھارو۔ا سی وقت مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے کون ہے آج سو ا سید انشاء کے جو کچھ کہے، اسے عقل سے نقل سے، آیت سے، روایت سے ثابت کر دے۔ ایسی باتیں بعض موقع پر نواب کو موجب تفریح ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ بمقتضائے طبیعت اصلی مکدر ہو جاتے تھے۔ خصوصاً جب کہ رخصت کے وقت خرچ مانگتے تھے۔ کیونکہ وہ شاہ عالم نہ تھا سعادت علی خاں تھا۔ گر جاں طلبی مضائقہ نیست زرمے طلبی سخن درین است غضب یہ ہوا کہ ایک دن سر دربار بعض شرفائے خاندانی کی شرافت و نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔ اسے اتفاق تقدیر کہو یا زیادہ گوئی کا ثمرہ سمجھو۔ سید انشاء بول اٹھے کہ حضور بلکہ انجب سعادت علی خاں حرم کے شکم سے تھے۔ وہ چپ اور تمام دربار درہم ہو گیا۔ اگرچہ انہوں نے پھر اور باتیں بنا بنا کر بات کو مٹانا چاہا۔ مگر کمان تقدیر سے تیر نکل چکا تھا۔ وہ کھٹک دل سے نہ نکلی کہ (والدا لجاریۃ انجب) اب نواب کے انداز بدلنے لگے اور اس فکر میں رہنے لگے کہ کوئی بہانہ ان کی سخت گیری کے لیے ہاتھ آئے۔ یہ بھی انواع و اقسام کے چٹکلوں سے اس کے آئینہ عنایت کو چمکاتے، مگر دل کی کدورت صفائی کی صورت نہ بننے دیتی تھی۔ ایک دن سید انشاء نے بہت ہی گرم لطیفہ سنایا۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ انشاء جب کہتا ہے ایسی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ یہ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے کہ حضور کے اقبال سے قیامت تک ایسے ہی کہے جاؤں گا کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ نواب تو تاک میں تھے۔ چیں بجیں ہو کر بولے کہ بھلا زیادہ نہیں، فقط دو لطیفے روز سنایا کیجئے۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ دیکھے ہوں نہ سنے ہوں، نہیں تو خیر نہ ہو گی۔ سید انشاء سمجھ گئے کہ یہ انداز کچھ اور ہیں۔خیر اس دن سے دو لطیفے روز تو انہوں نے سنانے شروع کر دئیے، مگر چند روز میں یہ عالم ہو گیا کہ دربار کو جانے لگتے تو جو پاس بیٹھا ہوتا۔ اسی سے کہتے کہ کوئی نقل کوئی چٹکلا یاد ہو تو بتاؤ۔نواب کو سنائیں وہ کہتا کہ جناب بھلا آپ کے سامنے اور ہم چٹکلے کہیں۔ یہ کہتے کہ میاں کوئی بات چڑیا کے چنونے کی جو تمہیں یاد ہو کہہ دو، میں نون مرچ لگا کر اسے خوش کر لوں گا۔ اسی اثنا میں ایک دن ایسا ہوا کہ سعادت علی خاں نے انہیں بلا بھیجا یہ کسی اور امیر کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ چوبدار نے آ کر عرض کی کہ گھر نہیں ملے۔ خفا ہو کر حکم دیا کہ ہمارے سوا کسی اور کے ہاں نہ جایا کرو۔ اس قید بے زنجیر نے انہیں بہت دق کیا۔ زیادہ مصیبت یہ ہوئی کہ تعالیٰ اللہ خاں نوجوان بیٹا مر گیا۔ا س صدمے سے حواس میں فرق آ گیا۔ یہاں تک کہ ایک دن سعادت علی خاں کی سواری ان کے مکان کی طرف سے نکلی۔ کچھ غم و غصہ، کچھ دل بے قابو غرض سر راہ کھڑے ہو کر سخت و ست کہا۔ سعادت علی خاں نے جا کر تنخواہ بند کر دی اب جنوں میں کیا کسر رہی؟ سعادت یار خاں رنگین کے بڑے یار تھے اور دستار بدل بھائی تھے چنانچہ سید انشا خود کہتے ہیں۔ عجب رنگینیاں ہوتی ہیں کچھ باتوں میں اے انشا بہم مل بیٹھتے ہیں جب سعادت یار خاں اور ہم خاں موصوف کہا کرتے تھے کہ لکھنو میں، سید انشاء کے وہ رنگ دیکھے، جن کا خیال کر کے دنیا سے جی بیزار ہوتا ہے۔ ایک تو وہ آج کا زمانہ تھا کہ سعادت علی خاں کی ناک کے بال تھے۔ اپنی کمال لیاقت اور شگفتہ مزاجی کے سبب سے مرجع خلائق تھے۔ دروازے پر گھوڑے، ہاتھی، پالکی، نالکی کے ہجوم سے رستہ نہ ملتا تھا۔ دوسری وہ حالت کہ پھر میں لکھنو گیا تو دیکھا کہ ظاہر درست تھا۔ مگر درخت اقبال کی جڑ کو دیمک لگ گئی تھی۔ میں ایک شخص کی ملاقات کو گیا۔ وہ اثنائے گفتگو میں دوستان دنیا کی آشنائی اور بے وفائی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا البتہ ایسا ہے، مگر پھر بھی زمانہ خالی نہیں۔ انہوں نے زیادہ مبالغہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایک ہمارا دوست انشاء ہے کہ دوست کے نام پر جان دینے کو موجود ہے وہ خاموش ہوئے اور کہا کہ اچھا زیادہ نہیں۔ آج آپ ان کے پاس جائیے اور کہیے ہمیں ایک تربوز خود بازار سے لا کر کھلا دو۔ موسم کا میوہ ہے کچھ بڑی بات بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ بھلا یہ بھی کوئی فرمائش ہے، وہ بولے بس یہی فرمائش ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ خود لا کر کھلائیں۔ بلکہ چار آنے کے پیسے بھی آپ مجھ سے لے جائیں میں اسی وقت اٹھ کر پہنچا۔ انشاء عادت قدیم کے بموجب دیکھتے ہی دوڑے، صدقے قربان گئے، جم جم آئیے نت نت آئیے بلائیں لینے لگے۔ میں نے کہا یہ ناز و انداز ذرا طاق میں رکھو۔ پہلے ایک تربوز تو لا کر کھلاؤ، گرمی نے مجھے جلا دیا۔ انہوں نے آدمی کو پکارا۔ میں نے کہا کہ آدمی کی سہی نہیں، تم آپ جاؤ او رایک اچھا سا شہیدی تربوز دیکھ کر لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، آدمی معقول ہے، اچھا ہی لائے گا۔ میں نے کہا نہیں کھاؤں گا تو تمہارا ہی لایا ہوا کھاؤں گا۔ انہوں نے کہا، تو دیوانہ ہوا ہے یہ بات کیا ہے؟ تب میں نے داستان سنائی، اس وقت انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا، بھائی! وہ شخص سچا اور ہم تم جھوٹے۔ کیا کروں؟ ظالم کی قید میں ہوں۔ سوا دربار کے گھر سے نکلنے کا حکم نہیں۔ تیسرا رنگ میاں رنگین بیان کرتے ہیں کہ میں سوداگری کے لیے گھوڑے لے کر لکھنو گیا اور سرا میں اترا۔ شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ قریب ہی مشاعرہ ہوتا ہے۔ کھانا کھا کر میں بھی جلسے میں پہنچا۔ ابھی دو تین سو آدمی آئے تھے۔ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، حقے پی رہے تھے۔ میں بھی بیٹھا ہوں کہ ایک شخص میلی کچیلی روئی دار مرزئی پہنے سر پر ایک میلا سا پھینٹا، گھٹنا پاؤں میں، گلے میں پیکیوں کا توبڑا ڈالے ایک ککڑ حقہ ہاتھ میں لیے آیا اور سلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا۔ کسی کسی نے اس سے مزاج پر سی بھی کی۔ اس نے اپنے تو بڑے میں ہاتھ ڈال کر تمباکو نکالا اور اپنی چلم پر سلفا جما کر کہا کہ بھئی ذرا سی آگ ہو تو اس پر رکھ دینا۔ اسی وقت آوازیں بلند ہوئیں اور گڑگڑی، سٹک، پیچواں سے لوگ تواضع کرنے لگے۔ وہ بے دماغ ہو کر بولا کہ صاحب! ہمیں ہمارے حال پر رہنے دو، نہیں تو ہم جاتے ہیں۔ سب نے اس کی بات کے لیے تسلیم اور تعمیل کی۔ دم بھر کے بعد پھر بولا کہ کیوں صاحب! ابھی مشاعرہ شروع نہیں ہوا؟ لوگوں نے کہا، جناب! لوگ جمع ہوتے جاتے ہیں سب صاحب آ جائیں تو شروع ہو۔ وہ بولا کہ صاحب ہم تو اپنی غزل پڑھے دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر تو بڑے میں سے ایک کاغذ نکالا اور غزل پڑھنی شروع کر دی۔ کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے میاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں وہ تو غزل پڑھ، کاغذ پھینک، سلام علیک کہہ کر چلے گئے، مگر زمین و آسمان میں سناٹا ہو گیا اور دیر تک دلوں پر ایک عالم رہا۔ جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غزل پڑھتے میں میں نے بھی پہچانا۔ حال معلوم کیا تو بہت رنج ہوا اور گھر پر جا کر پھر ملاقات کی۔ چوتھی دفعہ جو لکھنوگیا تو پوچھتا ہوا گھر پہنچا افسوس جس دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے۔ وہاں دیکھا کہ خاک اڑتی ہے۔ اور کتے لونتے ہیں۔ ڈیوڑھی پر دستک دی۔ اندر سے کسی بڑھیا نے پوچھا کہ کون ہے۔ بھائی؟ (وہ ان کی بی بی تھیں) میں نے کہا کہ سعادت یار خاں دلی سے آیا ہے۔ چونکہ سید انشاء سے انتہائی درجے کا اتحاد تھا، اس عقیفہ نے پہچانا۔ دروازے پر آ کر بہت روئیں اور کہا کہ بھیا! ان کی تو عجب حالت ہے۔ اے لو، میں ہٹ جاتی ہوں، تم اندر آؤ اور دیکھ لو۔ میں اندر گیا۔ دیکھا کہ ایک کونے میں بیٹھے ہیں، تن برہنہ ہے، دونوں زانووں پر سر دھرا ہے، آگے راکھ کے ڈھیر ہیں، ایک ٹوٹا سا حقہ پاس رکھا ہے یا تو وہ شان و شکوہ کے جمگھٹ دیکھے تھے، وہ گرم جوشی اور چہلوں کی ملاقاتیں ہوتی تھیں یا یہ حالت دیکھی، بے اختیار دل بھر آیا۔ میں بھی وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور دیر تک رویا۔ جب جی ہلکا ہوا تو میں نے پکارا کہ سید انشائ! سید انشائ! سر اٹھا کر نظر حسرت سے دیکھا، جو کہتی تھی، کیا کروں، آنکھوں میں آنسو نہیں۔ میں نے کہا، کیا حال ہے، ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ شکر ہے پھر اس طرح سر کو گھٹنوں پر رکھ لیا کہ نہ اٹھایا۔ بعض فلاسفہ یونان کا قول ہے کہ مدت حیات ہر انسان کے سانسوں کے شمار پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہر شخص جس قدر سانس یا جتنا رزق اپنا حصہ لایا ہے، اسی طرح ہر شے کہ جس میں خوشی کی مقدار اور ہنسی کا اندازہ بھی داخل ہے، وہ لکھوا کر لایا ہے۔ سید موصوف نے اس ہنسی کی مقدار کو جو عمر بھر کے لیے تھی، تھوڑے وقت میں صرف کر دیا باقی وقت یا خالی رہا یا غم کا حصہ ہو گیا۔ غزلیات جھڑکی سہی ادا سہی، چین برجبیں سہی یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی مرنا مرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹک اب کا ہی دم یہ میرا دم واپسیں سہی گز نازنیں کہنے سے مانا برا ہو کچھ میری طرف تو دیکھیے میں نازنیں سہی آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے نہیں سہی منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے اچھا تو کیا مضائقہ انشاء سے کیں سہی یہ نہیں برق اک فرنگی ہے رعدو باراں قشون جنگی ہے کوئی دنیا سے کیا بھلا مانگے؟ وہ تو بے چاری آپ ننگی ہے واہ دلی کی مسجد جامع جس میں براق فرش سنگی ہے حوصلہ ہے فراخ رندوں کا خرچ کی پر بہت سی تنگی ہے لگ گئے عیب سارے اس کے ساتھ یوں کہا جس کو مرد بنگی ہے ڈرو وحشت کی دھوم دھام سے تم وہ تو اک دیونی دبنگی ہے جوگی جی صاحب آپ کی بھی واہ دھرم مورت عجب کڈھنگی ہے آپ ہی آپ ہے پکار اٹھتا دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے چشم بد دور شیخ جی صاحب کیا ازار آپ کی اوٹنگی ہے شیک سعدی وقت ہے انشاء تو ابوبکر سعد زندگی ہے جگر کی آگ بجھے جس سے جلد وہ شئے لا لگا کے برف میں ساقی صراحی مے لا قدم کو ہاتھ لگاتا ہوں اٹھ کہیں گھر چل خدا کے واسطے اتنے تو پاؤں مت پھیلا نکل کے ودائیے وحشت سے دیکھ اے مجنون کہ زور دھوم سے آتا ہے ناقہ لیلا گرا جو ہاتھ سے فرہاد کے کہیں تیشہ درون کوہ سے نکلے صدائے واویلا نزاکت اس گل رعنا کی دیکھیو انشا نسیم صبح جو چھوی جائے رنگ ہو میلا جہاں عظمت دادا رو خالق ملکوت خیال کر کے یہ کہتا ہوں بہلہ رے جبروت نمود سطوت پروردگار ہے دیکھو جہاں تلک کہ کرے کام یہ نظر کا سوت محیط اس میں ہے تمثال جلوہ واجب اگرچہ آئینہ ممکنات ہے ناسوت زہے کریم کہ کروبیوں کو جس نے دیا مدام مشغلہ سیر گلشن لاہوت حسن حسین کی خاطر سے بخش دیوے گا گناہگاروں کو قصر زمرد و یاقوت کہ جس میں سینکڑوں حوریں ہزار ہا غلمان ہر ایک مثل قمر ہیں بدون ریش و بروت بریمن سبحہ سبحان ربی الاعلیٰ عطا کرے جو تفضل سے قدبیبیوں کا قوت بغیر اس کے کرم کے نہیں بن آتی بات ہزار گرچہ پڑہا کیجئے دعائے قنوت بیان ذات کے اوصاف کس سے کہوں انشا صاف جس کی میں حمال عرش ہیں مبہوت خیال کیجیے کیا آج کام میں نے کیا جب ان نے دی مجھے گالی سلام میں نے کیا کہا یہ صبر ے دل سے کہ لو خدا حافظ کہ حق بندگی اپنا تمام میں نے کیا لگا یہ کہنے کہ خیر، اختلاط کی خوبی حوالے یار کے خالی جو جام میں نے کیا جھڑک کے کہنے لگے لگ چلے بہت اب تم کبھی جو بھول کے ان سے کلام میں نے کیا کہا زبانی دل گریباں کہ کہتا ہے صنم کو اپنے غرض اب تورام میں نے کیا کہیں نہ مانیو، بہتان ہے یہ سب اس پر ہنسی کے واسطے یہ اتہام میں نے کیا تمہارے واسطے تم اپنے دل میں غور کرو کبھی کسی سے نہ ہو جو مدام میں نے کیا مقیم کعبہ دل جب ہوا تو زاہد کو روانہ جانب بیت الحرام میں نے کیا مزا یہ دیکھیے گا شیخ جی رکے الٹے جو ان کا بزم میں کل احترام میں نے کیا عجب طرح کے مزے چاندنی میں دیکھے رات قرار جا کے جو بر پشت بام میں نے کیا ہوس یہ رہ گئی صاحب نے پر کبھی نہ کہا کہ آج سے تجھے انشاء غلام میں نے کیا دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا جب دھم سے آ کہوں گا صاحب سلام میرا ہمسایہ آپ کے میں لیتا ہوں اک حویلی اس شہر میں ہو اگر چندے مقام میرا جو کچھ کہ عرض کی ہے سو کر دکھاؤں گا میں واہی نہ آپ سمجھیں یونہیں کلام میرا اچھا مجھے ستاؤ جتنا کہ چاہو میں بھی سمجھوں گا گر ہے انشاء اللہ نام میرا میں غش ہوا کہا جو ساقی نے مجھ سے ہنس کر یہ سبز جام تیرا اور سرخ جام میرا پوچھا کسی نے مجھ کو ان سے کہ کون ہے یہ تو بولے ہنس کے یہ بھی ہے اک غلام میرا محشر کی تشنگی سے کیا خوف سید انشاء کوثر کا جام دے گا مجھ کو امام میرا ہیں زور حسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر نام خدا نگاہ پڑے کیوں نہ ڈنڈ پر تعویذ لعل ہی کے نہ پھرئیے گھمنڈ پر اک نیلا ڈورا باندھیے اس گورے ڈنڈ پر یا رب سدا سہاگ کی مہندی رچا کرے پتے نچیں کھچیں رہے آفت ارنڈ پر یہ باڑ میری کاٹ کے دی کس نے اس قدر جو تم رگڑ رہے ہو سرو ہی کرنڈ پر دو تین دن تو ہو چکے اب پھر چلو وہیں فیروز شہ کی لاٹھ کے اس چوتھے کھنڈ پر وہ پہلوان سادہ لب جو پہ ڈنڈ پیل بولا کہ کوئی غش ہو تو ایسے بہنڈ پر گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر انشا بدل کے قافیے رکھ چھیڑ چھاڑ کے چڑھ بیٹھ ایک اور بچھیرے اکنڈ پر یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر اے موسم خزاں لگے آنے کو تیرے آگ بلبل اداس بیٹھی ہے اک سوکھے ٹنڈپر شو کے گلے سے پاربتی جی لپٹ گئیں کیا ہی بہار آج ہے برہما کے رنڈ پر راجہ جی ایک جوگی کے چیلے پہ غش ہیں آپ عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈ منڈ پر انشا نے سن کے قصہ فرہاد یوں کہا کرتا ہے عشق چوٹ تو ایسے ہی منڈ پر غزل آزادوں کے لہجے میں جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر تو یوں دیکھ اس گھوڑے جوڑے کی خیر کدا دے نشے کے مرے رخش کو میاں ساقی اس سلفے کوڑے کی خیر دکھائی مجھے سیر باغ ارم الٰہی ہو اس سبزہ گھوڑے کی خیر ہنسایا جو میں نے تو بولے نہیں نظر آتی کچھ اس نگوڑے کی خیر لگا بیٹھ انشاء کو ٹھوکر تو ایک ارے اپنے سونے کے توڑے کی خیر مستزاد کو صولت اسکندر و کو حشمت دارا اے صاحب فطرت پڑھ فاعتبرو ایا اولی الابصار کا آیا تا ہو تجھے عبرت مستانہ جو میں نے قدح بنگ چڑھایا در عالم وحشت تب خضر پکارا کہ ہنیا و مریا اب دیکھ حلاوت ہے جی میں فقیروں کی طرح کھینچ لنگوٹا اور باندھ کے تہمت جا گنج خرابات میں ٹک گھونٹیے سبزا یوں کیجئے عبادت اے حضرت عشق آئیے سائیں اجی مولا یاں کیجئے عنایت مرشد مرے مالک مرے ہادی مرے داتا دیجئے مجھے نعمت ماتھے پہ مرے خط الف اللہ کا کھینچو سونپو مجھے بستر تم مونڈو گرو پیر، یہ بندہ ہوا چیلا جی سے کرے خدمت میں خاک نشیں ہوں گا گر وہ فقراء سے کیا سمجھے ہو مجھ کو رومال چھڑی لے کے جو ٹک کھینچوں اوداسا دکھلاؤں کرامت گر سیر کناں دیر میں جا نکلوں تو بولوں ناقوس کو سن کر ہاں برہمن بت کدہ عشق است صدارا ہے تجھ سے بھی الفت خوش رہتے ہیں چار ابرو کی ابتلا کے صفائی مانند قلندر نہ ہمکو غم و زد نہ اندیشہ کالا ہے خوب فراغت درویش بلانوش بلا چٹ ہیں میاں دوست پینک میں جو آویں افعی کو مسل کر کریں افیون کا گھولا ہیں ایسے ہی آفت گاڑھے ہیں ہم اس سے بھی کہ خنکے کو ملا کر للکارے تھا یو ہیں دیتا ہوں ہلا کنگرہ عرش معلی رکھتا ہوں یہ طاقت آزادوں کے لہجے میں غزل تو نے سنائی از بہز تفنن اب اپنی تو بولی کے کچھ اشعار کہہ انشاء ہو جس میں ظرافت ہے نام خدا دا چھڑے کچھ زور تماشا یہ آپ کی رنگت گات ایسی غضب، قہر پھبن اور جھمکڑا اللہ کی قدرت میں نے جو کہا ہوں میں ترا عاشق شیدا اے کان ملاحت فرمانے لگے ہنس کے سنو اور نماشا یہ شکل یہ صورت الحاد و تصوف میں جو تھا فرق بہم یاں اصلا نہ رہا کچھ پردہ جو تعین کا محبت نے اٹھایا کثرت ہوئی وحدت تاثیر ہے کیا خاک میں اس نجد کی کہدے تو مجھ کو تو بارے ہر پھر کے جو آ نکلے ہے یاں ناقہ، لیلیٰ اے جذب محبت کعبے کا کروں طوف کہ بت خانے کو جاؤں کیا حکم ہے مجھ کو ارشاد مرے حق میں بھی کچھ ہووے گا آیا اے پیر طریقت ہوں پر تو روح القدس اس عہد میں میں بھی عیسیٰ کی طرح سے یوں چاہئے بے ساختہ رہبان کلیسا میری کرے بیعت آئے جو مرے گھر میں وہ شب راہ کرم سے میں موندوی کنڈی منہ پھیر لگے کہنے تعجب سے کہ یہ کیا؟ ایں تیری یہ طاقت لوٹا کریں اس طور مرے غیر ہمیشہ ٹک سوچو تو دل میں ترسا کرے ہر وقت یہ بندہ ہی تمہارا اللہ کی قدرت دیوار چمن پھاند کے پہنچے جو ہم ان کے اک تاک کی اوجھل ترساں ہو یہ فرمانے لگے کوٹ کے ماتھا اے وائے فضیحت خورشید چھپا شام ہوئی شیخ جیو صاحب اب دیکھتے کیا ہو چڑیوں نے لیا آ کے درختوں پہ بسیرا چوں چوں کرو حضرت لے برق کی زنجیر کو ٹک سونڈ میں اپنی اے ابر کے ہاتھی مسیندور لگا ماتھے پہ اس رنگ شفق کا با عظمت و شوکت چل آٹھوں کے میلے کی ذرا وید کریں ہم ہے سیر کی جاگہ سم بیٹھ چڑھا یاروں کے پھیر میل رکدوا مت رعد کی سن دھت شب محفل ہو لی میں جو وارد ہوا زاہد رندوں نے لپٹ کر داڑھی کو دیا اس کی لگا بذر قطونا اور بجنے لگی گت تب پہنچے کہنے لگے ٹک پر بلونا چو رکھ ناک پر انگلی اور آئے جی آئے سے برا مانے سو بھڑوا ہے موسم عشرت کشمیری معلم کو جو اک طفل نے ناگہ انگور کے دانے لا کر دئیے اور ان سے کہا کھائیے میوا ہے قسم ولایت لہجے میں تکشمر کے مقطع ہو یہ بولے شاگرد سے اپنے چل سامنے سے میرے اتار کرینیں لے جا نیمیں نہیں لذت یسیاتھ انگر ناک ہے، بر رو جیسے تجھ کو سو کو ڈی کے دس ہیں بابا یہ تا کیا ہے، چھٹا زانت ہے اس کا کانا نہ لیے مت اب اور ردیف اور قوافی میں غزل پڑھ لیکن اسی ڈھب سے تا شاعروں کے آگے ہو اس بزم میں انشاء ظاہر تری شوکت لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ پٹ تو بول اٹھے جھٹ چل جا ابے رے داؤ زبر رو ہو پرے ہٹ ہے یہ بھی بناوٹ ان آنکھوں کو میں حلقہ زنجیر کروں گا ایسا ہی بلا ہوں چھوڑوں ہوں کوئی آپ کے دروازے کی چوکھٹ جب تک نہ کھلے پٹ مر جائے لہو چھانٹ نہ گونگا ہو وہ کیونکر جو شخص کہ دیکھے سرخی تری آنکھوں کی اور ابرو کی کھچاوٹ سرمے کی گھلاوٹ ہے معدن انوار الٰہی عاشق سوچو تو عزیزو اس چھوٹی سی جاگہ میں یہ وسعت یہ سماوٹ اللہ رے جمگھٹ کیا پھبتی ہے اسے نام خداوا چھڑے آنا ہونٹوں پہ تمہارے اک بوے کے صدمے سے دھواں دھار نلاہٹ مسی کی اودا ہٹ میں روپ بدل اور ہی چپکے سے جو پہنچا بیٹھے تھے جہاں وہ سن کہنے لگے میرے دبے پاؤں کی آہٹ ہے ایک تو نٹ کھٹ تھی گرم یہ کچھ مجلس مے رات کہ ساقی سب کہتے تھے زاہد ہے توبہ شکن آج صراحی کی غٹاغت بھلہ رے جماوٹ اے وائے رے بالیدگی او چمپئی رنگت یہ گات یہ سج دھج اور جامہ شبنم کی وہ چولی کی پھساوٹ بازو کی گلاوٹ مت چھیڑو مجھے دیکھو ابھی کہنے لگو گے اچھا کیا تم نے چولی مری ٹکڑے ہوئی دامن بھی گیا پھٹ لگ جائے گی یہ رٹ ہے نور بصر مرد مک دیدہ میں پنہاں یوں جیسے کنہیا سوا شک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور آنکھیں ہی پنگھٹ اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ ڈنڈوت ہے تم کو کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہی کے سر چٹ اک آن میں جھٹ پٹ پھرتا ہے سما آنکھوں میں اب تک وہی انشاء ہے ظالم ارے کیوں باہم وہ لپٹ سونے میں آ جانی رکاوٹ وہ پیار کی کروٹ وہ سیج بھری پھولوں کی مخمل کے وہ تکیے کمخاب کی پوشش پردے وہ تمامی کے وہ سونے کا چھپرکھٹ اور اس کی سجاوٹ ہے یہ اس مہ جبیں کی تصویر یا کسی حور عین کی تصویر بن گئی دود آہ مجنوں میں ایک محل نشین کی تصویر اپنے داغ جگر میں سوجھی ہے مجھ کو اس نازنین کی تصویر دیکھ لے اس کی چین پیشانی ہے یہ خاقان چین کی تصویر نظر آتی ہے اشک انشاء میں جبرئیل امین کی تصویر مل گئے سینے سے سینے پھر یہ کیسا اضطراب مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب کیوں پڑی تھلکیں نہ آنکھیں آنسوؤں کے بوجھ سے ہے دل صد پارہ کو سیماب کا سا اضطراب روح ک ایہ حال ہے یاں قافلے سے پڑ کے دور کر رہی ہو جس طرح محمل میں لیلیٰ اضطراب پوچھتے کیا ہو کہ تیرے دل میں کیا ہے مجھ سے پوچھو اور کیا یاں خاک ہو گی جوش ہے یا اضطراب دم لگا گھٹنے اجی میں کیا کہوں کل رات کو تم نہ آئے تو کیا یاں جی نے کیا کیا اضطراب کیا غضب تھا پھاند کر دیوار آدھی رات کو دھم سے میرا کودنا اور وہ تمہارا اضطراب تھا وہ دھڑکا پر مزے کے ساتھ صدقے اس کے جی پھر کرے اپنے نصیب اللہ ویسا اضطراب اس کی چاہٹ میں جوانی اپنی جو تھی چل بسی ہے پر اب تک جی کو اک جیسے کا تیسا اضطراب پیر و مرشد کا یہ مصرع حسب حال انشاء کے ہے مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب پگڑی تو نہیں، ہے یہ فراسیس کی ٹوپی یاں وقت سلام اترے ہے ابلیس کی ٹوپی ہے شیخ کے سر ایسی ہی تلبیس کی ٹوپی جس سے کہ پڑی کانپے ہے ابلیس کی ٹوپی دیتے ہیں کلہ اپنے مریدوں کو جو صوفی کہتے ہیں یہی تھی سر جر جیس کی ٹوپی سو چکٹی ہوئی ہے یہ منغض کہ جہاں میں ایسی تو نہ ہو گی کسی سائیس کی ٹوپی ہد ہد کو خوشی تب ہوئی جس دم نظر آئی ہاتھوں میں سلیمان کے بلقیس کی ٹوپی کل سوزن عیسیٰ میں پروخط شعاعی خورشید نے سی حضرت ادریس کی ٹوپی کیوں واسطے جراب کے میری نہ ہو حاضر غلمان کی اور حور فرادیس کی ٹوپی پریوں کے گھروں میں وہی چوری کے مزے لیں جن پاس ہو جنوں کے جواسیس کی ٹوپی ممکن ہو تو دھر دیجئے بنا کر ترے سر پر زر بفت مہ و زہرہ و برجیس کی ٹوپی انگریز کے اقبال کی ہے ایسی ہی رسی آویختہ ہے جس میں فراسیس کی ٹوپی انشاء مرے آغا کی سلامی کو جھکے ہے سکان سرا پر وہ تقدیس کی ٹوپی مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا کہ پڑا ہے آج خم میں قدح شراب الٹا عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا چلے تھے حرم کورہ میں ہوئے ایک صنم کے عاشق نہ ہوا ثواب حاصل یہ ملا عذاب الٹا یہ شب گزشتہ دیکھا وہ خفا سے کچھ ہیں گویا کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب الٹا ابھی جھڑ لگاوے بارش کوئی مست بھر کے نعرہ جو زمیں پہ پھیک مارے قدح شراب الٹا یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا ہوئے وعدے پر جو جھوٹے تو نہیں ملاتے تیور اے لو دیکھا کچھ تماشا یہ سنو عتاب الٹا کھڑے چپ ہو دیکھتے کیا مرے دل اجڑ گئے کو وہ گنہ تو کہہ دو جس سے یہ وہ خراب الٹا غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکر انشا کہ ہوا نے خود بخود آ ورق کتاب الٹا مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام الٹا سہر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے ان نے تو اشارہ میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام الٹا یہ بلا دھوآں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام الٹا بڑھوں اس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دل کو کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام الٹا در مے کدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی کہ پچھاڑ کھا گراداں دل تشنہ کام الٹا نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا مجھے آپ پھیر دیجئے وہ مرا سلام الٹا لگے کہنے اب مولع تجھے ہم کہا کریں گے کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا مجھے کیوں نہ ڈر ڈالے تری زلف الٹ کے کافر کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام الٹا نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولد الحرام الٹا تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام الٹا فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے تو لکھا ہے اس نے انشاء یہ ترا ہی نام الٹا پر تو ہے چاندنی کے ہے صحن باغ ٹھنڈا پھولوں کی سیج پر آ کر دے چراغ ٹھنڈا شفقت سے ہاتھ تو دھر ٹک دل پہ میرے تاہو یہ آگ سا دہکتا سینے کا داغ ٹھنڈا مے کی صراحی ایسی لا برف میں لگا کر جس کے دھوئیں سے ساقی ہووے دماغ ٹھنڈا تجنیس جس دنی کی ہو جوش چشم یارو ہم نے مدام پایا اس کا اوجاغ ٹھنڈا ہیں ایک شخص لاتے خس کی شراب انشاء دھودھا گلاب سے تو کر رکھ ایاغ ٹھنڈا ٭٭٭ شیخ غلام ہمدانی مصحفی مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، باپ کا نام دلی محمد امروہہ کے رہنے والے تھے۔ آغاز جوانی تھا، جو دلی میں آ کر طالب علمی کی۔ طبیعت میں موزونیت خدا داد تھی۔ اس میں قوت بہم پہنچائی۔ ابتداء سے غربت اور مسکینی اور ادب کی پابندی طبیعت میں تھی۔ ساتھ اس کے خوش خلقی اور خوش مزاجی تھی، جس نے بزرگان دہلی کی صحبتوں تک رسائی دی تھی۔ مشاعرہ بھی کیا کرتے تھے۔ انہی سامانوں کا سبب تھا کہ سب شاعر اور معزز اشخاص اس میں شامل ہوتے تھے۔ دلی کا اس وقت ہ عالم تھا کہ خود وہاں کے گھرانے گھر چھوڑ چھوڑ کر نکلے جاتے تھے۔ اس لیے انہیں بھی شہر چھوڑنا پڑا۔ وطن یہاں تھا۔ مگر دلی میں خدا جانے کیا میٹھا ہے کہ خود کہتے ہیں۔ دلی کہیں ہیں جس کو زمانے میں مصحفی میں رہنے والا ہوں اس اجڑے دیار کا اسی طرح اپنے کلام میں اکثر جگہ دلی کے رہنے والے کا فخر کیا کرتے ہیں، غرض آصف الدولہ کا زمانہ تھا کہ لکھنو پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں (جو دلی والوں کا معمولی ٹھکانا تھا) ملازم ہوئے۔ چنانچہ اکثر غزلوں میں بھی اس کے اشارے ہیں۔ ایک شعر ان میں سے ہے۔ تخت طاو۷س پہ جب ہووے سلیماں کا جلوس مور چھل ہاتھ میں میں بال ہما کالے لوں غرض وہاں کثرت مشق سے اپنی استادی کو خاص و عام میں مسلم الثبوت کیا۔ علمیت کا حال معلوم نہیں، مگر تذکروں اور خود ان کے دیوانوں سے ثابت ہے کہ زبان فارسی اور ضروریات شاعری سے با خبر تھے اور نظم و نثر کی کتابوں کو اچھی طرح دیکھ کر معلومات وسیع اور نظر بلند حاصل کی تھی۔ شوق کمال کا یہ حال تھا کہ لکھنو میں ایک شخص کے پاس کلیات نظیری تھی۔ اس زمانے میں کتاب کی قدر بہت تھی۔ مالک اس کا بہ سبب نایابی کے کسی کو عاریۃً بھی نہ دیتا تھا۔ ان سے اتنی بات پر راضی ہوا کہ خود آ کر ایک جزو لے جایا کرو۔ وہ دیکھ لو تو واپس کر کے اور لے جایا کرو۔ ان کا گھر شہر کے اس کنارے پر تھا اور وہ اس کنارے پر۔ چنانچہ معمول تھا کہ ایک دن درمیان وہاں جاتے، جز بدل کر لے آتے۔ ایک دفعہ جب وہاں سے لاتے تو پڑھتے آتے، گھر پر آ کر نقل یا خلاصہ کرتے اور جاتے ہوئے پھر پڑھتے جاتے۔ ہم لوگوں کے حال پر افسوس ہے کہ آج چھاپے کی بدولت وہ وہ کتابیں دکانوں میں پڑی ہیں، جو ایک زمانے میں دیکھنے کو نصیب نہ ہوتی تھیں، مگر بے پروائی ہمیں آنکھیں اٹھا کر نہیں دیکھنے دیتی۔ تعجب ہے۔ ان لوگون سے جو شکایت کرتے ہیں کہ پہلے بزرگوں کی طرح اب لوگ صاحب کمال نہیں ہوتے۔ پہلے جو لوگ کتاب دیکھتے تھے تو اس کے مضمون کو اس طرح دل و دماغ میں لیتے تھے، جس سے اس کے اثر دلوں میں نقش ہوتے تھے۔ آج کل کے لوگ پڑھتے بھی ہیں تو اس طرح صفحوں سے عبور کر جاتے ہیں، گویا بکریاں ہیں کہ باغ میں گھس گئی ہیں۔ جہاں منہ پڑ گیا ایک بکٹا بھر لیا، باقی کچھ خبر نہیں۔ ہوس کا چرواہا ان کی گردن پر سوار ہے وہ دبائے لیے جاتا ہے۔ یعنی امتحان پاس کر کے ایک سند لو اور کوئی نوکری لے کر بیٹھ رہو اور افسوس یہ ہے کہ نوکری بھی نصیب نہیں۔ محاورات قدیم میں انہیں میر سوز، سودا اورمیر کا ایک آخری ہمزبان سمجھنا چاہئے۔ وہ سید انشاء اور جرات کی نسبت دیرینہ سال تھے یا تو بڑھاپے نے پرواز کے بازو ضعیف کر دیے تھے یا قدامت کی محبت نئی شے کے حسن کو حسین کر کے نہ دکھاتی تھی۔ جیسے آزاد ناقابل کہ ہزار طرح چاہتا ہے، مگر اس کا دل نئی شائستگی سے کسی عنوان اثر پذیر نہیں ہوتا ۔ شیخ موصوف نے لکھنو میں صدہا شاگرد کیے، مگر یہ اب تک کسی تذکرے سے ثابت نہیں ہوا کہ وہ خود کس کے شاگرد تھے۔ انہوں نے بڑی عمر پائی اوراپنے کلام میں اشارے بھی کیے ہیں۔ بڑھاپے میں پھر شادی کی تھی۔ طبیعت کیرنگینی نے مسی کی مدد سے دانتوں کو رنگین کیا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے ان کی ہجو میں سب اشارے کیے ہیں۔ غرض جب تک زندہ رہے، لکھنو میں رہے اور وہیں1240ھ میں فوت ہوئے۔ سید انشائ، جرات، میر حسن وغیرہ شعراء ان کے ہم عصر ہیں۔ عام تذکرے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں چھ دیوان اردو کے تمام و کمال ہیں۔ جن میں ہزاروں غزلیں اور بہت سے قصیدے اور ابیات اور رباعیاں اور معمولی تضمینیں ہیں۔ چنانچہ ایک قصیدے کے دعائیے میں کہتے ہیں۔ مصحفی آج دعا مانگے ہے تجھ سے یا رب اے کہ ہے ذات تری سب پہ غفور اور رحیم یہ جو دیوان چھیوں اس کے ہیں مانند سہیل بزم شاہان میں لباس ان کار ہے جلد ادیم دوتذ کرے شعرائے اردو کے، ایک تذکرہ فارسی کا اور ایک دیوان فارسی لکھا، مگر راقم کے پاس جوان کے دیوان ہیں، ان میں سے ایک پر دیوان ہفتم لکھا ہے اور ایک دیوان اور ہے۔ اس میں سید انشاء کے جھگڑے بھی ہیں۔ یہ آٹھواں ہو گا کہ سب سے آخیر ہے۔ دیوان ان کی استادی کو مسلم الثبوت کرتے ہیں۔ انواع و اقسام کی صد ہا غزلیں ہیں۔ جو غزلیں نہایت سنگلاخ زمینوں میں لکھی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل پائی ہے۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم و بیش کر کے اس درد بست کے ساتھ شعر میں کھپایا ہے کہ جو حق استادی کا ہے، ادا ہو گیا ہے۔ ساتھ اس کے اصل محاورے کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے موقع پر کچھ کچھ سودا کا سایہ پڑتا ہے۔ جہاں سادگی ہے، وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر سوز کے انداز پر چلتے ہیں۔ اسی کوچے میں اکثر شعر میر صاحب کی بھی جھلک دکھاتے ہیں، مگر جو ان کے جوہر ہیں، وہ انہی کے ساتھ ہیں۔ یہ اس ڈھنگ میں کہتے ہیں تو پھسینڈے ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ طبیعت رواں تھی۔ پر گوئی کے سبب سے وہ لطف کلام میں پیدا نہ ہوا۔ غزلوں میں سب رنگ کے شعر ہوتے تھے۔ کسی طرز خاص کی خصوصیت نہیں۔ بعض تو صفائی اور برجستگی میں لاجواب ہیں۔ بعض میں یہی معمولی باتیں ہیں۔ جنہیں ڈھیلی ڈھیلی بندشوں میں باندھ کر پھسر پھسر برابر کہتے چلے گئے ہیں۔ اس کا سبب یا تو پر گوئی ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ یا دلی اور امروہہ کا فرق ہے۔ قصیدے خوب ہیں اور اکثر ان میں نہایت مشکل زمینوں میں ہیں۔ کچھ حمد و نعت، کچھ مرزا سلیمان شکوہ اور حکام لکھنو کی شان میں ہیں۔ ان میں بڑے بڑے الفاظ، بلند مضمون ، فارسی کی عمدہ ترکیبیں، ان کی درست نشستیں، جو جو اس کے لوازم ہیں، سب موجود ہیں، البتہ بندشوں کی چستی اور جوش و خروش کی تاثیر کم ہے۔ شاید کثرت کلام نے اسے دھیما کر دیا، کیونکہ دریا کا پانی دو پہاڑوں کے بیچ میں گھٹ کر بہتا ہے تو بڑے زور شور سے بہتا ہے، جہاں پھیل کر بہتا ہے وہاں زور کچھ نہیں رہتا یا شاید ضروری فرمائشیں اتنی مہلت نہ دیتی ہوں گی کہ طبیعت کو روک کر غور سے کام سر انجام کریں۔ فارسی دیوان ہند کے شعرائے رائج الوقت سے کچھ زیادہ نہیں۔ تذکرے خوب لکھے ہیں اور چونکہ استادوں کے زمانے سے قریب تھے اور سن رسیدہ لوگوں کی صحبت کے مواقع حاصل تھے، اس لیے اچھے اچھے حالات بہم پہنچائے ہیں اور ان میں اپنے کل شاگردوں کی بھی فہرست دی ہے۔ اکثر واقعات کی تاریخیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں۔ غرض شعر کی ہر شاخ کو لیا ہے اور جو قواعد و ضوابط اس کے استادوں نے باندھے ہیں، ان کا حق حرف بحرف بلکہ لفظ بہ لفظ پورا ادا کیا ہے۔ ہاں اپنے ہم عصروں کی طرح طبیعت میں چلبلاہٹ اور بات میں شوخی نہیں پائی جاتی کہ یہ کچھ اپنے اختیار میں نہیں، خدا داد بات ہے۔ سید انشاء ہمیشہ قواعد کے رستے سے ترچھے ہو کر چلتے ہیں۔ مگر وہ ان کا ترچھا پن بھی عجب بانکپن دکھاتا ہے۔ یہ بھی مطلب کہ بہت خوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں، مگر کیا کریں کہ وہ امروہہ پن نہیں جاتا۔ ذرا اکڑ کر چلتے ہیں تو ان کی شوخی بڑھاپے کا ناز بے نمک معلوم ہوتا ہے۔ سید انشاء سیدھی سادی باتیں بھی کہتے ہیں تو اس انداز سے کہتے ہیں کہ کہتا اور سنتا گھڑیوں رقص کرتا ہے اور چٹخارے بھرتا ہے۔ ان کا یہ حال ہے کہ اصول بے ماپ کر اور قواعد سے تول کر بات کہتے ہیں۔ پھر بھی دیکھو تو کہیں پھیکے ہیں اور کہیں سیٹھے ہیں۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ فصاحت اور بلاغت کے لیے کوئی قاعدہ نہیں، جس کی زبان میں خدا مزہ دے رہے ہزار اصول و قواعد کی کتابیں ان پر قربان ہیں۔ شغومے گویم بہ از آب حیات من ندانم فاعلاتن فاعلات ایک سقنی کو دیکھ کر شیخ صاحب کی شوخی طبع کے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔ اس غزل کے چند شعر کہ ظریفانہ انداز میں ہیں ملاحظہ فرمائیے۔ پانی بھرے ہے یارویاں قرمزی دو شالا لنگی کی سج دکھا کر سقنی نے مار ڈالا کاندھے پہ مشک لے کر جب قد کو خم کرے ہے کافر کا نشہ حسن ہو جائے ہے دوبالا دریائے خوں میں کیونکر ہم نیم قد نہ ڈوبیں لنگی کے رنگ سے جب یوں تا کمر ہو لا لا یہ سب کچھ صحیح ہے مگر جس شخص کا قلم آٹھ دیوان لکھ کر ڈال دے اس کی استادی میں کلام کرنا، انصاف کی جان پر ستم کرنا ہے۔ ان کی مشاقی اور پر گوئی کو سب تذکروں میں تسلیم کیا ہے۔ سن رسیدہ لوگوں کی زبانی سنا کہ دو تین تختیاں پاس دھری رہتی تھیں۔ جب مشاعرہ قریب ہوتا تو ان پر اور مختلف کاغذوں پر طرح مشاعرہ میں شعر لکھتے شروع کرتے تھے اور برابر لکھتے جاتے تھے۔ لکھنو شہر تھا عین مشاعرے کے دن لوگ آتے۔ 8آنے سے ایک روپے تک اور جہاں تک کسی کا شوق مدد کرتا وہ دیتا۔ یہ اس میں سے 9-11-12 شعر کی غزل نکال کر حوالے کر دیتے تھے ان کے نام کا مقطع کر دیتے تھے اور اصل سبب کمزوری کایہ تھا کہ بڑھاپے میں شادی بھی کی تھی چنانچہ سب سے پہلے تو ایک سالا تھا وہ شعر چن کر لے جاتا۔ پھر سب کو دے لے کر جو کچھ بچتا وہ خود لیتے اور اس میں لون مرچ لگا کر مشاعرے میں پڑھ دیتے۔ وہی غزلیں دیوانوں میں لکھی چلی آتی ہیں۔ بلکہ ایک مشاعرے میں جب شعروں پر بالکل تعریف نہ ہوئی تو انہوں نے تنگ ہو کر غزل زمین پر دے ماری اور کہا کہ روے فلاکت سیاہ جس کی بدولت کلام کی یہ نوبت پہنچی ہے کہ اب کوئی سنتا بھی نہیں۔ اس بات کا چرچا ہوا تو یہ عقدہ کھلا کہ ان کی غزلیں بکتی ہیں۔ اچھے شعر تو لوگ مول لے جاتے ہیں جو رہ جاتے ہیں وہ ان کے حصے میں آتے ہیں۔ پانی پت کے ایک شخص اس زمانے میں چکلہ داری کے سبب سے لکھنو میں رہتے تھے۔ ان کے ہاں شیخ مصحفی بھی آیا کرتے تھے۔ ایک دن کاغذ کا جز ہاتھ میں لیے آئے اور الگ بیٹھ کر کچھ کہنے لگے۔ سامنے ایک ورق رکھا تھا اسے دیکھ دیکھ کر اس طرح لکھے جاتے تھے، جیسے کوئی نقل کرتا ہے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہے، جس کی آپ نقل کر رہے ہیں، لائیے میں لکھ دوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے کچھ مضمون مثنوی میں لکھوانے کے لیے فرمائش کی تھی۔ اس کا تقاضا مدت سے تھا۔ کچھ تو مجھے یاد نہ رہتا تھا، کچھ رفرصت نہ ہوتی تھی۔ آج اس نے بہت شکایت کی اور مطلب لکھ کر دے دیا وہ نظم کر رہا ہوں۔ اس سے روانی طبع اور مشق سخن کو قیاس کرنا چاہئے۔ ایک مشاعرے میں میر تقی مرحوم بھی موجود تھے، شیخ مصحفی نے غزل پڑھی۔ تنہا نہ وہ ہاتھوں کی حنا لے گئی دل کو مکھڑے کو چھپانے کی ادا لے گئی دل کو جب یہ شعر پڑھا یاں لعل فسوں ساز نے باتوں میں لگایا دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو تو میر صاحب قبلہ نے بھی فرمایا کہ بھئی ذرا اس شعر کو پھر پڑھنا۔ ان کا اتنا کہنا ہزار تعریفوں کے برابر تھا۔ شیخ موصوف اسی قدر الفاظ کو فرمان آل تمغا اپنے کمال کا سمجھے بلکہ کئی دفعہ اٹھ اٹھ سلام کیے اور کہا کہ میں اس شعر پر اپنے دیوان میں ضرور لکھوں گا کہ حضرت نے دوبارہ پڑھوایا وہ اپنی غزلوں میں ملکی خصوصیتوں کے مضمون بھی لیتے ہیں، مگر نہ اپنے اپنے ہمعصروں سید انشاء کی طرح بہتات سے نہ جرات کی طرح کمی سے، چنانچہ کہتے ہیں۔ دیکھا نہ میں نے ہنہ میں جب خشکہ پیشادری لینے برنج اے مصحفی اروح اپنی پیشاورگنی نہ کیوں کہ میر کرے شب دروں کے سینے میں جو خال چشم کہ برسوں رہا ہو مینوں میں کیوں نہ دل نظارگی کا جائے لوٹ لکھنو میں حسن کی بندھتی ہے پوٹ تختہ آب چمن کیوں نہ نظر آئے سپاٹ یاد آئے مجھے جس دم وہ نگینو و کا گھاٹ بعض جگہ اپنے وطن کا محاورہ یاد آ جاتا ہے اور کہہ دیتے ہیں۔ تیغ نے اسی کی کلیجا کھا لیا اس نے آتے ہی مجھے سنگوا لیا چمن میں چل کے کر اے مصحفی تو نالہ و آہ جو جی چلا ہو ترا امتحان بلبل کو نہ میں صحرا میں نہ گلشن میں نکل جاؤں گا شوگر شہر ہوں یاں خاک میں رل جاؤں گا انہیں عادت تھی، اکثرجگہ معاصرین پر چوٹ کر جاتے ہیں چنانچہ کہا ہے۔ کچھ میں جرات نہیں ہوں مصحفی سحر بیان میر و مرزا سے لڑانے یہ غزل جاؤں گا اور تو ثانی کوئی اس کا نہیں مصحفی کا ہے قتیل البتہ چوٹ اکثر غزلوں کے مقطع میں اپنے فخر ہے اور ملک سخن کی بادشاہی کا دعویٰ اور مشاعرے کا اپنے دم قدم سے قائم ہونا اور سب شعراء کو اپنا خوشہ چین کہہ دینا ایک بات تھی اور یہ دعویٰ کچھ بے جا بھی نہ تھا، مگر جب سید انشاء اور جرات وہاں پہنچے تو نتیجہ بہت برا ظاہر ہوا۔ چنانچہ ان معرکوں کے بعض حالات مناسب حال لکھتا ہوں۔ اگرچہ ان میں بھی اکثر باتیں خلاف تہذیب ہیں۔ مگر فن زبان کے طلب گاروں کا خیال اس معاملے میں کچھ اور ہے۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ نظم اردو میں چند خیالات معمولی ہیں اور بس۔ عام مطالب کے ادا کرنے میں قوت بیانیہ کا اثر نہایت ضعیف ہے۔ ہاں ہجو کا کوچہ ہے کہ اس میں ایک چٹیک جو شاعر کے دل کو لگی ہوتی ہے تو وہ تاثیر کلام سے مل کر سوتے دلوں کی بغل میں ذرا گدگدی کر جاتی ہے۔ بیان میں صفائی اور زبان میں گرمی و طراری پیدا کرنی چاہو تو ایسے کلاموں کا پڑھنا ایک عمدہ اور زالہ زبان کے تیز کرنے کا ہے۔ مرزا رفیع کی ہجویں ان کی کلیات میں موجود ہیں۔ مگر شیخ مصحفی، سید انشاء کی ہجویں فقط چند بڈھوں کی زبانوں پر رہ گئی ہیں۔ جن کی نظم حیات عنقریب نثر ہوا چاہتی ہے۔ علاوہ برآں اس صورت حال کا حال دکھانا بھی واجب ہے کہ وہ کیا موقعے ہوتے تھے، جو انہیں ایسی حرکات ناروا پر مجبور کرتے تھے۔ یہ روایتیں بھی مختلف ہیں اور مختلف زبانوں پر پریشان ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ انہوں نے ان ہجووں میں فحش اور گالیوں سے انتہائی درجے کی کثافتیں بھری ہیں۔خیر ہمیں چاہیے کہ تھوڑی دیر کے لیے شہد کی مکھی بن جائیں۔ جہاں رسیلا پھول دیکھیں، جا بیٹھیں۔ جالے اور میلے میلے پتوں سے بچیں۔ جب رس لے چکیں، فوراً اڑ جائیں۔ اب ان کے اور سید انشاء کے معرکوں کا تماشا دیکھو۔ واضح ہو کہ اول تو مرزا سلیمان شکوہ کی غزل کو مصحفی بنایا کرتے تھے، جب سید انشاء پہنچے تو ان کے کلام کے سامنے ان کے شعر کب مزا دیتے تھے۔ غزل سید موصوف کے پاس آنے لگی۔ چند روز کے بعد شیخ صاحب کی تنخواہ میں تخفیف ہوئی۔ اس وقت انہوں نے کہا۔ چالیس برس کا ہی ہے چالیس کے لائق تھا مرد معمر کہیں دس بیس کے لائق اے واے کہ پچیس سے اب پانچ ہیں اپنے ہم بھی تھے کبھی روزوں میں پچیس کے لائق استاد کا کرتے ہیں امیر اب کے مقرر ہوتا ہے جو درماہہ کہ سائیس کے لائق چارے کے لگانے سے ہوا دو کا اضافہ پھر وہ نہ جلے جی میں کہ ہو تیس کے لائق پھر بھی آمد و رفت جاری تھی۔ اکثر غزلوں میں دونوں باکمال طبع آزمائی کرتے تھے اور کچھ چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی تھی مگر اس طرح کہ کوئی سمجھے، کوئی نہ سمجھے۔ ایک دن شیخ مصحفی نے مرزا سلیمان شکوہ کے جلسے میں یہ غزل پڑھی۔ زہرہ کی جو آئی کف ہاروت میں انگلی کی رشک نے جاویدہ ماروت میں انگلی بن دودھ انگوٹھے کی طرح چوسے ہے کودک رکھتی ہے تصرف عجب اک قوت میں انگلی غرفے کے ترے حال پہ از بہر تاسف ہر موج سے تھی کل دہن حوت میں انگلی مہندی کے یہ چھلے نہیں، پوروں پہ بنائے ہے اس کی ہر اک حلقہ یاقوت میں انگلی ................... ناچی ہے تری عالم لاحوت میں انگلی شہتوت ہے یا صانع عالم نے لگا دی شیریں کی یہ شاخ شجر توت میں انگلی ..................... حائک کی گرفتار ہوں جوں سوت میں انگلی تھا مصحفی وہ مائل گریہ کہ پس از مرگ تھی اس کی دھری چشم پہ تابوت میں انگلی اسی طرح میں سید انشاء کی غزل کا مطلع تھا۔ دیکھ اس کی پڑی خاتم یاقوت میں انگلی ہاروت نے کی دیدہ ماروت میں انگلی اور بعض شخصوں کی بھی غزلیں تھیں۔ چنانچہ جب مصحفی چلے گئے تو یاروں میں ان کے بعض اشعار پر بہت چرچے ہوئے اور غزل کو الٹ کر بڈھے بے چارے کے کلام کو خراب کیا۔ چند شعر اس کے خیال میں ہیں؟ جو فحش قبیح کے سبب سے خیال میں رکھنے کے قابل بھی نہیں۔ مقطع البتہ صاف ہے اس لیے لکھتا ہوں۔ تھا مصحفی کا نا جو چھپانے کو پس از مرگ رکھے ہوئے تھا آنکھ پہ تابوت میں انگلی یہیں سے فساد کی بنیاد قائم ہوئی اور طرفین سے ہجویں ہو کر وہ خاکہ اڑا کر شائستگی نے کبھی آنکھیں بند کر لیں اور کبھی کانوں میں انگلیاں دے لیں۔ غرض اس غزل کی خبر شیخ مصحفی کو پہنچی۔ وہ پرانا مشاق، لکھنو بھر کا استاد کچھ چھوٹا آدمی نہ تھا۔ باوجود بڑھاپے کے بگڑ کھڑا ہوا اور یہ غزل فخر یہ کہی۔ اب خواہ اسے بڑھاپے کی سستی کہو، خواہ طبیعت کا امروہہ پن کہو، خواہ آئین متانت کی پابندی سمجھو، غرض اپنی وضع کو ہاتھ سے نہ دیا اور اپنے انداز میں خوب کہا۔ غزل فخریہ: مدت سے ہوں میں سرخوش صہبائے شاعری ناداں ہے جس کو مجھ سے ہے دعویٰ شاعری میں لکھنو میں زمزمہ سنجان شعر کو برسوں دکھا چکا ہوں تماشائے شاعری پھبتا نہیں ہے بزم امیران دہر میں شاعر کو میرے سامنے غوغائے شاعری اک طرفہ خر سے کام پڑا ہے مجھے کہ ہائے سمجھے ہے آپ کو وہ مسیحائے شاعری ہے شاعروں کی اب کے زمانے کی یہ معاش پھرتے ہیں بیچتے ہوئے کالائے شاعری لیتا نہیں جو مول کوئی مفت بھی اسے خفت اٹھا کے آتے ہیں گھر وائے شاعری اے مصحفی ز گوشہ خلوت بروں خرام خالی ست از برائے تو خود جائے شاعری ہر سفلہ را زبان و بیان تو کے رسد آرے توئی فغانی و بابائے شاعری مجنوں منم چرا دگرے رنج مے برد در حصہ من آمدہ لیلائے شاعری اس کے علاوہ اور غزلیں بھی کہیں کہ جن میں اس قسم کے اشارے کنایے ہیں چونکہ سید انشاء صاحب علم کے ہاں ہر صحبت میں صدر نشین تھے، انہیں خیال ہوا کہ مصحفی میرا بھی یار ہے، مبادا اسے کچھ خیال ہو، خود پالکی میں سوار ہو کر پہنچے اور کہا کہ جلسے میں اس طرح گفتگو ہوئی ہے۔ بھئی تمہیں میری طرف سے کچھ ملال نہ ہو۔ شیخ مصحفی نے نہایت بے پروائی سے کہا کہ نہیں بھئی مجھے ایسی باتوں کا خیال بھی نہیں اور اگر تم کہتے تو کیا تھا۔ اخیر کا فقرہ سید انشاء کو کھٹکا۔ آتے ہی یاروں کو اور بھی چمکا دیا۔ ادھر سے انہوں نے کچھ اور کہا، ادھر سید انشاء نے بحر طویل میں یہ شعر کہے۔ ہجو در بحر طویل بخداوندی ذاتے کہ رحیم است و کریم است و علیم است و حلیم است و حکیم است و عظیم است و سلیم است و قدیم است و شریف است و لطیف است و خبیر است و بصیر است نصیر است و کبیر است و رؤف است و غفور است و شکور است و دود است و مرا خلق نمود است و بود خالق آفاق۔ قسم میخورم اکنوں کہ مرا، ہیچ ز ہجو تو سروکار نبود است ولے از طرفت گشت شروع ایہمہ اقوال مزخرف۔ شنوائے مردک ناداں اندرد ہنت شاشہ عالم غزل پوچ تو ومثنوی ہرزہ کہ مجموعہ دشنام غلاظ است و شداد است گزشت از نظراں لحظہ بنا چارترا ہجو نمودم کہ دلم خون شد و جوشید و بلر زید و بہ پیچید و طپیدو جگر آتش شدہ در سینہ سوزان من خستہ دل مضطر و حیران۔ اندر دہنت شاشہ عالم اگر از نطفہ ابلیس نباشی دل ہمچومن سید نخراشی کہ از اولاد حسین است و نجیب الطرفین است و شریف است و نظیف است و لطیف است و فصیح است و بلیغ است وبود محسن برحق کہ بجز لطف و کرم بخشی و تعریف کمال و صفت پیش کسے گاہ بیان ہیچ نکردہ است و ترا بود ثنا خواں۔ انہی دنوں میں مشاعرے میں غزل طرح ہوئی۔ اس میں ان مصاحبوں نے غزلیں کہیں، مصحفی نے بھی آٹھ شعر کی غزل لکھی ۔ غزل مصحفی: سر منتک کا ہے تیرا تو کافور کی گردن نے موے پری ایسے نہ یہ حور کی گردن مچھلی نہیں ساعد میں ترے بلکہ نہاں ہے وہ ہاتھ میں ماہیے مقنقور کی گردن یوں مرغ دل اس زلف کے پھندے میں پھنسا ہے جوں رشتہ صیاد میں عصفور کی گردن دل کیوں کہ پری حور کا پھر اس پہ نہ پھسلے صانع کی بنائی تری بلور کی گردن اک ہاتھ میں گردن ہو صراحی کی مزا ہے اور دوسرے میں ساقی مخمور کی گردن ہر چند میں جھک جھک کے کیے سینکڑوں مجرے پرخم نہ ہوئی اس بت مغرور کی گردن کیا جانئے کیا حال ہوا صبح کو اس کا ڈھلکی ہوئی تھی شب ترے رنجور کی گردن یوں زلف کے حلقے میں پھنسا مصحفی اے وائے جوں طوق میں ہووے کسی مجبور کی گردن سید انشاء نے اس غزل پر اعتراض کیے اور ایک قطعہ بھی نظم کیاا ن کی غزل اور قطعہ درج ہوتا ہے۔ سید انشاء کی غزل مصحفی کے جواب میں توڑوں گا خم بادہ انگور کی گردن رکھ دوں گا وہاں کاٹ کے اک حور کی گردن خود دار کی بن شکل الفہائے انا الحق نت چاہتے ہیں اک نئی منصور کی گردن کیوں ساقی خورشید جبیں کیا ہی نشے ہوں سب یونہی چڑھا جاؤں مے نور کی گردن اچھلی ہوئی ورزش سے تری ڈنڈ پہ مچھلی ہے نام خدا جیسے سقنقور کی گردن تھا شخص جو گردن زدنی اس سے یہ بولے اب دیجئے جو دینی ہے منظور کی گردن آئینے کی گر سیر کرے شیخ تو دیکھے سرخرس کا منہ خوک کا لنگور کی گردن یوں پنجہ مژگاں میں پڑا ہے یہ مرا دل جوں چنگل شہباز میں عصفور کی گردن تب عالم مستی کا مزا ہے کہ پڑی ہو گردن پہ مری اس بت مخمور کی گردن بیٹھا ہو جہاں پاس سلیمان کے آصف واں کیوں نہ جھکے قیصر و فغفور کی گردن بھینچے ہے بغل اپنی میں اس زور سے جو عشق تو توڑنے پر ہے کسی مجبور کی گردن اے مست یہ کیا قہر ہے خشت سرخم سے کیوں تو نے صراحی کی بھلا چور کی گردن محفل میں تری شمع بنی موم کی مریم پگھلی پڑی ہے اس کی وہ کافور کی گردن اے دیو سفید سحری کاش تو توڑے اک مکے سے خود کے شب دیجور کی گردن جب کشتہ الفت کو اٹھایا تو الم سے بس ہل گئی اس قاتل مغرور کی گردن بے ساختہ بولا کہ ارے ہاتھ تو ٹک دو ڈھلکے نہ مرے عاشق مغفور کی گردن حاسد تو ہے کیا چیز کرے قصد جو انشاء تو توڑ دے جھٹ بلعم باعور کی گردن قطعہ در ہجو مشتمل بر اعتراضات سن لیجئے گوش دل سے مرے مشفقایہ عرض مانند بید غصے سے مت تھرتھرائیے بلور گو درست ہو، لیکن ضرور کیا خواہی نخواہی اس کو غزل میں کھپائیے دستور و نور و طور یہ ہیں قافیے بہت اس میں جو چاہیے تو قصیدہ سنائیے یہ تو غضب ہے کہیے غزل آٹھ بیت کی اور اس میں روپ ایسے انوکھے دکھائیے کیا لطف ہے کہ گردن کافور باندھ کر مردے کی باس زندوں کو لا کر سنگھائیے یوں خاطر شریف میں گزرا کہ بزم میں کچلا ہوا شریفہ غزل کو بنائیے ایسے نجس کثیف قوافی سے نظم میں دندان ریختہ پہ پھوپھوندی جمائیے بخرے میں آپ ہی کے یہ آئی ہے شاعری بس منہ ہی منہ میں رکھیے اسے مت سراہیے گردن کا دخل کیا ہے سقنقور میں بھلا سانڈے کی طرح آپ نہ گردن ہلائیے مشفق کڑی کمان کو کرڑی نہ بولیے چلا کے مفت تیر ملامت نہ کھائیے اردو کی بولی ہے یہ بھلا کھائیے قسم اس بات پر اب آپ ہی مصحف اٹھائیے استاد گرچہ ٹھہرے ہیں صاحب یوہیں سہی لیکن ڈھکی ہی رکھیے بس اس کو چھپائیے جھٹ لکھیے روپ رام کٹارا کو ایک خط بھلو کی مہر سے سند اس کی منگائیے اپنی کمک کے واسطے جا بھرت پور میں رنجیت سنگھ جاٹ کو ہمراہ لائیے یا گرد و پیش کے قصباتی جو لوگ ہیں اک بلوا باندھیے انہیں جلدی بلائیے مخلص کا التماس پذیرا ہو سوچ کر کہنے سے ایسے ریختہ کے باز آئیے سرکار کی یہاں نہیں گلنے کی دال کچھ روٹی جو کھانی ہووے تو پنجاب جائیے ستلج بیاس راوی و جہلم کی سیر کر چناب والے لوگوں کو یہ کچھ سنائیے خشکا گدھوں کو دیجئے لوزینہ گاؤ کو واں جا کے بین بھینس کے آگے بجائیے اس رمز کا یہاں شنوا کون ہے بھلا اب بھیرویں کاٹپا کوئی آپ گائیے مصحفی نے اس کا جواب اسی غزل میں دیا۔ قطعہ جواب شیخ مصحفی کی طرف سے اے آنکہ معارض ہو مری تیغ زبان سے تو نے سپر عذر میں مستور کی گردن ہے آدم خاکی کا بنا خاک کا پتلا گر نور کا سر ہووے تو ہو نور کی گردن میں لفظ سقنقور مجرد نہیں دیکھا ایجاد ہے تیرا یہ سقنقور کی گردن لنگور کو شاعر تو نہ باندھے گا غزل میں کس واسطے باندھے کوئی لنگور کی گردن گردن تو صراحی کے لیے وضع ہے ناداں بے جا ہے خم بادہ انگور کی گردن اس سے بھی میں گزرا غلطی اور یہ سنئے باندھے ہے کوئی خوشہ انگور کی گردن کافور سے مطلب ہے مرا اس کی سفیدی ٹھنڈی تو میں باندھی نہیں کافور کی گردن یہ لفظ مشدد بھی درست آیا ہے تجھ سے خم ہوتی ہے کوئی مری بلور کی گردن اتنی نہ تمیز آئی تجھے ربط بھی کچھ ہے ہر قافیے میں تو نے جو منظور کی گردن یوں سینکڑوں گردن تو گیا باندھ تو کیا ہے سوجھی نہ تجھے حیف کہ مزدور کی گردن جو گردنیں میں باندھی ہیں لا تجھ کو دکھا دوں تو مجھ کو دکھا دے شب دیجور کی گردن گردن کے تئیں چاہیے اک شکل کشیدہ خم کر کے سمجھ ٹک سر مغرور کی گردن مضمون تو میرا ہی ہے گو اور طرح سے باندھے تو گماں اپنے میں رنجور کی گردن گر قافیہ پیمائی ہی منظور تھی تجھ کو تو باندھی نہ کس واسطے مقدور کی گردن لاکھوں ہی معانی کو کیا قتل پر افسوس سوجھی نہ تجھے دشنہ و ساطور کی گردن منصف ہو تو پھر نام نہ لے دعویٰ کا ہرگز یہ بوجھ اٹھا سکتی نہیں مور کی گردن منظور ہی کی ........ تو باللہ باندھی نہ گر اب خانہ زنبور کی گردن ٹوٹے ہوئے نیچے کی طرح میرے قلم سے جاتی ہے پچک شاعر مغرور کی گردن انصاف تو کر دل میں کہ اک تیغ میں کیسے میں کاٹ دی دعویٰ کی ترے زور کی گردن کھٹ راگ پہ گایا پہ ترے ہاتھ نہ آئی افسوس کہ اس تان پہ طنبور کی گردن سوجھا نہ تجھے ورنہ بتاتا تو اسی دم ناسور کی پٹی کو بھی ناسور کی گردن انصاف کیا اس کا میں اب شہ کے حوالے جھکتی ہے جہاں مار سے لے مور کی گردن وہ شاہ سلیماں کہ اگر تیغ عدالت ٹک کھینچیں تو دو ہو وہیں فغفور کی گردن جس سر پہ ٹک اپنا وہ رکھے دست نوازش اس سر کے لیے تکیہ ہو پھر حور کی گردن اس در کا جو سجدہ انہیں منظور نہ ہوتا ملتی نہ فرشتوں کو کبھی نور کی۔۔۔۔ گردن اے مصحفی خامش بسخن طول نہ کھچ جائے یاں کو تہ ہی بہتر سر پر شور کی گردن ان دونوں قطعوں کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ دونوں باکمال ادائے مطلب پر کس قدر قدرت رکھتے تھے۔ بے شک عام لطف بیان اور خاص طنزوں کے نشتر سید انشاء کی ترجیح کے لیے سفارش کریں گے، مگر بڈھے دیرینہ سال نے جو اسی غزل کی زمین میں مطالب مطلوبہ کو ادا کر دیا۔ یہ قدرت کلام شاید اسے پیچھے نہ رہنے دے۔ شیخ مصحفی کے شاگردوں میں منتظرا ور گرم دو بڑے چلتے طپنچے تھے۔ وہ نواب صاحب کی سرکار میں توپ خانہ وغیرہ کی خدمت رکھتے تھے۔ انہوں نے زبان سے تدبیروں سے، معرکوں سے استاد کی استادی کے مورچے باندھے۔ ایک مثنوی لکھ کر گرم طمانچہ نام رکھا۔ میر انشاء اللہ خاں نے جب مشاعرے میں یہ گردن کی غزل پڑھی اور اس میں یہ شعر پڑھا۔ آئینے کی گر سیر کرے شیخ تو دیکھے سرخرس کا منہ خوک کا لنگور کی گردن مقطع میں بلعم باعور کا اشارہ بھی ان کی کہن سالی پر چوٹ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ حضرت موسیٰ کے عہد میں ایک عابد تھا، جو بڑھاپے اور ریاضت سے اس قدر تحلیل ہو گیا تھا کہ شاگرد پوٹلی میں باندھ کر کبھی بغل میں مارے پھرتے تھے۔ کبھی کندھے پر ڈال لیتے تھے اور جہاں چاہتے تھے لے جاتے تھے۔ تو منظر نے بھی اپنی غزل میں سید موصوف پر چوٹیں کیں، ان میں سے ایک مصرع یاد ہے۔ باندھی دم لنگور میں لنگور کی گردن کیونکہ سید انشاء اکثر دوپٹہ گلے میں ڈالے رہتے تھے۔ اس کا ایک سرا آگے اور دوسرا سرا پیچھے پڑا رہتا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے اسی وقت ایک شعر اور کہا۔ سفرہ پہ ظرافت کے ذرا شیخ کو دیکھو سر لون کا، منہ پیاز کا امچور کی گردن بڈھے بے چارے کا سر بھی سفید تھا۔ گوری رنگت بڑھاپے میں خون جم کر سرخ ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ بہت جواب و سوال زبانی بھی طے ہوئے۔ مگر ان کا اب پتا لگنا ممکن نہیں۔ استاد مرحوم فرماتے تھے کہ منجملہ اور اعتراضوں کے مصحفی کی غزل میں ماہی سقنقد میں جوی بہ تشدید پڑھی جاتی ہے۔ سید انشاء نے اس پر بھی تمسخر کیا اور شیخ مصحفی نے یہ شعر سند میں دیا۔ ما ایم و فقیری و سیہ روئی کونین رخسار سفید امرا را نہ شناسیم سید انشاء پر جو اعتراض ہے کہ فقط سقنقور کیوں کہا؟ یہ شیخ مصحفی کا کہنا بے جا ہے، کیونکہ سقنقور ایک جانور کا نام ہے اور یہ لفظ اصل میں یونانی ہے، مچھلی کو اس سے کچھ خصوصیت نہیں ہے۔ سید انشاء کی طبیعت کی شوخی اور زبان کی بے باکی محتاج بیان نہیں۔ چنانچہ بہت سی زٹل اور فحش ہجویں کہیں کہ جن کا ایک مصرع ہزار قمچی اور چابک کا طراقا تھا۔ بڈھا بے چارا ابھی اپنی شیخی کی جریب اور عصائے غرور کے سہارے کھڑا ہو کر جتنا کمر میں بوتا تھا، مقابلہ کرتا رہا۔ جب نوبت حد سے گزر گئی تو اس کے شاگردوں سے بھی لکھنو بھرا پڑا تھا۔ منتظر اور گرم سب کو لے کر اٹھ ہوئے اور جو کچھ ہو سکا، شاگردی کا حق ادا کیا۔ ایک دن سب اکٹھے ہوئے شہدوں کا سوانگ بھرا اور ایک ہجو کہہ کر اس کے اشعار پڑھتے ہوئے سید انشاء کی طرف روانہ ہوئے اور مستعد تھے کہ زد و کشت سے بھی دریغ نہ ہو۔ سید انشاء کو ایک دن پہلے خبر لگ گئی۔ اب ان کی طبع رنگین کی شوخی دیکھیے کہ مکان کو فرش و فروش، جھاڑ و فانوس سے سجایا اور امرائے شہر اور اپنے یاروں کو بلایا۔ بہت سی شیرینی منگا کر خوان لگائے۔ کشتیوں میں گلوریاں، چنگیروں میں پھولوں کے ہار سب تیار کیے۔ جب سنا کہ حریف کا مجمع قریب آ پہنچا، اس وقت یہاں سے سب کو لے کر استقبال کو چلے۔ ساتھ خود تعریفیں کرتے۔ سبحان اللہ واہ وا سے داد دیتے اپنے مکان لائے۔ سب کو بٹھایا اور خود دوبارہ پڑھوایا۔ آپ بھی بہت اچھلے کودے، شیرینیاں کھلائیں۔ شربت پلائے، پان کھلائے، ہار پہنائے، ہنس بول کر عزت و احترام سے رخصت کیا۔ لیکن سید انشاء نے جو ا س کا جواب حاضر کیا، وہ قیامت تھا۔ یعنی ایک انبوہ کثیر برات کے سامان سے ترتیب دیا اور عجیب و غریب ہجویں تیار کر کے لوگوں کو دیں۔ کچھ ڈنڈوں پر پڑھتے جاتے تھے، کچھ ہاتھیوں پربیٹھے تھے۔ ایک ہاتھ میں گڈا، ایک میں گڑایا دونوں کو لڑاتے تھے۔ زبانی ہجو پڑھتے جاتے تھے، جس کا ایک شعر یہ ہے۔ سوانگ نیا لایا ہے دیکھنا چوخ کہن لڑتے ہوئے آئے ہیں مصحفی و مصحفن ان معرکوں میں مرزا سلیمان شکوہ بلکہ اکثر امرا نے سید انشاء کا ساتھ دیا اور حریف کے سوانگ کو کوتوال سے کہہ کر ایک دفعہ رکوا دیا۔ اس بات نے شیخ مصحفی کو بہت شکستہ خاطر کر دیا۔ چنانچہ ا کثر غزلوں میں رنگ جھلکتا ہے، ان میں سے غزل کا مقطع و مطلع لکھتا ہوں۔ جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں کچھ اس کے سوا اب مری تدبیر نہیں یاں اے مصحفی بے لطف ہے اس شہر میں رہنا سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں یاں ان جھگڑوں میں بعض شہروں پر مرزا سلیمان شکوہ کو شبہ ہوا کہ ہم پر بھی شیخ مصحفی نے چوٹ کی۔ اس کے عذر میں انہوں نے کہا۔ قصیدہ در معذرت اتہام انشا مرشد زادہ شہزادہ مرزا سلیمان شکوہ بہادر قسم بذات خدائے کہ ہے سمیع و بصیر کہ مجھ سے حضرت شہ میں ہوئی نہیں تقصیر سوائے اس کے کہ حال اپنا کچھ کیا تھا میں عرض سو وہ بطور شکایت تھی اند کے تقریر گر اس سے خاطر اقدس پہ کچھ ملال آیا اور اس گنہ سے ہوا بندہ واجب التعزیر عوض روپوں کے ملیں مجھ کو گالیاں لاکھوں عوض دو شالے کے خلعت بشکل نقش حریر سلف میں تھا کوئی شاعر نواز ایسا کب؟ جو ہے تو شاہ سلیمان شکوہ عرش سریر مزاج میں یہ صفائی کہ کر لیا باور کسی کے حق میں کسی نے جو کچھ کہ کی تقریر مصاحب ایسے کہ گر کچھ کسی سے لغزش ہو تو اس کے رفع کی ہرگز نہ کر سکیں تدبیر وگر کریں تو پھر ایسی کہ نار طیش و غضب مزاج شاہ میں ہو مشتعل بصد تشویر سو تاب ذرہ کہاں نور آفتاب کہاں کہاں وہ سطوت شاہی، کہاں غرور فقیر مقابلہ جو برابر کا ہو تو کچھ کہیے کہاں وہ دبیقی و دیبا کہاں پلاس و حصیر میں اک فقیر غریب الوطن مسافر نام رہے ہے آٹھ پہر جس کو قوت کی تدبیر مرا دہن ہے کہ مدح حضور اقدس کو الٹ کے پھیر بحرف ذمیمہ دوں تغییر یہ افترا ہے بنایا ہوا سب انشاء کا کہ بزم و رزم میں ہے پائے تخت کا وہ مشیر مزاج شاہ ہو یوں منحرف تو مجھ کو بھی یہ چاہئے کہ کروں شکوہ اس کا پیش وزیر اگر وزیر بھی بولے نہ کچھ خدا لگتی تو جاؤں پیش محمد کہ ہے بشیر و نذیر شفیع روز جزا پادشاہ اودانی نہ کر وہ جرم پہ جس نے نہیں لکھی تعزیر کہوں یہ اس سے کہ اے جرم بخش پر گنہاں تری غلامی میں آیا ہے داد خواہ فقیر خطا ہو میری جو پہلے تو کرا سیر مجھے وگر عدو کی پنہا اس کو طوق اور زنجیر اگرچہ بازی انشائے بے حمیت کو رہا خموش سمجھ کر میں بازی تصویر سو میں ملک نہیں ایسا بشر ہوں تاکے و چند کہے سے اس کے کروں گا نہ ماجرا تحریر کیا میں فرض کہ میں آپ اس سے درگزرا پھرے گا مجھ سے گوئی گرم و منتظر کا ضمیر اور ان پہ بھی جو کیا میں نے تازیانہ منع تو ہو سکے ہے کوئی ان کی وضع کی تدبیر ہزار شہدوں میں بیٹھیں ہزار جا پہ ملیں پھریں ہمیشہ لیے جمع ساتھ اپنے کثیر نہ مانیں تیغ سیاست نہ قہر سلطانی نہ سمجھیں قتل کا وعدہ نہ ضربت شمشیر مزاج ان کا ٹھٹھوں اس قدر پڑا ہے کہ وہ ہنسی سمجھتے ہیں اس بات کو نہ جرم کبیر پھر اس پہ یہ بھی ہے یعنی کہ اس مقام کے بیچ جو ہووے منشی تو کچھ نثر میں کرے تسطیر فکیف جن کو خدا نے کیا ہو موزوں طبع اور اپنے فضل سے بخشتی ہو شعر میں توقیر یہ کوئی بات ہے سوسن کے وہ خموش رہیں ہوا ہے مصلحتہً گو کہ تصفیہ یہ آخیر مگر یہ بات میں مانی کہ سوانگ کا پانی اگر میں ہوں تو مجھے دیجئے بدتریں تعزیر میں آپ فاقہ کش اتنا مجھے کہاں مقدور کہ فکر اور کروں کچھ بغیر آش شعیر مرے حواس پریشاں بایں پریشانی ہو جیسے لشکر بشسکتہ کی خراب بہیر گر اس پہ صلح کی ٹھہری رہے تو صلح سہی اگر ہو پھیر شرارت بشر ہوں میں بھی شریر جواب ایک کے یاں دس ہیں اور دس کے سو نگاہ کرتے تھے اول بایں قلیل و کثیر حصول یہ ہے کہ جب کوتوال تک قضیہ گیا ہو از پئے تہدید شاعران شریر تو کوتوال ہی بس ان سے اب سمجھ لے گا یہ دم بدم کی شکایت کی ہے عبث تحریر یہ وہ مثل ہے کہ جس طرح سارے شہر کے بیچ بلند قامتی اپنی سے مہتمم ہو بعیر سو متہم مجھے ناداں نے ہجو شہ سے کیا قباحت اس کی جو سمجھے شہ اس کو دے تعزیر ولے مزاج مقدس جو لا ابالی ہے نہیں خیال میں آتا خیال حرف حقیر جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفی بس اب چپ رہ زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر خدا پہ چھوڑ دے اس بات کو وہ مالک ہے کرے جو چاہے، جو چاہا کیا بہ حکم قدیر سید انشاء پھرتے پھرتے چلتے دلی میں آئے تھے اور کچھ عرصہ رہے تھے اور جو لوگ ان معرکوں میں ان کے رفیق تھے۔ ان میں سے اکثروں نے دلی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر شیخ مصحفی نے یہ قطعہ کہا، جس کے چند شعر ساتویں دیوان میں ہیں۔ قطعہ: بعضوں کا گماں ہے یہ کہ ہم اہل زباں ہیں دلی نہیں دیکھی ہے زباں داں یہ کہاں ہیں پھر تسپہ ستم اور یہ دیکھو کہ عروضی کہتے ہیں سدا آپ کو اور لاف زناں ہیں سیفی کے رسالے پہ بنا ان کی ہے ساری سو اس کو بھی گھر بیٹھے وہ آپ ہی نگراں ہیں اک ڈیڑھ ورق پڑھ کے وہ جامی کا رسالہ کرتے ہیں گھمنڈ اپنا کہ ہم قافیہ داں ہیں نہ حرف جو وہ قافیے کے لکھتے ہیں اس میں دانا جو انہیں سنتے ہیں یہ کہتے ہیں ہاں ہیں تعقید سے واقف نہ تنافر سے ہیں آگاہ نہ حرف یہی قافیے کے درد زباں ہیں کرتے ہیں کبھی ذکر وہ ایطائے خفی کا ایطائے جلی سے کبھی پھر حرف زناں ہیں اول تو ہے کیا شعر میں ان باتوں سے حاصل بالفرض جو کچھ ہو بھی تو یہ سب پہ عیاں ہیں حاصل ہے زمانے میں جنہیں نظم طبیعی نظم ان کی کے اشعار بہ از آب رواں ہیں پرواہ انہیں کب ہے ردیف اور روی کی کب قافیے کی قید میں آتش نفساں ہیں مجھ کو تو عروض آتی ہے نہ قافیہ چنداں اک شعر سے گرویدہ مرے پیر و جواں ہیں اس قطعے کے مطلع پر خیال کرو کہ دلی اس وقت کیا شے تھی چند روز وہاں رہ جانا گویا زباندانی کا سرٹیفکیٹ ہوتا تھا۔ خیر اب شیخ صاحب کے اقسام سخن سے لطف حاصل کرنا چاہئے۔ باوجودیکہ شیخ مصحفی بہت سن رسیدہ تھے، مگر سید انشاء کے مرنے کا انہیں افسوس کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے۔ مصحفی کس زندگانی پر بھلا میں شاد ہوں یاد ہے مرگ قتیل و مردن انشا مجھے کیا کیا فساد، کیا کیاس شور و شر ہوئے، کیسے کیسے خاکے اڑے، انجام یہ کہ خاک شیخ مصحفی کا قصیدہ نعت میں حنا سے ہے یہ تری سرخ اے نگار انگشت کہ ہو نہ پنجہ مرجاں کی زینہار انگشت ضعیف اتنا ہوا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں نہیں یہ پنجہ طاقت سے بھلہ دار انگشت ہلال و بدر ہوں یک جا عرق فشانی کو رکھے جبیں پہ جو تو کر کے تاب دار انگشت فراق مو کمراں سے میں یہ ہوا باریک کہ ہو گئیں مری سوزن صفت ہزار انگشت ز بسکہ زشت ہے دنیا میں ہاتھ پھیلانا رکھے ہے سمٹی ہوئی اپنی پشت خار انگشت وہ جب لگائے ہے فندق تو دیکھ دیکھ مجھے رکھے ہے منہ میں تاسف کی روزگار انگشت شمار داغ سے کب اتنی مجھ کو فرصت ہے کہ رکھ سکوں بسر چشم اشک بار انگشت چند شعر کے بعد گریز کرتے ہیں:ـ بیاں ضرور ہے اب دست و تیغ کا اس کی نکل گئی سپرمہ سے جس کی پار انگشت محمدؐ عربی معجزوں کا جس کے کبھی نہ کر سکے فلک پیر کا شمار انگشت چمن میں اس کی رسالت کا جب کچھ آئے ہے ذکر علم کرے ہے شہادت کی شاخسار انگشت وظیفہ جس کا پڑھے ہے یہ دانہ شبنم دعا میں جس کی ہے کھولے ہوئے چنار انگشت اگر ہو مہرہ گہوارہ سنگ فرش اس کا نہ چوسے اپنی کبھی طفل شیر خوار انگشت اٹھارے گر کف افسوس ملنے کی وہ رسم نہ ہووے پھر کبھی انگشت سے دو چار انگشت کرے جو وصف وہ اس تاج انبیاء کے رقم قلم کی جوں نئے نرگس ہو تاجدار انگشت غزلیات دن جوانی کے گئے موسم پیری آیا آبرو خواب ہے اب وقت حقیری آیا تاب و طاقت رہے کیا خاک کہ اعضا کے تئیں حاکم ضعف سے فرمان تغیری آیا سبق نالہ تو بلبل نے پڑھا مجھ سے ولے نہ اسے قاعدہ تازہ صفیری آیا شاعری پر کبھی اپنی جو گئی اپنی نظر نہ ضمیر اپنے میں اس وقت ضمیری آیا ورد پڑھنے جو اٹھا صبح کو سب سے پہلے مکتب عشق میں ہونے کو وہ میری آیا اس کے در پر میں گیا سوانگ بنائے تو کہا چل بے چل دور ہو کیا لے کے فقیری آیا پوچھ مت معرکہ عشق کا ہنگامہ کہ واں قیس مارا گیا وامق باسیری آیا اے سلیماں ہو مبارک تجھے یہ شاہی و تخت تیرا آصف بھی بسامان وزیری آیا چشم کم سے نہ نظر مصحفی خستہ پہ کر وہ اگر آیا تو مجلس میں نظیری آیا غزل مذکورہ ذیل سید انشاء کی غزل پر ہے۔ پیری سے ہو گیا یوں اس دل کا داغ ٹھنڈا جس طرح صبح ہوتے کر دیں چراغ ٹھنڈا سر گرم سیر گلشن کیا خاک ہوں کہ اپنا نزلے سے ہو رہا ہے آپ ہی دماغ ٹھنڈا بلبل کے گرم نالے جب سے سنے ہیں اس نے دیوار گلستان پر بولے ہے زاغ ٹھنڈا کیا کیا خوشامدی نت پنکھا لگے ہلانے کشتی سے جب ہوا وہ کر کے فراغ ٹھنڈا صر صر سے کم نہیں کچھ وہ تیغ تیز جس نے لاکھوں کو کر دیا ہے دم میں چراغ ٹھنڈا کشمیری ٹولے میں ہم جاتے تھے روز لیکن جی آج تک ہوا ہے کر کے سراغ ٹھنڈا گرمی کی رت ہے ساقی اور اشک بلبلاں نے چھڑکاؤ سے کیا ہے سب صحن باغ ٹھنڈا ایسے میں اک صراحی شورے لگی منگا کر لبریز کر کے مجھ کو بھر دے ایاغ ٹھنڈا کیا ہم ٹکڑ گداہیں جو مصحفی یہ سوچیں ہے گرم اس کا چولہا اس کا اجاغ ٹھنڈا جرات اور سید انشاء کے مستزاد بھی دیکھو کہ مشاعرے کے معرکے میں پڑھے گئے تھے۔ غزل مستزاد خوشبوئی سے جن کی ہو خجل عنبر سارا ہم مشک کی نگہت بال الجھے ہوئے ہیں نہ کہ ریشم کا ہے لچھا اللہ ری نزاکت پاؤں میں کفک اور لگے ہاتھوں میں مہندی از خون محبان چہرا وہ پری کہیے جسے نور کا بکا رنگ آگ کی صورت تلوار لیے ابروے کج قتل پہ مائل لب خون کے پیاسے پھولوں کی چھڑی ہاتھ میں اور کان میں بالا چتون میں شرارت مسی کی دھڑی اک تو جمی ہونٹوں پہ کافر اور ترشی سے پونچھے پھر تسپہ ستم اس کا وہ پاؤں کا لکھوٹا جوں خوں کی ہو رنگت پاؤں میں انی دار پڑی کفش زدی کی دل جس سے ہو زخمی اور سر پہ شرارت سے بندھا بالوں کا جوڑا سج دھج سو اک آفت خونخوار نگہ عربدہ جو آپ سو کیفی سرشار نشے میں اک ہاتھ میں ساغر تو پھر اک ہاتھ میں مینا مستوں کی سی حالت آیا مرے گھر، دی مرے دروازے پہ دستک میں گھر سے نکل کر دیکھوں تو سر کوچہ اک آشوب ہے پیدا آئی ہے قیامت تب میں نے کہا اس سے کہ اے مایہ خوبی کیا جی میں یہ آیا اس وقت جو آیا تو مرے پاس اکیلا سمجھا نہ قباحت تو سن کے لگا کہنے اے مصحفی سن بات گھر سے مرے مجھ کو لایا ہے ترا جاذبہ ہی کھینچ کے اس جا تھی کس کو یہ قدرت سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا نہ غروب ہونے پایا وہیں آفتاب الٹا جو کسی نے دیس رامیں اسے لا کے دی مصور نہ حیا کے مارے اس نے ورق کتاب الٹا میں حساب بوسہ جی میں کہیں اپنے کر رہا تھا وہ لگا مجھی سے کرنے طلب اور حساب الٹا مہ چار وہ کا عالم میں دکھاؤں گا فلک کو اگر اس ن پردہ منہ سے شب ماہتاب الٹا جو خفا ہوا میں جی میں کسی بات پر شب وصل سحر اٹھ کے میرے آگے وہی اس نے خواب الٹا بسواں بوسہ اس نے مجھے رک کے دی جو گالی میں ادب کے مارے اس کو نہ دیا جواب الٹا کہیں چشم مہر اس پر تو نہ پڑ گئی ہو یا رب جو نکلتے صبح گھر سے وہ پھرا شتاب الٹا میں ہوا ہوں جس پہ عاشق یہ شگرف ماجرا ہے کہ مرے عرض لوگا ہے اسے اضطراب الٹا کسی مست کی لگی ہے مگر اس کے سر کو ٹھوکر جو پڑا ہے مے کدے میں یہ خم شراب الٹا یہ مقام آفریں ہے کہ بزور مصحفی نے انہی قافیوں کو پھر بھی بصد آب و تاب الٹا جو پھرا کے اس نے منہ کو بقضا نقاب الٹا ادھر آسمان الٹا ادھر آفتاب الٹا نہ قفس میں ایسے مجھ کو تو اسیر کیجو و صیاد کہ گھڑی گھڑی وہ ہووے دم اضطراب الٹا مرے حال پر مغاں نے یہ کرم کیا کہ سن سن مرے پی کے سر پہ رکھا قدح شراب الٹا تراتشنہ لب جہاں سے جو گیا لحد پر اس کی پس مرگ بھی کسی نے نہ سبوئے آب الٹا مری آہ نے جو کھولی بعیوق آہ کی برق وہیں برق رعد لے کر علم سحاب الٹا جو خیال میں کسو کے شب ہجر سو گیا ہو نہ ہو صبح کو الٰہی کبھی اس کا خواب الٹا مرے دم الٹنے کی جو خبر اس کو دی کسی نے وہیں نیم رہ سے قاصد بصد اضطراب الٹا جو علی کا حکم نافذ نہ فلک پہ تھا تو پھر کیوں بگہ غروب آیا نکل آفتاب الٹا اب اسی میں توسہ غزلہ جو کہے تو کام بھی ہے نہیں مصحفی مزا کیا جو دو رو کتاب الٹا یہ کتاب اس کے وقت رخصت بصد اضطراب الٹا کہ بسوئے دل مژہ سے وہیں خون ناب الٹا سر لوح اس کی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی اسے دیکھ کر نہ میں نے ورق کتاب الٹا میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا یہ عجب ہے میری قسمت کو جو دل کسی کو دوں میں وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب الٹا یہ نقاب پوش قاتل کوئی زور ہے کہ جس نے کیے خون سینکڑوں اور نہ ذرا نقاب الٹا جو بوقت غسل اپنا وہ پھر اے واں سے منہ کو تو پھراتے ہی منہ اس کے لگے بہنے آب الٹا میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احسان انہیں پاؤں پھر کے تو آ جو ملے جواب الٹا ترے آگے مہر تاباں ہے زمیں پہ سر بسجدہ یہ ورق ہے گنجفے کا نہیں آفتاب الٹا نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفی ہمیشہ کہ زمانے کا رہا ہے یونہیں انقلاب الٹا غزل ہائے مرقومہ ذیل پر شاہ نصیر کی بھی غزل دیکھو۔ صاف چولی سے عیاں ہے بدن سرخ ترا نہیں چھپتا تہ شبنم چمن سرخ ترا یہی عالم ہے گر اس کا تو دکھلا دے گا بارش خون کا سماں پیرہن سرخ ترا وائے ناکامی کہ عاشق کو ترے موت آئی قابل بوسہ ہوا جب دہن سرخ ترا تا کمر خون شہیدوں کے بہے گلیوں میں جب سے پاجامہ بنا گلبدن سرخ ترا خون سے آلودہ ہوا آتا ہے تو اے اشک سفید نام ہم کیوں نہ رکھیں یاسمن سرخ ترا آتش تیز میں ٹھہرا ہے کہیں یوں بھی سپند؟ کہہ رہا ہے یہی خال ذقن سرخ ترا مصحفی خوش ہو کہ مانگے گا ترے قاتل سے خوں بہا روز قیامت کفن سرخ ترا کیسہ مالی سے ہوا گل بدن سرخ ترا طالب آب نہ ہو کیوں چمن سرخ ترا یہی پوشاک کا ہے رنگ تو اے گل ہو گا تشنہ خون چمن پیرہن سرخ ترا کیوں نہ ہو مردہ ہوس زندہ، بنے جب اے شوخ پان سے بیر بہوٹی دہن سرخ ترا مجھ سے انکار ستم فائدہ اے گرگ فلک دال ہے بچہ خوری پر دہن سرخ ترا کاش اے کشتہ تو محشر میں اٹھے ہو کے فقیر گیروا مٹی میں ہووے کفن سرخ ترا لب پان خورہ کی اس گل کے جو سرخی دیکھی رنگ اڑ جائے گا اے نارون سرخ ترا سر پہ تابش میں تو رکھے تو دل عاشق میں آگ بھڑکائے نہ کیوں باوزن سرخ ترا مصحفی چاہئے کیا اس کو دلیل قاطع سبز ہے خود بہ تخلص سخن سرخ ترا اک تو تھا آتش سوزاں بدن سرخ ترا شعلہ بر شعلہ ہوا پیرہن سرخ ترا پان کھانے کی ادا یہ ہے تو اک عالم کو خون رلاوے گا مری جان دہن سرخ ترا گرے خورشید شفق رنگ کو دیتا ہے فشار پنجہ رشک سے سیب ذقن سرخ ترا شمع گلگوں غم پروا نہ میں خوں اتنا نہ رو طشت آتش تو بنا ہے لگن سرخ ترا سرخ عیار سے تو کم نہیں اے دزد حنا کف رنگین بتاں ہے دہن سرخ ترا یوہیں اے کشتہ جو آیا تو صف محشر میں آگ دیوے گا لگاواں کفن سرخ ترا تو اگر نافہ آہو ہے تو اے عقدہ زلف ہے وہ رخسارہ رنگین حسن سرخ ترا اس کے موباف سے بھی شانہ نے شب پوچھا تھا دام شب رنگ ہے کیوں اے رہن سرخ ترا ہر پری چہرہ ہے پوشیدہ لباس گلگوں میں تو دیوانہ ہوں اے انجمن سرخ ترا مصحفی زخم ہے تیشے کا ترے ہر مو پر نام ہم کیوں نہ رکھیں کوہکن سرخ ترا رنگ پاں سے جو ہوا گل دہن سرخ ترا مر گئی دیکھ کے بلبل دہن سرخ ترا پان کھا کر جو مسی زیب کیے تو نے دولب بن گیا مزرع سنبل دہن سرخ ترا سرخ تو تھا ہی ولے اور ہوا گلناری پی کے اے گل قدح مل دہن سرخ ترا تب ہو عاشق کی شب وصل تسلی اے گل مصرف بوسہ ہو جب گل دہن سرخ ترا غنچہ ساں وا نہ ہوا علم مے نوشی میں سن کے شیشے کی بھی قلقل دہن سرخ ترا شانہ کرتے جو سرجعد تو دانتوں میں رکھے ہو نہ خونخوارہ کا کل دہن سرخ ترا تیغ مریخ پہ چھٹتی ہے ہوائی اب تک کہیں دیکھا تھا سر پل دہن سرخ ترا مصحفی تو نے زبس گل کے لیے ہیں بوسے رشک سے دیکھے ہے بلبل دہن سرخ ترا جو گستاخانہ کچھ اس سے میں بولا تو بس ابرو نے تیغا ووہیں تولو چنے عاشق نہ کیوں اس کے ممولے کہ چشم شوخ ہے اس کی ممولا جز اک اللہ بنایا تو نے صیاد قفس میں از پے بلبل ہنڈولا نہ مارے دست و پاتا اس کا بسمل الٰہی مار جاوے اس کو جھولا لب اس گل کے ہیں جام بادہ لعل مسی نے ان میں آ کر زہر گھولا یہ وہ گلشن ہے جس میں غم کے مارے تبسم سے کلی نے منہ نہ کھولا مری پتلی نے اشک خیرہ سر کو بنایا ہے ہتھیلی کا پھپھولا کہیں ملتے ہیں ایسے مصحفی یار نہ آوے دل کے مرنے کا ممولا آتش کی غزل کو بھی دیکھنا: نگاہ لطف کے کرتے ہی رنگ انجمن بگڑا محبت میں تری ہم سے ہر اک اہل وطن بگڑا کچھ اس کی وضع بگڑی کچھ ہے وہ پیماں شکن بگڑا یہ سج دھج ہے تو دیکھو کے زمانے کا چلن بگڑا خدا کہتا تھا روز حشر میں تجھ سے سمجھ لوں گا ترے تیشے سے گر شیریں کا نقش اے کوہکس بگڑا میں سمجھا گریہ سے تاثیر اس دم شمع مجلس کی یہ موتی اشک کا جاتے ہوئے جب تالگن بگرا جو چنگ نالہ کو ہم نے اڑایا ہجر کی شب میں کہیں گے سب کہ تیرا کھیل اب چرخ کہن بگڑا جسے سب بانکے اور ٹیڑھے کریں تھے دور سے مجرا وہی رستے میں آخر ہم سے کرے بانکپن بگڑا تری مژگاں کی راوت چڑھ گئی جب ان پہ لڑنے کو پڑی پونہ کے اندر کھلبلی سارا دکن بگڑا بڑی صورت سے رہنا ننگ ہے دنیا میں انسان کو وہ گڑ جاتا ہے خود جیتا جو کوڑھی کا بدن بگڑا ہمیشہ شعر کہنا کام تھا والا نژادوں کا سفیہوں نے دیا ہے دخل جب سے بس یہ فن بگڑا مکان تنگ میں پائی نہ جا کلک تخیل نے بناسب خال و خط مانی سے اس کا پر دہن بگڑا نہیں تقصیر کچھ درزی کی اس میں مصحفی ہرگز ہماری نا درستی سے بدن کی پیرہن بگڑا دعا دینے سے میرے شب وہ ترک تیغ زن بگڑا سپاہی زادوں کا بھی کچھ میں دیکھوں ہوں چلن بگڑا سخن سیدھی طرح اور وضع ساوی بے مسی دنداں بھلا کتنا لگے ہے مجھ کو اس کا سادہ پن بگڑا کیا تاراج یوں پیری نے حسن نوجوانی کو بوقت صبح آرائش کا ہووے جوں چمن بگڑا سوئی جس کو لگائی زید کی معشوقہ نے اپنی سبھی سنوری رہی مجنوں کا بس اک پیرہن بگڑا کمال حسن خالق نے دیا ہے اس پری رو کو نہ چتون کج ہوئی اس کی نہ گاتے میں دہن بگڑا یہ تصویریں عجب نواب نے کوٹھی میں بنوائیں کسی کی ہے پھری ٹھوڑی کسی کا ہے دہن بگڑا نہ مارے حق کسی کو کر کے مفلس وائے رسوائی جہاں کو تہ ہوا کبڑا کفن کا وہ کفن بگڑا رواج اس نے نہ پایا بسکہ عہد زلف مشکیں میں دھرا نافہ میں جو برسوں رہا مشک ختن بگڑا عجائب اور غرائب باتیں اب سننے میں آتی ہیں خم نیلی ترا شاید کہ اے چرخ کہن بگڑا خلل انداز جو لکنت ہوئی اس کی فصاحت میں زباں پر اس بت الکن کی آیا جو سخن بگڑا ہمیں تکلیف نظم شعر کی دینے سے کیا حاصل زمانہ ہم سے ان روزوں ہے یاران وطن بگڑا بہ ہمت جس سے شکل کافر شیریں بنائی تھی اسی تیشے سے پھر آخر کوکار کوہکن بگڑا رہی اے مصحفی تا صبح اس کی اس پہ جھنجھلاہٹ بنانے میں جو مشاطہ سے شب خال ذقن بگڑا نہ کیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر جی ہی جی بیچ بہت شاد ہوا کرتی ہوں تیرے عارض کی بلائیں تری مژگاں لے کر کیا خطا مجھ سے ہوئی رات کو اس کافر کو میں نے خود چھوڑ دیا ہاتھ میں داماں لے کر باغ میں دشت جنوں تھا کہ کبھی جس میں سے لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لے کر طرفہ سوجھی یہ جنوں کو ترے دیوانے کی راہ میں پھینک دئیے خار مغیلاں لے کر زلف و رخسار کا عالم ہے غضب ہے اس کے شاد ہو کیوں نہ دل گبر و مسلمانوں لے کر پردہ خاک میں سو سو رہے جا کر افسوس پر وہ رخسار پہ کیا کیا مہ تاباں لے کر ابر کی طرح سے کر دیویں گے عالم کو نہال ہم جدھر جاویں گے یہ دیدہ گریاں لے کر پھر گئی سوئے اسیران قفس باد صبا خبر آمد ایام بہاراں لے کر دوستی تھی مجھے ہر اک سے گئے تا در قبر دوش پر نعش مری گبرو مسلمانوں لے کر رنج پہ رنج جو دینے کی ہے خو قاتل کو ساتھ آیا ہے بہم تیغ و نمک داں لے کر مصحفی گوشہ عزلت کو سمجھ تخت شہی کیا کرے گا تو عبث ملک سلیماں لے کر یار بن باغ سے ہم آتے ہیں دکھ پائے ہوئے اشک آنکھوں میں بھرے ہاتھ میں گل کھائے ہوئے آنکھ سیدھی نہیں کرتا کہ مقابل ہو نگاہ آرسی ناز سے وہ دیکھے ہے شرمائے ہوئے کس کے آنے کی خبر ہے جو چمن میں گل چیں جوں صبا چار طرف پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے ہم تو ترسے ہیں صنم اک نگہ دور کو بھی بخت ان کے ہیں جو ہر دم ترے ہمسائے ہوئے حسن خجلت زدہ کیا رنگ دکھاتا ہے نئے آرسی بھی اسے اب دیکھے ہے للچائے ہوئے اس کے کوچے سے جو اٹھ آتے ہیں ہم دیوانے پھر انہیں پاؤں چلے جاتے ہیں بورائے ہوئے مصحفی کیونکہ عناں گیر ہو اس کا جوں برق تو سن ناز کو جب جائے وہ چمکائے ہوئے خامش ہیں ارسطو و فلاطون مرے آگے دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بشدت واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے لاتا نہیں خاطر میں سخن بیہدہ گو کا اعجاز مسیحا بھی ہے افسوں مرے آگے دشوار ہے رتبے کو پیمبر کے پہنچنا ہے موسیٰ عمران بھی ہاروں مرے آگے باندھے ہوئے ہاتھوں کو بامید اجابت رہتے ہیں کھڑے سینکڑوں مضموں مرے آگے جب موج پہ آ جائے ہے دریائے طبیعت قطرے سے بھی کم ٹھہرے ہے جیجوں مرے آگے بد بینی پہ آؤں تو ابھی اہل صفا کے ہو جاویں شبہ سب در مکنوں مرے آگے استاد ہوں میں مصحفی حکمت کے بھی فن میں ہے کودک نو درس فلاطوں مرے آگے ہے جام طرب ساغر پر خوں مرے آگے ساقی تو نہ لانا مے گلگوں مرے آگے ٹک لب کے ہلا دینے میں حسان عجم کا ہو جاوے ہے احوال دگر گوں مرے آگے سمجھوں ہوں اسے مہرہ بازیچہ طفلاں کس کام کا ہے گنبد گردوں مرے آگے جب تیزی پہ آتا ہے مرا تو سن خامہ بن جاویں ہیں تب کوہ بھی ہاموں مرے آگے میں گوز سمجھتا ہوں سدا اس کی صدا کو گو بول اٹھے ادھی کی چوں چوں مرے آگے سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے موسیٰ کا عصا مصحفی ہے خامہ مرا بھی گو خصم بنے اسود افیوں مرے آگے ٭٭٭ خاتمہ اے فلک نہ یہ جلسہ برہم ہونے کے قابل تھا، نہ آج رات کا سماں صبح ہونے کے قابل تھا۔ پھر ایسے لوگ کہاں! اور ایسے زمانے کہاں! سید انشا اور جرات جیسے زندہ دل شوخ طبع باکمال کہاں سے آئیں گے۔ شیخ مصحفی جیسے مشاق کیونکر زندہ ہو جائیں گے اور آئیں تو ایسے اور قدر دان کہاں؟ اچھے لوگ تھے کہ اچھا زمانہ پایا، اور اچھی گزار گئے۔ وہ جوش و خروش، وہ شوخیاں، وہ چہلیں اب کہاں۔ گیا حسن خوبان دل خواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا میرا دل خدا جانے کس مٹی کا بنا ہے۔ کسی کی جدائی کا نام لیا یہ پگھل گیا۔ کسی عزیز کا ذکر کیا، اس سے خون ٹپک پڑا اور سخت جانی دیکھو کہ نہ پانی ہو کر بہہ جاتا ہے، نہ خاک ہو کر رہ جاتا ہے تماشا یہ ہے کہ کتنے کتنے صدمے اٹھا چکا ہے، پھر بھی ہر داغ نیا ہی صدمہ دیتا ہے۔ مگر انصاف کرو، وہ عزیز بھی تو دیکھو کیسے تھے اور کون تھے، عالم کے عزیز تھے اور ہر دل کے عزیز تھے۔ اپنی باتوں سے عزیز تھے آزاد! بس، رونا دھونا موقوف، اب آنسو پونچھ ڈالو، ادب کی آنکھیں کھولو اور سامنے نگاہ کرو۔ ٭٭٭ پانچواں دور تمہید دیکھنا وہ لالٹینیں جگمگانے لگیں۔ اٹھو اٹھو استقبال کر کے لاؤ۔ اس مشاعرے میں وہ بزرگ آتے ہیں، جن کے دیدار ہماری آنکھوں کا سرمہ ہوئے۔ اس میں دوقسم کے باکمال نظر آئیں گے، ایک وہ کہ جنہوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کو دین آئین سمجھا۔ یہ ان کے باغوں میں پھریں گے۔ پرانی، شاخیں زرد پتے کاٹیں چھانٹیں گے اور نئے رنگ، نئے ڈھنگ کے گلدستے بنا بنا کر گلدانوں سے طاق دیوان سجائیں گے۔ دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے اور برج آتش بازی کی طرح ا س سے رتبہ عالی پائیں گے۔ انہوں نے اس ہوا سے بڑے بڑے کام لیے، مگر یہ غضب کیا کہ گرد و پیش جو وسعت بے انتہا پڑی تھی، اس میں سے کسی جانب میں نہ گئے بالا خانوں میں سے بالا بالا اڑ گئے۔ چنانچہ تم دیکھو گے کہ بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے۔ وہ اپنے آئین کا نام خیال بندی اور نازک خیالی رکھیں گے، مگر حق یہ ہے کہ شاعری ان کی ساحری اور خود اپنے وقت کے سامری ہوں گے۔ ساتھ اس کے صاحب اقبال ایسے ہوں گے کہ انہیں پرستش کرنے والے بھی ایسے ہی ہاتھ آئیں گے۔ ان بزرگوں کی نازک خیالی میں کچھ کلام نہیں۔ لیکن اتنا ہے کہ اب تک مضمون کا پھول اپنے حسن خدا داد کے جوبن سے فصاحت کے چمن میں لہلہاتا تھا، یہ اس کی پنکھڑیاں لیں گے اور ان پر مو قلم سے ایسی نقاشی کریں گے کہ بے عینک کے نہ دکھائی دے گی۔ اس خیال بندی میں یہ صاح کمال اس قدرتی لطاقت کی بھی پروانہ کریں گے جسے تم حسن خداد سمجھتے ہو، کیونکہ ان کی صنعت بے اس کے اپنا رنگ نہیں دکھا سکتی۔ پہلے بزرگ گرد و پیش کے باغوں کا پتا پتا کام میں لا چکے تھے، اب نئے پھول کہاں سے لاتے۔ آگے جانے کی سڑک نہ تھی اور سڑک نکالنے کے سامان نہ تھے۔ ناچار اس طرح استادی کا نقادہ سجایا اور ہم عصروں میں تاج افتخار پایا۔ یہ آخری دور کی مصیبت کچھ ہماری ہی زبان پر نہیں پڑی۔ فارسی کے مقتدمین کو اس کے متاخرین سے مطابق کر لو۔ شعرائے جاہلیت کو متاخرین عرب سے مقابلہ کرو۔ انگریزی اگرچہ میں نہیں جانتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس کے متاخرین بھی اس درد سے نالاں ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ زبان جب تک عالم طفولیت میں رہتی ہے تبھی تک شیر و شربت کے پیالے لنڈھاتی ہے۔ جب پختہ سال ہوتی ہے تو خوشبو عرق اس میں ملاتی ہے۔ تکلف کے عطر ڈھونڈ کر لاتی ہے۔ پھر سادگی اور شیریں ادائی تک خاک میں مل جاتی ہے۔ ہاں دواؤں کے پیالے ہوتے ہیں، جس کا جی چاہے پیا کرے۔ اس موقع پر یہ کہنا واجب ہے کہ ان سے پہلے جو صاحب کمال لکھنو میں تھے، وہ دلی کے خانہ برباد تھے۔ وہ یا ان کی اولاد اس وقت تک دلی کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور اہل لکھنو ان کی تقلید کو فخر سمجھتے تھے نہ کہ عیب کیونکہ اب تک کوئی صاحب کمال اس درجے کا پیدا نہ ہوا تھا۔ اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انہیں خود صاحب زبانی کا دعویٰ ہو گا اور زیبا ہو گا اور جب ان کے دلی اور دلی کے محاورے میں اختلاف ہو گا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلی کی عدم فصاحت پر دلائل قائم کریں گے، بلکہ انہی کے بعض بعض نکتوں کو دلی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں گے۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دئیے، جن کی تفصیل چوتھے دیباچے میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلی اور لکھنو میں بولی جاتی ہے، وہ گویا انہی کی زبان ہے، البتہ شیخ ناسخ کے دیوان میں ایک جگہ زور کا لفظ بہت کے معنوں میں دیکھا گیا، شاید یہ ابتدا کا کلام ہو گا۔ عابد و زاہد چلے جاتے ہیں پینا ہے شراب اب تو ناسخ زور رند لا ابالی ہو گیا اساتذہ دہلی کے کلام میں آئے ہے او رجائے ہے، اکثر ہے، مگر آخری کی غزلوں میں انہوں نے بھی بچاؤ کیا ہے۔ شاہ نصیر مرحوم سن رسیدہ شخص تھے۔ آغاز شاعری کا کنارہ جرات اور سید انشا سے ملا تھا اور انجام کی سرحد ناسخ، آتش اور ذوق میں واقع ہوئی تھی۔ اس لیے ا بتدائی غزلوں میں کہیں ٹک بول جاتے ہیں اور جس طرح جمع مونث کے فعلوں کوائف فون کے ساتھ چوتھے طبقے میں بے تکلف بولتے تھے۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں کہیں کہیں ہے، چنانچہ میر کی غزل کا مطلع ہے۔ جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں کبھی نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں گھٹائیں چاند پہ سو بار آئیاں دیکھیں اسی طرح موصوف جمع ہو اور صفت لفظ ہندی ہو تو اب موصوف کی مطابقت کے لیے صفت کو جمع بولنا خلاف فصاحت سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ عہد طفلی میں بھی تھا بسکہ سودائی مزاج بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں شیخ امام بخش ناسخ کے حال کی بزرگان قدیم کی عمدہ یادگار مخدومی مولوی محمد عظیم اللہ صاحب ایک صاحب فضل و عاشق کمال غازی پور زمینہ (زمانیہ) کے رئیس ہیں۔ اگرچہ بزرگوں کا حال بہ تفصیل معلوم نہیں، مگر اتنا جانتا ہوں کہ قاضی القضاۃ مفتی اسد اللہ صاحب کی ہمشیرہ یعنی شاہ اجمل صاحب کی نواسی سے ان کی شادی ہوئی۔ مولوی صاحب موصوف کے والد کی شیخ امام بخش ناسخ سے نہایت دوستی تھی۔ میرے دوستو! اگلے وقتوں کی دوستیاں کچھ اور دوستیاں تھیں آج تمہارے روشنی کے زمانے میں ان کی کیفیت بیان کرنے کو لفظ نہیں ملتے، جن سے ان کے خیالوں کا دلوں میں عکس جماؤں۔ ہائے استاد ذوق اب زباں پر بھی نہیں آتا کہیں الفت کا نام اگلے مکتوبوں میں کچھ رسم کتابت ہو تو ہو غرض جذب جنسیت اور اتحاد طبیعت ہمیشہ مولوی صاحب کے والدی کو غازی پور سے لکھنو کھینچ کر لے جاتا تھا۔ مہینوں وہیں رہتے تھے۔ مولوی صاحب کا پانچ برس کا سن تھا۔ یہ بھی والد کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس وقت سے شیخ ناسخ کی خدمت میں رہے اور سالہا سال فیض حضوری سے بہرہ یاب ہوئے۔ رغمی تخلص انہی نے عنایت فرمایا، جس سے 1250ھ سال تلمذ نکلتے ہیں۔ عربی فارسی کی کتب تحصیلی الہ آباد اور لکھنو میں حاصل کیں۔ اردو فارسی کی انشا پردازی میں کئی مجلد لکھ کر رکھ چھوڑے ہیں۔ جانتے ہیں کہ ان کی فصل اب بالکل نکل گئی ۔ ہوا مخالف ہے، اس لیے نہ آپ گوشہ عافیت سے نکلتے ہیں۔ نہ انہیں نکالتے ہیں۔ عہد جوانی میں سرکار سے بھی با اقتدار اور معزز عہدے حاصل کیے، اب بڑھاپے نے پنشن خوار بنا کر خانہ نشین کر دیا ہے۔ بندہ آزاد کو اسی آب حیات کی بدولت ان کی خدمت میں نیاز حاصل ہوا۔ انہوں نے بہت حالات شیخ موصوف کے لکھ کر گر انبار احسان فرمایا جو کہ اب طبع ثانی میں درج ہوتے ہیں۔ آزاد ان کا صدق دل سے ممنون احسان ہے۔ ہمیشہ عنایت ناموں سے ممنون فرماتے رہتے ہیں۔ جن کے حرف حرف سے محبت کے آب حیات ٹپکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم لوگ اس زمانے کے لیے بالکل اجنبی ہیں۔ نئی روشنی والے کہتے ہیں کہ روشنی نہیں، روشنی نہیں، جناب رغمی اور بندہ آزاد کی آنکھوں سے کوئی دیکھے کہ دنیا اندھیر ہے۔ سراغ یک نگاہ آشنا از کس نمے یابم جہاں چوں نرگستاں بے تو شہر کو رمے باشد اب تک زیارت نہیں ہوئی، مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انجان آدمی ایک نئے ملک میں جا پڑا ہے، جہاں وہ نہ کسی کی سمجھے نہ کوئی اس کی اور وہ ہکا بکا ایک ایک کا منہ دیکھے۔اس طرح وہ بھی آج کل کے لوگوں کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ کجا ناسخ و آتش کے مشاعرے اور کجا کمیٹیوں کے جلسے۔ شیخ صاحب اور خواجہ صاحب کے حالات جو انہوں نے لکھ کر بھیجے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ آنکھوں کے آنسو تھے، حرفوں کے رنگ میں بہ نکلے ہیں۔ یہ درد کوئی آزاد کے دل سے پوچھے کہ جب ابراہیم ذوق کا نام آتا ہے۔ چھاتی پر سانپ لوٹ جاتا ہے۔ بنال بلبل اگر بامنت سریاری ست کہ ماد و عاشق زار یم و کار مازاری است شیخ ناسخ کا حال لکھتے لکھتے کہتے ہیں۔ کیا کہوں کہ میرے حال پر کیسی شفقت فرماتے تھے۔ دو دیوان خود لکھ کر مجھے دیے۔ ایک مہر عقیق پر کھدوا کر مجھے دی۔ اب موجود ہے۔ رغمی سلمہ اللہ نے جونپور اور غازی پور وغیرہ حالات بھی بھیجے ہیں۔ جن کی بدولت دربار اکبری ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔ خدا کرے کہ جلد وہ مرقع سبح کر اہل نظر کی پیش گاہ میں جلوہ گر ہو۔ شیخ امام بخش ناسخ کا حال شیخ صاحب کی شاعری کا وطن لکھنو ہے، مگر کمال سے لاہور کو فخر کرنا چاہئے، جو ان کے والد کا وطن تھا۔ خاندان کے باب میں فقط اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا بخش خیمہ دوز کے بیٹے تھے اور بعض اشخاص کہتے ہیں کہ اس دولت مند لاولد نے متنبی کیا تھا۔ اصلی والد عالم غربت میں مغرب سے مشرق کو گئے۔ فیض آباد میں ان کی قسمت سے یہ ستارہ چمکا کہ فلک نظم کا آفتاب ہوا۔ خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے غریب باپ سے صاحب نصیب بیٹے کے سوا وہاں بھی نصیبے نے رفاقت نہ کی، مگر اس دولت مند سودا گر نے کہ لاولد تھا بلند اقبال لڑکے کو فرزندی میں لے کر ایسا تعلیم و تربیت کیا کہ بڑے ہو کر شیخ امام بخش ناسخ ہو گئے اور اس مجازی باپ کی بدولت دنیا کی ضروریات سے بے نیاز رہے۔ وہ مر گیا تو اس کے بھائیوں نے دعویٰ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا، آپ کو سمجھتا ہوں، کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبر گیری کرتے تھے۔ اسی طرح آپ فرمائیے، انہوں نے قبول کیا۔ ناسخ فساد خون کے سبب سے ایک موقع پر فقط بیسنی روٹی گھی میں چور کر کے کھایا کرتے تھے۔ بدنیت چچا نے اس میں زہر دیا۔ لوگوں نے یہ مصالح لگایا کہ ایک جن ان کا دوست ہے، اس نے آگاہ کیا (حکایت عنقریب روایت کی جاتی ہے) بہرحال کسی قرینے سے انہیں معلوم ہو گیا۔ اسی وقت چند دوستوں کو بلا کر ان کے سامنے ٹکڑا کتے کو دیا۔ آخر ثابت ہوا کہ فی الحقیقتہ اس میں زہر تھا۔ چند روز کے بعد وراثت کا جھگڑا عدالت شاہی تک پہنچا، جس کا فیصلہ شیخ مرحوم کی جیت پر ہوا۔ اس وقت انہوں نے چند رباعیاں کہہ کر دل خالی کیا، دوان میں سے یہ ہیں: مشہور ہے گرچہ افترائے اعمام پر کرتے نہیں غور خواص اور عوام وارث ہونا دلیل فرزندی ہے میراث نہ پا سکا کبھی کوئی غلام کہتے رہے اعمال عداوت سے غلام میراث پدر پائی مگر میں نے تمام اس دعویٰ باطل سے ستم گاروں کو حاصل یہ ہوا کر گئے مجھ کو بدنام غور کرو تو متنبی ہونا کچھ عیب کی بات نہیں دنیا کی غریبی، امیری جاڑے اور گرمی کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ ایک امیر الامراء کو صرف چند پشت کے اندر دیکھو تو ممکن نہیں ایک وقت اس کے گھر میں افلاس کا گزر نہ ہوا ہو۔ البتہ وہ بے استقلال قابل ملامت ہے کہ اس عالم میں رحمت الٰہی کا انتظار نہ کر سکے اور ایسے کام کر گزرے جو نام پر داغ دے جائیں۔ غرض شیخ صاحب کے اس معاملے کو حریفوں نے بد رنگ لباسوں میں دکھایا ہے۔ جس کا ذکر عنقریب آتا ہے۔ وہ فیض آباد میں تھے۔ لکھنو کے دار الخلافہ ہو جانے سے وہاں آئے اور وہیں عمر بسر کی۔ ٹکسال ایک محلہ مشہور ہے۔ اس میں بیٹھ کر شعر کے چاندی سونے پر سکہ لگاتے تھے اور کھوٹے کھرے مضمون کو پرکھتے تھے۔ فارسی کی کتابیں حافظ وارث علی لکھنوی سے پڑھی تھیں اور علمائے فرنگی محلی سے بھی تحصیلی کتابیں حاصل کی تھیں۔ اگرچہ عربی استعداد فاضلانہ نہ تھی، مگر رواج علمی اور صحبت کی برکت سے فن شاعری کی ضروریات سے پوری واقفیت تھی اور نظم سخن میں ان کی نہایت پابندی کرتے تھے۔ شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے، مگر ابتدا سے شعر کا عشق تھا (مولانا رغمی) فرماتے ہیں، مجھ سے خود شیخ صاحب نے آغاز شاعری کا حال نقل فرمایا کہ میر تقی میر ابھی زندہ تھے، جو مجھے ذوق سخن نے بے اختیار کیا۔ ایک دن اغیار کی نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انہوں نے اصلاح نہ دی۔ دل میں شکستہ ہو کر چلا آیا اور کہا میر صاحب بھی آخر آدمی ہیں، فرشتہ تو نہیں، اپنے کلام کو آپ ہی اصلاح دوں گا۔ چنانچہ کہتا تھا اور رکھ چھوڑتا تھا۔ چند روز کے بعد پھر دیکھتا۔ جو سمجھ میں آتا اصلاح کرتا اور رکھ دیتا۔ کچھ عرصے کے بعد پھر فرصت میں نظر ثانی کرتا اور بناتا۔ غرض مشق کا سلسلہ جاری تھا، لیکن کسی کو سناتا نہ تھا۔ جب تک خوب اطمینان نہ ہوا، مشاعرے میں غزل نہ پڑھی، نہ کسی کو سنائی۔ مرزا حاجی صاحب کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا۔ سید انشائ، مرزا قتیل، جرات، مصحفی وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ میں جاتا تھا۔ سب کو سنتا تھا، مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا۔ ان لوگوں میں جو لون مرچ سید انشاء اور جرات کے کلام میں ہوتا تھا وہ کسی زبان میں نہ تھا۔ غرض سید انشاء اور مصحفی کے معرکے بھی ہو چکے۔ جرات اور ظہور اللہ خاں نوا کے ہنگامے بھی طے ہو گئے۔ جب زمانہ سارے ورق الٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑھنی شروع کی۔ اس موقع پر مرزا حاجی صاحب، مرزا قتیل اور حاجی محمد صادق خاں اختر نے بڑی قدر دانی کی اور ان کے دل بڑھانے سے کلام نے روز بروز رنگ پکڑنا شروع کیا۔ لوگوں کے دلوں میں بھی یہاں تک شوق پیدا ہوا کہ چو غزلہ کہہ کر پڑھتا تھا، پھر بھی مشتاق رہ جاتے تھے۔ منتظر اور گرم کو موت نے ٹھنڈا کیا۔ خواجہ حیدر علی آتش، شیخ مصحفی کے ارشد تلامذہ نے محاورہ بندی میں نام نکالا۔ ایک دفعہ کئی مہینے بعد فیض آباد سے آئے۔ مشاعرے میں جو میری غزلیں سنیں تو سانپ کی طرح پیچ و تاب کھایا اور اسی دن سے بگاڑ شروع ہوا۔ انہوں نے آتش رشک کی جلن میں اس جانکاہی اور سینہ خراشی سے غزلیں کہیں کہ سینے سے خون آنے لگا۔ غرض شیخ صاحب کا شوق مشاعرے میں لے جا کر دل میں امنگ اور طبیعت میں جوش بڑھتا تھا اور آسودہ حالی اکثر شعرائ، اہل فہم اور اہل کمال کو ان کے گھر کھینچ لاتی تھی۔ ان کی صحبتوں میں طبیعت خود بخود اصلاح پاتی گئی۔ رفتہ رفتہ خود اصلاحیں دینے لگے۔ بعض سن رسیدہ اشخاص سے سنا گیا کہ ابتدا میں شیخ مصحفی سے اصلاح لیتے تھے، مگر کسی شعر پر تکرار ہوئی کہ انہوں نے ان کا آنا بند کر دیا۔ یہ بطور خود غزلیں کہتے رہے اور تنہا تخلص ایک شخص تھے۔ ان سے تنہائی میں مشورت کرتے رہے۔ جب اطمینان ہوا تو مشاعروں میں غزل پڑھنے لگے، لیکن مصحفی والی روایت قابل اعتبار نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے تذکرہ میں تمام شاگردوں کے نام لکھ دئیے ہیں، ان کا نام نہیں ہے۔ (مولانا رغمی فرماتے ہیں) پہلوان سخن کو ابتدائے عمر سے ورزش کا شوق تھا۔ خود ورزش کرتے تھے، بلکہ احباب کے نوجوانوں میں جو حاضر خدمت ہوتے اور انہیں کسی ہونہار کو ورزش کا شوق دیکھتے تو خوش ہوتے اور چونپ دلاتے۔ 1297ڈنٹر کا معمول تھا کہ یا غفور کے عدو ہیں۔ یہ وظیفہ قضا نہ ہوتا تھا، البتہ موقع اور موسم پر زیادہ ہو جاتے تھے۔انہیں جیسا ریاضت کا شوق تھا، ویسا ہی ڈیل ڈول بھی لائے تھے۔ بلند بالا، فراخ سینہ، منڈا ہوا سر، کھاردے کا لنگ باندھے بیٹھے رہتے تھے، جیسے شیر بیٹھا ہے۔ جاڑے میں تن زیب کا کرتا، بہت ہو تو لکھنو کی چھینٹ کا دہرا کرتا پہن لیا۔ دن رات میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے۔ ظہر کے وقت دستر خوان پر بیٹھتے تھے اور کئی وقتوں کی کسر نکال لیتے تھے۔ پان سیر پختہ وزن شاہجہانی کی خوراک تھی۔ خاص خاص میووں کی فصل ہوتی تو جس دن کسی میوے کو جی چاہتا، اس دن کھانا موقوف۔ مثلاً جامنوں کو جی چاہا، لگن اور سینیاں بھر کر بیٹھے گئے، 4-5 سیر وہی کھا ڈالیں۔ آموں کا موسم آیا تو ایک دن کئی ٹوکرے منگا کر سامنے رکھ لیے، ناندوں میں پانی ڈلوا لیا، ان میں بھرے اور خالی کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھٹے کھانے بیٹھے تو گلیوں کے ڈھیر لگائیے اور یہ اکثر کھایا کرتے تھے۔ دودھیا بھٹے چنے جاتے۔ چاقو سے دانوں پر خط ڈال کر لون مرچ لگتا۔ سامنے بھنتے ہیں، لیموں چھڑکتے ہیں، اور کھاتے جاتے ہیں۔ میوہ خوری ہر فصل میں دو تین دفعہ، بس اور اس میں دو چار دوست بھی شامل ہو جاتے تھے۔ کھانا اکثر تخلیے میں کھاتے تھے۔ سب کو وقت معلوم تھا جب ظہر کا وقت قریب ہوتا تھا تو رخصت ہو جاتے تھے (رغمی سلمہ اللہ فرماتے ہیں) مجھے چند مرتبہ ان کے ساتھ کھانے کا اتفاق ہوا۔ اس دن نہاری اور نان تافتاں بھی بازار سے منگائی تھی۔ پانچ چار پیالوں میں قورمہ، کباب، ایک میں کسی پرندے کا کباب تھا۔ شلغم تھے، چقندر تھے، ارہر کی دال، دھوئی ماش کی دال تھی اور وہ دستر خوان کا شیر اکیلا تھا، مگر سب کو فنا کر دیا۔ یہ بھی قاعدہ تھا کہ ایک پیالے میں سے جتنا کھانا ہے، خوب کھا لو، اسے خدمت گار اٹھا لے گا، دوسرا سامنے کر دے گا۔ یہ نہ ہو سکتا تھا کہ ایک نوالے کو دو دو سانسوں میں ڈال کر کھا لو، کہا کرتے تھے کہ ملا جلا کر کھانے میں چیز کا مزا جاتا رہتا ہے۔ اخیر میں پلاؤ یا چلاؤ یا خشکہ کھاتے تھے۔ پھر دال اور5-6نوالوں کے بعدایک نوالہ چٹنی یا اچار یا مربے کا۔ کہاکرتے تھے کہ تم جوانوں سے تو میں بڈھا ہی اچھا کھاتا ہوں۔ دستر خوان اٹھتا تھا تو خوان فقط خالی باسنوں کے بھرے اٹھتے تھے۔ قوی ہیکل بلونت جوان تھے۔ ان کی صورت دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ 4-5سیر کھانا ان کے لیے کیا مال ہے۔ زمانے کی زبان کون پکڑ سکتا ہے؟ بے ادب گستاخ دم کٹے بھینسے کی پھبتی کہا کرتے تھے۔ اسی رنگ و روغن کی رعایت سے خواجہ صاحب نے چوٹ کی۔ روسیہ دشمن کا یوں پاپوش سے کیجئے فگار جیسے سلہٹ کی سپر پر زخم ہو شمشیر کا شیخ صاحب نے خود بھی اس کا عذر کیا ہے اور شاگرد بھی روغن قازمل مل کر استاد کے رنگ کو چمکاتے تھے اور حریف کے رنگ کو مٹاتے تھے۔ فقیر محمد خاں گویا نے کہا تھا۔ ہے یقیں گل ہو جو دیکھے گیسوئے دلبر چراغ آگے کالے کے بھلا روشن رہے کیونکر چراغ میں گو کہ حسن سے ظاہر میں مثل ماہ نہیں ہزار شکر کہ باطن مرا سیاہ نہیں فروغ حسن پہ کب زور زلف چلتا ہے یہ وہ چراغ ہے کالے کے آگے جلتا ہے پہلوان سخن زور آزمائی کے چرچے اور ورزش کی باتوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ رغمی سلمہم اللہ کے والد بھی اس میدان کے جوانمرد تھے۔ر غبتوں کے اتحاد ہمیشہ موافقت صحبت لے لیے سبب ہوتے ہیں، اس لیے محبت کے ہنگامے گرم رہتے تھے۔ لطیفہ: آغا کلب حسین خاں مرحوم انہیں اکثر بلایا کرتے تھے اور مہینوں مہمان رکھتے تھے۔ ان سے بھی فقط ذوق شعر کا تعلق نہ تھا، وہ بھی ایک شہزور، شاہ سوار و رزشی جوان تھے۔ سامان امیرانہ اور مزاج دوستانہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر کہ آغا صاحب سورام سرحد نوابی پر تحصیل دار ہو کر آئے۔ شیخ صاحب کو بلا بھیجا کہ چند روز سبزہ و صحرا کی سیر سے طبیعت کو سیراب فرمائیے۔ا یک دن بعض اقسام کے کھانے خاص شیخ صاحب کی نیت سے پکوائے تھے، اس لیے وقت معمولی سے کچھ دیر ہو گئی۔ شیخ صاحب نے دیکھا کہ حرم سرا کی ڈیوڑھی سے نوکر اپنے اپنے کھانے لے کر نکلے۔ بلا کر پوچھا کہ یہ کس کے لیے ہے، عرض کی، ہمارا کھانا ہے۔ فرمایا، ادھر لاؤ۔ ان میں سے 4-5 کا کھانا سامنے رکھوا لیا۔ چاٹ پونچھ کر باسن حوالے کیے اور کہا کہ ہمارا کھانا آئے گا تو تم کھا لینا۔ آغا صاحب کو خبر جا پہنچی۔ اتنے میں وہ آئے، یہاں کام ختم ہو چکا تھا۔ جناب مخدوم و مکرم آغا کلب عابد خاں صاحب نے بھی اس حکایت کی تصدیق فرمائی اور کہا کہ ان کے مزاج میں شوریدگی ضرور تھی۔ اگرچہ ان دنوں خروسال تھا، مگر ان کا بارہا آنا اور رہنا اور ان صحبتوں کی شعر خوانیاں، خصوصاً مقام سورام کی کیفیتیں سب ہو بہو پیش نظر ہیں۔ انہیں بالا خانے پر اتارا تھا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ بیٹھے ہیں، کھاتے کھاتے سالن کا پیالہ اٹھایا اور کھڑکی میں سب پھینک کر مارا کہ وہ جا پڑا سبب دیکھا تو کچھ نہ تھا۔ یہ بھی معمول تھا کہ پہر رات رہے سے ورزش شروع کرتے تھے۔ صبح تک اس سے فارغ ہوتے تھے۔ مکان مردانہ تھا۔ عیال کا جنجال رکھا ہی نہ تھا۔ اول نہائے اور پھر صحن میں کہ صفائی سے آئینہ رہتا تھا، مونڈھے بچھے ہیں۔ اندر ہیں تو فرش اور سامان آرائش سے آراستہ ہے۔ صبح سے احباب اور شاگرد آنے شروع ہوتے تھے، دوپہر کو سب رخصت اور دروازہ بند۔ حضرت دستر خوان پر بیٹھے۔ یہ بڑا کام تھا، چنانچہ اس بھاری بوجھ کو اٹھا کر آرام فرمایا۔ عصر سے پھر آمد شروع ہوئی۔ مغرب کے وقت سب رخصت، دروازہ معمور، خدمت گار کو بھی باہر کیا اور اندر سے قفل جڑ دیا۔ کوٹھے پر ایک کمرہ خلوت کا تھا۔ وہاں گئے، کچھ سو رہے اور تھوڑی دیر اٹھ کر فکر سخن میں مصروف ہوئے۔ عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا تھا اور وہ خوب راحت کے عوض کاغذ پر خون جگر ٹپکاتے تھے (استاد مرحوم کا ایک مطلع یاد آ گیا، جس کا مصرعہ آخر اس انگوٹھی پر نگینہ ہو گیا) میرا گریہ ترے رخسار کو چمکاتا ہے تیل اس آگ پہ تل آنکھ کا ٹپکاتا ہے شاگرد جو غزلیں اصلاح کو دیتے تھے، نوکر انہیں ایک کہاروے کی تھیلی میں بھر کر پہلو میں رکھ دیتا تھا۔ وہ بھی بناتے تھے۔ جب پچھلا پہر ہوا تو کاغذ تہ ہوئے اور پھر وہی ورزش۔ حقے کا بہت شوق تھا، عمدہ عمدہ حقے منگاتے تھے۔تحفوں میں آتے تھے۔ انہیں موزوں نیچوں سے سجاتے تھے۔ کلیاں، گڑگڑیاں، سٹک، پیچواں، چوگاتی، مدریے وغیرہ وغیرہ،ا یک کوٹھڑی بھری ہوئی تھی۔ یہ نہ تھا کہ جلسے میں دو حقے ہیں، وہ دورہ کرتے ہیں۔ ہر ایک کے موافق طبع الگ اس کے سامنے آتا تھا۔ ان صحبتوں میں بھی شاگردوں کے لیے اصلاح اور افادہ ہو جاتا تھا۔ آداب محفل کا بہت خیال تھا۔ آپ تکیے سے لگے بیٹھے رہتے تھے۔ شاگرد، جن میں اکثر امیر زادے شرفا ہوتے تھے، با ادب بچھونے کے حاشیے پر بیٹھتے جاتے، دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ شیخ صاحب کچھ سوچتے، کچھ لکھتے، جب کاغذہاتھ سے رکھتے تو کہتے ہوں! ایک شخص غزل سنانی شروع کرتا۔ کسی شعر میں کوئی لفظ قابل تبدیل ہوتا یا پس و پیش کے تغیر سے کام نکلتا تو اصلاح فرماتے، نہیں تو کہہ دیتے یہ کچھ نہیں نکال ڈلوایا اس کا پہلا یا دوسرا مصرعہ اچھا نہیں، اسے بدلو۔ یہ قافیہ خوب ہے۔ مگر اچھے پہلو سے نہیں بندھا۔ طبیعت پر زور ڈال کر کہو۔ جب وہ شخص پڑھ چکتا تو دوسرا پڑھتا اور کوئی بول نہ سکتا تھا۔ لکھنو کے میر زادے، جنہیں کھانے کے ہضم کرنے سے زیادہ کوئی کام دشوار نہیں ہوتا، ان کے وقت گزارنے کے لیے مصاحبوں نے ایک عجیب چورن تیار کیا۔ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب سے ایک جن کو محبت تھی۔ ان کا معمول تھا، ورزش کے بعد صبح کو ایک بیسنی پراٹھا گھی میں تر تراتا کھایا کرتے تھے۔ اول اول ایسا ہوتا رہا۔ جب کھانے بیٹھتے، پراٹھا برابر غائب ہوتا چلا جاتا۔ یہ سوچتے، مگر کوئی بات سمجھ میں نہ آتی۔ بالا خانے میں دروازہ بند کر کے اکیلے ورزش کیا کرتے تھے۔ ایک دن مگدر ہلا رہے تھے۔ دیکھتے ہیں، ایک شخص اور سامنے کھڑا مگدر ہلا رہا ہے۔ حیران ہوئے۔ بدن میں جوانی اور پہلوانی کا بل تھا، لپٹ گئے۔ تھوڑی دیر زور ہوتا رہا۔ اسی عالم میں پوچھا کہ تو کون ہے۔ اس نے کہا کہ تمہاری ورزش کا انداز پسند آیا ہے، اس لیے کبھی کبھی ادھر آ نکلتا ہوں۔ اکثر کھانے میں بھی شریک ہوتا ہوں، مگر بغیر اظہار کے محبت کا مزا نہیں آتا، آج ظاہر کیا۔ اس دن سے ان کی ان کی راہ ہو گئی۔ اسی نے زہر کے راز سے بھی آگاہ کیا تھا۔ بعض اشخاص کہتے ہیں۔ پر خوری کے سبب سے لوگ کہتے تھے کہ ان کے پیٹ میں جن ہے کسی کی نوکری نہیں کی۔ سرمایہ خدا داد اور جوہر شناسیوں کی قدر دانی سے نہایت خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ پہلی دفعہ الہ آباد میں آئے ہوئے تھے۔ جو راجہ چندو لال نے 12 ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انہوں نے لکھا کہ اب میں نے سید کا دامن پکڑا ہے۔ اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ یہاں سے جاؤں گا تو لکھنو جاؤں گا۔ راجہ موصوف نے پھر خط لکھا، بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر بڑے اصرار سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعرا خطاب دلاؤں گا۔ حاضری دربار کی قید نہ ہو گی۔ ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی۔ انہوں نے منظور کیا اور روپے آغا کلب سین خاں کے پاس رکھوا دیے۔ جب ضرورت ہوتی، منگا لیتے اور ان پر کیا منحصر، نواب معتمد الدولہ اور ان کے بیٹے ہمیشہ خدمت کو حاضر تھے، تحفے نذرانے جا بجا سے آتے رہتے تھے۔ یہ بھی کھاتے اور کھلاتے ہی رہتے تھے۔ سادات، اہل حج، اہل زیارت کو دیتے تھے اور آزادی کے عالم میں جہاں جی چاہتا، وہاں جا بیٹھتے، جس کے ہاں جاتے، وہ اپنا فخر سمجھتا تھا۔ سیاحی کی مسافقت فیض آباد سے لکھنو اور وہاں سے الہ آباد، بنارس، عظیم آباد، پٹنہ تک رہی۔ چاہا تھا کہ شیخ علی حزیں کی طرح بنارس میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ الہ آباد سے وہیں گئے، مگر اپنی ملت کے لوگ نہ پائے، اس لیے دل برداشتہ ہو کر عظیم آباد گئے۔و ہاں کے لوگ نہایت مروت اور عظمت سے پیش آئے، مگر ان کا جی نہ لگا۔ گھبرا کر بھاگے اور کہا یہاں میری زبان خراب ہو جائے گی۔ الہ آباد میں آئے، پھر شاہ اجمل کے دائرے میں مرکز پکڑا اور کہا۔ ہر پھر کے دائرے ہی میں رکھتا ہوں میں قدم آئی کہاں سے گردش پرکار پاؤں میں لکھنو سے نکلنے کا سبب یہ ہوا تھا کہ غازی الدین حیدر کے عہد میں جب ان کی تعریفوں کی آوازیں بہت بلند ہوئیں تو انہوں نے نواب معتمد الدولہ آغا میر اپنے وزیر سے کہا کہ اگر شیخ ناسخ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انہیں ملک الشعرا خطاب دیں۔ معتمد الدولہ ان کے با اخلاص شاگرد تھے۔ جب یہ پیغام پہنچایا تو انہوں نے بگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں یا گورنمنٹ انگلشیہ خطاب دے، ان کا خطاب لے کر میں کیا کروں گا۔ نواب کے مزاج میں کچھ وحشت بھی تھی۔ حسب الحکم شیخ صاحب کو نکلنا پڑا اور چند روز الٰہ آباد میں جا کر رہے۔ نواب مر گئے تو پھر لکھنو میں آئے۔ چند روز کے بعد حکیم مہدی، جن کے بزرگ کشمیری تھے، شاہ اودھ کی سرکار میں مختار تھے، وہ ایک بدگمانی میں معزول ہو کر نکلے۔ چونکہ وہ نواب آغا میر کے رقیب تھے، شیخ صاحب نے تاریخ کہی، جس کا مادہ ہے۔ کاشو برائے پختن شلغم گریختہ مشکل یہ کہ چند روز کے بعد وہ پھر بحال ہو گئے۔ شاعر نے الٰہ آباد کو گریز کی، لیکن اکثر غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب لکھنو سے جدا ہوئے، تڑپتے اور دن ہی گنتے رہے۔ ایک شعر میں بھی لکھتا ہوں۔ دشت سے کب وطن کو پہنچوں گا کہ چھٹا اب تو سال آ پہنچا حکیم مہدی کو دوبارہ زوال ہوا تو انہوں نے پھر تاریخ کہی۔ نیا انداز ہے، اس لیے لکھتا ہوں۔ از جائے حکیم ہشت برگیر سہ مرتبہ نصف نصف کم کن اب کی دفعہ جو آئے تو ایسے گھر میں بیٹھے کہ مرکز بھی نہ اٹھے، گھر میں ہی دفن ہوئے۔ میر علی اوسط رشک ان کے شاگرد رشید نے تاریخ کہی۔ دلا شعر گوئی اٹھی لکھنو سے لوگ کہتے ہیں15-64برس کی عمر تھی، مگر رغمی سلمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تقریباً سو برس کی عمر ہو گی۔ اکثر عہد سلف کے معرکے اور نواب شجاع الدولہ کی باتیں آنکھوں سے دیکھی بیان کرتے تھے۔ دیوان تین ہیں، مگر دو مشہور ہیں۔ ایک الٰہ آباد میں مرتب کیا تھا۔ بے وطنی کا عالم، دل پریشان، غزلیں خاطر خواہ بہم نہ پہنچیں، اس لیے دفتر پریشاں نام رکھا۔ ان میں غزلوں، رباعیوں اور تاریخوں کے سوا اور قسم کی نظم نہیں۔ قصائد کا شوق نہ تھا۔ چنانچہ نواب لکھنو کی تاریخ و تہنیت میں بھی کچھ کہا ہے۔ تو بطور قطعہ ہے، ہجو کے کانٹوں سے ان کا باغ پاک ہے۔ ایک مثنوی، حدیث مفصل کا ترجمہ ہے۔ میر علی اوسط رشک نے اسے ترتیب دیا اور اس کا تاریخی نام نظم سراج بھی رکھا ہے اور ایک مولود شریف بھی شیخ صاحب کی تصنیف ہے۔ عموماً کلام ان کا شاعری کے ظاہر عیبوں اور لفظی سقموں سے بہت پاک ہے اور اس امر میں انہیں اتنی کوشش ہے کہ اگرچہ ترکیب چستی یا کلام کی گرمی میں فرق آ جائے۔ مگر اصول ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور یہ سلامت روی قرین مصلحت ہے، کیونکہ نئے نصرف اور ایجاد انسان کو اکثر ایسے اعتراضوں کے نشانے پر لا ڈالتے ہیں، جہاں سے سر کنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ غزلوں میں شوکت الفاظ اور بلند پروازی او رنازک خیالی بہت ہے اور تاثیر کم ہے۔ صائب کی تشبیہ و تمثیل کو اپنی صنعت میں ترکیب دے کر ایسی دست کاری اور مینا نگاری فرمائی کہ بعض موقع پر بے دل اور ناصر علی کی حد میں جا پڑے اور اردو میں وہ اس سے صاحب طرز قرار پائے۔ انہیں ناسخ کہنا بجا ہے، کیونکہ طرز قدیم کو نسخ کیا، جس کا خون بھی انہیں فخر تھا۔ دویان کے اخیر میں بہت سی تاریخیں ہیں اور اکثروں میں نہایت عمدہ اور برجستہ مادے نکالے ہیں۔ شوکت الفاظ کہتی ہے کہ اگر وہ قصیدہ کہتے تو خوب کہتے، مگر افسوس کہ اس طرف توجہ نہ کی۔ نظم سراج کی نظم لوگوں کی رائے میں ان کے رتبہ عالی سے گری ہوئی ہے۔ اور چونکہ پابندی ترجمہ حدیث کی ہے، اس لیے اس پر گرفت بے جا ہے۔ چند شعر نمونے کے طور پر ہیں۔ کی خدا نے جو یہ زبان عطا ہے بلاشک عطیہ عظمی اس سے ہے مختلف مزوں کی تمیز اس سے پاتے ہیں لذت ہر چیز کوئی کڑوی ہے کوئی ہے میٹھی نمکیں کوئی، کوئی کھٹ میٹھی سب مزوں سے زبان واقف ہے مزے سب چیزوں کے ہیں گوناگوں کوئی اچھی ہے کوئی زشت و زبوں نہیں اسرار کی یہ کاشت ہے جو نہ ہو یہ تو کچھ نہ ہو معلوم نہ ہو کوئی مزا کبھی مفہوم اور بھی ہوتے ہیں زبان سے کام ہے ممد وقت بلع آب و طعام اس سے احکام بہردنداں ہے قوت تام بہر دنداں ہے کوئی ناواقف شخص شائق کلام آتا تو چند بے معنی غزلیں بنا رکھی تھیں۔ ان میں سے کوئی شعر پڑھتے یا اسی وقت چند بے ربط الفاظ جوڑ کر موزوں کر لیتے اور سناتے۔ اگر وہ سوچ میں جاتا اور چپ رہ جاتا تو سمجھتے تھے کہ کچھ سمجھتا ہے، اسے اور سناتے تھے اور اگر نے بے تحاشا تعریف کرنی شروع کر دی تو اس طرح کے ایک دو شعر پڑھ کے چپکے ہو رہتے تھے ۔ مثلاً آدمی مخمل میں دیکھے، مورچے بادام میں ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی دام میں تو نے ناسخ وہ غزل آج لکھی ہے کہ ہوا سب کو مشکل ید بیضا میں سخن داں ہونا بلکہ اکثر خود سناتے بھی نہ تھے۔ جب کوئی آتا اور شعر کی فرمائش کرتا تو دیوان اٹھا کر سامنے رکھ دیتے تھے کہ اس میں سے دیکھ لیجئے ۔ دو تین خوشنویس کاتب بھی نوکر رہتے تھے۔ دیوان کی نقلیں جاری تھیں۔ جس دوست یا شاگرد کو لائق دیکھتے اسے عنایت فرماتے تھے۔ انہوں نے اور ان کے ہمعصر خواجہ حیدر علی آتش نے خوبی اقبال سے ایسا زمانہ پایا جس نے ان کے نقش و نگار کو تصاویر مافی و بہزاد کا جلوہ دیا۔ ہزاروں صاحب فہم دونوں کے طرف دار ہو گئے اور ظرفین کا چمکا چمکا کر تماشے دیکھنے لگے، لیکن حق پوچھو تو ان فتنہ انگیزوں کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ روشنی طبع کو اشتعالک دیتے تھے۔ ان دونوں صاحبوں کے طریقوں میں بالکل اختلاف ہے۔ شیخ صاحب کے پیر و مضمون دقیق ڈھونڈتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے معتقد محاورے کی صفائی، کلام کے سادگی کے بندے ہیں اور شعر کی تڑپ اور کلام کی تاثیر پر جان قربان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو شیخ صاحب کے کلام پر چند قسم کے اعتراض ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض باتوں میں سینہ زوری اور شدت ہے، لیکن مورخ کو ہر امر کا اظہار واجب ہے۔ اس لیے قلم انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ اول کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی اکثر نازک خیالیاں ایسی ہیں کہ کوہ کندن و کاہ بر آوردن ، چنانچہ اشعار مفصلہ ذیل نمونہ نازک خیالی ہیں۔ میری آنکھوں نے تجھے دیکھ کے وہ کچھ دیکھا کہ زبان مژہ پر شکوہ ہے بینائی کا کھل گیا ہم پر عناصر جب ہوئے بے اعتدال رابطہ واجب سے ممکن دوست دشمن میں نہیں کی خدا نے کافروں پر اے صنم جنت حرام ورنہ کس کی آنکھ پڑتی تیرے ہوتے حور پر کوئے جاناں میں ہوں پر محروم ہوں دیدار سے پائے خفتہ خندہ زن ہیں دیدہ بیدار پر وہ آفتاب نہ ہو کس طرح سے بے سایہ ہوا نہ سر سے کبھی سایہ سحاب جدا خواجہ صاحب کے معتقد کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے غزل کے اصول کو سمجھا ہے، یعنی فارسی میں خواجہ حافظ اور شیخ سعدی سے اور اردو میں سوز، میر اور جرات سے سند پائی، وہ اسے غزل نہ کہیں گے۔ مگر یہ بات ایسی گرفت کے قابل نہیں، کیونکہ فارسی میں بھی جلال اسیر، قاسم مشہدی، بیدل اور ناصر علی وغیرہ استاد ہو گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنے نازک خیالوں کی بدولت خیال بند اور معنی یاب لقب حاصل کیا ہے۔ شیخ صاحب نے ان کی طرز اختیار کی تو کیا برا ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ جن لوگوں کی طبیعت میں ایسی خیال بندیوں کا انداز پیدا ہوا ہے، اس کے کئی سبب ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ بعض طبیعتیں ابتدا ہی سے پر زور ہوتی ہیں، فکر ان کے تیز اور خیالات بلند ہوتے ہیں، مگر استاد نہیں ہوتا، جو اس ہونہار بچھیرے کو روک کر نکالے اور اصول کی باگوں پر لگائے۔ پھر اس خود سری کو ان کی آسودہ حالی اور بے احتیاطی زیادہ قوت دیتی ہے۔ جو کسی جوہر شناس یا سخن فہم کی پروا نہیں رکھتی۔ وہ اپنی تصویریں آپ کھینچتے ہیں اور آپ ان پر قربان ہوتے ہیں، بلکہ شوقین، داد دینے والے جو کھرے کھوٹے کے پرکھنے والے ہیں اور حقیقت میں پسند عام کے وکیل بھی وہی ہیں۔ ان نازک خیالوں کو ان کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی دولت مندی اپنے گھر پر اپنا دربار الگ لگاتی ہے۔ جس میں بعض اشخاص وقت پسندی اور باریک بینی میں ان کے ہم مزاج ہوتے ہیں۔ بعض فقط باتوں ہی باتوں میں خوش کر دینے کا شوق رکھتے ہیں۔ بعض کو اپنی گرہ کی عقل نہیں ہوتی، جس طرف لوگوں کو دوڑتے دیکھا، آپ بھی دوڑنے لگتے ہیں۔ غرض ایسے ایسے سبب ہوتے ہیں، جو چنگے بھلے آدمی کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خود پسندی کے ناہموار میدانوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ دوسرا اعتراض ان کے حریفوں کا ان سخت اور سنگین الفاظ پر ہے، جن کے بھاری وزن کا بوجھ غزل کی نزاکت و لطافت ہرگز برداشت نہیں کر سکتی اور کلام بھدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ کچھ اشعار اس قبیل کے بھی لکھتے جاتے ہیں۔ بے خطریوں ہاتھوں دوڑاتا ہوں زلف یار پر دوڑتا تھا جس طرح ثعبان موسیٰ مار پر تو وہ خورشید ہے الٹے جو گلستان میں نقاب چہرہ گل میں تلون ہو وہیں حربا کا برنگ گل جگر ہوتا ہے ٹکڑے سیر گلشن میں ہوا ہے تیغ غم بے یار نظارہ سپر غم کا آگے مجھ کامل کے ناقص ہے کمال مدعی درمیاں ہے فرق استدراج اور اعجاز کا مل گیا ہے عشق کا آزار قسمت سے مجھے ہوں جو عیسیٰ بھی ارادہ ہو نہ استعلاج کا انڈا کھٹک کے نکلی ہے باہر تو کیسا ہوا بلبل کو جسم بیضہ فولاد ہو گیا ناسخ تمام رجس تناسخ سے پاک ہے وہ شمع ہو گیا تو وہ پروانہ ہو گیا قمر ہی کیا ترے آگے محاق میں آیا کہ آفتاب بھی تو احتراق میں آیا سوے کعبہ تیرے عاشق سجدے کرتے ہیں کوئی تیرے ابرو کی طرف قبلہ لحول ہو گیا بڑا اکال ہے ناسخ غم عالم فراہم کر ارادہ ہے اگر اے چرخ اس کی میہمانی کا نہ باطل خشک زاہد ہے نہ عامل رند تر دامن خدا نے اپنی حکمت سے کیا ہے خشک و تر پیدا کسی حالت میں مجھے ہوش سے کچھ کام نہیں چڑھ گئے انجرے نشہ کے جو سودا اترا آغاز خط میں اژدر فرعون ہے جو زلف افسون خط مار ہی افسانہ ہو گیا غیر کوثر کسی دریا کا میں سیاح نہیں بیشہ شیر خدا بن کہیں سیاح نہیں ہے ہوس ہم سے ملے یار کرے غیر کو ترک مطلب اپنا وہ ہے جو قابل انجاح نہیں ظلم طول شب فرقت کے تطاول نے کہا داد رس کوئی بجز فالق الاصباح نہیں روشنائی سے ہوئی روشنی خلوت فکر جز قلم اور مری بزم میں مصباح نہیں بال توڑے تیری زلفوں کے نہ بیدردی ہے جس مرے ہاتھ کی مانند ہو گر شانے میں خیال بند طباع اور مشکل پسند لوگ اگرچہ اپنے خیالوں میں مست رہتے ہیں، مگر شانہ میں سخن خالی نہیں جاتا اور مشق کو بڑی تاثیر ہے، اس لیے مشکل کلام میں بھی ایک لطف پیدا ہو جاتا ہے جس سے ان کے اور ان کے طرف داروں کے دعوؤں کی بنیاد قائم ہو جاتی ہے۔ تیسرے ان کے حریف کہتے ہیں کہ شیخ صاحب بھی خیال بندی اور دشوار پسندی کی قباحت کو سمجھ گئے تھے اور آخیر کو اس کوچے میں آنے کا ارادہ کرتے تھے۔ انہی دنوں کا ایک مطلع شیخ صاحب کا ہے۔ خواجہ صاحب کے سامنے کسی نے پڑھا اور انہوں نے لطف زبان کی تعریف کی۔ جنوں پسند ہے مجھ کو ہوا ببولوں کی عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی مگر اول تو طبیعت کی مناسبت، دوسرے عمر بھر کی وہی مشق تھی، اس لیے جب محاورے کے کوچے میں آ کر صاف صاف کہنا چاہتے تھے تو پھس پھسی بندش اور پھسینڈے الفاظ بولنے لگتے تھے۔ چنانچہ اس کی سند میں اکثر اشعار پیش کرتے ہیں، جن میں سے چند شعر یہ ہیں۔ ناک رگڑے ہر گھڑی کیونکر نہ اس کے سامنے بدلے نتھنی کے سلیماں کی ہے خاتم ناک میں رنگ لالہ میں اگر ہے تو نہیں نام کو بو یاسمن میں ترے پنڈے سی ہے بو رنگ نہیں ساقی بغیر مے یہ لہو تھوکتا نہیں منہ سے شراب وصل نکلتی ہے ہجر میں کیا ہی حاسد ہے فلک جس نے کہ نوبت پائی دم میں مانند حباب اس نے نقارہ توڑا ان کے حریفوں کو اس لفظ پر بھی اعتراض ہے، کیونکہ نقارہ مشدد ہے تخفیف کے ساتھ نہیں آیا اور جب ان سے کہا گیا کہ نظارہ بھی بہ تشدید ہے، مگر تخفیف کے ساتھ فارسی اور ریختہ میں آیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ غیر زبان کے لفظ میں قیاس نہیں چل سکتا، اہل زبان کی سند دینی چاہئے۔ منصفوں کے نزدیک یہ بھی ان کی سینہ زوری ہے۔ (نظامی) بذوق جشن نو روزی نقارہ گلوئے خویش کردہ پارہ پارہ مجھ سے رہتا ہے رمید وہ غزال شہری صاف سیکھا ہے چلن آ ہوئے صحرائی کا غزال شہری کے لیے فارسی کو سند چاہئے، کیونکہ وحشی کے مقابل میں اہلی بولتے ہیں۔ شہری نہیں بولتے، مگر اسے فارسی کے کوچے میں نہیں ڈالنا چاہئے، بلکہ اردو کے قادر الکلام کا تصرف سمجھنا چاہئے۔ ذبح وہ کرتا تو ہے پر چاہئے اے مرغ دل دم پھڑک جائے تڑپھنا دیکھ کر صیاد کا یہ تعقید نہایت بے طور واقع ہوئی ہے۔ ان کے حریف اس قسم کے اشعار اور بھی بہت پڑھتے ہیں، مگر ان جزوی باتوں پر توجہ بے حاصل ہے، اس لیے اشعار مذکور قلم انداز کیے گئے۔ ان کے کلام میں تصوف بھی ہے، مگر اس کا رستہ کچھ اور ہے جس سے وہ واقف نہیں۔ تو بھی آغوش تصور سے جدا ہوتا نہیں اے صنم جس طرح دوراک دم خدا ہوتا نہیں بحر وحدت میں ہوں میں گو سر گیا مثل حباب چوب کیا تلوار سے پانی جدا ہوتا نہیں نشہ عرفاں نہیں جب تک دلا! ہے قیل و قال تانہ ہو لبریز ساغر بے صدا ہوتا نہیں اسرار نہاں آتے ہیں سینے سے زباں پر اب سد سکندر کروں تعمیر گلے میں ہے یہ وہ راہ کہ تا عرش پہنچتا ہے بشر دل میں دروازہ ہے اس گنبد مینائی کا عارفوں کو ہر در و دیوار ادب آموز ہے مانع گردن کشی ہے انحنا محراب کا مظہر وہ بت ہے نور خدا کے ظہور کا نقش قدم سے سنگ کو رتبہ ہے طور کا حریف یہ بھی حرف رکھتے ہیں کہ شیخ ناسخ مخلوق فارس کو تناسخ دے کر اردو کی زندگی دیے تھے۔ مسی آلودہ لب پر رنگ پاں ہے تماشا ہے تہ آتش دھواں ہے مسی آلودہ برلب رنگ پان است تماشا کن تہ آتش دخان است ناتوانی سے گراں سرمہ ہے چشم یار کو جس طرح ہو رات بھاری مردم بیمار کو گویند کہ شب بر سر بیمار کراں است گر سرمہ بچشم تو گراں است ازاں است سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا ہوتا ہے انساں سے کسی استاد کا شعر فارسی میں ہے۔ بروز بے کسی کس نیست غیر از سایہ یار من مگر آنہم ندارد طاقت شبہائے تارمن فرق ہے شاہ و گدا میں قول شاعر سے یہی شیر قالیں اور ہے شیر نیستاں اور ہے بوریا جائے من و جائے توانگر قالیں شیر قالیں دگر و شیر نیستاں و گراست میر تقی مرحوم اور بقا میں دو آبے کے مضمون پر جو دو دو لطیفے ہوئے، میر صاحب کے حال میں لکھے گئے۔ میں سمجھتا تھا کہ شیخ ناسخ نے الہ آباد میں بیٹھ کر اس میں سے یہ مضمون تراشا ہو گا۔ ایک تر بینی ہے دو آنکھیں مری اب الٰہ آباد بھی پنجاب ہے لیکن غیاث الدین بلبن بادشاہ دہلی کا بیٹا یعنی محمد سلطان جب لاہور کے باہر راوی کے کنارے پر ترکان تاتاری کی لڑائی میں مارا گیا تو امیر خسرو نے اس کا مرثیہ ترکیب بند میں لکھا ہے، اس میں کہتے ہیںـ: بسکہ آب چشم خلقے شد رواں در چار سو پنج آبے دیگر اندر مولتاں آمد پدید کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے انہیں باتوں پر چوٹ کر کے کہا ہے۔ مضمون کا چور ہوتا ہے رسوا جہان میں چکھی خراب کرتی ہے مال حرام کی اگرچہ اس طرح کے چند اشعار اور بھی سنے جاتے ہیں۔ مگر ایسا صاحب کمال جس کی تصنیفات میں کمال نازک خیالی اور مضامین عالی کے ساتھ ایک مجلد ضخیم موجود ہے، اس پر سرقے کا الزام لگانا انصاف کی آنکھوں میں خاک ڈالنی ہے۔ سودا اور میر کے اشعار جن استادوں کے اشعار سے لڑ گئے ہیں، وہ لکھے گئے۔ جو ان کی طرف سے جواب ہے، وہی ان کی طرف سے سمجھیں۔ میری رائے میں یہ دونوں حریف اور ان کی طرف دار کوئی مورد الزام نہیں، کیونکہ طرفوں میں کوئی کمال سے خالی نہیں تھا۔ البتہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں، اس لیے پسند میں اختلاف ہے۔ کہنے والے جو چاہیں سے کہے جائیں۔ انہی نازک خیالیوں میں جو صاف شعر بھی زبان سے نکل گیا ہے، ایک تیر ہے کہ نشانے کے پار جا کر اڑا ہے، اٹک کر ترازو بھی نہیں ہوا۔ سینکڑوں آہیں کروں پر دخل کیا آواز کا تیر جو دیوے صدا ہے نقص تیر انداز کا ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو اس انداز کے شعر بھی ان کے دیوانوں میں ڈھونڈو تو بہت ہوں گے۔ شیخ صاحب کے کلام میں نمک ظرافت کا چٹخاراکم ہے۔ چنانچہ زاہد اور ناصح، جو شعرائے اردو فارسی کے لیے ہر جگہ رونق محفل ہیں، یہ ان سے بھی ہنس کر دل نہیں بہلاتے اور اگر اتفاقاً ہے تو ایسا ہے کہ وہ ہنسناز ہر خند معلوم ہوتا ہے۔ حرص سے زاہد یہ کہتا ہے جو گر جائیں گے دانت کیا کشادہ بہر رزق اپنا وہاں ہو جائے گا دیکھیو ناسخ سر شیخ معمر کی طرف کیا کلس مسواک کا ہے گنبد دستار پر سودا کی غزل ہے، جرس ہووے، اگر ہووے قفس ہووے، اگر ہووے۔ اس کا شعر دیکھیو کہ وہ اسی بات کو کس چوچلے سے کہتا ہے۔ سوداـ: نہیں شایان زیب گنبد دستار کچھ زاہد مگر مسواک ہی اس پر کلس ہووے اگر ہووے ناسخ: زاہد اب کی رمضان میں میں پڑھوں خاک نماز سوئے قبلہ تو خنا زیر کھڑے رہتے ہیں واہ کیا پیر مغاں کا ہے تصرف مے کشو محتسب کا اب سخن تکیہ ہی مل مل ہو گیا عابد و زاہد چلے جاتے ہیں پیتا ہے شراب اب تو ناسخ زور رندلا ابالی ہو گیا اہل تز دیر سے اس درجہ ہے نفرت مجھ کو کہ مجھے قافیہ زور سے کچھ کام نہیں شیخ صاحب کا مذہب پہلے سنت و جماعت تھا، پھر مذہب شیعہ اختیار کیا۔ وہ اکثر غزلوں میں مذہبی تعریفیں کرتے تھے اور یہ شاعر یا عام مصنف کے لیے نازبیا ہیں۔ ہاں کوئی اپنے تائید مذہب میں کتاب لکھے تو اس میں دلائل و براہین کے قبیلے سے جو چاہے کہے مضائقہ نہیں۔ وہ بہت خوش اخلاق تھے، مگر اپنے خیالات میں ایسے محو رہتے تھے کہ ناواقف شخص خشک مزاج یا بد دماغ سمجھتا تھا۔ سید مہدی حسن فراغ مرحوم میاں بے تاب کے شاگرد تھے اور زبان ریختہ کے کہن سال مشاق تھے۔ نقل فرماتے تھے کہ ایک دن میں شیخ صاحب کی خدمت میں گیا۔ دیکھا کہ چوکی پر بیٹھے نہا رہے ہیں۔ آس پاس چند احباب موڈھوں پر بیٹھے ہیں۔ میں سامنے جا کر کھڑا ہوا اور سلام کیا۔ انہوں نے ایک آواز سے جو ان کے بدن سے بھی فربہ تھی، فرمایا کہ کیوں صاحب کس طرح تشریف لانا ہوا۔ میں نے کہا کہ ایک فارسی کا شعر کسی استاد کا ہے، اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے۔ فرمایا، میں فارسی کا شاعر نہیں۔ اتنا کہہ کر اور شخص سے باتیں کرنے لگے۔ میں اپنے جانے پر بہت پچھتایا اور اپنے تئیں ملامت کرتا چلا آیا۔ لطیفہ: ایک دن کوئی شخص ملاقات کو آئے۔ یہ اس وقت چند دوستوں کو لیے انگنائی میں کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ شخص مذکور کے ہاتھ میں چھڑی اور اتفاقاً پاؤں کے آگے ایک مٹی کا ڈھیلا پڑا تھا۔ وہ شغل بیکاری کے طور پر جیسے کہ اکثر اشخاص کو عادت ہوتی ہے، آہستہ آہستہ لکڑی کی نوک سے ڈھیلے کو توڑنے لگے۔ شیخ صاحب نے نوکر کو آواز دی۔ سامنے حاضر ہوا۔ فرمایا کہ میاں! ایک ٹوکری مٹی کے ڈھیلوں کی بھر کر ان کے سامنے دو، دل لگا کر شوق پورا کریں۔ لطیفہ: شاہ غلام اعظم افضل ان کے شاگرد اکثر حاضر خدمت ہوتے تھے۔ ایک دن آپ تخت پر بیٹھے تھے۔ا س پر سیتل پاٹی کا بوریا بچھا تھا۔ افضل آئے۔ وہ بھی اسی پر بیٹھ گئے۔ اس پر سیتل پاٹی کا ایک تنکا توڑ کر چٹکی سے توڑنے اور مروڑنے لگے۔ شیخ صاحب نے آدمی کو بلا کر کہا کہ بھائی وہ جو آج نئی جھاڑو تم بازار سے لائے ہو، ذرا لے آؤ۔ اس نے حاضر کی۔ خود لے کر شاہ صاحب کے سامنے رکھ دی اور کہا، صاحبزادے!اس سے شغل فرمائیے۔ فقیر کا بوریا آپ کے تھوڑے سے التفات میں برباد ہو جائے گا۔ پھر اور سیتل پاٹی اس شہر میں کہاں ڈھونڈتا پھرے گا؟ وہ بے چارے شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ لطیفہ: آغا کلب عابد خاں صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ صاحب کے واسطے کسی نے دو تین چمچے بطریق تحفہ بھیجے کہ شیشے کے تھے۔ ان دنوں میں نیا ایجاد سمجھے جاتے تھے اور حقیقت میں بہت خوشنما تھے۔ وہ پہلو میں طاق پر رکھے تھے۔ ایک امیر صاحبزادے آئے، اس طرف دیکھا اور پوچھا کہ حضرت یہ چمچے کہاں سے خریدے اور کس قیمت کو خریدے؟ شیخ صاحب نے حال بیان کیا۔ا نہوں نے ہاتھ بڑھا کر ایک چمچہ اٹھا لیا۔ دیکھ کر تعریف کی۔ پھر باتیں چیتیں کرتے رہے اور چمچے سے زمین پر کھٹکا دے کر شغل بے شغلی فرماتے رہے۔ شیشے کی بساط کیا تھی۔ ٹھیس زیادہ لگی، جھٹ سے دو ٹکڑے۔ شیخ صاحب نے دوسرا چمچہ اٹھا کر سامنے رکھ دیا اور کہا اب اس سے شغل فرمائیے۔ لطیفہ: ایک دن اپنے خانہ باغ کے بنگلے میں بیٹھے اور فکر مضمون میں غرق تھے۔ ایک شخص آ کر بیٹھے۔ ان کی طبیعت پریشان ہوئی۔ اٹھ کر ٹہلنے لگے کہ یہ اٹھ جائیں۔ ناچار پھر آ بیٹھے، مگر وہ نہ اٹھے۔ کسی ضرورت کے بہانے سے پھر گئے کہ یہ سمجھ جائیں گے۔ وہ پھر بھی نہ سمجھے۔ انہوں نے چلم میں سے چنگاری اٹھا کر بنگلے کی ٹٹی میں رکھ دی اور آپ لکھنے لگے۔ ٹٹی جلنی شروع ہوئی۔ وہ شخص گھبرا کر اٹھے اور کہا کہ شیخ صاحب آپ دیکھتے ہیں؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا کہ جاتے کہاں ہو؟ اب تو مجھے اور تمہیں مل کر راکھ ہونا ہے۔ تم نے میرے مضامین کو خاک میں ملایا ہے، میرے دل کو جلا کر خاک کیا ہے، اب کیا تمہیں جانے دوں گا؟ لطیفہ: اسی طرح ایک شخص نے بیٹھ کر انہیں تنگ گیا۔ نوکر کو بلا کر صندوقچہ منگایا۔ اس میں سے مکان کے قبالے نکال کر ان کے سامنے دھر دئیے اور نوکر سے کہا کہ بھائی مزدوروں کو بلاؤ اور اسباب اٹھا کر لے چلو۔ ادھر وہ شخص حیران، ان کا منہ دیکھے، ادھر نوکر حیران۔ آپ نے کہا دیکھتے کیا ہو، مکان پر تو یہ قبضہ کر چکے، ایسا نہ ہو کہ اسباب بھی ہاتھ سے جاتا رہے۔ شیخ صاحب کے مزاج میں یہ صفتیں تھیں، مگر بنیاد ان کی فقط نازک مزاجی پر تھی، نہ غرور یا بدنیتی پر، جس کا انجام بدی تک پہنچے۔ نازک مقام آ پڑتا تو اس طرح تحمل کر کے ٹال جاتے تھے کہ اوروں سے ہونا مشکل ہے۔ نقلـ: ایک نواب صاحب کے ہاں مشاعرہ تھا۔و ہ ان کے معتقد تھے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ شیخ صاحب جب غزل پڑھ چکیں تو انہیں سر مشاعرہ خلعت دیں۔ یار لوگوں نے خواجہ صاحب کے پاس مصرع طرح نہ بھیجا۔ انہیں اس وقت مصرع پہنچا، جب ایک دن مشاعرے میں باقی تھا۔ خواجہ صاحب بہت خفا ہوئے اور کہا کہ اب لکھنو رہنے کا مقام نہیں۔ ہم نہ رہیں گے۔ شاگرد جمع ہوئے اور کہا کہ آپ کچھ خیال نہ فرمائیں، نیاز مند حاضر ہیں، دو دو شعر کہیں گے تو صدہا شعر ہو جائیں گے۔ وہ بہت تند مزاج تھے ان سے بھی ویسے ہی تقریریں کرتے رہے۔ شہر کے باہر چلے گئے۔ پھرتے پھرتے ایک مسجد میں جا بیٹھے۔ وہاں سے غزل کہہ کر لائے اور مشاعرے میں گئے تو ایک قرابین بھی بھر کر لیتے گئے۔ بیٹھے ایسے موقع پر تھے کہ عین مقابل شیخ صاحب کے تھے۔ اول تو آپ کا انداز ہی بانکے سپاہیوں کا تھا، اس پر قرابین بھری سامنے رکھی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ خود بھی بھرے بیٹھے ہیں ۔ بار بار قرابین اٹھاتے تھے اور رکھ دیتے تھے۔ جب شمع سامنے آئی تو سنبھل کر ہو بیٹھے اور شیخ صاحب کی طرف اشارہ کر کے پڑھا۔ سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اس ساری غزل میں کہیں ان کے لے پالک ہونے پر، کہیں ذخیرہ دولت پر کہیں ان کے سامان امارت پر، غرض کچھ نہ کچھ چوٹ ضرور ہے۔ شیخ صاحب بے چارے دم بخود بیٹھے رہے۔نواب صاحب ڈرے کہ خدا جانے یہ ان پر قرابین خالی کریں یا میرے پیٹ میں آگ بھر دیں۔ اسی وقت داروغے کو اشارہ کیا کہ دوسرا خلعت خواجہ صاحب کے لیے تیار کرو۔ غرض دونوں صاحبوں کو برابر خلعت دے کر رخصت کیا۔ رغمی سلمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مدتوں لکھنو میں رہنا ہوا۔ میں نے کبھی چاند اور سورج کا طلوع ایک مطلع میں سے نہ دیکھا۔ ہمیشہ مشاعرے میں پہلو بچاتے تھے۔ خواجہ صاحب نواب سید محمد خاں رند اور صاحب مرزا شناور کے مشاعرے میں جایا کرتے تھے۔ ادھر مرزا محمد رضا برق کے ہاں مشاعرہ ہوتا تھا۔ شیخ صاحب اپنی غزل بھیج دیتے تھے۔ جب جلسہ جمتا، برق کے شاگرد میاں طور سب سے پہلے غزل مذکور کو لے کر کہتے۔ صاحبو! ہمہ تن گوش باشید، یہ غزل استاد الاستاد شیخ ناسخ کی ہے۔ تمام اہل مشاعرہ چپ چاپ ہو کر متوجہ ہو جاتے۔ ان کی غزل کے بعد اور شعرا پڑھتے تھے۔ برخلاف عادت شعرا کے ان کی طبیعت میں سلامت روی کا جوہر تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ سید محمد خاں رند کی اپنے استاد خواجہ حیدر علی آتش سے شکر رنجی ہو گئی۔ چاہا کہ ناسخ کی شاگردی سے استاد سابق کے تعلق کو فسخ کریں۔ مرزا محمد رضا برق کے ساتھ شیخ صاحب کے پاس آئے۔ مرزا صاحب نے اظہار مطلب کیا۔ شیخ صاحب نے تامل کے بعد کہا کہ نواب صاحب دس برس سے خواجہ صاحب سے اصلاح لیتے ہیں۔ آج ان سے یہ حال ہے تو کل مجھے ان سے کیا امید ہے۔ علاوہ برآں آپ خواجہ صاحب سے کچھ سلوک بھی کرتے ہیں۔ وہ سلسلہ قطع ہو جائے گا۔ اس کا وبال کدھر پڑے گا اور مجھے ان سیہ تمنا نہیں۔ میری دانست میں بہتر ہے کہ آپ ہی دونوں صاحبوں میں صلح کرا دیں اور اس امر میں اس قدر تاکید کی پھر آپس میں صفائی ہو گئی۔ اگرچہ ان کے کلاموں او رحکایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت میں شوخی اور رنگینی نہ تھی۔ مگر شاعری کا وہ نشہ ہے کہ اپنے رنگ پر لے ہی آتا ہے۔ چنانچہ میر گھسیٹا ایک شخص مر گئے۔ تو شیخ صاحب نے تاریخ فرمائی۔ جب مر گئے ہائے میر گھسیٹا ہر ایک نے اپنے منہ کو پیٹا ناسخ نے کہی یہ سن کے تاریخ افسوس کہ موت نے گھسیٹا نقل: ان کے مزاج میں منصفی اور حق شناسی کا اثر ضرور تھا۔ چنانچہ الٰہ آباد میں ایک دن مشاعرہ تھا۔ سب موزوں طبع طرحی غزلیں کہہ کر لائے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔ دل اب محو ترسا ہوا چاہتا ہے یہ کعبہ کلیسا ہوا چاہتا ہے ایک لڑکے نے صف کے پیچھے سے سر نکالا۔ بھولی بھالی صورت سے معلوم ہوتا تھا کہ معرکے میں غزل پڑھتے ہوئے ڈرتا ہے۔ لوگوں کی دل دہی نے اس کی ہمت باندھی ۔ پہلا ہی مطلع تھا۔ دل اس بت پہ شیدا ہوا چاہتا ہے خدا جانے اب کیا ہوا چاہتا ہے محفل میں دھوم مچ گئی۔ شیخ ناسخ نے بھی تعریف کر کے لڑکے کا دل بڑھایا اور کہا کہ بھائی! یہ فیضان الٰہی ہے، اس میں استادی کا زور نہیں چلتا۔ تمہارا مطلع مطلع آفتاب ہے، میں اپنا پہلا مصرعہ غزل سے نکال ڈالوں گا۔ شاہ نصیر کا مطلع ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اور کتہے تھے، نصیر تخلص نہ ہوتا تو یہ مطلع نصیب نہ ہوتا۔ خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر ایک دن کسی سوداگر کی کوٹھی میں گئے۔ سوداگر بچہ کہ دولت حسن کا بھی سرمایہ دار تھاسامنے لیٹا تھا، مگر کچھ سوتا کچھ جاگتا تھا۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا۔ ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے یہ مصرع تو ہو گیا، مگر دوسرا مصرع جیسا جی چاہتا، ویسا نہ ہوتا تھا۔ گھر آئے، اسی فکر میں غرق تھے کہ خواجہ وزیر آ گئے۔ انہوں نے خاموشی کا سبب پوچھا۔ شیخ صاحب نے بیان فرمایا۔ اتفاق ہے کہ ان کی طبیعت لڑ گئی۔ ہے چشم نیم باز عجب خواب ناز ہے فتنہ تو سو رہا ہے، در فتنہ باز ہے شیخ صاحب بہت خوش ہوئے ایک دن وزیر اپنے شاہ سخن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مزاج پرسی فرما کر عنایت و محبت کی باتیں کرنے لگے اور کہا کہ آج کل کچھ فکر کیا؟ عرض کی کہ ورود وظیفہ سے فرصت نہیں ہوئی آپ نے پھر ارشاد فرمایا۔ انہوں نے یہ مطلع پڑھا۔ وہ زلف لیتی ہے تاب دل و تواں اپنا اندھیری رات میں لٹتا ہے کارواں اپنا بہت خوش ہوئے۔ اس وقت ایک عمدہ تسبیح عقیق البحر کی ہاتھ میں تھی، وہ عنایت فرمائی۔ خواجہ وزیرپر بڑی عنایت تھی اور قدر و منزلت فرماتے تھے۔ سب شاگردوں میں ان کا نمبر اول تھا، پھر برق، رشک وغیرہ وغیرہ۔ تاریخ کلیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ پہر اسی فکر میں غلطان و پیچاں رہتے تھے۔ چنانچہ جن دنوں شاہ اجمل کے دائرے میں تشریف رکھتے تھے تو وہاں تین گھرانے بابرکت اور صاھب دست گاہ تھے۔ تینوں جگہ سے وقت معمول پر کھانا آتا تھا۔ ایک خوان بلکہ دستر خوان شاہ ابو المعالی کی سرکار سے آتا تھا۔ اس میں ہر قسم کے امیرانہ اور عمدہ کھانے موجود ہوتے تھے۔ ایک خواں سید علی جعفر کے ہاں سے آتا تھا کہ شاہ ابو المعالی کی بہن ان سے منسوب تھیں۔ ایک خوان شاہ غلام حیدر صاحب کے ہاں سے آتا تھا۔ اس پر بھی اپنا باورچی خانہ الگ گرم ہوتا تھا۔ جس چیز کو جی چاہتا تھا، پکواتے تھے۔ دسترخوان پر وہ بھی شامل ہو جاتا تھا۔ ایک دن باورچی سے خاگینے کی فرمائش فرمائی تھی۔ اس میں کوئی سنپولیا گرا ہو گا۔ چونکہ دوبارہ یہ حرکت کی تھی، آپ نے تاریخ کہہ دی۔ (تاریخ) جاں بلب آمد مرا از غفلت طباخ آہ مے پزد خاگینہ با مار کریہ از بہر من چوں وگر بارہ خطا بنمود سال عیسوی گفت دل مارسیہ پخت ایں سفیہ از بہر من 1837ء میں معتمد الدولہ آغا میر نے جو سوا لاکھ قصیدے کا صلہ دیا تھا۔ انہوں نے مرزائی صاحب کے حوالے کر دیا تھا۔ لوگوں نے جانا کہ ان کے گھر ہی میں ہے۔ چور نے رات کو نقب لگائی او رناکام گیا۔ آپ نے فرمایا۔ (تاریخ) دزد در خانہ ناسخ چوز دہ نقب امشب نہ زر و سیم نہ بد مس، خجل آمد بیروں بہر تاریخ مسیحی چو بریدم سر دزد وزد از خانہ مفلس خجل آمد بیروں بات بات پر تاریخ کہتے تھے۔ بخار سے صحت پائی، تاریخ کہی، رفت تپ تو بہ من۔ 1235ھ غسل صحت کیا تو کہا۔ شود صحت ہمایوں و مبارک1235ء ایک موقع پر قتل ہوتے ہوتے بچ گئے، کہا کنم شکر خدا1235ء حریفوں نے نظر بند کروا دیا تو کہا ہے ہے افسوس خانہ زنداں گروید۔ جس بزرگ کی سفارش سے چھوٹے، اس کا تاریخی شکریہ کہا۔ رہانیدی مراز دست گر گے۔ کسی نے خطوط چرا لیے تو کہا۔ سیاہ ہمچو قلم بادوئے حاسد من۔ پھر چار خط جاتے رہے، تاریخ کہی۔ صد حیف تلف چہار نامہ پیارے شاگرد خواجہ وزیر کا بیاہ ہوا تو فرمایا۔ شدہ نوشہ وزیر من امروز۔ پھر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو صبح کا وقت تھا۔ فرمایا۔ صبح طالع شد برآمد آفتاب ایک مشاعرے میں خواجہ صاحب نے مطلع پڑھا۔ سرمہ منظور نظر ٹھیرا ہے چشم یار میں نیل کا گنڈا پنھایا مردم بیمار میں شیخ صاحب نے کہا، سبحان اللہ خواجہ صاحب کیا خوب فرمایا ہے۔ سرمہ منظور نظر ٹھیرا جو چشم یار میں نیلگوں گنڈا پنھایا مردم بیمار میں خواجہ صاحب نے اٹھ کر سلام کیا اور کہا، جائے استاد خالی است۔ آزاد کی سمجھ میں نہیں آتا کہ مردم بیمار میں گنڈا کیونکہ پنھاتے ہیں۔ گنڈا بیمار کو پنھایا کرتے ہیں اور اس سے زیادہ تعجب شیخ صاحب کے مطلع کا ہے کہ فرماتے ہیں۔ یوں نزاکت سے گراں ہے سرمہ چشم یار میں جس طرح ہو رات بھاری مردم بیمار میں یہاں بھی میں بے معنی ہے، پر ہو تو ٹھیک ہے۔ لطیفہ: ایک مشاعرے میں ایسے وقت پہنچے کہ جلسہ ختم ہو چکا تھا۔ مگر خواجہ حیدر علی آتش چند شعراء ابھی موجود تھے۔ یہ جا کر بیٹھے تعظیم رسمی اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ جناب خواجہ صاحب مشاعرہ ہو چکا؟ انہوں نے کہا کہ سب کو آپ کو اشتیاق رہا۔ شیخ صاحب نے یہ مطلع پڑھا۔ جو خاص ہیں وہ شریک گروہ عام نہیں شمار دانہ تسبیح میں امام نہیں چونکہ نام بھی امام بخش تھا، اس لیے تمام اہل جلسہ نے نہایت تعریف کی۔ خواجہ صاحب نے یہ مطلع پڑھا۔ یہ بزم وہ ہے کہ لاخیر کا مقام نہیں ہمارے گنجفے میں بازی غلام نہیں بعض اشخاص کی روایت ہے کہ یہ مطلع آتش کے شاگرد کا ہے۔ ناسخ کے شاگردوں کی طرف سے اس کا جواب ہے اور حقیقت یہ ہے کہ لاجواب ہے۔ جو خاص بندہ ہیں وہ بندہ عوام نہیں ہزار بار جو یوسف بکے، غلام نہیں عوام میں یہ روایت اس طرح مشہور ہے، مگر دیرینہ سال لوگ جو اس زمانے کی صحبتوں میں شریک تھے، ان سے یہ تحقیق ہوا کہ پہلا مطلع آتش نے حقیقت میں طالب علمی خاں عیشی کے حق میں کہا تھا۔ یار لوگوں نے صفت پیدا کر کے شیخ صاحب کے ذمے لگا دیا۔ طبع اول کی ترویج میں اس کتاب کو دیکھ کر میرے شفیق دلی سید احمد صاحب ڈکشنیزی نے کسی کی زبانی بیان کیا کہ شیخ ناسخ ایک دن نواب نصیر الدین حیدر کے حضور میں حاضر تھے، حقہ سامنے تھا۔ فرمایا کہ شیخ صاحب اس پر کچھ کہیے، انہوں نے اسی وقت کہا۔ حقہ جو ہے حضور معلی کے ہاتھ میں گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں ناسخ یہ سب بجا ہے و لیکن تو عرض کر بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں بعض احباب کہتے ہیں کہ ظاہر الفاظ میں حقہ کہکشاں ہے اور ممدوح ثریا، لیکن ایسے ممدوح کو چاند سورج بلکہ بہ اعتبار قدر و منزلت کے فلک بھی کہہ دیا ہے، ثریا سے آج تک کسی نے تشبیہ نہیں دی۔ شیخ ناسخ کلام کی گرمی اور شوخی اور چستی اور ترکیب سے دست بردار ہوئے مگر اصول فن کو نہیں جانے دیا۔ ان کی طرف یہ قطعہ منسوب کرنا چاند پر داغ لگانا ہے لیکن چونکہ فی البدیہہ کہا ہے، اس لیے اس قدر سخت گیری بھی جائز نہیں۔ ایک غزل شیخ صاحب کی ہے، جس کا مطلع ہے۔ دل لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا بجھتا ہے چراغ آج سر شام ہمارا وہی مرزائی صاحب، جن کے پاس شیخ صاحب کے روپے امانت رہے تھے، ایک امیر شرفا لکھنو میں سے تھے اور شیخ صاحب کے بہت دوست تھے۔ انہوں نے ایک عمدہ فیروزے پر آپ کا نام نامی کھدوا کر انگوٹھی بنوا کر دیا۔ اکثر پہنے رہتے تھے۔ کبھی اتار کر رکھ بھی دیتے تھے۔ وہ کسی نے چرا لی یا کھوئی گئی۔ اس پر فرمایا۔ ہم سا کوئی گم نام زمانے میں نہ ہو گا گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا اس عہد تک لکھنو بھی آج کا لکھنو نہ تھا۔ شیخ ابراہیم ذوق کا یہ مطلع جب وہاں پڑھا گیا۔ خبر کر جنگ نوفل کی تو مجنوں اہل ہاموں کو کبادہ تا صبا کھچوائے شاخ بید مجنوں کو سب نے اسے بے معنی کہا۔ شیخ صاحب نے جنگ نوفل کا واقعہ اور کبادہ کھینچنے کی اصطلاح بتائی۔ پھر سب نے تسلیم کیا، لیکن یہ امر نہ کچھ دلی والوں کے لیے موجب فخر ہے نہ لکھنو والوں کے لیے باعث رنجش، آخر دلی بھی ایک دن میں شاہجہان آباد نہیں ہو گئی تھی۔ میر تقی اور مرزا رفیع پیدا ہوتے ہی میر اور سودا نہیں ہو گئے۔ جب کلام کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تو اس قدر کہنا واجب ہے کہ اس عہد تک شعرائے لکھنو ان استادوں کے شاگرد تھے، جن کا دریائے کمال دلی کے سرچشمے سے نکلا تھا اور فصحائے لکھنو بھی ہر محاورے کے لیے دلی ہی کو فخر سمجھتے تھے، کیونکہ وہ اکثر انہی بزرگوں کے فرزند تھے۔ جنہیں زمانے کی گردش نے اڑا کر پھینک دیا تھا۔ پس شیخ صاحب اور خواجہ حیدر علی آتش کے کمال نے لکھنو کو دلی کی قید پابندی سے آزاد کر کے استقلال کی سندوی اور وہی مستند ہوئی۔ اب جو چاہیں سو کہیں، ہم نہیں روک سکتے۔ چنانچہ شیخ صاحب فرماتے ہیں۔ شہسواری کا جو اس چاند کے ٹکڑے کو ہے شوق چانچنی نام ہے سبدیز کی اندھیاری کا اے خط اس کے گورے گالوں پر یہ تو نے کیا کیا چاندنی راتیں یکایک ہو گئیں اندھیاریاں اللہ رے روشنی مرے سینے کے داغ کی اندھیاری رات میں نہیں حاجت چراغ کی نام سنتا ہوں جو میں گور کی اندھیاری کا دل دھڑکتا ہے جدائی کی شب تار نہ ہو اگرچہ دلی میں بچے سے بوڑھے تک اندھیری رات کہتے ہیں، مگر لکھنو والوں کو ٹوکنے کا منہ نہیں، کیونکہ جس خاک سے ایسے ایسے صاحب کمال اٹھیں، وہاں کی زبان خود سند ہے۔ بکاولی میں نسیم کہتے ہیں۔ گھوما ما نند نرد گھر گھر ، دلی والوں کی زبان سے گھومنا ممکن نہیں۔ اہل لکھنو، ملائی کو بالائی کہتے ہیں۔ پینے کا ہو تو تماکو، پان میں کھانے کا ہو تو تمباکو کہتے ہیں۔ دلی والے پینے کا ہو تو تمباکو، کھانے کا ہو تو زردہ کہتے ہیں۔ یوں تو شیخ صاحب کا ایک زمانہ معتقد ہوا اور سب نے ان کی شاگردی کو فخر سمجھا، مگر چند شاگرد بڑے بڑے دیوانوں کے مالک ہوئے۔ 1۔ خواجہ وزیر کہ آتش کے شاگرد تھے، پھر ناسخ کے شاگرد ہوئے اور اسی پر فخر کرتے کرتے مر گئے۔ جیسے نازک خیال تھے، ویسی ہی زبان پر قدرت رکھتے تھے۔ شیخ صاحب پھر ان کی بڑی خاطر کرتے اور اول درجے کی شفقت مبذول فرماتے تھے۔ 2۔ مرزا محمد رضا خاں برق بعض بعض غزلوں سے اور واجد علی شاہ بادشاہ کی مصاحبت سے مشہور عالم ہوئے۔ ان کا دیوان چھپا ہوا بکتا ہے۔ 3۔ والا جاہ میر علی اوسط رشک، جن کی طبیعت کی آمد ضخیم اور جسیم دیوانوں میں نہیں سماتی اور شاعری کی سرکار سے تاریخیں کہنے کا ٹھیکہ ملا۔ 4۔ شیخ امداد علی بھر ہر چند زمانے نے غریبی کی خاک سر اٹھانے نہیں دیا مگر طبیعت بڑھاپے میں جوانی کی اکڑ تکڑ دکھاتی رہی۔ آخر میں آ کر اقبال نے رفاقت کی۔ نواب صاحب رام پور کی سرکار میں آ کر چند سال آرام سے بسر ہوئے حقیقت میں وہی ایک شاگرد تھے جو اب استاد کے لیے باعث فخر تھے۔ خدا مغفرت کرے۔ 5۔ سید اسماعیل حسین منیر شکوہ آبادی کہن سال مشاق تھے۔ پہلے نواب باندہ کی سرکار میں تھے۔ 1857ء کے مفسدہ کے بعد چند روز بہت تکلیف اٹھائی۔ پھر نواب صاحب رام پور نے قدر دانی فرمائی چند سال عمر کے باقی تھے۔ اچھی طرح بسر کئے اور عالم آخرت کا سفر کیا۔ 6۔ آغا کلب حسین خاں نادر سب سے اخیر میں ہیں، مگر افراط شوق اور آمد مضامین اور کثرت تصانیف اور پابندی اصول میں سب سے اول ہیں۔ تمام عمر انہوں نے ڈپٹی کلکٹری کی اور حکومت کے شغلوں میں گرفتار رہے، مگر فکر شعر سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ جس ضلع میں گئے، مشاعرے کو اپنے ساتھ لیتے گئے۔ شعراء کے ساتھ خواہ سرکاری نوکریوں سے، خواہ اپنے پاس سے ہمیشہ سلوک کرتے رہے اور اسی عالم میں یہ بھی کہا۔ لوگ کہتے ہیں کہ فن شاعری منحوس ہے شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا ان کے کئی ضخیم دیوان، غزلوں اور قصیدہ اور سلاموں اور مرثیوں کے ہیں ۔ کئی کتابیں اور رسائل ہیں جن سے طالب زبان بہت کچھ فائدے حاصل کر سکتا ہے ایک کتاب فن زراعت میں لکھی۔ اس میں ہندوستان کے میووں اور ترکاریوں کی مفصل تحقیقات ہے بسبب دیرینہ سالی کے سرکار سے پنشن لے لی تھی۔ پھر بھی شاعری کا فرض اسی طرح ادا کیے جاتے تھے۔ خوش اعتقادی ان کی قابل رشک تھی۔ یعنی وصیت کی تھی کہ بعد وفات میرے ایک ہاتھ میں سلاموں اور مرثیوں کا دیوان دینا اور دوسرے ہاتھ میں قصائد کا دیوان رکھ دینا، جو بزرگان دین کی مدح میں کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اور ان کے بعض ہم عصروں نے زبان کے باب میں اکثر قیدیں واجب سمجھیں کہ دلی کے مستند لوگوں نے بھی ان میں سے بعض باتوں کی رعایت اختیار کی اور بعض میں اختلاف کرتے تھے اور عام لوگ خیال بھی نہ کرتے تھے، مگر اصل واضع ان قوانین کے میر علی اوسط رشک تھے، چنانچہ کچھ الفاظ نمونے کے طور پر لکھنے ضرور ہیں، مثلاً فرماتے تھے۔ یہاں وہاں بروزن جاں نہ ہو، بروزن جہاں ہو، لیکن تعجب یہ ہے کہ شیخ صاحب اور خواجہ صاحب کوئی اس کے پابند نہ تھے۔ پہ……اور……پر……پر کو وجوباً اختیار کیا رکھا = رکھا میں رکھا ایضاً تلک اور تک میں تک بٹھانا = پنھانا میں بیٹھانا-پہنانا - کبھو اور کبھی میں کبھی ایجاد اور کلام مذکر بعض مونث کہتے ہیں نمو یعنی بڑھنا مذکر ایضا طرز مونث بعض مذکر بولتے ہیں صلح ہو گئی صلح ہو گئے اس باب میں اس بارے میں، عذر سے پہلے دلی میں نہ بولتے تھے، اب سب بولنے لگے۔ آئے ہے، جائے ہے کی جگہ آتا ہے، جاتا ہے۔ اب دلی والے بھی یہی کہنے لگے۔ صورت ہے جیسے چودھویں کا چاند ہے۔ جانے چودہویں کا چاند ہے۔ فسانہ عجائب میں ہے۔ شعلہ، وعدہ وغیرہ کو دریا اور صحرا کا قافیہ نہیں باندھتے۔ غزلیات پونچھتا اشک اگر گوشہ داماں ہوتا چاک کرتا میں جنوں میں جو گریباں ہوتا مال ملتا جو فلک سے ضرر جاں ہوتا سر نہ ہوتا جو میسر مجھے ساماں ہوتا منہ کو دامن سے چھپا کر جو وہ رقصاں ہوتا شعلہ حسن چراغ تہ داماں ہوتا استرا منہ پہ جو پھرنے نہیں دیتا ہے بجا محو دیں دار سے کیونکر خط قرآں ہوتا اپنے ہونٹوں سے جو اک بار لگا لیتا وہ ہے یقیں ساغر مے چشمہ حیواں ہوتا نازک ایسا ہے وہ کافر وہیں ہوتا بدمست گزر اس کا جو کبھی زیر مغیلاں ہوتا سنگ چقماق بھی بنتا تو مرا ضبط یہ ہے نہ مری قبر کا پتھر شرر افشاں ہوتا ہوں وہ وحشی کہ اگر دشت میں پھرتا شب کو آگے مشعلچی وہی غول بیاباں ہوتا نکہت کا کل پیچاں سے جو دیتے تشبیہہ عطر مجموعے کا ہر جزو پریشاں ہوتا کی مکافات شب وصل خدا نے ورنہ کس لیے مجھ پر عذاب شب ہجراں ہوتا اپنی صورت کا وہ دیوانہ ہوتا تو کیوں پاؤں میں سلسلہ، گیسوئے پیچاں ہوتا ایک دم یار کو بوسوں سے نہ ملتی فرصت گر دہن دیدہ عالم سے نہ پنہاں ہوتا کس کی پریاں؟ شہ جنات کو بھی آٹھ پہر ہے یہ حسرت کہ سگ کوچہ جاناں ہوتا خون رلاتا وہیں ناسور بنا کر گردوں زخم بھی گر مرے تن پر کبھی خنداں ہوتا اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا کون ہے جو نہیں مرتا ہے ترے قامت پر کیوں نہ ہر سرو چمن قالب بے جاں ہوتا کیا قوی ہے یہ دلیل اس کی پری زادی کی ربط انسان سے کرتا جو وہ انساں ہوتا اے بتو! ہوتی اگر مہر و محبت تم میں کوئی کافر بھی نہ واللہ مسلماں ہوتا حسرت دل نہیں دیتا ہے نکلنے ناسخ ہاتھ شل ہوتے میسر جو گریباں ہوتا دم بلبل اسیر کا تن سے نکل گیا جھونکا نسیم کا جو ہیں سن سے نکل گیا لایا وہ ساتھ غیر کو میرے جنازے پر شعلہ سا ایک جیب کفن سے نکل گیا ساقی بغیر شب جو پیا آب آتشیں شعلہ وہ بن کے میرے دہن سے نکل گیا اب کی بہار میں یہ ہوا جوش اے جنوں سارا لہو ہمارے بدن سے نکل گیا اس رشک گل کے جاتے ہی بس آ گئی خزاں ہر گل بھی ساتھ بو کے چمن سے نکل گیا اہل زمیں نے کیا ستم نو کیا کوئی نالہ جو آسمان کہن سے نکل گیا سنسان مثل وادی غربت ہے لکھنو شاید کہ ناسخ آج وطن سے نکل گیا واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم پھینک کر ظرف وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم کیا مگس بیٹھا بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوئے برگ گلشن عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا سر کو دے دے مار کر توڑیں گے بت خانے کو ہم جب غزالوں کے نظر آ جاتے ہیں چشم سیاہ دشت میں کرتے ہیں یاد اپنے سیہ خانے کو ہم بوسہ خال زنخداں سے شفا ہو گی ہمیں کیا کریں گے اے طبیب اس تیرے بہدانے کو ہم باندھتے ہیں اپنے دل میں زلف جاناں کا خیال اس طرح زنجیر پہناتے ہیں دیوانے کو ہم پنجہ وحشت سے ہوتا ہے گریباں تار تار دیکھتے ہیں کاکل جاناں میں جب شانے کو ہم عقل کھودی تھی جو اے ناسخ جنون عشق نے آشنا سمجھا کیے اک عمر بیگانے کو ہم چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو صدمہ شیشے کو جو پہنچے تو صدمہ پیدا ہو کشتہ تیغ جدائی ہوں یقیں ہے مجھ کو عضو سے عضو قیامت کو جدا پیدا ہو ہم ہیں بیمار محبت یہ دعا مانگتے ہیں مثل اکسیر نہ دنیا میں دوا پیدا ہوا کہہ رہا ہے جرس قلب بآواز بلند گم ہو رہبر تو ابھی راہ خدا پیدا ہو کس کو پہنچا نہیں اے جان ترا فیض قدم سنگ پر کیوں نہ نشان کیف پا پیدا ہو مل گیا خاک میں پس پس کے حسینوں پر میں قبر پر بوئیں کوئی چیز حنا پیدا ہو اشک تھم جائیں جو فرقت میں تو آہیں نکلیں خشک ہو جائے جو پانی تو ہوا پیدا ہو یاں کچھ اسباب کے ہم بندے ہی محتاج نہیں نہ زباں ہو تو کہاں نام خدا پیدا ہو گل تجھے دیکھ کے گلشن میں کہیں عمر دراز شاخ کے بدلے وہیں دست دعا پیدا ہو بوسہ مانگا جو دہن کا تو وہ کیا کہنے لگے تو بھی مانند دہن اب کہیں نا پیدا ہو نہ سر زلف ملا بل بے درازی تیری رشتہ طول امل کا بھی سرا پیدا ہو کس طرح سچ ہے نہ خورشید کو رجعت ہو جائے تجھ سا آفاق میں جب ماہ لقا پیدا ہو ابھی خورشید جو چھپ جائے تو ذرات کہاں تو ہی پنہاں ہو تو پھر کون بھلا پیدا ہو کیا مبارک ہے مرا دشت جنوں اے ناسخ بیضہ بوم بھی ٹوٹے تو ہما پیدا ہو جو اس پری سے شب وصل میں رکاوٹ ہو مجھے بھی ایک جنازہ ہو یا چھپر کھٹ ہو محال خواب لحد سے ہے گرچہ بیداری میں چونک اٹھوں اگر اس کے قدم کی آہٹ ہو نہ میرے پاؤں ہوں زنجیر کے کبھی شاکی جو اس کے کاکل پیچاں کی ہاتھ میں لٹ ہو کبو درنگ ہے مسی کا تیرے ہونٹ ہیں لال ملیں جو دونوں تو پیدا نہ کیوں اداہٹ ہو مجال کیا کہ ترے گھر میں پاؤں میں رکھوں یہ آرزو ہے مرا سر ہو تیری چوکھٹ ہو ہجوم رکھتے ہیں جانباز یوں ترے آگے جواریوں کا دوالی کو جیسے جمگھٹ ہو لپٹ کے یار سے سوتا ہوں مانگتا ہوں دعا تمام عمر بسر یا رب ایک کروٹ ہو نسیم آہ کے جھوکے سے کھول دوں دم میں بھڑا ہوا ترے دروازے کا اگر پٹ ہو جلاؤ غیروں کو مجھ سے جو گرمیاں کر کے تمہارے کوچے میں تیار ایک مرگھٹ ہو نہ الگ چلوں میں یہی اپنے دل میں ٹھانی ہے تری طرف سے ہزار اے پری لگاوٹ ہو وہ منہ چھپاتے ہیں جب تک حجاب سے شب وصل عذار صبح سے شب کا نہ دور گھونگھٹ ہو تری بلائیں مری طرح وہ بھی لیتا ہے نہ کیونکہ آگ میں اسپند کی یہ چٹ پٹ ہو میں جاں بلب ہوں گلا کا ٹویا گلے سے لگو جو اس میں آپ کو منظور ہو سو جھٹ پٹ ہو کرے وہ ذکر خدا اے صنم بھلا کس وقت جسے کہ آٹھ پہر تیرے نام کی رٹ ہو جو دل کو دیتے ہو ناسخ تو کچھ سمجھ کر دو کہیں یہ مفت میں دیکھو نہ مال تلپٹ ہو خاک میں مل جائیے ایسا اکھاڑا چاہئے لڑکے کشتی دیو ہستی کو پچھاڑا چاہئے وہ سہی قد کر کے ورزش خوب زوروں پر چڑھا کہہ رہا ہے سرو کو جڑ سے اکھاڑا چاہئے کیوں نہ روئیں پھوٹ کر ہم قصر جاناں کے تلے دیدہ تر اپنے دریا میں کڑاڑا چاہئے اور تختوں کی ہماری قبر میں حاجت نہیں خانہ محبوب کا کوئی کواڑا چاہئے ہے شب مہتاب فرقت میں تقاضائے جنوں چادر محبوب کو بھی آج پھاڑا چاہئے انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہئے کر چکی ہے تیری رفتار ایک عالم کو خراب شہر خاموشاں کو بھی چل کر اجاڑا چاہئے منہ بنائے کیوں ہے قاتل پاس ہے تیغ نگاہ باغ میں ہنستے ہیں گل کو منہ بگاڑا چاہئے کوئی سیدھی بات صاحب کی نظر آتی نہیں آپ کی پوشاک کو کپڑا بھی آڑا چاہئے تنگ اس وحشت کدے میں ہوں میں اے جوش جنوں عرش کی سقف محدب کو لتاڑا چاہئے آنسوؤں سے ہجر میں برسات رکھیے سال بھر ہم کو گرمی چاہئے ہرگز نہ جاڑا چاہئے آج اس محبوب کے دل کو مسخر کیجئے عرش اعظم پریشاں نالہ کا گاڑا چاہئے مر گیا ہوں حسرت نظارہ ابرو میں میں عین کعبے میں مرے لاشہ کو گاڑا چاہئے محتسب کو ہو گیا آسیب جو توڑا ہے خم جوتیوں سے مے کشو جن آج جھاڑا چاہئے جلد رنگ اے دیدہ خونبار اب تار نگاہ ہے محرم اس پری پیکر کو ناڑا چاہئے لڑتے ہیں پریوں سے کشتی پہلوان عشق ہیں ہم کو ناسخ راجہ اندر کا اکھاڑا چاہئے ٭٭٭ میر مستحسن خلیق میر حسن کے صاحبزادے، حسن اخلاق اور اوصاف کی بزرگی میں بزرگوں کے فرزند تھے۔ متانت، سلامت روی اور مسکینی ان کی سیادت کے لیے محضر شہادت دیتے تھے۔ فیض آباد اور لکھنو میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ 16برس کی عمر سے مشق سخن شرو ع کی اور خلق حسن کی مناسبت سے خلیق تخلص اختیار کیا۔ ابتدا میں غزلیں بہت کہتے تھے اور والد بزرگوار سے اصلاح لیتے تھے۔ جب شیخ مصحفی لکھنو میں پہنچے تو میر حسن ان دنوں میں بدر منیر لکھ رہے تھے اور میر خلیق کی آمد کا یہ عالم کہ مارے غزلوں کے دم نہ لیتے تھے۔ شفیق باپ کو اپنے فکر فرصت نہ دیتے تھے، بیٹے کو ساتھ لے گئے، اپنی کم فرصتی کا حال بیان کیا اور اصلاح کے لیے شیخ موصوف کے سپرد کر دیا۔ ہونہار جوان کی جوان طبیعت نے رنگ نکالا تھا کہ قدر دانی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نیشاپوری خاندان میں پندرہ روپیہ مہینے کا نوکر رکھوا دیا۔ انہی دنوں میں مرزا تقی ترقی نے چاہا کہ فیض آباد میں شعر و سخن کا چرچا ہو۔ مشاعرہ قائم کیا اور خواجہ حیدر علی آتش کو لکھنو سے بلایا۔ تجویز یہ تھی کہ انہیں وہیں رکھیں پہلے ہی جلسے میں جو میر خلیق نے غزل پڑھی، اس کا مطلع تھا۔ رشک آئینہ ہے اس رشک قمر کا پہلو صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو آتش نے اپنی غزل پھاڑ ڈالی اور کہا کہ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے تو میری کیا ضرورت ہے۔ میر خلیق نازک خیالیوں میں ذہن بڑا لڑا رہے تھے کہ باپ کی موت نے شیشے پر پتھر مارا۔ عیال کا بوجھ پہاڑ ہو کر سر پر گرا، جس نے آمد کے چشمے خاکریز کر دئیے، مگر ہمت کی پیشانی پر ذرا بل نہ آیا۔ اکثر فیض آباد میں رہتے تھے لکھنو آتے تھے تو پیر بخارا میں ٹھہرا کرتے تھے۔ پر گوئی کا یہ حال تھا کہ مثلاً ایک لڑکا آیا، اس نے کہا۔ میر صاحب! میلا تو کل ہے، ہم کل جائیں گے۔ ابھی کہہ دیجئے اسی وقت غزل لکھ دی۔ اس نے کہا یاد بھی کرا دیجئے۔ میر صاحب اسے یاد کرا رہے ہیں۔ ان دنوں میں غزلیں بکا کرتی تھیں۔ میاں مصحفی تک اپنا کلام بیچتے تھے۔ یہ بھی غزلیں کہہ کر فروخت کرتے تھے۔ ایک دن ایک خریدار آیا اور اپنا تخلص ڈلوا کر شیخ ناسخ کے پاس پہنچا کہ اصلاح دیجئے۔ شیخ صاحب نے غزل پڑھ کر اس کی طرف دیکھا اور بگڑ کر کہا بے تیرا منہ ہے، جو یہ غزل کہے گا! ہم زبان پہچانتے ہیں، یہ وہی پیر بخارا والا ہے۔ میر خلیق صاحب دیوان تھے، مگر اسے رواج نہ دیا۔ نقد سخن اور سرمایہ مضامین جو بزرگوں سے ورثہ پہنچا تھا، اسے زاد آخرت میں صرف کیا اور ہمیشہ مرثیے کہتے رہے۔ اسی میں نام اور زمانے کا کام چلتا رہا۔ آپ ہی کہتے تھے اور آپ ہی مجلسوں میں پڑھتے تھے اور قدر دان آنکھوں سے لگا لگا کر لے جاتے تھے۔ سید انشاء دریائے لطافت میں جہاں شرفائے دہلی کے رسوم و رواج بیان کرتے ہیں، وہاں کہتے ہیں کہ مرثیہ خوانی کے پیشے کو لوگ کم نظر سے دیکھتے ہیں اور غور سے دیکھو تو اب بھی یہی حال ہے۔ مرثیہ گوئی کی یہ صورت رہی کہ سودا اور میر کے زمانے میں میاں سکندر، میاں گدا، میاں مسکین، افسردہ وغیرہ مرثیے کہتے تھے۔ تصنیفات مذکور کو دیکھو تو فقط تبرک ہیں، کیونکہ ان بزرگوں کو نظم مذکور سے فقط گریہ وبکا اور حصول ثواب مقصود تھا اور اس میں شک نہیں کہ وہ نیک نیت لوگ حسن تاثیر سے اپنے مقصد میں کامیاب تھے۔ شاعری اور صنائع انشاء پردازی سے کچھ غرض نہ تھی۔ میر خلیق اور اس عہد کے چند اشخاص تھے، جنہوں نے کدورت ہائے مذکورہ کو دھو کر مرثیوں کو ایسا چمکا دیا کہ جس نظر سے اساتذہ شعرا کے کلام دیکھتے جاتے تھے۔ اسی نظر سے لوگ انہیں بھی دیکھنے لگے اور پہلے مرثیے سوز میں پڑھے جاتے تھے، پھر تحت لفظ بھی پڑھنے لگے۔ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کے میدان میں جو ہوا بدلی، وہ میر خلیق کے زمانے سے بدلی۔ پہلے اکثر مرثیے چو مصرعے ہوتے تھے۔ ہر چار مصرعوں کے بعد قافیہ۔ وہ انداز موقوف ہوا۔ ایک سلام غزل کے انداز میں اور مرثیے کے لیے مسدس کا طریقہ آئین ہو گیا۔ وہ سوز اور تخت لفظ دونوں طرح سے پڑھا جاتا اور جو کچھ اول مستزاد کے اصول پر کہتے تھے۔ وہ نوحہ کہلاتا تھا۔ اسے سوز ہی میں پڑھتے تھے اور یہی طریقہ اب جاری ہے۔ میر موصوف اور ان کے بعض ہم عہد سلام یا مرثیے وغیرہ کہتے ہیں۔ ان میں مصائب اور ماجرائے شہادت ساتھ اس کے فضائل اور معجزات کی روایتیں اس سلاست اور سادگی اور صفائی کے ساتھ نظم کرتے تھے کہ واقعات کی صورت سامنے تصویر ہو جاتی تھی اور دل کا درد آنکھوں سے آنسو ہو کر ٹپک پڑتا تھا۔ اس زمانے میں میر ضمیر ایک مرثیہ گو اور مرثیہ خواں تھے کہ طبع شعر کے ساتھ عربی فارسی وغیرہ علوم رسمی میں استعداد کامل رکھتے تھے او ر نہایت متقی و پرہیز گار تھے۔ تعجب یہ ہے کہ ساتھ اس کے طبیعت میں شوخی اور ظرافت بھی اتنی رکھتے تھے، گویا سودا کی روح نے حلول کیا۔ انہوں نے بھی اپنی دنیا کو آخرت کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا، اور غزل وغیرہ سے دست بردارہو گئے تھے۔ لوگوں نے ان دونوں بزرگوں کو نقطہ مقابل کر کے تعریفیں شرو ع کر دیں۔ طبیعتیں ایک دوسرے کی چوٹ پر زور آزمائی کر کے نئے نئے ایجاد پیدا کرنے لگیں۔ اس وقت تک مرثیہ 30 سے 45 حد 50بند تک ہوتا تھا۔ میر ضمیر مرحوم نے ایک مرثیہ لکھا۔ کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے۔ اس میں شہزادہ علی اکبر کی شہادت کا بیان ہے۔ پہلے ایک تمہید سے مرثیے کا چہرہ باندھا، پھر سراپا لکھا، پھر میدان جنگ کا نقشہ دکھایا اور بیان شہادت پر خاتمہ کر دیا۔ چونکہ پہلا ایجاد تھا، اس لیے تعریف کی آوازیں دور دور تک پہنچیں۔ تمام شہر میں شہرہ ہو گیا اور اطراف سے طلب میں فرمائشیں آئیں۔ یہ ایجاد مرثیہ گوئی کے عالم میں انقلاب تھا کہ پہلی روش متروک ہو گئی۔ باوجودیکہ انہوں نے مقطع میں کہہ دیا تھا۔ دس میں کہوں سو میں کہوں یہ ورد ہے میرا اس طرز میں جو کہوے سو شاگرد ہیں میرا پھر بھی سب اس کی پیروی کرنے لگے، یہاں تک کہ پہلے امانت نے پھر اور شاعروں نے واسوخت میں سراپا کو داخل کیا۔ عہد مذکو رمیں چار مرثیہ گو نامی تھے، میر ضمیر، میر خلیق، میاں دلگیر، میاں فصیح۔ میاں دلگیر کی زبان میں لکنت تھی، اس لیے مرثیہ خوانی نہ کرتے تھے۔ تصنیف میں بھی انہوں نے مرثیت کے دائرے سے قدم نہیں بڑھایا۔ مرزا فصیح حج و زیارت کو گئے اور وہیں سکونت پذیر ہوئے۔ میر ضمیر اور میر خلیق کے لیے میدان خالی رہا کہ جولانیاں دکھائیں۔ دنیا کے تماشائی جنہیں تیز طبیعتوں کے لڑانے میں مزا آتا ہے، دونوں استادوں کو تعریفیں کر کے لڑاتے تھے اور دل بہلاتے تھے اور اس سے ان کے ذہن کو کمال کی ورزش اور اپنے دلوں کو چاشنی ذوق کی لذت دیتے تھے۔ اظہار کمال میں دونوں استادوں کی رفتار الگ الگ تھی، کیونکہ میر ضمیر استعداد علمی اور زور طبع کے بازوؤں سے بہت بلند پرواز کرتے تھے اور پورے اترتے تھے۔ میر خلیق مرثبت کے کوچے سے اتفاقاً ہی قدم آگے بڑھاتے تھے۔ وہ مضمون آفرینی کی ہوس کم کرتے تھے اور ہمیشہ محاورے اور لطف زبان کو خیالات درد انگیز کے ساتھ ترکیب دے کر مطلب حاصل کرتے تھے اور جوہر اس آئینے کا کافی اور خاندانی وصف تھا۔ ان کا کلام بہ نسبت سبحان اللہ، واہ واہ کے نالہ و آہ کا زیادہ طلب گار تھا۔ لڑنے والے ہر وقت اپنے کام میں مصروف تھے، مگر دونوں صاحب اخلاق اور سلامت روی کے قانون دان تھے۔ کبھی ایک جلسے میں جمع نہ ہوتے تھے۔ آخر ایک شوقین نیک نیت نے روپے کے زور اور حکمت عملی کی مدد سے قانون کو توڑا، وہ بھی فقط ایک دفعہ۔ صورت یہ کہ نواب شرف الدولہ مرحوم نے اپنے مکان پر مجلس قرار دے کر سب خاص و عام کو اطلاع دی اور مجلس سے ایک دن پہلے میر ضمیر مرحوم کے مکان پر گئے۔ گفتگوئے معمولی کے بعد پانچ سو روپے کا توڑا سامنے رکھ دیا اور کہا کہ کل مجلس ہے، مرثیہ آپ پڑھیے گا۔ بعد اس کے میر خلیق کے ہاں گئے، ان سے بھی وہی مضمون ادا کیا اور ایک کو دوسرے کے حال سے آگاہ نہ کیا۔ لکھنو شہر! روز معین پر ہزار در ہزار آدمی جمع ہوئے۔ ایک بجے کے بعد میر ضمیر منبر پر تشریف لے گئے اور مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔ ان کا پڑھنا سبحان اللہ مرثیہ نظم اور اس پر نثر کے حاشیے۔ کبھی کبھی رلاتے تھے اور کبھی تحسین و آفرین کا غل مچواتے تھے کہ میر خلیق بھی پہنچے اور حالت موجودہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور دل میں کہا کہ آج کی شرم بھی خدا کے ہاتھ ہے۔ میر ضمیر نے جب انہیں دیکھا تو زیادہ پھیلے اور مرثیے کو اتنا طول دیا کہ آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر تحسین بلکہ وقت میں گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ آفتاب یوں ہی سا جھلکتا رہ گیا۔ وہ ابھی منبر سے اترے ہی تھے کہ چوبداران کے پاس آیا اور کہا کہ نواب فرماتے ہیں آپ بھی حاضرین کو داخل حسنات فرمائیں۔ اس وقت ان کے طرف داروں کی بالکل صلاح نہ تھی، مگر یہ توکل بخدا کھڑے ہوئے اور منبر پر جا کر بیٹھے۔ چند ساعت توقف کیا۔ آنکھیں بند، خاموش بیٹھے رہے۔ ان کی گوری رنگت، جسم نحیف و ناتواں، نہیں معلوم ہوتا تھا کہ بدن میں لہو کی بوند ہے یا نہیں۔ جب انہوں نے رباعی پڑھی تو اہل مجلس کو پوری آواز بھی نہیں سنائی دی۔ چند مرثیے کے بند بھی اسی حالت میں گزر گئے۔ دفعتہ باکمال نے رنگ بدلا اور اس کے ساتھ ہی محفل کا بھی رنگ بدلا۔ آہوں کا دھواں ابر کی طرح چھا گیا اور نالہ و زاری نے آنسو برسانے شروع کیے۔ 15-50 بند پڑھے تھے کہ ایک کو دوسرے کا ہوش نہ رہا۔ 25یا30بند پڑھ کر اتر آئے۔ اہل مجلس اکثر ایسی حالت میں تھے کہ جب آنکھ اٹھا کر دیکھا تو منبر خالی تھا۔ نہ معلوم ہوا کہ میر خلیق صاحب کس وقت منبر سے اتر آئے۔ دونوں کے کمال پر صاد ہوا اور طرفین کے طرف دار سرخرو گھروں کو پھرے۔ روایت مندرجہ بالا میر مہدی حسن فراغ کی زبانی سنی تھی۔ لیکن میر علی اشک تخلص کہ میر علماد خوشنویس کی اولاد میں ہیں، خود ناسخ کے شاگرد اور صاحب دیوان ہیں۔ ان کے والد جنتی تخلص فقط مرثیہ کہتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد تھے۔ میر اشک اب بھی حیدر آباد میں بز مرہ منصب داران ملازم ہیں ان کی زبانی مولوی شریف حسین خاں صاحب نے بیان کیا کہ لکھنو میں ایک غریب خوش اعتقاد شخص بڑے شوق سے مجلس کیا کرتا تھا اور اسی رعایت سے ہر ایک نامی مرثیہ خواں اور لکھنو کے خاص و عام اس کے ہاں حاضر ہوتے تھے۔ یہ معرکہ اس کے مکان پر ہوا تھا اور میر ضمیر کے اشارے سے ہوا تھا۔ میر اشک فرماتے تھے کہ میر خلیق نے اپنے والد کے بعد چند روز بہت سختی سے زندگی بسر کی ۔ عیال فیض آباد میں تھے۔ آصف الدولہ لکھنو میں رہنے لگے۔ ان کے سبب سے تمام امرا یہیں رہنے لگے۔ میر موصوف لکھنو میں آتے تھے۔ سال بھر میں تین چار سو روپے حاصل کر کے لے جاتے تھے اور پرورش عیال میں صرف کرتے تھے۔ صورت حال یہ تھی کہ مرثیوں کا جزو ان بغل میں لیا اور لکھنو چلے گئے۔ یہاں ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت خالی پڑی رہتی تھی، اس میں آ کر اترتے تھے۔ ایک دفعہ وہ آئے۔ بستر رکھ کر آگ سلگائی تھی۔ آٹا گوندھ رہے تھے کہ شخص مذکور ہاتھ جوڑ کر سامنے آ کھڑا ہوا اور کہا کہ حضور! مجلس تیار ہے، میری خوش نصیبی سے آپ کا تشریف لانا ہوا ہے۔ چل کر مرثیہ پڑھ دیجئے۔ یہ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ دھو جز دان لے اس کے ساتھ ہو گئے۔ وہاں جا کر دیکھیں میر ضمیر منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہیں یہ واقعہ ہوا اور اسی دن سے میر خلیق نے مرثیہ خوانی میں شہرت پائی۔ میر خلیق کے کلام کا اندازہ اور خوبی محاورہ اور لطف زبان یہی سمجھ لو جو آج میر انیس کے مرثیوں میں دیکھتے ہو۔ فرق اتنا ہے کہ ان کے ہاں مرثیت اور صورت حال کا بیان درد انگیز تھا۔ ان کے مرثیوں میں تمہیدیں اور سامان اور سخن پردازی بہت بڑھی ہوئی ہے۔ ان کے ادائے کلام اور پڑھنے کی خوبی دیکھنے اور سننے کے قابل تھی۔ اعضا کی حرکت سے بالکل کام نہ لیتے تھے۔ فقط نشست کا انداز اور آنکھ کی گردش تھی، اسی میں سب کچھ ختم کر دیتے تھے۔ میر انیس مرحوم کو بھی میں پڑھتے ہوئے دیکھا۔ کہیں اتفاقاً ہی ہاتھ اٹھ جاتا تھا یا گردن کی ایک جنبش یا آنکھ کی گردش تھی کہ کام کر جاتی تھی، ورنہ کلام ہی سارے مطالب کے حق پورے پورے ادا کر دیتا تھا۔ میر خلیق نے اپنے بڑھاپے کے سبب سے آخیر عمر میں مرثیہ پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ شعرا شاگرد ان الٰہی ہیں۔ ان کی طبیعت میں غیرت اور جوش اوروں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میر انیس کی مرثیہ خوانی مشرق منبر سے طلوع ہونے لگی تھی۔ جب کوئی آ کر تعریف کرتا کہ آج فلاں مجلس میں کیا خوب پڑھے ہیں، یا فلاں نواب کے ہاں تمام مجلس کو لٹا دیا تو انہیں خوش نہ آتا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ اسی عالم ناتوانی میں منبر پر جا بیٹھے اور مرثیہ پڑھا۔ اس سے مطلب یہ تھا کہ اس کی گئی گزری حالت میں بھی ہمیں درماندہ نہ سمجھنا۔ میر خلیق صاحب نے پیرانہ سالی کی تکلیف اٹھا کر دنیا سے انتقال کیا۔ میں ان دنوں خرد سال تھا، مگر اچھی طرح یاد ہے۔ جب ان کا کلام دلی میں پہنچا۔ وہ سال اخیر کی تصنیف تھا۔ مجرائی طبع کند ہے، لطف بیاں گیا دنداں گئے کہ جوہر تیغ زباں گیا ایک دو شعر ضعف پیری کی شکایت میں او ربھی تھے اور مقطع تھا گزری بہار عمر، خلیق اب کہیں گے سب باغ جہاں سے بلبل ہندوستان گیا اخیر مر میں ضعف کے سبب سے مرثیہ نہ پڑھتے تھے، لیکن قدرتی شاعر کی زبان کب رہتی ہے؟ بی بی کے مرنے سے گھر کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ 3صاحبزادے تھے۔ انیس، مونس، انس، میر خلیق ہمیشہ دورے پر رہتے۔ 10-10,15-15 دن ہر ایک کے ہاں بسر کر دیتے تھے۔ کہیں جاتے آتے بھی نہ تھے، پلنگ پر بیٹھے رہتے تھے اور لکھے جاتے تھے۔ کوئی شگفتہ زمین خیال میں آئی، اس میں سلام کہنے لگے۔ دل لگ گیا تو پورا کیا، نہیں تو چند شعر کہے اور چھوڑ دئیے۔ کوئی تمہید سوجھی، مرثیے کا چہرہ باندھا۔ جتنا ہوا، اتنا ہوا۔ جو رہ گیا، رہ گیا۔ کوئی روایت نظم کرنی شروع کر دی۔ گھوڑے کا مضمون خیال میں آیا، وہی کہتے چلے گئے۔ طبیعت لڑ گئی۔ تلوار کی تعریف کرنے لگے۔ وغیرہ وغیرہ یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو کچھ جس کے گھر میں کہتے تھے، وہ اسی کے گھر میں چھوڑ کر چلے آتے تھے۔ یہ سرمایہ میر انیس کے پاس سب سے زیادہ رہا کہ ان کے گھر میں زیادہ رہتے تھے، کیونکہ ان کی بی بی کھانوں اور آرام و آسائش کے سامانوں سے اپنے ضعیف العمر بزرگ کو بہت اچھی طرح رکھتی تھیں۔ ان کی بلکہ ان کے گھرانے کی زبان محاورے کے لحاظ سے سب کے نزدیک سندی تھی۔ شیخ ناسخ کی منصفی اور حق پرستی پر رحمت و آفرین کے سہرے چڑھائیے، اپنے شاگردوں کو کہا کرتے تھے کہ بھئی زبان سیکھنی ہے، تو میر خلیق کے ہاں جایا کرو اور اس کے علاوہ بھی ان کے کمال کو فروغ دیتے رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تینوں بیٹے ہونہار ہیں۔ دیکھنا خوب ہوں گے۔ میر خلیق محاورے کے اس قدر پابند تھے کہ ان کے محضر کمال پر بجائے مہر کے بعض لوگوں نے کم علمی کا داغ لگایا انہوں نے شہزادہ علی اصغر کے حال میں اپنی جگہ لکھا کہ عالم بے آبی میں پیاس کی شدت سے غش آ گیا۔ آنکھ کھولی تو مادر مقدسہ نے ع لیلاف پڑھی اور اسے دودھ پلایا۔ حریف آٹھ پہر تاک میں تھے۔ کسی نے یہ مصرع ناسخ کے سامنے جا کر پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یوں کہا ہو گا۔ پڑھ پڑھ کے لا یلاف اسے دودھ پلایا میر انیس مرحوم فرماتے تھے کہ میرے والد میرے گھر تشریف رکھتے تھے، میں ایک مرثیے میں وہ روایت نظم کر رہا تھا کہ جناب امام حسین عام طفولیت میں سواری کے لیے ضد کر رہے تھے۔ جناب آنحضرت تشریف لائے اور فرط شفقت سے خود جھک گئے کہ آؤ سوار ہو جاؤ تاکہ پیارے نواسے کا دل آزردہ نہ ہو۔ اس موقع پر ٹیپ کا دوسرا مصرع کہہ لیا تھا اچھا سوار ہو جیے ہم اونٹ بنتے ہیں پہلے مصرع کے لیے الٹ پلٹ کرتا تھا، جیسا کہ دل چاہتا تھا، ویسا برجستہ نہ بیٹھتا تھا۔ والد نے مجھے غور میں غرق دیکھ کر پوچھا، کیا سوچ رہے ہو؟ میں نے مضمون بیان کیا۔ مصرعے خیال میں آئے تھے پڑھے۔ فرمایا، یہ مصرع لگا دو (ذرا زبان کی لطافت تو دیکھو) جب آپ روٹھتے ہیں تو مشکل سے منتے ہیں اچھا سوار ہو جیے ہم اونٹ بنتے ہیں افسوس کہ ان کی کوئی پوری غزل ہاتھ نہ آئی۔دو شعر یاد ہیں، وہی لکھ دیتا ہوں اشک جو چشم خوں فشاں سے گرا تھا ستارا کہ آسماں سے گرا ہنس دیا یار نے جو رات خلیق کھا کے ٹھوکر اس استاں سے گرا ٭٭٭ خواجہ حیدر علی آتش آتش تخلص، خواجہ علی نام، باپ دلی کے رہنے والے تھے، لکھنو میں جا کر سکونت اختیار کی۔ خواجہ زادوں کا خاندان تھا۔ جس میں مسند فقیری بھی قائم تھی اور سلسلہ پیری مریدی کا بھی تھا، مگر شاعری اختیار کی، اور خاندانی طریقے کو سلام کر کے اس میں سے فقط آزادی و بے پروائی کو رفاقت میں لے لیا۔ مصحفی کے شاگرد تھے اور حق یہ ہے کہ ان کی آتش بیانی نے استاد کے نام کو روشن کیا، بلکہ کلام کی گرمی اور چمک کی دمک نے استاد شاگرد کے کلام میں اندھیرے اجالے کا امتیاز دکھایا۔ خواجہ صاحب کی ابتدائی عمر تھی اور استعداد علمی تکمیل کو نہ پہنچی تھی کہ طبیعت مشاعروں میں کمال دکھانے لگی۔ اس وقت دوستوں کی تاکید سے درستی کتابیں دیکھیں۔ باوجود اس کے عربی میں کافیہ کو کافی سمجھ کر آگے پڑھنا فضول سمجھا۔ مشق سے کلام کو قوت دیتے رہے، یہاں تک کہ اپنے زمانے میں مسلم الثبوت استاد ہو گئے اور سینکڑوں شاگرد دامن تربیت میں پرورش پا کر استاد کہلائے۔ چھریرا بدن، کشیدہ قامت، سیدھے سادے، بھولے بھالے آدمی تھے۔ سپاہیانہ، رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے اور اس لیے کہ خاندان کا تمغہ بھی قائم رہے، کچھ رنگ فقیری کا بھی تھا۔ ساتھ اس کے بڑھاپے تک تلوا رباندھ کر سپاہیانہ بانکپن نباہے جاتے تھے۔ سر پر ایک زلف اور کبھی حیدری چٹیا کہ یہ بھی محمد شاہی بانکوں کا سکہ ہے۔ اسی میں ایک طرہ سبزی کا بھی لگائے رہتے تھے اور بے تکلفانہ رہتے تھے اور ایک بانکی ٹوپی بھووں پر دھرے جدھر چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ بالی خاں کی سرائے میں ایک پرانا سامکان تھا، وہاں سکونت تھی۔ اس محلے کے ایک طرف ان کے دل بہلانے کا جنگل تھا، بلکہ ویرانوں میں اور شہر کے باہر جنگلوں میں اکثر پھرتے رہتے تھے۔ اسی روپے مہینا بادشاہ لکھنو کے ہاں سے ملتا تھا، پندرہ روپے گھر میں دیتے تھے، باقی غربا اور اہل ضرورت کو کھلا پلا کر مہینے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیتے تھے۔ پھر توکل پر گزارا تھا، مگر شاگردوں یا امرائے شہر میں سے کوئی سلوک کرتا تھا تو اس سے انکار نہ تھا۔ باوجود اس کے ایک گھوڑا بھی ضرور بندھا رہتا تھا۔ اسی عالم میں کبھی آسودہ حال رہتے تھے، کبھی ایک آدھ فاقہ بھی گزر جاتا تھا۔ جب شاگردوں کو خبر ہوتی، ہر ایک کچھ نہ کچھ لے کر حاضر ہوتا اور کہتا کہ آپ ہم کو اپنا نہیں سمجھتے کہ کبھی اظہار حال نہیں فرماتے۔ جواب میں کہتے کہ تم لوگوں نے کھلا کھلا کر مارے نفس حریص کو فربہ کر دیا ہے۔ میر دوست علی خلیل کو یہ سعادت اکثر نصیب ہوتی تھی۔ فقیر محمد خاں گویا، خواجہ وزیر یعنی شیخ صاحب کے شاگرد کے شاگرد تھے۔ مگر25 روپے مہینہ دیتے تھے۔ سید محمد خاں رند کی طرف سے بھی معمول نذرانہ پہنچتا تھا۔ زمانے نے ان کی تصاویر مضمون کی قدر ہی نہیں بلکہ پرستش کی، مگر انہوں نے اس کی جاہ و حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جا کر غزلیں سنائیں۔ نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس پر کچھ چھپر سایہ کیے تھے، بوریا بچھا رہتا تھا۔ اسی پر ایک لنگ باندھے صبر و قناعت کے ساتھ بیٹھے رہے اور عمر چند روزہ کو اس طرح گزار دیا، جیسے کوئی بے نیاز و بے پرواہ فقیر تکیے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے۔ امیر آتا تو دھتکار دیتے تھے۔ وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے۔ یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بورئیے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے؟ یہ فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں؟ اور یہ حالت شیخ صاحب کی شان و شکوہ کے باکل خلاف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عالم میں مقبول خلائق ہوئے۔ علم والے شاعروں سے پہلو بہ پہلو رہے۔ امیر سے غریب تک اسی فقیرانہ تکیے میں آ کر سلام کر گئے۔ اے ہما پیش فقیری سلطنت کیا مال ہے بادشاہ آتے ہیں پابوس گدا کے واسطے 1263ء ہجری میں ایک دن بھلے چنگے بیٹھے تھے، یکایک ایسا موت کا جھوکا آیا کہ شعلے کی طرح بجھ کر رہ گئے۔ آتش کے گھر میں راکھ کے ڈھیر کے سوا اور کیا ہونا تھا۔ میر دوست علی خلیل نے تجہیز و تکفین کی اور رسوم ماتم بھی بہت اچھی طرح ادا کیں ۔ بی بی اور ایک لڑکا لڑکی خرد سال تھے۔ ان کی بھی سرپرستی وہی کرتے رہے میر علی اوسط رشک نے تاریخ لکھی۔ تمام عمر کی کمائی، جسے حیات جاودانی کا مول کہنا چاہئے، ایک دیوان غزلوں کا ہے، جو ان کے سامنے رائج ہو گیا تھا۔ دوسرا تتمہ ہے جو پیچھے مرتب ہوا۔ جو کلام ان کا ہے حقیقت میں محاورہ اردو کا دستور العمل ہے اور انشا پردازی ہند کا اعلیٰ نمونہ۔ شرفائے لکھنو کی بول چال کا انداز اس سے معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے شعر کہہ دیے ہیں۔ان کے کلام نے پسند خاص اور قبول عام کی سند حاصل کی اور نہ فقط اپنے شاگردوں میں، بلکہ بے غرض اہل انصاف کے نزدیک بھی مقبول اور قابل تعریف ہوا۔ دلیل اس کی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ بار بار چھپ جاتا ہے اور بک جاتا ہے۔ اہل سخن کے جلسوں میں پڑھا جاتا ہے اور عاشقانہ غزلیں موسیقی کی تاثیر کو چمکا کر محفلوں کو گرماتی ہیں۔ وہ شیخ امام بخش ناسخ کے ہمعصر تھے۔ مشاعروں میں اور گھر بیٹھے روز مقابلے رہتے تھے۔ دونوں کے معتقد انبوہ در انبوہ تھے۔ جلسوں کو معرکے اور معرکوں کو ہنگاموں بناتے تھے، مگر دونوں بزرگوں پر صد رحمت ہے کہ مرزا رفیع اور سید انشاء کی طرح دست و گریباں نہ ہوتے تھے، کبھی کبھی نوکا چوکی بھی ہو جاتی تھی کہ وہ قابل اعتبار نہیں۔ چنانچہ خواجہ صاحب نے جب شیخ صاحب کی غزلوں پر متواتر غزلیں لکھیں تو انہوں نے کہا۔ شیخ صاحب:ـ ایک جاہل کہہ رہا ہے میرے دیواں کا جواب بو مسیلم نے لکھا تھا جیسے قرآں کا جواب خواجہ صاحب: کیوں نہ دے ہر مومن اس ملحد کے دیواں کا جواب جس نے دیواں اپنا ٹھہرایا ہے قرآں کا جواب خواجہ صاحب کے کلام میں بول چال اور محاورے اور روز مرہ کا لطف بہت ہے جو کہ شیخ صاحب کے کلام میں اس درجے پر نہیں۔ شیخ صاحب کے معتقد اس معاملے کو ایک اور قالب میں ڈھال کر کہتے ہیں کہ ان کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں ہیں، کلام میں ریختہ کی پختگی اور ترکیب ہیں متانت اور اشعار میں عالی مضامین نہیں اور اس سے نتیجہ ان کی بے استعدادی کا نکالتے ہیں، مگر یہ ویسا ہی ظلم ہے، جیسا ان کے معتدان پر کرتے ہیں کہ شیخ صاحب کے شعروں کو اکثر بے معنی اور مہمل سمجھتے ہیں۔میں نے خود دیوان آتش کو دیکھا۔ کلام مضامین بلند سے خالی نہیں، ہاں طرز بیان صاف ہے۔ سیدھی سی بات کو پیچ نہیں دیتے۔ ترکیبوں میں استعارے اور تشبیہیں فارسیت کی بھی موجود ہیں، مگر قریب الفہم اور ساتھ ہی اس کے محاورے کے زیادہ پابند ہیں۔ یہ در حقیقت ایک وصف خدا داد ہے کہ رقابت اسے عیب کا لباس پہنا کر سامنے لاتی ہے۔ کلام کو رنگینی اور استعارہ و تشبیہ سے بلند کر دکھانا آسان ہے، مگر زبان اور روز مرہ کے محاورے میں صاف صاف مطلب اس طرح ادا کرنا جس سے سننے والے کے دل پر اثر ہو، یہ بات بہت مشکل ہے۔ شیخ سعدی کی گلستان کچھ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ نہ اس میں نازک خیالات ہیں، نہ کچھ عالی مضامین ہیں، نہ پیچیدہ تشبیہیں ہیں، نہ استعارہ در استعارہ کے فقرے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں۔ صاف صاف باتیں ہیں، اس پر آج تک اس کا جواب نہیں۔ مینا بازار اور پنج رقعہ کے انداز میں صد ہا کتابیں موجود ہیں۔ اس معاملے میں غور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو بزرگ خیال بندی اور نازک خیالی کے چمن میں ہوا کھاتے ہیں، اول ان کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ایسے نئے مضمون نکالیں جو اب تک کسی نے نہ باندھے ہوں، لیکن جب متقدمین کے اشعار سے کوئی بات بچی ہوئی نہیں دیکھتے تو ناچار انہی کے مضامین میں باریکیاں نکال کر موشگافیاں کرتے ہیں اور ایسی ایسی لطافتیں اور نزاکتیں نکالتے ہیں کہ غور سے خیال کریں تو نہایت لطف حاصل ہوتا ہے، پھولوں کو پھینک کر فقط رنگ بے گل سے کام لیتے ہیں۔ آئینے سے صفائی اتار لیتے ہیں، تصویر آئینہ میں سے حیرت نکال لیتے ہیں، اور آئینہ پھینک دیتے ہیں۔ نگاہ سرمگیں سے حرف بے آواز کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ فی الحقیقت ان مضامین سے کلاموں میں خیالی نزاکت اور لطافت سے تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بھی تحسین و آفرین کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کو الفاظ ایسے نہیں بہم پہنچتے کہ کہنے والا کہے اور سمجھنے والا صاف سمجھ جائے۔ اس لیے ایسے کلام پر اثر اور ناخن بر جگر نہیں ہوتے بڑا افسوس یہ ہے کہ اس انداز میں عمومی مطالب ادا نہیں ہو سکتے بے شک یہ بہت مشکل کام ہے، مگر اس کی مثال ایسی ہے، گویا چنے کی دال پر مصور نے ایک شکار گاہ کی تصویر کھینچ دی یا چاول پر خوشنویس نے قل ہو اللہ لکھ دیا۔ فائدہ دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ اسی واسطے جو فہمیدہ لوگ ہیں، وہ اداے مطلب اور طرز کلام میں صفائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات نکل آئی، ایسے اونچے نہ جائیں گے کہ بالکل غائب ہو جائیں اور سننے والے منہ دیکھتے رہ جائیں۔ البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترکیبوں کی پیچیدگی اور لفظوں کی باریکی و تاریکی میں جو ہر رات معنی کا بھرم ہوتا ہے اور اندر سے دیکھتے ہیں تو سیدھی بات ہوتی ہے۔ جسے ان کے حریف کوہ کندن اور کاہ بر آوردن کہتے ہیں۔ مگر انصاف یہ ہے کہ دونوں لطف سے خالی نہیں۔ گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے شیخ صاحب کے معتقد خواجہ صاحب کے بعض الفاظ پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ شعر پڑھا۔ دختر رزمری مونس ہے مری ہمدم ہے میں جہانگیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے لوگوں نے کہا، حضور! بیگم ترکی لفظ ہے، اہل زبان گاف پر پیش بولتے ہیں اور زبان فارسی کا قاعدہ بھی یہی چاہتا ہے۔ یہ اس وقت بھنگیائے ہوئے بیٹھے تھے۔ کہا کہ ہونہہ! ہم ترکی نہیں بولتے، ترکی بولیں گے تو بیگم کہیں گے۔ اسی طرح جب انہوں نے یہ مصرع کہا۔ اس خوان کی نمش کف مار سیاہ ہے، لوگوں نے کہا کہ قبلہ! یہ لفظ فارسی اور اصل میں نمشک ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب فارس میں جائیں گے تو ہم بھی نمشک کہیں گے۔ یہاں سب نمش کہتے ہیں۔ تو نمش ہی شعر میں باندھنا چاہئے۔ پیشگی دل کو جو دے لے وہ اسے تحصیلے ساری سرکاروں سے ہے عشق کی سرکار جدا حریفوں نے کہا کہ پیشگی ترکیب فارسی سے ہے، مگر فارسی والوں کے استعمال میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا محاورہ ہے۔ یہاں تک تو درست ہے، مگر بعض مواقع پر جو ان کے حریف کہتے ہیں تو ہمیں بھی لاجواب ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ دیوان میں ایک غزل ہے، صاف ہوا، معاف ہوا، خلاف ہوا، اس میں فرماتے ہیں۔ زہر پرہیز ہو گیا مجھ کو درد درماں سے المصناف ہوا اس ٹھوکر کھانے کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے تلفظ میں المضاعف جو المضائف بولا جاتا ہے، وہ اس کی اصلیت کے دھوکے میں رہے۔ خواجہ صاحب شاید حلوا کو حلوہ سمجھے، جو فرماتے ہیں۔ لعل شکر بار کا بوسہ میں کیونکر نہ لوں کوئی نہیں چھوڑتا حلوہ بے دود کو کفارہ کو بھی عوام بے تشدید بولتے ہیں، چنانچہ خواجہ صاحب نے بھی لکھ دیا۔ رنگ زرد و لب خشک و مژہ خون آلودہ کشتہ عشق ہیں ہم ہے یہ کفارہ اپنا لکھے ہیں سرگزشت دل کے مضموں یک قلم اس میں تماشا قتل گہ کا ہے مطلع میرے دیواں کا کشاکش دم کی مار آستیں کا کام کرتی ہے دل بے تاب کو پہلو میں اک گرگ بغل پایا مخالف کہتے ہیں کہ بغلی گھونسا اردو کا لفظ ہے، مار آستین فارسی کا محاورہ ہے۔ گرگ بغل کے لیے فارسی کی سند چاہئے، بے سند صحیح نہیں۔ چار ابرو میں تری حیراں ہیں سارے خوشنویس کس قلم کا قطعہ ہے یہ کاتب تقدیر کا یہاں چار آبرو بمعنی چہرہ لیا ہے، محاورے میں چار ابرو کا لفظ بغیر صفائی کے نہیں آتا، جس سے مراد ہے کہ آبرو اور ریش و بردت کو چٹ کر دیں۔ وہ بے نواؤں اور قلندروں کے لیے خاص ہے، نہ کہ معشوق کے لیے۔ سید انشاء نے کیا خوب کہا ہے۔ سید انشائ: اک بے نوا کے لڑکے پہ مرتے ہیں شیخ جی عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈ منڈ پر آتش: بہار گلستاں کی ہے آمد آمد خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے خوش پھرتے ہیں چاہئے لب بازی کی بھی حسرت نہ رہے اے آتش میرے اللہ نے بازیچہ تن مجھ کو دیا بھلا دیکھیں تو گو بازی میں سبقت کون کرتا ہے ادھر ہم بھی ہیں تو سن پر ادھر تم بھی ہو تو سن پر ابروے یار کا ہے سر میں جنہوں کے سودا رقص وہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر نہیں غم تیغ ابروے صنم سے قتل ہونے کا شہادت بھی بمنزل فتح کے ہے مرد غازی کو سودائی جان کر تری چشم سیاہ کا ڈھیلے لگاتے ہیں مجھے دیدے غزال کے اس صنعت مراعات النظیر کو تکلیف زائد سمجھتے ہیں۔ حریف بعض اور قسم کے جزئیات پر بھی اعتراض کرتے ہیں، مثلاً خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رخ خال مشکیں دل فرعوں ید بیضا ہے وہ رخ کانپتا ہے آہ سے میری رقیب رو سیاہ آشو ہا فرعوں کو موسیٰ کا عصا معلوم ہو چکھ کے یاقوتی لب کو تری بے خود ہوئے ہم نشہ معجوں میں مئے ہوش ربا کا نکلا حال مستقبل نجومی اس سے کرتے ہیں بیان زائچہ بھی نقل ہے پیشانی کا تحریر کا جو کہ قسمت میں لکھا ہے، جان ہووے گا وہی پھر عبث کا ہے طالع آزمائی کیجئے رات بھر آنکھوں کو اس امید پر رکھتا ہوں بند خواب میں شاید کہ دیکھوں طالع بیدار کو جرات: بند آنکھیں کیے رہتا ہوں پڑا خواب میں آئے نظر تا کوئی آتش: دولت عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے داغ دل، زخم جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا خواجہ صاحب: گوہر مخزن اسرار ہما نست کہ بود حقہ مہر بداں مہر و نشاست کہ بود آتش: آنکھیں نہیں ہیں چہرے پہ تیرے فقیر کے دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لیے میر صاحب: کاسہ چشم لے کے جوں نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی ان کے کلام میں بھی بعض الفاظ ایسے ہیں، جو دلی اور لکھنو کی زبان میں پورب، پچھم فرق دکھاتے ہیں۔د لی والے اندھیری کہتے ہیں اور انہوں نے اندھیاری باندھا ہے۔ کئی شعر ناسخ کے حال میں لکھے گئے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ بلند و پست عالم کا بیاں تحریر کرتا ہے قلم ہے شاعروں کا یا کوئی رہرو ہے بیہڑ کا بیہڑ کا لفظ دلی میں مستعمل نہیں۔ بل بے دلی کے شعرا باندھتے تھے، آج کل کے لوگ اس کو بھی متروک سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔ خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں متاخرین لکھنو اور دہلی کے فارسی جمع کو بے اضافت یا صفت کے نہیں لاتے، مگر یہ اکثر باندھتے ہیں، دیکھو اشعار مفصلہ ذیلـ: رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم چاہئے عالم ارواح سے صحبت کوئی دم چاہئے رہگزر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے شاید آ جائے کسی کے میرا مدفن زیر پا بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دور اے کووکاں ابھی تو ہے فصل بہار دور کیا نفاق انگیز، ہم جنساں ہوائے دہر ہے نیند اڑ جاتی ہے سننے سے نفیر خواب کو روز و شب رویا میں آتش رفتگاں کی یاد میں عمر بھر آنکھیں نہ بھولیں صورت احباب کو عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں اے خط اس کے گورے گالوں پہ یہ تو نے کیا کیا چاندنی راتیں یکایک ہوگئیں اندھیاریاں صفت کو اس طرح موصوف کی مطابقت کے لیے جمع کرنا اب خلاف فصاحت سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ میری تقی ترقی کے ہاں مشاعرے میں خواجہ صاحب نے غزل پڑھی کہ شکم کے مضمون میں موج بحر کا نور باندھا تھا۔ طالب علی خاں عیشی نے وہیں ٹوکا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میاں ابھی مدت بہت چاہئے، دیکھو تو سہی، جامی کیا کہتا ہے۔ دو پشانش بہم چوں قبہ نور حبا بے خاستہ از بحر کافور ساتھ ہی میر مشاعرہ سے کہا کہ اب کی دفعہ یہی طرح ہو یہ بزم وہ ہے کہ لاخیر کا مقام نہیں ہمارے گنجفہ میں بازی غلام نہیں وہ بے چارے بھی کسی کے متنبی تھے۔ اسی مطلع کو یار لوگوں نے شیخ ناسخ کے گلے باندھا۔ کتب تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ شعرا جو شاگردان الٰہی ہیں، مجازی استادوں کے ساتھ ان کی بگڑتی ہی چلی آئی ہے، چنانچہ ان کا بھی استاد سے بگاڑ ہوا۔ خدا جانے بنیاد کن کن جزئیات پر قائم ہوئی ہو گی۔ اور ان میں حق کس کی طرف تھا، آج اصل حقیقت دور کے بیٹھنے والوں پر کھلنی مشکل ہے۔ مگر جہاں سے کھلم کھلا بگڑی، اس کی حکایت یہ سنی گئی کہ شیخ مصحفی ابھی زندہ تھے اور خواجہ صاحب کی طبیعت بھی اپنی گرمیاں دکھانے لگی تھی، جو مشاعرے میں طرح ہوئی۔ دہن بگڑا، یاسمن بکرا۔ اس میں سب نے غزلیں لکھیں۔ خواجہ صاحب نے غزل لکھ کر شیخ مصحفی اپنے استاد کو سنائی اور جب یہ شعر سنائے۔ امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا لگے منہ بھی چرائے دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا نشے کے سرور میں آ کر کہا کہ استاد! اس ردیف قافیہ میں کوئی شعر نکالے تو کلیجا نکل پڑتا ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا، ہاں میاں سچ کہتے ہو، اب تو کسی سے ایسے شعر نہیں ہو سکتے۔ بعد اس کے شاگردوں میں سے ایک نو مشق لڑکے کی غزل کو توجہ سے بنایا اور اس میں انہی دو قافیوں کو اس طرح باندھا۔ لکھا ہے خاک کوئے یار سے اے دیدۂ گریباں قیامت میں کروں گا گر کوئی حرف کفن بگڑا نہ ہو محسوس جو شے کس طرح نقشے میں ٹھیک اترے شبیہ یار کھچوائی کمر بگڑی، دہن بگڑا اگرچہ ان شعروں میں اور ان شعروں میں جو نسبت ہے، وہ ان جواہرات کے پرکھنے والے ہی جانتے ہیں، لیکن مشاعرے میں بہت تعریف ہوئی۔ پھر چونکہ لڑکے کے منہ پر شعر کھلتے نہ تھے۔ اس لیے تاڑنے والے تاڑ گئے کہ استاد کی استادی ہے۔ خواجہ صاحب اسی وقت اٹھ کر شیخ مصحفی کے پاس جا بیٹھے اور غزل ہاتھ سے پھینک کر کہا کہ یہ آپ ہمارے کلیجے میں چھریاں مارتے ہیں۔ نہیں تو اس لونڈے کا کیا منہ تھا، جو ان قافیوں میں شعر نکالتا۔ خیر اس قسم کی باتیں استاد ساتھ بچوں کی شوخیاں او رلڑکپن کا ناز ہیں۔ جو کہ سننے والوں کو اچھے معلوم ہوتے ہیں اور طبیعتوں میں جوش ترقی پیدا کرتے ہیں، لیکن سعادت مند شاگرد کو استاد کے مرتبے اور اپنی حد کا اندازہ رکھنا واجب ہے تاکہ خاقانی اور ابو العلائی گنجوی کی طرح دونوں طرف سے کثیف اور غلیظ ہجوؤں تک نوبت نہ پہنچے۔ نہیں تو قیامت تک دونوں رسوائے عالم ہوتے رہیں گے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی شرافت و نجابت، جس نے انہیں اس آئین کا پابند رکھا اس معاملے میں قابل تعریف ہے۔ میر مہدی حسن فراغ سے ان کے نہایت گرم و پسندیدہ اشعار ایسے بھی سنے گئے، جو کلیات مروجہ میں نہیں ہیں۔ سبب یہ معلوم ہوا کہ ایک صاحب اس زمانے میں نہایت خوش مذاق اور صاحب فہم تھے، جو خود شاعر تھے اور ان کے ہاں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب بھی جاتے تھے اور مشاعرے میں غزل پڑھ کر وہیں دے آتے تھے۔ بعد انتقال کے جب شاگرد دیوان مرتب کرنے لگے تو بہت سی غزلیں انہیں میر مشاعرہ سے حاصل ہوئیں۔ خدا جانے عمداً یا ان کی بے اعتنائی سے بعض اشعار دیوان میں نہ آئے، لیکن چونکہ وہ شاگرد شیخ ناسخ کے تھے، اس لیے بدگمانی لوگوں کو گنہگار کرتی ہے۔ جب شیخ ناسخ کا انتقال ہوا تو خواجہ صاحب نے ان کی تاریخ کہی اور اس دن سے شعر کہنا چھوڑ دیا کہ کہنے کا لطف سننے او رسنانے کے ساتھ ہے۔جس شخص سے سنانے کا لطف تھا، جب وہ نہ رہا تو اب شعر کہنا بکواس ہے۔ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی آزادی اور کلام کے کمال نے ظاہر آرائی کے ذوق شوق سے بے پروا کر دیا تھا، مگر مزاج میں ظرافت ایسی تھی کہ ہر قسم کا خیال لطائف و ظراف ہی میں ادا ہوتا تھا۔ لطیفہ: ایک شاگرد اکثر بے روزگاری کی شکایت سے سفر کا ارادہ ظاہر کیاکرتے تھے اور خواجہ صاحب اپنی آزادہ مزاجی سے کہا کرتے تھے کہ میاں کہاں جاؤ گے؟ دو گھڑی مل بیٹھنے کو غنیمت سمجھو اور جو خدا دیتا ہے، اس پر صبر کرو۔ ایک دن وہ آئے اور کہا کہ حضرت رخصت کو آیا ہوں۔ فرمایا: خیر باشد، کہاں؟ انہوں نے کہا، کل بنارس کو روانہ ہوں گا۔ کچھ فرمائش ہو تو فرما دیجئے۔ آپ ہنس کر بولے اتنا کام کرنا کہ وہاں کے خدا کو ذرا ہمارا بھی سلام کہہ دینا۔ وہ حیران ہو کر بولے کہ حضرت! یہاں اور وہاں کا خدا کوئی جدا ہے؟ فرمایا کہ شاید یہاں کا خدا بخیل ہے، وہاں کا کچھ سخی ہو۔ انہوں نے کہا معاذ اللہ آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے؟ خواجہ صاحب نے کہا ، بھلا سنو تو سہی، جب خدا وہاں یہاں ایک ہے تو پھر ہمیں کیوں چھوڑتے ہو، جس سے وہاں جا کر مانگو گے، اسی طرح یہاں مانگو، وہاں دے گا تو یہاں بھی دے گا۔ اس بات نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ سفرکا ارادہ موقوف کیا اور خاطر جمعی سے بیٹھ گئے۔ خواجہ صاحب کی سیدھی سادی طبیعت اور بھولی بھالی باتوں کے ذکر میں میر انیس مرحوم نے فرمایا کہ ایک دن آپ کو نماز کا خیال آ گیا۔ کسی شاگرد سے کہا کہ بھئی ہمیں نماز سکھاؤ۔ وہ اتفاقاً فرقہ سنت جماعت سے تھا۔ اس نے ویسی ہی نماز سکھا دی اور یہ کہہ دیا کہ استاد! عبادات الٰہی جتنی پوشیدہ ہواتنی ہی اچھی ہوتی ہے۔ جب نماز کا وقت ہوتا یہ حجرے میں جاتے یا گھر کا دروازہ بند کر کے اسی طرح پڑھا کرتے۔ میر دوست علی خلیل ان کے شاگرد خاص اور جلوت و خلوت کے حاضر باش تھے۔ ایک دن انہوں نے بھی دیکھ لیا۔ بہت حیران ہوئے یہ نماز پڑھ چکے تو انہوں نے کہا کہ استاد! آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا شیعہ، ہیں! یہ کیا پوچھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نماز سنیوں کی! فرمایا! بھئی میں کیا جانوں، فلاں شخص سے میں نے کہا تھا، اس نے جو سکھا دی، سو پڑھتا ہوں۔ مجھے کیا خبر کہ ایک خدا کی دو دو نمازیں ہیں۔ اس دن سے شیعوں کی نماز پڑھنے لگے۔ جتنے شاگرد انہوں نے پائے کسی استاد کو نصیب نہیں ہوئے۔ ان میں سے سید محمد خاں رند، میر وزیر علی صبا، میر دوست علی خلیل، ہدایت علی خلیل، صاحب مرزا شناور، مرزا عنایت علی بسمل، نادر مرزا فیض آبادی نامور شاگرد تھے کہ رتبہ استادی رکھتے تھے۔ ٭٭٭ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا؟ زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز ر بکف قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا؟ اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا صیاد! اسیر دام رگ گل ہے عندلیب دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب ودانہ کیا طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا بے یار سازگار نہ ہو گا وہ گوش کو مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا صیاد گلعذار دکھاتا ہے سبز باغ بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا ترچھی نظر سے طائر دل ہو چکا شکار جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا بے تاب ہے کمال ہمارا دل حزیں مہماں سرائے جسم کا ہو گا روانہ کیا یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں سر کون سا ہے جس میں کہ سودا ترا نہیں ہوتی ہیں ترے نقش قدم کی زیارتیں خانہ ہے گنجفے کا ہر اک قصر شہر عشق گھر گھر میں بادشاہیاں گھر گھر وزارتیں دیدار یار برق تجلی سے کم نہیں بند آنکھیں ہوں گی، دیں گی دعائیں بصارتیں آنکھوں میں اپنی دولت بیدار ہیں وہ خواب ہوتی ہیں تیرے وصل کی جن میں بشارتیں کہتے ہیں مادر و پدر مہرباں کو بد کرتے ہیں وہ جو ارض و سما کی حقارتیں گویا زبان ہو تو کرے شکر آدمی سمجھے جو تو تو کرتے ہیں یہ گنگ اشارتیں زیر زمیں بھی یاد ہیں ہفت آسماں کے ظلم بھولا نہیں میں سنگ دلوں کی شرارتیں خضر و مسیح کاٹتے ہیں رشک سے گلا تو بھی تو کر شہیدوں کی اپنے زیارتیں عالم کو لوٹ کھایا ہے اک پیٹ کے لیے اس غار میں گئی ہیں ہزاروں ہی غارتیں باقی رہے گا نام ہمارا نشاں کے ساتھ اپنی بھی چند بیتیں ہیں اپنی عمارتیں اہل جہاں کا حال ہے کیا ہم سے؟ کیا کہیں بدگوئیاں ہیں پیچھے تو نہ پر اشارتیں نقش و نگار حسن بتاں کا نہ کھا فریب مطلب سے خالی جان لے تو یہ عبارتیں عاشق ہیں ہم کو مد نظر کوئے یار ہے کعبے کے حاجیوں کو مبارک زیارتیں ایسی خلاف ہم سے ہوئی ہے ہوائے دہر کافور کھائیے تو ہوں پیدا حرارتیں آتش یہ شش جہت ہے مگر کوچہ یار کا چاروں طرف سے ہوتی ہیں ہم پر اشارتیں باغبان انصاف پر بلبل سے آیا چاہیے پینجنی اس کی زر گل کو پنھایا چاہیے فرش گل بلبل کی نیت سے بچھایا چاہیے شمع پروانوں کی خاطر سے جلایا چاہیے پان بھی کھائو جمالی ہے جو مسی کی دھڑی شام تو دیکھی شفق کو بھی دکھایا چاہیے آئینے میں خط نورس کا نظارہ کیجیے آہوان چشم کو ریحاں چرایا چاہیے بوسہ اس لب کا ہے قوت بخش روح ناتواں ایسی یا قوتی میسر ہو تو کھایا چاہیے عشق میں حد ادب سے آگے رہتا ہے قدم شاخ گلبن پر سے بلبل کو اڑایا چاہیے دیکھیے کرتا ہے کیونکر یار سے گستاخیاں شوق کے بھی حوصلے کو بھی آزمایا چاہیے ہو گیا ہے ایک مدت سے دل نالاں خموش باغ میں چل کر اسے بلبل سنایا چاہیے فصل گل ہے چار دن ساقی تکلف ہے ضرور پر جواہر کے بط مے کو لگایا چاہیے خم میں جوش مے سے مجھ کو یہ صدا ہے آ رہی ظرف مستی ہو تو کیفیت مطلب پہ آیا چاہیے شیر سے خالی نہیں رہتا نیستاں زینہار بوریا سے فقر بچھا چھوڑ جایا چاہیے رنگ زرد و چشم تر سے کیجیے دعوائے عشق دو گواہ حال اس قضیے کے لایا چاہیے رام ہوتے ہی نہیں وحشی مزاجی ہے سو ہے ان سیہ چشموں کو چو پہر جگایا چاہیے دیکھ کر خلوت سرائے یار کہتے ہیں فقیر عود کی مانندیاں دھونی لگایا چاہیے خاطر آتش سے کہیے چند جز شعر اور بھی بے نشاں کا نام باقی چھوڑ جایا چاہیے فریب حسن سے گبرو مسلماں کاچلن بگڑا خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا قبائے گل کو پھاڑا جب مرا گل پیرہن بگڑا بن آئی کچھ نہ غنچے سے وہ غنچہ دہن بگڑا نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا تری تلوار کا منہ کچھ نہ کچھ اے تیغ زن بگڑا تکلف کیا جو کھوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو جو غیرت تھی تو پھر خسرو سے ہوتا کوہکن بگڑا کسی چشم سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ تو مجھ سے مست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا اثر اکسیر کا یمن قدم سے تیرے پایا ہے جذامی خاک رہ مل کر بناتے ہیں بدن بگڑا تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں چلا جب جانور انساں کی چال کا اس کا چلن بگڑا زوال حسن کھلواتا ہے میوے کی قسم مجھ سے لگایا داغ خط نے آن کر سیب دقن بگڑا رخ سادہ نہیں اس شوخ کا نقش عداوت ہے نظر آتے ہی آپس میں ہر اہل انجمن بگڑا وہ بد خو طفل اشک اے چشم تر ہیں دیکھنا اک دن گھروندے کی طرح سے گنبد چرخ کہن بگڑا صف مژگاں کی جنبش کا کیا اقبال نے کشتہ شہیدوں کے ہوئے سالار جب ہم سے تمن بگڑا کسی کی جب کوئی تقلید کرتاہے میں روتا ہوں ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا کمال دوستی اندیشہ دشمن نہیں رکھتا کسی بھونرے سے کس دن کوئی ماریا سمن بگڑا رہی نفرت ہمیشہ داغ عریانی کو پھاہے سے ہوا جب قطع جامے پر ہمارے پیرہن بگڑا رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے ہوا مسدود رستہ جادہ راہ وطن بگڑا کہا بلبل نے جب توڑا گل سوسن کو گلچیں نے الٰہی خیر کیجو نیل رخسار چمن بگڑا ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجو وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک نہ اک موکم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا ہندی سے ہوا ناسور نو پیدا اگر زخم کہن بگڑا توانگر تھا بنی تھی جب تک اس محبوب عالم سے میں مفلس ہو گیا جس روز سے وہ سیم تن بگڑا لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا بناوٹ کیف مے سے کھل گئی اس شوخ کی آتش لگا کر منہ سے پیمانے کوہ و پیماں شکن بگڑا ٭٭٭ شاہ نصیر نصیر تخلص نصیر الدین نام تھا۔ مگر چونکہ رنگت کے سیاہ فام تھے۔ ا س لیے گھرانے کے لوگ میاں کلو کہتے تھے۔ وطن ان کا خاص دہلی تھا۔ والد شاہ غریب نام ایک بزرگ تھے کہ اپنی غربت طبع اور خاکساری مزاج کی بدوتل اسم باسمی غریب تھے۔ نیک نیتی کا ثمرہ تھا کہ غریبی کو امیری میں بسر کرتے تھے۔ شہر کے رئیس اور امیر سب ادب کرتے تھے‘ مگر وہ گوشہ عافیت میں بیٹھے اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہتے تھے۔ ان کے بزرگوں کے نام چند گائوں دربار شاہی سے آل تمغا مریدوں کو ہدایت کرتے رہتے تھے۔ ان کے بزرگوں کے نام چند گائوں دربار شاہی سے آل تمغا معاف تھے ۔ ملا اجر ا اور ہر سانہ علاقہ سونی پت میں سلیم پور علاقہ غازی آباد میں وزیر آباد شہر دہلی کے پاس جہاں مخدوم شاہ عالم کی درگاہ ہے اور اب تک ۷ جمادی الاولیٰ کو وہاں عرس ہوتا ہے۔ اب فقط مولر بن ایک گائوں بلب گڑھ کے علاقے میں سید عبداللہ شاہ ان کے سجادہ نشین کے نام پر واگزاشت ہے۔ غرض کہ شاہ غریب مرحوم نے اس اکلوتے بیٹے کو بڑی ناز و نعمت سے پالا تھا اور استاد و ادیب نوکر رکھ کر تعلیم کیا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ کتابی علم میں کماحقہ کامیاب نہ ہوئے البتہ نتیجہ اس کا اہل علم سے بہتر حاصل تھا کیونکہ جو وہ کہتے تھے اسے عالم کان لگا کر سنتے تھے جو لکھتے تھے اس پر فاضل سر دھنتے تھے ۔ ان کی طبعیت شعر سے ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ بڑے بڑے ذی استعداد او رمشتاق شاعر مشاعروں میںمنہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ سلسلہ تلمذ دووا سطوں سے اور درد تک پہنچتا ہے۔ کیونکہ یہ شاہ محمدی مائل کے شابرد تھے اور وہ قیام الدین قائم کے ۔ قائم نے سودا سے بھی اصلاح لی اور خواجہ میر درد سے بھی انہوںنے انگریزی عملداری میں زندگی بسر کی‘ لیکن شاہ عالم کے زمانے میں شاعری جوہر دکھانے لگی تھی اورخاندانی عظمت نے ذاتی کمال کی سفارش سے دربار تک پہنچا دیا تھا۔ دربار کے اہل کمال کو عیدوں اور جشنوں کے علاوہ ہر فضل اورموسم پر سامان مناسب انعام ہوتے تھے۔ شعرا کو دیر ہوتی تو تقاضے سے بھی وصول کرلیتے تھے۔ ایک قطعہ بطور حسن طلب جاڑے کے موسم میں انہوںنے کہہ کر دیا تھا اور صلہ حاصل کیا تھا۔ اس کے دو شعر مجھے یاد ہیں۔ بچائے گا تو ہی اے میرے اللہ کہ جاڑے سے پڑا بیڈھب پالا پناہ آفتااب اب مجھ کو بس ہے کہ وہ مجھ کو اڑھا دے گا دو شالا اس میں لطف یہ ہے کہ آفتاب شاہ عالم بادشاہ کا تخلص تھا۔ا سیاحی کی دولت میں سے جو سرمایہ انہیں حاصل ہوا وہ بھی شاعری کی برکت سے تھا۔ جس کی مسافت جنوب میں حیدر آباد تک اور مشرق میں لکھنو تک پہنچی۔ اگرچہ دربار کے علاوہ تمام شہر میں بھی ان کی قدراور عزت ہوتی تھی۔ مگر جن لوگوں کی عادتیں ایسے درباروں میں بگڑی ہوتی ہیں ان کے دل تعلیم یافتہ حکومتوں میں نہیں لگتے‘ اسی واسطے جب انگریزی عمل داری ہوئی تو انہیں دکن کا سفر کرنا پڑا۔ دکن میں دیوان چند و لال کا دور تھا۔ اگرچہ کمال کی قدر دانی اور سخاوت ان کی عام تھی مگر دلی والوں پر نظر پرورش خاص رکھتے تھے۔ اور بہت مروت سے پیش آتے تھے۔ بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ شعر و سخن کا مذاق رکھتے تھے۔ غرض وہاں شاہ صاحب کے جواہرات نے خاطر خواہ قیمت پائی لیکن دلی کا چٹخارہ بھی ایسا نہیں کہ انسان بھول جائے ا س لیے انعام و اکرام سے مالا مال ہو کر پھر دلی آئے اور تین دفعہ پھر گئے۔ دکن میں ان کے لیے فقط دولت کے فرشتے نے ضیافت نہ کی۔ بلکہ حسن شاعری کی زہرہ آسمان سے اتری اور شمس دلی کے عہد کا پرتو پھر دلوں پر ڈالا۔ شعر گوئی کے شوق جو برسوں کے بجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے تھے دل دل میں روشن ہو گئے اور دماغوں کی محنتیں اس رپ تیل ٹپکانے لگیں۔ اب بھی کوئی دلی سے دکن جائے تو شاہ صاحب کے شاگردوں کے نام اتنے سنے گا کہ دلی کی کثرت تلامذہ کو بھول جائے گا۔ شاہ صاحب دو دفعہ لکھنو بھی گئے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ آج دہلی یا لکھنو میں کوئی اتنی بات کا بتاانے والا نہ رہا کہ کس کس سنہ میں کہاں کہاں گئے تھے یا یہ کہ کس کس مشاعرے میں اور کس کے مقابلے میں کون کون سی غزل ہوئی تھی۔ اس میں شک نہیںکہ پہلی دفعہ جب گئے تھے تو سید انشاء اور مصحفی اور جرات وغیرہ سب موجود تھے۔ اور بعض غزلی جو ان معرکوں سے منسوب ہیںوہ مصحفی کے دیوان میں بھی موجود ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لکھنومیں بزرگان اخلاق اور امراائے رتبہ شناس موجود تھے۔ وہ جوہر کو پہچانتے تھے اور صاحب جوہر کا حق مانتے تھے۔ جو جاتا تھا عزت پاتا تھا اور شکر گزار آتا۔ لیکن دوسری دفعہ جو گئے تو رنگ پلٹا ہوا تھا۔ شیخ ناسخ کے زمانے نے عہد قدیم کو نسخ کر دیا تھا۔ اورخواجہ آتش کے کمال نے دماغوں کو گرمایا ہوا تھا۔ جوانوں کی طبیعتیں زورپر تھیں۔ نئی نئی شوخیاں انداز دکھاتی تھیں۔ انوکھی تراشیں پرانے سادہ ب کر مسکراتی تھیں۔ چنانچہ جس حریف کا نشان منزلوں کے فاصلے پر دکھائی دیتا تھا جب پاس آیا تو سب گردنیں ابھا ر بھار کر دیکھنے لگے۔ یہ زبردست شاعر کہن سال مشاق‘ جس کا بڑھاپا یا جوانی کے زوروںکو چٹکیوں میں اڑاتاتھا۔ جس دن وہاں پہنچا تو مشاعرے میں دو تین روز باقی تھے۔ ہر استاد نے ایک ایک دو دو مصرعے طرح کے بھیجے۔ ادھر انہیں درد گردہ عارض ہوا مگر وہ درد کے ٹھیرتے ہی اٹھ بیٹھے اور آٹھ غزلیں تیار کر کے مشاعرے میں پہنچے۔ پھر اور مشکل مشکل طرحیں مشاعرے کے شاعروں نے بھیجیں اورہ بھی بے تکلف غزلیں لے کر پہنچے مگر وہاں کے صاحب کمال خود نہ آئے۔ جب دو تین جلسے اور اس طرح گزرے تو ایک شخص نے سر مشاعرہ مصرع طر ح دیا۔ وہ مصرع شیخ صاحب کا تھا۔ اس وقت شاہ صاحب سے ضبط نہ ہو سکا۔ مصرع تو لے لیا مگر اتنا کہا کہ ان سے کہنا چکس پر گلدام لڑانے کی صحیح نہیں ہے ۔ جن سے کوئی زمانہ اورکوئی جگہ خالی نہیں اپنی یاوہ گوئی سے اہل لکھنو کی عالی ہمتی اور مہمان نوازی کو داغ لگایا۔ چنانچہ ایک معرکے کے مشاعرے میں شاہ صاحب نے آٹھ غزلیںفرمائش کی کہہ کر پڑھی تھیں۔ ایک غزل اپنی طرح کی کہی ہوئی بھی پڑھی جس کی ردیف اور قافیہ غسل کی مکھی اورمحل کی مکھی تھا۔ اس پر بعض اشخاص نے طنز کی۔ کسی شعر پر کہا کہ سبحان اللہ کیا خوب مکھی بیٹھی ہے۔ کسی نے کہا حضور! یہ مکھی تو نہ بیٹھی۔ ایک شخص نے یہ بھی کہا قبلہ! غزل تو خوب ہے مگر ردیف دے جی متلانے لگا ہے۔ شاہ صاحب نے اسی وقت کہا انہیں چاشنی سخن کا مذاق ہے تو وہ لطف ہی اٹھاتے ہیں۔ ہاں جنہیں صحرائے حسد کا زو ر ہے ان کا جی متلائے گا۔ ان جلسوں میں استاد مسلم الثبوت نے علم استادی بے لاگ بلند کر دیا تھا مگر بعض لغزشوں نے قباحت کی جن سے کوئی بشر خالی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ ایک جگہ تظلم کے بجائے ظلم باندھ دیا تھا۔ اسی پر سر مشاعری گرفت ہوئی اور غضب ی ہوا کہ کہ انہوں ن سند میں یہ شعر محتشم کاشی کا پڑھا: آل نبی چو دست تظلم بر آورند ارکان عرش را بہ تزلزل در آورند ایسی بھول چوک سے کوئی استاد خالی نہیں اوراتنی بات ان کے کمال میں کچھ رخنہ بھی نہیں ڈال سکتی۔ چنانچہ زور کلام نے وہیں بیسیوں اشخاص ان کے شاگرد کر لیے ۔ منشی کرامت علی اظہر کہ اول اول لکھنو کی تمام کتب مطبوعہ پر انہیں کی تاریخیں ہوتی تھیں ہمیشہ شاہ صاحب کی شاگردی کا دم بھرتے تھے۔ شاہ صاحب چوتھی دفعہ دکن گئے مگر اس دفعہ ایسے گئے کہ پھر نہ آئے۔ استاد مرحوم کہ شاہ صاحب کی استادی کو ہمیشہ زبان سے یاد کرتے تھے اکثر افسوس سے کہا کرتے تھے کہ چوتھی دفعہ ادھر کا قصد تھ جو سر راہ مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے کہا کہ اب آپ کا سن ایسے دور دراز سفر کے قابل نہیں ۔ فرمایا میاں ابراہیم! وہ بہشت ہے بہشت میں جاتا ہوں چلو تم بھی چلو۔ استاد مرحوم عالم تاسف میں اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان کا ہی مطلع ان کے حسب حال ہوا۔ بیاباں مرگ ہے مجنون خاک آلودہ تن کس کا سہے ہے سوزن خار مغیلاں توکفن کس کا آخر حیدر آباد میں جہان فانی سے رحلت اور قاضی مخدوم موسیٰ کی خانقاہ میں دفن ہوئء شاگرد نے چراغ گل کے الفاظ سے ۱۲۵۴ھ سنہ تاریخ نکالا۔ دیوان اپنا مرتب نہیں کیا۔ جو غزلیں کہتے تھے ایک جگہ رکھتے تھے۔ جب بہت سی جمع ہو جاتیں تو تکیے کی طرح ایک تھیلے میں بھرتے تھے گھر میں دے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ احتیاط سے رکھ چھوڑو۔ مفرق غزلیں ایک دو مختصر جلدوںمیں تھیں کہ وہ اور بہت سا سرمایہ دکن ہی میں رہا۔ یہاں ان کی اولاد میں مزانے کی گردش نے کسی کو سر نہ اٹھانے دیا۔ جو کل کلام کو تہذیب اور ترتیب کرتا۔ شاگردوں کے پاس بہت سی متفرق غزلیں ہیں مگر کسی نے سب کو جمع نہیں کیا۔ ان کے دیوان کی ہر شخص کو تلاش ہے چنانچہ دہلی میں میر حسن تسکین ایک طباع اور نازک خیال شاعرتھے ان کے بیٹھے سید عبدالرحمن بھی صاحب ذوق اور سخن فہم شخص تھے۔ انہوںنے بڑی محنت سے ایک مجموعہ ایسا جمع کیاا کہ غالباً اس سے زیادہ ایک جگہ شاہ صاحب کا کلام جمع نہ ہو گا۔ نواب صاحب رام پور نے کہ نایت قدر دان سخن ہیں ایک رقم معقول دے کر وہ نسخہ منگا لیا غزلیں اکثر جگہ بکثرت پائی جاتی ہیں مگر قصیدے نہیں ملتے کہ وہ بھی بہت تھے۔ حق یہ ہے کہ غزل کا انداز بھی قصیدے ک زور دکھاتا ہے۔ کلام کو اچھی طرح دیکھاگیا۔ زبان شکوہ الفاظ چستی ترکیب میں سودا کی زبان تھی اور گرمی و لذت اس میں خداداد تھی۔ انہیں اپنی تشبیہوں اور استعاروں کا دعویٰ تھا اوریہ دعویٰ بجا تھا۔ نئی نئی زمینیں نہایت برجستہ اور پسندیدہ نکالتے تھے مگر ایسی سنگلاخ ہوتی تھیں کہ جن میں بڑے بڑے شہسوار قدم نہ مارسکتے تھے ۔ تشبیہ اور استعادی کا نتیجہ نکاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ تشبیہہ یا استعارہ شاعرانہ نہیں پھبتی ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کلام سریع الفہم کیونکر ہوتا ہم ایسی سنگلاخ زمینوںمیں گرم گرم شعر کیونکر سنتے پھر وہ ہزاروں شاعروں میں خاص و عام کے منہ سے واہ واہ کیونکر لیتے ؟ بعض الفاظ اٹک واہ چھڑے تسپر وغیرہ جو کہ سید انشاء اور جرات تک باقی تھے وہ انہوںنے ترک کیے مگر آئے ہے اور جائے ہیں وغیرہ افعال انہوںنے بھی استعمال کیے۔ علم کے دعوے دار اشاعر ان کے کلام کی دھوم دھام کو ہمیشہ کن انکھیوں سے دیکھتے تھے اور آپس میں کانا پھوسیاں بھی کرتے تھے۔ پھر بھی ان کے زور کلام کو دبا نہ سکتے تھے۔ وجہ ا س کی یہ ہے کہ زور طبع ان کا کسی کے بس کا نہ تھا۔ جس سنگلاخ زمینوں میں گرمی کلام سے وہ مشاعرے کو تڑپا دیتے تھے اوروں کو غزل پوری کرنی مشکل ہوتی تھی۔ اکثر بزرگ پرانے پرانے مشتاق کو علوم تحصیلی میں ماہر کامل تھے مثل حکیم ثناء اللہ خاں فراق‘ حکیم قدرت اللہ خاں شاگرد خواجہ میردرد‘ میاں شکیبا شاگرد مرزا عظیم بیگ اور شیخ ولی اللہ محب شاگرد سودا حافظ عبدالرحمن خاں احسان وغیرہ موجود تھے۔ سب ان کے دعویٰ سنتے تھے اور بعض موقع پر اپنی بزرگی سے ان کی طنزوں کو برداشت کرتے تھے مگر خاموش نہ کر سکتے تھے۔ حکیم قدرت اللہ خاں سے ایک خاص معاملہ درمیان میںآیا ۔ کہ ایک دفعہ مشاعرے میں طرح ہوئی۔ یا رشتاب اور تلوار شتاب‘ شاہ نصیر نے جو غزل کہہ کر پڑھی تو اس میں قطعہ تھا کہ: رخ انور کا ترے وصف لکھا جب ہم نے انوری نے دیا دیوان الٹ اے یار شتاب پھر پڑھا ہم نے جو مضمون بیاض گردن سن اسے ہو گیا چپ قاسم انوار شتاب حکیم صاحب مرحوم خاص و عام میں واجب تعظیم تھے۔ اس کے علاوہ فضیلت علمی کے ساتھ فن شعر کے مشتاق تھے اور فقط موزونی طبع اور زور کلما کو خاطر میں نہ لاتے تھے چونکہ خود قاسم تخلص کرتے تھے ۔ اس لیے قاسم انوار کالفظ ناگوار ہوا۔ چنانچہ دوسرے مشاعر ے کی غزل میں قطعہ لکھا: واسطے انساں کے انسانیت اول شرط ہے میر ہو یا میرزا ہو خاں ہو یا نواب ہو آدمی تو کیا خدا کو بھی نہ ہم سجدہ کریں گر نہ خم تعظیم کو پہلے سر محراب ہو شاہ صاحب کی بدیہہ گوئی اور طبع حاضر نے خاص و عام سے تصدیق و تسلیم کی سند لی تھی اور وہ ایک اصلی جوش تھا جو کسی طور فرو ہوتا معلوم نہ ہوتاتھا۔ شعر کہنے سے کبھی تھکتے نہ تھے اور کلام کی چستی میں سستی نہ آتی تھی۔ اکثر مشاعروں میں اوروں کے غزل پڑھتے پڑھتے اشعار برجستہ موزون کر کے غزل میں داخل کر لیتے تھے۔ طبع موزوں گویا ایک درخت تھا کہ جب اس کی ٹہنی ہلائو فوراً پھل جھڑنے لگیںَ وہ نہایت جلد اصلاح دیتے تھے اور برجستہ اصلاح دیتے تھے۔ طبیعت میں تیری بھی غضب تھی۔ عین مشاعرے میں کسی کا شعر سنتے اور وہیں بول اٹھتے کہ یوں کہو۔ کہنے والا سنکے منہ دیکھتا رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ پرانے پرانے مشاق جھپکتے رہتے تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی سب سے الگ تھا اور نہایت مطبوع طبع تھا۔ ان کے پڑھنے سے زور کلا دو چند بلکہ دہ چند ہو جاتاتھا کیونکہ زبان نے بھی زور طبع سے زور اور دل کے جوش سے اثر حاصل کیا تھا ان کی آواز میں بڑھاپے تک بھی جوانی کی کڑک تھی ۔ جب مشاعرے میں غزل پڑھتے تو ساری محفل پر چھا جاتے تھے۔ اور اپنا کلام انہیں بے اختیار کر دیتا تھا۔ ایک مشاعرے میں غزل پڑھی ۔ اس میں جب قطع مذکور ذیل پر پہنچے تو شعر پڑھتے تھے اور مارے خوشی کے کھڑے ہوئے جاتے تھے۔ یہ مجنوں ہے نہیں آہو ہے لیلیٰ پہن کر پوستین نکلا ہے گھر سے جنہیں تو سینگ سمجھے ہے یہ ہیں خار لگے ہیں پائوں میں نکلے ہیںسر سے ان کا مذہب سنت و جماعت تھا مگر اس میں کچھ تشدد نہ تھا۔ کئی ترجیع بند اورمناقب جناب امیر کی شان میں موجود ہیںَ ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ انہوںنے کہا ہے وہ زور طبع دکھانے کو یا تحیسن و آفرین کے طرے زیب دستار کرنے کو نہیں بلکہ دلی محبت اوراصلی اعتقاد سے کہا ہے۔ ان کی خوش اعتقادی کایہ حال تھا کہ گلی کوچے میں راہ چلتے ہوئے اگر کسی طاق پر تین لڑی کا سہرا یا کوئی موکھا لپا ہوا س میں پانچ پھول پڑے دیکھتے تو جوتیوں کے اوپر یا برہنہ پا کھڑے ہو جاتے اور دونوں ہاتھ باندھ کر فاتحہ پڑھتے بعض شاگرد(کہ ہمیشہ چار پانچ ساتھ ہی رہتے تھے) ان سے پوچھتے کہ استاد! کس کی درگارہے؟ فرماتے کہ خدا جانے کس بزر کا گزر ہے۔ وہ کہتا کہ حضرت! آپ نے بے تحقیق فاتحہ کیوں پڑ ھ دی؟ فرماتے کہ بھائی آخر کسی نے پھول چڑھائے اور سہرا باندھا تو یونہی باندھ دیا۔ کچھ سمجھ کر ہی باندھا ہو گا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض دفعہ کسی شاگرد کو معلوم تھاا کہ اسی نے کہا استاد! میں جانتا ہوں یہ سامنے حلال خور کاگھر ہے اور اس نے اپنے لال بیگ کا طاق بنا رھا ہے۔ اس وقت خود ہنس دیتے تھے اور کہتے تھ کہ خیر میں نے کلام خدا پڑھا ہے اس کی برکت ہوئی تو نہیں جا سکتی جہاں ٹھکانا ہے وہاں پہنچے گی۔ میرا ثواب کہیں گیا نہیں۔ شاہ صاحب نہایت نفیس طبع اور لطیف مزاج تھے۔ خوش پوشاک خو ش لباس رہتے تھے اور اس میں ہمیشہ ایک وضع کے پابند تھے۔ جو کہ دہلی کے قدیم خاندانوں کا قانون ہے ان کی وضع ایسی تھی کہ ہر شخص کی نظروں میں عظمت اور ادب پیدا کرتی تھی۔ وہ اگرچہ رنگت کے گورے نہ تھے مگر نور معنی سر سے پائوں تک چھایا ہوا تھا۔ بدن چھریرا اور بند قامت تھے۔ جس قدر ریش مبارک مختصر اور وجاہت ظاہری کم تھی‘ اس سے ہزار درجہ زیادہ خلعت کمال نے شان و شوکت بڑھائی تھی۔ بعض معرکوں یا بعض شعر وں میں وہ اس بات پر اشارہ کرتے تھے تو ہزار حسن قربان ہوتے تھے۔ بعض لطائف میں اس کا لطف حاصل ہو گا۔ شاہ صاحب باوجودیکہ اس قدر صاحب کمال اور محفلوں میں اعزاز واکرام کے صدر نشین تھے اس پر نہایت مزاج اور یار باش تھے۔ بوڑھوں میں بوڑھے اور بچوں میں بچے بن جاتے تھے۔ ہرایک میلے میں جا کر تلاش مضامین کرتے تھے اور فکر سخن سے جو دل کملاجاتا تھا اسے تروتازہ اور شاداب کرتے تھے۔ لطیفہ استاد مرحوم فرماتے تھے ایک دفعہ بھولو شاہ کی بسنت میں شاہ صاحب آئے۔ چند شاگرد ساتھ تھے۔ انہیں لے کر تیس ہزاری باغ کی دیوار پر بیٹھے اور تماشا دیکھنے لگے۔ کسی رنڈی نے بہت سا روپیہ لگا کر نہایت زرق برق کے ساتھ ایک کار چوبی رتھ بنوائی تھی۔ شہر میں جا بجا اس کا چرچا ہو رہا تھا۔ رنڈی رتھ پر بیٹھی چھم چھم کرتی سامنے سے نکلی۔ ایک شاگرد نے کہا استاد اس پر کوئی شعر ہواسی وقت فرمایا: اس کی رتھ کا کلس طلائی دیکھ شب کہا ماہ سے یہ پرویں نے بہر پرواز یہ نکالی ہے چونچ بیضے سے مرغ زریں نے لطیفہ ایک ایسے ہی موقع پر کوئی رنڈی سامنے آ نکلی۔ اس کے سر پر اودی رضائی تھی اور وسمے کی چمک دمک عجیب لطف دکھاتی تھی۔ ایک شاگرد نے پھر فرمائش کی انہوںنے کہا: اودی رسمے کی نہیں تیری رضائی سر پر مہ جبیں رات ہے تاروں بھری چھائی سر پر اگرچہ شاہ صاحب کے لیے اقبال نے فارغ البالی کا میدان وسیع کر رکھاتھا۔ مگر ان کی عادات تھی کہ ہر ایک شاگرد سے کچھ نہ کچھ فرمائش ضرور کر دیتے تھے مثلاً غزل کو اصلاح دینے لگے قلمدان سے قلم اٹھاتے اور کہتے میاں کشمیر کے قلمدان کیا کیا خوب آیاکرتے تھے۔ خدا جانے کیا ہوگیا اب تو آتے ہی نہیں۔ بھلا کوئی نظر چڑھے تو لانا۔ اسی طرح کسی ایک سے چاقو کی فرمائش کبھی کوئی آسودہ حال شاگرد ہوتا اور آاپ کپڑے پہننے لگتے تو کہتے کہ ڈھاکے کی ململ جو پہلے آتی تھی وہ اب دکھائی ہی نہیں دیتی۔ صاحب! ہمیں تو یہ انگریزی ململ نہیں بھاتی۔ میاں کوئی تھان نظر چڑھے تو دیکھنا۔ بعض دوستوں نے تعجباً پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا کہ روز واہیات بکواسیں کاغذ پر لکھتے ہیں اور آ کر میری چھاتی پر سوار ہو جاتے ہیںَ اس فرمائش کا اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ روز کے آنے واے چوتھے دن غزل لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس کام کو انسان کچھ خرچ کر کے سیکھت اہے اس کی قدر بھی ہوتی ہے اور شوق بھی پکا ہوتا ہے اور جو کچھ لکھتاہے جانکاہی سے لکھتا ہے اور اس کا تو ادھر وہ فائدہ ہوا میرا یہ فائدہ ہوا لے آیا تو چیز آ گئی نہ لایا تو میرا پیچھا چھوٹا جب کوئی واقعہ قابل یادگار شہرت پاتا تو اس پر بھی شاہ صاحب کچھ نہ کچھ ضرور کہا کرتے تھے۔ ۔ چنانچہ مولوی اسماعل صاحب نے جب جہاد میں شکست کھائی اور دلی میں خبر آئی۔ تو انہوںنے اس موقع پر ایک طولانی قصیدہ کہا تین شعر اس میں سے اس وقت یاد ہیں: کلام اللہ کی صورت ہوا دل ان کا سیپارہ نہ یاد آئی حدیث ان کو نہ کوئی نص قرآنی ہرن کی طرح میدان دغا میں چوکڑی بھولے اگرچہ تھے دم شملہ سے وہ شیر نیستانی مولوی صاحب کے طرفداری مجاہدوں کا دلی میں لشکر تھا بہت سے بہادروں نے آ کر شاہ صاحب کا گھر گھیر لیا۔ مرزا خانی کوتوال شہر تھے وہ سنتے ہی دوڑے اور آ کر بچایا۔ شاہ صاحب نے اشعار مذکور کو قصیدہ کر دیا اور کوتوال صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا ۔ ایک شعر اس کا بھی خیال میں ہے۔ نصیر الدین بے چارہ تو رستہ طوس کا لیتا نہ ہوتے شحنہ دہلی اگر یاں میرزا خالی لطیفہ ایک دفعہ کئی بادشاہی گائوں سرکش ہو گئے۔ شام نظام الدین کہ شاہی مشہور تھے اور دربار میں مختار تھے فوج لے کر گئے اور ناکام پھرے۔ ا ن کی نوکری میں بادشاہی نوکروں نے تکلیف پائی تھی ۔ اس پر بھی شاہ نصیر نے ایک نظم لکھی جس کا مطلع یہ تھا۔ کیا پوچھتے ہو یارو بیٹھے تھے زہر کھائے شکر خدا کا بارے پھر شاہ صاحب آئے لطیفہ دلی میں ایک منشی ہندو تھے نجیا نام رنڈی پر مسلمان ہو گئے شاہ صاحب نے فرمایا: جس طرف تو نے ایک ایک اشارہ نہ جیا نجیا آہ تری چشم کا مارا نہ جیا لطیفہ عیسیٰ خان اور موسیٰ خان دو بھائی دلی میں تھے۔ مال و دولت کی بابت دونوں میں جھگڑا ہو ا ۔ عیسیٰ خاں ناکام ہو گئے۔ موسیٰ خاں نے کچھ عداوت کے زور سے کچھ حکمت عملی سے سارا مال مار لیا۔ شاہ صاحب نے بطور ظرافت چند شعر کا قطعہ کہا۔ ایک مصرع یاد ہے اور وہی قطعے کی جا ن ہے۔ ہوئی آٖاق یں شہرت کہ عیسیٰ خاں کا گھر موسا۔ لطف یہ کہ دونوں بھائی شاعر تھے ۔ ایک کا تخلص آفاق اور دوسرے کا شہرت تھا۔ ان میں سے کسی بے مغزے نے کچھ واہیات بکا تھا۔ شاہ صاحب کے بزرگوں کی خوبیاں بیاں کر کے خود ان سے شکایت کی تھی۔ اور چونکہ روشن پورہ میں رہتے تھے اس کا اشارہ کر کے کہا تھا: بعد ان سب کے شاہ صاحب نے خوب روشن پوری کیا روشن مرزا مغل بیگ نے خدمت وزارت میں نوکر ان شاہی کا ناخوش کیا۔ اس موقع پر ہرایک شخص نے اپنے اپنے حوصلے کے بموجب دل کا بخار نکالا۔ ایک صاحب نے تاریخ کہی: ہنس کے ہاتف نے کہا اس کو کہ واہ کیا ہی انٹی میں وزارت آ گئی شاہ صاحب نے بھی ایک قطعہ کہا اور اس کے دو شعر یاد ہیں: تانے بانے پر نہ کر دنیا کے ہرگز اعتبار غور کر چشم حقیقت سے کہ سر پر کوچ ہے توڑ کر تو اس طرس سے اس طرف کو جوڑ لے تو تو من ہے وگرنہ مومنوں کی پوچ ہے شاہ نصیر مرحوم اور شیخ ابراہیم ذوق سے بھی معرکے ہوئے ہیں دیکھو ان کے حال میں۔ لطیفہ دکن کی سرکار میں دستور تھا کہ دن رات برابر کاروبار جاری رہتے تھے۔ مختلف کاموں کے وقت مقرر تھے۔ جس صیغے کا دربار ہو چکا اس کے متعلق لوگ رخصت ہوئے دوسرے صیغے کے آن حاضر ہوئے۔ اسی میں صاحب دربار نے اٹھ کر ذرا آرام لے لیا۔ ضروریات سے فارغ ہو کر پھر آن بیٹھے۔ چنانچہ مشاعرے اور مناظڑے کا دربار رات کے پچھلے پہر ہوتاتھا۔ ایک موقع پر کہ نہایت دھوم دھام کا جلس تھا تام باکمال اہ دکن اور اکثر اہل ایران موجود تھے۔ سب کی طبیعتوں نے اپنے اپنے جوہر دکھائے۔ خصوصاً چند شعرائے ایران نے ایسے ایسے قصائد سنائے کہ لب و دہن پر حرف آفرین نہ چھوڑا۔ شاہ نصیر کی حسن رسائی او ر اخلاق کے دربار کے چھوٹے بڑے سب تسخیر کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ شمع قریب پہنچی تو ایک خواص نے کہ سونے کا عصا ہاتھ میں۔ ہزار بارہ سو کا دوشالہ کندے پر ڈالے کھڑا تھا کان میں جھک کر کہا کہ آج غزل نہ پڑھیں تو بہتر ہے۔ آپ وہیں بگڑ کر بولے کہ کیوں ! اس نے کہا کہ ہوا تیز ہو گئی(یعنی کلام کا سرسبز ہونا مشکل ہے) یہ خفگی سے ٹھوڈی پر ہاتھ پھیر کر بولے کہ ایسا تو میں خوبصورت بھی نہیں کہ کئی صورت دیکھنے نوکر رکھے گا۔ یہ نہیں تو پھر میں ہوں کس کام کا؟ اس قیل و قال میں شمع بھی سامنے آ گئی۔ پھر جو غزل سنائی تو سب کو الٹا دیا۔ لطیفہ قطع نظر اس کے کہ شعرکے باب میں طبع حاضر رکھتے تھے۔ حاضر جوابی میں برق تھے۔ چنانچہ ایک دن سلطان جی کی سترہویں میں گئے اور بادلی میں جا کر ایک طاق پر بیٹھ گئے۔ حقہ پی رہے تھے ۔ کہ اتفاقاً ایک نواب صاحب آ نکلے۔ شاہ صاحب سے صاحب سلامت ہوئی۔ وہیں بہت سی ارباب نشاط بھی حاضر تھیں اور ناچ ہو رہا تھا۔ اس عالم زرق برق پر اشارہ کر کے نواب صاحب نے فرمایا کہ استاد آج آپ بھی بالائے طاق ہیں۔ بولے جی ہاں جفت ہونے کو بیٹھا ہوں آئیے تشریف لائیے۔ لطیفہ ایک دن دکن کو چلے۔ نواب جھجھر مدت سے بلاتے تھے۔ اب چونکہ مقام مذکور سر راہ تھا اور گرمی کی شدت سے پڑتی تھی۔ برابر سفر بھی مشکل تھا۔ اس لیے وہاں گئے اورکئی دن مقام کیا۔ جب چلنے لگے تو رخصت کی ملاقات کو گئے۔ نواب صاحب نے کہا کہ گرمی کے دن ہیں‘ دکن کا سفر دراز کا ہے۔ خدا خیر و عافیت سے لائے‘ مگر وعدہ فرمائیے کہ اب جھجھر میں کب آئیے گا۔ ہنس کر بولے کہ جھجھر کی چاہ تو وہی گرمی میں۔ شاہ صاحب کا اک مشہور شعر ہے: چرائی چادر مہتاب شب مے کش نے جیجوں پر کٹورا صبح دوڑانے لگا خورشید گردوں پر نواب سعادت یار خاں رنگین مجالس رنگیں میں فرماتے ہیں کہ ایک جلسے میں اس شعر کی بڑی تعریف ہو رہی تھی۔ میں نے اس میں اصلاحدی کہ چرائی چادر مہتاب شب بادل نے جیجوں پر ہو و اچھا ہے۔ سبب یہ کہ جب بادل چاند پر آتا ہے تو چادر مہتاب نہیں رہتی گویا چوری جاتی ہے۔ یہاں چو ر تو زمین پر ہے اور مضمون عالم بالا پر قصہ زمین برسر زمین ہوتا ہے عالم بالا کے لیے چور بھی آسمانی ہی چاہیے۔ کسی شخص نے شاہ صاحب سے بھی جا کر کہا۔ وہ بہت خفا ہوئے اور کہا کہ نواب زادہ ہونا اور بات ہے اور شاعری اور بات ہے۔ خاں صاحب یہ خبر سن کر شاہ صاحب کے پاس گئے اورمعذرت کی۔ مگر میرے نزدیک شاہ صاحب نے کچھ نامناسب نہیں کہا۔ چاند آسمان پر ہوتاہے۔ چاندنی زمین پر ہوتی ہے اور چاندنی کا لطف مے کش اڑاتا ہے بادل کیا اڑائے گا اور مے کش نہ ہو گا تو غزلیت کے رتبے سے گر جائے گا۔ لطیفہ دیہات جاگیر کے تعلق سے ایک دفعہ تحصیل دار سونی پت کے پاس ملاقات کو گئے اور چھ رنگترے دلی سے بطور سوغات ساتھ لے گئے۔ تحصیلدار نے کہا کہ جناب شاہ صاحب! رنگتروں کی تکلیف کیا ضرور تھی کہ آ پ کی طرف سے بڑا تحفہ آپ کا کلام ہے۔ ان رنگتروں کی حسن تشبیہہ میں کوئی شعر ارشاد فرمائیے۔ اسی وقت رباعی کہی اور سنائی۔ اے نیر برج آسمان اقبال ان رنگتروں پر غور کیجیے گا خیال یہ نذر حقیر ہو قبول خاطر پردے میں شفق کے ہیں گرہ بند ہلال غزلیں زیب تن گرچہ ہے گل پیرہن سرخ ترا لیکن انجام یہ ہو گا کفن سرخ ترا مجھ کو کہتا ہے وہ نکلا ہے شفق میں یہ ہلال یا نمودار ہے زخم کہن سرخ ترا دسترس پائوں تک اس شوخ کے تجھ کو ہے یہاں کیونکہ رتبہ نہ ہوا اے گلبدن سرخ ترا شیشہ بادہ گل رنگ ٹپک دے ساقی جامہ سبز میں دیکھے جو تن سرخ ترا آستیں سے یہ لگا کہنے وہ تلوار کو پونچھ بن گیا موج یم خوں شکن سرخ ترا رشک نیلم ہی نہیں رنگ مسی کی یہ نمود لب بھی ہے غیرت لعل یمن سرخ ترا سچ بتا سو مجھے فار خدنگ قاتل لہو کس کس کا پیے گا دہن سرخ ترا خاک باہم ہو شرارت سے ہم آغوش نصیر صاف ہے شعلہ آتش بدن سرخ ترا خال پشت لب شیریں ہے غسل کی مکھی روح فرہاد لپٹ بن کے جبل کی مکھی سنگ و خشت در و دیوار افتادہ کو دیکھ ہاتھ ملتی ہے پتھورا کے محل کی مکھی بن گیا ہوں میں خیال کمر یار میں مور نہ ترے زور کی طاقت ہے نہ بل کی مکھی تیرہ بختان ال کا کبھی دیکھا نہ فروغ شب کو جگنو کی طرح اڑ کے نہ جھلکی مکھی بیٹھنے سے ترے ہم سمجھے لب یار کو قند بات مشکل تھی مگر تو نے یہ حل کی مکھی ان کو کیا کم تو ک سے جوبن جاتے ہیں قاب بریانی پہ ہر اہل دول کی مکھی ہو گیا ہے یہ تری چشم کا بیمار نحیف نہ اڑا سکتا ہے منہ کی نہ بغل کی مکھی ریس پروانہ جانسوز کی کرتی تو ہے پر نگہ شمع میں ہو جائے ہلکی مکھی صنعت لعبت چین دیکھ دلا جا کر تو دیکھنی گر تجھے منظور ہے کل کی مکھی دل رہا قہر فسوں ساز میں بنگالہ کے آدمی کو وہ بناتے ہیں عمل کی مکھی سخن اپنا جو شکر ریز معانی ہے نصیر ہے ردیف اس لیے شعر و غزل کی مکھی سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں نکل کے دیکھو ٹک اپنے گھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہ شعلہ رو ہے سوار تو سن اور اس کا تو سن عرق فشاں ہے عجب ہے اک سیر دوپہر سے فلک پر فجلی زمیں پہ باراں ہنسے ہے کوٹھے پہ یوسف اپنا میں زیر دیوار رو رہا ہوں عزیزو دیکھو مری نظر سے فلک پر بجلی زمیں پہ باراں پتنگ کیونکر نہ ہووے حیراں کہ شمع سب کو دکھا رہی ہے بچشم گریاں و تاج زر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں نہا کے افشاں چنو جبیں پر نچوڑ و زلفوں کو بعد اس کے دکھائو عاشق کو اس ہر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں کہاں ہے جو شعلہ شاخ پر گل کدھر ہے فصل بہار شبن نیا ہے اعجاز طرفہ تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں کرو نہ دریا پہ مے لشی تم ادھر کو آئو میں دکھائوں سرشک و ہر نالہ جگر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں کدھر کو جائوں نکل کے یارب کہ گرم و سرد زمانہ مجھ کو دکھائے ہے شام تک سحر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہ تیغ کھینچے ہوئے ہے سر پر میں سر جھکائے ہوں اشک ریزاں دکھائوں اے دل تجھے کدھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں غضب ہے چین پر جبیں وہ کیا ہے بدن سے ٹپکے بھی ہے پسینہ عیاں ہے یارو نئے ہنر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں نصیر لکھی ہے کیا غزل یہ کہ دل تڑپتا ہے سن کے جس کو بندھے ہے کب یوں کسی بشر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں نہال ہے کب چشم ہر بشر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں ہے اس نگہ سے اس اشک تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں دکھا کے تم شہ نشیں یہ جوہ جو دیکھو فوارے کا تماشا تو یہ صدائے بام و در سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہ ہر وش پشت فیل پر ہے اور اس کی خرطوم آب افشاں عجب ہے تشبیہ جلوہ گر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہ طفل ترسا جبیں پہ قشقہ جو کھینچ سورج کو دیوے پانی تو کیوں نہ دل دیکھنے کو ترسے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں دوپٹہ سر پر ہے بادلے کا گلاب پاش اس کے ہاتھ میں ہے نہ کیونکہ چمکے نہ کیونکہ برسے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہاں وہ غرفے میں تاب رخ ہے یہاں یہ اابر مژہ پہ نم ہے یہ حسن الفت ہے ثمرے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں عجب ہے کچھ ماجرا یہ ساقی کہ غل مچایا ہے مے کشوں نے مدام یاں دیکھ! ابر تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وہ شوخ جھرنے کی سیر کر کے پھسلنے پتھر پہ جا کے بیٹھا پکاری خلقت ادھر ادھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں نصیر صد آفریں ہے تجھ کو کہ اہل معنی پکارتے ہیں عجب ہے مضموں تازہ تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں لو لگ رہی ہے جس سے وہ شمع رو نہ آیا بل بے تری شرارت یاںتک کبھو نہ آیا ہو اس دہن سے روکش سیلی صبا کی کھائی غنچے کے آہ منہ سے کن دن لہو نہ آیا دنداں دکھا کے مت ہنس اے بخیہ گریباں چاک جگر کا ہم کو طور رفو نہ آیا کیا جانے یہ گیا تھا کس منہ سے رو کشی کو آئینہ واں سے لے کر خاک آبرو نہ آیا برگشتہ بخت ہم وہ اس دور میں ہیں ساقی لب تک کبھو ہمارے جام وسبو نہ آیا موج سرشک سے ہے رونق قبائے تن کی کیونکر کہوں کہ اس کو کار اتو نہ آیا آخر کو کہکشاں ہے یکسر وہ مانگ نکلی اس بات میں ہماری فرق ایک مو نہ آیا کشتی دل تو دائم موج خطر میں ڈوبی چیں بر جبیں ہو کس دن وہ روبرو نہ آیا کیونکر یہ ہاتھ اپنے پہنچے گا تا گریباں دست خیال جس کے دامن کو چھو نہ آیا اپنی بھی بعد مجنوں یارو ہوا بندھی ہے لے گرد باد خیمہ کب کو بکو نہ آیا نامحرموں سے تم نے کھلواے بند محرم میں بھی تو آہ لے کر کچھ آرزو نہ آیا ہر دم نصیر رہ تو امیدوار رحمت تیری زباں پہ کس دن لا تقنطو نہ آیا اے اشک رواں ساتھ لے آہ جگری کو عاشق کہیں بے فوج علم اٹھ نہیں سکتا سقف فلک کہنہ میں کیا خاک لگائوں اے ضعف دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا سر معرکہ عشق میں آسان نہیں دینا گاڑ ہے ہے جہاں شمع قدم اٹھ نہیں سکتا ہے جنبش مژگاں کا کسی کی جو تصور دل سے خلش خار الم اٹھ نہیں سکتا دل پر ہے مرے خیمہ ہر آبلہ استاد کیا کیجیے کہ یہ لشکر غم اٹھ نہیں سکتا ہر جا متجلی ہے وہی پردہ غفلت اے معتکف دیر و حرم اٹھ نہیں سکتا یوں اشک زمیں پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر جوں قافلہ ملک عدم اٹھ نہیں سکتا شب کو کیونکر تجھ کو ہے پھبتا سر پر طرہ ہار گلے میں جوں پروین دہالہ مہ تھا سرپر طرہ ہار گلے میں رونق سریاں داغ جنوں ہے اشک مسلسل زیب گلو ہے چاہیے تجھ کو غیرت لیلا سر پر طرہ ہار گلے میں شعلہ کہاں آنسو ہیں کدھر شب شمع جور کھی تھی محفل میں تاج اور زر اور موتیوں کا سا سر پر طرہ ہار گلے میں بال پریشاں ہیں کاکل کے پیچ گلے میں ہیں پگڑی کے یوں رکھتا ہے وہ متوالا سر پر طرہ ہار گلے میں حق میں ہے میرے طائر دل کے باز کا چنگل دام کا حلقہ اے بت کافر مجکو نہ دکھلا سر پر طرہ ہار گلے میں شملے اور تسبیح کے بدلے شیخ جی صاحب رکھنے لگے ہیں کیونکہ نہ دیکھیں رند تماشا سر پر طرہ ہار گلے میں رشک چمن تو سیر کرے گا جب کہ کنارہ حوض و لب جو فوارہ اور پھول رکھے گا سر پر طرہ ہار گلے میں عکس شعاع مہر نہیں یہ بیل چنبیلی کی لپٹی ہے سر و چمن نے کیا ہے پیدا سر پر طرہ ہار گلے میں کیفیت کیا ہو بن ساقی سوئے چمن طائوس اور قمری ابرو ہوا می رکھیں ہیں تنہا سر پر طرہ ہار گلے میں ہے یہ تمنا میرے جی میں یوں تجھے دیکھوں بادہ کشی میں ہاتھ میں ساغر بر میں مینا سر پر طرہ ہار گلے میں اور بدل کے ردیف و قوافی لکھیے غزل اس بحر میں جلدی ت نے نصیر اب خوب پنھایا سر پر طرہ ہار گلے میں وقت نماز ان کا قامت ہے گاہ خدنگ و گاہ کماں بن جاتے ہیں اہل عبادت گاہ خدنگ و گاہ کماں مرد جوانی میں تو ہے سیدھا پیری میں جھک جاتاہے قوت و ضعف کی ہے یہ علامت گاہ خدنگ و گاہ کماں بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں کیفیت کے ہم نے جو دیکھا دو ہیں مہینے ساون بھادوں چھوٹتے ہیں فوارہ مژگاں روز و شب ان کی آنکھوںسے یوں نہ برستے دیکھے ہوں گے مل کے کسی نے ساون بھادوں ٹانکنے کو پھرتی ہے بجلی اس میں گوٹ تمامی کی ہے دامن ابر کے ٹکڑوں کو جب لگتے ہیں سینے ساون بھادوں بھولے دم کی آمد و شد ہم یاد کر اس جھولے کی پینگیں سوجھے ہے بے یار نہ دیں گے آہ یہ جینے ساون بھادوں کیونکہ نہ یہ دریائے تگرگ اے بادہ پرستو برسائیں گے کان گہر چھٹ زر کے رکھتے ہیں گنجینے ساون بھادوں کان جواہر کیونکہ نہ سمجھے کھیت کو دہقاں ان اولوں سے برساتے ہیں موتیوں میں ہیرے کے نگینے ساون بھادوں ابر سیہ میں دیکھی تھی بگلوں کی قطار اس شکل سے ہم نے یاد دلائے پھر کے ترے دندان مسی نے ساون بھادوں ٭٭٭ مومن خاں صاحب مومن تمہید پہلی دفعہ اس نسخے میں مومن خان صاحب کا حال نہ لکھا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ دور پنجم جس سے ان کا تعلق ہے بلکہ دو سو اور چہارم کو بھی اہل نظر دیکھیں کہ جو اہل کمال اس میں بیٹھے ہیں کس لباس و سامان کے ساتھ ہیں۔ کسی مجلس میں بیٹھا ہوا انسان جبھی زیب دیتا ہے کہ اسی سامان و شان اور وضع لباس کے ساتھ ہو جو اہل محفل کے لیے حاصل ہے۔ نہ ہو تو موزون معلوم ہوتاہے۔ خاں موصوف کے کمال سے مجھے انکار نہیں۔ اپنے وطن کے اہل کمال کا شمار بڑھا کر اور ان کے کمالات دکھا کر ضرور چہرہ فخر کا رنگ چمکاتا‘ لیکن میں نے ترتیب کتاب کے دنوں میں اکثر اہ وطن کو خطوط لکھے اور لکھوائے۔ وہاںسے صاف جواب آیا۔ وہ خط بھی موجود ہیں۔ مجبوراً ان کا حال قلم انداز کیا۔ دنیا کے لوگوں نے اپنے اپنے حوصلے کے بموجب جو چاہا سو کہا ۔ آزاد نے سب کی عنایتوں کو دامن پھیلا کر لے لیا ۔ ذوق ؎ وہ گالیاں کہ بوسہ خوشی پر ہے آپ کی رکھتے فقیر کام نہیں رد و کد سے ہیں البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض اشخاص جنہوںنے میرے حال پر عنایت کر کے حالات مذکورہ کی طلب و تلاش میں خطوط لکھے اور سعی ان کی ناکام رہی۔ انہوںنے بھی کتاب مذکورپر ریویو لکھا مگر اصل حا ل نہ لکھا‘ کچھ کچھ اور ہی لکھ دیا۔ میں نے اس وقت دہلی اور اطراف دہلی میں ان اشخاص کو خطوط لکھنے شروع کر دیے تھے۔ جو خاں موصوف کے خیالات سے دل گلزار رکھتے ہیں۔ اب طبع ثانی سے چند مہینے پہلے تاکید و التجا کے نیاز ناموں کو جولانی دی انہی میں سے ایک صاحب کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں جنہوںنے باتفاق احباب اور صلاح ہمدگر جزئیات احوال فراہم کر کے چند ور ق مرتب کیے اور عین حالت طبع میں یہ کتاب مذکور قریب الاختتام ہے۔ مع ایک مراسلے کے عنایت فرمائے بلکہ اس میں کم و بیش کی بھی اجازت دی۔ میں نے فقط بعض فقرے کم کیے ۔ جن سے حصول کلام کے سوا کچھ فائدہ نہ تھا اور بعض عبارتیں اور بہت سی روایتیں مختصر کردیں یا چھوڑ دیں۔ جن سے ان کے نفس شاعری کو تعلق نہ تھا۔ باقی اصل کو بجنسہ لکھ دیا۔ آپ ہرگز دخل و تصرف نہیںکیا۔ ہاں کچھ کہنا ہو تو حاشیے پر خط وحدانی میں لکھ دیا۔ جو احباب پہلے شاکی تھے امید ہے کہ اب اس فروگزاشت کو معاف فرمائیں گے۔ مومن خاں صاحب کا حال ان کے والد حکیم غلام نبی خاں ولد حکیم نامدار خاں شہر کے شرفا میں سے تھے اور (جن کی اصل بجبائے کشمیر سے تھی) اول حکیم نامدار خاں اور حکیم مدار خاں صاحب دو بھائی سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں آ کربادشاہی طبیبوں میں داخل ہوئے۔ شاہ عالم کے زمانے میں موضع بلاہہ وغیرہ پر گنہ نارنول میں جاگیر پائی۔ جب سرکار انگرزی نے جھجھر کی ریاست فیض طلب خاںکوک عطا فرمائی تو پرگنہ نارنول بھی اس میں شامل تھا۔ رئیس مذکور نے ان کی جاگیر ضبط کر کے ہزار روپیہ سالانہ پنشن ورثہ حکیم نامدار خا ں کے نام مقرر کردی۔ پنشن مذکور میں سے حکیم غلام نبی خاں صاحب نے اپنا حصہ لیا اور اس میں سے حکیم مومن خاں صاحب نے اپنا حق پایا۔ اس کے علاوہ ان کے چار طبیبوں کے نام پر سو روپیہ ماہوار پنشن سرکار انگریزی سے بھی ملتی تھی۔ اس سے ایک چوتھائی ان کے والد کو او ر ان کے بعد اس میں سے ان کو حصہ ملتا رہا۔ ان کی ولادت ۱۲۱۵ھ میں واقع ہوئی۔ بزرگ جب دلی می آئے تو چلوں کے کوچے میں رہتے تھے۔ وہیں خاندان کی سکونت رہی۔ شاہ عبدالعزیز صاحب کا مدرسہ وہاں سے بہت قریب تھا ان کے والدکو شاہ صاحب سے کمال عقیدت تھی۔ جب یہ پیدا ہوئے تو حضرت ہی نے آ کر کان میں اذان دی اور مومن خان مومن نام رکھا۔ گھر واولں نے اس نا م کاناپسند کیا اور حبیب اللہ نم رکھنا چاہا لیکن شاہ صاحب کے نام سے نام پایا۔ بچپن کی معمولی تعلیم کے بعد جب ذرا ہوش سنبھالا تو والد نے شاہ عبدالقادر کی خدمت کی خدمت میں پہنچایا۔ ان سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے رہے۔ حافظے کا یہ حال تھا کہ جو بات شاہ صاحب سے سنتے تھے فوراً یاد کرلیتے تھے جب عربی میں کسی قدر استعداد بڑھ گئی تو والد اور چچا حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلا م حسن خاں سے طب کی کتابیں پڑھیں اور انہیںکے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے۔ تیز طبیعت کا خاصہ ہے کہ ایک فن پر دل نہیں جمتا‘ ا س نے بزرگوں کے علم یعنی طبابت پر تھمنے نہ دیا۔ دل میں طرح طرح کے شوق پیدا کیے۔ شاعری کے علاوہ نجوم کا خیال آیا۔ اس کو اہل کمال سے حاصل کیا اور مہارت بہم پہنچائی۔ ان کو نجوم سے قدرتی مناسبت تھی۔ ایسا ملکہ بہم پہنچایا تھا کہ احکام سن سن کر بڑے بڑے منجم حیران رہ جاتیتھے۔ سال بھر میں ایک بار تقویم دیکھتے تھے۔ پھر برد دن تک تمام ستاروں کے مقام اور ان کی حرکات کی کیفیت ذہن میں رہتی تھی۔ جب کوئی سوا ل پیش کرتا تو نہ زائچہ کھینچتے نہ تقویم دیکھتے۔ پوچھنے ولاے سے کہتے کہ تم خاموش رہا میں جوکہتا جائوں اس کا جواب دیتے جائو۔ پھر مختلف باتیں پوچھتے تھے اور سائل اکثر تسلیم کرتا جاتا تھا۔ ایک دن ایک غریب ہندو نہایت بے قرار و پریشان آیا۔ ان کے بیس برس کے رفیق قدیم شیخ عبدالکریم اس وقت موجود تھے۔ خان صاحب نے اسے دیکھ کر کہا کہ تمہارا کچھ مال جاتا رہا ہے؟ اس نے کہا میں لٹ گیاا کہا خاموش رہو۔ میں جو کہوں اسے سنتے جائو جو بات غلط ہو اس سے انکار کر دینا۔ پھرپوچھاکیا زیور کی قسم سے تھا؟ صاحب ہاں وہی عمر بھر کی کمائی تھی ۔ کہا تم نے لیا ہے یا تمہاری بیوی نے؟ کوئی غیر چرانے نہیں آیا۔ اس نے کہا میرا ما تھا اور بیوی کے پہننے کا زیور تھا۔ ہم کیوں چراتے؟ ہنس کر فرمایا کہیں رکھ کر بھول گئے ہو گے مال باہر کہیں نہیں گیا۔ اس نے کہا صاحب سارا گھر ڈھونڈ مارا کوئی جگہ باقی نہیں رہی فرمایا پھردیکھو اور سارے گھر میں اچھی طرح دیکھا۔ پھر آ کر کہا صاحب میرا چھوٹا سا گھر ہے ایک ایک کونا دیکھ لیا۔ کہیں پتا نہیںلگتا۔ خاں صاحب نے کہا اسی گھر میں ہے تم غلط کہتے ہو۔ کہا آپ چل کر تلاشی لے لیجیے۔ میں تو ڈھنڈ چکا۔ فرمایا میں یہاں سے بتاتا ہوں۔ ی کہہ کران کے سار ے گھر کا نقشہ بیا ن کرنا شروع ک دیا ۔ وہ سب باتوں کو تسلیم کرتا جاتا تھا۔ پھرکہا اس گھر میں جنوب کے رخ پر ایک کوٹھری ہے۔ اور اس میں شمال کی جانب ایک لکڑی کا مچان ہے۔ اسکے اوپر مال موجود ہے جا کر لے لو۔ اس نے کہا مچان کو تین دفعہ چھان مارا۔ وہاں نہیں ملا۔ فرمایا اس ایک کونے میں پڑا ہے۔ غرض وہ گیا اور جب روشنی کر کے دیکھاتو ڈبا اور اس میں سارا زیور جوں کا توں وہیں سے مل گیا۔ یک صاحب کا مراسلہ اسی تحریر کے ساتھ پہنچا ہے۔ جس میں یہ اور کئی قسم کے اسرار نجوی ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ اور ان کے شاگردوں کی تفصیل بھی لکھی ہے۔ آزاد ان کے درج کرنے میں قاصر ہے معاف فرمایں۔ زمانہ ایک طرح کا ہے لوگ کہیں گے تذکرہ شعراء لکھنے بیٹھا تھا اورنجومیوں کا تذکرہ لکھنے لگا۔ خان صاحب نے اپنی نجوم دانی کو ایک غزل کے شعرمیں نہایت خوبی سے ظاہر کیاہے۔ ان نصیبوں پر کیا اختر شناس آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا شطرنج سے بھی ان کو کمال مناسبت تھی۔ جب کھیلنے بیٹھتے تھے تو دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی تھی اور گھر کے نہایت ضروری کام بھی بھول جاتے تھے۔ دلی کے مشہور شاطر کرامت علی خاں سے قرابت قریبہ رکھتے تھے اور شہر کے ایک دو مشہور شاطروں کے سوا کسی سے کم نہ تھے۔ شعر و سخن سے انہیں طبعی مناسبت تھی اورعاشق مزاجی نے اسے اور بھی چمکا دیا تھا۔ انہوںنے ابتدا میں شاہ نصیر مرحوم کو اپنا کلام دکھایا مگر چند روز کے بعد ان سے بھی اصلاح لینی چھوڑ دی اور پھر کسی کو استاد نہیں بنایا۔ ان کے نامی شاگرد نواب مصطفی خان شیفتہ صاحب تذکرہ گلشن بے خار خلف نواب اعظم الدولہ سرفراز الملک مرتضی خاں مظفر جنگ بہادر رئیس پلول اور ان کے چھوٹے بھائی نواب اکبر خاں کہ ۴ برس ہوئے راولپنڈی میں دنیاسے انتقال کیا۔ میر حسین تسکین کہ نہایت ذکی الطبع شاعر تھے ۔ سید غلام علی خاں وحشت‘ غلام ضامن کرم‘ نواب اصغر علی خاں کہ پہلے اصغر تخلص کرتے تھے پھر نسیم تخلص اختیار کیا اور مرزا خدا بخش قیصر شہزادے وغیرہ اشخاص تھے۔ رنگین طبع‘ رنگین مزاج و خوش وضع‘ خوش لباس‘ کشیدہ قامت‘ سبزہ رنگ سر پر لمبے لمبے گھونگر والے بال اور ہر وقت انگلیوں سے ان میں کنگھی کرتے تھے۔ ململ کاانگرکھا ڈھیلے ڈھیلے پائے۔ اس میں لال نیفہ بھی ہوتا تھا۔ میںنے انہیں نواب اصغر علی خان اور مرزا خدا بخش قیصر کے مشاعروں میں غزل پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ایسی دردناک آواز سے دل پذیر ترنم کے ساتھ پڑھتے تھے کہ مشاعرہ کو وجد کرتاتھا۔ اللہ اللہ اب تک آنکھوں کے سامنے وہ وعالم سامنے ہے۔ باتیں کہانیاں ہو گئیں۔ باوجود اس کے نیک خیالوں سے بھی ان کا دل خالی نہ تھا۔ نوجوانی ہی میں مولانا سید احمد صاحب بریلوی کے مرید ہو ئے کہ مولوی اسماعیل صاحب کے پیر تھے۔ خان صاحب انہی کے عقائد کے بھی قائل رہے۔ انہوں نے کسی کی تعریف میں قصیدہ نہیں کہا۔ ہاں راجہ اجیت سنگھ برادر راجہ کرم سنگھ رئیس پٹیالہ جو دہلی میں رہتے تھے اور ان کی سخاوتیں شہر میں مشہور تھیں۔ وہ ایک دن مصاحبوں کے ساتھ سر راہ اپنے کوٹھے پر بیٹھے تھے۔ خاں صاحب کا ادھر سے گزر ہوا۔ لوگوں نے کہا مومن خاں شاعر یہی ہیں۔ راجہ صاحب نے آدمی بھیج کر بلوایا۔ عزت و تعظیم سے بٹھایا( کچھ نجوم کچھ شعر و سخن کی باتیں کیں) اور حکم دیا کہ ہتنی لائو۔ ہتنی حاضر ہوئی۔ وہ خاں صاحب کو عنایت کی۔ انہوںنے کہا کہ مہاراج میں غریب آدمی ہوں اسے کہاں سے کھلائوں گا اورکیونکر رکھوںگا۔ کہا کہ سو روپیہ اور دو خاں صاحب اسی پر سوار ہو کر گھر آئے اور پہلے اس سے کہ ہتنی روپے کھائے اسے بیچ کر فیصلہ کیا۔ پھر خاں صاحب نے ایک قصیدہ مدحیہ شکریے میں کہہ کر راجہ صاحب کو دیا جس کا مطلع : صبح ہوئی تو کیا ہوا ہے وہی تیرہ اختری کثرت درد سے سیاہ شعلہ شمع خاوری سو اس قصیدے کے اور کوئی مدح کسی دنیا دار کے صلہ و انعام کی توقع نہیں لکھی۔ وہ اس قدر غیور تھے کہ کسی عزیز یا دوست کا ادنیٰ احسان بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ راجہ کپورتھلہ نے انہیں ساڑھے تین سو روپیہ مہینا کر کے بلایا اور ہزار روپیہ خرچ سفر بھیجا۔ وہ بھی تیار ہوئے مگر معلوم ہواکہ وہاں ایک گویے کی بھی یہی تنخواہ ہے۔ کہا کہ جہاں میری اور ایک گویے کی برابر تنخواہ ہو میں نہیں جاتا۔ جس طرح شاعری کے ذریعے سے انہوںنے روپیہ پیدا نہیں کیا۔ اسی طرح نجوم رمل اور طبابت کو بھی معاش کا ذریعہ نہیں کیا۔ جس طرح شطرنج ان کی ایک دل لگی چیز تھی اسی طرح نجوم رمل اور شاعری کو بھی ایک اور بہلاوا دل کا سمجھتے تھے۔ خاں صاحب پانچ چار دفعہ باہر دہلی سے گئے۔ اول رام پور اور وہاں جا کر کہا: دلی سے رام پور میں لایا جنوں کا شوق ویرانہ چھوڑ آئے ہیں ویرانہ تر میں ہم دوسری دفعہ سہسوان گئے۔ وہاں فرماتے ہیں: چھوڑ دلی کو سہسوان آیا ہر زہ گردی میں مبتلا ہوں میں جہانگیر آباد میں نواب مصطفی خاں کے ساتھ کئی دفعہ گئے ۔ ایک دفعہ نواب شائستہ خاں کے ساتھ سہارنپور گئے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دلی میں جو میسر تھا اسی پر قانع تھے۔ تصدیق اس کی دیکھو غالب مرحوم کے حال میں۔ ان کی تیزی ذہن اور ذکاوت طبع کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ وہ خود بھی ذہانت میں دو شخصوں کے سوا کسی ہم عصر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ایک مولوی اسماعیل صاحب دوسرے خواجہ محمد نصیر صاحب کے ان کے پیر اور خواجہ میر درد کے نواسے تھے۔ اسی سلسلے میں نواب مصطفی خاں کی ایک وسیع تقریر ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا ذکی الطبع آج تک نہیں دیکھا۔ ان کے ذہن میں بجلی کی سرعت تھی وغیرہ وغیرہ ساتھ اس کے مراسلت میں بعض اورمعاملے منقول ہیں مگر ان میں بھی واردات کی بنیاد نہیں لکھی۔ مثلاً یہ کہ مولا بخش قلق مولوی امام بخش صاحب صہبائی کے شاگرد دیوان نظیری پڑھتے تھے۔ ایک دن خان صاحب کے پاس آئے اور ایک شعر کے معنی پوچھے ۔ انہوںنے ایسینازک معنی اور نادر مطلب بیان فرمائے کہ قلق معتقد ہو گئے اور کہا کہ مولوی صاحب نے جو معنی بتائے ہیں وہ اس سے کچھ نسبت نہیں رکھتے لیکن نہ وہ شعر لکھا ہے نہ کسی لفظ کے معنی لکھے ہیں۔ ایسی باتوں کو آزاد نے افسوس کے ساتھ ترک کردیا ہے۔ شفیق مکرمعاف فرمائیں۔ لطیفہ ان کی عالی دماغی اور بلندخیالی شعرائے متقدمین و متاخرین میں سے کسی کی فصاحت یا بلاغت کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ یہ قول ان کا مشہور تھا کہ گلستان سعدی کی تعریف میں لوگوں کے دم چڑھے جاتے ہیں۔ ان میں ہے کیا؟ گفت گفت ‘ گفتہ اند گفتہ اند کہتا چلا جاتا ہے۔ اگران لفظوں کو کاٹ دو تو کچھ بھی نہیں رہتا۔ ایک دن مفتی صدر الدین خان مرحوم کے مکان پر یہی تقریر کی۔ مولوی احمد الدین کر سانوالہ ‘ مولوی فضل حق صاحب کے شاگرد بیٹھے تھے انہوںنے کہا قرآن شریف کیا ہے فصاحت ہے۔ جابجا قال قال قالوا قالوا ہے۔ ان کے کسی شاگرد نے غزل میں یہ شعر لکھا تھا: ہجر میں کیونکر پھروں ہر سو نہ گھبرایا ہوا وصل کی شب کا سماں آنکھوں میں ہے چھایا ہوا خاں صاحب نے پہلے مصرع کو یوں بدل دیاا۔ اس طرف کو دیکھتا بھی ہے تو شرمایا ہوا اہ مذاق جانتے ہیں کہ اب شعرکہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ ایک اور شخص نے الٰہی بخش کا سجع لکھاتھا۔ مجھ گنہگار کو الٰہی بخش صاحب نے فرمایا: میں گنہگار ہوں الٰہی بخش تاریخیں تاریخ میںہمیشہ تعمیہ اور تحزجہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر ان کی طبع رسانے اسے محسنات تاریخ میں داخل کر دیا۔ چنانچہ اپنے والد کی تاریخ وفات کہی۔ بہ من الہام گشت سال وفات کہ غلام نبی بہ حق پیوست غلام نبی کے اعداد کے ساتھ حق ملائیں تو پورے پورے سنہ فوت نکل آتے ہیں۔ اپنی صغیر سن بیٹی کی تاریخ فوت کہی: خاک بر فرق دولت دنیا من فشاندم خزانہ بر سر خاک خزانہ کے اعداد سرخاک یعنی خ کے ساتھ ملانے سے ۱۲۶۳ھ ہوتے ہیں۔ تاریخ چاہ۔ آب لذت فزابجام بگیر۔ آب لذت فزا کے اعدا جام کے اعداد میں ڈالو تو ۱۲۶۵ھ حاصل ہوئے۔ ایک شخص زین خاں نام حج کو گیا۔ رستے میں سے پھر آیا۔ خاں صاحب نے کہا۔ چوں بیاید ہنوز خرباشد ۱۲۶۵ھ شاہ محمد اسحاق صاحب نے دلی سے ہجرت کی خاں صاحب نے کہا: گفتم وحید عصر اسحاق برحکم شہنشہ دو عالم بگزاشتہ دار حرب امسال جا کردہ بمکہ معظم وحید عصر اسحاق کے اعداد مکہ عظم کے اعداد کے ساتھ ملائو اور دار حرب کے اعداد اس میں سے تفریق کرو تو ۱۲۶۰ھ تاریخ ہجرت نکلتی ہے۔ ایک شخص قلعہ دلی سے نکالا گیا انہوںنے تاریخ کہی۔ ز باغ خلد بیروں شیطان بے حیا شد باغ خلد کے اعداد میں شیطان بے حیا کے عدد نکال ڈالیں تو ۱۲۳۶ھ رہتے ہیں۔ سادی تاریخیں بھی عمدہ ہیں۔ چنانچہ خلیل خاں کے ختنے کی تاریخ کہی سنت خلیل اللہ۔ اپنی عمہ کے مرنے کی تاریخ کہی ۔ لھا اجر عظیم اپنے والد کی وفات کی تاریخ کہی۔ قدفا زفوزاً عظیما اپنی بیٹی کی ولادت کی تاریخ کہی۔ نال کٹنے کے ساتھ ہاتف نے کہی تاریخ دختر مومن دختر مومن کے اعداد میں سے نال کے اعداد کو اخراج کیا ہے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب کی وفات کی تاریخ: دست بے داد اجل سے بے سرو پا ہو گئے فقر و دیں‘ فضل و ہنر لطف و کرم‘ علم و عمل الفاظ مصرع آخر کے اول و آخر کے حرفوں کو گرا دو بیچ کے حرفوں کے عدد لے لو تو ۱۲۳۹ھ رہتے ہیں۔ ان کے معمے بھی متعد د ہیں مگر ایک لاجواب ہے۔ ایسا نہیں سناگیا۔ بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا (یعنی مہتاب رائے) پہیلیاں بھی کہیں ایک یہاں لکھی جاتی ہے کہ گھڑیال پر ہے: نہ بولے وہ جب تک کہ کوئی بلائے نہ لفظ اور معنی سمجھ میں کچھ آئے نہیں چور پر وہ لٹکتا رہے زمانے کا احوال بکتا رہے شب و روز غوغا مچایا کرے اسی طرح سے مار کھایا کرے کوٹھے سے گرنے کے بعد انہوںنے حکم لگایا تھا کہ ۵ دن یا ۵ مہینے یا ۵ برس میں مر جائوں گا۔ چنانچہ ۵ مہینے کے بعد مر گئے۔ گرنے کی تاریخ خود کہی تھی۔ دست و بازو بشکست مرنے کی تاریخ ایک شاگرد نے کہی۔ ماتم مومن دہلی دروازہ کے باہر میدھیوں کے جانب غرب زیر دیوار احاطہ مدفون ہوئے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب کا خاندا ن بھی یہیں مدفون ہے۔ روایت مرنے کے بعد لوگوں نے عجیب عجیب طرح سے خواب میں دیکھا۔ ایک خواب نہایت سچا اور حیرت انگیز ہے۔ نواب مصطفی نے دو برس کے بعد خواب میں دیکھا کہ ایک قاصد نے آ کر خط دیا جس میں مومن مرحو م کا خط ہے۔ انہوںنے لفافہ کھولا تو اس کے خاتمے پر ایک مہر ثبت تھی۔ جس میں مومن جنتی لکھا تھا اورخط کا مضمون یہ تھا کہ آج ک میرے عیا ل پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے۔ تم ان کی خبر لو۔ صبح کو نواب صاحب نے دو سو روپے ان کے گھر بھیجے اور خواب کا مضمون بھی کہلا بھیجا۔ ان کے صاحبزادے احمد نصیر خاں سلمہ اللہ کا بیان ہے کہ فی الواقع ان دنوں میں ہم پر مکان کی نہایت تکلیف تھی۔ برسات کا موسم تھاا اور سارا مکان ٹپکتا تھا۔ اپنے شفیق مکرم کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انہوںنے یہ حالات مرتب کر کے عنایت فرمائے لیکن کلام پر رائے نہ لکھی اور باوجود التجائے مکرر کے انکار کیا۔ اس لیے بندہ آزاد اپنے فہم قاصر کے بموجب لکھتاہے۔ غزلوں میں ان کے خیالات نہایت نازک ہیں اورمضامین عالی ہیں اوراستعارہ اور تشبیہہ کے زورنے اور بھی اعلیٰ درجے پر پہنچایا ہے۔ ان میں معاملات عاشقانہ عجیب مزے سے ادا کیے ہیں۔ اسی واسطے جو شعر صاف ہوتاہے اس کا انداز جرات سے ملتا ہے اوراس پر وہ خود بھی نازاں تھے۔ اشعار مذکورہ میں فارسی کی عمدہ ترکیبیں اور دل کش تراشیں ہیں کہ اردو کی سلاست میں وہ اشکال پیدا کرتی ہیں۔ ان کی زبان میں چند وصف خاص ہیں جن کا جتانا لطف سے خالی نہیں۔ وہ اکثر اشعار میں ایک شے کو کسی صفت خاص کے لحاظ سے ذات شے کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اس ہیر پھیر سے شعر میں عجیب لطف بلکہ معانی پنہانی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً موئے نہ عشق میں جب تک وہ مہرباں نہ ہوا بلائے جاں ہے وہ دل جو بلائے جاں نہ ہوا محو مجھ سادم نظارہ جاناں ہو گا آئنہ آئنہ دیکھے گا تو حیراں ہو گا کیا رم نہ کرو گے اگر ابرام نہ ہو گا الزام سے حاصل بجز الزام نہ ہو گا روز جزا جو قاتل دل جو خطاب تھا میرا سوال ہی مرے خوں کا جواب تھا پس شکستن خم زجر محتسب معقول گناہگار نے سمجھا گناہگار مجھے نقد جاں تھا نہ سزائے دیت عاشق حیف خون فرہاد سر گردن فرہاد را اکثر عمدہ ترکیبیں اور ناد ر استعارے فارسی کی اور استعارے اور اضافتیں اردو میں استعمال کر کے کلام کو نمکین کرتے ہیں۔ مثلاً گر وہاں ہے یہ خموشی اثر افغاں ہو گا حشر میں کون مرے حال کا پرساں ہو گا یعنی فقاا نے کہ اثر ش خموشی است بیمار اجل چارہ گر کو حضرت عیسیٰ اچھا نہ کریں گے تو کچھ اچھا نہ کریں گے یعنی بیمارے کہ چارہ اش اجل است وفائے عزت شکر جفا نے کا کام کیا کہ اب ہوس سے بھی اعدائے بو الہوس گزرے ستم اے شور بخٹی میری ہڈی کیوں ہماکھاتا سگ لیلیٰ ادا کو گر نہ ظالم بدمزہ لگتی اکثر اہل اردو یہ طرز پسند نہیں کرتے‘ لیکن اپنااپنامذاق ہے۔ ناسخ اور آتش کے حال میں اس تقریر کو بہت طول دے چکا ہوں۔ دوبارہ لکھنا فضول ہے۔ قصائد اپنے درجے میں عالی مرتبہ رکھتے ہیں اور زبان کا انداز وہی ہے۔ مثنویاں نہایت در د انگیز ہیں کیونکہ درد خیز دل سے نکلی ہیں۔ زبان کے لحاظ سے جو غزلوں کا انداز ہے وہی ان کا ہے۔ غزلیں غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا اڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں اس مرغ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں اے ہم نفس نزاکت آواز دیکھنا دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب تھا ساز گار طالع ناساز دیکھنا بدکام کا مآل برا ہے جزا کے دن حال سپہر تفرقہ انداز دیکھنا مت رکھیو گرد تارک عشاق پر قدم پامال ہو نہ جائے سر افراز دیکھنا کشتہ ہوں اس کی چشم فسوں گر کا اے مسیح کرنا سمجھ کے دعویٰ اعجاز دیکھنا میری نگاہ خیرہ دکھاتے ہیں غیر کو بے طاقتی پہ سرزنش ناز دیکھنا ترک صنم بھی گم نہیں سوز حجیم سے مومن غم مآل کا آغاز دیکھنا اشک و اژد نہ اثر باعث صد جوش ہوا ہچکیوںسے میں یہ سمجھا کہ فراموش ہوا جلوہ افروزی رخ کے لیے مے نوش ہوا میں کبھی آپ میں آیا تو وہ بے ہوش ہوا کیا یہ پیغامبر غیر ہے اے مرغ چمن خندہ زن باد بہاری سے گہ گل گوش ہوا ہے یہ غم گور میں رنج شب اول سے فزوں کہ وہ مہ رو رے ماتم میں سیہ پوش ہوا مجھ پہ شمشیر نگہ خود بخود آ پڑتی ہے عاجز احوال زبوں سے وہ ستم کوش ہوا آفریںدل میں رہی خنجر دشمن کے سبب اپنے قاتل سے خفا تھا کہ میں خاموش ہوا درد شانہ سے ترا محو نزاکت خوش ہے کہ میں ہمدوش ہوں گو غیر بھی ہمدوش ہوا وہ ہے خالی تو یہ خالی یہ بھری تو وہ بھری کاسہ عمر عدو حلقہ آغوش ہوا تو نے جو قہر خدا یاد دلایا مومن شکوہ جور بتاں دل سے فراموش ہوا گئے وہ خواب سے اٹھ کے گھر آخر شب اپنے نالے نے دیکھا یہ اثر آخر شب صبح دم وصل کا وعدہ تھایہ حسرت دیکھو مر گئے ہم دم آغاز سحر آخر شب شعلہ آہ فلک رتبہ کا اعجاز تو دیکھ اول ماہ میں چاند نظر آئے آخر شب سوز دل سے گئی جاں بخٹ چمکنے کے قریب کرتے ہیں موسم گرما میں سفر آخر شب ملے ہو غیر سے بے پردہ تم انکار کے بعد جلوہ خورشید کا سا تھا کچھ ادھر بھی آخر شب صبح دم آنے کو وہ تھا کہ گواہی دے دے رجعت قہقہری چرخ و قمر آخر شب غیر نکلا ترے گھر سے گئی اس وہم میں جان غل ہوئے چور کے اس کوچے میں گر آخر شب دی تسلی تو وہ ایسی کہ تسلی نہ ہوئی خواب میں تومرے آئے وہ مگر آخر شب مو سفیدی کے قریب ہے اور ہے غفلت مومن نیند آتی ہے بہ آرام دگر آخر شب آنکھوںسے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو اس بت کے لیے میں ہوس حور سے گزرا اس عشق خوش انجام کا آغاز تو دیکھو چشمک مری وحشت ہے یہ کیا حضرت ناصح طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے کم طالعی عاشق جانباز تو دیکھو مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ بدنامی عشاق کا اعزاز تو دیکھو محفل میں تم اغیار کو وزدیدہ نظر سے منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو جنت میں بھی مومن نہ ملا ہائے بتوں سے جور اجل تفرقہ پرداز تو دیکھو دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہوں گے فلس ماہی کے گل شمع شبستاں ہوں گے ناوک انداز جدھر دیدہ جاناں ہوں گے نیم بسم کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں اور بن جائیںگے تصویر جو حیراں ہوں گے تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے ناصحا دل میں تو اتنا سمجھ اپنے کہ ہم لاکھ ناداں ہوئے کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے کر کے زخمی تجھے نادم ہوں ٰہ مکن ہی نہیں گو وہ ہوں گے بھی تو بے وقت پشیماں ہوں گے ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے ہم نکالیں گے سن اے موج صبا بل تیرے اس کی زلفوں کے اگر بال پریشاں ہوں گے صبر یارب مری وحشت کا پڑے گا کہ نہیں چارہ فرما بھی کبھی قیدی زنداں ہوں گے منت حضرت عیسیٰ نہ اٹھائیں گے کبھی زندگی کے لیے شرمندہ احساں ہوں گے تیرے دل تفتہ کی تربت پہ عدو جھوٹا ہے گل نہ ہوں گے شرر آتش سوزاں ہوں گے غور سے دیکھتے ہیں طوف کو آہوئے حرم کیا کہیں اس کے سگ کوچہ کے قرباں ہوں گے داغ دل نکلیں گے تربت سے مری جوں لالہ یہ وہ اخگر نہیں جو خاک میں پنہاں ہوں گے چاک پردے سے یہ غمزے ہیں تو اے پردہ نشیں ایک میں کیا سبھی چاک گریباں ہوں گے پھر بہار آئی وہی دشت نور دی ہو گی پھر وہی پائوں وہی خار مغیلاں ہوں گے سنگ اور ہاتھ وہ ہی سرو داغ جنوں وہی ہم ہوںگے وہ دشت و بیاباں ہوں گے عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے خوشی نہ ہو مجھے کیونکر قضا کے آنے کی خبر ہے لاش پہ اس بے وفا کے آنے کی ہے ایک خلق کا خوں سرپر اشک خوں کے مرے سکھائی طرز اسے دامن اٹھا کے آنے کی سمجھ کے اور ہی کچھ مر چلاا میںاے ناصح کہا جو تو نے جان جا کے آنے کی امید سرمہ میں تکتے ہیں راہ دیدہ زخم شمیم سلسلہ مشک سا کے آنے کی چلی ہے جان نہیں تو کوئی نکالو راہ تم اپنے پاس تک اس مبتلا کے آنے کی نہ جائے کیوں دل مرغ چمن کہ سیکھ گئی بہار وضع ترے مسکرا کے آنے کی مشام غیر میں پہنچی ہے نکہت گل داغ یہ بے سبب نہیں تندی ہوا کے آنے کی جو بے حجاب نہ ہو گی تو جان جائے گی کہ راہ دیکھی ہے اس نے حیا کے آنے کی پھر اب کے لا ترے قربان جائوں جذبہ دل گئے ہیں یاں سے وہ سوگندھا کے آنے کی خیال زلف میں خود رفتگی نے قہر کیا امید تھی مجھے کیا کیا بلا کے آنے کی کروں میں وعدہ خلافی کا شکوہ کس کس سے اجل بھی رہ گئی ظالم سنا کے آنے کی کہاں ہے ناقہ ترے کان بجتے ہیں مجنوں قسم ہے مجھ کو صدائے درا کے آنے کی مرے جنازے پہ آنے کا ہے ارادہ تو آ کہ دیر اٹھانے میں کیا ہے صبا کے آنے کی مجھے یہ ڈر ہے کہ مومن کہیں نہ کہتا ہو مری تسلی کو روز جزا کے آنے کی از بس جنوں جدائی گل پیرہن سے ہے دل چاک چاک نغمہ مرغ چمن سے ہے سرگرم مدح غیر دم شعلہ زن سے ہے دوزخ کو کیا جلن مرے دل کی جلن سے ہے روز جزا نہ دے جو مرے قتل کا جواب وہم سخن رقیب کو اس کم سخن سے ہے یاد آ گیا زبس کوئی مہ روئے مہر وش امید داغ تازہ سپہر کہن سے ہے کچھ بھی کیا نہ یار کی سنگیں دی کا پاس سب کاوش رقیب دل کوہکن سے ہے ان کو گمان ہے گلہ چین زلف کا خوشبو دہان زخم جو مشک ختن سے ہے میں کیا کہ مرگ غیر بہ دامان تر نہ ہو وہ اشک ریز خندہ چاک کفن سے ہے کیونکر نجات آتش ہجراں سے ہو کہ مرگ آئی تو دور ہی تب و تاب بدن سے ہے خود رفتگی میں چین وہ پایا کہ کیا کہوں غربت جو مجھ سے پوچھو تو بہتر وطن سے ہے رشک پری کہے سے عدو کے یہ وحشتیں نفرت بلا تمہیں مرے دیوانہ پن سے ہے داغ جنوں کو دیتے ہیں گل سے زبس مثال میں کیا کہ عندلیب کو وحشت چمن سے ہے کیوں یار نوحہ زن ہیں کہاں مرگ مجھ کو تو لب بستگی تصور بوس دہن سے ہے کیا کیا جواب شکوہ میں باتیں بنا کیا لو اب بھی دل درست اسی دل شکن سے ہے اپنا شریک بھی نہ گوارا کرے بتو مومن کو ضد یہ کیش بد برہمن سے ہے دعا بلا تھی شب غم سکون جاں کے لیے سخن بہا نہ ہوا مرگ ناگہاں کے لیے نہ پائے یار کے بوسے نہ آستاں کے لیے عبث میں خاک ہوا میل آسماں کے لیے خلاف وعدہ فروا کی ہم کو تاب کہاں امید یک شبہ ہے پاس جاوداں کے لیے سنیں نہ آپ تو ہم بوالہوس سے حال کہیں کہ سخت چاہیے د اپنے رازداں کے لیے حجاب چرخ بلا ے ہوا کرے بے تاب فغاں اثر کے لیے اور اثر فغاں کے لیے ہے اعتماد مرے بخت خفتہ پر کیا کیا وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے مزہ یہ شکوے میں آیا کہ بے مزہ ہوئے وہ میں تلخ کام رہا لذت زباںکے لیے کیا ہے دل کے عوض جان دے رقیب تو دوں میں اور آپ کی سوداگری زباں کے لیے وہ لعل روح فزا دے کہاں تلک بوسے کہ جو ہے کہم ہے یہاں شوق جانفشاں کے لیے ملے رقیب سے وہ جب سنے وصال ہوا دریغ جان گئی ایسے بدگماں کے لیے کہاں وہ عیش اسیری کہاں وہ امن قفس ہے بیم برق بلا روز آشیاں کے لیے جنون عشق ازل کیوں نہ خاک اڑائیں کہ ہم جہاں میں آئے ہیں ویرانی جہاں کے لیے بھلا ہوا کہ وفا آزما ستم سے ہوئے ہمیں بھی دینی تھی جاں اس کے امتحاں کے لیے رواں فزائی سحر حلال مومن سے رہا نہ معجزہ باقی لب بتاں کے لیے ٭٭٭ ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوق جب وہ صاحب کمال عالم ارواں سے کشور اجسام کی طرف چلا تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا۔ جن کی خوشبو شہر ت عام بن کر جہان میں پھیلی اور رنگ بقائے دوا م سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا تو آب حیات اس پر شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کملاہٹ کا اثر نہ پہنچیل۔ ملک الشعرائی کا سکہ اس کے نام سے موزون ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پر نظم اردو کا خاتمہ ہو گیا۔ چنانچہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس ک یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا۔ نہ ہم عصر رہے نہ ہم داستان رہے نہ اس بولی کے سمجھنے ولاے رہے۔ جو خراب آباد اس زبان کے لیے ٹکسال تھا وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے۔ شہر چھائونی سے بدتر ہو گیا ہے۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے۔ گھرانوں کے وارث علم و کملا کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے۔ وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں آج جن لوگوں کو زمانے کی فارغ البالی نے اس قسم کی ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ دراصل کی شاخیں ہیں۔ انہوںے اورپانی سے نشوونما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہوائوں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس کی زبان کی ترقی کا کیا بھروسا؟ کیا مبارک زمانہ ہو گا جبکہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفو ر ہم عمر ہوں گے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ وہ رابطہ ان عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات میں بعض باتوں کے لکھنے کو لوگ فضول سمجھیں گے مگر کیا کروں جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی حرف اس گراں بہاد استان کا نہ چھوڑوں۔ یہ اس سبب سے کہ اپنے پیارے اورپیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے لیکن نہیں اس شعر کے پتلے کا ایک رونگٹا بھی بیکا ر نہ تھا۔ ایک صنعت کاری کی کل میں کون سے پرزے کو کہہ سکتے ہیں کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں اور کون سی حرکت اس کی ہے۔ جس سے کچھ حکمت انگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اس واسطے میں کھوں گا اور سب کچھ لکھوں گا۔ جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہو سکے گی ایک حرف نہ چھوڑوں گاا۔ شیخ مرحوم کے والد محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے۔ مگر زمانے کے تجربے او ر بزرگوں کی صحبت نے انہیں ایسا حالات زمانہ سے ایسا باخبر کیاتھا کہ ان کی زبانی باتیں کتب تاریخ کے قیمتی سرمایے تھیں۔ وہ دلی میں کابلی دروازہ کے پاس رہتے تھے اور نواب لطف علی خاں نے انہیںمعتبر اور با لیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمتہ ان کے اکلوتے بیٹے تھے کہ ۱۲۰۴ھ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسے خبر ہو گی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا جو آسمان سخ نپر عید کا چاند ہو کر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نام ایک شخص بادشاہی حافظ کے گھر ا کے پاس رہتے تھے۔ محلے کے اکثر لڑکے انہی کے پاس پڑھتے تھے انہیں بھی وہیں بٹھا دیا۔ حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے شوق تخلص کرتے تھے۔ اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے تھے ویسے شعر کہتے تھے۔ محلے کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ کچھ کہو ا لے جای کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتاتھا۔ شیخ مرحوم خو د فرماتے تھے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت سے شعر یاد ہو گئے۔ نظم کے پڑھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاصل ہوتی تھی اورہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتاتھا۔ نظم کے پڑھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاصل ہوتی تھی۔ اور ہمیشہ اشعار پڑھا پھراکرتا تھا۔ دل میں شوق تھا کہ خدا سے دعائیں مانگتا تھا کہ الٰہی مجھے شعر کہنا آ جائے۔ ایک دن خوشی یں آ کر خود بخود میری زبان سے دو شعر نکلے اور یہ فقط حسن اتفاق تھا کہ ایک حمد میں تھا ایک نعت میں۔ اس عمر میں مجھے اتنا ہوش کہاں تھا کہ اس مبارک مہم کوخود اس طرح سمجھ کر شروع کرتا کہ پہلا حمد میں ہو دوسرا نعت میں۔ جب یہ بھی خیال ہن تھا کہ س قدرتی نفاق کو مبارک فال سمجھوں‘ مگر ان دو شعروں کے موزوں ہو جانے سے جو خوشی دل کوہوئی‘ اس کامزہ اب تک نہیں بھولتا۔ انہیں کہیں اپنی کتاب میں کہیں جا بجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائیوں سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا۔ غرض کہ اسی عالم میں کچھ کچھ کہتے رہے اور حافظ جی سے اصلاح لیتے رہے۔ اسی محلے میں میر کاظم حسین نام ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے کہ نواب سید رضی اللہ خان مرحوم کے بھانجے تھے۔ بے قرار تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے تھے۔ مگر ذہن کی جو دت اور طبیعت کی برافی کا یہ عالم تھا کہ کبھی برق تھے اور کبھی باد و باراں۔ انہیں اپنے بزرگوں ک صحبت میں تحصیل علم کے لیے اچھے اچھے موقع ملے شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب سے ا کے ساتھ رہتے تھے۔ اورمشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے۔ انہیں دنوں کا شیخ مرحوم کا ایک مطلع ہے کہ نمونہ تیزی طبع کا دکھاتاہے۔ ماتھے پہ ترے جھمکے ہے جھومر کاپڑا چاند لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لا کر سنائی۔ شیخ مرحوم نے پوچھا کہ یہ غزل کب کہی؟ خوب گرم شعر نکالے ہیں۔ انہوںنے کہا ہم تو شاہ نصیر کے شاگرد ہوئے۔ انہیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا اوران کے ساتھ جا کر شاگرد ہو گئے۔ سلسلے اصلاح کے جاری تھے۔ مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ وا طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی۔ کہ رشک جوتلامیذ الرحمن کے آئینو کا جہر ہے استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقعوں پر ایسا ہوا کہ شاہ صاحب نے ان کی غزل کو بے اصلاح پھیر دیا اور کہا کہ طبیعت پر زور ڈال کر کہو۔ کبھ کہہ دیا کہ یہ کچھ نہیں پھر سوچ کر کہو۔ بعض غزلوں کو جو اصلاح دی تو اس سے بے پروائی پائی گئی۔ ادھر انہیں کچھ تو یاروں نے چمکا دیا کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں۔چنانچہ اس طرح کئی دفعہ غزلیں پھیریں۔ بہت سے شعر کٹ گئے۔ زیادہ تر قباحت یہ ہوئی کہ شاہ صاحب کے صاحبزادے شاہ وجیہ الدین منیر تھے۔ جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشیدتھے۔ ان کی غزلوں میں توارد سے یا خدا جانے کسی اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے ۔ اس لیے انہیں زیادہ رنج ہوا۔ منیر مرحوم کو جس قدر دعوے تھے۔ اس سے زیادہ طبیعت میں نوجوانی کے زور بھرے ہوئے تھے۔ وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور کہتے تھے کہ جس غزل پر ہم قلم اٹھائیں گے اس زمین پر کون قدم اٹھا سکتا ہے؟ مشکل سے مشکل طرحیں کرتے تھے اور کہتے تھے کون پہلوان ہے جو اس فال کو اٹھا سکے۔ غرض ان سے اور شیخ مرحوم سے بہ مقتضائے سن اکثر تکرار ہوجاتی تھی اور مباحثے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ شیخ علیہ الرحمتہ نے فرمایا کہ گھر کے کہے ہوئے شعر صحیح نہیں۔ شاید آپ استاد سے کہلوا کر لاتے ہو گے۔ ہاں ایک جلسے میں بیٹھ کر اور آپ اور میں غزل کہیں۔ چنانچہ اس معرکے کی منیر مرحو م کی غزل نہیں ملی شیخ علیہ الرحمتہ کی غزل کا مطلع مجھے یاد ہے۔ یاں کے آنے کے مقرر قاصدا وہ دن کرے جو تو مانگے گا وہی دوں گا خدا وہ دن کرے اگرچہ ان کی طبیعت حاضرو فکر رسا بندش چست اس پر کلام میں زور سب کچھ تھا۔ مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا۔ نہ کوئی ان کا دوست ہمدرد تھا۔ اس لیے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی۔ اسی قیل وقال میں ایک دن سودا کہ غزل پر غز ل کہی دوش نقش پا شاہ صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوںنے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ استاد کی غزل پر غزل کہتا ہے ؟ اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اڑنے لگا۔ ان دنوںمیں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا۔ اشتیاق نے بے قرار ہو کر گھر سے نکالا مگر غز ل بے اصلاح تھی۔ دل کے ہر اس نے روک لیا کہ ابتدئاے کار ہے احتیاط شرط ہے۔ قریب شام افسردگی اور مایوسی کے عالم میں جامع مسجد تک آ نکلے۔ آثر شریف میں فاتحہ پڑھی۔ حوض پر آئے اور وہاں میر کلو حقیر بیٹھے ہوئے تھے۔ چونکہ مشاعرے کی گرم غزلوں نے روشناس کر دیا تھا اورسن رسیدہ اشخاص شفقت کرنے لگے تھے۔ میرا صاحب نے انہیں پاس بٹھایا اور کہا کہ کیوں میاں ابراہیم آج کچھ مکدر معلوم ہوتے ہو خیر و ہے؟ جو کچھ ملال دل پر تھا انہوںنے سب بیان کیا۔ میرا صاحب نے کہا بھلا وہ غزلیں سنائو انہوںنے غزل سنائی۔ میرا صاحب کو ان کے معاملہ پر درد آیا اور کہا کہ جائو بے تامل غزل پڑھ دو۔ کوئی اعتراض کرے گاتو جواب ہمارا ذمہ ہے اور ہاتھ اٹھ اکر دیر تک ان کے لیے دعا کرتے رہے۔ اگرچہ میر صحب کا قدیمانہ انداز تھا۔ مگر وہ ایک کہن سال شخص تھے۔ بڑے بڑے باکمال شاعروںکو دیکھا ہوا تھا۔ اور مکتب پڑھایا کرتے تھے۔ اس لیے شیخ مرحوم کی خاطر جمع ہوئی اور مشاعرے میںجا کر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی۔ چنانچہ غزل مذکور یہ ہے: رکھتا بہر قدم ہے وہ یہ ہوش نقش پا ہو خاک عاشقاں نہ ہم آغوش نقش پا افتادگاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو دامان خاک ہوتاہے روپوش نقش پا اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں بول اٹھے منہ سے ہر لب خاموش نقش پا اس رہگزر میں کس کو ہوئی فرصت مقام بیٹھے ہیں نقش پا بہ سرد وش نقش پا جسم نزار خاک نشیناں کوئے عشق یوں ہے زمین پہ جیسے تن و توش نقش پا پا بوس درکنار کہ اپنی تو خاک بھی پہنچی نہ ذوق اس کے بہ آغوش نقش پا اس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرے میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچازیادہ تر ہوا۔ طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر کرتی کی طرح دوڑنے لگی۔ اس زمانے کے لوگ مصنف ہوتے تھے۔ بزرگان پاک طینت جو استاتذہ سلف کی یاد گار باقی تھے مشاعرے میں دیکھتے تو شفقت سے تعریفیں کر کے دل بڑھاتے‘ بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سنتے۔ غزلیں ارباب نشاط کی زبانوں سے نکل کر کوچہ و بازار میں رنگ اڑانے لگیں۔ اکبر بادشاہ تھے۔ انہیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی مگر مرز ا ابو ظفر ولی وہد کہ بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا۔ اس لیے دربار شاہی میں جو جو کہنہ مشق شاعر تھے مثلاً حکیم ثناء اللہ خاں فراق‘ میر غالب علی خاں سید‘ عبدالرحمن خاں احسان‘ برہان الدین خاں زار‘ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم‘ ان کے صاحبزادے حکیم عزت اللہ خاں عشق‘ میاں شکیبا شاگرد میر تقی یر مرزا عظیم بیگ شاگرد سودا‘ـ میر قمر الدین منت‘ ان کے صاحبزادے میر نظام الدین ممنون وغیرہ سب مشاعرے میں آ کر جمع ہوتے تھے۔ اپنے اپنے کلام سناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھ۔میر کاظم حسین بے قرار کہ ولی عہد موصوف کے ملازم خاص تھے۔ اکثر ان صحبتوںمیں شامل ہوتے تھے۔ شیخ مرحوم کو خیال ہو ا کہ اس جلسے میں طبع آزمائی ہوا کرے تو قوت فکر کو خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن اس عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی قلعے میں جانے پاتا تھا۔ چنانچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعے میں پہنچے اور اکثر دربار ولی عہد میں جانے لگے۔ شاہ نصیر مرحوم کہ ولی عہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے۔ انہیں دنوں میں جان انفسٹن صاحب شکار پور سندھ وغیرہ سرحدات سے لے کر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے۔ انہیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی کہ قابلیت و علیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو۔ میر کاظم حسین نے اس عہدے پر سفارش کے لیے ولی عہد پر سفارش کے لیے ولی عہد سے شقہ چاہا۔ مرزا مغل بیگ ان دنوں میں ان کے مختار کل تھے۔ اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولی عہد کی زیادہ نظر عنایت ہو اسے کسی طرح سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقہ سفارش آسان ہو گیا اور وہ چلے گئے۔ چند روز بعد ایک دن شیخ مرحوم جو ولی عہد کے ہاں گئے تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے ۔ میاں ابراہیم استاد تو دکن گئے میر کاظم حسین ادھر چلے آئے تم نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا؟ غرض اسی وقت ایک غزل جیب سے نکال کردی کہ ذرا اسے با دو۔ یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بنا کر سنائی۔ ولی عہد بہادر بہت خوش ہوئے اور کہا بھئی کبھی کبھی تم آ کر ہماری غزل بنا جایا کرو۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ مختار محل کی خاطر سے اکبر بادشاہ کبھی مرزا سلیم‘ کبھی مرزا جہانگیر وغیرہ شاہزادوں کی ولی عیدہ کے لیے کوششیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مرزا ابوظفرمیرے بیٹے ہی نہیں۔ مقدمہ اس کا گورنمنٹ میں دائر تھا اور ولی عہد کو بجائے ۵ ہزار روپے کے فقط ۵ سو روپے مہینہ ملتاتھا ۔ غرض چند روز اصلاح جاری رہی اور آخر کار سرکار ولی عہدی سے چار روپے مہینا بھی ہو گیا۔ اس وقت لوگوں کے دلوں میںبادشاہ کا رعب داب کچھ نہ تھا۔ چنانچہ کچھ ولی عہدی کے مقدمے پر خیال کر کے ‘ کچھ تنخواہ کی کمی پر نظر کر کے باپ نے اکلوتے بیٹے کو ا س نوکری سے روکا لیکن ادھر تو شاعروں کے جھمگٹ کی دل لگی نے ادھر کھینچا۔ ادھر قسمت نے آواز دی کہ چار روپے نہ سمجھنا‘ یہ ایوان ملک الشعرائی کے چار ستون قائم ہوتے ہیں‘ موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ چنانچہ شیخ مرحوم ولی عہد کے استاد ہو گئے۔ دلی میں نواب عالی بخش خان معروف ایک عالی خاندان امیر تھے۔ علو م ضروری سے باخبر تھے اور شاعری کے کہنہ مشق مگر اس فن سے ایسا عشق رکھتے تھے کہ فنافی الشعر کا مرتبہ اسی کوکہتے ہیں ۔ چونکہ لطف کلا م کے عاشق تھے اس لیے جہاں متاع نیک دیکھتے تھے نہ چھوڑتے تھے۔ زمانے کی درازی نے سات شاعروں کی نطر سے ان کا کلام گزارنا تھا۔ چنانچہ ابتدا میں نصیر مرحوم سے اصلاح لیتے ؤرہے اور سید علی خاں غمگین وغیرہ وغیرہ استادوں سے بھی مشورہ ہوتا رہا۔ جب شیخ مرحوم کا شہرہ ہوا تو انہیں بھی اشتیاق ہوا۔ یہ موقع وہ تھا کہ نواب صاحب موصوف نے اہل فقر کی برکت سے صحبت سے دنیا ترک کرکے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا۔ چنانچہ استاد مرحوم فرماتے ہیں کہ میری ۱۹۔۲۰ برس کی عمر تھی۔ گھر کے قریب ایک قدیمی مسجد تھی۔ ظہر کے بعد وہاں بیٹھ کر میں وظیفہ پڑھ رہا تھا کہ ایک چوبدار آیا۔ اس نے سلام کیا اور کچھ چیز رومال میں لپٹی ہوئی میرے سامنے رکھ کر الگ بیٹھ گیا۔ وظیفے سے فارغ ہو کر اسے دیکھا تو اس میں ایک خوشہ انگور کا تھا۔ ساتھ ہی چوبدار نے کہا کہ نواب صاحب نے دعا فرمائی ہے۔ یہ تبرک بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ کا کلام تو پہنچا ہے مگر آپ کی زبان سے سننے کو جی چاہتا ہے۔ شیخ مرحوم نے وعدہ کیا کہ اور تیسرے دن تشریف لے گئے۔ وہ بہت اخلا ق سے ملے اور بعد گفتگو سے معمولی کے شعر کی فرمائش کی۔ انہوںنے ایک غزل کہنی شروع کی تھی۔ اس کا مطلع پڑھا۔ نگہ کا وار دل پر پھڑکنے جان لگی چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ خیر حال تو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا مگر تمہاری زبان سے شؤسنکر اور لطف حاصل ہوا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ حافظ غلام رسول شوق یعنی استاد مرحوم کے قدیمی استاد اسی وقت آ نکلے۔ نواب انہیں دیکھ کر مسکرائے اور شیخ مرحوم نے اسی طرح سلام کیا جو سعادت ند شاگردوں کا فرض ہے۔ وہ ان سے خفا رہتے تھے کہ شاگرد میرا اورمجھے غزل نہیں دکھاتا اور مشاعرو ںمیں میرے ساتھ نہیں چلتا۔ غرض انہوںنے اپنے شعر پڑھنے شروع کر دیے۔ شیخ مرحو م نے وہاں ٹھیرنا مناسب نہ سمجھا اور رخصت چاہی۔ چونکہ نواب مرحوم کے برابر بیٹھے تھے نواب نے چپکے سے کہا کان بدمزہ ہو گئے۔ کوئی شعر اپنا سناتے جائو۔ استاد مرحوم نے انہی دنوں ایک غزل کہی تھی۔ دو مطلعے اس کے پڑھے۔ جینا نظر اپنا ہمیں اصلا نہیںآتا گر آج بھی وہ رشک سیحا نہیں آتا مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا اس دن سے معمول ہو گیا کہ ہفتے میں دو دن جایا کرتے اور غزل بنا آیا کرتے تھے۔ چنانچہ جو دیوان معروف اب رائج ہے۔ وہ تمام و کمال انہی کا اصلاح کیا ہوا ہے۔ نواب مرحوم اگچہ ضعف پیری کے سبب سے خود کاوش کر کے مضمون کو لفظو ں میںنہیں بٹھا سکتے تھے۔ مگر اس کے حقائق و دقائق کو ایسا پہنچتے تھے کہ جو حق ہے۔ اس عالم میں استاد مرحوم کی جو ان طبیعت اور ذہن کی کاوش ان کی فرمائش کے نکتے نکتے کا حق ادا کرتی تھی۔ شیخ مرحو م کہا کرتے تھے کہ اگرچہ بڑی بڑی کاہشیں اٹھانی پڑیں۔ مگر ان کی غزل بنانے میں ہم آپ بن گئے۔ فرماتے تھے کہ اپنی لذت شوق میں وہ بھی کبھی کبھی جرات کبھی سودا کبھی میر کے انداز میں غزلیں لکھتے رہے۔ مگر اخیر میں کچھ بمقتضائے سن کچھ اس سبب سے کہ صاحب دل اور صاحب نسبت تھے خواجہ میر در د کی طرز میں آ گئے تھے۔ یہ بھی آپ ہی کہتے تھے کہ ان دنوں میں ہمارا عالم ہی اورتھا جوانی دوانی۔ ہم کبھی جرات کے رنگ میں کبھی سودا کے انداز میں اور وہ روکتے تھے۔ آج الٰہی بخش خاں مرحوم ہوتے تو ہم کہہ دکھاتے۔ اب ان کا دیوان ویسا ہی بنا دیتے جیسا ان کا جی چاہتا تھا۔ ان کی باتیں کرتے اور بار بار افسوس کرتے اور کہتے کہ ہائے الٰہی بخش خاں ان کا نام ادب سے لیتے تھے اور اس طرح ذکر کرتے تھے جیسے کوئی بااعتقاد اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے۔ ان کی سینکڑوں باتیں کیا کرتے تھے۔ جو دین و دنیا کے کاموں کا دستور العمل ہیں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا سخی میں نے آاج تک نہیں دیکھا جو آتا تھا امیر فقیر بچہ بوڑھا اسے بغیر دیے نہ رہتے تھے اور دنیا میں وہی کہ جو اس کے مناسب حال ہو‘ کوئی سوداگر نہ تھا کہ آئے اور خالی پھر جائے انہیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ہماری غزل ہمارے پاس بیٹھ کر بناتے جائو۔ سناتے جائو۔ میںنے ان کے باب میں پہلو بچایا تھا۔ مگر ان کی خوشی اسی میں دیکھی تو مجبور ہوا اور یہی خوب ہوا ۔ ایک دن میں ان کی غزل بنا رہاتھا کہ اس کا مقطع تھا: اک غزل پر درد سی معروف لکھ اس طرح میں ذوق ہے دل کو نہایت درد کے اشعار سے کون روتا ہے یہ لگ کر باغ کی دیوار سے جانور گرنے لگے جائے ثمر اشجار سے سوداگر آیا اور اپنی چیزیں دکھانے لگا۔ ان میں ایک اصفہانی تلوار بھی تھی۔ وہ پسند آئی خم دم آب داری اور جوہر دیکھ کر تعریف کی اور میری طرف دیکھ کر کہا: اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے میں نے اسی وقت دوسرا مصرع لگا کر داخل غزل کیا۔ بہت خوش ہوئے: سر لگا دیں ابروئے خمدار کی قیمت میں آج اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے خیر اور چیزوں کے ساتھ وہ تلوار بھی لے لی۔ میں حیران ہوا کہ یہ توان کے معاملات و حالات سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی اسے کیا کریں گے۔ خدا کی قدرت ۲‘۳ دن کے بعد بڑے صاحب (فریزر صاحب ریذیدنٹ دہلی) ایک اور صاحب کو ساتھ لے کر نواب احمد بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے۔ وہاں سے ان کے پاس بیٹھے۔ باتیں چیتیں ہوئیں۔ جو صاحب ساتھ تھے ان سے ملاقات کروائی۔ جب چلنے لگے تو انہوںنے وہی تلوار منگا کر صاحب کے ہمراہی کی کمر سے بنوھوائی اور کہا: برگ سبز است تحفہ درویش چہ کند بے نوا ہمیں دارد ان کے ساتھ میم صاحب بھی تھیں۔ ایک ارگن باجا نہایت عمدہ کسی رومی سوداگر سے لیا تھا۔ وہ انہیں دیا۔ ان کے اشعار کا ایک سلسلہ ہے۔ جس میں ردیف دا ر ۱۰۱مطلع ہے اور کوئی سبزی کے مضمون سے خالی نہیں۔ اسی روایت میں اس کانام تسبیح زمرد رکھا تھا۔ یہ تسبیح بھی استا د مرحوم نے پروئی تھی۔ اور آخر میں ایک تاریخ فارسی زبان میں اپنے نام سے کہہ کر لگائی تھی۔ جس دنوں ان کے دانے پروئے تھے تو نواب صاحب مرحو م کی سب پر فرمائش کی تھی کہ کوئی مثل کوئی محاورہ سبزی کا بتائو۔ ان کے بزل و کرم اور حسن اخلاق اور علو رتبہ کے سبب سے اکثر شرفا خصوصاً شعرا ٓا ٓ کر جمع ہوتے تھے اور اشعار سناتے جاتے تھے۔ ان دنوں ان کے شوق سے اوروں پر بھی سبز رنگ چھایا ہوا تھا۔ بھورے خاں آشفتہ ایک پرانے شاعر شاہ محمدی مائل کے شاگرد اوران کے مرید تھے۔ پانچ روپے وظیفہ بھی پاتے تھے۔ ان کے شعر میں ہر ی چگ کا لفظ آیا کہ ان کے ہاں ابھی تک نہ بدھا تھا۔ ان سے وہ شعر لے لیا اور اپنے انداز سے سجایا۔ آج یہاں کل وہاں گزرے یوہیں جگ ہمیں کہتے ہیں سبزہ رنگ اس سے ہری چک ہمیں انہیں سو روپے ایک رومال میں باندھ کر دے دیے اورکہ تمہاری کاوش کیوں خالی جائے۔ افسوس خیر میں کمبخت بھورے خاں نے روسیاہی کمائی اور سب تعلقات پر خاک ڈا ل کر ان کی ہجو کہی۔ لطف یہ کہ دریا دل نواب صاحؓ طبیعت پر اصلا میل نہ لائے لیکن اس نااہل کو ان کا آزردہ ہی کرنا منظور تھا۔ جب دیکھا کہ انہیں رنج نہیں تو نواب حسام الدین حیدر خاں نامی کی ہجو کہی۔ نامی مرحوم سے انہیں ایسی محبت تھی کہ وہ خود بھی کہتے تھے کہ ان دونوں بزرگوں میں محبت نہیں عشق ہے (اگلے زمانے کے لوگوں کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی تھیں) ان کی تعریف میں غزلیں کہہ کرداخل دیوان کی تھیں ایک مطلع یاد ہے: جو آئو تم مرے مہماں حسام الدین حیدر خاں کروں دل نذر جاں قرباں حسام الدین حیدر خاں جب ان کی ہجو کہی تو انہیں سخت رنج ہوا۔ اس پر بھی اتنا کہا کہ ہمارے سامنے نہ آیا کرو۔ وہ بھی سمجھ گیا۔ عذر میں کہا کہ لوگ ناحق بدنام کرتے ہیں میں نے نہیں کہی۔ بس اب آگے نہ بولو۔ اتنی مدت ہم نے زمین سخن کی خاک اڑائی‘ کیا تمہاری زبان نہیں پہچانتے۔ میں تو اس سے بدتر ہوں جو کچھ کہ تم نے کہا مگر میرے لیے تم میرے دوستوں کو خراب کرنے لگے۔ بھئی مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ پھرجیتے جی بھورے خاں کی صورت نہ دیکھی۔ استاد مرحوم فرماتے ہیں کہ دالان میں ایک طرف جانماز بچھی رہتی تھی۔ جب میں رخصت ہوتا توآٹھویں دسویں دن فرماتے۔ بھئی میاں ابراہیم ذراہماری جانماز کے نیچے دیکھنا۔ پہلے دن تو میں حیراان ہوا کہ ایک پڑیا میں کچھ روپے دھرے تھے۔ آپ نے سامنے سے مسکرا کر فرمایا: خدا دیوے تو بندہ کیوں نہ لیوے اس میں لطیفہ یہ تھا کہ ہم کس قابل ہیں جو کچھدیں۔ جس سے ہم مانگتے ہیں یہ وہی تمہیں دیتا ہے ۔ ایک دفعہ استاد بیمار ہوئے اور کچھ عرصہ کے بعد گئے۔ ضعف تھا اور کچھ کچھ شکایتیں باقی تھیں۔ فرمایا کہ حقہ پیا کرو۔ عرض کی کہ بہت خوب۔ اب وہ حقہ پلوائیں تو خالی حقہ کیا پلوائیں۔ ایک چاندی کی گڑگڑی چلم اور چنبل مغرق نیچیہ مرصع ہناں تیار کروا کے سامنے رکھو ادیا۔ خلیفہ صاحب(میاںمحمد اسماعیل) چھوٹے سے تھے کہ ایک دن استاد کے ساتھ چلے گئے۔ رکصت ہوئے تو ایک چھوٹا سا ٹانگن اصطبل سے منگایا۔ زین زرین کسا ہواا۔ اس پر سوار کر کے رخصت کیا۔ کہ یہ بچہ ہے کیا جانے گا کہ یں کس کے پاس گیا تھا۔ کسی کھانے کو جی چاہتا تو آپ نہ کھاتے۔ بہت ساپکواتے۔ لوگوں کو بلاتے۔ آپ کھڑے رہتے انہیں کھلواتے۔ خوش ہوتے اور کہتے کہ دل سیر ہو گیا۔ یہ ساری سخاوتیں اسی سعادت مند بھائی کی بدولت تھیں۔ جو دن بھر سر انجام مہام میں جان کھپاتا تھا۔ راتوں سوچ میں گھلتا تھا اور خاندان کے نام کو زندہ کرتا تھا اور ان سے فقط دعا کی التجا رکھتاتھا۔ استاد مرحوم فرماتے ہی کہ ایک دن میں بیٹھاا غزل بنا رہا تھا کہ نواب احمد بخش خاں آئے۔ آداب معمولی کے بعد باتوں باتوںمیں کہنے لگے کہ فلاں انگریز کی ضیافت کی اتنا روپیہ اس میں صرف ہوا۔ فلانی گھڑ دوڑ میں ایک چائے پانی دیا تھا۔ یہ خرچ ہو گیا۔ وہ صاحب آئے تھے اصطبل کی سیر دکھائی۔ کاٹھیا وار کے گھوڑوں ک جوڑی کھڑی تھی۔ انہوںنے تعریف کی میں نے بگھی میں جڑوائی اور اسی پر سوار کر کے انہیں رخصت کیا وغیرہ وغیرہ۔ کیاکروں خالی ملنا خالی رخصت کرنا مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ یہاں ے امیروں کو امارت کے بڑے بڑے دعوے ہیں(جس طرح بچے بزرگوں سے بگڑ بگڑ کر باتیں کرتے ہیں چیں بچیں ہوتے تھے اور کہتے تھے) فل خانے میں گیا تھاا۔ وہاں یہ بندوبست کر آیا ہوں کہ گھوڑیاں سب علاقے بھجوا دیں۔ حضرت کیا کروں شہر میں اس گلے کا گزارہ نہیں۔ یہ لوگ اس خرچ کا بوجھ اٹھائیں تو چھاتی ترق ہو جائے۔ الٰہی بخش خاں مرحوم بھی ادا شناسی میں کمال ہی رکھتے تھے تاڑ گئے چپکے بیٹھے سنتے تھے اور مسکراتے تھے۔ جب ان کی زبان سے نکلاا کہ چھاتی ترق جائے۔ آپ مسکرا کر بولے کہ بال تو آپ کی چھاتی میں آیا ہو گا شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں۔ پھر انہوںنے فرمایا کہ آخر امیر زادے ہو خاندان کا نام ہے۔ یہی کرتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہا کرتے۔ نواب احمد بخش خاں نے کہا۔ حضرت پھر آپ سے بھی نہ کہوں؟ فرمایا خدا سے کہو اور وہ بولے کہ مجھے آپ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ہی سے کہتا ہوں‘ آ پ خدا سے کہیے۔ فرمایا کہ اچھا ہم تم مل کر کہیں‘ تمہیںبھی کہنا چاہیے۔ نواب احمد بخش خاں بھی جانتے تھے کہ جو سخاوت ادھر ہوتی ہے عین بجا ہے او ر اسی کی ساری برکت ہے۔ ایک دن نواب احمد بخش خان آئے۔ لیکن افسردہ اور بر آشفتہ۔ الٰہی بخش خاں مرحوم سمجھ جاتے تھے کہ کچھ نہ کچھ آج ہے۔ جو اس طرح آئے ہیں پوچھا آج کچھ خفا ہو؟ کہا نہیں حضرت فیروز پور جھرکے جاتا ہوں۔ پوچھا کیوں؟ کہا بڑے ساحب (صاحب ریذیڈنٹ) نے حکم دیا ہے کہ جس کو ملنا ہو بدھ کو ملاقات کرے۔ حضرت آپ جانتے ہیں کہ مجھے ہفتے میں ۱۰ دفعہ کام پڑتے ہیں جب جی چاہا گیا جو ضرورت ہوئی کہہ سن آیا۔ مجھ سے یہ پابندیاں نہیں اٹھتیں۔ میں یہاں رہتا ہی نہیں فرمایا کہ تم سے کہا ہے؟ کہامجھ سے تو نہیں کہا سنا ہے۔ بعض روسا گئے تھے ان سے ملاقات نہ کی۔ یہی کہلا بھیجا کہ بدھ کو ملیے۔ فرمایا تمہارے واسطے نہیں اوروں کے واسطے ہو گا۔ احمد بخش نے کہا نہیں حضرت! یہ اہل فرنگ ہیں ان کا قانون عام ہوتا ہے۔ جو سب کے لیے ہے وہی میرے لیے ہو گا۔ فرمایا کہ بھا تم جائو تم ابھی جائو دیکھو تو کیا ہوتاہے۔ انہوںنے کہا بہت خوب جائوں گا۔ فرمایا کہ جائوں گا نہیں اٹھیے بس ابھی جائیے۔ نواب نے کہا نہیں میں نے عرض کیا ضرور جائوں گا۔بگڑ کر بولے عرض ورض نہیں بس شرط یہ ہے کہ اسی وقت جائیے اور سیدھے وہیں جائیے گا۔ احمد بخش خاں بھی انداز دیکھکر خاموش ہوئے اور اٹھ کر چلے۔ انہوںنے فرمایا کہ وہیں جانا اور مجھے پریشان تو کیا ہے ذراپھرتے ہوئے ادھر ہی کو آنا۔ ااستاد کہتے تھے کہ وہ تو گے میں ان کو میں دیکھتا ہوں کہ چپ اور چہرے پر اضطراب کوئی دو گھڑی ہوئی تھی۔ ابھی میں بیٹھا غزل بنا رہا ہوں اور دیکھتا ہو کہ نواب سامنے سے چلے آتے ہیں۔ خوش خوش لبوں پر تبسم آ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے دیکھتے ہی کہا کیوں صاحب؟ نواب بولے گیا تھا وہ اطلاع ہوتے ہی خود نکل آئے اور پوچھا کہ ہیں نواب! اس وقت خلاف عادت؟ میں نے کہا بھئی میں نے سنا تم نے حکم دیا ہے کہ جو ہم سے ملے بدھ کو ملے۔ ابھی میں نے تقریر تما م بھی نہ کی تھی کہ وہ بولے نہیں نہیں نواب صاحب آپ کے واسطے یہ حکم نہیں۔ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں آپ جس وقت چاہیں چلے آئیں۔ میں نے کہا بھائی تم جانتے ہو ریاست کے جھگڑے میں خفقانی دیوانہ۔ کوئی بات کہنی ہے کوئی سننی ہے بس میرے تو کام بند ہوئے۔ بھائی میں تو رخصت کو آیا تھا کہ فروز پور چلا جائوں گا اب یہاں رہ کر کیا کروںگا۔ انہوںنے پھر وہی کلمات اداکیے اور کہا کہ دن رات دن جب جی چاہے۔ میں نے کہا خیر تو خاطر جمع ہو گئی۔ اب میں جاتا ہوں ۔ الٰہی بخش خاں مرحوم شگفتہ ہو گئے اور کہا بس اب جائیے آرام کیجیے۔ آزاد جو خدا کے لیے دنیا چھوڑ بیٹھے ہیں خدا بھی انہیں نہیں چھوڑتا۔ ساتھ ہی استاد مرحوم یہ بھی کہتے تھے کہ اوریہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ زبان سے الٰہی بخش خاں مرحوم نے کبھی نہیں کہا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ انہیں آرزو تھی کہ علی بخش خاں( ایک ہی بیٹا تھا) بذات خود صاحب منصب اور صاحب امارت ہو‘ چچا کااور اس کی اولاد کا دست نگر نہ ہو۔ سازو سامان کر کے ریاستوں میں بھی بھیجا۔ صاحب لوگوں کے ہاں بھی بندوبست کیے۔ ظاہری و باطنی ساری کوششیں کیں۔ بات یہی نصیب نہ ہوئی۔ مشیت اللہ اور وہ خود بھی خیر میں سمجھ گئے تھے۔ ایک دن انہیں باتوں میں استاد نے فرمایا کہ علی بخش خاں بھی خوبصورت اورشاندار امیر زادہ تھا۔ میں نے عرض کی کہ حضرت! کئی دفعہ بعض مجلسوںمیں بعض درباروں می میں نے اسے دیکھا ایسے تو نہیں۔ افسردہ ہو کر کہا کیا کہتے ہو۔ ذکر جوانی اور پیری اور ذکر امیر و فقیری کس کو یقین آیا ہے۔ لطیفہ استاد مرحوم نے فرمایا کہ ان دنوں مرزا خاں کوتوال تھے۔ مرزا قتیل کے شاگرد فارسی نگاری اور انشاء پردازی کے ساتھ سخن فہمی کے دعوے رکھتے تھے۔ منشی محمد حسین خاں میر منشی تھے اور فی الحقیقت نہایت خوش صحبت خوش اخلاق بامروت لوگ تھے۔ ایک روز دونوں صاحب الٰہی بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے اور تعار ف رسمی کے بعد شعر کی فرمائش کی۔ انہیں اور لوگوں یکی طرح یہ عادت نہ تھی کہ خواہ مخواہ جو آئے انہیں اپنا شعر سنانے لگیں۔ اگرکوئی فرمائش کرتا تھا تو بات کو ٹال کر پہلے اس کا کلام سن لیتے تھے۔ شاعر نہ ہوتا تو کہتے کسی اور استاد کے دو چار شعر پڑھیے۔ جو جو آپ کو پسند ہوں۔ جب اس کی طبیعت معلوم کرلیتے تو اسی رنگ کا شعر اپنے اشعارمیں سے سناتے۔ اسی بنیاد پر ان سے کہا کہ آپ دونوں صاحب کچھ کچھ اشعار بنائیے۔ انہوں نے کچھ شعر پڑھے۔ بعد اس کے کلام الٰہی بخش مرحوم نے دو تین شعر وہ بھی ان کے اصرار سے پڑھے اورادھر ادھر کی باتوں میں ٹال گئے۔ جب وہ چلے گئے تو مجھ سے کہنے لگے۔ میاں ابراہیم ! مت نے دیکھا اور ان کے شعر بھی سنے! عجب مجہول الکیفیت ہیں۔ کچھ حال ہی نہیں کھلتا کہ ہیں کیا؟ یہی مرزا خاں اور منشی صاحب ہیں جن کی سخن پردازی اورنکتہ یابی کی اتنی دھوم ہے اور اس پر تماش بینی کے بھی دعوے ہیں۔ رنڈی تو ان کے منہ پر دو جوتیاں بھی نہیں مارتی ہو گی۔ بھلا یہ کیا کہیں گے اور کیا سمجھیں گے۔ آزاد … ملک سخن اور شاعری کا عالم… عالم گوناں گوں ہے۔ ہمہ گیر ذہن اور کیفیت سے لطف اٹھانے والی طبیعت اس کے لیے لازم ہے ۔ الٰہی بخش خاںمرحوم صاحب دل ‘ پاکیزہ نفس‘ روشن ضمیر تھے۔ مگر ہر بات کو جانتے تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ بات کا جاننا اور چیز ہے اور کرنا اور چیز ہے۔ طبیعتیں ہیں کہ نہیں کرتیں اور سب کچھ جانتی ہیں اور ایسی بھی ہیں کہ سب کچھ کرتی ہیں اور کچھ نہیں جانتیں۔ خوشا نصیب ان لوگوں کے جنہیں خدا اثر پذیر دل اور کیفیت کے پانے والی طبیعت عنایت کرے کہ عجب دولت ہے۔ ادھر دلی عہد بہادر کی فرمائشیں ادھر نواب مرحوم کی غزلوں پر طبیعت کی آزمائشیں تھیں کہ کئی برس بعد نصیر مرحوم دکن سے پھرے اور اپنا معمولی مشاعرہ جاری کیا۔ شیخ علیہ الرحمتہ کی مشقیں بہت زوروں پر چڑھ گئی تھیں۔ انہوںنے بھی مشاعرے میں جا کر غزل پڑھی۔ شاہ صاحب نے دک میں کسی کی فرمائش سے ۹ شعر کی ایک غزل کہی تھی۔ جس کی ردیف تھی آتش و آب و خاک دبائو‘ وہ غزل مشاعرے میں سنائی اور کہا کہ اس طرح کی جو غزل لکھے میں اسے استاد مانتا ہوں۔ دوسرے مشاعرے میں انہوں نے س پر غز ل پڑھی۔ شاہ صاحب کی طرف سے بجائے خود اس پر کچھ اعتراض ہوئے۔ جشن قریب تھا۔ شیخ علیہ الرحمتہ نے بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ اسی طرح میں لکھا۔ مگر پہلے مولوی شاہ عبدالعزیز کے پاس لے گئے کہ اس کے صحت و سقم سے آگاہ فرمائیں۔ انہوںنے سن کر پڑھنے کی اجازت دی کہ ولی عہد نے اپنے شقے کے ساتھ اسے پھر شاہ صاحب کے پاس بھیجا ۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا‘ وہی جواب میں لکھ دیا اور یہ شعر بھی لکھا: بود بگفتہ من حرف اعتراض چناں کسے بدیدہ بینا فرد برد انگشت شیخ مرحوم کا دل اور بھی قوی ہو گیا اور دربار شاہی میں جا کر قصیدہ سنایا۔ اس کے بڑے بڑے چرچے ہوئے اور کئی دن کے بعد سنا کہ اس پر اعتراض لکھے گئے ہیں۔ شیخ مرحوم قصیدہ مذکورہ کو مشاعرے میں لے گئے کہ وہاں پڑھیں گے اور روبرو معرکہ فیصلہ ہو جائے۔ چنانچہ قصیدہ پڑھا گیا۔ شاہ نصیر مرحوم نے ایک مستعد طالب علم کو کتب تحصیلی اسے خوب رواں تھیں‘ جلسے میں پیش کر کے فرمایا کہ انہوںنے اس پر اعتراض لکھے ہیں۔ شیخ علیہ الرحمتہ نے عرض کی کہ میں آ پ کا شاگرد ہوں‘ اور اپنے تئیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ کے اعتراضوں کے لیے قابل خطاب ہوں۔ انہوںنے کہا کہ مجھے کچھ تعلق نہیں‘ انہوںنے جو کچھ لکھا ہے ۔ شیخ مرحوم نے کہا خیر تحریر تو اسی وقت تک ہے کہ فاصلہ دوری کے درمیان ہو جب آمنے سامنے موجود ہیں تو تقریر فرمائیے۔ قصیدے کا مطلع تھا: کوہ اور اندھی میں ہوں گر آتش و آب و خاک و باد آج نہ چل سکیں گے پر آتش و آب و خاک و باد معترض نے اعتراض کیا کہ سنگ میں آتش کے چلنے کا ثبوت چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب پہاڑ کو بڑھنے کے سبب سے حرکت ہے تو اس میں بھی آگ کو بھی حرکت ہو گی۔ معترض نے کہا کہ سنگ میں آتش کا ثبوت چاہیے۔ انہوںنے کہا مشاہدہ! اس نے کہا کہ کتابی سند دو۔ انہوںنے کہا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہوشنگ کے وقت میں آگ نکلی۔ اس نے کہا کہ شاعری میں شعر کی سند درکار ہے۔ تاریخ شعر میں نہیں چلتی حاضرین مشاعرہ ان سوال و جواب کی الٹ پلٹ کے تماشے دیکھ رہے تھے اور اعتراض پر حیران تھے کہ دفعتہ شیخ علیہ الرحمتہ نے یہ شعر محسن تاثیر کا پڑھا: پیش از ظہور جلوہ جانا نہ سوختیم آتش بہ سنگ بود کہ ماخانہ سوختیم سنتے ہی مشاعر ے میں غلسے ایک ولولہ پیدا ہوا اور ساتھ ہی سودا کامصرع گزرانا: ہر سنگ میں شمار ہے تیرے ظہور کا اسی طرح اور اکثر سوال وجواب ہوئے۔ شاہ صاحب بھی بیچ میں کچھ دخل دیتے تھے ۔ آخیر میں انہوںنے ایک شعر پر اعتراض کیا کہ اس میں ثبوت روانی کا نہیں ہے۔ شیخ علیہ الرحمتہ نے کہا یہاں تغلیب ہے۔ اس وقت خود شاہ صاحب سے فرمایا کہ یہ تغلیب کہیں آئی نہیں۔ انہوںنے کہا کہ تغلیب کا قاعدہ عام ہے۔ انہوںںے کہ اکہ جب تک کسی استا د کے کلا م میں نہ ہو جائز نہیں ہو سکتی۔ شیخ علیہ الرحمتہ نے کہا کہ آپ نے ۹ شعر کی غزل پڑھ کر فرمایاتھا کہ اس طرح میں کوئی غز کہے توہم اسے استادجانیں۔ میں نے تو ایک غزل اور تین قصیدے لکھے اب بھی استاد نہ ہوا؟ معترض نے کہا کہ اس وقت مجھ سے اعتراضوں کا پورا سرانجام نہیں ہو سکتا۔ کل پر منحصر رکھنا چاہیے اور جلسہ برخاست ہوا۔ اسی دن سے انہیں تکمیل علوم اور سیر کتب کا شغل واجب ہوا۔ قدرتی سامان اس کا یہ ہوا کہ راجہ صاحب رام جو املاک شاہ اودھ کے مختار تھے انہیں یہ شوق ہوا کہ اپنے بیٹے کو کتب علمی کی تحصیل تمام کروائیں۔ مولوی عبدالرزاق کہ شیخ مرحوم کے قدیمی استاد تھے۔ وہی ا ن کے پڑھانے پر مقرر ہوئے۔ اتفاقاً ایک دن یہ بھی مولوی صاحب کے ساتھ گئے۔ چونکہ ان کی تیزی طبع کا شہرہ ہو گیا تھا۔ راجہ صاحب رام پور نے ان سے کہا میاں ابراہیم! تم ہمیشہ درس میں شریک رہو۔ چناانچہ نوبت یہ ہو گئی کہ اگر یہ کبھی شغل یا ضرورت کے سبب وہاں نہ جاتے تو راجہ صاحب را م کا آدمی انہیں ڈھونڈ کر لاتا ااورانہیں تو ان کا سبق ملتوی کر دیتا۔ کہا کرتے تھے کہ جب بادشاہ عال ولی عہدی میں تھے تو مرزا سلیم کے بیاہ کی تہنیت میں ایک مثنوی ہم نے لکھی تھی۔ اس کی بحر مثنوی کی بحروں سے الگ تھی۔ لوگوں نے چرچا کیا کہ جائز نہیں ۔ میرنجات کی گل کشتی ہماری دیکھی ہوئی تھی۔ مگر حکیم مرزا محمد صاحب رحمہ اللہ زندہ تھے اور میرے والد مرحوم انہیں کا علاج کرتے تھے۔ وسعت معلومات اور حصول تحقیقات کی نظر سے ہم نے ان سے جا کرپوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ رواج اتفاقی ہے جو مثنوی انہی آٹھ بحروں میں منحصر ہو گئی ہے ورنہ طبع سلیم پرکون حاکم ہے جو رو کے۔ جس بحر میں چاہو لکھو۔ استاد کے مسودوں میں ایک پرچے پر چند شعر اس کے نکلے تھے۔ ان میں ساچق کا مضمون تھا۔ دو شعر اب تک یاد ہیں: ٹھلیاں تو نہ تھیں وہ مے عشرت کے جلو تھے یا قلزم مستی کے حباب لب جو تھے لازم تھا کہ لکھ باندھتے یہ ان کے گلو میں ہے بند کیا عیش کے دریا کو سبو میں چند سوال کے بعد انہوںنے ایک قصیدہ اکبر بادشاہ کے دربار میں کہہ کر سنایا کہ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے صناع و بدائع صرف کیے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ایک زبان میں جو ایک ایک زبان میں جو ایک ایک شعر تھا ان کی تعداد ۱۸ تھی۔ مطلع اس کا یہ ہے: جب کہ سرطان و اسد مہر کا ٹھہرے مسکن آب و ایلولہ ہوئے نشوونمائے گلشن اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا ۔ اس وقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس کی تھی۔ حافظ احمد یار نے چند روز پہلے خواب میں دیکھ اکہ ایک جنارہ رکھا ہے بہت سے لوگ گرد جمع ہیں ۔ وہاں حافظ عبدالرحیم کہ حافظ احمد یار کے واالد تھے ایک کھیر کا پیالہ لیے کھڑے ہیں اور شیخ علیہ الرحمتہ کو اس میں سے چمچے بھر کر دیے جاتے ہیںَ حافظ موصوف نے ان سے پوچھا کہ یہ معرکہ ہے اور جنازہ کس کا ہے۔ انہوںنے کہا یہ مرزا رفیع کا جنازہ ہے اورمیاں ابراہیم کے قائم مقام مقرر ہوئے ہیں۔ خاقانی ہند کے خطاب پر لوگوں نے بڑے چرچے کیے کہ بادشاہ نے کیا کیا۔ کہن سال اور نامی شاعروں کے ہوتے ایک نوجوان کو ملک الشعراء بنایا اور ایسا عالی درجے کا خطاب دیا۔ ایک جلسے میں یہی گفتگو ہو رہی تھی۔ کسی نے کہا کہ قصیدے پر یہ خطاب عطا ہوا ہے اسے بھی تو دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ قصیدہ مذکور ہ لا کر پڑھا گیا۔ میر کلو حقیر کہ شاعرسن رسیدہ اور شعرائے قدیم کے صحبت یافتہ تھے سن کر بولے کہ بھئی انصاف شرط ہے کلام کو بھی تو دیکھو۔ ایسے شخص کو بادشاہ نے خاقانی ہند کے خطاب سے ملک الشعراء بنایا تو کیا برا کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب استاد مرحوم نے اور یہ احوال بیان کیا‘ اس وقت بھی کہا تھا اور جب اس ارباب زمانہ کی انصافی یا ان کی بے خبری اور بے بصری سے دق ہو کر کچھ کہتا تو فرماتے تھے کہ بے انصافوں ہی میں سے کوئی با انصاف بھی بول اٹھتا ہے۔ بے خبروں میں باخبر بھی نکل آتا ہے۔ اپنا کام کیے جائو۔ ۲۶ برس کی عمر تھی جبکہ جملہ منہیات سے توبہ کی اور اس کی تاریخ کہی۔ اے ذوق بگوسہ بار توبہ مرزا ابوظفر بادشاہ ہوکر بہادر شاہ ہوئے تو انہوںنے پہلے یہ قصیدہ گزرانا۔ روکش ترے کرے رخ سے ہو نور سحر رنگ شفق ہے ذرہ تیرا پرتوا نور سحر رنگ شفق اگرچہ مرزا ابوظفر ہمیشہ انہیں دل سے عزیز رکھتے تھے اور دلی رازوں کے لیے مخزن اعتبار سمجھتے تھے۔ مگر ولی عہدی میں مرزا مغل بیگ مختار تھے۔ جب کبھی بڑی سے بڑی ترقی یا انعام سے موقع پر آئے تواستاد کے لیے یہ ہوا کہ چار روپے مہینے سے پانچ روپے ہو گئے۔ پانچ سے آٹھ روپے ہو گئے۔ جب بادشاہ ہوئے اور مرزا مغل بیگ وزیر ہوئے تو وزیر شاہی کا سارا کنبہ قلعے میں بھر گیا۔ مگر استاد شاہی کو دس روپے مہینہ پھر بھی انہوں نے حضور میں اپنی زبان سے ترقی کے لیے عرض نہیں کیا۔ ان کی عادت تھی کہ فکر سخن میں ٹہلا کرتے تھے اور شعر موزوں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان دونوں میں جب کوئی عالی مضمون چستی اور درستی کے ساتھ موزوں ہوتاتو اس کے سرور میں آسمان کی طرف دیکھتے اور کہتے پھرتے۔ یوں پھریں اہل کمال آشفتہ حال افسوس ہے اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے میاں عبدالعزیز خاں صاحب ایک مرد بزرگ صاحب نسبت فقیر تھے۔ شیخ مرحوم بھی ان سے بہت اعتقاد رکھتے تھے۔ اس عالم میں ایک دن ان کے پاس گئے او رکہا کہ تخت نشینی سے پہلے حضور کے بڑے بڑے وعدے تھے۔ لیکن اب یہ عال ہے کہ الف کے نام ب نہیں جانتے‘ زبا ں تک درست نہیں مگر جو کچھ ہیں مرزا مغل بیگ ہیں۔ انہوںنے کہا کہ خدائی کے کارخانے ہیں اور اگرچہ عقل ظاہر میں کام نہیں کرتی مگریہ دیکھو کہ جو دولت تم کودی ہے وہ اس کو بھی تو نہیں دی ہے۔ جس دعویٰ سے تم دربار میں کھڑے ہو کر اپنا کلام پڑھتے ہو‘ اس دعوے سے وہ اپنی وزارت کے مقام پر کب کھڑا ہو سکتا ہو گا۔ ادنی ادنیٰ منشی متصدی اس کے لکھتے پڑھتے ہوں گے وہ کیسا ترستا ہو گا کہ نہ ان کے لکھے کو سمجھ سکتا ہے۔ نہ ان کا جھوٹ سچ معلوم کر سکتا ہے۔ شیخ مرحوم نے ان کی ہدایت کو تسلیم کیا اور پھر کبھی شکایت نہ کی۔ چند روز کے بعد مرزا مغل بیگ کی ترکی تمام ہو گئی۔ تمام کنبہ قلعے سے نکالا گیا۔ نواب حامد علی خاںمرحوم مختار ہو گئے‘ جب استاد شاہی کا سو روپیہ مہینہ ہوا۔ ہمیشہ عیدوں اور نو روزوں کے جشنوں میں قصیدے مبارک باد کے پڑھتے تھے اور خلعت سے اعزاز پاتے تھے۔ اواخر ایام میں ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہو گئے۔ جب شفا پائی اور انہوںنے ایک قصیدہ غرا کہہ کر گزارنا تو خلعت کے علاوہ خطاب خاں بہادر اور ایک ہاتھی معہ حوضہ نقرئی انعام ہوا۔ پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہ کر گزارنا۔ جس کا مطلع ہے۔ شب کو میں اپنے سربستہ خواب راحت اس پر ایک گائوں جاگیر میں عطا ہوا۔ جس رات کی صبح ہوتے انتقال ہوا قریب شام میں بھی موجود تھا کہ انہیں پیشاب کی حاجت معلوم ہوئی۔ خلیفہ صاحب نے اٹھایا۔ چوکی پائنتی لگی ہوئی تھی۔ ہاتھ کا سہارا دیا اور انہوںنے کھسک کر آگے بڑھنا چاہا۔ طاقت نے یاوری نہ دی تو کہا‘ آہ ناتوانی ! خلیفہ صاحب نے فرمایا‘ شاعروں کا ضعف ہو گیا۔ حافظ ویران بھی بیٹھے تھے۔ وہ بولے کہ آپ نے بھی ضعف کے بڑے بڑے مضمون باندھے ہیں۔ مسکرا کر فرمایا کہ اب تو کچھ اس سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ اس عالم میں بھی مبالغہ قائم ہے۔ خدا اسی مبالغے کے ساتھ توانائی دے۔ میں رخصت ہوا۔ رات اسی حالت میں گزری ۔ صبح ہوتے کہ ۲۴ صفر ۱۲۷۱ھ جمعرات کا دن تھاا ۱۷ دن بیمار رہ کر وفات پائی۔ مرنے سے ۳ گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔ کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے شعرائے ہند نے جس قدر تاریخیں ان کی کہیں‘ آج تک کسی بادشاہ یا صاحب کمال کو نصیب نہیں ہوئیں۔ اردو اخبار ان دنوں دہلی میں جار ی تھا۔ برس دن تک کوئی اخبار ایساا نہ تھا جس میں ہر ہفتے کئی کئی تاریخیں نہ چھپی ہوں۔ خاص حالات اور طبعی حالات شیخ مرحوم و قامت میںمتوسط اندام تھے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں ۔ آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ پست ہمت یہ ہووے پست قامت ہو تو ہو رنگ سانولا چیچک کے داغ بہت تھے کہتے تھے کہ ۹ دفعہ چیچک نکلی تھی۔ مگر رنگت اور وہ داغ کچھ ایسے مناسب و موزوں واقع ہوئے تھے کہ چمکتے تھے اوار بھلے معلوم ہوتے تھے۔ آنکھیں روشن اورنگاہیں تیز تھیں۔ چہرے کا نقشہ کھڑا تھا اور بدن مین پھرتی پائی جاتی تھی۔ بہت جلد چلتے تھے۔ اکثر سفید کپڑے پہنتے تھے اور وہ ان کونہایت زیب دیتے تھے۔ آواز بلند اور خوش آئندہ۔ جب مشاعرے میں پڑھتے تھے تو محفل گونج اٹھتی تھی۔ کسی اور سے ہرگز نہ پڑھواتے تھے۔ صانع قدرت جنہیں صاحب کمال کرتاہے انہیں اکثر صفتیں دیتا ہے۔ جن میں وہ ابنائے جنس سے صاف الگ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ان کی تیزی ذہن اور براقی طبع کا حال تو اب بھی ان کے کلام سے ثابت ہے۔ مگر قوت حافظہ کے باب میں ایک ماجرا عالم شیر خواری کاانہوںنے بیان کیا ہے جسے سن کر سب تعجب کریں گے کہتے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ اس عالم میں ایک دن مجھے بخار تھا۔ والدہ نے پلنگ پر لٹا کر لحاف اوڑھا دیا اور آپ کسی کام کوچلی گئیں۔ ایک بلی لحاف میں گھس آئی۔ مجھے اس سے اور اس کی خرخر کی آواز سے نہایت تکلیف معلوم ہونے لگی۔ لیکن نہ ہاتھ سے ہٹا سکتا تھا نہ زبان سے پکار سکتاتھا۔ گھبراتا تھا اور رہ جاتاتھا۔ تھوڑی دیر میں والدہ آ گئیں۔ انہو ں نے اسے ہٹایا تو مجھے غنیمت معلوم ہوا وہ دونوں کیفیتیں اب تک یاد ہیں۔ چنانچہ میں جب بڑا ہو تو میں نے والدہ سے پوچھا تو انہوںنے یاد کر کے اس واقعے کی تصدیق کی اورکہا کہ فی الحقیقت اس وقت تیری عمر برس دن سے کچھ کم تھی۔ صلاحیت طبع کے باب میں خدا کا شکر ادا کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک دن املی کے درخت میں کنکوا اٹک گیا۔ میں اتارنے کو اوپر چڑھ گیا۔ اور ایک ٹہنی کو سہارا کے قابل سمجھ کر پائوں رکھا۔ وہ ٹوٹ گئی۔ میں نیچے آ پڑا۔ بہت چوٹ لگی‘ مگر خدانے ایسی توفیق دی کہ پھر نہ کنکوا اڑایا‘ نہ درخت پر چڑھا۔ عمر بھر اپنے ہاتھ سے جانور ذبح نہیں کیا۔ عال جوانی کا ذکر کرتے تھے کہ یاروں میں ایک مجرب نسخہ قوت باہ کا بڑی کوششوں سے ہاتھ آیا ۔ شریک ہوکر اس کے بنانے کی صلاح ٹھہری۔ ایک ایک جز کو بہم پہنچانا ایک ایک شخص کے ذمے ہوا۔ چنانچہ ۴۰ دنوں چڑوں کے مغز ہمارے سر ہوا۔ ہم نے گھر آکر ان کے پکڑنے کے سامان پھیلا دیے اور دو تین چڑے پکڑ کر ایک پنجرے میں ڈالے ان کا پکڑنا دیکھکر دل میں خیال آیا کہ ابراہیم ایک پل کے مزے کے لیے ۴۰ بے گناہوںکا مارنا کیا انسانیت ہے؟ یہ بھی آخر جان رکھتے ہیں اوراپنی پیاری زندگی کے لیے ہر قسم کی لذتیں رکھتے ہیں۔ اسی وقت اٹھا کر انہیں چھوڑ دیا اور سب سامان توڑ پھوڑ کر یاروں میں جا کر کہہ دیا کہ بھئی ہم اس نسخے میں شریک نہیں ہوتے۔ ان کی عادت تھی کہ ٹہلتے بہت تھے۔ دروازے کے آگے لمبی گلی تھی۔ اکثر اس میں پھرا کرتے تھے۔ رات کے وقت ٹہلتے ٹہلتے آئے اورکہنے لگے کہ میاں ایک سانپ گلی میں چلا جاتا تھا۔ حافظ غلام رسول ویران شاگرد رشید بھی بیٹھے تھے۔ انہوںنے کہا کہ حضرت پھر آپ نے اسے مارا نہیں؟ کسی کوا ٓواز دی ہوتی۔ فرمایا کہ خیال تو مجھے بھی آیاتھا مگرپھر میں نے کہا کہ ابراہیم؟ آخریہ بھی تو جان رکھتاہے تجھے کے رکعت کا ثواب ہو گا؟ پھریہ قطعہ پڑھا: چہ خوش فردوسی پاک زاد کہ رحمت برآں تربت پاک باد میازار مورے کہ دانہ کش است کہ جاں دارد و جان شیریں خوش است ایک دفعہ برسات کا موسم تھا۔ بادشاہ قطب میں تھے۔ یہ ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔ اس وقت قصیدہ لکھ رہے تھے۔ شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت چڑیاں سایہ بان میں تنکے رکھ کر گھونسلا بنا رہی تھیں۔ اور ان کے تنکے جو گرتے تھے انہیں لین کو با ر بار ان کے پا س آ بیٹھتی تھیںَ یہ عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ ایک چڑیا سر پر آن بیٹھی۔ انہوںنے ہاتھ سے اڑا دیا۔ تھوڑی دیر میں پھر آ ن بیٹھی‘ انہوںنے پھر اڑادیا۔ جب کئی دفعہ ایسا ہوا تو ہنس کر کہا کہ اس غیبانی نے میرے سر کو کبوتروں کی چھتری بنا یا ہے۔ ایک طرف میں بیٹھا تھا ایک طرح حافظ ویران بیٹھے تھے۔ وہ نابینا ہیں۔ انہوںنے پوچھا حضرت کیا؟ میں نے حال بیان کیا ۔ ویران بولے کہ ہمارے سر پر تو نہیں بیٹھتی۔ استاد نے کہا کہ بیٹھے کیونکر؟ جانتی ہے کہ یہ بلا ہے عالم ہے حافظ ہے ابھی احل لکم الصید کی آیت پڑھ کر کلو واشربو بسم اللہ اللہ اکبر کر دے گا۔ دیوانی ہے جو تمہارے سر پر بیٹھے؟ فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے تین سو دیوان اساتذہ سلف کے دیکھے اور ان کا خلاصہ کیا۔ خان آرزو کی تصنیفات اور ٹیک چند بہار کی تحقیقات اوراس قسم کی اور کتابیں گویا ان کی زبان پر تھیں مگر مجھے اس کا تعجب نہیں۔ اگر شعرائے عجم کے ہزاروں شعر انہیں یاد تھے تو مجھے حیرت نہیں گفتگو کے وقت جس تڑاقے سے وہ شعر سند میں دیتے تھے مجھے ا س کا بھی خیال نہیں کیونکہ جس فن کووہ لیے بیٹھے ہیں یہ سب کے لوازما ت ہیں۔ ہاں تعجب یہ ہے کہ تاریخ کا ذکر آئے تو وہ ای صاحب نظر مورخ۔ تفسیر کا ذکر آئے تو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ گویا تفسیر کبیر دیکھ کر اٹھے ہیں۔ خصوصاً تصوف میں ایک عالم خاص تھا ۔ جب تقریر کرتے تھے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی ہیں یا ابایزید بسطامی بول رہے ہیں کہ وحدت وجود اور وحدت شہود میں علم اشراق کا پرتوہ دے کر کبھی ابو سعید ابو الخیر تھے کبھی محی الدین ابن عربی پھر جو کہتے تھے ایسے کانٹے کی تول کہتے تھے کہ د ل پر نقش ہوجاتا تھا او رجو کچھ ا ن سے سن لیا ہے آج تک دل پر نقش ہے۔ رمل اور نجوم کا ذکر آئے تو وہ نجومی تھے خواب کی تعبیر میں انہیں خدا نے ایک ملکہ راسخہ دیا تھا اورلطف یہ کہ احکام اکثر مطابق واقع ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس قدر وسعت نظر بہم پہنچانے کا تعجب ہے مگر اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ ان کے حافظے میں اس قدر مضامین محفوظ کیونکر رہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگرچہ شعر کا مجھے بچپن سے عشق ہے‘ مگر ابتدا میں دنیا کی شہرت اورناموری اور تفریح طبع نے مجھے مختلف کمالوں کے رستے دکھائے چند رو ز موسیقی کا شوق ہوا اور کچھ حاصل بھی کیا مگر خاندیس سے ایک بڑا صاحب کمال گویا آیا۔ اس سے ملاقات کی۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ جو گانے کا شوق کرے اس کے لیے ۳۰۰ برس کی عمر چاہیے ۱۰۰ برس سیکھے ۱۰۰ برس سنتاپھرے اور جوسیکھا ہے اسے مطابق کرے۔ پھر سو برس بیٹھ کر اوروں کو سنائے اوراس کا لطف اٹھائے یہ سن کر دل برداشتہ ہو گئے اوریہ بھی خیا ل آیاکہ ابراہیم اگر بڑا کما ل پیدا کیاتو ایک ڈوم ہو گئے۔اس پر بھی جو کلاونت ہو گا وہ ناک چڑھا کر یہی کہے گا کہ اتائی ہیں۔ ایک سپاہی زادے سے ڈوم بننا کیا ضرور ہے۔ نجوم و رمل کا بھی شوق کیا۔ اس میں دست گاہ پیداکی۔ نجوم کا ایک صاحب کمال مغل پورہ میں رہتاتھا۔ اس سے نجوم کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی سوال کا نہایت درست جواب اس نے دیا اور گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایک ایک ستارے کا حال او ر اس کے خواص معلوم کرنے کے لیے ۷۷ برس چاہئے ہیں سن کر اس سے بھی دل برداشتہ ہو گئے۔ طب کو چند روز کیا۔ اس میں خون ناحق نظر آنے لگے ۔ آخر جو طبیعت خدا نے دی تھی وہی خوبی قسمت کا سامان بنی۔ مکھن لال کے گنج میںایک جوتشی پنڈت تلسی رام نابینا تھا۔ ایک مرد دیرینہ سال منشی درگا پر شاد کہ شیخ مرحوم کے قدیمی دوست تھے اور جو تشی صاحب کے پاس بھی جایا کرتے تھے۔ انہوںنے جوتشی صاحب کی بہت تعریف کی اورایک دن قرار پاکر یہ بھی ان کے پاس گئے۔ کئی دلچسپ سلسلے گفتگوئوں کے ہوئے۔ بعد ازاں انہوںنے بے اظہار نام اپنے زائچے کی صورت حال بیان کی۔ جوتشی صاحب نے کہا کہ وہ شخص صاحب کمال ہو ا اور غالباً کمال کاکسی ایسے فن میں ہو کہ باعث تفریح ہو۔ اس کا کمال رواج خوب پاوے۔ اس کے حریف بھی بہت ہوں مگر کوئی سامنے نہ ہوسکے۔ وہ اسی قسم کی باتیں کہے جاتے تھے جو شیخ مرحوم نے پوچھا کہ اس کی عمر کیا ہو؟ انہوں نے کہا کہ ۶۷‘۶۸‘۷۹ یہ سن کر شیخ مرحو م کے چہرے پر آثار ملال ظاہر ہوئے اور خدا کی قدرت ۶۸ برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ اگرچہ عقلاً او رنقلاً احکام نجوم پر اعتقاد نہ کرنا چاہیے۔ لیکن واقعہ کے پیش نظر گزرا تھا اس لیے واقعہ نگاری کاحق ادا کیا۔ میں بھی دیکھتا تھا کہ انہیں آخر عمر میں مرنے کا خیال اکثر رہتا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہو کر اچھے ہوئے ۔ غسل صحت کا جشن قریب تھا۔ انہوںنے مبارک باد کا قصیدہ کہا۔ میں حسب معمول خدمت میں حاضر ہوا۔ اور وہ اس وقت قصیدہ ہی لکھ رہے تھے۔ چنانچہ کچھ اشعار اس کے سنانے لگے مطلع تھا: زہے نشاط کہ گر کیجیے اسے تحریر عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جائے صریر اس کے آگے شعر سناتے جاتے تھے اور میں تعریف کرتاجاتا تھا۔ وہ مسکراتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے جب یہ شعر پڑھا: ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابر سیاہ کہ جیسے جائے کوئی فیل مست بے زنجیر بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ سبحان اللہ۔ رنگینی اور یہ ظہوری کا ساقی نامہ ہو گیا۔ چپ ہو گئے اورکہا کہ اس میں زور آتا جاتاہے میں گھلا جاتاہوں۔ اس کی جوانی ہے اورمیرا بڑھاپا ہے ۔ حافظ ویران سلمہ اللہ نے بیان کیا۔ اشعار بہار یہ کے سے ہیں۔ دو تین دفعہ فرمایا کہ خواجہ حافظ کا شعر بھی اس موقع پر سے تضمین کریں گے۔ مے دو سالہ و محبوب چار دہ سالہ ہمیں بس است مرا صحبت صغیر و کبیر ایک دن جو میں گیا تھا تو شعر پر چوںپر پریشان تھے۔ انہیں ترتیب دیا تھا۔ چنانچہ سناتے سناتے پھر مذکور شعر پڑھا۔ بعد اس کے یہ قطعہ پڑھا اور خود کہا تھا: ہوا ہے مدرسہ بھی درس گاہ عیش و نشاط کہ شمس بازغہ کی جا پڑھے ہیں بدر منیر اگر پیالہ ہے تو صغراتو ہے سبو کبرا نتیجہ یہ ہے کہ سرمست ہیں صغیر و کبیر میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ اب بھی میں نے عرض کی کہ سبحا ن اللہ اب اس کی کیا ضرورت رہی آنکھیں بند کر کے فرمایا کہ ادھر ہی کافیضان ہے۔ دلی میں نواب زینت محل کامکان لال کنوئیں کے پاس اب بھی موجود ہے۔ بادشاہ نے وہیں دربار کر کے یہ قصیدہ سنا تھا۔ اس بر س ایک شادی کی تقریب میں مجھے دلی جانا ہوا۔ اسی مکان میں گبرات بیٹھی تھی۔ فتح دہلی کے بعد گورنمنٹ نے وہ مکان سر کار پٹیلہ کو دے دیا ہے۔ بند پڑا رہتا ہے اب اتنے ہی کام کا ہے کہ ادھر کے ضلع میں کوئی برات یا شادی کا جلسہ ہوتا ہے تو داروغہ سے اجازت لے کر وہاں آ بیٹھتے ہیں۔ واہ کشتوں کی تیری چشم سیہ مست کے مزار ہو گا خراب بھی تو خرابات ہوئے گا وہ زمانہ اورآج کی حالت دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ ان کی طبیعت کو خدا تعالیٰ نے شعر سے ایسی مناسبت دی تھی کہ رات دن اس کے سوا کچھ خیا ل نہ تھا اوراسی میں خوش تھے۔ ایک تنگ و تاریک مکان تھا‘ جس کی انگنائی اس قدر تھی کہ ایک چھوٹی سی چارپائی ایک طرف بچھتی تھی۔ دو طرف اتنا راستہ تھا کہ ایک آدمی چل سکے۔ حقہ منہ سے لگا رہتا تھا۔ کھری چارپائی پر بیٹھے رہتے تھ۔ لکھے جاتے تھے یا کتاب دیکھے جاتے تھے۔ گرمی جاڑا برسات موسموں کی بہاریں وہیں بیٹھے گزرجاتی تھیں۔ انہیں کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ کوئی میلا کوئی عید اورکوئی موسم بلکہ دنیا کے شادی و غم سے انہیں سروکار نہ تھا۔ جہاں اول روز بیٹھے وہیں بیٹھے اور جبھی اٹھے کہ دنیا سے اٹھے۔ نماز عصر کے وقت میں ہمیشہ حاضر خدمت ہوتاتھا۔ نہا کر وضو کرتے تھے اور ایک لوٹے سے برابر کلیاں کیے جاتے تھے۔ ایک دن میں نے سبب پوچھا۔ متاسفانہ طور سے بولے کہ خدا جانے کیا کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں۔ خبریہ بھی ہے کہ پھر ذرا تامل کر کے ایک ٹھنڈی سانس بھری اوریہ مطلع اسی وقت کہہ کر پڑھا۔ پاک رکھ اپنا وہاں ذکر خدائے پاک سے کم نہیں ہرگز زباں منہ میں تیرے مسواک سے ان کا معمو ل تھا کہ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر بادشاہ کی غزل کہتے تھے۔ آدھی بجے تک اس سے فراغت ہوتی تھی۔ پھر وضو کرتے اور ایک ہی لوٹے پانی سے کلیاں کر کے نماز پڑھتے پھر وظیفہ شروع ہوتا۔ زیر آسماں کبھی ٹہلتے جاتے‘ کبھی قبلہ رو ٹھیر جاتے۔ اگرچہ آہستہ آہستہ پڑھتے تھے مگر اکثر اوقات اس جوش دل سے پڑھے تھے کہ معلوم ہوتاتھا کہ گویا سینہ پھٹ جائے گا۔ وظیفہ پڑھ کر دعائیں شروع ہوتی تھیں۔ یہ گویاایک نمونہ تھا ان کی طبیعت کی نیکی اور عام نیک خواہی کا۔ اس میں سب سے پہلے یہ دعا تھی۔ الٰہی ایمان کی سلامتی‘ بدن کی صحت‘ دنی اکی عزت و حرمت] پھر الٰہی میرے بادشاہ کا بادولت با اقبال صحیح و سالم رکھ۔ اس کے دشمن رد ہوں وغیرہ وغیرہ۔ پھر میاں اسماعیل یعنی اپنے بیٹے کے لیے پھر اپنے عیال اور خاص خاص دوستوں کے لیے یا جو کسی دوست کے لیے خاص مشکل ر پیش ہو وغیرہ وغیرہ۔ ایک شب اس موقع پر میرے والد مرحوم انہی کے ہاں تھے۔ ساری دعائیں سنا کیے۔ چنانچہ ان کے دروازے کے سامنے محلے کا حلال خور رہتاتھا۔ ان دنوں میں اس کا بیل بیمار تھا۔ دعائیں مانگتے وہ بھی یاد ا گیا۔ کہا یا الٰہی جماحلال خور کا بیل بیمارہے اسے بھی شفا دے۔ بچارابڑا غریب ہے بیل مرجائے گا تو یہ بھی مر جائے گا۔ والد نے جب یہ سنا تو بے اختیار ہنس پڑے۔ فقر اور بزرگان دین کے ساتھ انہیں ایسا دلی اعتقاد تھا کہ اس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ علماء اوراساتذہ سلف کو ہمیشہ با ادب یاد کرتے تھے اور کبھی ان پر طعن و تشنیع نہ کرتے تھے ااس واسطے ان کامذہب کا حال کسی پر نہ کھلا۔ اس میں کسی کے کلام نہیں کہ انہوںنے فکر سخن اور کثرت مشق میں فنا فی الشعر کا مرتبہ حاصل کیا اور انشا پردازی ہند کی روح کو شگفتہ کیا۔ مگر فصاحت کا دل ملا جاتا ہو گا‘ جب ان کے دیوان مختصر پر نگہ پڑتی تھی تو اس کے سبب کابیان کرنا ایک سخت مصیبت کا افسانہ ہے اور اس کی مرثیہ خوانی کرنی میرا فرض ہے۔ ان کی وفات کے چند روز بعد میں نے اورخلیفہ اسماعیل مرحوم نے کہ وہ بھی باپ کی طرح اکلوتے بیٹے تھے چاہا کہ کلام کو ترتیب دیں۔ متفرق غزلوں کے بستے اور بڑی بڑی پوٹیں تھیں۔ بہت سی تھیلیاں اور مٹکے تھے کہ جو کچھ کہتے تھے گویا بڑی احتیاط کے ساتھ ان میں بھرتے جاتے تھے۔ بہت سی متفرق غزلیں بادشاہ کی بہتیری غزلیںشاگردوں کی بھی ملی ہوئی تھیں۔ چنانچہ اول ان کی اپنی غزلیں اورقصائد انتخاب کر لیے۔ یہ کلام کئی مہنیے میں ختم ہوا۔ غرض پہیل غزلی صاف کرنی شروع کیں۔ اس خطا کا مجھے اقراار ہے کہ کام میں نے جاری کیا مگر باطمینان کیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس طرح یکایک زمانے کا ورق الٹ جائے گا عالم تہ وبالا ہو جائے گا حسرتوں کے خون بہ جائیں گے دل کے ارمان دل ہی دل میں رہ جائیں گے۔ دفعتہ ۱۸۵۷ء کا غدر ہو گیا۔ کسی وک کسی کو ہوش نہ رہا۔ چنانچہ افسوس ہے کہ خلیفہ محمد اسماعیل ان کے فرزند جسمانی کے ساتھ ہی ان کے فرزندروحانی بھی دنیا سے رحلت کر گئے۔ میرا یہ حال ہو اکہ فتح یاب لشکرکے بہار دفعتہ گھر میں گھر آئے اور بندوقی دکھائیں کہ جلد یہاں سے نکلو۔ دنیا آنکھوں میں اندھیر تھی۔ بھرا ہوا گھر سامنے تھاکہ میں حیرا ن کھڑا تھا کہ کیا کیا کچھ اٹھا کے لے چلوں۔ ان کی غزلوں کی جنگ پرنظر پڑی۔ یہاں خیال آیا کہ محمد حسین اگر خدا نے کرم کیا اور زندگی باقی ہے تو سب کچھ ہو جائے گا مگر استاد کہاں سے پیداہوں گے۔ جو یہ غزلیں پھر آ کر کہیں گے۔ اب ان کے نام کی زندگی ہے اور یہے تو ان پر منحصر ہے۔ یہ ہیں تو وہ مر کر بھی زندہ ہیں یہ گئیں تو نام بھی نہ رہے گا وہی جنگ اٹھا بغل میں مارا۔ سجے سجائے گھر کوچھوڑکر ۲۲ نم جانوں کے ساتھ گھر سے بلکہ شہر سے نکلا۔ ساتھ ہی زبان سے نکلا کہ حضرت آدمؑ بہشت سے نکلے تھے۔ دلی بھی ایک بہشت ہے انہی کا پوتا ہوں۔ دہلی سے کیوں نہ نکلوں؟ غرض میں تو آوارہ ہو کر جانے کہں کا کہاں نکل آیا۔ مگر حافظ غلام رسول ویران کہ محبت کے لحاظ سے میرے شفیق دوست ار مرحوم شاگردی کے سے روحانی بھائی ہیں انہوںنے شیخ مرحوم کے بعض اور درد خواہ دوستوں سے ذکر کیا کہ مسودو ں کا سرمیاہ تو سب دلی کے ساتھ برباد ہو۔ا اس وقت یہ زخم تازہ ہے۔ اگر اب دیوان مرتب نہ ہوا تو کبھی نہ ہو گا۔ حافظ موصوف کو خود بھی حضرت مرحوم کاکلام بہت کچھ یاد ہے۔ اور خدا نے ان کی بصیرت کی آنکھیں ایسی روشن ہیں کہ آنکھوں کی بصارت کے محتاج نہیں۔ اس لیے لکھنے کی سخت مشکل ہوئی۔ غرض کہ ایک مشکل میں کئی کئی مشکلیں تھیں۔ انہوں نے اس مہم کو سرانجام کیا۔ اپنی یاد ک علاوہ نزدیک بلکہ دور دور سے بہت کچھ بہم پہنچایا۔ سب کو سمیٹ کر ۱۲۷۹ھ میں ایک مجموعہ جس میں اکثر غزلیں تمام اور اکثر ناتمام بہت سے متفرق اشعار اور چند قصیدے ہیں چھاپ کر نکالا مگر درد مندی کا دل پانی پانی ہو گیا اور عبرت کی آنکھوںسے لہو ٹپکا کیونکہ جس شخص نے دنیا کی لذتیں عمربھر کے مختلف موسموں اور موسموں کی بہاریں‘ دن کی عیدیں اور رات کی شب براتیں بدن کے آرام دل کی خوشیاں طبیعت کی امنگیں۔ سب چھوڑ دیںاور ایک شعر کو لیا‘ جس کی انہتائے تمنا یہی ہو گی کہ اس کی بدولت نام نیک باقی رہے گا۔ تباہ کار زمانے کے ہاتھوں آج اس کی عمر بھر کی محنت نے یہ سرمایہ دیا کہ اور جس نے ادنیٰ ادنیٰ شاگردوں کو صاحب دیوان کر دیا اس کو یہ دیوان نصیب ہوا۔ یونہی خدا جو چاہے تو بندے کا کیا چلے میرے پاس بعض قصیدے ہیں‘ اکثر غزلیں ہیں داخل ہوجائیں گی یا ناتمام غزلیںپوری ہو جائیں گی۔ مگر تصنیف کے دریا میں سے پیاس بھر پانی بھی نہیں۔ چنانچہ یہ تذکرہ چھپ لے تو اس پر توجہ کروں۔ مسبب الاسباب سر انجام کے اسبب عنایت فرمائیے۔ جو غزلیں اپنے تخلص سے کہی تھیں اگر جمع کی جاتیں تو بادشاہ کے چاروں دیوانوں کے برابر ہوتیں۔ غزلوں کے دیوان دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ عام جوہران کے کلام کی تازگی ‘ مضمون صفائی کلام چستی ترکیب خوبی محاورہ اور عام فہمی ہے مگر حقیقت میں رنگ مختلف وقتوں میں مختلف رہا۔ ابتدامیں مرزا رفیع کااندازہ تھا۔ شاہ نصیر سے ان دنوں معرکے ہو رہے تھے۔ ان کا ڈھنگ وہی ھتا۔ اس لیے انہوںنے بھی وہی اختیار کیا اس کے علاوہ مرزا کی طر زکو جلسے کے گرمانے میں اور لوگوں کے لب و دہن سے واہ نکال لینے میں ایک عجیب جادو کا اثر ہے۔ چنانچہ وہی مشکل طرحیں‘ چست بندشیں‘ برجستہ ترکیبیں‘ معانی کی بلندی‘ الفاظ کی شکوہیں ان کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ چند روز کے بعد الٰہی بخش خاں معروف کی خدمت میں اور ولی عہد کے دربار میں پہنچے ۔ معروف ایک دیرینہ سال مشاق اور فقیر مزاج شخص تھے۔ ان کی پسند طبع کے بموجب انہیں بھی تصوف اور عرفان اور دورد دلی کی طرف خیالات کو مائل کرنا پڑا۔ نوجوان دلی عہد طبیعت کے بادشا ہ تھے۔ ادھر یہ بھی جوان ان کی طبعیت بھی جوان تھی۔ وہ جرات کے انداز کو پسند کرتے تھے اور جرات اور سید انشاء و مصحفی کے مطلعے اوراشعار بھی لکھنو سے اکثر آتے۔ ان کی غزلیں انہی کے انداز میں بناتے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کی غزل کے آخر ی کو ایک گلدستہ ہائے رنگارنگ کا ہوتی تھی۔ دو تین شعر بلند خیالی کے ایک دو تصوف کے دو تین معاملے کے اور بیچ اس میں یہ ہوتا تھا کہ ہر قافیہ بھی ایک خاص انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے کہ اسی میں بندھے تو لطف دے نہیں تو پھیکا رہے۔ بس وہ مشاق بااکمال اس بات کو پورا پورا سمجھے ہوئے تھے اور جس قافیے کو جس پہلو کے مناسب دیکھتاتھا۔ اسی میں باندھ دیتاتھا اوراس طرح بنادھتا تھا کہ اور پہلو نظر نہ آتاتھا۔ ساتھ اس کے صفائی اور محاورے کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اورانہی اصول کے لحاظ سے میر ‘ مرزا‘ درد‘ مصحفی‘ سید انشائ‘ جرات بلہ تمام شعرائے متقدمین کو اس دب سے یاد کرتے تھے کہ گوای انہیں کے شاگرد ہیں۔ ایک ایک کے چیدہ اشعار اس محبت سے پڑھتے تھے کہ گویا اسی دستور العمل سے انہوں نے تہذیب پائی ہے اور فی الحقیقت سب کے انداز کو اپنے اپنے موقع پر پورا پورا کام میں لاتے تھے۔ پھر بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ اصلی میلان ان کی طبیعت کا سودا کے انداز پرزیادہ تھی۔ نظم اردو کی نقاشی میں مرزائے موصوف نے قصیدے پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ ان کے بعد شیخ مرحوم کے سوا کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا او ر انہوںنے مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں کسی کاہاتھ نہیں پہنچا۔ انوری ظہیر‘ ظہوری‘ نظیری‘ عرفی فارسی کے آسمان پر بجلی ہو کر چمکتے ہیںلیکن ان کے قصیدوں نے اپنی کڑک دمک سے ہند کی زمین کو آسمان کر دکھایا۔ ہر جشن میں ایک قصیدہ کہتے تھے اور خاص خاص تقریبیں جو پیش آتی تھیں وہ الگ تھی۔ اس لیے اگر جمع ہوتے تو خاقانی ہند کے قصائد خاقانی شروانی کے دو چند ہوتے۔ جب تک اکبر زندہ تھے تب تک ان کا دستو رتھا کہ ہر قسید کہ کر لے جاتے اور اپنے آقا یعنی ولی عہد بہادر کو سناتے۔ دوسرے د ن ولی عہد ممدوح اس میں اپنی جگہ بادشاہ کا نام ڈلوا کر لے جاتے اور دربار شاہی میں سنواتے۔ افسوس یہ ہے کہ عالم جوانی کی طبع آزمائی سب برباد ہوئی۔ جو کچھ ہیں وہ چند قصیدے ہیں کہ بڑھاپے کی ہمت کی برکت ہے۔ نواب حامد علی خاں مرحوم نے نہایت شوق سے ایک عاشقانہ خط لکھنے کی انہیںفرمائش کی تھی۔ بادشاہ کی متواتر فرمائشیں یہاں ایسے کاموں کے لیے کب فرصت دیتی تھیں‘ مگر اتفاق کہ انہی دنوں میں رمضان آ گیا اور اتفاق پر اتفاق یہ کہ بادشاہ نے روزے رکھنے شروع کر دیے تھے اس سبب سے غزل کہنی موقوف کر دی۔ خیر ان کی زبان کب رہ سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نئے چمن کی ہوا کھانے کو اپنا بھی جی چاہتا تھا۔ انہوںنے وہ نامہ لکھنا شروع کیا۔ اس نے ایسا طول کھینچا کہ تخمیناً ۳۰۰ شعر اس کے ہو گئے۔ اس عرصے میں تین تختیاں اس سے سیاہ ہوئی تھیں۔ مگر ادھر رمضان ہو چکا بادشاہ کی غزلیں پھر شروع ہو گئیں۔ مثنوی وہیں رہ گئی۔ بیچ میں کبھی کبھی پھر بھی طبیعت میں امنگ تھی مگر کبھی ایک دن کبھی دو دن ۲۰۔۲۵ شعر ہوئے پھر رہ گئے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اور ہر وقت پاس رہنے لگا تو کئی دفعہ ان کے متعلق ذکر کرتے اورجا بجا کے شعر پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ تختیاں اور کاغذی مسودے لے کر بہت کم تھا جو کچھ کہ پڑحا جاتاتھا۔ آخر فرصت کے وقت نکال کر ان سے پڑھواتا گیا اور آ پ لکھتا گیا۔ کل ۵۰۰ شعر سے زیادہ ہوئے۔ اگرچہ نامہ ناتماام تھا مگر ایک ایک مصرع سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق تھا۔ میرے صاف کیے ہوئے مسودے بھی انہی متفرق غزلوں میں تھے جو میں خلیفہ صاحب کے پاس جا کر صاف کیا کرتاتھا۔ چنانہچ ان کے ساتھ وہ بھی گئے ۔ اس کا نام جانسوز تھا۔ اول حمد و نعت تھی۔ پھر ساقی نامہ پھر القاب معشوق۔ اسی میں اس کا سراپا اس کے بعد باد ایام ۔ اس میں چاروں موسموںکی بہار مگر اس کے معنوں کی نزاکت لفظوں کی لطافت‘ ترکیبوں کی خوبیاں اندازوں کی شوخیاں‘ کیا کہوں! سامری کے جادو اور جادو کے طلسم اس کے آگے دھواں ہو کر اڑے جاتے تھے۔ کئی مخمس تھے۔ کئی رباعیاں تھیں۔ صد ہا تاریخیں تھیں مگر تاریخوں کی کمائی بادشاہ کے حصے میں آئی کیونکہ بہت بلکہ کل تاریخیں انہی کی فرمائش سے ہوئیں اورانہی کے نام سے ہوئیں۔ مرثیہ سلا کہنے کا انہیں موقع نہ ملا۔ بادشاہ کا قاعدہ یہ تھا کہ شاہ عالم اوراکبر شاہ کی طرح محر م میں کم از کم ایک سلام ضرور کہتے تھے شیخ مرحوم بھی اس کو اپنی سعادت اور عبادت سمجھتے تھے۔ ہزاروں گیت ٹپے ٹھمریاں ‘ ہولیاںکہیں۔ وہ بادشاہ کے نام سے مشہور ہوئیں اور ان کی باتوںمیں اپنی شہرت چاہتے بھی نہ تھے۔ وہ بادشاہ کے نام سے عالم میںمشہور ہوئیں اوران باتوں میں اپنی شہرت چاہتے بھی نہ تھے۔ میرے نزدیک ان کے اوران کے دیکھنے والوں کے لیے بڑے فخر کی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کمال شاعری اور ایسا درجہ قادر الکلامی کا انہیں دیا اور ہزاروں آدمیوں سے انہیں ناراضی یا رنج پہنچا ہو گا مگر انہوںنے تمام عمر میں ایک شعر بھی ہجو میں نہیں کیا۔ خدا ہر شخص کو اس کی نیت کا پھل دیتا ہے۔ اس کی شان دیکھو کہ ۶۸ برس کی عمر پائی۔ مگر خدا نے ان کی ہجو بھی کسی کے منہ سے نہ نکلوائی ۔ اکثر نئے ایجاد و اختراع ان کے ارادے میں تھے اور بعض بعض ارادے شروع‘ مگرناتمام رہے ‘ کیونکہ بادشاہ کی فرمائشیں دم لینے کی مہلت نہ دیتی تھیں او رتماشا یہ کہ بادشاہ بھی ایجاد کابادشاہ تھا۔ اتنا تھا کہ بات نکالتا‘ مگر اسے سمیٹ نہ سکتاتھا۔ اس کا کیا ہوا‘ انہیں سنبھالنا پڑتاتھا۔ وہ اپنی غزل بادشاہ کو سناتے نہ تھے۔ اگر کسی طرح اس تک پہنچ جاتی تو وہ اسی غزل پر خود کہتا تھا۔ اب اگر نئی غزل کر دیں اور وہ اپنی غزل سے پست ہو تو بادشاہ بھی بچہ نہ تھا ۷۰ برس کا سخن فہم تھا۔ اگر اس سے چست کہیں تو اپنے کہے آپ مٹانا بھی کچھ آسان نہ تھا۔ ناچار اپنی غزل میں ان کا تخلص ڈال کر دیتے تھے۔ بادشاہ کو بڑا خیال رہتا تھا کہ وہ اپنی کسی چیز پر زور طبع خرچ نہ کریں۔ جب ان کے شوق طبع کو کسی طرف متوجہ دیکھتا تو برابر غزلوںکا تار باندھ دیتا کہ جو کچھ جوش طبع ہو ادھر ہی آ جائے۔ عموماً انداز کلام کلا م کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے سارے آسمان سے اتارے ہیں مگر لفظوں کی ترکیب سے انہیں ایسی شان و شکوہ کی کرسیوں پر بٹھایا ہے کہ پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں۔ انہیں قادر الکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی ہے کہ ہر قسم کے خیالوں کو جس رنگ سے چاہتے کہہ دیتے۔ کبھی تشبیہ کے رنگ سے سجا کر استعارے کی بو سے بساتے ہیں کبھی سادے لباس میں جلوہ دکھاتے ہیں۔ مگر ایسا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ دل میں نشتر سا کھٹک جاتاا ہے اور منہ سے کبھی واہ نکلتی ہے اور کبھی آہ نکلتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہونٹوں میں شستہ اور برجستہ لفظوں کے خزانے بھرے ہیں اور ترکیب الفاظ کے ہزاروں رنگ ہیں مگر جسے جہاں سجتا ہے دیکھتے ہیں وہ گویاا وہیںکے لیے ہوتاہے۔ وہ طبیب کامل کی طرح ہر مضمون کی طبیعت کو پہچانتے ہیں کہ کون سا ہے کہ سادگی میںرنگ دے جائے گا اور کون سا رنگینی میں۔ کامل مصور کی تیزی قلم کو اس کیرنگوں کی شوخی روشن کرتی ہے۔ اس طرح ان کے مضمون کی باریکی کو ان کے الفاظ کی لطافت جلوہ دیتی ہے۔ انہیں اس بات کا کمال تھا کہ باریک سے باریک مطلب اور پیچیدہ سے پیچیدہ مضمون کو اس صفائی سے ادا کر جاتے تھے گویا ایک شربت کا گھونٹ تھا کہ کانوں کے رستے سے پلا دیا۔ اسی وصف نے نادانوں کو غلطی میں ڈالا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ان کے ہاں عالی مضا مین نہیں بلکہ سیدھی باتیں اور صاف صاف خیالات ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان ہونٹوں میںخدا نے عجب تاثیر دی تھی کہ جو لفظ ان سے ترکیب پا کر نکلتے ہیں خود بخود زبانوں پر ڈھلکتے آتے ہی جیسے کہ ریشم پر موتی۔ خدا جانے زبان نے کس آئینے کی صفائی اڑائی ہے یا انہوںنے الفاظ کے نگینوں پر کیوں کر جلا کی یہ۔ جس سے کلام میں اور بات پیدا ہو گئی ہے؟ حقیقت میں ان کا سبب یہ ہے کہ قدرت ان کے کلا ان کے ہر ایک نازک اور باریک خیال کو محاورے اور ضرب المثل میں اس طرح ترکیب دیتی ہے جسے آئینہ گر شیشے کوقلعی سے ترکیب دے کر آئینہ بناتا ہے۔ اسی واسطے ہر شخص کی سمجھ میں آتا ہے اور دل پر بھی اثر کرتا ہے۔ ان کے کلا م میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ شعر کاکوئی لفظ بھول جائے تو جب تک وہی لفظ اس کی جگہ نہ رکھا جائے شعر مزا نہیں دیتا۔ چنانچہ لکھنو میں میر انیس مرحوم کے سامنے سلسلہ تقریر میں ایک دن میں نے ان کا مطلع پڑھا۔ کوئی آوارہ تیرے نیچے اے گردوں نہ ٹھیرے گا ولیکن تو بھی گر چاہے کہ میں ٹھیروں نہ ٹھیرے گا انہوںنے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ میں نے کہا شیخ مرحوم کا۔ دو چار باتیں رک کے انہوںنے فرمایا کہ ذرا وہ شعر پڑھیے گا۔ میں نے پھر پڑھا۔ انہوںنے دوبارہ خود اپنی زبان سے پڑھا۔ پھر باتیں ہونے لگیں۔ چلتے ہوئے پھر کہا کہ ذراوہ شعر پڑھتے جائیے گا اور ساتھ اس کے یہ بھی کہا کہ صاحب کمال کی بات ہے کہ جو لفظ جس مقام پر اس نے بٹھا دیا ہے اسی طرح پڑھا جاوے ٹھیک ہوتا ہے نہیں شعر رتبے سے گر جاتاہے۔ ان کامضمون جس طرح دل کو بھلا معلوم ہوا۔ اسی طرح پڑھنے میں زبان کا مزہ آتا ہے۔ ان کے لفظوں کی ترکیب میں ایک خداداد چستی ہے جو کلام میں زورپیدا اکرتی ہے۔ وہ لفظ فقط ان کے دل کا جوش ہی نہیں ظاہر کرتا بلکہ سننے والے کے دل میں ایک خروش پیدا کرتاہے اور یہی قدرتی رنگ ہے جو ان کے کلا م پر سودا کہ تقلید کا پرتو ڈالتا ہے۔ ان کے دیوان کو جب نظر غور سے دیکھا جاتاہے تو اس سے رنگا رنگ کے زمزمے اور بو قلموں آوازیں آتی ہیں۔ ہر رنگ کے انداز موجود ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے دیکھنے سے دل اکتا نہیں جاتا۔ وہ لفظ لفظ کی نبض پہچانتے تھے اور مضامین کے طبیب تھے۔ جس طرح کہ برجستہ بیٹھا دیکھتے تھے اسی طرح باندھ دیتے تھے خیال بندی ہو یا عاشقانہ تصوف ان کے سینے میں جو دل تھا گویاایک آدم کا نہ تھا ہزاروں آدمیوں کے دل تھے ۔ اس واسطے کلام ان کا مقناطیس کی طرح قبول عام کھینچتاہے۔ دل دل کے خیال باندھتے اور اس طرح باندھتے تھے گویا اپنے ہی د ل پر گزری ہے۔ اعتراض ان کے کلام پر لوگ اعتراض بھی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک پرانی غزل کا شعر ہے۔ سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کے جائے ہے لوگوں نے کہا کہ بے اضافی یا صفتی ترکیب کے اس میں ’’ی‘‘ زیادہ کرنی جائز نہیں مگر یہ اعتراض ان کی کم نظری کے سبب سے تھے۔ درختے کہ اکنوں گرفت است پاے بہ نیروئے مروے بر آید ز جاے اے زدہ برتر از گمان دامن کبریاے را دست بتو کجا رسد عقل شکستہ پاے را ایک پرانی غزل شاہ نصیر کے مشاعرے میں اس طرح ہوئی تھی: دانہ خرمن ہے ہمیں قطرہ ہے دریا ہم کو آئے ہے جز میں نظر کل کا تماشا ہم کو اس پر اعتراض ہوا کہ اصل لفظ جزو مع وائو کے ہے فقط جز صحیح نہیں۔ اس کا بھی وہی حال تھا امیر خسرو فرماتے ہیں: ہر چند کند در جز و در کل اثر کلی و جزئیش بود زاں خبر اور میرتقی میر فرماتے ہیں: جز مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا ایک دن میں اوج سے ملا اوراستاد مرحو م کے مطلع کا ذکر آیا: مقابل اس رخ روشن کے شمع گر ہو جائے صبا وہ دھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے کئی دن کے بعد جو راستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا: یاں جو برگ گل خورشید کا کھڑکا ہو جائے دھول دستار فلک پر لگے تڑکا ہو جائے اور کہا کہ دیکھا محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں۔ میںسمجھ گیا کہ طنز کرتے ہیں کہ سحڑ ہوجائے جو استاد نے باندھاہے یہ جائز نہی مگر تجاہل کر کے میں نے کہا کہ ہاں حقیقت میں پات کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا ہے اور استعارے میں لا کر! میری طرف دیکھ کر ہنسے اور کہا کہ بھئی واہ آخڑ شاگرد تھے ہماری بات ہی بگاڑ دی۔ دوسرے دن میں استاد مرحوم کی خدمت میں گیا اور ماجرا بیان کیا۔ فرمایا کہ شمع کو صبح ہوتے ہاتھ مار کربجھا دیتے ہیں۔ میر امطلب یہ ہے کہ اگر شمع مقابلہ کرے تو اس گستاخی کی سزا میں صبا ایسی دھول مارے کہ وہ بجھ جائے اور ایسی بجھے کہ وہ س کے حق میں سحر ہوجائے یعنی روشنی نصیب نہ ہو۔ کبھی دوسری تیسری رات ہوئی نہ ہوئی نہ ہوئی وہ اور بات ہے ۔ اب یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ ہماری زبان میں اس کے مقابل ایک محاورہ بھی موجود ہے کہ ایسی دھول لگی کہ تڑکا ہو گیا۔ خیر اگر ہو تو کچھ لطف ہی پیدا ہوا۔ بلکہ طرز بیاں میں ایک وسعت کا قد م آگے بڑھا۔ قباحت کیا ہوئی اوریہ بھی دیکھو وہ محاورہ تو کیا تھا؟ متبذل عامیانہ اب ثقہ متین اور شریفانہ ہے۔ آزاد ایک شعر ناسخ کا بھی اسی ترکیب کا ہے۔ جو ستمگر ہیں کبھی وہ پھولتے پھلتے نہیں سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کہیں شمشیر کا محاورے میں تلوار کا کھیت کہتے ہیں شمشیر کا کھیت نہیں ہے۔ ان کی ایک غزل کا ایک شعر ہے: منہ اٹھائے ہوئے جاتا ہے کہاں تو کہ تجھے ہے ترا نقش قدم چشم نمائی کرتا نواب کلب حسین خان نادر تلخیص معلی میں فرماتے ہیں(تجھے) دوسرے مصرع کا حق ہے پہلے مصرع میں نہیں آنا چاہیے ۔ ا س کاجواب مجھے نہیں آتا۔ ایک دفعہ طبع موزوں نے نیا گل کھلایا۔ یہ وقت تھا کہ اصلاح بند ہوگئی تھی مگر آمد و رفت جاری تھی۔ شاہ صاحب کو جا کرغزل سنائی۔ انہوں نے تعریف کی اور کہا کہ مشاعر ے میں ضرور پڑھنا۔ اتفاقاً مطلع کے سرے پر ہی سبب خفیف کی کمی تھی۔ جب وہاں غزل پڑھی تو شاہ صاحب نے آواز دی کہ بھئی میاں ابراہیم! واہ ! مطلع تو خوب کہا۔ شیخ مرحوم فرماتے تھے کہ اسی وقت مجھے کھٹکا ہوا اوراور ساتھ ہی لفظ بھی سوجھا۔ دوبارہ میں نے پڑھا۔ جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اس میں زلف سرکش ہو پھر زلف بنے و دست موسیٰ جس میں اخگر آتش ہو اس پر اس قدر حیرت ہوئی کہ انہوںنے جانا کہ شاید پہلے عمداً یہ لفظ چھو ڑ دیا تھا مگر پھر اعتراض ہوا کہ یہ بحر ناجائز ہے۔ کسی استاد نے اس پر غزل نہیں کہی۔ شیخ مرحوم نے جواب دیا کہ ۱۹ بحریں آسمان سے نازل نہیں ہوئیں۔ طبائع موزوں نے وقت گل کھلائے ہی۔ یہ تقریر مقبول نہ ہوئی مگر پھر منیر مرحوم نے اس پر غزل کہی۔ ایک دفعہ شیخ مرحوم نے مشاعرے میں غزل پڑھی مطلع تھا: نرگس کے پھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر شاہ صاحب نے کہا کہ میاں ابراہیم پھول بٹوے میں نہیں ہوتے یہ کہو: نرگس کے پھول بھیجے ہیں دونے میں ڈال کر انہوںے کہا کہ دونے میں رکھنا ہوتاہے ڈالنا نہیں ہوتا یوںکہیے کہ: بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر نقل شاہ نصیر مرحوم کے ہاں سال بسال ایک عرس ہو ا کرتا تھا۔ اس کے بعد فاتح کے کھچڑی کھلایاکرتے تھے۔ حسب معمول استاد بھی گئے تھے۔ فاتحہ کے بعد سب کھانا کھانے بیٹھے۔ شاہ صاحب ایک ہاتھ میں چمچہ‘ دوسرے میںیہ بادیہ لیے ہوئے آئے۔ اس میں دہی تھا کہ خاص خاص اشخاص کے سامنے ڈالتے آتے تھے۔ ان کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور چمچہ بھرا۔ انہیں ریزش ہو رہی تھی۔ پرہیز کے خیال سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ شاہ صاحب نے کہا سنکھیا ہے سنکھیا دیکھو کھائو گے تو مر جائو گے۔ استاد نے ہنس دیا اور کہا: بھلا تم زہر دے دیکھواثر ہووے تو میں جانوں اگرچہ یہ مصرع قدیمی میاں مجذوب کا ہے مگرچونکہ کھانے کا موقع تھا اس لیے سب کو بہت مزا دیا۔ جن دنوں شاہ صاحب سے معرکے ہو رہے تھے منشی فیض پارسا دہلی کالج میں مدرس حساب تھے اور ان دنوں جوانی کے عالم میں شاعری کے جو ش وخروش میں تھے۔ انہوںنے مدرسے میں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ قائم کیا اوراسے انشاء اردو کی ترقی کا جزو اعظم بھی ٹھیرا کر صاحب پرنسپل سے مدد لی۔ ان دنوں میں مدرسہ اجمیری کے دروازہ کے باہر تھا۔ شہر کے دراوزے ۹ بجے بند ہوجاتے تھے گڈھ کپتان سے اجازت لی کہ مشاعرے کے دن ۲ بجے تک اجمیری دروازہ کھلا رہاکرے۔ رئوسا اور نامی مشاعر موجودہوتے تھے۔ مگر سب کی نگاہیں شاہ صاحب اور شیخ صاحب کی طرف ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک مشاعرے میں شاہ صاحب نے غزل قفس کی تیلیاں خس کی تلیاں پڑھی۔ دوسرے مشاعرے میں بھی یہی طرح ہوگئی۔ سب غزلیں کہہ کر لائے۔ شیخ مرحوم نے دو غزلہ لکھا اور اس پر کچھ تکرار ہوئی۔ اس پر جوش میں آ کر فرمایا کہ برس دن تک جو مشاعرہ میں ایسا ہوا ہے۔ ایسے معرکوں میں عوام الناس بھی شامل ہوتے ہیں تیسرے جلسے میں جب انہوںنے یہ غزل پرھی تو بعض شخصوں نے کچھ کچھ چوٹیں کیں جنہیں شیخ صاحب کے طرف دار سمجھے کہ شاہ صاحب کے اشارے سے ہوئیں۔ زیادہ تر یہ کہ شاہ وجیہ الدین صاحب میر یعنی شاہ صاحب کے صاحبزادے ے یہ شعر بھی پڑھ دیا۔ گرچہ قندیل سخن کو منڈھ لیا تو کیا ہوا ڈھانچ میں تو ہیں وہی اگلے برس کی تیلیاں اس پر تکرار زیادہ ہوئی اور مشاعرہ بند کر دیا گیا کہ مبادا زیادہ بے لطفی نہ ہو جائے۔ انہی دنوں میں ایک دفعہ میر محمد خان اعظم الدولہ نے سرور تخلص کرتے تھے اور پرانے شاعر تھے ایک تذکرہ شعرائے اردو کا لکھا۔ استاد مرحوم اتفاقا ان کے بالا خانے کے سامنے سے گزرے انہوںنے بلایا اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ ہمارا تذکرہ تمام ہو گیا۔ اس کی تاریخ تو کہہ دو۔ انہوںنے کہا اچھا فکر کروں گا۔ انہوںنے کہا کہ فکر کی سہی نہیں۔ ابھی کہہ دو۔ فرماتے تھے کہ خدا کی قدرت ان کے خطاب اور تخلص کے لحاظ سے خیال گزرا کہ دریائے اعظم دل میں حساب کیا تو عدو کے برابر تھے ۔میں نے جھٹ کہہ دیا کہ حاضرین جلسہ حیران رہ گئے۔ شہیدی مرحوم دلی میں آئے۔ امرائے شہر سے ملاقاتیں کیں۔ نواب عبداللہ خاں صدر الصدور شعر کے عاشق تھے۔ ان سے ایک جلسے میں میاںشہیدی نے کہا کہ آج ہندوستان میں تین شخص ہیںلکھنومیں ناسخ‘ دلی میں ذوق‘ دکن میں حفیظ انہوںنے کہا کہ ناسخ کی اولیت کا سبب؟ میاں شہیدی نے چمن کی شاخ یاسمین کی شاخ کی غزل پڑھی۔ خان موصوف نے استاد مرحوم سے کہا انہوںنے اس غزل پر ایک بڑی سیر قوافی غزل کہی اور یہ بھی کہا کہ اب جو کوئی اس طرح میں غزل کہے گا ہر قافیے کو جس جس پہلو سے میں نے باندھ دیا ہے اسے الگ کر کے نہ باندھ سکے گا۔ نواب عبداللہ خاں کی فرمائش سے ایک غزل اور انہیں کی وساطت سے یہ گفتگو ئیں ہوئی تھیں۔ انہوںنے تجویز کی کہ مشاعرے میں برسر معرکہ غزلیں پڑھی جائیں مگر شہیدی مرحوم بے اطلااع چلے گئے ۔ نواب نے پیچھے آدمی دوڑایا اس نے بریلی میں جا پکڑا مگر وہ تشریف نہ لائے۔ غزل مذکور انشاء اللہ شائقان سخن کے ملاحظے سے گزرے گی خدا دیوان پورا کرے۔ ایک دن حسب معمول بادشاہ کے پاس گئے۔ ا ن دنوں میں مرزا شاہ رخ ایک بیٹے بادشاہ کے تھے کہ انہوںنے بہت سی خدمتیں کاروبار کی قبضے میں کر رکھی تھیں اور اکثر حاضر رہا کرتے تھے۔ وہ اس وقت موجود تھے۔ انہیں دیکھتے ہی بولے کہ لیجیے وہ بھی آ ہی پہنچے۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ کی ایک غزل ہے۔ اس کے ہر شعر میں ایک ایک مصرع پیوند کر کے مثلث کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ایجاد یہ ہے کہ مصرع جو لگے بموجب رواج قدیم کے اوپر نہ لگے بلکہ ہر شعر کے نیچے ایک ایک مصرع لگے کہ جس طرح سے گویا ہر بند میں ایک ایک مطلع پیدا ہوتاجائے۔ غرض بادشاہ نے غزل انہیں دی کہ استاد اس پر مصرعے لگا دو۔ انہوںنے قلم اٹھا کرایک شعر پر نظر کی اور فوراً مصرع لگا دیا اسی طرح دوسرے میں تیسرے میں مسلسل غزل تمام کر کے جتنی دیر نظر ڈالی بے تامل ساتھ ہی مصرعے لکھتے گئے اوراسی وقت پڑھ کر سنائی۔ سب حیران ہو گئے بلکہ مرزا شاہ رخ نے کہا کہ استاد آپ گھر سے کہہ کر لائے تھے؟ بادشاہ بولے بھلا انہیں کیا خبرتھی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ خصوصاً جس حال میں ایجاد بھی ایسا نیا ہوا۔ نقل برسات کا موسم تھا۔ بادشاہ بموجب معمول کے قطب صاحب گئے ہوئے تھے۔ مرزا فخر بادشاہ کے صاحبزادے (کہ اخیر کو ولی عہدی بھی ہو گئے تھے) ایک دن وہاں چاندنی رات میں تلائو کے کنارے چاندنی کی بہار دیکھ رہے تھے۔ استاد مرحوم پاس کھڑے تھے۔ انہیں بھی شعر کا شوق تھا اور استاد کے شاگرد تھے۔ ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا۔ چاندنی دیکھے اگر وہ مہ جبیں تالاب پر ان سے کہا کہ استاد اس پر مصرع لگائیے گا۔ انہوںنے فوراً کہا: تاب عکس رخ سے پانی پھیر دے مہتاب پر نواب حامد علی خاں کے خسر نواب فضل الٰہی خاں سے اور شیخ مرحوم سے سابقہ محبت بھی تھا۔ اس لیے نواب حامد علی خاں مرحوم بھی محبت و اخلاق سے ملا کرتے تھے۔ ایک دن دیوان خاص میں کھڑے ہوئے شعر سناتے تھے۔ نواب موصوف نے خواجہ وزیر کا مطلع پڑھا۔ جانور جو ترے صدقے میں رہا ہوتا ہے اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی سما ہوتا ہے استاد مرحوم نے کہا کہ صدقے میں اکثر کو اچھڑواتے ہیں اس لیے زیادہ تر مناسبت ہے۔ زاغ بھی گر ترے صدقے میں رہا ہوتا ہے اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے ایک دفعہ قلعے میں مشاعرہ تھا۔ حکیم آغا جان عیش کہ کہن سال مشتاق اور نہایت زندہ دل شاعر تھے استاد کے قریب ہی بیٹھے تھے کہ زمین غزل یار دے روز گار دے حکیم آغا جان عیش نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا۔ اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لیے تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے ان کے ہاں بھی اس مضمون کا ایک شعر تھا۔ باوجود اس رتبے کے لحاظ اور پاس مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے والد مرحوم پہلو میں بیٹھے تھے۔ ان سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا اب میں وہ شعر نہ پڑھوں؟ انہوںنے کہا کہ کیوں نہ پڑھو؟ نہ پہلے سے انہوں نے آپ کا مضمون سنا تھا نہ آپ نے ان کا مضمون پڑھنا چاہیے۔ اس سے بھی طبعتوں کا انداز معلوم ہوتاہے۔ کہ ایک منزل پر دونوں فکر پہنچے مگر کس کس انداز سے پہنچے۔ چنانچہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد ہی ان کے آگے شمع آئی انہوںنے پڑھا۔ اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے ایک دن معمولی دربار تھا۔ استاد بھی حاضر تھے ۔ ایک مرشد زادے تشریف لائے اور وہ شاید کسی اور مرشد زادی یا بیگمات میں سے کسی بیگم صاحب کی طرف سے کچھ عرض لے کر آئے تھے۔ انہوںنے آہستہ آہستہ بادشاہ سے کچھ کہا اور رخصت ہوئے حکیم احسن اللہ خاں بھی موجود تھے انہوںنے عرض کی کہ صاحب عالم اس قدر جلدی؟ یہ آنا کیا تھا اور تشریف لے جانا کیا تھا۔ صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ بادشاہ نے استاد کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ استاد! دیکھنا کیا صاف مصرع ہوا۔ استاد نے بے توقف عرض کی کہ حضور لائی حیات لائے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے یہ اواخر عمر کی غزل ہے اس سے دو تین ہی برس کے بعد انتقال ہو گیا۔ ایک دن دربار سے آکر بیٹھے۔ جو میں پہنچا۔ افسردہ ہو کر کہنے لگے کہ آج عجیب ماجرا گزرا۔ میں جو حضور میں گی تو محل میں تھے۔ وہیں بلا لیا اورمجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ استاد آج مجھے دیر تک اس بات کا افسوس رہا۔ میں ن حال پوچھا اور کہا کہ وہ قصیدہ جو تم نے ہمارے لیے کہا تھا اس کے وہ اشعا ر آج مجھے یاد آ گئے۔ ان کے خیالات سے طبیعت کو عجب لطف حاصل ہوا مگر اس کے ساتھ ہی خیال آیا کہ اب تم یہ قصیدے ہمارے لیے کہتے ہو۔ ہم مرجائیں گے تو جو تخت پر بیٹھے گا اس کے لیے کہو گے۔ میں نے عرض کی کہ حضور کچھ ترددنہ فرمائیں خیمہ پیچھے گرتاہے میخیں اور طنابیں پہلے ہی اکھڑ جاتی ہیں۔ ہم حضور سے پہلے ہی اٹھ جائیں گے اور حضورخیال فرمائیں کہ عرش آڑام گاہ کے دربار میں لوگ حضور کے دربار میں کہاں تھے؟ فردوس منزل کے امراء ان کے عہد میں کہاں تھے؟ عرش منزل کے فردوس منزل کے دربار میں کہاںتھے؟ فردوس منزل کے امیر عرش آرام گاہ کیدربار میں کہاں تھے؟ عرش آرام گاہ کے امراء آج حضور کے دربار میں کہاں ہیں؟ بس یہی خیال فرما لیجیے جو جس کے ہوتے ہیں وہ اسی کے ساتھ جاتے ہیں۔ نیا میر مجلس نئی ہی مجلس جماتاہے اوراپنا سامان مجلس میں اپنے ساتھ لاتاہے۔ یہ سن کر حضور بھی آبدیدہ ہوئے ۔ میں بھی آبدیدہ ہوا مگر خیال مجھے یہ آیا کہ دیکھو ہم ہمیشہ نماز کے بعد حضور کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ خدا شاہد ہے۔ اپنا خیا ل اس طرح آج تک نہیں آیا۔ حضور ہمارا خیال بھی نہیں۔ میاں ! دنیا میں کوئی کسی کا نہیں۔ شیخ مرحوم ضعف جسمانی کے سبب روزہ نہ رکھتے تھے۔ مگر اس پر بھی کسی کے سامنے کھاتے پیتے نہ تھے ۔ کبھی شربت یاپانی بھی پنا ہوتاتو کوٹھے پر جا کر یا گھر میں جاکر پی آتے۔ ایک دفہ میں نے پوچھا کہ کہامیاں خدا کے گناہگارہیں۔ وہ عالم نہاں وآشکار کاہے۔ اس کی تو شرم نہیں ہو سکتی۔ بھلا بندے کی تو شرم رہے۔ رمضان کا مہینہ تھا گرمی کی شدت عصر کا وقت۔ نوکر نے شربت نیلوفرکٹورے میں گھول کر کوٹھے پر تیار کیا اور کہا کہ ذرا وپر تشریف لے چلیے۔ چونکہ وہ اس وقت کچھ لکھوا رہے تھے۔ مصروفیت کے سبب سے نہ سمجھے اور سبب پوچھا۔ اس نے اشارہ کیا۔ فرمایا کہ آ یہیں یہ ہمارے یار ہیں ان سے کیاچھپانا جب اس نے کٹورا لا کر دیا تو یہ مطلع کہا کہ فی البدیہ واقع ہواتھا: پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بند کی کیا چوری محبوب علی خاں خواجہ سرا سرکار بادشاہی میںمختار تھے اوارکیا محل کیا دربار‘ دونوں جگہ احتیاط قطعی رکھتے تھے۔ مگر بشدت جوا کھیلتے تھے۔ کسی بات پر ناخوشی ہوئی۔ میاںصاحب نے حج کا ارادہ کیا۔ ایک دن میں استاد مرحوم کے پاس بیٹھا تھا اکہ کسی شخص نے آ کرکہا میاں صاحب کعبتہ اللہ جاتے ہیں آپ ذرا تا مل کر کے مسکرائے اوریہ مطلع پڑھا: جو دل قمار خانے میں بت سے لگا چکے وہ کعبتی چھوڑ کے کعبہ کو جا چکے والد مرحوم نے بہ نیت وقف امام باڑہ تعمیر کیا۔ ایک دن تشریف لائے ان سے تاریخ کے لیے کہا ۔ اسی وقت تام کر کے کہا تعزیت گاہ امان دار ین پوری تاریخ ہے۔ حکیم میر فیض علی مرحوم ان کے استاد بھی تھے اور انہی کاآپ علاج بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں بھی موجود تھانوکر نے آ کر کہا کہ آج میر فیض علی کا انتقال ہوا۔ بار بار پوچھا اور ایسا اضطراب ہواکہ اٹھ کر ٹہلنے لگے ۔کچھ سوچ کر دفعتہ بولے کہ ہائے میر فیض علی مجھ سے کہا کہ دیکھو تویہی تاریخ ہے؟ حساب کیا تو عد د برابر تھے۔ ایک شخص نے آ کرکہا کہ میرے دوست کا نام غلام علی ہے اور باپ کا نام غلام محمد ہے۔ اس نے نہایت تاکید سے فرائش کی ہے کہ حضرت سے ایسا سجع کہوا دو کہ جس میں دونوں نام آ جائیںَ آپ نے سن کر وعدہ کیا اور کہا کہ دو تین دن میں آپ آئیے گا۔ ا نشاء اللہ ہو جاوے گا وہ رخصت ہو کر چلے گئے ڈیوڑھی کے باہر نکلے ہوں گے کہ جو وکر سے کہا کہ محمد بخش بلانا انہیں لینا لینا خوب ہو تقاضے سے جلدی مخلصی ہو گئی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: پدر غلام محمد پسر غلام علی دیوان چند و لال نے ان کا کلام سن کرمصرع طرح بھیجا اور بلا بھیجا۔ غزل کہہ کر بھیجی اورقطع میں لکھا: آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن کون جانے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر انہوں نے خلعت اور پانچ سو روپے بھیجے مگریہ نہ گئے۔ ایک دن میں نے نہ جانے کا سبب پوچھا فرمایا: نقل کوئی مسافر دلی میں مہینہ بیس دن رہ کر چا۔ یہاں ایک کتا مل گیا تھا وہ وفا کا مارا ساتھ ہو لیا۔ شاہدرہ پہنچ کر دلی یاد آئی اور رہ گیا۔ وہا ں کے کتوں کو دیکھا۔ گردنیں فربہ فربہ بدن تیار چکنی چکنی پشم ایک کتاانہیں دیکھ کر خوش ہوا او ر دلی کا سمجھ کر بہت خاطرکی۔ دلہائیوںکے بازار میں گیا۔ حلوائی کی دکان سے ایک بالوشاہی اڑا کر سامنے رکھا۔ بھٹیارے کی دکان سے ایک کلہ جھپٹا۔ یہ ضیافتیں کھاتے اور دلی کی باتیں سناتے رہے۔ تیسرے دن رخصت مانگی۔ اس نے روکا انہوںنے دلی کے سیر تماشے اور خوبیوں کے ذکر کیے۔ آخر چلے اور دوست کو بھی دلی آنے کی تاکید کر آئے۔ اسے بھی خیا ل آیا کہ اروایک دن دلی کا رخ کیا۔ پہلے ہ مرگھٹ کے کتے مردار خوار خونی آنکھیں کالے کالے منہ نظر آئے۔ یہ لڑتے بھڑتے نکلے۔ دریا ملا دیر تک کنارے پر پھرے۔ آخر کود پڑے۔ مرکھپ کر پار پہنچے۔ شام ہو گئی تھی۔ شہر میں گلی کوچوں کے کتوں سے بچ بچاکر ڈیڑھ پہ رات گئے تھی۔ جو دوست سے ملاقات ہوئی۔ یہ بے چارے اپنی حالت پر شرمائے۔ بظاہر خوش ہوئے اورکہا کہ اوہو تم اس وقت تم کہاں؟ دل میں کہتے تھے کہ رات نے پردہ رکھا۔ ورنہ دن کو یہاں کیا دھرا تھا اسے لے کر ادھر ادھرپھرنے لگے۔ یہ چاندنی چوک ہے یہ دریبہ ہے۔ یہ جامع مسجد ہے۔ مہمان نے کہا کہ یار بھوک کے مارے جان نکلی جاتی ہے ۔ سیر ہوجائے گی کچھ کھلوائو تو سہی۔ انہوںنے کہا کہ یار بھوک کے مارے جان نکلی جاتی ہے سیر ہو جائے گی۔ کچھ کھلوائو تو سہی۔ انہوں نے کہا کیا عجب وقت تم آئے ہو اب کیا کرو؟ بارے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جانی کبابی مرچوں کی ہانڈی بھول گئے تھے۔ انہوںںے کہا لو یار بڑے قسمت والے ہو۔ وہ دن بھر کا بھوکا تھا منہ پھاڑ کر گرا اور ساتھ ہی منہ سے مغز تک گویا باروت اڑ گئی۔ چھینک کر پیچھے ہٹا اور جل کر کہا واہ یہی دلی ہے انہوںنے کہا اس چٹخارے ہی کے مارے تو پڑے ہیں۔ عادت تھی کہ سات آٹھ بجے مکان ضرور جاتے تھے اورتین چار چلمیں حقے کی وہا ں پیتے تھے۔ میں چھٹی کے دن اس وقت جایا کرتاتھا ۔ مکان ضرور ڈیوڑھی میں تھا۔ پائوں کی آہٹ جانتے تھے۔ پوچھتے تھے میںتسلیم کرتاتھا۔ چھوٹی سی انگنائی تھی۔ پاس ہی چارپائی۔ وہیں بیٹھ جاتا۔ فرماتے! جی ہماراوہ شعر اس دن تم نے کیاپڑھا تھا؟ ایک دو لفظ اس کے پڑھتے۔ میں سارا شعر عرض کرتا فرماتے ہاں اب اسے یوں بنالو۔ ایک دن ہنستے ہوئے پائخانے سے نکلے۔ فرمایا کہ لو جی ۳۳برس کے بعد آج اصلاح دینی آئی ہے۔ حافظ ویران نے کہا حضرت کیونکر؟ فرمایا ایک دن اہ نصیر مرحوم کسی شاگردکی اصلاح فرما رہے تھے اس میںمصر ع تھا: کھاتی کمر ہے تین بل ایک گدگدی کے ساتھ ابتدائے مشق تھی۔ اتنا خیال میںآیا کہ یہاں کچھ او ر ہونا چاہیے۔ اور جب سے اکثر یہ مصرع کھٹکتا رہتاتھا۔ آج وہ نقطہ حل ہوا۔ عرض کی حضرت پھر کیا؟ فرمایا: کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ کمر کو اوپر ڈال دو۔ عرض کی کہ وہ کیونکر ۳۔۴مصرعے الٹ پلٹ گئے تھے ایک اس وقت خیال میں ہے: بل بے کمر کے زلف مسل کے بیچ میں کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ کابلی دروازہ پاس ہی تھا۔ شام کو باہرنکل کر گھنٹو ں ٹہلتے تھے۔ میں اکثر ساتھ ہوتاتھا۔ مضامین کتابی‘ خیالات علمی‘ افادہ فرماتے شعر کہتے۔ ایک دن بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے۔ تیر ہمیشہ تصویر ہمیشہ سوچتے سوچتے کہنے لگے تم بھی تو کچھ کہو۔ میں نے کہا کیا عرض کروں۔ فرمایاا میاں اسی طرح آتا ہے ہوں ‘ ہاں ‘ غوں غاں کچھ تو کہو کوئی مصرع ہی سہیی۔ میں نے کہا: سینے سے لگاتے تری تصویر ہمیشہ ذرا تامل کر گئے ہاں درست ہے۔ آ جاتی اگر ہاں تو کیا چین سے رہتے سینے سے لگاتے تری تصویر ہمیشہ اب جو کبھی دلی جانا ہوتا ہے اور اس مقام پر ورگزر ہوتا ہے تو آنسو نکل پڑتے ہیں۔ ا س مطلع پر حضورنے کئی مرتبہ جال مارے مگر یہ ٹال گئے۔ مضمون نہ آ سکا۔ مطلع انہوںنے دیا: کیا کہوں اس ابروئے پیوستہ کے دل بس میں ہے ایک طمعہ مچھلیاں دو کشمکش آپس میں ہے بادشاہ کے چار دیوان ہیں پہلے کچھ غزلں شاہ نصیر کی اصلاحی ہیں۔ کچھ میر کاظم حسین بیقرار کی ہیں۔ غرض پہلا دیوان نصف سے زیادہ اور باقی تین دیوان سر تا پا حضرت مرحوم کے ہیں۔ جن سنگلاخ زمینوں میں قلم چلنا مشکل ہے۔ ان کا نظام دسر انجام ا س خوبصورتی سے کیا ہے کہ شگفتہ ہوتے ہیں۔ والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بادشاہ تمہارا زمین کا بادشاہ ہے۔ طرحیں خوب نکالتاہے۔ مگر تم سرسبز کرتے ہو ورنہ شور زار ہو جائے۔ مسودہ خاص میں کوئی شعر پورا کوئی ڈیڑھ مصرع کوئی ایک کوئی آدھا مصرع‘ فقط بحر اور ردیف قافیہ معلوم ہو جاتا تھا۔ باقی بخیر یہ ان ہڈیوںپرگوشت پوست چڑھا کر حسن و عشق کی پتلیاں بنا دیتے تھے۔ ایجاد ی فرمائشوں کی حد نہ تھی۔ چند شعر اس غزل کے لکھتا ہوں جس کے ہر شعر کے نیچے مصرع لگایا ہے۔ یا تو افسر مرا شاہانہ بنایا ہوتا یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا ورنہ ایسا جو بنایا نہ بنایا ہوتا نشہ عشق کا گر ذوق دیا تھا مجھ کو عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا دل کو میرے خم و خمخانہ بنایا ہوتا اس خرد نے مجھے سرگشتہ و حیران کیا کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا تو نے اپنا مجھے دیوانہ بنایا ہوتا روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایاہوتا بلکہ بہتر تو یہی تھا کہ نہ بنایا ہوتا ایک بڈھا چورن مرچن کی پڑیاں بیچتا پھرتاتھا اور آواز دیتا تھا: لے تیرے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا حضور نے سنا اور ایک دو مصرعے اس پر لگا کر استاد کو بھیج دیے۔ انہوںنے دس دہرے لگا کر دیے۔ حضورنے لے رکھی۔ کئی کنچنیاں ملازم تھیں انہیں یاد کرا دیے۔ دوسرے دن بچے بچے کی زبان پر تھے دو بند یاد رہ گئے۔ لے تیرے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا کنجڑے کی سی ہاٹ ہے دنیا جنس ہے ساری اکٹھی میٹھی چاہے میٹھی لے لے کھٹی چاہے کھٹی لے تیرے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا روپ رنگ پر بھول نہ دل میں دیکھ عقل کے بیری اوپر میٹھی نیچے کھٹی انبوا کی سی کیری لے تیرے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا ایک فقیر صد ا کہتا تھا! کچھ راہ خدا دے جا جا تیرا بھلا ہو گا۔ حضور کوپسند آئی۔ ان سے کہاانہوں نے بارہ دہرے لگا دیے۔ مدتوں تک گھر گھر سے اسی کے گانے کی آواز آتی تھی۔ اور گلی گلی لوگ گاتے پھرتے( حافظ ویران کہ خدا سلامت رکھے انہی نے یہ شعر لکھوائے ) کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا محتاج خراباتی یا پاک نمازی ہے کچھ کر نہ نظر اس پر واں نکتہ نوازی ہے کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا دنیا کے کرتا ہے سینکڑوں تو دھندے پر کام خدارا بھی کر لے کوئی یاں بندے کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا دنیا ہے سرا اس میں تو بیٹھا مسافر ہے اور جانتاہے یاں سے جانا تجھے آخر ہے کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا جو رب نے دیا تجھ کو تو نام پہ رب کے دے گریاں نہ دیا تو نے واں لیوے گا کیا بندے کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا دیوے گا اسی کو تو وہ جس کو ہے دلواتا پر ہے یہ ظفر تجھ کو آوازہ سنا جاتا کچھ راہ خدا دے جا ‘ جا تیرا بھلا ہو گا اس طرح کی ہزاروں چیزیں تھیں ٹپے ٹھمریاں پہیلیاں سیٹھنیاں کہاں تک لکھوں۔ ای دن ٹہل رہے تھے ۔ حافظ ویران ساتھ تھے۔ بہ تقاضائے استنجا بیٹھ گئے اور وقت معین سے زیادہ دیر ہوئی۔ انہوںنے قریب جا کر خیال کیا تو کچھ گنگنا رہے ہیں اور چٹکی سے جوتی پر کھٹ کھٹ کر تے جاتے ہیں۔ پوچھا کہ ابھی آپ فارغ نہیں ہوئے؟ فرمایا کہ حضورنے چلتے ہوئے ایک ٹھمری کے دو تین انترے سناتے تھے کہ اسے پورا کر دینا۔ اس وقت ا س کا خیا ل آ گیا۔ پوچھا کہ یہ جوتی پر آپ چٹکی کیوں بجا رہے ہیں فرمایاکہ دیکھتا تھا کہ اس کے لفظ تال پر ٹھیک بیٹھتے ہیں یا نہیں؟ حافظ ویران کہتے ہیں کہ ایک دن عجب تماشا ہوا۔ آپ بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے کہ مطلع ہوا: ابرو کی اس کے بات ذرا چل کے تھم گئی تلوار آج ماہ لقا چل کے تھم گئی دو تین شعرہوئے تھے کہ خلیفہ اسماعیل دربار سے پھر کر آئے اور کہاکہ اس وقت عجب معرکہ ہوا استاد مرحوم متوجہ ہوئے۔ انہوںنے کہا کہ جب میں بھوانی شنکر کے چھتے کے پاس پہنچا تو کھاری باولی کے رخ پر دیکھا کہ تین آدمی کھڑے ہیں اور آپس میں تکرار کر رہے ہیں۔ باتوں باتوں میں ایسی بگڑی کہ تلوار کھچ گئی اور دو تین آدمی زخمی بھی ہوئے۔ یہاں چونکہ غزل کے شعر حافظ ویران سن رہے تھے۔ ہنس کر بول کہ حضرت کیا آپ وہاں موجو د تھے؟ آہستہ سے فرمایا کہ یہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ ہو جاتاہے۔ اس سے یہ مطلب نہیںکہ انہیں کرامات تھی۔ ی وہ غیب دان تھے ایک حسن اتفاق تھا اہل ذوق کے لطف طبع کے لیے لکھ دیا۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ایک دن حضور میں غزل ہوئی جس کا مطلع تھا: آج ابرو کے ترے تصویر کھچ کر رہ گئی سنتے ہیں بھوپال میں شمشیر کھچ کر رہ گئی پھر معلو م ہوا کہ اسی دن بھوپال میں تلوار دچلی تھی۔ ایسے معاملے کتب تاریخ اور تذکروں میں اکثرمنقول ہیں طو ل کلام کے خیال سے قلم انداز کرتا ہوں۔ ایک دفعہ دوپہر کا وقت تھا۔ باتیں کرتے کرتے سو گئے۔ آنکھ کھلی تو فرمایا کہ ابھی خواب میں دیکھا کہ کہیں آگ لگی ہے۔ اتنے میں خلیفہ صاحب آئے اور کہا کہ پیر بخش سوداگر کی کوٹھی میں آ گ لگ گئی تھی۔ بڑی خیر ہوئی کہ کچھ نقصان نہیں ہوا۔ ایک شب والدمرحوم کے پاس آ کربیٹھے۔ کہاکہ بادشاہ کی غزل کہنی ہے لائو یہیں کہہ لیں۔ کئی فرمائشیں تھیں ان میں سے یہ طرح کہنی شروع کی۔ محبت کیا ہے صورت کیا ہے مصیبت کیا ہے۔ میں نے کہا حضرت! زمین شگفتہ نہیں۔ سکوت کرکے فرمایا کہ کہنے والے شگفتہ کر ہی لیا کرتے ہیں پھر یہ دومطلعے پڑھے: نہ بھول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے نہیں ہے اعتبار اس کا یہ مہ دیکھے کی الفت ہے بگولے سے جسے آسیب اور صرصر سے زحمت ہے ہماری خاک یوں برباد ہو اے ابر رحمت ہے اتفاق فرماتے تھے کہ ایک دفعہ بادشاہ نے غز ل کا مسودہ دیا اور فرمایا کہ اسے درست کر کے دے جانا۔ موسم برسات کا تھا ابر آ رہاتھا دریا چڑھائو پر تھا۔ میںدیوان خاص میں جا کر اسی رخ میں اایک طرف بیٹھ گیا اور غزل کہنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پائوںمیں آہٹ معلوم ہوئی۔ دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ کھڑے ہیں ۔ مجھ سے کہا کہ آپ کیا لکھتاہے؟ میں نے کہا غزل ہے۔ پوچھا آپ کون ہیں؟ میں نے کہا نظم میں حجور کی دعا گوئی کیا کرتا ہوں۔ فرمایا کس زبان میں؟ میں نے کہا اردو۔ پوچھا آپ کیا کیا زبانیں جانتاہے؟ میں نے کہا فارسی عربی بھی جانتا ہوں۔ فرمایا ان زبانوں میں بھی کہتاہے؟ میں نے کہا کوئی خاص موقع ہو تو ان پربھی کہنا پڑتاہے۔ ورنہ اردو ہی میں کہتا ہوں۔ کہ یہ میری اپنی زبان ہے۔جو کچھ انسان اپنی زبان میں کر سکتاہے غیر کی زبان میں نہیںکر سکتا۔ پوچھا کہ آپ انگریزی جانتا ہے؟ میں نے کہا نہیں فرمایا کیوں نہ پڑھا؟ میں نے کہا ہمارا لب ولہجہ اس سے موافق نہیں وہ ہمیں آتی ہی نہیں ہے۔ صاحب نے کہا دل یہ کیا بات ہے ؟ دیکھیے ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔ میں نے کہا پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی۔ بہت مشکل معاملہ ہے۔ انہوںنے پھر کہا ویل ہم آ پ کا تین زبانیں ہندوستان میں آ کرسیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے یہ کیا بات ہے اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا صاحب! ہم زبان کا سیکھنا اسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت ہر قسم کی تحریر و تقریر اس طرح کریں جس طرح خود اہل زبان کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم آپ کا تین زبان سیکھ لیا۔ بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے ؟ اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے اسے تو زبان کا خرا ب کرنا کہتے ہیں۔ غزلیں مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا وہاں زخم سے خوں ہو کر حرف آرزو نکلا مرا گھر تیرا منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہر و نکلا پھر اگر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا مے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم کہ آخر شب اسے دیکھا فقط خالی سبو نکلا ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں سے تو نکلا خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کہ جب رویا تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخ رو نکلا گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹی سر سوزن مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ وہ ہرگز کبھو نکلا اسے عیار پایا پیار سمجھے ذوق ہم جس کو جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وعدہ نکلا لکھیے اسے خط کہ ستم اٹھ نہیں سکتا پر ضعف سے ہاتھوں میں قلم اٹھ نہیں سکتا بیمار ترا صورت تصویر نہائی کیا اٹھے سر بستر غم اٹھ نہیں سکتا آتی ہے صدائے جرس ناقہ لیلیٰ پر حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا جوں دانہ روئیدہ تہ خاک ہمارا سر زیر گراں بار الم اٹھ نہیں سکتا ہر داغ معاصی مرا اس دامن تر سے جوں حرف سر کاغذ نم اٹھ نہیں سکتا اتنا ہوں تری تیغ کا شرمندہ احسان سر میرا ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا پردہ در کعبہ سے اٹھانا تو ہے آسان پر پردہ رخسار صنم اٹھ نہیں سکتا کیوں اتنا گراں بار ہے جو رخت سفر بھی اے راہ رو ملک عدم اٹھ نہیں سکتا دنیا کا زر و مال کیا جمع کیا تو کیا ذوق کچھ فائدہ بے دست کرم اٹھ نہیں سکتا اس پر شا ہ نصیر مرحوم کی غزل بھی دیکھو۔ الٰہی کس بے گناہ کو مارا سمجھ کے قاتل نے کشتنی ہے کہ آج کوچے میں اس کے شور بای ذنب قتلتنی ہے زمین پہ نور قمر کے گرنے میں صاف اظہار روشنی ہے کہ جو ہیں روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے غم جدائی میں تیرے ظالم! کہوں میں کیا مجھ پہ کیا بنی ہے جگر گدازی ہے سینہ کاوی ہے دلخراشی ہے جانکنی ہے بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے وگرنہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوے کی روشنی ہے ہوئے ہیں اس اپنی سادگی سے ہم آشنا جنگ و آشتی سے اگر نہ ہو یہ تو پھر کسی سے نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے کوئی ہے کافر کوئی مسلماں جدا ہر اک کی ہے راہ ایماں جو اس کے نزدیک رہبری ہے وہ اس کے نزدیک رہزنی ہے ہوئے ہیں تر گر یہ ندامت سے اس قدر آستین و دامن کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاکدامنی ہے نہیں ہے قانع کو خواہش زر وہ مفلسی میں بھی یہ توانگر جہاں میں مانند کیمیا گر ہمیشہ محتاج و دل غنی ہے لگا نہ اس بت کدے میں تو دل یہ ہے طلسم شکست غافل کہ کوئی کیسا ہی خوش شمائل صنم ہے آخر شکستنی ہے تکلف منزل محبت نہ کر چلا چل تو بے تکلف کہ جا بجا خار زار وحشت سے زیر پا فرش سوزنی ہے خدنگ مژگاں سے ذوق اس کے دل اپنا سینہ سپر ہے جب سے مثال آئینہ سخت جانی سے سینہ دیوار آہنی ہے دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا بل بے گداز عشق کا خوں ہو کے دل کے ساتھ سینے سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ڈیڑھ چلو پانی سے ایمان بہہ گیا ہے موج بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ بے چارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا دریائے عشق میں دم تحریر حال دل کشتی کی طرح میرا قلمداں بہہ گیا یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پائوں کے آبلے نالہ سا اک سوئے بیابان بہہ گیا تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے سب مول تیرا لعل بدخشان بہہ گیا کشتی سوار عمر ہے بحر فناا میں جسم جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا پنجاب میں بھی وہ نہ رہی آب و تاب حسن اے ذوق پانی اب تو وہ ملتان بہہ گیا پاک رکھ اپنا دہاں ذکر خدائے پاک سے کم نہیں ہرگز زبان منہ میں کرے مسواک سے جب بنی تیر حوادث کی کماں افلاک سے خاک کا تو وہ بنا انساں مشت خاک سے جس طرح دیکھے قفس سے باغ کو مرغ اسیر جھانکتا ہے یوں تجھے دل سینہ صد چاک سے تیرے صید نیم جاں کی جاں نکلتی ہی نہیں باندھ رکھا ہے اسے تو نے بھی کیا فتراک سے؟ مجھ کو دوزخ رشک جنت ہو اگر میرے لیے وہاں بھی آتش ہو کسی کے روئے آتش ناک سے آفتاب حشر ہے یا ب کہ نکلا گرم گرم کوئی آسو دل جلوں کے دیدہ نمناک سے چشم کو بے پردہ ہو کس طرح نظارہ نصیب جبکہ وہ پردہ نشیں پردہ کرے ادراک سے بیت ساقی نامہ کی لکھو کوئی جائے دعا مے مرستوں کے کفن پر چوب کلک تاک سے عیب ذاتی کو کوئی کھوتا ہے حسن عارضی زیب بداندام کو ہو ذوق کیا پوشاک سے جینا ہمیں اصلا نظر اپنا نہیں آتا گر آجا بھی وہ رشک مسیحا نہیں آتا مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا پر ذکر ہمارا نہیں آتا‘ نہیں آتا دیتا دل مضطر کو تری کچھ تو نشانی پر خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا آیا ہے دم آنکھوں میں دم حسرت دیدار پر لب پہ کبھی حرف تمنا نہیں آتا کس دم نہیں ہوتا قلق ہجر ہے مجھ کو کس وقت میرا منہ کو کلیجہ نہیں آتا میں جاتا جہاں سے ہوں تو آتا نہیں یاں تک کافر تجھے کچھ خوف خدا کا نہیں آتا ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہائیں شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا ہستی سے زیادہ ہے کچھ آرام عدم میں جو جاتا ہے یاں سے وہ دوبارا نہیں آتا آنا ہے تو آجا کہ کوئی دم ہے فرصت پھر دیکھیے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا غافل ہے بہار چمن عمر جوانی کہ سیر کہ موسم یہ دوبارہ نہیں آتا ساھ ان کے ہیں ہم سائے کی مانند ولیکن اس پر بھی جدا ہیں کہ لپٹنا نہیں آتا دنیا ہے وہ صیاد کہ سب دام میں اس کے آ جاتے ہیں لیکن کوئی دانا نہیں آتا دل مانگنا مفت اور یہ پھر اس پہ تقاضا کچھ فرض تو بندے پہ تمہارا نہیں آتا بے جا ہے دلا اس کے نہ آنے کی شکایت کیا کیجیے گا فرمائیے اچھا نہیں آتا جاتی رہے زلفوں کی لٹک دل سے ہمارے افسوس کچھ ایسا ہمیں لٹکا نہیں آتا جو کوچہ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا کیا جانے مزا کیا ہے جیتانہیں آتا آئے تو کہاں جائے نہ تاجی سے کوئی جائے جب تک اسے غصہ نہیں آتا نہیں آتا قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیںآتا مزے یہ دل کے لیے تھے نہ زبان کے لیے سو ہم نے دل میں مزے سوزش نہاں کے لیے نہیں ثبات بلندی عزوشاں کے لیے کیا ساتھ اوج کے پستی ہے آسماں کے لیے ہزار لط ہیں جو ہر ستم میں جاں کے لیے ستم شریک ہوا کون آسماں کے لیے فروغ عشق سے ہے روشنی جہاں کے لیے یہی چراغ ہے اس تیرہ خاکداں کے لیے صبا جو آئے خس و خار گلستاں کے لیے قفس میں کیونکہ نہ پھڑکے دل آشیاں کے لیے دم عروج ہے کیا فکر نرد باں کے لیے کمند آہ تو ہے بام آسماں کے لیے سدا تپش پہ تپش ہے دل تپاں کے لیے ہمیشہ غم پہ ہے غم جان ناتواں کے لیے حجر کے چومنے ہی پر ہے حج کعبہ اگر تو بوسے ہم نے بھی اس سنگ آستاں کے لیے نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی کہ یہ شے عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لیے جو پاس مہر و محبت کہیں یہاں بکتا تو ہم بھی لیتے کسی مہربان کے لیے خلش سے عشق کے ہے خار پیرہن تن زار ہمیشہ اس ترے مجنون ناتواں کے لیے تپش سے عشق کی یہ حال ہے مرا گویا بجائے مغز ہے سیماب استخواں کے لیے مرے مزار پہ کس وجہ سے نہ برسے نور کہ جان دی ترے روئے عرق فشاں کے لیے الٰہی کان میں کیا اس صنم نے پھونک دیا کہ ہاتھ رکھتے ہیں کانوں پہ سب اذاں کے لیے نہیں ہے خانہ بدوشوں کو حاجت سامان اثاثہ چاہیے کیا خانہ کماں کے لیے نہ دل رہا نہ جگر دونوں جل کے خاک ہوئے رہا ہے سینے میں کیاا چشم خوں فشاں کے لیے اگر امید نہ ہمسایہ ہو تو خانہ یاس بہشت ہے ہمیں آرام جاوداں کے لیے وہ مول لیتے ہیں جس دم کوئی نئی تلوار لگاتے پہلے مجھی پر ہیں امتحاں کے لیے صریح چشم سخن گو تری کہے نہ کہے جواب صاف ہے پر طاقت و تواں کے لیے رہے ہے ہول کہ برہ نہ ہو مزاج کہیں بجائے ہول دل ان کے مرجداں کے لیے مثال نے ہے مرا جب تلک کہ دم میں دم فغاں ہے میرے لیے اورمیں فغاں کے لیے بلند ہووے اگر کوئی میرا شعلہ آہ تو ایک اور ہو خورشید آسماں کے لیے چلیں ہیں دیر کو مدت میں خانقاہ سے ہم شکست توبہ لیے ارمغاں مغاں کے لیے وبال دوش ہے اس ناتواں کو سر لیکن لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لیے بیان درد محبت جو ہو تو کیوں کر ہو زباں نہ دل کے لیے ہے نہ دل زباں کے لیے اشارہ چشم کا تیرے یکایک اے قاتل ہوا بہانہ مری مرگ ناگہاں کے لیے بنایا آدمی کو ذوق ایک جزو ضعیف اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لیے نواب اصغر علی خاں نسیم کے مشاعرے میں غز ل مذکور ہ بالا طرح ہوئی تھی۔ وہ اور مومن خان صاحب کہ ان کے استاد تھے استاد مرحوم کی خدمت میں آئے اور بڑے اصرار سے لے گئے۔ یہ پہلا مشاعرہ تھا کہ جو بندہ آزاد نے دیدہ شوق سے دیکھا۔ غالب مرحوم تشریف نہیں لائے۔ مگر غزل لکھی تھی۔ ان دونوں استادوں کی غزلیں بھی لکھ دی ہیں۔ اہل نظر لطف حاصل کریں۔ ٭٭٭ نجم الدولہ دبیر الملک مرز ااسد اللہ خان غالب مرزا صاحب کو اصلی شوق فارسی کی نظم ونثر کا تھا اور اسی کمال کو اپنا فخر سمجھتے تھے لیکن چونکہ تصانیف ان کی اردو میں چھپی ہوء ہیں اور جس طرح رئوسائے اکبر آبادمیں علو خاندان سے نامی اور میرزا ئے فارسی ہیں‘ اسی طرح اردوئے معلی کے مالک ہیں۔ اس لیے واجب ہواا کہ ان کا ذکر اس تذکرے میں ضرور کیا جائے۔ نام اسد اللہ خاں تھا پہلے اسد تخلص کرتے تھے جھجر میں کوئی فرومایہ شخص اسد تخلص کرتا تھا یک دن اس کا مقطع کسی نے پڑھا۔ اسد تم نے بنائی یہ غزل خوب ارے او شیر رحمت ہے خدا کی سنتے ہی اس تخلص سے جی بیزار ہو گیا۔ کیونکہ ان کا بھی ایک قاعدہ تھا کہ عوام الناس کے ساتھ مشترک حال ہونے کو نہایت مکروہ سمجھتے تھے۔ چانچہ ۱۲۴۵ھ و ۱۸۲۸ء میں اسد اللہ الغالب کی رعایت سے تخلص اختیار کیا۔ لیکن جن غزلوں میں اسد تخلص تھا۔ انہیں اسی طرح رہنے دا۔ خاندان کا سلسلہ افراسیاب بادشاہ توراان سے ملتا ہے۔ جب تورانیوں کا چراغ کیانوں کی ہوائے اقبال سے گل ہوا تو غریب خانہ برباد جنگلوں پہاڑوں میں چلے گئے مگر جوہرکی کشش نے تلوار ہاتھ سے نہ چھوڑی۔ سپہ گری ہمت کی بدولت روٹی پیدا کرنے لگی۔ سینکڑوں برس کے بعد پھر اقبال ادھر جھکا اور تلوار سے تاج نصیب ہوا۔ چانچہ سلجوقی خاندان کی بنیاد انہیں میں قائم ہو گئی۔ مگر اقبال کا جھکنا جھوکا ہوا ہے کئی پشتوں کے بعد اس نے پھر رخ پلٹا اور سمرقند میں جس طرح اور شرفا ء تھے اسی طرح سلجوقی شہزادوں کو بھی گھروں میں بٹھا دیا۔ مرزا صاحب کے دادا گھر چھوڑ کر نکلے۔ شاہ عالم کا زمانہ تھا۔ کہ دہلی میں آئے۔ یہاں بھی سلطنت میں خچھ نہ رہا۔ تھا۔ صرف پچاس گھوڑے اور نقار نشان سے دربارہ شاہی میں عزت پائی اور اپنی لیاقت اور خاندان کے نام سے پہا سو کا ایک پرگنہ سیر حاصل ذات اور رسالے کی تنخوا ہ میں لیا۔ شاہ عالم کے بعد طوائف الملوکی کا ہنگامہ گرم ہوا۔ وہ علاقہ بھی نہ رہا۔ ان کے والد عبداللہ بیگ خاں لکھنو جا کر نواب آصف الدولہ مرحوم کے دربار میں پہنچے۔ چند روز حیدر آباد میں جا کر نواب نظام علی خاں بہادر کی سرکار میں ۳ سوموار کی جمعیت سے ملازم رہے۔ کئی برس بعد ایک خانہ جنگی کے بکھیر ے میں یہ صورت بھی بگڑی۔ وہاں سے گھر آئے او الور میں راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی۔ یہاں کسی لڑائی میں مارے گئے۔ اس وقت مرزا کی ۵ برس کی عمر تھی۔ نصر اللہ بیگ حقیق چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آاد کے صوبہ دار تھے۔ انہوںنے در یتیم کو دامن میں لے لیا۔ ۱۸۰۶ء میں جرنیل لیک صاحب کا عمل ہوا تو صوبہ داری کمشنری ہو گئی۔ ان کے چچا کو سواروں کی بھرتی کا حکم ہوا ور ۴ سو سوار کے افسر ہوئے۔ ۱۷ سو روپیہ مہینہ ذات کا ااور ڈیڑھ لاکھ روپیہ سال ک جاگیر سونگ سون کے پرگنہ پر حین حیات مقرر ہو گئی۔ مرزا چچا کے سایے میں پرورش پاتے تھے۔ مگر اتفا ق یہ کہ مرگ ناگہانی میں وہ مر گئے۔ رسالہ برطرف ہو گیا۔ جاگیر ضبط ہوگئی۔ بزرگوں نے لاکھوںؓ روپے کی جائیداد چھوڑی۔ قسمت سے کس کا زور چل سکتا ہے۔ وہ امیر زادہ جو شاہانہ دل ودماغ لے کر آیاتھا۔ اسے ملک سخن کی حکومت اور مضامین کی دولت پر قناعت کر کے غریبانہ حال سے زندگی بسر کرنی پڑی۔ بہت تدبیریں اور وسلے درمیان آئے مگر سب کھیل بن بن کر بگڑ گئے۔ چنانچہ اخیر میں کسی دوست نے انہیں لکھا کہ نظام دکن کے لیے قصیدہ کہہ کر فلاں کے ذریعے سے بھیجو۔ اس کے جواب میں فرمات ہیں کہ میں ۲ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا ۹ برس کا تھا کہ چچا مرا۔ اس کی جاگیر کے عوض میرے اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے شال جاگیر نوااب احمد بخش خاں ۱۰ ہزار روپیہ سال مقرر ہوئے۔ انہوںنے نہ دیے مگر تین ہزار روپیہ سال ان میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپیہ سا فقط میں نے سرکار انگریزی میں غبن ظاہر کیاکولبرک صاحب بہادر ریذیڈنٹ دہلی اورراسترلنگ صاحب بہادر سکوتر گورنمنٹ کلکتہ متلق ہوئے۔ میرا حق دلانے پر ریزیڈنٹ معزول ہو گئے سکرتر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے۔ بعد ایک زمانے کے بادشاہ دہلی نے ۵۰ روپیہ مہینہ مقرر کیا۔ ان کے ولی عہد اس تقرر کیدس برس بعد مر گئے۔ واجد علی شاہ اودھ کی سرکار سے بہ صلہ مدح گستری ۵۰۰ روپے سال مقرر ہوئے۔ وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جیے۔ یعنی اگرچہ اب تک جیتے ہیں۔ مگر سلطنت جاتی رہی اور تباہی سلطنت دو ہی برس میں ہوئی۔ دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی ۷ برس مجھ کو روٹی دیکر بگڑی۔ ایسے طالع مربی کش اور محسن سو زکہاں پیدا ہوتے ہیں۔ اب جو میں والیے دکن کی طرف رجوع کروں یاد رہے کہ متوسط یا مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا۔ اور اگر یہ دونوں امراء واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کے ضائع ہوجائے گی۔ والیے شہر مجھ کو کچھنہ دے گا۔ اور احیاناً اگر اس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی۔ ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔ غرض کہ نواب احمد بخش خان بہادر کی تقسیم سے مرزائے مرحوم نالاں ہو کر ۱۸۳۰ء میںکلکتہ گئے اور اورگورنر جنرل سے ملنا چاہا۔ وہاں دفتر دیھکا گیا۔ اس میں سے ایسا کچھ معلوم ہوا کہ اعزاز خاندانی کے ساتھ ملازمت ہو جاتے اور ۷ پارچہ خلعت تین رقم بالائے مروارید ریاست دو د مانی کی رعایت سے مقرر ہوا۔ غرض مرز ا کلکتہ سے ناکام پھرے اور ایام جوانی ابھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بزرگوں کا سرمایہ تمام کر کے دلی میں آئے۔ یہاں اگرچہ گزران کا طریقہ امیرانہ شان سے تھا اور امیروں سے امیرانہ ملاقات تھی مگر اپنے علو حوصلہ اور بلندی نظر کے ہاتھوں سے تنگ رہتے تھے۔ پھر بھی طبیعت ایسی شگفتہ پائی تھی کہ ان وقتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ہمیشہ ہنس کھیل کر غم غلط کر دیتے تھے کیا خوب فرمایا ہے: مے سے غرض ہے کس روسیاہ کو اک گونہ بے خبری مجھے دن رات چاہیے جب دلی تباہ ہوئی تو زیادہ تر مصیبت پڑی۔ ادھر قلعہ کی تنخواہ جاتی رہی ادھر پنشن بند ہو گئی۔ اور انہیں رام پور جانا پڑا۔نواب صاحب سے ملے ۲۰۔۲۵ برس کا تعارف تھا۔ یعنی ۱۸۵۵ء میں ان کے شاگرد ہوئے تھے اور ناظم تخلص قرار پایا تھا۔ وہ گاہے گاہے غزل بھیج دیتے تھے۔ کبھی روپیہ بھی آتا تھا۔ اس وقت قلعے کی تنخواہ جاری سرکار ی پنشن کھلی ہوئی تھی۔ ان کی عنایت فتوح غیبی بن گنی جاتی تھی۔ جب دلیکی صورت بگڑی تو ازندگی کا مدار اس رپ ہو گیا۔ نواب صاحب نے ۱۸۵۹ء سے سو روپیہ مہینہ کر دیا اور انہیں بڑی تاکید سے بلایا۔ یہ گئے تو تعظیم خاندان کے ساتھ دوستانہ و شاگردانہ بغلگیر ہو کر ملاقات کی اور جب تک رکھاکمال عزت کے ساتھ رکھا بلکہ سو روپیہ مہینہ ضیافت کا زیادہ کر دیا۔ مرزا کو دلی کے بغیر چین کہاں؟ چند روز کے بعد رخصت ہو کر پھر وہیں چلے آئے چونکہ سرکاری پنشن بھی جاری ہو گئی تھی اس لیے چند سال زندگی بسر ک۔ آخر عمر میں بڑھاپے نے بہت عاجز کر دیا تھا۔ کانوں سے سنائی نہ دیتا تھا۔ نقش تصویر کی طرح لیٹے رہتے تھے۔ کسی کو کچھ کہنا ہوتا تھا تو لکھ کر کاغذ پر رکھ دیتاتھا۔ وہ دیکھ کر جواب دے دیتے تھے۔ خوراک دو تین برس سے یہ رہ گئی تی کہ صبح کو پانچ سات بادام کا شیرہ ۱۲ بجے آب گوشت شام کو۴ کباب تلے ہوئے۔ آخر ۷۳ برس کی عر ۱۸۶۹ء (۱۲۸۸ھ) میں جہان فانی سے انتقال فرمایا اوربندہ آثم نے تاریخ لکھی۔ آہ غالب بمرد۔ مرنے سے چند روزپہلے یہ شعر کہا تھا اور اکثریہی پڑھتے رہتے تھے۔ دم واپسیں بر سر راہ ہے عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے مرزا صاحب کے حالات اور طبعی عادات اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا اہل ہند میں فارسی کے باکمال شاعر تھے مگر علوم درسی کی تحصیل طالب علمانہ طور پر نہیں کی اور حق پوچھو تو یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ایک امیر زادے کے سر سے بچپن میں بزرگوں کی تربیت کا ہاتھ اٹھ جائے اور وہ فقط طبعی ذوق سے اپنے تئیں اس درجہ کمال تک پہنچائے۔ وہ کیسی طبع لایا ہو گا۔ جس نے اس کے فکر میں بلند پروزی دماغ میں یہ معنی آفرینی خیالات میں ایسا انداز لفظوں میں نئی تراش اور ترکیب میں انوکھی روش پیدا کی۔ جابجا خود ان کا قول ہے اور حقیقت میں لطف سے خالی ہیں کہ زبان فارسی سے مجھے مناسبت ازلی ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کو اس زبان سے ایک قدرتی لگائو ہے۔ مفتی میر عباس صاحب کو قاطع برہان بھیج کر خط لکھا ہے۔ اس میں فرمایت ہیں۔دیباچے او ر خاتمے میں جو کچھ لکھ آیا ہوں سب سچ ہے۔ کلا م کی حقیقت کی داد جدا چاہتا ہوں۔ نگارش لطافت سے خالی ہن ہو گی۔ علم و ہنر سے عاری ہوں لیکن ۵۵ برس سے محو سخن گزاری ہوں۔ مبد فیاض کا مجھ پر احسان عظیم ہے۔ ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبت ازلی اور سرمدی لایا ہوں۔ مطابق اہل پارس کے منطق کا مزہ بھی ابدی لایا ہوں۔ ہرمز نام ایک پارسی ژند و پاژند کا عالم تھا۔ اس نے اسلام اختیار کیا اور عبدالصمد نام رکھا ۔ ایام سیاحت میں ہندوستان کی طرف آ نکلا ار مرزا سے بھی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ان کی عمر اس وقت ۱۴ برس کی تھی مگر مناسبت ازلی طبیعت میں تھی۔ جس نے اسے کھینچا اور دو برس گھر میں مہمان رکھ کر اکتساب کمال کیا‘ اس روشن ضمیر کے فیضان صحبت کا انہیں فخر تھا اور حقیقت میں یہ امر فخر کے قابل ہے۔ میں نے چاہا کہ مرزا صاحب کی تصویر الفاظ و معانی سے کھینچوںمگر یاد اایا کہ انہوںنے ایک جگہ اسی رنگ و روغن سیاپنی تصویر آپ کھینچی ہے میں اس سے زیادہ کیا کر لوں گا۔ اس کی نقل کافی ہے مگر اول اتنا سن لو کہ مرزا حاتم علی مہر تخلص ایک شخص آگرہ میں تھے۔ مرزا کے اواخر عمر میں اس ہم وطن بھائی سے خط و کتابت جاری ہوئی۔ وہ ایک وجیہ اور طرح دار جوان تھے۔ ان میں سے ان سے دیدوادی نہ ہوئی۔ لیکن کسی زمانے میں ہم وطنی شعر گوئی ہم مذہبی اور اتحاد خیالات کے تعلق سے شاید کسی جلسے میں مرزانے کہا کہ مرزا حاتم علی مہر کو سنتا ہوں کہ طرح دار آدمی ہیں۔ دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ انہیں جویہ خبر پہنچی تو مرز اکو خط لھا اور اپنا حلیہ لکھا اب اس کے جواب میں جو مرزا آپ ہی اپنی تصویر کھینچتے ہیں اسے دیکھنا چاہیے۔ بھائی تمہاری طرح داریکا ذکر میں نے مغل جان سے سنا اور جس زمانے میں کہ وہ حامد علی خاں کی نوکر تھی۔ اور اس میں جھ میں بے تکلفانہ ربط تھا تو اکثر مغل سے ہروں اختلاط ہوا کرتے تھے۔ اس نے تمہارے شعر اپنی تعریف میں مجھے بھی دکھا دیے۔ بہرحال تمہارا حلیہ دیکھ کرتمہارے قد و قامت ہونے کا مجھ کو رشک آیا کس واسطے کہ میرا قد بھی دراز میں انگشت نما ہے۔ تمہارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا کس واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا۔ اور دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے۔ اب جوکبھی مجھ کو وہ اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ پھر جاتا ہے۔ ہاںمجھ کو رشک آیا اور میں نے خون جگر کھایا تو اس بت پر کہ (تمہاری) ڈاڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے۔ وہ مزے یاد ا ٓگئے کہ کیا کہوں جی پر کیا گزری بقول شیخ علی حزیں: تا دستر سم بود زدم چاک گریباں شرمندگی از خرقہ پشمینہ ندارم (میرے) جب ڈاڑھی موچھ میں بال سفید آ گئے تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ ا س سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ناچار(میں نے) مسی بھی چھوڑ دی اور داڑھی بھی مگ ریہ یاد رکھیے کہ اس بھونڈے شہر میں(یعنی دہلی میں ایک وردی ہے عام ملا حافظ‘ بساطی‘ نیچہ بند‘ دھوبی‘سق‘بھٹیارا‘ جلاہا‘ کنجڑا‘ من پر داڑھی سر پر بال۔ میںے جس دن ڈاڑھی رکھی اسی دن سر منڈایا۔ اس فقرے سے معلوم ہوا کہ اپنا اندازسب سے الگ رکھنا چاہتے تھے۔ لباس ان کا اکثر اہل ولایت کا ہوتا تھا۔ سر پر اگرچہ کلاہ یا پاخ نہ تھی۔ مگر لمبی ٹوپی سیاہ پوستین کی ہوتی تھی۔ اورایسا ضرور چاہیے تھا کیونکہ وہ فارسی نویسی کو نہ فقط بلکہ عشق دلی کے ساتھ نباہتے تھے اور لباس و گفتار کی کچھ خصوصیت نہیں۔ وہ اپنی قدامت کی ہر بات سے محبت رکھتے تھے۔ خصوصاً خاندان کے اعزازوں کو ہمیشہ جانکاہ عرق ریزیوں کے ساتھ بچاتے رہتے اس اعزاز پر کہ جوان کے پاس باقی تھا دو دفعہ آسمانی صدمے پہنچے۔ اول جب کہ چچا کاانتقال ہواا۔ دوسرے جب ۱۸۵۷ء میں ناکردہ گناہ کے جرم میں پنشن کے ستھ کرسی دربار اور خلعت بند ہوا۔ اردوئے معلی میں بیسیوں دوستوں کے نام خط ہیں کوئی اس کے ماتم سے خالی نہیں ان کے لفظوں سے س غم میں خون ٹپکتا ہے او ردل پر جو گزرتی ہے وہ تو خدا ہی کو خبر ہے۔ آخر پھر ان کی جگہ اوراپنا حق لیا اور بزرگوں کے نام کو قائم رکھا۔ ۱۸۴۲ء میں گورنمنٹ انگلشیہ کو دہلی کالج کا انتظام از سر نو منظور ہوا۔ ٹامس صاحب جو کنی سال تک اضلاع شمال مگرب کے لفٹیننٹ گورنر بھی رہے اس وقت سیکرٹری تھے۔ وہ مدرسین کے امتحان کے لیے دلی آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپیہ مہینے کا ایک مدرس عربی ہے ایسا ہی ایک فارسی کا بھی ہو۔ لوگوں نے چند کاملوں کے نام بتائے ان میں مرزا کانام بھی آیا۔ مرزا صاحب حسب الطلب تشریف لائے۔ صاحب کو اطلاع ہوئی مگریہ پالکی سے اتر کر اس انتظار میںٹھہرے کہ حسب دستور قدیم صاحب سیکرٹری استقبال کو آئیں گے ۔ جبکہ نہ وہ ادھر سے آئے ارنہ یہ ادھر سے گئے۔ اور یدر ہوئی تو صاحب سیکرٹری کے جمعدا ر سے پوچھا۔ وہ پھر باہر آیا کہ آپ کیوں نہیں چلتے؟ انہوںنے کہا کہ صاحب استقبال کو تشریف نہیں لائے میں کیونکر جاتا؟ جمعدارنے جا کر عرض کی صاحب باہر آئے اور کہا کہ جب آپ دربار گورنری میں بہ حیثیت ریاست تشریف لائیں گے تو ااپ کی وہ تعظیم ہو گی لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اس تعظیم کے مستحق نہیں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعث زیادتی اعزاز سمجھتا ہوں نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں۔ صاحب نے فرمایا کہ ہم آئین سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب رخصت ہو کر چلے آئے۔صاحب موصوف نے موم خاں صاحب کو بلایا اور ان سے کتاب پڑھوا کر سنی اور زبانی باتی کر کے اسی روپے تنخواہ قرار دی۔ انہوںنے سو روپے سے کم منظور نہ کیے۔ صاحب نے کہ اسو روپے لوت و ہمارے ساتھ چلو۔ ان کے دل نے نہ مانا کہ دلی کو ایسا سستا بیچ ڈالیں۔ مرزا کے کھلے ہوئے دل او ر کھلے ہوئے ہاتھ نے ہمیشہ مرزا کو تنگ رکھا۔ مگر اس تنگ دستی می بھی امارت کے تمغے قائم تھے۔ چنانچہ اردوئے معلی کے اکثر خطوط سے یہ حال آئینہ ہے مرزا تفتہ اپنے شاگرد رشید کو ایک خط میں لھتے ہیں کہ سو روپے کی ہنڈی وصو ل کر لی۔ ۲۴ روپے داروغہ کی معرفت اٹھے تھے وہ دیے ۰ ۵ روپے مح میں بھیج دیے۔ ۲۶ باقی رہ گئے وہ بکس میں رکھ لیے۔ کلیان سودا لینے بازار گیا ہے جلد آگیا تو آج ورنہ کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے۔ بھائی بری آبنی ہے۔ انجام اچھانظر نہیں آتا۔ا قصہ مختصر یہ کہ قصہ تما م ہوا۔ کدار ناتھ آپ کا دیوان تھا۔ اسی عالم ماہ بہ ماہ آ کر چٹھا بانٹ دیتا تھا۔ آپ کہیں سفر میں گئے ہیں تو اس کے لیے خطوط میں بار بار احکام بھیجتے ہیں۔ چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں ۔ ہنڈی میں ۱۲ دن کی معیاد تھی ۶ دن گزر گئے تھے ۶ دن باقی تھے۔ مجھ کو صبر کہاں متی کاٹ کر روپے لے لیے۔ قرض متفرق سب ادا ہوا۔ بہت سبکدوش ہوگیا۔ آج میرے پاس ۴۷ روپے نقد بکس میں ہیں اور ۴ بوتل شراب کی اور ۳ شیشے گلاب کے توشہ خانے میں موجود ہیں۔ الحمد للہ علی حسانہ۔ ایک اور جگہ اپنی بیماری کا حال کسی کو لکھتے ہیں۔ محل سرا! اگرچہ دیوان خانے کے بہت قریب ہے پر کیا امکان جو چل سکوں۔ صبح کو ۹ بجے کھانا یہیں آ جاتا ہے۔ پلنگ پر سے کھسل پڑا۔ ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھایا۔ پھر ہاتھ دھوئے کلی کی پلنگ پر جا پڑا۔ پلنگ کے پاس حاجتی لگی رہتی ہے۔ اٹھا اورحاجتی میں پیشاب کر لیا اور پڑا رہا۔ نواب الٰہی بخش خان مرحوم کی صاحبزادی سے مرزا صاحب کی شادی ہوئی اوراس وقت ۱۳ برس کی عمر تھی۔ باوجویکہ اوضاع اطوار آزادانہ رکھتے تھے لیکن آخر صاحب خاندان تھے گھرانے کی لاج پر خیال کر کے بی بی کا پاس خاطر بہت مدنظر رکھتے تھے۔ پھر بھی اس قید سے کہ خلاف طبع تھی۔ جب بہت دق ہوتے تھے تو ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ چنانچہ دوستوں کی زبانی بعض نقلیں بھی سنی اورانکے خطوط میں بھی اکثر جگہ پایا جاتا ہے ۔ ایک قدیمی شاگرد سے ایسے معاملات میں بے تکلفی تھی۔ اس نے امرائو سنگھ نام ایک اور شاگرد کی بی بی کے مرنے کا حال مرزا صاحب کو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ ننھے ننھے بچے ہیں اور اب شادی نہ کرے تو کیا کرے؟ پھر بچے کون پالے؟ اس شخص کی ایک بی بی پہلے مر چکی تھی۔ اور یہ دوسری بی بی مری تھی اب حضرت اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ امرائو سنگھ کے حال پر اس کے واسطے رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے۔ اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار بیڑیاں کٹ چکیں اورایک ہم ہیں کہ اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑاہے تو نہ پھند اہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے۔ اس کو سمجھائو کہ بھائی تیرے بچو ں کو میں پالوں گا تو کیوں بلا میں پھنستا ہے؟ جب ان کی پنشن کھلی تو ایک اور شخص کو لکھتے ہیں کہ تجھ کو میری جا کی قسم اگر میں تنہا ہوتا تو اس قدر قلیل آمد میں کیسا فارغ البال و خوشحال رہتا۔ مرزا صاحب نے فرزندان روحانی یعنی پاک خیالات اور عالی مضامین کا ایک انبوہ بے شمار اپنی نسل میں یادگار چھوڑا مگر افسوس کہ جس قدر ادھر خو ش نصیب ہوئے اسی قدر فرزندان ظاہری کی طرف سے بے نصیب ہوئے۔ چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ سات بچے ہوئے مگر برس برس دن کے پس و پیش میں سب ملک عدم کو چلے گئے۔ ان کی بی بی کے بھانجے الٰہی بخش مرحوم کے نواسے زین العابدین خان تھے۔ وہ بھی شعر کہا کرتے تھے اور عارف تخلص کرتے تھے عارف جوان مر گئے اور دو ننھے ننھے بچے یادگار چھوڑے۔ بی بی ان بچو ں کو بہت چاہتی تھیں۔ اس لیے مرزا نے انہیں اپنے بچوں کی طرح پالا۔ بڑھاپے میں انہیں گلے کے ہار پھرتے تھے۔ جہاں جاتے تھے وہ پالکی میں ساتھ ہوتے تھے۔ ان کے آرام کے لیی آپ بے آرام ہو تے تھے ان کی فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ افسوس کہ مرزا کے بعد دونوں نوجوان مر گئے۔ نواب احمد بخش خاں مرحوم کے رشید فرزند مرزا صاحب کی تکلیف نہ دیکھ سکتے تھے ۔کمال کی دولت ان سے لیتے تھے۔ دنیا کی ضرورتوں میں انہیں آرام دیتے تھے۔ چنانچہ جناب ضیاء الدین خاں صاحب شاگردہیں۔ نواب امین الدین خاں صاحب مرحوم والیے لوہارو ابھ آداب خسروانہ کے ساتھ خدمت کرتے تھے۔ نواب علائو الدین خاںوالیے حال اس وقت ولی عہد تھے۔ بچپن سے شاگرد ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب نواب علائو الدین خاں صاحب کو لکھتے ہیں: ’’میاں بڑی مصیبت میں ہوں۔ محل سرا کی دیواریں گر گئی ہیں۔ پاخانہ ڈھے گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمہاری پھوپھی کہتی ہیں کہ ہئاے دبی ہائے مری۔ دیوان خان کا حال محل سر اسے بدتر ہے۔ مرنے سے نہیں ڈرتا فقد ان راحت سے گھبرا گیا ہوں چھت چھلنی ہے ابرو دو گھنٹ؁ برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالک اگر چاہے کہ مرمت کرے توکیونکر کرے مینہ کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں میں بیٹھا کس طرح رہوں؟ اگر تم سے ہو سکے تو برسات تک بھائی سے وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے ہیں اپنی پھوپھی کے رہنے کے لیے اور کوٹھی میں وہ بالا خانہ مع دالان زیریں جو الٰہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا میرے رہنے کو دلوا دو۔ برسات گزر جائے گی ۔ مرمت ہو جائے گی پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ اپنے قدیم مسکن میں آ رہیں گے۔ تمہارے والد کے ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں ایک یہ مروت کا احسان میرے پایان عمر میں اور بھی سہی غالب‘‘۔ مرزا کثیر الاحباب تھے۔ دوستوں سے دوستی کو ایسا نباہتے تھے۔ کہ اپنایت سے زیادہ ان کی دوست پرستی خوش مزاجی کے ساتھ رفیق ہو کر ہر وقت ایک دائرہ شرفاء اور رئیس زادوں کا ان کے گرد دکھاتی تھی۔ اہی سے غم غلط ہوتا تھا اور اسی میں ان کی زندگی تھی۔ لطف یہ کہ دوستوں کے لڑکوں سے بھی وہی باتیں کرتے تھے۔ جو دوستوں سے۔ ادھر ہونہار جوانوں کامودب بیٹھنا ادھر سے بزرگانہ لطیفوں کا پھول برسانا۔ ادھر سعادت مندوں کا چپ مسکرانا اور بولنا تو حد ادب سے قدم نہ بڑھانا ادھر پھر بھی شوخ طبع سے باز نہ آنا ایک عجب کیفیت رکھتاتھا۔ بہرحا ل انہی لطافتوں اور ظرافتوں میں زمانے کی مصیبتوں کو ٹالا اورناگوار کو گوارا کر کے ہنستے کھیلتے چلے گئے۔ چنانچہ میرہدی میر سرفراز حسین نواب یوسف مرزا وغیرہ اکثر شریف زادوں کے لیے خطوط ’’اردوئے معلی‘‘ میںہیں جو ان جلسوں کے فوٹو گراف دکھاتے ہیں۔ زمانے کی بے وفائی نے مرز اکو فارغ البالی نصیب نہ کی جو ان کے خاندان اورکمال کے لیے شایاں تھی۔ ارو انہین دو باتوں کا مرزا کو بہت خیال تھا۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے جی کو جلا کر دل تنگ بھی نہ ہوتے تھے۔ بلکہ ہنسی میں اڑا دیتے تھے ۔ ان دو باتوں کی سند میں دو خط نقل کرتا ہوں ۔ ایک خط میر مہدی صاحب کے نام ہے کہ ایک شریف عالی خاندان ہیں اور ان کے رشید شاگرد ہیں۔ دوسرا خط منشی ہر گوپال تفتہ صاحب تفتہ تخلص کے نام ہے جن کا ذکر مجملاً پہلے لکھا گیاہے۔ میر مہدی ! تم میں عادات کو بھول گئے؟ ماہ مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے؟ میں اس مہینے میں رام پور کیوں رہتا؟ نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے ۔ برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے‘ مگر بھائی میں ایسے اندا ز سے چلا کہ چاند رات کے دن یہاں آ پہنچا۔ یک شنبہ کو غرہ ماہ مقدس ہوا۔ اسی دن سے ہر صبح کو حامد علی خاں کی مسجد میں جا کر جناب مولوی جعفر علی صاحب سے قرآن سنتا ہوں۔ شب کو جامع مسجد میں جا کر تراویح پڑھتا ہوں۔ کبھی جو دل میں آتی ہے تو وقت صوم مہتاب باغ میں جا کر روزہ کھولتا ہوں اورسرد پانی پیتا ہوں۔ واہ واہ کیا اچھی عمر بسر ہوتی ہے اب اصل حقیقت سنو۔ لڑکوں کو ساتھ لے گیا تھا۔ انہوںنے میرا ناک میں دم کر دیا ۔ تنہا بھیج دینے میں وہم آیا کہ خدا جانے اگر کوئی حوادث ہو تو بدنامی عمر بھر رہے گی۔ اس سبب سے جلد چلاآیا۔ ورنہ گرمی ‘ برسات وہیں کاٹتا۔ اب شرط حیات جریدہ بعد برسات جائوں گ اور بہت دنوں تک یہاں نہ آئوں گا۔ قرارداد یہ ہے کہ نواب صاحب جولائی ۱۸۵۹ء سے کہ جس کو یہ دسواں مہینہ ہے۔ سو روپیہ مجھے ماہوار بھجیتے تھے۔ اب میں جو وہاں گیا تو سو روپیہ مہینہ بنام دعوت اور دیا۔ یعنی رام پور ہوں تو دو سو روپیہ پائوں اور دلی میں ہوں تو سو روپے۔ بھائی سو دو سو میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ نواب صاحب دوستانہ شااگرد انہ دیتے ہیں۔ مجھ کو نوکر نہیںسمجھتے۔ ملاقات بھی دوستانہ رہی۔ معانقہ و تعظیم جس طرح احباب میں رسم ہے‘ وہ صورت ملاقات کی ہے۔ لڑکوں سے میں نے نذر دلوائی ہے پس بہرحال غنیمت ہے۔ رزق کے اچھی طرح ملنے کا شکر چاہیے۔ کمی کا شکوہ کیا؟ انگریز کی سرکار سے دس ہزار روپیہ سال ٹھہرے۔ اس میں سے مجھ کو ملے ساڑھے سات سو روپیہ سال۔ ایک صاحب نے نہ دیے مگر تین ہزار روپیہ عزت میں وہ پایا کہ جو رئیس زادوں کے واسطے ہوتا ہے بنا رہا۔ خاں صاحب بسیار مہربان دوستان القاب خلعت سات پارچہ اوار جیغہ و سر پیچ و مالائے مروارید۔ بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی ناظر‘ حکیم کسی سے توقیر کم نہیں مگر فائدہ وہی قلیل‘ سو میری جان! یہاں بھی وہی نقشہ ہے۔ کوٹھڑی میں بیٹھا ہوں۔ ٹٹی لگی ہوئی ہے۔ ہوا آ رہی ہے۔ پانی جا جھجر دھرا ہوا ہے۔ حقہ پی رہا ہوں یہ خط لکھ رہا ہوں۔ تم سے بتیں کرنے کا جی چاہا یہ باتیں کرلیں۔ خط بنام منشی ہر گوپال تفتہ بس اب تم سکندر آباد میں رہے۔ کہیںاور کیوں جائو گے؟ بنک گھر کا روپیہ اٹھا چکے ہو اب کہاں سے کھائو گے میاں! نہ میرے سمجھانے کو دخل ہے یہ تمہارے سمجھنے کی جگہ ہے۔ ایک چرخ ہے کہ وہ چلا جاتا ہے۔ جو ہونا ہے وہ ہوا جاتاہے۔ اختیار ہو تو کچھ کیا جائے۔ کہنے کی بات ہو تو کہا جائے۔ مرزا عبدالقادر بیدل خوب کہتا ہے: رغبت جاہ چہ و نفرت اسباب کدام زیں ہو سہا بگزر یا نگزر میگزرد مجھ کو دیکھو کہ نہ آزا د ہوں نہ مقید نہ رنجور ہوں نہ تندرست‘ نہ خوش ہوں نہ ناخوش‘ نہ مردہ ہوں نہ زندہ‘ جیے جاتا ہوں باتیں کیے جاتا ہوں‘ روٹی روز کھاتا ہوں شراب گاہ بگاہ پیے جاتا ہوں۔ جب موت آئے گی مر بھی رہوں گا۔ نہ شکر ہے نہ شکایت جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت ہے۔ مرزا کے تما م خاندان کا اور بزرگوں کا مزہب سنت و جماعت تھا۔ مگر اہل راز اور تصنیفات سے بھی ثابت ہے کہ ان کا مذہب شیعہ تھا کہ ظہور اس کا جوش محبت میں تھا۔ نہ کہ تبراتکرار میں۔ چنانچہ اکثر لوگ انہیں نصیری کہتے تھے اور وہ سن کر خوش ہوتے تھے اورایک جگہ کہتے ہیں: مصور فرقہ علی البیاں منم آوازہ انا اسد اللہ برافگنم تمام اقربا اور حقیقی دوست سنت و جماعت تھے لیکن ان کی اپنایت میں کس طرح کی دوئی معلوم نہ ہوتی تھی۔ مولانا فخر الدین کے خاندان کے مرید بھی تھے۔ دربار اہ دربار میں کبھی اس معاملے کو نہیں کھولتے تھے او ریہ طریقہ دہلی کے اکثر خاندانوں کا تھا۔ تصنیفات اردو میں ۱۸۰۰ سو شعر کا ایک دیوانی انتخابی ہے جو کہ ۱۸۴۹ء میں مرتب ہو کر چھپا۔ اس میں کچھ تمام اور کچھ ناتمام غزلیں اور کچھ متفرق اشعار ہیں۔ غزلوں کے تخمیناً ۱۵۰۰ شعر قصیدوں کے ۱۶۲ شعر مثنوی کے ۳۳ شعر متفرقات قطعوں کے ۱۱۱ شعر رباعیاں ۱۶‘ دو تاریخیں جن کے ۴ شعر جس قدر عالم میں مرزا کا نام بلند ہے اس سے ہزاروں درجہ عالم معنی میں کلام بلند ہے۔ بلکہ اکثر شعر ایسے اعلیٰ درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا زہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب ان شکایتوں کے چرچے زیادہ ہوئے تو اس ملک بے نیازی کے بادشاہ نے یہ کہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا اپنی غزل کے ایک شعر سے ب کو جواب دے دیا۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی ایک او ررباعی بھی کہی: مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل سن سن اس کے اسے سخنوران کامل آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل ایک دن استاد مرحوم سے مرزا صاحب کے انداز نازک خیالی کا فارسی ترکیبوں کا اور لوگوں کی مختلف طبیعتوں کا ذکر تھا۔ میں نے کہا بعض شعر صاف بھی نکل جاتا ہے تو قیامت ہی جاتاہے۔ فرمایا کہ پھر کہا کہ جو شعر مرزا کا ہوتا ہے اس کی لوگوں کو خبر نہیں ہوتی۔ شعر ان کے میں تمہیں سناتا ہوں۔ کئی متفرق شعر پڑھے تھے اب تک خیال میں ہے: دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا اس میں کلام نہیں کہ وہ اپنے نام کی تاثیر سے مضامین و معانی کے ہیشے کے شیر تھے۔ دو باتیں ان کے انداز ک ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں۔ اول کہ معنی آفرینی اور نازک خیالی ان کا شیوہ تھا دوسرے چونکہ فارسی کی مشق زیادہ تھی اور اس سے انہیں طبعی تعلق تھا۔ اس لیے اکثر الفاظ اس طرح مرتب دیے جاتے تھے کہ بول چال میں اس طرح بولتے نہیں‘ لیکن جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں وہ ایسے کہ جواب نہیں رکھتے۔ اہل ظرافت بھی اپنی نوک جھونک سے چوکتے نہ تھے چنانچہ ایک دفعہ مرزا ابھی مشارے میں تشریف لے گئے۔ حکیم آغا جان عیش ایک خوش طبع شگفتہ مزاج شخص تھے۔ غزل طرحی میں یہ قطعہ پڑھا: اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے کلام میر سمجھ اور زبان میرزا سمجھے مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے اسی واسطے اواخر عمر میں نازک خیالی کے طریقے کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ چنانچہ دیکھو اخیر کی غزلیں صاف صاف ہیں۔ دونوں کی کیفیت جو کچھ ہے معلوم ہوجائے گی۔ سن رسیدہ اور معتبر لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ حقیقت میں ان کا دیوان بہت بڑا تھا یہ منتخب ہے۔ مولوی فضل حق صاحب فاصل ب عدیل تھے ایک زمانے میں دہلی کی عدالت ضلعی میں سر رشتہ دار تھے۔ اسی عہد میں مرزا خاں عرف مرزا خانی صاحب کوتوال شہر تھے۔ وہ مرزا قتیل صاحب کے شاگرد تھے۔ نظم و نثر فارسی اچھی لکھتے تھے۔ غرض کہ یہ دونوں باکمال صاحب کے دلی دوست ھے۔ ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے۔ انہوںنے اکثر غزلوں کو سنا اور دیوان دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ شعر عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے۔ مرزا نے کہا کہ اتنا کچھ کہہ چکا اب تدارک کیا ہو سکتا ہے انہوںنے کہا کہ خیر ہوا سو ہوا‘ انتخاب کرو اور مشکل شعر نکال ڈالو۔ مرزا صاحب نے دیوان حوالے کر دیا۔ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔ وہ یہی دیوان ہے جو کہ آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔ عود ہندی کچھ تقریظین اور کچھ نثریں اور خطوط ہیں۔ اکثر خطوں میں ان لوگوں کے جواب ہیں جنہوںنے کسی مشکل شعر کے معنی پوچھے ہیں یا کوئی امر تحقیق طلب یا فارسی یا اردو کا دریافت کیا۔ اردوئے معلی ۱۲۸۵ھ ‘ ۱۸۶۹ء چند شاگردوں او دوستوں نے جس قدر اردو کے خطو ط ان کے ہاتھ آئے ایک جگہ ترتیب دیے اور اس مجموعے کا نام مرزا نے خود اردوئے معلی رکھا۔ ان خطوط کی عبارت ایسی ہے ‘ گویا آپ سامنے بیٹھے کل افشانی کر رہے ہیں‘ مگر کیا کریں کہ ان کی باتیں بھی خاص فارسی کی خوش نما تراشوں اور عمدہ ترکیبوں سے مرصع ہوتی تھیں۔ بعض فقرے کم استعدااد ہندوستانیوں کے کانوں کو نئے معلوم ہوں تو وہ جانیں‘ یہ علم کی کم رواجی کا سبب ہے چنانچہ فرماتے ہیں۔ کیا جگر خون کن اتفااق ہے۔ اب درنگ درزی کی تقصیر معاف کیجیے پس چاہیے کوئل کی آرامش کا ترک کرنا اور خواہی نخواہی بابو صاحب کے ہمراہ رہنا یہ رتبہ میری ارزش کے فوق ہے۔ سرمایہ نازش قلمرو ہندوستا ن ہو۔ بعض جگہ خاص محاورہ فارسی کا ترجمہ کیا ہے جیسے میر اور سودا وغیرہ استادوں کے کلا م میں لکھا گیا ہے۔ چنانچہ انہی خطوں میں فرماتے ہیں۔ اس قدر عذر چاہتے ہو یہ لفظ ان کے قلم سے اس واسطے نکلا کہ عذر خواستین جو فارسی کا محاورہ ہے وہ اس باکمال کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ ہندوستانی عذر کرنا یا عذر معذرت کرنی بولتے ہیں۔ نظر اس دستور پر اگر دیکھو تو مجھے اس شخص سے خس براابر بھی علاقہ عزیز داری نہیں ۔ یہ بھی ترجمہ نظر بری کا ضابطہ کا ہے۔ منشی نبی بخش تمہارے خط نہ لکھنے کا گلہ رکھتے ہیں۔’’گلہ ہادارند و شکوہ ہادارند فارسی کا محاورہ ہے‘‘۔ کیوں مہاراج کول میں آنا منشی نبی بخش کے غزل خوانی کرنی! اور ہم کو یادنہ لانا! یاد آوردن خاص ایران کا سکہ ہے ہندوستان میں یاد کرنا بولتے ہیں۔ جو آپ پر معلوم ہے وہ مجھ پر مجہول نہ رہے ہر چہ برشما منکشف است برمن مخفی نماند۔ ان خطوں کی طرز عبادت بھی ایک خاص قسم کی ہے کہ طرافت کے چٹکلے اور لطافت کی شوخیاں اس میں خوب ادا ہو سکتی ہیں۔ یہ انہی کا ایجاد تھا کہ آپ مزا لے لیا اور اوروں کو بھی لطف دے دیا۔ دوسرے کا کام نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ایک تاریخی حال یا اخلاقی خیال یا علمی مطالب یا دنیا کے معاملات خاص میں مراسلے تھے تو اس اندا زمیں ممکن نہیں۔ اس کتاب میں چونکہ اصلی خط لکھے ہیں اس لیے وہ ان کی ظاہر و باطن کی حالت کا آئینہ ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ دنیا کے غم و الم ہمیشہ انہیں ستاتے تھے اوروہ علو حوصلہ سے ہنسی ہی میں اڑاتے تھے۔ پورا لطف ان تحریروں کا اس شخص کو آتا ہے جو خود ان کے حال اور مکتوب الیہوں کی چال ڈھال سے اور طرفین کے ذات معاملات سے بخوبی واقف ہو غیر آدمی کی سمجھ میںنہیں آتیں اس لیے اگر ناواقف اور بے خبر لوگوں کو ا س میں مزہ نہ آئے تو کچھ عجب نہیں۔اس کتاب میں قلم التماس کومونث پنشن بیداد بارک کو مذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں میرا اردو بہ نسبت اوروں کے فصیح ہو گا۔ لطائف غیبی اس رسالے میں منشی سعادت علی خاں کی طرف روئے سخن ہے۔ اگرچہ اس کے دیباچے میں سیف الحق کانام لکھا ہے مگر انداز عبارت اور عبارت کے چٹکلے صاف کہتے ہیں خہ مرزا ہیں۔ وہ درحقیقت وہ میاں داد خان ہیں جن کے نام چند رقعے مرزا صاحب کے اردوئے معلی میں ہیں چنانچہ ایک رقعے میں انہیں فرماتے ہیں کہ صاحب میں نے تمہیں کو سیف الحق خطاب دیا تم میری فوج کے سپہ سالار ہو۔ تیغ تیز مولوی احمد علی پروفیسر مدرسہ ہگلی نے قاطع برہان کے جواب میں موید البرہان لکھی تھی اس کے بعض مراتب کا جواب مرزا صاحب نے تحریر فرما کر تیغ تیز نام رکھا۔ساطع برہان کے اخیر میں چند ورق سید عبداللہ کے نام سے بھی ہیں وہ بھی مرزا صاحب کے ہیں۔ تصنیفات فارسی فارسی کی تصنیفات کی حقیقت حال کا لکھنا او ر ان پر رائے لکھنی اردو کے تذکرہ نویس کا کام نہیں ہے اس لیے فقط فہرست لکھتا ہوں۔ قصائد حمد و نعت میں آئمہ معصومین کی مدح میں بادشاہ دہلی شاہ اودھ ‘ گورنروں اور بعض صاحبان عالیشان کی تعریف میں ہیں۔ غزلوں کا دیوان مع دیوان قصائد کے ۳۳ئ۔۲۵ء میں مرتب ہو کر نقلوںکے ذریعے سے اہل ذوق میںپھیلا اور اب تک کئی دفعہ چھپ چکا ہے۔ پنج آہنگ اس میں پانچ آہنگ کے پانچ باب فارسی کے انشاء پردازوں کے لیے جو کہ ان کے انداز میں لکھنا چاہیں۔ ایک عمدہ تصنیف ہے۔ ۱۸۶۲ء میں قاطع برہان چھپی بعد میں کچھ تبدیلی کے اس کو پھر چھپوایا اور درفش کاویانی نام رکھا۔ برہان قاطع کی غلطیاں نکالی ہیں۔ مگر اس رپ فارسی کے دعویداروں نے سخت حملوں کے ساتھ مخالفت کی۔ نامہ غالب قاطع برہان کے کئی شخصوںنے جواب لکھے۔ چنانچہ میرٹھ میں حافظ عبدالرحیم نام ایک معلم نابینا تھے۔ انہوں نے اس کاجواب ساطع برہان لکھا۔ مرزا صحب نے خط عنوان میں حافظ صاحب موصوف کو بطور جواب کے چند ورق لکھے اوران کا نام نامہ غالب رکھا۔ مہر نیمروز حکیم احسن اللہ خاں طبیب خاص بادشاہ تھے۔ انہٰں تاریخ کا شوق تھا اور اہل کمال کے ساتھ عموماً تعلق خاطر رکھتے تھے۔ مرزا نے ان کے ایما سے اول کتاب مذکور کا یا حصہ لکھا۔ اس کے ذریعے سے ۱۸۵۰ء میں باریااب حضور ہو کر خدمت تاریخ نویسی پر مامور ہوئے اور نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب بہادر نظام جنگ خطاب ہوا۔ چنانچہ پہلی جلد میں امیر تیمور سے ہمایوں تک کا حال بیان کر کے مہر نیم رو ز نام رکھا۔ ارادہ تھا کہ اکبرسے لے کر بہادر شاہ ظفر تک حال دوسری جلد میں لکھیں اور ماہ نیم ماہ نام رکھیں کہ غدر ہو گیا۔ دستنبو ۱۱مئی ۱۸۵۷ء سے یکم جولائی ۱۸۵۸ء تک حال بغاوت روداد تباہی شہر اپنی سرگزشت غرض کل ۱۵ مہینے کا حال لکھا ہے۔ سبد چین دو تین قصیدے چند قطعے چند خطوط فارسی کے اس میں ہیں کہ دیوان میں درج نہ ہوئے تھے۔ اواخر عمر میں اپنا کلام اپنے پاس نہ رکھتے تھے۔ اردو کی تصنیفات نواب حسین مرزا صاحب کے پاس رہتی تھیں اور ترتیب کرتے جاتے تھے۔ فارسی نواب ضیاء الدین خاں صاحب کو بھیج دیتے تھے کہ انہیں نیر درخشاں تخلص کر کے اپنا رشید شاگرد اور خلیفہ اول قرار دیا تھا۔ خلیفہ دوم نواب علائو الدین خاں صاحب تھے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی انشاء پردازی کے شوق کو بڑ ی کاوش اور عرق ریزی سے نباہتے تھے۔ اسی واسطے مرنے سے ۱۰‘۱۵ برس پہلے ان کی تحریریں اردو میں ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک دوست کے خط میں خوط فرماتے ہیں۔ بندہ نواز! زبان فارسی میں خطوں کا لکھا پہلے سے متروک ہے۔ پیرانہ سری اور ضعف کے صدموں سے محنت پژدہی اورجگر کاری کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ حرارت عزیزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے کہ : مضمحل ہو گئے قویٰ غالب وہ عناصر میں اعتدال کہاں کچھ آپ ہی کی تخصیص نہیں سب دوستوں کو جن سے کتاب رہتی ہے۔ ارد و میں ہی نیاز نامے لکھا کرتاہوں۔ جن جن صاحبوں کی خدمت میں آ گے میں نے فارسی زبان میں خطوط لکھے اور بھیجے تھے۔ ان میں جو صاحب الی الآن موجود ہیں ان سے بھی عند الضرورت اسی زبان مروج میں مکاتبت و مراسلت کا اتفاق ہوا کرتاہے۔ اردوئے معلی میں مرزا حاتم علی بیگ مہر کو تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ایک قطعہ ہے کہ وہ میں نے کلکتہ میں کہا تھا۔ تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین ایک میرے دوست تھے۔ انہوںنے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اوربے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کجیے‘ میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے نو دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلے میں وہ ڈلی ان سے لی۔ قطعہ ہے جو صاحب کف دست پہ یہ چکنی ڈلی زیب دیتا ہے اسے کس قدر اچھا کہیے خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے اختر سوختہ قیس سے نسبت دیجیے خال مشکین رخ دلکش لیلیٰ کہیے حجر الاسود دیوار حرم کیجیے فرض نافہ آہوئے بیاباں ختن کا کہیے صوے میں اسے ٹھیرائیے گر مہر نماز میکدہ میں اسے خشت خم صہبا کہیے مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھیے سرپستان پریزاد سے مانا کہیے اپنے حضرت کے کف دست کو دل کیجیے فرض اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیے غرض کہ بیس بائیس پھبتیاں ہیں۔ اشعار سب کب یاد آتے ہیں بھول گیا۔ نواب زینت محل کو بادشاہ کے مزاج میں بہت دخل تھا۔ مرزاجواں بخت انکے بیٹے تھے۔ اور باوجودیکہ بہت مرشد زادوں سے چھوٹے تھے۔ مگر بادشاہ انہی کی ولی عہدی کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ جب ان کی شادی کا موقع آیا تو بڑی دھوم دھام کے سامان ہوئے۔ مرزا نے یہ سہرا کہہ کر حضور میں گزرانا۔ سہرا خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سرسہرا باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا نائو بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا رخ پہ دولہا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں ایک چیز چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا جبکہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سہرا رخ روش کی دمک‘ گوہر غلطاں کی چمک کیوںنہ دکھلائے فروغ مہ و اختر سہرا تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار لائے گا تاب گراں باری گوہر سہرا ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دارنہیں دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا مقطع کو سن کر حضور کو خیال ہو کہ اس میں ہم پر چشمک ہے۔ گویا اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس سہرے کے برابر کوئی سہرا کہنے والا نہیں۔ ہم نے شیخ ابراہیم ذوق کو استاد اور ملک الشعراء بنایا ہے یہ سخن فہمی سے بعید ہے بلکہ طرف داری ہے۔ چنانچہ اسی دن استاد مرحوم جو حسب معمول حضور میں گئے تو بادشاہ نے وہ سہرا دکھایا کہ استاد دیکھیے۔ انہوںنے پڑھا اور بموجب عادت عرض کی۔ پیرو مرشد درست بادشاہ نے کہا کہ استاد تم بھی ایک سہرا کہہ دو عرض کی۔ بہت خوب پھر فرمایا کہ ابھی لکھ دو اور ذرا مقطع پر بھی نظر رکھناا۔ استاد مرحوم وہیں بیٹھ گئے۔ اور عرض کیا: سہرا اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا آج وہ دن ہے کہ ائے در انجم سے فلک کشتی زر میں مہ نور کی لگا کر سہرا تابش حسن سے مانند شعاع خورشید رخ پر نور پہ ہے تیرے منور سہرا وہ کہے صلی علیٰ یہ کہے سبحان اللہ دیکھیں مکھڑے پہ جو تیریء مہ اختر سہرا تا بنی اور بنے میں رہے اخلاص بہم گوندھیے سورہ اخلاص کو پڑھ کر سہرا دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہرے کی گائیں مرغان نوا سنج نہ کیوں کر سہرا روئے فرخ پہ جو ہیں تیرے برستے انوار تار بارش سے بنا ایک سراسر سہرا ایک کو ایک پہ تزئین ہے دم آرائش سر پہ دستار ہے دستار کے اوپر سہرا اک گہر بھی نہیں صدکان گہر میں چھوڑا تیرا بنوایا ہے لے لے جو گوہر سہرا پھرتی خوشبو سے ہے اترائی ہوئی باد بہار اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا سر پہ طرہ ہے مزین تو گلے میں بدھی کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا رونمائی میں تجھے دے مہ و خورشید فلک کھول دے منہ کو جو تو منہ سے اٹھا کر سہرا کثرت تار نظر سے ہے بے تماشائیوں کے دم نظارہ ترے روئے نکو پر سہرا درخوش آب مضامیں میں سے بنا کر لایا واسطے تیرے ترا ذوق ثنا گر سہرا جس کو دعویٰ ہے سخن کا یہ سناوے اس کو دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا اربا ب نشاط حضور میں ملاز م تھیں۔ اسی وقت انہیں ملا۔ شام تک شہر کی گلی گلی کوچے کوچے میں پھیل گیا۔ دوسرے دن اخبار میں مشتہر ہو گیا۔ مرزا بھی بڑ ادا شناس اور سخن فہم تھے سمجھے کہ تھا کچھ اور ہو گیا کچھ او ر یہ قطعہ حضور میں گزرانا۔ قطعہ در معذرت منظور ہے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے کیا ک ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیںمجھے استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے جام جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے میں کون اور ریختہ ہاں اس سے مدعا جز انسباط خاطر حضرت نہیں مجھے سہرا لکھا گیا زرہ امتشال امر دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے مقطع میں آ پڑی ہے سخں گسترانہ بات مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے قسمت بری سہی‘ پہ طبیعت بری نہیں ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے کلکتہ میں بہت سے اہل ایران اوربرے بڑے علماء و فضلا موجود تھے مگر افسوس ہے کہ وہاں مرزا کے کمال کی ایسی عظمت نہ ہوئی جیسی کہ ان کے شان کے شایان تھی۔ حقیقت میں ا ن کی عظمت ہونی چاہیے تھی اور ضرور ہوتی مگر ایک اتفاقی پیچ پڑی گیا۔۔ اس کی داستان یہ ہے کہ مرزا نے کسی جلسہ میں ایک فارسی کی غزل پڑھی۔ اس میں ایک لفظ پر بعض اشخاص نے اعتراض کیا اور اعتراضا بموجب اس قاعدے کے تھا۔ جو مرزا قتیل نے اپنے ایک رسالے میں لکھا ہے۔ مرزا نے سن کر کہا کہ قتیل کون ہوتاہے اور مجھے مرزا قتیل سے کیا کام؟ ایک فرید آباد کا کھتری تھا۔ میں اہل زبان کے سوا کسی کو نہیں سمجھتا۔ وہ لوگ اکثر مرزا قتیل کے شاگرد تھے۔ اس لیے آئین مہمان نوازی سے آنکھیںبند کر لیں اور جوش و خروش خاص وعام میں پیدا ہوا۔ مرزا کو تعجب ہوا کہ اس خیال سے کہ یہ فتنہ کس طرح فرو ہو جائے سلامت روی کا طیرقہ اختیار کر کے ایک مثنوی لکھی اور اس میں کچھ شک نہیں کہ داد سخن وری کی دی ہے ۔ معرکے کا سارا ماجرا نہایت خوبی کے ساتھ نظم میں اداکیا۔ اعتراض کو سند سے دفعہ کیا۔ اپنی طرف سے انکسار مناسب کے ساتھ معذرت کا حق پورا کیا‘ لیکن زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ جب مثنوی حریفوں کے جلسے میں پڑھی گئی تو بجائے اس کے کہ کمال کو تسلیم کرتے ہیں یا مہمان سے اپنی زیادتیوں کا عذر کرتے ایک نے عمداً کہا کہ اس مثنوی کا نام کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ باد مخالف دوسرے نے گلستاں کا فقرہ پڑھا‘ یکے از صلحا را باد مخالف در شکم پیچید اورسب نے ہنس دیا۔ لطیفہ دلی میں مشاعرہ تھا مرزا نے اپنی فارسی غزل پڑھی۔ مفتی صدر الدین خاں صاحب اور مولوی امام بخش صاحب صہبائی جلسہ میں موجو د تھے۔ مرزا صاحب نے جس وقت یہ مصرع پڑھا : بوا دیے کہ دران خضر را عصا خفت است مولوی صہبائی کی تحریک سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ عصا خفت است میں کلام ہے۔ مرزا نے کہا کہ حضرت! میں ہندی نژاد ہوں۔ میرا عضا پکڑ لیا۔ اس شیرازی کا عصا نہ پکڑاگیا۔ ولے بحملہ اول عصائے شیخ بخفت انہوںنیکہا کہ اصل محاورہ میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ مناسب مقام ہے یا نہیں۔ لطیفہ ایک دفعہ مرزا بہت قرضدار ہوگئے۔ قرض خواہوں نے نالش کر دی۔ جواب دہی میں طلب ہوئے ۔ مفتی صاحب کی عدالت تھی۔ جس وقت پیشی میں گئے یہ شعر پڑھا۔ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن مرزا صاحب کو ایک آفت ناگہانی کے سبب سے چند روز جیل خانے میں رہنا پڑا کہ جیسے حضرت یوسف کو زندان مصر میں۔ کپڑے میلے ہو گئے ھتے جوئیں پڑ گئی تھیں۔ ایک دن بیٹھے ان میں سے جوئٰں چن رہے تھے۔ ایک رئیس وہیں عیادت کو پہنچا۔ پوچھا کیا حال ہے؟ آپ نے یہ شعر پڑھا: ہم غمزدہ جس دن سے گرفتار بلا ہیں کپڑوں میں جوئیں بخیوں کے ٹانکوں سے سو اہیں جس دن وہاں سے نکلنے لگے اور لباس تبدیل کرنے کا موقع آیا تو وہاں کا کرتا وہیں پھاڑ کر پھینکا اور یہ شعر پڑھا۔ ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا حسین علی خاں چھوٹا لڑکا ایک د ن کھیلتا کھیلتاا آیا کہ داداجان مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں۔ وہ صندوقچہ کھو کر ادھر ادھر پیسے ٹٹولنے لگا۔ آپ نے فرمایا: درم و دام اپنے پاس کہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں پنشن سرکار سے ماہ بماہ ملتی تھی بغاوت دہلی کے بعد حکم ہواا کہ شمشاہی ملا کرے۔ اس موقع پر ایک دوست کو لکھتے ہیں۔ رسم ہے مردہ کی چھ ماہی ایک خلق کا ہے اسی چلن پہ مدار مجھ کو دیکھو کہ ہوں بقید حیات اور چھ ماہی ہو سال میں دو بار مگر یہ دو شعر حقیقت میں ایک قصیدے کے ہیں جس کی بدولت بادشاہ دہلی کے دربار میں شمشاہی تنخواہ کے لیے ماہوار ی کا حکم حاصل کیا تھا۔ فارسی کے قصائد میں اس قسم کے عزل و نصب انہوںنے اکثر کہے ہیںَ اور یہ کچھ عجیب بات نہیں۔ انوری وغیرہ اکثر شعرا نے ایسا کیا ہے۔ لطیفہ مولوی فضل حق صاحب مرزا کے بڑے دوست تھے۔ ایک دن مرزا ان کی ملاقات کو گئے ان کی عادت تھی کہ جب کوئی بے تکلف دوست آیا کرتا تو خالق باری کا یہ مصرع پڑھا کرتے تے۔ بیا بر ادر آورے بھائی! چننچہ مرزا صاحب کی تعظیم کو اٹھ کھڑ ے ہوئے اور یہی مصرع کہہ کر بٹھایا۔ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ مولوی صاحب کی رنڈی بھی دوسرے دالان سے اٹھ کر پاس آن بیٹھی۔ مرزا نے فرمایا ہاں صاحب اب وہ دوسرا مصرع بھی فرما دیجیے۔ بنشین مادر بیٹھ ری مائی لطیفہ مرزا کی’’قاطع برہان‘‘ کے بہت شخصوں نے جواب لکھے اور بہت زبان درازیاں کی ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت آپ نے فلاں شخص کی کتاب کا جواب نہ لکھا فرمایا۔ بھائی ! اگر کوئی گدھا تمہارے لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ لطیفہ بہن بیمار تھی۔ آپ عیادت کو گئے۔ پوچھا کیا حال ہے؟ وہ بولیں کہ مرتی ہوں قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لیے جاتی ہوںَ آپ نے کہا کہ بوا بھلا یہ کیا فکر ہے؟ خدا کے پاس کیا مفتی صدر الدین خان بیٹھے ہیں جو ڈگری کر کے پکڑوا بلائیں گے؟ لطیفہ ایک دن مرزا کے شاگرد رشید نے آ کر کہا کہ حضرت آج میں امیر خسرو کی قبر پر گیا۔ مرزا پر کھرنی کا درخت ہے اس کی کھرنیاں میں نے خو ب کھائیں۔ کھرنیوں کا کھانا تھا اکہ گوایا فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا۔ دیکھیے تو میں کیسا فصیح ہو گیا ہوں۔ مرزا نے کہا ارے میاں! تین کوس کیوں گئے میرے پچھواڑے کے پھیل کی پپلیاں کیوں نہ کھا لیں چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ لطیفہ بعض بعض شاگردوںنے مرزا سے کہکا کہ آپ نے حضرت علیؓ کی مدح میں بہت قصیدے اور بڑے بڑے زور کے قصیدے کہے صحابہ میں سے کسی کی تعریف میں کچھ نہ کہا؟ مرزا نے ذرا تاامل کرکے کہا کہ ان میں کوئی ایسا دکھا دیجیے تو اس کی تعریف میں بھی کچھ کہہ دوں۔ مرزا صاحب کی شوخی طبع ہمیشہ انہی اس رنگ میں شور بوررکھتی تھی جس سے ناواقف لوگ انہیں الحاد کی تہمت لگاتے اور چونکہ یہ رنگ ان کی شک و شان پر عجیب معلوم ہوتا تھا اس لیے ان کے دوست ایسی باتوں کو سن کر چونکتے تھے۔ جوں جوں وہ چونکتے تھے وہ اور ھبی زیادہ چھینٹے اڑاتے تھے۔ ان کی طبیعت سر در شراب کی عادی تھی لیکن اسے گناہ الٰہی سمجھتے تھے اوریہ بھی عہد تھا کہ محرم میں ہرگز نہ پیتے تھے۔ لطیفہ عذر کے چند روز بعدپنڈت موتی لعل کہ ان دنوں میں مترجم گورنمنٹ پنجاب کے تھے صاحب چیف کمشنر پنجاب کے ساتھ دلی گئے اور حب الوطن اور محب فن کے سبب سے مرزا صاحب کی ملاقات کی۔ ان دنوںمیں پنشن بند تھی۔ دربار کی اجازت نہ تھی۔ مرز ا بہ سبب دل شکستگی کے شکوہ و شکایت سے لبریز ہو رہے تھے۔ اثنائے گفتگو میں کہنے لگے کہ عمر بھر ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور ایک دفعہ بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان نہیں‘ پھر میںنہیں جانتاکہ مجھے سرکارنے باغی مسلمانوں میں کس طرح شامل سمجھا؟ لطیفہ بھوپال سے ایک شخص دلی کی سیر کو آئے۔ مرزا صاحب کے بھی مشتاق ملاقات تھے۔ چنانچہ ایک دن ملنے کو تشریف لائے۔ وضع سے معلوم ہوتاتھا کہ نہایت پرہیز گار اور پارسا شخص ہیں۔ ان سے بہ کمال اخلاق پیش آئے مگر معمولی وقت تھا۔ بیٹھے سرو ر کر رہے تھے گلاس اور شراب کاشیشہ آگے رکھا تھا ان بے چارہ کو خبر نہ تھی کہ آپ کو یہ شوق بھی ہے۔ انہوںنے کسی شربت کا شیشہ خیال کرکے ہاتھ میں اٹھا لیا۔ کوئی شخس پاس سے بولا جناب یہ شراب ہے۔ بھوپالی صاحب نے جھٹ شیشہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا میں نے شربت کے دھوکے میں اٹھا لیا تھا۔ مرزا نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ زہے نصیب دھوکے میں نجات ہو گئی۔ لطیفہ ایک دفعہ رات کو انگنائی میں بیٹھے تھے کہ چاندنی رات تھی۔ تارے چھٹکے ہوئے تھے۔ آپ آسمان دیکھ کر فرمانے لگے کہ جو کام بے صلاح و مشورہ ہوتاہے بے ڈھنگا ہوتاہے۔ خدا نے ستارے آسمان پر کسی سے مشورہ کر کے نہیں بنائے۔ جبھی بکھرے ہوئے ہیں۔ نہ کوئی سلسلہ نہ زنجیر نہ بیل نہ بوٹا۔ لطیفہ ایک مولوی صاحب جن کا کا مذہب سنت والجماعت تھا۔ رمضان کے دنوں میں ملاقات کو آئے عصر کی نماز ہو چکی تھی۔ مرزا نے خدمت گار سے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت غضب کرتے ہیں ۔ رمضان میں روزے نہیں رکھتے ۔ مرزا نے کہا سنی مسلمان ہوں چار گھڑی دن سے روزہ کھول یا کرتا ہوں۔ لطیفہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ آپ نواب حسین مرزا کے ہاں بیٹھے تھے۔ پان منگا کر کھایا۔ ایک صاحب فرشتہ سیرت نہایت متقی و پرہیز گار اس وقت حاضر تھے۔ انہوںنے متعجب ہو کر پوچھا کہ قبلہ آپ روزہ نہیں رکھتے؟ مسکرا کر بولے شیطان غالب ہے۔ یہ لطیفہ اہل ظرافت میں پہلے سے بھی مشہور ہے کہ عالمگیر کا مزاج سرمد سے مکدر تھا اس لیے ہمیشہ اس کا خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ قاضی قوی جو اس عہد میں قاضی شہر تھا۔ اس نے موقع پر سرمدکو بھنگ پیتے ہوئے جا پکڑا۔ اول بہت سے لطائف و ظرائف کیساتھ جواب سوال ہوئے۔ آخر جب قاضی نے کہا کہ نہیں! شرع کا حکم اسی طرح ہے‘ کیوں حکم الٰہی کے برخلاف باتیں بناتاہے؟ اس نے کہا کہ کیا کروں شیطان قوی ہے۔ لطیفہ جاڑے کا موسم تھا ایک دن نواب مصطفی خاں صاحب مرزا کے گھر آئے اور آ پ نے ان کے آگے شراب کا گلاس بھر کر رکھ دیا۔ وہ ان کامنہ دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا لیجیے۔ چونکہ وہ تائب ہو چکے تھے انہوںںے کہا میں نے تو توبہ کی۔ آپ متعجب ہو کر بولے ہیں جاڑے میں بھی؟ لطیفہ ایک صاحب نے ان کے سنانے کو کہا کہ شراب پینی سخت گناہ ہے۔ آپ نے ہنس کر کہا کہ بھلا جو پیے تو کیا ہوتا ہے؟ انہوںنے کہا کہ ادنیٰ بات یہ ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ مرزا نے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیںکہ شراب کون پیتا ہے؟ اول تو وہ ایک بوتل اولڈ ٹام کی باسامان سامنے حاجر ہو دوسرے بے فکری‘ تیسری صحت‘ آپ فرمائیے کہ جسے یہ سب کچھ حاصل ہو اسے ور کیا چاہیے جس کے لیے دعا کرے؟ مرزا صاحب کو مرنے سے آٹھ برس پہلے ہی اپنی تاریخ فوت کا ایک مادہ ہاتھ آیا وہ بہت بھایا اور اسے موزون فرمایا: تاریخ فوت منکہ باشم کہ جاوداں باشم چوں نظیری نماند و طالب مرد وربپر سند درکدا میں سال مرد غالب؟ بگو کہ غالب مرد اس حساب سے ۱۲۷۷ھ میں مرنا چاہیے تھا۔ اسی سال شہر میں سخت وبا آئی۔ ہزاروں آدمی ر گئے ۔ ان دنوں دلی کی بربادی کا غم زیادہ تھا۔ چنانچہ میر مہدی صاحب کے جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ وبا کو کیاپوچھتے ہو؟ قد ر انداز قضا کے ترکش میں یہی ایک تیر باقی تھا۔ قتل ایسا عام لوٹ ایسی سخت کال ایسا پڑا وبا کیوں نہ ہو؟ لسان الغیب نے دس برس پہلے فرمایا ہے۔ ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے میاں! ۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی۔ مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا۔ واقع اس میں میری کسر شان تھی بعد رفع فساد ہوا کے سمجھ لیا جائے گا۔ غزلیں سما سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشائے بیک کف بردن صد دل پسند آیا بہ فیض بیدلی نو میدی جاوید آساں ہے کشائش کو ہمارا عقدہ مشکل پسند آیا ہوائے سیر گل آئینہ بے مہری قاتل کہ انداز بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ معنی نہ ہوا سبزہ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف دام افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہی گر نفس جادہ سر منزل تقویٰ نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالب ناتوانی سے حریف دم عیسیٰ نہ ہوا کل ک لیے آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جنب میں جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع گروہ صدا سمائی ہے چنگ در رباب میں رو میں ہے رخش عمر‘ کہاں دیکھتے تھے نے ہاتھ برگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر یاں کیا دھرا ہے قطرہ موج و حباب میں شرم اک ادائے ناز ہیہ اپنے ہ سے سہی ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک یک نظر پیش نہیں فرصت ہستی غافل گری بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلدی ہے سحر ہونے تک یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتااا ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا‘ کوئی غم گسار ہوتا رگ سنگ سے ٹپکتا وہ ہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا غم اگرچہ جانگسل ہے پہ کہاں بچپنن کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگرایک بار ہوتا ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتانہ کہیں مزار ہوتا اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بوبھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا درد منت کش دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہواا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریانہ ہوا کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا زخم گردب گیا لہو نہ تھما کام گر رک گیا‘ روا نہ ہوا رہزنی ہے دل ستانی ہے لے کے دل دلستاں روانہ ہوا جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کچھ تو پڑھیے کہ وگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں میری آواز گر نہیں آتی داغ دل گر نظر نہیں آتا بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی کعبے کس منہ سے جائو گے غالب شرم تم کو مگرنہیں آتی حسن مہ گرچہ بہنگام کمال اچھا ہے اس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرجم سے مرا جام سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتاہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمارکا حال اچھا ہے دیکھیے پاتے ہیں عشا بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہاا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی ترے قد و رخ کے ظہور کی اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بنائو ہیں پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی واعط نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی لڑت اہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اٹھا گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب آئو نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی گرمی سہی کلام میں‘ لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات ‘ اس نے شکایت ضرور کی غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی نوید اس ہے بیداد دوست جاں کے لیے رہی نہ طرز ستم کوئی آسماںکے لیے بل سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے رکھوں کچھ اپنی بھی مژگاں خونفشاں کے لیے وہ زندہ ہیں ہم کہ ہیں روشناس خلق اے خضر نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے رہا بلا میں بھی مبتلائے آفت رشک بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے فلک نہ دور رکھ اس سے مجھ کہ میں ہی نہیں دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے اٹھا ااور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے نصیر دولت و دیں اورمعین ملت و ملک بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لیے زمانہ عہد میں اس کی ہے محو آرائش بنیں گے ستارے اب آسماں کے لیے ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہے اس بحر بیکراں کے لیے ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے ٭٭٭ مرزا سلامت علی دبیر خاندانی شاعر نہ تھے ۔ بچپن میں مرثیہ پڑھتے تھے۔ اس شوق نے منبر کی سیڑھی سے مرثیہ گوئی کے عرش کمال تک پہنچا دیا۔ میر مظفر حسیں ضمیر کے شاگرد ہوئے اور کچھ استاد سے پایا۔ اسے بلند اور روشن کر کے دکھایا۔ تمام عمر میں کسی اتفاقی سبب سے کوئی غزل یا شعر کہا ہو ورنہ مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجے تک پہنچا دیا‘ جس کے آگے ترقی کا راستہ بند ہو گیا۔ ابتدا سے اس شغل کو زاد آخرت کا سامان سمجھاا اور نیک نیتی سے ا س کا ثمرہ لیا۔ طبیعت بھی ایسی گداز پائی تھی کہ جو اس فن کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔ ان کی سلامت روی‘ پرہیز گاری ‘ مسافر نوازی اور سخاوت نے صفت کمال کو زیادہ تر رونق دی تھی۔ شاگرد ان الٰہی کی طبیعت بھی جذبہ الٰہی کا شوق رکھتی ہے۔ بچپن سے دل چونچال تھا۔ ابتدائے مشق میں کسی لفظ پر استاد کی اصلاح پسند نہ آتی۔ شیخ ناسخ زندہ تھ مگر بوڑھے ہو گئے تھے۔ ان کے پاس چلے گئے۔ وہ اس وقت گھر کے صحن میں مونڈھے بچھائے جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ انہوںنے عرض کی کہ حضرت! اس شعر میں میں نے تو یہ کہا ہے اور استاد نے یہ اصلاح دی ہے ۔ انہوںنے فرمایا کہ استاد نے ٹھیک اصلاح دی ہے۔ انہوںنے پھر کہا کہ کتابوں میں تو اس طرح آیاا ہے۔ انہوںنے کہا کہ نہیں جو تمہارے استاد نے بتایا ہے وہی درست ہے۔ انہوںنے پھر عرض کی کہ حضرت آپ کتاب تو ملاحظہ فرمائیں۔ شیخ صاحب نے جھنجھلا کر کہا کہ ارے تو کتاب کو کیا جانے؟ ہمارے سامنے کتاب کا نا م لیتا ہے؟ ہم کتابیں دیکھتے دیکھتے خود کتاب بن گئے ہیں ۔ ایسے غصے ہوئے کہ لکڑی سامنے رکھی تھی وہ لے کر اٹھے اور یہ بھاگے‘ انہیں بھی ایسا جوش تھا کہ دروازے تک ان کا تعاقب کیا۔ لکھنو کے لڑانے اور چمکانے والے غضب کے تھے۔ آخر مرزا کا عالم شباب تھا اور کمال بھی عین شباب پر تھا کہ جوانی کا بڑھاپے سے معرکہ ہوا۔ نواب شرف الدولہ میر ضمیر کے بڑے قدردان تھے ۔ ان سے ہزاروں روپے کے سلوک کرتے تھے۔ ابتدا میں ان کے سبب سے اور پھر مرزا کے جوہر کمال کے باعث سے ان کی بھی قدردانی کرتے تھے۔ ان کی مجلس میں اول مرزا بعد میں ان کے میر ضمیر پڑھا کرتے تھے۔ ایک موقع پر مرزا نے ایک مرثیہ لکھا جس کا مطلع تھا: دست خدا کا قوت بازو حسین ہے میر ضمیر کے سامنے جب اصلاح کے لیے پیش ہوا تو انہیں اس کے نئے خیالات اور طرز بیان اور ترتیب مضامین پسند آئی۔ اسے توجہ سے بنایا اور اسی اثناء میں نواب کے ہاں ایک مجلس ہونے والی تھی ۔ رشید شاگرد نے کہا کہ بھئی! اس مرثیے کو اس مجلس میں پڑھیں گے؟ یہ تسلیم کر کے تسلیم بجا لائے اور مرثیہ انہی کو دے دیا۔ گھر میں آئے تو بعض احباب سے حال بیان کیا۔ مسودہ پاس تھا‘ وہ بھی سنایا۔ کچھ تو یاروں کا چمکانا‘ کچھ اس سبب سے کہ ذوق شوق کے پھول ہمیشہ شبنم تعریف کے پیاسے ہیں اور نواب کی خبر پہنچ گئی تھی۔ ادھر کے اشاروں میں انعام کی ہوا آئی۔ غرض انجام یہ ہوا کہ استاد مرثیہ صاف کر کے لے گئے کہ وہیں پڑھیں گے۔ بموجب معمول کے اول مرزا صاحب منبر پر گئے اور وہی مرثیہ پڑھا۔ بڑی تعریفیں ہوئیں اور مرثیہ خوب سرسبز ہوا۔ استاد کہ ہمیشہ شاگرد کے پڑھنے پر باغ باغ ہوا کرتے تھے اور تعریفیں کر کے دل بڑھاتے تھے۔ اب خاموش بیٹھے ہیں۔ کچھ غصہ کچھ بے وفائی کاا زمانہ کا خیاال‘ کچھ اپنی محنتوں کا افسوس اور فکر یہ کہ اب میں پڑھوں گا تو کیا پڑھوں گا اور اس سے بڑھ کر کیا پڑھوں گاا‘ جس میں استادی کا رتبہ بڑھے نہیں تو اپنے درجے سے گرے بھی تو نہیں۔ غرض انکے بعد یہ بڑھے اور کمال کی دستار صحیح سلامت لے کر منبر سے اترے‘ لیکن اس دن سے دل پھر گیا۔ یار لوگوں نے شاگرد کو نقطہ قابل کر کے بجائے خود استاد بنا دیا اور وہی صورت ہو گئی کہ ایک مجلس میں دونوں کا اجتماع موقوف ہو گیا۔ زمانے نے اپنے قاعدے کے بموجب چند روز مقابلوں سے شاگرد ک ادل بڑھایا اورآخر بڑھاپے کی سفارش سے استاد کو آرام کی اجازت دی۔ وہ اپنے حریف میر خلیق کے سامنے گوشہ عزلت کا مقابلہ کرنے لگے اور یہاں میر انیس اورمرزا دبیر کے معرکے گرم ہو گئے۔ دونوں کے کمال نے سخن شناسوں کے ہجو م کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ آدھے انیسیے ہو گئے۔ آدھے دبیریے۔ ان کے کلام میں محاکمہ کرنے کا لطف جب کہ ہر استاد کے ۴۔۴ ‘ ۵۔۵ مرثیے بجائے خود پڑھو اور پھر مجلسوں میں سن کر دیکھو کہ ہر ایک کا کلام اہل مجلس پر کس قدر کامیاب یا ناکام رہا۔ بے اس کے مزہ نہیں۔ میں اس نکتے پر میر انیس کے حال میں کاوش کروں گا‘ مگر اتنا یہاں بھی کہتا ہوں کہ میر انیس صاحب کام لطب زبان چاشنی محاورہ‘ خوبی بندش‘ حسن اسلوب مناسبت مقام‘ طرز ادا اور سلسلے کی ترتب میں جوااب نہیں رکھتے اوریہی رعایتیں ان کی کم گوئی کا سبب تھیں۔ مرزا دبیر صاحب شوکت الفاظ مضامین کی آمد اس میں جا بجا غم انگیز اشارے درد خیز کنایے المناک اور دل گداز جو مرثیے کی غزل اصلی ہے ان وصفوں میں بادشاہ تھے۔ یہ اعتراض حریفوں کاد رست ہے کہ بعض ضعیف روایتیں اور دلخراش مضامین ایسے نظم ہو گئے ہیں کہ جو مناسب نہ تھے۔ لیکن انسان کی طبیعت ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب ایک مقصود کو مدنظر رکھ کر اس پر متوجہ ہوتاہے تو اورپہلوئوں کا بہت کم خیال رہتاہے۔ انہٰں ایسی مجلسوں میںپڑھنا ہوتا تھا جہاں ہزار ہا آدمی دوست دشمن جمع ہوتا تھا۔ تعریف کی بنیاد گریہ و بکا اور لطف سخن اور ایجاد مضامین پر ہوتی تھی۔ کمال یہ تھا کہ سب کو لانا اورسب کے منہ سے تحسین کا نکالنا۔ اس شوق کے جذبے اور ایجاد کی محویت میںجو قلم سے نکل جائے تعجب نہیں نکتہ چینی ایک چھوٹی سی بات ہے جہاں پایا وہ حرف لکھ دیے۔ جب انسان تمام عمر اس میں کھپ دے تب معلوم ہوتا ہے کہ کتنا کہا اور کیسا کہا۔ ایجاد و اختراع کے لفظ پر ایک لطیفہ یاد آیا کہ اصول فن سے متعلق ہے اہل ذوق کے ملاحظہ کے لیے لکھتا ہوں۔ آتشی لطیفہ مرزا دبیر کی جوانی تھی اور شاعری بھی عین جواانی پر تھی کہ ایک دھوم دھام کا مرثیہ لھا۔ اس کا نمودار تمہید سے چہرہ باندھا۔ رزمیہ اور بزمیہ مضامین پر خوب زور طبع دکھایا۔ تازہ ایجاد یہ کیا کہ لشکر شام سے ایک بہادر پہلوان تیار کر کے میدان میں لائے۔ اس کی ہیبت ناک مورت بدمہورت آمد کی آن بان‘ اس کے اسلحہ جنگ ان کے خلاف قیاس مقادیر و وزن سے طوفان باندھے۔ پہلے اس سے کہ یہ مرثیہ پڑھا جائے شہر میں شہرہ ہو گیا۔ ایک مجلس قرار پائی۔ اس میں علاوہ معمولی سامعین کے سخن فہم اور اہل کمال اشخاص کو خاص طورپر بھی اطلاع دی گئی۔ رو ز معبود پر ہجوم خاص وعام ہوا۔ طلب کی تحریکیں اس اسلوب سے ہوئی تھیں۔ خواجہ آتش باوجود پیری و آزادی کے تشریف لائے۔ مرثیہ شروع ہوا۔ خواجہ صاحب خاموش سرجھکائے دوزانو بیٹھے جھومتے رہے۔ مرز ا صاحب مرثیہ پڑھ کر منبر سے اترے ۔ جب دلوں کے جوش دھیمے ہوئے تو خواجہ صاحب کے پاس جا کر بیٹھے اور کہا کہ حضرت جو کچھ میں نے عر ض کیا آپ نے سنا؟ فرمایا ہوں بھئی سنا۔ انہیں اتنی بات پر قناعت کب تھی؟ پھر کہا کہ آپ کے سامنے پڑھنا گستاخی ہے لیکن آپ نے ملاحظ فرمایا؟ انہوںنے فرمایا ک بھئی سنا تو سہی مگر سوچتاہوکہ یہ مرثیہ تھا یا لندھور بن سعد ان کی داستان تھی (واہ رے استاد کامل! اتنے سے فقرے میں عمر بھر کے لیے اصلاح دے گیا)۔ مرزا صاحب نے ۹ ۲ محرم ۱۲۹۲ھ کو ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اس مدت میں کم سے کم ۳ ہزار مرثیہ لکھا ہو گاا۔ سلاموں اور نوحوں اور رباعیوں کا کچھ شمار نہیں۔ ایک مرثیہ بے نقط لکھا جس کا مطلع ہے۔ ہم طالع ہمارا مراد ہم رسا ہوا اس میں اپنا تخلص بجائے دبیر کے عطار لکھا ہے اور کچھ شک نہیں کہ ان کے ساتھ ہندوستان میں مرثیہ گوئی کا خاتمہ ہو گیا۔ نہ اب ویسا زمانہ آئے گا نہ ویسے صاحب کمال پیدا ہوں گے۔ ٭٭٭ میر ببر علی انیس لکھنو میں تعلیم و تربیت پائی اور ضروریات فن سے آگاہی حاصل کی۔ اپنے خاندانی کمال میں باپ کے شاگر دتھے اور جس طرح عمر میں دونوں بھائیوں سے بڑے تھے۔ اسی طرح کمال میں بھی لائق تھے۔ ابتد میں انہیں بھی غزل کا شو ق ہوا۔ ایک موقع پر کہیں مشاعرے میں گئے اور غزل پڑھی۔ وہاں بڑی تعریف ہوئی۔ شفیق باپ خبر سن کر د میں باغ باغ ہوا۔ مگر ہونہار فرزند سے پوچھا کہ کل رات کہاں گئے تھے ؟ انہوںنے حال بیان کیا۔ غزل سنی اور فرمایا کہ بھائی اب اس غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں زور طبع کو صر ف کرو جو دین دنیا کا سرمایہ ہے۔ سعادت مند بیٹے نے اسی دن سے ادھر سے قطع نظر کی۔ غزل مذکور کی طرح میں سلام لکھا۔ دنیا کو چھوڑ کر دین کے دائرے میں آ گئے اور تمام عمر اسی میں صرف کر دی۔ نیک نیتی کی برکت نے اسی میں دین بھی دیا اور دنیا بھی اس وقت تک یہ اور ان کے ہم عصر اپنے استادوں کی اطاعت کو طاعت سمجھتے تھے۔ سلام‘ مرثیے‘ نوحے‘ رباعیاں‘ کہتے تھے اور مرثیے کی مقدار ۳۵‘۴۰ اور ۵۰ بند تک تھی۔ زمانے کی خاصیت طبعی ہے ۔ کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو انہیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتاہے۔ میر ضمیر اور میر خلیق کو بڑھاپے کے پلنگ پربٹھایا۔ میر انیس کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی۔ ادھر سے مرزا دبیر ان کے مقابلے کے لیے نکلے یہ خاندانی شاعر نہ تھے۔ مگر میر ضمیر کے شاگرد رشید تھے جب دونوں نوجوان میدان مجلس میں جولانیاں کرنے لگے تو فن مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینہ برسنے لگے۔ بڑی بات یہ تھی کہ بادشاہ سے لے کر امراء اور غربا تک شیعہ مذہب رکھتے تھے۔ نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدردان ملے۔ وہ بزرگوں سے شمار سے زیاد ہ اوروزن میں بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو۔ قدردانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی۔ بلکہ نقد و جنس کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔ ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی امید سے زیادہ بڑھ گئی ۔ دونوں باکمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہیں اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون ہر قسم کے خیال ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے طلسم ایسا باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رلا دیں چاہیں ہنسا دیں‘ چاہیں تو حیرت کی مورت بنا کر بٹھا دیں۔ یہ دعوے بالکل درست تھے۔ کیونکہ مشاہدہ ان کی تصدیق کو ہر وقت حاضر رہتا ہے۔دلیل کی حاجت نہ تھی۔ سکندر نامہ جس کی تعریف میں لوگوں کے لب خشک ہیں‘ اس میں چند میدان جنگ ہیں‘ رزم زنگبار‘ جنگ دارا‘ جنگ روس‘ جنگ فور‘ جنگ فغفور۔ اسی طرح بزم کی چند تمہیدیں اور جشن میں شاہنامے کے ۶۰ ہزار شعر فردوسی کی عمر بھر کی کمائی ہیں۔ انہوںنے ایجاد مضمون کے دریا بہا دیے۔ ایک مقرری مضمون کو سیکڑوں نہیں ہزاروں رنگ سے ادا کیا ہر مرثیے کا چہرہ نیا آمد نئی ازم جدا‘ بزم جدا اور ہر میدان میں مضمون اچھوتا‘ تلوار نئی تیزہ نیا‘ گھوڑا نیا‘ انداز نیا‘ مقالہ نیا اور اس پر کیا منحصر ہے صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اللہ رات کی رخصت سیاہی کا پھٹنا نور کا ظہور‘ آفتاب کا طلوع ‘ مرغزار کی بہار شام ہے تو شام غریباں کی اداسی‘ کبھی رات کا سناٹا‘ کبھی تاروں کی چھائوں کو چاندنی اور اندھیرے کے ساتھ رنگ رنگ سے دکھایا ہے۔ غرض جس حالت کو لیا ہے اس کا سماں باندھ دیا ہے۔ آمد مضامین کی بھی انتہا نہ رہی۔ جن مرثیوں کے بند ۴۰‘۵۰ سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ وہ ۵۰ سے گزر کر ۲۰۰ سے بھی نکل گئے۔ میر صاحب مرحوم نے کم سے کم ۱۰ ہزار مرثیہ ضرور کہا ہو گا۔ اور سلاموں کا کیا شمار ہے رباعیاں تو باتیںتھیں۔ دونوں استادوں کے ساتھ طرف داروں کے وہ جتھے ہو گئے ایک انیسیے کہلاتے تھے ایک دبیریے۔ اگرچہ ان کے فضول فخریوں اور اعتراضوں نے بے جا تکراریں اور جھگڑے پیدا کیے‘ مگر بہ نسبت نقصان کے فائدہ زیادہ ہوا ہے‘کیونکہ بے حد تعریفوں نے دونوں استادوں کے فکروں کو شوق ایجاد اور مشق پرواز میںعرش سے بھی اونچا اچھال دیا ۔ دونوں امتیں جو اپنے دعوئوں پر دلیلیں پیش کرتی تھیں‘ کوئی وزن میں زیادہ ہوتی تھی کوئی مساحت میں اس لیے یک طرفہ فیصلہ نہ ہوتا تھا۔ انیسی امت اپنے سخن آفرین کی صفائی کلام حسن بیان اور لطف محاورہ پیش کر کے نظیر کی طلب گار ہوتی تھی۔ دبیری امت شوکت الفاظ‘ بلند پروازی اورتازگی مضامین کو مقابلے میں حاضر کرتی تھی۔ انیسی امت کہتی تھی کہ جسے تم فخر کا اسرمایہ سمجھتے ہو‘ یہ باتیں دربار فصاحت میں نامقبول ہو کر خارج ہو چکی ہیں کہ فقط کوہ کندن اور کاہ برآوردن ہے۔ دبیری امت کہتی تھی کہ اسے تم دشواری کہتے ہو یہ علم کے جوہر ہیں۔ اسے بلاغت کہتے ہیں۔ تمہارے سخن آفریں کے بازوئوں میں علم کی طاقت ہو تو پہاڑوں کو چیرے اور یہ جواہر نکالے۔ انیس کے کلام میں ہے کیا؟ فقط باتوں کاجمع خرچ۔ انیسی امت اس جواب پر چمک اٹھتی تھی۔ کون سا خیال تمہارے سخن آفری کا ہے جو ہمارے معنی آفرینی کے ہاں نہیں؟ تم نہیں جانتے جسے باتوں کا جمع خرچ کہتے ہو یہ صفائی کلا م اور قدرت بیان کی خوبی ہے۔ اسے سہل ممتنع کہتے ہیں یہ جوہر خداداد ہے۔ کتابیں پڑھنے اور کاغذ سیاہ کرنے سے نہیں آتا۔ دبیریے اس تقریر کو سن کر مرثیے کی تمہید یا میدان کی آمد یا رجز خوانی کے بند پڑھنے شروع کر دیتے جن میں سے اکثر آیتوں یا حدیثوں کے فقرے تضمین ہوتے تھے۔ انیسیے کہتے ہیں کہ اس سے کس کافر کو انکار ہے۔ مگر انتا ہی پڑھیے گا کہ آگے نہ پڑھیے گا۔ دوسرے مطلب کی طرف انتقاال کیجیے گاا۔ تو سلسلے میں ربط بھی نصیب نہ ہو گا حضرت فقط لفاظی کی دھوم دھام سے کچھ نہیں ہوتا! ادائے مطلب اصل شے ہے اس پر گفتگو کیجیے گا۔ تو پوری بات بھی نہ ہو سکے گی‘ یہ قادر الکلام باکمالوں کا کام ہے جن کو ا س فن کے اصول بزرگوں سے سینہ بسینہ پہنچے ہیں وہی اس کام کو جانتے ہیں۔ دبیریے اس کے جواب میں اپنے سخن آٖرین کی آمد طبیعت مضامین کا وفور لفظوں کی بہتات دکھاتے تھے اور جاوبے جا کہتے جاتے تھے کہ دیکھیے کیامحاورہ ہے دیکھیے صاف بول چال ہے ساتھ اس کے یہ بھی کہتے تھے کہ کس کا منہ ہے جو رات کو بیٹھے او رسو بند کہہ کر اٹھے؟ برس دن تک خامہ فرسائی کی اور محرم پر ۱۰‘۱۵ مرثیے لکھ کر تیار کیے تو کیا کیے؟ وہ بھی دواور بھائیوں کے مشورے ملا کر اور مباحثوں کے پسینے بہا کر۔ انیسیے کہتے تھے کہ درست ہے جو رات بھر میں سو بند کہتے ہیں وہ بے ربط اور بے اصول ہی ہوتے ہیں اور جب ادائے مطلب پر آتے ہیں تو اتنے بھی نہیں رہتے۔ساتھ اس کے بعض مصرعے بھی پڑھ دیتے ہیں۔ جن پر بے محاورہ ہونے کا اعتراض ہوتاتھا یا تشبیہیں ناقص ہوتی تھیں یا استعارے بے ڈھنگ ہوتے تھے۔ اعتراضوں کی ردو بدل یہاں تک ہوتی تھی کہ دبیریے کہتے تھے کہ جو قبولیت خدا نے ہمارے سخن آفرین کو عطا کی ہے‘ کب کسی کو نصیب ہوتی ہے؟ جس مجلس می ان کاکلام پڑھا گیاا۔ کہرام ہو گیا کیسے غم انگیز اور درد خیز مضامین ہیں۔ ان کے لفظوں کو دیکھو اعتقاد کے آب حیات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انیسیے کہتے تھے کہ وہ کیا پڑھیں گے؟ ان کی آواز تو دیکھیے اور انہیں مرثیہ پڑھنا تو آتا ہی نہیں‘ غرض جھگڑا تو دعویداروں کوکوئی تقریر خاموش نہ کر سکتی تھی۔ البتہ مجبوری کہ دونوں کے گلے تھکا کر آوازیں بند کر دیتی تھی اور منصفی بیچ میں آ کر کہتی تھی کہ دونوں اچھے۔ کبھی کہتی وہ آفتاب ہیں یا یہ ماہ۔ کبھی یہ آفتاب وہ ماہ۔ لکھنو کے بے فکرے لڑنے میں کمال رکھتے تھے اورتماشے کے عاشق دبیر تو غیر تھے بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ مدت تک بگڑی رہی۔ میر انیس کے پاس آتے تو کہتے کہ حضور جب تک اصلاحی مرثیے ہیں پڑھے جائیں جس دن آپ کا بن دیکھا مرثیہ پڑھا قلعی کھل جائے گی۔ دوسرے بھائی سے کہتے حضور! عمر کی بزرگی اور شے ہے لطف زبان اور شے ہے یہ نعمت آپ کا حصہ ہے۔ الغرض یہ پاک روحیں جن کی بدولت ہماری نظم کو قوت اور زبان کو وسعت نصیب ہوئی صلہ کا سخن آفرین حقیقی عطاکرے! ہمارے شکریے کی کیا بساط ہے؟ لیکن یہ بات جتانے کے قابل ہے کہ اقلیم سخن میں جو دائرہ ان کے زیر قلم تھا ان کے جوش طبع میں اس کا بہت سا حصہ سخن آرائی اور رزم و بزم نے دبا لیا۔ مرثیے کا میدان بہت تنگ رہ گیا اور افسوس کہ اصل مدعا ان کا وہی تھا کہ جسے آپ کھو بیٹھے۔ جب تک لکھنو آباد رہا‘ جب کسی اورشہر میں جانے کاذکر ہوتا تو دونوںصاحب یہی فرماتے تھے کہ اس کلام کو اسی شہر کے لوگ سمجھ سکتے ہیں اور کوئی اس قدر کیا جانے لگا اور ہماری زبان کے لطف کو کیا سمجھے گا؟ لیکن تباہی لکھنو کے بعد اول ۱۸۵۸ء میں مرزا دبیر صاحب مرشد آباد بلائے گئے وہ گئے اور ہمیشہ الہ آباد اوربنارس میں جاتے رہے۔ میر انیس مرحوم اول ۱۸۵۹ء اور پھر ۱۸۶۰ء میں نواب قاسم علی خاں کی طلب اور اصرار سے عظیم آباد بھی جاتے رہے۔ پھر ۱۸۷۱ء میں جب کہ ارسطو جاہ غفراں پناہ کے خلف الرشید مولوی سید شریف حسین خاں صاحب حیدر آباد میں تھے تو ان کی تحریک سے نواب تیمور جنگ بہادر نے میر انیس کو طلب فرمایا۔ اب بھی ان کی پابندی وضع انہیںنکلنے نہیں دیتی تھی‘ مگر مولوی صاحب موصوف کے کہنے کو بھی ٹال نہ سکتے تھے۔ اس لیے مجبور ہو گئے۔ اہل حیدر آباد نے ان کے کمال کی ایسی قدر کی جیسی کہ چاہیے۔ مجلسوںمیں لوگ اس کثرت سے آتے تھے کہ عالی شان مکان کی وسعت بھی جگہ نہ دے سکتی تھی۔ دروازے پر پہرے کھڑے کر دیتے تھے کہ مستند اور سخن فہم لوگوں کے سوا کسی کو آنے نہ دو اور کسی امیر کے ساتھ دو متوسلوں سے زیادہ آدمی نہ آنے پائیں۔ اس پر بھی لوگ کثرت سے آتے تھے کہ کھڑے رہنے کو غنیمت تھے اوراسی میں خوش تھے کہ ہم نے سنا تو سہی۔ میر انیس صاحب جب وہاں سے پھرے تو حسب وعدہ الہ آباد میں اترنا پڑا۔ ایک مجلس بڑی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئی۔ میرے شفیق مولوی ذکاء اللہ صاحب کی میو کالج میں پروفیسر ہیں۔ نکتہ فہم و سخن شناس ان سے زیادہ تر کون ہو گا؟ اس مجلس کا حال خود مجھ سے بیان کرتے تھے کہ خاص و عام ہزاروں آدمی جمع تھے۔ کمال اور کلام کی کیفیت کیا بیان کروں؟ محویت کا عالم تھا وہ شخص منبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ جادو کر رہا ہے۔ مقطع کی ٹیپ پڑھتے تھے اور مزے لیتے تھے۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں ان کی بلکہ ان کے گھرانے کی زبان اردوئے معلی کے لحاظ سے تمام لکھنو میں سند تھی اور انہیں بھی اس بات کا خیال تھا کہ لیکن طبیعت میں نہایت انکسار تھا۔ حسن اخلاق گفتگو میںان کی تقریر پر اتنا بچائے ہوئے لے چلتا تھا کہ باتیں خط اعتدال سے بھی نیچے ہی نیچے رہتی تھیں۔ اس پر ایک ایک لفظ کانٹے کی تول۔ کسی جلسے میں اپنا کلام سنتے تو بعض محاورے پر اتنا کہہ اٹھتے تھ کہ یہ میرے گھر کی زبان ہے۔ حضرات لکھنو اس طرح نہیں فرماتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اب تک اپنے تئیں لکھنو کا باشندہ نہ کہنا چاہتے تھے۔ مولوی شریف حسین خاں صاحب کہتے ہیں کہ حیدر آباد میں ایک دن چند معزز اشخاص بیٹھے تھے ایک صاحب ان کی شاعری کی تعریف کرنے لگے۔ فرمایا! بھئی شاعر کون ہے دکھڑے کا کہنے والا ہوں وہ بھی نہیں معلوم کہ جس طرح چاہیے ہوتاہے یا نہیں۔ میں ۱۸۵۷ء میں خود بھی ان سے ملا اور لوگں سے سنا کم سخن تھے اور وہ بولتے تو وہ فقرہ کی موتی کی طرح ٹانکنے کے قابل ارسطو جاہ مولوی رجب علی خاں بہادر حسب الطب صاحب چیف کمشنر بہادر لکھنو میں تھے۔ ایک دن بعض عمائد شہر موجود تھے۔ میر انیس صاحب بھی تشریف رکھتے تھے ۔ کہیں سے آم آئے چونکہ عمدہ تھے۔ مولوی صاحب ممدوح نے طاسوں میں پانی بھروا کر رکھ دیے او رسب صاحبوں کو متوجہ فرمایا ایک حکیم صاحب اسی جلسے میں حرارت کی شکایت کر رہے تھے مگر شریک چاشنی ہوئے ۔ کسی بزرگ نے کہا کہ حکیم صاحب آپ تو ابھی علالت کی شکایت فرماتے تھے۔ حکیم صاحب تو بغلیں جھانکنے لگے۔ میر انیس نے فرمایا فعل الحکیم لا یخلوا عن الحکمۃ جس طرح ان کا کلام لاجواب دیکھتے ہو‘ اسی طرح ان کا پڑھنا بھی بے مثال ہی تھا۔ ان کی آواز ان کا قد و قامت ان کی صورت کا انداز غرض ہر شے اس کام کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔ ان کا اوران کے بھائیوں کا بھی قاعدہ تھا کہ ایک بڑا آئینہ سامنے رکھ کر خلوت میں بیٹھتے تھے اور مرثیہ پڑھنے کی مشق کرتے تھے۔ وضع حرکات‘ سکنات‘ اور بات بات کو دیکھتے تھے اور آپ اس کی موزونی و ناموزونی کو اصلاح دیتے تھے۔ ذوق بنا کے آئنہ دیکھے ہیں پہلے آئنہ گر ہنرور اپنے ہی عیب و ہنر کو دیکھتے ہیں یہ با ت درست ہے کہ مرزا دبیر کے پڑھنے میں وہ خوش ادا نہ تھی لیکن حسن قبول اور فیض تاثیر خدانے دیا تھا۔ ان کا مرثیہ کوئی اوربھی پڑھتا تھا تو اکثر رونے رلانے میں کامیاب ہوتاتھا کہ یہی اس کام کی علت غائی ہے۔ ٭٭٭ خاتمہ کتاب پانچواں دور بھی ہو چکا‘ مگر سب سوگوار بیٹھے ہیں کہ دورنہیںہو چکا۔ ہندوستان کی پرانی ہمدم یعنی عاشقان شاعری ہو چکی اور ا س کی ترقی کا چشمہ بند ہوا۔ اہل مشاعرہ نوحہ خوانی کر رہے تھے کہ اے صدر نشینو تم چلے اور حسن و عشق کے چرچے اپن ساتھ لے چلے کیونکہ متاع عشق کے بازار تھے تو تمہارے دم سے تھے۔ نگار حسن کے سنگار تھے تو تمہارے قلم سے تم ہی قیس و کوہکن کے نما لینے والے تھے۔ اورتم ہی لیلیٰ ومجنوں کے جوبن کو جلوہ دینے والے۔ لیکن اجسام فانی کی پرستش کرنے والے ہیں جو کہتے ہیں کہ تم گئے ور مشاعرے ہو چکے۔ نہیں نہیں تمہاری تصنیفیں تالیفیں حکایتیں اور روایتیں جب موجود ہیں تم آپ موجود ہو۔ تمہارے فخر کی دستاریں ایسے تحسین و آفرین کے پھولوں کے تاجدار ہیں جو ہمیشہ لہلہاتے رہیں گے اور گلے میں ان سدا بہار پھولوں کے ہار ہیں جن تک کبھی خزاں کا ہاتھ نہ پہنچے گا۔ حیات دوام کا خدائی چشمہ جاری ہے۔ جس کے کنارے پر عہد بعہد پانچوں جسے جمے ہوئے ہیںَ آب حیات کا دور چلا۔ چشمے کا پانی زمانے کے گزرے ہوئے کی تصویر کھینچتا ہے۔ اور موجیں ظاہری زندگی کو الوداع کہتی چلی جاتی ہیںَ تمہارے جلسے اپنے اپنے عہد کی حالت خاموشی کی بولی میںبیان کر رہے ہیں۔ تمہارے مقالات و حالات اس زمانے کی جیتی جاگتی بولتی چاتی تصویریںگویا بے زبان مورتیں منہ سے بول رہی ہیں۔ خیالی صورتیں اپنی چال ڈھال ایسی بے تکلف دکھا رہی ہیں ۔ کوئی زندہ انسان اس طر ح کھلے دل سے کام نہیں کرتا۔ تمہاری زندگی عجب لطف کی زندگی ہے کوئی برا کہے تمہیں رنج نہیں۔ اچھا کہے تو خوشی نہیں۔ تمہیں کوئی آزار نہیں دے سکتا۔ تم سے کسی کو رنج نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ اللہ امن و امان کی دنیا کے لوگ ہو کہ چپ چاپ آرام کے عالم میں پخنت گزران کرتے ہو۔ تم میں آواز نہیں مگر رنگارنگ کی بولیاں بول رہے ہو۔ تم وہ ہو کہ نہیں ہو؟ مگر مر گئے ہو پھر بھی زندہ ہو۔ کاغذی خانقاہوں کے بسنے والو! تمہاری تصنیفات تمہارے گھر آبادہیں جب آنکھیں کھولتا ہوں تو تم نقوش و حروف کے لباس پہنے ہنستے بولتے پھرتے چلتے نظر آتے ہو اورویسے ہی نظر آتے ہو جیسے کہ تھے۔ زمانہ سالہا سال کی مسافت دورنکل آیا اور سینکڑوں برس آگے بڑھا اور بڑھ جائے گا۔ مگر تم اپن جگہ بدستور قائم ہو۔ تمہارے اعمال و افعال کے پتلے تمہاری تصنیفیں ہں ان کی زبانی آئندہ نسلوں سے اپنے دل کی باتیں کہتے رہو گے نصیحتیں کرو گے سمجھاتے رہو گے غمگین دلوںکو بہلائو گے مردہ طبیعتوں میں جان ڈالو گے مدھم آرزوئوں کو چمکائو گے سوتے دلوں میں گدگدی کرو گے۔ خوشی کو اداسی کر دو گے۔ اداسی کو خوشی کر دو گے۔ اے بااقبال گدائو! اے شاہ نشان خاکسارو! تمہاری نیک نیتی اچھے وقت تمہیں لائی ‘ مگر افسوس کہ تمہاری شاعری نے بہت کم عمر پائی۔ قسمت نے تمہیں اچھے سامان اور اچھے قدر دان دیے جن کی بدولت جوہر طبعی اور جوش اصلی کو اپنے اور اپنے شوق کے پورا کرنے کے سامان ملے۔ اب وہ نہ سامان ہوں گے نہ ویسے قدردان ہوں گے۔ نہ کوئی اس شاخ کو ہرا رکھ سکے گا۔ نہ تم سے بڑھ کر اس میں پھل پھول لگا سکے گا۔ ہاں تمہاری لکیروں کے فقط تمہارے ہی ہجو و وصل اور خط و خال کے مضمو ن لیں گے‘ انہی لفظوں کو الٹیں پلٹیں گے اور تمہارے چبائے ہوئے نوالوں کو منہ میں پھراتے رہیں گے۔ تم نے شہرت عام اور بقائے دوام کے ایسے عالی شان محل تعمیر کیے ہیں کہ صدہا سال کی مسافت سے دکھائی دیتے رہیں گے۔ وہ فلک کے صدموں اور انقلاب کے طوفانوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور زمانے کے زلزلوں کو ہنس کر کہتے ہیں کہ بھلا آئو تو سہی! اگرچہ زیادہ تر عمارتیں تمہارے حسن و عشق کے جلوس کے لیے ہیں‘ مگر اس میں بھی تم نے ایسے سامان اور مصالح لگا دیے ہیں کہ آئندہ نسلیں جس غرض سے چاہیں گی عمارتیں بنائیں گی اور تمہاری صفتوں سے بہت کچھ مدد پائیں گی۔ جن پتھروں کو تم نے منبت اور گلگاری سے تراش کرفقط خوشنمائی کے لیے لگایا تھا ہم اسے وہاں سے نکال لیں گے۔ شکریے کے ساتھ آنکھوں سے لگائیں گے اور اس سے کسی ایسی محراب کو زینت دیں گے کہ جو اپنی مضبوطی سے ایک ملکی ایوان کو استحکام دے اور دلوں کو خوشنمائی سے شگفتہ کرے‘ کیونکہ تمہارے لفظوں کی عمدہ تراشیں اور ان کی پسندیدہ ترکیبیں استعارے اور تشبیہیں اگرچہ عاشقانہ مضامین میں ہوں پھر بھی ہم سلیقے اور امتیاز سے کام میں لائیں گے تو علوم فنون تاریخ وغیر ہ عام مطلب میں ہمارے ادائے مقاصد اورانداز بیان کے لیے عمدہ معاون اور کار آمد ہوں گے۔ اے ہمارے رہنمائو! تم کیسے مبارک قدموں سے چلے تھے اور کیسے برکت والے ہاتھوں سے رستے میں چراغ رکھتے گئے تھے کہ جہاں تک زمانہ آگے بڑھتا ہے تمہارے چراغوں سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں اور جہاں تک ہم آگے جاتے ہیں تمہاری ہی روشنی میں جاتے ہیں۔ ذرا ان برکت والے قدموں کو آگے بڑھائو کہ میں آنکھوں سے لگائوں‘ اپنا مبارک ہاتھ میرے سر پر رکھو اور میرے سلام کا تحفہ قبول کرو۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End