رسوم ہند رائے بہادر ماسٹر پیارے لال آشوب دہلوی کپتان ڈبلیوآر ایم ہالر ائیڈ پہلا باب ہندوؤں کی ذاتوں(1) کا بیان ہندوؤں کی سب سے پرانی کتاب رگ وید میں لکھا ہے کہ برہمن لوگ برہماجی کا منہ، چھتری ان کے بازو اور ویش ان کی رانیں ہیں اور شودر ان کے پاؤں سے نکلے ہیں اور اس جگہ منہ سے بولنے والا یعنی اچھا برا بتانے والا بازو سے لڑنے والا، رانوں سے قوت دینے والا اور پاؤں سے خدمات کرنے والا مراد ہے۔ مگر دھرم شاستر اور پرانوں میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ ہندوؤں کی چاروں ذاتیں حقیقت میں برہما جی کے جسم ہی سے پیدا ہوئی ہیں اور اس باب میں اور بھی بہت سی باتیں لکھی ہوئی ہیں بلکہ کسی زمانے میں پچھم کی طرف سے آئے تھے اور انہوں نے آہستہ آہستہ سارے ملک کو فتح کر کے اس پر اپنا قبضہ کر لیا، پھر ان لوگوں کو جو پہلے سے اس ملک میں رہتے تھے، اپنا فرماں بردار بنا کر ان کا نام شودر یعنی خدمت گار رکھا اور اپنے تئیں ان سے بڑا جان کر لفظ دج یعنی دوبارہ پیدا کیا ہوا، اپنے واسطے مقرر کیا۔ منوجی کے دھرم شاستر (2) میں جو قریب نوسو برس پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کے بنا تھا، ان ذاتوں کے مذہبی باتوں اور ان کے رہنے سہنے کا حال پہلے پہل لکھا گیا ہے۔ اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ برہمن سب لوگوں سے اچھے ہیں اور ان کے واسطے بہت سے حق اور فائدے ایسے مقرر کئے گئے ہیں جو اور ذات کے لوگوں سے واسطے نہیں ہیں، چنانچہ دان لینے کا انہیں کو حکم ہے اور کسی کو نہیں مل سکتا اور اگر ان سے کوئی قصور ہو جائے تو اس کے واسطے بہت کم سزا مقرر ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں برہمنوں کو سب سے زیادہ بڑائی دی گئی ہے، لیکن ان کے واسطے کام بھی بہت سخت قرار دئیے گئے ہیں، چنانچہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ برہمن اپنی عمر کے اول چوبیس برس جاترا (3) کرنے اور وید پڑھنے میں برس کرے اور پھر پچاس برس کی عمر تک اپنے خانگی کاموں یعنی شادی کرنے اور نسل بڑھانے میں مصروف رہے اور اس عرصے میں اس کو وید پڑھنا اورپڑھانا، دان دینا اور لینا اور جگ (4) کرنا اور کرانا بھی ضرور ہے اور ان کاموں میں وید پڑھانا سب سے اچھا ہے لیکن مندر میں بیٹھ کر بطور پیشے کے پوجا اور جگ کرانا، اجرت پر پجاری بننا اور شور اور کمینے آدمیوں سے دان لینا برہمنوں کو بہت منع ہے اور اس بات کیا یسی تاکید ہے کہ اگر وہ مفلس ہو جائیں اور بھوکے بھی مرنے لگیں تو بھی انہیں شودر سے دان لینا اور کسی کا نوکر نہ ہونا چاہیے، دانے چننا بھیک مانگنا اور کھیتی کرنا بہتر ہے۔ انہیں یہ بھی حکم ہے کہ وہ ناچنے، گانے، جوا کھیلنے اور آور ایسی ہی باتوں سے پرہیز کریں اور مال و دولت اور دنیا کی عزت کا خیال نہ کریں، کیوں کہ ان سے وید کے پڑھنے میں ہرج ہوتا ہے۔ برہمن کو اپنی عمر کا تیسرا حصہ اس طرح گزارنا چاہیے کہ وہ جنگل میں جا کر رہے ، بناسپتی کھائے، درختوں کی چھال اور کالے ہرن کی کھال پہنے، زمین پر سوئے، بال اور ناخن بڑھائے، جاڑے میں بھیگا ہوا کپڑا پہنے، برسات کا مینہ اپنے اوپر لے، گرمی کی دھوپ کھائے اور آگ کے پانچ ڈھیر رکھ کر اس کے بیچ میں ہو بیٹھے۔ چوتھے حصے میں اس کے واسطے کوئی جسمی تکلیف مقرر نہیں ہے، اس عرصے میں اسے چپکا بیٹھ کر خدا کی طرف دل لگانا چاہیے اور اپنی روح کے نکلنے کو ایسا سمجھنا چاہیے جیسا ایک پرندہ کسی درخت پر سے اپنی خوشی اڑ جاتا ہے۔ اگرچہ چھتری لوگ برہمنوں کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی ان کو عزت دار سمجھنا چاہیے کیوں کہ دھرم شاستر میں لکھا ہے کہ برہمنوں کا کام بغیر چھتریوں کے اور چھتریوں کا بغیر برہمنوں کے نہیں چل سکتا۔ اور دونوں کا فائدہ دنیا اور آخرت میں ایک دوسرے کے سلوک پر موقوف ہے۔ راجہ ہمیشہ چھتریوں ہی کی نسل میں سے ہوتے ہیں اور حکومت کے سب عہدے انہیں کو دئیے جاتے ہیں۔ ان کا کام دان دینا، جگ کرنا، وید پڑھنا، دل کی خواہش کو روکنا، رعیت کی نگہبانی کرنا ہے۔ ویشوں اور چھتریوں میں وہی فرق ہے جو چھتریوں اور برہمنوں میں۔ ویشوں کا کام لین دین کرنا، مویشی (5) پالنا، کھیتی کرنا، سودی روپیہ دینا، جگ کرنا اور وید پڑھنا ہے۔ شودروں کو یہ حکم ہے کہ وہ ان لوگوں کی جو ذات میں ان سے بہتر ہیں، خصوصاً برہمنوں کی خدمت کریں اور اگر انہیں کہیں نوکری نہ ملے تو ہاتھ کا کام جیسے لکھنا، تصویر کھینچنا، معماری اور آور اسی قسم کے کام کرنے چاہئیں۔ شودروں کو جگ کرنے کی اجازت ہے مگر اس میں وید کے منتر پڑھنے کا حکم نہیں ہے۔ برہمنوں کو شودروں سے جگ کرانا اور ان کے سامنے وید پڑھنا نہ چاہیے بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں دھرم شاستر بتانا اور پراشچت (6) کے طور سے بھی آگاہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ شودروں کو اپنے آقا کا جھوٹا کھانا اور اس کا اترا ہوا کپڑا پہننا لازم ہے۔ برہمنوں کو شودروں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے، سوکھے دانوں کے لینے کا ڈر نہیں ہے۔ شودروں کو دولت جمع کرنی بھی منع ہے، کیوں کہ شاید انہیں دولت پر غرور ہو جائے اور وہ برہمنوں کو ستانے لگیں۔ اگر شودر سے کوئی قصور ہو جائے تو اس کے واسطے نہایت سخت سزا مقرر ہے، چنانچہ دھرم شاستر میں لکھا ہے کہ وہ اپنے سے اونچی ذات کے کسی آدمی کو گالی دے تو اس کی زبان چھیدنی چاہیے۔ ہر ایک ذات کے آدمی کو کسی نیچی ذات کی عورت سے شادی کرنی منع نہیں ہے مگر یہ بات ضرور ہے کہ وہ اس عورت کو اپنی ذات کی عورت کا سا درجہ نہ دے، مثلاً برہمن کو اختیار ہے کہ وہ چھتری یا ویش ذات کی عورت سے شادی کر لے مگر اسے اپنے گھر میں وہ رتبہ نہ دے جو برہمنی کو دینا چاہیے۔ اس قسم کی شادی کرنے سے جو اولاد پیدا ہو، وہ اس درجے پر گنی جاتی ہے جو باپ کی ذات سے نیچا اور ماں کی ذات سے اونچا ہو۔ کسی عورت کو اپنے سے نیچی ذات کے مرد سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اسی سبب سے اس شخص کو جس کا باپ شودر اور ماں برہمنی ہو، چنڈال یعنی سب سے کمینہ کہتے ہیں۔ دھرم شاستر میں برہمنوں کو آور ذات کے لوگوں کے ساتھ کھانا پینا منع نہیں ہے لیکن ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا اب دستور ہے، ویسا ہی منوجی کے زمانے میں بھی چاروں ذاتیں کھانے پینے میں شریک نہ تھیں۔ برہمن شودر کے سوا اور سب ذات کے آدمیوں کے آدمیوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھا سکتا ہے اور اگر شودر کے ہاتھ کا پکا ہوا کھائے تو اسے اس گناہ کے عوض میں کئی دن تک پھیکے دلیے کے سوا اور کچھ نہ کھانا چاہیے۔ منوجی کے زمانے سے لے کر آج تک ہندوؤں کی ذاتوں میں بہت سا تبدل واقع ہوئے ہیں اور اکثر برہمنوں کا یہ قول ہے کہ ہماری ذات کے سوا اور سب ذاتیں خصوصاً چھتری اور ویش اب مل جل کر بگڑ گئی ہیں مگر بعض لوگ اس بات کو نہیں مانتے، چنانچہ کھتری اور راجپوت اپنے تئیں چھتریوں کو نسل سے بتاتے ہیں اور بعض قومیں جن کا پیشہ سوداگری اور کھیتی اور آور اسی طرح کے کام ہیں، اپنے تئیں ویش کی نسل سے ظاہر کرتی ہیں۔ تمام ذاتیں جن کا حال پہلے لکھا گیا ہے حقیقت میں موجود ہوں یا نہ ہوں مگر اس میں شک نہیں ہے کہ ہر ایک ذات کے لوگوں نے بلکہ خود برہمنوں نے بھی وہ کام کرنے چھوڑ دئیے جو دھرم شاستر میں ان کے واسطے فرض ہیں، چنانچہ برہمن لوگ بجائے وید پڑھنے اور پڑھانے اور اس طرح کی تکلیفیں سہنے کے اب ہر قسم کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں بلکہ ان کو نوکری کرنے سے بھی پرہیز نہیں ہے۔ اس زمانے میں ہندو لوگوں کے واسطے اس بات کی بڑی تاکید ہے کہ ایک ذات کا کوئی آدمی دوسری ذات کے آدمی کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہ ہو اور اگر اس سے اس طرح کا کوئی قصور ہو جائے یا برادری کے دستور کے خلاف کوئی اور بات ظاہر ہو تو وہ ذات سے نکال دیا جاتا ہے، اس کے سب رشتہ دار اسے چھوڑ دیتے ہیں، اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے، کوئی برہمن اس کے گھر نہیں جاتا اور نہ اس سے کچھ دان لیتا ہے، نہ پوجا پاٹ کراتا ہے۔ ہندوؤں کے راج میں ایسے قصور کرنے والے پر اور بھی زیادہ سختی ہوتی ہے، چنانچہ ان کی عملداری میں اسی قسم کے آدمی کی گواہی درست نہیں ہوتی اور نہ اس کو ورثہ مل سکتا ہے۔ اس گناہ کے دور کرنے اور ذات میں شریک ہونے کے واسطے ایک بہت اچھا طریقہ مقرر ہے، ایسے پاپی کو چاہیے کہ پہلے گنگا جی کے اشنان کرے، پھر برادری کے سب لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہے ’’ بھائیو! میرا قصور معاف کرو، مجھ سے پھر کبھی ایسا پاپ نہ ہو گا‘‘ یہ کہہ کر اپنے سب بھائی بندوں اور برہمنوں کو بھوجن کرائے، پھر برہمنوں کو نقدی دے کر رخصت کرے۔ اس پراشچت کے کرنے سے برہمن لوگ مہربان ہو کر اسے برادری میں شریک کر لیتے ہیں اور کھانے پر بٹھا دیتے ہیں۔ ویشوں اور شودروں سے مل کر اب بہت سی ذاتیں ایسی پیدا ہو گئی ہیں جو منوجی کے زمانے میں نہ تھیں۔ ان میں سے اکثر لوگ مثلاً سنار، لوہار اور بڑھئی اپنے اپنے موروثی پیشوں کے نام سے مشہور ہیں۔ اس قسم کے آدمی منو جی کے زمانے میں بہت ہی کم تھے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کی وضع سیدھی سادی تھی اور اس کے دھرم شاستر میں ان کے واسطے کوئی ذات بھی مقرر نہیں ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس زمانے میں دوغلے (7)ہوں گے۔ ان ذاتوں کے سوا ایک اور نئی ذات ایسی نکلی ہے جس نے برہمنوں کی بزرگی میں خلل ڈالا ہے، اس ذات میں فقیروں اور گسائیوں کے طرح طرح کے فرقے شامل ہیں۔ پہلے پہل یہ لوگ اپنے دل کی خواہشوں کو روکتے تھے مگر اب ان کے بہت سے فرقے ایسے ہیں جو شادی، لین دین اور پیشہ کرنے کو برا نہیں جانتے بلکہ دولت جمع کرنی ان کی بڑی آرزو ہے۔ ہندوؤں کے چند فرقے جو اس زمانے میں زیادہ مشہور ہیں، ان کی عادتوں اور طریقوں کا ذکر آگے لکھا جائے گا مگر پہلے کچھ ہندوؤں کی مذہبی باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ٭٭٭ دوسرا باب ہندوؤں کی مذہبی باتوں کا بیان ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتابیں چار ہیں جن کو وید کہتے ہیں مگر دوسرے پڑھے لکھے ہندو ان میں سے صرف تین ہی کو آسمانی کتابیں جانتے ہیں۔ وید کی مختلف باتوں کو جو مدت سے لوگوں کو زبانی یاد تھیں، حضرت عیسیٰ ؑ کے چودہ سو برس پہلے ویدوں کو ویاس جی نے جمع کیا۔ ان کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ خدا ایک ہے او رسب سے بڑا ہے اور کل جہاں کو اسی نے پیدا کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ہوا، آگ، پانی، زمین، سورج، چاند،ستارے اور بعض نیکیاں مثلاً انصاف، حکمت، سب کے سب دیوتا ہیں اور ان کی پوجا کرنے سے بہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔ ان دیوتاؤں کے راضی رکھنے کے واسطے ویدوں میں کئی طرح کی نذریں مقرر کی ہیں، چنانچہ اکثر گھی، چاول، سوم کارس اور کبھی کبھی ذبح کیے ہوئے جانور بھینٹ چڑھاتے تھے اور منتر کے زور سے دیوتاؤں کو بلا کر کہتے تھے کہ آپ ہماری نذر قبول کیجئے اور ہم کو دونوں جہان میں عزت میں دیجئے۔ ویدوں میں بڑے بڑے راجاؤں کے واسطے گھوڑے کی قربانی جائز رکھی ہے اور کہیں کہیں انسان کی قربانی کا بھی ذکر ہے مگر اکثر بجائے انسان کے کسی اور جانور کو ذبح کیا کرتے تھے۔ ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں نے گھوڑے کی قربانی کا ڈھنگ دریائے سندھ کے پار رہنے والوں سے اڑایا ہے اور آدمی کی قربانی کا طور ہندوستان کے اصلی باشندوں سے سیکھا ہے۔ ویدوں میں بھگوان کے کئی سروپوں مثلاً شکت یعنی قدرت اور آور چیزوں کا بھی بیان ہے مگر برہما جی، وشن جی اور شیو جی جن کو ہند ولوگ پیدا کرنے والا، پالنے والا اور مارنے والا جانتے ہیں، ان کا ذکر ویدوں میں بہت ہی کم ہے۔ منوجی نے اپنے دھرم شاستر میں وید کے اکثر دیوتاؤں کی پوجا جائز رکھی ہے۔ مگر وشن جی اور شو جی کا اس میں کہیں نام بھی نہیں ہے اور وشن جی کے اوتاروں، رام چندر جی اور کرشن جی کا تو کیا ذکر ہے۔ اسی شاستر سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مورتیوں کی پوجا نہ کرنی چاہیے مگر دیوتاؤں کی مورتوں کی تعظیم واجب ہے اور ان کے سائے پر قدم رکھنا یا ان کو لانگھنا ہرگز درست نہیں ہے۔ منوجی اپنی کتاب میں دنیا کی پیدائش کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب خدا نے اپنی ذات سے دنیا کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو پہلے اس نے پانی کو پیدا کیا اور اس میں ایک بیج ڈالا جو تھوڑے عرصے کے بعد انڈے کی صورت میں بدل گیا؟ اس انڈے میں سے برہما جی نکلے اور انہوں نے آدھے جسم کو نر اور آدھے کو مادہ بنایا اور مادہ حصے سے براٹ (1) کو پیدا کیا اور براٹ کی تپسیا کے سبب سے منوجی پیدا ہوئے اور وہ منوجی میں ہی ہوں جس کی پیدائش اسی طرح سے ہوئی ہے اور میرے سبب سے زمین، آسمان، دیوتا، انسان اور تمام چیزیں ظاہر ہوئی ہیں۔ منوجی کا ایک یہ بھی قول ہے کہ ہندوؤں کی ذاتوں کا بیان ہے، اس امر کا کچھ ذکر آ چکا ہے۔ منوجی نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ دنیا ایک خاص مدت کے بعد فنا ہو کر خدا کی ذات میں مل جاتی ہے اور پھر اسی طرح سے پیدا ہوتی ہے جس طرح سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔ دھرم شاستر کے موافق انسان کودو روحیں دی گئی ہیں۔ ایک کو چھیتر یگ یا جیو آتما کہتے ہیں اور دوسری کو مہاں بولتے ہیں۔پہلی روح کے سبب سے بدن کو حرکت ہوتی ہے اور آدمی کلام کر سکتے ہیں اور اچھے برے کام بھی اسی روح سے ظاہر ہوتے ہیں۔ دوسری روح کے باعث سے پہلی روح کو ہر ایک جنم میں آرام یا تکلیف معلوم ہوتی ہے اور یہی روح رجوگن، ستوگن، تموگن یعنی شہوت اور نیکی اور بدی کا مقام ہے، چونکہ مہاں آرام یا تکلیف کے پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے تو اسے گناہ کی سزا کا کچھ دکھ نہیں ہوتا، صرف چھیتریک کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ دونوں روحیں ہمیشہ پرم آتما یعنی خدا کی روح کے سہارے پر رہتی ہیں اور جب چھیتریگ روح جسم سے نکل جاتی ہے تو وہ مہاں او رپرم آتما سے بھی جدا ہو جاتی ہے اور آرام یا تکلیف اٹھانے کے واسطے اسے ایک اور جسم عنایت ہوتا ہے۔ وہ اس جسم میں آ کر اچھے یا برے کاموں کے عوض کچھ مدت تک سرگ یا نرگ میں رہتی ہے اور اس کے بعد پھر اسے مہاں اور پرم آتما کا سہارا مل جا تا ہے اور کچھ تھوڑے سے گناہ کے عوض جو نیک آدمی سے کبھی نہ کبھی ہوا ہے یا گنہگار آدمی سے سزا بھگتتے بھگتتے باقی رہ گیا ہے، اس روح کو حیوان اور درخت اور کمینے لوگوں کی جونوں میں جانا پڑتا ہے اور ان جونوں کو بدل کر اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر، اسے پھر اچھا برن نصیب ہو جاتاہے مگر جس آدمی نے صرف نیک کام ہی کیے ہوں، اس کی روح کو جینے مرنے اور جونیں بدلنے کی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ سیدھی پرم آتما سے جا کر مل جاتی ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی رسموں میں سے جن کا ذکر ویدوں میں آیا ہے، دو رسمیں بہت بڑی ہیںـ: ایک جنیو ڈالنا، دوسرے سر ادھ کرنا۔ جنیو ڈالنے کے واسطے برہمن کی عمر زیادہ سے زیادہ سولہ، چھتری کی بائیس اور ویش کی چوبیس برس کی ہے۔ جب کسی آدمی کے جنیو ڈال جاتا ہے تو پنڈت لوگ اس کی صورت برہم چاری فقیروں سی بنا کر اس کو گایتری (2) منتر پڑھاتے ہیں اور اس وقت سے اسے صبح اور دوپہر اور شام کو پوجا پاٹ اور خدا کا دھیان کرنا پڑتا ہے۔ ہندوؤں میں جب کسی کے ماں باپ مر جاتے ہیں تو وہ ہر مہینے میں ان کے نام پر ایک پنڈ دان کرتا ہے۔ یعنی چاول، گھی، شہد، دودھ اور آور اسی قسم کی چیزوں کا ایک لڈو بنا کر اپنے آگے رکھتا ہے اور منتر کے زور سے اپنے مرے ہوئے بڑوں کو بلا کر ان سے اس نذر کے قبول کرنے کی درخواست کرتا ہے، پھر برہمنوں کو بھوجن کراتا ہے اور اسی رسم کا سر ادھ کرنا کہتے ہیں۔ برہمن لوگوں کو دھرم شاستر میں گوشت کھانے کی اجازت ہے مگر اس میں یہ شرط ہے کہ وہ جگ کا چڑھا ہوا ہو اور اسی طرح روٹی، کھیر، مال پوا اور آور چیزیں بھی جگ ہی کی چڑھی ہوئی جائز لکھی ہیں۔ اگرچہ دھرم شاستر میں گوشت کھانا منع نہیں ہے مگر اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اس خیال سے کہ گوشت کھانے میں ایک جان دار چیز کی جان جاتی ہے اسے چھوڑ دے تو بہت اچھی بات ہے۔ ان رسموں کے سوا شاستر کے موافق اور بھی بہت سی ضروری رسمیں ہیں، چنانچہ برہمنوں کو مہمانوں کی خاطر داری کرنی واجب ہے اور اس بات کی اس وقت اور بھی تاکید ہے کہ جب مہمان بھی برہمن ہو۔ شاستر میں نیکی کرنے اور سچ بولنے کی بڑی تاکید ہے اور بدی سے بچنا نیکی کرنے سے بھی بہتر لکھا ہے مگر بعض جگہ جھوٹ اور فریب بھی جائز رکھا ہے مثلاً کسی کی جان بچانے کے واسطے جھوٹی گواہی دینی درست ہے اور اسی طرح اگر کوئی راجہ اپنے ملک اور راج کے فائدے کے واسطے جھوٹ اور فریب اختیار کرے تو مضائقہ نہیں ہے بلکہ ایسی صورتوں میں جھوٹ بولنا اور فریب کرنا بہت مناسب ہے۔ اس باب میں ہندوؤں کی ان مذہبی باتوں کا بھی ذکر کیا جائے گا جو آج کل ہندوستان میں مانی جاتی ہیں مگر چونکہ منو جی کے زمانے کے بعد ایک اور نیا مذہب جس کو بودھ کہتے ہیں، رواج پا گیا تھا اس واسطے پہلے اس کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اگلے زمانے میں برہمنوں کے قول کے موافق ہندو لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ جس شخص میں بدھ (3) یعنی عقل کامل آ جاتی ہے، اسے قدرت خدائی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ بدھ کہلانے لگتا ہے مگر یہ عقل صرف اسی شخص کو نصیب ہو سکتی ہے جو دھرم میں نہایت کوشش کرے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے چھ سو برس پہلے ایک چھتری راجہ کے بیٹے نے جس کا نام سدھارتھ تھا، اس درجے کے حاصل کرنے کے واسطے دھرم پر کمر باندھی اور ایک روز رات کے وقت اپنا راج پاٹ چھوڑ کر بیراگ اختیار کیا۔ اور بہت دنوں تک بنوں اور جنگلوں میں تپسیا کرتا رہا۔ انجام کار اس کے دل پر یہ بات ٹھن گئی کہ مجھ کو بدھ کا رتبہ حاصل ہو گیا اور اپنے تئیں جہان کی سب باتوں سے واقف جان کر یہی مذہب جس کا نام بودھ ہے، پھیلانے لگا اور اس وقت سے اس کا نام شاکی سنگھ گوتم یا شاکی منی مشہور ہوا۔ یہ مذہب پہلے پہل بنارس کے گرد و نواح میں جاری ہوا، پھر آہستہ آہستہ تمام ہندوستان میں پھیل گیا اور حضرت عیسی ؑ کے ڈھائی سو برس پہلے اس نے بڑی رونق پائی اور تھوڑے عرصے کے بعد جزیرہ سر اندیپ، برما اور چین میں جہاں اب تک اس مذہب کے ہزاروں آدمی موجود ہیں، چمک گیا لیکن اب ہندوستان میں پہاڑی ملکوں کے سوا اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ اس مذہب میں ذات کو کچھ دخل نہیں ہے اور ہر ایک آدمی کا درجہ اس کے عملوں پر موقوف ہے، چنانچہ شاکی منی اپنے مذہبی کلام میں بیان کرتے ہیں کہ ذاتوں میں ہرگز تمیز نہ کرنی چاہیے اور مرد اور عورتیں اور جوان اور بچے سب کو رحم دلی اختیار کرنے اور تکلیفیں سہنے سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ شاکی منی کے نزدیک نجات ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسانی خوشی اور رنج اور دوستی اور دشمنی بلکہ تمام خیالوں اورخواہشوں سے چھوٹ جاتا ہے۔ گو تم کی زندگی میں بدھ مذہب نے خوب رواج پایا اور ان کے مرنے کے بعد اور بھی ترقی ہوئی لیکن رفتہ رفتہ اس مذہب کے بہت سے فرقے ہو گئے جو آج تک مختلف مقاموں میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک فرقے کا یہ قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں ہے اور سب میں بڑا بدھ ہوتاہے اور اب تک چوبیس بدھ گزر چکے ہیں اور گوتم پچیسواں بدھ ہے۔ اسی فرقے کے لوگ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مادے میں ایک ایسی خاصیت ہے کہ وہ خود بخود جہاں کی صورت میں بدل جاتا ہے اور پھر فنا ہو کر نئے سرے سے پیدا ہوتا ہے اور یہی حالت ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ بعض لوگوں کی یہ رائے کہ خدا موجود ہے لیکن اس نے دنیا کو نہیں پیدا کیا اور نہ اس کو دنیا کے کاموں اور انسان کے نیک و بد سے کچھ علاقہ ہے۔ بعض ک ایہ بیان ہے کہ اگرچہ خدا کو دنیا سے کچھ سروکار نہیں ہے لیکن پھر بھی تمام چیزیں اسی کی مرضی سے پیدا ہوئی ہیں۔ بدھ مذہب کے اکثر آدمی ہندوؤں کے دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کا درجہ بدھ سے کم جانتے ہیں۔ بہتیرے آدمی دنیا کو چھوڑ کر ایک علیحدہ مکان میں جو دھار کہلاتا ہے، ہو بیٹھتے ہیں اور اس مکان میں سے ہر ہفتے میں صرف ایک دن باہر نکل کر اشنان کو جاتے ہیں اور پھر اپنے استھان پر آ جاتے ہیں اور وہاں بیٹھے بیٹھے بھجن کرتے ہیں، خوشبو کے واسطے اگر بتیاں جلاتے ہیں اور صندل آگ میں ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مذہب کی عورتیں بھی علیحدہ مکان میں بیٹھ کر بھجن کیاکرتی تھیں اور مردوں کے سے سارے ڈھنگ برتتی تھیں۔ بدھ مذہب کے گرو جانور کے مارنے کا خوف برہمنوں سے بھی زیادہ کرتے ہیں اور اسی واسطے وہ کبھی اندھیرے میں پانی نہیں پیتے کہ ایسا نہ ہو کوئی جانور منہ میں چلا جائے اور نظر نہ پڑے۔ بدھ مذہب میں جو بڑے بڑے گرو گزرے ہیں، ان کے چیلے ان کی ہڈیاں اور دانت تبرک کے طور پر ایک جگہ رکھ کر وہاں ایک عمارت بطور چھتری کے بنا لیتے ہیں اور کبھی کبھی وہاں جا کر درشن کیا کرتے ہیں۔ اس مذہب کے بانی یعنی گوتم منی کے باب میں عجب عجب طرح کے قصے مشہور ہیں، چنانچہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ وہ دنیا سے غائب ہو کر آسمان پر چلے گئے اور وہاں اندر بن کر تین کروڑ پینسٹھ لاکھ برس تک رہے اور پھر دھرم جاری کرنے کے واسطے اس جہان میں آئے۔ بعض آدمیوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ کسی شیر کو بھوکا دیکھ کر اپنے تئیں اس کے آگے ڈال دیا اور کہا کہ تو مجھے کھا لے۔ ایک جگہ یہ بھی ذکر آیا ہے کہ ان کے آخر اوتار لینے سے پہلے ان کی ماں نے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑی شان و شوکت سے ایک سفید ہاتھی پر سوار ہیں۔ اس خواب کے دیکھتے ہی اس نے بڑے بڑے پنڈتوں اور جوتشیوں کو بلا کر اس کی تعبیر پوچھی۔ انہوں نے کہا مائی تیرے بیٹے کو بڑا دھکار ہو گا۔ یا تو وہ راجہ بن کر اچل راج کرے گا یا رشی ہو کر تپسیا کرے گا۔ جب تک بدھ مذہب خوب ترقی پر رہا تب تک برہمنوں کی دال نہ (4) گلی لیکن جب یہ مذہب ہندوستان سے جاتا رہا، تب انہوں نے پھر سر اٹھایا اور اپنے ہی مذہب کو رونق دینی شروع کی اور رفتہ رفتہ اٹھارہ کتابیں جن کو پران کہتے ہیں جمع کیں۔ ہندولوگ بیان کرتے ہیں کہ یہ پران انہیں ویاس کے بنائے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ویدوں کو جمع کیا تھا مگر یورپ کے باشندوں نے خوب تحقیق کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے آٹھ سو برس بعد یہ کتابیں بنائی گئی تھیں۔ دھرم شاستر اور پرانوں کے موافق تمام ہندو اس بات کو مانتے ہیں کہ دنیا بار بار پیدا ہو کر فنا ہوتی ہے اور اس امر کا ذکر روشن پر ان میں اس طرح سے لکھا ہے کہ آدمیوں کا ایک سال دیوتاؤں کے ایک دن کے برابر ہوتا ہے اور دیوتاؤں کے بارہ ہزار سال کے جگ ہوتے ہیں، جن کے نام ست جگ، ترتیا، دواپر اور کل جگ موجود ہیں۔ ایسے ایسے ہزار زمانے یعنی چار ارب بتیس کروڑ سال برہما جی کے ایک دن کے برابر ہوتے ہیں۔ اور اس عرصے میں چودہ منو جی پیدا ہوتے ہیں۔ جب برہما جی کا بھی ایک دن گزر چکتا ہے تو سارا جہان فنا ہو جاتا ہے اور رات بھر فنا کی حالت میں رہ کر صبح کو پھر پیدا ہوتا ہے اور برہما جی اپنے ہی برسوں کے حساب سے سو برس جیتے ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد ایک بڑ ی قیامت آتی ہے اور تمام دیوتا اور انسان اور حیوان سب کے سب پرم آتما میں مل جاتے ہیں۔ منوجی کے دھرم شاستر کے موافق پرانوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ آدمی مرنے کے بعد سرگ یا نرگ میں جاتا ہے اور وہاں آرام یا تکلیف اٹھ اکر جونیں بدلتا ہے او راسے اپنی نیکی یا بدی کے درجے کے موافق عوض ملتا ہے۔ اگر وہ بہت ہی نیک ہے تو مرنے جینے سے چھوٹ کر پرم آتما میں مل جاتا ہے مگر پرانوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ دیوتاؤں کا پوجنا اور مذہبی رسموں کا ادا کرنا ہر طرح کی نیکی کرنے سے بہتر ہے اور یہ بات دھرم شاستر کے خلاف ہے۔ اس زمانے کے اکثر ہندو پرانوں ہی کی باتوں پر چلتے ہیں اور اگرچہ ان میں بہت سے امر ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ہندو لوگ سب کو صحیح اور درست جانتے ہیں، ہاں بعض آدمی ایک بیان کو دوسرے بیان سے زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن غلط دوسرے کو بھی نہیں کہتے۔ بعض پرانوں میں لکھا ہے کہ شیش ناگ نامی ایک سانپ ہے، زمین اس کے پھن پر ٹھہری ہوئی ہے اور جب وہ سر جھکاتا ہے تو زمین میں بھونچال (زلزلہ) آتا ہے۔ بعض میں یہ لکھا ہے کہ زمین ایک بیل کے سینگ پر ٹھہری ہوئی ہے اور جب وہ تھک کر اپنا بوجھ ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر بدلتا ہے تو زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور بھی بہت سی باتیں اس باب میں لکھی ہوئی ہیں مگر ہندو لوگ سب کو درست سمجھتے ہیں۔ پرانوں کے موافق سب ہندو جانتے ہیں کہ خدا ایک ہے جسے نارائن یا بھگوان کہتے ہیں لیکن اس کی پوجا کوئی نہیں کرتا اور بھگوان کے تینوں سروپوں برہما جی ، وشن جی اور شو جی کو مانتے ہیں مگر ان میں سے صرف وشن جی اور شو جی کو پوجتے ہیں۔ پرانوں میں لکھا ہے کہ اب تک وشن جی کو نو بڑے اوتار ہو چکے ہیں اور دشواں باقی ہے۔ پہلی دفعہ انہوں نے مچھلی کا اوتار لے کر ویدوں کو ایک راچھس سے چھڑایا، پھر باہر یعنی سور بن کر دنیا کو ایک اسر سے اس جو اس کو سمندر میں لیے جاتا تھا بچایا، اس کے بعد کچھوے کی صورت ہو کر مندر اچل پہاڑ کو اپنی پیٹھ پر سہارا دیا اور دیووں اور دیوتاؤں نے اس پہاڑ کو رئی بنا کر اس کے گر دایک بڑا سانپ رسی کے طور پر ڈالا اور اسی کچھوے کے سہارے سے سمندر کو پہاڑ سے خوب بلویا کہ اس میں سے 14 رتن نکل پڑے اور یہ سب رتن دیوتاؤں کو بانٹ دئیے گئے۔ چوتھی دفعہ وشن جی نے نرسنگھ کا اوتار لیا اور ایک ایسی صورت میں ظاہر ہوئے جو انسان اور شیر دونوں سے ملی ہوئی تھی۔ اس اوتار کے لینے کا یہ سبب ہے کہ کسی اجہ کا ایک بیٹا تھا، وہ وشن جی کو بہت مانتا تھا اور ہر وقت انہیں کا دھیان رکھتا تھا۔ اس کے باپ نے اس امر سے ہرچند اسے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ آخر ایک روز راجہ نے کہا کہ میں تجھے مار ڈالتا ہوں، دیکھوں! تیرا دشمن کیونکر تجھے بچاتا ہے! لڑکے نے جواب دیا کہ میرے وشن جی ہر وقت میری نگہبانی کرتے ہیں اور وہ ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ سنتے ہی راجہ نے غصے میں آ کر اپنا ہاتھ ایک ستون پر مارا اور کہا ’’ اگر تیرا وشن ہر جگہ موجود ہے تو اس میں کیوں نہیں آ جاتا۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ وشن جی نرسنگھ کا اوتار لے کر ستون میں سے نکل پڑے اور اپنے ناخنس ے راجہ کو مار کر لڑکے کو بچا لیا۔ پانچویں دفعہ برہمن بن کر راجہ بل سے چھل کیا۔ کہتے ہیں کہ جب راجا بل نے تپسیا کے زور سے تمام زمین و آسمان کو اپنے قبضے میں کر لیا تو اندر نے جو سرگ کا راجہ تھا، وشن جی کے پاس جا کر پناہ لی اور کہا ’’ مہاراج! اب میرا کہیں ٹھکانا نہیں رہا۔ راجہ بل نے زمین اور آسمان تو لے لیا، میرا استھان بھی کوئی دم کو لینا چاہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر وشن جی نے اپنی صورت ایک بونے برہمن کی سی بنائی اور راجہ بل سے آ کر کہا۔ ’’مہاراج! میں تمہیں سدا اشیر باد دیتا رہا ہوں، آج مجھے بھی کچھ دان دیجئے۔‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’ مانگ کیا مانگتا ہے؟ اس سمے جو تو مانگے، سو دوں۔‘‘ برہمن بولا۔ ’’ جتنی زمین میرے تین قدم میں آ جائے، وہ کرپا کر کے مجھے دے دیجئے۔‘‘ راجہ اس بات کو بہت خفیف سمجھ کر ہنسا اور کہا ’’ ہماری آ گیا ہے جا لے لے۔‘‘ برہمن نے پہلے قدم میں ساری زمین اور دوسرے قدم میں آسمان کو لے لیا۔ جب تیسرے قدم کے واسطے کوئی جگہ باقی نہ رہی تو راجہ نے اپنا جسم اس کے آگے ڈال دیا اور کہا کہ اب کی دفعہ میں خود موجود ہوں مگر وشن نے رحم کھا کر اس کی جان بچا دی۔ چھٹے اوتار میں وشن جی نے پر سرام بن کر چھتریوں کو تباہ کیا،ساتویں میں رامچندر ہو کر راون کو مارا، اس اوتار کی حالت میں ان سے عجب عجب طرح کی باتیں ظاہر ہوئیں اور وہ سب کی سب حکایتوں اور نقلوں کے طور پر کتاب رامائن میں جسے والمیک جی نے تصنیف کیا ہے، لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ رام چندر جی کے باپ دسرتھ کی کئی رانیاں تھیں اور ان میں آپس میں رشک اور حسد تھا، اس سبب سے رام چندر جی اپنی سوتیلی ماں کے فریب سے مدت تک بنوں اور جنگلوں میں رہے۔ اتفاقاً ایک روز وہ اپنی استری سیتا جی کو چھوڑ کر شکار کو گئے تھے کہ ایک راچھس سونے کا ہرن بن کر ان کے سامنے آیا۔ رامچندر جی نے اس کے شکار کا ارادہ کیا کہ اتنے میں راون فقیر کا بھی سبدل کر ان کی استری کے پاس آیا اور چالاکی سے اسے لنکا میں اڑا لے گیا۔ جب رام چندر جی کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے ہنومان جی اور سوگریو سے جو بندوں اور ریچھوں کے راجا تھے، مدد لے کر راون پر چڑھائی کی اور اسے مار کر اپنی استری وہاں سے لے آئے۔ اتنی بات میں شک نہیں ہے کہ دنیا میں رام چند جی نامی ایک راجا گزرے ہیں اور انہوں نے لنکا پر چڑھائی بھی کی ہے۔ آٹھویں دفعہ وشن جی نے اسروں کو مارنے کے واسطے بدھ کا اوتار لیا۔ نویں مرتبے بلرام بن کر دنیا کو ظالموں کے ظلم سے چھڑایا اور دسواں اوتار نس کلنک نامی اب ہونے والا ہے اور وہ سنبھل مراد آباد میں وشن جس برہمن کے گھر میں ظاہر ہو گا۔ ان اوتاروں کے سوا وشن جی کے اور بھی بہت سے اوتار ہیں مگر ان میں سری کرشن جی بہت ہی نامی ہیں اور یہ اوتار اگرچہ پہلے دسوں اوتاروں میں داخل نہیں ہیں لیکن آج کل ہندوستان میں ان سے بھی زیادہ مشہو رہیں۔ وشن جی نے سری کرشن جی کا اوتار بسدیو کے گھر میں لیا اور چونکہ ان کے ماموں کنس نے پنڈتوں اور جوتشیوں سے یہ سنا تھا کہ میرا بھانجا مجھے قتل کرے گا، اس واسطے جو لڑکا اس کی بہن کے ہاں پیدا ہوتا تھا وہ اسے مار ڈالتا تھا۔ جب سری کرشن جی پیدا ہوئے تو بسدیو نے مشہور کیا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ کنس کو یہ فریب معلوم ہو گیا اور اس نے سری کرشن کے مارنے کے واسطے بہت سی تدبیریں کیں مگر کوئی بات بن نہ پڑی آخر کار سری کرشن جی نے کنس کو مار ڈالا۔ بچپن ہی میں سری کرشن جی سے ایسی ایسی باتیں ظاہر ہوئیں جو نہایت عجیب تھیں اور گوپیوں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کرنا اور ان کے کپڑے چرا لینا تو بہت ہی مشہور ہے۔ مہا بھارت اور بھگوت گیتا میں لکھا ہے کہ جب دونوں خاندانوں پانڈوں اور کوروں میں لڑائی ہوئی تو سری کرشن جی نے پانڈوں کی مدد کر کے کوروں کو شکست دی اور پھر لوگوں کی نظر سے غائب ہو گئے مگر اورکتابوں سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک بھیل کے تیر سے مارے گئے۔ ہندو لوگ وشن جی کی اتنی پوجا نہیں کرتے، جتنی ان کے دونوں اوتاروں راجہ رام چندر جی اور سری کرشن جی کی کرتے ہیں اور سری کرشن جی کو تو خاص نارائن ہی کا سروپ جانتے ہیں۔ بہت سے لوگ شیو جی کو جن کا نام مہادیو بھی ہے، پوجتے ہیں اور ان کی صورت ایسی خیال کرتے ہیں جیسے کوئی فقیر اپنے بالوں کی لٹیں چھوڑے ہوئے، بیل پر سوار ہے اور اس کے بدن سے سانپ لیٹے ہوئے ہیں اور بالوں میں سے گنگا کی دھاریں نکل رہی ہیں۔ اگرچہ ہندو لوگ مہادیو جی کو دنیا کا فنا کرنے والا جانتے ہیں مگر چونکہ ساری چیزیں فنا ہونے کے بعد پھر پیدا ہو جاتی ہیںا ور سوا اس کے مہادیو جی بھگوان کا ایک سروپ بھی ہیں تو اس واسطے اکثر لوگ انہیں پیدا کرنے والا بھی خیال کرتے ہیں اور مندروں میں اسی خیال سے ان کی پوجا ہوتی ہے بلکہ بہت سی عورتیں ان سے اولاد کی درخواست کرتی ہیں۔ بنگالے کی طرف مہادیو جی کی پوجا عجب طرح سے ہوتی ہے بعض بنگالی اپنی پیٹھ میں ایک کانٹا چبھو کر کسی چرخ میں لٹک جاتے ہیں اور اس چرخ کے ساتھ مہادیو جی کے نام پر چکر کھاتے ہیں اور بعض اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو سوؤں سے چھیدتے ہیں۔ کہیں کہیں شو جی کے اوتار بھی مانے جاتے ہیں، چنانچہ مرہٹے کھانڈے راؤ کو انہیں کا اوتار مان کر پوجتے ہیں۔ علاوہ اس کے اکثر ہندو بعض دیوتاؤں کی استریوں کی بھی پوجا کرتے ہیں مثلاً لچھی جی، سرسوتی جی اور پاروتی جی کو جو وشن جی، برہما جی اور شو جی کی استریاں ہیں، بہت سے لوگ پوجتے ہیں اور ان کو دولت اور علم اور فنا کی دیویاں سمجھتے ہیں مگر پاروتی جی کو بعض آدمی پیدا کرنے والی اور پالنے والی بھی خیال کرتے ہیں۔ پاروتی جی اکثر دیوی بھواونی اور درگا بھی کہلاتی ہیں اور ان کے ماننے والوں کے بہت سے فرقے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں ذات کی کچھ بھی تمیز نہیں ہے۔ ان فرقوں کے سب لوگ خواہ برہمن یا چھتری یا اور کسی ذات کے ہوں، ساتھ بیٹھ کر ایک ہی برتن میں کھاتے ہیں اور اکثر ایک کونڈے میں گوشت اور شراب ملا کر سب کے سب اس کے گرد ہو بیٹھتے ہیں۔ او رکھانا شروع کرتے ہیں اور جب نشے میں چور ہو جاتے ہیں تو ان سے ایسی ایسی باتیں ظاہر ہوتی ہیں جن کا بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔ بہتیرے ہندو بھوت پریت او راسی قسم کی چیزوں کو دیوتا مان کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ اکثر گاؤں والے ایک دو مردوں کو جو زندگی کی حالت میں ان کے گاؤں میں زبردست تھے، اپنے گاؤں کا نگہبان جان کر پوجتے ہیں اور بعض ہندو لوگ مسلمان پیروں اور شہیدوں کی قبروں کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے سوا ہر ایک گاؤں میں ایک بھیاں (5) کی بھی پوجا ہوتی ہے اور یہ دیوتا زمین کا نگہبان ہے اور گاؤں کے لوگ اسے سانپ کی صورت میں خیال کر کے اس کی ایک منڈھی بناتے ہیں اور وہاں دودھ دہی چڑھا کر پوجا کرتے ہیں ۔ بعض ہندو سیتلا، کھجلی اور آور بیماریوں کو دیوتا جان کر پوجتے ہیں۔ ہندوؤں میں ہر ایک دیوتا کے پوجنے والوں کے بہت سے فرقے ہیں اور ہر فرقے میں برہمن یا گسائیں کی قوم سے ایک ایک گرو ہوتا ہے اور یہ گرو اکثر بڑے دولتمند ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے سب چیلے چندہ کر کے ان کو روپے دیتے رہتے ہیں۔ ہر ایک ہندو خواہ کسی فرقے کا ہو، اپنے ماتھے پر ایک ٹیکا لگاتا ہے اور اس ٹیکے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس دیوتا کی پوجا کرتا ہے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ہندوؤں میں دیوتاؤں کی نہایت ہی کثرت ہے اور ان کے نزدیک چھوٹے بڑے سب کے سب دیوتا33 کروڑ ہیں اور ان میں سے مشہور دیوتا یہ ہیں: گنیش جی جنہیں مشکلوں کا آسان کرنے والا خیال کرتے ہیں اور ہر کام میں برکت کے واسطے پہلے انہیں کی پوجا کرتے ہیں،ا ندر، کویرا، سوام، کارتک او رکام دیو جو سرگ، دولت، لڑائی اور شہوت کے دیوتا ہیں، ورن ، اگن، پرتھوی، پون، سوریہ اور سوم یعنی پانی، آگ، زمین، ہوا، سورج اور چاند۔ علاوہ ان کے نو ستارے اور بہت سے دریا انہیں تینتیس کروڑ دیوتاؤں میں داخل ہیں اور دریاؤں میں گنگا جی اول درجے پر ہیں۔ اور جمنا جی دوسرے درجے پر اور ہندو لوگ ان دونوں کو عورت کی صورت میں خیال کرتے ہیں۔ اندر اور پون اور بڑے بڑے دیوتاؤں کے واسطے جدا جدا مکان مقرر ہیں جن کو لوک کہتے ہیں اور ان میں سے اندر استھان کی جو اندر پوری اور اندر لوک بھی کہلاتا ہے، بڑی تعریف لکھی ہے، چنانچہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ اندر لوک میں سونے کے محل جواہر آبدار سے آراستہ ہیں، ہر طرف باغ خوشنما موجود ہیں، نہریں بہ رہی ہیں، پھول کھل رہے ہیں، بیلیں لہلہا رہی ہیں، درخت ہر جگہ چھا رہے ہیں، آپسرا اور گندھرب اپنے ناز و انداز سے راجہ اندر کو رجھا رہے ہیں۔ ہندوستان میں ایک اور مذہب بھی جاری ہے جسے جین کہتے ہیں۔ اس مذہب کے لوگوں کا بھی بدھ کے موافق یہ قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں ہے اور اگر ہے تو اسے دنیا کے کاموں میں کچھ دخل نہیں اور نہ اس نے دنیا کو پیدا کیا ہے بلکہ مادے میں ایک ایسی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ خود بخود دنیا کی صورت میں بدل جاتاہے۔ ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب چھٹی یا ساتویں صدی مسیحی میں جاری ہوا اور گیارہویں صدی میں اس کی بہت ترقی ہوئی اور بارہویں صدی کے بعد اس کا زوال شروع ہو گیا۔ جس طرح بدھ مذہب کے لوگ بدھ کو مانتے ہیں، اسی طرح جین مذہب والے ارھنت کو پوجتے ہیں۔ ان کا یہ قول ہے کہ زمانے میں24 ارھنت موجود ہیں او ریہ سب کے سب پہلے آدمی تھے مگر تپسیا کے سبب سے انہیں یہ درجہ حاصل ہو گیا اور جب ان کا زمانہ پورا ہو چکے گا تو اور 24 ارھنت دنیا میں پیدا ہو جائیں گے۔ جینی لوگ اس زمانے کے ارھنتوں میں سے رشب جی کو جو سب سے پہلے ارھنت ہیں اور پارس ناتھ کو جو تیئسویں ہیں اور مہابیر جی کو جو چوبیسویں ہیں، بہت پوجتے ہیں، بعض اہل یورپ انہیں پچھلے دونوں ارھنتوں کو اس مذہب کا بانی خیال کرتے ہیں۔ جین مذہب والے ہندوؤں کے اکثر دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان میں درجوں کی کچھ تمیز نہیں کرتے اور بعض دیوتاؤں کے نام کے بہت سے دیوتا جانتے ہیں اور ان کی مدتیں بہت دراز بیان کرتے ہیں اور ویدوں کی آسمانی کتابیں نہیں جانتے۔ یہ لوگ جانور کی بڑی نگہبانی کرتے ہیں اور اس امر میں اپنے اوپر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہیں۔ جینیوں کی بہت سی ذاتیں ہیں اور ان کے بعض فرقوں کے پجاری جو جتی کہلاتے ہیں سب ذاتوں کے ہوتے ہیں اور وہ بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے ہیں، ان میں سے اکثر میلے کچیلے بنے رہتے ہیں اور کبھی نہاتے دھوتے نہیں ہیں۔ جینی لوگوں کے دو فرقے بڑے مشہور ہیں: ایک وگمبری، دوسرے سویتمبری، وگمبری جنہیں سراؤگی بھی کہتے ہیں، وہ لوگ ہیں جو اپنے دیوتاؤں کی مورتوں کو ننگا رکھتے ہیں اور انہیں کسی قسم کا کپڑا یا زیور نہیں پہناتے، ان کے منی بھی بالکل ننگے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جہات ستہ یعنی چھ سمتوں کے سوا اور کسی طرح کا لباس درکار نہیں ہے اور اسی واسطے اس فرقے کو گمبری کہتے ہیں کیونکہ لفظ دگمبر مرکب ہے دگ اور امبر سے اور دگ سنسکرت میں سمت کو کہتے ہیں اور امبر چادر کو تو دگمبری فرقے سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی چادر یا لباس صرف سمت ہو۔ اس فرقے کی بھی کئی قسمیں ہیں مگر زیادہ مشہور وہ لوگ ہیں جو پہلے بنیے تھے اور پھر جینی ہو گئے۔ سویتمبری وہ جینی ہیں جو اپنے ٹھاکروں کو کپڑے تو نہیں پہناتے مگر خول کے طور پر زیور اور چاندی سونیت کے انگرکھے (6) اور پاجامے پہنا دیتے ہیں اور ان کے جتی بھی سفید لباس پہنتے ہیں اور اسی سبب سے اس فرقے کا نام سویتمبری ہے کیونکہ لفظ سویتمبر مرکب ہے سویت اور امبر سے اور سویت سنسکرت میں سفید کو کہتے ہیں۔ ان لوگوں کی بھی کئی قسمیں ہیں اور منہ بندھے بھی جنہیں سیوڑے اور ڈھونڈھیے کہتے ہیں، انہیں لوگوں میں سے ہیں۔ اس فرقے کے آدمی کھانے پینے کی بہت تکلیفیں اٹھاتے ہیں اورجانور کی نگہبانی کرنے میں اور قسم کے جینی لوگوں سے زیادہ کوشش کرتے ہیں اور اس مطلب کے واسطے ایک سوت کی چونری جیسے اوگھا کہتے ہیں، اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں تاکہ بیٹھتے وقت اس سے اپنی جگہ صاف کر لیا کریں اور کوئی جانور ان کے نیچے نہ دب جائے۔ علاوہ اس کے کپڑے کی ایک تھیلی سی بنا کر اپنے منہ پر باندھ لیتے ہیں تاکہ منہ کی بھاپ سے کوئی جانور نہ مر جائے۔ جین مذہب کے لوگ ہندوستان کے اکثر شہروں میں موجود ہیں اور راجپوتانہ اور گجرات وغیرہ کی طرف ان کی بہت کثرت ہے۔ ہندوؤں میں اور بھی بہت سے مذہبی فرقے ہیں جن کے بانی فقیر گزرے ہیں اور ان میں سے ایک فرقہ جسے سکھ کہتے ہیں بہت مشہور ہے، اس فرقے کی ابتدا گرو نانک جی سے ہوئی ہے۔ یہ گرو کالو نامی ایک کھتری کے ہاں ضلع لاہور کے تل و نڈی گاؤں میں1469ء میں پیدا ہوئے تھے۔ جب وہ بڑے ہوئے تو کالو نے ان سے سوداگری کرانی چاہی اور چالیس روپے دے کر کہیں تجارت کو بھیج دیا۔ اتفاقاً رستے میں وہ کئی فقیروں سے ملے اور ان سے کچھ گفتگو کی، فقیروں نے انہیں سمجھایا کہ دنیا بالکل ناپائدار ہے، اس پر دل نہ لگانا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے، اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ گرونانک جی کے دل پر اس گفتگو کا کچھ اثر ہو گیا اور وہ انہیں محتاج دیکھ کر چالیس روپے کا آٹا شہر میں سے خرید لائے اور سب کو کھلا پلا کر خالی ہاتھ اپنے گھر چلے گئے۔ ان کا باپ یہ حال سن کر بہت ناراض ہوا اور غصے میں آ کر چاہا کہ انہیں خوب مارے مگر ایک مسلمان زمیندار نے اپنے پاس سے چالیس روپے دے کر انہیں بچا لیا۔ جب گرونانک جی کا دل کسی پیشے میں نہ لگا تو ان کے باپ کو بڑا غم ہوا اور وہ اس امر میں طرح طرح کی تدبیریں سوچنے لگا۔ گرونانک جی کی ایک بہن تھی نانکی اور وہ سلطان پور میں جو جالندھر دوآبے میں واقع ہے، ایک شخص جے رام نامی سے جو غلہ بیچا کرتا تھا، بیاہی ہوئی تھی۔ جب کالو کو کوئی تدبیر نہ سوجھی تو اس نے ناچار ہو کر گرونانک جی کو ان کی بہن کے پاس بھیج دیا۔ ان دنوں میں وہاں کا حاکم نواب دولت خاں تھا اور جے رام کو بھی اس کے دربار میں کچھ دخل تھا۔ اس نے اپنے سالے گرونانک جی کو نواب کے مودی خانے کا مہتمم کرا دیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد گرونانک جی کی شادی ایک عورت سلکھنی نامی سے ہوئی۔ اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ سری چند اور لکھمی داس ان دونوں کے پیدا ہو جانے کے بعد وہ دنیا سے نفرت کر کے جنگل میں جا بیٹھے اور جو جو خیال ان کے دل میں تھے، ان کے ظاہر کرنے میں کوشش کرنے لگے۔ ان کا دلی ارادہ یہ تھا کہ تمام جہان میں ایک مذہب جاری ہو جائے اور فرقوں کا مذہبی اختلاف بالکل جاتا رہے اور اسی واسطے انہوں نے اپنے ارادے کے موافق بہت سے مسئلے پہلی کتابوں میں سے انتخاب کیے۔ ان کے مسائل کا حاصل یہ ہے کہ خدا واحد ہے اور حقیقی مذہب ایک ہی ہے اور مختلف مذہب اور ذاتیں انسان کے دخل کرنے سے پیدا ہوئی ہیں، نفس کی خواہش کا خیال نہ کرنا، غصے کا پی جانا اور دل کا صاف رکھنا، برہمنوں کے بھوجن کرانے اور استھانوں پر چڑھاوا چڑھانے سے بہتر ہے۔ گرونانک جی کے ساتھ ایک گویا بھی رہتا تھا اور جب گرونانک جی عبادت میں مصروف ہوتے تو وہ گویا رباب بجا کر ان کا دل بہلاتا اور خدا تعالیٰ کی تعریف کے سوا اور کچھ نہ گاتا اور اکثر یہی کہتا رہتا۔ ’’ تو ہی ہے نرنکار کرتار، نانک بندہ تیرا۔‘‘ جس وقت محمد ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت گرونانک جی ایمن آباد میں تھے، بیگار والوں کے ساتھ وہ بھی پکڑے گئے مگر جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ایسی معقول گفتگو کی کہ بادشاہ نے رحم کھا کر انہیں چھوڑ دیا۔ اس کے بعد گرونانک جی نے ملک ملک پھرنا شروع کیا اور پھر گرداس پور میں جو دریائے راوی پر ہے، جا کر رہنے لگے اور وہاں ایک دھرم سالہ بنوا کر اس کا نام کرتار پور رکھا اور وہیں اپنے بال بچوں اور چیلوں کو بھی بلوا لیا۔ جب انہوں نے زیادہ شہرت پائی تو ان کو گرونانک اور بابا نانک اور نرنکار پکارنے لگے، انجام کار ستر برس کی عمر میں1539ء میں مر گئے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں میں سے کسی کو اپنی جگہ نہ بٹھایا بلکہ چیلوں میں سے لہنا کھتری کو اپنا جانشین کیا اور اس کا نام انگد رکھا۔ یہ گرو مقام ترن تارن ضلع امرتسر میں مر گئے اور انہوں نے امر داس کھتری کو اپنا جانشین کیا۔ امر داس کے بعد ان کا دامار رامداس کھتری گرو بنا۔ ان کے خاندان میں گرو کا درجہ موروثی ہو گیا اور یہ درجہ گرو گوبند جی کی ذات تک رہا۔ گرو گوبند جی نے گرونانک کے مسائل کو ایسا بدلا کہ وہ اپنے عملوں کے سبب سے بجائے سکھ کے جس کے معنی چیلے کے ہیں، سنگھ یعنی شیر کہلانے لگے اور لٹیرے بن کر دور دراز مقاموں کا سفر کرنے لگے۔ گرو گوبند جی نے انہیں تاکید کی کہ وہ اپنے بال بڑھائیں اور ان کو استرہ یا قینچی نہ لگائیں۔ گرونانک جی کے مسئلوں اور نصیحتوں کو سکھوں نے جمع کر کے ایک کتاب میں لکھا ہے جسے آدھ گرنتھ یا گرنتھ کی پہلی جلد کہتے ہیں اور دوسری جلد گرو گوبند جی نے سو برس بعد تصنیف کی، یہ کتاب اس وقت کی پنجابی زبان میں ہے اور گرمکھی خط میں لکھی ہوئی ہے۔ سکھ پنجاب میں کثرت سے ہیں اور ہر قوم کے آدمی کو اپنے مذہب میں شریک کر لیتے ہیں، چنانچہ چمار اور بھنگی بھی اس مذہب میں آ کر مذہبی سکھ کہلاتے ہیں۔ ٭٭٭ تیسرا باب من سکھی اور سندر سنگھ کا قصہ جو فقرے مصنف نے اپنی طرف سے لکھے ہیں، ان کے پہلے علامت م (1) ہے اور جو غیر کی زبان سے بیان کیے ہیں، ان کی ابتدا میں نشان غ(2) ہے۔ ایک دفعہ بہار کے موسم میں جبکہ جاڑا گزر گیا اور جنگل میں طرح طرح کے بیل بوٹے اور رنگ رنگ کے پھول کھلنے لگے، اہیر پور گاؤں میں سیتلا کا بڑا میلا ہوا۔ وہاں کی تمام عورتیں اور مرد ہاتھوں میں پجاپا لیے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ رستے میں ہم عمر لڑکیاں آپس میں ہنستی بولتی سیتلا کے سہیلے (3) گاتی جاتی تھیں۔ ان میں ایک اہیر کی لڑکی جس کا نام من سکھی تھا، اپنے چچا سجان سنگھ نمبردار اور چچی چندر کور کے ساتھ گھر سے باہر نکلی۔ اسی وقت ان کا پروہت گیان چند مشر بھی اپنی بیٹی پاربتی کو ہمراہ لیے، ماتا جی کی پوجا کرنے، ان کے ساتھ ہوا۔ من سکھی نے پاربتی کو دیکھتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور دونوں کی باتیں ہونے لگیں۔ اس میں پاربتی نے کہا۔ ’’ من سکھی! تیرے بیاہ کو تو پانچ برس ہو گئے ہوں گے اور تو بھی 15 برس کی ہوئی، اب گونا کب ہو گا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ اب کے بیساکھ میں بتاویں ہیں۔‘‘ پھر پاربتی نے کہا ’’ جی جی (4) تیرا بنڑا تو بڑا سندر ہے۔‘‘ یہ بات سن کر من سکھی مسکرائی اور کہنے لگی ’’ ہاں جی جی! میں نے بھی اسے کئی بیر چھپ چھپا کر دیکھا تھا، مجھے بھی اس کی صورت بھلی لگی تھی۔‘‘ پاربتی نے کہا’’ من سکھی! اب تو تیرے گونے کا مہینہ ہی بھر رہ گیا ہے، جب تو اپنے بنڑے کے ساتھ چلی جائے گی تو مجھ سے کاہے کو ملے گی؟ چھ سات مہینے پیچھے کبھی آئی، دو چار دن رہ گئی، پھر تو کہاں اور ہم کہاں!‘‘ من سکھی بولی۔ ’’ نہیں ری! میرے چاچا نے یہ سوچا ہے کہ اس کو اپنے ہی گھر رکھیں، وہ بڑا نردھن ہو گیا ہے۔‘‘ پاربتی نے کہا’’ جی جی یہ تو بھگوان کی مایا ہے، ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، دھن دولت کس کے تھر رہی ہے، پر یہ اچھا ہوا کہ تیرا بنڑا یہیں آ رہے گا۔‘‘ من سکھی نے کہا’’ کیا خاک اچھا ہوا، جی جی! سب دھن کے غرضی ہیں۔ اب میرے چاچا چاچی اس کی ویسی آؤ بھگت کہاں کریں ہیں، جیسی پہلے کریں تھے۔‘‘ پھر پاربتی نے پوچھا’’ من سکھی تیرے چاچا چاچی کس کارن ماتا کی جات (5) دینے آئے ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’ تجھے خبر نہیں؟ جب میرے بھائی کے ماتا نکلی اور ساری دیہ میں کہیں تل رکھنے کو جگہ نہ رہی اور اس کے جینے کی آس جاتی رہی اس سمے میری چاچی نے پلہنڈے (6) تلے ماتا سے ارداس(7) کر کے کہا تھا کہ ماتا رانی اپنے غلام پر دیا کر! جب یہ پانچ برس کا ہو گا، میں تیری جات دوں گی اور تیرے نام پر ایک بچھڑا چھوڑوں گی اور بھگت کو جوڑا پہناؤں گی۔ سو اب میرا موہن بھائی پانچ برس کا ہو گیا ہے اس لیے ہم جات دینے آئے ہیں۔‘‘ یہ باتیں ان لڑکیوں میں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں سب کے سب سیتلا کے مندر کے پاس آ پہنچے۔ من سکھی پاربتی سے جدا ہو کر اپنی چچی کے ساتھ ہو لی اور اپنے بھائی موہن کو گود میں لے کر مندر کے اندر گئی۔ کیا دیکھتی ہے کہ وہاں ایک پیتل کی مورت پھول اور ہاروں سے لدی ہوئی رکھی ہے۔ من سکھی کے چچا نے اپنی بیوی سے کہا’’ لے موہن کی ماں!(8) پجاپا نکال اور چھورے کے ہاتھ سے ہاتھ چھوا کے مہارانی پر چڑھا دے اور بھگت جی کو جوڑا پہنا دے اور بچھڑے کو چھوڑ دے۔‘‘ من سکھی کی چچی نے سب پجاپا چڑھا دیا، پھر سب کے سب مندر سے باہر نکلے۔ ایک بھنگی نے آتے ہی مرغ(9) پھڑپھڑایا اور کہا ’’ داتا کی خیر! صدقے کا پیسہ دلاؤ۔‘‘ دوسری طرف سے ایک اور بھنگی سور کا بچہ ہاتھ میں لیے ہوئے آیا اور دو چار دفعہ لڑکی کے سر پر وار کر چھوڑ دیا اور کہا ’’ گھینٹے کی چھڑوانی کا پیسہ مل جائے۔‘‘ چندر کور نے ان دونوں کو ایک ایک پیسہ دے دیا۔ ذرا ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ ایک عورت مٹی کی مورت لیے ہوئے سامنے سے نظر پڑی اور چندر کور کو دیکھ کر بولی’’ کلیجے (10) والی کی بھی بھیٹ چڑھاتی جا۔‘‘ ایک اور بولی ’’ پھپولے والی سے بھی ڈر‘‘ ایک نے کہا’’ کھجلی (11)ماتا کا بھی پیسہ رکھتی جا۔‘‘ من سکھی کی چچی ایسی خوفناک آوازیں سن کر کانپتی تھی اور ہر ایک کے آگے پیسہ رکھتی جاتی تھی۔ آخر کار جب پیسے دیتے دیتے حیران ہو گئی تو جلدی سے پیچھا چھڑا کر ایک طرف کو چلی اور وہیں کسی درخت کے تلے سب نے جمع ہو کر باسی کھانا کھایا۔ جب کھانا کھا چکے اور میلا کم ہو گیا، یہ بھی اپنے گھر کی طرف چلے اور وہاں پہنچ کر اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ اسی روز رات کے وقت جب گھر کے سب آدمی جمع تھے،سجان سنگھ ایک چارپائی پر بیٹھا ہو احقی پی رہا تھا اور اس کی بیوی ایک طرف زمین پر بیٹھی تھی، دوسری طرف من سکھی موہن کو کھانا کھلا رہی تھی، سجان سنگھ نے اپنی بیوی سے من سکھی کے گونے کا ذکر کیا اور کہا ’’ موہن کی ماں! من سکھی کا بنڑا ایک مہینے پیچھے آوے گا او روہ یہیں رہے گا۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا’’ سامنے کی کوٹھڑی خالی کر دوں گی اور گونے کا بھی سارا سامان دھرا ہے۔‘‘ تھوڑی دیر تک ان میں یہی باتیں ہوتی رہیں، پھر من سکھی اور موہن اندر کے دالان میں اپنی چارپائی بچھا کر سو رہے، باہر کے دالان میں چندر کور اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر لیٹ گئی اور سجان سنگھ اسی دالان کی کوٹھڑی میں جا پڑا۔ جب صبح ہوئی تو نمبردار چارپائی سے اٹھ کر اپنی چلم بھر ماچے پر آبیٹھا اور حقہ پینے لگا۔ تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک فقیر جٹا دھاری کندھے پر مرگ چھالا ڈالے، ہاتھ میں چمٹا لیے ہوئے اس طرف سے گزرا اور نمبردار کو ماچے پر بیٹھا ہوا دیکھ کر چپ چاپ اس کے سرہانے آ بیٹھا۔ نمبردار نے کہا ’’ مہاراج کہاں سے آنا ہوا، کیا چاہیے؟‘‘ فقیر نے کچھ جواب نہ دیا۔ نمبردار بولا’’ مہاراج! کچھ کہیے! کیا اچھا ہے؟‘‘ فقیر نے کہا’’ بابا کچھ اچھا نہیں، جو تیرا جی چاہے تو ایک سلفا پلوا دے۔‘‘ نمبردار نے اوپنے حقے پر سے چلم اتار کر فقیر کے حوالے کی، اس نے ایک دم لگایا کہ لو اٹھ آئی۔ یہ دیکھ کر نمبردار نے کہا ’’ مہاراج! کیا تمباکو کی چاندی (12) ہی کر دو گے؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’ سائیں کے بھنڈار میں کچھ کمی نہیں ہے، جو تیری یہ مرضی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا۔‘‘ فقیر تو یہ کہہ کر چل دیا اور نمبردار کو گھڑی بھر کے بعد جب پھر حقے کی طلب ہوئی تو یہ وہ چلم بھرنے گیا اور جونہی چلم الٹی، ایک چاندی کی ڈلی اس میں سے نکل پڑی۔ یہ دیکھ کر نمبردار حیران ہو گیا اور دفعتہ پکار اٹھا’’ موہن کی ماں، دوڑیو! موہن کی ماں دوڑیو!‘‘ اس کی آواز سن کر چندر کور گھبرائی ہوئی آئی اور کہا’’ کیا ہے! کیوں پکارے ہے؟‘‘ نمبردار نے چاندی کی ڈلی اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا ’’ لے دیکھ یہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولی ’’ یہ چاندی کی ڈلی تو کہاں سے لایا؟‘‘ نمبردار نے تمام گزرا ہوا ماجرا کہہ سنایا۔ اس کی بیوی بولی ’’ ہاں ایک بابا جی کو تو میں نے تیرے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تھا، پر مجھے یہ خبر نہ تھی کہ وہ ایسے سدھ ہیں۔‘‘ نمبردار نے کہا’’ میں بھی یہ نہ جانوں تھا کہ بابا جی ایسے ہیں۔‘‘ چندر کور بولی ’’ جلدی جا، چاروں طرف آور آدمی دوڑادے اور جہاں سے بابا جی ملیں، ان کو لا۔‘‘ نمبردار نے بہت سی خاک چھانی مگر فقیر کا کہیں پتہ نہ لگا، ناچار اپنے گھر چلا آیا۔ اس کے بعد کئی دن تک فقیر کا چرچا ہوتا رہا اور من سکھی کے گونے کے دن قریب آ گئے۔ نمبردار نے گونے کا تمام تیار کر ہی رکھا تھا کہ اتنے میں دولہا اور اس کے تین چار رشتے دار دو گاڑیاں اور ایک گھوڑی لے کر آ گئے۔ سجان سنگھ نے انہیں چوپاڑ میں اتار کر ہر طرح سے ان کی خاطر داری کی اور یہ لوگ دو روز تک وہاں ٹھہرے۔ دولہا کے گاؤں میں آتے ہی من سکھی نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا، جو کبھی نکلتی بھی تو رات کے وقت ہم جولیوں سے ملنے جاتی اور خوب مل مل کر روتی۔ وہ سب کی سب اسے سمجھاتیں ’’ کیوں رووے ہے؟پندرہ دن پیچھے تیرے چاچا چاچی تجھے بلا لیں گے۔‘‘ جس روز گونے کا مہورت نکلا، اس روز نمبردار نے گیان چند مشر کو بلوایا۔ اس نے آتے ہی چوک لپوایا اور اس پر ایک طرف آٹے سے نو خانے بنا کر ان میں چاول رکھ دئیے اور ایک مٹی کی ڈلی لے کر اس پر کلاوا لپیٹا، پھر دولہا دلہن کو پڑوں پر بٹھایا اور اس مٹی کی ڈلی کو گنیش اور نو خانوں کو نوگرہ قرار دے کر پوجا کرائی اور رولی، چاول، پھول، پان، بتاشے اور پیسے ان پر چڑھا دئیے پھر گیان چند نے لڑکے کے دو پٹے اور لڑکی کی اوڑھنی کا ایک سرا لے کر دونوں کو ملایا اور اس میں چھالیہ کی ڈلی، چاول اور ایک ٹکا رکھ کر گرہ باندھ دی۔ اس کے بعد پٹا پھیر کی رسم ہوئی اور پٹڑوں کو جن پر دولہا دلہن بیٹھے ہوئے تھا، بدل دیا۔ جس وقت نائی نے پٹڑوں کے بدلنے کے لیے اٹھایا تو پاربتی جو وہاں کھڑی ہوئی تھی، اس سے کہنے لگی ’’ دیکھ رے! یہ پٹڑے آپس میں ٹکراویں نہیں، جو ایسا ہا تو من سکھی اور جیجا میں سدا کھٹا پٹی رہے گی۔‘‘ جب وداع کی تیاری ہوئی، من سکھی اپنے سارے رشتہ داروں اور سہیلیوں سے مل کر خوب روئی اور موہن کو گود میں اٹھا کر کہنے لگی ’’ بھائی! تو چاچی سے کہتا رہیو جیجی کو جلدی بلا لے۔‘‘ موہن کا بھی یہ حال تھا و سب کو روتا دیکھ کر سہم گیا اور اپنی بہن کی گود میں بیٹھ کر بلکنے لگا۔ من سکھی کی چچی نے چلتے وقت اپنی بھتیجی کی بہت تسلی کی اور یہ بھی کہہ دیا ’’ بٹی! جو تیری ساسو کہے، سو کریو اور جو بڑی بوڑھی آوے، اس کے پیروں پڑیو۔‘‘ من سکھی بڑی مشکل سے روتی ہوئی گاڑی میں بیٹھی اور برابر کوس بھر تک روتی چلی گئی۔ اس کا چچا بھی دور تک گاڑی کے ساتھ ساتھ گیا اور رخصت ہوتے وقت کہنے لگا ’’ من سکھی گھبرا مت! میں اپنی بیٹی کو بہت جلد بلا لوں گا۔‘‘ آخر کار جب وہ اپنی سسرال میں پہنچی تو اس کی ساس اور آور دو چار عورتیں اسے گاڑی میں سے اتار کر گھر میں لے گئیں، پھر دولہا دلہن کو پنڑوں پر بٹھا کے دلہن کے ہاتھ میں ایک لڈو دیا اور اس کی گود میں اس کے دیور کو لا بٹھایا۔ وہ بیٹھتے ہی بول اٹھا ’’ بھابی! لڈو مجھ کو اور بیٹا تجھ کو۔‘‘ یہ کہہ کر گود میں سے اتر پڑا اور کھانے لگا۔ من سکھی پندرہ روز تک اپنی سسرال میں رہی اور جس طرح اس کی چچی نے اسے سمجھا دیا تھا، اسی طرح ساری باتیں کرتی رہی۔ جب اس کا سسرایا جیٹھ گھر میں آتا تو اٹھ کر ایک طرف کوٹھڑی میں چلی جاتی اور کسی عورت کے سامنے کبھی خاوند سے کلام نہ کرتی اور نہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی۔ پندرہ دن کے بعد اس کی چچی نے موہن اور دو چار لڑکوں کو معتمد آدمی کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر من سکھی کے لینے کو بھیجا، وہ اسی روز اسے اور اس کے خاوند کو لے کر چلے آئے۔ سندر سنگھ اپنی سسرال میں رہنے لگا مگر وہاں رہنے سے اس کی طبیعت کچھ خوش نہ ہوئی کیوں کہ سجان سنگھ اس کو حقیر سمجھ کر ہر وقت طعنے دیتا اور کبھی کبھی یہ کلام بھی اپنی زبان پر لاتا ’’ من سکھی بڑی ابھاگی ہے جو تجھ سے نردھن کے پلے پڑی۔‘‘ سندر سنگھ کو اپنی سسرال میں رہتے ہوئے کچھ دن گزرے تھے کہ ایک روز دفعتاً وہی بابا جی جو پہلے اپنی کرامت دکھا گیا تھا، چوپاڑ میں سجان سنگھ کے آگے آ کھڑا ہوا اور پکارا ’’ الکھ جاگے ہے۔‘‘ سجان سنگھ جس کو مدت سے اس کے دیکھنے کی آرزو تھی، حیرت میں آ کر کہنے لگا ’’ اجی آؤ، مہاراج! ہم تو اسی دن سے تمہاری یادگاری کر رہے تھے۔ بڑی کرپا کی، جو آپ نے درشن دئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اسے اپنے گھر لے گیا اور بیوی سے کہا ’’ لے موہن کی ماں! آج ہمارے بھاگ ادے ہوئے، جو وہی بابا جی پھر آئے۔ پھر فقیر کی طرف مخاطب ہو کر بولا واہ مہاراج! دھن ہو۔‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ بابا جی نے اپنی جھولی میں سے ایک سونے کی ڈلی نکال کر اس کے حوالے کی اور کہا ’’ بابا ہم تجھ سے بڑے پرسن ہیں لا ایک سلفا پلوا دے، پھر کسی آور دسا کو سدھاریں۔‘‘ نمبردار نے بڑی خوشی سے چلم بھر کر اسے پلوائی اور اس کی بیوی نے کہا ’’ مہاراج! آج روکھی سوکھی روٹی یہیں پاؤ۔‘‘ فقیر نے کہا’’ مائی! یہ کھانا پینا تم گرہستیوں کے لیے ہے، ہم تو اپنا پیٹ بن کے پھل پھلاری سے بھر لیتے ہیں۔‘‘ سندر سنگھ جو ایک کونے میں بیٹھا ہو ایہ سب باتیں سن رہا تھا، پہلے ہی ایسے فقیروں سے ڈرا ہوا تھا کیوں کہ اس کے گاؤں میں ایک فقیر اس طرح کی باتیں بنا کر کسی آدمی کو جل دے گیا تھا۔ اسے اس فقیر کی نسبت بھی دغا بازی کا شبہ پیدا ہوا اور اس کی طرف ایک ایسی نگاہ کی جس سے وہ بھی تاڑ گیا کہ سندر سنگھ یہاں میری دال نہ گلنے دے گا۔ یہ سوچ کر فقیر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ’’لے بابا سجان سنگھ! فقیر کے دل میں موج آ گئی تھی، جو تیرے پاس آ نکلا تھا۔ اب ہم رمتے ہیں، پر ایک بات تجھ سے کہے جاتے ہیں، شاید تجھ کو کڑوی معلوم ہو، پر یہ بھی کہا ہے ، آئی بات کو من میں نہ رکھیے، یہ لڑکا سندر سنگھ جو تیرا جمائی ہے، اس کا یہاں رہنا تیرے واسطے اچھا نہ ہو گا۔ ہم نے تو کچھ اور چاہا تھا، پرہونی بلوان ہے، اپنا چاہا ہوتا نہیں۔‘‘ فقیر تو یہ کہہ کر چلا گیا اور سجان سنگھ اپنی بیوی سے کہنے لگا ’’ لے موہن کی ماں! جو آج سندر سنگھ ہمارے گھر میں نہ ہوتا تو جانے کیا نوندھ (13) بارہ سدھ ہو جاتی۔ میں تو پہلے ہی جانوں تھا یہ چھورا میرے گھر کی اینٹ سے اینٹ (14)بجا دے گا۔ ہمارے کہاں بھاگ! جو ایسے اتیت جوگی جٹا دھاری ہمیں درشن دیں، پر کیا کیجئے! درشن دیتے ہی بات کی بات میں سندر سنگھ کے کارن غصے ہو کر چلے گئے۔‘‘ سندر سنگھ جو وہیں کھڑا ہوا تھا، یہ بات سن کر نہایت ناراض ہوا اور آنسو بھر کر کہنے لگا ’’ اس پاکھنڈی کا جانا تمہارے لیے اچھا ہوا، جو میں آج نہ ہوتا، تو یہ ضرور تمہارا ستیاناس کر جاتا اور ایسا لوٹتا کہ بدن پر ایک لتا بھی نہ چھوڑتا۔‘‘ سجان سنگھ سندر سنگھ کی طرف مخاطب ہو کر بولا ’’ ارے نر بھاگ! کیوں جھک مارے ہے۔ میں نے تو تجھ کو اسی دن جان لیا تھا جس دن تیرے ساتھ چھوری کے پھیرے ہوئے تھے، پر کیا کروں، کرموں کی ریکھ امٹ ہے، نہیں تو اور میرا گھر!‘‘ جب سجان سنگھ نے سندر سنگھ کو ایسی سخت سخت باتیں سنائیں تو وہ بھی بھر آیا اور افسوس کر کے کہنے لگا ’’ بھگوان سب پر دیا رکھے، کسی کو بگاڑے نہیں۔ جب میں تیرے گھر آ کے رہا تو میں نے یہ باتیں سنائیں۔ لے اب تو جان اور تیرا گھر۔‘‘ یہ کہہ کر سندر سنگھ غصے میں بھرا ہوا مکان کے باہر آیا اور جنگل میں جا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ جب سجان سنگھ کی سخت باتوں کا خیال اس کے دل میں آتا تو کہتا ’’ میں نے تیرے نت دن کے طعنے مہنے بھی سہے، پر کیا کروں، اب تو تو بھگو بھگو کر جوتیاں مارنے لگا۔ میرا تیرے گھر میں کیوں کر نباہ ہو گا، اب تو یہاں سے چلا جانا ہی اچھا ہے۔‘‘ مگر جس وقت اسے من سکھی کی محبت کا خیال آتا تو نہایت بے قرار ہو کر کہتا ’’ ہائے چلا تو جاؤں پر اس بن کیوں کر جیوں گا ! ہاں کسی کوئیں یا جوہڑ میں ڈوب مروں گا۔‘‘ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ یکایک اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر میں سپاہیوں میں جا کر بھرتی ہو جاؤں تو اچھا ہے جو کسی لڑائی میں مارا گیا تو جان سے چھٹ گیا اور جو بڑھ کر تلوار لگائی تو یہ بھی جانیں گے کہ سندر سنگھ کسی کا بیٹا تھا۔ آخر کار یہی بات اس کے دل پر جم گئی اور اپنا ارادہ ظاہر کرنے کے لیے من سکھی کے پاس گیا۔ من سکھی نے جس وقت اسے دیکھا، روتی ہوئی اس کے گلے سے آ لگی اور بولی ’’ آج چاچا اس نپوتے بابا جی کے بہکانے سے پھر تجھ کو برا بھلا کہنے لگا تھا۔ ایسی باتوں کو سن کر میں بھنی جاؤں ہوں اور جی میں آوے ہے کہ منہ لپیٹ کر کسی کوئیں میں ڈوب مروں۔‘‘ سندر سنگھ نے کہا’’ تیرے چاچا کے گھر میں رہنے سے مجھ کو بڑی لاج آئی ہے اور تو بھی دکھی رہے ہے، اس لیے میں نے یہی سوچا ہے کہ یہاں سے چلا جاؤں۔‘‘ اس بات کو سنتے ہی من سکھی چلا اٹھی اور بولی ’’ اے تو مرے بابا جی! تجھ میں یہ گن تھے! تو میرے دھنی کو مجھ سے بچھاڑنے آیا تھا! تیرا ستیاناس جائے، آ لگاؤں تیری جٹا میں، پھوک دوں تیرے سونے چاندی کو۔‘‘ پھر سندر سنگھ سے کہنے لگی کیا تو چلا جائے گا اور مجھے چھوڑ جائے گا؟ دیکھ میں کہے دوں ہوں جو ایسا کیا ت ومیری صورت ہی (15)کو ترستا پھرے گا، بس دیکھ لی تیری پریت جو پیٹھ دئیے جائے ہے۔ سندر سنگھ نے من سکھی سے کہا’’ تو ہی بتا، اب میرا یہاں رہنا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا تو اس بات کو اچھا جانے ہے کہ تیرے چاچا کے روز روز کے طعنے مہنے سہوں، دھرکار ہے میرے ایسے رہنے پر! نام کو تو میں جمائی تھا، پر تیرے چاچا نے تو کتے کے برابر بھی آدر نہ دیا، اب میں یہاں رہ کر کیا کروں؟ میرا یہاں سے جانا تجھے بھی اچھا ہو گا ۔ دیکھ تو بھگوان کیا کرے ہے، کیسے دلدر پار ہوویں ہیں، بہت سا روپیہ کماؤں گا اور تیرے واسطے اچھے اچھے گہنے اور اوڑھنیاں بھیجوں گا اور تھوڑے دنوں پیچھے تجھے بھی اپنے پاس بلا لوں گا۔‘‘ من سکھی نے کہا ’’ جو تو جائے ہے تو مجھے تھوڑا سا بس (زہر) دیتا جا اور اپنے ہاتھ سے میری کفن کاٹھی کرتا جا، پھر جہاں تیرے من میں آوے چلا جائیو۔‘‘ یہ کہہ کر پکار اٹھی ’’ ہے دھرتی ماتا! جو تو پھٹ جائے تو میں تجھ میں ابھی سما جاؤں۔‘‘ من سکھی کی ایسی درد ناک باتیں سن کر سندر سنگھ کی چھاتی پھٹی جاتی تھی مگر وہ تو اپنے چلے جانے کا ارادہ دل میں ٹھان ہی چکا تھا اس واسطے جہاں تک ہو سکا، اس نے من سکھی کی تشفی کی اور انجام کار وہاں سے رخصت ہوا۔ جب چندر کور نے دیکھا کہ سندر سنگھ شام تک گھر نہ آیا اور من سکھی کوٹھڑی میں منہ لپیٹے پڑی رہی تو اس کی سہیلی پاربتی کو بلا کر کہا ’’ ہے گیان چند (16) کی! من سکھی پاس جائیو۔ پوچھ تو اس کا بنڑا کہاں گیا ہے اور وہ کیوں نہیں کھاتی پیتی؟‘‘ پاربتی فوراً من سکھی کی کوٹھڑی میں گئی اور کہا ’’ جی جی! آج کیا ہے جو تو ایسی اداس پڑی ہے؟‘‘ من سکھی اسے دیکھ کر رو پڑی اور کہنے لگی ’’ اس سے تو مر جانا ہی اچھا ہے۔ تیں نے سنا نہیں؟ آج تیرا جیجا نکل گیا۔ پاربتی! دکھ میں کوئی کسی کا ساتھی نہیں، کس کا چاچا، کس کی چاچی! جو آج میرے ماں باپ ہوتے تو میں ایسی نر آدری کیوں ہوتی!‘‘ پھر اپنی ساری حقیقت اس کے روبرو بیان کی۔ پاربتی نے اسے بہت تسلی دی اور اس کی چچی کے پاس جا کر کہا’’ اری تمہارا تو کنبہ بڑا نردئی ہے! کھائے کیا وہ پتھر؟ تم نے اس کے بنڑے کو تو نکال ہی دیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہاں سے اپنے گھر گئی اور تمام ماجرا اپنی ماں کو سنایا۔ اس نے خاوند سے اس بات کا ذکر کیا۔ گیان چند مشر نے جس وقت یہ حال سنا، فوراً سجان سنگھ کے پاس دوڑا گیا اور کہا ’’ چودھری جی! یہ بات تمہارے جوگ تھی کہ تم اپنے جمائی کو نکال دو؟ بھائی کسی کا ایک سا سما نہیں رہا۔ کیا تمہیں اس کا آدھ سیر آٹا دوبر تھا؟ ان دنوں کو بھول گئے جب تمہاا اہیر پور کا گاؤں اس کے دادا کی چودہرایت میں تھا؟ بھائی کیا ٹوٹا آ جاتا جو اہیر کا چھورا اپنے کڑوے کسیلے دن تمہارے گھر کاٹ جاتا؟‘‘ پروہت تو یہ کہہ کر چلا گیا مگر سجان سنگھ کو اس کی باتوں سے بڑی شرمندگی حاصل ہوئی، پھر تو گاؤں کے لوگ بھی اسے لعنت ملامت کرنے لگے اور وہ ان کی نظروں میں حقیر ہو گیا۔ جب سجان سنگھ نے دیکھا کہ سب آدمی مجھے برا بھلا کہتے ہیں اور من سکھی بھی سندر سنگھ کی جدائی میں دن رات تڑپتی ہے تو وہ اپنی حرکت سے نہایت پشیمان ہوا۔ اسی غم میں رہتا تھا کہ ایک او رمصیبت اس پر پڑی۔ چند روز کے بعد اس کے چھوٹے لڑکے کو جو برس دن کا تھا، شدت سے بخار آیا اور دوسرے دن سیتلا کا دانہ دکھائی دیا، پھر یہ زور ہوا کہ سارا بدن پھل گیا اور کہیں تل رکھنے کو جگہ نہ رہی۔ لڑکے کو ایک علیحدہ دالان میں لے گئے اور سب عورتوں کی پرچھائیں سے بچایا۔ رات بھر اس کے پاس چراغ روشن رکھتے، دن کا انگیٹھی سلگاتے، بلی (17) کو کبھی اس کے پاس نہ آنے دیتے، نہانے، دھونے، بال منڈوانے اور کپڑا بدلنے سے سب نے پرہیز کیا، دوسرے دیوتا کا نام لینا چھوڑ دیا۔ ستیلا کے بھگت کو کئی دفعہ بلا کر جھاڑا پھونکی کرائی، پر کوئی تدبیر نہ بن پڑی۔ لڑکے کو بیماری کی شدت ہوتی گئی، نہ سیتلا نے مہربانی کی، نہ بھگت جی کام آئے۔ لڑکا بیچارہ اپنی جان سے گیا۔ سجان سنگھ یہ حال دیکھ کر بہت رویا اور دھڑا دھڑ اپنی چھاتی پیٹنے لگا۔ پھر غصے میں آ کر بولا ’’ہتیاری رانڈ سیتلا! تجھے ماتا کس نے کہا ہے! تو تو ڈائن ہے، میرا کلیجہ نکال کر لے گئی۔ مریو تیرا سیڈھو (18)بیر!‘‘ یہ سن کر اس کی بیوی گھبرائی اور رو رو کر کہنے لگی ’’ ماتا کو کیوں کوسے ہے؟ اس نے تیرا کیا لیا ہے؟ اپنے بھاگ کو دیکھ، جو ہونا تھا سو ہوا، کرم کا لکھا کیا مٹے ہے؟‘‘ دونوں کے رونے کی آواز سن کر ان کے رشتہ دار اورگاؤں کے بہت سے آدمی آئے اور انہیں بہت تسلی دی۔ پھر کھجور کے دو پنکھے اور ایک سفید کپڑا(19) اور تھوڑی سی ستلی منگا کر لڑکے کو پنکھوں میں لپیٹا اور کپڑے کو اس کے اوپر ڈال کر اور ستلی سے باندھ کر مرگھٹ کی طرف لے گئے، پیچھے سے عورتیں روتی پیٹتی نکلیں۔ سجان سنگھ کی بیوی کا غم کے مارے یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں، ہر وقت یہی کلام اس کی زبان سے نکلتا تھا ’’ ارے میرے لال! تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلا گیا؟ تیرا پالنا سونا پڑا ہے، تیرے کھلونوں سے کون کھیلے گا؟‘‘ لڑکا سیتلا سے مرا تھا اور اس کا مونڈن بھی نہیں ہوا تھا، اس واسطے اسے پھونکا نہیں، مرگھٹ میں جا کر دفن کر دیا۔ اتنے میں عورتیں کسی کوئیں پر نہا دھو کر گھر میں آئیں اور مردوں کے آتے ہی اور زیادہ رونا پیٹنا ہونے لگا، دن بھر کسی نے دانہ منہ پر نہ رکھا، شام کو گاؤں کے دو چار بڑے بوڑھے آئے اور سجان سنگھ کو سمجھانے لگے ’’ جو اس جگ میں آیا ہے ، کوئی بچا نہیں۔ بھائی سجان سنگھ! سنتوس رکھ، بھگوان تیرے بڑے بیٹے کو جیتا رکھے، وہ پھولے پھلے۔ نہ کھانے سے کیا ہوئے ہے؟‘‘ ان میں سے ایک من سکھی کی طرف منہ پھیر کر کہنے لگا ’’ اری چھوری! اٹھ آگ بال کر روٹی پولے۔‘‘ تین دن تک اس لڑکے کا ماتم رہا، پھر رفتہ رفتہ ماں باپ کا کچھ فکر دور ہوا۔ جب کئی مہینے گزر گئے اور جاڑے کا موسم شروع ہوتے ہی گنگا اشنان کے دن قریب آ گئے تو سجان سنگھ کی بیوی نے کہا ’’ موہن کی عمر پانچ برس کی ہو گئی ہے، اس کے بال اتروانے ضرور ہیں، پھر جانے کب اوسر ملے! گنگا جی کی مہر سے اب تو دس بیس روپے بھی پاس ہیں، آؤ چلو، گنگا جی ہو آویں۔‘‘ سجان سنگھ نے کہا’’ میرے من میں بھی یہی بات تھی۔‘‘ پھر گھر سے باہر آ کر اس کا ذکر گیان چند مشر سے کیا۔ وہ بولا ’’ چودھری جی یہ تو خوب بچاری، کیا بات ہے گنگا جی کے میلے کی! جس کے بڑے بھاگ ہوں اس کو گنگا جی درشن دے ہیں۔ ہم کو بھی اپنے ساتھ لے چلنا، تمہارے طفیل ہم بھی اشنان کر لیں گے۔‘‘ سجان سنگھ نے کہا ’’ دادا ہمارے سر آنکھوں پر، پہلے تو پیچھے ہم۔‘‘ س گفتگو کے تین چار روز بعد گاؤں کے لوگ گنگا جانے کی تیاری کرنے لگے، انہوں نے بھی اپنا سامان کیا۔ نمبردار نے اپنے دونوں چھکڑے درست کیے اور چالا دیکھ کر سب اسباب ایک چھکڑے میں لادا اور دوسرا چھکڑا عورتوں کی سواری کے لیے رکھا۔ جب سارے گاؤں کے لوگ جنہیں گنگا جانا تھا، تیار ہو گئے اور اپنے اپنے چھکڑوں کو لے کر گاؤں کے باہر کھڑے ہوئے، تو ان کی عورتیں جمع ہو کر یہ راگ گاتی ہوئی گاؤں کے دروازے پر آئیں: راگ ترجمہ اور مطلب رام! (20) جمنا ارے گنگا پرے اور بیچ بہے دریاؤ۔ رادھا پیاری ہے! لینا جھکولے ٹھنڈے نیر کے اے رام! ادھر ادھر جمنا اور گنگا دو دیویاں بطور محافظ کے کھڑے ہیں اور بیچ میں پانی بہتا ہے۔ اے پیاری رادھا! ٹھنڈے پانی کے غوطے لگاؤ پہلا جھکولا میرے رام کا جن یہ سرشٹ اپائے۔ رادھا پیاری ہے! الخ ۔ (21) پہلا غوطہ میرے رام کا جس نے اس جہاں کو پیدا کیا۔ اے پیاری رادھا ۔ الخ دوجا جھکولا میرے باپ کا جن منڈھا چھوایا۔ رادھا پیاری ہے!ا لخ دوسرا غوطہ میرے باپ کا جس نے منڈھا چھوا کر مجھے بیاہ دیا۔ اے پیاری رادھا! الخ تیجا جھکولا میری ماں کا جو بوجھ مری دس ماس۔ رادھا پیاری ہے! الخ تیسرا غوطہ میری ماں کا جس نے نو مہینے مجھے اپنے پیٹ میں رکھ کر تکلیف اٹھائی۔ اے پیاری رادھا! الخ چوتھا جھکولا میرے بیر کا۔ ہم اپجے ہیں ایک اودرما ہیں۔ رادھا پیاری ہے! الخ چوتھا غوطہ میرے بھائی کا جو اسی پیٹ میں سے پیدا ہوا ہے جس میں سے میں پیدا ہوئی ہوں۔ اے پیاری رادھا! الخ پانچواں جھکولا میرے سسر کا جن بیاہی دو دل جوڑ۔ رادھا پیاری ہے ! الخ پانچواں غوطہ میرے سسرے کا جس نے دونوں سمدھیانوں کے لوگ جمع کر کے میرا بیاہ کر دیا۔ اے پیاری رادھا!الخ چھٹا جھکولا میری ساس کا جن سونپ دیا گھر بار۔ رادھا پیاری ہے! الخ چھٹا غوطہ میری ساس کا جس نے مجھے اپنا گھر بار حوالے کر دیا۔ اے پیاری رادھا! الخ ساتواں جھکولا میرے جیٹھ کا جن بانٹ لیا گھر بار۔ رادھا پیاری ہے! الخ ساتواں غوطہ میرے خاوند کے بڑے بھائی کا جس نے میرے گھر بار کا حصہ بانٹ لیا۔ اے پیاری رادھا! الخ آٹھواں جھکولا میری بہن کا جن گود کھلائی۔ رادھا پیاری ہے! الخ آٹھواں غوطہ میری بہن کا جس نے مجھے اپنی گود میں کھلایا۔ اے پیاری رادھا! الخ نواں جھکولا میرے پرکھ کا جو لایا تھا سر دھر موڑ۔ رادھا پیاری ہے! الخ نواں غوطہ میرے خاوند کا جو سر پر شادی کا تاج رکھ کر مجھ کو بیاہ لایا تھا۔ اے پیاری رادھا! الخ من سکھی بھی اس راگ کے گانے میں شریک تھی مگر اس کی آواز میں کچھ خوشی نہیں پائی جاتی تھی اور جب نویں جھکولے میں پرکھ کا نام آیا تو یکایک اس کے آنسو نکل پڑے۔ تھوڑی دور تک سب عورتیں پیادہ پا چلیں، پھر اپنی اپنی گاڑیوں اور چھکڑوں پر ہو بیٹھیں۔ من سکھی بھی چھوٹے بھائی کو گود میں لے کر چھکڑے پر چڑھ گئی اور پاربتی بھی من سکھی کے پاس جا بیٹھی۔ اتنے میں سجان سنگھ سب سے آگے کے چھکڑے والے سے بولا’’ چھورے بیل ہانک دے۔‘‘ اس کے ہانکتے ہی سب کے سب بول اٹھے ’’ گنگا مائی کی جے!‘‘ دس دس قدم کے فاصلے پر یہی آواز لگاتے جاتے تھے۔ جب اپنے گاؤں سے تین چار کوس کے فاصلے پر نکل گئے تو اور گاؤں کے چھکڑے بھی ان چھکڑوں سے آ ملے۔ پھر تو چھکڑوں کی ایسی قطار بندھی کہ جہاں تک نظر کام کرتی تھی، چھکڑا ہی چھکڑا دکھائی دیتا تھا۔ ان چھکڑوں کے ساتھ بہت سے لوگ پا پیادہ بھی ہاتھ میں لاٹھی لیے پیٹھ پر گٹھڑی لادے چلے جاتے تھے اور کچھ گھوڑیوں پر سوار تھے۔ دو گھڑی دن رہے پڑاؤ پر پہنچتے ہی بیلوں کو کھول کر ان کے آگے نیار ڈال دیا، پھر سب اپنا اپنا کھانا یعنی باجرے کی روٹی، چورما اور اسی قسم کی چیزیں جو ان کے پاس تھیں، نکال بیٹھے اور کھا کر خوب سیر ہو گئے۔ رات کو بعض آدمی چھکڑوں کے نیچے لیٹ گئے اور پڑتے ہی سو گئے اور بعض دیر تک بھجن گاتے رہے۔ عورتیں بھی سب مل کر گیت گاتی رہیں، من سکھی اور پاربتی بھی گانے میں شریک تھیں مگر موہن ہر گھڑی ان کے بیچ میں آ بیٹھتا اور غل مچانے لگتا۔ من سکھی نے پاربتی سے کہا ’’ جی جی! پہلے میں اپنے بھائی کو سلا آؤں! پھر آ کے گاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر موہن کو گود میں لے گئی اور چھکڑے میں لٹا دیا مگر وہ اٹھ کر ضد کرنے لگا اور بولا ’’ میں سو رہوں گا، تو تو پھر وہیں چلی جائے گی۔‘‘ من سکھی نے کہا’’ نہیں بیرن! لے میں ایک پہیلی کہوں، بتا دے گا؟‘‘ موہن نے کہا’’ کہہ‘‘ من سکھی بولی ’’ کھیت میں اپجے سب کوئی کھائے، گھر میں ہوئے تو گھر بہ جائے۔‘‘ موہن نے جواب دیا ’’ بھلی پہیلی کہی، یہ تو پھوٹ ہے پھوٹ۔‘‘ پھر من سکھی نے کہا’’ اچھا! یہ بتا ہری تھی من بھری تھی سوا لاکھ موتی جڑی تھی، راجا جی کے باغ میں دو شالہ اوڑھے کھڑی تھی۔‘‘ موہن نے کہا’’ جی جی! یہ تو نہیں بتائی جائے تو ہی بتا دے۔‘‘ وہ بولی کہ ’’ ہارا جھک مارا کوئیں کا پنہارا‘‘ موہن نے کہا’’ یہ تو نہیں کہوں۔‘‘ من سکھی نے کہا’’ اچھا تو بتا ہی دوں، کوکڑی ہے۔‘‘ اس کے بعد من سکھی نے اور بہت سی پہیلیاں کہیں، پھر موہن نے کہا’’ جی جی! اب تو کوئی کہانی کہہ۔‘‘ من سکھی نے اس کے آگے ایک کہانی کہنی شروع کی، اتنے میں موہن کی آنکھ لگ گئی اور من سکھی اٹھ کر پاربتی کے پاس جا کر گانے میں شریک ہو گئی۔ جب چار گھڑی رات باقی رہی سب کے سب اپنی اپنی گاڑیوں اور چھکڑوں پر بیٹھ گئے اور گنگا جی کی جے پکار کر آگے آگے چلے۔ اسی طرح منزل منزل طے کرتے ہوئے دہلی تک پہنچے اور شہر پناہ کے باہر پہاڑ گنج کے پڑاؤ پر اترے۔ گیان چند نے چھکڑے سے اترتے ہی سجان سنگھ سے کہا ’’ اس اندر پرست میں ایک ستھان بڑا سریشٹ ہے۔ مادھو داس کی باغیچی(22) اس کا نام ہے، وہاں سدا کتھا بارتا ہوتی رہتی ہے، بڑے بڑے مہاتما وہاں آ کر ٹھہرتے ہیں۔ آؤ چلو، پہلے اس کے درشن کر آئیں۔‘‘ شام کے وقت دونوں کے دونوں مادھو داس کے باغیچے کی طرف گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک چار دیواری بنی ہوئی ہے۔ اس کے باہر کی طرف بہت سے دیوتاؤں اور جانوروں کی تصویریں کھچی ہوئی ہیں، اندر کی طرف دیواروں سے لگے ہوئے مندر بنے ہوئے ہیں اور ہر ایک مندر کے آگے دالان ہے، باغیچے کے بیچ میں ایک طرف بارہ دری اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا حوض ہے، اس حوض میں فوارے چھوٹ رہے ہیں اور صحن میں ایک دو پیپل اور تلسی اور امرود کے کئی درخت لگے ہوئے ہیں۔ پہلے گیان چند مشر سجان سنگھ کو سب سے بڑے مندر میں لے گیا۔ وہاں دروازے کے سامنے کئی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں اور ان میں سب سے اونچی سیڑھی پر رام چندر جی اور ان کے بھائی لچھمن جی اور استری سیتا جی کی مورتیں جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں، اچھے اچھے کپڑے اور گہنا پہنے ہوئے رکھی تھیں، دوسری سیڑھی پر کرشن جی کے بچپن کی کئی پیتل کی مورتیں دھری تھیں اور تیسری پر کچھ کالے پتھر جو کسی دریا میں سے نکلتے ہیں اور جن کو شن جی کا اوتار جان کر سالگ رام کہتے ہیں ، رکھے تھے۔د ائیں ہاتھ کی طرف ایک کوٹھڑی میں مہادیو جی کی چومکھی پر تما دھری تھی۔ وہاں کے درشن کر کے گیان چند نے سجان سنگھ کو سب مندروں کے درشن کرائے، ایک میں بلدیو جی اور ان کی استری ریوتی جی کی مورت تھی، دوسرے میں گنگا جی کی تیسرے میں کرشن جی اور رادھکا جی کی، چوتھے میں لچھمی نرائن جی کی جو وشن جی کے اوتار ہیں، پانچویں میں وشن جی کے اوتار بدری ناتھ جی کی، چھٹے میں مہادیو جی کے اوتار کدار ناتھ جی کی، ساتویں میں ہنومان جی کی۔ ان بڑی بڑی مورتوں کے سوا ہر ایک مندر میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مورتیں بھی تھیں اور کہیں کہیں تصویریں بھی لگی ہوئی تھیں اور بعض مندر شیشیوں سے جگمگا رہے تھے۔ جب سجان سنگھ کدار ناتھ جی کے مندر میں گیا تو اس نے گیا چند مشر سے پوچھا ’’ دادا! یہ موت کس کی ہے؟ ہم نے کسی آور مندر میں آج تک نہیں دیکھی۔‘‘ گیان چند نے کہا’’ بھائی سجان سنگھ اس موت کی بڑی کتھا ہے۔ ارجن کے بھائی راجہ بھیم نے جو بڑے بلوان تھے جب دیکھا کہ اس سنسار میں اس سے کوئی لڑنے والا نہیں رہا تو اس کے بازو کھجلانے لگے اور اس نے اپنے دل میں بچارا کہ میں مہادیو کی پوجا کروں تو وہ ضرور مجھ سے آ کر لڑیں گے۔ جب مہادیو جی مہاراج اس سے پرسن ہوئے تو بھینسے کا روپ دھار کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ بھیم نے چاہا کہ ان سے لڑے، وہ بھاگ نکلے۔ بھیم نے ان کا پیچھا گیا، مہادیو جی زمین میں گھس گئے۔ یہ دیکھ کر بھیم نے ان کی پونچھ خوب زور سے پکڑ لی اور کہا مہاراجً بھاگ کر کہاں جاؤ ہو؟ اب تو میں نہ جانے دوں گا۔ سو پونچھ اور پچھلا دھڑ تو بھیم کے ہاتھ میں رہ گیا اور منہ نیپال کے پہاڑ میں جا نکلا۔ اب منہ کی پوجا نیپال میں ہوتی ہے اور پونچھ پچھلے دھڑ کی کدار ناتھ جی میں۔ سو یہ کدار ناتھ جی کی مورت ہے۔‘‘ سجان سنگھ نے یہ بات سن کر کہا ’’ مہاراج دیو جی بڑے بھولے ہیں۔ دیکھو بھگت کے کارن کیا روپ دھارا ہے!‘‘ جب سب مندروں کے درشن کر چکے تو پھر رام چندر جی کے مندر کے پاس آئے وہاں پجاری نے مندر کے آگے پردہ ڈال رکھا تھا اور باہر گھنٹے، گھڑیال، سنکھ بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد پردہ اٹھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ پجاری کئی بتیوں کا پیتل کا چراغ جسے آرتی کہتے ہیں، ہاتھ میں لیے ہوئے مورتوں کے گردپھرا رہا ہے اور آہستہ آہستہ زبان سے کچھ کہہ رہا ہے اور دو آدمی مندر کے دروازے پر کھڑے ہوئے ٹھاکروں پر چنور ہلا رہے ہیں۔ جب پجاری کئی دفعہ اس چراغ کو سر سے پاؤں تک پھرا چکا تو اس نے زمین پر رکھ دیا اور ایک آدمی فوراً اٹھا کہ ہنومان جی کے مندر میں لے گیا اور پہلے انہیں آرتی دلوائی کیوں کہ وہ رام چندر جی کے بڑے بھگت ہیں۔ پجاری نے اس عرصے میں جتنے آدمی وہاں کھڑے تھے، سب کے اوپر پانی چھڑکا اور پھر وہی آدمی جو ہنومان جی کے مندر میں آرتی لے گیا تھا، باہر نکلا اورسب نے اس آرتی پر اپنے اپنے ہاتھ لے جا کر منہ پر ملے (کیوں کہ ہندو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس عمل سے ہمارے سب پاپ دور ہو جاتے ہیں اور عقل کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔) سجان سنگھ اور گیان چند نے بھی آرتی لی اور تھوڑی دیر تک وہیں کھڑے رہے۔ اس میں ایک فقیر جو بھبوت رمائے، مونجھ کی تاگڑی باندھے، سر پر جٹا چھوڑے کھڑا تھا، ایک آرتی(23) گانے لگا جس کی اتنی عبارت سجان سنگھ کو بھی یاد رہ گئی۔ آرتی ترجمہ اور مطلب جے جانکی ناتھا! تم رگھنا تھ ہمارے مات پتا بھرات مات پتا بھرا تاتم ہو سجن سنگاتی، بھگت مکت داتا۔ جے دیو جے دیو یعنی اے رام چندر جانکی کے خاوند اور خاندان رگھو کے سردار! تم ہمارے ماں باپ، بھائی دوست اور رفیق ہو اور عبادت کرنے والے کو نجات دیتے ہو۔ تمہاری فتح ہو! فقیر آرتی گانے کے بعد پیٹ کے بل لیٹ گیا اور دونوں ہاتھ پھیلا کر ڈنڈوت کی۔ سجان سنگھ نے دو پیسے اس مندر پر چڑھائے اور پجاری نے تبرک کے طور پر کچھ شیرینی اسے دی۔ پھر گیان چند اور سجان سنگھ تو اپنے پڑاؤ پر آ گئے اور سارے پجاری دیوتاؤں کے سونے کے لیے سیجیں بچھا مندروں کے دروازے بند کر اپنی اپنی جگہ جا سوئے۔ سجان سنگھ اور گیان چند جس وقت پڑاؤ پر پہنچے، انہوں نے مندروں اور دیوتاؤں کا سارا حال عورتوں کے سامنے بیان کیا۔ عورتوں نے کہا ہم بھی تڑکے چلیں گے، رستہ بھی ادھر ہی کو ہے۔ تم آگے چھکڑوں کو چلنے دینا، ہم درشن کر کے پیچھے سے پل کے پار آ ملیں گے۔ رات بھر پڑاؤ میں رہے، صبح کو توپ چلتے ہی سب چھکڑے روانہ ہوئے۔ سجان سنگھ تو اپنے دونوں چھکڑوں کو لے کر پل کے پار اتر گیا اور گیان چند اپنی بیوی اور چندر کور اور پاربتی اور من سکھی کو جمنا کے اشنان کرا کر پھر مادھو داس کی باغیچی میں لے آیا اور سب کو ہر ایک مندر کے درشن کرائے۔ اتفاق سے اس روز ہفتہ تھا، اس لیے انہوں نے شہر کی بہت عورتوں کو پیپل کے درختوں کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا۔ من سکھی نے پاربتی سے پوچھا جی جی ! یہ لگائیاں پیپل کیوں پوجیں ہیں؟ اس نے کہا ’’ میں نے باپو کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: کوئی دھن کے لیے پوجے ہے، کوئی اولاد کے لیے اور کوئی کسی کے لیے اور پیپل ہری کا سروپ ہے، سنیچر کے دن اس میں لچھمی رہتی ہے اور اتوار کے دن الچھمی اور اسی کارن اتوار کو اس کے نیچے بھی نہیں نکلیں ہیں اور کسی کسی پیپل میں بھوت پریت بھی رہا کریں ہیں۔‘‘ یہ سن کر من سکھی بولی ’’ جی جی! کہے تو میں بھی پیپل کی پوجا کروں؟‘‘ پاربتی نے کہا۔ ’’ تیرا لوگ (24) پردیس گیا ہے، تجھے تو پیپل سیوتا سیچنا بہت سپھل ہو گا۔‘‘ من سکھی نے کہا ’’ لے تو جی جی! اب تو جا کے تھوڑا سا دودھ لا دے، میں کوئیں پر سے پانی لاؤں ہوں۔‘‘ جب دودھ اور پانی آ گیا تو من سکھی نے دونوں کو ملا کر اس میں پھول، بتاشے اور رولی ڈالی، پھر اسے پیپل پر چڑھا کر اس کے آگے گھی کا چراغ روشن کر دیا اور آپ ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی ’’ ہے پیپل دیوتا! جو میرا مالک آ جائے تو میں تجھے ہر سنیچر دھاؤں گی۔‘‘ پھر من سکھی نے تلسی کی پوجا کی اور اس سے بھی وہی درخواست کی جو پیپل سے کی تھی۔ اس کے بعد اور لوگوں کے ساتھ مل کر باقی مندروں کے درشن کرنے چلی۔ پہلے سب نے ہر ایک مندر میں جا کر ٹھاکروں کے آگے سر جھکایا اور پر کما (25) کر کے ان کے آگے ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوئے پھر ٹھاکروں پر پھول چڑھائے اور پجاری کے آگے کچھ تھوڑا تھوڑا سا اناج رکھ دیا۔ اس نے انہیں ایک آب خورے میں سے تھوڑا تھوڑا سا پانی جسے چرنا مرت کہتے ہیں اور تلسی کا ایک ایک پتا دے دیا۔ انہوں نے لے کر پہلے اسے آنکھوں سے لگایا، پھر پی لیا۔ اس کے بعد ایک مندر میں جو درشن کرنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مندر کے آگے دالان میں ایک لکڑی کے تخت پر کوئی برہمن پیتامبری دھوتی اور ریشمی کپڑے پہنے ہوئے کتھا بانچ رہا ہے اور جتنی عورتیں یا مرد وہاں آتے ہیں، سب کے سب ٹھاکر کے درشن کر کے اس برہمن کی پوتھی پر چندن چڑھاتے ہیں، پھر اس کے ماتھے پر ٹیکا لگا کر بعض تو وہیں بیٹھ جاتے ہیں اور بعض پوجا کر کے چلے جاتے ہیں۔ گیان چند مشر اور سب عورتیں یہ تماشا دیکھ کر جلدی جلدی قدم بڑھائے ہوئے پل کے پار پہنچیں اور چھکڑوں میں بیٹھ کر انہیں ہانک دیا۔ رستے میں سجان سنگھ نے گیان چند سے پوچھا ’’دادا! اس مندر کا خرچ کیوں کر چلتا ہے؟ کیا بڑے بابا جی کے دو چار گاؤں ہیں یا کہیں سے روزینہ بندھ رہا ہے؟‘‘ گیان چند نے جواب دیا ’’ چودھری! نہ تو مہنت کے پاس کچھ گاؤں ہیں اور نہ کہیں سے روزینہ بندھ رہا ہے اس شہر میں جتنے مہاجن اور بڑے بڑے ساہوکار ہیں، وہ کبھی کبھی ان سب سادھوؤں کو بلا کر اپنے ہاں بھوجن کرا دیتے ہیں، پر وہ مہاجن یہاں درشن کرنے کم آویں ہیں۔ جب کوئی بڑا پرب یا کسی بڑے پنڈت کی کتھا ہووے ہے تو وہ یہاں آپ آ جائیں ہیں اور درشن کر کے کچھ نقدی چڑھا جائیں ہیں۔ کبھی یہاں کا مہنت بھی راجواڑوں میں چلا جائے ہے، وہاں کے لوگ اس کو بہت سا روپیہ دیں ہیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں، یہاں کا ایک مہنت مر گیا تھا جب دوسرا مہنت اس کی گدی پر بیٹھا تو شہر کے سارے مہاجن اور پنڈت جمع ہوئے اور سب نے مل کر پانچ سو روپے اور چودہ یا پندرہ دو شالے اس کو دئیے۔ سجان سنگھ اور گیان چند اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے چلے گئے۔ چوتھے روز گڑھ مکتیسر پہنچے اور جب گنگا جی دو کوس رہ گئیں تو سب کے سب گاڑیوں سے اتر کر پیادہ پا ہو گئے اور عورتیں گنگا جی کے گیت گاتی ہوئی چلیں۔ دو گھڑی دن رہے دھارا کے قریب جا پہنچے اور وہاں ایک پھوس کا بنگلا کرایے کو لے کر اتر پڑے اور اسی وقت چھکڑوں کو بنگلے کے باہر کھڑا کر اور بنگلے میں اپنے نوکر کو چھوڑ، گنگا جی میں جا کودے اور ’’ جے گنگا مائی کی‘‘ کہہ کر خوب غوطے لگائے۔ پھر گھاٹ والے کو کچھ پیسے دے کر اپنے بنگلے میں چلے آئے اور گیان چند کے سوا جسے اس روز اکاؤشی کا برت تھا، سب نے معمولی کھانا کھایا، مگر اس کے واسطے بازار سے دہی اور پیڑے منگائے گئے۔ جب سب کے سب کھانا کھا چکے اور رات ہو گئی تو عورتوں نے اپنا اپنا زیور اتارا، لوٹوں اور برتنوں میں بھر دیا اور برتنوں کو ریت میں داب کر اور اس پر اپنا بچھونا کر کر سو رہیں۔ گیان چند اور سجان سنگھ نے اپنا بستر باہر کیا۔ دوسرے روز صبح ہوتے ہی نوکر کو بنگلے میں چھوڑ کر گنگا جی پر گئے اور کسی گھاٹ پر جا کر سب نے کپڑے اتارے اور دھوتیاں باندھ کر گنگا جی کے کنارے پر ہو بیٹھے۔ اتنے میں ایک برہمن جس کے خاندان میں ان کے گاؤں کی پروہتائی چلی آتی تھی، آ پہنچا۔ سجان سنگھ نے اسے دیکھ کر کہا ’’ آؤ مہاراج! ہم تو کل سے تم کو ڈھونڈھ رہے ہیں ۔‘‘ پروہت بولا ’’ ججمان! میں تو کئی دن سے تم کو دیکھ جاتا تھا، پر آج پتہ ملا ہے۔‘‘ پھر سجان سنگھ نے اس سے کہا’’ لو تم آ تو گئے ہی ہو سنکلپ (26) کرا دو۔‘‘ جب سجان سنگھ نے پانی اور پیسا ہاتھ میں رکھ لیا تو پروہت نے ’’ وشن وشن‘‘ کہہ کر سنکلپ کی عبارت پڑھی (جس کے معنی یہ ہیں ) ’’ آریہ ورت میں برہما ورت اور برہما ورت میں یہ بڑا تیرتھ ہے، یہاں آ کر میں اشنان کرنے کی نیت باندھتا ہوں، میرا یہاں اشنان کرنا فائدہ مند ہو۔‘‘ اس طرح پروہت نے سنکلپ کرایا اور ان کے پیسے بھی آپ لے لی۔ جب سنکلپ کر چکے تو سب کے سب گنگا جی میں کودپڑے اور پہلے ہر ایک نے اپنا اپنا غوطہ لگایا، پھر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے نام لے لے کر غوطے لگائے۔ من سکھی نے بھی دل میں اپنے خاوند کا دھیان کر کے غوطہ لگایا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی ’’ ہے گنگا مائی! جو میرا دھنی آ جاوے تو میں سوا من دودھ کی دھار چڑھاؤں۔‘‘ جب سب نہا دھو چکے تو گھاٹ کے برہمن نے ان کے روبرو صندل کی سیپیاں رکھ دیں۔ مردوں نے تلک اور عورتوں نے بندیاں لگا کر برہمن کو پیشے دئیے، پھر سب اپنے بنگلے کو چلے آئے اور وہاں آ کر اپنے نوکر سے کہا ’’ جا رے! تو بھی اشنان کر آ۔‘‘ اس کے بعد سجان سنگھ نے گیان چند سے کہا’’ دادا!(27) روٹی کھائے ہوئے بہت دن ہوئے ہیں۔ جو تو آج روٹی کر لے تو بڑی چوکھی بات ہے۔‘‘ گیان چند نے کہا’’ ہمارا جی بھی روٹی ہی کو چاہے ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے بنگلے کے آگے ریت کا ایک بڑا چبوترہ بنایا اور چاروں طرف منڈیر باندھ کر اس پر گنگا جل چھڑک دیا۔ پھر چبوترے پر لوہے کا چولہا رکھ کر اس میں آگ سلگائی اور ایک بڑی ہانڈی میں ڈال ڈال کر اسے چولہے پر رکھ دیا۔ جب دال پک کر تیار ہوئی تو ہانڈی کو چولہے سے اتار لیا اور توا رکھ کر موٹی موٹی روٹیاں پکانے لگا۔ اس کے بعد گیان چند نے ایک تھالی میں دال اور روٹی رکھ کر بھوک لگایا اور اس میں سے تھوڑی سی دال اور ایک روٹی گنگا جی میں ڈلوا دی، پھر سجان سنگھ سے کہا ’’ لے چودھری! آ روٹی کھا لے۔‘‘ سجان سنگھ موہن کو لے کر اس چبوترے کے نیچے ایک طرف جا بیٹھا، گیان چند نے دور سے اسے کٹورا بھر دال اور پانچ روٹیاں دے دیں اور بھوک کی تھالی کو اپنے آگے سرکا کر کھانا شروع کیا۔ جب یہ تینوں کھا چکے تو گیان چند نے اپنی بیوی سے کہا ’’ لے اب تو چوکے میں آ جا اور سب عورتوںکو روٹی پروس دے۔‘‘ یہ سن کر وہ فوراً چوکے میں چلی گئی، چندر کور، منس کھی اور پاربتی چوکے کے باہر بیٹھیں او رپاربتی نے اپنے اور باقی دونوں عورتوں کے بیچ میں ایک لکیر کھینچ لی تاکہ وہ اس لکیر کے ادھر ادھر رہیں اور کھاتے وقت آپ میں چھوئی نہ جائیں کیونکہ ہندوؤں کے اعتقاد میں ایسے عملوں سے کھانا خراب ہو جاتا ہے۔ جب سب عورتیں بھی کھانا کھا چکیں تو گیان چند کی بیوی نے نوکر کو بلا کر کہا ’’ جا رے! تو بھی روٹی کھا لے اور جب کھا چکے تو برتن مانج کر چوکا لگادیجو‘‘ اتنے میں گیان چند اور سجان سنگھ میلے میں چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد عورتیں بھی بنگلے کو نوکر کے حوالے کر کے سیر دیکھنے کو نکلیں۔ گیان چند اور سجان سنگھ کو بنگلے سے نکلتے ہی ان کے گاؤں کے کئی آدمی مل گئے، وہ انہیں ایک بازار میں جہاں دہلی والوں کی دکانیں کثرت سے تھیں لے گئے، وہاں جا کر ایک طرف جو نظر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ کئی دکانوں میں رنگ برنگ کی کلابتونی ٹوپیاں رکھی ہیں اور کہیں چھلے، انگوٹھیاں، آئینے اور ہر قسم کے شیشے دھرے ہیں۔ دوسری طرف حلوائیوں کا جمگٹھا لگا ہوا ہے۔ تھال کے تھال طرح طرح کی شیرینی سے چنے ہوئے ہیں ۔ کسی طرف کنجڑے قسم قسم کی ترکاریاں اور میوے لیے ہوئے یہ آوازیں لگا رہے ہیں مزہ انگور کا ہے رنگترے میں، گنڈیریاں ہیں پونڈے کی گلاب میں بسی ہوئیں۔ کئی جگہ لکڑی کے کھلونے ، ڈھال، تلوار اور آور بہت سی چیزیں رکھی ہیں۔ کہیں کچھ آدمی کپڑا بچھائے ہوئے طرح طرح کی چنریاں اور پوتھوں کے ہار لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس بازار میں سے سجان سنگھ اور گیان چند نے من سکھی اور پاربتی کے لیے ایک ایک چنری اور موہن کے لیے کچھ کھلونے اور دو ٹوپیاں اور تین چار پوتھوں کے ہار خریدے۔ یہ دونوں بازار میں پڑے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے عورتیں بھی آ نکلیں۔ گیان چند نے من سکھی اور پاربتی کو دیکھ کر کہا اری! ہم نے تمہارے لیے چنریاں لی ہیں۔ پاربتی دور سے ایک ہنڈولے کو دیکھتی ہوئی چلی آتی تھی اور وہیں اس کی نگاہ لڑی ہوئی تھی جس وقت اس کے باپ نے چنری کا ذکر کیا، وہ بولی ’’ بابا! ہم تو اس ہنڈولے میں جھولیں گے۔‘‘ اس نے کہا ’’ اچھا یسا پیساہنڈولے والے کو دے کر بیٹھ جاؤ۔‘‘ پاربتی نے من سکھی سے کہا’’ چل جی جی! تو بھی چل‘‘ اس نے آہ سرد بھر کر جواب دیا ’’ جا تو ہی جا، بھلا میرا جی جھولنے کو کہاں چاہے ہے۔‘‘ مگر پاربتی اسے سمجھا کر اپنے ساتھ لے گئی اور دونوں ہنڈولے میں جا بیٹھیں۔ جب ہنڈولے والے نے ہنڈولے کو چکر دیا اور وہ کھٹولا جس پر یہ لڑکیاں بیٹھی تھیں، اوپر کو لے گیا تو من سکھی نے چیخ مار کر پاربتی سے کہا ’’ ہے نپوتی! میں گری، مجھے پکڑیو۔‘‘ پاربتی یہ بات سن کر کھل کھلا پڑی اور کہنے لگی ’’ اری سنبھل کے بیٹھ، تیرا تو چت کہیں اور ہی ہے۔‘‘ دو چار ہی جھونٹے لیے ہوں گے کہ ہنڈولے والے نے انہیں اتار دیا اور وہ پھر اپنے ساتھ کے آدمیوں میں مل کر گھر کی طرف چلیں۔ اس میں پاربتی نے من سکھی سے کہا ’’ آتے تو چلے آئے، پر اب مجھے یہ سوچ کر کہ بنگلے میں کیوں کر پہنچیں گے، اس میلے میں پتا تو لگتا ہی نہیں اور ہمارے گھر جیسے یہاں سینکڑوں ہیں۔‘‘ گیان چند یہ بات سن کر بولا ’’ چھوریو! گھبراؤ مت، ہمارے ساتھ ہو لو، ہم اپنے بنگلے کا پتا جانیں ہیں، ہم نے اس پر اودی جھنڈی لگا رکھی ہے۔‘‘ کچھ عرصے کے بعد سب کے سب بنگلے پر پہنچ گئے اور اپنے اپنے بسترے پر پڑ کر سو رہے۔ گیان چند مشر تھوڑی دیر آرام لے کر کتھا سننے چلا گیا اور باقی آدمی کھانا کھانے لگے۔ جب کھانا کھا چکے اور سجان سنگھ حقہ بھر کر پینے لگا تو گیان چند مشر بھی کتھا سن کر آ گیا۔ سجان سنگھ نے اس سے پوچھا ’’ دادا! کچھ کھائے گا؟‘‘ اس نے کہا ’’ نہیں چودھری! میں کتھا سن کر اٹھا ہی تھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں لڈوؤں کی ٹوکری لیے ہوئے آیا اور پانچ پانچ چھ چھ لڈو کتھا سننے والوں میں سے ہر ایک ہاتھ پر رکھ دئیے اور پنڈت کو بیس پچیس لڈو دے کر چلا گیا۔ پنڈت جی نے پوچھا ’’ بھائی! یہ کیسے لڈو ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’ مہاراج آج میرا لڑکا بچھڑ گیا تھا، سو میں نے کہا تھا، ہے گنگا مائی! جو لڑکا پا جائے تو پانچ روپے کا پرشاد چڑھاؤں۔ سو مہاراج آج گنگا جی کی کرپا سے وہ لڑکا پا گیا۔ سجان سنگھ! اسی آدمی نے پانچ لڈو مجھے بھی دئیے اور میں نے جو انہیں کھایا تو پیٹ بھر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر گیان چند سجان سنگھ کے پاس بیٹھ گیا اور پہر بھر رات گئے تک گنگا جی کی بزرگی اور بڑائی کا ذکر کرتا رہا۔ اس کے بعد معمول کے موافق گہنا اور برتن ریت میں داب کر سب کے سب سو گئے۔ دوسرے روز صبح ہوتے ہی سجان سنگھ نے گیان چند سے کہا ’’ دادا! آج چھورے کے بال اتروانے ہیں۔‘‘ گیان چند بولا’’ اچھا آج اس کارج سے بھی نچنت ہو جاؤ۔‘‘ جب چار گھڑی دن چڑھا تو سجان سنگھ اپنے لڑکے کو گود میں لے کر گنگا جی کے کنارے پر گیا اور نائی کو بلا کر موہن کے سارے بال منڈوا ڈالے، پھر اس کے بدن کے کپڑے نائی کو دے دئیے اور نہلا دھلا، نئے کپڑے بدلوا، اسے زیور پہنایا اور برہمنوں اور نائی کو بہت سے پیسے دے کر ڈھول بجواتے ہوئے اپنے بنگلے کو چلے آئے۔ وہاں آ کر سب نے کھانا کھایا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو پھر میلے میں چلنے کی تیاری کی، موہن بھی ساتھ ہو گیا۔ گیان چند نے سجان سے کہا’’ بھائی! اس کو سونے کا زیور کیوں پہنا رکھا ہے؟ یہاں میلے میں چور چکار بہت ہیں۔‘‘ اتنے میں چندر کو ر بولی ’’ چھورے کی سگائی ہونے والی ہے، میلے میں دور دور کے لوگ آئے ہوئے ہیں جو سونے کا گہنا پہنے ہوئے دیکھیں گے تو جانیں گے، یہ چھورا اچھے گھر کا ہے۔ اسے رہنے دے، کیا جانے کس سے سمبندھ ہو جائے۔‘‘ اس گفتگو کے بعد سب کے سب میلے میں چلے گئے۔ گنگا جی کے کنارے کنارے سیر کرتے پھرتے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ بہت سے آدمی اپنے لڑکوں کو زرد کپڑے پہنا کر گود میں لیے ہوئے ڈھول بجواتے چلے آتے ہیں۔ جس وقت یہ لوگ گنگا جی کے کنارے پہنچے، ان کے پروہت فوراً پانی میں کود پڑے اور ان لوگوں نے اپنے اپنے لڑکوں کو بے دھڑک گنگا جی میں پھینک دیا اور برہمنوں نے اسی وقت انہیں نکال کر ان کے ماں باپوں کے حوالے کیا اور مقدور کے موافق ہر ایک سے کچھ لے لیا۔ سجان سنگھ نے گیان چند سے پوچھا ’’ دادایہ کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا’’ بھائی! جب کسی کے اولاد نہیں ہوتی یا ہو کر مر جائے ت ووہ کہتا ہے جواب کے میرے لڑکا ہو کر جیے گا تو میں گنگا مائی پر چڑھاؤں گا۔ سو یہ لوگ اپنے بیٹوں کو گنگا مائی پر چڑھانے آئے ہیں اور بھائی سجان سنگھ! یہ گنگا جی ایسی ہیں۔ جہاں سب آویں ہیں۔ دیکھو جب کسی عورت کا مالک مر جائے ہے تو جب تک وہ اپنے رنڈاپے کے کپڑے گنگا جی میں نہیں ڈالتی تب تک پوتر نہیں ہوتی۔ اب بھی بہت سی عورتیں اپنے کپڑے ڈالنے آئی ہیں اور جس آدمی کے ماں باپ مر جائیں وہ بھی گنگا اشنان کرنے آوے ہے اور یہاں آ کر بھدر ہووے ہے اور پنڈ دان کرے ہے اور بیٹی کا بیاہ کر کر بھی لوگ گنگا جی کے اشنان کرے ہیں۔‘‘ گیان چند یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ تین چار عورتیں روتی ہوئی گنگا جی کے کنارے پر آئیں اور ان میں سے ایک نے جس کا خاوند مر گیا تھا، بدن کے کپڑے گنگا جی میں ڈال دئیے اور نئے کپڑے پہن کر پھر روتی ہوئی چلی گئی۔ سجان سنگھ اور گیان چند دن بھر گنگا جی کے کنارے پر سیر کرتے پھرے، شام کو اپنے گھر آ گئے۔ دوسرے روز دوپہر کے وقت جب کھانا کھا چکے تو گیان چند بازار سے جا کر مٹی کی تین چار چھوٹی چھوٹی صراحیاں جنہیں ہندو لوگ بگیاں کہتے ہیں، لایا اور گھر لے جانے کے واسطے ان میں گنگا جل بھر کر ان کے دہانوں پر ایک ایک چپنی لاکھ سے جما دی اور کچھ الائچی دانے اور آور کئی چیزیں خریدیں تاکہ انہیں اپنے گاؤں میں لے جا کر تبرک کے طور پر تقسیم کرے۔ اس روز چودس کا دن تھا، اس واسطے یہ سب مل کر نگ کے کوئیں پر درشن کرنے گئے۔ رستے میں سجان سنگھ نے گیان چند سے پوچھا ’’ دادا! یہ کنواں کیسا ہے اور لوگ اس کے درشن کرنے کیوں جائیں ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’ چودھری اس کی کتھا شاستر میں یوں لکھی ہے کہ پہلے کسی زمانے میں ایک راجا تھا اس کا نام تھانگ۔ وہ ہر روز ایک سو ساٹھ گنوئیں پن کیا کرے تھا۔ ایک بیر ایسا ہوا کہ ایک گئو جو راجا پہلے پن کر چکا تھا ان گئوؤں میں آ کھڑی ہوئی جو وہ اس سمے پن کرنے کو تھا۔ راجا نے اس گئو کو بھی پن کر دیا۔ تھوڑے دن پیچھے وہ برہمن جس کو راجا نے پہلے گئو پن کر دی تھی، راجا کے پاس آیا اور کہا ’’ راجا ! ہماری گئو دلوا دے۔‘‘ راجا نے اس برہمن کو بلوایا جس کے پاس وہ گئو چلی گئی تھی اور کہا ’’ مہاراج! یہ گائے میں پہلے پن کر چکا تھا، تم اس کے پلٹے میں جو چاہو سو لے لو۔‘‘ مشر نے نہ مانا۔ راجا نے پہلے برہمن کو بہت سمجھایا، پر وہ یہی کہے گیا میں تو اپنی گئو لوں گا۔ اس میں راجا کو غصہ آ گیا۔ برہمن نے یہ دیکھ کر کہا کہ راجہ گرگٹ کے سے رنگ کیوں بدلے ہے؟ برہمن کا یہ کہنا تھا کہ راجا گرگٹ ہو گیا اور مدت تک اس کوئیں میں پڑا رہا۔ جب سری کرشن جی نے اوتار لیا تو ایک روز وہ گیند کھیلتے ہوئے آ نکلے اور ان کی گیند اس کوئیں میں گر پڑی۔ وہ اپنی گیند نکالنے کو اترے اور جوں ہی ان کا پیر اس گرگٹ کے بدن سے لگا، وہیں اس کا ادھار ہو گیا۔ اس لیے لوگ اس کوئیں کے درشن کریں ہیں اور اس کا پانی چرنا مرت کر کے پیویں ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے نگ کے کوئیں پر پہنچے وہاں لوگوں کی بہت بھیڑ بھاڑ تھی۔ انہوں نے بھی بڑی مشکل سے چرنا مرت لیا اور پھر اپنے بنگلے کو چلے گئے۔ دوسرے روز گیان چند بہت سویرے اٹھا اور ایک ایک کو پکار کر کہا آج نہان کا دن ہے، آج کے نہانے کا بڑا پن ہوئے ہے۔ اس کے کہتے ہی سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے اور گنگا جی کے گھاٹ پر گئے۔ وہاں ہزاروں آدمی نہا رہے تھے۔ انہوں نے گنگا اشنان کر کے اپنے گنگا پروہت اور آور کئی برہمنوں کو بھوجن کرا دیا اور پروہت کو آٹھ آنے اور باقی برہمنوں کو ایک ایک ٹکا دے کر رخصت کیا۔ پھر سب کے سب بازار کی سیر کو گئے اور اس دن کو میلے کا آخری روز سمجھ کر بہت مندروں کے درشن کیے اور جو کچھ خریدنا باقی رہ گیا تھا خرید لیا۔ جب سب کاموں سے فارغ ہو چکے تو گھر کا رستہ لیا۔ چلتے چلتے کیا دیکھتے ہیں۔ کہ بہت سے آدمی ا یک طرف چلے جاتے ہیں اور بعض یہ بھی کہتے جاتے ہیں ’’ ایک جوگی دیبی نکال رہا ہے آؤ چلو دیکھیں۔‘‘ انہوں نے بھی اس طرف کا قصد کیا۔ دیکھا تو ایک فقیر جٹا دھاری مونجھ کی تاگڑی باندھے ہاتھ جوڑے بیٹھا ہے اور اپنی زبان سے کچھ بڑبڑا رہا ہے۔ سینکڑوں آدمی اس کے گرد اس انتظار میں کھڑے ہیں کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے اور بعض آپس میں یہ بھی کہہ رہے ہیں فقیر اپنے بچن کا سچا معلوم ہوتا ہے، زمین تو کچھ ابھرتی چلی ہے۔ یہ گفتگو سن کر ایک شخص بولا ’’ سڑی ہوا ہے، کہیں دیبی بھی اس طرح نکلی ہے۔ یہ تو اس جوگی کا پاکھنڈ ہے۔ چلو جی یہ تو ایک دکنداری (28) ہے۔‘‘ ایک نے کہا ’’ ارے بے وقوف! کیوں جوگی کی نندا کرے ہے۔ جو دیبی نہیں نکلنے کی تو زمین کیوں ابھری ہوئی ہے اور جوگی نے اتنا اسباب، میوے کے تھال اور سنکھ گھڑیال، آرتی یوں ہی رکھ چھوڑی ہے؟ ہم نے کئی دفعہ سنا ہے کہ دیوی نے سپنا دیا ہے کہ میں اس جگہ سے نکلوں گی اور پھر وہیں سے نکلی ہے۔‘‘ سجان سنگھ یہ باتیں سن کر گیان چند سے پوچھنے لگا مہاراج یہ کیا ڈول ہے؟ اس بھیڑ میں سے ایک شخص بولا ’’ ارے گنوار!تجھے اب تک خبر نہیں۔ یہ کیا ہے؟ بھائی یہ فقیر جو تیرے سامنے بیٹھا ہے بڑا کراماتی ہے۔ اس کو یہاں آئے سات دن ہوئے ہیں۔ دیبی نے کہیں اس کو سپنا دیا تھا کہ تو نے بڑی تپسیا کی ہے، اب تو جا میں گڑھ مکتیسر کے نکٹ نہان کے دن پر گھٹ ہو کر تجھ کو درشن دوں گی۔ سو یہ فقیر اسی دن سے یہاں آیا ہوا ہے۔ رات دن دیبی کا جپ کرتا ہے اور سوائے دودھ کے آور کچھ نہیں کھاتا۔‘‘ سجان سنگھ نے بھی جو غور سے اس طرف دیکھا تو اسے بھی کچھ زمین ابھری ہوئی معلوم ہوئی اور اس نے گیان چند سے کہا ’’ دادا زمین! کچھ پھولی ہوئی تو ہے۔‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ ایک دفعہ ہی اس مقام پر سے زمین شق ہو گئی۔ فقیر نے اٹھ کر دیکھا اور دیکھتے ہی جوش میں آ کر پکار اٹھا۔ ’’ بول اٹل چھتر کی جے بول جے۔‘‘ پھر ایک برہمن سے جو پاس کھڑا تھا، کہا ’’ مہاراج!گھڑیال سنبھالو۔ اب مہارانی درشن دیں گی‘‘ اورخود میوے کے تھال اٹھا کر اس مقام کے پاس لے گیا اور چراغ روشن کر کے ہو بیٹھا۔ ایک برہمن اسی وقت دوڑا گیا اور گنگا جی میں سے تھوڑا سا پانی لایا کہ جوں ہی دیبی زمین سے نکلے فوراً اسے اشنان کرائے۔ سجان سنگھ نے غور کر کے فقیر کی طرف جو دیکھا تو حیران رہ گیا اور گیان چند سے کہنے لگا ہو نہ ہو یہ تو وہی بابا جی ہے جو ہمارے گھر آیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک کالے پتھر کی موت کا چہرہ گردن تک زمین سے باہر نکل آیا اور دفعتہ فقیر پکار اٹھا ’’ اٹل چھتر کی جے۔‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ سب آدمی یہی آواز لگا کر ڈنڈوت کرنے لگے۔ ایک برہمن گھڑیال لے کر کھڑا ہو گیا اور جوگی مورت کے چاروں طرف سے مٹی ہٹانے لگا۔ جتنی مٹی سرکاتا جاتا تھا، اتنی ہی پرتما کالے پتھر کی بنی ہوئی مٹی میں بھری ہوئی نظر آتی جاتی تھی۔ جوگی نے گنگا جل سے اسے اشنان کرایا اور مٹی سے صاف کر کے اس پر پھول اور ہار چڑھائے، میوے کے تھا ل بھوگ کے طور پر اس کے آگے رکھے اور تھوڑی دیر بعد یہ میوہ تبرک کے طور پر تقسیم کر دیا۔ پھر تو یہ نوبت ہوئی کہ ہزاروں آدمی درشن کرنے آئے اور اپنے اپنے مقدور کے موافق نقدی چڑھا گئے۔ روپوں، اٹھنیوں، چونیوں ، پیسوں، مٹھائی اور میوے کا وہاں ایک ڈھیر لگ گیا۔ سجان سنگھ اور گیان چند نے دیبی کے درشن کیے اور آگے بڑھ کر فقیر کی طرف گئے۔ سجان سنگھ نے جوگی سے کہا ’’ واہ مہاراج دھن ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس کے پاؤں پر گر پڑا۔ فقیر نے بھی سجان سنگھ کو پہچان لیا اور کہا ’’ کہو بچہ گنگا اشنان کرنے آیا ہو گا؟‘‘ سجان سنگھ بولا ’’ مہاراج! تمہارا غلام بڑی بپتا میں ہے، تمہارے کارن گھر اور گاؤں سب سے برا ہو گی۔ اب میرے سے آپ کی کیا رکھلائی ہے۔‘‘ فقیر نے کہا! ’’ بابا! بھگوان سب بھلی کرے گا۔ اب تو تو جا کل ہم تجھے درشن دیں گے۔‘‘ سجان سنگھ تو فقیر سے باتیں کر رہا تھا اور گیان چند دیبی کو دیکھ کر بت سا بنا کھڑا تھا۔ جب پرتما کے پیچھے اس کی نظر پڑی تو اس کی پیٹھ پر کچھ حرف کھدے ہوئے دکھائی دئیے اس نے ان حرفوں کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ پرتما بڑی ہی پرانی ہے اور پانڈوں کے وقت میں اس کا ستھا پن (29)ہوا تھا۔ اس نے سجان سنگھ اور سب آدمیوں سے جو وہاں کھڑے ہوئے تھے، اس بات کا ذکر کیا۔و ہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فقیر کو زیادہ ماننے لگے۔ پھر تو جوگی بھی ہر ایک درشن کرنے والے سے کہتا تھا ’’ بچہ یہ دیبی بڑی پراچین (30)ہے۔‘‘ ایک شخص جو درشن کرنے آیا اور فقیر نے اس سے دیبی کے پرانے ہونے کا ذکر کیا تو اس نے پوچھا ’’ مہاراج! یہ کیوں کر معلوم ہوا کہ دیبی بڑی پرانی ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ بچہ! ہمیں تو خبر نہیں، یہ پنڈت جو یہاں کھڑا ہے، اس نے پرتماکی پیٹھ پر کچھ پڑھا ہے اوروہ یہ کہتا ہے کہ اس موت کو راجہ یدھشڑ نے ستھا پن کیاتھا۔‘‘ اس کے تھوڑی دیر بعد گیان چند نے کہا ’’ لے چودھری! چل بنگلے میں سب ہماری باٹ دیکھتے ہوں گے۔‘‘ پھر دونوں وہاں سے چلے گئے اور رستے میں باتیں کرتے ہوئے بنگلے پر پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی سجان سنگھ فقیر کی تعریف کرنے لگا اوراپنی بیوی سے کہا’’ موہن کی ماں آج وہی بابا جی پھر یہاں ملے تھے۔‘‘ اور دیبی کے نکلنے کا بھی سارا حال اس کے روبرو بیان کیا اور کہا ’’ کل بابا جی مہاراج درشن دیں گے۔‘‘ چندر کور یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی مگر من سکھی نے جس وقت بابا جی کا نام سنا، اپنے دل میں ہزاروں گالیاں دیں اور پاربتی سے کہا ’’ پہلے تو یہ کچھ کر گیا، اب اس کا کھو جڑا جائے، جانے کیا کرے گا؟‘‘ تھوڑی دیر تک فقیر کا ذکر ہوتا رہا پھر سب نے کھانا کھایا اور چلنے کی تیار کرنے لگے۔ دوسرے روز نہا دھو کر جو کچھ اسباب چھکڑوں پر لادنا باقی رہ گیا تھا، لاد دیا اور کھچڑی کھا کر سب چھکڑوں کے ساتھ اپنے چھکڑے بھی ہانک دئیے۔ رستے میں سجان سنگھ چاروں طرف فقیر کو دیکھتا گیا۔ جب گڑھ مکتیسر سے تین چار کوس نکل گئے تو کیا دیکھتا ہے کہ بابا جی ایک درخت کے تلے بیٹھے ہیں۔ سجان سنگھ اسے دیکھتے ہی چھکڑے سے اتر کھڑا ہوا اور کہا ’’ مہاراج! میں تم ہی کو دیکھتا ہوا چلا آؤں تھا۔‘‘ فقیر نے کہا’’ ہم بڑی دیر سے یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ سجان سنگھ نے پوچھا’’ مہاراج! دیبی کو کس کے پاس چھوڑ آئے۔‘‘ اس نے کہا ’’ بچہ! ہم جوگی ہیں، ہمارا کی اٹھکانا آج یہاں ہیں، کل وہاں۔ گڑھ مکتسیر میں چار پانچ برہمنوں نے ہم سے کہا مہاراج! یہ دیبی ہم کو دے دو ہم یہاں مائی کا مندر بنوا دیں گے، سو ہم نے ان کو دے دی۔‘‘ سجان سنگھ بولا ’’ اب آپ کی کہاں جانے کی اچھا ہے؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’ بچہ! ہمارا انت آن پہنچا ہے، پرسوں ہم اس شریر کو چھوڑیں گے، اس واسطے بدری ناتھ جانے کی اچھا ہے، وہاں جا کر چولا بدلیں گے۔‘‘ سجان سنگھ نے یہ بات سن کر کہا’’ مہاراج! مجھے کہاں چھوڑ چلے؟ میں تو آپ کے کارن سارے گاؤں میں بدنام ہوا اور میرے سارے کنبے والے مجھ سے ناراض ہو گئے۔ میرا جمائی گھر سے نکل گیا ہے، یہ ساری بپتا مجھ پر آپ کے کارن پڑی۔‘‘ فقیر نے کہا ’’ بچہ! کیوں گھبرائے ہے؟ اس لڑکے نے ہمارا مان بھنگ کرنا بچارا تھا، بھگوان نے اس کا پھل اس کو دیا۔ جو کیا تھا سو پایا، پر اب گرو نے چاہا تو وہ جلد تم سے آ ملتا ہے۔ اس بات کی کچھ چنتا نہ کر۔‘‘ سجان سنگھ فقیر کے قدموں پر گر پڑا۔ فقیر نے کہا ’’ سجان سنگھ! کیوں دیر کرے ہے، میلا تو نکلا جائے ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ مہاراج! میں کہاں جاؤں؟ اتنے دنوں پیچھے تو تم سے ملا ہوں اور اب تم چولا بدلنے کہو ہو، مجھ کو کیا نراس ہی چھوڑ جاؤ گے؟ کوئی ایسی کرپا کرو جو ساری عمر تم کو بیٹھا یاد کروں۔‘‘ فقیر نے کہا’’ اچھا بابا ہمیں بھی بدری ناتھ جانا ہے، چل تیرے ہی ساتھ چلے چلیں، شام کو اپنا رستہ لیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر فقیر اس کے ساتھ ہو لیا اور دونوں آپس میں باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ گیان چند چھکڑے پر بیٹھا ہوا دل ہی دل میں جلتا تھا اور کہتا تھا ’’ دیکھو سجان سنگھ کی اپاگل ہوا ہے، چھکڑا چھوڑ کر فقیر کے ساتھ پیدل ہو لیا ہے۔ بھلا اس پاکھنڈی میں کیا رکھا ہے جو اس کی اتنی چاپلوسی کرے ہے، آخر لٹے گا۔ بھلا کس جلاہے کے ساتھ ہو لیا ہے! جو کسی پنڈت کی سیوا کرتا تو اچت بھی تھا۔‘‘ گیان چند کے دل میں تو یہ ادھیڑ بن ہو رہی تھی اور سجان سنگھ فقیر کے ساتھ باتوں میں لگا ہوا بے خبر چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ’’ ہے مہاراج! آپ تو بڑے ہی کراماتی ہیں‘‘ اور آور طرح طرح کی خوشامد کرتا جاتا تھا۔ آخر جوگی نے کہا’’ بچہ! فقیر کو تو کچھ آتا نہیں ہے ہاں گرو جی نے کچھ تھوڑا سا اپنی دیا کر کے بتا دیا ہے۔‘‘ سجان سنگھ نے کہا ’’ مہاراج! یہ کیا کہے ہو، تم جیسا تو آدمی دھرتی پر نہ ہو گا۔‘‘ فقیر بولا’’ نہیں بابا! ایسی بات مت کہہ، ہمارے گرو جی کو تو یہ شکت تھی کہ سب کچھ کر سکتے تھے ایشور کی ان پر دیا تھی۔ ایک دن کی بات ہے کہ ایک لڑکا پندرہ یا سولہ برس کا مر گیا، اس کے ماں باپ ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگے۔ گرو جی بھی کہیں ادھر کو جا نکلے، انہوں نے لوگوں سے پوچھا ’’بابا یہ کیوں روئیں ہیں؟‘‘ لوگوں نے کہا مہاراج! ان کا پندرہ برس کا لڑکا مر گیا۔‘‘ گرو جی نے کہا ’’ بابا! اس لڑکے کو ہم بھی دیکھ لیں؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’ بابا! اس میں کیا رکھا ہے۔ وہ تو اب مٹی ہے آؤ تم بھی دیکھ جاؤ۔ ‘‘ گرو جی نے دیکھ کر کہا ’’ بچہ! اس لڑکے کا کیا مرا ہے؟ یہ تو جیوے ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس لڑکے کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ’’ اٹھ، اٹھ‘‘ گرو جی کا کہنا تھا کہ چیتن ہو بیٹھا۔ اور سن! ایک دفعہ ندیا شانتی پور سے ایک بڑا پنڈت یہ بچار کر آیا کہ گرو جی سے شاستر ارتھ کروں۔ گرو جی تو کراماتی تھے ہی اس کے من کی بات کو جان گئے۔ ایک جگہ خاک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ پنڈت آیا۔ گرو جی نے دیکھا کہ بھنگن ٹوکرا لیے ہوئے چلی جائے ہے۔ اس کو پکار لیا جب وہ پاس آئی، کہا ’’ آ میرے گھٹنے پر بیٹھ جا اور ان پنڈت جی مہاراج سے شاستر ارتھ کر لے۔‘‘ گرو جی کی یہ بات سنتے ہی بھنگن ان کے گھٹنے پر بیٹھ گئی اور لگی سنسکرت بولنے۔ ندیا کا پنڈت اس بات کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور کہنے لگا ’’ مہاراج! جیسا سنا تھا اس سے زیادہ پایا‘‘ اور کیمیا کا جو لوگ ذکر کریں ہیں، یہ تو ان کے نزدیک کچھ بات ہی نہ تھی۔ جہاں انہوں نے تھوک دیا وہیں سونا پیدا ہو گیا۔ ایک دن مجھ سے خوش ہو کر کہا ’’ بچہ! منہ کھول‘‘ میں نے اپنا منہ کھول دیا۔ مہاراج نے میرے منہ میں تھوک دیا اور کہا ’’ جا بچہ! خوش رہو جو کچھ کرامات تو نے پائی ہے۔ اسے خراب نہ کریو اور ہر کسی سے نہ کہیو‘‘ یہ بات سن کر سجان سنگھ نے کہا مہاراج! جو کرامت ان میں تھی، وہی تم میں آ گئی ہو گی۔ اب تم میں ان میں کیا انتر ہے؟ فقیر نے کہا ’’ نہیں بچہ! میں نے تو اتنا ہی پایا ہے، جیسے کوئی چڑیا سمندر میں سے چونچ بھر لے ہے۔ ان کو یہ شکت تھی کہ ایک کے لاکھ کر کے دکھا دیں۔ پر ہم کو اتنا ہی بتایا ہے کہ ایک کے پچاس کر دیں۔‘‘ سجان سنگھ نے جس وقت فقیر کے منہ سے یہ کلام سنا، اس کے دل میں لالچ آیا اور فقیر سے کہنے لگا ’’ مہاراج! پھر کوئی ایسی تدبیر کرو جس سے عمر بھر کھیتی کیاری کی محنت سے تمہارا غلام چھوٹ جائے۔‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’ بابا! تجھے کیا چاہیے۔ تیرے اوپر ایشور کی کرپا ہے اور دوسرے یہ بھی بات ہے، آدمی دنیا کے دھن دولت پر کیوں دل لگاوے؟ یہ بات تو ہم لوگوں کو اس وقت کرنی کہی ہے جب کہیں کوئی ایسا ہی کام آن پڑے اور کسی کا ابھمان مٹانا ہو۔‘‘ سجان سنگھ نے فقیر کی بہت سی منت کی مگر وہ ظاہر میں انکار کرتا رہا اور جس قدر انکار کرتا جاتا تھا، اسی قدر سجان سنگھ کا شوق بڑھتا جاتا تھا۔ آخر سجان سنگھ کی ضد سے فقیر نے منہ بنا کر کہا ’’ خیر بچہ! جو تیری یہ اچھا ہے تو آج جہاں جا کر اترے، وہاں جو گہنا یا ٹوم تیرے پاس ہو، لے آئیو۔ ہم ایک طرف کو تجھے الگ لے چل کر اس کو پچاس گنا کر دیں گے مگر پہلے یہ بچن لے لیں گے کہ تو کسی سے یہ مت کہیو کہ فقیر نے ایسا کیا تھا۔‘‘ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے پڑاؤ پر پہنچے اور اپنے چھکڑوں کو سارے چھکڑوں سے علیحدہ کھڑا کیا۔ فقیر سب سے الگ ہو کر ایک کونے میں ہو بیٹھا اور ظاہر میں خدا کا دھیان کرنے لگا۔ سجان سنگھ اس عرصے میں زیور جمع کرتا رہا۔ من سکھی نے جو موہن کو کھانا کھلا رہی تھی، دور سے فقیر کو دیکھ کر کہا ’’ مر جانا بگلا بھگت بن کر بیٹھا ہے۔ ‘‘ جب سجان سنگھ اپنے یار آشناؤں سے زیور مانگ چکا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا ’’ لا سب کا گہنا اتا ردے۔‘‘ چندر کور نے اپنا اور من سکھی کا سارا زیور اتار کر اسے دے دیا۔ پھر وہ موہن کا زیور اتارنے گیا اور من سکھی سے کہا ’’ چھوری! اس کے بھی کڑے اتار دے۔‘‘ موہن یہ سن کر رو پڑا اور مچل کر کہنے لگا’’ میں تو اپنے کڑولے نہ اتاروں‘‘ جب من سکھی نے دیکھا کہ موہن بہت روتا ہے تو سجان سنگھ سے کہا’’ چاچا! اس کے کڑولے تو میں نہ اتارنے دوں۔ چاہے برا مان، چاہے بھلا مان۔ ابھی تو چھورے کے بال اتر چکے ہیں۔‘‘ سجان سنگھ نے غصے میں آ کر کہا ’’ لا اتار بھی دے اس میں اس کا بڑا فائدہ ہے، تو نہیں جانے ہے جا۔‘‘ سجان سنگھ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اتنے میں گیان چند وہاں چلا آیا اور موہن کو گود میں اٹھا کر کہا ’’چودھری ! جا بھی کیوں ہٹ کرے ہے۔ ناحق لڑکے کو دکھی کر رہا ہے۔ اس کے روتے روتے ہچکیاں بھی بندھ گئی ہیں۔ ادھر سے اس کی جورو بولی ’’ موہن کا گہنا کیوں اتارے ہے۔‘‘ جب سجان سنگھ نے دیکھا کہ سب آدمی وہیں آ جمع ہوئے تو ناچار ہو کر اپنی بیوی سے کہنے لگا ’’تو بڑی ابھاگی ہے جو موہن کا گہنا نہیں دیتی۔‘‘ آخر کار اسی زیور کو اس کے ہاتھ لگ گیا تھا اور قریب پانچ سو روپے کے تھا، فقیر کے پاس لے گیا۔ فقیر نے کہا ’’ اس کو ایک ہنڈیا میں بند کر کے اس کے اوپر ایک کپڑا لپیٹ دے اور پھر میرے ساتھ ہو لے۔‘‘ سجان سنگھ اسی وقت ایک ہانڈی لے آیا اور سارا زیور اس میں رکھ کر فقیر کی نذر کیا۔ اس نے کہا ’’ بابا! ہم کسی کے مال کو ہاتھ نہیں لگاتے، تو ہی لے چل۔‘‘ پھر فقیر آگے چلا اور سجان سنگھ اس کے پیچھے روانہ ہوا۔ یہ تو دونوں ادھر گئے، یہاں تھوڑی دیر کے بعد ایک کوئیں پر جو وہیں پڑاؤ کے پاس تھا، کوئی برہمن آیا اور اپنے انگوچے میں سے تھوڑی سی بھنگ نکال کر کوئیں کی سل پر رگڑنے لگا۔ گیان چند نے جب دیکھا کہ کوئی شخص کوئیں پر بھنگ گھوٹ رہا ہے، پوچھا ’’ مہاراج کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ بولا ’’ بجیا گھوٹ رہے ہیں۔ جو ایک چلو تم بھی لیتے ہو تو چلے آؤ۔‘‘ گیان چند تو بھنگڑ ہی تھا، جھٹ اس کے پاس چلا گیا۔ جس وقت برہمن نے بھنگ پیس کر تیار کی تو اپنے لوٹوں میں ہاتھ رکھ کر کہنے لگا: بھنگڑ کی بولی ترجمہ اور مطلب آؤ تو بھنگ گنگ دو بہن ہیں تو رہتی شو کے سنگ۔ ترن تارنی گنگ ہے تولڈ وکھانی بھنگ یعنی گنگا اور بھنگ دو بہنیں ہیں اور شوہی کے ساتھ رہتی ہیں۔ گنگا نجات دینے والی ہے اور بھنگ بھوک زیادہ کرنے والی اور مٹھائی کھلانے والی یہ کہہ کر اس نے گیان چند کو بھنگ پلائی اور تھوڑی تھوڑی دونوں گاڑی بانوں اور نوکر کو بھی دی اور آپ بھی ایک لوٹا چڑھا گیا۔ گیان چند نے بھنگ پینے کے تھوڑی دیر بعد سب کو کھانا کھلایا۔ ابھی کھانے سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ایک گاڑی بان نے کہا۔ ’’ مہاراج ! میری تو جیب اینٹھی جائے ہے اور گھمیری سی چلی آئی ہے۔‘‘ گیان چند نے کہا ’’ بھائی! بھانگ نشیلی ہے سو رہو۔‘‘ پھر تو نشے کے مارے یہ نوبت ہو گئی کہ کسی کو تن بدن کا ہوش نہ رہا اور اسباب کی نگہبانی کے واسطے بیچاری عورتوں کو بیٹھنا پڑا۔ جب رات زیادہ ہو گئی تو گیان چند کی بیوی اور چندر کور کو بھی نیند آ گئی ۔ من سکھی نے ہر چند مردوں کو جگایا مگر ان کا تو یہ حال تھا کہ اگر ہاتھی ان کے بدن پر پھر جائے تو ہوش نہ آتا۔ یہ حالت دیکھ کر من سکھی بہت گھبرائی لیکن انجام کار وہ بھی اپنے بھائی موہن کو لے کر چھکڑے کے نیچے جا لیٹی اور کہانیاں کہہ کر اسے سلا دیا۔ من سکھی تھوڑی دیر تک تو جاگتی رہی مگر نیند بری بلا ہوتی ہے۔ مثل مشہور ہے تلوار کی دھار پر بھی آتی ہے۔ آخر اس کی بھی آنکھ ل گگئی۔ جب سو گئی تو کیا خواب دیکھتی ہے کہ ایک جنگل میں وہی فقیر بیٹھا ہوا چلم پی رہا ہے اور اس کی چلم میں سے سونے چاندی کی ڈلیاں نکل رہی ہیں ۔ فقیر کے سامنے ان ڈلیوں کا ایک ڈھیر لگ گیا ہے اور سندر سنگھ سامنے کھڑا ہوا اسے ترچھی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اتنے میں فقیر نے آنکھ اس کی طرف اٹھائی اور سندر سنگھ فوراً وہاں سے غائب ہو گیا۔ پھر سونے چاندی کی ڈلیوں میں سے ایک دیبی نکلی اور اس نے موہن کا سا روپ بدلا اور فقیر بھیڑیا بن کر اس کے پکڑنے کو منہ پھاڑنے لگا۔ ہر چند من سکھی نے چاہا کہ چلاؤں اور جس طرح ہو سکے موہن کو بچاؤں مگر اس سے نہ بولا گیا۔ پھر نظر اٹھا کر جو دیکھا تو سندر سنگھ گھوڑے پر سوار ہاتھ میں تلوار لیے چلا آتا ہے اتنے میں بھیڑئیے نے موہن کو اٹھا کر اپنی پیٹھ پر ڈال لیا اور بھاگنے لگا۔ یہ خواب دیکھتے من سکھی جاگ اٹھی اور آنکھ جو کھلی تو دیکھا کہ وہی فقیر وہاں موجود ہے اور اس کا ایک ہاتھ موہن کے منہ پر رکھا ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ سے آہستہ آہستہ اسے گھسیٹ رہا ہے۔ جوں ہی من سکھی نے یہ حال دیکھا یکایک چلا اٹھی۔ ’’ دھائی ہے، دھائی۔ پسینچیو! کوئی دوڑیو! یہ بابا میرے بھائی کو لیے جائے ہے۔‘‘ اس کی آواز سن کر فقیر جھٹ موہن کو گود میں لے کر بھاگنے لگا۔ من سکھی چلائی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی فقیر نے ایک جگہ ٹھوکر کھائی کہ اتنے میں من سکھی نے جا کر اس کے بال پکڑ لیے۔ فقیر نے من سکھی کی کنپٹی پر ایک ایسا سونٹا مارا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑی اور اس کے کان سے خون بہنے لگا۔ اتنے میں اور عورتیں بھی جو من سکھی کی چیخوں سے جاگ اٹھی تھیں، ادھر ادھر دوڑنے لگیں اور من سکھی کو بے ہوش پڑا ہوا دیکھ کر بہت گھبرائیں۔ جب لڑکے کو اس کے پاس نہ دیکھا اور نہ چھکڑے کے نیچے اس کا پتا ملا تو خوب چلا چلا کر روئیں اور گاڑی بانوں کو جگانے لگیں۔ ان کا تو پہلے علاج ہو چکا تھا۔ بھنگ کے نشے میں پڑے تھے، کچھ بھی نہ جانا، کون چلاتا ہے اور کیا بکتا ہے۔ آخر پڑاؤ کے لوگوں نے عورتوں کی بہت تشفی کی اور فقیر کے پکڑنے کے لیے چاروں طرف آدمی دوڑائے۔ اتنے میں سجان سنگھ بھی دھائی دیتا ہوا آیا اور جب یہاں کا حال دیکھا تو اس کے ہوش حواس جاتے رہے اور بیتاب ہو کر زمین پر گر پڑا مگر جس وقت ہوش میں آیا تو اپنی مصیبت کی داستان اس شرح سے بیان کرنے لگا: ’’ بابا جی نے جنگل میں لے جا کر ایک جگہ آگ سلگائی اور ہانڈی کو میرے ہاتھ سے آگ پر رکھوا کر کہا بچہ! تو یہاں بیٹھا رہ، میں ایک درخت کے پیچھے جا کر کچھ منتر پڑھوں ہوں۔ جب یہ آگ ٹھنڈی ہو جائے تو مجھے پکار لیجیو۔ پر یہ دھیان رکھیو، جب تک یہ ٹھنڈی نہ ہو، تب تک اس پر سے آنکھ مت اٹھائیو، جب مجھے بیٹھے بیٹھے چار گھڑیاں لگ گئیں اور راکھ بھی ٹھنڈی ہو گئی تو میں نے بابا جی کو پکارا۔ جب کئی آوازیں دے چکا اور وہاں سے جواب نہ آیا تو میں آپ ہی اس درخت کی اور جا کر بابا جی کو ڈھونڈنے لگا، پر بابا جی کا کہیں پتا نہ ملا۔ جب بڑی دیر تک بابا جی نہ آئے تو میں نے آپ ہی ہانڈی کو راکھ میں سے نکالا اور کھول کر دیکھا تو اس میں کنکر بھرے ہوئے تھے اور کچھ نہ تھا۔ یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آ گیا اور لگا فقیر کو گالیاں دینے اور اپنا ماتھا پیٹنے، پھر پچتا پچتا کر یہاں چلا آیا۔‘‘ اب فقیر کا حال سنئے کہ وہ موہن کو لے کر تین چار کوس نکل گیا تھا کہ صبح کی روشنی نظر آئی۔ اس واسطے اس نے یہ ارادہ کیا کہ لڑکے کا زیور اتار کر اسے کہیں کوئیں میں ڈال دے۔ اسی فکر میں تھا کہ یکایک وہی آدمی جس نے برہمن بن کر گیان چند اور آور لوگوں کو بھنگ پلائی تھی، اس سے آ ملا اور دونوں مل کر ایک کنوئیں کی طرف گئے اور لڑکے کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے لگے۔ موہن نے فقیر کے ہاتھ میں کاٹ کھایا اور جوں ہی فقیر نے اس کے منہ پر سے ہاتھ ہٹایا بے اختیار اس کی آواز نکل پڑی۔ اتفاقاً ایک سوار اس طرف سے چلا آتا تھا، موہن کے رونے کی آواز اس کے کان میں پہنچی۔ فقیر موہن کی چھاتی سے ایک پتھر باندھ کر چاہتا ہی تھا کہ اسے کنوئیں میں پھینک دے کہ اتنے میں وہ سوار بھی آ پہنچا۔ سوار کے دیکھتے ہی فقیر اور اس کا رفیق دونوں اس لڑکے کو چھوڑ کر بھاگے۔ سوار فقیر کے پیچھے دوڑا اور میان سے تلوار نکال کر فقیر کے سر پر ماری۔ اس نے اپنے سر کے بچانے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور اس کے ہاتھ کی دو انگلیاں صاف اڑ گئیں۔ مگر وہ اپنے رفیق کے ساتھ جھٹ ایک نالے میں کودا اور کودتے ہی اس کی بغل میں سے ایک گٹھڑی نکل پڑی۔ پھر دونوں کے دونوں بے حواس بھاگ کر سوار کی نظر سے غائب ہو گئے۔ جب سوار نے دیکھا کہ اب ان کا ہاتھ آنا مشکل ہے، گٹھڑی لے کر کنوئیں پر آیا اور لڑکے کو اٹھا کر جو دیکھا تو حیران اور ششدر(31) رہ گیا۔ مگر اپنے تئیں سنبھال کر اس کے ہاتھ پاؤں کی رسی کھولی اور منہ سے کپڑا نکالا۔ پھر چھاتی سے لگا کر پیار کیا اورکہا موہن! رو مت، میں سندر سنگھ ہوں۔ یہ بات سن کر موہن نے جو آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ وہ حقیقت میں سند ر سنگھ ہی ہے۔ پھر توجیحا کہہ کر اور بھی رونے لگا اور بولا بابا جی نے میرے کڑے اتار لیے اور مجھے بہت ہی مارا۔ سندر سنگھ نے کہا ’’ اب بابا جی سے مت ڈر۔ میں نے اس کو مار کر بھگا دیا۔‘‘ یہ کہہ کر گٹھڑی کھولی تو اس میں سے موہن کے کڑے اور بہت سا زیور اور پانچ سو روپے کی اشرفیاں نکلیں۔ سندر سنگھ نے اسی گٹھڑی میں سے کڑے نکال موہن کو پہنا دئیے اور گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا کر وہاں سے روانہ ہوا۔ رستے میں تسلی دے کر اس سے پوچھا۔ ’’ بابا جی کے ساتھ تو کیوں کر چلا آیا تھا۔‘‘ اس نے کہا’’ جیجا! میں جیجی کے دھورے چھکڑے کے نیچے سویا پڑا تھا۔ بابا جی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور منہ بھینچ کر مجھے اٹھا لے چلا۔ جیجی اس کے پیچھے دوڑی اور اس کے بال پکڑ لیے۔ بابا جی نے جیجی کو گرا دیا اور مجھے لے کر چلا آیا۔‘‘ سندر سنگھ اس قسم کی باتیں کرتا ہوا پڑاؤ کی طرف چلا جاتا تھا اور اپنے دل میں سوچتا تھا کہ اب میں بہت جلد اپنی پیاری سے جا ملتا ہوں۔ اس کے دیکھتے ہی میری جان میں جان آ جائے گی۔ وہ بھی میری جدائی سے سوکھ کر کانٹا ہو گئی ہو گی۔ مجھے دیکھ کر نہال ہو جائے گی اور اب تو سجان سنگھ بھی میرا بڑا احسان مانے گا اور پچھلے دنوں کو یاد کر کے پچھتا جائے گا۔ آخر کار جب وہ انہیں خیالوں میں پڑاؤ کے قریب پہنچا تو دیکھ اکہ پڑاؤ سے تھوڑی دور پرے ایک شور مچ رہا ہے اور واویلا کی آواز چلی آتی ہے اور سجان سنگھ روتا ہوا اس کی طرف دوڑا آتا ہے۔ سندر سنگھ نے اسے پریشان دیکھ کر پکارا۔ ’’ گھبراؤ مت۔ موہن میرے پاس ہے۔‘‘ سجان سنگھ جلدی سے سندر سنگھ کے پاس آیا اور موہن کو گود میں لے کر چھاتی سے لگا لیا اور بولا ’’ میرے لال تو کہاں تھا؟ تیرے واسطے سب ڈکراتے پھرے ہیں۔‘‘ پھر سندر سنگھ گھوڑے سے اترا۔ سجان سنگھ نے اسے گلے لگا لیا اور کہا ’’ بھائی! تم ہمارے لیکھے بھگوان آ گئے۔‘‘ پھر اس کا حال پوچھا۔ سندر نے کہا ’’ میں نے کل میرٹھ میں سنا تھا، تم گنگا نہانے آئے ہو اور آج اس پڑاؤ پر ہو گے۔ یہ سن کر میں نے اپنے کمانیر (32) سے چار دن کی چھٹی لی اور تم سے ملنے کو آیا تھا۔ رستے میں اس چنڈال بابا جی کے پاس تمہارا موہن نکلا۔‘‘ اس کے بعد سارا ماجرا اس کے روبرو بیان کیا اور اس گٹھڑی کو جو فقیر کی بغل میں سے نکل پڑی تھی، کھول کر سجان سنگھ کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے اپنا زیور دیکھ کر کہا ’’ تمہارا کہنا سچ نکلا۔ اس چنڈال بیراگی نے ہمارا گہنا بھی لوٹا اور پھر چھورے کو لے کر بھاگا اور کیا کہوں، چھوری کے ایسا سونٹا مارا کہ اس کا بچنا بھی دو بھر ہے۔‘‘ اس بات کے سنتے ہی سندر سنگھ کے ہوش جاتے رہے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا مگر جس طرح ہو سکا، سنبھل سنبھلا کر چھکڑے کے پاس پہنچا۔ چندر کور نے من سکھی سے جو بے ہوش پڑی ہوئی تھی کہا ’’ لے تیرا موہن آ گیا۔ سندر سنگھ اس کو لایا ہے۔‘‘ من سکھی نے اسی وقت آنکھیں کھول دیں اور سندر سنگھ کی طرف جو نظر پڑی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں اور چاہا کہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہے مگر لحاظ کے سبب سے اپنا منہ پھیر لیا۔ جب چندر کور نے یہ حال دیکھا تو اس نے اپنے خاوند اور سب لوگوں کو جو وہاں کھڑے تھے اشارے سے ٹال دیا۔ جس وقت اور لوگ وہاں سے ہٹ گئے اور صرف سندر سنگھ رہ گیا تو وہ اس چھکڑے کے نیچے جہاں من سکھی پڑی تھی، چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی من سکھی جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا، بے ہوش پڑی ہے۔ بدن میں طاقت نام کو نہیں۔ چہرے کا رنگ بالکل اڑ گیا۔ اس کے لمبے لمبے بال جو گندھے ہوئے رہتے تھے، اب خاک میں کھلے ہوئے پڑے ہیں! سندر سنگھ حیران بت سا کھڑا تھا اور دل میں کہتا تھا ’’ ہائے کیا تھا کیا ہو گیا۔‘‘ کبھی اسے اپنی شادی کی امنگ اور من سکھی کے ساتھ کنگنا کھیلنے کا دھیان آتا۔ کبھی شوخی اور اچپلاہٹ سے اس کے یہ کہنے کا خیال آتا کہ دیکھیں پہلے کنگنا کون لے۔ کبھی من سکھی کا اس کی ماں کے روبرو پیروں پڑنا اور گھر کے سب آدمیوں کا ادب کرنے اور سب چھوٹے بڑوں کے خوش رکھنے کا تصور بندھ جاتا۔ کبھی اس کا پیار سے یہ کہنا کہ مجھے جگ میں تجھ سے زیادہ کون ہے یاد آتا۔ کبھی یہ سوچتا کہ جب میں کھیت پر جاتا تھا تو یہ میری راہ دیکھا کرتی اور تھوڑی سی دیر میں غم کے مارے مرجھا جاتی اور پھر جب میں اس کے پاس آتا تو مجھے دیکھ کر کھل جاتی۔ کبھی اپنے دل میں یہ کہتا کہ ہائے! یہ وہی من سکھی ہے کہ جب میں سجان سنگھ کے طعنے سن کر جنگل میں جا کر رویا اور پھر اس سے ملنے گیا تو چیخ مار کر بولی جو تو جائے ہے تو مجھے تھوڑا سا بس دیتا جا! اس طرح کی باتوں نے سندر سنگھ کو ایک غم کا پتلا بنا رکھا تھا اور اس کے دل پر ایک سانپ سا لوٹ رہا تھا۔ آخر کار وہ اپنا منہ ڈھانپ کر بے اختیار رو پڑا اور زمین پر گر کر من سکھی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا ہائے میں تجھے اس واسطے چھوڑ کر گیا تھا کہ یہ دن دیکھوں۔ جو میں یہاں رہتا تو تیرا یہ حال کاہے کو ہوتا۔ وہ کون سی بری گھڑی تھی جب میں یہاں سے گیا۔ اب ذرا آنکھ کھول اور دیکھ تیرا سندر سنگھ آ گیا اور اب تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا پر تو اسے چھوڑ کر چلی۔ جب سندر سنگھ نے یہ گفتگو کی، من سکھی نے آنکھیں کھول دیں اور ٹھنڈی سانس بھر کر سندر سنگھ کی طرف دیکھا اور سر کو ادھر ادھر ہلا کر اپنا ہاتھ اس کی گردن میں ڈال دیا اور کہا ’’ میں تو گھنے دن سے تیری باٹ دیکھ رہی تھی۔ اب مجھے مر جانے کا تو کچھ فکر نہیں ہے، پر یہ سوچ تھا کہ تیرے ملے بدوں مر جاؤں گی۔ سو بھگوان نے تجھے بھی بھیج دیا۔‘‘ سندر سنگھ نے کہا’’ ایسی بات مت کہہ۔ تیرے اس بات کے کہنے سے میری جان نکل جائے ہے۔ اب تجھ کو جلدی آرام ہو جائے گا۔‘‘ یہ سن کر من سکھی نے کہا’’ تو کیوں چنتا کرے ہے۔ تھوڑے دن پیچھے تیرا بیاہ ہو جائے گا اور سارا دکھ جاتا رہے ۴گا۔ پر بچاری من سکھی کہاں؟‘‘ سندر سنگھ نے کہا۔’’ نہیں پیاری تو کبھی نہیں مرے گی۔ مریں تیرے دشمن! اور بھگوان نہ کرے جو ایسی بات ہوئی تو میں اس جہان میں رہ کر کیا کروں گا۔ بس یہ ہو گا کہ تیرے ساتھ ہی مر جاؤں گا۔ دیکھ اب تو بھگوان نے دن بھی پھیر دئیے ہیں۔ سجان سنگھ جو پہلے طعنے دیا کرتا تھا، اب موم ہو گیا ہے اور بڑی خوشامد کرے ہے اور روپے بھی ہمارے ہاتھ گھنے سے لگے ہیں۔ اب میں تیرے پاس سے پل بھر کو نہیں ٹلوں گا اور تجھے اپنی جان کے برابر رکھوں گا۔‘‘ یہ بات سن کر من سکھی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگی ’’ جو میں جیتی رہتی تو تو بھی دیکھتا پریت کیسی ہوئے ہے پ رمیری زندگی مت سمجھیو میں تو دھرتی پریوں ہی آئی اور یوں ہی چلی۔ جب بالک تھی تو ماں باپ مر گئے اور جب بڑی ہوئی تو تجھ سے ملی تو یہ سمجھتی تھی کہ اس جگت میں آنے کا پھل مل گیا پر رام چاہے سو کرے۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ تیرے ہاتھ سے مٹی تو ٹھکانے لگ جائے گی۔‘‘ پھر من سکھی نے سندر سنگھ کا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا اور چپ چاپ آنکھیں بند کیے ہوئے پڑی رہی۔ جب اس طرح پڑے ہوئے تھوڑی سی دیر ہو گئی اور سندر سنگھ نے اس کے جسم میں کچھ حرکت نہ پائی اور نہ سانس آتا جاتا دیکھا تو گھبرا کر اسے پکارنے لگا اور بہت سی قسمیں دلائیں مگر کچھ جواب نہ پایا۔ تب تو بے قرار ہو کر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئیے اور ایکبارگی چلا اٹھا ’’ لوگو! میں لٹ گیا۔‘‘ یہ سن کر سجان سنگھ، گیان چند، چندر کور اور پاربتی کی ماں سب وہاں چلے گئے۔ پاربتی نے بھی وہاں جانے کا ارادہ کیا مگر اس کی ماں نے یہ اندیشہ کیا کہ ایسا نہ ہو مردے کے پاس جانے سے اس کو کچھ ہو جائے اور یہ سوچ کر اس سے کہا ’’ تو موہن کو لیے بیٹھی رہ۔‘‘ جب عورتوں نے وہاں جا کر دیکھا کہ من سکھی مر گئی، تو انہوں نے جلدی سے اس کے منہ میں تھوڑا سا سونا اور گنگا جل ڈال دیا (کیوں کہ ہندوؤں کے اعتبقاد میں اس عمل کے کرنے سے مردہ سیدھا سرگ کو چلا جاتا ہے) عورتوں کا وہاں جانا تھا اور رونا پیٹنا مچنا تھا۔ سندر سنگھ وہاں سے اٹھ کر ایک طرف جا بیٹھا اور ڈاڑھیں مار مار کر رونے لگا ۔ جب سب کو روتے روتے گھنٹہ بھر ہو گیا تو گیان چند نے کہا ’’ روؤ گے تو ساری عمر، پر اس کی مٹی تو ٹھکانے لگاؤ۔ گنگا یہاں سے دور ہے، سورج کے چھپنے سے پہلے اس کو پھوکنا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر ایک قصبے میں جو پڑاؤ کے قریب تھا گیا اور چنری، کھاردا، تین بانس، ایک پورا، ستلی، رولی، کلاوہ، میندھی، چوڑی، مسی، کاجل، کشا، ایک کوری ٹھلیا، جو کا آٹا، تل، دھوتی، انگوچھا اور ضروری چیزیں خرید کر لایا اور اپنے ساتھ ایک اچارج کو بھی لیتا آیا۔ وہاں آ کر بانسوں کی ارتھی بنائی اور اس کے اوپر پولا بچھا کر لال کپڑا ڈال دیا۔ پھر اہیر پور کے ایک نائی کو جو گنگا کے اشنان کو آیا تھا، پڑاؤ میں سے بلوا کر سندر سنگھ کو نہلوایا ۔ اس نے نہا دھو کر دھوتی بدلی اور اپنے کندھے پر انگوچھا رکھ کر کوری ٹھلیا پانی سے بھر کر لاش کو نہلا کر نیا جوڑا پہنایا۔ آنکھوں میں سرمہ، دانتوں میں مسی لگائی۔ سر میں تیل ڈال کر بال گوندھے، ہاتھوں میں چوڑیاں پہنائیں اور ساری رسمیں جو سہاگن عورت کے مرنے پر کی جاتی ہیں۔ ان عورتیں نے پوری کیں۔ اس کے بعد لاش کو ارتھی پر لٹا دیا۔ پھر اس کے اوپر چنری ڈال کر ستلی اور کلاوے سے باندھ دیا اور پان رولی اور پھول چنری کے اوپر رکھے۔ جب یہ رسمیں ہو چکیں تو اچارج نے سندر سنگھ کو لاش کے دائیں طرف بٹھا کر ایک پنڈ دان کرایا اور پھر سارے مرد جو وہاں موجود تھے لاش کو اٹھا کر رام رام ست ہیں کہتے ہوئے وہاں سے لے چلے۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ انہوں نے لاش کو ایک ڈولی میں جو گیان چند مشروہیں پاس کے قصبے سے کرایے کو لایا تھا رکھ دیا اور سب کے سب ڈولی کے ساتھ ہو لیے۔ گیان چند نے اچارج کو کچھ دے کر رخصت کر دیا اور نائی سے کہا ’’ بھائی تو بھی جا۔‘‘ جب سارے مرد لاش کو پھوکنے چلے تو گیان چند کی بیوی دوڑی ہوئی آئی اور اس سے پوچھنے لگی ’’ تم کب تک پھر آؤ گے؟‘‘ گیان چند بولا’’ پندرہ دن پیچھے کریا کرم کرا کر آویں گے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا’’ بھلا ہم اکیلے کیوں کر جائیں گے؟ جہاں تک ہو سکے۔ تم چھورے کو لے کر آج ہی آ جانا۔ وہ کریا کرم گاؤں میں جا کر کر لے گا۔‘‘ گیان چند بولا’’ اچھا تم آج پہر رات تک یہیں ٹھہری رہو۔ ہم اس وقت تک آ جائیں گے۔‘‘ جب مرد لاش کو لے کر وہاں سے چلے گئے تو عورتیں بھی روتی پیٹتی ایک کنوئیں پر گئیں اور نہا دھو کر پھر چھکڑے پر آ گئیں اور اس روز تمام دن کچھ کھانا نہ کھایا۔ ادھر سجان سنگھ اور آور لوگ جب گنگا پر پہنچے تو پہلے لاش کو ارتھی سمیت گنگا میں نہلایا۔ پھر پانچ چھ من لکڑیاں خریدیں اور ایک اچارج کو بلایا۔ اس نے آتے ہی لمبی لمبی لکڑیاں بچھا دیں اور سرہانا کچھ اونچا رکھا۔ پھر سندر سنگھ سے پنڈدان کرا کر لاش کو لکڑیوں پر رکھ دیا اور اس کے اوپر سے چنری اتار کر آپ لے لی۔ اس کے بعد لاش کا منہ کھول کر اسے سورج کے درش کرائے۔ پھر سب طرف لکڑیاں چن دیں اور ایک پولے میں آگ رکھ کر سندر سنگھ کو دے کر کہا ’’ چتا کے چاروں طرف پھر کر یہ پولا لکڑیوں میں رکھ دے۔‘‘ اس بے چارے نے اچارج کے کہنے پر عمل کیا۔ جب لکڑیوں میں کچھ آگ سلگ گئی اور وہ سلگنے لگیں تو اچارج نے سندر سنگھ کو ایک صندل کی ڈلی دی اور کہا ’’ چتا کی پرکرماکر کے اس کو آگ میں ڈال دے۔‘‘ اس کے بعد اور پانچ دفعہ اس سے یہی عمل کرایا۔ جب من سکھی کی کھوپڑی خوب گرم ہو گئی تو اچارج نے سندر سنگھ کو ایک بانس دیا اور کہا ’’ اس بانس سے کرپال کریا کر‘‘ پھر اس کے ہاتھ میں ایک آبخورہ گھی کا بھرا ہوا دے کر کہا ’’ اس گھی کو کھوپڑی پر ڈال دو۔‘‘ جو جو اچارج کہتا گیا، وہی سندر سنگھ کرتا گیا۔ جب لاش جل کر راکھ ہو گئی تو سندر سنگھ نے ساری راکھ اور ہڈیاں اٹھا کر گنگا میں ڈال دیں اور پھر سب کے سب لوگ گنگا میں اتر پڑے۔ جب سندر سنگھ ایک غوطہ لگا چکا تو گیان چند نے اس کے ہاتھوں میں پانی اور تل دئیے۔ پھر زبان سے کچھ پڑھ کر کہا ’’ اسے گنگا میں ڈال دے‘‘ اور جو عبارت اس نے پڑھی اس کا ترجمہ یہ ہے۔ ترجمہ: اے من سکھی! تجھے آگ کے بھڑکنے سے جو گرمی پہنچی ہے وہ اس پانی سے ٹھنڈی ہو۔ اس کے بعد سب نے نہا دھو کر اپنی اپنی دھوتیاں بدلیں اور اچارج کو پیسے دے کر رخصت کیا اور آپ تو تھکے ہی ہوئے تھے، گنگا کے کنارے پر بیٹھ کر کپڑے سکھانے لگے۔ اتنے میں دو چار برہمن وہاں کے رہنے والے آئے اور انہیں اداس بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگے ’’لگو چودھری ! تم کہاں کے رہنے والے ہو اور یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ سجان سنگھ نے کہا ’’ مہاراج کیا کہیے؟ کل یہاں سے خوشی خوشی گنگا نہا کر گئے تھے۔ آج پھر اپنی بھتیجی کو پھوکنے آئے۔‘‘ برہمن یہ سن کر بولے ’’ شو شو شو۔ چودھری جی اس کو رستے میں کیا ہو گیا تھا؟ کیا وہ کچھ ماندی تھی؟‘‘ سجان سنگھ نے آہ سرد بھر کر کہا ’’ مہاراج! کچھ ماندی تھی نہ ساندی تھی، کرموں کی ماندی تھی۔ ایک چنڈال فقیر سے پالا پڑ گیا تھا، سو اس نے ہم کو یہ چلتر دکھایا۔‘‘ یہ کہہ کر تمام ماجرا ان برہمنوں کے روبرو بیان کیا۔ برہمنوں نے سن کر کہا ’’ چودھری جی! بڑے چوکے ۔ ہم تو پہلے ہی جانیں تھے، وہ بڑا پاکھنڈی ہے۔ ہاں سچ ہے، اس نے یہاں بھی دیبی نکالی تھی اور دو چار اور برہمن بھی اس کے ساتھی تھے۔ پان سو چار سو روپیہ جو دیبی پر چڑھا تھا، لے کر اس دیبی کو برہمنوں کے حوالے کر گیا۔ کل شام ہم کو جو کچھ سندیہ ہوا تو ہم یہاں آئے اور اس کا کھوج لگانا چاہا، پر ان برہمنوں نے ہم کو اپنے بنگلے میں پیر بھی نہ رکھنے دیا۔ تکرار ہوتے ہوتے ہاتھا پائی ہونے لگی۔ ہم نے ان کو مار بھگا دیا۔ پھر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس جگہ سے دیبی نکالی تھی۔ زمین کے نیچے ایک بڑا برتن چنوں سے بھر رکھا ہے اور اس برتن میں ایک نلی لگی ہوئی ہے۔ ہم نے اس نلی کا جو کھوج لگایا تو دیکھا اس کا دوسرا سرا ان کے بنگلے میں تھا۔ ہم اس بات کا مطلب سوچنے لگے کہ اتنے میں نلی کے پاس ایک پانی کا گھڑا رکھا ہوا دکھائی دیا۔ اس سے ہم جان گئے کہ کوئی بنگلے کے اندر اس نلی میں پانی ڈالتا تھا اور اس پانی سے چنے جب پھولے تو وہ مورت جو ان پر رکھی تھی، اوپر کو اٹھی اور زمین تو ریتلی ہی تھی، مورت بہت جلدی سے اٹھ آئی۔ جب یہ حال ہم کو معلوم ہو گیا تو وہ برہمن بھاگ گئے۔ نہیں تو ان کی خوب پرتشٹھا (33) بھنگ ہوتی۔ بھگوان جانے یہ کون لوگ تھے۔ شاید مینے یا بوریے کی قوم سے ہوںگے۔ سچ کہا ہے، پسی ہوئی دوا اور منڈے ہوئے جوگی کا کچھ حال معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بے چارے چپکے بیٹھے ہوئے ان کی باتیں سنا کیے۔ سجان سنگھ ان سے باتیں کرتا جاتا تھا اور دل میں کہتا جاتا تھا کہ ہائے! بڑی دغا دے گیا۔ تھوڑی دیر بعد سب کے سب وہاں سے چلے گئے اور پہر رات گئے پڑاؤ پر پہنچے۔ وہاں آ کر گیان چند کے سمجھانے سے سب نے کچھ کچھ کھانا کھایا۔ رات بھر چھکڑوں میں پڑے رہے اور موہن کو جو جی جی کہہ کہہ کر روتا تھا، پیار کرتے رہے۔ دوسرے روز صبح ہوتے ہی اپنے گاؤں کی طرف چلے، رستے میں سجان سنگھ نے کسی منشی کا ایک آنے کے پیسے دے کر سندر سنگھ کی طرف سے اس کے کمانیر کے نام اس مضمون کی ایک عرضی لکھوائی کہ مجھے پندرہ دن کی رخصت میری بیوی کے کریا کرم کے واسطے مل جائے۔ جب گاؤں میں پہنچے تو عورتیں چھکڑوں میں سے اترتے ہی رونے لگیں، گاؤں کی اور عورتیں بھی یہ حال سنتے ہی ماتم پرسی کو آئیں۔ چندر کور ان کے ساتھ بیٹھ کر خوب روئی اور سب عورتوں نے اپنا اپنا منہ ڈھانپ کر نوحے کا یہ راگ گایا۔ راگ ترجمہ اور مطلب بھوگن بھوگن کیا کرے آ بیٹھا سرکال۔ دنیا کی لذت کا کیا ذکر کرتا ہے؟ اب سر پر موت آ ہی گئی۔ کال نہ دیکھا آوتا، دس دن مانگے دے موت آتی ہوئی سجھائی نہ دی، اب دس دن کی مہلت مانگتا ہے مانگا وسڑا نہ ملے، آ بیٹھا سرکال اب دس دن کی مہلت کب ملتی ہے، موت تو آ ہی گئی۔ ہر ہر کرتے لے گئے بندرابن کے گھاٹ ہر ہر کرتے بندرابن کے گھاٹ پر لے گئے بندرابن کی گوپیاں وہ بھی رؤن کریں اس حادثے کو دیکھ کر بندرابن کی گوپیاں بھی رونے لگیں تم کیوں روؤں بندرابن کی گوپیو، آنپڑے گھر جاؤ بندرابن کی گوپیو! تم کیوں روتی ہو! اپنے گھر جاؤ رؤن کرے تیرے سر کا صاحب، سر دھنے سر دھن کرے پکار تیرا خاوند سر دھن دھن کر یہ پکارتا ہے میری پکار نہ لگی میرے گھر کی سوبھا! تیری لگی پکار اے میرے گھر کی رونق! مجھے کسی نے نہ بلایا، تجھے بلا لیا انہیں گاؤں کے گوردے سوتی چادر تان انہیں گاؤں کی حد میں چادر تانے ہوئے سوتی (اگر موت نہ آتی) آئی ندی پہاڑ کی تجھے لے گئی بہانے پہاڑ کی ندی آئی اور تجھے بہا کر لے گئی۔ ہاڈ جلیں جوں لاکڑی، کیس جلیں جوں گھاس لکڑیوں کی طرح ہڈیاں جلتی ہیں، گھاس کی طرح بال تیری کنچن کا یا یوں جلے تیرے کوئی نہ آوے پاس تیرا سنہری بدن یوں جلا جاتا ہے، اور کوئی پاس نہیں بھٹکتا موت ہرا یار اؤ گھر نردھنباد بنی ہوئے موت نے راجاؤں کے خاندانوں کو بھی ہرا دیا اجڑ کھیڑا پھر بسے میرا نہ آیا کرے یہ ممکن ہے کہ غریب دولتمند اور اجڑا ہوا گاؤں آباد ہو جائے، مگر مرا ہوا پھر کر نہیں آ سکتا۔ کیا تجھے آئی نیندڑی؟ کیا جوانی کا جوش؟ کیا تجھے نیند آئی یا جوانی کا جوش؟ نہ تجھے نہ آئی نیندڑی نہ جوانی کا جوش نہ تجھے نیند آئی نہ جوانی کا جوش پالکی آئی عرش کی ساتھ ہی آئے کہار کہار عرش کی پالکی لے کر آئے کیوں کر اکھیاں پھیریاں کیوں کر تجھے پران؟ آنکھیں کیوں کر پھیریں اور جان کس طرح نکلی؟ لہ لہ انکھیاں پھیریاں جھٹ دے تجھے پران ٹھہر ٹھہر کر آنکھیں پھیریں اور جان جھٹ نکل گئی نہ تیں کھایا نہ تیں بلسا گئی بلکتی چھوڑ نہ تو تو نے کچھ کھایا اور نہ کچھ خوشی کی، حسرت ہی میں سب چیزیں چھوڑ کر چلی گئی۔ پیچھا پھیر نہ دیکھا، چھیلا کی گوری پیچھے پڑی پکار اپنے چھیلا کی پیاری! پیچھے پھر کر نہ دیکھا، آخر پیچھے پکار پڑی آج بسیرا نیڑے، کل پرائے دیس آج مقام قریب ہے کل بیگانے ملک میں پار بسیں گے پاروا، تو بس اپنے دیس پار کے رہنے والے پار رہیں گے تو یہیں رہ خاک گرد میں میری بیگم مل گئی اور بول سمندروں پار میری بیگم کا جسم تو خارک میں مل گیا اور روح سمندر کے پار چلی گئی جس دساور تو گئی، وہ دساور بتا جس ملک میں تو گئی ہے وہ ملک ہمیں بھی بتا عورتیں یہ راگ گا کر رو رہی تھیں کہ سجان سنگھ کے پاس بھی بہت سے مرد آ کر جمع ہو گئے اور تسلی کی باتیں کرنے لگے۔ کوئی کہتا تھا ’’ صاحب! کیا کہو؟ چھوری من سکھی سے تو گاؤں میں بڑی رول چول رہے تھی۔‘‘ ایک بولا ’’ جب سے یہ بات سنی تھی، جی کہے تھا کہ تو بھی گنگا جل چل، پر لوگوں نے آ کر کہا سجان سنگھ آپ ہی آوے ہے، چودھری! یہ چھینک بھی خالی نہیں جاتی۔ جب تم چلے تھے تو تمہارے سامنے سے چھینک ہوئی تھی۔ ہم تو اسی دن کہیں تھے بھگوان ان کو خیر سے لاوے۔‘‘ گیان چند بھی وہاں موجود تھا اس نے ان سے کہا ’’ بھائی! جو کچھ ہونا تھا سو ہوا، اس میں کسی کا بس نہیں ہے، پر چھوری من سکھی بھاگوان تھی۔ دیکھو اس کی مرت کہاں پڑی۔ یہ بڑی بات ہے کہ وہ سیدھی سرگ کو گئی۔ مرنا ہم تم سب کو ہے، کسی کو آگے کسی کو پیچھے۔‘‘ جب سب آدمی رخصت ہو گئے تو گیان چند اسی روز شام کے وقت سندر سنگھ کو مرگھٹ میں لے گیا اور پانی کی بھری ہوئی ایک ٹھلیا کسی پیپل کے درخت میں لٹکوا آیا۔ اس ٹھلیا میں نیچے کی طرف ایک سوراخ تھا، اس میں کشا کا ایک تنکا لگا ہوا تھا اور اس تنکے پر سے پانی ٹپکتا تھا۔ دس روز تک سندر سنگھ نے جوتا نہ پہنا اور کمبل کے سوا اور کسی چیز پر نہ سویا۔ ہر روز صبح و شام ننگے پاؤں مرگھٹ میں جاتا اور اس ٹھلیا کو پانی سے بھر آتا۔ دسویں روز اچارج نے آ کر دس پنڈ دان کرائے اور پانچ رس یعنی گڑ، گھی، تیل، روئی اور نمک پنڈوں پر چڑھائے، پھر سب آدمی مل کر ایک تالاب پر گئے اور نہا دھو کر اپنے گھر آئے۔ وہاں سے آ کر آٹھ آنے نقد اور مٹھائی اور عورت کے پہننے کے تمام کپڑے اور ایک چارپائی اور لحاف توشک اور بہت سی چیزیں اچارج کو دیں اور تیرہویں کے روز تیرہ برہمنوں کو جما دیا۔ جب سندر سنگھ کریا کرم سے فارغ ہوا تو اس نے سجان سنگھ سے اپنے رسالے میں جانے کی اجازت چاہی۔ سجان سنگھ نے کہا بیٹا! اب تو یہاں رہو، رسالے میں جا کر کیا کرے گا؟ اب تو تو من سکھی اور موہن سے زیادہ ہے، جو تو بھی یہاں سے چلا گیا تو ہم کو بڑا دکھ ہو گا۔ یہ سارا گھر بار تیرا ہی ہے جو تو چاہے سو کر۔ سندر سنگھ نے کہا ’’ اس میں تو تم کچھ بھی نہ کہو اور مجھے یہاں سے جانے ہی دو۔ میرا جی یہاں نہیں لگے ہے۔‘‘ اتنے میں پاربتی بھی آ گئی اور دیر تک یہ باتیں سنتی رہی، پھر کہا جیجا! ادھر آ، میں تجھ سے ایک بات کہوں۔ سندر سنگھ اٹھ کر اس کی طرف چلا گیا۔ وہ بولی ’’ اب جیجا! تو یہاں سے کیوں جائے ہے؟ رسالے میں جا کر کیا کرے گا؟ تو تو یہیں کھیتی کیاری کیا کر یا اپنے باپو کے گھر جا رہیو۔‘‘ سندر سنگھ نے کہا ’’ واہ تو تو جان بوجھ ایسی باتیں کہے ہے، بھلا اب جی کر کیا کروں گا؟‘‘ پھر پاربتی نے کہا’’ جیجا! ایسی بات نہیں کہیں ہیں۔ اب تو تیرے پاس گھنے روپے ہیں اور تیرے ماں باپ بھی تیرے لیے روتے ہوں گے۔ اب جا اور ماں کو سکھ دے، دیکھ ان کی آہ مت لے۔‘‘ یہ سن کر سندر سنگھ نے کہا’’ میں تجھے کہاں تک سمجھاؤں۔ تو تو جانے ہے مجھ کو تیری بہن سے کیسی پریت تھی، میرا جینا تو اس کے ساتھ تھا، اب بھگوان نے اسے اٹھا لیا۔‘‘ بس اتنا ہی کہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور پھر رو کر کہنے لگا پاربتی میں کیا کروں؟ میرا دل میرے بس میں نہیں ہے۔ تیری بہن کی صورت آٹھ پہر میرے من میں بسی رہے ہے، مجھے نہ دن کو چین ہے نہ رات کو نیند اور اس گاؤں میں جس چیز کو میں دیکھتا ہوں، مجھے سب اس کی یاد دلاویں ہیں۔ اس بن سارا جگت اجاڑ دکھائی دے ہے۔ ہر چند پاربتی نے اس کی تشفی کی مگر اس نے ایک نہ سنی اور دوسرے روز صبح کے وقت گٹھڑی مٹھڑی باندھ، چلنے کو تیار ہوا اور چلتے وقت موہن کو گود میں اٹھا کر پیار کیا اور ایک روپیہ اس کے ہاتھ پر رکھ کر کہا ’’ جو تجھے جان کے برابر رکھے تھی وہ تو مر گئی۔ اب تو اسے اور مجھے یاد رکھیو‘‘ اور پھر پاربتی کو بلا کر کہا’’ لے رام رام پاربتی! جیسی پریت تیں نے اس کے ساتھ کی اور جیسی تیں نے میری دھیر بندھائی بھگوان تجھے راضی رکھے۔ اب ہمارا تیرا ملنا نہیں ہوئے گا۔ جہاں تو اسے یاد کرے وہاں مجھے بھی یاد کر لیجو۔ اب میرے جینے کا بھی کچھ بھروسا نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر گھر سے باہر آیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر گیان چند سے پالاگن اور سب سے رام رام کہہ کر گاؤں سے نکلا ۔ پھرا ہیر پور پر جہاں ایسے دکھ اٹھائے تھے، آخر نظر ڈال کر اپنے رسالے میں چلا گیا اور وہاں رات دن من سکھی کے خیال میں رہا اور انجام کار اسی غم میں گھل گھل کر مر گیا۔ ٭٭٭ چوتھا باب خوشحال چند اور ہیرا، دولت رام اور مونگا، کروڑی مل اور گنگی کا قصہ (جو عبارت مصنف نے اپنے محاورے کے موافق لکھی ہے اس کے پہلے م ہے اور جو غیر کی گفتگو کے مطابق لکھی ہے، اس کے شروع میں غ ہے)۔(1) کہتے ہیں کہ شہر دہلی میں ایک بنیا نہال چند نامی تھا۔ وہ اور اس کا بیٹا خوشحال چند دونوں مل کر گزارہ کرتے تھے اور مفلسی کے ہاتھ سے اس قدر تنگ آ گئے تھے کہ ایک وقت کی روٹی بھی انہیں بڑی مشکل سے میسر آتی تھی۔ خوشحال چند کی بیوی ہیرا کے پاس زیور کا تو کیا ذکر ہے، نام کو تانبے کا چھلا بھی نہ تھا۔ اس کا لڑکا دولت رام گلیوں میں اس طرح پھرا کرتا تھا جیسے کسی فقیر کا لڑکا ہوتا ہے اور گھر کا یہ حال تھا کہ قید خانے کی کوٹھڑی بھی اس سے بہتر ہوتی ہے، یہ مکان جس میں ایک چھوٹا سا دالان اور اس کے اندر ایک کوٹھڑی تھی، آٹھ آنے کرائے کو لے رکھا تھا اور اس میں بڑی دقت سے گزارہ ہوتا تھا۔ نہال چند بڑھاپے کے سبب سے اس قدر ناطاقت ہو گیا تھا کہ اس سے کسی طرح کی محنت نہ ہو سکتی تھی مگر پھر بھی ہمت کر کے ہر روز صبح کے وقت لاٹھی لے، جمنا جی پر جاتا۔ وہاں ہمیشہ مردوں اور عورتوں کا ایک جمگٹھا لگا رہتا ہے، یہ بھی ان سے باتوں میں مشغول ہو جاتا، پھر کپڑے اتار ڈبکی لگا، سورج کو جل چڑھاتا اور جپ کرتا۔ وہاں بعض آدمی اس سے کہتے ’’ نہال چند جی! تم جمنا جی کا کبھی ناغہ نہیں کرتے، چاہو منہ برسو، چاہو آندھی چلو، جاڑا، گرمی سب یکساں ہے، تم کو ضرور جمنا جی تار دیں گی۔‘‘ وہ اس کے جواب میں کہتا ’’ مہاراج ہماری کیا سامرتھ ہے، یہ تو کچھ جمنا جی ہی کی کرپا ہے جو روز اپنے درشن دے دیں ہیں۔‘‘ وہ کہتے ’’ ہاں صاحب! اگلے وقت کے آدمیوں کی اگلی ہی سی باتیں ہیں۔ شابش(2) ہے آپ کو جو اس عمر میں چلے آؤ ہو!‘‘ خوشحال چند کا یہ معمول تھا کہ ہر روز صبح اٹھتا اور لوٹا ڈوری لے کنوئیں پر جاتا، دو چار لوٹے کھینچ اپنے اوپر ڈال لیتا، پھر سارا بدن بھیگتا یا نہ بھیگتا مگر وہ دھوتی بدل کر کچھ پوجا کرتا اور سورج کو جل چڑھا، کنوئیں کے برابر شوالے پر جاتا، اول سب مورتوں پر تھوڑا تھوڑا سا پانی ڈالتا، پھر مہادیو جی کی مورت کے آگے ہاتھ جوڑ کر ہو بیٹھتا اور کہتا ہے بھولے! ایسی کرپا کرو جو یہ دلدر دور ہو۔ پھر نہا دھو، اپنے گھر آتا اور کمری ٹوپی پہن کوڑی پیسوں کی تھیلی کندھے پر ڈال، بازار کو چلا جاتا اور حلوائیوں، پنواڑیوں اور دوکانداروں سے کوڑیاں پیسے لیتا اور صرافوں کے ہاتھ کچھ کمی پر بیچ ڈالتا۔ اس کام میں دو چار آنے روز اس کے ہاتھ لگ جاتے، دوپہر کو پھرتا پھراتا اپنے گھر آتا۔ اس عرصے میں اس کی بیوی بھی نہا دھو کر روٹی پکا رکھتی، پہلے اپنے سسرے اور بیٹے کو کھلاتی اور پھر خوشحال چند کو دیتی، جب وہ کھا پی کر بازار کو چلا جاتا تو آپ کھاتی۔ ایک روز رات کے وقت خوشحال چند بازار سے اپنے گھر آ کر اداس سا ہو بیٹھا۔ نہال چند نے پوچھا۔ ’’ کہو بیٹا! آج سست کیوں ہو؟‘‘ وہ بولا ’’ لالہ جی کیا بتاؤں، تمام دن پھرا، کوڑی ہاتھ نہ آئی۔ بھگوان کیوں کر بیڑا پار کریں گے، لڑکا بیاہنے کو بیٹھا ہے، کوڑی پاس نہیں، برادری میں ہمیں کون پوچھے ہے؟ دولت والے کی سب خاطر کریں ہیں، مفلس سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ تو کدھر بستا ہے۔ دو چار آنے روز آ گئے تو کیا ہوا اس میں تو اچھی پیٹ بھی نہیں بھرتا۔‘‘ اس کا باپ بولا ’’ بھائی گھبرا مت ، بھگوان میں سب سامرتھ ہے جب وہ دینے پر آتے ہیں تو چھپڑ پھاڑ کر دیتے ہیں۔ جو پہلے سے دن نہ رہے تو یہ کیا ہمیشہ رہیں گے، بھگوان مہاراج مالک ہے۔‘‘ اس قسم کی باتیں تھوڑی دیر تک ان میں ہوتی رہیں، پھر خوشحال چند اور اس کا بیٹا اور بیوی سب کے سب اندر کوٹھڑی میں جا سوئے اور نہال چند دالان میں زمین پر کپڑا بچھا کر پڑ رہا۔ جب صبح ہوئی اور خوشحال چند معمول کے موافق کنویں پر گیا تو دیکھا کہ کوئی موٹا سا آدمی کنوئیں کی مینڈ پر کھڑا ہے، ایک کہار پانی بھر کر اس کو نہلاتا جاتا ہے اور دوسرا اس کا بدن مل رہا ہے۔ خوشحال چند تھوڑی دیر تک تو اس کی طرف دیکھتا رہا مگر پھر دل میں کہنے لگا ہو نہ ہو یہ تو وہی آدمی ہے جو چار برس پہلے اس محلے میں رہتا تھا اور دوالہ نکال کر یہاں سے بھاگ گیا تھا۔ اب تو اس کے بڑے امیری کے ٹھاٹھ ہیں، بھگوان جانے کہاں سے دولت لوٹ لایا ہے! آخر اس سے پوچھا ’’ کہو لالہ صاحب کہاں تھے؟‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’ بھائی میں انبالے میں کمسٹریٹ گماشتہ ہوں، یہاں سے جا کر وہاں نوکر ہو گیا تھا۔ کہو تمہارے لالہ اچھے ہیں اور تم کیا کرتے ہو؟‘‘ خوشحال چند بولا ’’ تمہاری مہربانی سے سب اچھے ہیں۔ میں وہی کوڑی پیسوں کا بیوپار کرتا ہوں، دو چار آنے روز ہاتھ آ جاتے ہیں، پر اس میں کچھ اچھی طرح گزران نہیں ہوتی، جو انبالے میں کوئی کام نکلے تو ہمیں بھی یاد رکھنا۔‘‘ اس نے کہا’’ ہمارے ہاں کئی ڈنڈی دار درکار ہیں۔ جو تمہارا جی چاہے تو ہمارے ساتھ چلے چلو۔ سات روپیہ مہینا تم کو ملے گا اور جو اوپر سے مل جائے وہ تمہارا بھاگ۔‘‘ خوشحال چند بولا ’’ واہ مہاراج! ایسی نوکری کہاں ملے ہے؟ جو ایسا کرو تو جانے سات روپے مہینا اپنے پاس سے دو۔ دو روپے میں کھاؤں گا اور پانچ روپے مہینے کے مہینے گھر بھیجتا رہوں گا۔ بلا سے اگر کچھ فائدہ نہ ہو گا تو بھی اس کتے خسی سے تو لاکھ درجے بہتر ہے۔‘‘ گماشتے نے کہا’’ تو بس تیار ہو جاؤ، ہم پرسوں یہاں سے جائیں گے۔‘‘ خوشحال چند کنوئیں پر سے نہا دھو اپنے گھر آیا اور اس امر کا منتظر رہا کہ کب لالہ جمنا جی سے آویں اور ان سے یہ حال کہوں۔ اس کی جورو نے جب دیکھا کہ وہ اس روز معمول کے موافق بازار نہیں گیا تو کہنے لگی ’’ آج تو بازار کیوں نہیں جاتا؟ نٹھلا پھرتا پھرے ہے۔‘‘ وہ بولا ’’ اب تو ہم انبالے جائیں گے، یہاں اچھا روزگار نہیں ہوتا۔‘‘ ہیرا نے کہا’’ ہاں جانے چلا ہی تو ہے، کھا باپ کی سوں!‘‘ اتنے میں نہال چند جمنا جی سے بغل میں دھوتی مارے ہوئے آ پہنچا خوشحال چند نے ساری حقیقت اس کے روبرو بیان کی۔ وہ بولا ’’ نہ بھائی میں باہر نہ بھیجوں، روکھی سوکھی جیسی ملے، اپنے کنبے میں بیٹھ کر کھائے۔ بھلا تو وہاں جائے گا، ہماری آتما یہاں کلپا کرے گی۔ گھر میں تیرے سوا کوئی ایسا نہیں جو چار پیسے کا سودا بھی لا رکھے۔ ہم کس کس کی خوشامد کیا کریں گے؟ لڑکا تجھ بن کیوں کر رہے گا؟ ہمارا دباؤ مانتا نہیں، کچھ تو ابتر ہے ہی اور بھی ابتر ہو جائے گا۔‘‘ خوشحال چند نے کہا ’’ لالہ جی اب تو جانے ہی دو، سات روپے میں تم کو دئیے جاؤں ہوں اور پانچ روپے مہینے کے مہینے بھیجتا رہوں گا۔‘‘ اس کی جورو ہیرا چپکے سے بولی ’’ بھلا تجھے مجھ سے تو کچھ محبت نہیں ہے، پر اپنے بوڑھے باپ کو چھوڑ کر کہاں جائے ہے۔‘‘ وہ بولا ’’ عورت کی مت گدی پیچھے ہوتی ہے، تو نہیں جانتی، مدت پیچھے دن پھرے ہیں، گھر آئی لچھمی کو لات مارنا اچھا نہیں ہوتا اور اس میں کیا ہے، جو میں وہاں اپنا کچھ سوجھتا نہ دیکھوں گا تو پھر چلا آؤں گا۔‘‘ اس طرح کی باتیں بنا کر اس نے اپنے باپ اوربیوی کو راضی کر لیا اور جب چلنے لگا تو اس کے باپ نے ایک تھالی میں لڈر ایک ناریل اور ایک روپیہ رکھ کر اول اس کے ماتھے پر رولی سے ٹیکا لگایا اور پھر روپیہ اور ساری چیزیں اس کے پلے میں ڈال کر بولا ’’ بھگوان تیری کمائی میں برکت کرے اور جلد تیری صورت دکھاوے!‘‘ یہ کہہ کر رخصت کیا اور خود بھی تھوڑی دور تک پہنچانے گیا۔ خوشحال چند نے چلتے وقت اپنے لڑکے کے ہاتھ پر ایک ٹکا رکھ دیا اور کہا ’’ بھائی دیکھ! جو لالہ جی کہیں سو کریو اور گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتا نہ پھریو۔‘‘ جب وہ انبالے پہنچا تو گماشتے نے اسے پلٹن کے راشن(3) تولنے پر مقرر کیا، یہ ہر روز پریٹ پر جاتا اور راشن تول کر چلا آتا۔ کچھ دنوں تک تو ایمان داری سے کام کرتا رہا، پھر ایک روز اس گماشتے کے ایک نوکر نے جو بڑا چالاک تھا، خوشحال چند سے کہا لالہ جو اس طرح منہ میں سونا(4) کر بیٹھو گے تو آئے کمسٹریٹ میں بھائی! یہاں روز وارے نیارے ہوتے ہیں، سات رو پلڑی (5) میں کیا ہوتا ہے؟ کیا ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی؟ کیا کھاؤ گے اور کیا گھر بھیجو گے؟ خوشحال چند بولا’’ بھائی! جو تو بتاوے سو کریں۔‘‘ نوکر نے کہا ’’ روز ایک پلٹن کا راشن بانٹنے جاؤ ہو، جو ہر ایک چیز میں سے تھوڑا تھوڑا بھی بچاؤ تو دو تین روپے کا مال بچ سکے ہے۔ اس میں سے دو حصے لالہ کے سامنے لا رکھے، ایک حصہ آپ بچایا۔ لالہ دیکھ کر جدا خوش ہو جائیں گے اور اپنا پیٹ بھی اچھی طرح بھرے گا۔‘‘ یہ بات سن کر خوشحال چند نے کہا’’ بھائی! یہ تو جوتیاں کھانے کے کام ہیں۔ جو کسی فرنگی نے پریٹ(6) پر کم تولتے ہوئے دیکھ لیا تو بیتوں کے مارے کھال بھی بدن پر نہ چھوڑے گا۔ کوئی ایسی بات بتا جس میں سانپ (7) مرے، نہ لاٹھی ٹوٹے۔‘‘ نوکر نے کہا ’’ بس اس سے اچھی بات کوئی نہیں ہے۔ ہم نے تو تیرے بھلے کی تجھ سے کہہ دی، آگے تجھے اختیار ہے۔ تیرا جی چاہے کر، تیرا جی چاہے نہ کر۔‘‘ خوشحال چند یہ بات سن کر چپکا ہو رہا اور دل میں کہنے لگا ’’ بات تو اچھی بتائی ہے سچ ہے، کمسٹریٹ میں کون ایسا ہے جو اوپر سے نہیں کھاتا؟ سب کا یہی حال ہے، نہیں تو یہ لالہ اتنے موٹے کیوں کر ہو جاتے؟‘‘ دوسرے روز اس نے نوکر کے کہنے پر عمل کیا اور آٹھ آنے بچائے۔ پھر تو منہ کولہو لگ گیا روز پلڑا جھکانے لگا۔ رفتہ رفتہ ٹھیکے والوں سے بھی کچھ ماہوار ٹھہر گیا۔ انہوں نے بھی خیال گیا کہ اگر چار پانچ روپے مہینہ اسے پہنچتا رہے گا تو یہ ہماری چیزیں پوری تول کر لے لیا کرے گا، زیادہ نہیں مانگے گا۔ ایسی ایسی بے ایمانیوں سے ایک سال کے بعد اس کے پاس کھا پی کر دو سو روپے بچے اور کمسٹریٹ والا صاحب اس کے کام سے اس قدر خوش ہوا کہ اسے گودام (8) گھر کا گماشتہ مقرر کر دیا۔ وہاں خوشحال چند نے وہ ہاتھ رنگے کہ دوسرے سال کے آخر میں چار ہزار روپے کمائے۔ کئی من کھانڈ غائب کر کے کہہ دیا بھیڑیں کھا گئیں اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزوں میں فریب کیا۔ جب اس کے پاس بہت سا روپیہ ہو گیا تو کئی دفعہ اپنی بیوی اور لڑکے کے واسطے اچھے اچھے کپڑے اور طرح طرح کے زیور بھیجے۔ برادری میں ان کی خاطر ہونے لگی۔ بعض آدمیوں نے چاہا کہ اپنی لڑکیوں کی سگائی دولت رام سے کر دیں۔ بہت سے نائی اپنے ججمانوں کی لڑکیوں کی پتریاں لے کر نہال چند کے پاس آئے مگر دولت رام کی پتری کسی کی پتری سے مطابق نہ ہوئی۔ ایک دن ایک نائی کسی لڑکی کی پتری لے کر آیا اور نہال چند سے کہنے لگا ’’ لو مہاراج! آج میں ایک چھوری کی پتری لایا ہوں۔ چھوری کیا ہے؟ گلاب کا پھول ہے اور تمہارے ہی گھر جوگ ہے، پر اس کے ماں باپ غریب ہیں۔‘‘ نہال چند نے کہا’’ بھائی! اس سے کیا غرض ہے؟ لڑکی اچھی چاہیے، کیا سمدھی کے دیے پوری پڑے ہے؟ جو لڑکا لڑکی کے بھاگ اچھے ہوں تو آپ ہی ان کے پاس دولت آ جائے گی ہاں کوئی یہ نہ کہے کہ کس نیچ گھر کی لڑکی بیاہ لائے ہیں۔‘‘ نائی بولا ’’ مہاراج! اس بات سے تو خاطر جمع رکھو ۔ خاصے اگروال کی بیٹی ہے۔‘‘ نہال چند نے کہا’’ اچھا پتیری چھوڑ جاؤ۔ ہم برہمن کو دکھالیں ۔‘‘ نائی پتری دے کر چلا گیا اور بیٹی والے سے جا کر کہا۔ ’’ چھوری کی پتری ایسے گھر دے آیا ہوں، بیٹھی راج کرے گی۔ لڑکا بھی اچھا ہے اور اس کا دادا سگائی کرنے پر راضی ہے اور پتری بھی جڑی جڑائی ہے۔ پر اس نے کہا ہے، برہمن کو دکھا لیں جو سگائی ہو گئی تو بتاؤ، ہمیں کیا دو گے؟‘‘ وہ بولا ’’ بھائی! چھوری کی سگائی دس جگہ سے پھر چکی ہے۔ ہم چاہیں ہیں، کسی اچھے گھر بیاہی جاوے اور یہ تو جانے ہی ہے، جب سے اس کے ماتا نکلی ہے کچھ آنکھ میں بھینگا پن ہو گیا ہے۔‘‘ نائی نے کہا ’’ اجی تم اس بات سے تو خاطر جمع رکھو۔ جہاں میں سگائی کر آیا، پھر نہیں سکتی۔‘‘ بنیا بولا۔’’ تو بس ہم بھی دس پانچ روپے سے منہ نہ موڑیں گے۔‘‘ ہیرا نے جو اپنے رشتہ داروں میں اس لڑکی کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی آنکھ میں پھلی ہے اور جب اس امر کا اسے یقین ہو گیا تو خوب چمکی اور آگ بگولا ہو کر نہال چند سے کہنے لگی۔ لالہ جی! جو اب کے وہ موا نائی آوے تو اس کی پتری اس کے مونڈ مارنا، نپوتا دھو کے دیتا پھرے ہے، لڑکی تو کانڑی ہے۔ نائی کو تو ادھر کی لو لگی ہوئی تھی، تھوڑے عرصے کے بعد پھر آیا۔ نہال چند نے اسے بہت سی گالیاں دے کر کہا ’’ تجھے کس نے نائی بنایا ہے؟ جو اس طرح ججمانوں کو دھوکا دیتا پھرے گا تو کوئی تجھے اپنی چوکھٹ پر پاؤں نہ رکھنے دے گا۔‘‘ وہ نائی دھتکار کھا اپنا سا منہ لے چلا گیا اور پھر دولت رام کی نسبت سورج پور گاؤں کے ایک بنیے لچھمی داس کی بیٹی مونگا سے ٹھہری۔ جب بیاہ کی تاریخ قریب آئی تو نہال چند نے خوشحال چند کو اس مضمون کی ایک چٹھی لکھی کہ لڑکے کا بیاہ منگسر میں قرار پایا ہے، تمہیں چاہیے کہ رخصت لے کر جلد چلے آؤ اور بیاہ کر جاؤ۔ ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ بیاہ کا سامان کر سکیں اور لڑکا بھی بارہ برس کا ہو گیا ہے۔ جو اب بیاہ نہ ہو گا تو کب ہو گا۔ جب یہ چٹھی خوشحال چند کے پاس پہنچی تو اسے بڑا فکر ہوا اور دل میں خیال کرنے لگا کہ یہاں سے جاتا ہوں تو کام خراب ہوتا ہے۔ آج تو حاکم مہربان ہے، کل خدا جانے کیا ہو۔ یہاں سے مہینے بھر غائب رہنے میں پانچ سو روپے کا نقصان ہے۔ پھر سوچا کہ اگر میں نہ جاؤں گا تو بیاہ کون کرے گا؟ لالہ میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ چار برادری والوں کو بھی اکٹھا کریں۔ آخر کار یہی بات اس کے دل پر جم گئی کہ کچھ ہی ہو، دہلی چل کر لڑکے کا بیاہ ضرور کر آنا چاہیے۔ یہ سوچ کر اسی گماشتے کے پاس گیا، جس کے ساتھ آیا تھا اور کہا ’’ مہاراج! آپ کی مہربانی سے میں آج تک ایسا رہا کہ تمام عمر آپ کو اسیس دیتا رہوں گا۔ اب آپ کے غلام کی شادی ہے جو صاحب سے کہہ کر ایک مہینے کی چھٹی دلوا دو تو بڑی بات ہے اور اس میں آپ کا بھی نام ہو گا۔‘‘ گماشتے نے اسے ایک مہینے کی رخصت دلوا دی اور خوشحال چند خوشی خوشی اپنے گھر روانہ ہوا۔ جب دہلی پہنچا اور اپنے گھر گیا تو اس کے باپ اور بیوی اور لڑکے نے بالکل نہ پہچانا، کیں کہ اب اس کی صورت نری کنگالوں کی سی نہ رہی تھی۔ کہاں وہ میلی سی دھوتی، کمری اور ٹوپی اور کہاں چوڑیے کا پاجامہ جس میں پھڑکتا ہوا ریشم کا ازار بند اور مخمل کا انگرکھا اور اس پر دو شالہ اور سر پر سرخ پگڑی؟ جب اس نے اپنے باپ کو لالہ جی کہہ کر پکارا اور اس کے پاؤں پر گر پڑا تو لالہ کو معلوم ہوا کہ یہ خوشحال چند ہے۔ آخر اسے اٹھا کر گلے لگایا او رنہایت خوش ہوا۔ ہیرا بھی اپنے خاوند کو دیکھ کر کھل گئی اور دولت رام سے جو باپ کو دیکھ کر شرمایا جاتا تھا کہنے لگی ’’ جا باپ کے پاس جا۔‘‘ وہ خوشحال چند کی گود میں جا بیٹھا، خوشحال چند نے پیار کر کے کہا’’ بیٹا! ہم تمہارے واسطے بہت سی چیزیں لائے ہیں۔‘‘ پھر رات کو خوشحال چند اپنے باپ سے گماشتے کے سلوک اور اپنے روپے کمانے کی تدبیروں کا بیان کرنے لگا۔ اس کا باپ بولا’’ میں تم سے پہلے ہی کہوں تھا کہ بھگوان کی بلند ہے۔ جب وہ اپنے دینے پر آویں ہیں تو چھپر پھاڑ کر دیں ہیں اور سو ہی ہوا۔‘‘ جب نہال چند کو باتیں کرتے کرتے نیند آ گئی تو ہیرا نے خوشحال چند سے پوچھا ’’ کہو ہمارے لیے کیا لائے ہو؟‘‘ اس نے پہلے تو اپنا صندوقچہ کھول کر ایک جوشن کی جوڑی اور ایک چمپا کلی اس کے حوالے کی اور پھر گٹھڑی میں سے فیروزی رنگ کا چادر جوڑا دے کر کہا ’’ جب برادری میں بیاہ کے بلاوے دینے جاوے تو اس کو اوڑھ جائیو۔ عزت کی چیز ہے۔‘‘ آدھی رات تک دونوں میں ادھر ادھر کی بات چیت ہوتی رہی، پھر سب سو گئے۔ دوسرے روز سے بیاہ کی تیاری ہونی شروع ہوئی۔ جو عورتیں شادی میں ان کے گھر آئیں، سب نے ہیر اسے کہا ’’ بہن چھورے کا گونا بھی ابھی کر لیجو۔ بہو بھی سیانی ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’ دیکھو جو سمدھی راضی ہوں گے تو ابھی ہو جائے گا۔‘‘ جب بیاہ ہو چکا اور گونا کرنے میں بھی سمدھیوں نے کچھ تکرار نہ کی تو خوشحال چند نے گونا بھی کر دیا اور پھر رہنے کے واسطے ایک اچھا سا مکان کرایے کو لیا اور اپنے لڑکے کے لکھوانے پڑھوانے کی کچھ تدبیر کی۔ تھوڑے عرصے کے بعد انبالے کو روانہ ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی یہ خبر سنی کہ سکھوں نے ستلج پر فساد اٹھا رکھا ہے اور وہ دریا کے پار اتر کر سرکاری اونٹ لے جاتے ہیں اور اکیلے وکیلے سپاہی کو بھی مار جاتے ہیں۔ خوشحال چند نے اپنے یار آشناؤں اور برادری کے لوگوں میں جو انبالے رہتے تھے، اس بات کا چرچا کیا۔ وہاں طرح طرح کی باتیں سنیں، کوئی کہتا تھا ’’ بھائی! سکھ بگڑے برے۔ اب انگریزوں کا پاؤں جمنا مشکل ہے۔‘‘ کوئی اس کے جواب میں کہتا ’’ ارے میاں! کیا کہو ہو؟ انگریز بڑے راجا ہیں، ان کے سامنے کون پڑتا ہے؟ کہاں راجا بھوج اور کہاں کانگڑا تیلی! پون ان کے بس میں جل ان کے بس میں آگ ان کے بس میں انہوں نے تو دیوتاؤں کو بھی بس میں کر لیا ہے بھلا ان سے کوئی کیا لڑے گا۔‘‘ دو چار روز تک یہ چرچا ہوتا رہا۔ اس کے بعد سکھوں کے مقابلے کو انبالے سے فوج روانہ ہوئی اور خوشحال چند لشکر کی رسد رسانی کو بھیجا گیا۔ جب سکھوں سے مقابلہ شروع ہوا اور دونوں طرف سے گولا چلنے لگا، خوشحال چند کو حکم ہوا کہ وہ فوج کو راشن دے۔ یہ سنتے ہی وہ ڈر کے دھل گیا اور اپنے دل میں کہنے لگا اب تک تو خوب پھولی پھولی کھائی تھی، پر اب جان ہی پر آ بنی ہے۔ ہائے! میں کہاں آ گیا! یہاں سے جان بچا کر جانا بہت مشکل ہے جو ایک گوالا آ لگا تو ٹکا سی جان جھٹ نکل جائے گی اور سارا روپیہ یوں ہی دھرا رہے گا۔ اس اندیشے میں اسے بخار چڑھ آیا۔ گھر جانے کے واسطے بہتیرے ہاتھ پاؤں پیٹے، مگر کمسٹریٹ والے صاحب کاہے کو جانے دیتے تھے؟ جب چار پانچ روز گزر گئے اور اسے توپوں کی آواز سننے کی کچھ عادت بھی ہو گئی تو راشن بانٹنے کے واسطے جانے لگا، مگر ایسے وقت میں بھی اسے اپنے فائدے کا خیال نہ گیا۔ مردوں کا مال خریدتا رہا اور جہاں تک ہو سکا روپیہ جمع کرتا رہا۔ سپاہیوں کا بھی یہ حال تھا کہ دشمن کی جو چیز ان کے ہاتھ لگتی اونے پونے گماشتے کے ہاتھ بیچ جاتے بلکہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ سونے کے تھال پیتل کے بھاؤ بک گئے۔ لڑائی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ خوشحال چند کے پاس پچاس ہزار روپے سے زیادہ ہو گیا مگر لالچ بری بلا ہے۔ اس جاں جوکھوں میں بھی روپیہ جمع کرنے کی خواہش دل سے نہ گئی۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ وہ راشن بانٹ رہا تھا اور کمسٹریٹ والا صاحب بھی اس کے پاس کھڑا تھا کہ یکایک صاحب کے ایک گولا آ لگا۔ اسے ڈولی میں ڈال کر ہسپتال (9)میں لے گئے۔ خوشحال چند یہ حال دیکھ کر بہت ڈرا اور روتا ہوا صاحب کی ڈولی کی طرف دوڑا گیا۔ وہ اسے دیکھ کر بولا جاؤ! ول تم کیوں چلا آتا ہے؟ تم راشن کا بندوبست کرے گا۔ جو سپاہی کے پاس کھانا نہ ہو گا تو وہ کیوں کر لڑے گا؟ خوشحال چند یہ بات سن کر الٹا چلا آیا اور راشن بانٹنے لگا۔ دوسرے روز وہ صاحب مر گیا اور اس کی جگہ ایک ایسا افسر مقرر ہوا جو کمسٹریٹ کے کام سے بالکل واقف نہ تھا اور دفتر کے کاغذوں سے بھی اسے کچھ اطلاع نہ تھی۔ خوشحال چند یہ دیکھکر بہت خوش ہوا اور ایسے موقع کو غنیمت جان کر دفتر کے بابو سے کہنے لگا ’’ بابو جی! کس نیند سوہو، کوئی ایسی تدبیر نکالو جو اس جھگڑے سے چھوٹ جائیں اور تمام عمر گھر بیٹھے ہوئے مزے سے روٹیاں کھائیں۔ دیکھو پھر ایسا وقت ہاتھ نہیں آئے گا، ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔‘‘ بابو نے جواب دیا ہم ایک بات تم کو بولتا ہے۔ خبردار کسی سے نہ کہیے گا اور جو تم اس بات پر راضی ہو گیا تو یاد رکھنا بڑا دولت والا آدمی ہو جائے گا۔ اب کے جو انڈنٹ(10) آوے اس کو ہم بدل دے گا اور تم سو من چیز لے کر ہزار من کے دام لگانا۔ اس میں جو ملے، آدھا ہمارا آدھا تمہارا۔ صاحب کو اس بات کا کچھ بھی خبر نہ ہو گا۔ خوشحال چند تو ایسی بات ڈھونڈھ ہی رہا تھا، جھٹ راضی ہو گیا اور بابو نے ایک انڈنٹ کیا کئی انڈنٹ بدل دئیے۔ اس طرح بے ایمانی سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ خوشحال چند کے ہاتھ آیا اور جب پنجاب کی لڑائی بالکل ختم ہو گئی تو وہ تین لاکھ روپے بلکہ اس سے بھی زیادہ لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوا۔ وہاں آ کر سارا لڑائی کا حال اپنے باپ کے سامنے بیان کیا۔ نہال چند توپ گولوں کا ذکر سن کر بہت ڈرا اور خوشحال چند کو نوکری پر جانے سے منع کیا۔ وہ بھی اپنے باپ کے سمجھانے سے نوکری چھوڑ بیٹھا اور ساہوکاری کی دکان کھول، ہنڈی پرچے کا کارخانہ پھیلا دیا۔ پھر نہال چند سے کہا ’’لالہ جی ! اب تم وہ کام کرو جس میں تمہارا پرلوک سنورے۔ بھگوان کی دیا ہے، جو چاہو سو دان پن کرو، مندر بنواؤ۔ جو ہمیشہ کو اس کا نام چلا جائے۔‘‘ نہال چند نے کئی مندر بنوائے اور برہمنوں کو بہت سا کچھ دان دیا۔ جاڑے کے موسم میں فقیروں کو کمبل بانٹتا، روز کتھا سنتا اور دیا دھرم میں بڑا دل لگاتا۔ خوشحال چند نے اپنے رہنے کے لیے ایک بڑا مکان بنوایا اور اس کا ایک دروازہ بازار کی طرف اور دوسرا دروازہ گلی کی طرف رکھا۔ بازار کی طرف کے دروازے میں دونوں طرف دو صحنچیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں نوکر رہتے تھے۔ اس سے آگے بڑھ کر صحن کے دائیں طرف ایک دالان در دالان تھا اور اس دالان کے نیچے ایک تہ خانہ ایسا وسیع بنا ہوا تھا کہ گرمی کے موسم میں بہت سے آدمی وہاں آرام سے سو رہتے تھے۔ بائیں طرف ایک اکہرا دالان تھا، اس میں نہال چند کا پلنگ بچھا رہتا تھا اور صحن میں ایک چمن اور چمن میں ایک فوارہ دار حوض تھا۔ جب جیٹھ بیساکھ میں شدت سے گرمی پڑتی تو یہ لوگ اس حوض کے کنارے پر بیٹھ کر فوارے چھٹواتے اور بڑا لطف اٹھاتے۔ دروازے کے سامنے دولت رام کے بیٹھنے کا ایک چھوٹا سا دالان بنا ہوا تھا اور اس کے برابر محل سرائے کا دروازہ تھا۔ محل سرائے میں بائیں طرف دالان در دالان اور دائیں طرف رسوئی کا مکان تھا جس کے دروازوں میں جالی دار کواڑ لگے ہوئے تھے اور پانی کے برتن بھی سب اسی میں رہتے تھے۔ دھرے دالان کی کوٹھڑیوں میں کھانے پینے کا سامان تھا اور اس کے اوپر ایک کمرہ بنا ہوا تھا، وہیں دولت رام سویا کرتا تھا۔ دیوان خانے کے دالان در دالان کی ایک بغلی کوٹھڑی میں ایک چہ بچہ تھا۔ اس میں خوشحال چند اپنا روپیہ رکھا کرتا تھا اور اس کوٹھڑی کے باہر اس کا منیب (11) اور کئی آدمی اپنا اپنا بستہ بچھا کر بیٹھتے تھے اور دروازے پر ایک آدمی ڈھال تلوار باندھے ہوئے ہر وقت موجود رہتا تھا۔ جب یہ مکان بن کر تیار ہوا تھا تو ابھی اس میں جا کر بسے بھی نہ تھے کہ نہال چند نے خوشحال چند سے کہا ’’ بھائی پہلے مہورت دکھا کر اس مکان کی جٹ(12)کو ڈالو۔ جب دولت رام کا بیاہ ہوا تھا اس وقت ہمارے پاس اتنا روپیہ کہاں تھا جو ساری برادری کی دعوت کرتے اب بھگوان نے تمہیں بھاگ لگایا ہے، کوئی بات جس کی کرنی چاہیے۔‘‘ خوشحال چند نے اس کے کہنے سے اول مکان میں ھوم (13) کرایا، پھر کھانے پینے کا سامان تیار کرا کر برہمنوں کو جمایا۔ سب برہمن برابر قطار باندھ کر ہو بیٹھے۔ پھر ایک آدمی نے آ کر سب کے سامنے پتلیں چن دیں۔ دوسرا آتے ہی ہر ایک پیتل پر چار چار لڈو ڈال گیا اور اسی طرح ہر قسم کا کھانا ان پتلوںپر رکھا گیا۔ پھر پانی کا ایک آبخورہ ہر ایک کی پتل کے آگے رکھ دیا۔ جب سب سامان آ چکا تو برہمنوں نے کھانا شروع کیا اور بعض آدمی اپنی پتلیں اٹھا کر گھر لے گئے۔ دولت رام یہ حال دیکھ کر ایک شخص سے جو اس کے برابر کھڑا تھا، کہنے لگا ’’ دیکھو جی! برہمن کی جات بھی کتنی لالچی ہوئے ہے۔ انہوں نے دیکھا جو یہاں بیٹھ کر کھائیں گے تو جھوٹ بچ رہے گی۔ یہ لوگ اپنا ہی بھلا چاہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ کچھ بے چارے بھنگی کے منہ بھی پڑے اور جو کچھ کہو تو ٹرانے لگیں اور کہنے لگیں لالہ نے کیا آج نیا برہم بھوج (14) کیا ہے جو باتیں بنا رہے ہیں۔‘‘ جب سب برہمن کھا چکے تو ان کے ہاتھ دھلائے اور پان کا ایک ایک بیڑا اور وچھنا (15) کا ایک ٹکا دے کر رخصت کیا۔ اس کے بعد برادری کے لوگوں کی دعوت ہوئی۔ ان سب کو بھی اسی طرح قطاریں باندھ کر بٹھا دیا اور پتلوں میں سب کے آگے کھانا رکھ دیا۔ جب وہ کھانے لگے، ان قطاروں میں سے کوئی یہ پوچھتا ہوا گزر جاتا ’’ کیوں صاحب؟ کوئی گرم کچوری لیجئے گا؟‘‘ کوئی یہ کہتا چلا جاتا ’’ کیوں صاحب؟ جل‘‘ اس میں جو کچھ جسے درکار ہوتا وہ لے لیتا اور جسے کسی چیز کی ضرورت نہ ہوتی وہ چپ ہو رہتا یا انکار کر دیتا اتنے میں خوشحال چند کا منیب لڈو لے کر وہاں آیا اور ہر ایک سے پوچھنے لگا۔ کیوں صاحب ایک لڈو۔ یہ کہتا جاتا اور مہمانوں کے آگے ایک ایک دو دو لڈو ڈالتا جاتا تھا۔ جب دوسری قطار میں پہنچا تو کسی شخص نے اپنے پتل کے اوپر ہاتھ ڈھک کر کہا دیکھو صاحب! چار لڈو سے زیادہ مت ڈالنا۔ ناحق مال خراب کرنے سے کیا فائدہ؟ تم آپ سمجھو ہو، ہمارے اور خوشحال چند جی کے مال میں کچھ فرق نہیں۔ منیب آپ ہی اپنے دل میں لیا گیا اور اس کو ناچار چار لڈو دینے پڑے۔ جب سب لوگ کھانا کھا چکے تو ہاتھ دھو، پان کے بیڑے لے، اپنے گھر چلے گئے۔ نوکروں نے ان کا کھانا اٹھا کر خاکروب کو دے دیا۔ جب مکان کی جٹ ہو چکی تو سب کے سب اس میں جا رہے اور رہنے سہنے لگے۔ ایک روز معمول کے موافق خوشحال چند دوپہر کے وقت اپنے باپ اوربیٹے کو لے کر محل سرائے میں روٹی کھانے گیا۔ نہال چند علیحدہ ایک چوکے میں ہو بیٹھا اور خوشحال چند اور دولت رام دونوں دوسرے چوکے میں بیٹھ گئے۔ مشرانی جو ان کے ہاں روٹی پکانے پر نوکر تھی اور اس وقت وہیں الگ بیٹھی ہوئی کھانا پکا رہی تھی، اس نے ایک تھال میں دال چاول اور روٹی نہال چند کے آگے رکھ دی اور دوسرے تھال میں خوشحال چند اور دولت رام کے سامنے۔ اتنے میں ہیرا دو کٹوریوں میں تھوڑا تھوڑا سا اچار لائی اور ان کے آگے رکھ کر دروازے پر آ کھڑی ہوئی اور نہال چند سے کہنے لگی ’’ لالہ جی! تمہارے دولت کی بہو کا پیر (16) بھاری ہے۔ سات آٹھ دن پیچھے اس کے ساسرے سے ساد (17) آوے گی۔‘‘ وہ بولا’’ یہ تو تو نے اچھی بات سنائی۔ بھگوان کرے، چھورا ہو۔‘‘ دولت رام کی بہن خوشحالو جو وہاں کھڑی تھی بولی ’’ ہاں بابا جی! یہی مناؤ، جو میرا بھی بھلا ہوا۔‘‘ چند روزبعد جب دولت رام کی بیوی کو ساتواں مہینہ لگا تو اس کے میکے سے بھائی اور ترکاری آئی اور برادری میں تقسیم ہو گئی۔ نواں مہینہ لگتے ہی ایک دن مونگا بہت بے چین ہوئی۔ یہ حال دیکھ کر ہیرا گھبرانے لگی اور بہو کو ایک علیحدہ کوٹھڑی میں لے جا کر ایک چارپائی پر لٹا دیا اور دائی کو بلا کر کہا ’’ اری جا! دیکھ تو آج بہو کا کیا حال ہے۔‘‘ مونگا اپنی تکلیف میں بے قرار تھی۔ دائی بھی اس کے پاس جا بیٹھی اور جس قدر اسے زیادہ تکلیف ہوتی جاتی تھی اسی قدر ہیرا مختلف دیوتاؤں کے نام کے پیسے رکھتی جاتی تھی۔ آخر بہت دیر کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ اسی وقت ایک عورت نے زچہ خانے کے پاس جا کر تھالی بجائی تاکہ آئندہ لڑکا کسی بھاری آواز سے نہ ڈرا کرے۔ جب خوشحال چند کو یہ خبر پہنچی تو اس نے فوراً اپنے باپ کو اطلاع دی۔ منیب اور آور نوکر چاکر نہال چند کے پاس آ کر مبارک باد دینے لگے۔ پھرایک پنڈت کو جو ان کے ہمسایے میں رہتا تھا، بلایا۔ نہال چند اور خوشحال چند نے ڈنڈوت کر کے اسے بہت تعظیم سے بٹھایا۔ پنڈت نے اشیر باد دے کر پوچھا سری مہاراج! یہ تو بتاؤ لڑکا کس سمے ہوا تھا؟ خوشحال چند نے لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت بتا دیا۔ پنڈت نے ایک چکلے پر کھریا سے اس کا زائچہ بنایا اور ظاہر میں خوب غور کر کے کہا ’’ سری مہاراج! یہ لڑکا سب کو بھاگوان ہوا ہے۔ دسویں اچ کا برہسپت ایسا پڑا ہے کہ راج میں ساجھا رہے۔ پانچویں گھر منگل بیٹھا ہے ۔ بدھیا اوھگ پائے پر راچھسی (18)بدھیا کا جوگ ہے۔ بیوپار میں گھنا لابھ ہو۔ مٹی میں ہاتھ ڈالے سونا ہو جائے۔‘‘ یہ کہہ کر پنڈت نے جنم پتری لکھی اور اس لڑکے کا جنم نام ایسری داس رکھا، مگر اس کے بعد عورتوں نے اس کا نام کروڑی مل مقرر کیا اور ننھا کہہ کر پکارتی رہیں۔ خوشحال چند نے پنڈت کو پانچ روپے دئیے، وہ اشیر باد دے کر چلا گیا۔ رات کے وقت تاروں کے نکلتے ہی دولت رام کی بہن خوشحالو ایک کٹورے میں پانی لے کر زچہ خانے میں گئی اور اس پانی سے اپنی بھاوج کی چھاتی دھوئی۔ مونگا نے اسے ایک اشرفی دی اور پھر بچے کو دودھ پلانا شروع کیا۔ اتنے میں ایک عورت نے گوبر کی بہائی (19) بنا کر زچہ خانہ میں رکھ دی۔ ہیرا کا یہ حال تھا کہ خوشی سے پھولی نہ سماتی تھی۔ روز نائنوں کو بلا کر گیت گواتی اور زچہ خانے میں ٹھٹھا چہل رکھتی۔ جب کوئی غیر عورت یا آدمی اس کے گھر آتا تو نظر لگنے کے اندیشے سے اسپند اور رائی اور آور اس قسم کی چیزیں جنہیں دھونی کہتے ہیں، آگ میں ڈال دیتی۔ ایک یا دو عورتیں ہر وقت زچہ خانے میں موجود رہتیں اور آگ سلگائے رکھتیں۔ بلی کو اندر نہ جانے دیتیں۔ چھ روز تک زچہ نہ نہائی۔ چھٹے روز دائی صبح ہی آئی اور زچہ اور بچہ دونوں کو نہلا کر زچہ خانے کا مکان دھلوایا اسی روز بھانڈ دیوان خانے میں آئے اور ناچ گا کر مبارک بادیاں دیں۔ پھر اپنا انعام لے کر چلے گئے۔ چونے والیوں نے محل سرائے میں آ کر خوب ناچ رنگ دکھائے۔ طرح کے روپ بھرے ان کے بیہودہ سانگ دیکھ کر عورتیں ایسی خوش ہوئیں کہ ہنستے ہنستے ہر ایک کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ سب نے بیلوں میں انہیں بہت سے پیسے اور چھلے دئیے۔ اسی روز رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں سے تالوا آنا شروع ہوا۔ اول لچھمی داس نے سات روپے نقد اور کتہ، ٹوپی اور کچھ میوہ بھیجا۔ پھر خوشحالو نے بھی اسی قسم کی چیزیں دیں مگر خوشحال چند نے اپنے دل میں کہا کہ یہ بیٹی کا دھن ہے اگر چپکا سا ہو رہوں گا تو برادری میں ناک کٹے گی۔ یہ سوچ کر جس قدر روپیہ خوشحالو نے اپنے سامان میں صرف کیا تھا، اس سے زیادہ اسے دے دیا۔ اسی روز پہر دن رہے نائی آیا اور زچہ کو اپنا جوتا پہنا کر زچہ خانے سے باہر نکال لایا۔ جب مونگا باہر آ کر بیٹھی تو نائی نے اول اپنا ناخن گیر اس کے ناخن کو چھوایا اور پھر سورج کے درشن کرائے۔ اس کے انعام میں اسے سوا روپیہ نقد اور بہت سا اناج ملا۔ ساتویں روز خوشحال چند نے لچھمی داس سے کہلا بھیجا تم اپنے گاؤں میں کوئی ایسے دھائے (20) تلاش کرو جو لڑکے کو اچھی طرح پالے۔ یہ سنتے ہی اس نے ایک جاٹنی مینا نامی کو جو ان کے ہمسایے میں رہتی تھی، بلایا اور اس سے کہا ’’ چھوری کے چھورا ہوا ہے۔ اس کے دادا کی یہ مرضی ہے کہ اس کو کسی دھائے کے ہاں دے دیں۔ اب تجھ سے اچھی دھائے کون ملے گی؟‘‘ وہ بولی ’’ جی میں پہلے اپنے گھر پوچھ آؤں پیچھے کہہ دوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر گھر گئی اور اپنے خاوند تیج رام سے کہا ’’ تیرا پڑوسی کہے ہے، ہماری چھوری کے چھورا ہوا ہے۔ سو تو اس کو لے لے۔ اس کا دادا اس کو ہمارے گاؤں میں پلوانا چاہے ہے۔ بتا اس میں تیری کیا مت ہے؟‘‘ وہ بولا ’’ لے لے، کیا ڈر ہے؟ ساہوکار کا چھورا ہے۔ جب وہ اس کو چھٹاوے گا تو گھنے روپے دے گا۔‘‘ جاٹنی اپنے خاوند کا یہ کلام سن پھر لچھمی داس کے مکان پر آئی اور اس سے کہا اچھا جی میں چھورے کو لے لوں گی تمہارا کہنا تھوڑے ہی ٹالوں ہوں۔ لچھمی داس بولا ’’ تو جا، آج ہی ہمارے آدمی کے ساتھ دلی چلی جا۔‘‘ جاٹنی جھٹ راضی ہو گئی اور لچھمی داس نے اسے ایک آدمی کے ساتھ کر دیا اور چلتے وقت اس سے کہہ دیا ’’ لالہ صاحب سے ہماری رام رام کہیو اور کہہ دیجو، جاٹنی گھر ہی کی ہے۔ اس کے کئی بالک ہو چکے ہیں اور بھگوان کی کرپا سے سب جیویں ہیں۔ چھورے کو اسے دے دو۔ کچھ ڈر مت کرو۔ جیسا کہ وہ اس کے ہاں رہا، ویسا ہمارے ہاں رہا۔‘‘ جب جاٹنی دہلی پہنچ گئی تو ہیرا نے لڑکے کو اس کے حوالے کر دیا۔ وہ اسے گود میں لیتے ہی بولی ’’ چھورا تو اپنے باپ ہی کو گیا ہے۔ پر جاٹنی کے دودھ کو بھی دیکھنا، اسے ٹھاڑا ہو گا۔‘‘ مینا ایک روز تو وہاں رہی، دوسرے روز لڑکے کو اپنے کھارے (21) میں رکھ کر چلنے کو تیار ہو گئی۔ ہیرا نے اسے اوڑھنے بچھانے کو لحاف، توشک اور کھانے کو کھچڑی، گھی اور زیرہ اور دس روپے نقد دئیے اور چلتے وقت یہ بھی کہہ دیا ’’ دیکھ ہمارے چھورے کو ایسا رکھیو، جیسے اپنے چھورے کو رکھے ہے، میں بھی تجھے خوش کر دوں گی۔‘‘ مینا بولی’’ تو اس بات سے چوکس رہ، تیرا بالک میرے میری جان کے برابر ہے۔ پہلے تیرا پیچھے میرا۔‘‘ یہ کہہ کر کھارے کو اپنے سر پر رکھا اور گاؤں کا راستہ لیا۔ خوشحال چند نے ایک آدمی اس کے ساتھ کر دیا کہ اسے گاؤں تک پہنچا دے اور اسباب بھی لے جائے۔ مینا اس آدمی کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی اپنے گاؤں کو چلی گئی مگر رستے کی تھکی ہوئی تھی، جاتے ہی ایک چارپائی بچھا کر پڑ رہی اور وہ آدمی جو اس کے ساتھ آیا تھا، اس کے گھر کا ڈھنگ دیکھنے لگا۔ پہلے وہ اس کے گھر کے دروازے میں گھسا، وہاں جاتے ہی کیا دیکھتا ہے کہ دروازے کے آگے ایک بہت لمبی دہلیز ہے اور اس میں ایک ماچا بچھا ہوا ہے اور ایک دو آدمی اس پر بیٹھے ہوئے حقہ پی رہے ہیں۔ دہلیز کے آگے ایک صحن ہے۔ جس کے تینوں طرف لمبے لمبے دالان تختے اور مٹی سے پٹے ہوئے ہیں۔ سامنے کے دالان میں جاٹنی رہتی ہے اور وہیں اپنا کھانا پکاتی ہے اور دائیں دالان میں بیل، گائیں، بھینسیں بندھی ہوئی ہیں اور بائیں میں چمڑے کا چرس، لاؤ کی رسی، ہل اور آور اسی قسم کی چیزیں ہیں اور وہیں ایک طرف بہت بڑے بڑے اور اونچے اونچے مٹی کے کچے برتن بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ان برتنوں کو دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور ایک نئی چیز جان کر مینا سے کہا ’’ اری یہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولی ’’ واہ! اس کو بھی نہیں جانے ہے۔ بارہ برس دلی میں رہا، کیا بھاڑ جھوکا؟ یہ اناج کی کوٹھیاں ہیں۔‘‘ وہ بولا’’ واہ خوب اناج کی کوٹھیاں بنائیں! میں سمجھا، بڑی بڑی انگیٹھیاں ہوں گی اور جانے ان میں کیا راندھتے ہوں گے۔‘‘ وہ آدمی ان کے مکان کا یہ حال دیکھ کر کہنے لگا۔ ہے رام جی! لالہ نے اپنا اچھا مکان چھوڑ کر لڑکے کو یہاں کیوں بھیجا ہے؟ جو ایسا ہی پلوانا تھا تو جاٹنی کو بھی اپنے ہی گھر رکھ لیا ہوتا۔ اسی خیال میں اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح ہوتے ہی دہلی کو روانہ ہوا۔ ادھر مینا اور اس کے خاوند کا حال سنو کہ جب چار گھڑی رات باقی رہی تو مینا چارپائی سے اٹھ کر چکی پیسنے لگی۔ گھڑی بھر کے بعد اس کا خاوند بھی اٹھا اور اس نے پہلے چلم بھر کر حقہ پیا، پھر کٹی کاٹی اور جب سورج نکل آیا تو بیلوں کو لے کر جنگل چلا گیا۔ اتنے میں مینا بھی چکی پیس چکی اور تھلیاں سر پر رکھ کر کنوئیں پر سے پانی بھر لائی۔ اس کے بعد گوبر اکٹھا کیا اور اپلے تھاپ کر دھوپ میں رکھ دئیے۔ پھر دودھ بلویا۔ اس عرصے میں لڑکا بھی جاگ اٹھا۔ مینا نے اسے دودھ پلا کر ایک چارپائی پر لٹا دیا اور اپنی لڑکی کو جو چھ برس کی تھی، اس کے پاس بٹھا دیا۔ پھر آپ چھاچھ اور دلیا لے کر اپنے خاوند کے پاس کھیت پر گئی وہ ہل جوت رہاتھا، دلیا کھا ، چاچھ پی، پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ مینا نے اپنے گھر آ کر دوپہر تک لڑکے کو کھلایا اور کچھ گھر کا بھی کام کیا۔ جب دوپہر ہوئی تو روٹی پکائی اور پہلے آپ کھائی، پھر ایک ٹوکری میں بھس بھرا اور اس کے اوپر روٹی رکھ کر تیج رام کے پاس کھیت میں لے گئی۔ اس نے ٹوکری میں سے روٹی نکال کر بھس بیلوں کے آگے ڈال دیا اور آپ ایک درخت کے تلے بیٹھ کر روٹی کھائی۔ پھر حقہ پی کر تھوڑی دیر تک اپنی بیوی سے باتیں کرتا رہا اور جب مینا وہاں سے چلی گئی تو وہ اپنی چادر تان کر اسی درخت کے نیچے سو رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر ہل جوتنے لگا۔ مینا نے کھیت سے آ کر لڑکے کو گود میں لے لیا اور اپنے ہمسایے میں کسی جگہ جا بیٹھی۔ وہاں بہت سی جاٹنیاں ایک گھر کی دہلیز میں بیٹھی ہوئی چرخے کات رہی تھیں۔ یہ بھی چرخہ کاتنے لگی۔ اتنے میں ایک جاٹنی نے مینا سے کہا ’’ مینا! اب تو تو بڑی دولت والی ہو جائے گ، ساہوکار کا چھورا لائی ہے۔‘‘ وہ بولی ’’ جی جی! کے (22) دولت والی ہو جاؤں گی۔ رام کے دے پوری پڑے ہے۔ اس کے ماں باپ تو بنیے ہیں۔ کہیں کچھ، دیں کچھ۔ ان کی بات کی کے پرتیت ہے۔ جو میرے لہنے کا کچھ روپیہ دے دیں تو چھوری کا بیاہ اچھی طرح ہو جائے۔ سمدھی آویں، دو سیر دلیا کھا جاویں۔‘‘ اس گفتگو میں چھ گھڑی دن رہے تک وہاں بیٹھی ہوئی چرخہ کاتتی رہی، پھر وہاں سے اپنے گھر میں آ کر دھوپ میں سے سوکھے سوکھے اپلے چنے۔ اس کے بعد جانوروں کا نیار تیار کر کے ہر ایک کے تھان پر ڈال دیا۔ اتنے میں تیج رام جنگل سے بیلوں کو ہانکتا ہوا آیا۔ مینا نے اٹھ کر انہیں باندھ دیا اور تیج رام گائیں بھینسوں کا دودھ دوہنے لگا، جب دودھ دوہ چکا تو حقہ بھر کر چوپاڑ میں چلا گیا۔ وہاں اور بھی بہت سے جاٹ اور کچھ مشر بیٹھے تھے۔ اس نے جاتے ہی پہلے حقہ ایک بوڑھے جاٹ کو دیا اور کہا ’’لے تاؤ (23) دم لگا۔‘‘ اس نے دم لگا کر دوسرے کو دے دیا۔ دوسرے نے تیسرے کے حوالے کیا اور اسی طرح حقے کا دور جاری رہا۔ سب کے سب جاٹ حقہ پیتے جاتے تھے اور زٹلیں ہانکتے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک بولا: زٹل ترجمہ اور مطلب حقہ ہر کالا ڈلا سب کا رکھے مان۔ بھری سبھا میں یوں پھرے جوں گوپن میں کاہن حقہ خدا کا عزیز ہے۔ سب کو راضی رکھتا ہے اور بھری ہوئی مجلس میں اس طرح پھرتا ہے۔ جیسے گوپیوں میں کنہیا پھرا کرتا تھا۔ دوسرا کہنے لگا ’’ بھئی پرتھی سنگھ! ہمارے بیل تو ہار گئے ۔ اب اور بیل کہیں سے مل جائیں تو مول لیں۔‘‘ ایک او ربولا’’ بیل تو ہمارے بھی ڈھانڈھے (24) ہو گئے ہیں، پر کیا کریں! ساہوکار کے روپے دینے ہیں، جو اس سے پیچھا چھٹے تو کچھ ڈول کریں۔ وہ جب آوے ہے تو ایسا آوے ہے جیسے فرنگی کا پیادہ۔‘‘ ایک نے کہا’’ بھائیو! من سکھ کا مقدمہ تو ہو چکا۔ نمبرداری اسی کے گھر میں رہی۔ پر تحصیلدار کا بھی اس نے گجا بھر دیا۔ پانچ سو روپے پہلے اس کو پہنچا دئیے، جب یہ کام بنا۔‘‘ اتنے میں ایک مشر جی بولے ’’ بھئی چودھری! لچھمی نے بڑے پن کیے ہیں۔ دنیا ہے اور روپیہ۔ روپے کی خاطر آدمی گدھے کو باپ بنا رہے ہیں۔‘‘ وہ اس قسم کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ ساہوکار بھی وہاں آ پہنچا اور جاٹ سے کہنے لگا ’’ کیوں بھئی چودھری! ہمارے روپے کب تک دے گا؟ اب تو بہت دن ہو گئے۔‘‘ جاٹ بولا ’’ لالہ جی! فصل پر دیں گے۔‘‘ ساہوکار نے کہا’’ جانے کون سی فصل پر دے گا، فصلیں تو کٹی ہو چکیں، روز روز کے پھرانے سے کیا فائدہ۔ بھلا جب نالش کر کے تیرے ڈھور ڈنگر نیلام کرا لوں گا تو اچھا ہو گا؟ بھلمنسائی کا زمانہ ہی نہیں رہا جب تک آدمی جوتے کے نیچے ہے، تب ہی تک ٹھیک رہے ہے۔‘‘ اس گفتگو سے جاٹ غصے میںبھر آیا اور کہنے لگا ۔’’ جا نیلام کرا لیجو۔ جانے تیرے ہی گھر تو راج آیا ہے اور نہیں تو اڑد کے آٹے کی طرح اینٹھا ہی جائے ہے۔‘‘ نمبردار نے ان دونوں میں ملاپ کرا دیا اور ساہوکار سے کہا ’’ لالہ! زمیندار کی جات اوت ہوئے ہے، اس سے ڈھور ڈنگر کے نیلام کرانے کی کیا بات چیت اور جو لالہ وہی نیلام ہو گئے تو ہمیں تمہیں کون پوچھے گا؟ یہ تو دولہا کے ساتھ برات ہے۔‘‘ جاٹ نے یہ بات سن کر نمبردار سے کہا ’’ تاؤ! تیرے بچے جیتے رہیں، تو نے انصاف کی بات کہی۔‘‘ تھوڑی دیری کے بعد تیج راج اپنے گھر چلا آیا۔ اس کی بیوی نے روٹی پکا ہی رکھی تھی، جھٹ آتے ہی کھا لی، پھر حقہ بھر کے ماچے پر بیٹھ گیا اور لڑکے کو کھلانے لگا۔ اتنے میں مینا نے بھی روٹی کھائی اور کھانے سے فارغ ہو کر دودھ کو آگ پر رکھ دیا اور جب وہ خوب گرم ہو گیا تو جامن ڈال کر اسے جما دیا۔ پھر سب سو گئے۔ اب خوشحال چند کے گھر کا حال سنئے۔ جب دھائے لڑکے کو لے کر وہاں سے چلی گئی تو مونگا جننے سے دسویں دن نہائی اور سارا مکان دھلوایا۔ خوشحال چند نے مٹی کے برتن جن میں پانی رہتا تھا، سب کے سب بدلوائے۔ سالگرام جی اور سری کرشن جی کی مورتوں کی پوجا، جو پہلے دس دن تک کسی اور کو بلا کر کرا لیا کرتا تھا، اب آپ کرنے لگا۔ برادری کے لوگ پھر ان کے ہاں کھانے پینے لگے اور حقے میں شریک ہو گئے۔ دس دن کے بعد تین نہان اور ہوئے اور چلے کے نہان کے بعد مونگا کو گنگا جل، گئو موتر اور کئی چیزیں ملا کر پلائیں، کیونکہ ہندوؤں کے اعتقاد میں یہ چیزیں زچہ کو بالکل پاک کر دیتی ہیں۔ پھر تو مونگا گھر کے برتنوں کو ہاتھ لگانے لگی اور روٹی پکانے کے لائق بھی ہو گئی۔ نہان کے دس پندرہ روز بعد ہیرا نے خوشحال چند سے کہا ’’ بہو کو اپنے باپ کے ہاں پیر پھیرنے جانا ہے۔ پنڈت کو بلا کر مہورت پوچھ لے اور گاؤں میں کہلا بھیج، دھائے چھورے کو لے کر چلی آوے۔‘‘ خوشحال چند بولا’’ اس کو کیوں بلاؤ ہو؟ وہاں تو جانا ہی ہے۔‘‘ وہ بولی ’’ میں اپنے گھر سے بہو کو خالی گود کیوں بھیجوں؟‘‘ خوشحال چند یہ بات سن کر چپکا ہو رہا اور جھٹ پنڈت کو بلا کر مہورت دریافت کیا اور حلوائیوں سے مٹھائی بنوائی۔ چلنے کے دن سے دو روز پہلے لڑکے کو دھائے کے ہاں سے بلوا لیا اور مونگا اس کو ساتھ لے کر اپنے باپ کے گھر گئی اور بہت سی مٹھائی اور کھانڈ کی ایک چھوٹی سی چوکھٹ ایک کٹوری میں گھی کا چراغ روشن کر کے اپنے ساتھ لیتی گئی۔ وہاں پہنچتے ہی پہلے اس نے اپنے بھائیوں کو بلا کر رولی سے ٹیکا لگایا اور انہیں ایک ایک روپیہ اور ایک ایک ناریل دیا۔ انہوں نے ناریل تو لے لیے اور روپے پھیر دئیے۔ پھر مونگا نے کھانا کھا کر اپنی سسرال جانے کا ارادہ کیا۔ اس کے باپ نے لڑکے کے کپڑے اور زیور اور خاوند اور ساس سسرے اور ودیا سسرے کے جوڑے اور جس قدر مٹھائی وہ لائی تھی، اس سے دو چند اس کے ساتھ کر دی۔ مونگا سب چیزیں اپنی سسرال میں لوئی اور مٹھائی برادری میں تقسیم کی۔ اس کے بعد اسے اپنے میکے میں جانے کی کچھ روک ٹوک نہ رہی۔ جب جی چاہتا وہاں چلی جاتی اور بچے سے مل آتی۔ خوشحال چند اور دولت رام بھی کبھی اکیلے اور کبھی مونگا کے ساتھ اس کو دیکھنے کو چلے جاتے۔ دولت رام سب کے سامنے بچے کو گود میں لینا اپنی بے وقوفی جانتا اور اسے اپنے باپ اور دادا کے روبرو ہرگز پیار نہ کرتا۔ ہاں جب جاٹنی اکیلی اس کے پاس ہوتی تو وہ لڑکے کو اٹھا کر کھلاتا اور ایسے وقت میں کبھی کبھی مینا اس سے کہتی لالہ! اس کے بیاہ میں تجھ سے گھنے روپے لوں گی۔ اسی طرح وہ لڑاک مدت تک گاؤں میں پرورش پاتا رہا اور جاٹنی کا دودھ پی پی کر موتا ہوتا رہا۔ جب کبھی دہلی میں کوئی تیوہار ہوتا تو مینا اس کو لے کر وہاں چلی آتی اور اپنی تیوہاری لے کر پھر اپنے گاؤں کو چلی جاتی۔ اس لڑکے کو مینا سے اس قدر محبت ہو گئی کہ ایک دم اس سے جدا نہ ہونا چاہتا تھا۔ ہر چند نہال چند اور خوشحال چند اسے لالچ دے کر اپنے پاس بلاتے مگر وہ ہرگز نہ آتا اور مینا اور تیج رام ہی کو اپنا ماں، باپ سمجھتا۔ جب کچھ بڑا ہوا تو اور آور لڑکوں کے ساتھ گاؤں کی گلیوں میں پھرنے لگا، جاٹوں کے سے طور دکھانے لگا، کبھی تیج رام کے ساتھ گائیں بیلوں کو ٹنکاری دیتا ہوا کھیت پر چلا جاتا اور وہاں جا کر بیج اور دانے اس طرح زمین پر ڈالتا گویا وہ جاٹ ہی کا تخم ہے، کبھی کھیلتے وقت زمین میں ایک گڑھا کھود کر اسے کنواں مقرر کرتا اور اس میں پانی بھر کر ایک مٹی کی کلیا سے چرس کے طور پر پانی کھینچتا اور یہ کہتا جاتا میرا بار لائیو رے رام منائیو رے۔ ترجمہ یعنی میرے بوجھ کو لا اور رام سے اس کام میں مدد مانگ۔ ایک دفعہ دولت رام گاؤں ہی میں تھا کہ وہیں پھاگن کا مہینہ آ گیا۔ اس نے ہولی کرنے کے لیے اپنے گھر آنے کا ارادہ کیا تیج رام بولہ لالہ! تو نے شہر کی ہولیاں تو دیکھی ہیں، پر اب کے یہاں کی بھی ہولی دیکھ۔ اس کے سمجھانے سے دولت رام گاؤں ہی میں رہ گیا۔ جب ہولی میں تھوڑے سے دن باقی رہے اور چاندنی راتیں شروع ہو گئیں تو اس نے دیکھا کہ ہر روز چار پانچ گھڑی رات گئے، عورتیں اپنے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر، گاؤں کی گلیوں میں جمع ہو جاتیں اور ناچ گا کر اپنا دل خوش کرتیں۔ مرد بھی ایک طرف اکٹھے ہو کر دف بجاتے اور خوب اچھلتے کودتے۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت ہوئی کہ مرد ایک طرف کھڑے ہو جاتے اور عورتیں دوسری طرف اور دونوں فریق اپنے بیچ میں ایک لکیر کھینچ لیتے۔ مردوں کی طرف سے دو آدمی ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے عورتوں کی طرف جاتے اور گیت گاتے ہوئے وہاں سے الٹے بھاگتے، ایک عورت ہاتھ میں لاٹھی لیے ان کے پیچھے دوڑتی، اور دونوں مرد اس کے آتے آتے لکیر کے پیچھے نکل جاتے اور لاٹھی سے بچ جاتے تو ان کی ہنسی نہ اڑتی اور جو وہ عورت لکیر تک پہنچتے پہنچتے انہیں لاٹھی چھوا دیتی تو خوب ہی ان کی خاک اڑتی۔ ساری عورتیں اپنے گاؤں کے مردوں سے تو ہنسی چہل کرتی ہی تھیں مگر اجنبی مرد سے بھی نہ چوکتی تھیں۔ جب کوئی غیر آدمی ان کے سامنے سے گزرتا تو وہ اسے پکڑ کر خوب گت کرتیں اور اس کے کپڑوں پر کیچڑ، گوبر اور آور جو کچھ ہاتھ لگ جاتا، ڈال دیتیں اور منہ پر سیاہی مل دیتیں علاوہ اس کے عورتیں اور مرد سب کے سب طرح طرح کے سانگ بھرتے، بے حیائی اور بے شرمی کی باتیں کرتے۔ جاٹوں کی لڑکیاں اور لڑکے ہولی کے دن کے لیے گوبر کی مکیاں، ڈھالیں اور تلواریں بنا کر دھوپ میں سکھا دیتے اور ایک موٹے سے ڈورے میں پرو کر ہار بنا کر رکھ چھوڑتے۔ جب ہولی کا دن آیا تو اس گاؤں کے جاٹوں نے کانٹوں کی باڑ ایک جگہ لگا دی اور سب کے سب وہاں آ کر جمع ہوئے۔ ایک مشر وہاں پہلے سے کھڑا ہوا تھا، جاٹوں نے اس سے پوچھا ’’ دادا! ہولی کس وقت کی ہے؟‘‘ وہ بولا ’’ چودھری! شام ہی کی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے باڑ میں آگ لگا دی اور شعلے کا رخ دیکھتا رہا، پھر یکایک بول اٹھا ’’ بھئی چودھریوں! لو پورب کو چلے ہے، راجا پرجا دونوں سکھی رہیں گے۔‘‘ ایک جاٹ یہ سن کر بولا ’’ دادا! جو سیدھی آسمان کو جاتی تو کیا ہوتا؟‘‘ مشر نے کہا ’’ ہوتا کیا؟ججھ (25) ہوتا۔‘ ‘ ایک اور جاٹ نے کہا ’’ بھئی! ہمیں تو اترکی چاہیے جو سما اچھا ہو۔‘‘ اس میں تیج رام نے کہا ’’ پورب کی کیا بڑی ہے؟ دکن کی نہیں چاہیے جو کال پڑے۔‘‘ جب اس آگ میں سے اچھی طرح شعلے نکلنے لگے تو سب نے اس پر رولی چڑھا کر پوجا کی اور اس کے چاروں طرف پھرے، لڑکوں اور لڑکیوں نے گوبر کے ہار جو پہلے سے تیار کر رکھے تھے، اس میں ڈالد ئیے، جاٹوں نے آگ کی پرکرما کر کے گیہوں کی کچھ بالیں اپنے اپنے ہاتھوں میں لے کر اسی آگ پر بھونیں اور ہر ایک نے اس مشر کو ہولی کے پجاپے میں کچھ آٹا دیا۔ جب ہولی پج چکی تو ایک جاٹ نے اس مشر سے کہا ’’ دادا! تو روز ہمیں ٹھگے ہے، یہ تو بتا، ہولی ماتا کیا ہوئے ہے۔‘‘ مشر بولا ’’ ارے مورکھ! تجھے خبر نہیں۔ بھائی!ایک راچھس تھا ہرناکس، اس کا پوت پر لادسدا رام رام جپا کرے تھا، پر باپ یہ چاہے تھا کہ وہ رام کا نام نہ لیا کرے اور اس نے اپنی ساری نگری میں یہ ڈھنڈورا پھیر دیا تھا کہ جو کوئی رام کا نام لے گا، اس پر بہت سا ڈنڈ ڈالا جائے گا۔ تو جانے ہی ہے، ٹھاڑے کا راج سر پر، سب مان گئے، پر اس کے پوت نے جو رام کا بھگت تھا، نہ مانا۔ پھر تو اس راچھس کو کرودھ آیا اور من میں بچارا، جو یہ کسی طرح مر جائے تو اچھا ہے۔ پہلے تو اسے ایک پہاڑ پر سے نیچے ڈال دیا، پر وہ نہ مرا، پھر اور کئی اپائے کیے، پر کچھ نہ ہوا۔ ندا ان اس کی بہن ہولی بولی لاؤ میں اس کو آگ میں لے کر بیٹھ جاؤں، میں تو بجر (26) کی ہوں، یہ جل جائے گا، میں نہیں جلنے کی۔ پر بھئی رام کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ تو جل گئی اور رام نے پر لاد کو بچا لیا۔ تب سے لوگ ہولی پوجتے ہیں کہ ہمارے لڑکوں کی رچھا کرے۔ بھائی! یہ ہولی ماتا کی کتھا ہے۔‘‘ ہولی پوجنے کے بعد پھر سب کے سب ناچ گانے میں مشغول ہ وگئے اور دف بجا کر اچھلنے کودنے لگے۔ جب ہولی پھک چکی اور آگ میں سے شعلے اٹھنے بند ہو گئے، تو ایک شخص جلتا ہوا اپلا اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کنویں کی طرف دوڑا گیا اور ایک سانس میں وہاں ڈال کر الٹا چلا آیا اور آتے جاتے کہیں دم نہ لیا اور اس عمل سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح یہ جلتا ہوا اپلا ٹھنڈا ہوا ہے، اسی طرح ہم بھی ٹھنڈے رہیں۔ بعض آدمیوں نے ان ہاروں کی راکھ جو لڑکوں نے ہولی پر چڑھائے تھے، تبرک سمجھ کر اس غرض سے اپنے پاس رکھ چھوڑی کہ جب کسی کے سر میں درد ہو تو وہ اس کے ماتھے پر لگا دیں اور جو بالیں جاٹوں نے ہولی کی آگ پر بھونی تھیں، ان کے دانے ہر ایک شخص نے اناج کی کوٹھی میں ڈال دئیے کہ کسی طرح اس کی کمی نہ ہو۔ دوسرے روز صبح ہوتے ہی گاؤں میں بڑا غل شور مچا، کوئی جاٹ اپنے کھیت پر نہ گیا، مرد تو رنگ کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر گلیوں میں پھرنے لگے اور جو ملا اس کے اوپر رنگ ڈالا اور ہر ایک سے خوب گالی گلوچ کی، عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پر ہو بیٹھیں اور جو شخص ان کے مکان کے نیچے ہو کر گزرا، اس پر رنگ ڈال دیا۔ بلکہ کیچڑ اور گوبر بھی خوب پھینکا۔ دولت رام کی جو کہیں شامت آئی، یہ بھی تماشا دیکھنے کو باہر نکل آیا اور گلیوں میں پھرنے لگا۔ جا ٹیوں نے وقت پا کر اسے آ گھیرا او رخوب گھونسے مارے۔ ہر چند لوگ پکارا کیے ’’ یہ تو یہاں کا جمائی ہے۔‘‘ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور جب تک اس نے ایک گڑ کی بھیلی دینے کا اقرار نہ کیا، تب تک اسے نہ چھوڑا۔ دولت رام اس روز اتنا پٹا کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا اور آئندہ کے واسطے قسم کھائی کہ اب کبھی گاؤں کی ہولی دیکھنے نہیں آنے کا۔ اس کا سسرا لچھمی داس اس سے کہنے لگا ’’ لالہ صاحب! آج آپ نکل کر کیوں گئے؟ مکا رما جانے آج کے دن تو یہ جاٹ گڑ کے مارے بنیوں کا بھس ادھیڑ دیں ہیں۔ تم شہر کے لالہ، چھٹانک بھر کھانا کھاؤ اور یہ جنگل کی رہنے والیاں، روز ڈھائی من بوجھ سر پر اٹھا کر کوس بھر لے جائیں اور کوس بھر لے آئیں۔ کہاں تم کہاں یہ، بھلا لالہ کیوں چوٹ کھائی؟‘‘ دولت رام کی اس روز ایسی گت نہ ہوئی تھی کہ وہ دوسرے روز اس گاؤں میں رہنے کا نام لیتا، صبح ہوتے ہی شہر کو روانہ ہوا اور وہاں آ کر سارا حال اپنے باپ کے روبرو بیان کیا۔ وہ بولا ’’ میں پہلے ہی سمجھا تھا کہ جاٹ کی ذات اکھڑ ہوتی ہے، ایسا نہ ہو، کہیں یہ لوگ تجھے ستاویں۔ سو وہی ہوا اور تیرے سسرے بھی خوب آدمی ہیں، انہوں نے نہ بچایا۔ ‘‘ دولت رام نے کہا ’’ واہ! ان کو اپنی ہی جان کی پڑ رہی تھی مجھ کو کیا بچاتے۔‘‘ دولت رام کو گاؤں سے آئے ہوئے پندرہ روز بھی نہ گزرتے تھے کہ نہال چند کو شدت سے بخار آیا۔ ایک روز تو بالکل بے ہوش پڑا رہا، دوسرے روز جب آنکھ کھولی تو بولا ’’ خوشحال چند! ہمارا انت آن پہنچا ہے، جو دولت کے لڑکے کو بلا لیں تو ایک نظر دیکھ لیں، پھر چلا چلی کا معاملہ ہے۔