جوآپ چاہتے ہیں بن سکتے ہیں ترجمہ پروفیسر اعجاز احمد محمود تعارف۔۔۔۔’’ یہ عین ممکن ہے‘‘ انسٹھ سال کی عمر کا ایک موٹا تازہ شخص جس کا وزن بہت زیادہ ہے۔ اس نے کبھی کھیل کود میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ورزش اور کسرت کی ہے اور وہ اپنی اصل عمر سے کہیں بڑا لگتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہی شخص لمبی دوڑ کے مقابلہ میں ایسی جیت حاصل کرے کہ پہلے تمام ریکارڈ ٹوٹ جائیں؟ ہائی سکول میں زیرتعلیم ایک لڑکی جو سائنس کے مضامین میں بے حد کمزور ہے اور وہ کیمسٹری میں ڈی گریڈ سے زیادہ نمبر نہیں لیتی ہے۔ کیا اسی لڑکی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جب کالج جائے تو سب سے مشکل مضمون آرگینک کیمسٹری (نامیاتی کیمیا) میں اس قدر اچھے نمبر حاصل کرے کہ کالج بھر میں اول آ جائے؟ ایک بچہ جو ذہنی اور اعصابی لحاظ سے مفلوج ہو چکا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ نارمل طریقے سے چلنا سیکھ جائے؟ ہائی سکول کا ایک نالائق طالب علم جسے نکما پن کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا بھر میں ایک معروف دماغی سرجن بن جائے؟ ایک افریقی نیگرو یتیم لڑکا جسے معاشرے نے دھتکار دیا ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مشہور کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر بن جائے؟ لوگوں کی اکثریت، خاص طور پر وہ لوگ جو منفی انداز سے سوچنے کے عادی ہیں، وہ کہیں گے کہ مندرجہ بالا توقعات قطعی طور پر ’’ ناممکن ‘‘ ہیں۔ لیکن میں ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو یہ کہہ دیں گے کہ ہاں ایسا ضرور ممکن ہے، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو معجزانہ طور پر اپنی زندگی میں تعمیری تبدیلیاں لا کر اپنے تمام مقصد بہترین انداز میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اب آپ بیس سالہ ایک لڑکی کے بارے میں سوچئے: یہ لڑکی سپینش زبان بولتی ہے۔ جب یہ لاس اینجلز میں آتی ہے تو اس کی جیب میں صرف سات ڈالر ہوتے ہیں۔ یہ خاص انداز سے محنت کرتی ہے۔ چار سو ڈالر بچا بچا کر جمع کرتی ہے۔ قیمے کے نان بنانے اور فروخت کرنے کا کاروبار شروع کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ ترقی کرتی جاتی ہے۔ اپنے اسی کاروبار کو لاکھوں ڈالر کی آمدنی تک لے جاتی ہے۔ بالآخر وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ فنانشل سیکرٹری بن جاتی ہے۔ آپ بتائیے کیا یہ ممکن ہے؟ ہاں، ایسا ہوا ہے، یہ ایک سچا تاریخی واقعہ ہے۔ اس خاتون کا نام رومانہ بینی اولوس (Roma Banuelos) ہے۔ کیا ایک ایسے شخص کے لیے خوشی اور مسرت کی جستجو کارگر ہو سکتی ہے جس کا کوئی عزیز ترین رشتہ دار، جو جان و دل سے بھی پیارا ہو اور زندگی کا واحد سہارا ہو، ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ جائے؟ یہ سانحہ ایک عورت کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جس نے روتے اور چیختے ہوئے یہ کہا تھا: ’’ میرا شوہر مر گیا ہے، میں بھی مر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ لیکن بعد میں اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: ’’ ہاں اس وقت میرے سامنے امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی تھی اور میرے جینے کی خواہش اور رمق بھی ختم ہو گئی تھی کہ خدا نے معجزانہ طور پر مجھے نئی زندگی شروع کرنے کی ہمت عطا کی۔‘‘ یہ بات ممتاز خاتون ڈورس ڈے (Doris Day) نے کہی تھی۔ جس نے واقعی زند گی کی شرعات بالکل نئے انداز اور تازہ حوصلے سے کی۔ اپنے خوابوں کو اب پھر سے تازہ کیجئے آپ پہلے ان سوالات کا جواب دیں: ۱۔ کیا آپ نے کبھی خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ آپ کے پاس مرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں؟ ۲۔ کیا آپ کوئی ایک پیشہ اپناتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں، دوسرا شعبہ اختیار کرتے ہیں اور اس میں ناکامی ہو جاتی ہے اور تیسرے پیشے میں بھی اسی طرح ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ اس پوری کاوش اور نامرادی سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آپ کے خیالات، توقعات اور امیدیں ہی غیر حقیقی اور مایوسانہ ہیں؟ ۳۔ کیا آپ انتہائی مایوس ہیں، حوصلہ چھوڑ بیٹھے ہیں او رہمت ہار بیٹھے ہیں؟ ۴۔ کیا آپ اپنی موجودہ حیثیت سے انتہائی غیر مطمئن ہیں؟ ۵۔ کیا آپ کامیابی کے حصول کے لیے کی جانے والی ہر سعی اور کوشش سے مایوس ہو چکے ہیں؟ اگر آپ کے ان تمام سوالات کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں ہے تو اس انتہائی مایوسانہ کیفیت کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے آپ پھر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دیں: ۱۔ کیا آپ آج کی نسبت زیادہ بہتر، زیادہ کامیاب، زیادہ خوبصورت، زیادہ مطمئن اور زیادہ خوشحال ہونا چاہتے ہیں؟ ۲۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کس طرح آپ کی ذات میں ضروری عجز و انکساری کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی اور تفاخر کا احساس اجاگر ہو سکتا ہے؟ اب اگر آپ ’’ ہاں‘‘ کہتے ہیں تو بہت خوب! آپ پھر سے خواب دیکھنا شروع کر دیجئے پھر سے بڑی بڑی امیدیں باندھنا اور توقعات کرنا شروع کر دیجئے اور پھر سے اپنے خیالات اور تصورات کو بلند پرواز دیجئے کہ ’’ یہ سب کچھ آپ کے لیے عین ممکن ہے‘‘ آپ واقعی وہ بن سکتے ہیں جو آپ نے ہمیشہ سے اپنے متعلق سوچ رکھا ہے۔ آپ فوراً یہ سوال کریں گے کہ ’’ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ آپ کی ان خوابوں، توقعات اور امیدوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے: ۱۔ ایک کلید (چابی/کنجی) موجود ہے۔ ۲۔ ایک قیمتی راز موجود ہے۔ ۳۔ ایک یقینی طریقہ موجود ہے اور یہ کلید، راز اور طریقہ ’’ ممکن سوچ (Possibility Thinking)‘‘ ہے جس کی روح بنیاد کا نعرہ ہے ’’ یہ عین ممکن ہے‘‘ کچھ لوگ اس زبردست قوت کو ’’ یقین‘‘ اور بعض لوگ اسے ’’ ایمان‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ حضرت یسوع مسیحؑ نے کہا تھا: ’’ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان اور یقین ہے تو تم پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتے ہو اور تب تمہارے لیے کوئی امر بھی ناممکن نہیں رہے گا۔‘‘ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ’’ ممکناتی سوچ‘‘ کی یہ قوت کس طرح فعالیت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ جب کوئی شخص اس قوت پر ایمان لانا اور یقین کرنا شروع کر دیتا ہے تو اس کے لیے مطلوبہ امور: ۱۔ کسی نہ کسی طریق سے ۲۔ کسی نہ کسی جگہ پر ۳۔ کسی نہ کسی دن کو ضرور ’’ ممکن‘‘ ہو جاتے ہیں۔ یہ ممکناتی سوچ زبردست جادوئی اثر کے ساتھ تین طرح کے معجزے دکھاتی ہے: ۱۔ موقع شناس دماغ خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔ ۲۔ مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھنے والے دماغی خلیے معرض وجود میں آ جاتے ہیں۔ ۳۔ قوت فیصلہ پر مبنی توانائی اپنے پورے کیمیائی عمل کے ساتھ۔ ہمارے جسم کے خون میں زبردست تحریک پیدا کر دیتی ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس قوت میں واقعی صلاحیت موجود ہے اگر آپ پورے خلوص، یقین اور مستعدی کے ساتھ اس پر عمل کریں گے تو یہ حیرت انگیز نتائج اور اثرات پیدا کرے گی۔ میں آپ کو ایک سیڑھی پیش کرتا ہوں آپ کے سامنے ایک نظر نہ آنے والی سیڑھی موجود ہے۔ یہ سیڑھی بلند اور بہت بلند چڑھتی چلی جاتی ہے۔ آپ اس سیڑھی پر پہلا قدم رکھیے۔ آپ اپنے ہاتھ اس سیڑھی کے ڈنڈوں پر رکھیے اور اپنا دایاں پاؤں پہلے قدم پر جما دیجئے۔ ہاں، بہت خوب آپ نے پہلا قدم سیڑھی پر رکھ کر اوپر چڑھنے کا آغاز کر دیا ہے۔ آپ اس آغاز کا مطلب یہ لیں کہ آپ اب یقینی طور پر وہ شخص بن جائیں گے جو آپ بننا چاہتے ہیں۔ آپ جس قدر اونچا چڑھتے جائیں گے، اسی قدر بلند آپ کی نگاہ ہو گی، ارادے بلند ہوں گے۔ آپ کے اندر خود اعتمادی کی قوت سرایت ہونی شروع ہو جائے گی۔ اس سیڑھی کی بلند چوٹی پر ناقابل یقین حیرانیاں آپ کی منتظر ہیں۔ آپ آج ہی اس حیرت انگیز آغاز کی شروعات کر دیں او رآپ اپنے خوابوں، توقعات اور امیدوں کو حقیقت میں بدل ڈالیں۔ یا آپ اس شخص کی مانند بن جائیے جو خدا سے گڑگڑا کر یہ دعا کر رہا ہے کہ یا الٰہی مجھے اس عذاب سے بچا کہ میں اپنی آنکھوں سے بار بار یہ منظر دیکھوں کہ بڑے بڑے سنہری مواقع میری زندگی میں آئے اور ہر بار میں نے ان مواقع کو محض اس لیے ضائع کر دیا کہ میرے اندر ان کے حصول کی سعی کرنے کے لیے حوصلہ، ایمان اور یقین نہیں تھا۔ اس وقت آپ کا شعوری ذہن اس مثبت، تعمیری اور انقلابی سوچ کے سامنے بند اور پشتے کی صورت میں کھڑا ہے جہاں ناقابل تصور کامیابیوں، کامرانیوں، فتوحات، ترقی کے مراحل اور ممکنات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ اس بند اور پشتے میں ایک ہلکا سا سوراخ کر دیں۔ تخلیقی آمد و رفت کو رستہ مل جائے گا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ ممکناتی سوچ کو آزماتے ہی ترقیات کا سلسلہ آپ کے لیے کس قدر مبارک آغاز ثابت ہو گا۔ ٭٭٭ ۱ آپ وہ شخص بن سکتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں کیا آپ بعض اوقات یہ سوچ کر انتہائی مایوس ہو جاتے ہیں کہ آپ کو جو مقام، مقاصد یا کامیابی حاصل کر لینا چاہیے تھی وہ ابھی تک حاصل نہیں کی؟ کیا آپ واضح طور پر مشاہدہ کر رہے ہیں کہ آپ سے کم صلاحیتوں، استعدادوں اور قابلیتوں کے لوگ زندگی کی دوڑ میں آپ سے کہیں آگے نکل گئے ہیں؟ کیا آپ کو یہ شدید احساس بے قرار اور بے چین نہیں کر دیتا کہ آپ کو موجودہ حالات کی نسبت بہت بہتر، کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنی چاہیے تھی؟ کیا آپ یہ سوچ کر حیران اور پریشان نہیں ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ’’ ہر شعبہ میں مجھے ناکامی حاصل ہو رہی ہے اور مجھے میری کوشش کا کوئی ثمر حاصل نہیں ہو رہا ہے؟‘‘ آپ خود ہی غور کریں اور خوب سوچیں کہ آخر ’’ خرابی کیا ہے؟‘‘ ۱۔ کہاں آپ سے غلطی، خامی اور کوتاہی ہوئی ہے؟ ۲۔ کسی بھی مقصد کے حصول میں آپ کی ناکامی کا الزام کسے دیا جائے؟ ۳۔ اگر آپ کے خوابوں کا گلا گھونٹا گیا ہے، اگر آپ کی امنگیں، امیدیں اور توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں، اگر آپ کے ارمانوں کا خون ہوا ہے تو آخر اس کا ’’ قاتل‘‘ کون ہے؟ ۴۔ اس بات میں کس کا قصور ہے کہ آپ نے تیز تر ترقی، بہترین کامیابی اور قابل ذکر خوشحالی اب تک کیوں حاصل نہیں کی؟ آپ کیسے شروعات کریں؟ اس مقصد کے حصول کے لیے کہ آپ وہ شخص کیسے بن سکتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں، آپ کو شروعات کیسے کرنی چاہیے؟ اس ضمن میں آپ کو سب سے پہلے جو کام کرنا ہے ، وہ یہ ہے: ۱۔ آپ ان منفی قوتوں کا تجزیہ کریں جن کے باعث آپ ہر میدان عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ۲۔ اپنے جمود (ایک ہی جگہ پر کھڑے رہنے کی حالت) کی وجوہات تلاش کریں۔ ۳۔ آپ صحیح صحیح جائزہ لے کر ان عناصر کی نشاندہی کریں، جنہیں مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے تاکہ پہلے ان امور کی اصلاح کی جا سکے۔ کیا آپ نے کبھی یہ کھیل کھیلا ہے:’’ آؤ ہم بدمعاش کو ڈھونڈ نکالیں؟‘‘ اس کھیل کا مرکزی خیال یہ ہوتا ہے کہ بہت سے کھلاڑیوں میں سے اس ایک کھلاڑی کی نشاندہی کرنی مقصود ہوتی ہے جو گڑ بڑ کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کی تربیت اس نظریہ کے حق میں ہوئی ہے کہ ہمارے معاشرے کی خرابی کا ذمہ دار ہم میں سے ہی کوئی ایسا ہے: ’’جس کا مذہب، نسل، ذات، رنگ کوئی خاص ہے‘‘ تو آپ آج ہی اس نظریہ کے ضمن میں اپنی اصلاح کر لیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کر لیں۔ آپ یہ مت سوچیں کہ آپ محض اس وجہ سے ناکام رہ گئے ہیں کہ آپ کی قوم اور ذات پست درجے کی ہے، آپ کا رنگ میلا ہے یا آپ کسی اقلیتی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دنیا میں ایسے ہزاروں لوگوں نے تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جنہیں زبردست مذہبی، قومی، نسلی تعصب اور مخالفت کا شدید سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہاں، آپ اور کوشش کریں، ممکن ہے آپ کی نظر میں ’’ سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کا قصور ہو کہ اس کے باعث آپ ہر شعبہ میں ناکام ہو جاتے ہوں۔ لیکن، صاحب! ایسا بھی نہیں ہے۔ آپ کی ناکامیوں میں سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی دخل اور قصور نہیں ہے۔ یہ نظام کئی نمایاں خامیوں کے باوجود آزادانہ کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ آپ کی قسمت میں جو متواتر ناکامیوں کا سلسلہ آپ کو ہر شعبہ میں نامراد رکھتا ہے جو عنصر ضرور آپ کی خاندانی وراثت کی کوئی منفی خاصیت ہے۔ یعنی آپ نسلی لحاظ سے ہی بدقسمت او رمنحوس ہیں۔ آپ کا یہ خیال بھی ناقص بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ آپ کسی بھی قوم، ذات اور نسل سے تعلق رکھتے ہوں، بحیثیت انسان آپ کے دماغ میں کئی اربوں اور کھربوں دماغی خلیوں کی متحرک توانائی موجود ہے۔ قدرت نے آپ کو یہ ایک ایسا حیرت انگیز آلہ عطا کر رکھا ہے کہ اگر ایک انجینئر حساب لگائے تو کئی ایکڑ وہ رقبہ بنتا ہے جہاں ہزاروں کمپیوٹر سما سکتے ہیں۔ پھر آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ آپ کے ملک کا نظام حکومت ہی اس قدر ناقص ہے کہ اس نے آپ کو حسب خواہش اوپر ابھرنے نہیں دیا اور ہر شعبہ زندگی میں ناکام کر دیا ہے۔ آپ کی سوچ کا یہ پہلو بھی خاصا افسوسناک ہے بلکہ حقائق سے ماورا سرا سر ایک منفی انداز فکر ہے۔ آپ کے اپنے ملک میں ہزاروں لاکھوں افراد ایسے موجود ہیں جو غیر مساعد ملکی حالات، سیاسی کشمکش، ریاستی بد امنی اور بد انتظامی کے باوجود اپنے مقاصد حیات میں نہایت کامران و کامیاب ہیں بلکہ دوسروں کے لیے ان کی فتوحات قابل رشک ہیں۔ آپ سوچئے، مزید سوچئے کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جن کو آپ بجا طور پر اپنی مسلسل ناکامی کا الزام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ اس وقت تک حقیقی مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آپ صحیح طور پر اس ’’ عنصر‘‘ کو تلاش نہ کر لیں جو آپ کی متواتر شکست کا موجب اور باعث ہے۔ آپ اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کریں: جب دوسرے لوگ جو میری نسبت زیادہ مشکل حالات اور زیادہ پیچیدہ کیفیات میں مبتلا ہونے کے باوجود بدستور ترقی کی منازل طے کرتے چلے جا رہے ہیں تو ’’ میں کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘ درحقیقت بات یہ ہے جو آپ کے لئے انتہائی قابل غور ہے اور جو تمام بحث اور تفصیلات کا نچوڑ، خلاصہ اور حاصل ہے وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کی حقیقی دشمن اور مخالف قوت ’’ ناممکناتی سوچ (Impossibility Thinking)‘‘ ہے اور اس لحاظ سے ہر ناکام شخص وہ ہے جو منفی فکر یعنی ناممکناتی سوچ رکھتا ہے۔ اس نا ممکناتی سوچ کا حامل وہ شخص ہے جو ۱۔ ہر آئیڈیا ۲۔ ہر پراجیکٹ ۳۔ ہر منصوبہ ۴۔ ہر ادارہ ۵۔ ہر تنظیم ۶۔ ہر روایت، طریقہ/نظام اور ہر فرد کو غلط تصور کرتے ہوئے اس کو بروئے کار لانے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس وہ شخص جو مثبت انداز فکر یعنی ’’ ممکناتی سوچ‘‘ رکھتا ہے۔ وہ مندرجہ بالا عناصر کی حدود کمال اور اعلیٰ معیار پر اصرار کرنے کی پابندیوں سے یکسر آزاد ہو کر یہ سوچتا ہے: ’’ فرض کیا کہ یہ تمام آئیڈیاز، منصوبے، ادارے، تنظیمیں، روایات، نظام وغیرہ سب غلط ہیں اور ناقص ہیں، لیکن کہیں نہ کہیں ان میں کوئی خوبی، اچھائی اور مثبت پہلو ضرور موجود ہو گا۔‘‘ تب مثبت سوچ رکھنے والا یہ شخص ہر عنصر حیات میں سے ’’ اچھا اور مفید پہلو‘‘ کشید کر لیتا ہے اور اس کو بروقت اور بطریق احسن بروئے کار لاتے ہوئے قدم بہ قدم کامیابیاں حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ غور کرتا رہتا ہے کہ ان عناصر میں سے ’’ مفید پہلوؤں‘‘ کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟ وہ عناصر میں سے ’’ ممکنات کے ضروری اجزائ‘‘ کو تلاش کر کے انہیں مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ میں اس ضروری عمل کو ’’ تطہیری استعمال/تقدیری اطلاق Sanctified Explotationکا نام دیتا ہوں‘‘ مثبت اندا ز فکر اور ’’ ممکناتی سوچ‘‘ رکھنے والا شخص مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہوتا ہے: وہ کسی آئیڈیا کو رد نہیں کرتا جس میں قابل عمل ہونے کی صلاحیت موجود ہو۔ وہ کسی ایسے منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے پہلے اس کے مختلف پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرتا ہے جس کو بروئے کار لانے میں خاصے مسائل درپیش ہوتے ہوں۔ وہ اپنے ذہن میں آنے والے آئیڈیاز پر عمل کرنے سے پہلے انہیں قابل عمل بنانے کے لیے ان میں ضروری ترمیم، اصلاح، تبدیلی اور اضافہ کرتا رہتا ہے تاکہ موقع اور مقصد کے لحاظ سے اس آئیڈیا سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ تخلیقی عمل اس وقت شروعات کے قابل سمجھا جاتا ہے جب ’’ ممکناتی سوچ‘‘ کا حامل شخص اس وقت کسی مثبت آئیڈیا میں مستور مشکلات اور مسائل کو چیلنج کرتا ہے، جبکہ دوسرے لوگ اسے ناممکن قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی بات کو آسان اور دلچسپ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ کوئی باپ اپنے خوبصورت بچے کو جو بارش کے دنوں میں کیچڑ اور گندے پانی سے آلودہ ہو گیا ہے، گھر سے باہر گلی میں پھینک نہیں دیتا، بلکہ اسے بہتر طریق سے نہلا دھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنا کر پیارا بنا دیتا ہے اور اس سے چھوٹے چھوٹے کام بھی لیتا ہے۔ ممکناتی سوچ رکھنے والا یہ شخص، البتہ اس آئیڈیا یا منصوبے کو رد کرنے میں تاخیر سے کام نہیں لیتا جو اخلاقی، مذہبی، ملکی، معاشرتی اور انسانی قدروں کے سرا سر خلاف ہو۔ آپ خوب یاد رکھئے کہ آپ خود اپنی ذات، وجود اور تشخص پر ظلم اور غداری کر رہے ہوں گے جب آپ اپنے ذہن میں آنے والے کسی عمدہ، نفیس اور مفید خیال یا آئیڈیا کو منفی افکار کا جامہ پہنا کر رد کر دیتے ہیں۔ اس نازک لمحہ کے وقت آپ اس غیر ذمہ دارانہ عمل کے ذریعے اپنے آپ سے سخت دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت آپ خود ہی اپنے ذہن میں ایسے منفی خیالات کو جنم دے رہے ہوتے ہیں جو: ۱۔ آپ کی ترقی شناس خوابوں کو تباہ کرتے ہیں۔ ۲۔ زندگی میں بہترین مواقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتے ہیں۔ ۳۔ آپ کی متوقع کامیابیوں کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ اس تمام روئے زمین پر صرف ایک ہی وہ شخص ہے، ہاں واحد شخص جو آپ کی خوابوں کو قتل کر دینے کے فیصلہ کی توثیق کرنے کا اختیار اور قوت رکھتا ہے، اور وہ شخص صرف آپ کی اپنی ہی ذات ہے۔ آپ اپنے خوابوں کو کچل دینے کی راہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں جب آپ: ۱۔ امیدیں باندھنا ترک کر دیتے ہیں اور خواب دیکھنا بند کر دیتے ہیں۔ ۲۔ جدوجہد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۳۔ حوصلہ پست کرتے اور ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ آپ کے ذہن کا بند پنجرہ آپ اس وقت حقیقی طور پر جینا شروع کریں گے جب اپنی خوابیدہ صلاحیتوں، قابلیتوں اور استعدادوں کو بیدار کریں گے اور انہیں بہت سی خود ساختہ پابندیوں اور قید سے آزاد کریں گے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں ’’ شیر کا پنجرا (Tiger Cage) ‘‘ سے کیا مراد ہے۔ ویت نام کی تنازعاتی کشمکش کے دوران ایک تجربہ کار سپاہی نے ہمہ تن گوش سامعین کے سامنے اس سوال ’’ ٹائیگر کیج کیا ہوتا ہے؟‘‘ کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’ میں خود ویت نام جنگ کے دوران چار سال تک جنگی قیدی رہا تھا۔ مجھے ویت کانگ ٹائیگر کیج کے اندر بند کر کے رکھا گیا تھا کیونکہ جنوبی ویت میں کمیونسٹ گوریلے جنگلوں میں مسلسل پیش قدمی کر رہے تھے وہ اپنے جنگی قیدیوں کو ایک جگہ پر معین کیمپ جیلوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی سفری جیلوں میں بند رکھتے تھے تاکہ بوقت ضرورت انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی منتقل کیا جا سکے۔ یہ تھی وہ وجہ اور ضرورت، جس کی بناء پر ٹائیگر کیج ایجاد کیا گیا۔ یہ پنجرہ مضبوط بانسی چھڑیوں سے تیار کیا جاتا تھا۔ یہ ایک تنگ جیل ہوتی تھی جس کی لمبائی قریباً پانچ فٹ اور چوڑائی چار فٹ ہوتی تھی۔ یہ سفری جیل اس قدر چھوٹی اور تنگ ہوتی تھی کہ ایک قد آور امریکی قیدی اس میں سکڑ کر اور جھک کر اپنے آپ کو بڑی سے سماتا تھا۔ کئی قیدیوں کو اسی پنجرہ نما سفری جیلوں میں سالوں تک رہنا پڑتا تھا۔ ہر صورت میں چھ سال تک تو ضرور رہنا ہوتا تھا۔ امریکی جنگی قیدی ان پنجروں میں ٹیڑھے میڑھے، اکڑوں، سکڑے، سہمے، جھکے، پھنسے رہتے تھے۔ وہ کسی رخ بھی اپنے جسم کو سیدھا نہیں کر پاتے تھے۔‘‘ اس کے بعد اس ماہر سپاہی نے مسامعین کو یہ بھی بتایا کہ وہ کس طرح وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا: ’’ ایک رات کو وہ اپنے اس بانسی پنجرہ کی ایک چھڑی کے سرے کو اپنے جوڑ سے سرکانے، ہلانے اور ڈھیلا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک چھڑی کا نکلنا تھا کہ دوسری چھڑی کو بھی نکالنے میں آسانی ہو گئی اور اس طرح وہ اس پنجرے سے نکلنے میں کامیاب ہو کر آزاد ہو گیا۔‘‘ میں نے ان امیر کبیر سامعین کے چہروںپر ایک بھرپور نگاہ ڈالی جو کیلی فورنیا کے ایک ہوٹل کے عمدہ رقص ہال میں بیٹھے اس بحری جنگی سپاہی کی داستان سن رہے تھے۔ میں پنجرہ نما جیل سے آزاد ہو کر بھاگ آنے والے اس سپاہی یا جنگی قیدی کو نہیں دیکھ رہا تھا، میں تو یہاں بیٹھے سینکڑوں لوگوں کے چہروں کو نہایت غور سے دیکھ رہا تھا جنہوں نے اپنے آپ کو خود ساختہ پنجروں میں بند کر رکھا تھا۔ یہ جو شخص اپنے ذہن کو قید میں بند اور مقید رکھتا ہے، عین ممکن ہے کہ اسے اس امر کا حقیقی ادراک ہی نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روئے زمین پر انسان کی اس استعداد سے بڑھ کر کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ خوابیں دیکھے، خیالات سوچے اور تصورات باندھے اور اسی طرح اس دنیا میں اس انسانی ابتلا اور بدقسمتی سے بڑھ کر کوئی المیہ نہیں کہ انسان دنیا میں آئے، زندگی بسر کرے اور اس حسرت سے بالاخر مر جائے کہ اس نے خدا تعالی کی عطا کردہ تخلیقی تصورات و تخیلات کو خود ساختہ قید سے آزاد نہیں کیا اور انہیں کبھی جامہ نہیں پہنچایا۔ بچپن اور لڑکپن سے لے کر عہد شباب تک اور پھر بلوغت کے سارے دور تک ہم نے اپنے ذہنوں میں بنائے اس ٹائیگر کیج میں اپنی تمام تخلیقی قابلیتوں، صلاحیتوں اور استعداد کو قید کیے رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے اٹھنے والی تخلیقی تحریک اور خواہش اسی ذہنی پنجرے میں مقید ہو کر آخر دم توڑ جاتی ہے۔ حالیہ مشاہدات اور تحقیقات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ جو بچے تخلیقی سوالات، کھیلوں اور ان مشاغل سے گزرتے رہے ہیں جو مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، وہ بچے بڑے ہو کر صف اول کے بزنس ایگزیکٹو جیسے قابل ذکر منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ لیکن عام حالات یہی ہیں کہ ہم جتنی عمر زندہ رہتے ہیں، اپنے تخلیقی تخیلات کو ’’ مقفل اور مقید‘‘ رکھتے ہیں۔ اگر آپ فی الواقع وہ شخص بننا چاہتے ہیں جو آپ کے تصورات، خواہشات اور توقعات کے لیے مثالی اور آئیڈیل ہے تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ذہن کی گرہیں ڈھیلی کریں۔ اس کتاب کے ذریعے آپ بطریق احسن یہ فن سیکھ جائیں گے کہ آپ اپنے ذہن میں بنائے ہوئے ٹائیگر کیج کی چھڑیوں اور سلاخوں کو کس طرح ڈھیلا کر سکتے ہیں اور وہاں سے اپنی تخلیقی تحریکات، قابلیتیں، صلاحیتیں اور استعدادیں کیسے آزاد کرا سکتے ہیں۔ اپنے قلب وذہن سے ناکامی کا خوف نکال دیجئے: آپ کے ذہنی پنجرے میں سب سے بڑی روک آپ کے قلب و ذہن میں جاگزیں ناکامی کا زبردست خوف ہے۔ آپ کے تخلیقی محرکات کے لیے سب سے بڑی مزاحمت یہی خوف کا احساس ہے۔ آپ پوچھیں گے ’’ کیوں؟‘‘ اس لیے کہ ناکامی کا خوف دراصل پریشان کن کیفیت کا خوف ہے۔ تمام انسانی ضروریات میں ایک اہم ترین ضرورت ’’ عزت نفس‘‘ کا تقاضا بھی ہے۔ ہم لوگوں کے سامنے اپنی انا، عزت، وقار اور شان کے منافی اپنی خامیوں کو افشا ہونے سے شعوری اور لاشعوری طور پر گھبراتے اور گریز کرتے ہیں۔ اس لیے ہماری طبع کا میلان یہی کوشش کرتا ہے کہ اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو راز کی طرح محفوظ ہی رہنے دیا جائے اور اپنی بے عزتی کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ آپ کا یہ رویہ ایک منفی تصور ہے۔ آپ اسے اپنے دائرۂ فکر سے یکسر خارج کر دیں ۔ یاد رکھئے ناکام ہو جانا جرم نہیں ہے، آپ کی پست خیالی جرم ہے۔ نہایت معمولی اور ادنیٰ مطلب اور مقصد پر قناعت کر لینا جرم ہے۔ نہ جیتنا اور ناکام ہو جانا ہر گز گناہ اور جرم نہیں ہے کسی بڑے مقصد کے حصول کی کوشش کرنا اور اس جدوجہد میں ناکام ہو جانا، یہ وہ کارنامہ ہے جو آپ کی زندگی کے لیے زیادہ قابل ذکر اور عظیم ہے۔ میں ہمیشہ ایسے لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوتا ہوں جو بڑے مقاصد کے حصول کی سعی کی جرأت کرتے ہیں۔ مجھے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ میں ایک ایسے قومی ایوارڈ کا اجراء کروں جس کا عنوان یہ ہو: ’’ سب سے زیادہ شاندار ناکامی کا ائیر ایوارڈ‘‘ یہ انعام باقاعدگی کے ساتھ ہر سال اس مرد، عورت، لڑکے یا لڑکی کو دیا جائے گا جس نے انتہائی نامساعد حالات، زبردست مشکلات اور ناگفتہ بہ مزاحمتوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے از حد کوشش کی لیکن ناکامی پائی۔ سچ یہ ہے کہ ایسی کوششیں ہر گز ان لوگوں کی ناکامیاں نہیں ہیں اور یہ لوگ قطعاً ناکام نہیں ہیں۔ یہ بھی ’’ کامیابیاں‘‘ ہی ہیں اور یہ لوگ امتیازی طور پر کامیاب ہیں اور واقعی اعلیٰ انعامات کے مستحق ہیں۔ کیونکہ یہ ناکامی آپ کے مقصد کے حصول کی کوشش میں ناکامی نہیں ہے اور آپ کے اختیار میں کوشش ہی تو ہے۔ اصل ناکامی اور نامرادی یہ ہے کہ آپ کے لیے جس قدر بلند مقام پر پہنچنا ممکن ہو وہاں تک رسائی حاصل نہ کی جائے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص اس وقت تک کامیابی سے حقیقی آگہی اور ادراک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ نمایاں طور پر ناکامیوں اور واضح شکستوں سے گزرنے کا تجربہ نہ رکھتا ہو۔ بانسی پول کے پار چھلانگ لگا کر کودنے والا ماہر کھلاڑی اس وقت تک یقینی طور پر کامیاب بلند چھلانگ نہیں لگاسکتا جب تک وہ آزمائشی طور پر اس امر کا جائزہ لینے کے لیے کئی بار پول سے ٹکڑا کر نیچے نہ گر چکا ہو کہ حقیقی طور پر یہ مطلوبہ بلندی اس کے دائرۂ ممکنات میں کس قدر بلند ہے۔ اس لیے میری آپ کو یہ تاکید ہے کہ اپنے مقاصد کے معیار کو اس وقت تک بلند سے بلند کرتے جائیے حتیٰ کہ آپ ناکام ہو جائیں۔ صرف تب، ہاں صرف اسی وقت، آپ کو یہ خوشگوار آگاہی ہونا شروع ہو جائے گی کہ آپ نقطہ کمال تک پہنچنے والے ہیں۔ آپ واقعی تب حقیقی طور پر کامیاب ہو جائیں گے جب آپ کو ناکامی کا گمان ہونے لگے گا۔ مسائل حل کرنے کے طریقے سیکھئے: کیا آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی طبع کا فطری میلان آپ کو تخلیقی خوابیں دیکھنے اور تعمیری خیالات سوچنے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ سمجھ جائیے کہ آپ کے ذہن میں ’’ کوئی اور‘‘ بڑی رکاوٹ حائل ہے جس کو دور کرنا از بس ضروری ہے۔ کیونکہ آپ کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ آپ مسائل حل کرنے کے لیے ذہنی آمادگی، پختہ ارادہ قابل عمل فلسفہ اور معقول تدبیر کے لیے مجموعی فضا کو فروغ دیں۔ آپ جلد اپنے مسائل حل کیجئے ورنہ آپ کے مسائل آپ کو ختم کر دیں گے اگر اس کتاب میں کوئی سی ایک بات آپ پر اثر انداز ہوتی ہے او رآپ اس سے واقعی اثر اور سبق لیتے ہیں تو وہ بات صرف یہی ایک ہونی چاہیے: ’’ آپ اپنی زندگی کی قیادت کو مسائل کے آگے ہارنے اور شکست نہ کھانے دیں، خواہ یہ مسائل حقیقی ہوں یا محض فرضی اور تصوراتی ہوں۔‘‘ ممکناتی سوچ کے حامل لوگ تو مسائل سے گھبرانے کی بجائے مزید متحرک ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ مسائل، مشکلات اور مصائب ہی تو ہیں جو انہیں تخلیقی بننے کے بہترین مواقع عطا کرتے ہیں۔ یہ مسائل منفی انداز فکر اور نا ممکناتی سوچ رکھنے والوں کی راہ میں مزاحمت پیدا کر کے انہیں روک دیتے ہیں۔ یہ مسائل مثبت انداز فکر اور ممکناتی سوچ رکھنے والوں کی ہمت افزائی کر کے ان کی رفتار ترقی کو تیز کر دیتے ہیں۔ یہ مسائل ناممکناتی سوچ رکھنے والوں کو معذور اور مفلوج کر دیتے ہیں، جبکہ یہی مسائل ممکناتی سوچ رکھنے والوں میں ایک نئی توانائی پیدا کر دیتے ہیں۔ آئیں اور یہ مصمم ارادہ کریں اور آج ہی یہ عزم کریں کہ آپ اب یہ اہتمام کریں گے کہ کوئی مسئلہ، مشکل اور مصیبت آپ کو خواب دیکھنے، خیالات سوچنے، تخیلات کا تانا بانا بننے اور توقعات باندھنے سے نہیں روک سکے گی۔ یہ عام اور سیدھی سادھی بات ہے کہ اگر آپ کسی مسئلہ کو اپنے تصور میں لانے کی ذہنی استعداد اور قابلیت رکھتے ہیں تو آپ یقینا اس مسئلہ کو تخلیقی انداز سے حل کرنے کی بھی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ اگر آپ کی قوت متخیلہ انتہائی سرعت کے ساتھ کسی مسئلہ کو ذہن میں لاتی ہے تو اسی تیزی کے ساتھ آپ کی قوت تخلیق اس مسئلہ کو بطریق احسن حل کرنے کا ایک بہترین موقع بھی سجھا دیتی ہے۔ تو یہ حسن اتفاق دراصل خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ آپ کے ایمان کے معیار کی آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ آپ کس قدر یقین اور اعتماد کے ساتھ اس مشکل اور مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی منصوبہ کے ممکنات کو مختلف مشکلات اور مسائل کے گرداب میں دیکھتے ہیں تو یہ گھبرانے کی بات نہیں، یہ تو بہت اچھی اور مبارک صورت حال ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ معجزہ نمائی کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ یقین جانئے اور اس امر کو حقیقت مانئے کہ ہر روز ہزاروں لاکھوں معجزات رونما ہوتے ہیں۔ تو اس معجزہ نمائی میں آپ کیوں جرأت کر کے حصہ نہیں لیتے؟ ناخوشگوار یادوں کا ظلم و استبدادـ: اس ضمن میں دو اہم سوالات پیش نظر ہیں: ۱۔ کیا آپ کے ماضی سے متعلق ناخوشگوار یادوں کا ظالمانہ احساس آپ کے ذہن کے بند پنجرہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کی صورت میں پیوست ہے؟ ۲۔ کیا آپ کی گزشتہ ناکامیاں، دل شکستگیاں، مایوسیاں، مزاحمتیں، محرومیاں اور پریشانیاں تا حال آپ کے قلب و ذہن پر اچھی طرح مسلط ہیں؟ اگر ایسا ہے ، تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ آپ کے مستقبل کو اب مزید ماضی کی ان منفی قوت سے دبنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان ناخوشگوار یادوں کو اپنی موت مرنے دیں۔ اب آپ ماضی کے ان ڈراؤنے بھوتوں کو مستقبل کی منزل کے لیے اپنے ذہن کی ڈرائیونگ سیٹ پر مٹ بیٹھنے دیجئے۔ اب آپ کوشش کیجئے کہ آپ کے خواب و خیالات آپ کے لیے پچھتاوے اور پشیمانی کا باعث نہ بنیں۔ آپ زندگی کی کمان خود اپنے ہاتھ میں لیجئے۔ آپ اپنے تخلیقی تصورات و تخیلات کے مقید سلسلہ کو مایوس کن یادوں کے ظالمانہ حصار سے آزاد کر دیجئے۔ آج سے آپ ایک نئی مہم کا آغاز کر دیں۔ آپ تصور میں لائیے کہ آنے والا کل کا دن آپ کے لیے ولولہ انگیزی اور خوشگواریت لائے گا۔ بڑی مدت کے بعد اب آپ کو اچھی اور سہانی خوشگوار یادوں پر مبنی تازہ لمحات جمع کرنے کا مشغلہ ہاتھ آیا ہے۔ اس خوشگوار اور مبارک آغاز کے ساتھ ہی آپ کے ذہن کے بند پنجرے کی ایک اور سلاخ ڈھیلی پڑ گئی ہے۔ اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے اور نہ ہی ڈرنا ہے۔ اگر آپ کو مزید نامساعد حالات اور تجربات کا سامنا پڑے تو حوصلے اور جرأت سے کام لینا ہے۔ ہاں اس بات کا ڈر اور اندیشہ ہے کہ اب آپ نئی اور خوشگوار زندگی کے آغاز کے اس سنہری موقع کو کہیں ضائع نہ کر دیں۔ زبردست خود اعتمادی کی تعمیر کیجئے: ہمارے ذہن کے فرضی ٹائیگر کیج میں ایک اور مضبوط سلاخ، جو ہماری قوت تخلیقی اور صلاحیت متخیلہ میں زبردست روک پیدا کرتی ہے وہ خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ اگر آپ اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں تو پھر آپ تباہ کن ناکامی اور خطرناک نامرادی کا شکار ہو جائیں گے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل، مشکلات اور مصائب آپ کی راہ میں حائل ہو کر آپ کو شکست دے دیں گے اور اس طرح ایک مرتبہ پھر آپ کے قلب و ذہن پر شدید ضرب آئے گی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنے ذہن میں ایک اور حریفانہ تصور کو جنم دے دیا ہے جو آپ کو یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے: ’’ میں یہ نہیں کر سکتا، مجھے اس کام سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘ یہ سرا سر ایک منفی اور خود ساختہ تصور ہے جو آپ کے ذہن میں موجود بند پنجرے میں ایک اور مضبوط سلاخ کا باعث بن کر آپ کی راہ میں مزید مزاحمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ آپ ترقی کی راہ میں حائل ان زنجیروں کو توڑ ڈالیے۔ آپ کے اس عزم کی توانائی میں اضافے کے لیے خدا تعالیٰ کا یہ کلام آپ کو قوت عطا کرے گا: ۱۔ ’’ اگر خدا میرے ساتھ ہے تو کس میں طاقت ہے کہ میری مخالفت کرے؟‘‘ ۲۔ ’’ یسوع مسیح کی تائید سے مجھے یہ حوصلہ عطا ہوا ہے کہ میں ہر کام کو ممکن بنا سکتاہوں۔‘‘ ۳۔ ’’ میرے لیے ہر کام ممکن ہو سکتا ہے اگرمیرے اندر پختہ ایمان، یقین اور اعتماد ہو۔‘‘ آپ یقین کیجئے کہ میں نے خود اپنے احساسات کمتری کو انجیل مقدس کی مندرجہ ذیل دو آیات کے ذریعے زبردست خود اعتمادی میں بدل لیا ہے: ۱۔ تم اس امر پر بھروسہ رکھو کہ جو کام خدا نے تمہارے ذریعے شروع کر دیا ہے وہ اس کی بہترین تکمیل کے لیے تمہیں امید، قوت اور حوصلہ دے گا تاکہ تم اسے ضرور مکمل کرو اور یہ خدا ہی ہے جو تمہیں اپنی حکمت اور طاقت دے گا اور کامیابی کی یقینی راہیں خود سکھائے گا (انجیل مقدس، نیا عہد نامہ، فلپیوں کا نام پولس رسول کا خط باب اول، آیت ۶) ۲۔ ’’ وہ خدا ہی ہے جو تمہارے اندر نیت اور عمل کی قوت پیدا کرتا ہے تاکہ تم اس کے تمام ارادوں کو بطریق احسن انجام دو‘‘ (انجیل مقدس: نیا عہد نامہ ، فلپیوں کے نام پولوس کا خط باب، ۲ آیت:۱۳) آپ ان آیات کو یاد کر لیں اور اپنی سوچ اور فکر کو ان کی تقدیر اور تاثیر سے مثبت اور تعمیری بنا لیں۔ ایک کہانی نہایت سبق آموز ہے۔ ایک سیاح ایک نہر کے کنارے جا رہا تھا۔ اس نے ایک مقام پر دیکھا کہ ایک مچھیرا مچھلیاں پکڑ رہا ہے۔ وہ سیاح ازراہ لطف وہاں کھڑا ہو گیا۔ اس اثناء میں مچھیرے نے اپنی ڈوری کھینچی اور ایک بڑی مچھلی پکڑ لی۔ اس نے اس مچھلی کو ناپا اور پھر فوراً ہی سے نہر میں واپس پھینک دیا۔ مچھیرے نے پھر شکار کے لیے ڈوری پھینکی۔ اس بار نسبتاً ایک چھوٹی مچھلی ہاتھ آئی، مچھیرے نے اسے بھی ناپا اور خوشی سے اپنی بالٹی میں ڈال لیا۔ سیاح یہ سارا منظر دیکھتا رہا اور اس نے مشاہدہ کیا کہ مچھیرا ہاتھ لگنے والی ہر مچھلی کا ناپتا ہے جو مچھلی دس انچ سے زیادہ لمبائی کی ہوتی ہے، اسے واپس نہر میں پھینک دیتا ہے اور جو مچھلی دس انچ سے قدرے کم ہوتی ہے، اسے خوشی کے ساتھ اپنی بالٹی میں ڈال لیتا ہے۔ آخر سیاح نے مچھیرے سے پوچھ ہی لیا: ’’ تم عجیب آدمی ہو جو مچھلی اچھی خاصی بڑی ہوتی ہے، تم اے خوشی سے لے کر رکھنے کے بجائے اسے واپس نہر میں پھینک دیتے ہو۔ حالانکہ اکثر مچھیرے تو بڑی مچھلی کے حصول پر بہت خوش ہوتے ہیں۔‘‘ اس بوڑھے مچھیرے نے فوراً جواب دیا: ’’ بابو جی، میں ہر اس مچھلی کو جو دس انچ سے بڑی ہوتی ہے اس لیے واپس نہر میں پھینک دیتا ہوں۔ کیونکہ میرا فرائی پین ہی دس انچ چوڑا ہے جس میں رکھ کر میں اسے فرائی کرتا ہوں۔‘‘ اس کہانی کو پڑھ کر ممکن ہے آپ بوڑھے مچھیرے کی عقلمندی کی تعریف کرنے لگے ہوں لیکن اس میں اخذ کردہ سبق کو ’’ احمقانہ‘‘ قرار دوں گا۔ اس لیے کہ: ’’ کیا آپ اپنے تخلیقی ذہن میں آنے والے خوبصورت اور عظیم آئیڈیاز کو محض اس لیے رد کر دیں گے کہ: ۱۔ آپ کے تجربات محدو دہیں۔ ۲۔ آپ کی قوت خود اعتمادی کا دائرہ کار ابھی محدود ہے۔ ۳۔ آپ کے حوصلہ، جرأت اور عزم کا معیار سر دست اس قدر بلند نہیں ہوا کہ آپ ان بہترین مواقع سے جو خدا نے آپ کے لیے خاص طورپر عطا کیے ہیں، سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں۔‘‘ آپ یہ عہد کریں کہ آپ آج اور ابھی سے ہی ترقی کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دیں گے۔ آپ اپنے عزائم بلند رکھیں، اپنے خیالات کو رفعت دیں کیونکہ وہ لوگ ہی بڑے کارنامے انجام د یتے ہیں جو ’’بڑی سوچ‘‘ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں سے بڑے کاموں کی توقع کیا رکھی جا سکتی ہے جن کی سوچ ہی نہایت پست اور چھوٹی ہو؟ آپ اب یقینا وہ شخص بن سکتے جو آپ بننا چاہتے ہیں۔ اب آپ کے لیے اس مقصد کا حصول عین ممکن ہے۔ آپ اب ان تمام نئی راہوں اور طریقوں کو دریافت کرتے چلے جائیں گے جو آپ کے ذہن کے ’’ ناممکنات پر مبنی بند پنجرہ‘‘ کی سلاخوں کو توڑ ڈالیں گے اور آپ کو آزاد و خود مختار اور خود اعتماد کر دیں گے۔ آپ اس شاندار مہم میں شامل ہو جائیے جو آپ کی خوبصورت، کامیاب اور خوشحال زندگی کے ان قابل حصول مواقع، ذرائع اور وسائل کو دریافت کرنے کے لیے خدا نے اپنے کے لیے تجویز کر رکھے ہیں۔ ہاں، اس پر جوش، با حوصلہ، تازہ دم اور ممکناتی سوچ رکھنے والے پرجوش ہجوم میں شامل ہو جائیے جو ہر قدم پر اپنے ارادوں کو اپنی عظیم کامیابیوں میں بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ ممکناتی سوچ رکھنے والوں کے لیے دس زریں عہد: ان صفحات میں دی ہوئی تعلیم اور ہدایات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ آپ مندرجہ ذیل دس اصولوں پر بھی عمل کریں۔ اگر آپ ان دس زریں احکامات کو فراموش کر دیں گے تو آپ یقینا بے اندازہ جوش و خروش، ان گنت کامیابیوں اور فتح و کامرانی کے تسلسل سے اپنے آپ کو محروم رکھیں گے۔ میں تو ان دس اصولوں کو ممکناتی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے ’’ عہد‘‘ قرار دیتا ہوں۔ آپ کے لیے یہ از حد ضروری ہے کہ آپ ان کے مفہوم، روح اور مافی الضمیر سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ آغاز میں تو یہ عہد اسی طرح ہی نہایت موثر رنگ میں آپ کے کام آئیں گے، پھر بعد میں آپ خود اپنی وسعت فکر اور دائرۂ سوچ کے مطابق ان میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ ۱۔ آپ کسی آئیڈیا کو محض اس لیے رد نہیں کر دیں گے کیونکہ یہ آپ کے نزدیک ’’ ناممکن ‘‘ ہے۔ ۲۔اپ کسی بھی مفید خیال کو اس اندیشے سے ختم نہیں کر دیں گے کہ اسے عملی جامہ پہنانے میں مسائل در پیش ہوں گے۔ اور نہ ہی اس مفید خیال کو شروع کرنے کے لیے یہ انتظار نہیں کریں گے کہ پہلے سارے مسائل کا حل تلاش کر لیا جائے۔ ۳۔ آپ کسی بھی ممکنات (وہ کام جو عین ممکن ہو) کی مخالفت نہیں کریں گے محض اس لیے کہ آپ کو اس کام کا پہلے سے نہ تو کوئی تجربہ ہے اور نہ آپ کو اس کام کے کرنے کا کوئی طریقہ آتا ہے۔ ۴۔آپ کسی بھی تجویز یا منصوبے کی راہ اس لیے عمداً بند نہیں کر دیں گے کہ آپ کو پہلے ہی اس منصوبے میں ناکام ہو جانے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ ۵۔ آپ کسی بھی قابل عمل اچھی تجویز کی مخالفت میں معاونت نہیں کریں گے کیونکہ آپ کو اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی خرابی نظر آ رہی ہے۔ ۶۔ آپ کبھی کسی تخلیقی آئیڈیا کو فروخ پانے سے نہیں روک دیں گے کہ پہلے اس آئیڈیا پر کسی شخص نے کامیابی کے ساتھ اس پر عمل نہیں کیا ہے۔ ۷۔ آپ کسی بھی تعمیری تصور کو محض اس لیے ناممکن قرار دینے کا اعلان نہیں کریں گے کہ آپ کے پاس اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب وقت، دولت، ذہانت، قوت، مہارت، حوصلہ، توانائی اور تجربہ نہیں ہے۔ ۸۔ آپ کسی بھی پلان یا منصوبے کو محض اس لیے رد نہیں کر دیں گے کہ یہ آپ کو ناقص معلوم ہو رہا ہے۔ ۹۔ آپ کسی بھی ایسی تجویز کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے جو آپ کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ کسی اور شخص کی فکر کا نتیجہ ہے اور آپ کو یہ خدشہ ہے کہ اس کا کریڈٹ تو آپ کو نہیں جائے گا اور آپ کی ذات کو اس تجویز میں کوئی فائدہ یا فیض حاصل نہیں ہو گا۔ ۱۰۔ آپ کسی بھی جاری پروگرام، منصوبے اور کام کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آپ اب تکمیل کے آخری مرحلہ تک پہنچ چکے ہیں۔ بس اب آپ جلدی سے خواب دیکھنا، خیالات سوچنا، تخیلات کے تانے بانے بننا اور تخلیقی کام سوچنا شروع کر دیجئے۔ اس یقین کے ساتھ بڑے خواب دیکھئے اور بڑے منصوبے بنائیے کہ خدا نے آپ کو بڑے بڑے کام کرنے کے لیے خاص طور پر پیدا کیا ہے اور ان بڑے بڑے کاموں کے لیے اس نے زبردست انتظامات کر رکھے ہیں۔ ٭٭٭ ۲ آپ ان مقاصد کا تعین کریں جو آپ کی ترقی کا باعث بن سکیں اپنی زندگی کے ان مقاصد کا تعین کرنے کے ضمن میں جو آپ کی ترقی اور خوشحالی کا یقینی طور پر باعث بن سکیں، مندرجہ ذیل سوالات کا جائزہ لینا ضروری ہے: ۱۔ آپ اپنے لیے کن مقاصد کا تعین کریں گے جن کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ ان مقاصد کے حصول کی کوشش میں ناکام نہیں رہیں گے؟ ۲۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس لامحدود مالی وسائل موجود ہیں تو اس صورت میں آپ ڈرائنگ بورڈ پر اپنی خواہشات، ارمانوں اور امنگوں پر مبنی کن خابوں کی فہرست بنائیں گے جنہیں آپ عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں؟ ۳۔ آپ تیس سالوں کے عرصہ پر محیط عرصہ کے لیے کن منصوبہ جات پر عمل درآمد چاہتے ہیں؟ ۴۔ فرض کریں کہ آپ ہر مشکل اور مسئلہ کو حل کرنے کے لیے عقل و شعور اور حکمت و فراست رکھتے ہیں اور حائل ہونے والی ہر رکاوٹ اور مزاحمت کو اپنی راہ سے ہٹانے کا حوصلہ، ہمت اور عزم رکھتے ہیں تو آپ پھر کن منصوبہ جات کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں؟ ۵۔ اگر آپ زبردست تخلیقی صلاحیت کے مالک ہیں اور آپ کو اپنے آئیڈیاز موثر اور مستحکم لوگوں کے ہاتھ فروخت کرنے کی مہارت حاصل ہے تو آپ کس کام کو نہایت شوق و جوش سے اپنانا پسند کریں گے؟ ۶۔ آپ انسانی زندگی کے اس ڈرامائی کھیل میں کیا کردار ادا کرنا پسند کریں گے؟ سب سے پہلے آپ اپنے ’’ کردار‘‘ کا تعین کریں اور اس کے بعد اپنے مقاصد کا تعین کریں۔ اگر اس ترتیب کو مدنظر نہیں رکھیں گے تو آپ تذبذب، پریشانی اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کامیابی کا ایک آسان ترین یقینی فارمولا یہ ہے: کردار نصب العین+سرمایہ=کامیابی ترتیب: ۱۔ سب سے پہلے اپنے ’’ کردار‘‘ کی وضاحت اور تخصیص کریں۔ ۲۔ اس کے بعد آپ اپنے مقصد/نصب العین کا تعین کریں۔ ۳۔ اس کے بعد سرمایہ لگانے کی باری آتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے اس خاص مقصد کے حصول کے ضمن میں آپ کو ۱۔ وقت ۲۔ رقم ۳۔ توانائی ۴۔ حوصلہ، ہمت، عزم، صبر کی ضرورت ہو گی۔ اس عنصر کا نام ’’ سرمایہ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ وہ عملی سعی ہے جس کے بغیر کوئی خواب، منصوبہ یا مقصد شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی پلان کو عملی شکل دینے کے لیے الف۔ مناسب وقت دینا پڑے گا۔ ب۔ ضروری اخراجات کے لیے لازمی رقم مختص کرنی پڑے گی۔ ج۔ آپ کی توجہ، محنت، مہارت، ذہانت اور طریقہ کار استعمال کرنا پڑے گا۔ د۔ پھر آپ کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے دلچسپی، شوق، حوصلہ، ہمت، صبر اور استقلال کی بھی اشد ضرورت پڑے گی۔ اس لیے اس ضروری عنصر کو ’’ سرمایہ سعی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ صرف ’’ قیمت لاگت، اجرت یا ٹیکس‘‘ کا نام نہیں دیا گیا ہے تاکہ اس کی اہمیت اور مفہوم بہتر طور پر واضح ہو سکے۔ آپ پھر سے اس باب کے شروع میں کئے گئے سوالات پر غور کریں، ان کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ آہستہ آہستہ، پوری توجہ کے ساتھ ان سوالات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور پھر اپنی زندگی کی ٹھوس بنیاد پر شروعات کے لیے قلبی و ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ آپ نے اب ماضی کی ناکامیوں کا اثر نہیں لینا ہے کیونکہ آپ اپنے خوشگوار اور روشن مستقبل کے لیے ’’ آج‘‘ بہت اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ کل صبح جب سورج طلوع ہو گا تو نئے دن کی نورانی اور روشن کرنیں ایک کھلے دروازے کو منور کر دیں گی تاکہ آپ کو ایک نئی دنیا میں ’’ خوش آمدید‘‘ کہا جائے، اس نئی دنیا کا نام ہے ’’ نئی شروعات کی مبارک سر زمین‘‘ آپ اپنے مقاصد کا تعین کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو تیار کر لیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی بھی کھلاڑی میدان میں اترنے سے پہلے ضرور ایسی ورزش کرتا ہے جس سے وہ ذہنی اور طبعی طور پر سرگرم ہو جاتا ہے۔ آپ اوپر دئیے گئے چھ اہم سوالات کو پھر سے بغور پڑھیں۔ ان سوالات پر گہری توجہ دینے کے دوران آپ کی تخلیقی اور تصوراتی قوت ان سوالات کے جوابات کے اندر پرجوش ممکناتی عناصر کی موجودگی دیکھنے لگے گی۔ اب آپ اپنی زندگی کے مقاصد کا ۱۔ پھر جائزہ لینے ۲۔ اہمیت اور ترجیحات کے لحاظ سے ترتیب دینے ۳۔ نظر ثانی کرنے ۴۔ از سر نو ترتیب دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی کا آغاز یہیں سے ہو گا۔ اگر آپ اپنے مقاصد کا معیار پست رکھیں گے تو کامیابی بھی اسی لحاظ سے محدود اور معمولی ہو گی۔ آپ جو اپنے مقاصد کا تعین کر رہے ہیں، یہ کام آپ کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ آپ کی اپنی اہمیت اور آپ کے اپنے معیار کے تعین کا سوال ہے۔ اگر مقاصد کا تعین ہی نہ کیا جائے تو ان کا حصول کیسا؟ اور کامیابی کیسی؟ آپ کے اپنے مقاصد حیات کے تعین کے ساتھ ہی آپ کی کامیابی اور ناکامی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے: ایک دفعہ میں نے انسٹی ٹیوٹ فار چرچ لیڈر شپ کے زیر اہتمام گارڈن گرودٔ، کیلیفورنیا میں ایک لیکچر دیا، جس میں ہمارا مقصد یہ تھا کہ وزراء اور چرچ لیڈرز کو مثبت سوچ رکھنے والے موثر مفکرین بنا دیا جائے۔ ہم نے پادریوں کو کہا کہ وہ اپنے اپنے پانچ سالہ، دس سالہ، پندرہ سالہ اور بیس سالہ مقاصد لکھیں۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دو ہزار سے بھی زیادہ گریجوایٹس نے اپنے اپنے مقاصد پورے جوش و خروش سے لکھے اور مجھے ان کے لکھے ہوئے مقاصد کو دیکھ کر بالآخر یہ کہنا پڑا: ’’ یہ مقاصد غیر حقیقی ہیں، یا یہ مقاصد حقیقت سے بہت بالاتر اور بلند ہیں اور وقت کے لحاظ سے خاصے تیز رفتا رہیں۔‘‘ حالانکہ اس سے پہلے لیڈر شپ انسٹی ٹیوٹ کے سٹوڈنٹس جن مقاصد کا تعین کیا کرتے تھے وہ بہت چھوٹے اور معیار میں پست تھے حالانکہ وہ سست بھی تھے۔ اپنی نجی زندگی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مقاصد کا تعین کرنے کے ضمن میں چند عالمگیر اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آئیے ہم ان پر وضاحت سے بات کرتے ہیں۔ ’’ اپنی خاص صلاحیتوں، قابلیتوں اور استعدادوں کو ضرور مد نظر رکھا جائے۔‘‘ ممکناتی سوچ رکھنے والے لوگ اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرنے کے دوران اپنی خدا داد صلاحیتوں کا صحیح ادراک اور آگہی رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ آپ ان تمام کاموں کی فہرست تیار کریں جن کے بارے میں آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ انہیں بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی ایک اور فہرست ان کاموں کی بنائیے جن کے بارے میں آپ کا خیال یہ ہے کہ آپ انہیں اچھی طرح نہیں کر سکیں گے۔ پھر ان دونوں فہرستوں کا باہمی موازنہ اور تجزیہ کریں۔ آپ اپنے اندر کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کریں، ان کا اچھی طرح کھوج لگائیں لیکن اس ضمن میں بھی آپ کی سوچ حقیقت پر مبنی ہونی چاہیے۔ جم پوپن جب ہائی سکول میں پڑھتا تھا، وہ پڑھائی میں زیادہ لائق اور ہوشیار نہیں تھا۔ اس کے اساتذہ کو اس کی اصل ذہانت اور صلاحیت سے بخوبی آگہی نہیں تھی، وہ پوپن کو درمیانے درجے یا اس سے بھی کم درجے کا طالب علم سمجھتے تھے۔ لیکن اب اس کی شہرت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے پورے زمانے میں ہرگز کند ذہن اور نالائق نہیں تھا۔ جم پوپن میں اس وقت بھی ذہانت اور لیاقت تو موجود تھی لیکن وہ ان محرکات سے محروم تھا جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے بطور چیلنج صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جب جم پوپن نے میڈیکل کے مضامین میں اپنی دلچسپی اور رحجان واضح طور پر ظاہر نہ کیا تو اس کے کسان باپ نے اسے ایسے سکول میں داخل کرا دیا جہاں اس کے ذہنی میلان اور تخلیقی رحجان کی صحیح جانچ اور پرکھ کا موقع میسر تھا۔ جم کا ایک کزن جو میرے چرچ والے سٹاف کا ایک اہم رکن تھا، اس نے کہا: ’’ کوئی ایک شخص بھی جم کے بارے میں ایک ڈائم (ڈالر کا دسواں حصہ) کی شرط لگانے کے لیے تیار نہیں تھا کہ وہ کسی کام کرنے کے قابل ہے۔‘‘ کرسمس کی چھٹیوں کے دنوں میں جم اپنے گھر واپس آیا تھا۔ ان دنوں سخت سردی تھی۔ مشی گن ہوم میں ایک اندھیری ٹھنڈی رات کی بات ہے کہ جم کے باپ کو آدھی رات کے وقت جبکہ ہر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا، عجیب سی آواز سنائی دی۔ اسے یہ آواز گھپ اندھیرے کچن کی جانب سے آ رہی تھی۔ وہ چپکے چپکے اپنے بیڈ روم کے راستہ سے کچن ڈور کی طرف گیا۔ اس نے کچن کی لائٹ آن کی اور دیکھا کہ اس کا بیٹا جم فرش پر پاؤں پسارے بیٹھا ہے۔اور اس نے ایک رسے سے کچن کی پرانی کرسیوں کی پتلی ٹانگوں کو باندھ کر ایک نہایت پیچیدہ گرہ در گرہ سلسلہ قائم کیا ہوا ہے۔ اس کے باپ نے یہ پر اسرار تماشا دیکھتے ہی کہا: ’’ میرا بیٹا یہ کیا الٹی سیدھی قلابازیاں کھا رہا ہے؟ اس کا ذہن پڑھائی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اور یہ پڑھائی سے بچنے کے لیے کیا کیا جتن کرتا رہتا ہے!‘‘ پیشتر اس کے کہ جم کا باپ مزید کچھ کہتا جم نے حکم چلاتے ہوئے کہا: ’’ ابو جان، لائٹ فوراً آف کر دیں۔ پچھلے ماہ میں نے سکول میں انسانی ذہن کو اپنے انداز سے دریافت کر لیا ہے۔ میں ایک برین سرجن بنوں گا۔ اس لیے میں اندھیرے میں گرہ باندھنے کی مشق کر رہا ہوں۔‘‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک کسان کے بیٹے کے ہاتھوں کی موٹی انگلیاں او رایک متوسط درجے کا غیر منظم دماغ، ایک سرجن بننے کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں کا تقاضاپورا کر سکے گا؟ لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا کہ اس نے یہ واقعی کر دکھایا۔ چند سال پہلے میں اپنی گاڑی میں بیٹھا اپنے دفتر کی جانب جا رہا تھا۔ راستے میں میں میں نے کار ٹرانسسٹر پر یہ خبر نشر ہوتی ہوئی سنی: ’’ صدارتی امیدوار رابرٹ کینیڈی کے سر میں گولی مار دی گئی ہے۔ اس کی حالت نہایت تشویشناک ہے اور وہ اس وقت لاس اینجلز کے ایک ہسپتال کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں ہیں۔ اس ضمن میں تفصیلی معلومات تاحال موصول نہیں ہو سکیں۔ تاہم یہ معلوم ہوا ہے کہ کینیڈی خاندان کے اہم ارکان نے عالمی شہرت یافتہ برین سرجن ڈاکٹر جیمز پوپن کو بوسٹن سے فوری طور پر بلایا ہے جو اس وقت مغربی ساحلوں کی جانب مصروف سفر ہیں۔‘‘ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ کی ذات اور وجود میں کیا کیا صلاحیتیں پنہاں ہیں او رکون کون سی قابلیتیں خوابیدہ ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ انہیں اجاگر کر کے بہتر طور پر کام میں لایا جائے۔ آپ اب جو کچھ بھی کریں، منصوبے بنائیں اور انہیں عملی شکل دیں۔ یہ سب کچھ اب تابناک مستقبل کی تعمیر کے لیے ہونا چاہیے۔ ماضی کی ناکامیوں اور شکستوں کی ناخوشگوار یادوں کو سرا سر بھول کر آپ اپنے اولین مقاصد کا تعین کیجئے۔ میری ایک نہایت ہی عزیز دوست نے ساٹھ سال کی عمر میں پیانو بجانا سیکھنا شروع کیا۔ وہ نہایت سنجیدگی سے پیانو کے اسباق سیکھتی اور ان کی مشق کرتی رہی۔ دو سالوں کے بعد وہ اس قابل ہو گئی کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیانو کے سبق دے سکے۔ وہ خاتون چونکہ فطرتاً نہایت خوشگوار، خوبصورت اور شائستہ تھی اس لیے بچے جلد ہی اس کے ساتھ مانوس ہو گئے اور وہ اسے پیار اور عزت دینے لگے۔ میں نے ایک دن اسے پوچھا: ’’ کیا آپ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ پہلے آپ کسی شعبہ یا فن میں اچھی طرح مہارت اور تجربہ حاصل کر لیتیں تو پھر دوسروں کو سکھانا شروع کرتیں؟‘‘ اس نے مجھے جواب دیا: ’’ قطعاً یہ ضروری نہیں کہ میں اعلیٰ معیار کی مہارت حاصل کرتی۔ بس اس قدر میرے لیے ضروری تھا کہ ان بچوں کی نسبت مجھے زیادہ آنا چاہیے، میں نہایت ابتدائی بچوں کو سکھاتی ہوں اور صرف ایک درجہ میں ان سے آگے رہتی ہوں۔‘‘ اب آپ دیکھ لیجئے کہ اس خاتون نے اپنے اندر ایک جوہر کی موجودگی کو محسوس کیا او راس صلاحیت کو کم از کم اس معیار تک، اس بڑی عمر میں بھی نکھار لیا کہ اس نے اسے مثبت طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آپ بھی اپنی خوابیدہ صلاحیتوں اور پوشیدہ قابلیتوں کو تلاش کریں، بیدار کریں اور انہیں نکھاریں اور بہتر طور پر استعمال میں لائیں۔ آپ میری یہ بات یاد رکھئے جو کہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ اس دنیا میں لاکھوں باصلاحیت لوگ ناکام رہ گئے ہیں، جبکہ کم صلاحیت لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اور ہر طرح سے کامیاب ہو گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ’’ صرف صلاحیت‘‘ ہی درکار نہیں بلکہ اصل بات آپ کے یقین، اعتماد، عزم، جوش اور ولولہ کی ہے اور یہی اصل توانائی ہے جو ضرور کامیاب کر دیتی ہے۔ ’’ آپ اپنی خدا داد قوت ارادی کو بروئے کار لائیے۔‘‘ میں آپ کو بار بار کہوں گا کہ کسی بھی شعبے میں فسٹ پرائز کسی ایسے شخص کو نہیں دیا جاتا جو مقابلے کے شرکاء میں سب سے زیادہ باصلاحیت، لائق اور ذہین ہوتا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ پہلا انعام ہمیشہ اس شخص کو جاتا ہے جو: ۱۔ اس یقین اور اعتماد سے پر ہوتا ہے کہ یہ انعام ’’ میں ضرور لوں گا۔‘‘ ۲۔ زبردست قوت ارادی رکھتا ہے۔ ۳۔ فیصلہ کن عزم کا مالک ہوتا ہے۔ جس شخص میں یہ تینوں خوبیاں ہوں وہ اگر اوسط درجہ کی بھی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ سبقت لے جائے گا۔ اعلیٰ معیار کی ممکناتی سوچ رکھنے والے لوگوں میں سے ایک مثال اس شخص کی ہے جس نے فٹ بال کی تاریخ میں سب سے زیادہ دور فاصلے کی ہٹ لگا کر گول کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ فٹ بال کے بہت سے شائق لوگ ضرور ٹام ڈیمسے کے نام سے واقف ہوں گے۔ خاص بات یہ ہے کہ پیدائشی طور پر اس کا دایاں پاؤں نارمل سائز سے نصف تھا اور اس کا دایاں ہاتھ اور بازو بھی کافی بگڑا ہوا اور ٹیڑھا تھا۔ اپنی اس معذوری پر اس نے نہایت کامیابی سے قابو پا لیا۔ وہ ہائی سکول اور کالج کی فٹ بال ٹیم میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ اپنے اس بھرپور اعتماد اور مہارت کی بناء پر اس نے ارادہ کیا کہ وہ پروفیشنل ٹیموں میں شامل ہو کر اپنے جوہر دکھائے۔ لیکن پروفیشنل ٹیموںکی انتظامیہ یہ کہہ کر اسے رد کر دیتی: ’’ تم پروفیشنل کھلاڑی کے طور پر ہمارے مقررہ معیار پر پورے نہیں اترتے ہو۔‘‘ اس بات پر ٹائم اپنے آپ کو جسمانی طور پر کمزور اور معذور تسلیم کرنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کرتا: ’’ میں نے پیچھے ہٹنا اور شکست قبول کرنا نہیں سیکھا۔ میں نے اب تک اپنی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اور کھیل کے میدان میں صبر و ہمت اور عزم و استقلال سے کام لینا سیکھا ہے۔ میرے خیال میں کسی شخص کے پاس اگر یقین اور اعتماد کی قوت ہو تو وہ ہر محاذ میں کامیاب ہو جاتا ہے اور مجھے میرے والدین نے یقین اور اعتماد کی قوت سے خوب نوازا ہے۔‘‘ ٹام کے ان پر عزم خیالات پر بالآخر ’’ نیو اورلینز سینٹس‘‘ نے جو ایک ممتاز پروفیشنل ٹیم تھی، ٹام کو بطور کھلاڑی لے لیا۔ ٹایم ڈیمسے کے خاص سٹائل کی بدولت کہ وہ گول کرنے کی خاطر ایک زبردست اور دور فاصلے کی زور دار ہٹ لگاتا تھا، اس نے بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ جب فٹ بال کی دو مشہور ٹیموں ۱۔ ڈیرائٹ لائنز (Detroit Lions ۲۔ نیو اورلینز سینٹس (New Orleans Saints) کے مابین زبردست میچ کھیلا گیا تھا تو میچ کے دوران جب سینٹس کی ٹیم ہار رہی تھی اور اس پر مسلسل لائنز کی ٹیم کا سخت دباؤ تھا او رمیچ ختم ہونے میں صرف گیارہ سیکنڈ رہ گئے تھے تو لائنز کے ایک کھلاڑی نے اٹھارہ گز کی ایک ہٹ لگا کر گول کر دیا۔ اب معلوم ہوتا تھا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔ کھیل کے دوسرے دورانیے میں سینٹس نے کھیل کو ۴۵ یارڈ لائنس سے پیچھے رکھا۔ اب صرف دو سیکنڈ کا وقت باقی تھا۔ کوچ نے ٹام کو میدان میں اتار دیا تاکہ وہ گول کرنے کی آخری کوشش کی خاطر اپنی مخصوص زور دار لمبی ہٹ لگائے۔ ٹام نے ۶۳ گز کی ایک نہایت زبردست ہٹ لگا کر گول کر دیا۔ اس نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا تھا۔ اس سے پہلے پروفیشنل فٹ بال ٹیم کے ایک کھلاڑی نے ۵۶ گز کے طویل فاصلے کی ہٹ لگا کر ریکارڈقائم کیا تھا۔ ٹام نے ۶۳ گز کی ہٹ لگا کر یہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس گول کے ساتھ ہی سینٹس کی ٹیم جیت گئی۔ اس بلند جوش و خروش اور شور و غوغے میں ایک آواز آئی: ’’ واہ ناقابل یقین!‘‘ یہ تحسین افروز نعرہ سن کر ٹام مسکرایا اور کہا: ’’ میرے کوچ صاحبان کو میری حوصلہ افزائی کے لیے کبھی فرصت میسر نہیں آئی اور وہ ہر بار مجھے یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ میں کیا کیا نہیں کر سکتا۔‘‘ کئی فکر انگیز سنجیدہ سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہے جس کا جواب نفسیاتی محققین کی جانب سے نہایت ذمہ داری سے دیا جانا چاہیے کہ: ’’ کیا صلاحیت اس وقت معرض تخلیق میں آتی اور اجاگر ہوتی ہے جب کوئی تحریک، قوت ارادی یا اشد ضرور تقاضا کرتی ہے، یا کہ صلاحیت اور قابلیت پہلے سے موجود ہوتی ہے؟‘‘ جہاں تک میرا خیال ہے، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ جب ہم کسی کام کا ارادہ کر لیتے ہیں تو یہ قوت ارادی، عزم اور فیصلہ کن استقلال خود ہی ہماری ذہنی اور طبعی صلاحیتوں کو بوقت ضرورت دریافت کر لیتا ہے اور ان سے بھرپور کام لے لیتا ہے۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر میں ایک مثال پیش کرتا ہوں: جان سٹیو وارٹ، جو کہ نیو یارک سٹی اوپرا کمپنی کا ایک ممتاز اور معروف میوزک سٹار ہے، کے بارے میں ’’ فن موسیقی کے مستند ماہرین نے‘‘ یہ رائے دی کہ اس کی آواز گائیکی کے لئے ہر گز موزوں نہیں ہے اور پیشہ ورانہ گائیک میں جو سر، لہجہ، تال اور لے ہونی چاہیے وہ جان سٹیووارٹ کی آواز میں مفقود ہے۔ لہٰذا اسے گائیکی چھوڑ کر میوزک کی ٹیچنگ کو اپنا پیشہ اختیار کر لینا چاہیے۔ اب ایک طرف تو یہ ماہرانہ رائے ہے۔ اور دوسری طرف آپ اس کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھ لیجئے۔ عوام میں سے کسی ایک فرد کو کبھی اس کی اس صلاحیت کے بارے میں کوئی شبہ و شک نہیں ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’ صلاحیت‘‘ کا عملی مفہوم مندرجہ ذیل ہے: ۱۔ وہ خاص قابلیت جس کا اعتراف عوام الناس کرنے لگیں۔ ۲۔ وہ خاص خوبی جو کامیاب ہونے کے لیے فیصلہ کن تحریک پیدا کرے۔ ۳۔ وہ خاص قوت، توانائی اور جوہر جو کسی مقصد کے یقینی حصول کی خاطر فیصلہ کن عزم میں معاون ثابت ہو۔ اب ہم ایک اور عام سوال کی طرف آتے ہیں: کوئی ایسا بچہ جو ذہنی طور پر کند اور معذور ہو، کیا اس کے اندر عام بچے کی طرح پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کی قدرتی صلاحیت موجود ہوتی ہے؟ آپ اور میں یہی کہیں گے کہ نہیں، یہ صلاحیت ایسے بچوں میں موجود نہیں ہوتی۔ نفسیاتی ماہرین بھی اس بات پر اتفا ق کریں گے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس تاثر کے باوجود میں نے ایک حیرت انگیز کاوش دیکھی۔ میں نے جنوبی ڈیکوٹا میں مچل (Michell) شہر کے ایک پبلک سکول کے شعبہ خصوصی اطفال کا معائنہ کیا۔ میں نے وہاں بارہ ایسے بچے دیکھے جو ذہنی طور پر معذور تھے لیکن ان کے اندر علم سیکھنے کا زبردست ولولہ، شوق اور ارادہ موجود تھا۔ تین ہفتے گزرے ہیں، مجھے کیلی فورنیا کے ایک سکول کے خصوصی سیکشن کے معائنے کے دوران پرنسپل نے بتایا: ’’ اگرچہ ذہنی طور پر معذور ان بچوں میں پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے لیکن ان کے شوق اور دلچسپی کو سراہتے ہوئے ہم نے انہیں کئی ضروری تصویروں کی شناخت یاد کرا دی ہے مثلاً: ۱۔ خطرے کا نشان ۲۔ اندر آنے کا راستہ ۳۔ باہر جانے کا راستہ ۴ واش روم برائے مرد حضرات ۵۔ واش روم برائے خواتین ‘‘ پھر اسی سکول میں ایک لیڈی ٹیچر کی اس کوشش پر میں بہت خوش اور متاثر ہوا کہ اسی نے خصوصی بچوں کو ’’ پورے فقرات‘‘ پڑھنے سکھا دئیے تھے۔ میرے تعریفی کلمات پر اس ٹیچر نے بتایا: ’’ اب ہم نے ذہنی طور پر معذور بچوں کے اندر خوابیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘ جب یہ ٹیچر اپنی کارکردگی بتا رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں زبردست جوش اور چمک تھی۔ اس ٹیچر نے کہا کہ ان بچوں میں اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ اس نے ایک چھوٹی بچی کی طرف اشارہ کیا جس کی آنکھوں میں بھینگا پن بھی تھا اور کہا: ’’ اس بچی میں معیار ذہانت کی ۴۱ اکائیاں موجود ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ارونگ سٹون (Dr. Irving Stone) جو کو سٹامیسا (کیلیفورنیا) کے فیئر و یوسٹیٹ ہسپتال میں ذہنی طور پر شدید معذور بچوں کی بحالی پر تحقیق کر رہے ہیں اور ایک ممتاز ماہر نفسیات ہیں، کو جب میں نے اپنے ان دورہ جات کے بارے میں یہ باتیں بتائیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے، ’’ ہاں یہ سچ ہے کہ ان بچوں پر اگر محنت کی جائے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں نکھر سکتی ہیں او ران میں اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ لائق فائق اور قابل ڈاکٹر ارونگ نے مزید کہا: ’’ اب جیسے جیسے ہماری سائنسی تحقیق پیش رفت کر رہی ہے اور ہم ان بچوں میں سیکھنے کی قابلیت کا جس طرح کھوج لگا رہے ہیں، اس کے مطابق اب خصوصی تعلیم و تربیت کی سرکاری پالیسی میں بھی جدید طور پر تبدیلی آنی چاہیے کیونکہ اب ممکنات واضح ہو رہے ہیں اور کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اس وقت اپنی تحقیق کے بارے میں بہت پرجوش تھے، انہوں نے بتایا: ’’ اب ہمیں اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ہم نے ان معذور بچوں کی محدود قابلیت کو تربیت کے محدود ذرائع اور امکانات تک محدود کر رکھا تھا۔ لیکن اب ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ ان بچوں کے اندر، ان کے معذور ذہنوں میں لامحدود و خوابیدہ قابلیت اور صلاحیت موجود ہے، جسے اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر مختلف جدید طریقوں سے ان بچوں کو مناسب انداز سے متحرک کیا جائے، ان کی دلچسپی، شوق اور کوشش کو گرمایا جائے تو ان کی ذہنی استعداد میں بجا طور پر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ آپ اپنی ان مشکلات اور مصائب کو جو اس وقت در پیش ہیں، اپنی ترقی کے لیے چیلنج قرار دیں اس عالمگیر اصول سے خوب عملی فوائد حاصل کیجئے: ’’ ہر مشکل اور مسئلہ کے اندر ایک زبردست موقع مضمر ہوتا ہے۔‘‘ یہ جو مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں، یہ بلا شبہ آپ کی ترقی، خوشحالی، عظمت اور بہتری کے لیے چیلنج ثابت ہو جاتی ہیں۔ ہر مشکل آپ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ آپ اس کا سامنا کرتے ہوئے بہتر سے بہتر بنتے جائیں۔ میں نے اپنی ایک کتاب ’’ اپنی ممکناتی سوچ کے باعث ترقی کرتے جائیے‘‘ میں اسی موضوع سے متعلق نارم اور سارہ رسموسن کی ایک کہانی بیان کی ہے۔ ان دونوں کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو جسمانی طور پر لاغر اور ذہنی طور پر معذور تھا۔ ان کے لیے یہ بچہ تو انتہائی اذیت، تکلیف اور مصیبت کا باعث بن گیا۔ لیکن ان دونوں نے اس سنگین مسئلے اور مشکل کو مل کر ایک مفید ’’ پراجیکٹ‘‘ میں بدل دیا۔ انہوں نے اپنے گھر کے ایک کمرے کو ذہنی طور پر معذور بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت و پرورش کے لیے مختص کر دیا۔ اپنے اس بچے کے علاوہ وہ اپنے گھر میں چار اور ایسے بچے لے آئے جو اسی کیفیت میں مبتلا تھے۔ رفتہ رفتہ یہ خصوصی بچوں کا ایک ادارہ بن گیا۔ اب اس کہانی کا ایک نیا رخ اجاگر ہوتا ہے۔ نارم جو کہ ایک خلائی انجینئر تھا اور صنعی عملے میں کمی کے پروگرام کے باعث محکمہ نے اسے بھی جاب سے فارغ کر دیا تھا۔ اب اگرچہ نارم بے روزگار ہو گیا تھا تاہم اس نے اس مسئلے کے فوری حل کے لیے ایک موقع تلاش کر لیا۔ اس کے عین ذہنی میلان کے مطابق ایک آئیڈیا آیا اور اس نے اسے عملی شکل دے دی۔ نارم اور سارہ نے ذہنی طور پر کند اور معذور بچوں کی پرورش، دیکھ بھال اور خصوصی تربیت کے لیے ایک فل ٹائم ادارہ قائم کر لیا۔ اس طرح فلاحی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کے معقول روزگار کا اہتمام بھی ہو گیا ۔ کیا آپ کو اپنے ذاتی مقاصد تعین کرنے کے عمل میں رہنمائی کی ضروت ہے؟ اس کے لیے ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ آج کل جس شعبہ میں کام کر رہے ہیں، یہاں بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کسی ہسپتال میں جاب کرتے ہیں۔ آپ وہاں خود ہی شعبہ جاتی ماحول اور مزید سکوپ کا جائزہ لیجئے۔ پہلے اپنا پورا بازو کھولئے اور کل کو اپنا پاؤں پسارئیے۔ آپ اپنے خاص شعبے سے منسلک رہتے ہوئے سیلف ٹریننگ، اضافی تجربہ اور اپنی امتیازی خصوصیات اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر بدستور درجہ بہ درجہ اوپر ترقی کرتے جا سکتے ہیں۔ بدستور اور بتدریج ترقی کرنے کی غرض سے اپنے مقاصد کے تعین کرنے کے ضمن میں یہ ایک قیمتی اور سنہری گر اور اصول ہے کہ آپ اپنی جگہ، مقام، شعبہ پر استوار رہ کر زیادہ جلدی اور بہتر طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔ آپ پہلے سے جس جگہ اور جس شعبہ میں کام کر رہے ہیں، ظاہر ہے یہ جگہ اور شعبہ آپ کے ذہنی میلان اور تخلیقی میلان کے عین مطابق ہو گا۔ لہٰذا آپ نے اس شعبہ میں مطلوبہ اور متعلقہ معلومات، مہارت اور تجربہ حاصل کر لیا ہو گا اس لیے آپ اپنی اس جگہ اور شعبہ پر مزید ترقی کرنے کے مقاصد کا تعین کریں اور پھر قوت ارادی اور اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مقاصد کو حاصل کر لیجئے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ’’ ناممکن‘‘ ہے تو پھر اس صورت میں آپ یقین مانیے کہ سب سے بڑا مسئلہ ’’ خود آپ کی اپنی ذات‘‘ ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور آپ کی سوچ ’’ مثبت اور ممکناتی‘‘ ہے تو آپ کو جلد ہی اس امر کا احساس اور ادراک ہو جائے گا کہ آپ کی راہ میں حائل ہونے والی ہر مشکل آپ کی ترقی اور فتح کی جانب ایک دعوت ہے۔ جب آپ کسی مسئلہ یا مشکل کا حل دریافت کر لیتے ہیں یا آپ اس صورتحال کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں تو پھر آپ کو اطمینان، خوشی اور فتح کا لطیف اور خوشگوار احساس اسی طرح مزید آگے ہی آگے چلنے پر اکسانے لگے گا۔ ایک دفعہ میں ایک صحرا کے اندر گاڑی چلاتے ہوئے جا رہا تھا کہ راستے میں کار کا پہیہ پنکچر ہو گیا اور بالکل فلیٹ بیٹھ گیا۔ اب پہیہ بدلنے کی خاطر اس پنکچر شدہ ٹائر کو اتارنے کے لیے جیک لگایا تو اس کوشش میں جیک ہی ٹوٹ گیا اور کار اپنے ایکسل پر آ گری۔ اب میں اس صحرا میں بے یار و مددگار، اپنی اس عجیب حالت سے سخت پریشان ہوا۔ کار کو کس طریقے سے اوپر اٹھایاجائے تاکہ یہ ٹائر اتارا جائے اور دوسرا لگایا جائے۔واقعی ایک بڑی مشکل آن پڑی تھی۔ ’’ آئیے ہم یہاں ایک گڑھ اکھود لیتے ہیں۔‘‘ میری بیوی کو فوراً یہ تجویز سوجھی۔ ہم نے فوراً اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ جہاں کار کا یہ پہیہ تھا وہاں سڑک پختہ نہیں تھی زمین پر بھی سیمنٹ کی طرح بہت سخت تھی۔ ٹائر رینچ کے ذریعے میں زمین کھرچتا اور کھودتا چلا گیا۔ ایک ایک پتھر، ایک ایک کنکر کو اکھاڑتا گیا۔ بہت محنت طلب کام تھا بہر حال اس قدر گہرا گڑھا کھود لیا گیا کہ اب کار کا یہ ٹائر اتارنا اور دوسرا ٹائر فٹ کرنا نہایت آسان ہو گیا اور بولٹ کس دئیے گئے اور ہم دونوں کو اس سخت محنت اور مشقت کے بعد جس قدر فرحت اور فتح، شگفتگی اور اطمینان کا احساس حاصل ہوا میں ابھی تک اسے نہایت خوشگواریت سے محسوس کرتا ہوں۔ ہر مشکل اور مسئلہ آپ کی ذاتی جیت اور فتح کا موجب ہو سکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زندگی، آغاز سے آخر تک اسی طرح خوش کن اور حقیقی مہم جوئی سے عبارت ہے۔ آپ بھی آزما کر دیکھئے۔ اگر آپ اپنے نجی مسائل اور ذاتی مشکلات کو چیلنج سمجھ کران کا سامنا نہیں کریں گے تو آپ کو ذاتی جیت، کامیابی، اور فتح کے لطیف اور خوشگوار احساس کے لطف اور شگفتگی سے شناسائی نہیں ہو سکتی یاد رکھئے یہ فتح کا لفظ کوشش اور جدوجہد سے مشروط ہے : Triumph = Tri + Umph فتح = کوشش + کیف، شگفتگی اپنی معقول اور مثبت ترجیحات اور اقدار کو مد نظر رکھئے: میں ایک بار یہ جان کر سر پٹا کر رہ گیا کہ ایک سزا یافتہ سابق مجرم نے بھی میری کتاب ’’ممکناتی سوچ‘‘ پڑھی اور اس سے بے حد متاثر ہو کر اس نے ایک ناقابل یقین پروگرام یہ بنایا کہ زبردست تشدد کے ذریعے ایک جگہ ڈاکہ ڈالا جائے۔ اگرچہ یہ شخص ممکناتی سوچ رکھتا تھا لیکن اس کی یہ سوچ ہرگز معقول او رمثبت نہیں تھی وہ غلط رخ پر میری ہدایت کا استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔ اپنے مقاصد کا تعین کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک، مذہب اور انسانیت کی اعلیٰ اقتدار کو مدنظر رکھیں۔ آپ کی سوچ مثبت، معقول اور اعلیٰ ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ کا مقصد اگر دولت یا مادی مفاد کا حصول ہے تو اس کے مقصد اعلیٰ اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے مقاصد کا تعین اپنے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے ذریعے کریں گے: ۱۔ اس پراجیکٹ پر کیا لاگت آئے گی؟ ۲۔ میں اس پراجیکٹ کے ذریعے کتنی رقم کما لوں گا؟ ۳۔ مجھے کیا کیا ضمنی مراعات یا سہولیات حاصل ہوں گی؟ اگر آپ ’’ تحفظ‘‘ کو اپنی ترجیحاتی قدر جان کر اپنے مقاصد کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کریں گے: ۱۔ کیا مجھے اپنی کامیابی کے بارے میں پختہ یقین ہے؟ ۲۔ کیا اس پراجیکٹ میںناکام ہونے کا اندیشہ ہے؟ ۳۔ کیا اس پراجیکٹ میں ناکام ہو جانے کا زیادہ امکان ہے؟ اگر آپ کو یسوع مسیح سے بہت زیادہ عقیدت ہے تو پھر آپ کے مقاصد کے تعین کے ضمن میں ’’ خدمت انسانی کا جذبہ‘‘ آپ کے مدنظر ہونا چاہیے اور آپ اپنے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھیں گے: ۱۔ کیا یہ پراجیکٹ دکھی انسانوں کی مدد کرے گا؟ ۲۔ کیا اس پراجیکٹ کے ذریعے میں مزید نیک، ہمدرد اور اچھا بن جاؤں گا۔ ۳۔ کیا اس پراجیکٹ کے ذریعے میری صلاحیتیں مزید نکھر جائیں گی؟ ۴۔ کیا یہ پراجیکٹ خدا تعالیٰ پر میرے پختہ اعتماد، یقین اور ایمان میں اضافے کا باعث بنے گا؟ یہ ضروری نہیں کہ انسان ہمیشہ ہی اپنے مقاصد کا تعین کرتا رہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مقاصد ہمیشہ اسے ایک اچھا انسان بنا دیتے ہیں۔ اگر آپ فی الواقع نظام قدر پر خلوص دل سے کاربند رہیں گے تو آپ بڑے بڑے فیصلے نہایت جلد از جلد او رپورے اعتماد کے ساتھ کر سکیں گے۔ میں جب چرچ میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتا تھا تو میری حیثیت تین خود مختار کارپوریشنز کے بورڈ کے چیئرمین کی تھی۔ میں وہاں جو بھی کام انجام دیتا تھا تو ہر وقت میرے ذہن میں مندرجہ ذیل تین سوالات موجزن رہتے تھے: ۱۔ کیا یہ کام خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو گا؟ ۲۔ کیا یہ کام دکھی انسانوں کے لیے سکون، آسانی اور خیر کا موجب بنے گا؟ ۳۔ کیا کوئی اور شخص بھی یہ کام انہی سطور پر انجام دے رہا ہے؟ اگر میرے مجوزہ کاموں کے لیے میرے ان پہلے دو سوالات کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں ہوتا اور تیسرے سوال کا جواب ’’ نہیں‘‘ میں ہوتا تو میں وہ مجوزہ کام ضرور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیتا تھا اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا تھا۔ جب ہم اعلیٰ اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مقصد کا تعین کرتے ہیں تو پھر اس مقصد کے حصول کے ضمن میں ہمارا ایمان، یقین اور اعتماد ہر اس مشکل کو آسان بنا دیتا ہے جو ہماری راہ میں حائل ہوتی ہے۔ تب ہم فیصلہ کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے۔ ہم جلد جلد فیصلے کرتے ہیں اور پھر ان فیصلہ کی تعمیل و تکمیل کے لیے: ۱۔ ہم اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو مجتمع کرتے ہیں۔ ۲۔ اپنے آپ میں ولولہ، جوش اور توانائی کو تازہ دم کرتے ہیں۔ ۳۔ ہم نئی تنظیم یا ادارے کی تشکیل کرتے ہیں۔ ۴۔ ہم تمام ضروری لوازما ت کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ کو میں پھر کہتا ہوں کہ آپ اپنے اعتماد کو مضبوط کریں۔ اگر آپ خود اعتمادی کو بروئے کار لائیں گے تو آپ اپنی ذات اور وجود کو اس قدر مستحکم کر لیں گے کہ اگر آپ سے ایک فیصلہ غلط ہو گیاہے تو آپ بد اثرات سے محفوظ رہیں گے اور جلد ہی آپ دوسرا فیصلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ مشرق بعید میں ائیر فورس کے ایک معائنہ ٹور کے دوران میں نے ایک مستعد جرنیل کے بارے میں یہ سنا کہ وہ ویت نام کے ان شہریوں کے بارے میں جو طبی سہولیات سے محروم رہے ہیں، بہت پریشان ہوا ہے اور اس نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا کہ انتظامیہ نے کیوں بروقت ان کے دکھوں، بیماریوں اور زخموں کا مداوا نہیں کیا۔ جب اسے یہ بتایا گیا: ’’ اس صورتحال میں انہیں طبی سہولیات مہیا کرنا ممکن نہیں۔‘‘ اس جواب پر بجائے مشتعل ہونے کے اس جرنیل نے اپنے ذہن کے تخلیقی خیالات کو مجتمع کیا اور جلد ہی اس نے اپنے ماتحت سٹاف کو یہ احکامات جاری کر دئیے: ’’ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے ادارے کے اعلیٰ دانشور حضرات باہم مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں کہ کس طرح جلد از جلد ان زخمی اور بیمار شہریوں کو مناسب طبی امداد اور سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں۔‘‘ ’’ میں اب یہ فیصلہ کرنے پر ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ کیا اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے یا حل کرنا چاہیے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ اس ضمن میں وقت کے ہر منٹ کا بہترین مصرف کرتے ہوئے اور ذہنی تخلیق کی تمام تر توانائیوں سے کام لیتے ہوئے یہ ممکن بنایا جائے کہ ہم جلد از جلد ایک ہسپتال تعمیر کر سکیں اور طبی سہولیات مہیا کر سکیں اس حکم کی ابھی اور فوری تعمیل کی جائے۔‘‘ اس جرنیل کے ماتحت عملے نے جنہیں اس حکم کی تعمیل کرنے کو کہا گیا تھا، بعد میں ہمیں بتایا: ’’ یہ بات نہایت حیران کن اور واقعی قابل تعریف ہے کہ کس قدر تیزی کے ساتھ صاحبان دانش کے دماغوں میں جلد از جلد آئیڈیاز آتے گئے اور باہمی یگانگت کے ساتھ زبردست اتفاق کے ساتھ سب نے مل کر دن رات کام کیا اور اس طرح صرف ساٹھ دنوں کے اندر تمام قسم کی طبی سہولیات سروس کے لیے تیار کر لی گئیں۔‘‘ غور کیا جائے کہ کون کون سے وسائل و ذرائع آپ کو میسر ہیں: اس بات پر اچھی طرح غور کیا جائے کہ آج کی دنیا میں اور اس جدید زمانے میں آپ کو کون سے ذرائع میسر ہیں جن کو اپنے مقاصد کی تکمیل اور حصول کے لیے بروئے کار لا سکیں۔ا ٓپ یہ فکر نہ کریں کہ کون کون سے وسائل آپ کی رسائی میں نہیں ہیں۔ اگر آپ کا مقصد نیک ہے، آپ کا نصب العین مثبت اور مفید ہے تو پھر اب اس کے حصول کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے کہ: ۱۔ وقت نہیں ہے ۲۔ صلاحیتیں نہیں ہیں ۳۔ سرمایہ نہیں ہے ۴۔ مہارت اور تجربہ نہیں ہے ۵۔ لیبر نہیں ہے ۶۔ انتظامی شعور نہیں ہے۔ اب اس جدید زمانہ میں آپ کے پاس مطلوبہ وسیلہ اور ذریعہ موجود ہے بلکہ ان وسائل اور ذرائع کی اس قدر ورائٹی اور بہتات ہے کہ ان کی کثرت دیکھ کر بڑے سے بڑے آئیڈیاز دماغ میں آنے شروع ہو گئے ہیں جس طرح مقناطیس فولاد کو کھینچ لیتا ہے اسی طرح وسائل کے ذخائر بڑے عمدہ اور مفید آئیڈیاز او ربڑی سوچ والے افراد کے لیے زبردست کشش کا باعث ہیں۔ وقت واقعی کم اور نہایت قیمتی ہے۔ لیکن دور حاضر میں آپ کئی طریقوں سے وقت بھی خرید سکتے ہیں۔ کئی صورتوں میں یہ عین ممکن ہے آپ کو کئی ایسے افراد میسر آ سکتے ہیں جو زیادہ تیز کام کر سکتے ہیں۔ اب رہی بات سرمائے کی، دولت اور رقم کے حصول کے لیے کئی آسان طریقے ہیں۔ عدم سرمایہ کے مسئلہ کو کئی طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ کریڈٹ کی سہولت ۲۔ قرضہ جات کی سہولت ۳۔ قسطوں پر ادائیگی کی سہولت ۴۔ دوستوں، تنظیموں اور ادارہ جات سے شراکت کی سہولت مقاصد کے تعین کرنے کے عمل میں ’’ وقت‘‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں اپنی ایک مثال دیتا ہوں۔ جب میں نے گارڈن گروو کمیونٹی چرچ کی تعمیر شروع کی تھی تو اس وقت میری عمر اٹھائیس سال تھی میرا خواب اور منصوبہ یہ تھا: ’’ میں یہاں اپنی عمر کے چالیس سال گزاروں گا۔‘‘ آپ یقین کیجئے کہ میرے شوق اور اس رویے نے میری دلچسپی اور استعداد کار میں زبردست اضافہ کر دیا۔ میں ہر ذری شعور شخص کو تاکیداً یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس جو بھی وقت باقی رہ گیا ہے اس کی بے قدری نہ کیجئے۔ اس کی بہت قدر کریں۔ اس باقی ماندہ وقت سے بہت فائدہ اٹھائیں۔ ایک امن پسند سمندری سیاحت کے دوران سفری جہاز پر میں نے اپنے مسافر دوستوں کو ’’ممکناتی سوچ‘‘ پر ایک لیکچر دیا۔ اس لیکچر کے بعد ایک پر جوش سامع نے مجھے بتایا: ’’ تیس سال پہلے میری خواہش یہ تھی کہ میں اپنے بارے میں یہ خبر سنتا کہ میں لکھ پتی بن کر مرا ہوں۔‘‘ میں نے اپنے اس مسافر دوست کی عمر کا اندازہ لگایا میرے خیال میں وہ ستاون برس کا ہو گا۔ ’’ آپ کی اب کیا عمر ہے؟‘‘ میں نے پوچھ ہی لیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے دیا۔ ’’ ۶۸ سال‘‘ میں نے اسے چیلنج کرتے ہوئے کہا: ’’ آپ اب بھی یہ پروگرام شروع کر سکتے ہیں۔ آپ لیٹ نہیں ہیں۔ آپ کی عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی کہ اس کی ابتداء نہ کی جائے۔‘‘ میں نے مزید وضاحت بیان کی: ’’ آپ اس وقت بھی جوان اور صحت مند دکھائی دے رہے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ آپ کی عمر اٹھانوے سال تک جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے پاس ٹھیک تیس سال کی مدت موجود ہے۔ آپ یہ پروگرام ابھی سے شروع کر لیں۔ اگر آپ مزید بیس سالوں کے بعد شروع کریں گے تو پھر آپ سخت افسوس کریں گے اور بہت پچھتائیں گے او ریہ کہیں گے کہ کاش میں یہ پروگرام بیس سال پہلے شروع کر لیتا۔ جب میں ابھی جوان تھا۔‘‘ میرا سفری دوست میری مثبت تجویز سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے ابھی سے سرمایہ کاری کے ذریعے لکھ پتی بننے کا تہیہ کر لیا۔ آپ بھی اگر عمر کے اس حصے میں ہیں اور آپ کو مزید زیادہ سالوں تک جینے کی امید کم ہے تو پھر بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔ آپ بے شک یہ نہ سوچیں کہ آپ کے پاس وافر وقت موجود ہے۔ البتہ یہ ضرور سوچیں کہ خدا تعالیٰ جس کے ہاتھ میں ہماری زندگیاں ہیں اس کے پاس تو وقت ہی وقت ہے۔ میرے والد صاحب نے سیبوں کا ایک نیا باغ بنایا تھا۔ جب ان کی عمر قریباً اسی سال تھی۔ انہیں خدا تعالیٰ پر پختہ یقین تھا کہ وہ انہیں اس قدر مزید عمر عطا کر دے گا کہ وہ اس باغ کا پھل کھا کر لطف اندوز ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لمحے ہمارے پاس ان گنت ذرائع ہیں او ربے شمار وسائل ہیں کہ ہمیں ان کا شمار اور اندازہ ہی نہیں ہے اور قدرت بہت مہربان ہے وہ ناقابل یقین طریقوں سے ہماری مدد کرتی رہتی ہے۔ میرے ایک عزیز دوست نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھاکہ اس کی چار خانوں والی فائلوں کی بڑی کیبنٹ اس کے چھوٹے سے بیٹے پر جو اس پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا گر پڑنے لگی تھی کہ فوراً اس کے باپ نے اپنے پاؤں کے بل جھک کر اپنی کمر کے سہارے سے اس کیبنٹ کو روک لیا اور اس طرح اس کا ننھا بچہ بال بال بچ گیا۔ اس بچے کا باپ نہایت جوش اور حیرانی سے بتا رہا تھا کہ خدا جانے اچانک اور فوری طور پر اس میں اس قدر عقل اور توانائی کہاں سے آ گئی تھی کہ چار سو پوند کی الماری کو گرنے اور بچے کو مرنے سے بچا لیا گیا۔ خدا تعالیٰ کے پاس لا محدود وسائل اور ذرائع ہیں اور وہ یہ وسائل ان لوگوں کے لیے ضرور میسر کر دیتا ہے۔ ۱۔ جو مثبت اور مفید سوچ رکھتے ہیں۔ ۲۔ جو زبردست ممکناتی سوچ کے مالک ہوں۔ ۳۔ جو خدا تعالیٰ پر پختہ ایمان، یقین اور اعتماد رکھتے ہیں۔ آپ اپنے گرد و پیش کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں: آپ جس ملک اور جس شہر میں رہتے ہیں اگر آپ اپنے ماحول اور گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے مواقع نظر آئیں گے جو آپ کے ذوق، رحجان، میلان اور حالات کے عین مطابق ہیں اور آپ کی ترقی اور خوشحالی کے منتظر ہیں۔ اس لیے میری یہ تاکید ہے کہ آپ اپنے مقاصد کا تعین کرتے وقت اپنے ماحول اور گرد و پیش میں مستور اور مضمر مواقع کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اٹھارہ سالہ ایک نوجوان لڑکے نے حال ہی میں مجھے کہا: ’’ میری یہ دلی تمنا ہے کہ میرے پاس بہت سے ڈالر ہوں اور میں اپنی زندگی نہایت خوشی اور خوشحالی سے بسر کروں اور جب میں مر جاؤں تو میرے پاس لاکھوں ڈالر ہوں اور میری یہ خطیر رقم دکھی انسانیت کے فلاح کے منصوبوں کے لیے کام آ جائے۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے اس تصور، خیال اور خواہش کو حقیقت کا رنگ دینے میں کس طرح کامیابی حاصل کروں؟‘‘ میں نے اس نوجوان سے پوچھا: ’’ کیا تمہیں امید ہے کہ ۷۸ سال عمر پاؤ گے‘‘ ’’ جی ہاں، مجھے یقین ہے کہ میں ۷۸ سال تک جیوں گا۔‘‘ اس نوجوان نے پورے یقین سے جواب دیا، میں نے کہا: ’’ پھر میں تمہیں ضرور ایسا طریقہ بتاتا ہوں کہ تم اپنی زندگی ہی میں لاکھوں ڈالر کما لو گے۔‘‘ اس نوجوان نے نہایت حیرت اور اشتیاق سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ ’’ اس کا آسان اور یقینی طریقہ یہ ہے کہ آپ ممکناتی سوچ کو اختیار کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ سازی کریں۔ آپ کو اس خاص مقصد کے حصول کے لیے ان اقدام پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘ ۱۔ آپ خوب محنت کریں اور زیادہ سے زیادہ کمائیں اور اگلے سال کے لیے پندرہ سو ڈالر کی بچت کریں۔ ۲۔ اب آپ اس بچت میں ہر سال دو ہزار ڈالر کا اضافہ کرتے جائیں او ریہ سلسلہ اگلے بیس سالوں تک جاری رکھیں۔ ۳۔ جب آپ کی عمر اڑتیس (۳۸) سال کی ہو جائے گی تو آپ کی بچت شدہ کل رقم چالیس ہزار ڈالر ہو جائے گی۔ اب آپ اس رقم کو آٹھ فیصد نفع پر بطور سرمایہ استعمال کریں اور آپ مرکب سود کی شرح سے سالانہ نفع جمع کرتے رہیں۔ ۴۔ اب آپ ایک غیر منافع بخش کارپوریشن تشکیل دے کر یہ سرمایہ یہاں جمع کر دیں تو اس طرح یہی چالیس ہزار ڈالر چالیس سالوں میں دس لاکھ ڈالر ہو جائیں گے۔ ۶۔ اس طرح جب آپ کی عمر ۷۸ سال کی ہو گی تو آپ کے پاس یہ دس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم موجود ہو گی جس کی بدولت آپ غریبوں اور بیماروں کے لیے کئی فلاحی ادارے چلا کر انہیں سکھ اور آرام دے سکتے ہیں۔ میں نے آپ کو ریاضی کے حقائق کی روشنی میں یہ ترکیب بتا دی ہے جو آپ کی خواہش، تصور، تخیل اور خواب کے عین مطابق ہے۔ اس تفصیل کو دلچسپی اور توجہ سے سننے کے بعد اس نوجوان نے حیرانی اور اشتیاق کے ساتھ یہ عزم کیا کہ وہ اس پروگرام پر اسی طرح عمل کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ اس نے ایسا ضرور کیا ہو گا۔ ایک دفعہ ایک دولت مند اور ممتاز عمارتی ٹھیکیدار سڑک کے ایک کنارے پر کھڑا اوپر کی جانب ایک بلند و بالا آفس بلڈنگ کے سٹرکچر کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس اثناء میں اس کے پا س ایک نوجوان لڑکا آن کھڑا ہوا۔ سلام دعا کے بعد نوجوان نے اس سے پوچھا: ’’ جناب، کیا آپ بتائیں گے کہ جب میں بڑا ہوں گا تو میں بھی کس طرح آپ جیسا کامیاب شخص بن سکتا ہوں؟‘‘ سفید بالوں والے اس عمارتی ٹھیکے دار نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نوجوان کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پھر اپنے شعبہ کی خاص سخت زبان میں بولا: ’’ اے آرام پرست لڑکے! جا ایک سرخ رنگ کی قمیض خرید لا اور دیوانہ وار مزدوری شروع کر دو۔‘‘ یہ جان کر اس لڑکے کو اس امیر کبیر ٹھیکے دار جو ایک بلند تر عمارت بنوا رہا تھا کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس نے اسی عمارت کے ایک زیر تعمیر سٹرکچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاـ:ـ ’’ وہ دیکھو کچھ مزدور وہاں کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ ان سب نے سرخ قمیضیں پہن رکھی ہیں۔ مجھے تو ان کے نام بھی معلوم نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ مزدور بہت سخت محنت کرتے ہیں۔ ابھی مستقبل قریب میں مجھے ایک نئے سپرنٹنڈنٹ کی ضرورت پڑے گی تو میں ان میں سے کسی ایک کو آواز دوں گا اور کہوں گا کہ میرے پاس تمہارے لیے ایک بہتر موقع موجود ہے۔‘‘ اب اس مثال سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس ٹھیکے دا رنے نہ تو نوجوان کو سنجیدگی سے اس کے سوال کا جواب دیا اور نہ ہی اس مزدور کو جسے موقع فراہم ہونے والا تھا کسی قسم کی پلاننگ پہلے سے کر رکھی تھی کہ اسے یقین طور پر ترقی حاصل ہو گی۔ اس لیے یہ امر یاد رکھئے کہ لوگوں کی اکثریت جو ناکام ہو جاتی ہے اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہوتی کہ ان میں صلاحیتوں، سرمائے یا مواقع کی کمی ہوتی ہے بلکہ وہ اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے یقینی طور پر کامیاب ہونے ترقی کرنے اور خوشحال ہو جانے کی باقاعدہ پلاننگ نہیں کی ہوتی۔ اس لیے آپ جس ماحول میں رہتے ہیں اور خواہ آپ کے حالات کیسے بھی ہوں، اپنے مستقبل کو سنوارنے اور کامیاب ہونے کے لیے لازمی طور پر پلاننگ کریں۔ اگر آپ پلاننگ کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ در حقیقت خود ہی ناکام ہو جانے کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں ’’ ۱۹۵۵ء میں میں نے ایک نیا چرچ تعمیر کرانے کا آغاز کا منصوبہ بنایا تھا چنانچہ پانچ سو ڈالر کے سرمائے سے اپنی بیوی بطور ممبر کے تعاون سے اور ایک راہ داری کو بطور دفتر بنا لینے سے اس کام کا آغاز کر دیا گیا۔‘‘ میں نے اس چرچ کے لیے ایک شاندار تصور اپنے ذہن میں سجا رکھا تھا، گارڈن، پھول ہی پھول، لوگوں کا مکمل سٹاف، ہر ضروری چیز، غرض ایک معیاری چرچ میرے تخیل میں تھا۔ آج دیکھ لیجئے، بائیس ایکڑ کے وسیع رقبہ پر مشتمل کیمپس میں لوگ ٹہل رہے ہیں۔ وہ شیشے کے بنے خود کار زینوں پر چڑھ جاتے ہیں اور وہ بلند تر پندرہویں منزل تک احساس سکون و لطف کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں اپنے گرد و پیش میں پھولوں کی بہار دکھائی دیتی ہے اور وہ اس منظر سے بہت مسرور اور متاثر ہو جاتے ہیں۔ وہ اس چرچ کی تعریف کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ اس قدر عمدہ، خوبصورت دلکش ہے کہ یقین نہیں آتا۔ تو میں ان کی اس تعریف سے نہ تو فاخرانہ اثر قبول کرتا ہوں اور نہ ہی حیران وہتا ہوں میں تو نہایت ایمانداری سے انہیں یہ جواب دیتا ہوں: ’’ ہم نے مل کر اس کو اسی طرح سوچا تھا لہٰذا یہ ہماری پلاننگ کے مطابق تیار ہو گیا۔‘‘ آپ بھی عمدہ پلاننگ کریں۔ اپنے خاص مقاصد کا تعین کریں: ۱۔ آپ اپنے خاص مقاصد کی فہرست بنا لیں۔ ۲۔ آپ ان مقاصد کے حصول کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں۔ ۳۔ آپ اپنے تحت الشعور میں ان مقاصد کو نقش کر لیں۔ اپنے تصور کی آنکھ سے ذہن کی ویڈیو سکرین پر ان مقاصد کا تخیل سجا لیں۔ ۴۔ اب پورے استقلال کے ساتھ ان مقاصد کی تکمیل اور حصول کے لیے کوشش شروع کر دیں۔ ۵۔ آپ ہر روز اپنے تصور میں اس کا تخیلی جائزہ لیتے رہیں کہ کام کی رفتار اور کارکردگی کا معیار کیا ہے؟ ۶۔ آپ اپنے ہر مقصد کی تکمیل کے لیے وقت کی مقررہ حد کا تعین کریں اور کوشش کریں کہ اس مقررہ عرصے سے آپ کا یہ مقصد حاصل ہو جائے۔ اگر آپ اس طرح نہیں کریں گے تو تذبذب، ذہنی انتشار اور بدحالی کا شکار ہونے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا اور ناکامی کے اثرات نمایاں ہو جائیں گے۔ آپ اپنے آپ سے ہر وقت یہ سوال پوچھتے رہیں: ’’ میں مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں کون سا قابل ذکر کام کر جاؤں؟‘‘ اس کام کا تعلق کسی شعبہ سے ہو، اس کام کا اور اس کے اعلیٰ معیار کا تعین آپ ضرور کریں۔ اگر اس عظیم کام کا تعلق تعلیم سے ہے اور آپ کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو آپ اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کریں۔ اگر آپ کے خاص مقصد کے حصول کے لیے دولت اور سرمائے کی ضرورت ہے تو آپ زیادہ رقم کمانے کے مثبت اور موثر طریقوں سے کام لیں۔ آپ اپنی رقم نئے پراجیکٹ، پلان، اداروں اور لوگوں پر بطور سرمایہ لگائیں اور خوب منافع حاصل کریں۔ اگر آپ کو اپنے مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے زیادہ صلاحیت، مہارت اور تجربے کی ضرورت ہے تو آپ مختلف فنی اداروں سے پیشہ ورانہ ٹریننگ کے ذریعے اپنی مہارت اور تجربے کو معیاری بنائیں۔ آج کل تو ہر شعبہ سے متعلق فنی مشاورت اور مہارت مناسب فیس پر دستیاب ہے۔ بہرحال آپ کا مقصد کوئی بھی ہو، اس کے حصول کے لیے آپ ہر اس موقع کو جو آپ کی دسترس میں ہے، سے جلد اور بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ خدا تعالیٰ آپ کے تصورات کو ایسی خوابوں سے سجا رہا ہے۔ جن کو آپ حقیقت کا رنگ دے کر اس کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔ آپ اس خدائی نعمت اور عطا کو محض یہ کہہ کر رد نہ کر دیں کہ یہ ناممکن ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی از حد ناشکری ہو گی۔ کوئی بڑے سے بڑا خطرہ، مشکل، مسئلہ اور مصیبت آپ کو اپنے مقصد میں ناکام نہ کر سکے۔ اگر آپ استقلال اور مستقل مزاجی کے ساتھ نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے مجوزہ پلان پر عمل کرتے چلے جائیں گے تو کوئی مشکل اور خطرہ آپ کو اپنے مشن میں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکے گا۔ سب سے بڑا خطرہ جو آپ کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے، وہ خود آپ کی اپنی غیر ذمہ دارانہ غفلت، سستی اور کام میں بے قاعدگی ہو گی جو آپ کو ترقی کرنے سے یکسر روک دے گی۔ خوب یاد رکھئے کہ مقاصد کے تعین کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ زندہ اور ترقی پذیر لوگ اور ادارے اس سلسلے کو ہمیشہ جاری و ساری رکھتے ہیں۔ ایک مقصد کے بعد دوسرے مقصد کا حصول، بلکہ کئی مقاصد متوازی طور پر جاری رہتے ہیں۔ مقصد کے تسلسل کی مثال زندگی کے لیے چلتی نبض کی طرح ہے، یہ دل کی دھڑکن اور سانس لینے کے مترادف ہے۔ ایک شخص نے میری منصوبہ بندی اور مقاصد میں کامیابی کے معیار اور رفتار کو دیکھ کر مجھے کہا: ’’ ڈاکٹر شلر! یوں لگتا ہے آپ اس وقت تک زندہ ر ہیں گے جب تک آپ کے سارے خواب حقیقت نہیں بن جاتے۔‘‘ میں نے اس شخص کی اس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا: ’’ نہیں، مجھے ایسی تو کوئی امید نہیں۔ اگر میں ایک خواب کے بعد دوسرا خواب نہ دیکھوں اور ایک مقصد کی تکمیل کے بعد دوسرے مقصد کی تکمیل نہیں کروں گا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا۔ ممکن ہے میری طبعی موت واقع ہو جائے۔‘‘ جب ایک شخص اپنے ایک مقصد میں کامیاب ہو جائے اور پھر وہ اپنے کسی اور مقصد کا تعین نہ کرے تو در حقیقت اس کی موت واقع ہو جاتی ہے وہ پھر صرف نام کو جیتا ہے یا دوسروں کو زندہ نظر آتا ہے۔ جب کوئی شخص خواب دیکھنا، تصور باندھنا، تخیل بننا بند کر دیتا ہے تو اس کی قلبی، ذہنی اور روحانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ آپ اس بات سے کبھی خوفزدہ نہ ہوں کہ ایک دن موت آ جائے گی۔ بلکہ آپ اس کیفیت سے ڈرتے رہیں کہ جب آپ پر ایسی موت وارد ہو جائے کہ آپ موت سے پہلے ہی مر جائیں۔ یہ کیفیت نہایت اذیت ناک ہو گی۔ یہ زندگی کا ایک عالمگیر اور مسلم اصول ہے کہ ایک جاندار، ایک شخص یا کوئی ادارہ جب نشوونما پانا ترک کر دیتا ہے اور اس کی بنیاد اور بیج میں زندگی کے بجائے موت داخل ہو جاتی ہے۔ آپ اپنے بڑے بڑے مقاصد کا تعین کریں تاکہ آپ اپنے ان مقاصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی زندگی میں مصروف رہیں اور اس کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے مقاصد، یکے بعد دیگرے باقاعدہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھیں۔ اس کے باعث آپ کی زندگی مجموعی طور پر ’’بامقصد ‘‘ ہو جائے گی۔ آپ ایک عظیم انگریز فلاسفر کے اس قول کو یاد رکھیںـ ’’ عظیم لوگوں کی عظیم خوابیں نہ صرف بعینہ حقیقت میں بدلتی ہیں بلکہ معیار میں زیادہ ماورا ہو کر حقیقت کے بہتر روپ میں پوری ہو جاتی ہیں۔‘‘ اس لیے زیادہ پر جوش مقاصد آپ کی خوشحال زندگی کا باعث ہیں۔ ٭٭٭ ۳ مسائل حل کرنے کے قابل عمل اصول اب آپ اپنے مسائل، مشکلات اور مصائب پر بطریق احسن قابو پانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔آپ اپنے قلب و ذہن میں اس یقین کو راسخ کر لیں کہ آپ کے جس منصوبے اور پروجیکٹ میں مسائل اور مشکلات حائل نہیں ہیں وہ قابل ذکر اور حقیقی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ جب آپ اپنے حتمی مقاصد کا تعین کر چکیں تو پھر آپ کو ان کی کامیاب تکمیل اور مکمل حصول کے لیے ممکناتی سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ میرے ایک نہایت ہی اچھے دوست والٹر برکی، جو خلائی تسخیر کے ابتدائی دور میں میکڈونل ڈوگلس کمپنی کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے، مجھے کہنے لگے: ’’ میں نے خلائی تسخیر کے کئی مہمات کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی امر ایسا نہیں ہے کہ جس کے حصول کے لیے اس میں حائل مشکلات کا حل موجود نہ ہو۔ ہر ناممکن مسئلہ محض ہمیں نئی ایجاد یا تخلیقی اختراع کی راہ میں ایک عارضی رکاوٹ نظر آتا ہے۔‘‘ والٹر برکی کی ولولہ انگیز قیادت میں اس کمپنی نے ۱۹۷۳ء کے طے شدہ پروگرام کے عین مطابق خلائی لیبارٹری قائم کرنے کا ہدف حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی اپنی اس قابل تعریف اور زبردست لیبارٹری کا معائنہ کرایا تھا اور میں نے ان کی مشاورت سے اس لیبارٹری میں عالی شان، آرام دہ اور جدید دفتر تعمیر کروایا تھا اور اس دفتر کی میز کے عین عقب کی دیوار پر ایک بہت بڑے فریم دار پینل میں میری ایک تحریر کا اقتباس بڑے حروف میں لکھوا گیا۔ یہ اقتباس ’’ممکناتی سوچ کا منشور‘‘ ہے جو میں نے چند ماہ پہلے ہی لکھا تھا۔و الٹر برکی نے میرے اس ’’منشور‘‘ کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’’ اس منشور میں ہر وہ بات کہہ دی گئی ہے جس پر یہاں ہم سب یقین کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ وہ منشور یہ ہے: When faced with a mountain I will not quit I will keep on Striving Untill I Climb over, Find a pass through Tunnel underneath. Or Simply stay and tun the mountain Into a gold mine! with God,s help By Dr. Raberl H. Schuller ’’ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر میں ہر مشکل کا سامنا کرں گا خواہ میری راہ میں حائل ایک پہاڑ بھی آ جائے میں اپنے مقصد سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا میری جدوجہد جاری رہے گی میں اس پہاڑ کی چوٹی پر سے کود جاؤں گا یا اس پہاڑ کے بیچ سے ایک سرنگ کاٹ کر اپنا رستہ بنا لوں گا یا پھر کسی تدبیر سے اور خدا کی خاص نصرت سے اپنے راستے میں حائل اس پہاڑ کو سونے کی ایک کان میں بدل ڈالوں گا۔‘‘ انہی دنوں والٹر برکی نے مجھے چونکا دینے والی معلومات سے بھی آگاہ کیا: ’’ کئی سال پہلے کی بات ہے، جب میں ہو ابازی کے شعبہ میں انجینئرنگ ڈگری کا طلب علم تھا تو ہمیں کلاس روم میں یہ پڑھایا جاتا تھا کہ آواز سے تیز جہاز نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے مزید مشینری لگانے سے جہاز کا وزن بڑھ جائے گا اور اس کا سائز بھی بڑا ہو جائے گا اور پھر یہ فضا میں اڑ نہیں سکے گا۔‘‘ جب والٹر یہ بات بتا رہے تھے تو ساتھ مسکرا بھی رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا: ’’ اس کے علاوہ ہمارے انسٹرکٹر نے ہمیں کلاس میں یہ سبق دیا کہ اس بات کا انتہائی کم امکان ہے کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی ہماری آج کی ایجادات کو فرسودہ قرار دے سکے۔ اس لیے کہ آواز سے تیز رفتار جہاز ناممکن ہے کیونکہ اگر ایسی کوشش کی جائے گی تو جہاز ٹوٹ کر ٹکڑوں میں بکھر جائے گا۔‘‘ اب ا س کتاب کے قارئین یہ اندازہ کر لیں کہ کس قدر غلط معلومات ڈگری کورس میں دی جا رہی تھی۔ اگر والٹر برکی جیسے تخلیقی لوگ نہ ہوتے جنہوں نے ان تمام ناممکنات کا حل نکال لیا ہے اور جو ہر بات کو ممکن بنانا جانتے ہیں تو ہم ابھی تک آواز سے کم رفتا رجہاز ہی کو جدید ایجاد قرار دیتے رہتے۔ میں نے اپنی ایک کتاب ’’ ممکناتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے چلو۔‘‘ میں ایک باب لکھا ہے جس کا عنوان ہی یہ ہیـ: ’’ ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔‘‘ اس بات کو بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ میں ایک مشرقی کالج کی ایک نوجوان لڑکی سے فون پر بات کر رہا تھا۔ اس لڑکی نے میری کتاب کی اس سطر کو پڑھ رکھا تھا کہ ہر مسئلے ک احل ضرور موجود ہوتا ہے۔ اب وہ فون پر مجھ سے اپنے ایک سنگین مسئلے کا حل پوچھ رہی تھی: ’’ ڈاکٹر شلر! میری سٹڈیز میں سے میرا ایک اہم مضمون کیمسٹری ہے اور میں کیمسٹری کے شعبہ ہی کو آگے اپنانا چاہتی ہوں۔‘‘ اس لڑکی کی آواز کانپ رہی تھی اوراس کا لہجہ دکھ کے جذبات سے بھرپور تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے ابھی ابھی کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ نے اپنے دفتر میں بلایا اور فیل شدہ سٹوڈنٹس میں اس کا نام دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ کیمسٹری میں پاس نہیں ہو سکی۔ بات کرتے ہوئے یہ لڑکی روتی جاتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے رونا بند کیا تو بتایا کہ پروفیسر نے وارننگ دے دی ہے کہ وہ اگر سمسٹر کے امتحان میں کیمسٹری میں پاس نہ ہوئی تو اسے یہ مضمون چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بتا کر لڑکی نے پر جوش لہجے میں کہا۔ ’’ ڈاکٹر شلر! آپ تو کہتے ہیں کہ ہر مسئلہ کا حل ضرور ہوتا ہے۔ آپ بتائیں کہ میری مشکل کا کیا حل ہے۔ سمسٹر کے امتحان میں صرف ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ اگر میں اس میں پاس نہ ہو سکی تو میر امستقبل تباہ ہو جائے گا۔‘‘ مجھے تو اپنے بارے میں اچھی طرح معلوم تھا کہ کیمسٹری کے مضمون پر مجھے اس قدر دسترس حاصل نہیں ہے کہ میں اسے کیمسٹری کے مشکل سوالات، تھیوری نوٹس یا کیمیائی معلومات فراہم کر سکوں۔ میں نے اس وقت خدا سے دعا کی، یا اللہ، میری مدد فرما، فوراً ہی مجھے آواز آئی گویا میں اپنے آپ کو ہی کچھ کہہ رہا ہوں۔ جیسے ہی میں اپنی خود کلامی سے فارغ ہوا تو میں نے لڑکی کو جواباً کہا: ’’ بیٹی، آپ کیمسٹری کے پروفیسر صاحب کے پا س جائیں اور اسے کہیں کہ مجھے اس بات کا خوب احساس ہے کہ مجھے اس مضمون میں کم از کم ’’ بی گریڈ‘‘ ضرور لینا ہے ۔ نیز اسے بتائیں کہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس مضمون کی کامیابی پر میرے مستقبل کا انحصار ہے اور میں اس مضمون کی اہمیت کو خوب سمجھتی ہوں۔ آپ اسے یقین دلائیں کہ میں اس مضمون میں کامیاب ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی۔‘‘ چنانچہ اس لڑکی نے بالکل ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے اسے ہدایت کی تھی۔ اس کے پروفیسر نے اس لڑکی کی بات نہایت غور سے سنی۔ وہ اس کے حوصلہ، عزم اور احساس سے بہت متاثر ہوا اس نے کہا: ’’ میں تمہارے ساتھ تعاون کے تیار ہوں۔ تم اس سمسٹر کی تیاری کے لیے ایک ٹیوٹر رکھ لو اور خوب پڑھائی کرو۔ میں اگلے سمسٹر کے پہلے تین ہفتوں کے دوران میں تم سے دو بار کیمسٹری کا ٹیسٹ لے لوں گا اور یہ ٹیسٹ تمہارے فائنل امتحان ہی میں شامل سمجھے جائیں گے۔ ان دو ٹیسٹوں میں حاصل کئے گئے نمبروں کی اوسط نکال کر جو گریڈ بنے گا، اسے شمار کر لیا جائے گا۔‘‘ پروفیسر آف کیمسٹری کی یہ بات سن کر لڑکی خوشی کے مارے رو پڑی۔ اس کے یہ آنسو نئی امید کی خوشی کے آنسو تھے۔ وہ کیمپس میں دوڑتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ایک قدم سے دو دو سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی وہ دوسری منزل میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ کتابوں کو بستر پر پھینکااور جلدی سے ٹیلی فون پکڑا اور اپنی خوشی بانٹنے کے لئے مجھے فون کرنے لگی: ’’ جی ڈاکٹر شلر، اب امید بندھ گئی ہے، آپ کی مشاورت، ہدایات اور حوصلہ افزائی کا شکریہ۔‘‘ اس لڑکی نے مڈٹرم امتحان کی تیاری کے لیے ایک ٹیوٹر کی خدمات حاصل کر لیں۔ اس نے دل لگا کر خوب محنت کی۔ وہ مشکل سوالات کا جواب بار بار پوچھتی، ہر روز کیمسٹری کی پرابلم حل کرتی۔ اس لڑکی نے کورس کے پورے سوالات کی پھر دہرائی کی۔ اب اس کے اندر امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا اعتماد پیدا ہو گیا تھا۔ سیکنڈ سمسٹر کے دوہفتوں کے دوران اس نے دونوں ٹیسٹ دے دئیے۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب دونوں ٹیسٹوں میں اے گریڈ حاصل کر لیا۔ا یک ہفتہ کے بعد اس نے فائنل امتحان بھی دے دیا اور مجموعی طور پر بی گریڈ لے لیا۔ اس کے مستقل تعلیمی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے آرگینگ کیمسٹری میں بی گریڈ حاصل کیا تھا۔ کامیابی حاصل کرنے کے فلسفہ کا سب سے اہم اصول، جس کے تحت تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل چودہ لفظوں کے اس جملہ پر استوار ہے۔ ’’ یہ مت خیال کریں کہ کوئی مسئلہ ایسا ہے جس کا کوئی حل نہیں۔‘‘ اس بات پر پختہ یقین جما لیں، حتیٰ کہ اگر آپ کبھی یہ محسوس کریں کہ ایسی مشکل اور مسئلہ درپیش ہے جس کا حل بظاہر ناممکن ہے تو بھی آپ ہار نہ مانیں اور آپ اپنے اوپر کسی منفی قوت کو غالب نہ ہونے دیں۔ آپ جو مشکل کام بھی کریں تو منفی الفاظ اور جذبات کا اظہار کبھی نہ کریں، کیونکہ اس طرح کرنے سے آپ کے شوق، ولولہ اور ہمت میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور تذبذب کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، کئی شکوک جنم لے سکتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ مثبت انداز فکر اور ممکناتی سوچ کو اپنی حکمت عملی بنانا ہے۔ پھر دیکھئے آپ کو زندگی کے ہر قدم پر کامیابی ضرور ملے گی۔ منفی سوچ رکھنے والے عناصر سے خبردار رہیں: میں آپ کو اس دنیا میں موجود خطرناک اور تباہ کن منفی قوتوں سے خبردار کرتا ہوں۔ کئی ایسے بھی مشیر، ناصح اور ماہرین ہیں جو سرا سر منفی سوچ کا درس دیتے ہیں۔ وہ اپنی دلفریب باتوں، اپنے شاندار منصب اور اعلیٰ اختیار کے باعث آپ کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنے دام میں پھنسا کر اپنے منفی انداز فکر سے مرعوب کر سکتے ہیں۔ آپ کو ان سے ہوشیار اور دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔ بعض اوقات ہم شعور کی سماعت سے نہیں بلکہ کسی تعلق، اثر اور کوشش کے باعث غلط لوگوں کی بات پر کان دھر لیتے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والے ماہرین سے دور ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والا ماہر وہ ہے جس کی معلومات، مہارت اور تجربہ تو معیاری ہوتا ہے لیکن اس نے اپنی زندگی میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی ہو تی۔ وہ آپ کو بار بار اپنی مثالیں دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ اعلیٰ تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں، دیکھو مجھے تعلیم نے کوئی فیض نہیں پہنچایا۔ کبھی وہ آپ کو یہ کہے گا کہ فنی مہارتیں حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دیکھو مجھے ٹیکنالوجی کی ڈگری نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور کبھی وہ آپ کو یہ کہہ کر مزید تجربہ حاصل کرنے سے روک دے گا اور اپنی مثال دے کر یہ کہے گا، دیکھو میرے تیس سالہ تجربے نے مجھے کامیابی سے روشناس نہیں کیا۔ ایسی منفی سوچ رکھنے والا شخص آپ کو اپنے مختلف پہلوؤں کی رعونت، تکبر، نخوت اور غرور سے متاثر کرنے کی کوشش کرے گا اور کئی فرضی واقعات اور من گھڑت مثالیں دے کر آپ کو ورغلانے کی کوشش کرے گا۔ آپ یقینا تعجب کریں گے کہ اس کے الفاظ میں زبردست فن خطابت جھلکتا ہے لیکن اس کے خیالات غیر حقیقی اور منفی ہیں۔ وہ اپنی حیثیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہو گا لیکن وہ لگاتار ناکامیوں کا ایک نمونہ ہے۔ آپ ہرگز ایسے ماہرین کی باتوں پر توجہ نہ دیجئے۔ ایسے لوگ آپ کی ترقی کی رفتار اور آپ کی کامیابی کے یقین کو کم کر دیں گے اور آپ کو اپنے مقاصد کے حصول میں مہینوں اور سالوں کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ آپ ممکناتی سوچ رکھنے والے ماہرین کی جستجو کریں اور ان کے ساتھ منسلک ہو جائیں۔ ممکناتی سوچ کا ماہر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی ایسے نئے تصور، خیال یا آئیڈیا سے متصف ہوتا ہے جس پر تاحال کسی نے کامیابی حاصل نہیں کی ہوتی تو وہ اس کو سنہری موقع سمجھ کر اس جوش، ولولہ اور جذبہ سے سرشار ہو جاتا ہے کہ اس کی کامیاب تکمیل کی بدولت بانیوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ ایسا شخص پرانے مسائل کو نئے وسائل سے حل کرنے کے جدید طریقے دریافت کرنے کے مواقع سے پرجوش ہو جاتا ہے اور تاریخی کارنامے انجام دینے کا عزم کرتا ہے۔ ایسے شخص کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان مقاصد کے کامیاب حصول کی خاطر ہر مشکل سے مشکل تر مسئلے پر قابو پانے اور مثبت اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا شخص دور حاضر کی جدید ترین ایجادات اور ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کر کے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ ماضی کے محققین اور موجدوں نے مناسب آلات، مہارت اور اعلیٰ علم کے فقدان کی بدولت مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی جو آج کے جدید دور میں جدید ترین معاونات اور سائنسی علم کے باعث ممکن ہے۔ ممکناتی سوچ رکھنے والا ماہر اکثر یہ بات دریافت کرتا ہے کہ ماضی میں لوگوں کی ناکامیاں کسی خاص ’’ وجوہات‘‘ کی بناء پر نہیں بلکہ عدم اعتماد اور قوت ارادی کے فقدان جیسی رکاوٹیں تھیں۔ جنہوں نے تخلیقی مفکرین و محققین کی مزید کوششوں میں کمی کر دی تھی۔ ممکناتی سوچ کا حامل شخص بحیثیت باخبر محقق ان ایجادات اور اختراعات کو ممکن کر دکھانے کے لیے تمام قسم کی رکاوٹوں، مزاحمتوں اور مشکلات کو دور کر کے اور جدید ترین تخلیقی طریقوں کو بروئے کار لاتا ہے، جو ماضی میں معرض وجود میں نہیں آ سکی تھیں۔ ایک دن موسم بہار کی شام کو میرے گھر پر مجھے فون آیا: ’’ کیا آپ ہی وہ ڈاکٹر شلر ہیں جنہوں نے ممکناتی سوچ کے ساتھ آگ بڑھتے چلو کتاب لکھی ہے؟‘‘ یہ آواز کسی نوجوان لڑکی کی معلوم ہوتی تھی۔ میں نے اقرار کر لیا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس نے یہ کتاب لکھی ہے۔ ’’ آخر آپ تک میری رسائی ہو ہی گئی ہے نا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ آپ سے فون پر بات ہو سکتی ہے یا نہیں۔ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اس کے اشتیاق پر اس کو وقت دے دیا: ’’ اوکے، آپ کل صبح آ جائیے۔ میں ضروری اور پہلے سے طے شدہ ملاقاتوں کے درمیانا ٓپ کو مل لوں گا۔‘‘ اگلے دن صبح کو میری آفس سیکرٹری نے انٹر کام پر سرکوشی کرتے ہوئے کہا: ’’ ایک نوجوان خاتون آئی ہے، وہ اپنا نام باربرا بیسنجر بتاتی ہے وہ کہتی ہے کہ آپ سے ملنا ہے۔ بتا رہی ہے کہ کل شام آپ نے اسے آفس آنے کا کہا تھا۔‘‘ ’’ ہاں ہاں اسے اندر بھیج دیجئے۔‘‘ میرے دفتر کا دروازہ کھلا تو مجھے عجیب و غریب ایک مشینی صورت نظر آئی۔ ایسا منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک جوان لڑکی وہیل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا تو سارا جسم ہی دھات اور چمڑے کی ناقابل یقین معاونات سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کے دونوں پاؤں سٹیل کی پتریوں اور چمڑے کی بیلٹوں کے سلسلہ میں کسے ہوئے تھے۔ اسی طرح ٹخنوں کے ساتھ بھی چمڑے کے سٹریپ آر پار ترکیب سے گھٹنوں تک قبضوں اور پتریوں کے ساتھ فٹ تھے اور پھر دھات کی مزید پتریاں اس کی رانوں تک جوڑ کر اس کے پیٹ کے گردا گرد بولٹوں کے ساتھ دھاتی پیٹی کے ساتھ کس دی گئی تھیں۔ اس لڑکی کی وہ چمکتی ہوئی آنکھیں مجھے دیکھتی ہوئی ماسک میں سے نظر آئیں جو دھات اور چمڑے سے بنا ہوا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر اپنا ہاتھ بھی اوپر کیا تھا، اس کے دونوں ہاتھ بھی بازوؤں تک دھاتی پتریوں سے کسے ہوئے تھے۔ ’’ آپ مجھے دیکھ کر حیران ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے ہنستی ہوئی آواز میں مجھے پوچھا۔ ’’ ہاں، واقعی۔ میں حیران ہوا ہوں، میں نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کسی کو نہیں دیکھا‘‘ میں نے اپنی حیرانی تسلیم کر کے اس کی بات کا جواب دے دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے بارے میں تفصیل بتانی شروع کر دی۔ ’’ میں دماغی فالج اور جسمانی جذام کی مہلک بیماری میں مبتلا ہوں۔ بچپن ہی میں طبی ماہرین نے میرے والدین کو بتا دیا تھا کہ کبھی بھی چل نہیں سکوں گی اور نہ ہی سکول تک دور جا سکوں گی۔‘‘ لیکن میں جب ذرا بڑی ہوئی تو میں نے آپ کے یہ الفاظ کہیں سے سنے: ’’ اگر تمہارے اندر ایک دائی کے دانے برابر بھی ایمان اور یقین ہے تو آپ پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں۔‘‘ میں نے یہ بات اپنے ذہن میں بٹھائی۔ اس نظریے نے مجھے بہت حوصلہ اور ہمت دی۔ میں نے پھر ایسے ڈاکٹر کو تلاش کیا جو مثبت سوچ کا مالک تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے ایک سہولیاتی معاونت اور تکنیک تشکیل کر دے جس کی مدد سے میں چل سکنے کے قابل ہو جاؤں۔ ابھی وہ ڈاکٹر مطلوبہ تکنیک کے بارے میں غور و فکر ہی کر رہا تھا کہ میں نے اسے خود مندرجہ ذیل بریفنگ دے دی: ۱۔ اگر آپ لوہے کی پتری میرے دونوں ٹخنوں کے درمیاں کس دیں تو میری ٹانگیں دائیں بائیں نہیں لڑھکیں گی۔ ۲۔ اگر آپ میرے سر کو میری گردن کے ساتھ لوہے کی پتری سے کس کر میرے سینے کے گرد پیٹی نما پلیٹ پر بولٹس سے کس دیں تو میرا سر ادھر ادھر نہیں لڑکے گا۔ ۳۔ اور اگر آپ میرے بازوؤں کو بھی لوہے کی پتریوں سے کس دیں تو وہ بھی اس انداز سے قابو میں آ جائیں گے کہ ادھر ادھر نہیں لڑھکیں گے۔ ڈاکٹر نے میری ساری بات غور سے سنی اور اسی طرح عمل کر کے یہ موجودہ معاوناتی تکنیک نصب کر دی ہے۔ میرا خیال ہے آپ کو یہ ترکیب پسند آئی ہو گی؟ مجھے تو اس لڑکی کو اس حال میں دیکھ کر اور اس کی قابل رحم کیفیت دیکھ کر بہت ترس آیا اور میں ہمدردی کا اظہار ہی لگا تھا کہ وہ پھر بول اٹھی: ’’ ڈاکٹر صاحب، ایک اچھی خبر یہ ہے کہ میں اب چل سکتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر لڑکی نے اٹھنے کی کوشش کی، چمڑے کی چرچراہٹ اور لوہے کی پتریوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ وہ اپنی وہیل چیئر سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور اپنی جسم پر جا بجا پتریوں، پیٹیوں، تسموں، پیچوں اور سپرنگوں سمیت وہ میرے کمرے میں چلنے لگ گئی۔ ایک دو منٹ کے بعد واپس اپنی چیئر کی سیٹ پر دھمک سے بیٹھ گئی اور نہایت فخریہ انداز میں بولی: ’’ اور میں نے ابھی ابھی ایم اے بھی کر لیا ہے، یہ میں نے سٹین ڈائیگو سٹیٹ کالج سے کیا ہے۔‘‘ میں اس لڑکی کے عزم، حوصلہ اور ہمت کی داد دیتا ہوں آپ بھی اپنے گرد و پیش میں ایسی ہمت افزا مثال والے افراد کو تلاش کریں، ان سے ملاقات کریں۔ یہ لوگ مثبت فکر اور ممکناتی سوچ کے مالک ہوتے ہیں، آپ ان کے قافلہ عزم و ہمت میں شامل ہو جائیں۔ جب آپ ان کی صبر و استقلال اور ہمت و عزم کی سچی روئیداد سنیں گے تو آپ کے اندر قوت ارادی مزید مضبوط ہو گی اور آپ ہر رکاوٹ پر بآسانی اور بخوشی قابو پا لیں گے۔ مسائل حل کرنے اور کامیابی کو یقینی بنانے کا فلسفہ: میں نے اپنے طویل تجربہ، علم اور تحقیق کے بعد مسائل حل کرنے اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے مندرجہ ذیل سات ضروری اقدامات وضع کیے ہیں جن پر عمل کر کے آپ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں آسانی محسوس کریں گے: ۱۔ اپنے مسائل کی نشاندہی کیجئے: آپ سب سے پہلے اپنی راہ میں حائل مسائل اور مشکلات کی نشنادہی میں پہل کر کے لیڈر بن جائیں۔ لیڈر شپ کا حق اس شخص کو ہوتا ہے جو فراست اور بصیرت سے کام لے کر اپنی سوچ کو ہمیشہ آگے رکھتا ہے۔ بہترین لیڈر مستقبل میں جھانک کر پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کا قبل از وقت جائزہ لے لیتا ہے اور پھر ہر قابل حل مسئلہ کا تجزیہ کرتا ہے اور اسے حل کرنے کے لیے کئی متبادل تجاویز کے ممکن پہلوؤں کا باہم موازنہ کرتا ہے اور پھر نہایت گہری سوچ بچار کے بعد یکے بعد دیگرے مسائل کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ ممکناتی سوچ کا حامل شخص جب جوش و خروش سے اپنا آئیڈیا پیش کرتا ہے تو اس میں حائل جملہ مسائل اور مشکلات کو ہر گز نظر انداز نہیں کرتا۔ وہ یہ آگہی رکھتا ہے کہ ہر آئیڈیا کے اندر کچھ نہ کچھ سقم، نقائص اور خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے آپ سے یہ سوال کرتا رہتا ہے۔ ’’ اس آئیڈیا میں کیا خرابی، نقص اور خامی موجود ہے؟‘‘ وہ یہ سوال بار بار اس لیے نہیں کرتا کہ وہ اس آئیڈیا سے متنفر ہو کر آخر اسے رد کر دے، بلکہ وہ اس آئیڈیا میں موجود زیادہ سے زیادہ خامیاں اور نقائص دور کر کے اسے مزید عمدہ، قابل قبول اور بامقصد بنا لیتا ہے۔ ایسا شخص اپنی محتاط فکر کے باعث ان تمام ممکنہ اعتراضات کے جوابات سوچ رکھتا ہے اور پھر مشکلات کا سامنا ہوتے ہی ان پر قابو پا لیتا ہے۔ کسی مسئلہ یا مشکل کی ٹھیک ٹھیک اور بر وقت نشان دہی کر لینا ایک ذمہ دار صاحب فکر کی اہم خصوصیت ہے۔ میں جب چرچ کی تعمیراتی کمیٹی کا لیڈر تھا تو میں ان مسائل اور مصائب کو مسلسل دائرہ تصور اور احاطہ تخیل میں لے آتا تھا۔ جو ہمیں مستقبل کے پانچ، دس یا بیس سال بعد پیش آ سکتی ہیں۔ ۲۔ مسائل کی پیش بینی کرنا: اگر آپ کسی تنظیم کے ناظم ہیں، یا کسی ادارے کے انچارج ہیں اور آپ کی تنظیم یا ادارے کو کوئی مشکل پیش نہیں ہے تو سمجھ جائیں کہ ضرور کوئی مسئلہ یا مشکل موجود ہے۔ کسی مسئلے یا مشکل کی موجودگی کو محسوس نہ کرنا بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب کوئی ناظم اپنی تنظیم کے بارے میں اس قسم کا اطمینان محسوس کرتا ہے کہ کوئی مسئلہ یا مشکل درپیش نہیں ہے تو آپ یہ سمجھ جائیے کہ وہ تنظیم ترقی افروز اور فروغ پذیر نہیں ہے، بالکل وہ زوال پذیر ہے کیونکہ ترقی کی راہ میں مشکلات لازمی طور پر ہوتی ہیں۔ وہ رستہ ہرگز منزل کی طرف نہیں جاتا جو مسائل او رمشکلات سے عبارت نہیں ہوتا۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے: ’’ افسوس ہے ان لوگوں پر جو یروشلم میں تاحال راحت اور سکون میں ہیں!‘‘ والٹر برکی نے کہا تھا:ـ ’’ ہمیں انجینئرز کی ایک بڑی ٹیم تشکیل دینے اور انہیں متحد ہونے کے لیے بڑے بڑے مسائل اور مشکلات کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان کی تواضع بڑے بڑے چیلنجوں سے نہیں کریں گے تو وہ تعمیری اور تخلیقی کام چھوڑ کر کسی جارحانہ محاذ کی طرف اپنا رخ کر لیں گے۔‘‘ ہر وہ تنظیم یا ادارہ جو اپنے مقاصد میں فروغ دینے کے لیے اپنے سٹاف کو چیلنجوں کا سامنا کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتا، اپنی ہمت، حوصلہ، جذبہ، جوشاور ولولہ کھو دیتا ہے حتیٰ کہ وہ ان اپنے سٹاف کے ان لوگوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جو تخلیقی ذہن رکھتے ہیں اور مسائل حل کرنے کو اپنا مشغلہ اور شوق سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہر اعلیٰ درجہ کا ایگزیکٹو یہ خوب جانتا ہے کہ جب تک اس کی کمپنی وسعت اور فروغ پاتی رہے گی، مستحکم اور بحال رہے گی ورنہ ختم ہو جائے گی۔ بڑے مقاصد بڑے لوگوں کو باہم متحد رکھتے ہیں۔ یہ اصول یاد رکھنے کے لائق ہیں: ۱۔ مقاصد کے حصول کی راہ میں ہر رکاوٹ، مزاحمت اور مشکل ہر قیمت پر اور ہر صورت میں جلد از جلد دور کر دی جانی چاہیے ورنہ متعلقہ فرد، تنظیم، کمپنی اور ادارہ کی جڑوں میں موت اور زوال کا بیج فروغ پانا شروع ہو جاتا ہے۔ ۲۔ کسی فرد، تنظیم یا ادارے کا زوال تب شروع ہو جاتا ہے جب مسائل حل کرنے میں تاخیر سے کام لیا جاتا ہے۔ ۳۔ کسی فرد، تنظیم یا ادارے کی تجدید کا عمل تب شروع ہوتا ہے جب فوری نوعیت کی نئی مشکلات اور مسائل تخلیقی اور بر وقت حل کا تقاضا کرتے ہیں۔ ۳۔ درپیش مسائل اور مشکلات کو خوش آمدید کہئے: آپ اپنے مقاصد کے حصول میں حائل ہر مسئلہ اور مشکل کو ایک بہترین موقع تصور کریں۔ لیون شمکگن ، جو ایک عظیم اور معروف پبلشنگ ہاؤس آف سائمن اینڈ شسٹر کے چیئرمین ہیں، کہتے ہیں: ’’ ہماری تنظیم میں کوئی مسائل او رمشکلات نہیں ہیں بلکہ صرف مواقع ہی مواقع ہیں۔‘‘ ہر مسئلہ اور مشکل دراصل ایک موقع ہوتا ہے جو کسی فرد، تنظیم اور ادارے کو مندرجہ ذیل عمل کے مراحل سے گزارتا ہیـ: ۱۔ جدید بنانا ۲۔ نئی معاونات سے لیس کرنا ۳۔ از سر نو منظم کرنا ۴۔ نئے ڈھانچے میں ڈھالنا ۵۔ نئی ترتیب دینا ۶ ۔ نئی جگہ یا مقام پر فائز کرنا اسی طرح افراد، روایات، تنظیمیں اور ادارہ جات جو اپنے اپنے انداز پر ارتقائی منازل طے کر رہے ہوتے ہیں،وہ جب بھی کسی بڑی تبدیلی یا انقلابی تغیر کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہیں توہ گاہے بگاہے اپنی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کو قابو پانے اور ان کا استقلال سے سامنا کرنے کا بھی عزم رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ ہر مسئلہ اور مشکل ان کے لئے نئے تجربات کے حصول کا ایک موقع پیدا کرتی ہے۔ ایک سوال نہایت اہم ہے کہ ایک لیڈر اپنا آئیڈیا دوسروں کے ہاتھ کس طرح فروخت کرتاہے؟ آئیڈیا فروخت کرنا بھی ایک فن ہے، جس کے مندرجہ ذیل اہم مراحل ہیں: ۱۔ سب سے پہلے وہ لوگوں کی توجہ موجودہ یا پیش آنے والی مشکل یا مسئلے کی جانب مبذول کرتا ہے۔ ۲۔ اس کے بعد وہ اس مشکل یا مسئلے کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کر کے اس کی اہمیت، اثرات اور نتائج سے دوسروں کو آگاہ کرتا ہے۔ ۳۔ اس کے بعد وہ اس جملہ مشکل اور مسئلہ کے بارے میں متعلقہ لوگوں کے جذبات ابھارتا ہے اور انہیں اس مشکل یا مسئلے کے جلد اور یقینی حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔ ۴۔ پھر مسئلہ یا مشکل کے اپنے آئیڈیا کو سب سے اچھا حل تصور کر کے، اس کے علاوہ تمام ممکن متبادل حل تجویز کرتا ہے۔ ۵۔ اب وہ اپنا آئیڈیا، جسے وہ اس مشکل یا مسئلے کا بہترین حل قرار دیتا ہے، لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ۶۔ اس کے بعد وہ اس مسئلہ یا مشکل کے تمام دیگر متبادل اور ممکن حل اور اپنے آئیڈیا کے مابین موازنہ کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا آئیڈیا سب سے بہترین حل ہے۔ مندرجہ بالا وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مقصود ہے کہ ’’ مسائل اور مشکلات‘‘ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ہر لیڈر، سیلز مین اور چیف ایگزیکٹو اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ حقیقی مسئلہ یا مشکل کے بغیر اس کا قدم آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ ۴۔ یہ خیال رہے کہ مسائل اور مشکلات آپ کی صحیح فیصلہ سازی کے عمل کو نہ روک سکیں: ان مقاصد کا تعین، جو نظام قدر کے معیار پر صحیح طریق سے استوار ہوں، وہ آپ کو صحیح اور یقینی فیصلہ سازی میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اس طرح آپ ہمیشہ ایسے ہی فیصلے کریں گے جن کے بارے میں آپ کو پورا پورا یقین ہو گا کہ وہ ہر پہلو سے جامع اور درست ہیں۔ جونہی آپ کو متوقع مسائل اور مشکلات کا حل نظر آ جائے، آپ اپنے سامنے ممکنات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کر لیں۔ اگر آپ کو متوقع مسائل اور مشکلات کا حل نظر نہیں آ رہا تو اس صورت میں یہ احتیاط کیجئے کہ کہیں آپ غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ صحیح فیصلہ کرنے میں ناکامی یا تاخیر سے مراد یہ ہو گا کہ آپ میں قوت فیصلہ کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ یہ خیال رکھئے کہ مسائل حل کرنے کا عمل اور فیصلہ سازی کا عمل، دونوں الگ الگ کام ہیں، انہیں باہم گڈ مڈ یا خلط ملط نہ کیجئے۔ میں نے بہت شروع میں یہ بات بتائی تھی کہ ہم نے جذبہ خدمت انسانی سے سرشار ایک غیر منافع بخش بزنس ’’ چرچ ورک‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا۔ ہم نے اس ضمن میں فیصلہ سازی سے متعلق نہایت اہم نوعیت کے سوالا ت اٹھائے تھے: ۱۔ کیا ہمارے اس کام سے واقعی دکھی انسانیت کی مدد ہو سکے گی؟ ۲۔ کیا خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارا کام واقعی عظیم اور مقبول ہو گا؟ ۳۔ کیا کوئی اور شخص یا ادارہ بھی ہماری طرح اسی نوعیت کا کام سر انجام دے رہا ہے؟ ان تمام سوالات کا تعلق صرف فیصلہ سازی سے تھا۔ ہم نے فیصلہ سازی کے وقت قطعاً ایسے سوالات نہیں اٹھائے تھے جن کا تعلق ہمارے مشن اور مقصد میں حائل مسائل اور مشکلات کے حل سے تھا۔ جن سوالات کا تعلق جملہ مسائل اور مشکلات سے تھا، وہ میرے نزدیک مندرجہ ذیل تھے: ۱۔ ہمارے اس منصوبے پر کس قدر لاگت آئے گی؟ ۲۔ ہم اپنے ضروری اخراجات کے لیے رقم کہاں سے حاصل کریں گے؟ ۳۔ ہم اس کام کی ذمہ داری کس شخص کو تفویض کریں؟ ۴۔ ہم اس مشن سے مطلوبہ وقت، توجہ اور توانائی کس طرح حاصل کریں؟ جب ہم ابتدائی طور پر فیصلہ سازی کے ضمن میں اپنی میٹنگ کرتے ہیں تو اس وقت مسائل حل کرنے کے بارے میں سوالات قبل از وقت اور غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ فیصلہ جات کبھی بھی اس بنیاد اور شرط پر نہیں کیے جاتے کہ پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ کیا تمام جملہ مسائل اور مشکلات قابل حل ہیں یا نہیں۔ فیصلہ سازی کی بنیاد مندرجہ ذیل عناصر پر استوار کی جاتی ہے: ۱۔ ضمیر کی آواز ۲۔ احساس ذمہ داری ۳۔ مروجہ اصول ۴۔ طے شدہ حکمت عملی ۵۔ ذاتی اور اجتماعی وقار ۶۔ حصول مفاد اور ترقی اگر کوئی فیصلہ ان عناصر کی کسوٹی اور معیار پر پورا اترتا ہو، تو اس پر عمل کرنے کا تہیہ کر لیا جاتا ہے۔ جب آپ کو فیصلہ سازی اور مشکل کشائی کے مابین فرق کرنے کی آگہی ہو جاتی ہے تو پھر آپ زیادہ بہتر طریق سے تخلیقی توانائی کے بے جازیاں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں اس وقت زیادہ توانائی ضائع ہوتی ہے جب لوگ اس کے لیے بروقت اپنے ذہن کو تیار نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں درپیش مسائل او رمشکلات کا حل نہیں سوجھتا۔ اس لیے عدم فیصلہ کی کیفیت ذہنی تھکاوٹ، بوریت اور تناؤ کا باعث بن جاتی ہے۔ آپ یہ کوشش کیجئے کہ خواہ مخواہ طویل بحث و مباحثہ اور فضول گفت و شنید میں آپ کی ذہنی اور تخلیقی توانائی ضائع نہ ہونے پائے۔ آپ صحیح فیصلے کیجئے اور پھر اپنی تخلیقی قوت کا زیادہ تر حصہ درپیش مسائل اور مشکلات بہترین اور بر وقت حل سوچنے پر صرف کیجئے۔ آپ اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں درپیش مسائل و مشکلات کا از سر نو جائزہ لے کر یہ اطمینان کر لیں کہ واقعی یہ مسائل حقیقی ہیں یا محض مفروضہ ہیں۔آپ خدا تعالیٰ سے فرضی، پیچیدہ اور غیر متعلقہ مسائل کے حل کی بے جا توقع نہ کیجئے۔ البتہ اس سے صحیح فیصلہ جات کی فراست اور حقیقی مسائل حل کرنے کا اعتماد، یقین اور ایمان طلب کیجئے۔ ۵۔ اپنی مشکلات و مسائل کا حقیقی تجزیہ کیجئے: اگر آپ کو یہ احتمال ہو کہ آپ اپنے فیصلہ جات کو اپنے مسائل کے ساتھ خلط ملط کر رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں آپ بنیادی خرابیوں کو اپنے مسائل کے ساتھ گڈ مڈ تو نہیں کر رہے ہیں۔ بعض اوقات کئی ماہرین بھی ایسی غلطی کر جاتے ہیں۔ ایک دفعہ پروٹسٹنٹ چرچ کے ایک پادری نے یہ شکایت کی کہ ان کے ہاں مذہبی عبادت گزاروں کی زبردست کمی کے باعث بعض اوقات عبادت رہ جاتی ہے۔ میں نے پادری سے سوال کیا: ’’ آپ کو اس ضمن میں زیادہ مشکل کیا در پیش ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ ہمارے ہاں مذہبی عبادت گزاروں کے ماہرین کی بہت کمی ہے۔‘‘ اس موضوع پر مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی تھی: ڈاکٹر شلر: آپ ماہر سٹاف کیوں نہیں رکھتے؟ پادری: ماہر سٹاف رکھنے کی ہم میں استطاعت ہی نہیں ہے۔ دراصل ہمیں رقم کی کمی کی بھی سخت شکایت ہے۔ ڈاکٹر شلر: آپ کو رقم میں کمی کی شکایت کیوں ہے؟ پادری: اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور ہماری ممبر شپ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر شلر: تو کیا آپ نے گزشتہ سال کی ممبر شپ کی نسبت اس سال زیادہ ممبر بنانے کے مقصد کا تعین نہیں کیا؟ پادری: ہم نہ تو ممبر شپ میں اضافے کے مقصد کا تعین کرتے ہیں اور نہ ہی ممبر شپ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب اس گفتگو پر تبصرہ یہ ہے کہ درحقیقت پادری کو بیک وقت دو مشکلات کا سامنا ہے: ۱۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ممبر شپ میں اضافے کے مقصد/ٹارگٹ کا تعین ہی نہیں کیا جاتا۔ ۲۔ دوسرا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ممکناتی سوچ پر مبنی قیادت کا فقدان ہے۔ محض اسی وجہ سے کئی نام نہاد مشکلات نظام کی خرابی کے باعث پیدا ہو جاتی ہیں۔ تب پادری کو درپیش مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات دی گئیں: ۱۔ چرچ کی ترقی اور ممبر شپ میں اضافے کے مقصد کا تعین کیا جائے۔ ۲۔ بہترین فیصلہ ساز بننے کی مطلوبہ صلاحیتیں پیدا کی جائیں۔ ۳۔ ممبر شپ میں اضافہ اور فروغ کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ان مشکلات پر مندرجہ بالا ہدایات پر تعمیل کرنے کے ذریعے جلد ہی قابو پا لیا گیا اور آج یہ چرچ رواں دواں ہے اور ترقی پذیر ہے۔ میں نے امریکہ میں دو ہزار چرچوں کی اس انفرادی کیفیت کا تجزیہ کیا ہے اور صر ف ایک ہی وجہ مشترک نظر آئی ہے اور وہ ہے مطلوبہ رقم میں قابل ذکر کمی اور یہ کیفیت ہمیشہ کیوں پیش آتی ہے۔ یہ مسائل تخلیقی آئیڈیاز کے فقدان کے باعث پیش آتے ہیں۔ آپ صحیح اور بروقت فیصلے کریں آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے ۶۔ اپنے مسئلے کوکئی حصوں میں تقسیم کر کے اس پر قابو پا لیجئے: ایک دفعہ میں میکڈونل ڈوگلس کی خلائی لیبارٹری کی عالی شان بلڈنگ کی دوسری منزل پر کھڑا عمارتی جگہ کے زبردست مصرف کو سراہ رہا تھا۔ میرے ساتھ گائیڈ بھی کھڑا تھا جو مجھے اس لیبارٹری کی دیگر تفصیلات بتا رہا تھا۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ تین آدمیوں پر مشتمل سب سے پہلی خلائی لیب جو کھلی خلا میں بھجوائی گئی تھی اس کی تیاری میں ان گنت ’’ ناقابل حل‘‘ مشکلات اور مسائل در پیش تھے جن پر بالآخر قابو پا لیا گیا۔ میں نے ڈاکٹر برکی سے پوچھا: ’’ آپ نے اس قدر زیادہ اور پیچیدہ مشکلات اور مسائل کو آخر کیسے حل کر لیا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کے جواب میں عالمگیر اصول مضمر تھے، آپ بھی انہیں اپنے استعمال میں لائیے: ’’ قطع نظر اس کے کہ آپ کا مسئلہ کس قدر بڑا اور مشکل ہے آپ اسے چھوٹے چھوٹے اجزا میں تقسیم کر لیں اور پھر باری باری ترتیب سے انہیں حل کرتے جائیں۔ حتیٰ کہ پورا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘ ۷۔ اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر لوگوں سے بھی تعاون حاصل کیجئے:ـ جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کو جو مسئلہ اور مشکل درپیش ہے۔ اسے حل کرنا آپ کے بس کی بات نہیں تو آپ اس ضمن میں اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور ماہر شخص سے معاونت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے شہر میں کئی پیشہ ور ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں، آپ ان سے فنی مشاورت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھئے: جس قدر چیلنج بڑا ہو گا، اسی قدر مسئلہ بڑا اور پیچیدہ ہو گا۔ اور اسی قدر عظیم ممکناتی سوچ کے ماہر کی معاونت کا موقع بھی بڑا ہو گا۔ اگر تو آپ کی مشکلات اور مسائل عام نوعیت کے ہیں، تو آپ انہیں خود ہی بخوبی حل کر لیں گے، بصورت دیگر اگر آپ یہ محسو س کرتے ہیں کہ: ۱۔ آپ کا مسئلہ منفرد ہے۔ ۲۔ یہ آپ کے شعبہ کے لیے نہایت اہم ہے۔ ۳۔ آپ کے لیے اسے حل کرنا واقعی مشکل ہے۔ تو آپ ضرور فنی ماہرین سے رجوع کریں۔ ڈاکٹر والٹر بر کی کی نظر میں ’’ کامیابی‘‘ کی تعریف یہ ہیـ: ’’ کامیابی اس عزم کا نام ہے کہ آپ اپنے متعلقہ مسئلہ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں جب تک یہ حل نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس ناکامی یہ ہے کہ آپ بہت جلد اور بآسانی کسی مسئلے ک وحل کرنے کا ارادہ ترک کر دیں۔‘‘ میرے نزدیک کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ قوت ارادی، عزم، صبر اور استقلال سے کام لیا جائے، ہر مسئلہ بطریق احسن حل ہو جائے گا۔ ٭٭٭ ۴ خود اعتمادی۔۔۔۔ اہمیت، حصول اور استعمال ہالینڈ کے مہاجر ایک لڑکے کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بیس بال کی کھیل میں اس قدر ترقی کرے کہ ایک دن وہ بیس بال لیگ کا عظیم بال پلیئر بن جائے۔ وہ اکثر اپنے آپ کو تصور میں بیس بال کی گراؤنڈ میں بال پھینکنے والے مخصوص بلند مقام پر کھڑا دیکھتا تھا، چنانچہ اس نے اپنی اس خواہش اور تصور کو سچ ثابت کرنے کے لیے بیس بال کے لیے دن رات مشق کرنی شروع کر دی اور انیس سال کی عمر میں اس نے واقعی یہ مقام حاصل کر لیا۔ میکسیکو کی رہنے والی ایک بیس سالہ جوان خاتون، جو دو بچوں کی ماں تھی اسے شوہر نے طلاق دے دی۔ اب وہ بہت پریشان ہوئی کہ وہ ان بچوں کو کہاں لے جائے؟ ان کی رہائش و خوراک کا کیا انتظام کیا جائے؟ وہ اجنبی شہر لاس اینجلز میں آ گئی۔ اب اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ صرف سپینش زبان جانتی تھی اور اس کی جیب میں صرف سات ڈالر تھے۔ اس مفلسانہ حالت کے باوجود اس نے یہ عزم کیا کہ وہ ان بچوں کی خاطر نئے سرے سے زندگی کی بہتر شروعات کیسے کرے گی؟ اوپر بیان کئے گئے ان دونوں واقعات میں کھلاڑی لڑکے اور طلاق یافتہ بچوں کی ماں میں کیا بات مشترک ہے؟ ان دونوں افراد میں جو بات مشترک ہے ان کا ’’ مثبت خود تخیل‘‘ ہے۔ عزم صمیم پر مبنی قوت ارادی اور خود تخیلی ایک زبردست صفت ہے۔ یہ ایک معجزانہ قوت ہے جسے خود اعتمادی کہا جاتا ہے۔ ان ہر دو افراد میں یہی خود اعتمادی تھی۔ مہاجر لڑکا خود اعتمادی کی قوت سے لیگ کا مشہور بال پلیئر بن گی ااور اس اجنبی خاتون نے بچوں کی خاطر ایک نئی مستحکم زندگی کے آغاز کا عزم کر لیا۔ قوت خود اعتمادی کی ہر شخص کو ضرورت ہے۔ اس قوت کی بدولت مستقبل کے سب دروازے کھل جاتے ہیں، شاندار مواقع کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اور جو بھی ہم سوچتے ہیں اسے حاصل کر سکتے ہیں۔ قوت خود اعتمادی کے فقدان کی بدولت کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ خود اعتمادی کی محرومی، ناکامی کا باعث بننے والے دیگر عناصر میں سے بڑا عنصر ہے۔ اگر آپ وہ شخص واقعی بننا چاہتے ہیں جوآپ چاہتے ہیں تو جلد از جلد اس قوت کی محرومی پر قابو پائیے۔ آپ یقین جانئے کہ ایک خود انحصار اور خود اعتماد شخص پہاڑ تک کو پگھلا سکتا ہے اور اپنی جگہ سے ہلا سکتا ہے۔ ہنری فورڈ نے کہا تھا: ’’ آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ یہ مشکل کام کر سکتے ہیں اور آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آپ یہ مشکل کام نہیں کر سکتے۔ آپ کا حق ہے کہ آپ سوچ کے ہر دو پہلوؤں کو اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘ ہنری فورڈ آپ کو صرف سوچنے کا حق نہیں دے رہا بلکہ وہ کہنا یہ چاہتا ہے: ’’ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ یہ مشکل کام کر سکتے ہیں ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ پھر یہ مشکل کام ہر صورت ’’ ضرور‘‘ کر لیں گے اور اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ یہ مشکل کام نہیں کر سکتے۔ تو اس کا مطلب نہیں ہے۔ اس لیے آپ وہ کام واقعی نہیں کر پائیں گے۔‘‘ یہ خیال رکھئے بلکہ خوب یاد رکھئے کہ آپ اپنی ذات میں موجود قوتوں کے معیار کے مطابق اپنے بارے میں ایک تصور رکھتے ہیں۔ اب تو سائنسی تحقیقات، اور مشاہدات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ باقی عناصرکے علاوہ ’’ خود تصوراتی عنصر‘‘ بہت اہم ہے جو مختلف کامیابیوں اور ترقیات کی جانب یقینی طور پر لے جاتا ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ انسانی دماغ جو کہ ایک نہایت جامع خود کار رہنما نظام ہے، وہ آپ کی زندگی کا رخ اسی سمت میں متعین کرتا ہے جس سمت کے لوازمات آپ اسے فراہم کرتے ہیں۔ آپ کا تحت الشعور بھی اس کے مطابق یا اس کے مقابل کام کرتا ہے۔ آپ اپنے خوابوں، خواہشات اور آرزوؤں کو اگر قوت ارادی کی تقویت کی خوراک دیتے رہتے ہیں تو آپ واقعی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ انہیں مایوسی کے احساسات پر مبنی شکست کی خوراک دیتے ہیں تو آپ کبھی بھی اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ نہیں دے سکتے۔ جب آپ اس قوت شعور کے قانون کو سمجھ جائیں گے اور اپنی زندگی پر اس قانون کا عملی اطلاق کریں گے تو آپ کی زندگی میں ایک زبردست مثبت تبدیلی کا مجموعی انقلاب بپا ہو سکتا ہے۔ انسان کی گہری، پکی اور پختہ عادات، بنیادی اسلوب طبع، طرز حیات کا معمول، طور طریقے، رویے اور روایات حتیٰ کہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے انداز اور معیار کو بھی قوت خود اعتمادی کے باعث معجزانہ طور پر بدلا جا سکتا ہے کیونکہ خود اعتمادی انسان کے اندر یقین، قوت ارادی اور عزم پیدا کر دیتی ہے۔ پھر وہ جو اپنے تصور اور تخیل میں دیکھتا ہے اسے حقیقت کا رنگ دے دیتا ہے۔ اسی اصول کو ’’ خود تخیلی نفسیات کا قانون‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے تیرہ سالہ لڑکے برٹ بلائی لیون سے پوچھا: ’’ آپ جب جوان ہوں گے تو کیا بننا چاہیں گے؟‘‘ ’’ بیس بال پلیئر‘‘ ہالینڈ کے اس لڑکے نے نہایت جچے تلے انداز میں جواب دیا۔ یہ نوجوان چند سالوں کے بعد ہی نیدر لینڈ سے امریکہ چلا گیا۔ اس کے ساتھ اس کے والدین اور چھ بہن بھائی تھے۔ وہاں قیام پذیر ہونے کے بعد جلد ہی انہوں نے میرے چرچ میں ہر اتوار کو آنا شروع کر دیا۔ ’’ اچھا تو آپ بیس بال پلیئر بننا چاہتے ہیں؟‘‘ یہ تو واقعی زبردست اور عظیم خواب اور خواہش ہے، برٹ! ’’ آپ ارادہ پختہ رکھیں، سچی کوشش کریں اور آپ ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘ میں نے اسے نصیحت کی۔ پانچ سالوں کے بعد جب اس نے ہائی سکول سے انٹرمیڈیٹ کر لیا تب میں نے اسے پھر پوچھا’’ اب بتائیے برٹ، آپ کا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ برٹ نے پھر نہایت اعتماد سے جواب دیا۔‘‘ ’’ بیس بال باقاعدگی سے کھیلنے کا ارادہ ہے۔‘‘ موسم گرما ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ مڈل ایسٹ کی مائز لیگ میں برٹ نے شرکت حاصل کر لی اور جب سردیوں کا موسم شروع ہوا تو بیس بال کی معروف ٹیم منی سوٹا ٹونز (Minnesota Twins) کے منیجر بل رگنے، فلوریڈا کی ایک ٹریننگ گراؤنڈ میں مائز لیگ کے نوجوانوں کو کھیل کی پیشہ ورانہ ٹریننگ دے رہے تھے۔ اس منیجر نے اپنے قریبی دوست کو کہا: ’’ ہماری ٹیم میں نوجوان برٹ بلائی لیون میں زبردست صلاحیت موجود ہے۔‘‘ گرمیوں کا موسم آنے سے پہلے ہی برٹ مائز لیگ کی ٹیم میں شاندار کھیل پیش کر رہا تھا کہ اسے انتہائی دور دراز فاصلے سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ ’’ نوجوان برٹ بلائی لیون! میں بل رگنے بول رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اگلی فلائٹ کے ذریعے جلدی واشنگٹن ڈی سی آ جاؤ۔ میں تمہیں بہت ضروری کام سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ برٹ کے لیے یہ ایک خفیہ فون کال تھی۔ برٹ سوچ رہا تھا کہ منیجر رگنے اسے کیوں بلا رہے ہیں؟ اس کے دل میں یہ خیال آیا: ’’ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے چونکہ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مائز لیگ میں کھیلنے کا ایک سالہ تجربہ ہے اور وہ مجھے اب میجر لیگ کی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہوں؟‘‘ برٹ نے سارے کام اور مشاغل چھوڑ کر جہاز پکڑا اور واشنگٹن پہنچ گیا۔ ہوائی اڈے کی بلند و بالا تاریخی یادگار عمارت اسے نظر آ رہی تھی۔ ہالینڈ کے اس نوجوان کی آنکھیں حیرت اور اشتیاق کے جذبے سے چمک رہی تھیں، جب وہ ہوائی اڈے سے گزرتا ہوا کیپی ٹال شہر میں داخل ہو رہا تھا۔ بعد میں اس نے اسی شہر کو اپنی قیام گاہ بنا لیا تھا۔ ’’ ہاں جی برٹ! واشنگٹن میں خوش آمدید‘‘ منیجر بل رگنے برٹ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ پرجوش نوجوان نے پوچھا: ’’ جی جناب، فرمائیے، میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ رگنے نے برٹ کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں ملاتے ہوئے کہہ دیا:ـ ’’ عزیزم برٹ، مجھے ایک مسئلہ در پیش ہے۔‘‘ لوئی ٹیانٹ کے کندھے میں تکلیف ہو گئی ہے اورمجھے بال پھینکنے کے لئے ایک اچھے کھلاڑی کی ضرورت ہے۔ میں نے تمہیں کھیلتے ہوئے بغور دیکھا ہے، تم بہت عمدہ کھیلتے ہو۔ برٹ کا دل خوشی سے زور زور سے دھڑکنے لگا۔ مینی سوٹا ٹونٹر کے منیجر نے فوراً اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا: ’’ برٹ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم کل رات ہی میدان میں آ جاؤ، تاکہ ہم واشنگٹن میں اس صورت حال کا بطریق احسن سامنا کر سکیں۔ کیا تم اس کیفیت کو بہتر طور پر سنبھال لو گے؟‘‘ برٹ نے فوراً پورے اعتماد سے جواب دیا: ’’ جی ہاں، میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔‘‘ مینیسو ٹاٹیم کے ایک شائق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’ مجھے امید ہے منیجر بل رگنے جو بھی کر رہے ہیں، درست ہے۔ یہ نوجوان اگرچہ صرف انیس سال کا ہے۔ پھر بھی میدان میں اتر آیا ہے۔ اس نے میجر لیگ کی ٹیم میں سب سے کم عمر کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔‘‘ انتہائی وسیع و عریض بال پارک کی تیز روشنیوں کے نیچے ہالینڈ کا یہ لڑکا جس کے چہرے پر جا بجا چھائیوں کے نشان واضح تھے، میدان میں سرگرمی کے ساتھ اتر آیا تھا۔ اچانک قومی ترانے کی دھنوں کی صدا بلند ہوئی اور ساتھ ہی رنگین غبارے فضا میں چھوڑے گئے اور مختلف جھنڈے اور سجاوٹی پٹیاں ہوا میں لہرانے لگیں۔ سارے ہجوم نے حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر قومی ترانے کی دھنوں کے ساتھ خود بھی نغمہ سرائی کی۔ برٹ کے ہونٹ ہل رہے تھے، لیکن مسرت اور حیرت کے بارے میں اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ جب ترانہ بجنا ختم ہوا تو ایک عظیم اعلان نشر کیا گیا: ’’ بیس بال کی کھیل شروع کر دی جائے۔‘‘ برٹ کی خواب آج سچ ثابت ہو رہی تھی، اس کی خواہش آج حقیقت کا روپ اختیار کر رہی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کے لیے اس نے ساری زندگی خواب دیکھا تھا ہزاروں تماشائیوں کی آنکھیں اس کھلاڑی پر مرکوز تھیں۔ ریڈیو کے اناؤنسر حضرات بھی ان پرجوش لمحات کی خبر نشر کر رہے تھے اور لاکھوں شائقین مینی سوٹا میں اس میچ کی کارروائی سن رہے تھے۔ برٹ نے اپنی پہلی بال پھینک دی۔ امپائر فوراً بولا: ’’ سٹرائیک‘‘ ’’ بال‘‘ ’’ سٹرائیک‘‘ ’’ بال‘‘ ’’ بال‘‘ الٹی گنتی ۳ سے ۲ تک گنتے ہی بال پھینکنے والے کھلاڑی نے کیچر کے سگنل کو غور سے دیکھا، اپنا ہاتھ اوپر بلند کیا، گیند کو اپنے ہاتھ میں دبوچا اور تیز گولی کی طرح پلیٹ کی جانب زور دار شارٹ لگائی۔ ہیوی ویٹ تجربہ کار بیٹر نے واشنگٹن لائن اپ میں پچ تک رسائی حاصل کر لی۔ نوجوان برٹ پچرز ماؤنٹ (بال پھینکنے والی مخصوص اونچی جگہ) پر کھڑے ہو کر سفید بلند اڑتی ہوئی بال کا جائزہ لیا جو جیٹ جہاز کی طرح دکھائی دے رہی تھی، حتیٰ کہ کلین ہوم رن بنا گئی۔ یہ صورت حال برٹ کے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتی تھی لیکن جلد ہی تماشائیوں کی طرف سے ایک سرگوشی سنائی دی: ’’ اوکے، برٹ، تم یہ کر سکتے ہو، تم آج لوگوں کو اپنا کمال دکھا دو۔ اگر تم آج اپنے فن کا مظاہرہ نہ کر سکے تو وہ تمہیں ناکام قرار دے دیں گے، آج موقع ہے تمہیں اپنے جوہر دکھانے کا۔ ہاں، ہمت کرو۔‘‘ برٹ نے نہایت اعتماد سے دوسرے بیٹر کا بھی سامنا کر لیا۔ ’’ سٹرائیک آؤٹ‘‘ امپائر نے گولائی میں آئی ہوئی تیز بال کو دیکھتے ہی زور سے کہا: ’’ سٹرائیک آؤٹ‘‘ برٹ اس خوشگوار آواز کو بار بار سن رہا تھا اور ساتھ اننگ پر اننگ بناتا جارہا تھا برٹ نے سات اننگز بنا کر آج تماشائیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ آج اس نے اپنا تعارفی میچ شاندار طریقے سے کھیل کر اپنے تابناک مستقبل کو مستحکم کر لیا تھا۔ کامیابی کا راہ کو دائرۂ تصور میں لانا: اپنی خواہشات اور توقعات کے مطابق اپنی کامیابیوں کو اپنے ذہن کی سکرین پر دیکھنے کے عمل کو ’’ تصوراتی تصویر کشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ میں اکثر مشاہدہ کرتا رہتا ہوں کہ جن لوگوں نے حیران کن فتوحات اور کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ پہلے اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹوں اور مشکلات کو اپنے تصور میں لاتے تھے اور پھر کمال منصوبہ بندی کر کے ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ ایزیو ساپیسفک کالج، ایزیوسا، کیلیفورنیا کی سالانہ تقریب تقسیم اسناد کی روایتی کارروائی کے بعد انتہائی ذہین و فطین طلباء و طالبات کو بی اے کی ڈگریاں تقسیم کی جا رہی تھیں۔ ان اسناد لینے والے سٹوڈنٹس میں تین سٹوڈنٹس کو اول قرار دیا گیا ان میں سے ایک سیاہ فام سٹوڈنٹ تھا، ایک انڈین تھا، تیسری سٹوڈنٹس ایک نابینا لڑکی تھی جس کے ہاتھ میں سفید چھڑی تھی۔ ان تینوں سٹوڈنٹس نے امریکن ہائی سکول سسٹم میں گولڈن گریڈ حاصل کیا کہ ان کا اندراج ’’ امریکن کالجوں اور یونیورسٹوں میں کون کیا ہے؟‘‘ کی سالانہ ڈائریکٹری میں کر لیا گیا ہے۔ مجھے یقین محکم ہے کہ ان تینوں ذہین ترین سٹوڈنٹس کو کئی ناکامیوں سے بھی ضرور واسطہ پڑا ہو گا اور میں یہ بھی قیاس کرتا ہوں کہ ایک کو سیاہ فام ہونے، دوسرے کو انڈین ہونے اور تیسرے کو نابینا ہونے کے باعث ہر ایک کو بچپن سے لے کر لڑکپن تک کی عمر میں کئی نفرتوں، تعصبوں اور حقارتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ بہرحال آج یہ تینوں ہی ایسے سٹوڈنٹس جو دوسروں کی نظر میں حقیر تھے، اول قرار دے دئیے گئے۔ آخر یہ کیوں اور کیسا ہوا؟ انہوں نے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے آخر کون سی امتیازی کوشش کی، جس کے باعث انہیں یہ قابل ذکر کامیابی حاصل ہو گئی؟ میں بعد میں اس نابینا لڑکی سے ملا تھا اور اس نے دریافت کیا: ’’ آپ بتائیے، آپ کی اس شاندار کامیابی کا راز کیا ہے؟‘‘ اس سوال پر لڑکی کا چہرہ چمکنے اور مسکرانے لگا۔ اس نے اپنے سر پر پہنے ہوئے ڈگری ہڈ کے سکیئر ٹاپ پر لگے دھاگوں کے سجاوٹی پھندنے کو پیچھے کیا اور اپنی کامیابی کے یقین کا انکشاف یوں کیا: ’’ میری کامیابی کا راز انجیل مقدس کی ایک آیت میں مضمر ہے جسے میں نے کئی سال ہوئے سنا تھا۔ بس اس کی وجہ سے میری ہمت بہت بندھی۔ میں اب ہر کام کروں گی کیونکہ یسوع مسیح مجھے قوت اور ہمت بخشتا ہے۔‘‘ کئی لوگ اپنی مجبوریوں اور معذوریوں کے ہاتھوں شکار ہو جاتے ہیں جبکہ کئی لوگ اپنی مجبوریوں اور معذوریوں کو اپنی خدا داد ہمت، قوت اور حوصلے سے شکار کر لیتے ہیں اور ان پر قابو پا کر ترقی کر جاتے ہیں ایسے ہی سیاہ لڑکے نے، ہندوستانی جوان نے اور اس نابینا لڑکی نے مشترکہ طور پر ہمت سے کام لیا۔ ان تینوں میں یہی ایک صفت مشترک تھی وہ خداپر پورا ایمان اور یقین رکھتے تھے کہ وہ ان کی مجبوریوں کو توانائیوں میں بدل کر ان کے حالات اور زندگی میں ایک خوشگوار تغیر بپا کر دے گا۔ آپ بھی جب خدا پر پختہ یقین لاتے ہیں تو آپ دراصل اس پر یہ ایمان بھی رکھتے ہیں کہ اس کی برکت اور تقدیس سے آپ مشکلات پر قابو پا لیں گے اور پھر آپ امیدوار حوصلے سے ترقی کرتے کرتے ہر میدان میں سبقت لے جاتے ہیں۔ خود اعتمادی سے کامیاب ہونے والوں کی چار نہایت اثر آفریں خصوصیات: ۱۔ قوت متخیلہ (Imagination) خود اعتماد شخص اپنے رستہ میں حائل مشکلات اور اپنے موجودہ حالات کی پرواہ نہیں کرتا وہ عزم، حوصلے اور یقین کے ساتھ اپنی قوت متخیلہ سے کام لے کر اپنے ذہن میں ایک واضح تصور قائم کرتا ہے اور تصور ہی میں اپنے آپ کو اس مطلوبہ مقام پر فائز سمجھتا ہے۔ تصور میں اپنے مقصد میں کامیابی اور منزل کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے خوابوں اور خواہشوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے ’’ تصور کی تصویر کشی کا عمل‘‘ بہت ضروری ہے۔ ۲۔ مصمم ارادہ (Commitment) قرطاس ذہن پر تصور سجا لینے کے بعد اپنے آپ سے یہ عہد کرنا، مصمم ارادہ کرنا اور اپنی ذات پر احساس ذمہ داری کو وارد کرنا بہت ضروری ہے کہ میں نے جو تصور باندھا ہے اسے ضرور حقیقت کا جامہ پہناؤں گا۔ خود اعتماد شخص اس منزل کے حصول کے لیے مقاصد کا تعین کرتا اور ان پر کاربند ہونے کا پختہ عزم کرتا ہے۔ اپنی ذات سے کیا ہوا یہ عہد و پیمان غیر مشروط ہوتا ہے۔ فیصلہ کرنے اور پختہ ارادہ کرنے کی یہ قوت خود اعتماد شخص کو باہمت اور حوصلہ مند بنا دیتی ہے۔ ۳۔ قلب و ذہن کی آمادگی (Affirmation) اپنی منزل متصور کرنے اور اس تصور کو حقیقت بنانے کے پختہ عزم کے ساتھ آپ کے قلب و ذہن کی مکمل آمادگی، تصدیق اور توثیق بھی بہت ضروری ہے۔ آپ کی مثبت سوچ اور ممکناتی انداز فکر واقعی آپ کی خواہشات کو حقیقت کا رنگ دے سکتا ہے۔ جب آُ زبان سے یہ اقرار کریں گے اور دل سے یہ عہد کریں گے کہ آپ ہر قسم کے مسائل اور مشکلات پر قابو پا لیں گے اور اپنے مشن اور مقصد کو ممکن کر دکھائیں گے تو آپ کے اندر مطلوبہ صلاحیتیں اور قابلیتیں بوقت ضرورت اجاگر ہوتی چلی جائیں گی۔ آپ کا عمل اور قلب و ذہن پوری ہم آہنگی کے ساتھ مستعد اور متوازی ہو کر چلیں گے تو آپ کے اندر تازہ ولولہ پیدا ہو گا اور آپ کی خود اعتمادی کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔ ۴۔ پسپانہ ہونے کا عزم (Never Give-Up) خود اعتماد شخص صرف جیت اور کامیابی پر یقین رکھتا ہے۔ آپ یہ اپنے آپ سے عہد کر لیں کہ اپنے مشن اور مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، پسپا نہیں ہوں گے، شکست قبول نہیں کریں گے اور اپنے مشن اور مقصد کے حصول کی کوشش تو ترک نہیں کریں گے۔ صبر و تحمل، مستقبل مزاجی، استقامت اور استقلال جیسی خوبیاں اور خصوصیات اپنی ذات میں زبردست قوتیں ہیں۔ آپ ان خوبیوں کی بدولت ضرور کامیاب ہوں گے۔ شکست اور ناکامی کے خیالات کو اپنے قلب و ذہن میں جگہ دینا کافرانہ عمل ہے۔ مایوسی زبردست گناہ ہے۔ آپ اپنی ذات کو منفی خیالات و احساسات سے محفوظ رکھیں اور ہمیشہ آپ کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا رہنا چاہیے۔ Never Give up Affirmation Commitment Imagination N A -C I میں کر سکتا ہوں کامیابی=ممکناتی سوچ+کامیابی کا تعین+شکست سے گریز +ہمہ وقت کوشش مندرجہ بالا چار خصوصیات کے الفاظ کے پہلے حروف کو اگر باہم جوڑ کر پڑھا جائے تو ’’ I can‘‘ کا پر اعتماد اور یقین افروز عزم کا مفہوم اخذ ہوتا ہے۔ خود اعتمادی کی روح اسی عزم سے عبارت ہے خود اعتمادی خدا تعالیٰ کی ایک زبردست عطا ہے جو انسانی روح کے اندر ایک ایسی فرحت، تازگی، ولولہ، حوصلہ، ہمت اور عزم کی برقی رو سرایت کر دیتی ہے جس کے باعث یقینی کامیابی کی جانب ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ ’’ میں کر سکتا ہوں‘‘ کے الفاظ آپ کی لغت حیات میں نہایت ہمت افروز ہیں ’’ میں یہ کر سکتا ہوں‘‘ یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو سائرس ڈبلیو۔ فیلڈ نے اس وقت کہے تھے جب اس نے بحر اوقیانوس میں پہلی بار کیبل بچھانے کے تاریخی کام کا عزم کرتے ہوئے کہے تھے اور بالآخر اس نے یہ کارنامہ کامیابی سے سر انجام دے دیا۔ ’’ میں یہ کر سکتا ہوں‘‘ واقعی نہایت پر عزم اور ہمت افزا فقرہ ہے، اس ضمن میں چند تاریخی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں: ۱۔ ’’ میں یہ کر سکتا ہوں‘‘ یہ الفاظ معروف و ممتاز غبارچی (Baloonist) ٹریسی بارنیز نے اس وقت کہے تھے جب نہایت عقل مند لوگوں نے اسے اس دعویٰ پر جھٹلایا تھا کہ وہ ایک بڑے بیلون کے ذریعے پورے امریکا کے اوپر پرواز کرے گا اس نے اس عزم کا اظہار کیا اور پھر واقعی اس نے ۱۔ پانچ مہینے بیلون کی مدد سے فضا میں گزار کر ۲۔ تین ہزار میل کا طویل فاصلہ طے کر کے اس بات کو سچ کر دکھایا کہ وہ فی الواقع ’’ ایسا کر سکتا تھا۔‘‘ اس نے بیلون کے ذریعے پورے امریکا کے اوپر فضاؤں میں لگاتار سفر کیا۔ اس نے اپنا غبارائی سفر سان ڈائیگو سے شروع کیا، پھر کیلیفورنیا، ویلاس، نیو جرسی سے ہوتے ہوئے پورے امریکا کا سفر طے کیا۔ ٹریسی بارنیز نے بیلون کے ذریعے اس تاریخی اور مہماتی سفر کے دوران لاتعداد تکالیف، مشکلات اور مصیبتیں برداشت کیں۔ اس نے زور دار آندھیوں، من موجیا ہوائی لہروں اور غیر یقینی ہوائی سمتوں کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اسے کئی غیر متوقع خطرات، واقعات، حادثات اور تجربات میں سے گزرنا پڑا۔ وہ کئی کئی بار پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرا جاتا تھا۔ اس نے سان ڈائیگو کی مشرقی فضاؤں میں ایک سو میل کا انتہائی کٹھن سفر کیا، اس دوران شدید زخمی ہو گیا۔ اس کی کمر میں موچ آ گئی۔ وہ تین دن ہسپتال میں رہا۔ وہ کئی چٹانوں کی اوٹ میں گم رہا۔ اس کا اپنے زمینی عملہ کے ارکان سے کئی بار رابطہ منقطع ہوتا رہا۔ کئی بار اس کا بڑا غبارہ بلند درختوں میں پھنستا رہا اور کئی رکاوٹوں میں الجھتا رہا۔ بالآخر ٹریسی بارنیز ’’ پٹس برگ‘‘ کے گرد و نواح میں بحفاظت اتر گیا۔ یہ تھا انتہائی مہماتی اور مشکل ترین سفر جو ستائیس سالہ غبارچی نے نہایت عزم و استقلال سے طے کیا۔ اسے مہمات سر کرنے کا شوق تھا ۔اس نے جان بوجھ کر اپنے غبارے کو بلندی سے نیچے لاتے ہوئے گرینڈ کینیان کی پستیوں تک اتار لایا۔ اپنی بیدکی ٹوکری سمیت بیلون کو وہاں پارک کیا اور کولر اڈو کے دریا پر نہانے چلا گیا۔ تازہ دم ہونے کے بعد اس نے اپنا سفر پھر سے جاری رکھتے ہوئے اپنی رفتار تیز کر لی۔ وہ نبراسکا سے پٹس برگ تک سفر کے دوران فضاؤں میں تیر رہا تھا۔ اس دوران خوش ہو کر اس نے کہا: ’’ واہ کیا مزہ آ رہا ہے، یہی عظمت ہے۔‘‘ بعض اوقات رکاوٹوں، مشکلات اور الجھنوں کے باعث او رمخالف ہواؤں، پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کی وجہ سے اسے دوگنا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ ۲۔ ’’ میں یہ کر سکتا ہوں‘‘ اس عزم کا اظہار برٹ ڈنکن نے کیا تھا۔ یہ شمالی افریقہ کا ایک یتیم نیگرو لڑکا تھا۔ بچپن میں پرورش کی خاطر وہ جگہ جگہ خوار ہوتا رہا۔ وہ بے شمار پرورش گاہوں سے نکال دیا جاتا تھا۔ اسے اپنا یہ تلخ بچپن یاد تھا کہ اسے ارکنیاس سے مسس پی تک تیرہ سے زیادہ خاندانوں کے پاس باری باریر کھا گیا تھا۔ اسے یہ بھی اچھی طرح یاد تھا کہ اسے کہیں سے بھی جی بھر کے کھانا نہیں ملا تھا۔ بھوک اور نقاہت کے باعث وہ اکثر سکول کے کلاس روم میں سو جایا کرتا تھا۔ اسی طرح زندگی کے نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود عزم کا پتلا یہ شخص آج کل معروف پروفیسر ہے۔ ۱۔ برٹ ڈنکن نے پرنسٹن یونیورسٹی سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ۲۔ اس کے علاوہ اس نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے ایم ڈی کے ہے۔ آج کل امریکہ کی کئی یونیورسٹوں میں پروفیسرڈاکٹر ہے۔ جب برٹ ڈنکن سے اس کی امتیازی تعلیمی کامیابی سے متعلق انٹرویو لیا گیا تو اس نے کہا : ’’ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو کسی کے جسم اور چہرے کی رنگت کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ البتہ اس شخص کی سوچ، عزم اور کارناموں کو اہمیت دینی چاہیے۔ اگر رنگت پر جانا ہی ہے تو سبز رنگ کی سوچ، یعنی سر سبز اور تروتازہ سوچ کو اہمیت دینی چاہیے۔ یہ سوچ مثبت، مسلسل اور آگے ہی آگے جانے کے انداز فکر پر مبنی ہوتی ہے، اسے اپنانا چاہیے۔‘‘ ۳۔ ’’ میں یہ کر سکتی ہوں‘‘ حوصلہ، عزم اور ولولہ سے عبارت یہ الفاظ رومانہ بینیو لاس کے ہیں، جو ایک باہمت خاتون ہے۔ جب یہ صرف سولہ سال ہی کی تھی کہ اس کی شادی میکسیکو میں کر دی گئی۔ دو سال کے بعد جب اس کے ہاں دو بچے تھے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ یہ بہت پریشان ہوئی کہ ان بچوں کو کہاں لے جائے اور کہاں سے ان کی خوراک و رہائش کا انتظام کرے۔؟ رومانہ نے ’’ ایل پاسو‘‘ نامی ایک لانڈری میں ایک ڈالر یومیہ اجرت پر نوکری اختیار کر لی۔ میں اس نے محسوس کیا کہ یہ آمدنی اس کے اخراجات کی نسبت بہت کم ہے۔ رومانہ نے بہتر ملازمت کے حصول کے لیے کوشش شروع کر دی۔ اس نے کئی لوگوں سے یہ سنا تھا کہ اسے کیلیفورنیا میں اچھی ملازمت مل سکتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی جیب میں سات ڈالر کی جمع پونجی لے کر اپنی قسمت آزمانے کے لیے ایک بس کے ذریعے لاس اینجلز روانہ ہو گئی۔ اس نے مختلف گھروں میں برتن دھونے کا کام شروع کر دیا۔ پھر رومانہ نے ہر کام پکڑنا اور کرنا شروع کر دیا جو بھی اسے کرنا آتا تھا۔ اس کی یہ کوشش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ روپیہ کمائے۔ جب رومانہ نے چار سو ڈالرز کی بچت کر لی تو اس نے اور اس کی خالہ جان نے مل کر آٹے اور مکئی کی چپاتی بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری قائم کر لی۔ دونوں نے محنت کی اور جلد ہی یہ بزنس چل پڑا۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس کی خالہ جان نے اس بزنس کو چھوڑنا چاہا تو رومانہ نے اس کے حصے کو خرید لیا اور خود ہی فیکٹری کی مالک بن گئی۔ یہاں رومانہ کی ذہنی، باطنی اور تخلیقی صلاحیتوں نے عملی طور پر نکھرنا شروع کر دیا۔ رومانہ کی ’’ میکسی کون فوڈ پراڈکٹس‘‘ کے بزنس نے تیزی سے ترقی کرنی شروع کر دی۔ حتیٰ کہ یہ یونٹ پوری قوم میں مشہور اور مقبول ہو گیا۔ اس کمپنی نے پچاس لاکھ ڈالر سالانہ کمانا شروع کر دیا۔ رومانہ نے اپنی فوڈ فیکٹری میں تین سو لوگ بھرتی کر لیے۔ رومانہ نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ وہ میکسیکن امریکیوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ ’’ ہمارے ہاں اپنا ایک بینک ہونا چاہیے۔‘‘ رومانہ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی۔ لہٰذا اس نے مشرقی لاس اینجلز میں ’’ پین امریکن نیشنل بینک‘‘ کی عملی تشکیل کے لیے میکسیکن امریکن کمیونٹی کی بھرپور اعانت کی۔ رومانہ نے اس مشن کے حصول کے لیے بہت کام کیا حتیٰ کہ اس بینک کے وسائل سو دو بیس لاکھ ڈالرز سے بھی تجاوز کر گئے اور لاطینی خاندانوں کے ۸۶ فیصد اثاثہ جات جمع ہو گئے۔ ’’ میں کر سکتی ہوں‘‘ کا نعرہ لگانے اور اسے سچ ثابت کرنے والی اس رومانہ نے کہاـ: ’’ منفی سوچ رکھنے والے اکابرین نے مجھے بار بار کہا تھا کہ میکسیکن /امریکن لوگ کسی صورت بھی اپنا بینک قائم نہیں کر سکتے۔ مجھے کہتے تھے کہ تم کوالیفائیڈ نہیں ہو، اس شعبہ میں تجربہ کار نہیں ہو، اس لیے تم ہرگز یہ بینک قائم نہیں کر سکو گی۔‘‘ لیکن حوصلہ مند رومانہ نے بینک قائم کر کے خود اعتمادی، عزم و ہمت اور ممکن سوچ کی زبردست مثال قائم کر دی۔ اس نے پھر ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی جس میں کمیونٹی کا ہر اول دستہ شامل تھا۔ اس کمیٹی نے تین اٹارنی صاحبان متعین کیے جنہوں نے اس نئے بینک کا باقاعدہ چارٹر حاصل کر لیا۔ رومانہ نے اس بینک کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’’ ہم نے اس بینک کو پہلے آزمائشی طور پر قائم کیا تھا، لیکن کمیونٹی وک سٹاک فروخت کرنے کا ایک مسئلہ تھا۔ لوگوں کو اس پر اعتماد نہیں تھا۔ میں پھر خود لوگوں کے پاس گئی اور فرداً فرداً پوچھا کہ کیا وہ سٹاک خریدنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہاں، ہم تو بینک بنانے کی کوشش دس پندرہ سالوں سے کر رہے ہیں۔ لیکن ناکام رہے ہیں۔ ‘‘ اس طرح ہم سب کی متحدہ کوششوں سے بینک بن گیا ہے اور یہ بینک مشرقی لاس اینجلز کی اثر آفرین کامیابیوں کی کہانیوں میں سے ایک زبردست تاریخی کہانی ہے۔ رومانہ سے یہ بھی پوچھا گیا: ’’ میکسیکن امریکیوں کیلئے آج کیا بڑا مسئلہ درپیش ہے؟‘‘ رومانہ نے اس سوال کا جواب یوں دیا: ’’ یہ لوگ اپنے بارے میں اس جھوٹ اور مفروضے پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ میکسیکی دوسرے امریکیوں کی نسبت کم تر ہیں۔ میں خود بھی میکسیکن ہی میں رہی ہوں، میری پیدائش اور پرورش بھی یہاں کی ہے لیکن مجھے کوئی مجبور نہیں کر سکا کہ میں اس جھوٹے مفروضے پر یقین کروں۔ مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میکسیکو کے آباء و اجداد کی ایک فرد ہوں۔‘‘ آج کل رومانہ کامیابی کے نئے اور مزید بلند زینے پر استوار ہے۔ اسے یو ایس اے کے صدر نے نہایت اعزاز سے ایک خاص منصب پر متعین کیا ہے وہ امریکہ کی ۳۴ ویں خزانچی (Treasurer) ہے۔ آپ اپنے آپ سے زیادہ توقعات وابستہ کریں: صرف میکسیکن امریکی ہی اپنے آپ کو کم تر سمجھ کر محدود دائرۂ امید میں نہیں بس رہے ہیں بلکہ دنیا کے اکثر لوگوں کی توقعات کا معیار بھی بلند نہیں ہے۔ اگر آپ اپنی ذات سے کچھ امید نہیں رکھتے یا بہت کم توقع وابستہ کرتے ہیں تو پھر اس بات پر حیران اور پریشان کیوں ہوتے ہیں کہ آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوئی یا کم نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ شاید آپ احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ ممکن ہے مغرور اور متعصب معاشرے نے آپ کو بھی ایک جھوٹے اور فرضی حصار میں مقید کر رکھا ہو کہ آپ محدود اور کم تر معیار ہی کے اہل ہیں۔ شاید آپ اپنی سکول کی پڑھائی میں کمزور رہ گئے ہوں گے اور تب سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہو گا کہ آپ زندگی کے ہر محاذ میں اب آگے نہیں آ سکتے۔ آپ کو میں تاکیداً کہتا ہوں کہ ان باتوں پر ہرگز یقین نہ کریں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپ کو زمانہ سکول میں ٹیچر ہی نالائق ملا ہو جو آپ کی ذات میں مضمر قابلیت اورذہانت کو نکھارنے کے فن میں نا اہل رہا ہو۔ حال ہی میں ایک معروف عالمی جریدہ ’’ ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس فیچر میں ہارورڈ کے ماہر نفسیات روز نتھل نے کئی ہوش ربا سوالات اٹھائے ہیں۔ ’’ کیا بعض بچے سکول میں اس لیے پڑھائی میں کمزور رہ جاتے ہیں کہ ان کے اساتذہ انہیں نالائق تصور کر لیتے ہیں؟‘‘ اگر ایسا ہی ہے اور روز نیتھل بھی قیاس کرتے ہیں کہ صورت حال یقینا ایسی ہی ہے تو پھر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ٹیچرز کی توقعات کے معیار کو بلند کرنے سے بچوں کی کارکردگی بہتر کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے اس نظریے کو کلاس روم میں آزمانے اور اسے رائج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک ماڈل سکول کے بچے جو کنڈر گارٹن سسٹم کے تحت پانچویں گریڈ میں تعلیم پا رہے تھے، اس نئے نظریہ قابلیت کی آزمائش کے لیے منتخب کئے گئے۔ اگلے ستمبر کے ماہ میں ٹیسٹ کی گریڈنگ کے بعد ہر ٹیچر کو عارضی طور پر نئی کلاس سے چھ چھ سٹوڈنٹس دے کر یہ فرض کیا گیا کہ یہ غیر معمولی ذہانت کے باعث جلدی ترقی کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔ ایک خاص بات جو ٹیچرز سے خفیہ رکھی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان ’’ خاص ذہین بچوں‘‘ کو کسی ذہانت ٹیسٹ کے ذریعے نہیں بلکہ یونہی بے سوچے سمجھے اور اٹکل پچو طریق کے تخت منتخب کر کے ٹیچرز کو سپرد کیا گیا تھا اور ٹیچرز کو باور کرایا گیا تھا کہ یہ غیر معمولی ذہانت رکھتے ہیں اور جلد جلد ترقی کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔ اگلے سال ذہانت کا ’’ حقیقی‘‘ ٹیسٹ تمام بچوں کا لیا گیا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ ہر کلاس کے ان ’’ خاص‘‘ بچوں نے باقی سٹوڈنٹس کی نسبت ۱۵ سے ۲۷ آئی کیو پوائنٹس (معیار ذہانت کی اکائیاں) زیادہ حاصل کیے ہیں۔ تمام ٹیچرز نے اپنی اپنی کلاس کے ان خاص بچوں کے بارے میں بتایا کہ یہ بچے باقی بچوں کی نسبت واقعی زیادہ خوشباش، علم کے مشتاق، ذمہ دار اور اپنی زندگی میں کامیابی کے لیے پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ محض’’ رویوں‘‘ میں تبدیلی کے باعث کس قدر خوش کن تغیر رونما ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیچرز صاحبان نے ان ’’ خاص‘‘ بچوں کے بارے میں اپنی رائے اور رویہ کے مطابق ’’ خصوصی‘‘ توجہ دینے کی بجائے ان سے زیادہ بہتر کارکردگی کی توقعات وابستہ کر لیں تھیں اور رد عمل کے طور پر ان ’’ خاص‘‘ (جو اصل میں ’’ عام‘‘ ہی تھے) بچوں نے بہتر نتائج ظاہر کیے۔ بچوں نے عام معیار سے بہتر توقعات اپنے آپ سے متوقع کر لیں تھیں اور نتیجہ بہت بہتر رہا۔ رابرٹ روز نیتھل نے جو اس تجربہ سے نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ تھا: ’’ میں سمجھتا ہوں کہ اس آزمائشی تجربہ کی بدولت جو بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں، اس کی اصل وجہ ٹیچر اور سٹوڈنٹ کے باہمی تعلق کا اعلیٰ معیار تھا۔ دونوں طرز توقعات میں اضافہ کے باعث یہ باہمی رشتہ مزید لطیف، گہرا اور عمیق ہو گیا۔‘‘ اس بہتر رویے کی بدولت ٹیچرز کے مجموعی تدریسی انداز میں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی۔ آواز کا لہجہ، چہرے کے تاثرات، جسم کی حرکات و سکنات، توجہ کا ارتکاز وغیرہ، ان سب عناصر نے مجموعی طور پر ٹیچرز نے بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر اپنے سٹوڈنٹس سے زیادہ توقعات کی وابستگی کا موثر اظہار کیا۔ اس بہتر ذریعہ ابلاغ اور طریقہ تدریس نے جو ’’ نئے رویے‘‘ کی بنیاد پر استوار تھا، بچوں کی توقعات کو بھی بلند کر دیا اور رد عمل کے طور پر انہوں نے اپنی کارکردگی کے معیار کو بھی بہتر کر لیا۔ ڈاکٹر فلوئڈ بیکر، جو گارڈن گروو کمیونٹی چرچ کے ایک ممبر ہیں، وہ فزکس کے ممتاز پروفیسر بھی ہیں انہوں نے فزکس میں ڈاکٹریٹ کرنے کی غرض سے ایک خاص تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے ایک اہم حقیقت کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے: ’’ میں سب سے پہلے اپنے اس تدریسی پیشے میں ۱۹۶۰ء میں آیا تھا اور میرے قلب و ذہن میں فن تدریس سے متعلق، خاص طور پر سٹوڈنٹ اور ٹیچر کے مابین یگانگت اور ہم آہنگی کے بارے میں خاص نظریات و افکار تھے۔ اب ماضی کے تناظر کا جائزہ اور موازنہ کر کے میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اپنے سٹوڈنٹس اور ان کے تعلیمی محرکات سے متعلق میرا رویہ بہتر نہیں ہے۔‘‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں سمسٹر کے آغاز میں ہی انہیں یہ کہا کرتا تھا: ’’ تمہیں ہر حال میں فزکس کے مضمون میں پاس ہونا ہے یا پھر آپ اس مضمون کو چھوڑ کر کوئی اور مضمون رکھ لیں۔ میں اس کلاس میں واحد اس مضمون کا ٹیچر ہوں، لہٰذا تمہیں میری رفتار، میرے انداز کے ساتھ اور میرے مزاج کے مطابق چلنا ہو گا۔ میں ان سٹوڈنٹس کو پسند نہیں کرتا جو پڑھائی نہیں کرنا چاہتے، لہٰذا آپ میری بات اچھی طرح سمجھ لو اور سوچ لو۔ میں تمہیں مکمل سٹڈی میٹریل دیا کروں گا اور تمہیں اسے یاد کر کے آنا ہو گا۔ میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ آپ سب میں سے صرف پچاس فیصد سٹوڈنٹس پاس ہوں گے۔ آپ میں سے ہر ایک سٹوڈنٹ یہ کوشش کرے کہ وہ فیل سٹوڈنٹ میں شمار نہ ہو۔‘‘ آپ نے خود بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گاکہ میں اپنے سٹوڈنٹس کو زبردست اعتماد دیتا ہوں اور حیران کن حد تک میرے اندازے، امیدیں اور توقعات پوری ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ پچاس فیصد سٹوڈنٹس ہر سال ہمیشہ فیل ہو جاتے ہیں اور میرے کالج کے دیگر پروفیسر صاحبان امتحانات کے بعد جب کافی پیتے ہیں تو اپنی کلاسوں سے نکل جانے والے سٹوڈنٹس پر ہنستے ہیں اور ہم باہم یہ خیال کرتے ہیں کہ جس کلاس سے زیادہ سٹوڈنٹس نکل جائیں گے اس کلاس کا پروفیسر زیادہ کامیاب ہے۔ اب مجھے یہ احساس ہو گیا ہے کہ یہ رویہ اچھا نہیں برا ہے۔ آج کل میں نے اور میری بیوی نے ایک موثر چرچ میں باقاعدگی سے جانا شروع کر دیا ہے۔ وہاں کے تمام پادری نہایت پرجوش ہیں اور رشد و ہدایت کے جذبہ سے سرشار ہیںاور بہت موثر انداز میں خطبات دیتے ہیں۔ ہر ہفتے جب میں چرچ میں حاضری دیتا ہوں تو میرا قلب و ذہن ممکناتی سوچ اور مثبت جذبہ و فکر سے لبریز ہو جاتا ہے۔ یہاں کی تعلیم و تربیت سے میں نے یہ اخذ یا ہے کہ آ پ کو ایک ایسا خوشگوار اور مثبت تاثر حاصل ہوتا ہے کہہ آپ اسے اپنی پوری معاشرت میں اپنا سکتے ہیں۔ بہرحال میںمسلسل اس فکر میں رہنے لگا کہ کس طرح میں سٹوڈنٹس کی اس ابتر صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے اپنے سٹوڈنٹس کے جذبہ حصول علم کو بیدار کروں۔ کس طرح میں انہیں موثر طریق سے پر جوش اور بااعتماد بنائوں؟ چرچ میں حاضری کے دوران پادریوں کے خطبات کے یہ فقرے اکثر مجھے سنائی دے رہے ہوتے ہیں‘‘۔ ’’اگر تمہیں کوئی مسئلہ یا مشکل درپیش ہو تو تم دعا کرو اور بائبل پڑھو تمہیں اس مسئلے اور مشکل کا حل ضرور مل جائے گا‘‘۔ میں نے پھر بائبل پڑھنی شروع کر دی۔ ایک باب پڑھا پھر دوسرا باب اس کے بعد تیسرا باب۔ تمام صحائف او ر آیات پڑھ ڈالیں اورجب میں نے کرنتھیوں کے نام پولوس رسول کے پہلے خط کا باب ۱۳ پڑھا تو مجھے کامیابی کی ایک سنہری چابی حاصل ہو گئی‘‘۔ ’’اگر میں آدمیوں اور فرشتوں کی زبانیں بولوں اور محبت نہ رکھوں تو میں ٹھنٹھاتا پیتل یا جھنجھناتی جھاجھ ہوں۔ اور اگر مجھے نبوت ملے او رسب بھیدوں اور کل علم کی واقفیت ہو اور میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹا دوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔ اور اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کھلا دوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں۔ محبت صابر ہے اور مہربان محبت حسد نہیں کرتی۔ محبت شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔ محبت نازیبا کام نہیںکرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی جھنجھلاتی نہیں بدگمانی نہیں کرتی۔ محبت بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔ محبت سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کر تی ہے۔ سب باتوں کی امید رکھتی ہے۔ سب باتوں کو برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔ (آیت ۱ تا ۸) اس کے بعد آج تک یسوع مسیحؑ میری زندگی میں میرے ساتھ ساتھ ہیں۔ اپنے آپ میں ہمت اعتماد اور یقین پا کر میں کلاس روم میں اپنے سٹوڈنٹس کے سامنے جا کھڑا ہوا اور کہا میں آپ میں سے ہر سٹوڈنٹ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ اوراب میں آپ کی کامیابی کا ذمہ لیتا ہوں اور میں خیال رکھوں گا تاکہ آپ پوری محنت کریں۔ مجھے اس بات کااحساس ہے کہ میں جو آپ کو سٹڈی مٹیریل دیتا ہوں وہ خاصا مشکل ہوتاہے لیکن اور آپ اور میں مل کر اکٹھے کام کریں گے تو میری کلاس کا ہر سٹوڈنٹ ضرور پاس ہو جائے گا۔ اوراس کے علم میں بہت اضافہ ہو گا۔‘‘ میری اس تقریر اور رویے کے بعد میری کلاس کے سٹوڈنٹس میں خوشگوار بہتری آنے لگی ۔ میں اس مسئلہ کے بہترین حل کے لیے خدا تعالیٰ اور یسوع مسیحؑ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پہلے تو یہ معمول تھا کہ کلاس کے ۵۰ فیصد فیل ہو جاتے تھے لیکن تب سے میں نے ممکناتی سوچ اور مثبت رویہ اپنایا اور اس کو عملی طور پر آزمایا تو آپ یقین مانیے کہ ہر سٹوڈنٹ پاس ہو گیا۔ ایک سٹوڈنٹ نے سی پلس ایک نے بی مائنس اور باقی تمام سٹوڈنٹس نے بی اور اے گریڈ حاصل کیا۔ حالانکہ میں نے کبھی بھی امتحانی پرچہ جات کی مارکنگ اور گریڈنگ کے معیار میںایک فیصد بھی نرمی اختیار نہیں کی‘‘۔ گوئٹے کی یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے: ’’آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح برتائو کیا کریں ؤگو یا وہ ویسے ہیں جیسے کہ انہیں ہونا چاہیے اور پھر ان کی رہنمائی اور معاونت کرتے رہا کریں تاکہ واقعی وہ بن جائیں جو ان میں بننے کی قابلیت اہلیت اور صلاحیت ہے۔ خدا تعالیٰ کو یقین ہے کہ آپ غلط نہیں ہو سکتے: پہلے ایک کہانی ملاحظہ کیجیے: ایک عمر رسیدہ بیمار اور لاغر فقیر ایک گلی کے سرے پر بیٹھا رہتا تھا۔ گزرتے ہوئے لوگ اکثر اسے نظر انداز کر جاتے تھے۔ ان حالات کے باعث وہ بے حد مایوس تھا اور پریشان رہتا تھا۔ اس گلی کے پار بالکل سامنے ایک آرٹسٹ کا سٹوڈیو تھا۔ ایک دن آرٹسٹ کو کچھ فرصت ملی تو اس نے اپنی کھڑکی سے نظر آںے والے سامنے فقیر کا ایک پورٹریٹ بنا دیا۔ آرٹسٹ نے فقیر کے اس پورٹریٹ میں مندرجہ ذیل اہم اصلاحات کر ڈالیں: ۱۔ فقیر کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی کے تاثرات کی بجائے آرٹسٹ نے خوشگواریت اور اطمینان کا تاثر دے دیا۔ ۲۔ فقیر کی آنکھیں جو اندر کو دھنسی ہوئی تھیں انہیں تازہ دم اور امید افزا چمک دے دی۔ ۳۔ فقیرکے چہرے کی خشک اور جھریوں بھری جلد کو صحت مند فولادی اور مضبوط رنگت دے دی۔ آرٹسٹ کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ اگرچہ اسی فقیر سے مشابہت رکھتا تھا تاہم اس نے اس میں تمام منفی عناصر کے آثار اور تاثرات کی جگہ امید اور اطمینان‘ جرات اور صحت کے تمام ضروری تاثرات اور نقوش بھر دیے۔ پورٹریٹ مکمل کر لینے کے بعد آرٹسٹ نے فقیر کو سٹوڈیو میں بلایا اوریہ تصویر پیش کی۔ فقیر یک دم اس تصویر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ اس تصویر میں اس کی مشابہت موجود ہے۔ وہ سمجھا شاید آرٹسٹ کے پاس کوئی ایسا گاہک آیا ہو گا جس نے یہ تصویر آرڈر پر بنوائی ہے۔ اورآرٹسٹ نے اس میں میری مشابہت محسو س کر کے مجھے دکھانے کے لیے بلایا ہے۔ فقیر نے پوچھا’’یہ کون ہے؟‘‘ آرٹسٹ نے کہا یہ تمہاری تصویر ہے۔ فقیر بولا: واقعی کیا یہ میری تصویر ہے؟ کیا میں یہ ہو سکتا ہوں۔ آرٹسٹ نے کہا : میں تمہیں اس روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ فقیر یہ بات سن کر سنجیدہ ہو گیا چند سیکنڈ کی سوچ کے بعدبولا۔ اگر تم چاہتے ہویہ بن جائوں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہ بن کر دکھائوں گا۔ کہا جاتا ہے کہ فقیر نے اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے گداگری چھوڑ دی اور اپنے حالات کو بہتر بنانے کی جستجو میں مصروف ہو گیا۔ خدا تعالیٰ جو ہم سب کا خالق ہے۔ وہ آپ کواپنا بہترین شاہکار بنانا چاہتا ہے۔ اگر آپ اپنے تخی اور تصور میں اپنے لیے بہترین اور مثالی شخص کی تصویر بنا لیں تو خدا تعالیٰ یقینا آپ کی اس خواہش اور آرزو کو حقیقت بنانے کے لیے آپ کے لیے آسانیاںؓ مواقع اور حالات پیدا کر دے گا آپ آج ہی یہ تصور باندھیں اور اس کے لیے کوشش کا آغاز کر دیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ چیونٹیاں پہلے اپنے ننھے ننھے پروں کے ساتھ پیدا ہوتی تھیں وہ اپنے ان پروںکی بدولت خوشنما لگتی تھیں۔ وہ پرواز کا لطف اٹھاتی تھی۔ وہ فضا میں تازگی اور خوشبو کا مزہ لیتی تھیں۔ لیکن چیونٹیوں نے عمداً اپنے ننھے پروں کو توڑ ڈالا اور زمین پر رینگنے والے کیڑوں کی طرح زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی۔ آپ تو انسان ہیں۔ خدا تعالیٰ نے آ پ کی رفعت اور پرواز کے لیے کئی صلاحیتیں قابلیتیں اور استعداد یں دے رکھی ہیں۔ خدارا آپ ناشکری میں اپنے ان پروں کو اپنے ہاتھ ہی سے نہ توڑ دیجیی۔ اپنے آپ کو کم تر نہ بنائیے۔ خدا تعالیٰ آپ کو ترقی کامیابی اور راحت کا سامان مہیا کرنا چاہتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آ پ اپنا معیار بلند کریں اور اپنی زات سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیں۔ آپ یہ کر سکتے ہیں! کیا آپ نے کبھی اپنی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اپنے آپ کو کوئی وقعت کوئی مقام اور کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ آپ نے اپنے آپ کو خود فراموشی خود اذیتی اور خود ملامتی کے ذہنی حصار میں مقید کر رکھا ہے آپ اپنے آپ کو آزاد کیجیے۔ آپ کی اس آزادی کا عمل ذرا بھی مشکل نہیں ہے یہ اے بی سی کی طرح بالکل آسان ہے: Affirm=A… اپنے کو ترغیب دینا اورتصدیق کرنا: دوسرے لوگ یہ کر سکتے ہیں کیونکہ دوسرے یہ کر رہے ہیں لہٰذا میں بھی یہ کر سکتا ہوں۔ Believe=B… خدا تعالیٰ پہ یہ یقین رکھنا کہ اس نے میری زندگی کے لیے بہتر مقام اور منصب عطاکرنے کے لیے تمام ضروریات مہیا کر رکھی ہیں۔ Choose=C… منفی خیالات کو چھوڑ کر مثبت سوچ کا انتخاب کرنا جس میں کر گزرنے کی ہمت اور حوصلہ مضمر ہے۔ تاریک کا ایک واقعہ ہے کہ باسٹیل (Bastille)کا قلعہ جوپیرس میں واقع تھا جسے قید خانہ کے طور پر استعمال کیا جات تھا اور جسے ظلم و تشدد کی علامت قرار دیا جاتا تھا۔ سب لوگوں کی ایک ہی آواز تھی۔ کہ اسے گرانا ناممکن کام ہے۔ ایک نہ ایک دن اس قید خانہ میں مقید روحوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا۔ آخر ایک دن دیوانہ وار لوگ اس قلعہ پر ٹوٹ پڑے اور صرف چار گھنٹوں کی مسلسل اور سخت کوشش سے یہ قلعہ مسمار کر دیا گیا۔ ایک ناممکن کام کو ممکن بنا دیا گیا۔ یہ واقعہ انقلاب فرانس کے دوران 1789ء میں پیش آیا۔ آ پ بھی اپنے حصار سے باہر آئیے۔ اپنے خود ساختہ قید خانہ سے آزاد ہوجائیے۔ خود اعتمادی کے حصول کے چار یقینی طریقے ۱۔ طبی مشاورت ماہرین ذہنی و نفسیاتی امراض کی مشاور ت سے آپ کو بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کی اپنے بارے میں رائے اس قدر منفی اور مایوس ہے کہ آپ کے دل میں خود کشی کرنے کے بارے میں خیالات آ رہے ہیں تو آ پ مزید وقت ضائع کیے بغیر جلد ہی پیشہ ورانہ نفسیاتی مشاورت کے لیے جستجو کریں۔ جب نفسیاتی ماہرین آپ کے ذہن خیالات اور حالات کا عمیق اور مفصل تجزیہ کریں گے تو وہ ضرور ایسے عوامل اور عناصر کا پتا لگا لیں گے جو آپ کی انا اور عزت نفس کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بچپن کے خاص حالات اور واقعات اور ماحول کی نوعیت جس نے بچپن کے زمانے میں آپ کو محدود متنفر اور بیزار کر دیا ہے ماہرین اس کا بھی بھرپور جائزہ لیں گے۔ ذہنی و نفیساتی مسائل اور امراض کے یہ پیشہ ورماہرین مثبت سوچ رکھتے ہیں اور اگر ان کے اندر تعاون کا زبردست جذبہ ہوتا ہے آپ کے شہر کے سرکار ی اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شعبہ بھی موجود ہوتا ہے۔ ان ماہرین نے باقاعدہ ایک بورڈ تشکیل دیا ہوتاہے۔ تاکہ ہر ممبر ڈاکٹر اپنے مریض کا اپنے نقطہ نگاہ سے معائنہ کر سکے۔ مکمل تجزی کرنے اور آپ کی کیفیات کا مجموعی جائزہ لینے کے بعد بھی یہی ماہرین آپ کو چند ضروری ہدایات دیں گے آپ ضروری پابندی کے ساتھ ان ہدایات پر عمل کریں گے۔ ۲۔ تشخص اور لباس میں خوشگوار تبدیلی اگر آپ اپنی ظاہر شخصیت میں تھوڑی سی تبدیلی اس انداز میں کر لیں کہ آپ کے مجموعی تشخص میں نکھار آ جائے تویہ عمل بھی آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کر سکتا ہے۔ اپنی موجودہ ظاہری حالت مثلا ً ہیر سٹائل لباس اور ڈاڑھی رکھنا یا کلین شیو کر لینا مونچھوں کی بناوٹ وغیر ہ میں تھوڑی سی تبدیلی یا اصلاح کرنے سے آپ کے ذہن و قلب سے مایوسی اور منفی احساس کے اثرات زائل ہو سکتے ہیں۔ اور آپ کے اندر یعنی ذہنی اور باطنی لحاظ سے بھی ایک خوش کن اورخوشگوار تبدیلی ظہورمیں آنے سے آپ میں خود اعتمادی نیا پن تازگی جذبہ و جوش پیدا ہو سکتا ہے۔ مورس ویسٹ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’شیطان کا وکیل‘‘ (The Devil's Advocate)مٰں ایک کریکٹر کا ذکر کرتے ہیں جو اپنے آپ میں زبردست تبدیلی اور قوت پیاکرنے کے یلے اپنے کوٹ پر سامنے کی جانب ایک خوشبو دار سرخ پھول ٹانک لیتا ہے اور پورے اعتماد اور ہمت و حوصلہ سے دنیا کے سامنے مردانہ وار مقابلے کے لیے تیار ہو جاتاہے۔ اسی طرح بالوں کے سٹائل اور لباس کا فیشن بدلنے سے اپنی مجموعی وضع قطع میں خوش کن اصلاح کرنے سے گھر کے اندر اپنا کمرہ بدلنے سے کمرہ میں تمام اہم اشیاء کی ترتیب بدلنے سے گھر کی دیواروں پر از سر نو روغن کرنے سے چند پائونڈ اپنا وزن م کرنے سے اپنے معمولات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی لانے سے آپ کے اندر کی دنیا میں خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے۔ آپ کی منفی سوچ کی جگہ مثبت انداز فکر آپ کے پورے رویے کی اصلاح کر سکتا ہے۔ میکس ویل مالٹنر نے اپنی ایک سروے رپورٹ میںانکشاف کیا ہے کہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کے نقوش مزید نکھار نے کے عمل سے کئی ایسے لوگ جو احساس کمتری اور خود فراموشی کے شکار تھے۔ ان کے اندر اعتماد عزت نفس او ر خود پسندی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ذہنی قلبی اور باطنی انقلاب اور تغیر اور اصلاح کے لیے یہ تمام اقدام محض عارضی نوعیت کے ہیںَ اگرچہ ان اقدام سے مثبت فائدہ اور فوری تحریک حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم آپ کے عزم ارادہ اور قلبی سوچ کی اساس پر آپ کی ذات میںجو تبدیلی آئے گی وہ حقیقی دیرپا اور مستقل ہو گی۔ ۳۔ کامیاب اور قابل رشک شخصیات سے رابطہ یہ دنیا عظیم لوگوں کے باعث اس قد رترقی یافتہ ہے کہ آج انسان خود حیران ہے آپ اپنے شہر میں ایسے لوگوں سے ضرور ملاقات کیرں جو مختلف خوبیوں خصائل اور شمائل کے لحاظ سے آپ کے لیے آئیڈیل ہیںَ آپ جب ان سے ملتے رہیں گے ان کی گفگتو سنیں گے ان کے طرز حیات کا مشاہدہ کریں گے ان کے کارنامے اور کامیابیوں کا جائزہ لیں گے تو آپ کے اندر بتدریج ایک مثبت موثر اورممکناتی سوچ کے علاوہ خود اعتمادی پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ ایک عالمگیر شہر ت یافتہ اوپرا سٹار(گائیک جو ساتھ اداکاری کرتا ہے) کو پیرس کے اوپر ا ہائوس میں اپنے فن کامظاہرہ کرنے کے لیے خاص طور پر بلایا گیا۔ اس متوقع تقریب کی خوب تشہیر کی گئی۔ مقررہ تاریخ کے دن اوپر ہائوس کھچا کھچ بھر گیا۔ اس فنکار کے مداحوں میں بے حد اشتیاق اور جو شتھا لیکن عین وقت پر منیجر سٹیج پر آیا اور اس نے اعلان کیا کہ آنے والے اس اوپر ا سٹار کو نرخرے کا شدید ورم ہو گیا ہے۔ یکدم حاضرین میںمایوسی چھا گئی۔ لیکن فوراً ہی مینجر نے بتایا کہ ایک ابھرتے ہوئے نئے اوپر اسٹار کا بروقت انتظام کر لیا گیا ہے۔ نیا فنکار آیا اور اس نے پہلی بار سامعین کے عظیم ہجوم میں نہایت مہارت خوبی سے اپنا گیت اور تاثرات پیش کیے۔ لیکن بھرے ہال سے ایک شخص نے تالی نہیں بجائی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا سب کو سانپ سونگھ گیا ہے یا حال ہی خالی ہے۔ عجیب منظر تھا کہ نئے فنکار کی مایوسی اور بے عزتی کا موجب تھا۔ اسی مکمل سناٹے کے عالم میں ایک پرجوش بچے کی زوردار آواز آئی: ابو جان آپ نے کمال کر دیا واقعی زبردست کوشش ہے۔ اس آواز کے ساتھ ہی سارا ہال تالیوں اور چیخوں سے گونج اٹھا اور زبردست ستائش اور حوصلہ افزائی کے لیے دیر تک ارتعاش جاری رہا۔ اس واقعہ یا مثال سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ جذبہ جوش اور ولولے کے لیے متحرک عنصر کے بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ پریڈیڈنٹ ٹھیوڈ روز کو اپنے تین بیٹوں پر بہت فخر تھا کہ انہوںنے ملٹری سروس میں شمولیت کے ارادے کا اظہار کیا تھا لیکن جب چوتھے بیٹے نے بھی فوج میں جانے کی خواہش کی تو پریذیڈنٹ نے سخت لہجے میں کہا: ’’نہیں نہیں میرے سارے بیٹے فوج میں نہیں جائیں گے‘‘۔ اس پرپریذیڈنٹ کی بیگم نے جواب دیا: ’’صاحب اب جبکہ آپ نے اپنے بچوں کو شاہین بننے کی تربیت دی ہے اور ان کے ذہنوں میں بہادری اوربلند پروازی کا شوق ڈال دیا ہے تو پھر آپ یہ کیسے توقع کر سکتے ہ یں ک یہ چڑیا کی طرح اڑیں‘‘۔ معروف ادیب اور ڈرامہ گار ولیم سیرویان جب تیرہ بر س کا تھا تو خود اعتمادی کے جذبہ سے سرشار تھا۔ اس نے ایک ٹائپ رائٹر خریدا اورگھر لے آیا۔ دو چار دن کے بعد اس کے دادا گارابیڈ اس کے ہاںؓ آئے اور اس کے کمرے میں ٹائپ رائٹر دیکھ کر کہا: ’’ارے لڑکے یہ بے ڈھنگی مشین کیا چیز ہے؟‘‘ نو عمر لڑکے نے کہا: ’’جناب یہ ٹائپ رائٹر ہے‘‘۔ بزرگ دادا نے پوچھا : ’’اس کا کیا فائدہ ہے؟‘‘ ننھے سیرویان نے جواب دیا: ’’جناب یہ خوبصورت اور صاف لکھائی کے کام آتی ہے‘‘۔ دادا نے پوچھا: اور سیرویان نے فوراً ایک لائن ٹائپ کر کے اپنے دادا جان کو کاغذ دے دیا دادا نے پوچھا: ’’یہ کیا تحریر ہے؟‘‘ سیرویان نے کہا: ’’یہ ایک فلسفیانہ قول ہے‘‘۔ دادا نے پوچھا: ’’یہ قول کس کا ہے؟‘‘ ننھے سیرویان نے نہایت خود اعتمادی سے جواب دیا: ’’جناب یہ میرا قول ہے‘‘۔ دادا ن اب نہایت غور سے ا س ٹائپ شدہ تحریر کو پڑھا ایک ایک لفظ پر غور کیااور یہ کاغذ واپس اپنے پوتے کو دیتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے بیٹے اپنا کام جاری رکھو کیونکہ اب پانی پر چلنا ناممکن نہیں رہا‘‘۔ ولیم سیرویان نے اپنے لڑکپن کا واقعہ سناتے ہوئے کہا: ’’مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے یہ اعتماد اور آگہی حاصل تھی کہ میں یہ کام بخوبی کر سکتا ہوں‘‘۔ اور یہی خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کا جذبہ ولیم کے کام آیا اوراس کی پوری زندگی میں اعتماد کی قوت کی بدولت کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔ ۴۔ منفی انداز فکر سے بے زاری کا اظہار آپ اپنے قلب و ذہن سے ایسے عنصر کو نکال باہر پھینکیے جو خود اعتمادی کے پودے کی افزائش میں روک بن رہا ہے۔ آپ اپنے دل و دماغ سے تمام ایسے منفی خیالات مایوسی پر مبنی احساسات اورخود فراموشی کی کیفیات کو یکسر نکال دیجیے۔ خود اعتمادی ایک بڑی دولت ہے عظیم نعمت اور موثر تین قوتہے۔ یہ بازارمیں نہیں بکتی۔ اسے خریدا نہیں جا سکتتا اورنہ ہی کوی استاد اسے شربت کی صورت میں آپ کو پلا سکتا ہے۔ آپ خود اعتمادی کے حصول کے لیے ہر موقع سے کام لیں۔ ہر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا عملی اظہار کریں آپ کے اندر قوت اعتمادی پیدا ہونے لگے گی۔ ’’منفی سوچ کی جگہ مثبت انداز فکر کو اپناناواقعی بہت مشکل کام ہے لیکن آپ یہ کر سکتے ہیں‘‘۔ میرا دفتر گارڈن گرووکمیونٹی چرچ کیلی فورنیا میں ہے اور یہاں سے صرف ایک میل کے فاصلے پر مشہور ڈزنی لینڈ ہے ڈزنی لیند کے قیام کے پس منظر میں ایک حیران کن افسانوی کہانی ہے۔ بعض لوگ اپنے اندر زبردست خود انحصاری اور خود اعتمادی کی قوت رکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنے قائد بانی اور افسر کی نسبت زیادہ ترقی حاصل کر لیتے ہیں۔ والٹ ڈزنی سے اس کی زبردست اورتاریخ ساز کامیابی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: ’’ جب میری عمر اکیس سال کی تھی تو میرے دل میں ترقی کرنے اور کچھ کر گزرنے کی زبردست خواہش پیدا ہوئی۔ میری طبیعت میں عجیب سا اضطراب پیدا ہوا میں پرانے صوفہ پر وقتی طور پر تھوڑی دیر کے لیے سوتا اور کنستر سے مونگ پھلی کھاتا رہتا تھا۔ آخر میں نے ہالی وڈ جانے کا ارادہ کیا۔ میری زندگی کی کامیابیوں کا سلسلہ یہاں سے شرو ع ہو گیا‘‘۔ والٹ ڈزنی نے اپنی موت سے پہلے آخری انٹرویو میں یہ ایک تاریخی بیان دیا: ’’میں یہ بات نہیں جانتا کہ میں کیا کرم نہیں کر سکتا‘ اس لیے میں ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار رہتا تھا جس کا مجھے موقع ملتا رہتا تھا‘‘۔ والٹ ڈزنی اکثر ایک لڑکے کی کہانی سنایا کرتا تھا جو اس کی سرکس پریڈ میں زیادہ جوش و خروش سے حصہ لیا کرتا تھا۔ جب ہمارا سرکس شو شہر میں آ گیا تو ہمارے بینڈ ماسٹر کو ایک ترم باز(گائے کی ہڈی سے بنائے ہوئے ایک آلہ ساز کو بجانے والے) کی ضرورت پیش آئی۔ ا س لڑکے نے جاب کے لیے نہایت اشتیاق سے معاہدہ ملازمت پر دستخط کر دیے ۔ اگلے دن سرکس پریڈ شہر کے وسیع سرکس ہال میں ہوئی۔ پریڈ کا بینڈ شروع ہو گیا۔ پریڈ نے ابھی ایک چکر بھی مکمل نہیں کیا تھا کہ پورے اس ڈرامائی کھیل میں افراتفری پھیل گئی۔ بینڈ کا ساز نہایت بے ترتیب اور بے ہنگم ہو گیا تھا۔ آخر بینڈ ماسٹر نے اس لڑکے پر برستے ہوئے کہا: ’’ارے تم نے مجھے یہ کیوںنہیں بتایا تھا کہ تمہیں ترم بون بجانی نہیں آتی؟‘‘ اس لڑکے نے جواب دیا: ’’مجھے ترم بون کیسے بجانی آتی؟ آج پہلی بار میں نے اسے بجانے کی کوشش کی ہے‘‘۔ اب اس نازک صورت حال میں بینڈ ماسٹر کو بہت طیش آیا قریب تھا کہ وہ لڑکے کو زور سے پیٹنا شرو ع کردیتا۔ لیکن اس نے لڑکے کی خود اعتمادی اور نئے چیلنج کو قبول کرنے کے جذبہ کو سراہتے ہوئے اسے ایک ہی ہفتہ میں مطلوبہ اور معیاری تربیت دے دی۔ پہلے چھوٹے منصوبے سے اپنی شروعات کریں آپ خود اعتمادی کے عملی اور یقینی حصول کے لیے پہلے کسی بھی چھوٹے منصوبے سے کامیابی کی شروعات کریں۔ اس کی مثال ایک ننھے بچے کی اس تربیت سے ہے جب وہ چلنا سیکھتا ہے چلنے کی اس تربیتی مہم میں وہ پہلے لڑکھڑاتا ہے اور اپنا پہلا قدم آگے بڑھاتا ہے اور پھر جلد ہی خود اعتمادی کے ساتھ وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ میں آپ کو ایک تاریخی اور دلچسپ بات باتا ہوں نیاگرا آبشارپر جھولنے والے پل کی تعمیر ک کہانی یہ پل مندرجہ ذیل مراحل کے ذریعے بتدریج مکمل کیا گیا: ۱۔ سب سے پہلے نیاگرا کی آبشارکے پار ایک پتنگ اڑائی گئی۔ ۲۔ پتنگ کی ڈور کے ساتھ ایک رستی باندھی گئی اور پتنگ اڑتی رہی۔ ۳۔ پرھ ااس رسی کے ساتھ ایک رسہ باندھ دیا گیا۔ ۴۔ اس کے بعد اس رسے کے ساتھ کیبل جوڑ دی گئی۔ ۵۔ ایک کیبل کے ساتھ دوسری کیبل متوازی طور پر جوڑ دی گئیں۔ ۶۔ پھر کئی کیبلز کا جال بچھا کرجھولتے پل کی حالت میں باہم جوڑ دیا گیا۔ اور اس طرح آبشار کے پورے فضائی خلا کو اس پل کے ذریعے پر کر لیا گیا۔ اس لیے آپ بھی پہلے اپنے مطلوبہ منصوبے کی ابتدا چھوٹے سے کام سے کیجیے اپنے منصوبے کو مختلف مراحل اور اقدام میں بانٹ لیجیے۔ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھائیے۔ اس طرح یکے بعد دیگرے چھوٹے کام کرتے کرتے آپ پورا پراجیکٹ سر انجام دے جائیں گے۔ ایڈورڈ بیرٹ نے کہاتھا: ’’جہاں آپ کھڑے ہیں وہیں سے ترقی کا آغاز کر دیں‘‘ بوکرٹی واشنگٹن نے کہا تھا: ’’آپ دریا میں جہاں بھی کھڑے ہیں وہیں سے اپنی بالٹی میں پانی بھر لیجیے‘‘۔ ہنری فورڈ نے کہاتھا: ’’ہم صرف دو پائوں سے قدم بہ قدم چلتے ہیں میلوں کا فاصلہ طے کر جاتے ہیں‘‘۔ آپ کی زندگی کے لیے خدا تعالیٰ کا بہترین منصوبہ خدا تعالیٰ اس پورے جہان کا پروردگار ہے۔ ہر انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک خدا تعالیٰ نے ا س کے رز ق خوراج اور صحت کے علاوہ اس کی خوشحالی اور اطمینان و سکنیت کا سامان رکھا ہے۔ آ پ کو یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پوری زندگی کے لیے بہترین منصوبہ بن رکھا ہے۔ اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ اپنی زدگی کے بارے میں الٰہی پلان کی جستجوکریں اورپھر اس پلان کی تکمیل کے ذریعے اپنی خود اعتمادی کامیابی خوشحالی اور سکینت حاصل کریں۔ جو شخص کامل ایمان اور یقین کے ساتھ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتاہے خدا تعالیٰ اس بندے کی زدگی کے لیے اپنے تیار شدہ پلان اور سکیم کے بارے میں اطلاع دیتا رہتا ہے۔ آپ یہ بات اپنے ذہن و قلب میں راسخ کر لیں کہ ہمارا خدا سمیع ہے۔ جوہماری دعائوں اور التجائوں کو سنتا اور انہیں شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اور ہمارا خدا کلیم بھی ہے وہ ہمارے ساتھ بولتا ہے اور ہم پر علوم اورمعارف کو منکشف کرتا ہے۔ وہ ہمارے قلوب میں اذہان میں ت نئے آئیڈیاز ڈالتا ہے اورہماری زندگی کے لیے اس کے تیار شدہ پلان سے متعلق اطلاع کرتا رہتا ہے۔ اس لیے آپ اپنی زندگی کے بنائے ہوئے خدائی پلان کی جستجو کریں اوراس کی تکمیل کریں کیونکہ وہ پلان آپ کے لیے بہترین ہے۔ جب آپ اس کتاب کو پرھیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو واضح تصورات اور شفاف تخیلات سے دیکھنے کی تحریک پیدا کر دے گا۔ جب آپ خود اعتمادی کے ساتھ اپنے بارے میں تصورات بننے لگیں تو سمجھ جائیے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی زندگی کے منصوبے پر اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ وہ پھر آپ کے لیے مواقع پیدا کرنا شروع کر دے گا۔ آپ کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کر دے گا اور کامیابی کے لیے مطلوبہ لوازمات فراہم کر دے گا۔ خدا تعالیٰ جب کام شروع کرتا ہے تونہایت کامیابی کے ساتھ اورکمال کے ساتھ اس کی تکمیل کرتا ہے۔ انجیل مقدس میں ہے: ۱۔ کیونکہ جو تم نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لیے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے (فلپیوں کے نام پولوس رسول کا خط باب ۲ آیت ۱۳) ۲۔ اور مجھے اس بات کا بھروسہ ہے کہ خدا نے تم میں جو نیک کام شروع کیا ہے وہ اسے ضرور مقرر دن گک پورا کر دے گا (فلپیوں کے نام پولوس رسول کا خط باب ۱ آیت ۶) چند سال ہوئے ہیں لارنس ویلک نے اپنی خودنوشت سوانح حیات شائع کی ہے اس کی یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ میں تو اس شخص کی جدوجہد کی داستان سے بے حد متاثر ہوں جو مجھے بائبل کی ایک آیت کی یاد دلاتی ہے: ’’شاہین اپنے گھونسلے سے ہمیشہ کے لیے اس وجہ سے اڑ جات اہے ہ اس یک بچے اب خود اڑنا سیکھ لیں‘‘۔ یہ ہمارا یقین ہے کہ کوئی مشکل اورمصیبت اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا نہیں آتی۔ خدا تعالیٰ اس لیے ہماری راہ میں مشکلات اورمسائل پیدا کرتا ہے کہ ہم اپنے گھسے پٹے انداز اور فرسودہ رویوں کو ترک کر کے زندگی کی وسیع و عریض اور خوبصورت شاہراہ پر گامزن ہو سکیں جو اس نے ہماری زندگی کے لیے بنا رکھی ہے۔ لارنس ویلک کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی نارتھ ڈیکوٹا میں بحیثیت کسان گزار دیتا ہے اور دنیا اس کے نام سے بے خبر رہتی ہے۔ لیکن ایک ناگہانی بیماری نے اس کی پوری زندگی کا رخ موڑ دیا۔ لارنس کے ابتدائی لڑکپن کا واقعہ ہے کہ ایک دن جب وہ صبح اٹھا تو شدید طور پر بیمار تھا۔ اسے قریبی ہسپتالمیں لے جایا گیا جو 75میل کے فاصلے پر تھا۔ طبعی معائنے کے بعدپتا چلا کہ اس کی کور آنت (Appendix)پھٹ گئی ہے۔ سوزش شکم کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ اس کے جسم میں زہر پھیل ہرا ھتا فوری طور پر ایک ٹیوب فٹ کی گئی تاکہ اس کے جسم سے پیپ اور گندہ مادہ باہر نکالا جا سکے۔ اس کی بیماری کی شدت نے موت کے خطرہ کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ لارنس معجزانہ طور پر بچ گیا۔ کئی مہینوں کی تدریجاً بحالی کے دوران وہ اپنے خاندانی فارم ہائوس میں لیٹا ہوا اپنے باپ کا پرانا مائوتھ آرگن بجاتا رہا۔ لارنس نے اپنی زندگی کے بارے میں خدائی منصوبے پر یقین کرنا شروع کر دیا ۔ اس نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے: ’’مجھے یوں لگتا ہے کہ خدا نے مجھے زندگی کا دوسرا موقع عطا کیا ہے اور حیات نو سے نوازا ہے۔ میں نے اس احساس تشکر پر خدا تعالیٰ سے یہ دعاکی کے اے اللہ! مجھے زندگی بہترین طریقے سے گزرنے کی ہدایت فرما۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی کا ہر دن ایسے اندا ز سے بسر کروں کہ خدا مجھ سے خوش ہو جائے‘‘۔ لارنس کی زندگی کی باقی کہانی سراسر ایک تاریخ ہے۔ عزم کی ہمت کی تاریخ اعلیٰ مقاصد کے حصول کی تاریخ حصول رضائے الٰہی کی تاریخ خدمت انسانیت کے جذبہ کی ناقابل تعریف تاریخ۔ لارنس نے جو چاہا وہ اسے تصور میں لایا اور حقیقت میں بدل دیا۔ وہ اپنے تصورات تخیلات اور توقعات کے مطابق مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔ اس نے اپنے خوابوں اور خیالوں کو سچ کر دکھایا۔ لہٰذا آپ بھی کر سکتے ہیں یقینا اور ضرور کر ستکے ہیں۔ آپاپنے قرطاس ذہن یعنی دماغ کے کینوس پر اپنے نئے روپ اور نئے پن کو پینٹ کریں اور پھر اپنے آپ عزم اور عمل سے اس نئی ذات اورنئے وجود کو اپنانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ آپ یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ بدل رہے ہیں۔ آپ کے اندر ایک خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے آپ نئے ہو رہے ہیں آپ کے اندر ایک نیا تشخص پیدا ہو رہا ہے۔ تب آپ وہ شخص بنناشروع ہو جائیں گے جو آپ چاہتے ہیں۔ آپ کو انقلاب نو کے اس عمل پر پختہ یقین کرنا ہو گا۔ جس طرح دفتر کی میز صاف کرتے وقت تمام غیر ضروری اشیاء اور فالتو کاغذات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی آج سے اپنے ذہن سے اپنا پرانا روپ روتو اور تصور مٹا ڈالیں اور اپنے نئے پن کی تازہ تصویر اپنے ذہن کے فری میں فٹ کر لیں۔ آپ مستقبل میں اب اپنے نئے پن کی کامیابی کے لیے کوشش کریں۔ کمپیوٹر پروگرامرز کے ہاں ایک خاص اصطلاح Gigoہوتی ہے اور اس سے مراد ہے کہ Garbage In Garbage Outیعنی کمپیوٹر میں ردی معلومات ڈالو اور ردی معلومات نکالو۔ اس طح اگر ناکام ڈیٹا یا تصاویر فیڈ کریں گے تو کمپیوٹر ناکام ڈیٹا ہی دے گا۔ (Failure In Failure Out) - Fifo اور اسی طرح Sisoبھی ایک اصطلاح ہے یہ آ پ کے کام کی چیز ہے۔ Success In Success Out یعنی اگر آپ اپنے تصو رمیںکامیاب تاثر رکھیں گے اپنے آپ کوکامیاب شخص دیکھنے کا تصور کریں گے تو واقعی عزم و عمل کے نتیجے میں آپ کامیاب اور سرخرو ہوی ہوں گے۔ اگر آپ اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ااج کل یہی آپ کو نظر آئے گا کہ وہ لوگ جو معذور تھے مجبور تھے سخت مایوس اور پریشان تھے اب وہ اپنی زندگیوں قسمتوں اور مستقبل کو نئے سانچوں طریقوں اور رویوں اور افکار و تصورات سے بدل رہے ہیں۔ اب آپ کی باری ہے کہ: ٭ آ پ مزید ناکام ہونا چھوڑ دیں۔ ٭ کامیابی کی شروعات کریں۔ ٭ اپنی زندگ کے اس بہترین سکیم اور منصوبے کی جستجو کریں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لیے مقدر کر رکھا ہے۔ ٭ اپنے آ پ کو خدا تعالیٰ کا آئیڈیا سمجھیں وہ آپ سے بہترین توقعات وابستہ کر رہا ہے۔ ٭ آپ اپنی ذات پر یقین اعتما د اور بھروسہ رکھیں۔ ٭ اپنے وجود کی کان سے سونا نکالنا شروع کر دیجیے۔ ٭ آپ اپنی زندگی کے ہر امکانی موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ہر کام کو ممکن بنا کر دکھائیں۔ ٭٭٭ 5 ممکناتی سوچ کاکھیل کھیلیے اورجیت جائیے اگر آپ پسند کریں تو آ پ کی پراگرس چیک کر لی جائے تو بہتر ہو گا۔ یہ جائزہ لینا مقصود ہے کہ آپ نے اس کتاب کے گزشتہ چار ابواب کی ہدایات کی روشنی میں کیا پیش رفت کی ہے: ۱۔ امید ہے کہ آ پ نے اپنی زندگی کے مقاصد کو ذہن نشین کر لیا ہو گا۔ ۲۔ امید ہے کہ آپ نے اپنے مقاصد میں حائل مشکلات اور مسائل پر قابو پانے کے لیے مثبت رویہ اپنانے کا ارادہ کر لیا ہو گا۔ ۳۔ امید ہے کہ آپ نے اپنے اندر خود اعتمادی کی قوت میں خاطر خواہ اضافہ کر لیا ہو گا تاکہ آ پر عزم اور باحوصلہ ہو کر یہ کہہ سکیں کہ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ دراصل آپ نے خود اپنا جائزہ لینا ہے خود احتسابی کے اس عمل کے بعد آپ کو ایک اہم او ر قیمتی راز کے لیے تیار کرنا مقصود ہے۔ یہ راز جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں یہ ایک ایسی کلید ہے کہ اور آپ کے اندر وہ قوت تخلیق ہے جس کی مدد سے آپ ہر بڑے مسئلہ اور مشکل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی بات ہے کہ جب تک آپ اپنی فکر تخلیق کو فروغ نہیں دیں گے آپ نہ تو مسائل اور مشکلات کا حل کر سکتے ہیں اورنہ ہی آ پ اپنے خوابوں اور خواہشات کو حقیقت کا رنگ دینے کا قصد کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ عین ضروری ہے کہ آپ کی قوت تخلیق کو متحرک کر لیا جائے اورآپ صحیح طور پر تخلیقی شخص بنایا جائے تاکہ: ٭ آپ تخلیقی آئیڈیاز سوچیں۔ ٭ آپ مثبت فکر اور ممکناتی سوچ کے مالک بن سکیں۔ ٭ آپ ہر مسئلہ او رمشکل کا آسان اور یقینی حل سوچ سکیں۔ ٭ آپ اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دے سکیں۔ ٭ آپ کے اندر اس قدر خو داعتمادی کی قوت پیدا ہو جائے کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ ہر کام ممکن ہے۔ ٭ آپ ہر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اس ضمن میں تین سوالات اکثر اٹھائے جاتے ہیں: ۱۔ کیا تخلیقی قوت خداداد تحفہ ہے یا ایک آرٹ ہے جسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ ۲۔ کیا یہ قوت تخلیق خاندانی طور پر وراثت میں ملنے والی ایک خوبی ہے؟ ۳۔ کیا قوت تخلیق سوچ کا ایک ماہرانہ اندازہے جس کی تربیت کسی صاحب تجربہ و تخلیق سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ یہ جو تیسرا سوال ہے زیادہ درت ہے۔ یعنی’’قوت تخلیق‘‘ ایک فن اور مہارت ہے۔ یہ تخلیقی انداز فکر ہے۔ اسے دوسروے کامیاب تجربہ کار ماہر اور تخلیقی لوگوں سے سیکھا جاتاہے۔ میری ا س رائے کے حق میں اس ضمن میں بے شمار مثالیں اور ثبوت موجود ہیں۔ اس پورے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ بھی صاحب تخلیق ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک تاریخی مثال ملاحظہ کیجیے: ڈاکٹر ایڈون ایچ ۔ لینڈ جو پولرائڈ کیمرے کا موجد تھا۔ اس نے تخلیقی عمل اور اس کے فروغ کے لیے ایک انوکھا طریقہ نکالا۔ ایڈون نے اپنی فیکٹری میں عملہ کی درجہ بندی کر کے انہیں الگ الگ منصب دے رکھا تھا۔ اس نے مزدوروں اور دستکاروں کو اعلیٰ تخلیقی سٹاف اور ریسرچ کے ساتھ منسلک کر دیا۔ لوگوں نے اس انوکھی نظامت ی وجہ دریافت کی تو ایڈون نے کہا: ’’یہ مزدور اور دستکار لوگ ذہنی لحاظ سے خاصے زرخیز ہیں۔ یہ سب تخلیقی بن رہے ہیں‘‘۔ انسانی دماغ قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ اس کے اندر اربوں اورکھربوں خلیے پورے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب قابل فکر بات یہ ہے کہ ان لاتعداد خلیات میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن میں صلاحیت اوراہلیت تو موجود ہے لیکن وہ بے سدھ ہو کر سئے پڑے ہیں۔ اس طرح ایسی کیفیت میں انسانی اپنی پوری ذہانت سے کام نہیں لے رہا ہوتا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ان خوابیدہ بے کار اور سوئے ہوئے خلیات کو بھی بیدار کرکے انہیں بھی کام میں جوت لیا جائے تو دماغ کی قوت فکر اور صلاحیت تخلیق میں از خود اضافہ ہوجائے گا۔ میں آپ کو ایک آسان دلچسپ یقینی اور آسان ترکیب بتاتا ہوں جس کے ذریعے آپ اپنے خوابیدہ خلیات کو متحرک اور بیدار کرکے ان سے تخلیقی کام لے سکتے ہیں اس طرح آپ تخلیقی بننے کے عمل کا آغاز کر سکیں گے۔ آپ تخلیقی بن کر نہایت مہارت کے ساتھ: ۱۔ کئی اشیاء ایجاد کر سکیں گے۔ ۲۔ کئی نئی اختراعات متعارف کرا سکیں گے۔ ۳۔ کئی آسان تراکیب نکال سکیں گے۔ ۴۔ کئی آئیڈیاز سوچ سکیں گے۔ میں اپنے اس ترکیب اور طریقے کو ایک نیا نام دے رہا ہوں: ممکناتی سوچ کا کھیل۔ آپ نہایت آسانی سے اس کھیل کو سیکھ سکتے ہیں کیونکہ ۱۔ یہ آزاد نوعیت کا ہے۔ ۲۔ یہ پرلطف اوردلچسپ ہے۔ ۳۔ یہ نہایت مفید اور کارآمد ہے۔ ۴۔ یہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ ۵۔ اس میں ایک چیلنج ہے مقابلے کی ایک مہم ہے۔ ۶۔ یہ جوش او رجذبہ سے عبارت ہے۔ ۷۔ یہ انعام اور صلہ کا باعث ہے۔ اورمیں آپ سے وعد ہ کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہو کہ ممکناتی سوچ کے اس کھیل کی بدولت آپ اپنی زندگی میں ایک خوشکن انقلاب بپا کر سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ لفظ کھیل سے آپ اس ترکیب اور تکنیک کو معمولی اورفضول نہ سمجھ لیجیے۔ اس کھیل میں زبردست تخلیقی قوتوں کا دخل اور استعمال شامل ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں تخلیقی خیالات تب آتے ہیں جب ہمارا ذہن مختلف دبائو تنائو اور پریشانیوں سے آزاد اور خیالی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ علی الصبح نئی سحر کے خوشگوار لمحات میں تخلیقی آئیڈیاز سوچتے ہیں۔ ی بات پال فشر پر بھی صادق آتی ہے کہ جس نے بال پوائنٹ پین جیسی مفید چیز کی ایجاد کی تھی وار جس سے آج تک میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں۔ پال کو ایسے پین کی سخت ضرورت آئی جو چھت پر یعنی اوپر کی جانب لکھ سکے۔ جو چکنی سطح پر بھی لکھ سکے جو زیر سمندرپانی میں بھی لکھ سکے اس سے پہلے ایسا پین کسی نے ایجاد نہیںکیا تھا۔ اس سے پہلے جو بھی ائجاد ہو چکے تھے وہ سب کے سب اصول کثافت کے مطابق کام کرتے تھے۔ پال فشر نے ا س مطلوبہ پین کی ایجاد میں کامیابی کے حصول کے لیے لاکھوں ڈالر اورکئی مہینوں کا وقت صرف کر دیا لیکن بات نہ بن سکی۔ ایک دن بہت صبح تین بجے کے قریب جاگا اور اس مطلوبہ پین کی تکنیک پر غور و خوص کیااور جلد ہی ایک تخلیقی آئیڈیا اس کے ذہن میں آ گیا۔ اس نے بال پوائنٹ پین ایجا دکر لیا۔ اسی قسم کے پین کو جس کا نام فشر بال پوائنٹ رکھا گیا تھا چاند کے لیے خلائی سفر میں بھی ساتھ لے جایا گیا۔ ا س پین کو خلائی تحقیق کے عالمی ادارہ ناسا کی ضروریات کے عین مطابق قرار دے دیا گیا۔ کیونکہ لیک پروف دیرپا خود کار کثافت سے آزاد اورہموار لکھائی مین معاون ثابت ہوا۔ تخلیقی سوچ کے لیے تازہ دم ہونا خالی الذن ہونا اور توجہ کا مکمل ارتکاز ہونا نہایت ضروری ہے۔ جب انسان کو کچھ فرصت نصیب ہو تو پھر اس کے ذہن پر تخلیقی آئیڈیاز کی آمد ہوتی ہے۔ اس کے شعوری دائرہ کار کی استعداد زیادہ بہتر ہوتی ہے جب کوئی اعصابی دبائو اور تنائو گھٹن کا باعث نہ بن سکے۔ رچرڈ نیوٹرا جو ایک ممتاز آرکیٹیکٹ ہے اور بیسویں صدی کا ایک عظیم تخلیقی انسان تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے سات تاریخی شاہکار پراجیکٹوں کے آئیڈیاز میں سے چار آئیڈیاز صبح سے فارغ تازہ اور خوشگوار وقت اور ماحول میں سوچے تھے کیونکہ اس وقت اس کا تحت الشعور فارغ آزاد اور پرسکون ہوتا تھا۔ میں اس وقت جو الفاظ لکھ رہا ہوں تو میں جنوبی بحر الکاہل میں سیاحتی جہاز پر سوار تفریحی سفر کر رہا ہوں۔ پرسکون سمندر آزادا نہ پرواز کرتے بادل سمندری پانی کی سکون بخش آواز اور فکروں سے یکسر آزاد یہ ماحول مجھے ہر قسم کے ذہنی کھنچائو اعصابی تنائو اور ذمہ داریوں کے دبائو سے دو ر رکھتاہے۔ میرے ذہن میں تخلیقی خیالات جلد ی اور آزادانہ طور پر آتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت عرشہ جہاز کی کرسی پر ہلکی ہلکی خوشگوار دھوپ میںمیرا قلم تیزی کے ساتھ میرے تخلیقی خیالات کی رو کے عین متوازی مصروف تحریر ہے۔ اگرچہ میرے دائیں بائیں دوسرے لوگوں کا ہجوم بھی موجود ہے۔ لیکن مجھے ان کی باتوں سے کوئی مداخلت محسوس نہیں ہوتی۔ کبھی ایک آدھ مسافر میرے پاس آن کھڑا ہوتا ہے او رمیرے ساتھ گپ شپ لگانا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں سوچ کر میں اسے اپنے کام میں مخل نہیں سمججھتا کہ ان ہلکی پھلکی مداخلتوں میں کہیں بھی ۔زمہ داریوں کا دبائو یا بوجھ موجود نہیں ہے۔ میرے معمولات کی عادات کے دوران ھبی میرے ذہن میں آئیڈیاز آتے رہتے ہیں جب کبھی میں ناخوشگوار اور بوجھل ذمہ داریوںسے فرصت پاتاہوں۔ متوقع ذمہ داریاں ناگہانی مصروفیات اور بے وقت مداخلتیں میرے ذہن میں آئیڈیاز کی آمد تسلسل اور نزول میں زبردست روک کا باعث بنتی ہیں۔ گھر میں میرے ذہن پر آئیڈیاز کی آمد زیادہ سرعت کے ساتھ اس وقت ہوتی ہے جب میں اپنی کار میں ہوتا ہوں یا ہوائی جہاز میں بیٹھا مصروف سفر ہوتا ہوں۔ ان دونوں اوقات میں دوران ٹیلی فون کی کالز ٹیلیگراف فیکس سیکرٹری کی گھنٹی یا دروازے کی دستک مجھ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ میرے اس بیان سے مرادہے کہ لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں تخلیقی خیالات کی آمد بت ہوتی ہے جب وہ مکمل سکون کی حالت میں ہوت ہیںَ بعض لوگ چرچ میں سوچتے ہیں جب وہ عبادت کے لیے اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اوریہی وہ وجہ ہے جس کے باعث کئی لوگ علی الصبح کے لمحات میں استفادہ کرتے ہوئے تخلیقی فکر سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت انہیں متوقع مداخلت کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ آپ بھی یہ بات جانتے ہی ہں کہ اس قدر صبح یعنی پانچ بجے کوئی شخص بھی آ کر آپ کو تنگ نہیںکرے گا۔ اور اس وقت آپ بہت سکون کی حالت میں ہوتے ہیں۔ دن کے باقی حصے میں تو ٹیلی فون کالز ملاقاتیوں کا سلسلہ دیگر کام کا دبائو آپ کو فرصت کا سماں مہیا نہیں کرے گا۔ تخلیقی خیالات کی آمد کا سلسلہ آپ کے ذہنی سکون اور ارتکاز توجہ سے مشروط ہے۔ اور زہنی سکون تب میسر آتا ہے جب کاموں کا دبائو نہ ہو لفظ کام کا اصل مفہوم یہ ہے کہ وہ ذمہ داری جس کا احتساب ہوتا ہے۔ جہاں احتساب کا خوف طاری ہو وہاں تخلیقی خیالات جنم نہیں لے سکتے۔ میں نے ممکناتی سوچ کی تخلیقی تکنیک کو کھیل کا نام اسی لیے دیا ھتا کہ یہ احساس ذمہ داری او ر اندیشہ احتساب سے یکسر آزاد کیفیت ہے۔ کھیل میں سپورٹس مین سپرٹ پائی جاتی ہے یعنی جیت ہو یا ناکامی کھیل کو اصولوں اور دلچسپی کے ساتھ کھیلاجاتا ہے۔ میرے تجویز کردہ کھیل میں جو طبعی میلان اور ذہنی رجحان پایا جاتا ہے اس کی فلاسفی تین عناصر پر مشتمل ہے۔ ۱۔ کسی نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ممکناتی سوچ کی تخلیقی کھیل میں آپ کو وقت سرمایہ صحت عزت وغیرہ کے نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آپ اگر کیل مین ہا ر جاتے ہیں تو اس صورت میں آپ کو کسی قسم کا کوئی خسارہ نہیںہوتا۔ اس تخلیقی کھیل میں آپ اپنی قوت فکر کو جس در چاہیں وسیع کر لیں آپ کو مکمل آزادی ہے۔ یہ وہ میدان عمل ہے جہاں ہر وقت ترقی کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ۲۔ دوسروں سے آگے بڑھنے کا بہترین موقع اس تخلیقی کھیل کے مزاج اور میلان میں یہ خاصیت تو موجود ہے کہ آپ اپنی سوچ کو وسیع تر اور اپنے افکار کو بلند تر کر سکتے ہیں۔ سخت محنت اور سر توڑ کوشش کی خاصی گنجائش موجود ہے۔ یہ وہ میدان عمل ہے کہ آپ دوسروں سے سبقت حاصل کر کے کامیابی کے گزشتہ ریکارڈ توڑ سکتے ہیں۔ اس تخلیقی کھیل میں آپ ہر بڑی مشکل کو اپنے ذہنی فرہم میں لا کر اس کا حل سوچ سکتے ہیں۔ یہ کھیل آج آپ کو زندگی میں پہلی بار یہ موقع میسر کرتا ہے کہ آپ بڑی سے بڑی سوچ سے کام لے سکیں اور عظیم سے عظیم تر آئیڈیا کو احاطہ ذہن میں لا سکیں۔ اس تخلیقی کھیل کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر بڑی مشکل اور ہر پیچیدہ مسئلہ اس کے ذریعے آسان ہو جاتاہے۔ آپ کے لیے یہ کھیل ترقی کی بے شمار راہیں کھول سکتا ہے۔ جہاں آپ بہتر اندازسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیںَ مزید عملہ بھرتی کر سکتے ہیں۔ نئی تنظیمیں بنا سکتے ہیں۔ نئے ادارے قائم کر سکتے ہیں آپ دور دراز ممالک کا بامقصد دورہ کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں اپنے تعلقات کو وسیع کر سکتے ہیں۔ اس میدان عمل میں آپ لامحدود ترقی کر سکتے ہیں۔ ۳۔ وعدوں کی پابندی سے مکمل آزادی چونکہ یہ مجوزہ تکنیک محض ایک تخلیقی کھیل ہے۔ اس لیے اس کے اندر کسی قسم کی ذمہ داری پابندی وعدہ و عید ‘ عہد و پیمان اور معاہدے کی کوئی قید نہیں ہے۔ آپ کو یہ بھی آزادی ہے کہ جب چاہیں اس کھیل کو ختم کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کھیل کے عمل سے نکال سکتے ہیں۔ اگر آپ اس ھیل کو کسی وجہ سے مکمل نہیں کر پاتے تو اس امر میں کسی قسم کی شرمندگی بے عزتی اورناکامی کا الزام آپ پر نہیں آئے گا۔ پھر بھی یہ اس کھیل کی خاصیت ہے کہ اگر آپ اس کھیل کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں تو آپ کو آپ کا ضمیر ملامت نہی ں کرے گا۔ تخلیقی سوچ کے لیے ذہنی ماحول کو سازگار بنایا جائے ایک اور لفظ ’’ممکنات‘‘ بھی اس کلیے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔(لفظ امکان میں یقینکی وہ قوت موجودنہیٰں ہے جو ممکنات میں ہے) یہ لفظ ہمارے ذہن میں قوت تخلیق کے لیے مناسب میلان رغبت اور رجحان پیدا کرتاہے۔ اس لفظ میں یہ قوت اور تصور پایا جاتا ہے کہ آپ بس یہ سوچ لیں کہ یہ ممکن ہے اروپھر آپ کے دماغ کے تخلیقی خلیے تحت الشعور کی حفاظتی قید سے آزادی کے لیے سعی کرنے لگتے ہیںَ اس لفظ کی حرکی قوت کو سمجھنے اور اس کی برقیائی توانائی کا اندازہ لگانے کے لیے آپ اس کے متضاد اور منحوس چھ حرفی لفظ ناممکن پر غور کر لیںَ جب یہ لفظ بالفاظ بلند ادا کیا جائے تو لفظ بذات خود اپنی ذات میں نابود و نیست ہو جاتا ہے۔ اس لفظ کی بازگشت سے سوچ کا عمل رک جاتا ہے۔ ترقی یکدم رک جاتی ہے۔ ہر موقع کا دروازہ بند ہو جاتاہے۔ تخلیقی کام ایک حسرت کی چیخ کے ساتھ وہیں رک جاتاہے۔ مزید تجرباتی کاوشیں ختم ہو جاتی ہیںَ عملی کام اور ترقیاتی منصوبے وہیں رک جاتے ہیں۔ خوابیں بکھر جاتی ہیں۔ ذہین ترین اور قوت تخلیق کے لحاظ سے بہترین دماغ کے خلیے دماغ کی اتھاہ گہرائیوں اور سیاہ تاریکیوں میں دبکی لگا کر حالت سکون میں چھپ کر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ دماغ اپنی توہین آمیز مایوسی ظالمانہ دھتکار اور منتشر امیدوں کے باعث انتہائی دفاعی اور محتاط دائرہ حرکت میں پناہ گزین ہوتا ہے۔ آئیے ہم کسی کو تو اس جادوئی لفظ یہ ممکن ہے کہنے کا اذن کریں۔ یہ حرکت آمیز اور زندگی بخش الفاظ دماغ کے تمام تحت الشعور ی معاونین کو صف آرائی کرنے کے لیے بگل بجاتے ہیں اورفاخرانہ قوتوں کو چیلنج کے لیے پکارتے ہیں کہ اٹھو حرکت کرو اور باہر میدان عمل میں آئو۔ تب خوابیدہ خوابیں جاگنے لگتی ہیںَ تازہ جذبوں میں رمع عود کر آتی ہے اورنیا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے۔ میزوں اور شیلفوں میں رکھی اشیا کو باہر نکالاجاتاہے۔ فائلوں کی گرد جھاڑ دی جاتی ہے۔ اورکام کرنے کے ارادے سے کھول دی جاتی ہیںَ تاریخ کارخانوں فیکٹریوں اور لیبارٹریوں کی روشنیاں تیز کر دی جاتی ہیں۔ ٹیلیفونوں کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں ٹائپ رائٹروں کی ٹکاٹک ٹکاٹک کا شور بلند ہونے لگتا ہے۔ بجٹ سازی کاکام زوروں پر شروع ہوجاتا ہے۔ مدددرکارہے۔ کے بورڈ آویزاں ہو جاتے ہیں فیکٹریوں کو اس سر نو بحال کر کے کھول دیا جاتا ہے نئی نئی مصنوعات بننی شروع ہو جاتی ہیں۔ نئی مارکیٹیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ اب تفریح کا وقت ختم ہوتا ہے اور ہر ساکن چیز حرکت میں آ جاتی ہ۔ مہمات تجربات ترقی اور وسعت کے عظیم عصر نو کا آغاز ہو جاتا ہے خوشحالی ہر جگہ جنم لینے لگتی ہے۔ ممکناتی سوچ کی گیم کھیلنے کا طریقہ آپ اس کھیل کو اس یقین کے ساتھ شروع کیجیے کہ آپ کے اندر زبردست خوابیدہ صلاحیتیں موجود ہیں آپ کو قدرت نے کئی قابلیتوں او ر استعدادوں کے عطیہ سے نواز رکھا ہے اس یقین کا بڑا فائدہ یہ ہو گاکہ آپ اپنے تخلیقی خیالات کو عزت اعتماد اور تعریف کی نگاہ سے دیکھیں گے میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہر شخص ہی تخلیقی ہوتا ہے۔ سان ڈائیگو کیلیفورنیا میں قدیم ہوٹل ایل کورٹیز کو ایک مسئلہ پیش آ گیا ا س خاص مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ایلیو میٹر کی انتہائی ضرورت پڑی تاکہ اس ہوٹل کے نئے ڈائننگ روم کی چھت کی مرمت کی جا سکے۔ تجربہ کار انجینجئر اورآڑکیٹکٹ حضرات سے مشاورت حاصل کی گئی ۔ اس مقصد کے لیے نہایت سوچ بچار کر کے منصوبے تشکیل دیے گئے سب ماہرین مندرجہ ذیل طریقے پر متفق ہو گئے کہ یہ کام کی صورت میں ممکن ہے: ۱۔ ہر دروازے کے اوپر تعمیر شدہ کمروں کے درمیان سے رستہ بنایا جائے یا ان کمروں ہی کو ختم کر دیا جائے۔ ۲۔ بیسمنٹ لیول کے نیچے کھدائی کر کے نئی شافٹ تعمیر کی جائیں لیکن یہ حل نہایت مہنگا اور غیر تسلی بخش تھا۔ جب ماہرین اس مسئلے کے متعلق منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے اور مختلف پہلوئوں پر بحث کر رہے تھے تو ہوٹل کے ایک ملازم نے بھی ان کی گفتگو سن لی۔ اس ملازم کے ذمہ یہ کام تھا کہ ہوٹل کی تعمیر کے دوران جو بھی گند اورگرد پھیلے اسے ساتھ ساتھ صاف کرتا جائے۔ یہ ملازم خوبصورت کپڑوں میں ملبوس انتظامی حکام کے پاس تیزی سے گزرتے ہوئے یہ الفاظ بول گیا۔ ’’آپ اس لفٹ کو ہوٹ کی بلڈنگ کے باہر کیوں تعمیر نہیں کر دیتے؟‘‘ یہ آئیڈیا واقعی نہایت تخلیقی تھا جو ان تمام ماہرین کے ذہن میںنہیں آیا تھا۔ آج کل اس ہوٹل کے باہر کی جانب شیشہ کے ایک بند زینے میں اپو رجاتے ہوئے مہمان سمندری بندرگار کے منظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دنیا بھرمیں بڑے بڑے پلازے دفاتر او ر ہوٹلوں میں اس طرز کے جو ایلیویٹر بنائے گئے ہیں وہ اسی ہوٹل کی تقلید میں تعمیر کیے گئے ہیں لیکن سب سے پہلے اس آئیڈیا کو عملی طور پراسی ہوٹل پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کیا آپ ممکناتی سوچ پر مبنی تخلیقی کھیل کاآغاز کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آ پ اس گیم کو اکیلے بھی کھیل سکتے ہیں۔ تاہم یہ زیادہ بہتر ہے کہ آپ کھیل کو زیاد موثر اور متحرک بنانے کے لیے ممکنات سوچ کے حامل ایک اور شخص کو بھی شامل کر لیجیے تاکہ آپ اپنی ناقابل عمل خوابوں اور خیالوں کو سچ ثبات کرنے اور حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے تمام سنجیدہ اور غیر سنجیدہ طریقوں کو تخلیقی انداز میں مل کر آزما سکیں۔ آپ اس بات پر تو متفق اور مائل ہیں ٰکہ آپ کے تصور کو آزادانہ پرواز کی کھلی اجازت ہے۔ آپ کے تصورات کی وسعتوں پر سوائے اخلاقی اصولوں کی حدود کے اور کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ اس کھیل کا آغاز کرتے ہوئے ایک خالی کاغذ پر ایک سے دس تک گنتی لکھیں اب آپ اپنی اس گیم کے شرکا کو کسی خاص مقصد یا مخصوص منزل تک پہنچنے کے لیے تخلیقی طریقے سوچنے کا چیلنج دیںَ انہیں دائرہ امکان کے اندر رہتے ہوئے تمام ممکن تدابر سوچنے کی دعوت دیں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالیے کوشش کیجیے کہ بہتر سے بہتر آئیڈیا سوچیں آئیڈیا جس قدر عظیم ہو گا اسی قدر اچھا ہو گا۔ جاپان میںایک دوست سے ملاقات کے دوران میں نے ایک بے باک تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’میرا خیال ہے جاپان میں واک ان ڈرائیو ان چرچ کا آئیڈیا بہت کامیاب رہے گا‘‘۔ میرے دوست نے بوکھلا کر مجھے دیکھا۔ لیکن میں نے سنجیدگی سے اس ی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’’اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کی کامیابی کے لیے چار فیصلہ کن اہم سوالات ہو سکتے ہیں‘‘۔ ۱۔ کیا یہ ایک قابل عمل آئیڈیا ہے؟ جی ہاں یہ ان لوگوں کے لیے واقعی قابل عمل ہے جو کبھی بھی چرچ نہیں گئے کم از کم اپنی کار ہی میں عبادت کر لیا کریں گے۔ ۲۔ کیایہ آئیڈیا بالکل نیا اور مثالی ہے؟ جی ہاں یہ آئیڈیا بالکل نیا ہے ارو آج تک اس پر کسی نے بھی عمل نہیں کیا۔ آپ اس کی تشہیر پر ہزاروں ڈالر خرچ کر سکتے ہیں۔ ۳۔ کیا یہ آئیڈیا اثر انگیز ہے؟ جی ہاں اس میں سعی اور بصر ی حسن کے تمام ضروری لوازمات ہوں گے۔ ۴۔ کیا یہ اپنی نوعیت میں شاندار آئیڈیا ہے؟ جی ہاں یہ عبادت کی وسعت اور معیار کے لحاظ سے دیگر مذہبی سرگرمیوں میں فروغ کا باعث بنے گا۔ اس وقت میں اس قدر جوش میں سرشار تھا کہ اچھل پڑا اور کہنے لگا: ’’آئو یار اس آئیڈیا پر کام کرتے ہیں۔ یہ بھئی ناممکن ہے۔ د س ایکٹر زمین کی لاگت پچاس لاکھ ڈالر آئے گی‘‘ اس نے کہا: میں اس کی اس بات پر چکرا کے رہ گیا۔ لیکن میرا یہ دوست بولتا ہی چلا گیا: ’’تم اور میں ہم دونوں یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ امر ناممکن ہے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے کسی نہ کسی طرح اس کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ چلیے ہم ممکناتی سوچ کی گیم کھیلتے ہیں۔کیا آپ تیار ہیں؟ ہم دونوں ہی ہنس پڑے ۔ اب ہمارے سامنے اصل سوال یہ تھا: ’’اس چرچ کے لیے جس کے ممبران ہی نہیں ہیں وہ کس طرح پچاس لاکھ ڈالرز کی زمین خریدنے کا قصد کر سکتا ہے؟ ہم نے اس سوال کے ممکن طریقوں کی ذہنی فہرست بنا لی مثلاً: ۱۔ ہم ایک مخیر معطی کو تلاش کرتے ہیں جو پچاس لاکھ ڈالرز کاعطیہ دے دے۔ ۲۔ ہم پانچ مخیر حضرات کو تلاش کرتے ہیں جو دس لاکھ ڈالرز فی معطی ہمیں عطیہ دے دیں۔ ہم زبانی طور پر مضحکہ خیز اورغیر حقیقی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے کہ کیا صورت ممکن ہو سکتی ہے۔ اور پھر ایک تیسرا طریقہ ڈھونڈ نکالا: ۳۔ ہم دنیا بھر میں دس لاکھ لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہیں اور ان سے رسائی کر کے ہر ایک سے پانچ ڈالر کا عطیہ لے لیتے ہیں‘‘۔ اورپھرمندرجہ ذیل پروگرام پر عمل کرتے ہیں: ۱۔ ایک ممتاز ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ۲۔ سچائی پر مبنی پرکشش اور جاذب نظر جذبات و تاثیر سے پر اشتہارات کے ذریعے ملئین ممبر کلب آئیڈیا و انگلیند جرمنی ہالینڈ کینیڈا اور امریکا کے عیسائیوں کے ہاں فروخت کیا جائے۔ ۳۔ دو لاکھ پچاس ڈالرز کی مالیت کا ایک ایسا ترغیبی پروگرام تیار کیا جائے جو خوب سوچا سمجھا ہوا اور موثر مقامات تک اس کی رسائی ہو۔ ۴۔ دنیا بھر کے ان لوگوں کو خطوط ارسال کیے جائیں جو تبلیغی مقصد کے لیے د ل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ ان چار اہم اقدامات کی بدولت اس آئیڈیا کو قابل عمل اور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جونہی ہم اس منصوبے پر بات کر رہے تھے توہم نے اسے دماغ کے ذہین ترین خلیا ت کومیدان عمل میں پکارا ان خلیات نے باہم سوچ کر ایک ترکیب نکالی: ۱۔ عیسائیوں کی ایک کارپوریشن تشکیل دی جائے۔ ۲۔ انہیں دس ایکڑ زمین خریدنے دی جائے۔ ۳۔ سات ایکڑ زمین پارکنگ کے لیے مختص کر دی جائے۔ ۴۔ باقی تین ایکڑ زمین پر تیس منزلہ عمارت بنائی جائے اوراسے خوب پودوں پھولوں اور باغیچوں سے آراستہ کر دیا جائے۔ ۵۔ اس عمارت میں مشہور و معروف جاپانی فرموں کے دفاتر بنائے جائیں۔ ۶۔ اسی عمارت میں ایک ایسا زبردست ثقافتی مرکز قائم کر دیا جائے جو میوزک اور ڈرامہ کے فن کاروں کے لیے مختص کر دیا جائے۔ ۷۔ ہر اتوار کی صبح کو یہ بلڈنگ چرچ کے مقاصد کے لیے پٹے پر لے لی جائے۔ ۸۔ اس جگہ کا انتخاب ٹوکیو اور یوکوہاما کے درمیان میں کسی اہم شاہراہ کے کنارے پر ہو ۔ ایسا ممکن ہے اور واقعی یہ امر قابل عمل ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ممکناتی سوچ کی اس گیم کی بدولت کیسا عمدہ آئیڈیا آیا اور پھر اسے قابل عمل اور ممکن بنانے کے لیے کیا کیا ترکیبیں سوچیں گئیں۔ آپ بھی اپنے طورپر اس گیم کو استعمال میں الائیں آپ اس گیم کو اپنے کسی بھی مشکل مسئلے کو حل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا یہ گیم اس مسئلے کے لے ضرو ر کوئی نہ کوئی حل نکال لے گی۔ آپ اس ضمن میں مندرجہ ذیل اصولوں کو نہایت احتیاط سے مدنظر رکھیں۔ ۱۔ بات غور سے سننے کے لیے آمادگی ممکناتی سوچ کے شائق اور ممتاز شخص کی سماعت نہایت تیز ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے دماغ کے عقبی حصے پر نازل ہونے والے عجیب و غریب حیرت انگیز اور تخلیقی آئیڈیا کو بغور سن سکے آ ان آئیڈیاز کو کھل کر اور کھول کر بیان کریں اور تمام آئیڈیاز کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے ان کے تمام پہلوئوں پر اظہار خیال کریں۔ آپ یہ مت پرواہ کریں کہ کوئی آپ پر ہنستا ہے یا ااپ کی اس سرگرمی پر ان کامذاق اڑاتا ہے اپنے آپ کو یہ باور کرائیں کہ یہ سرگرمی سراسر ایک کھیل ہے۔ اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ اس کھیل میں شامل تمام شرکا ء باری باری ایک دوسرے کے آئیڈیاز او ر اس کے پہلوئوں کی وضاحت اور تفصیل کو نہایت غور سے سنے ۔ کسی ایک آئیڈیا کو بھی حقارت سے رد نہ کیا جائے۔ اورنہ ہی اسے ہنسی کا نشانہ بناتے ہوئے مسترد کر دیا جائے کہ یہ تو بالکل ہی نامعقول اورناممکن تجویز ہے۔ ۲۔ پوری توجہ اور دلچسپی کے لیے آمادگی ممکناتی سوچ کے اس کھیل کا بنیادی اور سنجیدہ مقصد ضرو ر ہونا چاہیے۔ اور یہ امر نہایت ضروری ہے کہ قلب و ذہن کی پوری ہگرائی توجہ اور دلچسپی اس کھیل کے آغاز سے آخر تک بدستور قائل رہے ۔ اگر آپ اس انداز سے کھیل رہے ہیں کہ دس لاکھ ڈالرز کی ررقم کمانے کے لیے دس ممکن طریقے کون کون سے ہیں جبکہ آپ خود قلبی طور پر سنجیدگی کے ساتھ دس لاکھ ڈالرز کی رقم کمانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو اس صور ت میں آپ کی سوچ کے سوتے نہیں جاگیں گے اور آ پ کے ذہین دماغی خلیے پوی مستعدی کے ساتھ میدان عمل میں نہیں آئیں گے۔ صرف اس صورت میں دماغ کا تحت الشعور بیدار ہو کر حرکت میں آئے گا۔ جب ذہن کسی پراجیکٹ کو اہم تسلیم کر لے اور اس کی افادیت اوراہمیت کو معیاری قرار دے ارو تب ہی تحت الشعور کے نہاں خانے میں خوابیدہ تخلیقی صلاحیت بیدار ہو کر پوری استعداد کار کے ساتھ کام کرنے لگے گی۔ جب آپ کا ذہن پوری طوجہ اور دلچسپی پر آمادہ ہو گا تو پھر ممکناتی سوچ کا یہ کھیل واقعی آپ کو نہایت سنجیدہ اور زبردست آئیڈیاز دینے لگے گا۔ ایک دن گول میز مباحثے کے دوران نارمن شم فے جو ایک ممتاز سرجن ہیں اور جنہوںنے منتقلی قلب کا طریقہ سب سے پہلے متعارف کرایا تھا۔ یہ سوال کیا گیا : ’’کیا مصنوعی دل بھی کبھی ایجاد کر لیا جائے گا‘‘؟ انہوںنے جواب دیا ’’یہ سراسر ناممکن ہے‘‘۔ پھر انہوںنے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’مصنوعی دل ایجاد کرنے کے لیے اس تکنیک کی جرورت ہے کہ توانائی پیدا کرنے والا منبع مستقل طورپر حرکت دینے کی صورت پیدا کر دے‘‘۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے انہوںنے یہ اعلان کیا: ’’اگر ہم اس خود کار حرکی نظام کو ایجاد کر پاتے ہیں تو آپ کو اپنی کار کے لیے گیس ٹینک رکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔ نارمن کے اس تبصرے پر بحث میں شامل تمام اراکین ٹھنڈے پڑ گئے اس کے بعد اس مباحثے کی توجہ اس موضوع کی جانب مبذو ل ہو گئی کہ ہم انسانی جسم کے اندر بیرونی خلیوں اور ریشوں کو مسترد کر دینے کے عمل پر کس طرح قابو پا سکتے ہیں۔ چند ہفتوں کے بعد میں نے اپنے دو ماہرین شرکائے کار سے مصنوعی عدل کی تشکیل کے مسئلے کا ذکر کیا اورہم نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ کو مل جل کر حل کرنے کے لیے ممکناتی سوچ پر مبنی کھیل کھیلیں گے تاکہ ہر ناممکن پہلوئوں کا بہتر طور پر تجزیہ کیا جا سکے۔ ہم نے اپنے تخلیقی تصورات کو چیلنج کیا کہ آئو میدان عمل میں اترو او ر اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دس طریقے سوچو۔ ہمارے لیے تو ہی محض ایک کھیل تھا۔ تاہم ہم نے پوری سنجیدگی توجہ اور انہماک اور دلچسپی کے ساتھ اس مسئلے کو اپنے قلب و ذہن پر طاری کر لیا اور اس مقصد کو سامنے رکھا کہ اگر ہم مصنوعی دل ایجاد کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اگر یہ واقعی ممکن ہو گیا تو انمول پیش رفت انسانی فلاح کے لیے ایک بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ مجھے اب یہ یاد نہیں رہا کہ ہم نے اس کھیل میں کن کن آئیڈیاز کی فہرست تیار کی تھی تاہم مجھے ان تجاویز میں ایک آئیڈیا یاد رہ گیا ہے: ’’ہم دل کی حرکت کے لیے مجوزہ منبع توانائی کو سینے کے جو ف کے باہر کیوںنہیں فٹ کر دیتے ؟ توانائی کے عارضی منبع مجبوزہ نظام کو ایک جگہ مستقل طور پر فٹ کر دیا جائے اورپھر بیٹریوں کو باقاعدگی سے تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔ دوریز رو بیٹریوں کو تو ہر وقت وہاں جڑے رہنا چاہیے تاکہ پاور سپہائی متواتر حاصل ہوتی رہے۔ اور فیل سیف سسٹم بھی فراہم رہے‘‘۔ ہنگامی ضرورت کا شدید احساس تخلیقی قوتوں میں تحریک کے عمل کو رفتار کو زبردست طور پر تیز کر دیتا ہے۔ ۳۔ بڑے بڑے اور اہم سوالات پوچھے جائیں اس کھیل میں شامل تمام کھلاڑی تحقیق کرنے پر آمادہ اور راضی ہیں اور انہیں چاہیے کہ مسئلہ کے متعلق ایسے اہم سوالات پوچھیں جو قوت تصور کو چیلنج کریں۔ آپ کو اس طرح سوالات کرنے اور ان کے جوابات سوچنے کے عمل سے بہت فائدہ حاصل ہو گا۔ ہمارے عملے کے ماہرین نفسیات نے کہا ہے: ’’ہمارے کلینک میں آنے والے وہ لوگ جو ذہنی معاشرتی اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہوتے ہیں وہ مایوسی کی پریشان کن حد تک اس لیے پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے اوراہم سوالات کھل کر نہیں کرتے‘‘۔ صدیوں سے انسان سیب کے درختوں کے نیچے بیٹھا رہا ہے ہوائیں بدستور چلتی رہی ہیں اور سیب بھی مسلسل گرتے رہے ہیں اور اسی طرح کئی باریہ سیب درخت کے نیچے بیٹھے لوگوں کے سر پر گرتے رہے ہوں گے۔ ہزاروں سالوں سے اس صورت حال کے رد عمل سے لوگوں کو آگاہی حاصل رہی ہو گی کہ: ۱۔ جب تیز ہوا چلنے سے درخت سے سیب گر کر نیچے بیٹھے ہوئے شخص پر گرے تو وہ چوٹ کے مارے پاگل ہو جائے گا۔ ۲۔ یا اگر وہ شخص بھوکا ہو تو سیب پکڑ کر کھاجائے گا۔ ۳۔ یا اگر وہ شخص کئی اورمعاملات کے بارے میں گہری سوچ میں محو ہے تو سیب کے گرنے کے واقعہ ک ومعمول سمجھ کر نظر انداز کردے گا۔ پھر ایک دن ایک خاص شخص کے سر پر سیب اسی طرح گرا۔ تو ا س کا رد عمل کیا ہوا؟ اس بار یہ خاص شخص آئزک نیوٹن تھا۔ اس نے اس عمل کا نتیجہ کچھ اور اخذ کیا اس نے اپنے آپ سے ایک بڑا اور اہم سوال کیا: ’’یہ سیب نیچے کیوں گرا ہے یہ اوپر کیوںنہیںگیا؟ یہ سیب گرا کیوں ہے؟ اس سیب نے اوپر کی جانب کسی پر کی طرح اڑان کیوں نہیںکی؟‘‘ کسی بھی مسئلہ یا مشکل کے حل کی جستجو سوچ کے دوران ایک بڑا اور اہم سوال جو بظاہر حیران کن حد تک آسان ہوتا ہے وہ تخلیقی سوچ کے سلسلہ کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور پھر قانون ثقل کی شکل میں نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے۔ علم کا شوق آگہی کا اشتیاق اور جاننے کی لگن تخلیق کی ماں ہے جس طرح ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ ایک وقت تھا کہ نیوزی لینڈ کے تمام ریڈیو سٹیشن کا کنٹرول اور انصرام و اہتمام حکومت ہی کے پاس ہوتا تھا۔ میرے ایک واقف کار جم فرینک ہام جونیر آف آک لینڈ نے دوسرے ایسے نوجوان اور متحرک دوستوں کے ساتھ مل کر جو ممکناتی سوچ رکھتے تھے یہ جائزہ لیا کہ اگر ان ریڈیو سٹیشنوں کاانتظام نجی اداروں کو سونپ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں نیوزی لینڈ کو زبردست مالیاتی فائدہ حاصل ہو گا۔ یہ امر نا ممکن ہے بہت سے لوگوں نے انہیں یہ بات کہی۔ حکومت کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ریڈیو سٹیشنوں کونجی اداروں کے کنٹرول میں دے دے؟ اب اس ضمن میں بڑا اہم اور سوال یہ کارفرما تھا کہ: ’’ہم نیوزی لینڈ کے عوام کے سامنے کس طرح اپنی نشریات پیش کریں کہ قانون شکنی بھی نہ ہو؟‘‘ ایک شام کو ان تمام رفقا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ممکناتی سوچ کی گیم کھیلیںَ ایک نوجوان وکیل کے ذہن میں جو زبردست آئیڈیا آیا تھا اس کی حتمی صورت حال کچھ یوں بنتی تھی: ایک سمندری جہاز پر ریڈیو ٹرانسمیٹر رکھا جائے جو ساحل سے بارہ میل کے فاصلے پر ہو اور میدانی علاقوں کی جانب نشریات بھجوائی جائیں۔ اب مسئلے کا حل تو تلاش کر لیا گیا لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جہاز کو خریدنے یا چارٹر کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ ان دوستوں نے پھر ممکناتی سوچ کی گیم کھیلی۔ اب جو حل سامنے آیا اس کی روشنی میں انہوںنے بحری جہاز کے ایسے مالک تک رسائی کر لی جو خوب دولت مند تھا اور اس نے اس آئیڈیا سے دلچسپی کا اظہار کر دیا بلکہ اس نے ایک پیشکش کی: ’’میں آپ کو اپنے جہازوں پر ایک جہاز بالکل مفت ایک شرط پر دوں گا۔ وہ شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اگر حکومت پر دبائو ڈا ل کر میدانی علاقوں کے لیے نشریات چلانے کا قانون استحقاق حاصل کر لیا تو آپ اس کے انتظامی بورڈ کا ڈائریکٹر بنا دیں گے‘‘ ٹھیک ہے یہ معاہدہ ہو گیا۔ سب رفقا نے متفقہ طور پر اس بات پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ اب ایک اور ناممکن مسئلہ در پیش آ گیا وہ یہ کہ بندرگاہ سے جہاز کو آزاد کرانے کے لیے ایک باقاعدہ اجازت نامے کی ضرورت تھی جو بحریہ کے وزیر کی جانب سے جاری کیاجاتا ہے اور بدبختی یہ تھی کہ یہی سرکاری آفیسر محکمہ نشریات کا بھی وزیر تھا۔ اب ان رفقا کو یقین تھا کہ وہ جہاز کو اس امر کے لیے ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ پھر ایک اور بات یہ بھی تھی کہ مسٹر جم اور اس کے رفقا سچے مذہبی تھے اور وہ کسی طرح بھی دھوکہ دہی سے کام نہیں لینا چاہتے تھے۔ آئیے پھر کوئی اور راہ نکالنے کی کوشش کریں۔ دوستوں کے گروپ میں سے ایک نے تجویز دی۔ ’’ہمیں کیا نقصان اٹھاناپڑے گا؟‘‘ حکومت کے متعلقہ افسر نے نوجوانوں کی اس درخواست کو بڑے غور سے سنا اس کی جوابی رویہ حیران کن تھا۔ کیا ان دوستوں نے اس کی بات صحیح بھی سنی تھی؟ اس نے کہا تھا: ’’میں آپ کو اطلاع د ے دوں گا کہ میں اس ضمن میں کیا کر سکتاہوں۔ میں آپ کو جہاز رانی کی اجازت دے دوں گا۔ سچ ہے کہ بحیثیت وزیر نشریات میں خود بھی نجی طورپر یہ سوچتا ہوں کہ اگر ریڈیو سٹیشن پرائیویٹ کمرشل اداروں کے کنٹرول میں دین کی اجازت دی جائے توہمارے ملک کو زبردست مالی فائدہ ہو گا۔ میری پوزیشن کچھ ایسی ہے کہ میں یہ معاملہ خود حکومت کو پیش نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ واقعی نشریات شروع کرنا چاہتے ہیں تو اور اگر آپ اس سے تعمیری کام لیتے ہیں تو عوام خود ہی میرے محکمے پر دبائو دالیں گے کہ ہماری قومی پالسی کو تبدیل کیا جائے اور پرائیویٹ نشریات کی اجازت دی جائے۔ تب میرا یہ وعدہ ہے کہ میں اس میں رکاوٹ نہیں ڈالوں گا‘‘۔ یہ واقعہ کئی سال پہلے ک اہے۔ جہاز رانی کی گئی ریڈیو سٹیشن نے بین الاقوامی سمندر کے ذریعے نشریات جاری کر دیں۔ نیوزی لینڈ کے باشندوں نے جب اپنے ریڈیوز پر تازہ اور آزادانہ نشرایت سنیں تو پہلے تو ہکے بکے رہ گئے بعد میں وہ بہت مسرت اور جوش سے سرشار ہو گئے۔ عوام نے زبردست مثبت رد عمل کا اظہار کیا۔ عوام کی طرف سے حکومت پر دبائو ڈالا گیا کہ نشریات پرائیویٹ اداروں کو سونپ دی جائیں۔ دو سالوں کے دوران ہی حکومت نر م پڑ گئی اوراس ملک کے پہلے کمرشل سٹیشن کو لائسنس دے دیا۔ اب وہاں چار اضافی پرائیویٹ براڈ کاسٹنگ سٹیشن کام کر رہے ہیں۔ آپ بھی تحقیق کی گہرائیوں میں اترئیے اورمسئلہ کی تہہ تک سوچ کا دائرہ وسیع کر کے حل تلاش کیجیے۔ ۴۔ نئے نئے خیالات رائج کیجیے آپ کامیابی کے ضامن اصولوں کو متعلقہ اور غیر متعلقہ صورت حال میں عملی طور پر لاگو کرنے کی مہارت کو فروغ دیں۔ ۱۔ آپ ان اصولوں کو الگ کر لیں۔ ۲۔ ان اصولوں کا اپنے مسائل کے ساتھ تعلق استوار کر یں۔ ۳۔ ان اصولوں کو اپنی صورت حال کا لازمی جزو بنا لیں۔ جب آپ ان تینوں اقدامات پر عمل کریں گے تو آپ تخلیقی موجد بن جائیں گے اور نئے نئے خیالات آپ کو سوجھنے لگیں گے۔ اس اصول کو سائرس میک کارمک نے اپنے بالوں کی کٹائی پر آزمایا تھا۔ حجام نے پرانی طرز کی مشین استعمال کی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس حجام ک یبالوں کو سرکانے پھسلانے اور کترنے والے بلیڈ کے اصولوں کو کیوں استعمال نہیں کیا جیسے دانوں والی فصل کاٹنے کی مشین ہوتی ہے؟ میک کارمک اسی نکتے پر سوچتا رہا۔ اس سوچ کا یہ نتیجہ نکلاکہ اس نے ہاتھ سے جو کاٹنے والے طریقہ کی بجائے ایک اورم شین ایجاد کر ڈالی اس کا نام ہے میک کارمک ریپر اس کی مدد سے جلدی اور آسانی سے فصل کی عمدہ کٹائی ہو جاتی ہے۔ آپ کامیابی کے لیے تمام تر امکانی اور ممکن پہلوئوں کی نشاندہی کرنے او ر ان کا تجزیہ کرنے کی عادت ڈال لیں۔ نہایت گہرائی سے غور کیا جائے کہ آپ کے ذہن میں جو خیال تصور یا آئیڈیا آیا ہے۔ کس طرح اسے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے اور کیا اس کے اندر مطلوبہ مقاصد کی افادیت موجود ہے۔ پھر آپ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ کون سا مثبت اصول اس میں کارفرما ہے۔ پھر آپ یہ سوالات بھی اٹھائیں کہ اس تصوراور خیال کو آپ مزید کن کن صورت حا ل میں اختیار کر سکتے ہیں؟ ۵۔ ہمیشہ کامیابی کی امید رکھیے ممکناتی سوچ کی گیم کھیلنے کے دوران آپ قطعاً ایسے الفاظ اپنی زبان اور اپنے ذہن میں نہ لائیں جو ااپ کی قوت فیصلہ کو متزلزل کر دیں مثلاً: ۱۔ اس آئیڈیا پر بہت زیادہ لاگت آئے گی۔ ۲۔ ہم اس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ۳۔ ہمارے پاس آئیڈیا کے لیے وقت نہیں ہے ۴۔ ہمارے پاس اس آئیڈیا کے لیے مناسب ٹیم نہیں ہے۔ ۵۔ ہمارے مک کے قانون اس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ آپ کے مجوزہ آئیڈیا کی تکمیل کے لیے وقت سرمایہ اور عملے کی عدم دستیابی جیسے مسائل حائل ہیں تو ان کے لیے ممکناتی سوچ کی الگ گیمز کھیل سکتے ہیں جس میں اپنی توجہ صرف متعلقہ مسئلہ کے حل پر مرکو زرکھیں اور یہ سوالات اٹھائیں۔ ۱۔ ہم کہاں سے اور کیسے مطلوبہ رقم حاصل کرسکتے ہیں؟ ۲۔ ہم مطلوبہ ٹیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ۳۔ ہم وقت کی کمی کے مسئلہ کو کس طرح حل کر سکتے ہیں؟ ۴۔ ہم دائرہ قانون میں رہتے ہوئے کس طرح مطلوبہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں؟ ۵۔ ہم مجوزہ وقت اور رقم ک مقدار کو کس طرح مزید کم کر سکتے ہیں؟ اس اثنامیں آپ پوری امید اور یقین رکھیں کہ آ پ باری باری ان تمام مسائلل کو ح ل کر لیں گے۔ اگر آپ کا یہ پروجیکٹ جواز ‘ مقصد‘ خواب‘ نصب العین اور مشن واقعی ضروری نوعیت کا ہو گا اور آپ لازمی طور پر اس کی تکمیل کا تہیہ کر چکے ہیں تو آپ کی راہ میں کوئی مشکل بھی حائل نہیں ہو گی آپ نہایت اعتماد سے آگے بڑھتے جائیں گے۔ تمام تر پہلوئوں کاجائزہ لیتے رہیں اورپھر کامیابی کے حصول کے لیے اپنی راہیں ہموار کرتے چلے جائیں۔ آپ نے رکنا نہیں ہے۔ آ پ یہ سمجھیں کہ کامیابی کادروازہ کھل گیا ہے۔ تمام تعاون اور اعانت آ پ کو حاصل ہے۔ ہر مسئلے کا حل ضرورمل جائے گا۔ اور آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر آپ کا مقصد مثبت تعمیری جائز اور واقعی مفید ہے تو پھر آپ یقین رکھیں کہ جوں جوں آپ پیش رفت کرتے رہیں گے مطلوبہ رقم کا مسئلہ بھی حل ہوتا چلا جائے گا۔ ممکناتی سوچ کی گیم کھیلنے کے دوران آپ مندرجہ ذیل اصول کو استعمال میں لائیں غیر محدود رقم اور سرمایہ آ پ کے پاس دستیاب ہے۔ آ تمام ممکن طریقوں اور ذرائع کو مدنظر رکھتے ہوئے آئیڈیاز سوچیں اوراس اعتماد کے ساتھ تخلیقی ذہن کو کام میں لائیں کہ آپ کو اپنے پراجیکٹ کے لیے مطلوبہ رقم ضرور میسر آ جائے گی یہ یاد رکھیے کہ سرمایہ کی کمی کے احساس کو اپنے تخلیقی عمل کے اس مرحلہ میں قطعا حائل نہ ہونے دیں۔ اگر آ کو کوئی ممکن حل سوجھ گیا تو لاکھوں ڈالرز آپ حاصل کر سکیں گے۔ آپ یہ یقی کریں کہ سرمایہ اور دولت آ پ کی منتطر ہیں اور عظیم سرمایہ کاری کے لیے آرزو مند ہیں۔ پھر آ پ یہ بھی یقین کر لیں کہ اگر آپ کا نصب العین مثبت اور مفید ہے تو ا س کی تکمیل کے یلے قانون میں کوئی گنجائش ضرور نکل آئے گی۔ قانون میں تبدیلی اورلچک کی مناسب صورت پیدا ہو جائے گی۔ آپ ممکناتی سوچ کے حامل کسی قانون دان سے مشاورت لے سکتے ہیں۔ یا حکومت کے منتخب نمائندوں سے بھی رابطہ کر کے قانونی رکاوٹ کو دور کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ولیم شراشیئر آف فلرٹن کیلی فورنیا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دس ایکڑ کے قطعہ زمین پر ایک عالی شان شاپنگ سنٹر تعمیر کرے گا۔ یہ خاص اور منتخب جگہ عین بڑے چوک پر واقع تھی۔ یہ حیرت کی بات تھی کہ تاحال کیوںکسی نے اس جگہ پر ترقیاتی کام نہیںکیے۔ حالانکہ یہ قدرتی طور پر ایک تجارتی جگہ تھی۔ گہری تحقیق اور عمیق جائزے کے بعد یہ درجہ معلوم کر لی گئی۔ یہ منصوبہ بنایا گیاتھاکہ اس کے نسٹر کے بیچ میں سے ایک فلڈ کنٹرول چینل گزاری جائے گی۔ اور اس چیل کے عین اوپر عمارت تعمیر کرنا قانونی لحاظ سے ممنوع تھا۔ یہاں کیوں تعمیر نہیں ہو سکتی؟ ولیم نے یہ سوال کیا۔ یہاں کیوںایک انڈر گرائونڈ بڑی سرنگ نہیں بنا جا سکتی جس سے پانی کے بہائو کو کنٹرول کیا جاسکے؟ جدید تعمیراتی طریقوں کی مدد سے یہاں نہایت حفاظت کے ساتھ عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے یہ یقین کیا کہ یہ امر ممکن ہے۔ پھر اسنے غور و فکر کیا ریاضت کی مجاہدہ کیا۔ اور بالآخر وہ کامیاب ہو گیا۔ کیسے؟ قانون میں تبدیلی کرنی پڑی۔ یہ شاندار عمارت تعمیر کی گئی۔ آج وہاں براشئیر شاپنگ سنٹر بارہ عالی شان منزلوں کے ساتھ جگمگا رہاہے۔ اور اس کے عین نیچے فلڈ کنٹرول چینل جس کے لیے نہایت مضبوط کنکریٹ کی سرنگ بچھائی گئی تھی۔ بحفاظت بہہ رہی ہے۔ آپ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آپ کے مجوزہ او رمطلوبہ آئیڈیا کی تکمیل کی راہ میں حائل مشکلات اور پیچیدگیوں کے حل کے لیے آپ مالی فنی سیاسی قانونی یا نفسیاتی ماہرین کی مشاورت ہدایات اور خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ یہ یقین کر لیں کہ اس وسیع و عریض دنی امیں ایسا مطلوبہ ماہر کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے جو اپنی ذہنی کاوش اورفنی مہارت سے آ پ کی بھرپور اعانت کر سکتا ہے تاکہ آپ کامیاب ہو سکیں اور آپ کو ضرور ایسی مدد تعاون اور رہنمائی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ چند نوجوان دوستوں نے مل کرمغربی ساحل پر ایک نیا بزنس شروع کیا اور حیران کن انداز سے انہوںنے عالمی شہرت یافتہ ایک کیمسٹ کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔ اس معروف کیمیائی ماہر نے بتایا: ’’میں خود بھی کسی نئے اورانوکھے کام کی تلاش میں تھا کہ کچھ جدید تازہ اور تخلیقی کام کیا جائے۔ اس اثنا میں ان نوجوان دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ میں ان کی ولولہ انگیزی سے بہت متاثر ہواہوں‘‘ آپ یہ بھی یقین رکھیں کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو اس انداز سے ترتیب دے سکتے ہیں کہ یاوقت کی پہلی ترتیب میں ترمیم کر سکتے ہیں کہ آپ کو جو کام کرنے مقصود ہیں وہ بطریق احسان انجام دے سکیں۔ اگر آپ کے مدنظر ایسا کوئی پروگرام ہے جس کے لیے پانچسال کا عرصہ درکار ہے تو آپ اپنے تخلقی ذہن سے کام لیتے ہوئے اس مطلوبہ کام کو صرف ایک سال میں مکمل کر سکتے ہیں۔ آپ ہرگز اس کام کی تکمیل کا ارادہ ترک نہ کریں۔ آپ یہ یقین رکھیں کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے بہتر بور پر کام لے کر اپنی کارکردگی کو پانچ گنا زیادہ کر سکتے ہیں۔ ۶۔ آپ خدا تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں خدا کرے کہ اس کائنات کا خالق جوعظیم الشان تخلیقی قوتوں کو مالک ہے وہ اپنی باکمال صناعی سے آپ کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کر دے۔ ولماٹو ڈ جب پیدا ہوئی تھی تو وہ دماغی طور پر مفلوج تھی اور پھر اب وہ مستقل طورپر وہل چئیر پر انحصار کرتی ہے۔ اس کی دوستی بھی ایسے ہی دوستوں سے ہے جو کسی نہ کسی طرح معذوری کے باعث وہیل چئیر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس گروپ نے ایک تخلیقی ٹیم تشکیل دے لی ہے اور وہ ہم یہ کر سکتے ہیں کے نام سے مشہور ہیں۔ انہیں تیز سواری کے فن پر بہت مہارت حاصل ہو گئی ہے۔ وہ وہیل چئیر پر نہایت تیزی سے گھومتے دوڑتے چکر کاٹتے اور باہم مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ انہیںبائولنگ کافن بھی خوب آتا ہے۔ میں نے ولما سے پوچھا۔ آ پ کس طرح گیند سے بائولنگ کر لیتی ہو؟ ولما نے بتایا کہ ہم گیند کو جب بائول کرنا چاہتے ہیں تو یکدم خود اچھل کرایک مناسب قوت کے ساتھ گیند کو پھینک دیتے ہیں ہماری یہی تفریح ہے۔ ولما مزید کہنے لگی: ’’ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے ہاں کیامعذوری ہے۔ بلکہ ہم یہ مدنظر رکھتے ہیں کہ ہمارے اند ر کیا قابلیتیں اور استعدادیں موجود ہیں ہم ان سے کام لیتے ہیں‘‘۔ اصل بات اعتماد اور یقین کی ہے کسی نے یہ خوب کہا ہے کہ: Faith is responsibility my response of God's ability کامل ایمان اور پختہ یقین بھرپور اعتماد اور مکمل بھروسہ یہ میری ذمہ داری ہے اب یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ مجھے مطلوبہ کام کی انجام دہی کے لیے قابلیت اور استعداد بخوبی عطا کرے کیوں کہ جب میں اس پر بھروسہ کروں تو جوابی رد عمل کے طور پر خدا تعالیٰ کی عالی قابلیت ضرور جوش میں آ ئے۔ لہٰذا آپ ممکناتی سوچ کی گیم ضرور کھیلیں اور تب آپ اپنے آپ میں ایک زبردست پراسرار قابلیت کو دریافت کر لیں گے جو ایک تخلیقی شخص کا خاص امتیاز ہوتا ہے۔ پھر آ پ کو یہ مقام بھی حاصل ہو جائے گا کہ مسائل حل کرنے والے ماہرین آ پ کو بلایا کریں گے اورآپ کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جائے گا: ’’یہ ہے وہ خاص جوان جو ہمارے کام کو ممکن بنانے کے لیے ضرور کوء یراہ نکال سکتاہے‘‘۔ ٭٭٭ 6 اب ناکامی کا خوف مٹا دیجیے اور اعتماد سے قدم آگے بڑھائیے آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے گزشتہ ایک باب میں ذہنی قید کے پنجرے کی بات کی تھی اس میں ؒگی سلاخوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ آپ اس کیفیت کو از سر نو یاد کریں جب ان سلاخوں کو ڈھیلا کر کے آپ نے یہاں سے رہائی حاصل کی تھی۔ لیکن احتیاط کیجیے زندگی میں جب کبھی یہ موقع ملے نئے نئے پر جوش امکانات ابھریں گے کامیابیوں کے ممکنات کا نیا سلسلہ شرو ع ہو گا۔ تو آپ یہ توقع کر سکتے ہیں کہ آپ کی راحوں میںمزاحمت پیدا کرنے کے لیے اور ااپ کی متوقع کامیابیوں کو ناکامیوں میں بدل ڈالنے کے لیے پرانا دشمن پھر سے آن کھڑا ہو گیا۔ اگر آپ وہ شخص بننا چاہتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک مستقل مسئلے کو ختم کرنا ہو گا۔ اس بڑے مسئلے رکاوٹ اور دشمن کا نام ہے: ناکامی کا خوف یہ عین ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کئی مسائل کا حل موجود ہو اور آپ کے پاس کئی تخلیقی آئیڈیا ز ہو ں لیکن جب تک آپ اپنے قلب و ذہن سے ناکامی کا خوف نہیں نکال دیتے اس وقت تک آپ کا کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے گا۔ آ پ کے تمام مقاصد کی بنیاد مسجمار ہو جائے گی جس پر آ پ اپنے آئیڈیاز کا مینار تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ یہ صورتحال جو ناکامی کے خوف کے باعث پیدا ہوتی ہے اس میں بجائئے اس کے کہ آ جلد از جلد ترقی کی منازل طے کرتے جائیں آپ یکدم نیچے زوال کی طرف آ سکتے ہیں۔ ٭ ممکناتی سوچ رکھنے والوں کو مقاصد پرجوش بنا دیتے ہیں تاکہ ان کا حوصلہ بلند رہے۔ ٭ خوف اور اندیشوں کی سوچ رکھنے والوں کو مقاصد پریشان کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی موت خود ہی مر جائیں۔ اس بیان سے واضح ہو گیا ہو گا کہ منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کو سگمنڈ فرائیڈ نے مقاصد کا تعین کرنے سے کیوں منع کیا تھا۔ اس لیے کہ اسے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں بڑی بڑی مشکلات اور مسائل نظرآتے تھے۔ اس نے وضاحت کی تھی کہ ناکام مقاصد بعد میں ذہنی طبعی بیماری بے چینی اور مایوسی پیداکر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور ماہر نفسیات و ذہنی مسائل وکٹر فرینکل جو مثبت سوچ کا حامل تھا اس بات کی تائید کرتا ہے کہ مقاصد کا تعین ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اسے مقاصد کے حصول اورتکمیل کے لیے ممکنات نظر آتے ہیں وہ یہ کہتا ہے: ’’مقاصد کا فقدان یا عدم مقاصد کی صورتحال زندہ رہنے کے تمام لوازمات اور جواز ختم کر دیتی ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی فرائیڈ اور فرینکل اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔ اب اس مسئلے کا ح یہ ہے کہ مقاصد کا تعین جرور کیا جائے لیکن ان کی تکمیل میں ناکامی کے خوف کو ختم کر دیا جائے۔ مقاصد سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ناکام ہوجانے کے خوف کو اپنے قلب و ذہن سے یکسر مٹا دینا چاہیے۔ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ ممکناتی سوچ کے ذریعے آپ خوف کو اپنی زندگی سے مٹا سکتے ہیںَ یہ تب ممکن ہو گا جب آپ منفی سوچ سے جنم لینے واے خوف کو اپنی مثبت سوچ کے یقین اوراعتماد میں بدل ڈالیں گے۔ اس مقصد کے لیے آپ کو ناکامی کی تعریف کو نئے معانی کا جامہ پہنانا ہو گا: ۱۔ ناکامی کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی ذات آ کا وجود اور آپ خود ہی ناکامی کی علامت ہیں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ تاحال آپ کامیاب نہیں ہو سکتے ۲۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ابھی تک آپ نے کبھی بھی حاصل نہیں کیا۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے تجربے سے کچھ سیکھا ہے۔ ۳۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ احمق اور بے وقوف ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر زبردست اعتماد اور یقین موجود تھا۔ ۴ ۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کی بے عزتی اورہتک ہوئی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اندر کوشش کرنے کی لگن تھی۔ ۵۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کو مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کئی اور پہلوئوں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ۶۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ ہر لحاظ سے کم تر تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آ پ کو مطلوبہ شعبہ اور کوشش میں مہارت حاصل نہیں تھی۔ ۷۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ نے اپنی زندگی ہی ضائع کر ڈالی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ایک جواز مل گیا ہے کہ نئے جذبے تازہ امنگ اور زیادہ جوش کے ساتھ از سر نو آغاز کیا جائے۔ ۸۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ تھک ہار کر کوشش ہی ترک کر دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب زیادہ تیاری کے ساتھ سر توڑ کوشش کرنی چاہیے۔ ۹۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ کام انجام ہی نہیں دے سکتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو انجام دینے میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔ ۱۰۔ ناکامی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور ہے اوروہ اس سے بہتر آئیڈیا ہو گا۔ ناکامی کی اس مثبت تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اس ناکامی کو واقعی ترک کر دیں اور رد کر دیں اور جو عام طور پر منفی معانی رائج ہیں اورسمجھی جاتی ہے۔ یہ ناکامی ہرگز وہ ناکامی نہیں ہوتی جو رہنمائی تجربہ اور توانائی میں اضافے کا باعث بنے۔ حقیقی ناکامی بھی کوئی چیز نہیں سوائے ا س کے کہ یہ محض ایک منفی ذہنی رویہ ہے۔ آ پ مرحلہ وار میری بات کو سمجھیں: ۱۔ ایک بڑا عمدہ آئیڈیا ذہن میں آیا ہے۔ ۲۔ اب یہ ڈر ہے کہ یہ کامیاب نہیں ہو گا۔ ۳۔ آپ اس خوف کو اپنے ذہن پر حاوی نہ کریں۔ ۴۔ آپ ناکامی کے خوف پرفتح حاصل کر کے اپنے آ پ کو تحقیق کرنے کا شوقین کانام دے دیں۔ ۵۔ اب عملی طور پر اپنے آئیڈیا کو آزمانا شروع کر دیں اور اپنی اس کاوش اور کوشش کو تجربہ کانام دے دیں۔ اس صورت میں ناکامی ناممکن قرار پائے گی کیونکہ تحقیق اور تجربہ کرنے والے کبھی بھی ناکام نہیں ہوتے وہ ہمیشہ اپنے کسی نہ کسی آئیڈیا کو ٹیسٹ کر کے یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ کام کرے گا یا نہیں۔ اپنی سوچ کے دائرہ کار سے خو ف کو دھو ڈالیے دو قسم کے جذبات میں سے ایک جذبہ آپ پر حاوی ہو کرآپ پر اثر اندا ز ہو گا: ۱۔ کامیابی کا یقین ۲۔ ناکامی کا خوف آپ اپنی زندگی کی قیادت سے خوف کے ہاتھوں کبھی دستبردار ہو کر شکست قبول نہ کریں انجیل مقدس ایسے احکام اور تعلیمات سے بھری پڑی ہے جس میں جرات حوصلہ اور استقلال کا درد دیا گیا ہے۔ ایک شخص نے بڑی محنت کر کے اس روحانی کتاب سے ڈرو مت کے مفہوم پر مبنی آیات کی گنتی کی تو ان کی تعداد 365بنتی ہے۔ یعنی سارے سال میں ہرروز ایک آیت کی تعلیم یہی دی جا رہی ہے کہ جرات سے کام لینا ہے ناکامی سے ڈرنا نہیں ہے۔ جرات کی پکار پر مبنی چند آیات ملاحظہ کریں: ۱۔ ڈرو مت کہ جب تم پانیوں میں اترو گے توتمہیں بہا نہیں لے جائیں گے جب آگ میں کود پڑو گے تو وہ تمہیں بھسم نہیں کرے گی کیونکہ میں تمہارا خدا ہوں اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔ ISA 33:1-2 ۲۔ تم مضبوط بنو اور بہتر جرات کامظاہرہکرو۔ خوفزدہ نہ ہو اور نہ پست حوصلہ بنو کیونکہ تمہاراآقا تمہارا خدا ہر وقت تمہارے ساتھ ہے تم جہاں جاتے ہو وہاں وہ تمہارے ساتھ جاتا ہے۔ Josh 1:9 منفی خوف خلا ف معمول ہے اور غیر قدرتی عنصرہے انسانوں کی اکثریت کوعام طور پر ایک خوف لاحق رہتا ہے کہ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ قدرت نے انسانی سرشت میں خوف ودیت کر دیا ہے نہیںخوف ایک نارمل اور قدرتی عنصر نہیں ہے او ر نہ ہی یہ انسانی خاصا ہے۔ انسان کی نارمل حالت و صحت ہے اور اس کی غیر نارمل حالت خوف ہے ۔ یہ منفی سوچ رکھنے والوں کی عدم یقینی اور غیر اعتمادی کیفیت ہے۔ انجیل مقدس صا ف صاف ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے : ’’خدا نے تمہیں خوف کا احساس نہیں بلکہ محبت کی قوت اور زرخیز ذہن عطا کیا ہے‘‘۔ 2 Tim 1:7 ڈاکٹر ای سٹینلے جونز جو بیسویں صدی کے چوٹی کے دانشورروں میں سے ہیں وہ اپنی کتاب بھرپور جینے کا فن میں یہی نفس مضمون نہایت خوبصور ت انداز میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں غور کرتا ہوں تومجھے یہ آگہی حاصل ہوتیہے کہ میرے باطن کو ایمان یقین اور اعتماد کے لیے تخلیق کیا گیا ہے نہ کہ خوف اور ڈر کے لیے بنایا گیا ہے۔ ڈر میرے باطن کا وطن ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ ایمان ہے۔ مجھے فطرت نے اس اندا ز سے بنایا ہے کہ پریشانی اور اضطراب اب میری زندگی کی میکانکی کے لیے ریت ہے اور ایمان اس کا تیل ہے۔ میں خوف اور شک کی نسبت بہتر انداز میں ایمان اور اعتقاد سے جیتا ہوں۔ پریشانی اور اضطراب کی حالت میں میرا دم گھٹنے لگتاہے۔ کیونکہ یہ میرے لیے سازگار نہیں ہے لیکن ایمنا اوراعتماد کی بدولت میں آزادانہ طورپر سانس لیتاہوں کہ میری زندگی کے لیے تازہ ہوا اور زندگی بخش سامان یہی ہے‘‘۔ جان ہاپکن کے گروپ کا ایک ڈاکٹر یہ کہتا ہے: ’’ہم یہ تو نہیں جانتے یکہ کیوں ایک شخص جو پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ اس شخص کی نسبت جلدی مر جاتا ہے جس کو پریشانی اور اضطراب لاحق نہیںہوتا لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے‘‘۔ لیکن میں خود جس کا ذہن سادہ سوچ رکھتا ہے صرف یہ جانتا ہوں کہ ہمیں باطنی طور پر جو تخلیق کیا گیا ہے یعنی اعصاب خلیات دماغ اور روح کے ساتھ تو یہ ایمان اوریقین کے لیے ہے نہ کہ خوف اوراندیشوں اور شک کے لیے پیدا کیا گیاہے۔ ہمیں خدا نے اسی مثبت سرشت کے ساتھ ہی بنایا ہے۔ پریشانی اور اضطراب سے جینا تو مقصد حیات اور حقیقت کے منافی ہے۔‘‘ خوف تو وہ قوت ہے جو انسان کو مفلو ج کر دیتی ہے خوف کے علاوہ او ر کوئی منفی قوت نہیں۔ جو انسان کو زہنی طورپر سب سے زیادہ مفلو ج اور معذور کر دے۔ خوف کی یہ منفی قوت مندرجہ ذیل طریقوں سے زندگی کا رخ موڑ دیتی ہے: ۱۔ ایک سیلز مین کو اپنی مصنوعات متعارف کرانے کی مہم سے روک دیتی ہے۔ ۲۔ ایک نوجوان کواس بات سے روک دیتی ہے کہ کسی لڑکی کے والدین کے ہاںجائے اور اپنے لیے رشتہ طلب کرے۔ ۳۔ ایک بے روزگار شخص کو اچھی جاب کے لیی انٹرویو دینے سے روک دیتی ہے۔ ۴۔ ایک ایگزیکٹو کو اپنی کمپنی کی ترقی کے لیے ایک بڑا فیصلہ کرنے سے روک دیتی ہے۔ ۵۔ حق کے ایک متلاشی کو اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے حصول میں بسر کرنے کے عہد سے روک دیتی ہے۔ ساری دنیا میں انسانوں کو جو خوف بھی لاحق ہیں ان سب خوف کی کیفیات میں سے زیادہ مہلک تباہ کن اورشکست کا باعث ناکامی کا خوف ہے اس کوف کو اپنی زندگی سے مستقل طور پر نکال دیجیے۔ ہر قسم کے خوف اور اندیشوں کو ختم کر دیں ورنہ یہ آپ کو جلد ختم کر ڈالیں گے ناکامی کے خوف کو ختم کرنے کے یقینی طریقے (1) آپ حقیقت کے نور اور صداقت کی روشنیء سے ناکامی کے خوف کو بے نقاب کر کے ختم کر ڈالین خوف تاریکی میں جنم لیتا ہے۔ جبکہ ایمان اعتماد اوریقین دن کی روشنی میں فروغ پاتاہے۔ آپ اپنے شعور ادراک اور آگہی کی روشنی میں اپنی ناکامی کے خوف پرڈالیں اور آ پ اس حیران کن دریافت سے بہت مسرور ہوں گے کہ تمام قسم کا خوف کافور ہو گیا ہے اوراب آپ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ناکامی سے خوفزدہ ہیں لیکن آپ ہرگز خوفزد ہ نہیں ہیں۔ اصل ڈر اور خو ف آپ کو یہ ہے کہ اگر آپ ناکام ہو گئے تو آپ کے دوست آپ کے بہن بھائی آپ پر ہنسیں گے اور آپ کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ کئی دوست آپ کو اس ناکامی کی بنا پر چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ ناکامی سے خوف کا اصل مطلب اور مفہوم دراصل پریشانی گھبراہٹ اوربے چارگی کا خوف ہے۔ لیکن بے چارگی اور کشمپرسی کا خوب بھی آپ کو کیوں ہو؟ آخر آپ اپنا خیال رکھنے کی اہلیت تو رکھتے ہی ہیں۔ پھر آ پ کیوں خوفزدہ ہیں؟ ا سلیے کہ بے چارگی اورکسمپرسی کا خوف فی الواقع آ پ کی عزت نفس اور خود تکریمی میں کمی کا خوف ہے۔ آپ بے عزت ہونے کی کیفیت سے ڈرتے ہیں۔ پس یہ ثابت ہوا کہ درحقیقت آپ کو ناکامی کا خوف نہیں ہے محض یہ آپ کی سوچ ہے کہ آپ کو اس کا ڈر ہے کہ آ پ کو اپنی عزت میں کمی کا خوف ہے۔ آپ اپنے آپ کو باور کرائیے کہ لوگ کبھی بھی اس شخص کو نہیں چھوڑتے اور اس سے کنار کشی نہیں کرتے جس کے بارے میں انہیں معلوم ہو کہ اس نے محنت اور کوشش تو خوب کی تھی لیکن توقع کے مطابق ثمر حاصل نہیں ہو سکا۔ ایک تاریخی بات کئی سال تک نیویارک میسٹس بیس بال کی دنیا میں مذاق او رٹھٹے کا نشانہ بنتے رہے تھے۔ لیکن ان کے شیدائی انہیں بدستور انہیں اس لیے چاہتے تھے کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی اپنی طرف سے جیتنے کی از حد کوشش کرتا ہے بالآخر 1969ء میں انہوںنے ورلڈ سیریز جیت لی۔ شیدائیوں کا یقین رنگ لے آیا۔ چوہے فوراً اس جہازکو چھو ڑ کر بھاگ جاتے ہیں جو ڈوبنے والا ہوتاہے۔ وہ دوست جو آ پ کواس لیے چھوڑ جاتے ہیں کہ آپ ناکام ہو گئے ہیں ہر گز زندگی اور سچے دوست نہیں ہیں۔ ایک دانا شخص نے کہا تھا: ’’ایک سچا دوست وہ ہوتا ہے جو اس وقت مدد کے لیے میدان عمل میںاترتا ہے جب کہ دوسرے جارہے ہوتے ہیں‘‘۔ دنیا کے تمام بہترین لوگوں نے ہمیشہ ان اشخاص کا ساتھ دیا ہے اور حمایت کی ہے جس نے سچی کوشش کی نہایت خلوص سے سعی کی لیکن ناکام رہے اورایسے اشخاص سے پوچھتے تھے: بتائیے میں آپ کے لیے کیا کر سکتاہوں؟ ان کی یہ پیش کش دراصل ان کی کوشش کی ستائش کا اظہار تھا۔ اسی طرح آپ بھی سخت کوشش کریں گے تو آ پ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی آپ کی پشت پر شاباش کی تھپکی دی جائے گی اور پرخلوص طورپر یہ کہا جائے گا کہ: آ پ واقعی اچھے کھلاڑ ی ہیں۔ آ پ کو اپنے آ پ پر فخر محسوس ہو گا کہ آپ کے دوست اس قدر اچھے اور عظیم ہیں یکہ انہوںنے آ پ کی کوشش جدوجہد سعی او رلگن کو سراہاہے۔ انہیں کامیابی اورناکامیابی سے کوئی سروکار نہیںہے۔ یہ با ت یاد رکھیے کہ ناکام رہ جانیوالا ایمان دار شخص کبھی بے عزت نہیں ہوتا۔ بلکہ یقین اور ایمان کی محرومی کے باعث شرم کی بات ہے اور بزدلی شرم ناک چیز ہے۔ اگر آپ کسی مقصد کے حصول کے لیے اس لیے کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ آپ کو ڈرہے کہ آپ کو سخت محنت کرنی پڑے گی۔ زیادہ جانفشانی اور ایثار سے کام لینا پڑے گا اور زیادہ توجہ دینی پڑے گی تو پھر آپ یہ بات نہایت رزالت اور کمینگی کی ہو گی۔ جب آپ کسی مقصد کے لیے بار بار کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوشش واقعی معیاری پرخلوس اور حقیقی ہے اور آپ اس کوشش میں پوری دیانت داری جرات اور یقین ایمان و ایثار سے کام لے رہے ہیں تو پھر آپ بہت سے نئے حیقی دوستوں کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں وہ آپ کی عزت نفس میں زبردست اضافہ کر دیں گے۔ انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے عکس تصور اور شکل کی اساس پر پیدا کیا ہے کبھی کبھی باعث شرم نہیں ٹھہر سکتا۔ انسان کی فطرت اور سچی سرشت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ا سکی عزت کی جائے اور اس کا وقاور شان اور وجاہت بلند ہو۔ ناکامی کا خوف دراصل ایک خود ساختہ حفاظتی خول ہے جو تحت الشعور نے فرضی طور پر اس لیی تیار کیا ہوتا ہے کہ عزت نفس کو مختلف خطرات اور پریشان کن تجربات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ (2) آپ یہ مصمم اراد کر لیں کہ آپ اپنے نام نہاد ناکامی کے خوف کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنی عزت نفس قائم کریں گے۔ اور پھر اپنی باطن شناسی کو فروغ دیں گے اور آپ یہ جان لیں کہ واقعی یہ ناکامی کا خوف نہ تو عزت نفس کی حفاظت کرتاہے اور نہ ہی اس کو فروغ دیتا ہے فرض کیجیے کہ آپ نے ایک عظیم اور عمدہ آئیڈیا سوچا ہے لیکن ناکامی کے خوف کے حصار کے باعث آپ نے ایک سنہری موقع ضائع کر دیاہے۔ اگرآ پ پریشانی اور مایوسی کے خوف سے محفوظ رہے ہیں لیکن اب آپ خاصی بوریت محسوس کر رہے ہوں گے بوریت کبھی بھی عزت نفس کی تشکیل نہیں کرتی بوریت کیا کرتی ہے؟ بوریت آپ ؤپر اس کابوجھ ڈال دیتی ہے۔ کاش میں موقع سے فائدہ اٹھا لیتا بوریت آپ کو حسرت اور پچھتاوے کی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جان گرین لیف وائٹیئیر کا ایک قول ملاحظہ کیجیے: For of all sad words of tongue or pen The saddest are these : It might have been وہ تمام افسردہ الفاظ جو آج تک زبان و لب کی جنبش سے کسی طرح ادا ہوئے یا قرطاس بوسیدہ پر کسی بھی زبان میں رقم ہوئے ان میں سے سب سے زیادہ یاس و غم اور حسرت کا اظہار اس جملے نے کیا ہے کاش کہ اس طرح ہوتا آپ مختلف حسرتوں اور پچھتائوں کے ناخوشگوار بوجھ اور ذخیرے سے بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں: ۱۔ میں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ۲۔ میں نے ویسا کیوں نہیں کیا؟ ۳۔ میں نے اسے اس وقت کیوں نہیں خریدا جب میرے پاس اچھا موقع تھا؟ آپ اپنے کو مزید افسردہ اور شکستہ دل کر لیتے ہیں جب آپ کسی او ر شخص کو اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ تو کامیاب ہو گئے ہیں اور آپ حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اورآپ کو حسد کے مزید دورے پڑتے رہیں گے۔ جب آپ مزید منفی فکر اور عمل کامظاہر ہ کریں گے۔ لہٰذا ناکامی کے خوف آپ کی عزت نفس کو کبھی نہیں بچاتا بلکہ یہ اس مزاحمت کا باعث بنا ہے اور اسے مسخ کرتاہے۔ اگر آپ ان خوفوں کو اپنے ذہن و قلب میں بدستور چھپاتے رہیں گے تو آ پ اس آگہی کے بغیر ہی حسرت کی موت مر جائیں گے کہ آ پ میں عظیم شخص بننے کی صلاحیت موجو د تھیں اورآ پ بن سکتے تھے۔ (3) یہ بات یاد رکھیں اور بار بار اپنے آپ کو باور کراتے رہیں کہ رسک لیے بغیر یعنی نقصان اور ناکامی کا خطرہ مول لیے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی۔ حتیٰ کہ ایک آدھ بار ناکامی کی بدولت ہی آ پ کا یہ یقین پختہ ہو گا کہ آپ کا مقصد او رنصب العین واقعی بلند عالی اورمعیاری ہے۔ دراصل کامیابی نام ہے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اسوی طرح ناکامی نام ہے اس امر کا کہ آپ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ خوبیوں کو بروئے کار نہ لاتے ہوئے اس کے بار بار دیے ہوئے مواقع سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے کا۔ جیمز ہائر ینٹ کو نیٹ جوہارورڈ کے ممتاز صدر ہیں نے کہا تھا: ’’کچھوا تبھی چلتا اور آگے بڑھتا ہے جب وہ اپنے گردن باہر نکالتاہے‘‘۔ برٹش فارن سیکرٹری لارڈ ہیلی فیکس نے یہی مفہوم اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’وہ شخص جو کسی موقع کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اگرچہ وہ کچھ غلطیاں کرے گا لیکن وہ کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کر لے گا‘‘۔ اسی طرح بین فرینکلن بھی اسی بات کی تائید یوں کرتے ہیں: ’’جو شخص مسلسل کام کرتاہے اور کام اچھا کرنے کی کوشش میں کچھ غلطیاں بھی کر جاتا ہے۔ لیکن جوشخص کام ہی نہیں کرتا اور کوشش نہیں کرتا وہ سب سے بڑی غلطی کرتا ہے یعنی کچھ نہ کچھ نہ کرنا ناقابل معافی غلطی ہے‘‘۔ اگر آج آپ کسی نقصان یا ناکامی کا خطرہ مول نہیں لیں گے تو آپ ہرگز ترقی نہیںکریں گے۔ آپ ایک ہی مقام پر ساکن ٹھہرے رہیں گے بلکہ پیچھے چلے جائیں گے۔ (4) یہ بات یاد رکھیے کہ اگر آپ نے اس خوف کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا تو پھر آپ کی قسمت خراب ہو جائے گی۔ زندگی کی رمق رونق اور ولولہ ماند پڑ جائے گا۔ اور آپ کے وجود کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ (5) آپ اپنے ذہن سے پیشہ ورانہ معیار او ر مہارت کا تصور نکال دیجیے۔ ناکامی کے خوف میں اس احساس کے باعث اضافہ ہو جاتاہے کہ ہر کام میں پہلی ہی بار اعلیٰ معیار یا مہارت کا مظاہرہ کیا جائے۔ کام کرنا ‘ خواہ غیر معیاری ہو‘ اس بات سے بہترہے کہ معیاری کام ہی نہ کیاجائے کسی کام کو حد کمال اعلیٰ معیار اور زبردست مہارت کے ساتھ دینے کا شوق اور آرزو بھی خوف کی ایک کیفیت ہے کہ آپ کے غیر معیاری کام کو رد کر دیا جائے گا۔ آپ کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ معیاری کام کرنے میں ناکامی کے باعث آپ کی ناقص مہارت کا پول کھل جائے گا۔ آپ حقیقت کے تناظر میں سوچیں اور خوب جان لیں کہ کوئی شخص بھی اپنے فن شعبہ میں مکمل کامل اور باکمال (Perfect)نہیں ہے اورنہ ہی کوئی ذی شعور اور صاحب دانت وادراک شخص آپ سے پرفیکٹ ہونے کی توقع رکھتاہے۔۔ نفیس اور عمدہ طبع کے لوگ آپ کو کبھی اس جواز کے باعث مسترد نہیںکریں گے کہ ناکامی کے باعث آ پ کی ناقص مہارت ظاہر ہو گئی ہے۔ بلکہ اس امر سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ واقعی ایک انسان ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی پہلو کے لحاظ صے ناکام ہے۔ کسی نہ کسی درجہ مقام شعبہ وقت اور موقع پر ہر کوئی ضرور ناکام ہو جاتاہے۔ خوب یاد رکھیے: To err is human To forgive is divine غلطی کرنا لغزش کھانا غفلتوںسے کام لینا یہ تو حضرت انساں کا کام ہے اور ان غلطیوں او ر خطائوں کو ردائے مغفرت میں لپیٹ لینا یہ تو خدائی منصب ہے اور روحانی کمال کی شان ہے لوگ آپ کا بھرپور تجزیہ کر چکنے کے بعدبالآخر آپ کو قبول کر لیں گے یا مسترد کر دیں گے اس لیے نہین کہ آ پ کیا کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ آپ کس قسم کے شخص ہیں۔ (6) آپ اس مرد کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ناکامی ہو جاتی ہے اور یہ طلاق کے ذریعے ختم ہو جاتی ہے۔ پھر یہی مرد اور عورتیں دوسری بار شادی کر لیتے ہیںَ اوریہ شادیاں اکثر کامیاب ہو جاتی ہیں۔ آ پ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلی باراپنے بزنس میں ناکام رہیں لیکن دوسری بار آ پ کسی اور نوعتی کے کاروبار میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ناممکناتی سوچ رکھنے والے لوگ انتہا پسند غیر ذمہ دار اور منفی بیانات جاری کرنے میںماہر ہوتے ہیں: ۱۔ میں تباہ و بربادہوگیا۔ ۲۔ میں تو ختم ہی ہو گیا ہوں۔ ۳۔ میری تو حیثیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ ۴۔ میرا سب کچھ لٹ گیا ہے۔ ۵۔ میرا تومکمل طورپر خاتمہ ہو گیا ہے۔ ان تمام بیانات میں سراسر غیر حقیقی مبالغہ آمیزی ہے۔ آپ کبھی بھی اس اندا ز سے نہ سوچیے گا اور نہ ہی اس طرح کی مایوس کن گفتگو کیجیے ۔ ڈاکٹر سمیلے بلیٹن جو بیسویں صدی کے چوٹی کے ماہر ین ذہنی و نفسیاتی مسائل و امراض میں سے ایک ہیں انہوںنے اپنے ایک رفیق کا رنارمن ونسنٹ پیلے سے کہا: ’’قریباً چالیس سالوں سے بطور ماہر ذہنی و نفسیاتی مسائل میں کام کر رہا ہوں۔ مجھے اپنے تجربات و مشاہدات میں ایک بات واضح طور پر منکشف ہوئی ہے: ہر انسان کی زندگی میں ضرور یاسے کئی گوشے ہوتے ہیں جنہیں کسی قسم کا کوی ضرور اور نقصان نہیں پہنچتا اگر ان کا کسی طرح پتا چلا لیا جائے تو انسان نہایت یقین کے ساتھ اس کی بہتر اندازمیں تعمیر کر سکتاہے۔ کوئی شخص بھی مایوس کن کیفیت میں بھی کبھی نہیں ہوتا‘‘ ڈاکٹر سیملے بلیٹن نے مزید وضاحت سے بیان کیا: ’’فرائیڈ نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے اسی بات کو محسوس کیا تھا کہ اور لکھا کہ یوں معلوم ہوتاہے کہ بلکہ کئی نفسیاتی کیفیات کی بیشتر رپورٹوں سے ثابت ہوتاہے کہ ذہنی مسائل میں مبتلا لوگوں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب کہ وہ اپنے حالات کے المیہ پہلوئوں کو تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو یہ آشکار ہوتا ہے کہ کئی پہلوئوں کے لحاظ سے الم و غم کے احساس کی قطعاً ضرورت اور گنجائش ہی نہیں ہے‘‘۔ رچرڈ لیمن نے اپنے ایک مقالے کا عنوان’’غیر یقینی سائنس ‘‘ تجویز کیا اور اس میں اپنا ایک مشاہدہ بیان کیا: یہ واقعہ جو پیرس کے ایک ذہنی ہسپتال میں دوسری جنگ عظیم کے دوران پیش آیا تھا اس ادارے میں ذہنی امراض و مسائل سے متعلق 154کیس رجسٹرڈ تھے۔ ان تمام کیسوں کو نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین نفسیات و ذہنی امراض نے نہایت توجہ سے دیکھا لیکن ان کو مایوسی نے انہیں پاگل اور دیوانہ بنا رکھا تھا۔ ہر کیس ہی انتہائی ابتر حالت کا غماز تھا۔ ایک رات آزادی کی جنگ لڑنے والے فوجیوں نے بمباری کی تو اس ہسپتال کی دیوروں پر بھی بم برسائے۔ اس شدیدافراتفری اور بوکھلاہٹ میں 154تمام ذہنی مریض یکدم ہسپتال سے بھاگ گئے۔ کئی سالوں کی مسلسل تلا ش کے بعد ان تمام مریضوں کو ڈھونڈ لیا گیا۔ ہسپتال کے تمام ماہرین اور ڈاکٹر ان کا دوبارہ معائنہ کرکے حیران رہ گئے کہ 154میں سے 86مریض مکمل طورپر بحال اور صحت مند ہو چکے تھے اور انہو ںنے مکمل طور پر نارمل طریقے سے اپنی زندگی کے معمولات شروع کر دیے تھے۔ لہٰذا آپ یہ بات خو ب یاد رکھیے کہ خواہ حالات کس قدر خراب اور شدید ہوں مکمل طور پر ناکامی طاری کبھی بھی نہیںہوتی۔ (7) اب اس وقت آپ اپنے آ پ سے خود ہی یہ پوچھیے: تو پھر حقیقی ناکامی سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کا جوا ب واضح ہے حقیقی ناکامی سے مراد ہے کہ کوئی شخص ناکام ہو جائے۔ اس کی چار صورتیں ہیں: i۔ کسی فوری نوعیت کی مہم جس میں چند خطرات کا اندیشہ ہو انسان بزدلی کا مظاہرہ کرے ii۔ کسی نہایت اعلیٰ نیک اور لازمی فرض کو انجام دینے کی پکار پر اس سوچ کے ساتھ خوفزدہ ہو کر پسپا ہوجانا کہ آپ کماحقہ طریق سے آپ اس فرض کو انجام نہیںدے سکیں گے۔ iii۔ کسی زبردست مقصد کے حصول کی متوقع فاخرانہ مسرت کے برعکس پریشان کن ناکامی کے اندیشوں کا شدیداحساس۔ iv۔ اپنے مستقل کی تابناک تعمیر کی قیادت و قابلیت کے یقین کو ناکامی کے خوف سے کمزور کر دینا۔ یہ ہیں حقیقی ناکامی کی چار صورتیں جو کسی کو بحیثیت شخص مکمل طور پر ناکام بنا دیتی ہیں۔ان ناکامیوں سے بچنے کے لیے شعوری کوشش ہونی چاہیے۔ (8) اب آ پ تمام قسمکے خوف اور اندیشوں کا گلاگھونٹ دیجیے۔ اپنے آپ کو ہر شخص سے الگ کر لیجیے جو آپ کو یہ کہتا رہتا ہے: i۔ یہ کام ممکن نہیں ہے۔ ii۔ یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ iii ۔ بعض لوگوں نے ا س کام پر طبع آزمائی کی تھی لیکن وہ ناکام ہو گئے۔ iv۔ پہلے یہ کام کسی نے نہیں کیا (اگریہ ممکن ہوتو تو کیا لوگ اسے نہ کر لیتے؟) آپ ایسی تخریبی اور منفی قوتوں سے دور اور الگ رہیں۔ اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے بہت دور رکھیں جو مایوسی اور حوصلہ شکنی کو فروغ دیتے ہیں۔ پھر آپ تمام اپنے خوف اور اندیشوں سے خبردار رہیں اور دور رہیں اور انہیں اپنی زندگی کے نظام کے لوازمات اور اعانتوں سے یکسرمحروم کر دیں۔ (9) اب آپ این ایف اے کلب میں شمولیت کر لیجیے۔ یہ کلب اب کبھی خوفزدہ نہیں ہونا۔ کی حکمت عملی کی اساس پر تشکیل دیا گیا ہے۔ (Never Fear Again Club)آپ اس کلب کی رکنیت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کاطریقہ یہ ہے: آپ خدا تعالیٰ سے ایمان اوریقین پر مبنی ذاتی تعلق کو مزید پختہ کر لیں۔ یادرکھیے کہ وہ شخص جس کا مذہب سے گہرا تعلق ہے وہ کبھی بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتا۔ اسے ناکامی کا ڈر اور شکست کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ میرے ایک واقف کار بزرگ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندں کی تائید کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے: ’’وہ شخص جو میری طرف دھیان رکھتاہے اور میر ی رضااورخوشنودی کو مدنظر رکھتا ہے وہ کبھی غلطیاں نہیں کرتا‘‘۔ ایک طالب علم نے جو ایک مشکل کالج کور س کی پڑھائی نہایت انہماک سے کر رہا ہے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے قلب و ذہن میں پیدا ہونے والے اندیشوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیتا ہے۔ ان کے اوپر ایک دائرہ کھینچ لیتاہے۔ اور پھر اس کاغذکو تیر کی مد د سے تارتار کر دیتا ہے اوروہ یہ سمجھتا ہے ہ یہ تیر یسوع مسیحؑ کی تائید کی علامت ہے۔ امریکہ کے نہایت جرات مند کاروبری حضرات میں ایک ممتاز بزنس مین رابرٹ لی ٹورینو مرحوم تھے۔ انہوںنے اپنی جرات اوردلیری کا راز ان سادہ خیالات میں یہ دیا: خدا تعالیٰ خود میرے کاروبار میںحصہ دار ہے۔ مجھے کس طرح نقصان کا اندیش ہو سکتا ہے۔ اورآپ کیونکر خوفزدہ ہو سکتے ہیں جب خدا تعالیٰ کو اپنے امور میں شامل کر لیا جائے؟ جب کبھی میں کیمروں کی زد میں ہوتاہوں کسی تقریب یا سٹیج پر یا پبلک کے سامنے کیس لیکچر ڈائس پریا کہیں انٹرویو پر یا پریس کانفرنس میں روبر و ہوتا ہوں تو میں نہایت تضرع سے یہ دعا کرتا ہوں: ’’اے میرے اللہ ہر اچھے کام میں مجھ سے کام لے میری تمام صلاحیتوں اورقابلیتوں کو بہتر طور پر استعمال فرما‘‘۔ میری ایک دوست ڈورس ڈے نے مجھے بتایا: ’’مجھے اپنے کاروبار کے دوران ہر وقت یہ خطرہ اور اندیشہ لاحق رہتا تھا کہ میں اس مین شامل لوگ ضرور اپنااپنا ذات مفاد حاصل کر رہے ہوں گے۔ لیکن جب میں نے خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور اپنے کاروبار کے تمام معاملات اس پر چھوڑ دیے تو میںنے اپنی غلطیوں اور حماقتوں پربھی پریشان ہونا چھوڑ دیا‘‘۔ آپ مجھے کوئی ایسا شخص دکھا دیجیے جس کی خواہشات ارادے اور خوابیں زبردست اعتماد اور یقین سے عبارت ہوں اور میں یہ پھر ثابت کر دوں گا کہ اس نے واقعی پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا دیا ہے۔ وہ ضرور کامیاب ہو جائے گا۔ کیونکہ اسے انجیل مقدس کی اس آیت پر پورا ایمان ہے: ’’تم ہرکام میں خدا پر پہلے بھروسہ رکھو وہ تمہاری ضرورکوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ (Prov: 3:6) خدا بار بار ناکام ہونے ولے کی کبھی اعانت نہیںکرتا۔ آپ میں زبردست غیر مرئی قوت پیدا ہوسکتی ہے ونسنٹ ایچ۔ گیڈیس اپنی کتاب بحرانوں میں جرات کا مظاہرہ میں کئی ایسی کہانیاں بیان کرتے ہیں جو انسان کی زبردست غیر مرئی طاقت سے متعلق ہیں جس نے معجزانہ طور پر کئی قیمتی جانوںکو بچایا ہے: (1) بارہ سال کا ایک نوخیز لڑکا رابرٹ ہٹشے 1965ء میں ویسٹ کووینا کیلی فورنیا میں ایک زیر تعمیر بڑی بلڈنگ کے اوپر کھیل رہا تھا کھیل کے دوران میں کسی عارضی بیم اورپلر کے ہل جانے کے باعث یہ لڑکا عمارتی ملبے سمیت نیچے گر گیا اب یہ بچہ نصف ٹن وزنی لکڑی کے سٹرکچر اور بھاری اینٹوں کے نیچے دب گیا تھا۔ رابرٹ کی زوردار چیخوں کی آواز سن کر اس کے ننھے دوست دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے اور مدد کے للیے ایک اٹھائیس سالہ جوان پیٹرول مین کلنٹ کولنز کی مدد کیلیے بلایا۔ اس 155پونڈ وزنی نوجوان آفیسر نے جھک کر لکٹی کے تختوںپر بنے ہوئے سٹرکچر ارو اینٹوں کے بھاری بوجھ کو پھرتی کے ساتھ اٹھا کر پرے کر دیا اور رابرٹ کی جان بچگئی۔ اس اثنا میں مزدور اور دیگر لوگ اکٹھے ہو گئے اور انہوںنے حیران ہوکر اس بہادر نوجوان سے پوچھا کہ تم نے اس قدر وزنی مٹیریل اس قدر تیزی سے کیسے اٹھا لیا؟ اس نے جواب دیا۔ میں نے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے اس نوخیز لڑکے کے بازو سٹیل لکڑی اور اینٹوں سے باہر پھیلے ہوئے دیکھے اور میرے اندر زبردست غیر مرئی قوت عود آئی اور میںنے یہ کام کر دیا۔ اگر اس للڑکے کو بچانے کے لیے مجھے اینٹوں کی دیوار بھی توڑنی پڑتی تو میں اس بھی ضرور توڑ ڈالتا۔‘‘ (2) 1964ء میں ماہ نومبر کی ایک صبح کو ایک ویگن جس کی نو نشتیں ہوتی ہیں وہ فلنٹ (مشی گن) میں فشر باڈی کمپنی کے پلانٹ کے ساتھ اسمبلی لائن روڈ پر جا رہی تھیں اور ساتھ ہی ایک ٹرک جا رہا تھا جس پر ایک ٹن سٹیل کے فریم لدے ہوئے تھے۔ وکٹر ڈبلیو ہائوویل جس کی عمر 21 سال کی تھی وہ اسمبلی لائن پر کھڑاتھا وہ یہ انتظار کر رہا تھا کہ ویگن گزر جائے ویگن جب گزر گئی تو جونہی وہ سامان کے آرڈرٹیگ کو چیک کرنے کے لیے جھکا تو اس کا پائوں پھسل گیا۔ قریب تھا کہ اس کی ٹانگ پر بھاری سٹیل فریم والا ٹرک گزرجاتا ار اس کی ٹانگ کو کچل کر اس کی جان لے لیتا۔ چارلس جے میک کلینڈن جو پلانت کے دوسری جانب کھڑا تھا۔ جونہی نوجوان ہائوول نے چیخ ماری تو چارلس بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اور اس نے پھرتی سے اس ٹرک کے پہیے کو پیچھے کر دیا اور نوجوان کی ٹانگ بچ گئی۔ چارلس جس کی عمر 48سال تھی قد پانچ فٹ دس انچ تھا وزن 205پائونڈ تھا وہ ہٹا کٹ عام آدم تھا لیکن اس وقت اس نے ناقابل یقین طورپر ایک سپر مین کاکام دکھایا تھا۔ اس سے یہ پوچھا کہ تم نے اس قدر وزنی ٹرک کے پہیے کا رخ یکدم کیسے پرے کر دیا اس نے جواب دیا کہ مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ اس ٹرک کی جانب میری پشت تھی اورمیرا ہاتھ ٹرک پر رکھے فریموںپر تھا میں نے ایک چیخ سنی اور وہاں کود کر گیا اور خدا جانے میں یہ کیسے کر پایا کہ ٹرک کے پہیے کو پرے کو دیا۔ اس وقت میرے اندر زبردست طاقت آ گئی تھی۔ (3) 1966ء میں کولمبس (اوہیو) میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کیرولائن ہارن جس کاوزن سوپائونڈ سے بھی کم تھا۔ نے اپنے کزن کو بچانے کے لیے جو گرتے ہوئے درخت کے نیچے دب گیا تھا درخت کے بھاری تنے کو اٹھا کر چار فٹ پرے کر دیا تھا۔ اس تنے کی لمبائی چالیس فٹ کی تھی اوراس کی موٹائی ایک فٹ تھی۔ اس نے فوراً ارادہ کر لیا اور غیر مرئی قوت اس لڑکی کے بازوئوں میں عود آئی اور اس نے اس مشکل ترین کام کو زبردست قوت ارادی سے انجام دے دیا۔ (4) مسز جینی پیری مین جس کی عمر پچیس سال کی تھی وہ جیسپر کائونٹی (سائوتھ کیلی فورنیا) میں اپنے گھر کے پورچ کے عقب یں کھڑی تھی یہ واقعہ یکم اکتوبر 1965ء کا ہے جینی نے اپنی گودمیں بچہ اٹھا ہوا تھا۔ اس کے دو بڑے بھائی آٹھ سالہ بیٹی اینڈی اور نو سالہ بیڈا وکی گھر کے باہر کھڑے سکول بس کی آمد کا انتظارکر رہے تھے۔ اچانک بیٹی سکی زور سے چلائی۔ اپنی بیٹی کی چیخ سن کر اور ساتھ ہی موٹر کی یکدم بریک لگنے کی آواز سن کر مسز پیری مین نے اپنے بچے کو گود سے اتار کر پنگھوڑے میں رکھ دیا اور پورچ سے نکل کر گھر کے باہر آ گئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا اینڈی ایک کار کے ساتھ پھنسا ہواتھا اور کار کی بریک لگتے لگتے وہ 160فٹ تک گھسیٹا جا چکاتھا۔ مسز پیری مین دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی اس نے کار کا پچھلا بمپر پکر کر کار کو اوپر اٹھا دیا اور گاڑی کو ا س وقت تک دھکیلتی رہی جب تک بچہ اس کی گرفت سے نکل نہ گیا۔ ننھے اینڈی کو فوری طور پر سواناہ میں کینڈر ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بروقت اور ہنگامی طورپرعلاج کے باعث اینڈی کی حالت بہتر ہو گئی۔ بعد میں مسز پیری مین سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کار کو جس کا وزن 1900پونڈ ہے اسے تین فٹ کی اونچائی تک کیسے اٹھائے رکھا حالانکہ آپ کا اپنا وزن محض 95پونڈ ہے۔ اس پرمسز پیری مین نے کہا: اس صورتمیں اگر آپ کا بچہ بھی ایسی مشکل میں ہوتا تو آ پ کے اندر بھی ایسی ہی طاقت پیداہو جاتی۔ آپ نے چار سچے واقعت ملاحظہ کیے۔ یہ حیران کن اور زبردست قوت کا منبع کیاہے؟ یہ قوت انسان کے اندر ایک کیمیائی توانائی ہے۔ جسے اے ٹی پی (Adenosine triphosphate) کہا جاتا ہے ہنگامی ضرورت کے وقت جب دماغ متحرک ہو جاتا ہے تو اس وقت انسانی اعصاب نارمل سے بیس گنا کیمیائی رد عمل کے ساتھ اس توانائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ گویا یہ اپنی ذات ؤمیں ایک قوت کا دھماکہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں پراسرا ر قوت کا مظاہرہ پر مبنی ایک اور حیران کن اور ناقابل یقین زبردست مثال تاریخ نے ریکارڈ کی ہے ملاحظہ کیجیے: 18فروری 1952ئکو قریباً آدھی رات کی بات ہے کہ ہائوسٹن (ٹیکساس) کی شمال کی جانب د س میل کے فاصیل پر رائے گیبی کے ایک بڑے ٹرک ٹریلر پر جس کے چودہ پہیے تھے چلاتے ہوئے واکو سے ہائوسٹن جا رہا تھا کہ ایک کار جس کا ڈرائیور شراب کے نشے میں مخمور تھا نہایت تیزی سے سائیڈ روڈ سے مین روڈ پر اچانک آ گئی۔ گیبی نے فوراً اپنے ٹریلر کو موڑنے کی کوشش کی اور ٹریلر نہایت تیز ی سے سڑک کے کنارے بہت سڑے شاہ بلوط کے درخٹ سے ٹکرا گی اور ساتھ ہی کار بھی اس سے ٹکرا گئی اور گیبی درمیان میں پھنس کر رہ گیا۔ اب اس کا جسم کار کے اوپر والے تباہ شدہ حصے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے پائوں کلچ اور بریک پیڈلوں کے بیچ بری طرح مڑے ہوئے تھے۔ سٹرنگ وہیل س کے بازو کے ساتھ جام ہو گیاتھا۔ کار کے دونوں دروازے اچھی طرح بند ہو کر اندر کو دھنس گئے تھے اور ان کے فریم ٹیڑھے ہو گئے تھے ٹریلر کا انجن کار میں ٹھونس گیا تھا۔ آفیسر ہنری اس شدید ترین مشکل حالات سے نکلنے کی روئیداد یوں سناتے ہیں: پہلے ہم نے گیبی کی گرفت کو ڈھیلا کرنے کے لیے دھنسے ہوئے انجن کو ہک سسٹم سے پیچھے دھکینے کی بہت کوشش کی۔ لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ پھر ہم نے ایک ٹرک کو روکا اور اسکی مدد سے تباہ شدہ حصے کو پیچھے کرنے کے لیے زور لگایا ۔ لیکن کوئی فائدہ نہیںہوا۔ پھر مزید دو اور ٹرکوں کو روکا اور اب تین ٹرکوں کی قوت سے زور آز مائی کی لیکن ااسدفعہ بھی ناکامی ہوئی اس اثنا میں بہت سے تماشائیوں میں سے کسی نے چیختے ہوئے کہا وہ دیکھو کار کو آگ لگ گئی۔ واقعی آگ کے شعلے اٹھنے شروع ہو گئے۔ ہم نے جلدی سے فائر بریگیڈ کے لیے فون کیا۔ ٹرک اور موٹروں کے لوگوںنے نکل کر جلدی سے کار کے دروازوں کو کھولنے کی آگ بجھانے اور کسی طرح بے چار ے گیبی کو پھنسی ہوئی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے متحدہ کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ ہم نے اس طرح کے خوفناک منظر اور نازک صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ آگ بجھانے کا عملہ آ گیا تھا۔ اگرچہ دیر ہو چکی تھی۔ اس اثنا میں ایک اجنبی دوڑ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں کیا مدد کر سکتا ہوں۔ میں نے مایوسی سے سرہلاتے ہوئے کہا اگر تین ٹرک اور اتنے سارے لوگ مل کر کچھ نہیں کر سکے تو ایک اکیلا شخص کیا کر سکے گا۔ لیکن اب کیاماجرا ہوا؟ سب لوگ جو یہ منظر دیکھ رہے تھے کوء بھی شخص اسے بھو ل نہیں پائے گا۔ میں مسلسل دعا کر رہا تھا۔ یہ اجنبی نیگرو جوان آگے بڑھا۔ کار کے پاس گیال۔ اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھوڑا یا اوزارنہیںتھے۔ اس نے کار کے دروازے کو کھینچ کر ایک طرف رکھ دیا۔ یہ اندر گھس گیا اور ننگے ہاتھوں سے شعلوں کو بجھا دیا جو گیبی کے پائوں جلا رہے تھے۔ اس نے ٹریلر کے سٹیرنگ کو آگے کی طرف موڑ دیا۔ پھر بریک پیڈلوں کو ادھر ادھر کر کے گیبی کے دونو ں پائوں آزاد کیے۔ سب تماشائی سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے تب یہ جوان کار میں داخل ہوا اور زور لگاکر اس نے ٹریلر پیچھے دھکیل دی۔ پھر اس نے سر کے بل زور لگا کر باقی صورت حال کو بہتر کیا۔ اس کے بعد ٹرک والوں نے اس کی مدد کی اور اس طرح گیبی کو صحیح سلامت موت کے منہ سے نکال لیا گیا‘‘۔ میں پھر کہتا ہوں خہ جب دعا کی جائے اور خدا سے مدد مانگی جائے اور اس پر مکمل یقین بھروسہ اور ایمان رکھا جائے تو وہ ایسے سازگار حالات پید اکر دیتا ہے کہ مشکلات ٹل جاتی ہیں ۔ میں مزید یہ کہتا ہوں: ’’جب تک انسان اپنی بھرپو ر کوشش کا مظاہرہ نہ کرے اور جب تک خدا اس کے قلب و ذہن کو متحرک نہ کرے اور خاص رہنمائی بروقت مہیا نہ کرے کسی شخص کو کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کرے‘‘۔ اور جب خدا مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے اذن سے نہ صرف انسان کے ذہن میں تحریک پیدا ہو کر اس کی اے ٹی پی توانائی فعال ہو جاتی ہے بلکہ اس کی تمام تر طاقتیں توانائیاں اور قوتیں کامیابی کے ساتھ متحرک ہو جاتی ہیں۔ اب اگر مندرجہ بالا تاریخی واقعات جو ہمت و جرات کی زبردست مثالیں ہیں۔ ان کو پڑھ کر بھی آپ کے قلب و ذہن سے خوف نہیں گیا تو پھر ا س خوف کو مثبت رنگ دے دیجیے۔ پھر اس خوف کو تعمیر ی مقصد کے لیے استعمال کیجیے۔ پیری بائولیز جو ایک ممتاز موسیقار ہے۔ اور نیویارک فل ہارمونک کا میوزک ڈائریکٹر ہے وہ کہتاہے : ’’میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے زندگی بسرکرنا اس نامعلوم ہستی کے بغیر ناممکن ہے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہے‘‘۔ آج سے آپ اپنے ہر قسم کے خوف کے جذبات کو نیا نام دیں۔ ’’مستقبل کی پراسراریت‘‘۔ اور پھر اپنے اندیشوں اور خوف کے احساسات سے ایسی مثبت قوت کا کام لیں جو آپ کو کامیاب کوشش کے لیے متحر ک رکھے۔ ۱۔ آپ اس لیے نہ ڈریں کہ آ پ ناکام ہو جائیں گے… بلکہ ا س بات کا خوف محسوس کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔ ۲۔ آپ اس لیے نہ ڈریں کہ آپ کا دل ٹوٹ جائے گا… بلکہ اس بات کا خوف محسوس کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آ پ ترقی نہ کر سکیں۔ ۳۔ آپ اس لیے نہ ڈریں کہ آپ پیار کاآغاز کریں گے تو ناکام رہیں گے… بلکہ اس بت کا خوف محسوس کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کبھی بھی کسی سے پیار نہ کرسکیں۔ ۴۔ آپ اس لیے نہ ڈریں کہ لوگ آپ کی غلطیوں حماقتوں اور خطائوں پر ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے… بلکہ اس بات کا خوف محسوس کری ںکہ کہیں خدا آپ کو یہ کہ کر مخاطب نہ ہو اے ناقص ایمان اور کمزور یقین والے! ۵۔ آپ اس لیے نہ ڈریں کہ آپ پھر ناکام ہو جائیں گے … بلکہ اس بات کاخوف محسوس کریں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ موقع پھر کبھی نہ آئے۔ اب پھرآپ تیار ہو جائیے۔ کسی بڑے مقصد کے لیے بڑے آئیڈیا کے ساتھ آپ شروع ہو جائیے۔ کیا کہا اس میں رسک ہے؟ ٹھیک ہے یہ تو اچھا ہے۔ اگر اس میں خطرہ اوراندیشہ ہے تویہ بھی اچھی بات ہے۔ کہ آپ کے ایمان یقین اور اعتماد کی پیمائش اور آزمائش کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ آسکر وائلڈ نے کہاتھا: ’’کوئی بھی نیا آئیڈیا جس میں خطرات اور اندیشوں کا خوف نہیں ہے وہ آئیڈیا کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے‘‘۔ میرا ایک دوست فریڈ جاروس نہایت سادہ لیکن موثر اندا ز میں ایک بات کہتاہے: ’’چھوٹے چھوٹے اور معمولی مقاصد کا تعین کرنا نہ صرف آپ کی ناکامی ہے بلکہ یہ سراسر جرم اور نہایت شرم کا باعث ہے آپ صحیح اور عظیم مقاصد کا تعین کریں اپنے نصب العین کے معیار کو بلند کریں آپ خدا کی مدد کے ساتھ بڑی منصوبہ بندی کریں اور جرات اور حوصلے کا مظاہرہ کریں ‘ خدا آپ کے ساتھ ہے‘‘۔ ٭٭٭ 7 کام کے بہتر آغاز سے کامیابی کی شروعات آئیے ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ جس کے باعث آپ پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ: ۱۔ آپ کے سامنے ایک بڑا مقصد ہے جس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ ۲۔ آپ کے سامنے ایک خواب ہے جسے حقیقت کا رنگ دیا جانا چاہیے۔ ۳۔ آپ کے سامنے ایک منصوبہ ہے جسے عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ ۴۔ آپ کے سامنے ایک عظیم پراجیکٹ ہے جس کا آغاز کر دینا چاہیے ۔ ۵۔ ایک پروگرام آ پ کے مدنظر ہے جو یقینی طور پر ممکن ہے اس کی ضرور تکمیل ہونی چاہیے۔ ۶۔ آپ کے سامنے ایک نہایت قیمتی موقع ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ۷۔ آپ کے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے جس پر عملی کام کرنا چاہیے۔ ۸ آپ کے سامنے ایک اہم مسئلہ ہے جسے ضرور حل کرنا چاہیے۔ ۹۔ آپ نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ ۱۰۔ آپ کے سامنے زندگی کا نصب العین ہے اور اس کے حصول کی سعی ہونی چاہیے۔ اب ایک اہم ترین مسئلہ حل کرنے کا وقت آ گیا ہے وہ مسئلہ اور مشکل کام یہ ہے کہ آخر ان کاموں کا آغاز کیسے کیا جائے؟ ایک شخص کے عزم کی کہانی ملاحظہ کیجیے جس نے آج اور ابھی مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے کوشش شروع کر دی اور وہ کامیاب ہو گیا۔ اس شخص کی عمر 59سال تھی اب اس کی جوانی ڈھل چکی تھی وہ ایک ہائی سکول میں دربان تھا۔ وہ بہت ہی موٹا تھا موٹاپے سے اس کا جسم بھدا ہو گیا تھا۔ وہ اب خود بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے اور جوان نہیں رہا۔ اس نے ایک اتوار کو چرچ منسٹر کے یہ الفاظ سنے: ’’آپ وہ شخص ضرور بن سکتے ہیں جو آ پ بننا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے آپ ایک تصور باندھیں کوشش کے پروگرام کو منظم کریں عملی کام شروع کر دیں اور اس طرح آ پ اپنے خواب اور خواہش کو حقیقت بنا لیں‘‘۔ منسٹر نے مزید زور دے کر تاکیدی لہجے میںیہ کہا: ’’اس پروگرام کو بس آپ شروع کر دیں اور آج ہی‘‘۔ اس شخص کا نام والٹ فریڈرک تھا۔ اس نے ان الفاظ پر غور سے سنا اور دعہد کر لیا کہ وہ اپنے جسم کو سمارٹ بنا کر ایک مشہور ایتھلیٹ بنے گا۔ لیکن یہ تو اب ساٹھ سال کا ہونے والا ہے بوڑھا اور وہ بے بے حد موٹا اور بھدا وہ کیسے اپنی خواہش اور عہد کو پورا کرے گا؟ لیکن یہ تاریخی واقعہ جو اپنی نوعیت کا واقعی ایک مجزہ ہے۔ سچ مچ رونما ہوا۔ اس نے اس سوچ میں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ بات ممکن ہے میںایسا کر سکا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک پروگرام تشکیل دیا اور شروع ہو گیا: i۔ اس نے اپنی غذا کو کنٹرول کیا۔ ii۔ اس نے صبح باقاعدہ جوگنگ کرنی شروع کر دی۔ iii۔ ایک ہی سال کے اندر اس نے دو میل روزانہ دوڑ لگانی شروع کر دی۔ iv۔ پھر اس نے چار میل روزانہ بھاگنا شروع کر دیا۔ v۔ پھ راس نے چار میل صبح دوڑنے کے ساتھ اضافہ چار میل شام کو بھی دوڑنا شروع کر دیا۔ vi۔ اب اس کی عمر اگرچہ 61سال ہو چکی تھی لیکن وہ پتلا اور سمارٹ ہوگیا تھا۔ وہ ااب خود کو صحت مند‘ چست ‘ چاک و چوبند پھرتیلا اور نوجوان محسوس کرنے لگا۔ اس نے اب ہر ہفتے کے دوران ایک سو میل کی دوڑ لگانی شروع کر دی۔ مجھے یہ بات اچھی طرح یا د ہے کہ ایک اتوار کی صبح کو وہ مجھے چرچ کی عبادات کے بعد ملا اورپوچھنے لگا: ’’محترم بھلا اندازہ لگائیے کہ میں اگلے ہفتے کہاں جا رہا ہوں؟‘‘ ا س کی آنکھوںمیں امید کی ایک چمک تھی وہ جوان امنگوں اور تازہ ولوے سے سرشار تھا پیشتر اس کے کہ میں اندازہ لگا کر کوئی جواب دیتا اس نے مجھے خود ہی بتا دیا: ’’میں تو بذریعہ جہاز بوسٹن جا رہا ہوں وہاں بوسٹن میراتھن ریس میں حصہ لوں گا۔ یہ دوڑ اٹھائیس میل اور تین سو پینسٹھ گز فاصلے کی ہے‘‘۔ اور یہ بات کر کے وہ دور گیا۔ اس میراتھن ریس میں ایک ہزار آدی شریک ہوئے۔ دوڑ کی آخری منزل تک چھ آدمی ہی پہنچ سکے تھے اور والٹ فریڈرک بھی ان کامیاب لوگوں میں سے تھا جنہوںنے پوری دوڑ مکمل کر لی تھی۔ چار سالوں کے دوران فریڈرک نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کیں بے شمار مقابلے جیتے ۔ انعامی تمغوں اور امتیازی ٹرافیوں سے اس کے گھر کی سامنے والی دیوار بھر گئی۔ اب وہ قومی سطح پر ریکارڈ میکر ایتھلیٹ تھا۔ میں نے فریڈرک سے پوچھا: ’’تمہیں اپنے مطلوطہ مقصد کی تکمیل کے دوران ان سالوں کے اندر سب سے بڑی مشکل کیا پیش آئی تھی؟ فریڈرک نے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر فوراً یہ جواب دیا: ’’میں آپ کو اس سوال کا جواب صرف ایک لفظ میں دے سکتا ہوں۔ سب سے بڑا مسئلہ واور مشکل جس کا مجھے کل بھی سامنا تھا وار آج بھی وہ درپیش ہے وہ ہے ’’جمود‘‘۔ مجھے یہ معلوم تھا اور مجھے آج بھی یقین ہے کہ میر ا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑی مشکل جو ہماری ترقی اور کامیابی میں زبردست مزاحمت کا باعث بنتی ہے اور وہی آپ کا بڑا مسئلہ ہے یہی جمود ہے۔ چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں آپ کا تعلق کس قسم سے ہے؟ اب آپ لوگوں کی چار قسموں کو ملاحظہ کیجیے: ۱۔ نو ۔نوپرسنز (No.No Persons) ۲۔ یو۔ یو پرسنز (Yo.Yo Persons) ۳۔ بلو ۔ بلو پرسنز (Blow.Blow Persons) ۴۔ گو۔ گو پرسنز (Go.Go Persons) 1۔ نو ۔نوپرسنز یہ لوگ اکثر پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ لیکن کوئی ایک پروگرام بھی نہیں شروع کرتے۔ یہ لوگ اکثر تذبذب کاشکار رہتے ہیں اور محض سوچتے ہی رہتے ہیں کہ کون سا پروگرام پہلے شروع کیا جائے ۔ لیکن وہ کوئی پروگرام شروع نہیں کر پاتے ظاہر ہے کہ جب یہ لوگ کوئی کام کرنا شروع ہی نہیںکرتے تو کامیابی کیسی؟ لہٰذا یہ لوگ بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ 2۔ یو۔ یو پرسنز یہ لوگ بھی کئی منصوبے بناتے ہیں ان میں ترمیم اور اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ہر روز یہ عزم کرتے ہیں کہ کل صبح نئے ولولے سے کام شروع کر دیا جائے گا۔ لیکن ان کی کل کبھی نہیں آتی۔ لہٰذا یہ بھی گومگو اور تذبذب کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ ان کا ارادہ تو ہوتا ہے کہ کام شروع کیا جانا چاہیے۔ لیکن کئی مسائل اور مشکلات کی بنا پر پروگرام کو مستقبل پر ٹال دیتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ صرف خوابوں اور خیالوں کی حد تک ہی پروگرام بناتے ہیں اور خواہ مخواہ تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ 3۔ بلو۔بلو پرسنز یہ لوگ چھوٹی سوچ نہیں رکھتے بڑے بڑے پروگرام اور عظیم منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ان پروگراموں اور منصوبوں کے متعلق بڑی بڑی باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ لیکن جب کسی پروگرام کو شروع کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ابتدائی مشکلات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ اس پروگرام وک جس کاآغاز کیا تھا اور مشکلات درپیش آئی تھیں ترک کر دیتے ہیں اور اس کی جگہ اور کوئی پروگرام جو اس سے زیادہ بڑا عظیم اور یادگار ہو اس کا منصوبہ تیار کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ سارے پروگرام پانی کے بلبلے کی مانند محض خواب و خیال تک ہی محدود رہتے ہیں۔ 4۔ گو گو پرسنز ہاں لوگوں کی یہ قسم پریکٹیکل ہے۔ ان کی سوچ کا معیار بلند ہوتا ہے۔ ان کی باتیں بھی بلند پایہ اورپر ان کی کارکردگی بھی عظیم ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کارناموں کی بدولت بہت جلد شہرت حاصل کر لیتے ہیں اورعوامی اعلانات مزید ان کی نیک نامی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ یہ لوگ جب کسی مقصد کی تکمیل کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے مجوزہ وقت پر شروع کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں اور اپنے کام کے معیار کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخی کارنامے انجام دیتے ہیں پھر دنیا ان کی ہمت اور عظمت کے گن گاتی رہتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں جو قیمتی باتیں سیکھیں اور سبق حاصل کیے ہیں ان میں ایک موثر بات میں نے ایک جگہ بطور مہمان سیکھی ہے۔ ایک بار میں ڈبلیو کلیمنٹ سٹون کے ہاں مدعوتھا یہ بہت عظیم انسان تھا۔ سیلف میڈ‘ کروڑ پتی‘ معروف انسان دوست غریب نواز‘ کامیاب مصنف اورزبردست ممکناتی اورمثبت سوچ کا حامل ہے۔ عشائیے کے وقت کلیمنٹ سٹون ڈاکٹر کارل مینن گر اورمیں ہم تینوں عظیم تخلیقی تخیلات کے موضوع پر بحث کر رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’میرے خیال میں عظیم تخلیقی تخیل ایمان اعتماد اور یقین ہے‘‘۔ کلیمنٹ سٹون نے کہا: ’’میرا خیا ہے کہ ایمان اعتماد اور یقین سے بھی بڑھ کر ایک اور چیز بھی اہم ہے اور وہ یہ ایکشن یعنی کام کی عملی تکمیل کیونکہ اس ایک لفظ ہی میں: ٭ خواب خواہش اور امنگوں کی غمازی ہو جاتی ہے۔ ٭ قوت ارادی ‘ استقلال اور جرات کی عکاسی ہو جاتی ہے۔ ٭ متوقع کامیابی کے حصول کی ضمانت پائی جاتی ہے۔ کسی کام کو شروع نہ کر سکنے کے بہانے چھوڑ دیجیے کسی کام کو شروع کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے کا عمل آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بعض لوگ کام شروع نہ کرنے کے کئی جواز بہانوںاور عذر سے کام لیتے ہیں ۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی بھی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی۔ بس یہ آج کل کرنا وعدہ وعید کرنا اور حیلہ حوالہ سے کام لینا ایسے لوگوں کا معمول بن جاتا ہے۔ خواہ مخواہ سستی ڈھیل اور تاخیر کے باعث کئی قیمتی مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اورکئی امور کے امکانات اور ممکنات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ساری کیفیات عدم ایمان اور بے یقینی کی علامت ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ میں ہمت و جرات اور ایمان و یقین نہیں ہے کہ آپ اب آگے بڑھیں اور کچھ کر دکھائیں دتو پھر آپ یہ شکوہ نہ کیجیے کہ دیکھو ؤجی ایک اعلیٰ یقین اور ایمان والا شخص میدان میں آ گیا ہے۔ اور اسنے آپ ہی کے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنا کر کامیابی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے آپ محض یہ افسوس اور گلہ کرتے رہ جائیں گے: ’’یہ آئیڈیا تو میرا تھا میں نے سوچا تھا کہ میں اسے ضرور کروں گا۔ ہائے میں کیوں اسے جلد نہیں کر پایا؟‘‘ ’اگر آج کا دن سستی کاہلی اور حیل و حجت سے گزار دیا جائے تو کل کا دن اس سے بھی زیادہ سستی اور کاہلی سے گزر جائے گا اور اگلا دن بہت زیادہ سستی کی نذر ہو جائے گا‘‘۔ فیصلہ نہ کر سکنے اور تذبذب کے باعث دن پر دن ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں اور بعد میں ۃر دن کے یونہی بے کار گزر جانے کا افسوس اورماتم باقی رہ جاتاہے۔ ’’ایکشن‘‘ میں ایک زبردست قوت فیصلہ ہوتی ہے ۔ اس میں جرات پائی جاتی ہے۔ اس میں کر گزرنے کا جنون ہوتا ہے۔ ا س میں سراسر ایک جادو ہوتاہے۔ اس لیے آپ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کرنا شروع کر دیجیے۔ جب ایک دفعہ کسی کام کو شروع کر دیا جاتا ہے تو ذہن میں مزید حرکت حرارت اور توانائی چلی آتی ہے۔ آپ بس کام شروع کر دیں اور کام خود بخود پایہ تکمیل تک ضرورپہنچ جائے گا۔ یہ تجزیہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو آپ کو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے رکھتے ہیں۔ یہ چار عوامل ہیں جن کے باعث آگے بڑھنے میں ہمیشہ مزاحمت کا سامنا رہتا ہے: ۱۔ احساسات کمتری کی گرفت (Hang-ups) ۲۔ ماضی کی تلخیوں کی بازگشت (Bang-ups) ۳۔ مسابقت کے خوف کا حصار (Gang-ups) ۴۔ معمولی کارکردگی کو کافی سمجھنے کا زعم (Rang-ups) اب میں ان عوامل کی باری باری تفصیل بیان کی جاتی ہے: 1۔ احساسات کمتری کی گرفت ہم بعض اوقات اپنے حالات اور کیفیات کے منفی پہلوئوں کو ڈھونڈ کر اسے عذر جواز بہانہ یا وجہ قرار دے کر اپنے مجوزہ یا مطلوبہ کاموں کو انجام دینا ملتوی کر دیتے ہیں مثلاً i۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں کیا 77سال کی عمر جیسے بڑھاپے میں نئی زندگی کا آغاز کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر تو آپ منفی سوچ کے مالک ہیں تو بڑھاپا آپ کے لیے ایک خاص بہانہ اور جواز ہے اوآپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تو میری ٹانگیں قبر میں ہیں میں کس طرح نئی زندگی کی شروعات کے لیے سعی و کوشش کروں۔ اور اگر آپ مثبت فکر ور ممکناتی سوچ کے مالک ہیں تو آ پ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی صحت اچھی ہے میرا جسم سمارٹ اور چست ہے اور مجھے امید ہے کہ میں مزید پندرہ یا بیس سال جیوں گا۔ مجھے ابھ تک اپنی زندگی کو مزید خوشگوار اورکامیاب بنانے کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ 1972ء میں لیڈی شلز نے ایسٹ برلن جانے سے دس سال پہلے اپنی 87ویں سالگرہ منائی اس نے 77 سال کی عمر میں اپنی زندگی کو از سر نو شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب لیڈی شلزے سیاس کی گزشتہ زندگی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوںنے کہا: ’’میں جب اس ہولناک حادثے کے بارے میں جس کی خبر پوری دنیا کے ممتاز اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی تھی سوچ کر میرے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس واقعہ کی نوعیت ہی ایسی دردناک ہے لیکن میں ان کی سیاست کی حمایت ہرگز نہیں کر سکتی تھی‘‘۔ لیڈی شلزے نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے اپنے ہاتھ کی ٹیڑھی انگلی ہلائی۔ اصل واقعہ یوں ہے کہ ایسٹ جرمن کمیونسٹوں نے 13 اگست 1961ء کو برلن کے پار ایک دیوار تعمیرکر دی۔ لیڈی شلزے اس دیوار کے پاس تعمیر شدہ اپارٹمنٹ کے گرائونڈ فلورمیں مقیم تھی۔ اس کے ساتھ والی سائیڈ روڈ تو ویسٹ برلن کی حدود میں تھی۔ جبکہ لیڈی شلزے کی رہائش گاہ ایسٹ برلن کی حد میں آتی تھی۔ جونہی ایسٹ جرمن پولیس نے کانٹے دار لگی ہوئی تاروں کو کھولا تو برنائرسٹر اسے (Bernauerstrasse)کی مشرقی جانب کے سینکڑوں لوگوں نے اپنا سامان جو بھی ہاتھ آیا لیے کر کھڑکیوں میں سے کو دکر بھاگ گئے۔ ظلم و بربریت کے باعث اس اگلی کو دنیا کی سب سے غمگین گلی کہا جاتا ہے۔ ایسٹ جرمن کے لوگوںنے پھر گرائونڈ فلور کی ان کھڑکیوں کو اینٹوں سے بند کر دیا اور باقی باشندے ان عالی درجہ کے اپارٹمنٹس میں شفٹ ہو گئے جو بھاگنے والے لوگوں کے باعث خالی ہو گئے تھے۔ لیڈی شلزے نے اپنی آپ بیتی جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ہم بھی پھر وہاں سے چلے آئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے نئی جگہ لی اوروہاں بیٹھی تو یوں معلوم ہو ا گویا میں فالج زدہ ہوں۔ اس اپارٹمنٹ میں کوئی لائٹ نہیں تھی۔ لائٹ کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ باہر بہت ہی سرچ لائٹس نصب تھیں اور ان کی روشنی تیز اور خوفناک تھی۔ میں تو کمرے کے عین درمیان میں بیٹھ گئی۔‘‘ فرائیڈ شلزے آگے فیان کرتی ہیں کہ گھبراہٹ خوف اور بے چینی کا عالم تھا ان کا جسم تھکاوٹ اور اعصابی تنائو کے باعث چور چورتھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ان کی آنکھ لگ گئی گولیاں چلنے کے شور سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ یہ گولیاں جان بچا کر بھاگ جانے والے پناہ گزینوں پر چلائی جا رہی تھیںَ فائر انجنوں اور ایمبولینس گاڑیوں کے ہارن اور سائرن بجنے کی جا بجا آوازیں آ رہی تھیں۔ اس منحوس دیوار کے پار ویسٹ برلن والوں کی بھی مسلسل آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بلند کی جا رہی تھیں۔ شلزے نے مزید بتایا: ’’گولیوں کے لگاتار شور کی وجہ سے مجھے اوربھی خوف ف محسوس ہونے لگا۔ میرا جسم بہت بوجھل ہو رہا تھا۔ کھڑے ہونا بھی بے حد مشکل تھا۔ تاہم 23ستمبر کو میں نے وہاں سے بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا میں نے بازوئوں والی ایک بڑی کرسک سے ایک رسہ باندھا اوریہ پلان بنایا کہ اس کے سہارے نیچے اتر جائوں گی میں رات بھر جاگتی رہی اور اس سکیم کے بارے میں سوچتی رہی اورپھر اگلی صبح کو میں یہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے ذہنی طورپر تیار تھی۔ میں بس اب کودنے ہی والی تھی کہ مجھے سفید بالوں والی ایک خاتون یاد آ گئی جو ہجرت کرنے والی تھی اور اس نے کہا تھا:’’میں باتھ روم گئی نہائی دھوئی اپنے جسم کو پاک صاف کیا اورنتب میں نے اپنا گھر چھوڑا‘‘۔ پھر آگے کیا ہوا باقی کہانی ایک مہماتی تاریخ ہے جسے فلما لیا گیا اور پوری دنای میں اس کے چرچے ہوئے۔ فرائیڈا شلزے کھڑکی کی دہلیز سے چھلانگ لگانے لگی تھی اس پورے منظر کو برلن پولیس آفیسر نے دیکھا ۔ فائر بریگیڈ بلا لیا گا۔ اس خاتون کے پندرہ فٹ نیچے ایک جال پھیلا کر تن دیاگیا۔ شلزے نے اپنے بازوئوں میں اپنی بلی قابو کر رکھی تھی۔ شلزے نے خود اس کیفیت کو بیان کیا: ’’نیچے درجنوں لوگوںنے مجھے دیکھا اور بلند آواز میںچیخ چیخ کر کہنے لگے۔ بڑی ماں لگا دو چھلانگ۔ میرا انداز ہ ہے کہ اس شور سے کمیونسٹ پیپلز پولیس الرٹ ہو گئ۔ کئی سپاہی دوڑ کر اوپر چڑھ آئے اور انہوںنے دروازوں کو توڑ دیا اور میرے کمرے میں گھس آئے اور میرا رسہ واپس اوپر کھینچنے لگے تاکہ میں چھلانگ نہ لگا سکوں‘‘۔ ویسٹ برلن کے لوگ نیچے سائڈ روڈ پر کھڑے اس خاتون کی قابل رحم حالت اور نازک کیفیت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ ایک نوجوان گرائونڈ فلور کی کھڑکی کی دہلیز پر چڑھ گیا پولیس کے دیگر سپاہیوں کی مدد سے اس نوجوان کو مزید اونچا کیاگیا اور اس نے شلزے کی ٹانگ پکڑ لی۔ اور نیچے کھینچنے کی کوشش کرنے لگا۔ جبکہ ایک کمیونسٹ پولیس آفیسر نے کھڑکی میں سے میرابازو پکڑ کر اوپر کھینچنے لگا۔ خاتون کے دوسرے بازو میں بلی تھی جو بدستور اس کے قابو میں تھی۔ میں نے بلی کو جال پر پھینک دیا اور خود بھی کود پڑی۔ نیچے لوگوں نے خوشی سے شور مچایا اور شلزے کی چھلانگ اور فرار کو بہت سراہا اس کی ہمت کی زبردست داد دی گئی۔ وہ خوش قسمت تھی کہ صحیح سلامت رہی۔ البتہ کمر پر ذرا سی چوٹ آئی تھی یہ تھی بہادری جرات اور کچھ کر گزرنے کی تاریخی کہانی! حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو جینے کی آرزو ہے ان کے دلوں میں رمق اور رونق ہے۔ وہ بوڑھے ہو جانے کے باوجود مزید پچیس ال زندہ رہنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یعنی سوسا ل کی عمر پانے کے متمنی ہیںَ جدید سائنس دان انسانی زندگی کی اوسط عمر میں اضافے کے کئی طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔ آپ بھی سو سال عمر پانے کی توقع رکھیں ابھی تو آپ ماشاء اللہ جوان خوبصورت سمارٹ ہیں اس لیے ی مت سوچیے کہ از سر نو بہتر طریق سے زندگی شروعات کرنے کے لیے وقت گزر گیا ہے۔ آئیے اب ہم ایک بہانے اور عذر کا ذکر کرتے ہیں۔ ii۔ میں نسلی قومی اور مذہبی تعصب کا شکار ہوں یہ درست ہے کہ پوری دنیا میں اور بہت سے ملکوں کے باشندوں کو نسلی قومی لسانی طبقاتی اور مذہبی تعصب اور منافرت کا شدید سامناہے اور ان سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور ن پر کئی اچھے مواقع کے دروازے اگر بند نہیں تو تنگ ضرور کر دیے گئے ہیں۔ لیکن آپ یہ شکر کریں کہ آپ انسان ہیں آپ کے اندر خدا تعالیٰ نے زبردست صلاحیتیں قابلیتیں استعدادیں اور خوبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔ جب آپ اپنی خداداد صلاحیتوں سے بھرپور کام لے کر مسابقت اورامتیازی کامیابی حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں تو تعصب کے تمام حصار کمزور پڑ جاتے ہیں پابندیاں رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہیں۔ عوام کی اکثریت آپ کی حمایت اوروکالت کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ آپ تعصب سے آلودہ لوگوں کی کم ظرفی اور تنگ نظری سے خوفزدہ ہو کر جمود واور تنزل کا شکار نہ ہوں۔ آپ مختلف پابندیوں مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو اپنے لیے چیلنج سمجھیں۔ جب لوگ آ پ کے قابل ذکر کارناموں اور کامیابیوں کو دیکھیں گے تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ اب مخالفت کی بجائے اعانت کر رہے ہیں۔ لیکن عزم کا یہ جادو آپ کے ہاتھ میں ہے اس ہاتھ کو ہلانے سے کا م بنے گا۔ iii۔ میری تو تعلیم تجربہ اورمہارت ہی ناکامی ہے مطلوبہ اور مجوزہ مقاصد کے لیے کسی کام کے آغاز نہ کرنے کا یہ بہانہ اور عذر بھی بہت عام ہے کہ اس عذر کو دور کرنے کے لیے کئی اور متبادل طریقوں کے علاوہ تین طریقے زیادہ آسان اور یقینی ہیں۔ ۱۔ آپ اپنے شعبہ یا مجوزہ کام کے متعلق تعلیم یافتہ تجربہ کار ماہرین سے مشاورت حاصل کر سکتے ہیں۔ ۲۔ آپ ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم ایجوکیشن اور ٹریننگ کے ذریعے اپنی تعلیم تجربہ اورمہارت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ۳۔ آپ اپنی فرم تنظیم اور ادارے میں مطلوبہ تعلیم تجربہ اورمہارت کے حامل لوگوں کو ملازم رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال آپ کی کم تعلیم اور ناکافی تجربہ قطعی طو ر پر ایسی ٹھوس وجہ اور معقول بہانہ نہیں ہے کہ آپ یکدم جمود کا شکار ہو جائیں اورکوئی کام بھی شروع نہ کر سکیں۔ iv۔ میر پاس اس کام کی تکمیل کے لیے روپیہ نہیں ہے اگر آپ کو یقین ہے کہ مجوزہ مقصد آپ کی زندگی اور ترقی کے لیے ضروری ہے توپھر چاہے کہ آپ: i۔ مطلوبہ رقم کے حصول کے لیے روپیہ کمائیں۔ ii۔ آپ بتدریج بچت کے لیے مطلوبہ رقم جمع کریں۔ iii۔ آپ مطلوبہ کسی ادارے سے قرض کے طور پر رقم حاصل کر لیں۔ آ پ کو یہ خوب معلوم ہے کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ اگر آپ کسی کام کی تکمیل کاتہیہ کر لیں گے تو اس کے لیے مطلوبہ رقم کے انتظام کی کوئی نہ کوئی صورت آپ ہی نکال لیںگے۔ اس لیے روپیہ کی کمی کے باعث کسی اہم کام کو ٹال دینا کسی طرح بھی معقول بات نہیں ہے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ آپ بچت والی حکمت عملی سے کام لیں۔ خواہ بچت کم ہی ہو لیکن باقاعدہ اور ضرور ہو۔ زائد آمدنی کمانے کے لیے مزید محنت سے کام لیں۔ وقت کی ہر فالتو گھڑی کو بھی استعمال میں لائیں۔ انجیل مقدس میں ہے: تمہارے پاس اس لیے کچھ نہیں کیونکہ تم مانگتے ہی نہیں ہو۔ اس آیت میں ایک زبردست فلسفہ ہے اور وہ نہایت ہی قیمتی اور خوبصورت بات ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ خدا کے حضور دعا کرتے ہیں تو دعا کے لیے توجہ اور حضور ی کے گہرے استغراق میں جہا ں آپ خدا سے مطلوبہ چیز مانگتے ہیں تو ساتھ ہی آپ سوچ بچار اور فکر و کھوج کے ساتھ کئی تدابیر کو بھی اپنے ذہن میں لا رہے ہوتے ہیں پھر دعا قبولیت کے ساتھ آپ کو مطلوبہ چیز کے حصول کے لیے کئی رستے اور وسیلے اور سجھا دیتی ہے اور پھر آپ تدبیر عمل کر کے مطلوبہ چیز کو یقینی طور پر پالیتے ہیں۔ کسی بڑ ے مقصد کے حصول کے لیے آپ مطلوبہ رقم کے لیے اپنے کسی دوست سے ادھا ر لے سکتے ہیں۔ اپنے گھر کی زائد اشیافروخت کر سکتے ہیں آپ اپنی قیمتی اشیا کو گروی رہن رکھ کر رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ بہرحال آپ کسی نہ کسی صورت سے اس بہانے اور عذر کو ختم کریں اور کام شروع کر دیں۔ 2۔ ماضی کی تلخیوں کی بازگشت کیا ااپ کے لیے کسی کام کو شروع کرنے سے گھبرا رہے ہیں کہ ماضی کے تلخ تجربات کی چوٹ بازگشت اثرات اور یادوں نے آ پ کا حوصلہ پست کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضٰ کی شکست المیے اور ناخوشوار تجربات کے باعچ انسان بہت محطاط اور محدود ہو جاتا ہے۔ اور مندرجہ ذیل قسم کے عہد کرنے لگتا ہے۔ ۱ اب میں کبھی دوبارہ شادی نہیںکروںگا۔ ۲۔ اب میں کسی پر دوبارہ اعتماد نہیںکروں گا۔ ۳۔ میں اب خدا پر بھروسہ نہیںکروںگا۔ ۴۔ میں اب دوبارہ کاروبار نہیں کروں گا۔ ۵۔ میں نے بہت مصیبتیں جھیل لیں ہیں اب مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ اگر آپ اس طرح مایوسانہ سوچ میںمبتلا ہو کر ماضی کی ناخوشگوار واردات کو اپنے اوپر غالب رکھیں گے تو آپ قلبی اور ذہنی طور پر بیمار اور کمزور ہو جائیں گے اورآپ کی ترقی نہ صرف رک جائے گی بلکہ آپ پیچھے رہ جائیں گے۔ ماضی سے آپ اچھے سبق اور تجربات کشید کریں اور باقی یادوں کو خراب کثافت اور گند سمجھ کر پھینک دیں۔ اپنے ذہن میں صرف خوشگوار یادوں کی البم ضرور سجائیں۔ یہ ضروری ہے کہ لیکن ماضی کی تلخیوں ناکامیوں اورمشکلات کو اپنے موجودہ حالات قلب و ذہن میں مجوزہ پروگراموں پر حاوی اور حائل کرنا قطعاً بری اور نامعقول بات ہے۔ میرے ایک دوست ڈان ہربرٹ جس نے انسانی قلب کے امراض و علاج میں قابل قدر خدمات دی ہیں کے والد کی وفا ت ہو گئی تو میں تعزیت کے لیے ان کے پاس گیا میں نے اظہار ہمدردی کے لیے چند الفاظ بیان کیے تو کہنے لگے: ’’اچھا آپ کا شکریہ لیکن اب ہمیں ماضی کو بھول کر آگے جانا چاہیے۔ آج کی کوشش سے مستقبل کو بہتر بنانا چاہیے۔ ہمارے لیے یہ بات قطعا سودمند نہیں ہے کہ اپنے پیچھے کی دیوار پر نصب شدہ آئینے میں مڑ مڑ کر دیکھنے میں آج کا قیمتی وقت ضائع کر دیں۔ ‘‘ ایک ممتاز تاریخ دان مس کارلائل نے انقلاب فرانس کے بارے میں نہایت محنت سے ہزار صفحات پر مبنی تاریخی حقائق پر ایک جامع کتاب تیار کر لی۔ اس نے اپنی کتاب کا مسودہ نظر ثانی اور بہتر رائے کے لیے اپنے ہمسایہ جان سٹوارٹ مل کو دے دیا۔ کئی دن گزر جانے کے بعد سٹوراٹ مل جن کارنگ زرد اور حواس باختہ تھے تھامس کارلائل کے گھر آئے ار نہایت دیکھ اورندامت کے ساحساس کے ساتھ یہ خبر دی کہ میرے گھر کی ملازمہ نے اس کتاب کے مسودے کے تمام کاغذات آگ جلانے کے لیے استعمال کر لیے ہیں۔ تھامس کارلائل کو اس بات کا بے حد دکھ ہوا اور کئی دنوں تک اضطراب اور اضطرار میں مبتلا رہا۔ اس کی دو سالوں کی مسلسل کاوش پر مشتمل تاریخی کام یکسر ضائع ہو گیا تھا طویل عرصے تک اس کتاب کو دوبارہ مرتب کرنے کے لیے اس کا قلب و ذہن مطلوبہ توجہ مرتکز نہ کر سکا۔ وہ بہت یہ مایوس اورشکستہ دل تھا۔ اسے اس کام کو دوبارہ کرنے کا حوصلہ نہی تھا۔ ایک دن کارلائل نے ایک عمارت کو تعمیر ہوتے دیکھا۔ ا س نے بغور مشاہدہ کیا کہ ایک معمار بلند دیوار بنا رہاتھا۔ وہ ایک ایک اینٹ رکھتا جا رہا تھا معمار ای اینٹ پکڑتا تھا اس کو نہایت مہارت سے سدھا کرتا اور مطلوبہ سیدھ اور ترتیب پر رکھ کر ٹھونک دیتا تھا اور اس طرح ایک وقت میں ایک اینٹ رکھ رکھ کر اس نے لمبی اور چوڑی دیوار تعمیر کر لی تھی۔ کارلائل اس مشاہد ہ سے بے حد متاثر ہوا ۔ اس نے تاریخی کتاب دوبارہ لکنے کا عز م کر لیا اس نے یہ پروگرام بنایا کہ وہ وقت نکال کر ایک وقت میں ایک صفحہ لکھتا جائے گا اور اس طرح باقاعدگی سے اس کام کو دوبارہ کرے گا چنانچہ اس نے ایسے ہی کیا۔ جب کتاب مکمل ہو گئی تو وہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوا کہ یہ پہلے مسودہ کی نسبت کئی لحاظ سے بہتر اور جامع ہے۔ 3 ۔ مسابقت کے خوف کا حصار آپ جو اپنے مجوزہ اور مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے کام شروع نہیں کر پا رہے ہیں کہیں اس کی یہ وجہ تو نہیںکہ آپ کو دوسروں کے ساتھ مقابلے کا خوف ہے؟ آپ کو یہ خوف اور اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کی کامیابی دوسرے لوگوں کی نسبت کم درجہ کی ہوگی اس لیے کہ ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہیں۔ ہر شعبہ اور ہر کاروبار میں ہر فرد کی کامیابی کے لیے الگ الگ عناصر اورعوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ایک چینی تاجر نے ایک شہر کے مرکزی محلہ کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا سٹور قائم کر لیا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ اس سٹور کے دائیں جانب ایک شاندار بلڈنگ تعمیر ہو رہی ہے۔ او ر چند روز کے بعد بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور بن رہا ہے۔ پھر دوسرے ماہ اس نے دیکھا کہ اس کے سٹور کے بائیں جانب بھی اسی طرح ایک شاندار بلڈنگ تعمیر ہو رہی ہے اورکچھ دنوں کے بعد وہاں بھی ایک بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور بن رہا ہے۔ یہ بے چارہ چینی تاجر بہت پریشان ہوا کہ اس کے دائیں اور بائی زیادہ وسیع اور عریض عالی شان سٹور کھل گئے ہیں اس کا تو کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ دونوں ڈیپارٹمنٹل سٹورز متوازی طورپر تیار ہو رہے تھے۔ ان کی آرائش کاکام ایکدوسرے سے بڑھ کر کیا جا رہا تھا۔ ایک دن جب دونوں یہ بڑے سٹور تیار ہو گئے تو انہوںنے اپنے سٹور کے اوپر پرکشش بینر لگا لیے: گرینڈ اوپننگ سیل ان دونوں کے درمیان چھوٹے سے سٹور کا مالک یہ چینی تاجر بالکل نہیں گھبرایا اس نے کیا کیا؟ اسنے یہ کیا کہ زیادہ بڑے او ر خوبصورت بینر پر Main Entrance(ان ڈیپارٹمنٹ سٹور ز میں داخل ہونے کا بڑا راستہ) لکھ کر اپنے سٹور کے ماتھے پر لگا لیا۔ اس سٹور کی سیل پہلے سے بہت بڑھ گئی۔ اصل بات اپنی ذات پر اعتماد اور عزم کی مضبوطی ہے۔ آپ اپنے مدمقابل لوگوں سے قطعاً خوف نہ کھائیے۔ آپ اپنی انفرادی اور تخلیقی سوچ اور محنت سے کام کا آج ہی آغاز کر دیجیے۔ آپ یہ یقین رکھیے کہ حالات دن بدن ایسا رخ اختیار کرتے جائیں گے جو آپ کے لیے سازگار ہوں گے۔ 4۔ اپنی معمولی کارکردگی کو کافی سمجھنا بعض لوگ کچھ کام کر کے عمداً رک جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کر لیا ہے۔ اوریہی خوش فہمی اور جھوٹا زعم انہیں مزید ترقی کرنے اور اعلیٰ مقصد حصول کے لیے قابل ذکر کام کی شروعات سے رو ک دیتا ہے۔ کیا آپ کو ماضی کی کامیابیاں کارکردگی اور کچھ کام کر لینے کا اطمینان آپ کو مزید کچھ کر گزرنے سے روک رہا ہے؟ کیا آپ کو اپنے دفتر یا گھر کے ڈرائنگ روم کے ڈیکو شیلف میں سجی ہوئی انعامی ٹرافیاں شیلڈیں اور تمغے آپ کو زعم فخر اور افضلیت کا احساس دلارہی ہیں۔ اور اس احساس نے آ پ کو آگے قدم بڑھانے سے روک دیا ہے؟ کیا آپ اپنی فتوحات کا سہرا سجائے اب ریٹائر ہو کر باقی زندگی ک دن بے کار رہ کر گزر دیں گے؟ آپ کس طرح اپنے آ پ کو اس بات پر آمادہ کریں گے کہ ابھی تو آپ نے اپنی کامیابیوں کی ابتدا کی ہے۔ ابھی تک آپ کے اندر ایسی صلاحیتیں استعدادیں اور قابلیتیں موجود ہیں کہ جو تاحال خوابیدہ ہیں۔ وہ نہ تو ابھی اجاگر ہوئی ہیں اورنہ ہی ابھی ان میں سے قابل ذکر اور قابل قدر کوئی کام لیا گیا ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں جو تحقیقاتی کام کیا گیا ہے اس کی مختصر رپورٹ یہ ہے: ۱۔ جو لوگ ریٹائر ہو کر گھر میں بے کار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ان کی قدر و منزلت ان کے اپنے خاندان حلقہ رفاقت ار اہل محلہ سے بتدریج کم ہوجاتی ہے۔ ۲۔ جو لو گ سرکاری محکمہ جا ت سے ریٹائر ہو جاتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کی پرائیویٹ کمپہناں ان کو ا لیے بہتر تنخواہ پر ملازمت دے دیتی ہیں کہ انہوںنے پیشہ وارانہ اعلیٰ تعلیم کے علاوہ معیاری مہارت اور طویل عملی تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے اور ان لوگوں کو ان ممتاز کمپنیوں میں مسابقت کے چیلنج کے ساتھ کام کرنے کا زیادہ لطف آتا ہے۔ ۳۔ ہر مذہب نے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر انسان سے خدا یہ سوال کرے گا کہ اسے جو عمر دی گئی تھی اس عمر کے ایک ایک دن کو کس اندا ز سے بسر کیا اور جو صلاحیتیں دی گئی تھیں کیا ان کا بھرپور استعمال کیا گیا؟ ۴۔ ماہرین بشریات اور جدید فلسفہ و مذہب نے کہا ہے کہ ہر انسان کو الگ الگ مقصد کے لیے پیدا کیا گیاہے۔ انسان اپنی عمر کا آدھا حصہ تو اس جستجو میں گزاردیتا ہے کہ آخر اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اول تو نوے فیصد لوگوں کو یہ اداراک بھی حاصل نہیں کہ ان کی پیدائش اوروجود کا ایک خاص اور ٹھوس مقصد ہے اور پھر جن دس فیصد لوگوں کو آدھی عمر گزار لینے کے بعد اس مقصد کا اگر ادراک ہو جاتا ہے تو وہ نہایت سستی کاہلی اور غفلت سے عمر کا یہ حصہ بھی رائگاں گزا ر دیتے ہیں۔ کوشش اور دعا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آ پ کو متحرک اور فعال کردے۔ آپ انجیل مقدس کی اس آیت کو ضرور اپنے مدنظر رکھیں:: ’’اے میرے بھائیو( میں جو ماضی میں ریاضت اور سعی کرتا تھا) ا س کے باعث یہ گمان نہیںہوا (کہ میں مقامکمال تک پہنچ چکا ہوں) بلکہ جو کوتاہیاں اور خطائیں پیچھے رہ گئیں ان کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھتے ہوئے دوڑا چلا جاتا ہوں۔ تاکہ میں اس ارفع اور عالی مقام کو حاصل کر سکوں جس کے لیے خدا نے مجھے رفعت عطا کی ہے۔ (آیت ۱۳‘۱۴ باب ۳ فلپیوں کے نام پولس رسو ل کا خط) یہ قول یاد رکھنے کے لائق ہے: Ease will always lead to disease جب آپ اپنے دماغ اور جسم سے کام لینا چھوڑ دیں گے تو یہ روش کئی بیماریوں کو دعوت دے گی۔ اگر آپ ورزش کرنا دوڑنا بھاگنا ترک کر دیں گے تو آپ کے اعصاب سے ہمت اور قوت سر پڑ جائے گی۔ ذہن اور جسم کے بارے میں نئی تحقیق میں یہ بات زبردست دھمکی اور تاکید ہے۔ Either Use - or lose your inner powers آپ اپنی باطنی قوتوں صلاحیتوں اور توانائیوں سے خوب کام لیں گے۔ اور انہیں گرم رکھیں گے و آپ کی زندگی میں ترقی اور کامیابی کی حرارت برقرار دہے گی۔ اگر آپ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے کام نہیں لیںگے تو یہ بتدریج ختم ہوجائیں گی۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر کی بلند آواز تاحال مجھے بازگشت کی صورت میں اکثر سنائی دیتی ہے۔ جو انہوںنے اپنے ڈسپنسر کو کہی تھی کہ جو ایمرجنسی وارڈ میںایک مریض پر جھکا ہوا اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ اسے جلد ہوش میں لائو ورنہ یہ مر جائے گا۔ ایک اور قول مجھے بہت متحرک رکھتا ہے: Avoid the kill that comes from th standstill آپ اس موت سے بچنے کی بروقت کوشش کرتے رہیں جو جمود کے ہاتھوں یعنی رک جانے اور آگے نہ بڑھنے کے باعث انسان پر وارد ہوتی ہے۔ آ پ یوں سمجھیے کہ آپ زندگی کے ایک ایسے سائیکل پر سوار ہیں جس کی بریکیں نہیںہیں۔ آپ کو زندہ رہنے کے لیے مسلسل پیڈل گھمانا پڑتاہے اور سائیکل چلاتے رہنا چاہیے۔ اگر آ رک گئے تو آپ تھک جائیں گے۔ میرا ایک دوست جو ایک حادثے میں شدید زخمی ہو گیا تھا وہ اپنی تکیلف دہ کیفیت کے ہاتھوں بے حد مایوس اور شکستہ دل ہو گیاتھا۔ اس نے بعدمیں اپنے حالات بیان کرتے ہوئے کہا: ’’جب میرا علاج جاری تھا تو سخت تکلیف اور بعد میں مجھے اورزیادہ ذہنی کوفت محسوس ہوئی جب مجھے بیساکھیوں کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جاتی۔ ایک دن میں نے روہانسے لہجے میں اپنے ڈاکٹر اور فزیکل تھراپسٹ کو کہہ دیا کہ بس اب مجھ میں مزید ہمت نہیں ہے کہ چلنے کی مشق کر سکوں اس پر فزیکل تھراپسٹ نے کہا: تم نے جو اتنے عرصے میں ضس قدر جسمانی بحالی میںپیش رفت کی ہے اگر تم مزید ہمت سے کام نہیں لو گے تو ساری محنت ہمت برداشت ضائع چلی جائے گی اور بحالی کا عمل پیچھے چلا جائے گا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عالمگیر قانون حیات ہے: جو ڈر گیا اور گر گیا وہ مر گیا۔ مشکلات کا سامنا کیے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے اپنے آ پ کومتحرک کرنے اپنے قلب و ذہن کو گرمانے اور واقعی کچھ کر دکھانے کے لیے کسی کام کا آغا ز کر دینے کے لیے مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل دس ترغیبی اقدام پر عمل کیجیے: ۱۔ کام شروع کرنے میں پہل آپ کیجیے ۲۔ اپنے کام کی اہمیت میں ہنگامی ضرورت کا تاثر اجاگر کیجیے۔ ۳۔ ابھی اور اسی وقت کام کی تکمیل کا شیڈول بنائیے۔ ۴۔ اپنی بنیاد کی تعمیر ابھی سے شروع کیجیے۔ ۵ کام کرنے کے لیے اپنے آ پ کوگرمائیے۔ ۶۔ اپنی اعانت کے لیے دوسروں کو بلائیے۔ ۷۔ اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لائیے۔ ۸۔ کام کی تکمیل میں حائل مسائل کا حل فوری طور پر سوچیے۔ ۹۔ اپنے تعمیری شوق ذوق جذبے اور ولولے سے جلد کام لیجیے۔ ۱۰۔ اپنے کاموں کی تکمیل کے ذریعے اپنی زندگی کی یادگار بنائیے۔ اب میں ان ترغیبی کام کی جو آپ کو یقینا کام شروع کردینے کے لیے متحرک کر دیں گے باری باری تفصیل بیان کرتا ہوں۔ 1۔ کام شروع کرنے میں پہل آپ کیجیے جب کوئی شخص دنیا میں پہلی بار کوئی چیز متعارف کراتا ہے تو وہ اس کا موجد اور بانی کہلاتا ہے۔ اور تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ آپ بھی اپنے تخلیقی آئیڈیا پر عملی کام کا آغاز پہلے کر کے ا س کا آغاز حاصل کریں۔ ورنہ آپ کو غفلت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آپ اپنے مجوزہ مقصد اور کام کی اہیت قدر و قیمت افادیت اورفوائدکو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ذہن کو اس کام کی تکمیل کے لیے تیار کریں۔ اس ضمن میں ایک مثال ملاحظہ کیجیے: چوراسی سال کی ایک بوڑھی عورت کو ہم سب دادی فن لے کہتے تھے۔ میں پہلی بار اسے ایک امن پسند بحری سفر کے دوران ملا تھا۔ اس بزرگ خاتون میں اس قدر کشش تھی کہ ایک اخباری نمائندہ اس کا انٹرویو لیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے پوچھا : ’’مسز فن لے کیا یہ آپ کی زندگی کا آخری سمندری سفر ہے؟‘‘ وہ غصے میں آ کر اس نمائندے پر بر س پری اور کہا: ’’اوہ خدایا تم کیا کہہ رہے ہو میں تو ایک عالمگیر کلب کی ممبر ہوں جس کا اصول اورنعرہ CMTہے یعنی کوئی کام کبھی بھی نہ چھوڑا Cant Miss a Thing‘‘ پھر دادی فن لے نے نارم ہو کر ہنستے ہوئے کہا: بہرحال میرے اس لباس میں جسے تم کفن کہ سکتے ہو کوئی رقم باقی نہیں بچی ہے۔ جب یہ سفر ختم ہو گا تو میں اپنی ملکیت کیکوئی اور چیز فروخت کردوں گی۔ کچھ پیسے ہاتھ آ جائیں تو میں ایک ٹکٹ خرید لوں گی۔‘‘ چوبیس سالہ اخباری نمائندے نے جھٹ ایک اور سوال پوچھ لیا: دادی اماں! آپ کو اس بڑھاپے کی عمر میں سفر کرنے میں دشواری پیش نہیں آتی؟ دادی فن لے مسکرائی اورکہنے لگی: ہاں ظاہرہے بری عمر کے یے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں تھوڑی بہت مشکل ضرور پیش آتی ہے۔ لیکن چھوٹے بچوں کو بھی و سفر میں کچھ دشواری محسوس ہوتی ہے ایسے ہی میری حالت ہے سنا ہو گا بوڑھا اور بچہ ایک برابر یعنی دونو ں کی کیفیات ملتی جلتیہوتی ہیں۔ لیکن بیٹے سچ یہ ہے کہ مجھے کوئی پریشانی نہیںہوتی۔میرے ہمسفر لوگ ہی اس قدر ہمدرد اور مددگار ہوتے ہیں وہ مجھے سہارا دے دیتے ہیں۔ حال ہی کی بات ہے جب میں لیپ لینڈ کے ساحل پر تھی تو میں نے وہاں سے ذاتی کولیکشن کے لیے ایک گڑیا خریدی۔ پھر مجھے کسی نے بتایا کہ روس کی سرحد بالکل قریب ہے تو مجھے شوق ہوا کہ میں روس کا ملک بھی دیکھوں گی اور میں روس کو روانہ ہو گئی لیکن واپسی پر یہ مشکل پیش آئی کہ جب میں ساحل پر پہنچی ہی تھی تو جہاز سفر روانہ ہو گیا۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس جہاز پر بھاگ کر سوا ر ہو جائوں یا رک جائوں کہ ہٹے کٹے مضبوط جسم والے دو مچھیروں نے منجھے اٹھا کر بحری جہاز یک ایک دروازے میںگھسیڑ دیا۔ اس طرح میں سفری مہمات میں مصروف رہتی ہوں‘‘۔ 2۔ اپنے کام کی اہمیت میں ہنگامی ضڑورت کا تاثر اجاگر کیجیے آپ اپنے مجوزہ مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ کام کی اہمیت کے بارے میں اپنے قلب و ذہن کو اس کی ہنگامی ضرورت اور لازمی تقاضے کا احسا س دلائیں۔ لاری ریگن جب لاس اینجلز گنگز کی ٹیم کا کوچ تھا اس نے اپنی دو قابل ذکر فتوحات کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک اؓری پتے کیبات کہی۔ ’’جب میں کھیل میں ایک انتہائی فیصلہ کن مرحلہ آیا تو نیشنل ہاکی لیگ کے کو چ نے ہماری ٹیم کے متعلق کہا: اس ٹیم کا ہر کھلاڑی ہنگامہ بنیادوں پر چیلنج سمجھ کر ڈٹ کر کھیل رہا ہے تم اس ٹیم کو ہرگز شکست نہیں دے سکو گے‘‘ آپ ذرا اپنی عمر کے کیلنڈر پر غور کریں۔ اب آ پ نے دن بدن جوان نہیں ہونا ہے اب دن بدن بوڑھا ہونا ہے۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ ذہنی قوت اور طبعی توانائی میں کمی آنے لگتی ہے۔ اگلے سال ممکن ہے آپ کی صحت اس قدر اچھی نہ رہے جییس کہ آج ۔ اگلے سال آپ حسرت سے یہ کہیں گے کہ کا ش میں یہ کام ایک سال پہلے شروع کر لیتا۔ آپ خود اپنے آپ سے یہ سوال کریں: i۔ کیا وقت آپ کے ہاتھوںسے نکل نہیں رہا ہے؟ ii۔ کیا آپ کی عمر گزرتی نہیں جا رہی ہے؟ iii۔ اگر آپ یہ کام ایک سال کے بعد شروع کریں گے : (الف) تو کیا س کی اہمیت اسی قدر رہے گی؟ (ب) کیا اس کام کو انجام دینا نسبتاً مشکل نہیں ہو جائے گا؟ آپ اپنی سوچ میں ہنگامی نوعیت کی اہمیت پیدا کریں اور اسی طرح عملی جامہ پہناتے ہوئے بھی اپنے کام کو نہایت ہنگامی لازمی اور ضروری سمجھیں۔ آپ اپنے اوپر بوجھ ڈالیں دبائو ڈالیں فوری نوعیت کے احساس میں شدت پیدا کریں مثلاً: i۔ موسم سرما آ رہا ہے۔ ii ۔ امتحان قریب آ رہا ہے۔ iii۔ اگلے ہفتے مہمان آ رہے ہیں۔ iv۔ میری عمر تیزی کے ساتھ گزرتی جا رہی ہے۔ v۔ انسپکٹر کسی بھی وقت فیکٹری کا معائنہ کر سکتا ہے۔ vi۔ میرا افسر جلد ہی مجھ سے رپورٹ طلب کر لے گا۔ vii۔ میں نے اگلے مہینے اپنے پے سکیل میں اپ گریڈ ہونے کا انٹرویو دینا ہے۔ اوسط درجے کے عام لوگوں کی جزوی یا پوری زدنگی مختلف واقعات حالات یا افراد کے زیر اثر رہتے ہیں۔ جبکہ اعلیٰ ذہن کے غیر معمولی لوگ اپنے ذاتی مقاصد مشن اور کام کی ہنگامی نوعیت کے زیر اثر اپنے آپ کو جان بوجھ کر فعال رکھتے ہیںَ اس لیے کہ انہوںنے : ۱۔ تاریخ مقررہ کو ایک کام ممکل کرنے کا تحریری معاہدہ کر لیا ہے۔ ۲۔ پریس ریلیز کے ذریعہ عوام تک یہ اطلاع مشتہر کر دی ہے ۔ کہ وہ اپنی ایک نئی پراڈکٹ اگلے ہفتے متعارف کرا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ اپنے آپ سے عہد کرتے ہیں وعدہ وعید اور عزم کرتے ہیں کہ ہم نے ہر صورت یہ کام آج ضرور کرنا ہے۔ یہاں ذرا احتیاط کی ضرورت ہے۔ آپ انے خاص تخلیقی کاموں کے ابتدائی مرحلہ پر اپنے ان منصوبے او ر پراجیکٹ کا اعلان صرف اپنے مخلص اوربااعتماد دوستوں تک محدود رکھیں جو آ پ کے خیال کے مطابق واقعی مثبت سوچ اور ممکناتی سوچ کے حامل ہوں۔ آپ منفی اور ناممکناتی سوچ رکھنے والے لوگوں سے خبردار رہیں۔ آپ اپنے ان قیمیت آئیڈیاز کا ذکر ہرگز ایسے دوستوں رشتہ داروں اور دیگرواقفوں سے نہ کریں جو منفی دکر رکھتے ہوں۔ اور وہ آپ کو خواہ مخواہ مذاق اڑائیں یا آپ کا حوصلہ اور عزم کمزور کر دینَ آپ نے یہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ ہسپتال میں نوزائدہ بچے کو اس وقت تک سخت نگہداشت اور پوری حفاظت میں رکھا جاتاہے۔ جب تک کہ ان کے اندر ایسی قوت مدافعت پیدانہیں ہو جاتی جو ماحول کی آلودگی کا سامنا کر سکے۔ 3۔ ابھی اور اسی وقت کام کی تکمیل کاشیڈول بنائیے ہر کام کے لیے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اس کا ٹائم شیڈول بھی تیار کرنا ضروری ہے۔ آپ بھی اپنے منصوبہ پراجیکٹ اور تخلیقی کام کی تکمیل کے لیے : i۔ شیڈول پلاننگ سیشن کا اہتمام کریں۔ ii۔ اہم فیصلہ جات کرنے کے لیے میٹنگ کریں۔ iii۔ اس کام کی تکمیل کی راہ میں حائل متوقع مشکلات اور مسائل حل کرنے کے لیے میٹنگ کریں۔ iv۔ آپ یومیہ اورہفتہ وار ذاتی کیلنڈر اور ورک پلان تیار کریں۔ اس طرح منصوبہ بندی کرنے سے نہ صرف آپ کا قیمتی وقت بچ جائے گا بلکہ آپ کا مستقبل یقینی ہوجائے گا۔ اورآپ کو یہ اطمینان حاصل رہے گا کہ کام کی پوزیشن مجوزہ وقتر کے لحاظ صے تسلی بخش جارہی ہے۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیے کہ آ پ صرف تب یہ کامیاب ہو ں گے جب آپ اپنے مجوزہ اور مطلوبہ کاموں کا باقاعدہ ورک پلان اور ٹائم ٹیبل تیار کریں گے اور اس پر سختی باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ عمل کریں گے۔ اپنے آ پ کو باور کراتے رہیں کہ آپ نے مقررہ کام کے مطابق نہ کیا تو یقینی طور پر آپ ناکام ہو جائیں گے۔ میں آپ کو پھر کہتا ہوں کہ آپ آج اور ابھی کیلنڈر پر متعلقہ تاریخوں پر نشان لگا کر اپنے آپ کو پابند کریں کہ کام آج شروع کر دیا جاتا ہے ورنہ آپ کبھی بھی کبھ نہیں کر پائیں گے۔ ورک پلان اورٹائم ٹیبل تشکیل کر لینے کے بعد آپ اپنے پروگرام کے مطابق اپنے مقررہ وقت کو چھوٹے چھوٹے مرحلوں میں تقسیم کر لیں۔ کام شروع کرنے میں تاریخ سے لے کر کام کی تکمیل کی تاریخ کو کیلنڈر پر مارک کریں۔ بلکہ یہاں تک شیڈول کر لیں کہ: ۱۔ اس پراجیکٹ یا پراڈکٹ کو متعارف کرانے کی تاریخ۔ ۲۔ مسائل حل کرنے کے مراحل کا دورانیہ اور پروگرام ۳۔ کامیابی کی خوشی ماننے کی تقریب کی تاریخ بھی طے کر لیں۔ زیادہ بہتر ہے کہ آپ ان تاریخوں کو تاریخ ساز واقعات کی تاریخوں کے ساتھ منسلک اور متعلق کر دیں مثلاً کرسمس ڈے نیو ایر ڈے آپ کی اپنی سالگرہ کا دن وغیرہ۔ پھر ایک دلچسپ اور خوشگوار بات یہ ہے کہ آ پ اپنا بھی ایک انعام اور صلہ مقرر کریں مثلاً ایک نیا سوٹ ایک یادگار ٹرپ اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں سپیشل ڈنر وغیرہ۔ اب آپ اپنے آپ کو باور کرائیں۔ ’’میں نے ایک زبردست کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب میں رکنے والا نہیں ہوں اب میں شروع ہو گیا ہوں تو اسی طرح ترقی کرتا رہوں گا‘‘۔ کسی کام کا مشکل ترین مرحلہ اس کام کو شروع کر دینے کا عمل ہوتاہے 4۔ اپنی بنیاد کی تعمیر ابھی سے شروع کردیجیے آپ اپنی زندگی کے مستقل استحکام کی نبیاد بنانا شروع کر دیجیے۔ ہر انسان کا بڑا خواب اس کی سب سے بڑی آرزو امنگ اور اس کا ایک زبردست تخلیقی آئیڈیا ہی اس کا نصب العین ہوتا ہے آپ اپنے نصب العین کے حصول کا آغاز آج ہی سے کر دیجیے۔ پھر اس پر بتدریج باقاعدگی اور خلوص کے ساتھ کام کرتے رہیں بالآخر آپ ضرور کامیاب ہو جائیں گے یسوع مسیحؑ نے کہا تھا: ’’اگر آپ کو ایمان یقین اور اعتماد ہے تو آ پ ہر کام کی تکمیل کر سکتے ہو‘‘۔ البتہ انہوںنے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ اس کام کو فوراً اور یک دم مکمل کر لو گے۔ لیکن کام کو شروع کردینا اور یقین و اعتماد سے کوشش کرتے رہنا کسی کام کی تکمیل کے لیے لازمی شرط ہے۔ ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے: ای شخص جو قومی سطح پر اپنی کاروباری تنظیم قائم کرنا چاہتاتھا۔ اس نے میری کتا ب ممکناتی سوچ رکھو اور آگے بڑھتے جائو۔ پڑھی۔ وہ بہت خوش ہوا کہ اسے کوئی ممکن راہ نظر آ گئی ہے۔ اس نے دو لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا تاکہ وہ ابتدائی طورپر بڑے بڑے شہروں پر اپنے دفاتر کرایہ پر لے سکے ۔ لیکن چونہ اب اس کے پاس مزید کچھ اور کرنے کے لیے رقم نہ بچی اور نہ ہی ابھی آمدنی کی کوئی صورت پیداہوئی تھی۔ کہ وہ جلد ہی دیوالیہ ہو گیا۔ (یہ تو درست ہے کہ میری کتابیں پڑھ کر لو گجوش میں آ جاتے ہیں اورسمجھنے لگتے ہیں کہ ہر کام کانا ممکن ہے۔ لیکن میں نے کام کو بہتر طریق پر انجام دینے کے طریقے بھی لکھے ہیںجن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے)۔ اس لیے جہاں میں آپ کو یہ زور دے رہا ہوں کہ آپ آج ہی اپنے کام کا آغاز کر دیجے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ i۔ پورے کام کی اجمالی اور مجموعی طور پر منصوبہ بندی کر لیں۔ ii۔ کام کو مرحلہ وار ترتیب کے ساتھ بتدریج کریں۔ iii۔ ٹھوس اور یقینی کوشش اور محنت کریں۔ iv۔ کام کو کئی حصوں میں تقسیم کر لیں اور مقررہ دورانیہ میں ضرور مکمل کر لیں۔ جب آپ کے کام کا ایک مرحلہ کامیابی سے تکمیل کو پہنچ جائے تو دوسرے مرحلے پر کام شروع کر دیں اور اس طرح بتدریج باقاعدگی کے ساتھ ترقی کرتے رہیں۔ جب سیاحتی اور ملاقاتی لوگ ہمارے گارڈن گرووکمیونٹی چرچ میں آتے ہیں تو چرچ کی بائیس ایکڑ زمین پر عظیم الشان وسعت تعمیر اور حسن دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ہم سے یہ پوچھا کرتے ہیں کہ یہ سب باکمال اور لاجواب ماحول کیسے پیدا کر لیا گیا ہے؟ میں خود بھی کئی بار وضاحت کرتا رہتا ہوں کہ ساری تعمیر اور حسن یکسر وجود میںنہیں للایا گیا ہ ہم نے باقاعدہ اس کی مرحلہ وار اور درجہ بدرجہ پلاننگ کی تھی۔ ہم نے سترہ برس کے اندر ۹ مراحل میں سارا کام مکمل کر لیا تھا۔ البتہ یہ بات ضڑور ہے کہ ہم نے اس منصوبے کو زبردست عزم صمیم کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اس کی ابتدا کر دینا بھی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے بعد ہم عین پلاننگ کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ مرحلہ بہ مرحلہ کام کرتے رہے اور آج شاندار کامیابی ساری دنیا کو نظر آ رہی ہے۔ آپ ہر کام کی تکمیل کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین امور یاد رکھیں۔ ۱۔ چھوٹی سطح سے شروع کریں (Start Small) ۲۔ کام کو بہتر اور ٹھوس طریقے سے کریں۔ (Build Strong) ۳۔ مسلسل ترقی کرتے چلے جائیں۔ (Keep Growing) دنیا کا ایک حیرت انگیز عجوبہ اہرام مصر انہی تین سنہری اصولوں کے تحت تعمیر کیا گیا تھا اوریہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس کی بدولت آپ نقطہ کمال تک پہنچ سکتے ہیں۔ 5۔ کام کو یقینی طور پر انجام دینے کے لیے اپنے آ پ کو گرمائیے کام کرنے سے ہی وہ تکمیل پائے گا اور کام کرنے ہی سے آپ کامیابی اور ترقی کر سکتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے قلب و ذہن کو بہرحال کام کرنے پر آمادہ کریں۔ مختلف طریقوں سے اپنے آ پ کو گرمائیں۔ اپنے اندر ولولہ توانائی اور شوق پیدا کریں تاکہ کام کرنے کے لیے آمادگی اور رغبت پیدا ہو سکے۔ ایک بار میں کوئی کام کر رہا تھا کہ سیڑھی سے بری طرح گر پڑا اور شدید طور پر زخمی ہو گیا۔ ہسپتال میںکئی دن داخل رہا۔ خوب علاج مساج اور دیکھ بھال ہوئی۔ اگرچہ اب میری صحت بحال ہو چکی تھی۔ لیکن میں نے اپنے آ پ کو فٹ کرنے اور انتظامی طورپر خوفد کو مستعد رکھھنے کے لیے روزانہ دو میل پیدل چلنے کا معمول بنارکھا تھا۔ اس میں بے قاعدگی پید اہو گئی۔ اب میرے لیے اس معمول میں باقاعدگی پیدا کرنا ایک مسئلہ ہی بن گیا۔ مجھے بے حد مشکل پیش آئی مجھے اپنی طبیعت کو بڑی مشکل سے مائل اور قائل کرنا پڑا کہ یہ معمول کئی لحاظ سے میرے لیے بہت ضروری ہے۔ میں نے اپنے آپ کو باور کرایا : ’’اگر میں پیدل چلوں گا تو اس کے باعث میرے دل کا نظام بہتر رہے گا اورمجموعی طورپر صحت اچھی رہے گی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود میں بھی ا س معمول میں باقاعدہ نہ ہو سکا۔ تب میں نے اپنے آ پ کو پھر سمجھایا: ’’ہر روز باقاعدگی کے ساتھ پید ل چلنے سے میرا جسم سمارٹ ہوجائے گا۔ بڑھا ہوا پیٹ ٹھیک ہوجائے گا‘‘ لیکن پھر بھی میری طبیعت روزانہ پیدل سیر کرنے پر آمادہ نہ ہوئی تو میںنے اپنے آپ کو ایک پرکشش ترغیب دی۔ ’’اگر میں ہر رو ز دو میل باقاعدگی کے ساتھ پیدل چلتا رہوں گا تو اپنی اصلی عمر سے کم نظر آئوں گا‘‘۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دادا جان نے 96سال کی عمر پائی تھی ان کی صحت اور طعیل عمر کر یہی راز تھا کہ وہ ہر روز پیدل سیر ضرور کیا کرتے تھے۔ میری طبع اب بھی صبح سیر کے لیے مائل نہیں ہو رہی تھی تب میں نے اپنے آ پ کو یہ کہا: ’’اگرمیں ہر روزپیدل چلنے کا معمول جاری رکھوں گا تو میں ساری عمر جوان رہوں گا‘‘۔ اس بات پر میری طبیعت دوبارہ اس معمول کو جاری رکھنے پر آمادہ ہو گئی اورمیں نے سیر کے لیے روزانہ جانا شروع کر دیا۔ آپ بھی اپنے آپ کو کام سرانجام دینے کے لیے اپنے آپ کو بہتر ترغیب دیں مجوزہ اور مطلوبہ کام کی خوبیوں فوائد اور مثبت نتائج سے آگا ہ کریںَ کام کو بہتر طور پرانجام دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ قلب و ذہن کی پوری رغبت اور شوق کے ساتھ آمادہ ہوں۔ 6۔ اپنے کام کی انجام دہی کے لیے دوسروں سے بھی معاونت حاصل کیجیے آپ کام کوسرانجام دینے کے ضمن میں اپنے قابل اعتماد دوستوں اور عزیزوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ دوسروں سے تعاون اور معاونت حاصل کرنے سے نہ صرف کام میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے بلکہ آپ کو حوصلہ اور توانائی میسر آ جاتی ہے۔ اور اس طرح مجوزہ یا مطلوبہ کام ضرور انجام پاجاتا ہے۔ میں نے صحت بحال ہو جانے کے بعد صبح کو سیر کرنے کے لیے معمول کو جاری رکھنے کے ضمن میں اپنے بیٹے سے بھی مدد لی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ آئو آج میرے ساتھ سیر کو چلو۔ بیٹے کو اپنے ساتھ لینے سے مجھے حوصلہ مل گیا اور اس طرح میں نے اپے عزم میں مضبوطی اورمعمول کے کام میں باقاعدگی کی خاطر دوسرے فرد سے مدد حاصل کرلی۔ آپ بھی اپنے کام کے بارے میں یہ خود جائزہ لیں کہ کس حد تک کیا تعاون کس شخص سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کی اعانت کے باعث نہ صرف کام کی انجام دہی کا عمل یقینی ہوجاتا ہے بلکہ اس کے معیار اور اس کی رفتار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 7۔ اپنی خداداد ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لائیے آپ اپنے مطلوبہ کام کا تعین کرنے میں اپنی تخلیقی قوت کو بروئے کار لائیں اور جب کام کا تعین ہوجائے تو پھر اپنی ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے اس کا م کی تکمیل کے لیے بہترین پلاننگ کریں۔ میرا ایک دلچسپ اورمفید تجربہ یہ ہے کہ جب کام کا آغاز کر دیا جائے تومرحلہ وار اس کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ہی ہماری تخلیقی صلاحیتیں کام آتی رہتی ہیں۔ پیشہ ور ادیب اور مصنیفین کبھی بھی اس طرح نہیںکرتے کہ وہ پہلے بیٹھ کر کئی دن تخلیقی خیالات کی آمد کا انتظار کرتے رہیں۔ وہ اپنے آپ کو لکھنے کے لیے راغب اور آمادہ کرتے ہی کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کے عمل نگارش کے ساتھ ہی تخلیقی آئیڈیاز ان کے زرخیز ذہن میں آتے رہتے ہیں اور اس طرح وہ بہترین کتاب تالیف کر لیتے ہیں۔ آپ اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال میں لائیے ساتھ ہی آپ کے دل میں کام کی رغبت اور شوق پیداہو جائے گا یہ انسانی خاصیت کا حیر ت انگیز پہلو ہے کہ جب ہم کسی کام کے حل کے لیے اپنے ذہن پر زورو دیتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لیتے ہیں تو ساتھ ہی ہمارے دل میں اس معاملہ کے بارے میں شوق رغبت اور دلچسپی پیداہو جاتی ہے۔ اس طرح ذہن اور قلب متوازی طورپر ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیںَ میں جب اپنے آپ کو کوئی کتاب لکھنے کے لیے تیار کرتا ہوں تو میں مندرجہ ذیل اقدام سے اکثر گزرتا ہوں: ۱۔ میں ٹائپ رائٹر کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں اور ایک کاغذ ا س میں ڈال دیتا ہوں ۔ ۲۔ سب سے پہلے کتاب مجوزہ کا ٹائٹل ٹائپ کر دیتا ہوں(اگرچہ ٹائٹل کا نام کتاب اشاعت کے مرحلہ سے پہلے کئی بار بدلا جاتاہے) ۳۔ اس کے بعد اپنا نام لکھتا ہوں یعنی By Robert H. Schuller۔ ۴۔ اس کے بعد ایک اور کاغذ ٹائپ رائٹر پر چڑھاتا ہوں اور اس پر اپنی تمام شائع شدہ کتابوں کی فہرست بناتا ہوں۔ اس لسٹ کو ٹائپ کرنے کے عمل میں مجھے یہ خوشی اور طمانیت حاصل ہوتی ہے کہ میں نے اس قدر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ خوشی اور طمانیت مجھے اور کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے ۔ میرے اشتیاق کو تیز کرتی ہے مجھے مزید بہتر کام کرنے پر قائل اورم ائل کرتی ہے۔ ۵۔ ایک اور کاغذ ٹائپ رائٹر پر چڑھاتا ہوں اوراس پر نئے ٹائٹل سے متعلق مندرجات (Contents)ٹائپ کرتا جاتا ہوں۔ میں پھران تینوں صفحات کو اپنی فائل میں رکھ لیتا ہوں۔ اسی طرح میں نئے پراجیکٹ پر عملی کام کرنے کے لیے نہایت جو ش و خروش سے تیار ہو جاتاہوں۔ 8۔ اپنے کام کی تکمیل یں حائل جملہ مسائل کا حل فوری طور پر سوچیے جب آپ اپنے لیے کسی اہم کام کرنے کا تعین اور فیصلہ کر لیں تو اس بات کا جائزہ لیں کہ اس کی تکمیل میں کون سی مشکلات اور مسائل حائل ہو رہے ہیں سب سے پہلے ان مسائل کا حل سوچیے۔ یہ عمل اس لیے ضروری ہے کہ آپ اس وقت تک کسی کام کو شروع کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پائیں گے جب ک آپ کو یہ اطمینان حاصل نہ ہو جائے کہ آپ کے پاس اسکام کی انجام دہی میں حائل ہونے والے متوقع مسائل کا حل موجود ہے۔ شاندا ر اورقابل ذکر کامیابیاں حاصل کرنے والے لوگ ہر اچھے موقع سے جلد از جلد بہترین فائدہ اٹھانے کے لیے تیزی سے فیصلے کرتے ہیں اور ان پر فوری عمل کرنے کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں جو لوگ سست روی سے کام لیتے ہیں وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور کامیابی ان کا مقدر نہیں ہوتی یہ آہستہ آہستہ چلنے والے کاہل لوگ جب یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ انہوںنے متوقع مسائل کا حل سوچ لیاہے اس اثنا میں وہ بہتر موقع ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور ممکناتی اور مثبت سوچ رکھنے والے کے تیز رو لوگ مستعدی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ان سے ہر بہتر موقع چھین لیتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ اچھے مواقع کبھی بھی سست رو لوگوں کا انتظار نہیںکیا کرتے۔ اس لیے میری آپ کو یہ بار بار تاکید ہے کہ آج اورابھی کام شروع کر دیجیے۔ ہر مسئلہ اورمشکل ساتھ ستھ حل ہوتی جائے گی۔ ہاں آپ کو اکثر یہ سوال تنگ کرے گا: ’’اس وقت میں کیا کروں گا کہ جب ایک مشکل مسئلہ میری راہ میں حائل ہو جائے گا۔ اور میرے لیے الجھن اور مزاحمت پیدا کرے گا؟‘‘ اس سوال کا مستقل اور یقینی جواب ہے کہ: آ پ ضرور اس مسئلے اورمشکل کا بہترین حل عین وقت پر نکال ’’ایجاد‘‘ کر لیںگے۔ میرا ایک دوست فریڈ ہوسٹر وپ لکھتاہے: ’’میں کئی سالوں سے ایک عجیب مرض وسعتہ الجثہ میں مبتلا ہوں۔ اس بیماری کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ جسم نارم حد سے زیادہ بڑا ہو جاتاہے۔ اس کی بڑی وجہ میرے دماغ میںنظام افزائش کو کنٹرول کرنے والے غدود میں رسولی ہے اس کے باعث میرا جسم بہت زیادہ لمبا اور چوڑا ہو گیا ہے میری عمر اس وقت 73سال ہے ابھی تک میرا جسم بدستور بڑھ رہاہے۔ میری زبان بہت لمبی ہو گئی ہے اور میں فون پر بہتر طور پر بول نہیں سکتا۔ زبان کی طوالت کے عمل کے باعث میرے نیچے کے دانت قدرے باہر کو نکل آئے ہیں جس کی وجہ سے میں لقمے کو صحیح طرح سے نہیں چبا سکتا۔ مجھے ہر چیز نہایت آہستگی اور احتیاط سے کھانی پڑتی ہے۔ اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہو جائے تو میری زبان دانتوں کے درمیان آ کر کٹنے لگتی ہے۔ مجھے سر درد اور کمر درد کی شدید شکایت بھی ہے جوسن رات کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتی ہے فرش پر پڑی ہوئی کسی چیز کو جھک کر اٹھانے میں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ میرے جسم کا توازن بھی خاصا بگڑ گیا ہے۔ اور میں ٹھیک طرح سے سیدھا کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اس لیے میں کھڑا ہونے اور چلنے کے لیے دو چھڑیوں کا استعمال کرتاہوں ۔ میں دو سو فٹ سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ ورنہ سخت نقاہت ہونے لگتی ہے۔ اگرچہ میری نظر بہت تیز ہے لیکن میری آنکھوں کے پپوٹے ا س قدر بھاری ہیں کہ میں دومیل سے زیادہ فاصلے تک ڈرائیونگ نہیں کر سکتا۔ محترم شلر صاحب آپ میری مندرجہ بالا کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مرض وسیع الجثہ نے کس کس طرح میری زدگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اور میری حالت سراسر یہ تقاضا کر رہی ہے کہ وہ منفی سوچ کو اپناتے ہئوے ہر کام کو ناممکن قرار دے دے۔ لیکن میں نے یہ کہنے کی بجائے میںیہ نہیںکر سکتا میں وہ نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ سوچتا رہتا ہوں کہ میں اس ابتر حالت اور قابل رحم کیفیت میں فلاں کام کس اور کیسے بہتر انداز سے کر سکتا ہوں۔ میں نے بہت سے کاموں کے لیے الگ الگ نئے اورانوکھے طریقے ایجاد کیے ہیں لیکن اس وقت میں صڑف دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں ہم بہت بڑے اور وسیع گھر میں رہتے ہیں۔ گھر میں پودون کو اپنے ہاتھ سے پانی دینے کا کام پورے ایک گھنٹہ کا ہے چونکہ میری کمر اورپشت کے پٹھے اس قدر طاقت ور نہیں ہیں کہ میرے بھاری بھرکم جسم کو توازن میں رکھ سکیں۔ اس لیے میں نے ایک چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھ کراوراسے آگے پیچھے دھکیل کر پانی دے دیتا ہوں۔ اس منظرپر مبنی ایک فوٹو گراف بھی اس خط میں ااپ کو بھیجی جا رہی ہے۔ میں نے پودوں کو ہر روز پانی خود دینے کے کام کو اپنے انداز میں ممکن بنا لیا ہے۔ میرا دلی شوق ہے کہ گولف کھیلوں لیکن اپنی موجودہ جسمانی حالت میں گولف کھیلنا میرے لیے بے حد مشکل تھا لیکن جیساکہ فوٹو گراف سے ظاہر ہے کہ میں نے اس مقصد کے لیے ایک تخلیقی طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ میں ایک لمبی چھڑی کے ستاتھ سسٹم فٹ کر رکھا ہے۔ جس کی مدد سے میں گولف بال کو زمین سے اٹھا لیتاہوں اور اسے ٹی پوائنٹ کر رکھ لیتاہوں۔مجھے جھکنے کی قطعاً ضرورت پیش نہیںآتی۔ اور اپنی اسی سٹک سپورٹ کی مدد دے اپنے صح کا کوڑا کرکٹ بھی اٹھا کر باسکت میں ڈال لیتا ہوں۔ اسی طرح میں نے اپنے معمولی کے کئی ضروری پہلوئوں اور کاموں کے لیے خود ہی سہولیاتی ایجادات کر رکھی ہیں جو میری ممکناتی سوچ کابہترین عملی ثبوت ہیں۔ آپ جب بھی کسی کام کو کرنے کی پرخلوص کوشش کریں گے تو ضرور کوئی ممکن صورت نکل آئے گی اگر ہم قدرت کے مختلف مناظر کا مشاہدہ کریں تو بھی ہمیں یہی سبق حاصل ہو گا کہ ہر جاندار مخلوق کو اپنے حالات و ماحولیات کے مطابق اپنے مقاصد حیات کے اصو ل کے لیے کئی ممکن طریقوں سے کام لینے کا شعور اورہنر عطا کر رکھا ہے۔ ہماری چرچ کی وسیع و عریض گرائونڈ میں جو اخروٹ کے بے شمار درخت موجود ہیں۔ کیلی فورنیا کے کووں کو اخڑوٹ کھانے کا بے حد شوق ہے۔ اخروٹ کے پھل کی چھال بہت شخٹ ہوتی ہے مگر گھروں میں لوگ ہتھوڑی سے توڑ کر اس کا مغز نکالتے ہیں۔ یا ڈرائی فروٹ والے ڈیلر حضرات بھی باقاعدہ مزدوروں سے اخروٹ تڑوا کر اس کا مغز مارکیٹ میں لاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کوے اخروٹ کیسے کھاتے ہیں۔ فرض کریںکہ آپ ایک کواہیں تو آپ اخروٹ کیسے کھائیں گے کوئوں نے بھی ایک زبردست تخلیقی طریقہ سو چ رکھا ہے۔ کوے اخروٹ کو اپنی چونچ میں دباتے ہوئے ذرا اونچی اڑا کر ہمارے چرچ کے پارکنگ فلور پر جونہایت سخت ہوتی ہے پھینک دیتے ہیں سخت سطح پر گرانے سے اخروٹ میں دراڑ اور شگاف پڑ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح کوے آسانی سے اس کے اندر سے مغز نکال کر کھا لیتے ہیں۔ اگر کوے اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے کوئی رستہ اور تدبیر نکال سکتے ہیں تو آپ اپنی مشکلات اور مسائل کا حل کیوں نہیں سوچ سکتے؟ آ پ جب بھی کسی کام کو انجام دینے کے لیے خلوص لگن اورعزم سے کوشش کریں گے تو ضرور کوئی نہ کوئی بہتر ار ممکن صورت نکل آئے گی۔ 9۔ اپنے تعمیری شوق ذوق جذبے اور ولولے کو جلدی سے بروئے کار لائیے آپ کے دل میں جونہی کسی کام کا جذبہ ابھرے شوق اٹھے اور ولولہ پیداہو تو اس قدرتی توانائی سے جلد کام لیجیے۔ آپ ہمت اور توانائی کے ساتھ اپنے مجوزہ اور مطلوبہ کام میں حائل تمام منفی قوتوں کا پر زور مقابلہ کیجیی اور اپنے مثبت آئیڈیاز کی تکمیل کے لیے جلد کمر بستہ ہو جائیے۔ کئی سالوں کی بات ہے میں میڈرڈ میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس سے بیشتر میں سپینش ہسٹری کا مطالعہ کر چکا تھا اور حالیہ منعقدہ واقعات کے بارے میں میرا اشتیاق بڑھ رہا تھا ار میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہونے لگی کہ کا ش مجھے کسی دن جنرل فرانسسکو سے ملاقات کا موقع ملے اور اس سے روبرو ہو کر تین باتوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کروں۔ یہ ایک زبردست آئیڈیا ہے لیکن فی الحال تو یہ ناممکن اور غیر حقیقی معلوم ہو رہا ہے بہرحال میں نے فیصلہ کیا کہ جب میںدوسروں کو نصیحت اور تاکید کرتا رہتا ہوں کہ کوشش ضرور کرنی چاہیے تو مجھے بھی اس ضمن میں کوشش تو ضرور کرنی چاہیے۔ میرے دل میں ولولہ پیدا ہوا مثبت جذبوں نے جوش مارا اور میں نے فون اٹھایا اور کانگرس مین کے دفتر میں فون کر کے اس ملاقات کے ضمن میں تعاون طلب کیا۔ لییکن اس پر مجھے جو جواب آیا اس نے مجھے پریشا ن کر دیا: ’’ڈاکٹر شلر جنرل صاحب سے آپ کی ملاقات ناممکن ہے‘‘۔ میرے معاونین نے مجھے بتایا کہ فرانسسکو کبھی بھی کی پروٹسٹنٹ منسٹر کے ساتھ انٹرویو دینے پر رضامندنہیں ہوگا۔ ہاں اگر میں یہ ظاہر کروں کہ میں ایک لامذہب مصنف ہوں تو شاید میری اس خواہش کو پوری کر دے گا۔ لیکن میں نے اپنے معاونین کو صاف صاف کہہ دیا کہ میں یہ بے ایمانی نہیں کر وں گا۔ آپ اس کے علاوہ کو ئی اور تدبیر سوچیں۔ اپنے پروگرام کے مطابق ایمسٹرڈیم اور پیرس واپسی تک مجھے اس ضمن میں کوئی اطلاع موصول نہ ہوئی لیکن چند دنوں کے بعد ایک پیغام مل گیا: ’’جنرل فرانسسکو نے آپ سے ملنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے ۔ ۲۲ اگست کو دوپہر کے وقت لاکرونا سپین میں‘‘۔ اگرچہ پیغام مختصر تھا لیکن میرے لیے مبارک تھا۔ اس ایک کال نے از سر نو میرے مجوزہ پراجیکٹ میں جان ڈال دی میرا ولولہ تازہ ہو گیا۔ میں نے اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس کی میں اکثر اس طرح کی برقی قوت کو جلد از جلد کام میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے میری صلاحیتوں کی موجودگی کاادراک اور اچھے مواقع کی آگہی کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا شوق میرے اندر بھاپ جیسی توانائی پیدا کر دیتا ہے اورمیں پرجوش ہو کر ہر مشکل کام کر جاتا ہوں۔ ایک شخص نے جھ سے نہایت شکایت اورگلے کے لہجے میںکہا: ’’زندگی اس قدر مختصر ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں کر نہیںپاتے‘‘۔ میں نے اسے جواب دیا: ’’ہرگز یہ بات نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کام کرنا چاہتے ہیں اسے بروقت شروع ہی نہیں کرتے۔ ‘‘ میں اس وقت آپ کو بیدار کرنے جوش دلانے اور سرگرم رکھنے کے لیے پانچ وارم اپ Warm Upنعرے لگانا چاہتا ہوں۔ 1۔ اٹھیے جاگیے از سر نو زندہ ہو جائیے Wake Up! Come Alive! آپ اب سستی کے بندھن کاہلی کی زنجیریں اور تذبذب کی رسیاں کاٹ ڈالیے ہوشیار ہو جائیے اور آزاد ہو جائیے۔ انجیل مقدس میں تعلیم ہے: ’’یہی تو وہ صحیح وقت ہے کہ تم نیند سے بیدارہو جائو‘‘ (۱۱:۱۳ Rome) ’’سچ یہ ہے کہ ابھی کا ہی وہ وقت ہے جو بہترین ہے ہاں آج اور ابھی کے لمحات نجات کی گھڑیاںہیں (۲۴:۱۱۸Pss) 2۔ اپنے ذہن کو تیار کیجیے کہ اب عمل کا وقت ہے Make up your mind to Act Now! آپ اب جمود کی قید سے باہرآئیے۔ کام کا آغاز ابھی کر دیجیے بس آپ آج اور اسی وقت کام کی شروعات کر دیں۔ ہاں آپ خط لکھیں فون کریں یا جو بھی مناسب ہے کریںکام پر عمل کرنا ااج ہی شروع کر دیں بلکہ ابھی جو ذہن میں آتاہے اس کا آغاز کر دیں۔ 3۔ اپنے ذہن سے ہر قسم کے منفی خیالات جھٹک دیجیے Shake up the Negative Thoughts اپنے قلب و ذہن سے غیر ممکناتی سوچ خدشات اور منفی خیالات کو نکال باہر پھینکیے۔ ’’تم بہادر شخص کی طرح خوف ڈر اور اندیشوں کے احساسات ختم کرو نڈر اور مضبوط بنو‘‘ (۱۳:۱۶ 1Cor. ) 4۔ تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیجیے Break up the Obstacles اپنے مقصد اور کام میںحائل ہونے والی تمام مزاحمتوں کو توڑ ڈالیے تمام مسائل مشکلات اور رکاوٹوںکا بہادری سے سامنا کیجیے۔ آپ عظیم دیوار چین میں اپنی گزرگاہ یقینا بنا سکتے ہیں۔ رکاوٹوں کی ہر دیوار ہٹا دیجیے یہ کام آپ کے لیے مشکل ہے؟ نہیں نہ مشکل ہے اورنہ ہی ناممکن ہے۔ آپ اس دیوار کا پہلا پتھر ابھی اور اسی وقت توڑ ڈالیے۔ اپنی ہر بڑی مشکل کو چھوٹے چھوٹے حصوںمیں بانٹیے اور ایک ایک کر کے حل کرتے جائیے۔ ساری مشکل دور ہو جائے گی۔ 5۔ اپنے مطلوبہ کام کی تکمیل کیجیے اور کامیابی کا سہرا سجائیے Take up the crowing accomplishment آپ کی قسمت میں کامیابی لکھی جا چکی ہے اپنی تقدیر خود بنائیے۔ اگرآپ آج ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کو باقاعدگی سے پورے خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے رہیں گے تو ضرور ایک دن آپ سرخرو ہو جائیں گے۔ آ پ کی اس کامیابی کا سہرا آپ ہی کے سر ہو گا۔ لوگ آ پ کو عزت وفخر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ خدا بھی آپ سے راضی ہو گا۔ آپ تب بہت خوش اور مطمئن ہوں گے۔ آپ واقعی وہ شخص بننا شروع ہوجائیں گے جو آپ بننا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی ہر خواب آرزو اورخواہش کو حقیقت کا رنگ دے سکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے ہک ممکناتی سوچ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کام کی شروعات آج ہی کر دی جائے ۔ سب سے مشکل بات کام کو آغاز کردینے کا عمل ہے۔ آپ اس مشکل کو آج ختم کر کے دم لیں ۔ آج اورابھی ٭٭٭ 8 کام کرنے کا جوش او رولولہ یہی وہ قوت ہے جو آ پ کو میدان عم میںمتحرک رکھتی ہے آپ کے قلب و زہن میں پیداہونے والا جوش اور ولولہ ایک ایسی قوت ہے جو آپ کو آگے سے آگے دھکیلتی ہوئی موج و رمق والی تیز پرواز کی جانب لے جاتی ہے۔ اور پھر آ کو یہی قوت دھماکہ خیز جیٹ کی مانند اس مدار اور میدان عمل میںپہنچا دیتی ہے کہ جہاں آپ کا ہر خواب حقیقت کارنگ اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ جوش اور ولولہ ہی تووہ جذبہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتی ہے۔ جوش و ولولہ ایک ایسی توانائی ہے جو کام کا آغاز کرنے والوں کو کامیاب فائز اور سرخرو کردیتی ہے یہی قوت بے چارے اورمعمولی لوگوں کوچیمپئن بنا دیتی ہے۔ کامیابی کا زبردست اور یقینی فارمولا اعلیٰ کامیابی کے حصول کے لیے ایک سادہ حسابی فارمولا پیش کیا جاتا ہے: ۱۔ اپنے خوابوں خیالات اور تخیلات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی کام کا آغاز کر دیجیے۔ ۲۔ متوقع مسائل اور مشکلات کو کئی حصون میں تقسیم کر کے یکے بعد دیگرے حل کر لیجیے۔ ۳۔ اپنے ذہن میںموجود تخلیقی قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کا رلائیے اور تمام ممکناتی صورتوںکو استعمال میں لائیے۔ ۴۔ ہر قسم کے منفی خیالات اور ناممکناتی سوچ کو ختم کر ڈالیے۔ ۵۔ اس پورے عمل میں ذو ق وشوق جوش و خروش قوت تحریک اور حرارت ولولہ سے کام لیجیے۔ ا س طرح آ پ کا ہر مقصد بطریق احسن حاصل ہو جائے گا۔ مجوزہ پروگرام +تخلیقی صلاحیت+جوش و خروش=کامیابی جوش و ولولہ …جیت اور کامیابی کے لیے لازمی عنصر اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے وہ خواہش مند لوگ جن میں جوش و خروش اور ولولہ و ترنگ نہیں ہوتا۔ وہ جلد ہی ناکام ہو جاتے ہیں اور ان کی ساری زندگی ہی تذبذب اور پریشانی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ جو محض خواب اور تخیل تو رکھتے ہیں لیکن ان کے قلب و ذہن میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے مطلوبہ جوش جذبہ رمق اور ولولہ نہیں ہوتا ان کی مثال مندرجہ ذیل اشیاء کی مانندہوتی ہے۔ ۱۔ ایک کند بلیڈ والا چاقو جس میں کاٹنے کی قابلیت نہیںہوتی۔ ۲۔ ایک دھندلائی ہوئی گرد آلود کھڑکی جس کے آر پار روشنی بہتر طور سے چھن کر نہیں آتی۔ ۳۔ ڈھیلی تاروں والا خراب گٹار جس میں سر تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہو۔ ۴۔ ایک پرانا خشک اور خراب انجن جس میں چھک چھک کی بے زار آواز تو ہو لیکن وہ بھی توانائی سے عاری ہو۔ لیکن جب کسی فرد میں مقصد کا تعین کرنے بروقت فیصلہ کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی قابلیت کے ساتھ کام کرنے کا جوش اور ولولہ بھی ہو تو اس کی مثال مندرجہ ذیل صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ۱۔ جیسے ایک تیز بلیڈ والا چاقو جلد کاٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ۲۔ صاف اور شفاف شیشوں والی کھڑکی جس کے آرپار کے مناظر صاف دکھائی دیتے ہوں۔ ۳۔ خوب تنی ہوئی تاروں والا گٹا ر جس کی لے سر اور تال موسیقی کے الاپ چھیڑ دے۔ ۴۔ اوور ہال کیا ہوا انجن جو زکا زک تیز چلتا ہوا مستعدی سے مطلوبہ پروڈکشن دیتا جائے۔ جو ش اور ولولے میں اس قدر توانائی موجود ہیکہ یہ کسی بھی مایوس اور شکست خوردہ انسان کو از سر نو تازہ دم کر دیتی ہے۔ اور اسے تیز چلنے اورشوق سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوبارہ کوشش کرنے کا حوصلہ اور عزم عطاکر دیتی ہے۔ اپنے جوش و خروش اور ولولے کو نہ دبائیے اس ولولے سے مثبت اور تعمیری کام لیجیے آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ لوگ کیوں جان بوجھ کر ایسے جذبہ و جوش اور ولولہ اور امنگ کو دبا دیں گے جو کہ کامیابی کے حقیقی حصول کے لیے ایک زبردست قوت ہے؟ اس امر کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کئی لوگ اپنے غیر مناسب رویہ کی بدولت مایوس کن شکست سے خوفزدہ رہتے ہیں اس لیے وہ اپنے قلب و ذہن میں پیدا ہونے والی ہر لہر رمق ؤموج اور ولولے کو عمداً دبا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال پیش آ جاتی ہے۔ جب ویت نام کا تنازعہ انتہائی شدت اختیار کر گیا تھا تو اس دوران ایک تنظیم جس کا نام را س پیروٹ تھا نے ایک جیٹ جہاز پر تحائف کے پیکٹ لاد کے اور شمالی ویت نام کی طرف پرواز کر گیا تاکہ وہ عیسائی جنگی قیدیوں تک پہنچا سکے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کے مورال اور ولولے کو تیز کیا جا سکے۔ لیکن اس جیٹ جہاز کی ڈرامائی پروازز کواگرچہ بہت شہرت اور پذیرائی ملی لیکن یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور شمالی ویت نام کی حکومت نے اس کا قافیہ تنگ کر دیا۔ جب پیروٹ واپس امریکہ پہنچا تو ایک اخباری نماندے نے اس سے پوچھا: ’’آپ اپنے اس مشن میں مایوس کن ناکامی پر کیسے قابو پائیں گے؟‘‘ تو پیروٹ نے فوراً یہ جواب دیا: ’’میں ہرگز ناکام نہیں ہوا ہوں میرا چرچا چرچ میں ہوا میری شہرت ہر سکول اور ہر گھرمیں ہوئی۔ بوائے سکائوٹس ن میری حمایت کی ۔ میں نے حتی الوسع اپنے اس مشن کے لیے کوشش کی۔ میں کوشش کے ضمن میں ہرگز ناکام نہیں ہوا ہوں‘‘۔ اس مثال سے یہ سبق اخذ ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے مشن کے حصول کے ضمن میں کسی مرحلہ وار اور کسی سطرح پر بھی شکست سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر شکست اور ناکامیوں کا خوف پہلے ہی آپ کے جوش و خروش اور ولولے کو نگل لے گا تو پھر آ پ کی یت اور کامیابی کا لطف بہتر طو ر پر مثبت طور پر کبھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ آپ صرف اس صورت میں ناکامی اور شکست کے بارے میں یقین کر سکتے ہیں کہ جب آپ نے اپنی طر ف سے جیتنے اور کامیاب ہونے کی ا ز حد کوشش نہ کی ہو۔ اگر آپ کو شکست اور ناکامی کے خوف لاحق نہیں ہو گا تو آپ کے دل اور ذہن میں شکست اورناکامی کا تصور ہی پیدا نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر آپ کا جوش و خروش اور ولولہ آپ کو کامیابی اور جیت کی امید دلاتا اور حوصلہ پیدا کرتا ہے تو آپ اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرمی سے مصروف عمل رہتے ہیں تو ناکامی کی صورت میں آپ اسے شکست کا نام نہیں دیں گے آپ اسے تجربہ کہیں گے اور بالآخر ایسے تجربات اور اسباق سے استفادہ کرتے ہوئے آپ بالآخر کامیاب ہوجائیں گے۔ جب بھی آپ کے ذہن و قلب میں کسی کام جوش و خروش اور ولولہ پیدا نہیںہے تو یہ کامیابی دلانے والی قوت ہے جو جیت سے ہمکنار کرنے والی یقینی توانائی کی موج آپ کے اندر پیدا کرتی ہے۔ آپ کوشش کیجیے کہ اسے جلد از جلد بروئے کار لائیں اور اس جوش کو ٹھنڈا ہونے دیں۔ جوش خروش کو دبا دینے اور اسے ٹھنڈا کر دینے کے عام حیلے اور بہانے ایسی طبع اور مزاج کے لوگ جو خوش باش جوشیلے اور زندہ د ل نہیںہوتے وہ جوش و خروش اور ولولے کو ہمیشہ دبا کر رکھتے ہیں۔ نہ ان کا اظہار کرتے ہیں اورنہ ہی ان سے تعمیری کام لیتے ہیں۔ جو شخصیات منفی سوچ کی حامل ہوتی ہیں وہ ایسے جوش و خروش اورولولے کی توانائی کو جذباتی لہر کا نام دے کر ان کا گلا دبا دیتی ہیں اور بعض اوقات جوش اور ولولے کی توانائی کو ڈرامائی کیفیت اور عزت و وقار کے منافی قرار دے دیتی ہیں اورپھر عمداً اس جذبے کو فراموش کر کے کئی قیمتی مواقع ضائع کر دیتی ہیں۔ میری آپ کو یہ تاکید اورنصیحت ہے کہ آپ ااس قیمتی اورمفید جذبے اور جوش کو دبانے کی کبھی کوشش نہ کریں ورنہ آپ کی زندگی میں لطف اورکیف کی رمق ختم ہو جائے گی۔ اور زندگی خشک بور اور بے مزا رہ جائے گی۔ آپ خواہ کتنے ہی معقول اور شریف النفس ہوں گے لیکن آ پ ترقی پذیر اور روشن خیال اور عظیم نہیں بن پائیں گے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ایک بینکار صاحب جوش و ولولہ ہو سکتا ہے؟ میں کہتاہوں کہ جی ہاں۔ اس ضمن میں میں آپ کو ایک تاریخی مثال دیتاہوں: ایک مشہور و معروف بیناکر مسٹر والٹر برانش دیگر نے اسی قسم کے جوش و خرو ش اور ولولے سے بھرپور کام لتیے ہوئے اپنی ترغیبی توانائی سے زبردست حوصلہ حاصل کیا اور بینک آف امریکہ کو ایک عام بینک کی سطح سے ترقی دیتے دیتے عالمی سطح کا کامیاب ترین بینک بنا دیا۔ جب میں نے مسٹر والٹر کو جو اب بینک آف امریکہ کے وائس پریذیڈنٹ ہیں کو اس قدر حیرت انگیز اور تیز تر ترقی کے بارے میں سوال کیا تو انہوںنے جواب دیا: ’’دراصل مثبت فکر اورممکناتی سوچ ہی کاکمال ہے کہ وہ ہمارے ذہن و قلب کوزبردست جوش وخروش اور ولولے کی توانائی سے گرما دیتی ہے۔ کوئی شخص بھی اس زبردست توانائی کی روحانی قوت کی حرکی خاصیت کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ کس قدر سرعت کے ساتھ قوت عمل میں ایک محرک فعالیت پیدا کردیتی ہے!‘‘ والٹر برانش دیگر نے اپنی ترقی پذیر کامیابی کی مہماتی کہانی سناتے ہوئے کہا: ’’اے ۔ پی۔ جیانی نی نے کیلی فورنیاکی ریاست میں ایک کامیاب بینک قائم کیا تھا اور اسے بینک آ ف اٹلی کا نام دیا تھا۔ ہم چند بینکار ماہرین نے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ اگر بینک آف امریکہ کے نام سے کوئی بینک قائم کریں گے تو اس کے باعث مغربی علاقہ جات کے وسط میں رہنے والے لوگوں کو جو کیلی فورنیا آ کر آبادہو رہے ہیں بہت سہولت رہے گی۔ چنانچہ ہم نے چارٹر کے حصول کے لیے درخواست جمع کرا دی اور جلد ہی جب میں نے سان فرانسسکو سے گھر واپس آیا تو نہ صرف میرے ہاتھ میں چارٹر کے کاغذات تھے بلکہ میرا قلب و ذہن زبردست کامیابی کے اعتماد سے پر تھا۔ بس اب کامیابی یقینی تھی۔ اب چونکہ مسٹر جیانی نی اپنا تشخص بھی قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میںہم نے سنجیدگی سے مذاکرات کیے۔ ہم ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور مجھے اعلیٰ ایگزیکٹو منصب پر فائز کر دیا گیا‘‘۔ والٹر نے قدم بہ قدم ترقی کے مراحل بیان کرتے ہوئے کہا: جنگ عظیم دوم کے دوران میں ایک اتوار کیدن مجھے مسز جیانی نی کی جانب سے فون آیا: والٹر یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جونہی یہ جنگ ختم ہو گی تو یہ ریاست زبردست طورپر ترقی کرے گی اور ہمیں اس متوقع ترقی اور وسعت کے لیے بھی سے اپنی تیاری کر لینی چاہیے۔ ہمیں فوراً پانچ کروڑ ڈالر کی رقم ادھار حاصل کر لینی چاہیے‘‘۔ مسٹر جیانی نی کی فیصلہ کن آواز میں فوری عمل کا اشارہ تھا انہوںنے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: والٹر میرے خیال میں یہ رقم ہمیں صرف ایک جگہ سے حاصل ہو سکتی ہے اور وہ ہے عظیم نیویارک کا سرمایہ کار نوجوان اب والٹر بس آپ کل ایک بجے میٹنگ کے لیے نیویارک آجائیں۔ آپ وہاں پرایک موثر تقریر کریں گے اور اس زبردست اور پرکشش سرمایہ داری کے سنہری موقع کو فروخت کرنے کی بھرپورکوشش کریں۔‘‘ والٹر برانش ویگرنے کہا ک اس قسم کی فوری پیشکش کی تیاری کے ضمن میں عام طو ر پر تو کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ بلکہ ریسرچ ورک اور دستاویزات کی تیاری کے کام پر تو کئی مہینے لگ جاتے ہیں لیکن ایسی شخصیات کے سامنے اس قسم کاکوئی عذر پیش نہیں کیاجا سکتا جو قوت فیصلہ میں اس قدر تیز اورپر اعتماد ہوں۔ مسٹر والٹر نے مزید بتایا: ’’مجھے اپنے بارے میں خوب آگاہی تھی۔ کہ میں لفظ ناممکن نہ تو سوچتا ہوں اورنہ ہی کہتا ہوں اور خاص طورپر اپن باس کے لیے اس لفظ کو میرے لیے استعمال کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن میں نے اتنا ضرورکہا کہ جناب ہمارا کل ہی نیویارک میں ایک بجے میٹنگ کرنا کیسے ممکن ہو گا؟ کیونکہ جنگی حالات اور ہنگامی کیفیات میں ائیر لائن پر سیٹیں بک کروانا بھی کئی ہفتے کا کام ہے اور پھر یہ بات بھی اس زمانے کی ہے جب جیٹ جہاز ابھی متعارف نہیں ہوئے تھے۔ اور عام جہاز پر سفر کے لیے قریباً بارہ گھنٹے درکار تھے‘‘۔ لیکن اب بات پر جوجوابی فون آیا وہ یہ تھا: مسٹر والٹر اس ضمن میں تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ میں نے ائری لائن کے پریذیڈنٹ سے بات کر لی ہے۔ وہ آپ کے لیے ایک نشست مخصوص کر دیں گے تاکہ آپ سان ڈئیگو سے را ت کی فلائیٹ کے ذریعے صبح نیویارک پہنچ سکیں اور ااپ دوپہر اور سہ پہر کے وقت تمام ضروری معلومات حقائق اور اعدا د و شمار تجزیہ و تحقیق اور پیشکش کی تیاری کا متعلقہ کام باآسانی کر سکیں گے اورآپ بخوبی اس پلان کا ابتدائی خاکہ بھی تیار کر لیں گے ۔ آ پ نہایت احتیاط سے تمام ضروری تفصیل کی مشق بھی کر رکھیں اوریہ خیال رہے کہ تمام اعداد و شمار اور متعلقہ معلومات حقائق سچ اور اصولوں پر مبنی ہو۔ سیل آف سٹاک کے ضم میں کوئی بھی ہماری شق فیڈرل لاء سے متضاد اور منافی نہ ہو۔ میں بھی اپنے طورپر اثاثہ جات واجبات ادائیگیوں اور دیگر مدات سے متعلق ضروری اعداد و شمار کا حساب کتاب لگا کر اس پللان کا خاکہ بنا رکھوں گا‘‘۔ مسٹر والٹر نے اپنی پیش رفت کا ذکر جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اگلی صبح یعنی پیر کے دن منہ اندھیری سحر کو جہاز شیڈول کے علاوہ خلاف معمول طور پر ایک جنوب مشرقی شہر پر اتر گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ تو سراسر ایک ڈرائونا خواب تھا! مجھے میری سیٹ سے زبردستی اٹھا کر ایک آرمی جنرل کوبٹھا دیا گیا اور اس وقت میری متوقع کمپنی نے سارے خواب بکھرتے نظر آئے جب جہاز مجھے تنہا خالی ائیرپورٹ پر چھوڑ کر پرواز کر گیا۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں میں ںے اپنے باس مسٹر جیانی نی کو فون کر کے موجودہ پریشانی کے متعلق بتایاتوانہوںنے مجھے کہا کہ میں فکر نہ کروں وہ ضرور کوئی نہ کوئی متبادل انتظام کر یں گے۔ انہوںنے میرے لیی ایک سپیشل جہاز چارٹر کروایا۔ چار گھنٹے کے بعد میں پھر جہاز پر سوارہو گیا۔ اب مجھے یہ پریشانی لاحق تھی کہ ٹھیک ایک بجے تومیٹنگ ہے۔ قریباً بارہ بجے دوپہر کو میں لاگارڈیا کے ہوائی اڈے پر اتر گیا اور وہاں سے میں نے ٹیکسی پکڑی اروٹیکسی کے سفر کے دوران ہی میں نے جلدی جلدی پرپوزس کا رف کام کیا۔ پلان کے ضروری پہلوئو ں پر غور کیا او ر چند نوٹس تیار کیے۔ اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اہم اعداد و شمار اور پلان کے ضروری پوائنٹس لکھ لیے۔ ٹیکسی ٹھیک مین ہاٹن کے ایڈریس پر جا کر رکی۔ یہ سوچ کر میں اور پریشان ہو گیا یکہ میںنے تو پرسوں والے کپڑے پہن رکھے ہیں ۔ اور میں اسی لباس میں سو گیاتھا۔ اور جگہ جگہ ان پر سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ میرے سر کے پریشان بال میرے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ بس اب میرے پاس ذرا بھی وقت نہیں تھا کہ اپنی حالت کو سنوارتا ۔ میں دوڑ کر بلڈنگ میں داخل ہوا اور ایلیومیٹر میں سوار ہو گیا۔ باہر برآمدے میں دوڑتا ہوا وہاں میٹنگ روم میں جا پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی مطلوبہ پلان کے ضروری کاغذات نکالنے لگا وہ غائب تھے اوہ خدایا یہ کیا ہوا؟ کاغذات جلدی کے باعث ٹیکسی میں رہ گئے تھے۔ ابھی باس میرا نام پکارے گا۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش تو ہو گا لیکن اب میں کیا کروں؟ اس مالیاتی پیشکش میں میرا کوئی بھی غلط بیان ہمیں جیل بھجوا سکتا ہے۔ عجیب اضطراری کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔ میں نے خاموشی میں انتہائی تضرع سے دعا کی اور جلد میرا دل ایک نئے ولولے اور جوش و خروش سے لبریز ہو گیا۔ لیکن کیا میرے قلب و ذہن میں بپا ہونے والا یہ جوش و خروش میرے ضروری مالیاتی اعداد و شمار کی محرومی کی تلافی کر سکے گا؟ بہرحال وہ متعلقہ لوگ جمع تھے اور میں نے اپنی پرجوش تقریر شرو ع کر دی۔ ’’آپ میں سے کتنے حضرات کو کیلی فورنیا رہنے کا موقع میسرآیاہے؟ یہ ریاست ایک زبردست قدرتی حسن کی حامل ہے۔ اور بے شمار خوبصورتویں کے باعث بہت پرکشش ہے۔ یہاں سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے۔ او ر سمندری باد نسیم پوری رعنائی سے تازگی بکھیرتی ہے۔ میلوں میل تک وسعت میںپھیلے ہوئے مالٹے کے گھنے باغات میں درختوں کے جھنڈ در جھنڈ پر سجے چمکتے ہوئے پتوں سے چھنتی ہوئی خوشگوار خوشبو سے معطر ہوائیں موسم سرما کے پورے موسم میں اپنی مہک بھر دیتی ہیںَ معتدل دھوپ کی دھیمی حرارت ہمایر چہرون پر رنگ برنگی مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہے۔ یہاں ہر جنوری کے سرد مہینے میں بے شمار سیاح آئیوا ایلی نوئس انڈیانا اور منی سوٹا سے یہاں آتے ہیں او ر یہاں کے سرسبز جنت نماباغوں کی بہاروں کالطف اٹھاوتے ہیں اور دل کھول کراپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور آخر کار جب موسم بہار میں شکاگو میں برف پڑتی ہیتو یہ سیاح واپس جانا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے پیچھے لاکھوں ڈالر کا سرمایہ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ روپیہ مشرقی علاقوں میں گردشن نہیں کرتا۔ بلکہ یہ روپیہ اسی جگہ سورج کی کرنوں کے نیچے خوب پھلتا پھولتا اور پھیلتا رہتا ہے اوریہ مستقبل کے خزانہ اور آئل کے سمندر میں جمع ہو جاتا ہے‘‘۔ ا س اثناء میں اسی جوش و جذبے اور ولولے نے واقعی میری بروقت عملی اعانت کی مجھے مالیاتی تجزیہ پر مبنی واحد سٹیٹ منٹ تیار کرنے اورپیش رنے کی بھی ضرور ت پیش نہ آئی۔ آخر میں میں نے اپنی تقریر کا مقصد اور خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’’اب سامعین حضرات جب کہ جنگ ختم ہو رہی ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ وہ نوجوان جو کیلی فورنیا میں قیام پذیر ہو چکے ہیں جلد جلد ہیاں واپس آ کر رہنے لگیں گے اوریہ ریاست خوب پھیلے اور پھولے گی اور بینک آف امریکہ نئی کمیونسٹوں میں اس کی شاخیں مستحکم ہو جائیں گی۔ ہم پھر ان رقوم اورسرمائے کو لینے کے لیے تیار ہوں گے اس ضمن میں میں آپ کو سب سے پہلے اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں کہ آئیے سرمایہ کاری کیجیے یقین محکم ہے کہ بینک دنیا کے عظیم ترین بینکوںمیں سے ایک بڑا بینک بن جائے گا‘‘۔ یہ تھی مسٹر والٹر برانش ویگر کی وہ سچی کہانی کہ کس طرح قلب و ذہن میں عود کرنے والا جوش و خروش اور ولولہ ترقی کی منازل کو تیز اور آسان کر دیتا ہے۔ آگے کیا ہوا؟ یہ بینک آف امریکہ کی قابل قدر تاریخ ہے۔ محتاط مالی ماہرین کے اس گروپ نے آخر ی ڈالر تک کس طرح کمال مہارت کے ساتھ سٹاک خریدا۔ یہ جوش و خروش اور ولولے کا ہی کمال تھا کہ پانچ کروڑ ڈالرز کی فروخت ممکن ہو گئی اور اس طرح بینک آف امریکہ کا مستقبل زبردست طورپر تابناک ہو گیا اور یہ مسلسل زبردست ترقی کی راہ پر گامز ن ہے۔ جوش و خروش اور ولولے کی اس توانائی کو ضائع نہ ہونے دیجیے اسے بروقت استعمال میں لائیے ایک روایتی پرست ممتاز شخصیت رمسکی کورسا کوف نے جب ڈیبو سے اوپرا ہال پیلیاس اینڈ میلی سینڈے کا افتتاح کیا تو اس تقریب کے موقع پر اسان کے قلب و ذہن میں پیداہونے والے جوش و خروش اور ولولے کے بارے میں سوال کیاگیا تو اس نے نہایت روکھے اورترش انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’’میں تو اس بارے میں کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہوں مجھے انتہائی مجبوری میں اس جوش و خروش سے کام لینا پڑتاہے‘‘۔ پھر سوال کیا گیا کہ آخر آپ اس جوش و خروش سے کیوں گریز کرتے ہیں تو اس نے کہا: ’’اگر میں س جوش و خروش سے گریزنہ کروں تو مجھے پھر اپنے رویے حالات اور انداز فکر میں کئی تبدیلیاں کرنی پڑیں گی‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ عام طور پر انسان کی یہ فطرتاً کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے محدود دائرے کے اندر ہی مقیم رہے۔ اس لیے کہ اس کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس ترقی سے گھبراتا ہے جس کے یے کسی بڑی تبدیلی کے یلے جدوجہد کرنی پڑھے۔ ہمایر یہ کوشش ہوتی ہے کہ آج کی روایت کے مطابق ہی اپنے معمولات کو جاری رکھیںَ ہم محض اس لیے اس جوش و خروش اور ولولے کو خطرہ قرار دیت ہیں کہ اس ترقی پذیر توانائی کے تحت نئے نئے آئیڈیاز اور تخلیقی تبدیلیوں کے یلے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ منفی انداز فکر اور ناممکناتی سوچ کے حامل لوگ عام طور پر مندرجہ ذیل قسم کے بہانے بنا کر اس جذبہ جوش و خروش کی توانائی کا دم توڑ ڈیتے ہیں: ۱۔ پہلے تو کبھی اس نئے طریقے کو استعمال میں نہیں لایا گیا۔ ۲۔ یہ نئی اختراع ہماری کمپنی کی پالیسی میں شامل نہیں ہے۔ ۳۔ یہ تبدیلی ہماری روایت میں شامل نہیں ہے۔ دوسری طرف مثبت انداز فکر اور ممکناتی سوچ کے حامل لوگ بھی روایات کے مخالف نہیں ہیںبلکہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہرا چھی روایت میں ضرور ہماری اعلیٰ اقدار مضمر ہوتی ہیں۔ روایت کو بدل دینے کی بجائے یہ لوگ وقت کے ساتھ میں اس کے لیے جدت چاہتے ہیں تاکہ ماضی اور زمانہ حال کا باہمی تعلق قائم رہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے افراد ہر وقت اپنے رویوں حالات معمولات طریقوں حتیٰ خہ اپنی سوچ میں ہر آن بہتری چاہتے ہیں وہ ہر کام کو نئے بہتر اور زیادہ آسان طریق سے انجام دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے جوش وخروش اور ولولے کو بے جا تنقیدی اور شکایتی حربوں سے ختم نہ کیجیے۔ آپ ایک ترقی پذیر روشن خیال اورمثبت سوچ رکھنے والے کمپنی مینجر کا کردار ادا کیجیے جس کے نزدیک ہمار ا کمپلینٹ ڈیپارٹمنٹ دراصل کوالٹی کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ہے۔ جوش و خروش اور ولولہ تعلیمی میدان میں بھی حیرت انگیز مثبت اثرات مرتب کرتاہے ’’ہمارے تعلیمی شعبہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مستقل مزاحمت اور پیشہ ورانہ مشکل جو ہمارے ماہرین تعلیم کو پیش آ رہی ہے وہ جوش و خروش کے جذبہ و ولولہ کے خلاف منفی رد عمل اور سخت رویہ ہے‘‘۔ یہ ریمارکس ایک ہائی سکول کے ممتاز اور کامیاب ٹیچر کے ہیں جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے انہوںنے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ترقی کے لیے اپنے وجود میں اٹھنے والی موج اور تحریک کے ا س جوش و خروش کو ہم محض ناقابل اعتماد جذبہ قرار دے کر فراموش کر دیتے ہیںَ یہاں ہم بہت بڑی ہستی اور غفلت سے کام لیتے ہوئے جوش و خروش کے باعث ہونے والی متوقع کامیابی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ہم یہاں نعرہ ازم کے خطرہ کی نشاندہی سے دوسرو ں کو خبردار تو کر دیتے ہیں لیکن ہم اس جوش و خروش کے باعث متوقع او رمثبت کامیابیوں کا ادراک کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ جذبہ اور ولولہ سراسر دانش اور آگہی کے منافی ہے اسی لیے ہم بچوں کے اندر اسی جذبہ کو ختم کر دینے کی تعلیم دیتے رہتے ہیں اورپھر زمانے سے یہ شکایت کرتے ہیں کہ اور شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ نہ ہمارے اندر تعلیم کا شوق ہے اور نہ حصول علم کے لیے ہمارے اندر تحریک پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ ہم اپنے اس مثبت عنصر یعنی قدرتی جوش و خروش کو تعمیری طور پر استعمال میں ہی نہیں لاتے۔‘‘ اس ضمن میںایک مثال پیش کی جاتی ہے: کیلی فورنیا کی اورینج کائونٹی میں ایک انتہائی اثر انگیز اور کامیاب ٹیچر مسز والتھر مقیم ہے اس کے تمام شاگرد عام طور پر غیر معمولی گریڈ سے لے کر کامیاب ہوتے ہیں اور انہیں محنت کرنے میں بہت ہی لطف محسوس ہوتا ہے۔ ایک اتوار کو چرچ کی عبادات کے بعدمیں نے اس ٹیچر سے پوچھا کہ اس کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ مسز والتھر مسکرائی اور پھر کہنے لگی: ’’دراصل میری تدریسی تکنیک میں ایک روایت کا اعادہ کارفرما ہے۔ میں ہر نئی کلاس کے آغاز میں پہلے ہفتے کے دوران مثبت اور ممکناتی سوچ پر مبنی جوش و خروش اور ولولہ و جذبہ کے ارتکاز کو توجہ دیتی ہوں۔ مجھے ی بات معلوم ہونی چاہیے کہ حقیقت میں تمام سٹوڈنٹ بہت اچھے گریڈ میں کامیاب نہیں ہوتے اورہر سٹوڈنٹ کو اس بات کے منفی اثر کی آگہی کا احسا س رہتا ہے اور وہ ان کے دماغ میں جنوری تک موجو د رہتا ہے۔ میر ا پہلا لیکچر جو مثبت انداز فکر پرمشتمل ہوتا ہے وہ ان بچوںکے دماغوں میں موجود احسا س کمتری کو زائل کر دیتاہے۔ میرے دوسرے تیسرے اور چوتھے لیکچر وں سے ان کے دماغوںمیں مثبت سوچ اورممکناتی انداز فکر پر مبنی ایک جوش تازہ ولولہ اور کچھ دکھانے کا جذبہ پیداہو جاتا ہے۔ اورپانچویں دن ہی میں اپنے سٹوڈنٹس کا پہلا ٹیسٹ لیتی ہوں۔ اس طرح میرا یہ تخلیقی طریقہ رنگ لاتا ہے۔ اور میں تب ہی ان کے زرخیر دماغوں میں شوق اور ذوق کا بیج بو دیتی ہوں۔‘‘ میںنے مسز والتھر سے پوچھا کہ اس پہلے ٹیسٹ میں کیا کیا شامل ہوتاہے؟ اس ؤقابل ٹیچر نے جواب دیا: ’’اچھا اس پہلے ٹیسٹ کی نوعیت کا جائزہ لینا درکار ہوت اہے کہ ان کی ذہانت اور قابلیت کا انفرادی معیار کیا ہے۔ میرے چاروں لیکچرز ے بعد ان کا رد عمل اور موجودہ جذبے کی کیفیت کیا ہے؟ ان کے اندر مطلوبہ جوش و خروش اور ولولے کا عمومی پیمان کیاہے۔ ؟ یہ ایک تحریر ی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ میں نے انہیں یہ بات بتائی ہوتی ہے کہ اس ٹیسٹ کے گری؟ڈ وار مارکنگ کی جائے گی اور میں اس ٹیسٹ کو ان کے پہلے گریڈ کورس کے ریکارڈ میں محفوظ رکھوں گی۔ میں پھر فائنل کوئز پر مبنی ایک پیپر بھی دیتی ہوں میں یہ ٹیسٹ پانچویں دن لیتی ہوں اور آئندہ آنے والے پیر کے دن مارکنگ کر کے انہیں واپس دے دیتی ہوں۔‘‘ مسز والتھر نے اس پہلے ٹیسٹ کی ایک کاپی مجھے بھی دی میں نے اسے غور سے پڑھا اور اندازہ لگایا کہ یہ واقعی ایک جامع تجزیاتی ٹیسٹ تھا اوریہ طریقہ ہر اچھے سکول میں رائج ہونا چاہیے۔ مسز والتھر نے اس ٹیسٹ پر چھ عملی اقدام بھی لکھ رکھے تھے جن کی بدولت ترقی کرنے کی آرزو واقعی غیر معمولی کامیابی کے گریڈ ز میں بدل جاتی ہے۔ چھ عملی قدام… جن کی بدولت ترقی کرنے کی آرزو غیر معمولی گریڈ کی کامیابی میںبدل جاتا ہے پیارے طالب علمو! اگر خواہشیں اور آرزوئیں گھوڑوںکی صورت اختیار کر لیتیں تو بھکاری فوراً ان پر سوار ہوجاتے۔ آپ کہ رہنمای کے لیے چھ اہم اقدام کی فہرست دے رہی ہوں۔ آپ ان کو باری باری ذہن نشین کر لیں: ۱۔ اس با ت کو اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ آپ کس گریڈ کی خواہش رکھتے ہیں اور صرف یہ کہنا کافی نہیں مجھے تو اچھے گریڈ کی تمنا ہے ۔ بلکہ آپ ذہن میںمطلوبہ گریڈ کا صحیح صحیح تعین کر یں۔ ۲۔ آ پ تحریراً یہ بیان کریں کہ آپ بہترین گریڈ کیلیے کیا قیمت اور قربانی دینے کے لیے تیار ہیں آپ یہ بات یاد رکھیے کہ کوئی چیز بھی مفت قبول نہ کریں۔ ۳۔ آپ اس وقت کا صحیح صحیح تعین کریں کہ آپ کب بہترین گریڈ حاصل کرکے اپنی غیر معمولی کامیابی کا مظاہرہ کریں گے۔ ؟ i۔ اگلے کوئز ٹیسٹ میں ۔ ii۔ مضمون کے اگلے چیپٹر ٹیسٹ میں۔ iii۔ فائنل رپورٹ میں۔ ۴۔ آپ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک پلان تحریر کریں کہ اورآج ہی سے اس پر عمل کرنا شروع کر دیں۔ ۵۔ آپ اپنے مطلوبہ گریڈ کے حصول کے لیے ٹائم ٹیبل اور سٹڈی شیڈول تیار کریں۔ ۶۔ اپنے تشکیل کردہ پلان اور سٹڈی شیڈول پر پوری پابندی اور باقاعدگی سے عمل کریں اور ہر روز اپنی پراگرس نوٹ کریں۔ یہ ہدایات اور اقدام صرف چھوٹے سٹوڈنٹس کے لیے نہیں ہیں بلکہ ہم سب اس کی روشنی میں اپنے مقاصد اور نصب العین کو یقینی طورپر حاصل کر سکتے ہیں۔ جوش و خروش اور ولولہ ہماری خوابیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بیدار رکھتا اور نکھارتا ہے انسان کی سرشت میں ترقی کرنے کی ذہنی قلبی اور طبعی تحریک ہی وہ مفید اور مثبت جوش و خروش ہے جس کے باعث کامیابی کا حصول جلد اور یقینی ہو جاتاہے۔ اس توانائی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے ٹھنڈاکرنے اور ختم کر دینے والا منفی مضر عنصر ناممناتی سوچ ہے۔ دنیا میں آج تک جس قر عظیم شخصیات پیدا ہوئی ہیں اور جنہوں نے قابل ذکر کارنامے سرانجام دیے ہیں اور کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ سب کے سب ممکناتی سوچ رکھن والے اور اپنے جوش و خروش سے بروقت کام لینے والے لوگ ہیںَ آج بھی کئی عظیم اساتذہ ایسے موجود ہیں جو ممکناتی سوچ اور جوش و خروش سے متوازی طورپر کام لیتے ہیں۔ چند سال بیشتر ایک ممتاز ماہر تعلیم جیروم برونر نے اپنی کتاب تعلیم کا صحیح عمل میں دنیائے تعلیم اور اساتذہ کو چیلنج کرتے ہوئے ایک حیران کن مفروضہ پیش کیا ہے۔ ’’کسی بھی بچے کو کسی بھی مرحلہ افزائش پر کسی بھی تخلیقی انداز میں کوئی مضمون نہایت موثر انداز میں پڑھایا جاسکتاہے‘‘۔ حالیہ تجربات اور تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ قوت گویائی اور قوت بصارت سے محروم بلکہ جسمانی طورپرمعزور افراد کو جوش وخروش اور ولولے کی اس توانائی کے ذریعے موثر تربیت دے کر ان کی باقی ماندہ قابلیتوں سے زیادہ کام لے کر انہیںبھی فعال شہری بنایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ آئیڈیا سردست نامناسب اور ناقابل عمل معلوم ہوتاہے لیکن اسے ممکن بنایا جا رہا ہے کہ بہرے بچوں اورج وانوں کو موسیقی سے لطف اندوز کیا جا سکے۔ موسیقی کے تمام اہم عناصر سر لے تال وغیرہ ان کو سکھائے جا سکتے ہیںَ ایسے دلچسپ اور مفید تجربات کیے جا رہے ہیں کہ جن کی مدد سے بہرے بچوںکو موسیقی کے سروں کے ارتعا ش کو جسم کے مختلف حصوں کی مدد سے محسوس کرایا جارہا ہے مثلاً ۱۔ مدہم سروں کو معدے اور ٹانگوں کی حس سے ۲۔ درمیانی سروں کو سینے کے جوف کی حس سے ۳۔ بلند سروں کو پیشانی کے جوف کی حس سے گزشتہ تیس سالوں سے نوبل انعام یافتہ جی وان بیکسیے‘ جو ذہن اور جسم کے مابین ربط کی مختلف کیفیات کے ممتاز محقق ہیں انہوںنے مختلف تجربات سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کانوں کی بجائے جسمانی جلد کے ذریعے بھی آواز رسائی اور سماعت ممکن ہے۔ آپ کو جوش و خروش اور ولولے کی سخت ضرورت ہے اسے ضرور فروغ پانے دیں سوالات: ۱۔ یہ جوش و خروش اور ولولہ کیا چیز ہے؟ ۲۔ آپ کیسے یہ وضاحت کریں گے کہ یہ جوش و خڑوش ایسی قوت ہے جو پہاڑوں کو پگھلا سکتی ہے؟ ۳۔ اس قوت اور توانائی کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ جواب جوش و خروش اور ولولہ (Enthusiasm)کا یہ لفظ یونانی الفاظ سے مل کر بنا ہے این (n)+تھیوز (Theos)اس کا مطلب یہ نکلتا ہے In-God۔ یعنی خدا تعالیٰ پر زبردس ایمان یقین اور اعتماد پیدا کرنے والی ایک روحانی قوت دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ : ’’آپ اپنے اندر خدا تعالیٰ کی رو ح پیدا کرو او ر باقی تمام ضروری قوتیں طاقتیں صلاحیتیں اور استعدادیں خود بخود پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک قدیم عبرانی پیغمبر نے فرمایاتھا: ’’خدا تعالیٰ جو آقا اور مولا ہے اس کے جوش اوراذن سے ہر امر ظہور میں آ جاتاہے۔ ‘‘ آپ اپنی زندگی میں خوشگوار مثبت یقین اور اعتماد پیدا کریں اسے فروغ دیں تب آپ کو مندرجہ ذیل امور حاصل ہونے لگیں گے۔ : ۱۔ بڑ ے بڑے اور قیمتی مواقع پید اہوں گے۔ ۲۔ مسائل اور مشکلات کے بہترین قابل عمل حل نکلتے آئیں گے۔ ۳۔ بڑی بڑی رکاوٹیں دور ہونے لگیں گی۔ ۴۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے غیبی امداد آنے لگے گی۔ ۵۔ مایوسیوں کے بادل چھٹ جائیں گے او ریقین کی روشنی اور ایمان کانور قلب وذہن میں بھر جائے گا۔ …اور یہی ہے جوش و خروش اور ولولہ۔ جو آپ کے اندر اس وقت ہی پیدا ہونا شروع ہوجائے گا جس لمحہ آپ مثبت اور ممکناتی سوچ کو اپنے قلب و ذہن پر طاری کر لیں گے۔ ٭٭٭ 9 مثبت ذہنی رجحان اور رویے سے اپنے آپ کو سرگرم رکھیے ٭ کیا یہ ممکن ہے کہ جوش و خروش اور ولولہ کبھی بھی مدہم نہ ہو؟ جی ہان یہ عین ممکن ہے۔ اگر آپ ہمیشہ اپنی سو چ اور ذہنی رویہ’’مثبت اور تعمیری‘‘ رکھیں گے تو آ پ کے اندر جوش و خروش اور ولولہ ہمیشہ موجزن رہے گا اوراس کی حرارت آپ کو ہر دم سرگرم رکھے گی۔ ٭ کیا یہ جوش و خروش اور ولولہ حقیقی ہوتا ہے یا محض وقتی جذبہ اور ابال ہوتا ہے ؟ یہ جوش و خروش واقعی سچا اور حقیقی ہوتا ہے اور میں خود اس تجربہ سے گزرتا رہتا ہوں۔ کئی سال گزرے ہیں میں ایک دانشور نے گیت حمد اور قصیدے لکھے اس نے اپنے پہلے نغمے میں یہ کہا تھا: نعمتوں سے سرفراز قابل ستائش اور نہایت مبارک وہ شخص ہے جو ایک درخت کی مانند ہے جسے دریائو ںکا شفاف پانی سیراب کرتاہے او ر وہ ہر موسم میں خوب پھل لاتا ہے اس درخت کے پتے ہمیشہ ہرے بھرے اور تازگی سے چمکتے رہتے ہیں اس سدابہاردرخت جیسا نہایت بابرکت شخص جس کسی کو چھو لیتا ہے وہ خوب پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے لگتاہے مثبت رویہ اور تعمیری سوچ رکھنے والے لوگ ہر وقت جوش و خروش اورولولے سے سرشار رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی یکسر خوشگوار مفہوم رکھتے ہیں: ۱۔ مایوسی اورناکامی ۲۔ رکاوٹیں مسائل اور مشکلات ۳۔ پریشانی اورتذبذب 1۔ مایوسی اور ناکامی مثبت رویے کے حامل لوگ اول تو اس لفظ سے آشنا ہی نہیں ہوتے۔ وہ اس لفظ کو نظر ثانی شدہ پروگرام کا نام دے کر ایک تجربے سے گزر کر از سر نو اپنے پلان کو نئی شکل دے کر مایوسی اورناکامی سے محفو ظ رہتے ہیں۔ 2۔ رکاوٹیںمسائل اور مشکلات مثبت انداز فکر رکھنے والے یہ لوگ رکاوٹوں اور مشکلات کو خاطر میں ہی نہیں لاتے وہ ہر مسئلے کو چیلنج سمجھتے ہیں اور اپنے تخلیقی آئیڈیاز سے ہر رکاوٹ مشکل اور مسئلے کو بطریق اؤحسن حل کر کے ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی راہ میں حائل ہر مزاحمت کو مہم سمجھ کر اسے سر کر لیتے ہیں۔ 3۔ پریشانی اور تذبذب تعمیری اورمثبت سوچ کے حامل یہ لوگ زبردست قوت فیسلہ کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ عزم واستقلال سے مجوزہ پروگرام کے مطابق یکے بعد دیگرے اپنے مقاصد حل کرتے چلے جاتے ہیںَ ابہام اور تذبذب کا عالم ایسے لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا۔ وہ خوب سوچے سمجھے منصوبے پر گامزن رہتے ہیں۔ اور اپنے نصب العین کو حاصل کر کے مطمئن اور مسرور ہو جاتے ہیں۔ مثبت رویے اور تعمیری انداز فکر کے لوگ اپنے وجود میں جوش و خروش کی توانائی کی تازہ خوراک مسلسل حاصل کرتے رہتے ہیں اور ہر آن سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے جوش و خروش اور ولولے کو مثبت خیالات سے تازہ دم رکھیں گے تو آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز صفات اور خاصیتیں پیدا ہوجائیں گی۔ آپ بھی ان شاداب و سرسبز درخت کی مانند ہو جائیں گے جن کو دریائوں کاوافر اورشفاف پانی میسر آتا ہے جو ہر موسم میں پھل دیتے ہیں اور دوسرے لوگ فیض حاصل کرتے ہیں اور ان کے پتے کبھی بھی نہ مرجھاتے ہیں اورنہ گرتے ہیں۔ خوشگوار زندگی بسر کرنے کے لیے نہایت ضروری سبق ایک بوڑھے آدمی اور اس کے بیٹے کے متعلق ایک قصہ مشہورہے۔ یہ دونوں ایک دن نہر کے کنارے کے ساتھ ساتھ کسی مہم پرجا رہے تھے کہ پھر یہ ای ندی کے ساتھ مڑ گئے جو جنگل میں سے گزرتی ہوئی کسی اجنبی علاقے کو جا نکلتی تھی۔ عقل مند بوڑھے شخص نے ندی میں گرے ہوئے ایک تازہ پتے کو اٹھایا او ر اس کی باریک اور نفیس دھاریوں اور رگوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہو کر اس نے پوچھا۔ میرے بیٹے کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پتا کس درخت کا ہے؟ اور ان درختوں کی خاصیت کیا ہے؟ نوجوان بیٹے نے نہایت ادب سے کہا: نہیں جناب میں نے کبھی ان درختوں کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ بوڑھے شخص نے کہا: ’’اوہو اگر تمہیں معلوم نہیں ہے تو سمجھ لو کہ تم اپنی زندگی کا پچیس فیصد حصہ ضائع کر چکے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اس پتے کو ندی کے پانی میں واپس پھینک دیا۔ دونوں باپ بیٹا مسلسل ندی کے کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ بوڑھے شخص نے چمکتی ہوئی چٹان کا ایک گیلا ٹکڑا اٹھایا اور اسے اپنے ہاتھوںمیںلڑھکانے لگا اور یہ ٹکڑا جلد خشک ہو گیا اور دھوپ میں چمکنے لگا اس نے اپنے بیٹے کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’بیٹے یہ دیکھو یہ ایک چٹان کا ٹکڑاہے کیا تم زمین کی معدنیات اور ان چٹانوں کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ نوجوان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: ’’نہیں اباجان افسوس ہے کہ میں نے ابھی ان چٹانوں اور زمین کی ماہیت اور معدنیات کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں کیا‘‘۔ بوڑھے شخص نے چٹان کو گھما کر ندی میں پیھیک دیا اور کہا: ’’بیٹے جی تم نے اپنی زندگی کا مزید پچیس فیصد حصہ ناحق ضائع کر دیا ہے۔ اور تمہیںاس زمینھ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تم نے یونہی اپنی آدھی عمر گنوا دی‘‘۔ بوڑھا باپ اورنوجوان بیٹا اسی طرح چلتے رہے۔ چلتے چلتے شام ہو گئی آسمان پر ایک ستارہ نمودار ہوا۔ بوڑھے شخص نے اوپر ستارے کی طرف دیکھا اور کہا: ’’وہ دیکھو بیٹے وہ ایک ستارہ ہے۔ کیا تمہین معلوم ہے کہ اس ستارے کاکیانام ہے؟ کیا تمہیںجنت کے بارے میں کچھ پتاہے؟‘‘ بیٹے نے افسردگی سے جواب دیا: ’’نہیں اباجان میں نے ابھی ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کیں‘‘۔ اپنے بیٹے کے اس جواب پر بوڑھے باپ کو غصہ آیا اور قدرے تیز لہجے میں کہنے لگا: ’’کس قدر افسوس کی بات ہے۔ تم نہ تو درختوں کے بارے میں کچھ جانتے ہو نہ ہی زمین کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہو اورنہ ہی تمہیں آسمان سے متعلق کچھ آگہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اپنی تین چوتھائی ‘پچھتر فیصد‘ اپنی زندگی فضول رائیگاں کر دی ہے‘‘۔ اچانک ہی انہوںے بلند شور سنا اور دیکھا کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوںنے جلدی جلدی ایک کشتی لی اور اس کے ذریعے کچھ فاصلہ طے کیا ہی تھا کہ پانی کی گہرائی زیادہ ہو گئی بیٹے نے گھبرا کر کہا: ’’اباجان یہ تو سیلاب ہے کیا آپ کو تیرنے کا فن آتا ہے؟‘‘ بوڑھے باپ نے لاچارگی سے جواب دیا: ’’نہیں بیٹے تیراکی کا فن تو میں نے ابھی سیکھا ہی نہیں‘‘۔ اس پر بیٹے نے تنک کر جواب دیا: پھر تو آپ نے اپنی پوری زندگی ہی ضائع بلکہ برباد کر دی ہے‘‘۔ اس قصے سے یہ بات اخذ کی جا رہی ہے کہ جس طرح ڈوبنے سے بچنے کے لیے تیراکی کا فن ضروری ہے سی طرح آپ کی زندگی اور اس کی سلامتی اور تحفظ کے لیے مثبت ذہنی رویے کی اشد ضرورت ہے۔ تب آپ کامیاب اور خوشحال رہیں گے۔ مثبت اور تعمیری انداز فکر کے بغیرآپ کے قلب و ذہن سے جوش و خروش اور ولولہ سرد پڑ جائے گا۔ اور زندگی کی رمق ختم ہو جائے گی۔ مثبت ذہنی رویہ اپنانے اسے فروغ دینے اور قائم رکھنے کے لیے دس اصول میں کئی سالوں سے ان شخصیات کے طرز عمل قابل ذکر کامیابیوں اور خوشگوار زندگی کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ اور تجزیہ کرتا رہا ہوں جو مثبت انداز فکر تعمیری رویہ اورممکناتی سوچ کی حامل ہیں۔ اس عمیق مشاہدہ کے بعد یہ بات میں نے اخذ کی ہے کہ کچھ ایسے ہمہ گیر اصول موجو دہیں جو ان کامیاب شخصیات کی اعلیٰ ذہنیت کی تشکیل میں کارفرما رہے ہیں اور انہی کی بنا پر ان کی سوچ ہمیشہ مثبت اور تعمیری ہی رہی ہے۔ آپ بھی ان مفید دس اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے کردار ذہن اور رویے میں خوشگوار اور مثبت روش اور رنگ پیدا کر سکتے ہیں: پہلا اصول: چاہے کوئی بھی صورتحال ہو آپ اپنے ہر ملنے والے شخص کو مثبت رویہ اپنانے کی تلقین کریں۔ دوسرااصول: آ پ اپنے ہر قول و عمل میںمثبت رویے کا عملی مظاہرہ کریں۔ تیسرا اصول: آ پ مثبت انداز فکر اور ممکناتی سوچ کو انی عادت بنا لیں۔ چوتھا اصول: ایسا ضرور ممکن ہے کہ کلب کے پریذیڈنٹ بن جائیں۔ پانچواں اصول: ہرمثبت اور تخلیقی آئیڈیا کو آج اور ابھی سے شروع کریں۔ چھٹا اصول: آپ ہمیشہمثبت اور بہتر نتائج کی توقع رکھیں۔ ساتواں اصول: آپ مثبت اور تعمیری انداز اور رویے کی قوت سے بھرپور فائدہ حاصل کریں۔ آٹھواں اصول: آپ مثبت اور تعمیری انقلاب کے لیے اپنے آپ کو منظم کریں۔ نواںاصول: آپ ہر وقت اپنے ذہن و قلب کو مثبت جذبات سے سرگرم رکھیں۔ دسواں اصول: ہمیشہ روشن پہلو اور مثبت انداز پر مبنی سوچ کے ذریعے اپنے قلب و ذہن کو پر امید رکھیں۔ 1۔ اپنے ہر واقف کار کو مثبت رویہ اپنانے کی تلقین کرنا یہ بات صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ جب آپ خود مثبت فکر کے مالک ہوں تعمیری سوچ رکھتے ہوں اور ممکناتی انداز فکر کے باعث تازہ حوصلے سے سرشار ہوں جب ایک شخص جوش و خروش کی توانائی سے سرگرم عمل ہو گا تویہ بات اس کی فطرت اور عادت میں شامل ہوجائے گی کہ وہ اپنے ہر عزیز رشتہ دار دوست اور واقف کار کو بھی مثبت رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا رہے۔ ایسا شخص نہایت مستعد اور متحرک ہوتا ہے وہ دوسروں کوخوشخبریاں سناتا رہتا ہے اور ان کی مختلف کامیابیوں اور مواقع پر مبارکباد پیش کرتا ہے ان کے اچھے کاموں اور کوشش کی تعریف کرتاہے اپنے دائدہ رفاقت اور شناسائی میں ہر فردکی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ انہیں امید افزا قصے کہانیاں اورمثالیں سناتا ہے۔ وہ خوش باش اور روشن خیال ہوتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو فتح اور کامیابی کی امید دلاتا ہے اورپیشنگوئی کرتا رہتا ہے کہ ایسا شخص حسن ظنی سے کام لیتاہے۔ اس کے تمام واقف لوگ اس کی آمد پر خوش ہوتے ہیں۔ وہ جہاںجاتا ہے لوگ خوشی سے اس کا استقبال کرتے ہیں وہ بذات خود ایک مبارک وجود اور خوشخبری کی علامت بن جاتاہے۔ جب ہم سیاحت کے شوق میں بحر الکاہل سے گزر رہے تھے تو ایک اعلان کیا گیا کہ اس دن چار بجے سہ پہر کو ہم ہیبت ناک اور تشویش ناک مونگے کی چٹانوں سے گزریں گے اور ساتھ ہی تھرسڈے کا جزیرہ آ جائے گا جہاں ؤایک خاص مقام پر چھتیس فٹ چوڑا ہمارا بحری جہاز ایک تنگ چٹانی راستی سے جس کی چوڑای ستر فٹ سے بھی کم ہو گی گزرے گا۔ اس دن ٹھیک ساڑھے تین بجے جب آسٹریلوی پائلٹ ہمیں وہاں تک لے آیا تو عرشہ جہاز پر مسافروں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا اور جب ہم گہرائی کے نشان زدہ سطح سے قریب پہنچ رہے تھ تو کسی نے ہمیں خبردار کیا کہ ہم انتیس فٹ گہرائی میں سے گزر رہے ہیں جبکہ یہاں کی کل گہرائی صرف اکتیس فٹ ہے۔ ا ن انتباہی الفاظ نے ان لوگوں کے دلوں میں زبردست پریشانی اور اضطراب کی شدید کیفیت پیدا کر دی جو چند لمحات بیشتر نہایت اشتیاق اور جوش و خروش سے سمندری مونگوں کے رنگوں کا نظارہ کر رہے تھے۔ اب اس خوف کے انتہائی عالم میں ایک مثبت سوچ اور روشن خیالی کے حامل شخص نے کہا: ’’تو ہمیں دو فٹ بلند رہنے کی بھی کیا ضرورت ہے؟ ہماری رفتار تو صرف سترہ ناٹ (بحری کوس ۶۰۸۰فٹ) فی گھنٹہ ہے ور تہہ کی سطح پر تو چل نہیں رہے۔ ہماری کیفیت اور صورتھال زیادہ محفوظ اور آسان ہے۔ اگر ہم کسی کار پر سوار ہوں ار اس کی رفتار ۶۰ میل فی گھنٹہ ہو اور مخالف سمت سے بھی ایک کار اسی رفتار سے آ رہی ہو تو ان دونوںکے درمیان دو فٹ کا فاصلہ موجود ہو گا‘‘۔ اس خوش کن تبصرے پر سارے مسافر ہنسنے لگے اور جوش مسرت و اطمینان سے سرشار ہو گئے اور ہماراجہاز اس مشکل گزار چٹانی شگاف میں سے بحفاظت کمال مہارت سے گزر گیا۔ میں ایک اورمثال پیش کرتاہوں: مسز لوئیس وینڈل قریباً چودہ سال تک میری پرسنل سیکرٹری رہی ہیں۔ یہ زمانہ میری ابتدائی مشاورتی سروس کا زمانہ تھا۔ آج س بارہ سال پہل کی بات ہے کہ مجھے اس کی طرف سے فون آیا۔ اس کی آواز میں بہت دکھ اور در د کی کیفیت عیاں تھی: ’’صاحب! مجھے کینسر ہو گیا ہے اور وہ بھی بہت شدید اورمہلک ہے‘‘۔ میں جلدی سے ا س کے گھر پہنچا۔ اس کے گھر کے سامنے اپنی گاڑی پارک کرنے کے دوران میں نے سوچا کہ لوئس کی اس شدید بیماری کی کیفیت میں اسے کیا کہون گا۔ آخر اس نے مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کر فون کیا ہے۔ اے خدا میری مدد فرما مجھے توفیق دے کہ میں اس سے حوصلہ افزا گفتگو کر سکوں‘‘ میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تووہ مجھے دیکھ کر خوشی کے مارے رو پڑی۔ پیشتر اس کے کہ میں اسے کچھ کہا وہ خود کہنے لگی: ’’صاحب آپ کے آنے سے مجھے بہت حوصلہ ہواہے اور مجھے اھبی تک یاد ہے کہ آپ نے ایک بار دعا کی تھی۔ ان دنو ںمیں ذہنی اور قلبی طور پر بہت پریشان تھی۔ مایوس اورمضطرب تھی۔ آپ کی مثبت اور موثر دعا نے میرے خیالات میں ایک امید بھر دی تھی۔ اور میرے ذہن میں سکون کی لہر دوڑ گئی تھی۔ دراصل یہ دعا شکر اور تشکر کے جذبات سے لبریز تھی۔ مجھے آپ کے دعا کے اخلاص اور تضرع کا انداز آج ابھی تک یاد ہے۔ آپ نے کہا تھا: ’’اے خدا! آ جہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ بیماری کے انتہائی ابتدائی مرحلہ پر اس کا پتا چل گیا ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں بہترین علاج اور عمدہ ادویات میسر ہیں۔ ہم آ کے شکر گزار ہیں کہ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں کہ جبکہ کینسر کا علاج ممکن ہو گیا ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ لوئیس کے بے شمار دوست اور رشتے دار ہیں جو اس سے پیار کرتے ہیں ا س کا خیال رکھتے ہیں اسے توجہ اور وق دیتے ہیں۔ شکر ہے کہ اس کو توجہ دینے والا اس کا شوہر ہے۔ شکر ہے کہ اس کے بے شمار عیسائی دوست رشتہ دار اور ہمسایے ہیں۔ اے خدا آپ کاشکر ہے کہ آپ نے اسے اپنے ایمان اور یقین کا پختہ تحفہ عطا رر رکھا ہے۔ اسے اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ یہ آنے والے دنوں کی ماہیت کو نہیں جانتی لیکن یہ اس آقا کو جانتی ہے جس کے ہاتھ میں اس کا مستقبل ہے۔ اے خدا ہمارے شکر اور ہماری دعا کو قبول فرما آمین‘‘۔ بستر پر لیٹی ہوئی لوئیس نے میری دی ہوئی دعا کو خود اپنے ہی الفاظ میں دہرا دیا اسے بہت سکون محسوس ہوا۔ بہت حوصلہ ملا اور یقین ہونے لگا کہ خدا اسے ضرور شفا دے گا۔ میں نے آپ کے لیے جان بوجھ کر یہ مثالیں دی ہیں تاکہ میں یہ ثابت کر سکوں کہ آپ بھی ہر موقع محل پر ہر واقف فرد کے ساتھ اسی طرح مثبت اور حوصلہ افزا رویے کا اظہار کرتے رہیں۔ جب ااپ اس اصول کو اپنی زندگی کے معمولات میں شامل کر لیں گے تو آپ کو یہ مشاہدہ کرکے بہت لطف اور اطمینان محسوس ہو گا کہ کس طرح ہر کام زیادہ بہتر طریقے اور عمدہ زنداز سے ہو رہا ہے۔ 2۔ اپنے ہر قول و فعل میں مثبت رویے کا عملی مظاہرہ کرنا آپ ہر بات اور ہر کام میں خیر اورمثبت کا عنصر جستجو کرنے کی کوشش کریں اور آپ یقینا اسے پا لیں گے۔ مغربی علاقہ جات کے ایک چھوٹے سے چرچ کے نوجوان انچارج نے ہمارے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف گارڈن گرووکمیونٹی چرچ سے باقاعدہ ٹریننگ حاصل کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اسے ممکناتی سوچ کی قوت پر پختہ یقین نہیں تھا۔ اور اس کے خیالات ا س مثبت انداز فکر کے بارے میں خاصے مبہم اورمشکوک تھے۔ حتیٰ کہ بے شمار مسائل اور مشکلات کے پیش نظر اس نے اپنا ایک چرچ قائم کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اس نوجوان کو چرچ میں ایک مشکل اسکے لیے مستقل سردرد کا باعث بنی ہوء تھی۔ ایک میمیو گراف مشین تھی جو کئی جگہ سے لیک کرتی تھی۔ یہ مشین سائیکلو سٹائل سسٹم کے ذریعے سٹینسل کی مدد دے ہاتھ سے پرنٹنگ کرتی ہے۔ جب یہ جوان تبلیغی اور دعائیہ لٹریچر چھاپتا تھا تو اس کے ہاتھ میز اور کاغذاات پرنٹنگ انک (سیاہی) سے آلودہ ہو جاتے تھ۔ دراصل یہ میمیو گراف مشین اب کافی پرانی ہو چکی تھی اور بہت خراب ہو چکی تھی۔ نئی مشین خریدنے اور چرچ میں سیکرٹری کا تقرر کرنے کے لیے بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ایک دن ایک خاص دعائیہ تقریب کے لیے لٹریچر کی چھپوائی کرنابے حد ضروری تھا نوجوان نے عزم کیا کہ آج خواہ کچھ بھی ہو لٹریچر ضرور پرنٹ کیا جائے گا۔ چنانچہ اس نے سٹینسل کاٹا مشین میں انک ڈالی او پرنٹ کرنا شروع کر دیا اور زور شور سے مشین چلاتا رہا جب کاغذ ختم ہو گئے تو اس نے دیکھا کہ اس کی پینٹ شرٹ اور ہاتھ پرنٹنگ سیاہی سے بھر گئے ہیں اور ڈھیروں کاغذ بھی خراب ہو گئے ہیں۔ اسے اپنی پینٹ خراب ہوجانے کاتو بہت ہی افسوس ہوا یہ تو کئی جگہ سے از خودپرنٹ ہو گئی تھی کاغذات میں صرف پچاس تو کچھ بہتر پرنٹ ہو سکے جبکہ 500شیٹس بھی ضائع ہو گئیں۔ اسی مایوسی اور پریشانی کے عالم میں اسے اچانک یا د آیا ہکہ اس نے گارڈن گووانسٹیٹیوٹ میں ایک لیکچر کے دوران یہ سنا تھا: ’’ہرمسئلہ اورمشکل جو پیش آتی ہے وہ ترقی اور کامیابی کے لیے ایک بہترین موقع ہوتا ہے‘‘۔ اسے ایک آئیڈیا آیا کہ کیوں نہ اپنی اس ابتر حالت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اب بقی کہانی اسی نوجوان سے سنیے: ’’مجھے پہلے ممکنتانی سوچ کی قوت پر یقین حاصل نہیںتھا۔ میںاب تک دقیانوسی انداذ کا مالک خشک مزاک کامالک تھا۔ لیکن میں نے ڈاکٹرشلر کے فارمولے پر کام کر نے کا سوچا تو واقعی اس نے تو ممکن کر دکھایا۔ اسی ہفتے کے دوران جب چرچ کے بورڈ کے ممبران کی میٹنگ ہوئی تو میں جان بوجھ کر وہی شرٹ اور پینٹ پہن کر آیا جو پرنٹنگ انک سے ستیاناس ہو چکے تھے ۔ جب میں اس حالت میں بورڈ ممبران کے سامنے چند گھنٹے چلتا پھرتا رہا تو ان کے استفسار پر میں نے بتایا کہ یہ سارا کمال ورک روم میں پڑی کھٹارا اور گھسی پٹی میمیو گرافک مشین کا ہے۔ اس نے نہ صرف کاغذ کی 500 شیٹیں خراب کر دی ہیںبلکہ میرے کپڑوں کی یہ حالت بنا دی ہے۔ میں نے کئی دفعہ یہ درخواست کی ہے کہ نئی میشن خریدنے کے لیے فنڈز دیے جائیں۔ لو جی ایک ممب نے میری پہنٹ پاکٹ میں بیس ڈالر ڈال دیے دوسرے نے پچاس ڈالر ڈال دیے۔ میٹنگ کے اختتام تک میرے پاس تین سو ڈالر جمع ہو چکے تھے۔ نوجوان اپدری اس رقم کے حصول پر بے حد خوش ہوا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا یہ آئیڈیا اس قدر جلد باثمر ہو سکتا ہے۔ اب اسے ممکناتی سوچ کی قوت پر یقین اور اعتماد پختہ ہو گیا تھا۔ اب وہ خود لوگوں کے پاس جاتا اپنے تمام واقف کار سے ملتا اورانہیںبتاتا کہ ایسا ضرور ممکن ہے نامی ایک کلب قائم کر لیا گیا ہے وہ اس کے ممبر بن جائیں۔ وہ گھیر گھیر کر لوگون کو چرچ لاتا اورانہیں چرچ کا رکن بنا دیتا۔ لوگ ممبر شپ فیس ادا کرتے اور ممبر بنتے جاتے۔ حتیٰ کہ اس نوجوا ن نے ایک سال میں ساٹھ نئے ممبر بنا لیے۔ اس نوجوان کا دل اور ذہن جو ش اور ولولے سے بھر گیا وہ اکثریہ بات کہا کرتاتھا: ’’اگر اسی جوش و جذبے سے کام کرتے ہوئے دس سالوں کے اندر 600ممبر بنا لیے جائیں تو بیس سالوں کے اندر 1200ممبرز بنائے جائیں تو تیس سالوں میںدو ہزار ممبر بن جائیں گ۔ اور اس طرح ہمارے چرچ کی دو ایکڑ زمین بہت طریق سے بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔‘‘ اس نوجوان نے یہی آئیڈیا چرچ بورڈ کے ارکان کے سامنے پیش کر دیا اور مزید بارہ مہینوں کے بعد ا سنوجوان نے ممبران کی حمایت اور تعاون سے چرچ کی توسیع کے لیے 120ایکڑ زمین خرید لی۔ بہترین عمارت تعمیر کرنے کے لیے عمدہ پلاننگ کی گئی اور اکیسویں صدی کے جدید تقاضون کے مطابق شاندارچرچ بنانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ 3۔ مثبت انداز فکر اور ممکناتی سوچ کو اپنی عادت اور معمول بنانا آپ کو جب کسی مشکل صورت حال کاسامنا ہو تو آپ بھی مثبت سوچ کے ساتھ اس موقع سے اسی طرح بھرپور فائدہ اٹھائیں جس طرح نوجوان پادری نے اٹھایا تھا۔ اس عمل کے باعث آپ کا قلب و ذہن زبردست جوش و خروش سے اور مثبت اور تعمیری خیالات سے لبریز ہوجائیں گے۔ مثبت سوچ رکھنے والی ایک خاتون لوئی سیانا بائیو نامی ملک میں ایک چھوٹے سے مکان میںرہتی تھی۔ اس کے گرد و پیش میں رہنے والی زیدہ تر خواتین کی سوچ نہایت منفی اور غیر تعمیری تھی۔ اور وہ اپنے مکانوں اور ماحول کے بار ے میں اکثر شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھی۔ کہ یہ جگہ سنسان اور اجاڑ ہے ۔ کی اہماری قسمت میں یہی پسماندہ ملک میں رہنا لکھا تھا؟ یہ خاتون ان عورتوں کے گلے شکوے سن سن کر تنگ آ گئی تھی۔ ایک دن مثبت فکر سے سرشار اس صاحبہ نے ان ناشکری خواتین کو اکٹھا کیا اور کہنے لگی: ’’میں تو اس فرانسیسی ٹائون پلانز کو بہت سراہتی ہوں ارو بہت تعریف کرتی ہوں کہ جس نے محض ایک جھیل کے گر د آباد کر دیا ہے ۔ یہ جھیل ایک ندی سے جا ملتی ہے اوریہ ندی جا کر ایک دریا سے مل جاتی ہے اور دریا خلیج میں جانکلتاہے۔ اور خلیج کا پانی موجیں مارٹتا ہوا وسیع سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس سمندر کا ساحل کئی ملکوں سے ملتا ہے اور آپ اس سمندر کی مد د سے جس ملک میں چاہوجا سکتے ہو‘‘۔ یہ بات سن کر خواتین بہت خوش اور متاثرہ وئیں اور کہنے لگیں کہ ہمارے سرزمین تو واقعی باکمال اور قابل رشک ہے۔ اس دن سے وہ دل و جان سے اپنے گھروں اور ماحول کو چاہنے لگیں۔ آپ بھی اپنے گھر ماحول دفتر اور گرد و پیش میں مثبت سوچ کو فروغ دیں آپ مثبت انداز فکر اور ہر بات کام اور عمل میں روشن پہلو کی جستجو کواپنا معمول اور عادت بنا لیں حتیٰ کہ یہ تعمیری سوچ اور مثبت انداز آپ کا خاصا اور مزاج بن جائے۔ 4۔ ایسا ضرو ر ممکن ہے کے عنوان سے کلب کا قیام ’’ایسا کیوں ممکن نہیں‘‘؟ کی سوچ زبردست انقلابی مثبت اور تعمیری ہ۔ جب یہ سوال ہر مشکل پراجیکٹ کے لیے کیا جائے گا تو وہ خود ہی آپ کے قلب و ذہن سے ایک پرعزم صدا بلند ہو گی کہ ایسا ضرور ممکن ہے۔ آپ وائی ناٹ کلب Why not Clubقائم کریں اور خود اس کلب کے پریذیڈنٹ بن جائیں۔ ایک مثبت تحریک کا آغاز ہو جائے گا۔ مسٹر ایڈ ایک ذہین اورمستعد کارپوریٹ وکیل تھا اور وہ ہارورڈ لاء سکول کا گریجوایٹ تھا اس نے ائیر لائن کی نگران خادمہ (Stewardess)وکی سے جو بہت خوبصورت تھی شادی کر لی۔ ایڈ اور وکی نے مل کر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ہم دونوں مل کر کس طرح اپنے عیسائی لوگوں کی بطریق احسن خدمت کر سکتے ہیں۔ سالانہ یوم تشکر قریب آرہا تھا۔ انہیں یہ ترکیب سوجھی کہ ایسے ضعیف لوگ جو بے یار و مددگار ہیں اور کوئی شخص ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ انہیں یوم تشکر کے عصرانہ پر مدعو کیا جائے۔ مسٹر ایڈ اس مقصد کے لیے ایک مقامی ہوٹل کے مینجر سے ملا اور اس نے اپنا مدعا بیان کیا کہ وہ یوم تشکر کو غیرب اور ضعیف لوگوں کو عصرانہ دینا چاہتا ہے۔ مینجر نے نہایت روکھے انداز سے انکار کر دیا۔ مسٹر ایڈ نے ہوٹل کے مینجر کو معنی خیزنظروں سے دیکھا اور پوچھا: ’’کیوںنہیں ؟ ‘‘‘ آپ وضاحت کریں کہ ایسا کیوں ممکن نہیں؟ ہوٹل مینجر نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہہ دیا: اچھا ٹھیک ہے۔ ہوٹل مینجر کی جانب سے ہاں و جانے کے بعد مسٹر ایڈ مختلف کمپنیوں کے پاس گیا جن کا واسطہ اس کے اپنے پیشہ وکالت سیتھا کیونکہ اس یہ علم تھا کہ ان کمپنیوں کے پاس خیراتی مقصد کے لیے بجٹ میں گنجائش ہوتی ہے۔ ان کمپنیوں سے تعاون کی درخواست کی کہ وہ یوم تشکر پر ضعیف لووں کو اور غریب لوگوں کو جن کا کوئی سہارانہیں ہے عشائی دینا چاہتا ہے۔ اس پر کمپنیوں کے مالکان نے اس سے یہ کہا کہ ہماری پالیسی اس قسم کے خیراتی فنڈ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اس وقت کوئی رقم بطور عطیہ نہیں دے سکتے مسٹر ایڈ نے کہا کیوں نہیں؟ ایسا کیوں ممکن نہیں؟‘‘ تاہم مسٹر ایڈ اس دفعہ بھی اپنے عزم اور مثبت مصد پر ثابت قدم رہا اور کامیاب ہو گیا اور اسے مطلوبہ رقم حاصل ہوگئی۔ اس کی بیوی وکی نے اس دعوت شیراز کا متینوتیار کیا اس نے سبزیاں چھوٹا گوشت بڑا گوشت اورمٹھائی وغیرہ خریدی اور باقاعدہ خود کھانا پکوا کر ہوٹل میں عین وقت پر بھجوا دیا۔ صبح 11بجے ہی مسٹر ایڈ اوروکی ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر اپنے خاص مہمانوں کا انتظار کرنے لگے۔ ساڑھے گیارہ بجے ان کے دل میں خیال آیا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک بھی مہمان نہ آئے سوچنے لگے کہ ہم نے تو انہیں باقاعدہ طور پر مدعو کیا تھا لیکن کسی کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کہ وہ ضرور اس دعوت میں آئیں گے۔ ہم نے تمام پبلک مقامات اور چھوٹے ہوٹلوں میں بھی اعلانی اشتہارات بھجوا دیے تھے۔جن پر اس ہوٹل کا نام پتا اور وقت بھی درج کر دیا گیا تھا۔ اب دونوں میاں بیوی کو پریشانی لاحق ہونے لگی کہ ابھی تک مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری نہیںہوا۔ گیارہ بج کر چالیس منٹ پر چھوٹے قد کی عورت چھڑی کاسہارا لیے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ہوٹل میں داخل ہوئی اوراس نے انکوائری سیشن سے پوچھا: کیا یہ وہی جگہ ہے جہاں عصرانے کا انتظام کیا گیا ہے؟ یہ الفاظ سنتے ہی میاں بیوی دوڑتے ہوئے اس بوڑھی عورت کے پاس گئے وکی نے اسے چوما اور مسٹر ایڈ اس کو سہارا دیتے ہوئے اندر ہال تک لے گیا۔ انہوںنے شکر کیا چلو ایک مہمان تو واقعی آ گی اہے۔ اس کے بعد یکے بع دیگرے مہمان آتے چلے گئے۔ یہ سب نہایت ضعیف اور کمزور تھے۔ کوئی لنگڑا تے ہوئے آرہاتھا کوئی چھڑی کے سہارے چلتاہوا آرہا تھا۔ بہرحال اب مہمان آنے شروع ہو گئے۔ وکی اور ایڈ اب بے حد خو ش نظر آ رہے تھے عصرانے کی اس دعوت میں شروع ہونے ک قریباً تین سو مہمان آ چکے تھے۔ مسٹر ایڈ اور وکی نے کس قدر عمدہ آئیڈیا سوچاتھا۔ جس کی آج عملی تکمیل ہو رہی تھی۔ یہ دعوت کس قدر مبارک تھی۔ ان دونوں کو بے حد قلبی مسرت حاصل ہو رہی تھی۔ اس کے بعد گھر واپس جا کر دونوں نے فیصلہ کیا کہ وائی ناٹ کلب قائم کیاجائے۔مسٹر ایڈ اس کلب کا پریذیڈنٹ ہو گا اور وکی اس کلب کی وائس پریذیڈنٹ ہو گی۔ اس کلب کو قائم کرتے ہی دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ غریب بوڑھے لوگوں کو یوم تشکر کے موقع پر جو عصرانہ دیا ہے اسی تجربہ کو لاس اینجلز کے علاقے واٹس میں بھی دہرایا جائے کرسمس کے موقع پر غریب اور یتیم بچوں کو کھانے کی دعوت دی جائے۔ انہوںنے اپنے آپ سے یہ سوال کیا۔ وائی ناٹ کیوںنہیں ضرور مسٹر ایڈ اور وکی نے چار سو یتیم اور غریب بچوں کو کرسمس کے دن کھانا تحائف اور کرسمس کارڈ دینے کا عزم کر لیا۔ آپ ابھی اپنے دائرہ کار میں وائی ناٹ کلب قائم کریں۔ جونہی کوئی تخلیق آئیڈیا آپ کے ذہن میں آئے اسے جلد از جلد عمل جامہ پہنانے کی کوشش کریں بیشتر اس کے کہ کوئی دوسرا شخص آپ سے پہلے اسے متعارف کرا دے۔ آپ اپنے آپ کو یہ چیلنج دیں آپ خود کیوں پہل نہٰں کرتے؟ امریکہ کے ایک صدر رابرٹ کنیڈی کہا کرتے تھے: ’’کچھ لوگ مختلف واقعات اور اشیا کو دیکھ کر بھی یہ سوال کر رہے ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ جبکہ میںناممکن باتوں کے خواب دیکھ کر یہ کہتا ہوں: ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ 5۔ ہرمثبت اور تخلیقی آئیڈیا کو آج اور ابھی شروع کرنا آپ کے ذہن میں جو بھی مثبت آئیڈیا آئے تو اسے ڈی آئی این (D-I-N)یعنی ابھی اور اسی وقت کرو Do it nowکی حکمت عملی کے تحت فوراًشروع کر دیجیے۔ کوشش کیجیے کہ آ پ کا یہ نیا تازہ مثبت اور تخلیقی آئیڈیا مرجھانے یا نظر انداز ہونے نہ پائے۔ انتہائی مصروفیات کے باعث اکثر اوقات تساہل غفلت اور بے پروائی سے کام لیتے ہوئے ذہن میں آئے ہوئے بے شمار قیمتی اور تخلیقی آئیڈیاز محض اس لیے ضائع اور زائل کر دیا جاتا ہے کہ ہم انہیں فوراً دائرہ تعمی اور احاطہ تشکیل میں نہیں لاتے۔ اس لیے میں آپ کو پھر یہ تاکید کرتا ہوں کہ آپ فوراً ور اسی وقت اس آئیڈیا کو قابو کر لیں۔ تحریر کر لیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کا ابھی سے آغاز کر دیں۔ میرے ذہن میں جب بھی کوئی آئیڈیا آتا ہے تو میں اسے ترجیح دیتے ہوئے فوراً لکھ لیتا ہوں۔ میں اسے اپنی آئیڈیا بینک بک میں جلدی سے نوٹ کر لیتا ہوں۔ یہ بہت ہی ضروری عمل ہے۔ آپ بھی ہمیشہ اپنے سامنے ایک پیپر شیٹ یا نوٹ بک رکھیں اور جونہی کوئی نئی بات تجویز حل آئیڈیا ذہن میں آئے اسے فوراً اپنے پاس ریکارڈ کر لیں۔ صرف اس آئیڈیا کو نوٹ کرنا یا ریکارڈ رکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ آپ اسے اڈی آئی این کی پالیسی کے تحت فوراً اسپر کام شروع کر دیں۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے ییل ترتیب وار اقدام ورمرحلہ وار فہرستیں بنائیں اور پہلے مرحلہ کا آغاز کر دیں۔ آپ اپنی یہ عادت بنا لیں کہ جونہی کوئی تخلیقی آئیڈیا آپ کے ذہن میں آئے تو آپ اس خوف اور جوش کے ساتھ اس آئیڈیا پر عمل شروع کر دیں کہ کہیں او رشخص آپ سے پہہلے اس آئیڈیا کو عملی شکل دے کر دنیا میں متعارف نہ کرا دے۔ سرالگزینڈر فلیمنگ جو نوبل انعام یافتہ سکاٹش سائنسدان تھے۔ اور ممتاز بکٹیریالوجسٹ تھے انہیں دنیا کے اس کارنماے سے ہمیشہ یاد رکھے گی کہ انہوںنے انسانی زندگی بچانے کے لیے اینٹی بایوٹک پنسلین ایجاد کی تھی۔ ایک دن وہ یونیورسٹی آف لندن میں اپنی لیبارٹری میں صبح صبح ہی اپنے تحقیقی کام میں مصروف تھے انہوںنے یہ مشاہد ہ کیا کہ جراثیم کی افزودگی کے لیے تجرباتی پلیٹ کے بکٹیریا کے گرد لگی ہوئی فنگس مر چکی ہے۔ انہوںنے تازہ پھپھوندی کا ایک ٹکڑا لے کر اسے خالی گلاس ٹیوب میں مزید تحقیقاتی مطالعہ کے لیے فوراً رکھ دیا۔ یعنی فنگس کی مو ت کامشاہدہ ان کے مجوزہ آئیڈٰا کا مرکزی متحرک تھا۔ انہوںنے ایک منٹ بھی ضائع کیے بغیر اس کی توثیق ک لیے عملی کام کاآغاز کر دیا۔ کئی سائنسی مبصرین نے سر فلیمنگ کی اس عاد ت کو سراہا ہے کہ ان کے ذہن میں جو بھی آئیڈیا آتاتھا اس پرو ہ فوراً عمل کر کے اس سے نتیجہ اخذ کر لیتے تھے اور اسی روش نے ان کو زبردست کامیابی اور شہرت دلا دی۔ ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ ان کے ذہنو ں میں زبردست انوکھے باکمال قیمیت اورتخلیقی آئیڈیاز آتے ہیں کہ وہ ان کی ماہیت اور تصور سے خو دبھی حیران ہو جاتے ہیں کہ لیکن بروقت ان پر عملی کام نہ ہونے کے باعث ان آئیڈیاز کے نقوش ذہنو ں سے مٹ جاتے ہیں۔ آپ اپنے آئیڈیاز کو بیج کی طرح عملی گملے میں بروقت بودین اور مرحلہ وار اسے اپنی کوشش لگن شوق اور استقلال کے پانی سے سیرات کرتے رہیں۔ جلد ہی وہ دن آ جائے گا کہ آ پ کاآئیڈیا عملی صورت میں ثمر کی طرح آپ کے سامنے ہو گا۔ 6۔ ہمیشہ مثبت او ر بہتر نتائج کی توقع رکھنا یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں اکثر پید اہوتا ہے: بعض لوگ کیوں ہر وقت ہی پرجوش رہتے ہیں؟ اس سوال کا ایک ہی سیدھا سادا او ر یقینی جواب یہ ہے کہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ جوش و خروش اور بلند حوصلے اور ولولے سے سرانجام دیا گیا ہر مثبت کام کا نتیجہ انتہائی خوشگوار اور بہتر مرتب ہو گا۔ میں جب کبھی اپنے طور پر یہ بات محسو س کرتا ہوں کہ میرے جوش و خروش اور ولولے کا معیار مطلوبہ درجہ توانائی سے پست ہو گیا ہے تو میں بغوریہ تجزیہ کرتا ہوں کہ اور نہایت سنجیدگی سے اس عمل میں کارفرما جواز اور مسئلے کو تلاش کرتاہوں اور اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہوں: ’’آج میرے قلب و ذہن ایسے امر سے عاری ہیں جو میرے جوش کو بھڑکا ئے اور میری توانائی میں مطلوبہ اضافہ کر دے‘‘۔ اگر آ پ بھی ایسی کیفیت کو محسوس کریں تو اس کا حل نہایت آسان ہے کہ آپ کسی پرجوش کام اور پراجیکٹ کی پلاننگ کریں اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس پراجیکٹ سے معلقہ تخلیقی آئیڈیاز کا ایک مطلوبہ سلسلہ آپ کے ذہن پر وارد ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اور ساتھ ہی آپ کے ذہن و قلب میں تازہ ولولہ اور جوش و خروش پید اہوجائے گا۔ آپ پھر سے ایک بھرپور توانائی سے مصروف عمل ہو جائیں گے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پائیل اور ماربل کالجیٹ چرچ کے ایک گروپ نے سال کے آخر میں یہ فیصلہ کیا کہ انسانی توقعات کی قوت کو ٹیسٹ کیاجائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک سو افراد کا انتخاب کیا اور انہیں ایک سوالنامہ دیا گیا کہ وہ نئے سال سے وابستہ اپن انی توقعات اس پر درج کر دیں اور منسلکہ لفافے میں بند کر کے دے دیں۔ اسی سال ایک خا ص موقعے پر اس گروپ کے تمام اراکین کے سامنے ان لفاف جات کو کھول کر ہر فرد کی تحریر کردہ توقعات کو بآواز بلند پڑھا گیا۔ ا س تحقیق و تجربے کا نتیجہ زبردست قابل ذکر تھا چند تحریرات اور مثالیں یہ تھیں: ایک بیمار بوڑھے شخص نے لکھا: ۱۔ اگلے سال مجھے توقع ہے کہ میرے اس سال کی طرح وہ بھی اسی طرح دکھ تکلیف اورآزردگی اور حسرت میں گزر جائے گا۔ (اس شخص کا اگلا سال واقعی اسی طرح پریشانی او ر بدحالی میں ہی گزرا) ۲۔ ایک خاتون نے اگلے سال سے وابستہ دس خوش کن توقعات کی فہرست بنائی۔ (اگلے سال ا س خاتون کی دس میں سے نو خواہشات اور توقعات پوری ہوگئیں۔ اس نے بعد میں بتایا کہ اس نے اپنی ان توقعات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی تھی۔ اس لیے جو سوچا تاھ سو پا لیا) ۳ ۔ ایک شخص نے اپنے سیارہ قسمت (پیدائش کے دن کے مطابق ہوروسکوپک سائن) کیپری کارن(جدی) کی روایتی پیشن گوئی کے مطابق اگلے سا ل کے لیے یہ توقعات وابستہ کر دیں کہ یہ سال انتہائی مایوسیوں اور مشکلات میں سے گزرے گا۔ (اس شخص کے لیے اگلا سال واقعی انتہائی پریشانی اور مشکلات میں ہی گزرا) ۴۔ ایک اور خاتون جس کا پیدائشی سیارہ بھی کیپری کارن ہی تھا لیکن یہ روایتی پیشن گوئی سے قطعا واقف نہیں تھا۔ اس نے اگلے سال کے لیے نہایت خوش کن اور مبارک توقعات وابستہ کر لیں۔ (اس خاتون کا اگلا سال زبردست کامیابیوں کے حصول میں گزرا اور تمام توقعات سو فیصدی پوری ہو گئیں) ۵۔ ا س تحقیقاتی گروپ کا ایک رکن اسی سال کے دوران انتقا ل کر گیا جب ا س کی توقعت پر مبنی لفافہ کھولاگیا تو اس نے یہ لکھاتھا کہ میرے خاندان کی اوسط عمر 60سال ہے میری عمر بھی ساٹھ سال ہونے والی ہے لہٰذا توقع ہے کہ میں اگلے سال مر جائوں گا‘‘۔ اس گروپ کے علاوہ بھی کئی خاندانی اور معاشرتی نفسیات کے ماہرین نے اس موضوع پر خاصی تحقیقات کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب کوئی شخص اگلے ماہ یا ااگلے سال کے لیے اپنی توقعات وابستہ کر تاہے تو اس کے شعور اور لاشعور میں ان جملہ توقعات کے عین مطابق عملی محرکات کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ انسان انکے موافق ہی اپنا طرز عمل اختیار کر لیتا ہے اوراسی طرح توقعات اس کی سوچ عمل اور ارادے کے مطابق پوری ہوجاتی ہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ ہمیشہ مثبت سوچ توقعات تعمیری خواہشات اور خوشکن آرزوئوں کو اپنے قلب و ذہن میںنشین کر یں تاکہ اس کے نتائج بھی بہتر ہوں اور خوشگوار برآمد ہوں۔ اس طرح آپ کے اندر جوش و خروش اور ولولہ بھی سرگرم رہے گا اور آپ کی تخلیقی صلاحیتیں ظاہر ہوتی اور کام آتی رہیں گی۔ 7۔ مثبت انداز اور تعمیری رویے کی قوت سے بھرپور فائدہ اٹھانا فرض کریں کہ آپ کی خوش کن توقعات کسی وجہ سے پوری نہی ہوتی ہیں۔ اس صورت میں آپ ایک نہایت قیمتی او رموثر اصول پر عمل کریں: ۱۔ آپ اپنی خداداد خوبیوں نعمتوں سہولتوں اور امتیازی خصوصیات کی فہرست بنا ئیں۔ (آپ اپنے مسائل اور مشکلات کی فہرست تیار نہ کریں) ۲۔ آپ پھراپنی ان نعمتوں اور خوبیو ں پر خدا کاشکر ادا کرتے ہوئے اپنے قلب و ذہن کو تشکر کے جذبات سے گرمائیںَ ایسا کرنے سے آپ کے اندر مثبت ردعمل پیدا ہو گا آپ کا وجود تعمیری سوچ اور تخلیقی سرگرمی کے لیے از سرنو تیار ہوجائے گا۔ مجھے ایک بار ایک خاتون کی جانب سے ایک عمدہ خط موصول ہوا اس میں نہایت خوبصورت انداز میں ’’لیکن‘‘ کا استعمال کر کے خاتون نے مثبت سوچ کا ایک دلچسپ مظاہرہ کیاتھا: ٭ میر ا شوہر انتقال کر چکا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرے پیارے بچے میرے پاس موجود ہیں۔ ٭ ہمار ے گھر کو آگ لگ گئی تھی اور سارا سامان جل گیا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم سب نہایت محفوظ رہے اور ہم نے اپنے گھر کے لیے ضروری اشیار پھر سے تیار کر لی ہیں۔ ٭ میری قوت سماعت ختم ہو گئی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ میر ی نظر بالکل ٹھیک ہے اور میں دوسرو ں کے تاثرات اور اشارات کی مدد سے ان کا مافی الضمیربخوبی سمجھ سکتی ہوں۔ ٭ میرا بڑا بیٹا ملک سے باہر چلا گیا ہے لیکن خدا کا شکرہے کہ میں نہ صرف فون پر اس سے بات کر لیتی ہوں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے اس سے آدھی ملاقات ہر ہفتے ہو جاتی ہے۔ 8۔ اپنے آ پ کو مثبت اور تعمیری انقلاب کے لیے منظم کرنا ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پائیلے سے ایک دفعہ پوچھا گیا: ’’آپ نے مثبت سوچ کو کس حد تک اپنی عملی زندگی میں اپنے قول و فعل اور طرز حیات میں عملی طور پر استعمال کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر نارمن نے جواب دیا : ’’میں اپنی مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر کو ہر اس صورتحال میں استعمال کرتاہوں جس پر مجھے کنٹرول حاصل ہوتا ہے‘‘۔ انسانی زندگی میں بعض ایسے حالات اور صورتحال بھی پیش آتی رہتی ہے جن پر انسان کوکنٹرول حاصل نہیں ہوتا۔ اس کیفیت میں اسے اپنے آپ کومنظم رکھنا بھی مشکل ہو جاتاہے۔ فرض کریں آپ کاکوئی انتہائی عزیز رشتہ دار کسی شدید حادثے کے باعث انتقال کر گیا ہے۔ آپ کا اس سانحاتی حادثہ پر تو کوئی کنٹرول نہیں ہے لیکن اس سانحہ کے رد عمل کے طور پر آپ کو اپنے رویے کے اظہار پر تو کنٹرول حاصل ہے آ پ اس صورتحال میں کیا کریں گے؟ یہ بات آپ کے طرز عمل پر موقوف ہے۔ ایسے برے واقعا ت و حادثات انسان کے مزاج سوچ اور رویے پر ضرو ر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ بھی اپن اس عزیز رشرہ دار کی بے وقت موت سے اثر قبول کرتے ہوئے اپنے آپ میں کوئی تدیلی محسوس کریں گے۔ اب آپ کے اندر یہ تبدیلی بھی مثبت ہو سکتی ہے۔ یا منفی بھی۔ اب ان دونوں قسم کے رویوں کو اختیار کرنا آپ کے کنٹرول میں ہے‘‘۔ آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے ذہن سے کام لیں ۔ آپ خوب غور کریں کہ آپ کو اس نازک صورتحال رپ کیا موقف اور رویہ اختیار کرنا چاہی۔ آپ اس صورتحال میں نہایت بہتر مثبت اور تعمیری رویے سے کام لیتے ہوئے اپنا رد عمل ظاہر کریں۔ بجائے اس کے کہ ایک سانحہ کے غم کو دوگنا اور چارگنا کر کے اپنے آ پ کو اور دوسرے لواحقین کو زیادہ غمگین افسردہ اور پریشان کریں آ خود بھی نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے رشتہ دارو ںکے غم کوٹھنڈ ا کرنے میں اپنا کردار اد ا کریں اور اس سانحاتی موت کے متوقع نتائج اور اثرات میں مضمر منفی پہلوئوں کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ جے ویلیس ہملٹن نے عرب اور اسرائیل کے درمیان صحرائوں کی سیاحت ک بارے میں مختلف تجربات حالات اورواقعات سناتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ایک صحرائی میدان کے ایک گوشے میں ایک لڑکا بانسری بجا رہا تھا۔ ویلس نے اسے پاس بلایا لڑکے نے اپنی بانسری دکھائی یہ بانس کی چھڑٰ سے نہیں بلکہ رائفل کی سٹیل سے بنی نالی کی تھی۔ ویلیس نے کہا: ’’واہ کیا خوب آئیڈیا ہے جنگ کے لیے تباہ کاری کے لیے اور انسانی زندگی کو ختم کرنے کے لیے جو ہتھیار بنایا گیا تھا اس سے آلہ موسیقی کا کام یلا گیا ہے جو انسانی روح کو کیف اور سرور دیتی ہے‘‘۔ یہ ہے مثبت سوچ کی ایک فکر انگیز مثال کسی دانشور اور ماہر سماجیات نے کہا تھا : ’’تمہاری زندگی کا دس فیصد حصہ تمہرا اپنا اورنجی ہ جس کا تعلق تمہارے اپنے ذاتی معاملات سے ہے جبکہ نوے فیصد تمہاری زندگی کا حصہ دوسرے ان لوگوں کا ہے جو تمہارے ساتھ کسی نہ کسی واسطہ پہلو اور نسبت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ‘‘ اپنے بارے میں یاد رکھیے کہ آپ کا تشخص شخصیت اور شناخت کیا ہے ؟ آ پ کی شناخت ؤاور آپ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ آ پ مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر کے حامل انسان ہیں۔ اپنی اس شناخت اور منصب کے لحاظ سے آپ پر یہ اخلاقی معاشرتی مذہبی اور ذاتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ اپنے دائرہ کار کے تمام افعال اقوال اور اعمال میں اپنی ذات کو اس انداز سے منظم کریں کہ ہر وقت مثبت سوچ ہی آپ کی حکمت عملی کا عنوان ہو۔ مثبت سوچ کے کھیل کا ایک اہم اصول اور قاعدہ یہ بھی ہے کہ مثبت سوچ رکھنے والا شخص میدان عمل سے نہ تو ہار مانتا ہے اورنہہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگتا ہے۔ ایسا شخص انی زندگی میں پیش آنے والی ہر صورتحال میں مثبت سوچ کے قالب میں ڈھل کر تعمیری کردار ادا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسا انسان مندرجہ ذیل حکمت عملی اختیار کرتاہے: ۱۔ وہ صورتحال ماحول اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے لائحہ عمل میں تصحیح اور ترمیم کر لیتا ہے۔ ۲۔ وہ اپنے مجوزہ پلان اور پروگراموں کی حالات کے مطابق حد بندی کرتا ہے یا وسعت دیتا ہے۔ ۳۔ وہ اپنے پروگراموں اور پلان کی تکمیل کے یے نئے وسائل اور ذرائع تلاش کرتا ہے۔ ۴۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی راہیں ہموار کرتے ہوئے نئے نئے راستے بناتے ہوئے دائیں بائیں موڑ کاٹتے ہوئے اپنے مقاصد کی گاڑی مسلسل چلاتا رہتا ہے۔ ۵ ۔ وہ ہر روز ’’آج‘ کے تقاضوں کے مطابق اپنے مقاصد کے حصول کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے۔ بہرحال مثبت سوچ کا حامل انسان شکست اور پسپائی قبول نہیں کرتا۔ حالات کے تحت اس کی رفتار میں فرق تو پڑ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے وجود اور ذات کو کنٹرو کرتے ہوئے اپنے حالات کو قابو میں کرتے ہوئے مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ مقصد کے حصول کی راہ میں صبر و استقلال ایک لازمی شرط ہے انجیل مقدس کی تعلیم یہ ہے: ’’تم اپنے خدا پر بھروسہ ؤرکھتے ہوئے صبر سے کام لو۔ تمہارا آقا تمہیں ہمت اور جرات عطا کرے گا۔ اور تمہار ے دل میں حوصلہ اور اطمینان بھر دے گا تب تم سرخرو قرار دیے جائوگے‘‘۔ 9۔ اپنے ذہن اور قلب کو ہمہ وقت مثبت جذبات سے سرگرم رکھنا مثبت جذبات ہی سرگرمی عمل اور مطلوبہ جوش و خروش پیدا کرتے ہیںَ اگر اپ منفی سوچ وار غیر تعمیری فکر کو اپنے ذہن قلب پر طاری کر یں گے تو جوش و خروش پیدا ہونے کے بجائے مایوسی افسردگی اوربزدلی آپ کے وجود پر طاری ہوجائے گی۔ آپ اپنی شخصیت کے ہر پہلو کی کارکردگی کے لیے مثبت سوچ کو آپ کی قیادت اور رہنمائی کرنے دیجیے تب آپ ہر وقت ایک ایسی تازہ توانائی محسوس کریں گے اور جو آپ کے اندر جوش و خروش اور ولولہ پیدا کر دے گی۔ اس طرح آپ پر وقت ہی ہر تعمیری کام کی انجام دہی کے لیے تیار مستعد اور سرگرم نظر آئیں گے۔ اس سرگرم اور فعال کیفیت میں آپ کی جسمانی قوتیں آپ کی ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر متوازی طورپر کام کریں گی۔ قدرت کے قوانین اور حالات و ماحول کے ساتھ ایک موافق ربط اور ہم آہنگی کا احساس آپ کو مزید متحرک رکھے گا۔ جہاں آپ مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر کو اپنانے کے لیے جدوجہد اور سعی کریں تو ساتھ ہی متوازی طور پر آپ منفی سوچ اور غیر تعمیری فکر کے خلاف بھی جہاد بھی کرتے جائیں کیونکہ منفی اور تخریبی سوچ آپ کے قلب وذہن میں خوشگوار جوش کی بجائے ایک پریشان کن ہیجان پیدا کر دیتی ہے۔ جس کا کائنات قوانین قدرت اور اصول معاشرت کے اعلیٰ اقدار سے قطعاً کوئی تعلق نہیں لہٰذا آپ کی ذات زندگی اور خواہشات منتشر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے آپ کے ذہن و قلب کو مثبت سوچ تعمیری خیالات اور تخلیقی فکر سے معمور کریں۔ آپ کا وجود سرگرمی عمل اور جوش و خروش سے فعال اور مستعد رہے گا اور آپ ضرور اپنے اعلیٰ مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 10۔ روشن پہلو اور مثبت سوچ کے ذریعے ہمیشہ پر امید رہنا خون کن توقعات اور خوشگوار امید انسان کی روحانی اور قلبی غذا ہے۔ آپ اس امر کو اپنے معمولات اور عادت میں تحلیل کر لیں کہ آپ نے ہر صورتحال میں روشن پہلوئوں کی جستجو کرنی ہے۔ روشن پہلو کی تلاش دراصل مثبت سوچ ہی کا ایک خوبصورت رخ ہے جہاں مایوسی افسردگی اور ناامیدی سراسر منفی خیالات ہمارے ذہن و قلب میں ضعف اور کمزوری پید اکر دیتے ہیں وہاں امید جیسی مثبت سوچ ٹانک کی طرح ہمارے قلب و ذہن میں تازہ توانائی اور نئی قوت کا باعث بنتی رہتی ہے۔ پر امید رہنے کے لیے اور اچھی توقعات وابستہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ہر صورتحال کے روشن پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیشہ مثبت سوچ کے تقاضوں کے مطابق عمل اور رد عمل کا مظاہرہ کریں۔ آ پ ایک متناسب معتدل اورمتوازن شخصیت و کردار کے مالک ہیں قدرت نے انسان کو نہایت متناسب اورم متوازن مخلوق بنایا ہے۔ اسے زبردست قوتوں صلاحیتوں اور قابلیتوں کے ساتھ ساتھ زبردست احساسات جذبات اور محسوسات عطا کیے ہیں اور طرح طرح کی خوبصورتیاں رعنائیاں اور خوبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔ ڈاکٹر جیا کو بے لکھتے ہیں: ’’انسان کی سرشت می ایک توازن اور تناسب موجود ہے ۔ انسان کے آرام کرنے چلنے پھرنے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے‘ اٹھنے بیٹھنے‘ اور سانس لینے کے مختلف نظام ہائے جسم میں زبردست توازن اورہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انسانی اعضا مثلاً دل گردہ ‘ معدہ مثانہ اور دماغ اس وقت صحیح کام نہیں کر سکتے جب تک نظام دوران خون فعال نہ ہو‘‘۔ اسی طرح یہ بات بھی سچ ثابت ہو چکی ہے کہ جہاں ہمارا جسم نہایت متوازن اور متناسب طریق سے اپنے اپنے نظام میں فعال ہے اسی طرح ہمارا ذہن بھی جسم سیجو کام لیتا ہے اس کی فعالیت بھی ایک خاص توازن اور تناسب کے اعلیٰ معیار پر قائم ہے۔ ڈاکٹر ہانز برجر نے 1923ء میں اپنی لیبارٹری میں پہلی بار انسانی دماغ میں موجود ایک خاص توازن اور تناسب کی موجودگی پر مبنی ایک تجربہ کیا۔ اس نے تجرباتی مظاہرے سے یہ ثابت کیا کہ کس طرح انسانی دماغ تمام نظام ہائے جسم کو زبردست توازن اور تناسب کے ساتھ کنٹرول کرتا ہے۔ موسیقی سے تعلق ایک بین الاقوامی جریدے Music Educators Journalکے ماہانہ شمارہ اپریل 1972ء میں ایک تحقیقی مضمون میں یہ بیان کیا گیا کہ انسان دل کی دھڑکن اور نبض کی حرکت میں ایک یکساں فریکوئنسی سے دماغ اور جسم سے مابین ہم آہنگی توازن اور تناسب رکھتی ہے۔ ایڈورڈ پوڈولسکی نے بھی اپنی کتاب میوزک تھراپی میں لکھا ہے : ’’یہ جو ڈیسکارٹے کا مشہور قول ہے: چونکہ میں سوچتا ہوں لہٰذا زندہ رہتا ہوں کی عبارت اور الفاظ کو میں نئی ترتیب اگر دوں تو وہ یہ ہو گی چونکہ میرے اندر ذہن اور جسم کے افعال میں باہم ایک مسلسل ربط جو تناسب اور توازن پر مبنی ہے لہٰذا میں زندہ رہتا ہوں اور تندرست اور فعال رہتا ہوں‘‘۔ ڈاکٹر پودولسکی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اور کئی تجربات اور تحقیقات نے اس امر کی توثیق کر دی ہے کہ موسیقی کا ردھم یعنی توازن کا یکساں آہنگ انسانی دما پر زبردست اثرات مرتب کرتاہے کیونکہ دماغ کی فعالیت کے اندر بذات خود ایک ردھم کارفرما ہے اور انسانی اعمال اور افعال بھی دماغ کی تحریک کے عین مطابق ہی ظہو میں آتے ہیں‘‘۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی دماغ اور اس کے افعال اور اعمال کے متوازن اور متناسب ہونے کا تعلق انسانی جذبات جوش اور ولولے سے کیا ہے؟ یہ تعلق براہ راست اور زبردست ہے۔ اس لیے کہ کسی کام عمل اور کارکردگی کا دارومدار تو ذہنی تحریک سے ہے۔ جب تک طبیعت میںجوش اور ولولہ نہ ہو یہ تحریک پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ مثبت جوش و خروش اس تحریک کو توانائی عطا کرتے ہیں اورپھرہمارا رویہ کردار اور طر ز عمل تعمیری روش کا مظاہرہ کرتاہے۔ اسی طرح منفی خیالات تخریبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں اورپھر غیر تعمیری عمل ظہور میں آتاہے۔ لہٰذا آپ انسانی فطرت سرشت اور خالص خاصیت کے مطابق ہمیشہ مثبت سوچ کو تقویت دیں۔ آپ کے دماغ میں جب مثبت خیالات کی آمد جاری رہے گی تو آپ کے کردار قولل اور عمل میں بھی ایک خوبصورت توازن اور تناسب کا عنصر پیدا ہو جائے گا۔ اپنے آپ کو گرمانے کے لیے مثبت سوچ کو سرگرم رکھنے کے لیے اور اپنے وجود کے اندر تعمیری افعال کے لیے مطلوبہ توانائی کے حصول کے لیے آپ اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں اورمتوازی طور پر یہ خامیاں اور خرابیاں دور کریں۔ ذیل میں مثبت اور منفی دونوں رویوں کی فہرست پیش کی جا رہی ہے تاکہ آپ اچھی باتوں کو اپنے باطن اور کردار میں تحلیل کریں اور مثبت سوچ کو تقویت دیں: مثبت جذبات منفی جذبات مثبت جذبات منفی جذبات یقین بے یقینی دوستی دشمنی امید ناامیدی ؍ مایوسی مزاح طنز محبت نفرت مقصدیت فضولیت اعتماد بے اعتمادی آزادی قید جرات بزدلی مبارکبادی؍ ستائش تنقید مسرت غم تواضع کنجوسی اطمینان بے سکونی امنگ حسرت تحفظ خوف خوشباشی خشک مزاجی تعریف شکایت عالی ظرفی کم ظرفی قوت فیصلہ تذبذب معاف کرنا کینہ پروری متاثر ہونا متنفر ہونا توجہ غفلت تشکر ناشکری صبر بے صبری قناعت لالچ رحم دلی بے رحمی احساس ذمہ داری بے پروائی بھلائی برائی حسن ظنی بدظنی اتفاق نفاق رشک حسد رضامندی ناراضگی آپ اپنے پسندیدہ اور منتخب مثبت جذبات پر مبنی اپنے تشخص کی تشکیل کریں آپ مندرجہ ذیل اقدام کے ذریعے اپنے قلب و ذہن میں جو ش و خروش اور ولولہ پیدا کر نے کے لیے اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق مثبت جذبات پر مبنی متحرکات کا انتخاب کریں اورانہیں اپنی سیرت اور کردار کا لازمی جزو بنائیے: ۱۔ آپ اپنے ذوق مطالعہ کا جائزہ لیں اور تجزیہ کریں کہ مختلف کتب کا مطالعہ آپ کے اندر مثبت جذبات پیدا کرتا ہے۔ یا منفی جذبات کو فروغ دیتا ہے؟ ۲۔ آپ جو لیکچر سنتے ہیں ٹیلی وذن کے پروگرام دیکھتے ہیں یا دیگر تفریحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آپ ان تینوں سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیں کہ کیا یہ آپ کے وجود میں مثبت محرکات پیداکرتی ہیں یا منفی محرکات کا موجب بنتی ہیں؟ ۳۔ آپ کے خاص دوست واقف کار رفقا کار کی مجلس یا صحبت مجموعی طور پر آپ کو کس جانب راغب کر رہی ہے۔ مثبت محرکات کی طرف یا منفی محرکات کی طرف؟ ۴۔ آپ جس مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس کے اثرات آپ کے کردار اور سیرت پر کس حد تک مرتب ہو رہے ہیں؟دنیا کا ہر مذبہ ہمیشہ مثؓت محرکات کا باعث بنتاہے۔ آپ یہ جائزہ لیں کہ آپ جس مذہب کی پیروی کرتے ہیں وہ آپ کو کون کون سے مثبت محرکات کی جانب زیادہ راغب کر رہا ہے؟ ۵۔ آپ اپنی گفگتو خیالات معمولات اور عام معاملات اور اعمال کا اچھی طرح جائزہ لیں کہ آپ خودکس قسم کے انسان ہیں۔ کون کون سے مثبت محرکات آپ کے کردار کا حصہ بن چکے ہیں؟ ان میں مزید پختگی لائیے اور کون کون سے منفی محرکات آ پ کی شخصیت میں داخل ہو چکے ہیں ان سے اجتناب کرنے کی حتی المقدور کوشش کیجیے۔ عملی نفسیات نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان کی شخصیت کردار اور مزاج اور انداز فکر پرکئی عوامل اپنا اثر ڈالتے رہے ہیںَ رنگ اور ان کے شیڈز الفاظ اور ان کے معافی اور صوتی اثرات عمارات اور ان کی نفاست اور جدت کا معیار آرٹ اور اس کے جمالیاتی پہلو موسیقی اور اس کے سر لے اور تال کا ترنگ مختلف مناظر اور ان کی کیفیات… غرض ماحول کی ہر چیز انسان کے ذہن و قلب پر مسلسل اپنے اثرات مرتب کرتی رہتی ہے اور پھر ان عناصر اور عوامل کی بدولت مختلف مثبت اور منفی محرکات انسانی کردار انداز فکر اور طرز حیات میں شامل ہوتے ہیں۔ اب جدید سانس نے یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ رنگ ہمارے مزاج میں صحت اور سوچ رہگے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ سرخ رنگ ہمارے اندر ہیجان پیداکر دیتا ہے جبکہ سبز رنگ ہمارے ذہن میں خیف او ر سرور کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ اسی طرح مختلف پھول اور پودے بھی اپنی خوشبو رنگوں اور ہئیت کے باعث ہمارے مزاج میں طرح طرح کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ لینڈ سکیپ آرکیٹکٹ کہتے ہیں کہ کیکٹس کا پودا زبردست ڈرامائی خاصیت رکھتا ہے۔ جبکہ صنوبر اور بید کے درختوں میںکسون کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ بھی غور کرنے کے قابل امر ہے کہ آپ کی گفتگو اور تحریر میں جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں اور جو آپ کا انداز بیان ہے اس میں کس حد تک مثبت سوچ اور جذبات کا عنصر موجود ہے۔ آپ کے قلب و ذہن میں مستور آپ کے خیالات اور انداز فکر کی تمام تر عکاسی آپ کے انتخاب و استعمال الفاظ سے ہو جاتی ہے۔ اورپھر آپ کے لہجے میں آ پ کے احساسات و جذبات کے معیار کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد فوت ہوئے تھے تو میں نے اپنے ایک دوست کو اپنا دکھ سناتے ہوئے کہا تھا: ’’میں اپنے با سے محروم ہو گیاہوں‘‘۔ میرے دوست نے فوراً میرے فقرے اور انداز فکر کی تصحیح کرتے ہوئے کہا: ’’آئندہ آپ کبھی بھی یہ نہی کہیں کہ آپ اپنے والد سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ سراسر منفی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔ آپ کے والد اپنی پوری زندگی بھرپور اندا ز سے گزار کر اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسان اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیںَ آپ اپنے والد کے بایر میں یہ کہا کریں کہ وہ اب اس دنیا میں ہمارے پاس تو نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے اور ان کی یادوں کا اثاثہ ہمارے پاس ہے۔ ان کی رہنما باتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں‘‘۔ آپ کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ جو لیڈر عوامی جلسوں میں تقریر کرتے ہیں وہ اپنے فن خطابت میں کس قر طاق نظر آتے ہیں۔ لوگ ان کی باتوں سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مافی الضمیر کو موثر انداز میں بیان کر کے لوگوں کوگرما تے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی منشور کو انتہائی مثبت انداز سے عوام کے آگے رکھتے ہیںَ اور اس طرح قوم کی ہمدردیاں جیت لیتے ہیں۔ آپ بھی اس فن میں طاق ہو سکتے ہیں۔ مثبت اظہار اور اثباتی بیان سے مثبت افعال اور اعمال ہی سرزد ہوتے ہیں اپنے قلب و ذہن میں مثبت سوچ کو راسخ کرنے واراپنے باطن کو تعمیری فکر سے مزین کرنے اوراپنے وجود میں جوش و خروش اور ولولے کی مثبت توانائی جمع رکھنے کے لیے آپ ہمیشہ یہ اصول مدنظر رکھیں۔ ’’آپ کبھی بھی ایسے فقرے مت بولیںجس سے منفی جذبے کا اظہار ہوتا ہو‘‘۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم آخر انسان ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر وقت ہم مثبت جذبات سے سرشار رہیں اگر کبھی منفی جذبات موجزن ہوں تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ مندرجہ ذیل فقرات کے مفہوم میں بات نہ کریں: ۱۔ میں تھک گیا ہوں ۲۔ میں اکتا گیا ہوں ۳۔ میں تنگ آ گیا ہوں ۴۔ میں ناراض ہو گیا ہوں ۵۔ میں دکھی ہوں ۶ میں دل برداشتہ ہو گیا ہوں کیونکہ ایسے فقروں کے استعمال اور ایسی سوچ کے اظہار سے آپ ذہنی اور طبعی طورپر کمزور اور پست حوصلہ ہو سکتے ہیںَ اور آ پ کا تعمیری شوق جذبہ اور جوش ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ امر آپ کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ہر وہ عنصر جو آپ کے مثبت جذبے اورجوش کو ٹھنڈا کردے وہ آپ کا دشمن ہے۔ اور آپ کے یلے بے حد ضرر رساں ۃے اس عنصر سے زیادہ کوئی شے آپ کے لیے تباہ کن نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس آپ ہمیشہ مثبت فقرے حوصلہ افزا جملے اور توانائی بخش اظہار آپ کے لیے بہترین ٹانک ہے کیونکہ ایسے ہت افروز اظہار کے باعث آپ کے قلب و ذہن میں مثبت جوش و جذبے کو توانائی حاصل ہو گی او ر آ پ تعمیری کام سرانجام دیں گے۔ منفی اورناخوشگوار جذبات کو ختم کرنے کا نہایت کامیاب طریقہ یہ ہے کہ آپ مثبت انداز میں گفتگو کریں۔ ایسے الفاظ جملے اور اقوال آپ کے لب پر ہوں جن میں حوصلہ تعمیر عزم اور امنگ کا اظہار ہوتا ہو۔ آپ اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اور منفی جذبات و خیالات کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نہ صڑف اس کا دفاع کریں بلکہ جوابی حملے کے طور پر مثبت جذبات کو ابھارنے کے لیے زیادہ موثر تعمیری اور مثبت جوش اور ولولے کا سہارالیا جائے۔ مثال کے طور پر آپ فرض کریں کہ آ پ کو سگریٹ پینے کی عادت ہے۔ آپ کو خود بھی معلوم ہے کہ یہ عادت اچھی نہیں ہے۔ صحت اور اخلاقی نفاست کا لحاظ سے یہ مضر ہے لیکن آپ اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتے اورنہ ہی آپ اس کے خلاف بولنے کی ہمت کرتے ہیںَ آپ بے شک مندرجہ ذیل الفاظ ادا نہ کریں۔ ’’میں چاہتا تو ہوں کہ سگریٹ چھوڑ دوں لیکن یہ عادت مجھ سے نہیں چھوٹ رہی‘‘۔ آپ کے اس طرح اظہار کرنے سے آپ خود اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ سگریٹ کی اس عادت نے انہیں مغلوب کر لیا ہے۔ آپ مثبت انداز میں یوں بات کریں: ’’بہتر ہوتا کہ میں سگریٹ نہ پیتا۔ میں اس احسا س سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں کہ میں نے اس بری عادت سے آذادی اور خلاصی حاصل کر لی ہے‘‘۔ اس طرح مثبت انداز کے ایسے اظہار سے آپ قلبی اور ذہنی لحاظ سے اپنے آپ کو یہ عزم بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ اس عادت کو ترک کر دینے کا آغاز کر دینا چاہیے۔ معاشرتی تعلقات میںمثبت رویے کامظاہرہ بعض اوقات ہم اپنے خاندان ہمسایوں یا اپنے دائرہ معاشرت میں کسی فرد کو کئی وجوہات کی بنا پر ناپسند کرنا شروع کر دیتے ہیںَ اس صورت میں بھی آپ منفی جذبات کا یوں اظہار نہ کریںمثلاً : ۱۔ مجھے فلاں شخص سے اب نفرت ہونے لگی ہے۔ ۲۔ مجھے اپنی بیوی سے اب پہلے جیسے محبت نہیں رہی۔ ۳۔ مجھے میرا افسر زہر لگتا ہے۔ ۴۔ مجھے اپنی ماموں جان کا رویہ اب اچھا نہیں لگتا۔ آپ ایسے خیالات کے بجائے مثبت انداز میں یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ا ب میری طبیعت اور مزاج میںکچھ تبدیلی واقع ہو رہی ہے سب لوگ اپنی اپنی جگہ اپنے موقف اور رویے میں درست ہی ہوں گے۔ مجھے اپنے اندر اپنے اخلاق اور انداز فکر اور بہتری لانی ہو گی‘‘۔ اپنے گرد و پیش کے ماحول میں خوشگوار تبدیلی لائیے آپ کی کامیابی کی ایک یقینی اور زبردست کلید یہ بھی ہے کہ آپ اپنے گر د و پیش کے لوگوں میں ایک خوشگوار تبدیلی لائیں۔ آپ جب مثبت اندازمیں سوچ کو اپنا معمول بنا لیں گے تو ارو آپ کا قلب و ذہ ہروقت مثبت جوش و خروش اور ولولے سے سرشار رہے گاتوآپ کو یہ یکیفیت نہ صرف مستعد اور فعال بنادے گی بلکہ آپ ایک روحانی کیف سرور اور طمانیت محسوس کریں گے اور آپ کی یہ خواہش ہو گی کہ آپ سے ملنے والا فلاں ہر شخص بھی اس قوت اور کیفیت سے فیض یاب ہو۔ میں اپنے چرچ کے پادریوں کو باقاعدہ لیکر دیتا رہتا ہوں کہ وہ لوگ اپنے اندر ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی پیدا کریں۔ میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ وہ لوگو ں کو یہ باورنہ کرائیں کہ وہ گناہگار ہیںَ وہ آپ کے ہر ہر لفظ اور بات پر یقین کرتے اور ایمان لاتے ہیں۔ اور آپ اپنے اس منصب اور تشخص سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں مثبت تعلیم دے سکتے ہیں۔ مثبت سوچ ہمیشہ مثبت توقعات اور مثبت جذبات و احساسات کو جنم دیتی ہے۔ آپ مثبت ارادوں مثبت لائحہ عمل اور مثبت احساسات اور محسوسات کی بنا پر مثبت انداز میں ترقی کرتے جائیں گے۔ آ پ مثبت گفتگو اور اثباتکے اندازمیں خود کلامی سے کام لیا کریں مثلاً ۱۔ میںدن بدن سمارٹ اور پتلا ہوتا جا رہا ہوں اور عنقریب میری موٹائی کم ہوجائے گی۔ ۲۔ ہر روز کئی پہلوئوں اور شعبہ جات میں میرے علم میں اضافہ ہوتاچلا آ رہا ہے۔ ۳۔ میں ہر سال مالی لحاظ سے مستحکم ہو تا جا رہا ہوں۔ ۴ میں ہر ماہ اپنے اخلاق سیرت اور کردار کے لحاظ سے بہتر ہوتاجا رہا ہوں۔ آپ اگلے باب میں نہایت قوت بخش سات ایسے مثبت اقرار و اثبات کی تربیت حاصل کریں گے کہ جن کے باعث آپ کے خواب آپ کی امیدیں اور توقعات پر مبنی آپ کی کامیاب زندگی کے یلے ایک موثر ترین لائحہ عمل متعین ہو جائے گا۔ ٭٭٭ 10 ہمت نہ ہاریے اور اپنی کوشش مت ترک کیجیے مین ااپ کو خاص طور پر یہ تلقین کرتا ہوں کہ : ۱۔ آپ ہمت نہ ہاریے اور اپنی کوشش مت ترک کیجیے۔ ۲۔ آ پ ہرگز دل برداشتہ ہو کر اپنا کام ادھورا مت چھوڑیں۔ ۳۔ آپ کوشش اورمسلسل جدوجہد کا دامن کسی صورت بھی نہ چھوڑیں۔ ۴۔ آپ اپنے فیصلہ جات کے مطابق اپنے پروگرام کو جاری رکھیں انہیں مت روکیں۔ ایک ڈاکٹر 33سالہ مریضۃ پیٹ فارڑ برگ کی چیک اپ کرنے کے بعد اپنے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات لاتے ہوئے اس کے شوہر کو کہنے لگا۔ آپ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے… پیٹ کے شوہر نے فورا ً اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ اور کہنے لگا۔ ہاں بتائیے ڈاکٹر صاحب! ’’ان کے دماغ کی شریان پھول گئی ہے ان کے دماغ کے ایسے حصے پر ا س کا شدید اثر ہے جہاں رسائی ناممکن ہے۔ کسی وقت بھی ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ انتہائی خوش قسمت ہوں گی اگریہ زندہ رہی۔‘‘ اولائی نے پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب آپ آپریشن کے ذریعے ان کا علاج کر دیجیے‘‘۔ ڈاکٹر نے بدستور اپنا لہجہ تلخ اور رویہ ٹھنڈا رکھتے ہوئے۸ اپنی مرتب کردہ میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں حقائق بتاتے ہوئے کہا: ’’سرجری! میں تو کہتا ہوں کہ اگر ان کا آپریشن کر بھی دیا جائے تو تب بھی ان کے زندہ رہنے کا صرف دس فیصد امکان ہے۔ بس آپریشن کی صورت میں ہم ان کا دماغ باہر نکالیں گے میں خود بھی ان کا دماغ اپنے ہاتھوں میں پکڑوں گا۔ لیکن ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ ان کے دماغ کے کس حصے پر اورٹھیک ٹھیک کس مقام پر خرابی واقع ہوئی ہے‘‘۔ ڈاکٹر کی یہ رپورٹ سن کر پیٹ اور لائی خاموش ہو گئے اور دونوں ہی کلینک سے باہر نکل کر پارک میں آ گئے۔ دونوںنے ایک دوسرے کو پیا ر بھری نظروں سے دیکھا اور وہ گاڑی میں بیٹھ کر واپس آ گئے۔ جونہی یہ دونوں گھر پہنچے ان کا پانچ سالہ منتظر بچہ دوڑتا ہوا آیا اور ممی ممی کہتے ہوئے اپنی خوبصورت ماں سے لپٹ گیا۔ پیٹ اپنے طور پر یہ سوچنے لگی کہ: ۱۔ کیا اسے دس فیصد جینے کی امید کے لیے سرجری کرا لینی چاہیے؟ ۲۔ کیا اسے ایسا ہی نہ رہنے دیا جائے؟ یہ امید اور یقین رکھا جائے کہ دعا کی جائے کہ آئندہ اسے کبھی اس قدر شدید سردرد نہ ہو ا اور وہ بالکل صحت مند ہو جائے۔ اسے چند ماہ قبل جب شدید سر درد کا دورہ پڑا تھا تو اسے یاد پڑتا ہے کہ اس نے یوں محسوس کیا تھا گویا اس کے دماغ کی کوئی رگ پھٹ گئی ہے۔ اسے یوں لگا تھا کہ جیسے کوئی گرم سیال مادہ اس کی کھوپڑی کے نیچے دماغ میں ادھر ادھر بہہ رہا ہے۔ اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اب نئے ایکسرے لیے گئے ڈاکٹروں کے بورڈ نے اس مرض کی تشخیص کرائی گئی اور وہی شکایت نکلی کہ دماغ کی کوئی رگ پھول گئی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا: ’’پیٹ تمہارے دماغ کی یہ شریان جو پھول گئی ہے یہاں ایک ابھا رپیدا ہو گیا ہے اور یہ دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ جب یہ شریان پھٹ جائے گی تو آپ کی وفات ہو جائے گی ۔ ہم پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کب پھٹے گی؟‘‘ پیٹ افسردگی کی حالت میں اپنے گھر آ گئی اور اپنے بیڈ روم میں جا کرسسکیاں بھرنے لگی: ’’یہ آفت مجھ ہی پر کیوں وارد ہو گئی ہے؟ میں نے کیا گناہ اور ظلم کیا ہے؟ میں تو ہمیشہ سے ایک اچھی عورت کی طرح ہر کام بہتر طریق اورپوری ذمہ داری سے کرتی رہی ہوں‘‘۔ پیٹ کو اپنے آپ پر رحم اور غصہ آ رہا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ گھر سے کئی میل دور مسٹر اولائی کا دفتر تھا یہ ہارورڈ بزنس سکول کا گریجوایٹ تھا۔ جب بھی اسے اپنے دوتوں اور موکلین کے فون آتے اور وہ اس کی اس مشکل پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتے تو یہ ہمیشہ انہیں دعا کرنے کے لیے کہتا اور خود بھی خدا سے دعا کرتا رہتا کہ وہ بہترین رہنمائی اور شفا عطا کرے۔ پیٹ خود بھی اپنی صحت کے لیے دعائیں کرتی رہتی تھی۔ جب بھی وہ اپنے کمرے میں جاتی تو اس کے کانوں میںنہایت لطیف اور شیریں موسیقی میں انجیل مقدس کی یہ آیت سنائی دیتی: ’’پہلے تم خدا کی بادشاہی کی طرف رجوع کرو اسی سے مدد مانگو‘‘۔ یہ آیت سنتے ہی اس کی ذہن و قلب میں سکون اور اطمینان کے احساس کی لہر دوڑ جاتی۔ اب اسے اندھیرے سے ماورا ایک غیبی روشنی نظر آرہی تھی۔ پیٹ نے اولائی کو آوازدی ’’ڈئیر میری بات سنو‘‘۔ اب مجھے کوئی خوف اور گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ’’مجھے یہ یقین ہوتا جا رہا ہ ک اگر میں مر گئی تو خدا میرے بچے کو اور زیادہ شفق دینے اور میرے شوہر کو زیادہ محبت دینے والی کوئی اور عورت دے دے گا‘‘۔ پیٹ نے یہ کہہ کر فوراً اپنا فیصلہ سنا دیا: ’’اولائی میں ڈاکٹر کو فون کر کے یہ کہنے لگی ہوں خہ وہ بے شک آپریشن کے لیے فیصلہ کر لے‘‘۔ فلرٹن کیلی فورنیا کے ایک محلے میں جہاں پیٹ اور اولائی رہائش پذیر تھے پوری گلی میں ہمسایوں نے اس بات کی حیرانی سے منادی کر دی: ’’پیٹ اپنے دماغ کا آپریشن کرانے جا رہی ہے وہ کل صبح اپریشن کے لیے ہسپتال چلی جائے گی‘‘۔ اگلے دن صبح کو جب اولائی اپنی بیوی کو کار کے ذریعے ہسپتال لے جا رہا تھا تو اس نے راستہ میں اپنے دفر کے سٹاف مبران سے پیٹ کی ملاقات کر ا دی۔ ہر شخص نے دل برداشتہ انداز میں پیٹ کو اس طرح رخصت کیاگویا انہیں پیٹ کے زندہ واپس آنے کا قطعاً یقین نہیں تھا۔ لیکن پیٹ یہی کہتی رہی کہ خدا مجھے اپنی مرضی سے ہسپتال لے جا رہا ہے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ کل آپریشن کے لیے آ جائیں۔ اس سے اگلے دن پوری گلی کے گھروں کے باورچی خانوں میں عجب بے رونق اور اداسی کا سماں تھا۔ اگرچہ سارے بچے معمول کے مطابق اپنے اپے سکول گئے تمام مرد بھی اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے ۔ لیکن تمام گھروں کی عورتوں کو ایک گھبراہٹ لاحق تھی اس کی نظر گھڑی کی سوئیوں پر تھی کہ اولائی ٹھیک آٹھ بجے اپنے گھر سے نکل کر پیٹ کو آپریشن کے لیے لے جائے گا۔ ایک ہمسائی نے دوسری ہمسائیوں کو کہاکہ آئو سب اپنے اپنے گھروں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیںَ جب پیٹ یہا ں سے جانے کے لیے گزرے گی تو ہم باری باری ہاتھ اٹھا کر اسے دعائیں دیں گے۔ اسے اپنے بوسوں اور مسکراہٹوں سے رخصت کریں گے۔ پیٹ نہایت اطمینان اور سکون کے احساس کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی اور اولائی نے اس کا ننھا سا سوٹ کیس اٹھا رکھا تھا۔ کار گلی میں سے گزر رہی تھی گلی کے دونوں اطراف میں گھروں کے دروازوں پر ہمسائی عورتیں کھڑی تھیں۔ وہ سب پیٹ کو ہاتھ ہلا ہلا کر مسکرا کر اور بلند صدائوں میں دعائیہ الفاظ کہہ رہی تھیں پیٹ بھی ہاتھ ہلا کر ان خواہشات کا جواب دے رہی تھی۔ ہسپتال کو جاتے ہوئے پییٹ نے دیکھا کہ ایک بچے نے ایک غول بیابانی اٹھا رکھی ہے یعنی اس نے خشک گھیا کدو کے اوپر سرے اورتمام اطراف میں کٹائی کر کے کھڑکیاں بنا رکھی ہیں اور اس کے اندر موم بتی جلا رکھی تھی۔ اوریہ ایک قندیل اور لالٹین بن گئی تھی۔ اس کی روشنی کھڑکیوں میں سے چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ پیٹ یہ منظر دیکھ کر مسکرائی اور اس نے تصور کیا کہ آج اس کا دماغ بھی کاٹ کر اس کے اندر بھی جو روشنی رکھ دی جائے گی۔ ہسپتال میںپیٹ کے اپریشن کی تیاری مکمل تھی اولائی نے پیٹ کو پیار کیا اور دعا دی۔ پیٹ نہایت اطمینان کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں داخل ہو گئی۔ پیٹ کے دماغ کا آپریشن شروع ہو گیا۔ سرجن ڈاکٹر نے کاسہ سر سے دماغ کا حصہ نکال لیا۔ اب نوجوان ماں کا دماغ ڈاکٹر کے ہاتھوں میں تھا جس نے ربڑ کے خاص دستانے پہن رکھے تھے وہ بڑے غور سے جائزہ لے رہا تھا کہ کون سی شریان کا حصہ پھولا ہواہے۔ اور جس کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس نے نہایت احتیا ط اور مہارت کے ساتھ شریان کا متاثرہ حصہ ڈھونڈ نکالا اور پھر پیار اور نزاکت کے ساتھ وہ خاص حصہ ہٹا دیا اور پھر بحفاظت دماغ کو قرینے کے ساتھ کاسہ سر میں واپس رکھ دیا ا س طرح سرجن ڈاکٹر نے اپناکام انجام دے دیا۔، دماغ کے گرداگرد ایک حفاظتی دھاتی پلیٹ چڑھا دی گئی اور سلائی کر دی گئی۔ سر کے بار اتار دیے گئے تھے۔ خیر ہے اگر پیٹ زندہ رہی تو بال پھر سے اگ آئیں گے۔ باہر پیٹ کا شوہر نہایت بے تابی سے انتظار کر رہاتھا۔ اس کیلیے ایک ایک منٹ گھنٹہ کے برابر لگ رہا تھا۔ اس انتظار کی اذیت ناک طوالت کے دوران خدا جانے کیسے کیسے بھیانک خیالا ت اور خدشات اس کے ذہن میں برپا تھے؟ ۱۔ کیا وہ اندر زندہ بھی ہے؟ ۲۔ اگر وہ زندہ سلامت باہر آ گئی تو کیا وہ مجھے پہچان لے گی؟ ۳۔ کیا اس کی یادداشت برقرا ر رہے گی؟ ۴۔ کیا وہ نیم پاگل تو نہیں ہو جائے گی؟ ۵۔ کیا وہ بچگانہ حرکات تو نہیں کرنے لگے گی؟ ۶۔ یا خدا مجھے وہی پیٹ عطا کر جو مجھے نہایت پیاری ہے۔ اولائی نہایت تضرع سے دعائیں کر رہا تھا۔ سرجن ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر سے باہر آتے ہی کہا: مسٹر نارڈ برگ! اولائی نے افسردہ سرجن کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے آ پ کو سنبھالا: ’’ہم نے جو بھی ممکن تھا بہتر طور پر کر لیا ہے۔ اب ہمیں انتظار کرنا ہے اور بہت دعائیں کرنی ہیںَ چند دنوں کے اندر ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ پیٹ کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور وہ زندہ بچ جائے گی یا…‘‘ اولائی بھی صبر انتظار اور دعا ہی کر سکتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اولائی اندر گیا۔ اس نے دیکھا کہ پیت کا سر مونڈا ہوا تھا۔ ا س کے سر پر سفید پٹ بندھی ہوئی تھی۔ تکیے کے درمیان میں سر رکھا ہوا تھا۔ ابھی تک بے ہوش پڑی تھی۔ اس کا مجموعی تاثرنہایت عجیب تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بستر مرگ پر مردہ حالت میں پڑی ہو۔ اولائی کا دل بہت خراب ہوا۔ وقت گزرنے لگا ۔ کئی گھنٹے گزر گئے کئی دن گزر گئے نرسیں اس انتظار میں تھیں کہ پیٹ کب ہوش میں آتی ہے۔پورا سٹاف چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تھا اور مسلسل خطرہ تھا کہ: ۱۔ ابھی پیٹ آنکھیں کھول دے گی۔ ۲۔ ابھی پیٹ کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ ہلائے گی۔ ۳۔ ابھی پیٹ کچھ بولنے لگے گی۔ سرجری کے چوتھے دن جب ایک سپیشل سینئر نرس ڈیوٹی پر تھی تو اس نے پیچھے سے ایک مدھم سی لیکن صاف آواز سنی: ’’نرس کیا تم میرے لپ سٹک لا دو گی؟ نرس نے پلٹ کر دیکھا تو پیٹ کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں اور وہ پوری ہوش میں تھی۔ نرس نے اندازہ لگا لیا کہ اب پیٹ ذہنی طور پر ٹھیک ہے اور یدکھنے میں اچھی اورپیاری لگ رہی ہے۔ دن بدن پیٹ کے لہجے میں صفائی آتی گئی۔ پیٹ کے دماغ کے زخم بھی آہستہ آہستہ مندمل ہونے لگے لیکن جسم کے باقی نظام ابھی پوری طرح فعال نہیں ہوئے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا پیٹ پوری طرح صحت مند ہو کر نارمل طریقے سے زندگی گزارنے لگے گی؟ کئی مہینوں کے بعد پیٹ اس قابل ہو گیء کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ چرچ جانے کے قابل ہوگئی۔ ایک دن جب پیت چرچ کی عبادات سے فارغ ہوکر باہر کو آنے لگی تو چرچ کے بورڈ کے ایک ممبر نے کہا: ’’پیٹ میرا خیال ہے کہ آپ بطور رضاکار ٹیچر ہماری مد دکر سکتی ہیں۔ چرچ میں ذہنی معذور بچوں کی بہتر رہنمائی اور نگرانی کے لیے ہمیں ایک بالغ اور شفیق خاتون کی ضرورت ہے۔ آپ کا اس ضمن میں کیا خیال ہے؟‘‘ پیٹ کو دوسرے دفعہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اس نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس نے سوچا کہ اگرچہ اس کی زبان اور جسم پوری طرح بحال نہیں ہوا ہے۔ تاہم وہ اس حالت میں بھی یہ رضاکارانہ خدمت انجام دے سکتی ہے۔ اوریہی وہ مناسب موقع ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی لا سکتی ہے۔ پیٹ نے تب مجھے اپنی زبانی بتایا: ’’میں نے جب یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور چرچ میں باقاعدہ آنا شروع کر دیا تو میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ آٹھ سال کی ایک لڑکی جس کا نام جینی تھا وہ ذہنی طور پر معذور تھی اور اسے کسی رضاکار بالغ فرد کی رہنمائی میسر نہیں تھی۔ وہ بالکل تاثرات اور احساسات سے عاری تھی۔ اس کی بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے اپنی امی کا نام بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آیا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ایک دن میں فرش پر اس کے بالکل قریب بیٹھ گئی۔ اس نے کاغذوں کو پھاڑنا شروع کر دیا۔ پھٹے ہوئے ایک کاغذ کو اپنے پوپلے ہونٹوں کے پاس لے گئی اور اپنی انگلی سے کاغذ کو پھڑپھڑانے لگی۔ یہ منظر پاگل پن ظاہر کر رہا تھا۔ مجھے اس پر بے حد ترس آیا۔ میں مسلسل یہ مشاہدہ کر رہی تھی۔ جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں مسکرائی۔ اس نے عمداً مجھے دوبارہ دیکھا، میں پھر مسکرائی اور اسی لمحے ایک معجزہ رونما ہوا۔ وہ بچی گھسٹتی ہوئی میری طرف بڑھی۔ میرے پاس آ کر اس نے اپنا سر میری گود میں رکھ دیا اور سسکیاں بھرنی شروع کر دیں۔ میں نے اس کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ وہ مسلسل روتی رہی۔ اس نے اپنے آنسوؤں سے میرے کپڑے گیلے کر دئیے۔ اے خدایا، تو نے اگر محبت میں اس قدر تاثیر رکھ دی ہے کہ ذرا سے پیار سے اس بچے نے رد عمل کا اظہار کیا ہے تو میری محبت میں اس قدر تاثیر پیدا کر دے کہ میں اس کی موثر طریق سے تربیت سے کر سکوں۔ اس وقت میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں چائلڈ سائیکالوجسٹ بنوں گی۔ پیٹ نے اب پختہ عزم کر لیا تھا کہ اس نے چائلڈ سائیکالوجی کو ہی اپنا مستقبل بنانا ہے اور اسے یہ ادراک حاصل تھا کہ اسے اس مقصد کے حصول کی راہ میں بے شمار مشکلات، رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اسے کالج میں داخلہ لینے سے پہلے اپنی سواری کا انتظام بھی کرنا ہو گا۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ وہ کار کے ذریعے کالج جایا کرے۔ لیکن اسے ڈرائیونگ تو آتی نہیں اور پھر اس کی ذہنی اور جسمانی صحت ابھی اس معیار پر بحال بھی نہیں ہوئی ہے کہ وہ ڈرائیونگ سیکھ کر لائسنس کے حصول کے لیے ٹیسٹ پاس کر سکے۔ پیٹ کے ذہن میں ایک زبردست آئیڈیا آیا۔ اس نے یہ سن رکھا تھا کہ ہوائیین (Hawaiian) ڈانسنگ کا خاص سٹائل جسمانی توازن کو نارمل کرنے کی تربیتی مشق میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کی تربیت ضرور حاصل کرے گی۔ پیٹ نے دو سالوں کی مسلسل لگن اور سخت محنت اور کوشش سے ہولاناچ سیکھ لیا۔ اب اس کے جسم میں استحکام اور توازن پیدا ہو چکا تھا۔ اس نے ڈرائیونگ سیکھ لی، لازمی ٹیسٹ پاس کر کے لائسنس حاصل کر لیا اس طرح اس نے سب سے بڑی مشکل حل کر لی۔ اس کے بعد پیٹ نے فلرٹن کے کیلی فورنیا سٹیٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ پہلے تو اسے ابتدائی کورس پاس کرنا تھا۔ لیکن اس کا زخمی ذہن ابھی اس قابل نہیں تھا کہ وہ نصابی کتب کے معلومات سبق کو زبانی یاد رکھ سکے۔ اس مقصد کے لیے اسے بار بار پڑھائی کرنی پڑتی تھی۔ وہ ایک باب کو کئی دفعہ پڑھتی، اسے ذہن نشین کرنے کے لیے اہم پوائنٹس کو انڈر لائن کرتی، ان کے نوٹس تیار کرتی، تب جا کر اسے سبق یاد ہوتا۔ کالج کی پڑھائی کے ابتدائی زمانے کے دوران وہ رات کو صرف تین گھنٹے سوتی اور سخت محنت کے باوجود اس نے مجموعی طور پر ’’ سی‘‘ گریڈ حاصل کیا۔ لیکن اس نے عزم کر رکھا تھا کہ وہ ’’ ہمت نہیں ہارے گی، اور اپنی کوشش کو ترک نہیں کرے گی۔‘‘ سال بہ سال زیادہ محنت کے باعث اس نے ڈگری کے حصول کے لیے بہتر گریڈ میں کامیابی حاصل کرنی شروع کر دی۔ اپنے دماغ کی سرجری کے تیرہ سالوں کے بعد پیٹ نے اپنے مطلوبہ کورس کے آخری سمسٹر کا کام مکمل کر لیا اور اس نے اعلیٰ درجے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اب اس کی زبان کا لہجہ بھی خاصا بہتر ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے تلفظ کو کئی تخلیقی طریقوں اور آزمائشی ریاضتوں کے ذریعے درست کر لیا تھا۔ اس نے اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے مطلوبہ مقالہ ’’ والدین کے لیے تخلیقی مشقیں جن کی مدد سے وہ اپنے ان بچوں کی تربیت اور اصلاح کر سکتی ہیں جن کو بولنے میں دقت کا سامنا ہے۔‘‘ پیٹ نے ایک دن چرچ کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس دوڑ کر آنے کے بعد کہا: ’’ ڈاکٹر شلر صاحب! آپ بھلا بتائیں کہ میں نے کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ میں نے ماسٹر ڈگری حاصل کر لی ہے اور اب میں پبلک سکولوں میں خصوصی بچوں کے لیے تربیتی اور فلاحی خدمات بجا لاؤں گی۔ یہ مجھ پر خدا نے خاص فضل کیا ہے، میرا یہ ایمان اور پختہ یقین ہے کہ خدا کی خاص قوت نے مجھے اس کام اور مقصد کے لیے متحرک کیا ہے اور میری کامیابی میں سراسر خدا کی مدد اور تائید شامل حال رہی ہے۔ میرا خدا زبردست قوتوں کا مالک ہے اور وہ ہر کام پر قادر ہے۔‘‘ اب پیٹ ایک پیشہ ورانہ ماہر نفسیات ہے اور وہ نہایت ذوق اور شوق سے اس فلاح و بہبود کی خدمت بطریق احسن بجا لا رہی ہے۔ پیچھے رہ جانے والے کئی لوگ زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں آپ ناکامی اور مایوسی کو شکست دینے کا عزم کریں۔ اس مقصد کے لیے آپ عزم و حوصلہ کی توانائی کے ساتھ زبردست روحانی قوت سے بھی کام لیں۔ مشہور و معروف وائیلن نواز پیگانینی کے متعلق ایک اہم واقعہ ہے۔ وہ ایک دفعہ خاص اور ممتاز سامعین کے مجمع میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا تھا کہ اس کی وائیلن کی ایک تار ٹوٹ گئی۔ تمام سامعین چونک پڑے، لیکن ماہر وائیلن نواز بدستور باقی تین تاروں کی مدد سے وائیلن بجاتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور ٹوٹ گئی، اس کے باوجود پیگانینی نے بغیر گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ کے اپنے فن کا مظاہرہ جاری رکھا۔ مزید کچھ دیر کے بعد تڑنگ کی آواز کے ساتھ تیسری تار بھی ٹوٹ گئی۔ اب ایک لمحہ کے توقف کے بعد فنکار نے اپنے وائیلن کو ایک ہاتھ میں پکڑ کر اسے بلند کیا اور اعلان کیا: ’’ سامعین، اب ایک تار کے ساتھ پیگانینی کے فن کا مظاہرہ ملاحظہ کیجئے۔‘‘ پیگانینی نے نہایت مہارت اور کمال فن کے ساتھ وائیلن کی ایک تار پر غیر معمولی فن پیش کر کے سامعین سے زبردست داد وصول کی ہر شخص کی زندگی میں کچھ ایسے موڑ اور مواقع آ جاتے ہیں جب ایک ہی تار سے زندگی کی وائیلن بجانی پڑ جاتی ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں ایک زبردست روحانی طاقت ہماری مدد کرتی ہے اور ہم ناکامی اور شرمندگی سے محفوظ رہتے ہیں۔ میں آپ کو ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ گریس اینڈرسن کی اکلوتی بیٹی کار کے حادثے میں فوت ہو گئی۔ اس کی زندگی کی ایک تار ٹوٹ گئی۔ چند مہینوں کے بعد اس کا اٹھارہ سالہ بیٹ ایک مختصر مگر شدید علالت کے بعد گزر گیا۔ اینڈرسن کی زندگی کی دوسری تار بھی ٹوٹ گئی۔ ابھی ایک ہی سال گزرا تھا کہ اینڈرسن کا شوہر اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گیا۔ اس کی زندگی کی تیسری تار بھی ٹوٹ گئی۔ چرچ میں گریس اینڈرسن سے میری ملاقات ہوئی، مختصر گفتگو کے بعد اس نے مجھے کہا: ’’ میری ہر شے ختم ہو گئی ہے، میری دنیا الٹ گئی ہے، لیکن میر اایمان اور یقین میرے ساتھ ہے۔ میرے پاس ایمان کی دولت ہے اور اسی کا سہارا ہے۔‘‘ اب اینڈرسن کے پاس زندگی کا ایک واحد تار باقی رہ گیا اور وہ اس کا خدا پر پختہ ایمان اور یقین ہے۔ آپ بھی اپنی زندگی کی کئی محرومیوں کے احساس پر قابو پانے کے لیے اور انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے شدید عالم میں اپنے تازہ اور زندہ ایمان کی زبردست قوت کے سہارے سے کام لیا کریں۔ ایک خاتون، جو میرے نہایت اچھے اچھے دوستوں اور ٹیلی ویژن پر مذہبی اجتماعات کے پیشہ ور تفریح سازوں کی ٹیم کے ممبران میں سے ایک ہے، اس کا نام ڈورس ڈے ہے۔ زیادہ سال نہیں گزرے ہیں کہ جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا تو اس کی پوری زندگی برباد ہو گئی اور اس کی دنیا لٹ گئی۔ یہ شخص ڈورس پر بہت توجہ دیتا تھا، اس پر بے حد اعتماد کرتا تھا، اس کی ہر مشکل میں ڈٹ کر ساتھ دیتا تھا، وہ اب دنیا میں نہیں تھا، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ کر دنیا سے جا چکا تھا۔ ڈورس نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا: ’’ جب میرے شوہر کا انتقال ہوا تو میں نے یوں محسوس کیا جیسے مجھ پر آسمان آ گرا ہے اور زمین پھٹ گئی ہے۔ میرے جسم سے گویا روح نکل گئی ہے۔ میں اپنے کمرے میں چلی جاتی اور خوب روتی رہتی۔ میں کئی دنوں تک اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی رہتی تھی۔ ایک دن میرے بیٹے ٹیری نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے کہا: اندر آ جاؤ۔ میں سسکیاں بھر رہی تھی۔ میرا بیٹا کچھ دیر میرے پاس کھڑا رہا، پھر کہنے لگا، امی جان! آپ کب تک اسی طرح چیختی، چلاتی، روتی اورسسکیاں بھرتی رہیں گی؟ میرا خیال ہے اب اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنے معمولات کے کاموں پر واپس آ جائیں۔ امی جان آپ نے تو دوسروں کو بہت کچھ دینا ہے، آپ نے بہت سے کام انجام دینے ہیں۔ اسی لمحہ میرے قلب و ذہن سے ایک مثبت تحریک بیدار ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی خدائی طاقت اور روحانی قوت کار فرما تھی جو حیات نو کی صورت میں مجھے متحرک کر رہی تھی۔ تب سے مجھے یہ شدید طور پر احساس ہوا کہ میں کیوں روتی، چیختی اور ماتم کرتی رہتی ہوں۔ ٹھیک ہے اب میرا شوہر دنیا میں نہیں رہا، مجھے خدا کی رضا کے لیے اپنے شوہر کے ادھورے کاموں کی تکمیل کرنی چاہیے۔ یسوع مسیح کا یہی وعدہ ہے کہ جن لوگوں کا کام اس دنیا میں جاری رہتا ہے، وہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘ اس طرح ڈورس ڈے نے عملی طور پر بائبل کی تعلیم یاد رکھی: ’’ ہر وہ شخص جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اور میری تعلیم پر عمل کرتا رہتا ہے، وہ کبھی نہیں مرتا۔‘‘ ’’ ہاں یہ وعدہ سچا ہے، میں اپنے شوہر کے ادھورے کام پورے کروں گی۔‘‘ یہ عزم کرتے ہوئے اس نے اپنے چہرے پر سے آنسو پونچھ ڈالے، اور مسکراہٹ اور طمانیت کے تاثر کے ساتھ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ جب ٹیری نے کمرے سے باہر آ کر دروازہ بند کر دیا، تو ڈورس اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے ٹیلی ویژن سروس کے ذریعے اپنے نئے مستقبل کے آغاز کا عزم صمیم کر لیا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ وہ ٹیلی ویژن کیمرہ کے سامنے جانے سے پہلے باقاعدگی سے دعا مانگا کرے گی: ’’ اے خدا، میری تمام صلاحیتیں، قابلیتیں اور استعدادیں حاضر ہیں، انہیں خوب استعمال کرتے ہوئے آج رات ہر رکھی دل کو میری کارکردگی کے باعث خوشی، راحت اور طمانیت عطا فرما۔‘‘ قوت ایمان میں اضافہ کرنے اور یقین میں تقویت بخشنے والے چند اقرار نامے قوت ایمان کی بدولت آپ کسی بھی نجی بحران یا شدید مصیبت، مشکل، محرومی اور صدمے پر بآسانی اور جلدی قابو پا سکتے ہیں۔ یقین اور ایمان میں مزید تقویت کے حصول کے لیے آپ مثبت، موثر اور جوش افروز اقرار ناموں کا سہارا لے سکتے ہیں، ان کی بدولت آپ اپنے غم، اداسی، مایوسی اور منفی جذبات کو خیر باد کہہ سکتے ہیں۔ زیادہ بڑے غم کو کافور کرنے کے لیے زیادہ موثر اقرار نامے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ کو زندگی میں جب کبھی شدید مشکلات کا سامنا ہو، آپ اثر آفرین اقرار ناموں کی مدد سے نہ صرف اپنی مایوسیوں اور پریشانیوں پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ آپ اپنے قلب و ذہن کو گرما کر مثبت اور تعمیری عزم کے ذریعے تروتازہ اور توانا کر سکتے ہیں۔ آپ کی سہولت، نمونہ اور مثال کی خاطر چند اقرار نامے ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ آپ انہیں بآواز بلند پڑھیں، جو اقرار نامے انجیل مقدس کے آیات پر مبنی ہیں، انہیں آپ زبانی یاد کر لیں اور ہر روز صبح کے آغاز پر ان اقرار ناموں کی بدولت اپنے آپ میں روحانی توانائی پیدا کریں۔ ۱۔ ’’ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں کبھی بھی شکست نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں اپنے مقصد کی تکمیل کی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار نہیں کروں گا۔‘‘ انجیل مقدس کی ایک ضروری تعلیم یہ ہے: ’’ ماضی کی تمام تلخ باتوں کو فراموش کرتے ہوئے میں مستقبل کے ہر دن کی بہتری کا قصد کرتا ہوں۔‘‘ (Phill.3:13) ایک یورپین گاؤں کے ایک چھوٹے ہسپتال کی ایک دیوار پر نمایاں طور پر یہ دعا جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی: ’’ اے آقا! اے ہمارے خدا! جب ہم نے ایک بہترین راہ اور منزل کا انتخاب کر ہی لیا ہے تو ہمیں اس راستے سے بھٹکنے نہ دینا اور ہمیں اس منزل سے دور نہ کرنا۔ جب ہم سست ہو جائیں تو ہماری رفتار تیز کر دینا، جب ہم شکست سے دو چار ہونے لگیں تو ہمیں جلد فتح اور کامیابی سے دو چار کر دینا۔ آمین‘‘ دو سال پہلے کی بات ہے، مسز جے ایپٹ آف اورینج، کیلی فورنیا نے مختلف سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کیا اور اپنی بیماری کی وجہ سے جاننے کی از حد کوشش کی۔ بالآخر ایک ممتاز ماہر امراض دماغی و اعصابی نے تفصیلی چیک اپ اور تشخیص کرنے کے بعد کہا: ’’ آپ کی میڈیکل رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ آپ کے دماغ میں ایک رسولی ہے، جو کسی بھی وقت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ یہ نوجوان ماں بہت پریشان ہوئی، ڈاکٹر کے دفتر سے سیدھا اپنے گھر جانے کے دوران اس نے یہ محسوس کیا کہ آج مجھے انتہائی تضرع سے دعا کرنے اور روحانی رابطہ اور تعلق کو بیدار کرنے کی از حد ضرورت ہے۔ گھر پہنچنے سے پہلے وہ ایک خاص مقام پر اپنی ڈاک وصول کرنے کے لیے رکی اس نے دیکھا کہ آج اسے کسی نے ایک گول سا پیکٹ بھیج رکھا ہے۔ اس نے نہایت اشتیاق سے اس پیکٹ کو کھولا۔ اس کے اندر ایک بڑا پوسٹر تھا۔ مسز ایپٹ کی فیملی کے ایک ممبر نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام ’’ دی آور آف پاور‘‘ میں پیش کئے گئے ایک فیچر ’’ ممکناتی سوچ کا منشور‘‘ کی ایک کاپی بھجوانے کی درخواست کی تھی جس کے جواب میں متعلقہ شعبہ کے انچارج نے مسز ایپٹ کے پتا پر یہ عظیم پوسٹر ارسال کر دیا تھا۔ مسز ایپٹ نے نہایت اشتیاق سے اس پوسٹر کو کھولا، اور اس پر لکھی ہوئی خوبصورت تحریر کو بلند آواز میں پڑھنا شروع کر دیا: ’’ ممکناتی سوچ کا منشور اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنی منزل کے حصول کی راہ میں اگر مشکلوں کا پہاڑ بھی آ جائے تو میرا قدم ہر گز نہیں کے گا میری جدوجہد کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا پہاڑوں پر سے کود جانے کا مجھ میں حوصلہ و ہمت ہے اور پہاڑ کاٹ کر اس میں اپنے لیے رستہ بنانے کا فن آتا ہے اور پھر پہاڑوں کے نیچے سے سرنگ بنا کر پیش قدمی کرنے کا ہنر آتا ہے اور مجھے اپنے آقا، خداوند پر اس قدر ایمان، بھروسہ اور یقین ہے کہ اس پہاڑ کو سونے کی کان میں بدلا جا سکتا ہے۔‘‘ اس پوسٹرپر تحریر شدہ منشور کو پڑھتے ہی مسز اپیٹ کی روح اور جسم میں زبردست روحانی قوت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس لمحہ اسے کسی قسم کی مایوسی اور شکست کا احساس لاحق نہیں ہوا۔ وہ خدا تعالیٰ کی عظیم ہستی اور اس کی طاقت اور اس کی بر وقت نصرت کی قائل ہو گئی کہ جب خدا کی مخلوق کو انتہائی مایوسی کے عالم میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو فوری طور پر خدائی قدرت اس کی مدد کو آن پہنچتی ہے۔ مناسب علاج، دعا اور اس منشور سے حاصل شدہ حوصلہ و ہمت کی بدولت مسز ایپٹ کی صحت ایک سال کے اندر ہی بحال ہو گئی۔ ممکناتی سوچ کے اس منشور میں واقعی ایک روحانی قوت اور حوصلے کی زبردست توانائی موجود ہے۔ ہزاوں لوگوں نے اس کے ذریعے بہت کچھ کر دکھایا ہے، صحت اور کامیابی کے حصول کی ناقابل یقین مثالیں قائم کی ہیں۔ اس کے برعکس، مجھے ایک شخص ملا اور لیکچر کے بعد مجھے کہنے لگا: ’’ ڈاکٹر شلر آپ کو ناممکناتی سوچ کا منشور بھی لکھنا چاہیے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر اس شخص سے پوچھا: ’’ ایسے منشور سے کیا مراد ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ میری بیوی کی سوچ تو ناممکناتی انداز کی ہے، اسے تو ذرا سی کوئی مشکل پیش آ جائے تو سخت پریشان ہو جاتی ہے۔ وہ انتہائی مایوس ہو جاتی ہے۔ اس لیے تو اس طرح کا منشور چاہیے۔‘‘ ’’ جب میری راہ میں کوئی مٹی کا معمولی ٹیلہ بھی آئے تو میں اسے مصیبت کا پہاڑ سمجھ لوں گی اور فوراً ہمت ہار بیٹھوں گی میں شکوہ و شکایت، حیل و حجت اور جواز و گلہ کا دفتر کھول بیٹھوں گی اور رونے، دھونے اور چلانے لگوں گی اور میں احساس غم کے مارے نڈھال ہو کر بیمار پڑ جاؤں گی۔‘‘ میں نے اس شخص کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ واقعی منفی انداز فکر اور نا ممکناتی سوچ سے حوصلہ پست ہو جاتا ہے اور مایوسی ہماری ہمت نچوڑ لیتی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کی ہمت بندھا رہا تھا: ’’ میرے پیارے بیٹے، کبھی حوصلہ مت ہارو۔ جب تم کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر لو، تو کبھی پیچھے نہ ہٹو۔ اپنی جدوجہد کو کبھی ترک مت کرو۔‘‘ بیٹے نے مایوسانہ لہجے میں کہا:ـ ’’ لیکن ابا جان، مجھ سے میری مشکلات حل نہیں ہوتیں، میں اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔‘‘ اس کے باپ نے اسے مزید سمجھاتے ہوئے کہا: ’’ میرے بیٹے، یہ بات یاد رکھو کہ دنیا صرف انہی عظیم لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو ہمت نہیں ہارتے، جو عزم و ہمت سے کام لے کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں اور بالآخر اپنے مقصد اور منزل کو حاصل کر لیتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی درخشندہ مثالیں ہیں۔ ۱۔ رابرٹ فلٹن نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ۲۔ تھامس ایڈی سن نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ۳۔ ایلی و ٹینی نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور پھر تم نے ایسا ڈرمیک پر ینگل کا نام بھی تو سنا ہو گا۔‘‘ بیٹا فوراً بولا: ’’ ابا جان یہ ایسا ڈرمیک پرینگل کون ہے؟‘‘ باپ نے کہا: ’’ تم نے اس کا نام کبھی نہیں سنا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ میں تو عظیم ہستیوں کی تاریخ اوران کے کارناموں کے بارے میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں، میں نے اس کا نام تو کبھی نہیں سنا۔‘‘ باپ نے کہا: ’’ اس کانام تم نے اس لیے نہیں سنا اور پڑھا کیونکہ اس نے اپنی ہمت ہار دی تھی۔‘‘ اس لیے میں آپ کو بار بار یہ تاکید کرتا ہوں کہ حالات کیسے بھی ہوں، مشکلات جیسی بھی ہوں آپ نے اپنا حوصلہ پست نہیں کرنا ہے اور ہمت کبھی نہیں ہارنی ہے۔ آپ خود ہی اپنے آپ سے یہ پوچھئے: ’’ کیوں ان کاموں اور منصوبوں پر کام کرنا چھوڑ دیا جائے جن کی بدولت زندگی میں خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے اور جن کی بدولت ترقی یقینی ہے؟‘‘ آپ اس امر کو اپنے قلب و ذہن میں راسخ کر لیں کہ آپ کے بیشتر مطلوبہ کام اور منصوبے واقعی آپ کی بہتری، خوشحالی اور ترقی کا موجب ہوتے ہیں، آپ انہیں مت ترک کریں اور قطعاً ادھورا نہ چھوڑیں۔ آپ اس بات پر پختہ یقین رکھیں کہ اس دنیا میں ایک اعلیٰ و ارفع ہستی اپنی پوری طاقتوں، قوتوں اور صفات کے ساتھ ہر وقت کار فرما اور متحرک ہے۔ اب میں آپ سے پھریہ پوچھتا ہوں: ۱۔ کیا یہ اعلیٰ و ارفع ہستی قادر اور توانا ہے، یا نہیں؟ ۲۔ کیا یہ اعلیٰ و ارفع ہستی نہایت رحیم، کریم، شفیق اور مہربان ہے یا نہیں؟ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ یہ اعلیٰ و ارفع ہستی قادر بھی ہے اور مہربان بھی ہے۔اور آپ کا یہ ایمان ہے تو پھر آپ خود ہی بتائیں کہ: ۱۔ پھر شکست کا ڈر کیوں ہو؟ ۲۔ پھر مایوسی کا جواز کیا ہے؟ ۳۔ پھر ہمت ہارنے کی وجہ کیا ہے؟ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا عقیدہ یہ ہے کہ ۱۔ انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ ۲۔ انسان روئے زمین پر خدا ہی کا عکس ہے۔ ۳۔ انسان کو خدا نے ہر لحاظ سے مکمل طور پر تخلیق کیا ہے۔ ۴۔ خدا نے انسان کی تمام مادی، روحانی، قلبی، ذہنی، روحانی ضروریات کا بہترین سامان ودیعت کر رکھا ہے۔ ہر مذہب کے روحانی صحائف میں خدا کی قدرت اور طاقت کا بھرپور اور بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل مقدس کی مندرجہ ذیل آیات ’’ خدا کی قدرت‘‘ کی عکاسی ہیں: ۱۔ خدا ان تمام لوگوں کی بخوبی حفاظت کرنے کی پوری قدرت اور طاقت رکھتا ہے جو اس سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ (Heb 7:25) ۲۔ خدا کو یہ قدرت اور طاقت حاصل ہے کہ وہ پر جوش اور پر امید لوگوں کی خاص اعانت کرتا ہے۔ (Heb 2:18) ۳۔ خدا ان لوگوں کی خاص حفاظت کرنے کی زبردست قوت رکھتا ہے جو اس کی ذات پر ایمان لاتے اور بھروسہ رکھتے ہیں (2Tim, 1:12) ۴۔ خدا میں غاصیت کے ساتھ یہ قدرت، قوت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ تم اگر ثابت قدم رہو تو تمہیں شکست، زوال ناکامی اور بھٹکنے سے محفوظ رکھے گا۔ (Judge 2) ۵۔ خدا میں یہ صفت نہایت خاصیت کے ساتھ پائی جاتی ہے کہ جب ہم اس سے مانگتے ہیں تو وہ ہمیں بہت زیادہ دیتا ہے اور ہم اس کی صفات کے بارے میں جو تصور باندھتے ہیں وہ ان صفات میں عملی طور پر نہایت اعلیٰ، اکمل اور ارفع ثابت ہوتا ہے۔ (Eph. 3:20) آئیے ہم خدا تعالیٰ کی لامحدود قدرت اور ان گنت صفات پر اپنے ایمان میں مزید تقویت پیدا کریں جب آپ کے ساتھ زبردست قوت اور طاقت والے خدا کی نصرت موجود ہے تو آپ پھر کیوں ہمت ہارتے ہیں؟ آپ خدا تعالیٰ کی ذات اقدس کی اعلیٰ ترین قدرت، او رلا محدود اور ان گنت صفات کے علاوہ اس کی پر اسرار جلوہ آرائیوں اور معجزہ نمائیوں پر اپنے ایمان میں مزید پختگی پیدا کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کے عہد و پیمان، عزم و ہمت اور عہد و اقرار میں زبردست تقویت پیدا ہو جائے گی۔ ۲۔ میں اپنی زبان سے اقرار اپنے قلب و ذہن سے امر کی تصدیق کرتا ہوں کہ خدا مجھ سے ثابت قدم رہنے اور اپنے عزم پر پختہ طور پر قائم رہنے کی توقع کرتا ہے۔ انجیل مقدس کی ایک آیت میں ایک مبارک تعلیم دی گئی ہے: ’’ تم میں سے جو لوگ خدا کی صفات کے بارے میں جو تصور باندھتے ہیں، خدا ویسے ہی صفات کا اظہار اپنی تجلیوں اور قدرتوں کے ذریعے کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘ (Dan. 11:12) باکسنگ کے میدان کا ہیوی ویٹ چیمپئن جیک ڈیمپسے کہا کرتا تھا: ’’ یقینی جیت کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ آپ زور دار گھونسے ماریں اور کھائیں۔‘‘ اسی طرح مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کی کھیلوں کا سابق کوچ ڈفی ڈاغرٹی کہتا تھا: جب مجھے یقینی طور پر جیت جانے والے کھلاڑیوں کی ضرورت ہوتی تھی تو مضبوط ارادوں، مضبوط جسموں اور ڈٹ کر سخت مقابلہ کرنے والے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا کرتا تھا۔ بعینہ، نوٹرڈیم کا ممتاز فٹ بال کوچ نیوٹ روکنے کا ایک نعرہ بہت مشہور ہوا تھا: ’’ جس قدر زور دار ہٹ لگے گی کامیابی اسی قدر یقینی ہو گی۔‘‘ میں نے اپنی زندگی میں اپنے وسیع تر تجربہ اور مشاہدہ سے اخذ کیا ہے کہ لوگوں کو عزم اور کارکردگی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱۔ محتاط لوگ (Hold.outs) ایسے لوگ کسی کام، پلان، مہم اور پروجیکٹ کی کامیابی کو ہر لحاظ سے ’’ یقینی بنا لینے‘‘ کے بعد شروع کرتے ہیں۔ ۲۔ ڈرپوک لوگ (Drop.outs) ایسے لوگ اپنے مجوزہ کام اور پلان شروع تو کر دیتے ہیں، لیکن مسائل اور مشکلات دیکھ کر جلد گھبرا جاتے ہیں اور کام کو وہیں ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ ۳۔ نڈر لوگ (All.outs) ایسے لوگ جو خوب سوچ سمجھ کر اپنے مجوزہ کام، پلان اور پراجیکٹ سر انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اور جب کسی کام کا ایک بار آغاز کر دیتے ہیں تو پھر ایسے چیلنج سمجھ کر ثابت قدمی سے ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے کام کی تکمیل اور مطلوبہ مقصد کے حصول تک جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو ’’ All.out‘‘ قسم کے لوگ، یعنی نڈر، بہادر اور پر عزم لوگ ہی پسند ہیں، کیونکہ وہ خدا پر ایمان اور اپنی ذات پر اعتماد کے ساتھ بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں اور انتہائی عزم و ہمت کے ساتھ ان کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ نغمہ یسوع کا پہلا شعر یہ ہے: وہ عزم و ہمت کے دھنی ہیں وہ شاہینوں کی طرح اپنی پرواز کا آغاز کرتے ہیں اور بلندیوںتک جا پہنچتے ہیں بلند پروازی ان کا شغف اور ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے اور کامیابی و فتح یابی ان کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔ آپ اپنے آپ سے بھاری بوجھ اٹھانے اور اس انداز سے تیز دوڑنے کا عزم کریں کہ آپ پوری بشاشت کے ساتھ اس مہم جوئی کے ذریعے اپنے گرد و پیش کے ان لوگوں کو حیران کر دیں جو آپ کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کوئی قابل ذکر کام انجام دے ہی نہیں سکتے۔ میں آپ کے سامنے تاریخ کا ایک سنہری ورق پیش کرتا ہوں: تاریخ کی کتابوں میں اس شخص کا نام’’ لارڈ شافٹس بری‘‘ ہے لیکن وہ اپنے زمانے میں لارڈ آشلے کے نام سے مشہور تھا۔ وہ ۱۸۰۱ ء میں برطانیہ میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش امیر طبقے میں ہوئی تھی، اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کا حلقہ بھی اونچے درجے کا تھا جس میں زیادہ تر فیکٹریوں کے دولت مند مالکان شامل تھے۔ ایک دن آشلے کے گھر پر دستک ہوئی اس دن اس کی اس دستک کے ساتھ ہی آشلے کی شہرت کے باب کا آغاز ہو جاتا ہے۔ آشلے نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو وہاں عیسائی پادری جناب جی ایس بل کھڑے تھے انہوں نے آشلے کو کہا کہ پریشان حال اور استحصال پذیر مزدوروں کی بہبود اور فلاح کے لیے کچھ کیا جائے۔ اس بات پر آشلے قہقہہ مار کر ہنس پڑا، جیسے اس کے ساتھ کسی نے مذاق کی بات کہہ دی ہو۔ دراصل آشلے کو مزدوروں کے ساتھ کوئی ہمدردی اور دوستی نہیں تھی۔ لیکن جب لارڈ آشلے نے فیکٹریوں میں مزدوروں کی ابتر حالت کا از خود جائزہ لیا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ نو عمر یتیم بچوں کو غلاموں اور نوکروں کی حیثیت سے بیچا جا رہا ہے اور ان سے مسلسل تیرہ گھنٹوں تک سخت کام لیا جاتا ہے۔ پورے انگلینڈ میں مزدوروں کی اس ناگفتہ بہ حالت کا خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد آشلے کا دل بہت دکھا اور سنجیدگی سے یہ سوچنے لگا: ’’ میں خدا سے محبت کرتا ہوں اور اس کے تمام بندوں سے بھی پیار کرتا ہوں، مجھے ضرور ان مظلوم مزدوروں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘‘ آشلے نے یہ سوچ کر اپنی بیوی سے تعاون حاصل کرنے کی خاطر اس سے اس ضمن میں بات کی کہ اگر ایسے قوانین تشکیل دئیے جائیں جن کی بدولت مزدوروں کو کچھ حقوق دئیے جائیں اور فیکٹری مالکان کو ان قوانین پر عمل کرنے کا پابند کر دیا جائے تو مزدوروں اور بچوں کا استحصال ہونا بند ہو جائے گا۔ دونوں میاں اور بیوی نے اس مسئلے پر اور اس کے اثرات و نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ان کے دل میں یہ بھی خیال آیا: ’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے قوانین تشکیل دینے کی حمایت کر کے ہم اپنے بے شمار ایسے اچھے دوست اور رشتہ داروں کو ناراض کر کے اپنا دشمن بنا لیں گے، جو مختلف کارخانوں، فیکٹریوں، کانوں اور ملوں کے مالک ہیں۔ پھر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں بے شمار مشکلات، مسائل اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کئی غیر مہذب امراء کی سخت باتیں اور طعنے سننے پڑیں گے، کئی خوشگوار واقعات سے واسطہ پڑے گا۔ ہمیں کئی نت نئی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑے گا۔ بے شمار شرفاء اور امراء کی مخالفت مول لینا پڑے گی اور ہماری اپنی زندگی بھی دشوار اور اجیرن ہو جائے گی۔‘‘ سوچ و بچار اور غور و فکر کی اس باہمی نشست کے دوران لیڈی آشلے پرجوش ہو کر بول اٹھی: ’’ جناب آشلے، یہ یسوع مسیح کی جانب سے آپ کو فرض سونپا گیا ہے۔ آپ اپنی کوشش کا آغاز کر دیجئے۔ آپ پریشان حال مزدوروں کی فلاح کا مشن جلد شروع کر دیجئے۔ اس کے اثرات اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر قدم آگے بڑھائیے اور ہمت نہ ہارئیے‘‘ لارڈ آشلے کو اپنی بیوی لیڈی من کی باتوں سے بہت تقویت حاصل ہوئی اور اس کی ذاتی دلچسپی اور رات دن کی بھاگ دوڑ کے باعث، ایک ہی سال کے بعد یعنی ۱۸۳۳ء میں ’’ فیکٹری ایکٹ‘‘ منظور کروا لیا گیا۔ اس قانون کے تحت ۹ سال سے کم عمر بچوں سے فیکٹریوں میں مزدوری کروانا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ فیکٹریوں کے مالکان اس بات کے لیے دشمنی پر اتر آئے کہ لارڈ آشلے کی وجہ سے گورنمنٹ نے ان کے انتظامی امور میں مداخلت کر کے ان کی آزادی کو غصب کیا ہے۔ کئی قریبی دوستوں نے آشلے پر معاشرتی اور خاندانی دباؤ ڈال کر اس مشن سے دستبردار ہونے کی درخواست کی تو آشلے نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ہرگز اس مہم سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ فولادی عزم کے مالک آشلے نے ان فیکٹریوں کی سخت نگرانی اور فیکٹری ایکٹ کے عملی نفاذ کے لیے ایک ’’ رائل کمیشن‘‘ بنانے کی پر زورسفارش کی اور بالآخر یہ کمیشن تشکیل پا گیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو اس سے پہلے کبھی انجام نہیں دیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس کمیشن کو وسیع اختیارات تفویض کر دئیے جن کے تحت اس کمیشن کے ارکان فیکٹریوں اور معدنیاتی کانوں میں خود جا کر مزدوروں کی حالت اور ان کے حقوق کے حالات کا از خود معائنہ اور مشاہدہ کر سکتے تھے۔ انگلش پارلیمنٹ اس وقت حیران و ششدر رہ گئی جب اس نے ’’ رائل رپورٹ‘‘ کی پوری کارروائی سنی۔ اس رپورٹ کے چند نکات مندرجہ ذیل تھے: ۱۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، حتیٰ کہ پانچ اور چھ سال کی عمر کے ننھے بچوں سے مزدوری لی جا رہی تھی۔ ۲۔ ان بچوں سے کوئلے کی کانوں میں مسلسل بارہ گھنٹے روزانہ کام لیا جا رہا تھا۔ ۳۔ ان مزدوروں میں نیم ننگی لڑکیوں اور جوان عورتوں سے بھی سخت مشقت کا کام کروایا جاتا تھا اور اسی شعبہ میں بالکل ننگے مرد مزدوروں سے بھی کام لیا جاتا تھا۔ حکومتی دباؤ کے تحت فیکٹری مالکان نے ان حقائق کا اعتراف کر لیا۔ لارڈ آشلے کی کوشش، اعانت اور قیادت کی بدولت یہ قانون بنا دیا گیا کہ دس سال سے کم عمر کی بچیوں اور بچوں سے مزدوری نہیں کرائی جائے گی۔ لارڈ آشلے نے اب بچوں کی فلاح و بہبود کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے لنڈن کے سٹریٹ سکولوں میں مزدور بچوں کی پڑھائی کا آغاز بھی کر دیا۔ اب ان بچوں کو یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ زیادہ آزادانہ انداز سے اپنی مزدوری اور پڑھائی متوازی طور پر جاری رکھ سکیں۔ اب بچوں کو زیادہ توجہ اور پیار ملنے لگا تھا۔ اس طرح لارڈ آشلے کو خدا نے ایک مشن سونپا تھا اور آشلے نے اسے بطریق احسن نہایت عزم صمیم، پوری لگن اور بہادری کے ساتھ انجام دیا۔ آپ کو بھی خدا نے خاص مقصد اور عظیم مشن کی خاطر پیدا کیا ہے۔ آپ سنجیدگی سے سوچئے کہ کیا خدا نے آپ کو بے فائدہ اور بے مقصد ہی پیدا کر دیا ہے؟ آپ آج ہی اپنی خداد داد خاص صلاحیتوں، خوبیوں، خاصیتوں اور قابلیتوں کا جائزہ لیں، اپنے قلب و ذہن کا تجزیہ کریں، اپنے ماحول اور حالات کا بغور مشاہدہ کریں اور یہ دریافت کریں کہ خدا آپ سے کیا ’’ کام‘‘ لینا چاہتا ہے اس نے ضرور آپ کے لیے کوئی ’’ پلان، پراجیکٹ اور مشن‘‘ تفویض کر رکھا ہے۔ آپ اس پلان کی تکمیل کے لیے مطلوبہ توانائی کو مجتمع کریں اور اس راہ میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ۳۔ میں اپنے قلب و ذہن کے پورے اخلاص سے اس امر کی تصدیق اور اقرار کرتا ہوں کہ خدا نے میری خا ص مدد کے لیے تمام مطلوبہ لوگ، سہولیات اور حالات مہیا کر رکھے ہیں جو میری بروقت اعانت کے لیے ہمہ تن اور ہمہ وقت تیار ہیں۔ انجیل مقدس کی ایک حوصلہ افزا آیت یہ ہے۔ ’’ اور تو مخلوق کی بھلائی، فلاح و بہبود کے کسی عظیم کام کو انجام دینے سے گھبراہٹ اور پریشانی محسوس مت کر، کیونکہ ہم نے عین وقت کے مطابق لوگوں اور اسباب کو تمہارے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (Gal. 6:9) میں بعض اوقات بہت حیران، مطمئن اور مسرور ہو جاتا ہوں جب میں یہ غور کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے میری زندگی میں ہزاروں ایسے لوگوں سے ملاقات کرنے، استفادہ کرنے اور ان سے اثرات قبول کرنے کا موقع عطا کیا ہے جو طرح طرح کی تخلیقی صلاحیتوں اور غیر معمولی خوبیوں سے سرفراز ہیں تاکہ میں اپنے چرچ کی معیاری تعمیر و تشکیل کے خواب اور مشن کی ’’ عملی تشکیل‘‘ کر سکوں۔ کئی دفعہ مجھے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا، مجھے بہت تیزی سے بہت کچھ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن فوراً ہی میرا دل خدا کے شکر سے لبریز ہو جاتا ہے کہ میں نے اپنی آرزوؤں، خواہشوں اور خوابوں کی عملی تکمیل کے لیے خدا سے جو کچھ بھی مانگا اس نے مجھے نہایت وافر مقدار، اعلیٰ معیار اور عین وقت پر عطا کیا۔ حقیقت یہ ہے اور آپ اسے خوب ذہن نشین کر لیں کہ خدا نے لوگوں کو اپنے منصوبہ جات میں بھرتی کر رکھا ہے اور ہر شخص کو مخصوص ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ اور خدا نے باری کے لحاظ سے، وقت کی ترتیب سے ہر شخص کو اس کی مخصوص ذمہ داری کے لیے مطلوبہ مددگار اور معاون اسباب مہیا کر رکھے ہیں۔ ۳۱ اکتوبر، ۱۹۴۲ء کو جب جنگ عظیم دوم کی حدت سے اپنے پورے جوبن پر تھی، سرونسٹن چرچل نے کوئلے کی کانوں کے خود غرض، مطلب پرست، سخت دل اور غیر مہذب گروپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’ ایک دن آئے گا جب آپ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدور بچے یہ سوال کریں گے: ’’ آپ نے اس تہذیب و ثقافت کے ورثہ کے تحفظ کے ضمن میں ہمارے لیے کارنامے انجام دیئے ہیں؟ اور ہمارا نام تاریخ کے کس قابل احترام شعبہ میں لیا جائے گا؟‘‘ قوم میں سے ایک شخص یہ جواب دے گا: میں تو فائٹر پائلٹ تھا۔ دوسرا شخص یہ جواب دے گا: میں بحریہ کی سروس میں ایک ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ تیسرا شخص یہ کہے گا: میں اس جنگ میں لوگوں کے دفاع کے لیے ضروری فرائض انجام دے رہا ہوں۔ اور پھر تم لوگ سب مل کر نہایت فخر اور ناز سے یہ جواب دو گے: ’’ ہم نے کوئلوں کی کانیں کاٹی ہیں۔‘‘ اگرچہ ونسٹن کے اس خطاب میں ایک طنز اور طعنہ بھی موجود ہے، لیکن اگر روشن پہلو سے تاریخ کے اس گوشہ سے مثبت سبق لیا جائے، تو میں کہوں گا، ہاں قدرت نے اس وقت کوئلوں کی کانوں کے مالکان اور مزدور بچوں سے ’’ کوئلہ کاٹنے کا کام‘‘ اس لیے لیا تھا تاکہ کوئلہ ایندھن کے طور پر بحری جہازوں کے لیے ضروری ایندھن کے کام آ جا سکے۔ لہٰذا آپ اپنی شعوری بصیرت سے کام لیتے ہوئے، وقت کے تقاضوں اور زمانے کی نبض کو محسوس کرتے ہوئے یہ ادراک حاصل کریں کہ آپ کو خدا نے کیا مشن دے رکھا ہے؟ آپ کے گرد و پیش میں لوگوں اور معاونات کی کیفیات آپ کے کس ’’ کارنامے‘‘ کے لیے موزوں ہیں؟ آپ کو آج یا ہفتے کے دوران ضروریہ آگہی حاصل ہو جائے گی کہ آپ نے کون سا قابل ذکر انجام دینا ہے۔ وقت آپ کو پکار رہا ہے۔ آج کی مخلوق آپ سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی خدمت انجام دے جائیں۔ جونہی آپ اپنے ذوق، مزاج، ذہن، حالات اور اشد ضرورت کے مطابق کسی ’’ خاص‘‘ کارنامے، پلان اور مشن کو سر انجام دینے کا عہد و عزم کر لیں گے تو آپ یقین جاننے کہ خدا آپ کو اس کام کے لیے مطلوبہ اسباب، معاون لوگ اور ضروری سہولیات مہیا کرے اپنی ’’ تائید‘‘ سے ضرور نوازے گا۔ ۴۔ میں اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں سے یہ تصدیق اور اقرار کرتا ہوں کہ خدا تمام طاقتور ہستیوں سے زیادہ طاقتور، قوی اور قادر مطلق ہے۔ انجیل مقدس کی ایک آیت میں خدا یہ وعدہ کرتا ہے: ’’ اگر تمجھ مجھ پر ایمان، یقین اور اعتماد کے اعلیٰ معیار پر فائز اور ثابت قدم رہو گے تو میں تجھے فولادی ستون کی طرح مضبوط کر دوں گا۔‘‘ (Jer, 1:18) بائبل کی ایک سچی کہانی ملاحظہ کیجئے: ایک بار ایک نوجوان کے دل میں ایک زبردست آئیڈیا آیا۔ اس نے قلبی اور روحانی طور پر محسوس کیا کہ خدا نے اسے پکار کر کہا ہے کہ وہ لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے ان کی رہنمائی کرے۔ روحانی رہنما بن جانے کے لیے اس کے قلب و ذہن میں زبردست جوش و خروش پیدا ہوا۔ اسے کثرت سے بڑی بڑی خوابیں آنے لگیں۔ لیکن یہ سوچ کر وہ سخت غمزدہ ہو گیا کہ قیادت اور روحانی پیشوائی کی اس راہ میں بڑی مشکلات اور کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سوچ کے ساتھ ہی وہ انتہائی دل برداشتہ حالت میں خدا کو یوں کہنے لگا: ’’ اے میرا آقا! میں تو کمزور ہوں اور ابھی کم عمر ہوں، میں بڑے بڑے بادشاہوں، حکمرانوں، پادریوں اور مستحکم لیڈروں کا اکیلے کیسے مقابلہ کروں گا؟‘‘ یہ نوجوان مقدس ’’ یرمیاہ‘‘ تھا۔ اس کو یہ خوف لاحق ہو گیا کہ روحانیت کی یہ منزل نہایت دشوار گزار ہے۔ اس کے جسم میں ڈر اور خوف کے مارے کپکپی طاری وہ گئی۔ یرمیاہ لوگوں کی قیادت کرنے کے اس مشن کو ترک کر دینے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ خدا کی طرف سے اسے حوصلہ عطا ہوا: دیکھ میں آج کے دن تجھ کو اس تمام ملک اور یہوداہ کے بادشاہوں اور اس کے امیروں اور اس کے کاہنوں اور ملک کے لوگوں کے مقابل ایک فصیل دار شہر اور لوہے کا ستوں اور پیتل کی دیوار بناتا ہوں۔ اور وہ تجھ سے لڑیں گے، لیکن تجھ پر غالب نہ آئیں گے کیونکہ خداوند فرماتا ہے میں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔ (انجیل مقدس، برمیاہ، باب۱ آیات ۱۹، ۱۸) خدا تعالیٰ کی بہت سی صفات میں سے خاص صفت یہ بھی ہے کہ وہ نرم دل لوگوں کو اپنے مخصوص کام اور مقصد کے تکمیل کے لیے انہیں انفرادی طور پر فولادی عزم اور پختہ یقین عطا کر دیتا ہے۔ اسی ضمن میں میں ایک اور مثال پیش کرتا ہوں یہ مثال ڈیوک آف ویلنگٹن کی ہے۔ یہ نوابی طبیعت اور شاہی وضع کا شخص تھا، لیکن شرافت اور خدمت خلق کے باعث لوگوں میں ’’ دی آئرن ڈیوک‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اس نے اپنی زندگی میں اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ جب خدا کسی شخص کو کوئی فرض، کام، منصوبہ سونپتا ہے تو فولادی قوت اور زبردست طاقت بھی ساتھ ودیعت کر دیتا ہے۔ ڈیوک کا ایمان تھا کہ خدا واقعی زبردست قوتوں اور طاقتوں کا منبع اعظم ہے۔ آپ تاریخ کے کسی بھی طالب علم سے یہ دریافت کیجئے: ’’ انیسویں صدی کا سب سے مضبوط شخص کون تھا؟‘‘ وہ طالب علم فوراً کہے گا: ’’ نپولین بونا پارٹ‘‘ ۱۷۸۹ء میں جب فرانسیسی انقلاب آیا تو انگریزوں نے بہت خوشیاں منائیں۔ چھ سالوں کے بعد فرانسیسی توپ خانے کے جرنیل نپولین بونا پارٹ نے منتشر اور درہم برہم قوم کی کمان سنبھال لی۔ پھر ۱۸ مئی ۱۸۰۴ ء کو روم سے پوپ صاحب نوٹرے ڈیم کیتھڈرل آئے تاکہ نپولین کی بطور شہنشاہ فرانس تاج پوشی کریں۔ ۲ دسمبر ۱۸۰۵ء میں آٹرلٹز (Auterlitz) مقام پر آسٹریا اور روس کی متحدہ افواج کے خلاف فرانسیسی فتح کے موقع پر انگلینڈ کے عظیم و زیراعظم ولیم پٹ نے یہ پیشین گوئی کی کہ آئندہ چند سالوں کے بعد زبردست خون خرابہ ہو گا۔ روس اور آسٹریا کی شکست کے وقت دیوار پر لگے ہوئے یورپ کے نقشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ولیم پٹ نے کہا تھا: ’’ اب اس نقشے کو لپیٹ کر رکھ دو، ہمیں اب دس سالوں تک اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘ ۱۸۱۳ء تک فرانسیسی شہنشاہ کے خلاف تحریک تیز ہو گئی۔ لیپ زگ (Leipzig) کے مقام پر اسے شکست ہوئی اور اسے جزائر ایلبا کی جانب جلا وطن کر دیا گیا۔ لیکن اس کی یہ جلا وطنی ہمیشہ کے لیے نہیں رہی۔ صرف دو سال کے بعد ہی، یعنی یکم مئی ۱۸۱۵ء کو نپولین سمندری سفر اختیار کرتا ہوا اپنے گیارہ سو لوگوں کے ساتھ فرانس کے ساحل پر آگیا اور اس نے دوبارہ اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کا آغاز کردیا۔ صرف اٹھارہ دنوں میں وہ فرانس کا دوبارہ شہنشاہ بن گیا اور اپنے صد روزہ عہد حکومت کا آغاز کر دیا۔ نپولین کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اسے نشیبی میدانوں اور پھر آسٹریا پر جلد از جلد غلبہ حاصل کر لینا چاہیے تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ حکومت کر سکے۔ اس ضمن میں اس کے سامنے پہلا کام یہ تھا۔ کہ وہ ڈیوک آف ویلنگٹن جو انگریزی فوجوں کا کمانڈر تھا، کا راستہ روکنا تھا جو قوت کے نشے میں بپھرا ہوا تھا۔ جونہی ۱۸ جون ۱۸۱۵ء اتوار کی سحر طلوع ہوئی نپولین کی فوجوں کا سامنا بیلجیم میں واٹر لو کے میدان میں ہوا۔ تیز بارش شروع ہو گئی۔ میدان اور کھیت خوب گیلے ہو گئے اور ہر طرف سیلان پھیل گئی۔ توپ چلنے کی پہلی گرج گیارہ بجے سنائی دی۔ سہ پہر تین بجے نپولین نے انگریزی فوج کے دائیں جانب اپنی توپوں کا رخ کر کے دھاوا بول دیا۔ اس موقع کے متعلق ایک مورخ نے لکھا تھا: ’’ انگریزوں کی پیادہ فوج ناقابل تسخیر ہے۔‘‘ اس مورخ نے مزید کہا تھا: ’’ اور اس پیادہ فوج کا ہر سپاہی اس وقت زیادہ بہادری اور دلیری سے لڑتا ہے جب اس کی کمان ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جس کی تائید یسوع مسیح کر رہا ہو اور تب یہ جنگ ناقابل شکست ہو جاتی ہے۔‘‘ جنگ باقاعدہ اور بدستور جاری تھی۔ جب دشمن کی طرف سے لڑائی زیادہ زور پکڑتی تھی تو ڈیوک آف ویلنگٹن خود اس میں کود پڑتا تھا اور جب کبھی یہ محسوس کرتا کہ ہماری فوج کے سپاہی ڈھیلے پڑ رہے ہیں اور پانسہ شکست کی طرف جھک رہا ہے تو یہ فولادی عزم کا مالک پھر سے نازک حالات کو خود سنبھالتا اور بآواز بلند یہ کہنے لگتا: ’’ میرے بہادر سپاہیو! ڈٹے رہو دشمن بھی کیا یاد کرے گا کہ کن انگریزوں سے واسطہ پڑا ہے جو واقعی بہادر ہیں۔‘‘ لیکن جنگ جس تیزی کے انداز سے جاری تھی، انگریزی فوج کے سپاہی گھبرا گئے اور فوجی افسروں نے ڈیوک سے شکست کے اعلان کی اجازت طلب کی، لیکن فولادی ڈیوک نے منہ زور لہجے اور دو ٹوک انداز میں کہہ دیا: ’’ میرا پلان فقط یہ ہے کہ میری فوج کا آخری سپاہی بھی میدان میں بہادری اور استقلال سے ڈٹا رہے گا۔‘‘ ڈیوک کے اس حکمیہ لہجے میں ایک فاتحانہ قوت کار فرما تھا۔ یہ فقرہ سنتے ہی انگریزی فوج نے پھر سے اپنی حالت سنبھالی اور پھر سے جنگ میں سرگرم ہو گئے اور جب نپولین کے ’’ اولڈ گارڈ‘‘ کے بہادر دستے نے موسم گرما کی شام کو سات بجے حملہ کرنے کی نئی تیاری کیلئے تازہ حکمت عملی کا اشارہ دے دیا تو ادھر ڈیوک نے بھرپور حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ جس تیزی اور قوت کے ساتھ انگریزی فوج نے حملہ کیا تو فرانسیسی جرنیلوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی فوج کو کس قدر تباہ کن انداز سے تہس نہس کیا جا رہا ہے جس نے بالآخر اسے شکست سے دوچار کر دیا۔ نپولین نے آج واٹرلو کے میدان میں اس شخص کے ہاتھوں شکست کھا لی تھی جس کو خدا نے فولادی ستون جیسی طاقت سے نوازا تھا۔ آپ بھی اپنے عزم میں پختگی، کوشش میں استقلال اور ارادوں میں مضبوطی کے لیے اس دعا سے کام لیجئے ہاں اس دعا کی قوت قدسی اور روحانی طاقت ضرور آزمائیے: ’’ اے خدا تعالیٰ، مجھے فولادی ستون جیسی قوت عطا کر، تو میرے اندر اپنی قوت سرایت کر، تاکہ میں یہ واضح طور پر محسوس کر سکوں کہ میرا تیرے ساتھ قریبی تعلق ہے اور تیری طاقت میرے اندر کار فرما ہے۔ آمین‘‘ ۵۔ میں اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں سے یہ اقرار و تصدیق کرتا ہوں کہ خدا برے ایام اور خراب حالات کو خوشگوار دنوں میں بدل دیتا ہے، عسر کو یسر میں اور دکھوں کو سکھ اور آسانیوں میں بدل دیتا ہے۔ انجیل مقدس میں یہ ایک لازمی تعلیم ہے جو نہایت ہمت افزا ہے: ’’ جاگتے رہو، ایمان پر قائم رہو۔ مردانگی سے آگے بڑھتے چلو۔ جو کام بھی کرو، پوری لگن اور محبت سے کرو۔‘‘ (1Cor.16:13) عبرانی زبان میں جو خاص لفظ اصل انجیل میں استعمال کیا گیا تھا وہ تھا ’’ اینڈری زومائی ‘‘ (Andrizomai) اس اکیلے لفظ کا مفہوم ہی بذات خود ایک زبردست پیغام اور تعلیم ہے۔ ’’ تم بچوں جیسی حرکات چھوڑ دو اور مردوں کی طرح کام کا آغاز کرو۔‘‘ خدائی قدرت کا یہ ایک لازمی اصول ہے کہ برے اور خراب حالات ہی اچھے دنوں اور خوشگوار زمانے کا موجب ہوتے ہیں۔ اسی طرح مشکلات، مسائل اور آفات جو آتی ہیں ان کا مقصد آپ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار کر بہتر انداز سے بروئے کار لانا ہے۔ آپ کے اندر موجود تمام تخلیقی استعدادوں اور قابلیتوں کو بطریق احسن استعمال کرنا ہے۔ بیسویں صدی میں چند ہی لیڈر سرونسٹن چرچل سے زیادہ جرأت مند اور اثر آفرین گزرے ہوں گے، جس نے دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں میں فیصلہ کن اقدام کے لیے زبردست حوصلے اور ہمت سے کام لیا تھا۔ جنگ کا یہ دور واقعی نہایت مشکل تھا۔ ہٹلر پورے مغربی یورپ پر چھایا ہوا تھا۔ فرانس مغلوب ہو چکا تھا اور مغربی یورپ کے دیگر باشندے، مثلاً چیکو سلاواکیہ، پولینڈ، ناروے، ڈنمارک اور بلجیم کے لوگ بھی ہٹلر کے قدموں کے نیچے تھے۔ امریکہ ابھی خاموش تماشائی تھا۔ اب پوری دنیا ہٹلر کی اگلی جنونی چال کی منتظر تھی۔ ایسی تذبذب کی کیفیت میں دنیا کے تمام ریڈیوز نے یہ خبر نشر کی کہ ۱۳ مئی ۱۹۴۰ء کو ہاؤس آف کامنز میں چرچل تاریخی خطاب کریں گے: ’’ آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ اس صورت حال میں ہمارا نصب العین کیا ہے؟‘‘ میں اس سوال کا جواب صر ف ایک لفظ میں دیتا ہوں: ’’ فتح‘‘ ’’ فتح، فتح، ہر صورت میں فتح‘‘ ہمیں احساس خوف کی بجائے فتح کا عزم درکار ہے۔ ہمیں ہر حالت اور ہر قیمت پر فتح چاہیے۔ فتح کا سفر کٹھن اور طویل ہو سکتا ہے۔ فتح کی یہ راہ نہایت دشوار گزار ہے۔ لیکن یاد رکھیے، فتح کے بغیر ہماری سلامتی ناممکن ہے۔ میں اس فتح کے لیے اپنا خون اور پسینہ پیش کرتا ہوں۔ میں فتح کے لیے اپنی جان اور جدوجہد حاضر کرتا ہوں۔ اور پھر دو ہفتوں کے بعد مسٹر چرچل نے قوم کو مندرجہ ذیل الفاظ میں نہایت تاریخی اور پر اثر خطاب کیا، جس کے باعث قوم واقعی ایک متحدہ فولادی ستون بن گئی: ’’ اگرچہ یورپ کے کئی علاقہ جات اور کئی پرانی اور ممتاز ریاستیں زوال پذیر ہو گئی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو گیسپٹو Gestapo (نازی دور میں استعمال ہونے والی جرمنی حکومت کی خفہ پولیس فورس) کے قبضہ اور غلبہ میں آنے والی ہیں لیکن ہم کسی طور پر بھی شکست قبول نہیں کریں گے۔ ہم سمندروں میں اور صحراؤں میں بھی لڑیں گے۔ ہم پورے اعتماد اور پوری قوت سے لڑیں گے۔ ہم پانیوں اور ہواؤں میں بھی لڑیں گے۔ ہم ہر صورت میں اپنے جزیریائی وطن کا دفاع کریں گے۔ ہم نہایت بہادری اور فیصلہ کن عزم سے لڑیں گے۔ ہم ساحلوں پر لڑیں گے، ہم میدانوں میں لڑیں گے، ہم کھیتوں میں اور گلیوں میں لڑیں گے۔ ہم ہر جگہ لڑیں گے لیکن ہم شکست قبول نہیں کریں گے، ہر گز ہار نہیں مانیں گے۔‘‘ مزید دو ہفتوں کے بعد چرچل نے پھر ہاؤس آف کامنز میں خطاب کیا اور کہا: ’’ آئیے ہم اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے اپنے اپنے محاذ پر مضبوطی سے ڈٹ جائیں۔‘‘ آئیے ہم اپنے آپ کو یہ باور کرائیں کہ ہم اس انداز سے اپنے کام انجام دیں کہ اگر برطانوی سلطنت اور دولت مشترکہ ایک ہزار سال تک بھی قائم رہتی ہے تو اس مملکت کا ہر شخص فخر سے یہ کہہ سکے گا: ’’ کہ واقعی یہ مشکل ترین دور ہی وہ سنہری دور تھا جب جدوجہد کا صحیح حق ادا کیا گیا۔‘‘ ان واقعات اور مثالوں سے یہ ثابت ہوا کہ آپ بھی اپنے بحرانی زمانے اور مشکل حالات کو خوشگوار صورتحال میں بدل سکتے ہیں۔ خدا ہمیشہ تکالیف، مشکلات اور مسائل کے وقت انسان کے زیادہ قریب آ کر اس کی رہنمائی کرتا ہے، لیکن اس میں شرط ایمان اور یقین کی ہے۔ اگر ایمان اور یقین میں کمی واقع ہو جائے تو ذرا سی مشکلات سے گھبرا کر انسان خدا سے مزید دور ہو جاتا ہے۔ ۶۔ میں اپنے قلب و ذہن سے یہ اقرار اور تصدیق کرتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں، میں کسی صور ت بھی خدا سے محبت کے تعلق کو کمزور نہیں ہونے دوں گا۔ انجیل مقدس کی ایک ضروری تعلیم یہ بھی ہے: ’’ تم ایک سخت جان سپاہی کی طرح ہر صورت میں یسوع مسیح کے ساتھ وفا کرو۔‘‘ (2Tim 2:13) مڈویسٹ میں میرے کئی دوست ہیں، ایک دوست کا خاص طور پر ذکر کروں گا۔ اس کے دو چھوٹے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کی عمروں میں قریباً دو سال کا فرق ہو گا۔ ان بچوں کے والدین کے لیے اپنے یہ بچے ہی ان کے لیے دنیا تھی۔ وہ اپنے بچوں کی ہر ضرورت پوری کرتے تھے اور ہر خواہش کی تکمیل کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک دفعہ جھیل کے کنارے کئی بچے کھیل رہے تھے۔ انہوں نے وہاں کھیلنے کی ضد کی اور وہاں کھیلنے لگ گئے۔ کھیل کود اور پانی کی اچھال اور پھینک کے عمل میں ان کا چھوٹا بچہ ڈوب کر مر گیا۔ والدین بے چارے روتے دھوتے چپ ہو گئے۔ اس امر کو خدا کی مرضی اور رضا سمجھ کر مطمئن ہو گئے۔ دو سالوں کے بعد ان کا دوسرا بیٹا بھی ایک تیز رفتار ٹریکٹر کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔ اب تو ان والدین کی گویا کمر ہی ٹوٹ گئی۔ دونوں ایک دوسرے کو رو رو کر دلاسہ دیتے رہے۔ کچھ ماہ ہوئے، یہ دونوں میاں بیوی چرچ میں آئے ۔ مجھے چونکہ ان کے دونوں بیٹوں کے ضائع ہو جانے کا علم تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی میں نہایت بہتر الفاظ کے ساتھ بطریق احسن ان کا دکھ بانٹا جائے۔ لیکن میں نے فوراً ہی یہ بات محسوس کر لی کہ وہ عبادات کے بعد باہمی طور پر خوشگوار موڈ میں ہیں۔ میں بہت حیران اور خوش ہوا۔ چند رسمی گفتگو کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ ان دونوں میاں بیوی نے اپنے بیٹوں کی محرومی کے دوہرے غم کو بھلا کر کس طرح اپنے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کر لیا ہے۔ مرحوم بچوں کی ماں نے نہایت بہادرانہ انداز میں مجھے جواب دیا: ’’ ایک اجنبی شخص جس نے ہمارے اس سانحہ کے بارے میں سنا تو اس نے ہمیں ہمدردی کاایک اثر افروز خط لکھا اور ساتھ ہی ایک نہایت حوصلہ افزا توثیق تحریر کی، اس کا مفہوم یہ تھا کہ خدا اب بھی تم دونوں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ ’’ میں بار بار اس فقرے کو پڑھتی رہی، حتیٰ کہ مجھے یہ یقین ہونے لگا کہ واقعی خدا اب بھی ہم سے پیار رکھتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خاتون کی آنکھوں میں یقین اور حوصلے کی ایک خوشگوار اور دلکش چمک تھی۔ ساتھ ہی کھڑا اور کا شوہر بھی عینک لگی آنکھوں سے مجھے بدستور دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ تب ہم تینوں نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے اور نہایت خشوع و تضرع کے ساتھ خدا کی حمد کی اور اپنے ایمان کی مزید تقویت، رحم اور فضل کے لیے دعا کی۔ میں نے ان دونوں کو نہایت اعتماد اور اطمینان کے ساتھ چرچ سے باہر جانے تک دیکھا اور سوچ رہا تھا کہ خدا کے ساتھ پختہ تعلق کے باعث یہ لوگ کس قدر آہنی حوصلے اور فولادی ہمت کے مالک ہیں۔ ۷۔ میں اپنے قلب و ذہن کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ تصدیق اور اقرار کرتا ہوں کہ میں اگر انتہائی اخلاص او رزبردست ایمان و اعتماد کے ساتھ خدا سے تعلق رکھوں گا اور اسی سے خالص واسطہ رکھوں گا تو یقینی طور پر بالآخر کامیاب و کامران ہو جاؤں گا۔ انجیل مقدس کی اس آیت میں ایک عمدہ وعدہ کیا گیا ہے: ’’ تم اپنی موت تک سدا میرے ساتھ با وفا رہنا، اگر تم اس وفا اور اطاعت میں ثابت قدم رہو گے تو میں تمہیں ہر میدان عمل میں کامیابی کا تاج پہناؤں گا۔ میں ہر محاذ میں تمہیں تمہارے مد مقابل پر فتح اور غلبہ عطا کروں گا اور تمہیں بہتر رزق سے نوازوں گا۔‘‘ (Rev 2:10-17) عام زندگی میں میرا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ: ۱۔ مشتاق اور متلاشی لوگوں کو مزاحمتوں اور رکاوٹوں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے۔ ۲۔ شکست خوردہ لوگ بالآخر کسی خاص امتیاز کا باعث بن جاتے ہیں۔ ۳۔ خدا اور اس کی خدائی کی خدمت میں وقف لوگوں کو ہر راہ میں حمایت، نصرت اور تائید حاصل ہو جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دنیا ایسے بے لوث اور جانثار لوگوں کا پہلے مشاہدہ کرتی ہے پھر نہیں پسند کرنے لگتی ہے اور اس کے بعد ان کی حمایتی بن کر ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی ہے۔ میں اس ضمن میں پھر سر ونسٹن چرچل کی مثال پیش کرتا ہوں کہ اپنی اس تقریر جس میں اس نے انگلینڈ سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی تاریخ ساز گھڑی آ چکی ہے جو پوری قوم کے لیے ایک یادگار جدوجہد کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، کے صرف ایک ماہ کے بعد اس نے ۱۴ جولائی ۱۹۴۰ء کو کہا:ـ ’’ اور اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم ساحل پر کھڑے ہو کر ظالم دشمن کی کارروائیوں کا سینہ سپر ہو کر سامنا کر سکیں اور دشمن جہاں تک بھی ظلم کی حد تک جا سکتا ہے، ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ آج ہم اکیلے ہی اپنے آپ سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ہم اس محاذ پر اکیلے ہی نہیں لڑ رہے ہیں۔ ہم پر آنے والے خطرے اور منڈلاتی ہوئی یلغار اور متوقع دھاوے اور حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے نڈر اور تیار کھڑے ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ دشمن اگلے ہفتے ہم پر حملہ آور ہو گا ہمیں قوی یقین ہے کہ اب دشمن کبھی بھی نہیں آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ہمہ تن اور ہمہ وقت ہر اچانک حملہ اور صدمہ کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چوکنا رہنا چاہیے یہ ایک کڑی آزمائش ہے اور شب بیداری کا سخت مجاہدہ ہے۔‘‘ بعد میں جب چرچل کا برطانوی جزیرہ دشمن کی رات دن مسلسل بمباری سے تباہ و برباد کیا جا رہا تھا تو کئی لیڈر اس جزیرے کو خالی کر دینے کے ارادے کرنے لگے۔ جونہی چرچل کو اس بات کا علم ہوا ، اس نے کہا: ’’ جنگ عمل انخلا کے سہارے کبھی نہیں جیتی جاتی، جنگ ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے سے جیتی جاتی ہے۔‘‘ چرچل نے مزید زور دیتے ہوئے کہا: ’’ ہرگز نہ جھکئے، ہرگز ہار نہ مانیے، ہرگز شکست قبول نہ کیجئے۔ ہرگز میدان چھوڑ نہ بھاگئے۔ جنگ کا محاذ ہو یا مقابلے کا میدان، جیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ گھبرانا نہیں، ہمت سے کام لے کر خوب مقابلہ کرنا ہے۔‘‘ یہی سبق اور یہی تعلیم انجیل مقدس بھی دیتی ہے: ’’ خدا خاص طور پر اس امر کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کے اطاعت شعار بندوں کو جو فولادی ستوں کی مانند ہوتے ہیں کبھی بھی شکست سے دوچار نہ ہوں‘‘ چرچل کو جس جنگ کا خطرہ تھا او روہ اپنی نگاہ بصیرت میں جس جنگ کو دیکھ رہا تھا وہ 6اگست 1940ء کو شروع ہو گئی۔ جو ستمبر کے آخر تک بدستور جاری رہی۔ رات دن اس جزیرے پر بمباری کی گئی۔ ہٹلر کے سپاہیوں کے بھاری لشکر ساحل سمندر پر جزیرے پر چڑھائی کرنے کے لیے اس انتظار میں تھے کہ جونہی انگلیند کی ائیر فورس تباہ ہوتی ہے وہ دھاوا بول دیں گے۔ (ہٹلر نے یہ نہایت محتاط منصوبہ بنا رکھاتھا کہ وہ سترہ سے پینتالیس سال کے ہر انگریز مرد کو برطانوی جزیرے سے نکال کر اس کی بجائے جرمنوں پر مبنی ایک نئی قوم بنا دے گا)۔ ستمبر کی پندرہ تاریخ کو اتوار کے دن خدا کے خاص اذن اور تائید کے ساتھ جنگ کا پانسہ اچانک پلٹ دیا جاتا ہے۔ اکس برج مڈل سیکس میں نمبر الیون فائٹر گروپ کے انڈر گرائونڈ ہیڈ کوارٹر پر لائٹوں سے بھرپور چمک ماری جبکہ اس قلعہ بند ہیڈ کوارٹر میں عسکری لوگ فیصلہ کن حملے کی حکمت عملی بنا رہے تھے‘‘۔ نصف گھنٹہ گزر گیا اسی منٹوں کے بعد برطانوی ہوئی جہازوں نے ایندھن لینے کے لیے لینڈ کرنا تھا۔ چرچل خو دبھی ایندھن والے چیمبر میں موجود تھا۔ چرچل نے فورا ً کہا: ائیر وائس مارشل پارک! ’’ہمارے تما م جہاز جلد ہی ایندھن کے لیے لینڈ کرنے والے ہیں۔ ہمیں فوری طورپر اپنے ریزرو سکواڈ رن وہاں بھیج دینے چاہئیں کہیں ایسا نہ ہو کہ لفٹ وافے (Luftwaffe)عین اس وقت جب ہمارے جہاز گرائونڈ پر اترین تو وہ ہماری ساری ائیر فورس کو تباہ کر دے‘‘۔ پھرچرچل فوراً ائیر فورس کے کمانڈر کی طرف رخ کر کے پوچھنے لگا: ’’ہمارے پاس دیگرریزرو (Reserve)کتنا ہے؟ جواب ملا’’کوئی نہیں ہے‘‘۔ پھر اچانک خدا کا کرنا کیا ہوا؟ راڈار کی ڈسک پر حرکت نمودارہوئی۔ جرمن جہازوں نے مشرق کی طرف رخ موڑ لیا اور ا س طرح جنگ کی تیزی میں اچانک وقفہ آ گیا۔ یہ جہاز بھی اپنے لیے ایندھن لینے چلے گئے تھے۔ قدرت کس طرح مہربان ہوئی چرچل کی دعا قبو ل ہو گئی۔ بجائے اس کے یہی جہاز برطانوی جہاز کو تباہ کرنے کے لیے حرکت میں آتے عین ٹھیک لمحہ پر ان سب کا رخ الٹی جانب ہو گیا۔ اس ایمان افروز تاریخی واقعہ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ علم ہوتا ہے کہ آپ کو اس کی خاص حمایت نصرت اور مدد اور معجزانہ تائید کی کب زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے میں آپ کو یہ بار بار باور کراتا ہوں کہ آ پ کا جس قدر گہرا تعلق خدا سے ہو گا جس قدر معیاری اور خالص رشتہ اطاعت استوار ہو گا اسی قدر خدا آپ کا زیادہ خیال رکھے گا اور ہر بڑی مشک پر اعجازی رنگ میں وہ آپ کی زبردست مدد کرے گا۔ اس کی نصرت کا ہر ایسا غیرمعمولی عمل کسی معجزہ سے کم نہیںہوا کرتا۔ 11کامیابی کا یقینی فارمولا: دعا اور ممکناتی سوچ پر مبنی تدبیر 1776ء میں منعقدہ ایک موسیقی ڈرامے میں جارج واشنگٹن ایک سہ مصرعی نغمے میں تین اہم اورعمیق سوالات کرتا ہے: ہے کوئی یہاں؟ سن رہا ہو ہمار ی صدا؟ کرتا ہو ہماری فکر اور پرواہ؟ آ پ بھی جب سخت مایوس اورپریشان ہوں تو اکثر یہ تینوں سوالات اپنے آپ سے کرتے ہوں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان تینوں سوالات کا جواب یقینی اور حتمی طور پر ہاں میں ہے۔ ۱۔ خدا ہر جگہ موجودہے۔ ۲۔ خدا ہماری ہر بات سنتا ہے۔ ۳۔ خدا ہماری ضرور پرواہ کرتاہے ہمارا ہر وقت اور ہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے وہ ہم سے محبت رکھتا ہے اوروہ ہماری ضروریات کو پورا کرتا ہے ہمارے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتا ہے۔ امریکی لوگ ا س تاریخ ساز واقعہ کو تادیر یاد رکھیں گے جب 1970ء میں اپالو 13خلابازوں کو مرتے مرتے نئی زندگی عطا ہوئی تھی۔ وہ موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ کہ امریکہ کے لاکھوں لوگوں اوردنیا کے کروڑوں لوگوں کی دعا کی بدولت وہ زندہ سلامت بچ گئے۔ خلائی تسخیر کی مہم اپنے معمول کے مطابق اور توقعات کے متوازی جا رہی تھی۔ راکٹ ٹھیک طریق سے فائر کیا گیا تھا اوریہ مسلسل بلندی کی طرف نہایت کامیابی سے جا رہاتھا خلائی جہاز جب زمین سے 205000میل بلندی پر پہنچا تو گرائونڈ کنٹرول سیل میں یہ پریشان کن پیغام موصول ہوا: ہمیں ایک مشکل پیش آ رہی ہے۔ امریکہ کی خلائی تسخیر کی مہم پر مبنی ہر پروگرام رواں تبصرے کے ساتھ باقاعدہ ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا۔ اورپوری دنیا کے مہم پسند لو گ ایسے پروگراموں کو انتہائی دلچسپی اور پوری توجہ سے دیکھتے تھے جب یہ پیغام موصول ہواتو ساری دنیا کے لوگ جن کی نظریں بدستور ٹیلی وژن کی سکرین پرجمی ہوئی تھیں یہ الفاظ سن کر سکتے میں آ گئے ہر شخص نے ان مہم جو بہادر اور جوان خلابازوں کی زندگی کے لیے دعاکی۔ دنیا بھر کے کروڑوںناظرین نے باآواز بلند خدا کو پکارا اور ان مہم بازوں کے لیے قلبی طور پر دعا کی۔ خلائی جہاز کے فیول سپلائی سسٹم میں کسی دھماکے کے باعث ان خلابازوں کی جان خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اب ان کے لیے چاند پر کامیابی سے اترنا ممکن نہیں رہا تھا اب صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا تھا کہ خصوصی اورہنگامی تدبیر سے خلائی جہاز کو واپس زمین پر صحیح سلامت اتار لیا جائے۔ واپسی کا سفر بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ٹی وی سکرین پر بدستور نظریں جمائے ہوئے ناظرین کی دلی تمنا یہی تھی کہ خلاباز کسی طر ح زمین پر زندہ سلامت واپس آ جائیں ۔ جیمز اے لوول‘ فریڈ ڈبلیوہیز اور جان ایل۔ سویجرٹ پر مبنی خلائی جہاز بحر الکاہل میں اتر گیا جب ان تینوں نوجوانوں کو ہیلی کاپٹر نے بحفاظت سنبھال لیاتو پوری دنیا نے دیکھا کہ یہ زندہ سلامت عرشے پر اتر آئے ہیں۔ ہر ایک شخص شکر سے لبریز تھا۔ وہاں عرشہ جہاز پر ایک پادری فوراً ان تینوں جوان خلابازوں کے پاس پہنچا اور اسنے ان کی حیات نو پر مبارکباد دی اور شکرانہ دعا کی تو ان تینوں بہادر نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر اوراظہار تشکر کے لیے جھک کر دعا اور مبارکباد کا شکریہ ادا کیا۔ دنیا کے مشہور و معروف ماہانہ جریدے ٹائم میگزین نے اگلے ماہ کے ٹائٹل کے لیے جو فوٹو گراف منتخب کی وہ انہی تین خلابازوں کی تھی۔ اوراس فوٹوگراف میں اسی لمحہ کا منظر محفوظ کر لیاگیا تھا جب انہوںنے دعا کے لیے اپنے ہااتھوں کو جوڑ رکھا تھا اور سروں کو جھکایا ہوا تھا۔ وہ زندہ سلامت اپنے وطن واپس پہنچ گئے تھے اور مسرور اور ممنون دکھائی دے رہے تھے۔ اس موقع پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر نے بھی انہیں مبارکباد دیتے ہوئے آئندہ اتوار کو دعائے شکر کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ بعدمیں ان خلابازوں نے اپنے خلائی جہاز میں پیدا ہونے والی فنی خرابی کے بارے میں تفصیل بتائی۔ جب خلائی جہاز کویہ بلائے ناگہانی پیش آئی تو ہائوسٹن کے کنٹرول روم میں بیٹھے ماہرین نے فوراًیہ فیصلہ کر لیا کہ اپنے تینوں خلابازوں کو واپس لانے کا اہتمام کیا جائے ۔ اب انہیں فوری طور پر ایسی تکنیکی پلان کی ضرورت تھی۔ جس کے باعث ان کی واپسی کو جلد اور یقینی بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے انہیں خلا میں موجود اپالو 13کے بالکل ٹھیک ٹھیک مقام کے تعین کی ضرور ت تھی۔ بجائے اس کے کہ ماہرین جدید ترین الیکٹرانک آلات اور معاونات پر انحصار کرتے انہوںنے خلابازوں کو یہ پیغام بھجوایا کہ وہ اپنے خلائی جہاز کی کھڑکی کے باہر ایک ستارہ کا نشان بنائیں اور اس کی ریڈنگ لے کر فوراً اطلاع دیں۔ جب صورتحال نے زیادہ نازک صورتحال اختیار کی تو ہائوسٹن سپیس سنٹر نے خدا کے توکل پر دیگر تدابیر آزمانا شروع کر دیں اور بالآخر کامیاب ہو گئے۔ جب پریس رپورٹروں نے ان خلابازوں کی صحیح سلامت واپسی سے متعلق یہ سوال کیا: جب آپ کے خلائی جہاز کی فیول سپلائی ناکارہ ہو گئی تو اس وقت آپ تینوں کے احساسا ت کیا تھے؟ انہوںنے بیک آواز ہو کر کہا کہ ہم بس دعا کر رہے تھے اور ہمیں پورا یقین تھا کہ زمین کے تمام لوگ بھی ہمارے لیے دعا کر رہے ہیںَ ان میں سے مسٹر سویجرٹ نے کہا: ’’یہ دعا ہی کا اثر ہے کہ ہم زندہ واپس آ گئے ہیں‘‘۔ خدا کے ہر بندے کو جسے دعا کی تاثیر کا ادراک ہے وہ یہ یقین رکھتاہے کہ جب کوئی کام ممکنات کی حدود سے باہر نظر آتا ہے۔ تو دعا کی بدولت ایسی تدبیر سوجھ جاتی ہے جس کی بدولت معجزانہ طور پر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور تاریخی مثال ملاحظہ کیجیے: ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن جیوفریزئیر (Joe Fazier)ممکناتی سوچ کا مالک تھا ۔ اس کی کامیابی کا راز جوش و خروش سخت محنت اور دعا میں مضمر تھا۔ وہ ایک مخلص اور پکا کرسچین تھا۔ وہ ہر رات بائبل پڑھتا تھا اور باقاعدگی سے چرچ جایا کرتا تھا۔ وہ باکسنگ میں ہر فتح کے وقت اپنی شاندار کامیابی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کرتا تھا: ’’میری فتح کی بڑی وجہ خدا کی ذات پرمیرا ایمان اور یقین ہے‘‘۔ جیو فریزئیر ابھی نو عمر لڑکا ہی تھا تو اس کا خواب اورتمنا یہی تھی کہ وہ بڑا ہو کر باکسر بنے گا۔ وہ آرچی مور (Archie Moore)سے بے حد متاثر تھا جو اپنے وقت کا ایک عظیم باکسر تھا آڑچی نے باکسنگ کی ٹریننگ کا ایک پروگروم بھی شروع کر رکھا تھا۔ اس کانام اس نے اے بی سی (ABC - Any Boy Can)تھا یعنی ہر نوجوان باکسنگ میں مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ جیوفریزئیر نیکو یہ پروگرام بہت پسند آیا ۔ اس نے پروگرا م میں داخلہ لے لیا ور تربیت لینی شروع کر دی۔ لیکن جیو کے پا س رقم نہیں تھی کہ وہ پنچنگ بیگ خرید سکے چنانچہ اس نے اس شوق اور ضرورت کا حل یہ نکالا کہ ایک خالی بوری لی۔ اس میں کچھ ریت بھری اورکچھ کپڑوں کی کترین اس میں ٹھونس دیں اور اس طر ح اس نے اپنا مطلوبہ مکا بیگ تیار کرلیا۔ فریزئیر کا یہ پختہ ایمان تھا کہ اس کی مہار ت اور کامیابی کے لیے دعا اور محبت بہت ضروری ہ۔ اس محنت کیساتھ روزانہ دوڑ اور جوگنگ بھی ضروری تھی۔ وہ اسے روڈ ور ک کا نام دیتا تھا اس نے دوڑ کو اپنا معمول اور فرض سمجھ لیا۔ وہ کئی مہینوں تک باقاعدگی سے روزانہ دوڑا کرتا۔ کئی سالوں تک یہی معمول رہا تھا پھر کئی مشکلا ت اور مسائل بھی آئے وہ سوچنے لگا کہ یہ شوق اور آرزو بہت مشکل ہ۔ ارادہ کیا کہ اسے ترک کر دیاجائے۔ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچنے لگا۔ کہ اسے اس معمول کو جاری رکھا جائے یا چھوڑ دیا جائے۔ اس کے ضمیر نے اسے پکارا کہ عزم و استقلال سے کام لے بالآخر جیو نے اپنے آپ کو سمجھایا: ’’اگر میں ہمت ہار جائوں گا اور محنت کرنا چھوڑ دوں گا تو میں اپنے آپ ہی کو دھوکہ دوں گا۔ میں ہر روز آٹھ میل روزانہ چلتاہوں اس فاصلے کو کم کر کے چار میل روزانہ کروں گا تو بات سراسر اپنی ذات سے دھوکہ کرنے کے مترادف ہو گی۔ اور آخری وہ واحد شخص جس سے میں دھوکہ کھائوں گا وہ میری اپنی ذات ہو گی‘‘۔ اس عزم کی تجدید کے بعد جیو نے پھر سے آٹھ میل روزانہ دوڑ لگانے کی محنت شروع کر دی۔ وہ اکثر کہا کر تا تھا کہ جس طرح روڈ ورک میرے لیے ضروری ہے اسی قدر میری کامیابی کے لیے دعا بھی ضروری ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے رات بھی نہایت تضرع اور توجہ اور خشوع سے دعا کی تھی۔ جب 1964ء کے اولمپک گیمز میں اسے یو ایس اے کے لیے باکسنگ کھلاڑی منتخب کر لیا گیا ھتا۔ اسنے میچ پر میچ جیت لیے تھے۔ اور پھر سیمی فائنل اگرچہ جیو جیت تو گیا تھا لیکن اس کے بائیں پائوں کا انگوٹھا ٹوٹ گیا تھا۔ اب چلنے کے لیے بھی اسے نہایت دقت پیش آ رہی تھی اسے اس بات کا بے حد پریشانی لاحق تھی کہ وہ فائنل میچ کس طرح جیتے گا؟ جس دن جیو نے سیمی فائنل جیتا تھا اسی شام وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں گیا ۔ اس نے کمرے کو اندر سے لاک کر لیا اس نے پانی گرم کیااور ایک بالٹی میں ڈال دیا او ر گرم پانی سے اپنے انگوٹھے کی ٹکور کرنے لگا۔ اس نے جونہی پائوں کے انگوٹھے کو ہاتھ ہی لگایا تو درد کے مارے چیخ اٹھا۔ اس کا یہ انگوٹھا ٹو ٹ جانے کے باعث سوج گیا تھا اس نے اپنے آپ کو کہا: ’’میرا ہاتھ جسم کے اس حصے پر ہے جو میری طاقت اور قوت کا مرکز ہے لیکن میرا انگوٹھا ٹوٹا پڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری طاقت اور قوت ختم ہو گئی ہے۔ افسوس میری حالت آج قابل رحم ہے میرے پاس امریکیوں کے لیے گولڈ میڈل جیتنے کا واحد موقع ہے لیکن میر ا انگوٹھا ہی ٹوٹ گیا ہے‘‘َ جیو فریزئر اسی سوچ اور ہم کلامی میں مصروف تھا کہ اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس کے باپ کا بایاں بازوہی نہیں تھا اوریہ کمال کی بات تھی کہ وہ صڑف اپنے دائیں ہاتھ سے ہی سارے کام کیا کرتاتھا۔ جیو کو اپنے باپ کی ہمت کے تصور نے یادوں سے حوصلہ ہوا۔ ’’اگر میرا باپ اپنے ایک ہی بازو کی محرومی کے باوجود صر ف ایک ہی ہاتھ سے اپنی بیوی او ر تیرہ عدد بچوں کی کفالت کرتاتھا تو میں اس کا بیٹا ہو کر کیوں ہمت ہار بیٹھا ہوں۔ اور اپنے صرف ایک انگوٹھے کی چوٹ کو لے کر بیٹھ گیا ہوں اور اس چوٹ کے لیے یوں مایوس اور پریشان ہورہاہوں۔ میں اپنے عزم اورہمت میں تقویت کے لیے خدا سے دعا کروں گا‘‘۔ جیو فریزئر رات بھر خدا سے کامیابی اور ہمت کی دعا کرتا رہا بالآخڑ اس کا قلب و ذہن یقین اور اعتماد سے لبریز ہو گیا۔ اگلے روز کا فائنل میچ تھا فریزئیر کا مقابلہ ہیئر ہبر (Hans Huber)سے تھا جیو فریزئیر پورے اعتماد کے ساتھ میدان میں اترا۔ مقابلے کے آغاز ہی میں جیو نے ایک زبردست حکمت عملی اختیار کی۔ اس نے بایاں ہاتھ مسلسل لٹکائے رکھا۔ ہاتھ کو اس طرح لڑھکانے رکھنے سے ہینز یہ سمجھا کہ ا سکے اس ہاتھ کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا ہے حالانکہ ہینز کے کوچ نے اسے بتا رکھاتھا کہ جیو کا بایاں پائوں شدید زخمی ہے۔ لیکن ہینز تو یہ مشاہدہ کر رہا تھا ک جیو کا بایاں ہاتھ ہی لڑھکا ہوا ہے۔ اوروہ بار بار اس کو ضرب پہنچاتا تھا اور اسی حکتم عملی کے تحت جیو نے موقع پاتے ہی ہینز پر کئی زور دار مکے بار بار برسائے۔ مقابلہ کے جج صاحبان نے بالآخر تھری تو ون گنا اور جیو فریزئیر کو چیمپئن قرار دے دیا۔ سپورٹ رائٹر نے اپنے تبصروںاور رپورٹس میں لکھا کہ ہینز ہبر کو یہ معلوم ہو جاتا کہ جیو فریزیرکے بائیں پائوں کا انگوٹھا ٹوٹا ہوا ہے تو اس مقابلے کا نتیجہ یقینا مختلف ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جیو کی یہ غیر معمولی کارکردگی دعا کا کرشمہ تھیل جب ہم پورے ایمان و یقین کے ساتھ خدا سے دعا کرتے ہیں تو ہماری یقینی کامیاابی کے لیے خدا ہمیں بہترین تدبیر اورحکمت عمی سمجھا دیتا ہے آج روئے زمین پر بسنے والے لاکھوں اور کروڑوں جو غیر معمولی ذہانت علم اور فراست کے حامل ہیں وہ دعا کی اعجازی تاثیر پر ایمان اور یقین رکھتے ہیںَ وہ ہر روز باقاعدگی سے دعا کرتے ہیں اور وہ شعوری طورپر جانتے ہیں کہ دعا اثر دکھاتی ہے اور اس دعا کی بدولت انہیں قابل ذکر کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ میرے ٹیلی وزژن پروگرام قوت اورطاقت سے بھرپور ایک گھنٹہ (Hour of Power)کو دنیا بھر کے ناظرین نے بہت شوق اورتوجہ سے دیکھتے ہیں اور میرے اس پروگرام کی ستائش اورتحسین کے لیے میرے نام لاکھوں خطوط موصول ہونے والوں میں سے دس ہزار خط ضرور ایسے ہوتے ہیں جو دعا کی تاثیر کی توثیق میں لکھے جاتے ہیںَ ان خطوط میں لوگ نہایت تشکر کے ساتھ اور تفصیل کے ساتھ یہ ذکر کرتے ہیں کہ کس کس طریق او ر عجیب و غریب صورتوں اور کیفیتوں میں ان کی زندگی میں خدا کی قوت طاقت اور معجزہ نمائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ جلوہ نمائیاں ان کی دعا دھیان و گیان اور ریاضت عرفان کے نتیجے میں خدا کی جانب سے جواب کے طور پر ظہور میں آئی ہیں۔ اس ضمن میں مثال کے طور پر ایک خط کا مختصر متن پیش کیا جاتا ہے: ’’جنا ب ڈاکٹر شیلر صاحب! میں ایک سیاہ فام عورت ہوں اور میرا قد پانچ فٹ اور وزن اٹھانوے پائونڈ ہے۔ مجھے ادراک ہے کہ میں چھوٹے قد اور زیادہ وزن کے باعث خصوصی بے ڈھنگی عورت ہوں لیکن میرے اندر ایمان کی قوت موجود ہے۔ جس کے باعث میں نے اپنی زندگی میں مصیبتوں کے کئی طوفان جھیلے ہیں اور اب میں ایک مضبوط قلعہ کی طرح پراعتماد ہوں۔ میں نے اپنے شوہر کی بے وفائی کا بہت غم سہا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اپنے حجرہ عروسی میں ڈوسری غیر عورتوں کی عصمتوں کو اپن شوہر کے ہاتھوں تار تار ہوتے دیکھا ہے۔ اورا سکرب اور اذیت کو بڑے صبر سے برداشت کیا ہے۔ میں جب طلاق کامطالبہ کرتی ہوں تو میرا شوہر شدید جسمانی تشدد پر اتر آتا ہے بالآخر میں نے اس سے طلاق حاصل کر لی ہے لیکن میں کئی راتوں تک پھوٹ پھوٹ کر روتی رہتی تھی جب میرے بچے مجھ سے پوچھتے تھے کہ ان کا باپ کہاں ہے۔ میں نے اس سال چار مختلف ملازمتیں اختیار کی ہیں تاکہ میں اپنے بچوںکی ضروریات پوری کر سکوں میری ایک اور اضافہ مشکل یہ تھی کہ می ایک غریبانہ کمیونٹی سکول کی ٹیچر ہوں جہاں کے بچے جہالت بھوک اور غربت کے مارے ہیں اورم یں ااپنے ان پیاسے ننھے سٹوڈنٹس پر خصوصی توجہ اورپیار دیتی ہوں اور اس اندا ز سے ان کے ساتھ بھلائی کرتی ہوں کہ میں اپنے گھر میں ان کے بھی مسائل ساتھ لے آتی ہوں۔ لیکن ان تمام مشکلات مصائب اور مساء کے باوجود مجھے جو کامیابی قلبی اطمینان اور ایمان و یقین حاصل ہے تویہ محض خدا کا فضل احسان اور اس کی خاص مدد ہے۔ میں خدا کی نصرت اور تائید کے باعث سچ جوش و خروش اور علم بانٹتی پھرتی ہوں یہ وہ تحائف تھے جو میرے والد صاحب نے مجھے دیے تھے اور تاکید کی تھی کہ میں انہی ؤچار تحفوں کو بطریق احس اور حتی المقدور آگے لوگوں میں تقسیم کرتی رہوں۔ میں اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مشن اور ارادوں میں ناکام نہیں ہوئی۔ میں بعض اواقات اپنا سر بلند کر کے چلتی ہوں اورمیں ہر روز چوبیس گھنٹے خدا کے گن گاتی رہتی ہوں میں خدا سے باتیں کرتی ہوں۔ خواہ مجھے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو خدا مجھے اس قدر حوصلہ اعتماد اور قوت عطا کردیتا ہے کہ میرے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی ہے ۔ میں ان لوگوں کے ساتھ جن کے حالات مجھ سے زیادہ خستہ ہیں اور دل زیادہ شکستہ ہیں میں ان کے کام آتی رہتی ہوں اوران کی مایوسی اور پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ جب شلر صاحب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میک اپ کا کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ اور معیاری کاسمیٹکس بھی ہمارے چہروں کو وہ حسن اور نورنہیں دے سکتا جو خدا کے نور اور یسوع کی رضا کے باعث ہمیں حاصل ہوتاہے۔ میری روز مرہ دعا تسدیق اوراقرار مندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل ہوتاہے: خدا کرے ہمارے چہروں اور دلوں میں خدا ہی کا نور ہمیں روشن کرتا رہے۔ ہم یسوع کی راہ پر چلتے رہیں اس کی تعلیم ہم سب کی مشعل راہ ہو۔ اس کے ساتھ میں ٰہ بھی دعا کرتی ہوںکہ اے خدا تو اپنی مخلوق میں سے کسی نہ کسی کو میرے پاس اس لیے بھیجتا رہ کہ تاکہ میں تیری عطا کردہ توفیق اور خوبیوں سے سا کی ا سلیے مدد کروں تاکہ مجھے تیری رضا حاصل ہو اورتیرے شکر کا بہتر طور پر اظہار ہوتا رہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ قلب و ذہن کے سکون اور اطمینان کے لیے تیری عطا کردہ قوتوں سے دوسروں کو کچھ نہ کچھ دینا ضروری ہے‘‘۔ ہمارے ایک مذہبی استاد نے یسوع مسیح کی بے شمار پر اثر اور ایمان افروز تعلیمات میں سے ایک زبردست تعلیم یہ بھی دی تھی: ’’اور تم جو بھی اپنی عبادت میں اور دعا میں مانگو گے تم ضرور حاصل کرو گے اگر تم مکمل ایمان اوریقین رکھتے ہو‘‘ (Matt021:22)‘‘ اس آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے کئی لوگوں کے ذہنوںمیں ایک سوال ابھرتاہے وہ یہ ہے: ’’کیا خدا کسی کو صرف وہی شے عطا کرتا ہے جو وہ دعا میں اس سے مانگتا ہے؟‘‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم انسانوں کو صحیح عقل اور شعور ہی نہیں ہے کہ ہمارے لیے کون سی چیز زیادہ بہتر اور مفید ہے۔ دراصل خدا تعالیٰ نے ہمیں ان گنت نعمتیں اور بے شمار دولتیں تو پہلے ہی دے رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود کئی لوگ اصڑار کے ساتھ صرف خاص چیز ہی کے حصول کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ جرمنی کے ایک علاقے میں میں ںے ایک روایتی قصہ سناـ ’’کئی سال گزرے اس علاقے میں فصلیں بہتر طور پرنہیں اگتی تھیں خراب فصلوں کے باعث پورے علاقے میں قحط پڑ گیا بالآخر گائوں کے تمام لوگوں نے مل کر یہ دعا کی‘‘۔ ’’اے ہمارے آقا تو ہمارے ساتھ ایک سال کے لیے یہ وعدہ فرما کہ ہم جو کچھ بھی تم سے مانگیں گے تو ہمیںعطا فرما۔ کبھی دھوپ مانگیں گے اور کبھی بارش‘‘ روایتی قصہ کے مطابق خدا ان کی بات پر مان گیا۔ جب دیہاتیوں نے بارش کے لیے دعا کی تو خدا نے خوب بارش برسا دی۔ اس کے بعد دھوپ مانگی خدا نے خوب دھوپ کے لیے موسم صاف کر دیا اور سورج بڑی آ ب و تاب سے طلوع ہوتا رہا اور کڑی دھوپ کا سماں چھا جاتا۔ لیکن نہ بارش نے فائدہ دیا اور نہ ہی دھوپ کے باعث فصلیںبہتر ہو سکیں۔ مکئی کی فصل اگی نہ ہی گندم میں دانہ آیا اور جب فصلوں کی کٹائی کا موسم آیا تو بجائے مسرت کے یہاں تو سخت اداسی چھا گئی کسان یہ دیکھ کر بے حد مایوس ہوئے کہ نہ تومکئی کے بھٹوں اور گندم کے سٹوں پر کوئی دانے تھے اور اسی طرح پتوں والی فصلوں پر بھی کوئی پھل نہ آیا یہ سادہ لوح دیہاتی چیخ اٹھے۔ اے خدا تو نے ہمیں بری طرح ناکام اور نامراد کر دیا ہے۔ خدا نے جواب دیا: میرے بندو میں نے تو اپنے وعدے کے مطابق وہی کچھ دے دیا ھتا جو تم نے مجھ سے مانگاتھا‘‘ دیہاتیوںںے پھر التجا کی: تو پھر ہمارے آقا: کیوں ہماری فصلوں میں کوئی ھل دانہ اورمغز نہیں آیا؟ خدا نے انہیں جواب دیا۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ تم سب نے مجھ سے ہوائیں نہیںمانگیں۔ ہوائوں کے بغیر فصلوں کی زر پاشی اور روئیدگی نہیں ہواکرتی‘‘۔ خدا تعالیٰ کے منصوبوں کی خاصیت یسوع مسیحؑ نے ہرگز یہ تعلیم نہیں دی کہ خدا ہر خود غرض کی پکاربچگانہ مطالبات اور ناحق گلے شکوئوں کا جواب دیتا ہے۔ البتہ یسوع نے یہ ضرور کہا تھا کہ خدا اپنے خاص اور خالص بندوں کی تمام دعائوں کو سنتا ہے اورا س کا جواب دیتا ہے۔ اکثر لوگ مکمل طور پر مادی حصول کے لیے خود غرض ہو کر دعا کرتے ہیں اور جب ان کو اپنی ایسی دعائوں کا معجزانہ انداز میں کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تو اور ان کی یہ دعائیں ہوبہو ویسے ہی پوری نہیںہوتیں تو وہ شک و شبہ کا شکار ہوکر ایمان میں کمزور ہو جاتے ہیں اورپھر دوسروں کو کہتے پھرتے ہیں۔ ’’دیھ لو دعائوں میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لہٰذا دعائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ان کی خشک اور رسمی حرکتوں کو دعا قرار ہی نہیںدیتا۔ دعا محض چیخ و پکار کا نام نہیں ہے او ر نہ ہی یہ کوئی روایتی رسم ہے بلکہ دعا ایک منظم کیفیت قلب کا نام ہے جس میں تدبیری تقاضے اثرات اورآداب پائے جاتے ہیں۔ دعا واقعی نہ کوئی روایتی رسم ہے اور نہ ہی کوئی پراسرار ترکیب ہے جس کی مدد سے خدا کو متحرک کر کے اپنی زندگی کے معمولات سنوارنے پر معمورکر دیا جائے۔ دعا تو ایک خالصتا ً قلبی و روحانی واردات اور لطیف عمل ہے۔ جو ہماری ذات اور تجوہ کو خدا تعالیٰ کے حضور اس انداز سے لے جاتی ہے کہ ہم خداکے منصوبہ منشا اور رضا کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ اور جب ہم خدا کے اس عالمگیر منصوبہ اور کامل رضا و مشیت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں تو ہمارا قلب و ذہن ایک خاص سکون اور طمانیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ لیکن ا س کیفیت کے برعکس جب ہم خدا کے منصوبہ منشا اور رضا کے دائرہ ہم آہنگی سے باہر رہتے ہیں توہمارا قلب و ذہن اضطراب مایوسی ‘ تذبذب بے قراری اور انتشاار کا شکار ہو جاتا ہے۔ اصل دعا وہی ہے جو قلبی اور روحانی تحریک بن کر ہماری آرزوئوں اور تمنائوں کو خدا تعالیٰ کے منصوبہ رضا اورمنشا سے ہم آہنگ کر دیتی ہے۔ خدا کے بارے میں ایک خوبصورت تحریر جس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہم نے اسے گارڈن گروو کمیونٹی چرچ کے مشاورتی مرکز میں ایک بلیٹن بورڈ پر جلی حرو ف میں کمپوز کرکے لگا رکھی ہے۔ یہ تحریر واقعی نہایت غور سے پڑھنے اور ذہن نشین کرنے کے لائق ہے۔ملاحظہ فرمائیے: خدا کی ہستی کے بارے میں ایک خوبصورت تحریر ’’خدا نے میرے بارے میں ایک خاص منصوبہ تیار کر رکھا ہے یہ منصوبہ درحقیقت میری ذات کے اندر ہی خوابیدہ اور مستور ہے بالکل ویسے ہی جسے ثمر بلوط کے درخت میں موجودہوتا ہے یا گلاب یا پھول گلاب کے پودے کی کونپل میں موجود ہوتاہے اور وہ اپنے صحیح وقت اور موسم پر نمودارہوتا ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ میری زندگی میں رونما ہونے والا ہر واقعہ حالت اور تبدیلی میری بہتری اور ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ جب میں اپنے وجود اور ذات کو خدا کے تیار کردہ منصوبہ کے لیے کلیتہً سپرد کر دیتا ہوں تو یہ منصوبہ میرے ذریعے کھلنے اور کھلنے لگتاہے۔ میں اس منصوبے سے صرف اسی صورت میں آگہی حاصل کر سکتا ہوں کہ جب میں مکمل طور پر برضا و رغبت اس سے ہم آہنگ ہو جائوں اورتب ہی میرا قلب و ذہن امن و سکون اور طمانیت سے لبریز ہو سکتا ہے اور پھر یہ ی امن اور طمانیت میر اندر تحفظ مسرت اور خواہش کے احساسات پیدا کر دیتی ہے۔ یہ احساس خدائی پلان کا لازمی حصہ ہوتے ہیں اسی طرح میرا قلب و ذہن ایک نئے احساس صبر اور نئے سکوت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ جس کے باعث دوسرے لوگ بھی میرے ساتھ اسی پلن کو آشکار ا کرنے میں میری معاونت کرنے لگتے ہیں۔ میرے متعلق یہ منصوبہ دراصل خدا تعالیٰ کے ایک عظیم منصوبے ک الازمی جزو ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ اس انداز سے تشکیل اور ترتیب دیا ہوتا ہے جو صرف مییر ہی بہتری کے لیے نہیں بلکہ دوسرو ں کی بھلائی اور فلاح کے لیے بھی اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن کی بنا پر میرا واسطہ کئی لوگوں واقعات اور کیفیات سے پڑتاہے۔ لہٰذا میں ان تمام لوگوں واقعات اور کیفیات کو خدائی پلان کے عمل اظہار و نکھار کے معاونات اور عناصر تصور کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ میری اعانت تائید اور نصڑت کے لیے ان لوگوں کو منتخب کر لیتا ہے تاکہ میں ان کو جان سکوں ان سے محبت کروں اور ان کی خدمت کروں اور پھر ہم باہمی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جائیں۔ میری یہ قلبی دعا ہے کہ میں ایک ایسا مفید وجود بن جائوں جو دوسروں سے زیادہ محبت کرنے اور ان کی خدمت کرنے اور دوسروں کی زیادہ محبت جذب کرنے اور خدمت لینے کا اہل ہو۔تاکہ ہم باہمی طور پر اپنی اپنی زندگی کے لیے خدائی منصوبہ جات کی بہتر تکمیل کے لیے ممدومعاون ثابت ہوں۔ میں اپنے مالک حقیقی اورروحانی آقا سے التجا کرتا ہوں کہ وہ مجھے صرف انہی اشیا کے دائرہ تک محدود رکھے جو میرے لیے خدائی منصوبہ کے لیے ضروری ہے۔ مجھے یہ ادراک حاصل ہو کہ میری اچھائیاں خوبیاں اور صلاحیتیں ایک خاص وقت میں اجاگر ہوں گی اور وہ بہترینراہ اور مقصد کے لیے کام میں لائی جائیں گی۔ میرے باطن کی آگہی میرے قلب وذہن کو خوف حسد غصہ اور آزردگی سے آاد کر دے گی۔ اوریہ کیفیت مجھے وہ تمام فرائض ادا کرنے کی جرات اوراعتماد عطا کر دے گی جو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے انجام دینے چاہئیں۔ جب میں اپنے آ پ کو خدائی منصوبے سے مکمل طور پر ہم آہنگ کر لوں گا جو میں ہر قسم کے لالچ منفی جذبات اور برے خیالات او رکاموں سے محفوظ رہوں گا پھر میں نہ تو شک کروں گا کہ دوسرے کیا حاصل کر رہے ہیں اورنہ ہی حسد کروں گا کہ دوسرے کیوں حاصل کررہے ہیں اورنہ ہی دوسروں سے اپناموازنہ کروں گا میں اپنی حالت اور کیفیت میں قانع اور مطمئن رہوں گا اور میں اپنے خالق و مالک سے کبھی بھی منقطع نہیں ہوں گا کیونکہ وہی ہر چیز عطا کرتاہے۔ مجھے یہ ادراک حاصل ہے اور اس بات کا خوشگوار احساس ہے کہ خدا نے مجھے بیشمار تحائف اورنعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات میں یہ سوچتاہوں کہ میں ان عظیم نعمتوں کے اہل بھی نہیں تھا اور ابھی تک مجھ پر خدا کے فضلوں کا اتار ہو رہا ہے۔ میں خا تعالیٰ سے یہ دعا کرتاہوں کہ وہمرے اندر ان فضلوں کو جذب کرنے کی صلاحیت دے اور مجھے یہ بھی توفیق اورظر ف عطا کرے کہ میں دوسروں کو بھی دے سکوں۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ میں دوسروں کو وہی کچھ دے سکتا ہوں جو میں خدا سے حاصل کروں گا اور یہ نکتہ اور حکمت مجھے معلوم ہے کہ میں اسی قدر حاصل کروں گا جس قدر میں دوسروں کودیتا رہوں گا۔ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی بدولت ہی ہر آن سکون ہم آہنگی اور توازن اور مسرت کا احساس مجھے نہایت مطمئن رکھتاہے۔ میں یہ ایمان رکھتاہوں کہ کوئی بھی کام جسے میرا خدا کرن کا حکم دیتا ہے اس کا انجام دینا میرا اولین فریضہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق اورہم آہنگی کے باعث تمام کام متوازی طور پر اس انداز سے طے پا رہے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی فیض پہنچ رہا ہے۔ میں یہ پختہ یقین رکھتا ہوں کہ جب کوئی کام میری خواہش کے باوجود انجام نہیں پاتا یا میں اسے نہیں کر سکتا تو دراصل وہ کام خدا کی دانست میں میرے لیے مبارک نہیںہوتا۔ وہ اس کام کے امکان کے دروازے کو بند کر کے میرے لیے زیادہ بہتر کام کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جو میرے لیے زیادہ برکت ترقی اور خوشی کاموجب ہوتے ہیں۔ مجھے یہ آگہی اور ایمان بھی حاصل ہے کہ میری زندگی زندگی کا اصل اور عظیم مقصد خداتعالیٰ کی جستجو اور اس کی رضا کا حصول ہے اور یہی امر میرے لے قلب و ذہین کی سکنیت اور طمانیت کا موجب ہے اور اس ضمن میں مجھے دوسروں کی بھی مدد کرنے کافرض سونپا گیا ہے۔ میری یہ دعا اور تمنا ہے کہ میری ذات اور وجود کے باعث خدا کے نور محبت اور زندگی کی رمق سے دوسروں کو فیض پہنچتا رہے اور میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ہر آن بڑھتا ہی چلا جائے۔ میری خدا سے التجا ہے کہ وہ میری ہر لمحہ رہنمائی فرماتا رہے ۔ میں اپنے مالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اپنی رضا خوشنودی اور محبت کے حصول کے لیے ہر اس کام اور چیز سے دور رکھا ہے جو اراہ میں حائل تھی۔ میں انپے نفس کی اس لیے نفی چاہتا ہوں کہ خدا کی ہستی کا زیادہ ظہور ہو اور خدائی منصوبے کی بتہرین تکمیل ہو‘‘۔ سچی اور اصل دعا آخر کیا ہے؟ حقیقی اور سچی دعا وہ ے جو آ پ کے قلب و ذہجن اورباطن سے ایسی ہم آہنگ کیفیت کی جستجو کرے جو آپ کی زندگی کے بارے میں خدا کی رضا اور منشا کے حصول کے لیے آپ کے خیالات و اعمال کو تعمیری بنیاد پر استوار کرے۔ اسی بات کی وضاحت کے لیے میں ایک سادہ اور آسان مثال پیش کرتاہوں۔ فرض کریں کہ آپ ایک کشتی میں ہیں اور اب آپ ساحل پرپہچن رہے ہیں آپ کشتی کولنگر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ اس لنگر کو اس انداز سے ساحلی کنارے کے پاس پھینکتے ہیں کہ وہ ریت میں اچھی طرح دھنس کر پھنس جاتاہے۔ اب آپ لنگر کے رسے کو پکڑ کر کھینچتے چلے جاتے ہیں کہ کشتی تیزی سے ساحلک کے پہلو پرآتی چلی جاتی ہے۔ آپ نے اس عمل کے ذریعے کیاکیا ہے؟ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے ساحل کو ریت کو حرکت میں لا کر اپنے قریب نہیں کیا بلکہ آپ ایک خاص تکنیک کے تحت کشتی کو حرکت دے کر ساحل تک لائے ہیں یہ سادی سی بات ہے کہ کشتی کو حرکت دی جا سکتی ہے جبکہ ساح کو حرکت دینا ناممکن ہے۔ ٭ دعا کااصل مقصد ہرگز ی نہیں کہ آپ کو وہ کچھ دیا جائے جو آپ چاہتے ہیں اور اسی وقت دیا جائے جب آپ چاہتے ہیں ٭ بلکہ دعا کا اصل مدعا یہ ہے: کہ آپ کوآپ کے وجوود اور آپ کے قلب و ذہن کو آپ کے رویے اعمال اور خیالات کو وہ خاص رخ حرکت زاویہ حالت اور مقام دیا جائے اور اس کے مطابق بنایا جائے جو خدا تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ قدرت اور قاونین کے تحت اس روئے زمین کے لیے تخلیق و تشکیل کر رکھے ہیں خدا کس طرح دعائوں کا جواب دیتا ہے کسی نے کہا تھا کہ خدا تعالٰی ہماری ہر دعا کا جواب ان الفاظ میں دیتا ہے: میں تجھ سے محبت کرتا ہوں اور تمہاری بھلائی چاہتاہوں یہ بات واقعی درست ہے لیکن زیادہ صراحت اور بہتر انداز میں اسی موضوع کر تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات کی روشنی میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہماری ہر دعا کا جواب مندرجہ ذیل چارقسم کے انداز میںدیتا ہے: ۱۔ نہیں… No ۲۔ ذرا صبر کرو… Slow ۳۔ مزید اصلاح کرو… Grow ۴۔ ہاں چلتے جائو… Go حقیقت یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے خاص گر شرائط اور آداب ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دعائوں کے جواب دینے کے ان چاروں اندازمیں بھی انہی شرائط اور آداب کا معیار کارفرما ہوتا ہے۔ 1۔ جب دعا کی شرائط اور کوائف درست نہیں ہوتے تو خدا نہیں میں جواب دیتا ہے خداتعالیٰ اپنی نعمتوں اور لازمی ضروریات سے ہمیشہ نوازتا رہتا ہے۔ اور وہ ان چیزوں سے نواز رہا ہوتا ہے جن کی آ پ کو خاص طورپر خواہش ہوتی ہے۔ وہ یہ چیزیں اس لیے نواز رہا ہوتا ہے کہ فی الحقیقت تمہیں ان اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ آپ کو حالیہ حالت سے ترقی دے کر زیادہ بہتر حالت اور عظیم انسان بنا دے۔ جب آپ ایسی دعا کرتے ہیں جو آپ کے اس مطلوبہ اور اعلیٰ مقام کے شایان شان اورمطابق و موافق ہو تو خدا ااپ کو نہیں میں جواب دے کر یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ آپ کو زیادہ بہتر اورمعیاری چیزوں کی ضرورت ہے۔ آ کو یہ یقین اور ایمان رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے لیے بہترین پلان تیار کررکھا ہے۔ اور اس کی تکمیل کے لیے ہر وقت اور بہتر اسباب مہیا کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک ماہنامہ جریدہ ڈی سیژن Decisionجسے بلی گراہم اوینجلسٹک ایسوسی ایشن شائع کرنے کا اہتمام کرتی ہے کی حالیہ اشاعت میں دنیا کے عظیم چرچوں کو تحسین پیش کی گئی ہے انمیں سے ایک چرچ کا نام دی پیپلز چرچ آف ٹورنٹو کینڈا ہے یہ دنیا کا معروف و مشہور وہ چرچ ہے جس نے دنیا کے مختلف ممالک میں سب سے زیادہ مبلغین تیار کر کے بھیجے ہیں۔ خدا تعالیٰ دعائوں کا کس طرح جواب دیتا ہے اس ضمن میں اس چرچ کی کامیابی کی تاریخی کہانی کی مثال پیش کی جاتی ہے: 1920ء کی دہائی میں ایک نوجوان پادری آسوالڈ سمتھ کی خواہش تھی کہ وہ ایک کامیاب مبلغ بن کر کسی غیر ملک میں تبلیغ کے لیے جائے۔ اس نے خدا کے حضور نہایت تضرع سے یہ دعا کی کہ: اے خداوند تعالیٰ: ’’میں ایک کامیاب موثر مبلغ بننا چاہتا ہوں اس ضمن میں میری راہیں آسان فرما اور مجھے کامیابی عطا کر‘‘۔ یہ واقعی ایک سچی دعا تھی اوریہ رسمی اور روایتی التجا نہیں تھی۔ یہ خود غرضی کی دعا نہیںتھی یہ ایک ایسی دعا تھی کہ جس میں ایک انسانی روح وہی تقاضا کر رہی ھتی کہ جو خدا کامنشا اورمقصد اور ارادہ تھا۔ جب ڈاکٹر سمتھ نے غیر ملکی مبلغین کے انتخاب کے لیے تشکیل کر دہ امتحانی بورڈ کاٹیسٹ دیا تو وہ اس میں فیل ہو گیا ۔ کیونکہ وہ معیار پر پورا نہیں اتراتھا۔ انتہائی جدوجہد اور کوششوں کے باوجود ڈاکٹر سمتھ کے لیلے غیر ملکی مبلغ بننے کا امکان ختم ہو گیا۔ اس ناکامی کے رد عمل کے طور پر سمتھ کو یہ انتہائی حیرت تھی کہ اگر دعا اثڑ رکھتی ہے تو یہ کیا ہوا ہے؟ وہ تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرنے کا مقدس مقصد رکھتا ہے۔ لیکں خدا تعالیٰ نے اسے اس کی دعا کا جواب نہیں میں دے دیا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سمتھ کے ذہن میں ایک زبردست آئیڈیا آیا اس نے سوچا کہ : ’’اگرمیں غیر ملکی مبلغ نہیں بن سکا تو خیر ہے نہ سہی میں ایک چرچ بنائوں گا جہاں میں مبلغین تیار کروں گا اور پھران مبلغین کو غیر ممالک میں ٹبلیغ کے لیے بھیجوں گا‘‘۔ سمتھ نے اس خوا ب اور آئیڈیا کے مطابق پلاننگ کی کام کیا اور بالآخر عظیم مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ عیسائی دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی پادری نے اس سے پہلے کبھی کوئی چرچ نہیں بنایا۔ ڈاکٹر آسوالڈ سمتھ نے ایک عظیم چرچ کی تعمیر و تشکیل کر کے ایک قابل ذکر مثال قائم کر دی۔ خدا نے سمتھ سے زیادہ بڑا کام لے کر اس دعا کا جواب نہیں میں دے کر بہتر نعم البدل کامیابی کا سامان مہیا کر دیا۔ خداکے پاس سمتھ کے لیے زیادہ بڑا پللانت ھا اور اس کی تکمیل کر دی۔ خدا کی جانب سے دعا میں جواب میں نہیں موصول ہونے کے جودو جواز ہوا کرتے ہیں۔ ۱۔ ایک صورت یہ ہے کہ جس مقصد اور آئیڈیا کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے۔ وہ آئیڈیا سرے سے ہی نامناسب اور غلط ہے۔ ۲ دوسری صورت یہ ہے کہ جس مقصد اور آئیڈیا کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے وہ آئیڈیا اس پلان سے کہیں چھوٹاہے اور معمولی ہے جو خدا نے اس شخص کے لیے خاص تیار کر رکھا ہے۔ 2۔ جب دعا کے لیے مناسب وقت نہیں ہوتا تو خدا ’’ذرا صبر کرو‘‘ کے الفاظ میں جواب دیتا ہے پوری انجیل مقدس میں کسی ایک آیت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ خدا نے یہ وعدہ کیاہو کہ آپ ایک چیز مانگیں اور انگلی کا اشارہ کرتے ہی خدا اسے فوراً حاضر کر دے ۔ خدانے آپ کی دعا کے جواب میں ایسے فوری کوئی جادوئی جواب کا کبھی وعدہ نہیں کیا۔ حقیقت ہے کہ خداتعالیٰ کو ’’کیوں‘ اور ’’کیا‘‘ کے علاوہ ’’کب‘‘ کے شعبہ جات حکمت پر زبردست کنٹرول حاصل ہے۔ اگر کا آپ کی نہایت سچی اور مخلص دعا کے جواب میں نہیں کہتا ہے اور آپ پوچھتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو خدا تمہیں فوری طور پر اس ’’کیوں‘‘ کاجواب دیتا ہے اور نہ ہی ’’نہیں‘‘ کی وضاحت پیش کرتا ہے۔اگر آپ کیوں پر مبنی ایسا سوال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ خدا کی جانب سے نہیں کے جواب پر ہرگز مطمن نہیں ہیں۔ خدا یہ بہتر انداز سے جانتا ہے کہ خدا کی جانب سے کسی بی جواز اور وضاحت سے آپ ہرگز مطمئن نہیں ہوں گے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا کی عظمت اورمقام کیاہے؟ خدا تعالیٰ تمام جہانوں کا خالق ہے وہ ہر شے اور ہر امر کا مالک ہے۔ اس کی ذات نہایت اعلیٰ ارفع اور اکمل ہے۔ وہ آپ کی دعا کے جواب میں فوری جواب دینے اور دعاکو فوری طورپر قبول کرلینے کا پابند نہیں ہے۔ وہ ہمارا خادم یاملازم نہیں ہے۔ خدا ہمارا آقاہے خدا ااپ کا آقا اور مالک ہے۔ اس نے آپ میں سے ہر شخص کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا مقصد اور مشن متعین کر دیاہے ۔ خدا جب آپ کی دعا کو رد نہیں کر رہا ہے۔ خدا کبھی بھی اپنے الٰہی وقت اور خدائی تقویم یعنی تقدیر کے کیلنڈر کے خلاف نہیں جاتا کیونکہ اس کا کیلنڈر اور وقت کے تعین کا شیڈول ہرلحاظ سے مکمل اورجامع ہے۔ دعا کے جواب اور اس کی قبولیت کے انتظار اور صبر ضروری ہے۔ جن لوگوں کو خدا سے تعلق ہوتاہے وہ نہ تو شک و شبہ سے کام لیتے ہیں اورنہ ہی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک شخص نے مجھ سے اس ضمن میں میری مشاورت طلب کرتے ہوئے کہا: ’’میرا دعا کے بارے میں ایمان اور یقین کمزور پڑ گیا ہے‘‘۔ میں نے اس شخص کی یہ بات سن کر نہایت نرمی سے کہا: ’’بات ی ہے کہ دعا پر آپ کا اعتماد اور اعتقاد نہیں اٹھا کیونکہ آپ اب بھی دعا کرتے ہیں اورنہہی آپ کے ایمان میں کمزوری آئی ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ میں صبر کی کمی ہے‘‘۔ ہمارے چرچ کے وہ ارکان جو لائف ممبر ہیں وہ تو صبر کو ایمان کا لازمی جزو تصور کرتے ہیں صبر دراصل خداتعالیٰ پر ایمان لانے کا اعلیٰ اور معیار اور عملی اظہار ہے۔ بائبل کی تعلیم یہ ہے: ’’اے اپنے آقا پر ایمان لانے والے تو اپنے خدا کی تقدیر پوری ہونے کے لیے صبر سے کام لے‘‘۔ خدا تعالیٰ سے مانگی ہوئی دعا کبھی بھی رائگاں نہیں جاتی۔ خدا اس دعا کو ہرگز فراموش نہیں کرتا۔ دعا کرن کا عمل خدا سے گہرا تعلق قائم کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے دعا توایک زرخیز بیج کی مانند ہوتی ہے جسے کسی بھی وقت بویا جا سکتا ہے۔ لیکن خدا کے حضور ہر فصل کے لیے ایک زمانہ اور موسم مقرر ہوتا ہے لہٰذا آ پ کا بویا ہوا بیج عین وقت پر اگنے پھلنے اورخوب پھل دینے لگتا ہے۔ لہٰذا جب آپ دعا کرتے ہیں تو اگر اس کی قبولیت میں ابھی وقت باقی ہے تو خدا جواب دیتا ہے ابھی ذرا صبر کرو۔ 3۔ جب آپ اپنی خاص دعا کے مطابق خود ہی ا س کے اہل اور قابل نہیں ہوتے تو خدا ان الفاظ میں جواب دیتا ہے ’’ابھی اپنی مزید اصلاح کرو‘‘ خداتعالیٰ ایسے لوگوں کی دعاسنتا اور انہیں شرف قبولیت بخشتاہے جب وہ خود اس مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کے عین مطابق اور قابل ہوتے ہیں۔ کئی پرجوش لوگ جو ابھی تک مطلوبہ منصب اور مقام کے قابل اور اہل ہوتے ہیں وہ جلدی سے بے صبری سے اپنی کامیابی اور مطلوبہ منصب کے حصول کے لیے دعا کرتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کی دعا کا جواب یوں دیتا ہے۔ ابھی مزید اپنی اصلاح کرو۔ مزید محنت حوصلے اور ریاضت سے کام لو ہر وہ قوت منصب او ر اختیارات جو قبل از وقت اور مطلوبہ لیاقت اور اہلیت سے پہلے ہی حاصل ہو جائے تواس میں جلد ہی انتشار اور بگاڑ کی صورت پیداہو جاتی ہ۔ اور اگر آپ اس مرتبہ اور مقام کے ابھی اہل نہیں ہوئے تھے تو آپ کے لیے یہ منصب آپ کی تباہی اور خرابی کا باعث بن جائے گا۔ میں دو اہم سوالات کا جواب دیتاہوں کہ یہ سوالات اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں: سوال: کیا ٓپ کی کوئی ایسی دعا بھی ہے جو خدا سے آپ نے مانگی ہو اور وہ ابھی تک قبول نہ ہوئی ہو؟ جواب: یہ عین ممکنہے کہ آپ خود ابھی تک اس دعاکے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترتے ہو اور آپ کو ابھی مزید اصلاح نکھار اتنظار اور ترقی کی ضرورت ہو۔ سوال: کیا ابھی تک ایسے مسئال آپ کو سامنا ہے جو ابھی حل نہیںہوئے ہیں اور جن کے باعث آپ پریشان رہتے ہیں؟ جواب: آپ نے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی وضع نہیں کی ہو گی اور اس پر بطریق احسن کام نہیں کیا ہو گا۔ دعا میں قبولیت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض اوقات کئی لوگوںکا ذہن منفی جذبات میں الجھا ہوا ہوتا ہے اوراس کیفیت میں ان کا خدا سے تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور خدا اور مخوق کی باہمی ہم آہنگی میں عدم توازن پیداہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دعا بے اثر ہو جاتی ہے۔ اس جمن میں میں اپنا ایک واقعہ پیش کرتاہوں۔ میں ایک دفعہ نہایت پریشان کن صورت حال سے دوچار ہو گیا تھا۔ مجھے ایک ایسے شخص سے واسطہ پڑا جس نے اپنی بیوی اپنے بیٹے اور دیگر کئی لوگوں کی زندگی برباد کر کے رکھ دی تھی۔ جب مین ںے اس شخص کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو وہ الٹا مجھ پر برس پڑا تب مجھے یسوعمسیح کے مندرجہ ذیل الفاظ یاد آئے: ’’تم اپنے ہیرے جواہرات سوروں اور خنزیروں کے سامنے مت ڈالو۔ وہ انہیں اپنے پیر تلے روند ڈالیں گے ۔ اور پھر تمہاری طرف کود کر آئیں گے اور تمہیں چیر پھاڑ ڈالیں گے‘‘۔ میں اس صورت حال سے بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ میں عین آدھی رات کو جاگ پڑااور میرا دل اس شخص کے بارے میں منفی جذبات س لبزیز ہو گیا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے لیے اس طرح کے منفی جذبات ہرگز مناسب نہیں ہیں اورنفرت کرنا مجھے کسی طرح زیب نہیںدیتا۔ مجھے کسی شخص کے لیے ایسا رویہ اور سوچ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ میںتو یسوع مسیح کا پیروکار ہوں۔ اس کا اطاعت گزار اور مطیع ہوں۔ میرے اندر بھیج یسوع کی مسیحائی صفت کا اثر اور رنگ موجودہونا چاہیے۔ میری روح میں بھی اسی طرح انسانوں کے لیے محبت اور عفو کے جذبات جاری و ساری رہنے چاہئیں۔ یہ نفرت کا انداز اور منفی رویہ کسی طرح بھی یسوع کی روح کے موافق نہیں ہے۔ میں نے فوراً ہی خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ میرے ذہن وقلب سے نفرت کے احساسات اور منفی جذبات نکال دے۔ میں نے روحانی تصورمیں محسوس کیا کہ میں ایک کار ہوں یعنی میرا پورا وجود ایک کار بن گیا ہے اور یہ کار ایک گیرس ریک پر کھڑی ہے اور ایک مکینک میرے نیچے ایک پلگ کو کھول کر میرے کینک کیس سے سارا گندہ تیل نکال رہاہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے انے آپ کو انسانی روحپ میں دیکھا جو ایک بستر پر ہے اور مجھے دوسرے لوگوں کی مدد سے اٹھایا جا رہاہے۔ حضرت یسوع مسیح میرے پاس آتے ہیں اور یرے دل کی والوکو کھولتے ہیں اور اسمیں موجود تمام کڑوا اور کسیلا منفی اورناخوشگوار مواد نکال باہر پھینکتے ہیں۔ اور پھر ایک نیا صاف تازہ و شفاف او ر خوشگوار مواد جس کے لیبل پر محبت لکھاہے ڈال دیتے ہیں۔ دعا دراصل نئی قوت پانے کا عمل ہے یہ تمام کثافتوں اور منفی خیالات کو دھو ڈالتی ہے۔ کسی کمپنی کا ایک جونہئر ایگزیکٹو میرے پاس مشاورت کیلیے آیا۔ وہ چاہتا تھا کہ میحں اس کے لیے دعاکروں تاکہ اس کی اعلیٰ درجے پر ترقی ہو جائے۔ لیکن ہوں یوں کہ اس کے دفتر کے ایک دوسرے شخص کو اس کی بجائے ترقی دے دی گئی۔ ا س کا دل بہت ہی برا ہوا وہ طیش میں مبتلا رہنے لگا۔ اور دل کے ضعف کے عارضہ کامریض بن گیا۔ وہ جب پھر میرے پاس آیا تومیںنے اسے مندرجہ ذیل تجویز دی: ’’آپ جب ترقی نہ پانے کے باعث یوں غصے میں ہیں اور آپ کاا رویہ خاصا خشک اور لہجہ ترش ہے تو آپ کی اس روش سے آپ کی انتظامیہ کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے بلکہ آپ اپنے آپ ہی کو اذیت دے رہے ہیں۔ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران تو بڑی شان سے لنچ پرجاتے ہیں اور آپ دفتر ہی میں بیٹھے رہتے ہیں تو انہیں کیا معلوم کہ آپ اندر ہی اندر کس قدر سلگ رہے ہیں۔ آپ اس صورت حال کا مردانہ وار مقابلہ کریں یہ درست ہے کہ اعلیٰ منصب پر ترقی پانا آپ کا استحقاق تھا اور انتظامیہ نے آپ کی بجائے کسی اور کو ترقی دی ہے۔ لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ اپنی جان کو خود ہی ہلکان اورہلاک کر لیں۔ کیا آپ کے اس رویے سے آپ کی ترقی ضروریا یقینی طور پر ہو جائے گی؟ ہرگز نہیں بلکہ آپ کا منفی رویہ بھی اور آپ کا خشک اورتنک مزاج انتظامیہ کے عمل فیصلہ سازی پر اثر انداز ہو گا۔ جب وہ یہ مشاہدہ کر یں گے کہ آپ کا رد عمل ناخوشگوار ہے تو ان پر آ پ کے متعلق نہایت برا تاثر مرتب ہو گا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ واقعی اعلیٰ منصب پر ترقی پانے کے ابھی اہل ہی نہیں تھے۔ اگر آپ اپنے کام میں کارکردگی خوش اسلوبی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو انتظامی افسران خوش ہو کر اولین موقع پر آپ کو ترقی ضرور دے دیں گے‘‘۔ اس شخص نے میری باتوں کو غور سے سنا اور ان کی روشنی میں نہ صرف اپنے رویے اور مزاج میں خوشگوار تبدیلی کی بلکہ اپنی دفتری کارکردگی انتظامی امور اور تعلقات عامہ میں بہتری پید ا کر لی۔ بالآخر دو سالوں کے بعد اس شخص کو اسی کمپنی کے ٹاپ ایگزیکٹو منصب پر ترقی دے دی گئی آپ بھی اپنی پوزیشن رویے اور کارکردگی کے معیار کاجائزہ لیں یقینا آپ بھی اسی طرح ترقی پانے کے خواہاں ہوں گے۔ آپ مطلوبہ منصب مرتبہ اور اختیارات کے لیے اپنے ااپ میں زیادہ اہلیت قابلیت او راخلاقیت پیدا کر لیں اور ہر پہلو سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیجیے۔ ۱۔ پیشتر اس کے یکہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرما لیے اگر آپ خود پسند ہیں اورآپ اپنی ہی ذات کے مفد کے فکر میں محو رہتے ہیں تو آپ اپنی اصال کرتے ہوئے خود غرضی کو ترک کر دیں تواضع مروت اور دوسروں کی فلاح و بہبود میں دلچسپی لینی شروع کر دیں۔ ۲۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں ہیں سہمے ہوئے ہیں تو اپنی اصلاح خو د کرتے ہوئے اپنے آ پ میں ہمت اور حوصلہ اور جرات وبہادری پیدا کریں۔ ۳۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ جلد باز اور بے پرواہ ہیں تو اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنے مزاج وار رویے میں تحمل اور احتیاط پیدا کریں۔ ۴۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر اپ بزدل اور کم ہمت ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے آپ میں خود اعتمادی اور بلند حوصلگی پیدا کریں۔ ۵۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ اپنی ذات سے بے پروائی برتتے ہیں تو آپ اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنے آپ میں عزت نفس اور وقار پیدا کریں۔ ۶۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ حاکمانہ طبع کے مالک ہیں اور ہر جگہ اپنی بالا دستی قائم کرنے کے عادی ہیں تو آپ کی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنی طبیعت میں حلم اور عاجزی پیدا کریں۔ ۷۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ کو ہر وقت نکتہ چینی کرنے اور شکوہ و شکایت کرنے کی عادت ہے تو آپ اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنی طبیعت میں عفو اور قوت برداشت پیدا کریں۔ ۸۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ کا رویہ منفی اور تخریبی ہے تو آپ اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنے ذہن و قلب میں مثبت سوچ اور تعمیری انداز فکر پیدا کریں۔ ۹۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آپ طاقت اقتدار اور اختیارات کے نشہ کے عادی ہیں تو آپ اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنی طبیعت میں شرافت مہربانی اورنرمی پیدا کریں۔ ۱۰۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگرآپ عیش پرست اور آرام پرست ہیں تو اپنی اصلاح خود کرتے وہئے دکھی لوگوں کے لیے اپنے دل میں ترحم اور ترس کے جذبات پیدا کریں۔ ۱۱۔ بیشتر اس کے کہ آپ دعا کریں اور خدا اسے قبول فرمائے‘ اگر آ پ خدا سے غافل ہیں اور اس کی ذات کو فراموش کر رہے ہیں تو آپ اپنی اصلاح خود کرتے ہوئے اپنے قلب و ذہن میں خدا سے محبت اور تعلق پیدا کریں۔ یہ امور یاد رکھیے کہ: ٭ جب آپ کی دعامیں موجود آئیڈیا درست نہیں ہو گا تو خدا آپ کو جواب دے گا نہیں NO۔ ٭ جب آ پ کی دعا کاوقت مناسب نہیں ہو گا تو خدا آپ کو جواب دے گا ’’ذرا صبر کرو‘‘ (Slow)۔ ٭۔ جب آپ دعا کرنے کے وقت آپ خود ابھی اس اہل نہیں ہیں تو خدا آپ کو جواب دے گا ابھی مزید اصلاح کرو (Grow) 4۔ جب دعا کے تمام معاملات اور شرائط درست ہوجاتے ہیں تو دعا مانگنے والے پر خدا کاجواب دیتا ہے ’’ہاں چلتے آئو‘‘ اور دعا قبول ہو جاتی ہے ٭ جب دعامٰں مانگی جانی والے چیز امر اور مطالبہ جائز اور مناسب اور درست ہوتا ہے۔ ٭ جب دعا عین مناسب وقت پر مانگی جاتی ہے۔ ٭ اور جب دعا مانگنے والا خدائی تعلیم اور الٰہی منشور کے مطابق اپنی اصلاح کر لیتاہے تب جو بھی دعا مانگی جاتی ہے خدا ضرور اسے شرف قبولیت بخشتاہے پھر کیا ہوتاہے؟ ۱۔ تب معجزے رونما ہونے لگتے ہیںَ ۲۔ تب تمام رکاوٹیں ؤراہ سے ہٹنے لگتی ہیںَ ۳۔ دشمن زیر ہونے لگتے ہیں۔ ۴۔ مسائل حل ہونے لگتے ہیں۔ ۵۔ پریشانیاں الجھنیں اور تکلیفیں دور ہونے لگتی ہیں۔ ۶۔ لا علاج بیمار شفا پانے لگتے ہیں۔ ۷۔ قیدی آزادہونے لگتے ہیں۔ ۸۔ ایمان یقین اور اعتماد پختہ ہونے لگتا ہے۔ ۹۔ کامیابیوں کے دروازے کھلنے لگتے ہیںَ ۱۰۔ ناممکنات اب ممکن ہونے لگتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی جانب سے واضح یہ آواز سنائی دینے لگتی ہے ’’ہاں اب چلتے آئو‘‘ ۔ ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے: این کیمیل ایک پتلی دبلی نازک سی نہایت خوبصورت لڑکی ہے۔ وہ نہایت حساس اور نفیس ہے۔ وہ حارین کے ایک عظیم مجمع کے سامنے سٹیج پرآتی ہے۔ وہ اپنی زنانہ باریک شیریںاور نرم بان میں ہیلو کہتی ہے ۔ وہ مسکراتی ہے کچھ توقف کرتی ہے میرا نام این کیمیل ہے۔ لیکن حاضرین کا جم غفیر دیکھ کر گھبر ا جاتی ہے۔ اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے وہ بولنا چاہتی ہے۔ لیکن خوف اور گھبراہٹ کے باعث اس کی زبان سے الفاظ ادانہیں ہو رہے ہیں وہ پھر بڑی مشکل اور بوکھلاہٹ میں کہہ دیتی ہے۔ میں مین کچھ بھی نہیں ہوں۔ لیکن وہ اسی لمحہ دل ہی دل میں خدا کو پکارتی ہے۔ ہمت اور حوصلہ کے لیے دعا کرتی ہے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ سٹیج پر ایک قدم آگے بڑھاتی ہے۔ وہ مسکراتی ہے اور اب اس کی آواز میں کھنک اور اعتماد ہے۔ وہ روانی سے بو کر یہ کہتی ہے: ’’میں دنیا کو بدل دینے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ کیونکہ مجھے اپنے خدا پربھروسہ ہے۔ وہ ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔ وہ ہر ایک کی صلاحیتوں کو نکھار رہا ہے۔ وہ ہم سب سے اپنے لیے کام لیے رہا ہے۔ وہ اپنے سب بندوں کی خدمت میں ہمیں تیار کر رہا ہے۔ اگرمیں محبت اور اعتماد کا مظاہرہ کروں گی تو دنیا کوبہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر جائوں گی‘‘۔ آپ بھی دعا کی تاثیر کو آزما کر دیکھیے۔ ایک عظیم دعا مثبت دعا اور انقلابی دعا… اور بالآخر آپ وہ شخص بن جائیں گے جو خدا کی مشیت کے مطابق آپ کی ایک منفرد اور خاص شخصیت مقدرہے۔ 12 بس یہی وہ شخص ہے جو فی الواقع آپ بننا چاہتے ہیں میں نے اس کتاب میں چند رہنما باتیں طریقے اوراصول پیش کے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر آپ ایک کامیاب اور متحرک زندگی گزار سکتے ہیں۔ آپ ان اصولوں پر جب آپ واقعی عمل کریں گے تو آپ کو یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہ وگی کہ ان کی بدولت سچ مچ آپ کے قلب و ذہن رویے انداز فکر اور طرز عمل میں ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہو گئی ہے تب آ پ کو یہ یقین ہونے لگے گا کہ آپ واقعی وہ شخص بن سکتے ہیں جو آپ کے لیے ایک مثالی شخص ہے۔ آپ اپے پیشے فیملی اور زندگی کے ذاتی معاملات میں ایک نیا پن تدریجاً ترقی اور قلبی طمانیت کو جابجا طور پرمحسوس کریں گے۔ آپ اپنی زندگی کے بارے میں مطلوبہ کامیابی اور خوشحالی کے حصول اور اپنے خواب مقاصد اور منصوبہ جات کی تکمیل کے ساتھ اس شخص کو فراموش نہ کیجیے جو آ پ بننا چاہتے ہیں۔ اس مثالی شخص کے تشخص اور شخصیت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آپ ہر نوع کی کامیابی پر اچھے کردار اور بہترین سیرت کوہرآن ترجیح دیں۔ اگر آ پ اس طرح کریں گے تو پھر آپ عمر بھر کے لیے عزت نفس اور وقار کو بلند اور محفوظ پائیں گے۔ اس کتاب کے اختتام پر میرے آخری اورحتمی الفاظ دو امور پر مشمتل ہیں: ۱۔ انتباہ ۲۔ وعید ۱۔ انتباہ اس انتباہ میں آپ کو ایک بات کے متعلق خبردار کیا جا رہا ہے۔ انتباہ کو اگر منفی رنگ دیا جائے تو وہ دھمکی ہے۔ میں ہرگز آپ کو دھمکی نہیں دے رہا ہوں یہ انتباہ دراصل ایک تاکید ہے کہ آپ کبھی بھی اپنی عزت نفس اور وقار کا سودا نہ کیجیے۔ ممکن ہے کہ آپ وقار کے منافی طریقوں سے اپنا یپشہ ملازمت منصب یا کوئی اور مقصد تو حاصل کر لیں لیکن اس طرح آپ کی شخصیت اور ذاتی تشخص جاتارہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: کیا وہ شخص نفع میں ہے جس نے دنیا تو حاصل کر لی ہے لیکن ا س کے عوض اس نے اپنی روح مار ڈالی ہے؟ ۲۔ وعید میں آپ کو تحفتاً یہ وعید دیتا ہوں یعنی یہ پختہ وعدہ کرتا ہوںا ور یقین دلاتا ہوں کہ ایک ایسا طریقہ راہ اور لائحہ عمل موجود ہے جس کی بدولت آپ اپنی عزت نفس اور وقار کو دائو پر لگائے بغیر ہر قسم کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طریق پر گامزن ہو کر آپ نہ صرف اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکتے ہیں بلکہ آپ اپنے مطلوبہ مقاصد اور منزل کو یقینی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ ضرور ایک ایسا شخص بننے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا عکس آپ آئینے میں دیکھیں توآپ کو شرمندگی نہ ہو بلہ آپ کو ناز اور خوشی ہو۔ اور آ پ نہ صرف ایسے تشخص اور شخصیت کے حصول پر بے حد خوش ہوں گے بلکہ آپ نے اس مقصد کے لیے جو طریقہ اپنایا ہو گا اس کے لیے آپ مطمئن ہوں گے کیونکہ آپ نے ساتھ ساتھ اپنی عزت نفس اوروقار کو بھی تحفط کیا ہو گا۔ اب آپ اپنی زات کا عمیق جائزہ لیتے ہوئے اپنے آپ ہی سے پوچھیں کہ آپ کس طرح کا شخص بننا چاہتے ہیں؟ ۱۔ کیا آپ میں اور صرف میں کی سوچ والا شخص بننا چاہتے ہیں؟ I and I ۲۔ کیا آپ میںاورمالی فوائد کی سوچ والا شخص بننا چاہتے ہیں؟ (I and It) ۳۔ کیاآپ میں اور آپ کی سوچ والا شخص بننا چاہتے ہیں؟ (I and You)۔ ۴۔ کیا آپ میں اور خدا کی سوچ والا شخص بننا چاہتے ہیں؟ (I and He)۔ (۱) ’’میں اور صرف میں‘‘ کی سوچ والا شخص ’’میں اور صرف میں‘‘ کی سوچ رکھنے والا شخص اپنی ہی ذات کے مفاد کے فکر میں ہمیشہ مبتلا رہتاہے۔ ایسے شخص کے احساسات اور جذبات میں انا پرستی لالچ خود غرضی اور ذاتی خوشی ہی مدنظر ہوتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں ہمیشہ اپنا ہی فائدہ اور بہتری سوچتا ہے جب کبھی اسے دوسرے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو فیصلہ سازی کے دوران وہ مندرجہ ذیل سوالات کو مدنظر رکھتا ہے۔ ۱۔ اس کام میں میرا اپنا کیا فائدہ ہوگا؟ ۲۔ کیا اس کام میں میرے مطلوبہ عزائم حاصل ہو ں گے؟ ۳۔ کیا اس کام سے مجھے شہرت ملے گی؟ ایسا شخص قطعاً یہ پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے خاص کام سے دوسروںکو نقصان پہنچے گا یا دوسروں کا دل دکھے گا۔ وہ صرف خالصتاً خود غرض ہو کر اپنا مطلب حاصل کرنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ میں اور صرف میں کی سوچ رکھنے والا شخص کسی کے دکھد رد اور خوشی غمی میں شریک ہونا پسند نہیںکرتا۔ اسے اس بات کی قطعی طور پرکوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ دوسرا تکلیف سے چیخ راہ ہے یا بیماری کے ہاتھوں مر رہا ہے ایسا شخص سخت دل اور تنک مزاج ہوتا ہے۔ اگر اس کے دوست احباب یا ہمسایے کبھی یہ احساس دلائیں کہ ہم سب انسان ہیں اور انسانی رشتے سے اس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے لیکن اس بات پر وہ بگڑ کر جواب دیتا ہے: میرے اپنے بھی کئی مسائل ہیں میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔ خدا کی قدرت نے یہ ثابت کر دیا ہ کہ ایسے خود غرض انسانوں سے بالآخڑ دوسرے لوگ کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور وہ پھر بے چارہ اپنی الجھنوں اور گتھیوں کو اکیلے ہی سلجھانے کی کوشش میں دوسروں کو کوستا رہتا ہے۔ لیکن دنیا تو اسے سراہتی اور یاد رکھتی ہے جو دوسروں کے کام آتا ہے۔ کئی سال ہوئے کہ مشی گن میں ڈیٹرائٹ ٹرانسپورٹ کے ایک ڈرائیور پر کسی مسافر نے غصے میںآ کر مکوں اور تھپڑوں ی بوچھاڑ کر دی۔ حملہ آور اس جھگڑالو مسافرنے ڈرائیور کے سر پر شدید چوٹ لگائی۔ اور بازو توڑ دیا۔ اور ساتھ ہی دوسرے مسافروں کو بھی ضربیں آئیںَ تمام مسافر اپنی اپین سیٹوں پر دبکے بیٹھے تھے۔ وہ سب سہمے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اتنے میں ایک اکہتر سالہ بوڑھی خاتون برینس کلز کو اپنین سیٹ سے اٹھی اور تیزی سے اس مسفافر پر کود پڑی اور اس خاتون نے لگاتار اسے مکے اور ٹھوکریں لگائیں کہ وہ بس سے نیچے اتر کر بھاگ گیا۔ اس طرح اس خاتون کو بھی چوٹیں آئیں اوراس کی عینک ٹوٹ گئی لیکن بوڑھی خاتون نے اس دن ایک فاتحانہ کارنامہ انجام دے دیا۔ بس میں بیٹھے ہوئے طاقت ور مرد مسافر اپنی خود غرض خاموشی پر شرمندہ ہو رہے تھے۔ اس خاتون کے دل میں انسانی ہمدردی کا جوش تھا۔ اس کے ضمیر نے اسے اپنا اخلاقی فرض یاد دلایا تھا۔ اوراس نے عین وقت پر اپنا فرض بہادری سے ادا کر دیا جبکہ باقی تمام مسافر میں اور صرف میں کی خود غرض سو چ لیے بدستور بیٹھے رہے۔ میں اور صرف میں کی سوچ رکھنے والا شخص دنیا میں اور عاقبت کے لحاظ سے سراسر نقصان میں رہتا ہے ذیل میں اس کی وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ i ۔ ایسا شخص اپنی قدر و منزلت کھو دیتا ہے ایسا شخص جو خودغرضی اور لالچ کے وفور کے باعث اندھا ہو جاتاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں فلاں چیز ضرور کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کر لوں۔ اس شخص کے طور طریقے اور حرکات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے باعث اس کا وقار عزت نفس اور مقام بتدریج کم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کی نظروں میں ذلیل ہو جاتا ہے۔ اور پھر لوگ اسے حقارت سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ii۔ اس کی جذباتی زندگی محدود ہو کر رہ جاتی ہے ایسا خو د غرض شخص جب ہرا مراور معاملہ میں صرف اپنا ہی مفاد سوچتاہے تو اور جائز و اجائز طریق سے اپنا فائدہ حاصل کر لیتا ہے تو دوسرے لوگ بدستور اس سے متنفر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان دائرہ رفاقت اور اپنے معاشرے کے رشتہ اخوت سے دور ہو جاتاہے۔ لوگ اس کی غمی اور خوشی میں شریک ہونے سے گریز کرتے ہیں اب وہ معاشرتی اور جذباتی طور پر دن بدن غیر محفوظ ہونے لگتا ہے۔ وہ شکی مزاج اور خشک طبع اور ترش ہو جاتاہے۔ اپنی اس ناخوشگوار کیفیت کے باوجود اس میں مزید طاقت اختیار اور عالی منصب کے حصول کا طمع بڑھتا ہی چلا جاتاہے۔ وہ یہ خوش فہی رکھتا ہے کہ میری طاقت اور اختیارات کے باعث لوگ میری عزت و احترام کریں گے لیکن یہ اس کی غلط فہمی ہوتی ہے لیکن جلس ہی اسے یہ احساس ہونے لگتاہے کہ وہ انسانی رشتوں اور نفیس جذبات کے تعلق کے خوبصورت دائرہ سے باہر کر دیا گیا ہے تب وہ واقعی اپنے خود غرض جال میں اکیلا ہی رہ جاتا ہے۔ iii۔ ایسا شخص ہر سطح پر اپنے تعلقات ختم کر بیٹھتا ہے ایسا شخص چونکہ لالچی اور خود غرض ہوتا ہے اور دوسروں کے حقوق غضب کر کے اپنا مفاد حاص کرنے کا عادی ہوتا ہے لہٰذا وہ زندگی کے ہر شعبہ کے لوگوں کے ساتھ دشمنی مول لے لیتا ہے اس کے خاندان کے افراد کاروبار کے شرکا محلہ دار اوردیگر دوست و احباب ایسے شخص سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ وہ لوگوں کی باتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتاہے۔ لوگ اگر اس سے کوئی رائے لیتے ہیں تو وہ صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ اگر وہ اسے کوئی نصیحت کرتیہیں تو یہ بگڑ جاتا ہے۔ ایسے رویے پر زندگی کی ہر سطح پر اس کے تعلقات لوگوں سے خراب ہوجاتے ہیں۔ اور وہ بالآخر زندگی کی دوڑ میں ناکام رہتا ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کریں اوربتدریج ان تعلقات کو بہتر کرتے جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو دوسروں کے مفاد اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔ آپ کو اپنی صلاحیتوں خوبیوں نعمتوں اروقت میں سے ضرور کچھ نہ کچھ حصہ انہیں دینا ہو گا۔ تب جا کر وہ اعلیٰ معاشرت کا توازن برقرا ر رکھ سکتاہے۔ آج کے لیے بہترین سبق جو ہمیں سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ انسانیت ایک زندہ و جاوید اورمتحرک اتحادہے۔ ہم کرہ ارض یعنی زمینی سیارہ کی کشتی پر سوار سارے مسافر ہیں اگر کوئی مسافر اس کشتی کو نقصا پہنچاتا ہے تو پوری انسانیت پر اس کا اثر پڑے گا۔ ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ متعلق اور معاشرتی طورپر منسلک ہے۔ جب ہم ٹی وی پر یہ بری خبر سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں دھماکہ ہوا ہے اور اتنے لوگوں کے پرخچے اڑ گئے ہیں تو ہمارادل کس قدر دکھی اور زخمی ہوتاہے۔ ہم افسوس دکھ اور خوف کے جذبات ک ساتھ اس تعجب اور حیرت کے ساتھ شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں کہ انسان ہی انسان کو ہلاک کر رہاہے۔ آخر اس خود غرضی کی حد کیا ہو گی؟ یہ جو عالمگیر انسانیت کا محرک اتحاد ہے۔ اب اتحاد میں عجیب اضطراب کا تلاطم بپا ہو گیاہے۔ جذبات کا ابال اس قدر بے قرار ی پھیلا رہاہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ نفسا نفسی کا ایک عالم ہے اور کسی شخص کو دوسرے کی پرواہ نہیں ہے۔ ایک معروف ماہنامہ جریدہ لک Lookاپنے جنوری 1970ء کے شمار ہ میں ہمارے معاشرتی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے: آج کل اجتماعیت کا تصور فراموش کیا جا رہاہے۔ ہر فرد اپنی دوڑ میں مست ہے۔ ہر کسی کی رفتار دوسرے سے تیز ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ میں ہی زیادہ سے زیاادہ دولت سمیٹ لوں میں ہی زیادہ طاقت وربن جائوں مجھے ہی اعلیٰ تعیشات درکار ہیں۔ میں ہی پہلے پہنچ جائوں آپ آج کی ٹریفک کی صورتحال پر ہی ایک نظر ڈال لیں ٹرکوں اور بسوں نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔ کاروں اور ویگنوں نے ٹریفک بلاک کر دی ہے چاروں سڑکوں پر ڈیڈ جام ہے۔ کوئی بھی شخص صبر ترتیب اور اصول سے کام نہیں لے رہا ہے۔ ٹرک والا بس ڈرائیور کو گھور رہا ہے۔ کار والا ویگن ڈرائیور کو اپنارعب دکھا رہا ہے۔ ہر کار ویگن بس اور ٹرک کی سمت الگ الگ ہے۔ ٹریفک اس وقت تمام زاویوں پر محیط ہے۔ یہ بات سب کو معلو م ہے کہ اس طرح ہر کوئی مشکل اور پریشانی سے دوچارہے بلکہ وقت اورپٹرول بھی ضائع ہو رہاہے۔ اگر ہر شخص ٹریفک کے اصولوں کا خیال کرے اورذر صبر و تحمل سے کام لے تو منظم طریق سے سارا نظام بہترانداز میں چلتارہے گا۔ لیکن یہ منظر سراسر خو دغرضی کے جذبات کا ایک طوفان ہے‘‘۔ (۲) ’’میں او ر مادی فوائد‘‘ سوچ والا شخص ایسا شخص بھی خود غرض لالچی اورمفاد پرست ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ میں اور میں کی سوچ والا شخص اپنی ذات کواپنا محور و مرکز سمجھتا ہے جبکہ میں اور مادی فوائد کی سوچ کا حامل شخص اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مادی فوائد اوراسباب ہی کو ہر معاملہ پر ترجیح دیتاہے ایسا مادیات پرست ہر وقت یہ خیال دوڑاتا رہتاہے: ۱۔ میں کس طرح زیادہ خوشی حاصل کروں گا۔ ۲۔ میں اس گاڑی سے بور ہو گیا ہوں نئئے ماڈل کی کار چاہیے۔ ۳۔ میں گھر کی اکتاہٹ محسوس کر رہا ہوں باہر شاپنگ کے لیے جانا چاہیے۔ ۴۔ لگتا ہے میرا ہی قصورہے چلو اس کے لیے تحفہ خرید لیتے ہیں۔ ۵۔ مجھے آج کل ڈر لگ رہا ہے زبردست گن رکھنی چاہیے۔ ۶۔ میں ریٹائر ہونے والا ہوں بڑی رقم سے سرمایہ کاری کرتا ہوں۔ ۷۔ مجھے دوسروں پر رعب جمانا ہے ضروری بڑی ضیافت کااہتمام کرنا چاہیے۔ ۸۔ تنہائی کااحسا س ہو رہا ہے چلو کسی بار یاکلب میں جاتا ہوں۔ الغرض مادیت پرست لوگوں کو دوسرے اشخاص سے کوئی محبت اور الفت اور تعلق نہیںہوتا۔ وہ دوسروں کے حقوق غصب کر کے جائز و ناجائز طریق سے زیادہ سے زیادہ مادی فوائد او ر اسباب کے حصول میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ انہیں دوستوں اوررشتہ داروں کے بجائے تعیشات درکار ہیں۔ انہیں احساسات و جذبات کے بجائے مال و دولت مطلوب ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بھی حقیقی کامیایب اور قلبی طمانیت سے قاصر رہتے ہیں اور بجا طور پر کئی معاشرتی جذباتی اور اخلاقی روحانی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ مندرجہ ذیل اندا ز سے سراسر ہی خسارے میں رہتے ہیں: ۱۔ ایسے لوگ جذباتی لحاظ سے غیر مطمئن رہتے ہیں ایسے لوگ اپنی عمر سے جلدہی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ مادیاتی حصول کی فکر کے باعث ان کی صحت خراب رہتی ہے۔ ان کے احساسات و محسوسات اور جذبات کا تمام تر دائرہ مادہ پرستی تک محدود ہوتا ہے۔لوگ بھی چونکہ ان کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے لہٰذا وہ قلب و ذہن کی سکینت اور سچی طمانیت سے محروم رہتے ہیں۔ ۲۔ ایسے لوگ ہر معاملہ میں مادی قدر و قیمت کو ترجیح دیتے ہیں مادی ذرائع اسباب اور مفاد کے حصول میں سرگرداں لوگ ہر بات کام اور معاملے میں صرف مادی فوائد ہی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کو انسانی قدر و عزت کے لحاظ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ہر شخص کی قدر اس کے مال و متاع کے لحاظ صے کرتے ہیں۔ ۳۔ ایسے لوگ حقیقی آزادی سے آشنانہیں ہوتے مادی فوائد کے مشتاق لوگ طمع لالچ کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے لیے مادی اسباب و ذرائع کے حصول میں اپنے ضمیر اوراپنی خوبیوں کو بھی دائوپر لگا دیتے ہیں۔ وہ حقیقی انسانی آزادی کی تازہ اور خوشگوار روحانی رعنائی سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں۔ ۴۔ ایسے لوگ حقیقی پیار اور محبت سے محروم رہتے ہیں چونکہ ان لوگوں کے نزدیک محبت کا ایک مادی مقصد ہوتا ہے مثلاً i۔ میں آ پ سے اس لیے پیار کرتاہوں کہ آپ میر ے کام کے آدمی ہیں۔ ii۔ میں آپ کی ؤاس لیے عزت کرتا ہوں کہ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ iii۔ میں آ پ سے اسلیے تعلق اور قربت رکھتا ہوں کہ آپ مجھے بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بے لوث پیار خالص محبت اور قلبی لگائو سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔ حالانکہ زندگی کا حقیقی کیف محبت بھرے معاشرے سے عبارت ہے۔ مارٹن بوبر نے لکھا تھا: باہمی محبتیں تعلقات اور ملاقاتیں ہی زندگی کی اصل رمق و روح ہے۔ (۳) ’’میں اور آپ‘‘ والی سوچ کا حامل شخص ایسے لوگ نہایت کامیاب خوش و خرم اور متوازن ہوتے ہیں۔ جو دوسرے لوگوں کو انسان سمجھتے ہوئے ان سے محبت اور ربط رکھتے ہیں وہ اپنی طرح دوسروں کی خواہشات تمنائوںاور مقاصد کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری باہمی خواہشات کی تکمیل باہمی تعلق ورباہمی کاوش ہی سے ممکن ہے اس لیے وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح ر دوسروںکوبھی متوازی طور پر لے کر چلتے ہیں۔ ہر شخص میں اور آپ کے باہمی ربط میں یوں منسلک نظر آتاہے کہ جیسے انسانیت کا یہ قافلہ ایک ہی سمت میں رواں دواں ہے۔ میں اور آپ سوچ والا انداز فکر ہی ہمیںزندگی کے اصل مقصد کی تکمیل اور خدائی منشا کے حصول میں کامیاب کر سکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت فیصلہ سازی کا عمل فعال تیز اور بہتر ہو جاتا ہے۔ کارکردگی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ خدا کی عبادت اورمخلوق کی خدمت ہو جاتی ہے۔ ہر خواب کی تعبیر آسان ہو جاتی ہے۔ اس روئے زمین پر لاکھوں اور کروڑوں ایسے انسان بس رہے ہیں جنہوںنے یسوع مسیح کی تعلیم کو اپنے عمل اور زندگیوں میں داخل کر لیاہے۔ اور اپنے طرز حیات سے اس کے احکام کو تحلیل کر لیا ہے۔ انہوںنے اپنے آ پ کو اس اندا ز سے بدل لیا ہے کہ وہ ہر جگہ محبت کیے جانے کے لائق ہو گئے ہیںَ ان کے اندر خود غرضی لالچ اور حرص کی کوئی کثافت باقی نہیں رہتی۔ سچی محبت کیا ہے؟ میرے نزدیک سچی محبت کی تعریف اور مفہوم یہ ہے: محبت اس شعور کا نام ہے کہ میں دوسرے کا احساس کرتے ہوئے اس کی مشکل کو اپنا مسئلہ سمجھوں ایک سچا مسیحی فی الواقع ایک خوب سیرت شخص ہوتاہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں یو ایس اے فورس کے ایک خاص مشن کے لیے مشرقی ممالک کے لیے روانہ ہوا۔ جب میں نے مسلسل گھنٹوں کی فضائی مسافت کے بعد جو بحرالکاہل کے اوپر سے اختیار کی گئی تھی تو ہوائی اڈے پر جونہی میں نے قدم رکھا تو سب سے پہلے جس شخص نے میر ے ساتھ پرتپاک طریق سے مصافحہ کیا وہ ایک نیگرو افسر تھا جس کے کندھے پر شاہین کا نشان تھا اس نے مسکرا کر کہا۔ ڈاکٹر شلر میں بل کنگ ہوں۔ وہ میرا میزبان تھا ا سنے اوکن آوا میں ممیرے پورے دورے کے دوران میری میزبانی کی تھی۔ کرنل بل کنگ کو میں نے ا س قدر اچھا انسان پایا کہ پوری زندگی میں اس جیسا انسان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنے ان دونوں کے سفروں دوروں اور مہمات کے اختتام پرجب میں جاپان کیلیے جانے لگا تو میں نے بل کنگ کا شکریہ ادا کیا ار کہا کہ میں اس میزبانی مروت و تواضح اور مہربانی کا تہہ دل سے ممنون ہوں ۔ تو اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’ڈاکٹر شلر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے آپ کی یہ تواضح اور مہربانی اس لیے نہیں کی کہ آپ کو متاثر کر سکیں بلکہ آپ کو ایک انسان سمجھتے ہوئے ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے‘‘۔ بل کنگ مجھے ہوائی اڈے لے جانے کے لیے جس کار میں لے جا رہا تھا اس نے ایک جگہ اپنی گاڑی اس لیے روک دی کہ بچوں کا ایک گروپ بآسانی سڑک پار کر سکے جب بچوں نے بحفاظت سڑک پا رکر لی تو بل کنگ نے کہا: ار میرے خیال میں انسان کی خدمت کا حق اس انداز سے ادا ہونا چاہیے کہ ہر بہترین طریقے کو بروئے کار لایا جا ئے۔ جاپان میں بھی مجھے ایک کرنل ملا جس نے مجھے بتای اکہ وہ بل کنگ اوراس کے رشہ داروں کو سلیما(ایلاباما) میں مل چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ چند سال پہلے بل کنگ نے اپنے شاہینوں کے ساتھ اپنے وطن کی گلیوں میں نہایت فخر سے جا رہا تھا کہ دو سفید فام اشخاص آغے بڑھے اور اس گروپ کی یونیفام سے شاہین کے نشانوں کو زبردستی اتار کر پھینک دیا اور انہیں نیچے گراتے ہوئے کہا: تم لوگ نقلی اور مصنوعی ہو کوئی نیگرو امریکن ائیر فورس میں کرنل نہیں ہو سکتا۔ میرے جاپانیدوست نے بتایا کہ بل کنگ نے زمین پر گرے ہوئے اپنے شاہین دوستوںکو اٹھایا اور سفید فام لوگوں کو نرم لہجے میں کہنے لگا: ہم قطعی طورپر نقلی مصنوعی اور فراڈ نہیں ہیں مجھے معلوم ہے کہ آ پ لوگ ہمیں کس قدر حقیر سمجھتے ہیں تاہم میں آپ کو بتاتا ہوں کہ چونکہ خدا آپ لوگوں سے محبت رکھتا ہے اس لیے میں بھی آپ سے محبت ہی سے پیش آئوں گا۔ اس کے بعد بل کنگ نے شاہینو ں کے بیج خود ہی اٹھا کر اپنے دوستوں کے کندھوں پر لگا دیے۔ بل کنگ کی آنکھوں میں نمی کے آثار تھے۔ بل کنگ نے سفید فام آدمیوں سے تشدد کے مقابل کیا ہی اچھا سلوک کیا۔ آپ وہ مثالی شخص جو آپ بننا چاہتے ہیں تب ہی بن سکتے ہیں جب آپ دوسرے کے ساتھ محبت کرنا اور ان کے ساتھ بہتر طور پر رہنے کی اہلیت پیدا کر لیں گے۔ ٭ آپ پر جوش باہمت تعمیری اور ولولہ انگیز شخص کیسے بن سکتے ہیں؟ ٭ آپ کس طرح وہ شخص بن سکتے ہیں جو صاحب وقار ہو؟ آپ صرف اس صورت میں مطلوبہ شخص بن سکتے ہیں جب آپ میں اور آ پ کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کی اصلاح کرتے ہوئے وہ شخص بن جائیں جو حقیقت میں’’میں اور میرا خدا‘‘ کے باہمی تعلق کا مصداق ہو۔ ’’میں اور میرا خدا ‘‘ کے تعلق پر مبنی شخص بن جائیے آپ حقیقی معانی میں یسوع مسیحؑ سے سچا تعلق قائم کر لیں۔ کوشش کریں کہ آپ کے وجود اور آپ کے عمل میں اس کی روح سرایت کر جائے۔ بل کنگ کی طرح آپ بھی لوگوں سے محبت کرنے والے بن جائیں۔ تب آپ ترقی کے کمال تک جا پہنچیں گے اور آپ کو ہر اچھا کام انجام دینے میں لطف آنے لگے گا۔ تب آپ واقعی وہ شخص بن جائیں گے جو آپ درحقیقت بننا چاہتے ہیں۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End