انٹرویو میں کامیابی مترجم قاضی ذوالفقار احمد رانا سیف الرحمان کیرئیر کا انتخاب کیرئیر کیا ہے؟ تعلیم اور تربیت یعنی سیکھنے کا عمل یوں تو انسان کے آخری سانس تک جاری رہتا ہے ۔ لیکن زندگی کے ابتدائی بیس بائیس برسوں کے بعد ہر انسان خصوصاً مردوں کو لازماً کوئی ایسا کام اختیار کرنا ہوتا ہے جس سے آمدنی حاصل ہوتا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر سکیں۔ زندگی کی ضروریات یعنی غذا لباس رہائش ‘ تعلیم علاج اور اگر ممکن ہو تو تفریح کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم جو کام کرتے ہیں وہی ہمارا کیرئیر ہے۔ گویا ایک کامیاب عملی زندگی گزارنے کے لیے کسی پیشے کا انتخاب کرکے اسے اپنا ’’کیرئیر‘‘ کہلاتا ہے۔ ’’کیرئیر‘‘ کا لفظ بعض دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس مضمون میں ’’کیرئیر‘‘ کے معنی کو پیشے کواختیار کرنے تک محدود رکھے گئے ہیں۔ کیرئیر گائیڈنس کے ایک ماہر کے مطابق اپنے لیے اچھا کیرئیر منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے جو اس کی صحت صلاحیتوں اور رجحان کے مطابق ہو تاکہ وہ اسی خاص پیشے میں زیادہ ترقی کر سکے اور کام کرنے سے اسے اکتاہٹ یا تھکن نہ ہو بلکہ تسکین اطمینان اور مسرت حاصل ہو۔ کیرئیر کے بارے میں سوچتے وقت اپنی تعلیم تربیت ذہنی اور جسمانی استعداد (طاقت اور صلاحیت) اور اپنے شوق و دلچسپی کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اگر آپ اپنے آس پا س نظر ڈالیں تو آپ کو دوطرح کے لوگ نظر آئیں گے۔ ایک وہ جو ملازمت کرتے ہیں اور دوسرے جو کاروبار کرتے ہیں ملازمت یا کاروبار زندگی کی ضروریات اور اخراجات پورے کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کاروبار کریں گے تو یہ آپ کا پیشہ بھی ہو گا اور ملازمت بھی۔ کیرئیر کا انتخاب کیرئیر کونسلنگ کے ایک ماہرنے کیرئیر کے انتخاب کے لیے تین راستوں کی نشاندہی کی ہے یعنی اگر آپ اپنے اطراف ہونے والی معاشی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو تمام لوگ تین قسم کے کام کرتے نظر آئیں گے۔ (ا)عملی کام یہ ایسے کام ہیں جن میں کام کرنے والا اپنے ہاتھوں کے ذریعے کسی ایسے عمل میں مصروف ہوتا ہے جس میں کوئی مشین آلہ یاپرزہ حرکت کرتا ہے مثلاً انجینئر پائلٹ کسان بڑھئی‘ کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ۔ (ب) کاغذی کام یعنی ایسے کام جو خط و کتابت لکھنے پڑھنے اوراعداد و شمار سے متعلق ہوتے ہیں مثلاً اکائونٹنٹ صحافی‘ ادیب‘ آرکیٹیکٹ ‘ سیکرٹری وغیرہ۔ (ج) عوامی؍ افرادی کام یہ ایسے کام ہیں جن میں کام کرنے والے کا واسطہ عوام یا مختلف افراد سے ہوتاہے مثلاً ڈاکٹر ‘ استاد‘ ائیر ہوسٹس وغیرہ۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ہو نوجوان دوران تعلیم چند پیشوں کو پسند کرنے لگتا ہے۔ اس پسند کے پس منظر میں اس کے خاندان کے افراد کے پیشے اس کے دوستوں کے والد یا بھائیوں کے پیشے قومی ہیروز کے پیشے یا کسی خاص شخصیت سے اس کی ذہنی وابستگی اور عقیدت کا رفرما ہوتی ہے۔ کیرئیر کا انتخاب ایک ایسا کام ہے جس میں خاصا وقت صرف ہوتا ہے اس کا آغاز آٹھویں جماعت کے نتیجے کے بعد اس وقت ہو جاتا ہے جب آپ کو نویں جماعت میں اپنے لیے ایک سائنس کامرس آرٹس یا کوئی اور گروپ منتخب کرنا ہوتا ہے۔ سائنس گروپ والوں کو پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ میں سے کسی ایک ذیی گروپ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ بہت اہم مرحلہ ہے۔ اس مرحلہ پر امیدوار کو اپنے والدین یا خاندان کے دوسرے سمجھدار افراد اور اپنے اساتذہ سے مشورہ کرنا چاہیے اور اپنے شوق رجحان اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے گروپ کے انتخاب کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد آپ کو ہم اپنی پسند کے پیشوں کی ایک ترجیحی فہرست بنا لینی چاہیے۔ اس فہرست میں کم سے کم تین پیشے ہوں گے۔ پہلے نمبر پر سب سے پہلے زیادہ پسندیدہ پیشہ دوسرے نمبر پر اس سے کم پسندیدہ اور تیسرے نمبر پر سب سے کم پسندیدہ پیشہ۔ آپ کے لیے کون سا پیشہ بہتر ہے؟ پیشوں کی اس فہرست کو بناتے وقت درج ذیل چھ بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے کون سا پیشہ بہتر ہو سکتا ہے۔ (1) صلاحیتیں (2)تعلیم (3)ذہانت (4)رجحان؍ میلان (5)دلچسپی ؍ شوق (6)حالات؍ماحول (1)صلاحیتیں صلاحیتوں کامطلب انسان کی ذہنی اور جسمانی خوبیاں ہیں لیکن خوبیوں کا اندازہ ااس وقت ہو سکتا ہے جب ہمیں اپنی خامیوں کا احساس ہو۔ ایک نوجوان کی خواہش پائلٹ بننے کی ہے لیکن اس کی بینائی کمزور ہے اس لیے وہ پائلٹ نہیں بن سکتا۔ ایک شخص صحافی بننا چاہتا ہے لیکن اسے زبان پر عبور نہیں ہے اس لیے وہ اس پیشے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح اچھی گفتگو کی صلاحیت رکھنے والے وکالت یا سیلز کے پیشے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ (2)تعلیم تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اب تک جو تعلیم حاصل کی ہے وہ اس پیشے کی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔ جو آپ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر کا پیشہ اختیار کرنے کی خواہش رکھنے والے طالب علم کو لازماً پری میڈیکل گروپ کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے کامیاب کرنا ہوگا تاکہ اسے میڈیکل کالج میں داخلہ مل سکے۔ (3)ذہانت زندگی میں کامیابی کے لیے تعلیم کے ساتھ ذہانت لازمی ہے۔ ذہانت کا مطلب ہے کہ اپنے علم اور تجربے کو تجزیے کے ساتھ بروقت استعمال کرنا ہے۔ اچھی یادداشت ذہانت کو حسن بخشتی ہے۔ کم سے کم وسائل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانا بھی ذہانت کا کرشمہ ہے۔ آپ کوئی بھی کیرئیر منتخب کریں کامیابی کے لیے ذہانت لازمی ہے۔ (4)رجحان یا میلان ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان لگتے ہیںَ وہ دوسروں کے مقابلے میں انہیں جلد سیکھ لیتا ہے اور ان کے تکنیکی یا فنی پہلوئوں کو فوری طور پر سمجھ لیتا ہے۔ دوسروں کے مقابلے میں اسے یہ برتری اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یا شعبے کی طرف ہوتا ہے بعض نوجوانوں کو الیکٹرونکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ ان کے اسرار و رموز سے بہت جلد اور خود بخود واقف ہو جاتے ہیں۔ لڑکے گڑیوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن لڑکیاں وہی کھیل شوق سے کھیلتی ہیں۔ پیشے کے انتخاب میں رجحان کو لازماً مدنظر رکھنا چاہیے اور اس کے مطابق ترجیحات میں سے کیرئیر منتخب کرنا چاہیے۔ (5)دلچسپی اور شوق بعض کام جو دوسروں کے لیے ’’مشکل‘‘ ہوتے ہیں وہ آپ کے لیے آسان ثابت ہوتے ہیں اور جو کام آپ کو مشکل نظر آتے ہیں دوسرے انہیں بہت آسانی سے کر لیتے ہیں۔ مشکل اور آسان کا یہ کھیل ہماری اور آپ کی ذاتی دلچسپی اور شوق کا نتیجہ ہے۔ جس کام میں ہمیں دلچسپی ہوتی ہے وہ ہم جلد سیکھ لیتے ہیں اور وہ ہمارے لیے آسان ہو جاتاہے۔ عملی زندگی کے لیے پیشے کا انتخاب کرتے وقت دلچسپی اور شوق کا عنصر نہایت اہم ہے۔ انسان کو وہی پیشہ اپنانا چاہیے جو اس کا شوق ہو اور جو دلچسپ نظر آئے۔ کام دلچسپ اور رجحان کے مطابق ہو تو وہ کام نہیںرہتا۔ مشغلہ بن جاتاہے۔ اس کام کو انجام دیتے وقت انسان تھکن محسوس نہیںکرتا خواہ اس میں کتنا ہی وقت صرف کیوں نہ ہو۔ (6)حالات اور ماحول انسان کے حالات اور اس کا ماحول اس کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں یہ پیشے کے انتخاب میں بھی آپ کے فیصلے پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ مثلاً کم وسائل رکھنے والے ایک نوجوان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے دسویں جماعت کے بعد کوئی ملازمت کرے۔ ایسا نوجوان اپنے خاندان کے معاشی حالات کی وجہ سے دسویں جماعت کے بعد ملازمت کر سکتا ہے اور شام کے کالج میں یا فاصلاتی نظام تعلیم مثلاً علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔ حالات مشکل ہوںیا آسان ان کو زندگی کی حقیقت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے اور انہی حالات میں اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ کامیاب زندگی کا راستہ ہمیشہ جدوجہد سے ملتا ہے۔ تعلیم و تربیت زندگی میں اپنے پیشے میں کامیاب رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رجحان اور شوق کے مطابق جو بھی پیشہ منتخب کریں اس کی باقاعدہ اور اچھی تعلیم و تربیت بھی حاصل کریں۔ تعلیم و تربیت کے لیے اچھے ادارے یا درس گاہ کا انتخاب کریں۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد پیشہ ورانہ علیم و تربیت کے لیے اگرکسی پرائیویٹ ادارے میں داخلہ لیں تو سب سے پہلے یہ تصدیق کر لیں کہ اس ادارے یا درسگاہ کی سند(ڈگری) پاکستان میں تسلیم کی جاتی ہے یا نہیں؟ تعلیم و تربیت کے دوران (اور اس کے بعد بھی) درسی کتابوں کے علاوہ اپنے کیرئیر سے متعلق دوسری کتب اوررسائل کا مطالعہ کریں۔ اچھی ادبی کتابیں پڑھیں ان سے انسان کی ذہنی تربیت ہوتی ہے۔ ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی کوشش کریں۔ یہ آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ آپ خواہ کسی بھی شعبے میں ہوں کمپیوٹر کا استعمال ضرور سیکھیں۔ مستقبل میں ایسے لوگوں کی کامیابی مشکوک ہو گی جو کمپیوٹر سے واقف نہ ہوں۔ زندگی میں اور کیرئیر میں کامیابی کے لیے چند شخصی اوصاف بہت مدد دیتے ہیں۔ جن میں خوش اخلاقی نرم گفتاری‘ راست بازی‘ دوسروں کے لیے ہمدردی کا رویہ اور خود اعتمادی کامیابی کی کلید ہییں۔ جو کام بھی سیکھیں اسے پوری طرح سیکھیں تاکہ آپ اپنے لیے کا م میں اپنے ہنر میں پر اعتماد رہیں اورآخری بات یہ کہ سیکھنے کا عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ آپ اپنے کیرئیر میں اسی وقت کامیاب رہیں گے جب ہر دم نئی بات اور نئی چیز کو سیکھنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ تو بات تھی کیرئیر کے چنائو کی۔ آنے والے صفحات میں کیرئیر کا کامیاب آغاز کرنے کی آخری منزل انٹرویو کے متعلق مواد آپ کی نظر سے گزرے گا انٹرویو کی بھرپور تیاری کے لیے یہ صفحات انشاء اللہ آپ کے بھرپور معاون ثابت ہوں گے۔ ٭٭٭ قومی اخبارات میں مختلف نوکریوں کے اشتہارات سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اہل باصلاحیت اور تجربہ کار ملاز مین کی تنظیمی بہتری اور اپنے کاروبار میں توسیع کے لیے ضرورت رہتی ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وہ قومی اخبارات کے ذریعے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرتے ہیں۔ ان اشتہارات میں آسامی کو پر کرنے اور مطلوبہ تعلیمی قابلیت تجربہ عمر اور دیگر تفصیلات متوقع تنخواہ کے ساتھ ساتھ تازہ ترین پاسپورٹ سائز تصویر اور ان کے دفاتر میں درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ تفصیل کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔ لہٰذا نوکری کے متلاشی افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مطلوبہ ملازمت کے حصول کے لیے قومی اخبارات کا مسلسل مطالعہ کرتا رہے۔ پیشے کا انتخاب بہت سی ملازمتیں قومی اخبارات میں مشتہر کی جاتی ہیں لہٰذا کسی بھی آسامی کے لیے درخواست دینے سے قبل امیدوار کو غور کر لینا چاہیے کہ اس کے لیے کون سی نوکری طویل مدت تک موزوں رہے گی کیونکہ نوکری کا انتخاب بہت مشکل کام ہے۔ ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ بچپن میں ہر کوئی ڈاکٹر ‘ انجینئر پائلٹ کوئی آفیسر یا بیوروکریٹ بننے کی باتیں کرتا ہے۔ اس لیے پیشے کا انتخاب انتہائی مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ انسان کی پوری زندگی کا انحصار اپنے پیشے پر ہوتا ہے۔ اس لیے امیدواروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پیشے کے انتخاب کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیں تاکہ عملی زندگی میں کسی قسم کی مشکل محسوس نہ کریں۔ ایک استاد لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں اور ناخواندگی میں لا سکتا ہے۔ بہت زیادہ لوگوں کو تعلیم سے بہرہ ور کرنا یقینا اعلیٰ و ارفع کام ہے۔ اس لیے اگر آپ استاد بننا چاہتے ہیں تو حتمی فیصلہ کر لیں اور اس ملازمت کے حصول کے لیے بھر پور تیار ی کریںَ تاکہ ملازمت کے حصول میں آپ کو کسی قسم کی دقت کا سامنانہ کرناپڑے۔ ایک پروفیسر بہت سی کتابوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہے یہ اس کے علم کو تازہ بہ تازہ رکھتی ہیں انجینئر عمارات‘ پلوں‘ مساجد ‘ سٹیڈیمز اور گھروں کے ڈیزائن تیار کرتا ہے۔ ان انجینئروں اورماہرین تعمیرات کے نام ابھی تک زندہ ہیں جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوںمیں قدیم عمارات کے ڈیزائن بنائے۔ اگر آپ انجینئر ہیں تو سوچ سمجھ کر اپنے لیے ایسی ملازمت کا چنائو کریں جو آگے چل کر آپ کے کیرئیر کو استحکام بخشے۔ فوج کے پیشے کا انتخاب بھی انتہائی قابل احترام خیال کیا جاتا ہے اور ہر کوئی اسے مقدس رکھتا ہے۔ یہ اس لحاظ سے ایک مثالی اور شریفانہ پیشہ ہے کہ سپاہی ہمیشہ بہت ایماندار اور محنتی ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ہوتاہے۔ جس کی بنا پر اسے انتہائی عزت و احترام کامستحق سمجھا جاتا ہے لیکن اگر آپ کی ذاتی دلچسپی نہیں ہے تو پھر پیشے کے انتخاب کے لیے والدین بزرگوں اور متعلقہ شعبہ کے ماہرین سے مشاورت کریں تاکہ آپ اپنے لیے بہتر پیشے کا انتخاب کرسکیں۔ ٭٭٭ نمونہ اشتہار ٭٭٭ امیدواروں کو چاہئے کہ وہ اشتہارات کا بغور مطالعہ کریں اور پھر نوکری کے لیے درخواست تیار کریں۔ اور امیدوار درخواست فارم کے حصول کے لیے متعلقہ دفاتر سے رجو ع کرے۔ اصل درخواست فارم کو پر کرنے سے پہلے امیدوار اور اس کی فوٹو کاپی کو خود پر کریں تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔ درخواست فارم جمع کروانا نوکری کے لیے درخواست دینے والے امیدواروں کو چاہیے کہ وہ متعلقہ دفتر میں درخواستیں جمع کراتے ہوئے خاصی احتیا ط سے کام لیں کیونکہ وہاں صرف وہی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں جو آجر کی جانب سے فراہم کردہ فارم پر لکھی جائیں جو محکمہ سے با آسانی مل جاتا ہے۔ بعض اوقات آجر ہاتھ سے لکھی درخواست طلب کرتا ہے اور ایسی صورت میں درخواست صاف اور خوشخط لکھیں۔ جو درخواستیں دفتری اوقات کار کے بعد آخری تاریخ کو وصول کی جاتی ہیں انہیںمسترد کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی لہٰذا امیدواروں کو ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ امیدوار جو اصل فارم جو اشتہار میں شائع ہوتے ہیں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں کالموں کو بل پوائنٹ کے ساتھ بھی پر کیا جاسکتا ہے۔ سفید کاغذ پر صاف ستھر ا ٹائپ شدہ فارم بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ کاغذ ایک طرف ہونے چاہیے۔ اگر آجر کی اجازت ہو تو آپ اصل فارم کی نقل بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن ایسی درخواست جو ہو بہو ادارے یا اشتہار کے مطابق نہ ہو تو درخواست کو مسترد کر دیا جائے گا۔ ایک امیدوار کو صرف ایک درخواست جمع کروانی چاہیے۔ درخواست جمع کروانے سے قبل امیدوار کو امتحان؍ ٹیسٹ؍ انٹرویو کے لیے دی گئی شرائط کو بڑی احتیاط کے ساتھ پڑ ھ لینا چاہیے اوراطمینان کر لینا چاہیے کہ وہ مطلوبہ ملازمت کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اشتہار میں دی گئی مقررہ تاریخ سے قبل امیدواروں کودرخواست فارم متعلقہ ادارے یا تنظیم کے دفتر کو ارسال کر دینا چاہیے۔ درخواست بھجوانے کے لیے جو لفافہ استعمال کیا جائے اس پر جلی حروف میں درخواست برائے آسامی لکھیں۔ درخواست فارم کو پر کرنا ملازمت کے حصول کے لیے پہلا قدم درخواست فارم پر کرنا ہے۔ لہٰذا آپ بڑی توجہ کے ساتھ درخواست فارم کو پر کریںَ اس مقصد کے لیے مندرجہ ذیل امو ر کا ہر ممکن لحاظ رکھیے۔ 1۔ فارم احتیاط کے ساتھ اور صاف ستھرا پر کیجیے اووررائٹنگ سے گریز کریں۔ 2۔ درخواست فارم پر کوئی بھی کالم خالی نہ چھوڑیں اگر کوئی کالم غیر متعلقہ ہے تو لکھیے ناقابل اطلاق یا آرپار ایک لائن (؍) کھینچ دیجیے۔ 3۔ اگر معلومات کے اندراج کے لیے اضافی جگہ کی ضرورت پڑے تو اضافی کاغذاستعمال کریں۔ 4۔ اگر ایک امیدوار ایک سے زیادہ آسامیوں کے لیے درخواست جمع کروانے کا متمنی ہو تو آسامیوں کے لیے الگ الگ درخواست دے۔ 5۔ اگر درخواست فارم کے ساتھ ٹریژری چالان فارم لگانا مقصود ہو تو اس کی اصل رسید فارم کے ساتھ لگائی جائے۔ 6 ۔ مقابلے کے امتحان کی صورت میں صرف امتحا ن کانا م لکھنا چاہیے۔ 7۔ نوکری کے حصول کے لیے درخواست فارم کے ساتھ تمام متعلقہ؍ دستاویزات؍ سرٹیفکیٹس تصدیق شدہ لف کیجیے۔ 8۔ اگر ضرور ت ہو تو اضافی دستاویزات؍سرٹیفکیٹس بھی درخواست کے ساتھ لف کیجیے۔ 9 ۔ درخواست فارم کو کانٹ چھانٹ سے بچایاجائے اور غلط پر نہ کیا جائے ایسی صورت میں درخواست فارم مستر د کر دیا جائے گا۔ 10۔ درخواست فارم پر غیر ضروری مواد تحریر کرنے سے گریز کریں۔ 11۔ درخواست متعلقہ دفترمیں آخری تاریخ سے پہلے بھجوا دیں کیونکہ اس ضمن میں بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ فرد و جو وقت ملا ہے اس کا بہتر استعمال کیاجائے۔ 12۔ اگر ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست طلب کی جائے تو پھر امیدوار کو اپنے ہاتھ سے درخواست تحریر کرنی چاہیے۔ 13۔ درخواست فارم کو بار بار بغور پرھیں تاکہ اگر کوئی کالم پر ہونے سے رہ گیا ہو تو اسے پر کر لیاجاائے۔ 14۔ درخواست کو رجسٹرڈ کے تحت متعلقہ دفتر کو ارسال کیا جائے لفافے کے دائیں ہاتھ کے کونے میںمتعلقہ آسامی کا نام لکھا جائے۔ 15۔ ایسے امیدوار جو سرکاری ملازمت کر رہے ہیں وہ اپنے دفتر سے عدم اعتراض (NOC)سرٹیفکیٹ حاصل کریں اور ضروری کارروائی کے بعد درخواست فارم کو قانونی ذریعہ سے متعلقہ دفتر بھیج دیا جائے۔ 16۔ اگر آجر کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہو تو درخواست فارم کے ساتھ اپنی تازہ ترین تصویر بھی لف کیجیے۔ ٹیلی فون 1 اگر آجر کی طرف سے امیدوار کو بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کرنے کی ہدایت ہو تو امیدوار اپنی درخواست کو بذریعہ ٹیلی فون بھی پہنچا سکتا ہے۔ 2 ۔ اگر آپ ٹیلی فون کریں تو متعلقہ اشتہار کاحوالہ دیتے ہوئے جس نوکری کے آپ خواہش مند ہیں اس کے متعلق بتائیے۔ ۳۔ اشتہار میں درج ذیل تمام نکات کو مدنظررکھتے ہوئے سوالوں کے متعلق بات چیت صاف آواز اور نرم لہجے میں آہستگی سے کریں یادرکھیے آجر آپ کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا لیکن آپ خود کو پرسکون رکھیں کیونکہ یہ درخواست آپ کی آواز کے ذریعے پہنچ رہی ہے۔ 4۔ اگر کوئی امر واضح نہیں تو معلومات درج کرنے والے سے پوچھیں اور مستقبل کے حوالے کے لیے ان کا ایک نوٹ اپنے پا س رکھیں۔ یادداشت جس آسامی کے لیے آجر پبلک سروس کمیشن فیڈرل سروس کمیشن یا کسی محکمے یا تنظیم نے قومی اخبارات میں جو اشتہار دیا ہے اسے غور سے پڑھیے ۔ امیدواروں کو جان لینا چاہیے کہ اگر ایک درخواست فارم پر دستخط نہیں ہیں یا نامکمل یا غلط طریقے سے معلومات درج کی گئی ہوں یا ٹریژری ؍ رسید بینک چالان اصل حالت میں (اگر درکار ہو تو) اور تمام دستاویزات کی تصدیق شدہ کاپیاں لف نہ ہوں تو درخواست مسترد کر دی جائے گی۔ اہلیت درخواست گزار جو پاکستان کے شہری ہوں یا شمالی علاقہ جات آزاد جموں و کشمیر کے شہری ہوں یا فاٹا کے اور وہ مطلوبہ تعلیمی قابلیت یا عمر کی حد کے اندر اور ان تمام شرائط کو جو قومی اخبارات میں بذریعہ اشتہار دی گئی ہیں پر پورا اترنے کی صورت میں آخری تاریخ کو درخواست جمع کروا دیں تو متعلقہ ملازمت کے لیے اہل ہیں۔ عمر کی حد میں رعایت حکومت یا متعلقہ ادارے کو عمر کی حد میں رعایت دینے کا اختیار حاصل ہے۔ درخواست دیتے وقت اگر آپ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے تو عمر میں رعایت کا سرٹیفکیٹ متعلقہ ادارہ سے حاصل کریں اور درخواست فارم کے ساتھ لف کریں اسی طرح آپ کی درخواست ملازمت کے لیے قابل غور ہو جائے گی۔ درخواست فارم کے ساتھ لف کی جانے والی دستاویزات امیدواروں کو کسی بھی ملازمت کے لیے درخواست جمع کرواتے وقت مندرجہ ذیل دستاویزات کی مصدقہ فوٹو کاپیاں درخواست کے ہمراہ لف کرنا ہوں گی۔ 1۔ میٹرک سرٹیفکیٹ اور اصلی نمبروں کی تفصیلی رپورٹ۔ 2 ایف اے؍ ایف ایس سی 3۔ بی ۔ اے ؍ ای ۔ ایس ۔ سی 4۔ ایم ۔ اے ؍ ایم ایس سی؍ پی ایچ ڈی 5 اگر سرکاری ملازم ہوتو عدم اعتراض سرٹیفکیٹ برائے ملازمت 6۔ کھیلوں کا سرٹیکفیٹ (اگر کوئی ہو) 7۔ شہریت کا سرٹیفکیٹ۔ 8۔ قومی شناختی کارڈ۔ 9 ۔ کریکٹر سرٹیفکیٹ۔ نوٹ: یہ دستاویزات تصدیق شدہ ہونی چاہئیں۔ اضافی یا علیحدہ تجربے کا سرٹیفکیٹ اگر درخواست گزار اضافی تجربے کا سرٹیفکیٹ بھی درخواست فارم کے ساتھ جمع کرا رہا ہے تو اسے مکمل معلومات اورتجربے کی نوعیت اورمجاز ادارہ کے سرکاری لیٹر پر حوالہ نمبر اورجاری تاریخ اورمہر بمعہ مکمل پتہ عہدہ‘ ٹیلی فون‘ ویب سائٹ(اگرکوئی ہے) کے ساتھ جمع کروانا چاہیے۔ نامکمل اورمبہم تحریر والے سرٹیفکیٹ مسترد کر دیے جائیں گے۔ باقاعدہ ملازمت کرنے والے امیدوار کا سرٹیفکیٹ ادارے تنظیم یا محکمے کے سربراہ کی جانب سے جاری ہونا چاہیے۔ عبوری بنیادوں پر کام کرنے والوں کے تجربے کے سرٹیفکیٹس مجاز مقتدرہ کی جانب سے جاریی ہوں گے جہاں دوران ملازمت امیدوار کرتا رہا ہے۔ چند محکمے کے سربراہ بعض صورتوں میں یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز نہیں۔ لہٰذا ہو سکتاہے کہ ان کے جاری کردہ سرٹیفکیٹس مسترد کر دیے جائیں۔ درخواست فارم کے ساتھ برطرفی کے سرٹیفکیٹ لف کرنا ایسے امیدوار جو وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت نیم سرکاری یا نجی اداروں کی جانب سے ملازمت سے برطرف کر دیے گئے ہوں انہیں برطرفی کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ علیحدہ کاغذ پر برطرفی کی وجوہات بیان کرنی چاہئیں۔ اقرار نامہ مختلف محکموں کے اداروں کی جانب سے جاری مطلوبہ اقرار نامے کے فارم تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں تاہم ان کے الفاظ میں کچھ ردو بدل ہو سکتا ہے۔ عموماً درخواست فارم کے ساتھ جو اقرار نامہ لف کیا جاتا ہے اس کا ایک نمونہ یہاں دیکھا جا رہا ہے۔ 1۔ پورا نام انگریزی بڑے حروف میں اگر اقرار نامہ انگریزی میں لکھا جارہاہے۔ 2۔ والد کا نام۔ 3 تاریخ کے ساتھ عمر برسوں میں اور جائے پیدائش (ہندسوں اور حروف تہجی میں) 4۔ ملازم کیا جاتا ہے بطور… 5۔ تقررنامے کا نمبر اور تاریخ مندرجہ ذیل کوائف فراہم کیے جائیں 6۔ کیا آپ نے کبھی سرکاری؍ مسلح افواج یا پولیس کی نوکری کی ہے؟ 7۔ کیا آپ پاکستان سے باہر قیام پذیر رہے ہیں؟ 8۔ اگر رہے ہیں تو کہاں… 9۔ کیا اپ کبھی سول یا ملٹری میڈیکل بورڈ؍ میڈیکل آفیسر سے طبی معائنہ ہوا ہے؟ (ا) برائے لائف انشورنس (ب) یا سرکار کی طرف سے اگر ایسا ہے تو کیا نتائج برآمد ہوئے… 10۔ کیا آ پ کا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز کبھی تپ دق‘ کینسر‘ دماغی امراض‘ بیش تنائو‘ ذیا بیطس‘ دمہ ‘ تشنج‘ جنون یا دیگر امراض میں مبتلا رہ چکا ہے… 11۔ کیا آپ کبھی کسی مرضمیں مبتلا ہوئے ہیں مثلاً (ا) چیچک تپ محرقہ‘ غدودوں کے بڑے آپریشن‘ خون تھوکنے دمے‘ پھیپھرے کے پردے ی سوزش کی متعدی امراض‘ کان بہنے‘ آتشک یا سوزاک میں (ب) کیا زخمی ہوئے اور آپریشن ہوا خواہ وہ میڈیکل یا سرجیکل بشمول سرجیکل آپریشن ہوا۔ 12 ۔ کیا بچپن میں آ پ کو حفاظتی ٹیکہ جات لگوائے گئے؟ 13۔ کیا آ پ کو ہے؟ (ا) ہرنیا (ب) خصیوں کی تھیلیوں میںپانی آنا۔ (ج) فوتوں کی رگوں کے پھولنے سے بنی ہوئی گانٹھ پھولی ہوء رگ رگوں یا نسوں کا بھرنا قبض۔ 14۔ کیاآپ کی جسمانی ساخت میں نقص یا کوئی عضو غیر معمولی طور پر بڑھا ہوا ہے؟ 15۔ کیا ٓاپ کی بصارت اچھی ہے؟ امیدوار جو چشمہ لگاتے ہیں وہ اپنے ہمراہ ڈاکٹر کا نسخہ لائیں۔ 16 کیا آپ کی سماعت ٹھیک ہے؟ 17۔ آپ کو کب آخری (ا) ٹیکہ لگایا؟ (ب: یہ آپ آخری بار کب بیمار ہوئے؟ 18۔ کیا آپ کی صحت سے متعلقہ کوئی اور معلومات بھی ہیں جو بالا سوالات کا احاطہ نہ کرتی ہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے بہترین علم کے مطابق تمام دیے گئے جوابات سچے اور درست ہیں اور میں بخوبی آگاہ ہوں کہ اپنی مرضی سے دینے والی معلومات غلط ثابت ہونے کی صورت میں مجھے نوکری سے محروم کر دیاجائے گا یا اگر نوکری حاصل کر لی تب بھی اسے چھوڑنا پڑے گا۔ مقام… تاریخ… امیدوار کے دستخط نوٹ: صحت کے حوالے سے تیار کیاجانے والا اقرار نامہ طبی معائنہ سے قبل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور مجاز میڈیکل آفیسر کے سامنے لکھا جائے۔ ضمانتی بانڈ بعض ادارے امیدواروں سے ضمانتی بانڈ بھی پر کرواتے ہیں۔ ضمانتی بانڈ کی عبارت کچھ یوں ہوتی ہے۔ 1 ۔ میں بخوبی سمجھتا ہوں کہ کسی قسم کی دروغ بیانی اس درخواست کو منسوخ کرنے یا بعد میں اگر میں نے انٹرویو کے لیے جانا قبو ل کربھی لیا تو فوری برطرفی کا باعث بن سکتی ہے۔ درخواست قبول ہونے اور ملازمت کے حصول کے بعدمجھے ان تمام قوانین اور ضابطوں کی پابندی کرنا ہو گی جو اس وقت مروج ہیں یا جو میری نوکری حاصل کرنے کے بعد لاگو ہوں گے۔ 2۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ مہیا کردہ معلومات میرے بہترین علم کے مطابق سچی ہیں اس محکمے میں میری تقرری کے موقع پر یا ملازمت کے دوران کسی قسم کا خلاف قانون عمل اگر ملازمت مل جائے تو میری نوکری ختم کرنے یا برطرفی کے لیے کافی جواز مہیا کرے گا۔ میں مزید اقرار کرتا ہوں کہ : (ا) میں ہمیشہ محکمہ ادارے کے مفاد کے لیے کام کروں گا (محکمہ کا نام بھی لکھیں) (ب) ادارے ؍ محکمے کے قوانین کی پابندی کروں گا۔ (ج) ہر لحاظ سے ڈسپلن قائم رکھوں گا۔ بتاریخ… مقام… درخواست گزار کے دستخط کوائف نامہ کوائف نامہ ایسا بیان ہے کہ جس میں امیدوار کا نام‘ عمر‘ تعلیمی قابلیت‘ تجربہ اور دیگر متعلقہ معلومات کالموں کے مقابل بیان کی جاتی ہیںَ اس میں غیر معمولی موضوعاتی اور معروضاتی ملاپ موجود ہوتا ہے۔ اس لیے مختلف ملازمتوں کے لیے کوائف نامہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لہٰذا امیدواروں کو اپنے کوائف ناموں کو انتہائی توجہ اور احتیاط سے درج ذیل ہدایات کے مطابق پر کرنا چاہیے۔ ٹائپ شدہ متعلقہ دفتر میں ٹائپ شدہ کوائف نامہ جمع کرایا جائے۔ (اگر اجازت ہو تو) نام پتہ اور ٹیلی فون نمبر متعلقہ کالموں میں نام پتہ اور ٹیلی فون نمبر لکھیے۔ نوکری کے مقاصد اگر آجر ملازمت کے حوالے سے آپ کے عزائم جاننا چاہتا ہے تو پھر امیدواروں کو بتانا چاہیے کہ وہ نوکری ملنے پر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ امیدواروں کو اپنی تعلیمی قابلیت اور کسی قسم کی دیگر قابلیت کا خلاصہ تحریر کرنا چاہیے۔ تجربہ اور آجر کوائف نامہ پر سب سے پہلے متعلقہ کوائف تحریر کرنے چاہئیں۔ بعض کوائف ناموں میںزمانی ترتیب کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔ تعلیم کوائف نامہ بذات خود تیار کردہ ہو تو اس طرح تحریر کریں اعلیٰ تعلیمی ڈگری کو پہلے لکھنا چاہیے۔ اگر ضڑورت نہ ہو تو سیکنڈری کم تر تعلیم۔ تائیدی معلومات تائیدی معلومات میں پیشہ ورانہ کامیابیاں اورنوکری سے متعلق اعزازات وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کوائف نامہ میں ان کے اندراج کی گنجائش ہے تو ضرور لکھیں لیکن امیدواروں کو چاہیے کہ وہ ایسی معلومات لکھنے سے گریز کریں جن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ذاتی معلومات اگر کوائف نامہ درج معلومات امیدوار کی عمر صحت یا ازدواجی حیثیت امیدوار کی تائید نہ کرتی ہوں تو انہیں چھوڑ دیجیے لیکن ساتھ ہی ساتھ امیدوار کو چاہیے کہ وہ تمام متعلقہ معلومات کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں ایک کاغذ پر لکھ لے اور اس کے بعد کوائف نامہ پر کرے۔ کوائف نامہ لکھنے کے بعد اس کا بغور مطالعہ کرنے میں زیادہ وقت لگائیں اور جب تک مطمئن نہ ہو جائیں تو اسے متعلقہ دفتر کو ارسال نہ کریں۔ اپنے کوائف نامے کے بارے میں یا ددہانی امیدواروں کو چاہیے کہ وہ اپنے نام اور ٹیلی فون نمبر کوائف نامے کے اوپر درج کریں اور اپنے تجربے کے سیکشن میں عملی فعل استعمال کریں۔ ایسے آسان لفظوں سے شروع کریں جس سے متعلقہ معلومات با آسانی منتقل ہو سکیں۔ جملوں کی گرائمر و ہجوں کو اچھی طرح چیک کرنا چاہیے اور اس بات کا اطمینان کر لیں کہ کوائف نامہ آپ کو منفرد شخصیت ظاہر کرتا ہے۔ کوائف نامہ پر کرنے کے بعد ایسے فرد سے چیک کروائیں جو ملازمتوں کے بارے میں بحث کرتا ہے۔ اگر گنجائش ہو تو امیدوار آجر کمپنی اور تنظیم وغیرہ کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے حوالے سے اپنے عزائم کے متعلق بھی لکھ سکتا ہے۔ آپ کے کوائف کے لیے چند مزید تجاویز ٭ غیر معمولی رنگوں کا کاغذ یا سیاہی استعمال نہ کریں کوائف نامہ سفید پیپر پر کالی یا نیلی سیاہی سے لکھا جائے۔ ٭ کاغذ پر معلومات درج کرتے وقت اپنے متن کے اردگرد ایک انچ حاشیہ چھوڑ دیجیے۔ ٭ اس امر کا یقین کر لیں کہ آپ نے کوائف نامہ کو Removerسے درست تو نہیں کیا۔ ٭ حروف سادہ اور باآسانی پڑھنا ممکن ہوں۔ ٭ کم سے کم زیریں لائنیں لگائیں۔ ٭ آجر کے نمائندوں سے سمجھ لینا چاہیے ۔ ٭ اگر ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر ہوتو صاف ستھرا کوائف نامہ آجر پر اچھا اثر ڈالتا ہے کیونکہ اچھی تحریر آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ٭ خواہ مخواہ تحریر کو خوبصورت نہ بنائیں۔ ٭ اگر درخواست بذریعہ فیکس بھجوانا مقصود ہو تو پھر لکھنے کے لیے کالی سیاہی استعمال کریں۔ ٭ کوائف نامہ پر دھبے نہیں ہونے چاہئیں۔ نمونہ درخواست فارم امیدوار اس جگہ پر تازہ ترین مصدقہ تصویر اچھی طرح گوندے لگائیں یا سٹیپل کر یں تصویر کے اوپر دستخط کرنے چاہئیں ۔ (اگر ضرورت ہو)۔ محکمہ کا نام … اشتہار شائع ہوا… میں … روزنامہ… بمورخہ… جاری کردہ… آسامی جس کے لیے درخواست دی گئی… 1۔ پورا نام بڑے حروف کے ساتھ (اگر فارم انگریزی میں ہے) ………………………………………… 2 ۔ (ا) شناختی کارڈ نمبر (ب) جنس مرد عورت (ج) ڈاک کا مکمل پتہ جس پر محکمہ کی جانب سے اطلاع بھیجی جائے۔ ………………………………………… (د) مستقل پتہ اگر (2) (ج) کے پتے سے مختلف ہے۔ (ر) تار کا پتہ… (س) ٹیلی فون نمبر اگرکوئی ہے دفتر گھر 3۔ مذہب… 4۔ (ا) میٹرک کے سرٹیفکیٹ کے مطابق تاریخ پیدائش… (ب) اشتہار میں دی گئی درخواست کی وصولی کی آخری تاریخ کو عمر۔ یوم؍ دن؍ تاریخ مہینہ سال …………………………………… 5۔ (ا) جائے پیدائش ضلع… صوبہ… (ب) کیا آپ پاکستان کے شہری ہیں؟ جواب ہاں یا نہ میں دیجیے… (ج) اگر شادی شدہ ہیں تو آپ کے زوج کی شہریت کیا ہے؟… 6۔ آپ کی سکونت کیا ہے؟ ضلع صوبہ (ا) آزاد کشمیر (ب) بلوچستان (ج) شمالی علاقہ جات وفاق کے زیر انتظام علاقے (د) صوبہ سرحد (ر) پنجاب (س) سندھ (شہری) (ش) سندھ) دیہی جس کا اطلاق آپ پرہوا اس کالم پر گڈ کا نشان لگائیں۔ نوٹ: مصدقہ سکونتی سرٹیفکیٹ ضرور لف کریں۔ 7۔ (ا) والد کا نام… (ب) پتہ… (ج) پیشہ… 8۔ صرف شادی شدہ خواتین کے لیے (ا) خاوند کا نام… (ب) پتہ (ج) پیشہ سکونتی ضلع… ضلع صوبہ 9 ۔ کیا آپ پاکستان سے باہر قیام پذیررہے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو مندرجہ ذیل کوائف مہیا کریں۔ سفر کا دورانیہ کون سا ملک دیکھا سے تک سفر 10۔ غیر نصابی سرگرمیوں کی تفصیل بشمول حافظ قرآن کھیلیں نیشنل کیڈٹ کور ( این سی سی) ویمن گارڈ سکائوٹنگ ؍ گرل گائیڈ؍ مباحثہ ؍ ڈرامہ؍ مدیر کالج میگزین اور سول ڈیفنس ٹریننگ وغیرہ کو تحریر کریں۔ علاوہ ازیں دستاویزات کی مصدقہ نقول بھی درخواست کے ساتھ لف کریں۔ نمبر شمار سرگرمی مقتدرہ کیفیت تعلیمی قابلیت میٹرک کے امتحان سے اعلیٰ درجہ تک پاس کیے گئے امتحانات کے کوائف اور ڈگریوں کے کوائف مہیا کریں۔ حاصل کردہ سرٹیفکیٹ سکول؍ کالج ادارے کا نام پاس کرنے کا سال کل نمبر حاصل کردہ نمبر درجہ رکھے گئے مضامین ڈگری پوسٹ گریجویٹ ڈگری ڈپلومہ 1 2 3 4 5 6 7 8 میٹرک ایف اے ؍ ایف ایس سی بی اے ؍ بی ایس سی ایم اے؍ ایم ایس سی ایم فل پی ایچ ڈی نوٹ: 1۔ مہیاکردہ معلومات کے ساتھ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ لف کریں اوران کے بغیر درخواست کو خارج کر دیا جائے گا۔ 2۔ تعلیمی کیرئیر کے دوران اگر خلاہے تو وہ بھی ظاہر کیجیے۔ 3۔ بورڈ ؍ یونیورسٹی کی طرف سے دی جانے والی پوزیشن یا میڈل کا ذکر کیجیے۔ 4۔ متعلقہ اضافی تعلیم (اگر کوئی ہو) تو اس کا ذکر بھی کیجیے۔ 5۔ سالانہ سمیسٹر ٹرمینل یا گروپ سسٹم امتحان دینے کی صورت میں برائے مہربانی ہر سال سمیسٹر ٹرمینل یا گروپ کی مارک شیٹ لف کیجییے۔ 12۔ اگر آپ کے پاس مقررہ تعلیمی قابلیت کے مساوی تعلیم کی ڈگری ہے تو یہ تحریر کریں کہ یہ حکومت کی تسلیم شدہ ہے۔ 13۔ پوسٹ گریجویٹ ریسرچ ورک کی تفصیل دیجیے۔ انٹرویو کے لیے جاتے وقت اصل دستاویزات اپنے ہمرا ہ لائیں۔ اگر یہ جگہ کافی نہیں ہے تو اپنے کوائف ایک کاغذ پر لکھیں اور لف کیے گئے پرت کے ساتھ بطور حوالہ لگائیں۔ 14۔ اپنی موجودہ نوکری تک کا سروس ریکارڈ بھی دیں۔ محکمہ کا دفتر عہدہ عہدے کی حیثیت یعنی آیا مستقل عارضی یا عبوری دورانیہ سے تا گریڈ یا بنیادی سکیل عہدہ چھوڑنے کی وجہ 1 2 3 4 5 6 7 15۔ اگر آپ کو صوبائی وفاقی حکومت خود مختار نیم خود مختار یا سرکاری اداروں کی طرف سے برطرف کر دیا ہٹا دیا گیا ہو تو برائے مہربانی تفصیل نیچے درج کریں۔ محکمہ عہدہ جس پر فائز تھے سال برطرف کیے گئے یا ہٹا دیے گئے 16 ۔ سابقہ ملازم ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل تفصیلات اور ڈسچارج سرٹیفکیٹ کی نقل شامل کریں۔ (ا) بھرتی ہونے کی تاریخ… (ب) چھوڑنے برطرف کرنے کی تاریخ… (ج) چھوڑنے برطرفی کے وقت عہدہ… 17۔ اگر آپ نے کسی وقت محکمے کی جانب سے کسی آسامی کے لیے دیے گئے اشتہار کے لیے درخواست دے رکھی ہو یا اس کی طرف سے امتحان دے چکے ہوں حقیقت کے بلا امتیاز اگر آپ نے امتحان دیا ہو یا نہیں برائے مہربانی ان کے تمام کوائف نیچے دیں۔ عہدہ؍ امتحان انٹرویو؍ امتحان کی تاریخ نتیجہ 18۔ برائے مہربانی اس مرکز پر نشان لگائیے جہاں آپ تحریری امتحان یا انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔ حیدر آباد؍ کراچی؍ لاہور؍ پشاور؍ کوئٹہ ؍ اسلام آباد محکمہ تحریری امتحان یا انٹرویو کے لیے ایک امیدوار کی جانب سے منتخب کیے گئے سنٹرکو اختیار کرنے کے لیے بھرپور ترجیح دے گا امیدوار کو چاہیے کہ وہ تحریر ی امتحا ن یا انٹرویو کے لیے دیے گئے مراکز میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ اس مقصد کے لیے ٹی اے اور ڈی اے نہیں دیا جائے گا۔ 19۔ برائے مہربانی سرٹیفکیٹوں کی مصدقہ نقول اور دیگر دستاویزات کے سامنے ہں میں (٭) گڈ کا نشان لگائیں جو آپ نے اس درخواست کے ساتھ لف کیے ہیں۔ (ا) سیکنڈری سکول؍ میٹریکولیشن… (ب) انٹرمیڈیٹ سرٹیفکیٹ… (ج) ڈگری… (ر) پوسٹ گریجویٹ ڈگری… (س) سکونتی سرٹیفکیٹ… (ش) تجربہ؍ سروس سرٹیفکیٹ… (ص) امتیاز کا کوئی سرٹیفکیٹ… (ض) نمبروں کے سرٹیفکیٹ… 20۔ ملازمت میں رہتے ہوئے کیا آپ نے محکمے کا اجازت نامہ فارم اپنی درخواست کے ساتھ اس فارم کے اضافے کے ساتھ لف کردیا ہے ۔ یا محکمہ کا اجازت نامہ فارم بھرتی کرنے والے مجاز مقتدرہ کو بھیجا ہے اور کیا آپ نے اپنے قریبی نگران آفسیر سے ایک سرٹیفکیٹ لے کر اپنی درخواست کے ساتھ لف کر دیا ہے۔ ہاں ناں (٭) لگائیں میں نے یہ درخواست فارم محکمے کی ہدایات اورمتعلقہ اشتہار کی روشنی میں پر کیا ہے۔ میںحلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ اس درخواست فارم میں دیے گئے جوابات کامیرے بہترین علم کے مطابق درست ہیں۔ امیدوار کے دستخط… تاریخ… (محکمہ جاتی اجازت نامہ) برائے مہربانی اسے غور سے پڑھیے۔ (ا) برائے مہربانی اسے پر کیجیے دستخط کیجیے اور اس صفحے کو علیحدہ کر دیجیے اور اسے تقرری کے مقتدرہ کو بھیج دیجیے۔ (ب) تقرر کنندہ مقتدرہ کو مطلوبہ کوائف مہیا کردہ جگہ پر بھرنے چاہئیں اور دستخط کر کے آخری تاریخ سے پہلے محکمہ کو بھیج دینا چاہیے۔ (ج) اصل درخواست کو قریبی نگران آفیسر کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ سرٹیفکیٹ فارم جمع کرانے کے لیے محکمہ اجازت نامے اور ضروری دستاویزات کے ساتھ محکمہ کو آخری تاریخ تک تقرر کنندہ مقتدرہ کے پاس بھیج دیا جائے۔ وگرنہ اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ (د) اگر ایک امیدوار تقرر کنندہ مقتدرہ سے محکمہ جاتی اجازت نامے کا فارم اس درخواست کے جمع کرانے سے پہلے حاصل کر لیتا ہے تو اسے بھی درخواست سے لف کر دیا جائے۔ 2۔ مندرجہ ذیل کوائف امیدوار کو خودپر کرنا چاہئیں۔ (ا) نام… (ب) والد کانام… (ج) موجودہ منصب… (د) دفتر؍ محکمہ… (ر) آسامی جس کے لیے درخواست دی … (س) محکمے کا اشتہار جو روزنامہ… بمورخہ… کو شائع ہوا امیدوار کے دستخط تاریخ… 3۔ یہ حصہ محکمہ ؍ دفتر کو خود پر کرنا چاہیے۔ تصدیق کی جاتی ہے کہ مندرجہ بالا امیدوار کو متذکرہ آسامی کے لیے درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ (ا) وہ محکمہ؍ دفترمیں بطور… ملازم ہے۔ (ب) اس کی یہ نوکری مستقل ہے ؍ عارضی ہے یا عبوری حیثیت سے ہے۔ (ج) امیدوار کا سکونت نامہ جسے محکمہ؍ دفتر نے تسلیم کیا ہے اور دفتر کے ریکارڈ میں درج کیاگیا ہے کا متعلقہ ضلع… ہے۔ (د) محکمے کے ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی نا اہلیت کے سلسلے میں آسامی کے لیے مانع ہے۔ دستخط… تاریخ… نام اور عہدہ تقرر کنندہ مقتدرہ یا اس کا نمائندہ مجاز آفیسر ٭٭٭ مختصر درخواست فارم کمپیوٹر نمبر … صرف دفتر کے استعما ل کے لیے اشتہار نمبر؍ سیریل نمبر آسامی جس کے لیے درخواست دی گئی… نام… جنس… والد کا نام… قومیت… تاریخ پیدائش… مذہب… سکونت… ضلع… تعلیمی قابلیت… ڈویژن؍ درجہ… مضامین… اعلیٰ تعلیم… ڈویژن؍ درجہ… مضامین… کورس… تجربہ… ڈاک کا پتہ… ٹیلی فون رہائش… دفتر… قومی شناختی کارڈ نمبر… ٹیسٹ سنٹر… بینک ڈرافٹ؍ پے آرڈر نمبر؍ تاریخ… بینک کا نام… برائے افراد مسلح افواج ؍ سرکاری ملازم سی پی ایل لائسنس وائی؍ این مسلح افوا ج میں برس… سرکاری ملازمت میں برس… دستخط… تاریخ… درخواست فارم برائے ملازمت (معینہ مدت کی بنیاد پر) (درخواست دہندہ کی جانب سے خود پر کرنا ہو گا) آسامی کے لیے… سیریل نمبر : 763925 تصویر ذاتی معلومات نام… جنس… تاریخ پیدائش… جائے پیدائش… قومیت… سکونت… مذہب… شناختی کارڈ نمبر… جاری کردہ مقام… موجودہ پتہ… …………………… مستقل پتہ… ………………… ٹیلی فون نمبر (ز) رہائش… دفتر… موبائل… ای میل پتہ… ازدواجی حیثیت…اکیلا…شادی شدہ…مطلقہ…بیوہ… پاسپورٹ نمبر… تاریخ… جاری مقام… ڈرائیونگ لائسنس نمبر…تاریخ… جاری مقام… حلیہ قد کاٹھ بھاری ؍ درمیانہ؍ ہلکا صورت بالوں کا رنگ آنکھوں کا رنگ شناختی نشان امیدوار کا پتہ جہاں وہ گزشتہ دس برسوں میں چھ ماہ سے زیادہ ٹھہرا ہو۔ سے تا پتہ تعلیمی ریکارڈ نمبرشمار سے تا تعلیمی ادارے کا نام اور مقام سرٹیفکیٹ؍ ڈگری ڈویژن؍ گریڈ اہم مضامین کمپیوٹر کی مہارت (اگر ہے) کیا آپ دیہی علاقے میں ملازمت کرنے پر متفق ہیں؟ کیا آپ نے کبھی ادبی کھیلوں یا دوسرے میدانوں میں کوئی امتیاز حاصل کیا ہے؟ کیا آپ جسمانی اور ذہنی سرگرمی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ گزشتہ تین برسوں میں شدید علیل رہے ہیں یا کوئی آپریشن کروایا ہے؟ گزشتہ تین برسوں میں کتنے دن آپ بے روزگار رہے ہیں؟ کام کی تاریخ نمبر شمار سے تک آجر کا نام منصب جو سنبھالے رکھا ماہانہ کل آمدنی ملازمت چھوڑنے کی وجہ کیا آپ کا کوئی رشتہ دار کسی محکمے کے لیے کام کرتا رہا ہے؟ …ہاں …ناں اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو نیچے تفصیلات درج کریں۔ نام رشتہ داری عہدہ محکمہ حوالہ جات رشتہ داروں کے علاوہ دیگر دو افراد ک بھی نام لکھیے جن کو حوالہ بنایا جا سکے۔ نام مکمل پتہ پیشہ ٹیلی فون نمبر (ز) مشاغل ؍ اضافی نصابی سرگرمیاں اگر آپ کو منتخب کر لیا جائے تو کتنی جلدی آپ ملازمت پر آنے کے قابل ہوں گے؟ آیا آپ کسی سیاسی یا دوسرے مقاصد میں گرفتار ہوئے یا آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوئی یا مجرم ٹھہرائے گئے اور نظر بند رہے۔ اثاثہ جات غیر منقولہ؍ منقولہ قیمت کس طریقے سے حاصل کی رکنیت (کلبوں‘ سیاسی جماعتوں او رایسوسی ایشنوں کی) سے تک کلب ؍ پارٹی کا نام غیر ملکی سفر نمبرشمار سے تک جو ملک دیکھا سفرکا خا ندانی معلومات والد نام… پیشہ… آمدنی… تاریخ… جائے پیدائش… زندہ فوت ہو گئے ہیں… سکونت… مذہب… ذات… قومیت… پتہ… بھائی ؍ بہنیں (اپنی) نام جنس پیشہ عمر وابستگی پتہ زوج (خاوند یا بیوی) نام… پیشہ… آمدنی… تاریخ پیدائش… جائے پیدائش… زندہ یا فوت… سکونت… مذہب…ذات…قومیت… پتہ… بچوں کی تفصیلات نمبر شمار جنس تاریخ پیدائش عمر جماعت؍ تعلیم ماہانہ اخراجات تعلیمی ادارے کا نام سسر نام… پیشہ پتہ… ساس نام… پیشہ… پتہ… سسرالی بھائی؍ بہن نام پیشہ پتہ کیا آپ کے کسی رشتہ دار کی سیاسی وابستگی ہے یا رہی ہے؟ …ہاں …ناں اگر ہاںمیں ہے تو نیچے تفصیلات درج کریں۔ نام رشتہ داری سیاسی جماعت کا نام اقرار نامہ میں اقرار کرتا ہوں کہ درخواست میں در ج معلومات میرے بہتر علم کے مطابق سچی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگراس محکمے میں ملازمت ملنے وقت؍ محکمہ میں میری ملازمت کے دوران میں محکمے کے نظم کو درہم برہم کرنے والا فعل قانون کے مطابق میری نوکری کی ملازمت سے علیحدگی؍ برطرفی جواز فراہم کرے گا۔ میں مزید اقرار کرتا ہوں کہ (اگر مجھے محکمے میں ملازمت مل گئی تو) میں ہمیشہ (ا) محکمے کے مفاد کے لیے کام کروں گا۔ (ب) محکمے کے قوانین کی پابندی کروں گا۔ (ج) ہر حال میں ڈسپلن کو قائم رکھوں گا۔ درخواست گزار کے دستخط مقام تاریخ تصدیق کنندہ کی مہر نام نوٹ: اس فارم کے لیے ہیڈ ماسٹر پرنسپل؍ گزیٹڈ آفیسر کی تصدیق درکار ہو گی۔ آپ کو چاہیے کہ آپ کی عمر تعلیم و تربیت او ر تجربے کے دستاویزی ثبوت مہیا کریں۔ ٭٭٭ ترسیلی مراسلے ترسیلی مراسلے کے بغیر اپنا کوائف نمہ جمع نہ کرائیں۔ کیونکہ یہ دفتری آداب اور نظم کے خلاف ہے۔ ترسیلی مراسلہ کا نمونہ بجانب … افسر کے عہدے اور دفتر کا پتہ بھی لکھیے … عنوان: درخواست برائے آسامی… جناب عالی ملفوف میں میرا کوائف نامہ حاضر ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ میری تعلیمی قابلیت بمعہ علمی تجربہ جاننے کی نوعیت اور کام کرنے کی اہلیت اور ا س کام کو کرنے کی پوزیشن جس کا آپ نے اشتہار دیا ہے ضرور غور فرمائیں گے۔ درخواست گزار آپ کا تابع فرمان نام… تاریخ… انٹرویو دینے کے لیے درخواست کا خط ایک معروف ٹیکسٹائل ادارے کو کوالٹی آفیسر کی ضرورت ہے۔ عمر 25سے 35سال ۔ ایم بی اے ڈگری ہولڈر کو ترجیح دی جائے گی ۔ تین سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔ ہیومن ریسورسز مینجمنٹ آفیسر 40پی اور بکس نمبر 17 کے نام درخواست بھجوائیں۔ جناب عالی! میں کوالٹی کنٹرول آفیسر کی نوکری کے لیے جیسا کہ آ پ نے روزنامہ نوائے وقت بمورخہ 10دسمبر 2009ء میں مشتہر کیا ہے درخواست دے رہا ہوں۔ میری عمر 30سال ہے۔ میں گزشتہ چار برسوں سے نشاط ٹیکسٹائل مل میں کام کر رہا ہوںَ میری موجودہ ماہانہ تنخواہ 25ہزار روپے ہے۔ تعلیمی قابلیت او ر تجربے کے سرٹیفکیٹ کی نقول درخواست کے ساتھ لف ہیںَ امید ہے کہ مجھے بہت جلد انٹرویو دینے کے لیے موقع دیا جائے گا آپ کا بے حد ممنون ہوں گا۔ غلام مرتضیٰ ابتدائی معلومات درخواست فارم میں آپ کی جانب سے آجر کو مہیا کردہ معلومات انٹرویو لینے والے کے لیے اہم ہتھیار ہوتی ہیںَ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ اپنے بارے میں درست معلومات مہیا کریں۔ کیونکہ انٹرویو لینے والا اس قابل ہوتا ہے کہ درخواست فارم میں مہیا کردہ معلومات سے آپ کے بارے میں درست اندازہ قائم کر سکے۔ انٹرویو لینے والا ان معلومات کو ذاتی تاثرا ت اور مشاہدات کے ساتھ ملازمت کے لیے درخواست گزار کے موزوں ہونے کا اندازہ کر سکتا ہے۔ طبی معائنہ ملازمت سے قبل پیشگی طبی(یا طبعی) معائنہ چار اہم مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ 1۔ ایسے درخواست گزاروں کو مسترد کرنا جن کی طبعی طاقت کا م کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ 2۔ طبعی حالت کا وقت ریکارڈ حاصل کرنا۔ 3۔ ایسے افراد کو ملازمت سے دور رکھنا جو چھوت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ 4۔ ایسے افراد کا چنائو کرنا جو طبی طور پر ملازمت کے قابل ہوتے ہیں۔ تمام ملازمتوں کے لیے طبی تقاضے ایک جیسے نہیں ہوتے چند ایک ملازمتیں مثلاً فوجی ملازمت بڑی طبعی برداشت کا تقاضا کرتی ہے۔ جب کہ ملازمتیں درست اور پختہ شعور اوردیگر ہنر مندوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ انٹرویو کا نمونہ ادارے ؍ تنظیم ؍ محکمے کا نام… ٹیلیفون نمبر…دفتر… شہر کا نام(ایکس وائی زیڈ) نمبر…تاریخ…2009ء رول نمبر… امیدوار کا نام بمعہ پورا پتہ… عنوان: انٹرویو کال برائے آسامی… معینہ مدت کی بنیاد پر 1۔ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ بالا آسامی کے لیے انٹرویو دینے کے لیے مورخہ… 2009ء کو دفتر… میں حاضر ہوں۔ 2۔ برائے مہربانی مندرجہ ذیل اصل دستاویزات انٹرویو کے وقت اپنے ہمراہ لائیںَ (1)تعلیمی اوردوسری متعلقہ دستاویزات۔ (2)قومی شناختی کارڈ۔ (3)شہریت کا سرٹیفکیٹ۔ (4)انٹرویو کے لیے بلائے جانے والا خط۔ (5)انٹرویو کا وقت۔ 3.۔ برائے مہربانی اوپر دیے گئے وقت پر سختی سے عمل کریںَ دیر سے آنے والوں کو انٹرویو دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ 4۔ ٹی اے ڈی اے نہیں دیاجائے گا۔ انٹرویو کے لیے کال بھیجنے والے افسر کے دستخط اور عہدہ ضروری ہدایات مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو مندرجہ ذیل باتوں کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ 1۔ امیدواروں کو چاہیے کہ امتحان میں داخلہ کے لیے پر کی ہوئی درخواست فارم کی نقل فیڈرل پبلک سروس کمیشن پراونشل سروس کمیشن یا محکمے میں جمع کروانے کے لیے اسے ساتھ لانا نہ بھولیں۔ 2۔ متن کو نہ صرف غو ر سے پڑھنا چاہیے بلکہ عام معنویات ترتیب سے لکھنی چاہئیں تاکہ تمام ممکنہ سوالات کو غور سے حل کر سکیں۔ 3۔ سوجھ بوجھ اور اچھے برتائو کا مظاہرہ کریں کسی بھی حالت میں اشتعال میں نہ آئیںَ کامیابی کے مواقع کھونے کے خوف سے تنک مزاج نہیں وہنا چاہیے۔ 4۔ لباس سادہ مگر اثر آفریں پہننا چاہیے۔ 5۔ امیدواروں کو چاہیے کہ وہ اپنے د ماغوں کو ٹھنڈا رکھیں اور سوالات پر بھرپور توجہ دیں اور جواب بڑے غور و خوض کے بعد دیں۔ 6۔ گھٹیا پن سے گریز کرنا چاہیے۔ مکمل اخلاق و خوبصورتی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ جوابات دینے چاہئیں۔ 7۔ بھرپور احتیاط اور توجہ کے ساتھ ہر سوا ل پر غور کرنا چاہیے۔ 8۔ کوائف نامہ کے متعلق حقائق کو مدنظر رکھ کر پیش کیا جائے کیونکہ انٹرویو کا انحصار آپ کے کوائف نامے پر ہے۔ 10۔ اس بات کا یقین کر لیں کہ آپ کا نام پتہ اور ٹیلی فون نمبر (اگر کوئی ہے) کوائف نامے کے اوپر لکھے گئے ہیںَ 11۔ انٹرویو کے دن غیر معمولی کیفیت محسوس نہ کریںَ 12۔ اپنے کوائف نامے اور متعلقہ مواد کی فالتو نقل اپنے ہمراہ لائیں۔ 13۔ انٹرویو آ پ کی شخصیت کا پہلا تاثر ہے۔ 14 ۔ انٹرویو کے ختم ہونے پر امیدواروں کوجان لینا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کب آئے گا اور کیا مزیدانٹرویو دینا ہوں گے۔ انٹرویو کی تیاری آپ کی زندگی آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔ یہ متعین کرنا بہت اہم ہے۔ آپ کی ملازمت وہ ہے جو آپ کے اپنے تصورات سے بہتر طور پر ملتی ہے ۔ یہ شے صلے اور تسکین دونوں صورتوں میں آپ کو وہاں لے جائے گی جو آپ کی منزل ہے ۔بہتر معاش کے انتخاب کے لیے آپ کو اپنے متعلق جاننے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اپنا ذہن تیار کریں اور پھر یکسو ہو کر فیصلہ کریں کہ آپ کو کس قسم کی ملازمت کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں۔ مناسب رویہ دوران انٹرویو امیدوار بہتر رویہ اپنائے کیونکہ نامناسب رویہ امیدور کو بہت مہنگا پڑے گا اور وہ اس کا مستقبل تباہ کر سکتا ہے۔ جذباتی رویہ ناپختگی کی علامت ہے جو دوران انٹرویو قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ رویہ امیدوار کی شخصیت کے مشاہدہ کے لیے استعمال کرنے والے طریقوں میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ مزاج؍ طبیعت انٹرویو کے دوران میں جارح مزاج رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے آپے سے باہر نہ ہوں اور ہر سوال کا جواب ٹھنڈے دماغ سے دیں۔ اگر آپ کو سوالوں کے درست جوابات نہ آتے ہوں تو تحمل سے جواب دے کر آگے بڑھے چلے جائیں۔ سماعت بہت سے لوگوں کی قوت سماعت کمزور ہوتی ہے اگر امیدوار آواز نہیں سن سکتا تو اسے فوراً اپنی سمعتی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ دوران انٹرویو سے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ غصہ غصہ ایسی خطرناک شے ہے۔ جو دشمنی جارحیت اورتباہیی سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس لیے پیچیدہ سوالات کے جوابات دیتے وقت امیدوار کو اپنا غصہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ آپ کے مستقبل پر اثر انداز ہو گا۔ گر آپ غصہ کرنے میں حق بجانب ہیں تو پھر بھی غصے کا اظہار نہ کریں۔ آداب و عادات اچھے آداب و عادات کا اظہار امیدوار کی شخصیت کو دلکش اور خوبصورت بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لیے اچھے اخلاق کے لیے امیدوار کی شخصیت میں دونوںپہلوئوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر امیدوار دوسروں کے ساتھ اچھا رویہ اپنانے اور بات کرنے کے سلیقہ اور مجلس میں بیٹھنے جیسے آداب سے بخوبی آگاہ ہوتو وہ انٹرویو کی نظر میں کامیاب امیدوار ہو گا۔ اعتماد اعتماد انسانی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو ہے جو ہر انسان کو ہر مشکل سے نمٹنے کا حوصلہ دیتاہے ماہرین یفسیات کے مطابق اعتماد ہی دماغ کی دلیری کایقین دلاتا ہے لہٰذا انٹرویو کے دوران ہر سوال کاجواب اعتماد اوریقین کے ساتھ ہی دیجیے۔ احساس مقابلہ احساس مقابلہ زیادہ محنت کرنے اور زندگی میں بہتری کے آثار پیدا کرنے کے علاوہ فرد کو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنے کی تحریک دیتا ہے جو بالآخر اور خوشی مہیاکرتا ہے لہٰذایہ ہر امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ کبھی کبھار مقابلوں کے مواقع میں حصہ لیتا رہے تاکہ وہ خوشی اور کامیابی کے احساسات سے روشناس ہو کر اس لذت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لاعلمی لاعلمی کا مطلب اپنی مرضی سے کسی چیز کو نظر انداز کرنا ہے۔ ویسے بھی لاعلمی ہماری روز مرہ زندگی میں مشترکہ عمل بن گیا ہے بہت سے لوگ ہر روز لمحہ لمحہ چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کرکے لاعلمی کا شکار ہو گئے ہیں لہٰذا ضرور ی ہے کہ جو امیدوار اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ذہن میں رکھے اور ایسا راستہ اختیار کرے کہ جو اسے لاعلمی سے باہر نکال دے تاکہ امیدوار لاعلمی کا شکار نہ ہو۔ اس کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔ خاندانی اور شخصی پس منظر خاندانی پس منظر انٹرویو کا دوسرا ورا ضروری حصہ ہے کیونکہ اس کو جانے کے بغیر امیدوار کے متعلق انٹرویو کو مکمل آگاہیی حاصل نہیں ہوتی ہے ماہرین کے مطابق خاندانی پس منظر کے اہم اجزاء درج ذیل ہیں۔ والدین 1۔ والدین کا سماجی مرتبہ کیا ہے یہ سماجی مرتبہ ان کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ 2۔ والدین کی تعلیمی قابلیت۔ 3۔ والدین کا پیشہ جو انہوںنے اپنی تعلیمی قابلیت مکمل کرنے کے بعد اختیار کیا۔ 4 ۔ والدین کی مذہبی اورسیاسی وابستگی 5۔ والدین کی وجہ شہرت۔ 6 والدین کے اخلاق۔ 7۔ والدین کی ماہانہ آمدنی اور اخراجات۔ 8 والدین کی طبی صورت حال۔ 9 ۔ اگر والدین فوت ہو چکے ہیں تو وجہ موت۔ قرابت داری والدین کے علاوہ دیگر خونی رشتہ داریاں بھی انٹرویومیں شمار کی جاتی ہیں مثلاً انٹرویو لینے والا ایک امیدوار سے اس کے چچائوں پھوپھیوں ماموئوں خالائوں بھائیوں اور بہنوں کی تعداد اور ان کی تعلیمی قابلیت ان کی سرگرمیاں یا ان کے پیشے یعنی زراعت کاروبار اور ملازمت وغیرہ کے متعلق پوچھ سکتا ہے۔ رشتہ دار؍ ایک خاندان کے لوگوں کے بارے میں تفصیل عموماً ایک انٹرویو لینے والا رشتہ داروںکے کاروباری مرتبے یا متعلقہ محکمے کے ساتھ وابستگی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں امیدوار کو ان کا مرتبہ ملازمت کی مدت عمومی شہرت کے بارے میں بتانا ہو گا لہٰذا امیدوار کو چاہیے کہ وہ جھوٹ نہ بولے اوراپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کی تفصیل درست طور پر بتائے تاکہ انٹرویو لینے والا امیدوار کے خاندانی پس منظر کے بارے میں جان کر کسی آخری نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ ذاتی پس منظر امیدوار کی شخصیت کے مندرجہ ذیل پہلوئوں پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ 1۔ سرگزشت حیات امیدوار سماجی اقتصادی مرتبہ خاندانی پس منظر رویے دلچسپیاں تعلیم اور پیشہ وارانہ تجربہ۔ 2۔ عمومی مشغلے روز مرہ کی سرگرمیاں ذاتی پسند اور ناپسند۔ 3۔ سپورٹس مین شپ جسمنای سرگرمیوں (کھیلوں) سے امیدواروں کی وابستگی کی حد۔ 4۔ ذہنی افتاد اس میں مختلف اقسام کی مہارتیں پیچیدہ معلومات کی وضاحت بھرپور خیالات اور دوسرے پر اثر انداز ہونے کی اہلیت کا جائزہ لینا۔ 5۔ کام کرنے کے حالات سے یعنی ماحول کی صورت حال سے مطابقت رکھنا۔ مذہبی وابستگی مذہب کسی بھی معاشرت کا لازمی جزو ہے اس لیے انٹرویو کے دوران مسلمان امیدوار سے مذہبی علم روزانہ نمازوں کی ادائیگی اور مذہبی لوگوں سے رشتہ داریوں کے متعلق عموماً پوچھا جاتا ہے تاکہ اس کے عمومی رجحانات کا جائزہ لیا جا سکے۔ ازدواجی حقیقت ازدواجی حیثیت شادی شدہ یا غیر شادی شدہ اور اس حوالے سے کئی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ امیدوار زندگی میں توازن قائم رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ غیر نصابی سرگرمیاں غیر نصابی سرگرمیوں میں باقاعدہ تعلیمی پروگرام شامل نہیں ہیں لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کورسز انگریزی بول چال کے کورسز اور اخبارات و رسائل وغیرہ میں مضامین لکھنا اس زمرے میں شامل ہے۔ فن تقریرپر عبور حاصل کرنا۔ صحت مند سرگرمیوں میں امیدوار کی شرکت اور کامیابیاں۔ ذخیرہ الفاظ ذخیرہ الفاظ انٹرووی کے لیے ایک اہم ہتھیار ہوتا ہے ہمیشہ یاد رکھیے کہ انٹرویو کے پاس آپ سے زیادہ ذخیرہ الفاظ ہے اگر آپ کا ذخیرہ الفاظ محدود ہے تو پھر آپ کی کامیابی کے مواقع بھی محدو د ہوں گے لہٰذا آگے بڑھنے اور کامیابی کے حصول کے لیے پنے لفظوں کے علم کو بڑھائیے۔ ذخیرہ الفاظ ذہانت کی نشانی ہے اگر ذخیرہ الفاظ بڑھ جائیں تو سیکھنے کی قوت تیز ہو جاتی ہے۔ الفاظ سوچنے کا ہتھیار ہیں لہٰذا آپ جتنے زیادہ الفاظ پر قادر ہوں گے آپ کی سوچ اسی قدر شفاف اور صحیح ہوگی۔ الفاظ تبادلہ خیالات کا واسطہ ہوتے ہیں۔ آپ اپنے احساسات افکار اور خیالات کو دوسروں تک پہنچانے میں کسی پر اثر انداز ہونے یا دوست بنانے کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیںَ مختصر الفاظ کے ذریعے آپ اپنی تقدیر بناتے ہیںَ ماہرین کے مطابق اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ لفظوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ بیس سال کی عمر تک آپ کے دماغ میں الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو جائے جو آئندہ زندگی میں آپ کی بھرپور مدد کرے گا۔ اسی لیے الفاظ نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یاد رکھیے کہ آپ اپنے ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتے ہیں تو آپ اپنی کامیابی کے بہتر مواقعوں کو جنم دیں گے کیونکہ کبھی کبھار امتحان یا انٹرویو میں درست الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے آپ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اپنے ذخیرہ الفاظ کو بڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ روزانہ کتب اور اخبارات کو پڑھیں بلکہ ان الفاظ کو لکھیں اور کئی مرتبہ اونچی آواز میں دہرائیں بلکہ اگرممکن ہو تو لفظ کے ہجے کر کے اسے یاد کریں۔ ٭٭٭ شخصیت کا تاثر شخصیت کے خوبصورت تاثر کے لیے تیاری کیسے کی جائے لباس اچھا لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ آپ نے جو کپڑے پہنے ہیں وہ صاف سھترے اور اچھی طرح استری کے ہوں۔ احساس کمتری کے شکار افراد انفرادی شخصیت نمایاں کرنے کے لیے عجیب طرح کا لباس پہنتے ہیں لہٰذا آپ کبھی بھی بھڑکیلا اور چمکدار لباس نہ پہنیں۔ بلکہ ایسے ہلکے اور خوبصورت رنگوں کے لباس کو ترجیح نہ دی جائے جو بہت ڈھیلے یا بہت ہلکے نہ ہوں۔ لباس موسمی حالت کے مطابق زیب تن کریں یعنی مہذب اور موزوں لباس پہنیں۔ لباس کی شکل اور جسامت آپ کی جسم کی شکل کے مطابق ہونی چاہیے اگر آپ شلوار قمیض پہننا چاہتے ہیں تو مناسب رنگ کی واسکٹ بھی پہنیںَ اسی طرح پینٹس اور شرٹ کے ساتھ چپل نہ پہنیںَ اسی طرح آستینوں کے اور نہ ہی قمیص کے بٹن کھولیںَ صبح کے وقت آپ ہلکے رنگ کا لباس پہن سکتے ہیں۔ جب کہ شام کو گہرے رنگوں کا آج کل تقریباً تمام بڑے ادارے یا دو تین پیس سوٹ کو ترجیح دیتے ہیں لہٰذا اگر کوئی امیدوار ایسا لباس پہنتا ہے تو اس کے ساتھ نکٹائی بھی باندھنی چاہیے۔ تیز یا ناخوشگوار تاثر پیدا کرنے والی خوشبویات یا عطریات کا بالکل استعمال نہ کریںَ روما ل صاف ستھرا اور سفید رنگ کا ہونا چاہیے۔ اگر آپ کی قمیض پر سامنے والی جیب ہے تو اسے فضول چیزوں یعنی کاغذ وں رومال وغیرہ سے نہ بھریں آپ کی جیب میں کوئی پین یا کوئی پرس نہیں ہونا چاہیے اگر آپ نے شلوار قمیض پہنی ہے تو کوشش کریں کہ قمیض کی بغلی جیب بھی خالی رہے جبکہ سب سے بہتر اور مناسب تجویز یہ ہے کہ انٹرویو کے دونوں ایسی قمیض یا شرٹ استعمال کریں جس کے سامنے والی جیب نہ ہو۔ بال سٹائلش بالوں کو ہر کوئی پسند کرتا ہے لیکن اگر بال مناسب طریقے سے تراشے ہوئے ہوں اور وہ آپ کے چہرے پر جچتے ہوں تو زیادہ مناسب ہو گا۔ نیز انٹرویو والے دن بالوں میں کنگھی کرنا نہ بھولیے۔ داڑھی چونکہ ہر مسلمان کاامتیازی نشان ہے۔ اور یہ ملازمت کے حصول کے سلسلے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ او ر کوئی بھی اس بارے میں آپ سے کچھ نہیں کہے گا۔ لیکن داڑھی رکھنے والے کو چاہیے کہ وہ اس سائز مناسب رکھے اسے بہتر طریقے سے ترشوائے انٹرویو والے دن ڈاڑھی میں کنگھی کریں۔ مونچھ پاکستانی معاشرت میں آدمی کی شخصیت وقار اور عظمت کا نشان خیال کی جاتی ہے لہٰذا انٹرویو سے قبل مونچھوں کو اچھی طرح کتروا لیں کیونکہ بڑی اور غیر تراشیدہ مونچھیں ناخوشگوار تاثرات پیداکرتی ہیںلہٰذا ایسی مونچھیں رکھنے سے گریز کریں۔ ناخن ناخن بھی انسانی شخصیت کا حصہ ہیں۔ لمبے اور گند ے ناخن انٹرویو لینے والے کے ذہن میں برے تاثرات پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انٹرویوسے قبل اپنے ناخن اچھی طرح تراش لیں اوران کے درمیان کسی قسم کی میل نہ جمی ہوئی ہو۔ جوتے ٭ ایسے جوتے پہنیں جو آپ کے لباس کے ساتھ جچتے ہوں۔ ٭ پھٹے اور شکنوں والے جوتے نہ پہنیں۔ ٭ آپ کے جوتے اچھی طرح صاف اور پالش کیے ہوئے ہونے چاہئیں۔ ٭ کینوس؍ جوگر وغیرہ پہننے سے گریز کریں۔ ٭ بند جوتے بغیر جرابوں کے نہ پہنیں۔ ٭ جوتوں کے تسمے اچھی طرح بند ہوں اور انہیں بل نہ دیں۔ ٭ جرابیں صاف ستھری ہونی چاہئیں اور ان میں سے بدبو نہ اٹھے۔ ٭ جرابوں کو لباس اور جوتوں کے ساتھ جچنا چاہیے۔ ٭ جرابیں ظاہر نہ ہوں صلاحیت کو منظم کرنا نجی وسرکاری ادارے انتظامی عملہ کا زیادہ صلاحیت کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیںَ اس ضمن میں انہیں مندرجہ ذیل صلاحیتوں کے مالک افراد کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے۔ ٭ خطرات کو مول لینا اور غیر یقینی حالات میں گھبراہٹ کی بجائے انہیں کنٹرول کرنا۔ ٭ قیادت کا فریضہ نبھاتے ہوئے ان لوگوں کے ساتھ سرگرمی سے کام مکمل کرنا۔ ٭ بھرپور اورجاندار منصوبہ بندی کرنا۔ ٭ چیزوں کو طریقے کے ساتھ اور ضرورت کے مطابق منظم کرنا۔ ٭ بہتری کے ساتھ آگے بڑھنا اور وسائل کو باقاعدگی سے استعمال کرنا ٭ انٹرویو ر کو معلومات مہیا کرنا کہ اس نے کیوں اسے ملازمت کے لیے چنا اور وہ اپنے مقصد کیسے حاصل کرے گا۔ خصائل شخصیت کو ممیز کرنے والے پہلوئوں کو خصائل کہا جاتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔ ٭ دوسروں کی آنکھوںمیں آنکھیںڈال کر بات کرنا۔ ٭ پر اعتماد‘ وضع دار اور دلکش۔ ٭ صاف ستھرا لباس پہنتا ہو۔ ٭ زندہ دل ہمیشہ مسکرانے والا اور خوش طبع۔ ٭ ہمہ وقت مستعد اور سرگرم ہو۔ مشاغل اور شوق پسندیدہ مشاغل مشغلہ کہلاتا ہے جبکہ خصوصی پسند شوق کہلاتی ہے شوق جز وقتی کا نام ہے مختلف اقسام کے مشاغل درج ذیل ہیں: ٭ یادگاری ٹکٹ ماچس او ر سکے جمع کرنا۔ ٭ ڈرامہ فلمیں اور ٹی وی دیکھنا۔ ٭ تاریخی جغرافیائی اور ثقافتی مقامات کی سیاحت۔ ٭ ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا۔ ٭ فنون لطیفہ (ڈرامہ مصوری خطاطی وغیرہ) میں حصہ لینا۔ ٭ پکنک پارٹیوں کا اہتمام کرنا۔ ٭ جسمانی صحت مند سرگرمیوں مثلاً گھڑ سواری کشتی اور تیراکی وغیرہ۔ ٭ کمپیوٹر سے استفادہ کرنا مثلاً انٹرنیٹ چیٹنگ وغیرہ۔ ٭ کتب اخبارات و جرائد پڑھنا۔ ٭ تقریری مقابلوں اور ٹی وی کے کوئز پروگراموں میں حصہ لینا۔ ٭ مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینا۔ ٭ تاش کھیلنا۔ ٭ میوزک سننا۔ ٭ کبوتر بازی کرنا۔ ٭ پودوں کی دیکھ بھال کرنا۔ صحت مند جسمانی سرگرمیاں ٭ مختلف قسم کی جسمانی ورزشوں میںباقاعدگی سے حصہ لینا۔ ٭ اتھلیٹکس میں حصہ لینا۔ ٭ ہائیکنگ یا مہم جوئی سے لطف اندوز ہونا۔ ٭ سکائوٹنگ یا این سی سی کی ٹریننگ حاصل کرنا۔ ٭ ان ڈور اور آئوٹ ڈور کھیلوں کا کھیلنا۔ ٭ ہر روز غسل کرنا۔ ٭ کیمپ کی زندگی سے لطف اندوزہونا۔ ٭ علی الصبح سیر کا اہتمام کرنا۔ ٭ جسمانی برداشت بڑھانے کے لیے ورزش کرنا۔ ٭ گھڑ سواری سائیکل سواری تیراکی کرکٹ ہاکی فٹ بال وغیر ہ کھیلنا۔ اقدار کی شناخت ٭ منزل کے حصول کے لیے متحرک ہونا۔ ٭ مسائل پر قابو پانے کے لیے دوسروں کی مدد کرنا۔ ٭ معاشرے کی مدد کرنا۔ ٭ مقتدرہ کے طور پر تسلیم کیا جانا۔ ٭ ٹیم میں کام کرنا۔ ٭ کام کے بدلے بہتر معاوضے کا حصول یقینی بنانا۔ ٭ وقت کا انتخاب کرنا۔ ٭ مشکل امور سرانجام دینے کے لیے تمام ممکنہ حل کے متعلق سوچنا۔ ٭ اپنے آپ کو حالات کے ڈھانچے میں ڈھال کر کام کرنا۔ ٭ گھر سے باہر کام کرنا۔ ٭ اچھے افعال سر انجام دیتے ہوئے معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنا۔ متحرک خصوصیات ایک کامیاب فرد میں مندرجہ ذیل صفات بھی ہونی چاہیئں۔ ٭ ماتحتوں کی وفاداری اور اعتماد کو حاصل کرنا۔ ٭ کام سے متعلقہ تمام مہارتوں اور ہنروں کا ملکہ ہونا چاہیے۔ ٭ کردار کی مضبوطی ٭ دوسروں کی رائے کا احترا م کرنا۔ ٭ نظم و نسق کو منظم کرنا۔ ٭ مختصر وقت میں فیصلہ کرنے کی طاقت کا مالک ہونا۔ ٭ اپنے ماتحت کی عادت ارادوں اور وفاداری ک اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھنا۔ ٭ بہادر‘ حوصلہ مند محرک تخلیقی اور ذمہ دار ہونا۔ ٭ خطرات مول لینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ٭ اخلاقی قدروں کی تجدید کرنا۔ ٭ کا م کو مقررہ وقت کے اندر ختم کرنا۔ ٭ بدمزاجی سے گریز اور غصہ پرقابو رکھنا۔ ٭ چست سرگرم محنتی اور ہوشیار ہونا۔ سماجی خصوصیات ٭ شوقیہ اچھے دوست بنانا۔ ٭ اچھے آداب و اطوار کا مالک ہونا۔ ٭ دوسروں کی مدد کر کے خوشی و کامیابی حاصل کرنا۔ ٭ مثبت توقعات کے ساتھ معاشرتی بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا۔ ٭ دوسروں کے لیے قربانی دینا۔ ٭ کام کو مکمل کرنے کی ذمہ داری کا احساس ہونا۔ ٭ گفتگو کے دوران لا یعنی حرکات و اشاروں سے گریز کرنا۔ ٭ایفائے عہد۔ ٭ سچ بولنا اور جھوٹ سے نفرت کرنا۔ ٭ اہل خاندان اپنے د وستوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھنا۔ ٭ جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے لیے جدوجہد کرنا۔ مزاج اور طرز عمل فرد کے مزاج کو جاننے کے لیے انٹرویور عموماً درج ذیل اقسام کے سوالا ت کرتے ہیں انٹرویو کے لیے ان کی تیاری اچھی طرح کریں۔ ٭ آپ اپنی کمائی کیسے خرچ کرتے ہیں؟ ٭ کی آپ بہت سے لوگوں کے ساتھ دوستی پر یقین رکھتے ہیں؟ ٭ کیا آپ کودوستوں کی نصیحت؍ مشورے کی ضرورت ہوتی ہے؟ ٭ کیا دووست آپ کو نصیحت کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ کے رازدار دوست ہیں؟ ٭ کیا اپ اپنے نقصان کا مداوا کرنے پر یقین رکھتے ہیں؟ ٭ کیا اپ ہمیشہ مشکل کاموں کو سرانجام دینے کے لیے تیار رہتے ہیں؟ ٭ کیا آپ ہمیشہ خوش ہوتے ہیں؟ ٭ کیا آپ تنائو پر قابو پا سکتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں کے لیے قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ ٭ خود کشی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ ٭ کیا آپ برامحسوس کیے بغیر ایک لڑکی کے ساتھ گپ شپ کر سکتے ہیں؟ ٭ کیا آپ بوڑھی اور بزرگ خواتین سے مزاق کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ لڑکیوں کے ہجوم میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے داخل ہوجاتے ہیں۔ ٭ کیا ااپ اپنے آپ کو ہر کام کرنے کا اہل سمجھتے ہیں؟ ٭ کیا آپ بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں؟ ٭ کیا بچے آپ کو کھیلنے کے لیے تلاش کرتے ہیں؟ ٭ کیا بچوں کا شور آپ کو برہم کرتا ہے؟ ٭ کیا آپ اپنی قسمت کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں گے مثلاً بھائیوں بہنوں اور دوستوں کو؟ ٭ کیا لوگ آ پ کے ساتھ وقت گزارنے کے متلاشی رہتے ہیں؟ ٭ کیا ا پ دوسروں پر خرچ کر کے خوشی محسوس کریں گے؟ ٭ کیا آپ جلد غصے میں آ جاتے ہیں لیکن ٹھنڈے ہو جاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ معاشرتی اصول و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں کی خاطر اپنی رائے کو تدیل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں کی آراء کو قبول کرنے سے پہلے انہیںجانچنے کے عادی ہیں؟ ٭ کیا آپ فضول بحث سے گریز کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں؟ ٭ اگر کوئی شخص حق بجانب ہے تو کیا آپ اس کی فوری تقلید کریں گے؟ ٭ کیا آپ اپنی قیادت کی پیروی کے لیے تیار رہتے ہیں؟ ٭ کیا آپ جنس مخالف سے محبت پر آمادہ ہو جاتے ہیں؟ ٭ کیا مایوسی آپ کی برداشت کو ختم کردیتی ہے؟ ٭ کیا آپ ملکی و غیر ملکی سفر سے اتنا ہی محظوظ ہوتے ہیں جتنا کہ اپنے شہر کی گلیوں میں چہل قدمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ ٭ کیا غلط کام کرنے کے بعد آپ خود کوقصور وار ٹھہراتے ہیں؟ ٭ کیا آپ سردیوں میں تاز ہ پانی سے غسل کو پسند کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ علی الصبح اٹھتے ہیں؟ ٭ آپ کے پڑوسی سے کیسے تعلقات ہیں کیا وہ آپ سے گریزاں رہتا ہے؟ ٭ کیا آپ صحت مند سرگرمیوں یعنی کھیلوں میں دلچسپی لیتے ہیں؟ ٭ کیا آ پ اپنے دوستوں کے ساتھ سیاسی مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کے بارے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ ٭ جب کبھی آ پ مییچ دیکھنے کے لیے جائیں کیا پاکستانی پرچم ساتھ لے کر جاتے ہیں؟ ٭ آپ کو کس قسم کی ذاتی سواری پسند ہے؟ ٭ کیا آپ ہرقسم کے لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں؟ ٭ تھکاوٹ اور پریشانی کے دور میں آپ سوجھ بوجھ برقرار رکھتے ہیں یا نہیں؟ ٭ جب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غلطی پر ہیں تو کیا آپ خود کومعافی مانگنے کے لیے تیار کرلیتے ہیں؟ ٭ کیا آپ احسان مندی کے بغیر دوسروں کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں کو غمگین دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں پر بھروسہ کرتے ہیں؟ ٭ آپ بس میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا ریل گاڑی میں ؟ ٭ آپ چھٹی کے دن مطالعہ کرنے کوترجییح دیتے ہیں یا تنہا سیر کرنے کو؟ ٭ آپ اعلیٰ سول سرونٹ بننے کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ ٭ کیا آپ ٹیلی فون پر رومانس کرنا پسند کرتے ہیں؟ ٭ کیا ااپ کو اپنے تمام دوستوں کے نام اور چہرے یاد ہیں؟ ٭ اگرمعاملات آپ کی مرضی کے مطابق نہ چل رہے ہوں تو کیا آپ پریشان ہو جاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ ادھار کو پسند کرتے ہیں؟ ٭ دوسروں کی تکیف ہو تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ٭ اگر آپ کا دل بوجھل ہے تو کیا آپ دسروں پر تالیاں بجاتے اور خوشی کااظہار کرتے ہیں؟ ٭ بحرانی کیفیت میں آپ کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ ٭ کیا آپ کو اپنی نسل پر فخر ہے؟ ٭ کیا آپ دوسروں کے ساتھ اپنے نجی معاملات کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ کے خاندان کے افراد مسلح افوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ؟ کیا آپ کو اس بات پر فخر ہے۔ ٭ کیا آ پ چمچ اور کانٹے کے بغیر ایک غیر ملک میں واقع پاکستانی ریسٹورنٹ میں چاول کھنا پسند کریں گے؟َ ٭ کیا آپ کو اس وقت سخت غصہ آتا ہے جب کوئی غیر ملکی پاکستانی بھکاریوں کی تصویریں بنا رہا ہو؟ ٭ کیا آپ روزانہ لباس تبدیل کرتے ہیں؟ ٭ کس حالت میں آ پ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ اپنے گھر کی صفائی کے لیے پریشان رہتے ہیں؟ ٭ کیا آپ سالانہ میڈیل چیک اپ کیلیے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ ٭ کیا عورتوں کو مردوں کے مساوی تنخواہ ملنی چاہیے؟ ٭ کیا آپ دوران سفر کھڑی خاتون کو نشست پیش کش کریں گے؟ ٭ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شادی شدہ خواتین کو گھروں پر ٹھہرنا اور اپنے گھر کی حفاظت کرنی چاہیے؟ ٭ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہادکرنا ہر مسلمان کے لیے فرض ہے؟ ٭ کیا آپ پنجگانہ نماز مسجد میں اداکرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ وسائل کے اند ررہ کر مواقع تلاش کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ ہمیشہ اپنا کام موثر انداز میں مکمل کرنا چاہتے ہیں؟ ٭ کیاآپ مشکل لمحات میں ماحول کو اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں؟ ٭ کیا آ پ سخت محنت سے گھبراتے ہیں؟ ٭ جب آپ کے ارد گرد کوئی بھی نہ ہو تو کیاآپ ٹریفک کے اشارے کی پابندی کریں گے؟ ٭ کیا آپ ایک ہفتہ میں کم از کم تین مرتبہ آدھے گھنٹے کے لیے ورزش کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ متوازن خوراک کھاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ یقینی بناتے ہیں کہ آپ کے اہل خانہ کا طبی اور دانتوں کا معائنہ باقاعدگی سے ہوتا رہے؟ ٭ کیا آپ ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ شروع کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ معلومات عامہ کی کتابیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں؟ ٭ کیا اپ کے پاس ٹیلی فون نمبروں کی فہرست ہے؟ ٭ کیا آپ سڑک کے وسط میں گاڑی سست روی سے چلاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ اپنی گاڑی کی رفتار کی حد کامشاہدہ کرتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دوسروں کو سنتے ہیں؟ ٭ کیا تھوڑی سی ناراضگی ہونے سے آپ پریشان ہوجاتے ہیں؟ ٭ کیاآپ کسی کی نااہلیت پرغصہ میں آ جاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ دیہات میں نوکری کرنا پسند کریں گے؟ ٭ کیا آ خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں؟ ٭ کیا آ پ مخلوط تعلیم کے حق میں ہیں؟ ٭ جب ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہو تو آپ روشنیاں دکھاتے ہیں یا ہارن بجاتے ہیں؟ ٭ کیا آپ نے اپنے قریبی دوستوں سے ناطہ توڑ دیا ہے کیوں کہ وہ آپ کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہے؟ ٭ جس کا آپ انتظار کر رہے ہیں اگر وہ بروقت آپ کے پاس نہ پہنچے تو کیا آپ ناراض ہو جائیں گے؟ ٭ اگر آپ کو کسی نے ضرب لگائی یا دھکا دیا تو آپ کا رویہ کیسا ہو گا؟ ٭ آ پ نے چیزیں خریدیں کیا آپ ا ن کی گنتی کریں گے؟ ٭ اگر آپ کے بالوں کو بدوضع انداز میں کاٹ لیا جائے تو آپ کتنے دنوں تک اشتعال میںرہیں گے؟ ٭ کیا آ پ استاد کے احترام میں کھڑا ہونا پسند کریں گے؟ ٭ آپ کا تعلق کس مذہبی فرقے سے ہے؟ فن گفتگو گفتگو کے ذریعے آپ سننے والے کو اپنی شخصیت اور خیالات سے آگاہ کر سکتے ہیں آپ بہت زیادہ اہل اور محرک شخصیت ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنا موقف موثر طریقے سے دوسروں تک نہیں پہنچاپاتے تو آپ انٹرویو لینے والے کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوںگے۔ ایک انٹرویو میں فن گفتگو سب سے قیمتی ہوتاہے کیونکہ ایک انٹرویو بنیادی طور پر منتخب کنندہ اور امیدوار کے مابین دو طرفہ زبانی بات چیت ہے۔ ہم آہنگی اس وقت پیدا ہونا شروع ہوتی ہے جب آپ انٹرویو والے کمرے کو کھٹکھٹارے ہیں۔ جب آپ کسی کمرے میں داخل ہوں تو آپ داخلے سے قبل چند لمحے انتظار کیجیے جونہی آپ کمرے میں داخل ہوں انٹرویو لینے والے یا والوں کو دیکھ کر مسکرائیے اورالسلام علیکم کہیے۔ اس موقع پرآپ نے جو اپنا پہلا تاثر قائم کیا وہی آپ کے منتخب ہونے کے مواقعوں کو بڑھا سکتا ہے۔ اپنے شعور کو بیدار رکھیے۔ آپ کی برداشت ایسی ہو جو مشکل سوالات حل کرتے ہوئے آ کے چہرے پر قدرتی اختیاری اور دوستانہ مسکراہٹ بکھیر دے۔ مسکراہٹ ایک مسکراہٹ کی مددسے ہم آہنگی پیدا کرنا نہایت ہی آسان اور قدرتی راستہ ہے۔ سنجیدہ مسکراہٹ آپ کے انتخاب کو آسان بنا دیتی ہے۔ جبکہ بعض لوگ سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کے دوران تیوری ماتھے پر لے آتے ہیں جس سے آپ کا نقصان ہوسکتاہے۔ آ پ کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ تاکہ آپ اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکیں۔ بدحواسی کی حرکات سے پرہیز کیجیے گفتگو کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی جانب پہلا قدم یہ ہے کہ آپ نے اپنی تمام اہلیت اور حاضر جوابی سے نہ صر ف انٹرویو کی توجہ حاصل کرنا ہے بلکہ اپنے بارے میں اسے قائل بھی کرنا ہے۔ ٭٭٭ گفتگو گفتگو کے تین ابتدائی اجزائے ترکیبی ہیں۔ آواز اسلوب ڈھنگ اورالفاظ ہیں اچھی شخصیت انٹرویو کے سیاق و سباق میں مجموعی طورپر تمام مثبت پہلوئوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انٹرویور کا کام امیدواروں کی کمزوریوں کو ظاہر کنا جبکہ امیدوار کو اپنی مثبت صلاحیتوں کو باور کرانا اور خوش دل طریقوں سے صورت حال کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بڑا آلہ جو آپ کو منتخب کروا سکتا ہے وہ بول چال کے الفاظ ہیں۔ الفاظ کو سننے اور سمجھنے کے لیے آواز کا حجم رفتار ار تلفظ بنیادی عناصر ہیں۔ جن پر آپ کو بہرحال عبور ہونا چاہیے آپ کو گفتگو عمومی اندا زمیں کرنی چاہیے۔ تاہم آپ کی آواز کے حجم کا تعین آپ کے اور انٹرویو لینے والے کے مابین فاصلے کے تناسب سے ہونا چاہیے۔ لیکن بات کی حالت میں بھی بہت اونچی نہ ہو اورنہ ہی اس قدر دھیمی ہو کہ انٹرویو لینے والا اسے سن نہ پائے ایسی صورت حال آپ کے مقصد کو ناقابل برداشت نقصان پہنچا سکتی ہ۔ دوران گفتگو انٹرویور کو اپنے الفاظ پر غور و غوخ کرنے کے لیے وقت دیجے۔ ایک ساتھ الفاظ کو حرکت میں دینے کی بجائے توقف اختیار کریں اور مناسب الفاظ پر زور دیجیے تاکہ آوازبری محسوس نہ ہو۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے جواب کے مناسب حصوں کے ہر لفظ کا تلفظ اختیار اور زور سے اداکریںَ آپ جواب دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ اپنے الفاظ اور جملوں کو ایسے اد ا کریں خہ وہ انتخاب کنندہ پر اپنا اثر ڈالیں گفتو کے حتمی الفاظ آپ کے علم اور آپ کی صلاحیت کا ذخیرہ ہوتے ہیں۔ جسے آپ نے بیچ کراپنی شخصیت کااظہار کرنا ہے لہٰذا آپ کے پاس الفاظ کا درست ذخیرہ ہونا چاہیے جنہیں آپ سکول کالج یونیورسٹی نیز عام مطالعہ کے ذریعے سیکھا ہے واضح رہے کہ انٹرویو کے دوران بھاری بھرکم الفاظ بول کر اپنی قابلیت کا اظہار نہ کیجیے۔ جملے مختصر سادہ اور بامعنی ہونے چاہئیں کیونکہ کامیاب گفتگو صاف سوچ مختصر بیان گرائمر کی زبان کی درست بات چیت کامطالبہ کرتی ہے۔ اس لیے حقائق کو آسان اور دلچسپ اندازمیں ادا کریں۔ بڑے الفاظ کے متبادل مختصر الفاظ استعمال کیجیے اور وہ جس قدر موثر ہوں گے نتائج اتنے ہی بہتر ہوں گے۔ انٹرویو کی توقعات تصدیق شدہ اہلیت یعنی آپ کے تسلیم شدہ تعلیمی سرٹیفکیٹس اور پیشہ ورانہ اہلیت سے متعلقہ دستاویزی ثبوت۔ وفاداری کیا آپ مطلوبہ ملازمت کو سہارے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں کیاآپ تجربہ ھاصل کرنے کے بعد ادارے کو چھوڑ تو نہیں دیں گے؟ کیا آپ ادارے کی مسابقت کرنے والوں سے بہتر سودے کاری کی قوت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنے ذہن میں ادارے کے مفادات کو مقدم رکھیں گے؟ قیمت آدمی کی قیمت کتنی ہوتی ہے؟ افرادای قوت کے حصول کے لیے یہ شے ایک پیمانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عموماً تمام ادارے زیادہ اہلیت کا آدمی کم تنخواہ پر بھرتی کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کی توقع ہوتی ہے کہ وہ کمپنی کے لیے زیادہ پیسہ کمائے۔ وقار کیاآپ ادارے کے وقار میں اضافہ کا باعث ہو ں گے یا آپ کی عادتیں ادارے کی بدنامی کا باعث ہوں گی؟ فائدہ کیا آپ اضافی ذمہ داریوں کو بخوشی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ مختلف ملازمتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ تحریک کیا آپ ادارے کے مفادات کے لیے متحرک سرگرم اور مستعد شخصیت ہیں؟ اطمینان کیا آپ مرتبے پر کام کرنا چاہتے ہیں یا محض تنخواہ اور مراعات کا حصول آپ کا مطمع نظر ہے۔ ضابطوں کی پیروی کیا آپ ملکی ادارے کے قوانین ضابطوں اور طریق کار کی پابندی درست کارروائی کرتے ہیں؟ فیصلہ کیا آپ قابلیت کے ساتھ درست فیصلے کرنے اور متبادل پر غور کرنے کے قابل ہیں؟ ابتدا کاری کی آپ خود اعتمادی اور آزاد ی سے سوچ بچار کرنے کی قابلیت کے مالک ہیں؟ مطابقت پذیری کسی بھی نئی صورت حال کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ میلان تکنیکی علم کو منتقل کرنے کی صلاحیت اور تبدیل شدہ ملازمتوں پر اطمینان اور سابقہ غلطیوں سے منافع کا حصول میلان کہلاتا ہے۔ شخصیت ظاہریت کے دوسروں پر اثرات مزاج ہم اطواری مزاح کی حس صاف دلی اور دوسروں کو عزت دینا جیسے اہم پہلو آپ کی شخصیت میں موجود ہیں؟ اظہار بیان ملازمت اور فرائض کی ادائیگی کے لیے اردو انگریزی اور دیگر زبانوں کو جاننا اور ان میں بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھنا۔ جذباتی استحکام دبائو کے تحت کام کرنے کی قوت تنائو کا استحکام اور ہنگامی صورت حال میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنا۔ جسمانی موزونیت برداشت توانائی‘ طاقت‘ معذوری نا اہلی‘ جسمانی موزونیت کام کو بہتر بنانا‘ بہتر نگرانی کرنا اور بہتر محسوس کرنا۔ نگرانی موثر طریقے سے قیادت تربیت اور ملاز مین کومتحرک کرنے کی صلاحیت رکھنا۔ پیشہ ورانہ رویہ پیشہ ورانہ رویے اپنانا اور ماتحتوں کو درپیش جائز مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنا۔ انٹرویو سے پہلے کے کام ٭ یہ اطمینان کر لیں کہ آ پ انٹرویو کی تاریخ وقت اور مقام کے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں نیز اس شخص کا نام اور عہدہ بھی یاد رکھیں جس نے آپ کا انٹرویو لینا ہے۔ ٭ انٹر ویو والے مقام کامحل وقوع جان لیں۔ یہ کہاں واقع ہے۔ آپ نے وہاں کیسے پہنچنا ہے سفر کے وقت کا حساب لگا لیں ٭ سفر کرنے کے لیے زیادہ وقت لیں۔ ٭ انٹرویو کے لیے جانے سے پہلے ملازمت اور تنظیم کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ وقت ضرور صرف کریں مثلاً ان کا طریقہ کار کیا ہے۔ وہ کون سے خاص مسائل ہیں جو اس محکمے یا سیکشن کو متاثر کرتے ہیں۔ ٭ سوچیے جس ادارے میں ملازمت کے لیے آپ نے درخواست دی ہے اس کے لیے کون سا لباس موزوں ہے۔ عام قانون کے طور پر چست رسمی (سوٹ یا پینٹس برائے مرد حضرات اور شلوارقمیض مگر اچھے رنگوں کی برائے خواتین) موزوں ہوتے ہیں۔ اگر مناسب ہو تو مرد حضرات شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ بھی پہن سکتے ہیںَ انٹرویو میں بعض سوالات مشترکہ ہوتے ہیں ایسے سوالات کے بارے میں سوچیں کہ آپ نے ان کا کیسے جواب دینا ہے۔ اگر آپ ان کے مناسب جوابات دینے کو تیار ہیں تو یہ پہلو انٹرویو تیاری کے لیے مدد دے گا۔ ٭ آپ نے فلاں امتحان میں کم نمبر کیوں حاصل کیے؟ ٭ آپ نے پہلے کن کن اداروں میں ملازمت کی ہے؟ ٭ آ پ یہ ملازمت کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ٭ آپ اپنی موجودہ ملازمت کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ ٭ آپ اپنی مخصوص صلاحیتوں کو کیسے لیتے ہیں؟ ٭ آپ نے آئندہ منصوبے کیا ہیں؟ ٭ گزشتہ چند برسوںمیں آپ نے اتنی ملازمتیں کیوں کی ہیں؟ ٭ کیا آپ نے اس ملازمت کے بارے میں اپنے خاوند بیوی سے بات کی ہے؟ ٭ آپ اس قسم کی صورت حال سے کیسے نمٹیں گے؟ ٭ آپ کتنی تنخواہ کی توقع کرتے ہیں؟ ٭٭٭ انٹرویو انٹرویو کی تعریف انٹرویو کا لفظی مطلب خیالات آراء اور نقطہ نظر کا تبادلہ کرنا ہے۔ یہ تقریباً تمام امتحانات اور ملازمتوں کے لیے مشترک ہوتے ہیںَ انٹرویو کی بہت سی اقسام ہیں جو تخمینی انٹرویو مشاورتی انٹرویو‘ شکایت کا انٹرویو‘ بیرون ملک ملازمت کا انٹرویو معلومات جمع کرنے کا انٹرویو‘ سیاسی انٹرویو اور ادبی انٹرویو وغیرہ ہوتی ہیں۔ انٹرویو کا بنیادی مقصدامیدوا ر کی صلاحیت قابلیت ذہنی میلان اظہار کے طریقہ کاراور گفتگو کے اسلوب کا جائز ہ لے کر حتمی رائے قائم کرتاہوں۔ چونکہ محکمے اورادارے قابل اور باصلاحیت امیدواروں کے چنئو کے لیے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امیدوار کا حتمی چنائو کرتے ہیں اس لیے انٹرویو نگ کے بنیادی اصول ان تمام اقسام کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ انٹرویو کی اقسام انٹرویو کی متعدد اقسام ہیں جن کی تکنیک اور ساخت کے مطابق درجہ بندی کی جاسکتی ہے ۔ انٹرویو کی اہم اقسام درج ذیل ہیں: ٭ منصوبہ بند انٹرویو ٭ وضع کردہ انٹرویو ٭ تاکیدی انٹرویو ٭ پینل انٹرویو منصوبہ بند انٹرویو منصوبہ بند انٹرویو میں انٹرویو لینے والا پہلے ہی سے موضوعاتی میدانوں کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ اس طریقہ میں انٹرویو لیینے والا جو ابات تحریری طور پر ریکارڈ کرے گا۔ کہنہ مشق انٹرویو لینے والا اپنے تجربے کی بدولت امیدوار کے تمام رجحانات اور ذہنی معلومات کو جان لیتا ہے وہ جن مضامین پرغور کرتاہے ان میں گھریلو زندگی تعلیم سابقہ کام کا تجربہ سماجی تسویہ رویے اور تفریحی دلچسپیاں شامل ہیں۔ جن کا مقصد امیدوار کے ساتھ خوش دلی اور آزادی کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنا ہوتاہے۔ ایسا انٹرویو لینے والا مکمل جائز ہ لے کرامیدوار کی ملازمت کے سلسلہ میں کامیابی یا ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے انٹرویو میں امیدوار کو تنظیم؍ ادارے کے کام کی نوعیت تنخواہ ترقی کے مواقع او ر ملازمین پر عائد شرائط کے بارے میں معلومات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ وضع کردہ انٹرویو ایسے انٹرویوز کو کہت ہین جو انتہائی جامع سوالنامہ کی بنیادوں پر کیا جاتاہے۔ اس انٹرویو کی مدد سے جواز مطالعات نے اچھے نتائج حاصل کیے ہیںَ انٹرویو ؤؤوالے کی بہت زیادہ احتیاطی تربیت اور ٹھوس انتخابی طریق کار امیدوار کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کرنے میں خاطر خواہ مدد فراہم کرتے ہیں۔ تاکیدی انٹرویو تاکیدی انٹرویوو کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے دوران خفیہ عاملوں کے انتخاب کے لیے امریکی حکومت نے وضع کیا۔ اس میں انٹرویو لینے والا دشمن کے کردار کو فرض کر کے انہیں مدافعت کرنے اور دانستہ طور پر تنگ کرنے پریشان کرنے اور مایوس کرنے کے لیے انٹرویو کرتے ہیں بعض اوقات امیدوار پر غصہ جھاڑ کر اسے مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تاکیدی انٹرویو کا مقصد ان لوگوں کی تلاش ہے جو اپنے رویے پر قابوپانے کے اہل ہوں خواہ انہیں جان بوجھ کر جذباتی کر دیا جائے۔ اس طریقہ انٹرویو کو بہت زیادہ تربیت یافتہ شخص استعمال کر سکتا ہے۔ پینل انٹرویو پینل انٹریو میں تین بار یا اس سے زائد افراد انٹرویو لیتے ہیںَ پینل طریق کار کو عموماً سرکاری دائرہ اختیار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینل تکنیک درخوات دہندگان کی زیادہ کی زیادہ جامع تحقیق کرنے انفرادی کارکردگی کی وضاحت کو بآسانی ممکن بناتا ہے۔ قیاس کے طورپر انٹرویو لینے والے کے تاثرات اور میلان کو کھلے عام زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ انٹرویو کے مقاصد انتخابی انٹرویو کے مقاصد تین درجات میں منقسم ہیں۔ 1۔ انٹرویو لینے والا امیدوار کے ارادوں کے بار ے میں علم حاصل کرکے اس کے تنظیم؍ ادارے کی ملازمت اور خاص ملازمت کے لیے موزوں ہونے کا تعین کر سکتاہے۔ 2۔ جس طرح آجر اپنے ادارے کے استحکام اور ترقی کے لیے ایک ملازم کو منتخب کرتا ہے بلکہ اسی طرح امیدوار ملازمت کے متلاشی آجر کا انتخاب کرتا ہے۔ جو اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتیہوئے بہت سے لوگوں کو مسترد کرتا ہے ایک انٹرویو کا ایک مقصد ادارہ ملازمت اور لوگوں کے بارے میں معلومات مہیا کرتا ہے۔ 3۔ تیسرا مقصد انٹرویو لینے والا امیدوار کے ساتھ اس انداز میں مقابلہ کرنا ہے جیسا کہ کمپنی بہتر ماحول کے لیے خیر سگالی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ غیر قانونی سوالات ایسے سوالات جن کے جوابوں کی ضرورت نہ ہو تو غیر قانونی کہلاتے ہیں۔ اور ایسے سوالات انٹرویو لینے والے کو پوچھنے نہیں چاہیے تاہم کبھی کبھار انڑیور اس طرح کے چند سوالات پوچھ سکتا ہے۔ اب یہ امیدوار کا فرض ہے کہ وہ یہ اندازہ لگائے کہ یہ سوال کا جواب دینے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ امیدوار کو ہرگز ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ سوال ناجائز؍ غیر قانونی ہے۔ اس قسم کے سوالات کچھ ایسے ہوتے ہیں۔ ٭ آپ کی عمر کیا ہے؟ ٭ کیا آپ شادی شدہ ہیں یا منگنی ہوئی ہے؟ ٭ آ پ کا وزن کتنا ہے؟ ٭ آپ کے ساتھ کون رہتا ہے؟ ٭ آ پ کے بچے کتنے بڑے ہیں؟ ٭ کیاآپ نے بچے زیادہ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے؟ ٭ جب آپ کام پر ہوں تو بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟ ٭ آپ جنس کے معاملے میں کیسے جا رہے ہیں؟ ٭ کیا آپ کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں یا آ پ کا اپنا مکان ہے؟ ٭ کیاآپ کا ریکارڈ مجرمانہ ہے؟ ان سوالات کے جوابات کا تمام تر انحصار ایک امیدوار پر ہے کہ وہ کیسا رویہ اپناتاہے اور انٹرویو لینے والے کو کس انداز میں مطمئن کرتا ہے۔ انٹرویو کا دن ٭ سب سے پہلے آپ وہ مقام دیکھ لیں جہاں انٹرویو کا انعقاد ہونا ہے تاکہ آپ برقوت جائے انٹرویوتک پہنچ سکیں۔ ٭ صاف ستھرا لباس زیب تن کریں۔ ٭ انٹرویو کے روز بروقت دفتر پہنچیے۔ ٭ انٹرویو کے دوران چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھیں۔ ٭ مشکل پیچیدہ سوالات کے جوابات دیتے وقت گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے نرمی اختیار کریں۔ ٭ انٹرویو لینے والے کو یقین دلائیں کہ آ پ ہی اس ملازمت کے اہل ہیں۔ ٭ دوران ملازمت آپ کیا کر سکتے ہیں جرات اور اعتماد سے ان کا اظہار کریں۔ ٭ اپنی تعلیم اور تجربہ کے متعلق انہیں بتائیے۔ ٭ ملازمت میں دلچسپی ظاہر کریں اوقات کار تنخواہ اور تربیت کے بارے میں سوالات کریں۔ ٭ افراتفری اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ ٭ انٹرویو لینے والے آفیسر کو ایک لفظ میں جواب دینے کی بجائے تفصیلی جوابات دیں۔ ٭ جوابات اثر آفریں ہونے چاہئیں۔ ٭ وہ کیجیے جو آپ چاہتے ہیں۔ ٭ اونچی مگر خوشگوار آوازمیں بات کیجیے تاکہ آپ کے جواب کو اچھی طرح سنا جا سکے۔ ٭ ہاتھوں اور ٹانگوں کی غیر ضروری حرکات اضطراری سے گریز کریں کیونکہ یہ گھبراہٹ کا اظہار کرتی ہیں۔ ٭ انٹرویو میں عام سوالات پوچھے جاتے ہیں لہٰذا انٹرویو کے دوران ذہنی طور پر حاضر رہیے۔ ٭ انٹریو کے فوراًبعد ہر اس چیز کو لکھیے جو آپ نے غلط یا درست بیا ن کی۔ ٭ جوابات دیتے ہوئے وقت کا حساب رکھیں۔ خواہ مخواہ جلد بازی سے کام نہ لیں۔ ٭ دوران انٹرویو بااعتماد رہیے۔ ٭ ایسا سوال جس کا آپ جواب نہیں دے سکتے چھوڑ دیجیے۔ ٭ انٹرویو لینے والے کے ہر سوال کو غور سے سنیے۔ ٭ انٹرویو لینے والے کے کام میں مداخلت سے گریز کریں ایسی صورت میں انٹرویو لینے والا منفی رائے قائم کر سکتاہے۔ دوران انٹرویو کیا نہیں کرنا چاہیے انٹرویو دیتے ہوئے امیدوار ان کو مندرجہ ذیل ہدایات پر نظر رکھنی چاہئییںَ ٭ انٹرویو کے دوران ناک کاک اور انگیوں سے مت کھیلیے۔ ٭ جوابات کے دوران اپنا نقطہ نظر نہ ٹھونسیے۔ ٭ بڑبڑاہٹ سے بچیے۔ ٭ انٹرویو لینے والوں کے کام میں مداخلت سے گریز کرتے ہوئے اس کو سوالات کو سنیں۔ ٭ انٹرویو کے دوران سگریٹ نوشی نہ کیجیے۔ ٭ حواس باختگی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ٭ انٹرویو والے کمرے میں اس وقت داخل ہوں جب آپ کو بلایا جائے ٭ دوران انٹرویو گنواروں کی طرح بییٹحیے نہ میز پرجھکیے۔ ٭ انٹرویو لنے والے یا ممبروں سے بدتمیزی نہ کیجیے۔ ٭ انٹرویو کے کمرے میں میز پر پڑ ہوئے ٹیلی فون بال پوائنٹ پین اور کاغذات نہ گھمائیے۔ ٭ آدھی آستین والی قمیض جسم کے ساتھ چپکی ہوئی پینٹ سے گریز کیجیے۔ ٭ انٹرویو کے دوران ادھر ادھر نظریں گھمانے کی بجائے انٹرویو کرنے والے کے سوالات پر بھرپور توجہ دیں۔ ٭ سوالات کا جواب دیتے وقت قطعاً شرماہٹ اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ ٭ طویل جواب کی بجائے مناسب جواب دیں۔ ٭ ایسے سوالات کے جواب دینے سے گریز کریں جو آپ سے نہ پوچھے گئے ہوں۔ ٭ دوران انٹرویو خواہ مخواہ علمی قابلیت نہ بگھاریں۔ ٭ انٹرویو دینے والے کو بہکانے اور دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں۔ ٭ غمگین نہ ہوں۔ ٭ اگر آپ سوال کو نہیں سمجھ پائے تو آپ انٹرویو لینے والے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سوال کو دوبارہ دہرائے۔ انٹرویو کی کامیابی کے لیے مکمل تیاری کرنی چاہیے کیونکہ امیدوار کی زندگی میں یہ انٹرویو والا دن بڑا اہم ہوتا ہے۔ اس روز امید وار بھرپور اعتماد کے ساتھ انٹرویو کی تیاری کرے۔ اس سلسلہ میں اہم ہدایات درج ذیل ہیں۔ ٭ انٹرویو سے قبل رات کو گھڑی پر الارم یا کسی فرد کی ڈیوٹی لگائی جائیتاکہ آپ جلد اٹھ جائیں۔ ٭ صبح سویرے اٹھیے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ ٭ نماز ادا کرنے کے بعد چہل قدمی کریں۔ ٭ غسل کرنے کے بعد صاف ستھرالباس زیب تن کریں۔ ٭ ہائی نیک واسکٹ پہننے سے گریز کریں۔ ٭ سامنے والی جیب کو خالی رکھیے۔ ٭ ہلکے مگر دل لبھانے والے پرفیوم کا استعمال کریں۔ ٭ دفترپہنچ کر اپنا نام رجسٹر کرائیں۔ ٭ ہال میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کریں۔ امیدوار کی نا اہلیت کی وجوہات امیدوار کو مندرجہ ذیل صورتوں میں نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ امیدوار کسی ذریعے سے ایسی کوشش کرے جو اس کے بطور امیدوار حمایت کے لیے ہو اسے انٹرویو کے لیے نا اہل بناسکتی ہے۔ ایسا امیدوار جو تنظیم محکمے ادارے پبلک سروس کمشن ‘ فیڈرل سروس کمیشن آئی ایس ایس بی یامحکمے کی جانب سے قصور وار قرار دیاگیا ہے۔ ٭ کسی ذریعہ سے کامیابی کے لیے حمایت حاصل کرنا۔ ٭ سفارش کروانا۔ ٭ کسی شخص کا فرضی روپ بھرنا۔ ٭ جعلی دستاویزات ٭ غلط یا جھوٹے بیانات تحریر کرنا یا دبائو پر مشتمل معلوماتی مواد مہیا کرنا۔ ٭ انٹرویو آفیسر پر دبائو ڈالنا۔ ٭ انٹرویو کے دوران ناشائستہ رویہ اپنانا۔ ٭ بورڈ کے چئیر مین کسی رکن یا سٹاف کو جسمانی و ذہنی اذیت پہنچانا۔ ٭ ہدایات کی خلاف ورزی کرنا۔ ٭ دوران انٹرویو ناشائستہ زبان استعمال کرنا۔ ٭ انٹرویو لینے والے کو دھمکانا۔ ٭ انٹرویو کے دوران کمرے میںچہل قدمی یا غیر ضروری حرکات و سکنات کرنا۔ ٭ کمرے میں داخل ہونے کے لیے ہجوم سے تیزی سے ساتھ گزرنا۔ ٭ خواہ مخواہ اونچی آواز میں انٹرویو لینے والے سے باتیں کرنا۔ ٭ انٹرویو کے کمر ے میںسگریٹ پینا شرا ب پینا یا کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکات کرنا۔ ٭٭٭ کامیاب انٹرویو کے لیے بہترین حکمت عملی کیسے تیار کی جا سکتی ہے ٭ انٹرویو دینے والااس بات کو ذہن نشین کر لے کہ انٹرویو لینے والا آپ کا پہلے تاثر کی بنیاد انتخاب کرتا ہے۔لہٰذا جان لیجیے کہ آپ کے پہلے تاثرات ہی ہر چیز پر مقدم ہیں۔ ٭ کامیابی کے حصول اور ناکامی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی توجہ نصیب العین کے حصول پر مرکوز رکھیے۔ ٭ تفصیل کے ساتھ تمام اچھی اور بری چیزوں کی فہرست بنائیے تاکہ لوگ آپ کے بارے میں جانیں۔ ٭ اپنے رویوں اپنی ذات کے بارے میں اندازوں کو قبول کرتے ہوئے نکات مرتب کریں۔ ٭ زندگی میں آ پ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کا حتمی انتخاب کیجیے۔ ٭ کامیابی کے حصول کے لیے اپنے ہی قوانین تیار کریں۔اور ان پر سختی سے عمل کریں۔ ٭ مطلوبہ اشتہارات کی جانچ پڑتال اور پہلے تاثرات کا خیال رکھتے ہوئے امتحان اور انٹرویو کی تیاری شروع کیجیے۔ ٭ روزگار یا ملازمت کے حصول کے لیے مددگار ذرائع سے رابطہ منقطع نہ کریں۔ ٭ ان کمپنیوں کا انتخاب کریں جن کے ساتھ آپ کام کرنا چاہتے ہیں۔ ٭ ہر ایک (کمپنی) کے لیے علیحدہ پلاننگ تشکیل دے کر تیاری کریں۔ ٭ لائبریری میں جا کر کاروباری سرگرمیوں اور کمزوریوں پر مکمل تحقیق کیجیے۔ ٭ اگر ممکن ہو تو ذاتی کوشش اور انہمک کے ساتھ ہر کمپنی کے متعلق مکمل معلومات حاصل کریں۔ ٭ اپنے تمام کوائف متعلقہ حقائق اور سچائی کے ساتھ مختصرا ً تحریر کریں۔ ٭ اپنا پتہ اور فون نمبر اپنے کوائف میں لازماً لکھیں۔ ٭ واضح کریں کمپنی کو آپ کی مہارت سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ٭ جو کچھ آپ بتانا چاہتے ہیں اسے تحریر کرتے وقت غیر ضروری غیر رسمی زبان استعمال نہ کی جائے۔ ٭ بااعتماد اور مستحکم طریقے سے اپنے آپ کو پیش کیجیے تاکہ وہ آپ کے لیے راہ کھول دے۔ ٭ طویل ٹیلی فون مذاکرات سے پرہیز کریں۔ ٭ اپنے آپ کو ایک انٹرویو کے لیے مکمل طور پر تیار کرنے کے لیے درست معلومات حاصل کریں۔ ٭ اچھی ملازمت کے حصول کے لیے متعلقہ کمپنی میں کام کرنے والے دوستوں کا سہارا لیجیے۔ ٭ گمنا م فون کالوں یاذاتی معائنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہیے۔ ٭ منفرد نظر آنے کے لیے ہر شے کا استعمال کیجیے۔ ٭ متوقع سوالات لکھ لیں اور ہر سوال کے لیے ایک جوبا کو ترجیح دیجیے۔ ٭ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر سوال و جواب کی مشق کریں کہ آپ کے لیے انٹرویو میں آسانی پیداہو۔ ٭ انٹرویو سے قبل انٹرویو والا لباس زیب تن کرنا چاہیے تاکہ آپ اس کی خوبیوں اور خامیوں کو جان سکیں اور دیکھیں کہ یہ لباس انٹرویو ر کو بھی پسند آئے گا یا نہیں۔ ٭ انٹریو والے دن ہر کام معمول کے مطابق کیجیے۔ ٭ اپنے کوائف اور متعلقہ اشیا کی پالتو کاپیاں اپنے ہمراہ لائیے۔ ٭ انٹرویو کے دوران اپنے ہمراہ ایک نوٹ بک اور ایک پاکٹ ڈکشنری بھی لائیے۔ ٭ متعلقہ ادارے کے ماحول کا بغورجائزہ لے کر انٹرویو کے لیے سوالات کریں۔ ٭ اپنے انٹرویو پر اپنے پہلے تاثر کا نوٹس لیں اور اسے برقرار رکھتے ہوئے دوبارہ بہتر تاثرات کا مظاہرہ کریں۔ ٭ اس بات کا نوٹس لیں کہ آپ کے انٹرویو نے آپ کے پہلے تاثر کو جان کر آپ کی توقعات کو قریب سے جاننا شروع کیا ہے جس کاآپ نے نوٹس لیا ہے۔ ٭ ہر سوال کا جواب مختصراً اور فوراً دیں۔ ٭ اپنے جوابات پر قائم رہیں اور خواہ مخواہ کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ٭ تنخواہ کا مطالبہ کرتے وقت اپنی اور ادارے کی حیثیت مدنظر رکھیں۔ خواہ مخواہ غلط توقعات وابستہ نہ کریں۔ ٭ انٹروی سے خارج ہو نے کے بعد اور کمرے سے جانے سے پہلے ملازمت کے بارے میں پوچھیے۔ ٭ انٹرویو کے بعد فوری طور پر اپنے جوابات ک اندازہ کرکے اپنی کامیابی اور ناکامی کااندازہ لگائیں۔ ٭ ہر انٹرویو کی پیروی کریں۔ ٭اپنی توجہ نوکری حاصل کرنے پر مرکوز رکھیں۔ ٭ محتاط رہیے اس میں کبھی دیر نہیں ہوتی کہ بھول جائیے۔ ٭ ملازمت کی پیش کش کا انتخاب کرتے وقت خود اعتمادی کے احساسات کو قائم رکھیں۔ ضروری امور اگر آ پ اپنے کیرئر کا حتمی چنائو کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو پھر یاد رکھیی کہ اچھی پیشہ ورانہ ملازمت کے لیے آپ کو تحریری اور زبانی امتحان جیسے مراحل کا سامنا ہر حالت میں کرنا ہو گا۔ لہٰذا آپ کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے پسندیدہ پروفیشن سے متعلقہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ہر قسم کی معلومات کی آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ اگرآپ نے اس ضمن میں کوتاہی برتی تو جان لیجیے کہ آپ اچھا روزگار کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ تحریری امتحان میں مطالعہ اسلامیات مطالعہ پاکستان‘ انگریزی اردو معلومات عامہ جنرل ریاضی اور متعلقہ شعبہ کے متعلق سوالات و جوابات انشائی ومعروضی طرز میں پوچھے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو پھر زبانی امتحان کا مرحلہ درپیش ہو گا۔ اس میں کامیابی کی صورت میں سنہرا مستقبل آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہو گا وگرنہ… انٹرویو کی تیاری کے لیے اہم امور کا تذکرہ پچھلے صفحات پر موجود ہے۔ جس کے مطالعہ کے بعد آپ انٹرویو کی تیاری کے لیے قطعاً کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ آنے والے صفحات میں مختلف ملازمتوں کے لیے ہونے والے انٹرویو کی تیاری کے لیے اہم معلومات درج کی جا رہی ہیں۔ جو آپ کو انٹرویو میں کامیابی کی منزل تک انشاء اللہ ضرور پہنچائیں گی لیکن ساتھ ہی واضح رہے کہ ایک کتاب میں ہر قسم کی معلومات درج کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے آپ ہر ممکنہ ذرائع سے معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں۔ اس کے لیے سب سے مناسب تجویز یہ ہے کہ آپ روزانہ اچھی کتب اخبارات کا مطالعہ اور ریڈیو ٹیلی وژن سے نشر ہونیوالے حالات حاضرہ کے پروگرامات اور نیوز بلیٹن ضرو ر سنیں تاکہ لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہر لمحہ آگاہ رہیں۔ چند ہدایات انٹرویو کے دوران امیدواران سے مندرجہ ذیل اقسام کے سوالات ہر حالت میں پوچھے جاتے ہیں جن کی تیار ی کرنا آپ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ ایسے سوالات ہیں جن کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں لیکن در حقیقت یہ آپ کے سنہری مستقبل کے لیے انتہائی دور رس اثرات کے حامل ہیں مثلاً س: آپ کا تعلق کس علاقہ سے ہے؟ ج: جی جناب! میرا تعلق جھاوریاں ضلع سرگودھا ہے۔ س: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سرگودھا ضلع کی کتنی تحصیلیں ہیں اور جھاوریاں کس تحصیل کی حدود میں شامل ہے؟ ج: جی جناب سرگودھا ضلع کی چھ تحصیلیں کوٹ مومن ‘ بھلوال ‘ شاہ پور‘ میانوالی‘ ساہیوالی اور سرگودھا ہیں جبکہ جھاوریاں تحصیل شاہ پور کا علاقہ ہے۔ س: سرگودھا کن حوالوں سے مشہور ہے؟ ج: سرگودھا کو شاہینوں کا شہر کہتے ہیں کیونکہ یہاں پاکستان کاسب سے بڑا جنگی ہوائی اڈہ اور پی اے ایف کالج موجودہ ہے۔ علاوہ ازیں سرگودھا کا شمار ان خوش نصیب شہروں میں ہے جس کے شہریوں کی بے مثل جرات اور بہادری کے باعث حکومت نے پرچم ہلال استقلال کے اعزاز سے نوازا کینو اور سنگترہ کی پیداوار کے لحاظ سے تحصیل بھلوال کا علاقہ دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ دیگر اہم اجناس میں گندم‘ اعلیٰ نسل کاچاول‘ گنا اور بانس پیدا ہوتا ہے۔ س: سرگودھا لاہور سے کتین مسافت پر واقع ہے؟ ج: جی جناب: 165کلومیٹر ہے۔ س: موٹر وے (ایم 2) سرگودھا ضلع کی حدود میں بھی واقع ہے اس ضلع کی حدود موٹر وے پر کتنے انٹر چینج واقع ہیں؟ ج: جی جناب چار انٹر چینج سیال مور ‘ کوٹ مومن‘ سالم اور بھیرہ انٹر چینجز اس ضلع کی حدود میں واقع ہیں۔ س: شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد سرگودھا ضلع کے کس شہر میں واقع ہے؟ ج: جی جناب شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد اس علاقے کے قدیم مرکز اور تاریخی شہر بھیرہ میںواقع ہے ۔ س: پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کا تعلق ضلع سرگودھا سے ہے کیا آپ ان کا نام جانتے ہیں؟ ج: جی جناب ان کا اسم گرامی جناب فیروز خان نون(مرحوم ) ہے۔ س: آپ نے میٹرک کا امتحان امتیازی پوزیشن سے پاس کیا ایف ایس سی میں آپ کے نمبرز بہت کم اور بی ایس سی میں آپ نے یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ تعلیمی کیرئیر میں اتنی اونچ نیچ کی وجہ کیاہے؟ ج: جی جناب تعلیمی سفر کے دوران میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میں امتیازی پوزیشن حاصل کروں اگر اس دوران میرے نمبر کم آئے ہیں تو میںکسی کو الزام دینے کی بجائے یہ کہنا پسند کروں گاکہ محنت کبھی رائیگاںنہیںجاتی ہو سکتا ہے کہ ایف ایس سی کے دوران میں بہتر طریقے سے محنت نہ کر سکا ہوں مذکورہ سوالات کے مطالعہ سے آپ کو مشترکہ نوعیت کے سوالات کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آپ کو چاہیے کہ یاد کریں۔ 1 ۔ اپنے علاقہ کا محل وقوع جغرافیائی معلومات ‘ دریائی گزرگاہیں نہریں شاہرات کا نظام انتظامی تقسیم آپ کے علاقہ کا وفاقی و صوبائی دارالحکومتوں سے فاصلہ معدنی پیداوار‘ زرعی پیداوار‘ صنعتیں جنگلات‘ شرح خواندگی ‘ آبادی اہم تعلیمی ادارے مشہور تاریخی عمارات (آثار قدیمہ)۔ 2۔ علاقہ کی مشہور سیاسی سماجی‘ فوجی اور ادبی اور دیگر شعبو ں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے کارہائے نمایاں اور موجودہ انتظامی عہدیداران۔ 3۔ اپنے آبائی علاقہ کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے تجاویز۔ 4۔ آپ کا تعلیمی کیرئیر زیادہ اور کم نمرز کی وجوہات ج اداروں میں آپ زیر تعلیم رہے ان کی تاریخ اور اثرات وہاں زیر تعلیم رہنے والی اہم شخصیات اور ان کے کارہائے نمایاں۔ 5۔ جس یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کی ہیں اس کی تاریخ قیام‘ شعبہ جات اور اساتذہ وغیرہ کے اسمائے گرامی۔ 6۔ جس ملازمت کے لیے انٹرو یو دے رہے ہیں اس کی پسندیدگی کی وجہ اس شعبہ میں کس سے متاثر ہیں۔ 7۔ خواتین امیدواران نامور مسلم خواتین‘ حکمران خواتین اور خواتین سے متعلقہ دیگر معلومات کو اچھی طرح یاد کریں۔ 8۔ غربت اور بے روز گاری کے خاتمے اقتصادی استحکام اور ملکی ترقی کے حوالے سے آپ کی تجاویز۔ 9۔ کھیلوں سے وابستگی ملکی ریکارڈ کے متعلق معلومات ‘ پسندیدہ کھیل کے اصول و ضوابط اور نیٹ وغیرہ کی لمبائی چوڑائی اور نچائی وغیرہ۔ نوٹ: اس قسم کے سوالات کی تیاری کرتے وقت ا س امر کو یقینی بنائیں کہ اس میں ابہام موجود نہ ہو یا وہ کسی بھی مقام پر کسی دوسرے مقام سے متصادم نہ ہوں۔ معلومات عامہ انٹرویو میں مندرجہ ذیل موضوعات کا احاطہ کیا جاتاہے: 1۔ اسلامی معلومات: اسلامی عقائد اور اسلامی تاریخ۔ 2۔ معلومات پاکستان: تحریک پاکستان اور پاکستان کی جغرافیئی معلومات صدارتی آرڈیننس: صدارتی آرڈیننس مجریہ 1980ء کے مطابق ہر انتخابی امتحان اور انٹرویو میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان لازمی ہوں گے اور ان میں کامیاب ہونا بھی ضروری ہو گا۔ بصورت دیگر امیدوار کو ملازمت کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل موضوعات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ 3۔ حالات حاضرہ پاکستان اور دنیا کے اہم واقعات اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کا کردار۔ 4۔ کون کیا ہے؟ قومی اور بین الاقوامی عہدیدار وغیرہ 5۔ کھیل اور کھلاڑی: مشہور کھیل اورکھلاڑیوں کے متعلق معلومات۔ 6۔ عالمی شخصیات: اہم قومی اور بین الاقوامی شخصیات 7۔ سائنسی معلومات: عام سائنسی معلومات۔ 8۔ ذہنی آزمائشی: فہم عمومی پر مبنی سوالات۔ 9۔ عالمی معلومات: اہم قومی اور بین الاقوامی معلومات پر سوالات۔ تعلیمی موضوعات انٹرویو کے دوران عموماً مندرجہ ذیل موضوعات پر سوالات پوچھے جاتے ہیں: پاکستان اور بھارت کی تاریک عالمی جغرافیہ‘ فزکس کیمسٹری ‘ معلومات عامہ اور حالات حاضرہ ۔ پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں برکی تاریخ کا سرسری خاکہ۔ قیام پاکستان کے ذمہ دار اور اہم واقعات۔پاکستان کی قدیم اور اسلامی ثقافت۔ جس کا اظہارقدیم عمارات اور یادگاروں وغیرہ سے ہوتا ہے یا حکومت خود اختیاری کا ارتقاء وغیرہ۔ عالمی تاریخ کے متعلق اہم واقعات قومی تحریکیں اور اصلاحات خاص طورپر قابل ذکر ہیں مثلاً برطانیہ کا صنعتی انقلاب۔ انقلاب فرانس۔ سویت یونین کا قیام۔ امریکہ کی جنگ آزادی۔ دوسری عالمی جنگ اور ایشیاء میں آزادی کی جدید تحریکیں وغیرہ۔ فزکس میں جن موضوعات پر سوال کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہیں مادے کی حالت اور پیمائش کشش اور وزن حرکت اور قوت۔ حرارت اور اس کے اثرات اور انتقال۔ ٹمپریچر اور اس کی پیمائش مقناطیس اوراس کی خصوصیات۔ مصنوعی اورنیوٹرل مقناطیس۔ جغرافیہ۔ زمین کی شکل اور حرکت سالانہ موسم دن رات۔ موسم اورآب و ہوا۔ آتش فشاں پہاڑ اور زلزلے۔ سمندری اور نہری انسانی پیشے اورسرگرمیاں اور ان کا جغرافیائی حالات سے تعلق۔ پاکستان کا جغرافیہ مندرجہ بالا موضوعات کی روشنی میں۔ کیمسٹری: کیمیائی تبدیلیاں پانی کے کیمائی عناصر کے تیزاب نمکیات کاربن کوئلہ اور کاربن آکسائیڈ وغیرہ کرہ ارض کودرپیش مسائل۔ آلودگی بڑھتی ہوئی آبادی غذائی ضروریات صحت وغیرہ۔ اہم انٹرویوز کے اہم سوالات (1) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ کے نام بتائیے۔ (2) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت سے قبل حجر اسود کی تنصیب کے واقعے پر روشنی ڈالیے۔ (3) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کا آغاز کب کیا۔ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں کے اسمائے گرامی بتائیے؟ (4) دعوت اسلام دیتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون کون سی تکالیف برداشت کرنا پڑیں؟ (5) اعلان صفا کیا تھا؟ (6) شعب ابی طالب کا واقعہ بیان کیجیے؟ (7) سفر طائف کی غرض و غایت اور حالات بتائیے؟ (8) بیعت عقبہ سے کیا مرا د ہے؟ (9) ہجرت مدینہ کے واقعات اجمالاً بتائیے؟ (10) میثاق مدینہ پر روشنی ڈالیے؟ (11) غزوہ بدر کے واقعات مختصر طور پر بیان کیجیے؟ (12)غزوہ خندق کے واقعات مختصر طور پر بیان کیجیے؟ (13) صلح حدیبیہ پر روشنی ڈالیے؟ (14) بیعت رضوان سے کیا مراد ہے؟ (15) فتح مکہ کے اسباب اور واقعات بتائیے؟ (16) حجتہ الوداع کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بیان کیجیے؟ (17) حضرت ابوبکرؓ کو منصب خلافت سنبھالنے کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں اور انہوں نے ان کا انسداد کس طرح کیا؟ (18) حضرت عمرؓ کے دور کی فتوحات کا تذکرہ اختصار سے کیجیے؟ (19) حضرت عثمانؓ کی شہادت کے اسباب و واقعات اختصار سے لکھیے؟ (20) جنگ جمل کیا تھی؟ اس کے اسباب و واقعات مختصراً بتائیے؟ (21) آیت الکرسی سنائیں؟ (22) دعائے قنوت سنائیں؟ (23) معوذتین سے کیا مراد ہے؟ (24) اسلام کے فلسفہ جہاد سے کیا مراد ہے؟ (25) ارکان اسلام سے کیا مرادہے؟ (26) صحاح ستہ سے کیا مراد ہے؟ (27) اجتہاد سے کیا مراد ہے؟ مطالعہ پاکستان اور حالات حاضرہ (1) دو قومی نظریہ سے کیا مراد ہے؟ (2) دو قومی نظریہ کا بانی کون تھا؟ (3) تقسیم بنگال کب ہوئی اس کی تنسیخ کب اور کیوں ہوئی؟ (4) مسلم لیگ کا قیام کب اور کیوں عمل میں آیا؟ (5) مسلم لیگ کے پہلے صدر کون تھے؟ (6) تحریک خلافت کس مقصد کے حصول کے لیے شروع کی گئی؟ (7) تحریک خلافت کے اہم رہنمائوں کے نام ور ان کے حالات زندگی پر مختصراً روشنی ڈالیے؟ (8) پہلی دوسری اور تیسری گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کب اور کہاں ہوا؟ (9) گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے ہندوستانی رہنمائوں کا نام بتائیے؟ (10) خطبہ الہ آباد کس مشہور شخصیت کے خطاب کو کہتے ہیں؟ (11) علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں کیا مطالبہ کیا تھا؟ (12) پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے تجویز کیا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کن الفاظ کا مخفف ہے؟ (13) قائد اعظم کے چودہ نکات پر روشنی ڈالیے۔ (14) قرار داد پاکستان کس شہر میں پیش کی گئی؟ (15) قرار داد پاکستان کب پیش کی گئی؟ (16) خاکسار تحریک کے کارکنوں پر لاہور میں گولی کب چلائی گئی؟ (17) 1945ء کی شملہ کانفرنس پر روشنی ڈالیے؟ (18) کرپس مشن کس مقصد کے لیے ہندوستان کے دورہ پر آیا تھا؟ (19) 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی و صوبائی مجالس قانون ساز میں کتنی نشستیں حاصل کی تھیں؟ (20) کابینہ مشن کیا تھا اور اس کی تجاویز پر ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کا ردعمل کیا تھا؟ (21) اعلان تقسیم ہند کب ہوا؟ (22) ریڈ کلف کمیشن کے پاکستانی تاریخ میں کردار پر روشنی ڈالیے؟ (23) کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کی بنیادی وجہ سرحدوں کی غلط تقسیم ہے؟ (24) کشمیریوں اور گلگت (شمالی علاقہ جات) کی تحریک آزادی کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ (25) اسلامی سربراہی کانفرنس اور پاکستان کے کردار پر مختصر روشنی ڈالیے؟ (26) پاکستان کے میزائل پروگرام کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ (27) پاکستان اندرون ملک کس قسم کے جنگی آلات تیار کر رہا ہے؟ (28) آئی پی پی پیز کا مسئلہ کیا ہے؟ (29) دہشتگردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں پاکستان کے رو ل کا جائزہ لیجیے؟ (30) افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بنیادی وجوہات اور اس کے تدارک کے لیے آپ کے ذہن میں کیا تجاویز ہیں؟ (31) مشرق وسطیٰ امن روڈ میپ کیا ہے؟ فلسطینی اور اسرائیلی حکام کے کردار کا جائزہ لیجیے؟ (32) پاکستان کے نیوکلیر پروگرام اور ایٹمی صلاحیت کے پس منظر میں اقوام عالم میں پاکستان کے کردار اور اہمیت پر روشنی ڈالیے؟ (33) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمہ کے لیے پاکستانی اقدامات پر روشنی ڈالیے؟ (34) سارک کانفرنس کے کردار اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیے؟ (35) ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)کا معاہدہ کس سال سے نافذ ہو گا۔ اس معاہدے کے پس منظر میں مستقبل کے درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالیے؟ (36) عراق پر امریکی حملہ اور قبضہ کے تناظر میں اقوام متحدہ کے کردار پر روشنی ڈالیے؟ (37) اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی کارکردگی اور طریقہ کار کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ (38) انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے پاکستان اور عالمی سطح پر اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہونے والی ترقی اور تبدیلیوں کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ (39) کیا چین اوربھارت کے تعلقات میں بہتری آنے سے پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہوں گے؟ (40) جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی آئینی ترامیم کے پس منظر میں اپوزیشن کے کردار کا جائزہ لیجیے؟ (41) گلوبل وارمنگ تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے بنیادی اسباب اوراس کے انسداد کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں پر روشنی ڈالیے؟ (42) ماحولیاتی آلودگی سے کرہ ارض کو کن خطرات کا سامنا ہے؟ (43) جنگی و آبی حیات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی پاکستانی اور عالمی کوششوں کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ (44) سال قائد اعظم سال اقبال اور سال مادر ملت فاطمہ جناح کب اور کیوں منائے گئے؟ (45) مسئلہ کشمیر پر ہونے والی پاک بھارت جنگوں جنگ 48ء جنگ 65ء جنگ 71ء کارگل کے اسباب پر روشنی ڈالیے ؟ (46) شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کا جائزہ لیجیے؟ (47) امریکہ اورپاک چین تعلقات کا مختصراً جائزہ لیجیے؟ (48) پاکستان کے خلائی پروگرام پر روشنی ڈالیے؟ (49)پاکستان کس قسم کا اسلحہ عالمی منڈی میں فروخت کے لیے پیش کرچکا ہے؟ (50) صدام حسین کے بعد امریکہ عراقی قوم پر اپنی مرضی مسلط کر سکے گا؟ نام کے حوالے سے سوالات ایک سوال آپ سے آپ کے نام کے حوالہ سے پوچھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا نام خالد ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ خالد بن ولیدؓ کے بارے میں کی جانتے ہیں؟ نوٹ: یہاں تمام ناموں کے حوالے سے بحث کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا امیدوار کو چاہیے کہ وہ اپنے نام پر غور کرے اور یہ معلوم کرے کہ اس نام کی کون کون سی اہم شخصیات ہوئی ہیں۔ ان شخصیات کے حالات زندگی تصانیف وغیرہ ذہن نشین کر لیں۔ امیدوار کو چاہیے کہ وہ اپنے نام پر غور کرے اور اپنے نام سے مشابہ شخصیات کے بارے میں بھرپور مطالعہ کرے۔ اگر آپ کا نام اقبال ہے تو آپ سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے جانے کی توقع ہے: (1) علامہ اقبال کب پیداہوئے اورانہو ں نے کب وفات پائی۔ (2) 1928ء میں علامہ اقبال نے مدراس میں اسلام کے موضوع پر لیکچر دیے۔ بعد ازاں یہ لیکچر ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئے کتاب کا نام بتائیں (3) علامہ اقبال کی مشہور تصانیف کے نام بتائیں۔ (4) علامہ اقبال نے 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں کیا خا ص بات کہی تھی۔ (5) علامہ اقبال نے کون سی گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ ٭٭٭ ویزہ انٹرویوز ویزا انٹرویو برائے کثیر المقاصد و بزنس ویزہ برائے امریکہ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ و یورپی یونین کے ممالک درخواست گزار: صبح بخیر؍ سہ پہر بخیر تشریف رکھیے۔ ویزہ آفیسر: آپ امریکہ کینیڈا یورپین یونین وغیرہ کیوں جانا چاہتے ہیں؟ درخواست گزار: میں وہاں کاروباری مواقع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ نے وہاں کسی کمپنی سے رابطہ کیا ہے؟ درخواست گزار: جی ہاں میں نے کمپنی… سے رابطہ کیا ہے۔ نوٹ : کمپنی کا نام بتائیں۔ ویزہ آفیسر: کیاآپ کے پاس باہمی رابطوں کا کوئی ثبوت موجودہے؟ درخواست گزار: جی ہاں! یہ لیجیے وہ خط جس میں مجھے… کمپنی نے امریکہ کینیڈا یورپین یونین آنے کی دعوت دی ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کثیر المقاصد ویزے کے لیے سپانسر کمپنی کا تعارفی خط متعلقہ سفارتخانے کو ارسال کیاجانا ضروری ہے؟ درخواست گزار: جی نہیں! مجھے یہ معلوم نہیں ہے۔ نوٹ: نفی میں جواب کی صورت میں ویزہ آفیسر درخواست گزار کو متعلقہ کمپنی کو سفارتخانے میں اس کے ویزے کے لیے تعارفی خط بھجوانے کا کہہ کر درخواست مسترد کردے گا۔ درخواست گزار: جی ہاں مجھے معلوم ہے یہ اس خط کی نقل ہے جو سپانسر کمپنی نے سفارتخانے کو میرے تعارف کے لیے بھجوایا ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کو امریکہ کینیڈا یورپین یونین برطانیہ وغیرہ میں کاروباری قوانین کے بارے میں آگاہی حاصل ہے خصوصاً پاکستان سے کاروبار اور کوٹہ کی پابندیوں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں مجھے اس بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہے۔ کیونکہ میں پہلے سے امریکہ کینیڈا یورپین یونین برطانیہ اور دیگر ممالک کو اپنی مصنوعات برآمد کر رہا ہوں۔ درخواست گزار: جی ہاں! مجھے اس حوالے سے کچھ معلومات حاصل ہیں۔ میرے دورے کا مقصد اس حوالے سے مکمل آگاہی حاصل کرنا ہے اور دیگر مسائل کے بارے میں خودمشاہدہ کرنا ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کبھی کسی مذہبی تنظیم سے وابستہ رہے ہیں ؟ درخواست گزار: جی نہیں! میں کسی ایسی تنظیم سے وابستہ نہیں رہا ہوں۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ نے کبھی کسی مذہبی یا جہادی تنظیم کو چندہ دیا ہے؟ درخواست گزار: جی نہیں! میں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ویزہ آفیسر: آپ کے القاعدہ تنظیم کے متعلق خیالات کیسے ہیں؟ درخواست گزار : میں اس تنظیم کے متعلق بہت کچھ نہیں جانتا ہوں ماسوائے اس کے جو کچھ اخبارات میں چھپ رہا ہے اورالیکٹرانک میڈیا پر بتایا جا رہا ہے۔ ویزہ آفیسر: آپ کے ذہن میں جہاد کی تعریف کیا ہے؟ درخواست گزار: یہ ایک مقدس جنگ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر موجود خامیوں کے خلاف جنگ کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے۔ ویزہ آفیسر: افغانستان اور عراق میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی کارروائی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ درخواست گزار: ان علاقوں میں کارروائیوں سے ہزاروں او ر لاکھوں بے گناہ معصوم شہری موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں جو انتہائی افسوس ناک امر ہے یہ کارروائیاں صر ف دہشت گردوں کے خلاف ہونی چاہئیں تھیں ویزہ آفیسر: بطور بزنس مین میں یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ اب بہت سی (امریکہ؍ کینیڈا؍ یورپین یونین ؍ آسٹریلیا ؍ برطانیہ) کمپنیاں پاکستانی اداروں سے کاروبار کرنے سے احتراز کر رہی ہیں؟ درخواست گزار : جی ہاں میں جانتا ہوں مگراب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اورجس سپانسر کمپنی سے میرا رابطہ ہے اس نے ہمارے ساتھ کاروبار کرنے میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیاہے۔ درخواست گزار: یہی وجہ ہے کہ میں (امریکہ؍ کینیڈا؍ یورپی یونین؍ آسٹریلیا؍ برطانیہ) کا دورہ کرنا چاہتا ہوںَ ویزہ آفیسر: تاحال آپ (امریکہ؍ کینیڈا؍ آسٹریلیا؍ یورپی یونین؍ برطانیہ) کی کسی بھی کمپنی سے کاروبار نہیں کر رہے ہ یں پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے کثیر المقاصد ویزے کے لیے درخواست دی ہے؟ درخواست گزار: یہ بات میرے اس اعتماد کو ظاہر کرتی ہے کہ میں اس دورے میںمتعلقہ کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخطوں میں کامیاب ہو جائوں گا جس کے بعد مجھ زیادہ جلدی جلدی (امریکہ؍ کینیڈا؍ آسٹریلیا؍ یورپی یونین؍ برطانیہ) جانا پڑے گا۔ ویزہ آفیسر: کیا آ پ کوئی ایسا دستاویزی ثبوت فراہم کر سکتے ہیں جن سے ثابت ہو کہ آپ معیار اور مقدار میں برآمدیی آرڈر پورے کر سکیںگے؟ درخواست گزار: جی ہاں! یہ میری کمپنی کا مختصر تعارف جو پہلے ہی آئی اسی او سرٹیفیٹ حاصل کر چکی ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کسی ایوان صنعت و تجارت کے رکن ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں ! وفاق ہائے صنعت و تجارت کا بھی رکن ہوں۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ ہمیں اس کا کوئی ثبوت فراہم کر سکتے ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں! یہ میرے رکنیت کے کارڈ ہیں اور یہ دونوں ایوانوں کے لیے میرے تعارفی خطوط ہیں۔ ویزہ آفیسر: آپ کا شکریہ آپ کا پاسپورٹ اور ویزہ کورئیر کے ذریعے ارسال کر دیں گے۔ ویزہ آفیسر: آپ کا شکریہ یہ ہم آپ کاپاسپورٹ چار بجے شام آپ کے حوالے کر دیںگے۔ درخواست گزار: شکریہ! انٹرویو برائے تعلیمی ویزہ برائے امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ و دیگر یورپین یونین کے ممالک درخواست گزار: صبح بخیر؍ سہ پہر بخیر ویزہ آفیسر: تشریف رکھیے۔ ویزہ آفیسر: آپ کہا ں قیام کریں گے؟ درخواست گزار: میں ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ درخواست گزار: میں نوجوانوں کے ہاسٹل میں ٹھہروں گا۔ درخواست گزار: میں اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام کروں گا۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ نے اپنے رشتے داروں کے نام اور پتے ویزہ درخواست میں درج کیے ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں ! کیے ہیںَ درخواست گزار: جی نہیں میں نے نہیں لکھے۔ نوٹ: اگر جواب نفی میں ہو تو ویزہ آفیسر آپ کو دوبارہ مکمل درخواست دینے کو کہے گا۔برائے مہربانی متعلقہ تعلیمی ادارے کا I20فارم دکھائیں۔ درخواست گزار: یہ لیجیے۔ ویزہ آفیسر: آپ کی آئی 20فارم میں تعلیمی ادارے کے ہوسٹل میں رہائش و خوراک شامل نہیں۔ آ پ کہاں ٹھہریں گے؟ درخواست گزار: میں اپنا اپارٹمنٹ لوں گا یا کسی کے ساتھ اپارٹمنٹ میں حصہ ڈالوں گا۔ ویزہ آفیسر: آپ اس کے اخراجات کس طرح پورے کریں گے؟ درخواست گزار: میرے والد صاحب یا سپانسر نے درکار رقم میرے بینک اکائونٹ میں جمع کروا دی ہے میں اس سے اپنے اخراجات پورے کروں گا۔ ویزہ آفیسر: کیاآ پ کے پاس اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے؟ درخواست گزار: جی ہاں! یہ میرے بنک کائونٹ نمبر اور چیک بک۔ درخواست گزار: جی ہاں یہ ہے انٹرنیشنل کریڈٹ کارڈ جس کی مالیت دس ہزار امریکی ڈالر ہے۔ نوٹ: اگر آپ کا جواب نفی میں ہو گاتو پھر ویزہ آفیسر آپ کی درخواست مسترد کر دے گا۔ ویزہ آفیسر: آپ کے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے مقاصد کیا ہیں؟ درخواست گزار: امریکہ کو دنیا میں انجینئرنگ کے شعبے میں تحقیق اور تعلیم کے حوالے سے بہترین ملک گردانا جاتاہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس ا ٓ جائیں گے؟ درخواست گزار: جی ہاں! اس وقت میرا منصوبہ یہی ہے کہ تعلیم مکمل کر کے واپس آئوں گا۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کے ذہن میں وہاں شادی کرنے کا کوئی منصوبہ تو نہیں ہے؟ درخواست گزار: جی نہیں! میری پہلے منگنی؍ شادی ہو چکی ہے۔ ویزہ آفیسر: اگر آ پ کو وہاں کوئی خوبصورت موقع ملے تو پھر آ پ کیا کریں گے؟ درخواست گزار: میں اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائوں گا کیونکہ میری وابستگی اپنی منگنی شادی سے پختہ ہے۔ ویزہ آفیسر: آپ مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ویزہ آفیسر: اگر آپ کو مزید تعلیم کے یے وظیفہ یا پرکشش ملازمت کی پیش کش کی گئی تو پھر آپ کیا کریں گے؟ درخواست گزار: یہ ایک مشکل سوال ہے اگر مجھے اعلیٰ تعلیم کاموقع ملا تو میں اس سے فائدہ اٹھائوں گا مگر میں ملازمت حاصل نہیں کروں گا۔ درخواست گزار: جب ایسا وقت آئے گا تو پھر میں فیصلہ کروں گا۔ ویزہ آفیسر: کیاآپ کے والد سپانسر آپ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لیے وسائل رکھتے ہیں ؟ سٹڈی ویزہ کے لیے جو شخص درخواست دے گا انٹرویو کے وقت اس کے ساتھ والد صاحب یا سپانسر کو ویزہ آفیسر کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ اوپر مذکور سوال کا جواب درخواست گزار کا والد یا سپانسر دے گا۔ باپ ؍ سرپرست: جی ہاں! میں اپنے بیٹے عزیز کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے مکمل وسائل رکھتاہوں ۔ ویزہ آفیسر: برائے مہربانی اس حوالے سے اپنی دستاویزات دکھائیں؟ باپ ؍ سرپرست: یہ لیجیے۔ نوٹ : بینک اکائونٹ ؍ کاروبار زمینوں اورجائیداد کے کاغذات ویزہ افسر کو دکھائیے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ جی میٹ اور سیٹ کا امتحان پاس کر چکے ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں۔ ویزہ آفیسر: آپ کا شکریہ آپ کا پاسپورٹ اور ویزہ کورئیر سروس کے ذریعے ارسال کر دیا جائے گا۔ درخواست گزار: آپ کا شکریہ۔ ٭٭٭ انٹرویو برائے کام کا ویزہ برائے امریکہ کینیڈا آسٹریلیا برطانیہ و دیگر یورپین یونین کے ممالک درخواست گزار: صبح بخیر؍ سہ پہر بخیر ویزہ آفیسر: تشریف رکھیے۔ ویزہ آفیسر: آپ کہاں قیام کریں گے؟ درخواست گزار: میں ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ ویزہ آفیسر: آپ متعلقہ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ تقرر نامہ دکھائیے؟ درخواست گزار: یہ میرا تقرر نامہ اور ویزہ کیٹیگری فارم جو مجھے ملازمت دینے والی کمپنی اورآپ کے ملک کے محکمہ امیگریشن کی جانب سے تصدیق شدہ ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ ہمارے ملک میں کام کرنے کے ماحول سے آگاہ ہیں؟ درخواست گزار: نہیں بہت زیادہ نہیں جانتا ہوں لیکن کام کرنے والے کو ہر قسم کے حالات سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ ویزہ آفیسر: آپ ہمارے ملک میں مسلمانوں سے دور رہنے والی صورت حال سے کیسے نبرد آزما ہوںگے؟ درخواست گزار: میری یہ رائے ہے کہ اگر میں کسی کے ساتھ برائی نہیں کروں گا تو وہ میرے ساتھ بھی نہیں کرے گا۔ ویزہ آفیسر: آپ کے کینڈا میں رہنے کے لیے مستقبل کی کیا منصوبہ بندی ہے؟ درخواست گزار: ابھی تک میں نے کچھ طے نہیں کیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میں وہاں مستقل سکونت اختیار نہیں کروں گا بہرحال یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ شادی شدہ ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں میں شادی شدہ ہوں اور دو بیٹوں کا باپ ہوں۔ درخواست گزار: جی نہیں میں ابھی تک کنوارہ ہوں لیکن وہاں شادی کر سکتا ہوں۔ ویزہ آفیسر: شکریہ آپ چار بجے شام تشریف لائیے اور اپنا پاسپورٹ لے جائیے۔ درخواست گزار: شکریہ۔ ٭٭٭ انٹرویو برائے تبدیلی شہریت ازیں رشتہ ازدواج اور دیگر ویزہ برائے امریکہ کینیڈا ‘ آسٹریلیا ‘ برطانیہ ااور دیگر یورپین یونین کے ممالک درخواست گزار: صبح بخیر؍ سہ پہر بخیر ویزہ آفیسر: تشریف رکھیے۔ ویزہ آفیسر: آپ کا پورا نام کیا ہے؟ درخواست گزار: محمد عثمان۔ ویزہ آفیسر: آپ کی والدہ کا نام کیا ہے؟ درخواست گزار: نورین علیم۔ ویزہ آفیسر: آپ کی شادی کب اورکہاں ہوئی اس کا درست وقت اور تاریخ بتائیں؟ درخواست گزار: یہ شادی ہیہاں پاکستان میں سنت نگر میں چودہ اگست 2004ء کو رات آٹھ بجے سر انجام پائی۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کا اپنی بیوی سے کوئی رشتہ ہے؟ درخواست گزار: جی ہاں وہ میری چچا زاد ہے۔ ویزہ آفیسر: اس شادی کا ذمہ دار کون ہے؟ درخواست گزار : یہ ایک خاندانی فیصلہ ہے۔ ویزہ آفیسر: اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک طے شدہ رشتہ ازدواج ہے؟ درخواست گزار: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کی اہلیہ ا س رشتے سے خوش تھی یا اسے ایسا کرنے پر مجبورکیا گیا ؟ درخواست گزار: میراخیال ہے کہ اس رشتے سے پہلے میری اہلیہ کی رائے لی گء تھی اور وہ اس رشتے سے خوش تھی۔ ویزہ آفیسر: وہ شادی کے بعد کتنا عرصہ تک آپ کے ساتھ رہیں؟ درخواست گزار: شادی کے بعد تین ماہ تک ہم اکٹھے رہے تھے۔۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کی اہلیہ حاملہ ہیں؟ درخواست گزار: جی وہ پچھلے دو ماہ سے حاملہ ہیںَ ویزہ آفیسر: کیا کبھی آپ دونوں کے درمیان اختلاف رائے ہوا؟ درخواست گزار: نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے۔ ویزہ آفیسر: آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ درخواست گزار: میں انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری ہولڈ ر ہوں۔ ویزہ آفیسر: آپ کا پیشہ کیا ہے؟ درخواست گزار: میں انگریزی زبان کا استاد ہوں۔ ویزہ آفیسر: آپ کتنے افراد کے کفیل ہیں؟ درخواست گزار: صرف ایک فرد میری والدہ۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ امیگریشن کے بعد ان کے ویزے کے لیے بھی درخواست دیں گے؟ درخواست گزار: جی ہاں کیوںنہیں۔ ویزہ آفیسر: امیگریشن کے بعد آپ کی منصوبہ بندی کیا ہے آپ روزگار کے لیے کینیڈا میں کون سی راہ اختیار کریں گے؟ درخواست گزار: میں انگریزی زبان کا مستند استاد ہوں چنانچہ میں وہاں بھی بطور استاد ہی کے خدمات انجام دینا پسند کروں گا۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ کینیڈا کے ازدواجی قوانین سے آگاہ ہیں؟ درخواست گزار: جی ہاں میں جانتا ہوں کیونکہ میرے چچازاد گزشتہ 25سالوں سے کینیڈا میں رہائشی ہیں۔ ویزہ آفیسر: کیا آپ اپنے سسرالیوںکے ساتھ رہنا پسند کریں گے یا ال رہنے کو ترجیح دیں گے؟ درخواست گزار: ابتدامیں تو میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں گا لیکن ملازمت حاصل کرنے کے بعد الگ رہنے کو ترجیح دوں گا۔ ویزہ آفیسر: پاکستان میں بیشتر خاندان اکٹھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر آ پ کینیڈا میں اپنی رہائش کے لیے اسے کیوں قبول نہیںکرنا چاہتے؟ رخواست گزار: اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے میرا خیال ہے کہ شادی کے بعد الگ رہنا بہتر ہوتا ہے خاص طور پر سسرال سے پریل۔ ویزہ آفیسر: آخر کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے چچا زاد کے ساتھ رہنے سے گریز کر رہے ہیں؟ درخواست گزار: سچی بات یہ ہے کہ میں نے اور میری بیوی نے طے کر رکھا ہے کہ ہم الگ رہیں گے۔ ویزہ آفیسر: مشترک خاندانی نظام کے بہت سے فوائد ہیں جن سے اہل مغرب محروم ہیں اور وہ اس کی شدت سے کمی محسوس کرتے ہیں۔ آپ ان کے لیے کوئی مثال کیوں قائم نہیں کرتے ہیں؟ درخواست گزار: میں کوئی لیڈر یا اصلاح پسند شخس نہیں ہوں کہ دوسروں کے لیے مثالیں قائم کروں۔ میں ایک عام آدمی ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں ایک پرسکون زندگی بسر کروں۔ ویزہ آفیسر: شکریہ آپ شام چار بجے تشریف لائیے اور اپنا پاسپورٹ لے جائیے۔ درخواست گزار: شکریہ۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویوز پولیس نظام س: پنجاب میں کتنی پولیس رینجر کام کر رہی ہیں؟ ج: 9 س: پنجاب میں کم کرنے والی پولیس رینجر کے نام اور ا ن کے ماتحت کام کرنے والے اضلاع کے نام لکھیے؟ ج: (1)لاہور لاہور پولیس رینج کیپیٹل پولیس کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ لاہور پولیس کے ماتحت پولیس ڈویژن درج ذیل ہیں۔ (1) ماڈل ٹائون (2)سٹی (3) صدر (4) کینٹ (2) شیخوپورہ رینج: اضلاع شیخوپورہ اوکاڑہ قصور (3) فیصل آباد رینج اصلاع فیصل آباد‘ ٹوبہ ٹیک سنگ‘ جھنگ (4) سرگودھا رینج: اضلاع سرگودھا خوشاب بھکر میانوالی (5) راولپنڈی رینج اضلاع راولپنڈی ‘ جہلم ‘ چکوال‘ اٹک (6) گوجرانوالہ رینج: اضلاع: گوجرانوالہ سیالکوٹ‘ گجرات ‘ منڈی بہائو الدین‘ حافظ آباد‘ نارروال (7)ملتان رینج: اضلاع: ملتان ‘لودھراں‘ خانیوال ‘ مظفر گڑھ‘ پاکپتن (9) بہاول پور رینج: اضلاع: بہاول پور‘ رحیم یار خاں‘ بہاولنگر س: بلوچستان میں کتنی پولیس رینجر کام کر رہی ہیں۔ ج: 6 س: بلوچستان میں کام کرنے والی رینجر کے نام اور ان کے ماتحت کام کرنے والے اضلاع کے نام لکھیے؟ ج: کوئٹہ : کوئٹہ پولیس رینج کیپیٹل سٹی پولیس کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ (1) کوئٹہ رینج: کوئٹہ ‘ پشین‘ قلعہ عبداللہ‘ چاغی (2) ژوب رینج: ژوب ‘ لورالائی‘ موسیٰ خیل‘ بارخان‘ قلعہ سیف اللہ (3) سبی رینج: سبی ‘ زیارت‘ کوہلو ‘ ڈیرہ بگٹی (4) نصیر آباد رینج: نصیر آباد‘ جعفر آباد‘ جھل مگسی ‘ بولان (5) قلات رینج: قلات‘ مستونگ ‘ خضدار‘ آواران ‘ خاران ‘ لس بیلہ (6) مکران رینج: تربت(کیچ) گوادر‘ پنجگور۔ س: سرحد میں کتنی پولیس رینجر کام کر رہی ہیں؟ ج: 7 س: سرحد میں کام کرنے والی پولیس رینجر کے نام اور ان کے ماتحت کام کرنے والے اضلاع کے نام لکھیے؟ ج: پشاور: پشاور پولیس رینج کیپیٹل سٹی پولیس کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ (1) پشاور رینج: پشاور ‘ چارسدہ‘ نوشہرہ۔ (2) مالاکنڈ رینج مالاکنڈ‘ چترال‘ اپردیر‘ بونیر‘ سوات ‘ شانگلہ۔ (3) ہزارہ رینج: بٹ گرام ‘ ایبٹ آباد‘ ہری پور۔ (4) مردان رینج: مردان ‘ صوابی (5) کوہاٹ رینج: کوہاٹ ‘ ہنگو‘ کرک (6) بنوں رینج: بنوں ‘ لکی مروت (7) ڈیرہ اسماعیل خان رینج: ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک س: سندھ میں کتنی پولیس رینجر کام کر رہی ہیں؟ ج: 5 س: سند ھ میں کام کرنے والی پولیس رینجر ک نام اور ان کے ماتحت کام کرنے والے اضلاع کے نام لکھیے؟ ج: کراچی: کراچی پولیس رینج کیپیٹل پولیس کی حیثیت سے کام کرر ہی ہے۔ (1) کراچی رینج: ملیر ‘ کراچی ایسٹ‘ کراچی ویسٹ‘ کراچی جنوبی ‘ کراچی وسطی۔ (2) میر پور خاص رینج: میر پور خاص ‘ سانگھڑ‘ عمر کوٹ‘ تھرپارکر (3) حیدر آباد رینج: حیدر آباد‘ دادو ‘ بدین ‘ ٹھٹھہ (4) سکھر رینج: سکھر ‘ گھوٹکی‘ خیر پور‘ نوشہروفیروز‘ نواب شاہ۔ (5) لاڑکانہ رینج: لاڑکانہ ‘ جیکب آباد س: پولیس رینج کاسربراہ کس عہدہ کا آفیسر ہوتا ہے؟ ج: ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (DIG) س: پولیس کے ذیلی شعبوں کے نام بتائیے؟ ج: (1) سی آئی اے کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (2) سی آئی ڈی سنٹرل انوسٹی گیشن اڈیپارٹمنٹ (3) انوسٹی گیشن پولیس آپریشن (4) واچ اینڈ وارڈ پولیس: نئے نظام کے تحت یہ پولیس تھانہ گشت اور جرائم کی روک تھام کی ذمہ دار ہے۔ (5) مجاہد پولیس (6) ایگل سکواڈ (7) فرنٹیر کانسٹیبلری (ریزروپولیس) (8) ایم ٹی پولیس موٹر ٹرانسپورٹ پولیس (9) وائر لیس آپریٹر ٹیلی کمیونی کیشن پولیس (10) سول ملازمین دفتری امور نمٹانے والا عملہ سپرنٹنڈنٹ کلرک وغیرہ۔ (11) ٹریفک پولیس (12) پٹرولنگ پوسٹس پولیس( نوٹ) یہ پولیس فورس پنجاب میں قائم ہو چکی ہے مگر دیگر صوبوں میں اس پر کام ہو رہاہے (13) سپیشل برانچ SB (14) فنگر پرنٹ برانچ (15) سائنس فورنزک لیبارٹری (16) ویمن پولیس (17) لیگل برانچ (18)کرائمز برانچ س: پولیس اور دیگر صوبوں کی پولیس کا ایمرجنسی نمبر بتائیے؟ ج: 15 س: پی ٹی ایس سے کیا مراد ہے ؟ ج: پی ٹی ایس کا مطلب پولیس ٹریننگ سکول ہے۔ س: ایس پی کے عہدہ پر ترقی پانے والی پہلی پاکستانی خاتون آفیسر کا نام بتائیے؟ ج: نیلما سرور س: نیلما سرور کی وجہ شہرت ادب کے حوالے سے بھی ہے بتائیے وہ ادب کی کی صنف میں بلندمقام رکھتی ہیں؟ ج: شاعری س: خواتین کا پہلا پولیس سٹیشن کس شہر میں قائم کیا گیا ؟ ج: راولپنڈی س: کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل خواتین کی ٹریننگ کہاں ہوتی ہے؟ ج: پولیس ٹریننگ سکولز میں۔ س: پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے خواتین کے قد کی حد بتائیے؟ ج: باقاعدہ کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے البتہ پانچ فٹ اور دو انچ قد والی خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے۔ س: پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے کم از کم تعلیمی معیار کیا ہے؟ ج: میٹرک برائے کانسٹیبل س: پولیس کا انتظار و انصرام سنبھالنے کے لیے آئی جی کی معاونت کرنے والی برانچز یا آفیسر ان کی فہرست بنائیے؟ ج: (1) ایڈیشنل آئی جی پولیس (2) ایڈیشنل آئی جی کرائم برانچ (3) ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن (4) ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ (5) ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر (6) ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ (7) ڈی آئی جی کرائمز برانچ (8) ڈی آئی جی سپیشل برانچ (9) ڈی آئی جی پٹرولنگ پوسٹس پولیس (10) اے آئی جی ڈویلپمنٹ (11) اے آئی جی آپریشن (12) اے آئی جی لاجسٹک (13) اے آئی جی فنانس (14) ڈی آئی جی ویلفئیر (15) ڈی آئی جی ٹیلی کمیونی کیشن (16) ایس پی موٹر ٹرانسپورٹ (17) پی ایس او ٹو آئی جی (18) ڈپٹی ڈائریکٹر پریس ڈی پی آر (19) رجسٹرار (20) ڈی آئی جی ٹریفک س: انتہائی اعلیٰ کارکردگی اور غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کرنے پر حکومت پولیس اہلکاروں کو کون سے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازتی ہے؟ ج: قائد اعظم پولیس میڈل۔ س: کانسٹیبل سب انسپکٹر تک ترقی پانے کے لیے کتنے مراحل سے گزرتا ہے؟ ج: تین کانسٹیبل ہیڈ کانسٹیبل اے ایس آئی۔ س: نیشنل پولیس اکیڈمی کس شہر میں واقع ہے؟ ج: اسلام آباد۔ س: سی آئی اے پولیس کیا کام کرتی ہے؟ ج: ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ک ہدایت پر کسی بھی جرم یا واقعہ کی تحقیقات کرتی ہے۔ س: نئے پولیس نظام کے تحت ضلعی پولیس کے سربراہ کو کیا کہتے ہیں؟ ج: ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر س: ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کس عہدہ کا آفیسر ہوتا ہے؟ ج: جس عہدہ پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور سینئر سپرنٹنڈنٹ ہوتا ہے۔ س: قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کے نام بتائیے؟ ج: (1) وفاقی تفتیشی آفیسر FIA (2) پاکستان ریلوے پولیس PRP (3) انسداد منشیات فورس ANF (4) اسلام آباد پولیس IPD (5)فرنٹئیر کانسٹیبلری FC (6) پاکستان ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس س: ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں اور ان کی سازشوں کے انسداد کے لیے کام کرنے والے اہم ترین ملکی اداروں کے نام بتائیے؟ ج: (1) انٹر سروسز انٹیلی جنس ISI (2) ملٹری انٹیلی جنس MI (3) انٹیلی جنس بیور و ایجنسی IBA (4) سپیشل برانچ SB نوٹ: سپیشل برانچ صوبائی پولیس کا حصہ ہے۔ س: کوڈورڈز میں تحریر لکھنے کے فن کو کیا کہتے ہیں؟ ج: کرپٹو گرافی Cryptography س: پولیس اور نظام جیل خانہ جات کس خلیفہ راشد نے متعارف کروایا تھا؟ ج: خلیفہ دوم حضرت بن الخطابؓ س: پولیس کالج کس شہر میں واقع ہے؟ ج: سہالہ ضلع راولپنڈی س: قائد اعظم پولیس میڈل کے بعد سب سے بڑا ایوارڈ کیا کہلاتا ہے؟ ج: صدارتی پولیس میڈل س: انٹرپول سے کیا مراد ہے؟ ج: جرائم پیشہ افراد کے خلاف جدوجہد کرنے والاعالمی ادارہ (عالمی پولیس) س: انٹرپول کا ہیڈ کوارٹر کس ملک کے دارالحکومت میں واقع ہے؟ ج: پیرس (فرانس) س: نئے پولیس آرڈر 2002ء کے تحت صوبائی سیفٹی کمیشن کا سربراہ کون ہو گا؟ ج: صوبائی وزیر داخلہ س: پولیس آرڈر 2002ء نے کس پولیس ایکٹ کی جگہ لی ہے؟ ج: پولیس ایکٹ 1861ء س: نئے ضلعی حکومتی نظام کے تحت زیر دفعہ 144نافذ کرنے والے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ ج: ضلعی ناظم س: ضلع میں امن عامہ قائم رکھنے کا ذمہ کون سا آفیسر ہے؟ ج: ضلعی ناظم س: ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی سالانہ خفیہ رپورٹ کون لکھے گا؟ ج: ضلعی ناظم س: سارک پولیس کانفرنس 2002ء کس ملک میں منعقد ہوئی تھی؟ ج: نیپال س: پولیس (Police)کن الفاظ کا مخفف ہے؟ ج: P For Polite O For Obedient L For Loyal I For Intellgent C For Coprative E For Efficient س: نیا پولیس آرڈر 2002ء کو کس تاریخ کو جاری ہوا؟ ج: 14اگست 2002ء س: پولیس آرڈر 2002ء کس نا م سے جاری کیا گیا ؟ ج: پولیس کی از سر نو تعمیر اور سے باضابطہ کرنے کا آرڈر نمبر 22مجریہ 2002ء س: پولیس آرڈر 2002ء میں پولیس کا فرض کیا قرار دیا گیا ہے؟ ج: اپنے فرائض دستور قانون اور عوام کے جمہوری تقاضوں کے مطابق سرانجام دے۔ س: پولیس آرڈر 2002ء میں انتظامیہ سے کیا مراد لی گئی ہے؟ ج: انتظامیہ سے مراد عملی مالیاتی اور انتظامی امور ہیں۔ س: پولیس آرڈر 2002ء میں مجموعہ سے کیا مراد ہے؟ ج: مجموعہ سے مراد ضابطہ فوج داری 1898ء (ایکٹ نمبر 1985-5) ہے۔ س : ضلعی پولیس آٖیسر سے کیامراد ہے؟ ج : ضلعی پولیس آفیسر سے مراد پولیس کا سربراہ ہے جو کہ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے کم نہ ہو گا۔ س: جنرل پولیس ایریا سے کیا مراد ہے؟ ج: کیپیٹل سٹی ڈسٹرکٹ پولیس صوبے کا ایک حصہ یا ایسا علاقہ جس کے لیے آرٹیکل 6کے تحت علیحدہ پولیس قائم کی جائے۔ س: ضلعی پولیس آفیسر کے عہدوں کے نام بتائیے؟ ج: ضلعی پولیس آفیسر‘ سٹی پولیس آفیسر‘ کیپیٹل پولیس آفیسر س: پولیس آرڈر 2002ء میں شخص سے کیا مراد ہے ج: ایک فردایک جماعت ایک کمپنی یا کارپوریشن س: پولیس آرڈر 2002ء کے تحت پولیس کا عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ ج: عوام کے ساتھ اخلاق اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرے دوستانہ ماحول کو فروغ دے لوگوں کی رہنمائی کرے۔ س: پولیس کی تشکیل کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ج: پولیس ایریا کے لیے تنظیم ایسے سینئر اور جونئیر عہدوں کے ارکان پر مشتمل ہو گی اور ایسی تنظیم کی مالک ہو گی جس کا تعین حکومت وقت کرے گی۔ س: پولیس کا انتظام و انصرام کس کے سپر د ہو گا؟ ج: جنرل پولیس ایریا پولیس کا انتظام و انصرام صوبائی پولیس ٓفیسر‘ کیپیٹل پولیس ٓفیسر یا سٹی پولیس آفیسر کے سپرد ہو گا۔ س: جونئیر عہدوں کی تقرری کا اختیار کس کے پاس ہو گا؟ ج: قواعد کے مطابق ضلعی پولیس کا سربراہ جونئیر عہدوں کی تقرری کرے گا۔ س: پولیس کے ارکان کا عہدہ حلف کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ج: پولیس کا ہر کارکن اپنی تقرری پر صوبائی پولیس آفیسر‘ کیپیٹل پولیس آفیسر یا تربیتی ادارے کے سربراہ کے روبرو حلف اٹھائے گا۔ س: اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کس کے سامنے حلف اٹھائے گا؟ ج: نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈو کے روبرو۔ س: اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کس مقابلہ امتحا ن میں کامیابی کے بعد پولیس سروس جوائن کرتا ہے؟ ج: سی ایس ایس س: کیپیٹل سٹی پولیس کا سربراہ کس عہدہ کا آفیسر ہوگا؟ ج: ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (DIG) س: کیپیٹل سٹی ڈسٹرکٹ کا سربراہ پولیس آرڈر 2002ء کے کس آرٹیکل کے تحت تعینات ہوتا ہے؟ ج: آرٹیکل 11کے تحت۔ س: ضلعی پولیس آفیسر پولیس آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15 کے تحت کس عہدہ سے کم نہیں ہو گا؟ ج: ایس ایس پی۔ س: صوبائی پولیس آفیسر کے عہدہ کی مدت ملازمت کتنی ہوتی ہے؟ ج: 3سال س: ناظم اور ضلعی پولیس سربراہ کے درمیان جھگڑے کی صورت میں کس کا فیصلہ قابل عمل ہو گا؟ ج: صوبائی حکومت۔ س: پبلک سیفٹی کمیشن کتنے افراد پر مشتمل ہو گی؟ ج: 8تا 12افراد۔ س: پولیس افسران کی بداعمالی کس آرٹیکل کے تحت ہوتی ہے؟ ج: آرٹیکل 155 کے تحت۔ س: اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور سب انسپکٹر کی ترقی کی سفارش کس عہدہ کا آفیسر کرتا ہے؟ ج: ڈی پی او (ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر) س: ایس پی کی ترقی کے لیے سفارش کون کرتا ہے؟ ج: آئی جی۔ س: نئے پولیس نظام کے مطابق ایف آئی آر درج ہونے کی تفتیش کون سی پولیس کرے گی؟ ج: انویسٹی گیشن پولیس۔ س: نئے پولیس ایکٹ کے مطابق پولیس کے صوبائی سربراہ کو کیا کہتے ہیں؟ ج: پی پی او Provincial Police Officer س: پولیس کو صوبائی محکمہ کا ماتحت ادارہ ہے؟ ج: صوبائی محکمہ داخلہ س: تھانے کے انتظامی امور نمٹانے اور ایف آئی آر ددرج کرنے والے ملازم کو کیا کہتے ہیں؟ ج: محرر س: پولیس کنٹرو ل سے کیا مرادہے؟ ج: پولیس کنٹرول ضلعی ہیڈ کوارٹر میں قائم کردہ دفتر ہے جہاں ٹیلی فون ‘ وائر لیس‘ کمپیوٹر اور دیگر جدید آلات کی مدد سے پولیس کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں کنٹرول سنٹر کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں امدادی فورس بھی جائے وقوعہ کی طرف بھجواتا ہے۔ س: پولیس سٹیشن (تھانہ) کس قسم کے ذرائع آمدورفت ٹیلی کمیونی کیشن اور اسلحہ موجود ہوتے ہیں؟ ج: گاری فور وہیلر وائر لیس سیٹ ٹیلی فون رائفل تھری ناٹ تھری کلاشنکوف گولیاں س: پولیس ملازم کتنے گھنٹے کا ملازم ہوتا ہے؟ ج: 24گھنٹے لیکن اسے ڈیوٹی کے دوران آڑام کا وقفہ ضرور فراہم کیا جاتا ہے۔ 24گھنٹے ڈیوٹی سے مراد تھانہ سے مسلسل رابطہ ہے۔ س: پولیس آرڈر کے مطابق واچ اینڈ گارڈ کا فریضہ کون سی پولیس نبھائے گی؟ ج: آپریشن پولیس یہی پولیس تھانوں میں تعینات ہے اس کے فرائض میں مندرجہ ذیل اہم امور شامل ہیں۔ گشت اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا۔ اطلاع ملنے پر جائے حادثہ پر پہنچنا۔ جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنا۔ اطلاع ملنے پر وقوعہ کی رپٹ درج کرانا۔ س: دفعہ 6-1-61کس حوالے سے لگتی ہے؟ ج: قمار بازی۔ س: چوری یا سرقہ کی سزا کتنی ہے؟ ج: دفعہ 395تعزیرات پاکستان۔ س: تعزیرات پاکستان کی دفعہ 426کی سزا 3ماہ قید جرمانہ یا دونوں کس جرم پر لاگو ہوتی ہیں؟ ج: شرارتاً نقصان رسانی۔ س: قتل کی کیس کی سماعت کو ن سی عدالت کرتی ہے؟ ج: ڈسٹرکٹ سیشن جج۔ س: حدود کی دفعہ 6کے تحت اغوا کرنے کے کیس کی سماعت کون سی عدالت کرتی ہے؟ ج: سیشن جج س: اغوا برائے ازواج کیس ناقابل ضمانت کی سزا کیاہے؟ ج: عمر قید بامشقت اور 30کوڑے س: کس دفعہ کے تحت زنا کا کیس ہوتا ہے؟ ج: دفعہ 5تعزیرات پاکستان۔ س: جھوٹی گواہی دینے کی سزا کیا ہے؟ ج: 7سال قید با مشقت اور جرمانہ۔ س: جعلی کرنسی کی سزاکس دفعہ کے تحت ملتی ہے؟ ج: دفعہ 240 تعزیرات پاکستان۔ س: قتل کی سزا کس دفعہ کے تحت دی جاتی ہے؟ ج: دفعہ 302تعزیرات پاکستان۔ س: دفعہ 302کی زیادہ سے زیادہ سزا کیا مقرر ہے ؟ ج: سزائے موت اور جرمانہ۔ س : کسی پرقاتلانہ حملہ کرنا یا ارادتاً زخمی کرنے کی سزا کس دفعہ کے تحت دی جاتی ہے؟ ج: دفعہ 307تعزیرات پاکستان۔ س: پولیس اہل کاران کے خلا ف استغاثہ کس عدالت میں دائر کیا جا سکتا ہے؟ ج: ڈسٹرکٹ سیشن جج۔ س: عدلیہ خود مختار ادارہ ہے یا انتظامیہ کا حصہ؟ ج: عدلیہ خود مختار ادارہ ہے۔ س: جرائم کی روک تھام کے لیے تھانہ میں کام کرنے والے افسروں کو جن علاقوں کا انچارج بنایا جاتا ہے ایسے علاقہ کو پولیس اہلکار کی کہتے ہیں؟ ج: بیٹ Beat س: نیلے رنگ کی بتی والا ہوٹر کس عملے کی گاڑیوں پر لگانے کی اجازت ہے؟ ج: صرف محکمہ پولیس کی سرکاری گاڑیں ایسا ہوٹر لگانے کی مجاز ہیں۔ س: ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں پر آویزاں ہوٹر والی بتی کا رنگ کیسا ہوتاہے؟ ج: سرخ ٭٭٭ برائے انٹرویو آرمی آفیسر؍ جوان س؛ پاکستان ملٹری کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف کانام بتائیے؟ ج: جنرل محمد ایوب خان۔ س: پاکستان کے اس ضلع کا نام بتائیے جس کے ہر قبرستان میں فوجی آفیسر دفن ہے؟ ج: چکوال س: پاکستانی ساختہ جدید ترین ٹینک کا نام بتائیے؟ ج: الخالد ٹینک س: پاکستان کی سب سے بڑی اسلحہ ساز فیکٹری کا نام بتائیے؟ ج: ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا۔ س: پاکستان آرڈی ننس فیکٹری کس شہر میں واقع ہے؟ ج: واہ کینٹ س: پاکستان کی سب سے بڑی چھائونی کس شہرمیں واقع ہے؟ ج: کھاریاں۔ س: پاکستان ملٹری فوج کے ہیڈ کوارٹر کو کیا کہتے ہیں؟ ج: جنرل ہیڈ کوارٹر (GHQ) س: جی ایچ کیو کس شہر میںواقع ہے؟ ج: راولپنڈی س: پاک فوج کے سب سے بڑے عہدہ کا نام بتائیے؟ ج: جنرل س: پاکستانی فوج کے چیف آف سٹاف ک حیثیت سے سب سے زیادہ عرصہ ذمہ داری کس جنرل نے نبھائی؟ ج: جنرل محمد ضیاء الحق۔ س: ایک ڈویژن فوج میں کتنے بریگیڈ شامل ہوتے ہیں؟ ج: تین بریگیڈ فوج۔ س: ایک بریگیڈ فوج میں پیدل فوج کے کتنے یونٹس شامل ہوتے ہیں؟ ج: تین انفنٹری یونٹ۔ س: لفظ رنگروٹ سے کیامراد ہے؟ ج: وہ جوان جو فوج میںبھرتی ہونے کے لیے تربیت کے مراحل سے گزر رہا ہو۔ س: سپاہی سے لے کر جنرل تک آرمی رینکس کی ک تعداد بتائیے؟ ج: اٹھارہ۔ س: پیدل فوج کی رجمنٹس کی تعداد اور نام بتائیے؟ ج: (1)پنجاب رجمنٹ (2)سندھ رجمنٹ (3)بلوچ رجمنٹ (4)فرنٹئیر فورس رجمنٹ (5) آزاد کشمیر رجمنٹ (6) ناردرن رجمنٹ س: لفظ آرٹلری سے ذہن میں کس فوج کا تصور ابھرتا ہے؟ ج: توپخانہ‘ یعنی وہ فوج جو توپوں کے ذریعے گولہ باری کرتی ہے۔ س: آرمی سگنل کور سے کیا مراد ہے؟ ج: مواصلاتی نظام قائم کرنے کی ذمہ داری سگنل کور کے جوان ادا کرتے ہیں۔ مثلاً ٹیلی فون وائر لیس کا نظام وغیرہ۔ س: ایجوکیشن کور سے کیا مراد ہے؟ ج: جوانوں اور آفیسروں کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کا اہتمام ایجوکیشن کور کرتی ہے۔ س: انجینئرنگ کور سے کیا مراد ہے؟ ج: یہ کور انجینئرنگ (پلوں کی تعمیر عمارت وغیرہ) سے متعلق کام کرتی ہے۔ س: آرمی میڈیکل کور سے کیا مراد ہے؟ ج: آرمی میڈیکل کور طبی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ س: سی ایم ایچ کن الفاظ کا مخفف ہے؟ ج: کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (Combined Military Hospital) س: ای ایم ای کن الفاظ کا مخفف ہے؟ ج: الیکٹریکل مکینیکل انجینئرنگ گاڑیوں وغیرہ کی دیکھ بھال کا فریضہ نبھانے والی فوج۔ س: پاکستان آرمی کا اعلیٰ ترین تربیتی سٹاف کالج کس شہر میں واقع ہے؟ ج: کوئٹہ صوبہ بلوچستان۔ س: پاکستان کی بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحد کی لمبائی بتائیے؟ ج: 1600کلومیٹر س: پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بارڈر کی لمبائی بتائیے؟ ج: 2200کلومیٹر س: آرمرڈ کور سے کیا مراد ہے؟ ج: آرمرڈ کور ٹینکوں کی مدد سے جنگ میں حصہ لیتی ہے اسے کیولری یا رسالہ بھی کہتے ہیں۔ س: پاکستان کے ایران کے ساتھ بارڈر کی لمبائی بتائیے؟ ج: 800کلومیٹر س: پاکستان اب تک کتنے ممالک کے ساتھ جنگ لڑ چکا ہے؟ ج: صرف ایک ملک بھارت کے ساتھ پاکستان کی چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ س: پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی لڑائی کس سال لڑی گئی؟ ج: 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ برپا ہوئی تھی۔ س: پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ کب لڑی گئی؟ ج: ستمبر 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ لڑی گئی۔ س: دوسری جنگ کے موقع پر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ (کمانڈر انچیف) کون تھے؟ ج: جنرل محمد موسیٰ خان۔ س: پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری جنگ کب لڑی گئی؟ ج: پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری جنگ 1971ء میں لڑی گئی یہ جنگ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں محاذوں پر لڑی گئی تھی۔ س: تیسری جنگ کے موقع پر بری فوج کے سربراہ کون تھے؟ ج: جنرل آغامحمد یحییٰ خان۔ س: پاکستان اور بھارت کے درمیان چوتھی جنگ کس سال اور کس محاذ پر لڑی گئی؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان چوتھی جنگ 1999ء کی گرمیوں کے دوران کارگل (کشمیر) کے محا ذ پر لڑی گئی۔ س: چوتھی جنگ کے موقع پر پاکستان بری فوج کے سربراہ کون تھے؟ ج: جنرل پرویز مشرف۔ س: دنیا کے بلندترین جنگی محاذ کا نام بتائیے جہاں 1984ء سے لے کر آج تک پاکستان اور بھارت کی فوجیں برسرپیکار ہیں؟ ج: سیاچن (گلیشئر) س: 1948ء کی جنگ میں کتنے فوجی افسر وں نے نشان حیدر حاصل کیا نام بھی بتائیے؟ ج: اس جنگ میں صرف ایک فوجی آفسیر نے نشان حیدر حاصل کیا جس کانام کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ہے۔ س: جنگ 65ء میں نشان حیدر حاصل کرنے والے فوجی افسروں کے نام بتائیے؟ ج: میجر راجہ عزیز بھٹی شہید آپ نے لاہور کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہادت کا بلند مرتبہ پایاتھا۔ س: جنگ 71ء میں نشان حیدر حاصل کرنے والے جوانوں کی تعدا د اورنام بتائیے؟ ج: اس جنگ میں چار جوانوں نے نشان حیدر کا اعزاز حاصل کیا ان شہید ہونے والے جوانوں کے نام درج ذیل ہیں؟ (1)میجر شبیر شریف شہید (2) میجر محمد اکرم شہید (3) سوار محمد حسین شہید (4)لانس نائیک محمد محفوظ شہید س: جنگ کارگل 1999ء کے دوران کتنے جوانوں نے بعد از شہادت نشان حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ ج: اس جنگ کے دوران دو جوانوں کیپٹن کرنل شیر خان شہید اور حوالدار لالک جان شہید نے نشان حیدر کا اعزاز حاصل کیا۔ س: لکشمی پور محاذ مشرقی پاکستان پر 1971ء میں نشان حیدر حاصل کرنے والے پاک افسروں کے نام بتائیے؟ ج: میجر محمد طفیل شہید اورپائلٹ آفیسر راشد منہا س شہید۔ س: جنگ 65ء کے شہدا کی یادگار کس مقام پر واقع ہے؟ ج: بیدیاں لاہور۔ س: اس فوجی افسر کانام بتائیے جس نے جنگ 65 کے دوران لاہور کے محاذ پر بھارتی فوج کا دیوانہ وار مقابلہ کیا وار اسے پیش قدمی سے روک دیا؟ ج: میجر شفقت بلوچ۔ س: حلال استقلال حاصل کرنے والے شہروں کے نام بتائیے؟ ج: لاہور‘ سیاللوٹ اور سرگودھا۔ س: ہر سال یوم دفاع کس تاریخ کو منایا جاتا ہے؟ ج: 6ستمبر۔ س: اسلام آباد اور تمام صوبائی دارالحکومت میں مسلح افواج کس تاریخ کو پریڈ میں حصہ لیتی ہیں؟ ج: ہر سال 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر مسلح افواج پریڈ میں حصہ لیتی ہیں۔ س: پاکستانی فوج کے زیر استعمال مختلف میزائلوں کے نام بتائیے؟ ج: عنزہ اول عنزہ دوم غوری شاہین حتف اول حتف دوم حتف سوم س: پاکستان نے کب ایٹمی دھماکے کیے تھے؟ ج: 28مئی 1998ء کو۔ س: پاکستان نے ایٹی دھماکے کس مقام پرکیے تھے؟ ج: چاغی کی پہاڑیوں میں۔ س: پاکستان کے سرحدی مقام سے شہری بھارت میں جا سکتے ہیں؟ ج: واہگہ۔ س: پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق کانام بتائیے؟ ج: ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ س: پاکستان کو دو لخت کس تاریخ کو ہوا یعنی مشرقی پاکستان کب علیحدہ ہوا؟ ج: 16دسمبر 1971ء س: ایسٹرونیوی کیشن سے کیا مرادہے؟ ج: ایسٹرو نیوی گیشن سے مراد ہے کہ رات کے وقت ستاروں کی مدد سے سفر کیا جائے اور سمت کا تعین کیا جائے زمانہ قدیم کیلوگ رات کے وقت اسی ذریعہ سے دسفر کیا کرتے تے۔ اور جدید مٰں رات کے سفر کرنے کے لیے کمپاس اور دیگر آلات سے مدد لی جاتی ہے جس سے رات کے وقت سفر کرنے میں کافی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک فوجی کی زندگی میں یسٹرو نیوی گیشن کے علم کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ س: ایسٹرو نیوی گیشن کے ذریعے سفر کرنے اور سمت کا تعین کرنے کے لیے کس ستارے کو رہنما تصور کیا جاتاہے؟ ج: ایسٹر نیوی گیشن کے علم کے تحت سفر کرنے کے لیے قطبی تارہ کو رہنما تصور کیا جاتا ہے اسی کی مد د سے سمت کا تعین کرتے ہوئے منزل مقصود کی طر ف بڑھا جاتاہے۔ علاوہ ازیں نو ستاروں کے جھرمٹ دب اکبر اور دب اصغر کی مدد سے بھی راستوں اور سمت کا تعین کیا جاتاہے۔ س: دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے اور رسد کی سپلائی کے لیے کون سا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے؟ ج: ایسے علاقو ں میں سفر کرنے کے لیے اور رسد کی سپلائی جوان پیدل یا خچروں اور گھوڑے کی مد د سے سفر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ممکن ہو تو گاڑیوں کا استعمال جبکہ بلندو بالا علاقوں تک رسد کی سپلائی کے لیے ہیلی کاپٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ س: ایک کور میں کتنے ڈویژن فوج شامل ہوتی ہے؟ ج: ایک کور میں تین ڈویژن فوج شامل ہوتی ہے۔ پاکستان میں مندرجہ ذیل کور ہیڈ کوارٹر ہیں: (1)راولپنڈی (2)منگلا (3)گوجرانوالہ (4)لاہور (5)ملتان (6)بہاول پور (7) پشاور (8)کوئٹہ (9)کراچی س: آرمی سپلائی کور سے کیا مراد ہے؟ ج: یہ کور فوج کو اشیائے خورد و نوش کپڑا اینڈھن اوردیگر ضروری اشیاء سپلائی کرنے کی پابند ہے۔ س: آرمی ایوی ایشن کور کیا کام کرتی ہے؟ ج: بری فوج کی یہ کور ہیلی کاپٹرز اور جہازوں سے متعلقہ آپریشنز سر انجام دیتی ہے۔ س: ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی کب اور کس مقام پر لڑی گئی؟ ج: جنگ 1965ء کے دوران ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے محاذ پر لڑی گئی۔ اس جنگ کے دورا ن پاکستانی فوج کے دلیر جوانوں نے چونڈہ کو بھارتیوں کے لیے سر زمین موت میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ عالمی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ہے۔ پاکستان ٓرمی کے رینکس نان کمیشنڈ آفیسر کمیشنڈآفیسر سپاہی سیکنڈ لیفٹیننٹ لانس نائیک لیفٹیننٹ نائیک کپتان حوالدار میجر حوالدار میجر لیفٹیننٹ کرنل جونئیر کمیشنڈ آفیسر کرنل نائب صوبیدار بریگیڈئیر صوبیدار میجر جنرل صوبیدار میجر لیفٹیننٹ جنرل آنریری لیفٹیننٹ جنرل آنریری کپتان فیلڈ مارشل نوٹ: آرمی میں جنرل کے عہدہ پر چار آفیسر ہوتے ہیں۔ جنرل کے عہدے تک رسائی حاصل کرنے والا پہلا عہدہ بریگیڈئیر ہوتا ہے۔ ان جنرلوں کو سٹارز کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ سٹارز کے حوالے سے جنرلوں کی ترتیب کچھ یوں ہے؟ (1) بریگیڈئیر سنگل سٹار جنرل (2) میجر جنرل ٹو سٹار جنرل (3) لیفٹیننٹ جنرل تھری سٹار جنرل (4) جنرل فور سٹار جنرل س: اہم فوجی اصطلاحات بتائیے؟ ج: سوار: آرمرڈ کوبالخصوص ٹینک خانے کے جوان کوسوار کہا جاتا ہے۔ سی او: کمانڈنگ آفیسر‘ کسی بھی یونٹ کے کمانڈ کرنے والا آفیسر جو لیفٹیننٹ کرنل یا کرنل ہوتا ہے۔ بریگیڈ ئیر کمانڈر: بریگیڈ کی کمانڈ کرنے والے آفیسر کو (بریگیڈئیر) کہتے ہیں جی او سی: جنرل آفیسر کمانڈنگ ڈویژن کی کمان کرنے والے آفیسر کو (لیفٹیننٹ جنرل) کو کہتے ہیں۔ کور کمانڈر: کور کی قیادت کرنے والے تھری سٹار جنرل(لیفٹیننٹ جنرل) کو کہتے ہیں۔ کمپنی کمانڈر: یونٹ کی ایک کمپنی کی کمان کرنے والے آفیسر کو کہتے ہیں جو عموماً میجر رینک کا آفیسر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات کیپٹن بھی کمپنی کمانڈر کے فرائض سر انجام دیتاہے۔ افواج پاکستان کے بارے میں اہم ترین معلومات ٭ مسلح افواج کی تقسیم (1) بری (آرمی) (2) بحری (نیوی) (3) فضائیہ(ائیر فورس) ٭ صدر دفاتر: 1۔ بری (راولپنڈی) ۲۔ بحریہ (اسلام آباد) 3۔ فضائیہ (چکلالہ) ٭ سپریم کمانڈر: صدر پاکستان مسلح افواج کے عہدے ٭ بری افواج(آرمی) چیف آ ف دی آرمی سٹاف بحری فوج (نیوی) چیف آف دی نیول سٹاف ٭ فضائیہ (ائیر فورس) چیف آف دی ائیر سٹاف پاکستانی بری فوج کے کمیشنڈ فسران کے نشانات سیکنڈلیفٹیننٹ ایک ستارہ لیفٹیننٹ دو ستارے کیپٹن تین ستارے میجر چاند لیفٹیننٹ کرنل چاند اور ستارہ کرنل چاند اور دو ستارے بریگیڈئیر چاند اور تین ستارے میجر جنرل چاند نما تلواریں اور ایک ستارہ لیفٹیننٹ جنرل چاند نما تلواریں اور چاند جنرل چاند نما تلواریں چاند اور ایک ستارہ دفاعی لحاظ سے فوج کی تنظیم 1۔ سیکشن: سیکشن 8سے 12افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ غیرکمیشن ییافتہ اعلیٰ افسران ک کمانڈر ہوتا ہ۔ تین یا چار سیکشن کی پلاٹون ہوتی ہے۔ 2 ۔ پلاٹون اس میں 25سے 35 افراد ہوتے ہیں۔ جو جونیر افسران کاکمانڈر ہوتا ہے۔ عام طور پر تین سے چار پلاٹون کی ایک کمپنی ہوتی ہے۔ 3۔ کمپنی اس میں 80سے 120تک افراد ہوتے ہیں۔ کپتان یا میجر اس کاکمانڈر ہوتا ہے۔ بٹالین میں 4سے 6 تک کمپنیں ہوتی ہیں۔ 4۔ بٹالین: بٹالین 400سے 800افراد پر مشتمل ہوتی ہے لیفٹیننٹ کرنل اس کا کمانڈر ہوتاہے۔ یہ انفنٹری کی بنیادی یونٹ ہوتی ہے۔ 5۔ انفنٹری: انفنٹری بری افواج کی بنیادی مشترکہ فوج ہوتی ہے۔اس میں بٹالین اور رجمنٹ متحد ہوتی ہے۔ 6۔ بریگیڈ: اس میں 4000سے 5000تک افراد شامل ہوتے ہیں۔ 7۔ ڈویژن: اس میں 12000 سے 20000 تک افراد شامل ہوتے ہیں۔ میجر جنرل اس کا انچارج ہوتا ہے۔ عموماً تین ڈویژن کی ایک کورہوتی ہے۔ 8 ۔ کورز: اس میں عموماً تین ڈویژن ہوتے ہیں اور آرمی عموماً تین کور ز پر مشتمل ہوتی ہے۔ 9 ۔ آرمی: اس کا کمانڈر سینئر جنرل ہوتا ہے۔ سول اور فوجی اعزاز اور تمغے فوجی اعزاز 1۔ نشان حیدر 2۔ ہلال جرات 3 ستارہ جرات 4۔ تمغہ جرات 5۔ تمغہ بسالت 6۔ تمغہ خدمت 7 ۔ تمغہ دفاع 8 ۔ تمغہ یوم جمہوریہ سول اعزاز 1۔ نشان پاکستان 2۔ ستارہ پاکستان 3۔ تمغہ پاکستان 4۔ نشان شجاعت 5۔ ہلال شجاعت 6۔ ستارہ شجاعت 7۔ تمغہ شجاعت 8۔ نشان امتیاز 9۔ ستارہ امتیاز 10 ۔ تمغہ امتیاز 11۔ نشان قائداعظم 12۔ ہلال قائد اعظم 13۔ ستارہ قائد اعظم 14۔ تمغہ قائد اعظیم 15۔ نشان خدمت 16۔ ہلال خدمت 17۔ ستارہ خدمت 18۔ تمغہ خدمت ایٹمی توانائی کمیشن ٭ پہلا ایٹمی ری ایکٹر : اسلام آباد ٭ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت : ایٹم کو توڑنے کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے۔ ٭ ایٹمی توانائی کے مرکز: ایٹمی توانائی کے مرکز مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ کراچی 2۔ لاہور 3۔ فیصل آباد 4۔ پشاور 5۔ ٹنڈو جام 6۔ اسلام آباد 7۔ ملتان 8۔ حیدر آباد ٭ سب سے بڑی چھائونی: کھاریاں ٭ سب سے بڑافوج فارم: اوکاڑہ ٭ پاکستان آرمی کے انتظامی شعبے 1۔ شعبہ آرمز 2 شعبہ سروسز ٭ آرمز شعبے 1۔ آرمی سروسز کور 2۔ آرمی آرڈیننس کور 3۔ الیکٹریکل اینڈ مکینیکل کور 4۔ آرمی میڈیکل کور 5 آرمی ڈینٹل کور 6۔ آرمی ایجوکیشنل کور 7۔ آرمی کلرکس کور 8۔ ریمونٹ وٹرنری اور فارمز کور ٭ مشہور رجمنٹس 1۔ پنجاب رجمنٹ 2۔ بلوچ رجمنٹ 3۔ فرنٹئیر رجمنٹ 4۔ سندھ رجمنٹ 5۔ آزاد کشمیر رجمنٹ 6۔ ناردرن رجمنٹ ٭ آرمی ہیڈ کوارٹر کے شعبے 1۔ ایڈجوائنٹ جنرل برانچ 2۔ جنرل سٹاف برانچ 3۔ کوارٹر ماسٹر جنرل برانچ 4 ماسٹر جنرل آف آرڈیننس برانچ 5۔ انجینئرنگ انچیف برانچ 6۔ ملٹری سیکرٹری برانچ س: سرد جنگ کاکیا مطلب ہے؟ ج: دو یا دو سے زائد ریاستوں کے مابین موجود کشیدگی جس کا اظہار اقتصادی سیاسی‘ سفارتی اصطلاحات میں کیا جائ۔ جھڑپ کی صورتحال پید ا ہونے پر عارضی طور پر اسے روک دیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح عموماً سوویت یونین اور امریکہ کے مابین 1945ء کے وسط سے 1980ء کے عشرے تک استعمال ہوتی رہی ہے۔ س: اگر بھارتی حکومت لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرلے توکیا پاکستان اس پر راضی ہو جائے گا؟ ج: ایسا ممکن نہیں کیونکہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل حق خود ارادیت ہے علاوہ ازیں بھارتی حکومت ایک پارلیمانی قرارداد کی پابند ہے۔ جس میں پورے کشمیر کو بشمول آزاد کشمیر کے بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے بھارت کی جانب سے ایسی کسی تجویز کا اظہار بھی ناممکن ہے۔ س: ایساف ک کیا مطلب ہے؟ ج: ایساف انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس کا مخفف ہے جسے کابل(افغانستان) کے اردگرد نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق تعینات کیا گیا ہے۔ س: جوہری ہتھیار روایتی ہتھیاروں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ ج: ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے امریکی جوہری بموں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جوہری ہتھیار روایتی ہتھیاروں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک ہیں۔ س: پاکستان سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ ج: پاکستان ابتدا ہی سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو پر یقین رکھتا ہے۔ جس کا اظہار حکومت پاکستان اپنے عمل کے ذریعے اقوام محتدہ اور اس سے متعلقہ اداروں اور کانفرنسوں میں متعدد بار کیا ہے۔ 1954ء میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ضابطوں کی تیاری کے دوران پاکستان نے پلوٹینم ذخائر کے تحفظ کے اطلاق کے لیے اصل تجاویز کی دفعہ 2,1 اور 5 (a)کی حمایت کی تھی۔ تاہم بھارت نے کانفرنس میں اس کی مخالفت کی تھی۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے جنوبی ایشیاء کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی جسے 9دسمبر 1974ء کو اقوام متحدہ نے منظور کیا۔ چونکہ بھارت نے اپنے جارحانہ رویے کے باعث سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے۔ لہٰذا پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرے۔ س: امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان پر کب حملہ کیا؟ ج: 26اکتوبر 2001ء س: امریکہ اور برطانیہ کی افواج نے کب عراق پر حملہ کی۔ ج: 20مارچ 2003ء کو حملہ اور 9اپریل 2003ء کو سقوط بغداد ہوا۔ س: امریکہ نے عراق پر کیوں حملہ کیا؟ ج: صدام حسین کی حکومت کے خاتمہ اور تیل پر قبضہ کرنے کے لیے۔ س: کیا پاکستان روایتی ہتھیار وں کی تیاری میں خود کفالت کی منزل حاصل کر چکا ہے؟ ج: پاکستان تقریباً تمام قسم کے روایتی ہتھیار جن میں گولہ بارود بکتر بند گاڑیاں اورجنگی ٹینک شامل ہیں بنا رہا ہے۔ س: پاکستان کے تیار کردہ جنگی ٹینکوں کے نام بتائیے؟ ج: الخالد اور الضرار ٹینک۔ س برائے مہربانی ہمیں ان دو ٹینکوں کی خصوصیات کے بارے میں کچھ بتائیں؟ ج: الخالڈ پروٹو ٹائپ جنگی ٹینک 17جولائی 1991ء کواس کی تیاری کا اعلان ہوا۔ ا س کانم حضرت خالد بن ولیدؓ کے نام پر الخالد رکھا گیا۔ یہ دنیا کے جدید ترین ٹینکوں میںشمار کیا جاتاہے۔ اس کی رفتار 80کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور اس کا ہدف 400کلومیٹر تک ہے۔ انجن 1200 ۔ 1500ہارس پاور یوکرائن ساختہ ہے جس کاو زن 46ٹن ہے۔ جبکہ گن بیرل 125ملی میٹر وار 230ملی میٹر حجم والی ہے۔ یہ دو کلو میٹر کے نصف قطر تک اپنے ہدف کونشانہ بنا سکتا ہے واریہ تین سمتوں میں فائر کر سکتاہے۔ الضرارٹینک کا افتتاح 23مارچ 2000ء کو ہوا جو چینی ٹی 59ٹینک کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ منصوبے کو کم لاگت سے مکمل کرنا اور ٹی 59کو جدیدترین بنانا۔ فائر کنٹرول گن کنٹرول سسٹم اور 125ملی میٹر کی گن۔ س: ڈبلیو ایم ڈی سے کیا مراد ہے؟ ج: سیپنز آف مس ڈیسٹرکشن۔ س: کس ہتھیار نے رائفل کی جگہ لی ہے؟ ج: کلاشنکوف س: گوریلا جنگ کیاہوتی ہے؟ ج: ایسی غیر منظم لڑاء جسے چھوٹے گروہ آزادانہ طور پر دشمن کو ہراساں کرنے کے لیے لڑتے ہیں ایسی لڑائی عموماً شہروں میں لڑی جاتی ہے۔ س: ساعت صفر کسے کہتے ہیں؟ ج: جنگ میں حملے کا متوقع وقت۔ س: برائے مہربانی ہمیں یہ بتائیے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے قصور کے نزدیک واقع بھارت کے کس شہر پر قبضہ کر لیا تھا؟ ج: کھیم کرن۔ دنیا کی مشہور جنگیں نام جنگ تاریخ فاتح مخالف امریکی خانہ جنگی 1775-83 مقامی لوگ برطانیہ آسٹرین جنگ 1740-48 آسٹریا ہنگری برطانیہ ‘ ہالینڈ پولینڈ پرشیا سپین‘ سیکسونی بوئیروار 1899-1902 برطانیہ جمہوریہ بوئیر چین جاپان جنگ 1894-95 جاپان چین 1931-33 جاپان چین 1937-45 چین جاپان امریکی سول وار 1861-65 شمالی ریاستیں جنوبی ریاستیں برطانوی سول وار 1642-51 پارلیمنٹ چارلس اول ہسپانوی خانہ جنگی 1636-39 جونٹا ڈی حکومت کریمین وار 1853-56 برطانیہ ‘ ترکی فرانس فرانس پرشیا وار 1870-71 پرشیا جرمنی فرانس پہلی خلیجی جنگ 1991ء امریکہ اوراتحادی عراق عراق جنگ 2003ء امریکہ عراق امریکہ افغانستان جنگ 2001ء امریکہ طالبان صد سالہ جنگ 1333-1453ء فرانس برطانیہ کورین جنگ 1950-53ء جنوبی کوریا شمالی کوریا نپولین کی جنگیں 1792-1815ء آسٹریا‘ برطانیہ‘ پرشیا ‘ روس فرانس پیلو نیشن وار 431-404BC پیلو شینین ڈیلانی پونک وار 254-146BC روم کیتھراگ روس جاپان جنگ 1904-05ء جاپان روس سات سالہ جنگ 1756-63ء برطانیہ آسٹریا ہسپانای امریکی جنگ 1858ء امریکہ سپین سپینش وار 1701-14ء انگلینڈ ‘ پرشیا‘ آسٹریا‘ ہالینڈ کلوگن ‘ منٹانا تیس سالہ جنگ 1618-48ء فرانس‘ سوئیڈن روم سپین جنگ ویت نام 1957-75 ویت نام امریکہ 1812 کی جنگ 1812-15ء امریکہ برطانیہ پھولوں کی جنگ 1456-85ء ہائوس آف لنکاسٹر ہائوس آف یارک پہلی جنگ عظیم 1914-18ء بیلجیم‘ برطانیہ آسٹریا ‘ ہنگری‘ بلغاریہ‘ جرمنی‘ ترکی دوسری جنگ عظیم 1939-45ء آسٹریا‘ بیلجیم‘ برطانیہ ‘ کینیڈا‘ چین‘ ڈنمارک‘ فرانس‘ ہالینڈ نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ پولینڈ‘ روس‘ جنوبی افریقہ‘ امریکہ ‘ یوگوسلاویہ بلغاریہ ‘ فن لینڈ‘ جرمنی‘ ہنگری‘ اٹلی ‘ جاپان‘ رومانیہ روس افغانستان جنگ 1979-88ء افغانستان روس پہلی پاک بھارت جنگ 1948ء مجاہدین کشمیر بھارت جنگ 65ء 1965ء پاکستان بھارت جنگ 71ء 1971ء بھارت پاکستان کارگل جنگ 1999ء پاکستان بھارت جنگ جولان 1970ء مصر اسرائیل ایران عراق جنگ 1980-90ء عراق ایران عراق ایران چین بھارت جنگ 1964ء چین بھارت سب سے بڑا فوجی اعزاز حاصل کرنے والے شہدا پاکستان مسلح افواج کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر کے نام سے موسوم ہے دس فوجی افسران اور سپاہی یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں جن کے نام عہدہ اورفوجی شعبہ درج ذیل ہے: (1) کیپٹن محمد سرور شہید نشان حیدر بری فوج (2) میجر محمد طفیل شہدی نشان حیدر بری فوج (3) میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر بری فوج (4) پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہیدنشان حیدر پاک فضائیہ (5) میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر بری فوج (6) میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر بری فوج (7) سوار محمد حسین شہید (سپاہی) نشان حیدر بری فوج (8) لانس نائیک محمد محفوظ شہید نشان حیدر بری فوج (9) کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر بری فوج (10)حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر بری فوج جنگی اصطلاحات (1) اسلحہ (Arms)۔ ہر قسم کا جنگی سامان جس میں گولہ بارود بم توپیں مشین گنیں‘ میزائل ‘ جہاز وغیرہ شامل ہیں۔ (2) الٹی میٹم(Altimatum) ۔ جنگ شروع کرنے سے قبل آخری انتباہ۔ (3) منسلک (Attach) عسکری یونٹوں اور افراد کو عارضی طور پر دوسرے اداروں کے ساتھ منسلک کرنا ۔ (4) پیدل فوج(Infantry) پیدل چلنے والا عسکری دستہ۔ (5) بٹالین(Battlion)پیدل فوج کا دستہ جس کی کمان کرنل کرتا ہے۔ (6) گشت(Patroling) دشمن کا پتہ چلانے کے لیے گشت کرنا۔ (7) علاقائی دفاع(Positional Defence) دشمن کو علاقہ پر قبضہ نہ کرنے دینا۔ (8) خندق(Trench) کھدی ہوئی زمین جس میں فوجی بیٹھ کر دشمن کی گولیوں کی زد میں آنے سے محفوظ رہتے ہیںَ شہری دفاع کے لیے بھی خندق کھودی جاتی ہے۔ (9) رجمنٹ(Regiment) فوجیوں کا بڑا دستہ۔ (10) رکاوٹ(Barsicade) عارضی قلعہ بندی جو دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے شہر کے ندر قائم کی جائے۔ (11) سائرن (Syren) خطرے کی آواز۔ (12) سکواڈ (Squad) فوجیوں کی خاص تعدد جو ڈرل کے ذریعے منظم کی گئی ہو۔ (13) شارہ (Signal) اشارہ جس سے پیغام رسانی میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔ (14) ففتھ کالم(Fifth Column) ایسے افراد جو دشمن کی دفاعی تیاریوں ان کی تنصیبات اور ان کی نقل و حرکات سے آگاہ کرتے ہیںَ (15) فلیک (Flak) طیارہ شکنتوپ کا گولا اگلنا۔ (16) آبدوز (Submarine) مخصوص ساخت کا بحری جہاز جو زیر آب اور سطح آب پر تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (17) آبدوز خلاف پردہ (Anti Submarine Screen) بحری جہزوں کی وہ ترتیب جو آبدوز کے حملے سے بچائو کے لیے صف آرائی کرتے ہیں۔ (18) آبدوز کے خلاف تلاش (Anti Submarine Action) دشمن کی آبدو ز کا سراغ لگانے اور انہیں اپنے علاقہ میں آنے سے روکنا۔ (19) آبدو ز خلاف عمل (Anti Submarine Barrier) دشمن کی آبدوز کی تلاش کے لیے بحری اور ہوائی جہازوں کا مشترکہ عمل۔ (20) آبدو ز خلاف گشت (Anti Submarine) دشمن کی آبدوز کو تلاش کرنے کے بعد اس کی نقل و حرکت کو محدود کرنا۔ (21) آبی سرنگیں (Sub Marine Mines) دشمن کی آبدوزوں اور بحری جہازوں کو موثر استعمال سے باز رکھنے کی کوشش۔ (22) آبدوز شکن جنگ و جدل (Anti Submarine War Fare) دشمن کی آبدوزوں کو موثر استعمال سے باز رکھنے کی کوشش۔ (23) التوائے جنگ (Armistic) عارضی طور پر جنگ بندی کرنا۔ (24) فضائی حملوں کے خلاف دفاع (Anti Aircraft Defense) سرچ لائٹس اینٹی ائیر کرافٹ گن بلیک آڈوٹ اور ریڈار وغیرہ۔ (25) فضائی حملہ کے خلا ف استعمال ہونے والی بندوق یا توپ (Anti Aircraft Gun)ہوائی حملوں سے بچائو کے لیے استعمال کی جانے والی گنز۔ (27)خلاف میزائل (Anti Missile) دشمن کے اڑتے ہوئے میزائل کو تباہ کرنے والا میزائل۔ (28) انخلا ئے علاقہ (Area Evavation) بحریہ کے زیر کنٹرول تجارتی و بحری جہازوں کو محفوظ مقامات پر منتقلی۔ (29) دشمن کو دیکھنے والا (Observer Post O.P) توپخانے کو دشمن کے ٹارگٹ بتانے والا بلند مقا م پر کھڑا ہو کر اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ (30) انتظامی جنرل (Adjutant General) بری فوج کے جنرل سٹاف کا انتظامی آفیسر جو احکامات جاری کرتا ہے۔ (31) جوہری بم (Atom Bomb) تباہ کن جوہری بم۔ (32) امیر بحریہ (Admiral) بحریہ کا سربراہ۔ (33) فضائی کا انچارج (Air Chief Marshal) فضائی فوج کا سربراہ۔ (34) تیرتے ہوئے بحری اڈے (Air Craft Carrier) ایسا بحری جہاز جن پر سے جنگی طیارے اڑائے اوراتارے جائیں۔ (35) ائیر مارشل (Air Marshal) فضائی کا اعلیٰ افسر۔ (36) علاقائی ہدف (Area Target) ایسا ہدف جو کسی علاقے پر مشتمل ہو۔ (37) علاقائی کنٹرول سنٹر (Area Control) مخصوص علاقوں میں فضائی کنٹرول کرنے کے لیی قائم مرکز۔ (38) علاقائی کمان (Area Command)مخصوص علاقے کو کنٹرول کرنے والی کمان۔ (39) شہری دفاع اے آر پی (Air Raid Pre Caution) فضائی حملے سے بچائو کے لیے شہری دفاع کی تمام تدابیر۔ (40) خفیہ پیغام (ایس او ایس) (Save our Souls)جنگ میں انتہائی خطرے میں پیغام کہ ہماری جان بچائو۔ (41) ایک (Ace) پائلٹ ے ساتھ پانچ یا زیادہ ساتھی۔ (42) بارودی سرنگیں (Explosive Mines)دشمن کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے بارودی آلات زمین میں دفن کرنا۔ (43) روشنی ڈھانپنا (Brown Out) اندرونی بیرونی روشنییوں کی کرنوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کاغذ یا کپڑے سے ڈھانپنا۔ (44) برین گن (Bren Gun) مشین گن کی ترقی یافتہ شکل۔ (45) بکتر بند گاڑی (Armoured Car) فوجی گاڑی جس پر فولاد اس انداز سے چڑھا ہوا ہو کہ گولی اثر انداز نہ ہو سکے۔ (46) آخری تربیتی پریڈ (Passing Out Parade) کیڈٹس اوررنگروٹس کو اسناد دینے کے مواقع پر ہونے والی آخری پریڈ۔ (47)( چھاتہ (Parachute) ریشمی کپڑے سے بنی چھتری جسے جہاز سے کودنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ (48) امتیازی نشان (Pip)فوجی آفیسر کے رینک کے نشانات۔ (49) متحرک آبی سرنگ (Tarpado) ایسی آبی سرنگ جو ہر وقت متحرک رہ کر دشمن یا بحری جہاز سے ٹکرا کر نقصان پہنچائے۔ (50) تباہ کن جہاز (Destroyers) اسلحہ بردار جہاز جو دشمن کے جہازوں اور آبدوزوں کو تباہ کرتا ہے۔ (51) ہلکی بندوق (Tommy Gun) ایسی بندوق جس میں خود بخود گولیاں بھری جائیں (52) وقت والا بم (Time Bomb)مقررہ وقت پر پھٹنے والا بم۔ (53) جارحیت (Aggression) کسی ملک پر توسیع بندی کی حکمت عملی کے تحت حملہ کرنا۔ (54) سپہ سالار (General) بری فوج کا انچارج۔ (55) جنگ بندی (Casefire) مکمل طور پر جنگ بند کرنا (56) دفتراعلیٰ فوجی کمان (General Head Quarter) بری فوج کے اعلیٰ افسران کے دفاتر کو جی ایچ کیو کہا جاتا ہ۔ (57) عام سٹاف کا اعلیٰ آفیسر (Chief of General Staff) بری فوج کے بڑے افسروں میں سے سٹاف آفیسر کے طور پر کام کرنے والا۔ (58) بری فوج کا سربراہ (Chief of Staff) پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کے عہدہ کا نام بین الاقوامی طور پر بھی یہی اصطلاح مروج ہے۔ (59) مشترکہ سربراہی کمیٹی کا انچارج (Chairman Joint Chiefs of Staff)مسلح افواج کی سربراہی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے والا جنرل کا اہم مرتبہ آفیسر جو سب سے زیادہ سینئر جرنیل ہو گا۔ (60) چھائونی (Cantonment) فوجیوں کی رہائش کے لیے بسایا گیا شہر۔ (61) دفاعی فنڈ (Defence Fund) دوران جنگ دفاعی اخراجات جمع کرنا۔ (62) دمدمہ (Bar Belte) اونچی جگہ توپ رکھی جائے۔ (63) دھویں کے بادل (Smoke Screen)پسپائی کے وقت دشمن کودھوکہ دینے کے لیے چھوڑے جانے والا دھواں۔ (64) راکٹ (Rocket) کشش ثقل کو ختم کرتا ہوا فضا میں بلند ہونے والا میزائل۔ (65) فضائی نقل و حرکت کو محسوس کرنے والا آلہ (Radar) دور دراز کی اشیاء کامحل وقوع اور ان کی نوعیت معلوم کرنے والا آلہ۔ (66) زرہ (Armour) چمڑے یا دھت کا بنا ہوا قدیم لباس۔ (67) سبوتاژ (Sabotage) خفیہ ذرائع سے نظم و نسق تباہ و برباد کرنا۔ (68) ساعت صفر (Zero Hour) وہ وقت جب فوجی کارروائیوں کا آغاز ہو۔ 69) فوجی آفیسروں کا تربیتی کالج (Staff College)ایسا ادارہ جہں اعلیٰ فوجی آفیسروں کی تربیت کا اہتمام ہو (70) اسکواڈرن (Squadran) فضائیہ کا ایک یونٹ جو ایک ہی قسم کے طیاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ *71) آواز کا دھماکہ (Sonic Boom)وہ دھماکہ جو کسی طیارے کی رفتار کو آواز سے بڑھاتے وقت پیدا ہوتا ہے (72) طیارہ شکن توپ (Anti Aircraft Gun)ایسی توپ جس سے دشمن کو مار گرایا جائے۔ (73) معائدہ عدم جارحیت (Non Agression Pact)دو ممالک یا زائد ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا معاہدہ۔ (74) ایڈمرل کے جھنڈے والاجہاز (Flag Captain)ایسے جہاز کا کپتان جس پر ایڈمرل کا جھنڈ ا نصب ہو۔ (75) فوجی قافلہ (Convoy)مسلح افواج کا دستہ جو نقل و حرکت کر رہا ہو۔ (76) فیلڈ مارشل (Field Marshal)بری فوج کا سب سے بڑا عہدیدار۔ (77) پابند کرنا (Curfew) خطرے کی حالت میں لوگوں کو گھروں میں استعمال پابند کرنا۔ (78) کروزر (Crusier) ایسا جنگی جہاز جسے جلد حرکت میں لا کر چھوڑا جا سکتا ہے۔ (79) کنٹرول لائن (Control Line)ایسا خطہ جو متنازعہ علاقوں میں جنگ بندی کے لیے استعمال کیا جائے۔ (80) کوارٹر ماسٹرجنرل (Quarter Master General) فوجیوں کے لیے رہائش اور سازوسامان کی سپلائی کرنے والے ادارے کا سربراہ۔ (81) کورٹ مارشل (Court Marshal)فوجی جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دینے والی عدالت جس کا سربراہ فوجی آفیسر ہوتا ہے۔ (82) کھلانگر (Open City) ایسا شہر جہاں بین الاقوامی جنگی قوانین کے مطابق حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ (83) کیڈٹ (Cadet) مسلح افواج کے زیر تربیت آفیسر۔ (84) کیڈٹ کالج (Cadet College)ایسی درس گاہ جہاں فوجی آفیسر تعلیم حاصل کریںَ (85) اپنا آپ چھپانا (Camouflage) دشمن کے حملے سے بچائو کے لیے اپنے آپ اور ساز و سامان کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں ڈھانپنا۔ (86) گشت (Patrol) حفاظت کی غرض سے فوجی کا گشت کرنا (87) گوریلا جنگ (Guerilla Warfare)بے ترتیب لڑائی جس کے دوران دشمن پر اچانک حملہ کر کے فرار ہو جانا۔ (88) لازمی فوجی خدمت (Conscription)زمانہ جنگ میں فوج میں جبری بھرتی کرنا۔ (89) نقل مکانی نہ کرنا (Lenensrum)سرحدی آبادی کا نقل مکانی نہ کرنا۔ (90) لڑاکا طیارے (Fighter)دشمن کے خلاف استعمال ہونے والے جنگی جہاز۔ (91) چھوٹی توپ (Moter Gun)ایسی توپ جو 45درجے کی دوری پر گولہ پھینکے۔ (92) مارشل لاء (Marshal Law) ہنگاموں اور مظاہروں پر قابو پانے یا حکومت سنبھالنے پر فوجی مارشل لا نافذ کرنا ہے۔ (93) محدود یلغار (Limited Offensive)دشمن کے کچھ علاقہ پر قبضہ کرنا۔ (94) ملیشیا (Militia)غیر پیشہ ور سیاں جنہیں بوقت ضرور ت طلب کیا جائے۔ (95) مود کشن آپریشن (Anti Material Operation) مواد کش ہتھیاروں کا استعمال۔ (96) میزائل (Missile) ایسا ہتھیار جو طے شدہ طریقہ کے مطابق دشمن کے ہتھیاروں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کے لیے استعمال ہو۔ (97) اسلحہ خانہ (Magazine)ایسی جگہ جہاں اسلحہ ذخیرہ کیا جائے۔ (98) ناکہ بندی (Blochade) دوران جنگ دشمن کے کسی مقام کا محاصرہ کرنا۔ (99) نیپام بم (Napalm Bomb)ایسا بم جس کے گرنے سے آگ کے شعلے بھڑکیں۔ (100) وقت رسائی (Approach Time) وہ وقت جب کوئی ہوائی جہاز اترنے سے پہلے اپنا عمل مکمل کرے۔ (101) ہوائی میدان (Apron Airfield)وہ علاقہ جہاں سے جہازوں کو ساز و سامان اور اسلحہ فراہم کیا جائے۔ (102) ہنگامی حالت (Emergency) جب کسی ملک کو دوسرے ملک سے خطرہ درپیش ہو تو وہ حالات پر قابو پا لینے کے لیے نئے احکامات جاری کرے۔ (103) ہیلی کاپٹر(Helicopter)ایسا جہاز جسے جہاں چاہیں اتار سکیں۔ (104) لیفٹیننٹ جنرل (Leftinant General) جرنیل سے چھوٹے مرتبے کا فوجی آفیسر۔ (105) میجر جنرل (Major General) ڈویژن فوجی دستے کی کمان کرنے والا اعلیٰ فوجی آفیسر۔ (106) لیفٹیننٹ کرنل (Levtinant Colenal) یونٹ کا کمانڈ آفیسر۔ (107) صوبیدار میجر (Subedar Major)فوجی آفیسر جو نان کمیشنڈ آفیسرز کے درمیان رابطے کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ (108) مائع آبی سرنگ (Anti Amphibian Mine Fid) دشمن کے آبی حملے کو روکنے کے لیے بیرون آب لگائی جانے والے بارودی سرنگ۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو لائبریرین شپ س: آپ نے لائبریرین کی حیثیت سے کام کرنا کیوں پسند کیا؟ ج: جی جناب تاکہ قارئین کی خصوصی مدد کر سکوں اور خود بھی ہر لحظہ کتابوں سے وابستہ رہوں۔ س: دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ڈائجسٹ کون سا ہے؟ ج: جنا ب علی ریڈرز ڈائجسٹ۔ س: اردو شاعری اردو نظم اردو ڈرامہ کی کلاسیفیکیشن کیا ہیں؟ ج: جناب عالی 891,4392-891,439104,891,4391 س: دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور چھپنے والی کتاب کون سی ہے؟ ج: قرآن مجید۔ س: گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کس ملک سے شائع ہوتی ہے؟ ج: برطانیہ۔ س: کلاسیفیکیشن سکیم میں اسلام اور قرآن کے لیے ڈی ڈی سی کلاسیفیکیشن نمبر کیا ہے؟ ج: جی جناب بالترتیب 297,122,297 س: مسلمان ممالک کے لیے کون سا ڈی ڈی سی نمبر مختص ہے؟ ج: جناب عالی مسلمان ممالک کے لیے 230نمبر مختص ہے۔ س: اگر ایک قاری کسی لائبریری کی کوئی کتاب نکلوانے یا واپس کرنے آتاہے تو آپ س شخص سے سب سے پہلے کیا مطالبہ کریں گے؟ ج: جناب عالی براہ کرم لائبریری کا ممبر شپ اور اپنا شناختی کارڈ دکھائیے۔ س: لائبریریوں کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالیے؟ جناب عالی تعلیمی لائبریاں‘ پبلک لائبریریاں ‘ مخصوص محکمانہ لائبریریاں‘ خصوصی لائبریریاں اور بچوں کی لائبریریاں وغیرہ چند اہم اقسام ہیں۔ س: بریک ایونٹ پوائنٹ سے کیا مراد ہے؟ ج: جناب عالی اخراجات اورآمدنی برابر برابر جبکہ نہ نفع ہو اورنہ نقصان سے بریک ایون پوائنٹ کہتے ہیں۔ س: حوالے سے مختلف ذرائع بتائیے؟ ج: ڈکشنریاں؍ لغات انسائیکلو پیڈیا ورلڈ لمانک اٹلس‘ ائیر بک اورگنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ۔ س: قدیم دنیا کی سب سے بڑی لائبریری کا نام اور مقام بتائیے؟ ج: مصر کی سکندریہ لائبریری چھ لاکھ مسودات اورپیپر ز رول اس میں رکھتے ہوئے تھے یہ تیسری صدی ق م میں عروج پر تھی۔ اہم لائبریریاں نام لائبریری مقام وجہ شہرت لائبریری آف کانگرس واشنگٹن امریکن پارلیمنٹ کے ایوان کانگرس کی لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تصور کی جاتی ہے۔ برٹش لائبریری لندن دنیا کی پہلی لائبریری جس میںایک کروڑ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ بین الاقوامی نوجوانوں کی لائبریری میونخ نوجوانوں کے لیے دنیا کی پہلی لائبریری سابقہ لینن سٹیٹ لائبریری ماسکو ہر سال سب سے زیادہ کتابیں شائع کرنے والی لائبریری نیشنل لائبریری فرانس پیرس فرانسیسی زبان کا سب سے بڑا حصہ ذخیرہ یہاں موجود ہے نیشنل لائبریری آف انڈیا کلکتہ برصغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی اور قدیم لائبریری نیشنل لائبریری مصر قاہرہ افریقہ کی سب سے بڑی لائبریری ویٹیکن لائبریری ویٹی کن سٹی پوپ کی لائبریری لائبریری جمعہ ریاض ریاض جدید اور کشادہ ترین لائبریری جہاں آغاز ہی میں 20 لاکھ کتب رکھی گئیں۔ قومی لائبریری چین بیجنگ براعظم ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری جہاں ایک کروڑ سے زائد نسخے موجود ہیں۔ سنٹرل لائبریری چین بیجنگ لاکھوں کتب موجود ہیں نیشنل ڈائٹ لائبریری ٹوکیو ٹوکیو جاپان کی سب سے بڑی لائبریری یونیورسٹی آف ٹوکیو لائبریری ٹوکیو 32لاکھ کتب موجود ہیں کیوٹو یونیورسٹی 21لاکھ کتب موجود ہیں قومی لائبریری ارجنٹائن 50لاکھ کتب موجود ہیں قدیم ترین عالمی لائبریریاں نام لائبریری تاریخ قیام شہر؍ ملک نیشنل لائبریری آف آسٹریا 1368ء ویانا؍ آسٹریا نیشنل لائبریری آف دی چیک ریپبلک 1366ء پراگ؍ جمہوریہ چیک مازیونیل لائبریری 1468ء وینس؍ اٹلی نیشنل لائبریری آف مالٹا 1555ء ویلیٹا؍ مالٹا نیشنل لائبریری آف فرانس 1480ء پیرس؍فرانس میونخ لائبریری 1558ء میونخ؍ جرمنی نیشنل لائبریری آف بیلجیم 1559ء برسلز؍ بیلجئیم نیشنل لائبریری آف کروشیا 1606ء زغرب؍ کروشیا نیشنل لائبریری آف فن لینڈ 1640ء ہیلنسکی؍ فن لینڈ نیشنل لائبریری آف ڈنمارک 1653ء کوپن ہیگن؍ ڈنمارک ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ماہر اقتصادیات س: ڈبلیو ٹی او کس کا مخفف ہے؟ ج: ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن۔ س: ڈبلیو ٹی او کا نفاذ کس سال سے ہو رہا ہے ج: 2005ء سے س: شرمن اینٹی ٹرسٹ ایکٹ (Sherman Anti Trust Act)امریکہ کب منظور ہوا؟ ج: جی جناب: 1890ء میں یہ ایکٹ منظور ہوا۔ س: کونسل فار میوچل کنامکس کا مخفف کیا ہے؟ ج: کم کون (COMECON)۔ س: مسلم اقتصادیات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ ج: مسابقانہ حلقوں نایاب وسائل کی جانب راغب کرنے سے دولت پیدا کرنے قومی اقتصادیات اور دولت کو تقسیم کرنے کے مطالعہ کا نام علم اقتصادیات ہے۔ س: بڑے ماہر اقتصادیات آدم سمتھ (1790-1723)کا تعلق کس ملک سے تھا؟ ج: ان کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا۔ س: آدم سمتھ کی کتاب (An Enqiury into the Nature and Causes the Wealth)کس سن میں شائع ہوئی؟ ج: جناب عالی 1776ء میں س: مشہور کتاب DAS CAPITALکی پہلی جلد 1876ء میں شائع ہوئی یہ کس نے لکھی تھی؟ ج: کارل مارکس۔ س: زراعت معاوضہ (Wage)بے روزگاری‘ محصولات اور متوازن تجارت اورنمونوں یا ماڈلز کی تیاری کس علم کے مخصوص میدان ہیں؟ ج: علم اقتصادیات۔ س: پاکستان کے فوجی اخراجات کو آپ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ ج: جی جناب: پاکستان اپنے حریف بھارت کی نسبت دفاع پر بہت کم خڑچ کر رہا ہے۔ س: رواں سرمایہ سے کیا مرادہے؟ ج: یہ سرمایہ تو نقدی کی صورت میں آ رہاہے یا پھر اسے باآسانی نقدی اور سیل کی صورت میں تبدیل کی اج سکتا ہے۔ س: یہ کس تنظیم ادارے یا محکمے کے حسابات کی سالانہ آڈٹ شدہ رپورٹ کیا ہیں؟ ج: سالانہ رپورٹ ۔ س: زیر کاری سرمایہ کیا ہے؟ ج: سرمائے کا وہ حصہ جو روز بروز کی کار اندازی کو چلانے میں مدد فراہم کرے۔ س: پاکستان کی فی کس سالانہ آمدن کتنی ہے؟ ج: 652امریکن ڈالر۔ س: پاکستان کی اہم برآمدات بتائیے؟ ج: کپاس‘ کپڑے کی مصنوعات‘ چمڑہ اورچمڑے کی مصنوعات چاول قالین ‘ آلات جراحی‘ کھیلوں کا سامان ‘ دستکاری کا سامان‘ پھل ‘ سبزیاں ‘ سمندری خوراک‘ دفاعی ساز و سامان اور ہلکی مشینیری۔ س: پاکستان کی درآمدات بتائیے؟ ج: وہیکلز‘ خا م لوہا‘ خام تیل‘ پٹرولیم کی مصنوعات چائے‘ کافی‘ ادویات‘ او ر صنعتی مشینری۔ س: پاکستان میں قائم گھی ملوں کی تعداد بتائیے؟ ج: 155گھی ملیں خوردنی تیل اور تی تیار کر کے مارکیٹ میں بیچ رہی ہیںَ س: پاکستان کی گھی ملیں سالانہ کتنے ٹن بناسپتی گھی اور خوردنی تیل ریفائن کرتی ہیں؟ ج: 2.7مین ٹن گھی اور تیل۔ س: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتنی شوگر ملیں کام کر رہی ہیں؟ ج: سال 2004ء ماہ اگست تک پاکستان میں 77شوگر ملیں کام کر رہی ہیں جن کی سالانہ پیداوار 5.5ملین ٹن سے زائد ہے۔ س: پنجاب سرحد سندھ آزاد کشمیر اور بلوچستان میں کتنی شوگر ملیں کام کر رہی ہیں؟ ج: پنجاب میں 38سندھ میں 32 سرحد میں 6آزاد جموں اور کشمیر میں ایک جبکہ بلوچستان میں ایک بھی شوگر مل نہیں ہے۔ س: پاکستان میں سیمنٹ کے کتنے کارخانے کام کر رہے ہیں؟ ج: پاکستان میں 24 سیمنٹ کے کارخانے ہیں جن میں سے 20کارخانے پرائیویٹ سیکٹر اور 4گورنمنٹ کی ملکیت ہیں۔ س: پاکستان میں اس وقت کھاد کے کتنے کارخانے کام کر رہے ہیں؟ ج: 10کارخانے 5 کارخانے پنجاب 3سندھ اور 2سرحد میں واقع ہیں۔ س: کتنی کھاد فیکٹریاں پرائیویٹ سیکٹر کی ملکیت ہیں؟ ج: 5کارخانے نجی شعبہ کی ملکیت ہیں۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو کمپیوٹر آپریٹر؍ انجینئر دور حاضر کی حیرت انگیز ایجاد جس نے دنیا کو واقعتاً گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر لاطینی زبان کا لفظ (Compute)سے ماخوذ ہے۔ اس لفظ کا ترجمہ حساب کرنا گنتی کرنا ہے۔ کمپیوٹر بنیادی طورپر بجلی کے آلات کا مجموعہ ہے جو حساب کتاب کرنے اور یادداشتوں کو سنانی دماغ کی طرح محفوظ رکھ سکتاہے۔ کمپیوتر مشین کے چار بنیادی حصے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ سی پی یو ا س کی شکل بکس نما ہوتی ہے۔ جس کے اندر لگے ہوئے مختلف آلات انسان سے حاصل کردہ معلومات کو پروسیس کرنے کے بعد ڈیٹا مونیٹر پر پیش کرتے ہیں۔ پروسیسنگ کے لیے ااس میں یہ ٓلات موجودہیں۔ مدر بورڈ تمام آلات کو کنٹرول کرتا ہے۔ مائیکرو پروسیسر انسانی دماغ کی طرح کمپیوٹر کا دماغ مائیکرو پروسسر ہے۔ یہ آلہ تمام ڈیٹا کو پروسیس کرتا ہے۔ مائیکر و پروسیسر کے ذیلی یونٹس (1)کنٹرول یونٹ CU (2)ایم یو (Memory Unit)اور اے ایل یو (Arithematic and Logic Unit)۔ پاور سپلائی یہ آلہ کمپیوٹر کو مطلوبہ مقدار میں بجلی فراہم کرتا ہے۔ ہارڈ ڈسک ڈیٹا کو سٹور کرنے والے کو ہارڈ ڈسک کہتے ہیں۔ یہ بہت کم جگہ میں کافی ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے بیٹری سیل کی شک نما چھوٹا سا آلہ جس کے ذمہ ڈیٹااور ٹائم کو کنٹرول رکھنا ہے۔ یہ ہر وقت آن رہتا ہے۔ ڈسک ڈرائیو چھوٹا سا آلہ جو ہارڈ ڈسک سے ڈیٹا کو فلاپی پرمنتقل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ آلہ فلاپی سے ڈیٹا حاصل بھی کرتا ہے۔ سی ڈی ڈرائیو سی ڈی فلاپی نما آلہ ہے۔ جس کے اندر فلاپیی کی نسبت زیادہ ڈیٹا سٹورکرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے والے آلہ کے سی ٹی ڈرائیو کہتے ہیں۔ یہ آلہ ڈیٹا کی ان پٹ اور آئوٹ پٹ کا کام کرتا ہے۔ مانیٹر سکرین ٹی وی سکرین نما آلہ جو ایک لیڈر کے ذریعے سی پی یو سے منسلک ہوتا ہے۔ آپ اس سکرین پر ڈیٹا کو دیکھ سکتے ہیں۔ کی بورڈ ٹائپنگ یا کنٹرول کرنے والا آلہ کی بورڈ ڈیٹا کو کمپیوٹر میں داخل کرتاہے۔ کمپیوٹر زبان میں اسے ان پٹ ڈیوائس (Input Device)کہتے ہیں۔ ایک کی بورڈ کے 101یا 104بٹن ہوتے ہیں ان بٹنوں (Keys)کی بڑی اقسام ہوتی ہیں (1)حروف والے بٹن (Alphabetics Keys)جو Zسے Aتک ہوتی ہے (2) نمبروں والے بٹن (Numeric Keys)اس میں 0سے 9تک نمبر اور حسابی علامتیں - +وغیرہ کے بٹن ہوتے ہیں (3)کمپیوٹر عمل مین مدد فراہم کرنے والے بٹن (Function Keys)مختلف اعمال سر انجام دینے والے بٹن جو کی بورڈ کے اوپری حصے پر واقع ہیں۔ یہ بٹن F1 سے F12تک ہوتے ہیں۔ (4) سمت کی رہنمائی کرنے والے بٹن (Arrow Keys)یہ بٹن سکرین پر نمودار کرسر کو نیچے اوپر اور دائیں بائیں کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں (5) خصوصی عمل سر انجام دینے والے بٹن (Special Function Keys)مختلف امور سر انجام دینے والے بٹن مثلا Insert, End, Delete, Spacebar (6) خصوصی نشانات والے بٹن (Special Symbols of Function)گرائمر فیصدی قوما وغیرہ کے بٹن خصوصی نشانات والی کیز کو کہتے ہیں۔ مائوس کی بورڈ کی طرح مائو س بھی ان پٹ دیوائس ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا آلہ ہے جو تارکے ذریعہ سی پی یو سے منسلک ہے۔ ایک نال کے ذریعے حرکت کرتاہوا سکرین پر کرسر کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ذریعے بہت کم وقت میں کمپیوٹر کے عمومی فنکشن مکمل کیے جا سکتے ہیں۔ پرنٹر ڈیٹا کوکاغذ پر منتقل کرنے والے آلے کو پرنٹر کہتے ہیں۔ مارکیت میں رنگین اور سیاہ پرنٹنگ کرنے والے اقسام کے پرنٹر دستیاب ہیں۔ جس پرپرنٹر کی ڈی پی آئی جس قدر زیادی ہو گئی ہے اس کی پرنٹنگ کا رزلٹ بھی اسی قدر اچھااورمعیاری ہو گا۔ پرنٹرز کی تین بڑی اقسام (1) لیزر پرنٹر (2) انک جیٹ پرنٹر (3)ڈاٹ میٹرکس ہیں علاوہ ازیں کمپیوٹر کے دیگر آلات درج ذیل ہیں (1) سکینر تصاویر اور میٹر کو فوٹو کاپی کی طرح نقل کر کے کمپیوٹر میں محفوظ رکھتا ہے۔ بنیاد ی طور پر یہ ان پٹ ڈیوائس ہے۔ موڈیم بنیادی طورپر ان پٹ اور آئوٹ پٹ ڈیوائس ہے۔ یہ فون لائن کو کمپیوٹر سے جوڑتاہے۔ اس کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر تک ڈیٹا حاصل کرنے اورپہنچانے کا کام لیا جاتا ہے۔ دیگر اہم آلات میں ملٹی میڈیا کٹ جوائے سٹک‘ ڈیجیٹل کیمرہ میموری سپیکرز زپ کارڈُ‘ ٹی وی ٹیونر کارڈ‘ اور پلائر وغیرہ شامل ہیں۔ برقی ڈاک ای میل کمپیوٹر سافٹ وئیر پروگرام جس کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر تک پیغام کو ارسا ل اور وصول کی جائے تکنیکی اور مروجہ طورپر ای میل کہلاتاہے۔ ا ی میل کا تصور 1960ء کی دہائی میں منظر عام پر آ گیا تھا۔ اس وقت ای میل کو Computer Base Messaging Systemکا نام دیا گیا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں نت نئی تبدیلیوںکے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سے کمپیوٹر تک پیغام ارسال اور وصول کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا۔ کمپیوٹر کی باہمی نیٹ ورکنگ کے ساتھ ساتھ اس نظام کا آغاز ہوا تھا۔ نیٹ ورکنگ سے مراد دو یا دو سے زیادہ کمپیوٹر کا مجموعہ جو تاروں کے ذریعے باہم منسلک ہوں اورانکا مین سرور ایک ہو وقت گزرنے کے ساتھ یہ طریقہ کاروباری کمپنیوں اور اداروں کی مجبوری بنتا چلا گیا۔ کمپنیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے سافٹ وئر کے ماہرین نے ایسے پرسنل سافٹ ویئر تیار کرنے شروع کیے جو با آسانی ایک دوسرے تک پیغامات ارسال کر سکتے ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر کی تیاری ارومارکیٹ میں دستیابی کے بعد دوسرے سافٹ وئیر پروگرامات کی طرح ای میل کے سافٹ وئیر بھی مارکیٹ میں آ گئے ہیں جس کے بعد برقی ڈاک یارابطے بلکہ سینکروں افراد تک اپنا پیغام پہنچاسکتے ہیں۔ ای میل سستا اوربرق رفتار ذریعہ ہونے کی وجہ سے ہر کس و ناکس کی مجبوری بن چکا ہے۔ ای میل کے ذریعے انسا ن نہ صرف فون فیکس کیمرہ اورسپیکر جیسی سہولتو ں کا بیک وقت استعمال کرتاہے بلکہ ایک دوسرے تک معلومات پہنچانے کے لیے کاغذوں کے چھوٹے بڑے بنڈلوں کو سنبھالنے کے لیے زحمت سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اس ذریعہ سے آپ دنیا بھرمیں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ یا ای میل استعمال کرنے والے افراد سے براہ راست کانفرنس بھی کر سکتے ہیںَ یہی وجہ ہے کہ آج ای میل ہر شخص کی مجبوری بن کر اس کی ضروریات زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔ ای میل ہی کی وجہ سے کمپیوٹر جیسا اہم آلہ تمام سائنسی ایجادوں کو پیچھے دھکیل کر صف اول کی ایجاد بن گیا ورنہ کمپیوٹر کی مقبولیت اتنی جلدی ممکن نہ تھی۔ س: کمپیوٹر کے کیا فوائد ہیں مختصراً بتائیے؟ ج: یہ ان مشکلات کا جواب فوری طور پر تلاش کر لیتے ہیں جنہیںمہینوں میں حل کیا جا تاہے کمپیوٹر کا استعمال خلائی سفر جدید کارخانوں دفتروں‘ بینکوں‘ ڈاکخانوں‘ ہوائی کمپنیوں اورتحقیقاتی تجزیہ گاہوں میں کیا جاتاہے۔ س: یہ بتائیے کہ CPUکیا ہوتا ہے؟ ج: یہ سنٹرل پراسیسنگ یونٹ کا مخفف ہے۔ س: کیا یہ حقیقت ہے کہ ٹائپ رائٹر کے تختہ کلید کی ایک ہی قطار جسے لفظوں کے لیے استعمال کیا جا سکتاہے ٹائپ رائٹر طویل ترین لفظ ہے؟ ج: جناب عالی یہ بالکل حقیقت ہے۔ س: وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پی ٹی سی ایل نے فائبر آپٹیکل سسٹم اپنانے کے بعد اب تک کتنے پاکستانی شہروں قصبوںاور دیہاتوں کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی ہے؟ ج: اس وقت پاکستان کے طول و عرض مین 1380شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں انٹرنیٹ سروس موجود ہے۔ س: پاکستان کمپیوٹر بیورو اب تک کتنے میل باکسز لانچ کر چکا ہے؟ ج: پاکستان کمپیوٹر بیورو نے اگست 2004ء تک 120000میل باکسز لانچ کیے ہیں۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ریلوے س: قیام پاکستان سے پہلے ریلوے کانام بتائیں؟ ج: قیام پاکستان سے پہلے ریلوے کا نام برٹش انڈیا ریلوے تھا۔ س : موجودہ پاکستان کے کس حصہ میں سب سے پہلے ریلوے پٹڑی بچھائی گئی تھی؟ ج: کوٹری تا کراچی۔ س: پاکستان کا سب سے بڑا پلیٹ فارم کون سا ہے؟ ج: روہڑی سٹیشن کا پلیٹ فارم۔ س: پاکستان کا سب سے بڑا ریلوے سٹیشن کون سا ہے؟ ج: لاہور ریلوے سٹیشن۔ س: پاکستان کا سب سے بلند ریلوے سٹیشن کون سا ہے؟ ج: کان مہتر زئی س: کان مہتر زئی کس صوبہ میں واقع ہے؟ ج: بلوچستان میں۔ س: الیکٹرک ٹرین کن سیکشنز کے درمیان رواں دواں رہتی ہے؟ ج: بجلی سے چلنے والی ٹرین پاکستان ریلوے کے دو سیکشنز کے درمیان چلتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: (1)لاہور تا خانیوال (2)لاہور تا مغل پورہ سیکشن س: انگریزوں کے دور میں موجودہ پاکستان ریلوے کا آغاز کب ہوا؟ ج: 1861ء میں موجودہ ریلوے کا آغاز ہوا۔ س: سمجھوتہ ایکسپریس کن دو ممالک کے درمیان چلتی ہے؟ ج: پاکستان اور بھارت کے درمیان سمجھوتہ ایکسپریس چلتی ہے۔ س: سمجھوتہ ایکسپریس کن دو بین الاقوامی ریلوے سٹیشن تک چلتی ہے؟ ج: یہ ٹرین لاہور ریلوے سٹیشن پاکستان سے اٹاری ریلوے سٹیشن انڈیا کے درمیان چلتی ہے۔ س: پاکستان ریلوے کا ہیڈ کوارٹر کس شہر میں واقع ہے؟ ج: لاہور۔ س: پاکستان ریلوے کس ملک میں نئی ریلوے لائن بچھا رہی ہے؟ ج: افغانستان۔ س: پاکستان کے کس ریلوے سٹیشن سے افغانستا ن کے شہر قندھار تک ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے؟ ج: صوبہ بلوچستان کے چمن ریلوے سٹیشن سے قندھار ریلوے سٹیشن تک بچھائی جا رہی ہے۔ س: پاکستان ریلوے نے جنوبی پنجاب کے کس شہر سے کس مقام تک نئی ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے؟ ج: ڈیرہ غازی خان تا راجن پور س: ریولے ڈبل ٹریک کراچی سے پنجاب کے کس ریلوے سٹیشن تک موجو د ہے؟ ج: ریلوے ڈبل ٹریک کراچی سے لودھراں تک موجود ہے۔ س: سقو ط ڈھاکہ سے قبل پاکستان ریلوے کا نما کیا تھا؟ ج: مغربی پاکستان ریلوے West Pakistan Railway س: مشرقی پاکستان ریلوے کا نام کیا تھا؟ ج: مشرقی پاکستا ن ریلوے ہی تھا۔ س: پیغام رسانی کے لیے پاکستان ریلوے میں کون سا جدید نظام رائج ہے؟ ج: مائیکرو ویو سسٹم۔ س: ماضی میں پیغام رسانی کے لیے ریلوے کون سا نظام استعمال کرتی ہے؟ ج: ٹیلی گراف سسٹم۔ س: ریلوے ٹریک کے لیے لکڑی کے سیلپر کس مقام پرتیار ہوتے ہیں؟ ج ہری پور۔ س: کنکریٹ سلیپر کس مقام پر تیار ہوتے ہیں؟ ج: شاہین آباد (سرگودھا) س: ریلوے سگنل سبز ہو تو اس سے کیامراد ہے؟ ج: گاڑی سفرجار ی رکھ سکتی ہے۔ س: اگر ریلوے سگنل سرخ ہو تو ڈرائیور کوکیا کرنا چاہیے؟ ج: گاڑی روک لینی چاہیے اور سگنل سبز ہونے تک انتظار کرنا چاہیے۔ س: سفید سگنل سے کیا مراد ہے؟ ج: جب ٹرین انجن ریلوے سٹیشن پر آگے پیچھے کیا جائے یا اس کا رخ موڑنا مقصود ہو۔ س: ریلوے کوچز کس مقام پر تیار ہوتی ہیں؟ ج: ریلوے کیرج ورکشاپ رسالپور ریلوے کیرج ورکشاپ مغلپورہ لاہور س: ڈرائیور کے عہدے تک ترقی پانے کے لیے اس سے پہلے کون سے عہدے ہوتے ہیں؟ ج: (1) شنٹر (2) فائرمین (3)ڈرائیور س: اسسٹنٹ ڈرائیور کسے کہتے ہیں؟ ج: فائرمین کو اسسٹنٹ ڈرائیور کہتے ہیں۔ س: جنکشن سے کیا مرادہے؟ ج: ایسا ریلوے سٹیشن جہاں سے مختلف ریلوے رانچ لائنوں پر گاڑیاں روانہ ہو سکیں۔ س: ریلو ے کی تربیتی اکیڈمی کس شہر میں واقع ہے؟ ج: والٹن لاہور۔ س: راولپنڈی سے اسلام آباد تک ریلوے ٹریک موجود ہے یا نہیں؟ ج: جی موجود ہے۔ س: وزار ت ریلوے کاہیڈ مرکزی دفتر کس شہرمیں ہے؟ ج: اسلام آباد۔ س: پاکستان ریلوے کن دو بندرگاہوں سے سامان لے کر ملک کے دیگر حصوں کو روانہ ہوتی ہے؟ ج: کراچی بندر گاہ اورپورٹ قاسم کراچی۔ س: پاکستان ریلوے کے موجودہ روٹ کی لمبائی کتنی ہے؟ ج: 8775کلومیٹر س: پاکستان ریلوے میں کتنی مسافر بردار کوچز شامل ہیں؟ ج: 1901کوچز۔ س: پاکستان ریلوے کے پاس کتنی مال بردار ویگنیں ہیں؟ ج: 23939ویگنیں۔ س:ـ پاکستان ریلوے سے سالانہ کتنے مسافر سفر کرتے ہیں؟ ج: 52 ملین مسافر۔ س: پاکستان ریلوے سالانہ کتنے ٹن مال کو ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک منتقل کرتی ہے؟ ج: 4.4ملین ٹن۔ س: ریلوے کی سالانہ آمدن کتنی ہے؟ ج: 10783ملین روپے۔ س: پاکستان ریلوے کتنے ڈرائی پورٹس سے مال لاتی ہے اور لے جاتی ہے؟ ج: آٹھ ڈرائی پورٹس سے۔ س: پاکستان میں واقع آٹھ ڈرائی پورٹس کن شہروں میں واقع ہیں؟ ج: لاہور‘ حیدر آباد‘ سمبڑیال(سیالکوٹ) پشاور‘ ملتان فیصل آباد‘ اور راولپنڈی۔ س: کس نئی بندرگار کو بذریعہ ریلوے ملک کے اندرونی حصوں سے ملانے کے لیے نئے ٹریک کی تعمیر کا ابتدائی سروے شروع ہو چکا ہے؟ ج: گوادر بندرگاہ۔ س: پاکستان ریلوے میوزیم کس شہر میں واقع ہے۔ ج: گولڑہ شریف اسلام آباد۔ س: صوبہ سرحد میں آخری سٹیشن کس مقام پر واقع ہے؟ ج: لنڈی کوتل خیبر ایجسی۔ س: سیاحوں کی تفریح کے لیے سفاری ٹرین کن دو مقامات کے درمیان چلتی ہے؟ ج: پشاور تا لنڈی کوتل۔ س: بھاپ کی طاقت سے چلنے والے انجن پاکستان ریلوے میں مستعمل نہیں ہیں یا ہیں؟ ج: جی نہیں۔ س: ریلوے صوبائی محکمہ ہے یا وفاقی؟ ج: وفاقی محکمہ۔ س: پاکستان ریلوے کا انکوائری نمبر بتائیے؟ ج: 117انکوائری کا ٹیلی فون نمبر ۔ س: کیا پاکستان ریلوے کے ماتحت پولیس بھی کام کرتی ہے؟ ج: جی ہاں س: ریلوے پولیس کو کیا کہتے ہیں؟ ج: پاکستان ریلوے پولیس۔ س: پاکستان ریلوے پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی مجاز ہے؟ ج: جی ہاں ریلوے پولیس ایف آئی آر درج کر سکتی ہے۔ س: پاکستان ریلوے پولیس کا سربراہ کس عہدہ کا آفیسر ہوتا ہے؟ ج: آئی جی پولیس۔ س: ریلوے پولیس کا ہیڈ کوارٹر کس شہر میں واقع ہے؟ ج: لاہور۔ س: خانیوال تک لاہور سیکشن پر بجلی سے چلنے والی ٹرین کا آغاز کس سال ہوا؟ ج: 1970ء س: سرکلر ریلوے لائن کس شہر میں بچھائی گی ہے پٹڑی کی لمبائی بھی بتائیے؟ ج: کراچی لمبائی تقریباً 18میل س: پاکستان ریلوے کی سب سے بڑی کیرج ورکشاپ کس مقام پر واقع ہے؟ ج: مغلپورہ لاہور۔ س: پاکستان ریلوے کی الگ وزارت کب قائم کی گئی؟ ج: 30اگست 1947ء س: پاکستان کے جدید ترین ریلوے سٹیشن کا نام بتائیے؟ ج لاڑکانہ (صوبہ سندھ) س: پاکستان ریلوے کی لمبی ترین سرنگ کی لمبائی بتائیے؟ ج: 2.43میل لمبائی۔ س: حادثات کی روک تھام کے لیے پاکستان ریلوے نے بیٹری سسٹ کا آغاز کب کیا؟ ج: یکم جولائی 1975ء س: پاکستا ن اور بھارت کے درمیان ٹرین سروس کا آغاز کب ہوا؟ ج: جولائی 1976ء میں پاک بھارت ٹرین سروس کا آغاز ہوا تھا۔ س: کھوجک ریلوے سرنگ کس صوبہ میں واقع ہے؟ ج: بلوچستان۔ س: پاکستان کا سب سے بڑ ا ریلوے روٹ کن مقامات کے درمیان ہے؟ ج: کراچی تا پشاور۔ س: ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے آپ کی تجویز کیا ہے؟ ج: بدعنوانی کا خاتمہ۔ س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ روڈ ٹرانسپورٹ کی نسبت ریلوے کو ترجیح دیتے ہیں؟ ج: نہیں جناب لوگ بسوں کے ذریعے سفر کرنے کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ یہ بسیں اے سی اور آرام دہ ہوتی ہیں اور پورے ملکک میںہر آدھے گھنٹے کے بعد ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتی ہیں۔ جبکہ ریلوے کا نظا م جدید ٹرانسپورٹ نظام کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ س: نارتھ ویسٹرن ریلو ے کو کب پاکستان ویسٹرن ریلویز کا نام دیا گیا؟ ج: 1961ء س: کس وزارت کے تحت پاکستان ریلویز کام کرتی ہے؟ ج: وزارت ریلوے۔ س: لاہور سے پہلی مرتبہ سمجھوتہ ایکسپریس کب دہلی روانہ ہوئی؟ ج: 22جولائی 1976ء کو س سمجھوتہ ایکسپریس سروس 31دسمبر 2001کو منقطع کردی بتائیے سمجھوتہ ایکسپریس کب دوبارہ شروع کی گئی؟ ج: جولائی 2003ء ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو سیلز ریپ؍ فارماسیوٹیکلز س: برائے مہربانی بتائیے کہ مارکیٹنگ کیا ہوتی ہے؟ ج: مارکیٹنگ کامطالعہ بیع کی منصوبہ بندی اور بیع کو فروغ دینے کا نام ہے۔ اس میں طلب کے لیے تحقیق کرنا بھی شامل ہے۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کہ دوا سازی کا پہلا کارخانہ عربوں نے کہاں قائم کیا تھا؟ ج: دوا سازی کا پہلا کارخانہ عربوں نے آٹھویں صدی عیسویں میں بغداد (عراق) میں قائم کیا تھا۔ س: دوا ساز کے کام کی نوعیت بتائیے؟ ج: طبی معالج کی ہدایات کے مطابق ادویہ سازوں کا کام دوا کی تیاری ہے۔ س: بیع عاملہ کے کام کی نوعیت بتائیے؟ ج: اس کا سب سے بڑا کام مقصد تیار ادویات کو متعارف کرانا ہے اور ایک پروڈکٹ کی افادیت ضمنی اثرات‘ قیمت اور جدید خصوصیت کا دوسری کمپنی کی مصنوعات سے موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کو بھی پیش کرنے کا اہتمام کرنا بھی شامل ہے۔ س: ایک فرم کی انتظامیہ کو بخوبی چلانے کے لیے سب سے زیادہ مشکل چیز کیاہے؟ ج: محنت کشوں کو مراعات دینا اور نظم و ضبط قائم کرنا۔ س: سیلز مین میں کن خوبیوں کا موجود ہونا لازم ہے؟ ج: خوش مزاج بہتر سماعت والا تحمل مزاج اپنی فرم کے لیے فروختی ہدف مقرر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ارو منڈیوں کو تلاش کرے۔ س: زیادہ کمائی کرنے کے خفیہ راز بتائیے؟ ج: قربانی ‘ راست گوئی نیک نامی بھروسہ اور اعتماد کرنا۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو بینک آفیسر مرکزی بینک‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان سٹیٹ بینک آف پاکستان سب سے بڑا سرکاری بینک اور بینکنگ نظام کو کنٹرو کرنے والا ادارہ ہے ۔ اس بنک کا افتتاح یکم جولائی 1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے دست مبارک سے کراچی میں فرمایا تھا۔ بنک کا انتظام و النصرام چلانے کے لیے ایک بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہے۔ جس کے ارکان بینک کا سربراہ جسے گورنر سٹیٹ بنک بھی کہتے ہیں کے علاوہ ڈپٹی گورنر ڈائریکٹر شامل ہیں۔ بینک کا صدر دفتر کراچی میں ہے جبکہ اس کا مرکزی دفتر کے علاوہ ناظم آباد‘ کراچی لاہور اسلام آباد فیصل آباد‘ راولپنڈی پشاور‘ کوئٹہ مظفر آباد سکھر حیدر آباد‘ ملتان‘ سیالکوٹ‘ بہاولپور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور گوجرانوالہ میں برانچیں کام کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل بینک آف پاکستان‘ حبیب بینک لمیٹڈُ یونائٹڈ بینک لمیٹڈ‘ مسلم کمرشل بینک لمیٹد‘ بینک الحبیب لمیٹڈ‘ عسکری بینک میٹد پنجاب بینک آپ پنجاب۔ بولان بینک‘ خیبر بینک‘ فرسٹ وومن بینک (مخصوص بینک )زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک لمیٹڈ‘ فیڈرل بینک آف کو اپریٹو‘ پنجاب کو آپریٹو بینک وغیرہ شامل ہیں ۔ قابل ذکر ملکی بینک ہیں۔ جبکہ غیر ملکی بینکوں میں بینک الفلاح ‘ یونین بینک‘ سٹی بینک‘ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اے پی این ائیر بینک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ س: بنکاری کا آغاز کن اقوام نے کیا تھا؟ ج: یونان ‘ روم اور مصری راہب لوگوں کو بھاری سودپر قرضے دیتے تھے اورصاحت ثروت لوگ ان کے پاس سونا اور چاندی جمع کراتے تھے جس طرح بینکاری کا آغاز ہوا۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی بینکوں کو کب قومیایا گیا اور اس وقت ملک میں کس کی حکومت قائم تھی؟ ج: جناب عالی یکم جنوری 1974 کو اور اس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم تھی۔ س: پاکستان کے مالیات نظام میں اسلام جنرل ضیاء الحق حکومت نے کب متعارف کرایا تھا؟ ج: جولائی 1979ء س: کیا یہ حقیتقت ہے کہ جمع شدہ رقوم(ماسوائے خارجہ) کونفع و نقصان کے امانتی کھاتوں (PLS) میں تبدیل کر دیا گیا تھا؟ ج: جی ہاں جناب۔ س: PLSکیا ہے؟ ج: نفع و نقصان میں شراکتی حسابات (PLS) س: پاکستان میں بینکوں کو کنٹرو ل کرنے والا ادارہ کون سا ہے؟ ج: سٹیٹ بینک آف پاکستان۔ س: بینک زراعت کیا ہوتا ہے؟ ج: ایسی طبع شدہ دستاویز کا تعلق ترسیلات زر کی ادائیگیوں سے ہے یہ ایک تحویل پذیر دستاویز ہوتی ہے یعنی اسے ایک بینک دوسرے بینک سے اس شخص کے نام پر نکلوائی جاتی ہے جو ا س بینک کاکھاتہ دار ہوتا ہے س: تختہ واصل کیا باقی کیا ہے؟ ج: یہ بینک کے حسابات کی ایک بیانہ تفصیل ہوتی ہے۔ جس میں آمد اور خرچ ظاہر کیا جاتاہے۔ س: شیڈولڈ بینکوں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ ج: پاکستان میں تجارتی بینکوں کو شیڈول اور غیر شیڈول بینکوں میں ممیز کیا جا سکتا ہے۔ شیڈولڈ بینک وہ ہے جو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے خصوصی جدول پر ہوتے ہیں پاکستان میں تمام جدول بینکوں کو سٹیٹ بینک آف پاکستان منضبط اور رجسٹرڈ کرتا ہے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹریو ماہر تعمیرات ؍ سروئیر؍ سیاحتی گائیڈ (1)اہرام مصر فراعین مصر نے اپنی ممی لاش کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کے لیے قاہرہ کے قریب صحرائوں میں بلندو بالا پتھریلی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ اپنی خوبصورتی اور کاریگری کی وجہ سے اہرام مصر کو عجائبات عالم میں پہلا درجہ حاصل ہے۔ اہرام مصر فراعینہ کے تہہ خانوں میںفرعون کی نعشیں اور ان کا قیمتی ساز و سامان دفن ہے۔ خوفو مینکارائو اور خافرہ کے اہرام دنیا کے مشہور تین اہرام ہیںَ خوفو کا اہرام 13ایکٹر رقبہ پر پھیلا ہواہے ابتدا میں اس کی بلندی 482فٹ اور 450فٹ کے درمیان تھی اس کی چوڑائی تقریباً 755مربع فٹ اور تعمیر میں 2.5ٹن وزنی 2300000چوکور پتھر کے ٹکڑے استعمال کیے گئے ان پتھروں کی جسامت 40مکعب فٹ ہے۔ اہرام مصر کی بنیاد چوکور مگر پہلو تکونے ہیں یہ تکونیں اوپر ج کرایک نقطہ پر مل جاتی ہیں۔ آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اس زمانے میں کاریگروں اور مزدوروں نے کون سا طریقہ استعمال کر کے پتھروں کو اتنی بلندی تک پہنچایا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تعمیر آج تک انسانی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ قدیم عجائبات عالم میں سے یہ واحد تعمیر ہے جس کے نشان ابھی تک موجود ہیں۔ (2)بابل کے معلق باغات قدیم عجائبات میں بابل کے معلق باغات کا نمبر دوسر ا ہے۔ چھ صدی قبل میسح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اپنی محبوب ملکہ کو خوش رکھنے کے لیے بلندی پر باغات تعمیر کروائے تھے۔ اپنے منفرد طرز تعمیر اور بلندی کی وجہ سے ان باغات نے عالم انسانیت کو عرصہ دراز تک متحیر کیے رکھا۔ قدیم بابل اور ہنوئی کی تہذیب کو اصل شہریت انہی باغات کی وجہ سے نصیب ہوئی تھی۔ یہ باغات حقیقتاً معلق نہ تھے۔بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی تھی بعض مورخین نے ان باغات کی بلندی 350اور بعض 375فٹ بتاتے ہیں۔ اس بلندی کے عین اوپر تااب موجود تھاجو ہر وقت پانی سے بھرا رہتا تھا۔ اسی تالاب سے بلندی پر لگے پھولدار اور دوسرے درختوں کو سیرات کیا جاتا تھا۔ یہ باغات کتنے ایکڑ رقبے پر تعمیر کیے گئے ہیں اس حوالے سے تاریخ میں کوئی خاص شواہد موجودنہیں ہیں البتہ اس امر کا ضرور خیال رکھا جاتا ہے کہ درختوں کی نشوونما میں کسی قسم کی کمی نہ آئے۔ (3)ڈائنا کا مندر ڈائنا کے مندر کے آثار موجودہ ترکی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ مندر کئی مرتبہ تعمیر ہوا وار بار بار تباہ کر دیا گیا۔ اس کے طو ل کے ہر ضلع میں سنگ مرمر سے بنے 127ستون نصب تھے جبکہ عمارت ایک چبوترے پر بنائی گئی تھی اس عمارت کی بلندی 60فٹ سے زائد تھی۔ اس مندرکی وجہ شہرت ڈائنا کی مورتی تھی۔ اس دیوی کا یونانی نام آرٹیمس تھا۔ سکندر اعظم نے اس مندر کو اپنے دو ر حکومت میںدوبارہ تعمیر کروایا تھا ا س مندر گوتھ قو کے حملے 626ء میں مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ (4) زیورس کا اولمپیا مجسمہ 500سال قبل مسیح مشہور یونانی سنگ تراش اور مجسمہ ساز فیڈمس نے اولمپیا کے مقام پر یہ مجسمہ تراشا تھا زیورس قدیم یونان کا سب سے بڑا دیو مالائی دیوتا تھا۔ اس لیے اس مجمسے کے پورے یونان میں بہت زیادہ عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ سنگ مرمر کا یہ مجسمہ 40فٹ اونچا اوراس پر سون چاندی اور ہاتھی دانت سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اب اس مجسمے کے آثار بالک ناپید ہو چکے ہیں۔ (5) مسولیس کا مقبرہ ایشیائے کوچک کے شہر ہیلی کارنواس میں ملکہ ارٹھییا نے انے مشہور بادشاہ مسولیس کی یاد میں تعمیر کروایا تھا یہ مقبرہ ایک بلند چبوترے پر انتہائی بلند و بالا ستونوں اور چوکور عمارت پر مشتمل تھا۔ اب اس مقبرے کے آثار مکمل طور پر ناپید ہو چکے ہیں۔ (6) رہوڈز کا مجسمہ سورج کے دیوتا اپالو کا 105فٹ بلند مجسمہ بندرگاہ رہوڈز پر ایک خلیج کے دونوں کناروں پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس بت کی ایک لات سمندر خلیج کے ایک طرف اور دوسری لات دوسری طرف واقع تھی۔ اس مجسمے کے نیچے سے بحری جہاز گزرا کرتے تھے۔ اس مجسمہ کو یونانی سنگ تراش چیئرز کئیرز نے 280قبل مسیح میں تعمیر کیا تھا۔ اس مجسمے کی تعمیر پر اس نے 13سال سے زائد کا عرصہ صرف کیا تھا۔ یہ مجسمہ بعد ازاں ایک زلزلے کے دوران تباہ ہو گیا۔ (7) اسکندریہ کا روشنی کا مینار مصر کے مشہور شہر اور بندرگاہ اسکندریہ کے مقام پر ساسٹر لیٹس نامی بادشاہ نے جہاز رانوں کی رات کو راہنمائی کے لیے تعمیر کروایا تھا ۔ اس مینار کی بلندی 400فٹ تھی۔ اس کے اوپر کے حصہ پر رات کوآگ جلا کر ملاحوں کو بندرگاہ کی نشاندھی کرائی جاتی تھی۔ یہ مینار 13ویں صدی عیسویں میں ایک زلزلہ کے دوران تباہ ہو گیا۔ ابوالہول کا مجسمہ (مصر) ابوالہول کا مجسمہ 4500سال پرانا اور اہرام مصر سے ملحق ہے۔ 1988میں یونیسکو کے زیر اہتمام اس کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ یہ 1998ء میں 2.5بلین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوا۔ پارتھنین آف یونان یہ ایکرو پولس میںاتھینا دیوی کے مندر کے طور پر 438قبل مسیح میں تعمیر ہو اتھا۔ اب ا س کی عمارت منہدم ہو چکی ہے۔ دیوار چین چین کے شہنشاہ چن شی ہوانگ تی نے دنیا کی طویل ترین دیوار کو 228قبل مسیح میں تعمیر کرایا۔ یہ دیوا ر تقریباً 1600میل لمبی ہے اور اس کی چنائی میں پتھر اور مٹی استعمال ہوئی ہے۔ اس کی بلندی 18سے30فٹ تک ہے۔ تاج محل آگرہ (1650-1632) مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں یہ خوبصورت (تاج محل) تعمیر کرایا تھا بیس ہزار ماہر کاریگروں نے اسے اٹھارہ سال کی مدت می دو کروڑ کی لاگت سے تعمیر کیا۔ اس کا نقشہ ایران کے مشہور ماہر تعمیرات عیسی نے بنایا تھا۔ شاہ فیصل مسجد (پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے 46.87ایکٹر رقبے پر محیط اس مسجد کے ہال کا رقبہ 1.19ایکٹر ہے ہال میں کم و بیش ایک لاکھ اور دیگر مقامات پر مزید دو لااکھ افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش موجودہے ڈیزائن تعمیرات ڈاکٹر وحدت دلو نے بنایا۔ اینگکرواٹ مندر (کمبوڈیا) ا س مندر کا رقبہ 402ایکٹر ہے۔ اسے 1113تا 1150میں تعمیر کیا گیا تھا۔ آدم کا پل بھارت اور سری لنکا کے مابین چھوٹے چھوٹے ٹیلوں ککی ایک تیس میل لمبی قطار کو کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے نکال کر اسی زمین پر اتارا گیا تھا۔ انارکلی لاہور کا سب سے قدیم مشہور اور خوبصورت بازار ہے۔ بالمورل قلعہ سکاٹ لینڈ میںواقع مشہور قلعہ 1852ء سے برطانوی قبضے میں ہے اور اس کا رقبہ 24000ایکڑ ہے۔ برائون ہائوس یہ خوبصورت عمارت جرمنی میں واقع ہے۔ برینڈ نبرگ گیٹ جرمنی کے شہر برلن میں واقع محراب جس کا ڈیزائن کارل لینگ ہانز نے بنایا تھا اسے 1808-1773میں تعمیر کیا گیا خوبصورتی کے لحاظ سے قابل دید ہے۔ بکنگھم محل برمنگھم برطانیہ میں واقع 600کمروں پر مشتمل شاہی خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ 1873ء سے استعمال میں نہیں 1993میںعوام کے لیے کچھ حصے کھول دیے گئے۔ بگ بین (برطانیہ) برطانوی پارلیمنٹ ہائوس کا گھنٹہ گھر اس کا قطر 2.7میٹر اور وزن 13ٹن ہے۔ اسے 1858میں ڈھالا گیا تھا۔ بوروبودور جاوا (انڈونیشیا) کی قدیم بدھ خانقاہ 750اور850کے مابین تعمیر کی گئی ۔ یہ عمارت آج تک قابل استعمال ہے۔ پرل ہاربر جزیرہ ہوائی (امریکہ) کی مشہور بندرگا ہ ہے اسے 7دسمبر 1941کو بمباری کر کے جاپان نے شدید نقصان پہنچایا تھا جس سے دو ہزار فوجی ہلاک ہو گئے۔ جس کے بعد امریکہ نے جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرائے تھے۔ پنجہ صاحب حسن ابدال (اٹک) کے مقام پرسکھوں کا مقدس گردوارہ یہاں ایک پتھر پر گورونانک کا پنجہ بنا ہوا ہے۔ پوٹا لاپیلس تبت (چین) لہاسہ کے مقام پر دلائی لامہ کا مشہور محل ہے۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا محل بھی کہا جاتا ہے۔ پوکھران راجستھان (بھارت ) میں واقعہ مقام جہاں بھارت نے مئی 1974ء اور مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ پکاڈلی سرکس (لندن) برطانیہ کی مشہور گلی جہاں عجائب گھر اور دیگر ثقافتی عمارات واقع ہیں۔ پیسا کا جھکا ہوا مینار یہ مینار اٹلی کے شہر پیسا میں ہے یہ مسلسل جھکتاجا رہا ہے۔ جس کے بعد 1999میں اس کی مرمت کی گئی ۔ پینٹاگان امریکی محکمہ دفع اور بری فوج کے مرکزی دفاتر اس عمارت میں واقع ہیں واشنگٹن میں واقع یہ عمارت 29ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اسے 1941-1943میں تعمیر کیا گیا 11ستمبر 2001کو دہشت گردوں نے اس کے ایک حصے کو تباہ کیا۔ ٹیکسلا راولپنڈی کے نزدیک بدھ آثار قدیمہ کا مرکز بدھ دور کی مشہور یونیورسٹی سی شہر میں واقع ہے۔ جنتر منتر دہلی (بھارت) میں واقع رصد گاہ ہے۔ چاندنی چوک (بھارت) دہلی کا مشہور بازار کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں واقع اللہ کا گھر ہے جہاں ہر سال پوری دنیا کے مسلمان حج کی غرض سے اور اس کی زیارت کے لیے جوق در جوق آتے ہیں۔ دلال سٹریٹ بھارت کے شہر بمبئی میں سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کے طور پر مشہور ہے۔ دیوار گریہ یروشلم میں یہودی مندر کی مغربی دیوار ہے اسے رومنوں نے تباہ کر دیا تھا یہودی اس دیوار کی پوجا کرتے ہیں۔ ڈائوننگ سٹریٹ وزیر اعظم برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ لندن کی اسی سٹریٹ میں واقع ہے۔ زیب النساء سٹریٹ کراچی کا خوبصورت بازار مختلف اشیاء کی خریداری کے لیے مشہور ہے۔ راس کوہ ضلع چاغی (بلوچستان) کا ایک پہاڑی مقام ہے جہاں 28اور30مئی 1998ء کو پاکستان نے ایٹم بم کے چھ کامیاب دھماکے کیے تھے۔ ریڈ سکوائر (روس) ماسکو کا وسطی حصہ جہاں مرکزی حکومت کے دفاتر قائم ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ ویسٹ منسٹر لندن میں میٹرو پولیس کا ہیڈ کوارٹر ز ہے۔ شاہیا ٹاور یہ ٹاور تہرا ن میں شہنشاہیت کے اڑھائی ہزار سالہ جشن کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ شیوڈ یگون پگوڈ ینگون (رنگون؍ میانمر) میں بدھ عبادت گاہ ہے۔ س خانقاہ کی بلندی 98میٹر یا 326فٹ اور اس کے اوپر سونا منڈا ہوا ہے۔ عرفات مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ڈیڑھ سو فٹ بلند پہاڑ ہے اسے جبل رحمت بھی کہتے ہیں یہاں 9ذی الحج کو حج خطبہ دیا جاتا ہے۔ اس کے دامن میں جنوب کی طرف میدان عرفات ہے۔ فلیٹ سٹریٹ لندن کی ایک گلی جہاں اخبارات اورپریس ایجنسیوں کے دفاتر واقع ہیں فیوجی یاما جاپان کی بلند ترین پہاڑی چوٹی جس کی بلندی 12388فٹ ہے جاپانی اسے مقدس مانتے ہیں ٹوکیو کے جنوب میں واقع ہے۔ قطب مینار دہلی کاایک شاندار مینار جسے 1199ء میں سلطان قطب الدین ایبک نے تعمیر کرایایہ 263فٹ بلند ہے۔ کرسٹل پیلس (برطانیہ) ڈھانچہ لوہے کے ڈھانچے سے بنا ہوا ہے۔ جس کا ڈیزائن سر جوزف پیکسٹن نے عظیم نمائش کے لیے بنایا۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں قائم کیا گیا ہے۔ جو 1936ء میں آتشزدگی کے دوران جل گیا تھا۔ کریملن (روس) ماسکو میں فصیل والا قلعہ انتظامی و مذہبی مرکز کا کام دیتا تھا۔ ماسکو کاکریملن محل محض کریملن کہلاتا ہے۔1712ء میں روس کے زار حکمرانوں کی رہائش گاہ تھا۔ کیپ کیناورل امریکہ کا خلائی مرکز ہے پہلے اس کا نام کیپ کینیڈی تھا۔ کولوسیم (اٹلی) روم میں (980-975)کے مابین تعمیر ہوا۔ یہ چار منزلہ بیضوی شکل کی عمارت تھی اور اس میں پچاس ہزار افراد کے لیے گنجائش موجود تھی۔ گرینڈ کینان یہ کھائی 217میل لمبی 8تا 25میل چوڑی اور6250فٹ گہری ہے۔ یہ شمال مغربی ایریزونا (امریکہ ) میں واقع ہے۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر (بھارتی پنجاب) میں واقع سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ اسے 1766ء میں تعمیر کیا گیا جس کا سنگ بنیاد مسلمان صوفی بزرگ میاں میر نے رکھا۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب بھی یہاں رکھی گئی ہے۔ گولڈن گیٹ برج(امریکہ) فولاد کا ایک بڑا معلق پل یہ خلیج سان فرانسسکو کو بحر اوقیانوس سے ملاتاہے 1937 ء میں مکمل ہوا ایک سپین 1280میٹر لمبا ہے۔ لک رصد گاہ کیلی فورنیا(امریکہ) میں واقع ایک مشہور رصد گاہ ہے۔ لودرے پیرس کا آرٹ میوزیم 1546ء میں تعمیر کیا گیا اوریہاں دنیا کی بہترین اشیاء رکھی گئی ہیں۔ مجسمہ آزادی نیویارک میں ایستادہ یہ ایک خاتون کی ترجمانی کرتا ہے جس کے ایک ہاتھ میں ٹارچ ہے فرانس نے امریکا کو آزادی حاصل کرنے پر بطور تحفہ دیا اونچائی 152فٹ ہے۔ مردیکا پیلس (انڈونیشیا) جکارتا میںواقع مشہور محل ہے۔ مسجد نبوی دنیا کی سب سے بڑی مسجد مدینہ منورہ میں واقع ہے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا اسی مسجد کے ساتھ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لحد میںاتارا گیا ۔ مونومینٹل ایکسز برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں دنیا کی سب سے چوڑی سڑک کا افتتاح اپریل 1960ء میں ہوا۔ موہنجودڑو پاکستان کے آثار قدیمہ کا مرکز یہ سندھ میں ہے اور یہاں سے 5ہزار سال قبل مسیح کے آثار ملے ہیں یہ عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ مادام تسائو کا مومی گھر لندن میں واقع ہے۔ یہاں عالمی شخصیات کے مومی مجسمے بنا کرمحفوظ کیے جاتے ہیں۔ ناگاساکی جاپان میں واقع وہ مقام جہاں 9اگست 1945ء کو امریکہ نے ایٹم بم پھینکا تھا۔ نوٹرے ڈیم پیر س کا قدیم گرجا گھر اپنے تعمیراتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اس کی تعمیر مختلف مراحل میں (1345-1163)میں مکمل ہوئی۔ وال سٹریٹ مین ہٹن میںواقع ایک گلی نیویارک سٹاک ایکسچینج کی عمارت کے لیے مشہور ہے۔ وائٹ ہال لندن میں واقع وائٹ پارک کے نام سے پکارا جانے والا علاقہ میں حکومت برطانیہ کے سرکاری دفاتر ہیں۔ وائٹ ہائوس واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدرامریکہ کی سرکاری رہائش گاہ 1814تا1829ء میں تعمیر ہوئی۔ وزیر مینشن کھار ادر کراچی میں واقع عمارت میں 25 دسمبر 1876ء کو قائد اعظم محمد علی جناح پیدا ہوئے۔ ہارلے سٹریٹ لندن کی ایک مشہور گلی ہے۔ ہائیڈ پارک لندن کا ایک شاہی پارک جو عوام کے لیے جیمز اول کے دور میں کھولا گیا تھا۔ اس کارقبہ 630ایکڑ ہے۔ یہاں سیاسی رہنما حکومت کے خلاف تقریریںکرتے ہیں۔ ہڑپہ ساہیوال (پاکستان) کے قریب آثار قدیمہ کا ایک مرکز وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز ہے۔ یہ عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ س: فلک بوس کی وضاحت کیجیے؟ ج: فولاد کے ڈھانچے کی مدد سے خصوصی طور پر ایک انتہائی بلند عمارت تعمیر کرنا جو خالصتاً جدید اورمخصوص امریکی طرز ڈھانچے پر بنی ہوئی ہو۔ س: تعمیرات کا مقصد اور مطلب کیا ہے؟ ج: ایک ڈھانچے کی تعمیر میں سائنس اور فن کے اطلاق کو تعمیرات کہتے ہیں۔ یہ صرف اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے جس کے لیے تعمیر کیا جائے گا۔ لیکن یہ بیک وقت اپنے گردو نواح کو سامنے رکھتے ہوئے آنکھوں کو لبھاتا ہے۔ س: کیاآپ جانتے ہیں کہ کراچی میں قائد اعظم کے مزار کا ڈیزائن کس ماہر تعمیرات نے بنایا؟ ج: جی ہاں جناب مسٹر یحییٰ مرچنٹ نے ان کا تعلق بمبئی (ان دنوں ممبئی) سے تھا۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور میں کون کون سی اہم عمارات کا ڈیزائن نیر علی دادا نے بنایا ہے؟ ج: جی ہاں جناب حبیب بینک بلڈنگ‘ الحمراء کمپلیکس اوراے بی این امرو ک پوریٹ۔ س: نیر علی ددا نے پرانی عمارتوں کو بھی نئی زندگی دی ہے۔ کیا آپ ان عمارتوں کے نام جانتے ہیں؟ ج: دی فری میسن ہال‘ دی قائد اعظم لائبریری‘ حالیہ رام سنگھ کرکٹ پیولین‘ ٹولنٹن مارکیٹ کو بطور تعمیراتی ورثہ کے محفوظ کرنا وغیرہ۔ س: سروے کی ابتدا کس خطے سے ہوئی؟ ج: سروئنگ کی سائنس کا آغاز قدیم مصر سے ہوا۔ اس موضوع پر سروے کے متعلق پہلا رسالہ 150سال قبل از مسیحض میں شائع ہوا اور اسے سکندریہ کے رہنے والے ایک شخص نے تیار کیا۔ س: تمام فاصلوں کی پیمائش کے لیے مستند نقشوں پر کیا شے بنی ہوئی ہے؟ ج: نقشوں پر کسی بھی قدر کا میلوں یا کلومیٹروں کا پیمانہ (Scale)دیا گیا ہوتاہے۔ س: تھیوڈ ولائٹ سے کیا مراد ہے؟ ج: تھیوڈولائٹ دوربین پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک سٹینڈ پرنصب ہوتی ہے تاکہ افقی اور عمودی دونوں طرح سے اسے گھمایا جا سکے۔ یہ افقی اور عمودی سطحوں کے زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال کی جانے والی جبکہ زاویوں کی پیمائش درجہ بدرجہ محراب یا پلیٹوں سے کی جاتی ہے۔ س: برائے مہربانی یہ بتائیے کہ خط ارتقاء کیا ہوتے ہیں؟ ج: سطح سمندر سے ایک ہی بلندی پر واقع ضلع کے تمام مقامات سے گزرنے والے خطوں کو خط ارتقاء کہتے ہیں۔ س: چار دیواری کی پیمائش کے لیے کون سا آلہ استعمال ہوتاہے ؟ ج: پیمائشی فیتے۔ س: جس کتاب میں کسی منصوبے عمارت یا ڈھانچے کی پیمائش کا ریکارڈ رکھا جائے اسے کیا کہتے ہیں؟ ج: کتاب پیمائش۔ س: ایسا نشان جسے کسی اہم عمارت ڈھانچے جیسا کہ ریلوے پل وغیرہ پر لگایا جائے اوراس امر کی نشاندہی کی جائے کہ اس ضلع کا سروے ہو چکا ہے اس پر ایک نشان لگا ہوتا ہے جس سے سطح کا فرق ماپا جاتا ہے اسے کیا کہتے ہیں؟ ج: مستقل نشان (Bench Mark) س: کسی مقام کا لیول کیسے دریافت کرتے ہیں؟ ج: لیول کی دریافت کا آغاز قریبی مستقل نشان سے کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہر سو فٹ کے فاصلے پر کھونٹیاں لگائی جاتی ہیں یہ دریافت بلندی او رپستی کے طریقے سے کی جاتی ہے۔ س: سروئیر کے کام کی نوعیت بتائیے؟ ج: زمین کی سطح زیر زمین ڈھانچوں صحیح صحیح پیمائش تعمیری مقامات سرکاری چار دیواری ک تعین بڑی بڑی شاہراہوں موٹر ویز کا سروے اور نقشوں اور چارٹوں کے لیے معلومات اکٹھی کرنا۔ س : سڑک کے تدرج کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے؟ ج: سڑک کا تدرج گریڈی ایٹر سے ماپتے ہیں جو ایک قسم کی دوربین ہوتی ہے جو تپائی پر ایستادہ ہوتی ہے۔ س: کیا ایک سروئیر عمارت کا ڈیزائن بنا سکتا ہے؟ ج جی نہیں۔ س: دنیا کی سب سے پہلی بیل گاڑی کے آثار کس ملک سے دریافت ہوئے ہیں؟ ج: عراق کے موجودہ شہر اثریہ کے کھنڈرات سے ملنے والی گاڑی کا نمونہ دنیا کی سب سے قدیم گاڑی سمجھی جاتی ہے ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پہلی بیل گاڑی 3500قبل مسیح میں تیار کی گئی اثریہ میں سیمرین تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ س: دنیا کی پہلی چھت والی بیل گاڑی کے آثار عراق کے کس مقبرے میں دریافت ہوئے تھے؟ ج: 3000قبل مسیح پرانی گاڑی کے آثار اثریہ کے علاقے میں واقع قدیم مقبرے ٹیپ گاوڑا (Tapegawra)سے دریافت ہوئے تھے۔ اس مقبرے سے ایسے پہیوں کے آثار بھی دریافت ہوئے تھے جن کے اردگرد تانبا منڈھا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں ان پہیوں کے اردگرد انتہائی خوبصورت انداز میں تصویریں کندہ ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ پہیے 2500قبل مسیح کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ س: اثریہ سے ملنے والے پہیے اور بیل گاڑیاں کس چیز سے بنائی گئی تھیں؟ ج: گاڑیاں اور ان کے پہیے لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو سفارت کار کرہ ارض پر خشکی سے ڈھکے ہوئے سات براعظموں میں سے چھ پر انسان آباد ہے۔ انٹارکٹیکا واحد براعظم ہے جہاں انسانی آبادی نہیں ہے۔ چھ براعظموں میں سے ایشیا یورپ افریقہ مسلمان ممالک ہیںَ جبکہ جنوبی افریقہ شمالی امریکہ اور براعظم آسٹریلیا میں کوئی اسلام ملک نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں مسلمان ممالک میں سے 27ممالک براعظم ایشیا میں واقع ہیں براعظم افریقہ میں 23 ممالک اور براعظم یورپ میں 4ممالک موجود ہیں۔ براعظم ایشیا کے مسلم ممالک کے نام (1) قازقستان مسلم دنیا کا اور براعظم ایشیا کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک وسطی ایشیائی ریاستوں میں واقع ہے۔ (2) انڈونیشیا مسلم اور براعظم ایشیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ (3) پاکستان مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت ہے۔ (4) افغانستان (5)سعودی عرب (6) ایران (7) ترکی (8) شام (9)اردن (10) کویت (11)قطر (12)بحرین (13) اومان (14) مالدیپ (15)یمن (16) عراق (17)بنگلہ دیش (18)ملائشیا (19) برونائی دار السلام (20) ازبکستان (21) لبنان (22) آذر بائیجان (23) ترک قبرص (24) کرغیزستان (25)فلسطینی ریاست (26) تاجکستان (27)ترکمانستان براعظم افریقہ کے ممالک (1) سوڈان رقبہ کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ور اسلامی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ (2)الجزائر (3)بروکینا (3)فاسو (4)چاڈ (5) کومورس (6)جبوتی (7) مصر (8)اری ٹیریا (9) ایتھوپیا (10) گیمبیا (11) گنی (12) گھانا (13)لیبیا (14) مالی (15) موریطانیہ (16)مراکش (17) نائیجر (18)نائیجیریا (19) سینیگال (20) سیورالیون (21)صومالیہ (22) تیونس (23) مغربی صحارا۔ براعظم یورپ کے اسلامی ممالک (1) ترکی کا زیادہ تر حصہ براعظم ایشیا میں شامل ہے۔ (2) البانیہ (3)بوسنیا ہرزی گوینیا ()4)کوسووو۔ رقبہ کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اسلامی ملک مالدیپ ہے مالدیپ دنیا کا نواں سب سے چھوٹا ملک بھی ہے آبادی کے لحاظ سے بھی مالدیپ اسلامی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ کودوررس براعظم افریقہ کا سب سے چھوٹا اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ممالک کا پست ترین مقام بحیرہ مردار ہے۔ جو سطح سمندر سے 134فٹ نیچے ہے یہ بحیرہ اردن اسرائیل کے درمیان واقع ہے۔ افریقی ممالک کا پست ترین مقام جھیل آصل ہے جو کہ جبوتی میں واقع ہے یہ مقام سطح سمندر سے 512فٹ نیچے ہے۔ بحیرہ کیسپین وسطی ایشیا میں اسلامی ممالک کا سب سے پست ترین مقام ہے اس کے ساتھ ایران قازقستان آزربائی جان کی سرحدیں ملتی ہیں بحیرہ کیپٹین کا شمار براعظم یورپ میں بھی کیا جاتا ہے بحیرہ کیسپین سطرح سمندر سے 92فٹ نیچے ہے۔ انڈونیشیا میںدنیا اور اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ آتش فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک کا بلند ترین مقام کوہ قراقرک کی پہاڑی چوٹی مائونٹ گڈون آسٹن K.2 پاکستان میں ہے کے ٹو کی بلندی 28250فٹ بلندی ہے عالمی رینکنگ میں اس کا دوسرا نمبر ہے۔ اسلامی ممالک میں باہر سب سے زیادہ کلمہ گو مسلمان بھارت میں ہیں ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا دریا نیل براعظم افریقہ کے مملک سوڈان اور مصر میں بہتا ہے۔ دریائے نیل کو اسلامی ممالک اور براعظم افریقہ ککے اسلامی ممالک کا سب سے بڑا دریا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ صحرائے اعظم دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس کا رقبہ 3.5ملین مربع میل ہے مراکش مغربی الجزائر تیونس لیبیا ‘ مصر موریطانیہ‘ مالی ‘ نائیجر‘ چاڈ ‘ ایتھوپیا ہے اس صحرا میں واقع ہیں بڑا صحرائے عرب بھی اسلامی ممالک ہے اس کا رقبہ 1ملین مربع میل سے زائد ہے سعودی عرب کویت قطر ‘ متحدہ عرب امارات‘ اومان یمن اور عراق کے میں واقع ہے۔ ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں واقع پیٹروناس ٹاور اول اور دوئم دنیا اور سلامی ممالک کی بلند ترین عمارت ہے اس عمارت کی 88منزلیںہیں جبکہ اونچائی 254میٹر ہے۔ اسلامی دنیا کا طویل ترین پل ازمت خلیج ترکی میں واقعی ہے اور اس کی لمبائی 5472فٹ ہے دنیا کا بلند ترین ڈیم ردگون تاجکستان میں دریائے وخش پر واقع ہے اس ڈیم کی بلندی 1099فٹ ہے۔ اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی بجلی گھر 1972ء میں کراچی میں تعمیر کیا گیا ۔ دنیا کی سب سے طویل جہازی نہر سویز مصر میں واقع ہے اس کی لمبائی 100میل چوڑائی 197فٹ گہرائی 24فٹ ہے اس نہر کو فرانسیسی انجینئر نے بنایا تھا۔ متحدہ عرب امارات متحدہ عرب 1971ء میں سات ریاستوں کی فیڈریشن کے بعد وجود میں آیا تھا یہ متحدہ عرب عمارات میں شامل ساتوں ریاستیں مسلمان ہیں۔ جو درج ذیل ہیں(1) ابوظہبی (2) دوبئی (3)شارجہ (4)فوجیرہ (5)راست السخیمہ (6)ام القوائن (7) عجمان مومتمر عالم اسلامی کا قیام 1926میں مکہ میں قائم ہوا مولانا محمد علی جوہر اور سید سلیمان ندوی نے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کی نمائندگی کا شرف حاصل کیا۔ بعد زاں یہ تنظیم گمنام ہو گئی۔ 1949ء میں س کا دوبارہ احیاء کیا گیا۔ اس کا پہلا اجلاس کراچی میں ہوا جس کا افتتاح گورنر جنرل پاکستان خواجہ ناظم الدین نے کیا تھا۔ موجودہ دور میں یہ تنظیم کافی فعال اور موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ بین الاقوامی اسلامی سربراہی کانفرنس (او آئی سی) 21 اگست 1969ء کو یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو نظر آتش کرنے کی ناپاک کوشش کی تو پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں شدید رد عمل پیدا ہوا جبکہ اس واقعے سے پہلے مسلمانان عالم کے مشترکہ مفادات کی نگرانی اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کرنے کے لیے بہت سی اجتماعی کوششیں جاری تھیں اقصیٰ کو نذر آتش کر نے کے واقعہ نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے پرمجبور کر دیا پہلی بار 25 اگست کو مراکش کے شہر رباط میں اسلامی ممالک کی سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد اسلامی ممالک کی سربراہی تنظیم (او آئی سی) کا قیام عمل میں آیا۔ او آئی سی کا سربراہی اجلاس ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے اپنے قیام سے لے کر آج تک اس تنظیم نے مسلمانان عالم کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی او رموثر کوششیں جاری رکھی ہیں۔ اقوام متحدہ پہلی اوردوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے اپنی اپنی قوموں کے دبائو پر من عام برقرار رکھنے اور غریب قوموں کی حالت سنوارنے کے لیے ایک نئی بین الاقوامی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے قیام پر غور ہوا اور بعد ازان ان ممالک نے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام کے سلسلے میں ایک چارٹر پر دستخط کیے یہ کانفرنس 25 وار 26جون 1945ء کو منعقد ہوئی اس کانفرنس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ اقوام متحدہ 24اکتوبر 1945 کو باقاعدہ قائم ہوئی اس بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی 150ارکان تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ اقوام متحدہ کی سرکاری زبانیں انگریزی چینی عربی فرانسیسی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصول (1) بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔ (2) قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر موٹر قانون سازی کرنا تاکہ امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔ (3) انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی سطح پر بلا امتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا۔ (4) انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔ (5) ایک دوسرے کو آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا وار ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔ رکنیت: یو این او کے مقاصد وار منشور سے متفق تمام ممالک کی رکنیت کی درخواست دے سکتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد یہ درخواست جنرل اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے جس کی دو تہائی اکثریت کی منظوری ملنے کے بعد رکنیت حاصل ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 192ہے جبکہ سلامتی کونسل کے 5مستقل ارکان امریکہ روس برطانیہ فرانس اور چین کے پاس حق استرداد ہے۔ ویٹو کا حق رکھنے والا ملک اگر کسی قرارداد کو ویٹو کر دے تو قرارداد پاس نہیں ہو سکتی ہے۔ یواین او کے ذیلی ادارے قوام کے متحدہ کے مقاصد او رمنشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف ذیلی ادارے کام کر رہے ہیںَ چند ادارے اقوام متحدہ کے ڈھانچہ کی تشکیل اور چند ادارے تو اقوام متحدہ کی سماجی و معاشی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف عمل ہیں۔ بنیادی ادارے درج ذیل ہیں۔ (10) جنرل اسمبلی کے تمام رکن ممالک اس فورم ک ممبر ہیں۔ سب ارکان ایک ووٹ کا حق محفوظ رکھتے ہیں مسائل کے حل اور قرارداد کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ (2) سلامتی کونسل : 15ارکان پر مشتمل ہے 5ارکان مستقل اور 10ارکان غیر مستقل ہوتے ہیں ان ارکان کا انتخاب ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔ تمام اہم معاملات کا نوٹس یہی ادارہ لیتا ہے۔ مستقل ارکان ویٹو کا حق رکھتے ہیں۔ (3) معاشی و معاشرتی کونسل: 27منتخب ارکان پر مشتمل یہ ادارہ اپنی ذیلی ایجنسیوں کے ذریعے سائنس تعلیم صحت محنت جیسے مسائل کے حل کے لیے کوشش کرتا ہے اس کے 27ارکان ہوتے ہیں جن میں سے 9ارکان ہر تین سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ (4) تولیتی کونسل: کسی علاقے کی نگرانی کرنے والے اس ادارے میںمستقل ارکان سلامتی کونسل کے علاوہ نامزد ملک کا ممبر بھی ہوتا ہے۔ (5) بین الاقوامی عدالت انصاف: قوموں کے باہمی تنازعات کو نمٹانے کے لیے یہ عدالت ہیگ (ہالینڈ) میں کام کر رہی ہے اس کے رکن ججوں کی تعداد 15ہوتی ہے جس کا انتخاب 9سال کے لیے ہوتا ہے۔ (6) سیکرٹیریٹ: اقوام متحدہ کے انتظامی امور اور ریکارڈ کی نگرانی سیکرٹیریٹ کی ذمہ داری ہیے۔ ااس شعبہ کا سربراہ سیکرٹری جنرل ہوتاہے جو عالمی تنازعات اور مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کرتاہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کاانتخاب پانچ سال کی مدت کے لیے رکن مملک میں سے کیا جاتا ہے۔ موجودہ سیکرٹری جنرل کے فرائض کوفی عنان سر انجام دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (1) بین الاقوامی ترقیاتی انجمن نیویارک (امریکہ) (2) بین الاقوامی تنظیم نیوکلیر توانائی وی آن (آسٹریا) (3) بین الحکومتی مشاورتی کونسل لندن (برطانیہ) (4) عالمی تنظیم موسمیات جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (5) عالمی تنظیم ڈاک برن (سوئٹزرلینڈ) (6) عالمی تجارت تنظیم واشنگٹن (امریکہ) (7) بین الاقوامی ٹیلی کمیونی کیشن یونین جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (8) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ واشنگٹن (امریکہ) (9) بین الاقوامی مالیاتی کمیشن واشنگٹن (امریکہ) (10) بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو (ورلڈبینک) واشنگٹن (امریکہ) (11) بین الاقوامی شہری ہوابازی مانٹریا ل (کینیڈا) (12) عالم تنظیم صحت جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (13) بین الاقوامی تعلیمی سائنس اور ثقافتی تنظیم پیرس (فرانس) (14) غذااور ذراعت کی تنظیم روم (اٹلی) (15) بین الاقوامی مزدور تنظیم جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (16) بین الاقوامی مہاجرین ہائی کمشنر جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (17) بین الاقوامی سیاست تنظیم جنیوا (سوئٹزرلینڈ) (18) بین الاقوامی بچوں کا ہنگامی فنڈ نیویارک (امریکہ) (19) اقوام متحدہ کی یونیورسٹی ٹوکیو (جاپان) (20) بین الاقوامی تنظیم برائے بہبود آباد نیویارک (امریکہ) (21) بین الاقوامی تنظیم صنعتی ترقی ویانا (آسٹریا) (22) بین الاقوامی کمیشن برائے ترقی ایشیا و پیسفک بنکاک (تھائی لینڈ) نوٹ: اقوام متحدہ کے 6ذیلی اداروں کے دفاتر جنیوا سوئٹزرلینڈ میں قائم ہیںَ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سوئٹزرلینڈ اقوام متحدہ کا رکن نہیں ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور ویٹی کن کو اقوام متحدہ کے مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت 25اکتوبر 1971ء کو دی گئی تھی۔ چین کی رکنیت کے بعد تائیوان کی اقوام متحدہ متحدہ سے ممبر شپ ختم کر دی گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل (1) ٹریگوے لی(ناروے) (1968-1896) یکم فروری 1946 تا 10نومبر 1952 2۔ ڈاگ ہیمر شولڈ(سویڈن) (1961-1905) 11اپریل 1953ء تا 17اپریل 1961ء 3۔ یوتھانٹ (میانمر) (1974-1909) 3نومبر 961تا 31 دسمبر 1971 4۔ کرٹ والڈ ہائیم(آسٹریا) 21-12-1918 یکم جنوری 1972تا 31دسمبر 1981ء 5۔ پیریز ڈی کوئیار (پیرو) (19جنوری1920) یکم جنوری 1982ء تا 31دسمبر 1991ء 6۔ بطروس غالی(مصر) 1922ئ یکم جنوری 1992ء تا 31دسمبر 1996ء 8۔ بین کی مون (جنوبی کوریا) یکم جنوری 2007ئ تا حال اقوام متحدہ کے دن Days of UNO اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی دن منانے کا اہتمام کیا جاتاتھا جو مندرجہ ذیل ہیں۔ دن کب منایا جاتا ہے ورلڈ سکائوٹنگ ڈے 22فروری عالمی یوم خواتین 8مارچ عالمی پانی کا دن 22 مارچ عالمی تپ دق کا دن 24مارچ عالمی یوم صحت 7اپریل ورلد ارتھ ڈے 22اپریل محنت کشوں کا عالمی دن یکم مئی عالمی یوم ماحول 5جون انسدا د منشیات 26جون بین الاقوامی امداد باہمی کا دن یکم جولائی عالمی آبادی کا دن 11جولائی عالمی یوم خواندگی 8ستمبر عالمی یوم سیاحت 27ستمبر عالمی یوم سکونت (Habitat) اکتوبر پہلا پیر استادوں کا عالمی دن 5اکتوبر ذہنی صحت کی آگاہی کا دن 10اکتوبر عالمی یوم معیار 14اکتوبر سفید چھڑی کا عالمی دن 15اکتوبر غربت مکائو کا بین الاقوامی دن 17 اکتوبر اقوام متحدہ کا دن 24اکتوبر ذیابیطس کا عالمی دن 13نومبر عالمی یوم بچگان 20نومبر ایڈز کاعالمی دن یکم دسمبر رضاکاروں کا عالمی دن 5دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن 10دسمبر ممالک اور ان کے دارالحکومت ملک دارالحکومت ملک دارالحکومت افغانستان کابل بوسنیا ہرزیگوینیا سراجیو البانیہ ترانہ بوٹسوانہ گیبون الجزائر لجزائر برازیل برازیلیا انڈورا لاویلا برونائی دار لسلام بندر سری انگول لوانڈا بلغاریہ صوفیہ اینٹی گوا باربوڈا سینٹ جونز بروکینا جاسو اوگادوگو ارجن ٹائن بیونس آئرس برما رنگون ٓرمینیا آیوان برونڈی بوجمبورا آسٹریلیا کینبرا کمبوڈی نام پنہہ آسٹریا ویانا کیمرون یوانڈا آذربائیجان باکو کینیڈا اوٹاوہ انٹاریو بھاماس نسائو کیپ ورڈی پرائیا بحرین ال مناما وسطی افریقہ جمہوریہ بنگوئی بنگلہ دیش ڈھاکہ چاڈ این ڈجمینییا باربوڈاس برج ٹائون چلی سان یٹاگو بیلا روس منسک چین بیجنگ بیلجیم برسلز ہانگ کانگ وکٹوریہ ہیلز بیلموپون کولمبیا سانیٹے ڈی بگونا بینن پروٹونووو کوسوروس مورونی بھوٹان تھمپو کانگو باذویلا بولیویا لاپاز کانگو ریپبلک کنساسا کوسٹاریکا سان جوسئے جارجیا طبلیسی کوٹے ڈی آئیوری عابد خن جرمنی برلن کروشیا زغرب گھانا عکرہ کیوبا ہوانا یونان ایتھنز سائپرس نکوسیا گرینیڈا سینٹ جارجز چیک ری پبلک پراگ گوئٹے مالا گوئٹے مالا سٹی ڈنمارک کوپن ہیگن گنی کناکرے جبوتی جبوتی گنی بسائو بسائو ڈومینکا روسو گی آنا جارج ٹائون ڈومینکن ری پبلک سانتو ڈومینگو ہنڈوراس پورٹ اوپرنس مصر قاہرہ ہنگری پورٹ اوپرنس ایکل سلواڈور سان سلواڈور آئس لینڈ ریکجوک گنی(استوائی) مالابو انڈیا دہلی اری ٹیریا آسمارا انڈونیشیا جکارتہ اسٹوینا تالن ایران تہران ایتھوپیا عدیس ابابا عراق بغداد فجی سواوا آئر لینڈ ڈبلن فن لینڈ ھلنسکی اسرائیل یروشلم فرانس پیرس اٹلی روم گیبون لائبرویلا جمیکا کنگسٹن گیمبیا بانجول جاپان ٹوکیو اردن عمان مالدیپ مالے قازقستان الماتا مالی والیٹا کری باتی تاروا مارشل آئی لینڈ ماجورد شمالی کوریا پیانگ یانگ موریطانیہ نوکشوط جنوبی کوریا سئیول ماریشیس پورٹ لوئیس کویت کویت سٹی میکسیکو میکسیکو سٹی کرغیستان بشکیک مائیکرونیشیا پالکیر لائوس وینٹائن مالڈووا کشنیوف لٹویا ریگا مناکو مناکو لبنان بیروت منگولیا اولیون باٹور لیسوتھو میسرو مراکش رباط لائبریا مون رولیا موزمبیق ماپوٹو لیبیا تریپولی نمیبیا وانڈائک لنسٹائن واڈز نائورو یکرن لیتھونیا ویلنویس نیپال کھٹمنڈو لکسمبرگ لکسمبرگ نیدرلینڈ ایمسٹرڈیم مقدونیہ سکویجے نیوزی لینڈ ویلنگٹن مدغاسکر تاناارویو نکاراگوا مانا گوا ملاوی لانگوے نائجیریا ینامے ملائشیا کواللمپور ناورے ابوجا اومان مسقط سینی گال ڈاکر پاکستان اسلام آباد سیچلز وکٹوریہ پلائو کرور سیرالیون فری ٹائون پانامہ پانامہ سٹی سنگاپور سنگاپور پاپوانیوگنی پورٹ مورسپے سلواکیہ برٹسلاوا پیراگوئے اسنیکون سلوانیا کوجبلطجانہ پیرو لیما سولمن آئی لینڈ ہنجرا فلپائن منیلا صومالیہ ماغادیشو پولینڈ وارسا سائوتھ افریقہ پیرٹوریا پرتگال لزبن سپین میڈرڈ قطر دوھا سری لنکا کولمبو رومانیہ بخارسٹ سوڈان خرطوم روس ماسکو سرینام پاراماریبو روانڈا کیگالی سوازی لینڈ مبابنے سینٹ کٹس نیوئس بسٹٹرئیر سویڈن سٹاک ہوم سینٹ لوئیسا کاسٹریز سوئٹزرلینڈ برن سینٹ سینٹ کنگسن ٹائون شام دمشق ساموآ آپیا تائیوان تیپائی سان مرینو سان مرینو فلسطین … سائوٹوم پرنیسپے سائوٹوم تاجکستان دوشنبہ سعودی عرب ریاض تنزانیہ دارالسلام تاجکستان دوشنبہ ازبکستان تاشقند تنزانیہ دارسلام ویٹنوا پورٹ ویلا تھائی لینڈ بنکاک ویٹکن سٹی ویٹکن سٹی ٹوگو لومے وینزویلا کاراکاس ٹونگا نوکائوآلوفا ویت نام ہنوئی ٹرینڈڈڈٹوباگو پورٹ آف سپین مغربی صحارا ایل ایون تیونس تیونس ری پبلک آف یمن صنعا ترکی انقرہ یوگو سلاویہ بلغراد ترکمانستان اشک آباد زیمبیا لوساکا ٹوالائو فن آفیوٹی زمبابوے ہرارے یوگنڈا کمپالا برطانیہ لندن یوکرائن کیف امریکہ واشنگٹن متحدہ عرب امارات ابوظہبی یوراگوئے مونٹی ودیو س: برائے مہربانی بتائیے کہ سفارتکار کون ہوتا ہے؟ ج: اپنے اوردوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کا اہتمام اور انہیںمستحکم کرنے والی شخصیت کو سفارتکار کہتیہیں ایسا شخص دوسرے ملک میں مقیم ہوتا ہے۔ یہ اقتصادی‘ سیاسی‘ بین الاقوامی ‘ ثقافتی‘ تجارتی یا فوجی قسم کے تعلقات سفارتکاروں کے ذریعے دونوںملکوں کے مابین بڑھائے جاتے ہیں سفارتکار ان تمام ممالک کے لیے خصوصی مراعات فراہم کرتے ہیں۔ س: رواں صدی میں سفارتکاروں کے حوالے سے کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں؟ ج: موجودہ صدی میں سفارتکاری بین الاقوامی تعلقات جمہوریت‘ انسانی حقوق کے فروغ‘ جوہری اسلحہ کی تخفیف‘ منڈی کی اقتصادیات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر زوردینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ س: ہنری وائٹن نے سفارت کاری کی کیا تعریف کیا ہے؟ ج: ہنری وائٹن نے لکھا تھا ایک سفیر ایک ایماندار آدمی ہوتا ہے جسے بیرون ملک اپنے ملک کی بہتری کے لیے جھوٹ بولنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ س: ہائی کمشنر اور سفیر کے مابین فرق بتائیے؟ ج: فرق صرف یہ ہے کہ دولت مشترکہ کے رکن ممالک میں کام کرنے والے سفیر کو کئی کمشنر جب کہ دولت مشترکہ کے غیر رکن ممالک میں کام کرنے والے رکن سفیر کو کہتے ہیں جبکہ دونوں کے فرائض کی نوعیت ایک جیسی ہوتی ہے۔ س: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے رہنما اصول کیا ہیں؟ ج: (1) مسلمان غیر جانبدار ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان امت مسلمہ کے مقاصد کے حصول کی حمایت کرتا ہے۔ (2) پاکستان کی آزادی احترام خود مختاری اور ممالک کی علاقائی یک جہتی وار طاقت کا استعمال نہ کرے۔ امن کے قیام اور باہمی فائدے کے لیے دوستی اور تعاون کے اصولوں پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ (3) پاکستان اقوام متحدہ ڈی ایٹ سارک ‘ ایکو غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اسلامی کانفرنس آسیان کے چارٹر پر عمل درآمد کرنے والاملک ہے۔ (4) پاکستان انصاف اور برابری کی بنیاد پر مشتمل ورلڈ آرڈر کا حامی ہے تاکہ اقوام عالم امن سلامتی اور درخشندہ مستقبل کے لیے اپنی توانائیاں وقف کر سکیں۔ 5) اسلامی دنیا کے ساتھ اظہار یک جہتی۔ (6) نو آبادیات اور نسلی امتیاز کے خلاف کوششیں کرنا اور حمایت کرنا۔ (7) امن اور تعاون کی تلاش کرنا جوہری ہتھیاروں کا عام پھیلا تخفیف اسلحہ۔ (8) دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ س: مدار المہام کا کردار کون ادا کرتا ہے؟ ج: ایسا سفیر جسے معاہدے پر دستخطوں کا با اختیار ہے۔ س: اتاشی سے کیا مراد ہے؟ ج: چھوٹا سفارتی عہدیدار دفاع تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کا ذمہ دارہوتاہے۔ س: دو طرفہ معاہدے کے بارے میں آ پ کیا جانتے ہیں؟ ج: دو فریقوں کے باہمی معاہدے جو کثیر معاہدوں کے برعکس اور دو یا د و سے زیادہ فریقین کے مابین طے پاتے ہیں۔ س: چارجڈ دی آفئیر ز کون ہوتا ہے؟ ج: سرکاری شخصیت جو سفیر کی غیر حاضری میں جہاں کوئی سفیر نہ متعین کیا گیا ہو وہاں کام کرتا ہے۔ س: ناقص تسیم کرنا سے کیا مراد ہے؟ ج: ایسا عمل جس میں نئی حکومت یا نئی ریاست کو بطور آزاد ریاست کے تسلیم کیا جاتا ہے۔ س: سفارتکاری کی اصطلاح میں ناپسندیدہ شخص کسے کہا جاتا ہے؟ ج: ایسا سفارتکار جسے میزبان ریاست قبول کرنے سے انکار کر دے۔ س: پروٹوکول کسے کہتے ہیں؟ ج: معاہدے کا اصل مسودہ۔ س: سفارتی شق کیا ہے؟ ج: نمائندوں کی جانب سے دستخط شدہ دستاویز کو رسمی طور پر منظورکرنا دستاویزات کا تبادلے پر موثر ہونا اور اس کے ساتھ حکومتوں کے مابین معاہدہ کی توثیقی دستاویزات کے عمل کو کیا کہتے ہیں؟ ج: توثیق س: اسناد سفارت سے کیا مراد ہے؟ ج: ایسی دستاویز ات جو میزبان ملک کے سربراہ کو ہائی کمشنر یا سفیر کی جانب سے اپنے تقدیر کے کاغذات پیش کرتے ہیں ان دستاویزات میں حکومت خط کی حامل شخصیت کو قابل اعتماد قرار دیتی ہے۔ ملاقاتیں نمبرشمار تاریخ پاکستانی سربراہ بھارتی سربراہ مقام تفصیلات 1 8اپریل1950ء لیاقت علی خان پنڈت جواہر لال نہرو کراچی مہاجرین اور اقلیتوں کے مسائل پر بات چیت ہوئی 2 26اپریل 1950 لیاقت علی خان پنڈت جواہر لال نہرو نئی دہلی مہاجرین اور اقلیتوں کے مسئلے پر لیاقت نہرو پیکٹ کے نام سے معاہدہ 3 16اگست 1953ء محمدعلی بوگرہ پنڈت جواہر لال نہرو نئی دہلی مسئلہ کشمیر عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر اتفاق 4 11ستمبر 1958ء فیرو ز خان نون پنڈت جواہر لال نہرو نئی دہلی متنازعہ معاملات حل کرنے پر اتفاق 5 یکم ستمبر 1960ء ایوب خان پنڈت جواہر لال نہرو نئی دہلی تنازعات کو انصاف کی بنیاد پر حل کرنے پر اتفاق 6 19ستمبر 1960ء ایوب خان پنڈت جواہر لال نہرو کراچی سندھ طاس معاہدہ طے پایا 7 10جنوری 1966 ایوب خان لال بہادر شاستری تاشقند 1965کی جنگ کے بعد پیداہونے والے تنازعات طے کرنے کی غرض سے معاہدہ تاشقند طے پایا۔ 8 2جولائی 1972ء ذوالفقار علی بھٹو اندرا گاندھی شملہ جنگی قیدیوں کا معاملہ طے ہوا سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن قرار دے دیا گیا۔ 9 2نومبر1982ء صدر ضیاء الحق اندراگاندھی نئی دہلی غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ 10 17دسمبر 1985ء صدر ضیاء الحق راجیو گاندھی نئی دہلی ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے پر اتفاق 11 21فروری 1987ء صدر ضیاء الحق راجیو گاندھی جے پور بھارت کی بڑی فوجی مشقوں کے نتیجے میں دونوںممالک کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے میں مدد ملی۔ صدر ضیاء کے اس دورے کو عالمی سطح پر کرکٹ ڈپلومیسی کانام دیا گیا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ 12 30دسمبر 1988ی بے نظیر بھٹو راجیو گاندھی اسلام آباد سارک سربراہی کانفرنس کے موقع پر رسمی ملاقات ہوئی۔ 13 12مئی 1997ء نواز شریف اندر کمار گجرال مالے سارک کانفرنس کے موقع پر رسمی ملاقات۔ 14 23ستمبر 1998 نواز شریف اٹل بہاری واجپائی نیویارک جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر رسمی ملاقات 15 20فروری 1999ء نواز شریف واجپائی لاہور تمام مسائل بشمول مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کے لیے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق ‘ اس ملاقات کے لیے بھارتی وزیر اعظم بذریعہ بس لاہور آئے تھے جس کے بعد باضابطہ لاہور دہلی بس سروس شروع ہوئی۔ 16 جولائی 2001ء پرویز مشرف اٹل بہاری واجپائی آگرہ سربراہی ملاقات 17 6جنوری 2002ء پرویز مشرف اٹل بہاری واجپائی کھٹمنڈو سربراہی کانفرنس کے موقع پر رسمی ملاقات 18 4جنوری 2004ء میر ظفر اللہ خان جمالی اٹل بہاری واجپائی اسلام آباد کشمیر سمیت تمام تنازعات امن طریقے سے حل کرنے پر اتفاق 19 5جنوری 2004ء پرویز مشرف اٹل بہاری واجپائی اسلام آباد بھارت کی طرف سے کشمیر کو تنازعہ مسئلہ تسلیم کیا گیا۔ 20 25ستمبر 2004ء پرویز مشرف منموہن سنگھ نیویارک مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوئی 21 24نومبر 2004ء شوکت عزیز منموہن سنگھ دہلی تنازعہ کشمیر پر گفتگو ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ایف آئی اے؍ اسسٹنٹ ڈائریکٹر؍ انسپکٹر؍ سب انسپکٹر؍ کانسٹیبل ایف آئی اے کے رینکس کانسٹیبل C ہیڈ کانسٹیبل HC اسسٹنٹ سب انسپکٹر ASI سب انسپکٹر SI انسپکٹر I اسسٹنٹ ڈائریکٹر اے ایس پی ‘ ڈی ایس پی ڈپٹی ڈائریکٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس‘ سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس ڈائریکٹر ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈائریکٹر جنرل انسپکٹر جنرل س: وفاقی تحقیقاتی ادارہ (Federal Investigation Agency)کے فرائض بتائیے؟ ج: وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنا۔ بینکنگ سیکٹر اور وفاقی حکومت کے محکموں میں بے ضابطگیوں فراڈ رشوت خوری‘ اور دیگر معاملات کی تحقیق و تفتیش کرنا۔ بیرون ملک جانے والے افراد کے کاغذات کی جانچ پڑتال بیرون ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر سادہ لو ح شہریوں کو لوٹنے والے افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا۔ س: ایف آئی اے کس وفاقی محکمہ کا ماتحت ادارہ ہے؟ ج: وفاقی وزارت داخلہ۔ س: کیا ایف آئی ایکو ایف آر آر درج کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ ج: جی ہاں۔ س: وفاتی تحقیقاتی ادارہ کتنے صوبائی دفاتر ہیں؟ ج: چار (1) پنجاب (لاہور )(2)سندھ (کراچی )(3)سرحد (پشاور ) (4) بلوچستان (کوئٹہ) س: کس وفاقی تحقیقاتی ادارے کو تھانے قائم کرنے کا اختیار حاصل ہے؟ ج: ایف آئی اے س: امیگریشن کائونٹر سے کیا مراد ہے؟ ج: کسی بھی ائیر پورٹ یا سرحدی مقام پر ایسی چوکی جہاں بیرون ملک سے آنے والے اورجانے والے افراد کی سفری دستاویزات پاسپورٹ ویزہ‘ وغیرہ چیک کیے جاتے ہیں۔ امیگریشن کائونٹر کہلاتے ہیں۔ اسی ڈیسک پر کام کرنے والے ملازمین حکومتی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسافروں کے کاغذات چیک کرنے کے علاوہ ہر قسم کی معلومات انہیں فراہم کرتے ہیں۔ س: پاکستا ن میں کون سا ادارہ امیگریشن کے عمل کی نگرانی کرتا ہے؟ ج: ایف آئی اے وفاقی تحقیقاتی ادارہ۔ س: ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL)سے کیا مراد ہے؟ ج: ان افرا د کے نام کی فہرست جن کے بیرون ملک جانے پر حکومت پابندی عائد کرے۔ یعنی وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے علاوہ ازیں اسی میں ان افراد کے نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ جن کے ملک میں داخلے پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ س: پاکستان کون سا دادارہ انسانی سمگلنگ کی انسدا د کا ذمہ دار ہے؟ ج: ایف آئی اے۔ (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) س: کیا ایف آئی اے کے دائرہ کار میں آزاد جموں و کشمیر اور شمالی علاقہ جات بھی شامل ہیں؟ ج: یہ علاقے جزوی طورپر ایف آئی اے کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔ جزوی طور سے مراد ان علاقوںمیں کام کرنے والے وفاقی حکومت کے محکموں کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔ س: کیا ایف آئی اے اخلاقی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟ ج: جی نہیں۔ س: کیا ایف آئی اے کا نظام مرکزی کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک ہے؟ ج: ایف آئی اے کا نظام وفاقی حکومت کے مرکزی کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک ہے۔ یعنی اس محکمے میں ای گورنینس (E.Governence) کے ذریعے بھی کام کر رہی ہے۔ س: ایف آئی اے کے ملازمین کی تعیناتی کے لیے علاقہ بتائیے؟ ج: ایف آئی اے کے ملازمین کو پاکستا ن میں کسی بھی مقام پر اور جگہ پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ س: ایف آئی اے کی وردی کا رنگ بتائیے؟ ج: ایف آئی اے کے ملازمین پینٹ شرٹ اور کیپ استعمال کرتے ہیں شرٹ کا ہلکا نیلا جبکہ پینٹ کا رنگ گہرا نیلا (Navy Blue) ہوتا ہے جبکہ خواتین ملازمین شلوار قمیص اور اوپر گہرے نیلے رنگ کا دوپٹہ اوڑھتی ہیں۔ س: ایف آئی اے کا ہیڈ کوارٹر کس شہر میں واقع ہے؟ ج: اسلام آباد۔ س: گورنمنٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ کا ایڈریس بتائیے؟ ج: (www.pakistan.gov.pk) س: الیکٹرانک گورنمنٹ ڈائریکٹوریٹ کس وزارت کے ماتحت کام کرتا ہے؟ ج: وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن۔ معلومات برائے انٹرویو محکمہ زراعت ؍ انہار س: پاکستان کے سب سے بڑے دریا کا نام بتائیے؟ ج: دریائے سند جس کی لمبائی 2896کلومیٹر ہے۔ س: دریائے جہلم چناب راوی ستلج کی لمبائی بتائیے؟ ج: (1)جہلم 825کلومیٹر (2)چناب 1242کلومیٹر (3)راوی 901کلومیٹر (4)ستلج 1551کلومیٹر س: پاکستان میں کاشتکاری کے کتنے موسم ہیں؟ ج: پاکستان میں کاشتکاری کے دوموسم خریف اور ربیع ہیں۔ خریف کی فصلیں اپریل تا جون اگائی جاتی ہیں۔ اورا ن کی کٹائی اکتوبر تا دسمبر ہوتی ہیںَ ان فصلوں میں چاول ‘ گنا‘ کپاس‘ مکئی ‘باجرہ‘ جوار وغیرہ شامل ہیںَ جبکہ ربیع کی فصلیں اکتوبر تا دسمبر کاشت کی جاتی ہیں اور ان کی کٹائی اپریل تا مئی تک کی جاتی ہے ان فصلوں میں تمباکو ‘ جو اور گندم شامل ہیں۔ س: پاکستان کی اہم نقد آور فصلوں کے نام اور ملکی پیداوار میں ان کا حصہ بتائیے؟ ج: پاکستان کی نقد آور فصلوں میں کپا س‘ گندم ‘ چاول ‘ گنا اور مکئی شامل ہیں فصلوں میں ان کا حصہ 91فی صد اور ملکی پیداوار 34.2فی صد ہے سال 2003-04ء کے دوران گنا کی پروڈکشن 53419ملین ٹن کپاس کی 10048ملین گانٹھ چاول 4848ملین ٹن اورگندم کی پیداوار 19767ملین ٹن تھی۔ گندم کا جی ڈی پی میں 3.4فی صد حصہ ہے۔ س: پاکستان میں ہر سال کتنے ملین ایکڑ فٹ پانی فصلوں کو مہیا کیا جاتا ہے؟ ج: پاکستان میں ہر سال 131.185ملین ایکٹر فٹ پانی فصلوں کو مہیا کیا جاتا ہے جو ضرورت سے 0.1فیصد کم ہے۔ پاکستان کے آبی ذخائر اور ڈیم آبی ذخیرہ و ڈیم نام دریا بلندی فٹوں میں پانی سٹوریج MAF پیداواری صلاحیت سال تکمیل تربیلا ڈیم سندھ 485 9.30 3478MW 1976ء منگلا ڈیم جہلم 380 4.82 1000MW 1966ء وارسک ڈیم کابل 250 0.04 240MW 1960ء چشمہ بیراج سندھ ۔ 0.61 184MW 1971+2001ء غازی بروتھا سندھ ۔ ۔ 1450MW 2003ء باران ڈیم کرم 107 0.03 - 1962ء حب ڈیم حب 151 0.11 - 1983ء خانپور ڈیم حدو 167 0.09 - 1984ء ٹانڈہ ڈیم کوہاٹ توئی 115 0.06 - 1865ء راول ڈیم کرنگ 114 0.04 - 1862ء سملی ڈیم سوان 215 0.02 - 1972ء بی کے ڈی خان پشین 35 0.04 - - حامل جھیل سندھ ۔ 0.75 - - کمچھر جھیل سندھ ۔ 0.32 - - چھوٹاری جھیل سندھ ۔ 0.75 - - سمال ہائیڈلز مختلف دریا - - 99MW - زیر تعمیر آبپاشی کے منصوبے نام منصوبہ صوبہ ایریا تکمیل مدت لاگت (امریکی ڈالر) گومل زیم ڈیم سرحد 163086 جون 2006ء 214ملین گریٹر تھل کینال پنجاب 1534000 جون 2007ء 500ملین رینی کینال سندھ 412000 دسمبر 2007ء 229ملین کچھی کینال بلوچستان 713000 جون 2007ء 535ملین میرانی ڈیم بلوچستان 32200 جون 2006ء 98ملین سبک زئی ڈیم بلوچستان 6680 دسمبر 2005ء 17ملین منگلا ڈیم کی توسیع آزاد کشمیر جون 2007ء 1000ملین ستپارہ ڈیم شمالی علاقہ جات 36 دسمبر2006ء 35ملین نوٹ ان منصوبوں کی تکمیل سے مزید 2.9ملین ایکڑ رقبہ سیراب ہو گا جبکہ 4.44ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور ہو گا۔ س: پاکستان کا رقبہ کتنے ملین ایکڑ پر مشتمل ہے؟ ج: پاکستان کا کل رقبہ 1960ملین ایکڑ پر مشتمل ہے۔ س: پاکستان کا کتنے ملین ایکڑ رقبہ کاشت کاری کے قابل ہے؟ ج: پاکستان کا 71.1ملین ایکڑ رقبہ قابل کاشت ہے۔ س: 71.1ملین ایکڑ رقبے کا کتنے فیصد رقبہ اس وقت زیر کاشت ہے؟ ج: 71.1ملین ایکٹر رقبہ کا کل 54.5فیصد رقبہ س وقت زیر کاشت ہے۔ س: 71.1ملین ایکڑ رقبے میں سے صرف 44.5رقبہ سیراب کیا جاتا ہے۔ س: نہروں کے ذریعے ہر سال کتنے ملین ایکڑ فٹ پانی فصلوں کو سیراب کرتا ہے؟ ج: صرف 106ملین ایکڑ فٹ پانی۔ س: ٹیوب ویل کے ذریعے ہر سال کتنے ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرکے زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے؟ ج: ٹیوب ویل کے ذریعے ہر سال کم از کم 48ملین ایکڑ فٹ (زیر زمین پانی) فصلوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ س: پاکستان کا کتنے ملین ایکڑ رقبہ پانی کی عدم موجودگی کے باعث بنجر اور ویران پڑا ہے؟ ج: 22.5ملین ایکڑ رقبہ پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے بنجر پڑا ہے۔ واضح رہے کہ یہ رقبہ 71.1ملین ایکڑ قابل کاشت رقبہ کا حصہ ہے۔ س: کوٹری بیراج سے ہر سال گرمیوں کے دنوں میں کتنے ملین فٹ پانی سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے؟ ج: ہر سال 8ملین سے لے کر 92ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں پہنچ کا ضائع ہو جاتا ہے۔ س: پاکستان میںبارشیںہر سال فصلوں کو کتنے فیصد پانی فراہم کرتی ہیں؟ ج: بارشیں ہر سال صرف 15فی صد پانی فصلوں کو سیرابی کے لیے فراہم کرتی ہیں۔ خشک سالی کے دنوں میں یہ حد 2فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔ س: گومل زیم ڈیم کی کس مقام اور دریا پر تعمیر جاری ہے اور ڈیم کی تعمیر سے ملکی معیشت اور آبادی کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ج: گومل زیم ڈیم دریائے گومل پر جنوبی وزیرستان کے علاقے میں سطح سمندر سے 443فٹ بلندی پر تعمیر کیا جاتا ہے ۔ 1.13ملین ایکڑ فٹ پانی سٹور کرنے کے علاوہ یہاں سے 17.4میگاواٹ بھی حاصل ہو گی۔کنکریٹ سے ڈیم کی لمبائی 491فٹ ہے۔ اس ڈیم سے ایک نہر نکالنے کا منصوبہ بھی زیر تعمیر ہے۔ اس نہر کی تعمیر سے 132000ایکڑ رقبہ سیراب ہو گا منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 10ارب روپے ہے۔ س: منگلا ڈیم کا اونچا کرنے سے ملک و قوم کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ ج: منگلا ڈیم کی اونچائی 40 فٹ مزید بلند کرنے سے آبی ذخیرے کی گنجائش 7.32ملین ایکڑ فٹ جبکہ بجلی کی پیداواری گنجائش 1000میگا واٹ سے بڑھ کر 1250میگاواٹ ہو جائے گی۔ س: برائے مہربانی بتائیے اگر آپ کو ایک موقع دیا جائے تو آپ زرعی کتابوں کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں گے؟ ج: میں ان کا مطالعہ کروں گا۔ اور ان کو بہتر بنانے کے لیے ان میں پائے جانے والے تضادات نقائص ترامیم‘ تبدیلیوں اورتجاویز پر مشتمل ایک جامع رپورٹ مرتب کروں گا اورآخر میں اسے منظوری حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ حکام کے پاس بھیجوں گا۔ س: ہمارے کسانوں کی اکثریت زراعت کے جدید طریقوں سے واقف نہیں ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ج: جناب عالی وہ تو جدید زرعی طریقوں اورکیڑے مار ادویات کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔ س: کھیت کی پیدوار میں اضافہ کرنے کے لیے سابقہ بنیادی ڈھانچے کو کس طرح مکمل طورپر جدید بنایا جا سکتا ہے؟ ج: زراعت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے ۔ پانی اور بہتر مشینری کی فراہمی کے سلسلے میں نئی مخصوص برآمدات اور نئی منڈیوں کی بھی ضرورت ہے۔ جس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ بڑی فصلوں کی بہتر پیداوار کی راہیں تلاش کرے۔ کسانوں کو آسان اقساط پر چھوٹے زرعی قرضے مہیا کرے۔ بہتر بیج کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ زیادہ خوراک پیدا کرنے کے لیے ٹی وی ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے رغبت دلائی جائے۔ زراعت کو غربت مکائو پروگرام سے وابستہ کیا جائے۔ س: دریائے چناب پر واقع بیراجوں کے نام بتائیے؟ ج: دریائے چناب پر مندرجہ ذی بیراج تعمیر کیے گئے ہیں۔ (1)ہیڈ مرالہ (2) ہیڈ قادر آباد (3) ہیڈ تریموں (4)ہیڈ پنجند س: دریائے راوی پر واقع بیراجوں کے نام بتائیے؟ ج: (1) ہیڈ بلوکی ضلع قصور (2) ہیڈ سندھنائی ضلع خانیوال س: دریائے جہلم پر واقع بیراج کانام بتائیے؟ ج: ہیڈ رسول س: دریائے ستلج پر واقع بیراجوں کے نام بتائیے؟ ج: (1) ہیڈ سلیمانکی (2) ہیڈ اسلام (3)ہیڈ پنجند س: پاکستان رائس بورڈ کب تشکیل پایا؟ ج: پاکستان رائس بورڈ کا قیام فروری 2003ء میں عمل میںآیا۔ س: پاکستان رائس بورڈ کیوں قائم کیا گیا؟ ج: ملک میں چاول کی برآمد بڑھانے چاول کی نمو اور پیداوار بڑھانے کے لیے تحقیقی کام کاآغاز کرنے کے لیے ۔ س: دنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاشی کس ملک میں واقع ہے؟ ج: پاکستان۔ س: سکھر بیراج سے کتنی نہریں نکالیں گئی ہیں؟ ج: سات نہریں۔ س: معاہدہ سند ھ طاس کن دو ممالک کے درمیان طے پایا تھا؟ ج: پاکستان اور بھارت س: معاہدہ سندھ طاس صدر ایوب خان کے دور میں کس سال طے پایا تھا؟ ج: 1960ء س: کس ہیڈ کے مقام پر پانچ دریائوں کا پانی اکٹھا ہوتا ہے؟ ج: ہیڈ پنجند س: برائے مہربانی یہ بتائیے کہ پاکستان پام آئل کس ملک سے حاصل کرتا ہے؟ ج: ملائشیا سے جناب۔ س: پاکستان میں پام آئل کے استعمالات کیا ہیں؟ ج: یہ مارجرین بنانے کے علاوہ صابن موم بتیاں اور لیوبر یکٹنگ گریس بننے کے کام آتا ہے۔ س: سکیسر کوہ نمک کے دامن میں واقع مشہور جھیل کا نام بتائیے؟ ج: اوچھالی جھیل۔ س: پاکستان کی سب سے بڑی قدرتی جھیل کنچھر کس صوبے میں واقع ہے؟ ج: صوبہ سندھ۔ س: بطخوں کے شکار کے لیے مشہور جھیل کا نام بتائیے؟ ج: خوش دل جھیل پشین صوبہ بلوچستان۔ س: کوئٹہ شہر کو کس جھیل سے پانی فراہم کیا جاتا ہے؟ ج: حنا جھیل۔ س: سراند جھیل کس مقام پر واقع ہے؟ ج: کراچی صوبہ سندھ س: کلر کہار جھیل کا موجودہ نام بتائیے؟ ج: کینتھر جھیل یہ جھیل موٹر وے کے عین اوپر واقع ہے۔ س: نمل جھیل پنجاب کے کس ضلع میں واقع ہے؟ ج: نمل جھیل ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ س: صوبہ سرحد کے دریائوں کے نام بتائیے؟ ج: (1)دریائے کابل: یہ دریا افغانستان کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور اٹک کے مقام پر دریائے سند ھ میں آ کر مل جاتا ہے۔ (2)دریائے سوات: یہ دریا کوہستان سوات کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور پشاور کے قریب دریائے کابل میں گر جاتا ہے۔ (3)دریائے چترال : یہ دریابھی کوہ ہندو کش کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور پشاور کے قریب دریائے کابل میں ملتا ہے۔ (4)دریائے پنجگورا: یہ دریائے سوات کا معاون دریا ہے۔ (5) دریائے باڑا: یہ دریا تیرہ کی پہاڑیوں سے نکلتاہے اور دریائے کابل سے مل جاتا ہے۔ (6) دریائے کرم : یہ کوہ سفید سے نکلتا ہے اور دریائے سندھ میں آ کر گرتا ہے۔ (7) دریائے گومل: یہ افغانستان کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ (8) دریائے ژوب: یہ بلوچستان کے علاقہ سے نکلتا ہے اور دریائے سندھ سے ملتا ہے۔ س: صوبہ بلوچستان کے دریائوں کے نام بتائیے؟ ج: (1) دریائے بولان: یہ دریا کول پور سے نکلتا ہے لیکن جلد ہی ختم ہو جاتا ہے اور آب گم کے مقام پر زیر زمین چلا جاتا ہے۔ پھر یہ بابی نانی کے مقام پر نمودار ہوتاہے اور سارا وان ندی سے مل جاتا ہے۔ (2) دریائے ناری: یہ دریا کچھی اور سبی کے ضلعوں میں بہتا ہے اور دریائے بوستان میں مل جاتا ہے۔ (3) دریائے پشین لورا: یہ دریا ٹو بہ کہار کے کوہستان سے نکلتا ہے اور ساراون ندی میں مل کر کوئٹہ کے ضلع میں بہتا ہے۔ (4) دریائے مولا : یہ جھالا وان ضلع اور کچھی میں بہتا ہے۔ (5) دریائے ہنگول: یہ بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے جو 358میل لمبا ہے اور بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ (6) دریائے رکشاں: یہ دریا مکران کے سلسلہ کوہ سے نکلتا ہے اور بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ س: صوبہ سندھ کے دریائوں کے نام بتائیے: ج: (1) صوبہ سند ھ میں دریائے ہب ایک اہم ندی ہے جو سال بھر بہتی ہے یہ پب کے پہاڑی سلسلے سے نکلتی ہے اور بحیرہ عرب میں جا کرگرتی ہے۔ (2) دریائے باران: یہ کیرتھار کے پہاڑی سلسلے سے نکلتی ہے اور دریائے سندھ سے مل جاتی ہے۔ (3) ملیر ندی: یہ ایک موسمی ندی ہے جو کراچی کے قریب گزری کریک میں بہتی ہے۔ (4)لیاری ندی: یہ ضلع کراچی میںبہتی ہے اور کیماری کے مقام پر بحیرہ عرب میں گرجاتی ہے۔ معلومات برائے انٹرویو ماہر حیاتیات؍ کیمیا؍ فزکس؍ ڈاکٹر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن؍ سائنسی ریسرچ سنٹرز ؍ پاکستان سیڈ کارپوریشن ؍ لائیو سٹاک؍ فارماسسٹ ؍ پیسٹی سائیڈ مسلمان سائنس دان ابو القاسم مسلمہ بن احمد المجریطی: علم ہندسیہ فلکیات اور دیگر ریاضیاتی علوم کو ماہر تھا۔ اس نے ریاضی المعاملات کے نام سے پہلی تجارتی کتاب لکھی۔ ابوبکر محمد بن حسن الحاسب الکرخی: اس نے الجبرے میں دو درجی مساوات کے دونوں حل نکالنے کا مکمل کلیہ مع ثبوت کے پیش کرنے کے علاوہ مقاد پر اصم کی جمع و تفریق کے طریقے معلوم کیے۔ اس نے دو کتابیں ’’کتاب الفخری‘‘ اور ’’الکافی فی الحساب‘‘ تحریر کیں۔ ابو علی الحسن بن عبداللہ بن سینا(ابن سینا): قانون فی الطب اور الشفا ء جیسی غیر معمولی کتابوں کا مصنف جس نے متحرک پیمانے کی طرح ایک آلاتی ایجاد کیا تاکہ آلا کی اندراج صحت سے ہوں۔ اس نے حرکت اتصال قوت خلا لا نسیایت ‘ نور اور حرارت کا مطالعہ کیا۔ وزن پر بحث اور فن طب جداحت میں امام کی حیثیت کے حامل ہیںَ ان کی کتابوں کا ترجمہ لاطینی ‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ علامہ تفضل حسین خان وفات 1800ئ: سیالکوٹ کے جید عالم اور ریاضی دان تھے۔ ان کی مشہور تصنیفات کے نام رسالہ مخرور طاعت اور کتاب فی الجبر ہیں۔ یعقوب الکندی: اصل وجہ شہرت طب ہے جبکہ وہ علم ریاضیات کا بھی ماہر تھا۔ ریاضیات کے متعلق اس کی رائے تھی کہ اس علم کے فلسفہ کے بغیر کو اچھی طرح سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ثابت بن قرہ: موسیٰ خورازمی کا ہونہار شاگرد جس نے ریاضی می جیومیٹری کی بعض اشکال کے متعلق ایسے مسائل اور کلیات دریافت کیے جو اس سے پہلے معلوم نہ تھے ۔ علم اعداد میں اس نے موافق عددوں کے متعلق مختلف کلیوں کا استعمال کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ وہ پچاس کتابوں کا مصنف تھا۔ ایک کتاب مختصر فی علم الہیۃ و کتاب المفروضات حیدر آباد دکن سے شائع ہوئی۔ اببوبکر رازی: اس نے پہلی بار ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زمین کی شکل ’’کروی‘‘ اور اس کے دو محیط ہیں جن کے گرد زمین گردش کرتی ہے۔ سورج زمین سے بڑا اور چاند چھوٹا ہے۔ عمر خیام: 1039ء تا 1124ء ریاضی دان منجم اور شاعر ہے رباعیات کے حوالے سے مشہور شاعر نے اصفہان میں ایک رصد گاہ تعمیر کی۔ جہاںاس نے سب سے زیادہ مشاہدات شمسی سال کے حوالے سے کیے۔ اس کی تحقیقات کے مطابق شمسی سال کی پیمائش 365دن 5گھنٹے 49منٹ تھی ۔ موجودہ زمانے کی پیمائز اوراس کی پیمائش میں صرف 11.3سیکنڈ کا فرق پایا جاتا ہے۔ مر خیام نے ایک زیج بھی مرتب کی علاوہ ازیں کتاب الجبر و المقابلہ لکھ کر موسیٰ خوارزمی کی غلطیوں کی نشاندہی کی۔ اس کی تصانیف میں رسالہ مکعبات رسالہ شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس اور میزان الحکمت شامل ہیں۔ یعقوب الفرازی: خلیفہ المنصور کے دربار کا ہئیت دان سب سے پہلے مسلمانوں میں اصطرلاب تیار کیا۔ اس موضوع پر ان کی کتاب کا نام العمل بالاصطراب التسطیح ہے۔ دوسری مشہور کتاب کا نام سند الہند الکبیر ہے۔ موسیٰ بن شاکر: خلیفہ مامون رشید کا درباری وہ اور اس کی اولاد علم ریاضیات کے امام ہیں۔ بنو موسیٰ شاکر نے مراکز اثقال ہندسہ‘ مساحت‘ مخروطات‘ آلات حربیہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ ان کی ایک مشہو رکتاب کتاب قسمتہ الزاویہ الی ثلاۃ اقسام مشاوریۃ کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ محمد بن موسیٰ الخوارز می: خلیفہ مامون الرشید کا مصاحب س نے علم ریاضیات میں الجبر ا کو الگ وار مستقل حیثیت دینے کے علاوہ صفر کا ہندسہ ایجاد کی۔ اس لیے موسیٰ الخوارزمی کو کمپیوٹر کا بنی بھی کہاجاتا ہے۔ گنتی کا موجودہ طریقہ موسیٰ خوارزمی کا کارنامہ ہے۔ خوارزمی کی مشہور کتاب المختصر من حساب و الجبر و المقابلہ ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں 1831ء میں شائع ہوا۔ محمد احمد بن ابوریحان البیرونی 973ء تا 1048ئ: ریاضی دان و ماہر فلکیات البرونی نے معدنیاتی نمونے جمع کر کے ان کے مختلف اجزاء (اشیائ) کو الگ الگ تول کر اوزان مخصوصہ کے نقشے تیار کیے جو آج تک رائج ہیں۔ قانون مسعودی مشہو رعالم کتاب ہے محیط اراضی کی مقدار ناپنے یا نکالنے اور دریایا زمین کی گہرائی ناپنے کا طیرقہ ایجاد کیا۔ کتاب التفہیم الادائل صنا ۃ السجیم حساب ہندسہ بیت عالم ادراحکام نجوم پر مشتمل ہے۔ حسن الحسن بن الہیثم 965ء تا 1043ء : طبیب و ماہر فلکیات ابن الہیثم نے قوس قزح پر تحقیق کی۔ موضوع بصریات پر دنیا کی پہلی کتاب المناظر بھی تحریر کی تھی۔ جس میں اس نے ثابت کیا تھا کہ نگہ آنکھ سے نکل کر دوسری چیزوں پر نہیںپڑتی ہے جبکہ خارجی چیزوں کا عکس آنکھ کے تل پر پڑتا ہے جسے دماغ کا ایک پٹھا محسوس کرتا ہے۔ اس نے رنگ اور روشنی کے انتشار اور انعکاس نور پر بھی بحث کی ہے۔ علم ہئیت و میکانیات پر اس نے 44رسالے تصنیف کیے۔ البستانی: سورج کے اوج مدار کے حرکت کا انکشاف کیا۔ چاند اورستاروں کی حرکات کی تصحیح کی۔ اسی نے علم مثلثات کے تناسبات کے متعلق اولین تصورات رائج کیے۔ جواب تک مستعمل ہیں۔ البستانی کی مشہور کتاب الزیح الصابی کا ترجمہ اطالوی محقق ینلینو کارلو الفانسو 1872ء تا 1938ء نے کیا تھا۔ ابو الوفابوز جانی: ابو الوفا نے قمر (چاند) کے ثانوی اختلافات کا پتہ چلایا ۔ چاند کی تیسری حالت (انحراف) کا انکشا ف بھی اسی نے کیا تھا۔ علم ہندسہ اور جبر و مقابلہ میں اس کی تصانیف کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ا س کی تصانیف میں منازل فی الحساب تفسیر دیو قنطس فی الجبر خوارزمی کی کتاب الجبر و المقابلہ کی شرح نور کتاب فیما یحتاج الیہہ العناع من اعمال الہیہ اور کتاب المسعطی شامل ہیں۔ مسلمان سائنسدانوں کا عہد زریں: 1۔ عبدالرحمان صوفی دور خلافت عباسیہ: عبدالرحمان نے ستاروں کی روشنی سنجی میں اصطلاح کی۔ 2۔ ابن یونس دور خلاف عباسیہ: ابن یونس نے آونگ (رقاصہ ساعت) پینڈولم ایجاد کیا۔ اور اس کے جھولنے سے وقت کی پیمائش ک۔ 3۔ فاطمی خلافت: مصر کے زمانے میں قاہرہ کے کتب خانے میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیںَ جن میں سے چھ ہزارصرف ریاضیات فلکیات اور طبیعیات سے متعلق تھیں۔ 4۔ اشبیلیہ کا مینار جیرالد : (The Giralad)عظیم ریاضی دان جابر بن افلح کی زیر نگرانی فلکی مشاہدات کے لیے 1190ء میں تعمیر کیا گیا۔ بہاء الدین العاملی 1031ہجری: دسویں صدی ہجری کا آخری ریاضی دا ن معلم جس نے جبر و مقابلہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:(1)رسالہ جہتہ القبلہ (2) بحر الحساب (3) خلاصتہ الحساب (4)تشریح الافلاک۔ محمود پاشا الفلکی وفات 1885ئ: مصری عالم جس نے پیرس جا کر علوم ریاضیہ حاصل کیے ان کی مشہور کتاب نتائج الافہام فی تقویم العرب قبل اسلام و تحقیق مولد النبی و عمر علیہ الصلوۃ والسلام ہے اس کے علاوہ انہوںنے التفاویم الاسلامیہ والا سرائیلیہ حساب التفامیل و لتکمل کے نما سے کتابیں لکھی تھیں۔ وجیہ الدین علوی (1589)اور نور اللہ مشوستری (1610)انہوںنے قاضی رادہ رومی کی شرح الپغمینی پر حواش لکھے تھے۔ میر ہاشم جیلانی 1560ئ: انہوںنے محقق طوسی کی کتاب اصول الہندسہ والحساب کی شرح لکھی تھی۔ عصمت اللہ بن عظمت اللہ سہارن پوری 1678ئ: اپنے عہد کے نامور ریاضی داؤن جنہوںنے انوار خلاصتہ الحساب شرح تشریح الافلاک اور ضابطہ قواعد الحساب جیسی معرکتہ الآرا کتاب تصنیف کیں۔ لطف اللہ المہندس بن استاد احمد معمار 1681ء : لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی اور تاج محل آگرہ تعمیر کرنے والے استاد کا بیٹا لطف اللہ نامور مہندس تھا۔ اس نے خلاصتہ الحساب کی شرح لکھی۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ امام الدین بن لطف اللہ مہندس: 1733ء انہوںنے حاشیہ علی شرح خلاصتہ الحساب التصریح فی شرح تشریح الافلاک اور شرح حاشیہ چغمینی جیسی کتابیں تحریر کی تھیں۔ ابو عبداللہ محمد بن حسن طوسی: نامور عالم ہئیت دان‘ ریاضی دان‘ ماہر طبیعیات‘ علم اخلاق ‘ موسیقی اور علوم حکمیہ کا ماہر تھا۔ اس کی فرمائش پر ہلاکو خان نے رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ 30 سے زیادہ تصانیف کا مصنف تھا۔ جن میں سے قابل ذکر درج ذیل کتب ہیں۔ (1) تحریر اقلیدس فی اصول الہندسہ والحساب (2) تحریر المسجطی (3) التذکرہ فی الہیت طوسی (4) جامع الحساب فی التخت و التراب (5) الجبر و الاختیار (6) رسائل الخواجہ طوسی (7) زیج الیخانی (8) کتاب الشکل القطاع علم المثلثات۔ قطب الدین شیرازی: علوم عقلیہ اور نقلیہ کا ماہر سائنسدان تھا بے شمار کتابوں کا مصنف ہے۔ اس نے فلکیات ‘ ارضیات‘ سمندروں‘ فضا میکانیات اور بصریات پر بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں کائنات ساکن اور مرکز کائنات ہے۔ قوس قزح پر بھی اس نے کھل کر بحث کی ۔ اس کی کتابوں میں اختیارات المظفر ی کتاب المشاء شامل ہیں۔ کمال الدین الفارسی: قطب الدین شیرازی کا شاگرد جس نے ہالہ قمر اور قوس قزح کے بارے میں اپنے استاد کے نظریات کو جھٹلایا اور ابن الہیثم کی کتاب المناظر کی شرح تنقیع المناظر الذوی الابصار د البصائر کے نام تصنیف کی۔ محمد بن محمد چغمینی: علم ریاضی پر مشہور کتاب الخلص فی الہیتہ کے نام سے لکھی۔ جس کا اردو ترجمہ لکھنو میں شائع ہوا تھا۔ نظام شمسی ستاروں کہکشائوں سیاروں اور چاندوں سے بھری کائنات جس کی وسعتوں کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے انسانی تحقیق کا ایسا راز ہے جس کے متعلق ہر کس و ناکس جاننا چاہتے ہیں۔ کائنات کیا ہے؟ یہ کیسے وجودمیں آئی؟ اس کے متعلق بہت سے نظریے موجود ہیںَ کائنات کی وسعت کے متعلق سب سے زیادہ پرکشش اور خوبصورت نظریہ کو عظیم دھماکہ (Big Bang)کہاجاتا ہے۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق کائنات 15ہزار ملین سال قبل وجو دمیںآئی تھی۔ آغازمیں کائنات محض ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کا مجموعہ تھی ناسا کے مطابق کائنات پانچ ہزار سال قبل وجو د میں آئی ۔ سائنسی تحقیقی بتاتی ہے کہ ابتدا میں کسی قسم کے ستاروں یا سیاروں کا وجود نہ تھا سورج تقریباً ساڑھے چھ ارب سال قبل نمودار ہواجس کے بعد سیارے تشکیل پانا شروع ہو ئے۔ سیاروں کی تشکیل کا یہ عمل تاحال جاری ہے بگ بینگ تھیوری کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں توسیع کا عمل مسلسل جاری ہے۔ اس تھیوری کے مطابق کائنات کے بعد جب کہکشائیں وجود میں آئیں تو ان کا درمیانی فاصلہ بہت کم تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہکشائوں کے جھرمٹوں میں خلا پھیلتا چلا گیا اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو گئے۔ سائنس دانوں کے مطابق 15ہزار ارب سال قبل کائنات کی کوئی شکل نہ تھی۔ بلکہ وہ ایک واحد نقطہ تھا جو اپنے اندر آج کی تمام کائنات کی وسعتوں کو سمیٹے ہوئے تھا۔ اور جب یہ نقطہ پھٹا تو یہ کائنات وجود میں آئی۔ نظام شمسی سور ج کے گرد چکر کاٹنے والے سیاروں اور سورج کو نظام شمسی کہا جاتاہے۔ سورج بنیادی طورپر ستارہ ہے جو چمکتا ہے جبکہ اس کے گر د گھومنے والا سیارہ بذات خود نہیں چمکتا ہے۔ بلکہ وہ سورج اور چاند کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ سورج کے گرد گھومنے والے سیاروں کی تعداد نو ہے۔ جن میں زمین بھی شامل ہے۔ زمین واحد سیارہ ہے جس پر زندگی کا وجود ہے۔ سورج سے فاصلے کے اعتبار سے نظام شمسی میں سیاروں کی ترتیب اس طرح ہے (1)عطارد (2) زہرہ (3)زمین (4)مریخ (5) مشتری (6)زحل (7)یورینس (8)نیپچون (9) پلوٹو۔ سورج سورج (Sun) نظام شمسی میں شامل ستارہ سورج دوسرے ستاروں کی طرح گرم ترین گیسوں کا مجموعہ ہے۔ جن سے ہر وقت حرارت اور روشنی کا اخراج ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سورج کے درجہ حرارت کی بنیادی وجہ اس کی درمیانی سطح میں جوہری دھماکوں کا مسلسل عمل ہے۔ سورج کا درجہ حرارت 20ملین ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ سطح میں اوسط درجہ حرارت 6000 سینٹی گریڈ یا 1100فارن ہائیٹ قطر 885400میل جبکہ اس کا رقبہ زمین سے 1200گنا زیادہ ہے۔ سورج سے حرارت کا خراج ہائیڈروجن گیس کی شکل میں ہوتا ہے اور یہ اخراج آئندہ 5ارب سال تک مسلسل جاری رہے گا۔ چاند سائنسدانوں کے ایک نظریہ کے مطابق چاند زمین سے الگ ہونے والا ایک ٹکڑا ہے جو مدار میں موجود ہے جس طرح زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے اسی طرح چاند زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ جیسا کہ سورج کی روشنی سے زمین چمکتی ہے۔ بالکل اسی طرح چاند بھی اس کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ چاند پر چمکنے والی روشنی زمین سے منعکس ہو کر چاند تک پہنچ کر دوبارہ زمین کا رخ کرتی ہے۔ اور چاند چمکنے لگتا ہے۔ زمین کا ایک چاند ہے۔ عطارد 36000000میل‘ 57.9ملین کلومیٹر کے فاصلے پر موجود یہ سیارہ سورج کا قریب ترین ہمسایہ ہے ۔ 30میل فی سیکنڈ کے حساب سے یہ سورج کے گرد اپنی گردش مکمل کرتا ہے۔ عطارد کی محوری گردش بھی تقریباً 88 دنوں پر محیط ہے۔ عطارد کے ایک حصے پر روشنی مسلسل پڑتی ہے جبکہ ایک حصہ روشنی سے محروم ہو کر تاریکی کا شکار رہتا ہے۔ روشن حصے کا درجہ حرارت 510سینٹی گریڈ 950فارن ہائیٹ اور تاریک حصے کا درجہ حرارت 210سینٹی گریڈ اور 346فارن ہائیٹ ہے۔ استوائی قطر تین ہزار میل 4880کلومیٹر ہے۔ اس سیارے کا چاند نہیں ہے۔ زہرہ زمین کا قریب ترین ہمسایہ اور سورج کے قریب دوسرا سیارہ ہے۔ زہرہ کے اردگرد ہلکے بادلوں کی تہہ پائی جاتی ہے۔ اس کا سورج سے فاصلہ 67000000میل 108.2ملین کلومیٹر ہے۔ زہرہ کا سورج کے گرد چکر 224.7دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اس کا قطر 7700میل ہے اور کمیت زمین کی نسبت 83گنا کم ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت 800فارئن ہائیٹ اور ہوا کا دبائو زمین کی نسبت 94.5گنا زیادہ ہے۔ اس کی فضائی ساخت میں 96%کاربن ڈائی آکسائیڈ 4%نائیٹروجن اور سلفر پائی جاتی ہے۔ اس سیارہ کا کوئی چاند نہیں ہے۔ زمین زمین سورج سے 93000000میل 149.6ملین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نظام شمسی میں زمین سورج کا تیسرا قریب ترین سیارہ ہے۔ زمین کا کل رقبہ 196.83ملین مربع میل یا 510072مربع کلومیٹر ہے۔ زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ے۔ اس کا یہ چکر چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہوتاہے۔ سورج کے گرد زمین کا چکر ایک سال یعنی 365دن 6گھنٹوں اور 9.54سیکنڈ میں مکمل ہوتاہے ۔ زمین سے چاند کا فاصلہ 2388875میل ہے زمین کے اردگرد 106میل کی بلندی تک ہوا کی ہلکی لہر کو کرہ ہوائی کہتے ہیں جبکہ زمین کا قطر 12785کلومیٹرہے۔ زمین کا ایک چاند ہے۔ مریخ فاصلے کے اعتبار سے مریخ سورج کا چوتھا قریب ترین سیارہ ہے۔ اس کا سورج سے فاصلہ 227.9کلومیٹر ہے۔ مریح سورج کے گرد ایک چکر 687دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ اس کی فضا زمین کے بعد تمام سیاروں سے انتہائی مناسب ہے۔ اس سیارہ کا درج ہ حرارت دن کو 17فارن ہائیٹ اوررات کو 13فارن ہائیٹ ہوتا ہے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اس سیارہ پر کسی جاندار کا پایا جانا ناممکن ہے۔ مئی 2003ء کے دوران امریکی سیٹلائیٹ نے مریخ کی کچھ تصاویر ارسال کیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ پر پانی تو موجود ہے۔ لیکن ابھی یہ پتہ نہیںچل سکا کہ آکسیجن کیوںنہیں ہے؟ مریخ کے دونوں کنارے برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ مریخ کی کشش ثقل زمین کے مقابلے میں 38.2فی صد زیادہ جبکہ ہوا کا دبائو میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب دیگر گیسوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ مریخ کا استوائی قطر 6744کلومیٹر ہے۔ مریخ کے دو چھوٹے چھوٹے چاند ہیں۔ مشتری فاصلے کے اعتبار سے مشتری سورج سے دور پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے۔ مشتری کا قطر 88700میل 7783کلومیٹرہ۔ اس کی ساخت میں ہائیڈروجن اور ہیلئم گیس بالترتیب 89% اور 11%کے تناسب سے شامل ہے۔ سورج سے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود مشتری رات کے اندھیرے میں نسبتاً زیادہ چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ مشتری کی محوری گردش 9گھنٹے 55منٹ جبکہ سورج کے گرد اپنا چکر 12سالوں میں مکمل کرتاہے۔ مشتری کے 16ذیلی سیارچے یعنی 16 چاند ہیں۔ جن میں4بڑے اور 12چھوٹے چاند ہیں۔ زحل فاصلے کے اعتبار سے سورج سے دور یہ چھٹا اور قطر کے لحاظ سے نظام شمسی کا دوسرا بڑ ا سیارہ ہے۔ سورج سے س کا فاصلہ 886100000میل یعنی 1427.0ملین کلومیٹر ہے ۔ اس کا استوائی قطر 74978میل اور کمیت زمین کی نسبت 95گنا زیادہ ہے۔ یہ اپنا محوری چکر دس گھنٹے 39منٹ اور 24سیکنڈ میں پورا کرتا ہے۔ اس کی ساخت میں 80%ہائیڈروجن اور 20فیصد ہیلئم گیس پائی جاتی ہے۔ اس کا قطر 3200میل ہے زحل کے دس چاند ہیں جن میں سے ایک بڑا اور 9چھوٹے چاند ہیں۔ یورینس فاصلے کے اعتبار سے سورج سے دور ساتواں سیارہ ہے۔ سورج سے اس کا فصلہ 2869ملین کلومیٹر ہے یہ 84برسوں میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ بناوٹ میں مشتری زحل سے کافی قریب ہے یہ اپنا محوری چکر ایک دن دس گھنٹے اور 40منٹ میں مکمل کرتاہے۔ اس کا قطر 52810کلومیٹر ہے۔ یوں تو اس کے 20طفیلی سیارچے ہیں لیکن تصدیق شدہ چاندوں کی تعداد 18 ہے۔ نیپچون فاصلے کے اعتبارسے سورج سے دورآٹھواں سیارہ ہے۔ یہ سورج سے 4.5ملین کلومیٹر دو رواقع ہے۔ یہ سورج کے گرد اپنا چکر 165سال میں مکمل کرتا ہے۔ اس کا درجہ حرارت منفی 360فارن ہائیٹ ہے۔ جبکہ اس کا قطر 30775میل ہے۔ اس کے طفیلی سیارچے یعنی چاند ہیں ۔ نیپچون کی فضا میں ہائیڈروجن کے ایک بہت بڑے بادل کے متعلق معلومات حاصل کی جا چکی ہیں۔ پلوٹو فاصلے کے اعتبار سے یہ نظام شمسی میں سورج سے سب سے دور واقع ہے۔ اس سیارے کے متعلق معلومات بہت کم ہیں۔ سورج سے اس کا فاصلہ 3666ملین میل ہے ۔ یہ 2477سال مین سورج کے گرد چکر مکمل کرتاہے۔ اس کی سطح کادرجہ حرارت منفی 200سنٹی گریڈ ہے۔ پلوٹو کا قطر 2200کلومیٹر ہے۔ اس سیارے کا ایک چاند ہے۔ انسانی جسم انسانی جسم کا درجہ حرارت 98.6درجہ فارن ہائیٹ انسانی خون کے گروپ گروپ اے A+A-=A= گروپ بی B+B=B= گروپ اے بی AB+AB-=AB= گروپ او O+O-=O= انسانی جسم کا طاقت ور عضو دل انسانی جسم میں موجود ہڈیوں کی تعداد 206 انسانی جسم کی کمزور ترین ہڈی ہنسلی کی ہڈی انسانی دل کا وزن 8سے 10اونس انسانی دماغ کا وزن تقریباً ڈیڑھ کلو گرام انسانی ریڑھ کی ہڈی کی مہروں کی تعداد 33 انسانی جسم میں موجود خلیوں کی تعداد 75کھرب انسانی جسم میں کروموسومز کی تعداد 23کروموسومز ہوولوگس 22کروموسومز آٹو سوم اور ایک جوڑا جنسی کروموسومز کا ہوتا ہے ایک خلیہ میں جینز کی تعداد 30ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ جینز جین میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی تعداد 4ہزار جین میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی اہم بیماریاں کینسر کی 200اقسام‘ شوگر‘ دمہ ‘ پارکنسن‘ اینما ‘ ہیموفیلیا‘ دل کی بیماریاں‘ شیروفرینیا‘ گھنٹیا وغیرہ۔ حلق کی لمبائی 9انچ طویل جگر کا وزن 3سے4پونڈ انسانی جسم کا سب سے بڑا غدود جگر بڑی آنت کی لمبائی 6فٹ انسانی گردے کا وزن 56گرام گردے کی لمبائی 10سینٹی میٹر گردے کی چوڑائی 5سینٹی میٹر گردے کی موٹائی 2.5سینٹی میٹر ٭٭٭ انسانی جسم سے متعلق سائنسی علم کی اہم شاخوں کا مختصر تعارف جنیٹکس علم حیاتیات کی وہ شاخ جو نسلوں کے کردار اور (Heredity)میں ہونے والی تبدیلیوں (Vanition)کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ عمل وراثت اولاد میں والدین سے منتقل ہونے والی خصوصیات کے عمل کو وراثت کہتے ہیں۔ کروموسوم خلیے (Cells) کے انتہائی اہم اجزا ہوتے ہیں جو کہ طبعی طور پر وراثتی تبدیلی کے حامل ہوتے ہیں کروموسومز خلیے کے نیوکلیس میں پائے جاتے ہیں۔ جین ہر کروموسومز بنیادی طور پر 2نامیاتی مرکبات پروٹین اور نیوکلیک ایسڈ سے بنتے ہیں۔ ڈی آکسائیڈ نیوکلیک ایسڈ (Deoxyside Nuclic Acid) اگلی نسلوں تک صرف نیکوکلیک ایسڈ منتقل ہوتا ہے۔ جینو ٹائپ ہر جاندار میں کسی معصومیت کی جنیاتی بنیاد کو جینو ٹائپ کہتے ہیں۔ فینو ٹائپ جانداروں کی ظاہری خصوصیات کے مطالعہ اور ان پر بحث کے علم کو فینو ٹائپ کہتے ہیں ۔ جنسی کروموسومز ان کروموسومز کی مد د سے جاندار کی جنس کا تعین کیا جائے جنسی کروموسومز کہلاتے ہیںَ جنسی کروموسومز میں مادہ XXاور نر میں XYکروموسومز ہوتے ہیں۔ سپرم نر سپرم کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ Xکروموسومز والے سپرم Yکروموسومز والے سپرم انہی کروموسومز کے ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ سے نر اور مادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ الیل وہ جینز جو متضاد خاصیت کے حامل جوڑے کو کنٹرول کرے۔ جنیٹک انجینئرنگ ایک خاص عمل کے ذریعے کسی جاندار کے مخصوص جین بیکٹیریا کے اندر داخل کیا جائے اور بعدازاں بیکٹیریا بیرونی جین سے ملنے والی ہدایات کے مطابق مواد پیدا کرے۔ انجینئرنگ کی وجہ سے ہی جانداروں کی کلوننگ ممکن ہوئی ہے۔ یہ جنیٹک انجینئرنگ کا کمال ہے۔ انسانی جسم کے اندر پائے جانے والے مختلف نظام انسانی جسم قدرت کی شاہکاری کا سب سے اعلیٰ و ارفع نمونہ ہے۔ انسان کرہ ارض پر موجود واحد جاندار ہے جو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ اس کی یہی خوبی ہے کہ قدر ت نے اس کا جسمانی نظام دنیا کے دیگر جانوروں سے یکسر مختلف بنایا ہے۔ انسانی جسم کے ڈھانچے اور اس کے اعصابی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے جسم کے اندر مختلف نظام بیک وقت کام کرتے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔ (1)جسمانی ہڈیوں کا نظام (2)نظام اعصاب (3) سانس لینے کا نظام (4) عضلاتی نظام (5) نظام دوران خون (6) نظام انہضام (7)نظام اخراج جسمانی ہڈیوں کا نظام انسانی جسم میں توازن برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہڈیوں کے ڈھانچے پر عائد ہوتی ہے۔ انسانی جسم کی تمام کارکردگی ہڈیوں کے نظام پر ہے۔ ہڈیاں انسانی جسم کے پٹھوں جسم کی حرکت اور دیگر اعضا کو متحرک رکھنے اور ادھر ادھر گھمانے میں مدد دیتی ہیںَ انسانی جسم کا ظاہری حصہ اور عضو ان ہڈیوں کے سہارے قائم ہے جو کندھوں کے اردگرد حلقہ بنائے مضبوطی سے ایستادہ ہیں۔ پسلیاں اندرونی اعضا دل پھیپھڑوں ریڑھ کی ہڈی اور سینے کے اندر موجود عضاء کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ ٹانگوں کی ہڈیاں پیروں کے ذریعے انسانی جسم کا تعلق اوپر والے حصے سے قائم رکھتی ہیں۔ انسانی سر سب سے اوپر موجود ہڈیوں کی وجہ سے با آسانی ادھر ادھر گھمایا جاسکتا ہے۔ جبکہ انسانی ران کی ہڈی بالکل سیدھی ہونے کی وجہ سے انسان اس کے سہارے پیروں پر کھڑا ہو کر باآسانی چل پھر سکتا ہے۔ ہڈیاں بنیادی طورپر سیلز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ سیلز (Cells) عمر کے ساتھ ساتھ نرم اور سخت ہو جاتے ہیں۔ یہ ہڈیاں جس مقام پر آپس میںملتی ہیں انہیں جو ڑ کہتے ہیں اور ان جوڑوں کے بغیر انسان کے لیے حرکت کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی یہ جوڑ کسی اور مقام پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے جسم میں 206ہڈیوں کامکمل ڈھانچہ پایا جاتا ہے۔ جو انسان کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ہر قسم کا کام ینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی جسم میں پاء یجانے والی وہ خصوصیات جو اسے جسمانی طور پر دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ بنیادی طورپر ہڈیوں کے ڈھانچے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ نظام اعصاب نظام اعصاب کا مرکز کھوپڑی یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے۔ انسانی جسم کا یہ اہم ترین نظام پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ بنیادی طور پر اعصابی نظام انتہائی باریک اور حساس تار پر مشتمل ہوتاہے۔ جو باہر سے موصول ہونے والے پیغامات کو فوراً دماغ تک پہنچا دیتی ہے۔ ان پیغام رساں آنتوں کو سبنسری نروز (Sensery Nerves) کہا جاتا ہے۔ وہ جو مرکز (دماغ) سے ملنے والی ہدایات کو متاثرہ اعضا اور حرام مغز تک پہنچاتی ہیں کہ بیرونی حملے کا جواب کیا ہونا چاہیے۔ وہ مشینی لینئس (Mater Nerves) کہلاتی ہیں۔ انسانی بدن میں اعصابی مراکز دو طریقوں سے کنٹرول کیے جاتے ہیںَ پہلا نظام دماغی اعصابی نظام جبکہ دوسرا خود کار اعصابی نظام کہلاتا ہے۔ پہلے نظام کا تعلق پٹھوں اعضائے بدن ہڈیوںکے جوڑوں کی حرکات اور انسانی کی بیرونی جلد سے ہوتا ہے۔ خود کار اعصابی نظام کا تعلق بدن کے اندرونی اعضا دل ‘ جگر‘ دماغ‘ حرام مغز اور آنتوں کے افعال سے ہوتاہے۔ جسم کے تمام غدود اور خون لانے لے جانے والی رگیں بھی اسی نظام کے تحت کنٹرول کی جاتی ہیں۔ انسانی دماغ دماغ انسانی جسم کے اعضاء رئیسہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ انسانی کھوپڑی کے اندر دماغ انسانی اعصابی نظام کا سب سے بڑا اور اہم مرکز ہے۔ انسانی جسم کے اند سب سے پیچیدہ نظام اور ساخت دماغ کی ہے۔ جبکہ عورت کا دماغ اس سے تقریباً 150 گرام کم وزن پر مشتمل ہوتاہے دماغ گلابی مادے سے بھی باریک سی جھلی میں لپٹا ہوتا ہے۔ دماغ کے 3اہم حصے ہوتے ہیں۔ (1)سیری برم بڑا دماغ (2)سیری بلم چھوٹا دماغ (3) اسپینل بلب دماغ کا پوشیدہ حصہ (1) سیری برم: دماغ کے اوپر والے اورسامنے والے حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ حصہ ایک لمبے شگاف کے ذریعہ مزید دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ان حصوں کو دائیں بائیں ہمی سفئیر کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں حصے نیچے کی جانب اعصابی ریشوں کے ایک چوڑے بند سے جڑے ہوتے ہیں۔ سیری برم کے باہر ہلکا گلابی غلاف لپٹا ہوتا ہے جس کی موٹائی 1/6انچ ہوتی ہے۔ اس مادے سے سماعت بصارت درد کا احساس‘ شعور‘ پہچان‘ قوت ارادی‘ حافظہ‘ احساس ‘ خیال اور انسانی جذبات کا براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ سیری برم دیکھنے بولنے اور بازوئوں اور ٹانگوں کو سہارا دینے والے موٹر نروز (Moter Nerves)کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ (2)سیری بلم: سیری بلم کا تعلق جسمانی عضلات کی حرکات سے ہوتا ہے۔ یہ حصہ انسانی جسم کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ اگر یہ حصہ کسی وجہ سے متاثر ہو جائے یا کام کرنا چھوڑ دے تو انسانی جسم کی حرکات میں توازن ختم ہو جاتا ہے۔ (3) اسپینل بلب: یہ حصہ دماغ کے اندر پائے جانے والے اعصابی ٹشوز کے وسط میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی جسم کی ایسی حرکات کو نوٹ کرتا ہے جو خود بخود عمل پذیر ہوں۔ مثلاً چلنا پھرنا سانس لینا محسوس کرنا وغیرہ۔ حرام مغز حرام مغز میں زیادہ تر اعصابی رگیں (Nerve System)ہوتا ہے حرام مغز سر کے سوراخ میں سے گزر کر ریڑھ کی ہڈی کی نالی میں پہنچتا ہے۔ حرام مغز میں بہت سے اعصابی مراکز قائم ہیں۔ جو اس سے اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے حسی اعصاب کی مدد سے مختلف اعضا سے پیغامات وصول کر سکے۔ اور بعد ازاں اپنے حرکی اعصاب کی مدد سے انہیں فوری طور پر ہدایات جاری کر سکے۔ ایسے افعال کے وقت انسانی شعور بیدار نہیں ہوتا ہے۔ ایسے افعال کو اضطراری عمل (Reflex Action)کہتے ہیں۔ خاص عضلات حسی جسم میں خواس خمسہ کا ادارک کرنے والے بہت سے عضلات ہوتے ہیں۔ یہ حواس خمسہ آنکھ کان ناک زبان اور ہاتھ ہیں۔ جو دیکھنے سننے سونگھنے چکھنے اور چھونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسانی جسم میں ایسی نسیں بھی پائی جاتی ہیں جو اسے کسی چیز کے وزن کے متعلق اطلاع دیتی ہیں۔ ایسی نسیں پٹھوں کی نسیں کہلاتی ہیں۔ سانس لینے کا نظام سانس لینے کا نظام پھیپھڑوں ناک ‘ حلق آلہ صوت اور سانس کی نالیوں پرمشتمل ہے۔ اس نظام کو مختصراً عمل تنفس کہتے ہیںَ اس نظام کامقصد یہ ہے کہ آکسیجن باہر سے کھینچ کر پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل کی جائے اور خون کو صاف کرتے ہوئے مضر صحت اجزا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ انسانی جسم سے باہر نکال دیا جائے۔ سانس اندر کھینچتے وقت سینے کا خلا کچھ پھیلنے سے بیرونی ہوا جسم کے اندر داخل ہو جاتی ہے۔ سانس کو باہر نکالتے وقت یہ عمل الٹ ہوتاہے۔ اور اندر موجود ہوا بالکل باہر نکل جاتی ہے۔ سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہونے والی ہوا میںگیسوں کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں ۔ نائٹروجن 79%‘ آکسیجن 20%‘ کاربن ڈائی آکسائیڈ 0.4% اور آبی بخارات کی مقدار موسم کے تناسب سے ہوتی ہے۔ سانس سے خارج ہونے والی ہوا میں گیسوں کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں نائٹروجن 79% آکسیجن 16.50%کاربن ڈائی آکسائیڈ 4.50% اور آبی بخارات مختلف مقدار میں ہیں۔ بیرونی ہوا پھیپھڑوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ناک حلق آلہ صوت اور سانس کی نالیو ں سے گزرتی ہے۔ ناک بیرونی ہوا کو اندر لے جانے کے لیے ناک اور منہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ منہ کے ذریعے سانس لینے کو صحت مند علامت تصور نہیں کیا جاتاہے۔ سانس ناک کے ذریعے لینا چاہیے۔ ناک سے ہوا گزرنے کی صورت میں وہ مٹی اور دوسرے ذرات سے پاک ہو جاتی ہے۔ منہ اور ناک سے کوئی بھی چیز گزنے کے دو راستے موجود ہیں۔ ایک راستہ سے خوراک اورپانی جبکہ دوسرا راستہ پھیپھڑوں کی بڑی نالی سے جا کر ملتا ہے۔ آلہ صوت آلہ صوت حلق کے اندر موجود اس سوراخ کو کہتے ہیں جس میں آوازپیدا کرنے واال پٹھا ہوتا ہے۔ ان پٹھوں کے اندر ارتعاش سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ ہوا آلہ صوت سے پھیپھڑوں تک ایک سانس کی نالی کے ذریعے پہنچتی ہے۔ یہ نالی 4انچ لمبی اور ایک انچ چوڑی ہوتی ہے۔ اس سوراخ میں نرم ہڈیوں کے حلقے ہوتے ہیں جو اسے کھلا رکھتے ہیںَ نچلے حصے پر سانس کی نالی آگے جا کر دو شاخوں میں تقسیم ہو کر دونوں پھیپھڑوں میں جا اترتی ہیں۔ پھیپھڑے پھیپھڑوں میں لاکھوں کے حساب سے بہت باریک ہوا کی تھیلیاں ہوتی ہیں۔ جو دراصل چھوٹی چھوٹی ہوا کی نالیوںکے سرے ہیں۔ ان تھیلیوں کے چار اطراف میں خون کے خلیے ہوتے ہیں جو بہت باریک اور بہت نازک ہوتے ہیںَ ان خلیوں کے ذریعے خون ہمیشہ ہوا کی تھیلیوں سے ملتا ہے۔ جس سے پھیپھڑوں کی دیواریں لچک دار ہوتی ہیں ۔ اس لیے سینے کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ ہ بھی پھیلتی ہیںَ جس سے پھیپھڑوں کے اندر ہوا کا دبائو کم ہوجاتا ہے۔ اس کم دبائو کو پورا کرنے کے لیے باہر کی ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو عمل تنفس کہتے ہیں۔ عمل تنفس کے ذریعے انسای جسم کے اندر موجود گندے خون کی صفائی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے۔ (گندے خون سے مراد کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھراخون ہے) انسانی ٹشوز میں موجود آکسیجن ہر وقت غذائی اجزا کو جلاتی رہتی ہے۔ اسی جلنے کے عمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ اور جب یہ خون پھیپھڑوں سے گزرتا ہے تو نظام تنفس کے ذریعے گندہ خون صاف خون بن جاتا ہے۔ اوریہی خون بعد ازاں مختلف راستوں سے سفر کرتا ہوا دل میں چلا جاتا ہے جسم کے تمام اعضا تازہ آکسیجن کی مدد سے اپنے اپنے افعال مستعدی سے سر انجام دیتے ہیں۔ عضلاتی نظام عضلات پٹھوں کو کہتے ہیں جو انسانی جسم میں ہڈیوں پر منڈھے ہوئے ہیںَ ان پٹھوں پر گوشت کی بہت سی نسیں ہوتی ہیں۔ یہ پٹھے بوقت ضرورت سکڑتے اور پھیلتے ہیں۔ عضلات کیاسی حرکات کی وجہ سے انسانی اعضا حرکات کرتے ہیں۔ عضلاتی پٹھوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ (1) رضاکارانہ کام کرنے والے پٹھے (Voluntery) (2) خود کار کام کرنے والے پٹھے (Automatic) رضاکار پٹھے انسانی قوت ارادی کے ماتحت اپنے افعال سر انجام دیتے ہیںَ خود کار پٹھے یہ پٹھے انسان کے ماتحت نہیں ہیںَ ان میں پیٹ کے اندرونی پٹھے‘ انتڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خود کار پٹھے ہر وقت سوئے جاگتے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ نظام دوران خون خون دل سے نکل کر سارے جسم میں گردش کرتا ہوا واپس دل میں آ جاتا ہے۔ وہ رگیں جو خون کو دل سے باہر لے جاتی ہیں شریانیں کہلاتی ہیںَ خون کو واپس دل میں لے جانے والی رگوں کو وریدیں کہا جاتا ہے۔ خون خون شفاف سیا ل اور بہت سے ٹھوس اجزا کا مرکب ہہے۔ ان مرکبات کو جسمے کہا جاتاہے جسیمے (Plasma)دورنگے سرخ اور سفید ہوتے ہیں۔ سرخ جسیمے شکل میں گول درمیان سے موٹے اور کناروں سے پتلے ہوتے ہیںَ سرخ جسیمے لچکدار اور نہایت ملائم ہوتے ہیں۔ ان سرخ جسیموں کے اندر ہیموگلوبن پایا جاتاہے۔ ہیموگلوبن پروٹین اور معمولی سے فولادی اجزاء پر مشتمل ہے۔ ہیموگلوبن آکسیجن ملنے پرسرخ چمکدار اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ملنے پر نیلگوں ہو جاتے ہیں۔ سفید جسیمے انسانی جسم کے اندر قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ انسانی جسم پر حملہ آور ہونے والے مختلف بیکٹیریاز اور وائرس وغیرہ کو یہ خود کار مدافعتی نظام کے تحت ختم کرکے انسانی جسم کو بیماریوں کی زد میں آنے سے بچاتے ہیں۔ انسانی جسم میں خون کا کردار (1) جسم کے ہر حصے تک آکسیجن پہنچانا (2) جسم کے تمام حصوں تک حرارت و توانائی پہنچانا (3) جسم کے بیکار اجزا کو گردوں پھیپھڑوں اور جلد تک پہنچانا تاکہ ان کا اخراج ممکن ہو سکے۔ (4) جسم میں موجودتحلیل شدہ غذا کو متعلقہ ٹشوز تک پہنچانا۔ دل دل جسم میں خون کی مختلف شریانوں اور وریدوں کی مدد سے متحرک رکھتا ہے دل بنیادی طور پر مخروطی شکل کا پمپ نما عضو ہے۔ دل انسانی جسم میں دوسری اور ساتویںپسلی کے درمیان ہوتاہے جو کہ جسم کے دائیں نسبت کی بجائے بائیں طرف زیادہ جھکا ہوتا ہے۔ دل کا وزن 10 سے 12اونس تک ہوتا ہے۔ دل کے پوری گنجائش سے پھیلنے کی صورت میں اس کے اندر 140مکعب سینٹی میٹر خون سما سکتا ہے۔ دل 4ٹکڑوں پر مشتمل ہے اوپر والے دونوں ٹکڑوں کو آرٹیکل اور نچلے ٹکڑوں کو وینٹریکل کہتے ہیں۔ دوران خون خون جب ٹشوز تک رسائی حاصل کرتا ہے تو ان میں موجود آکسیجن گیس ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ ٹشوز سے خون میںگندے اور مضر صحت اجزا شامل ہوتے ہیںَ یہ گند خون وریدوں کے ذریعے دل کی دھڑکن کے ساتھ دائیں آرٹیکل سے ہوتا ہوا دائیں وینٹریکل میں داخل ہو گا جہاں سے خون پھیپھڑوں میں صاف ہو جاتا ہے صاف خون وریدوں کے ذریعے بائیں آرٹیکل کے ذریعے حرکت قلب کے سکڑنے کے محل کے دوران بائیں وینٹریکل میں داخل ہوتا ہے۔ جس کے بعد یہ خون جسم کے تمام حصوں اور پٹھوں تک دوڑتا پھرتا ہے۔ شریانیں مضبوط نالیاں خون کو دل سے جسم کے مختلف حصوں تک پہنچاتی ہیںَ خون لے جانے والی سب سے بڑی شریان (آٹیورٹا) کہتے ہیںَ جس کا منبع دل کے وینٹریکل ہے ہیمونری شریان دل کے دائیں وینٹریکل سے کل کر اپنی شاخوں کے ذریعے گندہ خون پھیپھڑوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ شریانوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے یا کٹنے سے انسانی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کیونکہ شریان سے بہنے والا خون از خود بند نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے قدرت نے شریانوں کی دیواریں انتہائی مضبوط اور لچکد ار بنائی ہیں تاکہ وہ حادثات سے محفوظ رہ سکیں۔ کیپلریز یہ نسیں انسانی جسم میں خون کی بہت سی باریک نالیاں ہیںَ بالوں کی طرح بایک پتلی دیواروں والی ان نالیوں کاپورے جسم میں جال بچھا ہوا ہے۔ ان نالیوں کو عام انسانی نظر سے دیکھنا ممکن نہیں ۔ انہیں صرف خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نالیاں وریدوں کو شریانوں سے ملاتی ہیں۔ اس عمل کے علاوہ کیپلریز خون اور ٹشورز کے درمیان آکسیجن غذائی اجزاء اور فضلات کا تبادلہ کرتی ہیں۔ وریدیں وریدیں گندے خون کو شریانوں سے دل کی طرف لاتی ہیںَ یہ نالیاں شریانوں کی نسبت کافی کمزور ہوتی ہیں۔ وریدی نظام کے تین بڑے جزو درج ذیل ہیں۔ (1) عام وریدی نظام: ا س میںحلق گردن‘ معدے اور چہرے کی وریدیں شامل ہوتی ہیں۔ (2) پلمونری وریدی نظام: یہ وریدیں پھیپھڑوں سے نکلتی ہیں ان کا کام صا ف شدہ خون کو دوبارہ دل تک پہنچانا ہے۔ (3) یہ وریدیں انتڑیوں اور معدے سے خون کھینچتی ہیں تاکہ اس میں موجود کثافتوں کو الگ کیا جا سکے۔ نظام انہضام انسان توانائی حرکت حرارت حاصل کرنے اور جسمانی نشوونما کے لیے جو کچھ کھاتا ہے اسے چبانے جسم کے اندر تحلیل کرنے اور جذب ہونے کے عمل کو نظام انہضام کہتے ہیں۔ انسانی خوراک میں مختلف نشاستے پروٹین‘ نمکیات‘ چربی ‘ روغنیات‘ اور پانی وغیرہ شامل ہیں ان اشیاء کا صرف ایک حصہ جزو بدن بنتاہے باقی ناقابل ہضم حصہ جسم سے خار ج ہو جاتاہے۔ ہاضمے کے فعل میں سب سے پہلے دانت غذا کو چبا کر باریک کرتے ہیںَ اس باریک خوراک میں لعاب دہن خود بخود شامل ہوجاتاہے۔ لعاب ایسا شفاف اور سیال مادہ ہے جو منہ کے اندر پید ا ہوتا ہے خوراک کے ہضم کا عمل منہ کے اندر سے شروع ہوجاتا ہے۔ منہ سے چبائی جانے والی خوراک حلق کے پیچھے واقع سوراخ میں داخل ہو کر نرخرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ حلق حلق پٹھوں کا مرکب ہے جو چبائی ہوئی خوراک کو آگے دھکیلتا ہے۔ حلق تقریبا 9 انچ لمبا ہوتاہے جو گلے سے نیچے معدے میں جا کر کھلتا ہے معدہ حلق یا مری نالی شکم میں پہنچ کر معدے میں کھلتی ہے۔ معدہ خوراک کو اچھی طرح ہضم کرتا ہے۔ حلق کے پچھلی طرف دو سوراخ ہوتے ہیں (1)ہوا کی نالی (2)خوراک کی نالی خوراک حلق میں نیچے اترتے وقت ہوا کی نالی کا سوراخ بند ہو جاتا ہے۔ خوراک اس کے اوپر سے گزر کر معدے تک چلی جاتی ہے۔ معدے کے اندر موجود غدود گیسٹرک گلینڈ معدہ میں بناتے ہیں گیسٹرک جوس شفاف بے رنگ سیال مادہ ہے جس میں نمک کا تیزاب انتہائی قلیل مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ گیسٹرک گلینڈز میں 2خامرے پیسلین اور رینلین ہوتے ہیںَ معدے کے پٹھے پھیل اور سکڑ کر خوراک کو اچھی طرح ہلاتے ہیں جلاتے ہوئے اس میں عرق معدہ شامل کرتے ہین جس سے غذا ہضم رقیق معدے کیموس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ معدے میں خوراک کے پیچنے کے تین گھنٹوں بعد کیموس میں بدلتی ہے۔ ایک نارمل شخص کا معدہ 24گھنٹوں میں تقریباً 8کلوگرام گیسٹرک جوس بناتاہے پیسلین نامی خامرہ خوراک میں شامل پروٹین پر نمک کے تیزاب کی موجودگی میں اثر کرتا ہے۔ جس سے پروٹین پیٹیونز میں تبدیل ہوجاتے ہیں جن پر آنتوں کے خامرے براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ انہی اجزا کی مدد سے خوراک انتڑیوں میں ہضم ہو جاتی ہے۔ معدے میں موجود رینین نامی خامرے صرف دودھ کے پروٹین پر ااثر کرتاہے۔ پروٹین سے پیدا ہونے والا مادہ جسم کو توانائی پہنچاتا ہے۔ نشاستے میں شامل چربی اور تیل کے اجزاء ٹوٹنے کے بعد خوراک چھوٹی آنت میں داخل ہوتی ہے۔ چھوٹی آنت گچھے کی شکل میں ایک لمبی سی ٹیوب چھوٹی آنت کہلاتی ہے۔ جو بڑی آنت تک جاتی ہے۔ چھوٹی آنت میں تین مختلف اقسام کے عرق خوراک ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔ لبلبے کا عر ق چھوٹے چھوٹے غدودوں سے نکلتا ہے خوراک آنتوں کی دیواروں سے گزرتی ہوئی دودھیا مادے میں تبدیل ہوکر خون میں جذب ہو جاتی ہے۔ چھوٹی آنت کو کھول کرسیدھا کیا جائے تو اس کی لمبائی 21فٹ بنتی ہے۔ جگر جگر انسانی جسم کا سب سے بڑا غدود ہے جس کا رنگ سیاہی مائل سرخ ہوتاہے۔ جگر میں چند چھوٹی چھوٹی نالیاں ہوتی ہیں جن میں موجود سیل بائل سیکریٹ خارج ہوتا ہے۔ یہ بائل ڈکٹس آپس میں مل کر ہیپاٹک ڈکٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جو سیل بائل ڈکٹ سیکریٹ کو چھوٹی آنت میں لے جاتا ہے ۔ سیل بائل ڈکٹ سیکریٹ میں پانی لعاب اور دوسرے نمکیات شامل ہوتے ہیں۔ یہ چکنائی اورتیل پر اثر انداز ہو کر انہیں باریک قطروں میں تبدیل کر کے رکھ یتا ہے جگر کا وزن 3سے 4پونڈ تک ہوتا ہے۔ لبلبے کی رطوبت لبلبے کی رطوبت سرخی مائل زرد رنگ کی ہوتی ہے جو ایک لمبے غدود سے نکلتا ہے ۔ اس لمبے غدود کی لمبائی 7انچ ہوتی ہے ۔ یہ غدود معدے کے پیچھے سے نکلتا ہے لبلبلے کی رطوبت چربی ‘ پروٹین اور نشاستے کو متاثر کرتی ہے لبلبہ خون میں ایک انسولین ہارمون کو چھوڑتا ہے۔ جو انسانی جسم میں شکر کے استعمال میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ خوراک کے ہاضمے کے بعدآنتوں کی دیواروں سے گزر کر خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ خون بوقت ضرورت پورے جسم میں پھیل سکتا ہے۔ غذا 12 گھنٹے کے بعد چھوٹی آنت سے بڑی آنت کی طرف بتدریج پہنچتی ہے۔ بڑی آنت 6فٹ لمبی بڑی آنت خوراک ہضم کرنے کے عمل میں کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کرتی ہے کیونکہ خوراک کے ہضم کا عمل پہلے ہی مکمل ہو جاتاہے۔ بڑی آنت نظام انہضام سے بچ جانے والے تمام نمکیات پانی اور رطوبت کو جذب کر لیتی ہے۔ بڑی آنت میں موجود فاضل خوراک پانی کی کمی کی وجہ سے سخت ہو جاتی ہے ۔ جو 24سے 36 گھنٹوں کے بعد انسانی جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ نظام اخراج ہضم شدہ خوراک کے خون میں شامل ہونے کے بعد بچنے والے مضر اجزاء کے اخراج میں مدد دینے والے اجزاء دل ‘ گردے ‘ اور پھیپھڑے نظام اخراج کا اہم جزو ہیں یہ تینوں جو خوراک کو جسم سے نکالنے کے لیے جو عمل کرتے ہیں اسے نظام اخراج کہتے ہیں۔ گردے گردے کمر کے نچلے حصے میں ریڑھ کی ہڈی کے دائیں اور بائیں واقع ہوتے ہیں۔ یہ تقریباً 10سینٹی میٹر لمبے 5سینٹی میٹر چوڑے اور 2.5سینٹی میٹر موٹے اور ایک گردہ تقریباً 56گرام وزنی ہوتا ہے۔ گردے کے باہر کی جانب ابھری ہوئی سطح ہوتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کی طرف والی پچکی ہوئی سطح کے وسط میں ایک لمبی نالی کا آغاز ہوتا ہے۔ جو نچلی طرف جا کر یوریٹر نامی جگہ پر کھلتی ہے۔ یوریٹرپیشاب کو مثانے میں لے جاتا ہے۔ جہاں پیشاب آہستہ آہستہ جمع ہوتا ہے پیشاب زردی مائل سیال مادہ ہے جو پروٹین والی خوارک کے ہضم کے ہونے کے بعد خارج شدہ نمکیات اور فالتو نائٹروجن کو اپنے ساتھ جسم سے خارج کر دیتا ہے۔ انسانی جسم میں گردش کرنے والا خون 5تا 6منٹ کے اندر گردوں میں سے گزرتا ہے۔ مثانہ مثانہ جھلی دار تھیلی ہے جو پیشاب کو اپنے اندر جمع کرتاہے۔ گردوں سے خارج ہونے والا پیشاب اندازاً 20 سیکنڈ کے وقفے دار جھٹکوں کے ساتھ مثانے میں اکٹھا ہوتاہے۔ مثانے کے نیچے والے حصے میں باہر نکلنے کا ایک راستہ ایک چھلے نما پٹھے کی وجہ سے مضبوطی سے بند رہتا ہے۔ پیشاب خارج ہوتے وقت مثانہ سکڑتاہے جس سے چھلے نما پٹھے ڈھیلے ہو جاتے ہیں تاکہ پیشاب آسانی سے خارک ہو سکے۔ جلد انسانی جلد دو تہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ (1)بیرونی تہہ (2) اندرونی تہہ بیرونی تہہ کو ایپی ڈرمس کہتے ہیں اس میں اعصاب اور خون کی رگیں نہیں ہوتی ہیں۔ اس تہہ پر اگر کسی قسم کی خراش آ جائے تو خون نہیں نکلتا ہے۔ پائوں اور تلوئوں اور ہتھیلیوں کی جلد دوسری جلد کی نسبت کافی زیادہ موٹی ہوتی ہے ایپی ڈرمس کی نچلی تہہ میں رنگ دارسیلز بکثرت ہوتے ہیں۔ یہ سیلز سانولی جلد میں زیادہ اور سفید جلد میں نسبتاً کم ہوتے ہیںَ جلد کی اندرونی تہہ مضبوط اور گنجان ٹشوز سے مل کر بنتی ہے۔ اس حصے میں خون کی کمی نہیں ہوتی ہے اور بے شمار اعصاب ہوتے ہیں۔ جو بالوںاور ناخنو ںکو غذا پہنچاتے ہیں جلد میں کئی قسم کے غدود ہوتے ہیں۔ جو لیس دارمواد مسلسل خارج کرتے ہیں جس سے جلد نرم اور ملائم رہتی ہے۔ جلد میں موجود پسینے کے غدود انسانی جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول رکھنے کے لیے پسینے کو خون سے الگ کر کے خارج کرتے ہیں۔ آنتیں آنتیں خوراک سے مفید اجزا کو ہضم کر کے ماندہ کو باہر پھینک دیتی ہیں۔ آنتیںاگر اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام نہ دیں تو قبض کی شکایت پید ا ہو جاتی ہے آنتوں کا عمل نظام انہضام والے حصے میں اجمالاً درج ہے۔ پھیپھڑے پھیپھڑوں کو شمار نظام اخرا ج میں بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کچھ کیمیائی مادہ خارج کرتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے عمل کے بارے میں سانس لینے کے نظام والے حصے میں ذکر موجود ہے۔ متعدی امراض ایک شخص یا جانور سے ایک دوسرے کو لگنے والے امراض کو متعدی امراض یا چھونے کی بیماریاں کہا جاتا ہے۔ ایسے امراض ترقی پذیر معاشروں میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں ان بیماریوں کی بڑی اقسام درج ذیل ہیں۔ (1) پانی سے پھیلنے والی بیماریاں (2) گرم علاقوں کی بیماریاں (3) کیڑے مکوڑوں کی بیماریاں (4) چھوت کی بیماریاں (5) کیڑوں کی بیماریاں (6) جانوروںکے کاٹنے کی بیماریاں (7) جنسی بیماریاں (8) جلدی بیماریاں (9) جراثیم بردار بیماریاں ان امراض میں جذام‘ طاعون‘ زرد بخار‘ باری کا بخار‘ عام ملیریا‘ نمونیہ‘ کالی کھانسی‘ خناق‘ چیچک ‘ چکن پاکس ‘ خسرہ‘ کن پیڑے‘ تشنج‘ آگ سے جلنا‘ السر‘ ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ دست‘ اسہال‘ قے رائونڈ ورم ‘ رنگ ورم‘ تھریڈ ورم‘ سانپ کا ڈسنا‘ شہد کی مکھی‘ پاگل کتے کا کاٹنا ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ کیمسٹری کیمسٹری: مادے سے متعلق سائنسی علم کو کیمسٹری کہتے ہیں۔ ایووگیڈرونمبر: ایک مول میں موجود ایٹموں کی تعداد کو ایووگیڈرونمبر کہتے ہیں۔ ایٹمی نمبر: کسی ایٹم کے نیوکلئس میں موجود پروٹانز کی تعداد کو اس ایٹم کا ایٹمی نمبرکہا جاتا ہے۔ ایٹمی وزن: کسی عنصر کے ایٹموں کے باہمی وزن کو جو کاربن کے ہلکے آئسو ٹوپ Cil کے ایٹمی وزن کے مقابلہ کرنے سے حاصل ہو۔ عنصر : عنصر وہ چیز ہے جس میں صرف ایک ہی قسم کا مادہ پایا جاتا ہو اور اسے عام کیمیائی عمل سے مادہ تر اجزا میں تقسیم نہ کیا جا سکے ۔ ایٹم: کسی عنصر کا وہ چھوٹا ذرہ جو عنصر کی خصوصیات کا اظہار کرے لیکن آزاد حالات میں نہ رہ سکے۔ (1) پروٹان نیوکلیس میں موجود مثبت بار کے ذرات پروٹان کہلاتے ہیں۔ (2) الیکٹران نیوکلیس میں موجود منفی بار کے ذرات الیکٹران کہلاتے ہیں۔ (3) نیوٹران نیوکلیس میں موجود غیر جانبدار ذرات نیوٹران کہلاتے ہیں یا ایسے ذرات جو (Electrically)نیوٹرل ہوتے ہیں۔ علامت: کسی عنصر کے مختصر نام کو علامت کہتے ہیں علامت کسی عنصر کے ایک ایٹم کو ظاہر کرتی ہے۔ مثلاً کیلشیم (Calcium)کی علامت Ca۔ آئسو ٹوپ: ایک ہی عنصر کے ایسے ایٹم جن کے ایٹمی وزن ایک دوسرے سے مختلف ہوں یا کسی عنصر کے ایٹم جس میں نیوکلیس میںنیوٹران کی تعداد مختلف ہو آئسو ٹوپ کہلاتے ہیں۔ آئینی بند: جب ایٹم کے ایک یا ایک سے زائد الیکٹران دوسرے ایٹم میں منتقل ہو جائیں تو اس کے چلے جانے سے ایک بند تشکیل پاتا ہے جسے آئینی بند کہتے ہیں۔ آئین: برقی بار والے ذرات آئین کہلاتے ہیں۔ برقی پاشیدے: ایسے کیمیاء مرکبات جن کے آبی محلول سے جب برقی رو گزاری جائے تو وہ اپنے آئین میں بدل جائیں۔ بخاری دبائو: بخارات کا وہ دبائو جب بخارات اور مائع ایک توازنی حالت میں ہوں۔ بقائے مادہ کا قانون: کسی طبعی یا کیمیائی عمل کے دوران مادے کی مقدار نہ بڑھتی ہے اور نہ ہی فنا ہوتی ہے۔ بوائل کا قانون: کسی گیس کی خاص کمیت کا حجم ا س کے دبائو کے بالعکس متناسب ہوتا ہے۔ تعدیل عمل: جب تیزاب اور اساس ایک دوسرے پر عمل کرکے پانی اور آئینی مرکبات یعنی نمکیات بنا تے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کی خامیتوں کو زائل کر دیتے ہیں اس قسم کے عمل کو تعدیلی عمل کہتے ہیں مثلا HCLاور NaOH اساس کے عمل سے NaClاورپانی بنتے ہیں۔ چارلس کا قانون: مستقل دبائو کسی گیس کی خاص کمیت کا حجم اس کے مطلق درجہ حرارت کے تناسب سے ہوتا ہے V+TORK-VIT حل پذیری: کسی خاص درجہ حرارت پر محلل کی وہ زیادہ سے زیادہ مقدار جو اس درجہ حرارت پر 100گرام محلل میں حل ہو سکے۔ ریڈیکل: ایٹموں کامجموعہ جو کیمیائی عمل کے دوران اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور سادہ تر اجزا میں تقسیم نہ ہو ریڈیکل کہلاتاہے۔ عمل تبخیر: وہ عمل جس میں مائعات عام دبائو اور عام درجہ حرارت پر بخارات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ فیراڈے کے قوانین: کسی محلول کی برقی پاشیدگی کے دوران برقیرو ں پر جمع شدہ مادوں کی مقدار اس محلول سے گزرنے والی برقی رو کی مقدار کے راست متناسب ہوتی ہے۔ کیمیائی مساوات: ایک کیمیائی تعامل کو کیمیائی علامتوں اور فارمولوں سے ظاہر کرنے کا طریقہ۔ کمیت: کسی جسم میں مادے کی مقدار۔ کثافت: کسی چیز کے اکائی حجم کی کمیت۔ (کثافت =کمیت ؍ حجم) گراہم کا قانون: گیسوں کی نفوذی شرح۔ ان کی کثافتوں کے جزر کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ بشرطیکہ درجہ حرارت اور دبائو یکساں رہیں۔ لیوس کانظریہ اساس: کیمیائی مرکب جو پروٹان قبول کر سکتے ہوں۔ لورے کا نظریہ اساس: وہ مرکب جو آبی محلول میں ہائیڈرو آکسل آئین مہیا کرے۔ مرکب : دو یا دو سے زائد اشیاء سے بننے والی اس شے کو کہتے ہیں جس کی خاصیتیں ان اشیاء کی خاصیتوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ مادہ : ہر وہ شے جس کی کمیت مخصوص ہو اور وہ جگہ گھیرتی ہو۔ مائع کا نقطہ جوش: کسی مائع کا نقطہ جوش س کا وہ درجہ حرارت ہے جس پر مائع کا بخاری دبائو اس کے اوپر موجود فضائی دبائو کے برابر ہو جائے۔ نقطہ پگھلائو یا انجماد: وہ درجہ حرارت جس پر ایک مرکب ٹھوس اور مائع حالت میں توازن برقرار رہے اس کا نقطہ پگھلائو یا نقطہ انجماد کہلاتا ہے۔ ویلنسی: ایک عنصر کی دوسرے عنصر کے ساتھ ملنے کی استطاعت کو ویلنسی کہتے ہیں۔ فزکس چارلس کاقانون: مستقل دبائو پر کسی گیس کا خاص کمیت کا حجم اس کے درجہ حرارت کے تناسب ہوتا ہے۔ VOCT (V TOXIT-K) کثافت: اکائی حجم کی کمیت کثافت کہلاتی ہے۔ کثافت =کمیت ؍ حجم T * کونسٹنٹ = V نیوٹن کے قوانین: یا کونسٹنٹ: V/T (1)اگر کوئی جسم ساکن رہے تو وہ ساکن ہی رہے گا۔ گر حرکت کر رہا ہے تو حرکت میں رہے گا۔ جب تک اس پر کوئی بیرونی قوت عمل نہ کرے۔ (2) جب کوئی غیر متوازن قوت کسی جسم پر عمل کرتی ہے تو یہ جسم میں اسراع پیداکرتی ہے جو جسم پر عامل قوت کے براہ راست متناسب ہوتا ہے۔ F=ma (3) ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے عمل اور رد عمل یکساں لیکن مخالف سمت میں ہوتے ہیں۔ ارشمیدس کا قانون: جب کسی جسم کو مائع میں ڈبویا جاتا ہے تو اس جسم پر اچھال کی قوت عمل کرے گی۔ جس کی مقدار اس جسم کے مساوی مائع کے وزن کے برابر ہو گی۔ ولاسٹی اور سپڈ میں فرق: سپییڈ کسی جسم کا اکائی وقت میں طے کردہ فاصلہ ہے اورولاسٹی ؤجسم کا اکائی وقت میں خاص سمت میں طے کردہ فاصلہ ہے۔ قانون تجازب: کے تناسب میں ہر دو اجسام کے درمیان کشش ہوتی ہے جو ان اجسام کی کمیتوں کے حاصل ضرب کے راست متناسب اور ان کے مرکزوں کے درمیان فاصلہ کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ F=GM1-/R2 ہک کا قانون: جسم پر عامل قوت اس سے پیدا شدہ بگاڑ کے تناسب ہوتی ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86ہزار میل فی سیکنڈ (3.108m/sec) اسراع: ولاسٹی میں تبدیلی کی شرح اسراع کہلاتی ہے۔ حرکت کی تین مساواتیں: CF=VI+AT 2as=VF2-Vi2 S=Vi+1/2at2 ویکٹر: ویکٹرایسی مقدار ہے جس کو ظاہر کرنے کے لیے ان کی عددی قیمت اور اکائی کے دورہ سمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ویکٹر کہلاتی ہے۔ بین الاقوامی اکائیاں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ تین لاکھ کلومیٹر نوری سال (10)12*5.88میل) ((1012*9.46میل ایک ہزار (10)3تین صفریں دس ہزار (10)4 چار صفریں ایک لاکھ (10)5 صفریں دس لاکھ (ایک ملین) (10)6صفریں د س ارب (ایک بلین) (10)9صفریں لمبائی کی اکائی میٹر کمیت کی اکائی کلوگرام وقت کی اکائی سیکنڈ برقی روکی اکائی ایمپئیر درجہ حرارت کی اکائی کیلون مائع کی اکائی لیٹر ناپ تول کے پیمانے لمبائی وزن 12انچ= 1فٹ 27344گرین= 1ڈرام 3فٹ= ایک گز 16ڈرام 1اونس 5.5فٹ 1پول 16اونس 1پونڈ *7000پونڈ 22گز 1چین 14پونڈ 1سٹون 10چین 1فرلانگ 28پونڈ ؍ دو سٹون 1کوارٹر 1760گز 1میل 4کوارٹرز 1ہنڈورڈویٹ 1ٹن 8فرلانگ 1میل 2ہنڈرڈ ویٹ 1ٹن 90ڈگری : زاویہ قائمہ 4قائمہ زاویہ: 1چکر 360درجے وقت 60سیکنڈ:ایک منٹ 60منٹ: ایک گھنٹہ 24گھنٹے: ایک دن 7دن : ایک ہفتہ 52ہفتے +ایک دن: ایک سال 1/4 365دن: ایک سال رقبہ وزن 144مربع انچ: 1مربع فٹ 10ملی گرام: 1سینٹی گرام 9مربع فٹ : 1مربع گز 10سینٹی گرام: 1ڈیسی گرام 1/4 30مربع گز: ایک مربع پول 40مربع پول: ایک راڈ 1210مربع فٹ: 1 پو ل یا راڈ 10ڈیسی گرام: 1 گرام 4راڈ : 1ایکڑ یا 4840مربع گز 10گرام: 1ڈیکا گرام 640ایکڑ: 1مربع میل 10ڈیکا گرام: 1ہیکٹو گرام 10ہیکٹو گرام: 1کلوگرام یا 1000گرام حجم مائع چیزوں کے لیے 1728مکعب انچ = 1728مکعب انچ 10ملی لیٹر: 1سینٹی لیٹر 27مکعب فٹ: 1مکعب گز 10سینٹی لیٹر: 1ڈیسی لیٹر زاویوں کا پیمانہ 10ڈیسی لیٹر: 1لیٹر 60سیکنڈز: 1منٹ 10لیٹرز: 1ڈیکا لیٹر 10ڈیکا لیٹرز: 1ہیکٹو لیٹر لمبائی 10ملی میٹر: 1سینٹی میٹر 10سینٹی میٹر: 1ڈیسی میٹر 10ڈیسی میٹر: 1میٹر 10میٹر: 1ڈیکا میٹر 10ڈیکا میٹر: 1ہیکٹو میٹر 10ہیکٹو میٹر: 1کلومیٹر = 1000میٹر 1مربع گز:0,836مربع میٹر 1مربع ایکڑ: 0,405ہیکٹو میٹر 1مربع میل: 2590مربع کلومیٹر اہم عناصر اور ان کی علامتیں نام عنصر علامت نام عنصر علامت ہائیڈروجن H سلفر S ہیلیم He کلورین Ci لیتھیم Li آرگن Ar بیرییم Be پوٹاشیم K بورون B کیلشیم Ca کاربن C اسکنڈیم Sc نائٹروجن N ٹنٹاٹیم Ti آکسیجن O ویناڈیم V فلورین F کروسیم Cr نیون Ne میگنیز Mn سوڈیم Na آئرن Fe میگنیشیم Mg کوبالٹ Co المونیم Al نکل Ni سلیکون Si کوپر Cu فاسفورس P زنک Zn کیلسیم Ge پراسکوڈیم Pr جرمینیم Ge نیوڈیم Nd آرسینک As پرومیتھیم Pm سیلیم Se سماریم Sm برومین Br یوروپیم Eu روبیڈیم Rb گیڈولینیم Gd اسٹرڈیم Sr ٹربیم Tb میٹریم Y ڈیپروبیم Dy نیوبیم Zr ایربیم Ho مویسڈنیم Nb یٹربیم Er لیکسیم Mo لیسئیم Yb روتھینم Tc ہفنیئم Lu رہوڈیم Rv ٹنٹالیم Hf پلاڈیم Rh ٹنگسٹن Ta سلور Pd رہنیم W کریٹون Ag اوسمیم Re کاڈمیم Cd اریڈیم Ir انڈیم In پلاٹینم Pt ٹن Sn گولڈ (سونا) Au اینمونی Sb مرکری Hg ٹیلوریم Te لیڈسیہ Pb آئیوڈین I لمبتھ Bi ایکسنن Ex پولونیم Po سزیم Cs راڈان Rn بیریم Ba تھالیئم Ti لیتھینم Ca سپریم Ce فراہیگم Fp ریڈیم Ra ایکسئیم Ac یورینیم U ئین اسٹینیئم Es نیسوٹیم Np فیرہم Fm پلوٹونیم Pu مینڈپلوٹیم Md امریکیئم Am نوہیلیم No سپریم Cm لارینئم Lw بریکیم Br تھوریم Th کیلفورنیم Cf پروٹکئیم Pa امریکی اور روسی سائنسدانوں نے تین نئے بھاری ترین عناصر دریافت کیے ہیں۔ جن کا ابھی کوئی نام طے نہیں ہوا ہے۔ ان عناصر کے آئسوٹوپس کی تشکیل کچھ یوں ہے۔ (1) 114… ایک آئسو ٹوپ میں 114 پروٹان اور 184نیوٹران شامل ہیں۔ (2) 116…ایک آئسو ٹوپ میں 166پروٹان اور 173نیوٹران شامل ہیں۔ (3) 118… ایک آئسو ٹوپ میں 118پروٹان اور 175نیوٹران شامل ہیں۔ ٭٭٭ سائنسی میدان میں پاکستانی کامیابیاں پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سائنسدانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں نئی تحقیق کے لیے ملک کے طو ل و عرض میں انجینئرنگ اور ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں۔ انہی لیبارٹریز میں ہونے والی تحقیق کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت اور میزائل تیار کرنے والا ملک ہونے کے علاوہ خلائی سائنس میں بھی بڑا نام بن چکا ہے۔ جبکہ دفاعی مقاصد کے لیے کم و بیش ہر قسم کا گولہ بارود بکتر بند گاڑیاں ٹینک‘ توپیں‘ جہازوں کی تعمیر و مرمت ‘ آبدوزیں‘ بحری جہاز‘ اور دیگر قسم کے ضروری آلات پاکستان کے اندر بنائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں تیار کیا جانے والا اسلحہ نہ صرف ملکی دفاعی ضروریات کو بخوبی پورا کر رہا ہے۔ بلکہ اس کی فروخت سے قوم کے لیے قیمتی زر مبادلہ بھی حاصل کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ایوب‘ زرعی ریسرچ سنٹر‘ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور پرائیویٹ سیکٹر میں قائم ادویات تیار کرنے والی لیبارٹریز انسانی و حیوانی میڈیکل سائنس زراعت کے میدان میں خود کفال کو یقینی بنانے کے لیے بیجوں اور فصلوں پر نئی تحقیق کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سائنسدانوں نے انسانی جین پر تحقیق کرتے ہوئے آنکھ کی بیماریوں کے متعلق نئے جین دریافت کیے ان جینجز کی دریافت سے آنکھوں کے علاج میں کافی مدد ملی ہے۔ نئے دریافت شدہ جینز درج ذیل ہیں۔ (1) مائیکرو فٹی المایا (Microphitti Almaia) آنکھوںکی بناوٹ اوراس کے پیدائشی سائز میں ہونے والی کمی و بیشی سے آگاہ کرنے والا جین ہے۔ (2) ریٹینیٹس پی اومنٹوسا (Retinitis Pe Omintsa) کچھ دیر کے لیے ختم یا معدوم ہونے والی آنکھ کی روشنی(بینائی) سے متعلقہ جین۔ (3) لیبر لجنٹل (Leber Longential) یہ آنکھ کے قرنیہ کے متعلق جین ہے۔ بعض افراد کا قرنیہ تکون کی شکل اختیارکر لیتا ہے۔ جو آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ (4) نان سینڈورمک ڈیف نسس (Non Syndromic Deafness) بہرے پن کے امراض سے متعلق بیماری کا جین ہے۔ پاکستان اور جوہری توانائی 28مئی 1998ء کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر تین کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ چاغی کے مقام پر حاصل ہونے والی کامیابی اتفاقیہ یا حالات کی پیداوار نہ تھی۔بلکہ حکومتوں اورپاکستانی سائنسدانوں کی طویل جدوجہد اور کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ اسی کامیابی میں اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ اورپاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا سب سے اہم کردار ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ملک میں جوہری توانائی اور ریڈیاء ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیق کرنے والا منفرد ادارہ ہے۔ اس ادارے کے تحت پاکستان مٰں سب سے پہلا نیوکلیر پاور پلانٹ 1971میں کراچی کے مقام پر قائم کیا گیا۔ جو آج تک کامیابی سے کمزرشل بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کی بجلی کی پیداوار 137میگا واٹ ہے اس طرح اسلام آباد ریسرچ لیبارٹریز میں زرعی بیجوں کی ترقی کے لیے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے درجنوں زرعی سائنس دان دن رات مصروف عمل ہیں زراعت کی ترقی کے لیے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی تیار کردہ لیزر لیونگ ٹیکنالوجی مشین (Laser Levelling Technology)نے چھوٹے بڑے قطعہ اراضی کو ایک انچ کی سطح پر ہموار کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا اس آلہ کی مدد سے زمین کو ہموار کرکے زمیندار سالانہ فی ایکڑ پیداوار پر اٹھنے والے اخراجا ت میں تیس فیسد کمی کو یقینی بنا سکتے ہیںَ علاوہ ازیں اٹامک انرجی کمیشن نے کینسر ‘ گردوں کی بیماریوں‘ ٓنکھوں کی بیماریوں‘ بہرے پن کی بیماری‘ گلہڑ اور دیگر بے شمار بیماریوںکے علاج کے لیے ملک کے طول و عرض میں اعلیٰ معیار کی علاج گاہیں قائم کی ہیںَ جہاں عالمی معیار کا علاج بآسانی دستیاب ہے۔ لاہور میں انمول کینسر ہسپتال اور سینٹر فارورڈ نیوکلیئر سائنس میڈیسن میس ہسپتال لاہور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ذیلی ادارے ہیں۔ پاکستان کا دوسرا نیوکلیر پاور پلانٹ چشنوب چشمہ ضلع میانوالی کے مقام پر واقع ہے۔ اس پلانٹ کی پیداواری گنجائش 300میگاواٹ ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلی جوہرہ توانائی ریسرچ لیبارٹری گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع چوہدری کی قیادت میںقائم کی گئی۔ اس وقت تک پاکستان اٹامک انرجی کمیشن قائم نہیں ہوا تھا اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں جوہری توانائی کے حوالے سے ریسرچ کے لیے درج ذیل مقامات پر لیبارٹریز قائم ہیں۔ پہلی ایٹمی ری ایکٹر اسلام آباد اٹامک کمیشن کے مراکز: کراچی لاہور پشاور اسلام آباد ملتان ٹنڈو جام فیصل آباد حیدر آباد چاغی گوادر ڈیرہ غازی خاں عیسیٰ خیل واضح رہے کہ پاکستان کا سب سے پہلا نیوکلیر تحقیقی ادارہ گورنمنٹ کالج لاہو ر میں قائم ہوا تھا۔ جوہری توانائی کے لیے قائم ادارے (1) کہوٹہ۔ اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ اس لیبارٹری کو نیوکلیر زون کا مقام حاصل ہے۔ یہاں ہونے والی تحقیق نے پاکستان کو دفاعی مقاصد کی ضروریات سے بے نیاز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ زمین سے زمین‘ زمین سے فضا‘ فضا سے زمی‘ فضا سے فضا‘ زمین سے بحر ‘ بحر سے زمین غرضیکہ پاکستان کے تیار کردہ تمام میزائل عنزہ‘ حتف‘ غوری‘ شاہین‘ طلحہ وغیرہ اس لیبارٹری کے تیار کر دہ ہیں۔ (2) راولپنڈی: پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (3) سہالہ: یورینیم کی افزودگی (4) گولڑہ: یورینیم کی افزودگی (5) واہ: ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری (6) عیسیٰ خیل: یورینیم کی لیبارٹری (7) راجن پور (ڈی جی خان) یورینیم کے ذخائر (8) لاکھی۔ یورینیم کے ذخائر (9) چشمہ : ایٹمی ری ایکٹر (10) کندیاں: اٹامک انرجی کی تیاری (11) ملتان: بھاری پانی کی تیاری (12) لاہور: مائسیلنگ (13) گروٹ (خوشاب) ترمیم کی تیاری (14) چاغی: ایٹمی تجربہ گاہ (15) کراچی: ایٹمی ری ایکٹر خلائی سائنس پاکستان نے پہلا مصنوعی سیارہ بدر اول خلا میں چین کے تعاون کے ساتھ 1990 ء میں روانہ کیا تھا جو کچھ دن کام کرتا رہا بعد ازاں اس کا زمین سے کنٹرو ل سے رابطہ ختم ہو گیا۔ اس سیارے کی ناکامی کے باوجد پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہونے لگا جو خلائوں کی وسعتوں میں سائنسی تحقیقی کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی تاریخی کا سب سے اہم سنگ میل اس وقت عبور ہوا جب پاکستان نے اعلان کیا کہ حکومت پاکستان نے 29دسمبر 2002ء کو اعلان یا کہ پاکستان زمینی گردش سے مطابقت رکھنے والا پہلا کمرشل مواصلاتی سیارہ پاک سیٹ ون (Pak9Sat1) مدار میں بھجوا رہا ہے۔ جس کی یکم جنوری سے 30جنوری تک سٹیٹ سروسز کو چیک کیا جئے گا۔ اور اس سیارے نے یکم فروری 2003ء سے مواصلاتی سیارے کی باقاعدہ خدمات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ یہ مواصلاتی سیارہ آسٹریلیا سے پانچ سال کی لیز پر حاصل کیا یا ہے۔ پاکستانی سائنسدانوں نے انجینئروں نے مصنوعی سیارے کی تیاری کا کام شروع کر رکھا ہ۔ جس کی خلا میں آمد کے بعد لیز پر حاصل شدہ مواصلاتی سیارہ آسٹریلیا کے حوالے کر دیا جائے گا پاک سیٹ ون کی منتقلی کا کام 5دسمبر 2002ء سے شروع ہوا تھا جو 16دسمبر کو 38ڈگری ایسٹ پر واقع اپنے مقام پر پہنچ گیا۔ 20دسمبر کو اس کی اصل حالت میں کھڑا کیا یگا۔ فی الحال اس سیارے کو آسٹریلیا کے مرکز پرتھ سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس سیارے کی TTNCبرطانیہ اور سنگاپور میں ہے۔ سیار کے آپریشنل ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ تعلیمی اور مواصلاتی شعبوں کو ہوا ہے انٹرنیٹ کی سروس کی فراہمی میں اٹھنے والے اخراجات میں کمی سے قیمتی زر مبادلہ کی بچت یقینی بنانے میں مدد ملی ہے۔ جبکہ سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کے اہم تبادلہ کے لیے ویڈیو کانفرنس کی سہولت دسیتاب ہوئی ہے۔ پاکستان کا مواصلاتی سیارہ ہمسایہ ملک افغانستان ایران نیپال اور دیگر ممالک کو مواصلاتی خدمات فراہم کرنے کی صلاحٰت میں مالا مال ہے۔ اس سیارے کے کمرشل آپریشن کے آغاز کے بعد پی ٹی سی ایل نے انقلابی بنیادوں پر اپنی خدمات کا دائرہ کار تمام مقامات تک بڑھاتے ہوئے فوری طور پر سینکڑوں نئے دیہاتوں اور شہروں کو ٹیلی فون کنکشن فراہم کر نا شروع کر دیے ہیں۔ پاکستان میں سائنسی ترقی اور تحقیق کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے انقلابی بنیادوں ُر مختلف منصوبوںکا آغاز کیا جس کے تحت پاکستان میں میڈیکل سائنس (ہیومن اینڈ اینیمل) (Human and Animal)ہیلتھ یونیورسٹی لاہور اور ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنس یونیورسٹی اہور قائم کی۔ تاکہ ان شعبوں میں اعلیٰ معیار کے ڈاکٹر اور سائنسدار تیار کرنے میں مدد مل سکے۔ اسی طرح ڈاکٹریٹ کی سطح پر کام کرنے والے ریسرچ سکلر ز اور پورفیسرز کے لیے بے پناہ مراعات کا اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2004ء کے دوران تیرہ سو سے زائد مختلف شعبوں میں ڈاکٹریٹ کی سطح پر ریسرچ کاکام کر رہے ہیںَ حکومتی سطح ُر سائنسی ترقی کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکسان کا پرائیویٹ سیکٹر بھی اس شعبہ میں بھر پور خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ کراچی میںقائم ہمدرد یونیورسٹی جو روایتی طریقہ علاج (Herble Medicine) آغا خان یونیورسٹی کراچی میڈیل سائنسز کے شعبہ میں قائم پہلی پاکستان جامعہ لاہور میں کینسر جیسی موذی بیماری پر تحقیق کرنے والا ادارہ شوکت خانم کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔ الحمد اللہ پاکستان کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ براعظم انٹارکٹکا میں پاکستانی تحقیقی ریسرچ باقاعدہ کا م کر رہا ہے۔ اس ریسرچ سنٹر کا قیام اور محدود وسائل میں وہاں تک رسائی حاصل کرنا اتنا آسان نہ تھا کہ آج صرف اتنا کہہ دیا جئے کہ پاکستان کا براعظم انٹارکٹیکا مین ریسرچ سنٹرقائم ہے۔ اس مقام پر ریسرچ سنٹر پاکستانی قوم کے عز م و حوصلے کی عکاسی کرتا ہوا یہ ثابت کرتاہے کہ پاکستان زندگی کے ہر شعبہ میں خود کفالت کی منزل کے حصول کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ مستقبل میں اس اسٹیشن کے قیام سے پاکستان براعظم کے قدرتی و معدنی وسائل کو استعمال میں لانے کا حق محفوظ بنا چکا ہے۔ اہم سائنسدان اور ان کی ایجادات ایجاد موجد قو میت تاریخ موٹر کار کارل بینز جرمن 1885ء ڈکٹافون چارلس ایس ٹینٹر امریکی 1885ء مونو ٹائپ مشین ٹیلبرٹ ینسٹن امریکی 1887ء متحرک تصویر لینے والا کیمرہ ای جے ماری فرانسیسی 1888ء متحرک تصویر دکھانے والا پروجیکٹر تھامس اے ایڈیسن امریکی 1891ء ڈیزل انجن ریڈولف ڈیزل جرمن 1892ء ریڈیو ٹیلی گراف جی مارکونی اطالوی 1896ء الیکٹرک بیٹری وولٹا اٹلی 1800ء ایکسرے رونتجن جرمنی 1895ء ایکسرے ٹیوب کولنج امریکی 1916ء ایٹم بم اوپن ہیمر امریکی 1945ء آب دوز بشنل امریکی 1776ء اسکوٹر براڈ شا برطانی 1919ء بندوق تھارنٹن امریکی 1811ء بم ٹالٹ امریکی 1916ء بائسکل میکملن اسکاٹ لینڈ 1839ء بائسکل جدید اسٹارے برطانوی 1884ء بیرومیٹر نوری سیلی اطالوی 1643ء برف بنانے کی مشین گوری امریکی 1851ء برنر گیس بنسن جرمن 1855 (بیلون) غبارہ مونٹ گوفنز فرانسیسی 1783ء بال پوائنٹ پین جان لاوڈ امریکی 1888ء بلیڈ(ریزر) کنگ جیلٹ امریکی 1895ء بلب ایڈیسن امریکی 1879ء برقی مقناطیس ہنری امریکی 1828ء بھاپ کا انجن جیمز واٹ برطانوی 1764ء پستول ساموال کولٹ امریکی 1835ء پرنٹنگ پریس گٹن برگ جرمن 1475ء پیراشوٹ آندرے جیکوئیس فرانسیسی 1797ء پیپر مشین ڈکنسن امریکی 1809ء تھرمامیٹر گلیلیو گلیلی اٹلی اطالوی 1595ء تھرما میٹر (پارے والا) فارن ہائیٹ جرمن 1714ء تارپیڈو لا برطانوی 1866ء ٹینک (فوجی) سونٹن برطانوی 1914ء ٹائر جن ڈنلپ ائییر لینڈ 1889ء ٹریکٹر جان فرولک امریکی 1892ء ٹیلی گراف مارکونی اٹلی اطالوی 1896ء ٹیلی فون گراہم بیل امریکی 1876ء ٹائپ رائیٹر شول گڈن امریکی 1668ء ٹیلی وژن جن ہئیرڈ اسکاٹ لینڈ 1926ء خوردبین جینسن ہالینڈ 1590ء دوربین لیبرشے ہالینڈ 1606ء ڈائنا مائیٹ الفریڈ نوبل سویڈن 1866ء ڈائنمو (ہائیڈرون کولڈ) شولر امریکی 1915ء ریڈار ٹیلزنگ امریکی 1922ء ریان موان برطانوی 1883ء ربر ٹائر ہنکوک برطانوی 1847ء ربڑ چارلس گڈائیر امریکی 1841ء ریلوے انجن سٹیفن سن برطانوی 1829ء سیمنٹ جوزف اسپیڈین برطانوی 1824ء سلائی مشین تھیمانیر بارتھیلمی فرانسیسی 1850ء سیلولائیڈ پاکس الیگزانڈر برطانوی 1865ء سیلوفین برانڈین برگر سوئٹزرلینڈ 1900ء سینما مشین ایڈیسن امریکی 1893ء سینما مشین لومیرے فرانس 1885ء سیفٹی ماچس لینڈس ٹٓرم سویڈن 1855ء سٹیم بوٹ (دخانی کشتی) سیمنگٹن اسکاٹ لینڈ 1802ء سٹیتھو سکوپ لائنگ اسکاٹ لینڈ 1819ء سیفٹی لیمپ] سر ہیمفرے ڈیوی برطانوی 1816ء شارٹ ہینڈ پٹ مین برطانوی 1837ء صابن بریسٹشن جرمن 1828ء عدسہ(لینس) ڈولیانڈ برطانوی 1758ء فولاد رپسمیر برطانوی 1856ء فوٹو گراف ایڈیسن امریکی 1877 فوٹو گرافی نیپس سینئر فرانسیسی 1826ء فوٹو (رنگین) لپ میں فرانسیسی 1891ء فوٹو (سہ رنگی رنگین) لو میری فرانسیسی 1904ء فوٹوفون بیل امریکی 1885ء فصل کاٹنے کی مشین مور امریکی 1838ء فائونٹین پین واٹر مین امریکی 1884ء کاغذ ڈاہل جرمن 1844ء کار(اسٹیم) گکناٹ ہنسکولس مریکی 1769ء کار (پٹرول) کارل ڈیمیلر امریکی 1876ء گراموفون ریکارڈ برلیز امریکی 1878ء گراموفون ایڈیسن امریکی 1887ء گیس مینٹل ویلش باش آسٹریا 1885ء گیسولین مڈگلے امریکی 1922ء گیسولین (ہائی آکٹین) ایپاٹیف روسی 1930ء گلاس (شیشہ) بینی ڈکٹس فرانسیسی 1909ء گن پائوڈر راجر بیکن برطانوی 1245ء گھاس کاٹنے کی مشین ماننگ امریکی 1831ء لائوڈ سپیکر رائس کیلگ امریکی 1924ء لائف بوٹ لیونل لیوکن 1785ء لیتھ (خراد مشین) نش امریکی 1845ء مشین گن گٹیلنگ امریکی 1861ء موٹر سائیکل ایڈورتھ ٹیلر ۔ ڈیمار برطانوی 1884-85ء مرکری بلب ہیوٹ امریکی 1912ء مائیکروفون برلز امریکی 1877ء ماچس (فاسفورس والی) سوریا فرانسیسی 1831ء نائیلون ڈوپنٹ لیبارٹری امریکی 1837ء نائیٹروگلیسرین سابریرو امریکی 1846ء نیل بائیر جرمن 1880ء نیون لیمپ جارڈ کلاڈے فرانسیسی 1915ء ویلڈنگ (الیکٹرک) ٹامس امریکی 1877ء ویلڈنگ ٹیوب پرلینس امریکی 1930ء واشنگ مشین ہرلے 1907ء ہوائی جہاز آرویل وار والبرائیٹ امریکی 1903ء کون سا آلہ کیا کام کرتاہے بیرومیٹر (Barometer) ہوا کا دبائو ناپنے کا آلہ (باد پیما)۔ کرونو میٹر (Chronometer)وقت ناپنے کا آلہ (وقت پیما) لیکٹو میٹر (Lactometer) دود ھ کی کثافت معلوم کرنے کا آلہ (شیرپیما) جائیرو سکوپ (Gyroscope)سمندر میں سمت معلوم کرنے کا آلہ (آ ب پیما) ہائیڈرو میٹر: (Hydrometer) مائع کی کثافت اضافی معلوم کرنے کا آلہ (آب پیما) الٹی میٹر (Altimeter) بلندی معلوم کرنے کا آلہ (بلندی پیما) انیمو میٹر (Anemometer) ہوا کی رفتار معلوم کرنے کا آلہ (رفتار ی باد پیما) پائیرو میٹر(Pyrometer) آگ کا درجہ حرارت معلوم کرنے کا آلہ (آتش پیما) رین گیج (Rainguage) بارش کی مقدار معلوم کرنے کا آلہ (باراں پیما) تھرما میٹر(Thermometer) انسانی درجہ حرارت معلوم کرنے کا آلہ (تپش پیما) ٭٭٭ اہم سوالات و جوابات س: انسانی جسم میں اوسطاً کتنے سیل ہوتے ہیں؟ ج: انسانی جسم میں اوسطاً پچاس ہزار ٹریلین سیل ہوتے ہیں۔ جو زندہ ٹشوز کا حصہ ہوتے ہیں۔ س: نوزائیدہ بچے کے جسم میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ج: نوزائیدہ بچے کے جسم میں 300ہڈیاں ہوتی ہیںَ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہو کر 206ہڈیوں تک محدود ہو جاتی ہیں۔ س: ایک انسای جسم میں رگوں کی طوالت کتنے میل ہوتی ہے؟ ج: انسانی جسم میں اوسطاً 47میل لمبی رگیں ہوتی ہیں۔ س: انسانی جسم میں کتنے گیلن پانی موجود ہوتا ہے؟ ج: ایک مکمل انسانی جسم میں اوسطاً 12گیلن پانی موجود ہوتا ہے۔ س: انسانی جسم میں کتنے اعصا ب (Muscles)پائے جاتے ہیں؟ ج: انسانی جسم میں 650اعصاب (Muscles)پائے جاتے ہیں۔ س: انسانی جسم میں کتنی اقسام کے ہارمونز پائے جاتے ہیں؟ ج: انسانی جسم میں 20قسم کے ہارمونز پائے جاتے ہیں۔ س: انسانی جسم میں کتنے پنٹ (Pints) خون پایا جاتاہے؟ ج: انسانی جسم میں 1/2 9 پنٹ (Pints)خون موجود ہوتا ہے۔ س: انسانی جسم پر اوسطاً کتنے ملین بال موجود ہوتے ہیں؟ ج: انسانی جسم پر اوسطاً 5ملین بال موجود ہوتے ہیں۔ س: انسانی جسم میں خون کے اندر ریڈ بلڈ سیلز کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ ج: انسانی جس میں خون کے اندر 30000ٹریلین ریڈ بلڈ سیلز پائے جاتے ہیں۔ س: خون کے اندر کون سے اجزا پائے جاتے ہیں؟ ج: انسانی خون کا سب سے اہم اور بڑ ا عنصر پانی ہے جس میں نمکیات ایسڈز اور پروٹین پائی جاتی ہیں۔ س: خون کے ایک پنپرک (Pinprik) کے اندر سرخ سیل اور پلیٹ لیٹس کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ ج: خون کے ایک پنپرک میں 5000000سرخ سیل 9000سفید سیل اور 250000پلیٹ لٹس موجود ہوتے ہیں۔ س: جسم کے اندر کون سے سیل آکسیجن کو داخل کرتے ہیں؟ ج: سرخ سیل آکسیجن کو انسانی جسم کے تمام حصوں تک پہنچاتے ہیں۔ س: قوت مدافعت پیدا کرنے والے سیلز کا نام بتائیے؟ ج: سفیدسیل زخم لگنے یا خون بہنے کی صورت میں قوت مدافعت پییدا کر کے زخم کو ختم کر نے اور خون کا بہائو روکنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ س: دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے انسان دماغ ک کون سا حصہ استعمال کرتے ہیں؟ ج: انسانی دماغ کے دو حصے ہیں دائیں اور بائیں سمت والا دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بائیں سمت والا دماغ اور جبکہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے دائیں سمت والا دماغ استعمال کرتے ہیں ایسا قدرتی عمل کے تحت ہوتا ہے۔ س: انسانی آنکھ کو کتنی دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ ج: امریکہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ 50میل دور جلنے والی موم بتی کا شعلہ دیکھ سکتی ہے۔ س: انسانی آنکھ کتنے رنگوں اور سایوں میں تمیز کر سکتی ہے؟ ج: انسانی آنکھ کو ایک کروڑ مختلف رنگوں اور سایوں کو پہچاننے کی صلحیت رکھتی ہے۔ س: آنکھ آواز کو محسوس کر سکتی ہے یا نہیں؟ ج: آنکھ آواز کو ارتعاش سے محسوس کر سکتی ہے۔ س: ناک کتنی خوشبوئوں کو سونگھ سکتا ہے؟ ج: ناک 4000 خوشبوئوں کو سونگھ کر ان میں تمیز کر سکتا ہے۔ س: زبان کتنے ذائقوں میں تمیز کر سکتی ہے؟ ج: زبان 9000زائقوں میں تمیز کر سکتی ہے۔ س: انسانی جسم کا کون سا حصہ سردی گرمی دبائو وار درد کو محسوس کر سکتا ہے؟ ج: انسانی جلد۔ س: ورزش کھیلتے یا دوڑتے ہوئے انسانی دماغ تک پیغام کتنے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچتا ہے؟ ج: ورزش کھیلتے یا دوڑتے ہوئے دماغ تک پیغام 180میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچتا ہے۔ س: ورزش کے دوران انسانی دل ایک منٹ میں کتنی بار دھڑکتا ہے؟ ج: ورزش کے دوران انسانی دل 150بار فی منٹ کے حساب سے دھڑکتا ہے۔ س: ورزش کے دوران سانس لینے کی رفتار کتنے میل فی گھنٹہ ہوتی ہے؟ ج: ورزش کے دوران سانس لینے کی رفتار 104میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ س: کرہ ارض پر کون سا جاندار سب سے زیادہ رفتار سے اڑ سکتا ہے؟ ج: سپائین ٹیلڈ سوئفٹ نامی پرندہ تمام جانداروں سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ اس پرندے کے اڑنے کی رفتار 104میل فی گھنٹہ ہے۔ س: چیتا کتنے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتاہے؟ ج: چیتا 60میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ س: چیتا کتنے سیکنڈ کے اندر اندر 45میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کے قابل ہو جاتا ہے؟ ج: چیتا صر ف دو سیکنڈ میں 45میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ س: شترمرغ(پرندہ) کتنے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتاہے؟ ج: شتر مرغ 45میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دو ڑ سکتاہے یہ واحد پرندہ ہے جو اڑ نہیںسکتا۔ س: گھوڑازیادہ سے زیادہ کتنی رفتار سے دوڑ سکتا ہے؟ ج: گھوڑے کی زیادہ سے زیادہ رفتار 43میل فی گھنٹہ ہے۔ س: وہیل مچھلی کی رفتار کتنے میل فی گھنٹہ ہے؟ ج : وہیل مچھلی 34میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتی ہے۔ س: انسان زیادہ سے زیادہ کس رفتار سے دوڑ سکتا ہے؟ ج: انسان کی آخری رفتار حد 26.95میل فی گھنٹہ ہے۔ نوٹ (یہ رفتار معروف تھلیٹ کارل لیوس کی دوڑ کا ریکارڈ ہے) س: کیا کسی انسان کے فنگر پرنٹس کسی دوسرے انسان کی انگلیوں کے نشانات سے ملتے ہیں؟ ج: کسی بھی انسان کے فنگر پرنٹس کسی دوسرے انسان سے نہیںملتے ہیں۔ س: دل ایک دن میں اوسطاً کتنی بار دھڑکتا ہے؟ ج: دل ایک دن میں اوسطاً 100000بار دھڑکتا ہے۔ س: انسانی جسم میں موجود سیل ایک دنمیں کم از کم کتنی بار دل سے ہو کر گزرتے ہیں؟ ج: انسانی جسم میں موجود تمام سیل ایک دن میں کم از کم ہزار دفعہ دل سے ہو کر گزرتے ہیں۔ س: خون ایک گردے میں سے کتنی بار گزرتا ہے؟ ج: 24گھنٹوں کے دوران خون 400بار دونوں گردوں سے گزرتا ہے۔ س: آنکھ ایکدن میں کتنی بار جھپکتی ہے؟ ج: انسانی آنکھ ایک دن میں 20000بار جھپکتی ہے۔ س: ہنسنے کے دوران کتنے انسانی اعصاب حرکت کرتے ہیں؟ ج: ہنسنے کے عمل کے دوران 400اعصاب براہ راست حرکت کرتے ہیں۔ س: جسم پر موجود بال (زندہ یا مردہ) کون سے سیل پر مشتمل ہوتے ہیں؟ ج: بال مردہ سیلز (Cells)پر مشتمل ہوتے ہیں۔ س: بال ایک دن میں کتنے انچ بڑھتے ہیں؟ ج: انسانی بال ایک دن میں 0.013انچ بڑھتے ہیں۔ س: ایک دن میں کتنے بال انسانی جھڑتے ہیں؟ ج: ایک دن میں 80سے 100تک انسانی بال جھڑتے ہیں۔ س: کٹنگ نہ ہونے کی صورت میں بال اوسطاًکتنے انچ لمبے ہوجاتے ہیں؟ ج: کٹنگ نہ ہونے کی صورت میں بال 24 سے 36انچ تک لمبے ہو جاتے ہیں۔ س: نوزائیدہ بچہ کتنے گھنٹے سوتا ہے؟ ج: نوزائیدہ بچہ اوسطاً 20گھنٹے روزانہ سوتا ہے۔ س: خوراک عمل انہضام کے دوران کتنے فٹ لمبی نالیوں سے گزرتی ہے؟ ج: عمل انہضام کے دوران خوراک 30فٹ لمبی نالیوں سے گزرتی ہوئی جزو جسم بنتی ہے۔ س: کان آواز کو کیسے محسوس کرتے ہیں؟ ج: انسانی کان ہوا کی وائبریشن (Viberation) ارتعاش سے آواز کو پہچانتا ہے۔ س: انسانی خواس خمسہ کی اقسام اور تعداد بتائیے؟ ج: حواس خمسہ پانچ اقسام کے ہوتے ہیں جنکی تفصیل درج ذیل ہے؟ (1) دیکھنا (آنکھ) (2) سننا (کان) (3)چھونا (ہاتھ) (4)چکھنا (زبان) (5)سونگھنا (ناک) س: ڈیم او ربیراج میں کیا فرق ہے؟ ج: ڈیم ن بجلی کی توانائی کو کام میں لا کر پیدا کی جاتی ہے اور دریائوں پربند باندھے جاتے ہیں۔ بیراج: کھلا اور چلتا پانی جسے پنے اور کھیتوں میں زمین کی زرخیزی کے طورپر استعمال میں لانے کے لیے سٹور کیا جائے۔ س: امونیم سلفیٹ کہاں استعمال کی جاتی ہے؟ ج: امونیم سلفیٹ کو ہم بطور کھاد استعمال کرتے ہوئے کھیتوں میں زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ س: پاکستان میں توانائی کی دا استعمال بتائیے؟ ج: (1) صنعتوں میں بجلی کا استعمال (2) گھروں میں بجلی اور گیس کا استعمال س: DNAاور RNA میں دو اہم فرق لکھیے؟ ج: DNAصرف کورماٹی میں ہوتا ہے جس سے کروموسوم بنتے ہیں جبکہ RNA کی مقدار زیادہ مائٹو پلازم میں پائی جاتی ہے تاہم RNAکی تھوڑی سی مقدار نیوکلیس میں بھی پائی جاتی ہے۔ س: لیزر کے دوا ستعمال بتائیے؟ ج: لیزر شعاعوں کے استعمال سے آنکھ جیسے نازک حسے کی سرجری کی جاتی ہے۔ لیز ر کی مدد سے کینسر جیسے موزی مرض کا علاج کیا جاتا ہے۔ س: زراعت میں ریڈیو آئسو ٹوپس کے دو استعمال بتائیے؟ ج: (1) زمین کی زرخیزی معلوم کی جاتی ہے۔ (2) ایسی ادویات تیار کی جار ہی ہیں جو کیڑوں اور مکوڑوں سے فصلوں کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ س: سائنس کی تعریف کیجیے؟ ج: سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی جاننا ہیںَ سائنس ایک ایسا علم ہے جس سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کی جاتی ہے۔ س: کینسر سے بچائو کے طریقے چار لکھیے۔ ج: (1)تمباکو نوشی سے بچنا چاہیے۔ (2) اگر جسم پر کوئی ابھار سا پڑ جائے تو فوراً ڈاکٹر کو چیک کرائیں۔ (3) مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے کو اپنے ہاتھ اور منہ وغیرہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ (4) ہر سال اپنا پورا طبعی معائنہ کرائیں۔ س: طبعی سائنس کی چار اہم شاخوں کو وضاحت سے بیان کیجیے۔ ج: طبعی سائنسی علوم (Physical Sciences) یہ علوم غیر جاندار اشیاء کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان مین علم الارض فلکیات طبیعیات اور کیمیا کے علوم شامل ہیں۔ (الف ) علم الارض علم الارض سائنس کی وہ شاخ ہیجس میں زمین پر پائی جانے والی اشیاء مثلاً مٹی‘ ریت‘ کنکر‘ پتھر‘ تیل گیس وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر زمین کے اندر معدنیات کا وقوع اور ان کی ماہیت اس علم کا جزو ہیں پاکستان اور علم الارض: پاکستان میںزیر زمین معدنیات کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے۔ حکومت نے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی طرز کے کئی مراکز اور صوبائی ادارے قائم کر رکھے ہیںَ جن کا کام ملک کی زیر زمین دولت کی نوعیت مقام اور افادیت کے متعلق تحقیق کرنا ہے۔ (ب) فلکیات (Astronomy) ستاروں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے علم کو فلکیات کہتے ہیںَ فلکیات قدیم ترین سائنس ہے قدیم زمانے میں چینی ہندی بابلی (Babylonian)اور مصری فلکیات دانوںنے کھلی آنکھون سے قبل مشاہدہ اجسام فلکی کا بڑا عمیق مطالعہ کیا اور دلچسپ نظریات قائم کیے وقت کی سال مہینے ہفتے وار دنوں میں تقسیم زمانہ قدیم کے فلکیات دانوں ہی کا کارنامہ ہے ۔ جدید فلکیات: جدید فلکیات کی ابتد دوربین کی ایجاد کے بعد سے شرعو ہتی ہے۔ ہمارے آبائو اجداد ک کائنات کے متعلق علم بڑا محدود تھا جبکہ پچھلے تین سو سالوں کی دریافتوں نے کائنات کے متعلق علم میں بے پناہ اضافہ کیا اور مختلف قسم کے اجسام فلکی (جیسے سپرانوا نیوٹران‘ سٹار ‘’بلیک ہول) نئی کہکشائوں کے جھرمٹ وغیرہ دریافت کیے ہیں۔ فلکیات کے مطالعہ میں ریاضی اور طبیعیات کے علوم کا بڑا حصہ ہے۔ (ج) طبیعیات (Physics) طبیعیات طبی علوم کی وہ شاخ ہے جس میں مادہ اور توانائی کی ماہیت اور ان کے مابین تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ غیر جاندار مادے اوراس کی تبدیلیوں سے متعلق مشاہدات کے لیے ضروری تکنیک اور ان مشاہدات کو بیا ن کرنے کے لیے زبان طبیعیات ہی فراہم کرتی ہے۔ طبیعیات کی شاخین: طبیعیات کو مزید شاخوں میں بانٹا جا تا ہے جیسے میکانیات حرارت‘ آواز‘ روشنی‘ بجلی‘ ایٹم کی ساخت وغیرہ۔ طبیعیات کی اہمیت: جدید زندگی کی بیشتر سہولیات جیسے بجی سے چلن والی مصنوعات مثلاً ریڈیو‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ ویڈیو کیسٹ ریکارڈر‘ ڈیجیٹل گھڑیاں‘ کمپیوٹر وغیرہ سب طبیعیات کے کارنامے ہیں۔ (د) کیمیا (Chemistry) علم کیمیا سائنس کی وہ شاخ ہے جس میںمادے کے خواص اس کی ماہیت اور ترکیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ مادے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور تعاملات کا مطالعہ بھی کیمیا کا ایک ہام جزو ہے دنیا میں ہر وقت بے شمارکیمیائی عمل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارا وجود بھی مسلسل کیمیاء تعملات سے قائم ہے۔ خوراک کا ہضم ہونا خون کا بہنا‘ وریدوں کے خون کا صاف ہونا‘ سب کیمیائی تعاملات کا نتیجہ ہ۔ اسی طرح موم بتی کا جلنا لوہے کو زنگ لگنا پنوں سے آکسیجن کاپیدا ہونا کیمیائی عمل کی چند مثالیں ہیںَ کیمیا کے استعمال: عوامل میں مادے کے مالیکیول یک جوڑ توڑ سے نئے مرکبات بنتے ہیں۔ کیمیا کا استعمال بہت وسیع ہے لییکن کار کا اینڈھن توتھ برش نئی نئی ادویات تعمیری مسالے وغیرہ کیمیا کے استعمال کی واضح مثالین ۃیں۔ س: پاکستان میں مشینی کاشت کے اہم خدوخال کی وضاحت کیجیے۔ ج: مشینی کاشت مشینی کاشت سے مراد زمین کی تیاری بوائی‘ آبیاری فصلوں کی حفاظت اور کٹایمیے غلہ حاصل کرنے کے تمام مراحل کو مشینوں کی مدد سے تکمیل تک پہنچانا ہے۔ مشینی کاشت کے تقاضے ہمارے کسان سخت محنت اور جان فشانی سے کام لیتے ہیں اس کے باوجود ہماری پیدوار ترقی یافتہ ملکو ں کے مقابلے میں کم ہے۔ بعض اشیاء میں تو ہم خو د کفیل ہو چکے ہیحں ہمارے ملک کی ستر فیصد معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ اس لیے زرعی شعبے کو مشینوں کے سہارے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وقت کا تقاضاہے کہ مشینی کاشت کی افادیت کے پیش نظر مندرجہ ذیل اقدامات سے استفادہ کیا جائے: 1۔ جدید آلات: جدید آلات کی مدد سے روایتی طریقہ کے مقابلے میں وقت کی تقریباً تبیس گنا بچت ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے بلڈوزر آسانی سے نئی زمینوں کو توڑ کر زیر کاشت لا سکتے ہیں۔ روایتی طرز کے ہل بیلچے کسی اور سہاگے کی جگہ اب ٹریکٹر کہیں آسانی سے بہتر طور پر زمین تیار کر سکتے ہیںَ ٹریکٹر کی طاقت سے بیج بونے والی فصل کاٹنے اور اناج صاف کرنے والی کئی دوسری مشینیں بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح ٹریکٹر اپنی افادیت کے پیش نظر کسانوں کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لیے ٹریکٹر سازی کی صنعت پر خاصی توجہ دی گئی ہے اور ملک میں ہر سال 40ہزار سے زائد ٹریکٹر تیار کیے جا رہے ہیں۔ 2 آبپاشی کے نئے طریقے: زرعی پیداوارمیں اضافے کے لیے مناسب پانی کی فراہمی بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ دریائوں سے آنے والے پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کے لیے جدید طریقے اپنائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے سرکاری اعانت سے نکوں اور کھالوں کو پختہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ بنجر اور ناہموار خشک علاقوں میں کئی طرح کے مصنوعی پائیں ہوائی سپراے اور ڈراپ آبپاشی کی تکنیک کو رواج دیا جا رہا ہے۔ بارانی علاقوں میں بھی آبپاشی کے لیے جدید آلات کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ 3 فصلوں کی نگہداشت: فصلوں سے بہتر پیداوار کے حصول کے لیے باقی تمام اقدامات کے یے کیلے کی فلوں کی بہتر پیدوار بہت حد تک حفاظتی ادویات کے استعمال سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ 4 تحقیق اور جدت: زراعت میں تعلیم و تحقیق کے لیے تین یونیورسٹیاں اور تیس سے زائد سکول کالج اور دوسرے ادارے بھی ہیں۔ زرعی تحقیق کی قومی کونسل اپنے تحقیقی منصوبوں کے علاوہ ان ادارں میں ہونے والی تحقیق اور تجربہ میں رابطے اور رہنمائی کے فرائض بھی سر انجام یتی ہے۔ 5 مشینی کاشت کی افادیت: مشینی کاشت کم سرمایے کم محنت اور کم وقت سے زیادہ کی پیداوار کی ضمانت بنتی ہے۔ اس سے کسانوں کو بہت حد تک سخت جانی مشقت سے بھی نجات ملتی ہے۔ کسانوں کو فراغت اور تفریح کیلیے زیادہ وقت میسر آ جاتاہے۔ اس لیے کسان فالتو وقت میں مرغبانی‘ ماہی پروری اور ڈیر فارنگ کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں س: کاربن کی قلمی اشکال کے نام لکھیں اور ان کے خواص کا موازنہ کریں۔ ج: جب کوئی عنصر قدرتی طورپر مختلف حالتوںمیں اس طرح پایا جائے کہ ان کی کیمیائی خصوصیات ایک جیسی ہوں مگر طبعی خصوصیات مختلف ہوں تو یہ مظہر بہروپیت کہلاتاہے۔ کاربن کی مندرجہ ذیل قلمی اشکال ہیں۔ (الف) غیر قلمی حالتیں: غیر قلمی حالت میں کاربن ‘ کاجل‘ معدنی کوئلہ‘ حیوانی کوئلہ‘ گیس‘ کاربن ‘ کوک وغیرہ کی شکل میں ملتا ہے۔ یہ عموماً ناخالص حالت میں ہوتاہے۔ (ب) قلمی حالتیں: کاربن کی مندرجہ ذیل دونوں قلمی بہروپی اشکال ہیں اور انہی حالتوں میں کاربن قدرتی طورپر آزاد حالت میں پایا جاتاہے۔ ہیرا گریفائیٹ 1۔ ہیرا: ہیرا کاربن کی خالص ترین شکل ہے۔ یہ انتہائی چمکدار اور شفاف ٹھوس حالت میں پایا جاتا ہے۔ یہ جنوبی افریقہ بوٹسوانہ ہندوستان اور جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ خواص اور فوائد: 1۔ ہیرا خالص حالت میں شفاف اور بے رنگ ہوتا ہے۔ 2 جب اس کی تراش خراش کی جاتی ہے تو یہ انتہائی چمکدار نظر آتا ہے۔ 3 یہ قدرتی حالت میںپائی جانے والی سخت ترین شے ہے۔ 4 ا سکی کثافت 3.3گرام فی مکعب سم ہوتی ہے۔ 5 ۔ یہ برقی رو کے لیے ناقص موصل ہے یعنی اس میں سے بجلی نہیں گزر سکتی۔ 6۔ اگر اسے برقی بھٹی میں زیادہ دیر تک گرم کیا جائے تو یہ گریفائیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ 7۔ ساخت کے لحا ظ سے ہیرے میں پائے جانے والے ایٹم ہر طرف سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہیں آسانی سے علیحدہ نہیںکیا جا سکتا۔ اس وجہ سے یہ زیادہ سخت ہوتاہے۔ 8 ۔ یہ سخٹ ہونے کی وجہ سے شیشہ کاٹنے اور دوسرے آلات میں استعمال ہوتا ہے۔ 9۔ ہیرے کے جڑائو سے قیمتی زیور ات تیار کیے جاتے ہیں۔ 2 ۔ گریفائیٹ گریفائیٹ سیاہی مائل بھورے رنگ کا نرم ٹھوس ہوتا ہے۔ یہ سری لنکا ہندوستان امریکہ کینیڈا اور پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ خواص اور استعمال 1۔ گریفائیٹ ایک سیاہی مائل قلمی کاربن ہے۔ 2 یہ ملائم نرم اور چکنا ہوتاہے۔ 3 یہ بجلی اور حرارت کا اچھا موصل ہے 4 اس کی کثافت 2.2سے 2.5تک ہوتی ہے۔ 5۔ برقی بھٹی میں زیادہ دیر تک گرم کرنے سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ 6 ساخت کے لحاظ سے گریفائیٹ میں پائے جانے والے ایٹم تہہ دار شکل میں ہوتے ہیں۔ 7 گریفائیٹ بطور مارکر نشان لگانے کے کام آتا ہے۔ 8۔ چکنا ہونے کی وجہ سے مشینوں میں بطور گریس استعمال ہوتا ہے۔ 9۔ برقی موصل ہونے کی وجہ سے برقریرے بنائے جاتے ہیں۔ س؛ حیوانی خلیہ کی شکل بتائیے س کے مختلف حصوں کے نام لکھیے اور کوئی سے تین حصوں کی مختصر وضاحت کیجیے۔ ج: خلیہ کی ساخت: خلیہ حیاتیاتی مادے پروٹوپلازم کا بناہوتاہے جو چار بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتاہے۔ 1 خلوی جھلی یا سیل ممبرین (Cell Membrane) 2۔ مرکزہ یا نیوکلیس (Nucleus) 3 سائٹو پلازم (Cytoplasm) 4۔ وسطی خلا یا ویکیول (Vacuole) 1۔ خلوی جھلی یا سیل ممبرین: (1) یہ ایک پتلی سی جھلی خلیہ کے اردگرد ہوتی ہے۔ (2) یہ جاندار ہوتی ہے۔ (3) یہ نیم نفوز پذیر ہوتی ہے خلیہ سے نکلنے والی اور اس میں داخل ہونے والی اشیاء اس جھلی میں سے عمل نفوذ کے ذریعے گزرتی ہے۔ 2۔ سائٹو پلازم: خلیہ کی جھلی اورمرکزی کے درمیان نیم شفاف دانے دار گاڑھا سیال مادہ ہوتا ہے۔ جسے سائٹو پلازم کہتے ہیں۔ اس میں بہت سے نامیاتی اور غیر نامیات مرکبات مثلاً نشاستے‘ پروٹین اور چکنائیاں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اس میں مندرجہ ذیل چھوٹے چھوٹے جاندار اجسام بھی پائے جاتے ہیں۔: 1۔ یہ بیضوی شکل کا جسیمہ ہے جو دوسینٹری اول (Centriole)پر مشتمل ہوتا ہے۔ 2۔ رائبو سومز: یہ چھوٹے اجسام ہوتے ہیں تعداد میں بہت سے ہوتے ہیں اور پروٹین بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 3۔ گالجی باڈیز: یہ چھوٹے چھوٹے دانوں ریشوں یا تھالی کی شکل کے ہوتے ہیں بعض رطوبتوں کے بننے اور اخراج میں مدد دیتے ہیں۔ 4 مائٹو کانڈریا: یہ چھوٹے چھوٹے ریشوں دانوںیا سلاخ کی شکل کے ہوتے ہیں ان میں خلوی عمل تنفس کے دوران توانائی پیدا ہوتی ہے۔ 3 نیوکلیس یا مرکزہ یہ عموماً خلیہ کے وسط میں ہوتا ہے۔ اس کی شک تقریباً گول ہوتی ہے۔ 1۔ مرکزی جھلی یا نیوکلیر ممبرین: مرکزہ کے اردگرد ایک پتلی سی جھلی ہوتی ہے۔ یہ جھلی مسامدار ہوتی ہے جن کے ذریعے چیزیں اندر یا باہر نفوذ کرتی ہیں۔ 2۔ نیوکلیو پلازم: یہ مرکزہ کے اندر ایک کثیف لیکن شفاف سیال مادہ ہوتا ہے۔ 3 کروموسومز: یہ نیوکلیو پکازم میں بہت سے الجھے ہوئے نازک دھاگے کی طرح ہوتے ہیں۔ زندگی کی بقا اور ارتقاء ے لے کروموسومز انتائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کروموسومز پر جینر (Genes)ہوتے ہیں۔ 4۔ نیوکلیائی: مرکزے کے اندر ایک یا دو چھوٹے چھوٹے اجسام بھی ہوتے ہیں جنہیں نیوکلیائی کہتے ہیں س: روغنیات میں حل ہونے والے کوئی چار وٹامن کا وقوع اور استعمال بیان کیجیے؟ ج: وٹامن اے (Vitamin A) وٹامن اے کا حصول: یہ وٹامن عام طور پر ہری گھری گھاس ترکاریوں گاجر‘ بند گوبھی‘ ٹماٹر‘ گیہوں مکئی اور مچھلی کے جگر‘ دودھ اور مکھن میں پایا جاتا ہے۔ انڈے کی زردی میں بھی اس کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وٹامن گوشت اور پھلوں میں بھی کسی قدر موجود ہوتاہے۔ عام طور پر یہ وٹامن سبزیوں میں کیروٹین کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس میں یہ کیروٹین حیاتین اے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وٹامن اے کی اہمیت: وٹامن اے جسم کی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ خاص طورپر نشوونما پانے والے بچوں کے لیے تو یہ بہت جروری ہے۔ کیونکہ نشوونما کا دارومدار بڑی حد تک اس پر بھی ہے۔ اس وٹامن کی کمی سے عام طور پر رات کا اندھا پن پیدا ہوتا ہے۔ دانتوں کی نشوونما اور صحت کے لیے بھی وٹامن بڑا اہم ہے۔ وٹامن ڈی (Vitamin D) وٹامن ڈی کا حصول: یہ وٹامن کاڈ (Cod)مچھل اور شارک کے جگر کے تیل میں بہت وافر مقدر میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دودھ مکھن‘ بالائی اور انڈے کی زردی میں بھی پایا جاتا ہے۔ وٹامن ڈی کی اہمیت: جسم کے کیمیائی عملوں میں کیلشیم اور فاسفورس اسی وٹامن کے زیر اثر استعمال ہوتے ہیںَ فاسفورس چونکہ ہڈیوں کا ایک اہم جزو ہے۔ اس لیے وٹامن کی کمی سے ہدیان نرم کھوکھلی اور ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ وٹامن ای (Vitamin E) وٹامن ای کا حصول: اس وٹامن کا کیمیائی نام ٹوکوفیرول (Tocopherol)ہے یہ وٹامن انڈے کی زردی‘ مونگ پھلی زیتون کا تیل پستہ ‘ دودھ‘ مکھن‘ اور سبزیوں مثلاً سلاد بند گوبھی‘ گاجر اور آلو وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ وٹامن ای کی اہمیت: وٹامن ای کی کمی سے عضلات اور اعصاب کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کی کمی سے عام طور پر عورتوں میں بانجھ پن کی شکایت بھی ہوجاتی ہے۔ وٹامن کے (Vitamin K) یہ وٹامن زیادہ تر سبزیوں مثلا ً گوبھی پالک سویابین میں پایا جاتاہے۔ اس کے علاوہ اس کی کچھ مقدار گوشت میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ وٹامن خون منجمد ہونے میں مددگار ہوتاہے۔ لہذا اس کی کمی کی صورت میں اگر کوئی زخم وغیرہ لگ جائے تو خون بہنا شروع ہو جاتا ہے اور مشکل سے بند ہوتا ہے۔ س: کینسر کی پہچان کیا ہے اور اس کا علاج کیوں کر ممکن ہے؟ بیان کیجیے؟ ج: کینسر کو عام طور پر اصطلاح میں سرطان کہتے ہیں۔ جس کا مطلب کیکڑا ہے یعنی یہ کیکڑے کی طرح سنان کے جسم میں اپنے پنجھے جما کر بڑھتا رہتا ہے۔ کینسر داصل خلیات کی بے قابو ااور بے تحاشہ تقسیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں یہ عام طور پر رسولی پھورے گلٹی یا ورم کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے کینسر کے خلیے کسی ایک جگہ محدو د رہت یہیں یا پھر یہ خون کے ساتھ جسم میں بہت سی دوسری جگہوں پر پہنچ سکتے ہیں۔ اور وہاں نئی نئی رسولیاں وغیرہ بنانے لگتے ہیں کینسر کا علاج: کسی زمانے میں کینسر لاعلاج سمجھا جاتا ھتا۔ ۔آج کل بھی اس کا علاج کافی مشکل ہے لیکن ممکن ہے اور خاص طور پر اگر کینسر اپنی شروع کی حالت میں تشخیص کر لیا جائے تو پھر مکمل شفابہت حد تک ممکن ہوت ہے بنیادی طور پر کینسر کا علاج مندرجہ ذیل تین طریقوں سے ہوتاہے۔ 1۔ بذریعہ ادویات کا کیموتھراپی (Chemotherapy) اب تک بہت سی ادویات ایجاد ہو چکی ہیں۔ جو کینسر یا اس کے جسم میں پھیلائو کو کافی ھحد تکدور کریت ہیں مثلاً ایک دوا (Fluaro Uracil)آج کل عام استعمال میں ہے۔ 2 بذریعہ سرجری یا جراحی (By Surgery) کینسر کی رسولی کو بذریعہ سرجری یا آپریشن کے نکال دیا جاتا ہے۔ عموماً بی نائن رسولیوں کا علاج اس طریقہ سے کیا جاتا ہے۔ سرائیت کرنے والے کینسر کا علاج جراحی سے پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ عام طور پر ایسا کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل چکا ہوتا ہے۔ 3۔ بذریعہ تابکاری (Radiotherapy / Radiation Therapy) بعض قسم کی تابکاری (Radiations)انسانی جسم کے (Tissues)پر گرائی جائیں تو وہاں حصوں کو توڑ پھوڑ اور تباہ کر سکتی ہیں لہٰذا ایسی ہی شعاعوں کو اگر کینسر زدہ حصے پر ڈالا جائے تو وہ کینسر تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ان سب اقسام کے علاج کے باوجود یہ ممکن ہیکہ چند سالوں بعد پھر کینسر نمودار ہو جائے۔ کینسر کے علاج کو اس وقت تک کامیاب خیا ل نہیں کیا جا سکتا جب تک شفایاب ہونے کے بعد پانچ یا چھ سال تک مرض نمودار پھر نہ ہو جائے۔ س: دور حاضر میں نیوکلیائی توانائی انسان کے لیے بہت مفید ہے؟ ج: نیوکلیائی توانائی کے پر امن استعمال سے بہت سے فائدے حاصل کیے جا رہے ہیں جن سے انسانی زندگی اور بھی سہل ہوجاتی ہے۔ بجلی پیدا کرنا نیوکللائی توانائی سے بجلی پیداکی جا رہی ہے۔ جس کے لیے مختلف ممالک میں ایٹمی بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں جن میں ایٹمی انشقاق کے ذریعے حاصل کی جانے والی توانائی سے جنریٹروں کو چلا کر بجلی پیداکی جائے گی۔ جہازوں او رآبدوزوں میں استعمال نیوکلیائی توانائی سے بڑے بڑے جہاز اور آبدوزیں چلائی جا رہی ہیں جس سے تیل اور وقت کی بچت ہوت ہے۔ خلائی تحقیق کے بھیجے جانے والے راکٹوں میں بھی ایٹمی ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریڈیو آئسو ٹوپ کی تیاری عام عناصر کوری ایکٹر میں رکھ کر ان کے آئسو ٹوپ تیار کیے جاتے ہیں۔ پھر یہ آئسوٹوپ طب زراعت کیمیا صنعت اور بیالوجی وغیرہ کی تحقیق میں بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ پیچیدہ بیماریوں کا علاج انسانی جسم کے کسی بیمار حصے کی نشان دہی کے لیے بھی آئسو ٹوپ استمعل کیے جاتے ہیں مثلاً جسم کے خلیوں کے لیے آیوڈین بہت ضروری ہے۔ یہ آیوڈین تھائی رائیڈ گلینڈ خون سے جذب کرتے ہیںَ جتنی تیزی سے یہ گلینڈ آیوڈین جذب کرتے ہیں اتنے ہی یہ گلینڈ صحت مند ہوں گے۔ مریض میں آیوڈین جذب ہونے کی رفتار دیکھنے کے لیے مرض کو آیوڈین کے آئسوٹوپ کی مناسب خوراک دی جاتی ہے۔ یہ آیوڈین تھائی رائیڈ گلینڈ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک آلہ گائیگر کائونٹر مریض کی گردن کے پاس لگایا جاتا ہے جس سے آیوین جمع ہونے کی رفتار نوٹ کی جات ہے اگریہ رفتار سست ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گلینڈ صحت مند نہیں ہیں۔ ایسے عناصر جن میں ایٹم غیر قیام پذیر ہوں ہر وقت ان ایٹموں کے مرکزہ میں سے خاص قسم کی شعاعیں خارج ہوتی رہتی ہیں یہ خارج ہونے والی شعاعیں تین قسم کی ہوتی ہیںَ الفا ذرات یا شعاعیں بیٹا ذرات یا شعاعیں گیما شعاعیں 1۔ الفا ذرات کا شعاعیں 1 الفا ذرات دو پروٹان اور دو نیوٹران پر مشتمل ہوتے ہیں۔ 2۔ ان پر مثبت برقی چارج ہوتا ہے جو الیکٹران کے برقی چارج سے دوگنا یعنی ہیلیم کے مرکزہ کے برابر ہوتا ہے۔ 3 ان میں آئین بنانے کی بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ 4 ان میں نفوذ کرنے کی طاقت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ان کو پتلے کاغذ سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ 5 یہ ذرات کسی ایٹم کے مرکزہ میں مصنوعی انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ 6۔ یہ ذرات انسانی جسم پر جلن اور زخم پیدا کردیتے ہیں۔ 7۔ یہ ذرات ہوا میں چند سینٹٰ میٹر کے فاصلے طے کر سکتے ہیں۔ 8۔ الفا ذرات کی کمیت ہائیڈروجن کے نیوکلیس سے چار گنا ہوتی ہے۔ بی ٹا ذرات یا بیٹا شعاعیں 1۔ ان پر منفی چار ج ہوتا ہے یہ الیکٹران ہوتے ہیں۔ 2 ان کی میت الیکٹران کی کمیت کے برابر ہوتی ہے۔ 3 یہ الفا ذرات کی نسبت تیز رفتار ہوتے ہیںَ اور فضا میں کئی سو سینٹی میٹر کے فاصلے تک جا سکتے ہیں۔ 4۔ ان کی نفوذی قوت الفا ذرات سے سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ انہیںایک سینٹی میٹرموٹی دھاتی پلیٹ سے روکا جا سکتاہے۔ 5۔ جب بیٹا زرات کو کسی دھاتی پلیٹ سے روکا جائے تو ہی ایکس ریز پیدا کرتے ہیں۔ 6۔ یہ فوٹو گرافت پلیٹ کو متاثر کرتی ہیں۔ 7 اگر یہ ذرات جسم میں داخل ہو جائیں تو کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ گیما شعاعیں 1۔ یہ برقی مقناطیسی شعاعیں ہوتی ہیں۔ 2 ان کی طول موج بہت چھوٹی لیکن فریکوینسی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 3 یہ شعاعیں فضا یں بہت دور تک جا سکتی ہیں۔ 4۔ یہ شعاعیںروشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیںَ 5 انہیں صرف سیسے اور کنکریٹ کی موٹی دیواروں سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ 6۔ جب یہ شعاعیں کسی دھات پر پڑتی ہیں تو فوٹو الیکٹران خارج کرتی ہیں۔ 7۔ ان کی نفوذ کی شرح بیٹا شعاعوں سے بھی 100گنا زیادہ ہوتی ہے۔ 8۔ گیما شعاعیں ایکس ریز سے مشابہ ہوتی ہیں لیکن ان کی توانائی ایکس ریز سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ س: مائی ٹو کانڈریا کو سیل کا پاورہائوس کیوں کہا جاتاہے؟ ج: مائی تو کانڈریا کو خلیہ کا پاور ہائوس اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ سیل کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ س: ویکسینز کے استعمال سے جسم بیماریوں سے کیوں محفوظ رہتاہے؟ ج: ویکسینز کے استعمال سے جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور جسم بیماریوں کے خلاف لڑ سکتا ہے۔ س؛ ضیائی تالیف کے بغیر سانس لینا کیوں ممکن نہیں؟ ج: ضیائی تالیف کے بغیر سانس لینا ممکن نہیں کیونکہ ضیائی تالیف کے عمل سے پودے آکسیجن گیس ہوا میں خارج کرتے ہیں جو ہمارے سانس لینے کے کام آتی ہے۔ س: مارفولوجی اور فزیالوجی میں فرق واضح کیجیے۔ ج: مارفولوجی: جانداروں کی شکل اور ساخت کو مارفالوجی کہتے ہیں فزیالوجی: جانداروں کے مختلف اعضا کے افعال کا مطالعہ فزیالوجی کہلاتاہے۔ س: عمل اخراج کی تعریف کیجیے اورنیز لیور فلوک اور کیچوے کے اعضائے اخراج کے صرف نام لکھیے؟ ج: جسم سے فالتو مادوں کے اخراج کو عمل اخراج کتہے ہیںَ لیور فلوک میں آنتیں ہوتی ہیں جبکہ کیچوے میں آنتیں نہیںہوتی بلکہ پتلی نمدار جلد ہوتی ہے۔ س: اینڈوسپرم کہاں ہوتا ہے؟ ا س کی اہمت بیان کیجیے؟ ج: نشوونما پانے والے بیج کا وہ حصہ جس میں خوراک ذخیرہ ہوتی ہے۔ س: ٹیڈپول میں کون سے ایسے اعضا ہوتے ہیں جو بالغ مینڈک میں نہیں ہوتے؟ ج: دم انگلیوں کے درمییان جھلی نہیں ہوتی۔ س؛ بیکٹیریا سے حاصل ہونے والی اینٹی بائیوٹک کے نام لکھیے: ج: پھپھوندی بائیو اسکٹی سائیڈز س: مینڈل کے لال آف سگریگیشن کی تعریف کیجیے؟ ج: تمام جانداروں میں خصوصیات کو قابو کرنے والے جینز جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں جو گمٹیں بنتے وقت ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں جسے جوڑوں میں سے صرف ایک جین ہی ایک گمیٹ میں ہو۔ س: ماحولیاتی نظام کے حیاتی عوامل اوران کی اہمیت بیان کیجیے؟َ ج: ماحولیاتی نظام (Echosystem) ایسی جگہ جہاں مختلف جاندار چاہے جانور ہوں یا پودے مل جل کر ایک دوسرے پر انحصار کر کے اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہوں ایک ماحولیاتی نظام کہلاتاہے۔ ماحولیاتی نظام میں موجود طبعی عوامل ایک ماحولیاتی نظام میں درج ذیل طبعی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت پانی مٹی فضا اور ہوا روشنی 1۔ درجہ حرارت (Temperature) ممالیا اور پرندوں کے علاوہ باقی تمام جانوروں کے جسم کا درجہ حرارت ماحول کے درجہ حرارت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے ماحول کے درجہ حرارت میں تبدیلی ایسے جانوروں کے میٹابولزم (Metabolism)کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے جن کے جسم کے اندر ؤدرجہ ھرارت کو مستقل رکھنے کے لیے کوئی اندرونی طریقہ کار موجود نہیں ہوتا۔ کرہ ارض پر زمین کادرجہ حرارت عرض بلند اور اس کی جگہ کی بلندی سطح سمندر سے کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتاہے۔ یہ تبدیلی جانداروں کی جغرافیائی حد بندی یعنی تقسیم میں بہت اہ کردار ادا کرتی ہے۔ جانداروں کی اکثر انواع میں صرف ان خطوں تک محدود ہیںجہاںدرجہ حرارت مناسب ہو۔ وہ جانداروں کی افزائش نسل اور بقا کا ضامن ہو کر رہ ارض کے استوائی معتدل اوربرفانی خطوں میں مختلف انواع کے جانور اور پودے پائے جاتے ہیں۔ جانداروں کی ایسی انواع جوہر طرف ایک خطے میں پائی جاتی ہیں وہ دوسرے خطں میں اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتیں۔ 2 ۔ پانی (Water) جانداروں کے طبعی ماحلو کا ایک اہم جز و پانی ہے۔ اور یہ تمام جانداروں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم کرہ ارض پر پانی کی تقسیم یکساں نہیں ہے۔ استوائی خطے کے مقابلے میں صحرائوں میں پانی انتہائی کم مقدار میں ملتا ہے جس کی وجہ سے صحرائوں میں زندگی کے آثار بہت کم ملتے ہیں۔ زمین پر رہنے والے جانوروں کے لیے بارش اور دریا کا پانی سب سے اہم ذریعہ ہے موسم گرما میں جب پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف پگھلتی ہے تو دریائوں میںپانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ 3۔ مٹی (Soil) پودے مٹی سے نمکیات اور پانی حاصل کریت ہیں۔ متی میں پوٹاشیم‘ کیلشیم‘ فاسفورس‘ـ نائٹروجن اور کئی دوسرے عناصر کے نمکیات مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے مٹی میں بھی غیر نامیاتی معدنی مادے اور نامیاتی مادے شامل ہوتے ہیں۔ غیر نامیاتی مادوں میں ریت بھل (Silt)اور چکنی مٹی (Clay)کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔ پتوں اور مردہ جانوروں کے گلنے سڑنے سے نامیات مادہ پیدا ہوتاہے۔ پانی اورم ٹی کے ذرات کے درمیان موجو د رہتے ہیں تاکہ پودوں کی جڑوں کو بوقت ضرورت میسر ہو سکیںَ 4۔ فضا اور ہوا (Atmosphere and Wind) فضا اور کرہ ہوائی ماحول کا ایک اہم جزا ہے اور اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کی محدودمقدار ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ ضیائی تالیف کے لیے اورآکسیجن تنفس کے لیے درکار ہے۔ زمین میں موجود بیکٹیریا فضائی نائٹروجن کو نائٹریٹ میں تبدیل کر کے زمین میں شامل کرتے ہیں جس سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا کی متحرک حالت کو ہوا کہتے ہیں۔ تند و تیز ہوائیں جانداروں کی ساخت اور ان کے جغرافیائی پھیائو پراثر انداز ہوتی ہیں۔ 5روشنی (Light) روشنی ماحول میں توانائی کا سرچشمہ ہے۔ ضیائی تالیف کے دوران پودے روشنی توانائی کو کیمیائی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ سورج کی روشنی پودوں کی مقامی تقسیم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ بات بھی ہمارے لیے قابل غورہے کہ سورج سے زمین تک پہنچنے والی روشنی کا صرف دو فیصد پودوں کی ضیائی تالیف میں استعمال ہوتاہے۔ جبکہ باقی 98فی صد حصہ زمین اورسمندروں میں جذب ہو کر حرارتی توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح شمسی توانائی زمین کا درجہ حرارت برقرار رکھتی ہے۔ س؛ فائیلم آرتھروپوڈا کی چار خصوصیات بیان کیجیے؟ ج: 1 اس فائیلم کے جسم قطعہ دار ہوتے ہیں یہ قطع صرف بیرونی سطح پر ہوتے ہیں۔ 2۔ ن کے جسم پر کاٹین سے بنا ہوا خول ہوتا ہے جو ڈھانچے کا کام دیتاہے۔ 3 اس فائیلم کے جانور پانی اور خشکی دونوں پر پائے جاتے ہیں اورمکمل جانوروں کا تین چوتھائی ہے۔ 4 اس فائیلم کے جانوروں کا جسم تین حصوں پر ہوتاہے۔ سر تھوریکس ایبڈومن س: جینو ٹائپ اور فینو ٹائپ میں کیا فرق ہے؟ ج: جینو ٹائپ جاندار میں کسی خاص خصوصیت کو ظاہر کرنے والی جین کی حالت کو اس کا جینو ٹائپ کہتے ہیں۔ مثلاً صحیح النسل دراز قد تنے والے پودے کو TTجین کے جوڑے سے ظاہر کیا جاتا ہے یہاں TT پودے کا دراز قد ہونے کے لحاظ سے جینو ٹائپ ہے۔ فینو ٹائپ: کسی جاندار کی ظاہری خصوصیات کو جاندار کو فینو ٹائپ کہتے ہیں مثلاً مٹر کے پودے کا تنے کا دراز یا پست قد ہونا اس کا فینو ٹائپ ہے۔ س: مینڈل کے قوانین وراثت کی افادیت کے دو نکات بیان کیجیے؟ ج: 1۔ ہر جاندار کسی بھی خاصیت کوکنٹرول کرنے کے لیے فیکٹرز (Factors)کا ایک جوڑا ہوتا ہے۔ 2۔ ہر جاندار اس جوڑے میں سے اپنی ماں اور دوسرا اپنے باپ سے حاصل کرتاہے۔ س: تشنج کیا ہے ؟ اسے کون سے حشرات پھیلاتے ہیں۔ اس کی علامات کیا ہیں؟ ج: تشنج (Tetanus) یہ بیماری سپور (Tetani)سے پھیلتی ہے۔ بیکٹیریا کی یہ قسم پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ بیماری کا منبع (Source of Infection) تشنج کے جراثیم زمین کے اندر اور جانوروں کے فضلات میں پائے جاتے ہیں۔ اس مرض کے جراثیم زخم جلی ہوئی جگہ ‘ نومولود کی ناف اور آپریشن (Surgical Suture)وغیرہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتے ہیںَ اس سلسلے میں زنگ آلود دھات مثلا ً کیل سے لگنے والے گہرے زخم بہت خطرناک ہوتے ہیںَ علامات (Symptoms) اس بیماری کی اہم علامات درج ذیل ہیں:ـ 1۔ اعضاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ 2 جسم کے پٹھوں میں شدید درد اور کھنچائو پیدا ہو جاتاہے۔ 3۔ جبڑ ے کے پٹھے متاثر ہونے کی وجہ سے منہ کھل نہیں سکتا۔ اس حالت کو (Lock Jaw)کہتے ہیںَ 4۔ نظام تنفس متاثر ہوتا ہے۔ علاج(Treatment) اسمرض کے علاج کے لیی تشنج کی تریاق دی جاتی ہے جو کہ اس مرض کے زہریلے مادے کے اثرات کو زائل کر دیتی ہے۔ بیکٹیریا کی نشوونما اور زہریلے مادے کے بننے کے عمل کو روکنے کے لیے پنسلین دی جاتی ہے۔ حفاظتی تدابیر (Safety Measurements) اس بیمار ی سے بچائو کے لیے لوگوں کوا یسی ویکسین دی جاتی ہے کہ جس میں تشنج کے جراثیم کے لیے مدافعت پیدا کرتی ہے۔ ویکسین پروگرام کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے یہ پروگرام بچے کی دو ماہ کی عمر سے ہی شروع کر دینا چاہیے۔ س: اگر آپ بھنور میں پھنس جاتے ہیں تو آ کیا کریں گے؟ ج: میں اپنے اعصاب کا استعمال کروں گا اس میں غوطہ لگانا بھی مددگار ثابت ہوتاہے کیونک بھنور پانی کی سطح کے نیچے طاقت کم ہوتی ہے۔ س: لوئی پاسچر نے کیا خدمات انجام دیں؟ ج: فرانسیسی کیمیا دان اور ماہر حیاتیات لوئی پاسچر جو وہ جراثیموں اور ان سے متعلقہ بیماریوں کے لیے بڑ ا مشہور تھا نے متعدد امراض جیسے چیچک‘ بائولے کتے کے کاٹے کا علاج‘ ٹائیفائیڈ اورپولیو کے خلاف ٹیکوں کو ترقی دی۔ س: پنسلین کو کس نے دریافت کیا؟ ج: بڑے پیمانے پر ضد حیاتی ادویات کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین الیگزینڈر فلیمنگ نے دریافت کیا تھا۔ س: انگریز معالج ڈاکٹر ایڈورڈ جیز نے کیا کام کیا؟ ج: انہوںنے چیچک کے خلاف بہت سے ٹیکے دریافت کیے۔ س: ماہر حیاتیات کی پسند کیا ہو سکتی ہے؟ ج : ماہر حیاتیات تحقیق یعنی درجہ بندی اور چیزوں کی تلاش کو پسند کرتے ہیں اور تجربات ایک ماہر حیاتیات کی قوت باصرہ کو مزید روشن کر دیتے ہیں۔ س: موجودہ دور میں بائیو لاجیکل سائنس کی سب سے بڑی دریافت کیا ہے؟ ج: چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء س: نظریہ ارتقاء کے بارے میں کچھ بتایئے؟ جـ: دنیا میں موجود تمام انواع طویل ارتقاء کی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں جس کے لئے ہزاروں لاکھوں برس لگ گئے اور ان کی اصلی نوعیت مشترک ہے۔ س: کس کتاب میں چارلس ڈارون کے نظریات کو مجسم بنایا گیا ہے؟ ج: ڈارون کے نظریات کو اس کی کتاب میں واضح کیا گیا ہے۔ جو ایک سائنسی کام ہے۔ س: بیالوجی کی اصطلاح کو کس نے متعارف کروایا تھا؟ ج: بیالوجی کی اصطلاح کو فرانسیسی ماہر نباتات اور حیوانات ژاں بپٹسٹ لمیرک نے انیسویں صدی میں متعارف کرایا۔ اس نے پودوں اور جانوروں کی دو درجہ بندیاں فقاریہ اور غیر فقاریہ بعد ازاں اسی صدی میں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس علم میں انقلاب برپا کر دیا۔ س: ماہر حیاتیات کے کام کی نوعیت بتایئے؟ ج:ـ ماہر حیاتیات زندہ عضویوں کے تمام مرحلوں کی تحقیق تجزبہ گاہوں اور کھیتوں کی تحقیق کا کام کرتے ہیں۔ جبکہ بعض کا تعلق انتظامی امور سے ہے جس میں خوراک اور ادویات کی جانچ پڑتال اور پبلک ہیلتھ کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ س: بیالوجی کی اور کونسی شاخیں ہیں؟ ج: بائیو جیو گرافی، بائیو کیمسٹری، مالیکیولر بیالوجی، فزیالوجی، بائیو فزکس، جینیٹکس، ایتھالوجی، ایکالوجی اور بیکٹریالوجی۔ س: برائے مہربانی ہمیں بتایئے کہ کیمبرج یونیورسٹی کب قائم کی گئی؟ ج: 12 ویں صدی عیسوی میں۔ س: کیمسٹری کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لکھی گئی ہیں؟ ج: کتب پر مکمل طور پر نظر ثانی کی ضروت ہے تاکہ وہ مغربی ممالک کی کتابوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ان کتابوں میں تازہ ترین تحقیق کے بارے میں کوئی مواد شامل ہوتا ہے جو ہمارے اور مغربی سائنس دانوں نے کی ہوتی ہے۔ س: سٹیر یو کیمسٹری کیا ہوتی ہے؟ ج: سالموں میں جوہروں کے مابین مکانی تعلق کا مطالعہ ہندسی اور مناظری ہم ترکیب کا واقع ہونا، کو سٹیریو کیمسٹری کہلاتا ہے۔ س: دو یا اس سے زیادہ مختلف عناصر کے باہم ملاپ سے کیا تشکیل پاتا ہے؟ ج: ایک کیمیائی مرکب تشکیل پاتا ہے۔ س: کیمیاء دان علامتیں کیوں استعمال کرتے ہیں؟ ج: کیمیاء دان چیزوں کو نام دینے کے لئے علامتیں استعمال کرتے ہیں۔ کیمیا گر عناصر کو ظاہر کرتا ہے جو چیزوں کو بناتے ہیں، ہائیڈروجن کی علامت Hہے اور آکسیجن کے لئے Oہے تو پانی کی ترکیب کا فارمولہ H2O ہے۔ س: جوہری نظریے کو کس نے ترقی دی؟ ج: جان ڈالٹن۔ س: پنجاب یونیورسٹی کس سن میں قائم کی گئی؟ ج: اس کی بنیاد 1882ء میں رکھی گئی تھی۔ س: طبیعات سے کیا مراد ہے؟ ج: بنیادی سطح پر مادے اور قوتوں کا مطالعہ کرنے کے علم کو طبیعیات کہتے ہیں۔ س: طبیعیات کی مختلف شاخوں کے نام بتایئے؟ ج: اٹامک فزکس، نیو کلیئر فزکس، الیکٹرانکس، الیکٹرسٹی اور میگنٹزم، ہیٹ اور تھرموڈائنامکس، مکینکس، فلیوڈ مکینکس، ویوز لائٹ اور آسلیلیشن۔ س: نیو کلیئر فزکس سے کیا مراد ہے؟ ج: نیو کلیئر فزکس موجودہ دور کی تھیوریز کی قیادت کرنے کے علاوہ ایٹمی ڈھانچے سے جوہری ہتھیاروں، صنعت اور طب میں استعمال ہونے والے ریڈیو آئسو ٹوپس پیدا کرتی ہے۔ 1896 ء میں فرانسیسی ماہر طبیعیات ہنری کیورل نے جب دریافت کیا کہ پچ بلینڈی کی تابکار شعاعیں ایک عکسی تصویر کو دھندلا کر سکتی ہیں تو نیو کلیئر فزکس کی ابتداء ہوئی۔ س: برائے مہربانی بتایئے کہ رامن اثر کیا ہے؟ ج: طول موج میں تبدیلی کو رامن اثر کہتے ہیں اور یہ اس وقت رونما ہوتی ہے جب شفاف واسطوں، جوہروں یا سالموں میں روشنی بکھیر جائے۔ س: الیکٹرانکس کے اہم موضوعات کے نام بتایئے؟ ج: تھرمونک ایکیشن، سپیس چارج، ڈایوڈ، ٹرائیوڈ، ٹیٹ روڈ، پینو ڈاوران کی سکونی اور حرکیاتی خصوصیات وغیرہ۔ س: دی تھیوری آف لائٹ کو ترقی دینے والے سائنسدان کا نام بتایئے؟ ج: سر کرسچیئن ہگنز۔ س: مشہور مسلمان، ماہر طبیعیات اور ریاضی علی مصطفی مشرفہ مادے کے بارے میں کہتے ہیں؟ ج: مادہ اور شعاعیں ایک ہی شے کی دو شکلیں ہیں۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کشش ثقل کا کائناتی قانونی اور حرکت کے بنیادی قوانین، کس نے مرتب کئے؟ ج: سر آئزک نیوٹن۔ س: پرنسپیا نامی کتاب میں نیوٹن نے کس موضوع پر بحث کی ہے؟ ج: اجسام فلکی کی حرکت۔ س: کس ماہر طبیعیات نے ریاضی کے واسطوں کے نتیجے میں تجربات کرنے کا طریقہ ایجاد کیا تھا؟ ج: گلیلیو گلیکی۔ س: مستحکم جوہری طاقت کی تھیوری کس نے وضع کی؟ ج: جاپانی ماہر طبیعیات یوکا وا جن کے مطابق مستحکم جوہری طاقت مرکزے کو متحد رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ س: الیکٹروویک فورس کا نام کن سائنسدانوں نے تجویز کیا تھا؟ ج: عبدالسلام، گلاسکو اور وائن برگ۔ س: انٹرنل کمبشن انجن سے کیا مراد ہے؟ ج: ایسا انجن جس کے اندر ہوا ایندھن کا آمیزہ جلنے سے پھیلتی ہے اور ہوا کی قوت پسٹن کو دھکیلتی ہے اس قسم کے انجن موٹر کاروں اور ہوائی جہازوں میں نصب ہوتے ہیں۔ س: مختصراً بتایئے کہ ماہر طبیعیات کے کام کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ ج: طبیعیات کے کام کی دو اہم خصوصیات درست پیمائش اور ریاضی کی زبان میں نتائج کا اظہار کرنا ہے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو لیکچرار مطالعہ پاکستان/تاریخ/ اردو /انگلش/ایجوکیشن / پولیٹیکل سائنس/ اسلامیات/سبجیکٹ سپیشلسٹ/ایس ایس ٹی/ای ایس ٹی /پی ٹی سی /ٹورسٹ گائیڈ /اسلامی ریاست کے حکمران عہد رسالت آنحضرت محمد ﷺ (571ئ۔ 632ئ) خلافت راشدہ حضرت ابو بکر صدیقؓ 632ئ۔634ء حضرت عمر فاروق اعظمؒ 634ئ۔644ء حضرت عثمان غنیؒ 644ئ۔656ء حضرت علی مرتضیٰؓ 656ئ۔661ء خلافت بنو امیہ 661ئ۔75ء یا 41ہجری۔33ہجری امیر معاویہؓ 661ئ۔680ء یزید اول 680ئ۔386ء معاویہ ثانی 386ئ۔486ء مروان اول 684ئ۔685ء عبدالملک بن مروان 685ئ۔705ء ولید اول 705ئ۔715ء سلیمان بن عبدالملک 715ئ۔ 717ء حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ 717ئ۔ 720ء یزید ثانی 720ئ۔724ء ہشام بن عبدالملک 724ئ۔ 347ء ولید ثانی 743۔ 744ء یزید ثالث 744۔ 744ء ابراہیم 744ئ۔744ء مروان ثانی 744ئ،750ء اندلس کے اموی حکمران عبدالرحمن اول 756ئ۔ 788ء ہشام اول 788ئ۔ 796ء الحکم اول 796ئ۔ 822 عبدالرحمان ثانی 822ئ۔ 852ء محمد اول 852ئ۔886 المنذر بن محمد 886ئ۔ 888ء عبداللہ بن محمد 888ئ۔912ء عبدالرحمن ثالث 912ئ۔961ء الحکم ثانی المستنصر 961ئ976ء ہشام ثانی المعید 976ئ۔1009ء محمد ثانی المہدی 1009ئ۔1010ء سلیمان المستعین 1009ئ۔1010ء ہشام ثانی (بحالی کے بعد) 1010ئ۔1013ء سلیمان (بحالی کے بعد) 1013ئ۔1016ء علی بن محمد 1016ئ۔1018ء 1018ئ۔1021ء عبدالرحمن چہارم یحییٰ 1018ئ۔1018ء 1021ئ۔1022ء اس کے بعد چار خلیفہ رہے۔ آخری خلیفہ ہشام ثالث تھے۔ انہوں نے 1027ء تا 1031ء تک حکومت کی۔ خلافت بنو عباس 133ئ۔655ء یا 750ئ۔1258ء ابو عباس السفاح 750ئ۔754ء ابو جعفر عبداللہ المنصور 754ئ۔775ء المہدی 775ئ۔785ء الہادی 785ئ۔786ء ہارون الرشید 786ئ۔809ء الامین 809ئ۔813ء المامون 813ئ۔833ء المعتصم باللہ 833ئ۔842ء الواثق باللہ 842ئ۔847ء المتوکل علی اللہ 847ئ۔861ء المنتصر باللہ 861ئ۔862ء المستعین اللہ 862ئ۔866ء المعتز باللہ 866ئ۔869ء المہتدی باللہ 869ئ۔870ء المعتمد باللہ 870ئ۔892ء المعتصند باللہ 892ئ۔902ء المکتفی باللہ 902ئ۔908ء المقتد باللہ 908ئ۔932ء القاہر باللہ 933ئ۔934ء الراضی باللہ 934ئ۔940ء المتقی باللہ 940ئ۔944ء المستکفی باللہ 944ئ۔946ء المطیع اللہ 946ئ۔947ء الطائع اللہ 947ئ۔ 991ء القادر باللہ 991ئ۔1031ء القائم بامر اللہ 1031ئ۔1075ء المقتدی بامر اللہ 1075ئ۔1094ء المستظہر باللہ 1094ئ۔1118ء المستر شد باللہ 1118ئ۔1135ء الراشد باللہ 1135ئ۔1136ء المقتضیٰ لامر اللہ 1136ئ۔1160ء المستنجد باللہ 1160ئ۔1170ء المستضی باللہ 1170ئ۔1180ء الناصر الدین اللہ 1180ئ۔1225ء الظاہر بامر اللہ 1225ئ۔1226ء المستنصر باللہ 1226ئ۔1242ء المستعصم باللہ 1242ئ۔1258ء خلافت بنو فاطمہ (مصری حکمران) عبید اللہ مہدی 909ئ۔934ء القائم بامر اللہ 934ئ۔945ء اسماعیل منصور 945ئ۔952ء المعز بن اسماعیل 952ئ۔975ء العزیز باللہ 975ئ۔996ء الحاکم بامر اللہ 996ئ۔1021ء الظاہر 1021ئ۔1035ء المستنصر باللہ 1035ئ۔1094ء ابو القاسم 1094ئ۔1101ء الامیر 1101ئ۔1130ء الحافظ 1130ئ۔1149ء الظفیر 1149ئ۔1154ء الفیض 1154ئ۔1160ء العدید 1160ئ۔1171ء سلاطین عثمانیہ (ترک حکمران) عثمان خان اول 1299ئ۔1326ء اور خان 1326ئ۔1359ء مراد اول 1359ئ۔1389ء سلطان بایزید یلدرم 1389ئ۔1403ء موسیٰ 1411ئ۔1413ء محمد اول 1413ئ۔1421ء مراد دوم 1421ئ۔1451ء محمد دوم 1451ئ۔1481ء بایزیز ثانی 1481ئ۔1512ء سلیم اول 1512ئ۔1520ء سلیمان دوم 1520ئ۔1566ء سلیم دوم 1566ئ۔1574ء مراد سوم 1574ئ۔1595ء محمد سوم 1595ئ۔1603ء احمد اول 1603ئ۔1617ء مصطفیٰ اول 1617ئ۔1618ء عثمان دوم 1618ئ۔1622ء مصطفیٰ دوم 1622ئ۔1623ء مراد چہارم 1623ئ۔1640ء ابراہیم 1640ئ۔1648ء محمد چہارم 1648ئ۔1687ء سلیمان سوم 1687ئ۔1691ء احمد دوم 1691ئ۔1695ء مصطفیٰ سوم 1695ئ۔1703ء احمد سوم 1703ئ۔1730ء محمود اول 1730ئ۔1754ء عثمان سوم 1754ئ۔1774ء مصطفیٰ چہارم 1757ئ۔1774ء عبدالحمید اول 1774ئ۔1789ء سلیم سوم 1789ئ۔1807 مصطفیٰ پنجم 1807ئ۔1808ء محمود دوم 1808ئ۔1839ء عبدالمجید اول 1839ئ۔1861ء عبدالعزیز 1861ئ۔1876ء مراد پنجم 1876ئ۔1876ء عبدالحمید دوم 1876ئ۔1909ء محمد پنجم 1909ئ۔1918ء محمد ششم 1918ئ۔1922ء جمہوریہ 1923ئ۔ تا حال اسلامی تاریخ کے اہم واقعات نمبر شمار واقعات سن 1۔ ولادت محمد ﷺ 12ربیع الاول عام الفیل، 22 اپریل 571ء 2۔ وفات حضرت عبدالمطلب 579ء 3۔ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ حضور ؐ کا نکاح 596ء 4۔ حجر اسود نصب کرنے کا واقعہ 606ء 5۔ پہلی مرتبہ حضرت جبرئیل ؑ کی آمد نبوی، 610ء 7۔ کوہ صفا کا وعظ 614ء 8۔ ہجرت حبشہ 615ء 9۔ واقعہ معراج النبی ؐ 27رجب10نبوی،619ء 10۔ سفر طائف 27شوال نبوی،619ء 11۔ بیعت عقبہ اولیٰ ذوالحج52 نبوی،620ء 12۔ بیعت عقبہ ثانی ذوالحج54نبوی،620ء 13۔ ہجرت مدینہ 27صفر13نبوی، ستمبر622ء 14۔ قبا میں آمد 8ربیع الاول، ستمبر622ء 15۔ مسجد نبوی کی تعمیر 10 ربیع الاول 1ھ، 622ء 16۔ مواخات مدینہ پہلی سہ ماہی 1ھ، 622ء 17۔ میثاق مدینہ وسط 1ھ ،623ء 18 تبدیلی قبلہ 17شعبان2ھ، جنوری624ء 19 غزوہ بدر 17رمضان2ھ، 624ء 20۔ غزوہ احد 7شوال3ھ، مارچ625ء 21۔ بیئر معونہ صفر4ھ، جولائی625ء 22۔ غزوہ بنو نصیر ربیع الاول،اگست625ء 23۔ غزوہ بنو مصطلق شعبان 5ھ، دسمبر236ء 24۔ غزوہ خندق ذیعقد 627ء 25۔ غزوہ بنو قریظہ ذوالحج6ھ، اپریل 627ء 26۔ صلح حدیبیہ 6ھ، 628ء 27۔ فتح مکہ 8ھ، 630ء 28۔ حجتہ الوداع 10ھ،632ء 29۔ وصال نبی ؐ 12ربیع الاول11ھ بروز پیر7جون632ء 30۔ حضرت فاطمہؓ شعبان11ھ اکتوبر632ء 31۔ مسلیمہ کذاب کا قتل شعبان 12ھ، اکتوبر632ء 32۔ وفات حضرت ابوبکر صدیقؓ جمادی الثانی 13ھ 33۔ دمشق کی فتح ربیع الاول14ھ 34۔ جنگ یرموک ربیع الثانی15ھ 35۔ جنگ قادسیہ شوال15ھ 36۔ بصرہ کی تعمیر ربیع الثانی16ھ، مئی637ء 37۔ رجب رجب16ھ، اگست637ء 38۔ شوال 16ھ، نومبر 637ء 39۔ جمادی الاول 17ھ، مئی 638ء 40۔ شعبان 17ھ، اگست638ء 41۔ محرم 18ھ، فروری639ء 42۔ ابو عبیدہ ابن الجراحؒ کی وفات محرم18ھ،فروری639ء 43۔ امیر معاویہؓ گورنر دمشق بنے محرم19ھ، جنوری640ء 44۔ قیساریہ کی فتح جمادی الثانی19ھ، جون640ء 45۔ ہرقل قیصر روم کی موت شوال20ھ، ستمبر642ء 46۔ مصر کی فتح محرم21ھ، دسمبر641ء 47۔ خالد بن ولیدؓ کی وفات جمادی الثانی21ھ، مئی 642ء 48۔ نماوند کی فتح محرم22ھ، دسمبر642ء 49۔ آذربائیجان کی فتح صفر22ھ، دسمبر642ء 50۔ طرابلس کی فتح ربیع الثانی22ھ، مارچ643ء 51۔ شہادت فاروق اعظمؒ یکم محرم الحرام24ھ، نومبر644ء 52۔ توسیع مسجد نبویؐ رمضان26،647 53۔ افریقہ کی فتوحات شعبان27ھ، مئی648ء 54۔ مسلمانوں کی پہلی بحری جنگ ذوالحج27ھ، ستمبر648ء 55۔ قبرص کی فتح محرم28ھ، ستمبر648ء 56۔ تسخیر آذربائیجان شوال28ھ، 649ء 57۔ اصطخر کی فتح صفر29ھ اکتوبر649ء 58۔ فارس و خراسان کی فتح ذیقعد 29جولائی 650ء 59۔ وفات حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صفر32، ستمبر652ء 60۔ شہادت حضرت عثمان غنیؓ 23ذوالحج 35ھ، جون656ء 61۔ خلافت حضرت علیؓ محرم36ء جون656ء 62۔ جنگ جمل جمادی الثانی 36ھ، دسمبر656ء 63۔ جنگ صفین محرم 37ھ، جون657ء 64۔ حکمین کا فیصلہ رمضان37ھ، فروری657ء 65۔ شہادت حضرت علیؓ 20رمضان 40ھ، 661ء 66۔ حضرت امام حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری ربیع الاول41ھ، 661ء 67۔ سندھ میں اسلامی فوج کا داخلہ ذیقعد 42ھ، 663ء 68۔ فتح سوڈان ربیع الثانی 43ھ،663ھ 69۔ امیر معاویہؓ نے نظام ڈاک جمادی الثانی 28ھ، 668ء 70۔ حضرت حسنؓ کی وفات ربیع الاول49ھ،669ء 71۔ یزید کی قیادت میں قسطنطنیہ پر حملہ ذیقعد 50ھ، نومبر670ء 72۔ بخارا کی فتح شوال 54ئ،674ء 73۔ سعد بن وقاصؓ کی وفات محرم55ھ، 674ء 74۔ امیر معاویہؓ کی وفات رجب60ھ،680ء 75۔ سانحہ کربلا 20محرم61ئ، 680ء 76۔ مختار ثقفی کی بغاوت ربیع الاول63ھ،682ء 77۔ واقعہ حرہ ذوالحج 63ھ، 682ء 78۔ یزید کی وفات ربیع الاول64ھ،683ء 79۔ خلافت مردان محرم65ھ۔ 684ء 80۔ خلافت عبدالملک ابن مروان رمضان65ھ، 685ء 81۔ عبید اللہ ابن زیاد کا قتل ربیع الثانی67ھ، 686ء 82۔ مختار ثقفی کا خاتمہ شوال67ھ، 687ء 83۔ کوفہ پر عبدالملک کا قبضہ ذوالحج 72ھ، 692 84۔ عبداللہ ابن زبیرؓ کی شہادت جمادی الاول 73ھ،692ء 85۔ قاضی شریح کی وفات ربیع الاول78ھ، 697ء 86۔ امام ابو حنفیہ کی پیدائش جمادی الثانی80ھ، 699ء 87۔ واسط کی تعمیر ربیع الاول82ھ، 701ء 88۔ آرمینیا کی فتح ربیع الثانی85ھ، اکتوبر704ء 89۔ عبدالملک کی وفات شوال85ھ، 706ء 90۔ ولید بن عبدالملک کی خلافت 706ء 91۔ عمر بن عبدالعزیز والئی مدینہ بنے جمادی الاول87ء 92۔ جامع مسجد دمشق کی تعمیر رجب87ھ706ء 93۔ فرغانہ کی فتح محرم88ھ، دسمبر706ء 94۔ صغد کی فتح ربیع الثانی88ھ، مارچ707ء 95۔ جزائر میورقہ اور منورقہ کی فتح محرم89ھ دسمبر707ء 96۔ محمد بن قاسم سندھ میں داخل ہوئے جمادی الثانی92ھ، جولائی 711ء 97۔ طارق بن زیاد اندلس پہنچے رمضان92ھ، جولائی711ء 98۔ سندھ کی فتح ذیقعد 93ھ، اگست712ء 99۔ٍ حجاج بن یوسف کی وفات شوال 95ھ، جون713ء 100۔ خلیفہ ولید کی وفات جمادی الثانی 96ھ، فروری715ء 101۔ قتیبہ بن مسلم کا قتل ذوالحج 96ھ، اگست715ء 102۔ سلیمان کی وفات صفر99ھ 103۔ عمر بن عبدالعزیز کی خلافت صفر99ھ 104۔ عمر بن عبدالعزیز کی وفات رجب 101ھ، جنوری719ء 105۔ ہشام کی تخت نشینی شعبان105ھ 106۔ غور کی فتح محرم108ھ 107۔ وفات خواجہ حسن بصری شعبان110ھ،728ء 108۔ مسلمہ بن عبدالملک کی وفات ذیقعد 121ئ، 738ء 109۔ زید بن علی کا خروج محرم122ھ، 739ء 110۔ وفات خلیفہ ہشام ربیع الثانی 125ھ، 742ء 111۔ خلیفہ ولید ثانی کا قتل جمادی الثانی126ھ،744ء 112۔ خلیفہ یزید کی وفات ذوالحج126ھ، 744ء 113۔ خلیفہ ابراہیم کی دستبرداری صفر127ھ، 744ء 114۔ مروان ثانی کی تخت نشینی صفر127ھ، 744ء 115۔ ضحاک خارجی کا خروج محرم128ھ،745ء 116۔ ابو مسلم خراسانی کا اعلان بغاوت رمضان120ھ،746ء 117۔ ابو مسلم کا خراسان پر قبضہ محرم131ھ، 748ء 118۔ واصل بن عطا معزلی ربیع الاول131ھ،748ء 119۔ السفاح کے ہاتھ پر بیعت ربیع الثانی 132ھ، فروری749ء 120۔ عباسی خلافت کا آغاز 121 جنگ زاب، مروان ثانی کا قتل ذوالحج132ھ،750ء 122۔ بنو امیہ کا خاتمہ 132ھ،750ء 123 المعتصم باللہ (خلافت بنو عباس کا خاتمہ) 1258ء 124 عثمان خان اول(خلافت عثمانیہ کا آغاز) 1299ء 125۔ عبید اللہ گلیدی (مصر میں بنو فاطمہ کی خلافت کا آغاز) 909ء 126۔ عبدالرحمن اول (سپین میں بنو امیہ کی حکومت) 756ء 127۔ ہشام ثالث (اندلس میں بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ) 1031ء 128۔ عبدالحمید ثانی (سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ) 1922ء ہندوستان کے مسلم حکمران 1۔ محمد بن قاسم 712ء تا 714ء 2۔ محمود غزنوی 997ء تا 1030ء 3۔ شہاب الدین محمد غوری 1186ء تا 1206ء خاندان غلاماں 1۔ قطب الدین ایبک 1206ء تا 1210ء 2۔ شمس الدین التمش 1210ء تا 1235ء 3۔ رضیہ سلطانہ 1236ء تا 1236ء 4۔ ناصر الدین محمود 1236ء تا 1266ء 5۔ غیاث الدین بلبن 1266ء تا 1286ء خلجی خاندان 1۔ جلال الدین خلجی 1290ء تا 1296 2۔ علاؤ الدین خلجی 1296ء تا 1316ء 3۔ ملک کافور 1316ء تا 1319 4۔ ناصر الدین خسرو 1319ء تا 1320ء تغلق خاندان 1۔ غیاث الدین تغلق 1321ء تا 1325ء 2۔ محمد تغلق 1325ء تا 1351ء 3۔ فیروز شاہ تغلق 1351ء تا 1388ء سید خاندان 1۔ خضر خان 1414ء تا 1421ء 2۔ علاؤ الدین عالم 1421ء تا 1451 نوٹ: اس خاندان کے چار افراد حکمران رہے۔ لودھی خاندان 1۔ بہلول لودھی 1451ء تا 1489ء 2۔ سکندر لودھی 1489ء تا 1517ء 3۔ ابراہیم لودھی 1517ء تا 1526ء مغل خاندان 1۔ ظہیر الدین بابر 1526ء تا 1530ء 2۔ نصیر الدین ہمایوں 1530ء تا 1540ء سوری خاندان 1۔ شیر شاہ سوری 1540ء تا 1545ء 2۔ سلیم شاہ سوری 1545ء تا 1553ء 3۔ فیروز خان سوری 1553ء تا 1555ء مغلیہ خاندان 2۔ نصیر الدین ہمایوں 1555ء تا 1556ء 3۔ جلال الدین محمد اکبر 1556ء تا 1605ء 4۔ نور الدین محمد جہانگیر 1605ء تا 1627ء 5۔ محمد خرم شاہ جہان 1628ء تا 1659ء 6۔ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر 1659ء تا 1707ء 7۔ معظم شاہ عالم بہادر اول 1707ء تا 1712ء 8۔ جہاندار شاہ 1712ء تا 1713ء 9۔ فرخ سیر 1713ء تا 1719ء 10۔ رفیع الدرجات 1719ء تا 1719ء 11۔ رفیع الدولہ شاہ جہاں ثانی 1719ء تا 1719ء 12۔ روشن اختر محمد شاہ رنگیلا 1719ء تا 1748ء 13۔ شہزادہ احمد شاہ 1748ء تا 1754ء 14۔ عالمگیر ثانی 1754ء تا 1759ء 15۔ شاہ عالم ثانی 1759ء تا 1806ء 16۔ اکبر ثانی 1806ء تا 1837ء 17۔ بہادر شاہ ظفر 1837ء تا 1857ء ہندوستان کی آزاد اسلامی ریاستیں کشمیر 1339 ء تا1586ء سید علی ہمدانی کی کوششوں سے وادی کشمیر میں اسلام پھیلا یہاں کے مشہور بادشاہوں میں زین العابدین کا نام سر فہرست ہے۔ یہ بادشاہ اپنی نیک نامی اور رعایا پروری کی وجہ سے آج تک عزت و احترام کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ 1587ء میں مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ دکن کی بہمنی سلطنت1347ء تا1527ء اس سلطنت کا رقبہ مجموعی طور پر اندلس کی اموری ریاست کے برابر تھا۔ دہلی کے بعد یہ مسلمانوں کا سب سے مضبوط مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بادشاہ محمد شاہ نے پہلی بار دکن میں اسلامی ریاست کے سکے چلائے۔ دکنئی سلطنت کا زوال شروع ہوا تو وہ مندرجہ ذیل چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی۔ 1۔ عادل شاہی بیجاپور 1490ء تا 1686ء 2۔ نظام شاہی احمد نگر 1490ء تا 1633ء 3۔ قطب شاہی گولکنڈہ 1512ء تا 1687ء 4۔ برید شاہی بیدر 1487ء تا 1619ء 5۔ عماد شاہی برار 1490ء تا 1574ء بنگال1338ء تا1576ء بنگال محمد تغلق کے عہد میں دہلی سے آزاد ہوا۔ یہاں کے حکمران خاندان مندرجہ ذیل تھے۔ 1۔ الیاس شاہی خاندان 1343ء تا 1487ء 2۔ حسین شاہی خاندان 1493ء تا 1538ء 3۔ سوری خاندان 1538ء تا 1555ء 4۔ کرائی پٹھان خاندان 1555ء تا 1576ء سندھ1336ء تا 1591ء سندھ میں پہلی آزاد حکومت ناصر الدین قباچہ نے 1210ء تا 1227 ء تک قائم کی جسے التمش نے ختم کر دیا۔ جس کے بعد1336تا 1520 ء سمرہ راجپوت خاندان کی حکومت رہی جس کے بعد ارغون خاندان نے 1556ء تک اورتر خان خاندان نے 1591ء تک حکومت کی۔ جس کا خاتمہ مغلیہ عہد میں ہوا۔ ملتان 1438 تا 1527ء ملتان پر لنگاہ خاندان کی حکومت190 سال تک قائم رہی۔ حسین لنگاہ کی وفات کے بعد سلطنت کمزور ہوئی تو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ملتان پر قبضہ کر کے اسے اپنی حدود میں شامل کر لیا۔ گجرات1396تا1527ء محمود غزنوی کے دور میں مسلمان پہلی بار گجرات کی سر زمین پر پہنچے۔ لیکن اسے باقاعدہ طور پر اسلامی سلطنت کا حصہ 1297ء میں علاؤ الدین خلجی نے بنایا۔ گجرات کے دو بادشاہ احمد شاہ اور محمود بیگڑھ نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ گجرات پر مغلوں نے 1573ء میں قبضہ کیا۔ مالوہ 1392تا 1531ء مالوہ کے بادشاہوں میں محمود خلجی کو بہت شہرت نصیب ہوئی۔ 1531ء میں مالوہ ریاست کجرت نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد1573ء میں یہ علاقہ بھی مغلوں کے مفتوحات میں شمار ہونے لگا۔ جون پور1394 تا 1476ء اس آزاد اسلامی ریاست کا بانی ملک سرور تھا۔ اس سلطنت نے اپنی علم پرستی کی وجہ سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اس کے بادشاہ احمد شاہ شرقی نے انتہائی قلیل وقت میں سلطنت کو استحکام بخشا۔ بعد ازاں حسین شاہ شرقی کے دور میں بہلول لودھی نے جون پور کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اسلامی تعلیمات اسلام کے لغوی معانی صلح، سلامتی اور اطاعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے انبیاء کرام ؑ کے ذریعے جو پیغامات اور احکامات ارسال کرتے رہے۔ ان پر ایمان لانا اور ان کی پیروی کرنا اسلام کہلاتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والا انبیاء کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آن ختم ہوا۔ دین اسلام دو اجزاء عقائد اور شریعت پر مبنی ہے۔اسلام کے پانچ بنیادی عقائد کو ایمان کہا جاتا ہے۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔ 1۔ ایمان باللہ (توحید) 2۔ ایمان بالرسل (رسالت) 3۔ ایمان بالآخرت 4۔ ایمان بالملائکتہ 5۔ ایمان بالکتب (الہامی کتابوں پر ایمان لانا) سورۃ بقرہ کی آیت نمبر177 میں ارشاد ہے، ترجمہ یعنی نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ، یوم آخرت، ملائکہ، اللہ کی نازل کردہ کتاب اور ا سکے انبیاء پر ایمان لائے اور انہیں دل سے مانے۔ توحید: لفظ توحید جس کا مصدر ’’ و ح د‘‘ ہے۔ لفظ وحدت سے ماخوذ ہے۔ ایمان کے نقطہ نظر سے توحید کے معانی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور واحد ٹھہرانا ہے۔ یعنی کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ اس کائنات کا وہی تنہا مالک و خالق ہے۔ رب العالمین ہے۔ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ حیی و قیوم ہے، عیب و نقص کی ہر بات سے پاک ہے اپنی ذات میں کامل اور یہی عقیدہ توحید کہلاتا ہے۔ اس کو ماننے والا حنیف اور مومن کہلاتا ہے اور نہ ماننے والا مشرک، کافر اور منکر ہے۔ دین اسلام کی بنیاد توحید پر ہے۔ توحید اور عقائد دونوں ارکان اسلام میں پہلا درجہ ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کو دل سے قبول کئے بغیر انسان دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ توحی دکی تین بڑی اقسام ہیں۔ 1۔ توحید ذات 2۔ توحید صفات 3۔ توحید افعال سورۃ اخلاص فلسفہ توحید کی بہترین مثال اور ترجمانی کرتی ہے۔ ترجمہ، ’’ کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘ شرک: اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اسے وحدہ لا شریک تسلیم کرنا توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا اور اس کی عبادت کرنا شرک کہلاتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہنا درست ہو گا کہ شرک توحید کی ضد ہے۔ سورۃ لقمان کی آیت نمبر13 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو شرک کی لعنت سے دور رکھے آمین) ارکان اسلام: عربی میں رکن ستون کو کہتے ہیں۔ ارکان رکن کی جمع ہے ارکان اسلام سے مراد وہ ستون ہے جن پر دین اسلام کی بنیاد رکھی گئی جو درج ذیل ہیں۔ 1۔ کلمہ توحید یعنی کلمہ شہادت 2۔ نماز 3۔ روزہ 4۔ زکوٰۃ 5۔ حج 1۔ کلمہ توحید و شہادت: شہادت کے معنی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے۔ وہ خالق و مالک کائنات ہے۔ کلمہ توحید اور شہادت ادا کرنے کے بعد کلمہ گو پر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے عائد کردہ فرائض احکامات کی پیروی لازم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اسلام کا پہلا رکن خدا کی واحدانیت کی شہادت دینا ہے۔ 2۔ نماز/صلوٰۃ: ترجمہ۔ نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ بنو۔ (القرآن) صلوٰۃ کے لغوی معنی کسی کی طرف رخ کرنا، بڑھنا، دعا کرنا اور قریب ہونا ہے۔ پوری توجہ یکسوئی اور ادب و احترام سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا نماز کہلاتا ہے۔ نماز نبوت کا آغاز ہوتے ہی کلمہ گو پر مسلمانوں پر فرض کی گئی تھی۔ پانچ وقت کی باقاعدہ نماز آنحضور ؐ کے سفر معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی۔ قرآن حکیم میں سات سو مرتبہ نماز قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نماز قبول اسلام کی عملی اطاعت ہے۔ دین اسلام میں نماز تمام عبادتوں کا سرچشمہ و منبع ہے۔ نماز کی ادائیگی کیلئے ایک مسلمان کو مندرجہ ذیل آداب و شرائط کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔ 1۔ جسمانی صفائی:ـ جسم لباس اور نماز ادا کی جانے والی جگہ لازماً پاک ہو۔ 2۔ جسم کا ڈھانپناـ: جسم کے ان حصوں کو ڈھانپنا جن کے چھپانے کا حکم مرد اور عورت کو دیا گیا ہے۔ 3۔ قبلہ رو ہونا: یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ مسجد حرام کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا۔ 4۔ نیت کرنا: دل میں اس نماز کا ارادہ کرنا جو پڑھنا مقصود ہے۔ 5۔ وقت کا خیال رکھنا: یعنی نماز کو قضا نہ ہونے دینا بلکہ مقرر کردہ وقت کے اندر نماز ادا کرنا۔ 3 روزہ: کسی کام سے روکنے اسے ترک کرنے اور چپ رہنے کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔ صوم کی جمع صیام ہے۔ روزہ بدنی عبادت ہے۔ دین اسلام میں روزہ سے مراد صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرنا ہے۔ روزہ ہر عاقل بالغ تندرست مسلمان پر فرض ہے۔ روزہ مسلمان کیلئے روحانی غذا ہے۔ روزے کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے سے انسانی دنیاوی آلائشوں اور گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے حرام اور ممنوع چیزوں سے اجتناب کرنا ہے۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب تو روزہ رکھے تو کان آنکھ اور تیری زبان تیرے ہاتھ اور تمام اعضاء نا پسندیدہ اور حرام باتوں سے رکے رہیں۔ نبی کریمؐ کا ایک اور ارشاد ہے کہ الصوم حسنہ۔ روزہ ڈھال ہے۔ یعنی جس کسی نے روزہ رکھنے کے باجود جھوٹ بولا یا اس پر عمل ترک نہ کیا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے۔ روزہ انسان میں قوت برداشت کو تیز کرتے ہوئے صبر اختیار کرنے کی عملی تربیت فراہم کرتا ہے۔ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے لئے پابندی وقت انسانی زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔ روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ امیر دولت مند حکمران، غریب رعایا غرضیکہ ہر قسم کے طبقوں سے تعلق رکھنے والے انسان روزہ کے دوران بھوک اور غربت کا بخوبی احساس کرتے ہیں۔ دولت مند بھوک محسوس کر کے غریب کے دکھ کا اندازہ با آسانی کرتے ہوئے اپنے غریب بھائی کی عملی مدد کرتا ہے۔ یعنی روزہ جذبہ ہمدردی اور غم خواری پیدا کرتا ہے۔ 4۔ زکوٰۃ: اسلامی عبادات کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معانی پاکیزگی، نشوونما اور پڑھنے کے ہیں۔ دین ا سلام میں اصطلاحی طور پر زکوۃ سے مراد اپنے مال و دولت سے کچھ حصہ اپنے غریب بہن بھائیوں کی مدد اور اعانت کیلئے صرف کرنا ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے انسان کے اندر سے سرمایہ دارانہ جذبات لالچ و تحریص، بخل اور نفس پرستی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ زکوۃ باہمی ہمدردی اور امداد باہمی کا دوسرا روپ ہے۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر103 میں ارشاد ہے کہ ترجمہ اے نبی! ان کے مالوں میں صدقہ (زکوۃ) وصول کرو کہ ان کے ذریعے ان کو پاک و صاف کر سکو۔ زکوۃ ہر بالغ و عاقل، صاحب نصاب مرد و زن مسلمان پر فرض ہے۔ اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ نماز حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہے تو زکوۃ حقوق العباد کا اہم جزو ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ارکان اسلام میں یکجا ہونا اس امر کا غماز ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقوق العباد کا کیا رتبہ او رمقام ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنا، ہر مسلمان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس راہ میں کتنا مال خرچ کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دولت کو غریبوں تک پہنچانے کیلئے ہر صاحب نصاب مسلمان پر دولت کا ایک حصہ تقسیم کرنے کے لیے فرض کر دیا ہے۔ اسی فرض عبادت کو زکوۃ کہا جاتا ہے۔ زکوۃ بنیادی طور پر نشوونما پانیوالی چیزوں پر ادا کرنا فرض ہے۔ وہ درج ذیل ہیں۔ 1۔ زمین،2۔ سونا چاندی، 3۔ تجارتی مال،4۔ جانور مصارف زکوۃ سوت توبہ آیت نمبر40 میں زکوۃ کے آٹھ مصارف مقرر کئے گئے وہ درج ذیل ہیں۔ 1 ۔ فقرائ،2۔ مساکین، 3۔ عاملین زکوۃ،4۔ مولفتہ القلوب،5۔ غلاموں کی آزادی،6۔ قرض،7۔ فی سبیل اللہ، 8۔ مسافر 5۔ حج: اسلام کا پانچواں اور آخری رکن ہے۔ حج کے لغوی معانی زیارت کا ارادہ ہے۔ شریعت کی زبان میں حج سے مراد کعبتہ اللہ کی زیارت کا ارادہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ اور دیگر مقامات کے ارد گرد مخصوص عبادات کو مخصوص ایام کے دوران بجا لانا حج کہلاتا ہے۔ حج ہر بالغ عاقل صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یعنی جو شخص مکہ کے سفر کے لئے راہ میں اور سفر کی سہولت پر خرچ کر سکتا ہے اس پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہـ: اور لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے۔ اس شخص کے ذمہ جس نے اس کی طرف استطاعت پائی اور جس نے انکار کیا تو اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ حج مالی اور بدنی عبادات کا موقع ہے۔ حج نماز مسلسل بھی ہے اور زکوٰۃ بھی ، کیونکہ وہ مالی قربانی کا ارادہ کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح حج روزہ ہے کیونکہ جس طرح روزوں کے ایام میں دن کے وقت جنسی ملاپ ممنوع ہے تو بالکل اسی طرح حج کے دوران دن راتوں کو بھی جنسی ملاپ ممنوع ہے۔ مناسک حج: 1 احرام: ان سلا لباس جو حجاج کرام حج کے دوران پہنتے ہیں۔ 2۔ تلبیہ: یہ وہ کلمات ہیں جو حاجی حج کے دوران مسلسل دہراتا ہے۔ ترجمہ: حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں او رحکومت بھی تیرے لیے ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ 3۔ طواف: خانہ کعبہ کے گرد چکر کاٹنا اور با آواز بلند تلبیہ ادا کرنا طواف کہلاتا ہے۔ 4۔ مقام ابراہیم: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کا کام سر انجام دیا تھا۔ اس کے قریب دو رکعت نماز نفل ادا کی جاتی ہے۔ 5۔ حجر اسود: وہ سیاہ پتھر جو جنت سے لا کر خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا اسے بوسہ دینا، ہاتھ سے چھونا یا اشارہ کرنا۔ 6۔ سعی: سعی کے معنی دوڑنا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت ہاجرہ بی بی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پانی پلانے کیلئے پہاڑوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ ان کی سنت میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا سعی کہلاتا ہے۔ 7۔ عرفات: مکہ سے دس میل دور واقع میدان جہاں حاجی جمع ہو کر امیر الحج کا خطبہ سنتے ہیں۔ 8۔ رمی: کنکریاں مارنے کو کہتے ہیں۔ میدان عرفات سے واپسی حاجی منیٰ کے مقام پر شیطان کو تین کنکریاں مارتے ہیں۔ 9۔ قربانی: منیٰ کے میدان میں تمام حاجی رمی کے بعد قربانی کرتے ہیں اور بعد ازاں اپنے سر منڈواتے ہیں۔ جہاد جہاد کا لفظ جہد سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں جہد کے معانی محنت اور کوشش کے ہیں۔ جبکہ شرعی طور پر حق کی سربلندی اس کی اشاعت اور حفاظت کے لئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دینا اور اللہ کے دشمنوں سے لڑائی کیلئے تیار رہنا جہاد کہلاتا ہے۔ جہاد اسلام کا اہم رکن اور بہت بڑی عبادت ہے۔ جہاد کی اہم اقسام درج ذیل ہیں۔ 1زبانی 2علمی و قلمی جہاد 3مالی 4۔ دشمنوں کا قتل کرنا،ا یسا جہاد مندرجہ ذیل صورتوں میں فرض ہے۔ 1۔ مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور انہیں ظلم سے رہائی دلانا۔ 2۔ جو لوگ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو پر دست درازی کریں۔ 3۔ جب مسلمانوں پر صرف اس وجہ سے تشدد کیا جائے کہ مدعی اسلامی کیوں ہے۔ 4۔ جب کسی جگہ اسلامی تبلیغ کا راستہ جبر و تشدد سے روکا جائے۔ س: آپ کو لیکچرار بننے کی رغبت کس نے دی؟ ج: جناب عالی میں مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں میرے والد صاحب بھی اسلامیات کے مضمون کے ماہر استاد تھے جبکہ میرے دادا اسلامی موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں بچپن سے ہی مطالعہ اسلامیات کا شوقین ہوں اور الحمد اللہ اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کے باعث میرے دوست مجھے پسند کرتے ہیں۔ سـ: لفظ ’’ مسلمان‘‘ کی وضاحت کیجئے۔ ج: وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات پر تہہ دل سے یقین رکھتا ہو اور ان کی پیروی کو ہر حالت میں لازم جانے۔ س: مذہب کیوں ایک آدمی کے لئے بہت ضرور ی ہے؟ ج:مذہب کے بغیر آدمی خود کو ترقی نہیں دے سکتا اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔ س: برائے مہربانی ہمیں بتایئے کہ ایک آدمی کی تخلیق کیوں کی گئی ہے؟ ج: اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں۔ ’’ اور میں نے جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ س: معاشرتی برائیاں کیسے ختم کی جا سکتی ہیں؟ ج: اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے معاشرتی برائیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔ س: بتایئے کہ امت مسلمہ کو کن بڑے مسائل کا سامنا ہے؟ ج: نا اتفاقی، عدم تعاون، جہالت، غربت اور وسائل کی غلط تقسیم۔ س: اسلام میں ایک خاتون کا مرتبہ کیا ہے؟ ج: اسلام کے نزدیک عورت معاشرے میں قابل احترام ہے۔ س: برائے مہربانی مختصراً بتایئے کہ اچھا مسلمان بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ج: ہمیں ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بننا چاہئے اس طرح ہم اچھے مسلمان بھی بن سکیں گے۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کہ غیر مسلموں کے لئے اسلام کا پیغام کیا ہے؟ جـ: سورہ آل عمران کی آیت64 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ (میرے نبی ) آپ کہئے اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو یکساں ہے ہمارے اور تمہارے درمیان (وہ یہ کہ) ہم نہ عبادت کریں (کسی کی) سوائے اللہ کے اور نہ شریک ٹھہرائیں اس کے ساتھ کسی چیز کو اور نہ مانے کوئی ہم میں سے کسی کو رب، اللہ کے سوا۔‘‘ س: تعلیم کیا ہے؟ ج: تعلیم کا انگریزی مترادف ایجوکیشن ہے جو لاطینی زبان کے لفظ ایڈیوس سے ماخوذ ہے جس کا مطلب کسی شے کے نکالنے کا طریقہ کار ہے۔ س: آپ نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ برائے مہربانی ہمیں بتایئے کہ ’’ مرچنٹ آف وینس‘‘ کس کی تصنیف ہے؟ ج: شیکسپیئر ’’ مرچنٹ آف وینس‘‘ ڈرامے کا مصنف تھا۔ س: کیا آپ جانتے ہیں کہ وینس شہر سے کونسی خاص چیز وابستہ ہے؟ ج: جی ہاں جناب۔ یہ مکمل طور پر نہروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ گھر اور محلات ستونوں پر تعمیر کئے گئے ہیں نہریں اس (شہر) کی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ س: آئین کی کس دفعہ کے تحت اردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے؟ ج: آئین دفعہ251کے تحت۔ 1۔ پاکستان کی قومی زبان ارد وہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ 2۔ شق (1) کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لئے استعمال کی جا سکے گی۔ جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔ 3۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کر سکے گی۔ س: آخری تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کا مزار کہاں واقع ہے؟ ج: رنگون (میانمر) برما۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو سیاحتی رہنما س: درہ خیبر کے متعلق مختصراً بتایئے؟ ج: ایک تنگ پہاڑی وادی میں واقع یہ درہ 53 کلو میٹر لمبا ہے جس کے راستے ہم افغانستان اور دوسرے ممالک میں جا سکتے ہیں اور لنڈی کوتل اس کا بلند ترین مقام ہے۔ س: حکومت پاکستان نے پاکستان اوریجن کارڈ ہولڈر سیاحوں کو کونسی مراعات دے رکھی ہیں؟ ج: بغیر ویزے کے پاکستان میں داخلہ۔ پولیس رجسٹریشن سے استثنیٰ جلد نقل مکانی کے طریق کار کے لئے خصوصی چینل بینک اکاؤنٹ کھولنا اور چلانا جائیداد خریدنا، بیچنا اور ملکیت میں لینا قانونی دستاویزات حاصل کرنا۔ افادے کی تمام خدمات کا حصول۔ س: صوبہ سندھ کے چند قابل دید مقامات کے نام بتایئے؟ ج: موہنجوداڑو، رانی کوٹ کا قلعہ، چوکھنڈی کے مقابر اور ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد، کنچھ جھیل، سیہون شریف، بھٹ شاہ۔ س: پنجاب کے قابل دید مقامات کے نام بتایئے؟ ج: ملتان، اچ شریف، ٹیکسلا، ہڑپہ، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد لاہور، لاہور عجائب گھر، شاہی قلعہ لاہور، مری، پتریاٹہ اور بھوربن۔ س: برائے مہربانی صوبے سرحد کے قابل دید مقامات کے نام بتایئے؟ ج: وادی سوات، یوخیر، ویز، چترال، وادی کیلاش، وادی کاغان، درہ خیبر، جھیل سیف الملوک اور بدھ سٹوپا۔ س: برائے مہربانی ہمیں بلوچستان کے چند قابل دید مقامات بتایئے؟ ج: مہر گڑھ، ہنہ جھیل، وادی کوئٹہ، کان مہترزئی، گوادر، لس بیلہ، اوتھل۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو لیڈی لیکچرار س: خواتین کی تعلیم سے معاشرے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ ج: خواتین کی تعلیم سے معاشرے میں عموماً اور خاندان میں خصوصاً نمایاں تبدیلی آتی ہے۔ ان دنوں تعلیم یافتہ خواتین استاد، ڈاکٹر، کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیکرٹری اور نرسوں کے طور پر کام کر کے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ س: ورڈز ورتھ ایک رومانوی شاعر ہے کیا یہ درست ہے؟ ج: جی ہاں۔ س: آپ شاعری کے بارے میں اپنے نظریات بتایئے؟ ج: بحر کی زبان میں فکر اور احساس کا اظہار شاعری کہلاتی ہے، شاعری زبان میں خیالات کا اظہار ہے جو قاری کے احساسات کو متحرک کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ تاکہ وہ وہی محسوس کرے جسے شاعر محسوس کرتا ہے۔ س: انگریزی ادب میں شیکسپیئر غیر معمولی کیوں ہے؟ ج: یہ چند الفاظ میں واضح کرنا نا ممکن ہے جناب تاہم یہاں چند اشارے بڑے پیمانے پر اس کے ذہین ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ 1۔ وہ ایک شاعر ہے۔ 2۔ وہ مزاح نگار ہے۔ 3۔ وہ کچھ تاریخی ڈراموں کا لکھاری ہے۔ 4۔ وہ المیہ نگار ہے۔ س: آپ کس شاعر سے متاثر ہیں؟ ج: غالب سے جناب عالی۔ س: موجودہ دور کے کسی اور شاعر کا نام بتایئے جسے آپ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور کیوں؟ ج: منیر نیازی میرا پسندیدہ شاعر ہے۔ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتا ہے اس نے اپنے خیالات اور استعاروں کی دنیا خود پیدا کی ہے۔ اس نے اردو شاعری کو بہت سے محاورے دیئے ہیں۔ س: ملک میں اردو زبان کا نفاذ کیسے ممکن ہے؟ ج: جی جناب اگر سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید اصطلاحات کو اردو میں منتقل کر دیا جائے۔ ٭٭٭ معروضی سوالات 1۔ درج ذیل فقرات کو مکمل کریں۔ 1۔ تعلیمی نظام خلا میں تیار نہیں ہوتا۔ 2۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق مالک و خالق کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 3۔ اسلامی تصور تعلیم میں آخری معیار قرآن مجید ہے۔ 4۔ اسلامی نظریہ حیات زندگی کو دین اور دنیا کے تصور میں تقسیم نہیں کرتا۔ 5۔ اسلامی نظریہ حیات مکمل ضابطہ حیات ہے۔ 6۔ فرد کے ذہنوں میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی کا تصور پیدا کرنا تعلیم کا حصہ ہے۔ 7۔ رضائے الٰہی کا حصول اسلامی تصور تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ 8۔ فکر آخرت کا تصور مقاصد تعلیم میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ 9۔ اصلاحی مقاصد تعلیم کا دوسرا پہلو انسان کی خدائی نیابت سے تعلق رکھنا ہے۔ 10۔ انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے 11۔ حاکمیت اللہ کے قیام سے مقاصد تعلیم پیدا کرنے کیلئے مقاصد تعلیم کا تعین کیا جائے۔ 12۔ اسلامی نظام حیات کی عمارت کی پہلی اینٹ لفظ اقراء پر رکھی گئی ہے۔ 13۔ معلم بن جاؤ یا متعلم، تیسری حالت اختیار نہ کرو۔ 14۔ آنحضور ؐ بیک وقت حاکم بھی تھے اور سپہ سالار بھی۔ 15۔ تم میں سے بہتر وہ جو قرآن کی تعلیم دے۔ 16۔ مسلم کیلئے کائنات کی ہر شے دعائے خیر کرتی ہے۔ 17۔ اسلامی تصور تعلیم کے مطابق علم کے حصول کیلئے عمر کی حد مقرر نہیں۔ 18۔ جوانی میں جسمانی اور ذہنی قوتیں جوان ہوتی ہیں۔ 19۔ اسلامی تعلیمی لٹریچر میں نصاب کیلئے لفظ منہاج مستعمل ہے۔ 20۔ منہاج کے لغوی معانی راستے کے ہیں۔ 21 امام غزالی نے دنیاوی علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ 22۔ علم اصلاصول پل بنیادی علم و فنون شامل ہیں۔ 23۔ امام غزالی کے مطابق دوسری قسم کے علوم کو معاونات کا نام دیا گیا ہے۔ 24۔ امام غزالیؒ نے دنیاوی علوم کی تسیری قسم کو تکمیلی فنون کا نام دیا گیا ہے۔ 25۔ امام غزالی نے دینی علوم کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ 26۔ علم الاصول میں بنیادی علوم قرآن، حدیث اور اجماع شامل ہیں۔ 27۔ علم الفروع میں ذیلی علوم مثلاً اخلاقیات شامل ہیں۔ 28۔ علوم آلیہ یا معاون علوم پہلی دو اقسام کے علوم کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ 29۔ تکمیلی علوم میں قرآت و تفسیر اور علم اسماء الرجال کی تعلیم شامل ہے۔ 30۔ امام غزالیؒ کے تیار کردہ نصاب سے اسلامی علوم کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 31۔ معلم طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔ 32۔ معلم کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے وقار کو ملحوظ خاطر رکھے۔ 33۔ معلم اپنے آپ کو برے اخلاق سے باز رکھے۔ 34۔ استاد کے افعال سے طالبعلم براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ 35۔ سخت گرمیا ور سردی میں درس نہ دیا جائے۔ 36۔ شاگرد سوال کرے تو استاد ہر ممکن جواب فراہم کرے۔ 37۔ درس تیزی کی بجائے آہستہ آہستہ دیا جائے۔ 38۔ اسلامی تصور تعلیم طالبعلم کی حوصلہ افزائی پر یقین رکھتا ہے۔ 39۔ طالبعلم برے عقائد، برے اخلاق اور برے اعمال سے پرہیز کرے۔ 40۔ حفظ کیلئے سحر اور بحث و مباحثہ کیلئے صبح کا وقت مناسب ہے۔ 41۔ استاد شاگرد کا روحانی باپ ہے۔ 42۔ استاد شاگرد کو حکم دے تو اس کی اتباع کی جائے۔ 43۔ شاگرد استاد سے سوال کرتے ہوئے قطعاً ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرے۔ 44۔ ذخیرہ علم کا بڑا حصہ حواس سے حاصل ہوتا ہے۔ 45۔ قرآن حکیم میں انسان کو انوار کائنات کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ 46۔ تجربے اور مشاہدہ کا دائرہ کار مادی دنیا تک محدود ہے۔ 47۔ انسانی عقل بھی علم کا اہم ذریعہ ہے۔ 48۔ عقلی استدلال اور غور و فکر کے نتائج کی صحت قطعی نہیں امکانی ہوتی ہے۔ 49۔ موجودات کی بعض صورتیں عقل کی رسائی سے بہت پرے ہیں۔ 50۔ فرشتوں، دوزخ اور جنت کا ادراک عقل سے بالاتر ہے۔ 51۔ آباؤ اجداد کی روایات اور تجربات پر مبنی تصورات علم کا اہم عنصر ہیں۔ 52۔ اسلام اسنادی علم کو قطعاً مسترد نہیں کرتا ہے۔ 53۔ اسلام مشروط طور پر آباؤ اجداد کے علوم کو قبول کرتا ہے۔ 54۔ قرآن اس علم کو قبول کرتا ہے جو اس کی تعلیمات اور احکامات کے مطابق ہو۔ 55۔ کسی علم کے اچانک تحت الشور میں آنے کو وجدان کہتے ہیں۔ 56۔ علم وجدان کی صحت قطعی نہیں بلکہ امکانی ہے۔ 57۔ القائی علم کی صحت سے انکار ممکن نہیں۔ 58۔ القائی علم کی دو اقسام ہیں۔ 59۔ الہام میں القاء کا وصول کنندہ نبی نہیں ہوتا۔ 60 ۔ اسلام صرف علم وحی کو قطعی اور حتمی قرار دیتا ہے۔ 61۔ جو علم وحی سے ٹکرائے اسلام اسے مسترد کر دیتا ہے۔ 62۔ نبی اللہ کی طرف سے القاء کئے گئے علم کی تعبیر منشائے الٰہی کے مطابق کرتا ہے۔ 63۔ اسلام تمام علوم کو وحی کے تابع کرتا ہے۔ 64۔ استاد شاگرد کے عیوب سے چشم پوشی اختیار کرے۔ 1۔ ہر سوال کے چار ممکنہ جوابات دیئے گئے ہیں، درست جواب پر نشان ( )لگایئے۔ 1۔ علوم و تجربات کا مجموعہ ہے۔ (الف)تعلیم (ب) عمل تدریس (ج)نصاب (د) کوئی بھی نہیں 2۔ پہلے نصاب کا تصور تھا۔ (الف) انتہائی محدود (ب) لامحدود (ج) علم وراثت (د) علم شکار 3۔ نصاب سازی کے عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ (الف) اساتذہ) (ب)انتظامیہ (ج) معاشرہ (د)الف، ب، ج تینوں 4۔ ایجادات اور معلومات کے حالیہ نے بدل کر رکھ دیا۔ (الف) انسانی سوچ (ب)زمین (ج) رہائش (د) کوئی بھی نہیں۔ 5۔ سکول کے اندر اور باہر کی تمام سرگرمیاں نصاب کا حصہ ہیں۔ (الف) ہاں (ب) نہیں (ج) اگر مدرسہ کے زیر اہتمام ہوں (د) مشروط طور پر 6۔ ہر شخص بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔ (الف ) پڑھائی (ب)مدرسہ (ج) گھر (د) معیار زندگی 7۔ ہمہ پہلو تربیت اور معاشرے کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل مدرسے کی ہیں۔ (الف) بنیادی چیزیں (ب) ثانوی چیزیں (ج) الف اور ب دونوں (د) کوئی نہیں 8۔ مدرسہ درسی کتب کے علاوہ اہتمام کرتا ہے۔ (الف ) پڑھانے کا (ب) دیکھنے کا (ج) غور کرنے کا (د) سرگرمیوں کا 9۔ نصاب تعلیم کو استوار کرنا ضروری ہے۔ (الف) جدید خطوط پر (ب) پرانے انداز میں (ج) روایتی انداز میں (د) کوئی نہیں 10۔ حالیہ میں نصاب میں فی الفور شامل کر دیا جاتا ہے۔ (الف) جدید تقاضے (ب) قدیم تقاضے (ج) پرانے علوم (د) روایات 11۔ نظام تعلیم میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ (الف) معاشرہ (ب) حکومت (ج) انتظامیہ (د) طالبعلم 12۔ نصاب کے مقاصد متعین کرتا ہے۔ (الف) استاد (ب) طالبعلم (ج) حکومت (د) معاشرہ 13 ۔ تمام اقوام عالم کا معاشرہ ہوتا ہے۔ (الف) ایک جیسا (ب) ایک دوسرے سے منفرد (ج) الف اور ب دونوں (د)پہلے دونوں غلط 14۔ تعلیمی عمل میں تسلسل اور آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ (الف) عمل تدریس سے (ب) نصاب سازی سے (ج) غور کرنے سے (د) لکھنے سے 15۔ عمل تعلیم کا حصہ ہیں۔ (الف) معاشرہ (ب) حکومت (ج) تعلیمی اقسام (د) کوئی بھی نہیں۔ 16۔ نصاب کی تیاری میں سب سے اہم ہے۔ (الف) بچے کی شخصیت (ب) بچے کی عمر (ج) نفسیاتی تقاضے (د) الف، ب، ج، تینوں 17۔ سماجی ترقی کیلئے ہنرمند کارکن تیار کرتا ہے۔ (الف) اچھا نصاب (ب) کتاب (ج) کھیل (د) پڑھائی۔ 18۔ مقاصد تعلیم کا تعین کرتا ہے۔ (الف) سکول (ب) معاشرہ (ج) بچہ (د) کوئی بھی نہیں۔ 19۔ عمل تعلیم میں طلبہ اور نصاب کے ساتھ ساتھ نہایت اہم عنصر ہے۔ (الف) کتاب (ب) کھیل (ج) استاد (د) کائنات 20۔ استاد کی کامیابی کا انحصار اس کی تدریس پر ہے۔ (الف) لائحہ عمل (ب) سکول (ج) معاشرہ (د) نصاب 21۔ نصاب طلبہ کی عملی سرگرمیوں کو حوالے کر دیتا ہے۔ (الف) سکول (ب) معاشرہ (ج) والدین (د) استاد 22۔ تمام طریقہ ہائے تدریس ہوتے ہیں۔ (الف) سو فیصد درست (ب) سو فیصد غلط (ج) جزوی طور پر درست (د) کوئی نہیں 23۔ تدریسی حکمت عملی کے رہنما خطوط موجود ہوتے ہیں۔ (الف)کتاب (ب) مدرسہ (ج) نصاب (د) مقاصد تعلیم 24۔ نتائج کی جانچ کے طریقے کس زمرے میں آتے ہیں؟ (الف) پیمائش (ب) دیکھ بھال (ج) اکستابی جائزہ (د) عمل تدریس 25۔ معلومات اور تصورات اکتسابی جائزہ کے کس پہلو سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (الف) تاثری پہلو (ب) مہارتی پہلو (ج) وقوفی پہلو (د) طریق پیمائش 26۔ عادت اور رویوں کی تشکیل سے کونسا اکتسابی جائزہ کا پہلو تعلق رکھتا ہے۔ (الف) تاثری پہلو (ب) وقوفی پہلو (ج) مہارتی پہلو (د) کوئی نہیں 27۔ کسی ہنر سے اکتساب کا تعلق کسی اکتسابی جائزہ سے ہے۔ (الف) وقوفی پہلو (ب) مہارتی پہلو (ج) تاثری پہلو (د) نتائج 28۔ اکتسابی جائزہ کے عمل کا اہم حصہ ہے۔ (الف) نصاب (ب) نصاب سازی (ج) نصابی خطوط (د) کتاب 29۔ اکستابی جائزے کے لئے مدرسوں میں باقاعدہ کام کرتا ہے۔ (الف) نظام امتحانات (ب) نظام تدریس (ج) معلم (د) تحقیقی سنٹر 30۔ متعلم، نصاب اور معلم کی تدریسی تدابیر کا نام ہے۔ (الف) عمل تعلم (ب) عمل امتحان (ج) عمل تدریس (د) عمل گفتگو 31۔ عمل تدریس نہ ہو تو وجود بے معنی ہو کر رہ جائے۔ (الف) تعلیمی اجزائ (ب) نصاب (ج) معلم (د) متعلم 32۔ طلبہ کی ذہنی اور اخلاقی رہنمائی بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ (الف) تجربہ کار معلم (ب) نیا معلم (ج) کتاب (د) لکھنا 33۔ سست رو اور سوجھ بوجھ سے عاری اساتذہ کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ (الف) نصاب (ب) موثر تدریس (ج) امتحان (د) نصاب سازی 34۔ تدریس اپنے مفہوم کے اعتبار سے دوسرا نام ہے۔ (الف) منصوبہ بندی (ب)تعلم (ج) نصاب (د) عمل تدریس 35۔ مدرس اپنے تجربہ کی بنیاد پر اسباق کی ترتیب میں کر سکتا ہے۔ (الف) چھوٹا (ب) بڑا (ج) رد و بدل (د) کوئی بھی نہیں 36۔ مضمون کی تدریس کے عمومی انداز میں پہلے متعین کئے جاتے ہیں۔ (الف) مقاصد تعلیم (ب) مخصوص مقاصد (ج) چند نکات (د) اسباق 37۔ بول کر طلباء کو کچھ سمجھانا کونسا طریقہ ہائے تدریس ہے۔ (الف) طریق تقریر (ب) طریق بحث (ج) مسئلی طریق (د) طریق تکرار 38۔ معلم اور طلبہ کا مختلف نکات پر تبصرہ کرنا کونسا طریق ہائے تدریس ہے۔ (الف) طریق بحث (ب) طریق تقریر (ج) طریق تکرار (د) مسئلی طریق 39۔ طلبہ علمی مسئلے کا اپنے طور پر حل تلاش کرتے ہیں یہ کونسا طریق ہائے تدریس ہے۔ (الف) طریق تقریر (ب) طریق بحث (ج) مسئلی طریق (د) طریق تکرار 40۔ انسان جو کچھ سیکھے اسے بھولنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ (الف) نسیان (ب) یادداشت (ج) ذہانت (د ) کند ذہن 41۔ سبق کو بھولنے سے بچانے کیلئے معلم کونسا طریق تدریس کا استعمال کرتا ہے۔ (الف) طریق تقریر (ب) طریق بحث (ج) مسئلی طریق (د) طریق تکرار 42۔ استاد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسباق کا تعلق قائم کرے۔ (الف) دوسرے مضامین سے (ب) پچھلے اسباق سے (ج) کتاب سے (د) کوئی نہیں 43۔ اگر وہ ضرورت محسوس کرے تو طریقہ ہائے تدریس اور منصوبہ بندی میں مناسب ترمیم و اصلاح کر سکتا ہے۔ (الف) متعلم (ب) معلم (ج) مدرسہ (د) معاشرہ 44۔ کسی چیز کی تعداد، مقدار یا خصوصیت کا اندازہ لگانے کا عمل کہلاتا ہے۔ (الف) امتحان (ب) جائزہ (ج) پیمائش (د) پڑھائی۔ 45۔ اندازے، وقت کا احساس اور چھوٹے بڑے کی تمیز وغیرہ ہیں۔ (الف) پیمائشی عناصر (ب) پیمائش (ج) الف اور ب دونوں (د) کوئی نہیں۔ 46۔ ایسی اشیاء جن کی درست پیمائش ممکن ہے ایسی پیمائش کو کہتے ہیں۔ (الف) جذبات کی پیمائش (ب) معیاری پیمائش (ج) اندازاً پیمائش (د) چھوٹی پیمائش۔ 47۔ ایسی صفات جن کی پیمائش کا کوئی باقاعدہ معیار مقرر نہیں کہلاتی ہے۔ (الف) اندازاً پیمائش (ب) معیاری پیمائش (ج) چھوٹی پیمائش (د) جذبات کی پیمائش 48۔ جس پیمائش کا دار و مدار حتمی نتائج پر ہو اسے کہتے ہیں۔ (الف) جذبات کی پیمائش (ب) اندازاً پیمائش (ج) معیاری پیمائش (د) چھوٹی پیمائش 49۔ تعلیمی پیمائش سے مراد ہے۔ (الف) امتحانات (ب) اکتسابی جائزہ (ج) الف اور ب دونوں (د) کوئی نہیں 50۔ امتحان کبھی طویل اور کبھی مختصر جبکہ ہوتا ہے۔ (الف)زبانی (ب ) تحریری (ج) الف اور ب دونوں (د ) معلم کی رائے 51۔ طالبعلم کے اگلی جماعت میں ترقی، اعلیٰ اداروں میں داخلہ اور مستقبل کا انحصار ہے۔ (الف) امتحانی نتائج (ب) تعلیمی پیمائش (ج) الف اور ب دونوں (د) کوئی بھی نہیں 52۔ امتحانات کام کرتے ہیں (الف) بطور محرک (ب) بطور ممتحن (ج) بطور متعلم (د) بطور نصاب ٭٭٭ اردو زبان و ادب تمہید: برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کے داخلہ نے یہاں کے باشندوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر اور نئی خوبیوں سے آشنا کیا۔ توحید الٰہی کا نعرہ یہاں کے باشندوں کے لئے بالکل ہی نئی آواز تھا، جس نے ہندوستان کے قدیم نظام زندگی میں لرزہ برپا کر دیا۔ دیوی، دیوتاؤں کی پوجا کے چکر میں پھنسا ہوا معاشرہ ہمیشہ مذہبی آزاد اور مطلق العنان حاکموں کے ظالمانہ اقتدار کا نشانہ بنتا آتا ہے۔ حکمرانوں اور ان کے حمایتی پجاریوں نے عوام کو ذات پات میں تقسیم کر کے انہیں توہم پرست، جاہل اور متعصب بنایا اور خود داد عیش دی ہے۔ اسلام نے یہ طلسم توڑ ڈالا، اور لوگوں کو انسانی پادشاہی، فوق البشری دیوتائی، فضول رسم پرستی، بے جا انسانی امتیاز اور اندھی جہالت کی خوفناک زنجیروں سے نجات دلوائی اور ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں کوئی انسان کسی دوسرے کا محکوم نہیں، کوئی آقا اور بندہ نہیں، کوئی انسانیت سوز اخلاق نہیں، کوئی حمیت جاہلیت نہیں۔ سب انسان اللہ کے بندے اور باہمی مساوات، رحمت، تعاون اور برادری سے زمین پر اللہ کے خلیفہ بن کر اس کی مرضی پوری کرتے ہیں۔ مسلمان کی نشست و برخاست، وضع قطع، لباس، سوچنے سمجھنے کا انداز، پسند و نا پسند کا معیار ہندوؤں سے الگ اور اس کا اثر زبان و ادبیات سے بھی مترشح ہوتا ہے۔ انسان کو اپنی بنائی ہوئی تمام چیزوں میں سب سے زیادہ عزیز اپنی زبان و ادبیات ہے کیونکہ ادب ہی انسان کی ایسی شعوری اور نیم شعوری کوشش ہے جو اس کا مشترک سرمایہ اور میراث ہوتا ہے۔ ادب شخصیت و ذہنیت کے اظہارکا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک قوم کی تمدنی و مزاجی کیفیات کا آئینہ، اس کی تہذیبی سرگرمیوں کے ارتقاء اور انحطاط کا پیمانہ، اس کو صحیح یا غلط راہوں پر لے کر بڑھنے والی موثر ترین طاقت بھی ہے ادب میں ماضی کی ایسی تمام روایات اور یادداشتیں محفوظ ہوتی ہیں، جن سے قوم طاقت اور تحریک پاتی ہے اور اپنے اعمال کا احتساب کرتی ہے، جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اردو اور مقامی باشندے برصغیر پاک و ہند کے لوگ اردو کو اپنی قومی و ملی زبان بتانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف علاقوں پنجاب، دکن، سندھ، سرحد اور یوپی کے باشندوں نے اردو کی پرورش و پرداخت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے تمام علاقوں نے اردو کا مولد یا کم از کم اس کی ابتدائی نشوونما کا مقام ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اردو کے ساتھ لوگوں پر غیر معمولی کرویدگی کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے اردو کو ہمیشہ اپنی زبان سمجھا کیونکہ دنیا کی دیگر سینکڑوں زبانوں میں سے اور کوئی زبان ان کی تہذیب اور مزاج کی نمائندگی اتنی خوبی سے نہیں کرتی۔ غرضیکہ ہندو اور مسلمان دونوں قوموں نے اردو کو پروان چڑھا کر اپنی ثقافت کا تحفظ کیا۔ اردو کا وطن محمد حسین آزاد نے اپنی مشہور کتاب ’’ آب حیات‘‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ اردو مقامی زبان برج بھاشا سے نکلی۔ جبکہ بعض مورخین کا دعویٰ ہے کہ اردو کا مولد دکن ہے، پھر علامہ سید سلیمان ندوی کا کہنا ہے کہ ہند میں عرب مسلمانوں کی آمد کے بعد اردو کا بنیادی ڈھانچہ سندھ میں بنا، ڈاکٹر گریرسن (Grierson) دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ اردو اور موجودہ ہندی کی ماں بولی انبالہ کی مشرقی تحصیلوں سے لے کر مراد آباد اور رام پور تک کے دیہاتی علاقوں میں بولی جانے والی کھڑی زبان ہے جبکہ پروفیسر شیرانی یہ ثابت کرتے ہیں اردو نے اس وقت جنم لیا جب مسلمانوں نے لاہور سے بڑھ کر دہلی کو اپنا دار الحکومت بنایا تو وہ ہستی زبان کو پنجاب سے لے کر گئے تھے، اور اس طرح اردو پنجابی سے نکلی ہے۔ اوپر مذکور حضرات کی تحقیقات سے انکار نہیں لیکن ان حضرات کے دعوؤں کی پڑتال کرتے وقت دو باتیں ذہن میں ضرور رہنی چاہئیں۔ اولاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کی مقامی زبانیں کا تعلق مرور ایام کے ساتھ ساتھ بدلتی گئی اور اسی کی کوکھ سے بے شمار مستقل زبانوں نے جنم لیا، لیکن ان میں باہمی تعلق پھر بھی برقرار رہا۔ خصوصاً پنجاب اور مغربی دو آب کی زبانیں آج بھی باہم بہت قریب ہیں۔ اسماء ضمائر مصادر اور حروف عطف وغیرہ ان بولیوں میں یکساں اور الفاظ کے صرفی اور جملوں کے نحوی قواعد بھی بڑی حد تک ایک سے ہیں۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ مشرقی پنجاب اور یوپی کی بولیاں ایک ہی زبان کی شاخیں ہیں، مسلمانوں کی آمد سے قبل اس علاقے میں رائج ہو گی۔ سیاسی انتشار اور لامرکزیت کی بدولت یہ زبان کئی بولیوں میں بٹ گئی۔ سیاسی انتشار کے باعث اس زبان کا باقاعدہ تاریخی سرمایہ بھی محفوظ نہ رہ سکا، جس سے اس علاقے کی لسانی تاریخ مرتب ہو سکتی۔ ثانیاً یہ کہ مسلمان فاتحین نے مثالی مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی بعض اسلامی خصوصیات کو مسلسل برقرار رکھا مثلاً باہمی اخوت و مساوات اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے بڑی حکومت قائم کرنے کی کوششوں کے ساتھ اپنی زبان کی انفرادیت کو بھی برقرار رکھا۔ مسلمان عرب سے عربی لے کر اٹھے تھے تو اسے اپنے تمام مقبوضات میں اس طرح رائج کر دیا کہ آج تک شمالی افریقہ میں وہ رائج ہے۔ وہ مشرقی ممالک میں ایسا نہ کر سکے تو وہاں کی ایک غیر معروف بولی کو ایسی ترقی دی کی فارسی کے نام سے وہ آج بھی متعدد مالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ فارسی بولنے والے افغان، ترک اور منگول جب برصغیر میں فاتحانہ داخل ہوئے تو وہ فارسی زبان کو ساتھ لائے۔ مقامی باشندوں کے ساتھ گھل مل جانے سے انہیں یہاں کی زبان اختیار کرنا پڑی، فارسی سے رشتہ نہ توڑنے کے باعث انہوں نے مقامی بولیوں کو جوں کا توں اختیار نہیں کیا کیونکہ گراں مایہ، شائستہ اور وسیع زبان فارسی پچھلی دو تین صدیوں میں سلاطین ہند کی کوششوں سے مسلمانوں کی ادبی، تہذیبی بلکہ ایک حد تک دینی زبان بن چکی تھی جبکہ ذات پات میں بٹے ہوئے اور سیاسی طور پر منتشر لوگوں کی کوئی زبان اس قابل نہ تھی کہ مسلمانوں کے لئے فارسی کا بدل بن سکتی۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل سنسکرت اور پراکرت جو کسی زمانے میں مشترک تمدن اور مرکزی اقتدار کے تحت ہندوستان کے بڑے علاقوں کی قومی اور ادبی زبانیں رہ چکی تھیں مقامی لوگوں میں سیاسی وحدت اور معاشرتی اشتراک یہ بڑی زبانیں بھی قصہ پارینہ بن گئی تھیں۔ ایک معاشرے میں رہنے والے برہمنوں اور شودروں کی زبانوں میں بھی خاصا اختلاف تھا۔ ملک کے طول و عرض میں پندرہ ہزار سے زائد زبانیں رائج تھیں۔ ان منتشر حالات میں مسلمان یہاں وارد ہوئے تو ان کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی تہذیبی اور ایک حد تک دینی زبان فارسی سے دست بردار ہو جائیں اور ساتھ ہی ہندوستان میں رہ کر فارسی کو پوری طرح اپنائے رکھنا بھی ناممکن تھا۔ چنانچہ انہوں نے وہی کیا جو ان کے بزرگ اس سے قبل کر چکے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے ایران کی بولی (فارسی) کو اسلامی روایات و اقدار کی طاقت سے ایک زبردست تہذیبی سرمایہ بنا دیا اسی طرح انہوں نے برصغیر کی ایک بے حیثیت گمنام بولی کو اختیار کرتے ہوئے اس میں وہ تمام روایات دخل کر دیں جو انہیں عربی و فارسی کے ذریعے ملی تھیں یوں اردو زبان نے جنم لیا جو آج دنیا کی تیسری بڑی زبان بن چکی ہے۔ یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ اردو کا اصل وطن کونسا ہے؟ مسلمان فاتحین ابتداء موجودہ پاکستان میں بسے اور ان کا سیاسی مرکز لاہور تھا۔ انہوں نے یہاں کی زبان کو اسلامی ضروریات کے مطابق ڈھال لیا۔ صدیوں بعد یہ مرکز لاہور سے ہو کر دہلی آ گیا یوں مسلم تہذیب کا صدر مقام دہلی قرار پایا۔ یہاں مسلمان سپاہیوں، عالموں اور صوفیوں نے اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ جس زبان کو بنایا وہ یہیں کی مقامی بولیوں میں سے تھی، اور یہ بولی پنجاب کی بولیوں سے زیادہ مختلف نہ تھی، فارسی اور اس مقامی زبان کے ملاپ سے جنم لینے والی بولی آگے چل کر اردو کہلائی۔ انقلاب اور زبان اردو کو مسلمانوں کی یہ مشترک زبان بنتے بنتے کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا نئے نئے ممالک کی تسخیر دور دراز کے علاقوں پر یلغاروں اور پائے تخت کی دہلی منتقلی سے بیرونی فاتحوں کی نئی بنتی ہوئی زبان مسلسل ترقی کرتی رہی مغلوں کی برصغیر میں آمدار دو زبان کے لئے بڑی حد تک انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنی۔ مغلوں کی آمد سے قبل حالات اتنے سازگار ہو چکے تھے کہ ارتقاء پذیر مقامی بولی اردو فارسی کو ہٹا کر سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر لے کیونکہ اس وقت تک (1206ء تا 1526ئ) تین صدی سے نسلاً غیر ملکی سہی، پیدائش و تربیت کے اعتبار سے مقامی باشندوں کی حکمرانی کا دور تھا جو اپنے قدیم آبائی وطن سے کوئی نسبت نہ رکھتے تھے ان کی زبان بھی مقامی ہو گئی تھی جسے سرکاری حیثیت تک پہنچنے کے لئے تین صدی کا زمانہ ملا جو اس کے ارتقاء کا بھی دور کہلاتا ہے تازہ دارد ہند سے اجنبی مغل حکمران اس زبان کی یہ حیثیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اور اس طرح ایک بار پھر فارسی ہی غالب رہی اور فارسی نے مزید قوت کے ساتھ مقامی زبانوں پر اثر ڈالا۔ مغل حکمرانوں کے درباروں میں صرف شاعر ہی نہ تھے بلکہ ہر طرح کے اہل کمال، ہندوستان کی دولت اور قدر دانی کی کشش سے بے اختیار ہو کر بڑی تعداد میں جمع ہوتے گئے ان نو وارد گان اہل کمال کی زبان اور ادب کا اثر نہ صرف مسلمانوں کی زبان پر پڑا بلکہ غیر مسلم باشندوں کی بولیاں بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ آگرہ جہاں کی مقامی بولی متھرا (برج) کے علاقے کی شیریں بھاشا تھی، اور علاقہ دہلی کی زبان سے خاصی مختلف تھی نے بھی زبان دہلوی پر اپنا اثر ڈالا جس نے آگے چل کر ’’ زبان اردوئے معلی‘‘ کا پر شکوہ لقب پایا شاہ جہاں کے عہد میں شاہ جہاں آباد کے نام سے دار الحکومت قرار پایا تو مغل دربار کی تہذیبی عظمت اپنے پورے عروج پر پہنچ کر اسی دہلی کو رشک جہاں بنانے لگی تو حکمران مسلمانوں کی زبان اپنے نقش اول سے بہت مختلف اور زیادہ خوش نما، وسیع اور شائستہ زبان بن چکی تھی۔ اب اس کے بیشتر قدیم الفاظ و محاورات اور ترکیب یا متروک ہو چکی تھیں یا نئے سانچوں میں ڈھل چکے تھے بعض ویسی الفاظ فارسی و عربی مترادفات کے حق میں دستبردار ہو چکے تھے۔ مختصراً یہ کہ ’’ زبان دہلوی‘‘ سے شاہ جہان کے دور کی ’’زبان اردوئے معلی‘‘ کو وہی نسبت تھی جو نیم متمدن قبائل سے دور حاضر کے مہذب انسان کو ہے، اردو زبان کی داستان ارتقاء اتنی سادہ نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ زبان کے آغاز سے لے کر اسے ادبی حیثیت اختیار کرنے تک اس کی تاریخ میں بھانت بھانت کی بولیوں اور زبانوں نے سیاسی و معاشرتی تلاطموں کا سامنا کرتے ہوئے کہیں جا کر موجودہ مقام حاصل کیا۔ بہرحال تمام انقلابات کے باوصف یہ زبان مسلمانوں کی تہذیبی و معاشرتی رحجانات کی آئینہ دار رہی اور اس نے غیر مسلم کہلاتی اثرات کو قبول نہ کیا۔ اسی باعث اردو کو آج بھی ہندو مسلم اتحاد کی یادگار مانا جاتا رہا ہے۔ اردو کے نام برصغیر میں پروان چڑھنے والی زبان کا موجودہ نام ’’ اردو‘‘ پچھلی صدی میں تجویز ہوا جو جلد ہی پورے برصغیر میں رائج ہو گیا۔ ترکی زبان میں لشکر کو اردو کہتے ہیں اور لشکر ہی کی طرح اس میں بھی مختلف زبانوں کے الفاظ جمع ہو گئے، یعنی لشکر میں مختلف بولیاں بولنے والوں کے جمع ہو جانے سے جو زبان مشترکہ ذریعہ ابلاغ بنی وہ اردو کہلائی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے وقت برصغیر بے شمار چھوٹی چھوٹی اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم تھا۔ جن میں میل جول نہ ہونے کے باعث ہر علاقے کی تہذیب اور معاشرت کی طرح زبانیں بھی الگ ہو گئی تھیں۔ مگر چونکہ برصغیر کے لوگ ایک ہی نسل (آریا) سے تعلق رکھتے تھے ان کی ایک ہی زبان تھی اس لئے ان کی تمام زبانیں الگ الگ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی حد تک آپس میں ملتی جلتی بھی تھیں۔ جب مسلمانوں نے برصغیر فتح کر کے یہیں بس جانے کا ارادہ کر لیا تو انہوں نے یہاں کی زبانوں کو اختیار کرنے کے ساتھ ہی اپنی تہذیب و معاشرت اور ملی زبانوں (عربی و فارسی) کے اثرات بھی ان علاقوں پر ڈالنا شروع کر دیئے۔ اس لئے ایک مشترک زبان بھی قدرتاً ظہور میں آنے لگی۔ ہر علاقے کے مسلمان باہمی گفتگو کیلئے مقامی بولی استعمال کرنے لگے اور اس میں فارسی و عربی الفاظ خود بخود استعمال ہونے لگے، کیونکہ اسلامی تہذیب تمدن کی ضروریات فارسی و عربی ہی سے پوری ہو سکتی تھیں اور اس طرح مقامی بولیاں اسلامی اثرات قبول کرنے لگیں۔ اور اردو جیسی عظیم الشان زبان ارتقا کے مراحل طے کرنے لگی۔ امیر خسرو نے مقامی زبانوں کو علاقوں کے بجائے شہروں سے منسوب کیا۔ امیر خسرو نے ان کو لاہوری اور ملتانی زبان کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ یعنی دہلی، لاہور اور ملتان وغیرہ کی زبانیں، یہ زبانیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف تھیں کہ ان کو الگ الگ نام دیئے گئے۔ مغل بادشاہ اکبر کے مشہور وزیر ابوالفضل بھی زبان دہلوی و لاہوری وغیرہ کو الگ الگ زبانیں قرار دیتے ہیں۔ اولیائے کرام اور اردو زبان اردو زبانوں کے پھیلاؤ میں مسلم حکمرانوں سے کہیں زیادہ جن لوگوں نے کام کیا وہ اولیائے کرام تھے جو عوام کو روز مرہ کی مقامی بولی میں دین و اخلاق کی تعلیم دیتے تھے اشاعت اسلام میں معروف ہر بزرگ نے مقامی لوگوں کو اپنی آسان اور دلنشیں گفتگو سے متاثر کیا، ان حضرات کی ذاتی سادہ زندگی، پر خلوص نصیحت اور اعلیٰ کردار کی بدولت عوام ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے اور ہمیشہ انہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس طرح ان بزرگوں نے لوگوں کے اخلاق سدھارنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان سمجھنے او ربولنے کا ذوق بھی پیدا کر دیا۔ اردو کی تاریخ میں قدیم ترین شعری و نثری نمونے انہی بزرگوں کے اقوال کی صورت میں ملتے ہیں، ان کے بولے گئے جملوں میں یکسانی اور ہم آہنگی موجود ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی مختصر کتاب ’’ اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ‘‘ میں ان بزرگوں کے اقوال درج کر دیئے ہیں، جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ان حضرات نے برصغیر کے طول و عرض میں تبلیغ دین اور اصلاح کردار کے ساتھ ساتھ ایک مشترک زبان کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ تیرہویں صدی سے سولہویں صدی عیسوی تک دہلوی حکمرانوں نے اپنی فتوحات کا سلسلہ دکن تک پھیلا دیا۔ اور ان کے ساتھ ساتھ صوفیہ و مشائخ بھی تبلیغ اسلام کے لیے وہاں جا پہنچے۔اگرچہ چودھویں صدی کے وسط ہی میں دکن نے دہلی سے علیحدگی اختیار کر کے ایک الگ مستقل، خود مختار حکومت قائم کر لی تھی لیکن جو زبان شمال سے دکن تک پہنچ گئی تھی وہ مسلسل ترقی کرتی رہی تاہم اس نئی زبان میں یکسانی و ہمواری پیدا نہ ہو سکی۔ ہر علاقے کے مقامی اثرات میں زبان پر ہر جگہ الگ الگ تھے لیکن اس نے باوجود یہ زبان ہر جگہ سمجھی اور بولی جاتی تھی اسے مجموعی طور پر ’’ہندی‘‘ یا ’’ ہندوی‘‘ کہاجانے لگا۔ یعنی وہ زبان جو ہندوستان میں مشترک طور پر بولی جاتی ہو۔ گویا موجودہ زبان ’’ اردو‘‘ کا نام مسلمانوں نے ’’ ہندی‘‘ رکھا۔ البتہ اسی ’’ ہندوی‘‘ زبان کی جو شکلیں رائج ہوئیں انہیں اسی علاقے کی نسبت سے دہلوی، دکنی، گجری وغیرہ کہا جاتا تھا۔ مغلوں کی آمد ’’ زبان ہندوی‘‘ برصغیر کے مختلف علاقوں میں سست رفتاری سے ارتقاء کی منازل طے کر رہی تھی کہ برصغیر پر ایک تازہ دم اجنبی قوم (مغل) بابر کی قیادت میں حملہ آور ہوا تو اس کا سکہ تقریباً پورے برصغیر پر چلنے لگا۔ مغلیہ سلطنت پہلی مسلم حکومتوں سے زیادہ پائیدار ثابت ہوئی تو ’’ زبان ہندوی‘‘ کی مختلف صورتیں آپس میں اور زیادہ قریب آنے لگیں۔ مغلوں کے انتہائی عروج کے زمانہ میں ہندوی زبان تقریباً پورے برصغیر میں اپنے قدم جما چکی تھی مغلوں کا پائے تخت مغل ثقافت و تمدن کا مثالی نمونہ بن گیا اور تمام علاقوں کے لوگ دہلی ہی سے رجوع کرنے لگے اور یوں زبان کے معاملے میں دہلی کو سند کی حیثیت حاصل ہو گئی اور مقامی لوگ دہلوی زبان کی پیروی پر فخر کرنے لگے۔ ’’ اردوئے معلی‘‘ شاہ جہاں نے ’’ شاہ جہان آباد‘‘ کیا تو اس نئے شہر کے ایک علاقہ کو اپنے محل اور سرداروں، درباریوں اور دوسرے خصوصی ملازموں کی رہائش گاہوں کے لئے مخصوص کر کے اس کا نام ’’ اردو معلی‘‘ رکھا۔ گویا یہ شہر عام دہلی کے مقابلے میں زیادہ شستہ، مہذب اور ترقی یافتہ لوگوں کی بستی تھی، شاہ جہاں نے اس کا یہ نام اپنے مورث اعلیٰ امیر تیمور کی پیروی میں رکھا تھا کیونکہ تیمور اپنے لشکر سمیت جہاں اقامت اختیار کرتا اسے ’’ اردو‘‘ کہا جاتا تھا۔ شاہ جہاں کے آباد کردہ نئے شہر کا بازار ’’اردو بازار‘‘ کہلوایا۔ اور یوں’’ اردوئے معلی‘‘ برصغیر میں سب سے زیادہ شائستہ اور لائق تقلید زبان بن گئی یعنی ’’ اردو‘‘ زبان کا نام نہیں، بلکہ اس علاقے کا نام تھا جہاں اعلیٰ زبان بولنے والے خواص و عوام قیام پذیر تھے۔ زبان اردوئے معلی اگرچہ برصغیر میں درباری اور دفتری زبان فارسی ہی تھی کیونکہ پڑھائی لکھائی کا سارا کام مسلمان فارسی ہی میں کرتے تھے، لیکن روز مرہ بے تکلف گفتگو اسی ’’ زبان ہندوی‘‘ میں ہونے لگی خواص کی بولی عوام بولی سے زیادہ خوبصورت اور شستہ تھی، جس کی بنا پر’’ زبان دہلوی‘‘ کی اس قسم کو ’’ زبان اردوئے معلی‘‘ کے نام سے الگ موسوم کیا گیا۔ ریختہ ابتداً اردو زبان کو شعر کی زبان نہیں بنایا گیا۔ دوسری تحریروں کی طرح شاعری کی زبان بھی فارسی ہی تھی البتہ کبھی کبھار کوئی کوئی شاعر تفریحاً اکا دکا شعر اس زبان میں بھی کہہ لیتا تھا۔ جیسے فارسی اور ہندوی آمیز زبان میں شعر کہنے کی روایت امیر خسرو نے ڈالی، امیر خسرو نے ترکی اور ہندی دھنوں کو ملا کر ایک نئی دھن ایجاد کی جس کا نام انہوں نے ’’ ریختہ‘‘ رکھا تھا اس نئی دھن کے لئے اشعار انہوں نے نئی زبان میں کہے تھے۔ یوں ابتدائی اردو میں ہونے والی شاعری کا نام ’’ ریختہ‘‘ قرار پایا امیر خسرو کے بعد متعدد شعراء نے ریختہ میں اکا دکا شعر کہے جس کا مقصد صریحاً شعر کہتے کہتے کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنا تھا، جبکہ دکن میں حکمرانوں سمیت بہت سے شعراء نے اس زبان میں شعر گوئی شروع کر دی تھی اگرچہ وہاں اس کا نام ’’ دکنی‘‘ تھا مگر چونکہ اس علاقہ کی مقامی زبانوں سے اس نئی شمالی زبان کا کوئی رشتہ نہیں تھا اس لئے اس میں وہ قدرتی ترقی اور نشوونما نہ ہو سکی جو شمال میں برابر جاری تھی۔ ولی دکنی کا سفر دہلی مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر دکن کو فتح کرنے کا عزم اور منصوبہ لے کر اس سرمین پر پہنچا۔ عالمگیر یا کی جملہ محض کارروائی ہی نہ تھی اس نے دہلی، آگرہ، دوآب کے لاکھوں افراد کو دکن پہنچا دیا۔ اس طرح یہاں وہ زمانہ آیا جب صدیوں بعد اہل دکن کو دہلی والوں کے تمدن اور زبان کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا او رانہوں نے محسوس کیا اہل دکن کے مقابلے میں دہلی والوں کی زبان کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور گونا گو خوبیوں کی مالک ہے یوں مطالعے اور تحقیق کی غرض سے مشہور دکنی شاعر ولی نے تقریباً1700ء میں دہلی کا رخ کیا۔ اردو زبان کے ارتقاء میں دلی کا یہ سفر اہم سنگ میل ہے جس کی بدولت دلی کو اپنی زین سنوارنے کا موقع ملا تو ساتھ ہی دہلی کے شعراء کو اپنی زبان میں شعر کہنے کا حوصلہ ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے دہلی میں شعراء نے فارسی چھوڑ کر ’’ زبان اردوئے معلی‘‘ میں شعر گوئی اختیار کر لی۔ گویا یہ لوگ صرف ایک اشارے کے منتظر تھے جسے پاتے ہی انہوں نے اپنی زبان میں شعر کہے اور اردو کو برصغیر کی مقبول ترین زبان بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ انگریز اور اردو نئی زبان کے ساتھ مقامی لوگوں کے علاوہ ایک حکمران قوم کو بھی اس سے دلچسپی ہو گئی تھی کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ زبان ہے جو ’’ ہندوستان‘‘ میں تقریباً ہر جگہ سمجھی او ربولی جاتی ہے دوسری طرف تجارت کی غرض سے آئے انگریزوں نے دوسری یورپی قوموں (ڈچ، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں) کو ہندوستان سے بے دل دیا تھا اب وہ مغلوں کے زوال اور ملکی انتشار سے فائدہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان پر قابض ہو جانا چاہتے تھے۔ انیسویں صدی کے آغاز انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط ہو چلی تھی اور انہیں ضرورت پیش آ رہی تھی کہ عوام سے رابطہ قائم رکھنے کے لئے وہ مقامی زبانیں بھی سیکھیں۔ ان مقامی زبانوں میں سب سے اہم وہرا بولی تھی جس کا اس وقت تک کوئی نام نہ تھا، چنانچہ انگریزوں نے اپنے صدر مقام کلکتہ میں فورٹ ولیم نامی قلعے میں ایک کالج اس لئے قائم کیا کہ انگریزوں کو مقامی زبانیں سکھائی جائیں۔ فورٹ ولیم کالج کا سن قیام 1800ء ہے۔ اس کالج میں مقامی لوگوں کی مذہبی زبانیں عربی اور سنسکرت اور سرکاری زبان فارسی کے علاوہ بنگلہ، مرہٹی وغیرہ بھی پڑھائی جاتی تھیں، لیکن سب سے زیادہ توجہ جس زبان پر دی گئی وہ یہی ’’ زبان ہندوی‘‘ تھی جسے ان انگریزوں نے ’’ ہندوستانی‘‘ نام دیا۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ نئی زبان ہی پورے ہندوستان کی قومی زبان ہے۔ لیکن چونکہ اس زبان میں کوئی ایسا تحریری سرمایہ موجود نہ تھا جو روز مرہ گفتگو سیکھنے میں مدد دیتا اس لئے اس کالج کے لئے ایسے ادیب ملازم رکھے گئے جنہوں نے ’’ ہندوستانی‘‘ میں روز مرہ کی کتابیں لکھیں۔ ان ادیبوں میں سب سے مشہور میرا دکن دہلوی ہوئے، جن کی ’’ باغ بہار‘‘ اردو ادب کا لازوال سرمایہ بن گئی ہے دوسرے ادیبوں میں حیدر بخش حیدر، مرزا علی لطف، میر بہادر علی حسینی، مرزا کاظم علی جوان، نہال چند لاہوری اور للو لال کے نام شامل ہیں۔ ابتداء میں لوگوں نے زیادہ تر کہانیوں او رداستانوں کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا لیکن رسم الخط فارسی ہی استعمال کیا صرف للو لال نے دیو ناگری (یعنی سنسکرت) رسم الخط میں ترجمے کئے تاکہ ہندوؤں کو بھی زبان سیکھنے کی سہولت میسر آئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد’’ ہندوستان‘‘ برطانوی نو آبادی بن گیا اور نئے حاکموں نے مسلم تہذیب کا ایک ایک نقش کھرچ پھینکنے کی پوری کوشش کی۔ اردوئے معلی کی پوری بستی مسمار کر کے چٹیل میدان بنانے کے علاوہ شاہی قلعے کو گورا فوج کی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ جامع مسجد دہلی پر کئی سال برطانوی فوج قابض رہی۔ اور یوں ’’ اردوئے معلی‘‘ صرف ایک سہانی یاد بن کر لوگوں کے دلوں میں باقی رہ گیا۔ اردوئے معلی کی یاد تازہ رکھنے کے لئے ایک چیز ایسی باقی تھی جو ا س علاقے کی زبان تھی۔ شرفاء اور اہل علم و فضل اردوئے معلی سے اجڑ کر دوسرے شہروں میں جا بسے جن سے باہر کے لوگوں نے زبان و تہذیب کے سبق لئے اور شاید غیر شعوری طور پر اس محبوب بستی کی یاد تازہ رکھنے ہی کے لئے وہاں کی مستند زبان کا نام ’’ اردوئے معلی‘‘ رکھ دیا جو بعد ازاں صرف’’ اردو‘‘ رہ گیا۔ اس نام کی جذباتی معنویت محسوس کر کے خود اہل دہلی بھی اسے ’’ اردو‘‘ ہی کہنے لگے۔ قصیدہ: فارسی میں ابتدائی شاعری مثنوی اور قصیدے ہی سے شروع ہوئی، لیکن فارسی میں یہ صنف عربی سے آئی جہاں ہر طرح اور ہر مضمون کی شاعری کا اسلوب صرف قصیدہ تھا۔ البتہ فارسی میں اس کے موضوعات مخصوص کر دیئے گئے یعنی قصیدہ ایسی صنف ہے جس میں کسی شخصیت کی توصیف و تحسین کی جائے یا مذمت و ہجو مذکور ہو، یا پھر کائنات پر کوئی حکیمانہ تبصرہ کیا جائے اس کا پہلا شعر، جسے مطلع کہا جاتا ہے، کے دونوں مصرع ہم قافیہ، اور پھر یہی قافیہ بعد کے تمام شعروں کے دوسرے مصرعوں کا ہو۔ قصیدہ کے اشعار کی کم سے کم تعداد پندرہ لیکن زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ سو سے بھی زائد اشعار کے قصیدے فارسی میں ملتے ہیں۔ اس کی خصوصیت، شکوہ الفاظ اور وسیع معلومات پر دسترس کی نمائش البتہ نظم کا بنیادی مضمون ایک ہی ہوتا ہے۔ شعراء نے قصیدہ کی تکنیک میں کچھ خوبصورت اضافے بھی کئے جس کی دو قسمیں ہیں۔ ضطابیہ اور تشبیہہ قصیدے کا آغاز ’’نشیب ‘‘ سے ہوتا ہے۔ یعنی شباب کی باتیں کرنا، یعنی حسن و عشق اور بہار و گلشن کے پر لطف مناظر و معاملات وغیرہ بیان کرنا۔ بعد میں ہر طرح کا مضمون جو قصیدے کے اصل مضمون سے بالکل مختلف ہو، تشبیب کہلانے لگا تھا۔ مثنوی مثنوی فارسی کی ابتدائی شاعری کی اصل صنف ہے۔ یعنی ایسی نظم جس میں ہر شعر الگ الگ قافیے میں ہوتا ہے اور اس اعتبار سے یہ سب سے آسان صنف ہے، لیکن سامع کی توقع شاعر سے یہ ہوتی ہے کہ نظم میں اس کا مضمون اظہار و ابلاغ اور قوت بیان سب کی بھرپور نمائش ہو۔ مثنوی کسی مسلسل واقعے، داستان یا حکیمانہ بات کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئے سب سے موزوں صنف شعر خیال کی جاتی ہے مثنوی میں اشعار کی تعداد کی کوئی پابندی نہیں۔ دو سے لے کر ہزار یا اس سے بھی زیادہ شعر اس میں کہے جا سکتے ہیں۔ پرانے دور میں مثنوی کے لئے چھوٹی بحریں مخصوص سمجھی جاتی تھیں، جن کی تعداد چھ ہے پرانے شاعر انہی چھ میں سے کسی بحر میں مثنویاں کہتے تھے۔ بیسویں صدی میں نسبتاً لمبی بحروں میں مثنویاں کہی جانے لگیں۔ جن کا آغاز غالباً علامہ اقبال کی نظموں سے ہوتا ہے۔ غزل اوپر جوانی کی غزل جس کے معنی ’’ عورتوں سے باتیں کرنا‘‘ ہیں۔ ہلکے پھلکے اور مختصر اظہار جذبات کے اظہار کی راہ کا نام غزل تھا، یعنی ایک ایسے مجموعہ اشعار کا نام ہے جن کا قافیہ تو قصیدے کی طرح ایک ہی ہو لیکن ہر شعر یا مضمون الگ اور مکمل ہو، اور شاعر اپنے ’’ حقیقی‘‘ یا ’’ مجازی‘‘ عشق کے معاملات بیان کر سکے چونکہ غزل کی زبان اور اصطلاحات قریب قریب وہی رہیں جو پرانے دور سے چلی آتی تھیں اس لئے غزل کی لغت اور فرہنگ بھی مخصوص ہو گئی اور اس کا انداز بیان جلد مخصوص سانچوں میں ڈھل کر رہ گیا۔ الفاظ کی سلاست و شیرینی اور عبارت کی نرمی اس کے لئے ضروری قرار پائی۔ غزل اور شاعری میں سب سے مقبول اور عام صنف بن گئی بلکہ یہ وہ واحد صنف ہے جس میں ہر طرح کے مضامین کے باوجود اس کی ہیئت، مزاج اور اسلوب میں کوئی تغیر نہ ہوا۔ غزل کے پہلے شعر کے دونوں ہم قافیہ مصرعے مطلع کہلاتے ہیں بعض غزلوں میں ایک سے زائد مطلعے بھی ہوتے ہیں جو مطلع ثانی اور مطلع ثالث کہلاتے ہیں جس شعر میں شاعر اپنا تخلص لائے مقطع کہلاتا ہے غزل کے اشعار کی تعداد اگرچہ متعین نہیں تاہم عموماً پانچ اشعار سے کم اور گیارہ سے زائد اشعار سے غزل میں پسند نہیں کئے جاتے ہیں۔ قطعہ قطعہ کوئی علیحدہ صنف سخن نہیں بلکہ ایک طرح کی غزل مسلسل ہی ہے۔ یعنی تمام اشعار میں ایک ہی مضمون بیان کیا جاتا ہے، پرانے شاعر مستقل صنف کے طور پر اس میں کسی ایک جذبے کا تفصیلی بیان کرتے تھے، اور اس میں مطلع کا ہونا ضروری نہ تھا۔ جو بعد ازاں کی رباعی بن کر رہ گیا یعنی چار مصرعوں کی مختصر نظم جس کا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ اور اس میں کوئی ایک مشترک، پرانے شاعر غزل، قصیدے یا مثنوی میں کوئی بات ایک شعر نہ کہہ سکتے تو اسے اگلے شعر یا اشعار تک بڑھا کر پورا کرتے ان اشعار کو قطعہ کہا جاتا تھا۔ رباعی چار مصرعوں او رایک مخصوص وزن کی مکمل نظم جس کا پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو، رباعی کہلاتی ہے رباعی میں حکیمانہ مسائل پر تبصرہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ صنف نظم بھی فارسی ادب سے اردو میں حسنہ لے لی گئی۔ موجودہ زمانے میں چونکہ قطعہ بھی چار مصرعوں ہی کا رہ گیا ہے۔ رباعی میں تینوں مصرعے لازماً ہم قافیہ ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ رباعی کی بحر مخصوص ہے نہ رباعی کسی اور بحر میں کہی جاتی ہے نہ کوئی اور صنف نظم رباعی کی بحرمیں کہنا جائز ہے۔ اور اس طرح رباعی اپنے وزن و قافیہ اور تعداد اشعار ہر اعتبار سے بالکل منفرد اور مستقل جداگانہ صنف سخن ہے۔ ترکیب بند یہ صنف قصیدے اور مثنوی کو ملا کر تیار کی گئی ہے اس طویل نظم کے کئی جز ہوتے ہیں اور ہر جز ایک ’’ بند‘‘ کہلاتا ہے ہر بند کے ابتدائی اشعار قصیدے (یا غزل) کی طرح ہم قافیہ، لیکن آخری شعر اپنا الگ قافیہ رکھتا ہے۔ دوسرا بند اپنے جداگانہ قافیے کے ساتھ شروع ہو کر ٹیپ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ صنف کسی طویل بات کہنے میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ ان بندوں کے اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے اور ان کا آپس میں بھی عددی طور پر مساوی ہونا ضروری نہیں۔ ترجیع بند اس صنف سخن میں متعدد بند ہوتے ہیں لیکن ترکیب بند کے ہر بند کے بعد ایک ہی ٹیپ دہرائی جاتی ہے۔ نیز اس بند میں ہر مصرع بھی مشترک قافیہ رکھتا ہے اور بند کے مصرعوں کی تعداد بھی برابر ہوتی ہے۔ اس کے بندوں میں پانچ سے زائد مصرعے نہیں ہوتے ہیں۔ یہ نظم کسی ایک جذبے یا خیال کے اظہار کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ بند کے ٹیپ میں نظم کا مرکزی خیال ہوتا ہے۔ ترجیع بند کی ٹیپ کبھی پورا شعر ہوتا ہے اور کبھی صرف ایک مصرع مسمط مسمط کئی نظموں کا مجموعی نام ہے مسمط میں مثلث، مربع، مخمس (یا خمسہ) یا شعر وغیرہ کئی طرح کی نظمیں آتی ہیں۔ مثلث میں تین تین مصرعوں کا بند ہوتا ہے مطلع کے تینوں مصرعے ہم قافیہ اور اس کے بعد ہر شعر کے پہلے دو مصرعوں کا قافیہ اپنا ہوتا اور تیسرے کا قافیہ پہلے شعر کے مطابق۔ گویا مسمط ایسی غزل ہے جس میں دو کی بجائے تین مصرعوں کا شعر ہوتا ہے۔ اس طرح مربع چار مصرعوں والی، خمس پانچ اور مسدس چھ مصرعوں والی کو کہتے ہیں اور ان اصناف میں بھی آخری مصرع کا ایک ہی قافیہ ہوتا ہے ان اصناف میں سب سے زیادہ مخمس نے عروج پایا ہے۔ ترکیب بند مسدس مسدس صنف خالص اردو ہے اسے آج کل صرف مسدس ہی کہا جاتا ہے۔ اس کو سودا نظیر نے ایجاد کیا۔د ونوں کے ہاں اس طرز کی ایک ایک دو دو نظمیں ملتی ہیں۔ مسدس ایک طرح کی مثنوی نظم ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی مسلسل واقعہ یا خیال بیان کیا جاتا ہے۔ اس کا ہر بند چھ مصرعوں کا ہوتا ہے جن میں سے پہلے چار مصرعے اور آخری دو مصرعے اپنا قافیہ رکھتے ہیں۔ مرثیہ نگاروں نے اس کو گویا مرثیہ کے لئے وقف کر لیا۔ چنانچہ مرزا دبیر اور میر انیس جیسے مشہور مرثیہ گوؤں نے تمام مرثیے مسدس ہی میں کہے ان کے بعد حالی نے بھی اس مسدس کی تاثراتی اہمیت کو محسوس کر کے اپنی غیر فانی نظم مد و جزر اسلام اسی میں لکھی اور اقبال نے بھی ’’ شکوہ‘‘ اور ’’ جواب شکوہ‘‘ اور چند اور نظموں کے لئے اسی کو اختیار کیا۔ ٭٭٭ عالمی مذاہب عیسائیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل (الہامی کتاب) کے ماننے والے عیسائی کہلاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری حضرت مریم علیہ السلام کے بطن سے پیدا ہوئے۔ جنگی پارسائی کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے۔ عیسائیت خدا کی واحدانیت پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ انجیل اصل صورت میں ناپید ہو چکی ہے۔ عیسائیوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کر دیا گیا تھا۔ جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا ہے۔ جو حضرت مہدی اور فتنہ و جال کے ظہور کے بعد دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ عیسائیت کے پیروکار دو بڑے فرقوں میں کیتھولک جن کا راہنما پوپ، کہلاتا ہے اور پروٹیسٹنٹ میں تقسیم ہیں۔ یورپ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیاء میں کئی عیسائی سلطنتیں ہیں۔ پیروکاروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ کو چرچ ’’ گرجا گھر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہودیت قدیم ترین الہامی مذہب ہے۔ یہودی ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ اسے ہزاروں سال قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا گیا۔ دوسری الہامی کتاب تورات یہودیوں پر نازل کی گئی۔ تورات، قوانین زندگی، روایات اور عقائد کا مجموعہ ہے۔ تورات بھی اپنی اصل حالت میں ناپید ہو چکی ہے۔ یہودیوں کے مذہبی راہنما کو ’’ ربی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ عبادت گاہ کوہیکل کہا جاتا ہے۔ گو دنیا میں یہودی بہت کم ہیں لیکن اپنے معاشی اثر و رسوخ کی وجہ سے عالمی سیاست میں اہم طاقت تصور کئے جاتے ہیں۔ اسرائیل دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے۔ یہودیت کے تین بڑے فرقے درج ذیل ہیں۔ 1۔ آرتھوڈوکس2۔ قدامت پرست3۔ اصلاح پسند بدھ مت بدھ مت برصغیر پاک و ہند میں جنم لینے والا مذہب ہے۔ بنیادی طور پر بدھ مت ہندو مت کی تعلیمات کا رد عمل ہے۔ بدھ مت برابری، انسانی احترام، ذات پات سے بالاتر اور سب سے بڑھ کر یہ کم واحدانیت کے تصور کا قائل ہے۔ بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ تھے جو نیپال کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بنارس میں اس مذہب کی بنیاد رکھی۔ ان کی تعلیمات کا سب سے اہم فلسفہ عدم تشدد ہے۔ جبکہ بدھ مت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ روح تغیر پذیر ہے۔ بدھ اپنے پیروکاروں کو سچائی، حلال روزی کمانے کی تعلیم دیتا ہے۔ بدھ مت کے دو بڑے فرقے ہنائنا اور مہائنا ہیں۔ بدھ مت کی عبادت گاہ کو پگوڈا کہتے ہیں۔ ہندو مت ہندومت برصغیر پاک و ہند میں پروان چڑھنے والا مقامی مذہب ہے۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد نیپال، بھارت، سری لنکا، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان میں پائی جاتی ہے۔ ہندومت کے بانی کے متعلق تاریخ خاموش ہے۔ رگ وید ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے۔ اس کے پیروکار بے شمار دیوتاؤں اور دیویوں کو مانتے ہیں۔ ہندوؤں کا سب سے اہم عقیدہ آواگون ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ روحوں کی تعداد محدود ہے۔ بھگوان نئی روح پیدا نہیں کر سکتا۔ ہر روح کو خدا نے گناہ کی وجہ سے آواگون کے چکر میں ڈال رکھا ہے۔ اس لیے وہ بار بار جنم لیتی ہے۔ ویدا، بھگوت گیتا، رامیائن، مہا بھارت ہندوؤں کی مقدس کتابیں ہیں۔ پیروکاروں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔ ہندو مت کے پیروکار ذات پات کی تقسیم پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہندوؤں کی چار بڑی ذاتیں ہیں۔ 1 برہمن2کھشتری3ویش 4شودر۔ برہمن مذہبی راہنما جبکہ کھشتری حکومت امور سر انجام دیتے ہیں۔ جبکہ ویش اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ شودر ہندو مذہب کا سب سے کچلا ہوا طبقہ ہے شودر کا کام صرف اور صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی خدمت کرنا ہے۔ ہندوؤں کی عبادت گاہ کو مندر کہا جاتا ہے۔ بہائی مذہب قرآن پاک اور عہد نامہ قدیم کی تعلیمات کو باہم ملا کر نئے بہائی مذہب کی بنیاد انیسویں صدی میں ایران میں رکھی گئی بہاء اللہ نامی شخص اس مذہب کا بانی ہے بہائیوں کا کوئی گروہ یا لیڈر نہیں ہوتا۔ ان کے تمام مذہبی ایک کمیٹی سر انجام دیتی ہے۔ جس کا ہیڈ کواٹر اسرائیل میں ہے۔ بہائی مذہب بنیادی طور پر تمام مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ بہائی عبادت گاہ کو بہائی مرکز کہا جاتا ہے۔ سکھ مت سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک ننکانہ صاحب موضع تلونڈی حال ضلع شیخوپورہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ سکھ مذہب برصغیر پاک و ہند میں مذہب اسلام اور ہندو کی کش مکش کے خاتمے کی ایک کوشش تھی۔ گورو نانک بنارس کے صوفی بابر کبیر کی تعلیمات سے کافی متاثر تھے۔ سکھ مذہب خدائی واحدانیت کا قائل ہے۔ گورونانک نے اپنے مذہبی پیروکاروں کو خدا کی وحدانیت کا پیغام عام کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب ہے۔ اس کتاب میں مشہور مسلمان صوفی بزرگ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی تعلیمات اور شاعری بھی شامل ہیں۔ سکھ دنیا کا واحد مذہب ہے جس کے پیروکار کچھا، کڑہ، کنگھا، کرپان اپنے پاس رکھنا لازماً رکھتے ہیں۔ سکھ مذہب کی عبادت گاہ کو گردوارہ کہتے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار مشرقی پنجاب بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ جین مت جین مت خدائی ہستی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ جین مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی روح میں پائی جانیوالی طاقت خدا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز فانی نہیں بلکہ ہر شے جاودانی ہے۔ جو جون بدل کر آتی ہے۔ جانوروں کا ہلاک کرنا، درختوں کا کاٹنا، پتھروں کا کاٹنا ان کے نزدیک گناہ ہے۔ ان کے دو بڑے فرقے ڈگمبراس اور شیو نمراس ہیں۔ اس کے پیروکار برما، چین، جاپان، کوریا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ شنتومت جاپان کا روایتی مذہب ہے۔ اس کے پیروکار صرف جاپان میں موجود ہیں یہ مذہب اپنے پیروکاروں کو جاپان کے شہنشاہ کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ کوئی منظم مذہب نہیں ہے۔ چند مذہبی رسوم اور روایات تین کتابیں جیکی، لینونگی اور اہلکی شیکی میں درج ہیں۔ جاپان کے سابق شاہ ہیروہیٹو نے اس مذہب کو ترک کر دیا تھا جس کے بعد اس کی مقبولیت میں کافی کمی آئی۔ کنفیوشس مت کنفیوشس مت کا بانی کنفیوشس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ اس مذہب کے پانچ بڑے فرقے ہیں۔ شوکنگ، شی کنگ، لی کی، ژی کنگ، اور چون کنگ یہ مذہب اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا نے اس کائنات کو بنایا جو اپنے مقررہ وقت تک قائم رہیگی، جنت اور دوزخ کے تصور پر کنفیوشس کا مکمل یقین ہے۔ لیکن خدا کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ اس مذہب کے پیروکار صرف چین میں پائے جاتے ہیں۔ ان مذاہب کے علاوہ زرتشت تاؤ ازم، پارسی، مذہب کے پیروکار بھی دنیا میں موجود ہیں۔ جبکہ دیگر مذاہب میں مقامی، قبائلی یا گروہی سطح کے مذاہب و عقائد پر عمل کرنیوالے لوگ ہیں۔ ٭٭٭ اہم بین الاقوامی تنظیمیں نیٹو نیٹو کا بنیادی مقصد رکن ممالک کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق سیاسی اور دفاعی تعاون فراہم کرنا ہے۔ اس تنظیم کا قیام 4 اپریل 1949ء کو ہوا۔ بانی ارکان میں کینیڈا، ڈنمارک، بیلجیم، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لگسمبرگ، ہالینڈ، ناروے، پرتگال، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد نیٹو نے اپنے ڈھانچے اور پالیسیوں میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں لاتے ہوئے نئے ممالک بلغاریہ، اسٹونیا، یتھوانیا، رومانیہ، سلوکیہ اور سلوانیا کو رکنیت دی۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر بیلیجیم میں ہے۔ دولت مشترکہ کی تنظیم: اقوام متحدہ غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے بعد اقوام عالم کی سب سے بڑی تنظیم دولت مشترکہ ہے۔ اس تنظیم کی رکنیت تاج برطانیہ میں شامل سابق نو آبادیوں اور حال آزاد اور خود مختار ممالک کے پاس ہے۔ اس میں شامل 54 ممالک میں دنیا کی 39% آبادی پائی جاتی ہے۔ دولت مشترکہ کا باقاعدہ منشور اور آئین نہیں ہے۔ تمام مسائل او رمعاملات باہمی اتفاق رائے سے طے کئے جاتے ہیں۔ مصر، عراق، اردن، میانمار (سابقہ برما) فلسطین، سوڈان، صومالی لینڈ، جنوبی کیمرون اور اومان سابقہ برطانوی نو آبادی ہونے کے باوجود اس تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔ تنظیم کا ہیڈ کواٹر لندن برطانیہ میں ہے۔ آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنیوالی ریاستوں کی مشترکہ تنظیم بیلاروس میں قائم کی گئی۔ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کی سابقہ سوویت یونین آزاد اور خود مختار حیثیت میں اس تنظیم میں شامل ہیں۔ امریکی ممالک کی تنظیم: بر اعظم جنوبی و شمالی امریکہ کی تعمیر و ترقی اور خطے کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے یہ تنظیم 30 اپریل 1930ء کو بگوٹا کولمبیا میں قائم کی گئی۔ تنظیم کا سیکرٹری جنرل5 سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے۔ جس میں فوری نوعیت کے مسائل پر بحث کی جاتی ہے تنظیم کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن امریکہ میں ہے۔ اقتصادی تعاون کی تنظیم (ECO) پاکستان ترکی اور ایران نے علاقائی تعاون برائے اقتصادی ترقی کیلئے یہ تنظیم قائم کی تھی وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد اس سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایران پاکستان ترکی افغانستان آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اس کے ممبر ممالک ہیں اس تنظیم کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ اس میں شامل تمام ممالک مسلمان ہیں۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر تہران (ایران) میں قائم ہے۔ آسیان مشرقی بعید کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کیلئے یہ تنظیم 1967ء میں انڈونیشیا کی تحریک پر قائم کی گئی۔ تنظیم کے بنیادی مقاصد میں معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنا، سماجی، ثقافتی اور باہمی دلچسپی کے امور اور خطے میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہے تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جکارتہ میں قائم ہے۔ سارک جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کونسل خطے کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون، سماجی و معاشی و تعلقات کو مضبوط بنانا اور باہمی تنازعات کے خاتمہ کیلئے تنظیم سابقہ بنگلہ دیشی صدر ضیاء الرحمان کی تحریک پر قائم کی گئی۔ ڈھاکہ دسمبر 1985ء میں اس تنظیم کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔ عملی طورپر یہ تنظیم دیگر علاقائی تنظیموں کی طرح موثر کردار ادا نہ کر سکی۔ جس کی بنیادی وجہ اس خطے کے سب سے بڑے ممالک بھارت کا ہمسایوں کے ساتھ جارحانہ رویہ ہے۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ابھی تک کوئی موثر کاوش اور فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر کھٹمنڈو نیپال میں قائم ہے۔ تیل برآمد کرنیوالے ممالک کی تنظیم تیل کی برآمدی تجارت کو بہتر انداز میں منافع بخش طریقہ سے کرنا تیل کی قیمتوں میں استحکام اور رکن ممالک کی آمدن میں اضافہ کرنا اس تنظیم کا بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ یہ تنظیم عراق، سعودی عرب، ایران، کویت اور وینزویلا کی تجویز پر قائم کی گئی اس وقت تیل کی عالمی تجارت میں75% حصہ اوپیک ممالک کا ہے ۔ الجزائر، انڈونیشیا، لیبیا، نائیجیریا، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی اس کے رکن ہیں۔ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں قائم ہے۔ ٭٭٭ معلومات پاکستان سرکاری نام :اسلامی جمہوریہ پاکستان یوم آزادی:14اگست1947ء قومی دن: یوم پاکستان۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ1956ء کو نافذ ہوا۔ بانی پاکستان: حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ قومی شاعر: حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال قومی پرچم: گہرا سبز یعنی مونگیا رنگ جس پر ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں کی اور سفید رنگ کی پٹی پاکستان میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی ترانہ: قومی ترانہ نامور شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری کا تحریر کردہ ہے جو جون 1954ء میں منظور ہوا۔ اس کی دھن نامور موسیقار احمد جی چھاگلہ نے مرتب کی جس کا دورانہ 80سیکنڈ پر محیظ ہے۔ ریاستی نشان: ریاستی نشان مندرجہ ذیل علامتوں پر مشتمل ہے۔ 1۔ چاند اور ستارہ جو کہ روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ 2۔ چوکور شیلڈ جس پر ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔ 3۔ شیلڈ کے ارد گرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھرپور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ 4۔ علامت کے چاروں اطراف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول، اتحاد، ایمان، تنظیم تحریر ہے۔ دار الخلافہ: اسلام آباد، یہ شہر 1959ء میں پاکستان کا دار الخلافہ بنا۔ اس سے قبل کراچی پاکستان کا دار الخلافہ تھا۔ وقت:GMT+5 ملکی کوڈ: پی۔ کے Pk زبانیں: اردو، قومی زبان، انگلش اور اردو دونوں سرکاری زبانیں ہیں۔ پنجابی 48%، سندھی 12%، سرائیکی (پنجابی سے ملتی جلتی)10% اردو سرکاری زبان8% پشتو8%، بلوچی3%، ہند کو2%، براہوی3%، برشاشکی، چترالی اور دیگر زبانیں8% اہم شہر: کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ، حیدر آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، بہاولپور، سرگودھا، سکھر، ڈیرہ غازی خان، سیالکوٹ، گجرات، چترال، سوات، مری وغیرہ۔ قومی پھول: گل یاسمین درخت: دیودار، قومی درخت شیشم، دھریک، نیم، سنبل، پاپلر، سفیدہ، کیکر، چیڑھ، صنوبر جانور: مارخور قومی جانور، نیل گائے، چنکارہ، کالا ہرن، ہرن، چیتا، لومڑی، مارکو پولو بھیڑ، سبز کچھوا، نابینا ڈولفن، مچھلی، مگرمچھ وغیرہ۔ کھیل: ہاکی قومی کھیل، کرکٹ، فٹ بال، اسکوائش، سنوکر، کبڈی، ملا کھڑا، سائیکلنگ، باکسنگ وغیرہ موسم: موسم گرما، اپریل تا ستمبر، موسم سرما اکتوبر تا مارچ، موسم برسات وسط جولائی تا وسط ستمبر، موسم بہار، وسط فروری تا وسط اپریل سربراہ مملکت:صدر سربراہ حکومت: وزیراعظم طرز حکومت: وفاقی پارلیمانی طرز حکومت، پارلیمنٹ، ایوان بالا اور ایوان زیریں اور چار صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے۔ ایوان بالا، یعنی سینٹ مستقبل قانون ساز ادارہ ہے۔ جو ملک میں پارلیمانی طرز حکومت کی علامت ہے۔ جبکہ ایوان زیریں ’’ قومی اسمبلی‘‘ کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی سربراہ حکومت کا انتخاب کرنے کے علاوہ قانون سازی اور مالیاتی بلوں کی نگرانی کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہے۔ اس کے علاوہ (4) صوبائی اسمبلیاں، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان قائم ہیں۔ جبکہ FATA وفاق کے زیر انتظام شمالی علاقہ جات کا انتظام و انصرام سنبھالنے کیلئے خود مختار کونسل کام کر رہی ہے۔ اس طرح وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات Fata کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہے۔ لیگل سسٹم: برٹس دور حکومت میں بنائے گئے قوانین ابھی تک نافذ العمل ہیں بعض قوانین میں دین اسلام کی ہدایات اور سزا وجزا کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن ابھی تک انگریز دور کے تمام قوانین کو نہیں بدلا جا سکا۔ جغرافیہ جغرافیائی طور پر پاکستانی سرحدیں دنیا کے خوبصورت ترین مناظر کی عکاس ہیں۔ شمال اور مغرب میں کوہ ہمالیہ، کوہ قرا قرم اور کوہ ہندوکش جیسے بلند و بالا اور عظیم الشان پہاڑی سلسلے جبکہ مشرق میں ہموار میدان اور صحرا پاکستان کو دنیا کا خوبصورت ترین ملک بنانے کا باعث ہیں جبکہ دریائے سندھ کے کنارے دنیا کی قدیم ترین تہذیب موہنجودوڑو، ہڑپہ اور دیگر علاقوں میں پروان چڑھی جبکہ بعد ازاں گندھارا تہذیب کا سلنبھی ٹیکسلا، سوات، چترال، موجودہ پشاور کے علاقے بنے، ٹیکسلا میں بدھ دور کی سب سے پرانی اور بڑی جامعہ واقع تھی۔ محل وقوع 24Nتا37عرض بلد 61Eتا75.5طول بلد پاکستان جنوبی ایشیا کا اہم ملک ہے مشرقی سرحد بھارت کے ساتھ ملتی ہے جس کی طوالت1660کلو میٹر ہے۔ اس سرحد کو سر ریڈ کلف ایوارڈ بارڈر کہتے ہیں۔ شمال مشرق میں چین واقع ہے چین کے ساتھ پاکستانی سرحد592کلومیٹر طویل ہے۔ شمال مغرب میں افغانستان واقع ہے جس کے ساتھ پاکستانی سرحد2240 کلو میٹر ہے۔ اس سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ جبکہ جنوبی مغرب میں ایران کے ساتھ پاکستانی سرحد کی لمبائی 800کلو میٹر ہے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے پاکستان کے ساحلی علاقے یا ساحل کی لمبائی 10.64 کلو میٹر ہے۔ صحرا سے بحیرہ عرب تک پاکستان کی لمبائی 1800کلومیٹر سے زائدہ ہے۔ رقبہ: پاکستان کا رقبہ 796,095 مربع کلو میٹر ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 58.79% علاقہ پہاڑوں اور سطع مرتفع پر مشتمل ہے جبکہ 41.21%رقبہ ہموار میدان پر مشتمل ہے شمالی علاقہ جات کا رقبہ پاکستانی رقبے میں شامل ہے۔ سمندری حدود علاقائی حدود 12ناٹیکل میل خصوصی اقتصادی زرن کی حدود 200ناٹیکل میل بین الاقوامی سمندری حدود کا آغاز 200ناٹیکل میل مشہور پہاڑی چوٹیاں کے ٹو، ماؤنٹ گڈون آسٹن 28,250 فٹ بلندی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی نانگا پربت 26,660فٹ بلندی دنیا کی آٹھویں بلند ترین چوٹی گیشر برم 26,470 فٹ بلندی دنیا کی گیارہویں بلند ترین چوٹی مشہور پہاڑی درے درہ خنجراب، درہ کرم، درہ ٹوچی، درہ گومل، درہ بولان، درہ لواری اہم دریا نام لمبائی سندھ 2896کلو میٹر جہلم 825کلو میٹر چناب 1242کلو میٹر راوی 901کلو میٹر ستلج 1551کلو میٹر دیگر اہم دریا دریائے کابل ، دریائے سوات، دریائے کرم، دریائے گومل، دریائے بولان مشہور گلیشیئر سیاچن 75کلومیٹر طویل بالتور 62کلو میٹر طویل بطورا 55کلومیٹر طویل جھیلیں، منچھر جھیل سندھ، کٹینجر جھیل سندھ، حنا جھیل بلوچستان، سیف الملوک جھیل بو سرحد، ست پارا جھیل شمالی علاقہ جات، کچھورا جھیل شمالی علاقہ جات، چھالی جھیل پنجاب، نمل جھیل پنجاب۔ صحرا تھر سندھ، تھل پنجاب، چولستان پنجاب اہم ڈیم منگلا ڈیم، آزاد جموں کشمیر، دریائے جہلم پر واقع ہے تربیلا ڈیم سرحد دریائے سندھ پر واقع ہے وارسک ڈیم سرحد دریائے کابل پر واقع ہے گومل زیم ڈیم سرحد دریائے گومل پر تعمیر جاری ہے چشمہ ڈیم بیراج پنجاب دریائے سندھ پر واقع ہے غازی بروتھا ڈیم دریائے سندھ پر واقع ہے آبادی زیر نظر اعداد و شمار1998ء میں ہونیوالے مردم شماری کے مطابق ہیں۔ کل آبادی 135,135ملین فی مربع کلو میٹر آبادی 164نفوس شہری آبادی: 32.5% ہر تیسرا شخص شہروں میں آباد ہے۔ عالمی درجہ بندی: آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جبکہ سال 2004ء میں پاکستان امت مسلمہ کا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بڑے شہر کراچی 9,778,466 نفوس لاہور 5,325,030 نفوس فیصل آباد 2,079,371 نفوس راولپنڈی 1,478,845 نفوس ملتان 1,243,514 نفوس حیدر آباد 1,214,518 نفوس گوجرانوالہ 1,182,842 نفوس پشاور 1,032,983 نفوس کوئٹہ 587,754 نفوس اسلام آباد 759,914 نفوس رہائشی سہولیات اوسط66 افراد ایک رہائشی یونٹ کے ممالک ہیں۔ صوبوں میں آبادی کا تناسب پنجاب 55.6% سندھ 23% سرحد 13.4% بلوچستان 5% قبائلی علاقہ جات 2.4% وفاقی دار الحکومت 0.6% شرح افزائش آبادی 2.2%سالانہ شرح پیدائش 34.38پیدائش ایک ہزار آبادی کے تناسب سے شرح اموات 10.69.10 اموت ایک ہزار آبادی کے تناسب سے نوزائیدہ بچوں ہزار بچوں میں سے 93.48 بچے زچگی کے دوران ہی فوت ہو جاتے ہیں اوسط عمر 59.07سال 58.23 سال مرد 29.96سال عورت آبادی کا مذہبی تناسب: 95%مسلمان 5%عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب شرح روزگار کل لیبر فورس 38.60ملین دیہاتی محنت کش 68.75% شہری محنت کش 31.25% ملازم پیشہ افرادی قوت 36.23ملین زراعت سے وابستہ افرادی قوت 44.13% صنعتی افرادی قوت 11.21% دوسرے روزگار 44.66% بے روزگاری کی شرح 6.12% کرنسی پاکستانی روپیہ P2k.RS فی کس سالانہ آمدن $2.300 جی این پی 7.9%سالانہ شرح ترقی شرح ترقی 6.4%سالانہ بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان، حبیب بینک لمیٹڈ، الائیڈ بینک لمیٹڈ، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ، بینک الحبیب لمیٹڈ، عسکری بینک لمیٹڈ، پنجاب بینک آف پنجاب، بولان بینک، خیبر بینک، فرسٹ وویمن بینک (مخصوص بینک) زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک لمیٹڈ، فیڈرل بینک آف کواپریٹوز، پنجاب کوآپریٹو بینک وغیرہ۔ غیر ملکی بینک بینک الفلاح، یونین بینک، سٹی بینک، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، اے پی این ایئر بینک وغیرہ۔ اہم صنعتیں ٹیکسٹائل ملیں، سیمنٹ، کھاد، چینی، آلات جراحی، الیکٹرانک آلات، الیکٹرانک مشینری، پنکھا، مدھانی، موٹریں، واشنگ مشین، فریج، ٹی وی آلات، موٹر سائیکل، کار سازی، پٹرولیم مصنوعات، قالین، بھاری اسلحہ ٹینک، توپیں، میزائل سازی، طیارہ سازی وغیرہ۔ تعلیم پرائمری سکولز 250.805 مڈل سکولز 15.595 ہائی سکولز 10.808 آرٹس اینڈ سائنس کالجز 898 پروفیشنل کالجز 161 یونیورسٹیز 70 شرح خواندگی 45% سرکاری اعداد و شمار، وہ تمام لوگ جو پڑھ سکتے ہیں۔ مردوں میں شرح خواندگی 56.5% عورتوں 32.6% شہروں میں شرح خواندگی 64.7% دیہاتوں میں شرح خواندگی 34.4% صحت بڑے ہسپتال906واضح رہے کہ ان ہسپتالوں میں تحصیل ہیڈ کوارٹر کی سطح کے ہسپتال شامل ہیں۔ بنیادی مراکز صحت اور دیہی مرکز صحت اور ڈسپنسریوں کا ذکر نہیں ہے۔ کل بستر 86,921 رجسٹرڈ ڈاکٹر 108,062 رجسٹرڈ ڈینٹسٹ 4633 نرسز رجسٹرڈ 98684 خوراک اور کیلوریز فی کس 2303کیلوریز فی دن فی کس میڈیا، سیاحت، اور ذرائع مواصلات روزنامے424، ہفت روزے718، پندرہ روزے107، ماہنامے553، نیوز ایجنسی، اے پی پی، آن لائن، این این آئی، ثنا نیوز، پی پی اے، آئی پی پی، کشمیر میڈیا سروس۔ الیکٹرانک میڈیا پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے چھ مراکز اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور مظفر آباد کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی وی، پی ٹی وی ورلڈ، پی ٹی وی نیشنل، چینل تھری کے نام سے چا رمختلف چینلز کے ذریعے ناظرین تک نشریات پہنچائی جا رہی ہیں۔ ٹی وی کی نشریات سے پاکستان کی آبادی کا 90% فیصد حصہ لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں اے آر وائی، جیو اور یونی پلس و دیگر پاکستانی چینلز سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے زیر انصرام26 ریڈیو اسٹیشن کام کر رہے ہیں۔ سیاحتی مقامات۔ آثار قدیمہ، موہنجودڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، کوٹ ڈیجی، مہر گڑھ، لاہور وغیرہ اس وقت پاکستان کے سات آثار قدیمہ عالمی ورثہ میں شامل ہیں۔ ایئر پورٹس 1.18 ٹرانسپورٹ اور ذرائع مواصلات پختہ سڑکوں کی لمبائی 255,856کلو میٹر موٹروے لاہور تا اسلام آبادM2 335کلو میٹر ریلوے لائن کی لمبائی 8775کلو میٹر قومی ایئر لائن پی آئی اے، 38 بین الاقوامی اور24 اندرون ملک مقامات تک سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر پورٹس، کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، ملتان، کوئٹہ، فیصل آباد ڈاکخانے 13.419 ٹیلی فون کنکشن 2.5787ملین ٹیلی گراف آفس 427 معدنی وسائل گرینائٹ، سلیکا، باکسائیٹ، فاسفیٹ، پوٹاش، نمک، سلفر، سنگ مر مر، جپسم، کورمائیٹ، کاپر، آئرن، گولڈ، لیڈ، میگنائٹ، میگینز، زنگ سلور، کوئلہ، پٹرولیم قدرتی گیس وغیرہ پائپ لائنز خام تیل کی پائپ لائن 350کلو میٹر پٹرولیم مصنوعات 81200کلو میٹر قدرتی گیس 4.544کلو میٹر زراعت زیر کاشت رقبہ 79.61ملین ایکڑ جنگلات کا رقبہ 451ملین فصلوں کی کاشت کیلئے زیر استعمال رقبہ 28.94ملین نہری پانی والا رقبہ 78.13ملین اہم فصلیں گنا، گندم، چنا، چاول، کپاس، مکئی، باجرہ، جوار وغیرہ متنازعہ امور بھارت کے ساتھ حل طلب مسئلہ کشمیر اور بھاگلہار ڈیم کی تعمیر اہم بین الاقوامی ادارے اور معاہدے جن کا پاکستان رکن ہے۔ آسیان ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز اے ڈی بی ایشین ڈویلپمنٹ بینک اے پی او ایشین پروڈکٹویٹی آرگنائزیشن سی کامن ویلتھ دولت مشترکہ سی سی سی کسٹمر کو آپریشن کونسل ای سی او اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن اے ایس سی اے پی اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ دی پیسیفک ایف اے او فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن جی9 گروپ نائن جی24 گروپ 24 جی 77 گروپ77 آئی اے ای اے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی آئی بی آر ڈی انٹرنیشنل بینک فار دی کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ(ورلڈ بینک) آئی سی اے او انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن آئی سی سی انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس آئی سی ایف ٹی یو انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف فری ریڈیونیز آئی سی آر ایم انٹرنیشنل ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ موومنٹ آئی ڈی بی انٹرنیشنل اسلامک بینک آئی ایف آر سی انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ آئی ایچ او انٹرنیشنل ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشن آئی ایل او انٹرنیشنل لیبر فیڈریشن آئی ایم ایف انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ آئی ایم او انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن آئی این ایم اے آر ایس ٹی انٹرنیشنل موبائل سیٹلائیٹ آرگنائزیشن آئی این ٹی ای ایل ایس ٹی انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائیٹ آرگنائزیشن انٹرپول انٹرنیشنل کریمنل پولیس آرگنائزیشن آئی او سی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی آئی او ایم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن آئی ایس او انٹرنیشنل سٹینڈرڈ آئرگنازیشن ایم آئی این یو آر این او یونائیٹڈ نیشن مشن فار دی ویسٹرن صحارا این اے ایم نان الائیڈ موومنٹ (غیر جانبدار تحریک) او آئی سی آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس او بی سی ڈبلیو آرگنائزیشن فار پروپیبیشن آف کمیکل ویپنز پی سی اے پرمانینٹ کورٹ آر بیٹریشن سارک ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن آف ریجنل کو آپریشن یو این او یونائیٹڈ نیشنز آئز گنائزیشن یو این سی ٹی اے ڈی یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ یونیسکو یونائیٹڈ نیشنز ایجوکیشنل سائنٹیفک اینڈ کلچرل یو این ایچ سی آر یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار ریفیو جیز یو این ایم او جی آئی پی یونائیٹڈ نیشنز ملٹری آبزرور گروپ ان انڈیا این پاکستان یو پی یو یونیورسل پوسٹل یونین ڈبلیو سی ایل ورلڈ کنفیڈریشن آف لیبر ڈبلیو ایف ٹی یو ورلڈ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز ڈبلیو ایچ او ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو آئی پی او ورلڈ انٹلکچول پراپرٹی آرگنائزیشن ڈبلیو ٹی او ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن ڈبلیو ٹی او ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن مسلمانوں کی تعلیمی تحریکیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے مسلمانوں کے خلاف نہایت ظالمانہ پالیسی اختیار کی کیونکہ وہ مسلمانوں کو جنگ آزادی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کو معاشرتی طور پر تباہ کرنے کے لیے ان کی معاشی حالت کو بگاڑا گیا۔ مسلمانوں پر با عزت زندگی کے تمام دروازے بند کر دیئے اور ان کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر باقی نہ رکھی گئی۔ انگریز کی اس پالیسی کے نتیجے میں مسلمان معاشرتی طور پر پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے اور قریب تھا کہ وہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتے، لیکن ایک عظیم تحریک نے انہیں مکمل تباہی سے بچا لیا۔ یہ تحریک سرسید احمد خان کی چلائی ہوئی تحریک علی گڑھ تھی جس نے مسلمانوں کے اندر اپنے ملی مقام کے احیاء کا جذبہ پیدا کیا اور ایک دفعہ پھر ان کا جائز مقام دلایا۔ سرسید احمد خان کی تحریک علی گڑھ سرسید احمد خان18اکتوبر1817ء کو دہلی کے ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ آپ کے نانا ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت میں تھے اور والد ایک گوشہ نشین بزرگ تھے۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران آپ نے اپنی مشہور کتاب ’’ آثار الصنادید‘‘ 1847ء میں لکھی۔ 1845ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران آپ نے اپنی ’’ کتاب سرکشی ضلع بجنور‘‘ لکھی۔ جنگ آزادی کے دوران آپ بجنور میں قیام پذیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں او ربچوں کی جانیں بچائیں۔آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کیلئے ادا کیا۔ جنگ آزادی کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کیلئے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 1857ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں آپ کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔ 1877ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ تحریک علی گڑھ کا آغاز 1857ء کی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے کے لئے ان کے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات کئے گئے ہندو جو کہ جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ انہیں بالکل کچھ نہ کہا گیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی کی بجائے جو کہ مسلمانوں کی زبان تھی۔ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔ ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے، ادب ادنیٰ درجے کے شہری تھے۔ جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ سرسید احمد خان مسلمانوں کی ابتر حالت اور معاشی بدحالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے آپ مسلمانوں کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی تلقین کی۔ سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کے مسلمان انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کریں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندوؤں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان غلط فہمی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا۔ تحریک علی گڑھ کا تعلیمی پہلو سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل کر کے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی تلقین کی اور انہیں یہ باور کرایا کہ جب تک وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے انگریزی علوم نہیں سیکھیں گے وہ کسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سکیں گے۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لئے آپ نے متعدد اقدامات کئے۔ 1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔ 1866ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ ہندوستان جا کر ان یونیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کریں گے۔ آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلوؤں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلوؤں کی فوری اصلاح کریں۔ علی گڑھ کالج کا قیام انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک کالج کے قیام کے لئے کام شروع کیا۔ اس کمیٹی کو محمڈن کالج کمیٹی کہا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ایک فنڈ کمیٹی قائم کی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کے لئے چندہ اکٹھا کیا۔ حکومت سے بھی امداد کی درخواست کی گئی۔ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔ یہ کالج رہائشی کالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلا دیں۔ یہ کالج سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سرسید احمد خان نے 27دسمبر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر جلسے کئے۔ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کئے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ اس کانفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔ سرسید کی وفات کے بعد تحریک علی گڑھ سرسید احمد خان علی گڑھ کے روح رواں تھے۔ آپ ہی کے دم سے علی گڑھ کی تحریک اپنی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقی و کامرانی کا نشان بن گئی۔ علی گڑھ کالج جو مسلمانوں کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ تھا۔ سرسید ہی کی قیادت اور رہنمائی میں ایک عظیم ادارہ بن گیا۔ آپ اس کمیٹی کے سیکرٹری تھے جس کے ذمے علی گڑھ کالج کا انتظام و انصرام تھا۔ آپ نے اپنی شبانہ روز محنت کی بدولت کالج کو بہت ترقی دی اور اس کی مالی حالت کو مستحکم کیا۔ 1889ء میں سرسید احمد خان نے ایک ٹرسٹی بل تجویز کیا۔ جس کا مقصد کالج کے انتظام کو ایک ٹرسٹ کے حوالے کرنا تھا۔ سرسید احمد خان بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور آپ کے صاحبزادے سید محمود جوائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سید محمود کی تقرری پر کچھ اختلافات پیدا ہوئے لیکن سرسید احمد خان کے اصرار پر کمیٹی نے سید محمود کی تقرری کو منظور کر لیا۔ سرسید احمد خان کے انتقال کے بعد سید محمود سیکرٹری مقرر ہوئے لیکن اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے سر انجام نہ دے سکے اور مستعفی ہو گئے۔ سرسید احمد خان کے آخری ایام میں کالج کے ہندو خزانچی شام بہاری لال نے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے کا غبن کر لیا۔ جس کا وجہ سے کالج کی شہرت کو بہت نقصان پہنچا غبن کے نتیجے میں کالج کے چندے میں کمی آ گئی۔ جس کی وجہ سے کالج کی مالی حالت بہت متاثر ہوئی اور کالج مقروض ہو گیا۔ سید محمود کے مستعفی ہونے کے بعد نواب محسن الملک ٹرسٹ کے سیکرٹری بنے تو کالج بدنظمی کا شکار تھا۔ آپ نے محنت شاقہ سے کالج کو سنبھالا اور کالج کا وقار بحال کیا۔ آپ نے کالج کی مالی حالت سنبھالنے کے لئے حکومت کی لگائی ہوئی شرط کو پورا کرنے کے لئے چھ لاکھ روپیہ اکٹھا کیا۔ آپ نے دیوبند کے علماء کا تعاون حاصل کیا اور انہیں ایجوکیشنل کانفرنس میں شریک کیا۔آپ نے اردو کے دفاع اور فروغ کے لئے قابل قدر خدمات سر انجام د یں۔ نواب محسن الملک کے دور میں علی گڑھ کے اولڈ بوائز دو متحارب گروپوں میں تقسیم ہو گئے صاحبزادہ آفتاب احمد خان کا گروپ کالج کے یورپین سٹاف کا حامی تھا اور یورپین سٹاف کی تعداد بڑھانے کے حق میں تھا۔ جب مولانا محمد علی جوہر کا گروپ کالج سے یورپین سٹاف کے اثر و نفوذ کو ختم کرنے کا حامی تھا۔ نواب محسن الملک نے دونوں گروپوں میں تصادم کی صورت حال پیدا نہ ہونے دی، 1907ء میں نواب محسن الملک وفات پا گئے۔ 1907ء میںعلی گڑھ کالج میں ایک اور ہنگامہ پیدا ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ نواب محسن الملک مولانا محمد علی جوہر کو پروفیسر بھرتی کرنا چاہتے تھے، لیکن انگریز پرنسپل مولانا جوہر کے تقرر کے خلاف تھے۔ انگریز پرنسپل مولانا کی انقلابی طبیعت سے خائف تھا۔ یہ مسئلہ خاصا سنگین صورت اختیار کر گیا اور کالج میں ہڑتال ہو گئی لیکن یہ معاملہ بعد میں مصالحت سے طے پا گیا۔ 1907ء میں نواب وقار الملک (نواب مشتاق حسین خان) کالج کے سیکرٹری بنے۔ آپ کا تعلق جوہر گروپ سے تھا۔ آپ نے انگریز پرنسپل کے اختیارات کو کم کر دیا۔ جس کی وجہ سے انگریز سٹاف اور کالج انتظامیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی، آپ کے دور میں علی گڑھ ملی تحریکوں کا مرکز بنا رہا۔ 1912ء میں نواب وقار الملک نے صحت کی خرابی کی بناء پر استعفیٰ دے دیا۔ آپ کے بعد نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے صاحبزادے نواب محمد اسحاق کو کالج ٹرسٹ کا سیکرٹری بنایا گیا۔ آپ کے دور میں حکومت نے کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے 20 لاکھ روپے فنڈ کی شرط رکھی گئی۔ یہ رقم سر آغا خان نے فراہم کر دی۔ اس کے بعد حکومت نے پھر روڑے اٹکانے شروع کر دیئے اور کئی ایسی نامعقول شرائط عائد کر دیں جنہیں مولانا جوہر کا گروپ ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس مسئلہ پر کالج اولڈ بوائز کے دونوں گروپ ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہو گئے۔ 1919ء میں تحریک خلافت کے دوران مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کالج کے طلباء کو ہڑتال کرنے کی ترغیب دی۔ اس وقت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ضیاء الدین تھے، جنہوں نے ہڑتال کی مخالفت کی، لیکن کالج کے طلباء نے پرنسپل کی مخالفت کے باوجود مولانا جوہر کا ساتھ دیا او ربہت سے طلباء کالج چھوڑ کر چلے گئے۔ علی گڑھ کالج نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور یہ کالج مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے میں قومی جذبہ پیدا کرنے کا مرکز بنا رہا۔ تحریک علی گڑھ کے نتائج و اثرات تحریک علی گڑھ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے نئی زندگی کا پیام لائی اور انہیں اپنا کھویا ہوا ملی و قومی تشخص بحال کرنے میں مدد دی۔ تحریک نے مسلمانوں کے اندر اعتماد بحال کیا اور ان کے اندر اپنی معاشی و معاشرتی بحالی کا جذبہ پیدا کیا۔ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی قیادت ابھری جس نے تحریک آزادی میں مسلمانوں کی بے پایاں خدمات سر انجام دی تحریک علی گڑھ کی بدولت مسلمان معاشی طور پر خوش حال ہوئے اور ایک قوم کی حیثیت سے معاشرے میں اپنا وقار بحال کیا۔ تحریک علی گڑھ کی تعلیمی خدمات تحریک علی گڑھ نے مسلمانوں کی سب سے نمایاں خدمت تعلیمی میدان میں سر انجام دی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز مسلمانوں سے سخت بدظن ہو چکے تھے اور مسلمانوں کے جنگ آزادی کا ذمہ دار گردانتے ہوئے انہیں معاشی اور معاشرتی طور پر تباہ کرنے کے در پے ہو گئے تھے۔ مسلمانوں سے ان کی جا گیریں چھین لی گئیں اور سرکاری ملازمت کے دروازے ان پر بند کر دیئے تھے، کئی ایسی پالیسیاں اپنائی گئیں کہ مسلمان روٹی کے محتاج ہو گئے۔ دوسری طرف مسلمان بھی انگریزوں سے بدظن تھے اور انگریزوں سے ہر قسم کے میل ملاپ کو غیر اسلامی سمجھتے تھے۔ مسلمان انگریزی علوم سیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان سرکاری ملازمت کے اہل نہ رہے اور ان کی معاشی حالت دگرگوں ہو گئی۔ ہندوؤں نے جلد ہی انگریزی علوم سیکھ کر ترقی کر لی تھی اور حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں پر انگریزوں کی نوازشات بھی تھیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں ان کی حالت مسلمانوں سے بہت بہتر تھی، چونکہ تمام مغربی علوم انگریزی زبان میں تھے اس لئے مسلمان ان سے بے بہرہ رہے اور معاشی اور سیاسی میدان میں ہندوؤں سے پیچھے رہ گئے۔ سرسید احمد خان نے جلد ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی موجودہ کسمپرسی ان کی اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے ہے اور جب تک مسلمان انگریزی تعلیم حاصل نہ کر لیں گے ان کی حالت کبھی نہ سدھر سکے گی۔ آپ نے تحریک علی گڑھ کے تحت مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کئی عملی اقدامات کئے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو تعلیم دینے کیلئے کئی تعلیمی اداروں کا اجراء کیا جس میں علی گڑھ کالج کا قیام سرسید کا سب سے بڑاکارنامہ ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ جب تک مغربی علوم نہ سیکھیں گے ہندوؤں سے ہمیشہ پیچھے رہیں گے، آپ نے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی تعلیم کا حاصل کرنا غیر اسلامی نہیں اور انہیں اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے حصول تعلیم کی کوشش کرنا چاہیے۔ سرسید احمد خان کی پر خلوص کوششوں سے ہندوستان کے مسلمان مغربی علوم کی طرف راغب ہوئے۔ علی گڑھ کی تعلیمی تحریک نے مسلمانوں پر مغربی علوم کے فوائد کو اجاگر کیا اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے مغربی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں نے ہندوؤں کے شانہ بشانہ سرکاری ملازمتیں حاصل کیں اور اپنی معاشی بدحالی پر قابو پایا۔ غلط فہمیوں کا تدارک تحریل علی گڑھ نے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان بدگمانی کو دور کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے شدید بدگمانی پیدا ہو گئی تھی اور انگریز مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں بھی انگریزوں کے متعلق سخت نفرت پائی جاتی تھی اور مسلمان انگریزوں سے میل ملاپ کو پسند نہ کرتے تھے۔ جنگ آزادی کے بعد اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ دونوں اطراف میں پائی جانے والی کشیدگی اور نفرت کو ختم کیا جائے اور انگریزوں کے ساتھ تصادم اور نفرت کو ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اپنایا جائے۔ تحریک علی گڑھ نے سرسید کی رہنمائی میں یہ مقاصد پورے کئے اور مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ مفاہمت اور رواداری کا رویہ اپنانے کی تلقین کی۔ سرسید احمد خان نے رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر1857ء کی جنگ آزادی کے اصل محرکات کی نشاندہی اور مسلماوں کے متعلق انگریزوں کے شکوک و شبہات کو دور کیا۔ آپ نے ایک اور رسالہ ’’ لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ بھی لکھا جس میں انگریزوں کیلئے مسلمانوں کی خدمات کا ذکر کیا۔ علی گڑھ کالج میں انگریز پرنسپل اور یورپین سٹاف مقرر کر کے وفاداری کی بہترین مثال قائم کی، علی گڑھ کالج سے ایسے مسلمان طلباء فارغ التحصیل ہوئے جو انگریزوں کے وفادار تھے۔ تحریک علی گڑھ کے ان اقدامات کی وجہ سے انگریزوں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والی بدگمانی دور ہو گئی اور انگریزوں نے مسلمانوں کے متعلق اپنی پالیسی میں رد و بدل کیا۔ مذہبی خدمات ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت اور ان کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہ تھی اور وہ اپنے اصولوں پر عمل کرنے سے قاصر تھے۔ تحریک علی گڑھ نے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا پورا تحفظ کیا۔ ان دنوں عیسائی مشنریاں اسلام کے خلاف برسرپیکار تھیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کر رہی تھیں۔ تحریک نے اس پراپیگنڈہ کا موثر جواب دیا۔ سرسید احمد خان نے انگریز مصنف ولیم میور کی لکھی ہوئی کتاب کا جواب موثر انداز میں دیا۔ اس کتاب میں حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ پر نازیبا جملے بیان کئے گئے تھے۔ آپ نے اس کتاب کا جواب ’’ خطبات احمد‘‘ میں دیا۔ آپ نے بائبل کی تفسیر لکھی جسے ’’ تبیئن الکلام‘‘ کہا جاتا ہے اس میں آپ نے اسلام اور عیسائیت کے تعلق کو واضح کیا جس کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی مذہبی چپقلش کو دور کرنے میں مدد ملی۔ سیاسی رہنمائی تحریک علی گڑھ نے مسلمانوں کے سیاسی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جنگ آزادی کے بعد سرسید نے مسلمانوں کو اس وقت تک عملی سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی جب تک وہ تعلیمی میدان میں ترقی نہیں کرتے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ باورکرایا کہ ہندو تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے سیاسی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں اور اگر مسلمانوں نے اسی حالت میں سیاسی میدان میں ہندوؤں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ہندوؤں سے مات کھا جائیں گے اور پھر کبھی دوبارہ اپنے حقوق حاصل نہ کر سکیں گے۔آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ انہیں پہلے اپنی تعلیمی حالت کو بہتر بنانا چاہئے اور مسلمانوں کو حصول تعلیم پر زور دینے کو کہا۔ کانگریس کی چیرہ دستوں کو دیکھتے ہوئے آپ نے مسلمانوں کو کانگریس سے علیحدہ ہونے کی تلقین کی۔ آپ نے کہا کہ کانگریس خالصتاً ایک ہندو جماعت ہے جو کبھی بھی مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہو سکتی۔ علی گڑھ کالج مسلمانوں کی بہترین تربیت گاہ ثابت ہوا اور یہاں سے مسلمانوں کے عظیم رہنما فارغ التحصیل ہوئے جنہوں نے سیاسی میدان میں مسلمانوں کی بے پایاں خدمات سر انجام دی۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان اسی کالج کے تعلیم یافتہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو صحیح سمت میں موڑا۔ تحریک دیوبند تحریک علی گڑھ ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی فلاح کے لئے چلائی گئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے او رانہیں انگریز کے بدترین عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ جنگ آزادی میں علماء کرام نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ا س لئے جنگ کی ناکامی کے بعد انہیں بھی عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ مسجدوں کو مسمار کر دیا گیا اور دینی علوم کی تمام درسگاہوں کو بند کر دیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے اشاعت اسلام کو سخت نقصان پہنچا۔ تحریک علی گڑھ نے جنگ کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی معاشرتی بحالی کیلئے کام کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کیلئے تعلیمی اداروں کا اجراء کیا جہاں سے مسلمانوں نے مغربی علوم سیکھ کر معاشرے میں اپنی حالت بہتر بنائی۔ مسلمانوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیاسی میدان میں ہندوؤں سے ٹکر لی اور اپنے حقوق حاصل کئے۔ تحریک علی گڑھ نے مسلمانوں کو صرف دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے تیار کیا علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں تعلیم یافتہ مسلمان میدان عمل میں آئے اور حکومت کی کلیدی آسامیوں پر فائز ہوئے اور اس طرح مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور معاشرے میں ان کا وقار بحال ہوا۔ لیکن تحریک علی گڑھ نے مسلمانوں کی دینی اور روحانی اصلاح کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہ کیا۔ تحریک علی گڑھ کی بنیاد انگریز مفاہمت پر رکھی گئی۔ اس وجہ سے علماء کرام کا ایک خاص طبقہ تحریک علی گڑھ کو مسلمانوں کی بہتری کے لئے چلائی گئی تحریک تسلیم نہیں کرتا تھا،ا ن علماء کے نزدیک تحریک علی گڑھ مغربی علوم سیکھنے پر زور دیتی رہی۔ جبکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی فلاح صرف اسلامی اصولوں پرکاربند ہونے سے تھی، یہ علمائچ اہتے تھے مسلمان عربی اور فارسی سیکھیں اور قرآن و سنت سے بہرہ ور ہوں، تحریک علی گڑھ کے دینی پہلو کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے مغربی رحجان کو کم کرنے کے لئے ایک دینی تحریک چلائی گئی جسے تحریک دیوبند کہا جاتا ہے۔ تحریک دیوبند کے مقاصدمیں مسلمانوں کی روحانی اور دینی اصلاح شامل تھی، یہ تحریک چاہتی تھی مسلمان اسلامی شعائر اپنائیں، تحریک دیوبند کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کی وجہ اسلام سے دوری مغربیت پرستی تھی، تحریک مغربی تعلیم کے حصول کے خلاف تھی اور مسلمانوں کی دینی تعلیم پر زور دیتی تھی۔ تحریک دیوبند نے اپنے مقدس مقاصد کے حصول کے لئے دیوبند کو اپنا مرکز بنایا۔ 30 مئی 1867ء یعنی جنگ آزادی کے ٹھیک دس سال بعد سہارن پور کے قصبے دیوبند میں دار العلوم کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس دار العلوم کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے جنہوں نے اپنے دوستوں مولانا حاجی عابد حسین، مولانا فضل الرحمن اور مولانا ذوالفقار علی کے ساتھ مل کر اس مقدس کام کی ابتداء کی۔ دار العلوم کے لئے چونکہ کوئی عمارت موجود نہ تھی اس لئے مسجد کے صحن میں ایک درخت کے نیچے درس و تدریس کے نیک کام کا آغاز کیا گیا۔ مدرسے نے ہی بہت ترقی کر لی اور یوپی، بنگال، پنجاب، کشمیر اور افغانستان سے طلباء نے بڑی تعداد میں داخلہ لینا شروع کیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی مدرسے کے پہلے رئیس مقرر ہوئے آپ کی قیادت میں مدرسے نے بہت ترقی کی، آپ نے بے لوث جذبے سے مدرسے کی ترقی کے لئے کام کیا۔آپ کی خدمات کی وجہ سے مدرسے نے بہت ترقی کی اور اسے قاسم العلوم دیوبند کے نام سے پکارا جانے لگا۔ آپ نے اپنی اعلیٰ ملازمت چھوڑ کر مدرسے میں پچیس روپے ماہوار تنخواہ پر کام شروع کیا لیکن صرف10روپے ماہوار مشاہرہ وصول کیا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی بہت بڑے عالم اور مناظر تھے۔ دار العلوم دیوبند کے تمام اساتذہ بے لوث جذبے سے سرشار مدرسے کی خدمت کر رہے تھے۔شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے صرف پچاس روپے ماہوار تنخواہ وصول کی۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے بغیر تنخواہ کے کام کیا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے تحریک دیوبند کو پورے برصغیر میں پھیلایا اور ملک میں کئی مدارس قائم کئے جنہوں نے اسلامی تعلیم پھیلانے میں گراں قدر کام کیا۔ ان مدارس میں مراد آباد، سہارن پور اور مدراس میں قائم ہونے والے مدرسے خاص طور پر مشہور ہیں۔ دار العلوم نے اپنی تعلیم کا حلقہ صرف برصغیر تک محدود نہ رکھا بلکہ پوری دنیا میں اسلام کی ترقی کے لئے بے پایاں کام کیا۔ دیوبند کے قیام کے بعد ابتدائی 100 سالوں میں دنیا کے چودہ مختلف ممالک کے سینکڑوں طلباء یہاں سے فیض یاب ہوئے۔ برصغیر کے دوسرے تعلیمی اداروں کا الحاق دیو بند سے تھا جن کے امتحانات دار العلوم دیوبند کی نگرانی میں ہوتے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے قیام کے فوری بعد مدرسے کے لئے عمارت کی تعمیر شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ یہ عمارت ترقی کرتی گئی او رکئی منزلہ عمارت میں مختلف شعبے کام کرنے لگے جن میں دار الحدیث اور دار التفسیر خاص طور پر مشہور ہیں۔ دار العلوم دیوبند کی عمارتیں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ دار العلوم کا اپنا کتب خانہ اور دار المطالعہ ہے جہاں پر اسلامی علوم پر نادر کتب اور دوسرے دلائل کا بے بہا ذخیرہ موجود ہے۔ اس ادارے میں عالمی شہرت کے حامل اساتذہ نے درس و تدریس کا کام کیا ہے۔ یہ ادارہ شاہ ولی اللہؒ کی تعلیمات حامل رہا ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء نے برصغیر میں اپنی قابلیت اور علمیت کا لوہا منوایا ہے۔ دار العلوم دیوبند سے بڑے بڑے جید اکابر پیدا ہوئے جنہوں نے برصغیر میں اسلام کی ترقی و ترویج کے لئے کام کیا اور اسلامی علوم کو ملک کے کونے کونے میں پھیلایا۔ ان حضرات میں شام عبدالرحیم، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا عبدالحق، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا مفتی محمد شفیع، شمس العلماء مولانا تاجور نجیب آبادی اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان علماء کرام نے اسلام کی بے پناہ خدمت کی اور قوم کو بہترین قیادت مہیا کی، مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ تحریک پاکستان کے دوران دیوبند کے علماء کرام دو سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئے تھانوی گروپ کی قیادت مولانا شبیر احمد عثمانی کر رہے تھے۔ آپ نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا ساتھ دیا اور مطالبہ پاکستان اور حصول پاکستان کے لئے قائداعظم کی بھرپور مدد کی۔ دوسری طرف مدنی گروپ تھا جس میں مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ شامل تھے۔ یہ گروپ مولانا ابو الکلام آزاد کے زیر اثر تھا اس لئے اس گروپ نے کانگریس کے حق میں کام کیا لیکن اس سیاسی اختلاف کے باوجود دار العلوم دیوبند کے علماء کرام کی دینی خدمات قابل قدر ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانو توی 1880ء تک دار العلوم کے سربراہ رہے۔ آپ کا15اپریل 1880 ء کو انتقال ہوا۔ آپ کے بعد مولانا رشید احمد گنگوہی دار العلوم کے سربراہ بنے۔ آپ بہت بڑے محدث اور صوفی تھے اور سیاست میں معقول رویہ کے حامل تھے۔آپ نے مسلمانوں کی کانگریس میں شمولیت کو صحیح کہا اور انہیں کانگریس میں شمولیت کی تلقین کی۔ 1905ء میں مولانا رشید احمد گنگوہی کے انتقال کے بعد دیوبند کا انتظام و انصرام شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے سنبھالا۔ آپ دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم تھے 1873ء میں دار العلوم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دار العلوم میں بطور استاد مقرر ہوئے آپ نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور بہت سی اعلیٰ کتابیں لکھیں۔ 1914ء میں جنگ عظیم اول شرو ع ہوئی اور علماء کرام نے ہندوستان کی تحریک آزادی کو تیز کیا۔ جب ترکی کی خلافت کے لئے تحریک چلائی گئی تو شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔آپ ہندوستان کی آزادی کے خواہش مند تھے اور چاہتے تھے کہ ہندوستان انگریز کے تسلط سے آزاد ہو جائے۔ آپ نے اس مقصد کے لئے جرمنی، ترکی اور افغانستان کی حکومتوں سے رابطہ پیدا کیا اور ان سے ہندوستان کی آزادی کے لئے مدد مانگی۔ آپ نے اپنے شاگرد عزیز مولانا عبید اللہ سندھی کو کامل بھیجا اور خود مکہ تشریف لے گئے۔ مولانا سندھی نے حاجی ترنگ زئی کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا۔ منصوبہ کے مطابق ترک فوجیں افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہو کر ہندوستان پر حملہ آور ہوتیں اور ہندوستان کے انقلابیوں سے مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جاتا مگر سندھی نے حکمرانوں کو ترک فوجوں کو راستہ دینے کے لئے آمادہ کر لیا۔ اس کے لئے دو معاہدے کئے گئے۔ ایک معاہدہ حکومت اور مجاہدین کے درمیان طے پایا اور دوسرا معاہدہ ترک حکومت اور افغان حکومت کے مابین طے پایا کے مطابق ترک فوجیں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے بعد واپس چلی جاتیں۔ تحریک آزادی کے اس پروگرام کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور سارے پروگرام کو ایک ریشمی رومال کر تقسیم کیا گیا چونکہ اس تحریک کے متعلق تمام ہدایت مجاہدین کو ریشمی رومال پر لکھ کر روانہ کی جاتی تھیں اس لئے اسے ریشمی رومال کی تحریک کہا جاتا ہے۔ حملے کی تاریخ19 فروری 1917ء مقرر کی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ تحریک خفیہ نہ رہ سکیا ور حکومت نے ریشمی رومال برآمد کر لیا۔ اس تحریک سے منسلک علماء کرام کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں، شیخ الہند مولانا محمود اس وقت مکہ میں تھے۔ آپ کو انگریزوں کے ایماء پر شریف حسین آف مکہ نے 10فروری1917ء کو گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ آپ کو جزیرہ مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا جہاں سے آپ تین سال بعد رہا ہو کر ہندوستان آئے اسی نسبت سے آپ کو ’’ اسیر مالٹا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ندوۃ العلماء لکھنو ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے تحریک علی گڑھ نے بے پایاں خدمات سر انجام دیں اور انہیں کے گہرے غار سے نکال کر معاشرے میں باعزت مقام پر فائز کیا تحریک علی گڑھ کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی بحالی تھا تاکہ مسلمان معاشرے میں اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر سکیں تحریک علی گڑھ نے سب سے زیادہ مغربی تعلیم کے حصول پر دیا تاکہ مسلمان حکومت کی ملازمت کر سکیں اور ہندوؤں کے ساتھسیاسی میدان میں نبرد آزما ہو سکیں۔ تحریک علی گڑھ کوئی مذہبی تحریک نہ تھی اس لئے علی گڑھ کالج کے فارغ التحصیل طلباء مذہبی اقدار نابلدر ہے اور ان پر مذہبی رنگ غالب نہ آ سکا۔ علی گڑھ نے ایسے مسلمان طلباء تیار کئے تھے جنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمتیں حاصل کیں اور اس طرح اپنی معاشی بدحالی کو دور کیا۔ تحریک دیو بند بھی مسلمانوں کی تعلیمی خدمات سر انجام دے رہی تھی لیکن تحریک دیوبند خالصتاً تحریک تھی اور اسلامی اور دینی علوم کے حصول پر زور دیتی تھی اور اس طرح جدید دور کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیتی تھی۔ دیوبند نے بڑے بڑے عالم اور فضل علماء پیدا کئے جنہوں نے برصغیر میں سلام کے نور کو پھیلایا لیکن یہ عین جدید علوم اور جدید دور کے تقاضوں سے بے بہرہ رہے۔ دیوبند کے فارغ التحصیل طلباء امامت، خطابت اور مناظرے کے علاوہ کسی دوسرے پیشے سے منسلک نہ ہو سکتے تھے ان کی تعلیم کا مقصد صرف اشاعت اسلام تھا۔ اس طرح علی گڑھ اور دیوبند اپنے اپنے طریق کار اور انداز فکر میں انتہا پسندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جو ان دونوں اداروں اور خوبیوں کا حامل ہو لیکن انتہا پسندی کے رحجان سے پاک ہو۔ 1892ء میں مدرسہ فیض عام کانپور کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ علماء کی ایک مستقبل انجمن کی رہنمائی و رہبری کر سکے۔ 1894ء میں ندوۃ العلماء لکھنو معرض وجود میں آیا، اس کے بانی مولانا محمد اور مولوی عبدالغفور ڈپٹی کلکٹر تھے۔ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا عبدالحق نے اس کے قواعد و ضوابط تیار کر کے ایک پروگرام تشکیل دیا جو جدید و قدیم کی انتہا پسندی کو ختم کر کے دونوں ضرورتوں کو پورا کرے۔ ندوۃ کے مقاصد ندوۃ کے اہم مقاصد میں مسلمانوں کی اصلاح کرنا اور انہیں دینی علوم کی طرف راغب کرنا تھا۔ ندوۃ علوم کی ترقی، تہذیب و شائستگی کے اطوار اور اخلاقی ترقی کے لئے معرض وجود میں آیا۔ اس کے دوسرے دور میں علماء کرام کے باہمی اختلاف کرنا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے تدابیر کرنا تھا۔ ندوۃ کے سیاسی معاملات سے علیحدگی پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک عظیم الشان دار العلوم کا قیام جہاں علوم کے علاوہ عملی صنائع کی تعلیم کا بھی بندوبست ہو ندوۃ کے مقاصد میں شامل تھا۔ ندوۃ کا آغاز ندوۃ العلماء کے اصل محرک مولوی عبدالغفور ڈپٹی کلکٹر تھے لیکن اس کے آغاز میں مولانا محمد علی نے اہم کردار ادا کیا اور اس کی بنیاد رکھی۔ ندوۃ کے قیام کے وقت برصغیر میں اس کا وسیع پیمانے پر خیر لیا گیا۔ 1894ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسے میں نواب محسن الملک نے ندوۃ کی حمایت میں قرار داد پیش کی۔ سرسید احمد خان نے بھی ندوۃ کے قیام کی حمایت کی۔ 2دسمبر1898ء کو ندوۃ کے باقاعدہ دفتر کا افتتاح لکھنو میں کیا گیا۔ ندوۃ کے قیام پذیر ہوتے ہی کلاسوں کا اجراء ہوا شاہجہان پور کے امراء نے ندوۃ کے لئے اراضی کی۔ سر آغا خان اور والئے بھوپال نے سالانہ عطیات مقرر کئے حکومت نے ندوۃ کے لئے ایک وسیع قطعہ اراضی دے دیا۔28نومبر1908ء کو سر جان ہیوٹ لیفٹیننٹ گورنر یوپی نے دار العلوم کا سنگ بنیاد رکھا۔ ندوۃ کے قیام کے ساتھ ہی اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔ سرانٹونی میکڈانلڈ جو اردو دشمنی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ندوۃ کے قیام کے وقت یوپی کا گورنر تھا۔ میکڈانلڈ نے ندوۃ کو سیاسی سرگرمیوں کا اکھاڑہ قرار دیا جس کی مخالفت شروع کر دی۔ اس کے علاوہ احمد رضا خان بریلوی نے بھی ندوۃ کی مخالفت کی اور اس کے دینی مقاصد پر اعتراضات کئے۔ انجمن حمایت اسلام، لاہور برصغیر میں علی گڑھ کی تعلیمی تحریک نے بہت اچھے نتائج پیدا کئے تھے اور مسلمانوں کی تعلیمی استعداد کو کرنے کے لئے خاطر خواہ کام کیا تھا۔ پنجاب اس وقت سکھوں کی عملداری میں تھا جس کی وجہ سے یہاں کے کانوں کی تعلیمی، معاشرتی اور دینی حالت پسماندہ تھی، پنجاب میں عیسائی اور ہندوؤں کے تعلیمی اداروں کی تھی جہاں پر مسلمانوں کے لئے داخلہ کا حصول بے حد مشکل تھا۔ کئی درد مند مسلمان رہنما پنجاب میں اپنی قوم کی تعلیمی پسماندگی سے پریشان تھے اور صدق دل سے رہتے تھے کہ پنجاب میں مسلمانوں کی تعلیمی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ مسلمان اپنے انتہا پسند رویے کی وجہ سے انگریزی تعلیم سے گریزاں رہے جس کا ہندوؤں نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔ علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہو کر کئی تعلیمی تحریکیں میدان عمل میں آ گئی تھیں ان حالات کے پیش نظر پنجاب سے چند مسلمان رہنماؤں نے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم اور عیسائی مشنریوں کے اثر و نفوذ کا تور کرنے کے لئے لاہور میں انجمن حمایت اسلام قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔24ستمبر1884ء کو اندرون موچی دروازہ لاہور مسجد بکن خان میں تقریباً اڑھائی سو مسلمانوں کے اجتماع میں انجمن حمایت اسلام کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ انجمن حمایت اسلام کی بنیاد خلیفہ حمید الدین نے رکھی جو اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے ان کے علاوہ منشی چراغ دین، ڈاکٹر محمد دین ناظر اور منشی عبدالرحیم انجمن کے چیدہ چیدہ کارکنوں میں سے تھے۔ انجمن کا دفتر ایک کمرے میں قائم کیا گیا۔ شروع میں انجمن کے مالی وسائل بہت کم تھے، انجمن کے کارکنوں نے نہایت محنت سے انجمن کے لئے چندہ اکٹھا کیا۔ انجمن کے کارکن گھر گھر جا کر لوگوں کو انجمن کے مقاصد سے روشناس کراتے تھے اور انہیں اس کارخیر میں شریک ہونے کے لئے کہتے تھے، انجمن کے مالی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مٹھی بھر آٹا سکیم شروع کی گئی، انجمن کے کارکن مسلمان گھروں میں برتن رکھ آتے تھے جن میں عورتیں روٹی پکاتے وقت مٹھی بھر آٹا نکال کر ڈال دیتی تھیں کچھ دنوں کے بعد یہ برتن اکٹھے کر لئے جاتے تھے اور اس طرح جو آٹا جمع ہوتا تھا اسے فروخت کر کے اس کی آمدنی انجمن کو دے دی جاتی تھی، جس سے انجمن کے مالی اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اغراض و مقاصد انجمن حمایت اسلام کے مقاصد مندرجہ ذیل تھے۔ 1۔ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایسے اداروں کا قیام جہاں پر جدید اور قدیم تقاضوں کے پیش نظر تعلیم کا بندوبست کیا جا سکے۔ 2۔ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں کا ازالہ کرنا اور ان کے پروپیگنڈے کا تحریر و تقریر کے ذریعے جواب دینا۔ 3۔ مسلمانوں کے یتیم اور لاوارث بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا۔ 4۔ مسلم معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا۔ 5۔ مسلمانوں کی ثقافتی اور سماجی ترقی کے لئے کوشش کرنا۔ 6۔ اسلام کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو سیاسی طور پر منظم کرنا۔ تعلیمی خدمات اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انجمن حمایت اسلام نے بے لوث جذبے کے ساتھ گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انجمن نے اپنی تعلیمی خدمات کا آغاز مسلمان بچیوں کے لئے پرائمری سکول کے قیام سے کیا۔ انجمن کا طریق کار علی گڑھ تحریک کی تعلیمی تحریک سے ملتا جلتا تھا۔ 1884ء میں دو سکول کھولے گئے جن کی اسی سال کے عرصے میں پندرہ تک پہنچ گئی۔1925ء میں لڑکیوں کے لئے مڈل سکول کھولا گیا۔ جو ایک سال کے عرصے میں ہائی سکول بنا دیا گیا۔ کالجوں کا قیام انجمن نے مردوں اور عورتوں دونوں کی تعلیم کا بندوبست کیا۔1938ء میں اسلامیہ کالج کوپر روڈ خواتین کی بنیاد ڈالی گئی اور1939ء میں کریسنٹ ہوسٹل میں75طالبات کے ساتھ اسلامیہ کالج کوپر روڈ خواتین کی کلاسوں کا اجراء ہوا۔ اس ادارے نے جلد ہی بہت ترقی کی اور 1942ء اور1943ء میں یہاں پر عربی اور جغرافیہ کی کلاسیں شروع ہو گئیں۔ مردانہ تعلیم کے لئے انجمن نے پہلا ادارہ شیرانوالہ گیٹ میں1889ء میں قائم کیا۔ یہ ایک پرائمری سکول جسے مدرستہ المسلمین کہا جاتا تھا۔ بعد میں اسے مڈل اور ہائی سکول بنا دیا گیا۔ آج کل یہ سکول اسلامیہ شیرانوالہ گیٹ کے نام سے مشہور ہے۔ 1892ء میں مردوں کے کالج کی بنیاد ڈالی گئی اور اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ کے دو کمروں میں کالج کی کلاسوں کا اجراء ہوا۔ 1905ء میں ریلوے روڈ پر50کنال اراضی حاصل کی گئی جہاں اسلامیہ کالج قائم کیا گیا۔ کالج کی عمارت1913ء میں مکمل ہوئی جس کا سنگ بنیاد امیر حبیب اللہ خان والئی نے رکھا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز، اسلامیہ کالج کینٹ اور حمایت اسلام لاء کالج قائم کئے تعلیمی اداروں کے علاوہ یتیم خانے، دار الامان، طبیہ کالج، تعلیم بالغاں کے مراکز اور لائبریریاں ہیں۔ انجمن ہر سال اپنے سالانہ جلسے منعقد کرتی تھی اور ان کی صدارت کے لئے متعدد شخصیتوں کو مدعو کیا سرسید احمد خان، علامہ اقبال، نواب محسن الملک، مولانا الطاف حسین حالی، شیخ عبدالقادر، جسٹس شاہ دین کے جلسوں کی صدارت کی ملک کی بڑی بڑی ہستیوں کو انجمن کی صدارت کے لئے چنا جاتا تھا۔ انجمن نے قوم میں بیداری پیدا کی اور انہیں حقوق سے روشناس کرایا۔ انجمن حمایت اسلام کی سیاسی خدمات انجمن کے مختلف اداروں نے تحریک پاکستان کے دوران بے مثال خدمات سر انجام دیں۔ انجمن کے اجلاس مسلم لیگ کے اجلاس سمجھے جاتے تھے اور ان میں ممتاز مسلم لیگی راہنما شریک ہوتے تھے۔ انجمن جلسوں میں پاکستان کے حق میں قرار دادیں پاس کی جاتی تھیں۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے طلباء اور اساتذہ نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا، اسلامیہ کالج مسلم لیگ کے بہترین کارکن تھے اور تحریک پاکستان کے دوران ان طلباء نے قیام پاکستان کے حق میں راہ ہموار کرنے کے لئے نمایاں کام انجام دیا۔ اسلامیہ کالج کے طلباء نے مسلم لیگ کے پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پھیلایا۔ اسلامیہ کالج کے تاریخی گراؤنڈ میں قائداعظم نے پاکستان کا پرچم لہرایا تھا۔ اسلامیہ طلباء قائداعظم کے جان نثار ساتھی اور کارکن تھے۔ 1940ء میں مسلم لیگ کے تاریخی جلسے کو کامیاب بنانے میں اسلامیہ کالج کے طلباء نے قابل قدر کام کیا تھا اور قائد اعظم کو جلسہ گاہ تک بحفاظت پہنچایا تھا۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے طلباء نے جناب حمید نظامی کی قیادت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی تھی، جس نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا سر شفیع، علامہ اقبالؒ، سر عبدالقادر اور سر فضل حسین جیسے نامور حضرات انجمن حمایت اسلام کی صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ دو قومی نظریئے کی اشاعت و تریج کے لئے انجمن نے عملی مظاہرے کئے لاہور اور پنجاب میں تحریک پاکستان کے حق میں تحریک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے طلباء نے منظم کی۔ انجمن نے علامہ اقبالؒ کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک پہنچایا انجمن کے سالانہ جلسوں کے ذریعے سرسید احمد خاں، نواب وقار الملک، مولانا الطاف حسین حالی اور سر عبدالقادر نے مسلمانوں کی رہبری کی۔ سندھ مدرسہ کراچی علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کے دوران سرسید احمد خان نے مسلمان رہنماؤں کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں علی گڑھ کی طرز پر تعلیمی ادارے کھولیں تاکہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے بھرپور جدوجہد کی جا سکے، علی گڑھ کی تحریک کی کامیابی سے متاثر ہو کر کئی تعلیمی ادارے اور دوسری تنظیمیں معرض وجود میں آئیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی ترقی کے لئے بھرپور کوششیں کیں۔ صوبہ سندھ میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہ تھا جو مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات پوری کر سکتا۔ 1884ء میں جب سید امیر علی کراچی آئے تو ان کو مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی دیکھ کر شدید صدمہ پہنچا اور آپ نے سندھ میں کسی ایسے تعلیمی ادارے کے قیام پر زور دیا جو مسلمانوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم سے بہرہ مند کر سکے۔ کراچی کے ایک درد مند شہری جناب حسن علی آفندی بھی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے دل سے خواہش مند تھے۔ آپ سید امیر علی کی سنٹرل محمڈن ایسوسی ایشن کراچی کے بانی اور صدر تھے۔ آپ سرسید احمد خان کے بہت بڑے مداح تھے اور ان کی چلائی ہوئی علی گڑھ تحریک کے زبردست حامی تھے۔ آپ نے کراچی میں ایک مدرسہ قائم کرنے کے لئے کمیٹی بنائی، مدرسہ قائم کرنے کے لئے آپ نے چندے اکٹھے کئے، 1885ء میں بولٹن مارکیٹ کے قریب آپ نے ایک چھوٹی سی عمارت میں مدرسہ کی بنیاد رکھی جسے سندھ مدرستہ الاسلام کہا جاتا ہے بعد میں مدرسے کی عمارت کے لئے اراضی لی گئی اور مدرسہ کی عمارت تعمیر ہوئی جس کا افتتاح یکم نومبر1886ء کو لارڈز فرن نے کیا۔ مدرسے کے بانی حسن علی آفندی ایک درد مند مسلمان راہنما تھے اور مسلمانوں کی بہتری کے خواہش مند تھے، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے عملی کام کرنا چاہتے تھے۔ آپ 1830ء میں حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت پاس کی اور حیدر آباد میں قانون کی پریکٹس شروع کی، جلد ہی آپ کراچی منتقل ہو گئے۔ آپ کی خدمات کے پیش نظر ترکی کی حکومت نے آپ کو اپنا کونسل مقرر کیا۔ آپ کی وفات1896ء میں ہوئی۔ 1896ء میں حسن علی آفندی کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے ولی محمد مدرسے کے منتظم مقرر ہوئے۔ آپ کے دور میں مدرسے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی، حکومت نے سالانہ گرانٹ مقرر کی لیکن ساتھ ہی مدرسے پر چند پابندیاں بھی عائد کیں۔ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے مدرسے کی انتظامیہ میں بد دلی پھیلی اور حکومت کی عائد کردہ پابندیوں پر انتظامیہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ مدرسے کا نظام تعلیم مرتب کرتے وقت علی گڑھ کی مثال سامنے رکھی گئی۔ اساتذہ کا چناؤ بڑی جانچ پڑتال کے بعد کیا جاتا تھا۔ مدرسے کے پہلے دو پرنسپل انگریز تھے مدرسے میں انگریزی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ طلباء کو باقاعدگی سے نماز پڑھائی جاتی تھی۔ 1938ء میں ولی محمد کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حسن علی مدرسے کے سربراہ بنے۔ آپ نے مدرسے کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرایا۔ 1943ء میں مدرسے کے بورڈ نے سندھ مدرسہ کو سندھ مسلم کالج بنانے کا فیصلہ کیا۔ سندھ مسلم کالج کا افتتاح قائد اعظم نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ قائداعظم کی وصیت کے مطابق آپ کی جائیداد میں سے خاصا حصہ سندھ مسلم کالج کو دیا گیا۔ سندھ مدرستہ الاسلام نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ یہ مدرسہ دو قومی نظریہ کا مرکز بن گیا اور دو قومی نظریہ کی ترقی و ترویج میں نمایاں کام سر انجام دیا۔ حسن علی آفندی نے مسلم لے گکے کارکن کی حیثیت سے تحریک آزادی کے لئے بے پایاں کام کیا۔ اسلامیہ کالج پشاور صوبہ سرحد میں تعلیم کا آغاز عیسائی مشنریوں نے کیا تھا۔ 1868ء میں مشن سکول کھولا گیا جو بعد میں ایڈورڈ کالج بن گیا۔ پشاور میں پہلا سکول 1888ء میں کھولا گیا، جو میونسپل ہائی سکول کے نام سے کھولا گیا، یہ سکول بعد میں گورنمنٹ کالج پشاور بن گیا، جس کے پہلے پرنسپل علامہ عنایت اللہ خان المشرقی مقرر ہوئے۔ صوبہ سرحد میں دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہ تھا، یہاں کے مسلمان رہنماؤں کا خیال تھا کہ صوبہ سرحد میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا جانا چاہئے جو مسلمانوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ سے روشناس کرائے۔ ان درد مند رہنماؤں میں صاحبزادہ عبدالقیوم کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے صوبہ سرحد کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے بے مثال جدوجہد کی۔ اس مقصد کے لئے صوبہ سرحد میں انجمن حمایت اسلام کی بنیاد ڈالی گئی۔ صاحبزادہ عبدالقیوم12دسمبر1863ء کو ضلع مردان کی تحصیل صوابی میں پید اہوئے آپ نے مشن ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1887ء میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور ذاتی محنت اورلگن سے ترقی کرتے کرتے پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدہ تک پہنچے۔ آپ نے صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کے لئے گراں قدر کام کیا۔ آپ نے 4 دسمبر1937ء کو وفات پائی۔ دار العلوم اسلامیہ کا قیام صاحبزادہ عبدالقیوم علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ صوبہ سرحد میں بھی علی گڑھ کی طرز کا کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے۔1912ء میں آپ نے تعلیمی ادارہ کے قیام کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی۔ جس نے تقریباً پندرہ لاکھ روپیہ جمع کیا۔د رہ خیبر کو جانے والی سڑک پر پشاور سے پانچ میل دور دو سو ایکڑ اراضی حاصل کی گئی، جہاں پر1913ء میں اپنے انگریز دوست جارج روس کیپل کے تعاون سے صاحبزادہ صاحب نے دار العلوم اسلامیہ کی بنیاد ڈالی۔ اس ادارے کا سنگ بنیاد حاجی ترنگ زئی کے ہاتھوں رکھا گیا جو کہ ریشمی رومال کی تحریک کے ایک عظیم مجاہد تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور کا قیام دار العلوم اسلامیہ صاحبزادہ عبدالقیوم کی خدمات اور کوششوں سے جلد ہی ترقی کر گیا اور اسلامیہ کالج پشاور کے نام سے مشہور ہوا۔ اسلامیہ کالج پشاور صوبہ کا سب سے بڑا تعلیمی اور ثقافتی مرکز بن گیا۔ کالج کو ترقی دینے میں ان کی محنت اور کوششوں کا بہت دخل ہے۔ آپ نے کالج کی عمارتوں کو خوبصورت بنایا اور کالج کے تعلیمی معیار میں قابل قدر اضافہ کیا۔آپ کالج کی انتظامیہ کے تاحیات سیکرٹری رہے صوبہ سرحد میں آپ کی تعلیمی خدمات کے عوض آپ کو آل انڈین محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ اسلامیہ کالج کے طلباء نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا اور1947ء کے استصواب رائے کو مسلم لیگ کے حق میں کامیاب بنانے میں اس کالج کے طلباء کا بہت بڑا حصہ ہے۔ قائداعظم کو اسلامیہ کالج کے طلباء سے بڑی محبت تھی اور کالج کے طلباء سے آپ دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے ترکے سے وسیع حصہ اسلامیہ کالج پشاور کو دیا گیا۔ تقسیم بنگال اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد ایسٹ انڈیا کمپنی جو ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آئی تھی جلد ہی ہندوستان کے سیاسی نظام پر چھا گئی اور مسلمانوں کا سیاسی اقتدار تقریباً ختم ہو گیا، مسلمان نئی صورت حال سے سخت پریشان تھے اور اپنا اقتدار کھونے کے بعد معاشرے میں اپنی اعلیٰ حیثیت بھی کھو چکے تھے، مسلمانوں کو اپنی آزادی اور اپنے اقتدار کے خاتمے پر سخت افسوس تھا اور وہ اپنی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے خواہش مند تھے، مسلمانوں نے اپنی آزادی اور اپنا اقتدار بحال کرنے کے لئے جدوجہد کی اور تحریک مجاہدین کے ذریعے مسلمانوں کی تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ بدقسمتی سے تحریک مجاہدین غداروں کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی لڑی گئی لیکن یہ کوشش کبھی رائیگاں گئی اور مسلمان انگریزوں کے زیر عتاب آ گئے۔ مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور انگریز ہندوؤں اور دوسری قوموں کے تعاون سے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گئے۔ مسلمانوں پر باعزت معاشرتی زندگی کے دروازے بند کر دیئے گئے اور ان کی معاشی حالت کو تباہ کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے جس کی وجہ سے مسلمان پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے۔ اس آڑے وقت میں سرسید احمد خان نے قوم کی رہبری کی۔آپ نے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی اور انہیں سیاست سے دور رہنے کی نصیحت کی۔ آپ کے خیال میں جب تک مسلمان پوری طرح مغربی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہو جاتے سیاسی سرگرمیاں ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتیں۔ تحریک علی گڑھ کے ذریعے آپ نے مسلمانوں کو نئی راہ دکھائی اور ان کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی حالت کو سنبھالا اور انہیں اپنا کھویا ہوا معاشرتی مقام حاصل کرنے میں مدد دی۔ یکم نومبر1858ء کو ہندوستان کا انتظام ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے لیا گیا اور اسے تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی نے انگریز حکمرانوں پر یہ بات عیاں کر دی تھی کہ اگر ہندوستان کے لگوں کو حکومتی کاموں میں شریک نہ کیا گیا او انہیں مراعات نہ دی گئیں تو ہندوستان میں انگریز اپنے پاؤں نہ جما سکیں گے سرسید احمد خان نے رسالہ ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کی تھی اور برطانوی حکومت کو مقامی باشندوں کو حکومت کے انتظام میں شریک کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ آپ نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حکومت پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اب ہندوستان کے مقامی باشندوں کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کے انتظام میں شامل کرنا پڑے گا۔ آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ مقامی باشندوں کو لیجسلیٹو کونسل میں نمائندگی دی جائے۔ اس طرح مقامی باشندوں میں حکومت کے لئے وفاداری کے جذبات پیدا ہوں گے۔ ہندوستان میں پہلا قانونی ڈھانچہ1861ء میں نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کی رو سے حکومت کے سربراہ جسے گورنر جنرل کہا جاتا تھا نے انتظامی کونسل میں پہلی بار ہندوستانی باشندوں کو شامل کیا۔1892ء میں دوسرا قانون جاری کیا گیا جسے انڈین کونسلز ایکٹ1892ء کہا جاتا ہے اس ایکٹ کی رو سے مجلس قانون ساز کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ 1885ء میں کانگریس معرض وجود میں آئی۔ اپنے قیام کے موقعہ پر کانگریس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے تمام لوگوں کی نمائندگی کرے گی۔ شروع شروع میں کانگریس نے اپنے اس وعدہ کا تھوڑا بہت احساس کیا لیکن آہستہ آہستہ کانگریس کی سرگرمیاں ہندوانہ ہوتی چلی گئیں۔ کانگریس نے اپنے متعصابہ رویہ کا سب سے پہلے اظہار اس وقت کیا جب اس نے گورنر جنرل کی کونسل اور صوبائی کونسلوں میں نامزدگی کے طریق کار کو ختم کر کے انتخاب کے ذریعے تقرری کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد کانگریس نے سرکاری ملازمت میں بھرتی کیلئے مقابلے کا امتحان کا مطالبہ کیا اور یہ کہا کہ تمام ملازمت میں بھرتی کے لئے مقابلے کے امتحان ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ مطالبات نہایت معصوم اور بے ضرر نظر آتے تھے لیکن اس کے پس پردہ ہندو کی ازلی مسلمان دشمنی چھپی تھی۔ کانگریس کو یہ علم تھا کہ اگر ہندوستان میں مغربی جمہوریت کا اجراء کر دیا جائے تو مسلمان کبھی بھی انتخاب نہ جیت سکیں گے اور اس طرح حکومت کے اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح مقابلے کے امتحان کا مطالبہ کرنے کا مقصد بھی مسلمانوں کو سرکاری ملازمت سے خارج کرنا تھا کیونکہ مسلمان تعلیمی اعتبار سے ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے اور کسی صورت میں بھی مقابلے کے امتحان میں ہندوؤں کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ سرسید احمد خان نے کانگریس کے مطالبات کی شدت سے مخالفت کی اور حکومت پر یہ واضح کیا کہ ہندوستان میں مغربی طرز کی جمہوریت نہیں چل سکتی، کیونکہ ہندوستان میں کئی قومیں آباد ہیں۔ آپ نے مقابلے کے امتحانوں پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ مقابلے کے امتحان اسی صورت میں لاگو کئے جا سکتے ہیں جب کہ تمام قوموں کو یکساں تعلیمی سہولتیں میسر ہوں۔ آپ نے مسلمانوں پر کانگریس کی سیاسی چالوں کی وضاحت کی اور ہمیں کانگریس سے علیحدہ ہونے کی تلقین کی۔ اردو ہندی تنازعہ اردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان بن گئی۔ اردو کئی زبانوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت کام کیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کام کیا لیکن چونکہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندوؤں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔ 1867ء میں بنارس کے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ ہندوؤں کے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندوؤں کا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا کہـ: ’’ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم کے کبھی نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔‘‘ سرسید احمد خان نے ہندوؤں کی اردو زبان کی مخالفت کے پیش نظر اردو کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنیکا ارادہ کیا1867ء میں آپ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایک ’’ دار الترجمہ‘‘ قائم کیا جائے تاکہ یونیورسٹی کے طلباء کیلئے کتابوں کا اردو ترجمہ کیا جا سکے ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی لیکن آپ نے تحفظ اردو کے لئے ہندوؤں کا خوب مقابلہ کیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایک تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم کی اورسائنٹیفک سوسائٹی کے ذریعے اردو کی حفاظت کا بخوبی بندوبست کیا۔ ہندوؤں نے اردو کی مخالفت میں اپنی تحریک کو جاری رکھا۔1817ء میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر کیمبل نے اردو کو نصابی کتب سے خارج کرنے کا حکم دیا۔ ہندوؤں کی تحریک کی وجہ سے 1900ء میں یو پی کے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میکڈانلڈ نے احکامات جاری کئے کہ دفاتر میں اردو کی بجائے ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال کیا جائے۔ اس حکم کے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900 ء کو علی گڑھ میں نواب محسن الملک نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے اقدام پر سخت نکتہ چینی کی۔ نواب محسن الملک نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم کی جس کے تحت ملک میں مختلف مقامات پر اردو کی حمایت میں جلسے کئے گئے اور حکومت کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا گیا۔ اردو کی حفاظت کے لئے علی گڑھ کے طلباء نے پرجوش مظاہرے کئے جس کی بناء پر گونر میکڈانلڈ کی جانب سے نواب محسن الملک کو یہ دھمکی دی گئی کہ کالج کی سرکاری گرانٹ بند کر دی جائے گی۔ اردو کے خلاف تحریک میں کانگریس اپنی پوری قوت کے ساتھ شامل کار رہی گاندھی نے بھی اردو کے خلاف زہر اگلا اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشکار ہو گئی۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے کا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے متحد ہوئی۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو پائلٹ آفیسر جے ایف تھنڈر طیارہ پاک چین دوستی کے لازوال سلسلے کا مظہر جے ایف تھنڈر جنگی طیارے کی تیاری کے کام کا آغاز1999ء میں ہوا۔ جو چار سال کی مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچا اس طیارے کی پہلی آزمائشی پرواز2ستمبر2003ء کو چینی فضائیہ کے ایک ایئر بیس پر ہوئی۔ جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار طیارہ میزائل اور کلسٹر بم سمیت دیگر جدید ہتھیاروں کو اپنے ہدف تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان طیاروں کی باقاعدہ تیاری جون 2004ء سے شروع ہوئی جس کے بعد یہ پاک فضائیہ میں شامل ایف سیون اور میراج طیاروں کی جگہ لیں گے جو اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل کلیم سعادت اور ڈائریکٹر پراجیکٹ جے ایف17 تھنڈر ایئر وائس مارشل شاہد لطیف کے مطابق یہ طیارہ بھارت کی جانب سے 20سالوں کی محنت کے بعد تیار ہونے والے مگ25 لڑاکا طیاروں کے مد مقابل ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں اس سے بہتر خصوصیات کا حامل ہے۔ دیگر کئی حوالوں سے یہ طیارہ امریکی تباہ کن جنگی جہازF-16سے بھی برتر ہے۔ ابتداء میں پاکستانی انجینئروں اور ٹیکنیشنوں نے اس کے پچاس فیصد ایئر فریم تیار کئے ہیں جب کہ مستقبل میں پاکستان اس کے سو فیصد ایئر فریم تیار کرے گا۔ جے ایف17طیارے کی تیاری سے قبل چینی اور پاکستان انجینئر مل کر سپر سیون کے نام سے ایک طیارہ تیار کر چکے ہیں جو اس وقت کے دونوں ممالک کے فضائی بیڑے میں شامل ہے واضح رہے کہ سپر سیون طیارہ چینی ساختہ جبکہ جے ایف17تھنڈر طیارہ پاکستانی اور چینی ٹیکنالوجی کے اشتراک کا نتیجہ ہے۔ جے ایف17تھنڈر طیارے کی تجارتی بنیادوں پر تیاری کا کام سال 2006ء سے شروع ہو چکا ہے جس سے پاکستان کو اندازاً سالانہ پانچ ملین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ س: آپ علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے بارے میں بتایئے؟ ج:ـ علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا افتتاح صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے 17 مارچ2003ء کو کیا۔ 71000مربع میٹر رقبے پر محیط اس عمارت کو1032بلین روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ یہاں سات بورڈنگ پل، 55 چیک ان کاؤنٹر، ایک ریسٹورنٹ، کوریئر سروس اور کرنسی ایکسچینج ہیں۔ نیز مواصلات کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں۔ اس مسحورکن عمارت کی تعمیر میں جدید طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن مشہور پاکستان انجینئرنگ ادارے نیسپاک نے بنایا۔ س: بغیر انجمن کے طیارے کی پہلی کامیاب پرواز کس نے کی؟ ج: جرمن باشندہ آٹو للی اینتھل اس کے بھائی نے پھڑپھڑانے والے پروں کے ساتھ اڑنے کی کوشش کی۔ 1891ء میں آٹو نے ایک ہوائی جہاز بنایا جو متعین پروں والے گلائیڈ کی مدد سے اڑتا تھا۔ س: انجن والا پہلا ہوائی جہاز کس نے بنایا؟ ج: رائٹ برادران نے یکم دسمبر1903ء کو انجن والے طیارے سے پرواز کی۔ س: ہوائی جہاز کو کونسے حصے اڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں؟ ج: پر جو ہوا کے دباؤ سے اوپر کو اٹھتے ہیں۔ س: دو پروں کے ایک طیارے میں ہوا کے دباؤ سے اوپر اور نیچے والے پر فولڈکیوں ہوتے ہیں؟ ج: کیونکہ انہیں اڑن تاروں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ س: ٹرکس سے کیا مراد ہے؟ ج: لینڈنگ گیئر کا مقبول عام نام جو پہیوں، دھرے اور رباط پر مشتمل ہوتا ہے۔ س: جب طیارہ بہت زیادہ رفتار کے ساتھ نیچے اترے تو اس میں شگاف کیوں نہیں پڑتا؟ ج: طیارے کے نچلے حصے میں شاک ابزاربر لگے ہوتے ہیں جو طیارے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔ سـ: ہوا حرکیات سے کیا مراد ہے؟ ج: ہوا کی حرکت کا مطالعہ اور اس میں گھومنے والے اجسام پر طبعی اثرات کو ہوا حرکیات کہتے ہیں۔ س: عسکری حرکت سے کیا مراد ہے؟ ج: مطلوبہ اڑان یا طریق پر چلنا۔ س: پتوار کے بارے میں بتایئے؟ ج: ہوائی جہاز کے عقبی حصے میں ایک درستی پذیر عمودی سطح جو عموداً یا دائیں یا بائیں موڑنے کو منضبط کرنی ہے۔ س: پہلا عملی جیٹ طیارہ کس ملک نے بنانے کا اعزاز حاصل کیا تھا؟ ج: جرمنی یہ طیارہ 27اگست1937ء کو اڑایا گیا۔ س: جب آدمی اڑنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہوائی اڈے پر دھوئیں کا بادل کیوں اڑایا جاتا ہے؟ ج: تربیت کے دوران خطرے کو کم کرنے کی غرض اور طیارے کو نیچے اتارنے کے لئے ضروری ہے کہ پائلٹ کو پتہ ہو کہ ہوا کس رخ پر چل رہی ہے تاکہ اس اس کی مخالف سمت میں جہاز کو اتارے اس لئے گندھک یا کوئی اور مواد جلا کر دھوئیں کے بادل چھوڑے جاتے ہیں تاکہ ہوا باز ہوا کا رخ دیکھ سکے۔ س: ہوائی جہاز کے انجن کے اہم پرزہ جات کے متعلق مختصراً بتایئے؟ ج: ہوائی جہاز کے انجن کے ساتھ جڑے اہم پرزوں میں کاربوریٹر، سلنڈر، پسٹن، کنکٹنگ راڈ، کرنیک شافٹ، پراپلر ہیں جبکہ گیسولین (برائے انجن ایندھن) کو کاربوریٹر میں ڈالا جاتا ہے۔ جو اسے بننے کے لئے ہوائی مقدار میں شامل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ اس عمل میں ایک پائپ کے ذریعے گیسولین سلنڈر کی خالی جگہ پر بہتی ہے۔ جہاں پسٹن نصب ہوتا ہے جو ایک برقی شعلہ کے ذریعے گیسولین میں دھماکہ پیدا ہوتا ہے۔ جو پسٹن کو نیچے لے کر کنکٹنگ راڈ کے توسط سے اپنی قوت کو کرنیک شافٹ میں مجتمع کرتی ہے۔ پروپلر جو ایک گاڑی کے اڑن پہیے کا ہوتا ہے وہ پسٹن کو آگے بڑھاتا ہے جبکہ انجن کو برقی شعلوں کو ختم کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو پاکستان نیوی س: پاکستان نیوی کا بیڑہ کتنی قسموں کی آبدوزوں پر مشتمل ہے؟ ج: آگستا، 90بء ڈالفن اور مڈ جیٹ۔ س: پاکستان مقامی طور پر کونسی آبدوز بنا رہا ہے؟ ج: آگستا، 90بی۔ س: آگستا، 90بی آبدوز کو سمندری تجربے کے لئے سمندر میں کب اتارا گیا؟ ج:19جنوری2003ء س: کس ملک نے آگستا90 بی آبدوز کی تیاری کے لئے مالیاتی اور تکنیکی امداد فراہم کی ہے؟ جـ: فرانس۔ س: مکران کے ساحل پر واقع پاکستان کے بحری اڈے کا نام بتایئے؟ ج: مارانیول بیس۔ س: کس خلیفہ راشد کے عہد میں مسلمانوں کا پہلا بحری بیڑہ مکمل کیا گیا؟ ج: حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ س: قیام پاکستان کے وقت پاکستان نیوی کا نام کیا تھا؟ ج: دی رائل پاکستان نیوی۔ س: 1982ء میں کونسی بحری جنگ لڑی گئی تھی؟ ج: فاک لینڈ جنگ۔ س: جزیرہ فاک لینڈ کہاں واقع ہے؟ ج: یہ برطانوی نو آبادی ہے اور جنوبی بحر اوقیانوس میں آبنائے میجلن سے650 کلو میٹر بجانب شمال واقع ہے۔ س: ڈاک سے کیا مراد ہے؟ ج: ایک گودی یا پشتہ جس میں ایک جہاز سامان چڑھاتے یا اتارتے وقت تیرتا ہے ڈاک یا گھاٹ کہلاتا ہے۔ س: بحری میل اور بری میل میں کتنے فٹ ہوتے ہیں؟ ج:ـ ایک بحری میل6080فٹ کے برابر جبکہ بری میل5280فٹ کے برابر ہوتا ہے۔ س: آبدوز کا نام بتایئے جس نے1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کے سب سے بڑے بحری اڈے دوار کا کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا؟ ج: غازی۔ س: کراچی سے دوار کا کتنے فاصلے پر ہے؟ ج:210میل کے فاصلے پر۔ س: پاک بحریہ نے دوار کا کے بحری اڈے کو کب تباہ کیا؟ ج:8ستمبر1965ء س:ـ جنگ65ء کے دوران بھارتی بحریہ نے پاکستان کے ایک نیوی یونٹ پر کھلے سمندر میں کب حملہ کیا؟ ج:22ستمبر1965ء کو اس حملے میں بھارتی بحری جہاز سمندر کی تہہ میں ڈوب گیا۔ س: کس جہاز راں نے امریکہ دریافت کیا تھا؟ ج: کولمبس۔ س: کس پرتگیزی جہاز راں نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کیا تھا؟ ج:ـ واسکوڈے گاما۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو کمرشل منیجر، بزنس منیجر، ٹریڈ ایگزیکٹو وغیرہ س: ٹریڈ مارک کیا شئے ہے؟ ج: ٹریڈ مارک ایسا تجارتی نشان ہے جو کوئی بھی تجارتی ادارہ اپنی مصنوعات پر چپساں کرتا ہے جو اس امر کا اظہار ہے کہ یہ شے مخصوص تاجر کی ہے ٹریڈ مارک کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور کسی دوسری فرم کا ٹریڈ مارک استعمال کرنا غیر قانونی فعل ہے۔ نیز ٹریڈ مارک ایک فرم کی شناخت ہونے کے علاوہ ناخواندہ افراد اس کے ذریعے کسی شے کی اصلیت جانچ سکتے ہیں۔ سـ: ایکسپورٹ پروموشن بیورو کا صدر دفتر کہاں واقع ہے اور اس کے سربراہ کو کیا کہتے ہیں؟ ج: اسلام آباد۔ چیئرمین۔ س: ایک کاروبار میں مڈل مین سے کیا مراد ہے؟ ج: مڈل مین فروخت کار خانہ دار سے چیز خرید کر پرچون فروشوں کو فروخت کرتا ہے۔ س:ـ منڈی کی قیمتوں کو باضابطہ بنانے کا طریقہ کونسا ہو گا؟ ج: قیمتوں کو رسد اور طلب کے قانون کے تحت باضابطہ بنایا جا سکتا ہے جب کسی بھی چیز کی قیمت بڑھے گی تو رسد کی قیمت بڑھ جائے گی لیکن جب رسد بہت زیادہ مقدار میں ہو گی تو طلب کی قیمتیں گر جائیں گی۔ س: چور بازار سے کیا مراد ہے؟ ج: اشیاء یا کرنسی کی ناجائز تجارت، کوبلیک مارکیٹنگ باجور بازار کہتے ہیں۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو محکمہ جنگلات س: پاکستان میں ہر سال شجر کاری کی مہم کب منائی جاتی ہے؟ ج: شجر کاری کی مہم سال میں دو مرتبہ علی الترتیب فروری اور اگست میں منائی جاتی ہے۔ س: بیراجوں اور ڈیموں کے گرد درخت کیوں لگائے جاتے ہیں؟ ج: پانی کے بہاؤ سے پیدا ہونے والے زمینی کٹاؤ کی روک تھام کرنے کے لئے ڈیموں اوربیراجوں کے گرد درخت لگائے جاتے ہیں۔ س: ماہرین کے مطابق ملک کے کتنے فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں؟ ج:25فیصد رقبہ پر۔ س: پاکستان کے کتنے رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں؟ ج: تقریباً9.25فیصد۔ س: چھانگا مانگا جنگلات کے بارے میں مختصراً بتائیں؟ ج: لاہور سے 40 میل دور واقع پاکستان کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل15مربع میل رقبے پر محیط ہے اس میں ایک جھیل اور چھوٹا سا چڑیا گھر، وسط میں مینار پاکستان سے ملتا جلتا مینار ایستادہ ہے۔ یہ جنگل1890ء میں بھاپ سے چلنے والے ریلوے انجنوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اگایا گیا۔ ریل اور بس کے ذریعے ایک شخص با آسانی وہاں پہنچ سکتا ہے۔ س: پاکستان کے کن علاقوں میں بارش کی اوسط بہت زیادہ ہے؟ ج: سیالکوٹ، راولپنڈی، جہلم، مری، ایبٹ آباد، مانسہرہ، سوات، دیر اور چترال۔ ان علاقوں میںدیودار، چیڑ، پڑتل، شاہ بلوط، اخروٹ، پاپلر اور یوکلپٹس کے درخت اگائے جاتے ہیں۔ س: فرنیچر میں استعمال ہونے والی بہترین لکڑی کا نام بتایئے؟ ج: جناب عالی پائن ووڈ، روز ووڈ اور ٹیک ووڈ، ان میں سے پائن ووڈ کا وزن سب سے کم ہے جو اقتصادی طور پر اور فرنیچر کے حصوں کے لئے بہت موزوں ہے خواہ وہ مخفی ہوں یا رنگ کئے ہوئے نیز یہ سکڑے گی نہیں اور کسی وقت بھی نہیں پھولتی ہے۔ س: تحفظ دار کے فرایض بتایئے؟ ج: تحفظ دار درختوں کی کٹائی پودے لگانے اور زمین کے دیگر استعمال اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کی نگرانی کرنا ہے۔ س: وفاقی حکومت نے پہلی مرتبہ زرعی اصلاحات کو پاکستان میں کب متعارف کرایا؟ جـ:1959ء س: زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا قیام کب عمل میں آیا؟ ج:1961ء س: پاکستان میں ہر فی ایکڑ پیداوار دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے کیا یہ درست ہے؟ ج:ـ جی ہاں۔ س: زرعی اصلاحات کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ ج: زمینوں کی مالیت میں موجود فرق کو دور کر کے آسان اقساط پر قرضے، زراعت کے جدید مشینری، بیج، کھاد اور کسانوں کی ضروریات کی چیزیں فراہم کر کے زرعی پیداوار کو بڑھانا مقصود تھا۔ علاقہ جنگلات (ملین ہیکٹرز) صوبہ سرحد 1.21 صوبہ سندھ 0.92 صوبہ پنجاب 0.69 شمالی علاقہ جات 0.66 آزاد جموں و کشمیر 0.42 صوبہ بلوچستان 0.33 ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو فیملی پلاننگ آفیسر س: آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں کون سے نمبر پر ہے؟ ج: آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، اکنامک سروے آف پاکستان 2003-04ء کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی148.72ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ س: سال2004ء میں پاکستان کی شرح افزائش آبادی کتنے فیصد ہے؟ ج:1.9فیصد س: پاکستانی آبادی کا کتنے فیصد حصہ دیہاتوں میں آباد ہے؟ ج:67.03فیصد س: پاکستان میں بے روزگاری کی شرح کتنے فیصد ہے؟ ج:3.72فیصد یعنی3.72ملین افراد بے روزگار ہیں۔ س: پاکستان میں غربت مکاؤ فنڈ کب قائم کیا گیا؟ ج: یہ فنڈ100ملین ڈالر کی خطیر رقم سے اپریل2000ء میں قائم کیا گیا۔ س:ـ پاکستان میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز میں جانے والے طلباء کی تعداد کتنی ہے؟ ج: (1) پرائمری سکول میں جانے والے طلباء کی تعداد174,152,40ہے۔ (2)مڈل سکول میں جانے والے طلباء کی تعداد403,504,0 (3)ہائی سکول میں جانے والے طلباء کی تعداد165,829,9ہے۔ س: پاکستان میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرمیں قائم پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز کی تعداد بتائیں؟ ج: پرائمری سکولز156,100مڈل سکولز287,16 اور ہائی سکولز160,59ہیں۔ س: جی ڈی پی کا کتنے فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے؟ ج: پاکستان میں جی ڈی پی کا2فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتاہے۔ س: 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اور شرح نمو کتنی تھی؟ ج:13.1ملین جبکہ شرح نمو2.6فیصد تھی۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو اکاؤنٹس آفیسر/اکاؤنٹنٹ س: ببلونیا (عراق) سے سیاق نویسی کے ریکارڈ کب دریافت ہوئے تھے؟ ج:3600ق م س: حساب کتاب کے تین اہم اقسام بتایئے؟ ج: ذاتی، عرفی، حقیقی س: حساب داری کی مدت کیا ہوتی ہے؟ ج: حساب داری کی مدت عموماً ایک سال ہوتی ہے مدت کے خاتمے پر حساب دار آزمائشی تسویہ نکال کر فرق کی تصحیح کرنے کے علاوہ نفع و نقصان کا حساب اور تختہ واصل باقی تیار کرتا ہے۔ س: سرمایہ کا حساب کیا ہے؟ ج: کسی ملک کے توازن ادائیگی اور حسابی تجزیہ کو سرمایہ کا حساب کہتے ہیں۔ س: لیجر کا دوسرا نام کیا ہے؟ ج: بک آف سیکنڈ اینٹری ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ایکسائز اینڈ انکم ٹیکس آفیسر/کسٹم آفیسر س: کسی بھی حکومت کی آمدنی کے اہم ذرائع کون سے ہیں؟ ج: حکومت کے اہم ذرائع آمدنی میں تجارت، غیر ملکی تجارت، زمین کا مالیہ، ٹیکسیشن، کسٹم ایکسائز اور تفریحی مقامات پر ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ س: اگر حکومت بہت زیادہ رقم اکٹھی نہ کر سکے تو پھر کیا ہو گا؟ ج: اقتصادیات بری طرح متاثر ہونے سے غربت اور افراط زر کی شرح بڑھ جائے گی۔ س: آپ پاکستان میں ٹیکسیشن کے لیول کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ج: دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں ٹیکسوں کی وصولی کی شرح بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ اقتصادیات میں ٹیکسوں کو مالیہ کی مد گراس نیشنل پراڈکٹ40-30 فیصد تک کی مساوی حد تک پائی جاتی ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح گراس نیشنل پراڈکٹس کا10تا15فیصد ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولیاں گراس نیشنل پراڈکٹس سے کہیں کم ہیں۔ س: انکم ٹیکس کی سطح کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ ج: انکم ٹیکس کی وصولی بہتر بنانے کے لئے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات کو بھی شعور کی بیداری کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔ س: راست محصول کاری ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ ج: اضافی آمدنی کے ذریعے راست محصول کاری کہلاتی ہے۔ راست محصول وہ محصول کاری ہے جسے منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا بوجھ ایسے شخص پر پڑتا ہے جو ٹیکس حکومت کو ادا کرتا ہے۔ راست محصول کے اکٹھا کرنے کی سطح بہت کم ہے۔ س: بالواسطہ محصول کاری کے بارے کچھ بتائیں؟ ج: بالواسطہ محصول کاری درآمدی اشیاء اور گھریلو مال پر عائد ہوتی ہے۔ بالواسطہ محصول کاریوں کو با آسانی اقتصادیات، سیاسی اور انتظامی بدل کے طور پر واضح کیا جا سکتا ہے بالواسطہ محصول کاریاں بنیادی اجناس پر عائد کی جاتی ہیں۔ اس لئے کم آمدنی والے گروپوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ س: تشخیص کیا ہے؟ ج: ایک فرد، ایک فرم یا ایک کمپنی جب اپنے واجب الادا محصول کاری کا حساب لگائے تو اس ماحصل کو تشخیص کہتے ہیں۔ تشخیص کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ کتنی محصول کاری کرنی ہے اور اس طریقے کو بھی جان لیا جاتا ہے جس کے ذریعے محصول کاری کی رقم پہنچتی ہے۔ س: اضافی تشخیص کب کی جاتی ہے؟ ج: پہلی تشخیص نامکمل ہو تو پھر اضافی تشخیص کی جاتی ہے۔ س: انکم ٹیکس سے مستثنیٰ شعبوں کے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟ : ٭ استثنیٰ متعلقہ پنشن، پراویڈنٹ فنڈ اور کہنہ سالی۔ ٭ بیرونی ذرائع سے اندرونی قرضہ حاصل کرنے پر۔ ٭ غیر منافع بخش خیراتی ادارے، مذہبی اور سماجی سرگرمیاں۔ ٭ غیر منافع بخش تعلیمی ادارے۔ ٭ استثنیٰ متعلقہ الیکٹرک پاور جنریشن ٭ ٹیکس ہالیڈیز کی نہ گزری ہوئی مدت برائے صنعتی کامگاری پر۔ س: قابل ٹیکس آمدنی کی شرح بتایئے؟ ج: ایک لاکھ روپیہ۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ایڈمنسٹریٹو آفیسر/آفس منیجر س: فیڈرل سیکرٹریٹ (اسلام آباد) کی ذمہ داریوں کے متعلق بتایئے؟ ج: فیڈرل سیکرٹریٹ کا کام وفاقی دستوریہ کے قوانین، سپریم کورٹ کے احکامات، فیصلوں اور صدر اور وزیراعظم کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہے۔ س: سیکرٹریٹ کے بنیادی یونٹ کا نام بتایئے؟ ج: ڈویژن۔ س: ڈویژن کے فرائض بتایئے؟ ج: ایک ڈویژن محکموں سے متعلقہ انتظامی اور سیاسی پالیسیوں کو تشکیل دینے کے علاوہ ان کی رسائی وفاقی کابینہ تک ممکن بناتی ہے۔ ہر ڈویژن کا سربراہ سیکرٹری کہلاتا ہے۔ س: ایک ایڈمنسٹریٹو آفیسر کے ماتحت اسسٹنٹ کیا فرائض انجام دیتے ہیں؟ ج: 1۔ ایک اسسٹنٹ سابقہ کاغذات اور دیگر حوالہ جات زیر غور معاملے کے لئے پیش کرتا ہے۔ 2۔ فائلیں کھولنا اور ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رکھنا۔ 3۔ تمام اہم احکامات اور فیصلوں کو نوٹ کر کے رکھنا۔ 4۔ فائلوں کے ریکارڈ کی فہرست بنانا۔ 5۔ ترجیحی ضروریات کو پیش نظر رکھنا یا فائلوں پر سیکیورٹی لیبل لگانا۔ 6۔ وہ ایڈمنسٹریٹو آفیسر کو مطلع کرتا ہے کہ فائلوں پر لیبلوں کو ہٹانے کا پہلا موقع آ گیا ہے۔ نیز دیگر سونپے گئے فرائض کو سر انجام دینا۔ س: ایڈمنسٹریٹو آفیسر کے کام کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ ج: ایڈمنسٹریٹو آفیسرز بڑے اور چھوٹے دفاتر کے امور کے انچارج کی حیثیت سے کلریکل ریکارڈ، بجٹ بنانے ، منافع کا حساب لگانے، طریق کار وضع کرنے، خاکہ بندی دیگر امور کے علاوہ حساب نویسی کے کام کا نگران ہوتا ہے۔ ایک ایڈمنسٹریٹو آفیسر ملازمین کے بڑے گروپ کے انچارج کے طور پر ملازمین اور اپنی استعداد بڑھاتا ہے۔ س: عبوری تقرری کیا ہوتی ہے؟ ج: عارضی ملازمت یعنی مخصوص مدت کیلئے ایک ملازم کا تقرر کیاجاتا ہے اور کوئی وجہ بتائے بغیر اور کوئی شوکاز نوٹس دیئے بغیر ایسے ملازم کو کسی وقت بھی ملازمت سے نکالا جا سکتا ہے۔ س: ملازمتوں سے برطرفی (خصوصی اختیارات) کا آرڈی نینس2000ء کب نافذ ہوا؟ ج:28مئی2000ء کو اس کا اہم مقصد نا اہل ملازمین کی برطرفی تھی ملازمت سے جبری ریٹائرمنٹ اور اونچے عہدے سے نچلے عہدے پر تنزلی یا پے سکیل میں کمی بھی اس آرڈی نینس کا حصہ تھے۔ تاہم متاثرہ ملازم کو وفاقی سروس ٹربیونل (Lxx of 1973) کے ایکٹ کے تحت قائم کردہ ٹربیونل میں اپیل کا حق تفویض کیا گیا ہے۔ س: انتظامی خلاصہ کیسے تیار کیا جاتا ہے؟ ج: انتظامی خلاصہ تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حقائق نامہ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے مختصر شکل میں تمام اہم نکات کو پیراوار بیان کیا جائے تاکہ متعلقہ عہدے دار حقائق نامہ کے تمام پہلوؤں کو بغیر کوئی وقت ضائع کئے سمجھ سکے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو الیکٹریکل انجینئر واپڈا بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے والا ادارہ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں قائم ہے۔ یہ ادارہ آبی وسائل کی ترقی اور بہتر استعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس وقت واپڈا تھرمل، ہائیڈل اور جوہری ذرائع سے بجلی تیار کر کے صارفین کو فروخت کر رہا ہے۔ ان تینوں ذرائع سے واپڈ کی کل پیداوار11,436میگا واٹ ہے۔ جبکہ صارفین کی تعداد14.9 ملین ہے۔ جبکہ پاکستان کے78,820دیہاتوں میں بجلی موجود ہے۔ س: الیکٹرانک تھیوری سے کیا مراد ہے؟ ج: جوہر الیکٹرانز سے ترتیب دینے چاہئیں جس کی ایک اکوئی منفی بار اور پروٹانز پر مشتمل ہو اور جو مثبت بار کی حامل ہو۔ مثبت برقیوں کو حرکت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور یہ طبعی طور پر مثبت پروٹونز کے گرد گھومتے ہیں ۔ جو ایک ایٹم کے مرکزہ کو تشکیل دیتے ہیں۔ تمام مادہ تعدیلی یا غیر متبدل حالت میں ہوتا ہے اور مثبت اور منفی بجلی کی مساوی مقدار رکھتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ برقیوں کو وجود میں لانے کے لئے تحریک دی جائے یا قوت مہیا کی جائے جن کو اگر اکٹھا کر دیا جائے تو قطعی طور پر راستہ بند کر دیتے ہیں جو بجلی کے لئے ممکن بناتے ہیں کہ وہ انہیں کام میں لائے۔ س: فیوز کی تعریف اور مقاصد بتایئے؟ ج: فیوز ایسی حفاظتی ایجاد ہے جو بجلی کے آلات کا تحفظ کرتا ہے جو عموماً تانبے کی ایک تار کا ٹکڑا ہوتا ہے جس کا نقطہ پگھلاؤ بہت کم ہوتا ہے جب سرکٹ میں بہت بھاری موج رواں ہو تو تب فیوز بجلی کے آلات کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔ س: کس اصول کے تحت آبی بجلی پیدا کی جاتی ہے؟ ج: ایک مخصوص بلندی پر موجود پانی کا ذخیرہ نوزلز گلائیڈر سے گزرتے ہوئے بہت زیادہ رفتار سے چلنے والی ایک ٹربائن کے بلیڈوں کے اوپر ہوتا ہوا حرکی توانائی ٹربائن کو مہیا کرتا ہے جس کے گھومنے سے الیکٹرک جنریٹر چلتے ہیں جو میکانکی توانائی کو حرکی توانائی میں بدل دیتے ہیں۔ س: واٹ کس کی اکائی ہے؟ ج: واٹ برقی قوت کی ایک اکائی ہے ایک واٹ ایک جول فی سیکنڈ کے برابر ہوتا ہے۔ س: برقی توانائی کو پیدا کرنے والے اہم ذرائع بتایئے؟ ج: پانی، موج، ہوا، کوڑا کرکٹ، تیل، کوئلہ، ہوا، گیس جوہری قوت بجلی پیدا کرنے کے بڑے ذرائع ہیں۔ س: واپڈا کس سال قائم کیا گیا؟ ج:1959ء س: واپڈا کے نظام میں کام کرنے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نام بتایئے؟ ج: کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی ملتان الیکٹرک پاور کمپنی حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی۔ نوٹ: واپڈا کی آبی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے لئے دیکھیں، معلومات آبپاشی ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ٹیکسٹائل انجینئر س: ٹیکسٹائل سٹی پراجیکٹ کے تحت کتنے شہروں میں ٹیکسٹائل سٹی لمیٹڈ قائم کئے جائیں گے؟ ج: اس پراجیکٹ کے تحت حکومت پاکستان تین شہروں فیصل آباد، لاہور اور کراچی میں ٹیکسٹائل سٹی قائم کرے گی۔ س: پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی پیداواری صلاحیت پر روشنی ڈالیں؟ ج: ملوں کی تعداد399ہے جن میں9,173سپنڈلز،144روٹرز اور10.3لومز کام کر رہی ہیں۔ س: پاکستان میں ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی تعلیم کے پھیلاؤ کے لئے اپنی تجاویز بتایئے؟ ج: ٭ تجزیہ گاہوں کے لئے وافر فنڈز مہیا کئے جائیں۔ ٭ کلاس رومز جدید تکنیکی امداد جیسے اوور ہیڈ اور ملٹی میڈیا پروجیکٹر وغیرہ سے آراستہ کیے جائیں۔ ٭ ایک تعلیمی سمسٹر کم از کم 16ہفتوں کا ہونا چاہیے۔ ٭تعلیمی اوقات میں اضافہ۔ ٭ایم ایس سی انجینئرنگ کے نصاب کو جدید بنایا جائے۔ ٭ ٹیکسٹائل کی صنعت کو در پیش تکنیکی مسائل کے لئے حل کنندہ کے طور پر یونیورسٹیاں کام کریں۔ ٭ اساتذہ کے قومی اور بین الاقوامی صنعتی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے فنڈز کی فراہمی۔ ٭ٹیکسٹائل کی صنعت نیز قومی اور غیر ملکی یونیورسٹی کے تعاون سے جدید تدریسی طریقوں کو روشناس کرانے کے لئے ریفریشر کورسز کرائے جائیں۔ ٭ طلبا کے مطالعاتی سال کے دوران چار تا چھ ہفتوں کے تربیتی پروگرام۔ ٭ ڈگریوں کے حصول کے لئے صنعتی تربیت کو لازمی قرار دینا۔ س: پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ترقی دینے کے لئے کونسا پہلو سب سے اہم ہے؟ ج: تحقیقی درست اعداد و شمار کا جمع کرنا، پانی اور بجلی کی ترقی وغیرہ۔ س: کپاس سے کتنی چیزیں بنائی جاتی ہیں؟ ج: دھاگہ، سوتی کپڑا، گھریلو تولئے، ہوزری کی بنی ہوئی چیزیں، جرابیں اور زیر جامے بنولہ، بنولے کا آئل، کھلا صابن، کیمرے فلموں کا خام مال وغیرہ۔ ٭٭٭ برائے نرسنگ سپروائزر/نرسنگ سپرنٹنڈنٹ/میڈیکل ٹیکنیشن/ٹیلی فون آپریٹر وائرلیس آپریٹر/ایمبولینس کنٹرولر/ڈرائیور س: مختصراً تیمار داری کے بارے میں کچھ بتایئے؟ ج: تیمار داری اور احتیاط زندگیوں کو بچانے اور بیمار افراد کی صحت یابی، تحفظ اور بچاؤ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ سـ: نرسنگ کے طریق کار کیا ہیں؟ ج: نرسنگ کے طریق کار چار مرحلوں یعنی اندازہ لگانا، منصوبہ بندی کرنا، عملدرآمد کرنا اور تشخیص کرنا پر مشتمل ہیں اور یہ کہ نرس کوتاہی کا کوئی موقع فراہم نہ کرے اور مریض کی اور نرسنگ کی احتیاطی تدابیر کا پورا ریکارڈ تیار کیا جائے جو مریضوں اور ان کے ورثاء کی عمرانی اور نفسیاتی ضرورتوں پر اثر ڈالتی ہے۔ س: ڈاکٹر کے ایک مریض کے معائنے سے قبل ایک نرس کو یا نرسنگ سپروائزر کو کیا کرنا ہوتا ہے؟ ج: ڈاکٹر سے پہلے ایک نرس کو سر سے پاؤں تک ایک مریض کی حالت کا اندازہ لگانا چاہئے، تاکہ ڈاکٹر کو صحیح صورتحال جانچنے میں مدد دستیاب ہو۔ س: جدید نرسنگ کی بانی خاتون کا نام بتایئے؟ ج: فلورنس نائٹ/انگیل س: غزوہ بدر میں مسلمان خواتین نے کیا کیا؟ ج: مسلمان خواتین نے میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمار داری کرنے کے علاوہ انہیں طبی امداد فراہم کی۔ ایمرجنسی آبسٹریکٹو کیئر (E.O.C): دور حاضر میں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے سب سے اچھوتا اور جاندار تصور ہے۔ اس تصور کے تحت مختلف اندازوں میں صحت عامہ کے تحفظ کیلئے کام کیا جاتا ہے۔ اسی تصور کا ذیلی شعبہ Communication بھی ہے۔ یعنی انسان کو حادثات کی صورت میں بر وقت طبی امداد فراہم کرنا اور اسے ہسپتال منتقل کرنے کیلئے جو گاڑیاں استعمال کی جائیں۔ انہیں دور جدید کی تمام الیکٹرانک سہولیات سے لیس ہونا چاہیے تاکہ متعلقہ اداروں کو بروقت خبردار یا آگاہ کرتے ہوئے خمیوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس تصور کے تحت ایمبولینس گاڑیوں کو مندرجہ ذیل سہولیات سے لیس کیا جا رہا ہے: 1۔ ٹیلی فون 2۔ ایمبولینس 3۔ کمپیوٹر 4۔ انٹرنیٹ، فیکس موڈیم 5۔ جدید ترین ایمبولینس (یعنی بہترین انجن اور دیگر سہولیات والی گاڑی) لہٰذا اس پراجیکٹ کے تحت بھرتی ہونے والے افراد کو ایمبولینس میں ہی بطور ٹیلی فون، وائرلیس آپریٹر اور ٹیکنیشن کی حیثیت سے فرائض ادا کرنے ہوں گے۔ یعنی ان کا دفتر ایمبولینس گاڑی ہی ہو گی۔ لہٰذا اس سروس میں بھرتی ہونے والے افراد کو ایمبولینس اور ٹیلی فون وائرلیس آپریٹر کے فرائض سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو اس ملازمت کیلئے آمادہ کر سکیں۔ ایمبولینس کے فرائض: 1۔ مریض کو جائے حادثہ سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے ہسپتال تک پہنچانا۔ 2۔اطلاع ملتے ہی ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف کو لے کر جائے حادثہ کی طرف روانہ ہونا۔ 3۔ ایمرجنسی حادثات قدرتی آفات (سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ بیماری کا پھوٹنا) کی صورت میں متاثرہ مقام کی طرف روانہ ہونا اور وہاں پہنچ کر ضرورت مند افراد کو طبی امداد فراہم کرنا اور متاثرہ افراد کو ہسپتال منتقل کرنا۔ 4۔ ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے گاڑی میں ہر قسم کے طبی آلات، ادویات اور عملہ کا موجود ہونا۔ ایمرجنسی آلات میں آکسیجن سلنڈر، سکر، آئی وی لائنا، شکستگی کی صورت میں ہڈی کو مزید چوٹ سے محفوظ رکھنے والا، شکنجہ، اسٹریچر اور ادویات کا ایمرجنسی باکس وغیرہ شامل ہیں۔ 5۔ اگر جائے حادثہ پر دیگر متعلقہ ادارے نہیں پہنچے تو انہیں بذریعہ ٹیلی فون، وائرلیس، انٹرنیٹ اور دیگر دستیاب ذرائع کی مدد سے اطلاع بہم پہنچانا (نوٹ) یہ ذمہ داری صرف ایسی ایمبولیس نبھا سکتی ہے جس میں جدید ترین ذرائع ابلاغ اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔ ایمرجنسی ایمبولینس سروس کے حالیہ تصور کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرنا ایمبولینس کے بنیادی فرائض کے زمرے میں شمار ہو گی۔ 6۔ ایمرجنسی کی صورت میں جائے حادثہ پر پہنچ کر زخمیوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرتے ہوئے زخموں کی نوعیت کے مطابق اسے ہسپتال کی منتقل کرتے وقت دوران سفر ہی ہسپتال انتظامیہ کو اطلاع کرنا تاکہ وہ مریض کی دیکھ بھال کیلئے درکار انتظامات مکمل کر سکے۔ مثلاً ڈاکٹر کو بلانا، خون کا انتظام کرنا۔ ایمرجنسی آپریشن تھیٹر تیار کرنا، ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانا وغیرہ۔ اہم نکات: 1۔ ایمبولینس کو جائے حادثہ کی طرف جاتے ہوئے ہوٹر بجانے کی اجازت ہے۔ 2۔ ایمبولینس مریض یا زخمی کو ہسپتال لاتے وقت ہوٹر بجانے کی مجاز ہے۔ 3۔ میت کو منتقل کرتے وقت ایمبولینس ہوٹر بجانے کی مجاز نہیں ہے۔ 4۔ ایمبولینس ایمرجنسی کی صورت میں ٹریفک سگنل توڑ سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہوٹر بجائے۔ 5۔ ہسپتال کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد ہوٹر بجانے کی سختی سے ممانعت ہے۔ ٹیلی فون، وائرلیس کم کمپیوٹر آپریٹر: ایمرجنسی ایمبولینس سروس کے حالیہ نئے تصور کے مطابق ایمبولینس گاڑی دور حاضر کے تمام ممکنہ ذرائع بلاغ ابلاغ رکھتی ہو گی۔ جس کے ماتحت گاڑی میں کمپیوٹر، ٹیلی فون، وائرلیس اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات موجود ہوں گی۔ ان سہولیات سے استفادہ کرنے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں آج کل ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور وائرلیس کا نظام کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ ان سہولیات سے استفادہ کیلئے کمپیوٹر آپریٹر کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ملازمت کے حوالے سے اس کے فرائض کیا ہیں۔ ٹیلی فون، وائرلیس آپریٹر کے فرائض: 1۔ ایمبولینس کو موصول ہونے والی اطلاعات کو بروقت دوسرے ساتھیوں تک پہنچانا تاکہ گاڑی کسی قسم کا وقت ضائع کیے بغیر جائے حادثہ کی طرف روانہ ہو سکے۔ 2۔ ٹیلی فون پر اطلاع دینے والے شخص سے جائے حادثہ کا درست محل وقوع پوچھنا، راستہ اجنبی ہونے کی صورت میں راستہ پوچھ کر ڈرائیور کو مطلع کرنا۔ 3۔ جائے حادثہ پر پہنچ کر زخمیوں کی بہتر نگہداشت کیلئے انچارج کے حکم کے مطابق متعلقہ ہسپتالوںکو مطلع کرنا تاکہ وہ مریض کیلئے ضروری انتظامات مکمل کر سکیں۔ 4۔ جائے حادثہ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر امدادی اداروں کو اطلاع فراہم کرنا اور ان کی مدد حاصل کرنا۔ 5۔ کمپیوٹر نیٹ ورکنگ اور اس میں پیدا ہونے والے فنی نقائص کو دور کرنے کی صلاحیت کا مالک ہونا تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اچانک پیدا ہونے والے نقائص کو دور کرنے میں مدد مل سکے۔ 6۔ ٹیلی فون کے ذریعے رابط کرنے والے افراد کو درست معلومات فراہم کرنا۔ 7۔ کال کو متعلقہ شخص تک ٹرانسفر کرنا۔ 8۔ ایمرجنسی خدمات فراہم کرنے والے تمام اداروں کے ٹیلی فون نمبر اور متعلقہ شخصیات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا۔ میڈیکل ٹیکنیشن: میڈیکل ٹیکنیشن پیرامیڈیکل سٹاف کا اہم ترین رکن ہوتا ہے محکمہ صحت کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کے اسسٹنٹ کوٹیکنیشن کہتے ہیں۔ مثلاً پتھالوجی لیبارٹری میں کام کرنے والے ڈاکٹر کے اسسٹنٹ کو لیبارٹری ٹیکنیشن کہتے ہیں بالکل اسی طرح جنرل پریکٹیشنز ڈاکٹر کے اسسٹنٹ کو میڈیکل ٹیکنیشن کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ میڈیکل ٹیکنیشن پروفیشنل ڈپلومہ ہے۔ اس سیٹ کیلئے اپلائی کرنے والے افراد بنیادی طور پر پیشہ ور افراد ہوتے ہیں۔ مجوزہ سیٹوں پر میڈیکل ٹیکنیشن درخواست دینے کے اہل ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب ایمرجنسی ایمبولینس سروسز نے میڈیکل ٹیکنیشن کیلئے مندرجہ ذیل امور کے متعلق آگاہی رکھنا لازمی قرار دیا ہے: 1۔ ابتدائی طبی امداد دینے کا ماہر ہو۔ 2۔ زخموں کی مرہم پٹی کرنے کا ماہر ہو۔ 3۔ اے بی سی (Airway Breating Cardiac) یعنی سانس بحال کرنے کا عمل جانتا ہو۔ 4۔ ایمرجنسی انٹر اوینس تھراپی (Intera venus Theropy) کا ماہر ہو۔ 5۔ ہڈی ٹوٹنے کی صورت میں متاثرہ جگہ پر شکنجہ (Ring) چڑھانے کا ماہر ہو۔ تاکہ ٹوٹی ہوئی ہڈی حرکت نہ کر سکے۔ 6۔ میڈیکل ٹیکنیشن اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے تمام متعلقہ پروفیشنل معلومات پر عبور رکھتا ہو۔ تاکہ وہ ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو سنبھال سکے۔ مثلاً سر کے نیچے تکیہ رکھنا، ٹوٹی ہوئی ہڈی کو حرکت سے روکنا، فوری طبی امداد دینا وغیرہ۔ 7۔ میڈیکل ٹیکنیشن ایمرجنسی آلات، ان کے استعمال اور ان میں پیدا ہونے والے فنی نقائص کو کسی حد تک دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ 8۔ میڈیکل ٹیکنیشن یہ جانتا ہو کہ مریض کی صورتحال کے مطابق اسے کس ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو گا۔ ابتدائی طبی امداد: چوٹ کے لئے طبی امداد مہیا کرنے کیلئے اس کی درست تشخیص اور شدت کا اندازہ کرنے کے لئے اس کا بغور معائنہ اور چوٹ لگنے کے واقعات کا جاننا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر حادثوں میں لگنے والی چوٹوں کا علاج دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ 1۔ ابتدائی طریقہ نگہداشت 2۔ ثانوی طریقہ نگہداشت ابتدائی طریقہ نگہداشت کیلئے انگریزی کے لفظRiceکو علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یہ طریقہ درج ذیل ہے۔ ابتدائی طریقہ نگہداشت: 1۔Rest R آرام: چوٹ لگتے ہی کام یا حرکت سے دستبردار ہو جانا چاہئے کیونکہ چوٹ زدہ حصے کو استعمال کرنے ایسا کرنے سے چوٹ میں اضافے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں چوٹ کی صحت یابی میں تاخیر، درد میں مزید اضافہ اور خون بہنے کا عمل جاری رکھے گی۔ 2۔Ice Iبرف: جتنی جلدی ممکن ہو خشک برف کا پھایا (Dry Ice Pack) یا پلاسٹک کی تھیلی میں برف ڈال کر متاثرہ حصہ پر تولیہ یا کپڑا رکھ کر20منٹ کے عرصہ کیلئے ملیں اور چوٹ کی نوعیت کے مطابق24سے48 گھنٹے تک اس عمل کو ہر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے وقفہ سے دہرائیں۔ کیونکہ یکدم ٹھنڈک پہنچنے سے خون کی نالیاں سکڑنے سے نکلنے والا کون متاثرہ حصہ میں زیادہ مقدار میں جمع نہیں ہو پاتا۔ اس کے باوجود متاثرہ حصہ میں درد یا سوجن رہے تو دن میں تین بار15سے 20منٹ تک برف ملیں۔ سوجن پر قابو پالینے سے چوٹ کی جلد درست ہو جاتی ہے اور متاثرہ حصہ میں کم ’’ سکارٹشوز‘‘ پیدا ہونے سے اسی جگہ دوبارہ چوٹ لگنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ 3۔ Compression Cدباؤ: چوٹ کی شدت اور نوعیت کے مطابق چوٹ زدہ حصے پر24گھنٹوں سے لے کر پانچ دن تک مناسب دباؤ کے ساتھ ’’ کریپ ایلاسٹک بینڈ‘‘ Crepe Elastic Bandage یا عام پٹی باندھ دینی چاہئے۔ پٹی بہت زیادہ کس کر نہ باندھی جائے تاکہ اس حصہ میں خون کا دورہ بند نہ ہو۔ خون کادورہ بند یا کم ہو جانے کی صورت میں حصہ سن ہو جانا، پٹھے کا چڑھنا یا اس میں شدید درد ہو جانا ہے لہٰذا جس قدر جلد ممکن ہو پٹی باندھ دینی چاہئے۔ تاکہ زیادہ سوزش نہ ہونے پائے۔ چوٹ کی وجہ سے خون لمفLymphاور ارد گرد کے خلیوں سے نکلنے والا مواد چوٹ زدہ حصے میں پھیلنے سے ٹوٹی ہوئی بافتوں کے جڑ نے میں دیر ہو جاتی ہے۔ سوجن چوٹ زدہ حصہ میں ’’ اینٹی باڈیز‘‘ کو لانے میں بہت مفید ہوتی ہے لیکن اگر جلد میں زخم نہ ہوا ہو تو ’’ اینٹی باڈیز‘‘ کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ بافتوں، خون کی نالیوں اور لمفائی نالیوں کے پھٹ جانے سے نکلنے والا مواد ارد گرد کی بافتوں میں جم جاتا ہے جسے ’’ ہیماٹوما‘‘ یا گومڑ کہتے ہیں۔ 4۔ Elevation E اونچا اٹھانا۔ چوٹ زدہ حصہ کو دل کی سطح سے اونچا اٹھانے سے اس حصہ کی وریدوں میں خون کا دورہ بڑھ جاتا ہے جس سے متاثرہ حصوں کی بافتوں اور خون کی نالیوں کے پھٹ جانے سے باہر نکل آنیوالا مواد جمع نہیں ہو پاتا۔ دوسری صورت میں یہ مواد جمع ہو کر جم کر گومڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جبکہ سہارے کے لئے تکیہ یا کسی اور مناسب چیز کو استعمال کریں۔ 5۔ Support Sسہارہ دینا: متاثرہ حصے کو حرکت سے بچائیں لیکن اگر حرکت کرنا ضروری ہو تو اس حصے کو سہارا دیئے بغیر حرکت نہ دیں مثلاً بازو کی چوٹ میں گلے کی پٹی ’’ سلنگ‘‘ کھپاج اور ٹانگ کی چوٹ کی صورت میں بیساکھی یا چھڑی کا استعمال یا حفاظتی بند اور حفاظتی پٹی جبکہ ڈاکٹر کے مشورہ سے ’’ درد کش‘‘ ادویہ کا استعمال کیا جائے۔ سوزش کم ہونی شروع ہو جائے تو ثانوی طریقہ علاج فوراً اپنائیں۔ ثانوی طریقہ نگہداشت: 1۔ گرمائش Heat: متاثرہ حصے کو بیس منٹ کیلئے ہر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے وقفہ سے گرمائش پہنچائی جائے اور یہ عمل مکمل صحت یابی تک جاری رکھا جائے۔ کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے سے پیشتر حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے چند دنوں میں چوٹ زدہ حصے پر چپکنے والے پلاسٹر(Sticking Plaster) کی پٹی باندھ دی جائے۔ 2۔ متضاد غسل Contrast Bath: چوٹ زدہ حصے کو باری باری دو منٹ کیلئے گرم پانی اور پھر دو منٹ کیلئے ٹھنڈے پانی میں ڈالیں اور یہ عمل بیس منٹ تک جاری رہنا چاہئے۔ 3۔ برف کی مالش Ice Massage: ہر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے بعد بیس منٹ کیلئے برف کی مالش کی جائے۔ 4۔ سوجن دور کرنے والی ادویہ کا استعمال: تمام ایسی ادویہ صرف ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کرنی چاہئیں۔ یہ طریقہ علاج اپنانے سے مریض بہت جلد تندرست ہو جاتا ہے۔ مریض کی جلد از جلد بحالی (Rehablitation) کیلئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ 1۔ مکمل حرکت کے دائرہ کار کا حصول 2۔ عضلات کی کھوئی ہوئی طاقت کا حصول 3۔ حفاظتی اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر کام کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل کا استعمال اشد ضروری ہے: 1۔ ’’ لچک والی پٹی‘‘ 2۔ ’’ کمپریشن سلیو‘‘ 3۔ چوٹ زدہ حصہ پر چپکنے والی پٹی مخصوصی طریقہ سے باندھ لینا۔ 4۔ متاثرہ حصہ میں درد کا ختم ہو جانا۔ 5۔ مریض کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا۔ 6۔ چوٹ دوبارہ لگنے کے ڈر کو ختم کرنا۔ ہڈی کا ٹوٹنا ’’ فریکچر‘‘ Fractureـ: انسانی جسم میں206ہڈیاں ہوتی ہیں جو بے لچک اور ’’ کیلشیم ‘‘ کی بنی ہوئی ہیں اور جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں۔ یہ عضلات کیلئے’’ لیورز‘‘ (Levers) کا کام کرتی ہیں اور جسم کے اندرونی اعضاء کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کے اندر گودہ ہوتا ہے ج وخون کے سرخ خلیے بناتے ہیں۔ ہڈیاں جسم میں ’’ کیلشیم‘‘ (Calcium) اور ’’ فاسفورس‘‘ (Phosphurs) کا ذخیرہ کر لیتی ہیں۔ اگر ہڈی پر بہت زیادہ دباؤ پڑ جائے تو یہ ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ اکثر اوقات کھیل میں مخالف کھلاڑی کو بری طرح سے روکنے، سڑک پر چلتے چلتے گر پڑنے یا پاؤں زمین پر بار بار مارنے سے ٹوٹ سکتی ہے۔ ہڈی کی سطح کے ٹوٹنے یا اس میں دراڑ پڑنے کو فریکچر کہتے ہیں۔ ہڈی دو طرح سے ٹوٹتی ہے۔ پہلی قسم میں یہ ٹوٹ کر دو حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے جبکہ دوسری قسم میں ہڈی میں بال آ جاتا ہے لیکن یہ دو حصوں میں منقسم نہیں ہوتی مثلاً’’ گرین سٹک فریکچر‘‘ (Green Stick Fracture) اور ’’ سٹرس فریکچر‘‘ (Stress Fracture) ہڈی کی پہلی قسم کی شکستگی انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ہڈی کے ٹوٹے ہوئے نوکیلے سروں میں بہت ساری عصبی نسیں ہوتی ہیں۔ جب یہ آپس میں یا دوسرے ریشوں سے رگڑ کھاتی ہیں تو یہ شدید درد کا موجب بنتی ہیں۔ اور ان میں درد اور سوجن کافی عرصہ تک یعنی ہفتوں اور مہینوں تک رہتی ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر مریض کو درد کش دوا متواتر دیتے رہتے ہیں زخمی شخص کی ابتدائی دیکھ بھال بڑی احتیاط سے کریں کیونکہ ہڈی کے نوکیلے سرے اگر کسی عصبی نس کو کاٹ دیں تو یہ اسے تمام عمر کے لئے مفلوج کر سکتے ہیں یا خون کی کسی نالی کے کٹ جانے سے خون کا بہت ضیاں ہو سکتا ہے یا جلد کو پھاڑ سکتے ہیں جس کے ذریعے جراثیم جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ ہڈی کے ٹوٹنے کیلئے کافی مقدار میں دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم بڑی عمر کے لوگوں کی ہڈیاں بہت ہی بے لچک اور کمزور ہو جاتی ہیں اور ہلکے سے دباؤ سے ٹوٹ جاتی ہیں اس کے مقابلے میں بچوں کی ہڈیاں بہت نرم اور لچک دار ہوتی ہیں اور چوٹ لگنے سے ٹوٹنے کی بجائے اکثر ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ ہڈی ٹوٹنے کی نشانیاں و علامات: 1 ۔ زخمی شخص کو ہڈی ٹوٹنے کا احساس ہوتا ہے یا اس کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ 2۔ ہڈی ٹوٹنے کی جگہ پر نہایت شدید درد ہوتا ہے اور اس جگہ سوجن ہو جاتی ہے۔ 3۔ اعضاء کو حرکت دینے میں تکلیف ہوتی ہے اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ 4۔ اعضاء کی قدرتی شکل میں تبدیلی آ جاتی ہے اور یہ بد وضع ہو جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ہڈیوں کے سرے ایک دوسرے پر چڑھ جانے سے ان اعضاء کی لمبائی کم ہو جاتی ہے۔ 5۔ حرکت دینے اور شکستہ ہڈیوں کی آپس میں رگڑ کھانے سے رگڑ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کی عملی جانچ کیلئے ایسا کبھی نہیں کرنا چاہئے۔ 6۔ چپٹی ہڈی اندر کے جانب دھنس جاتی ہے اور گڑھا سا بن جاتا ہے۔ 7۔ کھلے زخم سے وابستہ شکستگی ’’ اوپن فریکچر‘‘ (Open Fracture) کی صورت میں ہڈیوں کے سرے صاف نظر آتے ہیں۔ 8۔ اکثر اوقات صدمے کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔ 1۔ ’’ کومی نیٹڈ فریکچر‘‘ :ہڈی ٹوٹ کر تین یا اس سے زیادہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ بلا واسطہ چوٹ لگنے سے پیدا ہوتا ہے۔ 2۔ ’’ ڈیپر یسڈ فریکچر‘‘ : چپٹی ہڈیوں کو چوٹ لگے تو وہ اندر کی جانب دھنس جاتی ہیں مثلاً کھوپڑی یا کولھے کی ہڈیاں۔ اس طرح کی شکستگی میں ہڈیوں کے اندر نرم بافتوں کو چوٹ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ 3۔ ’’ گرین سٹک فریکچر‘‘ : چوٹ لگنے سے چھوٹے بچوں کی ہڈیاں مکمل طور پر ٹوٹنے کے بجائے ٹیڑھی ہو جاتی ہیں اور ان میں ایک طرف دراڑ پڑ جاتی ہے۔ 4۔ ’’ امپیکٹڈ فریکچر‘‘ : اس طرح کی شکستگی لمبی ہڈیوں میں ہوتی ہے۔ اونچی جگہ سے کودنے سے ہڈی کے ٹوٹے ہوئے دونوں سرے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ 5۔ ’’ ملٹی پل فریکچر‘‘ : یہ اصطلاح کسی ایسے فریکچر کیلئے استعمال ہوتی ہے جس میں ایک ہی ہڈی ایک سے زیادہ جگہ سے یا مختلف ہڈیاں ایک ساتھ ٹوٹ جاتی ہیں۔ 6۔’’ لانگی ٹیوڈنل فریکچر‘‘ : اس میں لمبائی کے رخ ہڈی میں دراڑ اور تھوڑا سا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ 7۔ ’’ اوبلیق فریکچر‘‘ : اس میں ہڈی و تری رخ پر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرز کی شکستگی میں حرکت سے عصبی ریشوں یا خون کی نالیوں کو نوکیلے سروں کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتا ہے اور معمولی سی غفلت اسے اوپن فریکچر میں تبدیل کر سکتی ہے۔ 8۔ ’’ سپریل فریکچر‘‘ : اس میں ہڈی سیدھی ٹوٹنے کی بجائے انگریزی کے حرف ’’ ایس‘‘ کی شکل میں ٹوٹ جاتی ہے۔ جب پاؤں مضبوطی سے زمین پر جمے ہوئے ہوں اور گھومنے والی طاقت مخالف سمت میں استعمال کی جائے تو اس قسم کا فریکچر ہوتا ہے۔ 9۔ ’’ سٹریس فریکچر‘‘ ـ: اس میں کمزور اور بیمار شخص یا عضلات کے شدت سے سکڑنے سے ہڈی کی سطح میں معمولی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ 10۔ ’’ ٹرانسورس فریکچر‘‘ : ہڈی اپنی لمبائی کے رخ بالکل قائمہ زاویہ کی شکل میں ٹوٹ کر تقسیم ہو جاتی ہے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو نیشنل ہائی ویز/موٹروے پولیس قومی شاہرات پاکستان کی شاہرات کی کل لمبائی 255,856کلو میٹر عالمی معیار کی شاہرات کی لمبائی 157,975کلو میٹر نچلے درجے کی پختہ شاہرات 97,881 کلو میٹر شاہرات کی تعمیر کی سالانہ شرح ترقی 1.5فیصد شاہرات کی تعمیر و دیکھ بھال کا سب سے بڑا قومی ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این، ایچ، اے) این ایچ اے کے زیر انتظام شاہرات کے کوڈ نیم: موٹروے شاہرات M دیگر قومی شاہرات N مثلاً لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد موٹروے کا نیم M-2 ہے اسی طرح انڈس ہائی وے کا کوڈ نیم N-55 ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام تمام شاہرات کو کوڈ نیم سے لکھا اور جانا جاتا ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام اہم شاہرات کی لمبائی اور کوڈ نیم حسب ذیل ہیں۔ شاہرات لمبائی کوڈ نیم کراچی، لاہور، پشاور، طورخم ہائی وے1 N-5 مکران کوسٹل ہائی وے2 کلو میٹر653 N-10 کاغان وادی روڈ3 کلو میٹر175 N-15 کراچی خضدار، کوئٹہ، چمن ہائی وے4 کلومیٹر816 N-25 حسن ابدال، گلگت، خنجراب روڈ5 803کلو میٹر N-35 6لک پاس دالبندین نوکنڈی تفتان روڈ 610کلو میٹر N-40 7نوشہرہ، دیر، چترال ہائی وے 309کلو میٹر N-45 8کوئٹہ کچلک، مسلم باغ، ژوب شاہرہ 528کلو میٹر N-50 9انڈس ہائی وے 1265کلو میٹر N-55 10سکھر، سبی کوئٹہ ہائی وے 385کلومیٹر N-65 11 اسلام آباد،مظفر آباد روڈ 90کلو میٹر N-75 موٹروے پراجیکٹس 1اسلام آباد پشاور موٹروے 154کلو میٹر M-1 2لاہور اسلام آباد راولپنڈی موٹروے 367کلو میٹر M-2 3پنڈی بھٹیاں فیصل آباد موٹروے 52کلو میٹر M-3 4 کراچی حیدر آباد موٹروے M-8 نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی دیگر اہم شاہرات اور منصوبہ جات 1۔ کراچی نادرن بائی پاس 56.8کلو میٹر 2ْ۔ لیاری ایکسپریس وے 16.6کلو میٹر 3۔ بند روڈ، لاہور 4۔ کوہاٹ ٹنل لمک روڈ 7.5کلو میٹر 5۔ سکھر بائی پاس 11.5کلو میٹر 6۔ ٹل پارا چنار روڈ 75کلو میٹر 7۔ خضدار تا کھوڑی روڈ 8۔ ایبٹ آباد اربن ایریا پراجیکٹ 9۔ راولپنڈی اربن ایریا پراجیکٹ 10۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے قائم کردہ ٹول پلازے ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو لیکچرار فزیکل ایجوکیشن/فزیکل ٹیچرز/سپورٹس بورڈ وزارت کھیل اور دیگر تمام انٹرویوز اولمپکس عالمی سطح پر کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ گرمائی اولمپکس ہیں۔ جو ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ موسم گرما کے جدیداولمپک کھیلوں کا آغاز قدیم یونان میں ہونیوالے کھیلوں کے اولمپک مقابلوں کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے ہوا۔ پہلے جدید اولمپک کھیل یونان کے دار الحکومت ایتھنز میں1896ء میں منعقد ہوئے۔ ابھی تک ہونیوالے اولمپکس کھیلوں میں کم و بیش سبھی ممالک شرکت کرتے ہیں۔ سرمائی اولمپکس کا آغاز1924ء میں ہوا۔ ان کھیلوں کا انعقاد بھی ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ گرمائی اولمپکس نمبر شمار سال شہر ملک 1 1896ء ایتھنز یونان 2 1900ء پیرس فرانس 3 1904ء سینٹ لوئیس امریکہ 4 1906ء ایتھنز یونان 5 1908ء لندن برطانیہ 6 1912ء سٹاک ہوم سویڈن 7 1920ء اینٹورپ بیلجیم 8 1924ء پیرس فرانس 9 1928ء ایمسٹرڈیم ہالینڈ 10 1932ء لاس اینجلس امریکہ 11 1936ء برلن جرمنی 12 1948ء لندن برطانیہ 13 1952ء پیلسنکی فن لینڈ 14 1956ء میلبورن آسٹریلیا 15 1960ء روم اٹلی 16 1964ء ٹوکیو جاپان 17 1968ء میکسیکو سٹی میکسیکو 18 1972ء میونخ جرمنی 19 1976ء مانٹریال امریکا 20 1980ء ماسکو روس 21 1984ء لاس اینجلس امریکہ 22 1988ء سیئول جنوبی کوریا 23 1992ء بارسلونا سپین 24 1996ء اٹلانٹا امریکہ 25 2000ء سڈنی آسٹریلیا 26 2004ء ایتھنز یونان 27 2008ء بیجنگ چین 2004ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اپنی برتری برقرار رکھی جب کہ چین نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ 1980ء میں ہونیوالے ماسکو اولمپک کھیلوں کے مقابلوں کا دنیا کے اکثر ممالک نے بائیکاٹ کیا تھا۔ یہ واحد اولمپک تھا جس میں امریکہ شریک نہ تھا۔ اولمپک کھیلوں میں ہمیشہ امریکہ نے اول پوزیشن حاصل کی۔ سرمائی اولمپک کھیلیں سرمائی اولمپک کھیلیں ہر چار سال بعد منعقد کی جاتی ہے۔ پہلے سرمائی اولمپکس فرانس کے شہر میتمونکس میں منعقد ہوئے۔ جبکہ آخری سرمائی اولمپک امریکی شہر سالٹ لیک سٹی میں منعقد ہوئیں۔ ان مقابلوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ نمبر شمار سال نام شہر 1 1924ء میتمونکس 2 1928ء سینٹ مورٹز 3 1932ء لیک پلاسڈ 4 1936ء گیرمیش ہارٹینکرچ 5 1948ء سینٹ مورٹر 6 1952ء اوسلو 7 1956ء کورٹینا امیپزد 8 1960ء سکواڈ ویلی 9 1964ء انس لرک 10 1968ء گرنیوبل 11 1972ء سسا پارو 12 1976ء انس لرک 13 1980ء لیک پلاسڈ 14 1984ء سراجیوویو گوسلاویہ 15 1992ء البرٹی وائل دنیا کے دیگر اہم ٹورنا منٹس اولمپک دنیا کی کھیلوں کا سب سے اہم اور بڑا ایونٹ ہے۔ اس کے بعد کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ فٹ بال (سوکر) کا ہر چار سال بعد منعقد ہونیوالا ٹورنامنٹ ہے۔ ایشیائی کھیلیں، سیف گیمز، کرکٹ ورلڈ کپ، ہاکی ورلڈ کپ، ویمبلڈن ٹینس ٹورنا منٹ، اسکوائش، ورلڈ چیمپئن شپ، سنوکر، ورلڈ چیمپئن شپ، والی بال، باسکٹ بال ورلڈ کپ، وغیرہ اہم ایونٹ ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ فیفا، فٹ بال کی عالمی فیڈریشن اس کا انتظام کرتی ہے۔ فٹ بال کا پہلا ورلڈ کپ 1930ء میں ہوا۔ جس میں یورا گوئے کی ٹیم فاتح بنی جبکہ آخری ورلڈ کپ فٹ بال مقابلہ 2002ء میں منعقد ہوا۔ جو برازیل نے جیتا۔ فٹ بال واحد کھیل ہے جس کی گیند برازیل کے جھنڈے پر بنی ہوئی ہے۔ اس تک ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ مقابلوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ نمبر شمار سال فاتح ملک 1 1930ء یوراگوئے 2 1934ء اٹلی 3 1938ء اٹلی 4 1950ء یوراگوئے 5 1954ء مغربی جرمنی 6 1958ء برازیل 7 1962ء برازیل 8 1966ء برطانیہ 9 1970ء برازیل 10 1974ء جرمنی 11 1978ء ارجنٹائن 12 1982ء اٹلی 13 1986ء جرمنی 14 1990ء جرمنی 15 1994ء برازیل 16 1998ء فرانس 17 2002ء برازیل ٭٭٭ ورلڈ کپ ہاکی مقابلے 1971ء میں پہلا ٹورنامنٹ بارسلونا سپین میں کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ میں ہاکی کے اہم ممالک حصہ لیتے ہیں۔ ہر چار سال بعد یہ ٹورنا منٹ کھیلا جاتا ہے۔ پاکستان چار مرتبہ ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ جیت چکا ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ 1971ء پاکستان 1978ء پاکستان 1982ء پاکستان 1994ء پاکستان ورلڈ کپ ہاکی سال مقام میزبان ملک فاتح ملک رنر اپ ملک 1971 بارسلونا سپین پاکستان سپین 1973 ایمسٹر ڈیم نیدر لینڈز نیدر لینڈز بھارت 1975 کولا لمپور ملائیشیا بھارت پاکستان 1978 بیونس آئرس ارجنٹائن پاکستان نیدر لینڈز 1982 بمبئی بھارت پاکستان مغربی جرمنی 1986 لندن انگلستان نیدر لینڈز پاکستان 1990 لاہور پاکستان نیدر لینڈز پاکستان 1994 سڈنی آسٹریلیا پاکستان نیدر لینڈز 1998 اتریخٹ نیدر لینڈز نیدر لینڈز سپین 2002 کوالا مپور ملائیشیا جرمنی آسٹریلیا 2006 برلن جرمنی - - اولمپک ہاکی چیمپئن شپ سال مقام میزبان ملک فاتح ملک 1908 لندن برطانیہ برطانیہ 1920 انٹورپ بیلجیم برطانیہ 1928 ایمسٹر ڈم نیدر لینڈ بھارت 1932 لاس اینجلس امریکہ بھارت 1936 برلن جرمنی بھارت 1948 لندن برطانیہ بھارت 1952 ہیلسنکی فن لینڈ بھارت 1956 ملبورن آسٹریلیا بھارت 1960 روم اٹلی پاکستان 1964 ٹوکیو جاپان بھارت 1968 میکسیکو میکسیکو پاکستان 1972 میونخ مغربی جرمنی مغربی جرمنی 1976 مانٹریال کینیڈا نیوزی لینڈ 1980 ماسکو روس بھارت 1984 لاس اینجلس امریکہ پاکستان 1988 سیول جنوبی کوریا برطانیہ 1992 بارسلونا سپین جرمنی 1996 اٹلانٹا امریکہ نیدر لینڈز 2000 سڈنی آسٹریلیا نیدر لینڈز 2004 ایتھنز یونان آسٹریلیا 2008 بیجنگ چین - ورلڈ چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنا منٹ سال مقام میزبان ملک فاتح ملک رنر اپ ملک 1978 لاہور پاکستان پاکستان آسٹریلیا 1980 کراچی پاکستان پاکستان جرمنی 1981 کراچی پاکستان نیدر لینڈز آسٹریلیا 1982 ایمسٹر ڈم نیدر لینڈز نیدر لینڈز آسٹریلیا 1983 کراچی پاکستان آسٹریلیا پاکستان 1984 کراچی پاکستان آسٹریلیا پاکستان 1985 پرتھ آسٹریلیا آسٹریلیا برطانیہ 1986 کراچی پاکستان جرمنی آسٹریلیا 1987 ایمسٹر ڈم نیدر لینڈز جرمنی نیدر لینڈ 1988 لاہور پاکستان جرمنی پاکستان 1989 برلن جرمنی آسٹریلیا نیدر لینڈ 1990 میلبورن آسٹریلیا آسٹریلیا نیدر لینڈ 1991 برلن جرمنی جرمنی پاکستان 1992 کراچی پاکستان جرمنی آسٹریلیا 1993 کوالا لمپور ملائیشیا آسٹریلیا جرمنی 1994 لاہور پاکستان پاکستان جرمنی 1995 برلن جرمنی جرمنی آسٹریلیا 1996 چنائی بھارت ہالینڈ پاکستان 1997 ایڈیلڈ آسٹریلیا جرمنی پاکستان 1998 لاہور پاکستان ہالینڈ پاکستان 1999 برسبین آسٹریلیا آسٹریلیا جنوبی کوریا 2000 ایمسٹلوین نیدر لینڈز نیدر لینڈز جرمنی 2001 راٹرڈم نیدر لینڈز جرمنی آسٹریلیا 2002 کولون جرمنی نیدر لینڈز جرمنی 2003 ایمسٹر ڈم نیدر لینڈز نیدر لینڈز آسٹریلیا ایشیائی کھیلیں اولمپک طرز پر بر اعظم ایشیا کے ممالک ان کھیلوں میں ہر چار سال بعد حصہ لیتے ہیں۔ پہلی ایشیائی کھیلیں1951ء میں دہلی میں منعقد کی گئیں۔ جبکہ14 ویں ایشیائی کھیلیں جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں منعقد ہوئیں۔ جس میں پاکستان نے ایک گولڈ چاندی کے 6 اور کانسی کے 6 تمغے حاصل کئے تھے۔ ذیل میں صرف ہاکی چیمپئن شپ کے اعداد و شمار دیئے جا رہے ہیں۔ سال مقام میزبان ملک فاتح مک رنر اپ ملک 1951 نئی دہلی بھارت بھارت پاکستان 1954 منیلا فلپائن بھارت پاکستان 1958 ٹوکیو جاپان پاکستان بھارت 1962 جکارتا انڈونیشیا پاکستان بھارت 1966 بنکاک تھائی لینڈ بھارت پاکستان 1970 بنکاک تھائی لینڈ پاکستان بھارت 1974 تہران ایران پاکستان بھارت 1978 بنکاک تھائی لینڈ پاکستان بھارت 1982 نئی دہلی بھارت پاکستان بھارت 1986 سیئول جنوبی کوریا جنوبی کوریا پاکستان 1990 بیجنگ چین پاکستان بھارت 1994 ہیروشیما جاپان جنوبی کوریا بھارت 1998 بنکاک تھائی لینڈ بھارت جنوبی کوریا 2002 بوسان جنوبی کوریا جنوبی کوریا بھارت 2006 - - - - کرکٹ ورلڈ کپ ون ڈے کرکٹ کا عالمی ٹورنا منٹ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے۔ سب سے پہلا کرکٹ ٹورنا منٹ1975ء میں برطانیہ میں منعقد ہوا۔ جس کی فاتح ٹیم ویسٹ انڈیز تھی۔ آخری ٹورنا منٹ2003ء میں جنوبی افریقہ زمبابوے اور کینیا میں منعقد ہوا۔ کرکٹ ورلڈ کپ مقابلوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ نمبر شمار سال میزبان فاتح ملک دوسرے نمبر پر آنے والا ملک 1 1975 برطانیہ ویسٹ انڈیز آسٹریلیا 2 1979 برطانیہ ویسٹ انڈیز برطانیہ 3 1983 برطانیہ انڈیا ویسٹ انڈیز 4 1987 پاکستان، بھارت آسٹریلیا برطانیہ 5 1992 آسٹریلیا پاکستان برطانیہ 6 1996 پاکستان، بھارت، سری لنکا سری لنکا آسٹریلیا 7 1999 برطانیہ، سکاٹ لینڈ آسٹریلیا پاکستان 8 2003 جنوبی افریقہ، زمبابوے کینیا آسٹریلیا بھارت 9 2007 ویسٹ انڈیز - - آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنا منٹ سال مقام میزبان ملک فاتح ملک 1998 ڈھاکا بنگلہ دیش جنوبی افریقہ 2000 نیروبی کینیا نیوزی لینڈ 2002 کولمبو سری لنکا انڈیا، سری لنکا 2004 اوول انگلینڈ ویسٹ انڈیز سکوائش سکوائش وہ پہلا کھیل ہے جس میں پاکستان نے پہلی بار کوئی عالمی اعزاز حاصل کیا پاکستان کے لئے یہ اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑی دنیائے سکوائش کے بے تاج بادشاہ ہاشم خان تھے۔ ہاشم خان جب پہلی بار برٹش سکوائش ٹورنامنٹ جیت کر پاکستان پہنچے تو کراچی ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین بھی شامل تھے۔ ذیل میں برٹش اوپن سکوائش چیمپئن شپ کے ریکارڈ دیئے جا رہے ہیں۔ سال فاتح کھلاڑی فاتح ملک رنر اپ کھلاڑی رنر اپ ملک 1948 ایم اے کریم مصر جے پی ایس ٹی جی برطانیہ 1949 ایم اے کریم مصر بی سی فلپس برطانیہ 1950 ایم اے کریم مصر اے باری بھارت 1951 ہاشم خان پاکستان ایم اے کریم مصر 1952 ہاشم خان پاکستان ایم اے کریم مصر 1953 ہاشم خان پاکستان آر بی آرولسن برطانیہ 1954 ہاشم خان پاکستان اعظم خان پاکستان 1955 ہاشم خان پاکستان اعظم خان پاکستان 1956 ہاشم خان پاکستان روشن خان پاکستان 1957 روشن خان پاکستان ہاشم خان پاکستان 1958 ہاشم خان پاکستان اعظم خان پاکستان 1959 اعظم خان پاکستان محب اللہ خان پاکستان 1960 اعظم خان پاکستان روشن خان پاکستان 1961 اعظم خان پاکستان محب اللہ خان پاکستان 1962 اعظم خان پاکستان محب اللہ خان پاکستان 1963 محب اللہ خان پاکستان اے ابو طالب مصر 1964 اے ابو طالب مصر ایم اے آڈی سکاٹ لینڈ 1965 اے ابو طالب مصر آئی۔ این مصر 1966 اے ابو طالب مصر آفتاب جاوید پاکستان 1967 جی پی بیرنگٹن آئرلینڈ آفتاب جاوید پاکستان 1968 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ اے ابو طالب مصر 1969 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ سی نین کیرو آسٹریلیا 1970 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ جیف ہنٹ آسٹریلیا 1971 جے پی بیرنگٹن آئرلینڈ آفتاب جاوید پاکستان 1972 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ جیف ہنٹ آسٹریلیا 1973 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ گوگی علاؤ الدین پاکستان 1974 جے پی بیرنگٹن آئر لینڈ ایم یاسین پاکستان 1975 قمر الزمان پاکستان گوگی علاؤ الدین پاکستان 1976 جیف ہنٹ آسٹریلیا محب اللہ خان پاکستان 1977 جیف ہنٹ آسٹریلیا سی نین کیرو آسٹریلیاٍ 1978 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1979 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1980 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1981 جیف ہنٹ آسٹریلیا جہانگیر خان پاکستان 1982 جہانگیر خان پاکستان ھدی جہاں پاکستان 1983 جہانگیر خان پاکستان جواد مصر 1984 جہانگیر خان پاکستان قمر الزماں پاکستان 1985 جہانگیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1986 جہانگیر خان پاکستان راس نارمن نیوزی لینڈ 1987 جہانگیر خان پاکستان جان شیر خان پاکستان 1988 جہانگیر خان پاکستان روڈنی مارٹن آسٹریلیا 1989 جہانگیر خان پاکستان روڈنی مارٹن آسٹریلیا 1990 جہانگیر خان پاکستان روڈنی مارٹن آسٹریلیا 1991 جہانگیر خان پاکستان جان شیر خان پاکستان 1992 جان شیر خان پاکستان کرس رابرٹن آسٹریلیا 1993 جان شیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1994 جان شیر خان پاکستان پریٹ مارٹن آسٹریلیا 1995 جان شیر خان پاکستان پیٹر مارشل انگلینڈ 1996 جان شیر خان پاکستان روڈنی آئلز آسٹریلیا 1997 جان شیر خان پاکستان پیٹر نکول سکاٹ لینڈ 1998 پیٹر نکول سکاٹ لینڈ جان شیر خان پاکستان 2000 ڈیوڈ ایوانز برطانیہ پال پرانس آسٹریلیا 2001 ڈیوڈ پامر آئرلینڈ 2002 پیٹر نکول سکاٹ لینڈ 2003 ڈیوڈ پامر آئر لینڈ ورلڈ اوپن سکوائش چیمپئن شپ سال فاتح کھلاڑی فاتح ملک رنر اپ کھلاڑی رنر اپ ملک 1975 جیف ہنٹ آسٹریلیا محب اللہ خان پاکستان 1976 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1979 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1980 جیف ہنٹ آسٹریلیا قمر الزماں پاکستان 1981 جہانگیر خان پاکستان جیف ہنٹ آسٹریلیا 1982 جہانگیر خان پاکستان ڈین ولیمز آسٹریلیا 1983 جہانگیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1984 جہانگیر خان پاکستان قمر الزماں پاکستان 1985 جہانگیر خان پاکستان راس نارمن نیوزی لینڈ 1986 راس نارمن نیوزی لینڈ جہانگیر خان پاکستان 1987 جان شیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1988 جہانگیر خان پاکستان جان شیر خان پاکستان 1989 جان شیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1990 جان شیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1991 روڈنی مارٹن آسٹریلیا جہانگیر خان پاکستان 1992 جان شیر خان پاکستان کرس ڈٹمار آسٹریلیا 1993 جان شیر خان پاکستان جہانگیر خان پاکستان 1994 جان شیر خان پاکستان پیٹر مارشل انگلینڈ 1995 جان شیر خان پاکستان ڈیل ہیرس انگلینڈ 1996 جان شیر خان پاکستان روڈنی آئلز آسٹریلیا 1997 روڈنی آئلز آسٹریلیا پیٹر نکول سکاٹ لینڈ 1998 جوناتھن پاور کینیڈا پیٹر نکول سکاٹ لینڈ 1999 پیٹر نکول سکاٹ لینڈ احمد بریدا مصر 2002 ڈیوڈ پامر آسٹریلیا جان وائٹ سکاٹ لینڈ 2003 امر شبانہ مصر لنتھو فرانس کھیلوں کی مشہور ٹرافیاں نام ٹرافی کھیل اور ملک کا نام نام ٹرافی کھیل اور ملک کا نام آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کرکٹ اذلان شاہ کپ ہاکی آئزن ہاور ٹرافی گالف (ورلڈ یمچور) امریکن کپ کشتی دوڑ بین الاقوامی اوبر کپ ورلڈ بیڈ منٹن (خواتین) ایشنز دی کرکٹ (مابین آسٹریلیا اور برطانیہ) ایشیا کپ تیر اندازی (بھارت اور چین) ایپسن ٹرافی گھوڑ دوڑ برطانیہ اندرا گاندھی گولڈ کپ خواتین ہاکی (بھارت) بیٹن کپ ہاکی (بھارت) بیویو کپ ہوائی جہازوں کا مقابلہ پرنس آف ویلز کپ گالف (برطانیہ) تنکو عبدالرحمن کپ بیڈ منٹن (ایشیائ) تھامس کپ بیڈ منٹن (ورلڈ) جولز ریمے ٹرافی ورلڈ ساکر چیمپئنز ٹرافی ہاکی (متعدد ممالک کے مابین مقابلے) ڈربی گھوڑ دوڑ (بین الاقوامی) ڈیورنڈ کپ فٹ بال (آل راؤنڈ) ڈیوس کپ لان ٹینس (بین الاقوامی) رانجی ٹرافی کرکٹ (بھارت) راتھمین کپ کرکٹ (شارجہ) رائیڈرز کپ گالف پاکستان ریلائنس ورلڈ کپ کرکٹ سویتھلنگ ورلڈ ٹیبل ٹینس (مرد) شارجہ کپ کرکٹ شینڈر کپ بحری جہازوں کی دوڑ (برطانیہ) قائد اعظم ٹرافی کرکٹ (پاکستان) صحارا کپ کرکٹ کاربلین کپ ورلڈ ٹیبل ٹینس (خواتین) فیڈریشن کپ ٹینس (امریکہ) لائٹ مین کپ لان ٹینس (خواتین) کنگز کپ ہوائی جہاز کی دوڑ مردیکا کپ فٹ بال (ایشیائ) کولمبو کپ فٹ بال (میانمر) واکر کپ گالف (انگلستان) کینیڈا کپ گالف وائٹ مین کپ لان ٹینس خواتین گرینڈ نیشنل ہارس سٹیبل چیز ریس ورلڈ کپ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال ویسٹ چیسٹر پولو(انگلستان) ویمبلڈن لان ٹینس (انگلستان) ممالک اور ان کے قومی کھیل ملک کا نام قومی کھیل ملک کا نام قومی کھیل پاکستان ہاکی بھارت ہاکی آسٹریلیا کرکٹ سپین بل فائٹنگ سکاٹ لینڈ رگبی (فٹ بال) برطانیہ کرکٹ جاپان جوڈو کراٹے امریکہ بیس بال کینیڈا آئس ہاکی چین ٹیبل ٹینس برازیل فٹ بال سعودی عرب فٹ بال کھیل اور ان کے میدان نام کھیل میدان نام کھیل میدان آئس ہاکی رنک باسکٹ بال کورٹ باکسنگ رنگ بیڈ منٹن کورٹ بیس بال دی بیٹر باکس شطرنج مربع بورڈ والی بال کورٹ کرلنگ برف کا ٹکڑا گاف کورس ریسلنگ رنگ ہینڈ بال کورٹ ٹینس لان کورٹ بلیئرڈ میز سکوائش کورٹ کھیل اور مقامات مقام نام ملک کھیل قذافی سٹیڈیم پاکستان کرکٹ نیشنل سٹیڈیم پاکستان کرکٹ ہاکی کلب پاکستان ہاکی لیاقت جمنازیم پاکستان اتھلیٹکس بروک لینڈ انگلستان فٹ بال بلیک ہیلتھ انگلستان رگبی فٹ بال پٹنی انگلستان بوٹنگ چیپاک گراؤنڈ چنائی (بھارت) کرکٹ ڈینچسٹر سینٹ لیجر(انگلستان) گھڑ دوڑ سپرڈور نیو اورلینز فٹ بال اوول انگلستان کرکٹ ایپسن ڈربی انگلستان گھڑ دوڑ اینٹری انگلستان گھڑ دوڑ ایڈن گارڈن کلکتہ (بھارت) کرکٹ سیندور چترال (پاکستان) پولو فارسٹ بل امریکہ ٹینس فیرو شاہ کوٹلہ دہلی (بھارت) کرکٹ فورٹریس سٹیڈیم لاہور(پاکستان) کرکٹ قذافی سٹیڈیم لاہور (پاکستان) کرکٹ لیڈز/لارڈ انگلستان کرکٹ نیشنل سٹیڈیم لاہور(پاکستان) ہاکی یانکی سٹیڈیم امریکا باکسنگ ہینلے انگلستان بوٹ ریس ہرلنگھم انگلستان پولو ویمبلڈن انگلستان لان ٹینس ویمبلے انگلستان فٹ بال نصیر بندہ ہاکی سٹیڈیم اسلام آباد (پاکستان) ہاکی مراکانا رائیوڈی جنیر (برازیل) فٹ بال سیف گیمز نمبر شمار سال انعقاد میزبان ملک فاتح ملک 1 1984ء نیپال بھارت 2 1985ء بنگلہ دیش بھارت 3 1987ء بھارت بھارت 4 1989ء پاکستان بھارت 5 1991ء سری لنکا بھارت 6 1993ء بنگلہ دیش بھارت 7 1995ء بھارت بھارت 8 1996ء نیپال بھارت 9 2004 پاکستان بھارت ٭٭٭ کھیلوں سے متعلق اہم سوالات و جوابات س: کونسا ملک چار بار ہاکی عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے؟ ج: پاکستان س: پاکستان کے اس مشہور کھلاڑی کا نام بتائیے جس نے دس بار برٹس اوپن چیمپئن شپ جیتی؟ ج: جہانگیر خان س: ورلڈ کپ فٹ بال فائنل 2002ء کا مین آف دی میچ کونسا کھلاڑی تھا؟ ج: برازیل کے مشہور فارورڈ رونالڈو۔ س: کونسا ملک فٹ بال کا پانچ بار عالمی چیمپئن بننے کا منفرد اعزاز حاصل کر چکا ہے؟ ج: برازیل س: باکسنگ کے اس کھلاڑی کا نام بتائے جس نے اپنا چھینا ہوا اعزاز تین دفعہ حاصل کیا؟ ج: مشہور باکسر محمد علی س: جدید اولمپک سب سے پہلے کس شہر میں منعقد کئے گئے؟ جـ: ایتھنز یونان س: پاکستان کے اس کھلاڑی کا نام بتایئے جس نے 94 میں ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ جیتی تھی؟ ج: محمد یوسف س: 1994ء میں پاکستان کو کھیلوں کا عالمی چیمپئن بنا۔ انفرادی ایونٹس میں چیمپئن بننے والے کھلاڑیوں اور جیتنے والی ٹیموں کے کپتانوں کے نام بتایئے؟ ج: اکستان سنوکر، اسکوائش، ہاکی اور کرکٹ کا عالمی چیمپئن تھا۔ 1۔ سنوکر محمد یوسف 2۔ اسکوائش جان شیر خان 3۔ ہاکی محمد شہباز سینئر (کپتان) 4۔ کرکٹ عمران خان(کپتان) س: ہاکی کے موجودہ ورلڈ چیمپئن ملک کا نام بتایئے؟ جـ: جرمنی س: سارک ممالک کی مشترکہ کھیلوں کا نام بتایئے؟ ج: سیف گیمز س: سیف گیمز میں شرکت کرنے والے ممالک کا نام بتایئے؟ ج: پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال، سری لنکا، بھوٹان۔ س: ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک کیخلاف سنچریاں بنانے کا اعزاز کن دو کھلاڑیوں کو حاصل ہے؟ ج: گیری کرسٹن جنوبی افریقہ، سٹیواہ آسٹریلیا۔ س: ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے دس ممالک کا نام بتایئے؟ ج: برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، زمبابوے، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ س: سارک سے تعلق رکھنے والے کتنے ممالک کو کرکٹ میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کا درج حاصل ہے؟ ج: چار ممالک 1۔ بھارت، 2۔ پاکستان،3۔ سری لنکا،4۔ بنگلہ دیش س: پاکستان نے اولمپک کی تاریخ میں پہلی بار گولڈ میڈل کب اور کس کھیل میں حاصل کیا؟ ج:1960ء میں پاکستان نے ہاکی میں اولمپک ٹائٹل جیت کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ س: پاکستان نے بھارت میں عالمی ہاکی ورلڈ کپ کس کھلاڑی کی قیادت میں جیتا تھا؟ ج: کپتان اختر رسول، یہ ورلڈ کپ بمبئی شہر میں منعقد ہوا تھا۔ س: بیسوی صدی کا مین آف دی سپورٹس آف سنچری کا اعزاز کس کھلاڑی کو ملا؟ ج: باکسر محمد علی کلے، سابق ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپئن باکسنگ س: پاکستان کے اس کھلاڑی کا نام بتایئے جس نے ایشیائی کھیلوں منعقدہ بوسان میں طلائی تمغہ حاصل کیا؟ ج: مہر اللہ نے باکسنگ میں طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔ س: لان ٹینس کا سب سے بڑا ٹورنا منٹ کس میدان اور ملک میں منعقد ہوتا ہے؟ ج: ویمبلڈن ٹینس ٹورنا منٹ برطانیہ کے شہر لندن کے ویمبلڈن گراؤنڈ میں منعقد ہوتا ہے۔ س: اسکوائش ورلڈ کپ جیتنے والے تین پاکستانی کھلاڑیوں کے نام بتایئے؟ ج: قمر الزمان، جہانگیر خان اور جان شیر خان س: برٹش اوپن اسکوائش چیمپئن شپ جیتنے والے پاکستانی کھلاڑیوں کے نام بتایئے؟ ج: ہاشم خان، روشن خان، اعظم خان، جہانگیر خان، جان شیر خان۔ س: ون ڈے کرکٹ میں پانچ سو اور ٹیسٹ کرکٹ میں چار سو سے زائد وکٹیں حاصل کرنے والے فاسٹ باؤلر کا نام اور ملک سے تعلق بتایئے؟ ج: وسیم اکرم، جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وسیم اکرم نے ایک روزہ میچ میں 502وکٹیں 356 میچ کھیل کر حاصل کیں ہیں جبکہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں414وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔ س: ایک روزہ کرکٹ میں سب سے بڑی اننگ کھیلنے والے کھلاڑی کا نام بتایئے؟ ج: سعید انور 194رنز کی اننگ بھارت کے خلاف کھیل چکے ہیں۔ یہ میچ21مئی 1997 کو مدراس میں ہوا تھا۔ س: اس کرکٹ ٹیم کا نام بتایئے جس نے اپنے پہلے ہی غیر ملکی دورہ میں ٹیسٹ میچ جیت کر کرکٹ کی دنیا کا منفرد ریکارڈ بنایا؟ ج: پاکستان نے اپنے پہلے ہی غیر ملکی دورہ برطانیہ کے دور ن اوول گراؤنڈ پر برطانیہ کو شکست دی تھی۔ س: فیفا نے فٹ بال ورلڈ کپ میں فیئر پلے ٹرافی دینے کا سلسلہ کب شروع کیا؟ ج: فیفا نے یہ سلسلہ 1978ء میں شروع کیا پہلی ٹرافی ارجنٹائن نے جیتی۔ س: ورلڈ کپ ہاکی ٹرافی، جونیئر ورلڈ کپ ہاکی ٹرافی اور چیمپئنز ٹرافی کس ملک نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو گفٹ کیں؟ ج:ـ پاکستان۔ س: پاکستان کی ان تین شخصیات کے نام بتائیے جن کو انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن اور انٹرنیشنل اسکوائش فیڈریشن اور کرکٹ انٹرنیشنل کونسل کی صدارت سنبھالنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا؟ ج: ان شخصیات کے نام اور فیڈریشنز کے نام درج ذیل ہیں۔ 1انور چودھری صدر انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن 2جہانگیر خان صدر انٹرنیشنل اسکوائش فیڈریشن 3احسان مانی صدر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل س: پاکستان کرکٹ کے اس عظیم کھلاڑی کا نام بتایئے جس نے اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر کروایا؟ ج: عمران خان س: انٹرنیشنل ہاکی میں268گول اور21 ہیٹ ٹرکس بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے پاکستانی کھلاڑی کا نام بتایئے۔ ج: سہیل عباس س: ایک روزہ کرکٹ میں37 گیندیں کھیل کر تیز ترین سینچری بنانے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: شاہد آفریدی، شاہد آفریدی نے تیز ترین سینچری والی اننگز سری لنکا کے خلاف4 اکتوبر1996 ء کو نیروبی میں کھیلی تھی۔ س: پاکستان کے اس سکوائش کھلاڑی کا نام بتائیں جس نے پانچ سو سے زائد میچوں میں مسلسل کامیابی حاصل کر کے عالمی ریکارڈ بنایا؟ ج: جہانگیر خان۔ س: ایک روزہ کرکٹ میں10,000رنز مکمل کرنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: انضمام الحق۔ س: ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے پہلی سینچری سکور کرنے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: نذر محمد س: ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے بیٹ کیری کرنے والے باپ بیٹے کھلاڑیوں کا نام بتائیں؟ ج: نذر محمد اور مدثر نذر س: ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے سسٹ ترین سینچری بنا کر عالمی ریکارڈ بنانے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: مدثر نذر۔ س: فرسٹ کلاس کرکٹ میں سو سینچریاں بنانے والے پاکستانی ٹیسٹ پلیئر کا نام بتائیں؟ ج: ظہیر عباس۔ س: ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے وکٹ لینے والے پہلے باؤلر کا نام بتائیں؟ ج: خان محمد س: پاکستان نے پہلی بار پولو ورلڈ کپ میں کب شرکت کی؟ ج:2004پولو ورلڈ کپ منعقدہ پیرس۔ س: اس پاکستانی کھلاڑی کا نام بتائیں جس نے ایک روزہ کرکٹ میں سو وکٹیں اور ہزار رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا؟ ج: مدثر نذر۔ س : تین دفعہ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے ملک کا نام بتائیں؟ جـ: آسٹریلیا س: ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم نے کس کپتان کی قیادت میں دو مرتبہ ورلڈ کپ جیتا؟ ج: کلائیو لائیڈ۔ س: ون ڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹس مین کا نام بتائیں؟ ج: سچن ٹنڈولکر۔ س: ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: حسن رضا جن کا تعلق پاکستان سے ہے انہوں نے چودہ سال دو سو تینتیس دن کی عمر میں زمبابوے کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا یہ میچ30اکتوبر1996ء کو کوئٹہ میں شروع ہوا تھا۔ س: ایک روزہ کرکٹ میں سو وکٹیں حاصل کرنے والے سب سے کم عمر بولر کا نام بتائیں؟ ج: سقلین مشتاق، انہوں نے بیس سال ایک سو چھیاسٹھ دن کی عمر میں سو وکٹیں حاصل کر کے یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ س: ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے طویل انفرادی اننگ کھیلنے کا اعزاز کس کھلاڑی کو حاصل ہے؟ ج: برائن لارا، وہ چار سو رنز کی انفرادی اننگ کھیل چکے ہیں، انہوں نے یہ اننگ انگلینڈ کے خلاف کھیلی تھی۔ س: فرسٹ کلاس کرکٹ میں501رنز کی طویل ترین اننگز کھیلنے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: برائن لارا۔ س: پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں طویل ترین اننگ کھیلنے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: حنیف محمد، انہوں نے 337 رنز بنا کر پاکستان کی جانب سے سب سے طویل اننگ کھیلی تھی۔ س: پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں دوسری ٹرپل سینچری بنانے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: انضمام الحق،ا نہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف323رنز کی اننگ سکور کی تھی۔ س: پاکستان کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں طویل ترین انفرادی اننگ کھیلنے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: حنیف محمد، انہوں نے499رنز بنا کر پاکستان کی جانب سے سب سے طویل اننگ کھیلی تھی۔ س: اوول کا ہیرو کس بولر کو کہتے ہیں؟ ج: فضل محمود۔ س: سیف گیمز میں حصہ لینے والے ممالک کا نام بتائیں؟ ج: پاکستان، بھارت، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور بھوٹان۔ واضح رہے کہ یہ ممالک سارک کے رکن کی حیثیت سے ان کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں جب کہ 2004اسلام آباد میں ہونیوالی سیف گیمز میں افغانستان نے بھی حصہ لیا تھا، سیف گیمز کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی غیر سارک رکن ملک نے ان کھیلوں میں حصہ لیا یوں سیف گیمز میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد آٹھ ہے۔ س: ہاکی کے کس کھلاڑی کو فلائنگ ہارس کہتے تھے؟ ج: سمیع اللہ۔ س: انٹرنیشنل ہاکی میں دیوار چین کن دو کھلاڑیوں کو کہتے تھے؟ ج: پاکستانی فل بیکس منظور الحسن اور منور زمان۔ س: پہلا جونیئر ہاکی ورلڈ کپ جیتنے والے ملک کا نام بتائیں؟ ج: پاکستان، پاکستان نے 1979ء میں پیرس میں ہونے والا پہلا جونیئر ہاکی ورلڈ کپ ٹورنا منٹ جیتا۔ واضح ہے کہ دنیائے ہاکی کا یہ واحد ٹورنا منٹ ہے جو پاکستان نے صرف ایک بار جیتا ہے۔ س: پاکستان کا ون ڈے کرکٹ میں کم سے کم سکور کیا ہے؟ ج: 43رنز، پاکستان نے یہ سکور کیپ ٹاؤں جنوبی افریقہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کیا تھا۔ سـ: پاکستان کرکٹ کے پہلے کپتان کا نام بتائیں؟ ج: عبدالحفیظ کار دار۔ س: پاکستان ہاکی ٹیم کے پہلے کپتان کا نام بتائیں؟ ج: کرنل علی اقتدار شاہ المعروف کرنل دارا۔ س: ہاکی ورلڈ کپ چیمپئنز ٹرافی اور جونیئر ہاکی ورلڈ کپ کی ٹرافیاں کس ملک نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو تحفہ دی تھیں؟ ج: پاکستان، واضح رہے کہ یہ تینوں ٹورنا منٹ پاکستان کی تجویز پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے شروع کئے تھے۔ س: اولمپک پرچم میں نیلے، زرد، سیاہ، سبز اور سرخ رنگ کے حلقے (دائرے) کس چیز کی علامت ہیں؟ ج: یہ حلقے (دائرے) دنیا بھر کے لوگوں کے مابین کھیلوں کو فروغ دینے کے سلسلے میں پانچ براعظموں (ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ) کی نمائندگی کرتے ہیں۔ س: اولمپک کھیلوں کا نصب العین کیا ہے؟ ج: ان کھیلوں کا نصب العین تیز تر، بلند تر اور مضبوط تر ہے۔ س: سن2004ء میں سنوکر ورلڈ کپ میں دوسرے نمبر پر آنے والے کھلاڑی کا نام اور اس کے ملک کا نام بتائیں؟ ج: صالح محمد، جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ س: پنجاب کے روائتی کھیل کا نام بتائیں؟ ج: کبڈی۔ س: سندھ کے روائتی کھیل کا نام بتائیں؟ ج: ملا کھڑا۔ س: کوئٹہ میں ہونے والی قومی کھیلیں کس ٹیم نے جیتیں؟ ج: پاکستان آرمی۔ س: کوئٹہ میں ہونے والی 2004ء کی قومی کھیلوں میں گیارہ گولڈ میڈل جیت کر ’’ گولڈن گرل‘‘ کا خطاب پانے والی پیراک کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: کرن خان۔ س: کرن خان ڈومیسٹک کھیلوں کے دوران کس ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کرتی ہیں؟ ج: واپڈا۔ س: پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلی گئی ’’ دوستی ہاکی سیریز2004ئ‘‘ میں کس ٹیم نے کامیابی حاصل کی؟ ج: پاکستان نے بھارت کو2:4 سے ہرا کر سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ س: پاکستان کرکٹ ٹیم نے پاک سر زمین پر ہونے والے کس بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کی؟ ج: پاکستان کرکٹ ٹیم آج تک پاکستانی سر زمین پر ہونے والی کسی بھی ٹورنا منٹ میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ س: ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دنیا کے پہلے باؤلر کا نام بتائیں؟ ج: جلال الدین۔ س: چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی کا نام بتائیں؟ ج: سہیل عباس انہوں نے 29گول کر کے یہ اعزاز حاصل کیا۔ س:9 ویں سیف گیمز میں بھارت، پاکستان، سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان نے کتنے طلائی، چاندی اور کانسی کے تمغے حاصل کئے؟ ج: ملک طلائی تمغے چاندی تمغے کانسی تمغے ٹوٹل بھارت 101 59 31 191 پاکستان 45 55 50 147 سری لنکا 15 33 57 105 نیپال 7 6 19 32 بنگلہ دیش 3 11 26 40 افغانستان 1 3 28 32 بھوٹان 1 3 2 6 نوٹ: مالدیپ واحد ملک ہے جس نے 9 ویں سیف گیمز میں کوئی تمغہ بھی حاصل نہیں کر سکا۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو ٹرانسپورٹ آفیسر/ڈرائیور/فیلڈ نمائندہ ٹریفک قوانین آپ کی حفاظت کرتے ہیں ٹریک کے قواعد و ضوابط سے آگاہی رکھنا نہ صرف ڈرائیور صاحبان بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ قواعد و ضوابط نہ صرف آپ کو حادثات سے بچاؤ میں مدد دیتے ہیں بلکہ یہ خود اعتمادی بھی پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین نے موٹر گاڑیوں کے قانون کے تحت پانچ قسم کے نشانات ترتیب دیے ہیں۔ اول انتباہی نشانات دوم باضابطہ نشانات سوم لازمی نشانات چہارم اطلاعی نشانات پنجم سڑک کے درمیان کھینچی گئی سفید اور پیلے رنگ کی لکیریں۔ 1۔ انتباہی نشانات ان نشانات کا مقصد آپ کو سڑک کے ان پیچ و خم سے باخبر کرنا ہے جو آگے راستے میں موجود یو آنے والے ہوں تاکہ آپ بروقت احتیاط کریں اور کسی ناخوشگوار حادثے کا احتمال نہ رہے۔ ان نشانات کی تعداد42ہے۔ 2۔ ٹریفک کے باضابطہ نشانات یہ نشانات آپ کو حادثات سے محفوظ رکھنے کے لیے تشکیل دیئے گئے ہیں جو آپ کے لئے قانوناً حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان پر عمل درآمد کرنا آپ کی ذمہ داری ہے تاکہ آپ حادثات سے محفوظ رہیں۔ ان نشانات کی تعداد31ہے۔ 3۔ لازمی نشانات یہ نشانات بھی آپ کی حفاظت کا بنیادی فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ان کی پابندی کرنا آپ کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ رونما ہونے کی صورت میں آپ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ ان نشانات کی تعداد15ہے۔ 4۔ اطلاعی نشانات ان نشانات کی تعداد23ہے جو ڈرائیور صاحبان کی رہنمائی اور سہولت کے لیے نصب کئے جاتے ہیں۔ 5۔ سڑک پر لگی ہوئی لکیریں یہ لکیریں سڑک کو دو حصوںمیں تقسیم کرتی ہیں تاکہ ڈرائیور صاحبان اپنے حصہ کی سڑک آسانی سے استعمال کر سکیں۔ اس کے علاوہ چوراہوں پر مڑنے کے طریق کار کی وضاحت اور جہاں ٹریفک کانسٹیبل نہ ہوں وہاں پیدل سڑک عبور کرنے والوں کی حفاظت بھی آپ کے ذمہ ڈالتی ہیں۔ اہم ہدایات 1۔ راؤنڈ اباؤٹ پر راستے کا حق آپ کے دائیں ہاتھ سے آنے والی ٹریفک کا ہے لہٰذا اسے پہلے گزرنے دیں۔ 2۔ کسی بڑی سڑک پر آنے سے پہلے مکمل طور پر رکیں خواہ وہاں ٹریفک نہ ہو۔ ایسا کرنے سے حادثہ کا احتمال نہیں رہتا۔ 3۔ اگر آپ چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہوں تو اگلی گاڑی سے اسی فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ موٹر گاڑیوں کے قانون کے تحت ایک میل کی رفتار کے لیے دو فٹ کا فاصلہ رکھنا لازمی ہے۔ 4۔ سڑک کے درمیان خطرناک جگہوں پر سفید مسلسل لکیر لگا دی جاتی ہے جس کا مقصد ہے کہ یہاں سے آپ اوورٹیک ہرگز نہ کریں۔ 5۔ جہاں رکنے کا لکھا ہو وہاں رکنا ضروری ہے خواہ سڑک پر ٹریفک نہ ہو۔ 6۔ سرخ بتی ہونے کی صورت میں بائیں سمت مڑنے سے پہلے رکنے اور پیدل حضرات کو گزرنے دیجئے پھر ٹریفک کو دیکھئے اگر راستہ صاف ہے تو تب آپ بائیں طرف مڑ سکتے ہیں واضح رہے کہ سرخ بتی پر آپ دائیں طرف ہرگز نہیں مڑ سکتے۔ 7۔ اگر راہ چلتے آپ ا یمرجنسی گاڑی کا ہارن سنیں تو اپنی گاڑی سڑک کے انتہائی جانب کر کے روک لیں۔ 8۔ اگر بتی والا اشارہ فوراً بند ہو جائے اور آپ کو رکنا پڑے اور پچھلی گاڑی آپ سے ٹکرا جائے تو قانون کے تحت پچھلی گاڑی کا ڈرائیور قصور وار ہو گا۔ 9۔ دو لائنوں والی سڑک پر چلتے ہوئے اگر آپ کو دائیں طرف مڑنا ہے تو آپ کی گاڑی کے دونوں ٹائر درمیان والی لین کے قریب ہونا چاہیے۔ 10۔ اگر آپ اپنی گاڑی کے شیشے میں پیچھے سے آنے والی کسی تیز رفتار گاڑی کو دیکھیں تو کیا آپ اسے گزرنے کے لئے انڈی کیٹر سے اشارہ دیں گے۔ (ہرگز اشارہ نہ دیں) 11۔ چوک کراس کرتے وقت مخالف سمت سے اچانک کوئی گاڑی آنے کی صورت میں اپنی گاڑی واپس اپنی لین میں لے آئیں۔ 12۔ سرخ بتی ہونے کی صورت میں اگر آپ سٹاپ لین پر رکے ہوں تو پولیس مین کے حکم کی تعمیل کریں۔ 13۔ رات کے وقت اوور ٹیک کرنے کے لئے ہیڈ لائٹ کو بار بار ڈپ کر کے راستہ مانگیں۔ 14۔ ریلوے پھاٹک پر انتہائی چوکس رہیں ورنہ حادثہ ہونے کی صورت میں آپ قصور وار ہوں گے۔ 15۔ اپنی گاڑی کی لائٹ سورج غرب ہونے کے آدھ گھنٹہ بعد جلائیں اور سورج نکلنے سے آدھ گھنٹہ پہلے بجھا دیں۔ عام ہدایات گاڑی چلانے سے قبل یہ اطمینان کر لیں کہ آپ کا یہ اقدام خطرے سے خالی ہے اور یہ کہ ایسا کرنے کے دوران آپ سڑک استعمال کرنے والے کے لئے دقتیں نہیں پیدا کریں گے۔ پیچھے سے آنے والے ٹریفک کا خاص خیال رکھیں گاڑی بڑھانے سے قبل اشارہ دیں اور آگے جانے یا گزرنے والی گاڑیوں کے لئے راستہ چھوڑ دیں۔ گاڑی سڑک کے خاصی بائیں جانب رکھیں ماسوائے اس وقت کے جب آپ کسی سے آگے نکل رہے ہوں یا جب آپ دائیں طرف مڑ رہے ہوں۔ سڑک کے درمیان حصے سے ہرگز چمٹے نہ رہیں۔ گاڑی تیز ہرگز نہ چلائیں۔ کہ آپ سامنے نظر آنے والے سڑک کے صاف حصہ کے اندر مناسب مقام پر رک نہ سکیں۔ اچانک گاڑی روکنے کے لئے اپنے سامنے خاصی جگہ چھوڑیں۔ رات کو گاڑی چلاتے وقت ہمیشہ اپنی گاڑی کی روشنی کی حدود کے اندر ہی رہیں۔ اگر گاڑی چلاتے وقت، آنکھوں تیز روشنی پڑ جائے تو رفتار آہستہ کر لیں یا گاڑی روک لیں۔ ایسے خطرناک موڑوں پر جہاں دائیں بائیں سے آنے والی گاڑیاں نظر نہ آئیں یا جہاں سڑک ایک دم سے مڑتی ہو انتہائی محتاط رہیں۔ آئینہ کا استعمال الف۔ چلنے سے پہلے ب۔ اشارہ دینے سے پہلے ج۔ کسی گاڑی کے آگے نکلنے سے پہلے د۔آہستہ ہونے یا رکنے سے پہلے ر۔ مڑنے سے پہلے س۔ گاڑی کا دروازہ کھولنے سے پہلے گاڑی کو اوور ٹیک کرنا اس وقت تک ہرگز اوور ٹیک نہ کریں، جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ آپ خود کو اور دوسروں کو کسی خطرے میں ڈالے بغیر ایسا کر سکتے ہیں۔ کہر دھند کے وقت جب رفتار اور فاصلہ کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہو اوور ٹیکنگ کرتے وقت انتہائی احتیاط برتیں۔ ہرگز اوور ٹیک نہ کریں جب آپ کسی موڑ، نکڑ یا چوراہے پر ہوں۔ کسی پیادہ روڈ کراسنگ، کسی پہاڑی چوٹی یا کوزہ پشت پل پر سے گزر رہے ہوں یا ان کے قریب ہوں، جب سڑک تنگ ہو۔ یا جب آپ کے ایسا کرنے سے کوئی دوسری گاڑی ٹریفک کو راستہ دینے کے لیے اپنی رفتار کو دھیما کر دے یا رک جائے۔ سوائے اس وقت کے جب کوئی ڈرائیور دائیں طرف مڑنے کا اشارہ کر رہا ہو ہمیشہ دائیں جانب سے اوور ٹیک کریں چوراہے کے گول چکر یا یک رخ، سڑکوں یا موڑوں کو اوور ٹیک کرتے وقت ضروری نہیں ہے کہ یہ اصول برتا جائے۔ قطار سے تیزی کے ساتھ سڑک کے درمیان نہ آئیں ایسا کرنے سے پہلے اطلاع دیں۔ اس چلتی ہوئی گاڑی کے سامنے جسے آپ نے ابھی ابھی اوور ٹیک کیا ہے یک دم سے ہرگز آگے نہ آئیں۔ جب تک آپ سامنے کافی دور تک دیکھ کر یہ اطمینان نہ کر لیں کہ سڑک بالکل صاف ہے۔ سڑک کے بیچ کی سفید مسلسل لکیر کو ہرگز پار نہ کریں۔ اگر ٹریفک جام ہو جائے تو اپنی ہی لین میں رہیں۔ چوراہے کے قریب جہاں آہستہ چلاؤ کی تختی لگی ہو وہاں رفتارکم کر لیں اور اس تک پہنچنے پر رکنے کے لئے پہلے سے تیار ہو جائیں۔ چوراہے پر پہنچ کر دائیں پھر بائیں پھر ایک مرتبہ دائیں طرف دیکھیں اور اس وقت تک آگے نہ بڑھیں جب تک پورا اطمینان نہ ہو جائے۔ چوراہے پر بڑی سڑک کی ٹریفک کو راستہ دیں۔ اگر کسی سڑک کے بڑی ہونے سے متعلق شک ہو تب بھی اس سڑک کے ٹریفک کے لئے راستہ چھوڑ دیں۔ پھاٹک کے ریلوے لیول کراسنگ کا سائن دیکھتے ہی گاڑی آہستہ کر لیں۔ دائیں بائیں دیکھیں بغور سنیں اور لائن پار کرنے سے پہلے پورا اطمینان کر لیں۔ آپ کے پیچھے کی ٹریفک ڈرائیور صاحبان کو چاہیے کہ گاڑی کو آگے بڑھانے یا پیچھے کرتے وقت یا اس کا دروازہ کھولتے وقت ادھر ادھر دیکھ کر یہ اطمینان کر لیں کہ کوئی انہیں اوور ٹیک کرنے والا تو نہیں ہے اور یہ کہ ان کے اگلے اور پچھلے پہیوں کے قریب کے ان حصوں میں جو بمشکل دکھائی دیتے ہیں کوئی بچہ یا کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے۔ ڈرائیور صاحبان کو چاہیے کہ یہ سگنل دینے یا راہ بدلنے یا اوور ٹیک کرنے اور مڑنے یا رکنے سے قبل اپنے ڈرائیونگ شیشے میں ضرور دیکھیں۔ موٹر سائیکل سواروں کو چاہیے کہ سائیکل میں شیشہ لگا ہونے کے باوجود سگنل دینے یا آگے بڑھنے یا راہ بدلنے یا اوور ٹیک کرنے یا مڑنے سے پہلے پیچھے ضرور نظر ڈال لیں۔ سیدھا چلاتے وقت اگر کسی گاڑی کی رفتار اس وقت تیز ہو جائے جب آپ اسے اوور ٹیک کر رہے ہوں اس سے ریس نہ کریں بلکہ پیچھے ہو جائیں۔ جب کوئی آپ کو اوور ٹیک کر رہا ہو تو اپنی رفتار تیز نہ کریں۔ جب آپ کسی کھلی سڑک پر ہوں تو اپنی گاڑی اگلی گاڑی سے بڑھا کر نہ چلائیں۔ رات کو چلاتے وقت گنجان آباد علاقے میں اس وقت تک چھوٹی بتیوں پر بھروسہ نہ کریں، جب تک کہ سڑک پوری طرح روشن نہ ہو۔ تاریک سڑکوں پر محض چھوٹی بتیوں کے سہارے گاڑی نہ چلائیں۔ دوسری گاڑیوں یا سائیکل سواروں کو سامنے دیکھ کر، اگر ٹریفک کے حالات اجازت دیں تو اپنی ہیڈ لائٹ’’ ڈپ‘‘ کر لیں۔ اگر آپ کسی گاڑی کے بالکل پیچھے چل رہے ہیں تو اپنی ہیڈ لائٹ’’ ڈپ‘‘ کر لیں۔ پارکنگ کے لئے ہدایات 1۔ کسی بڑی سڑک پر 2۔ کسی ایسی سڑک پر جہاں تیز رفتار ٹریفک ہو 3۔ کسی کھڑی ہوئی گاڑی کے بالکل قریب یا تقریباً سامنے 4۔ کسی کھڑی ہوئی گاڑی کے برابر جس سے ڈبل پارکنگ ہو جائے 5۔ کسی پناہ گاہ، زیر تعمیر سڑک یا ایسی ہی دوسری رکاوٹوں کے روبرو 6۔ ایسی جگہ جہاں غیر منقطع سفید لائن لگی ہو۔ 7۔ کسی بھی اسٹاپ یا اسکول کے دروازہ کے قریب اپنی لین رہیے اگر سڑک کے درمیان دہری لکیر بنی ہو تو اس بات کا اطمینان کر لیجئے کہ آیا آپ سے قریب کی لکیر کا تسلسل قائم ہے یا ٹوٹ گئی ہے۔ اگر لکیر کا تسلسل قائم ہے تو اسے عبور کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ لیکن آپ کے قریب کی لکیر ٹوٹ گئی ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی طرف کی مسلسل سفید لکیر تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ بہ حفاظت تمام اوور ٹیکنگ مکمل کر سکتے ہیں تو اسے عبور کر لیں۔ اگر آپ کی طرف کی سڑک لکیروں کے ذریعہ لائنوں میں منقسم ہے تو ایسی صورت میں اپنے راستہ کے لئے صحیح لین کا انتخاب کیجئے اور ا س میں اس وقت تک چلتے رہے جب تک کہ آپ خاص وجہ سے اپنی لین بدلنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ سمت بتانے والی بتیاں پورا اطمینان کر لیں کہ آپ کی سمت بتانے والی بتیاں وہ اشارہ دے رہی ہیں جو آپ چاہتے ہیں اور یہ کہ مڑنے کے فوراً بعد یہ گل بھی ہو جاتی ہیں۔ اہم دفعات 3/112 بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانا 5/112 کسی اور لائسنس پر گاڑی چلانا 11/112 لائسنس کا تجدید نہ ہونا۔ 23/112 بغیر رجسٹریشن بک کے گاڑی چلانا۔ 32/112 بغیر رجسٹریشن پلیٹ، بغیر نمونہ نمبر پلیٹ گاڑی چلانا 93/112بغیر Fitness سرٹیفکیٹ گاڑی چلانا 44/106بغیر روٹ پرمٹ کے گاڑی چلانا 75/98تیز رفتاری سے گاڑی چلانا 82/122اشارہ کی خلاف ورزی کرنا 76/107 ٹرک اوور لوڈ کرنا 94/125انشورنس بک نہ ہونا طلباء کے ساتھ بد سلوکی کرنا۔ سواریوں کے ساتھ بد سلوکی کرنا بس اوور لوڈ کرنا۔ سواری کے سامان کی حفاظت نہ کرنا۔ گاڑی مقابلہ پر دوڑانا۔ لائٹ خراب ہونا۔ پریشر ہارن کا نہ ہونا۔ باب ہارن کا نہ ہونا۔ سائڈ کا شیشہ نہ ہونا بغیر سپیڈ و میٹر کے گاڑی چلانا۔ دھواں دینے والی گاڑی چلانا۔ گاڑی سلف سٹارٹ نہ ہونا۔ پارٹیشنر سیٹ کا نہ ہونا۔ لرنر پرمٹ کا نہ ہونا یا بغیر’’ L‘‘ پلیٹ کے گاڑی چلانا۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو محکمہ تحفظ ماحولیات/غیر سرکاری تنظیمیں ارضیاتی ماحول س: گائیا (Gaia) نظریہ کیا ہے۔ اور یہ نظریہ کس سائنسدان نے پیش کیا تھا؟ ج: گائیا نظریہ امریکی کیمیا دان جیمز لولاک نے پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق کرۂ ارض پر موجود ہر شے جاندار ہے اور یہ تمام اشیاء ایک دوسرے کی زندگی کا لازمی جزو اور بقاء کی ضمانت ہیں۔ اگر ہم نے اپنی نسلوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے تو پھر ہمیں قدرت کا پیدا کردہ توازن زندگی برقرار رکھنا ہو گا۔ س: نظریہ گہرائی ارضیات (Deep ecalogy) سے کیا مراد ہے؟ ج: کرۂ ارض پرموجود تمام جاندار انسان کے برابر حقوق کے مالک ہیں انسان ان کا حق دیتے ہوئے قدرت کے طے کردہ اصولوں میں مداخلت سے باز رہے۔ س: کن ترقی یافتہ ممالک میں تحفظ ماحول کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کو سیاسی پذیرائی حاصل ہوئی ہے؟ ج: جرمنی دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں تحفظ ماحول کے نام پر باقاعدہ گرین پارٹی تشکیل دی گئی۔ گرین پارٹی کو جرمنی پارلیمنٹ میں42 نشستوں کی نمائندگی حاصل ہے۔ یورپی یونین کے 1989ء میں ہونیوالے الیکشن کے دوران برطانیہ کے 15 فیصد ووٹروں نے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیا جن کا تعلق تحفظ ماحول کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں سے تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں ایسی تنظیموں کو سیاسی میدان میں بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے۔ س: دنیا کے اس ملک کا نام بتایئے جو زمینداروں اور کسانوں کی روایتی طریقہ کاشت بروئے کار لانے پر مالی مدد کر رہا ہے؟ ج: برطانیہ دنیا کا واحد ملک ہے جو نباتاتی کھادوں کی مدد سے کاشتکاری کرنیوالے کسانوں کی مالی مدد کرتا ہے۔ سـ:ـ امریکہ میں نامیاتی کھاد سے کاشتکاری دوبارہ کب شروع ہوئی تھی؟ ج: امریکہ میں دوبارہ روایتی کاشت1990ء میں شروع کی گئی مگر اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ سـ: باغبانی برائے جنگلی حیوانات (Wild Life) کے تصور نے کس ملک میں جنم لیا؟ ج: امریکہ میں لوگ اپنے گھروں کے اندر اور فارموں پر اس قسم کی باغبانی کر کے ان میں رہنے والے جانوروں اور آبی حیات کیلئے اس قسم کے پودے اگاتے ہیں جو ان کی خوراک میں شامل ہیں۔ س: کوڑا کرکٹ کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ ج: اشیائے صرف کی پیکنگ60فیصد کوڑا کرکٹ پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اگر انسان پیکنگ کے روایتی طریقوں کے خاتموں پر انحصار کرے تو کوڑا کرکٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقدار کم کی جا سکتی ہے۔ سـ :’’ صاف ہوا ہر انسان کا حق ہے‘‘ اس معاہدے پر اقوام عالم نے کب دستخط کیے؟ ج: ہوائی آلودگی کے خاتمے کے لئے پہلا عالمی معاہدہ1980ء کے اوائل میں ہوا تھا۔ جس کے دوران حکومتوں نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ وہ ایسے تمام کیمیائی اجزاء پر پابندی لگا دیں گی جن سے اوزون کو نقصان پہنچانے والی خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ سـ : دنیا کے اس ملک کا نام بتایئے جس نے 1991ء میں فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے ہونیوالے عالمی معاہدہ کی توثیق سے انکار کیا تھا؟ ج: رہاست ہائے متحدہ امریکہ نے اسی معاہدہ کی توثیق سے انکار کی اتھا۔ حالانکہ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ امریکہ نے اس معاہدہ کی توثیق سے انکار صنعت کاروں کے دباؤ پر کیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے پر امریکی عوام نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ س: دنیا کے ان دو شہروں کے نام بتایئے جہاں شہروں کے معروف ترین علاقوں میں گاڑیاں لانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان علاقوں میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت مفت فراہم کی گئی؟ ج: پیرس (فرانس) بولو گنا (اٹلی) س: دنیا کے کس شہر میں سب سے پہلے ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی؟ ج: لاس اینجلس پہلا شہر ہے جس کی شہری حدود میں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی یہ پابندی 2007ء تک جاری رہے گی۔ س: درخت کاٹنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کا نام بتایئے؟ ج: برطانیہ س: دنیا کے اس ملک کا نام بتایئے جس نے ہر طالب علم پر لازم قرار دیا کہ وہ درخت لگانے کے علاوہ اس کی دیکھ بھال بھی کرے گا؟ ج: ویت نام، حکومت نے یہ پابندگی ویت نام امریکہ جنگ کے دوران تباہ ہونے والے جنگلات کی دوبارہ افزائش کے لئے لگائی تھی۔ ماضی کی یہ پابندی اب ویتنامی قوم کی سب سے بڑی تحریک بن چکی ہے۔ س: دنیا کے اس ملک کا نام بتایئے جہاں رضا کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت دس ملین درخت کاشت کرنے کے بعد ان کی مکمل دیکھ بھال کی اس تحریک کی بانی کا نام بھی بتایئے؟ ج: کینیا کی رہائشی خاتون ونگاری متھائی نے اکیلے یہ مہم شروع کی بعد ازاں مزید رضا کار اس مہم میں شامل ہوتے گئے یہ انفرادی سطح پر شجر کاری کی تاریخ کی سب سے بڑی مہم ہے۔ س: دنیا کے اس ملک کے نام بتایئے جس نے اشیاء کے دوبارہ استعمال (Recycling) کا قانون بنایا؟ ج: جرمنی، اس ملک میں80 فیصد سے زائد اشیاء کے دوبارہ استعمال کیلئے کمپنیاں واپس حاصل کر لیتی ہیں۔ ایسا کرنے سے جرمنی کے صنعت کاروں کو بجلی تیل کوئلہ خام مال اور دیگر وسائل کی مد میں30 فیصد بچت ہوئی۔ س: اس ملک کا نام بتایئے جہاں مکانات کا درجہ حرارت نارمل رکھنے کیلئے عام توانائی سے دس فیصد زائد توانائی استعمال کرنے کا قانون بنایا گیا؟ ج: سویڈن س: دنیا کے اس ملک کا نام بتایئے جس کی سپر مارکیٹ کی ایک چین نے صارفین کو پلاسٹک بیگ کے دوبارہ استعمال کے عوض نقد ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا؟ ج: برطانیہ۔ اس ملک کی سپر مارکیٹ کی ایک چین نے صارفین کو پرانے پلاسٹک بیگز استعمال کرنے کے عوض ادائیگی کر کے ایک سال میں50ملین بیگز کی بچت یقینی بنائی۔ نئے بیگوں کی مد میں جو بچت ہوئی وہ ناقابل یقین حد تک حیران کن ہے۔ آپ یقین کریں یا نہکریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کمپنی کو دس لاکھ بیرل تیل کی رقم کے برابر بچت ہوئی۔ س: دنیا کے پہلے نیشنل پارک کا نام اور سال قیام بتایئے؟ ییلو سٹون (Yellow Stone) امریکہ میں1872ء میں قائم کیا گیا۔ رقبے کے لحاظ سے یہ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے۔ س: جنگلی حیات اور نباتاتی حیات کے حوالے سے کتنے مقامات عالمی ورثہ میں شامل ہیں؟ ج: افریقہ، برطانیہ، آسٹریلیا، امریکہ اور بر اعظم ایشیا میں90 سے زائد مقامات عالمی ورثہ میں شامل ہیں۔ س: ڈبلیو ڈبلیو ایف دنیا کے کن تین ممالک میں قدرتی ماحول کے تحفظ کیلئے وہاں کی حکومتوں کو ادائیگی کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے زیر قبضہ علاقہ میں قدرتی ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں؟ ج: ایکویڈور، فلپائن اور مڈغاسکر دنیا کے تین ایسے ممالک ہیں جنہیں ڈبلیو ڈبلیو ایف تحفظ ماحول کے عوض نقد ادائیگی کر رہی ہے۔ س: براعظم انٹارکٹکا پر کتنے ریسرچ اسٹیشن قائم ہیں؟ ج:39 س: بر اعظم انٹارکٹکا میں تحقیقی کام کرنے والے ممالک کے درمیان سرد بر اعظم کے تحفظ کیلئے طے پانے والے معاہدے کی شرائط بتایئے؟ ج: اس معاہدہ کے تحت مختلف ممالک نے بر اعظم انٹارکٹکا کو (ورلڈ پارک) عالمی پارک کا درجہ دیتے ہوئے اس خطے میں کسی قسم کے تجربے، فاضل کیمیائی، صنعتی مواد یعنی کوڑا کرکٹ اور قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانے والے کام اور تحقیق سے گریز کی پالیسی اپنائی۔ علاوہ ازیں براعظم سے معدنی وسائل مثلاً تیل، کوئلہ، گیس، سونا، دھاتیں اور دیگر اشیاء کے لئے کان کنی کی اجازت کسی ملک کو نہیں ہو گی۔ کان کنی پر پابندی صرف50سال کے لیے ہے جس کی مدت کا آغاز1991ء میں ہوا تھا۔ س: کرۂ ارض پر موجود ان پودوں کی تعداد بتایئے جو انسانوں اور جانوروں کی خوراک کے کام آتے ہیں؟ ج: دریافت شدہ پودوں میں سے 75,000 پودے جانداروں کی خوراک ہیں۔ س: ’’ بیجوں کا بینک‘‘ تحفظ ماحول کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس وقت کتنے ممالک میں بیجوں کے بینک (Seed Bank) قائم ہیں؟ ج: دنیا میں اس وقت60سے زائد ممالک میں پودوں کی اقسام کے تحفظ اور زرعی تحقیق کے لیے سیڈ بینک قائم ہیں۔ س: دنیا کا سب سے بڑا سیڈ بینک کس ملک میں ہے اور اس بینک میں چاول کی کتنی اقسام کے بیج پائے جاتے ہیں؟ ج: دنیا کا سب سے بڑا سیڈ بینک فلپائن میںکام کر رہا ہے اس ادارے نے چاولوں کی 60,000 ہزار اقسام کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔ س: میکسیکو میں قائم سیڈ بینک میں گندم اور مکئی کی کتنی اقسام محفوظ ہیں؟ ج: میکسیکو کے سیڈ ریسرچ سنٹر اینڈ بینک میں گندم کی 12 ہزار اقسام اور مکئی کی 5 ہزار سے زائد اقسام کے بیج محفوظ ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ سـ : (Save our seeds) ہمارے بیجوں کو بچایئے نامی تحریک کا آغاز کس ملک سے ہوا؟ ج: برطانیہ بعد ازاں یہ تحریک جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں پھیلتی چلی گئی۔ س: ساحل سمندر پر پائے جانیوالے پودوں کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے کس ملک نے کام کا آغاز کیا؟ ج: برطانیہ اس کام کا آغاز چند عام شہریوں نے کیا تھا۔ جن کا مقصد خطے میں پائے جانے والے تمام پودوں کی کاشت کو فروغ دینا تھا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے نیشنل پلانٹ کلیکشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ س: سائیٹسConvention on International Trade in Endangere Speicesنامی بین الاقوامی معاہدہ کس سال طے پایا اور اس پر کتنے ممالک نے دستخط کئے؟ ج: یہ معاہدہ1973ء میں طے پایا اور دنیا کے 95 ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔ س: نیلی وہیل مچھلی کے شکار پر پابندی کب عائد کی گئی؟ ج: عالمی سطح پر یہ پابندی1980ء میں لگائی گئی۔ سب سے پہلے جاپان اور بعد ازاں روس سابقہ (U.S.S.R) نے رضا کارانہ طور پر پابندی قبول کی۔ بعد ازاں ایک معاہدہ کے ذریعے پوری دنیا کے ممالک میں وہیل کے شکار پر پابندی عائد کر دی۔ س: دور جدید کی ترقی سے نا آشنا اور دور دراز کے جنگلوں میں رہائش پذیر انسانوں کی آبادی کتنی ہے؟ ج: ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں قبائلی افراد کی تعداد210 ملین سے زائد ہے۔ س: قبائلی آبادی دنیا کے کن خطوں اور کتنے ممالک میں پائی جاتی ہے؟ ج: قبائلی انسان وسطیٰ امریکہ، جنوبی امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا، سیکنڈے نیوین ممالک اور افریقہ کے 70 ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ س: کیا آپ اس ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس کی حکومت نے سونے کی کان کنی صرف اس لیے بند کروا دی کہ ایسا کرنے سے مقامی قبائلی زندگی تباہی سے دو چار ہو سکتی ہے؟ ج: اس ملک کا نام آسٹریلیا ہے۔ جس نے کاکا دو نیشنل پارک سے سونے کی تلاش کا کام اور کان کنی منع کر دی کیونکہ حکومت محسوس کر چکی تھی کہ ایسا کرنے سے قبائلی معاشرت تباہ ہو سکتی ہے۔ ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو جونیئر کلرک/سٹینو گرافر س: جونیئر کلرک کا انگریزی میں مخفف کیا ہے؟ ج:J.c س: جونیئر کلرک کس گریڈ کا ملازم ہوتا ہے؟ ج: گریڈ پانچ س: اپر ڈویژن کلرک کا انگریزی زبان میں مخفف کیا ہے؟ ج:UDC س: اسسٹنٹ کلرک کو عموما کس نام سے پکارا جاتا ہے؟ ج: ہیڈ کلرک س: دفتر کے سربراہ کلرک کو کیا کہتے ہیں؟ ج: سپرنٹنڈنٹ س: اپر ڈویژن کلرک کس سکیل کا ملازم ہوتا ہے؟ ج: گریڈ بارہ س: ہیڈ کلرک کس سکیل کا ملازم ہوتا ہے؟ ج: گریڈ دس س: سپرنٹنڈنٹ آفس کس گریڈ کا ملازم ہوتا ہے؟ جـ: گریڈ16 سـ: جونیئر کلرک بھرتی ہونے کے لئے کم از کم تعلیمی معیار کیا ہے؟ ج: میٹرک س: جونیئر کلرک عموماً کس عہدہ تک ترقی پاتا ہے؟ ج: سپرنٹنڈنٹ س: جونیئر کلرک بھرتی ہونے کیلئے ٹائپنگ کی رفتار فی منٹ کم از کم کتنے الفاظ ہونی چاہیے؟ ج:40الفاظ س: جونیئر کلرک کی بھرتی کیلئے کس قسم کا تعلیمی و عملی تجربہ رکھنے والے کو ترجیح دی جاتی ہے؟ ج: کمپیوٹر ایجوکیشن س: جونیئر کلرک بھرتی ہونے کیلئے شارٹ ہینڈ کی تعلیم سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ج: اضافی قابلیت۔ س: سٹینو ٹائپسٹ بھرتی ہونے کیلئے کم از کم تعلیمی معیار کیا ہے؟ ج: بی اے یا اس کے مساوی س: سٹینو ٹائپسٹ بھرتی ہونے کیلئے کونسا کورس کرنا لازمی ہے؟ ج: شارٹ ہینڈ س: پرسنل اسسٹنٹ کے عہدہ پر کس ملازم کو بھرتی کیا جاتا ہے؟ ج: سٹینو گرافر س: عموماً سٹینو گرافر کو کس سکیل میں بھرتی کیا جاتا ہے؟ ج: گریڈ16 س: سٹینو گرافر کی فی منٹ شارٹ ہینڈ رفتار کتنی ہونی چاہیے؟ ج:110 س: سٹینو گرافر کی ٹائپنگ کی کم از کم فی منٹ رفتار کتنی ہونی چاہیے؟ ج:50الفاظ س: جونیئر کلرک بھرتی ہونے کیلئے کم از کم عمر کی حد کیا ہے؟ ج:18سال س: جونیئر کلرک بھرتی ہونے کیلئے عمر کی آخری حد کیا ہے؟ ج: 25سال س: سٹینو ٹائپسٹ کیلئے عمر کی آخری حد کیا ہے؟ ج:30سال ٭٭٭ معلومات برائے انٹرویو پنجاب مینجمنٹ سروسز/ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر س: نئے ضلعی نظام حکومت میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ج: پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں33فیصد نشستیں خواتین کے لئے مختص کی گئی ہیں۔ س: ڈپٹی کمشنر کو اب کیا کہتے ہیں؟ ج: ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر۔ س: مجسٹری نظام کا کب خاتمہ ہوا؟ ج: اگست2001ء س: سیکرٹریٹ سروس کے ملازمین کیا کام کرتے تھے؟ ج: سیکرٹریٹ میں انتظامی امور نمٹانے تھے۔ س: پنجاب سول سروسز کے ملازمین میں کون سی ڈیوٹی ادا کرتے تھے؟ ج: یہ لوگ فیلڈ میں ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ مجسٹریٹی نظام والی سروس کا دوسرا نام پنجاب سول سروسز ہے۔ س: پنجاب سول سروسز کیلئے آخری مقابلہ کا امتحان کب ہوا تھا؟ ج: 1999ء میں آخری دفعہ امتحان ہوا تھا۔ س: پنجاب میں قائم ہونیوالی نئی سروس کا نام کیا ہے؟ ج: پنجاب مینجمنٹ سروسز۔ س: پنجاب مینجمنٹ سروسز کن گروپس کے خاتمے کے بعد قائم کی گئی ہے؟ ج: پنجاب سول سروسز اور سیکرٹریٹ سروسز۔ س: ابتدائی طور پر پنجاب مینجمنٹ سروسز کیلئے کتنے آفیسروں کی بھرتی ہو گی؟ ج:100 افسروں کی بھرتی ہو گی۔ س: پنجاب مینجمنٹ کے افسروں کو کس حیثیت سے فیلڈ میں تعینات کیا جائے گا؟ ج: بطور ٹی ایم او۔ س: کیا یہ درست ہے کہ پنجاب مینجمنٹ سروسز کے اہلکاروں ا ضلعی حکومتوں میں کوٹہ مخصوص ہو گا؟ ج: جی ہاں یہ بات درست ہے۔ س: پنجاب میں ضلعی تحصیل اور یونین کونسلز ناظمین کو بجٹ سازی کا اختیار کس تاریخ کو سانپا گیا؟ ج: 13اپریل 2003ء س: ضلعی اسمبلی (ضلع کونسل) کارکن کس عہدہ کا منتخب شخص ہو گا؟ ج: ہر یونین کونسل کا منتخب ناظم بر بنائے عہدہ ضلع اسمبلی کا رکن ہو گا۔ س: ضلعی ناظم کو برطرف کرنا ہو تو کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ ج:1۔ ضلعی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے ضلع ناظم کے خلاف قرار داد پاس کر دے تو اسے عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا۔ 2۔ صوبائی اسمبلی بھی دو تہائی اکثریتی فیصلے سے ضلعی ناظم ناظم کر برطرف کر سکتی ہے۔ س: ضلعی اسمبلی کا سپیکر کس عہدہ پر فائز شخصیت ہوتی ہے؟ ج: نائب ناظم ضلع کونسل۔ س: ضلعی حکومت کے ماتحت کتنے محکمے کام کر رہے ہیں؟ ج: صرف تیرہ محکمے س: ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر کے براہ راست ماتحت کون سے محکمے ہیں؟ ج: رابطہ مالیات، منصوبہ بندی اور بجٹ کا شعبہ براہ راست ضلعی رابطہ کار آفیسر (D.C.O) کے ماتحت ہوتے ہیں۔ س: ایک یونین کونسل میں کتنے ارکان منتخب ہوتے ہیں؟ ج: عام اور مخصوص نشستوں کی تعداد ملا کر ایک یونین کونسل میں کل 21 کونسلر ہوتے ہیں۔ س: کیا ضلعی حکومت ٹیکس لگانے کا اختیار رکھتی ہے؟ ج: جی ہاں، ضلعی حکومت محدود پیمانے پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ س: ضلعی حکومت کی ماتحتی میں کام کرنیوالے محکموں کے نام بتایئے؟ ج: 1 رابطہ مالیات، منصوبہ بندی اور بجٹ 2۔ زراعت 3۔ تعمیرات عامہ 4۔ صحت 5۔ تعلیم 6۔ خواندگی 7۔ تجارت 8۔ قانون 9۔ ماحولیات 10۔ جمہوری ترقی 11۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی 12۔ محاصل 13۔ انتظامی عدالت (مجسٹریسی) س: ڈی سی او کس گریڈ کا آفیسر ہوتا ہے؟ ج: گریڈ بیس کا آفیسر۔ س: برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں نے بلدیاتی انتخابات پہلی بار کس سال منعقد کروائے؟ ج:1884ء کے دوران پہلی بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے سـ: قیام پاکستان سے لے کر اب تک کتنے بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے؟ ج: پاکستان میں اب تک آٹھ بار بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں۔ س: کیا کوئی فرد بیک وقت دو سیاسی عہدے سنبھال سکتا ہے؟ ج: جی نہیں س: ضلعی حکومتیں کس صوبائی محکمے کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں؟ ج: صوبائی محکمہ بلدیات س: اسلام آباد (وفاقی علاقہ) آزاد جموں و کشمیر شمالی علاقہ جات (فانا) اور قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں ضلعی حکومتوں کا نظام کام کر رہا ہے؟ ج: جی نہیں۔ سـ: پرانے ضلعی نظام کے تحت دفعہ144 نافذ کرنیکا اختیار کس کے پاس تھا؟ ج: ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈپٹی کمشنر) س : نئے ضلعی نظام کے تحت دفعہ144نافذ کرنیکا اختیار کس کے پاس ہے؟ ج: ضلعی ناظم۔ س: کسی واقعہ یا حادثہ کے متعلق ہینڈ آؤٹ جاری کرنیکا اختیار ضلعی انتظامیہ کی کس شخصیت کے پاس ہے؟ ج: ضلعی ناظم ہینڈ آؤٹ جاری کرنیکا مجاز ہے۔ س: ضلعی حکومت آئین کی کن شقوں کے تحت تشکیل دی گئی ہیں؟ ج: یہ حکومتیں1973ء کے آئین کے آرٹیکل 7 اور32کے مطابق تشکیل دی گئی ہیں۔ ٭٭٭ انٹرویو کی کامیابی انٹرویو میں پیش ہونے والے ہر امیدوار پر لازم ہے کہ وہ اپنی تمام تر ذاتی اہلیتوں کا تاثر، انٹرویو کے مختصر وقت میں انٹرویو کرنے والے فرد یا افراد وغیرہ کے ذہنوں پر مرتسم کرے۔ ہر امیدوار کی ذاتی شخصیت کی نمو، اس کی نشست و برخاست، سلیقہ، تمیز، حاضر دماغی، انداز تخاطب، علم اور ذہانت وغیرہ اس کی مثبت خوبیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جبکہ مایوسی، اکتاہٹ، بے دلی اور عدم توجہ وغیرہ ذاتی شخصیت کے منفی پہلو ہیں۔ ایک جمائی اور بے احتیاطی سے کی ہوئی شیو ہی امیدوار کے خلاف بہت کچھ کہہ دیتی ہے اور انٹرویو کرنے والے حضرات ان خوبیوں اور خامیوں پر لازماً نظر ڈالتے ہیں۔ کسی انٹرویو کے کمرے میں سوالات و جوابات کے دوران میں امیدوار کو اگرچہ بہت سے بہروپ بھرنے پڑتے ہیں جبکہ چہرے پر تاثرات بھرے رنگ تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں۔ یہ کتاب مایوسیوں کی گھمن گھیریوں میں سے ہر امیدوار کو کامیابی، کامرانی اور بہتر مستقبل کی راہ بھی دکھائے گی اور کامیابی سے ہمکنار بھی کرے گی۔ کسی فرد کی تربیت کسی انٹرویو میں کارکردگی دکھانے اور سر راہ ہونے والی ملاقات کے لیے کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے بلکہ خاص بات یہ ہے کہ ہر فرد تمام اقسام کی اتفاقی ملاقاتوں سے نمٹنے کا شعور رکھتا ہو۔ دوسروں کو ملاقات سے متاثر کرنے اور گفتگو میں مات دینے یا غالب آنے کا فن ہر فرد کو آنا بھی چاہیے۔ یہ زندگی کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ کتاب امیدواروں کو اچھی عادات، پختہ قوت ارادی اور اپنی بہتری کے لیے تبدیلی کی جرأت دیتی ہے اور ذاتی مفاد کی سطح بلند رکھنے کے لیے زندگی کے طور طریقوں کی نشوونما کے گر سکھاتی ہے۔ کتاب ہذا میں عملی انٹرویوز کی مثالیں کثرت سے دی گئی ہیں۔ ان مثالوں میں مختلف ملازمتوں کے لیے گروہی صورت میں لیے جانے والے امتحانات اور معروضی امتحانات وغیرہ کے نمونے بھی شامل ہیں۔ خواتین امیدواروں کے لیے علیحدہ باب مہیا کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد ہی یہ ہے کہ یہ تمام ایسے امیدواروں کی ضروریات کو پورا کرے جنہیں کسی بھی مقصد کے لیے انٹرویو کا سامنا ہے۔ اے۔ کے ۔مترا ٭٭٭ پہلا باب تعارف ایک نوجوان کو انٹرویو کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محنت کے ساتھ انٹرویو کے غیر معمولی دن کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ دن اس کے لیے بڑا اہم اور مبارک ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس دن کے معرکے کے لیے تیار کرتے ہوئے کچھ سیکھتا اور کچھ زبانی یاد کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انٹرویو لینے والے فرد یا افراد کے سامنے اپنے آپ کو ہر طرح سے موزوں ترین امیدوار ثابت کرے۔ امیدوار کی ایسی محدود سوچ ایک غلط سوچ ہے اور غلط رویے پر مبنی ہے۔ زندگی تو بذات خود انٹرویوز (ملاقاتوں) کا ایک جاری و ساری لمبا سلسلہ ہے۔ زندگی کے ہر قدم اور ہر موڑ پر آپ لوگوں سے ملتے ہیں جن میں اجنبی بھی ہوتے ہیں، دوست بھی ہوتے ہیں اور عام میل ملاقات والے بھی۔ وہ آپ سے کچھ نہ کچھ پوچھتے چلے جاتے ہیں۔ آپ ایک تحقیقاتی عمل کا سامنا کرتے ہیں اوردوسروں کو جاننے اور کھوج لگانے کی خواہش کا ہدف ہوتے ہیں۔ آپ اپنے جوابات سے ان کے اس حملے کو روکتے ہیں۔ آپ کے جوابات سے آپ کا وقار بڑھتا ہے اور اپنی ذات پر آپ کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔ دوسروں سے آپ کی ملاقات، ان سے آپ کا سامنا اور معاملات میں آپ کی آراء کا حصول ایک انٹرویو نہیں تو اور کیا ہے؟ صبح ناشتے کی میز پر آپ کے والد صاحب پوچھتے ہیں۔ ’’ بیٹے آپ کی پڑھائی کیسے جا رہی ہے؟‘‘ ’’ ٹھیک ٹھاک جا رہی ہے، ابا جان۔‘‘ آپ جواب دیتے ہیں۔ ’’ پھر بھی اگر کسی مدد کی ضرورت ہو جیسے ٹیوٹر وغیرہ کی۔۔۔ تو مجھے بتانا۔‘‘ ’’ فی الحال تو نہیں لیکن اگر کسی مقام پر ضرورت محسوس ہوئی تو میں ضرور آپ سے عرض کروں گا۔‘‘ ’’ لڑکی، صبا!‘‘ ماں اپنی بچی کا نیا لباس دیکھ کر چلاتی ہے۔’’ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ تمہارا یہ لباس انتہائی غیر موزوں ہے؟‘‘ ’’ ماں، یہ غیر موزوں نہیں، آج کل کا فیشن ہے۔‘‘ صبا جواب دیتی ہے’’ یا تو زمانے کے ساتھ چلو یا پھر زمانے سے علیحدہ ہو جاؤ۔۔۔۔ ماں، ویسے تم نہیں چاہو گی کہ لوگ تمہاری بیٹی کو پرانے فیشن کی دلدادہ کہیں۔‘‘ ’’ ہاں! میں ایسا ہرگز نہیں چاہوں گی۔‘‘ ماں ہلکا سا مسکرا کر جواب دیتی ہے۔ ایسے واقعات اور ایسی گفتگو ہر لمحے اور ہر روز ہوتی رہتی ہے۔ ایسی گفتگو او رمکالمہ بازی میں سوالات جوابات دلچسپ اور موزوں بھی ہوتے ہیں۔ گھر میں آیا ہوا ایک مہمان بچے سے پوچھتا ہے کہ وہ زندگی میں کیا بنے گا؟ بچہ جواب دیتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا؟ مہمان پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر ہی کیوں بنے گا؟ تو بچہ جواب دیتا ہے کہ وہ دوسروں کا آپریشن کرنا پسند کرتا ہے۔ بچے کے اس جواب پر سب ہنس دیتے ہیں۔ تو یہ طے ہوا کہ کسی فرد کو محض کسی مخصوص انٹرویو کے لیے ہی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسے زندگی میں میل ملاقات کے لیے ہر لمحہ ہی تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ چوکس اور مستعد رہنا اہم خوبی ہے اسے اپنے گرد و پیش اور قرب و جوار کی خیر و شر کا احساس ہونا بھی چاہیے تاکہ کوئی غلط قسم کا شخص اس کو لا علمی کی بنیاد پر یا انجان پا کر اپنے غلط اقدامات کا نشانہ ہی نہ بنا ڈالے۔ تیز فہمی اس حالت کو کہتے ہیں کہ فرد کی ذہنی اور جسمانی صحت ایسی ہو کہ وہ کسی بھی قسم کی اچانک پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹ سکنے کے قابل ہو۔ تیز فہم ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے اچانک انٹرویو سے عہدہ برآ ہونے کی فوری تدابیر کر سکے۔ ہم سب کو اس قسم کی تیز فہمی کی پرورش اور اپنے اپنے طور پر نشوونما کرتے رہنا چاہیے۔ کوئی بھی شخص جب پہلی بار فوج میں شامل ہوتا ہے تو وہ چند ابتدائی ایام میں مارچنگ کرتے ہوئے اپنے ساتھی فوجیوں کے قدم سے قدم نہیں ملا سکتا۔ دھوپ میں کھڑے رہنے سے اس کا سر بھی چکراتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ روز مرہ کی مشق اسے تمام معاملات میں کامل بنا دیتی ہے۔ بالآخر وہ ہر قسم کی صورت حال، کسی بھی موسم اور کسی بھی ناگہانی کیفیت سے مقابلے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی فرد خود کو بہتر بنا سکتا ہے اپنے آپ کو ہر سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔وہ ایسا اہل انسان بن سکتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ اسے کس موقع پر کس قسم کا جواب دینا چاہیے۔ وہ شخص جو تصور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا یا وہ کسی ناگہانی صورت حال سے معاملہ نہیں کر سکتا، ایسا شخص ادھر ادھر بڑبڑا کر اپنے حواس اور توانائی کا زیاں کرتا رہتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح خود کو بہتر بنا سکتا ہے۔ آپ اگر زندگی میں آگے بڑھنا اور اپنا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو مستعد رکھیں کیونکہ اس دنیا میں ہر لمحہ اور ہر صورت حال مقابلے کی ہے اور انٹرویو دینے کی ہے۔ اس عمومی تربیت کے علاوہ آپ کے ذہنی تصورات، خیالات اور ذخیرہ الفاظ کو اسی سمت میں متحرک ہونا چاہیے جس کے پیش نظر آپ اپنی تیاری خصوصیت سے کر رہے ہیں۔ کسی خصوصی انٹرویو کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ہر انٹرویو میں ایک چھپا گوشہ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کیے جانے والے سوالات کسی مخصوص موضوع کے حوالے سے ہوں گے اور اس دائرے سے باہر نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر آپ ایک اکاؤنٹنٹ، ایک تکنیکی مددگار، ایک ٹائپ کرنے والا کلرک، ایک انجینئر، ایک سیلز مین، منیجر اور اسی قسم کے دیگر عہدوں میں سے کسی ایک میں ملازمت کے لیے انٹرویو دے رہے ہیں تو آپ کی طرح اور بھی جو شخص ان میں سے کسی عہدے کا امیدوار ہو تو اسے بھی اپنے دائرہ کار کے بارے میں تازہ ترین معلومات حاصل کرنا ضروری ہیں۔ معلومات عامہ اور حالات حاضرہ سے واقفیت رکھنا ہر شخص کی ذاتی مملکت ہے۔ ان سے باخبر ہونا انسان کی اعلیٰ صفت ہے۔ لہٰذا ہر کسی کو اہم سیاسی، اقتصادی اور دیگر روز مرہ کی خبروں سے آگاہی ہونا ہی چاہیے۔ ایک بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ اپنے انٹرویو کرنے والوں کو کبھی حقیر یا کمتر خیال نہ کریں۔ کبھی بھی اپنے جوابات کے ذریعے ان کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کرنے والوں میں سے کچھ لوگ بوڑھے، ڈبڈبائی آنکھوں والے یا کمزور و ناتواں نظر آتے ہوں مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں نہایت ہی تجربہ کار اور نامور ہوں۔ بعض اوقات وہ امیدوار کے ایک آدھ لفظ کے بولنے ہی سے اس کے متعلق پورا پورا اندازہ کر لیتے ہیں۔ ہمارا مقصد اپنے انٹرویو کاروں کو اپنے بارے میں ایک توازن کا بھرپور تاثر دینا ہونا چاہیے۔ ہمیں نہ ہی زیادہ تیزی طراری دکھانی چاہیے اور نہ ہی زیادہ دھیما پن اور نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ امیدوار کو یہ تاثر دینا چاہیے کہ وہ تو ایک کارکن ہے اور کام اور عمل کے لیے آمادگی رکھتا ہے اور وہ سنجیدہ اور مخلص بھی ہے۔ ٭٭٭ دوسرا باب انٹرویو کی تیاری اگر کسی کو اپنی زندگی میں روشن ستارے کی مانند جیتے رہنا مطلوب ہے تو اسے لوگوں سے ملنا اوران سے خط و کتابت کرتے رہنا چاہیے۔ اس میں دوسروں کو متاثر کرنے کی اہلیت بھی ہونی چاہیے اور عام رواج سے ہٹ کر ایک جداگانہ انداز زندگی بھی اختیار کرنا چاہیے۔ جب کوئی شخص ملازمت کا متلاشی یا کسی اہم اسامی کا امیدوار ہو تو اسے کئی انٹرویو بھگتانے پڑتے ہیں۔ زندگی کی ہر سطح پر اسے مختلف گہرائیوں اور مختلف نتائج پر مبنی انٹرویوز سے واسطہ پڑتا ہے۔ کسی اہم شخصیت یا سیاسی شخصیت یا نوکر شاہی کے کسی با اختیار فرد کے بارے میں سوچیں کہ اس کو کتنی بار ذرائع ابلاغ کے لوگوں سے ملنا اور پریس کانفرنسوں میں شامل ہونا پڑتا ہے اور انہیں قومی نوعیت کے اہم معاملات پر سوالات کے جوابات بھی دینا پڑتے ہیں۔ پس زندگی میں کامیاب ہونے کا دستور العمل انٹرویوز میں کامیابی ہی ہونا چاہیے۔ اسی طریقے ہی سے ہر شخص کا میلان انٹرویوز کی طرف ہو سکتا ہے۔ پھر وہ کسی بھی انٹرویو کو کسی بند کمرے کا خصوصی انٹرویو خیال نہیں کرتا بلکہ زندگی کے ہر لمحے میں پیش آنے والے انٹرویوز کی مانند اہم انٹرویو کو بھی معمول کا ایک انٹرویو ہی سمجھتا ہے۔ اگر اسے انٹرویو کے لیے کچھ تیاری کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کی نشوونما کرتا ہے اور اپنی معلومات کے پس منظر کو دہراتا ہے۔ ایک امیدوار کی ترجیحات اس کی صحت، اس کے اطوار و آداب، طرز عمل، علم اور مہارتیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ صحت ایک اہم جزو ہے۔ ایک صحت مند امیدوار خود اعتمادی کی خوشبو پھیلانے کے علاوہ اپنے اعتماد کا اظہار بھی کرتا ہے۔ صحت کو کسی طرح اچھی سطح پر رکھا جائے؟ ایک لمبا چوڑا سوال ہے جس کے جوابات بھی لمبے چوڑے ہی ہیں۔ بس یہی تجویز کیا جا سکتا ہے کہ اچھی صحت کے بنیادی تقاضوں کی شناخت کی جائے کہ وہ کیا ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے اولین بات تو یہ ہے کہ افراد کو کسی چیز کی لت (عادت) نہیں ڈالنا چاہیے۔ جیسے بعض افراد کو چائے، کافی، سگریٹ نوشی، مشروبات اور مٹھائیاں وغیرہ کے باقاعدہ استعمال کی طلب ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اگر ان بد عادات سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتا ہے تو وہ اپنی مرضی کا زیادہ تر آپ ہی مالک ہوتا ہے۔ وہ سیدھی راہ عمل اختیار کرنے کے بارے میں پوری توجہ کے ارتکاز سے سوچ سکتا ہے اوراپنے فیصلے پر عمل پیرا بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ وہ بیرونی منفی قوتوں یعنی بد عادات کے تابع نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ اپنی زندگی کو بہترین طریقے سے باقاعدہ بنا سکتا ہے۔ اسے مشروبات کے پیالے پینے ہوتے ہیں اور نہ ہی لاتعداد سگریٹ پھونکنے ہوتے ہیں۔ وہ نیند سے عاری راتیں بھی نہیں گزارتا۔ وہ جلدی سونے اور جلدی جاگنے کے سنہرے اصول پر عمل کر سکتا ہے اور ایسا کرنا اس کے معمول کی بات ہوتی ہے۔ اچھی عادات کے بہترین نتیجے میں اس کا دماغ توانائی سے بھرا رہتا ہے اور غیر ضروری آوارہ خیالات سے پاک رہتا ہے۔ مندرجہ بالا سب کچھ کے بعد اب ہم انسانی زندگی کی نفسیاتی سمت کی طرف آتے ہیں۔ انسان جتنا زیادہ اپنے ذہن کو تیز کرتا ہے اور اس تیزی کی جتنی زیادہ نشوونما کرتا ہے تو اسے اتنی ہی زیادہ غیر معمولی ذہانت حاصل ہوتی ہے، جو اس کی راہنمائی معمول کی زندگی کی خالص اور سچی خوشی کی طرف کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس نفسیاتی حقیقت کو یاد رکھتا ہے تو پھر وہ خوشیوں اور تبدیلیوں کا خواہشمند ہوتاہے۔ ساتھ ہی وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی نفسیاتی نشوونما پر بھی توجہ دیتا ہے۔ نشوونما کا یہ عمل اسے خوش و خرم رکھتا ہے۔ مشاغل، فرد کی راہنمائی نشوونما کی طرف کرتے ہیں۔ اگر باغبانی ایک عمر رسیدگی کا مشغلہ ہے تو موسیقی، آرٹ، ڈرامے، مباحث، کلبوں کی سرگرمیاں، سماجی کام اور اسی قسم کے تنظیمی مشغلے نوجوان خواتین اور مردوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے ذرائع ہیں۔ مطالعہ جات اور اس قسم کی دوسری سرگرمیاں یا کام حقیقتاً درست قسم کی تبدیلیاں ہیں جو نوجوان ذہنوں کو سستی اور کاہلی میں مبتلا ہونے سے بچاتی ہیں۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ شمال، جنوب، مشرق، مغرب غرض ہر سمت میں دنیا کا مقابلہ کر سکیں اور اپنی زندگی ضبط و استقلال اور بہادری سے گزار سکیں۔ یہ نوجوان نسل ہی ہوتی ہے جس کے کندھوں پر تمام سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں ’’ سوشل ورک‘‘ کی قسم کے کاموں جیسے غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ پر مشتمل نہیں ہوتیں لیکن ان کی جڑیں عزیز و اقربا، والدین، والدین کے والدین اور خاندان کے بچوں کو روشنی بخشنے اور امید دلانے جیسے نیکی کے کاموں ہی میں گڑی ہوتی ہیں۔ کون ہو گا جو اس بات کی توقع آنے والی نسل سے نہیں کرے گا کہ وہ مایوسی کے اندھیروں کو دور کرنے، کامیابی کی روشن دھوپ میں اور امیدوں بھری سہانی زندگی میں سب کو ساتھ لے کر چلنے والی ہو۔ جب ایک نوجوان یہ سب کچھ اپنے ذہن میں رکھتا ہے تو وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ناکامیابی کے باعث اس کا چہرہ افسردہ ہو، اس کی پیشانی پر تیوڑیاں پڑی ہوں اور ا سکی آنکھیں شرم کے مارے نیچے کی سمت جھکی ہوں۔ عمر نوجوانوں کی ساتھی ہوتی ہے۔ ناکامیاں ان کی کامیابیوں کے بنیادی ستون ہوتی ہیں اورخدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ایسی یادداشتوں سے ایک نوجوان کبھی بھی مسکرانے سے اجتناب نہیںکرتا۔ اس کی بیباک اور مستقل مزاج آنکھیں آفاق کے اندرون میں جھانک لیتی ہیں اور جو رکاوٹ اس کی راہ میں آتی ہے اس کو للکارتی ہیں۔ ایسے اوصاف سے آراستہ نوجوان جب انٹرویو کرنے والوں کے مقابل آتا ہے تو اسے کبھی رد نہیں کیا جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں منتخب نہ کیا جائے لیکن اسے وہاں ضرور منتخب کر لیا جائے گا کیونکہ ’’ وہاں‘‘ نامی جگہ دوسری ہے۔ اگر ایک ’’ یہاں‘‘ نامی جگہ پر اس کی درست شناخت نہیں ہوئی تو دوسری جگہ پر اسے یقینی طور پر اس کو اور اس کی صلاحیتون کو شناخت کر لیا جائے گا۔ یاد رکھیں کہ کوئی آپ سے اس لیے انٹرویو نہیں کرتا کہ اس نے آپ کو ’’ کام دینا‘‘ ہے بلکہ اس نے آپ سے ’’ کام لینا‘‘ ہے۔ جب آپ اپنے آجر کو یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ آپ اسے اس کی ضرورت کے مطابق’’ کام دے‘‘ سکتے ہیں تو پھر آپ کو کامیابی ہی مبارک ہوتی ہے۔ کسی بھی امیدوار کو کبھی بھی کسی انٹرویو کے کمرے میں اس نیت سے داخل نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے وہاں سے کام حاصل کرنا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف یہ خیال ہونا چاہیے کہ اسے کرنے کو کام مہیا کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ نے سڈنی شیلٹن کا مشہور ناول ’’ آدھی رات کی دوسری سمت‘‘ پڑھا ہے تو آپ کو پتا ہی ہو گا کہ ایک انٹرویو میں آنے والی لڑکی کیتھرائن نے کس طرح ’’ لائف‘‘ میگزین کا پرانا شمارہ اپنے مستقبل میں ہونے والے باس کے لیے حاصل کیا۔ وہ لڑکی آفس اسسٹنٹ یا اسی قسم کی کسی آسامی کے لیے انٹرویو دینے آئی تھی۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی لڑکیاں دفتر کے باس کی سیکرٹری کے کمرے میں منتظر بیٹھی تھیں جو اسی مقصد یعنی انٹرویو کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ اچانک باس نے اندرونی دروازہ کھولا اور اپنی سیکرٹری سے کہا کہ وہ ’’ لائف‘‘ میگزین کا فلاں فلاں پرانا شمارہ حاصل کرے۔ لیڈی سیکرٹری حیران پریشان اور تذبذب کے عالم میں تھی کہ وہ کس طرح باس کا مطلوبہ شمارہ حاصل کرے۔ انٹرویو کے لیے آئی ہوئی کیتھرائن نامی لڑکی خاموشی سے اٹھی اور دفتر سے باہر نکل گئی۔ وہ نزدیک کی گلی میں ایک حجام کی دکان پر گئی اور وہاں سے مطلوبہ شمارہ لا کر اس نے دفتر کے باس کی سیکرٹری کو دے دیا۔ سیکرٹری اٹھی اور شمارے کو باس کے حوالے کرنے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ سیکرٹری کی اچھائی تھی کہ اس نے بیرونی کمرے میں انٹرویو کی منتظر اس لڑکی کے متعلق باس کو بتایا جس نے کہ اس کو ’’ لائف‘‘ میگزین کا پرانا مطلوبہ شمارہ مہیا کیا تھا۔ فوراً ہی کیتھرائن کو انٹرویو کے کمرے میں بلایا گیا اور اسے ملازمت کی پیش کش کر دی گئی۔ اس کے باس نے اس سے پوچھا کہ اس نے مطلوبہ شمارہ کس طرح حاصل کیا تو اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے روز مرہ کی کسی گفتگو میں بتایا تھا کہ پرانے رسائل حاصل کرنے کی بہترین جگہ حجام کی دکان ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کیتھرائن کی کہانی اور کہانی کی جملہ صورت حال گھڑی گئی ہو اور محض افسانہ ہی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے مرد و خواتین جو کسی مقام پر انٹرویو کیلئے حاضر ہوئے ہوں انہیں اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ بات سے بات نکلتی ہے۔ کوئی بھی واقعہ نشوونما پا سکتا ہے اور انٹرویو سے بہت دور وہ امیدوار کو کسی اور ہی صورت حال میں لے جا سکتا ہے۔ تاہم امیدوار کی مستعدی اور چوکسی سے اس کے آغاز کا رکا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ اندازہ ہی دیگر امیدواروں میں سے اس کی فضیلت کا سبب ہو سکتا ہے۔ ان متذکرہ باتوں سے ہم عملی حس اور شعور کی نشوونما کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کیونکہ یہ اچھی خوبیوں پر مبنی ایک گرانقدر اثاثہ ہے۔ ایسے امیدوار کیلئے جو دوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہش رکھتا ہو ایسے اثاثے خاصے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایک امیدوار کے لیے او ربھی کئی خوبیاں اپنے اندر پرورش کرنے کے لیے موجود ہیں جو اچھی ظاہری شکل و صورت، تیز فہمی اور شخصیت وغیرہ پر مبنی ہیں۔ ان کا تعلق امیدوار کے سراپا کی اس اولین جھلک سے ہے جب وہ پہلی مرتبہ کسی انٹرویو کرنے والے فرد یا افراد کے سامنے ایک اجنبی کی حیثیت سے پیش ہوتا ہے۔ اس پہلی جھلک میں امیدوار کا سراپا اٹھنے، بیٹھنے، باتیں کرنے، ہنسنے اور اس کے رویے کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں انٹرویو کاروں کو بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ کچھ آداب اور اطوار ایسے بھی ہیں جن کو فرد کو نہ صرف سیکھنا چاہیے بلکہ انہیں اپنی شخصیت کا خود کار حصہ بطور پختہ عادات کے بنا لینا چاہیے۔ کوئی شخص دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آنے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ جب اسے اجازت مل جاتی ہے تو وہ اندر داخل ہو جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے دروازہ کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ دروازہ کھٹکھٹانے یعنی دستک دینے کی بھی ایک اپنی زبان ہوتی ہے۔ با اختیار افراد جب دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو ’’ کھولو‘‘ کا لفظ ان کی کھٹکھٹاہٹ ہی سے گونج اٹھتا ہے۔ محبت کرنے والوں کی دستک کا انداز دھیما اور شیر گرم ہوتا ہے جبکہ اجنبی کی دستک کا انداز غیر فیصلہ کن ہوتا ہے۔ماتحت کا اپنے باس کے کمرے میں اور امیدوار کا انٹرویو کے لیے کمرے میں داخل ہونے کے لیے دروازہ پر دستک دینے کا انداز اندر جانے کے لیے اجازت حاصل کرنے کا یعنی ملتجیانہ ہوتا ہے۔ یہ امیدواروں کے اپنے مفاد میں ہو گا کہ وہ اوپر کے پیرے میں آخری دستک کی مشق کریں کیونکہ انٹرویو کے ماہرین جو اندر بیٹھے ہوتے ہیں دستک ہی سے کئی اندازے لگا لیتے ہیں۔ دستک دینے کی مشق کرنا ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی شخص ہو مشق ہی سے کامل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نصیحت یہ بھی ہے کہ دستک صاف اور واضح طور پر صرف تین مرتبہ دی جائے۔ کسی شخص کی ظاہری شکل و صورت اس کو دیکھنے والے کی صلاحیت میں پہلے ہی سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔ کوئی شخص خوبصورت ہو سکتا ہے، کوئی نہیں بھی ہوتا۔ امیدوار کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کی خاطر اپنی ظاہری شکل و صورت کو کچھ سنوارنا ضروری ہے۔ مثلاً اس کا لباس موزوں ہو اور باہم مطابقت رکھتا ہو۔ اس کے بال کٹے ہوئے ہوں اور یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کا چشمہ، جوتے، ٹائی اور رومال وغیرہ تک اس کی شخصیت کا انعکاس کرتے ہوں۔ جب کوئی شخص خوش اطوار لباس زیب تن کئے ہوئے ہو، جب اس کا لباس، بریف کیس اور دیگر اشیاء ایک سہانا تاثر دے رہی ہوں، جب فضا کو معطر کرنے والے عطر و پھلیل کے بغیر ہی وہ صفائی اور تازگی کا مرقع محسوس ہو رہا ہو تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک جاذب اور ملاقات کرنے والی ظاہری شکل و صورت سے آراستہ ہے۔ انٹرویو کرنے والے ممکن ہے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ نے انٹرویو کی تیاری کی ہے؟ وہ آپ کی اہلیتوں اور مہارتوں کے بارے میں پوچھنے کی بجائے یہ کہیں کہ وہ آپ کی دلچسپیوں کی وسعت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ وہ آپ سے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کسی چلتے چلتے سر راہ پیش آ جانے والے موضوع سے کیسے معاملہ کریں گے؟ اور کیا آپ اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں سے ہٹ کر دوسری باتیں معلوم کرنے سے پریشان تو نہیں ہوئے؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کرنے والوں میں سے کوئی ایک فرد آپ کی غیر ملکی گھڑی یا ٹائی کی تعریف کرنے لگے۔ آپ اسے بتا سکتے ہیں کہ یہ ایک تحفہ تھا جو آپ کے چچا نے آپ کو دیا۔ آپ کا وہ چچا اقوام متحدہ میں تھا اور جب وہ روم گیا تو وہاں ہی سے وہ اس گھڑی یا ٹائی کو آپ کے لیے لایا تھا۔ ’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے کچھ شعبے جنیوا اور روم میں کیوں ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مرکزی دفاتر تو امریکہ میں ہیں؟‘‘ وہی آپ کی گھڑی یا ٹائی کی تعریف کرنے والا شخص آپ سے پوچھتا ہے۔’’ آپ کو اپنے اعضاء کو ایک جگہ باندھ کر رکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ انہیں کھلا رکھنا اور ہلاتے جلاتے رہنا ہی صحت ہے۔۔۔۔۔‘‘ بطور امیدوار یہی آپ کا جواب ہو سکتا ہے۔ (ایک امیدوار کے حقیقی تجربے سے) ایک اور امیدوار انٹرویو کے لیے آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ ایک سفارتخانے میں کام کر رہا ہے۔ انٹرویو کے تین ممبران میں سے ایک ممبر نے پوچھا۔ ’’ سفارت خانے میں تمہارا کام کس نوعیت کا ہے؟‘‘ امیدوار جو اپنے کام کی نوعیت بتانے کے لیے منہ کھولنے ہی والا تھا کہ اچانک انٹرویو بورڈ کے صدر نے ایک اور سوال کرتے ہوئے اس سے پوچھا’’ جس سفارت خانے میں تم کام کرتے ہو اس سفارت خانے میں ہمارے ملک کا سفیر کون ہے؟‘‘ خوش قسمتی سے امیدوار سفیر کا نام جانتا تھا لیکن اس قسم کی معلومات بہت سے امیدوار ان عام طور پر حاصل ہی نہیں کرتے۔ اگر آپ کسی گفتگو میں سوالات پوچھنے شروع کر دیں اور دوسرے سننے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر آپ گفتگو کرنے کے شائق نہیں کہلا سکتے۔ اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں اور دفتر کے اندرونے اور بیرونے کو جانتے ہیں تو اندر اور باہر آپ کی بڑی عزت ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ انٹرویو کے دوران میں ’’ میں نہیں سمجھایا آپ نے کیا فرمایا؟‘‘ کہے بغیر انٹرویو کے اختتام تک جا پہنچے ہیں تو آپ لازماً زیادہ نمبر حاصل کریں گے۔ اس طرح آپ نے انٹرویو کاروںپر اپنی شخصیت کے بہترین نقوش چھوڑنے اوراپنی توجہ اور اکتسابی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اگر آپ کسی ایسے دورہ پر گئے ہوں جس میں آپ کو ایک راہنما (گائیڈ) مہیا کیا گیا ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ متواتر بولتا چلا جاتا ہے۔ وہ حقائق بیان کرتا ہے۔ تواریخ تک بتاتا ہے پرانے حکمرانوں میں ہونے والے بادشاہوں اور ملکاؤں کے نام لیتا ہے۔ آپ اس گائیڈ کو اچانک ایک سوال کریں اور پھر اس کے رد عمل کا مشاہدہ کریں! وہ اپنی تیزی طراری بھول جائے گا۔ ایک مرتبہ ’’ تاج محل‘‘ آگرہ میں ایک بین الاقوامی گروہ کو معلومات مہیا کی جا رہی تھیں گائیڈ گروپ کو ان کاریگروں کی صنعت کاری کے متعلق بتا رہا تھا جنہوں نے فارسی زبان کے کلمات کو خصوصی طور پر بلند مقامات پر نسبتاً بڑے بڑے حروف میں کندہ کیا تھا تاکہ وہ نیچے سے دیکھنے والوں کو مناسب طور پر نظر آئیں۔ مقبرہ میں داخل ہونے والے دروازے کے محراب پر کندہ ان فارسی کے الفاظ کو گائیڈ پڑھ نہیں سکتا تھا۔ وہ الفاظ کو ’’ کیریکٹر‘‘ کہہ رہا تھا۔ گروہ کے افریقی شرکاء میں سے ایک نے اچانک گائیڈ سے پوچھا۔ لفظ’’ کیریکٹر‘‘ سے آپ کا مدعا کیا ہے؟ گائیڈ اس سوال کو نہیں سمجھا۔ وہ تو پیشہ ورانہ طور پر رٹے ہوئے الفاظ دہرا رہا تھا۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکا تو اپنی خفت کو دور کرنے کے لیے اس نے مزید معلومات مہیا کرنے کی خاطر جواب دینے کی بجائے بولتے چلے جانے کے گر کا سہارا لیا۔ بین الاقوامی گروہ کے شرکاء گائیڈ کی سرپرستی کرتے ہوئے اس کے تغافل کے انداز پر مسکرا دیئے۔ یہ واقعہ انٹرویو کے امیدواروں کے لیے بڑا اہم ہے۔ امیدوار انٹرویو کے دوران میں کئی باتیں کر سکتا ہے لیکن جو سوال کیا جائے صرف اس کا درست جواب دینا ہی اس کے لیے کافی اور ضروری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتا تو اس کی لفاظی کی صلاحیت خواہ کتنی ہی بڑھیا کیوں نہ ہو، بیکار ہے، بے معنی ہے۔ اس مقصد کے لیے امیدواران کو اپنی جسمانی اور ذہنی شعبوں کی نشوونما کرنی چاہیے۔ ان کو خوش اطوار اور ملاقات کرنے کے اہل نظر آنا چاہیے۔ ان کو مہذب اور ملنسار بھی دکھائی دینا چاہیے۔ انہیں زبان بند رکھنی چاہیے اور نہ ہی بڑبولا ہونا چاہیے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ وہ اپنے جوابات میں نکتے کی بات کریں اور ادھر ادھر کی ہانکنے سے گریز برتیں۔ آپ اگر کسی مسئلے کے مفروضوں کے پہلوؤں کو اچھی طرح تفصیل سے جانتے ہیں تو آپ کیلئے اپنے جواب کو سادہ سی ’’ ہاں‘‘ یا’’ نہ‘‘ میں ادا کرنا مشکل ہو گا۔ انٹرویو میں آپ کا جواب فیصلہ کن ’’ ہاں‘‘ یا’’ نہ‘‘ میں یعنی مسئلے کے حق میں یا مخالفت میں دلائل پر مبنی ہونا ضروری ہے۔ ٭٭٭ تیسرا باب کوائف و اطوار آپ تقریباً ان تمام جانے پہچانے اور معروف طریقوں سے انٹرویو کرنے والے فرد یا افراد کے معیار پر پورا اترنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہر امیدوار ایسا ہی کرتا ہے۔ ہر نوجوان جب کسی انٹرویو پر جاتا ہے تو وہ کئی پہلوؤں سے اپنے آپ کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ وہ اپنے لباس کو دیکھتا ہے، اپنے علم کو پرکھتا ہے، اپنی اہلیت پر نظر ڈالتا ہے، اپنی پسند نا پسند کے متعلق سوچتا ہے اور اپنی مجموعی ہیئت اور اہلیت کو سنوارتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنے آپ کو مودب، نرم، خاموش، سنجیدہ اور پسندیدہ ہونا سکھاتا ہے۔ کوئی بھی نوجوان جو زندگی میں آگے بڑھنے کی تمنا رکھتا ہے، اپنا مرتبہ بلند کرنا چاہتا ہے، اپنی مالی حالت کو بہترین بنانے کا خواہشمند ہے اور اس کے مقاصد نیک ہیں، وہ مواقع سے مستفید ہوتا ہوا سنبھل سنبھل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو وہ کسی ایک مقام پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ اسے مسلسل بہتر سے بہترین کی تلاش کی جدوجہد رواں دواں رکھتی ہے۔ زندگی میں اس قسم کا متحرک رویہ رکھنے والے شخص کو بڑی بڑی خوبیاں حاصل کرنا، اپنے اندر تبدیلیاں لانا اور بڑے بڑے محاذ کھولنا پڑتے ہیں تاکہ وہ زندگی کو اپنے قریب سے بہتے ہوئے نہ گزرنے دے بلکہ وہ خود بہاؤ کی اس مخالف رو میں شامل ہو جو اوپر بلندی کی سمت جا رہی ہے تاکہ وہ کسی اچھے بلند مقام پر پڑاؤ ڈالے۔ زندگی میں ایسا طرز عمل پیدا کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو کسی مخصوص انٹرویو میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی خصوصی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو اپنی زندگی کے ہر لمحے ہی انٹرویو کے لیے تیار رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص آگے بڑھ رہا ہے اور متحرک ہے تو لازمی ہے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں سے ملے۔ اس کی ملاقات عام لوگوں کے علاوہ خاص لوگوں سے بھی ہو۔ ایسے لوگوں سے بھی ہو جو کاروبار میں مقناطیسی قوت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ تسلیم شدہ مصدقہ آجر ہوتے ہیں جن کے ہاں بہت سے لوگ مختلف مراتب پر کام کرتے ہیں۔ ایک نوجوان کسی ایسے ہی باوقار شخص سے کسی کاروباری میٹنگ کے دوران میں، یا کسی اتفاقیہ مڈبھیڑ سے یا اسی قسم کی کسی اور وجہ سے ملاقات کر سکتا ہے۔ جس طرح بہتر توقعات رکھنے والا ایک نوجوان کسی اچھے اور شہرت یافتہ آجر کی تلاش میں ہوتا ہے اسی طرح ایک کامیاب آجر اپنے لیے محنتی اور بہترین کارکنوں کے کھوج میں ہوتا ہے کیونکہ کسی ادارے کے عملے کی محنت اورکارکردگی ہی کاروبار کی ترقی اور کامیابی کے علاوہ منافعے کے بڑھ جانے کی ضمانت ہوتی ہے۔ کامیابی کے ان تمام مناظر کے پس منظر میں کارکن افراد کے کوائف و اطوار ہوتے ہیں کہ اس کا طرز عمل کیسا ہے؟ وہ کیسے بات کرتا ہے؟ کسی خراب صورت حال کا سامنا کیسے کرتا ہے اور بالآخر وہ اس صورت حال کو کس طرح سنبھالتا ہے اور کیاحل پیش کرتا ہے؟ ہم عمل کی دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ ممالک اور وہ لوگ جنہوں نے عمل اور سرگرمی کو اپنی تقدیر کو بہترین بنانے کا نقطہ ارتکاز بنا رکھا ہے بے شک وہ ممالک اور وہ لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کی راہنمائی کر رہے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کی قسموں کو سنوار رہے ہیں۔ ایسے ممالک اور ایسے لوگ جن کو ’’ ترقی یافتہ‘‘ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے، کے ہاں عمل کبھی بھی ختم نہیں ہوتا، ان کا یقین اس پر نہیں ہے کہ جب ایک کام ختم ہو جائے تو وہ سکھ کی سانس لیں، موج میلہ منائیں اور فارغ بیٹھیں۔ وہ ایک عمل (کام) کے ختم ہونے پر مناسب طور پر آرام کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور تفریح کو بھی نظر انداز نہیں کرتے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ تازہ دم ہو کر کسی نئی سرگرمی میں دل و جان سے مگن ہو جاتے ہیں یا پھر وہ کسی بھی نوعیت کے تفویضی کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ترقی یافتہ لوگوں کا رویہ اپناتا ہے تو پھر اس کو زندگی کے ہر مرحلے میں بہترین کوائف و اطوار کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوائف و اطوار کی عمومی تعریف کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینے کی بجائے ان اوصاف اور خوبیوں کو بیان کرنا زیادہ مناسب اور مفید ہو گا جو اچھے کوائف و اطوار پیدا کرتی ہیں۔ اچھے کوائف و اطوار پیدا کرنے اور سکھانے والی تربیت گاہیں اور سکول ہر شخص کو یہ سکھاتے ہیں کہ وہ موقع محل کے مطابق’’ آپ کا شکریہ‘‘ ،’’ افسوس ہے‘‘ ،’’ بالکل نہیں‘‘ اور’’ خوش آمدید‘‘ وغیرہ اور اسی قسم کے دیگر تاثرات کے اظہار پر مبنی الفاظ کہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو ان تاثراتی الفاظ کی اس قدر مشق کراتے ہیں کہ یہ ان کی فطرت کا ایک جزو لاینفک بن جاتے ہیں۔ کسی کی فطرت میں اچھے اطوار کو خصوصی طور پر کاشت کرنے کے لیے کچھ مزید کچھ غیر معمولی اور کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تاثیر غیر معمولی ہو، روایتی اور رواجی نہ ہو۔ کسی پر ہجوم جگہ میں یا بس وغیرہ میں اگر اتفاق سے کسی کی کہنی دوسرے کو لگ جاتی ہے یا کسی کا پاؤں دوسرے شخص کے پاؤں کو سختی سے دبا دیتا ہے تو سماجی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ’’ افسوس ہے‘‘ کے الفاظ کہنے سے بات آئی گئی ہو جائے گی لیکن اگر کوئی شخص دوسرے شخص کے بازو کو چھوتا یا اس کی پشت کو اس لیے تھپتھپاتا ہے کہ وہ اپنی اس تکلیف کا اظہار کرنا چاہتا ہے، جو اسے اس شخص کے ناشائستہ دباؤ اور الجھاؤ سے پہنچ رہی ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ خود وہ شخص ہیں جس کے تغافل اور عدم توجہ سے دوسرے فرد کو نا واجب تکلیف پہنچ رہی تھی۔ آپ اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کھل کر کرتے ہیں۔ اس بوجھ کو اس شخص کے پاؤں اور ٹانگوں سے ایک طرف کرتے ہیں جو آغاز سفر سے آپ کے لیے بھی مصیبت کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر آپ رسمی معذرت خواہانہ جملوں کی بجائے اپنے گہرے محبت آمیز مخلص جذبات کا اظہار دل و دماغ کی زبان سے کرتے ہیں۔ فریق ثانی کی ناراضی کی صورت حال شائستہ ہو جاتی ہے۔ آپ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ آپ کے کوائف و اطوار کی تربیت نیک اور مخلص جذبات سے ہوئی ہے۔ ایک بار خود غلط شخص جب ’’ افسوس ہے‘‘ یا ’’ آپ کا شکریہ‘‘ جیسے رسمی الفاظ ادا کرتا ہے تو وہ ہمدردی کے دلی جذبات سے یکسر خالی ہوتے ہیں۔ وہ شخص جو اپنے ارد گرد کی دنیا اور انسانوں کا شعور رکھتا ہے، ان کی بہتری چاہتا ہے اور پہلے ہی سے دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونے کی روایات رکھتا ہے۔ وہ اپنے طرز عمل اور رویے میں اور اپنے الفاظ میں گہری ہمدردی کا تاثر دیتا ہے۔ جو رنجیدہ شخص کے کانوں میں خوشگوار انداز سے گونجتا اور عافیت کی تھپکی دیتا رہتا ہے۔ آپ نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس طرح وہ شخص جو دوسروں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے۔ ان کی حالت سے باخبر ہے اور زیادہ ہی مہذب ہے وہ کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں اپنے فطری جذبات کا اظہار خلوص و محبت سے کرے گا جبکہ اپنے ہی حال میں مست رہنے والے اور اپنے ہی معاملات میں پھنسے ہوئے افراد کا ہمدردی ظاہر کرنے کا رد عمل قطعی سطحی اور غیر فطری ہو گا۔ پس پسندیدہ اچھے اور نیک اطوار کسی کے رویے کی چمک دمک بڑھانے پر مشتمل نہیں ہوتے ہاں ایسے اطوار میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے کلمہ ہائے خیر اور نیک تمنائیں ضرور شامل ہوتی ہیں۔ کوائف اچھے، اطوار اچھے۔۔۔ یہی شرف انسانیت ہے۔ مستعدی اور کسی عمل کے لیے فوری آمادگی اور جواب دینے میں جلدی کرنا علیحدہ خوبیاں ہیں۔ ان خوبیوں کی مزید نشوونما اس وقت ہوتی ہے جب ان خوبیوں سے آراستہ کوئی شخص اپنے ارد گرد کے ماحول سے گہری مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اس کی کوششوں کے نتائج زیادہ متاثر کن اور زیادہ فطری ہوتے ہیں۔ اطوار ہی فرد کی تعمیر کرتے ہیں۔ اچھے اطوار ہر قسم کی صورت حال میں درست عملوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بیٹھنے، کھڑے ہونے، باتیں کرنے، باہمی تعلقات کی تمام حالتوں میں اور سماجی نوعیت کے تعلقات میں جو شخص اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے پسندیدہ اطوار کا حامل ہوتا ہے۔ گفتگو میں اچھے اطوار کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو کو کسی غلط مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ ہر شخص کو بولنے کا موقع دیا جائے۔ گفتگو کو ایک خوشگوار انداز میں الفاظ اور آراء کے تبادلے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ باہمی گفتگو میں جب کوئی شخص زیادہ بولتا ہے اور بولتا ہی چلا جاتا ہے تو یہ اچھے اطوار کے خلاف بات ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص، گفتگو میں شریک تو ہو لیکن گفتگو کے دوران میں لمبی خاموشی اختیار کرتا ہے تو یہ فعل بھی ناپسندیدہ ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ گفتگو میں ’’ ہاں‘‘ یا’’ نہ‘‘ کے دو الفاظ پر ہی تکیہ کرتا ہے تو یہ بھی بد اطواری ہی ہے۔ کسی بھی گفتگو میں شریک ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بات کہے اور دوسروں کی باتیں تحمل سنے۔ بات چیت کرنے کا علم انٹرویو میں بروئے کار لانا چاہیے۔ بالخصوصی ایسی صورت حال میں جہاں یہ پابندی نہ ہو کہ جو کچھ پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دیا جائے۔ جب امیدوار سے کوئی سوال پوچھا جائے تو اس کو قلیل الفاظ میں بھرپور جواب دینے کا فن استعمال کرنا چاہیے۔ جواب خشک اور مختصر ترین بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جواب میں تنقیدی عنصر بھی نا پسندیدہ ہے۔ ہاں، اس میں نرمی اور اظہار کے قدرتی پن کی خصوصیات لازماً پائی جانی چاہئیں۔ اچھے اور پسندیدہ اطوار کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ جوابات دینے میں فطری انداز ہی اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اس سے زیادہ اور کوئی بات متاثر کن نہیں ہوتی کہ ہر معاملے میں ہر شخص فطری انداز اختیار کرے۔ لہٰذا ضروری ہے فطری انداز کو موثر رکھنے کے لیے بناوٹ کا رنگ اپنی حرکات و سکنات اور لہجے پر نہ چڑھایا جائے۔ کسی امیدوار کا انٹرویو کرنے والوں کے سامنے پیش ہونے کا فطری انداز، غیر ضروری تکلفات کی نسبت زیادہ متاثر کن اور خصوصی طور پر نفوذ پذیر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے انٹرویو کرنے والوں کے سامنے حاضری کے اقدامات اکثر امیدوار کے متعلق بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔ ہمیشہ انٹرویو کرنے والوں کو پورا پورا احترام دینا چاہیے۔ اگر انٹرویو کرنے والا فرد واحد ہو تو بھی اس کی اہلیتوں کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے اور یہ بھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ امیدوار کی مہارتوں کے بارے میں سب کچھ کہاں جانتا ہو گا۔ یہ احمقانہ بات ہو گی کہ امیدوار انٹرویو کرنے والوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔ امیدوار کو عزت و احترام کا مناسب توازن قائم رکھنا چاہیے۔ اپنی خود اعتمادی اور انٹرویو کرنے والوں کی عزت کا شعور دونوں ہی انٹرویو کے اہم عناصر ہیں۔ اپنے اطوار میں شائستگی کا اظہار امیدوار کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک فلم کا منظر ہے۔ باس اپنے نوجوان منیجر کو اپنے کمرے میں بلاتا ہے اور کہتا ہے۔’’ میرے علم میں آیا ہے کہ تم اور میری بہن دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو۔ تم اپنی حالت کو کیسے بھول گئے ہو؟ تم نے کیسے اپنی آنکھیں اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھنے کی جرأت کی۔ تم تو صرف ایک ملازم ہو۔۔۔ اور وہ کیا ہے؟ ایک سمت آسمان کی بلندی ہے جو میری بہن ہے اور دوسری طرف پست زمین کی نچلی سطح ہے جو تم حقیر سے ملازم ہو۔۔۔۔ باس رک جاتا ہے۔‘‘ ’’ جناب مجھے معاف فرمائیں۔ میں نے پہلے کبھی بھی اور کسی وقت بھی آپ سے اختلاف نہیں کیا لیکن اب میں آپ کے یہ اہانت آمیز الفاظ برداشت نہیں کر سکتا جو آپ نے ابھی ابھی کہے ہیں۔ آپ کو شاید کبھی کھڑکی میں سے باہر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ اگر ملی ہوتی تو آپ کو علم ہوتا کہ کائنات میں خوبصورت ترین جگہ وہ ہے جہاں آسمان اور زمین باہم ملتے ہیں۔‘‘ ایسا جواب دینا جواب دینے کی ایک مضبوط ترین صلاحیت ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک امیدوار اپنے جوابات میں اس حد تک نہیں جا سکتا، تاہم انوکھے سوالات کے جوابات میں امیدوار کو کھچاؤ سے پاک فضا بھی برقرار رکھنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی امیدوار زیادہ ہی محتاط ہو تو ایسی صورت حال بھی اچھی نہیں ہوتی کیونکہ کھلی بات ہی واضح ہوتی ہے۔ امیدوار کو ہر قسم کی صورت حال کے علاوہ انٹرویو کرنے والوں کے مزاج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ذہانت ہی کام آتی ہے۔ بعض اوقات انٹرویو بورڈ کا صدر اپنی ترش روئی سے سوالات و جوابات میں محاذ آرائی کی سی کیفیت پیدا کرد یتا ہے۔ وہ ایسا امیدوار کا جوشیلا پن مدھم کرنے کے لیے کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یا تو امیدوار کے جوابات کو اور رخ پر ڈال دیتا ہے یا اس کے کوائف نامہ میں کسی خلا پر تبصرہ کر کے امیدوار کی غلطی کو نمایاں کرتا ہے۔ ’’ تم نے سائنس چھوڑ کر کامرس کی تعلیم کیوں اختیار کی؟ تم اپنی حالیہ ملازمت کو کیوں ترک کر رہے ہو؟ کیا تم خوش نہیں ہو، مسئلہ کیا ہے؟‘‘ وہ اس قسم کے تلخ سوالات امیدوار سے کرنے پر اتر آتا ہے۔ کچھ انٹرویو کار انٹرویو کی ابتداء انتہائی تحمل اور بردباری سے کرتے ہیں اور پھر وہ مایوسی پھیلانے والے ٹال مٹول قسم کے سوالات پر اتر آتے ہیں۔ امیدوار سے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے کوائف نامے میں لکھا ہے کہ اسے فروخت کے کام کا تجربہ نہیں ہے اگرچہ اس مہارت کا تعلق براہ راست ہمارے کام سے نہیں ہے لیکن یہ اہم اور عام فن ہے؟ یا پھر وہ کہتا ہے کہ تمہیں کمپیوٹر کا گہرا علم نہیں ہے تم اس وقت کیا کرو گے جب ہم اپنے دفتر کی ساری کارکردگی کمپیوٹر ہی کے سپرد کر دیں گے؟ وغیرہ وغیرہ بیٹھنے اور اٹھنے کی حرکات کا ایک تاثر پھیلانے کا اپنا انداز ہے۔ چہرے کا اتار چڑھاؤ، آنکھوں کی حرکات اور ہاتھوں کی حرکات وغیرہ کسی شخص کی شخصیت کو عمدہ بنانے کے عناصر ہیں۔ جب کوئی آدمی بیٹھا ہو تو اس کے بیٹھنے کے انداز ہی سے اس کے متعلق کوئی خصوصی تاثر قائم کر لینا نہایت آسان بات ہے۔ سستاتے ہوئے گھریلو انداز میں بیٹھنا ایک فطری انداز ہے۔ اگر کوئی بیٹھنے کا ایسا ہی انداز اپنا لے تو یہ بڑا موثر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بیٹھنے میں معمول کا طرز عمل اختیار کرنا آسان بات نہیں ہے۔ اگر آپ معمول کے مطابق سلوک کر سکتے ہیں یا معمول کے مطابق بھول سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر آپ معمول کے مطابق بیٹھ سکتے ہیں تو تسلیم کر لیجئے کہ آپ نہایت ہی متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں۔ لہٰذا بطور امیدوار آپ کو انٹرویو کے کمرے میں معمول کے مطابق بیٹھنا ہو گا۔ اس معمولیت کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ پہلا پہلو اپنے آپ کے اظہار کا ہے۔ اگر آپ کا اولین اظہار کسی پکڑے ہوئے شکار کا سا ہے، اگر آپ کی آنکھیں میز پہ بیٹھے ہوئے شخص کی طرف بار بار جا رہی ہیں ، اگر آپ کا چہرہ تنا ہوا ہے یا آپ کی پلکیں یا پپوٹے تیزی سے گر اور اٹھ رہے ہیں یا آپ کے ہونٹ بار بار سکڑ اور پھیل رہے ہیں اور آپ انہیں زبان سے سنبھالا دے رہے ہیں تو آپ معمول کے مطابق یعنی نارمل حالت میں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کے چہرے پر خوشی کے تاثرات ہیں اور آپ کے ہونٹ مسکرا اٹھنے کو ہیں اور آپ کی آنکھیں غیر معمولی طور پر روشن اور توقع سے بھرپور ہیں اور آپ درست طور پر سیدھے بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی آپ معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ ایسا ہونا ہی معمول کے تاثرات کے لیے مشکل ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی پختہ ہے کہ مشق ہی کسی فرد کو کامل بناتی ہے۔ ہر فرد کا معمول پر یعنی نارمل حالت میں ہونے کا ایک اپنا ہی پیمانہ ہوتا ہے اس پیمانے کو فرد کی شخصیت کے ساتھ موزوں ہونا چاہیے اور فرد کی فطرت کی مطابقت میں ہونا چاہیے اگر کسی فرد کی فطرت اودھم مچانے والی یا خوش خلقی سے معمور ہے تو پھر اس فرد کو اپنی ایک ہی قسم کی فطرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر کسی کی شخصیت دھیمی اور سنجیدہ ہو تو پھر اس کی معمولیت کو مختلف انداز میں پیش کرنا ضروری ہے۔ شخصیت اور فطرت میں یہی امتیاز ہے۔ اسی طرح فرد کو اپنے کھڑے ہونے کی مشق کرنی چاہیے۔ کھڑے ہو کر کام کرنے والے مختلف لوگ موجود ہیں اور ایسے اشخاص کا مشاہدہ تھوڑا سا وقت نکال کر بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ سپاہی کھڑے ہوتے ہیں، محافظ کھڑے ہوتے ہیں، ریستوران کے منتظم کھڑے ہی ہوتے ہیں۔ فضائی میزبان بھی کھڑی رہتی ہیں اور محنتی دفتری مددگار بھی اپنے باسوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ ایک عوامی راہنما اپنے پلیٹ فارم پر کھڑا رہ کر تقریر کرتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی استقبالیہ میں منتظر انداز میں کھڑے ہو کر باتیں کرتے ہیں اور اسی طرح ایک انٹرویو کے امیدوار کو بھی بیٹھنے سے پہلے انٹرویو کرنے والوں کے سامنے کھڑا رہنا پڑا ہے۔ ایک امیدوار جب انٹرویو کے کمرے میں داخل ہو تو بیٹھ جانے کو کہے جانے سے پہلے اس کا میز کے سامنے خالی کرسی پڑی ہونے کے باوجود کھڑے رہنا نہایت اہم ہے۔ پھر جب وہ انٹرویو کے بعد جانے کے لیے اٹھے تو اسے جانے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھی چند لمحے کھڑے رہنا چاہیے۔ ایک امیدوار انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور تیزی سے کرسی کی طرف لپکتا ہے۔ اور اس پر بیٹھ جاتا ہے اور ساتھ ہی اسے انٹرویو کاروں کی ’’ بیٹھنے‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے یہ آواز اس کو احساس دلاتی ہے کہ وہ بلا اجازت بیٹھنے کی غلطی کر چکا ہے جو انٹرویو میں اس کے خلاف بھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا امیدوار کو کرسی پر بیٹھنے کی تیزی نہیں دکھانی چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بیٹھنے میں دیر بھی نہیں کرنی چاہیے یا کھڑا بھی نہیں رہنا چاہیے۔ دونوں میں سے کیا زیادہ ضروری ہے اس کا فیصلہ موقع کے مطابق ذہانت سے کرنا ہو گا۔ اس سب کچھ کی بھی مشق درکار ہے انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد میز کے سامنے کھڑا رہا جائے یا کرسی پر بیٹھ جایا جائے؟ اسی طرح اس مشق کے الٹ کی بھی مشق کرنی چاہیے کہ آپ جانے کے لیے کس طرح اٹھیں اور کس طرح ہلکا سا سر کو ادب سے جھکائیں۔ اور پھر آہستہ سے چل کر دروازے میں سے نکل جائیں اور ہر صورت میں باہر سے دروازے کو بند کرنا ہرگز نہ بھولیں۔ امیدوار سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے اور وہ اس سوال کا جواب دیتا ہے وہ سوال انٹرویو بورڈ میں سے کسی ایک ممبر نے کیا ہوتا ہے۔ امیدوار کو اس سوال کا جواب دیتے وقت سوال کرنے والے ممبر ہی کی طرف دیکھتے رہنا ضروری ہے۔ باقی جو افراد سامنے بیٹھے ہوئے ہوں ان کی امیدوار کو قطعی پرواہ نہ کرنی چاہیے۔ اس کی آنکھیں مستقل مزاجی سے سوال کرنے والے ممبر پر ہی مرکوز رہنی چاہئیں اور ایک سے دوسرے چہرے کی طرف نہیں جانی چاہئیں۔ جس طرح اعتماد ایک پیدائشی صفت ہے اسی طرح حواس باختگی بھی ورثے ہی میں ملتی ہے۔ اگر کوئی شخص حواس باختگی کے عالم میں ہے تو وہ اس مرض سے شعوری کوششیں کر کے ہی نجات پا سکتا ہے۔ عام طور پر حواس باختگی کا مرض عدم تحفظ اور قلت کے احساس سے پیدا ہوتا ہے یہ پختہ قسم کی برتری کے احساس سے بھی جنم لیتا ہے۔ کوئی شخص اس وقت اپنے آپ کو حواس باختہ محسوس کرتا ہے جب وہ کسی ہجوم میں ہوتا ہے اور اس ہجوم کو اپنے مرتبے سے زیادہ بلند یا زیادہ پست محسوس کرتا ہے لہٰذا کسی کی حواس باختگی کے احساس کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر کرنا اس کا مفید اور قدرتی علاج ہے۔ ٭٭٭ چوتھا باب تیز فہمی اور میلان طبع تیز فہمی فرد کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ کوئی شخص بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا اور تقریر کرنے سے سامعین کو بہا لے جانے والا ہو سکتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ غیر متوازن جسمانی ساخت رکھتا ہو جیسے اس کا پیٹ بڑھا ہوا اور سر اور کندھے جھکے ہوئے ہوں۔ تقریر کے فن میں اپنی کاملیت کے باوجود اس کے رکھ رکھاؤ اور اطوار میں خامیاں ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ایک شخص واقعی خوبصورت ہو سکتا ہے اور وہ دیکھنے میں اچھا بھی لگتا ہے لیکن وہ عقل کا کورا ہوتا ہے۔ وہ تیزی سے اشیاء کی شناخت بھی نہیں کر سکتا، اسے ہم تیز فہم کے طور پر کبھی بھی شمار نہیں کریں گے۔ تیز فہمی کی تربیت حقیقی طور پر انٹرویو کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے شروع ہونی چاہیے بلکہ اسے فرد کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہونا چاہیے، اس کی پرورش کا حصہ ہونا چاہیے اور اس فرد کے سیکھنے اور رہن سہن کے عمل کو چمکانے کا عنصر ہونا چاہیے۔ ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنا تیز فہمی کی بنیادی قدر ہے۔ اگر آپ اچھی یا بری، موافق یا غیر موافق کسی بھی قسم کی صورت حال میں ہر ممکن عجلت کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں تو آپ کو تیز فہم شخص کہا جائے گا۔ جب کوئی شخص تیز فہم ہو گا تو اس کی ہم آہنگی اختیار کرنے کی خصوصیت اس کی تیز فہمی کی شہادت ہو گی۔ ایسے شخص کو بے خبری کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا چوکس پن ایک ایسا حفاظتی قلعہ ہے جس کو دوسرے پامال کرتے ہوئے خوف کھاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جنگ کی تیاری کرنا جنگ سے بچاؤ کا حفاظتی اقدام ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کی شخصیت کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہو تو اسے جسمانی اور ذہنی طور پر کچھ کہنا آسان بات نہیں ہوتی۔ پس تیز فہمی زندہ رہنے کی ایک ایسی حالت ہے جو کسی دوسرے کو رنجیدہ کیے بغیر چمکتی ہے، اپنی طرف کھینچتی ہے اور خوش کرتی ہے۔ ایسی تیز فہمی اور چوکسی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ عظیم خصوصیت آپ کے بال سنوارنے، آپ کے لباس اور آپ کی لچھے دار گفتگو سے منعکس نہیں ہوتی بلکہ یہ آپ کی عمومی ظاہری حات، طرز عمل، تدابیر اور گفتگو وغیرہ سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو آپ پر تیز فہم شخص ہونے کا لیبل چسپاں کرتی ہیں۔ کسی شخص کی زندگی کے متعلق عام نظریات، اس کے اعتقادات اور اس کی آراء سب مل کر سب کی شخصیت بناتے ہیں اور تیز فہمی ایسے شخص کی شخصیت کا لازمی عنصر ہے۔ ایک تیز فہم شخص کبھی بھی تنگ نظر نہیں ہوتا۔ زندگی کے متعلق اس کا نظریہ اور تصور بڑا وسیع ہوتا ہے۔ وہ نا انصافی پر مبنی کسی خراب صورت حال سے کبھی موافقت نہیں کرتا۔ وہ بری سوسائٹی میں برا نہیں بنتا اور نہ ہی کسی اچھی سوسائٹی میں اچھا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنا ایک خصوصی معیار رکھتا ہے اور وہ وہ ہی رہتا ہے جو وہ ہے۔ آئیے ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک نوجوان وکیل ایک قانونی نوعیت کی آسامی کے لیے انٹرویو دے رہا ہے۔ ہم یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ اس سے پوچھا جانے والا سوال اس طرح کا ہے: ’’ بیوہ کی دوسری شادی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے یا کسی مطلقہ عورت کی دوسری شادی کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کرنے والے افراد کو امیدوار کی رائے سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ وہ محض امیدوار کی ذہنی وسعت کا جائزہ لینا چاہ رہے ہوں۔ جب تک کوئی شخص کسی مسئلے پر حتمی یقین نہ رکھتا ہو تو اس مسئلے کے بارے میں اس کے دلائل بودے اور کمزور ہوں گے۔ اگر اس شخص کے ذہنی افق وا ہوں گے تو وہ بیوہ کی شادی کے حق میں بھرپور طریقے سے دلائل دے گا۔ اسی حوالے سے میلان طبع موافقت، مطابقت اور ہم آہنگی کی روح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے حالات غیر موافق ہوں، مصائب بھی ہوں او رایک انقلاب عظیم در پیش ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کے باوجود جب کوئی شخص ہمت نہیں ہارتا اور آگے کی سمت ہی بڑھتا ہے تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اور اس کی خاطر تالیاں پیٹی جائیں۔ یہی تو بین الاقوامی تحریک ’’ سکاؤٹنگ اور گرل گائیڈز‘‘ کا مطمح نظر ہے۔ امیدواران کی تربیت کی ابتدا ان کی زندگی کے حقیقی انٹرویوز شروع ہونے سے کہیں پہلے کر دینی چاہیے۔ پھر اسے مطابقت اور موافقت کے جتنے مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان سب میں پورا اترتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ خود اعتمادی کی دولت سمیٹتا ہے۔ اس قسم کی حاصل کی ہوئی خود اعتمادی کسی امیدوار کا نہایت قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ خود اعتمادی کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے چھوکر محسوس کیا جا سکے۔ خود اعتمادی کی یہ خصوصیت کسی بھی شخصیت کی غیر معمولی الحاقی شے نہیں ہے۔ وہ شخص جو ماہر ہے وہ اپنی مہارت کے میدان میں یہ خود اعتمادی رکھتا ہے۔ وہ جو غیر معمولی طور پر جرأت مند ہے کسی بھی بڑے خطرے کے مقابلے میں اس (خود اعتمادی) کا اظہار کرے گا۔ کوئی بھی دوسرا غیر اور نا واقف شخص خود اعتماد شخص کی رفتار اور گفتار سے اس کی خود اعتمادی کو محسوس کر سکتا ہے۔ اپنی ایک تاریخی نظم میں رابندر ناتھ ٹیگور نے ایسی خود اعتمادی کا ذکر ایک واقعے کی صورت میں کیا ہے۔ ایک باغی راجپوت راجے کو اس کے دوست نے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار میں پیش کیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے باغی راجے کے دوست راجہ جوونت سنگھ کو یقین دلایا تھا کہ باغی راجے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ باغی راجہ آیا اور شہنشاہ اورنگ زیب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ دربار میں حاضر تمام درباریوں نے اسے پکار پکار کر کہا کہ وہ شہنشاہ کے سامنے جھک جائے۔ باغی راجے نے اپنے دوست جنرل جوونت سنگھ کو بتایا کہ وہ تو صرف اپنے بزرگوں ہی کے سامنے جھکتا ہے اور کسی کے سامنے نہیں۔ حفاظتی دستے نے اپنی تلواریں سونت لیں اور کہا۔ ’’ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ کس طرح سر زمین پر لڑھکتے ہیں۔ باغی راجے نے اپنے دوست سے مزید کہا کہ وہ دربار کے مفاد میں خوف کے باعث کبھی اپنا سر نہیں جھکائے گا کیونکہ اسے تو ڈر اور خوف کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔ دیئے گئے قول کے مطابق اورنگ زیب عالمگیر نے بھی اپنا وعدہ نبھایا اور باغی راجے پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔‘‘ سرت چندر چیٹر جی کے ایک ناول ’’ بڑی دیدی‘‘ (بڑی بہن) میں ایک منظر اس طرح کا ہے۔ ایک شخص جو اعلیٰ تعلیم کی خاطر انگلستان جانا چاہتا تھا اپنے سجے سجائے امیرانہ علاقے میں واقع اپنے امیرانہ گھر سے بھاگ گیا کیونکہ اس کا والد اس کے اعلیٰ تعلیم کے لئے پردیس جانے کا مخالف تھا۔ گھر سے بھاگنے والے نوجوان کو ایک اچھے ذرائع رکھنے والے شخص نے پناہ دی۔ چند روز بعد اس شخص نے نوجوان سے پوچھا کہ کیا وہ اس کے بچوں کو پڑھا سکے گا۔ نوجوان نے کہا کہ ہاں وہ ایسا کر سکے گا۔ وہ شخص بولا کہ کیا وہ نوجوان احمق ہے کہ اس نے کبھی طلبہ کی جماعت اور تدریسی مضامین کی بات ہی نہیں کی؟ پھر اس پناہ دینے والے شریف شخص نے پوچھا کہ اگر طالب علم بی اے کی جماعت کا ہو تو؟ اس پر نوجوان نے ادب سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔’’ اس کی تعلیم کا بھی بندوبست کر لیا جائے گا۔‘‘ خود اعتمادی کی یہ ایک اور مثال ہے۔ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے امیدوار کو بھی اپنی خود اعتمادی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ا سے خصوصیت سے موقع کے مطابق ڈھل جانا چاہیے اور کبھی بھی فخریہ طور پر اپنے علم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ بڑے بڑے ذمہ دار افسر اور منتظمین بعض مواقع اور حالات میں مبہم اور غیر یقینی جواب سننے کی بجائے ’’ میں نہیں جانتا‘‘ سن کر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کا ایک بہت بڑا افسر ہنستے ہوئے بتایا کرتا تھا کہ بہت سی ترقیات حاصل کرنے میں اس کا اپنی خامیوں کو قبول کر لینے کا ہاتھ ہے۔ گو یہ قبولیت بھی ہنسنے ہنسانے کا ایک ٹوٹکہ ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ بات کو بڑھا چڑھا کر کہنا بھی بعض افراد کا خاصا ہے۔ دفتری دنیا میں اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو قبول کر کے ملازم حضرات اپنی ملازمتوں کو داؤ پر نہیں لگاتے لیکن ’’ ایسا اقبال جرم‘‘ لمبی چوڑی انکوائری کے بعد قصور وار کو ڈھونڈنے کی غیر ضروری تحقیقات میں صرف ہونے والا دفتر کا وقت بچاتا ہے۔ ہر دفتر یا ادارہ جانتا ہے کہ انسان خطا کار واقع ہوا ہے۔ بعض اوقات غلطی، خطا یا قصور بھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی روشنی میں فرد کی بجائے ادارے اور دفتر کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں خطا کار، قصور وار اور گنہگار کو معاف کر دینا سب کے مفا دمیں رہتا ہے۔۔۔ آجر کے بھی اور اجیر کے بھی۔ ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں جو امیدوار کو کھردرے اور سخت کام قبول کر لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس طرح امیدوار اپنے آپ کو کام کی دنیا اور اس دنیا کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ میلان طبع عمدہ صورت میں ہم آہنگی ہی کا نام ہے۔ بہتر میلان طبع کے معانی قوت ادراک کے تیز ہونے کے ہیں۔ کوئی ایسی صورت حال یا کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جس کا فوری حل درکار ہوتاہے یا پھر اس صورت حال اور مسئلے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس صورت حال اور مسئلے کو’’ فوراً سے پہلے‘‘ والی تیزی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ ایک پن نکلا ہوا دستی بم کسی فوجی کے پاؤں سے ایک فٹ کے فاصلے پر آ گرتا ہے۔ فوجی اسے فوراً اٹھاتا ہے اور اسے اپنے آپ ہی سے دور نہیں پھینکتا بلکہ دشمن ہی کی طرف پھینکتا ہے۔ یہ جسمانی میلان طبع ہے۔ ذہنی میلان طبع کسی مسئلے کو انتہائی سرعت سے حل کرنا ہو گا۔ انٹرویو کے حوالے سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امیدوار ہر عمل میں مستعدی کا اظہار کرے۔ اور مسئلے کی تہ تک فوراً پہنچے۔ وہ جو واضح اور صاف طور پر سوچ سکتا ہے وہ ہی عمل کا فوری اور مختصر تصور کر سکتا ہے وہ ہی ایسی صورت حال کا قائد بھی ہوتا ہے۔ عظیم انگریزی شاعر لارڈ ٹینی سن اپنی نظم ’’ چارج آف دی لائٹ بریگیڈ‘‘ میں سپاہیانہ ادائیگی فرض اور عمل کے متعلق یوں بتاتا ہے۔۔۔۔ ’’ وہاں جواب دینے کی ضرورت نہیں کیوں؟ کہہ کر دلیل بازی کا وقت نہیں وہاں تو گزرنا اور مر جانا ہے۔‘‘ سوال و جواب میں کافی زیادہ وقت گزارا جا سکتا ہے لیکن ایک ہنگامی صورت میں جو شخص صورت حال کو سمجھتا ہے سوالات کرنے میں وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر عمل کرتا ہے۔ بے شک وہ ہی عمل کا قائد ہے۔ ایک امیدوار کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بار بار یہ نہ کہے کہ ’’ میں نہیں سمجھا۔‘‘ ہر سوال کے جواب میں ’’ میں نہیں سمجھا‘‘ دہرانا نا پسندیدہ فعل ہے۔’’ میں نہیں سمجھا‘‘ کہنے کی بجائے تمام سوالات کے جوابات معمول کے طریقے سے فطری انداز میں دیں۔ انٹرویو کاروں کو سوالات کو بار بار دہرانے کو کہنا نہایت ناگوار اور خفگی کا باعث ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی صورت حال میں وقت بھی کافی ضائع ہوتاہے۔ سب سوالات کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ جن سوالات کے جوابات آپ کو اچھی طرح معلوم ہوں ان کے جوابات عجلت میں نہ دیں۔ تحمل اور بردباری سے سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیں۔ جن کے جوابات آپ کو نہیں آتے ان پر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اگر آپ ایسا ہی کرتے ہیں تو گویا آپ اپنے انٹرویو کاروں سے ’’ چھپنے اور ڈھونڈنے‘‘ کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس ناپسندیدہ کھیل کی ابتداء سے پہلے وہ آپ کے صحیح صحیح دیئے گئے جوابات کے باعث آپ کو اچھے نمبر دینے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ آج کے دور میں ہر شخص فلموں سے رغبت رکھتا ہے۔ ٹیلی ویژن کی چھوٹی سکرین کا شکریہ کہ جس پر ہم کثرت سے مختلف مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے بھی بہت سے ایسے مناظر دیکھے ہوں گے جن میں ہیرو اور ہیروئن ایک منفی صورت حال میں جذبات سے عاری نظر آتے ہیں یہاں تک کہ ان کے مسکرانے اور خوشدلی کے تاثرات بھی ان کے چہروں پر نمایاں نہیں ہوتے۔ ایسے تاثرات دینے کی بھی مشق امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر خراب صورت حال میں بھی اپنے دلی جذبات کا انعکاس چہرے پر نہ ہونے دے۔ آئیے ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ انٹرویو کے کمرے میں ہیں۔ وہاں آپ کے سامنے تین یا پانچ انٹرویو کار بڑی سی میز کی دوسری سمت بیٹھے ہوئے ہیں آپ کا تعلیمی ریکارڈ شاندار ہے، آپ کا تجربہ بھی مطلوبہ تجربے سے کچھ زیادہ ہی ہے، آپ کی غیر نصابی سرگرمیاں بھی اتنی کافی ہیں کہ آپ دعویٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ جس آسامی کے لیے انٹرویو دینے آئے ہیں اس کے لئے آپ نہایت موزوں ہیں۔ آپ مقابلے میں کامیاب ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ لیکن آپ بتائیے کیا آپ نے منفی صورت حال کیلئے بھی کچھ تیاری کی ہے؟ انٹرویو کار بھی آپ کے تمام مثبت اور موزوں کوائف سے خوش ہیں وہ آپ سے ملازمت کے متعلق سوال کرتے ہیں اور آپ کامیابی سے ان کا جواب دیتے چلے جاتے ہیں۔ وہ آپ سے کاروباری جدید رحجانات، معلومات کے معیار کی نشوونما کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں سوالات کرتے ہیں یا وہ آپ سے مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے کچھ مزید سوالات پوچھتے ہیں اور آپ ان کے جوابات بھرپور اعتماد کے ساتھ دیتے چلے جاتے ہیں۔ اچانک رواں دواں ہموار انٹرویو میں ایک بم کے بعد دوسرا بم گرنا شروع ہو جاتا ہے وہ کہتے ہیں تمہیں ملٹی نیشنل اور ملٹی گروپوں کی ہماری طرح کی کمپنی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ایک ممبر پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو ہماری مصنوعات کے بین البراعظمی مقابلے کا علم ہے ؟ ایک اور ممبر پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو کمپنی کی مصنوعات کی فروخت کے لیے جدید تشہیر کا کچھ علم ہے؟ ایک اور ممبر سوال کرتا ہے کہ کیا آپ سمندر پار کے ممالک میں غیر ملکی عملے کے ساتھ کمپنی کے تکنیکی معاملات خوش اسلوبی سے طے کر سکیں گے؟ انٹرویو کار اس بات سے پہلے ہی سے آگاہ تھے کہ اس قسم کی اونچی اور معیاری آسامی کے لیے امیدوار انٹرویو میں ان کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے جس آسامی کے لیے انٹرویو کرنے کا اشتہار دیا تھا وہ عام نوعیت کی تھی لہٰذا کوئی ایسا امیدوار انٹرویو میں کہاں سے آ سکتا تھا جس کے بارے میں وہ اب پوچھ رہے تھے۔ ایسا اہل شخص تو وہ ہی ہو سکتا تھا جو ان کے ہاں پہلے سے ملازم ہوتا اور آہستہ آہستہ اپنے کام کے دوران میں سیکھتے ہوئے ہی بین البراعظمی ذمہ دارانہ آسامی کے اہل ہو سکتا تھا۔ انٹرویو کار شاید یہ جاننا چاہتے تھے کہ امیدواران کی تخلیق کردہ منفی صورت حال کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ ایک بہترین طریق کار ہو گا کہ ہر امیدوار منفی صورت حال کا اپنے بہترین انداز میں جواب دے ایک سوچا سمجھا جواب مختلف امیدواروں کی شخصیتوں اور خصوصیتوں کے لیے موزوں ہو ہی نہیں سکتا۔ جس بات کی نصیحت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر امیدوار کو پہلے سے انٹرویو کاروں کی اس قسم کی مخالفت کی توقع ہو کہ اسے پٹڑی سے اتارنے اور نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے گی تو اسے چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھے اور اپنی پیشانی پر بل نہ آنے دے۔ بلکہ مسکراتے ہوئے چہرے اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے جو موزوں جواب اس کو سوجھے وہ دے۔ کوئی امیدوار کہہ سکتا ہے،’’ جناب میں اتنی تیکنیکیں نہیں جانتا اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اس ملازمت کے لیے درخواست گزاری جس کا آپ نے اشتہار دیا تھا۔ آپ کی ملازمت شاندار کمپنی میں، میں دنیا بھر میں کام آنے والے تجربات حاصل کروں گا۔‘‘ انٹرویو کار اس جواب کے بعد مزید طنزیہ لہجہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن ایسا کرنا ایک دوسرا محاذ کھولنے کے مترادف ہو گا آپ نے ان کا سوال انہی کو لوٹا دیا ہے اور آپ نے اپنے چہرے کے تاثرات بھی نہیں بدلے۔ اب گیند ان کی طرف ہے اگر وہاں کوئی تمسخرانہ قہقہہ بلند ہو تو آپ بھی دھیمی سی مسکراہٹ سے اس میں شامل ہوں جس طرح ایک افسر دوسرے افسر کی تائید کرتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم یہ کوئی ایک ہی جواب نہیں ہے۔ ہر امیدوار اپنا اپنا جواب دے سکتا ہے ہاں سب امیدواروں میں ایک چیز مشترک ہونی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ان کے چہروں کے خدوخال میں چمک باقی رہے۔ چمک کو کم یا برباد نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دلچسپ واقعہ ہے جو یوم والدین پر پیش آیا ایک بچی سے اس کی جماعت کی استانی ناراض ہو گئی اس نے بچی کو ہر وقت جھاڑنا شروع کر دیا۔ اکثر بچی کو پیٹ بھی لیتی۔ اس نے بچی کے والدین کو ان کی بیٹی کے بارے میں شکایات بھی لکھی تھیں۔ جب یوم والدین آیا تو بچی نے اپنے باپ سے کہا کہ اس کی استانی نے ’’ آپ‘‘ کو خاص طور پر ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ باپ سکول میں گیا اور بچی کی استانی سے ملا۔ بچی کی استانی نے ننھی سی بچی کے خلاف الزامات کا ڈھیر لگا دیا جنہیں سن کر باپ کا دل بہت دکھا کہ اس کی پیاری سی ننھی سی بچی کیخلاف اس قدر الزامات کیوں ہیں؟ لیکن باپ نے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا اور اپنے چہرے پر خفگی کے کوئی اثرات نمودار نہیں ہونے دیئے۔ باپ نے جو کچھ بھی جواباً استانی سے کہا وہ اس کی اپنی بچی کے خلاف تھا اور استانی کی تائید میں تھا۔ اس نے استانی سے پوچھا کہ بچی اتنی شرارتی کیوں ہے؟ گھر میں تو وہ شرارت نہیں کرتی۔ مزید کہا کہ استانی نے اچھا کیا کہ اسے سزا دی۔ بلکہ اس نے استانی کو مزید سزا دینے کو کہا تاکہ بچی یاد رکھے۔ اس نے استانی کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بچی کے ساتھ بڑی نرمی برتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہم میاں بیوی اپنی بچی کی پرورش نہایت عمدگی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک غیر سماجی عنصر نہیں بنانا چاہتے۔ باپ اپنی بچی کے خلاف کچھ مزید بھی کہنا چاہتا تھا کہ استانی نے خود ہی کہا۔’’ نہیں کوئی ایسی سنجیدہ بات نہیں ہے، چھوٹے بچوں سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ شرارتی ہوں۔ ہمیں ان کے ساتھ تحمل اور بردباری سے پیش آنا چاہیے۔ ہمیں انہیں دلائل سے سمجھانا چاہیے۔ شکایات کرنے والی استانی اب خود ہی بچی کے باپ کو سمجھا رہی تھی کہ اس کو بچی کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ حالانکہ اس نے خود ایسا نہیں کیا تھا اور بچی کے باپ کو خود ہی بلایا تھا۔ شاید استانی اب یہ سب کچھ اس نسوانی خوف سے کہہ رہی تھی کہ کہیں بچی کا باپ بھڑک ہی نہ اٹھے کیونکہ اس نے خود ہی تو بچی کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے۔ یہ بچی کے باپ کی تیز فہمی تھی کہ وہ بچی کی استانی سے خیرسگالی کے جذبات کے تحت ہی علیحدہ ہوا۔ ازاں بعد بچی استانی کی طرف سے کبھی کوئی لکھا ہوا شکایت نامہ لے کر گھر نہیں آئی۔ کسی کو کبھی بھی اپنی خامیاں چھپانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ’’ بحیثیت ایک امیدوار کے آپ کو اپنے تمام پتے میز پر پھیلا دینے چاہئیں۔‘‘ یہ وہ مشورہ ہے جو آپ کو آپ کے صلاح کار دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اپنے اچھے نکات اور موزوں تجربات کی بات کریں لیکن جب آپ سے کچھ پوچھا جائے تو تب آپ کو جو آپ جانتے ہیں اورجو آپ نہیں جانتے ہیں کے مابین ایک خط امتیاز ضرور کھینچنا چاہیے۔ ماہرین کی نظر میں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کسی ایک فن، کام یا سرگرمی میں پوری مہارت رکھتے ہیں تو آپ دوسری سرگرمیوں میں سے بھی اپنے مقصد کے مفید نکات اپنی اہلیت بڑھانے کیلئے آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں اور اپنی مہارت کو چاندی سے سونا بنا سکتے ہیں۔ کوئی شخص بھی ہر چیز کو نہیں جان سکتا اور کوئی بھی ہر فن، کام یا سرگرمی میں یکتا نہیں ہو سکتا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کا جوش و ولولہ ایک ذہین و فطین شخص کا طرہ امتیاز ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے نابغہ لوگ بچوں ہی کی طرح تھے۔ وہ جو بھی نئی چیز دیکھتے وہ بچوں کی طرح اس کے متعلق جاننے کے لیے سوالات کرتے اور اس قدر کرتے کہ وہ اس چیز سے مکمل طور پر واقف ہو جاتے تھے۔ ان کا علم کا ذخیرہ ہر وقت بڑھتا رہتا تھا۔ وہ رکاؤ، جماؤ اور تن آسانی کے بارے میں نہیں جانتے تھے بس وہ اگر کچھ جانتے تھے تو صرف آگے بڑھنے اور کچھ نہ کچھ حاصل کرنے ہی کے متعلق جانتے تھے۔ المختصر یہ کہ تیز فہمی اور میلان طبع خوبیوں اور رویوں کا مجموعہ ہے جس کی کہ ہر شخص کو عکاسی کرنا چاہیے تاکہ انٹرویو کار جان سکیں کہ وہ کون سی خوبیاں رکھتا ہے اور ان خوبیوں کو کس حد تک پھیلایا جا سکتا ہے۔‘‘ ٭٭٭ پانچواں باب انٹرویو میں کامیابی مشکلات اور بد بختیوں پر قابو پانا ذاتی ترقی ہی سے ممکن ہے۔ تاہم کسی غیر موافق صورت حال سے نمٹنا ایک انٹرویو دینے سے ملتا جلتا معاملہ ہے۔ ایسی صورت حال میں بھی فرد کو کامیاب ہی ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا ایک ایسا شخص جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے، جو اپنے لیے ایک مقام پیدا کرنا چاہتا ہے اور جو اپنی حالت کی نشوونما کر کے اسے بہتر سے بہترین بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ کامیاب کہلائے ایسے شخص کو کبھی بھی ایک انٹرویو سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی فرد کی قوت ارادی اس کے اعمال کی تشکیل کرتی ہے۔ جب تک آپ کامیاب ہونے کی قوت ارادی نہیں رکھتے تب تک آپ خواہ کتنی بھی تعلیمی ڈگریاں اور مہارتیں رکھتے ہوں ان میں سے کوئی بھی آپ کی مدد کسی ملازمت کو حاصل کرنے میں نہیں کر سکتی۔ فرض کریں کہ آپ کو انٹرویو کے لیے چٹھی مل چکی ہے تو آپ کا رد عمل یا رد اعمال کیا ہوں گے؟ بے شک آپ چٹھی کی وصولی سے شاداں و فرحاں ہوں گے لیکن اس سے آگے آپ کے اقدامات کیا ہوں گے؟ کیا یہ انٹرویو آپ کے لیے محض ایک انٹرویو ہی ہو گا یا اس انٹرویو سے آپ کوئی کام (ملازمت وغیرہ) حاصل کریں گے۔ یا پھر آپ اس انٹرویو کو محض ایک کامیابی کا تجربہ سمجھ کر اس میں پیش ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کے بہترین مفاد میں ہے کہ پھر آپ اس کا خیال ہی چھوڑ دیں۔ ایساکرنے سے آپ کا اپنا اور انٹرویو کاروں دونوں کا وقت بچے گا۔ اگر آپ کسی جگہ ملازم نہیں ہیں اور آپ اس انٹرویو کو محض ایک عارضی طور پر کام چلانے کا موقع یا ایک اوپر کو اچھلنے والا تختہ سمجھتے ہیں کہ اس انٹرویو کے بعد آپ اپنے کوائف و اسناد کی وجہ سے بہتر او ربڑے مواقع حاصل کر لیں گے۔ اس قسم کی عارضی مشق آپ کی گومگو کی حالت اور بے یقینی کی وجہ سے بالآخر ناکامی ہی سے دو چار ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ شاید بعد میں بہتر مواقع بھی حاصل کر لیں لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ نئی ملازمت حاصل کرنا آپ کے لیے پریشانی اور ذہنی تناؤ کا باعث بنے اور پھر ملازمت آپ کو راس بھی نہ آئے۔ ’’ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے چھ ماہ سے آپ نے پچھلی ملازمت چھوڑی ہے بیکار ہیں۔ جہاں تک تعلیمی حالت کا تعلق ہے تو اس کی روشنی میں اتنا لمبا وقفہ پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، ایسا کیوں ہے؟ کیا تمہیں کوئی ملازمت نہ ملی۔‘‘ انٹرویو کار پوچھتے ہیں۔ ’’ میں صحیح قسم کی ملازمت کا انتظار کر رہا تھا، مجھے کئی پیشکشیں بھی ہوئیں لیکن میں نے کسی کو بھی قبول نہیں کیا۔‘‘ امیدوار بتاتا ہے۔ ایسے امیدوار کے لیے جس کے پاس اعلیٰ تعلیم ہو اور اچھا تجربہ بھی ہو ایسا فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور اسے کسی اچھی ملازمت کے ملنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسے اچھی ملازمت ملنے کا اعتماد بھی ہوتا ہے اور وہ انتظار بھی کر سکتا ہے۔ مذکورہ بالا انتظار کی بات تکنیکی تعلیم و تجربہ رکھنے والے خصوصی ماہرین کے بارے میں تو سچ ہو سکتی ہے۔ لیکن عام نوعیت کی ملازمتوں وغیرہ کے حصول میں التوا اور انتظار کی بات کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ ایسے افراد جو عمومی نوعیت کی تعلیم اور تجربہ یا مہارت رکھتے ہیں کے لیے زیادہ اہمیت پیسہ کمانے کی ہوتی ہے۔ ہر وہ شخص جو ملازمت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے ہر ممکن طریقے سے اس کی جستجو کرنا پڑتی ہے۔ وہ ملازمت کے حوالے سے منفی اور مثبت کا شعور رکھتا ہے۔ ڈیوٹی کے اوقات، سہولتیں اور ذمہ داریاں وغیرہ سب اس کی نظرمیں ہوتی ہیں۔ اسے پوری دلجمعی سے اس ملازمت کا بغیر کسی توقف، رکاوٹ اور ہچکچاہٹ کے متلاشی ہونا چاہیے۔ جب کوئی امیدوار ضرورت کی سنجیدہ سطح پر ہو تو اس کی تمام تر صورت حال کے پیش نظر انٹرویو کار اس کو ملازمت دے کر خوشی محسوس کرتا یا کرتے ہیں۔ یہ حقیقی زندگی کا واقعہ ہے کہ ایک اچھا تجربہ کار ٹائپسٹ ساہیوال سے ملازمت کی تلاش میں لاہور آیا۔ ایک جگہ پر اس کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ اس کا انٹرویو کار ایک انگریز تھا۔ امیدوار نے اپنی ٹائپ کرنے کی رفتار کے جائزے کا امتحان تو دیا لیکن وہ انگریز کی زبان سے انٹرویو میں کیے جانے والے پہلے ہی سوال کو نہ سمجھ سکا۔ لہٰذا اس نے جواب میں ’’ جی ہاں‘‘ ہی کہا۔ بقیہ سوالات کے جوابات میں بھی وہ ’’ جی ہاں‘‘ ہی کہتا رہا۔ اسے ملازمت مل گئی۔ کیسے؟ یہ کوئی نہ جان سکا۔ ہو سکتا ہے کہ انگریز انٹرویو کار کو ایک تو اس کے ’’ جی ہاں‘‘ کہنے کے مثبت اور انکساری کے رویے نے دوسرے اس شخص کی ضرورت اور ٹائپ کی موزوں رفتار نے متاثر کیا ہو۔ ہر کسی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ زیادہ تر دو قسم کے افراد ہوتے ہیں ایک وہ ہوتے ہیں جو کامیاب کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ناکامیاب پکارے جاتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ ناکام ہونے والے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کا ’’ ناکام‘‘ فرد کل کا’’ کامیاب‘‘ فرد ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی ذہنیت ہی ناکامی کی طرف مائل نہ ہو۔ یہ سوچنا نہایت ہی بیکار ہے کہ انٹرویو ایک رسمی کارروائی ہے جس کی اہمیت اشک شوئی سے زیادہ نہیں ہے۔ انتخاب تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے، بس فلاں وی آئی پی کی سفارش سے ہی کام بنتا ہے۔ اس قسم کی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی سوچ بھی منفی سوچ ہے کہ کہا جائے بس جی، انٹرویو میں شمولیت تو اپنے تجربات میں ایک اضافہ ہے حالانکہ یہ واضح ہے کہ کامیابی کی کوئی امید نہیں۔ ایسے خیالات شکستہ ذہنیت کے احساسات کی پیداوار ہیں، منفی سوچ کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ کوئی شخص انٹرویو میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور پھر جو بھی فیصلہ ہو اس کو خوش دلی سے قبول کرے۔ انٹرویو کاروں کی تجربہ کار اور ذہین آنکھوں سے امیدوار نیم دلی سے انٹرویو دے رہا ہے۔ اسے ملازمت کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کی پسند نا پسند کیا ہے؟ یہ سب کچھ انٹرویو کاروں پر واضح طور پر عیاں ہوتا ہے۔ انتخاب میں وہ بھی اپنی اہلیتوں اور بصیرت سے کام لیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اچھے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔وہ اپنی ملازمتوں کے عادی بھی ہوتے ہیں۔ اپنی ان اسامیوں سے وابستہ سہولتوں اور ان کے تقاضوں کو بھی خوب خوب جانتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے بھی مطابقت اور موافقت رکھتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود زندگی میں آگے بڑھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات میں بہتر تنخواہ اور بہتر عہدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں وہ فولادی ارادہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی پہلی اسامیوں کو چھوڑ دیں اور نامعلوم کی طرف جست لگائیں۔ جب ان کو کوئی انٹرویو کا بلاوا آتا ہے تو وہ انٹرویو میں کسی نہ کسی سوچ کے تحت شامل ہوتے ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوتے ہی وہ واپس اپنے دفاتر کو آتے ہیں اور اپنی نشستوں پر برا جمان ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو کاروبار کرنے کے ارادے رکھتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنی ملازمت پر قائم رہتے ہوئے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی قسم کے کاروبار کی نشوونما کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ کے مطابق جب مناسب وقت آتا ہے تو وہ ملازمت چھوڑ دیتے ہیں اور مکمل طور پر کاروباری ہو جاتے ہیں۔ تیسری قسم ایسے افراد کی ہوتی ہے جو ایک مستقل ملازمت حاصل کرنے ہی کا ہدف رکھتے ہیں جس کے حصول کے بعد وہ اپنے کنبے اور دوستوں کے ساتھ اپنی زندگی آرام اور عافیت کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ آخر میں وہ نوجوان قابل ذکر ہیں جن کا مطمح نظر اپنی ملازمت میں آگے بڑھنا اور سروس ہی میں مستقبل کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ کوئی بھی امیدوار جس کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا ہو اسے انٹرویومیں شمولیت اختیارکرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ وہ اوپر کے پیرے میں بیان کیے گئے کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سروس کے میدان میں جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ مذکورہ بالا طبقات میں سے آخری طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی روپیہ پیسہ کمانے کی دوسری صورتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ایک امیدوار کی زندگی کی ترجیحات اس پر صاف صاف واضح ہونی چاہئیں۔ اگر اس نے اپنے لیے سروس (ملازمت) کرنے کے راستے کا انتخاب کیا ہے توپھر اسے انتہائی دلی خلوص اور اپنی تمام تر محنت کرنے کی صلاحیتوں کے ساتھ اپنا آپ خدمت کے لیے وقف کر دینے کو تیار رہنا چاہیے، اس طرح وہ ایک کامیاب ملازم ثابت ہو گا اور کسی نہ کسی دن آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا باس کہلانے کے عہدے پر ضرور فائز ہو گا۔ المختصر یہ کہ اس کی ملازمت کا مستقبل اس کے لیے سرخ جنگلی پھولوں کا تاج ہو گا جو عزت و مرتبے کا امتیازی نشان ہے اور جب وہ ملازمت سے فارغ ہو گا تو اس کی بقیہ زندگی شاندار اور پر امن ہو گی۔ ہر فرد کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے کسی بھی دوسرے کام کو سر انجام دے گا تو اس کی حالت یہ ہو گی جیسے اس کا ایک پاؤں ایک کشتی میں ہے اور دوسرا دوسری کشتی میں ہے۔ وہ مشکل ہی سے اپنے کسی بھی کام میں درجہ اول کا فرد نہیں کہلا سکے گا۔ انٹرویو کے کمرے کی طرف بہت سے نوجوان انٹرویو کو محسوس کرنے کی خاطر آئیں گے۔ بہت سے نوجوان اس کشمکش میں ہوں گے کہ اگر ان کو ملازمت کی پیشکش کی گئی تو کیا وہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ صرف چند ہی دل و دماغ کی پوری توانائی کے ساتھ کمرہ انٹرویو میں داخل ہوں گے۔ انٹرویو کار اپنے مطلوبہ افراد کا انتخاب بھی ان ہی میں سے کریں گے بشرطیکہ ان کے تعلیمی کوائف اور تجربہ کی صلاحیت بھی معیاری ہو۔ شاید ہی کوئی انٹرویو امیدوار کے لیے ہوا ہو۔ ایسا انٹرویو امیدوار کو ذہنی طور پر پریشان کر دیتا ہے اور وہ دباؤ اور کھچاؤ میں آ جاتا ہے۔ مگر ایسا الجھاؤ کیوں؟ شاید اس لیے (جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے) کہ امیدوار نے ابھی کوئی ایک اور آخری فیصلہ ہی نہیں کیا۔ اس کا دماغ ابھی تک دو کشتیوں کے سوار شخص کے دماغ جیسا ہی ہے۔ ایسا امیدوار جو واقعی ملازمت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے اس کی راہنمائی امیدوار مستقبل کی نشوونما کی تصویر کر رہی ہو گی۔ اسے کوئی شے بھی پیچھے کو نہیں کھینچے گی۔ اس سلسلے میں نپولین کے سپاہیوںکی ایک کہانی ہے کہ انہوں نے کس طرح ایک لڑائی جیتی بلکہ ان کو لڑائی جیتنے کے لیے کس طرح آمادہ کیا گیا۔ سپاہی اپنی کشتیوں کے ذریعے غلطی سے دشمن کے علاقے میں جا پہنچے۔ کہانی کے مطابق نپولین نے ان سے کہا کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دیں۔ کشتیاں جل چکیں تو نپولین نے ان سے کہا کہ اب ان کے زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ جی جان سے اپنے دشمن کے ساتھ لڑیں۔ سپاہیوں نے ایسا ہی کیا اور وہ فتح یاب ہوئے۔ انٹرویو کے امیدوار کے لیے یہ مثال ممکن ہے دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہو لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایسا فرد جس کو ملازمت کی شدید ضرورت ہے کبھی بھی کسی انٹرویو سے خوفزدہ نہ ہو گا۔ وہ اپنے آپ کو انٹرویو کاروں کے سامنے نہ صرف انتخاب کے لیے پیش کرے گا بلکہ اپنی مہارت، تقریر اور افتاد طبع سے اپنی تقرری کا پروانہ ہی حاصل کر لے گا۔ ایسے ارادے کے پکے امیدوار کے لیے انٹرویو ایک معمول کی بامقصد منزل ہو گا۔ وہ اپنے انٹرویو کاروں سے خوفزدہ بھی نہیں ہو گا۔ وہ سوالات کی فکر نہیں کرے گا۔ اسے یہ جاننے کا تردد بھی نہیں ہو گا کہ اس کے انٹرویو نے انٹرویو کاروں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے اور اعتماد ہی کامیابی کا راز ہے۔ پس کامیابی کی کلید اعتماد ہے۔ ایسے اعتماد کی تعمیر کریں اور سوالات کے جوابات ذہانت سے دیں۔ پوری توقع ہے کہ اس کے بعد ملازمت آپ ہی کے حصے میں آئے گی۔ ایک ذہین امیدوار از خود ہی ملازمت کے تقاضے مرتب کر لیتا ہے کیونکہ ملازمت کے اشتہار یا گشتی مراسلے میں ملازمت کی نوعیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ لازماً لکھا ہوتا ہے۔ امیدوار تصور کر سکتا ہے کہ اگر اس کا انتخاب ہو گیا تو اس کی ذمہ داریاں کیسی ہوں گی۔ اضطرابی گھبراہٹ ایک جبلی خاصہ ہے لیکن اس خامی کا جسمانی طور پر علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ خرابی صحت کی پیداوار ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص متواتر ہلکا ہلکا سا بیمار رہتا ہے یا سخت بیمار ہو جاتاہے تو وہ خود کو ایک صحت مند آدمی کے مقابلے میں کمتر محسوس کرتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہر فرد اپنی صحت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے۔ افسران کے بہت سے کلب کھیل اور تفریح از قسم ٹینس، پیراکی، گالف و کئی قسم کے مشاغل پیش کرتے ہیں۔ اعلیٰ افسران کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی جسمانی شکل و صورت اور صحت برقرار رکھیں۔ بہت سے سرکاری افسر اور ذمہ دار اشخاص صبح کی تازہ ہوا میں جاگنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انٹرویو کے امیدوار کے لیے نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنی اچھی صحت کو برقرار رکھے اور ایسا اچھی خوراک، طبی توجہ اور مناسب ورزش سے کیا جا سکتا ہے۔ جسمانی بہتری اور نشوونما خاصی حد تک اضطرابی گھبراہٹ کو ختم کر دیتی ہے۔ پھر آپ کو ایک پیشہ ورانہ راستے کا بھی انتخاب کرنا ہوتا ہے جس میں آپ طاق ہو سکیں۔ یہ راستہ یا تو فنی مہارتوں کا ہو سکتا ہے یا پھر تعلیمی رحجانات کا۔۔۔۔ یہ راستہ کسی مشغلے یا تفریح وغیرہ کا بھی ہو سکتا ہے۔ انٹرویو کے دوران میں اگر آپ گھبراہٹ کے عالم میں ہوں یا نہ ہوں وہاں ہونے والی گفتگو اگر آپ کے اس علم کے بارے میں ہو رہی ہے جس کے آپ ماہر ہیں تو ایسے میں آپ کی گفتگو متاثر کن ہو گی۔ اگر آپ وہاں (انٹرویو کے کمرے میں) ضرورت سے زیادہ اداکاری کرتے ہیں یا زیادہ ہوشیار بنتے ہیں تو ایساکرنا آپ کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔ ایسا کرنا آپ کی اضطرابی گھبراہٹ کا آئینہ دار ہو سکتا ہے۔ بہترین انداز میں اپنی فطری حالت میں رہنے کی کوشش کریں ۔ جب آپ سے سوال پوچھا جائے تو آپ کو فوراً ہی جواب نہیں دے دینا چاہیے۔ ذرا وقفہ دیں۔ بہترین وقفہ دو یا تین سیکنڈ کا ہو گا۔ اپنی گھڑی سامنے رکھ کر اس کی مشق کریں۔ اضطرابی گھبراہٹ کی ایک اور علامت بے تکا کے علاوہ زیادہ بولنا بھی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اپنے آپ پر قابو نہ پا سکیں۔ آپ نے اگراپنی تعلیم کے دوران میں، تجربات سے یا غیر نصابی سرگرمیوں سے کچھ سیکھا ہے اور آپ ان کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو کم سے کم الفاظ استعمال کریں۔ آپ کی زندگی کے کوائف میں اگر کچھ وقفے ہیں مثلاً آپ نے ایف اے کا امتحان2001ء میں پاس کیا اور بی اے تین سال بعد2004ء میں کیا ہے تو ایک سال کا وقفہ کیوں پڑا؟ ایسے وقفوں کے متعلق جواز پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ کچھ وقفے ایسے ہوتے ہیں جو فوراً ہی نظر آ جاتے ہیں جیسے آپ کی تعلیم کے اختتام سے لے کر کسی پیشہ ورانہ کام کو شروع کرنے یا ملازمت اختیار کرنے کے مابین طویل وقفہ ہو سکتا ہے، ایک ملازمت چھوڑ دینے کے بعد دوسری ملازمت اختیار کرنے میں کئی ماہ کا وقفہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ کا جواز یہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے دوسری ملازمت کرنے سے پہلے ہی اپنی پہلی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ ایسے وقفوں یا التواء کی جو بھی وجوہات ہوں انکو بھی آپ کم سے کم الفاظ میں بیان کریں۔ سوال: آپ کا ایک سال سکول میں کیوں ضائع ہوا؟ جواب: میں نے اپنے پرانے سکول سے ایک بہترین سکول میں داخلہ لیا تو بہترین سکول والوں نے مجھے پچھلے سال کی تعلیم دوبارہ حاصل کرنے کو کہا۔ سوال: دو ملازمتوں کے درمیان وقفہ کیوں ہوا؟ جواب: کام کا دباؤ میری صحت پر اثر انداز ہو رہا تھا، میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری تنخواہ مناسب نہ تھی۔ مجھے بہت سی ملازمتوں کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے بہتر ملازمت کا انتظار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ سوال: آپ نے فٹ بال کے کھیل میں انٹر کالجیٹ مقابلوں میں سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ دوسری کھیلوں میں کون سی کھیل ہے جس میں آپ اچھے ہیں؟ جواب: تمام کھیلوں میں جیسے ٹینس، والی بال، ہاکی اور کرکٹ وغیرہ۔ سوال: گالف کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: میں اس کھیل میں اچھا نہیں ہوں اگرچہ اس میں بھی ایک دو گیند کھیلے ہیں۔ اپنے مثبت نکات اور منفی نکات بھی کم سے کم بیان کریں۔ اسے ایک قانون خیال کریں۔ ہاں وہاں انٹرویو کے کمرے میں آپ شافی جواب دیں۔ جب کسی نکتے کے بارے میں بحث کا پہلو نکل آئے تو آپ کا جواب اٹکل پچو نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہ آپ کے بہترین مفاد میں ہو گاکہ آپ اپنے کوائف نامہ کا بار بار مطالعہ کریں اور سوچیں کہ کسی مثبت یا منفی نکتے پر انٹرویو کار آپ کو بحث مباحثے میں گھسیٹ سکتے ہیں یا نہیں۔ یا کیا وہ کسی نکتے کی وضاحت طلب کر سکتے ہیں۔ آپ نے ایسی مشق نہیں کر رکھی تو بھی کوائف نامے کے کسی بھی پہلو پر آپ اپنی ذہانت سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ آپ میں ایسی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے کوائف نامے کے کسی نکتے پر واضح جواب نہیں دے سکتے تو پھر آپ کی ذہانت ہی مشکوک ہو سکتی ہے۔ انٹرویو کے نتائج کے بارے میں اپنے تصور کو خالی خالی رکھنے کی بجائے آپ دور اندیشی سے کام لیں۔ جس کمپنی میں آپ نے انٹرویو دیو ہے اس کی کاروباری سرگرمیوں اور اس کی ضروریات کے حوالے سے آپ اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔ یہ ابتدائی نوعیت کی معلومات اس لیے نہیں کہ جس کمپنی یا دفتر کے لیے آپ نے انٹرویو دیا ہے اس کے متعلق آپ کی لا علمی کو ختم کیا جائے بلکہ اس میں بڑا نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ اس دفتر یا کمپنی میں شامل ہوں تو آپ کی اپنی ترجیحات کو کس طرح بہترین طریقے سے اس دفتر یا کمپنی کے منصوبوں اور پروگراموں میں جگہ دی جا سکے۔ آپ نے کمپنی یا دفتر کی سرگرمیوں کے نصاب میں کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے کا فیصلہ نہیں کرنا ہے لیکن اپنا آپ تو سنبھالنا ہے۔ آپ اگر سروس کے آدمی ہیں تو آپ کا ہدف ملازمتوں کی دنیا میں بتدریج کامیاب ہونا ہے۔ ترقی پا کر ذمہ دار اسامی پر متعین ہونا ہے جو اعلیٰ انتظامی سطح کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود کسی انتظامی اسامی پر کامیاب ہونے کے لیے آپ کو کاروباری لوگوں اور با اختیار افراد کے ذہنی خدو خال کو سمجھنا ہو گا۔ تمام کاروباروں کی کلید منافع کی امید اور نقصان کے اندیشے کو سامنے رکھنا ہے۔ مقابلے کی اس دنیا میں ایسے طریقے اور راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ایک کمپنی کی مصنوعات کو دوسری کمپنیوں کی مصنوعات سے زیادہ مشہور اور مفید بنایا جا سکتا ہے۔ آپ کو اپنے ذاتی نقطہ نظر اور تصوراتی زاویوں کو کمپنی کے نظریات اور توقعات سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ جب آپ انٹرویو بورڈ کا سامنا کریں تو آپ کو اپنے رویوں کو ایسا رکھنا ہو گا جیسے رویوں کی آپ اپنے ذاتی ملازم سے توقع کر سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے باس کی نظر سے دیکھنا ہو گا جو بڑا کاروباری اور صنعتی دنیا میں مقناطیسی قوت رکھتا ہے۔ کسی کاروباری آدمی کا چہرہ اس کی ذہانت کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ شرمسار ہو یا کسی سے مات کھا جائے۔ اسے توانائی، امید اور جرأت مندی سے کھولتا ہی رہنا چاہیے۔ اسے اپنے ملازمین کا قائد ہونا چاہیے۔ اس کے ملازمین اسی سے فرائض کے مسائل کا حل چاہیں گے۔ چاک و چوبند اور محنتی ملازمین کام کی دنیا میں چمک دمک اور کام میں تیز رفتاری کی قدر و قیمت کا احساس رکھتے ہیں۔ باس اگر کسی کاروباری دورے یا اسی قسم کے کسی اجلاس میں جا رہا ہے تو وہ اپنے ساتھ کسی ذہین اور خوش ترین ملازم کو بھی لے جائے گا۔ جو ایک زندہ شہادت ہو گا کہ کمپنی کے معاملات کیسے چل رہے ہیں؟ لہٰذا جب آپ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوں تو آپ کے ذہنی پس منظر میں ایسے تمام خیالات اور سوچیں ہونی چاہئیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ یہ نامعقولیت ہو گی کہ انٹرویو سے گھر واپس آتے ہی آپ اونچی آواز سے چلاتے ہوئے سب کو بتائیں کہ آپ کو ملازمت مل گئی ہے، آپ اپنے تمام تفکرات وہاں چھوڑ آئے ہیں اور اب آپ کے لیے ایک خوش آئند زندگی کی ابتدا ہو چکی ہے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کو لازمی طور پر ملازمت مل جائے گی لیکن وہ کسی غیر معمولی کیفیت کا اظہار نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ موافق و مخالف صورت حال صرف تب ہی پیدا ہو گی جب وہاں پہنچیں گے جہاں وہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ ابھی تو انہیں بہت سی مطابقت اور موافقت پیدا کرنا ہے، انہیں نئے ماحول میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہے اور انہوں نے نئی ملازمت پر اور نئے ماحول میں ابھی قدم جمانے ہیں۔ ایک محنتی ملازم اور بہترین منتظم ہونے کے لیے کچھ بنیادی باتیں ہیں جن کو ہر آدمی کو حاصل کرنا چاہیے۔ دوسری باتوں کے علاوہ ان میں لباس، شخصیت کی اٹھان، سج دھج اور صاف ستھری عادات وغیرہ شامل ہیں۔ اچھی اور صاف ستھری عادات آپ کی زندگی کے اہم عناصر ہیں۔ ایک امیدوار کا ہاتھ ہی بتا سکتا ہے کہ اس کے ناخن لمبے تھے اور ان کو انٹرویو میں شمولیت سے قبل ہی کاٹا گیا ہے۔ یا اس نے اپنے بال بھی انٹرویو سے ایک روز قبل ترشوائے ہیں۔ ایک بڑے افسر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے حجام کو کہہ رکھا تھا کہ وہ دس دن بعد اس کے گھر ضرور آیا کرے۔ اسی طرح آپ کو بھی ہاتھوں اور انگلیوں کی تزئین و آرائش بطور فن تو نہیں کرنی چاہیے لیکن آپ کے ناخن تو باقاعدگی سے کاٹے جانے چاہئیں اور اسی طرح مونچھوں کی تراش خراش بھی روزانہ معمول کے فیشن کے مطابق ہونی چاہیے۔ ایک اچھے لباس کے عادی شخص کا اندازہ اس کی قمیض اور پتلون کی استری کی کریز سے ہی ہو جاتا ہے۔ اس کی طبع کی نفاست کا اندازہ اس کے جوتوں کی پالش، اس کی جرابوں کی صفائی اور اس کے رومال ہی سے ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے استری شدہ لباس میں فطری انداز میں اٹھے بیٹھے گا۔ اس کے لباس سے ہی اندازہ کر لیا جائے گا کہ اس نے آج انٹرویو کے دن بادل ناخواستہ یہ لباس نہیں پہنا ہے، اور نہ ہی اس لباس کو اس میں ٹھونسا گیا ہے۔ ایسے امیدوار بھی ہوتے ہیں جو انٹرویو کے منظر ہی سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ایسے امیدواروں کے اندر ضرورت کے مطابق اعتماد نہیں ہوتا۔ وہ چاہیں گے کہ ان کا انتخاب کسی اتفاقی بات سے ہی ہو جائے۔ ایسے بھی امیدوار ہیں جو انٹرویو سے ہرگز نہیں گھبراتے۔ وہ لاپرواہ بھی نہیں ہوتے۔ وہ سنجیدہ ہوتے ہیں اور اپنی بہترین کوشش کرتے ہیں اور بہترین انداز میں انٹرویو کاروں کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر وہ ملازمت حاصل نہیں کرتے تو وہ پریشان نہیں ہوتے۔ انہیں کہیں اور ملازمت مل ہی جائے گی کیونکہ وہ کام کرنے والی دنیا کو بھی پسند کرتے ہیں اور کام کی دنیا کو ان جیسے لوگ ہی بھلے لگتے ہیں۔ ٭٭٭ چھٹا باب پیش بینی جب آپ اس کمرے میں جاتے ہیں جہاں انٹرویو کرنے والے آپ کے منتظر ہیں تو آپ کو وہاں اعلیٰ درجے کی پیش بینی اور پیش بندی کے ساتھ جانا چاہیے۔ آپ نے انٹرویو کے بارے میں بہت سی باتیں سنی ہوں گی۔ باہر انتظار کرنے والے بہت سے امیدواروں کی گپیں بھی آپ کے کانوں تک پہنچی ہوں گی۔ لاتعداد افواہیں ادھر ادھر گشت کر رہی ہوں گی۔ وہ جو کمرۂ انٹرویو سے ہو آئے ہیں وہ ادھر ادھر منڈلاتے انٹرویو کے دوسرے منتظر امیدواروں کے ذہنوں کو اپنی منفی باتوں سے پامال کر رہے ہوں گے۔ اگر آپ کا سابقہ بھی ایسے منفی لوگوں سے پڑے تو آپ کو ان کے ساتھ چابکدستی اور حکمت عملی سے معاملہ کرنا چاہیے۔ آپ ان سے بہترین معلومات اخذ کریں اور ان سے ہمدردی کا اظہار کریں کہ وہ انٹرویو کے حوالے سے بے اطمینانی محسوس کر رہے ہیں۔ آپ کو اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ یہ بھی خیال رکھیں کہ ان کی مایوسی کی منفی باتیں سن کر آپ اپنی طبیعت کو قطعی خراب نہ ہونے دیں اور اپنے فیصلے آپ اپنی ذہانت سے کریں۔ آپ اپنے آپ کو کبھی بھی بیرونی عناصر کی غیر مصدقہ باتوں کے بہاؤ میں نہ آنے دیں تاہم آپ ان کی باتیں سننے کے لیے کان بھی بند نہ کریں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض دفاتر سے انٹرویو کے لیے جاری ہونے والی چٹھیاں اس انداز سے جاری کی جاتی ہیں کہ امیدواران ایک دوسرے سے مل ہی نہ سکیں۔ جب امیدوار انٹرویو کے کمرے میں امید، پیش بینی اور عملی صلاحیتوں سے آراستہ داخل ہوتا ہے تو انٹرویو کار حیران رہ جاتے ہیں۔ ایسے امیدوار کو اگر وہ ملازمت نہیں دے سکتے تو تب بھی انہیں اس سے علیحدہ ہونے کا افسوس ہوتا ہے۔ ان کی تجربہ کار آنکھیں ان کو بتا دیتی ہیں کہ یہ تھا وہ شخص جو کمپنی یا ادارے کے لیے بہترین طور پر فائدہ مند ہو سکتا تھا۔ انٹرویو میں ایک مصنوعی چابکدستی اور تیزی و طراری ہو سکتی جسے ایک امیدوار انٹرویو کے تقاضوں کو نبھانے کی خاطر اپنی کئی خامیاں چھپانے کے لیے اختیار کرتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ مایوسی اور بے امیدی اس کی اس خود ساختہ اور نقلی چمک دمک میں سے جھانک جھانک کر اس کے اصل رنگوں کی غمازی کر رہی ہوتی ہے۔ ایک کاروباری آدمی کی مثال دیکھیں۔ اسے اپنے کاروبار میں ایک طرف تو خسارے کا سامنا ہے لیکن دوسری طرف اس نے اور منصوبے تیار کر رکھے ہیں۔ وہ کسی مشکل میں الجھا ہوا نہیں ہے اس نے اپنی سرگرمی کے ایک پہلو ہی پر مکمل انحصار نہیں کر رکھا۔ اس کے ذہن میں امیدیں ہیں اس کے دوسرے اقدامات اور منصوبوں سے اس کے خسارے پورے ہو جائیں گے۔ اس کے پاس اندیشوں میں ڈوبے رہنے اور بد دل رہنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ ایک امیدوار ایک کاروباری شخص تو نہیں ہو سکتا لیکن اس نے آگے بڑھنے کی امیدیں تو پال رکھی ہیں۔ وہ بہت سی جگہوں پر کوششیں کر رہا ہے اور اسے امید بھی ہے کہ چند جگہوں سے اسے ملازمت کی پیشکشیں ہونے والی ہیں۔ اس کا چہرہ امیدوار پیش بینی کا تاثر دیتا ہے اور اس کی شخصیت کی اٹھان ایسی ہے کہ انٹرویو کار اس سے یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ایک امیدوار کو اس ملازمت کے بارے میں علم ہونا چاہیے جس کے لیے اس کا انٹرویو ہو رہا ہے۔ جس کمپنی میں اس نے درخواست دے رکھی ہے اگر اس کمپنی کے متعلق بھی وہ کچھ جانتا ہے تو یہ علم بھی اس کے مفاد میں ہو گا۔ اگر وہ صنعتی اور تجارتی اداروں کے متعلق جانتا ہے تو اپنے اس علم کے منظر اور پیش منظر کو انٹرویو میں ہونے والے سوالات کے جوابات میں ڈھال سکے گا۔ ایسے بہت سے تاثرات ہیں جو ایک امیدوار اپنی ذات سے مترشح کر سکتا ہے۔ اگر کوئی امیدوار خوش نظر آتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرنے والی قسم کا فرد ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کا سوچتا ہے اور بہتری کی خاطر عملی اقدامات بھی کرتا ہے۔ خوش نظر آنا اور پر اعتماد ہونا۔۔۔ ایک ہی بات نہیں ہے۔ وہ شخص جس کے سامنے مرتب کردہ راہ عمل ہے، پر اعتماد ہو گا۔ وہ شخص جو یہ نہیں جانتا کہ اس کا اگلا عمل کیا ہو گا متردد بھی ہوتا ہے او رپریشان بھی۔ جب کسی شخص کو یہ علم ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کیا ہو گا؟ تو وہ کبھی متردد نہیں ہوتا۔ عمل ہی خوشی لاتا ہے۔ کسی امیدوار کو ایک ہی ملازمت کے لیے درخواست دینے یا اس کے لیے انٹرویو دینے پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ملازمت حاصل کرنے کے لیے ملازمتوں کی لمبی فہرست پر نظر رکھنی چاہیے۔ امیدوار کے اس عظیم کام کا رویہ اس کے چہرے ہی سے عیاں ہوتا ہے، چہرہ دماغ کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ مصنوعی طور پر اپنے چہرے پر بھی چمک لا سکتے ہیں۔ اپنی ظاہری حالت کو بہتر بنا کر اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں اور اپنے خدو خال کی بہتر صورت نمایاں کر سکتے ہیں لیکن آپ کے کھڑے ہونے کا حقیقی انداز یا آپ کا رویہ آپ کو دھوکا دے جائے گا اور آپ کا بھرم کھول دے گا۔ ایسی حالت میں آپ کا چہرہ اوپر بیان کردہ بہروپ میں بھی پریشان نظر آئے گا۔ اگر آپ اپنے کام میں پورے انہماک سے مصروف ہوں، اگر آپ اپنی خوشی کی تلاش بیرون سے نہیں بلکہ اپنی ذات کے اندرون سے کرتے ہیں اور آپ اپنے آپ سے مطمئن ہیں تو لوگ آپ کی اس کیفیت کو ضرور سمجھ جائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ آپ خود مختار ہیں اور دلی طور پر مطمئن ہیں اور آپ کے کردار و عمل پر خارجی اثرات نہیں ڈالے جا سکتے۔ تاثر قائم کرنے کا فلسفہ یہی ہے اور یہ کسی بھی امیدوار کے لیے بڑا ہی اہم ہو سکتا ہے۔ یہ تاثر امیدوار کے لیے ملازمت کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہیے اور اسے اسی کے لیے بر سر عمل ہونا چاہیے۔’’ قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔‘‘ یہ ضرب الامثال معانی سے بھرپور ہیں اور جو شخص ان کی روشنی میں آگے بڑھتا ہے تو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ کامیابی کا تاج اس کے سر ہی پر سجے گا۔ آج نہیں تو کل۔۔۔۔ ان خیالات کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ امیدوار کے اندر امید اور توانائی کو زندہ رکھا جائے۔ امیدوار کسی ایک انٹرویو میں ناکام ہو سکتا ہے اور دوسرے میں وہ اپنے آپ کو معیار کے مطابق ثابت کرتا ہے۔ کوئی اور امیدوار اس سے چند نمبروں سے آگے بھی ہو سکتا ہے۔ امیدوار کی کوششوں کی طرح انٹرویو بھی جاری ہی رہتے ہیں۔ بس امیدوار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی عمل ضائع نہیں جاتا۔ اسے کبھی بھی اپنے دل کو چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اسے اگلے انٹرویو کا بھرپور توانائی کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے۔ اسے اپنے چہرے پر سے ہمیشہ کے لیے اداسی کا تاثر مٹا دینا چاہیے۔ امیدوار کو کبھی بھی منفی پہلو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ جو مثبت پہلو اختیار کرتے ہیں اور یقین کے ساتھ اس سے منسلک رہتے ہیں اور اپنے ارادے کو جواں رکھتے ہیں وہ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ لہٰذا کبھی بھی اپنے آپ کو منفی گروپ میں شمولیت اختیار نہ کرنے دیں۔ یاد رکھیں کہ منفی گروپ والے زندگی بھر منفی حکمت عملی ہی اپنائیں گے اور ہمیشہ ہی پیچھے رہیں گے۔ آپ اگر کئی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتے تو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں بلکہ توانائی کی نئی لہر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اس ضرب المثل کو یاد رکھیں۔ ’’ کبھی مرنے کی بات نہ کریں۔‘‘ آپ کی یہی توانائی، امیدیں اور لہراتے ہوئے تصورات انٹرویو کاروں کو اس قدر متاثر کر سکتے ہیں کہ وہ اونچی سفارش کی بناء پر کسی اور کو اعلیٰ اسامی دینے کی مجبوری کے باوجود آپ کو بھی فی الحال عارضی بنیادوں پر کسی اچھی اسامی کے تخلیق ہونے تک محفوظ کر لیں۔ کیونکہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ کمپنی کو آپ جیسے پیش بین اور صاحب عمل نوجوان کی ضرورت ہے اور کمپنی آپ کو کہیں او رنہ جانے دے کیونکہ آپ جیسے افراد روز روز میسر نہیں آتے۔ مواقع اکثر اسی طرح اتفاقاً آتے ہیں لیکن وہ کس شکل میں آئیں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ تاہم فرد کو اس قابل ہونا چاہیے کہ جب مواقع کسی بھی صورت میں آئیں وہ انہیں شناخت کر لیں اور صحیح وقت پر انہیں تقدیر کے ہاتھوں سے اچک لیں۔ آپ اپنا نظریہ حیات وسیع رکھیں، اپنے انتخابات کھلے رکھیں اور اپنی امیدوں کو روشن رکھیں پھر قسمت بھی آپ کی رجائیت کے سامنے جھک جائے گی اور آپ کے سخت قسم کے انٹرویو کار بھی آپ کی جادو بھری شخصیت کی کامیابی کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں گے۔ ہمیشہ بہترین کی امید رکھیں۔ آپ انٹرویو کاروں کے سامنے کمزور ثابت ہونے کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ آپ کی برقی شخصیت تو آپ کے انٹرویو کاروں کے گرد چھائی ہوئی مردہ قسم کی سنجیدگی کو تازگی بخشنے والی ہے۔ آپ تو سنجیدہ چہروں والے باسوں کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ہیں۔ اس دوران میں اگر آپ کا مایوسی کی حد تک ملازمت کی ضرورت ہے تو سیلزمین، فیلڈ افسر اور مددگاروں کی آسامیاں موجود ہیں جو آپ کو کام کرنے والی دنیا کا تجربہ دلا سکتی ہیں۔ کام کرنا بہرحال بیکار رہنے یا ملازمت نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔ پیش بینی ایک واحد لفظ ہے لیکن اس میں انواع و اقسام کے مفہوم پوشیدہ ہیں۔ آپ محبت بھی نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ اس کی پیش بینی نہ کریں، آپ مال و متاع اور سیم و زر کے ڈھیر بھی پیش بینی کے بغیر نہیں لگاتے اور اسی طرح آپ شدید ضرورت کے باوجود کسی ملازمت کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ آپ پیش بینی کو مطلوبہ حد تک بلند نہیں کر لیتے۔ امیدوار کی تربیت میں سوال و جواب کے طریقوں کی اہلیت کا حصول بھی شامل ہونا ضروری ہے تاہم اس کے ذہن کا سنگھار، رویوں کی سچائی اور جسمانی صحت کو بھی دور حاضر کے مطابق ہونا لازم ہے۔ کامیابی کی اعلیٰ اور اہم کلید پختہ عزم ہے۔ کئی اختلافات پختہ عزم کے سامنے پگھل کر رہ جاتے ہیں۔ ایک امیدوار کو انٹرویو کے کمرے میں ہیجان اور اضطراب کے ساتھ اور نہ ہی تقدیر کے مارے کی حالت چہرے پر سجائے داخل ہونا چاہیے بلکہ اسے عزم و یقین کی سرشاری کی کیفیت کے تاثرات کے ساتھ کمرۂ انٹرویو کے اندر قدم رکھنا چاہیے کہ کامیابی اسی کو حاصل ہو گی۔ انٹرویو ایک ایسا کاروبار ہے جس میں خود کو وقف کرنے کی کیفیت ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی محبوبہ یا محبوب کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدگی سے اس کے متعلق سوچنا اولین شرط ہے۔ آپ لگاتار روپے پیسے کے متعلق سوچیں تو آپ اسے کما ہی لیں گے۔ اسی طرح آپ ایک ملازمت کے متعلق دن رات سوچیں تو وہ لازماً آپ کو مل جائے گی۔ بس اس سب کچھ کے حصول کے لیے خود کو وقف کرنا پڑتا ہے۔ نوحہ خوانی کے لیے بیٹھنے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ سوچ سوچ کر مایوس ہونے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ مقصدیت اور مفادات کے متعلق سوچا جائے۔ آپ اگر کام کرنے والی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے اس دنیا کو بہترین طور پر جاننا ضروری ہے۔ آپ کو پہلے ہی سے اس دنیا کی آزمائشوں، مصیبتوں، رکاوٹوں اور تکالیف کا شعور ہونا چاہیے۔ آپ غالیچے اور صوفوں سے آراستہ کمرے میں شیشے کی مانند چمکتی میز کے اس طرف گدے دار اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھے کاروباری آدمی کے پا س جائیں اور اس سے پوچھیں تو وہ شاید آپ کو پانی کی جڑی بوٹیوں کی الجھی ہوئی بیلوں کی طرح پھیلی ان مشکلات کے متعلق بتائے جنہوں نے اسے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور وہ بڑی مشکل سے اپنے سر کو پانی سے باہر رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ مشکلات میں ڈوب کر ختم ہی نہ ہو جائے۔ ایک کاروباری آدمی نے ایک مرتبہ بلند قہقہہ لگاتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیمی اسناد والے شخص کو ملازم رکھنا چاہتا تھا جسے اس کے پاس بھیجا گیا تھا۔ کاروباری آدمی نے اس امیدوار سے نرمی اور مہربانی کا سلوک کیا۔ اس قسم کے سلوک سے نوکری کے لیے آنے والے شخص کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس نے کاروباری شخص کو ان عام آدمیوں کی حالت کے متعلق بتانا شروع کر دیا جن کے پاس کوئی ذرائع نہیں ہیں، جن کی ضروریات اور تکالیف کو وہ کاروباری شخص اور نہ ہی اس کی سطح کے دوسرے کاروباری اشخاص سمجھ سکتے ہیں۔ کاروباری شخص نے آنے والے شخص کی باتوں کی تائید میں اپنے سر کو اثبات میں ہلایا اور پھر بڑی نرمی سے اس شخص کو باہر جانے کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ملازم رکھنے سے معذرت چاہی۔ تعلیمی اسناد ہوں یا نہ ہوں اسے اپنے کاروباری نظام میں ایک احمق آدمی کی ضرورت نہ تھی۔ یاد رکھیں کہ کبھی بھی اپنے سے بدتر شخص کی صلاحیتوں کو کمتر خیال نہ کریں۔ وہ بدتر شخص آپ کا حاضر باس یا ادارے کا سربراہ ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ ایسا رویہ اختیار کیجئے جسے آپ کا افسر بہتر طور پر جانتا ہو۔ ہاں اگر کوئی ایسا سوال پیدا ہو جس میں فیصلے کی ضرورت ہو اور اس میں آپ کی رائے پوچھی جائے تو ایسی صورت حال میں آپ درست اور صائب رائے دیں خواہ وہ آپ کے افسران یا باسوں کے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو۔ آپ اپنی صائب رائے کی تائید میں اس کے پس منظر کی سچائی اور مقصد کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنے باس کو شہر کا چکر لگوا رہے ہیں اور وہ انگلی کے شارے کے ساتھ آپ سے پوچھتا ہے۔ ’’ وہ عمارت کون سی ہے؟‘‘ آپ کا جواب ہو سکتا ہے کہ وہ عمارت دفاتر ہیں یا شاپنگ سنٹر ہے یا پھر رہائشی فلیٹوں پر مشتمل ہے وغیرہ وغیرہ بشرطیکہ آپ واقعی عمارت کے متعلق جانتے ہوں۔ محتاط رہئے کہ ایک عمارت کے بارے میں اپنے باس کو بتاتے ہوئے آپ دیگر قریب کی عمارتوں کے بارے میں تفصیل بتانا شروع نہ کردیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا باس ان عمارات کے متعلق پہلے ہی سے جانتا ہو اور جس عمارت کے متعلق اس نے آپ سے پوچھا ہے اس کے متعلق وہ واضح طور پر نہ جانتا ہو۔ ہو سکتا ہے یہ خیال حقیقت پر مبنی نہ ہو مگر آپ کو یہی کچھ فرض کرنا چاہیے اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ احمق ہی ثابت ہوں گے۔ آپ کے انٹرویو کار آپ سے پوچھتے ہیں۔ ’’ آپ فٹ بال میں کون سی پوزیشن میں کھیلتے ہیں۔‘‘ آپ بتاتے ہیں کہ آپ ’’ گول کیپر‘‘ کے طور پر کھیلتے ہیں۔ ’’ گول کیپر کے طور پر کیوں؟‘‘ آپ سے پھر پوچھا جاتا ہے۔ آپ بتاتے ہیں کہ جب آپ ابھی نوعمر لڑکے ہی تھے تو آپ گول کیپر کے طور پر کھیلنا پسند کرتے تھے لہٰذا ٹیم میں بھی آپ کو گول کیپر لیا گیا اور پھر آپ کا گول کیپر ہونا ہی بہتر سے بہتر ثابت ہوتا گیا۔ اس قسم کا جواب قبول کر لیا جائے گا لیکن آپ گول کیپر ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فٹ بال کھیل اور کھلاڑیوں کی مختلف پوزیشنوں کے متعلق بتانے لگیں تو یہ سب کچھ زائد ہو گا۔ آپ چونکہ ’’ گول کیپر‘‘ ہیں اور فٹ بال کے کھلاڑی ہیں لہٰذا اس حقیقت کا آپ کے انٹرویو کاروں کو علم ہی ہے کہ آپ کھیل کے متعلق تفصیلی گفتگو کر سکنے کے اہل ہوں گے۔ انٹرویو میں جو چیز دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ دیکھا جائے کہ آپ کس قدر جلدی صرف پوچھے گئے نکتے کے بارے میں جواب دیتے ہیں۔ کاروبار میں پتے کی بات تک پہنچنا ہی اس میں کامیابی کا نزدیک ترین راستہ ہے۔ نہ صرف کاروباری دنیا میں بلکہ تعلیم و تدریس اور دیگر پیشہ ورانہ میدانوں میں بھی اختصار اختیار کرنا گفتگو یا تقریر کا جوہر ہے۔ ایک پروفیسر نے ایک گھنٹے سے زائد وقت تک، اطلاعات کے ’’ وسیع ابلاغ‘‘ (جس کے متعلق کہا جاتاہے کہ سابقہ سوویت یونین نے اس پر عمل کیا) پر لیکچر دیا۔ لیکچر کے بعد ایک لیکچر میں دلچسپی رکھنے والا شخص پروفیسر تک پہنچا اور معذرت کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’ اطلاعات کے وسیع ابلاغ‘‘ (Glassnost)کا مطلب کیا ہے؟ بغیر کسی غصے کے پروفیسر نے انتہائی پر اطمینان لہجے میں ’’ واضح ہونے کی کیفیت‘‘ کہا اور واپس جانے کے لیے باہر کی سمت چل دیا۔ امیدوار کے لیے بعض اوقات یہ انتہائی موزوں ہوتا ہے کہ وہ سوال کے انتہائی اہم حصے کا جواب دے اور حتمی طور پر یہ سمجھ لے کہ بقیہ کا جواب سوال کرنے والے کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ ایسے جوابات تکنیکی یا نیم تکنیکی سوالات میں مناسب رہتے ہیں۔ سوال کنندہ سوال کرتا ہے کہ Tranche(مجموعی آمدن کا ایک جزو) کا کیا مطلب ہے؟ اب یہ علم معاشیات کی ایک خصوصی اصطلاح ہے۔ امیدوار جواب دیتا ہے کہ اس کا مطلب ’’جزیاتی امدادی رقوم‘‘ ہے۔ سوال کرنے والا امیدوار کو اپنے جواب کی وضاحت کرنے کو کہتا ہے۔ امیدوار وضاحت کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ قرض دینے والا قرض لینے والے کو قرضے کی مجموعی رقم ایک ہی مرتبہ مہیا نہیں کر دیتا بلکہ دو یا تین اقساط میں ایسا کرتا ہے۔ انہی اقساط کو Tranche کہا جاتا ہے۔ ’’ کیا یہ اقساط برابر ہوتی ہیں‘‘ انٹرویو کار پوچھتا یا پوچھتے ہیں۔ ’’ یہ ضروری نہیں۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔’’ اس کا انحصار قرض دینے اور لینے والے فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے پر ہے۔‘‘ ’’ فرض کیجئے‘‘ انٹرویو کار امیدوار سے انٹرویو کی ابتداء اس سوال سے کرتا ہے۔’’ فیکٹری میں ہڑتال ہے کیا تم جانتے ہو کہ کیسے اس معاملے کو نمٹایا جائے یا کیسے ہڑتال کو دبایا جائے؟‘‘ ’’ نہیں جناب۔۔۔۔ میں اس کے متعلق نہیں جانتا‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ کیوں نہیں؟‘‘ سوال امیدوار کی طرف اچھالا جاتاہے۔ ’’ یہ معاملہ کارکنوں، ان کی یونین اور انتظامیہ کے درمیان کا ہے۔ جس کے بارے میں اس مرحلے پر بے خبر ہوں۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ اس مرحلے پر، سے آپ کی کیا مراد ہے‘‘ انٹرویو کار مزید پوچھتا ہے۔ ’’ میں ایک انجینئر ہوں اگر میں منیجر بن جاؤں تو میں کارکنوں اور انتظامیہ کے تعلقات کے بارے میں مزید جان سکوں گا۔‘‘ امیدوار کا جواب ہے۔ اس سب کچھ سے ظاہر ہوتا ہے کہ واضح الفاظ میں ’’ نہیں‘‘ کے لفظ کو انٹرویو کار زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ’’ نہیں‘‘ کے لفظ پر مشتمل جواب کو منفی جواب نہیں کہا جاتا۔’’ نہیں‘‘ کے لفظ سے دو علمی یا عملی میدانوں میں سے ایک کے خدوخال کا تعین ہوتا ہے لہٰذا دوسری طرف کے علم و عمل کے ماہر امیدوار وثوق کے ساتھ ’’ ہاں‘‘ میں جواب دیتے ہیں۔ امیدوار کے لیے ملازمت کی حامل اسامی کے بارے میں پیش بینی ضروری ہے۔ وہ اس اسامی کے بارے میں جسے وہ حاصل کرنا چاہتا ہے جتنا زیادہ سوچے گا اسی قدر زیادہ وہ ہر پہلو سے اپنی نشوونما کا مظاہرہ انٹرویو کاروں کے روبرو کر پائے گا۔ چنانچہ آپ حاضر اسامی کے متعلق سوچیں اور اگلی صبح کے اخبارات کو مزید کھنگالیں اور مستقبل کی اسامیوں کے بارے میں اشتہارات ملاحظہ کریں۔ شاید کسی اور مقام پر کوئی بہتر اسامی آپ کی منتظر ہو۔ ساتھ ساتھ امیدوا رکے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر ’’فٹ‘‘ رکھے اور اپنا وقت گھر میں سستی اور کاہلی کی مصروفیات یعنی ناول پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے میں نہ گزارے۔ عمل پر یقین رکھنے والے ایک باپ نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’ میں تمہیں ہر روز گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھوں۔ تم دفاتر اور دیگر جگہوں پر جاؤ اور ملازمتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔ روزانہ آنے جانے کا خرچہ تم مجھ سے لے سکتے ہو لیکن شرط یہ ہے کہ تم مخلص رہو اور خرچے کی رقم کو فضولیات میں ضائع نہ کرو۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ اگر تم بیٹھ جاتے ہو تو تمہارا مقدر بھی بیٹھ جاتا ہے۔ اگر تم کھڑے ہوتے ہو تو تمہارا مقدر بھی کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر تم حرکت کرتے ہو تو تمہارا مقدر بھی متحرک ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ ساتواں باب اعتماد کامیابی کا سارا دار و مدار اعتماد پر ہے۔ اعتماد بیک وقت دو خوبیوں یعنی مہارت اور اہلیت کا حامل ہوتا ہے۔ آپ کے پاس ادب و زبان کا علم ہو سکتا ہے۔ آپ اطلاقی مشینی علم کے ماہر بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ عالم فاضل بھی کہلا سکتے ہیں وغیرہو غیرہ۔ لیکن کیا آپ اپنے اس علم کو دوسروں کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ اپنے عالم ہونے کے ثبوت میں کسی موضوع پر فی البدیہہ تقریر کر سکتے ہیں؟ کیا آپ میں اتنی اہلیت اور قوت برداشت ہے کہ آپ اپنی مہارت کو استعمال کر سکیں؟ آپ اپنے آپ کو انتخابی انٹرویو بورڈ کے ایک ممبر کی کرسی پر بیٹھے ہوئے فرض کریں۔ ایک انٹرویو کار کی حیثیت سے آپ امیدوار میں کن اچھی خوبیوں کے پائے جانے کی توقع کریں گے یا آپ امیدوار کی شخصیت کے کون سے پہلوؤں کو بہت ہی پسند کریں گے؟ امیدوار دروازے سے گزر کر اپنی کرسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی چال ایک مخصوص انداز کی ہے۔ کیا وہ اپنی پھولی ہوئی چھاتی اور گردن پر تنے ہوئے سر کے ساتھ سب کچھ جاننے والے شخص کے رویے سے آیا ہے؟ یا وہ کانپتا ہوا اور چرمر چہرے سے ادھر ادھر دیکھتا ہو ابھاگ جانے کے انداز سے آیا ہے؟ یا پھر وہ معمول کے مطابق قدم اٹھاتا ہوا انٹرویو کے کمرے کے اندر داخل ہوا ہے اور پھر امیدوار کے لیے مخصوصی کرسی کے پاس پہنچ کر بورڈ کی تعظیم کی خاطر ہلکا سا سر جھکانے کے بعدکرسی پر بیٹھ جانے کے حکم کے انتظار میں کھڑا ہو گیا ہے۔ بورڈ کا چیئرمین غالباً اپنا ایک معین طریق عمل رکھتا ہے کہ وہ امیدوار کو ہاتھ کے اشارے سے یا زبان سے بیٹھ جانے کو کہے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امیدوار نے اپنی آمد سے انٹرویو کے کمرے میں اپنے بارے میں کیسا ذہنی اور جسمانی تاثر دیا ہے۔ ہشاش بشاش اور پر اعتماد چمکتا چہرہ ہی وہ چہرہ ہے جسے سب ہی پسند کرتے ہیں۔ بعض افراد کو قدرت نے ایسا ہی پسند آنے والے تاثرات سے بھرپور چہرہ عطا کر رکھا ہے۔ بعضوں کے چہروں پر احساسات کے کئی سائے آ اور جا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے چہرے جلد ہی سیاہ پڑ جاتے ہیں اور یوں وہ زیادہ ہی سنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ جذبات سے عاری اور عام طور پر روشن چہرہ رکھتے ہیں تو پھر چہرے پر تاثرات کا معاملہ آپ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ایسا چہرہ آپ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ لہٰذا آپ کی موجودگی سے دوسروں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ آپ کا چہرہ لچکدار ہو سکتا ہے۔ موافق اور غیر موافق صورت حال میں اچھے او ربرے تاثرات ایسے چہرے پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ کو ایسے تاثرات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے چہرے پر موثر تاثرات کی مشق کرتے ہیں۔ یہ مشق آپ کو اپنا چہرہ مثالی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی منفی جواب کو ’’ نہیں‘‘ کے معنوں میں نہ لیں کیونکہ ایسا جواب کوئی ایسی نصیحت ثابت ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اختلاف کے باوجود آپ کو اپنے مقاصد کے لیے مستقل مزاجی سے سرگرم عمل رہنے پر آمادہ کرتے ہوں۔ ’’ نہیں‘‘ کے معنی منفی نہ لینے کی تصویر آپ کے چہرے کے غیر متحرک تاثرات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’ مجھے افسوس ہے، ہم آپ کا بل پاس نہیں کر سکتے۔ آپ کو اپنا مال واپس لینا ہو گا؟ تمام اشیاء ناقص پائی گئی ہیں۔‘‘ آپ کا گاہک آپ سے کہتا ہے۔ ’’ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تمام ناقص اشیاء بدل دیں گے۔ ہمارے کچھ مخالف کارکن ایسی غلط حرکات کر کے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ فکر نہ کریں، ہم آج ہی تمام ناقص مال واپس لے آئیں گے۔‘‘ آپ اپنے گاہک کو بتاتے ہیں۔ بل تو پھر بھی پاس ہو ہی جائے گا لیکن ہاتھ سے کھویا ہوا گاہک واپس نہیں آئے گا۔ ’’ آپ ایک ذہین طبع انسان ہیں اور آپ کا تجربہ بھی کافی ہے۔ آپ ہمارے لیے موزوں بھی رہتے لیکن ہمیں ایک قدرے بہتر آدمی ملا ہے اور اس کے حق میں تقرری کے احکاما ت بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس آپ کا ریکارڈ موجود ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو لازماً اطلاع دیں گے۔‘‘ کمپنی کا انٹرویو کار امیدوار سے کہتا ہے۔ واضح طور پر یہ چوہے بلی کا کھیل ہے، جس میں آپ چوہے ہیں اور چوہا اچھا کھیل دکھاتا ہے۔ ’’ جناب! میں آپ کی اطلاع کا شکر گزار ہوں گا۔ اچھی ملازمتیں ہر روز آسانی سے تو وجود میں نہیں آتیں۔ میرے دل میں تو آپ کے ادارے کے لیے پہلے ہی سے خصوصی احترام موجود ہے۔‘‘ امیدوار کہتا ہے وہ ایک ایسا چوہا تو ہے جس کے ساتھ کھیلا جا سکے لیکن وہ ایسا چوہا نہیں ہے جسے فوراً ہی آسانی سے جان سے مار دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا جواب بڑا جان لیوا جواب ہے۔ انٹرویو کاروں کا چیف شاید اس جواب کو ہضم نہ کر سکے۔ اور یوں ہو سکتا ہے جیسا کہ پانچ فیصد غیر روایتی اتفاقات میں ہوتا آیا ہے کہ چیف اپنے ساتھیوں کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے بلا تامل اسی لمحے چوہے سے کہتا ہے ’’ کیا تم کسی اور شہر میں کام کرنے کو تیار ہو؟ سرحد کے قریبی شہر میں ہماری برانچ میں ایک انجینئر کی ضرورت ہے ہم تمہیں وہاں بھیج سکتے ہیں۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے کہ وہ اس پیشکش کو دل و جان سے قبول کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے واقعات اس انوکھی دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ امیدوار نے جس طرح بھی ہو سکا اپنے چہرے کو صورتحال کو اور ماحول کو مشکلات کے باوجود مایوسی سے بچایا اور ملازمت حاصل کر لی۔ کیا وہ تقرری کا پروانہ جاری ہونے کے بعد اس ملازمت کو واقعی قبول کرتا ہے یا نہیں اس کا انحصار امیدوار اورآنے والے وقت پر ہے لیکن اس نے انٹرویو میں میدان مار لیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دنیا میں ریاکاری سے کام لیں آپ سلور سکرین پر ہیروئنوں کے چہروں کے تاثرات کا مطالعہ کریں، ان کے چمکتے ہوئے چہرے، روشن آنکھیں اور مسکراتے ہوئے نشست و برخاست کے انداز ان کی مدد کر رہے ہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں روپے کما رہی ہیں۔ ان کے چہروں کے تاثرات ریاکاری نہیں ہیں بلکہ اداکاری اور فن کاری ہیں۔ جب آپ اپنے چہرے کے تاثرات کے روشن پہلوؤں کو ڈھنگ سے استعمال کرتے ہیں تو یہ آپ کی اپنے لیے حوصلہ افزائی ہے۔ کسی انٹرویو میں کامیابی کا انحصار سوالات کے درست جواب دینے پر اور دنیا کے عظیم اور طاقتور لوگوں کے کوائف کے بارے میں معلومات زبانی یاد کرنے پر نہیں ہوتا بلکہ یہ کامیابی آپ کی اپنی شخصیت کی کامیاب عکاسی سے حاصل ہوتی ہے۔ انٹرویو کے انتظامات کے ابتدائی اقدامات پر عام طور پر ’’ اخراج کی حکمت عملی‘‘ پر عمل کیا جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر اسے’’ فہرستوں کا اختصار‘‘ کہا جاتاہے۔ مثال کے طور پر کسی اسامی کے لیے سو امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو سکتی ہیں جن میں سے پہلے اخراج کے عمل کے تحت درخواستوں کی پڑتال کی جاتی ہے۔ جس سے صرف تیس افراد چنے جاتے ہیں۔ فہرستوں کی مزید جانچ پڑتال سے پندرہ افراد کو مزید خارج کر دیا جاتا ہے اور باقی پندرہ میں سے ہو سکتا ہے کہ صرف تین امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے۔ آخری انٹرویو میں افراد کی تعلیمی ڈگریوں کے علاوہ ان کے عمومی خدوخال کا مشاہدہ کی اجاتا ہے کہ ایک گروپ میں ایک امیدوار کی شخصیت کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ بہت سے مقابلے کے امتحانوں میں امیدواروں کو گروپ ٹیسٹ دیئے جاتے ہیں ہر امیدوار کو چار یا اس سے زیادہ افراد کے گروپوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے طرز عمل، باہمی میل جول اور گفتگو اور تقریر کے فن میں اس کی صلاحیت کو پرکھا جاتا ہے اور اس کے دیگر اوصاف کا امتحان لیا جاتا ہے۔ گروپ ٹیسٹ انفرادی انٹرویو سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جب امیدوار اپنے انٹرویو کاروں کے سامنے ہوتا ہے۔ تو اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور یہ فرض کیا جاتاہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات دے۔ امیدوارکی اعصابی کمزوری یا با اختیار افسروں کی موجودگی سے خوف کھانے کی خامیوں کے باوجود امیدوار کے لیے انٹرویو میں خوش قسمتی کے مواقع بھی ہیں بشرطیکہ امیدوار کا انفرادی ذہنی جھکاؤ مثبت اقدار کی طرف ہو اور اس کے سوچنے کی قوت واضح ہو۔ وہی امیدوار جب گروپ میں باتیں کر رہا ہو تو اسے مختلف انداز سے جانچا جائے گا۔ کیا وہ امیدوار دوسروں کو قائل کر لینے والی گفتگو کر رہا ہے؟ کیا دوسرے اس کی بان سن رہے ہیں اور دوسروں کا رد عمل کیا ہے؟ جب وہ بولتا ہے تو کیا وہ صحیح تلفظ ادا کرتا ہے؟ کیا اس کے بولنے کا انداز واضح ہے؟ اور کیا اس کی گفتگو میں دلچسپی کا عنصر پایا جاتا ہے؟ ایک امیدوار کو یاد رکھنا چاہیے کہ گروپ میں ہر کوئی اپنے آپ کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے بارے میں اسے دوسروں سے امداد کی توقع نہیں ہوتی لیکن وہ جو کچھ کہتا ہے اور جس طریقے سے کہتا ہے وہ پر مزاح ہے اور وہ قہقہے پیدا کر سکتا ہے۔ قہقہہ ایک ایسی چیز ہے جس پر قابو نہیں رکھا جا سکتا۔ ہنسنے کے علاوہ کیا وہ عمومی خصوصیات بھی رکھتا ہے؟ وہ جو لطیفے گھڑتا ہے اور وہ جو ان لطائف کے نتائج کو سنتے ہیں سب ہی ایک بحث و مباحثے میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں اور انٹرویو کاروں کے زیر مشاہدہ ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کسی دوسرے کے لطیفے پر قہقہہ لگایا جائے ہاں شرط یہ ہے کہ آپ کسی بھی پہلے لطیفے یا واقعے سے جس کا تعلق موضوع سے ہو، کی گرفت سے نکل چکے ہوں۔ اس طریقے سے آپ اپنے تاثر کو اخذ کر لیتے ہیں اور گفتگو کا رخ اپنی طرف موڑ لیتے ہیں گویا آپ گیند کو پیروں سے ادھر ادھر کرتے ہیں۔ آپ جس طرح گروپ کی راہنمائی کرتے ہیں اور بحث و مباحثے کو نبھاتے ہیں اس کا انحصار آپ کی اپنی مہارت پر ہے۔ گفتگو ایک سائنسی مہارت ہے۔ اگر آپ بات کر سکتے ہیں لیکن آپ بات سن نہیں سکتے تو آپ گفتگو کے ماہر نہیں ہیں۔ اگر آپ صرف سننا چاہتے ہیں اور خو دبات نہیں کرنا چاہتے تو بھی آپ گفتگو کے ماہر نہیں ہیں۔ اگر آپ دوسرے کی گفتگو سے کوئی نکتہ پکڑ سکتے اور اس سے گفتگو کے دھاگے سے مزید نکات بن سکتے ہیں تو آپ گفتگو کے ماہر ہیں۔ لیکن اگر گفتگو پر آپ اپنی ہی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں اور دوسرے کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے تو اس طرح آپ گفتگو کی روح کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ شخص جو کسی گروہ میں بول اور باتیں کر رہا ہے اس کے پاس ایک دو لطیفے محفوظ ہونے چاہئیں۔ تاہم لطیفہ سنانا اسی وقت مناسب رہتا ہے جب وہ موقع کے عین مطابق ہو۔ گفتگو کے عمل میں ایک آدھ لطیفہ ہی موزوں اور مناسب رہتا ہے۔ لطائف کی قطار ہی لگا دینا بالکل گفتگو نہیں ہے بلکہ یا وہ کوئی ہے۔ آپ اگر موقع کے مطابق بروقت بول سکتے ہیں اور بروقت اپنا منہ بند کر سکتے ہیں تو آپ کی اپنی قدر و قیمت بڑھ جائے گی اور آپ دوسروں کو بھی اپنی اس قدر و قیمت اور خاصیت کا احساس دلا سکیں گے۔ ایک شخص جو انٹرویو میں تمام سوالات کے جوابات دیتا ہے لیکن پھر بھی وہ کسی التفات کا مستحق نہیں پایا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور جسے آپ نہیں جانتے وہ ہی دراصل اہم ہے اور جب آپ جان جاتے ہیں کہ آپ کے جوابات کیا تھے جنہیں آپ نہیں جانتے تھے۔ تو تب ہی آپ کے علم کی خصوصی دستگاہ شروع ہوتی ہے۔ انٹرویو کار ممکن ہے آپ سے دل لگی کرنا چاہتے ہوں یا وہ آپ کے خیالات میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہوں۔ چلیے ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کچھ جانتے ہیں اور کیا کچھ نہیں جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص خدا پرست ہو یا وہ خدا کی ذات کا منکر ہو یا اس نے پہلے کوئی کامیابیاں حاصل کی ہوں یا اسے بہت سی ناکامیوں سے سابقہ رہا ہو۔ اس کے زندگی کے مثبت اور منفی خواہ کچھ بھی ہوں۔ اس کو زندگی میں کبھی ناقدانہ اور طنزیہ رویہ یا نظریہ نہیں اپنانا چاہیے۔ زندگی توقعات اور امکانات سے بھری ہوئی ہے۔ ہم زندگی میں ذات پات، مذاہب وغیرہ کے خلاف تعصبات رکھ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں اپنے انتخابات اور اپنے تصورات کو کھلا رکھنا ہو گا لہٰذا جب آپ کسی ایسے سوال کا جواب دیں جس کے متعلق آپ کا علم بہت معمولی یا صفر ہو تو آپ جواب دینے میں اپنی نا اہلی کے ساتھ کبھی بھی اپنی آراء شامل نہ کریں۔ ’’ مسٹر ایکس کیا آپ گالف کھیلتے ہیں؟‘‘ یہ ایک سوال تھا۔ اس سوال کا ایک جواب یہ ہو سکتا ہے کہ میں ہمیشہ بہت زیادہ مصروف رہتا ہوں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں اس قسم کی اتنی لمبی اور امیرانہ تفریح اختیار کرتا۔ دوسرا جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں یہ خیال ہی نہیں کرتا کہ گالف ایک کھیل ہو سکتا ہے اگرچہ اس میں کھلاڑی کو لمبا عرصہ کھڑا بھی ہونا پڑتا ہے اور چلنا بھی پڑتا ہے میرا یقین ہے کہ گالف جوان آدمیوں کا کھیل ہی نہیں ہے۔ تیسرا جواب بہت سادہ اور یک لفظی یعنی ’’ نہیں‘‘ پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ ’’ چہرے کو کھو دینا‘‘ ایک منفی اورتاثرات کو کھو دینے والی کیفیت کا نام ہے اور ایک امیدوار کو اپنے آپ کو کبھی اس کیفیت کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اگر امیدوار اپنی خامیوں کو قبول کر سکتا ہے تو اسے اپنے نقائص کا بھی اعتماد کے ساتھ سامنا کرنا چاہیے۔ لیکن انٹرویو میں کچھ ایسی صورت حال پیدا اور کچھ ایسے سوالات بھی ہو سکتے ہیں جن کے لیے وہ تیار نہیں ہوتا۔ اگر آپ ایک انٹرویو کار ہوتے تو آپ امیدوار کا جائزہ کیسے لیتے؟ آپ یقینا اسے ایک موقع اپنی خوبیاں بیان کرنے کا دیتے لیکن آپ اس کی خامیوں یعنی وہ کام جو وہ نہیں کر سکتا، کا کیا کرتے؟ ایسا ہو سکتاہے کہ خامیوں کے زمرے میں آنے والے تمام کام اس اسامی کے لیے ضروری نہ ہوتے جس کا وہ انٹرویو دے رہا ہے۔ پھر بھی ایک امیدوار کے کام کرنے کی گنجائش کے دائرے کو جاننے کے لیے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ اس کی خامیوں کو بھی جانا جائے۔ ’’ آپ کیسے خوبصورت نوجوان ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ماڈل یا فلمی صنعت میں اپنے مستقبل کی تلاش کرنے کا نہیں سوچا۔‘‘ ’’ میں نے کوشش کی تھی لیکن ایسا میں نے خود نہیں کیا تھا مجھے میرے دوستوں ہی نے اکسایا تھا۔ میں نے کچھ انٹرویو بھی دیئے لیکن پھر مجھے پتہ چلا کہ وہ میرا راستہ نہ تھا۔۔۔۔‘‘ امیدوار بڑے روشن چہرے سے جواب دیتا ہے۔ اس طرح کا کوئی اور سوال کسی بھی سمت سے آ سکتا ہے۔ ایسے سوالات بلکہ اور بھی سوالات جیسے بھی ہوں وہ آپ کے اعتماد کی ڈھال میں چھید نہیں کر سکتے۔ آپ کی متوازن شخصیت کا انعکاس زیادہ تر آپ کے چہرے کے تاثرات سے ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ایک نوجوان کی حیثیت سے آپ اپنے چہرے کو آئینے میں دیکھتے ہیں تو آپ کا مقصد صرف چہرے کی تزئین ہی کا نہیں ہوتا بلکہ اپنے چہرے کے تاثرات کو دیکھنا بھی ہوتا ہے کیونکہ یہی تاثرات آپ کی شخصیت کو بہتری کی اعلیٰ حد تک بلند کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک استاد کی حیثیت سے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں۔ ایک باس کی حیثیت سے اہم اپنے اوپر متانت طاری کر سکتے ہیں تو امیدوار کی حیثیت سے بھی ہم ایسی آب و تاب اور تابانی اختیار کر سکتے ہیں جو بالآخر ہماری شخصیت کا مستقل جزو بن جائے۔ اس بات کا اشارۃً ذکر کیا جا چکا ہے کہ اعتماد اور ضرورت سے زیادہ اعتماد (بلکہ اجڈ پن) کے مابین حد فاصل بہت ہی نازک سی ہے۔ آپ اپنی شعوری مشق اور تربیت سے اسی حد فاصل کی درست سمت میں رہ سکتے ہیں۔ امیدوار کو اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ اس کا اعتماد کہاں پڑا ہے؟ اعتماد کو بطور چال کے استعمال کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ کھوٹے اور چالباز شرفا بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر امیدوار یہ سوچتا ہے کہ وہ جھوٹ اور مکاری سے انٹرویو میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ غلطی پر ہے۔ اسے انٹرویو بورڈ کو ناقابل تسخیر سمجھنا چاہیے۔ اسے اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ بورڈ اس کا معائنہ شفافیت سے کرے گا اور اس کی شخصیت کے مثبت اور منفی رحجانات کو علیحدہ علیحدہ کر کے رکھ دے گا۔ ہر شخص میں منفی نقاط ہوتے ہیں۔ کسی کو کسی قسم کی الرجی ہو سکتی ہے۔ دوسرے کے اپنی زندگی کے بارے میں مختلف نظریات ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں جسمانی طور پر کچھ نقائص ہوں جیسے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ والے کام کرنا، تھتھلا پن ہونا یا بینائی کا کمزور ہونا وغیرہ قسم کی دیگر کوئی جسمانی معذوری۔۔۔۔ امیدوار کو یہی کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اچھے پہلوؤں کا شعور رکھے اور اگر ممکن ہو تو ان کی نشوونما کرے۔ ایک ناول میں تقریباً ان پڑھ باپ اپنے بیٹے کو سکول میں داخل کرانے لے جاتا ہے۔ جب وہ داخلے کے بعد واپس آنے لگتا ہے تو وہ اپنے بیٹے کو الوداعی نصیحت کرتا ہے۔ ’’ دوسروں سے دغا بازی نہ کرنا، جو کچھ کرنا اپنے آپ ہی سے کرنا۔‘‘ بیٹے نے باپ کی نصیحت کو یاد رکھا اور جماعت میں اول آنے لگا۔ اسی لڑکے نے اپنا تعارف ایک لڑکی سے کراتے ہوئے کہا۔’’ میں کسی اور شے میں اچھا نہیں تھالہٰذا میں نے پڑھا اور اپنی جماعت میں اول آ گیا۔‘‘ یہ چھوٹا سا لڑکا مثبت اور منفی پہلو رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے تعارف میں بہترین الفاظ استعمال کیے۔ یہی لڑکا متوازن شخصیت کی مثال بھی ہے۔ وہ مثبت اور منفی کی حد فاصل کو پہچانتا تھا لہٰذا وہ اس حد فاصل کو پھلانگ کر غرور اور دھوکے بازی کی طرف نہیں آیا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس نے یہ تربیت اپنے غیر تعلیم یافتہ باپ سے حاصل کی جس کے متعلق یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی سماجی سطح کے زیادہ عمر کے افراد سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔ ٭٭٭ آٹھواں باب دلچسپیوں کا پھیلاؤ ایک باپ اپنے بچے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ روزانہ اخبار پڑھے۔ دوسرا باپ اپنے بچے کو پابند کرتا ہے کہ وہ روزانہ ورزش کرے۔۔۔۔ اس طرح مختلف باپوں اور مختلف بچوں کی ایک لمبی کہانی بنتی چلی جاتی ہے۔ ہر عادت ایک دوسری جبلت بن جاتی ہے۔ ایک بچی کو اس کے باپ نے روزانہ اخبار پڑھنے کی نصیحت کی، اس طرح بچی کو اخبار پڑھنے سے دلچسپی ہو گئی۔ پھر بچی اپنی اچانک شادی کی وجہ سے تعلیم بھی مکمل نہ کر سکی لیکن اس نے عادتاً اخبار کو روزانہ پڑھنا جاری رکھا۔ اس کا معمول اس کا شوق بن گیا اور اس نے آخری عمر تک اس شوق کو جاری رکھا۔ دوسروں کی نسبت وہ زیادہ واضح طور پر جانتی تھی کہ اپنے ملک میں کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔۔۔۔ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ ہر قسم کی گفتگو اور بحث مباحثے میں وہ ہر ایک کو حیران اور لاجواب کر دیتی تھی۔ فٹ بال کے کھیل میں آپ کی دلچسپی آپ سے تقاضا نہیں کرتی کہ آپ فٹ بال کے اچھے کھلاڑی بھی ہوں۔ کرکٹ میں دلچسپی صرف کرکٹر ہی نہیں رکھتے بلکہ عام لوگ بھی رکھتے ہیں۔ یہی حال سیاست، معاشیات، حصص مارکیٹ، گیت، موسیقی، ڈرامہ اور ادب وغیرہ سے دلچسپی کا ہے۔ جب تک کہ کوئی فرد اپنی زندگی میں اشیاء اور واقعات میں خاصی دلچسپی نہیں لیتا تو اس کی شخصیت مکمل طور پر اپنی اٹھان میں نہیں آتی۔ ایک امیدوار کی زندگی میں دلچسپیوں کا ایسا پھیلاؤ بہت ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشغلے کے بغیر انسان ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک بحری جہاز بغیر پتوار کے ہو۔ جب تک کہ کوئی کسی مشغلے سے وابستہ نہ ہو وہ درست طور پر نہیں جان سکتا ہے کہ فلاں مشغلہ کیا ہے؟ مثال کے طور پر باغبانی ہی کو لیجئے۔ آپ بیجوں کی پرورش کرتے ہیں اور نرم جڑوں سے لے کر پودے بننے تک اور پھر پودے کے درخت بننے اور پھول اور پھل لانے تک ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتے ہیں۔ بالآخر کچھ حاصل کر لینے کے اطمینان کے احساس کے ساتھ ساتھ آپ بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ آپ کو مٹی، کھادوں، کیڑے مار ادویات، زندگی میں دھوپ کی اہمیت، موسموں کی تبدیلی اور دیگر بہت سی چیزوں کا علم ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے ڈاک کی ٹکٹیں جمع کرنے کا مشغلہ اپنا رکھا ہے تو وہ اس مشغلے سے تاریخ، جغرافیہ، مختلف ممالک کے پھلوں، پھولوں اور حیوانات کا علم حاصل کرتا ہے۔ اگر آپ فوٹو گرافر ہیں تو فوٹو گرافی کے فنی پہلو کے علاوہ آپ کو آرائشی ترتیبوں، طریقوں، توازن اور فیشن وغیرہ کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایسے شخص کے متعلق سوچیں جو نہایت چابک دستی اور دلچسپی سے کسی گفتگو یا جاری بحث میں حصہ لیتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس نے رائے دینے کی ایک بڑی خوبی کی نشوونما کر رکھی ہے۔ مزید برآں وہ شخص جو مختلف اقسام کی اشیاء سے لمبی چوڑی واقفیت رکھتا ہے۔ جبکہ وہ ان اشیاء کو کم از کم سمجھتا ہے ایسا شخص اپنے اندر یقینی طور پر مزاح کا شعور رکھتا ہے۔ وہ وقائع نگاروں کی نکتہ چینی اور ان کے الفاظ سے کھیلنے کے فن کو بھی خوب سمجھتا ہے۔ ان کے علم و فضل اور ان کی عقلی فضیلت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ لطائف سے بھی محظوظ ہوتا ہے اور گفتگو کے فن کی بلندیوں سے بھی آگاہی رکھتا ہے۔ جب کسی شخص کو مختلف النوع اشیاء سے دلچسپی ہوتی ہے، تو وہ عام لوگوں کی دلچسپی کی مشقوں یعنی سیاست، معیشت، بہبود، سماجی اونچ نیچ اور کھیلوں وغیرہ کے ادراک سے اپنی توجہ نہیں ہٹاتا لہٰذا بتدریج اس کے اندر بھی اپنی رائے رکھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو جاتی ہے۔ نئی نوجوان نسل کے لیے اپنی رائے رکھنے کی خوبیت ضروری ہے۔ فیصلہ کرنے اور پھر اپنی رائے رکھنے کی صلاحیت کے حصول کے لیے ذہنی تربیت، سوچنا سمجھنا، تجزیہ کرنا، عمل اور رد عمل کی مشق کے علاوہ غور و فکر کے کاموں سے لگاؤ ضروری ہے۔ آزادانہ سوچ انسانی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا اور اعلیٰ مراتب کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ایک ماہر اپنے فن سے متعلق اپنی آزادانہ اور ماہرانہ رائے دے سکتا ہے۔ عام لوگوں کی آراء ذاتی ضروریات اور ان کی پسند و نا پسند کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں۔ اگر علم کو پھیلایا جائے، نکتہ ہائے نظر کو وسیع کیا جائے اور مختلف سماجی مسائل کا مناسب طور پر مطالعہ کیا جائے تو پھر ہر فرد ہر صورت حال کا واضح ادراک کر کے اس کے بارے میں اپنی رائے دے سکتا ہے۔ علم کی افزائش ذہن کی نشوونما کرتی ہے۔ پس افزائش علم کے لیے سیکھنے کی لگن کا ہونا ضروری اور اہم ہے۔ اگر آپ کسی بچے کا غور سے مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے سیکھنے کی لگن نہ بجھنے والی پیاس کی مانند ہے۔ وہ ٹیڑھے ٹیڑھے سے سوالات کرتا ہے؟ اور اپنی پیاس بجھانے کی خاطر ہر ایک سے کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نابغہ/جینئس لوگ بھی اپنا تجسس بچوں کی مانند رکھتے ہیں۔ وہ اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طریق سے جینئس لوگ اپنے پہلے کے علم کے ذخیرے میں مزید اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان حضرات کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نیا علم چھوٹی چھوٹی جہتوں پر مشتمل ہے یا واضح تفصیلات پر مبنی ہے۔ امیدوار کو بھی متذکرہ نابغہ/جینئس لوگوں کی طرح اپنی دلچسپیوں کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اور اپنی تجسس کی حس کو زندہ اور متحرک رکھنا چاہیے۔ اپنی سوچ کو تیز کرنا اور تیز رکھنا ہر اس شخص کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے جو زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ مثبت تبدیلی ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ گاڑیوں کے ماڈل ہر سال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ گذشتہ سالوں میں سادہ اور کھولونوں جیسے ہوائی جہازوں نے آج کے دور کے آواز سے زیادہ تیز رفتار سپر سانک طیاروں کی شکل اختیار کرنی ہے۔ ریلوے کے انجنوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی زیادہ تر جدید دور اور جدید تقاضوں کے مطابق ہو گئے ہیں اور سالوں قبل کی نسبت سے ان کی رفتار بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ فیکٹری میں ایک مشین پر کام کرتا ہوا شخص اپنی مشین پر توجہ دیتا اور جو کچھ مشین بناتی اس کو بھی دیکھتا ہے۔ وہ دیگر تمام مشینوں اور ان کی کارکردگی پر تنقیدی نظر بھی رکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کون سی مشین ایسی ہے جو اس کی مشین کی نسبت تیزی سے کام کرتی ہے اور اس کی پیداواری کارکردگی کس قدر زیادہ ہے۔ مشینوں کے متعلق اس کا علم اسے اپنی مشین کی تبدیلی پر راغب کرتا ہے تاکہ وہ بھی زیادہ پیداوار کر کے زیادہ کمائی کر سکے۔ ایک انٹرویو کے لیے بلائے گئے تمام امیدواروں کو ایک مشین کام کرتی دکھائی گئی، پھر ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس مشین میں بہتری پیدا کرنے کی کیا تجویز پیش کرتے ہیں تاکہ یہ مشین زیادہ کار آمد ثابت ہو سکے۔ بورڈ کا چیئرمین انجینئر بننے کے امیدواران سے ایسے سوالات کر سکتا تھا کیونکہ فیکٹری کو ضرورت ہی ایسے مکینیکل انجینئروں کی تھی۔ زندگی کے تمام راستوں پر اور ہر قسم کے میدان عمل میں سوچنے کی گنجائش موجود ہے۔ ایک کرکٹ ٹیم کا کپتان ہر روز شام کے وقت اپنے کھلاڑی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا اور ان سے دن بھر میں ہونے والے میچوں کے حالات و کوائف دریافت کرتا تاکہ وہ ان کوائف و حالات کی روشنی میں اپنی اور کھلاڑیوں کی مزید اصلاح کر سکے۔ اسی طرح زندگی میں منصوبہ بندی اور اپنی ذات کی نشوونما کرنا بڑی ضروری ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اضافی کام، چھوٹی چھوٹی پابندیاں اور ممنوعات آئندہ زندگی کے بنیادی اقدامات میں تبدیلی لاتی ہیں اور انسانی اخلاق کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرتی ہیں۔ جو شخص اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہے وہ معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اخبار پڑھتا ہے وہ حالات حاضرہ سے باخبر ہوتا ہے۔ ہر فرد کو ڈھیلی ڈھالی سوچ سے نجات حاصل کرنا چاہیے اور عملی اور متحرک سوچ سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہیے۔ اس بات کی طرف پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ زندگی بذات خود ایک مسلسل جاری رہنے والا انٹرویو ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو کسی ایک مخصوص انٹرویو کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے تمام انٹرویوز کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہم بطور ایک تسلیم شدہ شہری کے عزت اور مرتبہ پائیں گے۔ اپنے آپ کو ’’ المستعد‘‘ رکھنا ضروری ہے لیکن یہ مستعدی صرف لباس اور ظاہریت کی نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ سوچ اور رویے میں تبدیلی لانے کی ذہنی مشقوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ دنیا پر ہماری ہستی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اور یہ مقصد’’ کام‘‘ ہی ہے۔ بہتر بھی یہی ہے کہ ہم زندگی کو اسی حوالے سے یاد رکھیں۔ زندگی صرف دفتر جانے، وہاں کام کرنے اور پھر آرام کرنے اور وقت کو لہو و لعب میں ضائع کرنے کا نام نہیں ہے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ با مقصد گزرنا ہی ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ ایک انتظامی افسر تھا (حقیقی واقعہ) جو صفائی کے بارے میں تقریباً خبطی تھا۔ وہ اپنی میز اور دفتر کو انتہائی صاف رکھتا اور ساتھ ہی یہ توقع بھی رکھتا کہ اس کے ماتحت بھی ایسا ہی کریں۔ دوسروں پر اور دفتر پر بھی اپنے افسر کے رویے کا اثر ہوا۔ فرنیچر کی تبدیلی، فائلوں کی ترتیب، جھاڑ پونچھ، صفائی ستھرائی اور نگرانی وغیرہ میں تبدیلی آئی۔ ہر کسی کو کام میں مصروف رکھا گیا۔ باہر کے لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس صفائی ستھرائی سے دفتر کا اصل کام کاج از قسم روز مرہ کی خط و کتابت، رپورٹوں کی تیاری، معلومات، دفتری گفت و شنید اور ذاتی طور پر اپنے کام کاج کے لیے آنے والے درخواست گزاروں سے ملاقاتیں گویا سارے دفتری معمولات میں خرابی واقع ہوئی ہو گی جبکہ یہ سب محض اندازہ تھا۔ دفتری کام کاج میں کوئی بد نظمی پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ صفائی ستھرائی کی یہ فرد واحد کی کوشش ایک بڑے عملی منصوبے کا چھوٹا سا جزو ثابت ہوئی۔ اس دفتر کو جب بڑی اور اہم ذمہ داریوں، مثلاً کاروباری میٹنگوں کے انعقاد، غیر ملکی مہمانوں کی آمد اور ان کی ملک میں نقل و حرکت، ان کے اسفار کی ذمہ داریاں اور سالانہ رپورٹوں وغیرہ کی تیاری کے کام سونپے گئے تو یہ سب ذمہ داریاں بغیر کسی غیر معمولی شور شرابا کے نباہی گئیں۔ ماتحت لوگوں نے کام کا کوئی دباؤ محسوس نہیں کیا۔ وہ تو کام کو ایک صورت میں نہیں تو دوسری صورت میں کرنے کے عادی ہی تھے۔ یہ ایک موزوں مثال ثابت کرتی ہے کہ کوئی شخص ایک ہی دن میں اچھا کارکن نہیں بن جاتا۔ کارکردگی کی خوشنمائی کام کو مسلسل طور کرتے رہنے سے قائم رہتی ہے۔ کوئی خاص کام ایسا نہیں کہ کوئی اسے کرے اور پھر اس سے مکمل طور پر علیحدہ ہو جائے۔ اپنے کمرے کو صاف رکھنے کا کام اور اشیاء کو جھاڑ پونچھ کے بعد ترتیب سے رکھنے کا اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام آپ کو آمادۂ کار رہنے کے لئے ’’ فٹ‘‘ رکھتے ہیں۔’’ فٹ‘‘ ہوتے ہوئے اگر آپ کو کوئی بھاری کام یا اہم ذمہ داری بھی آن پڑے تو آپ اس کام اور ذمہ داری کو آسانی سے نباہ سکتے ہیں۔ پس وہ امیدوار جو ملازمت کی تلاش میں ہے اسے انٹرویو کے انتظار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے وقت کو کسی نفع بخش کام میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ وہ بیکار، افسردہ، آزردہ اور دھنالایا ہوا نظر نہ آئے۔ امیدوار جب کام کے بغیر ہو اور ملازمت کی تلاش میں ہو تو اسے آرام کرنے کی حالت میں سست اور کاہل نہیں ہونا چاہیے۔ اسے بد دل اور پریشان بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اسے ایک روز مرہ کا پروگرام وضع کرنا چاہیے اور اس پر کاربند رہنا چاہیے۔ اسے صبح کے وقت اور کام کے وقت کو مائل بہ نکما پن کرنے والی تفریحات یعنی ٹیلی ویژن دیکھنا، ناول پڑھنا اور اپنے ہی جیسے بے روزگار افراد کے ساتھ گپ شپ لڑانے میں برباد نہیں کرنا چاہیے۔ امیدوار کا معمول کچھ اس طرح کا ہو سکتا ہے کہ وہ صبح بیدار ہو اور تازہ دم ہو کر صبح کی حاجات سے فارغ ہو۔ پھر وہ تھوڑی سی جسمانی ورزش کرے، نہا کر ناشتہ کرے۔ اس کے بعد وہ گھر میں آنے والے اخبار کو گہری نظر سے ملازمتوں کے بڑے اشتہار اور ’’ ضرورت ہے‘‘ کے کالم سمیت پڑھے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا ذہن یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسے روز مرہ کی خبریں پڑھ کر پتا چلنا چاہیے کہ اس کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ پھر اسے لنچ کر کے پبلک لائبریری جانا چاہیے تاکہ وہاں وہ دیگر روز مرہ کے اخبارات بھی ملاحظہ کرے۔ اپنی درخواست وغیرہ ٹائپ کرے۔ اسے نئی نکلنے والی اسامیوں کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے چند بڑے دفاتر میں بھی جانا چاہیے۔ اگر وہ ٹائپ، شارٹ ہینڈ یا کوئی غیر ملکی زبان سیکھ رہا ہے تو یہ اور بھی اچھا ہے گو اس طرح کی مصروفیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے آپ کو سارا دن مصروف رکھتا ہے اور تقریباً سارا دن اپنے کام پر گزار کر گھر واپس آتا ہے۔ ہر امیدوار مذکورہ مصروفیات کو اپنا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے ذرائع ایسے ہوں کہ وہ ہر روز گھر سے باہر جانے اور آنے کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔ اگر اس کے ذرائع ایسے نہیں ہیں تو اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی جزو و قتی کام کرنا چاہیے۔ وہ ٹیوشن وغیرہ پڑھا سکتا ہے۔ سیلزمین ہو سکتا ہے یا اسی نوعیت کا کوئی اور کام تلاش کر سکتا ہے۔ جبکہ اس کا مطمح نظر موزوں قسم کی ملازمت تلاش کرنا ہی رہ سکتا ہے۔ متواتر دفاتر کو درخواستیں ارسال کرنا بھی ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے لیکن اسے یہ کام رضامندی اور توانائی سے کرنا ہو گا۔ جب امیدوار کو انٹرویو دینے کی اطلاع ملتی ہے (اگر ایسا ہو جاتا ہے) تو اسے دل جمعی کے ساتھ انٹرویو کے چیمبر میں جانا چاہیے اور اپنے انٹرویو کاروں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر امیدوار کو کسی ایسی ملازمت کے لیے انٹرویو دینے کی اطلاع ملتی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتا تو ایسی صورت میں اسے انٹرویو کے لیے جانا ہی نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ نیم دلی سے دیا ہوا انٹرویو کسی کام کا نہ ہو گا اور اس میں فریقین (امیدوار اور انٹرویو بورڈ) کا وقت ضائع ہو گا۔ مزید برآں جب امیدوار کا ذہن جوش و جذبے سے خالی ہو گا تو کوئی مقصد کی بات بھی نہ ہو گی۔ سپورٹس اور کھیلیں جسم اور ذہن کو صحت مند رکھتی ہیں۔ اگر کوئی فرد کسی صحت ساز کلب کا ممبر ہے یا پھر اس نے کچھ ایسے انتظامات کر رکھے ہیں کہ وہ شام کے وقت بیڈ منٹن یا ٹیبل ٹینس کھیلتا ہے تو ایسی سرگرمیوں سے بھی ’’ فٹ‘‘ رہا جا سکتا ہے ۔ اگر کسی کو جسمانی ساخت سے دلچسپی ہو تو وہ کسی جم کلب میں شامل ہو سکتا ہے یا پھر اگر کسی دوست کے ہاں صحت کی ایسی ہی سرگرمیوں میں مصروف رہا جا سکتا ہو تو اس دوست کے ہاں جانا بھی بہترین ہے۔ اس نوعیت کی تعمیری مصروفیتوں سے دماغ اور ذہن کو تعمیری تبدیلی میسر آتی ہے۔ تاہم تاش کے کھیل کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ کھیل انسانی عادت بن جاتا ہے اور انسان کو نکما کر دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ جب تک انسان کسی ملازمت کی تلاش میں رہتا ہے اور اس دوران میں وہ سب کچھ کرتا رہتا ہے جس کے کرنے کی اسے ضرورت ہے تو اسے کبھی اپنے آپ کو کبھی پسماندہ اور نکما نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنی امید کی نشوونما کرنا چاہیے کہ کام جب بھی آتا ہے تو اپنی برکات ساتھ لاتا ہے۔ آپ کے معاملے میں بھی استثناء نہیں ہو گا۔ زیادہ خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دماغ پریشانی اور اعتراضات کی یلغار میں گھر جاتا ہے۔ ایسے میں مضبوط قوت ارادی کے بغیر دماغی اہلیتیں گم ہو جاتی ہیں۔ ذہن اعمال کی پرورش نہیں کرتا اور کوئی بھی شخص کاہلی اور سستی میں مبتلا ہو کر بے عمل ہو سکتا ہے۔ ذہن کو ایسی صورت حال سے ہر ممکن طریقے سے بچانا لازمی ہے۔ ذہنی چستی اور مستعدی کی ہر قیمت پر حفاظت کرنی چاہیے۔ جب آپ بیکار ہوتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو گرا گرا اور بے خبر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو اپنے آپ پر اور امید پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کی اس حالت میں دوسرے بھی آپ کی بہت کم حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہارتے ہوئے گھوڑے کو کوئی داد نہیں دیتا لیکن آپ تو ہارنے والوں کے طبقے میں سے نہیں ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ایک ایسے موقعہ کے لیے تیار کر رہے ہیں جو یقینا آ کر رہے گا۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ اپنے آپ پر اور فطرت پر یقین رکھیں۔ کام عطا ہوتا ہے لہٰذا اپنے آپ کو تمام قسم کے کاموں یعنی پڑھنے، علم حاصل کرنے، ہر لحاظ سے اپنے آپ کو مستعد رکھنے، اپنے کمرے اور گرد و نواح کو صاف ستھرا رکھنے میں اور تھکے بغیر اپنی کوششوں میں مصروف رہیں۔ کامیابی زیادہ دیر تک آپ سے دور نہیں رہے گی۔ آپ کی زندگی کا بغیر ملازمت کے رہنے کا زمانہ اشیاء کے بارے میں جاننے کا ایک گراں قدر موقع ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے ایک فیاضانہ وقفہ ہے کہ آپ اس میں مختلف اوصاف اور خوبیاں حاصل کریں۔ یہ نکتہ آپ کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ فطرت خلا اور وقفے سے نفرت کرتی ہے۔ آپ کی زندگی میں اگر پچھتاوے کی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ آپ نے فطرت کی طرف سے عطا کردہ اس وقفے کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ہمارے عمل کا اصول یہ ہونا چاہیے۔کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے کو استعمال کیے بغیر نہ گزرنے دیں۔ ہمیں بغیر ملازمت کا زمانہ بھی استعمال کے بغیر نہیں گزرنے دینا ہو گا۔ اس ملازمت کے انتظار کے دورانیے میں آپ کو کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہو گا۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ نے بہت کچھ کیا لیکن اس کے باوجود آپ انتظامیہ کی سروس میں جگہ نہ پا سکے۔ یہ کوئی افسوس کی بات نہیں ہے۔ آپ کالج کی تعلیم سے فارغ ہوئے آپ نے ایک دو درخواستیں ملازمت کے لیے دیں اور انٹرویو کی اطلاع کا انتظار کرنے لگے۔ اس انتظار کے وقت جو ہفتوں اور مہینوں پر مشتمل ہو سکتا ہے آپ نے دوستوں میں مل جل کر اور سستی اور کاہلی کے کاموں میں گنوا دیا۔ یہ وہ وقت تھا جسے آپ کو کبھی بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے وقت کو کسی نہ کسی کام میں استعمال کرنا چاہیے تھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے ’’ میں نے کوشش کی لیکن ناکام رہا۔‘‘ تو پھر اس میں افسوس کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے ’’ میں نے ایک سال کوئی بھی کام کیے بغیر گزار دیا تو ایسی صورت حال افسوس کرنے کے قابل ہو گی۔‘‘ ایسے گڑھوں میں گرنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام زندگی کو کوشش اور عمل میں گزاریں تاکہ آپ کم از کم اپنے آپ سے یہ کہہ سکیں کہ آپ بیکار اور سست نہیں بیٹھے رہے۔ اپنے آپ کو ناکام انسان کہنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیے کہ اس نے اپنی زندگی کے بغیر ملازمت کے کتنے وقفے بیکار اور فضولیات میں گزارے ہیں؟ ہو سکتا ہے وہ آپ سے سچ بولے یا کچھ بھی نہ کہہ سکے۔ لیکن اگر آپ کسی کامیاب آدمی سے پوچھیں کہ اس نے کتنی ناکامیوں کا سامنا کیا ہے؟ تو اس کی ناکامیوں کی فہرست کافی لمبی ہو گی اور اس سے پتا چلے گا کہ ناکامیوں پر صرف مضبوط قوت ارادی ہی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ نواں باب گروپ ٹیسٹ ابتدائی صفحات میں گروپ ٹیسٹوں کا ذکر آ چکا ہے۔ ہر گروپ ٹیسٹ برائے انٹرویو کی کسوٹی مختلف ہوتی ہے۔چار یا چار سے زائد امیدواران پر مبنی ایک گروپ کی تشکیل کی جاتی ہے۔ گروپ کو ایک موضوع برائے بحث دیا جاتا ہے۔ عام طور پر بحث کے گروپ کے ممبران میں سے ایک ممبر کو کمپیئر کے فرائض سونپے جاتے ہیں جو بحث کے دوران میں ممبران کی آواز کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ ممبران موضوع سے انحراف تو نہیں کر رہے۔ کمپیئر کون ہو گا؟ کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیا جاتا ہے اور وہ ممبران گروپ (امیدواران) ہی میں سے ہوتا ہے۔ کمپیئر کا کردار خاصا اہم ہوتا ہے۔ اسے موضوع کو مکمل طور پر ممبران کے سامنے رکھنا ہوتا ہے اور پھر ان کی آراء حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اس ٹیسٹ میں بحث کے دوران میں کمپیئر نے ابتدا ہی میں اپنی رائے نہیں دینا ہوتی۔ وہ مسئلہ زیر بحث لاتا ہے اور اس کے مثبت اور منفی نکات کی نشاندہی کرتا ہے اور ممبران سے باری باری سوال کر کے بحث کا آغاز کرتا ہے۔ کمپیئر: ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ کو ایجوکیشن(مخلوط تعلیم) پر بحث کریں آیا یہ طریقہ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مفید ہے یا نہیں۔ کمپیئر: (مسٹر ایکس کو مخاطب کرتے ہوئے) آپ کا کیا خیال ہے کہ مخلوط طریقہ تعلیم کا اجراء سکول کی سطح سے ہونا چاہیے یا پھر اس طریقہ تعلیم کی ابتداء کالج کی سطح سے کی جائے۔ مسٹر ایکس: میری رائے میں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر مخلوط تعلیم کی ابتداء سکول کی سطح ہی سے کر دی جائے۔ طلبہ اور طالبات جلد ہی جنس کے فرق کو سمجھنے لگیں گے اور ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کر لیں گے۔ اس مطابقت کی ان کو ذہنی توازن اور نشوونما کے لیے خاصی ضرورت ہے۔ کمپیئر: (مسٹر وائی سے) آپ کا کیا خیال ہے کہ سکول کی سطح کے طلبہ و طالبات کے درمیان زیادہ مطابقت فروغ پاتی ہے یا پھر کالج کی سطح کے طلبہ اور طالبات میں۔ مسٹر وائی: میرے خیال میں وہ طلبہ و طالبات جو مردانہ اور زنانہ الگ الگ درسگاہوں سے آتے ہیں وہ کالج کے آزادانہ ماحول سے بہتر ہم آہنگی حاصل کرتے ہیں۔ کمپیئر: آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ مسٹر وائی: مخلوط سکولوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کالج کی زندگی ان کی سکولوں میں گزاری ہوئی زندگی کا تسلسل ہی ہوتی ہے لیکن اس تسلسل میں پابندیاں کم اور آزادی زیادہ ہے۔ کمپیئر: (مسٹر زیڈ سے) مخلوط سکولوں کے لڑکے لڑکیوں اور زنانہ و مردانہ سکولوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کے کالج میں ایک جگہ اکٹھے ہو جانے سے کالج کی فضا عدم توازن کا شکار تو نہیں ہو جائے گی۔۔۔۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ مسٹر زیڈ: میرا خیال ہے کہ عدم توازن تو ہو گا۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ کالج کی زندگی کے ابتدائی دور میں عدم موافقت ہو سکتی ہے جو طلبہ و طالبات کی تعلیمی حالت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ کمپیئر: طلبہ و طالبات میں مقابلے کی فضا بھی تو پیدا ہو سکتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مسٹر ایکس: محنت اور لگن سے کام کرنے کے اضافی فوائد رکھنے والے جذبات اور رحجانات کا فروغ تو ہونا ہی چاہیے کہ اگر کالج میں طلبہ و طالبات کے درمیان کچھ عدم توازن کی فضا کا امکان ہو تو اسے روکا جا سکے۔ کمپیئر: ہم اس کو کیسے روک سکتے ہیں؟ مسٹر زیڈـ: میرا خیال ہے سکول اور کالج کی دونوں سطحوں پر ایک مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری ضروری ہے تاکہ کوئی طالب علم خواہ مرد ہو یا عورت جب کالج کے میدان عمل میں داخل ہو تو کسی قسم کی ذہنی پریشانی محسوس نہ کرے۔ مسٹر ایکس اور وائی: ہم مکمل طور پر اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ ہر بحث کے دورانیہ کے لیے ایک وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور مقررہ وقت گزر جانے پر بحث ختم کر دی جاتی ہے۔ ہاں اگر ابھی وقت باقی ہو او ربحث ختم ہو چکی ہو تو کمپیئر بحث کا اختتام اس طرح کر سکتا ہے۔ کمپیئر: اس بحث میں سب اس بات پر متفق ہیں کہ مخلوط تعلیم کی ابتداء اسکول کی سطح سے کی جائے تاکہ طلبہ و طالبات کے مابین بہتر مطابقت اور مفاہمت پیدا ہو سکے۔ جس سے وہ اپنی تعلیم کے دوران میں مسلسل استفادہ حاصل کرتے رہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے جس پر سب یکساں طور پر عمل کریں اور اگرمخلوط تعلیم ہی کے حق میں فیصلہ کیا جائے تو اس فیصلے کا اطلاق تمام سکولوں پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کمپیئر کے فرائض انٹرویو بورڈ کے کسی رکن ہی کو ادا کرنے کو کہا جائے جس میں گروپ کے چاروں امیدوار ممبران اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ دوسری قسم کا گروپ ٹیسٹ متذکرہ ٹیسٹ سے کسی قدر مختلف ہو سکتا ہے۔ اس قسم میں امیدواران جو چار یا چار سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ کو ایک موضوع دیا جاتاہے۔ اسی موضوع پر ممبران کے مابین آزادانہ بحث ہوتی ہے۔ کوئی بھی امیدوار بول سکتا ہے باری باری بولنے کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا۔ موقع پا کر ہر امیدوار اپنی رائے یا وضاحت وغیرہ پیش کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی بحث میں وہی امیدوار زیادہ فعال ہوتے ہیں اور میدان مارتے ہیں جو طبعاً زیادہ روانی سے باتیں کرنے اور ڈھکی چھپی نہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ بحث کا موضوع’’ تعلیم میں سماجی کام‘‘ ہو سکتاہے اس بحث کے لیے کچھ بنیادی قوانین ہیں۔ کھلی اور آزادانہ بحث کے مقابلے میں اس بحث میں انٹرویو کرنے والے کسی امیدوار کا نام پکارتے ہیں۔ جس امیدوار کا نام پکارا جاتا ہے وہ موضوع کے حوالے سے بولنا شروع کر دیتاہے۔ ایک یا دو منٹ کے بعد ایک گھنٹی بجتی ہے جس کا مطلب امیدوار کو خاموش ہو جانے کا اشارہ دینا ہوتا ہے۔ ازاں بعد انٹرویو کار کسی دوسرے امیدوار کا نام پکارتا ہے اور اپنا نام سنتے ہی امیدوار بولنا شروع کر دیتا ہے۔ مسٹر اے: سماجی کام تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ تعلیم کا مقصد اور کیا ہے! تعلیم کا مقصد انسانوں کے درمیان اچھائی اور باہمی احساسات پھیلانا ہی ہونا چاہیے تاکہ وہ ایک دوسرے کی بہتری کر سکیں، انسانی برادری کے مصائب اور آلام کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مسٹر سی: قوم سے محبت اور لوگوں سے محبت تعلیم کے اعلیٰ ترین مقاصد ہونے چاہئیں۔ تعلیم کو جس قدر لوگوں سے دور رکھا جائے گا اسی قدر تعلیم عمل کی دنیا سے دور ہوتی جائے گی۔ ایسی تعلیم جو حقیقی زندگی سے دور ہو کو ایک بیکار شے سمجھنا چاہیے۔ مسٹر بی: تعلیم کائناتی مظہر فطرت ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص ہر شے سے بلند ہوتا ہے۔ اسے جدوجہد سے بھرپور اس دنیا میں تعلقات باہمی، محبت اور حساسیت پیدا کرنا ہو گی۔ سماجی کام ہی وہ ذریعہ ہے جس سے تعلیم ہر ذی روح تک پہنچتی ہے۔ مسٹر اے: تعلیم ہی زندگی کی بنیادوں کی تعمیر کرتی ہے۔ یہ ہماری راہنمائی مساوات اور بھائی بندی کی طرف کرتی ہے کہ ہم انسانی فطرت کی عزت کریں۔ سماجی کام انسانی فطرت کو سمجھنے کا نام ہے۔ سماجی کام تعلیم کا جزو لاینفک ہونے چاہئیں۔ تیسری قسم کے گروپ ٹیسٹوں کو مباحثے کی صورت میں اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔ موضوع: کیا جمہوریت کے لیے تشہیر اچھی ہے؟ (ضابطہ یہ ہو سکتا ہے کہ مقرر (امیدوار) موضوع کے حق میں یا مخالفت میں تقریر کرتا ہے۔ پھر منتظر مقرر یعنی امیدوار) کو پہلے مقرر کے موضوع کے حق میں یا مخالفت میں دیئے گئے دلائل کو جھٹلانے کو کہا جاتا ہے۔ ازاں بعد کسی امیدوار کو جو یہ نہیں جانتا ہوتا کہ اسے بھی ایسا کرنا پڑے گا موضوع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے اور اسے انتہائی مختصر وقت دیا جاتا ہے)۔ اے کو موضوع کے حق میں تقریر کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مسٹر اے: جمہوریت عوام کی رضا میں رہتی ہے۔ اگر تعلیم عام ہو اور عوام حکومت کی مختلف میدانوں میں کارکردگی سے آگاہ ہوں تو تشہیر کم ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ عوام میں پہلے ہی سے کافی سیاسی شعور موجود ہے۔ ایسے ممالک جہاں عوام غریب اور تعلیم یافتہ ہوں، وہاں عوام کی نمائندہ حکومت عوام کو اپنی کارکردگی کا شعور تشہیر ہی سے دلاتی ہے۔ مسٹر بی: (مخالفت میں) تشہیر کی دو اقسام ہیں ایک صحیح قسم کی تشہیر اور دوسری غلط قسم کی تشہیر۔ اگر حکومت صرف اپنی اچھائیاں ہی عوام تک پہنچائے اور اپنی خامیوں اور ضروریات سے عوام کو بے بہرہ رکھے تو یہ درست قسم کی تشہیر نہ ہو گی جب عوام کو حقیقی صورت ہائے حالات کا علم نہ ہو گا تو یہ جمہوریت کے مقاصد کی شکست ہو گی۔ مسٹر سی : (موافقت میں) جب ہم تشہیر کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارا مطلب حکومت اور عوام کو تشہیر کا حق دینا ہوتا ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ اگر حکومت اپنی غلطیوں اور خطاؤں کی تشہیر نہیں کرتی تو پھر حزب مخالفت تشہیر کے ذریعے ان کو عوام تک پہنچاتی ہے لہٰذا تشہیر جمہوریت کے لیے لازمی ہے۔ مسٹر ڈی: (مخالفت میں) میرے نظریے کے مطابق تشہیر کا جمہوریت کے لیے اچھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر تشہیر کی زیادہ آزادی ہو گی تو اس آزادی کو غلط مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ پریس اور دیگر ذرائع ابلاغ غیر محدود تشہیر سے لوگوں کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر تشہیر کی اجازت دینا ہی ہے تو اسے پابند ہونا چاہیے۔ اس سب کچھ سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جب کسی شخص یا امیدوار کو اس قسم کے گروپ ٹیسٹوں سے گزر کر جانچا اور پرکھا جاتا ہے تو اس میں چند چیزیں ہی ہوتی ہیں جن پر انٹرویو کاروں کی گہری نظر ہوتی ہے۔ سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار کا گروپ میں باہمی رد عمل کا معیار کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیا امیدواراپنے نظریات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے، کیا وہ اپنی آواز کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے عام سطح کی گڈ مڈ آوازوں سے نمایاں کر سکتا ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا جاتا ہے کیا وہ اپنا آپ منوانے کی اہلیت رکھتا ہے؟ کیا وہ اپنے دلائل کے دوران میں نکتے کی بات کو پیش نظر رکھتا ہے اور کیا اس کے دلائل اس بات کے موافق ہی جا رہے ہیں؟ گروپ ٹیسٹ کے ذریعے جو دوسری خوبیاں نمایاں ہوتی ہیں وہ فوری سوچ، فیصلے کی اہلیت، میل جول، مستعدی، تیز فہمی، باہمی موافقت، شخصیت کی اٹھان اور پھر شخصیت کے دوسروں پر چھا جانے کا تاثر ہیں۔ چنانچہ جب کوئی امیدوار کسی انتظامی ذمہ داری رکھنے والی اسامی کے لیے انٹرویو کی تیاری کر رہا ہو تو اس کو ہمیشہ گروپ ٹیسٹ پر توجہ دینی چاہیے۔ اس تیاری میں اسے اپنی تقریر کرنے کی صلاحیت، اپنی شخصیت، دوسروں سے میل جول کی اہلیت، دلائل دینے کے شعور اور سب سے بڑھ کر اپنی بحث کی مہارتوں کی نشوونما کرنی چاہیے۔ کوئی بھی تعلیم یافتہ یا پیشہ ور امیدوار ہو اس کے لیے بحث کرنے کی اہلیت کی نشوونما کرنا لازمی ہے۔ اس مہارت کی مشق اکیلے میں بھی کی جا سکتی ہے۔ کوئی سا معاشرتی یا سیاسی مسئلہ لے لیا جائے اور اس کے حق میں دلائل دیئے جائیں۔ پھر انہی دلائل کو ایک مخالف کی نظر سے تنقید کا ہدف بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ دماغ عظیم اور وسیع توانائی رکھتا ہے۔ دماغ کی اس صفت کا ارتکاز سوچنے کی صلاحیت پر کیا جائے۔ پھر اس سوچنے کی صلاحیت کو تقریر کرنے یا دلائل دینے کی مہارت میں تبدیل کر لینا چاہیے۔ آپ جو سوچتے ہیں اس کو آپ کتنی تیزی سے تقریری الفاظ میں ڈھال سکتے ہیں؟ آپ جو سوچتے ہیں ممکن ہے آپ اس کو عجلت میں کہہ بھی سکتے ہوں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ تیزی سے سوچ ہی نہ سکتے ہوں۔ یہ آپ کا دماغ ہی ہے جو آپ کی سوچنے اور سوچ کو بیان کرنے کی اہلیتوں کا ارتکاز کرتا ہے۔ ان تصوراتی تیکنیکوں کے علاوہ آئیے ہم مشق کرنے کے لیے ایک مثال لیتے ہیں۔ آپ پہاڑوں کے سلسلے کے پیچھے سے طلوع آفتاب کے منظر کا تصور کریں۔ پھر اس منظر کو اونچی آواز میں بیان کریں۔ جو آپ نے تصور میں دیکھا ہے صرف اس کو بیان کریں۔ طلوع آفتاب کی پھیلتی ہوئی کرنیں، بادلوں کی سفیدی کا نیلے آسمان پر ابھرنا، صبح کے پرندوں کے اڑنے کا منظر، نیچے بہتی ہوئی ندی کا چمکتا ہوا پانی۔۔۔۔۔ پانی کی ہلکورے کھاتی ننھی ننھی لہریں۔۔۔۔ ان لہروں پر آفتاب کی کرنوں کا رقص۔۔۔۔ ندی کے ٹھنڈے کنارے اور دھیمی ہوا کی سرسراہٹ اور ہر طرف پھیلا صبح کا سکوت۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ اس منظر میں مزید اشیاء بھی شامل کر سکتے ہیں۔ آپ اس مشق کو دہرا سکتے ہیں۔ طلوع آفتاب کے منظر کو جس قدر تیزی سے ممکن ہو بار بار بیان کریں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ منظر کا تصور بھی کیا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ اس کو بیان بھی کیا جا رہا ہے۔ طلوع آفتاب کے منظر کے بعد غروب آفتاب کے منظر کو بھی تصوراتی آنکھ سے دیکھا اور بیان کیاجا سکتا ہے۔ غو رکیا جائے تو یہ مشق سوچنے، دیکھنے اور بیان کرنے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح کوئی اور منظر بھی مشق کی خاطر منتخب کیا جا سکتا ہے جیسے بھاری ٹریفک کا منظر یا ٹریفک کا کسی چوراہے پر رک جانے کا منظر۔۔۔۔ آپ اس منظر کا تصور کریں کاریں، سکوٹر، سائیکل، ایک بس کا چوراہے میں ٹریفک کے اندر دائیں کو مڑتے ہوئے پھنس جانا، فٹ پاتھوں اور ذیلی راستوں پر بھی ٹریفک کا ہجوم ہو جانا، پولیس کے سپاہی کی کوششوں کی ناکامی، پیدل چلنے والوں کا پھسل کر ایک کار کے بمپر سے ٹکرانا، گاڑیوں کے اندر لوگوں کی بے چینی، پسینہ، گھٹن اور گرمی وغیرہ وغیرہ۔ آپ منظر میں مزید الفاظ شامل کر سکتے ہیں۔ یہ تصور آپ بار بار کریں اور ہر مرتبہ منظر کو بیان کرتے ہوئے نئے نئے متاثر کن مناظر اور مزید الفاظ شامل کریں۔ اگر ممکن ہو تو ہر بار تصور کرنے اور اس کو بیان کرنے کا عمل بیک وقت ہی کریں۔ شخصیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کی نشوونما ضروری ہے۔ یہ پہلو گفتگو میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی شخص ہو اس کو گفتگو کے دوران اپنی بات کی تردید یا ابطال کا برا نہیں منانا چاہیے۔ اپنے نظریے کی نا قولیت کو اپنے چہرے کے تاثرات بگاڑے بغیر تحمل اور بردباری سے برداشت کرنا چاہیے۔ کسی بھی شخص کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ جو کہے گا اسے دوسرا یا دوسرے تسلیم کر لیں گے۔ کسی بیان کردہ اظہار کی تردید کی جا سکتی ہے، تضحیک کی جا سکتی ہے، اس کو تنقید کا ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ اظہار کرنے والے کے لیے اس قسم کے بدنما رد عمل کو استقامت سے برداشت کرنے کی حکمت سیکھنا بہتر ہو گی۔ اسے پریشان بھی نہیںہونا چاہیے بلکہ جذباتی ہوئے بغیر اسے اپنے اظہار کے حق میں دلائل دینا چاہئیں۔ دوسروں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے احساسات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ دوسرے کس قسم کے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں یہ ان کا معاملہ ہے لیکن یہ حق بھی کسی کو حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کے جذبات کو مجروح کرے۔ دوسرے کے دلائل کی تائید کرنے کے لیے بھی ثقہ وجوہات ہونا ضروری ہیں۔ ایک گروپ ٹیسٹ میں امیدوار اسی وقت اعلیٰ کارکردگی کا حامل قرار دیا جاتا ہے جب اسے اس فن پر عبور حاصل ہو کہ وہ دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنی بات کر سکے اور دوسروں کی بات کا قائل بھی نہ ہو۔ وہ اپنے موقف پر مشتعل اورجذباتی ہوئے بغیر ڈٹا رہے۔ اس بات کو یاد رکھنا ہو گا کہ فرد نے اپنی شخصیت کا اظہار ایسے انداز میں کرنا ہے کہ یہ اظہار اس کے مفاد میں ہو۔ ہر فرد کو اس کے لیے اپنی شخصیت کو منضبط رکھنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی گروپ میں بولتا ہی چلا جائے بلکہ چاہیے یہ کہ وہ جب بھی بولے اس سے اس کی شخصیت کا بہتر اور موثر اظہار ہو۔ دوسروں کا مرکز نگاہ بننے کے لیے غیر ضروری اور بے فائدہ بولنا حقیقتاً شخصیت کا مثبت تاثر کم کرتا ہے۔ ہر کسی کو بولنے کے لیے تیار اور مستعد ہونا چاہیے۔ اسے مناسب وقت پر بولنا چاہیے تاکہ اس کی شخصیت ایک گروپ میں مثبت طور پر نمایاں ہو۔ ٭٭٭ دسواں باب انٹرویو کا کمرا وہ اداکار جو ایک کمرے میں اپنے کردار کی ریہرسل کرتا ہے تو اس نے اپنا تصور اسٹیج پر مرکوز رکھا ہوتا ہے۔بعض اوقات اس کی ریہرسل کو بالکل بلا جواز کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اسٹیج کی جہتوں کے تاثرات کا نقل کو اصل بنانے میں ایک اپنا مقام ہوتا ہے۔ اسٹیج پر اداکار اور تماشائیوں کے مابین ایک مشترک عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اداکار کا کوئی ایک اشارہ، کوئی ایک لفظ یا کوئی ایک حرکت پبلک کی طرف سے اسے خراج تحسین پیش کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ا داکار کے داد پانے والے اشارات، الفاظ اور حرکات کمرے میں کسی اور کو نظر نہیں آتے۔ اسی طرح ایک امیدوار اپنے ذہن میں انٹرویو کے کمرے کا تصور قائم کرتا ہے لیکن اگر اس کے ذہن میں حقیقی عمل کی حس ہو تو وہ سمجھ سکے گا کہ ایک تصوراتی انٹرویو کار کو اپنے ہی کمرے میں سوالات کے جوابات دینے اور کسی حقیقی انٹرویو کار کے کمرے میں اس کی بڑی سی رعب دار میز کے اس پار بیٹھ کر سوالات کے جوابات دینا دو مختلف نوعیتوں کے تجربے ہیں۔ امیدوار کو اس شخص یا اشخاص کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے جو اس کا انٹرویو لیں گے۔ہو سکتا ہے کہ امیدوار نے ایک بڑے افسر یا انتظامی شخصیت کا با رعب تصور قائم کر رکھا ہو، جس کے سامنے پیش ہو کر اس کے سوالات کے جوابات دینے ہیں۔ اس کے مزاج کی افتاد، جو ارد گرد کے ماتحتوں سے ملنے والی تابعدارانہ عادات کی وجہ سے رنگ پکڑتی ہے، کا بھی سامنا کرنا پڑے۔ ہو سکتا ہے ایسے مراتب والا شخص ’’ نہیں‘‘ سننے کا عادی ہی نہ ہو۔ ہو سکتا ہے ایسا شخص الفاظ کے الٹ پھیر کو بھی ناپسند کرتا ہو۔ اس کا وقت بڑا قیمتی ہے لہٰذا وہ جوابات میں نکتے کی بات اور اختصار کا قائل ہو۔ ’’ تم نے سائنس پڑھنے کا انتخاب کیوں نہ کیا جبکہ تمہارے نمبر سائنس کے مضامین میں اچھے ہیں؟‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر پوچھتا ہے۔ ’’ میں انتظامی نوعیت کے مطالعہ جات میں دلچسپی رکھتا تھا چنانچہ میں نے آرٹس کے مضامین کے ساتھ ریاضی اور معاشیات کے مضامین کا انتخاب کیا۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ ایک منیجر کو نا اہل عملے کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ چیئرمین پوچھتا ہے۔ ’’ عملے کو کسی اور شعبے میں بھیج دینا چاہیے جہاں وہ اپنے آپ کو زیادہ اہل ثابت کر سکے۔ ‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ اگر آپ کی پیداوار کی فروخت گر رہی ہے تو اس سلسلے میں آپ کون سا پہلا قدم اٹھائیں گے۔‘‘ ڈائریکٹر پوچھتا ہے۔ ’’ اسی پیداوار کو کچھ مختلف انداز میں نئے نام کے ساتھ اور نئی اور بہتر پیکنگ میں پیش کیا جائے۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ اس حوالے سے انٹرویو کا کمرہ امیدوار کا اپنا کمرہ ہوتا ہے کہ اس نے جو کرنا ہے اور جو نہیں کرنا ہے اس میں اس نے اپنی ہی ہدایات کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے یعنی اس نے وہ کرنا ہوتا ہے جو اس کا دماغ اسے کہتا ہے ۔ اگر اس نے صورتحال کا تصور درست طور پر کیا ہے تو اس کے افعال درست ہی ہوں گے۔ اولین طور پر کمرے میں انٹرویو کار ہیں جن کے بارے میں امیدوار اپنے ذہنی مہیجات سے مناسب طور پر راہنمائی حاصل کر کے تصوراتی طور پر کچھ نہ کچھ جان سکتا ہے۔ ایک انتظامی افسر نے بتایا (حقیقی واقعہ) کہ جب اس نے اپنے ادارے کے علاوہ کسی اور ادارے کے منتظم یا اہم کاروباری شخصیت سے ملاقات کرنا ہوتی ہے تو وہ اس شخص (منتظم یا افسر) کو ایک نمونے کا فرد تصور کرتا ہے کہ وہ بارعب ہے، خوبصورت ہے، ماہر ہے اور ایسی تمام خوبیوں سے آراستہ ہے جو ایک با اختیار عہدہ اور مرتبہ رکھنے والے شخص میں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ جب وہ (بیان کرنے والا انتظامی افسر) دوسرے منتظم یا افسر سے ملتا ہے اور وہ ملاقاتی افسر کے تصوراتی معیار کے مطابق نہیں ہوتا تو ملاقاتی انتظامی افسر زیادہ پر اعتماد ہو جاتا ہے اور وہ ایک تسلی آمیز کیفیت کو محسوس کرتا ہے جس کی عکاسی اس کے چہرے کے تاثرات سے ہوتی ہے۔ ایک امیدوار بھی یہ کچھ محسوس کر سکتا ہے کہ اس کے انٹرویو کار بھی کارگزاری اور فضیلت کی اعلیٰ ترین اقدار کے انسانی نمونے ہیں۔ جب وہ ایسی توقع کے ساتھ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور میز کی دوسری سمت بیٹھے افراد کو اپنی توقع کے مطابق نہیں پاتا تو کم از کم اس کے اوسان خطا نہیں ہوتے۔ وہ پر اعتماد رہتا ہ۔ اس کا ذہن رسا رہتا ہے۔ اگر اتفاق سے وہ کوئی غلطی کر بھی جاتا ہے یا اس سے غلطی ہو بھی جاتی ہے تو وہ پھر بھی پر اعتماد ہی ہوتا ہے اور اس کا چہرہ خود اعتمادی کے تاثرات سے تاباں رہتا ہے۔ امیدوار کو ملتجیانہ لہجہ اختیار کیے بغیر شائستہ، ضرورت سے زیادہ اداکاری کیے بغیر معمول کے مطابق اور مرعوب کرنے کی کوشش کیے بغیر اپنی بات کہنے میں واضح ہونا چاہیے۔ اس کو یہ تاثر دینا چاہیے کہ اس کے مقدر کا انحصار انٹرویو کاروں کے فیصلے پر ہے۔ ’’ آپ کو فیکٹری کے کام کا تجربہ نہیں ہے اور آپ فیکٹری کے کارکنوں کے معاملات سے بے بہرہ ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ یہ سب کچھ سیکھ لیں گے۔‘‘ انٹرویو کاروں کے بورڈ کا لیڈر پوچھتا ہے۔ ’’ ہاں جناب! کارکنوں میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے سیکھوں گا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کارکنوں کے تنازعات سے دور رہوں گا۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ خوب ہم اس بات کو آپ کے حق میں مثبت نکتہ شمارکریں گے۔ تاہم فیصلہ تمام امیدواران کے انٹرویو کے بعد ہی ہو گا۔ یاد رکھو کہ فیکٹری کے کارکن ایک بڑی حساس نفسیات کے مالک ہوتے ہیں۔‘‘ انٹرویو بورڈ کا چیئرمین کہتا ہے۔ ’’ میں ہر صورت میں اس نکتے کی بات کو یاد رکھوں گا۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ کسی دوسرے انجینئرامیدوار سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ’’ تمہارا تعلیمی ریکارڈ تو بہت اچھا ہے۔ تم نے سمال انڈسٹری میں شمولیت کیوں اختیار کی۔‘‘ چیئرمین انٹرویو بورڈ پوچھتا ہے۔ ’’ مجھے کہیں نہ کہیں سے ابتدا تو کرنا ہی تھی۔ میں نے سوچا موزوں اسامی ملنے کا انتظار کرتے رہنے کی بجائے کیوں نہ کچھ تجربہ حاصل کیا جائے۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ خوب‘‘ چیئرمین کہتا ہے ’’ تم کچھ درست ہی کہتے ہو لیکن کسی اونچے درجے کے ادارے میں کام کرنا بہت مختلف ہوتا ہے۔ یقینا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ چھوٹے ادارے میں تم کسی فنی ادارے کی مشینری اور کارکردگی کے بارے میں مکمل علم حاصل کر لیتے ہو۔ لیکن جب تمہارا تصور محدود ہو جاتاہے تو اسے پھیلانے میں کافی وقت لگتا ہے اور شاید کوئی بھی آجر ایسا نہ ہو جو تمہیں یہ وقت دے۔‘‘ چیئرمین بات کو ختم کر دیتا ہے۔ ’’ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ جناب میں پہلے ہی محسوس کر رہا ہوں کہ میں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میں اپنے پہلے آجروں کا انتہائی مشکور ہوں۔ انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا اور ان کا رویہ میرے ساتھ مشفقانہ رہا۔‘‘ امیدوار بتاتا ہے۔ ’’ اگر ہم تمہیں اپنے ادارے میں شامل کر لیتے ہیں تو میں سر دست تم سے کوئی وعدہ نہیں کرتا۔ تمہیں ایک شعبہ سونپا جائے گا۔ اس کی کارکردگی تو بڑھانا تمہاری ذمہ داری ہو گی پھر اگر تمہاری ترقی ہوئی تو تمہارے ماتحت مزید شعبے آئیں گے اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہے گا۔ ‘‘ چیئرمین امیدوار سے کہتا ہے۔ ’’ جناب آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے سب کچھ واضح طور پر بتا دیا ہے۔ مجھے آپ کے ادارے کا حصہ بن کر انتہائی خوشی ہو گی۔‘‘ امیدوار اپنے دلی جذبات کا اظہارکرتا ہے۔ ایک خاتون استقبالیہ میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ ’’ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ تم بی اے ہو تم نے مزید تعلیم حاصل کرنا کیوں چھوڑا؟ا نٹرویو کار پوچھتاہے۔‘‘ ’’ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے میرے نمبر اچھے نہ تھے۔ میں خط و کتابت کے کورس میں داخلے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘‘ خاتون امیدوار جواب دیتی ہے۔ ’’ اگر تمہیں تعینات کر لیا جائے تو کیاتم اپنے فرائض جانتی ہو۔‘‘ ’’ میرا خیال ہے مجھے وقت کا پابند، نرم خو اور چوکس رہنا ہو گا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی اور فرض میرے کام کے حوالے سے ہوگا تو میں اسے بھی ادا کر کے خوشی محسوس کروں گی۔‘‘ خاتون کہتی ہے۔ ’’ کیا تم جانتی ہو کہ ٹیلی فون بکس پر کس طرح کام کیا جاتا ہے اور استقبالیہ کی ملازمت کے تقاضے کیا ہیں۔‘‘ ’’ جناب! یہ سب کام میرے لیے مسئلہ نہ ہوں گے۔ میں اپنی حالیہ ملازمت میں یہی کام کر رہی ہوں۔‘‘ ’’ تم پہلی ملازمت کیوں چھوڑ رہی ہو؟ کیا تمہیں اچھی اجرت کی تلاش ہے۔‘‘ خاتون سے پوچھا جاتا ہے۔ ’’ ہاں کچھ کچھ یہ بھی درست ہے لیکن میں اپنی ملازمت سے زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ خاتون امیدوار جواب دیتی ہے۔ اگلا امیدوار ٹائپسٹ ہے جو انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ ’’ تم نے تو گریجوایشن بھی نہیں کی، ایسا کیوں ہے؟‘‘ دفتر کا باس پوچھتا ہے۔ ’’ مجھے اپنے کنبے کی مدد کے لیے کسی ملازمت کی ضرورت آن پڑی اور مجھے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔‘‘ امیدوار بتاتا ہے۔ ’’ ہم نے تمہیں اس لیے انٹرویو میں بلایا ہے کہ تم نے ٹائپنگ کے ٹیسٹ میں اچھا نتیجہ دکھایا ہے لیکن تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے ہمیں کم از کم بی اے امیدوار درکار ہے۔‘‘ باس بتاتا ہے۔ ’’ میرا ارادہ پرائیویٹ طور پر تعلیم کو جاری رکھنا اور کم از کم بی اے کرنا ہے۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ اگر ہم تمہیں ملازمت دیتے ہیں تو مشروط ہو گی۔ تمہیں کم سے کم عرصے میں گریجوایشن کرنا ہو گی۔‘‘ باس امیدوار کو بتاتا ہے۔ انٹرویو کے کمرے میں امیدواروں سے انٹرویو کرنے کے لیے تین افراد ہوتے ہیں، ان افراد کی تعدادپانچ بھی ہو سکتی ہے اور دو بھی۔ بعض اوقات انٹرویو کاروں کا لیڈر انٹرویو کی ابتدا میں امیدوار کو معمول کی حالت میں رہنے کے لیے بڑا ہی نرم لہجہ اختیار کرتا ہے اور اپنے محافظین تک کو ہٹا دیتا ہے۔ انٹرویو مختلف خطوط پر جاری رہتا ہے۔ جب نچلے درجے کے ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے تو چھوٹے چھوٹے سوالات تیزی سے کیے اور ان کے جوابات عجلت میں پوچھے جاتے ہیں تاکہ امیدوار کی ’’ بات کے سمجھنے کی صلاحیت‘‘ کا اندازہ ہو سکے۔ اگر امیدوار ایک سیکنڈ کے توقف کے بعد یہ تاثر دیتے ہوئے جیسے کہ اسے سوال کی سمجھ نہیں آئی پھر واضح طور درست جواب دیتا ہے تو بلا شک و شبہ وہ انٹرویو کاروں پر اپنا ایک اچھا تاثر مرتب کرتاہے۔ اس کے برعکس اگر امیدوار یہ غلطی کرتا ہے کہ انٹرویو کار سے سوال کو دھرانے کی درخواست کرتا ہے تو وہ اپنی قوت ادراک کے بارے میں یقینی طور پر منفی نمبر حاصل کرتا ہے۔ کلرک، اسسٹنٹ اور ٹائپسٹ کی اسامیوں کے انٹرویوز میں انٹرویو کار کچھ ادھر ادھر کے سوالات پوچھتے ہیں۔لہٰذا امیدوار کو اپنی قوت ادراک کو بڑھانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کے سمجھنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو وہ ارد گرد بولے جانے والے تمام الفاظ سنے گا، ایک لفظ کو بھی خطا نہیں کرے گا۔ اگر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا ذہن ادھر ادھر ہو گا تو سوال یا اس کے حصے کو نہ سن کے گا تو یہ ایک بہت بڑی لاپروائی ہو گی جسے ’’ نا اہلی‘‘ کا نام دیا جائے گا۔ ہر باس اپنے ماتحت سے توقع رکھے گا کہ وہ دیئے گئے احکامات کو فوری طور پر بغیر کسی درد سری کے سمجھے۔ حقیقی مدگی میں ایک باس اپنے ڈرائیور سے سخت ناراض ہوا۔ باس اپنے دوست کے ساتھ تھا اور اس نے اپنے ڈرائیور سے ’’ ریڈ فورٹ‘‘ یعنی لال قلعے چلنے کو کہا تھا۔ ڈرائیور نے سمجھا کہ باس ’’ائیر پورٹ‘‘ چلنے کو کہہ رہا ہے۔ ایک ماتحت اپنے باس کے زیر لب دیئے گئے حکم کو کس طرح سمجھتا ہے یہ ماتحت کا درد سر ہے تاہم ماتحت میں اپنے باس کو اپنے انداز میں سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ایسے ماتحت بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے باسوں کی گرج اور دھاڑ کو برداشت کیا لیکن اس بات پر اصرار کیا کہ باس اپنے احکامات کو دہرائے۔ ایسے ماتحت بالآخر باس کے پسندیدہ بن جاتے ہیں۔ ایسے ماتحت دھونس اور دھمکی کے باوجود غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے۔ کلرک اور ٹائپسٹ کی مشترکہ ایک ہی اسامی کے لیے سوالات مختلف اور کئی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا کلرک/ٹائپسٹ کی معلومات عامہ نہایت اچھی ہونا ضروری ہیں۔ اسے ڈاک کے پتے، کوڈ نمبر اور ناموں کے ہجے بہت اچھی طرح یاد ہونا چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ خط کے ساتھ لفافے پر پتا بھی ٹائپ کیا جاتا تاکہ باس لفافے پر لکھا ہوا پتا بھی پڑھ لے کہ وہ صحیح پتے پر پہنچے گا یا نہیں۔ بہت سے معاملات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ باس کو لفافہ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسی ذمہ داریاں زیادہ تر اسسٹنٹ، ٹائپسٹ اور دفتر پر چھوڑ دی جاتی ہیں۔ کئی بار حقیقتاً ایسا ہوا ہے کہ بڑی بڑی تقریبات میں شمولیت کے لیے جاری ہونے والے خطوط درست پتے پر پہنچتے ہی نہیں اور اگر پہنچتے ہیں تو تب جب تقریب ہو بھی چکی ہوتی ہے۔ پس یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کار کسی ایسے امیدوار سے جس کو دفتر کے کام کاج میں ایسی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی، جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے، سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ’’ مشرقی سرحد پر واقع دو بڑے شہروں کے نام بتاؤ۔۔۔۔‘‘ انٹرویو کاروں میں سے دوسرا ممبر ممکن ہے اسی امیدوار سے پوچھے کی کہ ’’ مغربی ساحل پر کون سی دو بندرگاہیں ہیں؟ کوئی ممبر یہ پوچھ سکتا ہے اگر ایک ملین کو اعداد میں لکھا جائے تو کتنے صفر استعمال کرو گے؟‘‘ ’’ ایک میل میں کتنے میٹر ہوتے ہیں؟‘‘ ’’ کیا آسٹریا ایک شہر ہے؟ اگر تمہارا جواب ہاں میں ہے تو کس ملک میں ہے؟‘‘ ’’ کیا میکسیکو امریکہ میں ہے؟‘‘ غرض اس قسم کی معلومات عامہ کے سوالات پے در پے کیے جا سکتے ہیں۔ ٹائپسٹ کو سوالات کرنا اور آسان ہوتے ہیں لہٰذا ٹائپسٹ کی آسامی کے امیدوار کو سوالات کی بوچھاڑ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ’’ کیا تمہیں علم ہے کہ ’’ فٹ نوٹس‘‘ کیسے ٹائپ کیے جاتے ہیں؟‘‘ ’’ کیا تمہیں گوشوارے ٹائپ کرنا آتے ہیں؟ کیا تمہیں گوشوارے ٹائپ کرنے میں مہارت حاصل ہے؟‘‘ ’’ اگر ٹائپ کیے جانے والا مواد کئی صفحات پر مشتمل ہو تو ہر صفحے پر نیچے تم کتنی جگہ خالی چھوڑو گے؟‘‘ ’’ کون سی بات قابل ترجیح ہے ٹائپ کرنے کی رفتار یا درست ٹائپ کرنا؟‘‘ انٹرویو بورڈ کے ہر ممبر نے امیدوار سے ایک ایک سوال کیا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بورڈ کے ممبران ایک ہی وقت میں امیدوار سے کئی سوالات پوچھ لیں یا پھر ایک ممبر ہی سوالات پوچھے جبکہ دوسرے ممبران صورت حال کو دیکھتے رہیں اور امیدوار کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہیں۔ یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ امیدوار کو اپنا ذہن تیز اور واضح رکھنا چاہیے۔ ایک بات یاد رکھنا بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ سوالات کے جوابات درست ہوں اور جوابات پوچھی گئی بات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اگر کوئی امیدوار کسی سوال کا جواب نہیں جانتا تو اسے صاف طور پر انٹرویو کاروں سے کہہ دینا چاہیے’’ مجھے اس کا علم نہیں۔‘‘ ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہیے جو غیر ملکی سیاحوں کے سامنے تاج محل کے تائیڈ کو پیش آئی کہ وہ تاج محل کے متعلق تو سب جانتا تھا لیکن مقبرے کی محرابوں پر کندہ ہوئی تحریروں کے متعلق نہیں جانتا تھا کہ وہ کس زبان میں ہیں اور کیا معانی رکھتی ہیں۔ اگر آپ ملک میں آئے ہوئے نئے نئے غیر ملکیوں کے گائیڈ ہوں تو آپ نہیں جان سکتے کہ ان کی طرف سے اگلا سوال کیا ہو گا ’’ آپ کا ذات پات کا نظام کیا ہے؟ ایک ذات کے لوگ ایک راہ پر اور دوسری ذات کے لوگ اپنی جدا دوسری راہ پر کیوں چلتے ہیں؟‘‘ ’’ کچھ سپاہیوں کے پاس آتشیں ہتھیار ہیں اور کچھ کے پاس لاٹھیاں ہیں، ایسا کیوں ہے؟‘‘ ’’ کیا تم شادی شدہ ہو؟ کیا تمہیں اچھا جہیز ملا؟‘‘ ’’ وہ لمبی سی عمارت کیا ہے؟‘‘ ’’ اگلے دن ہم نے گھوڑوں سے کھنچے جانے والے چھکڑے دیکھے، کیا ان میں لوگ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں؟‘‘ ’’ آپ کے ہاں زیادہ بولی جانے والی زبانیں کتنی ہیں؟‘‘ ’’ ملک کی سب سے تیز رفتار ریل گاڑی کی رفتار کتنی ہے؟‘‘ ’’ گورنمنٹ کے دفاتر کے اوقات کار کیا ہیں اور بینکوں کے اوقات کار کیا ہیں؟‘‘ ’’ آپ کے شہر میں عمارتیں تعمیر کرنے کی سرگرمیاں کافی ہیں۔ عمارتوں کو تعمیر کرنے والے کاریگروں کی آمدن کیا ہے۔ کیا مردوں اور عورتوں کی آمدن یکساں ہے؟‘‘ غیر ملکیوں کے سوالات کی آمد جاری رہتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ سب سوالات کے جوابات اسی وقت اور اسی موقعہ پر درست نہ دیئے جا سکیں لیکن گائیڈ کو سیاحوں سے بہتر تعلقات پیداکرنے کی نشوونما کرنا چاہیے۔ غیر ملکیوں سے ایک جذباتی تعلق پیدا کرنا ضروری ہے اور اگر گائیڈ یہ تعلق پیدا کر لیتا ہے تو اپنی عدم واقفیت کو حقیقت کے قریب قریب جوابات دے کر چھپا اور اپنا کام چلا سکتا ہے۔ ایسے مواقع پر کامیابی کی کلید اعتماد ہے۔ ایک پر اعتماد اور تجربہ کار گائیڈ زبانوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ آئین میں تو پندرہ بیس زبانوں کا ذکر ہے اور ابھی مزید زبانوں کی شمولیت کے مطالبات زوروں پر ہیں۔ اسی طرح ٹائپسٹ آسٹریا کے بارے میں سوال کا جواب یوں دے سکتا ہے کہ جناب، آسٹریا کو یورپ میں ہونا چاہیے تاہم مزید تفصیلات کے لیے مجھے نقشے کا مشاہدہ کرنا ہو گا۔ مذکورہ بالا دونوں سوالات کے جوابات سے عیاں ہوتا ہے کہ گائیڈ اور ٹائپسٹ دونوں سوالات کے نفس مضمون سے بالکل بے خبر نہیں ہیں۔ اگر ضرورت پیش آئے تو گائیڈ آئین کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور سرکاری طور پر تسلیم شدہ ملک میں بولی جانے والی زبانوں کی صحیح تعداد بتا سکتا ہے۔ اسی طرح ٹائپسٹ اپنے طور پر آسٹریا کا محل وقوع نقشے سے اخذ کر سکتا ہے۔ ’’ کیا معاملہ ہے؟ تم چلنے میں کچھ دشواری محسوس کر رہے ہو؟‘‘ امیدوار سے کہا جاتا ہے۔ ’’سکوٹر پر سواری کرتے ہوئے میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔‘‘ امیدوار فوراً جواب دیتا ہے۔ ’’کیا سکوٹر تمہارا اپنا ہے؟‘‘ اس سے پوچھا جاتا ہے ’’ جی ہاں جناب‘‘ امیدوار پھر جواب دیتا ہے۔ ’’ ہمیں امید ہے کہ معاملہ کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘ سوال کرنے والا ممبر کہتا ہے۔ ’’ نہیں جناب! بس معمول کی بات ہے۔‘‘ امیدوار کہتا ہے۔ سوال کرنے والا ممبر امیدوار کی بات کو گرہ لگاتا ہے۔ ’’ کیونکہ ایک سپروائزر کی حیثیت سے تمہارے فرائض بڑے سخت ہیں اگر تم اپنے آپ کو جسمانی طور پر ناقابل کہو گے تو تمہارے ماتحت لوگوں کے پاس زیادہ دلائل ہوں گے کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ ناقابل سمجھیں۔‘‘ ’’ میں اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوں۔‘‘ امیدوار کہتا ہے۔ امیدوار کو یہ جاننا چاہیے کہ اس کا انٹرویو میز پر بیٹھنے کے بعد سوال و جواب ہی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ اسی لمحے سے شروع ہو جاتاہے جب وہ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ کس انداز سے میز کی سمت بڑھتا ہے، وہ کیسے کھڑا ہوتا اور کیسے بیٹھتا ہے اور اس سب کچھ سے پہلے وہ کس طرح کمرے کے دروازے پر دستک دیتا ہے، کمرے میں داخل ہوتا ہے اور اپنے پیچھے دروازے کو بند کرتا ہے۔ اس کی تمام حرکات کو ماہرانہ نظروں سے جانچا جاتا ہے۔ ایک امیدوار کی عمومی حالت اور اس کے خدوخال بالکل اسی اہمیت کے حامل ہیں جس طرح اس کے جوابات ہیں۔ اگر انٹرویو درجہ اول کی خدمات کے لیے ہیں تو امیدوار کی شخصیت کا امتیازی ہونا بڑا اہم عنصر ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں کہ جب وہ بات کرتے ہیں تو دوسرے ان کو سننا پسند کرتے ہیں یہ ان اشخاص کی شخصیت کا ناقابل تشریح پہلو ہے اور ایسی شخصیت اعتماد ہی سے جنم لیتی ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی شخصیت کی تعمیر اپنے الفاظ سے اور اپنے کارناموں سے کرے۔ ٭٭٭ گیارہوں باب انٹرویو کا دن انٹرویو کا دن بے شک اہم ترین دن ہوتا ہے کیونکہ اس دن آپ کی زندگی کی بڑی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر آپ نے انٹرویو کے لیے ایسی جگہ پہنچنا ہے جو آپ کی رہائش سے (ہم فرض کرتے ہیں) دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، تو پھر آپ کو اپنے پروگرام میں اس وقت کا شمار بھی کرنا ہو گا جو آپ کو وہاں تک پہنچنے میں صرف ہو گا۔ ہر کسی کو یاد رکھنا چاہیے کہ امیدوار کو اس اہم دن یعنی انٹرویو کے دن کہیں بھی اور کسی مقابلے میں بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ایک شخص جو کہ سیلزمین تھا، نے ایک مرتبہ رنجیدگی کے عالم میں کہا کہ ایک سیلزمین جب صبح ساڑھے دس بجے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ساڑھے پانچ بجے شام سے پہلے گھر واپس نہیں آئے گا خواہ اسے صرف چار یا پانچ جگہوں ہی پر کیوں نہ جانا ہو۔ چونکہ اسے کافی فاصلے پر واقع مقامات پر جانا ہو گا لہٰذا آمد و رفت میں صرف ہونے والے وقت کے خیال سے وہ اپنے وقت کی پیمائش درست طور پر کرتا ہے۔ اس کا تجربہ ہے کہ وہ سوائے چند منٹ لنچ کرنے کے اپنے کام میں قطعی تساہل نہیں برتتا۔ پھر بھی وہ شام کے ساڑھے پانچ اور چھ بجے کے درمیان ہی واپس گھر لوٹتا ہے۔ اس مثال کو یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے کہ وقت اپنی رفتار سے متحرک رہتا ہے اور جب تک کسی شخص کو وقت کے گزرنے کی واضح پیش بینی اور تجربہ نہ ہو تو یقینی طور پر اسے اپنے کام میں تیزی دکھانا پڑے گی اور وہ کبھی ایک ہی رفتار سے کام نہیں کر سکے گا۔ آپ کو اپنے اہم معمولات ایک گھنٹہ پہلے انجام دینا ہوں گے۔ اگر آپ نے ایک گھنٹے میں انٹرویو کے مقام پر پہنچنا ہے تو آپ کو اپنے لباس کی تبدیلی، اپنے کاغذات کو سنبھالنا اور ترتیب بمعہ ناشتہ وغیرہ یعنی سب کچھ ایک گھنٹہ پہلے کرنا ہو گا۔ آپ 45 منٹ روز مرہ کی حاجات یعنی باتھ روم وغیرہ میں جانے کے لیے رکھیں۔ یہ بڑا ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ اس دن اخبارات میں کیا ہے؟ لہٰذا آپ کو صبح کے وقت کی چائے نوشی اور اخبار بینی بھی آدھ گھنٹہ پہلے کرنا ہو گی۔ آپ کے انٹرویو کا وقت اگر گیارہ بجے صبح کا ہے تو پھر انٹرویو کے مقام پر پہنچنے کے لیے وقت ایک گھنٹہ قدرے زیادہ رکھیں۔ اس صورت میں ایک گھنٹہ ناشتے، لباس کی تبدیلی اور کاغذات کو سنبھالنا اور ترتیب کے لیے مختص کریں اور پینتالیس منٹ باتھ روم جانے کے لیے استعمال کریں جبکہ 30 منٹ اخبار بینی کو دیں تو اس میں کم از کم کیا وقت ہو گا جب آپ کو بستر سے اٹھ جانا چاہیے؟ آپ کو زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات بجے صبح بیدار ہو جانا چاہیے۔ اس وقت سے آپ کا ہر منٹ انٹرویو کے وقت یعنی گیارہ بجے تک مصروفیت میں گزرے گا کیونکہ آپ اپنے وضع کردہ دستور العمل پر چل رہے ہوں گے۔ آپ ایک کے بعد دوسرا کام کرتے چلے جائیں گے۔ا گر صبح سات بجے یا ساڑھے چھ بجے بیدار ہوں تو تب آپ کو کم از کم سانس لینے کا وقفہ میسر آ جائے گا۔ سانس لینے کا وقفہ ضروری ہے کہ آپ نہ صرف مشینی طور پر نہا رہے ہوں گے، لباس بدل کر کھانا کھا رہے ہوں گے اور پھر انٹرویو کے مقام کی طرف جا رہے ہوں گے بلکہ ان تمام مصروفیات میں آپ انٹرویو کے متعلق بھی سوچ رہے ہوں گے۔ علاوہ ازیں آپ کو انٹرویو کے منظر پر بھی موزونیت کے ساتھ ابھرنے کا فکر بھی ہو گا۔ پس جب کبھی کسی کو کسی اہم موقعہ کے لیے وقت کی پیمائش کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اسے ہمیشہ اپنے معمولات کی ابتداء کم از کم ایک گھنٹہ پہلے کرنا چاہیے۔ اہم شخصیات اور عزت مآب لوگوں کے لیے وقت کا گوشوارہ کیسے مرتب کیا جاتا ہے؟ یہ نمایاں لوگ کبھی جلدی میں نہیں ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ ان کا سارا وقت ہی ان کے اپنے لیے ہے۔ وہ متحرک ہوتے ہیں، مسکراتے ہیں، کھڑے ہوتے ہیں، ہاتھ ہلاتے ہیں، اشیاء کو دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کہاں؟ کسی دوسری مصروفیت۔۔۔۔ ان کی ایسی مصروفیات کی ہر لمحے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ مرتب کردہ پروگرام کے ہر لمحے کا اندراج کیا جاتا ہے اور اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا پروگرام گوشوارہ اسی طرح اختتام پذیر ہوتا ہے کہ پروگرام میں کہیں تصادم ہوتا ہے اور نہ ہی جلدی کرنے کی نوبت آتی ہے۔ بے چینی ہوتی ہے۔ ناواجب بے صبری، بد مزاجی کا موقعہ ہی پیدا نہیں ہوتا، بھول چوک کا بھی احتمال نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کام التواء میں ڈالا جاتا ہے۔ کوئی امیدوار اگر انٹرویو میں اچھا تاثر قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے ہر دوسری چیز کی نسبت اس اہم موقعہ کو ترجیح دینا چاہیے۔ انٹرویو راہ چلتے چلتے روز مرہ کی خریداری کرنے جیسا عام اور معمولی معاملہ نہیں ہے۔ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونے سے لے کر اس کمرے سے باہر نکلنے تک ہر قدم اہمیت رکھتا ہے، ہر عمل بامعنی ہوتا ہے اور ہر حرکت اثر رکھتی ہے۔ انٹرویو کے کمرے کے دروازے پر دی جانے والی دستک نہ اتنی ہلکی ہونی چاہیے کہ سنی نہ جا سکے اور نہ ہی اس قدر تیز ہونی چاہیے کہ اس سے لاپروائی کا اظہار ہو۔ یہ بس معمول کی تین دستکیں ہونی چاہئیں اور یہ الفاظ’’ ہاں، اندر آ جائیے‘‘ سننے پر امیدوار کو اندر داخل ہو جانا چاہیے۔ اسے دروازے پر رک کر کمرے کا جائزہ نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی دروازے کو کھلا چھوڑ کر میز کی طرف لپکنا چاہیے۔ کمرے میں داخل ہونے کے بعد اسے خوش اسلوبی سے مڑ کر دروازے کو بند کرنا چاہیے اور پھرمیز کی اس طرف بڑھنا چاہیے جہاں ایک کرسی اس کی منتظر ہے۔ اسے میز کے قریب پہنچ کر چٹان کی طرح بیٹھنے کے حکم کے انتظار میں کھڑا نہیں ہونا چاہیے تاہم اس سے نرم سی ہچکچاہٹ کی توقع کی جا سکتی ہے جو ایک نو وارد کے اندر فطری طور پر ہوتی ہے۔ ’’ تشریف رکھیے‘‘ کے الفاظ سن کر اسے کرسی پر بیٹھ جانا چاہیے۔ کسی امیدوار کو اگر کسی مسئلے کے پیش نظر گلا صاف کرنے کی ضرورت پڑتی ہو تو اسے اپنا گلا کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر صاف کر لینا چاہیے لیکن کرسی پر بیٹھ جانے کے بعد اسے گلا صاف نہیں کرنا چاہیے۔ سوالات کی آمد سے پیشتر اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے! اسے اپنی ذات کا پر سکون اور اضطراب سے مبرا منظر پیش کرنا چاہیے۔ اسے گھبراہٹ ہونی چاہیے اور نہ ہی اسے بت کی طرح ساکن ہونا چاہیے۔ بہتر یہ ہو گا کہ امیدوار اپنی نظریں سامنے رکھے جو سیدھی انٹرویو کے کمرے میں درمیان کی کرسی پر بیٹھے شخص پر پڑ رہی ہوں کیونکہ درمیان میں بیٹھا شخص ہی بقیہ انٹرویو کاروں کا صدر ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انٹرویو کار گول یا بیضوی شکل کی میز کے گرد بیٹھے ہوں۔ ایسی صورت میں امیدوار کے لیے مشکل پیدا ہو سکتی ہے لہٰذا اس کے لیے بہتر یہی کہ وہ اپنی نظر اپنی کرسی کے سامنے کی کرسی پر بیٹھے شخص پر مرکوز رکھے کیونکہ وہی شخص ایسا ہو گا جسے امیدوار آسانی سے دیکھ سکے گا۔ ازاں بعد جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو تو امیدوار کے لیے اس شخص کی طرف دیکھنا بہتر ہوتاہے جو اسے سوال کر رہا ہوتا ہے۔ جواب کے دوران میں بھی اسی شخص کی طرف دھیان رکھنا بہتر رہتا ہے نہ کہ باری باری سب کی طرف دیکھنا۔انٹرویو بورڈ کے ممبران میں سے جو ممبر سوال کرے اسی کو ہی جواب بھی دینا چاہیے لیکن طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ دوسرے ممبران بھی امیدوار کے جواب پر توجہ دے سکیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جواب دیتے ہوئے امیدوار کو اپنی قوت ادراک کا ثبوت ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ اس وقت کے تاثر کو قائم رکھنا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سوالات تیکھے، نرم، تیز، دھیمے، واضح اور غیر واضح بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان تمام صورتوں میں اگر امیدوار اپنا سر ٹھنڈا اور اپنی توجہ کو پوری اہلیت کے ساتھ سوالات پر مرکوز رکھتا ہے تو یقینی طور پر وہ انٹرویو میں بہتر نمبر حاصل کرے گا۔ تیز فہمی بھی ایک امیدوار کے لیے بہت ضروری ہے بالخصوص اسسٹنٹ وغیرہ کے عہدے کے لئے۔ آپ نے کسی ڈاکٹر کو کسی فلم یا ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر آپریشن کرتے دیکھا ہو گا کہ وہ کس قدر دھیمی آواز سے بولنے کے ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تو اس کا مددگار ڈاکٹر یا نرس وغیرہ اسے اس کا مطلوبہ اوزار تھما دیتے ہیں۔ اسسٹنٹ کی ملازمت بھی بڑی مخصوص نوعیت کی ہوتی ہے۔ وہ اپنے باس کے اشاروں کو سمجھتا ہے یہاں تک کہ اس کے باس کو کبھی ہی بولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یقینی طور پر ایک امیدوار اپنے انتخاب کی صورت میں یہ سب کچھ سیکھ جائے گا لیکن اگر امیدوار ایسی ہی اسامی کی خاطر انٹرویو دے رہا ہے تو اس کو اپنی اس نوعیت کی صلاحیتوں کے اپنے اندر موجود ہونے کا تاثر بھی دینا ہو گا۔ ’’ جرمنی کے دار الحکومت کا کیا نام ہے؟‘‘ ’’ ہمارا سابقہ صدر کون تھا؟‘‘ ’’ پاکستان کے حوالے سے 14اگست اور23مارچ کی کیا اہمیت ہے؟‘‘ ’’ آج بین الاقوامی تاریخ اور وقت کیا ہے؟‘‘ ’’ یہاں انٹرویو مئی میں ہو رہا ہے۔ آج کل آسٹریلیا میں موسم کیسا ہو گا؟‘‘ (چونکہ آسٹریلیا جنوبی نصف کرہ میں ہے اس لیے وہاں مئی میں سردی کا موسم ہو گا) ’’ لفظ کمیٹی کو انگریزی میں لکھنے سے کتنے حروف دو دو آئیں گے؟‘‘ ’’ ایٹی کیٹ، اور ویکیوم کے انگریزی میں ہجے بتائیں؟‘‘ ’’ ہندوستان میں پہلا مغل بادشاہ کون تھا اور آخری بادشاہ کون تھا؟‘‘ ’’ پانی کس درجہ حرارت پر کھولتا ہے اور کس درجہ پر برف بن جاتا ہے؟‘‘ ’’ وہ کون سی پاکستانی شخصیت تھی جسے نوبل پرائز ملا؟‘‘ ’’ فارمیسی میں گریجوایٹ اپنے نام کے ساتھ اپنی ڈگری کیسے لکھتا ہے؟‘‘ ’’ کیا پاکستان میں کوئی شخص الیکشن کے بغیر وزیراعظم بن سکتا ہے؟‘‘ ’’ مہماتی سفر سے کی امراد ہے؟‘‘ ’’ پاکستان کی اندازاً آبادی کیا ہے؟‘‘ ’’ کیا آپ کو علم ہے کہ مختار عام اور مختار خاص میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘ ’’ اسسٹنٹ، فارماسسٹ اور موسیو کے انگریزی میں ہجے کریں؟‘‘ ’’ کسی دفتر میں جنرل اسسٹنٹ، سٹینو گرافر کے فرائض کی انجام دہی کیلئے ہونے والے انٹرویو میں امیدواروں کے لیے مندرجہ بالا قسم کے سوالات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔‘‘ باس چونکہ ہوائی سفر کرتا ہے اس لیے اسسٹنٹ کو پروازوں، پروازوں کے لیے ٹکٹ خریدنے، نشست مخصوص کرانے اور اسے منسوخ کرانے وغیرہ کے طریقہ کار کا علم ہونا لازمی ہے۔ باس دعوتوں میں جاتا ہے لہٰذا خود بھی دعوتیں دیتا ہے۔ اسسٹنٹ کو بھی دعوتوں کے اہتمام کا علم ہونا چاہیے۔سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے معاملات بھی ہو سکتے ہیں، حساب کتاب کے ماہرین، وکلاء حضرات، کاروباری معاہدے اور دیگر کئی قسم کی ذمہ داریوں کا انبار ہو سکتے ہیں۔ اسے یہ سب کچھ آہستہ آہستہ سیکھنا ہو گا لیکن امیداروں کو اتنا چاک و چوبند اور تیز فہم کا مالک ہونا چاہیے کہ وہ یہ تاثر قائم کرے کہ وہ نئی چیزوں کو آسانی سے سیکھنے پر آمادہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک امیدوار اگر مذکورہ بالا تمام باتوں کو ذہن میں رکھتا ہے تو وہ سمجھ جائے گا کہ کسی ملازمت کے حصول کی خاطر کسی انٹرویو بورڈ کا سامنا کرنا اور کسی امتحان میں کامیابی کے لیے ’’ زبانی امتحان‘‘ یعنی وائی وا ووس(Viva Voce) میں پیش ہونا دو مختلف نوعیت کے عمل ہیں۔ یہ حقیقی طور پر سچی بات ہے کہ کوئی بھی شخص جدید صدی کے ترقی یافتہ تقاضوں کے مطابق تاریخ، جغرافیہ، سائنس، ادویات، کھاتہ، قانونی فارموں وغیرہ کے علاوہ ان تمام قسم کے مضامن جن سے انسانوں کا سابقہ پڑتا کا ’’ حافظ‘‘ نہیں ہو سکتا لہٰذا جب بھی امیدوار کو کسی ایسے سوال سے سابقہ پڑے جسے وہ بالکل ہی نہ جانتا ہو تو اسے ’’ میں نہیں جانتا‘‘ کہنے میں ذرا برابر تامل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا کرنے سے وقت کی بچت ہو گی اور انٹرویو کاروں کی توجہ بھی امیدوار کی اندرونی اقدار کی سمت منعطف ہو جائے گی۔ دفتری دنیا بے لاگ، تیز اور قانونی ہوتی ہے۔ جوابات اور کارکردگی درست ہی ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو اپنے جوابات اور افعال کے مثبت ہونے کا یقین ہے تو بڑھ چڑھ کر ان کی ذمہ داری قبول کریں ورنہ جو امیدواران کو درست طور پر جانتا ہو یہ ذمہ داری قبول کرنا اس پر چھوڑ دیں۔ پس ایک حماقت امیدوار کو نہیں کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اسے کبھی کوئی جواب اندازے سے نہیں دینا چاہیے یا ایسا جواب جن کے متعلق وہ یقینی طور پر نہ جانتا ہو پیش نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں ایک حقیقی لطیفہ پیش کرنا موزوں رہے گا۔ کالج کے ایک طالب علم نے این سی سی (نیشنل کیڈٹ کور) میں ائیر فورس کے شعبے میں شمولیت کے لیے انٹرویو دیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ ایک بندر ایک ستون پر دن میں تین فٹ اوپر چڑھت اہے اور رات کے وقت ایک فٹ نیچے گر جاتا ہے وہ نو فٹ لمبے ستون پر چڑھنے کے لیے کتنے دن لے گا؟ نوجوان ریاضی میں اچھا نہ تھا۔ اس نے جمع تفریق کا عمل کیا کہ بندر روزانہ دو فٹ ستون پر چڑھتا ہے ۔ ستون 9 فٹ ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ساڑھے چار دن میں ستون پر چڑھ جائے گا۔ انتخاب کرنے والے افسر نے کہا کہ بندر پورے دن کتنے لے گا۔ آدھے کی بات نہ کریں۔ حسابی طور پر زیادہ سے زیادہ لگنے والا وقت ساڑھے چار دن ہی تھا وہ پانچ دن نہ کہہ سکا۔ ساڑھے چار دن بھی جواب دینا درست نہ تھا اس نے چار دن کہا۔ حقیقی طور پر چار دن ہی درست جواب تھا۔ بندر چڑھنے اور گرنے کے حساب سے تین دن میں چھ فٹ چڑھا۔ چوتھے دن وہ تین فٹ چڑھا اور ستون کی چوٹی پر چڑھ گیا اور وہاں سے نیچے نہیں گرا۔ ایک اور بھی مضحکہ خیز افسانوی مثال ہے کہ ایک بہت ہی تعلیم یافتہ شہزادی نے کس طرح اپنے شوہرکا انتخاب کیا؟ اس نے اس بات کی قسم کھا رکھی تھی کہ وہ صرف ایسے شخص سے شادی کرے گی جو اس کے سوال کا جواب دے گا۔ عالم فاضل دانا لوگ اور تعلیم یافتہ ماہرین دنیا کے چاروں کونوں سے آئے اور شہزادی کے سوال کا جواب نہ دے سکے۔ بادشاہ یہ صورتحال دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ صاحب الرائے اور عیار مشیر شاہی دربار نے ایک احمق کو دیکھا جو ایک درخت کی جس شاخ پر بیٹھا تھا اسی کو کاٹ رہا تھا۔ مشیر اور اس کے آدمیوں نے اس احمق کو دولہے کی طرح بنا سنوار کر شہزادی کے روبرو امتحان کے لیے پیش کیا۔ شہزادی کھڑی ہو گئی اور اپنی ایک انگلی احمق کے سامنے کی۔ احمق اچھل کر کھڑا ہو گیا اور شہزادی کے سامنے اپنی دو انگلیاں کیں اور ان کو زور سے ہلایا۔ شہزادی اس احمق کے سامنے جھک گئی اور اس کے جواب کو تسلیم کر لیا۔ دربار میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور شہزادی نے احمق سے شادی کر لی۔ جو کچھ بعد میں ہوا وہ الگ کہانی ہے۔ شہزاید نے بادشاہ کے مشیروں کو بتایا کہ اس کا سوال تھا کہ خدا ایک ہی ہے۔ (ایک انگلی دکھانے کا یہی مطلب تھا) اس سوال کے جواب میں جو دو انگلیاں سامنے زور سے ہلائی گئیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ درباری مشیروں نے احمق سے علیحدگی میں پوچھا کہ اس نے شہزادی کی ایک انگلی کے مقابلے میں دو انگلیاں رکھ کر زور سے کیوں ہلائیں۔ تو احمق نے جواب دیا کہ شہزادی ایک انگلی سے اس کی ایک آنکھ پھوڑنا چاہتی تھی تو اس نے جواب میں غصے سے اسے بتایا کہ وہ اس کی دونوں آنکھیں پھوڑ دے گا۔ یہ مزاحیہ اور اتفاقیہ بنیادوں پر استوار لطائف ہیں لیکن امیدوار کو جوابات اتفاق کی بنیاد پر نہیں دینا چاہئیں۔ اسے یقینی بنیادوں پر ہی چلنا چاہیے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ لا علمی کوئی زیادہ بڑا نقص نہیں ہے اپنے آپ کو ’’ دانا‘‘ کے طور پر پیش کرنا یقینی ’’ نا اہلی‘‘ ہے۔ ’’ بورو بدھر کہاں ہے؟‘‘ (بورو بدھر بدھ مت کا مشہور سٹوپہ ہے) ’’ جاپان میں‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے جبکہ بورو بدھر انڈونیشیا میں ہے اور اس جواب سے امیدوار اپنے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ اگر امیدواروں کو معروضی قسم کے سوالات پوچھنے کے لیے کاغذات مہیا کیے جائیں اور جوابات ناموں، تاریخوں، اعداد اور ہاں یا نہ وغیرہ پر مشتمل ہوں توبھی امیدوار کو اندازے سے جوابات نہیں لکھنے چاہئیں کیونکہ بعض ایسے سوالات میں غلط جواب لکھنے پر نمبر کاٹ بھی لیے جاتے ہیں۔ امیدوار کے لیے اہم یہ ہے کہ انٹرویو سے قبل کی رات غور و حوض کرے۔ اسے اس رات جس طرح وہ مناسب سمجھے اپنے آپ کو اگلے دن کے معرکے کے لیے تیار ہونے دینا چاہیے۔ اسے اپنے سوانح (Bio-data)پر متعدد بار نظر ڈالنا چاہیے کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک دو تفصیلات بیان کرتے ہوئے امیدواران ماضی کے سالوں اور وقت کے حوالے بھول جاتے ہیں۔ امیدوار کا علم اور اپنے سوانح حیات کسی نئی تیل دی گئی مشین جو بغیر کسی رکاوٹ کے چلتی ہے، کی مانند از بر ہونے چاہئیں۔ اسے اپنے مختلف امتحانات ان میں حاصل کردہ نمبر، حاصل کردہ ڈویژن اور کوئی اضافی اہلیت یا اہلیتیں جو اس نے حاصل کی ہوں کی تفصیل نوک زبان ہونی چاہیے۔ ایسا عین ممکن ہے کہ امیدوار کو اپنے سوانح دہرانے کا کہا ہی نہ جائے لیکن ایک یا دو ایسے سوالات کی توقع کی جا سکتی ہے جن کا تعلق امیدوار کے سوانح سے ہو اور جب سوالات کے جوابات درست اور قبولیت کے قابل ہوں تو انٹرویو کار ویسے ہی امیدوار کی دیگر ناقص اور ادھوری ضمنی باتوں کا یقین کر لیتے ہیں۔ ٭٭٭ بارہواں باب خواتین امیدوار آج کے دور میں خواتین زندگی کی ہر دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ کوئی ایسا سلسلہ یا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو اب عورتوں کو ’’ نہیں‘‘ کہے۔ آج کل تو فوج، پولیس، چھاتہ برداروں اور مارشل آرٹس میں بھی خواتین عورتیں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی عورتیں ڈاکٹر، وکیل، جج، انجینئر، پروفیسر، ایڈیٹر اور جرنلسٹ وغیرہ ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کے حوالے سے آج کل میزبان خواتین اور ٹائپسٹ خواتین کی بڑی طلب ہے۔ کمپنی کے لیے خاتون میزبان کی موجودگی اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ کمپنی اپنی کارکردگی میں معیار اور شہرت رکھتی ہے۔ ایک غیر ملکی بینک نے جب دہلی (انڈیا) میں اپنا دفتر کھولا تو اس نے وہاں اپنا جو منتظم بھیجا وہ ہمہ صفت موصوف تھا۔ وہ مشکل سے اپنی عمر کے چالیسویں سال میں نظر آتا تھا۔ خوبصورت بھی تھا اور اس کا جسم بھی کھلاڑیوں کی طرح متناسب اور سنبھالا ہوا نظر آتا تھا۔ اس کی زبان بڑی مہذب اور آواز کا اتار چڑھاؤ انتہائی موزوں تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کانوں کو بڑے شیریں لگتے تھے۔ یہ تو ہماری بات کا ابتدائیہ ہے کیونکہ ہم جو بات کرنا چاہ رہے ہیں وہ آگے آنے والی ہے اس منتظم نے اپنے دفتر میں ایک لڑکی کو اپنی سیکرٹری تعینات کیا غالباً اس کا انتخاب بھی خود منتظم ہی نے کیا تھا۔ یہ لیڈی سیکرٹری منتظم کے بعد دفتر کا دوسرا عجوبہ تھی۔ وہ منتظم کو آنے والے فون سنتی، ملاقاتیوں سے ملاقات کرتی اور علاوہ ازیں خطوط کی ٹائپنگ کا کام بھی کرتی۔ اس کا باس اسے خط کا لب لباب بتا دیتا اور وہ اپنے ذہن ہی میں پورے خط کو تیار کرتی اور وہاں ہی سے براہ راست اسے ٹائپ کرتے ہوئے کاغذ پر لے آتی۔ ایسا وہ فون سننے اور ملاقاتیوں سے بات چیت کرنے کے دوران ہی میں کرتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی ٹائپنگ کی نشوونما ہو رہی تھی۔ اگر ایک غلطی کو مٹا کر درست کیا جاتا تو ٹائپ شدہ پورے خط کا حلیہ بگڑ جاتا۔ سیکرٹری ٹائپنگ کا کام بھی اسی رفتار اور تیزی سے کرتی جس رفتار اور تیزی سے وہ ساتھ ساتھ دوسرے کام بھی سر انجام دیتی تھی۔ خط تیار ہوتا تو اس پر کوئی داغ دھبہ بھی نہ ہوتا۔ باس اس پر اپنے دستخط کرتا۔ سیکرٹری آنے والی ڈاک کو بھی کھولتی، ملاقاتیوں سے ملاقات کا وقت بھی متعین کرتی اور چپڑاسی، ڈرائیور قسم کے دوسرے ملازمین کو ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہدایات بھی دیتی۔ مذکورہ مثال عمدہ نوعیت کی مثال ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ ایسے پہلو بھی ہو سکتے ہیں جہاں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ خواتین اپنی حرکات میں زیادہ لچکدار ہوتی ہیں اور وہ کئی کام ایک ہی وقت میں پوری توجہ اور انہماک سے کر سکتی ہیں۔ ایسا کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟ ممکن ہے یہ نسوانی مہیجات کا اثر ہو یا ان کے خمیر کی نفسیاتی تعمیر ہی ایسی ہو۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے دفاتر میں میزبانی کے عہدے کے لیے خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے جو کئی کاموں کو بیک وقت سہولت اور آرام سے سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ مادہ پرست دفتری ماحول میں کچھ نہ کچھ سحر کاری اور بوقلمولی بھی پیدا کرتی ہیں۔ پس، جب ایک خاتون میزبان کی اسامی کے لیے کسی دفتر میں درخواست گزارتی ہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ فون پر کام کرنے کی اہلیت کے علاوہ اسے میزبانی کے میز پر اپنے مزاج اور اخلاق کی تروتازگی کے عنصر کو بھی نمایاں رکھنا ہے جیسے جب بھی کوئی ملاقاتی دفتر میں داخل ہو تو وہ میزبان خاتون کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لے اور جب وہ واپس جا رہا ہو تو اس تروتازگی تاثر کو دفتر ہی میں چھوڑ جائے۔ اس تخیل کے ساتھ کوئی ناموزونیت وابستہ نہ کی جائے۔ خواتین تو خوبصورتی، رنگوں، امید، محبت اور ادراک کی علامت ہیں اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان پسندیدہ خوبیوں سے پھوہڑ قسم کے معمولات زندگی رکھنے والے انسانوں پر رنگ و نور سے بھرپور کیفیتوں کی بارش برسا دیں گی۔ چنانچہ خواتین امیدواروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ انٹرویو میں نہ صرف اپنی اہلیت کا اظہار کریں گی بلکہ وہ اپنی ذہانت اور مسحور کن شخصیت کا ملا جلا پر تاثیر پہلو بھی نمایاں کریں گی۔ دلفریبی، لازمی طور پر ایک جبلی رویہ ہے اور اس کا انعکاس طبیعت کے سکون، مثبت پرورش، دل پذیر مزاج اور سب سے بڑھ کر رویے سے ہوتا ہے۔ دلفریبی تصنع اور بناوٹ سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے اور شخصیت سے خود کار طور پر ٹپکتی ہے۔ فطری طور پر خواتین اس خوبی سے آراستہ ہوتی ہیں۔ ہر خاتون امیدوار کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جب وہ مسکراتی ہے تو اچھی نظر آتی ہے یا پھر وہ جب سروقد کھڑی ہو یا سیدھی بیٹھی ہوئی ہو تو وہ اپنے سراپا کے بہترین انداز کو مترشح کر رہی ہوتی ہے۔ اس کی آواز شیریں ہوتی ہے اور اس کا قہقہہ فرحت افزا ہوتا ہے۔ تقریباً ہر خاتون کے کچھ نہ کچھ افعال اور پہلو پسندیدہ ہوتے ہیں اور اس کی یہی صفات اسے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ تسلیم کر لینے کی بات ہے کہ خواتین امیدوار اپنے مثبت نقاط سے آگاہی رکھتی ہیں۔ ہاں اگر وہ سب باری باری مثبت نقاط کی بے وقت اور بے موقع نمائش کرنے لگیں تو وہ مسخری اور احمق نظر آئیں۔ جب وہ انٹرویو کی تیاری کرنے لگیں اور انٹرویو کے لیے آئیں تو انہیں اپنے حواس موزوں سطح پر رکھنے چاہئیں۔ میزبانی کی ملازمت(Receptionist)بڑی فیصلہ کن اور نہایت اہم ہے۔ دفتر میں اس نے ایک اہم اور نمایاں مقام کی ذمہ داری سنبھالنا ہوتی ہے اور دفتر کے چہرے مہرے کی عزت کی پہلی منزل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ باقی سب کا مقام بعد میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر دفتر کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے۔ کچھ دفاتر میں باس ہر فون خود سننا پسند کرتا ہے۔ دوسرے کسی دفتر کا باس یہ سمجھنے کے لیے وقت لیتا ہے کہ اس نے فون کرنے والے کس فرد کی بات سننا ہے اور کس کی بات نہیں سننا ہے۔ یقینی طور پر باس کی ہدایت کے مطابق میزبان خاتون باس کے ناپسندیدہ فون کرنے والے اشخاص کو ’’ کہ باس میٹنگ میں ہے‘‘ کہہ کر ٹال دیتی ہے۔ لیکن اس بہانے کے بعد تکراری فون کالوں کا وہ سامنا نہیں کر سکتی۔ باس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ایسے اشخاص کو کسی دوسرے دفتر کے سپرد کر دے کہ وہ اس کی بات سنیں اور اس کی داد رسی کریں۔ میزبان خاتون کو دفتر میں ٹیلی فون کرتے رہنے والے، دفتر میں آتے جاتے رہنے والے افراد کا علم ہونا چاہیے۔ ویسے ہر میزبان خاتون کو یاد رکھنا چاہیے کہ باس کی جگہ فون سننے اور فون کرنے کی ذمہ داری اس کی دیگر تمام اہم ذمہ داریوں میں سے زیادہ اہم ہے لہٰذا وہ رنجیدہ خاطر نہ ہو۔ ایک ٹائپسٹ جانتا ہے کہ اس نے دن کے طول و عرض میں صفحات پر صفحات ٹائپ کرنا ہیں اسی طرح میزبان خاتون کو یہ علم ہونا چاہیے کہ دفتر میں آنے والے افراد، ملاقاتیوں اور فون کرنے والوں سے اسی نے نمٹنا ہے اور اسے اس کام سے تنگ نہیں پڑنا ہو گا۔ جب ایک خاتون امیدوار ملازمت کے لیے انتخاب کرنے والوں کے سامنے پیش ہوا تو اسے اپنی شخصیت کے بہترین پہلوؤں کی نمائش کرنا چاہیے لیکن اس نمائش میں اس کی کسی دانستہ کوشش کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بہترین پہلوؤں کا اظہار اس کے لباس، طبیعت کے سکون، اس کی شخصیت اور سب سے بڑھ کر اس کے چہرے کے تاثرات سے ہونا چاہیے۔ اسے اپنے چہرے پر تاثرات پیدا کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔ یہ چہرے کے تاثرات ہی ہیں جو امیدوار کو تازگی مہیا کرتے ہیں اور مشکل ہی سے چہرے کو افسردہ ہونے دیتے ہیں۔ ایک میزبان خاتون کی ملازمت بغیر کسی تکنیکی نوعیت کا کام سر انجام دینے کے بڑی ہی ’’تکنیکی نوعیت‘‘ ہے۔ ہاں البتہ فون باکس کی نوعیت قدرے تکنیکی ہے۔ منتخب کرنے والے حضرات ممکن ہے امیدوار کا عملی طور پر امتحان لینا چاہیں۔ اس طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خاتون امیدوار کے کوائف جاننے اور ابتدائی بات چیت سے مطمئن ہونے کے بعد اس سے کہیں کہ وہ ان کے دفتر میں ایک سالم دن یا کم از کم نصف دن میزبانی کی میز پر بیٹھ کر کام کرے۔ اس عملی کام کی درست پیشکش کے بعد احکامات تقرری جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ اطمینان، خاموشی اور نرمی کے ساتھ ساتھ امیدوار خاتون کی شخصیت کا جادو اور اہلیت اسے انٹرویو کے کڑے امتحان سے نکال لے جاتی ہے۔ اس کا پر اطمینان اور یک رخی چہرہ ایسی خصوصیت کا حامل ہے کہ اس پر امیدوار خاتون کو بھروسہ ہونا چاہیے۔ اس کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں۔ اس کی صورت حال امن کے اس سفیر کی سی ہوتی ہے جسے جنگی روایات کی بناء پر کوئی دشمن بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ وہ تو ایک رابطہ کا عنصر ہے وہ متحارب فریقوں میں سے نہیں ہے۔ اس کو اس دفتر کے مفادات سے واسطہ ہے جہاں وہ کام کرتی ہے لیکن یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ دوسرے فریق کی مخالفت کے سلسلے کو کاٹ دے۔ باس میزبان خاتون کو بلا تامل کہہ سکتا ہے۔’’ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ میزبان خاتون یہ خبر دوسرے فریق کو کس طرح پہنچاتی ہے؟ وہ کون سا طریقہ استعمال کرتی ہے؟ اور صورت حال کو مزید ابتر ہونے سے کس طرح بچاتی ہے اس کا تمام تر انحصار میزبان خاتون کے طرز عمل پر ہے۔ اگر وہ اپنے باس کے اصل احساسات کو اپنے باس کے الفاظ کو نرم، شیریں اور ہموار بنا کر، اپنے باس کی عزت اور وقار اور دفتر کو نقصان پہنچائے بغیر سلیقے سے دوسری سمت پہنچاتی ہے تو وہ ایسا کرنے میں خود مختار ہے۔ جب میزبان خاتون آزمائشی طور پر کونٹر پر بٹھا دیا جاتا ہے تو افسران یہی دیکھتے ہیں کہ خاتون نقصان پہنچائے بغیر کس طرح اپنی خود مختاری کے حق کو استعمال کرتی ہے۔ اس آزمائشی عرصے میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ خاتون امیدوار اپنے کردار کو کسی بھی خصوصی معاملے میں ملوث کیے بغیر، موافقت اور مخالفت کے جذبات استعمال کیے بغیر حکمت اور دانائی سے اپنے فرائض کو آزادانہ نبھاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس وقت بھی زیادہ تر ٹیلی فون پر مصروف تو نہیں رہتی جب بہت سے ملاقاتی حضرات اس کی توجہ کے منتظر ہوں۔ اسی طرح میزبان خاتون کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ملاقات کے لیے آنے والے افراد سے ضروری بات چیت کرے۔ لمبی گفتگو کر کے وہ دوسرے ملاقاتیوں کو منتظر نہ رکھے۔ اس موقعہ پر بھی خاتون میزبان کی عزت اور شخصیت کو جانچا جاتا ہے کہ کیا وہ ہر ملاقاتی کی بات نرمی سے سنتی ہے۔ لیکن وہ اسے یہ بتانے میں سخت لہجہ بھی استعمال کر سکتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو بند کرے اور باری کا انتظار کرے یا وہ پھر رابطہ کرے کیونکہ ابھی اس کے معاملے کا فیصلہ نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ۔ فون پر بھی دوسری طرف سے بولنے والے آدمی کو لمبی گفتگو کر کے وقت کو ضائع نہ کرنے دے۔ اسے اس بات کا شعور بھی ہونا چاہیے کہ وہ کب ایسی لمبی گفتگو کو ختم کر دے کہ گفتگو کرنے والا کچھ مطمئن بھی رہے۔ خاتون میزبان کے لیے بہترین انداز یہ ہے کہ وہ زیادہ وقت چاک و چوبند بیٹھی نئی باتوں کی توقع کرے کہ وہ اس کی راہ میں آئیں، باسوں کی طرف سے نئی ہدایات بعض معاملات پر توجہ دینے کے لیے موصول ہوں۔ اگر وہ فارغ بیٹھی کام کی منتظر ہو اور اسے کوئی مصروفیت نہ ہو تو بھی کارکردگی کا ایک خوبصورت مرقع نظر آ رہی ہو۔ تمام امیدواران کے لیے یہ ضروری ہے اور اہم ہے کہ وہ اپنے خدوخال کو منفی صورتوں میں جیسے غمزدگی، تفکرات، چمک دمک سے عاری، تھکاوٹ سے چور، مردہ دلی، دلچسپی سے خالی اور ذوق و شوق سے نا آشنائی کے مظہر کے طور پر پیش نہ کریں۔ ان منفی صورتوں کی جگہ لینے کے لیے مثبت صورتیں بھی ہیں جیسے چہرے پر چمک اور رونق، خوش دلی، بشاشت، خوبصورتی، جوش و ولولہ، امیدوار کام کا سامنا کرنے کی جرأت وغیرہ۔ خواتین چونکہ عزت و وقار اور دل کو موہ لینے کا مظہر ہیں۔ علاوہ ازیں صبر و استقامت اور حوصلہ افزائی کا پیکر بھی ہیں اس لیے خواتین پر لازم آتا ہے کہ عام زندگی میں بھی اور پھر جب وہ ملازم ہو جائیں تو تب بھی وہ اپنے چہرے کے خدوخال میں خوش دلی اور چمک دمک نمایاں رکھیں۔ بہت سی خوبصورت عورتیں موجود ہیں جو مغرور، سرد مہر اور ضدی ہیں۔ سادہ اور سادگی پسند خواتین بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کرتی ہیں، قوت ادراک رکھتی ہیں اور حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ کسی عورت کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ یا تو ماں ہے یا پھر کسی دن ماں بنے گی۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہیں بھی ہو گا تو بھی اس کا پرورش کا جذبہ فطرت مستقلاً زندہ اور قائم رکھے گی۔ باقی تمام اشیاء سے برتر یہ ہے کہ عورت کی نسوانیت اس کا بہت بڑا اثاثہ ہے اور جو عورت ارادتاً اس اثاثے میں کمی کرتی ہے یا اس کو تبدیل کرنا چاہتی ہے وہ اپنی فطرت کے ساتھ سب سے بڑی غلطی کی مرتکب ہوتی ہے۔ ایک خاتون کسی فن کی ماہر ہو سکتی ہے۔ وہ مردانہ کپڑے بھی پہن سکتی ہے کیونکہ کپڑے کائناتی شے ہیں ان پر کسی کی اجارہ داری نہیں لیکن اگر وہ اپنے آپ کو مرد کے سانچے میں ڈھال رہی ہے کیونکہ وہ مردانہ نوعیت کی ملازمت کر رہی ہے تو وہ اپنی قدر و قیمت کو خود کم کر رہی ہے۔ خاتون امیدوار کو یہ حقیقت اس وقت بھی یاد رکھنی چاہیے جب وہ انٹرویو میں پیش ہو تب بھی اس کو آپے میں رہنا چاہیے اور اسے خود کو کسی ایسے روپ یا بہروپ میں پیش نہیں کرنا چاہیے جو وہ حقیقتاً نہیں ہے۔ بہت سی خواتین ڈاکٹر، وکیل، سیاست دان، مملکت کی سربراہ، انتظامیہ میں افسر، پرنسپل، پروفیسر وغیرہ وغیرہ ہیں۔ جو اپنے تھکا دینے والے اور پیشہ جات کے باوجود اپنی نسوانیت اور فخر ذات کو محفوظ رکھتی ہیں۔ لہٰذا ایک خاتون کو اپنے آپ پر فریب کاری اور غرور تکبر جیسی منفی خصوصیات کے دروازے بند رکھنے چاہئیں۔ انہیں اپنے مقام پر مروجہ عزت و مرتبہ، نسوانیت اور باہمی اشتراک عمل کی قدریں منظر عام پر لانی چاہئیں۔ کام کی دنیا میں کامیابی کی کلید کارکردگی ہے۔ مقابلے کی دوڑ والی زندگی میں اتنا وقت ہی نہیں ہوتاکہ انتظار کیا جائے اور دیکھا جائے (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) سرگرمیوں کی اس دوڑ دھوپ میں خواتین کے اپنے مقامات ہیں، مراتب ہیں یا پھر ان کے لیے مخصوص پیشے ہیں۔ پرائمری سکولوں میں لیڈی ٹیچرز، ہسپتالوں میں نرسیں ہیں۔ علاوہ ازیں دفاتر میں ٹائپسٹ اور میزبان ہیں۔ سماجی بہبود کے محکمے میں ویلفیئر آفیسر اور افسر تعلقات عامہ وغیرہ ہیں۔ بعض محکمہ جات میں خواتین کے لیے مخصوص اور موزوں اسامیاں بھی موجود ہیں۔ ان اسامیوں پر خصوصیت سے خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں سے بہتر کارکردگی دکھائیں گی اور ان اسامیوں پر اپنی سرگرمیوں سے انسانیت کی بہترین خدمت سر انجام دیں گی۔ ایسی اکاؤنٹنٹ خواتین دفاتر میں موجود ہیں جو چیکوں کو ہر کسی سے بہتر لکھ سکتی ہیں اور ناموں کو اور اعداد کو کمپیوٹر کی طرح یاد رکھتی ہیں۔ اور انہی خواتین میں سے یہ ایک حقیقی ٹیلی فون آپریٹر خاتون موجود ہے جو مشکل ہی سے کسی ٹیلی فون نمبر کو ڈائری میں لکھتی ہے۔ وہ نمبروں کو اپنے سر میں موجود دماغ کی سطح پر لکھتی ہے۔ اسے جو نمبر جب بھی ملانے کو کہا جائے فوراً ملاتی ہے۔ کار گزاری یا کارکردگی ہی دراصل تمام مردوں اور خواتین کی اہلیت جانچنے کی کسوٹی ہے۔ تیرہواں باب سوالات سوالات اور جوابات سے انٹرویو کا ڈھانچہ اور بنیاد بھی تشکیل پاتی ہے۔ کیا ان سوالات کے لیے کچھ ہدایات ہوتی ہیں؟ ہدایات تقریباً نہیں ہوتیں۔ کوئی بھی سوال پوچھا جا سکتا ہے جو کچھ امیدوار کو یاد رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ سوال یا تو اتفاقی ہوتا ہے یا پھر تحریک دینے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سوال کا کوئی تعلق انٹرویو کے مقاصد سے نہ ہو لیکن مقاصد سے کوسوں دور اس سوال پر امیدوار کا جواب بغیر جانچ کے نہیں رہ سکتا۔ جونہی امیدوار اپنی نشست پر بیٹھ جاتا ہے تو انٹرویو کاروں کا صدر امیدوار سے پوچھتا ہے۔ ’’آپ مسٹر ایکس ہیں۔۔۔۔ مسٹر ایکس کیا آپ دور سے آ رہے ہیں؟‘‘ ’’ زیادہ دور سے نہیں۔۔۔۔ میرا اندازہ ہے کہ یہاں سے میرے گھر کا فاصلہ8 سے 10 کلومیٹر کا ہو گا۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ آپ کیسے آئے؟‘‘ دوسرا سوال ہے۔ ’’ کار سے۔۔۔۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ کیا آپ کی کار ہے؟‘‘ انٹرویو کاروں کا صدر پوچھتا ہے۔ ’’ یہ ہماری فیملی کار ہے۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ ہماری کمپنی میں آپ اپنی کار رکھ سکیں گے۔ کمپنی میں ترقیاں ہوتی رہتی ہیں اور ایک مقام پر پہنچ کر کمپنی کار کے لیے قرضہ فراہم کرتی ہے۔۔۔۔ لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔‘‘ بورڈ کا صدر ہنستا ہے۔ ’’ جی ہاں‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ مس وائی! آپ کو پسینہ آ رہا ہے۔ کیا آپ اس کمرے میں کچھ گھٹن محسوس کر رہی ہیں۔ آپ کی صحت کیسی ہے۔ کیا آپ جلدی تھک جاتی ہیں؟‘‘ انٹرویو کاروں کا سربراہ پوچھتا ہے۔ سوال کی لمبائی کی کوئی حد نہیں ہے لیکن وہ شائستگی کے دائرے ہی میں ہے۔ بعض سوالات شائستگی کے دائرے کی حدود کو جا چھوتے ہیں۔ چیئرمین خاتون امیدوار کو خبردار کرتا ہے۔ ’’ مس زیڈ! اگر آپ نے ہماری کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی تو آپ کو اپنے لباس کے بارے میں روایتی ہونا پڑے گا۔۔۔۔ یہ میں آپ کو ابتدا ہی میں بتا دیتا ہوں۔ ہم زراعتی ساز و سامان بیچتے ہیں اور ہمارے گاہک کسان لوگ ہیں جو ہیں تو بڑے امیر لیکن روایت پرست ہیں۔‘‘ چیئرمین کہتا ہے۔ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خاتون امیدواروں کو انٹرویو کی کارروائی کو ٹھنڈے ترین انداز میں لینا چاہیے۔ ان کو تشویش ہونی چاہیے اور نہ ہی کوئی دباؤ محسوس کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ امیدوار کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو مرد امیدوار عام طور پر پہنا جانے والا یعنی عمومی لباس پہن سکتے ہیں جیسے گرمیوں کے موسم میں پینٹ قمیض۔۔۔۔ گلے میں ٹائی لگا لیں اور سردیوں میں مکمل لاؤنج سوٹ پہنیں۔ خواتین عام طور پر اچھا لباس پہنیں لیکن یہ ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ بھڑکیلا لباس نہ پہنیں۔ اگر وہ ایسا کریں گی تو یہ ان کی غلطی ہو گی۔ وہ بالکل ہی سادہ لباس بھی نہ پہنیں کیونکہ یہ بھی ان کے لیے موزوں نہ ہو گا۔ بھاری اور ہلکے لباس کے بین بین لباس زیادہ موزوں ہو گا لباس وہ ہونا چاہیے جو پہننے والے کی شخصیت کو نمایاں کرے۔ ’’ مسٹر بی! کیا آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں؟‘‘ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ سگریٹ سلگا سکتے ہیں کیونکہ ادھر خواتین نہیں ہیں۔ انٹرویو کار کہتا ہے۔ ’’ میں سگریٹ نوشی کرتا ہوں جناب! لیکن اس وقت مجھے اس کی قطعی طلب نہیں۔‘‘ امیدوار بتاتا ہے۔ ’’ آپ کا رہائشی قصبہ بہت دور ہے۔ آپ یہاں کیسے رہتے ہیں؟‘‘ امیدوار سے پوچھا جاتا ہے۔۔۔۔’’ میں یہاں ایک خاندان کے ساتھ رہتا ہوں اورباقاعدہ اپنا خرچ ادا کرتا ہوں۔‘‘ ’’ ادائیگی کر کے مہمان ٹھہرنا ایک اچھا کاروبار ہے۔‘‘ انٹرویو کار بات کو جاری رکھتا ہے ’’لیکن اس میں آپ اپنی آزادیاں حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی تنہائیاں‘‘ ’’ جس خاندان کے ساتھ میں رہتا ہوں اسے ہم لوگ پہلے سے جانتے ہیں۔ میرے والدین نہیں چاہتے کہ میں کرائے کے مکان میں الگ تھلگ رہوں۔‘‘ امیدوار جواب دیتا ہے۔ ’’ میں آپ کے خاندان کے فیصلے کی داد دیتا ہوں۔‘‘ انٹرویو کار کہتا ہے۔ مس’’ کے‘‘ ہمیں آپ کے سوانح سے پتا چلا ہے کہ آپ نے ایک کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا ۔ پھر آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور اب آپ جرنلزم کا ایک کورس کر رہی ہیں۔ کیا آپ اس کی کچھ وضاحت کر سکتی ہیں؟ آپ نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ آپ کی نمائندگی کی ملازمت کی نوعیت کیا تھی؟ بغیر کوئی اور ملازمت کیے آپ نے اپنے آپ کو تنہائی میں ڈال دیا، کیوں؟ انٹرویو بورڈ کا سربراہ پوچھتا ہے۔ مس’’ کے‘‘ اپنے سوانح میں اس وقفے کے بارے میں جانتی ہے۔ اس بارے میں اس نے ایسے سوال کے جواب کی ریہرسل کر رکھی تھی۔ وہ کمپنی جس میں نمائندگی کا کام کرتی تھی ایک اشتہاراتی (ایڈورٹائزنگ) کمپنی تھی۔ میری تنخواہ کا تعلق میرے کمپنی کے لیے کاروبار حاصل کرنے پر تھا، جو انتہائی سخت معاملہ تھا۔ علاوہ ازیں میں نے محسوس کیا کہ میں جو ملازمت کر رہی ہوں وہ میرا راستہ نہیں ہے۔ مزید برآں میں نے ہمیشہ ہی جرنلسٹ بننے کے خواب دیکھے تھے، جس کے لیے مجھے ایک ڈپلومہ کی ضرورت تھی۔ امیدوار اپنی بات ختم کرتی ہے۔ انٹرویو کار مزید سوال کرتا ہے۔’’ کیا آپ نے یہ نہیں سوچا کہ ملازمت حاصل کرنے سے آپ کا جرنلسٹ بننے کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں رکاوٹ آ جائے گی۔‘‘ ’’ میں پہلے ہی اپنا کورس مکمل کر چکی ہوں۔ اب مجھے موقعہ آنے پر صرف ایک امتحان میں بیٹھنا ہے۔‘‘ امیدوار جواب دیتی ہے۔ ’’ آپ یہاں سے بہت دور رہتی ہیں۔ آپ کیسے یہ انتظام کریں گی کہ آپ روزانہ وقت پر دفتر پہنچیں۔‘‘ انٹرویو کار پوچھتا ہے۔ ’’ ہمارے علاقے سے چارٹرڈ بسیں دستیاب ہیں۔ پہلے بھی بہت سے لوگ یہاں دفتر کے اوقات سے پہلے پہنچتے ہیں۔ میں نے یہ معلومات پہلے ہی حاصل کر لی تھیں۔‘‘ مس کے بتاتی ہے۔ ’’ خوب! آپ نے پہلے ہی سے سب کچھ معلوم کر رکھا ہے۔ یہ عقلمندانہ بات ہے۔‘‘ انٹرویو کار کہتا ہے۔ امیدوار کو اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہیے اور پر سکون رہنا چاہیے خواہ اسے پریشان کرنے والے سوالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ سوال: مسٹر آر! آپ اس قدر کوتاہ قامت کیوں ہیں؟ واضح طور پر آپ ایک اوسط درجے کے قد و قامت سے بھی کوتاہ نظر آتے ہیں۔ جواب: قدرت نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا جناب۔ سوال: ہاں ایسا تو ہے۔ خیر لمبا قد یا چھوٹا۔۔۔۔ لیکن آپ کی حصول علم کی کارکردگی نہایت شاندار ہے اور آپ کا تجربہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہم آپ کو ایک موقعہ دینا پسند کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہمارے لوگ آپ کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں اور آپ ان کے رویے کا کیا رد عمل دیتے ہیں؟ جواب: بہت مہربانی جناب۔۔۔۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ نقطے کے عین مطابق جواب دینا ایک تحفہ ہے جو کچھ لوگوں کے پاس ہے۔ جواب میں اختصار مزید ایک خوبی ہے۔ جب ایک چوب کار عین کیل پر ضرب لگاتا ہے تو اسے یہ ضرب ہر سمت سے برابر کیل کے سر پر لگانا پڑتی ہے۔ اسی سے کیل سیدھا لکڑی کے اندر دھنس جاتا ہے لہٰذا امیدوار کو بھی سوال کے جواب کو ضرب عین درستی سے لگانا چاہیے۔ سوال: آپ نے ملازمتوں کو اکثر چھوڑا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب: میں نے ان کو بہتر توقعات کی خاطر چھوڑا۔ سوال: ہم یہ جانتے ہوئے کہ آپ اس ملازمت کو بھی کوئی بہتر موقعہ ملنے پر چھوڑ دیں گے کیسے آپ کو ملازمت دے سکتے ہیں؟ جواب: وہ چھوٹی کمپنیاں تھیں۔ جناب اگر مجھے موقعہ دیا گیا اور پھر کوئی ایسا موقع آیا کہ مجھے آپ کے قابل قدر ادارے کو چھوڑنا پڑا تو اس کی مضبوط تر وجوہات ہوں گی جو شاید اس وقت میرے پاس نہ ہوں گی۔ سوال: آپ کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ مجھے کہنا چاہیے کہ آپ کی تیاری درست ہے؟ جواب: جناب مجھے نہایت افسوس ہے اور میں معافی چاہوں گا اگر میں نے کوئی غلط بات کی ہے لیکن میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھوں گا اگر مجھے آپ کے ادارے میں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ امیدوار نے ملازمتیں چھوڑی تھیں کیونکہ وہ اس کے لیے موزوں نہ تھیں۔ پھر وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی بھی ملازمت کو حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اس نے ملازمتیں چھوڑی بھی بہتری کے لیے ہی تھیں۔ اس سلسلے میں کوئی بھی اس سے بغض نہیں رکھ سکتا تھا۔ ہر شخص کو اپنے آپ کو بہتر بنانے کا حق حاصل ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ کسی کو بھی تبدیلی بہتری کے حصول کے لیے کرنا چاہیے یا کسی بڑی شے کے لیے کرنا چاہیے۔ کسی شخص کو یہ تاثر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ معمولی سی بہتری کے لیے ملازمتیں چھوڑنے کا عادی ہے۔ جب کوئی امیدوار کسی انٹرویو کار کو انٹرویو دے رہا ہو تو اسے اپنی تمام معروضات انتہائی سلیقے اور نرمی سے پیش کرنا چاہئیں۔ اس کے جوابات تسلسل کے بغیر اور خشک نہیں ہونا چاہئیں اور نہ ہی اس کا لہجہ کڑوایا کسیلا ہونا چاہیے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امیدوار کے سوانح (بائیو ڈیٹا) انٹرویو کا بنیادی تختہ ہے اس کے متعلق انٹرویو میں کیے جانے والے تمام سوالات کے جوابات امیدوار کو مسلمہ انداز میں دینے چاہئیں۔ اگر جوابات کے اندر ہچکچاہٹ پائی جائے، اگر انٹرویو کار بائیو ڈیٹا میں کوئی دراڑیں محسوس کرے، اگر بائیو ڈیٹا میں کچھ غلطیاں پائی جائیں خواہ ان کی نوعیت معمولی ہی کیوں نہ ہو، ان وجوہات کی بنیاد پر امیدوار کی دیانتداری پر حرف آتا ہے۔ اگر امیدوار تواریخ کے بیان میں غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس سے انٹرویو کرنے والوں میں شبہات پیدا ہونا لازمی ہیں۔ ایسے میں معاملہ ہاتھوں سے نکل جانے والی بات ہوتی ہے۔ امیدوار کا ایک کونے میں لگ جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ انٹرویو کار بھی راستی پر ہوتے ہیں۔ اک بادی النظر میں چھوٹی چھوٹی خامیاں بائیو ڈیٹا میں نظر آ جائیں تو کون جانتا ہے کہ تفصیل میں جانے سے کس قدر بڑی خامیاں اس کے اندر موجود پائی جائیں۔ انٹرویو کرنے والوں کے پاس مذکورہ دلیل بڑی وزنی ہوتی ہے۔ پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ امیدوار خواہ مرد ہو یا عورت۔۔۔۔ اسے اپنے سوانح (بائیو ڈیٹا) کے مندرجات کو بار بار دہراتے رہنا چاہیے۔ اس نیجو سکول تبدیل کیے ان کے نام، کون سے مضامین پڑھے، مضمون وار کتنے نمبر حاصل کیے۔ اگر ضرورت ہو تو جیتی ہوئی ٹرافیاں، سامنا کی گئی ناکامیاں وغیرہ وغیرہ کو بھی مکمل طور پر بیان کیا جائے۔ سکول کی سطح پر آ کر کسی شخص کو ایک جماعت میں دو سال رہنا پڑے یعنی وہ دسویں جماعت یا سیکنڈری امتحان سے پہلے کسی جماعت میں فیل ہو گیا ہو تو اس کا کہیں ریکارڈ نہ ہو گا یہ لکھا جائے گا کہ سیکنڈی سکول امتحان2000ء میں اور ہائر سیکنڈی امتحان2002ء میں دیا۔۔۔۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے سکول کی سطح پر کوئی وقفہ نہیں ہے۔ لیکن انٹرویو کار ماہر ہو سکتے ہیں: سوال: تم نے سب سے پہلے کون سی جماعت میں داخلہ لیا؟ جواب: جماعت اول سے پہلے بنیادی کلاس (کچی جماعت اول) میں۔ سوال: سال کون سا تھا؟ جواب:1998ء سوال: اس کا مطلب ہے آپ نے دسویں پاس کرنے میں بارہ سال صرف کیے جبکہ آپ کو گیارہ سال لینے چاہئیں تھے یہ کیسے ہوا۔ جواب: میں نویں جماعت میں پاس نہ ہو سکا۔ مجھے اس جماعت میں دو سال لگانے پڑے۔ میں اس جماعت کے لیے تھا بھی کم عمر۔۔۔۔ صرف13 سال کا۔ امیدوار نے صحیح جواب دیا ہے۔ انٹرویو کار مطمئن ہیں لہٰذا اس صورت حال سے کسی نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ جوابات مختصر ہونے چاہئیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ نامکمل ہوں یا نیم مردہ لہجے کا اظہار بھی کر رہے ہوں۔ سوال: اگر آپ کو یہاں ملازم رکھ لیا جاتا ہے تو آپ کی ملازمت کی پہلی جگہ سے فارغ ہونے کے لیے کتنے دن کا پیشگی نوٹس دینا ہو گا؟ جواب: پندرہ دن کا سوال: آج مہینے کا ساتواں دن ہے کیا آپ اگلے ماہ کی یکم تاریخ کو یہاں حاضر ہو سکتے ہیں؟ جواب: جی جناب۔ سوال: موجودہ ملازمت پر آپ کا آزمائشہ عرصہ کتنا تھا؟ جواب: تین ماہ۔ سوال: یہاں آپ کو آزمائشی عرصہ چھ ماہ ہو گا۔ جواب: جی جناب۔ سوال: کیا آپ اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں؟ جواب: ہاں سوال: کیا تمہارے پاس اپنا پاسپورٹ ہے؟ جواب: ہاں، جلد ہی مل جائے گا۔ سوال: تمہیں اپنی تقرری سے پہلے طبی معائنہ کرانا ہو گا۔ جواب: جی جناب۔ سوال: اگر تم نے کوئی کھیل کھیلا ہے تو کون سا؟ جوابـ: فٹ بال سوال: آپ کس پوزیشن پر کھیلتے رہے ہیں؟ جواب: ہاف بیک سوال: دائیں یا بائیں جواب: دائیں۔ سوال: اب آپ جا سکتے ہیں۔ اگر ضروری ہوا تو ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔ جواب: شکریہ جناب۔ فنی طور پر ہم امیدوار کو کوئی الزام نہیں دے سکتے۔ سوالات ہی ایسے تھے کہ ان کا جواب مختصر ہو سکتا تھا تاہم ایک لفظ تھا جسے امیدوار استعمال کر سکتا تھا۔’’ جناب‘‘ کا لفظ لگا کر وہ اپنے جواب کو نقص سے پاک کر سکتا تھا۔ اخلاقی تقاضا تھا کہ ان سوالات کے جوابات کو کم از کم معیاری زبان کا جامہ پہنایا جاتا کم از کم امیدوار اپنے جواب کو ایک فقرے کی شکل میں ادا کر سکتا تھا۔ مزید برآں’’ پندرہ دن‘‘ کی بجائے امیدوار کہہ سکتا تھا۔’’ ہماری کمپنی کے قوانین کے تحت15 دن کا نوٹس درکار ہے۔‘‘ اپنے اگلے جواب میں امیدوار نے جو نئی ملازمت پر اگلے ماہ کی یکم تاریخ کو حاضر ہونے کے متعلق’’ جی جناب‘‘ کہا ہے وہ ناکافی ہے۔ امیدوار کہہ سکتا تھا کہ ہاں جناب ایسا تب ہی ممکن ہوتا اگر میں اپنا استعفیٰ اس ماہ کی 5 تاریخ کو داخل کر دیتا۔ آزمائشی عرصے کے متعلق وہ کہہ سکتا تھا’’ جناب! میں نے تین ماہ کا آزمائشی عرصہ گزارا تھا۔‘‘ اس طریقے سے باقی معاملات میں بھی اس کے جوابات موزوں فقرات میں دیے جا سکتے تھے۔ جس طریقے سے اس نے جوابات دیے ان سے ظاہر ہوتاہے کہ اس نے جوابات دینے میں بہترین طریقہ اختیار نہیں کیا لہٰذا اس کے جواب اگر غیر مناسب نہیں تھے تو کم از کم کافی بھی شمار نہیں کیے جا سکتے۔ یہ سچ ہے کہ جب کسی مہارت کی بات آتی ہے تو صرف ماہر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ’’ہاں‘‘ یا ’’ نہ‘‘ میں جواب دے۔ وہ دوسرے جو کوئی مہارت نہیں رکھتے یا جن کے پاس صحیح علم نہیں ہے وہ ’’ ہاں‘‘ یا’’ نہ‘‘ میں اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ یہ کام کر لے گا؟ جواب: میرا خیال ہے کہ وہ یہ کام نہیں کر سکے گا کیونکہ اس میں کسی بھی کام کو کرنے کا جذبہ ہی نہیں ہے۔ سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ پل کام دے سکے گا؟ جواب: میرا خیال ہے کہ یہ مشکل ہے کہ پل اب کوئی کام دے سکے کیونکہ اس کے نیچے کی تمام آہنی میخیں بہت ہی پرانی ہو چکی ہیں۔ سوال: کیا تم کمپنی کی کارکردگی بڑھا سکتے ہو؟ جواب: ہاں سوال: کیسے؟ جواب: عدم کارگزاری کو ختم کر کے۔ سوال: کیا آپ کے ملک میں ایسی ٹیکنالوجی ہے؟ جواب: ابھی تو نہیں۔ سوال: کیوں نہیں؟ اگر مشینری درآمد کر لیں تو؟ جواب: پھر بھی ہمیں چھ ماہ کاریگروں کی تربیت کرنے میں لگ جائیں گے اور پھر وہ چھ ماہ کام کریں گے تو ہی کامیابی حاصل ہو گی۔ سوال: ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کیا کرتے ہیں؟ جواب: وہ کام کرتے ہیں، کھاتے ہیں، سوتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں لیکن۔۔۔۔ سوال: لیکن کیا۔۔۔۔۔؟ جواب: وہ آرام نہیں کرتے۔ کوئی بھی شخص اپنے کام میں ماہر ہو سکتا ہے لیکن کام کرنے کی مہارت اعلیٰ خوبیوں پر مبنی سوچ ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک شخص اچھا کاریگر ہو سکتا ہے لیکن جب تک وہ مشینوں سے بہترین طور پر کام لینے کے طریقے نہیں سوچتا اور اس کے اندر کام میں بہتر کارکردگی وغیرہ کر دکھانے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی تو اسی کا کام اور ٹیکنالوجی دونوں جلد ہی قدامت اختیار کر لیتے ہیں۔ لہٰذا اپنے کاروبار میں ہونے اور اعلیٰ سطح حاصل کرنے کے لیے ہر شخص کو اہم اصلاحات کے متعلق سوچنا چاہیے۔ اس سے امیدوار اپنے تصور کی اور پیش بینی کی نشوونما کرتا ہے نیز جدید اور ترقی یافتہ مستقبل کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ایسا امیدوار جو اپنی ذہنی نشوونما کے ساتھ کسی انٹرویو کا سامنا کرتا ہے تو وہ دوسروں سے لازمی طور پر بہتر کارکردگی دکھاتا ہے۔ سوال: کاروں کی صنعت کا مستقبل کیا ہے؟ جواب: کاروں کے بہت سے نئے ماڈل آ رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کاروں کے بہت سے خریدار موجود ہیں جو آئندہ چند سال میں تیار ہونے والی تمام کاروں کو خرید لیں گے۔ سوال: ان کاروں کے فالتو پرزے اور حصے (آٹو پارٹس) بنانے کی صنعت کا مستقبل کیا ہے؟ جواب: مستقبل قریب میں فالتو پرزے اور حصے بنانے کی صنعت کا مستقبل کافی روشن ہو گا۔ اس صنعت میں نئے ماڈلوں کی غیر ملکی کاروں وغیرہ کے حصوں اور پرزوں کی تصریحات اور ڈرائینگز سمجھنے میں تھوڑا سا وقت لگے گا۔ ہر سال ہی تھوڑی سا وقت نئے ماڈلوں سے واقفیت اور مطابقت پیدا کرنے میں لگتا ہے۔ سوال: کیا ہماری صنعت میں اتنی جان ہے کہ وہ کچھ کا کچھ بنی پر پیچ کاروں کے حصص تیار کر سکے؟ جواب: کیوں نہیں جناب! ہم اپنی چھوٹی سی فیکٹری میں تمام حصے بنا لیتے۔ ہاں ہمیں کچھ وقت ان حصوں کے رنگ و روپ کو اصل کے مطابق بنانے میں ضرور لگے گا۔ امیدوار جو نہ صرف ایک ماہر ہے بلکہ تصوراتی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے یقینا دوسرے امیدواروں سے اپنی کارکردگی میں بہتر رہے گا۔ سوال: آپ کا کیا خیال ہے کہ قومی یکجہتی ممکن ہے؟ جواب: جناب! یہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ یہ تو وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ نوجوان مرد اور عورتیں پورے ملک میں یکساں لباس پہنتے ہیں۔ وہ ایک ہی قسم کی فلمیں دیکھ رہے ہیں اور ایک ہی قسم کے گیت گا رہے ہیں اور بہت سے معاشروں میں ایک جیسی ہی خوراک کھا رہے ہیں۔ قومی یکجہتی عملی طور پر واقع ہو رہی ہے اور جلد ہی یہ مکمل صورت اختیار کر لے زیادہ سے زیادہ ایک اور نسل کا انتظار کرنا ہو گا۔ اگر امیدواروں کا زندگی سے متعلق رویہ مثبت ہو تو وہ لازمی طور پر جیتے ہیں۔ اگر آپ کسی چیز کی مسلسل امید کرتے رہیں لازمی طور پر اچھائی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ آپ کی توانائی اور لگن آپ کو انگیخت کرتی رہے گی اور آپ کی جوش ولولہ کی قوت دوسروں کو متحرک کرتی رہے گی۔ بہتر ہے کہ ایسی سرگرمی ہر طرف پیدا کی جائے بہ نسبت اس کے کہ منہ لٹکائے پھرتے رہیں جبکہ پیشانی پر منفی داغوں کی چھاپ ہو۔ کامیابی اور ناکامی کمر سے کمر ملائے رکھتی ہیں۔ کامیابی کیا ہے یہ ناکامی کی پشت ہے۔ ناکامیابی کیا ہے یہ کامیابی کی پشت ہے۔ ’’ مبارک ہو آپ منتخب ہو گئے۔‘‘ امیدوار اپنے بارے میں یہ سنتاہے۔ کیا وہ یہ سن کر چھلانگ لگائے گا، شور مچائے گا یا ناچے گا؟ ابھی تو چند معمولات باقی ہیں جن کا امیدوار کو سامنا کرنا ہے۔ آزمائشی عرصہ ہے اس کے بعد مستقل ہونا ہے۔ جوں جوں ہفتے اور مہینے گزرتے ہیں اس کا ذہنی دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ’’ افسوس! آپ منتخب نہیں ہو سکے۔‘‘ کیا امیدوار کو دکھ درد سے چیخنا اور چلانا چاہیے اور اپنی صحت برباد کر لینا چاہیے محض اس لیے کہ ایک موقعہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے! اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کئی بہتر مواقع اس کے منتظر ہوں۔ کوئی شخص کسی پیشے یا کاروبار میں ہوتا ہے لیکن سب سے بڑھ کر وہ ملک کا ایک شہری ہوتا ہے لہٰذا ملک کے معاملات اس کے معاملات بھی ہوتے ہیں۔ جب خدانخواستہ آفات ارضی و سماوی آ گھیرتی ہیں ۔ زلزلے آ لیتے ہیں۔ سیلاب آ گھیرتے ہیں تو وہ شہری کی حیثیت سے واقعات کے پیچھے پیچھے چلتاہے۔ انسان کی اپنی بنائی ہوئی بدراہیں بھی ہیں۔ جیسے دہشت گردی، طیاروں کا اغواء وغیرہ۔ ایک اچھے شہری کو علم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب الیکشن ہوں تو اسے ا س قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو بتا سکے کہ کون سی بڑی سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں۔ اسی طرح اسے سال کے سب سے بڑے اقتصادی واقعہ سے بھی دلچسپی ہونی چاہیے جس کا نام ’’ بجٹ‘‘ ہے۔ فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ بڑے بڑے کھیل ہیں۔ جب اپنے ملک کی ٹیمیں دوسرے ممالک کے مقابلے میں کھیل رہی ہوں تو پھر یہ قومی مسئلہ بن جاتا ہے۔ جو شخص بھی اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے اس کی توجہ کھیل سے دور نہیں رہ سکتی۔ علاوہ ازیں کچھ ایسے ہم وطن بھی ہیں جنہوں نے انفرادی کارکردگی میں کمال پیدا کر رکھا ہے جیسے سکوائش میں جہانگیر خان نے، کرکٹ میں عمران خان نے، موسیقی میں مرحوم نصرت فتح علی خان نے ایٹمی توانائی میں ڈاکٹر قدیر نے اور طب میں شہید حکیم سعید نے۔ یہ لوگ اور ایسے ہی کئی منفرد لوگ وطن کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ وطن کے ہر فرد کو ان عظیم ہستیوں کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ اسی طرح دنیا کی عظیم شخصیتیں ہیں، ممالک اور گروپ ہیں جو خبروں میں رہتے ہیں۔ سائنسی ترقیات ہیں، شہری ہوا بازی ہے اور ٹیلی کمیونیکیشن کی ٹیکنالوجیوں کی بھر مار ہے۔ ملک مختلف ساز و سامان کی درآمد اور برآمد میں مصروف ہے۔ یہ ساری معلومات وطن کے ہر فرد کے لیے ضروری ہیں۔ ایک پڑھے لکھے امیدوار ملازمت کے لیے تو یہ سب کچھ جاننا اور بھی ضروری ہے۔ تمام پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو متذکرہ خطوط پر اپنے معلومات عامہ کے پہلو کی تعمیر کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستانیوں کے علاوہ دیگر ممالک کے افراد کو بھی اپنی تاریخ، ملک کے مشہور شہروں، صوبوں، دریاؤں، پہاڑوں اور ملک کے حیوانات، نباتات اور جمادات وغیرہ کے بارے میں کیا علم ہونا چاہیے۔ ٭٭٭ چودہواں باب نمونے کے انٹرویو 1۔ ٹائپسٹ کی اسامی کے لیے انٹرویو انٹرویو کرنے والے کے لیے آئی (I) جبکہ امیدوار کے لیے سی(c) آئی: وہ کون سا مضمون تھا جسے آپ اپنی تعلیم کے دوران میں بہت زیادہ پسند کرتے ہیں؟ سی: انگریزی اور مقامی زبان۔ آئی: آپ کی مقامی زبان کون سی ہے؟ سی: جناب پنجابی۔ آئی: وارث شاہ کے علاوہ اور کون سا پنجابی شاعر ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں؟ سی: پسندیدہ شاعر تو کئی ہیں لیکن ان میں بڑا مقام بابا فرید گنج شکرؒ کا ہے۔ آئی: ان کی خصوصیات کیا ہیں؟ سی: آپ کی شاعری سوز و گداز اور سادگی سے لبریز ہے۔ آپ کے موضوعات دنیا کی بے ثباتی، ہجر و فراق کی کیفیات، اخلاقی اقدار کی شناخت اور قرآن کریم کی سچی تعلیمات ہیں۔ آئی: کیا آپ کے انگریزی میں ہجے اچھے ہیں؟ سی: جناب! میں ہجے کرنے میں اچھا ہی ہوں۔ آئی: کوئی کس طرح اپنے ہجے درست کر سکتا ہے؟ سی: وہ الفاظ میں واول حروف کی حالت (جگہ) یاد رکھے۔ میرا مطلب ہے کہ میں تو ایسا ہی کرتا ہوں۔ جب میں کسی نئے لفظ کا مطالعہ کرتا ہوں تو واولوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ کہاں کہاں آئے ہیں۔ آئی: یہ تو بہت خوب ہے۔ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ سی: میں نئے ناول پڑھنے سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ ٹی وی پر کرکٹ کا کھیل دیکھنا پسند کرتا ہوں یا پھر میں ریڈیو پر کرکٹ کے بارے میں رواں تبصرے بھی سنتا ہوں۔ آئی: دنیا کے حالات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور اسی طرح اپنے ملک کی معاشی اور سیاسی خبروں کے سلسلے میں آپ کا رویہ کیا ہے؟ کیا آپ روزانہ اخبارات پڑھتے ہیں؟ سی: جی ہاں! میں روزانہ اخبارات دیکھتا ہوں اور سیاسی نوعیت کی خبروں سے خصوصی رغبت رکھتا ہوں۔ آئی: ایک اچھے ٹائپسٹ میں کیا خوبیاں ہونا لازمی ہیں؟ سی: میرے خیال کے مطابق ایک ٹائپسٹ کو بہت سی معلومات کا خزانہ ہونا چاہیے اور اسے ہر قسم کا علم حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ اس سے اس کی ٹائپ کرنے کی خوبیاں بہتر ہوں گی۔ آئی: آپ کے نزدیک اچھا ٹائپ شدہ مواد کیسا ہونا چاہیے؟ سی: ایک عمدہ طور پر ٹائپ کیے ہوئے صفحے پر موزوں خالی جگہ چھوڑی گئی ہو، پیرا گراف بنائے گئے ہوں اور سطور کے مابین مناسب خلا ہو اور پورا صفحہ دیکھنے میں خوبصورت نظر آتا ہو۔ آئی: کیا آپ کمپیوٹر پر بھی کام کر سکتے ہیں؟ سی: جی ہاں جناب! میں کمپیوٹر پر خطوط اور دیگر معاملات بخوبی ٹائپ کر سکتا ہوں۔ 2۔ کلرک کی آسامی کے لیے انٹرویو آئی: آپ ایک امیدوار ہیں آپ کی خواہشات کیا ہیں؟ آپ کلرک ہی رہنا چاہتے ہیں یا آپ کے کوئی منصوبے آگے بڑھنے کے بھی ہیں؟ سی: میں اسٹینو گرافی سیکھ رہا ہوں جناب۔ آئی: تعلیم کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ مزید پڑھ بھی رہے ہیں؟ سی: جناب میرا ایسا کرنے کا ارادہ تو ہے۔ میں خط و کتابت کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا پسند کروں گا۔ آئی: یہ آپ کے لیے بہتر ہو گا کیونکہ اگر آپ کا انتخاب کر لیا گیا اور آپ نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا تو اس ادارے میں آپ کی مناسب ترقی ہو سکتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ہمارا ملازم جیسے جو بھرتی کیا گیا ہے وہ ہی رہے۔ سی: میں اپنے آپ کو بہتر بنانے کی بہترین کوشش کروں گا۔ آئی: ہم نے دیکھا ہے کہ آپ کا خطوط لکھنا اچھا ہے۔ آپ اس کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ سی: مجھے یقین ہے جناب! کہ میں خط و کتابت کا کام بہترین طور پر نبھا سکوں گا۔ آئی: زیادہ یقینی بھی نہ ہوں، کچھ فنی باتیں ہیں جنہیں جاننے کی آپ کو ضرورت ہے۔ سی: جی جناب۔ آئی: کیا آپ ٹائپ کرنا اور کمپیوٹر پر کام کرنا جانتے ہیں؟ سی: مجھے دونوں ہی کا کچھ علم ہے۔ میری ٹائپ کرنے کی رفتار اس وقت اچھی نہیں ہے۔ آئی: اگر آپ کو ہمارے ہاں ملازمت مل گئی تو آپ کو ٹائپنگ کی اہلیت اور کمپیوٹر سنبھالنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہو گا۔ یہ دونوں اہلیتیں آپ نے دفتر سے باہر حاصل کرنا ہوں گی نہ کہ یہاں دفتر میں سے۔ سی: جی جناب۔ 3۔ اسسٹنٹ کی اسامی کے لیے انٹرویو آئی: کیا آپ کو اسسٹنٹ کی اسامی کے کام کا کچھ علم ہے؟ سی: جناب! اسسٹنٹ کی اسامی کی ذمہ داریوں میں خط و کتابت، ٹائپنگ، فون کالز، ملاقاتیوں سے بات چیت کرنا اور تقرریاں/تبادلے وغیرہ شامل ہیں۔ آئی: آپ نے کچھ کچھ درست کہا ہے۔ آپ کو کچھ خصوصی مواقع پر ہمارے ٹائپسٹ کی غیر حاضری میں ہنگامی طور پر ٹائپ کا کام کرنا پڑ سکتا ہے ویسے عام طور پر آپ کو ٹائپ نہیں کرنا ہو گی۔ بے شک ایسا آپ کے انتخاب کے بعد ہی ہو گا۔ سی: جی جناب۔ آئی: ہمارے دفتر میں اسسٹنٹ زیادہ تر اپنے افسر یعنی اپنے باس کی کام کاج میں مدد کرتا ہے۔ اسے ایسی باتوں کا علم ہونا چاہیے جو التواء میںپڑی ہیں اور کون سی داخل دفتر کی جا چکی ہیں۔ سی: جی جناب۔ آئی: آپ نے پہلے ہی لکھا ہے کہ آپ ہمارے کمپیوٹر کو سنبھال لیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معلومات کو جمع کرنے اور ان کی ضرورت کے وقت تشہیر کرنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہے گی۔ سی: ہاں جناب! کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ آئی: تاہم ہم آپ کی معلومات عامہ کی گہرائی سے مطمئن نہیں ہیں بالخصوص ائیر لائنوں کے علم وغیرہ سے، ممکن ہے آپ کی انگریزی کی تحریر بہتر ہو۔ سی: میں جتنی جلدی ہو سکا یہ جملہ ضروری معلومات حاصل کر لوں گا۔ آئی: خوب! اس لمحے ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے لیے یہ موقع اچھا ہے لیکن یہ ابھی تک یقینی نہیں ہے۔ سی: جناب! یہ میری عزت افزائی ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آئی: اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو ایک ہفتے کے اندر اندر آپ کو اطلاع مل جائے گی۔ کیا ہمارے پاس آپ کا فون نمبر رابطے کے لیے ہے؟ سی: جی ہاں فون نمبر موجود ہے۔ ایک بار آپ کا پھر شکریہ۔ آئی: خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔ خدا حافظ سی: خدا حافظ، جناب 4۔ سپروائزر کی اسامی کے لیے انٹرویو آئی: ہمیں آپ کی درخواست سے یہ علم ہوا کہ آپ ہماری فیکٹری کی قسم کی فیکٹری میں کام کرتے رہے ہیں لیکن وہ فیکٹری ہماری فیکٹری کی نسبت سے کہیں چھوٹی تھی۔ سی: ہاں جناب وہ ایک چھوٹی سطح کی فیکٹری تھی۔ آئی: ہماری فیکٹری میں طریقہ کار ذرا مختلف ہے۔ ہماری اشیاء بنانے کی قطار مختلف اکائیوں پر مشتمل ہے۔ سی: جی جناب۔ آئی: اگر آپ کا انتخاب ہوا تو آپ ایک اکائی کے انچارج ہوں گے جس میں4یا 5 مشینیں ہوں گی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کی سپروائزری کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟ سی: جناب! میرے خیال میں یہ دیکھنا میری ذمہ داری ہو گی کہ پیداوار میں کوئی رکاوٹ تو نہیں اور اس کا معیار بھی درست ہے۔ آئی: آپ کا اندازہ درست ہی ہے لیکن آپ کو بہت زیادہ محتاط ہونا پڑے گا۔ پیداوار کا کوئی ناقص جزو پڑتال کے بغیر آگے نہیں جانا چاہیے۔ سی: جناب میں زیادہ سے زیادہ محتاط رہوں گا۔ آئی: اس کے بعد آپ کا ماتحت کارکنوں کے ساتھ باہمی رد عمل کیسا ہو گا؟ سی: جناب میں اپنا مزاج ٹھنڈا رکھتا ہوں۔ اپنی موجودہ ملازمت پرمیری کارکنوں سے یا دوسرے عملے سے کبھی تلخی نہیں ہوئی۔ آئی: مشینوں پر کام کرنے والے کارکن جب یہ دیکھتے ہیں کہ آپ بھی اتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنی وہ کرتے ہیں پھر ان سے جو آپ کہیں گے وہ وہی کریں گے۔ سی: جناب! میں یہ خوب سمجھتا ہوں۔ بلکہ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میں ان سے زیادہ مصروف رہوں گا اور جو کچھ تیار ہو گا اس کے ہر جزو کی پڑتال کروں گا۔ آئی: آج کی بات تمائی ہوئی۔ سی: شکریہ جناب آئی: ہاں ایک بات اور۔۔۔۔ اگر آپ کا انتخاب کر لیا جاتا ہے تو آپ ہمارے ہاں کب حاضر ہوں گے؟ سی: مجھے ایک ماہ پیشگی اطلاع دینا ہو گی۔ آئی: اچھا۔ خدا حافظ سی: خدا حافظ جناب۔ 5۔ الیکٹریشن کی ملازمت کے لیے انٹرویو آئی: ہماری فیکٹری چھوٹی سی ہے لیکن ہم بجلی کی سپلائی میں کسی قسم کی گڑ بڑ نہیں چاہتے۔ سی: جی جناب۔ آئی: ہم نے فیکٹری کے احاطے میں ایک جنریٹر لگایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ اس کو رواں رکھ سکتے ہیں؟ سی: ہاں جناب، میں ایسا کر سکتا ہوں۔ میں اس کا مکمل جائزہ لوں گا۔ آئی: ابھی آپ کو فیکٹری کا چکر لگوایا جائے گا اور ہم فورمین سے رپورٹ حاصل کریں گے۔ یہ ایک عام سا انٹرویو ہو گا۔ اگر آپ کا انتخاب ہو گیا تو آپ شفٹوں میں کام کریں گے مجھے امید ہے کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ سی: نہیں جناب! میں اپنی پہلی ملازمت میں پہلے ہی شفٹوں پر کام کر رہا ہوں۔ آئی: اگر آپ رات کی شفٹ میں آئے تو آپ کو زیادہ محتاط ہونا پڑے گا۔ کیونکہ بعض اوقات کام رات کو بھی جاری رہتا ہے اور آپ ہی اکیلے بجلی کے پہلو کے انچارج ہوں گے۔ کیا آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکیں گے۔ سی: ہاں جناب میں ایسا کر سکوں گا۔ میں ایسا ہی کر رہا ہوں۔ اگرچہ اس وقت میں جہاں ہوں وہاں فیکٹری کے احاطے میں لگایا گیا کوئی جنریٹرنہیں ہے۔ آئی: آپ الیکٹریشن کیسے بنے؟ آپ نے کسی پرائیویٹ تربیت گاہ کا نام لکھا ہے لیکن آپ نے کوئی سرٹیفکیٹ ساتھ منسلک نہیں کیا۔ سی: میں نے وہ تربیت گاہ چھوڑ دی اور ملازمت کر لی۔ پھر میں نے اپنے کام کی تربیت ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر کی۔ آئی: بہت خوب! آپ کو اچھا تجربہ ہے اور سرٹیفکیٹس بھی آپ کے حق میںبولتے ہیں۔ اب ہم فیکٹری سے رپورٹ کا انتظار کرتے ہیں۔ سی: بہت اچھا جناب۔ آئی: اب آپ جا سکتے ہیں۔ ہمارا ڈرائیور آپ کو فیکٹری تک لے جائے گا۔ سی: شکریہ جناب۔ 6۔ میزبان کی اسامی کے لیے انٹرویو (امیدوار خاتون ہے) آئی: آپ ایک ٹائپسٹ ہیں اور آپ فون باکس کا استعمال بھی جانتی ہیں۔ کیا آپ کمپیوٹر پر بھی کام کر سکتی ہیں؟ سی: میں نے کمپیوٹر پر بھی کام کیا ہے لیکن اس پر مناسب طور پر کام کرنے کے لیے مجھے کچھ مشق درکار ہو گی۔ آئی: آپ کا زندگی کا مقصد کیا ہے کیا آپ اسی کام کو جاری رکھیں گی یا پھر کسی اور سمت چلی جائیں گی۔ سی: میں درس و تدریس میں جانا چاہوں گی۔ تاہم درس و تدریس کے بعد میں خاتون میزبان کی اسامی کی رنگا رنگ ذمہ داریوں میں بھی کشش محسوس کرتی ہوں۔ آئی: گویا آپ خاتون میزبان کی ملازمت کو بھی پسند کرتی ہیں۔ آپ کے خیال میں ایک میزبان کو کیا کچھ حاصل کرنا چاہیے۔ سی: جناب افسوس ہے کہ میں آپ کے سوال کو نہیں سمجھی۔ آئی: آپ جانتی ہیں کہ ہم سب ہی کچھ نہ کچھ حاصل کرنا پسند کرتے ہیں۔ بطور ایک میزبان آپ کے کام کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ جسے آپ کہہ سکیں کہ آپ نے کچھ حاصل کیا ہے؟ سی: میں آپ کی بات بہترین طور پر پا گئی ہوں جناب! سب سے پہلے میںجو حاصل کرنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ میں کسی کو اپنے کام کے خلاف شکایت کرنے کا موقع نہ دوں۔ آئی: ہاں! اس کے علاوہ کچھ اور سی: دوسرے نمبر پر دفتر میں کام یا ملاقات کے لیے آنے والے افراد کو اپنے دفتر کی بہترین تصویر پیش کروں تاکہ وہ ہمارے دفتر کے لیے اپنے دلوں میں عزت محسوس کریں اور پھر دفتر کی میزبان خاتون جو دفتر کے کاؤنٹر پر لوگوں کا سامنا کر رہی ہے، کی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں۔ آئی: آپ نے اپنے کام کے بارے میں اچھا خیال پیش کیا ہے۔ سی: جناب! میں چاہتی ہوں کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ ایک میزبان کی اسامی کس قدر اہم ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایک اہل میزبان اپنے دفتر کو اور اپنے پیشے کے وقار کو بلند رکھ سکتی ہے۔ آئی: بہت خوب میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک دن کیلئے میزبان کے طور پر کام کرنے دوں تاکہ میں دیکھ سکوں کہ آپ کے الفاظ اور آپ کا کام باہم مطابقت رکھتے ہیں۔ سی: شکریہ جناب! آپ مجھے کام پر کب لگائیں گے؟ آئی: آپ یہ کیوں پوچھتی ہیں؟ سی: مجھے، جہاں میں کام کرتی ہوں، وہاں سے ایک یوم کی رخصت حاصل کرنا ہو گی۔ آئی: آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو مطلع کر دیں گے۔ سی: آپ کا شکریہ جناب۔ 7۔ فضائی میزبان (ائیر ہوسٹس) کے لیے انٹرویو آئی: مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی خدمات کی شرائط سے آگاہ ہوں گی؟ سی: ہاں جناب! آپ کے دفتر نے انٹرویو کے لیے بھیجے گئے خط کے ساتھ قواعد و ضوابط پر مبنی پرچہ بھی بھیجا۔ آئی: ہاں! ہمارے ہاں ائیر ہوسٹس کی شادی وغیرہ کے حوالے سے قوانین ذرا سخت ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے معاملے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ سی: نہیں جناب!میں آپ کے قوانین کی پابندی کرنے کو تیار ہوں۔ آئی: کیا آپ نے پہلے کہیں ہوائی سفر کیا ہے؟ سی: ہاں جناب! ایک مرتبہ میں یہاں سے دبئی گئی تھی۔ آئی: آپ ایک بہترین ائیر ہوسٹس کی الفاظ میں تصویر کیسے پیش کریں گی؟ سی: ایک ائیر ہوسٹس کو ہر لمحہ ہنس مکھ، چاک و چوبند اوردوسروں کی مدد کرنے پر آمادہ ہونا چاہیے۔ آئی: کوئی اور بات؟ سی: میرایقین ہے جناب کہ ایک ائیر ہوسٹس فضائی سفر خوشگوار اور پسندیدہ بنا سکتی ہے۔ آئی: اس مسافر کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں جو پہلی مرتبہ ہوائی سفر کر رہا ہو؟ سی: اگر ائیر ہوسٹس کسی ایسے شخص کی شناخت کر لے تو میرا خیال ہے ائیر ہوسٹس کو اس کی ذرا زیادہ پرواہ کرنی چاہیے اور اسے کھانا کھانے یا مشروب پینے کی تربیت ننھی سی مسکراہٹ کے ساتھ دینی چاہیے۔ اس سے مسافر کا اعتماد بحال ہو گا اور وہ اپنے آپ کو ان جانی فضا میں محسوس نہیں کرے گا۔ آئی: لیکن پہلی پرواز کرنے والا مسافر ہی کیوں؟ سی: کیونکہ یہی مسافرہو گا جو اپنی پرواز کے بارے میں بار بار دوسروں سے بات کرے گا اور جب وہ ائیر ہوسٹس کی مشفقانہ خدمات کا ذکر کرے گا تو یہ ائیر لائن کے حق میں مثبت مشتہری ہو گی۔ آئی: تم نے یہ بڑے پتے کی بات کی۔ سی: میں حقیقتاً ایسے ہی کردار کی تلاش میں ہوں۔ آئی: تمہارا شکریہ! ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ سی: آپ کا شکریہ جناب (’’ آپ کا شکریہ‘‘ کے جواب میں’’ آپ کو خوش آمدید‘‘ یا صرف ’’ خوش آمدید‘‘ کہنا ایک رسمی بات ہے۔ لیکن کسی انٹرویو کے اختتام پر انٹرویو کار کے ’’ آپ کا شکریہ‘‘ کے جواب میں ’’ آپ کا شکریہ‘‘ ہی کہنا مناسب رہتا ہے۔) 8۔ اسسٹنٹ منیجر کی اسامی کے لیے انٹرویو آئی: آپ اب اپنی موجودہ ملازمت پر سینئر ایگزیکٹو ہیں۔ بعض اداروں میں سینئر ایگزیکٹو اسسٹنٹ منیجر بلکہ منیجر سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ آپ کے ادارے میں اس عہدے کی صورت حال کیا ہے؟ سی: ہمارے ادارے میں سینئر ایگزیکٹو منیجر سے کم تر ہوتا ہے اور اس کا درجہ سینئر آفس سپرنٹنڈنٹ کے برابر ہوتا ہے۔ آئی: اس کا مطلب ہے کہ آپ ہی کاروباری خطوط پر دستخط کرتے ہیں، باہر کمپنی کی نمائندگی کرتے ہیں اور عام کاروبار کو پھیلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سی: آپ بالکل صحیح سمجھے ہیں۔ آئی: کیا آپ کے پاس کمپنی کی طرف سے ٹھیکے دینے کا اختیار بھی ہے؟ سی: نہیں جناب! ایسا صرف منیجنگ ڈائریکٹر ہی کرتا ہے۔ آئی: ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ایک اہل اور تجربہ کار اسسٹنٹ منیجر کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ہر معاملہ اسسٹنٹ منیجر کے پاس آتا ہے۔ تمام چھوٹے چھوٹے فیصلے وہ کرتا ہے۔ اور معاملات کو نمٹاتا ہے۔ صرف چند معاملات میں اسے منیجر کی ہدایات لینا پڑتی ہیں۔ تاہم وہ ہر ہفتے اپنی رپورٹ منیجر کو پیش کرتا ہے تاکہ منیجر کو علم ہو کہ اس نے کون کون سا معاملہ نمٹایا اور باقی معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ اگر ہم آپ کو ادھر لے لیتے ہیں تو آپ کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟ 9۔ سیلز آفیسر کی اسامی کے لیے انٹرویو آئی: آپ کے کاغذات نے ہمیں بتایا کہ آپ پانچ سال سے زیادہ عرصہ فروخت کے کاروبار میں رہے ہیں۔ سی: ہاں جناب، تقریباً چھ سال۔ آئی: اس دوران میں آپ کو اپنے مال کو بیچنے میں کون کون سی بڑی دشواریاں پیش آئیں۔ سی: لوگ معیاری لحاظ سے ثابت شدہ اقسام کی اشیاء کو پسند کرتے ہیں اور نئی قسم اشیاء کو خریدنے میں مزاحم ہوتے ہیں۔ آئی: لیکن نئی اقسام کی اشیاء آہستہ آہستہ اپنی مارکیٹ بنا ہی لیتی ہیں اور پرانی اقسام کی اشیاء نکال باہر کی جاتی ہیں۔ سی: ایسا زبردست اشتہار بازی سے کیا جاتا ہے۔ نئے مال کے نمونے دروازہ بہ دروازہ لے جا کر مفت تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ نئی نسل کے خریدار شاید نئی اقسام کو ترجیح دیں۔ آئی: مال کی فروخت بڑھانے کے کیا طریقے ہیں؟ سی: اچھے فروخت کنندگان کا انتخاب کیا جائے ایک اچھا فروخت کار (سیلز مین) مال کی نئی پیداوار کو فروخت کر لیتا ہے۔ آئی: گویا آپ کا مطلب یہ ہے کہ اگر اچھے سیلزمینوں پر مشتمل ٹیم ہو گی تو تب ہی آپ مال کی فروخت بڑھا سکتے ہیں۔ سی: یہ طریقہ پرانے نمونوں کے مال کے نکاس کاایک عنصر ہے۔ پرانی اقسام کے مال کو نکالنے کے لیے موسموں پر مبنی رعایات دی جاتی ہیں۔ مال کی خریداری کے ساتھ ساتھ مفت تحفوں کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ آئی: ہم حقیقتاً نئے نمونوں کے مال کو متعارف کرانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ مال کے پرانے نمونوں کی فروخت گر رہی ہوتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سیلز منیجر اپنے سیلز افسروں اور سیلز مینوں کی ٹیم مل کر فروخت کی مضبوط حکمت عملی تیار کریں۔ سی: جناب میں اپنی بہترین کوشش کروں گا کہ میں اپنے تجربات کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے تیار کردہ مال کی فروخت کو بڑھاؤں۔ آئی: یہ ایک ابتدائی نوعیت کا انٹرویو ہے ہم ابھی تک نئی حکمت عملی وضع کرنے کے مرحلے میں ہیں اگر ہم آپ کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں تو ہم آپ کو پھر اطلاع دیں گے۔ سی: جناب جیسے آپ کی مرضی! میں اسی میں خوش ہوں۔ آئی: ایک آخری سوال! سی: فرمائیے جناب؟ آئی: آپ نے کہا اگر درست قسم کے سیلزمینوں کا انتخاب کیا گیا، کیا آپ جانتے ہیں، کہ اس قسم سیلزمینوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟ سی: جناب! میرا خیال ہے کہ میں درست انتخاب کے بارے میں جانتا ہوں۔ ان کو مارکیٹ میں بھیج کر ان کی کارکردگی کا امتحان لیا جا سکتا ہے۔ آئی: آپ کا بہت بہت شکریہ! سی: آپ کا بھی شکریہ جناب! 10۔ پاکستان کی انتظامیہ اور فارن سروس کے لیے انٹرویو آئی: آپ معاشیات میں ایم اے ہیں کیا آپ کہیں گے کہ پاکستانی معیشت آگے بڑھ جانے والے مرحلے میں ہے۔ سی: ہاں جناب پاکستانی معیشت اس مقام پر پہنچ چکی ہے۔ آئی: وہ کون سی علامات ہیں جن سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے؟ سی: ملک کے صنعتی پہلو میں تیزی آئی ہے، افراط زر میں کمی ہوئی ہے، زر مبادلہ کے محفوظ ذخائر بڑھ گئے ہیں جبکہ خوردنی اجناس کے ذخائر میں بھی ضرورت سے زیادہ موجود ہیں۔ آئی: توناائی حاصل کرنے اور مواصلات کے ذرائع کی تنصیبات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ سی: گورنمنٹ نے ان تنصیبات کے دروازے پرائیویٹ سیکٹر خواہ وہ ملکی ہو یا غیر ملکی، پر کھول دیئے ہیں دونوں کی تنصیبات کی نشوونما ہوئی ہے لہٰذا جلد ہی ان کے مزید فروغ کی توقع کی جاتی ہے۔ آئی: ملکی سیاسیات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے سیاسی ڈھانچہ کی تبدیلی سے معاشی ترقی متاثر ہو گی؟ سی: جناب یہ میرا خیال نہیں۔ معیشت نے ا یک اپنی توانائی پیدا کر لی ہے۔ کوئی بھی نئی حکومت ہو، اسے معیشت کی رفتار اور ترقی کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ آئی: آپ کا کیا خیال ہے کہ ملک کے خارجہ تعلقات درست خطوط پر چل رہے ہیں؟ سی: ہاں جناب ہمارے ملک نے ترقی یافتہ، ترقی پذیر اورنئے صنعتی ممالک کے ساتھ متوازن تعاون کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ آئی: آزاد ممالک کی دولت مشترکہ میں وطن عزیز کی شمولیت سے مثبت معیشت کے امکانات کیسے ہیں؟ سی: آزاد ممالک کی دولت مشترکہ سابقہ روسی یونین کے اجزاء پر مشتمل ہے۔ ان ممالک کو خود معیشت کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہمارا ملک تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون سے ان کی نمایاں خدمات کر سکتا ہے۔ آئی: فرض کریں آپ کو کسی ملک کی بین الاقوامی امور کے ماہر کے طور پر تعینات کیا جانا درکار ہے ان ممالک میں امریکہ، جاپان اور چین شامل ہیں آپ کس ملک کو ترجیح دیں گے؟ سی: میں کسی ملک کو بھی ترجیح نہیں دوں گا جناب! میں اس ملک میں چلا جاؤں گا جس ملک میں مجھے بھیجا جائے گا۔ ایک بین الاقوامی تعلقات کے ماہر کا فرض اورکام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اور اس ملک جہاں اسے تعینات کیا گیا ہے، کے باہمی تعلقات بہتر بنائے اور بڑھائے لہٰذا میں تو یہی کروں گا کہ اپنے ملک کے تعلقات کا پروپیگنڈا اس ملک میں کروں گا جہاں مجھے بھیجا جائے گا۔ آئی: کسی ضلع کا چیف افسر کسی قدرتی آفت، جیسے سیلاب اور زلزلہ وغیرہ جو اس کے ضلع میں آیا ہو اور جس سے سخت جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہو۔ وہ وہاں کون سے اقدامات کرے گا۔ سی: قدرتی طور پر آنے والی آفت جس میں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہوں، جہاں جانی اور مالی قسم کے زبردست نقصانات ہوئے ہوں وہاں چیف افسر کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کے یقین کو بحال کرے اور جو افراتفری پھیلی ہوئی ہے اس کو سنبھالے، اس کام میں لوگوں کا تعاون بڑا ضروری ہے۔ متاثرہ لوگوں کی خوراک، ان کے لیے چھت مہیا کرنا اور ان کی صحت کا تحفظ نہایت اہم کام ہیں۔ ان پر مختلف اوقات میں مختلف شفٹوں پر مبنی ٹیموں کا انتظام کیا جائے گا۔ آئی: کیا آپ گاف کھیلتے ہیں؟ سی: جناب میں ٹینس کھیلتا ہوں اور گاف سیکھنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ آئی: جب آپ گورنمنٹ میں ہوں اور لوگ گورنمنٹ کے کاموں پر تنقید کر رہے ہوں تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ سی: جناب! گورنمنٹ (حکومت) لوگوں اور قوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ میرا یہ فرض ہو گا کہ میں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا رہوں ۔ جہاں تک غلط کاموں کا تعلق ہے، وہاں تمام کاموں میں اچھے نقاط بھی ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وکیل لوگ زندہ ہی نہ رہتے۔ مجھے ہر عمل میں سے اچھے نقاط اخذ کرنا ہوں گے اور ان سے معقولیت پھیلانا ہو گی۔ غلطی کی اصلاح کرنا ہو گی۔ آئی: آپ کے نظریات کا شکریہ۔ سی: جناب آپ کو بھی شکریہ، مجھے اپنے نظریات کو پیش کرنے کا موقع دے کر آپ نے میری عزت افزائی کی ہے۔ 11۔ پاکستان کی انتظامیہ اور فارن سروس کے لیے خواتین کے انٹرویو آئی: آپ سائنس کی طالبہ رہی ہیں اور آپ کے تمام نتائج شاندار ہیں، پھر آپ میڈیکل یا انجینئرنگ کی طرف کیوں نہیں گئیں؟ سی: میں نے ہمیشہ ہی پیشہ ورانہ مستقبل پر انتظامی خدمات کو ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں یہاں جناب کے ہاں پیش ہوں۔ آئی: اگر آپ کسی علاقے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تعینات ہوجائیں تو کیا آپ کو ان ذمہ داریوں کا علم ہے جو آپ کے کندھوں پر آ پڑیں گی۔ سی: ہاں جناب میں ان ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور میں ان ذمہ داریوں کو ادا کر کے خوشی محسوس کروں گی۔ آئی: ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے آپ کا مقام کیا ہو گا؟ آپ خود کولوگوں سے علیحدہ رکھیں گی یا پھر ان سے اخلاقی میل جول رکھیں گی۔ سی: میرے خیال میں مجھے لوگوں سے کچھ فاصلہ ہی رکھنا چاہیے تاکہ لوگ مجھے ایک با اختیار فرد سمجھیں نہ کہ صرف ایک جاندار شے۔ آئی: اگر آپ کی تعیناتی کسی غیر ملک میں کی گئی تو آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ پاکستان میں ٹورازم کی نشوونما کریں؟ سی: ہاں جناب پاکستانی ٹورازم کی نشوونما اور فروغ پاکستانیت پر مبنی ثقافتی شامیں منا کر یا نمائشیں لگا کر اور غیر لوگوں کو پاکستانی کھانوں کی عورتیں دے کر کی جا سکتی ہے اور میں ایسا ہی کروں گی۔ ٭٭٭ پندرہواں باب انٹرویو کی ضروریات واقفیت عامہ واقفیت عامہ یا جنرل نالج میں تاریخ، جغرافیہ، سائنس، ادب، تہذیب اور کھیل وغیرہ سب شامل ہیں۔ گھریلو سیاسی منظر، معاشی حالات اور ایسے ہی غیر ممالک میں ہونے والے واقعات، بڑے بڑے حادثات، عظیم تباہیاں، ایجادات وغیرہ بھی امیدوار کی واقفیت عامہ کے زمرے میں شامل ہیں۔ فہم و ادراک امیدوار کو زود فہمی کی عادات حاصل کرنا چاہئیں۔ اگر امیدوار کی قوت ادراک دھیمی ہے تو پھریہ ایسی معذوری ہے جس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر تین یا چار دوست آپس میں سوالات و جوابات کا کھیل کھیلنا شروع کر دیں جس میں جواب دینے والا دوست تیز ترین جواب دے تو اس کھیل سے دوستوں میں زود فہمی اور قوت ادراک کی نشوونما ہو گی جس سے تمام دوستوں کا بھلا ہو گا۔ اختصار امیدوار کے جوابات مختصر اور سوالات میں اٹھائے گئے نقاط کے مطابق ہونے چاہئیں۔ جواب اگر سوال کے مرکزی نقطے کے حوالے سے دیا جائے اور پھر اس کی وضاحت اگر کوئی ہو تو کی جائے۔ اگر یہ پوچھا جائے ’’ پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟‘‘ تو جواب یہ ہونا چاہیے ’’ تقریباً پندرہ کروڑ‘‘ اس کے بعد اس طرح وضاحت کرتے ہوئے بتایا جائے کہ 1991ء کی مردم شماری میں ملک کی آبادی تقریباً بارہ کروڑ تھی۔ ہر سال مرکب شرح سے آبادی2.2 فیصد بڑھتی رہی اور نتیجے کے طور پر 1997ء میں تیرہ کروڑ ہو گئی۔ اب 2001ء میں پندرہ کروڑ ہو چکی ہے۔ لچک اس لچک سے مراد وہ ذہنی جھکاؤ ہے جو ہمیں ایک شے سے دوسری شے کی طرف راغب کرتا ہے۔ ہمارے دماغ کو تو آسانی سے ایک سوال سے دوسرے سوال کی سمت آ جانا چاہیے۔ دماغی طور پر تیز فہمی کی مشقیں کرنا اسی لیے اہم ہیں۔ ٭ برصغیر میں آخری وائسرائے کون تھا؟ ٭ لاہور میں شاہی قلعے کی تعمیر کب ہوئی؟ ٭ شاہراہ ریشم کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے؟ ٭ پاکستان میں انتہائی گرمی کہاں پڑتی ہے؟ ٭ پاکستان کے صوبے کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں؟ ٭ بھارت میں واقع قطب مینا رکی اونچائی کتنی ہے؟ امیدوار کا ذہن کسی ایک موضوع سے دوسرے موضوع تک آسانی سے جا سکتا ہے۔ اگر امیدوار مشق کرے تو اس کا دماغ آسانی سے ایک سوال سے دوسرے سوال کی سمت منعطف ہو سکتا ہے۔ اصلیت اصلیت سے مراد دماغ کا وہ اثر ہے جو اس کے خود مختارانہ کام کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ امیدوار جب زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتا ہے تو وہ طوطے کی طرح رٹا لگا کر یاد نہیں کرتا بلکہ وہ دماغ سے کام کرنے دیتا ہے۔ وہ اس کو مختلف زاویوں سے سوچتا ہے۔ وہ ہر معاملے پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتا ہے اور اس کے اچھے اور برے پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے نتائج نکالتا اور خود مختارانہ فیصلے کرتا ہے۔ چہرے کا اتار چڑھاؤ امیدوار کو کبھی بھی ذہنی طور پر پریشان اور اکھڑا اکھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس سے کوئی پریشان کرنے والا سوال پوچھ لیا جاتا ہے ایسے میں اسے اپنے چہرے کو متغیر نہیں کرنا چاہیے۔ اسے اپنے چہرے کے تاثر کو تبدیل بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اسے اپنے جوش و ولولہ کو مائل بہ شکست نہیں ہونے دینا چاہیے۔ وہ ہمیشہ ہی درست نہیں ہو سکتا کیونکہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔ اس کا اپنا رویہ بھی خطا کاروں کا سا ہونا چاہیے لیکن اس رویے سے اس کے انٹرویو کاروں کو کسی شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ ’’ آپ اب لندن کا وقت نہیں جانتے، آپ نے جواب بالکل ہی غلط دیا ہے۔‘‘ انٹرویو کار بیزاری سے کہتا ہے۔’’ مجھے افسوس ہے جناب! لندن کا وقت جاننے کے لیے میں نے اپنے وقت میں پانچ گھنٹے جمع کر دیئے حالانکہ مجھے نفی کرنا تھے۔‘‘ امیدوار چستی سے کہتا ہے۔ شخصیت شخصیت بہت سے رویوں جیسے لہجے کی نرمی، شائستگی، حیا، متانت، اعتماد، کشش، سنجیدگی اور مزاج کی حس وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ شخصیت اپنا انعکاس فرد کے بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، بات چیت کرنے، چہرے کے اتار چڑھاؤ اور اپنے چھوٹے بڑے کاموں وغیرہ سے کرتی ہے۔ شخصیت اور شخصی خوبصورتی دو مختلف قدریں ہیں۔ ایک شخصیت رکھنے والا شخص خوبصورت ہو سکتا ہے لیکن ایک خوبصورت شخص اپنی شخصیت کی مثبت اقدار سے عاری بھی ہو سکتا ہے۔ ایک امیدوار کو منفی تاثرات سے بچنا چاہیے جن سے مندرجہ ذیل منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ افسردگی امیدوار کی ظاہری شکل و صورت کو خوش کن تاثر سے لبریز ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں پر اپنا پہلا تاثر ہی مثبت نقش کرے۔ اگر وہ پہلا تاثر ہی غمگین شکل و صورت کا چھوڑتا ہے۔ اس کا انٹرویو کے کمرے میں آنا ایسا ہو گا جیسا کہ اس نے انٹرویو کاروں کے سروں پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیا ہے۔ امیدوار کو یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اسے غم کو چہرے سے دھو ڈالنا چاہیے اس کو اپنا ظاہر خوش اور پر امید رکھنا چاہیے۔ مایوسی مایوسی کا منفی منظر یا رویہ آہستہ آہستہ امیدوار کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے امیدوار واقعی پریشان ہو تو انٹرویو کے کمرے میں بھی یہ پریشانی غم و اندوہ کی صورت میں اس کے چہرے پر دیکھی جا سکے گی۔ جب تک امیدوار انٹرویو کے کمرے میں ہے تب تک اسے شکست کے آثار کو اپنے چہرے پر نہیں آنے دینا چاہیے۔ اسے اس غم زدہ تاثر کو امیدوار کی ناکامی کا سبب نہیں بننے دینا ہو گا۔ اسے اپنی امید کو زندہ رکھنا ہو گا اور انٹرویو کاروں کے سامنے اپنے آپ کو بہترین اور روشن ترین پیکر میں پیش کرنا ہو گا۔ جھوٹ کہا جاتاہے کہ ایک جھوٹ دوسرے جھوٹ کی راہنمائی کرتا ہے۔ امیدوار کو اپنی کمزوریاں جھوٹ کے لبادے میں نہیں چھپانا ہوں گی۔ انٹرویو سے پہلے اسے انٹرویو کاروں کی نظر سے اپنی خوبیوں اور اپنے نقائص کا جائزہ لینا ہو گا۔ انٹرویو کے کمرے میں اگر اس سے اس کی خامی کے متعلق اچانک ہی پوچھ لیا جائے جیسے سکول کی زندگی میں ایک سال کے وقفے کی صورت حال آپ پڑھ ہی چکے ہیں تو امیدوار کو فوراً تسلیم کرتے ہوئے بتانا چاہیے کہ وہ ایک سال فلاں جماعت کا امتحان پاس نہ کر سکا تھا۔ اس سے خامیاں کریدنے کا رحجان وہاں اسی وقت ختم ہو جائے گا۔ گھبراہٹ امیدوار کو کبھی کبھار کسی نہ کسی طریقے سے گھبراہٹ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بعض اوقات انٹرویو کار محض یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امیدوار کا رد عمل کسی خراب صورت حال میں کیا ہوتا ہے۔ اس کی کسی معذوری ہی کا ذکر کر دیا جاتا ہے یا پھر اس کو اپنے مرتبے میں بڑے کی طرف سے سرزنش کا واقعہ یاد دلایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر امیدوار ایک یاد وبار یہ کہتا ہے۔’’ میں نہیں سمجھا جناب‘‘ تو انٹرویو کار اچانک اس کے مقابلے پر اتر آتا ہے اور پوچھتا ہے۔’’ کیا تم کانوں سے کچھ کچھ بہرے ہو‘‘ یا’’ تم سوال کا جواب دینے میں اتنا وقت کیوں لگاتے ہو؟ کیا ہم نے سارا دن تمہارے انٹرویو کے لیے وقف کر رکھا ہے۔‘‘ ایسے مواقع پر امیدوار کو خاموشی سے سرزنش سن کر ہار مان لینا چاہیے بلکہ اسے کچھ نہ کچھ کہنا چاہیے۔’’ مجھے افسوس ہے جناب! میں مزید متوجہ رہوں گا۔‘‘ ٭٭٭ انٹرویو کے اسباق مندرجہ ذیل مشقیں امیدواران کو یہ بتانے کے لیے جمع کی گئی ہیں کہ انٹرویو کے کمرے میں انہیں آداب اور معاشرت کی کون سی سطح پر رہنا فائدہ مند رہے گا۔ امیدوار کو صحیح جوابات سے اپنے منتخب جوابات ملا کر اپنا نتیجہ معلوم کرنا چاہیے۔ ان اسباق کے بہترین استعمال کے لیے امیدوار کو ان سوالات کے جوابات پہلے سے نہیں دیکھنا چاہئیں بلکہ ان پر خوب غور و خوض کرنا چاہیے۔ اسے جوابات کو ایک علیحدہ کاغذ پر لکھنا چاہیے اور پھر اپنے جوابات کی پڑتال آخر میں دیئے گئے جوابات سے کرنا چاہیے۔ 1۔ انٹرویو کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے امیدوار کو چاہیے کہ وہ الف۔ سیدھا کمرے میں جائے۔ ب۔ ہلکی سی دستک کے بعد کمرے میں گھسے۔ ج۔ زور سے دستک دے کر کمرے میں گھسے۔ د۔ تین معقول دستکوں کے بعد کمرے میں داخل ہو۔ 2۔ امیدوار کو ’’ گڈ مارننگ‘‘ یا ’’ گڈ آفٹر نون‘‘ جناب کہنا چاہیے۔ الف۔ اندر داخل ہوتے وقت ب۔ اپنی کرسی پر بیٹھ کر ج۔ انٹرویو کاروں کی خوش آمدید کے جواب میں 3۔ میز پر پہنچتے ہی امیدوار کو چاہیے کہ وہ الف۔ اپنے ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھائے ب۔ اپنے ہاتھ آگے نہ بڑھائے ج۔ اس وقت ہاتھ آگے بڑھائے جب انٹرویو کار اپنے ہاتھ امیدوار سے مصافحے کے لیے بڑھائے۔ 4۔ امیدوار کے لیے مخصوص کرسی تک پہنچنے کے بعد امیدوار کو چاہیے کہ الف۔ فوراً کرسی پر بیٹھ جائے ب۔ کرسی کے قریب کھڑا ہو جائے ج۔ کرسی پر اس وقت بیٹھے جب اسے کہا جائے۔ 5۔ اگر امیدوار کی سمت تین یا چار کرسیاں پڑی ہوں تو امیدوار کو الف۔ پہلے نمبر پر پڑی کرسی پر بیٹھ جانا چاہیے۔ ب۔ انٹرویو کاروں سے دور پڑی کرسی پر بیٹھ جانا چاہیے ج۔ اس کرسی پر بیٹھ جانا چاہیے جو انٹرویو کاروں کے چیئرمین کے عین سامنے پڑی ہو۔ 6۔ امیدوار کو کہنا چاہیے’’ معاف کیجئے گا‘‘ الف۔ بہت زیادہ مرتبہ ب۔ ایک یا دو مرتبہ ج۔ ایک دفعہ بھی نہیں 7۔ جب ایک امیدوار کسی سوال کا جواب نہ دے سکے تو اسے چاہیے کہ الف۔ اندازے سے جواب دے ب۔ ایک غیر یقینی جواب ہی دے دے۔ ج۔ ایک گول سا جواب دے دے د۔ ’’ میں نہیں جانتا‘‘ کہہ دے۔ 8۔ جب امیدوار کو جواب مکمل طور پر معلوم ہو تو اسے چاہیے کہ الف۔ سوال کا جواب فوراً دے۔ ب۔ ایک لمبے وقفے کے بعد جواب دے۔ ج۔ معمولی سا وقفہ کرے اور تیزی سے نہیں بلکہ ٹھیک ٹھیک جواب دے۔ 9۔ جب امیدوار ایک سوال کا جواب جانتا ہو اور اس کی وضاحت بھی کر سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ الف۔ تفصیلات میں جا کر جواب لمبا کر دے ب۔ سوال کے جواب کو مختصر کرے۔ ج۔ مناسب طور پر مختصر کرے 10۔ جب امیدوار کو سوال کا پہلا یا آخری حصہ سمجھ نہ آئے تو اسے چاہیے کہ الف۔ وہ ایسا ظاہر کرے کہ وہ سوال سمجھ گیا ہے۔ ب۔ وہ کہے ’’ معافی چاہتا ہوں‘‘ تاکہ سوال دہرایا جائے۔ ج۔ وہ کہے کہ معاف کیجئے گا جناب۔ میں سوال کا پہلا/آخری حصہ نہیں سمجھ سکا۔ 11۔ جب امیدوار سوال کا جواب دے رہا ہو تو اسے۔۔۔۔۔ الف۔ صرف سوال کرنے والے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ب۔ سوال کرنے والے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ ج۔ باری باری تمام انٹرویو کرنے والوں کی طرف دیکھنا چاہیے۔ 12۔ امیدوار کو اپنی کرسی۔۔۔۔ بیٹھنا چاہیے۔ الف۔ سیدھا ب۔ جھک کر ج۔ پشت سے ٹیک لگا کر 13۔ جب امیدوار بیٹھا ہوا ہو تو اس کے ہاتھ۔۔۔۔ الف۔ اس کی گود میں ہونے چاہئیں۔ ب۔ تالی کی صورت میں کھل اور بند ہو رہے ہوں۔ ج۔ ایک صورت سے دوسری صورت میں رکھے جا رہے ہوں۔ 14۔ سوالات کے دوران اگر وقفہ یا خاموشی ہو جائے تو امیدوار کو چاہیے کہی الف۔ خاموشی سے بیٹھا رہے۔ ب۔ اضطراری حرکات کرے۔ ج۔ سر کو ایک طرف سے دوسری طرف حرکت دے۔ 15۔ جب امیدوار سوالات کے جوابات دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ الف۔ اپنے ہاتھوں کو آزادی سے حرکت دے۔ ب۔ اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر حرکت نہ دے۔ ج۔ اپنے ہاتھوں کو ہلائے ہی نہیں اور اگر ہلانا ہی ہو تو خفیف سی حرکت سے ہلائے۔ 16۔ انٹرویو کے اختتام پر امیدوار مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھائے یا نہ بڑھائے الف۔ اپنے ارادے سے مصافحے کے لیے ہاتھ ہرگز نہ بڑھائے۔ ب۔ جب انٹرویو کار خود مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو تب امیدوار بھی ہاتھ بڑھائے۔ 17۔ امیدوار کو انٹرویو ختم ہونے پر چاہیے کہ الف۔ کھڑا ہو، گھومے اور انٹرویو کے کمرے سے باہر نکل جائے۔ ب ۔ کھڑا ہو، تعظیم کے لیے اپنے سر کو وقار سے ذرا سا جھکائے اور کمرے سے باہر نکل جائے۔ 18۔ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے بعد امیدوار کو چاہیے کہ الف۔ آہستہ سے دروازے کو بند کر دے۔ ب۔ دروازے کو زو ر سے بند کر دے۔ ج۔ دروازے کو قطعی بند نہ کرے۔ جوابات 1۔ د (تین دستکوں کے بعد) 2۔ الف 3۔ ج 4۔ ج 5۔ ج 6۔ بہتر ج ہے لیکن ب بھی ہو سکتا ہے۔ 7۔ د 8۔ ج 9۔ ج 10۔ ج 11۔ الف 12۔ الف 13۔ الف 14۔ الف 15۔ بہتر تو ج ہے لیکن ب بھی ہو سکتا ہے۔ 16۔ الف 17۔ ب 18۔ الف اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End