الفاروق ؓ سوانح عمری حضرت عمر فاروق ؓ شمس العلما علامہ شبلی نعمانی ؒ دیباچہ (طبع اول) ’’الفاروق‘ ‘ جس کا غلغلہ وجود میں آنے سے پہلے تما م ہندوستان میں بلند ہو چکا ہے۔ اول اول اس کا نام زبانوں پر اس تقریب سے آیا ہے کہ المامون طبع اول کے دیباچہ میں ضمناً اس کا ذکر آگیا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ مصنف کی طرف سے بالکل سکوت اختیار کرگیا‘ تاہم نام میں کچھ ایسی دلچسپی تھی کہ خود بخود پھیلتا گیا‘ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی اجزاء بھی تیار نہیں ہوئے تھے کہ تمام ملک میں اس سرے سے ا س سرے تک الفاروق کابچہ بچہ کی زبان پر تھا۔ ادھر کچھ ایسے اسباب پیش آئے کہ الفاروق کا سلسلہ رک گیا اوراس کی بجائے دوسرے کام چھڑ گئے۔ چنانچہ ا س اثنا میں متعدد تصنیفیں مصنف کے قلم سے نکلیں اور شائع ہوئیں لیکن جونگاہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کوکبہ جلال کا انتظا ر کر رہی تھیں ان کو کسی دوسرے جلوہ سے سیری نہیں ہو سکتی تھی۔ سوئے اتفاق یہ کہ مجھ کو الفاروق کی طرف سے بے دلی کے بعض ایسے اسباب پیدا ہوگئے تھے کہ میں نے اس تصنیف سے گویا ہاتھ اٹھا لیا تھا لیکن ملک کی طرف سے تقاضے کی صدائیں رہ رہ کر اس قدر بلند ہوتی تھیں کہ میں مجبوراً قلم ہاتھ میں رکھ رکھ کر اٹھا لیتا تھا ‘ بالآخر ۱۸ اگشت ۱۸۹۴ء کو میں نے ایک قطعی فیصلہ کر لیا اور مستقل اور مسلسل طریقے پر اس کام کو شروع کیا۔ ملازمت کے فرائض اور اتفاقی موانع وقتاً فوقتاً اب بھی سد راہ ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ متعدد دفعہ کئی کئی مہینے کاناغہ پیش آگیا‘ لیکن چونکہ کام کا یہ سلسلہ مطلقاً بند نہیں ہوا اس لیے کچھ نہ کچھ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آج پورے چار برس کے بعد یہ منزل طے ہوئی اور قلم کے مسافر نے کچھ دنوں کے لیے آرام لیا۔ شکر کہ جمازہ بمنزل رسید زورق اندیشہ بساحل رسید یہ کتاب دو حصو ں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں تمہید کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت سے وفات تک کے واقعات اور فتوحات ملکی کے حالات ہیں۔ دوسرے حصے میں ان کے ملکی و مذہبی انتظامات اور علمی کمالات اور ذاتی اخلاق اور عادات کی تفصیل ہے اور یہی دوسرا حصہ مصنف کی سعی و محنت کا ’’تماشا گاہ ‘‘ ہے۔ اس کتاب کی صحت طبع میں اگرچہ کچھ کم کوشش نہیں کی گئی۔ کاپیاں میں نے خود دیکھیں اور بنائیں لیکن متواتر تجربوں کے بعد مجھ کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں اس وادی کا مرد میدان نہیں کاپیوں کے دیکھنے میں ہمیشہ میری نگاہ سے غلطیاں رہ جاتی ہیں اورمیں اس کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتا‘ لیکن اگر صاحب مطبع اجازت دیں تو اس قدر کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اس جرم کا میں تنہا مجرم نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں۔بہرحال کتاب کے آخر میں ایک غلط نامہ لگا دیا گیا ہے جو کفارہ جرم کاکام دے سکتا ہے۔ اس کتاب میں بعض الفاظ کے املا کا طریقہ نیا نظر آئے گا مثلاً اضافت کی حالت میں ’’مکہ‘‘ ارو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکے‘‘ اور ’’مدینے‘‘ اور جمع کی حالت میں ’’موقع ‘‘ اور ’’مجمع‘‘ کی بجائے ’’موقعے ‘‘ اور’’مجمعے‘‘ لیکن یہ میرا طریق املا نہیں ہے بلکہ کاپی نویس کا ہے اور وہ اس کے برخلاف عمل کرنے پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب سلسلہ آصفیہ کی فہرست میں داخل ہے لیکن پہلے سلسلہ آصفیہ کی ماہیت اور حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔ ہمارے معزز اور محترم دوست شمس العلماء مولانا سید علی بلگرامی بجمبع القابہ کو تمام ہندوستان جانتا ہے ۔ وہ جس طرح بہت بڑے مصنف بہت بڑے مترجم بہت بڑے زبان دان ہیں‘ اسی طرح بہت بڑے علم دوست اور اشاعت علم و فنون کے بہت بڑے مربی اور سرپرست ہیں۔ اس دوسرے وصف نے ان کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ انہوںنے جناب نواب محمد فضل الدین خانہ سکندر جنگ اقبال الدولۃ اقتدار الملک سر وقار الامراء بہادر کے سی آئی ای مدار المہام دولت آصفیہ خلد ہا اللہ تعالیٰ کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ حضور پر نور ستم دوران‘ افلاطون زمان‘ فلک بارگاہ سپہ سالار‘ مظفر الملک فتح جنگ ہز ہائنس نواب میر محبوب علی خان بہادر نظام الملک آصف جاہ سلطان دکن خلد اللہ ملکہ کے سایہ عاطفت میں علمی تراجم و تصنیفات کا ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جائے گا جو سلسلہ آصفیہ کے لقب سے ملقب ہو اور وابستگان دولت آصفیہ کی جو تصنیفات خلعت قبول پائیں وہ اس سلسلے میں داخل کی جا ئیں۔ جناب نواب صاحب ممدوح کو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی طرف ابتدا سے جو التفات و توجہ رہی ہے اور جس کی بہت سی محسوس یادگاریں اس وقت موجود ہیں‘ اس کے لحاظ سے جناب ممدوح نے اس درخواست کو نہایت خوشی سے منظور کیا۔ چنانچہ کئی برس سے یہ مبارک سلسلہ قائم ہے اور ہمارے شمس العلماء کی کتاب ’’تمدن عرب‘‘ جس کی شہرت عالم گیر ہو چکی ہے اسی سلسلے کا ایک بیش بہا گوہر ہے۔ خاکسار کو سنہ ۱۸۹۶ء میں جناب ممدوح کی پیش گاہ سے عطیہ ماہوار کی جو سند عطا ہوئی ‘ اس میں یہ بھی درج تھا کہ خاکسار کی تمام آئندہ تصنیفات اس سلسلے میں داخل کی جائیں۔ اسی بنا پر یہ ناچیز تصنیف بھی اس مبارک سلسلے میں داخل ہے۔ جلد اول کے آخر میں اسلامی دنیا کا ایک نقشہ شامل ہے‘ جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بنو امیہ کے زمانے تک ہر وہد کی فتوحات کا خاص خاص رنگ دیا گیا ہے۔ جس کے دیکھنے سے بیک نظرمعلوم ہوتاہے کہ ہر خلیفہ کے وقت میں دنیا کا کس قدر حصہ اسلام کے حلقہ میں شامل ہوگیا۔ یہ نقشہ اصل میں جرمن کے چند لائق پروفیسروں نے تیار کیا تھا لیکن چونکہ وہ ہماری کتاب کے بیانات سے پورا پورا مطابق نہیں ہوتا تھا‘ اس لیے ہم نے اصل کتاب کے حاشیہ میں موقع بموقع ان اختلافات کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ شبلی نعمانی مقام اعظم گڑھ دسمبر ۱۸۹۸ء ٭٭٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ اول ای ہمہ در پردہ نہاں راز تو بی خبر انجام ز آغاز تو الحمد اللہ رب العالمین والصلا ۃ علی رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین تمہید: تاریخ کا عنصر تمدن کے زمانے میں جو علو م و فنون پیدا ہوجاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولیٰ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتاہے اور پھر ایک خاص نام یا لقب سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً استدلال اور اثبات مدعا کے طریقے ہمیشہ سے موجود تھے اور عام و خاص سب ان سے کام لیتے تھے لیکن جب ارسطو نے ان جزئیات کو ایک خاص وضع سے ترتیب دیا تو اس کا نام منطق ہو گیا اور وہ ایک مستقل فن بن گیا۔ تاریخ و تذکرہ بھی اسی قس کا فن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانوں کا کوئی گروہ موجود تھا تاریخ و تذکرے بھی ساتھ ساتھ تھے کیونکہ فخر و ترجیح کے موقعو ں پر لوگ اپنے اسلاف کے کارنامے خواہ مخواہ بیان کرتے تھے۔ تفریح اورگریم صحبت کے لیے مجالس میں پچھلی لڑائیوں کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا ۔ باپ دادا کی تقید کے لیے پرانی عادات و رسوم کی یادگاریں خواہ مخواہ قائم رکھی جاتی تھیں اوریہی چیز تاریخ و تذکرہ کا سرمائع ہیں۔ اس بنا پر عرب عجم ‘ ترک‘ تاتار‘ ہندی‘ افغانی‘ مصری اور یونانی غرض دنیا کی تمام قومیں فن تاریخ کی قابلیت میں ہمسری کا یکساں دعویٰ کر سکتی ہیں۔ عرب کی خصوصیت لیکن اس عموم میں عرب کو ایک خصوصیت خاص حاصل تھی۔ عرب میں بعض خاص خاص باتیں ایسی پائی جاتی تھیں جن کو تاریخٰ سلسلے سے تعلق تھا۔ جو اور قوموں میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ مثلاً انساب کا چرچا جس کی کیفیت یہ تھی کہ بچہ بچہ اپنے آبائو اجداد کے ام اور ان کے رشتے ناطے دس د س بارہ بارہ پشتوں تک محفوظ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانوں سے گزر کر گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب نامے محفوظ رکھے جاتے تھے یا ایام العرب جس کی بدولت عکاظ کے سالانہ میلے میں قومی کارناموں کی روایتیں سلسلہ بسلسلہ ہزاروں لاکھو ں آدمیوں تک پہنچ جاتی تھیں یا شاعری جس کا یہ حال تھا کہ اونٹ چرانے والے بدو جن کو لکھنے پڑھنے سے کوئی سروارک نہ تھا اپنی زبا ن آوری کے سامنے تمام عالم کو ہیچ سمجھتے تھے۔ اور حقیقت جس سادگی اور اصلیت کے ساتھ وہ واقعات اور جذبات کی تصویر کھینچ سکتے تھے دنیا میں کسی قوم کو یہ بات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ عرب میں تاریخ کی ابتدا اس بنا پر عرب میں جب تمدن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے تاریخی تصنیفات وجود میں آئیں۔ اسلام سے بہت پہلے پادشاہان حیرہ نے تاریخی واقعات قلمبند کررائے اور وہ مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابن ہشام نے کتاب التیجان میںتصرح کی ہے کہ میں نے ان تالیفات سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام کے عہد میں زبانی روایتوں کا ذخیرہ ابتدا ہی میں پیدا ہو گیا تھا لیکن چونکہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ عموماً ایک مدت کے بعد قائم ہوا۔ اس لیے کوئی خاص کتاب ا س فن میں نہیںلکھی گئی لیکن جب تالیفات کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی تاریخ کے فن میں تھی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ المتوفی ۶۰ھ کے زمانے میں عبید بن شربہ ایک شخص تھا جس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا تھا اور اس کو عرب و عجم کے اکثر معرکے یاد تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کا صنعاء سے بلایا اور کاتب اور محرر متعین کیے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا جائے قلم بند کرتے جائیں۔ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفہرست میںاس کی متعدد تالیفات کا ذکر کیا ہے‘ جن میں سے ایک کتاب کا نام کتاب الملوک و اخبار المضامین لکھا ہے ۔غالباً یہ وہی کتاب ہے جس کا مسودہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ عبید بن شربہ کے بعد عوانتہ بن الحکم المتوفی ۱۴۷ھ کا نام ذکر کر کے قابل ہے جو اخبار واناب کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے عام تاریخ کے علاوہ خاص بنو امیہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی ۔ سنہ ۱۱۷ہجری میں ہشام بن عبدالملک کے حک سے عجم کی نہایت مفصل تاریخ کا ترجمہ پہلو سے عربی میں کیا گیا اور یہ پہلی کتاب تھی جو غیر زبان سے عربی میںترجمہ کی گئی۔ سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے پہلی تصنیف ۱۴۳ھ میں جب تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی ۱۵۱ھ نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ ہمارے مورخین کا دعویٰ ہیکہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن المتوفی ۱۴۱ھ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مغازی قلم بند کیے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اورصحابہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لیے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میںبھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑ ے نامور مورخ پیدا کیے۔ ج میں ابو مخنف کلبی‘ و اقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں ۔ مثلا ً کلبی نے افواج اسلام ‘ قریش کے پیشے‘ قبائل عرب کے مناظرات ‘ جاہیت اور اسلام کے احکام کا توارد۔ ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے۔ رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی یہاں تک کہ چوتھی صدی تک ایک دفتربے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدید تھا۔ قدیم مورخین اس دور میں بے شمار مورخ گزرے۔ ان میں جن لوگوں نے التخصیص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں کتابیں لکھیں۔ ان کی مختصر سی فہرست یہ ہے۔ نام مصنف تصنیف کیفیت نجیح مدنی غزوات نبویؐ نصر بن مزاحم کوفی کتاب الجمل یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہ کی لڑائی کا حال سیف بن عمر الاسدی کتاب الفتوح الکبیر نہایت مشہور مورخ ہے معمر بن راشد کوفی کتاب المغازی امام بخاری کے استاد الستاذ تھے عبداللہ بن سعد زہری المتوف ۳۸۰ھ فتوحات خالد بن ولید ابوالبختری وہب بن وہب کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کتاب فضائل الانصار ۲۰۰ھ میں انتقال کیا۔ ابو الحسن علی بن محمد بن عبداللہ المدائنی المتوفی ۳۲۴ھ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفا ء کے حالات میں کثرت سے کتابیں لکھیں اورنئے نئے عنوان اختیار کیے۔ احمد بن حارث خزاز کتاب المغازی ‘ اسماء الخلفاء کتابہم مدائنی کا شاگرد تھا۔ عبدالرحمن بن عبدہ مناقب قریش نہایت ثقہ اور معتمد مورخ تھا عمر بن شبہ المتوفی ۲۶۲ھ کتاب امراء الکوفہ و کتاب امراء البصرۃ مشہور مورخ تھا۔ ۱؎ موسیٰ بن عقبہ کے لیے تہذیب التہذیب اور مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھو۔ قدما کی جو تصنیفات آج موجود ہیں اگرچہ یہ تصنیفات آج ناپید ہیں لیکن اورکتابیں جو اسی زمانے میں لکھی گئیں یا اس کے بعد قریب تر زمانے میں لکھی گئیں ان میں ان تصنیفات کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم ان کے نام ان کے مصنفین کے نام کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ المتولد ۲۱۳ھ المتوفی ۲۷۶ھ یہ نہایت نامور مورخ اور مستند مصنف ہے۔ محدثین بھی اس کے اعتماد اور اعتبر کے قائل ہیں۔ تاریخ میں اس کی مشہور کتاب ’’معارف‘‘ ہے جو مصر وغیرہ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر ہے لیکن اس میں ایسی مفید معلومات ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میںنہیںملتیں۔ احمد بن دائو د ابو حنیفہ دنیوری المتوفی سنہ ۲۸۱ھ یہ بھی مشہور مصنف ہے۔ تاریخ میں اس کی کتاب کا نام الاخبار الطوال ہے۔ اس میں خلیفہ معتصم باللہ تک کے حالات ہیں۔ خلفاء راشدین کی فتوحات میں سے عجم کی فتح کو تفصیل سے لکھا ہے یہ کتاب یورپ میں بمقام لیدن ۱۸۸۸ہجری میں چھپی ہے۔ محمد بن سعد کاتب الواقدی المتوفی ۲۳۰ھ نہایت ثقہ اورمعتمد مورخ ہے۔ اگرچہ اس کا استاد واقدی ضعیف الراویۃ ہے لیکن خود اس کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ اس نے ایک کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے حالات میں نہایت بسط و تفصیل سے دس بارہ جلدوں میں لکھی ہے اور تمام واقعات کو محدثانہ طور پر بسند صحیح لکھا ہے۔ یہ کتاب طبقات بن سعد کے نا م سے مشہور ہے۔ میں نے اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ اب جرمن میں بڑے اہتمام سے چھپ رہی ہے۔ احمد بن ابی یعقوب بن واضح کاتب عباسی۔ یہ تیسری صدی کا مورخ ہے مجھ کو اس کے حالات رجال کی کتابوں میں نہیں ملے۔ لیکن اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف تھا۔ چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا اس لیے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم نہ پہنچا سکا اس کی کتاب جو تاریخ یعقوبی کے نام سے مشہور ہے یورپ میں بمقام لیدن ۱۸۸۳ء میں چھاپی گئی ہے۔ احمد بن یحییٰ البلاذری المتوفی ۲۷۹ھ ابن سعد کا شاگرد اور المتوکل باللہ عباسی کا درباری تھا۔ اس کی وسعت نظر اور صحت روایت محدثین کے گروہ میں بھی مسلم ہے۔ تاریخ و رجال میں اس کی دو کتابیں مشہور ہیں فتوح البلدان انساب الاشراف۔ پہلی کتاب کا یہ طرز ہے کہ بلاد اسلامیہ میں سے ہر ہر صوبہ یا ضلع کے نام سے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں اوران کے متعلق ابتدائے فتح سے اپنے عہد کت کے حالات لکھے ہیں۔ دوسری کتاب تذکرے کے طورپر ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات بھی ہیں۔ فتوح البلدان یورپ میں نہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہے اور الانساب لاشراف کا قلمی نسخہ‘ قسطنطیہ میں میری نظر سے گزرا ہے۔ ابوجعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی ۳۱۰ھ یہ حدیث و فقہ کے امام مانے جاتے ہیںَ چنانچہ آئمہ اربعہ کے ساتھ لوگوں نے ان کو مجتہدین کے زمرہ میں شمار کیا ہے ۔ تاریخ میںانہوںنے ایک نہایت مفصل اور بسیط کتاب لکھی جو ۱۳ضخیم جلدوںمیں ہے اور یورپ میںبمقام لیڈن نہایت صحت اور اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔ ابو الحسن علی بن حسین مسعودی المتوفی ۳۸۶ھ فن تاریخ کاامام ہے۔ اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مورخ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دنیا کی قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کی تمام تاریخی کتابیں ملتیں تو کسی اور تصنیف کی کچھ حاجت نہ ہوتی لیکن افسوس ہے کہ قوم کی بد مذاقی سے اس کی اکثر تصنیفات ناپید ہو گئیں ۔ یورپ نے بڑی تلاش سے دو کتابیں مہیا کیں۔ ایک مروج الذہب اور دوسری کتاب الاشراف والتنبیہ مروج الذہب مصر میں چھپ گئی ہے۔ مورخین کا دور یہ تصنیفات جس زمانے کی ہیں وہ قدماء کا دور کہلاتاہے۔ پانچویں صدی کے آغاز سے متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو فن تاریخ کے تنزل کا پہلا قدم ہے۔ متاخرین میں اگرچہ بے شمار مورخ گزرے جن میں سے ابن الاثیر سیمعانی ذہبی ابو الفدا ‘ نویری‘ سیوطی وغیرہ نے نہایت شہرت حاصل کی لیکن افسو س ہے کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ من حیث الفن کوئی احسان نہیں کیا۔ قدما کی خصوصیتیں قدماء کی جو خصوصیات تھیں کھودیں اور خود کوئی نئی بات پیدا نہیں کی‘ مثلاً قدماء کی ای یہ خصوصیت تھی کہ ہر تصنیف نئی معلومات پر مشتمل ہوتی تھی۔ متاخرین نے یہ طرز اختیار کیا کہ کوئی قدیم تصنیف سامنے رکھ ی اوربغیر اس میں کچھ اضافہ کر سکیں تغیر اوراختصار کے ساتھ اس کا قابل بدل دیا۔ تاریخ ابن الاثیر کو علامہ ابن خلکان نے من خیار التواریخ کہا ہے اور درحقیقت اس کی قبولیت عام نے قدیم تصنیفیں ناپید کر دیں لیکن جہاںتک زمانے کا اشتراک ہے ایک بات بھی اس میں طبری سے زائد نہیںمل سکتی۔ اسی طرح ابن الاثیر کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تصنیف کا مدار صرف ابن الاثیر پر رکھا وھلم جرا اس سے بڑ ھ کر یہ کہ متاخرین نے قدماء کی کتابوں کا جو اختصار کیا اس طرح کیا کہ جہاں جو بات چھوڑ دی وہی اس تمام واقعہ کی روح تھی۔ چنانچہ ہماری کتاب کے دوسرے حصے میںاس کی بہت سی مثالیںآئیں گی۔ قدماء میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام واقعات کو حدیث کی طرح بسند متصل نقل کرتے تھے۔ متاخرین نے یہ التزام بالکل چھوڑ دیا۔ ایک اورخصوصیت قدماء میں یہ تھی کہ وہ گرچہ کسی عہد کی معاشرت و تمدن پر جدا عنوان نہیں قائم کرتے تھے لیکن ضمناً ان جزئیات کو لکھ جاتے تھے جن سے تمدن و معاشرت کا کچھ کچھ پتا چلتا تھا۔ متاخرین نے یہ خصوصیت بھی قائم نہ رکھی۔ لیکن اس عام نکتہ چینی میں ابن خلدون کا نام شامل نہیں ہے ۔ اس نے فلسفہ تاریخ کا فن ایجاد کیا اور اس پر نہ صرف متاخرین بلکہ مسلمانوں کی کل قوم ناز کر سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد علامہ مقریزی بھی نکتہ چینی کی بجائے مدح و ستائش کا مستحق ہے۔ بہرحال الفاروق کی تالیف کے لیے جو سرمایہ کام آ سکتا تھا۔ وہ یہی قدما کی تصنیفات تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ و تذکرہ کے فن نے آج جو ترقی کی ہے اس کے لحاظ سے یہ بے بہا خزانے بھی چنداں کارآمدنہیں۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ فن تاریخ کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے۔ تاریخ کی تعریف تاریخ کی تعریف ایک بڑے مصنف نے یہ کی ہے کہ فطرت کے واقعات نے انسان کے حالات میں جو تغیرات پیدا کیے ہیں اور انسان نے عالم فطرت پر جو اثر ڈالا ہے ان دونوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے۔ ایک اور حکیم نے یہ تعریف کی ہے ’’ان واقعات اور حالات کا پتالگانا جن سے یہ دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیونکر بطور نتیجہ کے پیدا ہو گیا ہے۔ ‘‘ یعنی چونکہ یہ مسلم ہے کہ آج دنیا میں جو تمدن معاشرت خیالات مذاہب موجود ہیں سب گزشتہ واقعات کے نتائج ہیں جو خواہ مخواہ ان سے پیدا ہونے چاہیے تھے۔ اس لیے ان گزشتہ واقعات کا پتا لگانا اور ان کو اس طرح ترتیب دینا جس سے ظاہر ہو کہ موجودہ واقعہ گزشتہ واقعات سے کیونکر پیدا ہو ا اسی کا نام تاریخ ہے۔ تاریخ کے لیے کیا کیا چیزیں لازم ہیں؟ ان تعریفات کی بنا پر تاریخ کے لیے د و باتیں لازمی ہیں۔ ایک یہ کہ جس عہد کا حال لکھا جائے اس زمانے کے ہر قسم کے واقعات قلم بند کیے جائیں۔ یعنی تمدن معاشرت‘ اخلاق ‘ عادات‘ مذہب ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جئے۔ دوسرے یہ کہ تمام واقعات میں سبب اور مسبب کا سلسلہ تلاش کیا جائے۔ قدیم تاریخوں کے نقص اور اس کے اسباب قدیم تاریخوں میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ رعایات کے اخلاق و عادات اورتمدن ومعاشرت کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں آتا۔ فرمانروائے وقت کے حالات ہوتے ہی لیکن اس میں بھی فتوحات اور خانہ جنگیوں کے سوا ور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نقص اسلامی تاریخوں تک محدود نہیں بلکہ کل ایشیائی تاریخوں کا یہی انداز تھا اور ایسا ہونا مقتضائے انصاف تھا۔ ایشای میںہمیشہ شخصی سلطنتوں کا رواج رہا ہے اور فرمانروائے وقت کی عظمت و اقدار کے آگے تمام چیزیں ہیچ ہوتی تھیں۔ ا س کا لازمی اثر تھا کہ تاریخ کے صفحوں میں شاہی عظمت و جلال ک سوا اور کسی چیز کا ذکر نہ آئے اور چونکہ اس زمانے میں قانون اور قاعدہ جو کچھ تھا بادشاہ کی زبان تھی۔ اس لیے سلطنت کے اصول اور آئین کا بیان کرنا بھی گویا بے فائدہ تھا۔ واقعات میں سلسلہ اسباب پر توجہ نہ کرنے کا بڑ ا سبب ی ہوا کہ فن تاریخ ہمیشہ کے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو فلسفہ اورعقلیات سے آشنا نہ تھے۔ اس لیے فلسفہ تاریخی کے اصول و نتائج پر ان کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیر میں روایت کا پلہ ہمیشہ درایت پر بھاری رہا۔ بلکہ انصاف یہ ہے کہ درایت سے جس قدر کام لیاگیا ہے نہ لیے جانے کے برابر تھا۔ اخیر اخیر میںابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی اور اس کے اصول و آئین منضبط کیے۔ لیکن اس کو س قدر فرصت نہ ملی کہ اپنی تاریخ میں ان اصولوں سے کام لے سکتا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں علمی تنزلی کا ایسا سلسلہ قائم رہا کہ کسی نے پھر اس طرح خیال بھی نہ کیا۔ ایک بڑا سبب جس کی وجہ سے تاریخ کا فن نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام قوموں میں نا تمامی رہا یہ ہے کہ تاریخ میں جو واقعات مذکور ہوتے ہیں۔ ان کو مختلف فنون سے رابطہ ہوتاہے مثلاًلڑائی کے واقعات فن حرب سے انتظامی امور قانون سے اخلاقی تذکرے علم الاخلاق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مورخ اگر ان تما م علوم کا ماہر ہو تو واقعات کو علمی حیثیت سے دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کی نظر اسی قسم کی سرسری اور سطحی ہو گی جیسی کہ ایک اعامی کی ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ گر کسی عمدہ عممارت پر ایک ایسے واقعہ نگار انشاء پرداز کا گزر ہو جو انجینئری کے فن سے ناواقف ہے تو گووہ اس عمارت کا بیا ن ایسے دل کش پیرائے میں کر دے گا جس سے عمارت کی رفعت اور وسعت اور ظاہری حسن و خوبی کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے لیکن اگر اس کے بیان میں خاص انجینئری کے علمی اصول اور اس کی باریکیاں ڈھونڈی جائیں تو نہ مل سکیں گی۔ یہی سبب ہے کہ تاریخوں میں حالات جنگ کے ہزاروں صفحے پڑ ھ کر بھی فن جنگ کے اصول پر کوئی معتدبہ اطلاع حاصل نہیں ہوتی۔ انتظامی امور کے ذکر میں قانونی حیثیت کا اسی وجہ سے پتہ نہیں لگتا کہ مورخین خود قانون دان نہ تھے۔ اگر خوش قسمتی سے تاریخ کا فن ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہوتا جو تاریخ کے ساتھ فن جنگ اصول قانون‘ اصول سیاست ‘ علم الاخلاق سے بھی آشنا ہوتے تو آج یہ فن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہوتا۔ یہ بحث تو اس لحاظ سے تھی کہ قدیم تاریخوں میں تمام ضروری واقعات مذکور نہیںہوتے اورجس قدر ہوتے ہیں ان میں اسباب و علل کا سلسلہ نہیںملتا لیکن ان کے علاوہ ایک اور ضروری بحث ہے وہ یہ ہے کہ جو واقعات مذکور ہیں خود ان کی صحت پر کہاں تک اعتبار ہو سکتا ہے؟ واقعات کی صحت کا معیار واقعات جانچنے کے صرف دو طریقے ہیں روایت اور درایت ۱۔ روایت سے یہ مراد ہے کہ جو واقعہ بیان کیاجائے اس شخص کے ذریعے بیان کیا جائے جو خود اس واقعہ میں موجود تھا اور اس سے لے کر اخیر راوی تک روایت کا سلسلہ متصل بیان کیا جائے۔ اس کے ساتھ تمام راویوں کی نسبت تحقیق کی جائے کہ وہ صحیح الروایۃ اور ضابط تھے یا نہیں۔ ۲۔ درایت سے مراد یہ ہے کہ اصول عقلی سے واقعہ کی تنقید کی جائے۔ روایت اس امر پر مسلمان بے شبہ فخر کر ستے ہیں کہ روایت کے فن کے ساتھ انہوںنے جس قدر اعتنا کیا کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ انہوںنے ہر قسم کی روایتوں میںمسلسل سند کی جستجو کی اور راویوں کے حالات اس تفحص اور تلاش سے بہم پہنچائے کہ اس کوایک مستقل فن بنا دیا جو فن رجال کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ توجہ اور اہتما م اگرچہ اصل میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے شروع ہوا تھا۔ لیکن فن تاریخ بھی اس فیض سے محروم نہ رہا۔ طبری‘ فتوح البلدان‘ طبقات ابن سعد وغیرہ میں تمام واقعات بسند متصل مذکور ہیںَ یورپ نے فن تاریخ کو آج کمال کے درجے پر پہنچا دیا ہے لیکن اس خاص امر میں وہ مسلمان مورخوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کو واقعہ نگار کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کی کچھ پرواہ نہیںہوتی یہاں تک کہ وہ جرح و تعدیل کے نام سے بھی آشنا نہیں۔ درایت درایت کے اصول بھی اگرچہ موجود تھے۔ چنانچہ ابن حزم ابن القیم خطابی ابن عبدالبر نے متعدد روایتوں کی تنقید میں ان اصولوںسے کام لیا ہے لیک انصاف یہ ہے کہ اس فن کو جس قدر ترق ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی اورتاریخ میں تو اس سے بالکل کام نہیںلیا گیا۔ البتہ علامہ ابن خلدون نے جو آٹھویں صدی ہجری میں گزرا ہے جب فلسہ تاریخ کی بنیاد ڈالی تو درایت کے اصول نہایت نکتہ سنجی اور باریک بینی کے ساتھ مرتب کیے۔ چنانچہ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتاہے۔ ان الاخبار اذا اعتمد فیھا علی مجرد النقل ولم تحکم اصول العادۃ و قواعد السیاسۃ و طبیعۃ العمران والاحوال فی الاجتماع الانسانی ولا قیس الغائب منھا بالشاھد والاحاضر بالذاھب فربما لم یومن فیھا من العثور ’’خبروں میںاگر صرف روایت پر اعتبار کر لیا جائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضاء کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر پر اور حال کو گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہو گی۔ علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لیے پہلے راویوں کی جرح و تعدیل سے بحث نہیںکرنی چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں کیونکہ اگر واقعہ کاہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بیکارہے۔ علامہ موصوف نے بھی ظاہر کر دیا ہے کہ ان موقعوں میں امکان سے اممکان عقلی مراد نہیں بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونا مراد ہے۔ اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ جو نقص قدیم تاریخوں کے متعلق بیا کیے گئے ہیں ان کی آج کہاں تک تلافی کی جا سکتی ہے یعنی ہم اپنی کتاب (الفاروق) میں کس حد تک اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ امر بالکل صحیح ہے کہ جو کتابیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات میں مستقل حیثیت سے لکھی گئیں ہیں ان میں ہر قسم کے ضروری واقعات نہیں ملتے لیکن اور قسم کی تصنیفوں سے ایک حد تک ا س کی تلافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً الاحکام السلطانیہ لا بن الوردی و مقدمہ ابن خلدون و کتاب الخراج سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریق حکومت و آئین انتظام کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ اخبار القضا ۃ لمحمد بن خلف الوکیع سے خاص صیغہ قضا کے متعلق ان کا طریق عمل معلوم ہوتاہے۔ کتاب الاوائل لا بی ہلال العسکری و محاسن الوسائل الی اخبار الاوائل میں ان کی اولیات کی تفصیل ہے۔ عقد الفرید و کتاب البیان و التبیین للجاحظ میں ان کے خطبے منقول ہیں۔ کتاب العمدۃ لا بن رثیق القیر وانی سے ان کا شاعرانہ مذاق معلوم ہوتاہے۔ میدانی نے کتاب الامثال میں ان کے حکیمانہ مقولے نقل کیے ہیں۔ ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں ان کے اخلاق اورعادات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازلۃ الخفاء میںان کے فقہ اور اجتہاد پر اس مجتحدانہ طریقے سے بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔۱؎ یہ تمام تصنیفات میرے پیش نظر ہیں اور میں نے ان سے فائدہ اٹھایا ہے ریاض النضرۃ للمحب الطبری میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اسی کتاب کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے لیکن اس میں نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں۔ اس لیے میں نے دانستہ اس سے احتراز کیا ہے۔ ۱؎ ان تصنیفات میں سے کتاب الاوائل اور تاب العمدۃ کا قلمی نسخہ میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ سیرۃ العمرین اخبار القضاۃ اور محاسن الوسائل کے نسخے قسطنطنیہ کے کتب خاہ میں موجود ہیں۔ اور میں نے ان سے ضروری عبارتیں نقل کر لی تھیںباقی کتابیں چھپ گئی ہیں اور میرے پاس موجود ہیں۔ واقعات کی تحقیق و تنقید کے لیے درایت کے اصول سے بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ درایت کا فن اب ایک مستقل فن بن گیا ہے او ر ا س کے اصول و اقاعدے نہایت خوبی سے منضبط ہو گئے ہیں۔ ان میں جو اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں حسب ذیل ہیں: ۱۔ واقعہ مذکورہ اصول عادت کی روسے ممکن ہے یا نہیں؟ ۲۔ اس زماے مٰں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟ ۳۔ واقعہ اگر کسی حد تک غیرمعمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یانہیں؟ ۴۔ اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ طاہر کرتا ہے‘ اس میں اس کے قیاس اور رائے ک کس قدر حصہ شامل ہے؟ ۵۔ راوی نے واقعہ کو جس صورت میں ظاہر کیا ہے وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا نہیں اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اسکے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظرمیںنہ آ سکیں۔ ۶۔ اس بات کا اندازہ کہ زمانہ کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقہ اد انے روایت میں کیا کیا اور کس کس قسم کے تغیرات پید ا کر دیے ہیں۔ اصول درایت سے جن امور کا پتا لگ سکتا ہے؟ ان اصولوں کی صحت سے کوئی شخص انکار نہیںکر سکتا۔ اوران کے ذریعے سے بہت سے مخفی راز معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثلا ٓاج جس قدر تاریخیں متد اول ہیں ان میں غیر قوموں کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نہایت سخت احکام منقول ہیں لیکن جب اسب ات کا لحاظ کیاجائے کہ یہ اس زمانے کی تصنیفیں ہیں جب اسلامی گروہ میں تعصب کا مذاق پیدا ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ قدیم زمانے کی تصنیفات پ رنظر ڈالی جائے جن میں اس قسم کے واقعات بالکل نہیں یا بہت کم ہیںل تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر تعصب برتا گیا ہے اسی قدر روایتیں خود بخود تعصب کے سانچے میں ڈھلتی گئی ہیں۔ تمام تاریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ عیسائی کسی وقت اور کبھی ناقوس نہ بجانے پائیں لیکن قدیم کتابوں (کتاب الخراج‘ تاریخ طبری وغیرہ) میں یہ روایت اس قید کے ساتھ منقول ہے کہ جس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہوں ا س وقت عیسائی ناقوس نہ بجائیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ قبیلہ تغلب کے عیسائی اپنے بچوں کو اصطباغ نہ دینے پائیں لیکن یہی روایت تاریخ طبری میں ان الفاظ کے ساتھ مذکورہے کہ جو لوگ اسلام قبو ل کر چکے ہوں ان کے بچوں کو زبردستی اصطباغ نہ دیا جائے۔ یا مثلاً بہت سی تاریخوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تحقیر و تذلیل کے لیے عیسائیوں کو ایک خاص لباس پہننے پر مجبور کیا تھا۔ لیک زیادہ تدقیق سے معلو م ہوتاہے کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کو ایک خاص لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تحقیر کا خیال راوی کا قیاس ہے۔ چنانچہ اس کی مفصبل بحث آگے آئے گی۔ یا مثلاً وہ روایتیں جو تاریخی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت صاف محسوس ہوتی ہے کہ جس قدر ان میں تنقید ہوتی گئی ہے اسی قدر مشتبہ اورمشکوک باتیں کم ہوتی گئی ہیں فدک قرطاس سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات ابن عساکر ابن سعد‘ بیہقی‘ مسلم‘ بخاری سب نے نقل کیے ہیں لیکن جس قدر ان بزرگوں کے اصول اور شدت احتیاط میں فرق مراتب ہے اسی نسبت سے روایتوں میں مشتبہ اور نزاع انگیز الفاظ کم ہوتے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود مسلم و بخاری میں فرق مراتب کا یہ اثر موجود ہے۔ چنانچہ اس کا بیان ایک مناسب موقع پر تفصیل سے آئے گا۔ انہی اصول عقلی کی بناپر مختلف قسم کے واقعات میں صحت و اعتبار کے مدارج بھی مختلف قائم ہوں گے۔ مثلاًیہ مسلم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے واقعات سو برس کے بعد تحریر می آئے۔ اس بنا پر یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ معرکوں اور لڑائیوں کی نہایت جزئی تفصیلات مثلاً صف آرائی کی کیفیت ‘ فریقین کے سوال و جواب ایک ایک بہادر کی معرکہ آرائی پہلوانوں کے دائوپیچ۔ اس قسم کی جزئیات کی تفصیل کا رتبہ یقین تک نہیںپہنچ سکتا۔ لیکن انتظامی امور اور قواعد حکومت چونکہ مدت تک محسوس صورت میں موجود رہے ہیں ۔ اس یے ان کی نسبت جو واقعات منقول ہیں وہ بے شبہ یقین کے لائق ہیں۔ اکبر نے ہندوستان میں جو آئین اور قاعدے جاری کیے ایک ایک بچہ ان سے واقف ہے۔ اورانکی نسبت کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لیے قطعی روایتیں موجود ہیںبلکہ اس لیے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے اوراکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حکومت آمیز منقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ پر اثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں کیونکہ ایک فصیح و بلیغ مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جات ہیں اور ان کا مدت تک چرچار ہتا ہے جن میں کوئی خاص ندرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جو واقعات اس زمانے کے مذاق سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکرآ جاتا ہے ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مورخین رزم و بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں۔ بایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حا ل میں عدالت پولیس بندوبست مردم شماری‘ وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتاہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدرقلم بند ہوا ا س سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زہد و تقشف ‘ سخت مزاجی او ر سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں اور بے شبہ صحابہ رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیںخیال کرنا چاہیے جو حلیۃ الاولیاء ابن عساکر‘ کنزل العمال‘ ریاض النضر وغیرہ میںمذکور ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لیے ان میں خود بخود مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اورمعتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی یلے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میںنقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور ریاض النضر ۃ و ابن عساکر حلیتہ الاولیا ء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔ تاریخ کا طرز تحضریر اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضرور ہے۔ آج کل کی اعلیٰ درجے کی تاریخیں جنہوںنے قبول عام حاصل کیا ہے فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں اور اس طرز سے بڑھ کر کوئی اور طرز مقبول عام نہیںہو سکتا۔ تاریخ اور انشاء پردازی کا فرق لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میںجو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کے فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کہ کسی حصہ زمین کا نقشہ کھینچے تو نہایت دیدہ ریزی کے ساتھاس کی ہئیت ‘ شکل سمت ‘ جہت‘ اطراف‘ اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس کے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میںکوئی خاص اعجوبگی ہے اور جن سے انسان کی قوت منفعلہ پر اثر پڑتا ہے ۔ مثلاً رستم و سہراب کی داستان کو ایک مورخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کے تمام جزئیات بیان کر دے گا لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس طرح ادا کرے گا کہ سہراب کی مظلومی و بے کسی اور رستم کی ندامت و حسرت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور واقعہ کے دیگر جزئیات باوجود سامنے ہونے کے نظر نہ آئیں۔ مورخ کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری کی حد تجاوز نہ کرنے پائے۔ یورپ میں آج کل جو بڑا مورخ گزرا ہے اور جو طرز حال کا موجد ہے‘ رینگی ہے۔ اس کی تعریف ایک پروفیسر نے ان الفاظ میں کی ہے۔ اس نے تاریخ میں شاعری سے کام نہیںلیا‘ وہ نہ ملک کا ہمدرد بنا نہ مذہب اور قوم کا طرف دار ہوا۔ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں مطلق پتہ نہیں لگتا کہ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا اور اس کا ذاتی اعتقاد کیا ہے۔ یہ امر بھی جتاد دینا ضروری ہے کہ اگرچہ میں نے واقعات میں اسباب و علل کے سلسلے کرنے کوشش کی ہے لیکن اس باب میں یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز کیا ہے۔ اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کے لیے اکثرجگہ قیاس سے کام لینا پڑتاہے۔ اس لیے مورخ کو اجتہاد اور قیاس سے چارہ نہیں لیکن یہ اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کردے کہ کوئی شخص دونوں کو الگ کرنا چاہے تو نہ کر سکے۔ اہل یورپ کا عام طرز یہ ہے کہ وہ واقعہ کو اپنے اجتہاد کے موافق کرنے کے لیے ایسی ترتیب اور انداز سے لکھتے ہیں کہ واقعہ بالکل ان کے اجتہاد کے قالب میں ڈھل جاتاہے اور کوئی شخص قیاس اور اجتہاد کو واقعہ سے الگ نہیں کر سکتا۔ اس کتاب کی ترتیب اور اصول تحریر کے متعلق چند امور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں ۔ ٭ بعض واقعات مختلف حیثیتیں رکھتے ہیںاور مختلف عنوانوں کے تحت آ سکتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کے واقعات کتاب میں مکرر آ گئے ہیں اور ایسا ہونا ضرور تھا لیکن یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جس خاص عنوان کے نیچے وہ واقعہ لکھا گیا ہے‘ وہاں ان عنوان کی حیثیت زیادہ تر دکھلائی گئی ہے۔ ٭ کتابوں کا حوالہ زیادہ تر انہیں واقعات میں دیا گیا ہے کہ جو کسی حیثیت سے قابل تحقیق تھے اور کوئی خصوصیت خاص رکھتے تھے۔ ٭ جو کتابیں روایت کی حیثیت سے کم رتبہ ہیں مثلاً ازالتہ الخفاء اور ریاض النضرۃ وغیرہ ان کاجہاں حوالہ دیا ہے اس بنا پر دیا ہے کہ خاص اس روایت کی تصدیق اورمعتبرکتابوں سے کر لی گئی تھی۔ غرض کئی برس کی سعی و محنت اور تلاش و تحقیق کا جو نتیجہ ہے وہ قوم کے سامنے ہے۔ من کہ یک چند زدم مہر خموشی برلب کس چہ داند کہ دریں پردہ چہ سودا کردم پیکرے تازہ کہ خواہم بہ عزیزان بنمود لختے از ذوق خودش نیز تماشا کردم محفل از بادہ دو شینہ نیا سودہ ہنوز بادہ تندتر از دوش بہ مینا کردم باز خواہم کہ دمم درتن اندیشہ رواں من کہ در یوزۂ فیض از دم عیسیٰ کردم ہم نشین نکتہ حکمت ز شریعت می جست لختے از نسخہ روح القدس املا کردم شاہد راز کہ کس پردہ زرویش نگرفت گرہ از بند قبائش بہ فسوں وا کردم بسکہ ہر بار گہر پاش گزشتم زین راہ دشت معنی ہمہ پر لولوے لالہ کردم ٭٭٭ نام و نسب ‘ سن رشد و ترتیب سلسلہ نسب یہ ہے عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبداللہ بن قروط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔ اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہوں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقتدار تھے۔ انہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑ ا امتیاز حاصل کیا اور ان کے انتساب سے دس جدا نا مور قبیلے ب گئے یعنی ہاشم‘ امیہ‘ نوفل‘ عبدالدار‘ اسد‘ تیم‘ مخزوم‘ عدی ‘ جمح اور سمح۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی حضرت مرۃ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے ۔ قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لیے دنیوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چتر بھ ان پر سایہ افگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلائو سے ان لوگوں کے کاروبار مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے اور ہر صیغے کا اہتمام جد جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی گرانی‘ حجاج کی خبر گیری‘ سفارت شیوخ قبائل کا انتخاب‘ فصل مقدمات‘ مجلس شوریٰ وغیرہ وغیرہ۔ عدی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جد اعلیٰ تھے ان صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے تھے ۔ ۱؎ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں بھ ثالث یہی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیوسوں می سے کسی ایک کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اورپایہ شناس شخص ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طول ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کیے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فصاحت و بلاغت اور زور تقریر کا بھی جوہر درکار ہوتا تھا۔ ۱؎ یہ تما م تفصیل’’عقد الفرید‘‘ باب فضائل العرب میں ہے۔ یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میںنسلاً بعدنسل چلے آتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جد امجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دادا فضیل بن عبدالعزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کا نہایت ہی قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے بڑے عالی مرتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد عبدالمطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ دیا اور اس وقت حرب کی طرف مخاطب ہو کر یہ جملے کہے۔ اتنافر رجلا ھو اطول منک قامۃ و اوسم و سامۃ واعظم منک ہامۃ و اکثر منک والدا و اجزال منک مفدا و انی ا قول ہذا و انک لبعید الغضب رفیع الصوت فی العرب جلد المریرۃ لجبل لعشیرۃ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے برادر عم زاد نفیل کے دو بیٹے تھے عمرو خطاب عمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے لیک ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے وہ ا ن ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کردیا تھا اور موحد بن گئے تھے ان میں زیاد کے سوا باقیوں کے نام یہ ہیں۔ قس ب ساعدہ ورقہ بن نوفل۔ زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو اعلانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہوگئے تھے۔ جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ مکرمہ سے نکل گئے اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے ۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں جن سے ان کے اجتہاد اور روشن ضمیری کا انداز ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں: ۱؎ ار با واحدا ام الف رب ادین اذا تقسمت الامور ترکت اللات والعزیٰ جمیعا کذالک یفعل الرجل البصیر ۱؎ زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور المعارف لا بن قتیبہ میں ملے گا۔ ’’ایک اللہ کو مانوں یا ہزاروں کو جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات و عزیٰ (بتوں کے نام تھے) سب کو خیر باد کہا ار سمجھ دار آدمی ایسا ہی کرتاہے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد خطاب خطاب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے ۱؎۔ قبیلہ عدی اور بنو عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی۔ اور چونکہ عبدالشمس کا خاندان بڑا تھا اس لیے غلبہ انہیں کو رہتا تھا عدی کے تمام خاندان نے جس میں خطاب بھی شامل تھے مجبور ہوکر بنو سہم کے دامن میں پناہ لی۔ اس پر بھی مخالفوں نے بڑے زور کی دھمکی دی تو خطاب نے یہ اشعار کہے: ابو عدنی ابو عمرو ودونی رجال لا ینھنھا الوعید رجال من بنی سھم بن عمرو الی ابیاتھم یاوی الطرید کل آٹھ شعر ہیں اور علامہ ازرقی نے تاریخ مکہ میں ان کو بمتامہا نقل کیا ہے۔ عدی کا تمام خاندان مکہ مکرمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوںنے بنو سہم سے عتلق پیدا کیا تو امکانات بھی انہین کے ہاتھ میں بیچ ڈالے لیکن خطاب کے متعد د مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا و مروۃ کے بیچ میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس کو ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا لیکن اس کے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں ۲؎۔ خطاب نے متعدد شادیاں کیں اونچے اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ماں ج کا نام خنتمتہ تھا ہشام بن المغیرہ کی بیٹی تھیں۔ مغیرہ اس رتبے کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلے سے لڑنے کے لیے جاتے تو فوج کا اہتمام انہی کے ذمے ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ ک بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نانا تھے ایک ممتاز آدمی تھے۔ ۱؎ کتاب المعارف لا بن قتیبیہ۔ ۲؎ تاریخ مکہ للا زرقی ذکر رباع بنی عدی بن کعب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشہور روایت کے مطابق ہجرت نبوی سے ۴۰ برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہ ایک غل اٹھا دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ نوجوان آگے چل کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تفحص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جس کا یہاں نقل ہونا موزوں نہ ہو گا۔ سن رشد سن رشد کو پہنچ کرخطاب ان کے باپ نے ا کو جو خدمت سپردکی وہ اونٹوںکا چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھابلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب بہت بے رحمی کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ تمام تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے ارو جب کبھی تھک کر وہ دم لینا چاہتے تو سزا دیتے جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمت انجام دینی پڑتی تھی اس کا نام ضبنان تھا جومکہ مکرمہ سے قریب قدیر س ۱۰میل کے فاصلے پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان کا نہایت عبرت ہوئی۔ آبدیدہ ہو کر فرمایا اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں یہاں نمدے کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا آج یہ دن ہے کہ اللہ کے سوا میرے اوپر اور کوئی حاکم نہیں ہے ۱؎۔ شباب کا آغاز ہو ا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ شریفانہ شغلوں میںمشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے۔ عرب میں اس وقت جن چزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہ شرافت خیال کی جاتی تھیں نسب دانی سپہ گری‘ پہلوانی‘ اور مقرری تھی نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا۔ جاحظ نے کتاب البیان و التبیین میں بتصریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوران کے باپ اور دادا نفیل تینوں بہت بڑے نساب تھے ۲؎ ۔ غالباً اس کی وجہ ی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم نے ابھی لکھ آئے ہیں کہ فارت اور فیصلہ منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے ور ان کو انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا ۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔ ۱؎ طبقات ابن سعد ۲؎؎ طبقات ابن سعد (مطبوعہ مصر) صفحہ ۱۱۷‘۱۲۲ پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل کیا‘ یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے۔ عکاظ جبل عرفات کے پاسایک مقام تھا جہاں ہر سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کراپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے۔ اس لیے صرف وہی لوگ یہاںپیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ ذیبانی حسان بن ثابت‘ قس بن ساعدۃ ‘ خنساء جن کو شاعری اور ملکہ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا اسی تعلیم گاہ سے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت علامہ بلازری نے کتاب الاشراف میں بسند یہ روایت نقل کی ہے کہ عکااظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ا س فن پر پورا کمال حاصل تھا۔ شہسواری کی نسبتت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ چنانچہ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اوراس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرع شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مورخین نے بااتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کامنصب دے دیا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میںکمال رکھتا تھا۔ ا س کتاب کے دوسرے حصے میں ہم نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار ان کو یاد تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوںنے جاہلیت ہ میں عکاظ کی تعلیم گاہ سے حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیںکرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوںنے لکھناپڑھنا بھی سیکھ لیا تھا او ر یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے تو قریش کے تما م قبیلے میں ۱۷ آدمی تھے جو لکھنا جانتے تھے ان میں سے ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب تھے ۱؎۔ ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکرمعاش میں مصروف ہوئے۔ عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لیے انہوںنے بھی یہی شغل اختیار کیا اوریہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوںکا سبب ہوا۔ وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے او ر بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خودداری بلند حوصلگی ‘ تجربہ کاری‘ معاملہ دانی‘ یہ تمام اوصاف‘ جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے سب انہی سفروں کی بدولت تھے ۔ ۱؎ فتوح البلدان للبلاذری ص ۴۷۱ ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مورخ نے ان پر توجہ نہیں کی علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب مروج الذہب میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ: ولعمر بن الخطاب اخبار کثیرہ فی اسفارہ فی الجاہلیۃ الی الشام والعراق مع کثیر من ملوک العرب و العجم وقد اتینا علی مبسوطھا فی کتابنا اخبار الزمان وکتاب الاوسط ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کیے اور ان سفروںمیںجس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب ا لاوسط میں لکھا ہے۔ علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ہے اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں لیکن قوم کی بدمذاقی سے مدت ہوئی کہ ناپیدہو چکیںمیں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے لیکن کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ محدث ابن عساکر نے تاری دمشق میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزری ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اورتجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میںروشناس کردیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جو ہر روز بروز کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ا ن کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ قبائل میں جب کوئی پر خطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بناکر بھیجتے۔ قبول اسلام اور ہجرت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوایعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معبوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کر لیاتھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابھی تک اسلام سے بالکل بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صداپہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان ے خاندان میںایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ذرا دم لے لوں پھر مارو ں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زدوکوب سے دریغ نہیںکرتے تھے لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتاتھا اترتا نہ تھا ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کر سکے ۔ آخر مجبور ہوکر فیصلہ کر لیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں۔ تلوارکمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے ۔ کارکنان قضانے کہا: آمد آں یارے کہ مامے خواستیم راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر ہے؟ بولے کہ ’’محمد کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں‘‘۔ انہوںنے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیَ فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی؟َ بہن نے کہا کچھ نہیں بولے کہ نہیںمیں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر ہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اورجب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہولہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ عمر! جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب ان کے دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر ایک خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھیا۔ یہ دریکھ کر اور بھی رقت ہوئی۔ فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سنائو۔ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے قرآ کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکاھ تو یہ سورۃ تھی۔ سبح للہ ما فی السموت والارض وھو العزیز الحکیم ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہو تا جاتا تھا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے : آمنو باللہ ورسولہ تو بے اختیار پکار اٹھے کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آستانہ مباک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف تھے اور اس واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہ کو ترددہوا لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا کہ کیوں عمر کس ارادے سے آیا ہے ؟ نبوت کی پررعب آوا ز نے ان کو کپکپا دیا خضوع کے ساتھ عرض کی کہ ایمان لانے کے لیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے ساختہ اللہ اکبر پکارا اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کانعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاںگونج اٹھیں۔ ۱؎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے اسلام کی تاریخ میں نیا دو ر پیدا ہوا۔ اس وقت تک اگرچہ ۵۰‘۴۰ آدمی اسلام لا چکے تھے عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ رضی اللہ عن سید الشہدا نے بھی اسلا م قبول کر لیا تھا۔ تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی اعلانیہ ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں نماز پڑھنا توبالکل ناممکن تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے ساتھ دفعتہ یہ حالت بدل گئی۔ انہوںنے علانیہ اپنا اسلام ظاہر کر دیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ برابر ثابت قدمی کرتے رہے۔ یہاںتک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کا۔ ہے: فلما اسلم عمر قاتل قریشا حتیٰ صلی عند الکعبہ وصلینا معہ ’’جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اوران کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی پڑھی‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال پیش آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت اہل قریش ایک مدت تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوائے نبوت کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلا م کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی‘ غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ای جماعت کثیر کے حلقے مین آگئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹادینا چاہا۔ حضرت ابو طالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس کو جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتاتو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اوریہ زمانہ ا س سختی سے گزرا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے ۔ ۱؎ انساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد و اسد الغابہ و ابن عساکر و کامل بن الاثیر اسی اثنا میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیںمل سکتی وہ مدینہ ہجرت کرجائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن اشہل رضی اللہ عنہ‘ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ‘ اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینے کا رخ کیا ۔ صحیح بخاری میں ۲۰ کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے ہیں اور وہ یہ ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جن لوگوںنے ہجرت کی زید بن خطا ب ؓ ، سعید بن زید بن خطابؓ، خنیس بن حدافہ سہمیؓ ، عمرو بن سراقہ ؓ، عبداللہ بن سراقہ ؓ، واقد بن عبداللہ تمیمی ؓ ، خولیٰ بن ابی خولیٰ ؓ، مالک بن ابی خولہؓ ، ایاس بن بکیر ؓ، عاقل بن بکیر ؓ، عامر بن بکیرؓ، خالد بن بکیرؓ، ان میں سے زید ؓ حضرت عمرؓ کے بھائی سعید ؓ بھتیجے خنیس ؓ داماد اور باقی دوست احباب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی۔ مہاجرین زیادہ تر قباء (جو مدینہ سے تین میل ہے) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہیں رفاعہؓ بن عبدالمنذر کے مکان پرٹھہرے۔ قباکو عوالی بھی کہتے ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرودگاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اکثر صحابہ ؓ نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۱۳ نبوی میں خود جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق پر طلوع ہوا۔ مہاجرین اورانصار میں اخوت مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کاانتظام کیا۔ انصار و بلا کر ان مین اورمہاجرن میںبرادر ی قائم کی جس کا یہ اثر ہوا کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا تھا‘ انصاری کو اپنی جائیداد مال اسباب نقدی اور تمام چیزوں میں سے آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور نصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا تھا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلامی بھائی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا گیا ان کا نام عتبان بن مالک تھا جو قبیلہ بنی سالم کے سردار تھے ۱؎۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے پر صحابہؓ ن قباء میں ہی قیام رکھا۔ حضرت عمر ؓ بھی یہی مقیم رہے لیکن ی معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا جاتا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنتے حضرت عمر ؓ سے جا کرروایت کرتے ۔ چنانچہ بخاری ؒ نے متعدد ابواب مثلا باب العلم‘ باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ مدینہ میں پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کیے جائیں کیونکہ مکہ مکرمہ می جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب تک روزہ زکوۃ نماز جمعہ نماز عید صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیںآئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نماوں میں صرف دو رکعتیں تھیں۔یہاں تک کہ نماز کے اعلان کا طریقہ بھی معین نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لیے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لیے صحابہؓ نے یہی رائے دی۔ ابن ہشام نے روایت کی کہ یہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر ؓ آ نکلے اور انہوںنے کہا کہ ایک آدمی کو علان کرنے کے لیے کیوں نہ مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت حضرت بلال ؓ کو اذان کا حکم دیا ۲؎۔ اذان کا طریقہ حضرت عمرؓ کی رائے کے موافق قائم ہوا یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا دیباچہ اور اسلام ا ایک بڑا شعار ہے حضرت عمرؓ کے یے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔ ۱؎ دیکھو سیرۃ ابن ہشام۔ حافظ ا بن حجر نے مقدمہ فتح الباری (صفحہ ۳۲۱) میں عتبان کی بجائے اوس بن خول کا نام لکھا ہے اور اسی کی تصحیح کی ہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ خود علامہ موصوف نے اصٓابہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے اور اوس ابن خولی کاجہاں حال لکھا ہے حضرت عمر ؓ کی اخوت کا ذکر نہیں کیا۔ ۲؎ صحیح بخاری کتاب الاذان۔ ۱ ہجری (۶۲۳ئ)تا وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوات و دیگر حالات اھ (۶۲۳ئ) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک حضرت عمرؓ کے واقعات و حالات درحقیقت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجزاء ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کیے گئے اشاعت اسلام کے لیے جو تدبیریں اختیار کی گئیں‘ ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر ؓ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدل جاتا ہے کیونکہ حضرت عمرؓ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی عظیم الشان ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ حالات سے وابستہ ہیں اس لیے جب قلم بند کیے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی قرار پائے گا اور حضرت عمرؓ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس یے ہم نے مجبوراًیہ طریقہ اختیار کی اہے کہ یہ واقعات نہایت اختصار سے لکھے جائیں اور جن واقعات میں حضرت عمرؓ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمرؓ کے کارنامے نمایان ہو کرنظر نہ آئیں گے کیونکہ جب تک واقعہ کی پوری تفصیل نہ دکھائی جائے اس کی اصلی شان قائم نہیں ہوتی۔ تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی اب ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ مسلمانوں کاجلد استیصال نہ کر دیا جائے گا تو وہ زیادہ زورپکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوںنے مدینہ پر حملے ک تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینے کی طرف بڑھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر پر کر ان کو روکنے کے لیے تھوڑی تھوڑی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔ غزوہ بدر ۲ھ ہنہ ۲ ھ (۶۲۴ئ) مین بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آ رہا تھا۔ راہ میں یہ (غلط) خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں قریش کے پاس قاصد بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امنڈ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خبر سن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مورخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ سے نکلنا صرف قافلہ لوٹنے کی غرض سے تھا لیکن یہ امر محض غلط ہے۔ قرآن مجید جس سے زیادہ کوئی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں: کما اخرجک ربک من بیتک بالحق وان فریقا من المومنین لگارھون یجادلونک فی الحق بعد ماتبیین کانما یساقون الی الموت وھم ینظرون واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم و تودون ان غیر ذات الشوکتہ تکون لکم (۸؍ انفال : ۵،۶،۷) ’’جیسا کہ تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر سے (مدینہ) سچائی پر نکالا اور بے شک مسلمانو ں کاایک گروہ ناخوش تھا‘ وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھ بعد میں اس کے کہ سچی بات ظاہر ہو گئی۔ گویا کہ وہ موت کی طر ف ہانکے جاتے ہیں اوروہ اس کو دیکھ رہے ہیں جب کہاللہ دو گروہوں میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھااور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کچھ زورنہیں ہے وہ ہاتھ آئے‘‘۔ ان آیتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ: (۱) جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے (۲) مدینے سے نکلتے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک غیر ذات الشوکۃ یعنی ابوسفیان کا کاروان تجارت اور دوسرا قریش مکہ کا گروہ جومکہ سے حملہ کرنے کے لیے سروسامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔ اس کے علاوہ ابوسفیان کے قافلے میں کل ۴۰ آدمی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تی سوآدمی ۴۰ آدمیوں کے مقابلے میں کسی طرح موت کے منہ میں جانا خیال نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قافلے کو لوٹنے کے لیے نکلتے تو اللہ تعالیٰ ہرگز قرآن مجید میں نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔ بہرحال ۸ رمضان ۲ ھ کو آنحرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۳۱۳ آدمیوں کے ساتھ جن میں سے ۸۳ مہاجرین اور باقی انصار تھے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کے ساتھ ۹۵۰ کی جمعیت تھی جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے۔ مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے قریبا ۶ منزل ہے معرکہ ہوا اور کفار کو شکست فا ش ہوئی۔ مسلمانوں میں سے ۱۴ آدمی شہید ہوئے جن میں ۶ مہاجر اور ۸ انصار تھے قریش کی طرف سے ۷۰ مقتو ل اور ۸۰ گرفتار ہوئے۔ مقتولین میں ابوجہل عتبہ بن ربیعہ شیبہ اوربڑے بڑے رئوسا مکہ تھے اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔ حضرت عمرؓاگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر جانبازی و پامردی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست و بازو رہے لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں: ۱۔ قریش کے تمام قبائل اس معرکے میں آئے لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر ؓ کے قبیلے سے ایک متنفس بھی جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ ۱؎ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے کہ صرف حضرت عمرؓ کے رعب و داب کا اثر تھا۔ ۲۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے قبیلہ اور حلفاء کے ۱۲ آدمی شریک جنگ تھے جن کے نام یہ ہیں: زید‘ عبداللہ بن سراقہ‘ عمرو بن سراقہ‘ واقد بن عبداللہ خولی بن ابی خولی‘ مالک بن ابی خولی‘ عامر بن ربیعہ‘ عامر بن بکیر‘ عاقل بن بکیر‘ خالد بن بکیر اور ایاس بن بکیر رضی اللہ عنہم ۳۔ سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مرجع حضرت عمرؓ کا غلام تھا۲؎۔ ۴۔ عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمرؓ کا ماموں تھا حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا ۳؎ ۔ یہ با حضرت عمرؓ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معالمت میں قرابت اور محبت کا اثر بھی ان پر غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثل ہے۔ اس معرکے میں مخالف کی فوج میں سے جولوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش ۷۰ تھی اور ان میں سے اکثر قریش کے بڑے بڑے معزز سردار تھے مثلاً حضرت عباس‘ عقیل (حضرت علیؓ کے بھائی) ابو العاص بن الربیع‘ ولید بن الولید‘ ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتا ر ہوکر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا۔ جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مبارکہ سودہ کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ اعطیتم بایدیکم ہلامتم کراما تم مطیع ہو کر آئے ہو شریفوں کی طرح لڑ کر مر نہیں گئے۔ قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے ا س بنا پر یہ بحث ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ ؓ سے رائے لی اور لوگوں کی مختلف رائیں دیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یہ اپنے ہ بھائی بندہیں اس لیے ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ ۱؎ طبری کبیر میں ہے الم یک بفی من قریش بطن الا نفر منھم ناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد ص ۱۳۰۷ ۲؎ ابن ہشام ص ۴۹۰ ۳؎ ابن ہشام ص ۵۰۹ و استعیاب حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا اور کہا اسلام کے معاملے میں رشتہ داروں اور قرابت کو دخل نہیںان سب کو قتل کر دینا چاہیے اور س طرح کہ م میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔علی ؓ عقیل کی گردن ماریں حمزہؓ عباس کا سر اڑا دیں اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کر دوں۱؎۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکرؓ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا اس پریہ آیت نازل ہوئی۔ ماکان لنبی ان یکون الہ اسریٰ حتیٰ یشخن فی الارض (۸؍الانفال:۶۷) ’’کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کرے۔‘‘ بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلہ میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مد د نہ کریں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آئے گا تو مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر سے فتح یاب ہو کر آئے تو ان کو ڈر یدا ہو ا کہ مسلمان زورپکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں چنانچہ خود چھیڑ شروع کی اور کہا کہ قریش والے فن حرب سے نا آشنا تھے ہم سے کام پڑتاتو ہم دکھا دیتے ہکہ لڑنا اس کو کہتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوال سنہ ۲ ہجری میں ان پر چڑھائی کی اور بالآخر وہ گرفتار ہو کر مدینہ سے جلا وطن کر دیے گئے۔ اسلام کی تاریخ میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتدا اسی سے ہوئی تھی۔ غزوہ سویق قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بے تاب تھے۔ ابوسفیان نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ ۲ ھ میں دو سو شتر سوار و کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دومسلمانوں کو پکڑا اوران کو قتل کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعاقب کیا لیکن ابوسفیان نکل گیا تھا۔ ۱؎ طبری ص ۱۳۵۵ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال ۳ ھ (۶۲۵ئ) میں جنگ احدکا مشہور واقع پیش آیا۔ غزوہ احد ۳ھ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور بہت سے سردار قریش نے ابوسفیان سے جا کرکہاکہ اگر تم مصارف کا ذمہ اٹھائو تو اب بھی بدر کاانتقام لیا جا سکتا ہے۔ ابوسفیان نے قبول کیا اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیںَ کنانہ ار تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ہوگئے۔ ابوسفیان ن سب کا سپہ سالار بڑے سروسامان کے ساتھ مکہ سے نکلا اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کا قیا م کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے لیکن صحابہؓ نے نہ مانا اور آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجبور ہوکر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں دو سو سوار اور سات سو زرہ پوش تھے۔ میمن کے افسر خالد بن ولید اور میسرہ یک عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں ہوئے تھے) ادھر کل سات سو آدمی تھے جن میں سو زرہ پوش اور صرف دو سو سوار تھے۔ مدینے سے قریباً تین میل پر احدایک پہاڑ ہے۔ اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن جبیرؓ کو 50تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر معین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ ۷ شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے زبیر نے اپین رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا او رقریش کے میمنہ کو شکست دی پھر عام جنگ شروع ہوئی حضرت حمزہؓ حضرت علیؓ ابودجاہ ؓ دشمن کی فوج میں گھس گئے اور ان کی صفیں الٹ دیں لیکن فتح کے بعد لوگ غیمت پر ٹوٹ پڑے۔ تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ہو چکا۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہوئے۔ تیر اندازو ں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتہ عقب سے بڑے زور کا حملہ کیا مسلمان چونکہ ہتھار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے۔ کفار نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھروں اور تیروں کی بارش کر دی ۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفرکی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ آپ ایک گڑھے میں گر پڑے اور لوگوں کی نظروں سے چھپ گئے۔ اسی برہمی میں یہ غل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارے گئے۔ اس خبرنے مسلمانوں کے استقلال کو اورمتزلزل کردیا اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اخیر وقت تک کس قدر صحابہ ؓ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ ؓ رہ گئے تھے۔ نسائی اوربیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہؓ کے سوا اور کوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہ رہا تھا محمد بن سعد نے چودہ آدمیوں کا نا م لیا ہے اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں۔ ۱؎ حافظ ابن الحجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق کی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتہ عقب سے حملہ کیا اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہا تھا وہیں رہ گیا پھر جس جس کو موقع ملتا گیا وگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچتے گئے۔ تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ لوگ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوںنے مدنے سے ادھر دم نہیںلیا مدینہ آ کر دم لیا کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر ؓ اس تیسرے گروہ میں تھے علامہ طبری نے بسند متصل جس کے رواۃ بن حمید سلمہ محمد بن اسحاق‘ قاسم بن عبدالرحمن بن رافع ہیں۔ روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضرؓ نے حضرت عمر اور طلحہؓ اور چندمہاجرین اورانصا رکو دیکھا تو مایوس ہو گئے تو پوچھا کہ کیا بیٹھے کیا کرتے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو شہادت پائی۔ انسؓ بولے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے؟ تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جائو۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت پائی۔ ۲؎ ۔ قاضی ابویوسف صاحب نے خود حضرت عمرؓ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضرؓ میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا گزی؟ میںنے کہا میرا خیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو ئے۔ انس ؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید تو ہوئے اللہ تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی اور اس قدر لڑے کہ شہاد ت حاصل کی۔ ۳؎ ابن ہشام میں ہے کہ انسؓ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔ ۱؎ یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد ۷ صفحہ ۲۷۲ میں ہے۔ ۲؎ طبری ص ۱۴۰۴ ۳؎ کتاب الخراج ص ۲۵ طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھیوں میں طلحہؓ کا نام بھی ہے اور یہ مسلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہ رہاتھا۔ بہرحال یہ تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمرؓ میدان جنگ سے نہیں ٹلے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت اقدس میں پہنچے۔ طبری اورسیرت بن ہشام میں ہے: فلما عرف المسلمون رسول اللہ نھضوا بہ ونھض نحو الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر بن ابی فحافہ و عمر بن الخطاب و طلحہ ابن عبید اللہ الزبیر بن العوام والحارب بن صمہ ’’پھرجب مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھاتو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ علیؓ حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ زبیر بن العوام اور ھارث بن ضمتہ ؓ تھے۔ علامہ بلاذری صرف ایک مورخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمرؓ کے حال میں یہ لکھا: وکان ممن انکشف یوم احد فغفرلہ ’’یعنی حضرت عمرؓ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے لیکن اللہ نے ان کو معاف کر دیا‘‘۔ علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب اپن خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کیے تو ایک شخص نے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا کہ ان سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبداللہؓ ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیںکیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی مین ثابت قدم رہا تھا اور عبداللہ کا باپ (یعنی خود حضرت عمرؓ ) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے کہ درایتہ غلط ہے کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا جس کوئی کوئی شخص اعلانیہ تسیلم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ علامہ موصوف نے جن رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے ان میں عباس بن عبداللہ الباکسائے اور غیض بن اسحاق ہیں اور یہ دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔ اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تیس صحابہؓ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد ؓ کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ یا الٰہ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں ۔ حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اوران لوگوں کو ہٹا دیا ۱؎۔ ابوسفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابوسفیان نے پھر حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیاتو بولا کہ ضرور یہ لوگ مارے گئے۔ حضرت عمرؓ سے رہا نہیں گیا پکار کر کہا او اللہ کے دشمن ہم سب زندہ ہیں۔ ابوسفیان نے کہا اع ھبل یعنی ا ے ہبل(ایک بت کانام تھا) بلند ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا جواب دو(اللہ اعلیٰ واجل) یعنی اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے۔۲؎ حضرت حفصہ ؓ کا عقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس سال حضرت عمرؓ کویہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقدمیں آئیں۔ حفصہؓ کا نکاح جاہلیت میں خنیس ب خذافہ ؓ کے ساتھ ہوا تھا خنیسؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواہش کی کہ حفصہ ؓ کو اپنے نکاح میں لائیں۔ انہوںنے کچھ جواب نہ دیا پھرحضرت عثمانؓ سے درخواست کی وہ بھی چپ رہے کیونکہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حفصہؓ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں چنانچہ شعبان ۳ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حفصہؓ سے نکاح کیا۔ واقعہ بنو نضیر ۴ھ (۶۲۶ئ) ۴ھ(۲۶۲ئ) میں بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا ۔ اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آبادتھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا ن سے صلح کامعاہدہ کر لیا تھا۔ ان میں سے بنو قینقاع نے بدر کے بعد نقض عہد کیا اور اس جرم سے مدینے سے نکال دیے گئے۔ دوسرا قبیلہ بنو نضیر کا تھا ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے سخت دشمن تھے۔ ۴ ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک معاملے میں استعانت کے لیے حضرت عمر ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر ان کے پا س تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے ایک شخص کو جس کانام عمرو بن حجاش تھا آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سر پر پتھر کی سل گرا دے۔ وہ چھت پر چڑھ چکا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہو گئی۔ آپ اٹھ کر چلے گئے اور کہلا بھیجا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جائو۔ ۱؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۷۶ و بطری ص ۱۴۱۱ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۵۸۲ و طبری ص ۱۴۱۷ انہوں نے انکار کیا اور مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر قابو پا کر جلاوطن کردیا۔ چنانچہ ان میںسے کچھ شاام کو چلے گئے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں حکومت قائم کر لی ۱؎۔ جنگ خندق یا احزاب ۵ ھ (۶۲۷ئ) خیبر والوں میں سلام بن اببی الحقیق کنانتہ بن لربیع اور حی بن اخطب بڑے بڑے معزز سردار تھے۔ یہ لوگ خیبر میں پہنچ کر مطمئن ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتقام لینا چاہ۔ مکہ مکرمہ میں جا کر قریش کو ترغیب دی کہ قبائل عرب کا دورہ کیا اور تمام ممالک میں ایک آگ لگا دی۔ چند روز میں دس ہزار آدمی قریش کے علم کے نیچے جمع ہو گئے۔ اور شوال ۵ھ میں ابوسفیان کی سپہ سالاری میں اس سیلاب نے مدینہ کا رخ کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے سے باہر نک کر سلع ۲؎ کے آگے ایک خندق تیار کرائی۔ عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لیے کفار کو اس کی کچھ تدبیر بن نہ آئی۔ مجبوراً محاصرہ کر کے ہر طرف فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی۔ ایک مہینے تک محاصرہ رہا۔ کفار کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر کچھ فاصلے پر اکابر صحابہ کو معین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائے ایک حصے پر حضرت عمرؓ متین تھے چنانچہ یہاںان کے نام کی مسجد آج بھی موجودہے۔ ایک دن کافروں نے حملے کا ارادہ کیا تو حضرت عمرؓ وار زبیر ؓ کے ساتھ آگے بڑھ کر روکا اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔ ۳؎ ایک اور دن کافروں کے مقابلے میں اس قدر ان کو مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیاکہ آج کافروںنے نماز پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے بھی اب تک عصرکی نماز نہیںپڑھی۔ اس لڑٓئی میں عمرو بن عبدود عرب کا مشہور بہادر جو پانچ سو سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا حضرت علی ؓ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مارے جانے کے بعد ادھر تو قریش میں کچھ بدلی پیدا ہوئی ادھر نعیم بن مسعود جو اسلام لا چکے تھے اورکافروں کو ان کے اسلام کی کچھ خبر نہ تھی جوڑ توڑسے قریش اور یہود میں پھوٹ ڈلوا دی۔ ۱؎ طبری ص ۱۳۵۲ ۲؎ یہ مدینے سے ملا ہوا ایک پہاڑ ہے ۳؎ یہ واقعہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالتہ الخفاء میں لکھا ہے لیکن میں نے کسی کتاب میں اس کی سند نہیںپائی۔ مختصر یہ کہ کفر کا ابر سیاہ جو مدینہ کے افق پر چھاگیاتھا روز بروز چھٹتا گیا اور چند روز کے بعد مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ واقعہ حدیبیہ ۶ ھ (۶۲۸ئ) ۶۲۸ء ۶ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو حک دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) پہنچ کر حضرت عمرؓ کو خیال ہواکہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوا لیے۔ جب مکہ مکرمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آ کر یہ خبر دی کہ تمام قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن چاہا کہ اکبر صحابہؓ میں کسی کو سفارت کے طور پر بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوںنے عرض کی کہ قریش کومجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی شخص میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان ؓ کے عزیز و اقارب ہیں اس لیے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمانؓ کو روک رکھا اور جبکئی د گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ ؓ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی یہ واقعہ بیعت الشجرہ کے نام سے مشہور ہوا قرآن مجید کی اس آیت میں لقد رضی اللہ عن المومنین اذبیا یعونک تحت الشجرۃ (۴۸؍ سورۃ الفتح ۱۸) اسی واقع کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعتہ الرضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری(غزوہ حدیبیہ) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے عبداللہؓ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں عبداللہ بن عمرؓ باہر نکلے تو دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں انہوںنے بھی جا کر بیعت کی۔ حضرت عمرؓ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ ہو ہتھیار سچ رہے ہیں عبداللہ ؓ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیا ن کیا۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے اور جا کر رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں ہرگز داخل نہیںہو سکتے۔ بڑے ردوبدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں اگلے سال ٓئیں لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے گی اور اس اثناء میں قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں چلاجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں لیکن مسلمانوںمیں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار ہو گا کہ وہ اس کو اپنے پاس روک لیںَ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں تھی حضرت عمرؓ کونہایت اضطراب ہوا ۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ ابوبکر صدیقؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے؟ انہوںنے سمجھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ کرتے ہیں اسمیں مصلحت ہو گی لیکن حضرت عمر ؓ کو تسکین نہیں ہوئی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور ا س طرح گفتگو کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہوں حضرت عمر ؓ کیا ہمارے دشمن مشترک نہیں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہیں۔ حضرت عمر ؓ پھر ہم مذہب کو کیوںذلیل کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم کے خلاف نہیںکرتا۔ حضرت عمرؓ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا۔ چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی اور اس کے کفارہ کے لیے روزے رکھے نمازیں پڑھیں خیرات دی غلام آزاد کیے۱؎ تاہم سوال و جواب کی اصل بنا اس نکتہ پر تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں اور کون سے رسالت کے منصب سے چنانچہ اس کی مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گی۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا وار اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہؓ کے جن میں حضرت عمرؓ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کا قصد کیا ۔ راہ میں سورۃ فتح نازل ہوئی۔ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پرآج تک ایسی صورت نازل نہیںہوئی۔ جومجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کرآپ نے یہ آیتیںپڑھیں: انا فتحنا ک فتحا مبینا ؎۲ (۴۸ ؍ الفتح : ۱) ۱؎ طبری صفحہ ۱۵۴۶ ۲؎ صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے ۔ صلح ہوجانے سے آپس میں میل جول ہو ا اور رات دن کے چرچے سے اسلام کے مسائل اور خیالات روز بروز زیادہ پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے اٹھارہ برس قبل کی وسیع مدت میں نہیںلائے تھے ۱ ؎ ۔ جس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی تھی اور ابتدا میں حضرت عمرؓ کی فہم میںنہ آ سکی وہ یہی مصلحت تھی اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح میں اس صلح کو فتح کے لفظ سے تعبیر کیا ۔ حضرت عمرؓ کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا اس زمانے تک وہ کافرہ عورتوںکا عقد نکاح میں رکھنا جائز تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی: ولا تمسکو ا بعصم الکوافر (۶۰؍ الممتحنہ: ۱۰) تو یہ امر ممنوع ہو گیا۔ اس بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنی دونوں بیویوں کو جو کافرہ تھیں طلاق دے دی ۔ ا ن میں سے ایک کا نام قریبہ اور دوسری کا ام کلثوم بنت جرول تھا۔ ان دونوں کے طلاق لینے کے بعد حضرت عمرؓ نے جمیانہؓ سے جو ثابت بن ابی الافلح کی بیٹی تھی نکاح کیا۔ حضرت عمرؓ کے فرزند عاصم ؓ انہی کے بطن سے تھے ۔ ۲؎ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلاطی اور والیان ممالک کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے۔ جنگ خیبر ۷ ھ (۶۲۹ئ) ۷ھ میں خیبر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ اوپر تم پڑھ آئے ہو کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی جو مدینہ منورہ سے نکالے گئے تھے خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اہی میں سے سلام و کنانہ وغیرہ نے سنہ ۵ ھ میں قریش کو جا کر بھڑکایا اور ان کو مدینہ پر چڑھا لائے۔ اس تدبیر میںاگرچہ ان کو ناکامی ہوئی لیکن انتقام کے خیال سے وہ باز نہ آئے اور ا س کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ سنہ ۶ ھ میں قبیلہ بنی سعد نے ان کی اعانت پر آمادگی ظاہر کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو حضرت علیؓ کو بھیجا۔ بنو سعد بھاگ گئے اور پانچ سو اونٹ غنیمت میں ہاتھ آئے ۳؎ پھر قبیلہ غطفان کو آمادہ کیا۔ چنانچہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی طرف بڑھے تو سب سے پہلے اسی قبیلہ نے سدراہ ہونا چاہا۔ ان حالات کے لحاظ سے ضرور تھا کہ یہودیوں کا زور توڑ دیا جائے ورنہ مسلمان ان کے خطرے سے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔ غرض ۷ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو پید ل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے بڑے مضبوط قلعے بنا لیے تھے۔ مثلاً حصن ناعم ‘ حصن قموص‘ حصن صعب و طیح اور سلالم ۔ یہ سب قلعے جلد جلد فتح ہو گئے لیکن وطیح و سلالم جن پر عرب کا مشہور بہادر مرحب قابض تھا آسانی سے فتح نہیں ہو سکتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکرؓ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا لیکن وہ ناکام آئے پھر حضرت عمر ؓ مامور ہوئے وہ برابر دو دن تک جا کر لڑے لیکن دونوں ناکام رہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گاجو حملہ آور ہو گا۔ اگلے دن تمام اکابر صحابہ ؓ علم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امید میں بڑے سازوسامان کے ساتھ ہتھیار سج سج کر آئے ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے او ران کا خو دبیان ہے کہ میں نے کبھی اس موقع کے سوا علم برداری او ر افسری کی آرزو نہیں کی لیکن قضا و قدر نے یہ فخر حضرت علیؓ کے لیے اٹھا رکھا تھا چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی اور حضرت علیؓ کو بلا کر علم ان کو عنایت فرمایا مرحت حضرت علیؓ کے ہاتھ سے مارا گیا اور اس کے قتل پر اس معرکہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ خیبر کی زمین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجاہدوں کو تقسیم کر دی۔ چنانچہ ایک ٹکڑا جس کا نام ثمغ تھا حضرت عمرؓ کے حصے میں آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ ؤچنانچہ صحیح مسلم باب الوقف میں یہ قصہ بہ تفصیل مذکورہے اور اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو ۳۰ آدمیوں کے ساتھ قبیلہ ہوازن کے مقابلے کو بھیجا ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کی آمد کی خبر سنی تو بھاگ نکلے اور کوئی معرکہ پیش نہیں آیا۔ فتح مکہ ۸ ھ (۶۳۰ئ) میں مکہ فتح ہوا۔ اس کی ابتدا یوں ہئی کہ حدیبیہ می جو صلح قرار پائی تھی۔ اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں جو چاہے قریش کا ساتھ دے اور جو چاہے اسلام کے سایہ امن میں آئے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور خاندان بنوبکر نے قریش کا ساتھ دیا۔ ان دونوں قبیلوں میں مدت سے ان بن تھی اور بہت سے معرکے ہو چکے تھے ۔ لڑائی کا سلسلہ جاری تھا کہ حدیبیہ کی صلح و قوع میں آئی اور شرائط معاہدہ کی رو سے دونوں قبیلے لڑائی سے دست بردار ہو گئے لیکن چند ہی روز کے بعد بنوبکر نے نقض عہد کیا اور قریش نے ان کی اعانت کی یہاں تک کہ خزاعہ نے حرم میں جا کر پناہ لی۔ تب بھی ان کو پناہ نہ ملی۔ خزاعہ نے جا کررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کیا۔ ابوسفیان ؓ کو یہ خبر معلوم ہوئی تو پیش بندی کے لیے مدینہ منورہ پہنچا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کی طرف سے تجدید صلح کے لیے درخواست کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا۔ وہ اٹھ کر ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے پاس گیا کہ آپ معاملے کو طے کرا دیجیے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل ناامید ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کی تیاریاں شروع کیں اور رمضان ۸ ھ میں دس ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ مقام الطھران میں نزول اجلال ہوا تو حضرت عباسؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خچر پر سوار ہوکر مکہ کی طرف چلے۔ ادھر سے ابوسفیان آ رہا تھا۔ حضرت عباس ؓ نے کہا کہ آئو تجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امن دلا دوں ورنہ آج تیری خیر نہیں۔ ابوسفیان نے غنیمت سمجھا اور حضرت عباس ؓ کے ساتھ ہو لیا۔ راہ میں حضرت عمرؓ کا سامنا ہوا۔ ابوسفیان کو ساتھ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے خیال کیا کہ حضرت عباسؓ اس کی سفارش کے لیی جا رہے ہیں۔ بڑی تیزی سے بڑھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مدتوں کے بعد اس دشمن اسلام پر قابو ملا ہے ‘ اجازت دیجیے اس کی گرد ن مار دوںَ حضرت عباسؓ نے کہا کہ عمرؓ ابوسفیان اگر عبدمناف کے خاندان سے نہ ہوتا اور تمہارے قبیلہ کا آدمی ہوتا تو تم اس طرح کی جان کے خواہاں نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میرا باپ خطاب اسلام لتا تو مجھ کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس وقت ہوئی تھی۔ جب آپ اسلام لائے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس ؓ کی سفارش قبول کی اور ابوسفیان کو امن دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے جاہ و جلال سے مکہ میں داخل ہوئے اوردر کعبہ پر کھڑے ہوکر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا جو بعینہ تارٰکوں میں منقول ہے ۔ پھر حضرت عمرؓ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہائے۔ لوگ جو ق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب لیکن کسی قدر نیچے بٹھے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیگانہ عور ت کے ہاتھ کو مس نہیںکرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمایا کہ تم ان سے بیعت لو۔ چنانچہ تمہیں عورتوں نے انہیں کے ہاتھ پر رسول اکرمؓ سے بیعت کی۔ غزوہ حنین اسی سا ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو غزوہ حنین ۱؎ کے نام سے مشہورہے ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔ یہ لوگ ابتدا سے اسلام کی ترقی کی رقابت کونگاہ سے دیکھتے آئے تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فتح مکہ کے ارادہ سے مدینہ منورہ سے نکلے تو ان لوگوں کو گمان ہوا کہ ہم پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اسی وقت جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں وارجب یہ معلوم ہواکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ پہنچے تو مکہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑے سروسامان سے روانہ ہو کر حنین میں ڈیرے ڈالے۔ ۲؎ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر سنی تو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔ ؤحنین میں دونوں فوجیں صف آراء ہو گئیںَ مسلمانوں نے پہیل حملے میں حوازن کو بھگا دیا۔ ۳؎ لیکن جب غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوئے تو ہوازن نے حملہ کیا اور اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہل چل پڑ گء اور بارہ ہزار آدمیوںمیں سے معدودے چند کے سوا باقی تمام بھاگ نکلے۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ؓ ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے اوران میں حضرت عمرؓ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے محمد بن اسحاق نے جو امام بخاری کے شیوخ حدیث میں داخل ہٰں اور مغازی و سیر کے امام مانے جاتے ہیں کتاب المغازی میں لکھا ہے۔ وباپیغامبر چندتن از مھاجرین و انصار و اہل بیت باز ماندہ بودند مثل ابوبکر و علی و عمر و عباس ؎۴ لڑائی کی صورت بگڑ کر پھر بن گئی اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور ہوازن کے ۶ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔ ۱؎ حنین عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نامہے جو مکہ مکرمہ سے نو دس میل ہے۔ ۲؎ تاریخ طبری ۳؎ صحیح مسلم غزوہ حنین ۴؎ ابن اسحاق کی اصل کتاب میں نے نہیں دیکھی لیکن اس کا ایک نہایت قدیم ترجمہ زبان فارسی میں میری نظر سے گزرا ہے اور عبارت منقولہ اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ ترجمہ ۶۱۲ ہجری میں سعد بن زنگی کے حکم سے کیا گیا تھا اوراس کا ایک نہایت قدیم نسخہ الہ آباد کے کتب خانہ عام میںموجود ہے۔ ۹ ھ (۶۳۱ئ) میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر صحابہؓ کو تیاری کا حکم دیا اور چونکہ یہ نہایت تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا۔ اس لیے لوگوں کو زدومال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اکثر صحابہؓ نے بڑی بڑی رقمیں پیش یں۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر مال و اسباب میں سے آدھا لا کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۱؎ غرض اسلحہ اور رسد کا سامان مہیا ہ وگیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے لیکن مقام تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی اس لیے چند روز قیام فرما کر واپس آئے۔ اسی سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کران سے علیحدگی اختیار کی اور چونکہ لوگوں کو آپ کے طرز عمل سے یہ خیال پیدا ہوا تھ اکہ آپ نے تمام ازواج مطہرات کو طلا ق دے دی ہے اس لیے تمام کو نہایت رنج و افسوس تھا۔ تاہم کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حاضر خدمت ہونا چاہا لیکن بار بار اذن مانگنے پر بھی اجازت نہیںملی۔ آخر حضرت عمرؓ نے پکار کر دربان سے کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ گمان ہے کہ میں حفصہؓ (حضرت عمرؓ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کی سفارش کے لیے آیا ہوں۔ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیں تو میں جا کر حفصہ ؓ کی گردن مار دوں۔ ۲؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً بلا لیا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج کو طلاق دی؟ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیںَ حضرت عمر ؓ نے کہا تمام مسلمان مسجد میں سوگوار بیٹھے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اجزت دیں تو ان کو یہ مژدہ سنا آئوں۔ اس واقعہ سے حضرت عمرؓ کے تقرب کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے انہیں واقعات کے سلسلے میں ایک موقع پر کہا کہ عمرؓ تم ہر چیز میں دخیل ہوگئے یہو یہاں تک کہ اب ازواج کے معاملات میں بھی دخل دینا چاہتے ہو۔ ۱۰ھ (۶۳۲ئ) میںتمام اطراف سے نہایت کثرت سے سفارشیں آئیں اور ہزاروں لاکھوں آدی اسلام کے حلقے میں آئے۔ اسی سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیااور حج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری حج تھا۔ ۱۱ ھ (۶۳۳ئ) ماہ صفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے کے لیے اسامہ بن زیدؓ کو مامور کیا اور تمام اکابر صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائیں۔ لوگ تیار ہو چکے تھے کہ اخیر صفر می رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو گئے ور یہ تجویز ملتوی رہ گئی۔ ۱؎ ترمذی اور ابودائود میں یہ واقعہ فضائل ابوبکر کے تحت میں منقول ہے لیکن غزوہ کی تعین نہیں ہے۔ ۲؎ صحیح مسلم باب الطلاق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بروایت مشہور ۱۳ دن بیمار رہے۔ بیہقی نے یہ سند صحیح دن کی تعداد بیا ن کی ہے۔ سلیمان تمیمی نے بھی اپنی مغازی میں یہی تعداد لکھی ہے۔ ۱؎ بیماری کی حالت یکساں نہ تھی۔ کبھی بخار کی شدت ہو جاتی او رکبھ اس قدر افاقہ ہو جاتا تھا کہ مسجد میں جا کر نماز ادا فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عین وفات کے دن نماز فجر کے وقت طبعیت اس قدر بحال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے تک آئے اور پردہ اٹھا کر لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو نہایت محظوظ ہوئے اور تبسم فرمایا۔ قرطاس کا واقعہ بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا اور فرمایا کہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودرد کی شدت ہے اور ہمارے لیے قرآن کافی ہے۔ حاضرین میں سے بعضوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہکی باتیں کر رہے ہیں(نعو ذ باللہ) روایت میں ھجر کا للفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔ یہ واقعہ بظاہر تعجب انگیز ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ اس سے زیادہ اور کیا گستاخی اور سرکشی ہوگی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غم خواری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ لائو میں ایک ہدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے۔ یہ ظاہر ہے کہ گمراہی سے بچانے کے لیے جو ہدایت ہو گی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہو گی اوراس لیے اس میں سہو و خطا کا احتمال بھی نہیں ہو سکتا۔ باوجود ا س کے حضرت عمرؓ بے پروائی کا مظاہرہ کرتیہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو قرآن کافی ہے طرہ یہ ہے کہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمرؓ ہی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے۔ نعوذ باللہ۔ یہ اعتراض ایک مدت سے چلا آتا ہے اور مسلمانوں کے دو مختلف گروہ نے اس پر بڑی طبع آزمائیاں کی ہیں لیکن چونکہ اس بحث میں غیر متعلق باتیں چھڑ گئیں اور اصول درایت سے کسی نے کام نہیں لیا اس لیے اصل مسئلہ نامنفضل رہا اور عجیب عجیب بیکار بحثیںپیدا ہو گئیں یہاں تک کہ یہ مسئلہ چھیڑا گیا کہ پیغمبر سے ہذیان ہونا ممکن ہے کیونکہ ہذیان انسان عوارض میں ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عوارض انسانی سے بری نہ تھے۔ ۱؎ فتح الباری جلد ۸ ص ۹۸ یہاں دراصل یہ امر قابل غورہے کہ جو واقعہ جس طریقے سے روایتوں میں منقول ہے اس سے کسی امر پر استناد ہو سکتاہے یا نہیں ؟ ا س بحث کے لیے پہلے واقعات ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کم و بیش ۱۳ دن تک بیمار رہے۔ ۲۔ کاغذ و قلم طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیساکہ صحیح بخاری میں بتصریح مذکور ہے اور چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا اس لیے اس واقعہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار دن تک بیمار رہے۔ ۳۔ اس تمام مدت بیماری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اور کوئی واقعہ اختلال حواس کا کسی روایت میں مذکور نہیں ۔ ۴۔ اس واقعہ کے وقت کثرت سے صحابہؓ موجود تھے لیکن یہ حدیث باوجود اس کے کہ بہت سے طریقوں سے مروی ہے (چنانچہ صرف صحیح بخاری میںسات طریقوں سے مذکور ہے) دبایں ہمہ بجز عبداللہ بن عباسؓ کے اور کسی صحابی سے اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی منقول نہیں۔ ۵۔ عبداللہ بن عباسؓ کی عمر اس وقت صرف ۱۳۔۱۴ برس کی تھی۔ ۶۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جس وقت یہ واقعہ ہے اس موقع پر عبداللہ بن عباسؓ خود موجودنہ تھے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ انہوںنے کس سے سنا۔ ۱؎ ۷۔ تمام روایتوں میں مذکور ہ کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاغذ قلم مانگا تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہکی ہوئی باتیں کررہے ہیںَ ۲؎ ۱ ؎ بخاری باب کتابتہ العلم میں جو حدیث مذکورہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس واقعہ میں موجود تھے۔ اس لیے محدثین نے اس پر بحث کی ہے اور بہ دلائل قطعیہ ثابت کیا ہے کہ وہ موجود نہ تھے۔ دیکھو فتح الباری باب الکتابۃ العلم۔ ۲؎ علامہ قرطبی نے یہ تاویل پیش کی ہے اور اس پر ان کو نا زہے کہ لوگوں نے یہ لفظ انکار و استعجاب کے طورپر کہاتھا یعنی یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ اللہ نہ کرے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاقول ہذیان نہیںتو اس پر لحاظ نہ کیا جائے۔ یہ تاویل لگتی ہوئی ہے لیکن بخاری و مسلم کی بعض روایتوں میں ایسے صاف الفاظ موجود ہیں جن میں اس تاویل کا احتمال نہیں مثلا ہجرا ہجرا(دو دفعہ) یا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یھجر (صحیح مسلم) اب سب سے پہلے یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ جب اور کوئی واقعہ یا قریبنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختلا ل حواس کا کہیں کسی روایت میں مذکور نہیںتو صرف اس قدر کہنے کہ قلم دوات لائو۔ لوگوںکو ہذیان کا خیال کیونکر پید ا ہوسکتاتھا؟ فرض کر لو کہ ابنیاء سے ہذیان سرزد ہو سکتا ہے لیک اس کے یہ تو معنی نہیں کہ وہ معمولی بات بھی کہیں تو ہذیان سمجھی جائے۔ ایک پیغمبر کا وفات کے قریب یہ کہنا کہ قلم دوات لائو میں ایسی چیز لکھ دوں کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو۔ اس میں ہذیان کی کیا بات ہے ۱؎ یہ روایت اگر خواہ مخواہ صحیح سمجھی جائے تب بھی اس قدر بہرحال تسلیم کرنا ہو گا کہ راوی نے اس روایت میں وہ واقعت چھوڑ دیے ہی جن سے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہو ا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوش میںنہیں ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں قلم دوات طلب فرما رہے ہیں۔ پس ایسی روایت سے جس میں کہ راوی نے واقعہ کو نہایت خصوصیتیں چھوڑ کر کسی واقعہ پر کیونکر ستدلل ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ان مور کا لحاظ کیا جائے کہ اتنے بڑے عظیم الشان واقعہ میں تمام صحابہ ؓ میں سے صرف حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس کے راوی ہیں اوریہ کہ ان کی عمر اس وقت کل ۱۳۔۱۴ برس کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود واقعہ کے موجود نہ تھے تو ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ ا س روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کوتاہ نظر پر یہ امر گراں گزرے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث پر شبہ کیاجئئے لیکن اس کو سمجھنا چاہیے کہ بخاری اور مسلم کے کسی راوی کی نسبت یہ شبہ کرنا کہ وہ واقعہ کی پوری ہئیت محفوظ نہ رکھ سکا۔ اس سے کہیں زیادہ آسان ہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہذیان اور حضرت عمرؓ کی نسبت گستاخی کا الزام لگایا جائے۔ غرض رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کے بعدچار دن تک زندہ رہے اور اس اثناء میں وقتاً فوقتاً بہت سی ہدایتیں ور وصیتیں فرمائیں۔ عین وفات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت اس قدر سنبھل گئی تھی کہ لوگوں کو بالکل صحت کا گمان ہو گیا اور حضرت ابوبکرؓ اسی خیال میں اپنے مکان کوجو مدینہ منورہ سے دومیل پر تھا‘ واپس چلے گئے۔ ۲؎ لیکن حضرت عمرؓ وفات کے وقت تک موجود رہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ ہجری دو شنبہ کے دن دوپہر کے وقت حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں انتقال کیا۔ سہ شنبہ کو دوپہر ڈھلنے پر مدفون ہوئے۔ جماعت اسلا م کو آپ کی وفات سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ ۱؎ ہمار ے نکتہ سنجوں نے یہ مضمون آفرینی کی ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ کا یہ فرمان اکہ میں لکھ دوں ہذیان کا قرینہ تھا لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ لکھنے کے معنی لکھوانے کے بھی آتے ہیں اور یہ مجاز عموماً شائع اور ذائع ہے۔ ۲؎ طبری ص ۱۳‘۱۸ عا م روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ اس قدر خور رفت ہوئے کہ مسجد نبوی میں جا کر اعلان یا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو اس کو قتل کر ڈالوں گا لیکن اور قرائن اس روایت کی تصدیق نہیںکرتے ۔ہمارے نزدیک چونکہ مدینے میںکثرت سے منافقین کا گروہ موجو د تھا جو فتن پردازی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا منتظر تھا اس لیے حضرت عمرؓ نے مصلحتاً اس خبر کو پھیلنے سے روکا ہو گا۔ اسی واقعہ نے روایتوں کے تغیرات سے مختلف صورت اختیار کر لی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں اس قسم کی تصریحات موجود ہیں جو ہمارے اس قیاس کے مطابق نہیں ہو سکتیں۔ سقیفہ بنی ساعدہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت اور حضرت عمرؓ کا استخلاف یہ واقعہ بظاہر تعجب سے خالی نہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنقال فرمایا تو فوراً خلافت کی نزاع پیدا ہو گئی اور اس بات کا بھی انتظار نہ کیا گیا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیزوتکفین سے فراغت حاصل کر لی جائے۔ کس کے قیاس میں آ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرمائیں اور جن لوگوں کو ان سے عشق و محبت کا دعویٰ ہو وہ ان کو بے گوروکفن چھوڑ کر چلے جائیں اور اس بندوبست میںمصروف ہوں کہ مسند حکومت اوروں کے قبضے میں نہ آ جائے۔ تعجب پر تعجب ہے کہ یہ فعل ان لوگوں سے (حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ ) سرزد ہوا جو آسمان اسلام کے مہرو ماہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس فعل کی ناگواری ا سوقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فطری تعلق تھا حضرت علی ؓ بنی ہاشم اور ان پر فطرتی تعلق پورا اثر ہوا اور اس وجہ سے ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درد و غمم اور تجہیز و تکفین سے ان باتوں کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔ ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ کتب حدیث و سیر سے بظاہر اسی قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیںہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمرؓ و ابوبکرؓ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کو چلے گئے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوںنے سقیفہ میں پہنچ کرخالفت کے بار یں انصار سے معرکہ آرائی کی۔ اور اس طرح ا کوششوں میں مصروف رہے کہ گویا ان پر کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ یہ بھی سچہے کہ انہوںنے اپنی خلافت کو نہ صرف انصار بلکہ بنو ہاشم اور حضرت علیؓ سے بھی بزور منواناچاہا۔ گو بنو ہاشم نے آسانی سے ان کی خلافت تسلیم نہیں کی لیکن اس بحث میں غور طلب جو باتیں ہیں وہ یہ ہیں: ۱۔ کیا خلافت کا سوال حضرت عمر ؓ وغیرہ نے چھڑاتھا۔ ۲۔ کی یہ لوگ اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ میں گئے تھے۔ ۳۔ کیا حضرت علیؓ اور بنوہاشم خلافت کی فکر سے بالکل فارغ تھے۔ ۴۔ ایسی حالت میں جو کچھ حضرت عمرؓ وغیرہ نے کیا وہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ دو پہلی بحثوں کی نسبت ہم نہایت مستند کتاب مسند ابو یعلی ۱؎ کے عبارت نقل کرتے ہیں جس سے واقعہ کی کیفیت بخوبی سمجھ میں ا ٓ سکتی ہے۔ بینما نحن فی منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا رجل ینادی من وراء الجدار ن اخراج الی یا بن الخطاب فقلت الیک عنی فانا عنک مشاغیل یعنی بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال لہ قد حدت امر فان الانصار اجتمعوا فی سقیفہ بنی ساعدۃ فدرکوا ان یحدثوا امرا یکون فیہ حرب فقلت لا بی بکر انطلق ’’حضرت عمر کا بیان ہ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ دفعتہ دیوار کے پیچھ سے ایک آدمی نے آوا ز دی کہ ابن الخطاب! (حضرت عمرؓ) ذرا باہر آئو میں نے کہا چلو ہٹو ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بندوبست میں مشغول ہیںَ اس نے کہاایک حادثہ پش آیا ہے یعنی انصار سقیقہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہں اس لیے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو انصر کچھ ایسی بات کر اٹھی جس سے لڑائی چھڑ جائے اس وقت میں نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ چلو‘‘۔ اس سے ظاہر ہو گا کہ نہ حضرت عمرؓ وغیرہ نے خالفت کی بحث کو چھیڑا تھا اور نہ وہ خود اپنی خوشی سے سقیفہ بنی سی ساعیدہ کو جانا چاہتے تھے۔ تیسری بحث کی یہ کیفیت ہے کہ س وقت جماعت اسلامی کے تین گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی تھی۔ بنو ہاشم جس میں حضرت علیؓ شامل تھے مہاجرین جن کے رئیس و افسر حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ تھے انسار جن کے شیخ القبیلہ عبادہؓ تھے۔ ان تینوں میں سے ایک گروہ بھی خلافت کے خیال سے خالی نہ تھا۔ انصار نے تو علانیہ اپنا ارادہ اظہار کر دیاتھا۔ بنوہاشم کے خیالات ذیل کی روایت سے معلوم ہوں گے۔ ۱؎ دیکھو فتح الباری جلد ۷ ص ۲۳ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن حضرت علیؓ اپنے مکان سے باہر نکلے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج کیساہے؟ چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حالت بالکل سنبھل گئی تھی۔ حضرت علی ؓ نے کہا اللہ کے فضل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے ہو گئے۔ حضرت عباسؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ اللہ کی قسم تم تین دن کے بعد غلامی کرو گے۔ میں آنھکوں سے دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنقریب اس مرض میں وفات پائیں گے۔ کیونکہ مجھ کو اس کا تجربہ ہے کہ خاندان عبدالمطلب کا چہرہ موت کے قریب کس طرح متغیرہوجاتا ہے آئو چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آ پ کے بعد یہ منصب (خلافت) کس کو حاصل ہو گا۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے وصیت فرما دیں گے حضرت علیؓنے کہا میں نہ پوچھوں گا کیونکہ اگر پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار کر دیا تو پھر آئندہ کوئی امید نہ رہے گی ۔ ۱؎۔ اس روایت سے حضرت عباسؓ کا خیال تو صاف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا اس وقت یقین نہ تھا۔ اس لیے نہوں نے کوئی تحریک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے علاوہ ان کواپنے انتخاب کیے جانے پربھروسہ نہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ کے گھر میں ایک مجمع ہوا جس میں تمام بنو ہاشم اور ان کے اتباع شریک تھے۔ اور حضرت علیؓ ان کے پیشرو تھے صحیح بخار ی میں حضرت عمر ؓ کی زبانی روایت ہے۔ کان من خبرنا حین توفی اللہ نبیۃ ان الانصار خالفونا واجتمعوا باسرھم فی سقیفۃ بنی ساعدۃ وخالف عنا علی والزبیر ومن معھما واجتمع المھا جرون الی ابی بکر ؎۲ ’’ہماری سرگزشت یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنے پیغمبر کو اٹھا لیا تو انصار نے قاطبہ ہماری مخالفت کی اور سقیقہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی و زبیرؓ اور ان ے ساتھیوں نے مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکرؓ کے پاس جمع ہوئے‘‘۔ ۱؎ صحیح بخاری باب مرض البنی مع فتح الباری ۲؎ صحیح بخاری کتاب الحدود باب رجم الحبلی یہ تقریر حضرت عمر ؓ نے ایک بہت بڑے مجمع عام میں کی تھی جس میں سینکڑوں صحابہ ؓ موجودتھے اس لیے اس بات کا گمان نہیں ہو سکتا کہ انہوںنے کوئی امر خلاف واقع کہا ہو ورنہ لوگ ان کو وہیں ٹوکتے۔ امام مالک ؒ کی روایت میں یہ واقع اور صاف ہو گیا ہے اس کے یہ الفاظ ہیں۔ وان علیا والزبیر ومن کان معھما تخلفوا فی بیت فاطمۃ بنت رسول اللہ؎۱ ’’اور علی و زبیر ؓ اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کے گھر میں ہم سے الگ ہو کر جمع ہوئے‘‘۔ تاریخ طبری میں ہے: وتخلف علی والزبیر واخترط الزبیر سیفہ وقال لا اغمدہ حتی بیایع علی؎۲ ’’اور حضرت علیؓ و حضرت زبیرؓ نے علیحدگی اختیار کی اور زبیرؓ نے تلوار میان سے کھینچ لی اور کہا کہ جب تک علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے میں تلوار کو میان میں نہ ڈالوں گا‘‘۔ ان تمام روایتوں سے صاف یہ نتائج نکلتے ہیں کہ: ۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی خلافت کے باب میں تین گروہ ہو گئے۔ انصار‘ مہاجرین اور بنو ہاشم۔ ۲۔ مہاجرین حضرت ابوبکر ؓ اور بنو ہاشم حضرت علیؓ کے ساتھ تھے۔ ۳۔ جس طرح حضرت عمرؓ وغیرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر سقیفہ کو چلے گئے تھے ‘ حضرت علیؓ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے تھے اور حضرت فاطمہؓ کے گھر میں بنو ہاشم کامجمع ہوا۔ سقیفہ میں حضرت علیؓ کا نہ جانا‘ اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غم والم میں مصروف تھے اور ان کو ایسے پردرد موقع پر خلافت کا خیال نہیں آ سکا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سقیفہ میں مہاجرین اور انصار جمع تھے اور ان دونوں گروہ میں سے کوئی حضرت علیؓ کے دعوے کی تائید نہ کر تا کیونکہ مہاجرین حضرت ابوبکرؓ کو پیشوا تسلیم کرتے تھے اور انصار کے رئیس سعد بن عباد ؓ تھے۔ ۱؎ فتح الباری : شرح حدیث مذکور ۲؎ تاریخ طبری: ص ۱۸۲۰ اخیر بحث یہ ہے کہ جو کچھ ہواوہ بے جا تھا یا بجا؟ اس کو ہر شخص جوذرا بھی اصول تمدن سے واقفیت ہو بآسانی سمجھ سکتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت وفات فرمائی مدینہ منورہ منافقو ں سے بھرا پڑا تھا‘ جو مدت سے اس بات کے منتظر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کوپامال کردیں۔ اس نازک وقت میں آیا یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع و فزع اور گریہ و زاری میںمصروف رہیں یا یہ کہ فوراً خلافت کاانتظام کر لیاجائے اور ایک منظم حالت قائم ہو جائے۔ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ناجنسوں سے نہیں لڑتے کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے۔ قریش پر کیا موقوف ہے تمام عرب کوانصار کی متابعت سے انکار نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے سقیفہ میں جو خطبہ دیا اس میںصاف اس خیال کو ظاہر کیا اور ان سے کہا: وان العرب لا تعرف ھذا الامر الا لھذا لحی من قریش اس کے علاوہ انصار میں خو د دو گروہ تھے۔ اوس اور خزرج اوران میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضرور تھا کہ انصار کے دعویٰ خلافت کو دبا دیا جائے اور کوئی لائق شخص فوراً منتخب کر دیا جائے۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے‘ ان میں سب سے بااثر اور بزرگ اورمعمر حضرت ابوبکرؓ تھے اور فوراً ان کا انتخاب بھی ہو جاتا لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے۔ اور بحث طول پکڑ کر قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتہ حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حضرت عثمانؓ ابوعبیدہ بن جراح‘ عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی ہاتھ بڑھائے ۱؎ اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی اس کارروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا اور لوگ مطمئن ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادعا پر رکے رہے اور حضرت فاطمہؓ کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے۔ حضر ت عمرؓ نے بزور ان سے بیعت لینا چاہی لیکن بنو ہاشم حضرت علیؓ کے سوا اور کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور علامہ طبری نے تاریخ کبیر میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت فاطمہؓ کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا کہ یا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم آپ ہم سب کو سب سے زیادہ محبوب ہیں تاہم اگر آپ کے ہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آ گ لگا دوں گا۔ اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس روایت میں رواۃ کے حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا‘ تاہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کی تندی او ر تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ ۱؎ ابن الماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ اول صرف پانچ شخصوں نے بیعت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمرؓ نے نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کارروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنوہاشم کی سازشیں اگرقائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہوتیں جو آگے چل کر جناب امیر المومنین حضرت علی ؓ اور امیر معاویہؓمیں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کی مدت سوا دوبرس ہے۔ کیونکہ انہوںنے جمادی الثانی ۱۳ ھ میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام دیے‘ حضرت عمرؓ ہی کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم ’’الفاروق‘‘ میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیںاور اس شخص کاحصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکرؓ کی سوانح عمری لکھنے کا شر ف حاصل ہو۔ حضرت ابوبکرؓ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارگرا ں حضرت عمرؓ کے سوااور کسی سے نہیں اٹھ سکتا۔ تاہم وفات کے قریب قریب انہوںنے عام رائے کا اندازہ کرنے کے لیے اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبدالرحمن بن عوفؓ کو بلا کر پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ عمرؓ کی قابلیت میںکیا کلام ہے لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خو د بخود نرم ہوجائیں گے۔ پھر حضرت علی ؓ عثمانؓ کو بلا کر پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمرؓ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا جواب نہیں۔ جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمرؓ کو خلیفہ کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمرؓ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتائو تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تونہ جانے کیا کریں گے۔ آپ اب اللہ کے ہا ں جاتے ہیں یہ سوچ لیجیے کہ اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ میں اللہ سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو مقرر کیا ہے جو تیرے بندوں میںسب سے زیادہ اچھا تھا۔ یہ کہہ کر حضرت عثمانؓکوبلایا اور عہد نامہ خلافت لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمانؓ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیے۔ کہ میں عمرؓ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمانؓ سے کہا کہ کیا لکھا مجھ کو سنائو۔ حضرت عثمانؓ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا کہ اللہ تم کو جزائے خیر دے۔ عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنے غلام کو دیا کہ جا کر مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانہ پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہو ئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیںکیا بلکہ عمرؓ کو مقرر کیا ۔ تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا پھر حضرت عمرؓ کو بلا کر نہایت موثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمرؓ کے لیے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔ خلافت اور فتوحات حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتد ین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کاآغاز ہوچکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی سنہ ۱۲ ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرۃ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ ۶۳۴ء ۱۳ھ میں شام پر حملہ ہو ا اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں۔ یہ بتانا ضرور ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔ عرب کانہایت قدیم خاندان جوعرب بائدہ کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ تاہم اس قدر مشہور ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جویمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانے میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے اورسلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔ رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونا شرو ع ہوئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا اور بیت المقدس کی بربادی نے اس کے نام کو شہرت دے دی ہے جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور ا س تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقدمات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیادپڑ گئی اور چونکہ اس زمانہ میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی۔ عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جذیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عد ی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا اس نے حیرۃ کو دارالسلطنت قرار دیا اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس دور میں اس قدر تمدن پیداہو گیاتھا کہ ہشام کلبی کا بیان ہے ۱؎ کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالا ت اور فارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کیے جو حیرۃ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں۔ اسی زمانے میں اردشیر بن بابک نے طوائف الملوکی مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمر و بن عدی کو باجگزار بنا لیا۔ عمرو بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا لیکن درحقیقت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔ ۱؎ ہشام کلبی نے یہ تصریح کتاب التیجان میں کی ہے۔ شاہ پور بن اردشیر جوسلسلہ ساسانیہ کا دوسرا فرمانروا تھا اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں باجگزار ہو گئے اورامراء القیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہو کر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا اس لیے جب کبھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپاہو جاتی تھی۔ چنانچہ سابورذی الاکتاف جب صغر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبدالقیس نے خو د فارس پر حملہ کر دیا اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لیے۔ شاہ پور بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبدالقیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ رئوسائے عر ب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے‘ ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہ عرب میں ذوالاکتاف کے لقب سے مشہور ہوا۔ سلاطین حیرۃ سے نعمان بن منذر نے جو کسریٰ پرویز کے زمانے میں تھا‘ عیسوی مذہب قبول کر لیا اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویزنے اس کو قید کر لیا اورقید ہی میں اس نے وفات پائی۔ نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پا س امانت رکھوا دیے تھے جو قبلہ بکر کا سردار تھا۔ پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں اورجب اس نے انکار کر دیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لائے۔ بکر کے تمام قبیلے ذی قار ایک مقام پر بڑے ساز وسامان کے ساتھ جمع ہوئے اور سخت معرکہ ہوا۔ فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف رکھتے تھے اورآپ نے فرمایا کہ: ھذا اول یوم انتصفت العرب من العجم ’’یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا‘‘۔ عرب کے تمام شعراء نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ ۶ ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو دعو ت اسلام کے خطوط لکھے تو باوجو د اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے ۔ اس پر بھی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کر کے دربار میں لائے۔ اتفاق سے اسی زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹے نے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔ رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا کہ عرب کے چند قبیلے سلبح و غسان و جذام وغیرہ کے سرحدی اضلاع میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کر کے شام کے بادشاہ کہلانے گے تھے لیکن یہ لقب خود ان کا خانہ ساز لقب تھا ورنہ جیسا کہ مورخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے کہ درحقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔ ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت پیداہو گئی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے۔ ۶ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا اور دحیہ کلبی(جو خط لے کر گئے تھے) واپس آتے ہوئے ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے دحیہ پر حملہ کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حارث بن عمیرؓ کو خط دے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمر بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۸ھ میں لشکرکشی کی اورغزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارثہؓ ، حضرت جعفر طیارؓ، عبداللہ بن رواحہؓ جو بڑے رتبہ کے صحابہ تھے شہید ہوئے اور گو خالدؓ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ درحقیقت شکست کھا تھا۔ ۹ھ میں رومیوں نے خاص مدینے پر حملے کی تیاریاں کیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کاحوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اس وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پرچڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج مطہرات ؓ کو طلاق دے دی ہے تو ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے جا کر کچھ کہا تم نے سنا! حضرت عمرؓ نے فرمایا کیوں کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔ اسی حفظ ماتقدم کے لیے سنہ ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ بن زیدؓ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا اورچونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ اور بڑے بڑے نامور صحابہؓ مامور ہوئے کہ فو ج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ ؓ بھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیمار پڑ کر انتقال فرمایا۔ غرض جب ابوبکرؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے مدافع عن الدین ہو گا یعنی دین کواس کے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے جو کا م شروع کیا اور حضرت عمرؓ نے جس کی تکمیل کی‘ اس کے کیا اسباب تھے؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شرع کرتے ہیں۔ فتوحات ۱؎ عراق ۲؎ فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے‘ نوشیروان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسی کاپوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی تھی۔ لیکن ا س کے مرنے کے ساتھ ہی دفعتہ ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر ۷ برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے افسر نے اس کوقتل کر دیا اورآپ بادشاہ بن کر بیٹھ گیا۔ یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کوقتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا اوروہ ایک برس کے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تاج و تخت کا مالک ہو گا۳؎۔ ۱؎ جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کیے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے اس کو عرا ق عرب اورجو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں عرا ق کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں جزیرہ‘ جنوب میں بحر فارس‘ مشرق میں خورستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔ ۲؎ ہمارے مورخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتاہے مثلاً وہ ایران کی فتوحات لکھتے آئے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو سنہ کے تمام واقعات لکھنے میں اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے‘ شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے اس لیے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے۔ ۳؎ شیرویہ کے بعد سلسلہ حکومت کی ترتیب اورناموں کی تعیین میں مورخین اس قدر مختلف ہیں کہ دو مورخ بھی باہم متفق نہیں ۔ فردوسی کا بیان سب سے الگ ہے۔ میں نے بلحاظ قدیم العہد اور فارسی النسل ہونے کے ابوحنیفہ ینوری کے بیان کو ترجیح دی ہے۔ پرویز کے بعدجو انقلابات حکومت ہوتے رہے‘ اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی۔ چنانچہ پوران کے زمانے میں یہ مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تخت و تاج نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کی شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں مثنی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد حیرۃ وابلہ کی طرف غارت گری شروع کی ۱؎۔ یہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد سیف اللہؓ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ مثنیؓ نے حضر ت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی مثنیؓ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بت پرست تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں واپس آ کر انہوںنے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ ۲؎ ان نومسلموں کا ایک بڑا گروہ لے کر عراق کا رخ کیا ۔ ادھر حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ کو مدد کے لیے بھیجا۔ خالدؓ نے عراق کے تمام سرحدی مقامات فتح کر لیے اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے اور چونکہ یہاںنعمان بن منذر نے خورنق ایک مشہور محل بنا یا تھا۔ وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔ عراق کی یہ فتوحات خالدؓ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ خالدؓ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شو ر سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھیں اس کے مقابلہ میں وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ربیع الثانی سنہ ۱۳ ہجری سنہ ۶۳۴ ۳؎ میںخالدؓ کوحکم بھیجا کہ فورا ً شام کو روانہ ہوں اور مثنیٰ کو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ خالدؓ ادھر روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہ رک گئیں۔ حضرت عمرؓ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پرتوجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بے شمار آدمی آئے تھے اور تین دن تک ان کا تانتا بندھ رہاتھا۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا او ر مجمع عام میں جہاد کا وعظ کیا لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے اور وہ خالد ؓ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سب خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ نے کئی دن تک وعظ کیا لیکن کچھ اثرنہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل دہل گئے۔ مثنی شیبانی نے اٹھ کر کہا مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیںہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں‘‘۔ ۱؎ الاخبار الطول ابو حنیفہ دنیوری۔ ۲ ؎ فتح البلدان بلاذری صفحہ ۲۴۱۔ ۳؎ بلاذری صفحہ ۲۵۰ حاضرین میں سے ابوعبید ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہورسردار تھے‘ وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا لھذا یعنی اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔ ابو عبید کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ اور مضافات ۱؎ سے ہزار آدمی انتخاب کیے اور ابوعبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔ ابوعبید ہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاص نہ تھا یعنی صحابہ نہ تھے۔ اس وجہ سے اس کی افسری پر کسی کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ عمرؓ صحابہ ؓ میں سے کسی کو ی منصب دو۔ فوج میں سینکڑوںصحابہ ؓ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابیؓ ہی ہو سکتاہے۔ ھضرت عمرؓ نے صحابہؓ کی طرف دیکھا اور کہا تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقال کی وجہ سے تھا لیکن ا س شرف کو تم نے خود کھا دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لوگ لڑنے سے جی چرائیں وہ افسر مقرر کے جائیںَ تاہم چونکہ صحابہؓ کی دلجوئی ضروری تھی ابوعبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کا ادب ملحوظ رکھنا ار ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا ا س نے ایرانیوں کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر کا خراسان کا بیٹا تھا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا‘ دربار میں طلب کیا اور وزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ و سپید کا مالک ہے یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا اور درباریوں کو ج میں تمام امراء اور اعیان سلطنت شامل تھے‘ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہیںکریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نااتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے نہوںنے دل سے ان احکام کی اطاعت کی ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کرلی جو ہر مز اور پرویز کے زمانے میں ا س کو حاصل تھی۔ رستم نے پہلی تدبیر یہ کی کہ ضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑا دیے جنہوںنے مذہب حمیت کاجوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کے تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوںکے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پورا ن دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج تیار کی اور نرسی و جاپانی کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاپان عراق کا مشہور رئیس تھا اور عرب سے س کو خاص عداوت تھی ۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا اور عراق کے بعض اضلاع قدیم سے اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عرا ق کی طرف بڑھے۔ ادھر ابوعبید و مثنیٰ حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاپان نمارق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔ ۱؎ بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دنیوری نے ۵ ہزار تعداد لکھی ہے۔ ابو عبید نے اس اثنا میں فوج کو سروسامان سے آراستہ کر لیا اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمارق پر دونوں فوجیں صف آراء ہوئیں۔ جاپان کے میمنہ و میسرہ پر جوش شاہ اورمردان شاہ دو مشہور اسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اورعین معرکہ میں گرفتا ر ہوئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔لیکن جاپان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا تھا۔ جاپان نے اس سے کہا کہ میں اس بڑھاپے میں تمہارے کس کام کا ہوں مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد کو لوگوں نے جاپان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیںچاہتے لیکن ابو عبید نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔ ابو عبید نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا جہاں نرسی فوج لیے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقابل ہوئیںَ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور خو د کسریٰ کے دو مامو ں زاد بھائی بندویہ اور ترویہ میمنہ اورمیسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی بندویہ اور تیرویہ میمہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑاء یمیں دیر کر رہاتھا کہ پای تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیںَ ابوعبید کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوںنے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکہ کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابوعبیدہ نے خود سقاطیہ میں مقام کیا اور تھوڑی تھوڑی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔ فرخ اور فراوانداد جو بار وسما اور زوابی کے رئیس تھے مطیع ہو گئے۔ چنانچہ اظہار خلوص کے لیے ایک دن ابوعبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابوعبید نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لیے ہے یا صرف میرے لیے۔ فرخ نے کہا اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیںہو سکتا تھا۔ ابوعبید نے دعوت کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مسلمانوں میں اییک کو دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں ہے۔ اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا اور جس کو نوشیروان نے تقدس کے لحاظ سے بہمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ ا س سامان کے ساتھ روانہ کیا کہ درفش کا دیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا اور فتح و ظفر کا دیباچہ سمجھاجاتا تھا اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا ‘ دونوں حریف صف آراء ہوئے چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا بہمن نے کہلا بھیجا کہ ہم کو اسی طرف رہنا چاہیے لیکن ابو عبید جوشجاعت کے نشے میں سرشار تھے سمجھے کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں سے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا اس نے کہا ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ عرب مرد میدا ن نہیں ہیںَ اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا اور ابوعبید نے اسی وقت فوج کو کمربندی کر کے حکم دیا مثنیٰؓ اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسر ان فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابوعبید سے بڑھ کر تھا۔ جب ابوعبید نے اصرار کیا تو ان لوگوں ںے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقینہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو گی تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا اس لیے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔ ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنٹے لٹکے تھے اور بڑے زو ر سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوںپر آہنی پاکھریںتھیںَ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھ۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے ابوعبید نے دیکھا کہ ہاتھوں کے سامنے کچھ زور نہیںچلتا تو گھوڑے سے کودپڑے اور ساتھیو کو للکارا کہ جانبازو ہاتھیوں کو بیچ میں لے لے اور ہودوں کو سواروں سمیٹ الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ سب گھوڑوں سے کود پڑے اورہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا لیک ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابوعبید یہ دیکھ کر کہ پیل سفید پر جو سب ک سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مشک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پائوں رکھ دیے ہڈیاں چور چورہو گئیں۔ ابوعبید کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اسنے ابوعبید کی طرح ا س کو بھی پئوں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آڈمیوں نے جو سب کے سب ابوعبید کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے باری باری ہاتھ میں لیے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنیٰؓ نے علم لیا لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکاتھا اور فوج میں بھاگڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہواکہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دے کہ کوئی شخص بھاگ کر نہ جانے پائے لیکن لوگ اس طرھ بدحواس ہو کر بھاگے تھے کہ پل کی طرف سے راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنیٰؓ نے دوبارہ پل بندھوایا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوںکو اطمینان سے پار اتار دے خو د بچی کھچی فوج کے ساتھ دشمن کا آگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوںکو دباتے دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہ حساب کیا تو معلو م ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزا ر رہ گئی ۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار کرنا بہت شاذ اور نادر وقوع میں آیا ہے او ر اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو ااس کاعجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی تھی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے اورشرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے تھے اور لوگوںسے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس کرتے تھے اور روتے تھے۔ جو لوگ مدینہ منورہ میں پہنچ کر گھروں میںروپوش ہو گئے تھے اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس جا کر ان کو تسلی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم او متحیزا الی فئۃ (۸؍الانفال: ۱۶) میں داخل ہو لیکن ااس کو اس تاوی سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔ یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان سنہ ۱۳ ہجری میں واقع ہوا۔ ا س لڑائی میں نامور صحابہؓ میں سے لوگ شہد ہوئے۔ وہ سلیط‘ ابوزد انصٓری عقبہ و عبداللہ پسران قبطی بن قیس‘ زید بن قیس الانصاری‘ ابو امیتہ الفرازی ؓ وغیرہ تھے۔ واقعہ بویب رمضان ۱۴ ھ (۶۳۵ئ) اس شکست نے حضرت عمرؓ کو سخت برہم کیا اور نہایت زور و شورسے حملہ کی تیاریاں کیں۔ تمام عرب میں خطبا اور نقیب بھیج دیے جنہوںنے پر جوش تقریروں سے تمام عرب میں ایک آگ لگا دی اور ہر طرف سے عرب کے قبائل امنڈ آئے۔ قبیلہ اذد کا سردار مخنف بن سلیم سات سو سواروں کو ساتھ لے کر آیا۔ بنو تمیم کے ہزار آدمی حصین بن معبد کے ساتھ آئے۔ حاتم طاء کے بیٹے عدی ایک جمعیت کثیر لے کر پہنچے ۔ اسی طرح قبیلہ رباب بنو کنانہ قثعم بنو حنظلہ بنو ضبہ کے بڑے بڑے جتھے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ آئے۔ یہ جوش یہاں تک پھیلا کہ نمرو تغلب کے سرداروںنے جو مذہباً عیسائی تھے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں ان دونوں سرداروں کے ساتھ ان کے قبیلے کے ہزاروں آدمی تھے اور عجم کے مقابلہ کے جوش میں لبریز تھے۔ اتفا ق سے انہی دنوں جریر بجلی ؓ دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ یہ یک مشہور سردار تھا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ پنے قبیلے کا سردار مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ درخواست منظور کر لی تھی لیکن تعمیل کی نوبت نہیں آئی تھی۔ حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا تو انہوںنے عرب کے تمام عمال کے نا م احکام بھیج دیے کہ جہاں جہاں اس کے قبیلے کے آدمی ہوں تاریخ معین پر اس کے پاس پہنچ جائیں جریر ؓ یہ جمعیت اعظم لے کر دوبارہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے۔ ادھر مثنیٰؓ نے عراق کے تما م سرحدی مقامات میں نقبا بھیج کا ایک بڑی فوج جمع کر لی تھی۔ ایرانی جاسوسوں نے یہ خبری شاہی دربار میں پہنچائیں ۔ پوران دخت نے حکم دیا کہ فوج خاصہ سے بارہ ہزار سوار انتخاب کیے جئایں اور مہران بن مہرویہ ہمدانی افسر مقرر کیا جائے۔ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ہاس نے خود عرب میں تربیت پائی تھی۔ اور اس وجہ سے وہ عرب کے زور و قوت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ کوفہ کے قریب بویب نام ایک مقام تھا اسلامی فوجوں نے یہاںپہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ مہران پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریائے فرات کو بیچ میں ڈا ل کر خیمہ زن ہوا صبح ہوئے فرات سے اتر کر بڑے سروسامان سے لشکر آرائی شروع کی ۔ مثنیٰ ؓ نے بھی نہایت ترتیب سے صف درست کی۔ فوج کے مختلف حصے کر کے بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیے۔ چنانچہ میمنہ پر مزعور‘ میسرہ پر نسیر‘ پیدل پر مسعود‘ و لسیر پر عاصم‘ گشت ک فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثنیٰ ؓ نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا اور ایک ایک علم کے پاس کھڑے ہو کر کہا بہادرو دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آ جائے۔ اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردارتین مرتبہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثنیٰؓ نے دوسری تکبیر ابھی نہیںکہی تھی کہ ایرانیوںنے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کر سکے اور کچھ لوگ جوش میں آ کر صف سے نکل گئے۔ مثنیٰؓ نے غصے میں آ کر داڑھی دانتوں میں دبا لی ارو پکارے کہ اللہ کے لیے اسلا م کو رسوا نہ کرو اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آ کرجم گیا۔ چوتھی تکبیر کہہ کر مثنیٰؓ نے حملہ کیا۔ عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ میدان جنگ گونج اٹھا۔ مثنیٰؓ نے فوج کو للکاراکہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے۔ عیساء سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگرچہ عیسائی ہو لیک ہم قوم ہو اورآج قوم کامعاملہ ہے میں مہران پر حملہ کرتا ہوں تم ساتھ رہنا۔ انہوںنے لبیک کہا۔ مثنیٰ ؓ نے ان سرداروں کو دونوں بازوئوں پر لے کردھاوا بول دیا۔ پہلے ہی حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مثنیٰؓ نے للکارا کہ مسلمانو! کہاں جاتے ہو؟ میں یہ کھڑا ہوں۔ اس آوازکے ساتھ سب پلٹ آئے ۱؎۔ مثنیٰؓ نے ان کو سمیٹ کر پھر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثنیٰؓ کے بھائی تھے اورمشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔ ۱؎ الاخبار الطوال لا بی حنیفہ الدنیوری ان کی رکاب کی فوج بے دل ہو ا چاہتی تھی۔ مثنیٰؓ نے للکارا کہ مسلمانوں میرا بھائی مرا گیا تو کچھ پرواہ نہیں شرفا یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔ خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا۔ دیر تک بڑی گھمسان لڑائی رہی۔ انس بن ہال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا‘ زخم کھاکر گرا۔ مثنیٰؓ نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گودمیںلیا اور اپنے بھائی مسعود کے ساتھ لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف سے بڑے بڑے افسر مارے گئے۔ لیکن مثنیؓ کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ سی طرف بھاری رہا ۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا مگر کل کا کل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔ تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا اور بڑی بہادری سے تیغ بکف لڑ رہا تھا کہ قبیلہ تغلب کے ایک نوجوان نے تلوار سے ا س کا کام تمام کر دیا۔ مہران گھوڑے سے گر ا تو نوجوان اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھا اور فخر کے لہجہ میں پکارا۔ میں ہوں تغلب کا نوجوان اور رئیس عجم کا قاتل۔ ۱؎ مہران کے قتل پر لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ عجم نہایت ابتری سے بھاگے۔ مثنیٰؓ نے فوراًپل کے پاس پہنچ کررستہ روک لیا اور عجم بھاگ کر نہ جانے پائیںَ مورخین کا بیان ہے کہ کسی لڑائی میں اس قدر بے شمار لاشیں اپنی یادگار نہیں چھوڑیں۔ چنانچہ مدتوں کے بعد جب مسافروں کا ادھر سے گزر ہوا تو انہوںنے جابجا ہڈیوں کے انبار پائے۔ اس فتح کا ایک خاص اثریہ ہوا کہ عربوں پر عجم کا جو رعب چھایا ہواتھا جاتا رہا۔ ان کو یقین ہو گیا کہ اب سلطنت کسریٰ کے اخیر دن ہو گئے ہیں۔ خود مثنیٰؓ کا بیان ہے کہ اسلام سے پہلے میں بارہا عجم سے لڑ چکا ہوں اس وقت سوعجمی ہزار عرب پر بھاری تھے۔ لیکن آج ایک عرب دس عجمی پر بھاری ہے۔ اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل گئے۔ جہاں اب بغداد آباد ہے ا س زمانے میں وہاں بہت بڑا بازار لگتاتھا۔ مثنیٰؓ نے عین بازار کے دن حملہ کیا۔ بازاری جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور بے شمار نقد اور اسباب ہاتھ آیا۔ پایہ تخت میں یہ خبریں پہنچیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ زنانہ حکومت اور آپس کا اختلاف کا یہی نتیجہ تھا۔اسی وقت پوران دخت کو تخت سے اتار کر یزدگرد کو جو سوالہ برس کاجوان تھا ۲؎ اور خاندان کسریٰ کا وہی ایک نرینہ یادگار رہ گیا تھا تخت نشین کیا۔ ۱؎ طبری بروایت سیف ۲؎ یہ ابوحنیفہ دنیوری کی روایت ہے طبری نے ۲۱ برس کی عمر بیان کی ہے۔ (یہ ابوحنیفہ دنیوری کی روایت ہے طبعری نے ۲۱ برس کی عمر بیان کی ہے) رستم اور فیروز جو سلطنت کے دست و بازو تھے اور آپس میں عناد رکھتے تھے‘ درباریوں نے ان سے کہا کہ اب بھی اگر تم دونوں متفق ہو کر کام نہیں کرتے تو ہم خود تمہارا فیصلہ کیے دیتے ہیں۔ غرض یزدگرد کی تخت نشینی کے ساتھ سلطنت میں نئے سرے سے جان آ گئی۔ ملکی اور فوجی افسر جہاں جہاں جس کام پر تھے مستعد ہو گئے ۔ تمام قلعے اور فوجی چھائونیاں مستحکم کر دی گئیںَ عراق کی آبادیاں جو فتح ہو چکی تھیں عجم کا سہارا پا کر وہاں بھی بغاوت پھیل گئی او ر تمام مفتوحہ مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ حضرت عمرؓ کو یہ خبریںپہنچیں تو فوراً مثنیٰؓ کو حکم بھیجا کہ فوجوںکو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آئو اور ربیعہ و مضر کے قبائل کو جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ معین پر جمع ہوجائیں۔ اس کے ساتھ خود بڑے ساز و سامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طر ف نقیب دوڑائے کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی بہادر‘ رئیس صاحب تدبیر شاعر خطیب اہل الرائے ہو فوراً دربار خلافت میں آئے چونکہ حج کا زمانہ آ چکاتھا خود مکہ مکرمہ کو روانہ ہوئے اور حج سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہر طر ف سے قبائل کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن وقاصؓ نے تین ہزار آدمی بھجے جن میں سے ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا۔ حضرموت ‘ صدف‘ مزحج‘ قیس‘ عیلان‘ کے بڑے بڑے سرداروں کی جمعیت لے کر آئے۔ مشہور قبائل میں سے یم کے ہزار بنوتمیم کو رباب کے چار ہزار بنو اسد کے تین ہزار آدمی تھے۔ حضرت عمرؓ حج کر کے واپس آئے توجہاں تک نگاہ جاتی تھی آدمیوں کا ایک جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ سالار بن کر چلوں گا۔ چنانچہ ہر اول طلحہؓ میمنہ پر زبیرؓ اورمیسرہ پر عبدالرحمن بن عوفؓ کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو کر چلی تو حضرت علیؓ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کیے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیںَ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا اور یہاس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیر المومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لیے صرار میں فوج کو مع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب ک۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا امیر المومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سر نہ ہو گی لیکن بڑے بڑے صحابہؓ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف رائے دی ۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی اور عوام کی طرف خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہاری رائے پر عمل کرنا چاہتا تھا لیکن اکابر ؓ اس رائے سے متفق نہیں۔ غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمرؓ خود سپہ سالار بن کرنہ جائیں لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیںملتاتھا۔ ابوعبیدہ و خالدؓ شام کی مہمات میں مصروف تھے حضر ت علیؓ سے درخواست کی گئی لیکن انہوںنے انکار کر دیا۔ لوگ اسی حیص و بیص میں تجھے کہ دفعتہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے اٹھ کر کہا میں نے پا لیا۔ حضرت عمرؓ نے فر مایا کون ؟ بولے سعد بن ابی وقاصؓ۔ سعدؓ بڑے رتبہ کے صحابی اور رسول اللہ ؓ کے ماموںتھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کی قابلیتوں کی طرف سے اطمینا ن نہ تھا۔ اس بنا پر حضرت عمرؓ کو پھر بھی کچھ تردد تھا لیکن جب تمام حاضرین نے عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے کی تائید کی تو چار و ناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیںَ چنانچہ ان معرکوںمیں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت‘ حمل کا بندوبست لشکر کی ترتیب فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ وقتاً فوقتاً احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام بھی ان کی خاص ہدایت کے بغیرانجام نہیںپا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینہ سے عراق تک فوج کی منزلیں بھی خود حضرت عمرؓ نے نامزد کر دی تھیںَ چنانچہ مورخ طبری نے نام بنا م ان کی تصریح کر دی ہے۔ غرض سعد ؓ نے لشکر کا نشان چڑھایا اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ ۱۷۔۱۸منزلیں طے کرکے ثعلبہ پہنچے ۱؎ اور یہاں قیام کیا ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے اور پانی اور افراط اور موقع کی خوبی کی وجہ سے یہاں مہینے کے مہینے بازار لگتا تھا۔ تین مہینے یہاں قیام کیا۔ مثنیٰؓ موضع ذی وقار میں آٹھ ہزار آدمی لیے ہوئے پڑے تھے ۔ جن میں خاص بکر بن واء کے چھ ہزار جوان تھے۔ مثنیٰؓ کو سعدؓ کی آمد کا انتظار تھا کہ سات ہو کر کوفہ بڑھیں لیکن جسر کے معرکے میں جو زخم کؤھائے تھے بگڑتے گئے اور آخر اسی کے صدمے سے انتقال کیا ۔ سعدؓ نے ثعلبہ سے چل کر مشراف میں ڈیرے ڈالے۔ یہاں مثنیٰؓ کے بھائی معنی ان سے آ کر ملے اور مثنیٰؓ نے جو ضروری مشورے دیے تھے سعدؓ سے بیان کیے چونکہ حضرت عمرؓ کا حکم تھا کہ جہا فوج کا پڑٓئو ہو وہاں کے تمام حالات لکھ کر آئیں۔ سعدؓ نے اس مقام کا نقشہ لشکر کا پھیلائو فرودگاہ کا ڈھنگ رسد کی کیفیت ان تمام حالات سے ان کو اطلاع دی۔ وہاں سیایک مفصل فرمان آیا جس میں بہت سی ہدایتیں اور فوج کی ترتیب کے قواعد تھے سعدؓ نے ان احکام کے موافق پہلے تمام فوج کا جائزہ لیا جو کم و بیش تیس ہزار ٹھہری پھر میمنہ و میسرہ وغیرہ کی تقسی کر کے ایک پر جدا جدا افسر مقرر کیے۔ فوج کے جدا جدا حصوں اوران کے افسروں کی تفصیل طبری کے بیان کے موافق ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گی: ۱؎ بلاذری نے ثعلبہ اور طبری نے زردو لکھا ہے یہ دونوں مقام آپس میں نہایت متصل اوربالکل قریب ہیں۔ حصہ نام افسر مختصر حال ہر اول زہرہ بن عبداللہ بن قتاوہ جاہلیت میں یہ بحرین کے بادشاہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے وکیل ہو کر آئے تھے اور اسلام لائے تھے۔ میمنہ(دایاں حصہ) عبداللہ بن المعتصمؓ صحابی تھے میسرہ(بایاں حصہ) شرجیل بن السمط نوجوان آدمی تھے مرتدین کی جنگ میں نہایت شہرت حاصل کی تھی۔ ساقہ(پچھلا حصہ) عاصم بن عمرو التمیمی طلایع(گشت کی فوج) سواد بن مالک مجرد(بے قاعدہ فوج) سلمان بن ربیعۃ الباہلی پیدل حمال بن مالک الاسدی شتر سوار عبداللہ بن ذی السمین قاضی و خزانچی عبدالرحمن بن ربیعۃ الباہلی راید یعنی رسد وغیرہ کا بندوبست کرنے والے سلمان فارسیؓ مشہور صحابی ہیں فارس کے رہنے والے تھے۔ مترجم ہلال ہجری منشی زیاد بن ابی سفیان طبیب ۱؎ ۱؎ افسوس ہے کہ طبری نے طبیبوں کے نام لکھے صر ف اسی قدر لکھاہے کہ حضرت عمرؓ نے فوج کھے ساتھ طبیب بھیجے امرائے اعشار میں سے ستر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میںشریک تھے۔ تین سو وہ جو بیعتہ رضوان میں حاضر تھے۔ اسی قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے۔ سات سو ایسے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ ؓ کی اولاد تھے۔ سعدؓ شراف ہی میں سے تھے۔ کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑ ھ کر قادسیہ ۱؎ میںمقا م کرو اور اس طرح مورچے جمائو کہ سامنے عجم کی زمین اورپشت پر عرب کے پہاڑ ہوں تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جائو اور اگر اللہ نہ کرے کہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوںمیں پناہ میں آ سکو۔ قادسیہ نہایت شاداب اورنہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمرؓ جاہلیت میں ان مقامات میں سے اکثر گزرے تھے۔ اور اس موقع کی ہئیت سے واقف تھے۔۔ چنانچہ سعدؓ کوجو فرمان بھیجا اس میںقادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا سعدؓ کولکھا کہ قادشیہ پہنچ کر سرزمین کا پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میںنے بعض ضروری باتیں اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقع اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعدؓ نے نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔ چنانچہ سعدؓ شراف سے چل کر غدیب پہنچے یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا اور وہ مفت ہاتھ آیا۔ قادسیہ پہنچ کر سعدؓ نے ہر طر ف ہرکارے دوڑائے کہ غنیم کی خبر لائیں انہوںنے آ کر بیان دیا کہ رستم( پسر فرخ زاد) جو آرمینہ کا رئیس ہے سپہ سالار مقرر ہوا ہے اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع د۔ وہاں سے جواب آیاکہ لڑائی سے پہلے کچھ لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیںَ سعدؓ نے سردار ان قبائل میںسے چودہ نامور اشخاص انتخاب کیے جومختلف صفتوں کے لحا ظ سے تمام عرب میں منتخب تھے۔ عطارد بن حاجب ‘ اشعث بن قیس‘ حارث بن حسان‘ عاصم بن عمر‘ عمرو معدی کرب‘ مغیرہ بن شعبہ اور معنی بن حارثہ ؓ قدوقامت اور ظہارہ رعب و ادب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن بسر بن ابی رہم حملہ بن جویۃ حنظلہ بن الربیع التمیمی‘ فرات بن حا الغہجلی‘ عدی بن سہیل‘ اور مغیرہ بن زرارہ ؓ عقل و تدبیر اور حز و سیاست میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے۔ ۱؎ یہ کوفہ سے ۳۵میل پر ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ ساسانیوں کا پایہ تخت قدیم زمانے میں اصطخر تھا لیکن نوشیروان نے مدائن کو دارالسلطنت قرار دیاتھا وہ اس وقت سے وہی پایہ تخت چلا آ رہا تھا۔ یہ مقام سعدؓ کی فرودگاہ یعنی قادسیہ سے ۳۰۔۴۰ میل کے فاصلے پر تھا۔ سفراء گھوڑے اڑاتے ہوئے سیدھے مدائن پہنچے۔ راہ میں جدھر سے گزر ہوتاتھا تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تکک کہ آستان سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھہرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ تھی کہ گھوڑو ں پر زین اور ہاتھوں میںہتھیار تک نہ تھا۔ تاہم بے باکی ار دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی۔ اورتماشائیوں پراس کا اثرپڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکل جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آوز یزدگرد کے کان تک پہنچی اوراس نے دریافت کیا کہ یہ آواز کیسی ہے معلمو ہوا کہ اسلام کے سفراء آئے ہیںَ یہ سن کر بڑے سروسامان سے دربار سجایا اور سفراء کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے ہاتھوں میں کوڑے لیے موزے چڑھائے ہوئے دربار میں داخل ہوئے۔ پچھلے معرکوںمی تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزدگرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ایک ہیبت طاری ہوئی۔ ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے۔ یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے ہیں انہوںنے کہا برد۔ اس نے (فارس معنی کے لحاظ سے) کہا کہ جہاں برد پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ سوط وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ پارس راسوختند ان بدفالیوں پر سارا دربار برہم ہوا جاتا تھا لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتاتھا۔ پھر سوال کیاکہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگروہ تھے۔ جواب دینے کے لیے آگے بڑھے پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کیے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں جزیہ یا تلوار۔ یزدگردنے کہا تم کو یاد نہیں کہ دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بدبخت قوم کوئی نہ تھی۔ تم جب کبھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جاتا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔ اس پر سب نے سکوت کیا لیکن مغیرہ بن زرارہ سے ضبط نہ ہو سکا اور اٹھ کر کہا کہ یہ لوگ (اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے) رئوسا عرب ہیں اور حلم و وقار کی وجہ سے زیادہ گوئی ہیںکر سکتے۔ نہوںنے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیںَ ان کو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا۔ اول اول ہم سب نے اس کی مخالفت ک ۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے وہ آگے بڑھتا تھا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے لیکن رفتہ رفتہ اس کی بات نے دلوں پر اثر کیا اور جو وہ کچھ کہتا تھا اللہ کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتاتھا اللہ کے حکم سے کرتا تھا۔ اس نے ہم کو حک دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیاکے سامنے پیش کرو جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میںتمہارے برابر ہیں۔ جن کو اسلام سے انکار ہو اور جزی پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔ یزدگرد غصیسے بے تاب ہو گیا اور کہا کہ اگرقاصدوں کا قتل کرنا جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کرنہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا اورکہا کہ تم میں سے سب سے معزز کون ہیَ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا میں ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا۔ وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے سعدؓ کے پاس پہنچے کہ فتح مبارک! دشمن ے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔ اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامو رتھا۔ ساباط میں لشکر لیے پڑا تھا اور یزدگرد کی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جا رہاتھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے اور رسد کے لیے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصے میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آ گئے۔ ان میں جوشنماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ س حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزدگرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جائے ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوئے جاتے ہیںَ چار ناچار رستم کو مقابلے کے لیے بڑھنا پڑا ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادشیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں ۔ تمام افسر شراب پی کر بدمستیاں کرتے تھے اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیا ل پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فناہوتی نظر آتی ہے۔ رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں سعدؓ نے ہر طرف جاسوس پھیلا دیے کہ دم دم کی خبریں پہنچتی رہیں۔ فو ج کا رنگ ڈھنگ لشکر کی ترتیب اتارنے کا رخ ان باتوں کو دریافت کے لیے فوجی افسر متعین کیے گئے اس میں کبھ کبھی دشمن کا بھی سامنا ہو جاتا تھا چنانچہ ایک دفعہ طلحہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے۔ ایک جگہ ایک بیش بہا گھوڑا تھان پر بندھا دیکھا۔ تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑ ے کی ڈور سے اٹکا لی۔ اس عرصے میں لو گ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا۔ گھوڑے کا ایک سوار مشہور افسر تھا اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا وار کیا انہوںنے خالی کر دیا وہ زمین پر گرا انہوںنے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو اور سوار تھے ان سے ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں۔ اتنے عرصے میں تمام فوج میں ہل چل پڑ گئی ار لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نک آئے اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی رہ گئی۔ قیدی نے سعدؓ کے سامنے آ کر اسلام قبو ل کیا اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے میرے ابن اعم تھے اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ اسلا کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اوراس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوئے جو اور کسی طرح معلو م نہ ہو سکتے تھے۔ وہ بعد کے تمام معرکوں میںشریک رہا اور موقع پر ثابت قدم اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔ رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا۔ ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعدؓ نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہئیت س چلے عرق گیر کی زرہ بنائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار میان پر چیتھڑے لپیٹ لیے۔ اس ہئیت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے ادھر ایرانیوں نے بڑے سروسامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین گائو تکیے‘ حریر کے پردے۔ صدر میں مرصع تخت ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گائو تکیے سے اٹکا دیا۔ درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا انہوں نے کہا میں بلایا ہوا آیا ہوں تم کو اس طرح میرا آن منظور نہیں تو میں الٹٓ پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم یس عرض کی اس نے اجازت دے دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا اس کی انی کو اس طرح فرش پر چبھوتے جاتے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جا بجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر نیزہ مارا جو فرش کو آر پار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس مللک میںکیوں آئے؟ انہوںنے کہا کہ اس لیے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے۔ رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ہتھیار دیکھتے تھے اورکہتے تھے کہ اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں سے بجلی سی کوند گئی اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لیے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اخیر سفارت میں مغیرہؓ گئے اس دن ایرانیوں نے برے ٹھاٹھ سے دربار جممایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج زر پہن کر کرسیوں پر بیٹھے۔ خیمے میں دیبا و سنجاب کا فرش بچھایا گیا اور خدام اور منصب دار قرینے سے دوریہ پر ے جما کر کھڑے ہو ئے مغیرہؓ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر کی رف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانو ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لیے مہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص رب بن کر بیٹھے اور تما م لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں ۔ مترجم نے جس کا نام عبود تھا اورحیرۃ کا باشندہ تھا اس تقریر کاترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہو ا اور بعض بعض بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قو م کو ذلیل سمجھتے تھے۔ رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا پھر بے تکلفی کے طورپر مغیرہ کے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میںلے کرکہا کہ ان تکلوں سے کیا ہو گا؟ مغیرہ نے کہا کہ آگ کی لوگ گو چھوٹی ہو پھر بھی آگ ہے۔ رستم نے ان کی تلوار کانیام دیکھ کر کہا کہ کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوںنے کہا ہاں تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے۔ اس نوک جھوک ککے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رست نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جائو تو ہم کو کچھ ملال نہیںبلکہ کچھ انعام دلایا جائے گا۔ مغیرہ نے تلوارکے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اگر اسلام و جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا۔ رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہ کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کر دوں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آئے اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ٭٭٭ قادسیہ ۱؎ کی جنگ اور فتح محرم ۱۴ ہجری (۶۳۵ئ) رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا جاتا تھا لیکن مغیرہ کی گفتگو نے ا س کو اس قدر غیر ت دلائی کہ اسی وقت کمربندی کا حکم دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی حکم دیا کہ صبح ہوتے ہوئے پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کوپہنچا اور دوپہر سے پہلے پہلے فوج نہر کے اس پار آ گئی خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا دہری زرہیںپہنیں سر پر خود رکھا‘ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ طلب کیا اور سواور ہو کر جوش میں کہا کہ کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا۔ کسی سپاہی نے کہا کہ ہاں اگر اللہ نے چاہا بولا کہ اللہ نے نہ چاہا تب بھی۔ فوج نہایت ترتیب سے آراستہ کی۔ آگے پیچھے تیرہ صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا ہود جوں اور عماریوں میںہتھار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ و میسرہ کے پیچھے قلعہ کے طورپر ہاتھوں کے پرے جمائے۔ خر رسانی کے لیے موقعہ جنگ سے پایہ تخت تک کچھ فاصلے پر آدی بٹھا دیے۔ جو واقعہ پیش آتا تھا موقع جنگ کاآدمی چلا کر کہتاتھا کہ اوردرجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔ قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ سعدؓ کو چونکہ النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ اس لیے فوج میں شریک نہ ہوئے بالاخانے پر میدان کی طرف رخ کر کے تکیہ کے سہارے بیٹھے اورخالد بن عرطفہ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچو ں پر لکھکر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے تھے اورخالد انہی روایتوں کے موافق موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔ تمدن کے ابتدائی زمانے میںفن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا تعجب اور قابل ہے اور عرب کی تیزی طبع اورلیاقت جنگ کی دلیل ہے۔ ۱؎ قادسیہ عرب کا مشہور شہر تھا اور مدائن سبعہ کے وسط میں تھا اب ویران پڑا ہوا ہے ہمارے نقشے میں اس شہر کو مدائن کے متصل سمجھنا چاہیے۔ فوجیں آراستہ ہو چکی تھیں۔ تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش فشانی سے تمام فوج میں آ گ لگا دی۔ شعراء میں شماخ ‘ حطیتہ‘ اوس بن مغرا‘ عبدۃ بن الطیب‘ عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ‘غالب‘ ابن الاہذیل الاسدی‘ بسر بن ابی رہم الجہمی‘ عاصم بن عمرو‘ ربیع سعدی ‘ ربعی بن عامر میدان میں کھڑے تقریریںکر رہے تھے۔ اور فوجکا یہ حال تھا کہ ان پر کوئی جادوکر رہاہے ان تقریروں کے جملے یاد رکھنے کے قابل ہیں: ابن الہذیل الاسدی کے الفاظ یہ تھے: یامعشر سعد ! اجعلو ا حصونکم السیف وکونوا علیھ کاسودا لاجم واد رعو العجاج وعضو ا الابصار فاذا کلت السیوف فارسلوا الجنادل فانھا یوذن لھا فیما لا یوذن للحدید ’’خاندان سعد! تلواروںکو قلعہ بنائو اوردشمنو ں کے مقابلے میں شیر بن جائو۔ گر کی زرہ پہن لو اور نگاہیں نیچی کر لو۔ جب تلواریں تھک جائیں تو تیروں کی باگ چھوڑ دو کیونکہ تیروں کو جہاں بار مل جاتاہے تلواروں کونہیںملتا‘‘۔ اس کے ساتھ قاریوںنے میدان میںنکل کر نہایت خوش الحانی اور جوش سے سورہ جہاد کی آیتیں پڑھتی شروع کیں۔ جس کی تاثیر سے دل دہل گئے اور آنکھیں سرخ ہو گئیںَ سعدؓ نے قاعدے کے موافق نعرے لگائے اور چوتھے پر لڑائی شروع ہو گئی۔ سب سے پہے ایک ایرانی قدر انداز و دیبا کی قبا زیب تن کیے زری کمر بند سجائے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں آیاادھر سے عمرو معدی کرب اس کے مقابلے کو نکلے۔ اس نے تیر کمان میںجوڑا اور ایسا تا کر مارا کہ یہ بال بال بچ گئے انہوںنے گھوڑے کودابا اور قریب پہنچ کر کمر بند میں ہاتھ ڈال کر معلق اٹھا زمین پر دے پٹکا اور تلوار سے گردن اڑا کر فوج کی طرف مخاطب ہوئے کہ یوں لڑا کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ ہر شخص معدی کرب کیونکر ہو سکتاہے۔ اسا کے بعد اور بہادر دونوں طرف سے نکلے اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ ایرانیوںنے بحیلہ کے ررسالے پر جو سب سے ممتاز تھا ہاتھیوں کو ریلا۔ عرب کے تھوڑوںنے یہ کالے پہاڑ دیکھے تو دفعتہ بدکے اورمنتشر ہو گئے پیدل فوج ثابت قدمی سے لڑی لیک ہاتھیوں کے ریے میںان کے پائوں اکھڑجاتے تھے۔ سعدؓ نے یہ ڈھنگ دیکھ کر فوراً قبیہ سد کو حکم بھیجا کہ بحیلہ کو سنبھالو۔ طلیحہ نے جو قبیلہ کے سردار اور مشہوربہادر تھے ساتھوں سے کہا عزیزو سعدؓ نے کچھ سمجھ کر تم سے مدد مانگی ہے۔ تمام قبیلے نے جوش میںآکر باگیں اٹھائی اور ہاتھوں میں برچھیاں لے کر ہاتھوںپر حملہ آور ہوئ۔ ان کی پامردیی سے اگرچہ کالی آندھی ذر اتھم گئی لیکن ایرانیوں نے بحیلہ کو چھوڑ کر سارا زور اس طرف کر دیا۔ سعدؓ نے قبییہ تمیم کو جو قدر اندازی اورنیزہ بازی میںمشہور تھے کہلا بھیجا کہ تم سے ہاتھوں کی کچھ تدبیر نہیںہو سکتی؟ یہ سن کر وہ دفعتہ بڑھے اور اس قدر تیر برسائے کہ فی نشینوں کو گرا دیا پھر قریب پہنچ کر تمام ہود ے اورعماریاں الٹ دیںَ شام تک یہ ہنگامہ رہاجب بالکل تاریکی چھا گئی دونوں حریف میدان سے ہٹے۔ قادسیہ کا پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو (یوم الارماث ) کہتے ہیںَ سعدؓ جس وقت بالا خانے پر بیٹھے فوج کو لڑا رہے تھے۔ ان کی بیوی سلمیٰؓ بھی ان کے برابر بیٹھی تھیں ایرانیوںنے جب ہتھوں کو ریلا تو مسلمان پیچھے ہٹے تو سعدؓ غصے کے مارے بیتاب ہوئے جاتے تھے۔ اور بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ سلمیٰؓ یہ حالت دیکھکر بے اختیار چلا اٹھی کہ افسوس آ ج مثنیٰؓ نہ ہوا۔ سعدؓ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا کہ مثنیٰؓ ہوتا تو کیا کر لیتا۔ سلمیٰؓ نے کہا سبحان اللہ بزدلی کے ساتھ غیرت بھی۔ یہ اس بات پر طعن تھا کہ سعدؓ خود لڑائی میں شریک نہتھے۔ اگلے دن سعدؓ نے سب سے پہلے میدان جنگ سے مقتولوںکی لاشیں اٹھو ا کر دفن کرائیں اور جس قدر زخمی تھے مرہم پٹی کے لیے عورتوں کے حوالے کیے۔ پھر فوج کو کمر بنی کا حکم دیا لڑائی ابھی شروع نہیںہوئی تھی کہ شام کی طرف سے غبار اٹھا۔ گرد پھٹی تو معلوم ہوا کہ ابوعبیدؓ نے شام سے جو امدادی فوجیں بھیجی تھیں وہ آ پہنچیں۔ حضرت عمرؓ نے جس زمانے می عراق پر حملے کی تیاریاں کی تھیںَ اسی زمانے میں ابوعبیدہؓ کو جو شام کی مہم پر مامور تھے لکھ بھیجا تھا کہ عراق کی جو فوج وہاں بھیجی گئی ہے اس کو حکم دو کہ سعدؓ کی فوج سے جا کر مل جائے۔ چنانچہ عین وقت پر یہ فوج پہنچی اور تائید غیبی سمجھی گئی۔ یہ چھ ہزار سپاہ تھے جن میں پانچ ہزار ربیعۃ و مضر اور ہزار خاص حجاز تھے ۔ ہاشم بن عتبہ (سعدؓ کے بھائی) سپہ سالار تھے ارو ہر اول قعقاع رکاب میںتھا۔ قعقاع نے پہنچتے ہی صف سے نکل کر پکارا کہ اے ایرانیوں میں کوئی بہادر ہوتو مقابلے پر آئے۔ ادھرسے بہمن نکلا۔ قعقاع جسر کا واقعہ یاد کر کے پکار اٹھے کہ لینا ابوعبیدہ کا قاتل جانے نہ پائے۔ دونوں حریف تلوار لے کر مقابل ہوئے اور کچھ دیر کی ردوبدل کے بعد بہمن مارا گیا۔ دیر تک دونوںطرف سے بہادر تنہا تنہا میدان میں نکل کر شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ سیستان کا شہزادہ براز اعور بن قطبہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بزرجمہر ہمدانی جو ایک مشہور بہادر تھا قعقاع سے لڑ کر قتل ہوا۔ غرض ہنگاہ عام ہونے سے پہے ایرانی فوج نے اکثر اپنے نامور بہادر کھو دیے۔ تاہم بڑے زور و شور دونوںفوجیں حملہ آور ہوئیں۔ شام کی امدادی فوج کی قعقاع نے اس تدبیر سے روانہ کیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دستے کر دیے تھے اور جب ایک دستہ میدان جنگ میں پہنچ جاتاتھا تو دوسرا نمودار ہوتا تھا۔ اس طرح تمام دن فوجوں کا تانتا بندھا رہا اور ایرانیوںپر خوف چھاتا رہا۔ ہر دستہ اللہ اکبر کے نعرے مارتا ہوا آتا تھا اور قعقاع اس کے ساتھ ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہاتھیوں کیلیے قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر جھول اور برقع ڈال کر ہاتھوں کی طرح مہیب بنایا یہ مصنوعی ہاتھ یجس طرح رخ کرتے تھے ایرانیوںکے گھوڑے بدک کر سوارو ں کے قابو سے نکل جاتے تھے۔ عین ہنگامہ جنگ میں حضرت عمر ؓ کے قاصد پہنچے جن کے ساتھ نہایت بیش قیمت عربی گھوڑے اور تلواریں تھیںَان لوگوں نے فوج کے سامنے پکار کر کہا کہ امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کر سکیںَ چنانچہ قعقاع نے حمال بن مالک ربیل بن عمرو‘ طلیحہ بن خویلد‘ عاصم بن عمر‘ التمیمی کوتلواریں حوالہ کیں اور قبیلہ یربوع کے چار بہادروں کو گھوڑے عنایت کیے۔ ربیل نے فخر اور جوش میں آ کر فی البدیہہ یہ شرع پڑھا: لقد علم الاقوام انا احقھم اذا حصلوا بالمرھفات البوتر ’’سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مستحق ہوں جس وقت لوگوں نے کاٹنے والی نازک تلواریں پائیں‘‘۔ جس وقت لڑائی کا ہنگامہ گرم تھا۔ ابومحجن ثقفی جوایک مشہور بہادر اور شاعر تھے اور جن کو شراب پینے کے جرم پر سعدؓ نے قیدکر دیا تھا قید خانے کے دریچے سے لڑائی کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور شجاعت کے جوش میں بے اختیار ہوئے جاتے تھے۔ آخر ضبط نہ کر سکے سلمیٰؓ (سعدؓ کی بیوی) کے پاس گئے کہ اللہ کے لیے ا س وقت مجھ کو چھوڑ دو لڑاء سے جیتا بچا تو خود آ کر میںبیڑیاںپہن لوں گا۔ سلمیٰؓ نے انکار کیا یہ حسرت کیساتھ واپس آئے اور بار بار پردرد لہجہ میں یہ اشعار پڑھتے تھے: کفی حزنا ان تردی الخیل بالقنا واترک مشدودا علی وثاقیا ’’اس سے بڑھ کر کیا غم ہوگاکہ سوار نیزہ بازیاں خر رہے ہیں اور میں زنجیروں میں بندھا پڑا ہوں‘‘۔ اذا قمت عنانی الحدید واغلقت مصاریع من دونی تصم المنادیا ’’جب کھڑا ہوناچاہتاہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی اور دروازے اس طرح بند کر دیے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتاہے‘‘َ ان اشعار نے سلمیٰؓ کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ ڈالیں۔ انہوںنے فوراً اصطبل میں جا کر سعدؓ کے گھوڑے پر جس کانام بلقاتھا زین کسی اور میدان جنگ میں پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا اورپھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرح نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔ سعدؓ بھی حیران تھے اور دل میںکہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابومحجن کا ہے لیکن وہ تو قید خانے میں ہے شام ہوئی تو اابومحجن نے قید خانے میں آ کر خود بیڑیاں پہن لیںَ سلمیٰؓ نے یہ تمام حالات سعدؓ سے بیان کیے۔ سعدؓنے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہاالہ کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کوسزا نہیںدے سکتا۔ ابومحجن نے کہا واللہ میںبھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائوں گا ۱؎۔ خنساء جو عرب کی مشہور شاعرہ تھی ۲؎اس معرکے میں شریک تھی اور س کے چاروں بیٹے بھی تھے ڑائی جب شروع ہوئی تو اس نے بیٹوں کی رف سے خطاب کیا اور کہا: الم تنب بکم البلاد ولم تفحکم السنۃ ثم جئتم بامکم عجوز کبیرۃ فوضعتموھا بین ایدی اہل فارس واللہ انکم لبنو رجل واحد کما انکم بنو امرء ہ واحدۃ ماخنت اباکم والا فضحت خاکم انطللقوا افاشھدوا اول القتال واخرۃ ’’پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دو بھر نہ تھے نہ تم پر قحط پڑا تھا۔ باوجود اس کے تم اپنی کہن سال ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا اللہ کی قسم جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو۔ میںنے تمہارے باپ سے بددیانتی نہیں کی نہ تمہارے ماموںکو رسوا کیا لوجائو اور اخیر تک لڑو‘‘۔ ۱؎ کتاب الخراج: قاضی ابو یوسف صٖحہ۱۸ ۲؎ خنساء کے واقعات نہایت دلچسپ ہیں اور عجیب و غریب ہیں۔ اس کادیوان بیروت میں چھپ گیا ہے اور اس کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے کتاب الاغانی میں لکھے ہیں۔ اصناف شعرمیں مرثیہ گوئی میں اس کا کوئی نظیر نہیں گزرا۔ چنانچہ بازار عکاظ میں اس کے خیمے کے دروزے پر ایک علم نصب کیا جاتاتھا جس پر لکھا ہوتا تھا ارثی العرب یعنی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو۔ وہ اسلام بھی لائی اور حضرت عمرؓ کے دربار میں حاضر ہوتی تھی۔ بیٹوںنے ایک ساتھ باگیںا ٹھائیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو خنساء نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ! میرے بیٹوں کو بچانا۔ اس د ن مسلمان دو ہزار اورایرانی دس ہزار مقتول و مجروح ہوئے۔ تاہم فتح و شکست کا کچھ فیص نہ ہوا یہ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے۔ تیسر ا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہورہے۔ اس میں قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ رات کے وقت چند رسالوں اورپیدل فوجو ں کوحک دیا کہ پڑائو سیدور شام کی طرف نکل آئیں پو پھٹے سو سو میدان جنگ کی طرف گھوڑے اڑاتے آئیں اور رساے اسی طرح برابر آتے جائیں۔ چنانچہ صبح ہوتے ہوئے پہلا رسالہ پہنچا۔ تما فوج نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور غل پڑ گیا کہ نئی امدادی فوجیں آ گئیں ساتھ ہی حملہ ہوا۔ حسن اتفاق یہ کہ ہشام جن کوابوعبیدہنے شام سے مدد کے لیے بھیجا تھا عین موقع پر سات سو سواروں کے ساتھ پہنچ گئے۔ یزدگرد کو دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں اور برابر فوجیںبھیجتا جاتا تھا۔ ہشام نے فوج کی طرف خطاب کیا اورکہا کہ تمہارے بھائیوں نے شام کو فتھ کر لیا۔ فارس کی فتح کاجو اللہ کی طرف سے وعدہ ہوا ہے وہ تمہارے ہاتھ سے پوار ہو گا۔ معمول کے موافق جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ ایرانیوںکی فوج سے ایک پہلوان شیر کی طرح ڈکارتا میدان میں آیا۔ اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر لوگ اس کے مقابلے سے جی چراتے تھے۔ لیکن ایک عجیب اتفا ق سے وہ ایک کمزور سپاہی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ ایرانیوںنے تجربہ اٹھا کر ہاتھوں کے دائیں بائٰں پید ل فوجیں قائم کر دی تھیںَ عمر معدی کرب نے رفیقوںسے کہا کہ میں مقابل کے ہاتھی پر حملہ کرتاہوں تم ساتھ رہنا ورنہ عمرو معدی کرب مارا گیا تو پھر معدی کرب پیدا نہ ہو گا۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے گھسیٹ لی اور ہاتھی پر حملہ کیا لیکن پید ل فوجیں جو دائیںبائیںتھیں دفعتہ ان پر ٹوٹ پڑیں اور اس قدر گرد اٹھی کہ یہ نظروں سے چھپ گئے اوریہ دیکھ کر ان کی رکاب کی فوج حملہ آورہو ئی اور بڑے معرکے کے بعد دشمن پیچھے ہٹے۔ عمرو معدی کرب کا یہ حالتھا کہ تمام جسم خا ک سے اٹا ہوا تھا۔ بدن پر جا بجا برچھویں کے زخم تھے تاہم تلوار قبضے میں تھی اور ہاتھ چلتا جاتا تھا۔ اسی حالت میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا انہوںنے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی ایرانی نے بار بار مہمیز کیا لیکن گھوڑا جگہ سے ہل نہ سکا۔ آخر سوار اتر کر بھاگ نکلا اوریہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے۔ سعدؓ نے یہ دیکھ کر کہ ہاتھی جس طرح رخ کرتے ہیں دل کا دل پھٹا جاتا ہے۔ ضخم و سلم وغیرہ کو جو پارسی تھے اور مسلمان ہو گئے تھے بلا کر پوچھا کہ اس بلائے سیاہ کا کیا علاج ہے؟ انہوںؤنے کہا کہ ان کی سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں۔ تمام غول میں دو ہاتھی نہایت مہیب او رکوہ پیکر تھے اور گویا کہ ہاتھیوں کے سردار تھے۔ ایک ابیض اور دوسرا حب کے نا م سے مشہور تھا۔ سعدؓ نے قعقاع عاصم حمال ربیل کو بلا کر کہا کہ یہ مہم تمہارے ساتھ ہے۔ قعقاع نے کچھ سوار اور پیادے بھیج دیے کہ ہاتھوں کو نرغہ میںلیں پھر خود برچھا ہاتھ میں کے کر پیل سفید کی طرف بڑھے۔ عاصم بھی ساتھ تھے۔ دونو ںنے ایک ساتھ برچھے مارے کہ آنکھوں میں پیوست ہو گئے۔ ہاتھی جھرجھری ے کر پیچھے ہٹا۔ ساتھ ہی قعقاع کی تلوار پڑی اور سونڈ مستک سے الگ ہوگئی۔ ادھر ربیل اور جمال نے حرب پر حملہ کیا وہ زخم کھا کر بھاگا اور تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لیے او دم کی دم می یہ سیاہ بادل بالک چھٹ گیال۔ اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل دہل پرتی تھی۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس معرکے کو لہلتہ الہریر کہتے ہیںَ ایرانیوں نے فوج نئے سرے سے ترتیب دی قلب میں اور دائیں بائیں تیرہ تیرہ صفیں قائم کیں مسلمانوںنے بھی تمام فوج کو سمیٹ کر یکجا کیا اور آگے پیچھے تین پرے جمائے۔ سب سے آگے سوارو ں کا رسالہ تھا ان ے بعد پیدل فوجیں اور سب سے پیچھے تیر انداز۔ سعدؓ نے حکم دیا تھا کہ تیسری تکبیر پر حملہ کیا جائے لیکن ایرانیوں نے جب تیر برسانے شروع کیے تو قعقاع سے ضبط نہ ہو سکا او راپنے رکاب کی فوج لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ فوجی اصول کے لحاظ سے یہ حرکت نافرمانی میں داخل تھی۔ تاہم لڑائی کا ڈھنگ اور قعقاع کا جوش دیکھ کر سعدؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللھم اغفرلہ وانصرہ یعنی اے اللہ قعقاع کو معاف کرنا اور اسکا مددگا ر رہنا۔ قعقاع کو دیکھ کر بنو اسد اور بنو اسد کی دیکھادیکھی نحع بحیلہ کندہ سب ٹوٹ پڑے۔ سعدؓ ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ اللہ اس کو معاف کرنا اور اس کامددگار رہنا۔ اول اول سواروں کے رسالے نے حملہ کیا لیکن ایرانی فوجیں جو دیوار کی طرح کھڑی تھیں ا س ثابت قدمی سے لڑیں کہ گھوڑے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ دیکھ کر سب گھوڑوں سے کود پڑے اور پیادہ پا حملہ آور ہوئے۔ ایرانیوں کا ایک رسالہ سرتاپا لوہے میں غرق تھا۔ قبیلہ حمیفہ نے اس پر حملہ کیا لیکن تلواریں زرہوں پر اچٹ اچٹ کر رہ گئیںَ سردار قبیلہ نے للکارا ۔ سب نے کہا زرہوں پر تلواریں کام نہیں دیتیں۔ اس نے غصے میں آ کر ایک ایرانی پر برچھے کا وار کیا کہ کمر توڑ کر نکل گیا۔ یہ دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اور اس بہادری سے لڑے کہ رسالہ کا رسالہ برباد ہو گیا۔ تمام رات ہنگامہ کا رزار گر رہا لوگ لڑتے لڑتے تھک کر چورہو گئے اورنیند کے خمار میں ہاتھ پائوں بیکار ہوئے جاتے تھے۔ اس پر بھی جب فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا تو قعقاع نے سرداران قبائل میںسے چند نامور بہادر انتخاب کیے اور سپہ سالارفوج(رستم) کی طرف رخ کیا۔ ساتھ ہی قیس‘ اشعث عمرو معدی کرب‘ ابن ذی البردین نے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ ساتھیو ں کو للکارا کہ دیکھو یہ لوگ اللہ کی راہ میں تم سے آگے نہ نکلنے پائیں اور سرداروں نے بھی جو بہادری کے ساتھ زبان آو ر تھے اپنے قبیلوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس جوش سے تقریریں کیں کہ تمام لشکر مین ایک آگ لگ گئی۔ سوار گھوڑوں سے کودپڑے۔ اور تیروکمان پھینک کر تلواریں گھسیٹ لیںَ اس جوش کے ساتھ تمام فوج سیلاب کی طرح بڑھی اور فیرزان اور ہرمز ان کو دباتے ہوئے رستم کے قریب پہنچ گئی۔ رستم تخت پر بیٹھا فوج کو لڑا رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر تخت سے کود پڑا اور دیر تک مردانہ وار لڑتا رہا۔ جب زخموںسے بالکل چور ہو گیا تو بھاگ نکلا۔ ہلال نام ایک سپاہی نے تعاقب کیا۔ اتفاق سے ایک نہر سامنے آ گئی۔ رستم کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے ساتھ ہلال بھی کودے اور ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ ائے پھر تلوار سے کام تمام کر دیا۔ ہلال نے لاش خچروں کے پائوں میں ڈال دی اورتخت پر چڑھ کر پکارے کہ رستم کا میںنے خاتمہ کر دیا ۱؎ ایرانیوں نے دیکھا تو تخت سپہ سالار سے خالی تھا۔ تمام فوج میں بھاگڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک تعاقب کیا اور ہزاروں لاشیں میدان میںبچھا دیںَ افسوس ہے کہ اس واقعہ کو ہمارے ملک الشعراء نے قومی جوش کے اثر سے بالکل غلط لکھاہے۔ برآمد خرد شے بکر دار رعد زیک سوی رستم زیک سوے سعد چودیدہ ای رستم بخون تیرہ گشت جوان مرد تازی برو چیرہ گشت ہمارے شاعر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سعدؓ اس واقعہ میںشریک ہی نہ تھے۔ شکست کے بعد بھی چند نامور افسر جو ریاستوں کے مالک تھے میدان میں ثابت قدم رہے۔ ان میں سے شہریار‘ ابن الہربد‘ فرخان اہوازی‘ خسروشنوم ہمدانی‘ نے مردانہ وار جان دی لیکن ہرمزان اہود قارن موقع پا کر بھاگ نکلے۔ ایرانیوں کے کشتوں کا تو شمار نہ تھا مسلمان بھی کم و بیش چھ ہزار کام آئے۔ اس فتح میں چونکہ سعدؓ خود شریک جنگ نہ تھے فوج کو ان کی طرف سے بدگمانی رہی۔ یہاں تک کہ ایک شاعر نے کہا: وقاتلت حتی انزل اللہ نصرہ وسعد بباب القادسیۃ معصم ’’میں برابر لڑتا رہا یہاں تک کہ اللہ نے اپنی مدد بھیجی لیکن سعد قادسیہ کے دروازے سے لپٹے رہے‘‘۔ قابنا وقد امت نساء کثیرۃ ونسوۃ سعد لیس فیھن ایم ’’ہم واپس پھرے تو سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی تھیںَ سعدؓ کی کوئی بیوی بیوہ نہیں ہوئی۔‘‘ ۱؎؎ علامہ بلاذری نے لکھا ہے کہ رستم کے قاتل کا نام معلوم نہیںلیکن عمرو معدی کرب طلیحہ بن خویلد قرط بن جماع ان تینوںنے اس پر حملہ کیا تھا۔ میں نے جو روایت لکھی ہے وہ الاخبار الطوال کی روایت ہے۔ یہ اشعار اسی وقت بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ سعدؓ نے تام فوج کو جمع کر کے آبلوں کے زخم دکھائے اور معذوری ثابت کی۔ سعدؓ حضرت عمرؓ کو نامہ فتح لکھا اور دونوں طرف کے مقتولوں کی تفصیل لکھی۔ حضرت عمرؓ کا یہ حال تھا کہ جس دن سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا ہر روز آفتاب نکلتے مدینے جاتے اور قاصد کی راہ دیکھتے۔ ایک دن معمول کے مطابق نکلے ادھر سے ایک شتر سوار آ رہا تھا۔ بڑھ کر پوچھا کہ کدھر سے آتے ہو؟ وہ سعدؓ کا قاصدتھا اورمژد ہ فتح لے کر آیا تھا۔ جب معلوم وہا کہ سعدؓ کاقاصد ہے تو اس سے حالات پوچھنے شروع کیے اس نے کہا اللہ نے مسلمانوں کو کامیاب کیا۔ حضرت عمرؓ رکاب کے برابر دوڑے جاتے تھے اور حالات پوچھتے جاتے تھے شتر سوار شہرمیں داخل ہوا تو دیکھاکہ جو شخص سامنے سے آتا ہے ان کو امیر المومنین کے لقب سے پکارتاہے ڈر سے کانپ اٹھا کہ حضرت نے مجھ کو اپنا نام کیوںنہ بتایا میںاس گستاخی کا متکب نہ ہوتا۔ فرمایانہیںکچھ حرج نہیں تم سلسلہ کلام کو نہ توڑو چنانچہ اسی طرح اس کے رکاب کے ساتھ ساتھ گھر تک آئے مدینے میںپہنچ کر مجمع عام میں فتح کی خوشخبری سنائی اورایک نہایت پر اثر تقریر کی جس کا اخیر یہ فقرہ تھا کہ مسلمانو میںبادشاہ نہیںہوں تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں میں خود اللہ کا غلام ہوں البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے ۔ اگرمیں اس طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوئو تو میری سعادت ہے اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے درواز ے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔ میں تم کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن قول سے نہیں بلکہ عمل سے۔ قادسیہ کے معرکے میںجو عجم یا عرب مسلمانوں سے لڑے تھے ان میں سے ایسے بھی تھے جو دل سے لڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ زبردستی پکڑ کر لائے گئے تھے۔ بہت سے لوگ گھر چھوڑ کر نک گئے۔ فتح کے بعد یہ لوگ سعدؓ کے پاس آئے اور امن کی درخواست کی۔ سعدؓ نے دربار خافت کو لکھا۔ حضرت عمر ؓ نے صحابہؓ کو بلا کر رائے لی اور سب نے بالاتفاق منظور کر لیا۔ غرض تمام ملک کو امن دے دیا گیا جو لوگ گھر چھوڑ کر نکل گئے تھے واپس آ آ کر آباد ہوتے گئے ۔ رعایا کے ساتھ یہ ارتباط بڑھا کہ اکثر بزرگوں نے ا ن میں رشتہ داریاں کر لیں۔ ایرانیو ںنے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں قیام کیا تھا اورچونکہ یہ ایک محفوظ س مستحکم مقام تھا اطمیان کے ساتھ جنگ کے تمام سامان مہیا کر لیے اور فیروازان کو سردار لشکر قرار دیا تھا۔ سعدؓ نے ان کے استعصال کے لیے ۱۵ھ (۶۳۶ء ) میں بابل کا ارادہکیا اور چند سردار آگے روانہ کیے کہ راستہ صاف رکتے جائیں۔ چنانچہ مقام برس میں بصیری سد راہ ہوا اور میدان جنگ میں زخم کھا کر بابل کی طرف بھاگ گیا برس کے رئیس نے جس کانام بسطام تھا صلح کر لی اور بابل تک موقع بہ موقع پل تیار کردا دیے کہ اسلامی فوجیں بے تکلف گزر جائیں۔ بابل میں اگرچہ عجم کے بڑے بڑے سردار نحیر جان ہرمزان‘ مہران مہرجان وغیرہ جمع تھے لیکن پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے۔ سعدؓ نے خود بابل میں قیام کیا اور زہرہ کی افسری میںکچھ فوجیں آگے روانہ کیںَ عجمی فوجیں بابل سے بھاگ کر کوثی میںٹھہری تھیں اور شہریار جو رئیس زادہ تھا ان کا سپہ سالار تھا۔ زہرہ کوثی سے گزرے تو شہریار نے آگے بڑھ کر مقابل ہوا اور میدان جنگ میں آ کر پکارا کہ جو بہادر تمام لشکر میںانتخاب ہو مقابلے کو آئے۔ زہرہ نے کہا کہ میںنے خود تیرے مقابلے کا ارادہ کیا تھا لیکن تیرا یہ دعویٰ ہے تو کوئی غلام تیرے مقابلے کو جائے گا۔ یہ کہہ کر ناب کو جو قبیلہ تمیم کاغلام تھا اشارہ کیا اس نے گھوڑا آگے بڑھایا شہریار دیو کا سا تن اور توش رکھتا تھا۔ نابل کو کمزور دیکھ کر نیزہ پھینک کر گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور زمین پر گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اتفاق سے شہریار کا انگوٹھا نابل کے منہ میں آ گیا۔ ناب نے اس زور سے کاٹا کہ شہریار تلملاکے رہ گیا۔ نابل موقع پا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور تلوار سے پیٹ چاک کر دیا۔ شہریار نہایت عمدہ لباس اور اسلحہ سے آراستہ تھا۔ نابل نے زرہ وغہرہ اس کے بدن سے اتار کر سعدؓ کے آگے لا کر رکھ دیں۔ سعدؓ نے عبرت کے لیے حکم دیا کہ نابل وہی لبا س اور اسلحہ سج کر آئے۔ چنانچہ شہریار کے زرق برق لباس اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر وہ مجمع عام میں آیا تو لوگوں کی آنکھوںمیں زمانے کی نیرنگیوں کی تصویر پھر گئی۔ کوثی ایک تاریخی مقام ہے۔ حضرت ابراہیم کو نمرود نے یہیں قید رکھا تھا۔ چنانچہ قید خانے کی جگہ اب تک محفوظ تھی۔ سعدؓ اس کی زیارت کو گئے اور درود پڑھ کر یہ آیت پڑھی۔ تلک الایام نداولھا بین الناس (۳؍آل عمران : ۱۴۰) کوثی سے آگے پائے تخت کے قریب بہرہ شیر ایک مقام تھا۔ یہاں ایک شاہی رسالہ رہتا تھا جو ہر روز ایک بار قسم کھا کر کہتا تھا کہ جب تک ہم ہیں سلطنت فارس پر کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ یہاں ایک شیر پلا ہوا تھا جو کسریٰ سے بہت ہلا ہوا تھا اور اسی لیے اس شیر کو بحرہ شیر کہتے تھے۔ سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو وہ تڑپ کر نکا لیکن ہاشم نے جو ہر اول کے افسر تھے اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھر ہو کر رہ گیا۔ سعدؓ نے اس بہادری پر ان کی پیشانی چوم لی۔ آگے بڑھ کر سعدؓ نے بہرہ شیر کا محاصرہ کر لیا اور فوج نے ادھر ادھر پھیل کر ہزاروںآدمی گرفتار کر لیے شہرزاد نے جو ساباط کا رئیس تھا سعدؓ سے کہایہ معمولی کاشتکار ہیں ان کے ید کرنے سے کیا حاصل چنانچہ سعد ؓ نے ان کانام دفتر میں درج کر لیے اور چھوڑ دیا۔ آس پاس کے تمام رئیسوں نے جزیہ قبول کر لیا لیکن شہر پر قبضہ نہ ہوسکا۔ دو مہینے تک برابر محاصرہ رہا ایرانی کبھی کبھی قلعہ سے نکل کر معرکہ آراء ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے جوش و خروش سے سب نے مرنے پرکمریں باندھیں اور تیر برساتے ہوئے نکلے۔ مسلمانوں نے بھی برابر کاجواب دیا۔ زہرہ جو ایک مشہور افسر تھے اور معرکوں میں سب سے آگے آگے رہتے تھے ان کی زرہ کی کڑیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ گئیں۔ لوگوں نے کہا کہ ا س زرہ کو بدل کر نئی پہن لیجیے۔ بولے کہ میں ایسا خوش قسمت کہاں ہوں کہ دشمن کے تیر سب کو چھوڑ کر میری ہی طرف آئیں۔ اتفاق یہ کہ پہلا تیر انہی کو آ کر لگا۔ لوگوں نے نکالنا چاہا تو منع کیا کہ جب تک یہ بدن میں ہے اس وقت تک میں زندہ بھی ہوں۔ چنانچہ اسی حات میں حملہ کرتے بڑے اور شہر براز کو جو ایک نامی افسر تھا تلوار سے مارا۔ تھوڑی دیر لڑکر ایرانی بھاگ چلے اور شہر واولںنے صلح کا پھریرا اڑایا۔ بہرہ شیر اور مدائن میں صرف دجلہ ہائل تھا۔ سعدؓ بہرہ شیر سے بڑھے توآگے دجلہ تھا۔ ایرانیوںنے پہلے سے جہاں جہاں پل بندھے تھے توڑ کر بیکار کر دیے تھے۔ سعدؓ دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو نہ پل تھا اورنہ کشتی۔ فوج کی طرف مخاطب ہو کر کہا برادران اسلام دشمن نے ہر طر ف سے ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم بھی سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔ یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کو دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اوردفعتہ سب نے گھوڑے دریامیں ڈال دیے۔ دریا اگرچہ نہایت ذخار اور مواج تھا لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میںیہ استقلال پیداکر دیا تھا کہ موجیںبرابر گھوڑوں سے آ آ کرٹکراتی تھیںَ اور یہ رکاب سے رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کریمین و یسارکی جو ترتیب تھی اس میںبھی فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشا دیکھ رہے تھے۔ جب فوج بالکل کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیںجن ہیںَ چنانچہ دیواں آمدند دیواں آمدند ۱؎ کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرز اد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھا ٹ پر تیر اندازوں کے دستے متعین کیے۔ ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح ہٹاتے پار نکل گئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کوپہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کرنکل گیا سعدؓ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔ نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار یہ آیتیں زبان سے نکلیں: ۱؎ تاریخ طبری میں بعینہ یہی الفاظ ہیں۔ کم ترکو ا من جنت وعیون و زروع ومقام کریم و نعمۃ کانوا فیھا فکیھین کذالک واورثنھا قوما اخرین (۴۴؍الدخان: ۲۵‘۲۸) ایوان کسریٰ میں تخت شاہی کی بجائے منصب منبر ہوا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز اسی میں ادا کی گء اوریہ پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا۔ ہمارے فقہاکو تعجب ہو گا کہ سعدؓ نے باوجودیکہ اکابر صحابہؓ می سے تھے اوربرسوں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے عالمگیر و محمود کی تقلید نہیں کی بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں سب برقرار رہنے دیں۔ ۱؎ دو تین دن ٹھہر کر سعدؓ نے حکم دیا کہ ایوانات شاہی کا خزانہ اور نادرات لا کر یکجا کیے جائیںَ کیانی سلسلے سے لے کر نوشیرواں کے عہد تک کی ہزاروں یادگار چیزیںتھیں۔ خاقان چین‘ راجہ داہر‘ قیصر روم‘ نعمان بن منذر‘ سیائوش بہرام بوبیں کی زرہیں اور تلواریں تھیں کسریٰ ہرمز اور قباد کے خنجر تھے نوشیروان کا تاج زرنگار اور ملبوس شاہی تھا۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین کسا ہوا تھا اور سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوء ے تھے چاندی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ ناقہ سوار سر سے پائوں تک جواہرات سے مرصع تھا سب سے عجیب و غریب ایک فرش تھا جس کو ایرانی بہار کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ فرش اس غرض سے تیار کیا گیا تھا کہ جب بہار کا موسم نکل جاتا تو اسپر بیٹھ کر شراب پیتے تھے۔ اس رعایت سے اس میں بہار کے تمام سامان مہیا کیے گئے تھے۔ بیچ میںسبزے کا چمن تھا۔ چارو ں طرف جدولیں تھیںَ ہر قسم کے درخت اور درختوں میں شگوفے اور پھول اور پھل تھے۔ طرہ یہ کہ جو کچھ تھا زروجواہرات کا تھا۔ یعنی سونے کی زمین زمرد کا سبزہ پکھراج کی جدولیں سونے چاندی کے درخت حریر کے پتے جواہرات کے پھل ۔ یہ تمام سامان فوج کی عام غارت گری میں ہاتھ آیاتھا لیکن اہل فوج ایسے راست باز اور دیانت دار تھے کہ جس نے جو چیزپائی تھی بجنسہ لاکر افسر کے پاس حاضر کر دی تھی۔چنانچہ جب سب سامان لا کر سجایا گیا تو دور دور تک میدان جگمگااٹھا تو خود سعدؓ کو حیرت ہوئی۔ بار بار تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن لوگوںنے ان نادرات کوہاتھ نہیںلگایا بے شبہ انتہاکے دیانت دار ہیں۔ مال غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں بجنسہ بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب یہ سامان چن گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اوراستغناء پر حیرت ہوئی۔ ۱؎ علامہ طبری نے جو بڑے محدث تھے تصریح کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے۔ محلم نامی مدینہ میں ایک شخص تھا جو نہایت موزوں قامت اورخوبصورت تھا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا نوشیروان کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے۔ سواری کا جدا دربار کا جدا‘ جشن کا جدا‘ تہنیت کا جدا‘ چنانچہ باری باری تمام ملبوسات محلم کو پہنائے گئے۔ جب ملبوس خاص اور تاج زرنگار پہنا تو تماشائیوں کی آنکھیںخیرہ ہو گئیں اور دیر تک لوگ حیرت سے تکتے رہے۔ فرش کی نسبت لوگوں کی یہ رائے تھی کہ تقسیم نہ کیا جائے خود حضرت عمرؓ کا بھی یہی منشا تھا لیکن حضرت علیؓ کے اصرا ر سے اس بہار پر بھی خزاں آئی اور دولت نوشیروانی کے مرقع کے پرزے اڑ گئے۔ یورپ کے موجودہ مذاق کے موافق یہ ایک وحشیانہ حرکت تھی لیکن ہر زمانے کا مذاق جداہے وہ مقدس زمانہ جس میں زخارف دنیوی کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ دنیاوی یادگاروں کی کیا پروا کر سکتا تھا۔ جلولاء ۱؎ ۱۶ ھ (۷۳۷ئ) یہ معرکہ فتوحات عراق کا خاتمہ تھا۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جنگ کی تیاریاں شروع کیں اور ایک بڑی فوج جمع کرلی۔ خرزا د نے جو رستم کا بھائی اور سر لشکر تھا نہایت تدبیر سے کام لیا۔ شہر کے گرد خندق تیار کرائی اور راستوں اور گزرگاہوں پر گوکھرو بچھا دیے۔ سعد ؓ کو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمرؓ کو خط لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائیں اور مقدمتہ الجیش پر قعقاع‘ میمنہ پر مسعر بن مالک‘ میسرہ پر عمرو بن مالک‘ ساقہ پر عمرو بن مرہ مقرر ہوں۔ ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے دن جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینوں محاصرہ رہا اور ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے۔ اس طرح ۸۰ معرکے ہوئے لیکن ایرانیوں نے ہمیشہ شکست کھائی۔ تاہم چونکہ شہر میں ہر طرح کا ذخیرہ مہیا تھا اور لاکھوں کی جمعیت تھی۔ بے دل نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے زور شور سے نکلے۔ مسلمانوںنے بھی جم کرمقابلہ کیا۔ اتفاق سے یہ کہ دفعتہ اس زور کی آندھی چلی کہ زمین و آسمان میں اندھیرا ہو گیا ایرانیوں نے یہ دیکھ کر جا بجا خندق کو پاٹ کر راستہ بنایا۔ مسلمانوں کو یہ خبر ہوئی تو انہوںنے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حملے کی تیاریاں کیںَ ایرانیوں کو بھی دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں۔ ۱؎ جلولاء بغداد کے سواد میں ایک شہر ہے جو بسبب چھوٹے ہونے کے نقشے میں مندرج نہیںہے بغداد سے خراسان جاتے وقت راہ میں پڑتاہے۔ اسی وقت مسلمانوں کی آمد کے رخ گوکھرو بچھوا دیے اور فوج کو سروسامان سے درست کر کے قلعہ کے دروازے پر جما دیا۔ دونوں حریف اس طرح دل توڑ کر لڑے کہ گیلتہ الہریرکے سوا کبھی نہیں لڑے تھے۔ اول تیرو ں کا مینہ برسا ترکش خای ہو گئے تو بہاروں نے نیزے سنبھالے یہاں تک کہ نیزے بھی ٹوٹ گئے اور تیغ و خنجر کا معرکہ شروع ہوا۔ قعقاع بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے اور برابر آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ قلعہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے لیکن سپہ سالار فوج یعنی بنی ہاشم پیچھے رہ گئے اور فوج کا بڑا حصہ انہی کی رکاب میں تھا۔ قعقاع نے نقیبوں سے کہلوا دیا کہ سپہ سالار قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا ہے۔ فوج نے قعقاع کو ہاشم سمجھا اور دفعتہ ٹوٹ کر گی۔ ایرانی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے لیکن جس طرف جاتے گھکھرو بچھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مورخ طبعی کی روایت کے مطابق ایک لاکھ آدمی جان سے مارے گئے اورتین کروڑ غنیمت ہاتھ آئی۔ سعدؓ نے مژدہ فتح کے ااتھ پانچواں حصہ مدینہ بھجا زیاد نے جو مژدہ فتح لے کر گئے تھے فصاحت کے ساتھ جنگ کے حالات بیان کیے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان واقعات کو کسی طرح مجمع عام میں بیان کر سکتے ہو؟ زیاد نے کہا میں کسی سے مرعوب نہیںہوتا تو آپ سے ہوتا۔ چنانچہ مجمع عام ہوا اور انہوںنے فصاحت و بلاغت سے تمام واقعات بیان کیے کہ معرکہ کی تصویر کھینچ دی۔ حضرت عمرؓ ؤبول اٹھے خطیب اس کو کہتے ہیں انہوںنے برجستہ کہا: ا جندنا اطلقونا بالفعال لساننا اس کے بعد زیاد نے غنیمت کا ذخیرہ حاضر کیا لیکن اس وقت شام ہو چکی تھی اس لیے تقسیم ملتوی کر دی اور صحن مسجد میں ان کا ڈھیر لگا دیا۔ عبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن ارقمؓ نے رات بھر پہرہ دیا۔ صبح کو مجمع عام میں چادر ہٹائی گئ۔ درہم و دنار کے علاوہ انبار کے انبار جواہرات تھے۔ حضرت عمرؓ بے ساختہ روپڑے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ رونے کا کیا محل ہے؟ فرمایا جہاں دولت کا قدم آتا ہے رشک و حسد بھی آتا ہے۔ یزدگر د کو جلولاء کی شکست کی خبر پہنچی تو حلوان چھوڑ کر رے کو روانہ ہو گیا اور خسرشنوم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ حلوان کی حفاظت کے لیے چھوڑ گیا۔ سعدؓ خود جلولاء میں ٹھہرے اور قعقاع کو حلوان کی طرف روانہ کیا۔ قعقاع قصر شیروان (حلوان سے تین میل پر ہے) کے قریب پہنچے تھے کہ خسروششنوم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ قعقاع نے حلوان پہنچ کر مقام کیا اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی۔ اطراف کے رئیس آ آ کر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے۔ اور اسلام کی حمایت کرتے جاتے تھے۔ یہ فتح عراق کی فتوحات کا خاتمہ تھی کیونکہ عراق کی حد یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ فتوحات شام سلسلہ واقعات کے لحاظ سے ہم اس موقع پر شام کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات بھی نہایت اجال کے ساتھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے آغاز ۱۳ھ (۶۳۴ئ) میں شام پر کئی طرف سے لشکرکشی کی۔ ابوعبیدہؓ کو حمص پر یزید بن ابی سفیانؓ کو دمشق پر شرجیل ؓ کو اردن پر عمرو بن العاص ؓ کو فلسطین پر مامور کیا۔ فوجوں کی مجموعی تعداد ۲۴۰۰۰ تھی عرب کی سرحد سے نکل کر ان افسروں کو ہر قدم پر رومیوںکے برے بڑے جتھے ملے جو پہلے سے مقابلہ کے لیے تیار تھے۔ ان کے علاوہ قیصر نے تمام ملک سے فوجیں جمع کرکے الگ الگ افسروں کے مقابلے پر بھیجیں۔ یہ دیکھ کر افسران اسلا نے اس پر اتفاق کیا کہ ک فوجیں یکجا جمع ہو جائیںَ ا س کے ساتھ ابوبکرؓ کو خط لکھا اور فوجیں دد کو روانہ کیں۔ چنانچہ خالد بن ولیدؓ جو عراق کے مہم پر مامور تھے عراق سے چل کر راہ میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑتے اور فتح حاصل کرتے دمشق پہنچے اوراس کو صدرمقام قرار دے کر وہاں مقام کیا۔ قیصر نے ایک بری فوج مقابلے کے لیے روانہ کی جس نے اجنادین پرپہنچ کر جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ خالد اور ابوعبیدہؓ خود پیش قدمی کر کے اجنادین پر بڑھے اور افسروں کو لکھ بھیجا کہ وہیں آکر مل جائیں چنانچہ شرجیل یزید عمر و بن العال ؓ وقت مقررہ پر اجنادین پہنچ گئے۔ خالدؓ نے بڑھ کر حملہ کیا اور بہت بڑے معرکے کے بعد جس میں تین ہزار مسلمان مارے گئے کامل فتح حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ حسب روایت ابن اسحاق ۲۸ جماد ی الاول ۱۳ ھ (۶۳۴ئ) میں واقع ہوا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر خالدؓ نے پھر دمشق کا رخ کیا اور دمشق پہنچ کر ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ اگرچہ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں شروع ہوا لیکن چونکہ فتح حضرت عمرؓ کے عہد میں حاصل ہوئی ہم اس معرکہ کا حال تفصیل سے لکھتے ہیں۔ فتح دمشق یہ شہر شام کا ایک بڑا صدر مقام تھا اور چونکہ جاہلیت میں اہل عرب تجارت کے تعلق سے وہاں اکثر آیا جایاکرتے تھے۔ اس کی عظمت کا شہرہ تمام عرب میںتھا۔ ان وجوہ سے خالدؓ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کے سامان کیے۔ شہر پناہ کے بڑے بڑے دروازوں پر ان افسروں کو قرر کیا جو شام کے صوبوں کی فتح پر مامور ہو کر آئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاسؓ باب توما پر شرجیل ؓ باب الفرادیس پر ابوعبیدہؓ باب الجابیہ پر متین ہوئے اور خود خالدؓ نے پانچ ہزار فوج ساتھ لے کر باب الشرق کے قریب ڈیرے ڈالے۔ محاصرہ کی سختی سے عیسائی ہمت ہارے جاتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ ان کے جاسوس جو دریافت کے لیے مسلمانوں کی فوج میں آتے تھے۔ آ کر دیکھتے تھے کہ تمام فوج میں ایک جوش کا عالم ہے۔ ہر شخص پر ایک نشہ سا چھایا ہے ہر ہر فرد میں دلیری ثابت قدمی راست بازی عزم اور استقلال پایا جاتا ہے۔ تاہم ان کو یہ سہارا تھا کہ ہرق سرپر موجود ہے اور حمص سے امدادی فوجیں چل چکی ہیں۔ اسی اثناء میں ابوبکرؓ نے انتقال کیا۔ اور حضرت عمرؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔ عیسائیوں کوبھی خیال تھا کہ اہل عرب ان ممالک کی سردی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ا س لیے موسم سرما تک یہ بادل آ پ سے آپ چھٹ جائے گا۔ لیک ان کی دونوں امیدیں بیکار گئیں مسلمانوں کی سرگرمی جاڑوں کی شدت می بھی کم نہ ہوئی۔ ادھر خالدؓ نے والکلاع کو کچھ فوج دے کر دمشق سے ایک منزل کے فاصلے پر متعین کردیا تھا۔ کہ ادھر سے مدد نہ آنے پائے۔ چنانچہ ہرقل نے حمص سے جو فوجیں بھیجیں تھیں وہیں روک لی گئیں۔ دمشق والوں کو اب بالکل مایوسی ہو گئی اسی اثنا میں اتفاق سے ایک واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں تائید غیبی کا کام دے گیا عینی بطریق دمشق کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کی تقریب میں تمام شہر نے خوشی سے جلسے کیے اور اس کثرت سے شرابیں پیں کہ شام سے پڑ کرسو رہے۔ خالدؓ راتوں کو سوتے کم تھے اور محصورین کی ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے تھے۔ اس سے عمدہ موقع کہاں ہاتھ آ سکتا ہے کہ اسی وقت اٹھے ارو چند بہادر افسروں کو ساتھ لیا۔ شہر پناہ کے نیچے خندق پانی سے لبریز تھی۔ مشک کے سہارے پار اترے اور کمند کے ذریعے دیوار پر چڑھ گئے۔ اوپر جا کر رسی کی سیڑھی کمند سے اٹکاکر نیچے لٹکا دی اور اس ترکیب سے تھوڑی سی دیر میں بہت جانثار فصیل پر پہنچ گئے۔ ۱؎خالد نے اتر کر پہلے دربانوںکو تہ تیغ کیا پھر قفل توڑ کر دروازے کھول دیے۔ ادھر فوج پہلے سے تیار کھڑی تھی دروازہ کھلنے کے ساتھ سیالب کی طرح گھس آئی اور پہرہ کی فوج کو تہہ تیغ کر دیا۔ عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھ کر شہر پناہ کے تمام دروازے خود کھول دیے اور ابوعبیدہؓ سے ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالدؓ سے بچائیے۔ مقسلا ط میں جو ٹھیٹروں کا بازار تھا ابوعبید و خالڈؓ کا سامنا ہوا۔ ۱؎ یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری کا بیان ہے کہ خالدؓکو عیسائیوں نے جنشن کی خبر خود ایک عیسائی نے سنائی تھی اور سیڑھی بھی عیسائی لائے تھے۔ خالدؓ نے شہر کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا اگرچہ لڑ کر فتح کیا تھا لیکن ابوعبیدؓ نے چونکہ صلح منظور کر لی تھی۔ مفتوحہ حصے میںبھی صلح کی شرطیں تسلیم کر لی گئیں یعنی نہ غنیمت کی اجازت دی گئی اور نہ کوئی شخص لونڈی یا غلام بنایا گیا۔ یہ مبارک فتح جو تمام بلاد شامیہ کی فتح کا دیباچہ تھی رجب ۱۴ ھ (۶۳۵ء میں ہوئی۔ فحل زوقعدہ ۱۴ھ (۶۳۵ئ) دمشق کی شکست نے رومیوں کو سخت برہم کیا او ر وہ ہر طرف سے جمع ہو کر بڑے زور اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے آمادہ ہوئے۔ دمشق کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا اس لیے انہوںنے اسی صوبے کے ایک مشہور شہر بیسان میںفوجیں جمع کرنی شروع کیں۔ شہنشاہ ہرقل نے دمشق کی امداد کے لیے جو فوجیں بھیجی تھیں اور دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں وہ بھی اس میں آکر شامل ہو گئیں۔ اس طرح تیس چالیس ہزار کا مجمع ہو گیا جس کا سپہ سالار رسلکار نام کا ایک رومی افسر تھا۔ موقعہ جنگ کے سمجھنے کے لیے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شام کا ملک چھ ضلعوں میں منقسم تھا۔ جن سے د مشق‘ حمص‘ اردن‘ فلسطن مشہور اضلاع تھے۔۔ اردن کا صدر مقام طبریہ تھا جو دمشق سے چار منزل تھا طبریہ کے مشرقی جانب بارہ میل کی لمبی ایک جھیل ہے اسی ک قریب چند میل پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کا نام پرانا نام سلا اور نیا یعنی عرب نام فجل ہے۔ یہ لڑائی اسی شہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام اب بالکل ویران ہے تاہم اس کے کچھ کچھ آثار اب بھی سمندر کی سطح سے چھ سو فٹ بلندی پر محسو س ہوتے ہیں۔ بیسان طبریہ کی جنوبی طرف ۱۸ میل پر واقع ہے۔ رومی فوجیں بیسان میں جمع ہوئیں اور مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل میں پڑائو ڈالا۔ رومیوںنے اس ڈر سے کہ مسلمان دفعتہ نہ آ پڑیں۔ آس پاس جس قدر نہریںتھیں سب کے بند توڑ دیے وارفحل سے بیسان تک تمام عالم آب ہو گیا۔ کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب کب رک سکتا تھا۔ مسلمانو ں کااستقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے۔ اور ابوعبیدہؓ کے پاس پیغا م بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابوعبیدہ ؓ نے معاذ بن جبلؓ کو بھیجا معاذ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے وہیں ٹھہر گئے۔ ایک عیسائی نے آ کر کہا کہ میں گھوڑ ا تھام لیتا ہوں۔ آپ دربار میں جا کر بیٹھیے۔ معاذ ؓ کی بزرگی اور تقدس کا عام چرچاتھا اور عیسائی تک اس سے واقف تھے۔ اس لیے وہ واقعی ان کی عزت کرنی چاہتے تھے اور ان کاباہر کھڑا رہنا ان کو گراں گزرتا تھا۔ معاذؓ نے کہا میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہواہے بیٹھنا نہیں چاہتا یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عیسائیوں نے افسوس کیا اور کہا کہ ہم تمہاری عزت کرنا چاہتے تھے لیکن تم کو خود اپنی عزت کا خیا ل نہیں تو مجبوری ہے۔ معاذؓ کو غصہ آیا گھٹنوںکے بل کھڑے ہوگئے اور کہا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہومجھے اس کی پرواہ نہیںَ اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر کون اللہ کا غلام ہو سکتاہے؟ رومی ان کی بے پروائی اور آزدی پر حیرت زدہ تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بڑھ کر بھی کوء ہے؟َ انہوںنے کہا معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ یں سب سے بدتر نہ ہوں۔ رومی چپ ہو گئے۔ معاذ ؓ نے کچھ دیر تک انتظار کیا اور مترجم سے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ گر تم کو مجھ سے کچھ کہنا نہیں ہے تو میں واپس جاتا ہوں۔ رومیوں نے کہا ہ کو یہ پوچھنا ہے کہ تم اس طرف کس غرض سے آئے ہو۔ ابی سینیا کا ملک تم سے قریب ہے۔ فارس کا بادشاہ مر چکا ہے۔ اور سلطنت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو چھوڑ کر تم ہماری طرف کیوں رخ کیا۔ حالانکہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسامان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں۔معاذؓ نے کہا سب سے پہلے یہ ہماری درخواست ہے کہ تم مسلمان ہو جائو۔ ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو شراب پینا چھوڑ دو سور کا گوشت نہ کھائو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہارے بھائی ہیںَ اگر اسلام لانا منظور نہیں ہے تو جزیہ دو۔ اس سے بھی انکار ہو تو آگے تلوار ہے۔ اگر تم آسمان کے ستاروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت اور کثرت کی پراوہ نہیں ہمارے اللہ نے کہا ہے کم من فیہ قلیلۃ غلبت فیۃ کثیرۃ باذن اللہ تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شنہشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیںَ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کوہم سے بڑا نہیں سمجھتا مال و دولت میں اس کو ہم پر کوئی ترجیح نہیں۔ رومیوںنے کہا اچھا ہم تم کو بلقا کا ضع اور ارد ن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں تم یہ لک چھوڑ کر فارس جائو معاذؓ نے انکار کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔ رومیوںنے براہ راست ابوعبیدہؓ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک قاصد بھیجا جس وقت وہ پہنچا ابوعبیدہ ؓ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔ قاصد نے خیال کیا کہ سپہ سالار بڑا جاہ و ہشم رکھتا ہو گا اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا لیکن وہ جس طرح آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا وہ حیران رہ گای اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو ابوعبیدہؓ نے کہا ہاںَ قاصد نے کہا ہم تمہاری فوج کو فی کس دو د و اشرفیاں دیں گے تم یہاں سے چلے جائو۔ ابوعبیدہ ؓ نے انکار کیا تو برہم ہو کر اٹھا۔ ابوعبیدہؓ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمرؓ کو لکھ بھیجے ۱؎۔ حضرت عمرؓ نے جواب مناسب لکھا اور حوصلہ دیا کہ ثابت قدم رہو اللہ تمہارا یاور اور مددگار ہے۔ ابوعبیدہؓ نے اسی دن کمربندی کا حکم دے دیا تھا لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے۔ اگلے دن تنہا خالدؓ میدان میں گئے صر ف سواروں کا ایک رسالہ رکاب دار تھا۔ رومیوںنے بھی جنگ کی تیاری کی اور فوج کے تین حصے کر کے باری باری میدان میں بھیجے۔ پہا دستہ خالدؓ کی طرف باگیں اٹھائے چل آ رہا تھا کہ خالدؓ کے اشارے سے قیس بن ہبیرہ نے صف سے نکل کر ان کا آگا روکا اور سخت کشت و خون ہوا۔ یہ معرکہ ابھی سر نہیں ہو ا تھا کہ دوسری فوج نکلی۔ خالدؓ نے میسرہ بن مسروق کو اشارہ کیا وہ اپنے رکاب کی فوج لے کر مقابل ہوئے تیسرا لشکر بڑے سروسامان سے نکلا۔ ایک مشہور سپہ سالار تھا اور بڑی تدبیر سے فوج کوبڑھاتا آتا تھا۔ قریب پہنچ کر خود ٹھہر گیا اور ایک افسر کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ خالدؓ کے مقابلے کو بھیجا خالدؓ نے بھی یہ حملہ نہایت استقلال سے سنبھالا۔ آخر سپہ سالار نے خود حملہ کای اورپہلی دونون فوجیں آ کر مل گئیںَ دیر تک معرکہ رہا۔ مسلمانوںکی ثابت قدمی دیکھ کر رومیوںنے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور الٹا بھاگنا چاہا۔ خالدؓ نے ساتھیوں سے کہا کہ رومی اپنا زور صرف کر چکے اب ہماری باری ہے اس صدا کے ساتھ مسلمان دفعتہ ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو برابر د باتے چلے گئے۔ عیسائی مدد کے انتظارمیں لڑائی ٹالتے جا رہے تھے۔ خالدؓ ان کی یہ چال سمجھ گئے اور ابوعبیدہؓ سے کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ حملے کا یہی وقت ہے چنانچہ اسی وقت نقیب فوج میں جا کر پکار آئے کہ حملہ کل ہوگا۔ فوج سروسامان سے تیار رہے۔ رات کے پچھلے پہر ابوعبیدہ ؓ بستر خواب سے اٹھے اور فوج کی ترتیب شروع کی۔ معاذ بن جبلؓ کومیمنہ پر مقرر کیا سوار خالدؓ کی ماتحتی میں دیے گئے۔ فوج آراستہ ہو چکی تو ابوعبیدہؓ نے اس سرے سے اس سرے تک ایک چکر لگایا۔ ایک ایک علم کے پاس جا کر کھڑ ے ہوتے تھے اورکہتے تھے۔ عباد اللہ استو جبو من اللہ النصر بالصبر فان اللہ مع الصبرین ’’یعنی اللہ سے مدد چاہتے ہوتو ثابت قدم رہو کیونکہ اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہوتا ہے‘‘۔ ۱؎ فتوح الشام ازدی میں ہے کہ یہ خط ایک شامی لے کر گیا تھا اور حضرت عمرؓ کی ترغیب سے مسلمان ہو گیا۔ رومیوںنے جو تقریباً پچاس ہزارتھے‘ آگے پیچھے پانچ صفیں قائم کیں جن کی ترتیب یہ تھی کہ پہلی صف میں ہر ہر سوار کے دائیں بائیں دو دو قدر انداز میمنہ اور میسرہ پر سواروں کے رسالے پیچھے پیادہ فوجیں۔ اس ترتیب سے نقارہ و دمامہ بجاتے ہوئے مسلمانوں کی طرف بڑھے۔ خالدؓ چونکہ ہر اول پر تھے انہی سے مقابلہ ہوا۔ رومی قدر اندازوں نے تیروں کا اس قدر مینہ برسایا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ خالد ؓ ادھرسے پلو دے کر مہمنہ کی طرف جھکے یونکہ اس مین سوار ہی سوار تھے۔ قدر انداز نہ تھے رومیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے تھے کہ میمنہ کا رسالہ فوج سے الگ ہو کر خالدؓ پر حملہ آور ہوا۔ خالدؓ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے یہاں تک کہ رسالہ فوج سے دورنکل آیا۔ خالدؓ نے موقع پا کر اس زور شو رسے حملہ کیا کی صفیںکی صفیں الٹ دیں۔ گیارہ بڑے بڑے افسر ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔ ادھر قیس بن ہبیرہ نے میسرہ پر حملہ کرکے رومیوں کا دوسرا باز و بھی کمزور کر دیا۔ تاہم قلب کی فوج تیر اندازوں کی وجہ سے محفوظ تھی۔ ہاشم بن عتبہؓ نے جو میسرہ کے سردار تھے علم ہلا کر کہا اللہ کی قسم جب تک اس کو قلب میں پہنچ کر نہ گاڑدوں گا پھر کر نہ آئوں گا۔ یہ کہہ کر گھوڑے سے کو دپڑے اور ہاتھ میں سپر لے کر لڑتے بھڑتے اس قدر قریب پہنچ گئے کہ تیر و خدنگ سے گزر کر تیغ و شمشیر کی نوبت آئی۔ کامل گھنٹہ بھر لڑائی رہی اور تمام میدان خون سے رنگین ہو گیا۔ آخر رومیوں کے پائو ں اکھڑ گئے اور نہایت بدحواسی سے بھاگے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو فتح نامہ لکھا اور پوچھا کہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۱؎ حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ رعایا ذمی قرار دی جائے اور زمین بدستور زمینداروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے۔ اس معرکے کے بعد ضلع اردن کے تمام شہر اورمقامات نہایت آسانی سے فتح ہو گئے اور ہر جگہ شرائط صلح میں یہ لکھ دیا گیا کہ مفتوحین کی جان و مال زمین مکانات گرجے عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گی صر ف مسجدوں کی تعمیر کے لیے کسی قدر زمین لے لی جائے گی۔ حمص ۱۴ھ (۶۳۵ئ) شام کے اضلاع میں یہ ایک بڑا ضلع ہ اور قدیم شہر ہے۔ انگریزی میں اس کو امیساء کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کی شہرت اس وجہ سے ہوئی کہ یہاں آفتاب کے نام پر ایک بڑا دیوہیکل تھا جس کے تیرتھ کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے اوراس کا پجاری ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جات تھی۔ دمشق اور اردن کے بعد تین بڑے شہررہ گئے تھے جن کا مفتوح ہونا شام کا مفتوح ہونا تھا۔ بیت المقدس حمص اور انطاکیہ جہاں خود ہرقل مقیم تھا‘ حمص ان دونوں کی نسبت زیادہ قریب او ر جمعیت و سامان میں دونوں سے کم تھا۔ ۱؎ واقعہ فحل کی تفصیل فتوح الشام ازدی سے لی گئی ہے طبری وغیرہ ؤمیں اس کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے واقعہ کی کیفیت بھی خلاف ہے ۔ اس لیے لشکر اسلام نے اول اسی کا ارادہ کیا۔ راہ میں بعلبک پڑتا تھا وہ خفیف سی لڑائی کے بعد فتح ہو گیا۔ حمص کے قریب رومیوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چنانچہ ایک فوج کثیر حمص سے نکل کر جوسیہ میں مسلمانوں سے مقابل ہوئی لیکن خالدؓ کے پہلے ہی حملے میں ان کے پائوں اکھڑ گئے۔ خالدؓ نے بہرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص روانہ کیا راہ میں رومیوں کی ٹوٹی پھوٹی فوجوں سے جو ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھی مڈبھیڑ ہوئی اور مسلمان کامیاب رہے۔ اس معرکے میں شرجیل حمیری نے اکیلے سات سواروں کو قتل کیا اورفوج سے الگ ہو کر جریدہ حمص کی طرف بڑھے۔ شہر کے قریب رومیوں کے ایک رسالے نے ان کو تنہا دیکھ کر حملہ کیا۔ انہوں ے بڑی ثابت قدمی سے جنگ کی یہاں تک کہ جب دس گیارہ شخص ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو رومی بھا گ نکلے اور ایک گرجا میںجو دیر مسحل کے نام سے مشہورتھا جا کر پناہ لی ساتھ ہی یہ بھی پہنچے گرجا میں اییک جماعت کثیر موجود تھی۔ یہ چاروں طرف سے گھر گئے اور ڈھیلوں اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی ہو کر شہادت حاصل کی۔ میسرہ کے بعد خالدؓ اور ابوعبیدہؓ نے بھی حمص کا رخ کیا اور محاصرہ کے ساما پھیلا دیے۔ چونکہ نہایت سردی تھی رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہ لڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہرقل کا قاصد آ چکا تھا کہ بہت جلد مدد بھیجی جات ہے۔ چنانچہ اس کے حکم کے موافق جزیرہ سے ایک جمعیت عظیم روانہ ہوئی لیکن سعد بن ابی وقاصؓ نے جو عراق کی مہم پر مامورتھے یہ خبر سن کر کچھ فوجیں بھیج دیں۔ جس نے ان کو وہیں روک لیا اور آگے بڑھنے نہ دیا ۱؎۔ حمص والوں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر صلح کی درخواست کی۔ ابوعبیدہؓ نے عبادہ بن صامت کو وہاں چھوڑا اور خود حماۃ ۲؎ کی طرف روانہ ہوئے۔ حماۃ والوںنے ان کے پہنچنے کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا منظور کیا وہاں سے روانہ ہو کر شیزر اور شیزر سے معرۃ السمعان پہنچے اور ان مقامات کے لوگوں نے خود اطاعت قبول کر لی۔ ان سے فارغ ہو کر لاذقیہ کا رخ کیا۔ یہ ایک نہایت قدیم شہر ہے۔ فینیشن کے عہد میں اس کو امانثا کہتے تھے حضرت ابوعبیدہؓ نے یہاں سے کچھ فاصلے پر مقام کیا اور اس کی مضبوطی اور استواری دیکھ کر ایک نئی تدبیر اختیار کی یعنی میدان میں بہت سے غار کھدوائے۔ یہ غار اس تدبیر اور احتیاط سے تیار ہوئے کہ دشمنوں کو خبر تک نہ ہونے پائی ایک د فوج کو کوچ کا حکم دیا اور محاصرہ چھوڑ کر حمص کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر والوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ ا ٓگئے تھے اوران کا تمام کاروبار بند تھا۔ اس کو تائید غیبی سمجھا اور شہر کادرواز ہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہوئے۔ ۱؎ کامل ابن الاثیر ۲؎ یہ ایک قدیم شہر حمص اور قسرین کے درمیان واقع ہے۔ مسلمان اسی رات کو واپس آ کر غاروں میں چھپ رہے تھے۔ صبح کے وقت کمین گاہوں سے نکل کر دفعتہ حملہ کیا اور دم کی دم میں شہر فتح ہو گیا۔ حمص کی فتح کے بعد ابوعبیدہؓ نے خاص ہرقل کے پائے تخت کا ارادہ کیا اور کچھ فوجیں اس طرح بھیج بھی دیں لیکن دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال اور آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس ارشاد کے موافق فوجیں واپس بلا لی گئیں۔ ۱؎ اور بڑے بڑے شہر وںمیں افسروں اور نائب بھیج دیے گئے کہ وہاں کسی طرح کی ابتری نہ ہونے پائے۔ خالدؓ ایک ہزار فوج لے کر دمشق کو گئے۔ عمرو بن العاص ؓ نے اردن میں قیام کیا۔ ابوعبیدہؓ نے خود حمص میں اقامت کی۔ یرموک ۵ رجب ۱۵ ھ (۶۳۶ئ) رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے انطاکیہ پہنچے اورہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامال کر دیا ہے۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ عرب تم سے زور میں جمعیت میں سروسامان میں کم ہیں پھر تم ان سے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن ایک تجربہ کار بوڑھے نے عرض کیا کہ عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کوروزہ رکھتے ہیں کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک ایک سے برابری سے ملتاہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں بدکاریاں کرتے ہیں اقرار کی پابندی نہیںکرتے۔ اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے ہر کام میں جوش و استقلال پایاجاتا ہے۔ اور ہمارا جو کا ہوتا ہے ہمت و استقلال سے خالی ہوتا ہے۔ قیصر درحقیقت شامل سے نکل جانے کاارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیر ت آئی اورنہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہواکہ شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے۔ روم قسطنطنیہ جزیرہ آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروںکو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو ں سکیں روانہ کیے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امڈ آیا انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھیں فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔ ۱؎ فتوح ازردی ص ۱۳۱ حضرت ابوعبیدہؓ نے جو مقامات فتح کر لیے تھے وہاں کے امراء اور رئیس ا ن کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود تخالف مذہب کے خود اپنے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقر ر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت ابوعبیدہؓ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہو ںنے تمام افسروںکو جمع کیا اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانو! اللہ نے تم کو باربار جانچا اور تم اس کی جانچ میں پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلے میں اللہ نے ہمیشہ تم کو مظفر و مصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس سروسامان سے تمہارے مقابلے کے لیی چلا ہے کہ ز مین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتائو کیا صلاح ہے؟ یزید بن ابی سفیان ؓ (معاویہؓ کے بھائی) کھڑ ہوئے اورکہا کہ میرے رائے ہے کہ بچوں اور عورتو کو شہرمیں رہنے دیں اورہم خود شہر کے باہر لشکر آراء ہوں ا س کے ساتھ خالد ؓ اورعمرو بن العاص ؓ کو خط لکھاجائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں شرجیل بن حسنہ نے کہاکہ ا س موقعہ پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینا چاہیے یزید نے جو رائے دی بے شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تما عیسائی ہیں ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کوپکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں یا خودمار ڈالیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اس ی تدبیریہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیںَ شرجیل نے اٹھ کر کہا امیر تجھ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے عیسائیوں کو اس شرط پرامن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں اس لیے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہ ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے؟ عام حاضرین نے رائے دیکہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے ابوعبیدہؓ نے کہا اتنا وقت کہاں ہے؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت عبیدہؓ نے حبیب بن سلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج وصول کیاجاتاہے اس معاوضہ میں لیا جاتا ہے کہ ہم ان کو دشمنوں سے بچا سکیں۔ لیکن ا س وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیںاٹھا سکتے۔ اس لیے جو کچھ وصول ہوا ہے سب ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق ہے اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تم کو واپس کیاجاتاہے۔ چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں کو اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوںنے کہا توریت کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہرپناہ کے دروازے بند کر دیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابوعبیدہؓ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتائو نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جذیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ ۱؎ غرض ابو عبیدہ ؓ دمشق کو روانہ ہوئے وار ان تمام حالات سے حضرت عمر ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے‘ نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہو اکہ ک فوج اور افسران فوج نے یہی فیصلہ کیا تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ اللہ نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ ابوعبیدہؓ کو جواب میں لکھا کہ میں مدد کے لیے سعید بن عامرؓ کو بھیجتا ہوں لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہے۔ ابوعبیدہؓ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورت کی۔ یزید بن ابی سفیان‘ معاذ بن جبلؓ سب نے مختلف رائے دیںَ اسی اثناء میںعمرو بن العاص ؓ کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضون تھا کہ اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوںکی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص چھوڑ کر چلاآنا نہایت بے رعبی کا سبب ہوا ہے۔ ابوعبیدہؓ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجی جو جا بجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہوجائیں خط میں ٰہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۲؎۔ دوسرے دن ابوعبیدہؓ دمشق سے روانہ ہوئے اوراردن کی حدود پر یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عرمو بن العاصؓ بھی یہیں آ کر ملے۔ یہ موقع جنب کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد کی بہ نسبت اورتمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں حضرت عمرؓ نے سعید بن عامرؓ کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان اور حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس ایک اور قاصد دوڑایا اور لکھا کہ رومی بحر وبر سے ابل پڑے ہیں اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوںنے کبھی خلوت سے باہر قدم نہیں نکالا ‘ نک نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیںَ خط پہنچا تو حضرت عمرؓ نے مہاجرین اورانصار کو جمع کیا اور خط پڑ ھ کر سنایا۔ ۱؎ ان واقعات کو بلاذری نے فتوح البلدان میں ص ۱۳۷ میں قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں (صفحہ ۸۱) ازدی نے فتوح الشام (صفحہ ۱۳۸) میں تفصل سے لکھا ہے۔ ۲؎ میں نے یہ تفصیلی واقعات فتوح الشام ازدی سے لیے ہیں لیکن ابوعبیدہؓ کا حمص چھوڑ کر چلا آنا ابن واضح عباسی اور دیگر مورخوں نے بھی بیان کیا ہے۔ تمام صحابہؓ بے اختیار رو پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ امیر المومنین! اللہ کے لیے ہم کو اجازت دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیںَ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجرین و انصار کا جوش برابر بڑھتاجاتاتھا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ امیر المومنین تو خود سپہ سالار بن کر اورہم کو ساتھ لے کر چل لیکن اور صحابہؓ نے اس رائے سے اختلاف کیا اوررائے یہ ٹھہری کہ امدادی فوجیں بھیجی جائیںَ حضرت عمرؓ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کافاصلہرہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نہایت غم زدہ ہوئے اور فرمایا کہ افسوس اب کیا ہو سکتاہے کہ اتنے عرصے میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے۔ ابوعبیدہؓکے نام نہایت پر تاثیر الفاظ ین ایک خط لکھااور قاصد سے کاہ کہ خود ایک ایک صف میںجا کریہ خط سنانا اور زبان کہنا: الاعمر یقرنک السلام ویقول لکم یا اھل الاسلام اصدقوا اللقاء وشدو اعلیھم شد اللیوث ولتکونو اھون علیکم من الذر فانا قد کنا علمنا انکم علیھم منصورون یہ عجیب حسن اتفاق ہو اکہ جس دن قاصد ابوعبیدہؓ کے پاس آیا اسی دن عامرؓ بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ملی اورانہوںںے نہایت استقلال سے لڑای کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر البجل میں اتریں۔ خالدؓ نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیںمعاذ بن جبلؓ کوو جو بڑے رتبہ کے صحابی تھی میمنہ پر مقرر کیا۔ قباث بن اثیم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج پر افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کیے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا باقی پر قیس بن ہبیرہ‘ میسرہ بن مسروق عمرو بن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں منتخب تھے اوراس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے ۔ رومی بھی بڑے سروسامان سے نکلے دو لاکھ سے زیادہ جمعیت تھی اور ۲۴ صفیں تھیں جن کے آگے آگے ان کے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لیے جوش دلاتے جاتے تھے فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا میں تنہا لڑنا چاہتاہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا خالدؓ نے روکا اور قیس بن ہبیرہ کی طر ف دیکھا وہ یہ اشعار پڑھتے بڑھے۔ سائل نساء الحی فی حجالھا الست یوم الحرب من ابطالھا ’’پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو میں لڑائی کے دن بہادروں کے کام نہیں کرتا‘‘۔ قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر آئی ۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کانعرہ مارا۔ خالدؓ نے کہا شگون اچھا ہوا اور اب اللہ نے چاہا تو آگے فتح ہے۔ عیسائیوں نے خالد ؓ ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کی تھیں لیکن سب نے شکست کھائی۔ اس دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی رہ گئی۔ رات کو باہاں نے سرداروں کوجمع کر ے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت و نعمت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالاجائے۔ سب نے اس رائے پر اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابوعبیدہ ؓ کے پاس قاصد بھیجا کہ کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو۔ ہم اس سے صلح کرنا چاہتے ہیں ابوعبیدہب نے خالدؓ کا انتخاب کیا۔ قاصد جو پیغام لے کرآیا س کا نام جارج تھا۔ جس وقت وہ پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق و شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت سکون وقار ادب خضوع سے انہوںنے نماز ادا کی قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب نماز ختم ہو چکی تو اس نے ابوعبیدہؓ سے ؤچند سوالات کیے جن میںسے ایک یہ بھی تھا کہ عیسیٰؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابوعبیدہ ؓ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں: یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکموا تقولو علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسی ابن المریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الی مریم سے لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ولا الملائکۃ المقربون مترجم نے ان الفاظ کا ترجمہ کیا تو جارج بے اختیار پکار اٹھا بے شک عیسیٰ کے یہی اوصاف ہی اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اورمسلمان ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیںچاہتا تھا لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بدعہدی کا گمان نہ ہو مجبور کیا اور کہا کہ ک یہان سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے جانا۔ دوسرے دن خالدؓ رومیوں کی لشکر گاہ میںگئے۔ رومیوںنے اپنی شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کررکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب دور تک سواروں کی صفیںقائم کی تھیں جو سر سے پائوں تک لوہے میں غرق تھے لیکن خالدؓ اس بے پروائی او رتھقیر کی نگاہ سے ان پ رنظر ڈالتے جاتے تھے کہ جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیرتا چلا جاتاہے۔ باہان کے خیمے کے پاس رکے تونہایت احترام کے ساتھ اس نے استقبال کیا ار لا کراپنے برابر بٹھایا۔ مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ باہان نے معمولی بات چیت کے بعد لیکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیااور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ مترجم ان الفاظ کا پورا ترجمہ نہیں کر چکا تھا کہ خالد ؓ نے باہان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہ ہو گا لیکن ہم نے جس کو اپنا سردار بنا رکھا ہے اس کو ایک لحظہ کے لیے اگربادشاہی کا خیال آئے تو فوراً اس کو معزول کردیںَ باہان نے پھر تقریر شروع کی اور اپنے جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا کہ اہل عرب! تمہاری قوم کے جو وگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے ہ نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستان سلوک کیے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اورچاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دوتم کو معلوم نہیں کہ بہت سی قوموںنے بارہا ایسے ارادے کیے لیکن کبھی کامیاب نہیںہوئیںَ اب تم کو ککیا تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم جاہل وحشی اوربے سروسامان نہیں یہ حوصلہ ہوا ہے۔ ہم اس پر بھی درگزر کرتے ہیں بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جائو توانعام کے طورپر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سودینار دلا دیے جائیں گے۔ باہان اپنی تقریرختم کر چکا تو خالدؓ اٹھے اور حمد و نعت کے بعد کہا کہ بے شبہ تم دولت مند ہو مالدار ہو صاحب حکومت ہو تم نے اپنے ہمسایہ عربوںکے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہم کو بھی معلوم ہے۔لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہب کی ایک تدبیر تھی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عیساء ہوگئے اورآج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر لڑت ہیں یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے۔ ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی کمزور کو پیس ڈالتا تھا قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہوتے جاتے تھے۔ بہت سے اللہ بنا رکھے تھے او ر ان کو پوجتے تھے اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا اور ہم میں سے سب سے زیادہ شریف زیادہ فیاض ازیادہ پاک خو تھا۔ اس نے ہم کو توحید سکھلائی اور بتا دیا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہ بیوی اور اولاد نہیںرکھتا او ر بالکل یکتا و بے گانہ ہے۔ اس نے ہم کو بھی یہ حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا لیکن جزیہ دینا قبول کیا اس کیہم حامی اورمحافظ ہیں۔ جس کو دونوںسے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔ باہاننے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھریاوراپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ مر کربھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیںدیتے نہیں۔ غرض کوئی معاملہ طے نہیںہوا اور خالدؓ اٹھکر چلے آئیے اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں جس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے خالدؓ کے چلے آنے کے بعد باہاننے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ تم نے سنا اہ عرب کو دعویٰ ہیکہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جائو ان کے حملہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو انکی غلامی منظور ہے؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا ہم مر جائیٰںگے مگریہ ذلت گوارا نہیںہو سکتی۔ صبح ہوئی تو روی اس جوش اور سروسامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو بھی حیرت ہوگئی۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر کہ عرب کے تمام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آئی ہے۔ فوج جو ۳۰‘۳۵ ہزار تھی اس کے ۳۶ حص؁ کیے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اسی قدر صفیں قائم کیںَ قلب میں فوج ابوعبیدہ ؓ کو دیا میمنہ پر عمرو بنالعاص ؓ اور شرجیل مامور ہوئے ۔ میسرہ و یزید بن ابی سفیانؓ کی کمان میں تھا۔ اس کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کیے تھے چن کر ان لوگوں کو کیا جو بہادری اور فنون جنگ مں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطباء جو اپنے زور کلام سے لوگوں میںہلچل ڈال دیتے تھے۔ اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروںسے فوج کو جوش دلائیں۔ انہیں میں ابوسفیانؓ بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے۔ الا انکم زادۃ العرب و انصار الاسلام وانھم زادۃ الروم وانصار الشرک اللھم ان ھذا یوم من ایامک اللھم انزل نصرک علی عبادک عمرو بن العاص ؓ کہتے پھرتے تھے: ایھا الناس غضو ابصارکم و اشرعوا الرماح والزمو امرکم فاذا حمل عدوکم فامھلوھم حتی اذارکبو ا اطراف الاسنۃ فبثوا فی وجوھھم وثوب الاسد ’’یارو نگاہیںنیچی رکھو۔ برچھیاں تان لو اپنی جگہ پر جمے رہو پھر جب دشمن حملہ آور ہوں تو آنے دو یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔‘‘ فوج کی تعدا د اگرچہ کم تھی ۳۰‘۳۵ ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے لیکن عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال مبارک دیکھاتھا۔ ایک ہزار تھے۔ سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہے تھے۔ عرب کے مشہور قبائل میںسے دس ہزر سے زیادہ صرف ازد کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی۔ حمدان حولان‘ لخم‘ جذام‘ وغیرہ کے مشہور سردار تھے۔ اس معرکہ کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ کہ عورتیںاس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہؓ کی ماں ہندؓ حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں ’’ عضدو العظفان بسیوفکم‘‘ امیر معاویہ ؓ کی بہن جویریہؓ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔ مقدادؓ جو نہایت خوش آواز تھے، فوج کے آگے آگے سورہ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے) تلاوت کرتے جاتے تھے۔ ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ آئے۔ جنگ کی ابتداء رومیوں کی طرف سے ہوئی۔ دو لاکھ کا ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے تھے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی جے پکارتے آتے تھے۔ یہ سروسامان دیکھ کر ایک شخص کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ اللہ اکبر! کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ خالد ؓ نے جھلا کر کہا چپ رہ! اللہ کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی اور فوج بڑھا لیں۔ غرض عیسائیوں نے نہایت زور و شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ اس زور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ ہزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک آ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا اور خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں اور پکاریں کہ ’’ نامردو ادھر آئے تو چوبوں سے تمہارا سر توڑ دینگے۔‘‘ خولہ ؓ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں۔ یاھاربا عن نسوۃ تقیات رمیت بالسھم والمنیات یہ حالت دیکھ کر معاذ بن جبل ؓ جو میمنہ کے ایک حصے کے سپہ سالار تھے گھوڑے سے کود پڑے، اور کہا کہ ’’ میں تو پیدل لڑتا ہوں لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔‘‘ ان کے بیٹے نے کہا ہاں، یہ حق میں ادا کروں گا کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔ غرض دونوں باپ بیٹے فوج میں گھسے اور اس دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ زبید کے سردار تھے۔ پانچ سو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے، آگا روک لیا۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زوران پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ کی یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف، سر، ہاتھ، بازو، کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کو لغزش نہیں ہوتی تھی۔ عمرو بن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے اور للکارتے جاتے تھے کہ از دیو! دیکھنا مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ نو بڑے بڑے بہادران کے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔ حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعتہ صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ ؓ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے اور اسلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑے تھے، گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا عیسائیو! میں کسی زمانے میں (کفر کی حالت میں) خود رسول اللہ ﷺ سے لڑچکا ہوں۔ کیا آج تمہارے مقابلے میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے؟ یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون بیعت کرتا ہے؟ چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے مرنے پر بیعت کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ ؓ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھا۔ خالدؓ نے اپنے زانو پر ان کا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا اللہ کی قسم عمرؓ کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔1؎ غرض عکرمہ ؓ اور ان کے ساتھی گو خود ہلاک ہو گئے لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر دیئے۔ خالدؓ کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی۔ یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ؓ ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار درنجار تک پہنچ گئے۔ درنجار اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لئے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔ عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا۔ ابن قناطر نے میسرہ پر حملہ کیا۔ 2؎ بد قسمتی سے اس حصے میں اکثر لخم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بود و باش رکھتے تھے اور ایک مدت سے روم کے باجگزار رہتے آئے تھے، رومیوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن اشیم، سعید بن زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ ؓ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتاتو کہتے کہ کوئی ہے؟ جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے اللہ سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔ 1؎ تاریخ طبری واقعہ یرموک 2؎ رومیوں کے میمنہ کا سپہ سالار تھا لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابو الاعوز گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبیٰ میں رحمت۔ دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ سعید بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار کر گرا دیا۔ یزید بن ابی سفیانؓ (معاویہؓ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے اتفاق سے ان کے باپ ابوسفیانؓ جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے، ان کی طرف آ نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا، جان پدر! اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے، تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لئے شرم کی جگہ ہے۔ شرجیل کا یہ حال تاکہ رومیوں کاچاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح ڈٹے کھڑے تھے۔ قرآن مجید کی یہ آیت: ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم وافو الھم بان لھم الجنتہ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون (9، التوبہ 111:) پڑھتے تھے اور نعرہ مارتے تھے کہ ’’ اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے اور اللہ کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟‘‘ یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج پھر سنبھل گئی اور شرجیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو ٹو ٹے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔ ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں اور چلا کر کہتی تھیں کہ میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔ لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتہ قیس بن ہیرہ جن کو خالدؓ نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں او رگھبراکر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا۔ رومی دور ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا۔ اس لڑائی کا یہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ میرا پاؤں کیا ہوا؟ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ پر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ چنانچہ سوار بن اوفی ایک شاعر نے کہا ومنا ابن عتاب و ناشد رجلہ ومنا اللذی ادی الی الخی حاجبا1؎ رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور ازدی نے لاکھ سے زیادہ تعداد بیان کی ہے۔ بلاذری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف تین ہزار کا نقصان ہوا جن میں ضرار بن ازور، ہشام بن العاصی، ابان اور سعید وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اسی وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رخ کر کے کہا۔ ’’الوداع اے شام‘‘ ابو عبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو نامہ فتح لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جس میں حذیفہ بن ا لیمان بھی تھے۔ حضرت عمر ؓ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سے سوئے نہ تھے۔فتح کی خبر پہنچی تو دفعتہ سجدے میں گرے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ ابو عبیدہؓ یرموک سے حمص کو واپس گئے اور خالدؓ کو قنسرین روانہ کیا۔ شہر والوں نے اول مقابلہ کیا لیکن پھر قلعہ بند ہو کر جزیہ کی شرط پر صلح کر لی، یہاں عرب کے قبائل میں سے قبیلہ تنوخ مدت سے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ یہ لوگ برسوں تک کمل کے خیموں میں زندگی بسر کرتے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تمدن کا اثر یہ ہوا کہ بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بنوا لی تھیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے ہم قومی کے اتحاد سے ان کو اسلام کی ترغیب دی چنانچہ سب مسلمان ہو گئے۔ صرف بنو سلیح کا خاندان عیسائیت پر قائم رہا اور چند روز کے بعد وہ بھیمسلمان ہو گیا۔ قنسرین کی فتح کے بعد ابو عبیدہؓ نے حلب کا رخ کیا۔ شہر سے باہر میدان میں عرب کے بہت سے قبیلے آباد تھے۔ انہوں نے جزیہ پر صلح کر لی اور تھوڑے دنوں کے بعد سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ حلب والوں نے ابو عبیدہؓ کی آمد سن کر قلعہ میں پناہ لی۔ عیاض بن غشم نے جو مقدمتہ الجیش کے افسر تھے، شہر کا محاصرہ کیا اور چند روز کے بعد اور مفتوحہ شہرں کی طرح ان شرائط پر صلح ہو گئی کہ عیسائیوں نے جذیہ دینا منظور کیا اور ان کی جان، مال، شہر پناہ، مکانات، قلعے اور گرجوں کی حفاظت کا معاہدہ لکھ دیا گیا۔ 1؎ یہ تمام واقعہ فتوح البلدان صفحہ131میں مذکور ہے۔ حلب کے بعد انطاکیہ آئے چونکہ یہ قیصر کا خاص دار السلطنت تھا۔ بہت سے رومیوں اور عام عیسائیوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔ ابوعبیدہؓ نے ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کیا۔ چند روز کے بعد عیسائیوں نے مجبور ہو کر صلح کر لی۔ ان صدر مقامات کے فتح ہونے نے تمام شام کو مرعوب کر دیا اور یہ نوبت پہنچی کہ کوئی افسر تھوڑی سی جمعیت کے ساتھ جس طرف نکل جاتا تھا، عیسائی خود آ کر امن و صلح کے خواستگار ہوتے تھے۔ چنانچہ انطاکیہ کے بعد ابو عبیدہؓ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دیں۔ بوقا، جومہ، سرمین، توزی، قورس، تل غراز، دلوک، رعبان۔ یہ چھوٹے چھوٹے مقامات اس آسانی سے فتح ہو گئے۔ جرجومہ والوں نے جزیہ سے انکار کیا اور کہا کہ ہم لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے چونکہ جزیہ فوجی خدمت کا معاوضہ ہے، ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی۔ انطاکیہ کے مضافات میں بغراس ایک مقام تھا جس سے ایشیائے کوچک کی سرحد ملتی ہے، یہاں عرب کے بہت سے قبائل غسان، تنوخ ایاد، رومیوں کے ساتھ ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حبیب بن مسلمہ نے ان پرحملہ کیا اور بڑا معرکہ ہوا۔ ہزاروں قتل ہوئے۔ خالدؓ نے مرعش پر حملہ کیا اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ عیسائی چھوڑ کر نکل جائیں۔ بیت المقدس637ء 16ھ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے جب شام پر چڑھائی کی تو ہر ہر صوبہ پر الگ الگ افسر بھیجے۔ چنانچہ فلسطین عمرو بن العاص ؓ کے حصے میں آیا۔ عمرو بن العاصؓ نے بعض مقامات حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں فتح کر لئے تھے اور فاروقی عہد تک تو نابلس، لد، عمواس، بیت جرین تمام بڑے بڑے شہروں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب کوئی عام معرکہ پیش آ جاتا تھا تو وہ فلسطین چھوڑ کر ا بو عبیدہ ؓ سے جا ملتے تھے اور ان کو مدد دیتے تھے لیکن فارغ ہونے کے ساتھ فوراً واپس آ جاتے تھے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے تھے۔ 1؎ یہاں تک کہ آس پاس کے شہروں کو فتح کر کے خاص بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ عیسائی قلعہ بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت حضرت ابو عبیدہؓ شام کے انتہائی اصلاح قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمرؓ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کیہاتھوں سے لکھا جائے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ 1؎ فتوح البلدان صفحہ140 حضرت عمرؓ نے تمام معزز صحابہؓ کو جمع کیا اور مشورت کی۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ عیسائی مرعوب و شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی اس درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے لیکن حضرت علی ؓ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمرؓ نے انہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں1؎ حضرت علی ؓ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کئے 2؎ اور جب 16ھ میں مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ ناظرین کو انتظار ہو گا کہ فاروق اعظمؓ کا سفر اور سفر بھی وہ جس سے دشمنوں پر اسلامی جلال کا رعب بٹھانا مقصود تھا، کس سروسامان سے ہوا ہو گا لیکن یہاں نقارہ نوبت، خدم و حشم، لاؤ لشکر ایک طرف، معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔ سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجرین و انصار ساتھ تھے۔ تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی تھی کہ فاروق اعظمؓ نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے زمین دہل جاتی تھی۔ سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔ اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیانؓ اور خالد بن ولیدؓ وغیرہ نے یہیں استقبال کیا۔ شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر و دیبا کے چلتے اور پر تکلف قبائیں تھیں اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔ ان لوگوں نے عرض کہ قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں (یعنی سپہ گری کا جوہر ہاتھ سے نہیں دیا ہے) فرمایا ’’ تو کچھ مضائقہ نہیں‘‘ 1؎ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ غوطہ کا دلفریب سبزہ زار اور دمشق کے بلند اور شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا، عبرت کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی: کم تر کوا من جنات وعیون (/44 الدخان25:) پھر نابغہ کے چند حسرت انگیز اشعار پڑھے۔ 1؎ یہ طبری کی روایت ہے یعقوبی نے حضرت علیؓ کے بجائے حضرت عثمانؓ کا نام لیا ہے۔ 2؎ یعقوبی (ص2402) جابیہ میں دیر تک قیام رہا اوربیت المقدس کا معاہدہ بھی یہیں لکھا گیا۔ وہاں کے عیسائیوں کو حضرت عمرؓ کی آمد کی خبر پہلے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ رئیسان شہر کا ایک گروہ ان سے ملنے کے لئے دمشق کو روانہ ہوا۔ حضرت عمرؓ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ دفعتہ کچھ سوار نظر آئے جو گھوڑے اڑاتے آتے تھے اور کمر میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا ہے خیر ہے؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے فراست سے سمجھا کہ بیت المقدس کے عیسائی ہیں فرمایا گھبراؤ نہیں یہ لوگ امان طلب کرنے آتے ہیں۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا بڑے بڑے معزز صحابہؓ کے دستخط ہو گئے۔1؎ معاہدہ کی تکمیل کے بعد حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا۔ گھوڑا جو سواری میں تھا اس کے سم گھس کر بیکار ہو گئے تھے اور رک رک کر قدم رکھتا تھا۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر اتر پڑے۔ لوگوں نے ترکی نسل کا ایک عمدہ گھوڑا حاضر کیا۔ گھوڑا شوخ اور چالاک تھا حضرت عمرؓ سوار ہوئے تو الیل کرنے لگا۔ فرمایا کمبخت یہ غرور کی چال تو نے کہاں سے سیکھی۔ یہ کہہ کر اتر پڑے اور پیادہ پا چلے۔ بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہؓ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمرؓ کا لباس اور سروسامان جس معمولی حیثیت کا تھا، اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور عمدہ قیمتی پوشاک حاضر کی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔ غرض اس حال سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد میں گئے۔ محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدہ داؤد کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور ادھر ادھر پھرتے رہے۔ چونکہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے۔ کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کئے۔ا یک دن بلالؓ (رسول اللہ ﷺ کے موذن) نے آکر شکایت کی کہ امیر المومنین ہمارے افسر پرند کا گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے افسروں کی طرف دیکھا۔ انہوں نے عرض کی کہ اس ملک میں تمام چیزیں ارزاں ہیں جتنی قیمت پر حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے یہاں اسی قیمت پر پرند کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ افسروں کو مجبور نہ کر سکے لیکن حکم دے دیا کہ مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔ 1؎ یہ طبری کی روایت ہے بلاذری ازدی نے لکھا کہ معاہدہ صلح بیت المقدس میں لکھا گیا۔ اس معاہدے کو بتمامہا ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصے میں نقل کیا ہے۔ دیکھو اس کتاب کا دوسرا حصہ۔ ایک دن نماز کے وقت بلالؓ سے درخواست کی کہ آج اذان دو۔ بلالؓ نے کہا میں عزم کر چکا تھاکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لئے اذان نہ دوں گا لیکن آج (اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہؓ کو رسول اللہ ﷺ کا عہد مبارک یاد آ گیا اور رقت طاری ہوئی۔ ابو عبیدہ معاذ بن جبل ؓ روتے روتے بے تاب ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کی ہچکی لگ گئی اور دیر تک ایک اثر رہا۔ ایک دن مسجد اقصیٰ میں گئے اور کعب احبارؓ کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ نماز کہاں پڑھی جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک پتھر جو انبیاء سابقین کی یادگار ہے۔ اس کو مخرہ کہتے ہیں اور یہودی اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح مسلمان حجر اسود کی۔ حضرت عمرؓ نے جب قبلہ کی نسبت پوچھا تو کعب ؓ نے کہا کہ ’’ صخرہ کی طرف‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم میں اب تک یہودیت کا اثر باقی ہے اور اسی کا اثر تھا کہ تم نے صخرہ کے پاس آ کر جوتی اتار دی۔ 1؎ اس واقعہ سے حضرت عمرؓکا جو طرز عمل اس قسم کی یادگاروں کی نسبت تھا ظاہر ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہماری اس کتاب کے دوسرے حصے کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے۔ حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش17ھ638ء یہ معرکہ اس لحاظ سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس سے جزیرہ اور آرمیسیہ کی فتوحات کا موقع پیدا ہوا۔ ایران اور روم کی مہمیں جن اسباب سے پیش آئیں وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں لیکن اس وقت تک آرمبیہ پر لشکر کشی کے لئے کوئی خاص سبب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع تر ہو جاتی تھیں اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے۔ ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ جزیرہ والوں نے قیصر کو لکھا کہ نئے سرے سے ہمت کیجئے، ہم ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ چنانچہ قیصر نے ایک فوج کثیر حمص کو روانہ کی۔ ادھر سے جزیرہ والے 30 ہزار کی بھیڑ بھاڑ کے ساتھ شام کی طرف بڑھے۔ ابوعبیدہؓ نے بھی ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کے باہر صفیں جمائیں، ساتھ ہی حضرت عمرؓ کو تمام حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں اور ہر جگہ چار چار ہزار گھوڑے فقط اس غرض سے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ کوئی اتفاقیہ موقع پیش آ جائے تو فوراً ہر جگہ سے فوجیں یلغار کر کے موقع پر پہنچ جائیں۔ 1؎ تاریخ طبری، ص2408 ابوعبیدہؓ کا خط آیا تو ہر طرف قاصد دوڑا دیئے۔ قعقاع بن عمر جو کوفہ میں مقیم تھے لکھا کہ فوراً چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں۔ سہیل بن عدی کو حکم بھیجا کہ جزیرہ پہنچ کر جزیرہ والوں کو حمص کی طرف بڑھنے سے روک دیں۔ عبداللہ بن عتبان کو نصیبیں کی طرف روانہ کیا۔ ولید بن عقبہ کو مامور کیا کہ جزیرہ پہنچ کر عرب کے ان قبائل کو تھام رکھیں جو جزیرہ میں آباد تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان انتظامات پر بھی قناعت نہ کی بلکہ خود مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق میں آئے۔ جزیرہ والوں نے جب سنا کہ خودان کے ملک میں مسلمانوں کے قدم آ گئے تو حمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرہ کو چل دیئے۔ عرب کے قبائل جو عیسائیوں کی مددکو آتے تھے وہ بھی پچھتائے اور خفیہ خالدؓ کو پیغام بھیجا کہ تمہاری مرضی ہو تو ہم اسی وقت یا عین موقع پر عیسائیوں سے الگ ہو جائیں۔ خالدؓ نے کہلا بھیجا کہ افسوس! میں دوسرے شخص (ابوعبیدہؓ) کے ہاتھ میں ہوں اور وہ حملہ کرنا پسند نہیں کرتا ورنہ مجھ کو تمہارے ٹھہرے اور چلے جانے کی مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ تاہم اگر تم سچے ہو تو محاصرہ چھوڑ کر کسی طرف نکل جاؤ۔ ادھر فوج نے ابو عبیدہؓ سے تقاضا شروع کیا کہ حملہ کرنے کی اجازت ہو۔ انہوں نے خالدؓ سے پوچھا۔ خالدؓ نے کہا میری جو رائے ہے معلوم ہے۔ عیسائی ہمیشہ کثرت فوج کے بل پر لڑتے ہیں۔ اب کثرت بھی نہیں رہی پھر کس بات کا اندیشہ ہے، اس پر بھی ابوعبیدہؓ کا دل مطمئن نہ ہوا۔ تمام فوج کو جمع کیا اور نہایت پر زور اور موثر تقریر کی کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیا وہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال ہاتھ آئے گا اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی۔ میں گواہی دیتا ہوں (اور یہ جھوٹ بولنے کا موقع نہیں) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مرے اور مشرک ہو کر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ فوج پہلے ہی سے حملہ کرنے کے لئے بے قرار تھی۔ ابو عبیدہؓ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا اور دفعتہ سب نے ہتھیار سنبھال لئے۔ ابوعبیدہؓ قلب فوج اور خالد و عباس میمنہ اور میسرہ کو لے کر پڑھے۔ قعقاع جو کوفہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ مدد کو آتے تھے، حمص سے چند میل پر اہ میں تھے کہ اس واقعہ کی خبر سنی۔ فوج چھوڑ کر سو سواروں کے ساتھ ابو عبیدہؓ سے ملے۔ مسلمانوں کے حملے کے ساتھ عرب کے قبائل (جیسا کہ خالدؓ سے اقرار ہو چکا تھا) ابتری کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ ان کے ہٹنے سے عیسائیوں کا بازو ٹوٹ گیا اور تھوڑی دیر لڑ کر اس بد حواسی سے بھاگے کہ مرج الدیباج تک ان کے قدم نہ جملے۔ یہ آخری معرکہ تھا جس کی ابتداء خود عیسائیوں کی طرف سے ہوئی اور جس کے بعد ان کو پھر کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہیں ہوا۔ حضرت خالدؓ کا معزول ہونا شام کی فتوحات اور 17ھ (638ئ) کے واقعات میں حضرت خالدؓ کا معزول ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام مورخین کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا جو حکم دیا وہ خالدؓ کی معزولی تھی۔ ابن الاثیر وغیرہ سب یہی لکھتے آئے ہیں لیکن یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ا فسوس ہے کہ ابن الاثیر کو خود اپنی اختلاف بیانی کا بھی خیال نہیں۔ خود ہی سنہ 13ھ کے واقعات میں خالدؓ کا معزول ہونا لکھا ہے اور خود ہی 17ھ کے واقعات میں ان کی معزولی کا الگ عنوان قائم کیا ہے اور دونوں جگہ بالکل ایک سے واقعات نقل کر دیئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ خالدؓ کی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے مدت سے ناراض تھے۔ تاہم آغاز خلافت میں ان سے کچھ تعرض کرنا نہیں چاہا لیکن چونکہ خالدؓ کی عادت تھی کہ وہ کاغذات حساب دربار خلافت کو نہیں بھیجتے تھے، اس لئے ان کو تاکید لکھی کہ آئندہ سے اس کا خیال رکھیں۔ خالدؓنے جواب میں لکھا کہ میں حضرت ابوبکرؓ کے زمانے سے ایسا ہی کرتا آیا ہوں اور اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔ حضرت عمرؓ کو ان کی یہ خود مختاری کیونکر پسند ہو سکتی تھی اور وہ بیت المال کی رقم کو اس طرح بے دریغ کیونکر کسی کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ چنانچہ خالدؓ کو لکھا کہ ’’ تم اسی شرط پر سپہ سالار رہ سکتے ہو کہ فوج کے مصارف کا حساب ہمیشہ بھیجتے رہو۔‘‘ خالدؓ نے اس شرط کو نامنظور کیا اور اس بنا پر وہ سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیئے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے کتاب الاصابہ میں حضرت خالدؓ کے حال میں بتفصیل لکھا ہے۔ بایں ہمہ ان کو بالکل معزول نہیں کیا بلکہ ابو عبیدہؓ کے ماتحت کر دیا۔ اس کے بعد سنہ 17ھ (638ئ) میں یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالدؓ نے ایک شاعر کو دس ہزار روپے انعام میں دے دیئے۔ پرچہ نویسوں نے اسی وقت حضرت عمرؓ کو پرچہ لکھا۔ حضرت عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو خط لکھا کہ خالدؓ نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا او ربیت المال سے دیا تو خیانت کی، دونوں صورتوں میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔ خالدؓ جس کیفیت سے معزول کئے گئے وہ سننے کے قابل ہے۔ قاصد نے جو معزولی کا خط لے کر آیا تھا مجمع عام میں خالدؓ سے پوچھا کہ یہ انعام تم نے کہاں سے دیا؟ خالدؓ اگر اپنی خطا کا اقرار کر لیتے تو حضرت عمرؓ کا حکم تھا کہ ان سے درگزر کی جائے لیکن وہ خطا کے اقرار کرنے پر راضی نہ تھے۔ مجبوراً قاصد نے معزولی کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی اور ان کی سرتابی کی سزا کے لئے انہی کے عمامہ سے ان کی گردن باندھی۔ یہ واقعہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ ایک ایسا سپہ سالار جس کی نظیر تمام اسلام میں کوئی شخص موجود نہ تھا اور جس کی تلوار نے عراق و شام کا فیصلہ کر دیا تھا، اس طرح ذلیل کیا جا رہا ہے اور مطلق دم نہیں مارتا۔ اس واقعہ سے ایک طرف تو خالد ؓ کی نیک نفسی اور حق پرستی کی شہادت ملتی ہے اور دوسری طرف حضرت عمرؓ کی سطوط و جلال کا اندازہ ہوتا ہے۔ خالدؓ نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی۔ تقریر میں یہ بھی کہا کہ امیر المومنین عمرؓ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا اور جب میں نے تمام شام کو زیر کر لیا تو مجھ کو معزول کر دیا۔ اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ! ان باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔ خالدؓ نے کہا ہاں! لیکن عمرؓ کے ہوتے فتنہ کا کیا احتمال ہے؟1؎ خالدؓ مدینہ آئے اور حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ عمرؓ اللہ کی قسم تم میرے معاملہ میں نا انصاف کرتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ خالدؓ نے کہا کہ مال غنیمت سے اور یہ کہہ کر کہا کہ ساٹھ ہزار سے جس قدر زیادہ رقم نکلے وہ میں آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ چنانچہ بیس ہزار روپے زیادہ نکلے اور وہ بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ حضرت عمرؓ نے خالدؓ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ خالدؓ! واللہ تم مجھ کو محبوب بھی ہو اور میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر تمام عمالان ملکی کو لکھ بھیجا کہ میں نے خالدؓ کو ناراضی سے یا خیانت کی بناء پر موقوف نہیں کیا لیکن چونکہ میں یہ دیکھتا تھا کہ لوگ ان کے مفتون ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان کا معزول کرنا مناسب سمجھا تاکہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کرتا ہے۔ 2؎ ان واقعات سے ایک نکتہ بین شخص با آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خالدؓ کی معزولی کے کیا اسباب تھے اور اس میں کیا مصلحتیں تھیں۔ عمو اس کی وباء 639ء 18ھ اس سال شام، مصر اور عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز سنہ17ھ کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔ حضرت عمرؓ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لئے خود روانہ ہوئے۔ سرغ2؎ پہنچ کر ابو عبیدہ ؓ وغیرہ سے جو 1؎ دیکھو کتاب الخراج، قاضی ابو یوسف ص87اور تاریخ طبری صفحہ 25,27 2؎ طبری ، صفحہ25,28 3؎ایک مقام کا نام ہے۔ ان کے استقبال کو آئے تھے معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اول اور انصار کو بلایا اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں لیکن مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ پکار دیں کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہؓ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے ان کو نہایت غصہ آیا اور طیش میں آ کر کہا: افرار امن قدر اللہ ’’ یعنی اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘ حضرت عمرؓ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا:ـ نعم افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ ’’ یعنی ہاں تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘ غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہؓ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کچھ کام ہے۔کچھ دنوں کے لئے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہؓ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘ ابوعبیدہؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔ جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہؓ بیمار پڑے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا اور نہایت پر اثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی، ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی او رفوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص ؓ نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے پر مصر نازل ہوئی تھیں اس لئے یہاں سے بھاگ چلنا چاہئے۔ معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وباء بلا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا: یا اینی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین یعنی ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین یعنی ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑے عمرو بن العاصؓ کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی اللہ کے قرب کا حجاب تھی، بڑے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جان دی۔ مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذؓ اس کو اللہ کی رحمت سمجھا گئے اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی لیکن عمرو بن العاصؓ کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذؓ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہؓ کو جو معاذؓ کے ہم خیال تھے ناپسند آئی یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا ’’ تو جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ تاہم عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی اور وباء کا خطرہ جاتا رہا لیکن یہ تدبیر اس وقت عمل میں آئی کہ 25 ہزار مسلمان جو آدھی دنیا کے فتح کرنے کے لئے کافی ہو سکتے تھے، موت کے مہمان ہو چکے تھے۔ ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیلؓ بڑے درجے کے لوگ تھے۔ حضرت عمرؓ کو ان تمام حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے۔ یزید بن ابی سفیان اور معاذؓ کے مرنے کی خبر آئی تو معاویہؓ کو دمشق کا اور شرجیل کو اردن کا حاکم مقرر کیا۔ اس قیامت خیز وباء کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعتہ رک گیا۔ فوج بجائے اس کے کہ مخالف پر حملہ کرتی خود اپنے حال میں گرفتارتھی۔ ہزاروں لڑکے یتیم ہو گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ جو لوگ مرے تھے ان کا مال و اسباب مارا مارا پھرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کاقصد کیا۔ حضرت علیؓ کو مدینہ کی حکومت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ برفا ان کا غلام اور بہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہو لئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے پوچھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ فرماتے کہ تمہارے آگے۔ اسی حیثیت سے ایلہ میں آئے اور یہاں دو ایک روز قیام کیا۔ گزی کا کرتہ جو زیب بدن تھا، کجاوے کی رگڑ کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔ مرمت کے لئے ایلہ کے پادری کو حوالہ کیا۔ اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے اور کہا کہ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ایلہ سے دمشق آئے اور شام کو اکثر اضلاع میں دو دو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظامات کئے۔ فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں۔ جو لوگ وباء میں ہلاک ہوئے تھے ان کے دور و نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی۔ سرحدی مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، جو اسامیاں خالی ہوئی تھیں، ان پر نئے عہدہ دار مقرر کئے۔(ان باتوں کی پوری تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی) چلتے وقت لوگوں کو جمع کیا اور انتظامات کئے تھے، ان کے متعلق تقریر کی۔ اس سال عرب میں سخت قحط پڑا اور اگر حضرت عمرؓ نے نہایت مستعدی سے انتظام نہ کیا ہوتا تو ہزاروں، لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے۔ اسی سال مہاجرین و انصار اور قبائل عرب کی تنخواہیں اور روزینے مقرر کئے۔ چنانچہ ان انتظامات کی تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔ قیساریہ1؎ کی فتح شوال19ھ (640ئ) یہ شہر بحر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول اول 13ھ (635ئ) میں عمرو بن العاصؓ نے چڑھائی کی اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابوعبیدہؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے یزید بن ابی سفیانؓ کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن سنہ 18 ھ (639ئ) میں جب بیمار ہوئے تو اپنے بھائی امیر معاویہؓ کو اپنا قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے او ریہیں وفات پائی۔ امیر معاویہؓ نے بڑے سروسامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ا یک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہؓ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتیوں کے پشتے لگا دئیے۔ مورخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی (80)ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔ جزیرہ2؎ (637ئ)16ہجری مدائن کی فتح سے دفعتہ تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ ہر ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔ 1؎ بلاذری 2؎ جزیرہ اس آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مغرب آرمیسیسہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک جنوب شام، مشرقی عراق، شمال آرمیسیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔ سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ وہاں سے عبداللہ بن المعم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمرؓ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اور افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمتہ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ پر حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبداللہ بن المعم پانچ ہزار کی جمعیت سے تکریت1؎ کی طرف سے بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا، مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے عبداللہ نے خفیہ پیام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا یہ اثر ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو، ہم عین موقع پر عجمیوں سے ٹوٹ کر تم سے آملیں گے۔ یہ بندوبست ہو کر تاریخ معین پر دھاوا ہوا۔ عجمی مقابلے کو نکلے تو خود ان کے ساتھ کے عربوں نے عقب سے ان پر حملہ کیا۔ عجمی دونوں طرف سے گھر کر بالکل پامال ہو گئے۔ یہ معکرہ اگرچہ جزیرہ کی مہمات میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کا موقع اتفاقی طور سے عراق کے سلسلے میں آ گیا تھا، اس لئے مورخین اسلام جزیرہ کی فتوحات کو اس واقعہ سے شروع نہیں کرتے اور خود اس زمانے میں یہ معرکہ عراق کے سلسلے سے الگ نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ سنہ 17ھ میں جب عراق و شام کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو سعدؓ کے نام حضرت عمرؓ کا حکم پہنچا کہ جزیرہ پر فوجیں بھیجی جائیں۔ سعدؓ نے عیاض بن غنم کو پانچ ہزار کی جمعیت سے اس مہم پر مامور کیا۔ وہ عراق سے چل کر جزیرہ کی طرف بڑھے اور شہر ’’ ربا‘‘ کے قریب جو کسی زمانے میں رومن امپائر کا یادگار مقام تھا، ڈیرے ڈالے ۔ یہاں کے حاکم نے خفیف سی روک ٹوک کے بعد جزیہ پر صلح کر لی۔ ’’ رہا‘‘ کے بعد چند روز میں تمام جزیرہ اس سرے سے اس سرے تک فتح ہو گیا۔ جن جن مقامات پر خفیف خفیف لڑائیاں پیش آئیں، ان کے یہ نام ہیں۔ رقہ، حران، نصیبین، میارفارقین، سمساط، سروج، قرقیسیا، زوزان، عین الوردۃ۔ 1؎ تکریت جزیرہ کا سب سے ابتدائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے، دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے چھ منزل پر ہے۔ ٭٭٭ خوزستان1؎ 15ھ (636ئ) ہجری میں مغیرہ بن شعبہ بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے اور چونکہ خوزستان کی سرحد بصرہ سے ملی ہوئی ہے، انہوں نے خیال کیا کہ اس کی فتح کے بغیر بصرہ میں کافی طور سے امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ 16ھ (637ئ) کے شروع میں اہوازپر جس کو ایرانی ہرمز شہر کہتے تھے، حملہ کیا۔ یہاں کے رئیس نے ایک مختصر سی رقم دے کر صلح کر لی۔ مغیرہ وہیں رک گئے۔ 17 ہجری (638ئ) میں مغیرہ معزول ہو کر ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری ؓ مقرر ہوئے۔ اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کر دی اور اعلانیہ بغاوت کا اظہار کیا۔ مجبوراً ابو موسیٰؓ نے لشکر کشی کی اور اہواز کو جا گھیرا۔ شاہی فوج جو یہاں رہتی تھی، اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا لیکن آخر شکست کھائی اور شہر فتح ہو گیا۔ غنیمت کے ساتھ ہزاروں آدمی لونڈی غلام بن کر تقسیم کئے گئے، لیکن جب حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ سب رہا کر دئیے جائیں۔ چنانچہ وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ ابو موسیٰ ؓ نے اہواز کے بعد مناذر کا رخ کیا۔ یہ خود ایک محفوظ مقام تھا۔ شہر والوں نے بھی ہمت اور استقلال سے حملے کو روکا۔ اس معرکہ میں مہاجر بن زیاد جو ایک معزز افسر تھے، شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کو سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔ ابو موسی ؓ نے مہاجر کے بھائی ربیع کو یہاں چھوڑا اور خود سوس کو روانہ ہوئے۔ ربیع نے مناذر کو فتح کر لیا اور ابو موسیٰ ؓ نے سوس کا محاصرہ کر کے ہر طرف سے رسد بند کر دی۔ قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ مجبوراً رئیس شہر نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی زندہ چھوڑ دئیے جائیں۔ ابو موسیٰ ؓ نے منظور کیا۔ رئیس ایک ایک آدمی کو نامزد کرتا جاتا تھا اور اس کو امن دے دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے شمار میں رئیس نے خود اپنا نام نہیں لیا تھا۔ چنانہ جب سو کی تعداد پوری ہو گئی تو ابو موسیٰؓ نے رئیس کو جو شمار سے باہر تھا قتل کرا دیا سوس کے بعدرامہرز کا محاصرہ کیا اور آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ یزد گرد اس وقت قم میں مقیم تھا اور خاندان شاہی کے تمام ارکان ساتھ تھے۔ ابو موسیٰؓ کی دست درازیوں کی خبریں اس کو برابر پہنچتی تھیں۔ ہرمزان نے جو شیرویہ کا ماموں اور بڑی قوت و اقتدار کا سردار تھا، یزدگرد کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر اہواز و فارس میری حکومت میں دے دئیے جائیں تو میں عرب کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روک دوں۔ 1؎ خوزستان اس حصہ آبادی کا نام ہے جو عراق اور فارس کے درمیان و اقع ہے۔ اس میں 14 بڑے شہر ہیں جس میں سب سے بڑا اہواز ہے جو نقشہ میں بھی درج کر دیا گیا ہے۔ یزد گرد نے اسی وقت فرمان حکومت عطا کر کے ایک جمعیت عظیم ساتھ کر دی۔ خوزستان کا صدر مقام شوستر تھا اور شاہی عمارات اور فوجی چھاؤنیاں جو کچھ تھیں یہیں تھیں۔ ہرمزان نے وہاں پہنچ قلعہ کی مرمت کرائی اور خندق اور برجوں سے مستحکم کیا۔ اس کے ساتھ ہر طرف نقیب اور ہرکارے دوڑا دئیے کہ لوگوں کو جوش دلا کر جنگ کے لئے آمادہ کریں۔ اس تدبیر سے قومی جوش جو افسردہ ہو گیا تھا، پھر تازہ ہو گیا اور چند روز میں ایک جمعیت اعظم فراہم ہو گئی، ابو موسیٰؓ نے دربار خلافت کو نامہ لکھا اور مدد کی درخواست کی، وہاں سے عمار بن یاسر ؓ کے نام جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حکم آیا کہ نعمان بن مقرن کو ہزار آدمی کے ساتھ بھیجیں لیکن غنیم نے جو سروسامان کیا تھا، اس کے سامنے یہ جمعیت بیکار تھی۔ ابو موسیٰ نے دوبارہ لکھا جس کے جواب میں عمارؓ کو حکم بھیجا کہ عبداللہ بن مسعود کو آدھی فوج کے ساتھ کوفہ میں چھوڑ دو اور باقی فوج لے کر خود ابو موسیٰؓ کی مدد کو جاؤ۔ ادھر جریر بجلیؓ ایک بڑی فوج لے کر جلولا پہنچا ابو موسیٰ نے اس سروسامان سے شوستر کا رخ کیا اور شہرکے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ہرمزان کثرت فوج کے بل پر خود شہر سے نکل کر حملہ آور ہوا۔ ابو موسیٰ ؓ نے بڑی ترتیب سے صف آرائی کی۔ میمنہ براء بن مالک کو دیا (یہ حضرت انسؓ مشہور صحابی کے بھائی تھے) میسرہ پر براء بن عازبؓ انصاری کو مقرر کیا۔ سواروں کا رسالہ حضرت انسؓ کی رکاب میں تھا۔ دونوں فوجیں خوب جی توڑ کر لڑیں۔ براء بن مالک مارتے دھاڑتے شہر پناہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے ۔ ادھر ہرمزان نہایت بہادری کے ساتھ فوج کو لڑا رہا تھا۔ عین پھاٹک پر دونوں کا سامنا ہوا۔ براء مارے گئے، ساتھ ہی مخبراۃ بن ثور نے جو میمنہ کو لڑا رہے تھے، بڑھ کر وار کیا لیکن ہرمزان نے ان کا بھی کام تمام کر دیا ۔ تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ عجمی ایک ہزار مقتول اور چھ سو زندہ گرفتار ہوئے۔ ہرمزان نے قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری رکھی۔ ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ابو موسیؓ کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میرے جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہرپر قبضہ کرا دوں۔ ابوموسیؓ نے منظور کیا۔ اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا، ساتھ لیا اور نہرد جیل سے جو دجلہ کی ایک شاخ ہے اور شوشتر کے نیچے بہتی ہے پار اتر کر ایک تہہ خانے کی راہ شہر میں داخل ہوا اور اشرس کے منہ پر چادر ڈال کر کہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا ہوا خاص ہرمزان کے محل میں آیا۔ ہرمزان رئیسوں اور درباریوں کے ساتھ جلسہ جمائے بیٹھا ہوا تھا، شہری نے ان کو تمام عمارت کی سیر کرائی اور موقع کے نشیب و فراز دکھا کر ابو موسیٰؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں اپنا فرض ادا کر چکا، آگے تمہاری ہمت اور تقدیر ہے۔ اشرس نے اس کے بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ دو سو جانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہو جائے۔ ابو موسیؓ نے فوج کی طرف دیکھا۔ دو سو بہادروں نے بڑھ کر کہا کہ اللہ کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے۔ اشرف اسی تہہ خانے کی راہ شہر پناہ کے دروازے پر پہنچے اور پہرہ والوں کو تہہ تیغ کر کے اندر کی طرف سے دروازے کھول دئیے۔ ادھر ابو موسیٰؓ فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ تمام لشکر ٹوٹ پڑا اور شہر میں ہلچل پڑ گئی۔ ہرمزان نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ مسلمان قلعہ کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا کہ میرے ترکش میں اب بھی سو تیر ہیں اور جب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ بچھ جائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا۔ تاہم میں اس شرط پر اتر آتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو اور جو کچھ فیصلہ ہو، عمرؓ کے ہاتھ سے ہو۔ ابو موسیؓ نے منظور کیا اور حضرت انسؓ کو مامور کیا کہ مدینہ تک اس کے ساتھ جائیں۔ ہرمزان بڑی شان و شوکت سے روانہ ہوا۔ بڑے بڑے رئیس اور خاندان کے تمام آدمی رکاب میں لئے۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر شاہانہ ٹھاٹھ سے آراستہ ہوا۔ تاج مرصع جو آذین کے لقب سے مشہور تھا سر پر رکھا۔ دیبا کی قبا زیب بدن کی اور شاہان عجم کے طریقے کے موافق زیور پہنے۔ کمر سے مرصع تلوار لگائی۔ غرض شان و شوکت کی تصویر بن کر مدینے میں داخل ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ وہ سمجھتا تھا کہ جس شخص کے دبدبہ نے تمام دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے، اس کا دربار بھی بڑے سروسامان کا ہو گا۔ حضرت عمرؓ اس وقت مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور فرش خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہرمزان مسجد میں داخل ہوا تو سینکڑوں تماشائی ساتھ تھے جو اس کے زرق برق لباس کو بار بار دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ لوگوں کی آہٹ سے حضرت عمرؓ کی آنکھ کھلی تو عجمی شان و شوکت کا مرقع سامنے تھا۔ اوپر سے نیچے تک دیکھا اور حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’ یہ دنیائے دوں کی دل فریبیاں ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہرمزان کی طرف مخاطب ہوئے، اس وقت تک مترجم نہیں آیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہؓ کچھ کچھ فارسی سے آشنا تھے، اس لئے انہوں نے ترجمانی کی۔ حضرت عمرؓ نے پہلے وطن پوچھا۔ مغیرہؓ وطن کی فارسی نہیں جانتے تھے، اس لئے کہا کہ از کدام ارضی؟ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ قادسیہ کے بعد ہرمزان نے کئی دفعہ سعدؓ سے صلح کی تھی اور ہمیشہ اقرار سے پھر پھر جاتا تھا۔ شوستر کے معرکے میں دو بڑے مسلمان افسر اس کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ 1؎ حضرت عمرؓ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے قتل کا پورا ارادہ کر لیا تھا۔ تاہم اتمام حجت کے طور پر عرض معروض کی اجازت دی۔ اس نے کہا کہ عمرؓ! جب تک اللہ ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام تھے، اب اللہ تمہارے ساتھ ہے اور ہم تمہارے غلام ہیں۔ 1؎ ان واقعات کو طبری نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کہہ کر پینے کا پانی مانگا۔ پانی آیا تو پیالہ ہاتھ میں لے کر درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاؤں۔ حضرت عمرؓ نے منظور کیا۔ اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس لئے شرط کے موافق تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے۔ حضرت عمرؓ اس مغالطے پر حیران رہ گئے۔ ہرمزان نے کلمہ توحید پڑھا اور کہا میں پہلے ہی اسلام لا چکا تھا لیکن یہ تدبیر اس لئے کی کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا۔ 1؎ حضرت عمرؓ نہایت خوش ہوئے اور خاص مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ دو ہزار سالانہ روزینہ مقرر کر دیا۔ حضرت عمرؓ فارس وغیرہ کی مہمات میں اکثر اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ شوستر کے بعد جندی سابور پر حملہ ہوا جو شوستر سے 24میل ہے۔ کئی دن تک محاصرہ رہا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دئیے اور نہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا اور اس کا سبب دریافت کیا۔ شہر والوں نے کہا۔ ’’ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے، اب جھگڑا کیا رہا۔‘‘ سب کو حیرت تھی کہ امن کس نے دیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ ؓ نے کہا ایک غلام کی خود رائی حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد اور غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمرؓ کو خط لکھا گیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے۔ اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھا دیا اور فتوحات کی فہرست میں ایک اور نئے ملک کا اضافہ ہو گیا۔ عراق عجم2؎ (641ئ) 21ہجری جلولا کے بعد جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں یزدگرد رے چلا گیا لیکن یہاں کے رئیس آبان جادویہ نے بے وفائی کی۔ اس لئے رے سے نکل کر اصفہان اور کرمان ہوتا ہوا خراسان پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مرد میں اقامت کی۔ آتش پارسی ساتھ تھی، اس کے لئے آتش کدہ تیار کرایا اور مطمئن ہو کر پھر سلطنت و حکومت کے ٹھاٹھ لگا دئیے۔ 1؎ عقد الفرید لابن عبدربہ، باب المکیدۃ فی الحرب 2؎ سر زمین عراق دو حصوں پر منقسم ہے۔ مغربی حصے کو عراق عرب کہتے ہیں اور مشرقی حصے کو عراق عجم۔ عراق عجم کی حدود اربعہ یہ ہیں کہ شمال طبرستان، جنوب میں شیراز، مشرقی میں خوزستان اور مغرب میں شہر مراغہ واقع ہے۔ اس وقت اس کے بڑے شہر اصفہان، ہمدان اور رے سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت رے بالکل ویران ہو گیا اور اسی کے قریب طہران آباد ہو گیا ہے جو شاہان قاچار کا دار السلطنت ہے۔ یہیں خبر ملی کہ عربوں نے عراق کے ساتھ خوزستان بھی فتح کر لیا اور ہرمزان جو سلطنت کاز ور بازو تھا، زندہ گرفتار ہو گیا۔ یہ حالات سن کر نہایت طیش میں آیا۔ اگرچہ سلطنت کی حیثیت سے اس کا وہ پہلا رعب و داب باقی نہیں رہا تھا، تاہم تین ہزار برس کا خاندانی اثر دفعتہ نہیں مٹ سکتا تھا۔ ایرانی اس وقت تک یہ سمجھے تھے کہ عرب کی آندھی سرحد مقامات تک پہنچ کر رک جائے گی۔ اس لئے ان کو اپنی خاص سلطنت کی طرف سے اطمینان تھا لیکن خوزستان کے واقعہ سے ان کی آنکھیں کھلیں۔ ساتھ ہی شہنشاہ کے فرامین اور نقیب پہنچے۔ اس سے دفعتہ طبرستان، جرجان، نہاوند، رے، اصفہان، ہمدان سے گزر کر خراسان اور سندھ تک تلاطم مچ گیا اور ڈیڑھ لاکھ کا ٹڈی دل قم میں آ کر ٹھہرا۔ یزد گرد نے مروان شاہ کو (جو ہرمز کا فرزند تھا) سر لشکر مقرر کر کے نہاوند کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکہ میں درفش کا دیانی جس کو عجم فال ظفر سمجھتے تھے، مبارک فالی کے لحاظ سے نکالا گیا۔ چنانچہ مروان شاہ جب روانہ ہوا تو اس مبارک علم کا پھریرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ عمار بن یاسرؓ نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے، حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ عمارؓ کا خط لئے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور سب کو سنا کے کہا کہ گروہ عرب! اس مرتبہ تمام ایران کمربستہ ہو کر چلا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے مٹا دے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ طلحہ بن عبید اللہؓ نے اٹھ کر کہا کہ ’’ امیر المومنین! واقعات نے آپ کو تجربہ کار بنا دیا ہے۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ آپ جو حکم دیں، بجا لائیں۔‘‘ حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ ’’ میری رائے ہے کہ شام، یمن اور بصرہ کے افسروں کو لکھا جائے کہ اپنی اپنی فوجیں لے کر عراق کو روانہ ہوں اور آپ خود اہل حرم کو لے کر مدینہ سے اٹھیں۔ کوفہ میں تمام فوجیں آپ کے علم کے نیچے جمع ہوں اور پھر نہاوند کی طرف رخ کیا جائے۔‘‘ حضرت عثمانؓ کی اس رائے کو سب نے پسند کیا لیکن حضرت علیؓ چپ تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ بولے کہ شام اور بصرہ سے فوجیں ہٹیں تو ان مقامات پر سرحد کے دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب میں ہر طرف قیامت برپا ہو جائے گی اور خود اپنے ملک کا تھامنا مشکل ہو گا۔ میری رائے ہے کہ آپ یہاں سے نہ ہلیں اور شام، یمن اور بصرہ وغیرہ میں فرمان بھیج دئیے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہیں، ایک ایک ثلث ادھر روانہ کر دی جائیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا میری بھی یہی رائے تھی لیکن میں تنہا اس کا فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اب یہ بحث آئی کہ ایسی بڑی مہم میں سپہ سالار بن کر کون جائے؟ لوگ ہر طرف خیال دوڑاتے تھے لیکن اس درجہ کا کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ جو لوگ اس منصب کے قابل تھے وہ اور مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت عمرؓ کے مراتب کمال میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہوں نے ملک کے حالات سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ قوم کے ایک ایک فرد کے اوصاف ان کی نگاہ میں تھے۔ چنانچہ اس موقع پر حاضرین نے خود کہا کہ اس کا فیصلہ آپ سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرنؓ کو منتخب کیا اور سب نے اس کی تائید کی۔ نعمانؓ تیس ہزار کی جمعیت لے کر کوفہ سے روانہ ہوئے۔ اس فوج میں بڑے صحابہ ؓ شامل تھے جن میں سے حذیقہ بن الیمان، عبداللہ بن عمر، جریر بجلی، مغیرہ بن شعبہ، عمرو معدی کرب ؓ زیادہ مشہور ہیں۔ نعمانؓ نے جاسوسوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے۔ چنانچہ نہاوند تک برابر بڑھتے چلے گئے۔ نہاوند سے نو میل ادھر ’’ اسپد ہاں‘‘ ایک مقام تھا، وہاں پہنچ کر پڑا کیا۔ ایک بڑی تدبیر حضرت عمرؓ نے یہ کی کہ فارس میں جو اسلامی فوجیں موجود تھیں، ان کو لکھا کہ ایرانی اس طرف سے نہاوند کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔ اس طرح دشمن ایک بہت بڑی مدد سے محروم رہ گیا۔ عجم نے نعمانؓ کے پاس سفارشات کے لئے پیغام بھیجا۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ ؓ جو پہلے بھی اس کام کو انجام دے چکے تھے، سفیر بن کر گئے۔ عجم نے بڑی شان سے دربار آراستہ کیا۔ مروان شاہ کو تاج پہنا کر تخت زر پر بٹھایا۔ تخت کے دائیں بائیں ملک ملک کے شہزادے، دیبائے زرکش کی قبائیں، سر پر تاج زر، ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہن کر بیٹھے۔ ان کے پیچھے دور دور تک سپاہیوں کی صفیں قائم ہوئیں، جن کی برہنہ تلواروں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ مترجم کے ذریعے سے گفتگو شروع ہوئی۔ مروان شاہ نے کہا، اہل عرب! سب سے زیادہ بدبخت، سب سے زیادہ فاقہ مست، سب سے زیادہ ناپاک جو قوم ہو سکتی ہے تم ہو! یہ قدر انداز جو میرے تخت کے گرد کھڑے ہیں،ا بھی تمہارا فیصلہ کر دیتے لیکن مجھ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے تیر تمہارے ناپاک خون میں آلودہ ہوں۔ اب بھی اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو میں تم کو معاف کر دوں گا۔ مغیرہؓ نے کہا ہاں ہم لو گ ایسے ہی ذلیل و حقیر تھے لیکن اس ملک میں آ کر ہم کو دولت کا مزہ پڑ گیا اور یہ مزے ہم سے اسی وقت چھوٹیں گے جب ہماری لاشیں خاک پر بجھ جائیں۔ غرض سفارت بے حاصل ہو گئی اور دونوں طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ نعمانؓ نے میمنہ اور میسرہ حذیفہؓ اور سوید بن مقرن کو دیا۔ مجردہ پر قعقاع کو مقرر کیا، ساقہ پر مجاشع متعین ہوئے۔ ادھر میمنہ پر زروک اور میسرہ پر بہمن تھا۔ عجمیوں نے میدان جنگ میں پہلے سے ہر طرف کو کھروبچھا دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ اور عجمی جب چاہتے تھے شہر سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے۔ نعمانؓ نے یہ حالت دیکھ کر افسروں کو جمع کیا اور سب سے الگ الگ رائے لی۔ طلیحہ بن خالد الاسدی کی رائے کے موافق فوجیں آراستہ ہو کر شہر سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ٹھہریں اور قعقاع ؓ کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا کہ شہرپر حملہ آور ہوں۔ عجمی بڑے جوش سے مقابلہ کو نکلے اور اس بندوبست کے لئے کہ کوئی شخص پیچھے نہ ہٹنے پائے، جس قدر بڑھتے آتے تھے، پیچھے کو کھرو بچھاتے آتے تھے۔ قعقاع ؓ نے لڑائی چھیڑ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ عجمی برابر بڑھتے چلے آئے۔ یہاں تک کہ گو کھروکی سرحد سے نکل آئے۔ نعمانؓ نے جو ادھر فوجیں جما رکھی تھیں، موقع کا انتظار کر رہی تھیں۔ جونہی عجمی زور پر آئے، انہوں نے حملہ کرنا چاہا لیکن نعمانؓ نے روکا۔ عجمی جو برابر تیر برسا رہے تھے، اس سے سینکڑوں ہزاروں مسلمان کام آئے لیکن افسر کی یہ اطاعت تھی کہ زخم کھاتے تھے اور ہاتھ روکے کھڑے تھے۔ مغیرہؓ بار بار کہتے تھے کہ فوج بیکار ہوئی جاتی ہے اور موقع ہاتھ سے نکلا جاتا ہے لیکن نعمانؓ اس خیال سے دوپہر کے ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ ؐ جب دشمن پر حملہ کرتے تھے تو اسی وقت کرتے تھے۔ غرض دوپہر ڈھلی تو نعمانؓ نے دستور کے موافق تین نعرے مارے۔ پہلے نعرہ پر فوج اپنے سامان سے درست ہو گئی۔ دوسرے لوگوں نے تلواریں تول لیں اور تیسرے پر دفعتہ حملہ کیا اور اس بے جگری سے ٹوٹ کر گرے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میدان میں اس قدر خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں پھسل پھسل جاتے تھے۔ چنانچہ نعمانؓ کا گھوڑا پھسل کر گرا، ساتھ ہی خود بھی گرے اور زخموں سے چور ہو گئے۔ ان کا امتیازی لباس جس سے وہ معرکے میں پہچانے جاتے تھے کلاہ اور سفید قبا تھی۔ جونہی وہ گھوڑے سے گرے، نعیم بن مقرن ان کے بھائی نے علم کو جھپٹ کر تھام لیا اور ان کی کلاہ اور قبا پہن کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس تدبیر سے نعمانؓ کے مرنے کاحال کسی کو معلوم نہ ہوا اور لڑائی بدستور قائم رہی۔ اس مبارک زمانے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے جو ضبط و استقلال دیا تھا، اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہو سکتا ہے ۔ نعمانؓ جس وقت زخمی ہو کر گرے تھے اعلان کر دیا کہ میں مر بھی جاؤں تو کوئی شخص لڑائی کو چھوڑ کر میری طرف متوجہ نہ ہو۔ا تفاق سے ایک سپاہی ان کے پاس سے نکلا۔ دیکھا تو کچھ سانس باقی ہے اور دم توڑ رہے ہیں۔ گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھنا چاہا کہ ان کا حکم یاد آ گیا۔ اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا۔ فتح کے بعد ایک شخص سرہانے گیا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا کہ کیا انجام ہوا؟ اس نے کہا ’’ مسلمانوں کی فتح ہوئی‘‘ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے کہا کہ فورا عمرؓ کو اطلاع دو۔ رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا، حذیفہ بن الیمانؓ نے جو نعمان ؓ کے بعد سر لشکر مقرر ہوئے نہاوند پہنچ کر مقام کیا، یہاں ایک مشہور آتش کدہ تھا، اس کا موبد حذیفہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مجھ کو امن دیا جائے تو میں ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں۔ چنانچہ کسریٰ پرویز کے نہایت بیش بہا جواہرات لا کر پیش کئے جس کو کسریٰ نے مشکل وقتوں کے لئے محفوظ رکھا تھا۔ حذیفہ ؓ نے مال غنیمت کو تقسیم کیا اور پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو ہفتوں سے لڑائی کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ قاصد نے مژدہ سنایا تو بے انتہا خوش ہوئے لیکن جب نعمان ؓ کا شہید ہونا سنا تو بے اختیار رو پڑے اور دیر تک سر پر ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔ قاصد نے اور شہداء کے نام گنائے اور کہا کہ بہت سے اور لوگ بھی شہید ہوئے جن کو میں نہیں جانتا۔ حضرت عمرؓ پھر روئے اور فرمایا کہ عمرؓ نہ جانے تو نہ جانے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔ جواہرات کو دیکھ کر غصہ سے کہا کہ فوراً واپس لے جاؤ اور حذیفہؓ سے کہو کہ بیچ کر فوج میں تقسیم کر دیں۔ چنانچہ یہ جواہرات چار کروڑ درہم میں فروخت ہوئے۔ اس لڑائی میں قریباً تیس ہزار عجمی لڑ کر مارے گئے۔ اس معرکہ کے بعد عجم نے پھر کبھی زور نہیں پکڑا۔ چنانچہ عرب نے اس فتح کانام فتح الفتوح رکھا۔ فیروز جس کے ہاتھ پر حضرت فاروقؓ کی شہادت لکھی تھی اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔ ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642ئ) اس وقت تک حضرت عمرؓ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق، البتہ ممالک محروسہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن وہ در حقیقت عرب کا ایک حصہ تھا کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمرؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’ کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے، نہ ہم ان پر چڑھ سکتے۔‘‘ لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہ آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے، وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکے سے حضرت عمرؓ کو اس پر خیال ہوا او راکابر صحابہ ؓ کو بلا کر پوچھا کہ ’’ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا جب تک یزد گرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک ایرانیوں کا یہ خیال رہے گا کہ تخت کیان کا وارث موجود ہے، اس وقت تک ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔ اس بناء پر حضرت عمرؓ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے اور جدا جدا ممالک کے نام سے نامزد کر کے مشہور افسروں کے پاس بھیجے۔ چنانچہ خراسان کا علم اصف بن قیس کو سابور وارد شیر کا مجاشع بن مسعود کو اصطخر کا عثمان بن العاص الثقفی کو فسا کا ساریہ بن رہم الکنانی کو کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمر کو، مکران کا حکم بن عمیر التغلبی کو آذربائیجان کا عتبہ کو عنایت کیا۔ 21ھ میں یہ افسر اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ ہم ان کو الگ الگ ترتیب کے ساتھ لکھتے ہیں۔ فتوحات کے سلسلے میں سب سے پہلے اصفہان کا نمبر ہے۔ 21ھ میں عبداللہ بن عبداللہ نے اس صوبہ پر چڑھائی کی۔ یہاں کے رئیس نے جن کا نام استدار تھا، اصفہان کے نواحی میں بڑی جمعیت فراہم کی تھی، جس کے ہر اول پر شہر براز جادو یہ ایک پرانا تجربہ کار افسر تھا۔ دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو جادویہ نے میدان میں آ کر پکارا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہا میرے مقابلے کو آئے۔ عبداللہ خود مقابلے کو نکلے۔ جادویہ مارا گیا اور ساتھ ہی لڑائی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ استدار نے معمولی شرائط پر صلح کر لی۔ عبداللہ نے آگے بڑھ کر جے یعنی خاص اصفہان کا محاصرہ کیا۔ فاذو سفان یہاں کے رئیس نے پیغام بھیجا کہ دوسروں کی جانیں کیوں ضائع ہوں، ہم تم لڑ کر خود فیصلہ کر لیں۔ دونوں حریف میدان میں آئے۔ فاذوسفان نے تلوار کا وار کیا، عبداللہ نے اس پامردی سے اس کے حملہ کا مقابلہ کیا کہ فاذ و سفان کے منہ سے بے اختیار آفریں نکلی اور کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا اورشہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے اور جو چاہے نکل جائے۔ عبداللہ نے یہ شرط منظور کی اور معاہدہ صلح لکھ دیا۔ اسی اثناء میں خبر لگی کہ ہمدان میں غدر ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے نعیم بن مقرن کو ادھر روانہ کیا۔ انہوں نے بارہ ہزار کی جمعیت سے ہمدان پہنچ کر محاصرہ کے سامان کئے لیکن جب محاصرہ میں دیر لگی تو اضلاع میں ہر طرف فوجیں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ ہمدان چھوڑ کر باقی تمام مقامات فتح ہو گئے۔ یہ حالت دیکھ کر محصوروں نے بھی ہمت ہار دی اور صلح کر لی۔ ہمدان فتح ہو گیا لیکن ویلم نے رے و آذربائیجان وغیرہ سے نامہ و پیام کر کے ایک بڑی فوج فراہم کی۔ ایک طرف سے فرخان کا باپ زینبدی جورے کا رئیس تھا، انبوہ کثیر لے کر آیا۔ دوسری طرف آذربائیجان سے اسفند یار رستم کا بھائی پہنچا۔ وادی رود میں یہ فوجیں جمع ہوئیں اور اس زور کارن پڑا کہ لوگوں کو نہاوند کا معرکہ یاد آ گیا۔ آخر ویلم نے شکست کھائی، عروہ جو واقعہ جسر میں حضرت عمر ؓ کے پاس شکست کی خبر لے گئے تھے، اس فتح کا پیام لے کر گئے کہ اس دن کی تلافی ہو جائے۔ حضرت عمرؓ ویلم کی تیاریاں سن کر نہایت تردد میں تھے اور امداد کا سامان کر رہے تھے کہ دفعتہ عروہ پہنچے۔ حضرت عمرؓ کو خیال ہوا کہ شگون اچھا نہیں۔ بے ساختہ زبان سے انا للہ نکلا۔ عروہ نے کہا آپ گھبرائیں نہیں اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ حضرت عمرؓ نے نعیم کو نامہ لکھا کہ ہمدان پر کسی کو اپنا قائم مقام کر کے رے کو روانہ ہوں۔ رے کا حاکم اس وقت سیاؤش تھا جو بہرام چوبیں کا پوتا تھا۔ اس نے دنیاوند طبرستان قوس جرجان کے رئیسوں سے مدد طلب کی اور ہر جگہ سے امدادی فوجیں آئیں لیکن زینبدی جس کو سیاؤش سے کچھ ملال تھا۔ نعیم بن مقرن سے آ ملا۔ اس کی سازش سے شہر پر حملہ ہوا اور حملہ کے ساتھ دفعتہ شہر فتح ہو گیا۔ نعیم ن زینبدی کو رے کی ریاست دی اور پرانے شہر کو برباد کر کے حکم دیا کہ نئے سرے سے آباد کیا جائے۔ حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق نعیم نے خود رے میں قیام کیا اور اپنے بھائی سوید کو قومس پر بھیجا جو بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔ اس فتح کے ساتھ عراق عجم پر پورا پورا قبضہ ہو گیا۔ آذربائیجان1؎ 22ھ (643ئ) جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں حضرت عمرؓ نے آذربائیجان کا علم عتبہ (بن فرقد) اور بکیر کو بھیجا تھا اور ان کے بڑھنے کی سمتیں بھی متعین کر دی تھیں۔ بکیر جب میدان میں پہنچے تو اسفند یار کا سامنا ہوا۔ اسفند یار نے شکست کھائی اور زندہ گرفتار ہو گیا۔ دوسری طرف اسفند یار کا بھائی بہرام، عتبہ کا سد راہ ہوا لیکن وہ بھی شکست کھا کر بھاگ گیا۔ اسفند یار نے بھائی کی شکست کی خبر سنی تو بکیر سے کہا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور میں جزیہ پر تم سے صلح کر لیتا ہوں۔ چونکہ آذربائیجان انہی دونوں بھائیوں کے قبضے میں تھا، عتبہ نے اسفند یار کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آذربائیجان کا رئیس رہ کر جزیہ ادا کرتا رہے۔ مورخ بلاذری کابیان ہے کہ آذربائیجان کا علم حذیفہ بن یمان ؓ کو ملا تھا۔ وہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذربائیجان کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کے رئیس نے ماجروان ، میمند، سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک انبوہ کثیر جمع کر کے مقابلہ کیا اور شکست کھائی پھر آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ حذیفہ نے اس کے بعد موقان و جیلانی پر حملہ کیا اور فتح کے پھریرے اڑائے۔ 1؎ نقشہ دیکھنے سے آذربائیجان کا پتہ اس طرح لگے گا کہ شہر تبریز کو اس کا صدر مقام سمجھنا چاہیے (سابق میں شہر مراغہ دار الصدر تھا) بروعد اور اردبیل اسی صوبہ میں آباد ہیں۔ آذربائیجان کی وجہ تسمیہ میں دو روائتیں ہیں۔ ایک یہ کہ موبد آذر آباد نے ایک آتش کدو بنایا تھا جس کا نام آذر آبادگان تھا۔د وسری روایت یہ ہے کہ لغت پہلوی میں آذر کے منی آتش کے ہیں اور بایگان کے معنی ہیں محافظ یعنی نگاہ دارندہ آتش چونکہ اس صوبہ میں آتش کدوں کی کثرت تھی، اسی وجہ سے یہی نام ہو گیا جس کو عربوں نے اپنی زبان میں آذربائیجان کر لیا۔ اسی اثناء میں دربار خلافت سے حذیفہ ؓ کو معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فقدان ان کی جگہ پر مقرر ہو گئے۔ عتبہ کے پہنچتے پہنچتے آذربائیجان کے تماما طراف میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ عتبہ نے دوبارہ ان مقامات کو فتح کیا۔ طبرستان1؎22ھ (643ئ) ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ نعیم نے جب رے فتح کر لیا تو ان کے بھائی سوید، قومس پر بڑھے اور یہ وسیع صوبہ بغیر جنگ و جدل کے قبضہ میں آ گیا۔ یہاں سے جرجان جو طبرستان کا مشہور ضلع ہے نہایت قریب ہے۔ سوید نے وہاں کے رئیس روزبان سے نامہ و پیام کیا۔ اس نے جزیہ پر صلح اور معاہدہ صلح میں بتصریح لکھ دیا گیا کہ مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ جرجان کی خبر سن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو سپہدار کہلاتا تھا، اس شرط پر صلح کر لی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہو گا۔ آرمینیہ2؎ بکیر جو آذربائیجان کی مہم پر مامور تھے، آذربائیجان فتح کر کے باب کے متصل پہنچ گئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایک نئی فوج تیار کر کے ان کی مدد کو بھیجی۔ باب کا رئیس جس کا نام شہر براز تھا مجوسی تھا، سلطنت ایران کا ماتحت تھا۔ مسلمانوں کی آمد سن کر خود حاضر ہوا اور کہا کہ مجھ کو آرمینیہ کے کمینوں سے کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ میں ایران کی نسل سے ہوں اور جب خود ایران فتح ہو چکا تو میں بھی تمہارا مطیع ہوں۔ لیکن میری درخواست ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چونکہ جزیہ درحقیقت صرف محافظت کا معاوضہ ہے۔ اس لئے یہ شرط منظور کر لی گئی۔ 1؎ نقشہ میں صوبہ طبرستان فتوحات عثمانی میں ملے گا۔ اس لئے کہ خلافت فاروقی میں جزیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مشرقی میں خراسان و جرجان مغرب میں آذربائیجان اور جنوب میں بلادخیل بسطام اور استر آباد اس کے مشہور شہر ہیں۔ 2؎ صوبہ آرمییہ کو بلاد ارمن بھی کہتے ہیں۔ جو ایشیائے کوچک کا ایک حصہ ہے۔ شمال بحر اسود، جنوب میں کوہی صحرائی ہضہ دور تک چلا گیا ہے۔ مشرق میں گرجستھان اور مغرب میں بلاد روم واقع ہیں۔ چونکہ یہ صوبہ خلافت عثمانی میں کامل فتح ہوا تھا، اس لئے نقشہ میں فاروقی رنگ سے جدا ہے۔ اس سے فارغ ہو کر فوجیں آگے بڑھیں۔ عبدالرحمن بن ربیعہ، بلنجر کی طرف جو مملکت خرز کا پائے تخت تھا روانہ ہوئے۔ شہر براز ساتھ تھا، اس نے تعجب سے کہا کہ کیا ارادہ ہے؟ ہم لوگ اپنے عہد میں اسی کو غنیمت سمجھتے تھے کہ وہ لوگ ہم پر چڑھ کر نہ آئیں۔ عبدالرحمن نے کہا لیکن میں جب تک اس کے جگر میں گھس جاؤں باز نہیں آ سکتا۔ چنانچہ بیضافتح کیا تھا کہ خلافت فاروقی کا زمانہ تمام ہو گیا۔ ادھر بکیر نے قان کو جہاں سے ایران کی سرحد شروع ہوتی ہے فتح کر کے اسلام کی سلطنت میں ملا لیا ۔ حبیب بن مسلمہ اور حذیفہ نے نفلیس اور جبال اللان کا رخ کیا لیکن قبل اس کے کہ وہاں اسلام کا پھریرا اڑتا، حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ ختم ہو چکا۔ چنانچہ یہ ناتمام مہمات حضرت عثمانؓ کے عہد میں انجام کو پہنچیں۔ فارس1؎ 23ھ (644ئ) فارس پر اگرچہ اول اول سنہ 17ھ میں حملہ ہوا لیکن چونکہ حضرت عمرؓ کی اجازت سے نہ تھا اور نہ اس کو چنداں کامیابی ہوئی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے ساتھ اس کو لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ عراق اور اہواز جو عرب کے ہمسایہ تھے فتح ہو چکے تو حضرت عمرؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور فارس کے بیچ میں آتشیں پہاڑ حائل ہوتا تو اچھا تھا لیکن فارس سے ایک اتفاقی طور پر جنگ چھڑ گئی۔ علامہ ابن الحضر می سنہ 17ھ میں بحرین کے عامل مقرر ہوئے۔ وہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے آدمی تھے اور چونکہ سعد بن ابی وقاصؓ سے بعض اسباب کی وجہ سے رقابت تھی۔ ہر میدان میں ان سے بڑھ کر قدم مارنا چاہتے تھے۔ سعدؓ نے جب قادسیہ کی لڑائی جیتی تو علامہ ابن الحضر می کو سخت رشک ہوا۔ یہاں تک کہ دربار خلافت سے اجازت تک نہ لی اور فوجیں تیار کر کے دریا کی راہ فارس پر چڑھائی کر دی۔ خلید بن منذر سر لشکر تھے اور جارود بن ا لمعلی اور سوار بن ہمام کے ماتحت الگ الگ فوجیں تھیں۔ اصطخر پہنچ کر جہاز نے لنگر کیا اور فوجیں کنارے پر اتریں۔ یہاں کا حاکم ایک ہیر بد تھا۔ وہ ایک انبوہ کثیر لے کر پہنچا اور دریا اتر کر اس پار صفیں قائم کیں، کہ مسلمان جہاز تک پہنچنے نہ پائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی جمعیت نہایت کم تھی اور جہاز بھی گویا دشمن کے قبضہ میں آ گئے تھے لیکن سپہ سالار فوج کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کرنے کو بڑھے اور فوج کو للکارا کہ ’’ مسلمانو! بے دل نہ ہونا۔ دشمن نے ہمارے جہازوں کو چھیننا چاہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا تو جہاز کے ساتھ دشمن کا ملک بھی ہمارا ہے۔‘‘ 1؎ حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں مگر ہم نے جس وقت کا نقشہ دیا ہے اس وقت فارس کے حدد یہ تھے۔ شمال میں اصفہان، جنوب میں بحر فارس، مشرقی میں کرمان اور مغرب میں عراق عرب۔ اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شیراز ہے۔ خلید اور جارود بڑی جانبازی سے رجز پڑھ پڑھ کر لڑے اور ہزاروں کو تہہ تیغ کیا۔ خلید کا رجز یہ تھا: یا آل عبد القیس للنزاع قد حفل الامداد بالجراع وکلھم فی سنن المصاع بحسن ضرب القوم بالقطاع غرض سخت معرکہ ہوا۔ اگرچہ فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی لیکن فوج کا بڑا حصہ برباد ہو گیا، آگے نہ کچھ بڑھ سکے۔ پیچھے ہٹنا چاہا مگر غنیم نے جہاز غرق کر دئیے تھے مجبور ہو کر خشکی کی راہ بصرہ کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے ادھر بھی راہیں بند تھیں۔ ایرانیوں نے پہلے سے ہر طرف ناکے روک رکھے تھے اور جابجا فوجیں متعین کر دی تھیں۔ حضرت عمرؓ کو فارس کے حملہ کا حال معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے۔ علاء کو نہایت تہدید کا نامہ لکھا، ساتھ ہی عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ مسلمانوں کے بچانے کے لئے فوراً لشکر تیار ہو اور فارس پر جائے۔ چنانچہ بارہ ہزار فوج جس کے سپہ سالار ابوسبرہ تھے، تیار ہو کر فارس پر بڑھی اور مسلمان جہاں رکے پڑے تھے، وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ادھر مجوسیوں نے ہر طرف نقیب دوڑا دئیے تھے اور ایک انبوہ کثیر جس کا سر لشکر شہرک تھا، اکٹھا کر لیا تھا۔ دونوں حریف دل توڑ کر لڑے۔ بالآخر ابو بہرۃ نے فتح حاصل کی لیکن چونکہ آگے بڑھنے کاحکم نہ تھا بصرہ واپس چلے آئے۔ واقعہ نہاوند کے بعد جب حضرت عمرؓ نے ہر طرف فوجیں روانہ کیں تو فارس پر بھی چڑھائی کی اور جدا جدا فوجیں متعین کیں۔ پارسیوں نے ’’ توج‘‘ کو صدر مقام قرار دے کر یہاں بڑا سامان کیا تھا لیکن جب اسلامی فوجیں مختلف مقامات میں پھیل گئیں تو ان کو بھی منتشر ہونا پڑا اور یہ ان کی شکست کا دیباچہ تھا۔ چنانچہ سابورا، ارد شیر، توج، اصطخر سب باری باری فتح ہو گئے لیکن حضرت عمرؓ کی اخیر خلافت یعنی 23ھ میں جب عثمان بن ابی العاصؓ بحرین کے عامل مقرر ہوئے تو شہرک نے جو فارس کا مر زبان تھا بغاوت کی اور تمام مفتوحہ مقامات ہاتھ سے نکل گئے۔ عثمانؓ نے اپنے بھائی کو ایک جمعیت کثیر کے ساتھ اس مہم پر مامور کیا۔ حکم جزیرہ ابر کاواں فتح کر کے توج پر بڑھے اور اس کو فتح کر کے وہیں چھاؤنی ڈال دی۔ مسجدیں تعمیر کیں اور عرب کے بہت سے قبائل آباد کئے۔ یہاں سے کبھی کبھی اٹھ کر سرحدی شہروں پر حملہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ اس طرح ارد شیر، سابور، اصطخر، ارجان کے بہت سے حصہ دبا لئے۔ شہرک یہ دیکھ کر نہایت طیش میں آیا اور ایک فوج عظیم جمع کر کے توج پر بڑھا۔ رامشر پہنچا تھا کہ ادھر سے حکم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوئے۔ شہرک نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی ایک دستہ سب سے پیچھے رکھا کہ کوئی سپاہی پیچھے پاؤں ہٹائے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ غرض جنگ شروع ہوئی اور دیر تک معرکہ رہا۔ پارسیوں کو شکست ہوئی اور شہرک جان سے مارا گیا۔ اس کے بعد عثمانؓ نے ہر طرف فوجیں بھیج دیں۔ اس معرکہ سے تمام فارس میں دھاک بیٹھ گئی۔ عثمانؓ نے جس طرف رخ کیا، ملک کے ملک فتح ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ گازرون، نوبند جان، ارجان، شیراز، سابور، جو فارس کے صدر مقامات ہیں، خود عثمان ؓ کے ہاتھ سے فتح ہوئے۔ فسا، داار الجبر وغیرہ پر فوجیں گئیں اور کامیاب آئیں۔ کرمان1؎23ھ (644ئ) کرمان کی فتح پر سہیل بن عدی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ سنہ 23ھ میں ایک فوج لے کر جس کا ہر اول بشیر بن عمر العجلی کی افسری میں تھا۔ کرمان پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں کے مر زبان نے قفس وغیرہ سے مدد طلب کر کے مقابلہ کیا لیکن وہ خود میدان جنگ میں بشیر کے ہاتھ سے مارا گیا۔ چونکہ آگے کچھ روک ٹوک نہ تھی، جیرفت اور سیر جاں تک فوجیں بڑھتی چلی گئیں اور بے شمار اونٹ اور بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ جیرفت کرمان کا تجارت گاہ اور سر جان کرمان کا سب سے بڑا شہر تھا۔ سیستان2؎ 23ھ (644ئ) یہ ملک عاصم بن عمر کے ہاتھ سے فتح ہوا ہے۔ باشندے سرحد پر برائے نام لڑ کر بھاگ نکلے۔ عاصم برابر بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ زرنج کا جو سیستان کا دوسرا نام ہے، محاصرہ کیا۔ محصوروں نے چند روز کے بعد اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ ان کی تمام ارضی حمیٰ سمجھی جائے۔ مسلمانوں نے یہ شرط منظور کر لی اور اس طرح وفا کی کہ جب مزروعات کی طرف نکلتے تھے تو جلدی سے گزر جاتے تھے کہ زراعت چھو تک نہ جائے۔ اس ملک کے قبضے میں آنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ سے لے کر نہر بلغ تک جس قدر ممالک تھے، ان کی فتح کی کلید ہاتھ میں آ گئی۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً ان ملکوں پر حملے ہوتے رہتے تھے۔ 1؎ اس کا قدیم نام کرمانیہ ہے، حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں کوہستان، جنوب میں بحر عمان، مشرق میں سیستان اور مغرب میں فارس ہے۔ زمانہ سابق میں اس کا دار الصدر کو اشیر (بردسیر) تھا جس کی جگہ اب حیرفت آباد ہے۔ 2؎ سیستان کو عرب سجستان کہتے ہیں، حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں ہرات، جنوب میں مکران، مشرق میں سندھ اور مغرب میں کوہستان ہے۔ مشہور شہر زرنج ہے، جہاں میوہ افراط سے پیدا ہوتا ہے۔ رقبہ 25000میل مربع ہے۔ مکران1؎ 23ھ (644ئ) مکران پر حکم بن عمرو التغلبی مامور ہوئے تھے۔ چنانچہ سنہ 23ھ میں روانہ ہو کر نہر مکران کے اس طرف فوجیں اتاریں۔ مکران کا بادشاہ جس کا نام راسل تھا، خود پار اتر کر آیا اور صف آرائی کی۔ ایک بڑی جنگ کے بعد راسل نے شکست کھائی اور مکران پر قبضہ ہو گیا۔ حکم نے فتح نامہ کے ساتھ چند ہاتھی بھی لوٹ میں آئے تھے دربار خلافت میں بھیجے۔ صحار عبدی جو فتح نامہ لے کر گئے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے مکران کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا ارض سھلھا جبل وماء ہا وشل و ثمرھا وقل و عدوھا باطل و خیر ھا قلیل و شرھا طویل ولکاثیر بھا قلیل حضرت عمرؓ نے فرمایا واقعات کے بیان میں قافیہ بندی کا کیا کام ہے۔ انہوں نے کہا ’’ میں واقعی حالات بیان کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ ’’ فوجیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں رک جائیں۔‘‘ چنانچہ فتوحات فاروقی کی اخیر حد یہی مکران ہے لیکن یہ طبری کا بیان ہے مورخ بلاذری کی روایت ہے کہ ریبل کے نشیبی حصہ اور تھانہ تک فوجیں آئیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت عمرؓ کے عہد میں اسلام کا قدم سندھ ہند میں بھی آ چکا تھا۔ خراسان2؎ کی فتح اور یزد گرد کی ہزیمت23ھ (644ئ) اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جن جن افسروں کو ملک گیری کے علم بھیجے تھے، ان میں احف بن قیس بھی تھے اور ان کو خراسان کا علم عنایت ہوا تھا۔ احف نے 22ھ میں خراسان کا رخ کیا۔ طبین ہو کر ہرات پہنچے اور اس کو فتح کر کے مرد شاہجان پر بڑھے۔ یزد گرد شہنشاہ فارس یہیں مقیم تھا۔ ان کی آمد سن کر وہ مردود چلا گیا اور خاقان چین اور دیگر سلاطین کو استمداد کے نامے لکھے۔ احف نے مرو شاہجان پر حارثہ بن النعمان باہلی کو چھوڑا اور خود مرور ود کی طرف بڑھے۔ یزد گرد یہاں سے بھی بھاگا اور سیدھا بلخ پہنچا۔ اس اثناء میں کوفہ سے امدادی فوجیں آ گئیں جس کے میمنہ و میسرہ وغیرہ کے افسر علقمہ بن النصری، وبعی بن عامر المیمی، عبداللہ بن ابی عقیل التقفی، ابن غزال الہمدانی تھے۔ 1؎ آج کل مکران کا نصف حصہ بلوچستان کہلاتا ہے۔ اگرچہ مورخ بلاذری فتوحات فاروقی کی حد سندھ کے شہر دیبل تک لکھتا ہے مگر طبری نے مکران ہی کو اخیر حد قرار دیا ہے۔ اس لئے ہم نے بھی فتوحات فارقی کی ہیں تک حد قرار دی ہیں۔ 2؎ علامہ بلاذری کے نزدیک تمام مادراء النہر فرغانہ خوارزم، طخارستان اور سیستان رقبہ خراسان میں داخل تھا مگر اصل یہ ہے کہ اس کے حدود ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ اس کے مشہور شیر نیشاپور، مرد، ہرات، بلخ، طوس فسا اور ابی درد وغیرہ تھے، جن میں سے پچھلے دواب بالکل ویران ہیں۔ احف نے تازہ دم فوج لے کر بلخ پر حملہ کیا۔ یزد گرد نے شکست کھائی اور دریا اتر کر خاقان کی حکومت میں چلا گیا۔ احف نے میدان خالی پا کر ہر طرف فوجیں بھیج دیں اور نیشاپور سے طخارستان تک فتح کر لیا۔ مرور ود کو تخت گاہ قرار دے کر مقام کیا اور حضرت عمرؓ کو نامہ لکھا کہ خراستان اسلام کے قبضہ میں آ گیا۔ حضرت عمرؓ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے، خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے بیچ میں آگ کا دریا حائل ہوتا تو خوب ہوتا۔ احف کے مردانہ حوصولوں کی اگرچہ بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ احف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب میں جو نامہ لکھا، اس میں لکھا کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہاں سے آگے نہ بڑھنا۔ ادھر یزد گرد، خاقان کے پاس گیا تو اس نے بڑی عزت و توقیر کی اور ایک فوج کثیر ہمراہ لے کر یزد گرد کے ساتھ ساتھ خراسان کو روانہ ہوا۔ احف چوبیس ہزار فوج کے ساتھ بلخ میں مقیم تھے۔ خاقان کی آمد سن کر مرورود پہنچا۔ یزد گرد خاقان سے الگ ہو کر مرد شاہجہاں کی طرف بڑھا۔ احف نے کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ نہر اتر کر ایک میدان میں جس کی پشت پر پہاڑ تھا، صف آرائی کی۔ دونوں فوجیں مدت تک آمنے سامنے صفیں جمائے پڑی رہیں۔ عجمی صبح اور شام ساز و سامان سے آراستہ ہو کر میدان جنگ میں جاتے تھے اور چونکہ ادھر سے کچھ جواب نہیں دیا جاتا تھا، بغیر لڑے بھڑے واپس آ جاتے تھے۔ ترکوں کا عام دستور ہے کہ پہلے تین بہادر میدان جنگ میں باری باری طبل و دمامہ کے ساتھ جاتے ہیں، پھر سارا لشکر جنبش میں آتا ہے۔ ایک دن احف خود میدان جنگ میں گئے۔ا دھر سے معمول کے موافق ایک ترک طبل و علم کے ساتھ نکلا۔ احف نے حملہ کیا اور دیر تک رد و بدل رہی۔ آخر احف نے ایک برچھی ماری ۔ ترک زمین پر گر کر مر گیا۔ احف نے جوش میں آ کر کہا۔ ان علی کل ربی حقا ان یخضب الصعدۃ او یندقا قاعدے کے موافق دو اور بہادر ترکی میدان میں آئے اور احف کے ہاتھ سے مارے گئے۔ خاقان جب خود میدان میں آیا تو اپنے بہادروں کی لاشیں میدان میں پڑی دیکھیں۔ چونکہ شگون برا تھا، نہایت پیچ و تاب کھایا اور فوج سے کہا کہ ہم بے فائدہ پرایا جھگڑا کیوں مول لیں۔ چنانچہ اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا۔ یزد گرد مرو شاہجہاں کا محاصرہ کئے پڑا تھا کہ یہ خبر پہنچی۔ فتح سے نا امید ہو کر خزانہ اور جواہر خانہ ساتھ لیا اور ترکستان کا قصد کیا۔ درباریوں نے یہ دیکھ کر کہ ملک کی دولت ہاتھ سے نکلی جاتی ہے، وکا اور جب اس نے نہ مانا تو بر سر مقابلہ آ کر تمام مال و اسباب ایک ایک کر کے چھین لیا۔ یزد گرد بے سرو سامان خاقان کے پاس پہنچا اور حضرت عمرؓ کی اخیر خلافت تک فرغانہ میں جو خاقان کا دار السلطنت تھا مقیم رہا۔ احف نے حضرت عمرؓ کو فتح کا نامہ لکھا۔ قاصد مدینہ پہنچا تو حضرت عمرؓ نے تمام آدمیوں جمع کر کے مژدہ فتح سنایا اور پر اثر تقریر کی۔ آخر میں فریا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت برباد ہو گئی اور اب وہ اسلام کو کسی طرح ضرر نہیں پہنچا سکتے لیکن اگر تم بھی راست کرداری پر ثابت قدم نہ رہے تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کے ہاتھ میں دے دے گا۔ مصر کی فتح 20ہجری (641ئ) مصر کی فتح اگرچہ فاروقی کارناموں میں داخل ہے لیکن اس کے بانی مبانی عمرو بن العاصؓ تھے۔ وہ اسلام سے پہلے تجارت کا پیشہ کرتے تھے اور مصر ان کی تجارت کا جولانگاہ تھا۔ اس زمانے میں مصرکی نسبت گو اس قسم کا خیال بھی ان کے دل میں نہ گزرا ہو گا لیکن اس کی زرخیزہ اور شادابی کی تصویر ہمیشہ ان کی نظر میں رہتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے شام کا جو اخیر سفر کیا اس میں یہ ان سے ملے اور مصر کی نسبت گفتگو کی ۔ حضرت عمرؓ نے پہلے احتیاط کے لحاظ سے انکار کیا لیکن آخر ان کے اصرار پر راضی ہو گئے اور چار ہزار فوج ساتھ کر دی۔ اس پر بھی ان کا دل مطمئن نہ تھا۔ عمرو سے کہا کہ اللہ کا نام لے کر روانہ ہو لیکن مصر پہنچنے سے پہلے اگر میرا خط پہنچے۔ا گرچہ اس میں آگے بڑھنے سے روکا تھا لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا، عمرو نے کہا کہ اب تم ہم مصر کی حد میں آ چکے ۔ 1؎ غرض عریش سے چل کر فرما پہنچے۔ یہ شہر بحر روم کے کنارے پر واقع ہے اور گو اب ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں آباد تھا اور جالینوس کی زیارت گاہ ہونے کی وجہ سے ایک ممتاز شہر گنا جاتا تھا۔ یہاں سرکاری فوج رہتی تھی۔ اس نے شہر سے نکل کر مقابلہ کیا اور ایک مہینے تک معرکہ کار زار گرم رہا۔ بالآخر رومیوں نے شکست کھائی۔ عمرو فرما سے چل کر بلیس اور ام دنین کو فتح کرتے ہوئے فسطاط پہنچے۔ فسطاط اس زمانے میں کف دست میدان تھا اور اس قطعہ زمین کا نام تھا جو دریائے نیل اور جبل مقطم کے بیچ میں واقع ہے اور جہاں اس وقت زراعت کے کھیت یا چراگاہ کے تختے تھے لیکن چونکہ یہاں سرکاری قلعہ تھا اور رومی سلطنت کے حکام جو مصر میں رہتے تھے، یہیں رہا کرتے تھے۔ 1؎ مقریزی وغیرہ میں لکھا ہے کہ قاصد مقام رفج میں عمروؓ سے ملا۔ انہوں نے اس خیال سے کہ آگے بڑھنے سے منع کیا ہو گا، قاصد سے خط نہیں لیا اور کہا کہ جلدی کیا ہے منزل پر پہنچ کر لے لوں گا۔ عریش کے قریب پہنچے تو لے کر کھولا اور پڑھ کر کہا کہ امیر المومنین نے لکھا ہے کہ مصر نہ پہنچ چکے ہو تو رک جانا لیکن ہم تو مصر کی حد میں آ چکے لیکن عمرو بن العاصؓ کی نسبت ایسی حیلہ بازی کے اتہام کی کیا ضرورت ہے۔ اولاً تو بلاذری وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ خط ان کو عریش ہی میں ملا لیکن رفج میں ملا تب بھی کچھ حرج نہیں کیونکہ رفج خود مصر میں داخل ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ دریائے نیل پر واقع تھا اور جہاز اور کشتیاں قلعہ کے دروازے پر آ کر لگتی تھیں ان وجودہ سے سرکاری ضرورتوں کے لئے نہایت مناسب مقام تھا۔ عمروؓ نے اول اسی کو تاکا اور محاصرہ کی تیاریاں شروع کیں۔ مقوقس جو مصرہ کا فرمانروا اور قیصر کا باجگزار تھا، عمرو بن العاص ؓ سے پہلے قلعہ میں پہنچ چکا تھا اور لڑائی کا بندوبست کر رہا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی اور فوج کی قلت دیکھ کر عمرو ؓ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا اور اعانت طلب کی انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک ہزار ہزار سوار کے برابر ہے۔ یہ افسر زبیر بن العوام، عبادہ بن صامت، مقداد بن عمر، سلمہ بن مخلدؓ تھے۔ زبیرؓ کا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے عمروؓ نے ان کو افسر بنایا اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دے دئیے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اور جہاں جہاں مناسب تھا، مناسب تعداد کے ساتھ سوار اور پیادے متعین کئے۔ اس کے ساتھ منجیقوں سے پتھر برسانے شروع کئے۔ اس پر پورے سات مہینے گزر گئے اور فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ زبیرؓ نے ایک دن تنگ آ کر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اور صحابہؓ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کئے۔ ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل گئی۔ عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے بد حواس ہو کر بھاگے۔ ادھر زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس آئی۔ مقوقس نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی اور اسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔ ایک دن عیسائیوں نے عمرو بن العاصؓ اور افسران فوج کی بڑی دھوم دھام سے دعوت کی۔ عمرو بن العاصؓ نے قبول کر لی اور سلیقہ شعار لوگوں کو ساتھ لے گئے۔ دوسرے دن عمروؓ نے ان لوگوں کی دعوت کی۔ رومی بڑے تزک و احتشام سے آئے اور مخملی کرسیوں پر بیٹھے۔ کھانے میں خود مسلمان بھی شریک تھے اور جیسا کہ عمروؓ نے پہلے سے حکم دے دیا تھا، سادہ عربی لباس میں تھے اور عربی انداز اور عادات کے موافق کھانے پر بیٹھے ۔ کھانا بھی سادہ یعنی معمولی گوشت اور روٹی تھی۔ عربوں نے کھانا شروع کیا تو گوشت کی بوٹیاں شوربے میں ڈبو کر اس زور سے دانتوں سے نوچتے تھے کہ چھینٹیں اڑ کر رومیوں کے کپڑوں پر پڑتی تھیں۔ کھانے کے بعد رومیوں نے کہا، وہ لوگ کہاں ہیں جو کل ہماری دعوت میں شریک تھے یعنی وہ ایسے گنوار اور بے سلیقہ نہ تھے۔ عمروؓ نے کہا وہ اہل الرائے تھے اور یہ سپاہی ہیں۔ مقوقس نے اگرچہ تمام مصر کے لئے صلح معاہدہ لکھوایا تھا لیکن ہر قل کو جب خبر ہوئی تو اس نے نہایت ناراضگی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ قطبی اگر عربوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے رومیوں کی تعداد کیا کم تھی۔ اسی وقت ایک عظیم الشان فوج روانہ کی کہ اسکندریہ پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے تیار ہو۔ اسکندریہ کی فتح21ھ (641,42ئ) فسطاط کی فتح کے بعد عمروؓ نے چند روز تک یہاں قیام کیا اور یہیں سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ فسطاط فتح ہو چکا۔ اجازت ہو تو اسکندریہ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔ وہاں سے منظوری آئی، عمرو ؓ نے کوچ کا حکم دیا۔ اتفاق سے عمروؓ کے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلہ لگا لیا تھا۔ خیمہ اکھاڑا جانے لگا تو عمرو کی نگاہ پڑی۔ حکم دیا کہ اس کو یہیں رہنے دو ہمارے مہمان کو تکلیف نہ ہونے پائے۔ چونکہ عربی میں خیمہ کو فسطاط کہتے ہیں اور عمروؓ نے اسکندریہ سے واپس آ کر اسی خیمہ کے قریب شہر بسایا۔ اس لئے خود شہر بھی فسطاط کے نام سے مشہور ہو گیا اور آج تک یہی نام لیا جاتا ہے۔ بہرحال 21 ھ نے اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان رومیوں کی جو آبادیاں تھیں، انہوں نے سد راہ ہونا چاہا۔ چنانچہ ایک جماعت عظیم سے جس میں ہزاروں قطبی بھی شامل تھے، فسطاط کی طرف بڑھے کہ مسلمانوں کو وہیں روک لیں مقام کر بوں میں دونوں حریفوں کا سامنا ہوا مسلمانوں نے نہایت طیش میں آ کر جنگ کی اور بے شمار عیسائی مارے گئے۔ پھر کسی نے روک ٹوک کی جرأت نہ کی اور عمروؓ نے اسکندریہ پہنچ کر دم لیا۔ مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا۔ لیکن رومیوں کے ڈر سے نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ درخواست کی کہ ایک مدت معین کے لئے صلح ہو جائے۔ عمروؓ نے انکار کیا۔ مقوقس نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے شہر کے تمام آدمیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر شہر پناہ کی فصیل پر مسلمانوں کے آمنے سامنے صف جما کر کھڑے ہوں۔ عورتیں بھی اس حکم میں داخل تھیں اور اس غرض سے کہ پہچانی نہ جا سکیں۔ انہوں نے شہر کی طرف منہ کر لیا تھا۔ عمروؓ نے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مطلب سمجھے لیکن تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے اب تک جو ملک فتح کئے کثرت فوج کے بل پر نہیں کئے۔ تمہارا بادشاہ ہرقل جس سروسامان سے ہمارے مقابلے کو آیا تم کو معلوم ہے اور جو نتیجہ ہوا وہ بھی مخفی نہیں۔ 1؎ مقوقس نے کہا ’’ سچ ہے یہی عرب ہیں جنہوں نے ہمارے بادشاہ کو قسطنطنیہ پہنچا کر چھوڑا۔‘‘ اس پر رومی سردار نہایت غضب ناک ہوئے۔ مقوقس کو بہت برا بھلا کہا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ 1؎ فتوح البلدان ص220 مقوقس کی مرضی چونکہ جنگ کی نہ تھی۔ اس نے عمروؓ سے اقرار لے لیا تھا کہ ’’ چونکہ میں رومیوں سے الگ ہوں، اس وجہ سے میری قوم (یعنی قبطی) کو تمہارے ہاتھ سے ضرر نہ پہنچنے پائے۔‘‘ قبطیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس معرکہ میں دونوں سے الگ رہے بلکہ مسلمانوں کو بہت کچھ مدد دی۔ فسطاط سے اسکندریہ تک فوج کے آگے آگے پلوں کی مرمت کرتے اور سڑکیں بناتے گئے۔ خود اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی رسد وغیرہ کا انتظام انہی کی بدولت ہو سکا۔ رومی کبھی کبھی قلعہ سے باہر نکل نکل کر لڑتے تھے۔ ایک دن نہایت سخت معرکہ ہوا۔ تیر و خدنگ سے گزر کر تلوار کی نوبت آئی۔ ایک رومی نے صف سے نکل کر کہا کہ جس کو دعویٰ ہو تنہا میرے مقابلے کو آئے۔ مسلمہ بن خالد نے گھوڑا بڑھایا۔ رومی نے ان کو زمین پر دے پٹکا اور جھک کر تلوار مارنا چاہتا تھا کہ ایک سوار نے آ کر جان بچائی۔ عمروؓ کو اس پر اس قدر غصہ آیا کہ متانت ایک طرف، مسلمہ کے رتبہ کا بھی پاس نہ کر کے کہا زنخون کو میدان جنگ میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ مسلمہ کو نہایت ناگوار ہوا لیکن مصلحت کے لحاظ سے کچھ نہ کہا۔ لڑائی کا زور اسی طرح قائم تھا آخر مسلمانوں نے اس طرح دل توڑ کر حملہ کیا کہ رومیوں کو دباتے ہوئے قلعہ کے اندر گھس گئے۔ دیر تک قلعہ کے صحن میں معرکہ رہا۔ آخر میں رومیوں نے سنبھل کر ایک ساتھ حملہ کیا اور مسلمانوں کو قلعہ سے باہر نکال کر دروازے بند کر دیئے۔ اتفاق یہ کہ عمرو بن العاصؓ اور مسلمہ اور دو شخص اور اندر رہ گئے۔ رومیوں نے ان لوگوں کو زندہ گرفتار کرنا چاہا لیکن جب ان لوگوں نے مردانہ وار جان دینی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقابلے کونکلے۔ اگر ہمارا آدمی مارا گیا تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے کہ قلعہ سے نکل جاؤ اور تمہارا آدمی مارا جائے تو تم سب ہتھیار ڈال دو۔ عمرو بن العاصؓ نے نہایت خوشی سے منظور کیا اور خود مقابلے کے لئے نکلنا چاہا۔ مسلمہ نے روکا کہ تم فوج کے سردار ہو۔ تم پر آنچ آئی تو انتظام میں خلل ہو گا۔ یہ کہہ کر گھوڑا بڑھایا۔ رومی بھی ہتھیار سنبھال چکا تھا۔ دیر تک وار ہوتے رہے۔ بالآخر مسلمہ نے ایک ہاتھ مارا کہ رومی وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ رومیوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں کوئی سردار ہے۔ انہوں نے اقرار کے موافق قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور سب صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ عمروؓ نے مسلمہ سے اپنی پہلی گستاخی کی معافی مانگی اور انہوں نے نہایت صاف دلی سے معاف کر دیا۔ 1؎ 1؎ مقریزی ص164,165 جلد اول محاصرہ جس قدر طول کھینچتا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کو زیادہ پریشانی ہوتی تھی۔ چنانچہ عمروؓ کو خط لکھا کہ شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیسائیوں کی طرح عیش پرست بن گئے ورنہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی۔ جس دن میرا خط پہنچے تمام فوج کو جمع کر کے جہاد پر خطبہ دو اور پھر اس طرح حملہ کرو کہ جن کو میں نے افسر کر کے بھیجا تھا فوج کے آگے ہوں اور تمام فوج ایک دفعہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ عمروؓ نے تمام فوج کو یکجا کر کے خطبہ پڑھا اور ایک پر اثر تقریر کی کہ بجھے ہوئے جوش تازہ ہو گئے۔ عبادہ بن صامتؓ کو جو برسوں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے، بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجئے۔ خود سر سے عمامہ اتارا اورنیزہ پر لگا کر ان کے حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں۔ زبیر بن العوامؓ اور مسلمہ بن مخلد کو فوج کا ہر اول کیا۔ غرض اس سروسامان سے قلعہ پر دھاوا ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں شہر فتح ہو گیا۔ عمرو نے اسی وقت معاویہ بن خدیج کو بلا کر کہا کہ ’’ جس قدر تیز جا سکو جاؤ اور امیر المومنین کو مژدہ فتح سناؤ۔ معاویہ بن خدیج اونٹنی پر سوائے ہوئے اور دو منزلہ سہ منزلہ کرتے ہوئے مدینہ پہنچے۔ چونکہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے بارگاہ خلافت میں سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ا تفاق سے حضرت عمرؓ کی لونڈی ادھر آ نکلی اور ان کو مسافر کی ہیئت میں دیکھ کر پوچھاکہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا اسکندریہ سے‘‘ اس نے اسی وقت جا کر خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو تم کو امیر المومنین بلاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے خود چلنے کے لئے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ معاویہ بن مخلد پہنچ گئے۔ فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدہ شکر ادا کیا۔ا ٹھ کر مسجد میں آئے اور منادی کرا دی کہ الصلوٰۃ جامعۃ سنتے ہی تمام مدینہ امنڈ آیا۔ معاویہ نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کئے۔ وہاں سے اٹھ کر حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے گھر پر گئے۔ حضرت عمرؓ نے لونڈی سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ہے ؟ وہ روٹی اور روغن زیتون لائی۔ مہمان کے آگے رکھا اور کہا کہ آنے کے ساتھ میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے۔ انہوں نے کہا میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے۔ شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا کہ افسوس! تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے۔ میں دن کو سوؤں گا تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔1؎ عمرو اسکندریہ کی فتح کے بعد فسطاط کو واپس آ گئے اور وہاں شہر بسانا چاہا۔ الگ الگ قطعے متعین کئے اور داغ بیل ڈال کر عرب کی سادہ وضع کی عمارتیں تیار کرائیں۔ تفصیل اس کی دوسرے حصے میں آئے گی۔ اسکندریہ اور فسطاط کے بعد اگرچہ برابر کا کوئی حریف نہیں رہا تھا تاہم چونکہ مصر کے تمام اضلاع میں رومی پھیلے ہوئے تھے۔ ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کیں کہ آئندہ کسی خطرے کا احتمال نہ رہ جائے۔ چنانچہ خارجہ بن حذافہ العدوی، فیوم، اشمونین، اخمیم بشرودات، معید اور اس کے تمام مضافات میں چکر لگا آئے اور ہر جگہ کے لوگوں نے خوشی سے جزیہ دینا قبول کیا۔ 1؎ یہ تمام تفصیل مقریزی سے لی گئی ہے۔ اسی طرح عمیر بن وہب الجمعی نے سیس، دمیاط، تونہ، دمیرہ، شطا، دقہلہ، بنابو ہیر کو مسخر کیا۔ عقبہ بن عامر الجہنی نے مصر کے تمام نشیبی حصے فتح کئے۔ 1؎ چونکہ ان لڑائیوں میں نہایت کثرت سے قبطی اور رومی گرفتار ہوئے تھے۔ عمروؓ نے دربار خلافت کو لکھا کہ ان کی نسبت کیاکیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے جواب لکھا کہ سب کو بلا کر کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے مسلمان ہو جائیں یا اپنے مذہب پر قائم ہیں۔ اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو ہیں، ورنہ جزیہ دینا ہو گا جو تمام ذمیوں سے لیا جاتا ہے۔ عمروؓ نے تمام قیدی جو تعداد میں ہزاروں سے زیادہ تھے، ایک جمع کئے، عیسائی سرداروں کو بھی طلب کیا اور مسلمان اور عیسائی الگ الگ ترتیب سے آمنے سامنے بیٹھے، بیچ میں قیدیوں کا گروہ تھا۔ فرمان خلافت پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے جو مسلمانوں میں رہ کر اسلام کے ذوق سے آشنا ہو گئے تھے، اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تھا تو تمام مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور خوشی سے بچھے جاتے تھے اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارکباد کا غل پڑتا تھا اور مسلمان اس قدر غمزدہ ہوتے تھے کہ بہتوں کے آنسو نکل پڑتے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور دونوں فریق اپنے اپنے حصہ رسدی کے موافق کامیاب آئے ۔ 2؎ حضرت عمرؓ کی شہادت26ذوالحجہ 23ھ بمطابق644ء کل مدت خلافت10برس6مہینے 4دن مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا جس کی کنیت ابو لولو تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمرؓ سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہؓ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے۔ آپ کم کرا دیجئے۔ حضرت عمرؓ نے تعداد پوچھی۔ اس نے کہا کہ روزانہ دو درہم (قریباً سات آنے) حضرت عمرؓ نے پوچھا تو کون سا پیشہ کرتا ہے؟ بولا کہ ’’ نجاری، نقاشی، آہنگری‘‘ فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم کچھ بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا آیا۔ 1؎ فتوح البلدان ص217 2؎ طبری ص2583,2582 دوسرے دن حضرت عمرؓ صبح کی نماز کے لئے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ حضرت عمرؓ کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں۔ جب صفیں سیدھی ہو چکتی تھیں تو حضرت عمرؓ تشریف لاتے تھے اور امامت کرتے تھے۔ اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمرؓ امامت کے لئے بڑھے اور جونہی نماز شروع کی، فیروز نے دفعتہ گھات میں سے نکل کر چھ وار کئے۔ جن میں سے ایک ناف کے نیچے پڑا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمرؓ سامنے بسمل پڑے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن بالآخر پکڑ لیا گیا اور ساتھ ہی اس نے خود کشی کر لی۔ حضرت عمرؓ کو لوگ اٹھا کر گھر لائے۔ سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ’’ میرا قاتل کون تھا؟‘‘ لوگوںنے کہا فیروز فرمایا کہ الحمدللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں ہے۔ غالباً شفا ہو جائے۔ چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا اور دونوں چیزیں زخم کی راہ باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ لوگوں نے ان سے کہا کہ ’’ اب آپ اپنا ولی عہد منتخب کر جائیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے عبداللہؓ اپنے فرزند کو بلا کر کہا کہ ’’ عائشہؓ کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمرؓ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ ؐ کے پہلو میں دفن کیا جائے ۔‘‘ عبداللہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے وہ رو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں عمرؓ کو اپنے آپ پر ترجیح دوں گی۔ عبداللہ ؓ واپس آئے۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو خبر کی۔ بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے جو آپ چاہتے تھے۔ فرمایا کہ یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔ اس وقت اسلام کے حق میں جو سب سے اہم کام تھا، وہ ایک خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔ تمام صحابہؓ بار بار حضرت عمرؓ سے درخواست کرتے تھے کہ اس مہم کو آپ طے کر جائیے۔ حضرت عمرؓ نے خلافت کے معاملے پر مدتوں غور کیا تھا اور اکثر اس کو سوچا کرتے تھے۔ بار بار لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھا کہ سب سے الگ متفکر بیٹھے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ خلافت کے باب میں غلطان و پیچاں ہیں۔ مدت کے غور وفکر پر بھی ان کے انتخاب کی نظر کسی شخص پر جمتی نہ تھی۔ بارہا ان کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل گئی کہ افسوس اس بار گراں کا کوئی اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔ تمام صحابہ ؓ میں اس وقت چھ شخص تھے جن پر انتخاب کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوفؓ لیکن حضرت عمرؓ ان سب میں کچھ نہ کچھ کمی پاتے تھے 1؎ اور اس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار 1؎ حضرت عمرؓ نے اور بزرگوں کی نسبت جو خردہ گیریاں کیں، گو ہم نے ان کو ادب سے نہیں لکھا لیکن ان میں جائے کلام نہیں۔ البتہ حضرت علیؓ کے متعلق جو نکتہ چینی حضرت عمرؓ کی زبانی عام تاریخوں میں مذکور ہے یعنی یہ کہ ان کے مزاج میں ظرافت ہے۔ یہ ایک خیال ہی خیال معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ ظریف تھے مگر اسی قدر جتنا ایک لطیف مزاج بزرگ ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے تعلقات قریش کے ساتھ کچھ ایسے پیچ در پیچ تھے کہ قریش کسی طرح ان کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ علامہ طبری نے اس معاملے کے متعلق درج کرتے ہیں کہ اس سے حضرت عمر کے خیالات کا راز سر بستہ معلوم ہو گا ۔ مکالمہ عبداللہ ابن عباس سے ہوا تھا جو حضرت علیؓ کے ہم قبیلہ اور طرفدار تھے۔ حضرت عمرؓ کیوں عبداللہ ابن عباس، علی ؓ ہمارے ساتھ کیوں نہیں شریک ہوئے؟ عبداللہ بن عباسؓ میں نہیں جانتا۔ حضرت عمرؓ: تمہارے باپ رسول اللہ ؐ کے چچا اور تم رسول اللہ ؐ کے چچیرے بھائی ہو، پھر تمہاری قوم تمہاری طرفدار کیوں نہیں ہوئی؟ عبداللہ بن عباسؓ: میں نہیں جانتا۔ حضرت عمرؓ: لیکن میں جانتا ہوں میں تمہاری قوم، تمہارا سردار ہونا گوارا نہیں کرتی تھی۔ عبداللہ بن عباسؓ: کیوں؟ حضرت عمرؓ: وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت دونوں آ جائیں۔ شاید تم یہ کہو گے کہ حضرت ابوبکرؓ نے تم کو خلافت سے محروم کر دیا لیکن اللہ کی قسم یہ بات نہیں، ابوبکرؓ نے وہ کیا جس سے زیادہ مناسب کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر وہ تم کو خلافت دینا بھی چاہتے تو ان کا ایسا کرنا تمہارے حق میں کچھ بھی مفید نہ ہوتا۔ دوسرا مکالمہ اس سے زیادہ مفصل ہے۔ کچھ باتیں تو وہی ہیں جو پہلے مکالمہ میں گزریں اور کچھ نئی ہیں اور وہ یہ ہیں: حضرت عمرؓ: کیوں عبداللہ ابن عباسؓ! تمہاری نسبت میں بعض باتیں سنا کرتا تھا لیکن میں نے اس خیال سے اس کی تحقیق نہیں کی کہ تمہاری عزت میری آنکھوں میں کم نہ ہو جائے۔ عبداللہ بن عباسؓ: وہ کیا باتیں ہیں؟ حضرت عمرؓ: میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ لوگوں نے ہمارے خاندان سے خلافت حسد اور ظلماً چھین لی۔ بھی کر دیا تھا۔ چنانچہ طبری وغیرہ میں اس کے ریمارک بتفصیل سے مذکور ہیں۔ مذکورہ بالا بزرگوں میں وہ حضرت علیؓ کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت بھی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔1؎ غرض وفات کے وقت جب لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا کہ ان چھ شخصوں میں جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ خلیفہ منتخب کر لیا جائے۔ حضرت عمرؓ کو قوم اور ملک کی بہبودی کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت اور حواس نے یاردی اسی دھن میں مصروف رہے۔ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ فرقوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے۔ مہاجرین، انصار اعراب، وہ اہل عرب جو اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے ہیں، اہل ذمہ (یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلام کی رعایا تھے۔ پھر ہر ایک کے حقوق کی تصریح کی۔ چنانچہ اہل ذمہ کے حق میں جو الفاظ کہے وہ یہ تھے۔ ’’ میں خلیفہ وقت کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور رسول اللہ ؐ کی ذمہ داری کا لحاظ رکھے یعنی اہل ذمہ سے جو اقرار ہے وہ پورا کیا جائے ۔ ان کے دشمنوں سے لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔‘‘ عبداللہ بن عباس ؓ: ظلماً کی نسبت تو میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں لیکن حسداً تو اس کا تعجب کیا ہے،ابلیس نے آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم ہی کی اولاد ہیں، پھر محسود ہوں تو کیا تعجب ہے؟ حضرت عمرؓ: افسوس! خاندان بنی ہاشم کے دلوں سے پرانے رنج اور کینے نہ جائیں گے۔ عبداللہ بن عباسؓ: ایسی بات نہ کہیے۔ رسول اللہ ؐ بھی ہاشمی ہی تھے۔ حضرت عمرؓ: اس تذکرہ کو جانے دو۔ عبداللہ بن عباسؓ: بہت مناسب (دیکھو تاریخ طبری 768تا 2771) ان مکالمات سے علاوہ اصل واقعہ کے تم اس بات کا بھی اندازہ کر سکو گے کہ حضرت عمرؓ کے مبارک عہد میں لوگ کس دلیری اور بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور یہ زیادہ تر اسی وجہ سے تھا کہ حضرت عمرؓ خود آزادی اور حق گوئی کو قوم میں پھیلانا چاہتے تھے۔ 1؎ طبری ص2777 قوم کے کام سے فراغت ہو چکی تو اپنے ذاتی مطالب پر توجہ کی۔ عبداللہؓ اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ مجھ پر کس قدر قرض ہے؟ معلوم ہوا کہ چھیاسی ہزار درہم۔ فرمایا کہ میرے متروکہ سے ادا ہو سکے تو بہتر ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں تو کل قریش سے لیکن قریش کے علاوہ اوروں کو تکلیف نہ دینا۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔ (دیکھو کتاب المناقب باب قصتہ البیعتہ الاتفاق علی عثمانؓ) لیکن عمر بن شبہ نے کتاب المدینہ میں بسند صحیح روایت کی ہے کہ نافع جو حضرت عمرؓ کے غلام تھے، کہتے تھے کہ عمرؓ پر قرض کیونکر رہ سکتا تھا؟ حالانکہ ان کے ایک وارث نے اپنے حصہ وراثت کو ایک لاکھ پ ربیچا تھا۔ 1؎ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ پر چھیاسی ہزار کا قرض ضرور تھا لیکن وہ اس طرح ادا کیا گیا کہ ان کا مسکونہ مکان بیچ ڈالا گیا، جس کو امیر معاویہ ؓ نے خریدا۔ یہ مکان باب السلام اور باب الرحمتہ کے بیچ میں واقع تھا اور اس مناسبت سے کہ اس سے قرض ادا کیا گیا۔ ایک مدت تک دار القضا ء کے نام سے مشہور رہا۔ چنانچہ خلاصتہ الوفانی اخبار دار المصطفیٰ میں یہ واقعہ بتفصیل مذکور ہے۔ 2؎ حضرت عمر ؓ نے تین دن کے بعد انتقال کیا اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ صہیبؓ نے پڑھائی۔ حضرت عبدالرحمن، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمن بن عوف وغیرہؓ نے قبر میں اتارا اور وہ آفتاب عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ٭٭٭ 1؎ دیکھو فتح الباری مطبوعہ مصر، جلد7 صفحہ53 2؎ ( دیکھو کتاب مذکور مطبوعہ مصر صفحہ 129,179) حصہ دوم فتوحات پر ایک اجمالی نگاہ پہلے حصہ میں تم فتوحات کی تفصیل پڑھ آئے ہو۔ اس میں تمہارے دل پر اس عہد کے مسلمانوں کے جوش، ہمت، عزم و استقلال کا قوی اثر پیدا ہوا ہو گا۔ لیکن اسلاف کی داستان سننے میں تم نے اس کی پروا نہ کی ہو گی کہ واقعات کو فلسفہ تاریخی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لیکن ایک نکتہ سنج مورخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرا نشینوں نے کیونکر فارس و روم کا دفتر الٹ دیا، کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ ہے؟ آخر اس کے اسباب کیا تھے؟ کیا ان واقعات کو سکندر و چنگیز کی فتوحات سے تشبیہہ نہیں دی جا سکتی؟ جو کچھ ہوا اس میں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن نہایت اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتا دینا ضرور ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے؟ فتوحات فاروقی کی وسعت: حضرت عمرؓ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ (2251030) میل مربع یعنی مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب 1036مشرق کی جانب 1087جنوب کی جانب 483 میل تھا۔ مغرب کی جانب چونکہ صرف جدہ تک حد حکومت تھی اس لئے وہ قابل ذکر نہیں۔ اس میں شام، مصر، عراق، جذیرہ، خوزستان، عراق، عجم، آرمینیہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آ جاتا ہے شامل ہے۔ ایشیائے کوچک پر جس کو اہل عرب روم کہتے ہیں۔ سنہ20ھ میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ فتوحات کی فہرست میں شمار ہونے کے قابل نہیں۔ یہ تمام فتوحات خاص حضرت عمرؓ کی فتوحات ہیں اور اس کی تمام مدت دس برس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ فتح کے اسباب یورپین مورخوں کی رائے کے موافق پہلے سوال کا جواب یورپین مورخوں نے یہ دیا ہے کہ اس وقت فارس و روم دونوں سلطنتیں اوج اقبال سے گر چکی تھیں۔ فارس میں خسر و پرویز کے بعد نظام سلطنت بالکل درہم برہم ہو گیا تھا کیونکہ لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا موجود نہ تھا۔ دربار کے عقائد و ارکان میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں اور ان ہی سازشوں کی بدولت تخت نشینوں میں ادل بدل ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ تین چار ہی برس کے عرصے میں عنان حکومت چھ سات فرماں رواؤں کے ہاتھ میں آئی اور نکل گئی۔ ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ نوشیرواں سے کچھ پہلے مزدکیہ فرقہ کا بہت زور ہو گیا تھا جو الحاد و زندقہ کی طرف مائل تھا۔ نوشیرواں نے گو تلوار کے ذریعے سے اس مذہب کو دبا دیا لیکن بالکل نہ مٹا سکا۔ اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حیثیت سے اپنا پشت و پناہ سمجھا کہ وہ کسی کے مذہب اور عقائد سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ عیسائیوں میں نسٹورین فرقہ جس کو اور کسی حکومت میں پناہ نہیں ملتی، وہ بھی اسلام کے سایہ میں آکر مخالفوں کے ظلم و ستم سے بچ گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقہ کی ہمدردی اور اعانت مفت میں ہاتھ آ گئی۔ روم کی سلطنت خود کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ عیسائیت کے باہمی اختلافات ان دنوں زوروں پر تھے اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت میں دخل تھا۔ اس لئے اس اختلاف کا اثر مذہبی خیالات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتی جاتی تھی۔ یورپین مورخوں کی رائے کی غلطی یہ جواب گو واقعیت سے خالی نہیں لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرز استدلال کی ملمع سازی ہے جو یورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس و روم کی سلطنتیں اصلی عروج پر نہیں رہی تھیں لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پر زور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں۔ نہ یہ کہ عرب جیسی بے سر وسامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں۔ روم و فارس گو کسی حالت میں تھے، تاہم فنون جنگ میں ماہر تھے۔ یونان میں خاص قواعد حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جواب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک ان کا عملی رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کی فراوانی، سروسامان کی بہتات، آلات جنگ کے متنوع، فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر ملک کی حفاظت کرنی تھی۔ مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کا عین شباب تھا، قیصر روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لئے تھے واپس لئے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا۔ ایران میں خسرو پرویز تک تو عموماً مسلم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ و جلال حاصل تھا۔ خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف چار برس کی مدت ہے۔ اتنے تھوڑے سے عرصے میں ایسی قوی اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی۔ البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل سے نظام میں فرق آ گیا تھا لیکن چونکہ سلطنت کے اجزاء یعنی خزانہ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس لئے جب یزد گرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فوراً نئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مزدکیہ فرقہ گو ایران میں موجود تھا لیکن ہم کو تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کاحال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت ہم کو معلوم نہیں۔ عیسائیت کے اختلاف مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ میں خود یورپین مورخوں نے کہیں نہیں بتایا۔ اب عرب کی حالت دیکھو! تمام فوجیں جو مصر، ایران اور روم کی جنگ میں مصروف تھیں، ان کی مجموعی تعداد کبھی ایک لاکھ تک بھی نہ پہنچی۔ فنون جنگ سے واقفیت کا یہ حال کہ یرموک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب نے تعبیہ کے طرز پر صف آرائی کی۔ خود، زرہ، چلتہ، جوشن، بکتر، چار آینہ، آہنی دستانے، جہلم اور موزے جوہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا۔ 1؎ اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی۔ رکاب لوہے کے بجائے لکڑی کی ہوتی تھی۔ آلات جنگ میں سے گرز و کمند سے عرب بالکل آشنا نہ تھے۔ تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت کہ قادسیہ کے معرکہ میں ایرانیوں نے جب پہل ہیں ۔ ان کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے ہیں۔ فتوحات کے اصلی اسباب ہمارے نزدیک ا س سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت بانی اسلام کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، ہمت بلند حوصلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمرؓ نے اور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا۔ روم و فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانہ میں بھی اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی چیزیں مل گئی تھیں، جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانت داری تھی جو ملک فتح ہو جاتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلاف مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے۔ یرموک کے معرکے میں مسلمان جب شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ اللہ تم کو پھر اس ملک میں لائے اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آ سکتا۔ 1؎ ابن قنبہ نے اخبار الطوال میں لکھا ہے کہ یہ چیزیں ہر سپاہی کو استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ رومیوں کی حکومت جو شام و مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی۔ اس لئے رومیوں نے مسلمانوں کا جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور افواج کے زور سے کیا۔ رعایا ان کے ساتھ نہ تھی۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑ دیا تو آگے مطلع صاف تھا یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہوئی۔ البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے۔ وہ سلطنت کے لئے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کی حفاظت کے لئے لڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پائے تخت کے فتح کر لینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عاما رعایا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی اور اس لئے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی۔ ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اول اول حملہ شام و عراق پر ہوا۔ ان دونوں مقامات میں کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام میں دمشق کا حاکم غسائی خاندان تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا۔ عراق میں لخمی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ دیتے تھے ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے، اول اول مسلمانوں کا مقابلہ کیا لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتا تھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ 1؎ شام میں بھی آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔ سکندر وغیرہ کی فتوحات کا موازنہـ: سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں بالکل بے موقع ہے۔ بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں لیکن کیونکر؟ قہر، ظلم اور قتل عام کی بدولت۔ چنگیز کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ 1؎ آگے چل کر ایک موقع پر ہم نے ان کے نام بھی تفصیل سے لکھے ہیں۔ سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف صور کو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے، اس لئے قتل عام کا حکم دیا ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دئیے۔ اس کے ساتھ 30ہزار باشندوں کو لونڈی بنا کر بیچ ڈالا۔ جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے۔ ان میں ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح فارس میں جب اصطخر کو فتح کیا تھا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ اس طرح کی اور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم و ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے، یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کو بقا نہیں۔ چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیرپا نہ ہوئیں لیکن فوری فتوحات کے لئے اس قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے اور چونکہ رعایا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے، اس لئے بغاوت و فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بخت نصر، تیمور اور نادر جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ کی فتوحات میں کبھی سرمو قانون انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بچوں اور بوڑھوں سے باکل تعرض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجز عین معرکہ کار از کے کوئی شخص قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دشمن سے کبھی کسی موقع پر بد عہدی یا فریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ افسروں کو تاکیدی احکام جاتے تھے کہ فان قاتلو کم تلا تعذروا ولا تمثلو والا تقتلو ولیدا1؎ ’’ یعنی دشمن تم سے لڑائی کریں تو ان سے فریب نہ کرو، کسی کی ناک، کان نہ کاٹو، کسی بچے کو قتل نہ کرو۔‘‘ جو لوگ مطیع ہو کر باغی ہو جاتی تھے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب عربسوس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائید اد مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تو ان کی مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تو ان کی مقبوضہ اراضیات کا معاوضہ دے دیا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھیج دئیے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گھر ہو ان کو ہر طرح کی اعانت دی جائے اور جب یہ کسی شہر میں قیام اختیار کریں تو ایک سال تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔ جو لوگ فتوحات فاروقی کی حیرت انگیزی کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دنیا میں اور بھی ایسے فاتح گزرے ہیں۔ ان کو یہ دکھانا چاہیے کہ اس احتیاط اس قید، اس پابندی، اس درگزر کے ساتھ دنیا میں کس حکمران نے ایک چپہ بھر زمین بھی فتح کی ہے۔ 1؎ کتاب الخراج صفحہ120 اس کے علاوہ سکندر اور چنگیز وغیرہ خود ہر موقع اور جنگ میں شریک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے۔ اس کی وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ایک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا فوج کے دل قوی رہتے تھے اور ان میں بالطبع اپنے آقا پر فداہو جانے کا جوش پیدا ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ تمام مدت خلافت میں ایک دفعہ بھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ فوجیں ہر جگہ کام کر رہی تھی البتہ ان کی باگ حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ایک اور صریحی فرق یہ ہے کہ سکندر وغیرہ کی فتوحات گزرنے والے بادل کی طرح تھیں کہ ایک دفعہ زور سے آیا اور نکل گیا۔ ان لوگوں نے جو ممالک فتح کئے وہاں کوئی نظم حکومت قائم نہیں کیا۔ برخلاف اس کے فتوحات فاروقی میں یہ استواری تھی کہ جو ممالک اس وقت فتح ہوئے، تیرہ سو برس گزرنے پر آج بھی اسلام کے قبضے میں ہیں اور خود حضرت عمرؓ کے عہد میں ہر قسم کے ملکی انتظامات وہاں قائم ہو گئے تھے۔ فتوحات میں حضرت عمرؓ کا اختصاص آخری سوال کا جواب عام رائے کے موافق یہ ہے کہ فتوحات میں خلیفہ وقت کی چنداں تخصیص نہ تھی۔ اس وقت کے جوش اور عزم کی جو حالت تھی وہ خود تمام فتوحات کی کفیل تھی لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ کے زمانے میں بھی تو آخر وہی مسلمان تھے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ جوش اور اثر بے شبہ برقی قوت ہیں لیکن یہ قوت اسی وقت کام دے سکتی ہے جب کام لینے والا بھی اسی زور و قوت کا ہو، قیاس اور استدلال کی ضرورت نہیں۔ واقعات خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ فتوحات کے تفصیلی حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام فوج پتلی کی طرح حضرت عمرؓ کے اشاروں پر حرکت کرتی تھی اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کی سیاست و تدبیر کی بدولت تھا۔ اسی کتاب میں آگے چل کر جب تم مفصل طور پر پڑھو گے کہ کہ حضرت عمرؓ نے فوج کی ترتیب، فوجی مشقیں، بارکوں کی تعمیر، گھوڑوں کی پرداخت، قلعوں کی حفاظت، جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے حملوں کی تعین، فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام ، افسران فوجی کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال۔ یہ اور اس قسم کے امور کے متعلق کیا کیا انتظام خود ایجاد کئے اور ان کو کس عجیب و غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا تو تم خود فیصلہ کر لو گے کہ حضرت عمرؓ کے بغیر یہ کل مطلق کام نہیں دے سکتی تھی۔ عراق کی فتوحات میں حضرت عمرؓ کے بغیر یہ کل مطلق کام نہیں دے سکتی تھی۔ فوج جب مدینے سے روانہ ہوئی تو ایک ا یک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے۔ فوج قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا کر بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی کے متعلق ہدایتیں بھیجیں جس قدر افسر جن جن کاموں پر مامور ہوئے تھے، ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوئے تھے۔ تاریخ طبری میں عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں، سب سے زیادہ خطرناک دو موقعے تھے۔ ایک نہاوند کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قیصر روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حمص پر چڑھائی کی تھی۔ ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمرؓ کی حسن تدبیر تھی جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا اور دوسری طرف ایک کوہ گراں کے پرخچے اڑا دئیے۔ چنانچہ ہم ان واقعات کی تفصیل پہلے حصے میں لکھ آئے ہیں۔ ان تمام واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعویٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروق اعظم ؓ کے برابر فاتح کشورستان نہیں گزرا۔ نظام حکومت اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد اگرچہ حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں پڑی لیکن نظام حکومت کا دور حضرت عمرؓ کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی دو سالہ خلافت میں اگرچہ بڑے بڑے مہمات کا فیصلہ ہوا یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہو گیا اور بیرونی فتوحات شروع ہوئیں۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام قائم نہیں ہوا اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کے لئے کافی ہو سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایک طرف تو فتوحات کو یہ وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں ٹوٹ کر عرب میں مل گئیں۔ دوسری طرف حکومت و سلطنت کا نظام قائم کیا اور اس کو اس قدر ترقی دی کہ ان کی وفات تک حکومت کے جس قدر مختلف شعبے ہیں سب وجود میں آ چکے تھے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم حکومت کے قواعد و آئین کی تفصیل بتائیں، پہلے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ یعنی شخصی تھی یا جمہوری؟ اگرچہ اس وقت عرب کا تمدن جس حد تک پہنچا تھا تو اس کے لحاظ سے حضرت عمرؓ کی خلافت پر جمہوری یا شخصی دونوں میں سے کسی ایک کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا لیکن ایسے مواقع پر صرف اس بات کا پتہ لگانا کافی ہے کہ حکومت کا جو انداز تھا وہ جمہوریت سے ملتا تھا یا شخصیت سے؟ یعنی سلطنت کا میلان ذاتی اختیارات پر تھا یا عام رائے پر۔ جمہوری یا شخصی سلطنت کا موازنہ: جمہوری اور شخصی طریق حکومت میں جو چیز سب سے بڑھ کر مابہ الامتیاز ہے، وہ عوام کی مداخلت اور عدم مداخلت ہے یعنی حکومت میں جس قدر رعایا کو دخل دینے کا زیادہ حق حاصل ہو گا، اسی قدر اس میں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ سلطنت جمہوری کی اخیر حد یہ ہے کہ مسند نشین حکومت کے ذاتی اختیارات بالکل فنا ہو جائیں اور وہ جماعت کا صرف ایک ممبر رہ جائے۔ برخلاف اس کے شخصی سلطنت میں تمام دار و مدار صرف ایک شخص پر ہوتا ہے۔ اس بناء پر شخصی سلطنت سے خواہ مخواہ نتائج درج ذیل پیدا ہوتے ہیں: 1۔ بجائے اس کے کہ ملک کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں صرف چند ارکان سلطنت کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ہے۔ 2۔ چونکہ بجز چند عہدہ داروں کے اور لوگوں کو ملکی انتظامات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اس لئے قوم کے اکثر افراد سے انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگتی ہے۔ 3۔ مختلف فرقوں اور جماعتوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوتی کیونکہ جن لوگوں کو ان حقوق سے غرض ہے، ان کو انتظام سلطنت میں دخل نہیں ہوتا اور جن لوگوں کو دخل ہوتا ہے ان کو غیروں کے حقوق سے اس قدر ہمدردی نہیں ہو سکتی، جتنی خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ہے۔ 4۔ چونکہ بجز چند ارکان سلطنت کے کوئی شخص ملکی اور قومی کاموں میں دخل دینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس لئے قوم میں ذاتی اغراض کے سوا قومی کاموں کا مذاق معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ نتائج شخصی سلطنت کے لوازم ہیں اور کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکتے۔ برخلاف اس کے جمہوری سلطنت میں اس کے برعکس نتائج ہوں گے۔ اس بناء پر جس سلطنت کی نسبت جمہوری و شخصی کی بحث ہو، اس کی نوعیت کا اندازہ نتائج سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ جمہوریت کا طریقہ عرب کا فطری مذاق تھا اور اس لئے عرب میں جو حکومت قائم ہوتی وہ خواہ مخواہ جمہوری ہوتی۔ عرب میں مدت سے تین وسیع حکومتیں موجود تھیں۔ لخمی، حمیری اور غسانی لیکن یہ سب شخصی تھیں۔ قبائل کے سردار البتہ جمہوری اصول پر انتخاب کئے جاتے تھے لیکن ان کو کسی قسم کی ملکی حکومت حاصل نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت سپہ سالاروں یا قاضیوں کی ہوتی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت نے بھی اس بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کیا کیونکہ گو ان کا انتخاب کثرت رائے پر ہوا تھا لیکن وہ ایک فوری کارروائی تھی۔ چنانچہ خود حضرت عمرؓ نے فرمایا: افلا یغترن امرء ان یقول انما کانت بیعتہ ابی بکر فلتہ وتمت الا وانھا قد کانت کذلک لکن اللہ وقی شرھا1؎ حضرت عمرؓ کی خلافت میں مجلس شوریٰ (کونسل): حضرت عمرؓ کے گرد و و پیش جو سلطنتیں تھیں وہ جمہوری نہ تھیں۔ ایران میں تو سرے سے کبھی یہ مذاق ہی پیدا نہیں ہوا۔ روم البتہ کسی زمانے میں اس شرف سے ممتاز تھا لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے سے بہت پہلے وہاں شخصی حکومت قائم ہو چکی تھی اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں تو وہ بالکل ایک جابرانہ خود مختار سلطنت رہ گئی تھی۔ غرض حضرت عمرؓ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور اگرچہ وقت کے اقتضاء سے اس کے تمام اصول و فروع مرتب نہ ہو سکے تاہم جو چیزیں حکومت جمہوری کی روح ہیں سب وجود میں آ گئیں۔ ان میں سب کے اصل الاصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا یعنی جب کوئی انتظام پیش آتا تھا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی تھی اور کوئی امیر بغیر مشورہ اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آ سکتا تھا۔ مجلس شوریٰ کے ارکان اور اس کے انعقاد کا طریقہ: تمام جماعت اسلام میں اس وقت دو گروہ تھے جو کل قوم کے پیشوا تھے اور جن کو تمام عرب نے گویا اپنا قائم مقام تسلیم کر لیا تھا یعنی مہاجرین و انصار۔ مجلس شوریٰ میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے اوس و خزرج چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہونا ضروری تھا۔ مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمان، حضرت علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن ابی جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابتؓ اس میں شامل تھے۔ 2؎ 1؎ دیکھو صحیح بخاری مطبوعہ احمدی میرٹھ بار دوم صفحہ 1009 2کنز العمال بحوالہ طبقات ابن سعد جلد3، ص134مطبوعہ حیدر آباد مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ ’’ الصلوٰۃ جامعتہ‘‘ یعنی سب لوگ نماز کے لئے جمع ہو جائیں جب لوگ جمع ہو جاتے تھے تو حضرت عمرؓ مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ 1؎ مجلس شوریٰ کے جلسے: معمولی اور روز مرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی امراہم پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پاتا تھا مثلاً عراق و شام کے فتح ہونے پرجب بعض صحابہ ؓ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر میں دے دئیے جائیں تو بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی جس میں تمام قدمائے مہاجرین اور انصار میں سے عام لوگوں کے علاوہ دس بڑے بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن میں سے 5 شخص قبیلہ اوس اور 5 قبیلہ خزرج کے تھے۔ شریک ہوئے کئی دن تک اس مجلس کے جلسے رہے اور نہایت آزادی و بے باکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے جو تقریر کی2؎ اس کے جستہ جستہ فقرے ہم اس لحاظ سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے منصب خلافت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کے اختیارات کا اندازہ ہوتا ہے۔ انی لم از عجکم الا لان تشر کوا فی امانتی فیما احملت من امورکم فانی واحد کاحدکم ولست ایردان تتبو ہذا الذی ھوای 21ھ میں جب نہاوند کا سخت معرکہ پیش آیا اور عجمیوں نے اس سروسامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خوف خلیفہ وقت کا اس مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان، طلحہ بن عبداللہ، زبیر بن العوام، عبدالرحمن بن عوف وغیرہ ؓ نے باری باری کھڑے ہو کر تقریریں کیں اور کہا کہ آپ کا خود موقع جنگ پر جانا مناسب نہیں پھر حضرت علی ؓ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کی تائید میں تقریر کی۔ غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمرؓ موقع جنگ پر نہ جائیں اسی طرح فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کو تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص اس قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں بتصریح مذکور ہے کہ مجلس شوریٰ میں پیش ہو کر طے پائے۔ ان امور کے پیش ہونے کے وقت ارکان مجلس نے جو تقریریں کیں وہ بھی تاریخوں میں مذکور ہیں۔ 1؎ تاریخ طبری ص2574 2؎ یہ تمام تفصیل کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ15,14میں ہے۔ مجلس شوریٰ کا انعقاد اور اہل الرائے کی مشورت، استحسان و تبرع کے طور پر نہ تھی بلکہ حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پ رصاف صاف فرما دیا تھا کہ مشورے کے بغیر خلافت سرے سے جائز ہی نہیں۔ ان کے خاص الفاظ یہ ہیں: لا خلافتہ الاعن مشورۃ1؎ ایک اور مجلس مجلس شوریٰ کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت ہوتا تھا لیکن اس کے علاوہ ایک اور مجلس تھی جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھی اور صرف مہاجرین صحابہؓ اس میں شریک ہتے تھے۔ صوبہ جات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں۔ حضرت عمرؓ ان کو اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہوتا تھا تو اس میں لوگوں سے استصواب کیا جاتا تھا۔ مجوسیوں پر جزیہ مقر کرنے کا مسئلہ اول اسی مجلس میں پیش ہوا تھا۔ مورخ بلاذری نے اس مجلس کا حال ایک ضمنی تذکرے میں ان الفاظ میں لکھا ہے: کان للمھاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معھم فیہ ویحدثھم عما ینتھی الیہ من امر الافاق فقال یوما ما ادری کیف اصنع بالمجوس عام رعایا کی مداخلت مجلس شوریٰ کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امو رمیں مداخلت حاصل تھی۔ صوبہ جات اور اضلاع کے حاکم اکثر رعایا کی مرضی سے مقرر کئے جاتے تھے بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آتا تھا۔ کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال خراج مقرر کئے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی پسند سے ایک ایک شخص کا انتخاب کر کے بھیجیں جو ان کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانتدار ار قابل ہو۔ چنانچہ کوفہ سے عثمان بن فرقد، بصرہ سے حجاج بن علاط، شام سے معن بن یزیدؓ کو لوگوں نے منتخب کر کے بھیجا اور حضرت عمرؓ نے انہیں لوگوں کو ان مقامات کا حاکم مقرر کیا۔ قاضی ابو یوسف صاحب ؒ نے اس موقع کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے، وہ یہ ہیں: 1؎ کنز العمال بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد3، صفحہ 139 کتب عمر بن الخطاب الی اہل الکوفۃ یبعثون الیہ رجلا من اخیر ھم واصلحھم الی اھل البصرۃ کذلک والی اہل الشام کذلک قال فبعث الیہ اہل الکوفۃ عثمان بن فرقد و بعث الیہ اہل الشام معن بن یزید و بعث الیہ اہل البصرۃ الحجاج بن علاط کلھم سلمیون قال فاستعمل کل واحد منھم علی خراج ارضہ1؎ سعد بن ابی وقاصؓ بہت بڑے رتبے کے صحابی اور نوشیروانی پائے تخت کے فاتح تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا لیکن جن لوگوں نے ان کی شکایت کی تو معزول کر دیا۔ حکومت جمہوری کا ایک بہت بڑا اصول یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق اور اغراض کی حفاظت کا پورا اختیار اور موقع دیا جائے۔ حضرت عمرؓ کی حکومت میں ہر شخص کو نہایت آزادی کے ساتھ یہ موقع حاصل تھا اور لوگ علانیہ اپنے حقوق کا اظہار کرتے تھے۔ اضلاع سے قریباً ہر سال سفارتیں آتی تھیں جن کو وفد کہتے تھے۔ اس سفارت کو صرف یہ مقصد ہوتا تھا کہ دربار خلافت کو ہر قسم کے حالات اور شکایات سے مطلع کیا جائے اور داد رسی چاہی جائے۔ حضرت عمرؓ نے خود بار بار مختلف موقعوں پر اس حق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خاص اس کے لئے عام مجمع میں خطبہ پڑھا، فرمانوں میں تصریح کی اور ایک دفعہ تمام عمالان سلطنت کو حج کے مجمع عام میں طلب کر کے اس کا اعلان کیا۔ چنانچہ اس کی پوری تفصیل عمالوں کے بیان میں آئے گی۔ خلیفہ کا عام حقوق میں سب کے ساتھ مساوی ہونا حکومت جمہوریت کا اصل زیور یہ ہے کہ بادشاہ ہر قسم کے حقوق میں عام آدمیوں کے ساتھ برابری رکھتا ہو یعنی کسی قانون کے اثر سے مستثنیٰ نہ ہو۔ ملک کی آمدنی میں سے ضروریات زندگی سے زیادہ نہ لے سکے۔ عام معاشرت میں اس کی حاکمانہ حیثیت کا کچھ لحاظ نہ کیا جائے، اس کے اختیارات محدود ہوں، ہر شخص کو اس پر نکتہ چینی کا حق حاصل ہو۔ یہ تمام امور حضرت عمرؓ کی خلافت میں اس درجے تک پہنچے تھے کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھے اور جو کچھ ہوا تھا خود حضرت عمرؓ کے طریق عمل کی بدولت ہوا تھا۔ انہوں نے متعدد موقعوں پر ظاہر کر دیا تھا کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے اور ان کے کیا اختیارات ہیں؟ ایک موقع پر انہوں نے اس کے متعلق جو تقریر کی تھی اس کے بعض بعض فقرے اس موقع پر لکھنے کے قابل ہیں: 1؎کتاب الخراج ص64 انما انا ومالکم کولی الیتیم ان استغیت استعففت وان افتقرت اکلت بالمعروف لکم علی ایھا الناس خصال فخدولی بھالکم علی ان لا اجتبی شیئا من خراجکم ولا مما افاء اللہ علیکم الا من وجھہ ولکم علی اذا وقع فی یدی ان لا یخرج منی الا فی حقہ ولکم علی ان ازید فی اعطیاتکم واسد ثغورکم ولکم علی ان لا القیکم فی المھالک 1؎ ’’ مجھ کو تمہارے مال (یعنی بیت المال) میں اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں۔ اگر میں دولت مند ہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور ضرورت پڑے گی تو دستور کے موافق کھانے کے لئے لوں گا۔ صاحبو! میرے اوپر تم لوگوں کے متعدد حقوق ہیں۔ جس کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے۔ ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بیجا طور سے جمع نہ کیا جائے۔ ایک یہ کہ جب میرے ہاتھ میں خراج اور غنیمت آئے تو بیجا طور سے خرچ نہ ہونے پائے۔ ایک یہ کہ میں تمہارے روزینے بڑھاؤں اور سرحدوں کو محفوظ رکھوں، ایک یہ کہ تم کو خطروں میں ڈالوں۔‘‘ ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمرؓکو مخاطب کر کے کہا کہ اتقوا اللہ یا عمر یعنی اے عمر ؓ اللہ سے ڈر۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکا اور کہا کہ بس بہت ہوا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم لوگ نہ مانیں تو ہم۔ 2؎ ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ خلافت اور حکومت کے اختیارات اور حدود تمام لوگوں پر ظاہر ہو گئے تھے اور شخصی شوکت اور اقتدار کا تصور دلوں سے جاتا رہا تھا۔ معاذ بن جبل ؓ نے رومیوں کی سفارت میں حضرت عمرؓ کی خلافت کے متعلق جو تقریر کی تھی، وہ در حقیقت حکومت جمہوری کی اصلی تصویر ہے اور حکومت جمہوری کی حقیقت آج بھی اس سے واضح تر اور صحیح تر نہیں بیان کی جا سکتی۔ نوعیت حکومت بتانے کے بعد ہم حضرت عمرؓ کے نظام حکومت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ حکومت کے نظم و نسق میں جو چیز سب سے مقدم ہے، یہ ہے کہ انتظام کے تمام مختلف صیغے ایک دوسرے سے ممتاز اور الگ الگ ہوں اور یہی ترقی تمدن کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جس طرح تمدن کی ابتدائی حالت میں مکانات کی یہ قطع ہوتی ہے کہ ایک ہی حجرہ تمام ضرورتوں کے لئے کافی ہوتا ہے، پھر جس قدر تمدن بڑھتا جاتا ہے کھانے، سونے، ملاقات کرنے، لکھنے، پڑھنے اور دیگر ضروریات کے لئے جدا جدا کمرے بنتے جاتے ہیں۔ یہی حالت بالکل سلطنت کی ہے۔ ابتدائے تمدن میں انتظام کے تمام صیغے ملے جلے رہتے ہیں جو شخص صوبہ کا گورنر ہوتا ہے وہی لڑائی کے وقت سپہ سالار بن جاتا ہے۔ 1؎ کتاب الخراج ص60 2؎ کتاب الخراج ص27 مقدمات کے انفصال کے وقت وہی قاضی کا کام دیتا ہے۔ جرائم کی تعزیر میں وہی پولیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس قدر تمدن ترقی کرتا جاتا ہے الگ الگ صیغے قائم ہوتے جاتے ہیں اور ہر صیغے کا الگ افسر ہوتا ہے۔ انگریزی حکومت کو100برس ہوئے لیکن جوڈیشل اور ایگزیکٹو اختیارات اب تک ملے جلے ہیں یعنی کلکٹر ضلع مال گزاری بھی وصول کرتا ہے اور مقدمات بھی فیصل کرتا ہے اور غیر آئینی اضلاع میں تو بہت زیادہ خلط مبحث ہے۔ حضرت عمرؓ کے عجیب و غریب کارناموں میں ایک یہ بھی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس وقت عرب کا تمدن نہایت ابتدائی حالت میں تھا اور سلسلہ حکومت کے آغاز کو صرف چند برس گزرے تھے، تاہم انہوں نے بہت سے شعبے جو مخلوط تھے، الگ کر کے جداگانہ محکمے قائم کئے۔ چنانچہ ان تمام شعبوں کو ہم تفصیل سے لکھتے ہیں۔ ٭٭٭ ملک کی تقسیم عہدہ داران ملکی صوبہ جات اور اضلاع: نظام حکومت کا ابتدائی سلسلہ جس پر تمام انتظامات متفرع ہیں، ملک کا مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جن کو صوبہ، ضلع اور پرگنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت عمرؓ پہلے شخص ہیں جس نے اس کی ابتداء کی اور اس زمانے کے موافق نہایت موزونی اور تناسب سے اس کے حدود قائم کئے۔ تمام مورخین نے اس کی تصریح کی ہے کہ انہوں نے ممالک مقبوضہ کو8صوبوں میں تقسیم کیا۔ حضرت عمر کے مقرر کردہ صوبے: مکہ، مدینہ، شام، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر اور فلسطین۔ مورخ یعقوبی نے 8کے بجائے سات صوبے لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ انتظام حضرت عمرؓ نے 20ھ میں کیا تھا۔ مورخین کا یہ بیان اگرچہ در حقیقت صحیح ہے لیکن اس میں ایک اجمال ہے جس کی تفصیل بتا دینی ضروری ہے۔ فاروقی فتوحات کو جو وسعت حاصل تھی اس کے لحاظ سے صرف یہ 8صوبے کافی نہیں ہو سکتے تھے۔ فارس، خوزستان اور کرمان وغیرہ آخر صوبے ہی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اصل یہ ہے کہ جو ممالک فتح ہوئے ان کی جو تقسیم پہلے سے تھی اور جو مقامات صوبے یا ضلعے تھے اکثر جگہ حضرت عمرؓ نے اسی طرح رہنے دیئے۔ اس لئے مورخین نے ان کا نام نہیں لیا۔ البتہ جو صوبے خود حضرت عمرؓ نے قائم کئے ان کا ذکر ضروری تھا اور وہ یہی آٹھ تھے۔ لیکن یہ امر بھی بلحاظ اغلب صحیح ہے ورنہ تاریخی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے پچھلی تقسیم ملکی میں بھی تصرفات کئے تھے۔ فلسطین پہلے ایک صوبہ شمار کیا جاتا تھا اور اس میں دس اضلاع شامل تھے۔ 15 ھ میں جب حضرت عمرؓ نے خود فلسطین جا کر معاہدہ امن لکھا تو اس صوبے کے دو حصے کر دئیے۔ ایک کا صدر مقام ایلیا اور دوسرے کارملہ قرار دیا اور عقلمہ بن حکیم و علقمہ بن مجزر کو الگ الگ دونوں صوبوں میں متعین کیا۔ 1؎ مصر کی نسبت ہم کو معلوم نہیں کہ فتح سے پہلے اس کی کیا حالت تھی لیکن حضرت عمرؓ نے اس کو دو صوبوں میں تقسیم کیا۔ 1؎ گبری میں صفحہ 2403,2407۔ اصل عبارت یہ ہے فصارت فلسطین نصفین نصف مع اہل ایلیا و نصف مع اہل الرملتہ وھم عشر کوو فلسطین تعدل الشام کلھا و قرق فلسطین علی رجلین فنزل کل واحد منھما فی عملہ۔ بالائی حصہ جس کو عربی میں صعید کہتے ہیں اور جس میں28ضلعے شامل تھے، ایک الگ صوبہ قرار دے کر عہد اللہ بن سعد بن ابی سرح کو وہاں کا حاکم مقرر کیا اور اس نشیبی حصہ جس میں15ضلعے شامل تھے ، اس پر ایک دوسرا افسر تعینات کیا۔ عمرو بن العاصؓ بطور گورنر جنرل کے تھے۔ نوشیروانی عہد کے صوبے فارس وغیرہ میں چونکہ حضرت عمرؓ نے قریباً تمام نوشیروانی انتظامات بحال رہنے دیئے تھے۔ اس لئے صرف یہ بتا دینا کافی ہے کہ نوشیروان کے عہد میں یہ ممالک کتنے حصوں میں منقسم تھے۔ مورخ یعقوبی نے لکھا ہے 1؎ کہ نوشیروان کی سلطنت عراق کے علاوہ تین بڑے بڑے صوبوں میں منقسم تھی۔ خراسان: اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے۔ نیشاپور، ہرات، مو، مرورود، فاریاب، طالقان، بلخ، بخارا، باذ عیس، باورد، غرشتان، طوس، سرخس اور جرجان۔ آذر بجائیجان: اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے۔ طبرستان، رے، قزوین، زنجان، قم، اصفہان، ہمدان، نہاوند، دینور، حلوان، ماسندان، مہرجان، قذق، شہرزور، صامغان اور آذربائیجان۔ فارس: اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے۔ اصطخر، شیراز، نوبند خان، جور کاذرون، فسائ، دار الجبرو، ارد شیر خرہ، سابورا، ہواز، جند یسابور، سوس، نہر تیری، مناذر، سسر، ایذج، رام ہرمز۔ صوبوں کے افسر: صوبوں میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے۔ والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر منشی، صاحب الخراج یعنی کلکٹر صاحب احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی صدر الصدور و منصف، چنانچہ کوفہ میں عمار بن یاسرؓ والی، عثمان بن حنیف کلکٹر، عبداللہ بن مسعود افسر خزانہ، شریح قاضی، عبداللہ بن خلف الخزاعی کاتب دیوان تھے۔2؎ 1؎ تاریخ یعقوبی ص201تا202 جلد اول 2؎ طبری ص 2647ابن خلکان ص253 ہر صوبے میں ایک فوجی افسر بھی ہوتا تھا لیکن اکثر حالتوں میں صوبے کا عامل ہی اس خدمت پر بھی مامور ہوتا تھا۔ پولیس کا محکمہ بھی جہاں تک ہم کو معلوم ہے، ہر جگہ الگ نہ تھا اکثر کلکٹر یا عامل اس خدمت کو بھی انجام دیتا تھا۔ مثلاً عمار بن یاسرؓ جس وقت کوفے کے حاکم تھے پولیس کا کام بھی کرتے تھے۔ والی کا اسٹاف وسیع اور مستقل اسٹاف ہوتا تھا اور ا سکے ممبر خود دربار خلافت کی طرف سے مامور ہوتے تھے۔ عمارؓ کو جب حضرت عمرؓ نے کوفہ کا حاکم مقرر کر کے بھیجا تو دس معزز آدمی ان کے اسٹاف میں دئیے جن میں ایک قزط خزرجی بھی تھے۔ 1؎ میر منشی زیاد بن سمیہ تھا جس کی فصاحت و بلاغت پر خود حضرت عمرؓ حیران رہ گئے تھے اور عمرو بن العاصؓ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ نوجوان قریش کی نسل سے ہوتا تو تمام عرب اس کے علم کے نیچے آ جاتا۔ اضلاع میں بھی عامل، افسر خزانہ اور قاضی وغیرہ ہوتے تھے اور یہ سب گورنر صوبہ کے ماتحت اور اس کے زیر حکومت کام کرتے تھے۔ پرگنوں میں غالباً صرف تحصیلدار رہتے تھے اور اس کے ساتھ اس کا عملہ ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ کی جوہر شناسی صوبہ جات اور اضلاع کی تقسیم کے بعد سب سے مقدم جو چیز تھی ملکی عہدہ داروں کا انتخاب اور ان کی کارروائی کا دستور العمل بنانا تھا۔ کوئی فرمانروا کتنا ہی بیدار مغز اور کوئی قانون کتنا ہی مکمل ہو لیکن جب تک حکومت کے اعضاء و جوارح یعنی عہدہ داران ملکی قابل لائق راست باز اور متدین نہ ہوں اور ان سے نہایت بیدار مغزی کے ساتھ کام نہ لیاجائے ملک کو کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔ حضرت عمرؓ نے اس باب میں جس نکتہ رسی اور تدبیر و سیاست سے کام لیا، انصاف یہ ہے کہ تاریخ عالم کے ہزاروں ورق الٹ کر بھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس مرحلے میں اس بات سے بڑ ی مدد ملی کہ ان کی طبیعت شروع سے جوہر شناس واقع ہوئی تھی یعنی جس شخص میں جس قسم کی قابلیت ہوتی تھی وہ اس کی تہہ کو پہنچ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ملک کے تمام قابل آدمیوں سے واقفیت بہم پہنچائی تھی۔ یہی بات تھی کہ انہوں نے جس شخص کو جو کام دیا اس کے انجام دینے کے لئے اس سے بڑھ کر آدمی نہیں مل سکتا تھا۔ عرب میں چار شخص تھے جن کو دہاۃ العرب کہا جاتا تھا یعنی جو فن سیاست و تدبیر میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ 1؎ اسد الغابہ تذکرہ قزط امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہؓ اور زیاد بن سمیتہ1؎ حضرت عمرؓ نے زیاد کے سوا تینوں کو بڑے بڑے ملکی عہدے دئیے اور چونکہ یہ لوگ صحاب ادعا بھی تھے، اس لئے اس طرح ان پر قابو رکھا کہ کبھی کسی قسم کی خود سری نہ کرنے پائے۔زیاد ان کے زمانے میں شانزدہ سالہ نوجوان تھا۔ اس لئے اس کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا لیکن اس کی قابلیت اور استعداد کی بناء پر ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ کاروبار حکومت میں اس کو مشیر بنائیں۔ فن حرب میں عمرو معدی کرب اور طلیحہ بن خالد نہایت ممتاز تھے لیکن تدبیر و سیاست میں ان کو دخل نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان دونوں کو نعمان بن مقرن کی ماتحتی میں عراق کی فتوحات پر مامور کیا لیکن نعمان کو لکھ بھیجا کہ ان کو کسی صیغے کی افسری نہ دینا کیونکہ ہر شخص صرف اپنا فن خوب جانتا ہے۔ 2؎ عبداللہ بن ارقمؓ ایک معزز صحابی تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ؐ کے پاس کہیں سے ایک جواب طلب تحریر آئی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا جواب کون لکھے گا؟ عبداللہ بن ارقمؓ نے عرض کی کہ ’’ میں‘‘ یہ کہہ کر خود اپنی طبیعت سے جواب لکھ کر لائے۔ آنحضرتؐ نے سنا تو نہایت پسند فرمایا۔ حضرت عمرؓ بھی موجود تھے ان کی اس قابلیت پر ان کو خاص خیال ہوا اور جیسا کہ علامہ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے یہ اثر ان کے دل میں ہمیشہ قائم رہا۔ یہاں تک کہ جب خلیفہ ہوئے تو ان کو میر منشی مقرر کیا۔ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لئے جب مجلس شوریٰ کا عام اجلاس ہوا اور حضرت عمرؓ نے رائے طلب کی کہ اس مہم پر کون بھیجا جائے؟تو تمام مجمع نے باتفاق کہا کہ آپ کو جو واقفیت ہے اور آپ نے ایک ایک کی قابلیت کا جس طرح اندازہ کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرن کا نام لیا اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ انتخاب بالکل بجا ہے۔ عمار بن یاسرؓ بڑے رتبے کے صحابی تھے اور زہد و تقدس میں بے نظیر تھے لیکن سیاست و تدبیر سے آشنا نہ تھے۔ قبولیت عام اور بعض مصلحتوں کے لحاظ سے حضرت عمرؓ نے ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا لیکن چند روز کے بعد جب ان سے کام چل نہ سکا تو معزول کر دیا اور ان کے طرف داروں کو دکھا دیا کہ وہ اس کام کے لئے موزوں نہ تھے۔ اسی قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں جن کا اسقصاء نہیں کیا جا سکتا۔ کسی شخص کو شوق ہو تو رجال کی کتابوں سے عرب کے تمام لائق آدمیوں کا پتہ لگائے اور پھردیکھے کہ حضرت عمرؓ نے ان پر زوں کو حکومت کی کل میں کیسے مناسب موقعوں پر لگایا تھا۔ 1؎ اسد الغابہ تذکرہ مغیرہ بن شعبہ 1؎ استیعاب قاضی بن عبدالبر و طبری صفحہ 2617 تاہم اتنا بڑا کام ایک شخص کی ذمہ داری پر چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ منعقد کی اور صحابہؓ سے خطاب کر کے کہا کہ اگر آپ لوگ میری مدد نہ کریں گے تو کون کرے گا۔ 1؎ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ ہم آپ کو مدد دیں گے لیکن اس وقت ملکی انتظام میں حصہ لینا زہد اور تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا کہ اے عمرؓ! تم رسول اللہ ؐ کے اصحاب کو دنیا میں آلودہ کرتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں ان بزرگوں سے مدد نہ لوں تو کس سے لوں؟ ابوعبیدہؓ نے کہا اگر ایسا ہی ہے تو تنخواہیں بیش قرار مقرر کرو کہ لوگ خیانت کی طرف مائل نہ ہونے پائیں۔2؎ عہدہ داروں کے مقرر کرنے کے لئے مجلس شوریٰ غرض حضرت عمرؓ نے لوگوں کی رائے و مشورت سے نہایت دیانتدار اور قابل لوگ انتخاب کئے اور ان کو ملکی خدمتیں سپرد کیں۔ زیادہ اہم خدمات کے لئے مجلس شوریٰ کے عام اجلاس میں انتخاب ہوتا تھا اور جو شخص تمام ارکان مجلس کی طرف سے انتخاب کیا جاتا تھا، وہ اس خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ چنانچہ عثمان بن حنیف کا تقرر اسی طریقے پر ہوا تھا۔ بعض اوقات صوبے یا ضلعے کے لوگوں کو حکم بھیجتے تھے کہ جو شخص تمام لوگوں سے زیادہ دیانتدار اور قابل ہو،ا س کو انتخاب کر کے بھیجو۔ چنانچہ ان ہی منتخب لوگوں کو وہاں کا عامل مقرر کرتے تھے۔ عثمان بن فرقد، معن بن یزید، حجاج بن علاط، اسی قاعدے کے موافق مقرر کئے گئے تھے۔ چنانچہ ہم اس کی تفصیل اوپر لکھ آئے ہیں۔ تنخواہ کا معاملہ: ایک وقت یہ تھا کہ لوگ کسی خدمت کے معاوضے میں تنخواہ لینا پسندنہیں کرتے تھے اور اس کو زہد و تقدس کے خلاف سمجھتے تھے۔ بعینہ اس طرح جس طرح آج کل کے مقدس واعظوں کو اگر کہا جائے کہ وہ باقاعدہ اپنی خدمتوں کو انجام دیں اور مشاہرہ لیں تو ان کو نہایت ناگوار ہو گا لیکن نذر و نیاز کے نام سے جو رقمیں ملتی ہیں، اس سے ان کو احتراز نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی بہت سے لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے لیکن یہ امر تمدن اور اصول انتظام کے خلاف تھا۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے بڑی کوشش سے اس غلطی کو رفع کیا اور تنخواہیں مقرر کیں۔ ایک موقع پر حضرت ابو عبیدہؓ نے جو مشہور صحابی اور سپہ سالار تھے۔ حق الخدمت لینے سے انکار کیا 1؎کتاب الخراج ص165اصل عبارت یہ ہے: ان عمر بن الخطاب دعا صحاب رسول اللہ ؐ فقال اذا لم تعینونی فمن بعیننی الخ 2؎ کتاب الخراج ص64 تو حضرت عمرؓ نے بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا۔ 1؎ حکیم بن حزام نے حضرت عمرؓ کے بار بار اصرار پر بھی کبھی روزینہ یا وظیفہ لینا گوارا نہ کیا۔ 2؎ عاملوں کے فرامین میں ان کے فرائض کی تفصیل: جو شخص عامل مقرر ہوتا تھا اس کو ایک فرمان عطا ہوتا تھا جس میں اس کی تقرری اور اختیارات اور فرائض کا ذکر ہوتا تھا۔ 3؎ اس کے ساتھ بہت سے مہاجرین اور انصار کی گواہی ثبت ہوتی تھی۔ عامل جس مقام پر جاتا تھا تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس کے اختیارات اور فرائض سے واقف ہو جاتے تھے اور جب وہ ان اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھتا تھا تو لوگوں کو اس پر گرفت کا موقع ملتا تھا۔ کہ عاملوں کے جو فرائض ہیں ایک ایک ان سے واقف ہو جائے۔ چنانچہ بارہا مختلف مقامات اور مختلف موقعوں پر اس کے متعلق خطبے دئیے۔ ایک خطبے میں جو مجمع عام میں دیا تھا، عاملوں کو مخاطب کر کے یہ الفاظ فرمائے: الا وانی لکم ابعثکم امراء ولا جبارین ولکنن بعثتکم ایمتہ الھدی یھتدی بکم فادروا علی المسلمین حقوقھم ولا تصربوھم فتذلھم ولا تحمد وھم فتفتنوھم ولا تغلقوا الابواب دونھم فیا کل قویھم ضغیفھم ولا تستاثروا علیھم فتظلموھم۔ ’’ یاد رکھو میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا ہے۔ بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ تم لوگ مسلمانوں کے حقوق ادا کرو۔ ان کو زد و کوب نہ کرو کہ وہ ذلیل ہوں۔ ان کی بیجا تعریف نہ کرو کہ غلطی میں پڑیں۔ ان کے لئے اپنے دروازے نہ بند رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں۔ ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہ دو۔ کہ یہ ان پر ظلم کرنا ہے۔‘‘ جب کوئی شخص کہیں کا عامل مقرر کیاجاتا تھا تو حضرت عمرؓ صحابہؓ کے ایک گروہ کے سامنے اس کو فرمان تقرری عنایت کرتے تھے اور ان صحابہؓ کو گواہ مقرر کرتے تھے۔ 2؎ 1؎ طبری ص2577 2؎ کنز العمال جلد3، ص322 3؎ طبری 2747، اسد الغابہ (تذکرہ حذیفتہ بن الیمان) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: کان عمر اذا استعمل عاملا کتب عہدہ قد بعثت فلانا وامرتہ بکذا فلما قدم المداین استبلہ الدھا قین فلما قرء عہدہ الخ 4؎ کتاب الخراج ص66میں ہے: کان عمر اذا ستعمل رجلا شہد علیہ رھطا من الانصار جس سے مقصد یہ تھا کہ جو شخص مقرر کیا جاتا ہے اس کی لیاقت اور فرائض کا اعلان ہو جائے۔ عاملوں سے جن باتوں کا عہد لیا جاتا تھاـ: ہر عامل سے عہد لیا جاتا تھا کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا، باریک کپڑے نہ پہنے گا، چھنا ہوا اٹا کھائے گا، دروازے پر دربان نہ رکھے گا، اہل حاجت کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ 1؎ یہ شرطیں اکثر پروانہ تقرری میں درج کی جاتی تھیں اور ان کو مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ عاملوں کے مال و اسباب کی فہرست: جس وقت کوئی عامل مقرر ہوتا تھا،ا س کے پاس جس قدر مال اور اسباب ہوتا تھا، اس کی مفصل فہرست تیار کرا کر محفوظ رکھی جاتی تھی اور عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تھی اس سے مواخذہ کیا جاتا تھا۔ 2؎ ایک دفعہ اکثر عمال اس بلا میں مبتلا ہوئے۔ خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعے سے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے سب کو موجودات کا جائزہ لے کر آدھا آدھا مال بٹا لیا اور بیت المال میں داخل کر دیا۔ اشعار میں اشعار میں سے چند شعر یہ ہیں۔ اس میں ان عاملوں کے نام بھی تفصیل سے بتائے ہیں: ابلغ امیر المومنین رسالۃ فانت امین اللہ فی المال والامر فلاتدعن اہل الرساتیق والقری یسیغون مال اللہ فی الادم الوفر فارسل الی الحجاج فاعرف حسابہ وارسل الی جزء وارسل الی البشر ولا تنسین النافعین کلیھما ولا ابن غلاب من سراۃ بن نصر وما عاصم منھا بصفر عیابہ وذاک الذی فی السوق مولی بنی بدر ولسلا فسلہ المال وابن محرش فقد کان فی اھل الرساتیق ذا ذکر نوژب اذا بوا ونغرو اذا غزروا فانی لھم وفر ولسنا اولی وفر اذا التاجر الداری جاء بفارۃ من المسک راحت فی مفارقم تجریی 1؎ کتاب الخراج ص66 2؎ (فتوح البلدان ص219میں ہے: کان عمر بن الخطاب یکتب اموال عمالہ اذا ہم ثم یقاسھم مازار علی ذالک۔ زمانہ حج میں تمام عاملوں کی طلبی: تمام عمال کو حکم تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں حاضر ہوں۔ حج کی تقریب سے تماما طراف کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہو کر باعلان کہتے تھے کہ جس کسی کو کسی عامل سے کچھ شکایت ہو پیش کرے۔ 1؎ چنانچہ ذرا ذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات ہو کر اس کا تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے بہت بڑا مجمع کر کے خطبہ دیا اور کہا کہ ’’ صاحبو! عمال جو مقرر کر کے بھیجے جاتے ہیں اس لئے نہیں بھیجے جاتے کہ تم کو طمانچے ماریں یا تمہارا مال چھین لیں بلکہ میں ان کو اس لئے بھیجتا ہوں کہ رسول اللہ ؐ کا طریقہ سکھائیں۔ سو اگر کسی عامل نے اس کے خلاف کیا ہو تو مجھ سے بیان کرو تاکہ میں اس کا انتقام لوں۔ عمرو بن العاصؓ نے جو مصر کے گورنر تھے اٹھ کر کہا کہ اگر کوئی عامل ادب دینے کے لئے کسی کو مارے گا تب بھی آپ اس کو سزا دیں گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور میں سزا دوں گا کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ؐ کو ایسا کرتے دیکھا ہے خبردار مسلمانوں کو نہ مارا کرو ورنہ وہ ذلیل ہو جائیں گے، ان کے حقوق کو تلف نہ کرو ورنہ وہ کفر ان نعمت پر مجبور ہوں گے۔‘‘ 2؎ ایک دفعہ حسب معمول تمام عمال حاضر تھے، ایک شخص اٹھا اور کہا کہ آپ کے عامل نے مجھ کو بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہیں مجمع عام میں عامل کو سو کوڑے لگائے۔ عمرو بن العاصؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ امر عمال پر گراں ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں۔ عمرو بن العاصؓ نے منت کر کے مستغیث کو اس شرط پر راضی کیا کہ ایک ایک تازیانے کے عوض میں دو دو اشرفی لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ 2؎ 1؎ تاریخ طبری ص2680میں ہے وکان من سنتہ عمرو سیرتہ ابن یاخذ عمالہ بموا فاۃ الحج فی کل سنتہ للسیاستہ ولیحجرھم بذلک عن الرعیتہ ولیکون لشکاۃ الرعیتہ وقتا و غایتہ ینھولھا فیہ الیہ۔ 2؎ کتاب الخراج ص66 3؎ کتاب الخراج صفحہ66 عاملوں کی تحقیقات وقتاً فوقتاً عمال کو جو شکایتیں پیش ہوتی تھیں، اس کی تحقیقات کے لئے ایک خاص عہدہ قائم کیا جس پر محمد بن مسلمہ انصاریؓ مامور تھے۔ یہ بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ تمام غزوات میں رسول اللہ ؐ کے ہم رکاب رہے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ؐ ایک مہم پر تشریف لے گئے تھے تو ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرتے گئے۔ ان وجوہ سے حضرت عمرؓ نے ایسے بڑے کام کے لئے انہی کو انتخاب کیا۔ جب کسی عامل کو شکایت آتی تھی تو یہ تحقیقات پر مامور ہوتے تھے۔ 1؎ اور موقع پر جا کر مجامع عامہ میں لوگوں کااظہار لیتے تھے۔ 21ھ میں سعد بن ابی وقاصؓ جنہوں نے قادسیہ کی مہم سر کی تھی اور کوفہ کے گورنر تھے، ان کی نسبت لوگوں نے حضرت عمرؓ کے پاس جا کر شکایت کی۔ یہ وہ وقت تھا کہ ایرانیوں نے بڑے زور شور سے لڑائی کی تیاریاں کی تھیں اور لاکھ ڈیرہ لاکھ فوج لے کر نہاوند کے قریب آ پہنچے تھے۔ مسلمانوں کو سخت تردد تھا اور ان کے مقابلے کے لئے کوفہ سے فوجیں روانہ ہو رہی تھیں۔ عین اسی حالت میں یہ لوگ پہنچے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ نہایت تنگ اور پر خطر وقت ہے، تاہم یہ تردد مجھ کو سعد بن ابی وقاصؓ کی تحقیقات سے نہیں روک سکتا۔ اسی وقت محمد بن مسلمہؓ کو کوفہ روانہ کیا۔ا نہوں نے کوفہ کی ایک ایک مسجد میں جا کر لوگوں کے اظہار لئے اور سعد بن ابی وقاصؓ کو لے کر مدینہ میں آئے۔ یہاں حضرت عمرؓ نے خود ان کا اظہار لیا۔ 2؎ کمیشن: بعض اوقات کمیشن کے طور پر چند آدمی تحقیقات کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ چنانچہ اسی قسم کے متعدد واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں۔ بعض اوقات ابتداء عامل کو مدینہ میں بلا کر براہ راست تحقیقات کرتے تھے اور یہ اکثر اس وقت ہوتا تھا جب عامل، صوبہ کا حاکم یا معزز افسر ہوتا تھا۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعریؓ جو بصرہ کے گورنر تھے ان کی نسبت جب شکایت گزری تو حضرت عمرؓ نے مستغیث کا بیان خود اپنے ہاتھ سے قلم بند کیا اور ابو موسیٰؓ کو اپنے حضور میں بلوا کر تحقیقات کی۔ الزامات یہ تھے: 1؎ اسد الغابتہ تذکرۃ محمد بن مسلمتہ میں ہے وھو کان صاحب العمال ایام عمر کان عمر اذا شکی الیہ عامل ارسل محمد ایکشف الحال وھو الذی ارسلہ عمر الی عمالہ لیاخذ شطر اموالھم، طبری نے مختلف مقامات میں تصریح کی ہے کہ محمد بن مسلمہ عمال کی تحقیقات پر مامور تھے۔ 2؎ یہ پوری تفصیل تاریخ طبری 2606تا2608میں ہے۔ صحیح بخاری میں بھی اس واقعے کا اشارہ ہے۔ دیکھو کتاب مذکور جلد اول ص104مطبوعہ میرٹھ۔ 1۔ ابو موسیٰ ؓ نے اسیران جنگ میں سے 60رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لئے رکھے تھے۔ 2۔ ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذا بہم پہنچائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی غذا عام مسلمانوں کو میسر نہیں آ سکتی۔ 3۔ کاروبار حکومت زیاد بن سمیتہ کو سپرد کر رکھا اور وہی سیاہ و سپید کا مالک ہے۔ تحقیقات سے پہلا الزام غلط ثابت ہوا۔ تیسرا الزام کا ابو موسیٰ ؓ نے یہ جواب دیا کہ زیاد سیاست و تدبیر کا آدمی ہے، اس لئے میں نے اس کو اپنا مشیر بنا رکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے زیاد کو طلب کیا اور امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا۔ اس لئے خود بصرہ کے حکام کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کار بنائیں۔ دوسرا الزام پیش ہوا تو حضرت ابو موسیٰؓ کچھ جواب نہ دے سکے چنانچہ لونڈی ان سے چھین لی گئی۔ 1؎ عاملوں کی خطاؤں پر سخت گرفت کی جاتی تھی۔ خصوصاً ان باتوں پر جن سے ترفع اور امتیاز یا نمود و فخر ثابت ہوتا تھا، سخت مواخذہ کیا جاتا تھا۔ جس عامل کی نسبت ثابت ہوتا تھا کہ بیمار کی عیادت نہیں کرتا یا کمزور اس کے کاروبار میں بار نہیں پاتا وہ فوراً موقوف کر دیا جاتا تھا۔ 2؎ ایک دفعہ حضرت عمرؓ بازار میں پھر رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی کہ ’’ عمرؓ کیا عاملوں کے لئے چند قواعد کے مقرر کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔ تم کو یہ خبر ہے کہ عیاض ابن غنم جو مصر کا عامل ہے باریک کپڑے پہنتا ہے اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔ حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہؓ کو بلایا اور کہا کہ عیاض کو جس حالت میں پاؤ ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہؓ نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازے پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے کا کرتہ پہنے بیٹھے تھے اس ہیئت اور لباس میں ساتھ لے کر مدینہ آئے۔ حضرت عمرؓ نے وہ کرتہ اتروا کر بالوں کا کرتہ پہنایا اور بکریوں کا ایک گلہ منگوا کر حکم دیا کہ جنگل میں لے جا کر چراؤ۔‘‘ عیاض کو انکار کی مجال تو نہ تھی مگر بار بار کہتے تھے کہ اس سے مر جانا بہتر ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تجھ کو اس سے عار کیوں ہے تیرے باپ کا نام غم اسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا۔ غرض عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اور اپنے فرائض نہایت خوبی سے انجام دیتے رہے۔3؎ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کوفہ میں اپنے لئے ایک محل بنوایا تھا جس میں ڈیوڑھی بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ اس سے اہل حاجت کو روکا ہو گا، محمد بن مسلمہؓ کو مامور کیا کہ جا کر ڈیوڑھی میں آگ لگا دیں۔ چنانچہ اس حکم کی پوری تعمیل ہوئی اور سعد بن ابی وقاصؓ چپکے دیکھا گئے۔ 1؎ طبری صفحہ 270تا271 2؎ کتاب الخراج صفحہ66 3؎ کتاب الخراج صفحہ66 اس قسم کی باتیں اگرچہ بظاہر قابل اعتراض ہیں کیونکہ لوگوں کے طرز معاشرت و ذاتی افعال سے تعرض کرنا اصول آزادی کے خلاف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ تمام ملک میں مساوات اور جمہوریت کی جو روح پھونکنی چاہتے تھے وہ بغیر اس کے ممکن نہ تھی کہ وہ خود اور ان کے دست بازو یعنی ارکان سلطنت اس رنگ میں ڈوبے نظر آئیں۔ عام آدمیوں کو اختیار ہے جو چاہیں کریں۔ ان کے افعال کا اثر بھی انہی تک محدود رہے گا لیکن جو سلطنت کے ارکان ہیں ان کے طرز معاشرت کا ممتاز ہونا لوگوں کے دلوں میں اپنی حقارت کا خیال پیدا کرتاہے اور رفتہ رفتہ اس قسم کی باتوں سے سلطنت شخصی کی وہ تمام خصوصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص آقا اور باقی تمام لوگ غلام ہیں۔ اس کے علاوہ جو شخص عرب کی فطرت سے واقف ہے وہ با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی باتیں پولیٹیکل مصالح سے خالی نہ تھیں۔ مساوات اور عدم ترجیح جس کو آج کل کی اصطلاح میں سوشلزم کہتے ہیں، عرب کا اصلی مذاق ہے اور عرب میں جو سلطنت اس اصول پر قائم ہو گی وہ یقینا بہ نسبت اور ہر قسم کی سلطنت کے زیادہ کامیاب ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احکام زیادہ تر عرب کی آبادیوں میں محدود تھے، ورنہ امیر معاویہ ؓ شام میں بڑے سروسامان سے رہتے تھے اور حضرت عمرؓ ان سے کچھ تعرض نہیں کرتے تھے۔ شام کے سفر میں حضرت عمرؓ ان کے خدم و حشم کو دیکھ کر اس قدر کہا اکسروانیہ یعنی یہ نوشیروانی جاہ و جلال کیسا؟ مگر جب انہوں نے جواب دیا کہ یہاں رومیوں سے سابقہ رہتا ہے اور ان کی نظر میں بغیر اس کے سلطنت کا رعب و داب نہیں قائم رہ سکتا تو حضرت عمرؓ نے پھر تعرض نہیں کیا۔ عمال کی دیانت اور راست بازی کے قائم رکھنے کے لئے نہایت عمدہ اصول یہ اختیار کیا تھا کہ تنخواہیں بیش قرار مقرر کی تھیں۔ یورپ نے مدتوں کے تجربے کے بعد یہ اصول سیکھا ہے اور ایشیائی سلطنتیں تو اب تک اس راز کو نہیں سمجھیں ۔ جس کی وجہ سے رشوت اور غبن ایشیائی سلطنتوں کا خاصہ ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اگرچہ معاشرت نہایت ارزاں اور روپیہ گراں تھا تاہم تنخواہیں علیٰ قدر مراتب عموماً قرار تھیں۔ صوبہ داروں کی تنخواہیں پانچ پانچ ہزار تک ہوتی تھیں اور غنیمت کی تقسیم سے جو ملتا تھا وہ الگ۔ چنانچہ امیر معاویہؓ کی تنخواہ ہزار دینار ماہوار یعنی پانچ ہزار روپے تھی۔ 1؎ اب ہم عمالان فاروقی کی ایک اجمالی فہرست درج کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ حضرت عمرؓ نے حکومت کی کل میں کس قسم کے پرزے استعمال کئے تھے۔ 1؎ استیعاب قاضی بن عبدالبر اور ازالتہ الخفائ، جلد دوم ص71 نام مقام ماموریت عہد کیفیت ابوعبیدہؓ شام والی مشہور صحابی اور عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں۔ یزید بن ابی سفیانؓ شام والی تمام بنو امیہ میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص لائق نہ تھا امیر معاویہؓ شام والی سیاست و تدبیر میں مشہور ہیں۔ عمرو بن العاصؓ مصر والی مصر انہی نے فتح کیا۔ عتبہ بن غزوان ؓ بصرہ والی مہاجرین میں سے ہیں، بصرہ انہی نے آباد کرایا۔ ابو موسیٰ اشعریؓ بصرہ والی مشہور جلیل القدر صحابی ہیں۔ عتاب بن اسیدؓ مکہ مکرمہ والی آنحضرت ؐ نے ان کو مکہ مکرمہ کا عامل مقرر کیا تھا۔ نافع بن عبدالحارثؓ مکہ مکرمہ والی فضلاء صحابہ میں سے ہیں۔ خالد بن العاصؓ مکہ مکرمہ والی ابوجہل کے بھتیجے اور معزز شخص تھے عثمان بن ابی العاصؓ طائف الی آنحضرت ؐ کے بعد جب ارتداد پھیلا تو طائف کے لوگوں کو انہی نے تھا۔ یعلی بن امیہؓ یمن الی صحابہ میں سے تھے اور فیاضی میں شہرت عام رکھتے تھے۔ بڑے صاحب اثر تھے۔ آنحضرت ؐ نے ان کو یمن کا عامل مقرر کیا تھا۔ علاء بن الحضری یمن والی بڑے صاحب اثر تھے، آنحضرت ؐ نے ان کو یمن کا عامل مقرر کیا تھا۔ نعمان بن مقرنؓ مدائن صاحب الخراج عثمان بن حنیفؓ اضلاع فرات کمشنر بندوبست حساب کتاب اور پیمائش کے کام میں نہایت ماہر تھے۔ عیاض بن غنمؓ جزیرہ والی جزیرہ انہی نے فتح کیا۔ عمر بن سعدؓ حمص والی حضرت عمرؓ ان کی نہایت عزت کرتے تھے۔ حذیفہ بن الیمانؓ مدائن والی مشہور صحابی اور آنحضرت ؐ کے راز دار تھے۔ نافع بن عبدالحارثؓ بڑے خاندان کے آدمی تھے۔ خالد بن حرث و ہمانی اصفہان افسر خزانہ سمرۃ بن جندبؓ سوق الاہواز اکابر صحابہ میں ہیں نعمان بن عدیؓ میسان صحابہ میں سے اول انہی کو وراثت کا مال ملا۔ عرفجہ بن ہرثمہؓ موصل کمشنر مال گزاری موصل میں انہی نے فوجی چھاؤنی بنوائی صیغہ محاصل خراج کا طریقہ حضرت عمرؓ نے ایجاد کیا: خراج کا نظم و نسق عرب کی تاریخ تمدن میں ایک نیا اضافہ تھا۔ اسلام سے پہلے اگرچہ عرب کے مختلف خاندان تاج و تخت کے مالک ہوئے۔ جنہوں نے سلطنت کے کاروبار قائم کر دیئے تھے لیکن محاصل کا باقاعدہ انتظام بالکل موجود نہ تھا۔ اسلام کے آغاز میں اس قدر ہوا کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے درخواست کی کہ زراعت کا کام ہم اچھا جانتے ہیں، اس لئے زمین ہمارے ہی قبضے میں چھوڑ دی جائے۔ جناب رسول اللہ ؐ نے ان کی درخواست منظور کر لی اور بٹائی پر معاملہ ہو گیا۔ اس کے سوا جن مقامات کے باشندے سب مسلمان ہو گئے تھے، ان کی زمین پر عشر مقرر کر دیا جو ایک قسم کی زکوٰۃ تھی، حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں عراق کے کچھ حصے فتح ہوئے لیکن خراج وغیرہ کا کچھ انتظام نہ ہوا بلکہ سرسری طور پر رقم مقرر کر دی گئی۔ حضرت عمرؓ کو جب جنگی مہمات کی طرف سے فی الجملہ اطمینان ہوا یعنی 16ھ میں ادھر عراق عرب پر پورا قبضہ ہو گیا اور اس طرف یرموک کی فتح نے رومیوں کی قوت کا استیصال کر دیا تو حضرت عمرؓ نے خراج کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی۔ اس مرحلے میں پہلی یہ مشکل پیش آئی کہ امراء فوج نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات صلہ فتح کے طور پر ان کی جاگیر میں عنایت کئے جائیں اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دے دیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے عراق کے فتح کے ساتھ بن ابی وعاصؓ کو وہاں کی مردم شماری کے لئے حکم دیا تھا۔ سعدؓ نے نہایت جانچ کے ساتھ مردم شماری کا کاغذ مرتب کر کے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا گیا تو ایک ایک مسلمان کے حصے میں تین تین آدمی پڑتے تھے۔ اسی وقت حضرت عمرؓ کی رائے قائم ہو چکی تھی کہ زمین باشندوں کے قبضے میں رہنے دی جائے اور ان کو ہر طرح پر آزاد چھوڑ دیا جائے۔ 1؎ لیکن اکابر صحابہ میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ وغیرہ اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ حضرت بلالؓ نے اس قدر کد کی کہ حضرت عمرؓ دق ہو کر فرمایا: ’’ اللھم اکفنی بلالا‘‘ یعنی اے اللہ مجھ کو بلالؓ سے نجات دے۔ حضرت عمرؓ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر ممالک مفتوحہ فوج کو تقسیم کر دئیے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی حفاظت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے مصارف کہاں سے آئیں گے؟ عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک کو فتح کیا ہے، انہی کو قبضے کا بھی حق ہے۔ آئندہ نسلیں مفت کیونکر پا سکتی ہیں۔ چونکہ حضرت عمرؓ کی حکومت کا طریقہ جمہوری تھا یعنی جو فیصلہ ہوتا تھاکثرت رائے پر ہوتا تھا۔ اس لئے ایک عام اجلاس ہوا جس میں تمام قماء مہاجرین اور انصار میں سے پانچ قبیلہ اوس کے اور پانچ قبیلہ خزرج کے سردار وکیل کے طور پر شریک ہوئے۔ 2؎ حضرت علی، حضرت عثمان اور حضرت طلحہؓ نے حضرت عمرؓ کی رائے سے اتفاق کیا، تاہم کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ کئی دن تک یہ مرحلہ رہا۔ حضرت عمرؓ کا استدلال حضرت عمرؓ کو دفعتہ قرآن مجید کی ایک آیت یاد آئی جو اس بحث کے لئے نص قاطع تھی یعنی للفقراء الذین اخرجو من دیارھم واموالھم الخ اس آیت کے آخیر فقرے والذین جاؤا من بعدھم3؎ سے حضرت عمرؓ نے یہ استدلال لیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے۔ 1؎ طبری ص2467فتوح البلدان ص266کتاب الخراج ص21 2؎ کتاب الخراج ص14 3؎58 الحشر:10 لیکن اگر فاتحین کو تقسیم کر دیا جائے تو آنے والی نسلوں کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا۔ حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر نہایت پر زور تقریر کی اور اس آیت کو استدلال میں پیش کیا۔ تمام لوگ بول اٹھے کہ بے شبہ آپ کی رائے بالکل صحیح ہے۔ اس استدلال کی بناء پر یہ اصول قائم ہو گیا کہ جو ممالک فتح کئے جائیں، وہ فوج کے ملک نہیں ہیں بلکہ حکومت کے ملک قرار پائیں گے اور پچھلے قابضین کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کو قرار پانے کے بعد حضرت عمرؓ نے ممالک مفتوحہ کے بندوبست پر توجہ کی۔ عراق کا بندوبستـ: عراق چونکہ عرب سے نہایت قریب اور عربوں کے آباد ہو جانے کی وجہ سے عرب کا ایک صوبہ بن گیا تھا۔ سب سے پہلے اس سے شروع کیا۔ حضرت عمرؓ کا ایک یہ بھی اصول تھا کہ ہر ملک کے انتظام میں وہاں کے قدیم رسم و رواج سے واقفیت حاصل کرتے تھے اور اکثر حالتوں میں کسی قدر اصلاح کے ساتھ قدیم انتظامات کو بحال رکھتے تھے۔ عراق میں اس وقت مال گزاری کا جو طریقہ جاری تھا، یہ تھا کہ ہر قسم کی مزروعہ پر ایک خاص شرح کے لگان مقرر تھے جو تین قسطوں میں ادا کئے جاتے تھے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے قباد نے قائم کیا تھا اور نوشیروان نے اس کی تکمیل کی تھی۔ نوشیروان تک تعین لگان میں یہ اصول ملحوظ رہتا تھا کہ اصل پیداوار کے نصف سے زیادہ نہ ہونے پائے لیکن خسرو پرویز نے اس پر اضافہ کیا اور یزد گرد کے زمانے میں اور بھی تبدیلیاں ہوئیں۔ 1؎ حضرت عمرؓ نے مزید تحقیقات کے لحاظ سے پیمائش کا حکم دیا۔ اس کام کے لئے چونکہ دیانت کے ساتھ فن مساحت سے واقف ہونا ضرور تھا اور عرب میں اس قسم کے فنونا س وقت تک رائج نہ تھے اس لئے فی الجملہ دقت در پیش آئی۔ افسران کا بندوبست: آخر وہ شخص انتخاب کئے گئے، عثمان بن حنیف اور حذیفہ بن الیمانؓ۔ یہ دونوں بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے اور عراق میں زیادہ تر رہنے سے اس قسم کے کاموں سے واقف ہو گئے تھے۔ خصوصاً عثمان بن حنیفؓ کو اس فن میں پوری مہارت حاصل تھی۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا کہ انہوں نے تحقیق اور صحت کے ساتھ پیمائش کی۔ جس طرح قیمتی کپڑا ناپا جاتا ہے، حضرت عمرؓ نے پیمائش کا پیمانہ خود اپنے دست مبارک سے تیار کر کے دیا۔ کئی مہینے تک بڑے اہتمام اور جانچ کے ساتھ پیمائش کا کام جاری رہا۔ 1؎ کتاب الاوائل ذکر اول من غیر سنتہ ساسان و ذکر اول من وضع الخراج عراق کا کل رقبہ: کل رقبہ طول میں375میل اور عرض میں240میل یعنی کل30000میل مکسر ٹھہرا اور پہاڑ، صحرا اور نہروں کو چھوڑ کر قابل زراعت زمین تین کروڑ ساٹھ لاکھ جریب ٹھہری۔ خاندان شاہی کی جاگیر، آتش کدوں کے اوقاف، لاوارثوں، مفروروں اور باغیوں کی جائیداد وہ زمینیں جو سڑکوں کی تیاری اور درستی اور ڈاک کے مصارف کے لئے مخصوص تھیں، دریا بر آورد، ان تمام زمینوں کو حضرت عمرؓ نے خالصہ قرار دے کر ان کی آمدنی جس کی تعداد سالانہ ستر لاکھ (7000000) تھی، رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے مخصوص کر دی۔ کبھی کبھی کسی شخص کو اسلامی کوششوں کے صلے میں جاگیر عطا کی جاتی تھی تو انہی زمینوں سے کی جاتی تھی لیکن یہ جاگیریں کسی حال میں خراج یا عشر سے مستثنیٰ نہیں ہوتی تھیں۔ باقی تمام زمین قدیم قبضہ داروں کو دے دی گئی اور حسب ذیل لگان مقرر کیا گیا۔ لگان کی شرح: گیہوں فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 2درہم سال جو فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 1درہم سال نیشکر فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 6درہم سال روئی فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 5درہم سال انگور فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 10درہم سال نخلستان فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 10درہم سال تل فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 8درہم سال ترکازی فی جریب یعنی پون بیگے پختہ 3درہم سال بعض بعض جگہ زمین کی لیاقت کے اعتبار سے اس شرح میں تفاوت بھی ہوا یعنی گیہوں پر فی جریب 4 درہم اور جو پر 2 درہم مقرر ہوئے۔ عراق کا خراج: افتادہ زمین پر بشرطیکہ قابل زراعت ہو، دو جریب پر ایک درہم مقرر ہوا۔ اس طرح کل عراق کا خراج 8کروڑ ساٹھ لاکھ درہم ٹھہرا۔ چونکہ پیمائش کے مہتمم مختلف لیاقت کے تھے، اس لئے تشخیص جمع میں بھی فرق رہا۔ تاہم جہاں جس قدر جمع مقرر کی گئی، اس سے زیادہ مالکان اراضی کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمرؓ کو ذمی رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ دونوں افسروں کو بلا کر کہا کہ تم نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ نہیں بلکہ ابھی اسی قدر اور گنجائش ہے۔ 1؎ زمیندار اور تعلق دار جو لوگ قدیم سے زمیندار اور تعلقہ دار تھے اور جن کو ایرانی زبان میں مرزبان اور دہقان کہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی حالت اسی طرح قائم رہنے دی اور ان کے جو اختیارات اور حقوق تھے سب بحال رکھے۔ پیداوار اور آمدنی میں ترقی: جس خوبی سے بندوبست کیا گیا تھا، اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ لگان کی شرطیں نوشیروان کی مقرر کردہ شرحوں سے زائد تھیں تاہم نہایت کثرت سے افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں اور دفعتہ زراعت کی پیداوار میں ترقی ہو گئی۔ چنانچہ بندوبست کے دوسرے ہی سال خراج کی مقدار آٹھ کروڑ سے دس کروڑ بیس ہزار درہم تک پہنچ گئی۔ 2؎ ہر سال مال گزاری کی نسبت رعایا کا اظہار لیا جانا۔ سالہائے مابعد میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس پر بھی حضرت عمرؓ کو یہ احتیاط تھی کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس ثقہ اور معتمد اشخاص کوفہ سے اور اسی قدر بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے اور حضرت عمرؓ ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلاتے تھے کہ یہ مالگزاری کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کر کے تو نہیں لی گئی ہے۔ 3؎ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عمرؓ نے اگرچہ نہایت نرمی سے خراج مقرر کیا تھا لیکن جس قدر مالگزاری ان کے عہد میں وصول ہوئی زمانہ مابعد میں کبھی وصول نہیں ہوئی۔ 1؎ کتاب الخراج ص21 1؎ تاریخ یعقوبی ص174 2؎ کتاب الخراج ص 65اصل عبارت یہ ہیـ: ان عمر الخطاب کان یحی العراق کل سنتہ مایتہ الف الف اوفیہ یحرج الیہ عشرۃ من اہل الکوفتہ و عشرہ من اہل البصرۃ یشھدون اربع شہادات باللہ انہ من طیب مافیہ ظلم مسلم ولا معاہد حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جس قدر خراج وصول ہوا زمانہ مابعد میں کبھی نہیں ہواـ: حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج پر اللہ لعنت کرے، کم بخت کو نہ دین کی لیاقت تھی، نہ دنیا کی۔ عمر بن الخطابؓ نے عراق کی مال گزاری 10کروڑ28لاکھ درہم وصول کی۔ زیاد نے 10کروڑ15 لاکھ اور حجاج نے باوجود جبر اور ظلم کے صرف2کروڑ8لاکھ وصول کئے۔ 1؎ مامون الرشید کا زمانہ عدل و انصاف کے لئے مشہور ہے لیکن اس کے عہد میں بھی عراق کے خراج کی تعداد5 کروڑ 48 لاکھ درہم سے کبھی نہیں بڑھی۔ خراج کا دفتر فارسی اور رومی زبان میں تھا: جہاں تک ہم کو معلوم ہے، عراق کے سوا حضرت عمرؓ نے اور کسی صوبے کی پیمائش نہیں کرائی بلکہ جہاں جس قسم کا بندوبست تھا اور بندوبست کے جو کاغذات پہلے سے تیار تھے، ان کو اسی طرح قائم رکھا۔ یہاں تک کہ دفتر کی زبان تک نہیں بدلی یعنی جس طرح اسلام سے پہلے عراق و ایران کا دفتر فارسی میں شام کارومی میں، مصر کا قبطی میں تھا۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی اسی طرح رہا۔ خراج کے محکمے میں جس طرح قدیم سے پارسی، یونانی اور قبطی ملازم تھے بدستور بحال رہے۔ تاہم حضرت عمرؓ نے قدیم طریقہ انتظام میں جہاں جو کچھ غلطی دیکھی اس کی اصلاح کر دی۔ چنانچہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ مصر میں فرعون کے زمانے میں جو بندوبست ہوا تھا، ٹالومیز (بطالمہ) نے بھی وہی قائم رکھا اور رومن امپائر میں بھی وہی جاری رہا۔ فرعون نے تماما راضی کی پیمائش کرائی تھی اور تشخیص جمع اور طریقہ ادا کے مقدم اصول یہ قرار دئیے تھے۔ مصر میں فرعون کے زمانے کے قواعد مالگزاری 1۔خراج نقد اور اصل دونوں طریقے سے وصول کی جائے۔ 2۔ چند سالوں کی پیداوار کا اوسط نکال کر اس کے لحاظ سے جمع تشخیص کی جائے۔ 3۔ بندوبست چار سالہ ہو۔ 2؎ 1؎ معجم البلدان ذکر سواد 2؎ پروفیسر Favan Bekluem نے ایک کتاب فرنچ زبان میں مسلمانوں کے قانون مالگزاری پر لکھی ہے۔ یہ حالات میں نے اسی کتاب سے لئے ہیں۔ آگے چل کر بھی اس کتاب کے حوالے آئیں گے۔ اس کتاب کا پورا نام یہ ہے: La Prol Rite Te Territorialetum pot Fongier Sons Les Pemires Carifes. رومیوں کا اضافہ: رومیوں نے اپنے عہد حکومت میں اور تمام قاعدے بحال رکھے لیکن یہ نیا دستور مقرر کیا کہ ہر سال خراج کے علاوہ مصر سے غلے کی ایک مقدار کثیر پائے تخت قسطنطنیہ کو روانہ کی جاتی تھی ا ور سلطنت کے ہر صوبے میں فوج کی رسد کے لئے یہیں سے غلہ جاتا تھا جو خراج میں محسوب نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے قدیم طریقے کی اصلاح کی: حضرت عمرؓ نے یہ دونوں جابرانہ قاعدے موقوف کر دیئے۔ یورپ کے مورخوں نے لکھا کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ قحط کے سال مصر سے مدینہ منورہ کو جو غلہ بھیجا گیا، اسی اصول کے موافق بھیجا گیا لیکن یہ ان کی سخت غلطی اور قیاس بازی ہے۔ بے شبہ عام القحط میں مصر سے غلہ آیا اور پھر یہ ایک رسم قائم ہو کر مدتوں تک جاری رہی لیکن یہ وہی غلہ تھا جو خراج سے وصول ہوتا تھا، کوئی نیا خراج یا ٹیکس نہ تھا۔ چنانچہ علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں صاف صاف تصریح کر دی ہے۔ 1؎ اس بات کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب خراج میں صرف نقدی کا طریقہ رہ گیا تو حرمین کے لئے جو غلہ بھیجا جاتا تھا، خرید کر کے بھیجا جاتا تھا۔ چنانچہ امیر معاویہؓ کے عہد حکومت کی نسبت علامہ مقریزی نے صاف اس کی تصریح کی ہے۔ 2؎ حضرت عمرؓ نے ہر صوبہ میں فوج رسد کی رسد کے لئے غلے کے کھیتوں کا بھی انتظام کیا تھا لیکن یہ بھی وہی خراج کا غلہ تھا۔ مصر میں وصول مال گزاری کا طریقہـ: حضرت عمرؓ نے مال گزاری کے وصول کا طریقہ بھی نہایت نرم کر دیا اور اس لحاظ سے دونوں ملک کے قدیم قاعدوں میں فی الجملہ ترمیم کر دی۔ مصر ایک ایسا ملک ہے جس کی پیداوار کا مدار دریائے نیل کی طغیانی پر ہے اور چونکہ اس کی طغیانی کے مدارج نہیں نہایت تفاوت ہوتا رہتا تھا، اس لئے پیداوار کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چند سالوں کے اوسط کا حساب اس لئے مفید نہیں کہ جاہل کاشتکار اپنے مصارف کی تقسیم ایسی باقاعدہ نہیں کر سکتے کہ خشک سالی میں اوسط حساب کے لحاظ سے ان کا کام چل سکے۔ بہرحال حضرت عمرؓ کے زمانے میں مالگزاری کے وصول کا یہ طریقہ تھا کہ جب مالگزاری کی قسطیں کھلتی تھیں تو تمام پرگنہ جات سے رئیس اور زمیندار اور عراف طلب کئے جاتے تھے اور وہ پیداوار حال کے لحاظ سے کل ملک کے خراج کا ایک تخمینہ پیش کرتے تھے۔ 1؎ فتوح البلدان ص216 2؎ مقریزی جلد اول ص79 اس کے بعد اسی طرح ہر ہر ضلع اور ہر ہر پرگنے کا تخمینہ مرتب کیا جاتا تھا جس میں مقامی زمیندار اور مکھیا شریک ہوتے تھے۔ یہ تخمینی رقم ان لوگوں کے مشورے سے ہر ہر گاؤں پر پھیلا دی جاتی۔ پیداوار جو ہوتی تھی، اس میں سے اول گرجاؤں اور حماموں کے مصارف اور مسلمانوں کی مہمانی کا خرچ نکال لیا جاتا تھا، جو بچتا تھا اس میں سے جمع مشخصہ ادا کی جاتی تھی۔ ہر گاؤں پر جو جمع تشخیص ہوتی تھی، پڑتے سے اس کا ایک حصہ گاؤں کے پیشہ وروں سے بھی وصول کیا جاتا تھا۔ 1؎ اس طریقہ میں اگرچہ بڑی زہمت تھی اور گویا ہر سال نیا بندوبست کرنا پڑتا تھا لیکن مصر کے حالات کے لحاظ سے عدل اور انصاف کا یہی مقتضا تھا اور مصر میں یہ طریقہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک مدت سے معمول بھی تھا۔ لگان کی شرح فی جریب ایک دینار اور تین اردب غلہ قرار دی گئی اور یہ معاہدہ لکھ دیا گیا کہ اس مقدار پر کبھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ مصر کا کل خراج: اس عدل و انصاف کے ساتھ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی تعداد ایک کروڑ20لاکھ دینار تھی۔ جس کے تقریباً پانچ کروڑ چھ لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ یہ صرف جزیے کی رقم تھی، خراج اس کے علاوہ تھا۔ ابو حوقل بغدادی نے بھی اپنے جغرافیہ میں قاضی ابو حازم کا جو قول نقل کیا ہے، وہ اسی کے مطابق ہے لیکن میرے نزدیک دونوں نے غلطی کی ہے۔ خود علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ جب عمرو بن العاصؓ نے پہلے سال ایک کروڑ دینار وصول کئے تو حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ مقوقس نے ابھی پچھلے سال 20کروڑ وصول کئے تھے، عمرو بن العاصؓ سے باز پرس کی۔ یہ مسلم ہے کہ مقوقس کے عہد میں جزیے کا دستور نہ تھا، اس لئے عمرو بن العاصؓ کی یہ رقم اگر جزیہ تھی تو مقوقس کی رقم سے اس کا مقابلہ کرنا بالکل بے معنی تھا۔ اس کے علاوہ تمام مورخین نے اور خود مقریزی نے جہاں خراج کی حیثیت سے اسلام کے ماقبل اور ما بعد زمانوں کا مقابلہ کیا ہے، اسی تعداد کا نام لیا ہے۔ بہرحال حضرت عمرؓکے عہد میں خراج کی مقدار جہاں تک پہنچی، زمانہ مابعد میں کبھی اس حد تک نہیں پہنچی۔ 1`؎ مقریزی نے یہ پوری تفصیل نقل کی ہے، دیکھو کتاب مذکور ص77علامہ بشاری کی کتاب جغرافیہ ص 212سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مصر کا خراج بنو امیہ اور عباسیہ کے زمانے میں بنو امیہ اور بنو العباس کے زمانے میں تیس لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہیں ہوئی۔ ہشام بن عبدالملک نے جب بڑے اہتمام سے تمام ملک کی اراضیات کی پیمائش کرائی جو تین کروڑ فدان ٹھہری، تو30لاکھ سے 40لاکھ ہو گئے۔ البتہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں عبداللہ بن سعد گورنر مصر نے ایک کروڑ40لاکھ دینار وصول کئے تھے لیکن جب حضرت عثمانؓ نے فخریہ عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ اب تو اونٹنی نے زیادہ دودھ دیا تو عمرو بن العاصؓ نے آزادانہ کہا کہ ’’ ہاں لیکن بچہ بھوکا رہا۔‘‘ 1؎ امیر معاویہؓ کا زمانہ ہر قسم کی دنیاوی ترقی میں یادگار ہے۔ ان کے عہد میں مصر کے خراج کی تعداد 90لاکھ دینار تھی۔ 2؎ فاطمین کے عہد میں خلیفہ لدین اللہ کے گورنر نے باوجودیکہ لگان کی شرح دوگنی کر دی۔ تاہم 32 لاکھ سے زیادہ وصول نہ ہوئے۔ 3؎ شام: شام میں اسلام کے عہد تک وہ قانون جاری تھا جو ایک یونانی بادشاہ نے اپنے تمام ممالک مقبوضہ میں قائم کیا تھا۔ اس نے پیداوار کے اختلاف کے لحاظ سے زمین کے مختلف مدارج قرار دئیے تھے اور ہر قسم کی زمین پر جداگانہ شرح کے لگان مقرر کئے تھے۔ یہ قانون چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں یونانی زبان سے شامی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اسلام کی فتوحات تک وہی ان تمام ممالک میں جاری تھا۔ 4؎ قرائن قیاسات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے مصرکی طرح یہاں بھی وہی قدیم قانون جاری رہنے دیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں شام سے جو خراج وصول ہوتا تھا، اس کی کل تعداد ایک کروڑ40لاکھ دینار یعنی 5کروڑ80لاکھ روپے تھی۔ 1؎ دیکھو مقریزی صفحہ90جلد اول 2؎ معجم البلدان: ذکر مصر 3؎ ابن حوقل ذکر مصر 4؎ دیکھو پروفیسر برخیم فرانسیسی کی کتاب مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر۔ عراق، مصر اور شام کے سوا اور ممالک مفتوحہ یعنی فارس، کرمان،آرمیسیہ وغیرہ کے بندوبست اورتشخیص خراج کے حالات ہم بہت کم معلوم کر سکے مورخین ان ملکوں کے حالات فتح میں صرف اس قدر لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں پر جزیہ اور زمین پر خراج مقرر کیا گیا۔ کہیں کہیں کسی خاص رقم پر معاہدہ ہو گیا ہے تو اس کی تعداد لکھ دی ہے، باقی اور قسم کی تفصیل کو ہاتھ نہیں لگایا ہے اور چونکہ اس قسم کی جزئی تفصیلوں سے کچھ بڑے نتائج متعلق نہیں، اس لئے ہم بھی اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے۔ قانون مال گزاری میں حضرت عمرؓ کی اصلاحات: البتہ ایک محقق کی نگاہ اس بات پر پڑ سکتی ہے کہ اس صیغے میں فتوحات فاروقی کی خاص ایجادات اور اصلاحیں کیا ہیں اور ہم اسی خاص پہلو پر نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا انقلاب جو حضرت عمرؓ نے اس صیغے میں کیا اور جس کی وجہ سے رعایا کی بہبودی اور خوشحالی دفعتہ نہایت ترقی کر گئی، یہ تھا کہ زمینداری اور ملکیت زمین کا جو قدیم قانون تھا اور بالکل جابرانہ تھا مٹا دیا۔ رومیوں نے جب شام اور مصر پر قبضہ کیا تو تمام اراضیات اصلی باشندوں سے چھین کر کچھ افسران فوج اور کچھ اراکین دربار کو دے دیں۔ کچھ شاہی جاگیر قرار پائیں، کچھ کلیسا اور چرچ پر وقف کر دی گئیں۔ اصلی باشندوں کے ہاتھ میں ایک چپہ زمین بھی نہیں رہی۔ وہ صرف کاشتکاری کا حق رکھتے تھے اور اگر مالک زمین ان کی کاشتکاری کی زمین کو کسی کے ہاتھ منتقل کرتا تھا تو زمین کے ساتھ کاشتکار بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اخیر میں باشندوں کو بھی کچھ زمینداریاں ملنے لگیں لیکن زمینداری کی حفاظت اور اس کے متمتع ہونے کے لئے رومی زمینداروں سے اعانت لینی پڑتی تھی۔ اس بہانے سے زمیندار خود اس زمین میں متصرف ہو جاتے تھے اور وہ غریب کاشتکار کا کاشتکار رہ جاتا تھا۔ یہ طریقہ کچھ رومی سلطنت کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے تمام دنیا میں قریب قریب یہی طریقہ جاری تھا کہ زمین کا بہت بڑا حصہ افسران فوج یا ارکان دولت کی جاگیر میں دے دیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ اس ظالمانہ قانون کو مٹا دیا۔ رومی تو اکثر ملک کے مفتوح ہوتے ہی نکل گئے اور جو رہ گئے، ان کے قبضے سے بھی زمین نکال لی گئی۔ حضرت عمرؓ نے ان تمام اراضیات کو جو شاہی جاگیر تھیں یا جن پر رومی افسر قابض تھے، باشندگان ملک کے حوالے کر دیں اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمان افسروں یا فوجی سرداروں کو عنایت کی جاتیں قاعدہ بنا دیا کہ مسلمان کسی حالت میں ان زمینوں پر قابض نہیں ہو سکتے یعنی مالکان اراضی کو قیمت دے کر خریدنا چاہیں تو خرید بھی نہیں سکتے یہ قاعدہ ایک مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ لیث بن سعد نے مصر میں کچھ زمین مول لی تھی تو بڑے بڑے پیشوایان مذہب مثلاً امام مالک، نافع، بن یزید، ابن لیعہ ؑ نے ان پر سخت اعتراض کیا۔ 1؎ 1؎ مقریزی ص295 ممانعت کر دی چنانچہ تمام فوجی افسروں کے نام احکام بھیج دئیے کہ لوگوں کے روزینے مقرر کر دئیے گئے ہیں، اس لئے کوئی شخص زراعت نہ کرنے پائے۔ یہ حکم اس قدر سختی سے دیا گیا کہ شریک عطفی ایک شخص نے مصر میں کچھ زراعت کر لی تو حضرت عمرؓ نے اس کو بلا کر سخت مواخذہ کیا اور فرمایا کہ میں تجھ ک وایسی سزا دوں گا کہ اوروں کو عبرت ہو۔1؎ ان قاعدوں سے ایک طرف تو حضرت عمرؓ نے اس عدل و انصاف کا نمونہ قائم کیا، جس کی نظیر دنیا میں کہیں موجود نہ تھی کیونکہ کسی فاتح قوم نے مفتوحین کے ساتھ کبھی ایسی رعایت نہیں برتی تھی۔ دوسری طرف زراعت اور آبادی کو اس سے نہایت ترقی ہوئی۔ اس لئے کہ اصلی باشندے جو مدت سے ان کاموں میں مہارت رکھتے تھے، عرب کے خانہ بدوش بدو ان کی برابری نہیں کر سکتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تدبیر نے فتوحات کی وسعت میں بڑا کام دیا۔ فرانس کے ایک نہایت لائق مصنف نے لکھا ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اسلام کی فتوحات میں خراج اور مال گزاری کے معاملے کو بہت دخل ہے۔ رومن سلطنت میں باشندگان ملک کو جو سخت خراج ادا کرنا پڑتا تھا، اس نے مسلمانوں کی فتوحات کو نہایت تیزی سے بڑھایا۔ مسلمانوں کے حملوں کا جو مقابلہ کیا گیا وہ اہل ملک کی طرف سے نہ تھا بلکہ حکومت کی طرف سے تھا۔ مصر میں خود قبطی کاشتکاروں نے یونانیوں کے برخلاف مسلمانوں کو مدد دی۔ دمشق اور حمص میں عیسائی باشندوں نے ہرقل کی فوج کے مقابلے میں شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ ہم تمہاری حکومت کو بمقابلہ بے رحم رومیوں کے بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمرؓ نے غیر قوموں کے ساتھ انصاف کرنے میں اپنی قوم کی حق تلفی کی یعنی ان کو زراعت اور فلاحت سے روک دیا۔ در حقیقت اس سے حضرت عمرؓ کی بڑی انجام بینی کا ثبوت ملتا ہے۔ عرب کے اصلی جوہر یعنی دلیری، بہادری، جفاکشی، ہمت اور عزم اسی وقت تک قائم رہے جب تک وہ کاشتکاری اور زمینداری سے الگ رہے۔ جس دن انہوں نے زمین کو ہاتھ لگایا، اسی دن یہ تمام اوصاف بھی ان سے رخصت ہو گئے۔ بندوبست مالگزاری میں ذمیوں سے رائے لینا۔ اس معاملے میں ایک اور نہایت انصافانہ اصول جو حضرت عمرؓ نے برتا یہ تھا کہ بندوبست اور اس کے متعلق تمام امور میں ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھی، ہمیشہ رائے طلب کرتے تھے اور ان کی معروضات پر لحاظ فرماتے تھے۔ 1؎ حسن المحاضرہ ص93 عراق کا جب بندوبست کرنا چاہا تو پہلے عمال کو لکھا کہ عراق کے دو رئیسوں کو ہمارے پاس بھیجو جن کے ساتھ مترجم بھی ہوں۔1؎ پیمائش کا کام جاری ہو چکا تو پھر دس بڑے بڑے زمیندار عراق سے بلوائے اور ان کے مشورے لیے۔ 2؎ اسی طرح مصر کے انتظام کے وقت وہاں کے گورنر کو لکھاکہ مقوقس سے (جو پہلے مصر کا حاکم تھا) خراج کے معاملے میں رائے لو۔ اس پر نہ تسلی ہوئی تو ایک واقف کار قبطی کو مدینے میں طلب کیا اور اس کا اظہار لیا۔ 3؎ یہ طریقہ جس طرح عدل و انصاف کا نہایت اعلیٰ نمونہ تھا، اسی طرح انتظام کی حیثیت سے بھی مفید تھا۔ ان باتوں کے ساتھ ان اصطلاحات کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ جس کا بیان ہم بندوبست کے شروع میں کر آئے ہیں۔ ترقی زراعت: بندوبست کے ساتھ حضرت عمرؓ نے زمین کی آبادی اور زراعت کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ عام حکم دے دیا کہ تمام ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں تھیں جو شخص ان کو آباد کرے، اس کی ملک ہو جائیں گی لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی زمین کو آباد کرنے کی غرض سے اپنے قبضے میں لائے تو تین برس کے اندر آباد نہ کر لے تو زمین اس کے قبضے سے نکل جائے گی۔ اس طریقے سے افتاد زمینیں نہایت جلد آباد ہو گئیں۔ حملے کے وقت جہاں جہاں کی رعایا گھر چھوڑ کر نکل گئی تھی، ان کے لئے اشتہار دے دیا کہ واپس آ جائے اور اپنی زمینوں پر قابض ہو جائے۔ زراعت کی حفاظت اور ترقی کا حضرت عمرؓ کو جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے آ کر شکایت کی کہ شام میں میری کچھ زراعت تھی، آپ کی فوج ادھر سے گزری اور اس کو برباد کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت اس کو دس ہزار درہم معاوضے میں دلوائے۔ 4؎ محکمہ آبپاشی: تمام مالک مفتوحہ میں نہریں جاری کیں اور بند باندھنے، تالاب تیار کرائے، پانی کے تقسیم کے دہانے بنانے ، نہروں کے شعبے نکالنے، اس قسم کے کاموں کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا۔ 1؎ دیکھو مقریزی جلد اول، ص74,75 2؎ کتاب الخراج65 3؎ مقریزی جلد اول، صفحہ74,75 4؎ کتاب الخراج ص68 علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ خاص مصر میں ایک لاکھ 20ہزار مزدور روزانہ سال بھر اس کام میں لگے رہتے تھے اور یہ تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ شغوزستان اور اہواز کے اضلاع میں جزء بن معاویہ نے حضرت عمر ؓ کی اجازت سے بہت سی نہریں کھدوائیں جن کی وجہ سے بہت سی افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں۔ اسی طرح اور سینکڑوں نہریں تیار ہوئیں جن کا پتہ جستہ جستہ تاریخوں میں ملتا ہے۔ خراجی اور عشری نوعیت قبضہ کے لحاظ سے زمین کی ایک اور قسم کی یعنی خراجی اور عشری خراجی کا بیان اوپر گزر چکا۔ عشری اس زمین کا نام تھا جو مسلمانوں کے قبضے میں ہوتی تھیں اور جس کے اقسام حسب ذیل تھے: 1۔ عرب کی زمین جس کے قابضین اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے مثلاً مدینہ منورہ وغیرہ۔ 2۔ جو زمین کسی ذمی کے قبضے سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آئی تھی۔ مثلاً وہ لاوارث مر گیا یا مفرور ہو گیا یا بغاوت کی یا استعفیٰ دے دیا۔ 3۔ جو افتادہ زمین کسی حیثیت سے کسی کی ملک نہیں ہوتی تھی اور اس کو کوئی مسلمان آباد کر لیتا تھا۔ ان اقسام کی تمام زمینیں عشری کہلاتی تھیں اور چونکہ مسلمانوں سے جو کچھ لیا جاتا تھا، وہ زکوٰۃ کی مد میں داخل تھا۔ اس لئے ان زمینوں پر بجائے خراج کے زکوٰۃ مقر تھی جس کی مقدار اصل پیداوار کا دسواں حصہ ہوتا تھا۔ یہ شرح خود جناب رسول اللہ ؐ نے مقرر فرمائی تھی اور وہی حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی قائم رہی۔ حضرت عمرؓ نے اتنا کیا کہ ایران وغیرہ کی جو زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ اگر وہ ذمیوں کی قدیم نہروں یا کنوؤں سے سیراب ہوتی تھیں تو ان پر خراج مقرر کر دیا۔ چنانچہ اس قسم کی زمینیں عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کے قبضے میں تھیں اور ان سے خراج لیا جاتا تھا اور اگر خود مسلمان نئی نہر یا کنواں کھود کر اس کی آبپاشی کرتے تھے تو اس پر رعایتہ عشر مقرر کیا جاتا تھا۔2؎ مسلمانوں کے ساتھ عشر کی تخصیص اگرچہ بظاہر ایک قسم کی نا انصافی یا قومی ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اولاً تو مسلمانوں کو بمقابلہ ذمیوں کے بہت سی زائد رقمیں ادا کرنی پڑتی تھیں۔ مثلاً مویشی پر زکوٰۃ، گھوڑوں پر زکوٰۃ، روپے پر زکوٰۃ۔ حالانکہ ذمی ان محصولوں سے بالکل مستثنیٰ تھے۔ اس بناء پر خاص زمین کے معاملے میں جو نہایت اقل قلیل مسلمانوں کے قبضے میں آئی تھی، اس قسم کی رعایت بالکل مقتضائے انصاف تھی۔ دوسرے یہ کہ عشر ایک ایسی رقم تھی جو کسی حالت میں کم یا معاف نہیں ہو سکتی تھی۔ 1؎ مقریزی جلد اول، ص76 2؎ کتاب الخراج صفحہ25تا37 یہاں تک کہ خود خلیفہ یا بادشاہ معاف کرنا چاہے تو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ بخلاف اس کے خراج میں تخفیف اور معافی دونوں جائز تھیں اور وقتاً فوقتاً اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ خراج سال میں صرف ایک دفعہ لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے عشر کا یہ حال تھا کہ سال میں جتنی فصلیں ہوتی تھیں سب کی پیداوار سے الگ الگ عشر وصول کیا جاتا تھا۔ اور قسم کی آمدنیاں خراج و عشر کے سوا آمدنی کے جو اور اقسام تھے وہ حسب ذیل تھے۔ زکوٰۃ، عشور، جزیہ، مال غنیمت کا خمش۔ زکوٰۃ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص تھی اور مسلمانوں کی کسی قسم کی جائیداد یا آمدنی اس سے مستثنیٰ نہ تھی۔ یہاں تک کہ بھیڑ، بکری، اونٹ سبھی پر زکوٰۃ تھی۔ زکوٰۃ کے متعلق تمام احکام خود جناب رسول اللہ ؐ کے عہد میں مرتب ہو چکے تھے۔ گھوڑوں پر زکوٰۃ حضرت عمرؓ کے عہد میں جو اضافہ ہوا یہ تھا کہ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر ہوئی حالانکہ آنحضرت ؓ نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ فرمایا تھا لیکن اس سے عیاذ اً باللہ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت عمرؓ نے جناب رسول اللہ ؐ کی مخالفت کی۔ آنحضرتؐ نے جو الفاظ فرمائے تھے، اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں اور حضرت عمرؓ نے اسی مفہوم کو قائم رکھا۔ آنحضرتؐ کے وقت میں تجارت کے گھوڑے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے ان کے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بہرحال زکوٰۃ کی مد میں پہ ایک نئی آمدنی تھی اور اول حضرت عمرؓ ہی کے عہد میں شروع ہوئی۔ عشور: عشور، خاص حضرت عمرؓ کی ایجاد ہے جس کی ابتدا یوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ملکوں میں تجارت کے لئے جاتے تھے، ان سے وہاں کے دستور کے موافق مال تجارت پر دس فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کو اس واقعہ سے اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ ان ملکوں کے تاجر جو ہمارے ملک میں آئیں۔ ان سے بھی اسی قدر محصول لیا جائے۔ منج کے عیسائیوں نے جو اس وقت تک اسلام کے محکوم نہیں ہوئے تھے، خود حضرت عمرؓ کے پاس تحتیری درخواست بھیجی کہ ہم کو عشر ادا کرنے کی شرط پر عرب میں تجارت کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے منظور کر لیا اور پھر ذمیوں اور مسلمانوں پر بھی یہ قاعدہ جاری کر دیا گیا۔ البتہ تعداد میں تفاوت رہا یعنی حربیوں سے فیصدی 10ذمیوں سے 5 اور مسلمانوں سے ڈھائی فی صد لیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ حضرت عمرؓ نے تمام ممالک مفتوحہ میں قاعدہ جاری کر کے اس کا ایک خاص محکمہ قائم کر دیا جس سے بہت بڑی آمدنی ہو گئی۔ یہ محصول خاص تجارت کے مال پر لیا جاتا تھا اور اس کی درآمد برآمد کی میعاد سال بھر تھی یعنی تاجر ایک سال جہاں جہاں چاہے مال لے جائے۔ اس سے دوبارہ محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ بھی قاعدہ تھا کہ دو سو درہم سے کم قیمت مال پر کچھ نہیں لیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے محصلوں کو یہ بھی تاکید کر دی تھی کہ کھلی ہوئی چیزوں سے عشر لیا جائے یعنی کسی کے اسباب کی تلاشی نہ لی جائے۔ جزیہ کے متعلق پوری تفصیل آگے آئے گی۔ صیغہ عدالت محکمہ قضا یہ صیغہ بھی اسلام میں حضرت عمرؓ کی بدولت وجود میں آیا۔ ترقی تمدن کا پہلا دیباچہ یہ ہے کہ صیغہ عدالت، انتظامی صیغے سے علیحدہ قائم کیا جائے۔ دنیا میں جہاں جہاں حکومت و سلطنت کے سلسلے قائم ہوئے مدتوں کے بعد ان دونوں صیغوں میں تفریق ہوئی لیکن حضرت عمرؓ نے خلافت کے چند ہی روز بعد اس صیغے کو الگ کر دیا۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانے تک خود خلیفہ وقت اور افسران ملکی قضا کا کام بھی کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بھی ابتداء میں یہ رواج قائم رکھا اور ایسا کرنا ضرور تھا۔ حکومت کا نظم و نسق جب تک کامل نہیں ہو لیتا ہر صیغے کا اجراء رعب و داب کا محتاج رہتا ہے۔ اس لئے فصل قضا یا کا کام وہ شخص انجام نہیں دے سکتا جس کو فصل قضا یا کے سوا اور کوئی اختیار نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھا کہ جو شخص با اثر اور صاحب عظمت نہ ہو قاضی نہ مقرر کیا جائے۔ 1؎ بلکہ اسی بناء پر عبداللہ بن مسعودؓ و فصل قضایا سے روک دیا۔ ٹیکس جب انتظام کا سکہ اچھی طرح جم گیا تو حضرت عمرؓ نے قضا کا صیغہ بالکل الگ کر دیا او تمام اضلاع میں عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔ اس کے ساتھ قضا کے اصول و آئین پر ایک فرمان لکھا جو ابو موسیٰ اشعریؓ گورنر کوفہ کے نام تھا اور جس میں صیغہ عدالت کے تمام اصولی احکام درج تھے۔ 1؎ اخبار القضاۃ محمد بن خلف الوکیع۔ ہم اس کو بعینہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ 1؎ رومن امپائر کے دو از دہ گانہ قواعد2؎ جو رومیوں کے بڑے مفاخر خیال کئے جاتے ہیں اور جن کی نسبت سیسرو، روم کا مشہور لکچرار لکھتا ہے کہ یہ قوانین تمام فلاسفروں کی تصنیفات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ان دونوں کا موازنہ کر کے ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ دونوں میں سے تمدن کے وسیع اصول کا کس میں زیادہ پتہ لگتا ہے۔ قواعد عدالت کے متعلق حضرت عمرؓ کی تحریر: حضرت عمرؓ کا فرمان بعبارتھا ذیل میں درج ہے: اما بعد فان القضاء فریضۃ محکمۃ وسنۃ متبعۃ سواء بین الناس فی وجھک و مجلسک وعدلک حتیٰ لا یایس الضعیف من عدالک ولا یطمع الشریف فی حیفک البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر والصلح جایز الا صلحا احل حراما او حرم حلالا لا یمنعک قضاء قضیۃ بالامس فراجعت فیہ نفسک ان ترجع الی الحق الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک ممالم یلغک فی کتاب والسنتہ واعرف الامثال والاشباہ ثم قس الامور عند ذلک واجعل لمن ادعی بینتہ امدا ینتھی الیہ فان احضر بینۃ اخذت لہ بحقہ والا وجھت القضاء علیہ والمسلمون عدول بعضھم علی بعض الا مجلودا فی حد او مجرما فی شھادۃ زور او ظنینا فی ولاء او وراثۃ۔ 2؎ اس فرمان کو علامہ ابو اسحاق شیرازی نے طبقات الفقہاء میں اور علامہ بیہقی و مادردی و جاحظ و ابن عبدربہ اور بہت سے محدثین و مورخین نے نقل کیا ہے۔ 3؎ 451ھ قبل مسیح رومن امپائر نے یونان میں سفرا بھیجے کہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کر کے آئین اور سلطنت کے لئے ایک مستقل قانون بنائیں۔ یہ سفرا یونان گئے اور وہاں سے واپس آ کر ایک دستور العمل تیار کیا جس میں بارہ امور انتظامی پر بارہ بارہ قاعدے تھے۔ یہ تمام قواعد سیسہ کی تختی پر کندہ کئے گئے اور مدت تک رومن امپائر کا وہی شاہی قانون رہا۔ اس میں صیغہ قضا کے متعلق جو احکام تھے وہ حسب ذیل ہیں: 1۔ جب تم عدالت میں طلب کئے جاؤ تو فوراً فریق مقدمہ کے ساتھ حاضر ہو۔ 2۔ اگر مدعا علیہ انکار کرے تو تم گواہ پیش کرو تاکہ وہ جبراً حاضر کیا جائے۔ 3۔ مدعا علیہ بھاگنا چاہے تو تم اس کو پکڑ سکتے ہو۔ 4۔ مدعا علیہ بیمار یا بوڑھا ہو تو تم اس کو سواری دو ورنہ اس پر حاضری کے لئے جبر نہیں کیا جا سکتا۔ 5۔ مدعا علیہ ضامن پیش کرے تو تم اس کو چھوڑ دو۔ 6۔ دولت مند کا ضامن دولت مند ہونا چاہیے۔ 7۔ جج کو فریقین کے اتفاق سے فیصلہ کرنا چاہیے۔ 8۔ جج صبح سے دوپہر تک مقدمہ سنے گا۔ 9۔ فیصلہ دوپہر کے بعد فریقین کی حاضری میں ہو گا۔ 10۔ مغرب کے بعد عدالت بند رہے گی۔ 11۔ فریقین اگر ثالث پیش کرنا چاہیں تو اس کو ضامن دینا چاہیے۔ 12۔ جو شخص گواہ نہیں پیش کر سکتا۔ مدعا علیہ کے دروازے پر دعویٰ کو پکار کر کہے۔ یہ ہیں وہ قواعد جس کو یاد کر کے یورپ رومن امپائر پر ناز کرتا ہے۔ ’’ اللہ کی تعریف کے بعد، قضا ایک ضروری فرض ہے لوگوں کو اپنے حضور میں، اپنے مجلس میں، اپنے انصاف میں برابر رکھو تاکہ کمزور انصاف سے مایوس نہ ہو اور روادار کو تمہاری رو رعایت کی امید نہ پیدا ہو، جو شخص دعویٰ کرے اس پر بار ثبوت ہے اور جو شخص منکر ہو اس پر قسم، صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال، حرام نہ ہونے پائے۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کر سکتے ہو۔ جس مسئلے میں شبہ ہو اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو۔ اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر خیال کرو پھر قیاس لگاؤ۔ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے اس کے لئے ایک میعاد مقرر کرو، اگر وہ ثبوت دے اس کا حق دلاؤ ورنہ مقدمہ خارج۔ مسلمان سب ثقہ ہیں باستثنائے ان اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں درے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہو یا ولا اور وراثت میں مشکوک ہوں۔‘‘ اس فرمان میں قضا کے متعلق جو قانونی احکام مذکور ہیں حسب ذیل ہیں: 1۔ قاضی کو عدالتانہ حیثیت سے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہئے۔ 2۔ بار ثبوت عموماً مدعی پر ہے۔ 3۔ مدعا علیہ اگر کسی قسم کا ثبوت یا شہادت نہیں رکھتا تو اس سے قسم لی جائے گی۔ 4۔ فریقین ہر حالت میں صلح کر سکتے ہیں لیکن جو امر خلاف قانون ہے، اس میں صلح نہیں ہو سکتی ہے۔ 5 ۔ قاضی خود اپنی مرضی سے مقدمہ کے فیصل کرنے کے بعد اس میں نظر ثانی کر سکتا ہے۔ 6۔ مقدمہ کی پیشی کی ایک تاریخ معین ہونی چاہیے۔ 7۔ تاریخ معینہ پر اگر مدعا علیہ حاضر نہ ہو تو مقدمہ ایک طرفہ فیصلہ کیا جائے گا۔ 8۔ ہر مسلمان قابل ادائے شہادت ہے لیکن جو شخص سزا یافتہ ہو یا جس کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو وہ قابل شہادت نہیں۔ صیغہ قضا کی عمدگی یعنی فصل خصومات میں پورا عدل و انصاف تین باتوں پر موقوف ہے: 1۔ عمدہ اور مکمل قانون جس کے مطابق فیصلے عمل میں آئیں۔ 2۔ قابل اور متدین حکام کا انتخاب۔ 3۔ وہ اصول اور آئین جن کی وجہ سے حکام رشوت اور دیگر ناجائز وسائل کے سبب سے فصل خصومات میں رو رعایت نہ کرنے پائے۔ 4۔ آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا تاکہ مقدمات کے انفصال میں حرج نہ ہونے پائے۔ حضرت عمرؓنے ان تمام امور کا اس خوبی سے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا تھا۔ قانون کے بنانے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی ۔ اسلام کا اصلی قانون قرآن مجید موجود تھا۔ البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لئے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضروت نہیں۔ حضرت عمرؓ نے قضاۃ کو خاص طور پر اس کی ہدایت لکھی۔ قاضی شریح کو ایک فرمان میں لکھا کہ مقدمات میں اول قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو، قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہو تو حدیث اور حدیث نہ ہو تو اجماع (کثرت رائے) کے مطابق اور کہیں پتہ نہ لگے تو خود اجتہاد کرو۔1؎ حضرت عمر ؓ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ وقتاً فوقتاً حکام عدالت کو مشکل اور مہم مسائل کے متعلق فتاویٰ لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے تھے۔ آج اگر ان کو ترتیب دیا جائے تو ایک مختصر مجموعہ قانون بن سکتا ہے لیکن ہم اس موقع پر ان کا استقصا نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی چاہے تو کنز العمال اور ازالتہ الخفا ء وغیرہ سے کر سکتا ہے۔ اخبار القضاۃ میں بھی متعدد فتاویٰ مذکور ہیں۔ 1؎ کنز العمال جلد 3ص174 مسند داری میں بھی یہ فرمان تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے۔ چنانچہ اس کی اصلی عبارت یہ ہے عن شریح ان عمر بن الخطاب کتب الیہ ان جاء ک مالیس فی کتاب اللہ ولم یکن فی سنتہ رسول اللہ ولم یتکلم فیہ احد تبلک فاختر ای الامرین شئت ان شئت ان تجھد برایک ثم تقدم وان شئت تناخر فتاخر ولا اری الناخر الاخیرالک۔ قضاۃ کا انتخاب: قضاۃ کے انتخاب میں جو احتیاط اور نکتہ سنجی کی گئی، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ منتخب کئے گئے وہ اس حیثیت سے تمام عرب میں منتخب تھے۔ پائے تخت یعنی مدینہ منورہ کے قاضی زید بن ثابتؓ تھے۔ 1؎ جو رسول اللہ ؐ کے زمانے میں کاتب وحی رہے تھے۔ وہ سریانی اور عبرانی زبان کے ماہر تھے اور علوم فقہ میں سے فرائض کے فن میں تمام عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ کعب بن سور الازدی جو بصرہ کے قاضی تھے بہت بڑے معاملہ فہم اور نکتہ شناس تھے۔ امام ابن سیرینؒ نے ان کے بہت سے فیصلے اور احکام نقل کئے ہیں۔ 2؎ فلسطین کے قاضی عبادہ بن صامتؓ تھے جو منجملہ ان پانچ شخصوں کے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ؐ کے عہد میں تمام قرآن حفظ کیا تھا اور اسی وجہ سے آنحضرت ؐ نے ان کو اہل صفہ کی تعلیم سپرد کی تھی۔ حضرت عمرؓ ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جب امیر معاویہ ؓ نے ان کے ساتھ ایک موقع پر مخالفت کی تو حضرت عمرؓ نے ان کو امیر معاویہؓ کی ماتحتی سے الگ کر لیا۔ 3؎ حضرت عمرؓ کے زمانہ کے حکام عدالت: کوفہ کے قاضی عبداللہ بن مسعودؓ تھے جن کا فضل و کمال محتاج بیان نہیں۔ فقہ حنفی کے مورث اول وہی ہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ کے بعد19ھ میں قاضی شریح مقرر ہوئے۔ وہ اگرچہ صحابہ میں سے نہ تھے لیکن اس قدر ذہین اور معاملہ فہم تھے کہ تمام عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ چنانچہ ان کا نام آج تک مثال کے طور پر لیا جاتا تھا۔ حضرت علیؓ ان کو اقصی العرب کہا کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے سوا جمیل بن معمر الجمعی، ابو مریم الحنفی، سلمان بن ربیعتہ الباہلی، عبدالرحمن بن ربیعتہ، ابو قرۃ الکندی، عمران بن الحصین، جو حضرت عمرؓکے زمانے کے قضاۃ ہیں، ان کی عظمت و جلالت شان، رجال کی کتابوں سے معلوم ہو سکتی ہے۔ قضاۃ کا امتحان کے بعد مقرر ہونا: قاضی اگرچہ حاکم صوبہ یا حاکم ضلع کا ماتحت ہوتا تھا اور ان لوگوں کو قضاۃ کے تقرر کا پورا اختیار حاصل تھا، تاہم حضرت عمرؓ زیادہ احتیاط کے لحاظ سے اکثر خود لوگوں کا انتخاب کر کے بھیجتے تھے۔ انتخاب کے لئے اگرچہ خود امیدواروں کی شہرت کافی تھی لیکن حضرت عمرؓ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر عملی امتحان اور ذاتی تجربہ کے بعد لوگوں کا انتخاب کرتے تھے۔ 1؎ اخبار القضاۃ میں ہے ان عمر استعمل زید ا علی القضاء و فرض لہ رزقا 2؎ دیکھو اسد الغابہ فی احوال الصحابہ استعیاب قاضی بن عبدالبر تذکرہ کعب بن سور الازدی 3؎ استیعاب قاضی عبدالبر قاضی شریح کی تقری کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص سے پسند کی شرائط پر ایک گھوڑا خریدا اور امتحان کے لئے ایک سوار کو دیا۔ گھوڑا سواری میں چوٹ کھا کر داغی ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کرنا چاہا، گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ اس پر نزاع ہوئی اور شریح ثالت مقرر کئے گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ حق یہی ہے اور اسی وقت شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ 1؎ کعب بن سور الازدی کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ گزرا۔ رشوت سے محفوظ رکھنے کے وسائل: ناجائز وسائل آمدنی کے روکنے کے لئے بہت سی بندشیں کیں: 1۔ تنخواہیں بیش قرار مقرر کیں کہ بالائی رقم کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً سلمان ربیعہ اور قاضی شریح کی تنخواہ پانچ پانچ سو درہم ماہوار تھی۔ 2؎ اور یہ تعداد اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے بالکل کافی تھی۔ 2؎ قاعدہ مقرر کیا کہ جو شخص دولت مند اور معزز نہ ہو قاضی مقرر نہ ہونے پائے۔ ابو موسیٰ اشعریؓ گورنر کوفہ کو جو فرمان لکھا اس میں اس قاعدے کی وجہ یہ لکھی کہ دولت مند رشوت کی طرف راغب نہ ہو گا اور معزز آدمی پر فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب و داب کا اثر نہ ہو گا۔ 3؎ ان باتوں کے ساتھ کسی قاضی کو تجارت اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی اور یہ وہ اصول ہے جو مدتوں کے تجربے کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کیا گیا ہے۔ انصاف میں مساوات: عدالت و انصاف کا ایک بڑا لازمہ عام مساوات کا لحاظ ہے یعنی ایوان عدالت میں شاہ گدا، امیر و غریب، شریف و رذیل سب ہم رتبہ سمجھے جائیں۔ حضرت عمرؓ کو اس کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کے تجربہ اور امتحان کے لئے متعدد دفعہ خود عدالت میں فریق مقدمہ بن کر گئے۔ ایک دفعہ ان میں اورابی بن کعب ؓ میں کچھ نزاع تھی۔ ابی ؓ نے زید بن ثابتؓ کے ہاں مقدمہ دائر کیا۔ حضرت عمرؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے۔ زیدؓ نے تعظیم دی۔ 1؎ کتاب الاوائل الباب السابع ذکر القضاۃ 2؎ فتح القدیر حاشیہ ہدایہ جلد3، ص247 3؎ اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوکیع۔ کرابیؓ کے برابر بیٹھ گئے۔ زیدؓکے پاس کوئی ثبوت نہ تھا اور حضرت عمرؓ کو دعویٰ سے انکار تھا ابیؓ نے قاعدے کے موافق حضرت عمرؓ سے قسم لینی چاہی لیکن زیدؓ نے ان کے رتبے کا پاس کر کے ابی ؓ سے درخواست کی کہ امیر المومنین کو قسم سے معاف رکھو۔ حضرت عمرؓ اس طرف داری پر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ زیدؓ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ جب تک تمہارے نزدیک ایک عام آدمی اور عمر دونوں برابر نہ ہوں، تم منصب قضا کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔‘‘ قضاۃ اور ان کی کارروائیوں کے متعلق حضرت عمرؓ نے جس قسم کے اصول اختیار کئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کے عہد خلافت میں بلکہ بنو امیہ کے دور تک عموماً قضاۃ، ظلم و نا انصافی کے الزام سے پاک رہے۔علامہ ابو ہلال عسکری نے کتاب الاوائل میں لکھا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس قاضی نے خلاف انصاف عمل کیا وہ بلال بن ابی برو تھے (یہ بنو امیہ کے زمانے میں تھے) آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا: آبادی کے لحاظ قضاۃ کی تعداد کافی تھی کیونکہ کوئی ضلع قاضی سے خالی نہیں تھا اور چونکہ غیر مذہب والوں کو اجازت تھی کہ آپس کے مقدمات بطور خود فیصل کر لیا کریں۔ اس لئے اسلامی عدالتوں میں ان کے مقدمات کم آتے تھے اور اس بناء پر ہر ضلع میں ایک قاضی کا ہونا بہرحال کافی تھا۔ ماہر فن کی شہادت: صیغہ قضا اور خصوصاً اصول شہادت کے متعلق حضرت عمرؓ نے جو نادر باتیں ایجاد کیں اور جن کا بیان ان کے اجتہادات کے ذکر میں آئے گا، ان میں ایک ماہرین فن کی شہادت تھی یعنی جو امر کسی خاص فن سے تعلق رکھتاتھا، اس میں خاص اس فن کے ماہر کا اظہار لیا جاتا تھا۔ مثلاً حطیہ نے زبرقان بن بدر کی ہجو میں ایک شعر کہا، جس سے صاف طور پر ہجو ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ زبرقان نے حضرت عمرؓ کے ہاں مقدمہ درج کیا۔ چونکہ یہ شعر و شاعری کا معاملہ تھا اور شاعرانہ اصطلاحیں اور طرز ادا عام بول چال سے الگ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے حسان بن ثابتؓ کو جو بہت بڑے شاعر تھے بلا کر پوچھا اور ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا۔ اسی طرح اشتباہ نسب کی صورت میں حلیہ شناسوں کے اظہار کے لئے۔ چنانچہ کنز العمال باب القذف میں اس قسم کے بہت سے مقدمات مذکور ہیں۔ فصل خصومات کے متعلق اگرچہ حضرت عمرؓ نے بہت سے آئین و اصول مقرر کئے لیکن یہ سب وہیں تک تھا جہاں تک انصاف کی ارزانی اور آسانی میں کوئی خلل نہیں پڑ سکتا تھا۔ ورنہ سب سے مقدم ان کو جس چیز کا لحاظ تھا وہ انصاف کا ارزاں اور آسان ہونا تھا۔ آج کل مہذب ملکوں نے انصاف اور داد رسی کو ایسی قیود میں جکڑ دیا ہے کہ داد خواہوں کو دعویٰ سے با ز آنا اس کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے لیکن حضرت عمرؓ کے اصول اور آئین اس قدر سہل اور آسان تھے کہ انصاف کے حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہو سکتی تھی اور حضرت عمر کو خاص اس بات کا ہمیشہ لحاظ رہتا تھا۔ عدالت کا مکان: یہی مصلحت تھی کہ عدالت کے لئے خاص عمارتیں نہیں بنوائیں بلکہ مسجدوں پر اکتفا کیا کیونکہ مسجد کے مفہوم میں جو تعمیر اور اجازت عام تھی وہ اور کسی عمارت میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ مقدمات کے رجوع کرنے میں کوئی صرف برداشت کرنا نہیں پڑتا تھا۔ عدالت کے دروازے پر کسی قسم کی روک ٹوک نہ تھی۔ تمام قضاۃ کو تاکید تھی کہ جب کوئی غریب اور مبتذل شخص مقدمہ کا فریق بن کر آئے تو اس سے نرمی اور کشادہ روئی سے پیش آئیں تاکہ اظہار مدعا میں اس پر مطلق خوف کا اثر نہ ہو۔ افتاء عدالت کے متعلق یہ ایک نہایت ضروری صیغہ ہے جو آغاز اسلام میں قائم ہوا اور جس کی مثال اسلام کے سوا اور کہیں پائی نہیں جاتی۔ قانون کے جو مقدم اصول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر شخص کی نسبت یہ فرض کرنا چاہئے کہ قانون سے واقف ہے یعنی مثلاً اگر کوئی شخص کوئی جرم کرے تو اس کا یہ عزر کام نہیں آ سکتا کہ وہ اس فعل کا جرم ہونا نہیں جانتا تھا یہ قاعدہ تمام دنیا میں مسلم ہے اور حال کے ترقی یافتہ ملکوں نے اس پر زیادہ زور دیا ہے۔ بے شبہ یہ قاعدہ صحیح ہے لیکن تعجب یہ ہے کہ اور قوموں نے اس کے لئے کسی قسم کی تدبیر اختیار نہیں کی۔ یورپ میں تعلیم اس قدر عام ہو چکی ہے لیکن اس درجے کو نہیں پہنچ سکی اور نہ پہنچ سکتی ہے کہ ہر شخص قانون دان بن جائے۔ کوئی جاہل شخص قانون کا کوئی مسئلہ جاننا چاہے تو اس کے لئے کوئی تدبیر نہیں لیکن اسلام میں اس کا ایک خاص محکمہ تھا جس کا نام محکمہ افتاء تھا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ نہائت لائق قانون دان یعنی فقہا ہر جگہ موجود رہتے تھے اور جو شخص کوئی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا تھا ان سے دریافت کر سکتا تھا ان پر فرض تھا کہ نہایت تحقیق کے ساتھ ان مسائل کو بتائیں۔ اس صورت میں گویا ہر شخص جب چاہے قانون کے مسائل سے واقف ہو سکتا تھا اور اس لئے کوئی شخص یہ عذر نہیں کر سکتا تھا کہ وہ قانون کے مسئلے سے ناواقف تھا۔ یہ طریقہ آغاز اسلام میں خود بخود پیدا ہوا اور اب تک قائم ہے۔ لیکن حضرت عمرؓ کے عہد میں جس پابندی کے ساتھ اس پر عمل رہا، زمانہ مابعد ان سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بھی نہیں رہا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے کے مفتی: اس طریقے کے لئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عام اجازت نہ ہو بلکہ خاص خاص قابل لوگ افتاء کے لئے نامزد کر دئیے جائیں تاکہ ہر کس و ناکس غلط مسائل کی ترویج نہ کر سکے۔ حضرت عمرؓ نے اس تخصیص کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ جن لوگوں کو انہوں نے افتاء کی اجازت دی مثلاً حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، معاذ بن جبلؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، ابی بن کعب، زید بن ثابتؓ، ابو ہریرہؓ، ابو دردائؓ وغیرہ وغیرہ رضی اللہ عنہم کے سوا اور لوگ فتویٰ دینے کے مجاز نہ تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب ازالتہ الخفاء صفحہ 130میں لکھتے ہیں: سابق وعظ و فتوے موقوف بود بررائے خلیفہ بدون امر خلیفہ وعظ نمی گفتند و فتوے نمی داوند و آخر بغیر توقف بررائے خلیفہ وعظ می گفتند و فتویٰ می دادند۔ 1؎ تاریخوں میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جن لوگوں کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی، انہوں نے فتوے دئیے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کر دیا۔ چنانچہ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ بھی یہ واقعہ گزرا۔ 2؎ بلکہ ان کو یہاں تک احتیاط تھی کہ مقرر شدہ مفتیوں کی بھی جانچ کرتے رہتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے بارہا پوچھا کہ تم نے اس مسئلے میں کیا فتویٰ دیا؟ اور انہوں نے اپنا جواب بیان کیا تو فرمایا کہ تم اس مسئلے کا اور کچھ جواب دیتے تو آئندہ تم کبھی فتویٰ کے مجاز نہ ہوتے۔ دوسرا امر جو اس طریقے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ مفتیوں کے نام کا اعلان کر دیا جائے۔ اس وقت گزٹ اور اخبار تو نہ تھے لیکن مجالس عامہ میں جن سے بڑھ کر اعلان عام کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے بارہا اس کا اعلان کیا۔ شام کے سفر میں بمقاب جابیہ بے شمار آدمیوں کے سامنے جومشہور خطبہ پڑھا اس میں یہ الفاظ بھی فرمائے: من اراد القرآن فلیات ابیا ومن اراد ان یسال القرایض فلیات زیدا ومن اراد ان یسال عن الفقہ فلیات معاذا ’’ یعنی جو شخص قرآن سیکھنا چاہے تو ابی بن کعب کے پاس اور فرائض کے متعلق کچھ پوچھنا چاہے تو زید کے پاس اور فقہ کے متعلق پوچھنا چاہے تو معاذ کے پاس جائے۔‘‘ 1؎ کتاب مذکور ص130 2؎ مسند واری واز التہ الخفاء صفحہ130 ٭٭٭ فوجداری اور پولیس جہاں تک ہم تحقیق کر سکے، مقدمات فوجداری کے لئے حضرت عمرؓ نے کوئی جدا محکمہ قائم نہیں کیا۔ بعض قسم کے مقدمات مثلاً زنا اور سرقہ، قضاۃ کے فیصل ہوتے تھے اور ابتدائی قسم کی تمام کارروائیاں پولیس سے متعلق تھیں۔ پولیس کا صیغہ مستقل طور پر قائم ہو گیا تھا اور اس وقت اس کا نام احداث تھا۔ چنانچہ افسر پولیس کو صاحب الاحداث کہتے تھے۔ بحرین پر حضرت عمرؓ نے قدامہ بن مظعون ؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کو مقرر کیا۔ قدامہؓ کو تحصیل مال گزاری کی خدمت دی اور حضرت ابوہریرہؓ کو تصریح کے ساتھ پولیس کے اختیارات دئیے۔ احتساب کے متعلق جو کام ہیں مثلاً دکاندار ترازو میں دھوکا نہ دینے پائیں، کوئی شخص سڑک پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام امور کا کافی انتظام تھا اور اس کے لئے ہر جگہ اہلکار اور افسر مقرر تھے لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ احتساب کا مستقل صیغہ قائم ہو گیا تھا یا یہ خدمتیں بھی صاحب الاحداث سے متعلق تھیں۔ کنز العمال میں، جہاں بن سعد کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے بازار کی نگرانی کے لئے عبداللہ بن عتبہ کو مقرر کیا تھا وہاں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کا یہ فعل عہدہ احتساب کا ماخذ ہے۔ جیل خانے کی ایجاد: اس صیغے میں حضرت عمرؓ کی ایک ایجاد یہ ہے کہ جیل خانے بنوائے، ورنہ ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر ؓ نے اول مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدا اور اس کو جیل خانہ بنایا ۔ 1؎ پھر اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے۔ علامہ بلاذری کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کا جیل خانہ نرسل سے بنا تھا۔ 2؎ اس وقت تک صرف مجرم قید خانے میں رکھے جاتے تھے لیکن دور خلافت کے بعد قاضی شریح مدیونوں کو بھی قید کی سزا دیتے تھے اور جیل خانے میں بھجواتے تھے۔ جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں بھی تبدیلی ہوئی۔ مثلاً ابو محجن ثقفی بار بار شراب پینے کے جرام میں ماخوذ ہوئے تو اخیر دفعہ حضرت عمرؓ نے ان کو حد کی بجائے قید کی سزا دی۔ 1؎ مقریزی جلد دوم، صفحہ187 2؎ فتوح البلدان : صفحہ463 جلا وطنی کی سزا: جلا وطنی کی سزا بھی حضرت عمرؓ کی ایجاد ہے۔ چنانچہ ابو محجن کو حضرت عمرؓ نے یہ سزا بھی دی تھی اور ایک جزیرہ میں بھیج دیا تھا۔ 1؎ بیت المال (یا) خزانہ بیت المال پہلے نہ تھا یہ صیغہ بھی حضرت عمرؓ کی ذات سے وجود میں آیا۔ آنحضرت ؐ کے زمانے میں سب سے اخیر جو رقم وصول ہوئی وہ بحرین کا خراج تھا جس کی تعداد آٹھ لاکھ درہم تھی لیکن آنحضرت ؐ نے یہ کل رقم ایک ہی جلسہ میں تقسیم کر دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنی خلافت میں کوئی خزانہ قائم نہیں کیا بلکہ جو کچھ غنیمت کا مال آیا اسی وقت لوگوں کو بانٹ دیا۔ چنانچہ پہلے سال دس دس درہم اور دوسرے سال بیس بیس درہم ایک ایک شخص کے حصے میں آئے۔ یہ الاوائل اور ابن سعد کی روایت ہے۔ ابن سعد کی ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک مکان بیت المال کے لئے خاص کر لیا تھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا کیونکہ جو کچھ آتا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا اور اس کی نوبت نہیں پہنچتی تھی کہ خزانے میں کچھ داخل کیا جائے۔ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرفا یک درہم نکلا۔ بیت المال کس سنہ میں قائم ہوا؟ تقریباً15ھ میں حضرت ابو ہریرہؓ کو حضرت عمرؓ نے بحرین کا عامل مقرر کی۔ دو سال تمام میں پانچ لاکھ کی رقم اپنے ساتھ لائے۔ حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ کا اجلاس عام کر کے کہا کہ ایک رقم کثیر بحرین سے آئی ہے۔ آپ لوگوں کی کیا مرضی ہے؟ حضرت علیؓ نے رائے دی کہ جو رقم آئے وہ سال کے سال تقسیم کر دی جائے اور خزانے میں جمع نہ رکھی جائے۔ حضرت عثمانؓ نے اس کے خلاف رائے دی۔ ولید بن ہشام نے کہا میں نے سلاطین شام کے ہاں دیکھا ہے کہ خزانہ اور دفتر کا جدا جدا محکمہ قائم ہے۔ 2؎ 1؎ اسد الغابہ ذکر ابو محجن ثقفی 2؎ فتوح البلدان: از صفحہ248تا461 آج کل کا زمانہ ہوتا تو غیر مذہب والوں کے نام سے اجتناب کیا جاتا لیکن حضرت عمرؓ نے اس رائے کو پسند کیا اور بیت المال کی بنیاد ڈالی۔ سب سے پہلے دار الخلافہ یعنی مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا اور چونکہ اس کی نگرانی اور حساب و کتاب کے لئے نہایت قابل اور دیانت دار آدمی کی ضرورت تھی۔ بیت المال کے افسرـ: عبداللہ بن ارقمؓ کو جو نہایت معزز صحابی تھے اور لکھنے پڑھنے میں کمال رکھتے تھے، خزانہ کا افسر مقرر کیا۔ اس کے ساتھ اور لائق لوگ ان کے ماتحت مقرر کئے جن میں سے عبدالرحمن بن عبید القاری اور معیقب ؓ بھی تھے۔ 1؎ معیقب ؓ کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ رسول اللہ ؐ کے انگشتری بردار تھے اور اس وجہ سے ان کی دیانت اور امانت ہر طرح پر قطعی اور مسلم الثبوت تھی۔ دار الخلافہ کے علاوہ تمام صوبہ جات اور صدر مقامات میں بیت المال قائم کئے اور اگرچہ وہاں کے اعلیٰ حکام کو ان کے متعلق ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے لیکن بیت المال کا محکمہ بالکل الگ ہوتا تھا اور اس کے افسر جداگانہ ہوتے تھے۔ مثلاً اصفہان میں خالد بن حرث اور کوفہ بن عبداللہ بن مسعودؓ خاص خزانہ کے افسر تھے۔ بیت المال کی عمارتیں: حضرت عمرؓ اگرچہ تعمیر کے باب میں نہایت کفایت شعاری کرتے تھے لیکن بیت المال کی عمارتیں مستحکم اور شاندار بنوائیں۔ کوفہ میں بیت المال کے لئے اول ایک محل تعمیر ہوا جس کو روز بہ ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اور جس کا مصالحہ خسروان فارس کی عمارت سے آیا تھا لیکن جب اس میں نقب کے ذریعے سے چوری ہوئی تو حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ مسجد کی عمارت بیت المال سے ملا دی جائے کیونکہ مسجد نمازیوں کی وجہ سے ہمیشہ آباد رہے گی اور ہر وقت لوگوں کا مجمع رہے گا۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاصؓ کے حکم سے روزبہ نے بیت المال کی عمارت کو اس قدر وسیع کیا کہ مسجد سے مل گئی اور اس طرح چوری وغیرہ کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ 2؎ 1؎ کتب رجال میں معیقب ؓ کا تذکرہ دیکھو۔ 2؎ یہ تمام تفصیل تاریخ طبری ذکر آبادی کوفہ میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ مابعد میں زیادہ احتیاط کے لحاظ سے خزانے پر سپاہیوں کا پہرہ بھی رہنے لگا تھا۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب طلحہ و زبیرؓ حضرت علیؓ سے باغی ہو کر بصرہ میں آئے اور خزانے پر قبضہ کرنا چاہا تو سیابحہ کے 40سپاہی خزانے کے پہرے پر متعین تھے اور انہوں نے طلحہ اور زبیرؓ کے ارادے کی مزاحمت کی۔ سیابحہ کی نسبت اسی مورخ نے تصریح کی ہے کہ وہ سندھ سے گرفتار ہو کر آئے تھے اور ایرانیوں کی فوج میں داخل تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب ایران فتح ہوا تو یہ قوم مسلمان ہو گئی اور ابو موسیٰؓ نے ان کو بصرہ میں آباد کرایا۔1؎ صوبہ جات اور اضلاع میں جو خزانے تھے ان کا یہ انتظام تھا کہ جس قدر رقم وہاں کے ہر قسم کے مصارف کے لئے ضروری ہوتی تھی رکھ لی جاتی تھی۔ باقی سال کے ختم ہونے کے بعد صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی۔ چنانچہ اس کے متعلق عمال کے نام حضرت عمرؓ کے تاکیدی احکام آتے رہتے تھے۔ 2؎ جو رقم دار الخلافہ کے خزانہ میں رہتی تھی یہ دریافت کرنا مشکل ہے کہ ہر جگہ کے خزانے میں کس قدر رقم محفوظ رہتی تھی۔ مورخ یعقوبی کی تصریح سے اس قدر معلوم ہوا کہ دار الخلافہ کے خزانے سے خاص دار الخلافہ کے باشندوں کو جو تنخواہیں اور وظائف وغیرہ مقرر تھے اس کی تعداد تین کروڑ سالانہ تھی۔ بیت المال کی حفاظت اور نگرانی میں حضرت عمرؓ کو جو اہتمام تھا اس کے متعلق تاریخوں میں بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن کی تفصیل ہم نظر انداز کرتے ہیں۔ پبلک ورک یا نظارت نافعہ یہ صیغہ مستقل حیثیت سے زمانہ حال کی ایجاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اس کے لئے کوئی اصطلاحی لفظ نہیں۔ مصر و شام میں اس کا ترجمہ نظارت نافعہ کیا گیا ہے۔ اس صیغے میں مفصلہ ذیل چیزیں داخل ہیں۔ 1؎ فتوح البلدان ص373 تا376 2؎ (عمرو بن العاصؓ نے گورنر مصر کو جو فرمان لکھا تھا اس میں یہ الفاظ تھے فاذا حصل الیل و جمعتہ اخرجت عطاء المسلمین وما یحتاج الیہ مما لا بدمنہ ثم انظر فیما فضل بعد ذلک فاحملہ الی کنز العمال بحوالہ ابن سعد جلد3، ص163 سرکاری عمارات، نہریں، سڑکیں، پل، شفاخانے وغیرہ کے لئے حضرت عمرؓ کے زمانے میں کوئی مستقل صیغہ قائم نہیں ہوا تھا۔ لیکن شفاخانوں کے سوا اس صیغے کے متعلق اور جتنی چیزیں ہیں سب موجود تھیں اور نہایت منتظم اور وسیع طور پر تھیں۔ زراعت کی ترقی کے لئے حضرت عمرؓ نے جس قدر نہریں تیار کرائیں ان کا مختصر حال ہم صیغہ محاصل کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔یہاں ان نہروں کا ذکر کرتے ہیں جو زراعت کے صیغہ سے مخصوص نہ تھیں۔ حضرت عمرؓ نے جو نہریں تیار کرائیں نہرابی موسیؓ یہ نہر 9میل لمبی تھی جس کی تیاری کی تاریخ یہ ہے کہ ایک دفعہ بصرہ کے لوگ ڈپوٹیشن کے طور پر حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے معمول کے موافق ایک ایک سے حالات پوچھے۔ ان میں حنیف بن قیس بھی تھے۔ انہوں نے نہایت پر اثر تقریر میں جو کتابوں میں بالفاظہا منقول ہے، اس بات کی شکایت کی کہ بصرہ بالکل شارستان ہے اور پانی 6 میل سے لانا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے نام اس مضمون کا تحریری حکم بھیجا کہ بصرہ کے لوگوں کے لئے نہر کھدوا دی جائے۔ چنانچہ دجلہ سے 9میل لمبی نہر کاٹ کر بصرہ میں لائی گئی جس کے ذریعے سے گھر گھر پانی کی افراط ہو گئی۔ 1؎ نہر معقل یہ ایک مشہور نہر ہے جس کی نسبت عربی میں یہ مثل مشہور ہے: ’’ اذا جاء نہر اللہ بطل نہر مقعل‘‘ یہ نہر بھی دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی تھی اور چونکہ اس کی تیاری کا اہتمام معقل بن یسار ؓ کو سپرد کیا گیا تھا جو ایک مقدس صحابی تھے اس لئے انہی کے نام سے مشہور ہو گئی۔ نہر سعدؓ اس نہر کے لئے انبار والوں نے پہلے شہنشاہ فارس سے درخواست کی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو ان لوگوں نے سعد بن ابی وقاصؓ (گورنر کوفہ) سے خواہش ظاہر کی۔ سعدؓ نے سعد بن عمر کو مامور کیا۔ 1؎ فتوح البلدان ص356,357 میں اس کا حال تفصیل سے لکھا ہے۔ جغرافیہ بشاری میں بھی اس کا ذکر ہے۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے کام لگایا لیکن کچھ دور تک پہنچ کر ایک پہاڑ بیچ میں آ گیا اور وہیں چھوڑ دی گئی، پھر حجاج نے اپنے زمانے میں پہاڑ کاٹ کر بقیہ کام پورا کیا تاہم نہر سعد ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔ نہر امیر المومنین سب سے بڑی اور فائدہ رسان نہر جو حضرت عمرؓ کے خاص حکم سے بنی وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہے اور جس کے ذریعے سے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا تھا۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ 18 ھ میں جب تمام عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمرؓ نے تمام اضلاع کے حکام کو لکھا کہ ہر جگہ سے کثرت کے ساتھ غلہ اور اناج روانہ کیا جائے۔ اگرچہ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی لیکن شام اور مصر سے خشکی کا جو راستہ تھا بہت دور دراز تھا۔ اس لئے غلہ کے بھیجنے میں پھر بھی دیر لگی۔ حضرت عمرؓ نے ان دقتوں پر خیال کر کے عمرو بن العاصؓ (گورنر مصر) کو لکھا کہ مصر کے باشندوں کی ایک جماعت ساتھ لے کر دار الخلافہ میں حاضر ہو۔ جب وہ آئے تو فرمایا کہ دریائے نیل اگر سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب میں قحط و گرانی کا کبھی اندیشہ نہ ہو گا، ورنہ خشکی کی راہ غلہ کا آنا دقت سے خالی نہیں۔ عمروؓ نے واپس جا کر کام شروع کیا۔ اور فسطاط سے (جو قاہرہ سے دس بارہ میل ہے) بحر قلزم تک نہر تیارکرائی۔ اس ذریعے سے دریائے نیل جو فسطاط کے نیچے بہتا ہے بحر قلزم میں مل گیا۔ جہازات نیل سے چل کر قلزم میں آتے تھے اور یہاں سے جار پہنچ کر لنگر کرتے تھے جو مدینہ منورہ کی بندرگاہ تھی۔ یہ نہر تقریباً69میل لمبی تھی اور تعجب یہ ہے کہ چھ مہینے میں بن کر تیار ہو گئی ۔ چنانچہ پہلے ہی سال 20بڑے بڑے جہاز جن میں ساٹھ ہزار اردب غلہ بھرا ہوا تھا، اس نہر کے ذریعے سے مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں آئے۔ یہ نہر مدتوں تک جاری رہی اور اس کے ذریعے سے مصر کی تجارت کو نہایت ترقی ہوئی۔ عمر بن عبدالعزیز کے بعد عمالوں نے بے پروائی کی اور وہ جا بجا سے اٹ گئی۔ یہاں تک کہ مقام ذنب المساح تک آ کر بالکل بند ہو گئی۔ سنہ 105ھ میں منصور عباسی نے ایک ذاتی مصلحت سے اس کو بند کر دیا لیکن بعد کو پھر جاری ہو گئی اور مدتوں تک جاری رہی۔ 1؎ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ عمرو بن العاصؓ نے بحر روم و بحر قلزم کو براہ راست ملا دینے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لئے موقع اور جگہ کی تجویز بھی کر لی تھی اور چاہا تھا کے فرما کے پاس سے جہاں سے بحر روم و بحر قلزم میں صرف70میل کا فاصلہ رہ جاتا ہے نہر نکال کر دونوں دریاؤں کو ملا دیا جائے لیکن حضرت عمرؓ کو جب ان کے ارادے سے اطلاع ہوئی تو نارضامندی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو یونانی جہازوں میں آ کر حاجیوں کو اڑا لے جائیں گے۔ 2؎ اگر عمرو بن العاصؓ کو اجازت ملی ہوتی تو نہر سویز کی ایجاد کا فخر در حقیقت عرب کے حصے میں آتا۔ 1؎ یہ تفصیل حسن المحاضرہ سیوطی ص93,94 و مقریزی جلد اول ص71 و جلد دوم ص139 تا144میں ہے۔ 2؎ تقویم البلدان ابو الفداء ص106 حضرت عمرؓ نے جو عمارتیں تیار کرائیں: عمارات جو حضرت عمرؓ نے تعمیر کرائیں تین قسم کی ہیں: 1۔ مذہبی جیسے مساجد وغیرہ ان کابیان تفصیل کے ساتھ مذہبی صیغے میں آئے گا، یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ بقول صاحب روضتہ الاحباب چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ 2۔ فوجی، جیسے قلعے، چھاؤنیا، بارکیں ان کا بیان فوجی انتظامات کے بیان میں آئے گا۔ 3۔ ملکی مثلاً دار الامارۃ وغیرہ۔ اس قسم کی عمارتوں کے تفصیلی حالات معلوم نہیں لیکن ان کی اقسام کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ دار الامارۃ 1۔ دار الامارۃ:یعنی صوبہ جات اور اضلاع کے حکام جہاں قیام رکھتے تھے اور جہاں ان کا دفتر رہتا تھا۔ کوفہ و بصرہ کے دار الامارۃ کا حال طبری و بلاذری نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ 2۔ دیوان۔ یعنی جہاں دفتر کے کاغذات رہتے تھے فوج کا دفتر بھی اسی مکان میں رہتا تھا۔ 3۔ بیت المال: یعنی خزانے کا کان، یہ عمارت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھی۔ کوفہ کے بیت المال کا ذکر بیت المال کے حال میں گزر چکا۔ قید خانے: 4۔قید خانے: مدینہ منورہ کے قید خانے کا حال صیغہ پولیس کے بیان میں گزر چکا۔ بصرہ میں جو قید خانہ تھا وہ دار الامارۃ کی عمارت میں شامل تھا۔ 1؎ مہمان خانے 5۔ مہمان خانے: یہ مکانات اس لئے تعمیر کئے گئے تھے کہ باہر والے جو دو جار روز کے لئے شہر میں آ جاتے تھے وہ ان مکانات میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا اس کی نسبت علامہ بلاذری نے لکھا ہے: امر عمران یتخذ لمن یرد من الافاق دارافکانوا ینزلونھا1؎ مدینہ منورہ کا مہمان خانہ سنہ 17ھ میں تعمیر ہوا۔ چنانچہ ابن حبان نے کتاب الثقات میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ 1؎ فتوح البلدان ص347 2؎ فتوح البلدان ص278 اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ عمارتوں کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ بڑی شان و شوکت کی ہوتی تھیں۔ اسلام فضول تکلفات کی اجازت نہیں دیتا۔ زمانہ مابعد میں جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن اس وقت تک اسلام بالکل اپنی سادہ اور اصلی صورت میں تھا اور حضرت عمرؓ کو نہایت اہتمام تھا کہ یہ سادگی جانے نہ پائے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک بیت المال پر حاکم وقت کو آزادانہ اختیارات حاصل نہ تھے۔ بیت المال تمام قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس کا اصلی مصرف یہ سمجھتے تھے کہ چونہ پتھر کے بجائے زیادہ تر آدمیوں کے کام آئے۔ یہ خیال مدتوں تک رہا اور اسی کا اثر تھا کہ جب ولید بن عبدالملک نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک رقم کثیر صرف کر دی تو عام ناراضگی پھیل گئی اور لوگوں نے علانیہ کہا کہ بیت المال کے روپے کا یہ مصرف نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عمرؓ کے زمانے میں جو عمارتیں بنیں وہ عموماً اینٹ اور گارے کی تھیں۔ بصرہ کا ایوان حکومت بھی اسی حیثیت کا تھا۔ 1؎ البتہ فوجی عمارتیں نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھیں۔ سڑکوں اور پلوں کا انتظام: سڑکوں اور پلوں کا انتظام اگرچہ نہایت عمدہ تھا لیکن براہ راست حکومت کے اہتمام میں نہیں تھا۔ مفتوحہ قوموں سے جو معاہدہ ہوتا تھا، اس میں یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ وہ سڑک اور پل وغیرہ اپنے اہتمام اور اپنے صرف سے بنوائے گی۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے شام فتح کیا تو شرائط صلح میں یہ امر بھی داخل تھا۔ 2؎ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں: مکہ معظمہ اگرچہ مدتوں سے قبلہ گاہ خلائق تھا لیکن اس کے راستے بالکل ویران اور بے آب تھے۔ حضرت عمرؓ سنہ17ھ میں جب مکہ مکرمہ گئے تو ان کی اجازت سے مدینہ سے لے کر مکہ تک ہر ہر منزل پر چوکیاں اور سرائیں اور چشمے تیار ہوئے۔ 3؎ شاہ ولی اللہ صاحب ازالتہ الخفاء میں لکھتے ہیں۔ ’’ اذاں جملہ آنکہ سالے بقصد عمرہ بہ مکہ محترمہ توجہ فرمود و نزدیک مراجعت امر فرمود تادر منازلے کہ مابین حرمین واقع اندسایھا وبنا ھھا سازند و ھرچا ھیکہ ائپاشتہ شدہ باشدآں را پاک کنند و صاف نمائند و در منازل کم آب چاھھا راکنند تابر حجاج باستراحت تمام قطع مراحل میسر شود۔‘‘ 1؎ فتوح البلدان ص347 2؎ کتاب الخراج ص80میں ہے۔ علی ان علیھم ارشاد انصال و بناء القناطر علی الانھار من اموالھم تاریخ طبری واقعات16ھ میں ص2470میں سڑک اور پل دونوں کا ذکر ہے۔ 3؎ طبری صفحہ 2529 و بلاذری ص53 شہروں کا آباد کرنا حضرت عمرؓ کے زمانے میں جو جو شہر آباد ہوئے وہ جن ضرورتوں سے آباد ہوئے اور جو خصوصیتیں ان میں پیدا کی گئیں ان کے لحاظ سے ہر شہر، تاریخ اسلام کا ایک صفحہ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بصرہ کوفہ ایک مدت تک اسلامی آثار کے منظر رہے۔ عربی نحو کی بنیاد یہیں پڑی، نحو کے اصلی دار العلوم یہی دو شہر تھے۔ حنفی فقہ جو آج تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد کوفہ ہی میں رکھا گیا۔ ان اسباب سے ان شہروں کی بنیاد اور آبادی کا حال تفصیل سے لکھنا ناموزوں نہ ہو گا۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں ہم لکھ آئے ہیں کہ فارس اور ہند کے بحری حملوں سے مطمئن رہنے کے لئے حضرت عمرؓ نے 14ھ میں عتبہ بن غزوان کو متعین کیا کہ بندرگاہ ایلہ کے قریب جہاں بحر فارس کے خلیج کے ذریعے ہندوستان و فارس وجود کے جہازات لنگر کرتے تھے ایک شہر بسائیں، زمین کا موقع اور منظر خود حضرت عمرؓ نے بتا دیا تھا۔ بصرہ: عتبہ آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور خریبہ میں آئے جہاں اب بصرہ آباد ہے۔ یہاں پہلے کفدست میدان پڑا ہوا تھا اور چونکہ زمین کنکریلی تھی اور آس پاس پانی اور چارہ کا سامان تھا۔ عرب کے مذاق کے بالکل موافق تھی۔ غرض عتبہ نے بنیاد کی بیل ڈالی اور مختلف قبائل کے لئے الگ الگ الگ احاطہ کھینچ کر گھانس اور پھونس کے مختصر مکانات بنوائے۔ عاصم بن ولف کو مقرر کیا کہ جہاں جہاں جس جس قبیلے کو اتارنا مناسب ہو اتاریں۔ خاص سرکاری عمارتیں جو تعمیر ہوئیں ان میں سے مسجد جامع اور ایوان حکومت جس کے ساتھ دفتر اور قید خانہ کی عمارت بھی شامل تھی، زیادہ ممتاز تھا۔ سنہ 17ھ میں آگ لگی اور بہت سے مکانات جل گئے۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمرؓ کے پاس سفارت بھیجی اور اجازت طلب کی کہ پختہ عمارتیں بنائی جائیں۔ حضرت عمرؓ نے منظور کیا لیکن تاکید کی کہ کوئی شخص ایک مکان میں تین کمروں سے زیادہ نہ بنائے۔ بصرہ1؎ سے دریائے دجلہ دس میل پر ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ دجہ سے بصرہ تک نہر کاٹ کر لائی جائے۔ چنانچہ اس کا حال کسی قدر تفصیل کے ساتھ یہاں کی خاک کو علم و فضل سے جو مناسبت تھی اس کا اندازہ اس سے کرنا چاہیے پبلک ورک کے بیان میں گزر چکا۔ بصرہ کی آبادی نہایت جلد ترقی کر گئی۔ یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان کے زمانہ حکومت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی رجسٹر میں درج تھے۔ 80ہزار اور ان کی آل اولاد ایک لاکھ 20 ہزار تھی۔ کہ علوم عربیت کی بنیاد یہیں پڑی۔ دنیا میں سب سے پہلی کتاب جو عربی علم لغت میں لکھی گئی یہیں لکھی گئی جس کا نام کتاب العین ہے اور جو خلیل بصری کی تصنیف ہے۔ عربی علم عروض اور موسیقی کی بھی یہیں سے ابتدا ہوئی۔ علم نحو کا سب سے پہلا مصنف سیبویہ یہیں کا تعلیم یافتہ تھا۔ ائمہ مجتہدین میں سے حسن بصری یہیں کی خاک سے پیدا ہوئے۔ کوفہ: دوسرا شہر جو بصرہ سے زیادہ مشہور ہوا کوفہ تھا۔ مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ یہاں رہ کر اہل عرب کا رنگ روپ بالکل بدل گیا۔ حضرت عمرؓ نے جواب میں لکھا کہ اہل عرب کو وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آ سکتی۔ ایسی جگہ تلاش کرنی چاہیے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلمان و حذیفہ نے جو خاص اسی قسم کے کاموں پر مامور تھے، کوفہ کی زمین انتخاب کی۔ یہاں کی زمین ریتلی اور کنکریلی تھی اور اسی وجہ سے اس کا نام کوفہ رکھا گیا۔ اسلام سے پہلے نعمان بن منذر کا خاندان جو عراق عرب کا فرمانروا تھا ان کا پائے تخت یہی مقام تھا اور ان کی مشہور عمارتیں خورنق اور سدیر وغیرہ اسی کے آس پاس واقع تھیں، منظر نہایت خوشنما اور دریائے فرات سے صرف ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ تھا۔ اہل عرب اس مقام کو خدا العذراء یعنی عارض محبوب کہتے تھے کیونکہ وہ مختلف عمدہ قسم کے عربی پھولوں مثلاً افحوان، شقایق، قیصوم، خزامی کا چمن زار تھا۔ غرض17ھ میں اس کی بیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمرؓ نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا40 ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ 1؎ بصرہ کی وجہ تسمیہ عموماً اہل لغت یہ لکھتے ہیں کہ بصرہ عربی میں نرم پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور یہاں کی زمین اسی قسم کی تھی لیکن معجم البلدان میں ایک مجوسی فاضل کا قول جو نقل کیا ہے وہ زیادہ قرین لباس ہے اس کے نزدیک اصل میں یہ لفظ بس راہ تھا جس کے معنی فارسی میں ’’ بہت سے راستوں‘‘ کے ہیں چونکہ یہاں سے بہت سی راہیں ہر طرف کو تھیں اس لئے اہل عجم اس کو اس نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس کی تصدیق زیادہ تر اس سے ہوتی ہے کہ اس کے آس پاس شاہان عرب نے جو عمارتیں تیار کرائی تھیں ان کے نام بھی دراصل فارسی رکھے تھے۔ مثلاً خورنق جو دراصل خورنگاہ ہے اور سدیر جو دراصل سہ در ہے۔ ہیاج بن مالک کے اہتمام سے عرب کے جدا جدا قبیلے جدا جدا محلوں میں آباد ہوئے۔ شہر کی وضع اور ساخت کے متعلق خود حضرت عمرؓ کا تحریری حکم آیا تھا کہ شارع ہائے عام 40,40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30,30 ہاتھ اور 20,20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں7,7 ہاتھ چوڑی ہوں۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی تھی، اس قدر وسیع تھی کہ اس میں 40 ہزار آدمی آ سکتے تھے۔ اس کے ہر چار طرف دور دور تک زمین کھلی چھوڑ دی گئی تھی۔ عمارتیں اول گھانس پھونس کی بنیں لیکن جب آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمرؓ نے اجازت دی اور اینٹ گارے کی عمارتیں تیار ہوئیں۔ جامع مسجد کے آگے ایک وسیع سائبان بنایا گیا جو دو سو ہاتھ لمبا تھا اور سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا جو نو شیروانی عمارت سے نکال لائے گئے تھے۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ باوجود اس کے کہ دراصل نوشیروانی عمارت کا کوئی وارث نہ تھا اور اصول سلطنت کے لحاظ سے اگر کوئی وارث ہو سکتا تھا تو خلیفہ وقت تھا لیکن حضرت عمرؓ کا یہ عدل و انصاف تھا کہ مجوسی رعایا کو ان ستونوں کی قیمت ادا کی گئی یعنی ان کی تخمینی جو قیمت ٹھہری وہ ان کے جزیہ میں مجرا دی گئی۔ مسجد سے دو سو ہاتھ کے فاصلے پر ایوان حکومت تعمیر ہوا جس میں بیت المال یعنی خزانے کا مکان بھی شامل تھا۔ ایک مہمان خانہ عام بھی تعمیر کیا گیا جس میں باہر کے آئے ہوئے مسافر قیام کرتے تھے اور ان کو بیت المال سے کھانا ملتا تھا۔ چند روز کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی اور چونکہ حضرت عمرؓ کو ہر ہر جزئی واقعہ کی خبر پہنچتی تھی انہوں نے سعدؓ کو لکھا کہ ایوان حکومت مسجد سے ملا دیا جائے۔ چنانچہ روز بہ نام ایک فارسی معمار نے جو مشہور استاد تھا اور تعمیرات کے کام پر مامور تھا، نہایت خوبی اور موزونی سے ایوان حکومت کی عمارت کو بڑھا کر مسجد سے ملا دیا۔ سعدؓ نے روز بہ کو مع اور کاریگروں کے اس صلے میں دربار خلافت کو روانہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی بڑی قدر دانی کی اور ہمیشہ کے لئے روزینہ مقرر کر دیا۔ جامع مسجد کے سوا ہر ہر قبیلے کے لئے جدا جدا مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار وار نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے اور قبائل جو آبادکئے گئے ان کے نام حسب ذیل ہیں۔ سلیم، ثقیف، ہمدان، بجلتہ، تیم اللات، تغلب، بنو اسعد، نحع وکندۃ، ازد، مزینہ، تمیم و محارب، اسد و عامر، بجالتہ جدیلتہ و اخلاط، جہینہ، مزحج، ہوازن وغیرہ وغیرہ۔ یہ شہر حضرت عمرؓ ہی کے زمانے میں اس عظمت و شان کو پہنچا کہ حضرت عمرؓ اس کو راس الاسلام فرماتے تھے اور در حقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا تھا۔ زمانہ مابعد میں اس کی آبادی برابر ترقی کرتی گئی لیکن یہ خصوصیت قائم رہی کہ آباد ہونے والے عموماً عرب کی نسل سے ہوتے تھے۔ 264ھ میں مردم شماری ہوئی تو 50ہزار گھر میں خاص قبیلہ ربیعہ و مضر کے اور 24ہزار اور قبائل کے تھے۔ اہل یمن کے 6 ہزار گھر ان کے علاوہ تھے۔ زمانہ مابعد کی ’’ تغیرات‘‘ اور ترقیوں نے اگرچہ قدیم آثارات کو قائم نہیں رکھا تاہم یہ کچھ کم تعجب کی بات نہیں کہ بعض بعض عمارات کے نشانات زمانہ دراز تک قائم رہے۔ ابن بطوطہ جس نے آٹھویں صدی میں اس مقدس مقام کو دیکھا تھا، اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ سعد بن ابی وقاصؓ نے جو ایوان حکومت بنایا تھا اس کی بنیاد اب بھی قائم ہے۔ اس شہر کی علمی حیثیت یہ ہے کہ فن نحو کی ابتداء یہیں ہوئی یعنی ابو الاسودد یلی نے اول اول نحو کے قواعد یہیں بیٹھ کر منضبط کئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد یہیں پڑی۔ امام ابو حنفیہؒ نے قاضی ابو یوسفؒ وغیرہ کی شرکت سے فقہ کی جو مجلس قائم کی وہ یہیں قائم کی۔ حدیث، فقہ اور علوم عربیت کے بڑے بڑے ائمہ فن جو یہاں پیدا ہوئے ان میں ابراہیم نخعی، حماد، امام ابو حنفیہ اور امام شعبی رحمہم اللہ یادگار زمانہ تھے۔ 1؎ فسطاطـ: عمرو بن العاصؓ نے جب اسکندریہ فتح کر لیا تو یونانی جو کثرت سے وہاں آباد تھے۔ عموماً شہر چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے مکانات خالی دیکھ کر عمرو بن العاصؓ نے ارادہ کیا کہ اسی کو مستقر حکومت بنائیں۔ چنانچہ دربار خلافت سے اجازت طلب کی۔ حضرت عمرؓ دریار کے حائل ہونے سے بہت ڈرتے تھے۔ بصرہ و کوفہ کی آبادی کے وقت بھی افسروں کو لکھا تھا کہ شہر جہاں بسایا جائے، وہاں سے مدینہ تک کوئی دریا راہ میں نہ آئے۔ چونکہ اسکندریہ کی راہ میں دریائے نیل پڑتا تھا، اس لئے اس کو مستقر ریاست بنانا حضرت عمرؓ نے ناپسند کیا۔ عمرو بن العاصؓ اسکندریہ سے چل کر قصر الشمع میں آئے، یہاں ان کا وہ خیمہ اب تک اسی حالت میں کھڑا تھا، جس کو وہ اسکندریہ کے حملے کے وقت خالی چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ اسی خیمے میں اترے اور وہیں نئی آبادی کی بنیاد ڈالی۔ ہر ہر قبیلے کے لئے الگ الگ احاطے کھینچے اور معاویہ بن خدیج، شریک بن سمی، عمرو بن فحرم، حیویل بن ناشرہ کو متعین کیا کہ جس قبیلے کو جہاں مناسب سمجھیں آباد کریں۔ جس قدر محلے اس وقت تھے اور جو قبائل ان میں آباد ہوئے، ان کے نام علامہ مقریزی نے تفصیل سے لکھے ہیں۔ 1؎ کوفہ بصرہ کے حالات طبری، بلاذری اور معجم البلدان سے لئے گئے ہیں۔ جامع مسجد خاص اہتمام سے بنی۔ عام روایت ہے کہ 80صحابہ ؓ نے جمع ہو کر اس کے قبلہ کی سمت متعین کی۔ ان صحابہ میں زبیر، مقداد، عبادۃ، ابودرداء اور بڑے بڑے اکابر صحابہؓ شریک تھے۔ یہ مسجد50گز لمبی اور 30 گز چوڑی تھی۔ تین طرف دروازے تھے جن میں سے ایک دار الحکومت کے مقابل تھا اور دونوں عمارتوں میں سات گز کا فاصلہ تھا۔ عمرو بن العاصؓ نے ایک مکان خاص حضرت عمرؓ کے لئے تعمیر کرایا تھا لیکن جب حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ میرے کس کام کا ہے تو وہاں بازار آباد کرایا گیا۔ چونکہ اس شہر کی خیمہ گاہ سے شروع ہوئی تھی، اس لئے اس کا نام فسطاط پڑا جس کے معنی عربی میں خیمہ کے ہیں۔ آبادی کا سن 21 ھ ہے۔ فسطاط کی وسعت آبادی: فسطاط نے نہایت جلد ترقی کی اور اسکندریہ کی بجائے مصر کا صدر مقام بن گیا۔ امیر معاویہؓ کے زمانے میں40 ہزار اہل عرب کے نام دفتر میں قلم بند تھے۔ مورخ قضاعی کا بیان ہے کہ ایک زمانے میں یہاں36مسجدیں، 8ہزار سڑکیں، 1170حمام تھے۔ مدت تک یہ شہر سلاطین مصر کا پائے تخت اور تمدن و ترقی کا مرکز رہا۔ علامہ بشاری جس نے چوتھی صدی میں دنیا کا سفر کیا تھا، اس شہر کی نسبت اپنے جغرافیہ میں لکھتا ہے: ناسخ بغداد مفخر الاسلام خزانۃ المغرب لیس فی الاسلام اکبر مجالس من جامعہ ولا احسن تجملا من اہلہ ولا اکثر مراکب من ساحلہ ’’ یعنی یہ شہر بغداد کا ناسخ، مغرب کا خزانہ اور اسلام کا فخر ہے۔ تمام اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتیں۔ نہ یہاں سے زیادہ کسی شہر کے ساحل پر جہازات لنگر ڈالتے ہیں۔‘‘ موصلـ: یہ مقام اسلام سے پہلے بھی موجود تھا لیکن اس وقت اس کی حالت یہ تھی کہ ایک قلعہ اور اس کے پاس عیسائیوں کے چند معبد تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں شہر کی حیثیت سے آباد ہوا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے اس کی بنیاد رکھی اور قبائل عرب کے متعدد محلے آباد کئے۔ ایک خاص جامع مسجد بھی تعمیر کرائی۔ 1؎ 1؎ فتوح البلدان :صفحہ331تا332 ملکی حیثیت سے یہ شہر ایک خاص حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے ذریعے سے مشرق اور مغرب کا ڈانڈا ملتا ہے اور شاید اسی مناسبت سے اس کا نام موصل رکھا گیا۔ یاقوت حموی نے لکھا ہے کہ یہ مشہور ہے کہ دنیا کے بڑے شہر تین ہیں، نیشاپور جو مشرق کا دروازہ ہے اور دمشق جو مغرب کا درازہ ہے اور موصل جو مشرق و مغرب کی گزرگاہ ہے یعنی آدمی کسی طرف جانا چاہے تو اس کو یہاں سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ اس شہر نے بھی رفتہ رفتہ نہایت ترقی کی۔ چنانچہ اس کی وسعت اور عظمت کے حالات معجم البلدان اور جغرافیہ بشاری وغیرہ میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ جیزہ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو دریائے نیل کے غربی جانب فسطاط کے مقابل واقع ہے۔ عمرو بن العاصؓ اسکندریہ کی فتح کے بعد جب فسطاط میں آئے تو اس غرض کے لئے کہ رومی دریا کی طرف سے نہ چڑھ آئیں۔ تھوڑی سی فوج اس مقام میں متعین کر دی جس میں حمیرا وراز دو ہمدان کے قبیلے کے لوگ تھے۔ فسطاط کی آبادی کے بعد عمرو بن العاصؓ نے ان لوگوں کو بلا لینا چاہا لیکن ان کو دریا کا منظر ایسا پسند آیا تھا کہ وہ یہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے اور حجت یہ پیش کی کہ ہم جہاد کے لئے یہاں آئے تھے اور ایسے عمدہ مقصد کو چھوڑ کر اور کہیں نہیں جا سکتے۔ عمرو بن العاصؓ نے ان حالات کی اطلاع حضرت عمرؓ کو دی۔ وہ اگرچہ دریا کے نام سے گھبراتے تھے لیکن مصلحت کو دیکھ کر اجازت دی اور ساتھ ہی یہ حکم بھیجا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک قلعہ تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ 21ھ میں قلعہ کی بنیاد پڑی اور 22ھ میں بن کر تیار ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب قلعہ بننا شروع ہوا تو قبیلہ ہمدان نے کہا کہ ہم نامردوں کی طرح قلعہ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا قلعہ ہماری تلوار ہے۔’’ چنانچہ یہ قبیلہ اور ان کے ساتھ بعض اور قبیلوں نے قلعہ سے باہر کھلے میدان میں ڈیرے ڈالے اور ہمیشہ وہیں رہے۔ حضرت عمرؓ کی برکت سے یہ چھوٹا سا مقام بھی علمی حیثیت سے خالی نہیں رہا۔چنانچہ بڑے بڑے محدث یہاں پیدا ہوئے، ان میں سے بعض کے نام معجم البلدان میں مذکور ہیں۔ 1؎‘‘ صیغہ فوج اسلام سے پہلے درنیا میں اگرچی بڑی عظیم الشان سلطنتیں گزر چکی تھیں جن کی بقیہ یادگاریں خود اسلام کے عہد میں بھی موجود تھیں لیکن فوجی سسٹم جہاں جہاں تھا غیر منتظم اور اصول سیاست کے خلاف تھے۔ 1؎ جیزہ کے متعلق مقریزی نے نہایت تفصیل سے کام لیا ہے۔ فوجی نظام رومن امپائر میں: روم کبیر میں جس کی سلطنت کسی زمانے میں تمام دنیا پر چھا گئی۔ فوج کے انتظام کا یہ طریقہ تھا کہ ملک میں جو لوگ نام و نمود کے ہوتے تھے اور سپہ گری و سپہ سالاری کا جوہر رکھتے تھے ان کو بڑی بڑی جاگیریں دی جاتی تھیں اور یہ عہد لیا جاتا تھا کہ جنگی مہمات کے وقت اس قدر فوج لے کر حاضر ہوں گے۔ یہ لوگ تمام ملک میں پھیلے ہوئے ہوتے تھے اور خاص خاص تعداد کی فوجیں رکھتے تھے لیکن ان فوجوں کا تعلق براہ راست سلطنت سے نہیں ہوتا تھا اور اس وجہ سے اگر یہ لوگ کبھی علم بغاوت بلند کرتے تھے تو ان کی فوج ان کے ساتھ ہو کر خود سلطنت کا مقابلہ کرتی تھی۔ اس طریقے کا نام فیوڈل سسٹم تھا اور یہ فوجی افسر بیرون کہلاتے تھے۔ اس طریقے نے یہ وسعت حاصل کی کہ بیرون لوگ بھی اپنے نیچے اس قسم کے جاگیردار اور علاقہ دار رکھتے تھے اور سلسلہ بسلسلہ بہت سے طبقے قائم ہو گئے تھے۔ فارس میں فوجی نظام: ایران میں بھی قریب قریب یہی دستور تھا۔ فارسی میں جن کو مر زبان اور دہقان کہتے ہیں وہ اسی قسم کے جاگیردار اور زمیندار تھے۔ اس طریقے نے روم کی سلطنت کو دراصل برباد کر دیا تھا اور آج عام طور پر مسلم ہے کہ یہ نہایت برا طریقہ تھا۔ فرانس میں فوجی نظام: فرانس میں511ھ تک فوج کی تنخواہ یاروزینہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ فتح کی لوٹ میں جو مل جاتا تھا وہی قرعہ ڈال کر تقسیم کر دیا جاتا تھا، اس زمانے کے بعد کچھ ترقی ہوئی تو وہی روم کا فیوڈل سسٹم قائم ہو گیا۔ چنانچہ اسلام کے بعد سنہ 751ھ تک یہی طریقہ جاری رہا۔ عرب میں شاہان یمن وغیرہ کے ہاں فوج کا کوئی منظم بندوبست نہیں تھا۔ اسلام کے آغاز تک اس کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں صرف اس قدر ہوا کہ خلافت کے پہلے سال غنیمت سے جس قدر بچا وہ سب لوگوں پر 10,10روپے کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو یہ تعداد دس سے بیس تک پہنچ گئی لیکن نہ فوج کی کچھ تنخواہ مقرر ہوئی، نہ اہل فوج کا کوئی رجسٹر بنا، نہ کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمرؓ کی اوائل خلافت تک بھی یہی حال رہا لیکن15ھ ہی میں حضرت عمرؓ نے اس صیغے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کر دیا کہ اس وقت کے لحاظ سے تعجب ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا فوجی نظام: حضرت عمرؓ کے توجہ کرنے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ عام روایت یہ ہے کہ حضرت ابو ہریریہ ؓ جو بحرین کے حاکم مقرر کئے گئے تھے۔ پانچ لاکھ درہم لے کر مدینہ میں آئے اور حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی۔ پانچ لاکھ کی رقم اس وقت اس قدر اعجوبہ چیز تھی کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا خیر ہے، کہتے کیا ہو؟ انہوں نے پھر پانچ لاکھ کہا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تم کو گنتی بھی آتی ہے؟ ابو ہریرہؓ نے کہا ہاں۔ یہ کہہ کر پانچ دفع لاکھ لاکھ کہا۔ حضرت عمرؓ کو یقین آیا تو مجلس شوریٰ منعقد کی اور اور رائے پوچھی کہ اس قدر زر کثیر کیوں کر صرف کیا جائے۔ ولید بن ہشام نے کہا کہ میں نے شام کے والیان ملک کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں فوج کا دفتر اور رجسٹر مرتب رہتا ہے۔ حضرت عمرؓ کو یہ رائے پسند آئی اور فوج کی اسم نویسی اور ترتیب دفتر کا پیدا ہوا۔ 1؎ ایک اور روایت میں ہے کہ رائے دہندہ نے سلاطین عجم کا حوالہ دیا اور یہی روایت قرین قیاس ہے کیونکہ جب دفتر مرتب ہوا تو اس کا نام دیوان رکھا گیا اور یہ فارسی لفظ ہے۔ دبستان، دبیر، دفتر، دیوان ایک مادہ سے الفاظ ہیں جن کا مشترک مادہ دب ایک پہلوی لفظ ہے جس کے معنی نگاہ رکھنے کے ہیں۔ تمام ملک کا فوج بنانا: بہرحال15ھ میں حضرت عمرؓ نے فوج کا ایک مستقل محکمہ قائم کرنا چاہا۔ اس باب میں ان کی سب سے زیادہ قابل لحاظ جو تجویز تھی وہ تمام ملک کا فوج بنانا تھا، انہوں نے اس مسئلے کو کہ ہر مسلمان فوج اسلام کا ایک سپاہی ہے باقاعدہ طور پر سے عمل میں لانا چاہا لیکن چونکہ ابتداء میں ایسی تعمیم ممکن نہ تھی اول قریش اور انصار سے شروع کیا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت تین شخص بہت بڑے بڑے نساب اور حساب کتاب کے فن میں استاد تھے۔ مخرمہ بن نوفل، حبیر بن مطعم، عقیل بن ابی طالب، علم الانساب عرب کا موروثی فن تھا اور خاص کر یہ تینوں بزرگ اس فن کے لحاظ سے تمام عرب میں ممتاز تھے۔ 2؎ حضرت عمرؓ نے ان کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی کہ تمام قریش اور انصار کا ایک دفتر تیار کریں۔ جس میں ہر شخص کا نام و نسب مفصلاً درج ہو۔ ان لوگوں نے ایک نقشہ بنا کر پیش کیا۔ 1؎ مقریزی ص92اور فتوح البلدان ص449 2؎ (جافظ نے کتاب البیان واتسبین جلد دوم ص37مطبوعہ و مصر میں لکھا ہے کہ تمام قریش میں چار شخص اشعار عرب اور انساب و اخبار کے ہافظ تھے۔ مخرمہ بن نوفل، ابولجہم، حویطب بن عبدالعزی اور عقیل بن ابی طالب۔ جس میں سب سے پہلے بنو ہاشم پھر حضرت ابوبکرؓ کا خاندان پھر حضرت عمرؓ کا قبیلہ تھا۔ یہ ترتیب ان لوگوں نے خلافت و حکومت کے لحاظ سے قرار دی تھی لیکن اگر وہ قائم رہتی تو خلافت خود غرضی کا آلہ بن جاتی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یوں نہیں بلکہ آنحضرتؐ کے قرابت داروں سے شروع کرو اور درجہ بدرجہ جو لوگ جس قدر آنحضرتؐ سے دور ہوتے گئے اسی ترتیب سے ان کے نام آخر میں لکھتے جاؤ، یہاں تک کہ جب میرے قبیلے تک نوبت آئے تو میرا نام بھی لکھو۔ اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلفائے اربعہؓ میں سے حضرت عمرؓ کا نسب سب سے اخیر میں جا کر آنحضرتؓ سے ملتا ہے۔ غرض اس ہدایت کے موافق رجسٹر تیار ہوا اور حسب ذیل تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ 1؎ تقسیم مراتب تعداد تنخواہ سالانہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک تھے 5ہزار درہم مہاجرین حبش اور شرکائے جنگ احد 4ہزار درہم فتح مکہ کے پہلے جن لوگوں نے ہجرت کی 3ہزار درہم جو لوگ فتح مکہ میں ایمان لائے 2ہزار درہم جو لوگ جنگ قادسیہ اور یرموک میں شریک تھے 2ہزار درہم اہل یمن 4و درہم قادسیہ اور یرموک کے بعد کے مجاہدین 3سو درہم بلا امتیاز مراتب 2سو درہم جن لوگوں کے نام درج دفتر ہوئے ان کی بیوی بچوں کی تنخواہیں بھی مقرر ہوئیں۔ چنانچہ مہاجرین اور انصار کی بیویوں کی تنخواہ 200سے 400درہم تک اور اہل ابدر کی اولاد ذکور کی دو، دو ہزاردرہم مقرر ہوئی۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جن لوگوں کی جو تنخواہ مقرر ہوئی ان کے غلاموں کی بھی وہی تنخواہ مقرر ہوئی اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک غلاموں کا کیا پایہ تھا۔ 1؎ تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں۔ میں نے کتاب الخراج ص24 و مقریزی جلد اول ص92 بلاذری ص448 و یعقوبی ص175 و طبری ص2411 کے بیانات کو حتیٰ الامکان مطابق کر کے لکھا ہے۔ جس قدر آدرمی درج رجسٹر ہوئے تھے 1؎ اگرچہ سب در حقیقت فوج کی حیثیت رکھتے تھے لیکن ان کی دو قسمیں قرار دی گئیں۔ 1۔ جو ہر وقت جنگی مہمات میں مصروف رہتے تھے گویا یہ فوج نظام یعنی باقاعدہ فوج تھی۔ 2۔ جو معمولاً اپنے گھروں پر رہتے تھے لیکن ضرورت کے وقت طلب کئے جا سکتے تھے ان کو عربی میں مطوعہ کہتے ہیں اور آج کل کی اصطلاح میں اس قسم کی فوج کو والیسر کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ آج کل والیسر تنخواہ نہیں پاتے۔ فوجی نظم و نسق کا یہ پہلا دیباچہ تھا اور اس وجہ سے اس میں بعض بے ترتیبیاں بھی تھیں۔ سب سے بڑا خلط مبحث یہ تھا کہ فوجی تنخواہوں کے ساتھ پولیٹیکل تنخواہیں بھی شامل تھیں اور دونوں کا ایک ہی رجسٹر تھا لیکن رفتہ رفتہ یعنی 21ھ میں حضرت عمرؓ نے اس صیغے کو اس قدر مرتب اور منتظم کیا کہ غالباً اس عہد تک کہیں اور کبھی نہیں ہو اتھا۔ چنانچہ ہم ایک ایک جزئی انتظام کو اس موقع پر نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ عرب کے ابتدائے تمدن میں انتظامات فوجی کی اس قدر شاخیں قائم کرنی اور ایک ایک شاخ کا اس حد تک مرتب اور باقاعدہ کرنا اسی شخص کا کام تھا جو فاروق اعظم کا لقب رکھتا تھا۔ 1؎ اس موقع پر ایک امر نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ظاہر بینوں کا خیال ہے کہ حضرت عمرؓ نے تمام عرب کی جو تنخواہیں مقرر کیں اس کو فوجی صیغے سے چنداں تعلق نہیں بلکہ یہ رفاع عام کی غرض سے تھا لیکن یہ نہایت غلط خیال ہے۔ اولاً تو جہاں مورخوں نے اس واقعہ کا شان نزول بیان کیا ہے لکھا ہے کہ ولید بن ہشام نے حضرت عمرؓ سے کہا قد جنت الشام فرایت ملوکھا قد دونوا دیوانا و جندوا جندا فدون دیوانا و جند جندا فاخذ بقولہ یعنی میں نے شام کے بادشاہوں کو دیکھا ہے کہ وہ فوج اور دفتر رکھتے تھے۔ آپ بھی دفتر بنائیے اور فوج مرتب کیجئے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ولید کے قول پر عمل کیا۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں سے جنگی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور قدیم جنگی خدمتوں کا استحقاق نہیں رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کی تنخواہ نہیں مقرر کرتے تھے۔ اسی بناء پر مکہ کے لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ فتوح البلدان ص458میں ہے: ان عمر کان لایعطی اہل مکۃ عطاء اولا یضرب علیم بعثا یہی وجہ تھی کہ جب صحرا نشین بدوں نے حضرت ابو عبیدہؓ سے تنخواہ کی تقرری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک آبادی میں رہنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہ ہو جائیں۔ صحرا نشینوں کا روزینہ نہیں مقرر ہو سکتا۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اول اول فوج کے رجسٹر میں اور بھی بہت سی قسم کے لوگ شامل تھے مثلاً جو لوگ قرآن مجید حفظ کر لیتے تھے یا کسی فن میں صاحب کمال تھے لیکن استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ خلط مبحث جو ضرورت کے تحت اختیار کیا گیا تھا مٹتا گیا چنانچہ اسی مضمون میں آگے اس کی بحث آتی ہے۔ فوجی صدر مقامات: اس صیغے میں سب سے مقدم اور اصولی انتظام ملک کا جنگی حیثیت سے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ نے سنہ 20ھ میں فوجی اور ملکی حیثیت سے ملک کی دو تقسیمیں کیں، ملکی اور فوجی، ملکی کا حال دیوانی انتظامات کے ذکر میں گزر چکا۔ فوجی حیثیت سے چند بڑے بڑے فوجی مرکز قرار دئیے جن کا نام جند1؎ رکھا اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے: مدینہ، کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط مصر، دمشق، حمص، اردن، فلسطین ۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتوحات کی حد اگرچہ بلوچستان کے ڈانڈے سے مل گئی تھی لیکن جو ممالک آئینی ممالک کہے جا سکتے تھے، وہ صرف عراق، مصر، جزیرہ اور شام تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر فوجی صدر مقامات بھی انہی ممالک میں قائم کئے گئے۔ موصل جزیرہ کا صدر مقام تھا۔ شام کی وسعت کے لحاظ سے وہاں متعدد صدر مقام کرنے ضرورت تھے۔ اس لئے دمشق، فلسطین، حمص، اردن چار صدر مقام قرار دئیے۔ فسطاط کی وجہ سے جواب قاہرہ سے بدل گیا ہے، تمام مصر پر اثر پڑتا تھا۔ بصرہ اور کوفہ، یہ دو شہر فارس اور خوزستان اور تمام مشرق کی فتوحات کے دروازے تھے۔ ان صدر مقامات میں جو انتظامات فوج کے لئے تھے، حسب ذیل تھے: فوجی بارکیں: 1؎ فوجوں کے رہنے کے لئے بارکیں تھیں۔ کوفہ، بصرہ اور فسطاط یہ تینوں شہر تو دراصل فوج کے قیام اور بود و باش کے لئے ہی آباد کئے گئے تھے۔ موصل میں عجمیوں کے زمانے کا ایک قلعہ اور چند گرجے اور معمولی مکانات تھے ۔ ہرثمہ بن عرفجہ اور ازدی (گورنر موصل) نے حضرت عمرؓ کی ہدایت کے بموجب داغ بیل ڈال کر اس کو شہر کی صورت میں آباد کیا اور عرب کے مختلف قبیلوں کے لئے جدا جدا محلے بسائے۔ 1؎ جند کی تحقیق کے لئے دیکھو فتوح البلدان ص132مورخ یعقوبی نے واقعات20 ھ میں لکھا ہے کہ اس سال حضرت عمرؓ نے فوجی صدر مقامات قائم کئے لیکن مورخ مذکور نے صرف فلسطین جزیرہ، موصل اور قسرین کا نام لکھا ہے یہ صریح غلطی ہے۔ گھوڑوں کی پرداخت: 2؎ ہر جگہ بڑے بڑے اصطبل خانے تھے جن میں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت ساز و سامان کے تیار رہتے تھے۔ یہ صرف اس غرض سے مہیا رکھے جاتے تھے کہ دفعتہ ضرورت پیش آ جائے تو 32 ہزار سواروں کا رسالہ فوراً تیار ہو جائے۔ 1؎ سنہ 17ھ میں جزیرہ والوں نے دفعتہ بغاوت کی تو یہی تدبیر کلید ظفر ٹھہری۔ ان گھوڑوں کی پرداخت اور تربیت میں نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ کا انتظام حضرت عمرؓ نے خود اپنے اہتمام میں رکھا تھا۔ شہر سے چار منزل پر ایک چراگاہ تیار کرائی تھی۔ 2؎ اور خود اپنے غلام کو جس کا نام ہنی تھا اس کی حفاظت اور نگرانی کے لئے مقرر کیا تھا۔ ان گھوڑوں کی رانوں پر داغ کے ذریعے سے یہ الفاظ لکھے جاتے تھے: حبیش فی سبیل اللہ 3؎ کوفہ میں اس کا اہتمام سلمان بن ربیعہ الباہلی کے متعلق تھا جو گھوڑوں کی شناخت اورپرداخت میں کمال رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نام میں یہ خصوصیت داخل ہو گئی تھی اور سلمان الخیل کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ جاڑوں میں یہ گھوڑے اصطبل خانے میں رکھے جاتے تھے۔ چنانچہ چوتھی صدی تک یہ جگہ آری کے نام سے مشہور تھی جس کے معنی اصطبل خانہ کے ہیں اور اسی لحاظ سے عجمی اس کو آخور شاہ جہان کہتے تھے۔ بہار میں یہ گھوڑے ساحل فرات پر عاقول کے قریب شاداب چراگاہوں میں چرائے جاتے تھے۔ سلمان ہمیشہ گھوڑوں کی تربیت میں نہایت کوشش کرتے تھے اور ہمیشہ سال میں ایک دفعہ گھوڑ دوڑ بھی کراتے تھے۔ خاص کر عمدہ نسل کے گھوڑوں کو انہوں نے نہایت ترقی دی۔ اس سے پہلے اہل عرب نسل میں ماں کی پروا نہیں کرتے تھے۔ سب سے پہلے سلمان نے یہ امتیاز قائم کیا۔ چنانچہ جس گھوڑے کی ماں عربی نہیں ہوتی تھی اس کو دوغلا قرار دے کر تقسیم غنیمت میں سوار کو حصے سے محروم کر دیتے تھے۔4؎ بصرہ کا اہتمام جزء بن معاویہ کے متعلق تھا جو صوبہ اہواز کے گورنر رہ چکے تھے۔ 1؎ تاریخ طبری ص2504 میں ہے کان اربعۃ الاف فرس عدۃ لکون ان کان یشتیھا فن قبلۃ قصر الکوفۃ و بالبصرۃ نجو منھا و قیمہ علیھا جزء بن معاویۃ فی کل مصر من الامصار الثمانیۃ علی قدرھا فان نابتھم نائبۃ رکب قوم و تقدموا الی ان یستعد الناس۔ 2؎حضرت عمرؓ نے گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش اور پرداخت کے لئے عرب میں متعدد چراگاہیں تیار کرائی تھیں۔ سب سے بڑی چراگاہ مقام ربذہ میں تھی جو مدینہ منورہ سے چار منزل کے فاصلے پر بحد کے ضلعے میں واقع ہے۔ یہ چراگاہ دس میل لمبی اور اسی قدر چوڑی تھی۔ دوسری مقام ضریہ میں تھی جو مکہ مکرمہ سے سات منزل پر ہے۔ اس کی وسعت ہر طرف سے چھ چھ میل تھی۔ اس میں قریباً چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔ ان چراگاہوں کی پوری تفصیل خلاصہ الوفا باخبار دار المصطفیٰ مطبوعہ مصر ص255,256میں ہے۔ 3؎ کنز العمال جلد6، ص331 4؎ کتب رجال میں سلمان بن ربیعہ کا تذکرہ دیکھو۔ فوج کا دفتر: فوج کے متعلق ہر قسم کے کاغذات اور دفتر انہی مقامات میں رہتا تھا۔ رسد کا غلہ: رسد کے لئے جو غلہ اور اجناس مہیا کی جاتی تھیں وہ انہی مقامات میں رکھی جاتی تھیں اور یہیں سے اور مقامات کو بھیجی جاتی تھیں۔ 1؎ فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم تھیں؟ ان صدر مقامات کے علاوہ حضرت عمرؓ نے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور عرب کو تمام ممالک مفتوحہ میں پھیلا دیا۔ اگرچہ یہ ان کا عام اصول تھاکہ جو شہر فتح ہوتا تھا، اسی وقت ایک مناسب تعداد کی فوج وہاں متعین کر دی جاتی تھی، جو وہاں سے ٹلتی نہ تھی۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جب شام فتح کیا تو ہر ضلع میں ایک عامل مقرر کیا جس کے ساتھ ایک معتدبہ فوج رہتی تھی لیکن امن و امان قائم ہونے پر بھی کوئی بڑا ضلع یا شہر ایسا نہ تھا جہاں فوجی سلسلہ قائم نہیں کیا گیا۔ 17ھ میں حضرت عمرؓ نے جب شام کا سفر کیا تو ان مقامات میں جہاں ملک کی سرحد دشمن کے ملک سے ملتی تھی یعنی و لوک، بنج، رعیان، قورس، تیزین، انطاکیہ وغیرہ (عربی میں ان کو فروج یا نعور کہتے ہیں) ایک ایک شہر کا دورہ کیا اورہر قسم کا فوجی نظم ونسق اور مناسب انتظامات کئے، جو مقامات دریا کے کنارے پر واقع تھے اور بلاد ساحلیہ کہلاتے تھے (یعنی عسقلان، یا فا، قیسیاریہ، ارسوف، عکا، صور، بیروت، طرسوس، صیدا، ایاس، لاذقیہ) چونکہ رومیوں کی بحری طاقت کی زد پر تھے اس لئے اس کا مستقل جداگانہ انتظام کیا اور اس کا افسر کل عبداللہ بن قیس کو مقرر کیا۔ 2؎ بالس چونکہ غربی فرات کے ساحل پر تھا اور عراق 1؎ فتوح البلدان ص128میں ہے: وکان المسلمون کلما فتحوا مدینۃ طاہرۃ او عند ساحل رتبوا فیھا قدر من یحتاج لھا الیہ من المسلمین فان حدث فی شئی منھا حدث من قبل العدو سربوا الیا الامدار اور ص151میں ہے: وولی ابو عبیدۃ کل کورۃ فتحھا عاملا وضم الیہ جماعۃ من المسلمین و شحن النواحی المخوفۃ 2؎ تاریخ طبری ص1523اصل عبارت یہ ہے: قسم عمر الارزاق و سمی الثواتی والصوایف و مد فروج الشام و مالحھا واخذید وربھا ومسمی ذلک فی کل کورۃ واستعمل عبداللہ بن قیس علی الیسواخل من کل کوزۃ سے ہم سرحد تھا۔ وہاں فوجی انتظام کے ساتھ اس قدر اور اضافہ کیا کہ شامی عرب جو اسلام قبول کر چکے تھے، آباد کئے۔ 1؎ 19ھ میں جب یزید بن ابی سفیان کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی معاویہؓ نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی کہ سواحل شام پر زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔ 2؎ حضرت عمرؓ نے اسی وقت حکم بھیجا کہ تمام قلعوں کی نئے سرے سے مرمت کرائی جائے اور ان میں فوجیں مرتب کی جائیں۔ اس کے ساتھ تمام دریائی منظر گاہوں پر پہرہ والے تعینات کئے جائیں اور آگ روشن رہنے کا انتظام کیا جائے۔ اسکندریہ میں یہ انتظام تھا کہ عمرو بن العاصؓ کی افسری میں جس قدر فوجیں تھیں اس کی ایک چوتھائی اسکندریہ کے لئے مخصوص تھی۔ ایک چوتھائی ساحل کے مقامات میں رہتی تھی، باقی آدھی فوج خود عمرو بن العاصؓ کے ساتھ فسطاط میں اقامت رکھتی تھی۔ یہ فوجیں بڑے بڑے وسیع ایوانوں میں رہتی تھی اور ہر ایوان میں ان کے ساتھ ایک عریف رہتا تھا جو ان کے قبیلہ کا سردار ہوتا تھا اور جس کی معرفت ان کو تنخواہیں تقسیم ہوتی تھیں۔ ایوانوں کے آگے صحن کے طور پر وسیع افتادہ زمین ہوتی تھی۔ 3؎ 16ھ میں جب ہرقل نے دریا کی راہ سے مصر پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت عمرؓ نے تمام سواحل پر فوجی چھاؤنیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ عمرو بن العاصؓ کی ماتحتی میں جس قدر فوج تھی اس کی ایک چوتھائی انہی مقامات کے لئے مخصوص کر دی۔ 4؎ عراق میں بصرہ و کوفہ اگرچہ خود محفوظ مقام تھے۔ چنانچہ خاص کوفہ میں چالیس ہزار سپاہی ہمیشہ موجود رہتے تھے اور انتظام یہ تھا کہ ان میں سے دس ہزار بیرونی مہمات میں مصروف رکھے جائیں۔ 5؎ تاہم ان اضلاع میں عجمیوں کی جو فوجی چھاؤنیاں پہلے سے موجود تھیں، از سر نو تعمیر کر کے فوجی قوت سے مضبوط کر دی گئیں۔ 1؎ فتوح البلدان ص150میں ہے ورتب ابو عبیدۃ ببالس جماعۃ من المقاتلۃ امکنھا قومھا من العرب الذین کانوا بالشام بعد قدوم المسلمین الشام۔ 2؎فتوح البلدان ص128میں ہے: ان معاویہ کتب الی عمر بن الخطاب بعد موت اخیہ یزید یصف لہ حال السواحل فکتب الیہ فی مرحۃ حصونھا و ترتیب المقاتلۃ فیھما واقامۃ الحرس علی مناظر ھا واتخاذ الموا قیدلھا 3؎ نقریزی جلد اول ص167میں ہے: وکان لکل عریف قصر ینزل قیہ بمن معہ من اصحابہ واتخذاوا فیہ اخایذ 3؎دیکھوطبری ص2594و مقریزی ص167 4؎ تاریخ طبری ص2805میں ہے: وکان بالکوفۃ اذ ذاک اربعون الف مقاتل وکان یغز واہذین الثغرین الی الری واذریجان ) ہم عشرۃ الاف فی کل سنتہ وکان الرجل یصیبہ فی کل اربع سنین غزوۃ خربیہ اور زابوقہ میں سات چھوٹی چھوٹی چھاؤنیاں تھیں وہ سب نئے سرے سے تعمیر کر دی گئیں۔ 1؎ صوبہ خوزستان میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں۔ چنانچہ نہر تیری، منادر، سوق الاہواز، سرق، ہرمزان، سوس، بنیان، جندی سابور، مہر جانقدق، یہ تمام مقامات فوجوں سے معمور2؎ ہو گئے۔ رے اور آذربائیجان کی چھاؤنیوں میں ہمیشہ دس ہزار فوجیں موجود رہتی تھیں۔ فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم کی تھیں؟ اسی طرح اور سینکڑوں چھاؤنیاں جا بجا قائم کی گئیں جن کی تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں۔ البتہ اس موقع پر یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اس سلسلے کو اس قدر وسعت کیوں دی گئی تھی اور فوجی مقامات کے انتخاب میں کیا اصول ملحوظ تھے؟ اصل یہ ہے کہ اس وقت تک اسلام کی فوجی قوت نے اگرچہ بہت زور اور وسعت حاصل کر لی تھی لیکن بحری طاقت کا کچھ سامان نہ تھا۔ ادھر یونانی مدت سے اس فن میں مشتاق ہوتے آتے تھے۔ اس وجہ سے شام و مصر میں اگرچہ کسی اندرونی بغاوت کا کچھ اندیشہ نہ تھا کیونکہ اہل ملک باوجود اختلاف مذہب کے مسلمانوں کو عیسائیوں سے زیادہ پسند کرتے تھے لیکن رومیوں کے بحری حملوں کا ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ایشیائے کوچک ابھی تک رومیوں کے قبضے میں تھا اور وہاں ان کی قوت کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ ان وجوہ سے ضرور تھا کہ سرحدی مقامات اور بندرگاہوں کو نہایت مستحکم رکھا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے جس قدر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں انہی مقامات میں کیں جو یا ساحل پر واقع تھے یا ایشیائے کوچک کے بڑے بڑے رئیس جو مرزبان کہلاتے تھے، اپنی بقائے ریاست کے لئے لڑتے رہتے تھے اور دب کر مطیع بھی ہو جاتے تھے تو ان کی اطاعت پر اطمینان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ان ممالک میں ہر جگہ فوجی سلسلہ کا قائم رکھنا ضروری تھا کہ مدعیان ریاست بغاوت کا خواب نہ دیکھنے پائیں۔ فوجی دفتر کی وسعت: حضرت عمرؓ نے اس سلسلے کے ساتھ انتظامات کئے اور صیغوں پر بھی توجہ کی اور ایک ایک صیغے کو قدر منظم کر دیا کہ اس وقت کہ تمدن کے لحاظ سے ایک معجزہ سا معلوم ہوتا ہے۔ فوجوں کی بھرتی کا دفتر جس کی ابتداء مہاجرین اور انصار سے ہوئی تھی، وسیع ہوتے ہوتے قریباً تمام عرب کو محیط ہو گیا۔ مدینہ سے عسفان تک جو مکہ مکرمہ سے دو منزل ادھر ہے جس قدر قبائل آباد تھے، ایک ایک کی مردم شماری ہو کر رجسٹربنے۔ 1؎ فتوح البلدان ص250 2؎ طبری ص2650 بحرین جو عرب کا انتہائی صوبہ ہے بلکہ عرب کے جغرافیہ نویس اس کو عراق کے اضلاع میں شمار کرتے ہیں، وہاں کے تمام قبائل کا دفتر تیار کیا گیا۔ کوفہ بصرہ، موصل، فسطاط، جیرہ وغیرہ میں جس قدر عرب آباد ہو گئے تھے، سب کے رجسٹر مرتب ہوئے۔ اس بیشمار گروہ کی اعلیٰ قدر مراتب تنخواہیں مقرر کی گئیں اور اگرچہ ان سب کامجموعی شمار تاریخوں سے معلوم نہیں ہوتا تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم آٹھ دس لاکھ ہتھیار بند آدمی تھے۔ ہر سال 30ہزار نئی فوج تیار ہوتی تھی: ابن سعد کی روایت ہے کہ ہر سال تیس ہزار نئی فوج فتوحات پر بھیجی جاتی تھی۔ 1؎ کوفہ کی نسبت علامہ طبری نے تصریح کی ہے کہ وہاں ایک لاکھ آدمی لڑنے کے قابل بسائے گئے جن میں سے 40 ہزار باقاعدہ فوج تھی یعنی ان کو باری باری سے ہمیشہ رے اور آذربائیجان کے مہمات میں حاضر رہنا ضرور تھا۔ یہی نظام تھا جس کی بدولت ایک مدت تک تمام دنیا پر عرب کا رعب و داب قائم رہا اور فتوحات کا سیلاب برابر بڑھتا گیا، جس قدر اس نظام میں کمی ہوتی گئی عرب کی طاقت میں ضعف آتا گیا۔ سب سے پہلے امیر معاویہؓ نے اس میں تبدیلی کی یعنی شیر خوار بچوں کی تنخواہ بند کر دی۔ عبدالملک بن مروان نے اور بھی اس کو گھٹایا اور معتصم باللہ نے سرے سے فوجی دفتر میں سے عرب کے نام نکال دئیے اور اسی دن در حقیقت حکومت بھی عربوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ فوج میں عجمی، رومی، ہندوستانی اور یہودی بھی داخل تھے یہ ایک اتفاقیہ جملہ بیچ میں آ گیا۔ ہم پھر حضرت عمرؓ کے فوجی نظام کی طرف واپس آتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فوجی دفتر کو یہاں تک وسعت دی کہ اہل عجم بھی اس میں داخل کئے گئے۔ یزد گرد شہنشاہ فارس نے ویلم کی قوم سے ایک منتخب دستہ تیار کیا تھا جس کی تعداد ہزار تھی اور جند شہنشاہ یعنی فوج خاصہ کہلاتا تھا۔ یہ فوج قادسیہ میں کئی معرکوں کے بعد ایرانیوں سے علیحدہ ہو کر اسلام کے حلقے میں آ گئی۔ سعد بن ابی وقاصؓ گورنر کوفہ نے ان کو فوج میں داخل کر لیا اور کوفہ میں آباد کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کر دیں۔ 2؎ چنانچہ اسلامی فتوحات میں ان کا نام بھی جابجا تاریخوں میں آتا ہے۔ یزدگرد کی فوج ہر اول کا سردار ایک بڑا نامی افسر تھا جو ’’ سیاہ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ 1؎ کنز العمال جلد6، ص231امام مالکؒ نے موطا میں30ہزار کے بجائے 40ہزار کی تعداد بیان کی ہے۔ 2؎ فتوح البلدان ص280 17ھ میں یزد گرد اصفہان کو روانہ ہوا تو سیاہ کو تین سوسواروں کے ساتھ جن میں ستر بڑے بڑے نامی پہلوان تھے، اصطخر کی طرف بھیجا کہ ہر ہر شہر سے چیدہ چیدہ بہادر منتخب کر کے ایک دستہ تیار کرے۔ ابو موسیٰ اشعریؓ نے جب سنہ 20ھ میں سوس کا محاصرہ کیا تو یزدگرد نے سیاہ کو حکم دیا کہ اس چیدہ رسالے کے ساتھ ابوموسیٰؓ کے مقابلے کو جائے۔ سوس کی فتح کے بعد سیاہ نے مع تمام سرداروں کے ابو موسیٰؓ سے چند شرائط کے ساتھ امن کی درخواست کی۔ ابو موسیٰ گو ان شرائط پر راضی نہ تھے لیکن کیفیت واقعہ سے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ تمام شرائط منظور کر لئے جائیں۔ چنانچہ وہ سب کے سب بصرہ میں آباد کئے گئے اور فوجی دفتر میں نام لکھا کر ان کی تنخواہیں مقرر ہو گئیں۔ ان میں سے چھ افسروں کی (جن کے نام یہ تھے: سیاہ، خسرو، شہریار، شیرویہ، شہرویہ اور افرودین) اڑھائی اڑھائی ہزار اور سو بہادروں کی دو دو ہزار تنخواہ مقرر ہوئی۔ تستر کے معرکہ میں سیاہ ہی کی تدبیر سے فتح حاصل ہوئی۔ 1؎ باذان، نوشیرواں کی طرف سے یمن کا گورنر تھا اس کی رکاب میں جو ایرانی فوج تھی اس میں سے اکثر مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کا نام بھی دفتر فوج میں لکھا گیا۔ تعجب یہ ہے کہ فاروقی لشکر ہندوستان کے بہادروں سے بھی خالی نہ تھا۔ سندھ کے جاٹ جن کو اہل عرب زط کہتے تھے، یزد گرد کے لشکر میں شامل تھے۔ سوس کے معرکہ کے بعد وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اور فوج میں بھرتی ہو کر بصرہ میں آباد کئے گئے۔ 2؎ یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے۔ چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریک جنگ تھے اور جب عمرو بن العاصؓ نے فسطاط آباد کیا تو یہ جداگانہ محلے میں آباد کئے گئے۔ یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ خالی نہ تھا۔ چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے۔ 3؎ غرض حضرت عمرؓ نے صیغہ جنگ کو وسعت دی تھی، اس کے لئے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی۔ یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قید نہ تھی۔ والیسر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے، جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ فوج نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل غیر قوموں کے حقوق کے ذکر میں آئے گی لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صیغہ جنگ کی یہ وسعت جس میں تمام قوموں کو داخل کر لیا گیا تھا، صرف اسلام کی ایک فیاضی تھی ورنہ فتوحات ملکی کے لئے عرب کو اپنی تلوار کے سوا اور کسی کا کبھی ممنون ہونا نہیں پڑا۔ البتہ اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جن قوموں سے مقابلہ تھا انہی کے ہم قوموں کو ان سے لڑانا فن جنگ کا بڑا اصول تھا۔ 1؎ طبری واقعات سنہ 17ھ ذکر فتح سوس و فتوح البلدان از ص372تا375 2؎ فتوح البلدان ص375 3؎ مقریزی ص298میں ان سب کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں۔ کہ خرگوش ہر مرزا رابے شگفت سگ آں ولایت تواند گرفت جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ ابتدائے نظام میں فوجی صیغہ صاف صاف جداگانہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی جو لوگ اور حیثیت سے تنخواہیں پاتے تھے، ان کے نام بھی فوجی رجسٹر میں درج تھے اور اس وقت یہی مصلحت تھی۔ حضرت عمرؓ نے اب یہ پردہ بھی اٹھا دینا چاہا۔ شروع شروع میں تنخواہ کی کمی بیشی میں قرآن خوانی کے وصف کا بھی لحاظ ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کو فوجی امور سے کچھ تعلق نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو صیغہ تعلیم سے متعلق کر کے اس دفتر سے الگ کر دیا۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاصؓ کو یہ الفاظ لکھ کر بھیجے: لا تعط علی القرآن احدا۔ تنخواہوں میں ترقی: اس کے بعد تنخواہوں کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ چونکہ وہ فوج کو زراعت، تجارت اور اس قسم کے تمام اشغال سے بزور باز رکھتے تھے، اس لئے ضرور تھا کہ ان کی تمام ضروریات کی کفالت کی جائے۔ اس لحاظ سے تنخواہوں میں کافی اضافہ کیا۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شرح جو 200سالانہ تھی بڑھا کر 300 کر دی۔ افسروں کی تنخواہ سات ہزار سے لے کر دس ہزار تک بڑھا دی۔ بچوں کی تنخواہ دودھ چھوڑنے کے دن سے مقرر ہوتی تھی۔ اب حکم دے دیا کہ پیدا ہونے کے دن سے مقرر کر دی جائے۔ رسد کا انتظام: رسد کا بندوبست پہلے صرف اس قدر تھا کہ فوجیں مثلاً قادسیہ میں پہنچیں تو آس پاس کے دیہات پر حملہ کر کے جنس اور غلہ لوٹ لائیں۔ البتہ گوشت کا بندوبست دار الخلافہ سے تھا۔ یعنی حضرت عمرؓ مدینہ منورہ سے بھیجا کرتے تھے۔ 1؎ پھر یہ انتظام ہوا کہ مفتوحہ قوموں سے جزیہ کے ساتھ فی کس25آثار غلہ لیا جاتا تھا اور وہ رسد کے کام میں آتا تھا۔ مصر میں غلہ کے ساتھ روغن زیتون، شہد اور سرکہ بھی وصول کیا جاتا تھا جو سپاہیوں کے لئے سالن کا کام دیتا تھا۔ جزیرہ میں بھی یہی انتظام تھا لیکن اس میں رعایا کو زحمت ہوتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے آخر اس کے بجائے نقدی مقرر کر دی۔ 1؎ جس کو رعایا نے نہایت خوشی سے قبول کیا۔ 1؎ فتوح البلدان ص256، اصل عبارت یہ ہے: فاذا احتاجوا الی العلف والطعام اخرجوا خیو لا فی البرفا عارت علی امفل الفرات و کان عمر یبعث الیھم من المدینہ الغنم ولجزار رسد کا مستقل محکمہ: رفتہ رفتہ حضرت عمرؓ نے رسد کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا جس کا نام اہرا تھا۔ 2؎ چنانچہ شام میں عمرو بن رتبہ اس محکمہ کے افسر مقرر ہوئے۔ اہراء ہری کی جمع ہے۔ ہری ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی گودام کے ہیں۔ چونکہ رسد کے یکجا جمع ہونے اور وہاں سے تقسیم ہونے کا یہ طریقہ یونانیوں سے لیا گیا تھا۔ اس لئے نام میں بھی وہی یونانی لفظ قائم رہا۔ تمام جنس اور غلہ ایک وسیع گودام میں جمع ہوتا تھا اور مہینے کی پہلی تاریخ فی سپاہی ایک من دس ثار کے حساب سے تقسیم ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ فی کس بارہ ثار روغن زیتون اور بارہ ثار سرکہ بھی ملتا تھا۔ا س کے بعد اور بھی ترقی ہوئی یعنی خشک جنس کے بجائے پکا پکایا کھانا ملتا تھا۔ چنانچہ مورخ یعقوبی نے حضرت عمرؓ کے سفر شام کے ذکر میں اس کی تصریح کی ہے۔ خوراک اور کپڑا اور بھتہ تنخواہ اورخوراک کے علاوہ کپڑا بھی دربار خلافت سے ملتا تھا جن کی تفصیل وردی کے ذکر میں آئے گی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ بھتہ بھی مقرر تھا جس کو عربی میں معونتہ کہتے ہیں۔ سواری کا گھوڑا سواروں کو اپنے اہتمام سے مہیا کرنا ہوتا تھا لیکن جو شخص کم مایہ ہوتا تھا اور اس کی تنخواہ بھی ناکافی ہوتی تھی، اس کو حکومت کی طرف سے گھوڑا ملتا تھا۔ چنانچہ خاص اس غرض کے لئے حضرت عمرؓ کے حکم سے خود دار الخلافہ میں چار ہزار گھوڑے ہر وقت موجود رہتے تھے۔3؎ تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ: بھٹہ و تنخواہ وغیرہ کی تقسیم کے اوقات مختلف تھے۔ شروع محرم میں تنخواہ، فصل بہار میں بھتہ اور فصل کٹنے کے وقت خاص خاص جاگیروں کی آمدنی تقسیم ہوتی تھی۔ 4؎ تنخواہ کی تقسیم کا یہ طریقہ تھا کہ ہر قبیلے کے ساتھ ایک عریف یعنی مقدم یا رئیس ہوتا تھا۔ 1؎ فتوح البلدان: صفحہ178, 216 2؎ تاریخ طبری ص2526اہرا کے معنی اور مفہوم کے لئے دیکھو لسان العرب اور فتوح البلدان ص208 3؎ کتاب الخراج ص27، اصل عبارت یہ ہے: کان لعمر بن الخطاب اربعۃ الاف فرس فاذا کان فی عطاء الرجل خفۃ او کان محتاجا اعطاء الفرس 4؎(طبری ص2486اصل عبارت یہ ہے: وامر لھم بمعادنھم فی الربیع من کل سنۃ وبا عطیاتھم فی المحرم من کل سنۃ و بفینھم عند طلوع الشعری فی کل سنۃ وذلک عند ادراک الغلات۔ فوجی افسر جو کم سے کم دس دس سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے اور جو امراء الاعشآر کہلاتے تھے، تنخواہ ان کو دی جاتی تھی، وہ عریف کو حوالہ کرتے تھے اور عریف اپنے اپنے قبیلے کے سپاہیوں کو حوالہ کرتے تھے۔ ایک ایک عریف کے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی۔ چنانچہ کوفہ و بصرہ میں سو عریف تھے جن کے ذریعے سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی۔ اس انتظام میں نہایت احتیاط اور خبر گیری سے کام لیا جاتا تھا۔ عراق میں امرائے اعشار نے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی تو حضرت عمرؓ نے عرب کے بڑے بڑے نساب اور اہل الرائے مثلاً سعید بن عمران، مشعلہ بن نعیم وغیرہ کو بلا کر ان کی جانچ پر مقرر کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ نہایت اور تحقیق اور صحت کے ساتھ لوگوں کے عہدے اور روزینے مقرر کئے اور دس دس کے بجائے سات سات سپاہی پر ایک ایک افسر مقرر کیا۔ 1؎ عریف کا تقرر بھی فاروقی ایجادات سے تھا جس کی تقلید مدتوں تک کی گئی۔ کنز العمال باب الجہاد میں بیہقی کی روایت ہے: اول من دون الدوا ین و عرف العرفاء عمر بن الخطاب تنخواہ کی ترقی: تنخواہوں میں قدامت اور کارکردگی کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ قادسیہ میں زہرہ، عصمہ، ضبی وغیرہ نے بڑے مردانہ کام کئے تھے، اس لئے ان کی تنخواہیں دو دو ہزار سے ڈھائی ڈھائی ہزار ہو گئیں۔ مقررہ رقموں کے علاوہ غنیمت سے وقتاً فوقتاً جو ہاتھ آتا تھا اور اعلیٰ قدر مراتب فوج پر تقسیم ہوتا تھا، اس کی کچھ انتہا نہ تھی۔ چنانچہ جلولاء میں نو نو ہزار نہاوند میں چھ چھ ہزار درہم ایک ایک سوار کے حصے میں آئے۔ اختلاف موسم کے لحاظ سے فوج کی تقسیم: صحت اور تندرستی قائم رکھنے کے لئے حسب ذیل قاعدے مقرر تھے۔ 1۔ جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے لڑائی کی جہتیں متعین کر دی تھیں۔ یعنی جو سرد ملک تھے ان پر گرمیوں میں اور گرم ملکوں پر جاڑوں میں فوجیں بھیجی جاتی تھیں۔ اس تقسیم کا نام شاتیہ اور صافیہ رکھا اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے مورخین مغربی مہمات اور فتوحات کو صرف صوایف کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انتظام حضرت عمرؓ نے سنہ17ھ میں کیا تھا۔ علامہ طبری لکھتے ہیں: وسمی الثواتی والصوالف وسمی ذلک فی کل کورۃ 1؎ یہ واقعات نہایت تفصیل کے ساتھ طبری ص2495,2496 و مقریزی ص 93 میں ہیں۔ بہار کے زمانے میں فوجوں کا قیام: 2۔ فصل بہار میں فوجیں ان مقامات پر بھیج دی جاتی تھیں، جہاں کی آب و ہوا عمدہ اور سبز مرغزار ہوتا تھا۔ یہ قاعدہ اول اول سنہ 17ھ میں جاری کیا گیا جبکہ مدائن کی فتح کے بعد وہاں کی خراب آب و ہوا نے فوج کی تندرستی کو نقصان پہنچایا۔ چنانچہ عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ ہمیشہ جب بہار کا موسم آئے تو فوجیں شاداب اور سرسبز مقامات میں چلی جائیں۔ 1؎ عمرو بن العاصؓ گورنر مصر موسم بہار کے آنے کے ساتھ فوج کو باہر بھیج دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ سیر و شکار میں بسر کریں اور گھوڑوں کو چرا کر فربہ بنا کر لائیں۔ آب و ہوا کا لحاظ: 3۔ بارکوں کی تعمیر اور چھاؤنیوں کے بنانے میں ہمیشہ عمدہ آب و ہوا کا لحاظ کیا جاتا تھا اور مکانات کے آگے کھلے ہوئے خوش فضا صحن چھوڑے جاتے تھے۔ فوجوں کے لئے جو شہر آباد کئے گئے مثلاً کوفہ، بصرہ، فسطاط وغیرہ ان میں اصول صحت کے لحاظ سے سڑکیں اور کوچے اور گلیاں نہایت وسیع ہوتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کو اس میں اس قدر اہتمام تھا کہ مساحت اور وسعت کی تعین بھی خود لکھ کر بھیجی تھی۔ چنانچہ اس کی تفصیل ان شہروں کے ذکر میں گزر چکی۔ کوچ کی حالت میں فوج کے آرام کا دن: 4۔ فوج جب کوچ پر ہوتی تھی تو حکم تھا کہ ہمیشہ جمعہ کے دن مقام کرے اور پورے ایک شب و روز قیام رکھے تاکہ لوگ دم لے لیں اور ہتھیاروں اور کپڑوں کو درست کر لیں۔ یہ بھی تاکید کی تھی کہ ہر روز اسی قدر مسافت طے کریں جس سے تھکنے نہ پائیں اور پڑاؤ وہیں کیا جائے جہاں ہر قسم کی ضروریات مہیا ہوں۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاصؓ کو جو فرمان فوجی ہدایتوں کے متعلق لکھا اس میں اور اہم باتوں کے ساتھ ان تمام جزئیات کی تفصیل بھی لکھی۔ 2؎ 1؎ تاریخ طبری میں ہے: وکتب عمر الی سعد بن مالک والی عتبۃ بن غزوان ان یتربھا بالناس فی کل حین ربیع فی ائیب ارضیھم کتاب مذکور ص2486 2؎ عقد الفرید جلد اول ص49میں یہ فرمان بعینہ منقول ہے۔ رخصت کے قاعدے: رخصت کا بھی باقاعدہ انتظام تھا۔ جو فوجیں دور دراز مقامات پر مامور تھیں، ان کو سال میں ایک دفعہ ورنہ دو دفعہ رخصت ملتی بلکہ ایک موقع پر جب انہوں نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی جدائی میں درد ناک اشعار پڑھتے سنا تو افسروں کو احکام بھیج دئیے کہ کوئی شخص چار مہینے سے زیادہ باہر رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ لیکن یہ تمام آسانیاں اسی حد تک تھیں جہاں تک ضرورت کا تقاضا تھا،و رنہ آرام طلبی، کاہلی، عیش پرستی سے بچنے کے لئے سخت بندشیں کی تھیں نہایت تاکید تھی کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ میں کھانا نہ چھوڑیں (مطلب یہ کہ دھوپ میں کچھ دیر گزاریں، بالکل آرام طلب نہ ہوں)، حماموں میں تنہا نہ نہائیں۔ فوج کا لباس: تاریخوں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت عمرؓ نے فوج کے لئے کوئی خاص لباس جس کو وردی کہتے ہیں قرار دیا تھا۔ فوج کے نام ان کے جو احکام منقول ہیں ان میں صرف اس قدر ہے کہ لوگ عجمی لباس نہ پہنیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل پر چنداں زور نہیں دیا گیا۔ کیونکہ سنہ 21 ھ می جب مصر میں ذمیوں پر جزیہ مقرر ہوا تو فوج کے کپڑے بھی اس میں شامل تھے اور وہ یہ تھے: اون کا جبہ، لمبی ٹوپی یا عمامہ، پاجامہ اور موزہ1؎ حالانکہ اول اول پاجامہ اور موزہ کو حضرت عمرؓ نے بتصریح منع کیا تھا۔ فوج میں خزانچی و محاسب و مترجم فوج کے متعلق حضرت عمرؓ کی اور بہت سی ایجادیں ہیں جن کا عرب میں کبھی وجود نہ تھا۔ مثلاً ہر فوج کے ساتھ ایک افسر خزانہ، ایک محاسب، ایک قاضی اور متعدد مترجم ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد طبیب اور جراح ہوتے تھے۔ چنانچہ قادسیہ میں عبدالرحمن بن ربیعہ قاضی، زیاد بن ابی سفیان محاسب اور ہلال ہجری مترجم2؎ تھے۔ فوج میں محکمہ عدالت، سر رشتہ حساب، مترجمی اور ڈاکٹری کی ابتدا بھی اسی زمانے سے ہے۔ فن جنگ میں ترقی: فوجی قواعد کی نسبت ہم کو صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمرؓ فوجی افسروں کو جو احکام بھیجتے تھے ان میں چار چیزوں کے سیکھنے کی تاکید ہوتی تھی۔ تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا اور ننگے پاؤں چلنا۔ اس کے سوا ہم کو معلوم نہیں کہ فوج کو کسی قسم کی قواعد سکھلائی جاتی تھی۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں سابق کی نسبت فن جنگ نے بہت ترقی کی۔ 1؎ فتوح البلدان ص215 2؎ طبری واقعات سنہ14ھ ص2226 عرب میں جنگ کا پہلے یہ طریقہ تھا کہ دونوں طرف کے غول بے ترتیب کھڑے ہو جاتے تھے، پھر دونوں طرف سے ایک ایک سپاہی نکال کر لڑتا تھا اور باقی تمام فوج چپ کھڑی رہتی تھی۔ اخیر میں عام حملہ ہوتا تھا۔ اسلام کے آغاز میں صف بندی کا طریقہ جاری ہوا اور فوج کے مختلف حصے قرار پائے۔ مثلاً میمنہ، میسرہ وغیرہ لیکن ہر حصہ بطور خود لڑتا تھا یعنی تمام فوج کسی ایک سپہ سالار کے نیچے رہ کر نہیں لڑتی تھی سب سے پہلے سنہ 15ھ میں یرموک کے معرکہ میں حضرت خالدؓ کی بدولت بعبیہ کی طرز پر جنگ ہوئی۔ 1؎ یعنی کل فوج جس کی تعداد 40 ہزار کے قریب تھی 36صفوں میں تقسیم ہو کر حضرت خالدؓ کی ماتحتی میں کام کرتی تھی اور وہ تمام فوج کو تنہا لڑاتے تھے۔ فوج کے حصے: حضرت عمرؓ کے زمانے میں فوج کے جس قدر حصے اور شعبے تھے، حسب ذیل ہیں: قلب : سپہ سالار اسی حصے میں رہتا تھا۔ مقدمہـ: قلب کے آگے کچھ فاصلے پر ہوتا تھا۔ میمنہ: قلب کے دائیں ہاتھ پر رہتا تھا۔ میسرہ: قلب کے بائیں ہاتھ پر رہتا تھا۔ ساقہ: سب سے پیچھے۔ طلیعہ: گشت کی فوج جو دشمن کی فوجوں کی دیکھ بھال رکھتی تھی۔ رد: جو ساقہ سے پیچھے رہتی تھی تاکہ دشمن عقب سے حملہ نہ کر سکے۔ رائد: جو فوج کے چارہ اور پانی کی تلاش کرتی تھی۔ رکبان: شتر سوار فرسان: سوار راجل: پیادہ رماۃ: تیر انداز 1؎ علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں فصل فی الحروب کے عنوان سے عرب اور فارس و روم کے طریقہ جنگ ایک مفصل مضمون لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ بعییہ کا طریقہ اول اول مروان بن الحکم نے قائم کیا۔ لیکن یہ غلط ہے۔ طبری اور دیگر مورخین نے بتصریح لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں اول اول خالدؓ نے بعینہ کی طرز پر صف آرائی کی۔ ہر سپاہی کو جو ضروری چیزیں ساتھ رکھنی پڑتی تھیں ہر سپاہی کو جنگ کی ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ساتھ رکھنی پڑتی تھیں۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ کثیر بن شہاب (حضرت عمرؓ کے ایک فوجی افسر تھے) کی فوج کا ہر سپاہی اشیائے ذیل ضرور اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ سوئیاں، سوا، ڈورا، قینچی، سوتالی، توبرا اور چھلنی۔ 1؎ قلعہ شکن آلات: قلعوں پر حملہ کرنے کے لئے منجنیق کا استعمال اگرچہ خود آنحضرت ؐ کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے 8ھ میں طائف کے محاصرے میں اس سے کام لیا گیا لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس کو بہت ترقی ہوئی اور بڑے بڑے قلعے اس کے ذریعے سے فتح ہوئے۔ مثلاً16ھ میں بہر سیر کے محاصرے میں 20 منجنیقیں استعمال کی گئیں۔ محاصرے کے لئے ایک اور آلہ تھا جس کو دبابہ کہتے تھے۔ یہ ایک لکڑی کا برج ہوتا تھا جس میں اوپر تلے کئی درجے ہوتے تھے اور نیچے پہیے لگے ہوتے تھے۔ سنگ اندازوں اور نقب زنوں اور تیر اندازوں کو اس کے اندر بٹھا دیا جاتا تھا اور اس کو ریلے ہوئے آگے بڑھاتے چلتے تھے۔ اس طرح قلعہ کی جڑ میں پہنچ جاتے تھے اور قلعہ کی دیواروں کو آلات کے ذریعے سے توڑ دیتے تھے۔ بہر سیر کے محاصرہ میں یہ آلہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔ سفر مینا: راستہ صاف کرنا، سڑک بنانا، پل باندھنا یعنی جو کام آج کل سفر مینا کی فوج سے لیا جاتا ہے، اس کا انتظام نہایت معقول تھا اور یہ کام خاص کر مفتوحہ قوموں سے لیا جاتا تھا۔ عمرو بن العاصؓ نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے یہ شرط منظور کی کہ فوج اسلام جد ہر رخ کر ے گی، سفر مینا کی خدمتوں کو مصری انجام دیں گے۔ 2؎ چنانچہ عمرو بن العاصؓ جب رومیوں کے مقابلے کے لئے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو خود مصری منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ کر لیا تھا، اس واسطے قبطی خود بڑی خوشی سے ان خدمتوں کو انجام دیتے تھے۔ 1؎ فتوح البلدان ص318 1؎ مقریزی ص163میں ہے: فخرج عمرو بالمسلمینو خرج معہ جماعۃ من روساء القبط و قد اصلحوالھم الطرق و اقاموا لھم الجسور والاسواق۔ خبر رسانی اور جاسوسی: جاسوسی اور خبر رسانی کا انتظام نہایت خوبی سے کیا گیا تھا اور اس کے لئے قدرتی سامان ہاتھ آ گئے تھے۔ شام و عراق میں کثرت سے عرب آباد تھے اور ان میں سے ایک گروہ کثیر نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ چونکہ مدت سے ان ممالک میں رہتے آئے تھے، اس لئے کوئی واقعہ ان سے چھپ نہیں سکتا تھا۔ ان لوگوں کو اجازت تھی کہ اپنا اسلام لوگوں پر ظاہر نہ کریں اور چونکہ یہ لوگ طاہر وضع قطع سے پارسی یا عیسائی معلوم ہوتے تھے، اس لئے دشمن کی فوجوں میں جہاں چاہتے تھے، چلے جاتے تھے۔ یرموک، قادسیہ اور تکریت میں انہی جاسوسوں کی بدولت بڑے بڑے کام نکلے۔2؎ شام میں ہر شہر کے رئیسوں نے خود اپنی طرف سے اور اپنی خوشی سے جاسوس لگا رکھے تھے جو قیصر کی فوجی تیاریوں اور نقل و حرکت کی خبریں پہنچاتے تھے۔ قاضی ابویوسف صاحب کتاب الخراج میں لکھتے ہیں: فلما رای اہل الذمۃ وفاء المسلمین لھم و حسن السیرۃ فیھم صاروا اشداء علی عدو المسلمین و عونا للمسلمین علی اعدایھم فبعث اہل کل مدینۃ ممن جیری الصلح بینھم و بین المسلمین رجالا من قبلھم یتجسوان الاخبار عن الروم و عن ملکھم وما یریدون ان یصنعوا ۔2؎ خبر رسانی اور جاسوسی: اردن اور فلسطین کے اضلاع میں یہودیوں کا ایک فرقہ رہتا تھا جو سامرہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ خاص جاسوسی اور خبر رسانی کے کام کے لئے مقرر کئے گئے اور اس کے ھلے میں ان کی مبقوضہ زمینیں ان کو معافی میں دے دی گئیں۔ 3؎ اسی طرح جراجمتہ کی قوم اس خدمت پر مامور ہوئی اور ان کو بھی خراج معاف کر دیا گیا۔ فوجی انتظام کے سلسلے میں جو چیز سب سے بڑھ کر حیرت انگیز ہے یہ ہے کہ باوجودیکہ اس قدر بے شمار فوجیں تھیں اور مختلف ملک، مختلف قبائل، مختلف طبائع کے لوگ اس سلسلے میں داخل تھے۔ 2؎ تاریخ شام للا زدی ص154 و طبری ص2249, 2475۔ ازدی کی عبارت یہ ہے: لما نزلت الروم منزلھم الذی نزلوا بہ دسستا الیہم رجالا من اہل البلد کانوا نصاری و حسن اسلامھم، وامر ناھم ان یدخلوا عسکرھم ویکتموا اسلامھم و یاتوا باخبارھم۔ 2؎ کتاب مذکور ص80 3؎ فتوح البلدان ص158 اس کے ساتھ وہ نہایت دور دراز مقامات تک پھیلی ہوئی تھی، جہاں سے دار الخلافہ تک سینکڑوں ہزاروں کوس کا فاصلہ تھا، تاہم فوج اس طرح حضرت عمرؓ کے قبضہ قدرت میں تھی کہ گویا وہ خود ہر جگہ فوج کے ساتھ موجود ہیں۔ اس کا عام سبب تو یہ حضرت عمرؓ کی سطوت اور ان کا راب و داب تھا۔ پرچہ نویسیوں کا انتظام: لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت عمرؓ نے ہر فوج کے ساتھ پرچہ نویس لگا رکھے تھے اور فوج کی ایک ایک بات کی ان کو خبر پہنچتی رہتی تھی۔ علامہ طبری ایک ضمنی موقع پر لکھتے ہیں: وکانت تکون لعمر العیون فی کل جیش فکتب الی عمر بما کان فی تلک الغزاۃ و بلغہ الذی قال عتبۃ1؎ ایک اور موقع پر لکھتے ہیں: وکان عمر لا یخفی علیہ شیئی فی عملہ۔ 2؎ اس انتظام سے حضرت عمرؓ یہ کام لیتے تھے کہ جہاں فوج میں کسی شخص سے کسی قسم کی بد اعتدالی ہو جاتی تھی فوراً اس کا تدارک کر دیتے تھے۔ جس سے اوروں کو بھی عبرت ہو جاتی تھی۔ ایران کی فتوحات میں عمرو معدی کرب نے ایک دفعہ اپنے افسر کی شان میں گستاخانہ کلمہ کہہ دیا تھا۔ فوراً حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی اور اسی وقت انہوں نے عمرو معدی کرب کو تحریر کے ذریعے سے ایسی چشم نمائی کی کہ پھر ان کو کبھی ایسی جرات نہیں ہوئی۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں جن کا اسقصاء نہیں ہو سکتا۔ صیغہ تعلیم حضرت عمرؓ نے اگرچہ تعلیم کو نہایت ترقی دی تھی۔ تمام ممالک مفتوحہ میں ابتدائی مکاتب قائم کئے تھے جن میں قرآن مجید، اخلاقی اشعار اور امثال عرب کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے علمائے صحابہؓ اضلاع میں حدیث و فقہ کی تعلیم کے لئے مامور کئے تھے۔ مدرسین اور معلمین کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں لیکن چونکہ زیادہ تر مذہبی تھی، اس لئے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ’’ صیغہ مذہبی‘‘ کے بیان میں آئے گا۔ 1؎ طبری ص2526 2؎ طبری ص2208 صیغہ مذہبی خلافت کی حیثیت سے حضرت عمرؓ کا جو اصلی کام تھا وہ مذہب کی تعلیم و تلقین تھا اور در حقیقت حضرت عمرؓ کے کارناموں کا طغرا یہی ہے لیکن مذہب کی روحانی تعلیم یعنی توجہ الی اللہ استغراق فی العبادۃ، صفائے قلب، قطع علائق، خضوع و خشوع۔ یہ چیزیں کسی محسوس اور مادی سر رشتہ انتظام کے تحت میں نہیں آ سکتیں۔ اس لئے نظام حکومت کی تفصیل میں ہم اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر حضرت عمرؓ کے ذاتی حالات میں آئے گا۔ البتہ اشاعت اسلام، تعلیم قرآن و حدیث، احکام مذہبی کا اجراء اس قسم کے کام انتظام کے تحت میں آ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان کے متعلق جو کچھ کیا اس کی تفصیل ہم اس موقع پر لکھتے ہیں۔ اشاعت اسلام کا طریقہ:ـ اس صیغے کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا۔ اشاعت اسلام کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو تلوار سے مسلمان بنایا جائے۔ حضرت عمرؓ اس طریقے کے بالکل خلاف تھے اور جو شخص قرآن مجید کی اس آیت پر لا اکراہ فی الدین بلا تاویل عمل کرنا چاہتا ہے وہ ضرور اس کے خلاف ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے خود ایک موقع پر یعنی جب ان کا غلام باوجود ہدایت و ترغیب کے اسلام نہ لایا تو فرمایا کہ:لا اکراہ فی الدین 1؎ اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ حضرت عمرؓ جس ملک پر فوجیں بھیجتے تھے، تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول و عقائد سمجھائے جائیں۔ چنانچہ فاتحہ ایران سعد بن ابی وقاصؓ کو جو خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے: وقد کنت امر تک ان تدعوا من لقیت الی الاسلام قبل القتال قاضی ابو یوسف صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تھی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا تھا۔ 2؎ یہ ظاہر ہے کہ فوج افسروں کے لئے علم و فقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی۔ شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں، انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کیں۔ 1؎ یہ روایت طبقات ابن سعد میں موجود ہے جو نہایت معتبر کتاب ہے دیکھو کنز العمال: جلد پنجم صفحہ49مطبوعہ حیدر آباد۔ 2؎ کتاب الخراج ص120 اشاعت اسلام کی سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھنچ آئیں۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا یا تھا۔ اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا۔ اسی طرح جب لوگوں کو ان کے دیکھنے اور ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی، سادگی، پاکیزگی،جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا۔ یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کو کھینچتی تھیں اور اسلام ان میں گھر کرتا جاتا تھا۔ شام کے واقعات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ رومیوں کا سفیر جارج، ابو عبیدہؓ کی فوج میں جا کر کس اثر سے متاثر ہوا اور کس طرح دفعتہ قوم اور خاندان سے الگ ہو کر مسلمان ہو گیا۔ شطا جو مصر کی حکومت کا ایک بڑا رئیس تھا، مسلمانوں کے حالات سن کرہی اسلام کا گرویدہ ہوا اور آخر د وہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ 1؎ اشاعت اسلام کے اسباب اسلامی فتوحات کی بو العجمی نے بھی اس خیال کو قوت دی ۔ یہ واقعہ کہ چند صحرا نشینوں کے آگے بڑی قدیم اور پر زور قوموں کا قدم اکھڑ جاتا تھا، خوش اعتقاد قوموں کے دل میں خود بخود یہ خیال پیدا کرتا تھا کہ اس گروہ کے ساتھ تائید آسمانی شامل ہے۔ یزدگرد شہنشاہ فارس نے جب خاقان چین کے پاس استمداد کی غرض سے سفارت بھیجی تو خاقان نے اسلامی فوج کے حالات دریافت کئے اور حالات سن کر یہ کہا کہ ایسی قوم سے مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے۔ فارس کے معرکہ میں جب پارسیوں کا ایک مشہور بہادر بھاگ نکلا اور سردار فوج نے اس کو گرفتار کر کے بھاگنے کی سزا دینی چاہی تو اس نے ایک بڑے پتھر کو تیر سے توڑ کر کہا کہ یہ تیر بھی جن لوگوں پر اثر نہیں کرتے اللہ ان کے ساتھ ہے اور ان سے لڑنا بیکار ہے۔ 2؎ 1؎ مقریزی ص226میں ہے: فخرج شطا فی الفین من اصحابہ ولحق بالمسلمین وقد کان قبل ذلک یحب الخیر ویمیل الی مایسمعہ من سیرۃ اہل الاسلام 2؎ طبری واقعات جنگ فارس ابو رجاء فارسی کے دادا کا بیان ہے کہ قادسیہ کی لڑائی میں میں حاضر تھا اور اس وقت تک میں مجوسی تھا۔ عرب نے جب تیر اندازی شروع کی تو ہم نے تیروں کو دیکھ کر کہا کہ ’’ تکلے‘‘ ہیں لیکن انہی تکلوں نے ہماری سلطنت برباد کر دی۔ مصر پر جب حملہ ہوا تو اسکندریہ کے بشپ نے قبطیوں کو لکھا کہ رومیوں کی سلطنت ہو چکی اب تم مسلمانوں سے مل جاؤ۔ 1؎ ان باتوں کے ساتھ اور اسباب بھی اسلام کے پھیلنے کا سبب ہوئے۔ عرب کے قبائل جو عراق اور شام میں آباد تھے اور عیسائی ہو گئے تھے، فطرۃ جس قدر ان کا میلان ایک نبی عربی کی طرف ہو سکتا تھا، غیر قوم کی طرف نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جس قدر زمانہ گزرتا گیا وہ اسلام کے حلقے میں آتے گئے۔ یہی بات ہے کہ اس عہد کے نو مسلم جس قدر عرب تھے اور قومیں نہ تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض بڑے بڑے پیشوائے مذہبی مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً دمشق جب فتح ہوا تو وہاں کا بشپ جس کا نام ’’ اورکون‘‘ تھا، حضرت خالدؓ کے ہاتھ پر اسلام لایا۔ 2؎ ایک پیشوائے مذہب کے مسلمان ہونے سے اس کے پیروؤں کو خواہ مخواہ اسلام کی طرف رغب ہوئی ہو گی۔ ان مختلف اسباب سے نہایت کثرت کے ساتھ لوگ اسلام لائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مورخین نے کسی موقع پر اس واقعہ کو مستقل عنوان سے نہیں لکھا جس کی وجہ سے ہم تعداد کا اندازہ نہیں بتا سکتے۔ تاہم ضمنی تذکروں سے کسی قدر پتہ لگ سکتا ہے۔ چنانچہ ہم ان کو اس موقع پر بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے جو لوگ اسلام لائے: 16ھ کے اخیر میں جب جلولاء فتح ہوا تو بڑے بڑے روساا ور نواب اپنی خوشی سے مسلمان ہو گئے۔ ان میں جو زیادہ صاحب اختیار اور نامور تھے ان کے یہ نام ہیں: جمیل بن بصبیر، بسطام بن نرسے، رفیل اور فیروز۔ ان رئیسوں کے مسلمان ہو جانے سے ان کی رعایا میں خود بخود اسلام کو شیوع ہوا۔ 3؎ قادسیہ کے معرکہ کے بعد چار ہزار دیلم کی فوج جو خسرو پرویز کی تربیت یافتہ تھی اور امپریل گارڈ یعنی شاہی رسالہ کہلاتی تھی، کل کی کل مسلمان ہو گئی۔ 1؎ مقریزی جلد اول ص289 2؎ معجم البلدان ذکر قطرہ سلمان 3؎ فتوح البلدان ص265 4؎ فتوح البلدان ص280 یزد گرد کے مقدمتہ الجیش کا افسر ایک مشہور بہادر تھا جس کا نام سیاہ تھا۔ یزد گرد جب اصفہان کو روانہ ہوا تو اس نے سیاہ کو ہلا کر تین سو بڑے بڑے رئیس اور پہلوان ساتھ کئے اور اصطخر کو روانہ کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ راہ میں ہر ہر شہر سے عمدہ سپاہی انتخاب کر کے ساتھ لیتا جائے۔ اسلامی فوجیں جب تستر پہنچیں تو سیاہ اپنے سرداروں کے ساتھ ان اطراف میں مقیم تھا۔ ایک دن اس نے تمام ہمراہیوں کو جمع کر کے کہا ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (عرب) ہمارے ملک پر غالب آ جائیں گے، اس کی روز بروز تصدیق ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ہم لوگ خود اسلام قبول کر لیں۔ چنانچہ اسی وقت سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ 1؎ یہ لوگ اساورۃ کہلاتے تھے کوفہ میں ان کے نام سے نہرا ساورۃ مشہور ہے۔ ان کے اسلام لانے پر سیابحۃ زط، اندغار بھی مسلمان ہو گئے۔ یہ تینوں قومیں اصل میں سندھ کی رہنے والی تھیں جو خسرو پرویز کے عہد میں گرفتار ہو کر آئی تھیں اور فوج میں داخل کی گئی تھیں۔ مصر میں بھی اسلام کثرت سے پھیلا۔ عمرو بن العاصؓ نے جب مصر کے بعض قصبات کے لوگوں کو اس بناء پر کہ وہ مسلمانوں سے لڑے تھے گرفتار کر کے لونڈی غلام بنایا اور وہ فروخت ہو کر تمام عرب میں پھیل گئے تو حضرت عمرؓ نے بڑی قدغن کے ساتھ ہر جگہ سے ان کو اپس لے کر مصر بھیج دیا اور لکھ بھیجا کہ ان کو اختیار ہے خواہ اسلام لائیں خواہ اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ چنانچہ ان میں سے قصبہ بلیہب کے رہنے والے کل کے کل اپنی خواہش سے مسلمان ہو گئے۔ 2؎ دمیاط کی فتح کے بعد جب اسلامی فوجیں آگے بڑھیں تو بقار اور ورادۃ سے لے کر عسقلان تک جو شام میں داخل ہے ہر جگہ اسلام پھیل گیا۔ 3؎ شطا مصر کا ایک مشہور ہے جہاں کے کپڑے مشہور ہیں یہاں کا رئیس مسلمانوں کے حالات سن کر پہلے ہی اسلام کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ جب اسلامی فوجیں دمیاط میں پہنچیں تو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ شطا سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملا اور مسلمان ہو گیا۔ 4؎ فسطاط جس کو عمرو بن العاصؓ نے آباد کیا تھا اور جس کی جگہ اب قاہرہ دار السلطنت ہے، یہاں تین بڑے بڑے محلے تھے۔ جہاں زیادہ تر نو مسلم آباد کرائے گئے تھے، ایک محلہ بنونبہ کے نام سے آباد تھا جو ایک یونانی خاندان تھا او رمسلمان ہو گیا تھا۔ مصر کے معرکہ میں اس خاندان کے سو آدمی اسلامی فوج کے ساتھ شامل تھے۔ دوسرا محلہ بنوالا رزق کے نام پر تھا۔ یہ بھی ایک یونانی خاندانی تھا اور اس قدر کثیر النسل تھا کہ مصر کی جنگ میں اس خاندان چار سو بہادر شریک تھے۔ 1؎ تاریخ مقریزی جلد اول، ص166 2؎ مقریزی ص184میں ہیـ: ولما افتح المسلمون الفرس بعد ما افتتحو دمیاط و تینس ماروا الی بقارۃ فاسلم من بھا وماروا منھا الی الواردۃ فدحل اھلھا فی الاسلام وما حولھا الی عسقلان۔ 3؎ مقریزی جلد اول، ص226 تیسر ا محلہ ردبیل کے نام سے آباد ہے۔ یہ لوگ پہلے یرموک اور قیساریہ میں سکونت رکھتے تھے پھر مسلمان ہو کر عمرو بن العاص ؓ کے ساتھ مصر چلے آئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑ ا یہودی خاندان تھا۔ مصر کی فتح میں ہزار آدمی اس خاندان سے شامل تھے۔ ۱؎ فسطاط میں ایک اور محلہ تھا جہاں صرف نومسلم مجوسی آباد کرائے گئے تھے۔ چنانچہ یہ محلہ انہی کے نام پر پارسیوں کا محلہ کہلاتاتھا۔ یہ لوگ اصل میں بازان کی فوج کے آدمی تھے جو نوشیروان کی طر ف سے یمن کا عامل تھا۔ جب اسلام کا قدم شام پہنچا تو یہ لوگ مسلمان ہو گئے اورعمرو بن العاصؓ کے ساتھ مصر آئے۔ اسی طرح اور جستہ جستہ مقاما ت سے یہ پتا چلتاہے کہ ہر جگہ کثرت سے اسلام پھیل گیا تھا مورخ بلاذری نے بالس کے ذکر میں لکھاہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ نے یہاں وہ عرب آبادکرائے جو شا م میں سکونت رکھتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے ۔۲؎ مورخ ازدی جنگ یرموک کے حالات میں لکھتاہے کہ جب رومیوںکی فوجیں یرموک میں اتریںتو وہ لوگ جاسوس بنا کر بھیجے جاتے تھے وہ وہیںکے رہنے والے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو تاکید تھی کہ اپنا اسلام ظاہر نہ کریں تاکہ رومی ان سے بدگمان نہ ہونے پائیں۔ مورخ طبری نے سنہ ۱۴ھ کے واقعات میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں بہت سے اہل عجم نے مسلمانوں کومدد دی جن میں سے کچھ لڑائی سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے اور کچھ لڑائی کے بعد اسلام لائے ۳؎۔ ان واقعات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں اسلام کثرت سے پھیلا اور تلوار سے نہیں بلکہ اپنے فیض و برکت سے۔ اشاعت اسلام کے بعد اصول مذہب اور اعمال مذہبی کی ترویج تھی یعنی جن چیزوں پراسلا م کا مدار ہے ان کا محفوظ رکھنا اور ان کی اشاعت اور رترویج کرنی۔ اس سلسلے میں سب سے مقدم قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی تعلیم و ترویج تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس کے متعلق جو کوششیں کیں ان کی نسبت شاہ ولی اللہ ؒ نے نہایت صحیح لکھا ہے کہ امروز ہر کہ قرآن می خواند از طوائف مسلمین منت فاروق اعظم ؓ درگردن اوست۔ ۱؎ اس کے متعلق پوری تفصیل مقریزی جلد اول ص ۲۹۸ میں ہے۔ ۲؎ بلاذری ص ۱۵۰ ۳؎ طبری ص ۲۲۶۱ حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں جو کوشش کی یہ مسلم ہے کہ اسلام اصل الاصول ہے قرآن مجید ہے اور اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید کاجمع کرنا‘ ترتیب دینا‘ صحیح نسخہ لکھوا کر محفوظ رکھنا‘ تمام ممالک میں اس کی تعلیم کو رواج دینا جو کچھ ہوا‘ حضرت عمرؓ کے اہتمام اور توجہ سے ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد تک قرآن مجید مرتب نہیں ہوا تھا۔ متفرق اجزاء متعد صحابہ ؓ کے پاس تھے۔ وہ بھی کچھ ہڈیوں پر کچھ کھجور کے پتوں پر کچھ پتھر کی تختیوں پر لوگوں کو پورا حفظ یاد بھی نہ تھا۔ کسی کوکوئی صورت یاد تھی کسی کوکوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد می جب مسیلمہ کذاب سے لڑائی ہوئی تو سینکڑوں صحابہؓ شہید ہوئے۔ جن میں سے بہت سے حفاظ قرآن تھے۔ لڑائی کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت بوبکرؓ کے پاس جا کر کہا کہ اگر اسی طرح حفاظ قرآن اٹھتے گئے تو قرآن جاتا رہے گا۔ اس لیے ابھی اس کی جمع و ترتیب کی فکر کرنی چاہیے حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا میں کیونکر کروں۔ حضرت عمرؓ نے بار بار ا س کی مصلحت ار ضروریات بیان کیں۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے متفق ہو گئے۔ صحابہؓ میں سے وحی کے لکھنے کا کام سب سے زیادہ زید بن ثابت ؓ نے کیا تھا۔ چنانچہ وہ طلب کیے گئے اوراس خدمت پرمامور ہوئے کہ جہاں جہاں سے قرآن کی سورتیں یا آیتیں ہاتھ آئیں یکجا کی جائیںَ حضرت عمرؓ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا ہو میرے پاس لے کر آئے۔ اس بات کا التزام کیاگیا کہ جو شخص کوئی آیت پیش کرتا تھا اس پر دو شخصوں خی اور شہادت لی جاتی تھی کہ ہم نے اس کو آنحرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں قلم بند دیکھاتھا۔ غرض اس طرح جب تمام سورتیں جمع ہو گئیں تو چند آدمی مامور ہوئے کہ ان کی نگرانی میںپورا قرآن پاک ایک مجموعہ میں لکھا جائے۔ سعید بن العاصؓ بتاتے جاتے تھے اور زید بن ابت ؓ لکھتے جاتے تھے۔ نگران لوگوں کو حکم تھا ک کسی لفظ کے تلفظ و ہجہ میں اختالف پیدا ہوا تو قبیلہ مضر کے لہجہ کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن مجید مضر ہی کی خاص زبان میں اترا ہے ۱؎۔ ۱؎ کنز العمال جلد اول صفحہ ۲۷۹ اور اتقان قرآن مجید کی حفاظت اور صحت الفاظ و اعراب کی تدبیریں اس وقت قرآن مجید کی حفاظت اور صحت کے لیے چند امور نہایت ضروری تھے۔ اول یہ کہ نہایت وسعت کے ساتھ اس کی تعلیم شائع کی یجائے اور سینکڑوں ہزاروں آدمی حافظ قرآن بنا دیے جائیں تاکہ تحریف و تغیر کااحتمال نہ رہے دوسرے یہ کہ اعراب اور الفاظ کی صحت نہایت اہتمام کے ساتھ محفوظ رکھی جائے تیسرے یہ کہ قرآن مجید کی بہت سی نقلیں ہو کر ملک میں کثرت سے شائع ہو جائیں۔ حضرت عمر ؓ نے ان تینوں امور کو اس کمال کے ساتھ انجام دیا کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہ تھا۔ قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام تمام ممالک مفتوحہ میں ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا اور معلم و قاری مقرر کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمرؓ کے اولیات میں شمار کیا جاتاہے کہ انہوںنے معلموں کی تنخواہیں مقرر کیںَ ۱؎ تنخواہیںاس وقت کے حالات کے لحاظ سے کم نہ تھیں۔ مکاتب قرآن مثلا خاص مدینہ منورہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے جو مکتب تھے ان کے معلموں کی تنخواہیں پندرہ پندرہ درہم ماہوار تھیں۔ بدوئوں کو جبری تعلیم خانہ بدوش بدوئوں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم جبری طورپر قائم کی۔ چنانچہ ایک شخص کو جس کا ام ابوسفیان تھا چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اس کو سزا دے۔ ۲؎ کتابت کی تعلیم مکاتب میں لکھنا بھی سکھلایاجاتاتھا۔ عام طورپر تمام اضلاع میں احکام بھیج دیے گئے تھے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے ابو عامر سلیم جو رواۃ حدیث میں ہیں ان کی زبانی روایت ہے کہ میں بچپن میں گرفتار ہوکر مدینہ آیا یہاں مجھ کو مکتب میں بٹھایا گیا۔ معلم مجھ سے میم لکھواتا تھا اورمیں اچھی طرح نہیںلکھ سکتا تھا تو کہتا تھا کہ گول لکھو جس طرح گائے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ ۳؎ ۱؎ سیرۃ العمر لا بن الجوزی میںہے ان عمر بن الخطاب و عثمان بن العفان کان یرزقان الموذنین والائمہ والمعلمین ۲؎ اغانی جز (۱۶) صفحہ ۵۸ اصابہ فی احوال الصحابہ میںبھی یہ واقعہ منقول ہے۔ ۳؎ معجم البلدان لغت حاضر معجم میں اس روایت کو حضرت ابوبکرؓ کے عہد کی نسبت لکھا ہے لیکن خود صاحب معجم نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس وقت تک یہ مقامات فتح نہیں ہوئے تھے۔ قراء صحابہ ؓ کا تعلیم قرآن کے لیے دور دراز مقامات پر بھیجنا صحابہؓ میں سے پانچ بزرگ تھے جنہوںنے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے زمانے میں پورا حفظ کر لیاتھا۔ معاذ بن جبلؓ ‘ عبادہ بن صامتؓ ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوبؓ اور ابو الدرداء ؓ ان میں خاص کر ابی بن کعب ؓ سید القراء تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی۔ حضرت عمرؓ نے ان سب کو بلا کر کہا کہ شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جا کرقرآن کی تعلیم دیجے۔ ابوایوبؓ ضعیف اور ابی بن کعب ؓ بیمار تھے۔ اس لیے نہ جا سکے باقی تین صاحبوں نے خوشی سے منظور کر لیا حضرت عمرؓ نے ہدایت کی کہ پہلے حمص کوجائیں۔ وہاں کچھ دن قیام کر کے جب تعیلم پھیل جائے تو ایک شخص کو وہیں چھوڑ دیں باقی دو آدمیوں میں سے ایک صاحب دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائے۔ چنانچہ یہ سب لوگ پہلے حمص گئے ۔ وہاں جب اچھی طرح بندوبست ہو گیا تو عبادہؓ نے وہیں قیام کیا اور ابو درداء ؓ دمشق اورمعاذ بن جبل ؓ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ معاذ بن جبلؓ نے طاعون عمواس میں وفات پائی ۱ ؎ لیکن ابودرداء ؓ حضرت عثمانؓ کی اخیر خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے تعلیم قرآن کا طریقہ ابودرداء ؓ کی تعلیم کا طریقہ جیساکہ علامہ ذہبی نے طبقات القراء میں لکھاہے یہ تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر جامع مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اردگرد پڑھنے والوں کاہجوم رہتا تھا ابودرداء ؓ دس دس آدمیوں کو الگ الگ جماعت کر دیتے تھے اور ہر جماعت پر ایک قاری مقرر کر دیتے تھے کہ ان کو قرآن پڑھائے خود ٹہلتے جاتے تھے اورپڑھنے والوں پر کان لگائے رہتے تھے۔ جب کوئی طالب علم پورا قرآن یاد کر لیتاتھا تو ابودردائؓ خود اس کو اپنی شاگردی میں لے لیتے تھے۔ دمشق کی مسجد میں قرآن کے طلبہ کی تعداد ایک دن ابودردائؓ نے شمار کرایا تو سولہ سو طالب علم ان کے حلقہ درس میں موجود تھے۔ ۱؎ یہ تمام تفصیل کنزالعمال میں جلد اول میں ہے اور اصل روایت طبقات ابن سعد کی ہے۔ اشاعت قرآن کے اور وسائل حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی زیادہ اشاعت کے لیے ان تدبیروں کے ساتھ اور بہت سے وسائل اختیار کیے ۔ ضروری سورتوں یعنی بقرہ ‘ نساء مائدہ حج اور نور کی نسبت یہ حکم دیا کہ سب لوگ اس قدر قرآن سیکھیں کیونکہ ان میں احکام اور فرائض مذکورہیں۔ ۱؎ عمال کو لکھ کر بھیجا کہ جو ولگ قرآن مجید سیکھیں ان کی تنخواہیں مقرر کر دی جائیں ۲؎ (بعد میں جب ضرورت نہ رہی تو یہ حکم منسوخ کر دیا) اہل فوج کو جو ضروری ہدایتیں لکھ کر بھیجا کرتے تھے ان میںیہ بھی ہوتا تھا کہ قرآن مجیدپڑھنا سیکھیں ۔ وقتاً فوقتاً عمال سے قرآن خوانوں کارجسٹر منگواتے رہتے تھے۔ حافظوں کی تعداد ان تدبیروں کا یہ نتیجہ ہوا کہ بے شمار آدمی قرآن پڑھ گئے۔ ناظرہ خوانوں کا تو شمار نہ تھا لیکن حافظوں کی تعداد بھی سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی افسروں کو جب اس مضمون کا خط لکھ کر بھیجا کہ حفاظ قرآن کو میرے پا س بھیج دو تاکہ میں ان کو قرآن کی تعلیم کے لیے جا بجا بھیجوں تو سعد بن ابی وقاص ؓ نے جواب میں لکھاکہ میری فوج میں صرف تی سو حافظ موجود ہیں ۳؎۔ صحت اعراب کی تدبیریں تیسرا امر یعنی صحت اعراب و صحت تلفظ اس کے لیے بھی نہایت اہتمام کیا اور درحقیقت یہ سب سے مقدم تھا قرآن مجید جب مرتب ومدون ہوا تھا تو اعراب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے صرف قرآن مجید کا شائع ہونا کچھ مفید نہ تھا۔ اگر صحت و تلفظ کا اہتمام نہ کیا جاتا حضرت عمرؓ نے اس کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کیں۔ سب سے اول یہ کہ ہر جگہ تاکیدی احکام بھیجے کہ قرآن مجید کے ساتھ صحت الفاظ اور صحت اعراب کی بھی تعلیم دی جائے۔ ان کے خاص الفاظ حسب روایت ابن الانباری یہ ہیں تعلموا اعراب القرآن کما تعلمون حفظہ اور مسند دارمی میں یہ الفاظ ہیں تعلمو الفرائض واللحن والسنن کما تعلمو القرآن۔ ۱؎ کنز العمال جلد اول صفحہ ۲۴ ۲؎ کنزالعمال جلد اول صفحہ ۲۱۷ ۳؎ کنزل العمال جلد اول ص ۲۱۷ ادب اور عربیت کی تعلیم دوسرے یہ کہ قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ادب اور عربیت کی تعلیم بھی لازمی کر دی تاکہ لوگ خود اعراب کی صحت و غلطی کی تمیز کر سکیں۔ تیسرے یہ حکم دیا کہ کوئی شخص جو لغت کا عالم نہ ہو قرآن نہ چڑھانے پائے ۱؎۔ قرآن مجید کے بعد احادیث کا درجہ ہے حضرت عمرؓ نے اگرچہ حدیث ک ترویج میں نہایت کوشش کی لیکن احتیاط کو ملحوظ رکھا اور یہ ان کی دقیقہ سنجی کی سب سے بڑی دلیل ہے وہ بجز مخصوص صحابہ کرامؓ کے عام طورپر لوگوں کو روایت حدیث ک یاجازت نہیں دیتے تھے۔ حدیث کی تعلیم شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں: چنانکہ فاروق اعظم عبداللہ بن مسعود رابا جمعے بکوفہ فرستاد و معقل بن یسار و عبداللہ بن مغفل و عمران بن حصین رابہ بصرہ و عبادۃ بن صامت و ابودرداء ربشا و بہ معاویہ بن ابی سفیان کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ ز حدیث ایشاں تجاوز نکند ؎۲ حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ نے روایت حدیث کے متعلق جو اصول قائم کیے تھے وہ ان کی نکتی سنجی کا بہت کارنامہ ہے۔ لیکن ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان کے ذاتی حالات میں ان کے فضل و کمال کا جہاں ذکر آئے گا ہم اس کے متعلق بہت تفصیل سے کام لیں گے۔ فقہ حدیث کے بعد فقہ کا رتبہ ہے اور چونکہ مسائل فقیہ سے ہر شخس کو ہر روز کام پڑتاہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے اس کو اس قدر اشاعت دی کہ آج باوجود بہت سے نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں یہ نشر و اشاعت ممکن نہیں۔ مسائل فقیہہ کی روج کے لیے جو تدبیریں اختیار کی گئیں حسب ذیل ہیں۔ مسائل فقہ کی اشاعت ٭ جہاں تک وقت اور فرصت مساعدت کر سکتی تھی خود بالمشافہ احکام مذہبی کی تعلیم کرتے تھے۔ جمعہ کے دن جو خطبہ پڑھتے تھے اس میں تمام ضروری احکام اور مسائل بیان کرتے تھے۔ حج کے خطبہ میں حج کے مناسک اور احکام بیان فرماتے تھے۔ موطا امام محمد میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرفات میں مشہور خطبہ پڑھا اور حج کے تما م مسائل تعلیم کیے ۳؎ ۔ اسی طرح شام و بیت المقدس وغیرہ کے سفر میں وقتاً فوقتا ً جو مشہور ار پر اثر خطبے پڑھے ان میں اسلام کے تمام مہمات وار اصول اور ارکان بیان کیے اور چونکہ ان موقعوں پر بے انتہا کامجمع ہوتا تھا اس لیے ان مسائل کا اس قدر اعلان ہوجاتا تھا کہ اور کسی تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ ۱؎ کنزالعما ل جلد اول ص ۲۲۸ ۲؎ ازالتہ الخفاء جز دوم ص ۶ ۳؎ موطا امام محمد صفحہ ۲۲۷ دمشق میں بمقام جابیہ جو مشہور خطبہ پڑھا فقہانے اس کو بہت سے مسائل فقیہہ کے حوالے سے جا بجا نقل کیا۔ ٭ وقتاً فوقتاً عمال اور افسروں کو مذہبی احکام او ر مسائل کھ لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ مثلاً نماز پنجگانہ کے اوقات کے متعلق جس کی تعیین میں مجتہد ین آج تک مختلف ہیںں۔ تمام عمال کو ایک مفصل ہدایت نامہ بھیجا۔ چنانچہ امام مالکؒ اپنی کتاب موطا میں بعینہ س کی عبارت نقل کی ہے۔ اسی مسئلے کے متعلق ابو موسیٰ اشعریؓ کو جو تحریری بھیجی اس کو بھی امام مالک ؒ نے بالفاظہا نقل کیا ہے۔ دو نمازوں کے جمع کرنے کی نسبت تمام ممالک مفتوحہ میں تحریری اطلاع بھیجی کہ ناجائز ہے۔ ۱؎ ۴ ۱ ھ میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں قائم کی تو تمام اضلاع میںافسروں کو لکھاکہ ہرجگہ ا س کے مطابق عمل کیا جائے۔ زکوۃ کے متعلق تمام احکام مفصل لکھ کر ابوموسیٰ اشعریؓ اور دیگر افسران ملکی کے پاس بھیجے۔ اس تحریر کا عنوان جیسا کہ شاہ ولی اللہؒ نے امام مالکؒ کے حوال سے نقل کیا ہے یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا کتاب الصدقہ الخ قضا اور شہادت کے متعلق ابوموسیٰ اشعریؓ کو جو تحریر بھیجی تھی اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیںَ مہمات مسائل کے علاوہ فقہ کے مسائل جزئیہ میں بھی عمال کو لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ کو ایک دفعہ لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ مسلمان عورتیں حماموں میں جاکر عیسائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں لیکن مسلمان عورت کو کسی غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ نہیں ہوناچاہیے ۔ روزہ کے متعلق تمام اعمال کو تحریری حکم بھیجا کہ لاتکونو من المسفرین لفطر کم زید بن وہب کا بیا ن ہے کہ حضرت عمرؓ کا فرمان ہم لوگوں کے پاس آیا کہ ان المراۃ لا تصوم تطوعا الا باذن زوجھا ابووائل کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ہم لوگوں کو لکھا کہ ان الاھلۃ بعضھا اکبر من بعض اس طرح کی اور بہت سی بے شمار مثالیں ہیں۔ مسائل فقیہہ میں اجماع یہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ جو فقہی احکام حضرت عمر ؓ فرامین کے ذریعہ سے شائع کرتے تھے چونک شاہی دستور العمل کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے یہ احتیاط ہمیشہ ملحوظ رکھی جا سکتی ہے۔ کہ وہ مسائل اجماعی اور متفق علیہ ہوں۔ ۱؎ موطا امام محمد صفحہ ۱۲۹ چنانچہ بہت سے مسائل جن میں صحابہؓ کا اختلاف تھا ان کو مجمع صحابہؓ میں پیش کر کے پہلے طے کرا لیا۔ مثلاً چور ی کی سز ا جس کی نسبت قاضی ابویوسف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ ان عمر استشار فی السارق فاجمعوا الخ ؎۱ غسل جنابت کی نسبت جب اختلاف ہوا تو مہاجرین اورانصار کو جمع کر کے اوریہ مسئلہ پیش کر کے سب سے رائے طلب کی۔ لوگوں نے مختلف رائیں دیں اس وقت فرمایا: انتم اصحاب بدر و قد اختلفتم فمن بعد کم اشد اختلافا یعنی اب آپ لوگ اصھاب بدرمیں ہو کر آپس میں مختلف رائے ہیںتو آئندہ آنے والی نسلوںمیں سخت اختلاف ہو گا۔ چنانچہ ازواج مطہرات ؓ سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا اور ان کی رائے قطعی قرار پا کر شائع کی گئی ۲؎۔ جنازہ کی تکبیر میںنہایت اختلاف تھا۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کو جمع کیا اور ایک منقح بات طے ہو گئی یعنی چار تکبیر پر اتفاق ہو گیا۔ (۳) اضلاع کے عمال اور افسر جو مقرر کرتے تھے ان میں یہ حیثیت بھی ملحوظ رکھتے تھے کہ عالم اور فقیہ ہوں۔ چنانچہ بہت سے مختلف موقعوں پر اس کا اعلان کر دیا تھا۔ ایک دفعہ مجمع عام میں خطبہ دیا جس میں یہ الفاظ تھے انی اشھد کم علی امراء الامصار انی لم ابعثھم الا لیفقھوا الناس فی دینھم یعنی میں تم لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میںنے افسروں کو اس لیے بھیجا کہ لوگوں کو مسائل اور احکام بتائیںَ ۳؎ یہ التزام ملکی افسروں تک محدود نہ تھا بلکہ فوجی افسروں میں بھی اس کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ قاضی ابویوسف صاحب لکھتے ہیں ان عمر بن الخطاب کان اذا اجتمع الی جیش من اہل الایمان بعث علیھم رجلا من اھل الفقہ والعلم یہی نکتہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد فوجی اور ملکی افسروں میںہم حضرت ابوعبیدہؓ ، سلمان فارسیؓ، ابو موسی اشعریؓ ، معاز بن جبل وغیرہ کا نام پاتے ہیں جو ملکی اورفوجی قابلیت کے ساتھ ساتھ عمل و فضل میں بھی ممتاز تھے اور حدیث و فقہ میں اکثر ان کانام آتا ہے۔ فقہ کی تعلیم کا انتظام (۴) تمام ممالک محروسہ میں فقہاء اورمعلم متعین کیے کہ لوگو ں کو مذہبی احکام کی تعلیم دیںَ مورخین نے اگرچہ اس امر کو کسی عنوان کے نیچے نہیں لکھا اور اس وجہ سے ان معلموں کی صحیح تعداد معلوم نہیںہو سکتی ۔ ۱؎ کتاب مذکورص ۱۰۶ ۲؎ ازالتہ الخفاص ۸۸ ۳؎ کتاب الخراج ص ۶۷ تاہم جستہ جستہ تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر ہر شہرمیںمتعدد فقہاء اس کام پر مامور تھے۔ مثلا ً عبداللہ بن مغفلؓ کے حال میں صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے کہ یہ منجملہ ان دس بزرگوں میں سے ہیں جن کو حضرت عمرؓ نے بصرہ بھیجا تھا کہ فقہ کی تعلیم دیں ۱؎۔ عمران بن الحصین ؓ جو بہت بڑے رتبہ کے صحابی تھے‘ ان کی نسبت علامہ ذہبی طبقات الحفاظ میں لکھتے ہیں: وکان ممن بعثھم عمر بن الخطاب الی ھل البصرۃ لیفقھھم یعنی ان لوگوں میںسے ہیںجن کو حضرت عمرؓ نے بصرہ میں فقہ کی تعلیم دیے کے لیے بھیجاتھا۔ عبدالرحمن بن غنمؓ کے حال میں طبقات الحفاظ میںلکھاہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو تعلیم فقہ کے لیے شام بھیجا تھا اور صاحب اسد الغایہ نے انہی کے حالات میں لکھا ہے کہ یہی وہ شخص ہیں جنہوںنے شام کے تمام تابعین کو فقہ سکھائی۔ عبادۃ بن صامتؓ کے حال میں لکھا ہے کہ جب شام فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان کو اورمعاذ بن جبلؓ اور ابودرداء ؓ کو شام میں بھیجا تاکہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھائیں اور فقہ سکھلائیں۔ جلال الدین سیوطی نے حسن المحاصرہ فی اخبار مصر و القاہرۃ میں حبان بن ابی جبلتہ کی نسبت لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو مصرمیں فقہ کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔ ان فقہاء کے درس کا یہ طریقہ تھا کہ مساجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ جاتے تھے اور شائقین علم نہایت کثرت سے ان کے گرد حلقہ کی صورت میں جمع ہو کر فقہی مسائل پوچھتے جاتے تھے اور وہ جواب دیتے جاتے تھے۔ ابو مسلم خولانی کا بیا ن ہے کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھاکہ ۳۰ بڑے بڑے صحابہؓ وہاں تشریف رکھتے تھے اورمسائل پر گفتگوکرتے تھے لیکن جب ان کو کسی مسئلے میں شک پڑتاتھا تو ایک نوجوان شخص کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میں نے لوگوں سے اس نوجوان کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ معاذ بن جبلؓ ہیں۔ ۲؎ لیث ابن سعد کا بیا ن ہے کہ ابودردائؓ جب مسجد میں آتے تھے تو ان کے ساتھ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ جیسے بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ سب لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے ۳؎۔ ۱؎ اصل عبارت یہ ہے : احد العشرۃ الذین بعثھم عمر الی البصرۃ یفقھون الناس ۲؎ تذکرہ الحفاظ ذکر معاذ بن جبلؓ ۳؎ تذکرۃ الحفاظ ذکر ابودرداء ؓ فقہا کی تنخواہیں ابن جوزی کی تصریح سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمرؓ نے ان فقہاء کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں اور درحقیقت تعلیم کا مرتب اور منتظم سلسلہ بغیر اس کے قائم نہیں ہو سکتاتھا۔ معلمین فقہ کی رفعت شان یہ بات خاص طورپر ذکر کرنے کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ نے جن لوگوںکو تعلیم فقہ کے لیے منتخب کیا تھا مثلاً معاذ بن جبلؓ ، ابودردائؓ، عبادہ بن صامتؓ عبدالرحمن بن غمؓ، عمران بن حصینؓ، عبداللہ بن مغفلؓ تمام جماعت اسلام میں منتخب تھے۔ اس کی تصدیق کے لیے اسد الغابہ اور اصابتہ وغیرہ میںان لوگوں کے حالات دیکھنے چاہئیں۔ ہر شخص فقہ کی تعلیم کا مجاز نہ تھا ایک بات اور بھی لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس بات کی بڑی احتیاط کی کہ عموماً ہر شخص فقہ کے مسائل کا مجاز نہ ہو۔ مسائل بھی خاص کر وہ تعلیم دیے جاتے تھے جن میں صحابہ ؓ کا اتفاق رائے ہو چکا تھا یا جو مجمع صحابہؓ میں پیش ہو کر طے کر لیے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کی پوری تفصیل شاہ ولی اللہؒ نے نہایت خوبی سے لکھی ہے ہم اس کے جستہ جستہ فقرے جو ہماری بحث کے متعلق ہیں ا س مقام پر نقل کرتے ہیں۔ معھذا بعد عزم خیلفہ بر چیزے مجال مخالفت نبود۔ درجمیع ایں امور شد روندر نمی رفتند و بدون اسطلاع رائے خلیفہ کارے مصمم نمی ساختند۔ ھذا دریں عصر اختلاف مذاہب و تشتت آرا واقع تشد۔ ہمہ بریک مذہب متفق و بریک راہ مجعمع۔ چوں ایام خلافت خاصہ بالکلیہ منقرض شدہ خلافت عامہ ظہور نمود علماء در ہر بلدے مشغول بافادہ شدند۔ ابن عباس در مکہ فتویٰ می دھد و عائشہ صدیقہ و عبداللہ بن عمر در مدینہ حدیث را روایت می نمایند و ابوھریرۃ اوقات خود رابر اکثار روایت حدیث مصروف می سازد بالجملہ دیں ایام اختلاف فتاویٰ پیدا شد یکے رابر رائے دیگر اطلاع نہ واگر۔ اطلاع شدہ مذاکرہ واقع نہ واگر مذاکرہ بمیان آمد ازاحت شبھہ و خروج از مضیق اختلاف بفضائے اتفاق میسر نہ۔ اگر تتبع کنی روایت علمائے صحابہ کہ پیش از مضیق اختلاف بفضائے اتفاق میسر نہ۔ اگر تتبع کنی روایت علمائے صحابہ کہ پیش از انقراض خلافت خاصہ از عالم گزشتہ اند بغایت کم یابی و جمعے کہ بعد ایام خلافت ماندہ اند ہرچہ روایت کردہ ان بعدہ خلافت خاصہ روایت کردہ اند۔ ہر چند جمیع صحابہ عدول اند روایت ایشاں مقبول و عمل بموجب آنچہ بروایت صدوق ازیشاں ثابت شود لازم۔ اما درمیان آنچہ از حدیث و فقہ در زمن فاروق اعظم بود و آنچہ بعد وے حادث شدہ فرق بابین السموات والارض ست ؎۱ عملی انتظام یہ تمام امور جن کا اوپر ذکر ہوا علمی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ عملی صیغہ پر بھی حضرت عمرؓ نے نہایت توجہ کی او ر ہر قسم کے ضروری انتظامات قائم کیے۔ اماموں اور موذنوںکا تقرر ہر شہر و قصبہ میں امام موذن مقرر کیے اور بیت المال سے ان کی تنخواہیں مقرر کیںَ علامہ ابن الجوزی سیرۃ العمرین میں لکھتے ہیں ان عمر بن الخطاب و عثمان بن عفان کانا یرزقان الموذنین والائمۃ موطا امام محمد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں صفوں کے درست کرنے کے لیے خاص اشخاص مقرر تھے ۲؎۔ حج کے زمانے میں اس کام پرلوگ مامورہوتے تھے کہ حاجیوں کو مقام منیٰ میںعقبہ کے پاس پہنچا آئیں۔ ۳؎یہ اس غرض سے کہ اکثر لوگ ناواقفیت سے عقبہ کے اس طرف ٹھہرجاتے تھے حالانکہ وہاںٹھہرنا مناسب حج میں محسوب نہ تھا۔ حاجیوں کی قافلہ سالاری چونکہ عہد خلافت میں متصل ۱۰ حج کیے۔ اس لیے امیرحج ہمیشہ خود ہوتے تھے اور حجاج کی خبر گیری کی خدمت خود انجام دیتے تھے۔ ۱؎ ازالتہ الخفاء جلد دوم صفحہ ۱۴۰ ۲؎ موطا امام محمد ص ۶۸ ۳؎ ایضاً ص ۲۲۹ مساجد کی تعمیر تمام ممالک مفتوحہ میںنہایت کثرت سے مسجدیں تیار کرائیں۔ ابو موسیٰ اشعریؓ کو جو کوفہ کے حاکم تھے لکھا کہ بصرہ میں ایک جامع مسجد اور باقی ہر قبیلہ کے لیے الگ الگ مسجدیں تعمیر کی جائیَ سعد بن ابی وقاصؓ اور عمرو بن العاصؓ کو بھی اس قسم کے احکام بھیجے ‘ شام کے تمام عمال کو لکھا کہ ہر شہر میں ایک ایک مسجد تعمیر کی جائے ۱؎چنانچہ یہ مسجدیں آج بھی جو امع عمری کے نام سے مشہور ہیں۔ گو ان کی اصلی عمارت اب باقی نہیں رہی ہے ایک جامع عمری میں جو بیروت میں واعقع ہے راقم کو بھی نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہواہے۔ محدث جمال الدین نے روضتہ الاحباب میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ یہ خاص تعداد گو قطعی نہ ہو لیکن کچھ شبہ نہیں کہ مساجد فاروقی کا شمار ہزاروں سے کم نہ تھا۔ حرم محترم کی وسعت حرم محترم کی عمارت کووسعت دی اور اس کی زیب و زینت پر توجہ کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کو جو روز افزوں وسعت ہوتی جاتی تھی۔ اس کے لحاظ سے حرم محترم کی عمارت کافی نہ تھی۔اس لیے سنہ ۱۷ ھ میں گردوپیش کے مکانات مول لے کر ڈھا دیے اور ان کی زمین حرم کے صحن میں شامل کر دی۔ اس زمانے تک حرم کے گرد کوئی دیوار نہ تھی اور ا لیے اس کی حد عام مکانات کسے ممتازنہ تھی۔ حضرت عمرؓ نے احاطہ کی دیوار کھنچوائی او ر اس سے یہ بھی کام لیا کہ اس پر رات کو چراغ جلائے جاتے تھے۔ ۲؎ کعبہ پر غلا ف اگرچہ ہمیشہ چڑھایا جاتاتھا چنانچہ جاہلیت میںبھی نطع کا غلاف چڑھاتے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے قباطی کا بنوایا جو نہایت عمدہ قسم کا کپڑا ہوتاہے ۲؎۔ اور مصر میں بنایا جاتاہے۔ حرم کی حدود سے( جو کسی طرف سے تین میل اور کسی طرف سے ۷ سے ۹ میل ہیں) چونکہ بہت سے شرعی احکام متعلق ہیں۔ چنانچہ اسی غرض سے چروں طرف پتھر کھڑے کر دیے گئے تھے جو صاحب حرم کہلاتے تھے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے سنہ ۱۷ ھ میںنہایت اہتمام اور احتیاط سے اس کی تجدید کی۔ صحابہؓ میں سے جو لوگ حدود حرم کے بارے واقف کار تھے۔ یعنی مخرمتہ بن نوفلؓ ، ازہر بن عبد عوفؓ، جویطب بن عبدالعزیٰؓ، سعید بن یربوعؓ کواس کام پر مامور کیا اورنہایت جانچ کے ساتھ نصب کیے گئے۔ ۱؎ تاریخ مقریزی جلد دوم ص ۲۴۶ ۲؎ الاحکام السلطانیہ للماروردی ص ۱۵۴ فتوح البلدان ص ۴۶ ۳؎ فتوح البلدان ص ۴۷ مسجد نبوی کی مرمت اور وسعت مسجد نبوی کو بھی نہایت وسعت اور رونق دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمیں جو عمارت تیار ہوئی تھی وہ اس عہد کے لیے کافی تھی لیکن مدینہ منورہ کی آبادی روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی اور اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ سنہ ۱۷ ھ میں حضرت عمرؓ نے اس کو وسیع کرنا چاہا۔ گردو پیش کے تمام مکانات قیمت دے کر لیے لیکن حضرت عباسؓ نے اپنے مکان کے بیچنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمرؓ کافی معاوضہ دیتے تھے اور حضرت عباسؓ کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعبؓ کے پاس گیا۔ انہوںنے فیصلہ کیاکہ حضرت عمرؓ کو بجر خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ بلاقیمت عامتہ المسلمین کے لیے دے دیتا ہوں غرض ازواج مطہرات کے مکانات کو چھوڑ کر باقی جس قدر عمارتیں تھیں ڈھا کر مسجد کو وسعت دی گئی۔ پہلے طول ۱۰ گز تھا انہوںنے ۱۴۰ گز کر دیا۔ اسی طر ح عر ض میںبھی ۰ ۲ گز کا اضافہ ہو ا لیکن عمارت میں کچھ تکلف نہیںکیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں جس طرح ستون وغیرہ لکڑی کے تھے اب بھی لکڑی کے رہے حضرت عمر ؓ نے مسجد کی تجدید کے ساتھ ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بھی بنوایا اور لوگوں سے کہاکہ جس نے بات چیت کرنی یا شعر پڑھنا ہو تو اس کے لیے یہ جگہ ہے۱؎۔ مسجد میںفرش اور روشنی کا انتظام حضرت عمرؓ سے پہلے مسجد میں روشنی کا کچھ سامان نہ تھا۔ اس کی ابتدا بھی حضرت عمرؓ کے عہد میں ہوئی یعنی ان کی اجازت سے تمیم داریؓ نے مسجد میںچراغ جلائے۔ حضرت عمرؓ نے مسجد میں خوشبو اور بخور کا بھی انتظام کیا۔ جس کی ابتدا یوں ہوء کہ ایک دفعہ مال غنیمت میں عود کا ایک بنڈل آیا حضرت عمرؓ نے مسلمانوں میں تقسیم کرنا چاہا لیکن وہ کافی نہ تھا۔ حکم دیا کہ مسجد میں صرف کیا جائے کہ تمام مسلمانوں ک کام آئے۔ چنانچہ موذن کو حوالہ کیا۔ وہ ہمیشہ جمعہ کے دن انگیٹھی میں جا کر نمازیوں کے سامنے پھرتاتھا اور ان کے کپڑے بساتا تھا۔ ۲؎ فرش کا انتظام بھی اول حضرت عمرؓ نے ہی کیا لیکن یہ کوئی پرتکلف قالین اور شطرنجی فرش نہ تھا بلکہ اسلام کی سادگی یہاںبھی قائم تھی یعنی چٹائی کا فرش تھا جس سے مقصود یہ تھا کہ نمازیوں کے کپڑے گرد و خاک میں آلود نہ ہوں۔ ۱؎ خلاصتہ الوفا بخبار دارالمصطفی مطبوعہ مصر ص ۱۳۲‘ ۱۳۳ ۲؎ خلاصتہ الوفا ص ۱۷۴ متفرق انتظامات حکومت کے متعلق بڑے بڑے انتظامی صیغوں کا حال گزر چکا ہے لیکن ان کے علاوہ اور بہت سے جزئیا ت ہیں جن کے لیے جدا جدا عنوان قائم نہیںکیے جا سکتے۔ اس لیے ان کو یکجا لکھنا زیادہ موزوں ہو گا۔ ان میں سے ایک دفتر اور کاغذات کی ترتبی اور ان کی ضرورایات سے سن اور سال کا قائم کرنا ہے حضرت عمرؓ سے پہلے ان چیزوںکا وجود نہ تھا۔ عام واقعات کے یاد رکھنے کے لیے جاہلیت میں بعض بعض واقعات سے سن کا حساب کرتے تھے۔ مثلاً ایک زمانے تک کعب بن لوی کی وفات سے سال کا شمار ہوتاتھا‘ پھر عام الفیل قائم ہوا یعن جس سال ابرہہ الاشرم نے کعبہ پر حملہ کیاتھا پھر عام الفجار اور اسا کے بعد اور مختلف سن قائم ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مستقل سن قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ سنہ ہجری مقرر کرنا اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ سنہ ۱۶ ہجری میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک چک پیش ہوئی۔ جس پر صرف شعبان کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ۔ اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اوریہ مسئلہ پیش کیا گیا۔ اکثروں نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے۔ چنانچہ ہرمزان جو خوزستان کا بادشاہ تھا اور اسلا لا کرمدینہ منورہ میں مقیم تھا۔ طلب کیا گیا ۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاںجوحساب اس کو ماہ روز کہتے ہیں اور ا س میں مہینہ اور تاریخ دونوںکا ذکر ہوتاہے۔اس کے بعد یہ بحث ہوئی کی سنہ کی ابتدا کب سے قرار دی جائے۔ حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی یعنی سال میں دو مہینے آٹھ دن گزر چکے تھے لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس لیے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سنہ قائم کیا ۱؎۔ عرب میں اگرچہ قدیم سے لکھنے پڑھنے اور کافی الجملہ رواج تھا ۔ چنانچہ جب اسلام کا زمانہ آیا تو صرف ایک قریش کے قبیلہ میں ۱۷ شخص پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ لیکن حساب کتاب سے عموماً لوگ بے بہرہ تھے۔ یہاں تک کہ جب سنہ ۱۴ ھ میں ابلہ فتح ہوا تو تمام فوج میں ایک شخص نہ تھا جس کو حساب کتاب آتا ہو اور مال غنیمت کو قاعدے سے تقسیم کر سکتا ہو۔ مجبوراً لوگوں نے ایک ۱۴ سالہ لڑکے یعنی زید بن ابی سفیان کی طرف رجوع کیا اورصلے میں اس کی تنخواہ دو درہم یومیہ مقرر کی ۲؎ ۔ یا تو یہ حالت تھی یاحضرت عمرؓ کی بدولت نہایت خوبی سے ہر قسم کے مفصل کاغذات اور نقشے تیار ہوئے۔ ۱؎ مقریزی جلد اول‘ ص ۲۸۴ ۲؎ طبری ص ۲۳۸۸ مختلف قسم کے رجسٹر سب سے مشکل اور پرپیچ روزینہ داروں کا حساب تھا جو اہل عطا کہلاتے تھے اور جن میں ہر قسم کی فوجیں بھی شامل تھیں ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز تھی اور مختلف گروہوں کو مختلف حیثیتوں سے تنخوا ہ ملتی تھی ۔مثلاً بہادری کے لحاظ سے شرافت کے لحاظ سے‘ پچھلی کارگزاریوں کے لحاظ سے اس کے ساتھ قبائل کی تفریق بھی ملحوظ تھی‘ یعنی ہر ہر قبلہ کا جداجدا رجسٹرتھا اور ان میں مختلف وجوہ کے لحاظ سے ترتیب قائم رکھی جاتی تھی۔ اس صیغے کے حساب و کتاب کی درستی کے لیے حضرت عمرؓ نے بڑے بڑے قابل لوگوں کومامور کیامثلاً دارالخلافہ میں عقیل بن ابی طالب‘ مخرمہ بن نوفل‘ جبیر بن مطعمؓ کو بصرہ میں مغیرہ بن شعبہؓ کو کوفہ میں عبداللہ بن خلف ؓ کو۔ دفتر خراج خراج کا تمام دفتر جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ فارسی ‘شامی ‘ قبطی زبان میں رہا کیونکہ عرب میں اس فن کو اس قدر ترقی نہیںہوئی تھی کہ یہ دفتر عربی زبان میںمنتقل ہو سکتا۔ بیت المال کے کاغذات کا حساب بیت المال کا حساب نہایت صحت سے مرتب رہتا تھا۔ زکوۃ و صدقہ میں جو مویشی آتے تھے ۔ بیت المال سے متعلق تھے۔ چنانچہ ان کے رجسٹر تک نہایت تفصیل سے مرتب تھے۔ جانوروں کارنگ حلیہ اور عمر تک لکھی جاتی تھی اور بعض وقت خو د حضرت عمرؓ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ ۱؎ مصارف جنگ کے کاغذات مصارف جنگ اور مال غنیمت کا حساب ہمیشہ افسروں سے طلب کیاجاتا تھا۔ چنانچہ حضرت خالدؓ کی پہلے معزولی اسی بنا پر ہوئی تھی کہ وہ کاغذات حساب کے بھیجے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے تھے ۲؎۔ جلولاء کی فتح میں جو سنہ ۱۶ھ میں واقع ہوئی تھی۔ زیاد بن ابی سفیانؓ حساب کے کاغذات لے کر مدینہ میں آئے تھے اور حضرت عمرؓ کو ملاحظہ کرایا تھا۔ ۳؎ ۱؎ طبری ص ۳۶‘۲۷ ۲؎ اصابہ فی احوال الصابتہ تذکرہ خالد بن ولید ۳؎ طبری ص ۶۵‘۲۴ مردم شماری کے کاغذات زکوۃ اور جزیہ کی تشخیص کی ضرورت سے ہر مقام کی مردم شماری کرائی گئی تھی۔ اور اس کے کاغذات نہایت اہتمام سے محفوظ تھے۔ چنانچہ مصر و عراق کی مردم شماری کا حال مقریزی اور طبری نے تفصیل سے لکھا ہے۔ خاص خاص صفتوں کے لحاظ سے بھی نقشے تیار کرائے گئے تھے۔ مثلاً سعد بن ابی وقاصؓ کو حکم بھیجا تھا کہ جس قدر آدمی قرآن پڑھ سکتے ہیں ان کی فہرست تیار کی جائے۔ شاعروں کی فہرست بھی طلب کی تھی چنانچہ اس کاذکر کسی اور موقع پر آئے گا۔ مفتوحہ ممالک کی قوموں یا اور لوگوں سے جس قدر تحریری معاہدے ہوتے تھے وہ نہایت حفاظت سے ایک صندوق میں رکھے جاتے تھے جو خاص حضرت عمرؓ کے اہتمام میں رہتے تھے ۱؎ کاغذات کے حساب کے لکھنے کا طریقہ اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ اس وقت تک حساب کتاب کے لکھے کا یہ طیرقہ تھا کہ مستطیل کاغذ پر لکھتے تھے اور اس کو لپیٹ کر کرھتے تھے۔ بعینہ اس طرح جس طرح ہمارے ملک میںمہاجنوں کی بہیاں ہوتی ہیں۔ کتاب اور رجسٹر کا طریقہ خلیفہ سفاح کے زمانے میں اس کے وزیر خالد برمکی نے ایجاد کیا سکہ سکہ کی نسبت اگرچہ عام مورخوںنے لکھا ہے کہ عرب میں سب سے پہلے جس نے سکہ جاری کیا وہ عبدالملک بن مروان ہے۔ لیکن علامہ مقریزی کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے موجد بھی عمر فاروقؓ ہی ہیںَ چنانچہ اس موقع پر ہم علامہ موصوف کی عبارت کا لفظی ترجمہ کرتے ہیں: جب امیر المومنین حضرت عمرؓ خلیفہ مقرر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مصر و شام اور عراق فتح کیا انہوںنے سکہ کے معاملہ میں کچھ دخل نہیں دیا بلکہ پرانے سکے جوجاری تھے بحال رے دیے۔ سنہ ۱۸ھ میں جب مختلف مقامات سے سفارتیں آئیں توبصرہ سے بھی سفراء آئے جن میں احف بن قیس بھی شامل تھے۔ احف نے باشندگان بصرہ کی ضروریات اور حاجتیں بیان کیں۔ ۱؎ مقریزی جلد اول ص ۲۶۵ حضرت عمرؓ نے ان کی درخواست پر معقل بن یسارؓ کو بھیجا جنہوںںے بصرہ میںایک نہر تیار کرائی جس کا نام نہر معقل ہے اور جس کی نسبت یہ فقرہ مشہور ہے: اذاجاء نھر اللہ بطل نھر معقل حضرت عمرؓ نے اسی زمانے میں یہ انتظام کیا کہ ہر شخس کے لیے ایک جریب غلہ اور دو درہم ماہوار مقرر کیے۔ اسی زمانے میں حضرت عمرؓ نے اپنے سکہ کے درہم جاری کیے اورجو نوشیروانی سکہ کے مشابہ تھے ۔ البتہ اتنا فرق تھا کہ حضرت عمرؓ کے سکوں پر الحمد اللہ اور بعض سکوں پر محمد رسول اللہ اور بعض پر لا الہ اللہ وحدہ لکھا ہوتا تھا حضرت عمرؓ کے اخیر زمانے میںدس درہم کا مجموعی وزن چھ مشقال کے برابر ہوتا تھا۔ ۱؎ یہ مقریزی کی خا ص روایت ہے لیکن اس قدر عموماً مسلم ہے کہ حضرت عمرؓ نے سکہ میں ترمیم و اصلاح کی۔ علامہ ماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا کہ ایران کے تین قسم کے درہم تھے ۔ بغلی آٹھ دانگ کا‘ طبری چار دانگ کا‘ مغربی تین دا نگ ک۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ بغلی اورطبری چونکہ زیادہ چلتے ہیں اس لیے دونوں کو ملا کر اس کا نصف اسلامی درہم قرار دیا جائے۔ چنانچہ اسلامی درہم چھ دانگ کا قرار پایا۔ ۲؎ ذمی ۳؎ رعایا کے حقوق پارسیوں اور عیسائیوں کابرتائو غیر قوموں کے ساتھ حضرت عمرؓ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دیے اس کا مقابلہ اگر اس زمانے کی سلطنتوںسے کیا جائے تو کسی طرح کا تناسب نہ ہو گا۔ حضرت عمرؓ کے ہمسایہ میں جو سلطنتیں تھیں وہ روم اور فارس تھیں۔ ان دونوں سلطنتوں میںغیر قوموں کے حقوق غلاموںسے بھی بدتر تھے۔ شا م کے عیسائی باوجودیکہ رومیوں کے ہم مذہب تھے۔ تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینوں پر کسی قسم کا مالکانہ حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ خود ایک قسم کی جائیداد خیا ل کیے جاتے تھے۔ چنانچہ زمین کے انتقال کے ساتھ وہ بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اور مالک سابق کو ان پر جو مالکانہ اختیارات حاصل تھے وہی قابض حال کو حاصل ہوجاتے تھے۔ یہودیوں کا حال اور بدتر تھا بلکہ اس قابل نہ تھاکہ کسی حیثیت سے ان پر رعایا کا اطلاق ہو سکتا کیونکہ رعایا آخر کچھ نہ کچھ حق رکھتی ہے اور وہ حق کے نام سے بھی محروم تھے۔ فارس میں جو عیسائی تھے ان کی حالت اور بھی رحم کے قابل تھی۔ ۱؎ دیکھو کتاب المقو الاسلامیہ للمقریزی مطبوعہ مطبع جوائب سنہ ۱۲۹۸ھ صفحہ ۴‘۵ ۲؎ الاحکام السطانیہ للماوردی صفحہ ۱۴۷ ۳؎ ذی سے مراد وہ قومیں ہیں جو مسلمان نہ تھیں لیکن ممالک اسلام میں سکونت رکھتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے جب ان ممالک کو زیر نگینکیا تو دفعتہ وہ حالت بدل گئی جو حقوق ان کو دیے گئے اس کے لحاظ سے گویا وہ رعایا نہیں رہے گی بلکہ اس قسم کا تعلق رہ گیا جیسا وہ برابر کے معاہدہ کرنے والوں میں ہوتا ہے مختلف ممالک کی فتح کے وقت جو معاہدے لکھے گئے ہم ان کو اس مقام پر بعینہ نقل کرتے ہیں جس سے اس دعویٰ کی تصدیق ہو گی اور ساتھ ہی اس بات کے موازنہ کا موقع ملے گا کہ یورپ نے بایں ہمہ دعویٰ تہذیب ‘ اس قسم کے حقوق کبھی غیر قوم کو کہیں دیے ہیں؟ بیت المقدس کامعاہدہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخوں میں جومعاہدے منقو ل ہیں ان میں بعض مفصل اور باقی مجمل ہیں کیونکہ مفصل شرائط کا بار بار اعادہ کرنا تطویل مل کا باعث تھا۔ اس لیے اکثر معاہدوں میں کسی مفصل معاہدے کا حوالہ دے دیا گیاہے۔ بیت المقدس کا معاہدہ جو خود حضرت عمرؓ کی موجودگی میں اور ان کے الفاظ میں لکھا گیا ہے حسب ذیل ہے: ھذا ما اعطی عبداللہ عمر امیر المومنین اہل ایلیا من الامان اعطاھم امانا لا نفسھم واموالھم ولکنا یسھم و صلبانھم و سقیمھا و بریھا و سایر ملتھا انہ لا یسکن کنایسھم وال تھدم وال ینتقض منھا ولا من خیرھا ولا من صلبھم ولا من شئی من اموالھم ولا یکرھون علی دینھم وا یضار احد مھم ولا یسکن بایلیاء معھم احد من الیھود و علی اھل ایلیاء ان یعطوا الجزیۃ کما یعطی اہل المداین و علیھم ان یخرجو ا منھا الروم واللصوت ممن خرج منھم فھو امن علی انفسہ ومالہ حتی یبلغوا مامنھم ومن اقام منھم فھوا من وعلیہ مثل اہل اییا ء من الجزیۃ ومن احب من اہ ایلیاء ان یسر بنفسہ ومالہ مع الروم و یخلی ببعھم و صلبھم فانھم امنون علی انفسھم وعلی ببعھم و صلبھم حتی یبلغوا مامھم وعلی ما فی ھذا الکتاب عھد اللہ و ذمۃ رسول وہ ذمۃ الخلفاء و ذمۃ المومنین اذااعطوا الذی علیھم من الجزیۃ شھد علی ذلک خالد بن الولید و عمرو بن العاص و عبدالرحمن بن عوف و معاویۃ بن ابی سفیان و کتب و حضر سنہ ۱۵ھ ؎۱ ۱؎ دیکھو تاریخ ابو جعفر محمد بن جریر طبری فتح بیت المقدس ’’یہ وہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی یہ امان ان کی جان و مال گرجا‘ صلیب ‘تندرست‘ بیمار اور ان کی تام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح پر کہ ا کے گرجائوں میں نہ سکونت کی جائے گی نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا‘ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا ایلای میںان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیا والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوںکو نکال دیںَ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان و مال کو امن ہے تاآنکہ وہ جائے پناہ پہنچ جائے۔ اور جو ایلیا ہی می رہنا اختیار کرے تو اس کوبھی امن ہے اوراس کو جزیہ دینا ہو گا۔ اورایلیاء والوں میںسے جو شخص اپنی جا ن اورمال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلاجانا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجائوںاور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر اللہ کا رسول اللہ کا خلفاء کا مسلمانوں کا ذمہ ہے ۔ بشرطیکہ یہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔ اس تحریر پر گواہ خالد بن الولید اور عمرو بن العاص اور عبدالرحمن بن عوف اور معاویۃ بن ابی سفیان ؓ اور سنہ ۱۵ھ میں لکھاگیا‘‘۔ اس فرمان میں صاف تصریح ہے کہ عیسائیوں کے مال جان اور مذہب ہر طرح سے محفوظ رہے گا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کسی قوم کو جس قدر حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہی تین چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرجے اور چرچ کی نسبت یہ تفصیل ہے کہ وہ نہ توڑے جائیں گے اور نہ ان کی عمارت کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔ مذہبی آزادی کی نسبت دوبارہ تصریح ہے کہ لا یکرھون علی دینھم عیسائیوں کے خیال میں چونکہ حضرت عیسیٰ کو یہودیوں نے صلیب دے کر قتل کیا تھا اوریہ واقعہ خاص بیت المقدس میں پیش آیا تھا۔ اس لیے ا ن کی خاطر سے یہ شرط منظور کی کہ یہودی بیت المقدس میں نہ رہنے پائیں گے۔ یونانی باوجود اس کے کہ سلمانوں سے لڑے تھے اور درحقیقت وہی مسلمانوں کے اصلی دشمن تھے۔ تاہم ان کے لیے یہ رعایتیں ملحوظ رکھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں اور نکل جانا چاہیں تو نکل کر جا سکتے ہیںَ دونوں حالتوں میں ان کو امن حاصل ہو گا او ر ان کے گرجائوں اور معبدوں سے کچھ تعرض نہ کیاجائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بیت المقدس کے عیسائی اگر یہ چاہیں کہ وطن سے نکل کر رومیوں سے جا ملیں تو اس پر بھی ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا بلکہ ان کے گرجے وغیرہ جو بیت المقدس میں ہیں سب محفوظ رہیں گے۔ کیاکوئی قوم مفتوح ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر منصفانہ برتائو کر سکتی ہے؟ سب سے مقدم امر یہ ہے کہ ذمیوں کی جا و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا گیا ہے کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا ہے تو حضرت عمرؓ فوراً اس کے بدلے میں اس مسلمان کو قتل کر ا دیتے تھے امام شافعی ؒ نے روایت کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرۃ کے ایک عیسائی کو مار ڈاا حضرت عمرؓ نے لکھ بھیجا کہ قاتل مقتول کے وارثوں کے حوالے کر دیا جائے۔ چانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نا م حنین تھا‘ حوالے کیا گیا اوراس نے ا س کو قتل کر ڈالا۔ ۱؎ اور جائیداد کے متعلق ان کے حقوق کی حفاظت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے؟ کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں‘ اسی حیثیت سے بحال رکھی گئیں‘ جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس بحث کو ہم تفصیل کے ساتھ محاصل ملکی کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔ بندوبست مال گزاری میںذمیوں کا خیال مال گزاری جو شخص کی گئی وہ نہایت نرم اور ہلکی تھی۔ اس پر بھی حضرت عمرؓ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ کہیں ان پر کوئی سختی تو نہیں کی گء چنانچہ مرتے مرتے بھی یہ خیال نہ گیا۔ ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس شخص کوفہ اور دس شخص بصرہ سے طلب کیے جاتے تھے اور حضرت عمرؓ ان سے چار دفعہ بتاکید قسم لیتے تھے کہ مالگزاری کے وصول کرنے میں کچھ سختی تو نہیں کی گئی ہے۔ ۲؎ وفات کے دو تین دن پہلے کا واقعہ ہ کہ اسران کو بندوبست کو بلایا اور تشخیص جمع کے متعلق ان سے گفتگو کی اور بار بار پوچھتے رہے کہ جمع سخت تو نہیںمقرر کی گئی۔ ۳؎ ۱؎ الدرایہ فی تخریج الہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ ۳۶۰ ۲؎ کتاب الخراج صفحہ ۶۵ ۳؎ کتاب الخراج صفحہ ۲۱ میں ہے قال شھدت عمر بن الخطاب قبل ان یصاب بثلاث اور باریع واقفا علی حذیفۃ بن الیمان وعثمان بن حنیف وھو بقول لھما لعلکما حملتما الارض مالا تطیق۔ ذمیوں سے ملکی انتظامات میں مشورہ ایک بڑا حق جو رعایاکو حاصل ہو سکتا ہے یہ ہے کہ ملکی انتظامات میں ان کو حصہ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ ہمیشہ ان انتظامات میں جن کا تعلق ذمیوںسے ہوتاہے ‘ ذمیوں کے مشورہ اور استصواب کے بغیر کام نہیں کرتے تھے۔ عراق کابندوبست جب پیش تھا تو عجمی رئیسوں کو مدینہ میں بلا کر مال گزاری کے حالات دریافت کیے۔ مصر میں جو انتظام کیا اس میں مقوقس سے اکثر رائے لی۔ ۱؎ جان ومال و جائیداد کے متعلق جو حقوق ذمیوںکو دیے گئے تھے وہ صرف زبانی نہ تھے بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشتکار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے بیت المال سے دس ہزار درہم اس کو معاوضہ میں دلوائے۔ ۲؎۔ خود بالمشافہ لوگوں کو اس کی تاکید کرتے رہتے تھے۔ قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج باب الجزیہ میں روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ جب شام سے واپس آ رہے تھے تو چند آدمیوںنے دیکھا کہ دھوپ میںکھڑے ہیں اورسر پر تیل ڈال رہے ہیں۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ معلوم ہوا کہ ان لوگوںنے جزیہ ادا نہیںکیا ہے۔ اس لیے ان کو سزاد ی جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ آخر ان کا عذر کیا ہے ؟ لوگوںنے کہا کہ ناداری فرمایا کہ چھوڑ دو اور ان کو تکلیف نہ دو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ: لا تعذبوا الناس فان الذین یعذبون الناس فی الدنیا یعذبھم اللہ یو م القیامۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہ دو۔ جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب پہنچاتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو عذاب پہنچائے گا۔ ذمیوں کے شرائط کا ایفا حضرت ابوعبیدہؓ کو شام کی فتح کے بعد جو فرمان لکھا اس میں یہ الفاظ تھے: وامنع المسلمین من ظلمھم والاضرار بھم واکل اموالھم الا بحلھا وو ف لھم بشرطھم الذی شرطت لھم فی جمیع ما اعظیتھم ؎۳ ’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں نہ ان کو نقصان پہنچانے پائیں نہ ان کی مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کیں ہیں سب وفا کرو‘‘۔ ۱؎ مقریزی جلد اول ‘ ص ۱۴ ۲؎ کتاب الخراج ص ۶۸ ۳؎ کتاب الخراج صفحہ ۸۲ حضرت عمرؓ نے وفات کے قریب خلیفہ ہونے والے شخص کے لیے ایک مفصل وصیت فرمائی تھی۔ اس وصیت نامہ کو امام بخاری ابوبکر بیہقی‘ جاحظ اور بہت سے مورخین نے نقل کیا ہے۔ اس کا اخیر فقرہ یہ ہے : واوصیہ باذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ ان یو فی لھم یعھدھم وان یقاتل من ورایھم وان لا یکلفوا فوق طاقتھم ؎۱ ’’یعنی میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کا ذمہ دیا گیا ہے (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد ہے وہ پور ا کیا جائے گا اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے‘‘۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتاہے کہ حضرت عمرؓ مرتے وقت بھی ذمیوں کو نہ بھولے۔ غرفہؓ ایک صحابی تھے ۔ ان کے سامنے ایک عیسائی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی۔ غرفہؓ نے اس کے منہپر تھپڑ کھینچ مارا۔ عیسائی نے عمرو بن العاصؓ کے پاس جا کر شکایت کی۔ انہوںنے غرفہؓ کو بلا بھیجا اوربا ز پرس کی۔ غرفہؓ نے اس واقعہ کو بیان کیا۔ عمرو بن العاصؓ نے کہا ذمیوں سے امن کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ غرفہؓ نے کہا نعوذ باللہ ان کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلانیہ گالیاں دیں۔ ان سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ پنے گرجائوں می جو کچھ چاہیں کریں اور اگران پر کوئی دشمن چڑھ آئے تو ہم ان کی طرف سے سینہ سپر ہو کر لڑیں اوران پر کوئی ایسا بار نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں۔ عمرو بن العاصؓ نے کہا ہاں یہ سچ ہے ۲؎ اس واقع سے معلوم ہو سکتا ہیکہ ذمیوں کے حفظ حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ مذہبی امور میں آزادی مذہبی امور میں ذمیو ں کو پوری آزادی حاصل تھی وہ ہر قسم کے رسوم مذہبی ادا کرتے تھے۔ اعلانیہ ناقوس بجاتے تھے۔ صلب نکالتے تھے ہر قسم کے میلے ٹھیلے کرتے تھے۔ ان کے پیشو ا یان مذہبی جو مذہبی اختیارات حاصل تھے بالکل برقرار رکھے گئے تھے۔ مصر میں اسکندریہ کا پیٹریارک بنیامین تیرہ برس کا رومیوں کے ڈر سے ادھر ادھر مارا مارا پھرا۔ عمرو بن العاصؓ نے جب مصر فتح کیا تو سنہ ۲۰ھ میں اس کو تحریری امان لکھ بھیجی وہ نہایت ممنون ہو کر آیا اور پیٹریارک کی کرسی دوبارہ اس کو نصیب ہوئی۔ ۱؎ صحیح بخاری ص ۱۸۷ مطبوعہ میرٹھ۔ ۲؎ اسد الغابہ تذکرہ غرفہ۔ چنانچہ علامہ مقریزی نے اپنی کتاب (جلد اول صفحہ ۴۹۲ میں ا س واقعہ کی پوری تفصیل لکھی ہے اور معاہدات میں اورامور کے ساتھ مذہبی آزادی کا حق التزام کے ساتھ درج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض معاہدات کے اصلی الفاظ ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ حذیفہ بن الیمان نے ماہ دینار والوں کو جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ الفاظ تھے: لا یغیرون عن ملۃ ولا یحال بینھم وبین شرایعھم ؎۱ ’’ان کا مذہب نہ بدلاجائے اور ان کے مذہبی امور میں کچھ دست اندازی نہ کی جائے‘‘۔ جرجان کی فتح کے وقت یہ معاہدہ لکھا گیا: لھم الامان علی انفسھم و امواھم و مللھم و شرایعھم ولا یغیر بشئی من ذلک ؎۲ ’’ان کے جان و مال اور مذہب و شریعت کو امان ہے اوراس میں سے کسی شے میںتغیرنہ کیاجائے گا‘‘ آذربائیجا ن کے معاہدہ میں یہ تصریح تھی: الامان علی انفسھم و اموالھم و مللھم و شرائعھم ؎۳ ’’جان‘ مال مذہب اور شریعت کو امان ہے‘‘۔ موقان کے معاہدہ میں یہ الفاظ تھے الامان علی اموالھم و انفسھم وملتھم و شرایعتھم ’’جان ‘ مال ‘مذہب اور شریعت کو امان ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ اسلام کی اشاعت کی اگرچہ نہایت کوشش کرتے تھے ور منصب خلافت کے لحاظ سے ان کایہ فرض تھا لیکن وہیں تک جہاں تک وعظ اور پند کے ذریعے سے ممکن تھا۔ ورنہ یہ خیا وہ ہمیشہ ظاہر کر دیا کرتے تھے کہ مذہب کے قبول کرنے پر کوئی شخص مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اشق ان کا ایک عیسائی غلام تھا‘ اس کو ہمیشہ مذہب اسلام کے قبول کرنے کی ترغیب دلاتے تھے لیکن جب اس نے انکار کیا تو فرمایا لا اکراہ فی الدین یعنی مذہب میںزبردستی نہیں ہے۔ ۴؎ ۱؎ طبری صفحہ ۲۶۲۳ ۲؎ طبری صفحہ ۲۶۵۸ ۳؎ طبری ص ۲۲۲۶ ۴؎ کنز العمال بحوالہ طبقات ابن سعد جلد پنجم ص ۴۹ مسلمانوں اور ذمیوں کی ہمسری حقیقت یہ ہے کہ واقعات سے جو نتیجہ استنباط کیا جا سکتاہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ملک حقوق کے لحاظ سے ذمیوں اور مسلمانوں میںکوئی تمیز نہیںرکھی تھی۔ کوئی مسلمان اگر ذمی کو قتل کرتا تو بے دریغ اس کے قصاص میں قتل کردیا جاتا تھا۔ مسلمان اگر ذمی سے سخت کلام کرتے تھے تو پاداش کے مستحق ہوتے تھے ذمیوں سے جزیہ او رعشور کے سوا کسی قس کا محصول نہیںلیاجاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوںسے زکوۃ وصول کی جاتی تھی۔ جس کی مقدار دونوں سے زیادہ تھی اس کے سوا عشور مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا تھا البتہ اس کی شرح بمقابلہ ذمیوں کے کم تھی۔ بیت المال سے والیسروں کو گھر بیٹھے جو تنخواہیںملتی تھیں ذمی بھی اس میں برابر کے شریک تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ (اور درحقیقت صرف اسی ایک مثال سے اس بحث کا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ) یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتاتھا اور محنت مزدوری سے معاش نہیںپیداکر سکتاتھا‘ بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا‘ اسی قس کی بلکہ اس یس زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوںکے ساتھ بھ مرعی تھی۔ اول اول یہ قاعدہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مقرر ہوا۔ چنانچہ خالد بن ولیدؓ نے حیرۃ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا اس میں یہ الفاظ تھے: وجعلت لھم ایماشیخ ضعف ان العمل او اصابہ افۃ من الافات او کان غنیا فافتقرو صار اہل دیہ یتصدقون علیہ طرحت جزیۃ و عیل من بیت مال المسلمین و عیالہ ما اقام بدار الھجرۃ ودار الاسلام فان خرجوا الی غیر دارالحجرۃ و دار الاسلام فلیس علی المسلمین النفقۃ علی عیالھم ؎۱ ’’اور میں نے یہ حق ان کو دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہوجائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر غریب ہو گیا اوراس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگا تو اس کا جزیہ موقوف کر دیا جائے گا اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے نقفہ دیا جائے گا۔ جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میںرہے لیکن اگر وہ غیر ملک میںچلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نقفہ واجب نہ ہو گا‘‘۔ یہ قاعدہ حضرت عمرؓ کے عہدمیں بھی قائم رہا بلکہ حضرت عمرؓ نے اس کو قرآن مجید کی آیت سے مستند کر دیا یعنی بیت المال کے داروغہ کو یہ لکھ بھیجا کہ قرآن مجید کی آیت انما الصدقات للفقراء والمساکین (صدقہ اور خیرات فقیروں اورمسکینوںکے لیے ہے) اس میں فقراء کے لفظ سے مسلمان اورمسکین کے لفظ سے اہل کتاب یہودی اورعیسائی مراد ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک پیر کہن سال کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ پوچھا کہ بھیک کیوںمانگتاہے؟ اس نے کہا مجھ پر جزیہ لگایا گیاہے اور مجھ کو ادا کرنے کا مقدور نہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ اس کوساتھ لے کر گھر پر آئے اور کچھ نقد دے کر بیت المال کے داروغہ کو کہلا بھیجا کہ اس قسم کے معذوروں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے۔ اسی واقعہ میںآیت مذکورہ بالا کا حوالہ دیا اور یہ بھی فرمایا کہ واللہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں ۔ ۱؎ ذمیوں کی عزت کا خیال ذمیوںکی عزت و آبرو کا اسی قدر استحقاظ تھا جس قدرمسلمان کی عزت و ناموس کا۔ ان کی نسبت کسی قسم کی تحقیر کا لفظ استعمال کرنا نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتاتھا۔ عمیر بن سعدؓ جو حمص کے حاکم تھے اور زہد و تقدس و ترک دنیا میںتمام عہدہ داران خلافت میںکوئی ان کا ہم سرنہ تھا۔ ایک دفعہ ان کے منہ سے ایک ذمی کی شان میں یہ الفاظ نکل گئے اخزاک اللہ یعنی اللہ تجھ کو رسوا کرے۔ اس پر ان کو اس قدرندامت اور تاسف ہوا کہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر نوکری سے استعفیٰ دے دیااور کہا کہ اس نوکری کی بدولت مجھ سے یہ حرکت صادر ہوئی ۲؎۔ سازش اور بغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک ایک خاص بات جو سب سے بڑھ کر قابل ہے یہ ہے کہ ذمیوں نے اگرکبھی سازش یا بغاوت کی تب بھی ان کے ساتھ مراعات کوملحوظ رکھا گیا۔ آج کل جن حکومتوں کو تہذیب و ترقی کا دعویٰ ہے رعایاکے ساتھ ان کی تمام عنایت اسی وقت تک ہے جب تک ان کی طرف سے کوئی پولیٹکل شبہ پیدا نہ ہوا ہو ورنہ دفعتہ وہ تمام مہربانی غضب اور قہر سے بدل جاتی ہے اور ایسا خونخوار اور پر غیظ انتقام لیا جاتا ہے کہ وحشی قومیں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتیں۔ برخلاف اس کے حضرت عمرؓ کا قدم کسی حالت میں جادہ انصاف سے ذرا نہیں ہٹا۔ شام کی آخری سرحد پر ایک شہر تھا جس کا نام عربسوس تھا اور جس کی دوسری سرحد ایشائے کوچک سے ملی ہوئی تھی۔ ۱؎ کتاب الخراج ص ۷۲ ۲؎ دیکھوازالتہ الخلفاء ص ۲۰۳ شام جب فتح ہوا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور صلح کا معاہدہ ہو گیا لیکن یہاں کے لوگ درپردہ رومیوںسے سازش رکھتے تھے اور ادھر کی خبریں ان کو پہنچاتے رہتے تھے۔ عمیر بن سعدؓ وہاں کے حاکم نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ نے ان کی اس کمینہ خصلت کا جو انتقام لیا وہ عمیر بن سعدؓ کو لکھ بھیجا کہ جد قدر ان کی جائیداد زمین مویشی اور اسباب ہے سب شمار کر کے ایک ایک چیز کی دو چند قیمت دے دو اوران سے کہو کہ اور کہیں چلے جائیں۔ اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو ایک برس کی مہلت دو اور اس کے بعد جلاوطن کر دو۔ چنانچہ جب وہ اپنی شرارت سے باز نہ آئے تو اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ ۱؎ کیا آج کل کوئی قو م اس قدر درگزر اور عفوو مسامحت کی کوئی نظیر دکھلا سکتی ہے؟ ذمیوں کے ساتھ جو لطف و مراعات کی گئی تھیں اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ ذمیوں نے ہر موقع پر خود اپنے ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ذمی ہی تھے جومسلمانوںکے لیے رسدبہم پہنچاتے تھے۔ لشکر گاہ میں مینابازار لگاتے تھے اور اپنے اہتمام اور صرف سے سڑک اور پل تیار کرواتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جاسوسی اور خبر رسانی کرتے تھے یعنی دشمنوں کے ہر قسمم کے راز مسلمانوں سے آ کرکہتے تھے۔ حالانکہ یہ دشمن انہی کے ہم مذہب عیسائی یا پارسی تھے۔ ذمیوںکو مسلماوں کے حسن سلوک کی وجہ سے جو اخلاص پیدا ہو گیا تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جنگ یرموک کے پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاںنہ آئیں گے۔ عیسائیوںنے نہایت حسرت سے کہا کہ اللہ کی قسم تم رومیوں کی بہ نسبت کہیںبڑھ کر ہم کو محبوب ہو‘‘۔ اخیر میں ہم کو ان واقعات کی حقیقت بھی بتانا ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو یہ غلط خیال پیدا ہوا ہے یا ہو سکتا ہے۔ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلکہ خود اسلام نے ذمیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیے۔ مخالف کی طرف سے اعتراض کی تقریر اس مسئلے کو مخالف اس طرح بیان کر سکتاہے کہ حضرت عمرؓ نے ذمیوںکے حق میں یہ حکم دیا کہ وضع اور لباس وغیرہ میںکسی طرح مسلمانوں کا تشبہ نہ کرنے پائیں۔ کمر میںزنار باندھیں لمبی ٹوپیاں پہنیں اورگھوڑوں پر کاٹھی کسیں‘ عبادت گاہیں نہ بنائیں شراب اور سور نہ بیچیں ناقوس نہ بجائیں‘ صلیب نہ نکالیں‘ بنوتغلب کویہ بھی حکم دیا تھا کہ اپنی اولاد کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ ان سب باتوں پر یہ مستزاد کہ حضر ت عمرؓ نے عرب کی وسیع آبادی میںایک یہودی یا عیسائی کو نہ رہنے دیا اور بڑے بڑے قدیم خاندان جو سینکڑوں برس سے عرب میں آبادتھے جلا وطن کر دیے۔ ۱؎ فتو ح البلدان بلاذری ص ۱۵۷ بلاشبہ یہ اعتراضات نہایت توجہ کے قابل ہیں اورہم ان کے جواب دیتے ہیںَ کسی قدر تفصیل سے کام لیں گے کیونکہ ایک زمانہ دراز کے تعصب سے او رتقلید نے ان واقعات کے چہرے پر بہت سے پردے ڈال دیے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمرؓ مسلمانوں کو غیر قوموں کی مشابہت اور غیر قوموںکو مسلمانوں کی مشابہت سے روکتے تھے۔ لیکن اس سے فقط قومی خصوصیتوں کو قائم رکھنا مقصود تھا لباس کی بحث میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ذمیوں کو جس لباس کی پابندی کی تاکید کی تھی آیا وہی زمیوں کا قدیم لباس تھا یاحضرت عمرؓ نے کوئی نیا لبا س بطور علامت تجویز کیا تھا۔ جس شخص نے عجم کی قدیم تاریخ پڑھی ہے۔ وہ یقینا جان سکتا ہے کہ جس لباس کا یہاں ذکر ہے وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔ حضرت عمرؓ کامعاہدہ جس کو کنزالعمال وغیر ہ میں نقل کیا گیاہے اگرچہ راویوں نے اس کو بہت کچھ کم و بیش کردیا ہے‘ تاہم جہاں ذمیوں کی طرف سے یہ اقرار مذکور ہے کہ ہم فلاں فلاں لباس نہ پہنیں گے وہاں یہ الفاظ بھی ہیں وان تلزم زینا حث ماکنا ۱؎ یعنی ہم وہی لباس پہنیں گے جو ہمیشہ سے پہنتے آتے تھے۔ اس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ جس لباس کا حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا وہ عجم کا قدیم لبا س تھا۔ زنار جس کا ذکر حضرت عمرؓ کے فرمان میں ہے۔ اس کی نسبت ہمارے فقہا نے اکثر غلطیاں کی ہیں ان کا خیا ل ہے کہ وہ انگل برابر موٹا ایک قس کاجینو ہوتاتھا اور اس سے ذمیوں کی تحقیر مقصود تھی لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ زنار کے معنی پیٹی بند کے ہیں اور عرب میں یہ لفظ آج بھی اسی معنی میںمستعمل ہے۔ پیٹی کو عربی میںمنطقہ بھی کہتے ہیں اور اس لحاظ سے زنار اور منطقہ مرادف الفاظ ہیں‘ ان دونوںالفاظ کا مرادف ہونا کتب حدیث سے ثابت ہے۔ کنزالعمال میں ۲؎ بیہقی وغیرہ سے روایت منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے سرداران فوج کو یہ تحریری حکم بھیجا وتلزمو ا ھم المناطق یعنی الزنانیر اسی زنار کو ستج بھی کہتے تھے۔ چنانچہ جامع صغیر وغیرہ میں بجائے زنار کے تجیج ہی لکھا ہے ورغالب یہ ہے کہ یہ لفظ عجمی ہے۔ بہرحال اہل عجم قدیم سے پیٹی لگاتے تھے۔ علامہ مسعودی نے کتاب التبنیہ والاشراف ۳؎ میں لکھا ہے کہ: ۱؎ کنز العمال جلد دو م ص ۳۰۲ ۲؎ کنز العمال جلد دوم صفحہ ۳۲۰ ۳؎ کتاب السبیہ والاشراف ص ۱۰۷ عجم کی اس قدیم عادت کی وجہ سے میں نے کتاب مروج الذہب میں لکھی ہے۔ ایک قطعی دلیل یہ کہ لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا‘ یہ ہے کہ خلیفہ منصور نے اپنے دربار کے لیے جو لبا س قرار دیا تھا وہ قریب قریب یہی لباس تھا ۔ لمبی ٹوپیاں جو نرسل کی ہوتی تھیں وہی عجم کی ٹوپیاں تھیں جن کا نمونہ پارسیوں کے سروں پر آج بھی موجود ہے۔ اس درباری لباس میں پیٹی بھی داخل تھی۔ اور یہ وہی زنار یا منطقہ یا کسیتنج ہے جو عجم کی قدیم وضع تھی اب یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو لبس حضرت عمرؓ نے ذمیوں کے لیے قرار دیا تھا وہ اگر کوئی جدید لباس تھا اور ان کی تحقیر کے لیے ایجاد کیا گیا تھا تو خلیفہ منصور اس کو اپنا وار اپنے دربار کا لباس کیونکر قرار دے سکتا تھا۔ صلیب اور ناقوس کی بحث ذمیوں کو نئی عبادت گاہیں بنانے شراب بیچنے صلیب نکالنے ناقوس پھینکنے ‘ اصطباغ دینے سے روکنا بے شبہ مذہبی دست اندازی ہے لیکن میں بے باکانہ اس راز کی پردہ دری کرتا ہوں کہ یہ احکام جن قیدوں کے ساتھ حضرت ابوبکر و حضرت عمرؓ نے جاری کیے تھے وہ بالکل مناسب تھے لیکن زمانہ مابعد کے مورخوں نے ان قیدوں کا ذکر چھوڑ دیا اور اس وجہ سے تمام دنیا میں ایک عالمگیر غلطی پھیل گئی۔ صلیب کی نسبت معاہدہ میں جو الفاظ تھے اس میں یہ قید تھی: ولا یرفعوا فی نادی اہل الاسلام صلیبا ؎۱ یعنی مسلمانوں کی مجلس میں صلیب نہ نکالیں۔ ناقوس کی نسبت یہ تصریح تھی کہ: یضربوا نو اقیسھم فی ای ساعۃ شائووا من لیل او نھار الا فی اوقات الصلوۃ ؎۲ یعنی ذمی رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائیں بجز نماز کے اوقات کے ۔ سور کی نسبت یہ الفاظ تھے : ولا یخرجوا خنزیرا من منازلھم الی افنیۃ المسلمین یعنی ذمی سور کو مسلمانوں کے احاطہ میں نہ لے جائیں۔ اصطباغ نہ دے سکنا ان تصریحات کے بعد کس کو شبہ رہ سکتا ہے کہ صلیب نکالنا یا ناقوس بجانا عموماً منع نہ تھا بلکہ خاص حالات میں ممانعت تھی اور ان خاص حالات میں آج بھی ایسی ممانعت خلاف انصاف نہیں کہی جا سکتی۔ سب سے زیادہ قابل لحاظ امر بنی تغلب عیسائیوں کی اولاد کا اصطباغ نہ دینا ہے۔ عیسائیوں میں دستور ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بلوغ اصطبغ دے دیتے ہیں اور یہ گویا اس بات کی حفاظت ہے کہ آئندہ وہ کوئی مذہب قبول نہ کرنے پائے۔ ۱؎ کتاب الخراج ص ۸۰ ۲؎ کتاب الخراج ص ۸۶ بعینہ اس طرح جس طرح ہم مسلمانوں میںبچوں کا ختنہ کر دیا جاتا ہے بے شبہ حضرت عمرؓ کو عام طور پر اس رسم کے روکنے کا کچھ حق نہ تھا لیکن اس زمانے میں ایک نیا سوال پیدا ہوتا تھا یعنی یہ گر کسی عیسائی خاندان میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور نابالغ اولاد چھوڑ کر مرے تو اس کی اولاد کس مذہب کو موافق پرورش پائے گی؟ یعنی وہ مسلمان سمجھی جائے گی یا ان کے خاندان والوں کو جو عیسائی مذہب رکھتے ہیں یہ حق حاصل ہو گا کہ اس کو اصطباغ دے کر عیسائی بنا لیں۔ حضرت عمرؓ نے اس صورت خاص کے لیے یہ قرار دیا کہ خاندان والے اس کو اصطباغ نہ دیں اور عیسائی نہ بنائیں اور یہ حکم بالکل قرین قیاس ہے کیونکہ جب ان کا باپ مسلمان ہو گیا تھا تو اس کی نابالغ اولاد بھی بظاہر مسلمان قرار پائے گی۔ علامہ طبری نے جہاں بنو تغلب کے واقعہ کا ذکر کیا ہے‘ شرائط صلح میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں: علی ان لا ینصروا ولید ا ممن اسلم ابائوھم یعنی بنو تغلب کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ جن کے باپ مسلمان ہو چکے ہیں ان کی اولاد کو عیسائی بنا سکیں۔ ایک اور موقع پر یہ الفاظ ہیں: ان لا ینصرو اولادھم اذا اسلم ابائوھم ؎۱ یہاں شاید یہ اعتراض ہو کہ حضرت عمرؓ نے ایک فرضی صورت قاء کر یک معاہدہ کو کیوں سخت کیا لیکن جواب یہ ہے کہ فرضی صورت یہ تھی کہ بلکہ بنو تغلب میں بہت سے لوگ اسلا م قبول کر چکے تھے اس لیے ان کی خاص حالت کے لحاظ سے اس صورت کا ذکر ضرور تھا بلکہ علامہ طبری ؎۲ نے صا ف تصریح کی ہے کہ تغلب میں سے جو لوگ اسلام لا چکے تھے خود انہی نے معاہدہ کے لیے یہ شرائط پیش کی تھیں۔ اب ہر شخص انصاف کرسکتا ہے کہ امن عام میں خلل نہ واقع ہونے کے لیے عیسائیوں کو اگر یہ حکم دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی مجلسوں میں صلیب اور سور نہ لائیں تو خاص نماز کے وقت ناقوس نہ بجائیں۔ نومسلم عیسائیوں کی اولاد کواصطباغ نہ دیں تو کیا کوئی شخص اس کو تعصب مذہبی سے تعبیر کر سکتا ہے؟ لیکن افسوس اور سخت افسو س یہ ہے کہ ہمارے پچھلے مورخوں نے ان احکام کی قیدوں اور خصوصیتوں کو اڑا دیا ہے۔ یہ غلطیاں اگرچہ نہایت سخت نتائج پیدا کرتی تھیںلیکن چونکہ ظاہر میں خفیف تھیں ابن االثیر نے اس کا کچھ خیال نہیں کیا‘ رفتہ رفتہ یہ غلطیاں اس قدر پھیل گئیں کہ عربی زبان سرتاپا اس سے معمور ہوگئی۔ فقہا ء نے چونکہ تاریخ سے بہت کم واقفتی رکھتے تھے انہوںنے بے تکلف انہی غلط روایتوں کو قبول کر لیا اوران پر فقہ کے مسائل تفریع کرلیے۔ ۱؎ طبری ص ۲۵۱۰ ۲؎ طبری ص ۲۵۰۹ عیسائیوں کے جلا وطن کرنے کا معاملہ عیسائیوں اور یہودیوں کے جلا وطن کرنے کے معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہودی کسی زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیںہوئے ۔ خیبر جب فتح ہوا تو ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جس وقت مناسب ہو گا تم کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت عمرؓکے زمانے میں ان کی شرارتیں زیادہ ظاہر ہوئیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ایک دفعہ بالا خانے سے دھکیل دیا‘ جس سے ان کے ہاتھ میں زخم آ گیا۔ مجبوراً حضرت عمرؓ نے عام مجمع میںکھڑے ہو کر ان کی شرارتین بیان کیں اورپھر ان کو عرب سے نکال دیا ۱؎ ۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب الشروط میں یہ واقع کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکورہے۔ نجران کے عیسائی یمن اور اس کی اطراف میں رہتے تھے اور ان سے کچھ تعرض نہیں کیا گیا تھا لیک انہوںنے چکے چپکے جنگی تیاریاں شروع کیں اور بہت سے گھوڑے اورہتھیار مہیا کیے۔ حضرت عمرؓ نے صرف اس ضرورت سے ان کو حکم دیا کہ یمن چھوڑ کر عراق چلے جائیں ۲؎۔ غرض یہ امر تاریخی شہادتوں سے قطعاً ثابت ہے کہ عیسائی اور یہودی پولیٹکل ضرورتوں کی وجہ سے جلا وطن کیے گئے اوراس وجہ سے یہ امر کسی طرح اعتراض کے قابل نہیں ہو سکتا۔ البتہ لحاظ کے قابل یہ ہے کہ اس حالت میں بھی کسی قسم کی رعایت ان کے ساتھ ملحوظ رکھی گئی۔ فدک کے یہودی جب نکالے گئے تو حضرت عمرؓ نے ایک واقف کار شخص کو بھیجا کہ انکی زمین اورباغوں کی قیمت ک اتخمینہ کرے۔ چنانچہ جو قیمت متعین ہوء حضرت عمرؓ نے ان کو بیت المال سے دلوا دی۔ ۳؎ اسی طرح حجاز کے یہودیوں کو بھی ان کی زمین میںقیمت دلوائی ۴؎۔ نجران کے عیسائیوں کو جب عرب کی آبادی سے نکال کر شام و عراق میں آباد کیا تو ان کے ساتھ نہایت فیاضانہ رعایتیں کیں۔ ان کو امن کا جو پروانہ دیا ان میں یہ شرطیں لکھیں: ۱۔ عراق یا شا م جہاں یہ لو گ جائیں وہاں کے افسران ان کی آبادی اور زراعت کے لیے ان کو زمین دیں۔ جس مسلمان کے پاس یہ کوئی فریاد لے جائیں وہ ان کو مدد کرے ۲۴ مہینے تک ان سے مطلقاً جزیہ نہ لیا جائے۔ ۱؎ فتوح البلدان بلاذری ص ۲۵ کتاب الخراج ص ۲۹ ۲؎ کتاب الخراج ص ۴۲ ۳؎ فتوح البلدان ص ۲۹ ۴؎ کتاب مذکور ص ۲۹ ۲۔ اس معاہدے پر احتیاط اور تاکید کے لحاظ سے بڑ ے بڑے صحابہ ؓ کے دستخط ثبت کرائے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں اسم معاہدہ کو بالفاظہا نقل کیا ہے۔ ۱؎ ایک ایسی فوج جس کی نسبت بغاوت اور سازش کے ثبوت موجود ہوں اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا رعایت کی جا سکتی ہے؟ اب صرف جزیہ کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ ہم نے اس بحث پر اگرچہ ایک مستقل رسالہ کیا ہے اور وہ تین زبانوں (اردو ‘ انگریزی اور عربی) میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ تاہم مختصر طور پر یہاں بھی لکھنا ضروری ہے۔ جزیہ کی بحث جزیہ کا موضوع اور مقصد اگرچہ شروع اسلام ہی میں ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ حفاظت کا معاوضہ ہے لیکن حضرت عمرؓ کے عہد میں یہ مسئلہ صاف ہو گیا کہ احتمال کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اولاً تو انہوںنے شیروان کی طرح جزیہ کی مختلف شرحیں قائم کیں اوراس طریقے سے گویا صاف بتا دیا کہ ی کوئی ئی چیزنہیں بلکہ وہی نوشیروانی محصول ہے۔ اس کے علاوہ موقع بہ موقع عملی طور سے اس بات کو ظاہر کیا کہ وہ صرف حفاظت کا معاوضہ ہے اس کتاب کے پہلے حصے میں تم پڑھ آئے ہو کہ جب یرموک کے پر خطر معرکہ کے پیش آنے کی وجہ سے اسلای فوجیں شام کے مغربی حصوں میںہٹ آئیں تو ان کو یقین ہو گیا کہ جن شہروں سے وہ جذیہ وصول کر چکے تھے یعنی حمص اور دمشق وغیرہ وہاں کے باشندوںؓ کی حفاظت کا اب وہ ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ توجزیہ سے جس قدر رقم وصول ہوئی تھی سب واپس کر دی اور صاف کہہ دیا کہ اس وقت تہمارے جان و مال کی حفاظت کے ہم ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جزیہ لینے کا بھی ہم کوکوئی حق نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ قطعی شہادت یہ ہے کہ جن لوگوں سے کبھی کسی قسم کی فوجی خدمت لی گئی ان کو باوجود اس کے مذہب پر قائم رہنے کے جزیہ معاف کردیا۔ حضرت عمرؓ نے خود سنہ ۱۷ھ میں عرب کے افسرو ں کو لکھ بھیجا کہ: یستعینوا بمن احتاجوا الیہ من الاساورۃ ویرفعوا عنھم الجزاء ؎۲ ’’یعنی فوجی سواروں میں سے جس سے مدد لینے کی ضرورت ہو اس سے مدد لو اور ان کا جزیہ چھوڑ دو‘‘۔ ۱؎ فتوح البلدان ص ۴۱ ۲؎ طبری ص ۲۴۹۷ یہاں تک کہ اگر کسی قوم نے صرف ایک دفعہ مسلمانوںکے ساتھ شرکت کی تو اس سال کا جزیہ اس کے لیے معاف کر دیا گیا۔ ۲۲ھ میںجب آذر بائیجن فتح ہوا تو اہ شہر کو یہ فرمان لکھ دیا گیا۔ ۱؎ ومن حشر منھم فی سنۃ وضع عنہ جزاء تلک السنۃ ’’یعنی جو لوگ کسی سال فوج کے ساتھ کام دیں گے اس سال کا جزیہ ان سے نہیں لیا جائے گا‘‘۔ اسی سال آرمینیہ کے رئیس شہربراز سے جو معاہدہ ہوا اس میں یہ الفاظ تھے: وعلی اھل ارمینیہ ان ینفرولک غارۃ وینفذوا کل امر ناب اولم نب راہ الوالی صلاحا علی ان توضع الجزاء ؎۲ اسی سنہ میں جرجان فتح ہوااور فرمان میںیہ عبارت لکھی گئی: ان لکم الذمۃ وعلینا المنعۃ علی ان علیکم من الجزاء فی کل سنۃ علی قدر طاقتکم ومن استعنا بہ منکم فلہ جزائہ فی معونۃ عوضا ؤعن جزائہ ؎۳ ’’یعنی ہم پر تمہاری حفاظت ہے اس شرط پر کہ تم کو ہر سال بقدر طاقت جزیہ ادا کرنا ہو گا اور اگر تم سے اعانت لیں گے تو اس اعانت کے بدلے جزیہ معاف ہو جائے گا‘‘۔ غرض حضرت عمرؓ کے اقوال س معاہدوں سے طرز عمل سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا تھا کہ جزیہ کو موضوع کیا ہے اور وہ کس غرض سے مقرر کیا گیا ۔ جزیہ کا مصرف فوجی مصارف پر محدود تھا یعنی اس رقم س صرف اہل فوج کے لیے خوراک لباس اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے جہاں جہاں جزیہ مقرر کیا اس کے ساتھ جنس اور غلہ بھی شامل کیا۔ مصر میں فی کس جزیہ کی تعداد دراصل چار دینا رتھی لیکن د ونقد اور باقی کے عوض گیہوں روغن زیتون‘ شہد اور سرکہ لیا جاتا تھا اوریہی اہل فوج کی خوراک تھی۔ البتہ آگے چل کر جب رسد کا انتظام مستقل طورپر ہو گیا تو کل جزیہ کی مقدارنقد کر دی گئی اور دو دینار کے بجائے چار دینار لیے جانے لگے۔۴؎ ۱؎ طبری ص ۲۶۲ ۲؎ طبری ص ۲۶۶۵ ۳؎ طبری ص ۲۶۶۵ ۴؎ فتو ح البلدان ص ۲۱۶ غلامی کا رواج کم کرنا حضرت عمرؓ نے اگرچہ غلامی کومعدوم نہیں کیا اور شاید اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوںنے مختلف طریقو ں سے اس کے رواج کو کم کر دیا اورجس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی غلامی نہیں بلکہ برادری اور ہمسری رہ گئی۔ عرب میں تو انہوںنے سرے سے اس کا استیصال کر دیا اوراس میںان کو اس قدر اہتمامتھا کہ عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں مرتد قباہمیں سے جو لونڈی و غلام بنا ئے گئے تھے سب آزاد کر دیے‘ اس کے ساتھ یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے۔ عرب کا غلام نہ ہو سکنا یہ قول کہ لا یسترق عرب یعنی عرب کا کوئی آدمی غلام نہیں ہو سکتا۔ ۱؎ اگرچہ بہت سے مجتہدین اور آئمہ فن نے ان کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا‘ امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے ل اذھب الی قول عمر لیس علی عربی ملک ؎۲ یعنی میں عمر کی یہ رائے نہیں مانتا کہ اہل عرب غلام نہیں ہو سکتے۔ یہ موقع اس مسئلہ پر بحث کرنے کا نہیں بلکہ یہاں صر ف یہ بیا ن کرنا ہے کہ عرب کے متعلق حضرت عمرؓ کا فیصلہ یہ تھا۔ غیر قوموں کی نسبت وہ کوئی قاعہدہ عام نہیںقائم کر سکے جب کوئی ملک فتح ہوتا تو اہ فوج ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ ملک کے ساتھ تمام رعایا ان کی غلامی میں ندے دی جائے۔ ملک کی تقسیم مین تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے قرآن مجید سے استدلال سے لوگوں کی زبان بند کر دی لیکن غلامی کے لیے کوئی ایسا استدلال موجود نہ تھا اس لیے وہ تمام اہ فوج کے خلاف نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اتنا کیا کہ عملاً غلامی کو نہایت کم کر دیا۔ جس قدر ممالک ان کے زمانے میں فتح ہوئے اس کی وسعت کئی ہزار میل تھی جس میں کروڑوں آدمی بستے تھے لیکن غلامی کا جہاں جہاں پتہ چلا ہے وہ نہایت محدود اور گنتی کے مقامات تھے اور وہاں بھی صرف وہ لوگ غلامم بنائے گئے جو معرکہ جگ میں شریک تھے۔ عراق اور مصر میں جو بجائے خود مستقل مملکتیں تھیں باوجود فوج کے اصرار کے ایک شخص بھی غلا م نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک کہ مصر کے بعض دیہات کے آدمی جو مسلمانوں سے لڑے تھے۔ غلا م بنا کر عرب میں بھیج دیے گئے تو حضرت عمرؓ نے سب کو جا بجا سے جمع کر کے مصر واپس بھیج دیا اور ان کو غلاما بنانا جائز نہ تھا۔ ۱؎ کنزالعمال میں امام شافعیؒ کی روایت سے یہ قول منقول ہے دیکھو کتاب مذکور جلد دوم ص ۳۱۲ ۲؎ منتقی الاخبار لا بن تیمیہ۔ چنانچہ مورخ نے ان دیہات کے نام اور اس واقع کو تفصیل سے لکھا ہے۔ ۱؎ شام کے شہروں میں بصری فحل طبریہ‘ دمشق حمص ‘حماۃ‘ عسقلان‘ انطاکیہ وغیرہ جہاں عیسائی بڑے زور و شور سے لڑے غلامی کا بہت کم پتہ چلتا ہے۔ شاید شام میں صر ف قیساریہ ایک جگہ ہے جہاں اسیران جنگ غلام بنائے گئے فارس‘ خوزستان‘ کرمان اورجزیرہ وغیرہ میں خود معاہدہ صلح میں یہ الفاظ لکھ دیے گئے تھے کہ لوگوں کیجان و مال سے تعرض نہ ہو گا۔ صامغان‘ جندی سابور اور شیراز وغیرہ میں اس سے زیادہ صاف الفاظ تھے کہ لا یسبوایعنی وہ لو گ جو گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہ بنائے جائیں گے۔ مناذر میں باوجود اس کے کہ فوج نے اسیران جنگ کو غلام نہ بنا کر ان پر قبضہ کر لیا تھا لیکن حضرت عمرؓ کا حکم پہنچا کہ ان کو چھوڑ دو اور خراج وجزیہ مقرر کر لو۔ ۲؎ ابوموسیٰ اشعریؓ کو یہ حکم بھیجا کہ کوئی کاشتکار یا پیشہ ور غلام نہ بنایا جائے۔ ۳؎ حضرت عمرؓ نے ایک اور طریقہ سے اس رواج کو گھٹایا یعنی یہ قاعدہ قر ار دیا کہ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی اور بیچی نہیں جا سکتی۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ لونڈی نہیںرہتی۔ یہ قاعدہ خاص حضرت عمرؓ کی ایجاد ہے۔ ان سے پہلے اس قسم کی لونڈیوں کو بھی برابر خرید و فروخت ہوتی تھی۔ چنانچہ مورخین اور محدثین نے جہاں حضرت عمرؓ کے اولیات لکھے ہیں اس قاعدے کو بھی کھاہے۔ غلاموں کی آزادی کا ایک اور طریقہ تھا جس کو مکاتبتہ کہتے ہیں یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر روپے ادا کرو ں گا جب وہ زر معینہ ادا کر دیتاہے تو بالکل آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ قاعدہ خود قرآن مجید میں موجود ہے: فکاتبو ھم ان علمتم فیھم خیرا لیکن فقہا اس حکم کو وجوبی نہیں قرار دیتے یعنی آقا کو اختیار ہے کہ معاہدہ کو قبول کرے یا نہ کرے لیکن حضرت عمرؓ نے اس حکم کو وجوبی قرار دیا۔ صحیح بخاری کتاب المکاتب میں ہے کہ حضرت انسؓ کے غلا م سیرین نے مکاتبت کی درخواست کی ۔ انسؓ نے انکار کیا سیرین حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہوا حضرت عمرؓ نے انسؓ کو درے لگائے اور مذکورہ بالا آیت سندمیں پیش کی آخر انسؓ کو مجبوراً ماننا پڑا۔ ۱؎ مقریزی جلد او ل ص ۱۶۶ ۲؎ فتوح البلدان ص ۳۷۷ ۳؎ کنزالعمال ص ۳۱۲ جلد ۲ حضرت شہر بانو کا قصہ اس موقع پر حضر ت شہر بانو کا قصہ جو غلط طور پر مشہور ہو گیا ہے اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ عام طورپر یہ مشہورہے کہ جب فارس فتح ہوا تو یزدگرد شہنشاہ فارس کی بیٹیاں گرفتار ہو کر مدینہ آئیںَ حضرت عمرؓ نے عام لونڈیوںکی طرح ان کو بازار میں بیچنے کا حکم دیا لیکن حضرت علیؓ نے منع کیا کہ خاندان شاہی کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں۔ ان لڑکیوں کی قیمت کا اندازہ کرایا جائے پھر یہ لڑکیاں کسی کے اہتما ارو سپردگی میں دی جائیں اوراس سے ان کی قیمت اعلیٰ سے اعلیٰ شرح پر لی جائے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خود ان کو اپنے اہتمام میں لیا اور ایک امام حسینؓ ایک محمد بن ابی بکر ؓ کو اایک عبداللہ بن عمرؓ کو عنایت کی اس غلط قصہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمخشری نے جس کو فن تاریخ سے کچھ واسطہ نہیں ربیع الابرار میں ا س کو لکھا کہ ابن خلکان نے امام زین العابدین کے حال میںیہ روایت نقل کی ہے لیکن یہ محض غلط ہے اولاً تو زمخشر ی کے سوا طبری ابن الاثیر یعقوبی بلاذری اور ابن قتیبہ وغیرہ کسی نے اس واقعہ کو نہیں لکھا۔ زمحشری کا فن تاریخ میں جو پایہہے وہ ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی قرائن اس کے بالکل مختلف ہیں۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں یزدگرد اور خاندان شاہی پر مسلمانوں کو مطلق قابو حاص نہ ہوا۔ مدائن کے معرکے میں یزدگرد تمام اہل و عیال کے دارالسلطنۃ سے نکلا اور حلوان پہنچا۔ جب مسلمان حلوان پر بڑھے تو وہ اصفہان بھاگ گیا اورپھر کرمان وغیرہ میں ٹکراتا پھرا۔ مرو میں پہنچ کر سنہ ۳۰ ھ میں جو عثمان غنیؓ کی خلافت کا زمانہ ہے مارا گیا۔ اس کی آ ل اولاد اگر گرفتار ہوئے ہوں گے تو اسی وقت گرفتار ہوئے ہوں گے۔ مجھ کو شبہ ہے کہ زمخشری کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یزدگرد کا قتل کس عہدمیں واقع ہوا۔ اس کے علاوہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس وقت حضرت امام حسینؓ کی عمر ۱۲ سال کی تھی کیونکہ جناب ممدوح ہجرت کے پانچویں سال پیدا ہوئے اورفارس سنہ ۱۷ ھ می فتح ہوا۔ اس لے امر بھی کسی قدر مستعبد ہے کہ حضرت علیؓ نے اس کی نابالغی میں ان پر اس قسم کی عنایت کی ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک شہنشاہ کی اولاد کی قیمت نہایت گراں پائی گئی ہو گی اور حضرت علیؓ نہایت زاہدانہ اورفقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ غرض کسی حیثیت سے اس واقعہ کی صحت پر گمان نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمرؓ کی تاریخ میں اس قسم کا واقعہ جو مسلم طورپر ثابت ہے‘ اس میں وہی برتائو کیا گیا جو تہذیب و انسانیت کا مقتضا تھا اور جو آج بھی تمام مہذب ملکوں میںجاری ہے۔ شاہی خاندان کے اسیران جنگ کے ساتھ برتائو عمرو بن العاصؓ نے جب مصر پر چڑھائی کی تو اول بلیس پر حملہ ہوا۔ سخت لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی اور تین ہزار عیسائی گرفتار ہوئے ۔اتفاق سے مقوقس بادشا ہ مصر کی بیٹی جس کنام ارمانوسہ تھا یہیں مقیم تھی وہ بھی گرفتا رہوئی۔ عمرو بن العاصؓ نے اس کونہایت عزت و حرمت سے مقوقس کے پاس بھیج دیا اور مزید احتیاط کے لیے ایک سردارجس کا نام قیس بن ابی العاص سہمی تھا ساتھ کر دیا کہ حفاظت کے ساتھ پہنچا آئے ۱؎۔ عام غلاموں کے ساتھ مراعات یہ تو وہ کارنامے تھے جو حضرت عمرؓ نے غلامی کو روکنے کے لیے کیے۔ لیکن جو لوگ غلام بنا لیے گئے تھے ان کے حق میں وہ مراعاتیں قائم کیں کہ غلامی ہمسری کے درجے تک پہنچ گئی۔ فوجی انتظامات کے بیان میںتم نے پڑھا ہو گا کہ حضرت عمرؓ نے بدرووغیرہ کے مجاہدین کی جب تنخواہیں مقرر کیں تو ان کے غلاموں کی بھی انہی کے برابر تنخواہیں مقرر کیں۔ بعد کی تمام کارروائیوں میں بھی انہوںنے یہ اصو ل ملحوظ رکھا۔اضلاع کے جو عمال تھے ا ن کی نسبت وہ اور باتوں کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی دریافت کرتے تھے کہ غلاموں کے ساتھ ان کا برتائو کیسا ہے چنانچہ اگریہ معلوم ہوتا کہ وہ غلاموں کی عیادت کو نہیںجاتا تو صرف اسی جرم پر اس کو معزول و موقوف کر دیتے تھے۔ ۲؎ اکثر غلاموں کو بلا کر ساتھ کھانا کھلایا کرتے تھے اور حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ اللہ ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے میں عار ہے۔ سرداران فوج کو لکھ بھیجا کہ تمہارا کوئی غلام کسی قوم کوامان دے تو وہ امان تمام مسلمان کی طرف سے سمجھی جائے گی اور فوج کو اس کا پابند ہونا ہو گا۔ چنانچہ ایک سردار کو یہ الفاظ لکھے : ان عبدا المسلمین من المسلمین و ذمتہ من ذمتھم یجوز امانہ ؎۳ غلاموں کا اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جانا غلاموں کے لیے جو بڑی تکلیف کی بات تھی یہہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارب س جدا ہو جاتے تھے ۔ بیٹا باپ سے چھٹ جاتا تھابیٹی ماں سے بچھڑ جات تھی۔ آج جو لوگ غلامی کی برائیوں پر مضامین لکھتے ہیں وہ اسی واقع کو در د انگیز صورت میںدکھاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ کوئی غلام اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ ہونے پائے یعنی یہ نہیںہو سکتا کہ بیٹا کسی کے ہاتھ آئے اور باپ کسی اورکی غلامی میں رہے۔ باپ بیٹے بھائی بہن ماں بیٹیاں بکتی تھیں تو ساتھ بکتی تھیں اورجن کی غلامی میں رہتی تھیں ساتھ رہتی تھیں۔ ۱؎ مقریزی جلد اول ص ۱۸۴ ۲؎ طبری ص ۲۷۷۵ ۳؎ کتاب الخراج ص ۱۲۶ اس باب میں ان کے جو احکام ہیں ان کو کنزالعمال میں مستدرک حاکم بیہقی‘ مصنف ابن شیبہ وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور وہ یہ ہیں: لا یفرق بین اخوین اذا ببعا لا تفرقوا بین الام وولدھا لا یفرق بین السبایا واولادھن ’’یعنی جب دو بھائی بیچے جائیں تو ایک دوسرے سے جدا نہ بیچا جائے یعنی ماں سے الگ نہ کیا جائے یعنی لونڈی غلام جو گرفتار ہو کر آئیں تو بچے ماں سے علیحدہ نہ کیے جائیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس باب میں تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے قرآن مجید کی اس آیت پر استدلال کیا۔ تقطعوا ارحامکم (۴۷؍محمد :۲۲) ؎۱ اور کہا کہ اس سے بڑ ھ کر قطع رحم کیا ہو سکتاہے چنانچہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ حاکم اور بیہقی نے نقل کیاہے۔ ۱؎ حضرت عمرؓ نے جب مسمط ابن اسود ایک افسر کو شام کی مہمات پر بھیجا اورانکے بیٹے شرجیل کو کوفہ میں کسی کام پرمامور کیا تو انہوںنے حضرت عمرؓ سے شکایت کی کہ آپ جب غلام کو اپنے عزیزوں سے جدا نہیں ہونے دیتے تو مجھ کو کیوں بیٹے سے دور پھینک دیا ہے۔ ۲؎ غلاموں میں اہل کمال حضرت عمرؓ نے غلامو ں کا جو رتبہ قائم کیا اور تمام عرب کو جو نمونے دکھلائے اس کا یہ اثر ہوا کہ غلاموں کے گھروں میں بڑے بڑے صاحب کمال پیدا ہوگئے۔ جن کی تمام ملک عزت و توقیر کرتا تھا۔ عکرمہ ؓ جو ائمہ حدیث میں شمار کیے جاتے ہیں اور جن کو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فتویٰ کی اجازت دی تھی۔نافع ؓ جو امام مالکؒ کے استاد تھے اور جن کی روایت کے سلسلے کو محدثین سلسلہ الذہب یعنی سونے کی زنجیر سے تعبیر کرتے ہیں یہ دونوں بزرگ غلام تھے اوراسی عہد کے تربیت یافتہ تھے۔ علامہ بن خلکان نے حضرت امام زین العابدین کے حال میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں لوگ کنیزوں اور کنیز زادوں کو حقیر سمجھتے تھے لیکن جب قاسم( حضرت ابوبکرؓ کے پوتے) اور سالم(حضرت عمرؓ کے پوتے) اور امام زین العابدین سن رشد کو پہنچے تو علم و فضل میں تما م مدینہ والوں سے بڑھ گئے تو خیالات بدل گئے اور لونڈی غلاموں کی قدر بڑھ گئی لیکن ہمارے نزدیک اس قبول وار عزت کا اصلی سبب حضرت عمرؓ کا طریق عمل تھا۔ ۱؎ کنزالعمال جلد دوئم‘ ص ۲۲۶ ۲؎ فتوح البلدان ص ۱۳۸ بے شبہ قاسم و سالم( امام زین العابدین کا نام اس سلسلے میں لینا میں بے ادبی خیال کرتا ہوں) کے فضل و کمال نے اس مسئلے پر اثر کیا لیکن اگر حضرت عمرؓ نے امہات اوالد کا وہ رتبہ قائم نہ کیا ہوتہا تو ان بزرگوں کو فضل کمال حاص کرنے کا موقع کیونکر ہاتھ آتا؟ ان سب باتوں کے ساتھ اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ کوئی نیا مسئلہ ایجاد نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کو یہ حق حاصل تھا۔ غلامی کا گھٹانا اور غلاموں کے ساتھ مساویانہ برتائو کرنا خود پیغمبر اسلام کا مقصد تھا اور حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ اسی مقصدکی تعمیل تھی۔ امام بخاری کی کتاب المفرد میں غلاموں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جو افعال اور اقوال لکھے ہیں ان سے اس دعویٰ کی کافی تصدیق ہوتی ہے۔ سیاست و تدبیر اور عدل و انصاف عام سلاطین اور حضرت عمرؓ کے طریق سیاست میں فرق خلافت فاروقی بسیط عالم میں کہاں سے کہاں تک پھیلی ہے اورکس قدر مختلف ملک مختلف مذاہب‘ مختلف قومیں اس کے دائرے میں داخل ہیں لیکن اس سرے سے اس سرے تک ہر طرف امن و امان اور سکوت و اطمینان چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں اور بھی ایسے صاحب جاہ و جلال گزرے ہیں جن کی حکومت میں کوئی شخص سر نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن ان کو یہ بات اس سیاست کی بدولت حاصل ہوئی تھی کہ جس کے اصول یہ تھے کہ بغاوت کے ذرا سے احتمال پر دفعتہ انصاف کا قانون بالکل الٹ دیا جائے۔ ایک شخص کے جرم میں تمام خاندان پکڑ ا جائے۔ واقعات کے ثبوت میںیقین کے بجائے صرف قیاس سے کام لیا جائے۔ وحشیانہ سزائیں دی جائیں اور آبادیاں جلا کر برباد کر دی جائیں۔ یہ اصول قدیم زمانے تک محدود نہ تھے۔ اب بھی یورپ کو باوجود اس قدر تمدن و تہذیب کے انہی قاعدوں سے کام لیناپڑتا ہے۔ لیکن خلافت فاروقی میں کبھی بال برابر انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ عربسوس والوں نے بار بار عہد شکنی کی تو ان کو جلا وطن کیا لیکن اس طرح کہ ان کی جائیداد مال اسباب کی مفصل فہرست تیار کرا کر ایک ایک چیز دوگنی قیمت ادا کر دی۔ نجران کے عیسائیوں نے خود مختاری اور سرکشی کی تیاریاں کیں اور ۴۰ ہزار آدمی بہم پہنچائے تو ان کو عرب سے نکال کر دوسرے ممالک میں آباد کرایا مگر اس رعایت کے ساتھ کہ ان کی جائیداد وغیرہ کی قیمت دے دی۔ اور عاملوں کو لکھ بھیجا کہ رہ میں جدھر ان کا گزر ہو ان کے آرام کے سامان بہم پہنچائے جائیں اور جب یہ کہیں مستقل قیام اختیار کر لیں تو چوبیس مہینے تک ان سے جزیہ نہ لیاجائے ۱؎ حضرت عمرؓ کی مشکلات شاید تم کو خیال ہو کہ حضرت عمرؓ کو رعایا ایسی ہاتھ آئی تھی کہ جس میں زیادہ تر اطاعت و انفیاد کا مادہتھا اور اس لیے ان کو جابرانہ سیاست کی ضڑورت ہی پیش نہ آئی لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ حضرت عمرؓ کو سچ پوچھو تو درحقیقت دونوں طرح کی مشکلات کا سامناتھا۔ غیر قومیں جو حلقہ اطاعت میں آء تھیں پارسی عیسائی تھیں۔ جو دت تک شہنشاہی کے لقب سے ممتاز رہی تھیں اور اس لیے ان کو رعیت بننا مشک سے گوارا ہو سکتا تھا۔ اندرونی حالت یہ تھی کہ عرب میں بہت سے صاحب ادعا موجود تھے۔ جو حضرت عمرؓ کی خلافت کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثلاًایک مولفتہ القلوب کا گروہ تھا جس کا قول تھا کہ خلافت بنو ہاشم یا بنو امیہ کا حق ہے اور عمرؓ کسی میں نہیں۔ عمرو بن العاص ؓ جو مصر کے گورنر تھے ایک دفعہ حضڑت عمرؓ نے ان کو خراج کے معاملہ میں تنگ پکڑا تو انہوںنے نہایت حسرت سے کہا کہ اللہ کی قدرت ہے جاہلیت میں میرا باپ جب کم خواب کی زیب بدن کرتا تھا تو خطاب(حضرت عمرؓ کے والد) سرپرلکڑی کا گٹھا لادے پھرتے تھے۔ آج اسی خطاب کا بیٹا مجھ پر حکومت جتا رہا ہے۔ بنو ہاشم ہمیشہ استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ان کے ہوتے تیمی اور عدوی خلافت پر کیونکر قبضہ کر بیٹھے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں تو علانیہ نقض خلافت کے مشورے ہوتے رہے۔ چنانچہ ولی اللہ صاحب ازالتہ الخفاء میں لکھتے ہیں زبیر و جمعے از بنو ہاشم درخانہ حضرت فاطمہ جمع شدہ در باب نقض خلافت مشورھا بکارمی بردند ۲؎ حضرت عمرؓ کی سطوت نے بنو ہاشم کے ادعا کو اگر چہ دبا دیا گیا لیکن بالکل پرمت کیونکر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ عرب کا فطری مذاق آزادی اور خود سری تھ ااور یہی وجہ سے کہ وہ کبھی کسی فرمانروا کی حکومت کے نیچے نہیں آئی۔ حضرت عمرؓ اگر امیر معاویہؓ کی طرح اس آزادی کو مٹا کر حکومت کا رعب و داب قائم رکھتے تو چنداں تعجب نہ تھالیکن وہ عرب کے اس جوہر کو کسی طرح مٹانا نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ اور چمکاتے تھے۔ بارہا مجمع عام میں لوگ ان پر نہایت آزادانہ بلکہ گستاخانہ نکتہ چینیاں کرتے تھے اور وہ گوارا کرتے تھے شا م کے سفر میں جب انہوںنے مجمع عام میں حضرت خالدؓ کی معزولی کی وجہ سے اور اپنی برات بیان کی توا یک شخص نے وہیں اٹھ کر کہا: ۱؎ ان واقعات کو ہم ذمیوں کے حقوق میں بیان میں اوپر لکھ آئے ہیں اوروہاں کتابوں کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ۲؎ ازالتہ الخفا ء حصہ دوم ص ۲۹ واللہ ما عدلت یا عمرا لقد نزعت عاملا استعملہ رسول اللہ وعمدت سیفا سلہ رسول اللہ ولقد قطعت الرحم و حسدت ابن العم ؎۱ ’’یعنی اے عمر خدا کی قسم تو نے انصاف نہیں کیا۔ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عامل کو موقوف کر دیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کھینچی ہوئی تلوارکو نیام میں ڈال دیا۔ تو نے قطع رحم کیا۔ تو نے اپنے چچیرے بھائی پر حسد کیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ سب سن کر صرف یہ کہا کہا تم کو اپنے بھائی کی حمایت میں غصہ آ گیا۔ ان حالات کے ساتھ یہ رعب و داب تھا کہ حضرت خالدؓ کو عین اس وقت جب تمام عرا ق و شام میں لو گ کلمہ پڑھنے لگے تھے معزول کر دیا تو کسی نے دم نہ مارا اور خود حضرت خالدؓ کی قسم کا خیال دل میں نہ لا سکے۔ امیر معاویہ و عمرو بن العاصؓ کی شان و شوکت محتاج بیان نہیں لیکن حضرت عمرؓ کے نام سے ان کو لرزہ آتاتھا۔ عمرو بن العاصؓ کے بیتے عبداللہ نے ایک شخص کوبے وجہ ماراتھا۔ حضرت عمر ؓ نے عمرو بن العاص ؓ کے سامنے ہی ان کو اسی مضروب کے ہاتھ سے کوڑے پٹوائے اور باپ بیٹے دونوں عبرت کا تماشا دیکھتے رہے۔ سعد بن ابی وقاصؓ فاتح ایرا ن کو معملوی شکایت پر جواب دہی میں طلب کیا تو ان کے بے عذر حاضر ہونا پڑا۔ ان واقعات سے ہر شخص اندازہ کر سکتاہے کہ حضرت عمرؓ کو سیاست و تدبیر کے فن میںجو کمال حاصل تھا کسی مدبر اور فرمانروا کے حالات می اس کی نظیر نہی ملتی۔ حضرت عمرؓکی حکومت کی خصوصیتیں ان کی حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آئین حکومت میں شاہ گدا شریف و رزیل عزیز و بیگانہ سب کا ایک رتبہ تھا۔ جبلہ بن الایہم غسانی شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہتھا اور مسلمان ہو گیا تھا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا ایک گوشہ ایک شخص کے پائوں کے نیچے آ گیا۔ جبکہ نے اس کے منہ پر تھپڑکھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر کاجواب دیا۔ جبلہ غصے سے بے تاب ہو گیا اور حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی شکایت سن کر کہا کہ تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی۔ اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی شخص ہمارے ساتھ گستاخی سے پیش آئے تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔ ۱؎ اسد الغابہ تذکرہ احمد بن حفص المخزومی حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جاہلیت میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اسلام نے سب پست و بلند کو ایک کر دیا۔ اس نے کہا کہ اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و ذلیل میں کچھ تمیز نہیں تو اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا لیک حضرت عمرؓ نے اس کی خاطر سے قانون انصاف کو بدلنا نہیں چاہا۔ ایک دفعہ تمام عہدہ داران ملکی کو حج کے زمانے میں طلب کیا اورمجمع عام میں کھڑے ہو کر کہاکہ جس کو ان سے شکایت ہو پیش کرے؟ اس مجمع عام میں عمرو بن العاص ؓ گورنر مصر اور بڑے بڑے رتبہ کے حکام اور عمال موجود تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بے وجہ مجھ کو سو درے مارے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ٹھ اور اپنا بدلہ لے عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ یا امیر المومنین ا س طریق سے تمام عمال بے دل ہوجائیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تاہم ایسا ضرور ہو گا۔ یہ کہہ کر پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے اپنا کام کرو۔ آخر عمرو بن العاص ؓ نے مستغیث کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ دو سو دینار لے اور اپنا دعویٰ سے باز آئے۔ ۱؎ ایک دفعہ سرداران قریش ان کی ملاقات کو آئے۔ اتفاق سے صہیب‘ بلال عمار وغیرہ ؓ موجود تھے جن میں سے اکثر آزاد شدہ غلام تھے۔ اور دنیاوی حیثیت سے معمولی درجہ کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اول انہی لوگوں کو بلایا او رسرداران قریش باہر بیٹھے رہے۔ ابوسفیانؓ ج زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار رہے تھے ان کو یہ امر سخت ناگوار گزرا اور ساتھیوں سے خطاب کر ے کہا کہ اللہ کی قدرت ہے غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم لوگ باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں ابوسفیانؓ کی یہ حسرت اگرچہ ان کے اقران کے مذاق کے نامناسب تھی تاہم ان میں کچھ حق شناس بھی تھے۔ ایک نے کہابھائیو سچ یہ ہے کہ ہم عمرؓ کی نہیں بلکہ اپنی شکایت کرنی چاہیے۔ اسلام نے سب کو ایک آواز سے بلایا لیکن جو اپنی شامت سے پیچھے پہنچے آج بھی وہ پیچھے رہنے کے مستحق ہیں۔۲؎ قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کو تنخواہیںمقرر کیںتو بڑے رشک و منافرت کا موقع پیش آیا۔ سرداران قریش اور معز ز قبائل کے جو لوگ ہر موقع پر امتیاز و اعزاز کے خوگر تھے بڑے دعویٰ کے ساتھ منتظررہے کہ تنخواہ کے تقرر میں حفظ مراتب کا خیال کیا جئے گا ار فہرست میں ان کے نام سب سے پہلے نظرآئیں گے لیکن حضرت عمرؓ نے ان کے تمام خیالات غلط کر دیے۔ ۱؎ کتاب الخراج ص ۶۶ ۲؎ اسد الغابہ تذکرہ سہیل بن عمرو۔ انہوںنے دولت و جاہ زور و قوت‘ ناموری و شہرت اور امتیاز کی تمام خصوصیتوں کو مٹا کر صرف اسلامی خصوصیت قائم کی اور اسی اعتبار سے تنخواہیں بیش و کم مقرر کیں جو لوگ اول اسلام لائے تھے یا جہاد میں کارہائے نمایاں کے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خصوصیت رکھت تھے ان کو غیرو ں پر ترجیح دی۔ جو ان خصوصیتوں میں برابر درجے پر تھے ان کی تنخواہین برابر مقرر کیں۔ یہاں تک کہ غلام اور آقا میں کچھ فرق نہ رکھا۔ حالانکہ عرب میں غلام سے بڑھ کر کوئی زیادہ گروہ خوار و ذلیل نہ تھا۔ اسی موقع پراسامہ بن زیدؓ کی تنخواہ جب اپنے بیٹے عبداللہؓ سے زیادہ مقرر کی تو انہوںنے عذر کیا واللہ اسامہؓ کسی موقع پر مجھ سے آگے نہیں رہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہاں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ۱؎ اہل عرب کا شعار تھا کہ لڑائیوں میں فخریہ اپنے قبیلہ کی جے پکارتے تھے۔ اس فخر کے مٹانے کے لیے تمام فوجی افسروں کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ ایسا کریں ان کو سخت سزاد ی جائے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے جو ضبہ کے قبیلے سے تھا لڑائی میں یا آل ضبتہ کا نعرہ مارا۔ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئیت و سال بھر کے لیے اس کی تنخواہ بند کر دی۔ اس قسم کے اور بہت سے واقعات تاریخوں میںملتے ہیں۔۲؎ اسی اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لیے کسی قسم کاامتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ عمرو بن العاصؓ نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنایا تو لکھبھیجاکہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ مسلمان نیچے بیٹھے ہوں اور تم اوپر بیٹھو۔ عمال کو ہمیشہ تاکید کی کہ احکام بھیجتے رہتے تھے۔ کہ کسی طرح کی امتیاز و نمود اختیار نہ کریں۔ ایک دفعہ ابی بن کعب سے کچھ نزا ع ہوئی۔ زید بن ثابتؓ کے ہاں مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے تو انہوںنے تعظیم کے لیے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ یہ کہ کر اپن فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھا تھا۔ سفر وحضر جلوت و خلوت میں مکان اور بازر میں کوئی شخص ان کو کسی علامت سے پہچان نہیںسکتا تھا۔ کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے ایلچی مسجد نبوی میں آ کر ڈھونڈتے تھے کہ شہنشاہ اسلام کہاں ہے۔ حاانکہ شہنشاہ وہیں پیوند لگے کپڑ ے پہنے کسی گوشے میں بیٹھا ہوتا تھا۔ ان کے عمال ان کو اسی برابری کے القاب پر خط لکھتے تھے جس طرح وہ عمال کو لکھا کرتے تھے۔ ۱؎ فتوح البلداان ص ۴۵۶ ۲؎ کنزالعمال جلد ۳ ص ۱۶۷ اس اصو ل انصاف سے اگرچہ خاص خاص آدمی جن کی ادعائی شان کو صدمہ پہنچتا تھا دل میں مکدر ہوتے تھے لیکن یہ چونکہ عربی کا اصلی مذاق تھا۔ اس لیے عام ملک پر اس کا نہایت عمدہ اثر ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میںتمام عرب گرویدہ ہو گیا۔ خواص میں بھی جو حق شناس تھا وہ روز بروز معترف ہوتے گئے اور جو بالکل خود پرست تھے وہ بھی میلان عام کے مقابلے میں اپنی خودرائی کے اظہار کی جرات نہ کر سکے۔ اس اصول کے عمل میں لانے سے بہت بڑافائدہ یہ ہواکہ قبائل عرب جو انہی بے ہودہ مفاخر کی بنا پر آپس میں لڑتے تھے اورجس کی وجہ سے عرب کا سارا خطہ ایک میدان کارزار بن گیا تھا ان کی باہمی رقابت اور مفاخرت کا زور بالکل گھٹ گیا۔ امیر المومنین کا لقب کیوں اختیار کیا؟ اس موقع پر بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمرؓ نے اصول مساوات کے ساتھ اپنے لیے امیر المومنین کا پرفخر لقب کیوں ایجاد کیا۔ اصل یہ ہے کہ اس زمانے تک یہ لقب کوئی فخر کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ اس سے صر ف عہدہ اورخدمت کا اظہار ہوتا تھا۔ افسران فوج عموماً امیر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ کفار عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امیر مکہ کہا کرتے تھے۔ سعد بن ابی وقاصؓ کو عراق میں لوگوں نے امیر المومنین کہنا شروع کر دیا تھا۔ ۱؎ حضرت عمرؓ کو اس لقب کا خیال تک نہ تھا۔ اس کی ابتدا یو ں ہوئی کہ اک دفعہ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم مدینہ میں آئے اور حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ قاعدے کے موافق اطلاع کرائی اور چونکہ کوفہ میں رہ کرامیر المومنین کا لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا تھا اطلاع کرتے وقت یہ کہا کہ امیر المومنین کو ہمارے آنے کی اطلاع دو۔ عمرو بن العاصؓ نے اطلاع دی اور یہی خطاب استعمال کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس خطاب کی وجہ پوچھی۔ انہوںنے کیفیت بیان کی۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس لقب کو پسند کیا اور اس تاریخ سے اس کو شہر ت عام ہو گئی۔ ۲؎۔ اس موقع پر ممکن ہے کہ ایک کوتاہ نظر کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمرؓ کو خلافت سے اگر کسی قسم کا جاہ و اعزاز مقصود نہ تھا تو انہوںنے خلافت اختیار ہی کیوں کی؟ بے غرضی کا یہ اقتضا تھا کہ وہ اس خوان نعمت کو ہاتھ ہی نہ لگاتے لیکن یہ خیال محض عامیانہ خیال ہے۔ حضرت عمرؓ بے شبہ خلافت سے ہاتھ اٹھا لیتے لیکن دوسرا کون شخص تھا جو اس کو سنبھال لیتا؟ حضرت عمرؓ قطعی طور سے جانتے تھے ک یہ بار گراں ان کے سوا کسی سے اٹھ نہیں سکتا ۔ ۱؎ مقدمہ ابن خلدون فصل فی اللقب یا امیر المومنین۔ ۲؎ امام بخاری کی کتاب ادب المفرد مطبوعہ مطبع آرہ صفحہ ۱۸۴ کیا ایسے وقت میں ان کی راست بازی کا تقاضا ی تھا کہ وہ دیدہ دانستہ لوگوں کی بدگمانی کے خیال سے خلافت سے دست بردار ہو جاتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو اللہ کو کیا جواب دیتے؟ انہوں نے پہلے ہی دن خطبہ میں کہہ دیا تھا کہ: ولا رجانی ان اکون خیر کم لکم واقوا کم علیکم واشدکم اضلالا بما ینوب من مھم امرکم ماتولیت ذالک منکم ؎۱ ’’یعنی اگر مجھ کو ی امید نہ ہوتی کہ میں تم لوگوں کے لیے سب سے زیادہ کارآمد سب سے زیادہ قوی اور مہمات امو رکے لیے سب سے زیادہ قوی بازو ہوں تو میں اس منصب کو قبول نہ کرتا‘‘۔ اس سے زیادہ صاف الفاظ ہیں جو امام محمد ؒ نے موطا میں روایت کیے ہیں: لو علمت ان احد اقویٰ علی ھذا الامر نی لکان ان اقدم فیضرب عنقی اھون علی ؎۲ ’’یعنی اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس کام (خلافت کے ) لیے مجھ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو خلافت قبول کرنے کے بہ نسبت میرے نزدیک یہ زیادہ آسان تھا کہ میری گردن مار دی جائے‘‘َ سیاست حضرت عمرؓ کے ا ن الفاظ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس کا ایک حرف بھی صحت و واقعیت سے ہٹا ہوا ہے حضرت عمرؓ سیاست کے اصول سے خوب واقف تھے اور یہ وہ خصوصیت ہے جس میں وہ تمام صحابہؓ سے اعلانیہ ممتاز ہیں جو ممماک دائرہ خلافت میں داخل تھے ۔ ان کی اصلی تین قسمی تھیں۔ عرب اور ایران و مصر۔ اس یے ہر ایک کی حالت کے مناسب الگ الگ تدبیریں اختیار کیں۔ عراق و ایرا ن چونکہ مدت سے مر زبان اور دہقان چلے آتے تھے اور اسلام کی فتح کے بعد بھی ان کازور اور اقتدا رقائم تھا اس لیے ان کی پولیٹکل تنخواہیں مقرر کر دیں جس سے وہ بالکل رام ہو گئے۔ چنانچہ وہ رئوسائے عراق میں سے ابن التحیر جان‘ بسطام بن برسی ‘ رفیل‘ خالد‘ جمیل کے معقول روزینے مقرر کر دیے شام اور مصر میں رومیوں نے اصلی باشندوں کوصاحب جائیدا د نہیں چھوڑا تھا۔ اس یے ان کی طرف سے چنداں اندیشہ نہ تھا۔ ۱؎ انساب الاشراف بلاذری ۲؎ کتاب مذکور مطبوعہ مصطفائی ص ۴۰۰ وہ رومی حکومت کے بجائے ایک عادل اورم نصف گورنمنٹ چاہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ا کے ساتھ وہ مراعاتں کیں کہ انہوںنے بارہا کہا کہ ہم کو مسلمان رومیوں ی بہ نسبت زیادہ محبوب ہیں۔ غیر قوموں کے ساتھ اگرچہ ان کا برتائو عموماً نہایت فیاضانہ تھا۔ چنانچہ ا س کی بحث ذمیوں کے حقوق میں گزر چکی تھی لیکن زیادہ تفحص سے معلوم ہوتا ہے کہ شام و مصر کی رعایا پر خاص توجہ مبذول تھی۔ مصر میں مقوقس کا باشندہ اور رومیوں کی طرف سے نائب حکومت تھا‘ اس کے ساتھ شروع سے ایسے برتائو کیے کہ وہ ناخریدا غلام بن گیا اور اس کی وجہ سے تمام مصری رعایا دل سے حلقہ بگوش اطاعت ہو گئی ۔ ان باتوں پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ تمام جنگی مقامات پر عرب کے خاندان آباد کراد یے یا فوجی چھائونیاں قائم کر دیں جن کی وجہ سے سیکڑوں می تک اثر پہنچا تھا اور کسی بغاوت کی جرات نہیں ہو سکتی تھی کوفہ و بصرہ میں جوعرب کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا‘ خاص اسی غرض سے آباد کرایا گیا تھا۔شام اور مصر میں تما م سواحل پر فوجی چھائونیاں اسی ضرورت سے قائم کی گئی تھیں۔ خاص عرب میں ان کومختلف پولیٹکل تدبیروں سے کام لینا پڑا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دیا بڑے بڑے ملکی افسروں کو ہمیشہ بدلتے رہتے تھے۔ چانچہ عمرو بن العاصؓ کے سوا کوئی ایسا گورنر مقرر نہیں ہوا جو مختلف صوبہ جات میں بدلتا نہ رہا ہو۔ ملکی افسروں میں سے جس کی نسبت زیادہ زور پاجانے کا خیال ہوتاتھا اس کو علیحدہ کر دیتے تھے جو لوگ زیادہ صاحب اثر تھے ان کو اکثر دارالخلافہ سے باہر نہیںجانے دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعکہ لوگوںنے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی تو فرمایا کہ آ پ لوگ یہ دلوت بہت جمع کر چکے ہیں پھر فرمایا لا تخرجوا فتسلوا یمینا و شمالا ؎۱ ایک دفعہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے پوچھا آپ لوگوںکو باہر جانے سے کیوں روکتے ہیں فرمایا اس کا جواب نہ دینا جواب دینے سے بہتر ہے ۲؎ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کبھی ملکی عہدے نہیں دیے۔ صرف نعمان بن عدی کو ضلع کا حاکم کیا تھا پھر ایک معقول وجہ سے موقوف کر دیا۔ بنو ہاشم کو بھی ملکی عہدے نہیں دیے اور ا س میں زیادہ تر یہ مصلحت ملحوظ تھی۔ اس وقت تمام عرب میںتین شخص مشہور تھے ۔ جو مشہور مدبر اور صاحب ادعا تھے۔ امیر معاویہ‘ عمرو بن العاصؓ مغیرہ بن شعبہؓ چونکہ مہمات ملکی کے انجام دینے کے لیے ان لوگوں سے بڑھ کر تمام عرب میں کوئی شخص ہاتھ ہیں آ سکتا تھا اس لیے سب کو بڑے بڑے عہدے دیے لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے اور اس کی تدبیریں کرتے رہتے تھے کہ وہ قابو سے باہر نہ ہونے پائیں۔ ۱؎ تاریخ یعقوبی ص ۱۸۱ ۲؎ تاریخ یعقوبی ص مذکور ان کی وفات کے بعد کوئی شخص ایسا نہ رہا جو ان کو دبا سکتا ۔ چنانچہ حضرت عثمانب اور حضرت علیؓ کے زمانے میں جو ہنگامے برپا ہوئے سب انہی لوگوں کی بدولت تھے۔ سیاست اور پالیٹکس حکومت اور سلطنت کا لازمہ ہے لیکن حضرت عمرؓ کو اس باب میں تمام دنیا پر جو امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اور بادشاہوں کی ضرورت سے جو جو کا م کیے ان کا واقعی نام خدع‘ مکر و فریب ‘ طاہر داری اورنفاق تھا۔ بادشاہوں پر موقوف نہیں بڑے بڑے رفارما اس شائبہ سے خالی نہیں ہوتے تھے لیکن حضرت عمرؓ کی کسی کارروائی پرفریب اور حکمت عملی کا نقاب نہیں ہوتا تھا۔ اور جو کچھ وہ کرتے تھے اعلانیہ کرتے تھے اور لوگوں کو صا ف صاف اس کی مصلحت سے واقف کر دیتے تھے۔ حضرت خالدؓ کو معزول کیا تو تمام اضلاع میں فرمان بھیج دیا کہ: انی لم اعزل خالدا عن سحظۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنو بہ فخفت ان یوکلو الیہ ؎۱ ’’یعنی میں نے خالد کو ناراضی یا خیانت کے جرم میں موقوف نہیں کیا بلکہ اس وجہ سے کہ ولگ ان کی طرف زیادہ مائل ہوتے جاتے تھے۔ اس لیے میں ڈرا کہ ان پر بھروسہ نہ کر لیں‘‘۔ مثنیٰؓ کی معزولی کے وقت بھی ایسے ہی خیالات ظاہر کیے ار فرمایا: لم اعزلھما عن ربیعۃ ولکن الناس عظموھما فخشیت ان یوکلوا الیھما بنو ہاشم کو جس وجہ سے ملکی خدمتیں نہیں دیں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے صاف اس کی وجہ بیان کردی چنانچہ ایک دوسرے مناسب موقع پر ا س کی تفصیل آئے گی۔ حضرت عمرؓ کی حسن سیاست کا ایک بڑا کارنامہ اور ان کی خلافت کی کامیابی کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ انہوںںے حکومت و انتظام کی کل میں نہایت موزوں پرزے استعمال کیے تھے۔ عہدہ داران سلطنت کا عمدہ انتخاب یہ عموماً مسلمہے کہ جو ہر شناسی کی صفت ان میں سب سے برھ کر تھی۔ اس ذریعہ سے انہوںنے تمام عرب کے قابل آدمیوں اور ان کی مختلف قابلیتوں سے واقفیت پیدا کردی تھی۔ اور انہی قابلیتوں کے لحاظ سے ان کو مناسب عہدے دیے تھے۔ سیاست و انتظام کے فن میں تمام عرب میں چار شخص اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے امیر معاویہ‘ عمرو بن العاصؓ ‘ مغیرہ بن شعبہؓ ‘ زیاد بن سمعیہؓ چنانچہ ان کو سب کو بڑی بڑی ملکی خدمتیں سپرد کیں اور درحقیقت ان لوگوں کے سوا شام و مصر و کوفہ پر اور کوئی شخص قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔ ۱؎ طبری ص ۲۳۹۳ جنگی مہمات کے لیے عیاض بن غنم‘ سعد بن ابی وقاصؓ‘ نعمان بن مقرن ؓ وغیرہ کو منتخب کیا۔ عمر معدی کرب اور طلیحہ بن خالدؓ اگرچہ پہلوانی اور سپہ گری میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے لیکن فوج کو لڑا نہیں سکتے تھے۔ اس لیے ان دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ ان کو کسی حصہ فوج کی افسری نہ دی جائے۔ زید بن ثابت و عبداللہ بن ارقمؓ انشاء و تحریر میں مستثنیٰ تھے۔ ان کو میر منشی مقرر کیا۔ قاضی شریح کعب بن سور‘ سلمان بن ربیعہؓ ‘ عبداللہ بن مسعودؓ فضل قضایا میں ممتاز تھے ان کو قضا کی خدمت دی۔ غرض جس کو جس مقام پر مقرر کیا وہ گویا اسی کے لیے پیدا ہواتھا۔ ا س امر کا اعتراف غیر قومو ں کے مورخوںنے بھی کیا ہے ایک عیسائی مشہور مورخ لکھتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فوج کے سرداروں اور گورنروں کا انتخاب بلارو رعایت کیا ار مغیرہ و عمارؓ کو چھوڑ کر باقی کا تقرر نہایت مناسب و موزوں ہوا۔ بے لاگ عد ل و انصاف سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول عام بنا دیا اور جس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت احکا کو بھی گوارا کر لیتے تھے‘ یہ تھی کہ ان کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا جس میں دوست‘ دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات پر ناراض ہوتے کہ وہ جرائم کی پاداش میں کیس کی عظمت و شان کا مطلق پاس نہیں کرتے لیکن جب وہ وگ یہ دیکھتے کہ خاص اپنی آل اولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتائو ہے تو لوگوں کو صبر آ جاتاتھا۔ ان کے بیٹے ابوشحمہ ۱؎ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے ان کو ۸۰ کوڑے مارے اور اسی صدمے سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ قدامہ بن مظعون ؓ جو ان کے سالے اور بڑے رتبہ کے صحابی تھے جب اسی جرم میں ماخوذ ہوئے تواعلانیہ ان کو ۸۰ درے لگوائے۔ قدیم سلطنتوں کے حالات اور انتظامات سے واقفیت حضرت عمرؓ کی سیاست کا ایک بڑا اصول یہ تھا کہ وہ قدیم سلطنتوں اور حکمرانوں کے قواعد اور انتظامات سے واقفیت پیدا کرتے تھے اوران میں سے جو چیزیں پسند کے قابل ہوتی تھیں اس کو اختیار کرتے تھے خراج‘ عشور‘ دفتر‘ رسد‘کاغذات‘ حساب‘ ان تمام انتظامات میں انہوںںے ایران اور شام کے قدیم قواعد پر عمل کیا۔ البتہ جہاں کوئی نقص پایا اس کی اصلاح کر دی۔ ۱؎ ابوشمحہ کے قصے میںواعظوں نے بڑ ی رنگ آمیز یاں کی ہیں لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو شرعی سزا د ی اور اسی صدمے سے انہوںنے انتقال کیا (دیکھو معارف بن قتیبہ ذکر اولاد عمرؓ ) عراق کے بندوبست کا جب ارادہ کیا تو حذیفہ اور عثمان بن حنیفؓ کے نا م حکم بھیجا کہ عراق کے دو بڑے زمینداروں کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ یہ زمیندار مع مترجم ان کے پاس آئے اور انہوںنے ان سے دریافت کیا کہ سلاطین عجم کے ہاں مال گزاری کی تشخیص کاکیا طریقہ تھا۔ ۱؎ جزیہ حالانکہ بظاہر مذہبی لگائو رکھتا تھا لیکن اس تشخیص میں وہی صول ملحوظ رکھے۔ جو نوشیروان عادل نے اپنی حکومت میں قائم کیے تھے۔ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے جہاں نوشیروان کے انتظامات اور بالخصوص جزیہ کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے: وھی الوضائع الت اقتدی بھا عمر بن الخطاب حین افتح بلاد الفرس ؎۱ ’’یعنی یہ وہی قاعدے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جب فارس کا ملک فتح کیا تو ان کی اقتدا کی‘‘۔ اس سے زیادہ صاف اور مصرح اور علامہ ابن مسکویہ نے اس مضمون کو لکھا ہے: علامہ موصوف نے جو حکیم اور فلسفی اور شیخ بو علی سینا کے معاصرو ہم پایہ تھے تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے جس کانام تجارب الامم ۳؎ ہے اس میں جہاں حضرت عمرؓ کے انتظامات ملکی کا ذکر کیا ہے لکھا ہے کہ: وکان عمر یکثر الخلوۃ بقوم منالفرس یقرون علیہ سیاسیات الملوک ولا سیما ملوک العجم الفضلا و سیما انوشروان اوانہ کان معجبا بھا کثیر الاقتداء بھا ’’یعنی عمرؓ فارس کے چند آدمیوں کو صحبت میں خاص رکھتے تھے۔ یہ لوگ ان کو بادشاہوں کے آئین حکومت پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ خصوصاً شاہان عجم اوران میں سے بھی خاص کر نوشیروان کے اس لیے کہ ان کو نوشیروان کے آئین بہت پسند تھے اور وہ ان کی بہت پیروی کرتے تھے‘‘۔ علامہ موصوف کے بیان سے تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ عموماً مورخوںنے لکھا ہے کہ جب فارس کا رئیس ہرمزان اسلام لایا تو حضرت عمرؓ نے اس کو اپنے خاص درباریوں میں داخل کیا اور انتظامات ملکی کے متعلق اس سے اکثر مشورہ لیتے تھے۔ ۱؎ کتاب الخراج ص ۲۱ ۲؎ تاریخ کبیر طبری ص ۲۶۲ ۳؎ یہ کتاب قسطنطنیہ کے کتب خانہ مسجد ایا صوفیہ میں موجود ہے اورمیں نے اسی نسخہ سے نقل کیا ہے۔ واقفیت حالات کے لیے پرچہ نویس اور واقعہ نگار حضرت عمرؓ کی بڑی کوشش اس بات پر مبذول تھی رہتی تھی کہ ملک کا کوئی واقعہ ان سے مخفی نہ رہنے پائے۔ انہوںنے ملکی انتظامات ملکی کے ہر ہر صیغہ پر پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کر رکھے تھے۔ جس کی وجہ سے مک کا ایک ایک جزئی واقعہ ان تک پہنچتا تھا۔ امام طبری لکھتے ہیں: وکان عمر لا یخفی علیہ فی شئی فی عملہ الیہ من العراق بخروج من خرج ومن الشام بجائزہ من اجیز فیھا ؎۱ ’’یعنی عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی۔ عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اور شا م میں جن لوگوں کو انعام دیے گئے سب کی تحریری اطلاعیں ان کو پہنچیں‘‘۔ عراق کے ایک معرکہ میں سردار لشکر نے عمرو معدی کربؓ کو دوہرا حصہ نہیں دیا۔ عمرو معدی کربؓ نے وجہ پوچھی۔ انہوںنے کہا کہ تمہارا گھوڑا دوغلا ہے اس لیے اس کا حصہ کم ہو گیا۔ معدی کربؓ کو اپنی پہلوانی کا غرور تھا بولے کہ ہاں دوغلا ہی دوغلے کو پہچان بھی سکتاہے۔ حضرت عمرؓ کو فوراً خبر ہوئی عمرو معدی کربؓ کو سخت تنبیہ کی جس کی وجس ے ان کوآئندہ ایسی گستاخی کی جرات نہیں ہوئی۔ نعمان بن عدی میسان کے حاکم تھے۔ دولت و نعمت کے مزے میں پڑ کر انہوںنے اپنی بیو ی کو خط لکھا جس میں یہ یہ شعر بھی تھا: لعل امیر المومنین یسووء تنادمنا بالجوسق المتھدم ’’غالباً امیر المومنین کو خبر پہنچے گی تو وہ برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندانہ صحبتیں رکھتے ہیں‘‘۔ حضرت عمرؓ کو فوراً خبر ہوئی اور ان کو معزول کر کے لکھا کہ ہاںمجھ کو تمہاری یہ حرکت ناگوار ہوئی ۲؎۔ صحابہ میں حذیفہ بن الیمانؓ بزرگ تھے جن کو اکثر مخفی باتوں کا پتہ لگتا تھا۔ عہد نبوت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محرم راز تھے اور اسی وجہ سے صاحب السر کہلاتے تھے حضرت عمرؓ نے ایک دن ان سے پوچھاکہ منافقین کا جو گروہ ہے ان میں سے کوئی شخص میرے عمالوں اور عہدہ داروںمیں بھی ہے؟ انہوںنے کہا ہاں ایک شخص ہے حضرت عمرؓ نے نام پوچھا لیکن انہوںنے رازداری کے لحاظ سے نام نہیںبتایا۔ حذیفہؓ کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے اس کو معزول کر دیا۔ جس سے میں نے قیاس کیا انہوںنے خود پتا لگا لیا۔ ۳؎ اسی نفحص اور بیدار مغزی کا اثر تھا کہ تمام افسر اور عمال ان کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیںکر سکتے تھے۔ علامہ طبری لکھتے ہیں: ۱؎ طبری ص ۲۵۲۶ ۲؎ اسد الغابہ ذکر نعمان بن عدی۔ ۳؎ اسد الغابہ ذکر حذیفہ بن الیمان۔ وکانو الا یدعون شیئا ولا یاتونہ الا وامروافیہ ؎۱ ’’یعنی لوگ کوئی کام ان سے بغیر دریافت کیے نہیں کرتے تھے‘‘۔ بیت المال کا خیال بیت المال یعنی خزانہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اور کسی قسم کی رقم کو اس کے احاطہ سے باہر نہیں سمجھتے تھے۔ خانہ کعبہ میں مدت کا چڑھاوا جمع تھا اور اس کی نسبت فرمایا کہ: لقد ہممت ان لا ادع فیھا صغراء ولا بیضاء الا قسمتہ ؎۲ ’’یعنی میں نے ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ اس میں سوناچاندی ہے سب لوگوں کو تقسیم کر دوں‘‘۔ ایک دفعہ مال غنیمت ہاتھ آیا حضرت حفصہؓ (حضرت عمرؓ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کو خبر ہوئی وہ حضرت عمرؓ کئے پاس آئیں اور کہا کہ امیر المومنین اس میں سے میرا حق مجھ کو عایت کیجیے کیونکہ میں ذوی القربیٰ میں سے ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا جان پدر! تیرا حق میرے خاص مال میں ہے لیکن یہ غنیمت کا مال ہے تو نے اپنے باپ کو دھوکا دینا چاہا وہ بیچاری خفیف ہو کر اٹھ گئیں ۳؎ شام کی فتح کے بعد قیصر روم سے روستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دفعہ ام کلثومؓ (حضرت عمرؓ کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پا س تحفہ کے طور پر چند شیشیاں بھیجیں۔ اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو یہ حال معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمہارا تھا لیکن قاصد جو لے کر گیا وہ سرکاری تھا اور ا س کے مصارف عام آمدنی میںسے ادا کیے گئے غرض جواہرات لے کر بیت المال میںداخل کر دیے اور ان کو کچھ معاوضۃ دے دیا۔ ایک دفعہ بیمار پڑے لوگوںے علاج میں شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے۔ مسجد نبوی میں جا کر لوگوں سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑا سا شہد لے للوں ۴؎ س کاررائی سے طلب اجازت کے سوایہ ظاہر کرنا تھا کہ خزانہ عامرہ پر خلیفہ وقت کو اتنا اختیار بھی نہیں۔ ۱؎ طبری ص ۲۴۸۷ ۲؎ صحیح بخاری باب کسوۃ الکعبہ۔ ۳؎ مسند احمد بن حنبل ۴؎ کنز العمال جلد ۶ ص ۳۵۴ خلافت سے پہلے وہ تجارت کے ذریعے سے بسر کرتے تھے خلافت کے مہمات میں یہ شغل قائم نہیں رہ سکتاتھا۔ صحابہؓ کو جمع کر کے اپنی ضرورت بیا ن کی اور کہا کہ بیت المال میں سے کس قدر اپنے مصارف کے لیے لے سکتا ہوں؟ لوگوںنے مختلف رائے دیں ‘ حضرت علیؓ چپ تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوںنے کہا صرف معمولی درجہ کی خوراک لباس چنانچہ ان کے اور ان کی بیوی بچوں ے لیے بیت المال سے کھانا اور کپڑا مقرر ہو گیا ۱؎فوجی روزینہ داروں میں جب بدریین (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شریک تھے) کے لیے تنخواہیں مقرر کیں تو اور لوگوں کے ساتھ پانچ ہزار درہم سالانہ ان کے بھی مقرر ہو گئے۔ کروڑوں روپے کی آمدنی سے فاروق اعظمؓ کو سال بھر میں جو ملتاتھا اس کی تعداد یہ تھی۔ ان کی معاشرت کے حالات میںآگے چل کر تم پڑھو گے کہ وہ اکثرپھٹے کپڑے پہنتے تھے‘ زمی پر سو رہتے تھے مہینوں گیہوں کاآٹا گھر میں نہیں پکتاتھا۔ اس کی وجہ کچھ رہبانیت ار جوگی پن نہ تھا۔ بلکہ درحقیقت اس سے زیادہ ان کو ملک کی آمدنی میں نصیب نہیں ہوتاتھا۔ کبھی کبھی اتفاقیہ کوئی بڑی رقم آ جاتی تھی تو وہ ب دریغ خرچ بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ام کلثومؓ سے جب نکاح ہوا تو ان کے شرف ارو خاندان نبوت کے تعلق کی وجہ سے ۴۰ ہزار درہم مہر باندھا گیا اوراسی وقت ادا بھی کرد یا۔ بنو ہاشم کو جو ملکی عہدے نہیں دیے‘ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو خوف تھا کہ بنو ہاشم چونکہ خمس میں اپنا میں اپنا حصہ لے لیں گے۔ حالانکہ حضرت عمرؓ کے نزدیک حمس کے مصارف امام قت کی رائے پر منحصر ہو گا۔ چنانچہ ان کی بحث مفصل آگے آئے گی۔ انہوںنے بنو ہاشم کی نسبت اپنی اسی بدگمانی ک اظہار بھی کردیا تھا۔ حمص کا عامل جب مر گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو مقرر کرنا چاہا لیکن چونکہ ان کی طرف سے مطمئن نہ تھے۔ اس لیے بلا کر ان سے کہا فی نفس منک شئی یعنی میرے دل میں تمہاری طرف سے ذرا کھٹکا ہے ۔ انہوںن یکہا کیوں فرمایا: ان خشیت علیک ان تاتی علی الفی الذی ہوات ؎۲ ’’یعنی مجھ کو ڈر ہے کہ تم محاصل ملکی پر تصرف نہ کرو‘‘۔ ۱؎ تاریخ طبری واقعات سنہ ۱۵ ھ ۲؎ کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ ۶۵،۶۴ یہ صرف سوئے ظن نہ تھا بلکہ وقوع میں بھی آیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے عہد خلافت میں جب حضرت عبداللہ ؓ کو عامل مقرر کیا تو انہوںنے بیت المال میں سے بہت سی رقم لے لی اورجب حضرت علیؓ نے باز پرس کی تو لکھ بھیجا کہ میںنے ابھی اپنا پورا حق نہیںلیا۔ یہ یاد رکھنا چایہے کہ حضرت عمرؓنے بیت المال کے بارہ میں جو کفایت شعاری اور تنگ روزی برتی وہ خلافت فاروقی کی کامیابی کا بڑا سبب تھی۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت میں لوگوں نے اخیر میں جو شورشیں کیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ جناب موصوف نے بیت المال کے متعلق فیاضانہ برتائو کیا یعنی اپنے عزیز و اقارب کو ذوی القربیٰ کی بنا پر بڑی بر رقمیں عطا کیں۔ ایک عجیب بات ہے کہ اگرچہ ان کو بے انتہا کام درپیش رہتے تھے۔ دارالخلافہ سے سینکڑوں ہزاروں میل تک فوجیں پھیلی ہوء تھیں۔ جن کی ایک ایک حرکت ان کے اشاروں پر وقوف تھی۔ انتظامات حکومت کی مختلف شاخوں کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو فقہ کی ترتیب اور افتا جو ایک مستقل اور بہت بڑا کام تھا الگ تھا۔ اپنے ذاتی اشغال جدا تھے۔ تاہ ہر کام وقت پر انجام پاتا تھا اور کسی کا م میں بھی حرج نہیں ہوتاتھا۔ تمام کاموں کا وقت پر انجام پانا نہاوند کا سخت معرکہ جس میں تمام ایران امنڈ آی ا تھا پیش تھا کہ عین اسی زمانے میں سعد بن ابی وقاصؓ گورنر کوفہ کی شکایت گزری۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ بہت تنگ وقت ہے ‘ تاہم سعدؓ کی تحقیقات نہیں رک سکتیں۔ چنانچہ کوفہ سے فوجوں کی روانگی کا انتظام بھی ہوتا رہا اور ساتھ ہی بڑی کدوکاوش سے سعدؓ کی تحقیقات بھی ہوئی۔ جزیرہ والوں نے قیصر سے مل کر جب شام پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس سرعت سے تمام اضلاع سے فوجیں بھیجیں کہ جزیرہ کے تمام ناکے روک دیے اور اہل جزیرہ قیصر تک پہنچ بھی نہ سکے۔ زیادہ ابن حدیر عراق میں وہ تمام یکی کی تحصیل پر مامور تھے۔ انہوںنے ایک عیسائی گھوڑے کی قیمت بیس ہزار قرار دے کر محصو ل طلب کیا۔ اس نے کہا گھوڑا آپ رکھ لیجیے اور انیس ہزار مجھ کو حوالہ کجیے دوبارہ عیسائی ان کی سرحدسے گزرا تو اس نے پھر محصول انگا وہ مکہ مکرمہ پہنچا اور حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے صرف اس قدر کہا کہ تم مطمء رہو۔ عیسائی زیاد بن حدیر کے پاس واپس آیا ور دل میں ارادہ کر چکا تھا کہ ایک ہزار اور دے کر گھوڑے کو واپس لے۔ یہاں حضرت عمرؓ کا فرمان پہلے پہنچ چکا تھا کہ سال بھر میں دو دفعہ ایک چیز کا محصول نہیں لیا جااسکتا۔ ایک اور عیسائی کو اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔ وہ عین اس وقت حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا جب وہ حرم میں خطبہ پڑھ رہے تھے اسی حالت میں اس نے شکایت کی تو فرمایا نہیں دوبارہ محصول نہیں لیا جاسکتا۔ عیسائی چند روز مکہ میں مقیم رہا۔ ایک دن حضرت عمرؓ کے پاس جا کرکہا میں وہی نصرانی ہوں جس نے محصول کے متعلق شکایت کی تھ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں وہی حیفی( مسلمان) ہوں جس نے تمہارا کام انجام کردیا۔ عیسائی نے دریافت کیا تو حضرت عمرؓ پہلے ہی دن زیادکو حکم بھیج چکے تھے ۱؎۔ رفاع عام اس بات کا سخت اہتمام کیا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر وفاقہ میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ عام حکم تھا کہ اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک میں جس قدر اپاہج ضعیف ازکار رفتہ مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر دی جائیں۔ لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے لیکن ج کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی۔ اول یہ انتظام شروع کیا تو حک دیا کہ ایک جریب آٹا پکایا جائ۔ ۲؎ پک کر تیا رہو ا تو ۰ ۳ آدمیوں کو بلا کر کھلایا شام کو پھر اسی قر آٹا پکوایاار اسی قدر آدمیوں کو کھلایا۔ یہدونوں وقت کے لیے کافی مقدار ٹھہری تو فرمایا کہ ایک آدمی کو مہینے بھر کے لیے دو جریب آٹا کافی ہے۔ پھر حکم دیا کہ ہر شخص کے لیے اس قدر آٹا مقرر کر دیا جائے کہ اعلان عام کے لیے منبر پر چڑھے اور پیمانہ ہات میں لے کر کہا کہ میں نے ت لوگوں کے لیے اس قدر خوراک مقررکر دی ہے جو شخص اس کو گھٹائے گا اس سے اللہ سمجھے گا۔ ایک روایت ہے کہ پیمانہ ہاتھ میںلے کر یہ الفاظ فرمائے: انی قد فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شھر مدی حنظۃ و قسطی خل ’’یعنی میں نے ہر مسلمان کے لیے فی مہ دو مد گیہوں اور دو قسط سرکہ مقررکیا‘‘ اس پر ایک شخص نے کاکہ کیا غلام کے لیے بھی؟ فرمایا ہاں غلام کے لیے بھی ۳؎ غرباء او ر مساکین کے روزینے غربا اور مساکین کے لیے بلا تحصیص مذہب ی حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کر دیے جائیں۔ چنانچہ جیسا کہ ہم اوپر ذمیوں کے حقوق میں لکھ آئے ہیں بیت المال کے عامل کو لکھ بھیجا کہ اللہ کے اس قول سے کہ انما الصدقات للفقراء والمسکین فقراء اورسے مراد مسلماناور مساکین سے اہل کتاب مراد ہیں۔ ۱؎ یہ دونوں روایتیں کتاب الخراج ص ۷۸‘۷۹ مٰں ہیں۔ ۲؎ قریباً ۲۵ سیر کا ہوتاہے۔ ۳؎ یہ پوری تفصیل فتوح البلدان میں ۴۶۰ میں اور تمام تاریخوں میں بھی ذرا ذرا اختلاف کے ساتھ یہ روایت مذکورہے۔ مہمان خانے اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا۔ چنانچہ کوفہ کے مہمان خانے کا ذکر ہم کوفہ کی آبادی کے ذکر میں لکھ آئے ہیںَ مدینہ منورہ میں جو لنگر خانہ تھا اکثر وہاں خود جا کر اپنے اہتمام سے کھانا کھلواتے تھے۔ لاوارث بچے اولاد لقطہ یعنی گمنام بچے ج وک ان کی مائیں شہاراہ وغیرہ رپ ڈال جاتی تھیں۔ ان کے لیے ۱۸ھ میں یہ انتظام کیا کہ جہاں اس قسم کا کوئی بچہ لے اس کے دودھ پلانے اور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیاجائے۔ چنانچہ ان مصارف کے لیے اول ۱۰۰ درہم سالانہ مقرر ہوتے تھے۔ پھر سال بسال ترقی ہوتی جاتی تھی ۱؎ یتیموں کی خبر گیری یتیموں کی پرورش اور اگر ان کی جائیداد ہوتی تھی تو اس کے حفاظت کا نہایت اہتمام کرتے تھے اور اکثر تجارت کے ذریعہ سے اس کو ترقی دیتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حکم بن ابی العاص سے کہا کہ میرے پاس یتیموں کا جو مال جمع ہے وہ زکوۃ نکالنے کی وجہ سے گھٹتا جاتاہے تم اس کو تجارت میں لگائو اور جو نفع ہو واپس دو۔ چنانچہ دس ہزار کی رقم حوالہ کی ار وہ بڑھتے بڑھتے لاکھ تک پہنچی۔ قحط کا انتظام ۱۸ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو عجیب و غریب سرگرمی ظاہر کی‘ اول بیت المال کا تمام نقد غلہ صرف کیا‘ پھر تما م صوبوں کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ نے چار ہزار اونت غلہ سے لدے ہوئے بھیجے۔ عمرو بن العاصؓ نے بحر قلزم کی راہ سے بیس جہاز روانہ کیے جن میں سے ایک ایک میں تینتین اردب غلہ تھا۔ حضرت عمرؓ ان جہازوں کے ملاحظہ یک لیے خود بندرگاہ تک گئے جن کانام جار تھا اور جو مدینہ منورہ سے تین منزل ہے۔ ۱؎ بلاذری ص ۴۵۲ و یعقوبی جلد دوم ص ۷۱ بندرگار میں دو بڑے بڑے مکان بنوائے اور زید بن حارث ؓ کو حک دیا کہ قحط زدوں کا مفصل نقشہ بنائیں۔ چنانچہ بقید نام اور مقدار غلہ رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چک تقسیم کی گئی جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔ چک پر حضرت عمرؓ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ ۱؎ اس کے علاوہ ہر روز ۰ ۲ اونٹ خود اپے اہتمام سے ذبح کراتے تھے اور قحط زدوںکو کھانا پکوا کر کھلاتے تھے۔ رفاہ عام کے متعلق حضرت عمرؓ کی نکتہ سنجی اس موقع پر یہ بات خاص طور پرجتا دینے کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ کو اگرہچ ملک کی پرورش وار پرداخت کا اتنا کچھ اہتمام تھا لیکن ان کی یہ فیاضی ایشیائی قسم کی فیاضی نہ تھی جس کا نتیجہ کاہلی اور مفت کوری کا رواج دینا ہوتاہے۔ ایشیا میں سلاطین و امراء کی فیاضیوںکا ذکر عموماً بڑے ذوق سے کیا جاتاہے لیکن لوگ اس بات کا خیال نہی رکھتے کہ اس سے جہاں ایک بادشاہ کی مدح نکلتی ہے دوسری طرف قوم کا دریوگہ گر ہونا اور انعام و بخشش پر لو لگائے رہنا ثابت ہوتاہے۔ یہی ایشیائی فیاضیاں تھیں کہ جس نے آج ہماری قوم میںلاکھوںایسے آدمی پید ا کردیے ہیں جو خود ہاتھ پائوںنہیں ہلانا چاہتے اور نذر و نیاز وغیرہ پر اوقات بسر کرتے ہیں۔ لیکن حضرت عمرؓ اس سے بے خبر نہ تھے۔ وہ اس بات کی سخت کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا مادہ نہ پیدا ہونے پائے جن لوگوں کی تنخواہیں اور خوراک مقرر کی تھی وہ صرف وہ لوگ تھے جن سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت کی توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوںنے پہلے کی کوئی نمایاں خدمت کی تھی یا جوضعف اور بیماری کی وجہ سے خود کسب معاش نہیں کر سکتے تھے۔ ا ن اقسام کے علاوہ وہ کبھی اس قسم کی فیاضی کو روانہیں رکھت تھے۔ محدث ابن جوزی نے سیرۃ العمر میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک سائل حضرت عمرؓ کے پاس آیا حضرت عمرؓ نے دیکھا تو اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دی اورفرمایا کہ اب جو مانگنا ہو مانگو علامہ ماوری نے احکام السلطنتہ میں لکھا ہے کہ محتسب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کھانے کمانے کے قابل ہیں اور باوجود اس کے صدقہ اور خیرات لیتے ہوں تنبیہ و تادیب کرے اس کے بعد علامہ موصوف نے اس کی سند میں حضرت عمرؓ کے فعل سے استدلال کیا ہے اور لکھا ہے وقد فعل عمر مثل ذالک بقوم من اہل الصدقہ ؎۱ ۱؎ یہ تفصیل یعقوبی ص ۱۷۷ میں ہے اخیر کے فقرے یہ ہیںثم امر زید بن ثابت ان یکتب لناس علی منازلھم وامر ان یکتب صکا ک من قراطیس ثم یختم اسافلھا فکان اول من صک و خت اسفل الصکاک اردب کم و بیش وومن کا ہوتا ہے۔ ۲؎ الاحکام السلطانیہ مطبوعہ مصر ص ۲۳۵ معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ظاہر میں خوشحال دیکھتے تو دریافت کرتے تھے کہ یہ کوئی پیشہ کرتا ہے؟ اور جب لوگ کہتے کہ نہیں تو فرماتے کہ یہ شخص میری آنکھ سے گر گیا۔ ان کا مقولہ تھا مکسبتہ فیھا دنا ۃ خیر من مسالۃ الناس یعنی ذیل پیشہ بھی لوگوں سے سوال کرنے کی نسبت اچھا ہے۔ مفت خوریکا موقع زیادہ تر علماء اور صوفاء کو ملتاہے۔ ان کے زمانے تک صوفیہ تو پیدا نہیںہوئے تھے لیکن علماء کو اعلانیہ مخاطب کر کے کہا لا تکونا اعیالا علی المسلمین یعنی مسلمانوں پر اپنا بار نہ ڈالو ۱؎ جزئیات پر توجہ حضرت عمرؓ کی تاریخ زندگی میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو بڑے اہم امور سے سابقہ رہتا تھا۔ تاہم نہایت چھوٹے چھوٹے کام بھی وہ خود انجام دیتے تھے اور اس کے لیے ان کو وقت اور فرصت کی تنگی نہیں ہوتی تھی۔ ان میں ایسے کام بھی ہوتے تھے جن کا اختیار کرنا بظاہر شان خلافت کے خلاف تھا لیکن ان کو کسی کام سے عار نہ تھا۔ روزینہ داروں کے جو روزینے مقرر تھے اکثر خود جا کر تقسیم کرتے تھے قدیر ار عسفان مدینہ سے کئی منزل کے فاصلے پر دو قصبے ہیں جہاں قبیلہ خزاعہ کے لوگ آباد تھے۔ ان دونوں مقاموں میں خود تشریف لے جاتے تھے۔ روزینہ دارں کا دفتر ہاتھ میں ہوتا تھا ان کو دیکھ کر چھوٹے بڑے سب گھروں سے نکل آتے تھے اور حضرت عمرؓ خود اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے جاتے تھے۔ ۲؎ اکثر ایساہوتاتھا کہ دارالصدقہ میں جاتے اورایک ایک اونٹ کے پاس کھڑے ہو کر ان کے دانت گنتے اوران کا حلیہ قلم بند کرتے۔ محب طبری نے ابو حذیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے کہتے کہ تم نے کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لا دوں۔ وہ لونڈیاں ساتھ کر دیتیں۔ حضرت عمرؓ خود چیزیں خریدتے اور ان کے حوالہ کرتے۔ مقام جنگ سے قاصد آتا اوراہل فوج کے خطوط لاتا تو وہ خود ان کے گھرو ںپر پہنچا آتے اور کہتے کہ فلاں تاریخ تک قاصد واپس جائے گا تم جواب لکھوارکھو کہ اس وقت تک روانہ ہو جائے ۔ کاغذ قلم ودوات خود مہیا کردیتے اور جس کے گھر میں کوئی حرف شناس نہ ہوتا خود چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو لکھواتے لکھتے جاتے۔ ۱؎ سیرۃ العمرین لا بن الجوزی۔ ۲؎ فتح البلدان صفحہ ۴۵۲ رعایا کی شکایتوں سے واقفیت کے مسائل ان کی سب سے زیادہ توجہ س بات پر مبذول رہی تھی کہ رعایا کی کوئی شکایت ان کے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ یہ معمول رکھا کہ نماز کے بعد صحن مسجد میں بیٹھ جاتے اور جس کو کچھ ان سے کہننا سننا ہوتا کہتا۔ کوئی نہ ہوتاتو تھوڑی دیر انتظار کر کے اٹھ جاتے ۔ ۱؎ راتوں کو دورہ کرتے تھے سفر میں راہ چلتوں سے حالات پوچھتے۔ بیرونی اضلاع سے جو سرکاری قاصد آتے ان سے ہر قسم کی پرس و جو کرتے۔ سفارت ایک بڑ ا عمدہ طریقہ دریافت حالات کا یہ تھا کہ تمام اضلاع سے ہر سال سفارتیں آتیں اور وہ ان مقامات کے متعلق ہر قسم کی ضروری باتیں پیش کرتیں۔ اس سفارت کو وفد کہتے تھے اور یہ عرب کا قدیم دستو ر تھا لیکن حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں اس سے وہ کام لیا جو آج کل جمہوری سلطنتوں میں رعایا کے قائم مقام ممبر انجام دیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مختلف اضلاع سے جو سفارتیں آتیں اور جس طرح انہوںنے اپنی مقامی ضرورتیںپیش کیں اس کاحال عقد الفرید وغیرہ میں بتفصیل ملتاہے۔ ان تمام باتوں پر ان کو تسلی نہ تھی۔ فرماتے ہیںکہ عمال رعایا کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر شخص مجھتک پہنچ نہیں سکتا۔ اس بنا پر ارادہ کیا کہ شام جزیرہ‘ کوفہ‘ اور بصرہ کا دورہ کریں۔ اور ہر جگہ دو مہینے ٹھہریں لیکن موت نے فرصت نہ دی۔ شام کا سفراور رعایا کی خبر گیری تاہم اخیر دفعہ جب شام کا سفر کیاتوایک ضلع میںٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی۔ اس سفرمیں ایک عبرت ناک واقعہ پیش آیا۔ دارالخافت کو واپس آ رہے تھے کہ راہ میںایک خیمہ دیکھا۔ ساری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا عورت نظرآئی۔ اس سے پوچھا کہ عمرؓ کا کچھ حال معلوم ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں شام سے روانہ ہو چکا ہے لیکن اللہ اس کو غارت کرے آج تک مجھ کو اس کے ہاتھ سے ایک حبہ بھی نہیں ملا۔ حضرت عمرؓ نے کہا اتنی دور سے عمرؓ کا حال کیونکر معلوم ہو سکتاہے۔ بولی کہ اس کو رعایا کا حال معلوم نہیںتو خلافت کیوںکرتا ہے۔ حضرت عمرؓ کو سخت رقت ہوئی اور بے اختیار رو پڑے۔ ۱؎ کنز العمال جلد دوم ص ۳۲۰ ہم اس موقعہ پر متعدد حکایتیں اور روایتیںنقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ رعایا کی آرام و آسائش اور خبر گیری میں ان کو کس قدر سرگرمی اور ہمدردی تھی۔ ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ سے آیا اور شہرکے باہر اترا۔ اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لیے خود تشریف لے گئے۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے دیکھا کہ ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں ر و رہا ہے۔ ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے تھوڑی دیر بعد پھر ادھر سے گزرے تو بچے کو روتا پایا غیظ میں آ کر فرمایا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔ اس نے کہا کہ تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں خواہ مخواہ مجھ کو دق کریت ہو۔ بات یہ ہے کہ عمرؓ نے حکم دیا کہ بچے جب تک دودھ نہ چھوڑیں بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیاجائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور اس وجہ سے یہ روتا ہے۔ حضرت عمر کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمرؓ تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا۔ اسی دن منادیکرادی کہ بچے جس دن پیدا ہوں اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دیے جائیں۔ اسلم(حضرت عمرؓ کا غلام تھا) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کو گشت کے لیے نکلے دمدینہ سے تین میل پر صرار ایک مقام ہے وہاںپہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت دریافت کی اس نے کہا کہ کئی وقتوںسے بچوںکو کھانا نہیں ملا ہے ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چرھا دیہے حضرت عمر ؓ اسی وق اٹھے ار مدینہ میں آ کر بیت المال سے آٹا گوشت گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میری پیٹھپر رکھ دو۔ اسلم نے کہا میں لیے چلتا ہوں۔ فرمایا ہاں لیکن قیامت میں تم میرا بار نہیں اٹھائو گے۔ غرض سب چیزیں خود لاد کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ اس نے آٹا گوندھا ہانڈی چڑھای حضرت عمرؓ خو د چولہا پھونکتے جاتے تھے کھانا تیار ہوا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر رکھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ حضرت عمرؓ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ عورت نے کہا کہ اللہ تم کوجزائے خیر دے ۔ سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمرؓ۔ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو اپنے خیمے سے باہر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاس جاکر بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں۔ دفعتہ خیمے سے رونے کی آواز آئی حضرت عمرؓ نے پوچھا کون روتاہے؟ اس نے کہا میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے۔ حضر ت عمرؓ گھر آئے اور ام کلثوم( حضرت عمؓ کی زوجہ تھیں) کو ساتھ لیا۔ بدو سے اجازت لے کر ام کلثوم کو خیمہ میں بھیجا۔ تھوڑی دیر کے بعد بچہ پیداہوا ام کلثوم نے حضر ت عمرؓ کوپکارا کہ امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد دیجیے امیر المومنین کا لفظ سن کر بدو چونک پڑا اور مودب ہو کر بیٹھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہیں کچھ خیا ل نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا میں اس بچے کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔ عبدالرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کو میرے مکان پرآئے۔ میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی مجھ کو بلا لیا ہوتا۔ فرمایا کہ ابھی مجھ کو معلو م ہوا کہ شہر سے باہر ایک قافہ اتر ا ہے لوگ تھکے ماند ے ہوں گے ۔ آئو ہم چل کر پہرہ دیں۔ چنانچہ دونوں صاحب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ جس سال عرب میں قحط پڑٓؤا ان کی حالت عجیب ہوئی۔ جب تک قحط رہا گوشت گھی مچھلی غرض کہ کوئی لذیذ چیز نہ کھائی۔ نہایت خصوص سے دعائیں مانگتے رہے کہ اے اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کرو۔ اسلامم ان کے غلام کا بیا ن ہیکہ قحط کے زمانے میں حضرت عمرؓ کو جو فکر و تردد رہتا تھا اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط رفع نہ ہو گا تو وہ اس غم میں تباہ ہوجائیں گے۔ قحط کا جو انتظام حضرت عمرؓ نے کیا تھا اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا اور یہ اشعار پڑھے۔ یا عمر الخیر خیر الجنۃ اکس بنیاتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ ’’اے عمر لطف اگر ہے تو جنت کا لطف ہے۔ میری لڑکیوں کو اوران کو ماں کو کپڑے پہنا اللہ کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہو گا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں تمہارا کہنا نہ کروں تو کیا ہوگا؟ بدونے کہا تکون عن حالی لتسئلنہ والواقف المسول ببھتنہ اما الی نار واما جنہ ’’تجھ سے قیامت میں میری نسبت سوال ہوگا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہو گا‘‘۔ ۱؎ یہ تمام روایتیں کنزالعمال جلد ۶ ص ۳۴۳ میں مسنتد حوالوں سے منقول ہیں۔ حضرت عمرؓ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی تر ہو گئی پھر غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتہ اس کو دے دے اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں ۱؎ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے بالا خانہ پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی: تطاول ھذا اللیل و ازور جانبہ ولیس اہلی جنبی خلیل الاعبہ ’’رات کالی ہے اور لمبی ہوتی جاتی ہے اور میرے پہلومیں شوہر نہیںجس سے خوش فعلی کروں‘‘۔ اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا تھا اور وہ اس کے فراق میں یہ درد انگیز اشعار پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمرؓ کو سخت قلق ہوا ور کہا کہ میں نے زنان عرب پر بڑ اظلم کیا حضرت حفصہؓ کے پاس آئے اور پوچھا کہ عورت کتنے دن تک مردکے بغیررہ سکتی ہے انہوںنے کہا چار مہینے۔ صبح ہوتے ہی ہر جگہ یہ حکم بھیج دیا کہ کوئی سپاہی چار مہینے سے زیادہ باہر نہ رہے۔ سعید بن یربوعؓ ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ان س کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیںآتے؟ انہوںنے کہا کہ میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے۔ حضرت عمرؓ نے ایک آدمی مقرر کر دیا جو ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ ۲؎ ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کودیکھا کہ بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے پاس جا کر دیکھاکہ داہنے ہاتھ سے کھائو۔ اس نے کہا کہ جنگ موتہ میںمیرا دایاں ہاتھ جاتا رہا ۔ حضرت عمرؓ کو رقت ہوئی اور اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو کر کہنے لگے کہ افسوس تم کو وضو کون کراتا ہوگا؟ سر کون دھلاتا ہو گا؟ کپڑے کون پہناتا ہوگا؟ پھرایک نوکر مقر ر کر دیا اور اس کے لیے تمام ضروری چیزیں خود مہیا کیں۔ ۱؎ سیرۃ العمرین وازالتہ الخلفاء ۲ ؎ اسد الغابہ تذکرہ سعید بن یربوع امامت اور اجتہاد امامت کا منصب درحقیقت نبوت کا ایک شعبہ ہے اورامام کی فطرت قریب قریب پیغمبر کی فطرت کے واقع ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں: واز میان امت جمعے ہستند کہ جوہر نفس ایشاں قریب بجوہرا انبیاء مخلوق شدہ وایںجماعہ دراصل فطرت خلفائے انبیاء اندر درامت ؎۱ مذہبی عقائد اور احکام اگرچہ بظاہر سادہ اور صاف ہیں کیونکہ صانع عالم کا اعتقاد اس صفات کمال کا اعتراف سزاو جزا کا یقین زہد و عبادت ؤمحاسن و اخلاق یہی چیزیں تمام مذاہب کی اصل اصول ہیں اور احکام ہیں اوریہ سب بظاہر سادہ اور صاف باتیں ہیں لیکن ان مسائل میں اشتہباہ اور ابہام اس قدر ہے کہ اگر نہایت نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی س کام نہ لیا جائے تو ان کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وج ہے کہ باوجود یہ کہ یہ مسائل قریباً تمام مذاہب میںمشترک تھے تاہم کم و بیش سب میںغلطیاں واقع ہوئیں اسلام انہی غلطیوں کو مٹانے کے لے آیا اوراس نے نہایت اہتمام اورتاکید کے ساتھ ان پر توجہ دلائی لیکن چونکہ عام طبائع نکتہ سنج نہیں ہوتیںَ اس لیے ہر زمانے میں اکثر لوگ اصل حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں اور اسی لیے آئمہ اور مجددین کی ضرورت باقی رہی کہ ان اسرارپر پردہ نہ پڑنے پائے۔ مثلاً اسلام نے شرک کو کس زور شور سے مٹایا لیکن غور سے دیکھو تو قبروں اور مزاروں کے ساتھ عوام ایک طرف خواص کا جو طرز عمل ہے اس میں اب بھی کس قدر شرک کا مخفی اثر موجودہے۔ گو استفادہ عن القبور اور حصول برکت کے خوشنما الفاظ نے ان پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ان نازک او ر مشتبہ مسائل میں جس طرح اصل حقیقت کو سمجھااور جس جرات و دلیری سے اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا ان کی نظیر صحابہؓ کے زمانے میں بھی بہت کم ملتی ہے۔ مسئلہ قضا و قدر الٰہیات کا ایک بڑا نازک مسئلہ قضا و قدر کا ہے ۔ جس میں عموماً بڑے بڑے آئممہ مذہب کو غلطیاں واقع ہوئیں یہاں تک کہ اکابر صحابہؓ میں سے بھی بعضوں کو اشتباہ ہوا۔ طاعون عمواس میں حضرت عمرؓ نے جب شام کا سفر کیا تو سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں وبا کی شدت نہایت زیادہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس خیال سے کہ جو کچھ ہوتا ہے قضائے الٰہی سے ہوتاہے نہایت طیش میں آ کر کہا افرارا من قدر اللہ یعنی کیا قضائے الٰہی سے بھاگتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے اس نازک مسئلے کو ان مختصر اور بلیغ الفاظ میں حل فرمایا: نعم نفر من قدر اللہ علی قدر اللہ ؎۲ ۱؎ ازالتہ الخفاء جلد اول ص ۹ ۲؎ یہ واقعہ مفصل طورپر مسلم باب الطاعون میںمذکور ہے۔ یعنی ہاں ہم اللہ کے حکم سے اللہ کے حکم کی طرف بھاگتے ہیں۔ شعائر اللہ کی تعظیم اسلام کا ایک اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اسی بنا پر کعبہ اور حجر اسود وغیرہ کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت ملتی جلتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی اصول سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہو گئی۔ حضرت عمرؓ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلطی سے باز رکھا۔ ایک بار حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر اعلانیہ کہا۔ انی اعلم انک حجر وانک لا تضر ولا تنفع ’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘‘۔ حضرت عمرؓ کا یہ فعل مذاق عام سے جس قدر الگ تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بہت سے محدثین نے جہاں حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا ہے وہاں یہ روایت بھی اضافہ کی ہے کہ اسی وقت حضرت علیؓ نے ان کو ٹوکا اور ثابت کیا کہ حجر اسود فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا سکتاہے کیونکہ وہ قیامت میںلوگوں کی شہادت دے گا لیکن یہ اضافہ محض غلط اور بناوٹ ہے۔ چنانچہ ناقدین فن نے اس کی تصریح کی ہے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے لوگوں سے جہاد پر بعیت لی تھی۔ اس بنا پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا تھا اور لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر اس کو جڑ سے کٹوا دیا ۱؎۔ سفر حج سے واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازپڑھی تھی۔ اس خیال سے لوگ اس کی طرف دوڑے۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اہل کتاب اہی باتوں کی بدولت تباہ ہوئے انہوںنے اپنے پیغمبر وں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا ۲؎۔ ۱؎ ازالتہ الخفا حصہ سوم‘ ص ۹۱ علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کا ذکر میںلکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو بسند صحیح روایت کیا ہے۔ ۲؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۹۱ حجتہ البالغہ : صفحہ: ۶ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کہاں تک منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں؟ نبوت کی حقیقت کی نسبت عموماً لوگ غلطی کرتے آئے ہیں اور اسلام کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اکثروں کا خیال ہے کہ نبی کا ہر قول اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعضوںنے زیادہ ہمت کی تو صرف معاشرت کی باتوں کو مستثنیٰ کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی جو حکم منصب نبوت کی حیثیت سے دیتاہے وہ بے شبہ اللہ کی طر ف سے ہوتاہے‘ باقی امور وقت اور ضرورت کے لحاظ سؤے ہوتے ہیں تشریعی اور مذہبی نہیں ہوتے۔ اس مسئلے کو جس قدر حضرت عمرؓ نے صاف اور واضح کر دیا ہے کسی نے نہیںکیا۔ خراج کی تشخیص جزیہ کا تعین ام ولد کی خرید و فروخت وغیرہ وغیرہ مسائل کے متعلق امام شافعی ؒ نے اپنی کتابوں میںنہایت ادعا کے ساتھ احادیث سے استدلال کیا ہے۔ اور ان مسائل میں جہاں حضرت عمرؓ کا طریق عمل مختلف ہے بڑی دلیری سے ان پر قدح کی ہے لیکن امام شافعیؒ نے یہ نکتہ نظر انداز کیا ہے کہ امور منصب نبوت سے تعلق نہی رکھتے۔ اس لیے ان مسائل کو خود شارع علیہ السلام کی طرف سے ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت ہے۔ چنانچہ اس بحث کی تفصیل آگے آتی ہے۔ شریعت کے احکام کے متعلق بہت بڑا اصول جو حضرت عمرؓ نے قائم کیا ی تھا کہ شریعت کے تمام احکام مصالح عقلی پر مبنی ہیں۔ مذہبی احکام کے متلعق شروع سے دو خیال چلے آتے ہیںَ ایک یہ کہ ان میں عقل کو دخل نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کے تمام احکام اصول عقلی پر مبنی ہیں۔ یہی دوسرا خیال علم اسرار الدین کی بنیاد ہے۔ یہ علم اگرچہ اب ایک مستقل فن بن گیاہ اور شاہ ولی اللہ صاحب کی مشہور کتاب حجتہ اللہ البلاغہ خاص ایس فن میں ہے۔ تاہم ہر زمانے میںبہت کم لوگ اس اصو ل کو تسلیم کرتیتھے۔ جس کی وجہ کچھ تو یہ تھی کہ دقیق فن عام طبائع کی دسترس سے باہر تھا اور کچھ یہ کہ یہ مذہبی محویت اور دلدادگی کی بظاہر شان ہ یہ ہے کہ ہر بات بغیر چون و چرا کے مان لی جائے اوررائے اور عقل کو کچھ دخل نہ دیاجائے۔ حضرت عمرؓ نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی لیکن حضرت عمرؓ اسی دوسرے اصول کے قائل تھے اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جس نے علم اسرا ر الدین کی گویا بنیاد ڈالی۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجتہ البالغہ میں لکا ہے کہ حضرت عمرؓ ، حضرت زیدؓ، حضرت علیؓ، عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ نے اس علم سے بحث کی اور اس کے وجوہ ظاہر کیے۱؎۔ ۱؎ حجتہ اللہ البالغہ ص ۶ شاہ صاحب نے جن لوگوں کانام لیا ہے ان میں عبداللہ بن عباس ؓ کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت ۱۳ برس کی تھی۔ حضرت علی ؓ کا سن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت گیارہ برس سے زیادہ نہ تھا۔ زید بن ثابت ؓ کا سن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے وقت گیارہ برس کاتھا۔ حضرت عائشہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت کل ۱۸ برس کی تھیںَ اس سے ثابت ہوتاہے کہ گو یہ سب بزرگ اس علم کی ترقی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اولیت کا منصب حضرت عمرؓ ہی کو حاصل ہو گا۔ حضرت عمرؓ مسائل شریعت کی نسبت ہمیشہ مصالح اور وجوہ پر غور کرتے تھے اور اگر ان کے خیال میں کوئی مسئلہ خلاف عقل ہوتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے تھے۔ سفر میں ضو قصر نماز کا حکم دیا گیا تھا وہ اس بنا پر تھا کہ ابتدائے اسلام میں راستے محفوظ نہ تھے اورکافروں کی طرف سے ہمیشہ خوف کا سامان رہتا تھا ۔ چنانچہ قرآن مجید میں خود اشارہ ہے۔ فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلواۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفرو (۴النساء : ۱۰۱) لیکن جب راستے مامون ہو گئے تب بھی قصر کا حکم باقی رہا۔ حضرت عمرؓ کو اس پراستعجاب ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ اب سفر میں قصر کیوں کیا جاتاہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کا انعام ہے۔ ۱؎ حج کے ارکان میںرمل ایک رکن ہے یعنی طواف کرتے وقت پہلے تین دوروں میںآہستہ آہستہ دوڑے چلتے ہیں۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ سے مکہ تشریف لائے تو کافروں نے مشہور کیا کہ مسلمان ایسے نحیف اور کمزور ہوگئے ہیں کہ کعبہ کاطواف نہیں کر سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر رمل کا حکم دیا ۲؎۔ اس کے بعد یہ فعل معمول بہ ہو گیا۔ چنانچہ ائمہ اربعہ اس کو حج کی ضروری سنت سمجھتے ہیں لیکن حضرت عمرؓ نے صاف کہا : مالنا وللرمل انما کنار اینا بہ المشرکین وقد اھلکھم اللہ یعنی اب ہم کو رمل سے کیا غرض۔ اس سے مشرکوں کو رعب دلانا مقصود تھا۔ سو ان کو اللہ نے ہلاک کیا۔ حضرت عمر ؓ نے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے حجتہ اللہ البلاغہ میں لکھا ہے کہ رمل کے ترک کا ارادہ بھی کر لیاتھا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار سمجھ کر رہنے دیا۔ عبداللہ بن عباس ؓ جو حضرت عمرؓ کے خاص تربیت یافتہ تھے ان سے جب کہا گیا کہ لوگ رمل کو سنت سمجھتے ہیں تو کہا کہ غلط سمجھتے ہیں ۳؎۔ ۱؎ صحیح بخاری ۲؎ صحیح بخاری باب الرمل ۳؎ ازالتہ الخفا حصہ دوم ص ۱۹۵ حضر ت عمرؓ نے فقہ کے مسائل اس کثرت سے بیا ن کیے ہیںکہ ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے ۔ ان تمام مسائل میںیہ خصوصیت صاف نظر آتی ہے کہ وہ مصالح عقلی کے موافق ہیں۔ اس سے بداہتہ ثابت ہوتاہے کہ حضرت عمرؓ اس علم (اسرار الدین) کے بہت بڑے استاد اورماہرتھے۔ اخلاق اسلامی کا محفو ظ رکھنا اور ترقی دینا منصب امامت کے لحاظ سے حضرت عمرؓ کا سب سے بڑاکارنامہ جو تا یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو جس قسم کے برگزیدہ اور پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دی تھی۔ اور جو آپ کی بعثت کا اصلی مقصد تھا جیساکہ خود ارشاد فرمایا بعثت لا تمم مکارم الاخلاق حضرت عمرؓ یک فیض سے قو م میں وہ اخلاق رہے اور نئی قومیں جو اسلام میں داخل ہوتی گئیں اسی اثر سے متاثر ہوتی گئیں۔ حضرت عمرؓ خود اسلامی اخلاق کی مجسم تصویر تھے۔ ان کا خلوص انقطاع الی اللہ لذائذ دنیا سے اجتناب حفظ لسان‘ حق پرستی‘ راست گوئی‘ اوریہ اوصاف خود بخود لوگوں کے دلو ں پر اثر کر جاتے تھے اور ہر شخص جو ان کی صحبت میں رہتا تھا کم و بیش اس قالب میں ڈھل جاتا تھا۔ مسور بن مخرمہ ؓ کا بینا ہے کہ ہم اس غرض سے حضرت عمرؓ کے ساتھ رہتے تھے کہ پرہیز گاری اور تقویٰ سیکھ جائیں۔ مورخ مسعودی نے حضرت عمرؓ کے حالات اس جملے سے شروع کیے ہیں کہ ان میںجو اوصاف تھے وہ ان کے تمام افسروں اور عہدہ داروں میں پھیل گئے تھے پھر نمونے کے طور پر حضرت سلمان فارسیؓ ابوعبیدہ سعید بن عامرؓ وغیرہ کے نا م اوران کے اوصاف لکھے ہیں۔ فخر و غرور کا استیصال عرب میں جو اخلاق ذ میمہ جاہلیت کی یادگار رہ گئے تھے وہ نسب کا فخر و غرور عام لوگوں کی تحقیر ہجو و بدگوئی‘ عشق و ہوا پرستی‘ بادہ نوش‘ اور مے پرستی تھی۔ حضرت عمرؓ نے ان تمام بے ہودہ اخلاق کا استیصال کر دیا۔ جو چیزیں فخر و غرور کی علامت تھیں بالکل مٹا دیں۔ لڑائیوںمیں قبائل اپنے قبیلوں کی جے پکارا کرتے تھے اس کو حکماً بند کر دیا۔ آقا اور نوکر کی جو تمیز تھی بالکل ٹھکرا دی۔ ایک دن صفوان بن امیہ نے جب بہت سے معزز لوگوں کے ساتھ ان کو دعوت کی اور نوکروں کو کھانے پر نہیں بٹھایا تو نہایت افروختہ ہوکر کہا کہ اللہ ان سے سمجھے جو نوکروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘‘۔ ایک دفعہ بہت سے لوگ ابی بن کعبؓ سے جو بڑے رتبے کے صحابی تھے ملنے گئے۔ جب وہ مجلس سے اٹھے تو ادب و تعظیم کے لیے لوگ ان کے ساتھ ساتھ چلے۔ اتفاق سے حضرت عمرؓ ادھر سے آ نکلے یہ حالت دیکھ کر ابیؓ کو ایک کوڑا لگایا۔ ان کو نہایت تعجب ہوا اورکہا خیر ہے یہ آپ کیا کرتے ہیں فرمایا: اوما تری فتنۃللمتبوع ومذلۃ للتابع یعنی تم نہیں جانتے کہ یہ امر متبوع کے لیے فتنہ اور تابع کے لیے ذلت ہے۔۱؎ ہجو کی ممانعت ہجو و بدگوئی کا ذریعہ شعر و شاعری تھا۔ شعراء جا بجا لوگوں کی ہجویں لکھتے تھے اور چونکہ عرب میں شعر کو رواج عام حاصل تھا۔ اس لیے یہ ہجویںنہایت جلد مشتہر ہو جاتی تھیں اور ان سے سینکڑوں مفاسد پیدا ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ہجو کو ایک جرم قرار دیا اور اس کے لیے سزا مقرر کی۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمرؓ کی اولیات میںشمار کیاجاتا ہے۔ حطیہ اس زمانے کا مشہور شاعر تھا اور سوداکی طرح فن ہجو میں کمال رکھتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو طلب کر کے ایک تہ خانے میںقیدکر دیا اوراس شرط پرچھوڑا کہ پھرکبھی کسی کی ہجو نہیں لکھے گا۔ ۲؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قریش کے اسلا م لانے کے بعد بھی متعد اول تھے حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میںحکم دے رکھا تھا کہ وہ اب نہ پڑھے پڑھائے جائیں کیونکہ ان سے پرانی رنجشیں تازہ ہو تی ہیں۔ ۳؎ ہوا پرستی کی روک عشق وہوا پرستی کا بھی ذریعہ یہی شعر و شاعری تھا۔ شعراء زیادہ تر رندانہ اور اوباشانہ انداز میں اشعار لکھتے تھے اور ا ن میں اپنے معشوقوں کے نام تصریح کے ساتھ لیتے تھے۔ مذا ق عام ہونے کی وجہ سے یہ اشعار بچے بچے کی زبان پر چڑھ جاتے تھے اور اس وجہ سے رندی و آوارگی ان کے خمیر میں داخل ہو جاتی تھی۔ شاعری کی اصلاح حضرت عمر ؓ نے قطعی حکم دیا کہ شعراء عورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار نہ لکھنے پائیں چنانچہ صاحب اسد الغابہ نے حمید بن ثور کے تذکر ے میں اس واقعہ کوان الفاظ میں لکھا ہے: تقدم عمر بن الخطاب الی الشعراء ان لا یشبب احد بامراۃ الا جلدہ ۱؎ مسند داری ۲؎ اسد الغابہ تذکرہ زبرقان ۳؎ آغانی تذکرہ حسانؓ بن ثابت شراب خوری کی روک شراب پینے کی سزا جو پہلے سے مقرر تھی اس کو زیادہ سخت کر دیایعنی پہلے ۴۰ درے مارے جاتے تھے انہوںنے ۴۰ سے ۸۰ کر دیے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہو اکہ باوجود اس زمانے میں دولت کی کثرت اور فتوحات کی وسعت کی وجہ سے عشرت کے بے انتہا سامان مہیا ہو گئے تھے تاہم لوگ عیش و عشرت میں مبتلا نہ ہونے پائیں اور جس پاک اور مقدس زندگی کی بنیاد شارع علیہ السلام نے ڈالی تھی وہ اسی استواری کے ساتھ قائم رہی۔ آزادی و حق گوئی کا قائم رکھنا اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سرچشمہ آزادی اور خودداری ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے اس پر بہت توجہ کی اوریہ وہ خصوصیت ہے کہ جو حضرت عمرؓ کے سوا اور خلفاء کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بنو امیہ تو شروع ہی سے آزاد ی کے دشمن نکلے یہاں تک کہ عبدالملک نے قطعی حکم دے دیا کہ کوئی شخص اس کے احکام پر زبان نہ کھولنے پائے حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ نے البتہ آزادی سے تعرض نہیں کیا لیکن اس کے خطرات کی روک تھام نہ کر سکے۔ جس کی بدولت حضرت عثمانؓ کی شہادت کی نوبت پہنچی۔ اور جناب امیر حضرت علیؓ کو جمل و صفین کے معرکے جھیلنے پڑے۔ برخلاف اس کے حضرت عمر ؓ نے نہایت اعلیٰ درجے کی آزادی قائم رکھنے کے ساتھ حکومت کے جبروت میں ذرا کمی نہ آنے دی۔ مختلف موقعوں پر تقریر و تحریر سے جتادیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیداہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ عمرو بن العاصؓ کے معزز فرزند نے جب ای قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی قبطی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دلوائی اورعمرو بن العاص ؓ اور ان کے بیٹے کی طرف مخاطب ہوکر یہ الفاظ کہے۔ مذکم تعبد تم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احرارا ’’یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو کب سے غلام بنا لیا؟ ان کی مائوں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔ ‘‘ ۱؎ ۱؎ کنزالعمال جلد ۶ ص ۳۵۵ عرب میں جو لوگ بہت معزز ہوتے تھے وہ اپنے قبیلہ کے سید یعنی آقا کہلاتے تھے اور ان سے کم رتبہ لوگ ا ن کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے جعلنی اللہ فداک بابی وامی یعنی اللہ مجھ کو آپ پر قربان کر دے میرے ماں باپ آپ پر فداہوں۔ چونکہ ان الفاظ سے غلامی اور محکومی کی بو آتی تھی مختلف موقعوں پر ان کی نسبت ناراضگی ظاہر کی۔ ایک شخص نے خود ان کی شان میں کہاتھا کہ جعلنی اللہ فداء ک تو فرمایا کہ اذا یھینک اللہ یعنی اگر اللہ ایسا کرے گا تو تجھ کو ذلیل کرے گا۔ حضرت عمرؓ کے اس طریق عمل نے لوگوں کو جس قدر آزادی اور صاف گوئی پر دلیر کر دیاتھا کہ اس کا صحیح اندازہ ذیل کے واقعات سے ہوتاہے۔ ایک دفعہ انہوںنے منبر پر چڑھ کر کہا کہ صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جائوں تو تم لوگ کیا کرو گے ایک شخص وہیں کھڑ ا ہو گیااور تلوار کھینچ کر بولا کہ تمہارا سر کاٹ دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو آزمانے کے لیے ڈانٹ کر کہا کہ کیا تومیری شان میں یہ لفظ کہتا ہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں تمہاری شان میں حضرت عمرؓ نے کہا الحمد اللہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو مجھ کو سیدھا کر دیں گے۔ عراق کی فتح کے بعداکثر بزرگوں نے عیسائی عورتوںسے شادی کر لی تھی۔ حضرت عمرؓ نے حزیفہ بن الیمان ؓ کو لکھا کہ میں اس کا ناپسند کرتا ہوں۔ انہوںنے جواب میں لکھا کہ یہ حکم کی آپ کی ذات رائے ہے یا کوئی شرعی حکم ہے؟ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ حذیفہ ؓ نے لکھ بھیجا کہ آپ کی ذاتی رائے کی پابندی ہم لوگوں پر ضروری نہیں۔ چنانچہ باوجود حضرت عمرؓ کی ممانعت کے کثرت سے لوگوں نے شادیاں کیں۔ مورخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت عمرؓ نے تمام عمالوں کامال و اسباب نیلام کر کے آڈھا بیت المال میں داخل کرایا تو ایک عام جس کا نام ابوکرۃ تھا صاف کہا کہ اگر مال اللہ کا تھا توکل بیت المال میں داخل کرنا چاہیے تھا اور ہماراتھا تو اس میں سے تم کو لینے کا حق کیاتھا؟ حضرت عمرؓ کی تقلید اور ان کی تعلیم و تربیت کا اثریہ ہوا کہ جماعت اسلامی کا ہرممبر پاکیزہ نفسی‘ نیک خوئی‘ حلم و تواضع‘ جرات و آزادی حق پرستی و بے نیازی کی تصویر بن گیا۔ تاریخ کے مرقع میں اس وقت کی مجالس اور محافل کا نقشہ دیکھا تو ہر شخص کے حلیہ میں یہ خط و خال صاف نظر آتے ہیں۔ اجتہاد کی حیثیت محدث و فقیہ ہونا اجتہاد کا منصب حدیث و فقہ حدیث و فقہ کا فن درحقیقت تمام تر حضر ت عمرؓ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ صحابہ میں اور لوگ بھی محدث و فقیہہ تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد ۲۰ سے متجاوز بیان کی جاتی ہے۔ لیکن فن کی ابتدا حضر ت عمرؓ سے ہوئی اور فن کے اصول و قواعد اول انہی نے قائم کے۔ احادیث کا تفحص حدیث کے متعلق جو پہلا کام حضرت عمرؓ نے کیا تھا وہ یہ تھا کہ روایتوںکا تفحص و تلاش پر توجہ کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں احادیث کے استقصا کا خیال کیا گیا تھا۔ جس کو کوئی مسئلہ پیش آتا تھا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کر لیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ کسی ایک صحابی کو فقہ کے تمام ابواب کے متعلق احادیث محفوظ نہ تھیںَ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں زیادہ ضرورتیں پیش آئیں۔ اس لیے مختلف صحابہؓ سے استفسار کرنے کی ضرورت پیش آئی اور احادیث کے استقراء کا راستہ نکلا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں چونکہ زیادہ کثرت سے واقعات پیش آئے کیونکہ فتوحات کی وسعت اور نومسلموں کی کثرت نے سینکڑوں نئے مسائل پیدا کر دیے تھے ۔ اس لحاظ سے انہوںنے احادیث کی زیادہ تفتیش کی تاکہ یہ مسائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے مطابق طے پائیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب کوئی نئی صورت پیش آتی تو حضرت عمرؓ مجمع عام میں جس میں اکثر صحابہؓ موجود ہوتے تھے پکا رکر کہتے تھے کہ اس مسئلے کے متعلق کسی کو کوئی حدیث معلوم ہے؟ تکبیرجنازہ غسل جنابت‘ جزیہ مجوس اور اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جن کی نسبت کتب حدیث میں نہایت تفصیل مذکورہے کہ حضرت عمرؓ نے مجمع صحابہ ؓ کو استفسار کر کے احادیث نبوی کا پتہ لگایا۔ احادیث کی اشاعت چونکہ جس قدر زیادہ شائع و مشتہر کی جائے اسی قدر اس کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور پچھلوں کے لیے قابل استناد قرار پاتی ہے۔ اس لیے اس کی نشر و اشاعت کی بہت سی تدبیریں اختیار کیں۔ ۱۔ احادیث نبوی کو بالفاظہا نقل کر کے اضلاع کے حکام کے پاس بھیجتے تھے جس سے ان کی عام اشاعت ہو جاتی تھی یہ احادیث اکثر مسائل اور احکام کے متعلق ہوتی تھیں۔ ۲۔ صحابہؓ میں جو لوگ حدیث کے فن کے ارکان تھے ان کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لیے بھیجا۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں: چنانچہ فاروق اعظم عبداللہ بن مسعود راباجمعے بکوفہ فرستادہ و معقل بن یسر و عبداللہ بن مغفل و عمران بن حصین رابہ بصرہ و عبادہ بن صامت و ابودرداء رابشام و بمعاویۃ بن ابی سفیان کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ ز حدیث ایشاں تجاوز نگند۔ ؎۱ ایک دقیق نکتہ اس موقع پر ایک دقیق نکتہ خیال رکھنے کے قابل ہے کہ وہ یہ کہ عام خیال یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے حدیث کی اشاعت میں گو بہت کچھ اہتمام کیا لیکن خود بہت کم احادیث روایت کیں۔ چنانچہ وہ کل مرفع احادیث جو ان سے بروایت صحیح مروی ہیں ستر سے زیادہ نہیں۔ یہ خیال بظاہر صحح ہے لیکن واقعہ میں یہاں ایک غلط فہمی ہے ۔ محدثین کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ صحابی جب کوئی ایسا مسئلہ بییان کرے جس میں رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تو وہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ لے لیکن مطلب یہی ہو گا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اور واقع میں یہ اصول بالکل عقل کے مطابق ہے۔ حضرت عمرؓ نے مثلاً تمام ممالک میں لکھ بھیجا کہ زکوۃ فلاں چیزوں پر فرض ہے اور اس حساب سے فرض ہے تو ا س احتمال کا محل نہیں کہ حضرت عمرؓ خود شارع ہیں او ر اپنی طرف سے احکا م صادر کرتے ہیں۔ لامحالہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ کے متعلق یہ احکا م صادر فرمائے تھے۔ زیادہ سے زیادہ اس احتمال کا موقع باقی رہتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے حدیث کامطلب صحیح نہیں سمجھا اور س لیے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مقدار کی تعداد کو یہا ں فرض نہ کہا بلکہ حضرت عمرؓ نے اس کو اپنی فہم کے مطابق فرض سمجھا لیکن یہ احتمال خود ان احادیث میں بھی قائم رہتا ہے۔ جن میں صحابی نے اعلانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانام لیا ہو۔ اس اصول کی بناء پر حضرت عمرؓ نے خطبوں میں تحریری ہدایتوں میں فرا میں میں نماز روزہ حج زکوہ وغیرہ کے متعلق جو اصولی مسائل بیان کیی ہیں وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام ہیں۔ گو انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ لیا ہو۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں: ۱؎ ازالتہ الخفا ص ۶ حصہ دوم ہفتم آنکہ مضمون احادیث در خطب خود ارشاد فرمانند تا اصل اھادیث بآن موقوف خلیفہ قوت باید براینکہ بغور سخن نم رستند دربند انکہ در ممتفق علیہ ز حضرت صدیقؓ صحیح نشد مگر شش حدیث و از فاروق اعظمؓ بہ صحت نرسید مگر قریب بفتاد حدیث ایں رائمی فھمند و نمی دانند کہ حضرت فاروقؓ تمام علم حدیث را اجمالا تقویت دارہ اعلا ن نمودہ ؎۱۔ احادیث میں فرق مراتب حدیث کے تفحص و جستجو اور اشاعت و ترویج کے متعلق حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا ہے اگرچہ وہ خود بھی مہتمم بالشان کام تھے لیکن اس باب میں ان کی فضیلت کا اصلی کارنامہ ایک اور چیز ہے جو انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ احادیث کی طرف سے اس وقت جومیلان عا م تھا وہ خود بخوداحادیث کی اشاعت کا بڑا سبب تھا لیکن حضرت عمرؓ نے اس میں چونکہ سختیاں کیں اور جو فرق مراتب پیدا کیا اس پر کسی کی نگاہ نہیں پڑی تھی سب سے پہلے انہوںنے اس پر لحاظ کیا کہ احادیث میں زیادہ قابل اعتماد کس قسم کی احادیث ہیں؟ کیونکہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر قول و فعل عقیدت کیثوں کے لیے گنجینہ مراد ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ الاھم فالاھم اس بنا پر حضر ت عمرؓ نے تمام توجہ ان احادیث کی روایت اور اشاعت پر مبذول کی جن سے عبادات یا معامات یا اخلاق کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں جواحادیث ان مضامین سے الگ تھیں ان کی روایت کے ساتھ چنداں اعتنا نہیں کیا اس میں ایک بڑانکتہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اقوال و افعال جو منصب رسالت سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جو بشری حیثیت سے ہیں باہم مختلط نہ ہونے پائیں۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں: با ستفراء تا م معلوم شد کہ فاروق اعظمؓ نظر دقیق در تفریق میان احادیث کہ بہ تبلیغ شرائع و تکمیل افراد بشر تعلق دارد از غیرآں مصروف می ساخت لھذا احادیث شمائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و احادیث سنن و زائد در لباس و عادات کمتر روایت می کرد۔ بدو وجہ یکی آنکہ اینھا از علوم تکلیفیہ و تشریعیہ نیست‘ تحمل کہ چوں اہتمام تام بروایت آں بکار برند بعض اشیاء از سنن زوائد بہ سنن ھدی مشتبہ گردد ؎۲ ۱؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۶ ۲؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۱۴۱ حضرت عمرؓ نے ان احادیث کی روایت کا بھی اہتمام نہیں کیا جس میں الفاظ مخصوصہ کے ساتھ دعائیں منقول تھیں حالانہ بہت سے بزرگوں کی روایتوں میںبڑا دفتر اسی قسم کی احادیث کا ہے۔ اس کی وجہ جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ اس بات کو جانتے تھے کہ دعا کے قبول و عدم قبو ل کا مدار خلوص و تضرع پر ہے نہ الفاظ پر۱؎ سب سے بڑا کام جو حضرت عمرؓ نے اس فن کے متعلق کیا وہ احادیث کی تحقیق و تنقید اور فن جرح و تعدیل کا ایجاد کرنا تھا۔ روایات کی چھان بین آج کل بلکہ مدت مدیر دے یہ حالت ہے کہ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جاتی ہے گو صحیح نہ ہو فوراً رواج اور قبول حاصل ہو جاتاہے۔ اسی بناپر یہودیوں کی تمام مزخرفات احادیث نبوی کے مجموعہ میں شامل ہو گئیں۔ محدثین نے انتا کیا کہ جرح و تعدیل کی روک ٹوک کے لیے تعمیم کو روک دیا لیکن جب کسی راوی کی تعدیل ان کے نزدیک ثابت ہو جاتی تھی تو پھر ان کو زیادہ پرس وجو نہیں ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ قرن اول کی نسبت انہوںنے یہ عام کلیہ قائم کر لیا کہ کسی روایت میںضعف کا احتمال نہیں ہوسکتا لیکن حضرت عمرؓ ا س نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں ان سے کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ احادیث کی چھان بین میںتمام وہی احتمالات ملحوظ رکھتے تھے کہ جو محدثین نے زمانہ مابعد میں پیداکیے۔ ایک دفعہ ابوموسیٰ اشعریؓ ان سے ملنے آئے اور تین دفعہ استیذان کے طور پر کہا کہ اسلام علیکم ابوموسیٰ ؓ حاضر ہے۔ حضرت عمرؓ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے اس لیے متوجہ نہ ہو سکے۔ کام سے فارغ ہو چکے تو فرمایا کہ ابوموسیٰؓ کہاں ہیںوہ آئے تو کہا کہ تم کیوں واپس گئے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ تین دفعہ اذن مانگو اگر اس پر بھی اجازت نہ ملے تو واپس جائو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس روایت کا ثبوت دو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا۔ ابوموسیٰ اشعریؓ صحابہ کے پاس گئے اور حقیقت حال بیان کی۔ چنانچہ ابو سعیدؓ نے آ کر شہادت دی کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہ حدیث سنی ہے۔ حضرت ابی کعب نے کہا کہ عمر ؓ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو عذاب دینا چاہتے ہو فرمایا کہ میں نے ایک روایت سنی اور اس کی تصدیق کرنی چاہی ۲؎۔ ۱؎ ازالتہ الخفا حصہ دوم صفحہ ۱۴۱ ۲؎ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ متعدد طرق سے صحیح مسلم باب الاستیذان میں مذکورہے۔ فقہ کا یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ جس عورت کو طلاق بائن دی جائے اس کو عدت کے زمانے تک نان و نفقہ اور مکان ملنا چاہیے یا نہیں؟ قران مجید میں ہے کہ: اسکنو ا ھن من حیث سکنتم جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکان ملنا چاہیے اور مکا ن کے ساتھ نفقہ خود ایک لازمی چیزہے۔ فاطمہ بنت قیسؓ ایک صحابیہ تھیں ان کوان کے شوہر نے طلاق بائن دی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں کہ مجھ کو نا ن نفقہ کاحق ہے یا نہیں؟ ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں فاطمہ نے یہ روایت حضرت عمرؓ کے سامنے بیان کی تو حضرت عمر ؓ نے کہا: لا نترک کتاب اللہ بقول امراہ لا تدری لعلھا حفظت او نیست یعنی ہم قرآن کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے معلو م نہیں کہ اس کو حدیث یاد رہی یا نہیں۔ سقط کا مسلہ پیش آیاتو حضرت عمرؓ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ مغیرہؓ نے ا س کے متعلق ایک حدیث روایت کی حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو اورکوئی گواہ لائو چنانچہ جب محمد بن مسلمہؓ نے تصدیق کی تو حضرت عمرؓنے تسلیم کیا۔ اسی طرح حضرت عباسؓ کے مقدمہ میں جب ایک حدیث پیش کی گئی تو حضرت عمر نے تائیدی شہادت طلب کی اور جب بہت سے لوگوں نے شہادت دی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھ کو تمہاری نسبت بدگمانی نہ تھی لیکن میں نے حدیث کی نسبت اپنا اطمینان کرنا چاہا ۱؎۔ کثرت سے روایت سے روکنا حضرت عمرؓ کو چونکہ اس بات کا یقین ہو گیاتھا کہ روایت میں خواہ مخواہ کمی بیشی ہو جاتی تھی۔ اس لیے روایت کے بارے میں سخت احتیاط شروع کی۔ اس کے متعلق انہوںنے جو بندشیں کیں آجکل لوگوںکو اس پر مشکل سے یقین آ سکتاہے۔ اس لیے میں اس موقع پر خود کچھ نہ لکھوں گا بلکہ بہت بڑے بڑے محدثوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کو نقل کر کے لفظی ترجمہ کردوں گا۔ علامہ ذہبی جن سے بڑھ کر ان کے بعد کوئی محدث نہیں گزرا اور جو حافظ ابن حجر و سخاوی وغیرہ کے شیخ الشیوخ ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ میں حضرت عمرؓ کے حالات لکھتے ہیں۔ ۱؎ یہ دونوں روایتیں تذکرہ الحفاظ میں حضرت عمرؓ کے حالات میں مذکورہیں۔ وقد کان عمر وجلہ ان یخطی الصحاب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمرھم ان یقلوا الروایۃ ببھم ولئلا یتشاغل بالاحدیث عن القرآن عن فرظتہ بن کعب قال لما سیدنا عمر الی العراق مشی معنا عمر وقال تدرو کم شیعتکم قالو انعم مکرمۃ لنا قال ومع ذلک فانکم تاتون اہل قریۃ لھم دوی بالقرآن ان کدوی النحل فلا تصدوھم بالاحادیث فتشغلوھم جرد و القرآن واقلو ا الروایۃ عن رسول اللہ وانا شریککم فلما قدم قرظتہ قالوا حدثنا فقال نھانا عمر بن ابی ھریرۃ قلت لہ کنت تحدث لضر بنی بمخفقتہ ان عمر حبس ثلثہ ان مسعود و ابا الدردا وابا مسعود الانصاری فقال قداکثرتم الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’یعنی حضرت عمرؓ اس ڈر سے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرنے میں غلطی نہ کریں صحابہ کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کم روایت کریں اورتاکہ لوگ حدیث میںمشغول ہو کر قرآن کے یاد کرنے سے غافل نہ ہو جائیں قرظہ بن کعب سے روایت ہے کہ جب عمرؓ نے ہم کو عراق پر روانہ کیا تو خود مشایعت کو نکلے اور کہا تم کو کو معلوم ہے کہ میں کیوںتمہارے ساتھ ساتھ آتا ہوں؟ لوگوں نے کہا کہ ہماری عزت بڑھانے کو۔ فرمایا کہ ہاں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی غرض ہے کہ تم لوگ ایسے مقام پر جاتے ہوجہاں کے لوگوں کی آواز شہد کی مکھی کی طرح قرآن پڑھنے میں گونجتی رہتی ہے۔ تو ان کو احادیث میںنہ پھنسا دینا قرآن میں آمیزش نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کم روایت کرو اور میں تمہارا شریک ہوں پس جب قرظہ وہا پہنچے تو لوگوںے کہا کہ حدیث بیا ن کیجیے۔ انہوںنے کہا کہ عمرؓ نے ہم کو منع کیا ہے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابوہریرہؓ سے پوچھا کہ آپ عمرؓ کے زمانے میں بھی احادیث اسی طرح روایت کیا کرتے تھے؟ انہوںنے کہا کہ گر میں ایسا کرتا تو عمرؓ مجھ کو درے مارتے۔ حضرت عمرؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ ابودرداء ؓ ابومسعود ؓ کومحبوس کیا کہ تم لوگوں نے آنحضرت ؓ سے بہت احادیث روایت کرنی شروع کیں۔‘‘ حضرت عمرؓ کے کم روایت کرنے کی وجہ مسند دارمی میں قرظہ بن کعب کی روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کا یہ مطلب تھا کہ غزوات کے متعلق کم روایت کی جائے۔ اس سے فرائض اور سنن مقصود نہیں‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ دارمی کے قول نقل کر کے لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و عادات کی احادیث مراد ہیں۔ کیونکہ ان سے کوئی غرض شرعی متعلق نہیں یا وہ احادیث مقصود ہیں جن کے حفظ و ضبط میں کافی اہتمام نہیں کیا گیا۔ ۱؎ ۱؎ ازالتہ اخفاء حصہ دوم ص ۱۴۱ ہمارے نزدیک ان تاویلات کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمرؓ کامقصد خود انہی کی تصریح سے معلوم ہو سکتا ہے۔ مورخ بلاذری نے جو محدث بھی ہیں‘ انساب الاشراف میں روایت کی ہے کہ لوگوں ںے ان سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوںنے فرمایا: لو لا انی کرہ ان ازید فی الحدیث او انقص لحدثتکم بہ ’’یعنی اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ حدیث کی روایت کرنے میں مجھ سے کچھ کمی بیشی ہو جائے تو میں حدیث بیان کرتا‘‘۔ مورخ مذکور نے اس روایت کو بسند متصل روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ یہ ہیں محمد بن سعد‘ عبدالحمید بن عبدالرحمن الحمانی‘ نعمان بن ثابت (یعنی ابو حنیفہ) موسیٰ بن طلحہ اور ابو الحوتکیہ۔ حضرت عمرؓ کو اپنی نسبت جو ڈر تھا وہی اوروں کی نسبت بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خیال کی تصدیق اس سے اور زیادہ ہو جات ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ جو مقامات علمی میں حضرت عمرؓ کے تربیت یافتہ خا ص تھے ‘ ان کی نسبت محدثین نے لکھا ہے: یشدد فی الروایۃ ویز جر تلامذتہ عن التھاون ضبط الالفاظ ؎۱ ’’یعنی وہ روایت میں سختی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ڈانٹنتے رہتے تھے کہ الفاظ حدیث کے محفوظ رکھنے میں بے پروائی نہ کریں‘‘۔ محدثین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کم احادیث روایت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سال سال بھر قال رسول اللہ نہیں کہتے تھے۔ ۲؎ حضرت عمرؓ کو روایت کے بارے میں جو احتیاط تھی۔ اگرچہ ان سے پہلے بھی اکابر صحابہ کو تھی‘ علامہ ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں حضرت ابوبکرؓ کے حال میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے احادیث کے باب میں احتیاط کی وہ ابوبکرؓ تھے۔ علامہ موصوف نے حاکم سے بھی روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ۱۵۰۰ احادیث قلم بند کر دی تھیں لیکن پھر ان کو آگ میں جلا دیا اور کہا کہ ممکن ہ کہ میں نے ایک شخص کو ثقہ سمجھ کر اس کے ذریعہ سے روایت کی ہو اور وہ درحقیقت ثقہ نہ ہو۔ لیکن حضرت عمرؓ کی احتیاط اور دیگر صحابہ کی احتیاط میں فرق تھا اور صحابہ صرف راوی کے ثقہ اور عدم ثقہ ہونے کا لحاظ رکھتے تھے لیکن حضرت عمرؓ راوی کے ثقہ ہونے کے ساتھ بھی اس بنا پر احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ راوی نے واقعہ کی پوری حقیقت سمجھی یا نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے اسی بنا پر حضرت ابوہریرہؓ پر اکثر مواخذات کیے ورنہ حضرت ابوہریرہؓ کے ثقہ ہونے میں ان کو بھی کلا م نہ تھا۔ ۱؎ تذکرۃ الحفاظ تذکرہ عبداللہ بن مسعود ؓ ۲؎ تذکرۃ الحفاظ جلد اول ص ۱۴ سطر ۳ حضرت عمرؓ کی روک ٹوک اور ضبط و احتیاط سے اگرچہ نتیجہ ضرور ہوا کہ احادیث کم روایت کی گئیں۔ لیکن جس قدر روایت کی گئیں‘ وہ ہر قسم کے احتمالات سے بے داغ تھیں۔ ان کے بعد اگرچہ احادیث کو بہت وسعت ہو گئی لیکن اعتماد اور قوت کا وہ پایہ نہ رہا۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے نہایت سچ لکھاہے کہ: ہر چند جمیع صحابہ عدول اندو روایت ہمہ مقبول و عمل بموجب انچہ بروایت صدوق ازیشاں ثابت ثابت شود لازم اما درمیان انچہ از حدیث و فقہ زمن فاروق اعظم بود و انچہ بعدوی حادث شدہ فرق مابین السموات والارض ست ؎۱ صحابہ میں جو لوگ کم روایت کرتے تھے حضرت عمرؓ نے احادیث کے متعلق احتیاط اور تشدد کا جو خیال پیدا کیا ہے وہ اگرچہ رواج عام نہ پاسکتا لیکن محققین صحابہؓ میں یہ خیال بے اثر نہیں رہا۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی نسبت عام شہرت ہے اور سند دارمی وغیرہ میں جا بجا تصرح ہے کہ احادیث کی روایت کے وقت ان کے چہرے کا رنگ بد جاتا تھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ بیان کرتے تھے تو کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لفظ فرمایا تھا شاید اس کے مشابہ یا اس کے قریب یا اس کے مثل۔ ابودرداء ؓ اور حضرت انسؓ جو بڑے بڑے صحابی تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ امام شعبی کا بیا ن ہے کہ میں عبداللہ بن عمرؓ کے اتھ سال بھر رہا۔ اس مدت میں ان سے صرف ایک حدیث سنی۔ ثابت بن قطبتہ الانصاری کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ مہینہ بھر میں صرف دو تین حدیث روایت کرتے تھے۔ ائب بن یزید کا قول ہے کہ میں سعد بن ابی وقاصؓ کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک گیا اورآیا لیکن انہوںںے اس مدت میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی۔ چنانچہ یہ تمام واقعات اور روایتیں صحیح دارمی میں بسند متصل منقول ہیں۔ ۲؎ سند اور روایت کے متعلق حضرت عمرؓ نے جو مقدم اصول قائم کیے ان کو اجمالاً یوں بیان یا جا سکتا ہے۔ ۱؎ ازالتہ الخفاء ص ۱۴۱ ۲؎ مسند دارمی مطبوعہ نظامی کانپور از ص ۴۵ تا ۴۸ ۱۔ روایت کا باللفظ ہونا ضروری ہے۔ ۲۔ محض راوی کا ثقہ ہونا روایت کے اعتماد کے لیے کافی نہیں۔ ۳۔ خبر واحد میں تائیدی شہادت کی حاجب ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں تابع اور شاہد کہتے ہیں۔ ۴۔ خبر واحد ہمیشہ حجت نہیں ہوتی۔ ۵۔ روایت کے اعتبار میں موقع اور محل کی خصوصیات کا لحاظ شرط ہے ۔ علم فقہ فقہ کا فن تمام تر حضرت عمرؓ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اس فن کے متعلق ان کی قابلیت اور افضیلات کا تمام صحابہؓ کو اعتراف تھا۔ مسند دارمی میں ہے کہ حذیفہ بن الیمانؓ نے کہا کہ فتویٰ دینا اس شخص کا کام ہے جو امام ہو یا قرآن کے ناسخ و منسوخ کو جانتا ہو۔ لوگوںنے پوچھا کہ ایسا کون شخس ہے ؟ حذیفہؓ نے کہا عمر بن خطابؓ ۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور عمر ؓ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمرؓ کاپلہ بھاری رہے گا۔ ۱؎۔ علامہ ابو اسحاق شیرازی نے جو مدرسہ نظامیہ کے مدرس اعظم تھے فقہاء کے حالات میںایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں حضرت عمرؓ کے تذکرہ میں صحابہ و تابعین کے اس قسم کے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں اور اخیر میں لکھا ہے: ولولا خوف الا طالتہ لذکرت من فقھہ ما یتحیر فیہ کل فاضل ’’یعنی اگر تبویل کا خوف نہ ہوتا تو میں حضرت عمرؓ کے فتویٰ اور ان میں جو فقہ کے اصول پائے جاتے ہیں اس قدر لکھتا کہ فضلاء حیران رہ جاتے‘‘۔ فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمرؓ ہیں علامہ موصوف نے جس چیز کو قلم انداز کیا ہے ہم اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے چل کر لکھیں گے۔ لیکن پہلے یہ بتاناضروری ہے کہ فقہ کے جس قدر سلسلے آج اسلام میں قائم ہیں سب کا مرجع حضرت عمرؓ کی ذات بابرکات ہے۔ بلاد اسلام میں جو مقامات فقہ کے مرکز مانے جایت ہیںوہ یہ ہیں مکہ مکرمہ‘ مدینہ منورہ‘ بصرہ‘ کوفہ اورشام۔ ا س انتساب کی وجہ یہ ہے کہ فقہ کے بڑے بڑے شیوخ اور بانی فن انہی مقامات کے رہنے والے تھے۔ مثلاً مکہ مکرمہ کے شیخ عبداللہ بن عباسؓ تھے مدینہ منورہ کے زید بن ثابت و عبداللہ بن عمر کوفہ کے حضرت علیؓ عبداللہ بن مسعو د اور ابو موسیٰ اشعریؓ شا م کے ابودردائؓ اور معاذ بن جبلؓ ان میں (حضر ت علیؓ کے سوا) اکثر بزرگ حضرت عمرؓ ہی کے صحبت سے مستفید ہوئے تھے اور خاص کر عبداللہ بن عباس ؓ و عبداللہ بن عمرؓو عبداللہ بن مسعودؓ تو ان کے ساختہ پرداختہ تھے۔ ۱؎ استیعاب قاضی بن عبدالرداز التہ الخفاء ص ۱۸۵ حصہ دوم عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک ساعت کا بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں ۔ ۱؎ عبداللہ بن عباسؓ کو حضرت عمرؓ نے گویا اپنے دام تربیت سے پالاتھا۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا صحیح بخاری میں خود حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔ ۲؎ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ آپ اس نوعمر کو ہمارے ساتھ کیوںشریک کرتے ہیں اور ہمارے لڑکوں کو جواب کے ہمسر ہیں کیوںیہ موقع نہیں دیتے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔ محدث عبدالبر نے استعیاب میں لکھا ہے کان عمر یحب بن عباس و یقربہ یعنی حضرت عمرؓ ابن عباسؓ کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ حضرت عمرؓ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش آتا تو عبداللہ بن عباسؓ ا س کا جواب دینا چاہتے لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے۔ حضرت عمرؓ ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے کہ علم کم سنی کی کمی اور زیادتی پر موقوف نہیں ۔ کوئی شخص اگر عبداللہ بن عباسؓ کے مجتہدات کو حضرت عمرؓ کے مسائل سے ملائے تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں میں استاد اور شاگرد کا تناسب ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ حضرت عمرؓ کے فرزند ہی تھے۔ زید بن ثابتؓ برسوں حضرت عمرؓ کی صحبت میں تحریر کا کام کرتے رہے تھے۔ امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ عبداللہ بن مسعودؓ اور زید بن ثابتؓ باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔ ۳؎ صحابہؓ میں چھ شخص فقہ کے امام تھے محدثین کا عام خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں چھ شص جن پر علم فقہ کا مدار تھا عمرؓ علیؓ عبداللہ بن مسعودؓ، ابی بن کعبؓ ، زید بن ثابتؓ ، ابوموسیٰ اشعریؓ ۔ امام محمدؒ نے کتاب الآثار میں روایت کی ہے کہ ستتہ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتذکرون الفقہ بینھم علی بن ابی طالب و ابی ا ابو موسیٰ علحدۃ و عمر و زید و ابن مسعود یعنی اصھاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چھ شخص تھے جو باہم مسائل فقیہ میں بحث و مذکرہ کرتے تھے۔ علیؓ ابیؓ ‘ اورابو موسیٰ اشعریؓ ایک ساتھ وار حضرت عمرؓ ‘ اور ابن مسعود ؓ اور زیدؓ ایک ساتھ۔ ۱؎ استعیاب قاضی بن البرواز الخفاء حصہ اول س ۳۱۹ ۲؎ صحیح بخاری ص ۶۱۵ مطبوعہ مطبع احمدی میرٹھ۔ ۳؎ فتح المغیث ص ۳۸۱ صفوان بن سلیم کا قول ہے کہ لم یکن یفتی فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیر عمر و علی و معاذ و ابی موسیٰ ؎۱ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں صر ف چار شخص فتوے دیتے تھے۔ عمرؓ ، علیؓ ، معاذؓ، اور ابو موسیٰؓ امام شعبی کا مقولہ ہے کہ : کان العلم یوخذ عن ستتہ من الصحابہ ؎۲ یعنی علم چھ صحابہ سے سیکھاجاتا تھا۔ اگر تحدید بظاہر مستعد معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہزاروں صحابہ میں صرف ۴ یا ۶ مفتیوں کی تعداد خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں ج میں حدیث صحیح صاف اور مصرح موجود ہے اورکوئی حدیث اس کے معارض بھی نہیں۔ ان مسائل کے لیے فقط احادیث کا جاننا کافی ہے۔ اس کے برخلاف بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کی نسبت حدیث می کوئی حکم بتصریح موجود نہیں بلکہ قواعد استنباط کے ذریعہ حکم مستخرج ہوتاہے ‘ یا حک کی تصریح ہے لیکن اور احایث اس کی معارض ہیں۔ ایسی صورتوں میں اجتہاد اور استنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور فقہ دراص اسی کا نام ہے۔ صحابہ میںایسے بہت سے بزرگ تھے جو پہلی قسم کے مسائل کے مستقل فتویٰ دیتے تھے اور مفتی کہلاتے تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد ۲۰ تک پہنچتی ہے لیکن دوسری قسم کے مسائل کا فیصلہ کرنا انہی لوگوں کا کام تھا جو فن کے بانی اور امام تھے۔ اور اس درجے کے لوگ وہی چھ بزرگ تھے جن کا ذکر اوپر گزرا۔ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ چار صاحبوں یعنی عمرؓ، علیؓ ، ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ کا نام لکھ کر کہتے ہیں: واما غیر ھولاء ااربعتہ فکانو ا یرون دلالۃ ولکن ما کانوا یمیزون الرکن والشرط من الاداب والسنن ولم یکن لھم قول عند تعارض الاخبار و تقابل الدلائل الا قلیلا کابن عمرو عائشۃ و زید بن ثابت ؎۳ ’’یعنی ان چار کے سوا باقی وہ لو گ تھے وہ مطالب سمجھتے تھے لیکن آداب سنن اور ارکان و شرائط میں امتیاز و تفریق نہیں کر سکتے تھے اور جہاں احادیث متعارض ہوتی تھیں اور دلائل میں تقابل ہوتا تھا وہ بجز بعض بعض موقعوں کے دخل نہیں دیتے تھے۔ مثلاً ابن عمرؓ ، عائشہؓ ، زید بن ثابتؓ ‘‘۔ ۱؎ تذکرۃ الحفاظ علامہ ذہبہ ذکر ابوموسیٰ اشعری۔ ۲؎ فتح المستغیث ص ۳۸۱ ۳؎ حجتہ اللہ البالغہ ص ۱۳۷ بہرحال مجتہدین صحابہ ۶ سے زیادہ نہ تھے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے ہم صحبت اکثر وہ ولگ تھے جو فن حدیث و روایت میں بلند پایہ تھے ۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھیوں کے سوا حضرت علیؓسے جن لوگوںنے روایتیں کیں ان پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ معاذ بن جبلؓ کو خود حضرت عمرؓ نے تعلیم و روایت کے لیے شام بھیجا تھا لیکن ان کا سنہ ۱۸ھ میں انتقال ہو گیا۔ اس لیے جیساکہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ حدیث او چنداں باقی نماند ۱؎۔ عبداللہ ابن مسعودؓ اور ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عمرؓ کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ ابو وسیٰ اشعریؓ کو حضرت عمرؓ اکثر تحریر کے ذریعہ سے حدیث فقہ سے مسائل تعلیم کرتے رہتے تھے زید بن ثابتؓ بھی دراصل حضرت عمرؓ کے مقلد تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؓ لکھتے ہیں : وزید بن ثابت نیز اکثر متبع اوست ان واقعات سے معلوم ہوگا کہ صحابہؓ جن لوگوں کو فقہ کا رواج ہو ا وہ سب حضرت عمرؓ کے تربیت یافتہ تھے۔ ۲؎ ۔ حضرت عمرؓ نے مسائل فقیہہ می جس قدر فکر اورخوض کیا تھا صحابہؓ میں سے کسی نے نہیں کیا۔ انہوںنے آغاز اسلام سیہی فقہ کو مطمع نظر بنا لیاتھا۔ قرآن مجید میں جو مسائل فقہ مذکور ہیں ان میں جہاں ابہام ہوتا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کر لیتے تھے۔ اورجب تک پوری تسلی نہیں ہوتی تھی بس نہیں کرتیتھے۔ یہ بات اور صحابہ کو حاصل نہ تھی کیونکہ ان کے بربر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کہنے سننے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔ کلالہ کے مسئلہ کو جو ایک دقیق اور نہایت مختلف فیہ مسئلہ ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر بار بار دریافت کیا کہ آپ دق آ گئے اور فرمایا کہ سورۃ نساء کی خیر آیت تیرے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ ۳؎ مشکل مسائل قلم بند کرنا جو مسائل زیادہ مشکل ہوتے تھے ان کو یادداشت کے طور پر لکھ لیتے اور ہمیشہ ان پر غور کیا کرتے۔ وقتاً فوقتاً ان کے متعلق جو ارئے قائم ہوتی ان کو قلمبند اورزیادہ غور و فکر سے اس میں بھی محو و اثبات کیا کرتے۔ پھوپھی کی میراث کی نسبت جو یادداشت لکھی گئی اور آخر اس کو محو کر دیا اس کا حال امام محمد ؒ نے موطا میں لکھا ہے۔ ۴؎ ۱؎ ازالۃ الخفا حصہ دوم ص ۸۱ ۲؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۸۳ ۳؎ مسند امام احمد بن حنبل ۴؎ موطا امام محمد ص ۳۱۶ دقیق مسائل میں وقتاً فوقتاً خوض کرتے رہنا قسطلانی نے شرح بخاری میں معتمد حوالہ سے نقل کیا ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق حضرت عمرؓ نے سو مختلف رائے قائم کیں۔ بعض بعض مسائل کے متلعق ان کو مرتے دم تک کاوش ہی رہی اور کوئی قطعی رائے قائم نہ کر سکے۔ مسند دارمی میں ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق انہوںنے ایک تحریر لکھی تھی لیکن مرنے کے قریب اس کو منگوا کر مٹا دیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اس کا فیصلہ کیجیے گا۔ اسی کتاب میں یہ روایت بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ زخمی ہوئے تو صحابہؓ کو بلا کر کہا کہ میں نے دادا کی میراث کی نسبت رائے قائم کی تھی۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو اس کو قبو کر لیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا آپ کی رائے ہ لوگ قبول کریں تب بھی بہتر ہے لیکن ابوبکرؓ کی رائے ماؤنیں تو وہ بڑے صاحب رائے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین مسئلوں کے تعلق کوئی تحریر قلمبند فرما جاتے۔ کلالہ دادا کی میراث رہا کی بعض اقسام مسائل فقیہہ کے متعلق ان کو جو کدوکاوش رہتی تھی اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کی مثال کافی ہو گی۔ ورثہ کے بیان میں اللہ نے ایک قسم کے وارث کو کلالہ سے تعبیر کیا ہے لیکن چونکہ قرآن مجید میں اس کی تعریف مفصل مذکور نہیں اس لیے صحابہؓ میںاختلاف تھا کہ کلالہ میں کون کون ورثا داخل ہیں۔ حضرت عمرؓ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند بار دریافت کیا۔ اس پر تسلی نہی ہوئی تو حضر ت حفصہؓ کو ایک یادداشت لکھ کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنا۔ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں تمام صھابہؓ کو جمع کر کے اس مسئلے کو پیش کیا لیکن ان تمام باتوں پر ان کو کافی تسلی نہیں ہوئی اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر تین چیزوں کی حقیقت بتا جاتے تو مجھ کو دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز ہوتی۔ خلافت‘ کلالہ ربائ۔ چنانچہ ان تمام واقعات کو محدث عماد الدین بن کثیرنے صحیح احادیث کے حوالہ سے اپنی تفسیر قرآن میںنقل کیا ہے۔ فتوحات کی وسعت کی وجہ سے نئے نئے مسئلوں کا پیدا ہونا چونکہ ان کے زمانے میں فتوحات نہایت تیزی سے بڑھتی جاتی تھیں اور تمدن روز بروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس لیے نہایت کثر ت سے معاملات کی نئی نئی شکلیں پیش آتی جاتی تھیںَ اگرچہ ہر جگہ قاضی اور مفتی مقرر تھے اور یہ لوگ اکچر اکابر صحابہؓ میں سے تھے تاہم بہت سے مسائل میں وہ لوگ عاجز آ جاتے تھے اور بارگاہ خافت کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اس بناء پر حضرت عمرؓ کو بہت سے پیچیدہ اور غیر منصوص مسائل پر غور کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ لوگوں کا حضرت عمرؓ سے استفسار کرنا ان کے فتوے جو نہایت کثرت سے تمام کتابوں میںمنقول ہیں زیادہ تر انہی مسائل کے متعلق ہیں جو ممالک مختلفہ میں ان کے پاس جواب کے لیے آئے تھے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں فتووں کے ساتھ فتویٰ پوچھنے والوں کے نام بھی موجود ہیںَ مثلاً عبداللہ بن مسعودؓ، عمار بن یاسرؓ ، ابوموسیٰ اشعریؓ ، ابوعبیدہ بن جراحؓ اور مغیرہ بن شعبہ ب وغیرہ۔ صحابہؓ کے مشورہ سے مسائل طے کرنا حضرت عمرؓ اگرچہ خود بہت بڑے فقیہ تھے اور تنہا ان کی رائے بھی فتوے کے لیے کافی ہو سکتی تھی تاہم احتیاط کے لیے وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ کرامؓ کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان پر نہایت آزادی اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں ؒکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا بغیر صحابہ کے مشورے یک فیصل نہیں کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ حجتہ اللہ البلاغہ میں ؒکھتے ہیں: کان من سیرۃ عمر ان کانہ یشعر الصحابہ ویناظر ھم حتی تنکسف الغمہ ویاتیہ الثلج فصار غالب قضایاہ و فتاواہ متبعۃ فی مشارق الارض ومغاربھا ’’حضرت عمرؓ کی عادت تھی کہ صحابہؓ سے مشورہ اور مناظرہ دونوں کرتے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا اسی وجہ سے حضرت عمرؓ کے فتووں کی تمام مشرق و مغر ب میں پیروی کی گئی‘‘۔ مسائل اجماعیہ حضرت عمرؓ نے جن مسائل کو صحابہ کے مجمع میں پیش کر کے طے کیا ان کی تعداد کچھ کم نہیں اور کتب احادیث او آثار میں ان کی پوری تفصیل ملتی ہے۔ مثلاً بیہقی نے روایت کی ہے کہ غسل جنابت کی ایک صورت خاص میں()بیہقی نے اس کی تصریح بھی کی ہے) صحابہ میںاختلاف تھا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ مہاجرین اور انصار جمع کیے جائیںَ چنانچہ متفقہ مجس میں وہ مسئلہ پیش ہوا۔ تمام صحابہ نے ایک رائے پر اتفاق کیا لیکن حضرت علیؓ اور معاذؓ مخالف رہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا جب آپ لوگ اصحاب بدر ہر کو مختلف الرائے ہٰں تو آگے چل کر کیا ہو گا؟ غرض ازواج مطہرات ؓ کے فیصلے پر معاملہ اٹھا رکھا گیا اور انہوںنے جو فیصلہ کیا حضرت عمرؓ نے اسی کو نافذ و جاری کر دیا۔ اسی طرح جنارہ کی تکبیر کی نسبت صحابہؓ میں بہت اختلاف تھا۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ کی مجلس منعقد کی جس میں یہ فیصلہ ہو ا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آاخری معمعول کا پتہ لگایا جائے۔ چنانچہ دریافت سے ثابت ہوا کہ جنازہ کی اخیر نماز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرھی اس میں چار تکبیریں کہی تھیںَ اس طرح اور بہت سے مسائل ہیں لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں۔ حضر ت عمرؓ کے مسائل فقیہہ کی تعداد فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے بروایت صحیح منقول ہیں ان کی تعدا د کئی ہزار تک پہنچتی ہے ان میں سے تقریباً ہزار مسئلے ایسے ہیںجو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تما مسائل میں آئمہ اربرہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں: وھم چنیں مجتھدین در رئوس مسائل فقہ تابع مذہب فاروق اعظم انداوایں قرب ہزار مسئلہ باشد تخمینا ؎۱ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں یہ مساء منقول ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ان کی مدد سے فقہ فاروقی پر ایک مستقل رسالہ لکھ کر ازالۃ الخفاء میں شامل کر دیا ہے۔ اصول فقہ یہ تمام بحث تدوین مسائل کی حیثیت سے تھی لیکن فن فقہ کے متعلق حضرت عمرؓ کا اصلی کارنامہ ار چیز ہے انہوںنے صرف یہ نہیں کیا کہ جزئایت کی تدوین کی بلکہ مسائل کی تفریح و استنباط کے صول اور ضوابط قرار دیے جس کو آج ک اصول فقہ کا نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔ سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا ہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو اقوال منقول ہیں وہ کلیۃ مسئل کا ماخذ ہو سکتے ہیں یا ا ن میںکوئی تفریق ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس بحث میں حجتہ اللہ البلاغہ میں ایک نہایت مفید مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو فعال اور اقوام مروی ہیں ان کی دو قسمیں۔ ہیں ایک وہ منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : ماتکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھو ۱؎ ازالتہ الخفا حصہ دوم ص ۸۴ یعنی پیغمبر جو چیز تم کو دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز رہو۔ دوسر ی وہ جن کو نصب رسالت سے تعلق نہیں۔ چنانچہ ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انما انا بشر اذ امرتکم بشئی من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشئی من رای فانما ان بشر ’’یعنی میں آدمی ہوں اس لیے جب میں دین کی بات کچھ حکم دوں تو اس کو لو وار جب اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میں ایک آدمی ہوں‘‘۔ اس کے بعد شاہ ولی اللہ صاحبؒ کھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طب کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا جو افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عادتاً صادر ہوئے نہ عبادۃ یا اتفاقاً واقع ہوئے نہ قصداً یا جو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرغوبات عرب کے موافق بیان کیں مثلا ام زرع کی حدیث اور خرافہ کی حدیث یا جو باتیں کسی جزئی مصلحت کے موافق اختیار کیں مثلاً لشکر کشی اور اس قسم کے اور بہت سے احکام یہ سب دوسری قسم میں داخل ہیں ۱؎۔ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے احادیث کے مراتب میں جو فرق بتایا اور جس سے کوئی صٓحب نظر انکار نہیں کر سکتا۔ اس تفریق مراتب کے موجد دراصل حضرت عمرؓ ہیں اب سیر اور احادیث میں تم نے اکثر پڑھا ہو گا کہ بہت سے ایسے مواقع پیش آئے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی کام کرنا چاہا اور کوئی بات ارشاد فرمائی تو حضڑت عمرؓ نے اس کے خاف رائے ظاہر کی۔ مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے جنازے پر نماز پڑھنی چاہی تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ منافق کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں؟ قید یا ن بدر کے معاملے میںان کی رائے بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجویز سیالگ تھی۔ صلح حدیبیہ میں انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے ان تمام مثالوںسے تم خود اندازہ کرسکتے ہو کہ حضرت عمرؓ ان باتوں کومنصب نبوت سے الگ سمجھتے تھے ورنہ اگر باوجود اس امر کے علم کے کہ وہ باتی منصب رسالت سے تعلق رکھتی تھیں ان میں دخل دیتے تو بزرگ ماننا درکنار اہم ان کو اسلا م کے دائرے سے بھی باہر سمجھتے۔ اسی فرق مراتب کے اصو پر بہت سی باتوں میں جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتی تھیں اپنی رایوں پر عمل کیا۔ مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک مہات اولاد یعنی لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہوجائے برابر بیجی اور خریدی جاتی تھیں۔ ۱؎ حجتہ اللہ البالغہ ص ۱۳۳ حضرت عمرؓ نے اس کو بالکل روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ تبوک میں جزیہ کی تعداد فی کس ایک دینار مقر ر کی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے مختلف ملکوں میںمختلف شرحیں مقررکیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں شراب کی کوئی خاص حد مقرر نہ تھی حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے مقرر کیے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال اگر تشریعی حیثیت سے ہوتے تو حضرت عمرؓ کی کیامجال تھی کہ ان میں کمی بیشی کی جا سکے اور اللہ نہ کرے وہ کرنا چاہتے تھے تو صحابہؓ کا گروہ ایک لحظہ کے لیے بھی مسند خلافت پر ان کا بیٹھنا کب گوارا کر سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ کو اس امیتازمراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد احکام میں جب انہوںنے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر نہیںکی۔ بلکہ متعددمعاملات میں حضرت عمرؓ کی رائے کو اختیار فرمایا اور بعض موقعوں پر خود وحی الٰہی نے حضرت عمرؓ کی رائے ی تاکید کی۔ قیدیان بدر‘ حجاب ‘ ازواج مطہرات‘ نماز بر جنازہ منافق۔ ان تمام معاملات میں وحی جو آئی وہ حضرت عمرؓ کی رائے کے موافق آئی۔ اس تفریق ار امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا کیونکہ جن چیزوں میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا کہ زمانے اور حالات کے موجود ہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیںَ چنانچہ معاملات میں حضرت عمرؓ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے قاعدے وضع کیے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں۔ برخلاف اس کے امام شافعیؒ کو یہاں تک کد ہے کہ ترتیب فوج‘ تعیین شعار‘ تشخیص محاصل وغیرہ کے متعلق بھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوا ل کو تشریعی قرار دیتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے افعال کی نسبت لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کسی قول و فعل کی کچھ اصل نہیں۔ خبر احاد کے قابل احتجاج ہونے کی بحث اس بحث کے بعد دوسرا مرحلہ خبراحاد ۱؎ (یعنی وہ حدیث جس کا راوی ایک سے زیادہ نہ ہو) کی حیثیت کا احتجاج تھا بہت سے اکابر اسی قسم کی اھادیث کو درجہ نہیں دیتے تھے کہ ان سے قرآن مجید کی منصوصات پر اثر پڑ سکتاہے یعنی قرآن مجید کا حکم بھی منسوخ ہو سکتا ہ۔ اما م شافعیؒ کا یہی مذہب ہے۔ ۱؎ اصول حدیث میں جس حدیث کے راوی ایک سے زیادہ یا تواتگر کی حد سے کم ہو ں تو وہ بھی خبر احاد میں داخل ہے لیکن یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک اس کا وجود نہ تھا۔ حضرت عمرؓ کے نزدیک خبر احاد سے ہر موقع پر احتجاج نہیں ہو سکتا۔ اسی بنا پر اذن ملاقات ‘ اسقاط جنین‘ خریداری مکان عباس بن عبدالمطلب ؓ تمیم جنابت کے مسئلوں میں انہوںنے عمار بن یسر ابوموسیٰ اشعری مغیرہ بن شعبہ ابی بن کعبؓ کی روایتوں کو اس وقت تک قابل حجت قرار نہیں دیا جب تک اور تائیدی شہادتیں نہیں گزریں۔ چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے اسی بناء پر وہ خبر احاد سے قرآن مجید کی تنسیخ یا تخصیص کو جائز قرار نہیں دیتے تے۔ فاطمہ بنت قیسؓ نے جن زن مطلقہ کی سکونت وار نقفہ کے متعلق اپنی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی تو چونکہ حضرت عمرؓ کے نزدیک وہ حکم قرآن کی نص کے مخالف تھا۔ فرمایا کہ ایک دورت کی روایت سے قرآن کا حکم نہیں بدل سکتا۔ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیالوں کا یہ استدلال ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے بہت سے واقعات میں اخبار احاد کوقبول کیا ہے لیکن امام صاحب نے یہ خیا ل نہ کیا کہ حضرت عمرؓ کے اصول میں ٖرق نہیں حضرت عمرؓ کا یہ مذہب ہے کہ ہر خبر احاد قابل احتجاج نہیں نہ یہ کہ کوئی خبر احاد قابل احتجاج نہیں۔ ان دونون صورتوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میںتنہا ایک شخص کی شہادت کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ روز مرہ کے کاموں میںہر شخص اسی پر عمل کرتاہے لیکن بعض اوقات ایسے اہم اورنازک ہوتے ہیں جن کی نسبت ایک دو شخص کی شہادت کافی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ احتمال رہتا ہے کہ انہوںنے الفاظ روایت یا واقعہ کی کیفیت سممجھنے میں غلطی کی ہو۔ غرض ہر واقعہ اور ہر راوی کی حالت اور حیثیت مختلف ہوتی ہے اور اس وجہ سے کوئی عام قاعدہ نہیں قرار پا سکتا۔ حضرت عمرؓ نے بے شبہ بہت سے موقعوں پر اخبار احاد سے استدلال کیا لیکن متعدد موقعوں پر اس کے خلاف بھی کیا۔ اس طریق عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اخبار احاد میں خصوصیت حالت کو ملحوظ رکھتے تھے اخبار احاد کے متعلق فقہ و محدثین میں سخت اختلا ف رائے ہے اور ؓی بڑی طویل بحثیں پیدا ہو گئی ہیںَ لیکن جہاں تک ہم نے ان تمام بحثوں کو دیکھا ہے حضر ت عمرؓ کے مذہب میںجو نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی پائی جاتی ہے اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی لیکن اس موقعہ رپر تنبیہہ کر دینی ضروری ہے کہ اخبار احاد کے قبول کرن یا نہ کرنے میں حضرت عمرؓ کا جو اصو ل تھا اس کی بناء پر صرف تحقیق حق تھی۔ اس زمانے کے آزاد خیالوں کی طرح نفس کی پیروی مقصود نہ تھی کہ جس حدیث کو چاہا صحیح مان لیا اور جس کو چاہا غلط کہہ دیا۔ کار پاکاں را قیاس از خود مگیر گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر قیاس فقہ کی توسیع اور تمام ضروریات کے لیے اس کا کافی ہونا قیاس پر موقوف ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام جزئیات مذکور نہین ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان جزئیات کے فیصلہ کرنے کے لیے قیاس شرعی سے کام لیا جائے۔ اسی ضرورت سے آئمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ امام مالک امام شافعی اورامام احمد حنبل ؒ سب قیاس کے قائل ہو ئے ہیں اور ان کے مسائل کا ایک بڑا ماخذ قیاس ہے لیکن قیاس کی بنیاد اول جس نے ڈالی وہ حضرت عمرؓ ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ قیاس کے موجد معاذ بن جبلؓ ہیں ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ ؓ کو یمن بھیجا تو ان سے استفسارفرمایا کہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو کیا کرو گے؟ انہوںنے کہاکہ قرآن مجید سے جواب دوں گا اور اگر قرآن و حدث میں وہ صورت مذکور نہ ہو گی تو اجتہاد کرون گا ۱؎۔ لیکن اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ ان کی مراد قیاس تھی۔ اجتہاد قیاس پر منحصر نہیں۔ ابن حزم و دائود ظاہری وغیرہ سرے سے قیاس کے قائل نہ تھے حالانکہ اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے اور مسائل شریعہ میں اجتہاد کرتے تھے مسند دارمی یہ سند مذکور ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا معمول تھا کہ جب کوئی مسئلہ پیش آتا تھا توقرآن مجید کی طرف رجوع کرتے۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہوتی تو حدیث سے جواب دیتے ۔ حدیث بھی نہ ہوتی تو اکابر صحابہؓ کو جمع کرتے اور ان کے اتفاق رائے سے جو امر قرار پاتا اس کے مطابق فیصلہ کرتے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ کے زمانے تک مسائل کے جواب میں قرآن مجید کی حدیث اور اجماع سے کام لیا جاتاہے قیاس کا وجود نہ تھا۔ ۲؎ حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو قضا کے متعلق جو تحریر بھیجی تھی اس میں قیاس کی صاف ہدایت کی ہے چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں: لفھم الفھم فیما یحتلج فی صدرک ممالم ببلغک فی الکتاب والسنۃ واعراف الامثال الاشباہ ثم قس الامور عند ذلک ؎۳ ’’جو چیز تم کو قرآن و حدیث میں نہ ملے اور تم اس کی نسبت شبہ ہو اس پر غور کرو اور اسکے ہم صورت اور ہم شکل واقعات کو دریافت کرو پھر ان سے قیاس کرو‘‘۔ اصول فقہ کی کتابوں میں قیاس کی یہ تعریف لکھی ہے: تعدیۃ الحکم من الاصل الی الفرح لعلۃ متحدۃ ۱؎ یہ حدیث مسند دارمی مطبوعہ نظامی صفحہ ۳۴ میں مذکورہے۔ ۲؎ مسند دارمی ص ۳۲ ۳؎ یہ روایت دار قطنی میں مذکور ہے دیکھو ازالتہ الخفاء صفحۃ ۸۴ اصل کے حکم کو فرع تک پہنچانا کسی ایسی علت کی وجہ سے جو دونوںمیںمشترک ہو۔مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گیہوں جوار وغیرہ کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو برابر پر دو برابر سے زیادہ لو گے تو سود ہو جائے گا۔ اس مسئلے میں قیاس اس طرح جاری ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گو چندخاص اشیاء کے نام لیے لیکن یہ حکم ان تمام اشیاء میں جاری ہو گا جو مقدار اورنوعیت رکھتے ہیںَ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو سیر بہ چونہ دے اور اس سے اسی قسم کا چونہ سوا سیر لے یا سیر بھی ہی لے لیکن اس سے عمدہ قسم کا لے تو سود ہو جائے گا۔ اصولیین کے نزدیک قیاس کے لیے مقدم دو شرطیں ہیں: ٭ جو مسئلہ قیاس سے ثابت کیاجائے وہ منصوص نہ ہویعنی اس کے بارے میں کوئی خاص حک موجود نہ ہو ۔ ٭ مقیس اورمقیس علیہ میں علت مشترک ہو۔ حضرت عمرؓ کی تحریر میں ان دونوں شرطوں کی طرف اشارہ بلکہ تصریح موجود ہے پہلی شرط کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ممالم یبلغک فی الکتاب والسنۃ دوسری شرط ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے: واعراف الامثال والاشباہ ثم قس الامور ان مہمات اصول کے سوا حضرت عمرؓ نے استنباط احکام اور تفریح مساء کے اور بہت سے قاعدے مقرر کیے ہیں جو آج ہمارے دلم اصول فقہ کی بنیاد ہیں لیکن ان کی تفصیل سے پہلے ایک نکتہ سمجھ لینا چاہیے۔ استنباط احکام کے اصول یہ امر مسلم ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالکؒ وغیرہ مسائل فقیہہ میںنہایت مختلف الرائے ہیں۔ اس اختلاف رائے کی وجہ کہیں کہیں تو یہ ہے کہ بعض مسائل میں ایک صاحب کو حدیث صحیح ملی اور دوسرے کو نہیں لیکن عموماً اختلاف کاہی سبب ہے کہ ان صاحبوں کے اصول استنباط و اجتہاد مختلف تھے۔ چنانچہ اصول فقہ کی کتابووں میںان مخفلت فیہ اصولوں کو بتفصیل لکھا ہے لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان آئمہ نے صراحتہ وہ اصول بیان کیے تھے امام شافعیؒ نے بے شبہ ایک رسالہ میں لکھا ہے جس میں اپنے چند اصول منضبط کیے ہیں لیکن امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ وغیرہ سے ایک قاعدہ بھی صراحتہً منقول نہیں بلکہ ان بزرگوں نے مسائل کو جس طرح استنباط کیا مسائل کے متعلق جو تقریر کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا استنباط خواہ مخواہ ان اصول کی بنا پر ہے مثلاً ایک امام نے قرٓان کی اس آیت سے اذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا استدلال کیا ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قرات فاتحہ نہ کرنا چاہیے کسی نے ان سے کہا کہ یہ آیت تو خطبہ کے بارے میں اتری تھی۔ انہوںنے کہا کہ آیت کسی بارے میں اتری ہو لیکن حکم عام ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ اس اصول کے قائل تھے العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی سب کا خالص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں کرتا۔ اصول فقہ میں امام ابو حنیفہؒ وغیرہ کے جو اصول مذکور ہیں وہ اسی قسم کی صورتوں سے مستبنط کیے گئے ہیں ورنہ ان بزرگوں سے صراحتہً یہ قاعدے کہیںمنقول نہیں۔ حضرت عمرؓ کی نسبت ہمارایہ دعویٰ کہ انہو ںنے استنباط مساء کے اصول قائم کیے اسی بناپر ہے اکثر مسائل جو انہوں نے طے کیے صحابہؓ کے مجمع سے بحث و مناظرہ کے بعد کیے تھے۔ اکثر مسائل میں متناقض روایتیں یا ماخذ استدلال موجود ہوتے تھے۔ اس لیے ان کو فیصلہ کرنا پڑتا تھا کہ دونوں میںسے کس کو ترجیح دی جائے۔ کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے اور کس کو منسوخ کس کو عام ٹھہرایا جاے اور کس کو خاص کس کو موقت مانا جائے کس کو موبد۔ اس طرح نسخت خصیص تطبیق وغیرہ کے متعلق بہت سے اصول قائم ہو گئے عام طور پر فتویٰ دینے کے وقت بھی ان کی تقریر سے اکثر کسی اصول کی طرف اشارہ پایا جاتاہے۔مثلاً ایک شخص نے ان سے آ کر کہا کہ میرے غلام کے ہاتھ کاٹنے کا حک دیجیے کیونکہ اس نے میری بیوی کا آئینہ چرایا جس کی قیمت ۶۰ درہم تھی فرمایا کہ تمہارا غلام تھا اور تمہاری ہی چیز چرائی اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ ۱؎ اس سے یہ اصو ل مستنط ہوا کہ سرقہ کے لیے یہ ضرورہے کہ سارق کو مال مسروقہ میںکسی طرح کا حق نہ ہو۔ ایک شخص نے بیت المال سے کچھ چرا لیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو ھبی اس بنا پر چھو ڑ دیا کہ بیت المال میں ۃر شخص کا کچھ نہ کچھ حق ہے۔ ایک دفعہ سفر میںایک تالاب کے قریب اترے۔ عمرو بن العاصؓ بھی ساتھ تھے انہوںنے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں سے درندے تو پانی نہی پیتے۔ حضرت عمر ؓ نے لوگوں کو رروک دیا کہ نہ بتانا ۲؎ اس سے دو اصول ثابت ہوئے ایک یہ کہ اصل اشیاء میں اباحتہ ہے دوسرے یہ کہ ظاہر حالت اگر صحیح ہے تو نفحص اور جستجو پر ہم مکلف نہیں ہیںَ ایک دفعہ رمضان میں بدلی کی وجہ سے آفتاب کے چھپ جانے کا دھوکا ہوا۔ حضرت عمر و نے روزہ کھول لیا۔ تھوڑی دیر بعد آفتاب نکل آیا۔ لوگ متردد ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا الخطب یسیر وقد اجتھدنا یعنی معاملہ چنداں اہم نہیں ہم اپنی طرف سے کوشش کر چکے تھے۔ ۳؎ ۱؎ موطا امام مالک ۲؎ موطاامام محمد ص ۶۶ ۳؎ موطا امام محمد ص ۱۸۴ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کوئی شخص چاہے تو ان سے اصول فقہ کے بہت سے کلیات منضبط کر سکتاہے۔ حضرت عمرؓ کے مسائل فقیہہ کی تعداد حضرت عمرؓ نے فقہ کے جو مسائل بیان کیے ‘ ان میں اکثر ایسے ہیں جن میں اور صحابہؓ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور آئمہ مجتہدین نے ان کی تقلید کی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنے استقراء سے اس قسم کے مسائل کی تعداد کم و بیش ایک ہزار بتاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے مسائل ہی جن میں دیگر صحابہؓ نے ا ن سے اختلاف کیاہے۔ ان یں سے بعض مسائل میں ن میں صحابہؓ نے اختلاف کیا ہے وہی حق پر ہیں۔ مثلاً تیمم‘ جنابت منع تمتع حج طلقات ثلث وغیرہ میں حضرت عمرؓ کے اجتہاد سے دیگر صحابہ ؓ کااجتہاد زیدہ صحیح معلوم ہوتاہے۔ لیکن اکثر مسائل میں اور خصوصاً ان مسائل میں جو معرکۃ الارا رہے ہیں اور جن کو تمدن اور امور ملکی میں دخل ہے عموماً حضرت عمرؓ کااجتہاد نہایت نکتہ سنجی اور دقت نظری پر مبنی ہے اور انہی مسائل سے حضرت عمرؓ کے کمال اور اجتہاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض مسائل کا ذکر ہم اس موقع پر کرتے ہیں۔ خمس کا مسئلہ ایک بڑا معرکۃ الآرا مسئلہ خمس کا ہے قرآن مجید میں ایک آیت ہے: واعلموا انما عنمتم من شئی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ و الیتمی والمسکین وابن السبیل (۸؍ الانفال : ۴۱) ’’جو کچھ تم کو جہاد کی لوٹ میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور پیغمبر کے لیے اور رشتہ داروں کے لیے اور یتیوں کے لیے اور غریبوں کے لیے اور مسافرین کے لیے‘‘۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خمس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حصہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو صحابہ میں دریائے عل کہلاتے تھے۔ نہایت زور کے ساتھ اس آیت خمس پر استدلال کرتے تھے۔ حضر ت علیؓنے اگرچہ مصلحتہ بنو ہاشم کو خممس میں سے ایک حصہ نہیں دیا لیکن رائے ان کی بھی یہ تھی کہ بنو ہاشم واقعی حق دار ہیں۔ یہ صرف حضرت علی و عبداللہ بن عباسؓ کی رائے نہ تھی بلکہ تمام اہل بیت کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعیؒ اسی مسئلہ کے قائل تھے۔ اور اپنی کتبوں میں بڑے زور و شور کے ساتھ اس پر استدلال کیا۔ حضرت عمرؓ کی نسبت لوگوں کوبیان ہے کہ قرابت داران پیغمبر کومطلقاً خمس کا حقدار نہیں سمجھتے تھے چنانچہ انہوںنے اہل بیت کو کبھی خمس میں سے حصہ نہیں دیا۔ ائمہ مجتہدین سے امام ابو حنیفہؒ بھی ذوی القربٰ کے خمس کے قائل نہ تھے۔ ان کی رائے تھی کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ جاتا رہا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں کا بھی حصہ جاتا رہا۔ اب ہم کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید سے کیا حخم نکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ عمل کیا تھا ۔ قرآن مجیدکی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہے کہ مجموعی طور پر پانچ گروہ خمس کے مصرف ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فرداً فرداً ہر گروہ میں تقسیم کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں جہاں زکوۃ کے مصارف بیان کے ہیں وہا ں بھی بعینہ اسی قسم کے الفاظ ہیں۔ انما اصدقت للفقراء والمسکین والعملین علیھا والمولفتہ قلوبھم وفی الرقاب والغرمین وفی سبیل اللہ وابن اسبیل (۹؍ توبہ :۶۰) ا س میں زکوۃ کے مصارف آٹھ گروہ قرر دیے گئے ہیں فقیر ‘ مسکین‘ زکوۃ وصول کرنے والے مولفتہ القلوب‘ قیدی ‘ قرض دار اور مسافر۔ ان میں سے جس کو زکوۃ دی جائے اد ہو جائے گی۔ یہ ضروری نہیںکہ خواہ مخواہ آٹھوں گروہ پیدا کیے جائیں۔ آٹھوں گروہ موجودہ بھی ہو ں تب بھی یہ لحاظ کیا جائے گا کہ کون فرقہ اس وقت زیادہ مدد کا محتاج ہے کون کم اور کون نہیں اور اسی اعتبار سے کسی کو زیادہ دیا جائے گا کسی کو کم اور کسی کو بالکل نہیں۔ ہی التزام مالایلزم صرف امام شافعیؒ نے اختراع کیا ہے کہ آٹھ برابر حصے کیے جائیں اور آٹھوں گروہ کو ضرورت بے ضرورت بے کم و بیش تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح خمس کے مصارف جو اللہ تعالیٰ نے بنائے اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس ان لوگں کے سوا اور کسی کو نہ دیاجائے یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اس کے پانچ برابر حصے کر دیے جائیں اور پانچوں فرقوںکو برابر حصہ دیا جائے اب دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق عمل کیا تھا۔ احادیث و روایات کے استقراء سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے یہ ہے۔ ۱۔ ذوی القربیٰ میں سے صرف آپ بنو ہاشم و عبدالمطلب کو حصہ دیتے تھے۔ بنو نوفل اور بنو عبد شمس حالانک ذوی القربیٰ میں داخل تھے لیکن آپ نے ان کو باوجود طلب کر نے کے بھی کچھ نہیں دیا۔ چنانہ ان واقعات کو علامہ ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں کتب حدیث سے بتفصی نقل کیا ہے۔ ۱؎ ۱؎ زاد المعاد جلد دوم ص ۱۶۱ ۲ بنو ہاشم و عبدالمطلب کو جو حصہ دیتے تھے وہ سب کو مساویانہ نہیں دیتے تھے۔ علامہ ابن القیمؒ نے زاد المعاد میں لکھا ہے: ولکن لم یکن یقسمہ بینھم علی السوآھ بین اغنیانھم و فقرائھم ولا کان یقسمہ المیراث بل کن یصرفہ فیھم بحسب المصلحتہ والحاجتہ فیزوج منھم اغربھم ویقضی منہ عن غار مھم ویعطی من فقیر ھم کفایتہ ؎۱ ’’لیکن دولت مندوں اور غریبوں کو برابر تقسیم نہیں کرتے تھے۔ نہ میراث کے قاعدے سے تقسی کرتے تھے بلکہ مصلحت اور ضرورت کے موافق عطا فرماتے تھے یعنی کنوارو کی شادی کرتے تھے مقروضوںکا قرض ادا فرماتے تھے اور غریبوں کو بقدر حاجت دیتے تھے‘‘۔ ان واقعات سے اولاً تویہ ثابت ہوا کہ ذوی القربیٰ کے لفظ تعمیم نہیںہے ورنہ بنونوفل اور بنو عبد شمس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حصہ دیتے کیونکہ وہ وگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت دار تھے۔ دوسرے یہ کہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے تمام افراد کو مساوی طور سے حصہ نہی ملتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے جہاں تک صحیح روایتوں سے ثابت ہے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا حق بحال رکھا لیکن وہ دو باتوں میںان سے مخالف تھے۔ ایک یہ کہ وہ یہ نہیں سمجھتے ھتے کہ خمس کا پورا پانچواں حصہ ذوی القربیٰ کا حق ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے کم و بیش تقسیم کرنا خلیفہ وقت کا حق سمجھتے تھے۔ برخلاف اس کے عبداللہ بن عبس ؓ وغیرہ کا تو یہ دعویٰ تھا کہ پانچواں حصہ پورے کا پورا خاص ذوی القربیٰ کا حق ہے اور کسی کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں۔ قاضی ابویوسف صاحبؒ نے کتاب الخراج میں اورنسائی نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: عرض علینا عمر بن الخطاب ان نزوج من الخمس ایمنا و نقضی منہ عن مغرمنا فابینا الا ان یسلمہ لنا وابی ذلک علینا ؎۲ ’’عمر بن الخطابؓ نے یہ بات ہم لوگوں کے سامنے پیش کی تھی کہ ہم لوگ خمس کے مال سے اپنی بیوائوں کے نکاح اورمقروضوں کے ادائے قرض کے مصارف لے لیا کریں لیکن ہم بجز اس کے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ ہم سب ہمارے ہاتھ میں دے دیا جائے حضرت عمرؓ ے اس کومنظور نہ کیا‘‘۔ ۱؎ زاد المعاد جلد ثانی ص ۱۲۶ ۲؎ کتاب الخراج ص ۱۱ اور روایتیں بھی اسی کے موافق ہیں۔ صرف کلبی کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر و عمرؓ نے ذوی القربی ٰ کا حق مطلقاً ساقط کر دیا تھا لیکن کلبی نہایت ضعیف الروایہ ہے۔ اس کے لیے سن ک روایت کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید کے فحویٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریق عمل کو منطبق کر کے دیکھو تو صاف ثابت ہو جاتاہے کہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ بالکل قرآن و حدیث کے مطابق تھا۔ امام شافعیؒ وغیرہ اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہی کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ پورا پانچواں حصہ دیتے ھے قرآن مجید سے یہ تعین وہ تحدید باکل ثابت نہیں ہو سکتی۔ باقی ذوی القربیٰ کا غیر معین حق تو اس سے حضر ت عمرؓ کو ہرگز انکار نہ تھا ۔ اب اصول عقلی کے لحاظ سے اس مسئل کو دیکھو یعنی خمس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ احکام اور مہمات رسالت کے انجام دینے کی وجہ سے معاش کی تدابیر میں مشغول نہیںہو سکتے ھتے۔ اس لیے ضرور تھا کہ ملک کی آمدنی میں سے کوئی حصہ آپ کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ اس وقت مال غنیمت فے انفال بس یہی آمدنیاں تھیں چنانچہ ان می سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا حصہ مقرر کیا تھا‘ جس کا ذکر قرآن مجید میں مختلف آیتوں میں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ کے ذاتی مصارف کے لیے خالصہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ذوی القربیٰ کا حق اس لیے قرار دیا گیا تھا کہ ان لوگوںنے ابتدائے اسلا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا تھا۔چنانچہ کفار مکہ نے مجبور کیا تو تمام بنو ہاشم نے جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا اورجب آنحضرت ؓ مکہ سے نکل کر ایک پہاڑ کے در ے میں پناہ گزین ہوئے تو سب بنی ہاشم بھی ساتھ گئے۔ اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ذوی القربیٰ کے لیے جو کچھ مقرر تھا وقتی ضرورت اور مصلحت کے لحاظ سے تھا لیکن یہ قرار دینا کہ قیامت تک آپ کے قرابت داروں کے لیے پانچواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اورگو ان کی نسل میں کسی قدر ترقی ہو اور گو وہ کتنے ہی دولت مند اور غنی ہو جائیں تاہم ان کو یہ ہمیشہ ملتی رہے گی ایسا قاعدہ ہے جو اصول تمدن کے بالکل خلاف ہے کون شخص یقین کر سکتاہے کہ ایک سچا ربانی شریعت یہ قاعدہ بنائے گا کہ اس کی تمام اولاد کے لیے قیامت تک ایک معین رقم ملتی رہے۔ اگر کوئی بانی شریعت ایسا کرے گا ت اس میں اور خود غرض برہمنوںمیں کیا فرق ہو گا۔ حضرت علیؓ اورعبداللہ بن عباسؓ جو خمس کے مدعی تھے ان کا ی بھی مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کہ یہ حق قیامت تک کے لیے ہے بلکہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے باقی ر ہ گئے تھے نہی کی نسبت ان کو ایسا دعویٰ ہو گا۔ فے کا مسئلہ ایک اورمہتمم بالشان مسئلہ فے کا ہے یعنی وہ زمین یا جائیداد جس کو مسلمان نے فتح کیا ہو۔ یہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الآرا ہے کہ صحابہؓ کے عہد سے آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہی ہوا۔ باغ فدک کی عظیم الشان بحث بھی اسی مسلے کی ایک فرح ہے۔ بڑا خلط مبحث اس میں اس وجہ سے ہوا کہ فی کے قریب المعنی اور جو الفاظ تھے یعنی نفل‘ غنیمت‘ سبل ان میں لوگ تفرقہ نہ کر سکے۔ ہم اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہل عرب میں دستور تھا کہ لڑائی یا فتح میں جو کچھ ہاتھ آتا تھا تمام لڑنے والوں میں برابر تقسیم کر دیا جاتا تھا سردار قبیلہ کو البتہ سب سے زیادہ یعنی چوتھ ملتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو ابتدا میں جس طرح اور بہت سی قدیم رسمیں قائم رہیں یہ قاعدہ بھی کسی قدر تغیر کی صورت کے ساتھ قائم رہا۔ چنانچہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا غازیوں پر تقسیم ہو جاتا تھا۔ چونہکہ قدیم سے یہی طریقہ جاری تھا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں بھی قائم رہا۔ اس لیے لوگوں کو خیال ہو گیا کہ مال غنیمت غازیوں کا ذاتی حق ہے اور وہ اس کے پانے کا ہر حالت میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اس پر جھگڑا تھا جنگ بدر میں جب فتح حاصل ہو چکی تو کچھ لوگ کفار کا تعاب کرتے ہوئے دو ر تک چلے گئے۔ کچھ لو گ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے۔ تعاقب کرنے والے واپس آئے تو انہوںنے دعویٰ کیا کہ غنیمت ہمارا حق ہے کیونکہ ہم دشمن سے لڑ کر آء ہیں ان لوگوںنے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محافظ تھے اس لیے ہم زیادہ حقدار ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ وللرسول (۸؍الانفال :۱) ’’تجھ سے لو گ مال غنیمت کی نسبت پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ وہ اللہ اوررسول کی ملک ہے‘‘۔ اس آیت نے اس اصول کو مٹا دیا کہ تمام مال غنیمت لڑنے والوں کا خاص حق ہے اور افسرکو اس میں کسی قسم ک تصرف اور اختیار نہیں لیکن اس آیت میں غنیمت لڑنے والوں کا حق خاص ہے اور افسر کو اس میں کسی قسم ک تصرف کا اختیار نہیں لیکن اس آیت میں غنمت کے مصارف نہیں بیان کیے تھے پھر یہ آیت اتری: واعلمو ا نما غنمتم من شی ء فان اللہ خمسہ واللرسول ولذی القربی و الیتمی والمسکین وابن السبیل ۱؎ زاد المعاد بن القیم جلد ثانی ص ۱۵۸ کتب حدیث میں بھی یہ روایت مذکورہے۔ ’’جان لو کہ کوئی چیز غنیمت میں ہاتھ آئے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور پیغمبر کے لیے اور رشتہ داروں کے لیے اور یتیمو ں کے لیے اورمسیکنوںکے لیے اور مسافروں کے لیے‘‘۔ اس آیت سے یہ قاعدہ قائم ہواکہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ کیے جائیں۔ چار حصے مجاہدین میںتقسیم کیے جائیں اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ذوی القربی ار مساکین وغیرہ کے مصارف میں آئیں لیکن یہ تمام احکام نقد و اسباب سے متعلق تھے۔ زمین اورجائیداد کے لیے کوئی قاعدہ قرار نہیں پایا تھا۔ غزوہ بنی نضری میں جو سنہ ۵ھ میں واقع ہوا سورہ حشر کی یہ آیت اتری: ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القربیٰ فللہ وللرسول والذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل … للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من اللہ… الخ (والذین جائو من بعدھم… الخ(۵۹؍ الحشر : ۷‘۸‘۱۰) ’’یعنی جو زمین یا جائیدا د ہاتھ آئے وہ اللہ اور پیغمبر اور یتیموںاور مسکینوں اور مسافروں اور فقراء اور مہاجرین اور ان سب لوگوں کی ہے جو آئندہ دنیا میں آئیں‘‘۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جو زمین فتح ہو وہ تقسیم نہیں کی جائے گی بلکہ بطور وقف کے محفوظ رہے گی اوراس کے منافع سے تمام موجودہ اور آئندہ مسلمان متمتع ہوں گے۔ یہ ہے حقیقت نفل اور فے کی۔ ان احکام میںلوگوں کو چند مغالطے پیش آئے سب سے پہلے یہ کہ لوگوںنے غنیمت کو فے کو ایک سمجھا آئمہ مجتہدین میں سے امام شافعیؒ کی بھی یہی رائے ہے اور ان کے مذہب کے موافق زمین مفتوحہ اسی وقت مجاہدین کو تقسیم رک دینی چاہے شام و عراق جب فتح ہوئے تو لوگوں نے اسی بنا پر حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ ممالک مفتوحہ ان کو تقسیم کر دیے جائیں۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عوفؓ ‘ زبیر ان العوامؓ، بلال بن رباح ؓ نے سخٹ اصرار یالیکن حضرت عمرؓ نے نہ مانا۔ جیسا کہ ہم صیغہ محاصل میں لکھ آئے ہیں بہت بڑا مجمع ہوا اور کئی دن تک بحثیں رہیں۔ آخر حضرت عمرؓ نے آیت مذکورہ بالا سے استدلال کیا اور آیت کے یہ الفاظ والذین جائو من بعدھم پڑھ کر فرمایا کہ: فکانت ھذہ عامتہ لمن جاء من بعدھم فقد صار ہذا الفی بین ہولاء جمعیا فکیف نقسمہ لھولاء وندع من تخلف بعدھم ؎۱ ۱؎ کتاب الخراج ص ۱۵ اس معرکہ کا پورا حال کتاب الخراج کے صف ۱۴‘۱۵ میں مذکور ہے۔ ’’تو یہ تمام آئندہ آنے والوں کے لیے ہے اور ا س بنا پر یہ ممالک تمام لوگوں کا حق ٹھہرے پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں کو تقسیم کر دوں اور ان لوگوں کو محروم کر دوں جو آئندہ پیدا ہوں گے‘‘۔ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیالوں کا بڑا استدلال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کی زمین کو مجاہدوںمیں تقسی کر دیا تھا۔ لیکن وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ خیبر کے بعد اورمقدمات بھی تو فتح ہوئے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال سے پہلے تمام عرب پر قبضہ ہو چکا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہیں چپہ بھر بھی زمین تقسیم کی؟ فدک کا مسئلہ اسی سلسلے میں باغ فدک کا معاملہ بھی ہے جو مدت تک معرکۃ الآرا رہا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے کہ یہ باغ خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائیداد تھی کیونکہ اس پر چڑھائی نہی ہوء تھی۔ بلکہ وہاں کے لوگوںنے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سپرد کر دیا تھا اور ا س وجہ سے وہ اس آیت کے تحت داخل ہیں: وما فاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شئی قدیر (۵۹؍ سورۃ الحشر :۶) ’’یعنی جو کچھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے دلوایا تو تم لوگ اس پر اونٹ یا گھوڑے دوڑ ا کر نہیں گئے تھے لیکن اللہ اپنے پیغمبر کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اوراللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مملوکہ خاص ٹھہری تو اس میں وراثت کا عام قاعدہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جاری ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورثا اس کے مستحق ہوں گے لیکن حضرت عمرؓ نے باوجود حضرت علیؓ کے طلب و تقضا کے آ ل نبی کواس سے محروم رکھا۔ یہ بحث اگرچہ طرفین کی طبع آزمائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات نہایت مختصر تھی اوراب جب کہ سیاست مدن کے اصول زیادہ صاف اور عام فہم ہو گئے ہیں یہ مسئلہ قاب بھی نہیں رہا کہ بحث کے دائرہ میں ایا جائے۔ اصل یہ ہے کہ نبی یا امام یا بادشاہ کے قبضہ میں جو مال یا جائیداد ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیںَ ایک مملوکہ خاص جس کے حاصل ہونے میںنبوت اور امامت و بادشاہت کے منصب کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ مثلا ً حضرت دائودؑ زرہ بنا کر معاش حاصل کرتے تھے یا عالمگیر قرآن لکھ کر گزر بسرکرتاتھا۔ یہ آمدنی ان کی ذاتی آمدنی تھی اور اس پر ہر طرح کا ان کو اختیار تھا۔ دوسری مملوکہ حکومت مثلاً حضرت دائود ؑ کے مقبوضہ ممالک کو جو حضرت سلیمانؑ کے قبضے میں آئے۔ اس دوسری قسم میں وراثت نہیں جاری ہوتی بلکہ جو شخص پیغمبری یا امامت یا بادشاہت کی حیثیت سے جانشین ہوتاہے وہی اس کا مال یا متوفی ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ آج کل کے مذاق کے موافق بالکل ایک بدیہی بات ہے۔ مثلاً سلطان عبدالحمید خان کے بعد ان کے ممالک مقبوضہ یا ان کی جاگیر خالصہ ان کے بیٹے بھائی ماں اور بہن وغیرہ میں تقسیم نہیں ہو گی بلکہ جو تخت نشین ہو گا اس پر قابض ہو گا۔ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے ہر فرقہ میں یہ قاعدہ ہمیشہ مسلم رہا۔ مثلاً جو لوگ باغ فدک کو درجہ بدرجہ ائمہ اثنا عشر کا حق سمجھتے ہیں وہ بھی اس میں وراثت کا قاعدہ جاری نہیں کرتے۔ مثلاًحضرت علیؓ اپنے زمانے میں اس کے مالک نہیں ہوئے تو یہ نہیں ہوا کہ ان کی وفت کے بعد وراثت کا قاعدہ جاری رہتا اورحسین و عباس و محمد بن حنیفہ و زینت وغیرہ ؓ کو جو حضرت علیؓ ک وارث تھے اس کا کچھ حصہ سہام کے پڑتہ سے ملتا بلکہ صرف حضرت امام حسنؓ کے قبضہ میں آیا کیونکہ امامت کی حیثیت سے وہی حضرت علیؓ کے جانشین تھے۔ غرض یہ عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جو جائیداد نبوت یا امامت یا بادشاہت کے منصب سے حاصل ہوتی ہے وہ مملوکہ خاص نہیں ہوتی۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ باغ فدک کیونکر حاصل ہوا تھا اس کی کیفیت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خیبر کی فتح سے پھرے تو محیصہ بن مسعود الانصاری ؓ کو فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لیے بھیجا۔ فدک یہودیوں کے قبضہ می تھا اور اس کا سردار یوشع بن نون نامی ایک یہودی تھا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضی صلح میں آدھی زمین دینی منظور کی۔ اس وقت سے یہ باغ اسلا م کے قبضے میں آیا ۱؎ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی جائیداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مملوکہ خاص کیونکر ہو سکتی ہے۔ فدک کی ملکیت کا دعویٰ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کے ذریعہ سے فتح نہیں ہوتا تھا بکہ اس آیت کا مصداق ہے کہ فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب لیکن کیا جو ممالک صلح سے قبضہ میں آتے ہیں وہ امام یا بادشاہ کی ملکیت خاص قرار پاتے ہیں؟ عرب کے اور مقامات بھی اسی طرح قبضہ میں آئے کہ ان پر چڑھائی نہیں کرنی پڑی۔ کیا ان کو کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملک خاص سمجھا؟ ۱؎ فتوح البلدان بلازری ذکر فدک البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ جب اور مقامات مفتوحہ کی نسبت کسی نے اس قسم کا کبھی خیال نہیں کیا تو فدک میں کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی حقیقت یہ ے کہ مفتوحہ زمینیں علانیہ وقف عام رہیں لیکن فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مصارف کے لیے مخصوص کر لیاتھا۔ اس سے اس خیال کا موقع ملا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائیداد خاص ہے۔ اور اس خیال کی تائید زیادہ اس سے ہوئی کہ فدک پر لشکر کشی نہیں ہوئی تھی۔ اور اس لیے اس پر اور لوگوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن یہ خیال دراصل صحیح نہیں۔ فدک کو بے شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذاتی مصارف کے لیے خاص کر لیا تھا لیکن کیونکر؟ اس کے متعلق تفصیلی روایتیں موجود ہیں: فکان نصف فدک خالصا الرسول اللہ وکان یصرف ما یاتیہ منھا الی ابناء السبیل ’’یعنی آدھا فدک خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مسافروں پر صرف کرتے تھے۔ ‘‘۔ ۱؎ اور ایک روایت میں ہے: ان فدک کانت للنبی صلعم فکان ینفق منھا ویاکل ویعود علی فقراء بنی ہاشم و یزوج ایمھم ’’یعنی فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے تھے اور فقرائے بنی ہاشم کو دیتے تھے اوران کی بیوائوں سے شادی کرتے تھے‘‘۔ بخاری وغیرہ میں بتصریح موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال بھر اپنا خرچ اس میں لیتے تھے باقی عام مسلمین کے مصالح میں دے دیتے تھے۔ ان روایتوں میں ظاہر ہے کہ فدک کامملوکہ نبوت ہونا ایسا ہ تھا جیسا سلاطین کے لیے کوئی جائیداد خالصہ کر دی جاتی ہے۔ اس بنا پر باوجود مخصوص کرنے کے وقف کی حیثیت اس سے زائل نہی ہوتی۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عمر ؓ بھ یاس اصول سے واقف تھے اور اسی پر انہوںنے فدک میں وراثت نہیںجاری کی یا یہ کہ نکات بعد الوقوع ہیں؟ ۱؎ فتوح البلدان بلاذری ص ۲۹ ۲؎ فتوح البلدان ص ۳۱ عراق اور شام کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی اس میں قرآن مجید کی اس آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القربی فللہ الخ سے استدلال کر کے صاف کہہ دیا تھا کہ مقامات مفتوحہ کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہں بلکہ عام وقف ہیں۔ چنانچہ فے کے ذکر میں یہ بحث گزر چکی ہے البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیتسے پہلے جو آیت ہے اس سے فدک وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص جائیداد ہونا ثابت ہوتا ہے اور خود حضرت عمرؓ اس کے یہی معنی قرار دیتے تھے آیت یہ ہے: وما افاء اللہ علی رسول منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء (۵۹؍ الحشر :۶) ’’اور جو کچھ ان لوگوں سے (یعنی یہود بنی نضیر سے) اللہ نے اپنے پیغمبر کو دلوایا تو تم لوگ اس پر چڑھ کر نہیں گئے تھے بلکہ اللہ اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے‘‘۔ چنانچہ حضر ت عمرؓ نے اس آیت کو پڑھ کر کہاتھا فکانت خالصہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہ واقعہ صحیح بخاری باب الخممس اور باب المغازی اور باب المیراث میں بتفصیل موجود ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمرؓ ا س آیت کی بنا پر فدک وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خالصہ سمجھتے تھے لیکن اسی قسم کا خالصہ جو ذاتی ملکیت نہیں ہوتا۔ جس طرح سلاطین کے مصارف کے لیے کوئی زمین خاص کر دی جاتی ہے کہ اس میں میراث کا عام قاعدہ جاری نہیںہوتا بلکہ جو شخص جانشین سلطنت ہوتا ہے تنہا وہی اس سے متمتع ہو سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس خیال کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے جب آیت مذکورہ بالا کی بنا پر فدک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خالصہ کہاتھا تو ساتھ ہی یہ الفاظ بھی فرمائے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں اباب الخمس و باب المغازی میں مذکورہے: فکان رسول اللہ ینفق علی اھلہ نفقۃ سنتھم من ہذا المال ثم یاخذ ما یقی فیجعلہ فجعل مال اللہ فعمل رسول اللہ بذلک حیاتہ ثم توفی اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال ابوبکر انا ولی الرسول فقبضھا ابوبکر فعمل فیھا بما عمل رسول اللہ ثم تو فی اللہ ابابکر فکنت انا ولی ابی بکر فقبضتھا سنتین من امارتی اعمل فیھا بم عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبما عمل فیھا ابوبکر ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ لیتے تھے باقی کو اللہ کی راہ میں مال کے طور پر خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی بھر اسی پر عمل کیا پھر وفات پائی تو ابوبکر ؓ نے کہا کہ میں ان کا جانشین ہوں پس اس پر قبضہ کیا اور اسی طرح کارروائی کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے۔ انہوںنے وفات پائی تو میں ابوبکرؓ کا جانشین ہوا پس میںنے دو برس قبضہ رکھا اور وہی کارروائی کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے‘‘۔ س تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمرؓ باوجود اس کے کہ فدک وغیرہ کو خالصہ سمجھتے تھے تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی جائیداد نہیں سمجھتے تھے۔ (جس میں واراثت جاتی ہو) اور اس وجہ سے اس یک قبضہ کا مستحق صر ف اس کو قرار دیتے تھے کہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہو۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خود اپنے قبضہ کی یہی وجہ بتائی۔ حضرت عمر نے یہ تقریر اس وقت فرمائی تھی کہ جب حضرت عباس ؓ اور حضرت علیؓ ان کے پاس فدک کے دعوے سے آئے تھے ارو انہوںنے کہہ دیا تھا کہ اس میں وراثت کا قاعدہ جاری نہیں ہو سکتا۔ حاصل یہ کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک فدک وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالصہ میں تھے اور وقف بھی تھے۔ چنانچہ عراق کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ نے اسی آیت کو جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خالصہ ہونا پایا جاتاہے پڑھ کر یہ الفاظ کہے : فھذہ عامۃ فی القری کلھا یعنی جو حکم اس آیت میں ہے وہ انہی مواضع (فدک وغیرہ) پر محدود نہیں بلکہ تمام آبادیوں کو شامل ہے۔ اصلل یہ ہے کہ فدک و ازوجہتین ہونا ہی تمام غلط فہمی کا منشاء تھا۔ چنانچہ حافظ بن القیم ؒ نے زاد المعاد میں نہایت لطیف پیرایہ میں اس بات کوادا کیا ہے وہ لکھتے ہیں: فھو ملک یخالف حکم غیرہ من المالکین وھذا لنوع من الاموال ھو القسم الذی رقع بعدہ فیہ من النزاع ما رقع الی الیوم ولولا اشکال امرہ علیھم لما طلبت فاطمتہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میراثھا من ترکتہ وظنت انہ یورث عنہ ماکان ملکالہ کسائر المالکن وخفی علیھا رضی اللہ عنھا حقیقتہ الملک الذی لیس مما یورث عنہ ؎۱ ۱؎ زاد المعاد جلد دوم ص ۱۶۳ ا ن واقعات سے تم اندازہ کر سکتے ہو کہ ان مسائل کو جو ابتدا سے آج تک معرکہ آراء رہے ہیں اور جن میں بڑے برے اکابر صحابہؓ کو اشتباہ ہوا ہے حضرت عمرؓ نے کس خوبی سے طے کیا ہے کہ ایک طرف توقرآن و حدیث کاصحیح محمل وہی ہو سکتا ہے اور دوسری طرف اصول سلطنت و نظام تمدن سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ ذاتی حالات و اخلاق و عادات عرب میں روحانی تربیت کا آغاز اگرچہ اسلام سے ہوا لیکن اسلام سے پہلے بھی عرب میں بہت سے ایسے اوصاف پائے جاتے تھے جو تمغائے شرافت تھے اور جن پر ہر قوم کو ہر زمانہ میں ناز کر سکتی ہے۔ یہ اوصاف اگرچہ کم و بیش تمام قوم میں پائے جاتے تھے لیکن بعض بعض اشخاص زیادہ ممتاز ہوتے تھے اور یہی لوگ قوم سے ریاست و حکومت ک امنصب حاصل کرتے تھے۔ ان اوصاف میں فصاحت و بلاغت‘ قوت تقریر‘ شاعری نسابی ‘بہادری سپہ گری‘ آزادی مقد چیزیں تھیں او ر ریاست و افسری میںانہی اوصاف کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کوقدرت نے ان سب میں کافی حصہ دیا تھا۔ تقریر کا ملکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت تھااور عکاظ کے معرکوں سے اس کو اور زیادہ جلا دے دی تھی۔ یہی قابلیت تھی کہ جس کی وجہ سے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دیا تھا جو ان لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو سب سے زیادہ زبان آور ہوتے تھے۔ ان کے معمولی جملوں میں آریٹری کا اثر اور برمحل فقرے جو ان کے منہ سے نکل جاتے تھے ان میںبلاغت کی روح پائی جاتی تھی۔ عمر بن معدی کربؓ کو جب پہلے پہل دیکھا تو چونہ وہ غیر معمولی تن و توش کے آدمی تھے اس لیے متحیر ہو ر کہا کہ اللہ اس ک اور ہمارا خالق ایک ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم میں اورا س میں اس قدر تفاوت ہے کہ دونوں ایک کاریگر کے کام نہیں معلوم ہوتے۔ وبا کے واقعہ میں ابوعبیدہؓ نے جب ان پر اعترا ض کیا کہ آپ قضائے الٰہی سے بھاگتے ہیں تو کس قدر بلیغ لفظوں میں جواب دیا کہ ہاں قضائے الٰہی سے قضائے الٰہی کی طرف بھاگتا ہوں۔ قوت تقریر مختلف وقتوں میں جو خطبے انہوںنے دیے و ہآج بھی موجود ہیںَ ان سے ان کے زور تقریر و برجستگی کلام کا اندازہ ہوتاہے۔ خطبے مسند خلافت پر بیٹھنے کے ساتھ جو خطبہ دیا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے: اللھم انی غلیظ فلینی اللھم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل الف وقد اعطیت خطامتہ الاوانی حاملہ عن المحجتہ ’’اے الٰہی! میں سخت ہوں مجھ کو نرم کر میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے( قوم سے خطاب کر کے ) ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا‘‘۔ خلافت کے تیسرے دن جب انہوںنے عراق پر لشکر کشی کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کای تو لوگ ایران کے نام سے جی چراتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ خالد ون ولیدؓ وہاں سے بلا لیے گئے تھے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ کے زور تقریر کا اثر تھا کہ مثنیٰ شیبانی کے ایک مشہور بہادر بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا اور پھر تمام مجمع میںایک آگ سی لگ گئی۔ دمشق کے سفر میں جابیہ میں ہر قوم اور ہر ملت کے آدمی جمع تھے۔ عیسائیوں کا لارڈ بشپ تک شریک تھا۔ اس کے ساتھ مختلف مذاہب اور مختلف قوم کے آدی شریک تھے اور مختلف مضامین اور مختلف مطالب کا ادا کرنا تھا۔ مسلمانوں کو اخلاق کی تعلیم دینی تھی غیر قوموں کو اسلام کی حقیقت اور اسلام کی جنگ و صلح کے اغراض بتانے تھے فوج کے سامنے خالد ؓ کی معزولی کا عذر کرنا تھاان تمام مطالب کو اس خوبی سے ادا کیا کہ مدت تک ان کی تقریر کے جستہ جستہ فقرے لوگوں کی زبانوں پر رہے۔ فقہا نے اس سے فقہی مسائل استنباط کیے۔ اہل ادب نے قواعد فصاحت و بلاغت کی مثالیں پیدا کیں تصوف و اخلاق کے مضامین لکھنے والوں نے اپنا کام کیا۔ ۲۳ ھ میں جب حج کیا اور آخری حج تھا تو ایک شخص نے کسی سے تذکرہ کیا کہ عمرؓ مرجائیں تو میں طلحہ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ حضرت عمرؓ مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے اور یہ واقعہ وہی پر پیش آیا ۔ ا س واقعہ کی خبر ہوئی تو برافروختہ ہو کر فرمایا کہ آج رات کو میں اس مضمون پر خطبہ دوں گا۔ ۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کی کہ امیر المومنین حج کے مجمع میں تمام قسم کے برے بھلے آدمی جمع ہوتے ہی اگر آپ نے یہاں تقریر کی تو اکثر لو گ صحیح پیرایہ نہ سمجھیں گے اورنہ ادا کر سکیں گے۔ مدینہ چل کر خواص کے مجمع میں تقریر کر لیجیے گا۔ وہ لوگ بات کا ہر پہلو سمجھتے ہیںَ حضرت عمرؓ نے یہ رائے تسلیم کی۔ ٓخر ذی الحجہ میں مدینہ آئے جمعہ کے دن لوگ بڑے شوق و انتظار میں مسجد میں پہلے آ آ کر جمع ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ زیادہ مشتاق تھے اس لیے منبر کے قریب جا کر بیٹھے اور سعید بن زید ؓ سے مخاطب ہو کر کہا آج عمرؓ ایسی تقریر کریں گے کہ کبھی نہیں کی ہو گی۔ سعیدؓ نے تعجب سے کہا کہ ایسی نئی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جو انہوں نے پہلے نہیں کی؟ غرض اذان ہو چکی تو حضرت عمرؓ نے خطبہ دیا یہ پورا واقعہ اور پورا خطبہ صحیح بخاری میںمذکورہے۔ ۱؎ ۱؎ صحیح بخاری جلد دوم مطبوعہ مطبع احمدی میرٹھ ص ۱۰۰۹ اس میں سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ انصار کے خیالات حضرت ابوبکرؓ کے جواب بیعت کی کیفیت‘ خلافت کی حقیقت کو اس عمدگی اور خوبی سے اد اکیا کہ اس سے بڑھ کر ناممکن تھا۔ اس تقریر کوپڑھ کر بالکل ذہن نشین ہو جتاہیکہ اس وقت جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہیے تھا اور وہی ہو سکتا تھا۔ جن مجمعوں میں غیر قومیں بھی شریک ہوتی تھیں‘ ان میںان کے خطبہ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا تھا چنانچہ دمشق میںبمقام جابیہ جو خطبہ دیا‘ مترجم ساتھ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا ۱؎۔ اگرچہ اکثر برمح اور برجستہ خطبہ دیتے تھے لیکن معرکے کے جو خطبے ہوتے تھے ان میں تیار ہو کر جاتے تھے۔ سقیفہ بن ساعدہ کے واقعہ میں خود ان کا بیان ہے کہ میں خوب تیار ہو کر گیا تھا۔ حضرت عثمانؓ جب خلیفہ ہوئے اور خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھے تو دفعتہ رک گئے اور زبان نے یار ی نہ کی۔ اس وقت یہ عذر کیا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ خطبہ دینے کے لیے تیار ہو کر آتے تھے اورآئندہ سے میںبھی ایسا کروں گا۔ نکاح کا خطبہ اچھا نہیں دے سکتے تھے وہ اگرچہ ہر قسم کے مضامین پر خطبہ دے سکتے تھے لیکن ان کا خود بیان ہے کہ نکاح کا خطبہ مجھ سے بن نہیں آتا۔ عبداللہ بن المقفع جو دولت عباسیہ کا مشہور ادیب او ر فاضل تھا اس سے لوگوں نے حضرت عمرؓ کی اس معذوری کی وجہ پوچھی۔ ۲؎۔ اس نے کہا کہ نکاح کے خطبہ میں حاضرین میں سے ہر شخص برابر ی کا درجہ رکھتا ہے خطیب کو کوئی ممتاز حالت نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے کہ عام خطبوں میں خطیب جب ممبر پر چڑھتا ہے تو تمام آدمی اس کے محکوم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے خود بخود اس تقریر میں بلندی اور زور آ جاتا ہے لیکن ہمارے نزدک اس کی یہ وجہ ہے کہ خطبہ میں موضوع سخن تنگ اور محدود ہوتاہے اور ہر بار وہی معمولی باتیں کہنی پڑتی ہیں۔ پولیٹکل خطبے یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمرؓ سے پہلے جن مضامین پر لوگ خطبے دیتے تھے وہ پند و موعظت فخر و ادعا قدرتی واقعات کا بیان رنج وخوشی کا اظہار ہوتاتھا۔ ملکی پر پیچ معاملات خطبے می ادا نہیں ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ پہلے شخص ہیں جس نے پولٹکل خطبے دیے۔ اس کے ساتھ وہ خطبوں میں اس طریقے سے گفتگو کر سکتے تھے کہ ظاہرمیں معمولی باتیں ہوتی تھیںلیکن ا س سے بہت سے پہلو نکلتے تھے۔ ۱؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۱۳۵ ۲؎ کتاب البیان و التبیین للجاحظ مطبوعہ مصر ص ۵۰ خطبے کے لیے جو باتیں درکار ہیں خطبہ کے لیے ملکہ تقریر کے علاوہ اور عارضی باتیں جو درکار ہیں حضڑت عمرؓ میں سب موجود تھیں آوز بلند اور پر رعب تھی۔ قد اتنا لمبا تھا کہ زمین پر کھڑے ہوتے تو معلو ہوتا تھا کہ نبر پر کھڑے ہیں۔ اس موقع پر ہم مناسب سمجھتے ہیں خہ ان کے بعض خطبے نقل کر دیے جائیں ایک موقع پر عمال کو مخاطب کر کے جو خطبہ دیا اس کے الفاظ یہ ہیں: انی لا اجد ھذا المال یصلحہ الاخلال ثلث ان یوخذ بالحق ویعطی بالحق ویمنع من الباطل ولست ادع احدا یظلم احد حتی اضع خدہ علی الارض واضع قدمی علی خدہ الاخر حتی یذعن للحق یا ایھا الناس ان اللہ عظیم حقہ فوق حق خلقہ فقال فیا عظم من حق ولا یامرکم ان تتخذوا الملائکۃ والنبیین اربابا الاوانی لم ابعثکم امراء ولا جبارین ولکن بعثتکم ائمۃ الھدی ہھتدی بکم ولا تغلوقا الا ابواب دونھم فیاک قویھم ضعیفھم ؎۱ اور ایک خطبے کے چند جملے یہ ہیں: فانتم مستخلفون فی الارض قاہرون لاھلھا قصد نصر اللہ دینکم فلا تصبح امۃ مخالفۃ لدیدنکم الامتان امۃ مستبعدۃ للاسلام واھلہ یتجرون لکم علیھم المونۃ ولکم المنفعۃ وامۃ ینظرون وقائع اللہ وسطواتہ فی کل یوم ولیلۃ قد ملاء اللہ قلوبھم رعبا قد دھمتھم جنود اللہ و نزلت بساحتھم مع رفاھۃ العیش و استقاضتہ المال و تتابع البعوث وسد الثغور الخ ؎۲ حضر ت عمرؓ کے خطبوں کا خاتمہ ہمیشہ ان فقروں پر ہوتا تھا : اللھم لا تدعنی فی عمرۃ ولا تاخذنی علی غرۃ ولا تجعلنی معم الغافلین ؎۳ ۱؎ کتاب الخراج صفحہ ۶۷ ۲؎ ازالتہ الخفاء ماخوذ از تاریخ طبری ۳؎ عقد الفرید خطبات عمرؓ قوت تحریر قوت تقریر کے ساتھ ساتھ قوت تحریر میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ ان کے فرامین خطوط دستور العمل توقیعات ہر قسم کی تحریریں آج بھی موجود ہیں جو تحریر جس مضمون پر ہے اس باب میں بے نظیر ہیں۔ چنانچہ ہم بعض بعض تحریریںنقل کرتے ہیںَ ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام امابعد فان للناس نفرۃ عن سلطانھم فاعوذ باللہ ان تدرکنی وایاک عمیاء مجھولۃ وضغائن محمولۃ واھواء متبعۃ کن من مال اللہ علی حذر و خف الفساق واجھلھم یدایدا ورجلا واذا کنت بین القوم ثائرۃ یالغلان یالغلان فائما تلک نجوی الشیطان فاضربھم بالسیف حتی یفیوا الی امر اللہ ویکون دعوتھم الی الاسلام ایک اور تحریر ابو موسیٰ اشعری ؓ کے نام اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم فانکم اذا فعلتم ذلک تدارکت علیکم الاعمال فلم تدرو ا ایھا تاخذون فاضعتم عمرو بن العاصؓ کو جب مصر کا گورنر مقررکر کے بھیجا تو انہوںنے خراج کے بھیجنے میں دیر کی۔ حضرت عمر ؓ نے تاکید کی کہ عمر و بن العاص ؓ نے لیت و لعل کیا حضڑت عمرؓنے غصہ میں آ کر زجر و تہدید کا خط لکھا۔ عمرو بن العاص ؓ نے بھی نہایت آزادی اور دلیری سے جواب دیا۔ یہ تحریر مقریزی نے تاریخ مصر میں بعینہ نقل کی ہیں ان کے دیکھنے سے حضرت عمرؓ کے زور قلم کا اندازہ ہوتاہے۔ بعض فقرے یہ ہیں۔: وقد علمت ان لم یمنعک من ذلک الا ان عمالک عمال السوء اتخذوک کھفا وعندی باذن اللہ دواء فیہ شفاء انی عجبت من کثرۃ کتبی الیک فی ابطائک بالخراج وکتابک الی بثنیات الطرق عما اسالک فیہ فلا تجزع ابا عبداللہ ان یوخذ منک الحق و تعطاہ فان النھر یخرج الدر مذاق شاعری شعر و شاعری کی نسبت اگرچہ ان کی شہرت عام طور پر کم ہے اور اس کی شبہ نہیں کہ وہ شعر بہت کم کہتے تھے لیکن شعر و شاعری کامذاق ایسا عمدہ رکھتے تھے کہ ان کی تاریخ زندگی میں یہ واقعہ متروک نہیں ہو سکتا۔ عرب کے اکثر مشہور شعراء کا کلام کثرت سے یاد تھا اور تمام شعراء کے کلام پر ان کی خاص خاص رائیں تھیں۔ اہل ادب کو عموماًتسلیم ہے کہ ان کے زمانے میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص شعراء کا پرکھنے والا نہ تھا۔ علامہ ابن رثیق القیر وانی کتاب العمدہ میں جس کا قلمی نسخہ میرے پاس موجود ہے لکھتے ہیں: وکان من انقد اہ زمانہ للشعر و انفذھم فیہ معرفۃ ؎۱ ’’یعنی حضرت عمرؓ اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے نقاد اور ادا شناس تھے۔ ‘‘ جاحظ نے کتاب البیا و التبیین میں لکھا ہے: کان عمر بن الخطاب اعلم الناس بالشعر یعنی عمر بن خطابؓ اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے‘‘۔ ۲؎ نجاشی ایک شاعر تھا جس ن تمیم بن مقبل کے خاندان کی ہجو کی تھی۔ ان لوگوں نے حضر ت عمرؓ سے اس کی شکایت کی ۔ حضرت عمرؓ نے حسان بن ثابتؓ کو جو مشہور شاعر تھے حکم قرار دیا کہ جوفیصلہ انہوںنے دیا اسی کو نافذ کیا۔ اس واقعہ سے چونکہ غلط فہمی کا احتمال تھا کہ حضرت عمرؓ خود شعر فہم نہ تھے اس لیے اہل ادب نے جہاں اس واقعہ کو لکھا ہے کہ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حضرت عمرؓ کی حکمت عملی تھی کہ وہ بدزبان شعراء کے بیچ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ ورنہ شعر کے وقائق ان سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ زہیر کو اشعر الشعراء کہتے تھے حضرت عمرؓ کو اگرچہ تمام شعراج کے کلام پر عبور تھا لیکن تین شاعروں کو انہوںنے سب میں انتخاب کیا۔ امراء القیس زہر نابغہ اور ان سب میں وہ زہیر کا کلام سب سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس اس کو اشعر الشعراء کہتے تھے۔ اہل عرب اور علمائے ادب کے نزدیک اب تک یہ مسئلہ طے نہیں ہوا کہ عرب کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ لیکن اس پر سب کا اتفا ق ہے کہ افضلیت انہی تینوں میں محدود ہے۔ حضرت عمرؓ کے نزدیک زہیر کوسب پر ترجیح تھی۔ جریر بھی اسی کا قائل تھا ایک دفعہ ایک غزوہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا کہ اشعر الشعراء کے اشعار پڑھو۔ عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ وہ کون؟ فرمایا زہیر انہوںنے ترجیح کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرنے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ یہ تھے: ۱؎ کتاب العمد ذکر اشعار الخلفاء ۲؎ کتاب البیان و التبیین مطبوعہ مصر ص ۹۷ ۳؎ دیکھو کتاب البیان و التبیین للجاحظ ص ۹۷ و کتاب العمد ہ باب تعرض الشعرائ۔ زہیر کی نسبت حضرت عمرؓ کے ریمارک لانہ لا یتبع حوشی الکلام ولا یعاظل من المنطق ولا یقول الا ما یعرف ولا یمتدح الرجل الا بما یکون فیہ ’’وہ (زہیر) نامانوس الفاظ کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے کلام میں پیچیدگی نہیں ہوتی او راسی مضمون کو باندھتاہے جس سے واقف ہے۔ جب کسی کی مدح کرتا ہے تو انہی اوصاف کا ذکر کرتاہے جو واقعی اس میں ہوتے ہیں‘‘۔ پھر سند کے طورپر یہ اشعار پڑھے اذا ابتد رت قیس بن غیلان غایۃ من المجد من یسبق الیھا یسود ولوکان حمد یخلد الناس لم تمت ولکن حمد الناس لیس بمخلد ناقدین فن نے زہیر کا تام کلام پڑھ کر جو خصوصیتیں اس میں بتائی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کا کلام صاف ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلیت کا شاعر ہے اس کی زبان ایسی شستہ ہے کہ اسلامی شاعری معلوم ہوتاہے۔ اس کے ساتھ وہ بیجا مبالغہ نہیں کرتا۔ حضرت عمرؓ نے ا ن تمام خصوصیتوں کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا ہے۔ زہیر کاممدوح ہرم بن سنان عرب کا ایک رئیس تھا۔ اتفاق یہ کہ زہیر اور ہرم دونوں کی اولاد نے حضرت عمرؓ کا زمانہ پایا اوران کے دربار میں حاضر ہوئے۔ حضر ت عمؓ نے ہرم کے فرزند سے کہا کہ اپنے باپ کی مدح میں زہیرکا کچھ کلامپڑھو۔ اس نے ارشاد کی تعمیل کی حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمہارے خاندان کی شان میں زہیر خوب کہتا تھا۔ اس نے کہا ک ہ صلہ بھی خوب دیتے تھے حضڑت عمرؓ نے فرمایاہاں لیکن جو تم نے دیا تھا وہ فنا ہو گیا اور ا س کا دیا ہوا آج بھی باقی ہے۔ زہیرکے بیٹے سے کہا کہ ہرم نے تمہارے باپ کو جو خلعت دیے تھے کیا ہوئے اس نے کہا بوسیدہ ہو گئے ۔ فرمایا لیکن تمہارے باپ نے ہرم کو جو خلعت عطا کیے تھے زمانہ ان کو بوسیدہ نہ کر سکا ۱؎۔ نابغہ کی تعریف زہیر کے بعد وہ نابغہ کے معترف تجھے اور اس کے اکثر اشعار ان کو یاد تھے۔ امام شعبی کا بیانہے کہ ایک دفعہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ سب سے بڑھ کر شاعر کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہے۔ فرمایا یہ شعر کس کا ہے؟ الا سلیمان اذ قال الالہ لہ قم فی البریۃ فاحد دھا عن الفند لوگوں نے کہا نابغہ کا پھر پوچھا یہ شعر کس کا ہے؟ ۱؎ آغانی تذکرہ زہیر اتیتک عاریا خلقا ثیابی علی خوف تظن بی الظنون لوگوںنے پھر کہا نابغہ کا پھر پوچھا یہ اشعار کس کے ہیں؟ حلفت فلم اترک لنفسک ریبۃ ولیس وراء اللہ للمرء مذہب لوگوںنے کہا نابغہ کے فرمایایہ شخص اشعر العرب ہے۔ ۱؎ امراء القیس کی نسبت ان کی رائے بایں ہمہ وہ امراالقیس کی استادی اورایجاد مضامین کے منکر تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے شعراء کی نسبت انکی رائے پوچھی تو امراء القیس کی نسبت یہ الفاظ فرمائے: سابقھم خسف لھم عین الشعر و افتقر عن مغان عور اصح بصر ’’وہ سب سے آگے ہے اسی نے شعر کے چشمے سے پانی نکالا اسی نے اندھے مضامین کو بینا کر دیا‘‘۔ اخیر کا فقرہ اس لحاظ سے ہے کہ امراء القیس یمنی تھا اور ین فصاحت و بلاغت میں کم درجہ پر مانے جاتے ہیں چنانچہ علامہ ابن رشیق نے حضرت عمرؓ کے اس قول کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ ۲؎ شعر کا ذوق حضرت عمرؓ کے ذو ق سخن کا یہ حال تھا کہ اچھا شعر سنتے تو بار بار مزے لے لے کر پڑھتے تھے ایک دفعہ زہیر کے اشعار سن رہے تھے کہ یہ شعر آیا۔ وان الحق مقطعہ ثلاث یمین اونفار او جلاء تو حسن تقسیم پر بہت محظوظ ہوئے اور دیر ت بار بار اس شعر کر پڑھا کیے۔ ایک دفعہ عبدہ ابن الطیب کا لامیہ قصیدہ سن رہے تھے۔ والمرء ساع لامر لیس بدرکہ والعیش شح واشفاق و تامیل اس شعر کو سن کر پھڑک اٹھے اور دوسرا مصرع بار بار پڑھتے رہے اسی طرح ابو قیس بن الاصلت کا قصیدہ سنا تو بعض اشعار کو دیر تک دہرایا کیے۔ ۳؎ ۱؎ آغانی تذکرہ نابغہ ۲؎ کتاب العمدہ باب المشاہیر من الشعراء ۳؎ یہ تما م روایتیں جاحظ نے کتاب البیان و التبیین ص ۹۷‘۹۸ میں نقل کی ہیں۔ حفظ اشعار اگرچہ ان کو مہمات خلافت کی وجہ سے ان اشغال میں مصروف ہونے کا موقع نہیں مل سکتاتھا۔ تاہم چونکہ طبعی ذوق رکھتے تھے۔ سینکڑوں و ہزاروں شعر یاد تھے۔ علمائے ادب کا بیان ہے کہ ان کے حفظ اشعار کا یہ حال تھا کہ جب کوئی معاملہ فیصل کرتے تو ضرور کوئی شعر پڑھتے۔ جس قسم کے اشعار وہ پسند کرتے تھے وہ صرف وہ تھے جن میں خود داری ‘ آزادی‘ غیرت‘ شرافت‘ نفس اور حمیت کے مضامین ہوتے تھے۔ اسی بناپر امرائے فوج اور عمال اضلاع کو حکم بھیج دیاتھا کہ لوگوں کو اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے۔ چنانچہ ابوموسیٰ اشعریؓ کو یہ فرمان بھیجا۔ مومن قبلک بتعلم الشعر فانہ یدل علی مکانی الاخلاق و صواب الرای و معرفۃ الانساب ’’لوگوں کو اشعار کے یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتیں اور صحیح رائے اور انساب کی طرف رستہ دکھاتے ہیں‘‘۔ اشعار کا تعلیم میں داخل کرنا تمام اضلاع کو جو حکم بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے: علموا اولادکم العوم والقروسیۃ و رووھم ماسار من المثل و حسن من الشعر ؎۱ ’’اپنی اولاد کو تیرنا اور شہسواری سکھلائو اور ضڑب المثلیں اور اچھے شعر یاد کرائو‘‘۔ شاعری کی اصلاح اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عمر ؓ نے شاعری کے بہت سے عیوب مٹاد یے۔ اس وت تک تمام عرب میںیہ طریقہ جاری تھا کہ شریف عورتوں کا نام علانیہ اشعار میں لاتے تھے ۔ اور ان سے اپنا عشق جتاتے تھے حضرت عمرؓ نے اس رسم کو بالکل مٹا دیا اور اس کی سخت سزامقرر کی اسی طرح ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور حطیہ کو جو مشہور ہجو گو تھا ا س جرم میں قید کیا۔ ۱؎ ازالتہ الخفاء ص ۱۹۳ لطیفہ بنو العجامان ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ ایک شاعر نے ان کی ہجو لکھی۔ انہوںنے حضرت عمرؓ سے آکر شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے کہا وہ اشعار کیا ہیں؟ انہوںنے یہ شعر پڑھا: اذا اللہ عادی اہل لوم ورقۃ فعادی بن العجلان رھط ابن مقبل ’’اللہ اگرکمینہ آدمیوں کو دشمن رکھتا ہے تو قبیلہ عجان کو بھی دشمن رکھے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ تو ہجو نہیں یہ تو بددعا ہے اورممکن ہے کہ اللہ اس کو قبول نہ کرے۔ انہوںنے دوسرا شعر پڑھا۔ قبیلتھم لا یغدرون بذمۃ ولا یظلمون الناس حبۃ خردل ’’یہ قبیلہ کسی سے بدعہدی نہیں کرتا اورنہ کسی پر رائی برابرظلم کرتا ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کاش میرا خاندان ایسا ہی ہوتا حالانکہ شاعر نے اس لحاظ سے کہا تھا کہ عرب میں یہ باتیں کمزوری کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ ولا یردون الماء الا عشیۃ اذ ا صدر الوراد عن کل منھل ’’یہ لوگ چشمے یا کنویں پر صرف رات کے وقت جاتے ہیں جب اور لوگ واپس آ چکتے ہیں‘‘۔ یہ بات ھبی شاعرنے اس لحاظ سے کہی تھی کہ اہل عرب کے نزدیک بے کس اور کمزور لوگ ایسا کرتے تھے۔ حضر ت عمرؓ نے یہ شعر سن کرکہا کہ بھیڑ سے بچنا تو بہت اچھی بات ہے۔ انہوںنے آخر یہ شعر پڑھا۔ وماسمی العجلان الا لقولھم خذ القعب واحلب ایھا العبد و اعجل ’’اس کا نام جلان اس لے پڑاکہ لوگ اس سے کہتے تھے کہ ابے او غلام پیالہ لے اور جلدی سے دودھ دوھ لا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا سید القوم خادمھم علم الانساب علم الانساب یعنی قبائل کانام و نسبت یاد رکھنا حضرت عمر کا خانہ زاد علم تھا یعنی کئی پشتوں سے چلا آتا تھا۔ ان کے باپ خطاب مشہور نساب تھے۔ حضرت عمرؓ اس فن کی معلومات کے متعلق اکثر ان کا حوالہ دیاکرتے تھے۔ خطاب کے باپ نفیل بھی اس فن میں شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ واقعات کو ہم حضرت عمرؓ کے ابتدائی حالات میں لکھ آئے ہیں۔ عبرانی زبان سے واقفیت لکھنا پڑھنابھی جیسا کہ ہم آغاز کتاب میںلکھ آئے ہیں اسلام سے پہلے سیکھ لیا تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ مدینہ پہنچ کر انہوںنے عبرانی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ روایات سے ثابت ہوتاہے کہ اس وقت کت توریت کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہواتھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب توریت کا کچھ کام کرناپڑتاھتا تو عبرانی نسخہ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا اورچونکہ مسلمان عبرانی نہیں جانتے تھے اس لیے یہودی پڑھ کر سناتے اور عربی میں ترجمہ کرتے جاتے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ : کان اہل الکتاب یقرون التوراۃ بالعبرانیہ و یفسرونھا بالعربیۃ لا ھل الاسلام ؎۱ ’’یعنی اہل کتاب توریت کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے عربی میںاس کا ترجمہ کرتے جاتے تھے‘‘۔ مسند دارمی میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ توریت کا ایک نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئے اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔ وہ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیرہوتا جاتا تھا۔۲؎ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ عبرانی زبان اس قدر سیکھ گئے تھے کہ توریت خود پڑھ سکتے تھے۔ یہ امر بھی صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جس دن توریت کا درس ہوا کرتا تھا حضڑت عمرؓ بھی اکثر شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا خود بیان ہے کہ میں یہودیوں کے درس کے دن ان کے ہاںجایا کرتاتھا۔ چنانچہ یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوںمیں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو۔ ۳؎ حضرت عمرؓ کی نقادی اور نکتہ سنجی نے یہاں بھی کام دیا یعنی جس قدر وہ یہودیوں کی کتابوں سے واقف ہوتے گئے اسی قدر ان کے بے ہودہ افسانوں اور قصوں سے ان کو نفرت ہوتی گئی۔ نہایت کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ شام و عراق وغیرہ میں مسلمانوں کو یہودیوں کی تصنیفات ہاتھ آئیں تو حضرت عمرؓ نے لوگوں کونہایت سختی سے ان کو پڑھنے سے روکا۔ ۱؎ صحیح بخاری مطبوعہ احمدی میرٹھ ص ۱۰۹۴ ۲؎ مسند دارمی مطبوع کانپور ص ۶۲ ۳؎ کنزالعمال بروایت بیہقی وغیرہ جلد اول ص ۲۳۳ ذہانت و طباعی ان کی ذہانت و طباعی کا صحیح اندازہ ان کے فقہی اجتہادات سے ہو سکتاہے جس کا ذکر علمی کمالات میں اوپر گزر چکا ہے لیکن ان کی معمولی سے معمولی بات بھی ذہانت و طباعی سے خالی نہیں ہوت تھی۔ چنانچہ ہم تین مثالیں نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں: حضرت عمار بن یاسرؓ کوجب انہوںنے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو دس دن بھی نہین گزرے تھے کہ لوگوں نے دربار خلافت میں شکایت کی کہ وہ رعب و داب اور سیاست کے آدمی ہیںَ حضرت عمرؓ نے ان کو واپس بلا لیا اور کہا کہ میں خود بھی اس بات کو جانتا ہوں لیکن میں نے خیال کیا کہ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو اس آیت کا مصداق بنائے: ۱؎ ینرید ان تمن علی الذین استضعفعوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین (۲؍ا القصص :۵) ’’ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو کمزور ہیں احسان کریں اور ان کو امام اور زمین کا وارث بنائیں‘‘۔ ایک دفعہ ایک شخص کو دعا مانگتے سنا کہ الٰہی مجھ کو فتنوں سے بچا فرمایا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم کو آل و اولاد نہ دے ۲؎۔ (قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آل و اولاد کو فتنہ کہا ہے) انما اموالکم واولادکم فتنہ ایک دفعہ ایک شخص نے پوچھا کہ دریا کے سفر میں قصر ہے یا نہیں ؟ اس کی یہ غرض تھی کہ دریا کا سفر شرعا سفر ہے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کیوں نہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ھو الذی یسیرکم فی البر و البحر ’’وہ (اللہ) و ہ ہے جو تم کو خشکی اور تری کی سیر کراتا ہے‘‘۔ حکیمانہ مقولے ان کے حکیمانہ مقولے اکثرادب کی کتابوں میںاور خصوصاً مجمع الامثال میدانی کے خاتمہ پر کثرت سے نقل کیے گئے ہیں ۔ نمونے کے طور پر بعض مقولے یہاں درج کیے جاتے ہیں: ۱؎ تاریخ طبری واقعہ عزل عمار بن یاسر۔ ۲؎ ازالتہ الخفاء ص ۲۰۵ من کنم سرہ کان الخیار فی یدہ ’’جو شخص اپنا راز چھپاتاہے وہ اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتاہے‘‘۔ اتقوا من تبغضہ قلوبکم ’’جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو‘‘۔ اعقل الناس اعذرھم للناس ’’سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اپنے افعال کی اچھی تاول کر سکتاہو‘‘۔ لا توخر عمل یومک الی غدک ’’آج کا کا کل پر نہ اٹھا رکھو‘‘۔ ابت الدارھم اا ان یخرج اعناقھاما ادبر شء فاقبل من لم یعرف الشر یقع فیہ ’’روپے سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتے۔ جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھی۔ جو شخص برائی سے بالکل واقف نہیں وہ برائی میں مبتلا ہو گا‘‘۔ ما اسلنی رجل التبیین لی فی عقلۃ ’’جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتاہے تو مجھ کو اس کی عقل کا اندازہ معلوم ہو جاتا ہے‘‘۔ واعظ سے خطاب کر کے لا یلھک الناس عن نفسک اقلل من الدنیا تعش حراترک الخطیۃ اسھل من معالجۃ التوبۃ لی علی کل خائن امینان الماء و الطین ’’لوگوں کی فکر میں تم اپنے تئیں بھول نہ جانا۔ دنیا تھوڑی سی لو تو آزادانہ بسر کر سکو گے۔ توبہ کی تکلیف سے گناہ چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے۔ ہر بددیانت پر میرے دو داروغے متین ہیں آب و گل‘‘۔ لو ان الصبر و الشکر بگیر ان ما بالیت علی ایھما رکبت ’’اگر صبر و شکر دو سواریاں ہوتیں تو میں اس کی نہ پرواہ کرتا کہ دونوں میں کس پر سوار نہ ہوں‘‘۔ رحم اللہ امر اھدی الی عیوبی ’’اللہ اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب میرے پاس تحفے ہیں بھیجتا ہے(یعنی مجھ پر میرے عیب ظاہر کرتا ہے)۔‘‘ صاحب الرائے ہونا رائے نہایت صائب ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب عمرؓ کسی معاملہ میں ہ کہتے تھے کہ میرا اس نسبت یہ خیال ہے تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ ۱؎ اس سے زیادہ اصابت رائے کی دلیل کیا ہو گی کہ ان کی بہت سی رائیں ذہبی احکام بن گئیں اور آج تک قائم ہیں۔ اذان کا طریقہ حضرت عمرؓ کی رائے سے قائم ہوا نماز کے اعلان کے لیے جب ایک معین طریقہ کی تجویز پیش ہوئی تو لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں کسی نے ناقوس کا نام لیا‘ کسی نے ترہی کی رائے دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک آدمی کیوںنہ مقرر کیا جائے جو نماز کی منادی کیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں چنانچہ یہ پہلا دن تھا کہ اذان کا طریقہ قائم ہوا اور درحقیقت ایک مذہبی فرض کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موثر اور موزوں طریقہ نہی ہو سکتا تھا۔ اسیران بدر اسیران بدر کے معاملے میں جب اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ نے جو رائے دی وحی اس کے موافق آئی۔ ازواجؓ مطہرات کا پردہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات پہلے پردہ نہیں کرتی تھیںَ حضرت عمرؓ کو اس پر بارہا خیال ہوا اور انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کا انتظار فرماتے تھے۔ چنانچہ خاص پردہ کی آیت نازل ہوئی جس کو آیت حجاب کہتے ہیں۔ منافقوں پر نماز جنازہ عبداللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا جب مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق نبوی کی بنا پر اس کے جنازہ کی نماز پڑھنی چاہی تو حضرت عمرؓ نے تعجبانہ عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منافق کے جنازے پر نمازپڑھتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ولا تصل علی احدمنھم یہ تمام واقعات صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ۱؎ صحیح بخاری بات اسلام عمر حضرت عمرؓ کی رائے صائب کا نتیجہ تھا کہ قرآن مجید مدون و مرتب ہوا ورنہ حضرت ابوبکرؓ اور زید بن ثابتؓ (کاتب وحی) دونوں صاحبوں نے پہلے اس تجویز سے مخالفت کی تھی۔ تمام مذہبی اور ملکی اہم مسائل میں جہاں جہاں اور صحابہ ؓ کو حضرت عمرؓ سے اختلاف ہوا باستثنائے بعض موقعو پر عموماً حضرت عمرؓ کی رائیں صائب نکلیں۔ ممالک مفتوحہ کے متعلق اکثر صحابہؓ متفق الرائے تھے کہ فوج کو تقسیم کر دیے جائیں۔ ۱؎ ایک حضر ت عمرؓ اس رائے ے خلاف تھے اور اگر لوگوںنے ان کی رائے کو نہ مانا ہوتا تو اسلامی مملکت آج کاشتکاری سے بدتر ہو گئی ہوتی۔ حضرت ابوبکر ؓ و حضڑت علیؓ دونون فتوحات کی آمدنی میں ہر شخص کابرابر حصہ لگاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے حقوق اور کارگزاری کے فرق مراتب کے لحاظ سے مختلف شرحیں قرار دیں۔ حضرت ابوبکر و حضرت علیؓ دونوں صاحبوںنے امہات اولاد کی خرید و فروخت کو جائز رکھا۔ حضر ت عمرؓ نے مخالفت کی۔ ان تمام واقعات میں حضرت عمرؓ کی رائے کو ترجیح ہے وہ محتاج دلیل نہیں،۔ قابلیت خلافت کی نسبت حضرت عمرؓ کی رائے خلاف کے متعلق جب بحث پیدا ہوئی کہ حضرت عمرؓ کے بعد کون اس بار گراں کو اٹھا سکتا ہے؟ تو چھ صاحبوں کے نام لیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے ہر ایک کے متعلق خاص خاص رائیں دیں اور وہ سب صحیح نکلیں۔ نکتہ سنجی اور غور رسی وہ ہر کام میں غور اور فکر کو عمل میں لاتے تھے اورظاہری باتو ں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ لا یعجبنکم من الرجل طنطنتہ ’’یعنی کسی کی شہرت کا آوازہ سن کے دھوکے میں نہ آئو‘‘۔ اکثرکہا کرتے تھے کہ: ل تنظرو الی صلوۃ ولا صیامہ ولکن انظر و الی عقلہ و صدقہ ’’یعنی آدمی کی نماز و روزہ پر نہ جائو بلکہ اس کی سچائی اور عقل کو دیکھو‘‘۔ ۱؎ قاضی ابویوسف صاحب کتاب الخراج میں لھتے ہیں: ان عمر بن الخطاب استشار النا س فی الواد حسین افتح فراعی عامتھم ان یقسمہ دوسری جگہ لکھتے ہیں: ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و جماعتہ المسلمین ارادو عمر بن الخطاب ان یقسم الشام الخ کتاب مذکور ص ۱۵ ایک دفعہ ایک شخص نے ان کے سامنے کسی کی تعریف کی ۔ فرمایاکہ تم نے کبھی معاملہ پڑا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ پوچھا کسی سفر میں ساتھ ہوا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا کہ تو تم وہ بات کہتے ہو جو جانتے نہیں۱؎ ۔ احادیث کے باب میں بڑی غلطی جولوگوںکو یہی ہوئی تھی کہ اکثر محدثین جس شخص کو ظاہر میں زاہد و پارسا دیکھتے تھے۔ ثقہ سمجھ کو اس سے روایت شروع کر دیتے تھے۔ عبدالکریم بن ابی المخارق جو ایک ضعیف الراویہ شخص تھا اس سے امام مالک ؒ نے روایت کی۔ لوگوںنے تعجب سے پوچھا کہ آپ ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں انہوںنے فرمایا کہ: غرنی بکثرۃجلوسہ فی المسجد ۲؎ ’’یعنی اس بات نے مجھ کو دھوکہ کیا کہ وہ کثرت سے مسجد میں بیٹھا کرتاتھا‘‘۔ مذہبی زندگی دن کو مہمات خلافت کی وجہ سے فرصت کم ملتی تھی۔ اس لیے عبادات کا وقت رات کو مقرر کر لیاتھا۔ معمول تھا کہ رات کو نفلیں پڑھتے تھے۔ جب صبح ہونے کو آتی تو گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے۔ وامر اھلک بالصلوۃ ؎۳ فجر کی نماز میں بڑی بڑی سورتیںپڑھتے لیکن زیادہ سے زیادہ ۱۲۰ آیتیں پڑھتے۔ عبداللہ بن عامرؓ کا بیان ہے کہ یمں نے ایک دفعہ ان کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی تو انہو ںنے سورۃیوسف اور سورہ حج پڑھی تھی یونس کہف اور ہود کا پڑھنا بھی ان سے مروی ہے۔ نماز نماز جماعت کے ساتھ پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں اس کو تمام رات کی عبادت پر ترجیح دیتا ہوں۔ کوئی ضرور کام آپڑتا اور وت کی تاخیر کا خوف نہ ہوتا تو پہلے اس کام کو انجام دیتے۔ ایک دفعہ اقامت ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو چکی تھیں کہ ایک شخص صف سے نکل کر ان کی طرف بڑھا۔ دوہ ا س کی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے۔ ۴؎ فرمایا کرتیتھے کہ کھانے سے فارغ ہو لو تب نماز پڑھو۔ بعض اوقات جہاد وغیرہ کے اہتمام میں اس قدر مصرو ف رہتے تھے۔ کہ نماز میں بھی وہی خیال بندھا رہتا تھا خود ان کا قول ہے کہ میںنماز پڑھتا ہوں اور فوجیں تیار کیا کرتا ہوں۔ ۱؎ یہ قول ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۱۹۷ میں نقل کیا ہے۔ ۲؎ فتح المغیث ص ۱۲۸۔ ۳؎ موطا امام مالک ۴؎ ازالتہ الخفاء بحوالہ مصنف بن ابی شیبہ ص ۹۰ ایک اور روایت ہے کہ میں نے نماز میں بحرین کے جزیہ کا حساب لیا ۱؎ ۔ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ آیت فلیعبدوا رب ہذا البیت آئی تو کعبہ کی طر ف انگلی اٹھاکر اشارہ کیا۔ شاہ ولی اللہ ؒ نے اس روایت کونقل کر کے لکھا ہے کہ نماز مین اس قدر اشارہ کرنا جائز ہے۔ ۲؎ بعض اوقات جمعہ کا خطبہ پڑھتے کسی سے مخاطب ہو جاتے ھتے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ ایک دفعہ حضر ت عثمانؓ کو جمعہ میں دیر ہو گئی اور مسجد میں اس وقت پہنچے کہ حضرت عمرؓ نے خطبہ شروع کر دیاھتا۔ عین خطبہ کی حالت میں حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھااور کہا کہ یہ کیا وقت ہے؟ انہوںنے کہا میں بازار سے آ رہا تھا کہ اذان سنی فوراً وضو کرکے حاضر ہوا۔ حضرت عمرؓ نے کہا وضو پر کیوں اکتفا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔ روزہ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ مرنے سے دو برس پہلے متصل روزے رکھنے شروع کیے تھے لیکن انہی کی روایت بھی ہے کہ ایک شص کی نسبت سنا کہ صائم الدھرہے تو اس کے مارنے کے لیے درہ اٹھایا ۳؎۔ حج حج ہر سال کرتے تھے اور خود میر قافلہ ہوتے تھے۔ قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے وار ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعریؓ سے مخاطب ہوکر کہا کہ کیوں ابوموسیٰ تم اس پر راضی ہو کہ ہم لوگ جو اسلام لائے اور ہجرت اختیار کی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہر جگہ وجود رہے۔ ان تمام باتوں کا صلہ ہم کو یہ مے کہ برابر ابر چھوٹ جائیں یعنی نہ ہم کو ثواب ملے نہ عذاب۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہانہیں میں تو اس پر ہرگز راضی نہیں۔ ہم نے بہت سی نیکیاں ی ہیں اورہم کو بہت امید ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا ا س ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمرؓ کی جان ہے کہ میں تو صر ف اسی قدرچاہتا ہوں کہ ہم بے مواخذہ چھوٹ جائیں مرنے کے وقت یہ شعر پڑھتے تھے۔ ۱؎ ازالتہ الخفا بحوالہ مصنف ابن ابنی شیبہ صفحہ ۹۳ ۲؎ ازالتہ الخفاء حصہ دوم ص ۹۵ ۳؎ ازالتہ الخفاء صفحہ ۱۰۲ ظلوم لنفسی غیر انی مسلم اصلی الصلوۃ کلھا واصوم ’’میں نے اپنی جان پر ظلم کیے ہیں ہاں اتنا ہے کہ مسلمان ہوں اور نمازیں پڑھتا ہوں روزے رکھتا ہوں‘‘۔ بے تعصبی حضرت عمرؓ اگرچہ مذہب کی مجسم تصویر تھے لیکن زاہد متقشفہ نہ تھے اور آج ک کے مقدس لوگوں کی طرح تعصب اورسختی نہ تھی۔ ہمارے علماء عیسائیوں کے برتن وغیرہ کا استعمال کرنا تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن حضرت عمرؓ کی نسبت امام بخاری اور امام شافعی ؒ نے روایت کی ہے : تو ضاعمر من ماء فی جرنصرانیہ ؎۱ بغوی نے روایت اس سے زیادہ صاف ہے تو ضاعمر من ماء فی جر نصرانیۃ یعنی حضڑت عمرؓ نے ایک عیسائی عورت کے گھڑے کے پانی سے وضو کیا۔ اورحضرت عمر ؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ عیسائی جو پنیر بناتے ہیں اس کو کھائو ۲؎۔ عیسائیوں کا کھانا آج کل مکروہ اور ممنوع بتایا جاتاہے لیکن حضڑت عمرؓ نے معاہدات میں یہ قاعدہ داخل کر دیاتھا کہ جب کسی مسلمان کا گزر ہو تو عیسائی اس کو تین دن مہمان رکھیں۔ آج غیر قوموں سے عداوت اور ضد رکھنے ک تعلیم دی جاتی ہے لیکن حضرت عمرؓ کا یہ حال تھا کہ مرتے مرتے بھی عیسائی اور یہودی رعایاکو نہیں بھوے۔ چنانچہ ا ن کی نسبت رحم اور ہمدردی کی جو وصیت کی وہ صحیح بخاری اور کتاب الخرا ج وغیرہ میں مذکور ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس امر کو حضر ت عمرؓ کے محاسن و فضائل میں شمار کیا کہ وہ اہ لذمہ (یعنی عیساء اور یہوودی جو مسلمانوں کے ملک میں رہتے تھے کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحبؒ کے خاص الفاظ یہ ہیں وازاں جمہ آنکہ باحسان اہل ذمہ تاکید فرمود۔ ۳؎ محب طبری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے افسروں کو عیسائیوں کو ملازم رکھنے سے منع کرتے تھے ۔ افسوس کہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے بھی ان روایتوں کو قبول کیا ہے لیکن جس شخص نے محب طبری کی کتاب (ریاض السفرہ) دیکھی ہے وہ پہلی نظر میں سمجھ سکتاہے کہ ان کی روایتوں کا کیا پایہ ہے۔ ۱؎ ازالتہ الخفاء جلد دوم ص ۸۸ ۲؎ ازالتہ الخفاء جلد دوم ص ۷۳ ۳؎ ازالتہ الخفاء جلد دوم ص ۷۳ ان بزرگوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ عراق ‘ مصر اورشام کا دفترمالگزاری جس قدر تھا اس میں سریانی و قبطی وغیرہ میں تھا اور اس وجہ سے دفتر مال گزاری کے تمام عمال مجوسی یا عیساء تھے۔ ملازمت اور خدمت ایک طرف حضر ت عمرؓ تو فن فرائض کی ترتیب اور درستی کے لیے ایک رومی عیسائی کو مدینہ منسورہ میں طلب کیا تھا۔ چنانچہ علامہ بلاذری نے اس واقعہ کو کتاب الاشراف میں بتصریح لکھا ہے اور ا س کے یہ الفاظ ہیں: ابعث الینا برومی یقیم لنا حساب فرائضنا ’’ہمارے پاس ایک رومی کو بھیج دو جو فرائض کے حساب کو درست کر دے‘‘۔ آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ مکرمہ میں نہیں جا سکتا اور یہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے میں غیر مذہب والے بے تکلف مکہ مکرمہ جاتے تھے اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسفؒ نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کیے ہیں۔۱؎ آج کل یورپ والے جو اسلام کو تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگات ہیں ان کو سجھنا چاہے کہ آج کا زمانہ اسلام کی اصلی تصویر نہیں ہے اسلام کی تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میںنظر آ سکتی ہے۔ علمی صحبتیں حضرت عمرؓ کی مجلس میں اکثر علمی مسائل پر گفتگوہوا کرتی تھی۔ ایک دن اصحاب بدر(وہ صحابہ جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک تھے) مجلس میں جمع تھے۔ حضرت عمرؓ نے مجمع پر نظر ڈال اور کہا کہ: اذا جاء نصر اللہ والفتح (۱۱؍النصر: ۱) سے کیا مرادہے؟ بعضوںنے کہا کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب فتح حاصل ہو تو ہم اللہ کا شکر بجا لائیں بعض بالکل چپ رہے۔ حضرت عمرؓ نے عبداللہ بن عباسؓ کی طر ف دیکھا۔ انہوںنے کہا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فتح و نصرت آ چکی تو یہ تیرے دنیا سے اٹھنے کی علامت ہے۔ اس لیے تو اللہ کی حمد اور گناہ کی معافی مانگ بے شبہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے حضرت عمرؓ نے فرمایا جو تم نے کہا یہی میرا بھی خیال ہے۔ ۲؎ ۱؎ کتاب الخراج ص ۷۸‘۷۹ ۲؎ صحیح بخاری تفسیر اذا جاء ایک اور دن صحابہ ؓ کا مجمع تھا۔ عبداللہ بن عباسؓ بھی شریک تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس آیت کے معنی پوچھے ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ لوگوں نے کہا اللہ زیادہ جانتا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس لاحاصل جواب پر غصہ آیا ور کہا کہ انہیں معلوم ہے تو صاف کہنا چاہیے کہ نہیں معلوم عبداللہ بن عباسؓ آیت کے صحیح معنی جانتے تھے لیکن کم عمری کی وجہ سے جھجکتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکا اور کہا کہ صاحبزادے اپنے آ پ کو حقیر نہ سمجھو جو تمہارے خیال میں ہو بیا کرو۔ عبداللہ بن عباسؓ نے کہ اللہ تعالیٰ نے ای ککام کرنے والے شخص کی تمثیل دی ہے ۔ چونکہ جو ایک ناتمام تھا۔ حضرت عمرؓنے اس پر قناعت نہ کی لیکن عبداللہ بن عباسؓ اس سے زیادہ نہ بتا سکے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ اس آدمی کی تمثیل ہے جس کو اللہ نے دولت و نعمت دی کہ اللہ کی بندگی بجا لائے لیکن ا س نے نافرمانی کی تو اس کے اچھے اعمال برباد کر دیے ۱؎۔ ایک دفعہ مہاجرین صحابہ میں سے ایک صاحب نے شراب پی اوراس جر م میں ماخوذ ہو کر حجرت عمرؓ کے سامنے آئے۔ حضرت عمرؓ نے سزادینی چاہہ۔ انہوںنے کہا کہ قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے کہ ہم لوگ اس گناہ پر سزا کے مستوجب نہیں ہو سکتے پھر یہ آیت لیس علی الذین آمنوا وعلمو الصلحت جناح فیما طعموا ’’یعنی جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کا م کیے انہوںنے جو کچھ کمایا پیا ان پر الزا م نہیں‘‘۔ استدلال میں پیش کر کے کہا کہ بدر حدیبیہ‘ خندق او ردیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں۔ اس لیے میں ا ن لوگوں میں داخل ہوں جنہوںنے اچھے کام کیے۔ حضرت عمرؓ نے صحابہؓ کی طرف دیکھا۔ عبداللہ بن عباس ؓ بولے یہ معافی پچھلے زمانے کے متعلق ہے یعنی جن لوگوں ے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے شراب پی ان کے اور اعمال اگر صالح ہیں تو ان پر کچھ الزا م نہیں اس کے بعد یہ آیت پڑھی جس میں شراب کی ممانعت کا صریح حکم ہے۲؎۔ یا ایھا الذین آمنو انما الخمر و المیسرو الانصاب و اازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ (۵؍المائدہ : ۹۰) ۱؎ صحیح بخاری مطبوعہ میرٹھ ص ۶۵۱ ۲؎ ازالتہ الخفاء بحوالہ روایت حاکم ص ۲۱۳ ارباب صحبت جن لوگوں سے صحبت رکھتے تھے وہ عموماً اہل علم و فضل ہوتے تھے۔ اور اس میں وہ نوعمر اورمعمروں کی تمیز نہیں کرتے تھے صحیح بخاری میں ہے ۱؎۔ وکان القراء اصحاب المجالس عمر و مشاورۃ کھولا کانو ا او شابا ’’یعنی حضرت عمرؓ کے اہل مجس اور اہل مشورت علماء تھے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان‘‘۔ فقہ کا بہت بڑ ا حصہ جو منقح ہوا اور جو فقہ عمری کہلاتا ہے انہی علمی مجلسوں کی بدولت ہوا۔ اس مجلس کے بڑے بڑے ارکان ابی بن کعبؓ ، زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ ، عبدالرحمن بن عوفؓ، اور حربن قیسؓ وغیرہ تھے حضرت عمرؓ ان تمام لوگوں کو علمی فضیلت ی وجہ سے نہایت عزیز رکھتے تھے۔ معمول تھا کہ جب مجلس میں بیٹھتے تو امتیا ز مراتب کے لحاظ سے لوگوں کو بازیابی کی اجازت دیتے یعنی پہلے قدما ئے صحابہ آتے پھ رن سے قریب رتبہ والے و علی ہذا لیکن کبھیکبھی یہ ترتیب توڑ دی جاتی تھی اوریہ امر خاص ان لوگوں کے لیے ہوتا جو علم کی فضٰلت میں ممتاز ہوتے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباسؓ کو قدمائے صحابہ کے ساتھ شامل کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ حکم تھا کہ سوال و جواب میں اور بزرگوں کی ہمسری نہ کریں یعنی جو کچھ کہنا ہو سب کے بعد کہیں۔ ۲؎ اکثر ایسا ہوتا کہ جو لوگ عمر میں کم تھے مسائل کے متعلق رائے دینے میں جھجکتے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کو ہم تدلاتے اور فرماتے علم سن کی کمی اور زیادتی پر نہیں ہے۔ ۳؎ عبداللہ بن عباسؓ اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ ان کی شرکت پر بعض اکابر صحابہ نے شکایت کی کہ حضرت عمرؓ نے ا ن کی خصوصیت کی وجہ بتائی اور ایک علمی مسئلہ پیش کیا جس کا جواب بجز عبداللہ بن عباسؓ کے اور کسی شخص نے نہیں دیا۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی بھی بہت قدر کرتے تھے۔ ۲۱ ھ مین جب ان کو کوفہ کا مفتی اور افسر خزانہ مقرر کر کے بھیجا تو اہل کوفہ کو لکھا کہ میں ان کو معلم اور وزیر مقرر کرکے بھیجتا ہوں اور میں نے تم لوگوں کو اپنے آپ ر ترجیح دی ہے کہ ان کو اپنے پاس سے جدا کرتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا کہ جب کسی سئلہ کو عبداللہ بن مسعودؓ نے حل کیا تو ان کی شان میں فرمایا: کنیف ملی علما ’’ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے‘‘۔ ۱؎ صحیح بخاری جلد دوم ص ۶۶۹ بغوی نے ذزہری سے روایت کی ہے کہ کان مجلس عمر مفتصافی القراء (ازالتہ الخفاء ص ۱۱۹) ۲؎ فتح الباری شرح بخاری تفسیر ازا جاء نصر اللہ ۳؎ ازالتہ الخفاء بحوالہ بغوی ص ۱۱۹ اگرچہ فضل و کمال کے لحاظ سے حضرت علیؓ کے سوا کوئی شخص ان کا ہم سر نہ تھا۔ تاہم اہل کمال کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ جس طرح خورد بزرگ کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ ابی بن کعب ؓ کی نہایت تعظیم کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے ابی ؓ نے جب انتقال فرمایا تو کہا ہ آج مسلمانوںکا سردار اٹھ گیا۔ زید بن ثابتؓ کو اپنی غیبت میں اکثر جانشین کہتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو کچھ نہ کچھ جاگیر کے طورپر ان کو عطا کرتے تھے۱؎ اسی طرح ابوعبیدہؓ ، سلمان فارسیؓ، عمیر بن سعدؓ ، ابوموسیٰ اشعریؓ، سالمؓ ابودردائؓ ، اور عمران بن حصین ؓ وغیرہ کی نہایت عزت کرتے تھے۔ بہت سے صحابہؓ جن کے روزینے فقط اس بنا پر مقرر کیے گئے تھے کہ وہ فضل و کمال میں ممتاز ہیں ابو ذرغفاریؓ جنگ بدر میں شریک نہ تھے یکن ان کا روزینہ اصحاب بدرکے برابر مقرر کیاتھا۔ اس بناء پر کہ وہ فضل و کمال میں اور لوگوںمیں کم نہیں ۔ اہل کمال کی قدردانی ان کی قدردانی کسی گروہ پر محدود نہ تھی کسی شخص میں کسی قسم کا جوہر ہوتا تھا تو اس کے ساتھ خاص مراعات کرتے تھے۔ عمیر بن وہب الجمحی کا وظیفہ ۲۰۰ دینار سالانہ اس بنا پر مقرر کیا تھا کہ وہ پر خطر معرکوں میں ثابت قدم رہتے تھے ۲؎ خارجہ بن حزافہ اور عثمان بن ابی العاصؓ کے وظیفے ا س بنا پر مقرر کیے تھے کہ خارجہ ؓ بہادر اور عثمانؓ نہایت فیاض تھے۔ ۳؎ لطیفہ ایک دفعہ مغیرہ بن شعبہؓ کو حکم بھیجا کہ کوفہ میں جس قدر شعراء ہیں اک کے وہ اشعار جو انہوںنے زمانہ اسلام میں کہے ہیں لکھوا کر بھیجو۔ مغیرہؓ نے پہلے اغلب عجلی کو بلوایا اور شعر پڑھنے کی فرمائش کی اس نے یہ شعر پڑھا لقد طلبت ھنیا موجودا ارجزا ترید امم قصیدا ’’تم نے بہت آسان چیزکی فرمائش کی بولو قصیدہ چاہتے ہو یا رجز‘‘۔ ۱؎ سیرۃ العمر ین ا بن الجوزی ۲؎ فتوح البلدان ص ۴۵۶ ۳؎ کنز العمال جلد دوم ص ۳۱۷ پھر لبید کو بلا کر یہ حکم سنایا وہ سورہ بقرہ لکھ کر لائے اور اللہ نے شعر کے بدلے مجھ کو یہ عنایت کیا ہے۔ مغیرہؓ وغیرہ نے یہ پوری کیفیت حضرت عمرؓ کو لکھ بھیجی۔ وہاں سے جواب آیا کہ اغلب کے روزینے میں گھٹا کر لبید کے روزینے میں پانچ سو کا اضافہ کر دو۔ اغلب نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کی کہ بجا آوری حکم کا یہی صلہ ہے؟ حضرت عمرؓ نے لبید کے اضافہ کے ساتھ اس کی تنخواہ بھی بحال رہنے دی۔ اس زمانہ میں جس قدر اہل کمال تھے مثلا شعراء خطباء نساب پہلوان اوربہادر سب ان کے دربار میں آئے اوران کی قدردانی کے مشکور ہوئے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا شاعر مستمم بن نویرہ تھا جس کے بھائی کو ابوبکرؓ کے زمانے میں حضر ت خالدؓ نے غلطی سے قتل کردیا تھا۔ اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا کہ ہمیشہ رویا اور مرثیے کہا کرتا۔ جس طرف نکل جاتا زن و مرد اس یک گرد جمع ہوجاتے اور اس سے مرثیے پڑھوا کر سنتے۔ مرثیہ پڑھنے کے ساتھ خود روتاجاتا تھا اور سب کو رلاتا جاتا تھا حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے چند اشعار پڑھے اخیر شعر یہ تھے: وکنا کند مانی جذیمتہ حقبتہ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا فلما تفرقنا کانی ومالا طول اجتماع لم بنت لیلۃ معا ’’ایک مدت تک ہم دونو ں جذیمہ( ایک بادشاہ کانام ہے) کی ندیموں کی طرح ساتھ رہے یہاں تک کہ لوگوں نے کہا کہ اب یہ جدا نہ ہوں گے پھر ہم دونو ں جدا ہو گئے اور گویاا یک رات بھ یہم دونوں نے ساتھ بسر نہیں کی تھی۔‘‘ حضرت عمرؓ نے مستمم سے خطاب کر کے کہا کہ اگر مجھ کو ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی یزید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا امیر المومنین اگر میرا بھائی آپ کے بھائی کی طرح (یعنی شہید ہو کر) مارا جاتا تو میں ہرگز اس کا ماتم نہ کرتا۔ حضرت عمرؓ ہمیشہ فرمایا کرتا کہ مستمم نے جیسی میری تعزیت کی کسی نے نہیںکی۔ اسی زمانے میں ایک اور بڑی مرثیہ گو شاعرہ خنساؓ تھی۔ اس کادیوان آج بھی موجود ہے۔ جس میں مرثیوں کے سو ا اور خچھ نہیں ہے۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنسائؓ کا مثل پیدا نہیںہوا ۔ حضر ت عمرؓ ؓ نے اس کو کعبہ میں روتے اور چیختے دیکھا۔ پاس جا کر تعزیت و تسلی کی اور جب اس کے چار بیٹے جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے تو چاروں کی تنخواہیں اس کے نام جاری کر دیں۔ پہلوانی اور بہادری میں دو شخص طلیحہ بن خالد اور عمرو معدی کربؓ تمام عرب میں ممتاز تھے اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دونوں کو اپنے دربار میں بار دیا اور قادسیہ کے معرکہ میں جب ان کو بھیجا تو سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ دو ہزار سوار تمہاری مدد کو بھیجتا ہوں۔ عمرو معدی کرب ؓ پہلوانی کے ساتھ خطیب اورشاعر بھی تھے۔ حضرت عمرؓ اکثر ان سے فنون حرب کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جلسہ میں قبائل عرب اور اسلحہ جنگ کی نسبت جو سوالات کیے اور معدی کربؓ نے ایک ایک کی نسبت جن مختصڑ وار بلیغ فقروں میں جواب دیے اس کو اہل ادب نے عموماً اور مسعودی نے مروج الذہب میں بتفصیل لکھا ہے۔ چنانچہ نیزہ کی نسبت پوچھا تو کہا: اخوک وربما خانک یعنی تیرا بھائی ہے لیکن پھر کبھی دغا دے جاتاہے تیروں کی نسبت پوچھا تو: بردالمنا یا تخطی و تصیب ’’عنی موت کے قاصد ہیں کبھی منزل تک پہنچتے ہیں اور کبھی بہک جاتے ہیں‘‘۔ ڈھال کی نسبت کہا: علیہ تدور الدوائر اسی طرح ایک ایک ہتھیار کی نسبت عجب عجب بلیغ فقرے استعمال کیے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ حضرت عمرؓ کے اس طریق عمل نے عرب کے تمام قبائل کے آدمیوں کو دربار خلافت میں جمع کر دیا اور حضرت عمرؓ نے ان کی قابلیتوں سے بڑے بڑے کا م لیے۔ متعلقین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاس و لحاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کا نہایت پاس کرتے تھے۔ جن صحابہ وغیرہ کے روزینے مقرر کرنے چاہے تو عبدالرحمن بن عوفؓ کی رائے تھی کہ حضرت عمرؓ مقد م رکھے جائیں لیکن حضر ت عمرؓ نے انکار کیا اورکہا کہ ترتیب مدارج میں سب سے مقدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلقات کے قرب و بعد کا لحاظ ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قبیلہ بنی ہاشم سے شروع کیا اور اس میں بھی حضرت عباسؓ و حضرت علیؓ کے ناموں سے ابتدا کی۔ بنو ہاشم کے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسب میں قریب بنو امیہ تھے پھر بنو عبد الشمس و بنو نوفل پھر عبدالعزی۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کا قبیلہ بنو عدی پانچویں نمبر پر پڑتاتھا۔ چاننچہ اسی ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے ۔ تنخواہوں کی مقدار میں بھی اسی کا لحاظ رکھا سب سے زیادہ تنخواہیں جن لوگوں کی تھیں وہ اصحاب بدر تھے ۔ حضرت امام حسن و حسینؓ اگرچہ اس گروہ میں شریک نہ تھے لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تنخواہیں بارہ بارہ ہزار مقر کیں اور یہ سب سے بڑی مقدار تھی۔ اسامہ بن زیدؓ کی تنخواہ جب اپنے فرزند عبداللہ ؓ سے زیادہ مقرر کی تو عبداللہ ؓ نے عذر کیا۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہؓ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ۱؎ حضرت علیؓ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں(جیسا کہ ہم پہلے اوپر لکھ آئے ہیں) کسی قدر شکر رنجی رہی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت علیؓ نے چھ مہینے تک حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر بیعت نہیں کی ۔ چنانچہ صحیح بخاری باب غزوہ خیبر میں ہے کہ چھ مہینے کے بعد یعنی جب فاطمہ الزہراؓ کا انتقال ہو چکا تھا تو حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو مصالحت اور بیعت کی غرض سے بلانا چاہا لیکن یہ کہلابھیجا کہ آپ تنہاآ ئیں کیونکہ حضرت علیؓ حضرت عمرؓ کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے۲؎۔ لیکن رفتہ رفتہ حضرت علیؓ کو خلافت کا ملا ل جاتا رہا تو بالکل صفائی ہو گئی۔ چنانچہ حضر ت عمرؓ بڑی بڑی مہمات میں حضرت علیؓ کے مشورے کے بغیرکام نہیں کرتے تھے اور حضرت علیؓ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ دیتے تھے۔ نہاوند کے معرکہ میں ان کو سپہ سالار بھی بنانا چاہا لیکن انہوںنے منظور نہیں کیا۔ بیت المقدس گئے تو کاروبار خلافت انہی کے ہاتھ میں دے کر گئے۔ اتحاد و یگانگت کا اخیری مرتبہ یہ تھا کہ حضرت علیؓ نے حضرت ام کلثوم ؓ کو جو فاطمہ الزہراؓ کے بطن سے تھیں ان کے عقد میں دے دیا۔ چنانچہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ اخلاق و عادات تواضع و سادگی ان کے اخلاق و عادات کے بیان میں مورخوں نے تواضع اور سادگی کا مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اور درحقیقت ان کی عظمت و شان کے تاج پر سادگی کا طرہ نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ روم و شام پر فوؤجیں بھیج رہے ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے معاملہ پیش ہے‘ خالدؓ و امیر معاویہؓ سے باز پرس ہے‘ سعد بن ابی وقاصؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ ، عمرو بن العاصؓ کے نام احکام لکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ بدن پر بارہ پیوند کا کرتہ ہے۔ سر پر پھٹا عمامہ ہے۔ پائوں میں پھٹی جوتیاں ہیںَ پھر اس حالت میں یا توکاندھے پر مشک لیے جا رہے ہیں کہ بیوہ عورتوں کے گھر پانی بھرنا ہے یا مسجد کے گوشے میں فرش خاک پر لیٹے ہیں۔ اس لیے کہ کام کرتے تھک گئے ہیں اور نیند کی جھپکی سی آ گئی ہے۔ ۳؎ ۱؎ یہ تمام تفصیل کتاب الخراج س ۲۴‘۲۵ میں ہے۔ ۲؎ بخاری کے اصلی الفاظ یہ ہیں کراہیۃ لحضر عمر۔ ۳؎ کتاب مذکور ص ۳۸۷ باب الزہد بارہا مکہ سے مدینہ تک سفر کیا لیکن خیمہ یا شامیانہ کبھی ساتھ نہیں رہا۔ جہاں ٹھہرے کسی درخت پر چادر ڈال دی اور اسی کے سایہ میں پڑے رہے۔ ابن سعدؓ کی روایت ہیکہ ان کا روزانہ خانگی خرچ دو درہم تھا جس میں کم و بیش ۱۰ آنے ہوتے ہیںَ ایک دفعہ احف بن قس رئوسائے عرب کے ساتھ ان کے ملنے کو گئے دیکھا تو دامن چڑھائے ادھر ادھر پھر رہے ہیںَ احنف کو دیکھ کر کہا کہ آئو تم بھی میرا ساتھ دو۔ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے۔ تم جانتے ہو ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق شامل ہے۔ ایک شخص نے کہا امیر المومنین آپ کیوں تکیف اٹھاتے ہیں کسی غلام کو حک دیجیے وہ ڈھونڈ لائے گا فرمایا ای عبد اعبد منی ’’یعنی مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے‘‘۔ موطا اما م محمد میں روایت ہے کہ جب شا م کا سفر کیا تو شہر کے قریب پہنچ کر قضائے حاجت کے لیے سواری سے اترے۔ اسلم ا ن کا غلام بھی اساتھ تھا۔ فارغ ہو کر آئے (بھول کر یا کسی مصلحت سے) ااسلم کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ ادھر اہ شام استقبال کوآ رہے ہیں جو آتا تھا پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا تھا وہ حضر ت عمرؓ کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا اور آپس میں (حیرت سے) سرگوشیاں کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان کی نگاہیں شان و شوکت دھونڈ رہی ہیں(وہ یہاں کہاں؟) ایک دفعہ خطبہ میں کہا صاحبو ایک زمانے میں اس قدر نادار تھا کہ لوگوں کر پانی بھر کر لا دیا کرت اھتا۔ وہ اس کے صلے میں مجھ کو چھوہارے دیتے تھے وہی کھا کر بسر کرتا تھا۔ یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ منبر پر کہنے کی کیا بات تھی۔ فرمایا کہ میری طبیعت میں ذرا غرور آ گیا تھا اس کی دوا تھی۔ ۲۳ھ میں سفر حج کیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کی سطوت و جبروت کا آفتاب نصف النہار پر آ گیا تھا سعید بن المسیب ؓ جو ایک مشہور تابعی گزرے ہیں وہ بھی اس سفر میں شریک تھے۔ ان کا بیان ہیکہ حضرت عمرؓ جب ابطح میں پہنچے تو سنگریزے سمیٹ کر اس پر کپڑا ڈال دیا اور اس کو تکیہ بنا کر فرش خاک پر لیٹ گئے پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ یا الٰۃی میری عمر اب زیادہ ہو گئی ہے اور قویٰ کمزور ہو گئے ہیں اب مجھ کو دنیا سے اٹھا لے۔ ۱؎ ۱؎ موطا امام محمد ص ۳۰۴ زندہ دلی اگرچہ خلافت کے افکار نے ان کو خشک مزاج بنا دیا تھا لیکن یہ ان کی طبعی حالت نہ تھی۔ کبھی کبھی موقع ملتا تھا تو زندہ دلی کے اشغال سے جی بہلاتے تھے۔ اک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے رات کو بھر اشعار پڑھوایاکیے۔ جب صبح ہونے لگی تو کہا کہ اب قرآن پڑھو۔ محدث ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک طرف سے گانے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے اور دیر تک کھڑے سنتے رہے۔ ایک ایک دفعہ حج میں حضرت عثمانؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ وغیرہ ساتھ تھے عبداللہ ابن زبیر ؓ اپنے ہم سنوں کے ساتھ چہ کرتے تھے اور حظل کے دانے اچھالتے چلتے تھے۔ حضرت عمرؓ اس قدر فرماتے تھے کہ دیکھو اونٹ نہ بھڑکنے پائیںَ لوگوںنے رباح سے حدی گانے کی فرمائش کی۔ وہ حضرت عمرؓ کے خیال سے رکے لیکن جب حضرت عمرؓ نے کچھ ناراضی ظاہر نہ کی تو رباح نے گانا شروع کیا۔ حضر ت عمرؓ بھی سنتے رہے جب صبح ہو چلی تو فرمایا کہ بس اللہ کے ذکر کا وقت ہے ۱؎۔ فرمایا کہ گانا شتر سواروں کا زاد راہ ہے ۲؎۔ خوات بن جبیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سفر میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ تھا۔ ابو عبیدہؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ بھی ہمرکاب تھے لوگوںنے مجھ سے فرمائش کی کہ ضڑار کے اشعار گائو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ یہ خود اپنے اشعار گائیں۔ چنانچہ انہوںنے گانا شروع کیا اور ساری رات گاتا رہا۔ ۳؎ مزاج کی سختی مزاج قدرتی طورپر نہایت تند تیز اور زود مشتعل واقعہ ہواتھا۔ جاہلیت کے ؤزمانے میں تو وہ مجسم قہر تھے لیکن اسلام کے بعد بھی دتوں تک اس کا اثر نہیں گیا۔ غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلو م ہے کہ کافروں نے بنو ہاشم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لیا‘ ورنہ وہ خود کبھی نہ آتے۔ اس لیے اگر ابو البختری یا عباس وغیرہ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا۔ ابو حذیفہؓ بو ل اٹھے کہ ہم اپنے باپ بیٹے بھائی سے درگزر نہیں کرتے تو بنو ہاشم سے کیا خصوصیت ہے؟ واللہ اگر عباسؓ مجھ کو ہاتھ آئیں گے تو میں ان کو تلوار کا مزہ ضرور چکھائوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی یہ گستاخی ناگوار گزری۔ حضرت عمرؓ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایاکہ ابو حفص (حضرت عمرؓ کی کنیت تھی) دیکھتے ہو عم رسول کا چہرہ تلوار کے قابل ہے؟ ۱؎ ازالتہ الخفاء ص ۲۰۶ ۲؎ ازالتہ الخفاء ص ۱۹۸ ۳؎ ازالتہ الخؤفا ء بحوالہ ابو عمر ص ۲۰۸ حضرت عمرؓ آپے سے باہر ہو گئے اور کہا اجازت دیجیے میں اس کا سر اڑا دوںَ حضرت حذیفہؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے اور یہ جمہ اتفاقیہ ان کی زبان سے نکل گیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کچھ مواخذہ نہیں یا۔ حاطب بن بلتعہ ؓ ایک معرز صحابی تھے ۔ اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے۔ انہوںنے ایک دفعہ ایک ضرورت سے کفار مکہ سے خفیہ خط و کتابت کی یہ راز کھل گیا۔ حضرت عمرؓ برافروختہ ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے کہ یہ کافر ہو گیا ہے مجھ کو اجازت دیجییی کہ اس کو قت ل کر دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن الخطاب تجھ کو کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے شاید اہل بدر سے کہہ دیا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں سب کو معاف کر دوں گا۔ ذوالخویصرہ ایک شخص نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گستاخانہ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عدل اختیار کر حضرت عمرؓ غصے سے بے تاب ہو گئے اور چاہا کہ اس کو قتل کر دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کر دیا۔ ان واقعات سے اندازہ ہو گا کہ کس طرح ہر موقع پر ان کی تلوار نیام سے نکل پڑتی تھی وارکافر تو کافر خود مسلمانو ں کے ساتھ ان کا سلوک کیا تھا لیکن اسلام کی برکت اور عمرؓ کے انحطاط اور خلافت کی مہمات نے ان کو رفتہ رفتہ نرم اور حلیم بنا دیا۔ یہاں تک کہ خافت کے زمانے میں وہ کافروں کے ساتھ جس رحمد لی اور لطف سے برتائو کرتے تھے آج مسلمان سے مسلمان نہیں کرتے۔ آل و اولاد کے ساتھ محبت ان کی خانگی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہوئے ہیں قرائن سے اس قدر ثٓبت ہے کہ وہ ازواج و اولاد یک بہت دلددہ نہ تھے۔ اور خصوصاً ازواج کے ساتھ ان کو بالکل شغف نہ تھا۔ جس کی وجہ زیادہ یہ تھی کہ وہ عورتوں کی جس قدر عزت کرنی چاہیے نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں باب اللباس میں خود ان کا قول مذکر ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو بالکل ہیچ سمجھتے تھے۔ جب قرآن نازل ہوا اور ا س میں عورتوں کا ذکر آیا تو ہم سمجھے کہ وہ بھ کوئی چیز ہیں۔ تاہم ہم ان معاملات میںبالکل دخل نہیں دیتے تھے۔ اسی روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوںنے اپن یبیوی کو سخت کہا انہوںنے بھی برابر کا جواب دیا۔ اس پر کہا کہ اب تمہارایہ رتبہ پہنچا۔ وہ بولیں کہ تمہاری بیٹٰ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو بدو ایسی باتیں کرتی ہے۔ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی جمیلہ تھی ان کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے۔ عاصم بھی سن صغیر میں ہی تھے کہ کسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے جمیلہ کو طلاق دے دی۔ یہ حضرت ابوبکرؓ کا زمانہ تھا اور حضرت عمرؓ قباء سے جہاں پہلے رہا کرتے تھے اٹھ کر مدینے میںآ گئے تھے۔ ایک دن اتفاق سے قباکی طرف جانکلے عاصم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو پکڑا اوراپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور ساتھ لے جانا چاہا۔ عاصم کی ماں کو خبر ہوئی تو وہ آ کر مزاحم ہوئیں کہ یہ میرا لڑکا ہے میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گی۔ جھگڑا طول کھینچا او روہ حضرت ابوبکرؓ کے ہاں فریادی آئیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کے خلاف فیصلہ دیا اور اوہ اس لیے مجبور رہ گئے۔ یہ واقعہ موطا امام مالک وغیرہ میں مزکورہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک محبت اور رحم کے اس پایہ پر نہ تھا کہ جیسا کہ اور بزرگوں کا تھااولاد اور اہ خاندان سے بھی ان کو غیر معمولی محبت نہ تھی۔ البتہ زیدؓ سے جو حقیقی بھائی تھے نہایت الفت تھی۔ چنانچہ وہ جب یمامہ کی لڑائی میں شہید ہوئے تو بہت روئے اور سخت قلق ہوا۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زیدؓ کی خوشبو آتی ہے۔ عرب کا مشہور مرثیہ گو شاعر متم بن نویرہ جب ان کی خدمت میں آیا تو فرمایش کی کہ زیدؓ کا مرثیہ کہو مجھ کو تم سا کہنا نہیں آتا تو میں خود کہتا۔ مسکن حضرت عمرؓ نے جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہییں مکہ سے جب ہجرت کی تو عوالی میں آکر مقیم ہوئے جو مدینہ منورہ سے تین میل ہے لیکن خلافت کے بعد غالباً وہاں کی سکونت بالکل چھوڑ دی اور شہر میں آ رہے۔ یہاں جس مکان میں وہ رہتے تھے وہ مسجد نبوی سے متصل باب السلام اور باب الرحمتہ کے بیچ میں واقع تھا۔ چونکہ مرنے کے وقت وصیت کی تھی کہ مکان بیچ کر ان کا قرض ادا کیا جائے چنانچہ امیر معاویہؓ نے اس کو خریدا اور زر قیمت س قرض ادا کیا گیا۔ اس لیے یہ مکان مدت تک داراقضاء کے نام سے مشہور رہا ۱؎۔ وسائل معاش تجارت معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حدیث استیذان سے لاعلمی کا انہوںنے یہی عذر کیا کہ میں خرید و فروخت میںمشغول ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کم حاضرہوتا تھا لیکن اور فتوحات بھی کبھی کبھی حاصل ہو جاتیتھیں۔ قاضی ابو یوسفؒ نے کتاب الخراج میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں پہنچ کر ابوبکرؓ و عمرؓ کا جاگیریں عطا کیں۔ خیبر جب فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہؓ کو جو معرکہ میں شریک ہوئے تقسیم کر دیا۔ ۱؎ دیکھو خلاصۃ الوفافی اخبار دارالمصطفی مطبوعہ مصر ص ۱۲۹‘۱۷۹ اوحاشیہ موطا امام محمد ص ۲۷۲ جاگیر حضرت عمر ؓ کے حصے میں جو زمین آئی اس کانام ثمغ تھا اور وہ نہایت سیر حاصل زمین تھی۔ مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے تمام حصہ داروں کے نام ایک کتاب میں قلم بند کرا دیے تھے۔ یہودی بنی حارثہ سے بھ یان کو ایک زمین ہاتھ آئی تھی اور اس کا نام ثمغ تھا لیکن انہو ں نے یہ دونوں زمینیںاللہ کی راہ پر وقف کر دیں ۱؎ خیبر کی زمین کے وقف کا واقعہ صحیح بخاری باب الشروط فی الوقف میں مذکورہے۔ وقف میں جو شرطیں کیں یہ تھیں یہ زمین نہ بیچی جائے گی نہ ہبہ کی جائے گی‘ نہ وراثت میں منتقل ہو گی‘ جو کچھ اس سے حاصل ہو گا وہ فقراٗ ذوی القربیٰ، غلام مسافر اور مہممان کا حق ہے۔ مشاہرہ خلافت کے چند برس کے بعد انہوں نے صحابہؓ کی خدمت میں مصارف ضروری کے لیے درخواست کی۔ اس پر حضر ت علیؓ کی رائے کے موافق اس قدر تنخواہ مقرر ہو گئی کہ جو معمولی خوراک اور لباس کے لیے کافی ہو۔ سنہ ۱۵ھ میں جب تمام لوگ کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابر صحابہ ؓ کے ساتھ ان کے پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر ہو گئے۔ زراعت معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر اول اول زراعت بھی کی تھی لیکن اس طرح کہ کھیت بٹائی پر دے دیتیتھے۔ تخم کبھی خود مہیا کرتے تھے اور کبھی اس کا بہم پہنچانا بھی شریک کے ذمہ ہوتا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں باب المزارعۃ میں یہ واقع بتصریح موجود ہے۔ غذا غذا نہایت سادہ تھ معمولی روٹی اور روغن زیتون و دستر خوان پر ہوتا تھا۔ روٹی اکثر گیہوں کی ہوتی ھی لیکن آٹا چھانا نہیںجاتا تھا۔ عام القحط میں جو کا التزام کر لیاتھا۔ کبھی کبھی متعدد چیزیں دستر خوان پر ہوتی تھیں اوری ہ وہ ہوتی تھیں گوشت روغن زیتون دودھ ترکاری اور سرکہ ۔ مہمان یا سفراء آٹے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی کیونکہ وہ ایسی سادہ اور معمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے۔ لباس لباس بھی بہت معمولی تھا۔ اکثر صرف قمیص پہنتے تھے۔ برنس ایک قسم کی ٹوپی تھی جو عیسائی درویش اوڑھا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں اس کا رواج ہو چلا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ بھی کبھی کبھی استعمال کرتے تھے۔ جوتی وہی عربی وضع کی ہوتی تھی جس میں تسمہ لگا ہوتا تھا۔ ۱؎ خلاصتہ الوفا لفظ ثمغ سادگی و بے تکلفی نہایت بے تکلفی اور سادگی سے رہتے تھے۔ کپڑوںمیں اکثر پیوند لگا ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے ۔ باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ کپڑے پہننے کو نہ تھے۔ اس لیے انہیں کپڑو ں کو دھو کر سوکھنے ڈال دیا تھا۔ خشک ہو گئے تو وہی پہن کر باہر نکے۔ لیکن ان تمام باتوںسے یہ خیال نہیں خرنا چاہیے کہ وہ رہبانیت اور تقشف کو پسند کرتے تھے۔ اس باب میں ان کی رائے کا اندازہ اس سے ہوتاہے کہ ایک دفعہ ایک شخص کو انہوںنے یمن کا عامل مقرر کیا تھا۔ اس صورت سے ان کو ملنے آیا کہ لباس فاخرہ زیت تن تھا اوربالوں میں کوب تیل پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓنہایت ناراض ہوئے ار وہ پڑے اتروا کر موٹا جھوٹا کپڑا پہنایا۔ دوسری دفعہ آیا تو پریشان حال اورپھٹے پرانے کپڑے پہن کر آیا۔ فرمایاکہ یہ بھی مقصود نہیں۔ آدی کو نہ پراگندہ ہو کر رہنا چاہے نہ پٹیاں جمانی چاہئیں۔ حاصل یہ ہے کہ وہ بے ہودہ تکلفات و آرائش کو پسند کرتے تھے نہ راہبانہ زندگی کو اچھا سمجھتے تھے۔ حلیہ حلیہ یہ تھا کہ رنگ گندم گوں قد نہایت لانبا‘ یہاں تک کہ سینکڑوں ہزاروںآدیموں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو ان کا قد سب سے نکلا ہوتا تھا۔ رخسار ے کم گوشت‘ گھنی ڈاڑھی‘ مونچھی بڑی بڑی سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے ۔ حضرت عمرؓ نے ہر صیغہ میں جو نئی باتیں ایجاد کیں ان کو مورخین نے یکجا لکھا ہے اور ان کو اولیات ۱؎ سے تعبیر کرتے ہیںَ چنانچہ ہم ان کے حالات کو انہی اولیات کی تفصیل پر ختمم کرتے ہیں کہ اول بآخر نسبتے وارد۔ ۱؎ اس میں سے اکثر اولیات کتاب الاوائل لابن ہلال العسکری اور تاریخ طبری میں یکجا مذکور ہیں باقی جستہ جستہ موقعوں سے یکجا کی گئی ہے۔ ۱۔ بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا ۲۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر ہوئے۔ ۳۔ تاریخ اور سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ ۴۔ امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔ ۵۔ فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ۶۔ والیسییروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ ۷۔ دفتر مال قائم کیا۔ ۸۔ پیمائش جاری کی۔ ۹۔ مردم شماری کرائی۔ ۱۰۔ نہریں کھدوائیں۔ ۱۱۔ شہر آباد کرائے یعنی کوفہ بصرہ جیزہ فسطاط اور موصل۔ ۱۲۔ مماکل مقبوضہ کو صوبوںمیں تقسیم کیا۔ ۱۳۔ عشور یعنی وہ یکی مقرر کی اس کی تفصیل صیغہ محاصل میں گزر چکی ہے۔ ۱۴۔ دریا کی پیداوار مثلا عنبر وغیرہ پر محصول لگا یا اور محصل مقرر کیے۔ ۱۵۔ حربی تاجروں کو مکلک میں آنے ار تجارت رنے کی اجاز ت دی۔ ۱۶۔ جیل خانہ قائم کیا۔ ۱۷۔ درہ کا استعمال کیا۔ ۱۸۔ راتوں کو گشت کر کے رعایا کے دریافت کا حال کا طریقہ نکالا۔ ۱۹۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ ۲۰۔ جا بجا فوجی چھائونیاں قائم کیں۔ ۲۱۔ گھوڑوں کی نسل میںاصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت عرب میں نہ تھے۔ ۲۲۔ پرچہ نویس مقرر کیے۔ ۲۳۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لیے مکانات بنوائے۔ ۲۴۔ راہ میں پڑے ہوئے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے لیے روزینے مقرر کیے۔ ۲۵۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ ۲۶۔ یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب (گو کافرہوں) غلام نہیں بنائے جاسکتے۔ ۲۷۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کیے۔ ۲۸۔ مکاتب قائم کیے۔ ۲۹۔ معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر کیے۔ ۳۰۔ حضرت ابوبکرؓ کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے اس کام کو پوراکیا۔ ۳۱۔ قیاس کا اصول قائم کیا۔ ۳۲۔ فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔ ۳۳۔ فجر کی اذان میں اصلوۃ خیر من النوم کا اضافہ کیا چنانچہ موطا امام مالک میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔ ۳۴۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔ ۳۵۔ تین طلاقوں کو ایک ساتھ دیجائیں طلاق بائن قرار دیا۔ ۳۶۔ شراب کی حد کے لیے اسی کوڑے مقرر کیے۔ ۳۷۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی۔ ۳۸۔ بنو تغلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوۃ مقرر کی۔ ۳۹۔ وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔ ۴۰۔ نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کرا دیا۔ ۴۱۔ مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا۔ چنانچہ ان کی اجازت سے تمیم داریؓ نے وعظ کہا اور یہ اسلا م میں پہلا وعط تھا۔ ۴۲۔ اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ ۴۳۔ مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ ۴۴۔ ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا قائم کی۔ ۴۵۔ غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا۔ ان کے سوا اور بہت سی ان کی اولیات ہیں جن کو ہم طوالت کے خوف سے نظر انداز کرتے ہیں۔ ازواج و اولاد حضرت عمر ؓ نے جاہلیت و اسلا م میں متعدد نکاح کیے۔ پہلا نکاح عثمان بن مظعونؓ کی بہن زینت کے ساتھ ہوا عثمان بن مظعونؓ سابقین صحابہ میںتھے یعنی اسلام لانے والوں میں ان کا چودھواں نمبر تھا سنہ ۲ھ میں وفات پاء اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوان کی وفات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آ پ ان کے لاشہ کو بوسہ دیتے تھے اور بے اختیار روتے جاتے تھے۔ عثمانؓ کے دوسرے بھائی قدامہ ؓ بھی اکابر صحابہ میں سے تھے۔ زینبؓ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ میں مریں۔ حضرت عبداللہ ؓ اور حضرت حفصہؓ انہیں کے بطن سے ہیں۔ دوسری بیوی قریبتہ بنت ابی امیہ المخرومی تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مبارک ام سلمہؓ کی بہن تھیںَ چونکہ یہ اسلام نہیں لائیں اور مشرکہ عورت سے نکاح جائز نہیں اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد سنہ ۶ ھ میں ان کو طلاق دے دی۔ تیسری بیوی ملیکہ بنت حبرول الخزاعی تھیں۔ ان کو ام کلثوم بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی اسلام نہیںلائی اور اس وجہ سے سنہ ۶ھ میں ان کو بھی طلاق دے دی۔ عبداللہؓ انہی کے بطن سے ہیں۔ زینت اور قریبہ قریش کے خاندان اور مکیکہ خزاعہ کے قبیلہ سے تھیںَ مدینہ منورہ آ کر انصار میں قرابت پیدا کی یعنی ۷ھ میں عاصم بن ثابت بن ابی االافلح جو ایک معزز انصاری تھے اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے۔ ان کی بیٹی جمیلہؓ سے نکاح کیا جمیلہؓ کا نام پہلے عاصیہ تھا۔ جب وہ اسلام لائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدل کرنام جمیلہ رکا لیکن ان کو بھی کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ اخیر عمر میں ان کو خیال ہو ا کہ خاندان نبوت سے تعلق پیدا کریں جو مزید شرف اور برکت کا سبب تھا۔ چنانچہ جناب حضرت علیؓ سے حضرت ام کلثومؓ کے لیے درخواست کی۔ جناب ممدوح نے پہلے ام کلثوم ؓ کی صغر سنی کے سبب انکار کر دیا لیکن جب حضرت عمرؓ نے زیادہ تمنا ظاہر کی اور کہا کہ اس سے مجھ کو حصول شرف مقصود ہے تو جناب حضرت علیؓ نے منظور فرمایا اور سنے ۱۷ ھ میں ۴۰ ہزار مہر پر نکاح ہوا ۱؎ ۱؎ حضرت ام کلثوم بنت فاطمہؓ کی تزوج کا واقعہ معتمد مورخوںنے بتفصیل لکھا ہے۔ علامہ طبری نے تاریخ کبیر میں ابن حجبان نے کتاب الشثقاہ میں ابن قتیبہ نے معارف میں ابن ثیر نے کامل میں تصریح کے ساتھ لکھاہے۔ کہ ام کلثومؓ بنت فاطمہؓ حضرت عمرؓ کی زوجہ تھیںَ ایک دوسری ام کلثوم بھی ان کی زوجہ تھی لیکن ان دونوں میں مورخوںنے صاف تفریق کی ہے۔ علامہ طبری و ابن حبان اور ابن قتیبہ کی تصریحات خود میری نظر سے گزری ہیں اور ان سے بڑھ کر تاریخی واقعات کے لیے اور کیا سند ہو سکتی ہے کہ میںوہ خاص عبارتیں موقع پر نقل کرتاہوں۔ ثقات بن حبان ذکر خلافتہ عمر واقعات سنہ ۱۷ ھ میں ہے ثم تزوج عمر ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب وھی من فاطمۃ ودخل بھا فی شھر ذی القعدۃ معارف بن قتیبہ ذکر اولادمیں ہے کہ وفاطمۃ وزید و امھا ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب من فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسد الغٓبہ فی احوال الصحابہ لا بن الاثیر میں جہاں ام کلثوم ؓ کا حال لکھا ہے تفصیل کے ساتھ ان کی تزویج کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ اسی طرح طبری نے بھی جا بجا تصریح کی ہے جس کو ہم تطویل کے خوف سے نظر انداز کرتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ حضرت عمر ؓ کے اور بیویاں بھی تھیں یعنی ام حکیم بنت الحارث بن ہشام المخز ومی فکیھۃ یمینہ عاتکہ بنت زید بن عمر و بن کفیل عاتکہ حضرت عمرؓ کی چچیری بہن تھیں۔ ان کا نکاح پہلے حضرت ابوبکر ؓ کے فرزند عبداللہ ؓ سے ہوا تھا اور چونکہ عاتکہ نہایت خوبصورت تھیں عبداللہ ان کو بہت چاہتے تھے۔ عبداللہ غزوہ طائف میں شہید ہوگئے۔ عاتکہ نے ان کا نہایت درد انگیز مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے: فالیت لا تنفک عینی حزینۃ علیک ولا ینفک جلدی اغبرا ’’میں نے قسم کھائی ہے کہ میری آنکھ ہمیشہ تیرے اوپر غمگین رہے گی اور بد ن خاک آلودہ رہے گا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے سنہ ۱۲ ھ میں ان سے نکاح کیا۔ دعوت ولیمہ میں حضرت علیؓ شریک تھے۔ حضر ت عمرؓ کی اولاد کثرت سے ہوئی جن میں حضرت حفصہؓ اس لیے زیادہ ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہیں۔ ان کانکاح خیس بن حذافہؓ کے ساتھ ہوا تھا۔ جو مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔ خیس جب غزوہ احد میں شہید ہوئے تو وہ سنے ۳ ھ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ ان سے بہت سی احادیث اور بہت سے صحابہؓ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔ سنہ ۴۵ھ میں ۶۳ برس ک عمر پا کر انتقال کیا۔ اولاد ذکور اولاد ذکور کے یہ نام ہیں: عداللہ ‘ عبید اللہ‘ عاصم‘ ابو شمحہ’ عبدالرحمن‘ زید ‘ مجیر ان میں سے تین سابق الذکر زیادہ نامور ہیں۔ عبداللہ بن عمرؓ حضرت عبداللہ ؓ فقہ و حدیث کے بڑے رکن مانے جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم مین ان یک مسائل اور روایتیں کثرت سے مذکور ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کے ساتھ مکہ میں اسلام لائے اور اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اور ابن خلکان نے دفیات الاعیان میں ان کا حال تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جس سے ان کے علم و فضل اور زہد و تقدس کا اندازہ ہو سکتاہے۔ علم وفضل کے علاوہ حق گوئی میںنہایت بے باک تھے۔ کہ صحیح بخاری میں ایک ضمنی موقع پرحضرت ام کلثومؓ کا ذکر آ گیا ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ عورتوں کا چادریں تقسیم کیں ایک بچ رہی۔ اس کی نسبت ان کو تردد تھا کہ کس کو دی جائے۔ ایک شخص نے ان سے مخاطب ہوکر کہا یا امیر المومنین اعط ہذا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التی عندک یریدون ام کلثومؓ (صحیح ایک دفعہ حجاج بن یوسف کعبہ میں خطبہ پڑ ھ رہا تھا عین اسی حالت میں انہوںنے کھڑے ہو یکر کہا یہ اللہ کا دشمن ہے کیونکہ اس نے اللہ کے دوستوں کو قتل کیا ہے۔ چنانچہ اسی کے انتقام مین حجاج نے ایک آدمی کو متعین کیا جس نے ان کو مسموم آلہ سے زخمی کیا اور زخم سے بیمار ہو کر وفات پائی ۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ جب حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ نے اپنا معاملہ حکمم میںدیا تو لوگوںے حضرت عبداللہ ؓ سے آ کر کہا کہ تمام مسلمان آپ کی خلافت پر راضی ہیں۔ آپ امادہ ہو جائیے تو ہم لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ انہوںنے انکار کیا اور کہا کہ میں مسلمانوں کے خون سے خلافت خریدنا نہیں چاہتا۔ سالم بن عبداللہ حضرت عبداللہؓ کے بیٹے سالم فقہائے سبعہ یعنی مدینہ منورہ کے ان سات فقہاء میں محسوب ہیں جن پر حدیث و فقہ کا مدارہے اور جن کے فتوے کے بغیر کوئی قاضی فیصلہ کرنے کامجاز نہ تھا۔ سالم کے علاوہ باقی چھ فقہا کے نا م یہ ہیں خارجہ بن زید‘ عروۃ بن الزبیر‘ سلیمان بن یسار‘ عبیداللہ بن عبداللہ‘ سعید بن المسیب ‘ قاسم بن محمد۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام محدثین کے نزدیک حدیث کے دو سلسلے سب سے زیادہ مستند ہیں اور محدثین اس سلسلے کو زنجیر زر کہتے ہیں۔ یعنی اول وہ حدیث جس کی روایت کے سلسلے میں امام مالک نافع عبداللہ بن عمرؓ ہوں دوسر ی وہ حدیث جس کے سلسلے میں زہری سالم اور عبداللہ بن عمرؓ ہوں ۔ امام مالک اور زہری کے سوا باقی تمام لوگ حضرت عمرؓ ہی کے گھرانے کے ہیں۔ عبداللہ ؓ ان کے بیٹے اور سالم ؓ پوتے اور نافعؒ غلا م تھے۔ عبید اللہؓ حضرت عمر کے دوسرے بیٹے عبید اللہ ؓ شجاعت اورپہلوانی میں مشہور ہیں۔ عاصم تیسرے بیٹے عاص ؓنہایت پاکیزہ نفس اور عالم وفاضل تھے۔ سنہ ۷۰ ھ میں جب انہوںنے انتقال کیا تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کا مرثیہ لکھا جس کا ایک شعریہ ہے: فلیت المنایا کن خلفن عاصما فعشنا جمیعا اور ذہبن بنامعا ’’کاش موت عاصمؓ کو چھوڑ جاتی تاکہ ہم سب رہتے یا لے جانا تھا تو سب کو لے جاتی‘‘۔ بخاری باب الجہاد مطبوعہ میرٹھ ص ۴۰۳) اس میں صاف تصریح ہے کہ ام کلثومؓ جو حضرت عمرؓ کی زوجہ تھیں خاندان نبوت سے تھیں۔ عاصم نہایت بلند قامت اور جسیم تھے اور شعر خوب کہتے تھے چنانچہ اہل ادب کا قول ہے کہ ہر شاعر کو کچھ نہ کچھ وہ الفاظ لانے پڑتے ہیں جو مقصود نہیں ہوتے لیکن عاصمؓ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز انہی کے نواسے تھے۔ ابن قتیبہ نے کتاب المعارف میں حضرت عمرؓ کے پوتوں پروتوں اور نواسوں کا حال بھی لکھا ہے لیکن ہم اختصار کے لحاظ سے قلم انداز کرتے ہیں ۱؎۔ خاتمہ لیس من اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد ’’اللہ کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے‘ کہ تمام عالم ایک فرد میں سما جائے‘‘۔ حضرت عمرؓ کے سوانح اور حالات تفصیل کے ساتھ اور اس صحت کے ساتھ لکھے جا چکے ہیں کہ تاریخی تصنیف کی صحت کی اخیر حد ہے۔ دنیامیں جس قدر بڑے بڑے نامور گزرے ہیں۔ ان کی مفصل سوانح عمریاں پہلے سے موجود ہیںَ یہ دونوں چیزیں اب تمہارے سامنے ہیں اور تم کو اس بات کے فیصلہ کرنے کا موقع ہے کہ تمام دنیامیں حضرت عمرؓ کا کوئی ہم پایہ گزر ہے یا نہیں؟ قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں کہ فضائل انسانی کی مختلف انواع ہیں اور ہر فضیلت کا جدا راستہ ہے۔ ممکن بلکہ کثیر الواقعہے کہ ایک شخص ایک فضیلت کے لحاظ سے تمام دنیا میں اپناجواب نہیں رکھتا۔ لیکن فضائل سے اس کو بہت کم حصہ ملا تھا۔ سکندر سب سے بڑا فاتح لیکن حکیم نہ تھا۔ ارسطو حکیم تھا لیک ن کشورستان نہ تھا۔ بڑے بڑے کمالات ایک طرف چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی ایک شخص میں مشکل سے جمع ہوتی ہیںَ بہتر سے نامور گزرے ہیں جو بہادر تھے لیکن پاکیزہ اخلاق نہ تھے۔ بہت سے پاکیزہ اخلاق تھے لیکن صاحب تدبیر نہ تھے بہت سے دونوں کے جامع تھے لیکن علم و ہنر سے بے بہرہ تھے۔ اب حضرت عمرؓ کے حالات اور ان کی مختلف حیثیتوں پرنظر ڈالو صاف نظر آئے گا کہ وہ سکندر بھی تھے ارسطو بھی مسیح بھی تھے اور سلیمان بھی تیمور بھی تھے اور نوشیروان بھی امام ابوحنیفہؒ بھی تھے اور ابراہیم بن ادھم ؒ بھی۔ سب سے پہلے حکمرانی اور کشورستانی کی حیثیت کو لو دنیا میں جس قدر حکمران گزرے ہیں ہر ایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی نہ کوئی مشہور مدبر یا سپہ سالار مخفی تھا۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبر یا سپہ سالار نہ رہا تو دفعتہ فتوحات بھی رک گئیں یا نظام حکومت کا ڈھانچہ بگڑ گیا۔ ۱؎ حضرت عمرؓ کے ازواج و اولاد کا حا میں نے اسد الغابہ کتاب المعارف ابن خلکان کامل بن الاثیر اور فتح المغیث میں لکھا ہے۔ سکندر ہر موقع پر ارسطو کی ہدایتوں کا سہارا لے کر چلتا ھتا۔ اکبر کے پردے میں ابوالفضل اور ٹوڈر مل کر کام کرتے تھے۔ عباسی کی عظمت و شان براکمہ کے دم سے تھی لیکن حضرت عمرؓ کو صرف اپنے دست و بازو کابل تھے۔ خالدؓ کی عجیب و غریب معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر ان کو خیال پیدا ہو گیا کہ فتح و ظفر کی کلید انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب حضرت عمرؓ نے ان کو معذول کر دیا تو کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کل میں سے کون سا پرزہ نکل گیا ہے۔ سعد بن ابی وقاصؓ فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کو اسی قسم کا وہم پیدا ہو چلا تھا۔ وہ بھی الگ کر دیے گئے اور کسی کے کان پر جوں ت نہ رینگی ۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمرؓ خود سارا کام نہیںکرتیتھے اور نہ کر سکتے تھے لیکن جن لوگوں سے کام لیتے تھے ان میں سے کسی کے پابند نہ تھے۔ وہ حکومت کو کل کو اس طرح سے چلاتے تھے کہ جس پرزے کو جہاں سے چاہا نکال لیا ارو جہاں چاہا لگا دیا۔ مصلحت ہوئی تو کسی پرزے کو سر سے نکا ل دیا اور ضرورت ہوئی تو نئے پرزے تیار کر لیے۔ دنیا مین کوئی ایسا حکمران نہیں گزرا جس کو ملکی ضرورتوں کی وجہ سے عدل و انصاف کی حدود سے تجاوز نہ کرنا پڑا۔ نوشیروان کو زمانہ عدل و انصاف کا پیغمبر تسلیم کرتاہے لیکن ا س کادامن بھ داغ سے پاک نہیں۔ بخلاف اس کے حضرت عمرؓ کے تمام واقعات کو چھان ڈالو اس قس کی ایک نظیر بھی نہیں مل سکتی۔ دنیا کے مشہور سلاطین جن ممالک میں پیدا ہوئے وہان مدت تک حکومت کے قواعد و آئین قائم تھے اور اس لیے ان سلاطین کو کوئی نء بنیاد قائم نہیں کرنی پڑتی تھی۔ قدیم انتظامات یا خود ہی کافی ہوتیتھے یا کچھ اضافہ کرنا پڑتا تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عمرؓ جس خاک سے پید ا ہوئے وہ ا ن چیزوں کے نام سے آشنا نہ تھی۔ خود حضرت عمرؓ نے ۴۰ برس تک حکومت و سلطنت کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ اور آغاز شباب تو اونٹوں کے چرانے میں گزر ا تھا۔ ان حالات کے ساتھ ایک وسیع مملکت قائم کرنی اور ہر قسم کے ملکی انتظامات مثلاً تقسیم صوبہ جات و اضلاع‘ انتظا م محاصل ‘ صیغہ عدالت فوجداری اور پولیس پبلک ورکس تعلیمات اور صیغہ فوج کو اس قدر ترقی دینی اور ان کے اصول اور ضابطے مقرر کرنے حضرت عمرؓ کے سوا اور کس کا کام ہو سکتاہے۔ تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض میں د س دس پیوند لگے ہوں کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کو پانی بھر آتا ہو فرش خاک پر پڑ رہتا ہو‘ بازاروں میںپڑاپھرتا ہو جہا جاتا ہو جریدہ و تنہا چلا جاتا ہو اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو۔ درود بار نیب و چاوش حشم و خدم کے ام سے آشنا نہ ہو اور پھر یہ رعب و داب کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرح رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو۔ سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکا ب میں لے کر نکلتے تھے۔ تب ان کا رعب قائم ہوتاتھا۔ عمر فاروقؓ کے سفر شام میں سواری کے ایک اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا لیکن چاروں طرف غل پڑا ہوا تھا کہ مرکز عالم جنبش میں آ گیا ہے۔ اب علمی حیثیت پر نظر ڈالو۔ صحابہؓ میں سے جن لوگوں نے خاص اس کام کو لیا تھا اور رات دن اسی مشغل میں بسر کرتے تھے مثلاً حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، زید بن ثابتؓ، ابوہریرہؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ۔ ان کے مسائل اور اجتہادات کا حضرت عمرؓ کے مسائل اور اجتہادات سے موازنہ کرو۔ صاف مجتہد و مقلد کا فرق نظر آ جائے گا۔ زمانہ ما بعد میں اسلامی علوم نے بے انتہا ترقی کر لی اور بڑے بڑے مجتہدین اور ائمہ بن پیدا ہوئے مثلا ً امام ابو حنیفہؒ، شافعیؒ، غزالی ؒ اور رازیؒ وغیرہ لیکن انصاف سے دیکھو تو حضرت عمرؓ نے جس باب میں جو کچھ کیا اس پرکچھ اضافہ نہ ہو سکا؟ مسئلہ قضا و قرد تعظیم شعائر‘ حیثیت نبوت‘ احکام شریعت‘ کا عقلی یا نقلی ہونا‘ احادیث کا درجہ اعتبار‘ خبر احاد کی قابلیت احتجاج‘ احکام خمس وغیرہ۔ یہ مسائل شروع اسلام سے آج تک معرکہ آرا رہے ہیں اورآئمہ فن نے ان کے متعلق ذہانت طباعی کا دیقہ نہیں اٹھا رکھا لیکن انصاف کی نگاہ سے دیکھو تو حضرت عمرؓ نے ان مسائل کو جس طرح حل کیا تھا تحقیق کا ایک قدم بھی اس سے آگے بڑھ سکا؟ تمام ائمہ فن نے یا ان ی پیروی کی یا انحراف کیا تو علانیہ غلطی کی۔ اخلاق کے لحاظ سے دیکھو تو انبیاء کے سوا اور کو ن شخص ان کا ہم پایہ ہو سکتا ہے؟ زہد و قناعت تواضع و انکساری و سادگی‘ راستی و حق پرستی صبر و رضا شکر و توکل یہ اوصاف ہٰں جن میںجس کمال کے ساتھ پائے جاتے تھے کیا لقمان ‘ ابراہیم بن ادھم‘ ابوبکر شبلی اور معروف کرخی وغیرہ رحمم اللہ میں ان سے بڑھ کر پائے جا سکتے تھے؟ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے حضرت عمرؓ کی اس خصوصیت (یعنی جامعیت کمالات کونہایت خوبی سے بیان کیاہے اور ہم اسی پر اپنی کتاب کو ختم کرتے ہیںَ وہ تحریر فرماتے ہیں: سینہ فاروق اعظمؓ را بمنزلہ خانہ تصور ن کہ درہائے مختلف دارد۔ در ہردرے صاحب کمالے نشستہ دریک در مثلاً سکندر ذوالقرنین باینھمہ سلیقہ ملک گیری و جھان ستانی و جمع جیوش و برھم زدن اعداء در در دیگر نوشیروانے ہاں ہمہ رفق اولین و رعیت پروری و داد گستری(اگرچہ ذکر نوشیرواں در محبث فضائل حضرت عمر فاروقؓ سوء ادب ست) و در در دیگر امام ابو حنفیہؒ یا امام مالکے ؒ ہاں ہمہ قیام بہ علم فتویٰ و احکام و در در دیگرے مرشدے مثل سید عبدالقادر جیلانیؒ یا خواجہ بھائو الدین ؒ و در در دیگرے محدثے بروزن ابوہریرۃ ؓ و ابن عمرؓ و در در دیگرے حکیمے مانند مولانا جلال الدین رومیؒ یا شیخ فرید الدین عطارؒ و مردمان گرداگرد این خانہ ایستادہ اند۔ وھر محتاجے حاجت خود را از صاحب فن درخواست مے نماید و کامیاب می گردد۔ شبلی نعمانی مقام کشمیر ۵جولائی سنہ ۱۸۹۸ء ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End