‘‘ خوشحال چند نے فوراً ایک آدمی گاؤں کو روانہ کیا اور لڑکے کو جاٹنی اور جاٹ سمیت بلوا بھیجا، مگر لڑکا ابھی آنے بھی نہ پایا تھا کہ نہال چند کا حال بگڑ گیا۔ یہ دیکھتے ہی خوشحال چند نے ایک پنڈت کو بلایا اور اسے نہال چند کے بستر کے برابر ایک چوکی پر بٹھایا اور بھگوت گیتا کا پاٹ کرایا، اس عرصے میں ہیرا بھی کئی دفعہ وہاں آئی اور اس کو بے ہوش دیکھ کر کہہ گئی ’’ اب یہ چلن ہیں، جو کچھ بنے ان سے پن کراؤ‘‘ خوشحال چند بھی سمجھ گیا کہ اب ان کا بچنا مشکل ہے او راسی خیال سے جب کبھی نہال چند آنکھ کھولتا اور ہوش میں آتا تو وہ کچھ نہ کچھ چیز خواہ گائے، خواہ مٹھائی، خواہ نقد روپیہ اس سے پن کرا دیتا۔ تھوڑی سی دیر میں نہال چند کا حال اور بھی بگڑ گیا اور خوشحال چند نے اسے کھانا پانی دینا چھوڑ دیا، کبھی کبھی گنگا جل اس کے منہ میں ٹپکا دیتا، اور کچھ نہ دیتا۔ شام کے وقت اس نے اپنے منیب سے کہا ’’ لالہ جی کے بچنے کی آس نہیں ہے، جہاں تک ہو سکے، ان کا بمان جلد بنوانا چاہیے بلکہ رات بھر میں تیار ہو جائے تو بہتر ہے، سویرا پکڑ جائیں تو پکڑ جائیں۔‘‘ منیب بمان کے بنوانے میں مصروف رہا اور خوشحال چند اور دولت رام تمام رات نہال چند کے پا س بیٹھے رہے۔ پہر رات باقی تھی کہ یکایک نہال چند کو ہچکی آئی، خوشحال چند فوراً اٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر نبض دیکھنے لگا، جب نبض کا کچھ پتہ نہ ملا تو وہیں تھوڑی زمین لپوا کر اس پر تل اور کش ابچھا دی اور نہال چند کو چارپائی سے اتار کر وہاں لٹا دیا اور اس کا سر اپنے زانو پر رکھا، پھر اس کے منہ میں پچ (27) رتنی ڈالی۔ نہال چند نے ایک یا دو ہچکیاں اور لی تھیں کہ اس کی جان نکل گئی۔ خوشحال چند، ہائے لالہ جی! کہہ کر رویا اس کی بیوی نے بھی اس وقت تو ایک دو آنسو ٹپکا دئیے مگر پھر اس کی خوشی (28) کا حال نہ پوچھو۔ صبح ہوتے ہی منیب نے نائی کو بلا کر کہا ’’ لالہ کے مرنے کی ساری برادری میں خبر کر آ۔‘‘ وہ اسی وقت سب جگہ جا کر پکار آیا ’’ لالہ نہال چند کال کر گئے ہیں۔‘‘ اور پانچ چار جاچکوں (29) کو خوشحال چند کے مکان پر لیتا آیا کہ وہ گانے بجانے کا شغل کریں۔ اس عرصے میں خوشحال چند اپنے باپ کی لاش کے پاس عورتوں کو چھوڑ کر آپ باہر گلی میں آ کر زمین پر ہو بیٹھا، نہ بوریا بچھایا، نہ کپڑا، برادری کے دو چار آدمی اس کے پاس آ بیٹھے۔ جس قدر دن چڑھتا گیا اسی قدر لوگ آتے گئے۔ مرد تو باہر اکٹھے ہوتے گئے اور عورتوں کے غول کے غول اندر مکان میں ہیرا کے پاس جمع ہوئے۔ ان میں سے جوان جوان عورتیں جو بہت سا زیور اور ا اچھے اچھے کپڑے پہن کر آئی تھیں، کھڑی ہو کر ناچنے لگیں اور ہنسی ٹھٹھے کی باتوں میں مشغول ہوئیں۔ کوئی کہتی تھی ’’ ہے ہے بوڑھے! تجھے روویں گلی کے کتے‘‘ کوئی بولی ’’ کیا کہو ہمارے دادا جی کو دادی جی نے بلا لیا‘‘ ایک نے مونگا سے کہا ’’ اری! تو بھی داد سسرے (30)کو پیٹ لے، پھر کب کب آویں گے۔ وہ تو پہلے ہی سے کھیل کود میں مشغول تھی، چہل کی باتیں کر رہی تھی، اس قسم کی گفتگو سے اور بھی بھرا گئی، جو زبان پر آیا بول اٹھی۔‘‘ باہر جہاں مرد جمع تھے، جاچک ایک طرف بیٹھے ہوئے بھجن اور راگ گا رہے تھے، طبلہ سارنگی بجا رہے تھے، یہ سب باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں مینا اور تیج رام بھی لڑکے کو لے کر آ گئے۔ خوشحال چند نے بچے کو گود میں لے کر کہا ’’ بیٹا! جنہوں نے تجھ کو بلایا تھا، وہی نہیں رہے۔‘‘ پھر ایک آدمی کو پکارا اور کہا ’’ جا اس کو گھر میں لے جا اور اس کی دادی سے کہو کہ اس کو زیور کپڑا پہنا کر دھاوڑے (31)کو دے دے۔‘‘ جب ٹھیک دوپہر ہوئی تو بجرا (32) بن کر تیار ہوا، اس کے چاروں طرف تمامی اور کناروں پر کلابتون کی جھالر لگی ہوئی تھی، کنگوروں (33)پر چاندی کے ورقوں سے منڈھی ہوئی کھوپرے کی بٹیاں چھوہارے پروئے ہوئے تھے۔ بجرے کے تیار ہوتے ہی خوشحال چند بھدر ہوا اور سر کے سارے بالوں میں سے چوٹی باقی رہنے دی۔ پھر نہا دھو کر دھوتی بدلی اور جنیو(34)گلے میں ڈالا اور کوی ٹھلیا میں پانی بھر کر کندھے پر رکھ اندر مکان میں لے گیا اور اس سے اپنے باپ کی لاش کو نہلایا۔ پھر پنڈ دان کر کے اس کو بمان میں رکھ دیا اور اوپر سے دو شالہ ڈال کر ستلی اور کلاوے سے باندھ دیا۔ جب سب تیاری ہو چکی تو ہیرا اور مونگا نے مردے کے پاؤں پر ایک ایک ناریل اور کچھ پیسے رکھ کر پوجا کی تاکہ اس کے قدموں کی برکت ان کے گھر سے نہ جائے۔ جب مرد لاش کو اٹھانے لگے تو خوشحالو نے آ کر اسے روک لیا اور کہا ’’ پہلے میرا نیگ دیتے جاؤ۔ جب میں اٹھنے دوں گی۔‘‘ اسی وقت خوشحال چند نے اسے پانچ روپے دئیے، پھر کئی آدمی بمان کو کندھے پر اٹھا کر ’’ رام رام ست ہیں‘‘ کہتے ہوئے باہر نکل آئے اور جمنا جی کی طرف چلے۔ نائی اور جاچک جو باہر بیٹھے ہوئے گا رہے تھے، اپنا اپنا طبلہ سارنگی سنبھال کر سب کے آگے ہوئے اور یہ بھجن گانے لگے: بھجن ترجمہ اور مطلب جیا کر سوچ بھیو! میری ناؤ پڑی منجھ دھار، جا پھنسی گہرے پانی میں۔ سوجھت وار نہ پار، اندھا دھند طوفان چلت ہے، کس بدھ اترے گی پار دل کو فکر ہے، کیوں کہ میری کشتی دھارا کے بیچ میں جا پڑی ہے، گہرے پانی میں جا پھنسی، اب نہ وار دکھائی دیتا ہے، نہ پار، طوفان بڑی شدت سے چل رہا ہے، کشتی کیوں کر پار اترے گی۔ جیا کو سوچ بھیو! الخ دل کو فکر ہے ! الخ سگری عمر میں نے پاپ کمائے لکھوں کروڑ ہزار، ایسے ادھم کوٹھور کھاں ہے، تم بن تارن ہار میں ساری عمر ہزاروں لاکھوں کروڑوں گناہ ہی کرتا رہا۔ اے نجات دینے والے! ایسے حقیر آدمی کو تمہارے سوا اور کون سا ٹھکانا ہے؟ جیا کو سوچ بھیو! الخ دل کو فکر ہے! الخ کیسے کروں اب یہ زندگانی جی کی ہو گئی جھاڑ، اپنے تھے سو بھئے بیگانے، دشمن ہو گئے یار کیا کروں یہ زندگی تو جی کا جھاڑ ہو گئی، جو اپنے تھے وہ بیگانے ہو گئے، جو یار تھے وہ دشمن ہو گئے۔ جیا کو سوچ بھیو! الخ دل کو فکر ہے ! الخ وشن بھگت کو چت سے تارو، ہر کی اور پکار، ادھم ادھارن یار کریں گے، گن او گن نہ بچار اے وشن خدا کو یاد کر کے اس جہان کا خیال دل سے چھوڑ دے۔ جو حقیر آدمی کو بخشتے ہیں، وہی نجات بھی جیا کو سوچ بھیو! الخ دل کو فکر ہے! الخ نائی اور جاچک دس دس قدم پر ٹھہرتے جاتے تھے اور بھجن گاتے جاتے تھے اور جب ایک جگہ کھڑے ہو کر گا چکتے تھے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کرتے تھے تو ایک آدمی نہال چند کی لاش پر سے مکھانے اور گوٹے کے پھول نثار کر دیتا تھا۔ دولت رام پیادہ پا اور اس کا بیٹا ایک آدمی کے کندھے پر چڑھا ہوا، دونوں مردے کے کان میں گھنٹے بجاتے جاتے تھے۔ بہتیری عورتیں بچوں کو لے کر گلی کوچوں کے دروازوں پر تماشا دیکھنے آ کھڑی ہوئیں اور مکھانے اٹھا کر اس خیال سے لڑکوں کو کھلانے لگیں کہ ان کی عمر بڑی ہو۔ جب مرد لاش کو لے کر چلے گئے تو عورتیں ہنستی بولتی، ٹھٹھے مارتی مردوں کے پیچھے ہو لیں اور دس دس قدم پر ٹھہر ٹھہر کر جمنا جی تک ان کے ساتھ چلی گئیں۔ جس وقت سب لوگ جمنا جی پر پہنچ گئے تو خوشحال چند مردوں کو لے کر مرگھٹ کی طرف چلا گیا اور عورتیں ان سب سے علیحدہ ہو کر جمنا جی میں نہانے لگیں، پھر کپڑے سکھا کر گھر کا رستہ لیا، اور ایک نائن کے پیچھے یہ گیت گاتی ہوئی چلی آئیں: راگ ترجمہ اور مطلب نائن۔ ہے (35) ہے بابا! رنوں نے مارے مواتی، چکلا مارا، بیلن مارا اور ماری چنواتی، دھوتی رنوں دی چھاتی، رنوں نے مارے مواتی۔ نائن کہتی ہے۔ ہے صاحب! عورتوں نے مواتیوں کو مارا! چکلا اور بیلن اور جلتی ہوئی لکڑی ماری، آفرین ہے عورتوں کی چھاتی کو، انہوں نے مواتیوں کو مارا۔ عورتیں ۔ ہے ہے بابا، رنوں نے مارے مواتی عورتیں بولتی ہیں، ہے ہے صاحب عورتوں نے مواتیوں کو مارا۔ مرد بھی لاش پھوک چکے تو جمنا جی میں نہائے اور نہا دھو کر گھر کی طرف چلے۔ رستے میں اور بہتیرے آدمی جو لاش کے ساتھ نہیں گئے تھے، آ ملے اور خوشحال چند سے کہنے لگے ’’ کیا کہو صاحب۔ بڑوں کا بیٹھا رہنا ہی بڑی بات ہے۔ کیا ہوا تھا؟ کچھ بیمار رہے تھے؟‘‘ اس میں ان کا منیب بولا ’’ رائے صاحب بڑے بھاگوان تھے، اس اسی برس کی عمر میں کیسی کاٹھی تھی، روز جمنا جی نہانے چلے جاتے تھے۔‘‘ ایک اور بولا ’’ جبھی تو کچھ دکھ نہ دیکھا، نہیں تو مہاراج! مہینوں گھر میں پڑے ہوئے سڑا کرتے ہیں۔ یہ جمنا جی ہی کی کرپا ہے کہ پرسوں ذرا بیمار پڑے اور آج چل بسے۔ خوشحال چند جی کا اور ان کا اتنا ہی سنجوگ تھا۔‘‘ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے سب کے سب خوشحال چند کے گھر تک آئے۔ خوشحال چند نے آتے ہی پہلے اپنی گیلی دھوتی اس جگہ ڈال دی جہاں اس کا باپ مرا تھا اور پھر باہر آ کر سب کو سلام کر کے رخصت کیا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو خوشحال چند دیوان خانے کے صحن میں شطرنجی بچھا کر ہو بیٹھا اور منیب سے کہنے لگا ’’ منیب جی! آج تو ہم بہت تھک گئے۔‘‘ وہ بولا ’’ لالہ صاحب! مردے کے ساتھ آدمی مردہ ہو جائے ہے اور آپ تو رات بھر کے جاگے بھی تھے۔‘‘ جب شام ہوئی تو اچارج نے آ کر اس مقام پر جہاں نہال چند مرا تھا، ایک بڑا چراغ جلایا اور گھر والوں سے کہا ’’ اس دیے کو دیکھتے رہنا، یہ بجھنے نہ پاوے۔‘‘ اتنے میں ایک عورت نے پوچھا۔ ’’ مشر جی! یہ دیا کیوں جلایا کریں ہیں۔‘‘ اچارج نے جواب دیا’’ جب پران یہاں سے نکل جاتا ہے تو اس کو اندھیرے جنگل میں جانا پڑتا ہے، جو اس کے پاس دیا نہ ہو تو رستہ ٹٹولتا ہی مر جائے۔‘‘ اچارج چراغ روشن کر کے چلا گیا اور اس کے جاتے ہی برادری کے دو چار آدمی ان کے مکان پر آئے اور چولہے میں آگ سلگوا گئے۔ چار روز تک اچارج صبح ہی آیا اور پنڈ دان کرا کر چلا گیا۔ خوشحال چند بھی روز صبح اور شام جمنا جی پر گیا اور ٹھلیا میں پانی بھروا آیا اور عورتوں میں اس عرصے تک خوب ناچ گانا ہے۔ چوتھے روز صبح ہی اچارج آیا اور پنڈ دان کرا کر خوشحال چند کو جمنا پر لے گیا اور جلی ہوئی لاش کی راکھ ہڈیوں سے جدا کر کر اس کے ہاتھ سے دریا میں پھکوائی، پھر ہڈیوں کو ایک تھیلے میں بھر کر کسی آدمی کے ہاتھ گنگا بھیج دیا اور اپنے پروہت کے نام اس مضمون کی چٹھی لکھ دی کہ ان ہڈیوں کو تم اپنے سامنے گنگا جی میں ڈلوا دینا اور ہماری چٹھی کا جواب بھیج دینا۔ وہ آدمی تو چٹھی لے کر وہیں سے سیدھا گنگا جی کو روانہ ہوا اور خوشحال چند نہا دھو کر اپنے گھر آیا۔ نائی پہلے ہی برادری کے لوگوں میں سب جگہ پکار آیا تھا آج اٹھانی ہے۔ دوپہر کے بعد سب لوگ آئے اور شطرنجی کی پٹیوں پر جو خوشحال چند کے گھر کے آگے گلی میں دو طرفہ آمنے سامنے بچھی ہوئی تھیں، بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں لچھی داس نے کچھ روپے نقد اور ایک پگڑی پیش کی۔ ٹائی نے بلند آواز سے کہا ’’ لالہ لچھی داس اتنے روپے اور ایک پگڑی دیویں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں چیزیں خوشحال چند کے آگے رکھ دیں، پھر کسی نے روپے اور پگڑی اور کسی نے صرف نقد روپیہ دیا۔ خوشحال چند نے اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے دامادوں کو اور ہیرا نے اپنے ہاں کی لڑکیوں کو روپے دئیے۔ پھر خوشحال چند سب لوگوں کے ساتھ دیوان خانے میں گیا۔ منیب نے کوٹھی کھولی، بستا بچھایا اور چٹھا اٹھا کر خوشحال چند کے ہاتھ سے کچھ لکھوا لیا۔ اس کے بعد خوشحال چند نے ایک ایک کو اسلام کر کے رخصت کیا۔ پھر جہاں جہاں اپنے باپ کی خبر بھیجنی منظور تھی، وہاں چٹھیاں لکھ بھیجیں اور ہر ایک چٹھی کا تھوڑا سا کنارا پھاڑ ڈالا کہ پڑھنے والا چٹھی کے کھولتے ہی جان جائے کہ اس میں کسی کی موت کی خبر ہے۔ دسویں روز خوشحال چند نے دس پنڈ دان کیے اور گیارہویں دن اچارج کو بلا کر لحاف، توشک، پلنگ اور نئے کپڑے، چاندی کا حقہ، پالکی اور بہت سی چیزیں اس کے حوالے کیں اور اسی پلنگ پر بٹھا کر پہلے اسے کچھ مٹھائی کھلائی، پھر سارا اساب دے کر رخصت کیا ۔ اس میں دولت رام اپنے باپ سے پوچھنے لگا ’’ لالہ جی یہ اسباب کیوں دیں ہیں؟‘‘ وہ بولا ’’ بھائی! جب اس شریر میں سے پران نکل جائے ہے تو اس کا کوئی شریر نہیں رہتا اس لیے دس دن تک پنڈ دان کر اس کا ایک شریر بناتے ہیں، پر پورا شریر اس کو دسویں دن ملے ہے۔ جب شریر بنا تو اس کو سب ہی چیزیں چاہئیں۔ اس واسطے گیارہویں دن اس کے نام پر یہ سب اسباب اچارج کو دیا جاتا ہے کہ اس کو پہنچ جاوے اور وہ کچھ دکھ نہ پاوے۔‘‘ ان چیزوں کے سوا خوشحال چند نے اور بھی بہت سا کچھ صرف کیا، تمام برادری اور صرافے میں مگد (36) بنوا کر بانٹے۔ جب خوشحال چند کریا کرم سے فارغ ہوا تو پھر معمولی پوشاک پہنی اور کام بدستور جاری کر دیا۔ نہال چند کو مرے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک روز رات کے وقت ہیرا نے خوشحال چند سے کہا ’’ اب چھورے کی لینی (37)کر لو، پر اس کا پرچنا مشکل ہے، جو بہو کچھ دنوں اپنے باپ کے ہاں جا کر رہے اور چھورے کو روز اپنے پاس بلا کر رکھے تو اچھی بات ہے۔‘‘ خوشحال چند بولا ’’ تو بہو کو گاؤں بھیج دو۔‘‘ اس کے کہنے کے موافق ہیرا نے مونگا کو گاؤں کی طرف روانہ کیا اور کہہ دیا ’’ بہو جہاں تک ہو سکے، چھورے کو اپنے سے پر چا لیجیو‘‘ اور ایک نوکر بھی اس کے ساتھ کر دیا کہ شاید لڑکا اس سے ہل جائے۔ مونگا کو گاؤں گئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ وہاں جنگل میں کنجروں کا ایک ٹانڈا آ پڑا۔ پہلے تو سب نے اپنی اپنی سرکیاں ڈال لیں، پھر کچھ آدمی گاؤں میں چوری کا مال بیچنے چلے گئے اور بعض ادھر ادھر بھیک مانگنے لگے، کوئی جنگل میں دھونی رما بیٹھا اور طرح طرح کے فریب کی باتیں کر کے لوگوں کا مال ہتھیانے لگا، کوئی فقیر کا بھیس بدل بدن میں بھبوت رما بیٹھا اور جٹا چھوڑ ہاتھ میں تونبا یا چمٹا لے گاؤں میں الکھ جگانے لگا۔ ان کی عورتیں بھی بھیک مانگتی ہوئی گاؤں میں جاتیں اور جو کچھ ہاتھ لگتا، آنکھ بچا کر اٹھا لاتیں اور اگر کسی بچے کو گلی میں زیور پہنے ہوئے کھڑا دیکھتیں تو تاک لگا کر کسی نہ کسی طرح سے اس کا زیور اڑا لاتیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی کنجر گاؤں میں کسی شخص سے کچھ خریدنے جاتا اور سودا چکاتا، اتنے میں ان کے گروہ کے بہت سے آدمی وہاں آ کر موجود ہو جاتے اور اس شخص کو دھوکا دے کر زیادہ لینا چاہتے، اگر وہ ٹھنڈے کلیجے دے دیتا، تو خیر، ورنہ اپنے بچوں کو اس کی دکان کے آگے زمین پر پٹخ دیتے اور واویلا مچاتے۔ اس صورت میں وہ شخص ناچار ہو کر یا تو انہیں زیادہ دے دیتا یا قیمت پھیر کر اپنے مال سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ اگر ان کی عورتیں چوری کرتی ہوئی پکڑی جاتیں، تو وہ حیلے بہانے سے بھاگ جاتیں۔ یا ان کے خاوند دوڑے آتے اور فریب اور خوشامد کی باتیں کر کے انہیں چھڑا لے جاتے۔ ایسی ایسی دغا بازیوں سے ان کنجروں او رکنجریوں نے سورج پور میں سے بہت سا مال اڑایا۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت کروڑی مل اور آور بچے مینا کے گھر کے باہر کھیل رہے تھے، ایک کنجری ادھر سے گزری اور کروڑی مل کو پکڑ کر اس کے کڑے اتار لے گئی۔ وہ اسی وقت روتا ہوا مینا کے پاس آیا اور اپنے ہاتھوں کو اس کے سامنے کر کر کہنے لگا ’’ اماں ہاؤ! کڑولے‘‘ اس میں ایک اور لڑکا بھاگا ہوا آیا اور کہا ’’ کنجری نے۔‘‘ مینا اس کے ننگے ہاتھ دیکھ کر گھبرائی اور مکان کے باہر آ کر چیخنے لگی دیکھو تو ابھی رانڈ ٹوک مانگتی آئی تھی، پل بھر نہیں ہوا، چھورے کے کڑولے اتار لے گئی، اس کا ستیاناس جائے، نپوتی رانڈ روز آ کر یہی کر جائے ہے۔ کوئی مرتا جیتا گاؤں میں ایسا نہیں جو ان کی خبر لے۔ مینا کی یہ آواز سن کر اور دو چار عورتیں اپنے اپنے گھر سے باہر نکل آئیں اور ہاتھ مل کر کہنے لگیں کیا کہو بہن، جانے یہ رنڈیاں کہاں سے دکھ دینے آ گئی ہیں، سب کو گاؤں میں ستا رکھا ہے۔ اتفاقاً دولت رام بھی گاؤں میں اپنے سسرے کے پاس آیا ہوا تھا، اس نے جوں ہی یہ خبر سنی، دوڑا ہوا مینا کے مکان پر آیا اور لڑکے کو روتا ہوا دیکھ کر گود میں اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا کر پیار کیا۔ مینااس سے کہنے لگی ’’ لالہ جی بھگوان کو میرا منہ اجلا کرنا تھا، جو آج چھورا بچ گیا۔ اس رنڈیا نے تو کچھ بات چھوڑی نہیں تھی، وہ تو بہت سے چھورے کھیل رہے تھے، نہیں تو پکڑ کر اسے جھولی میں ڈال لیتی۔‘‘ وہ بولا ’’ چودھرائن! اس طرح بالک کو نہیں چھوڑ دیا کرتے۔ خیر اب جو کچھ ہوا سو ہوا، آگے کو چوکس رہیو۔‘‘ شام کو جب تیج رام گھر آیا اور حقہ بھر کو چوپاڑ میں جانے لگا مینا نے اس سے کہا آج رام جی کی بڑی خیر کی ہمارا کالا منہ نہیں ہونا تھا، نہیں لینے کے دینے تو پڑ گئے تھے کھلائے کا نام نہ ہوتا رلائے کا ہو جاتا، سب یہی کہتے جو کچھ کیا ان جاٹوں نے کیا۔ وہ بولا ’’ بتا تو کیا ہوا؟‘‘ مینا غصے میں آ کر بولی ’’ ہوا کیا؟‘‘ میرا مونڈ کیا تینے ابھی نہیں سنی؟ وہ بولا ’’ اپنے ڈھوروں کی سوں! بابا کی سوں! میں نے نہیں سنی‘‘ وہ بولی ’’ آج چھورا رام کے گھر سوں پھرا ہے۔ ایک رانڈہ کنجری اس کے کڑولے اتار کر لے گئی۔ کوئی ہمارا پن آڑے آ گیا۔ نہیں یہ رنڈیاں تین برس کے بالک کو کیا چھوڑے ہیں، جھولی میں ڈال کر لے جائیں ہیں۔‘‘ یہ بات سنتے ہی تیج رام کچھ سست ہو گیا اور بولا ’’ دیکھ جو کل ہی ان کے ڈیرے یہاں سے نہ اکھاڑ دوں تو جاٹ مت کہیو۔‘‘ پھر وہ چوپاڑ میں چلا گیا اور آور جاٹوں سے جو وہاں بیٹھے تھے کہنے لگا’’ میں تم سے روز کہوں تھا، ان کنجروں کا گاؤں میں آنا اچھا نہیں ہے۔ آج ہمارا چھورا گھر کے باہر کھیلتا پھرے تھا، ایک رانڈ آئی، پہلے تو اندر باکھل (38) میں گئی او روہاں سے ٹوک لے باہر آئی، وہاں چھورے کا گلا بھیج کر کڑولے اتار لیے ۔ جانے یہ یہاں کیوں آ گئے ہیں۔ پھر گاؤں کے چودھری کی طرف مخاطب ہو کر کہا ‘‘ جو تو کچھ کرے تو ہوئے، ان کو یہاں سے کیوں نہیں نکال دیتا؟ یہ سن کر گاؤں کا پٹواری بولا تیج رام سچا ہے۔ تم نے سنا نہیں ایک دفعہ ان کنجروں نے رتن پور کے باہر ڈیرے ڈالے۔ پہلے اپنی بیروں کو گاؤں میں بھیک مانگنے کو بھیجا، وہ سارے گاؤں میں پھریں۔ایک کنجری کسی سنار کے مکان میں گھس کر، اس کا سارا بھید جان گئی۔ پھر اپنے مردوں سے آ کر کہا جوکوئی دوپہر کو لگائی کا بھیس بدل کر اس سنار کے گھر جائے تو گھنا مال ہاتھ لگے۔ سنار باہر کے دالان میں بیٹھے ہوئے گھڑ رہے ہوں گے، وہ چلا جائے، جو بیروں کو جاگتا پائے تو کچھ بہانہ کر چلا آئے اور جو وہ سوتی ہوں اور سوتی تو ہوں ہی گی، گرمی کے دن ہیں، وہ اندر ایک کوٹھڑی میں چلا جائے، وہاں چنے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر رات تک چپکا کوٹھڑی میں بیٹھا رہے، پھر جب سب سو جائیں، تو کوٹھڑی میں سے باہر آوے اور جو مال ملے لیکر چلا آئے۔ چودھریوں! ان میں سے ایک کنجر نے یہی کیا۔ تین دن تک اس کوٹھڑی میں سے نکلنے کا کوئی ڈول اسے نہ سوجھا۔ تیسری رات وہ پانچ سو روپے کا اسباب لے کر باہر نکل آیا۔ سویرے سناروں نے جو اپنے صندوق دیکھے تو سر پیٹنے لگے۔ دوسرن دن رات کو وہی کنجر جاٹنی کا بھیس بدل کا برابر کے مکان میں گیا اور ایک عورت کو سوتا ہوا دیکھا۔ اس کی نتھ میں تانت باندھنے لگا اور یہ چاہے تھا کہ باہر جا کر تانت کھینچ لے اور نتھ لے کر بھاگ جائے۔ پر وہ عورت جاگ اٹھی اور بہت رولا کیا، کنجر بھاگا، پر اس عورت کے مالک نے جا کر اسے کھائی کھودتے ہوئے پکڑا اور مشکیں باندھ چوپاڑ میں لے آیا، وہاں اس کو بہت مارا۔ سنار بھی آیا اور کہنے لگا ارے! اسی حرام زادے نے میرا مال لیا ہے۔ چوتھا دن ہے، میں نے دوپہر کو ایک عورت اسی طرح کپڑے پہنے اپنے گھر میں جاتے ہوئے دیکھی تھی۔ مجھ کو کیا خبر تھی کہ یہ کنجر ہے اور ہم نے پیچھے چنوں کی کوٹھڑی کو دیکھا تو اس میں روٹی کے ٹکڑے پڑے ہوئے پائے، پھر انہوں نے اس کنجر کو پیٹ پاٹ کے چھوڑ دیا۔ سو بھائی ان کا نکال دینا ہی اچھا ہے۔ اس گفتگو کے بعد سب جاٹوں کی یہ صلاح قرار پائی کہ جس طرح ہو سکے، کنجروں کو اٹھاویں۔ دولت رام کا سسرا لچھمی داس یہ بات سن کر بہت گھبرایا اور کہنے لگا ’’ ارے! کنگالوں کو گاؤں سے کیوں نکالو ہو؟ کیا تمہارا یہی دھرم ہے۔‘‘ اس کا یہ کہنا اس وجہ سے تھا کہ اسے ان کنجروں کے رہنے سے بہت فائدہ تھا اور وہ ان سے چوری کا مال بہت سستا خرید لیا کرتا تھا۔ جب تیج رام نے لچھمی داس کی گفتگو سنی تو بولا ’’ لالہ! جو آج کو کچھ اچھی بری ہو جاتی تو تم سے کوئی نہیں پوچھتا، چھورا کہاں گیا؟ سب یہی کہتے، جاٹوں نے چھورا مروا دیا۔ کیا آج کا تم کو بیورا نہیں ہے؟‘‘ یہ سن کر لچھمی داس خاموش ہو رہا۔ اتنے میں نمبردار بولا ’’ ارے بھائی!اس نے تو ان سے چوری کا مال خریدا ہے، یہ تو چور کا بھائی گھٹی چور ہے۔ دیکھو کل ان کنجروں کو اور اسے پولیس دار کے پاس لے جائیں گے۔‘‘ اس گفتگو سے لچھمی داس ڈرا اور کہنے لگا’’ بھائی! ہم تم تو ایک ہی تھیلی کے بٹے ہیں۔ ہمیں کیا، ہماری طرف سے تم ان کو آج ہی نکال دو، گاؤں کے مالک ہو، چاہے تلوار سے ان کا سرکاٹ ڈالو، ہم تو تمہاری رعیت ہیں۔‘‘ نمبردار بولا’’ کل معلوم پڑے گی، جب چوری کا سارا مال نکلوایا جاوے گا۔ کنجروں کو گھر میں بٹھا بٹھا کر بہت مال خریدا ہے۔‘‘ پھر تو لچھمی داس کے ہوش اڑ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد نمبردار سے کہا’’ چودھری! ہماری تو سن‘‘ اور اسے الگ بلا کر پانچ روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے، پھر بولا’’ چوپاڑ میں بیٹھ کر ایسی بات نہیں کہیں ہیں۔‘‘ نمبردار نے دیکھا کہ بنیا دب گیا، جھٹ پانچ روپے پھر دئیے اور کہا ’’ اس سے کیا ہوئے ہے؟ ہزار روپے کا فائدہ تجھے ہوا ہے، پانچ سو ہمیں بھی دے اور پانچ سو نہ دے تو سو سے کم تو ہم لیتے بھی نہیں۔ کیوں کر پانچ روپے لے کر اپنا نام رشوت کھانے والوں میں گنوا دیں؟ جھوٹا بھی کھائے تو میٹھے کے لالچ۔‘‘ بنیے نے اس کی بڑی خوشامد کی اور پچیس روپے دے کر اپنے گھر چلا گیا۔ دوسرے روز گاؤں کے بہت سے جاٹ مل، کنجروں کے ڈیروں پر گئے اور ان سے کہا’’ تم یہاں سے چلے جاؤ، نہیں تو ہم لٹھوں کے مارے سب کی کھوپڑیاں پھوڑ دیں گے یا پولیس دار کو بلا کر سب کو گرفتار کرا دیں گے۔‘‘ وہ بولے ’’ چودھری! ہم نے کیاکیا ہے؟ جو تمہاری یہ مرضی ہے تو لو ابھی چلے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا سارا اسباب گدھوں پر لادا اور کسی اور طرف کا رستہ لیا۔ انہیں گئے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ گاؤں میں ایک اور آفت آئی۔ اتفاقاً ایک روز رات کے وقت سورج پور سے کچھ فاصلے پر جنگل میں ایک نالے کے اندر چار قسم کے آدمیوں کی آپس میں ملاقات ہوئی، ایک مینا تھا، ایک گوجر، ایک میو اور ایک رانگھڑ، مینا بولا ’’ یارو! اب تو بہت دن سے کچھ مال ہاتھ نہیں لگا۔‘‘ رانگھڑ کہنے لگا ’’ اور وہ اونٹ کہاں سے لایا تھا۔‘‘ مینے نے کہا’’ اونٹ کی جو پوچھے تو ہمارے بہنوئی نے ہم سے ایک اونٹ مانگا تھا۔ کسی ساہوکار کے اونٹ سڑک پر چلے جائیں تھے، ہمیں ان میں سے ایک اونٹ اچھا معلوم ہوا، دن بھر ہم اس کے پیچھے پیچھے رہے، جب رات ہوئی تو اونٹ والا پڑاؤ میں جا کر اترا، ہم بھی وہیں جا پڑے۔ جب آدھی رات آئی اور رکھوالا سو گیا تو ہم نے اس اونٹ کی رسی کاٹی اور نکیل میں تار باندھ کر دوسرا سرا اپنے ہاتھ میں لے، باہر نکل آئے اور تار کے سہارے اونٹ کو بھی باہر بلا لیا۔ پھر سوار ہو کر صبح ہوتے ہوتے تیس کوس نکل گئے اور جس نے اونٹ مانگا تھا، اسے دے دیا اور وہاں سے دوسرا اونٹ لے شام تک اپنے گھر آ گئے۔ سو وہ اونٹ تو ہمارے پاس نہیں رہا، اب بتاؤ کیا کریں؟‘‘ گوجر بولا’’ یارو میں یہیں سورج پور میں ایک ساہوکار بڑا مالدار ہے، کل جو میں گاؤں میں گیا اور ایک کہار کے مکان کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا توکہاری اس سے باتیں کر رہی تھی۔ اتنے میں پوچھنے لگی یہ انگوٹھی تو کہاں سے لایا؟ کہار نے کہا ہمارے لالہ جی نے دی ہے۔ کنجر جو گاؤں میں پھرا کریں تھے، ان سے لالہ نے بہت مال مول لیا ہے۔ میں پانی کے گھڑے لے کر جو اوپر گیا تو دیکھا، لالہ جی کی کوٹھڑی کے آگے جہاں لالہ سویا کرے ہیں، سونے چاندی کا بہت سا مال پڑا ہے اور لالہ اس کو کانٹے میں تول رہے ہیں۔ میں نے یہ انگوٹھی دیکھ کر ان سے کہا۔ لالہ جی! یہ انگوٹھی مجھے دے دو۔ انہوں نے کہا یہ پرائی چیز ہے، پر تجھے مول دلا دیں گے۔ سو انہوں نے دو روپے کو دلوا دی اور کہا کسی سے کہیو مت۔‘‘ گوجر کا یہ کہنا تھا کہ سب کے سب ساہوکار کا مال لوٹنے پر مستعد ہو گئے۔ میو نے کہا’’ چلو کو محل دو۔‘‘ گوجر نے بھی یہ بات مان لی۔ اتنے میں مینا بولا ’’ یارو! تم دونوں کو محل دینے کے بڑے دھنی ہو، پر یہ تو بتاؤ، اس ساہوکار کے مکان کی چھت پر کوئی موری بھی ہے؟ جو موری ہووے تو ریشم کا رسا اور گوہ میرے پاس ہے۔ گوہ موری میں جا کر ایسی چمٹے ہے کہ پھر وہاں سے نہیں ہٹے ہے۔ میں رسا اس میں باندھ کر اوپر چڑھ جاؤں گا۔ تالیوں کا گچھا مجھے دے دینا اور کو محل میں تو بڑی مشکل ہے، جو چوکیدار نے دیکھ لیا تو جاگ ہو جائے گی۔‘‘ رانگھڑ نے کہا ’’ بھئی! ہمیں تو اس کی حویلی میں کوئی موری نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ گوجر بولا’’ یہاں کیوں باتیں بناؤ ہو۔ چلو تو وہاں چل کر دیکھ لیجیو۔‘‘ اس گفتگو کے بعد سب روانہ ہوئے اور جوں ہی نالے سے باہر نکلے، وہیں ایک کوتری کی آواز ان کے کان میں پہنچی۔ یہ آواز سنتے ہی سب کے سب نہایت خوش ہوئے اور کہنے لگے ’’ مار لیا ہے، سوتا پاوے گا، بھلا کو تری کا بولنا بھی کبھی خالی جائے ہے۔‘‘ گوجر بولا ’’ یارو! آج کا دن خالی نہیں جائے گا۔ جب میں گھر سے نکلا تھا تو بائیں تیتر بولا تھا اور لوگ کہا کریں ہیں کھیت میت گھر دائیں، بائیں بنج کرایے، (یعنی اگر کوئی شخص کھیت پر جانے کا ارادہ کرے، یا کسی سے ملنے کو یا گھر کی طرف جائے تو دائیں طرف تیتر کا بولنا اچھا ہوت اہے اور بنج بیوپار کو جائے تو بائیں طرف۔)‘‘ یہ کہتے ہوئے سب کے سب آگے بڑھے۔ یکایک بائیں طرف سے گیدڑ بولا۔ رانگھڑ نے گیدڑ کی آواز سن کر کہا ’’ پڑے موذی بنیے کے گھر پر۔‘‘ گوجر نے کہا’’ ارے بائیں بولا ہے کیا ڈر ہے۔ بنیا لہو چاٹے گا۔‘‘ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے وہ سورج پور میں پہنچ گئے۔ میو نے نقب لگانی شروع کی اور اس کے یار ایک طرف چھپے ہوئے کھڑے رہے۔ جب کو محل لگ چکی تو پہلے انہوں نے ایک لکڑی کے سرے پر ہانڈی رکھ کر اس کو اندر کی طرف بڑھایا کہ شاید اگر کوئی آدمی اندر جاگتا ہو اور حملہ کرے تو ہانڈی پر رکے مگر وہاں کون تھا، گھر میں سب بے ہوش پڑے سوتے تھے، کسی کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی۔ اس کے بعد مینا پٹھوال (39) بن کر باہر کھڑا رہا، باقی تینوں مکان کے اندر گئے اور رستے میں جہاں جہاں کواڑوں کی جوڑیاں چڑھی ہوئی دیکھیں، اتار ڈالیں۔ پھر مال کی کوٹھڑی کی طرف گئے تو دیکھا کہ لچھمی دس ا ور کی بیوی دونوں بے خبر پڑے سوتے ہیں۔ انہوں نے کوٹھڑی کا قتل ایسی کاریگری سے توڑا کہ ذرا بھی آواز نہ ہوئی اور گوجر ایک ننگی تلوار لے کر اس بنیے کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ میں کوٹھڑی کے اندر گیا اور جو جو مال ہاتھ لگتا تھا، وہ لا کر رانگھڑ کو دیتا گیا۔ جب بہت سا مال جمع ہو گیا تو رانگھڑ نے باہر لے جا کر مینے کے حوالے کیا اور وہ جنگل میں ایک جھاڑی کے اندر رکھ آیا۔ آدھے اسباب کے قریب نکل گیا تھا کہ لچھمی داس جاگ اٹھا مگر ننگی تلوار دیکھ کر چپکا پڑا رہا، دم نہ مارا، پھر اپنی بیوی کے چٹکی لی، اس کے کلبلانے کی آہٹ سن کر چوروں کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہاں سے چلنے کی تیاری کی۔ مینا، گوجر اور میو تو اس مکان میں سے نکل گئے مگر رانگھڑ کچھ ٹٹولتا رہ گیا اور چاہتا تھا کہ نکل جائے، اتنے میں لچھمی داس پکار اٹھا ’’ ارے! لوٹ لیا ہے رے۔ میرا کلیجہ نکال کر لے جائیں ہیں۔ دوڑیو۔ کوئی آئیو!‘‘ اس کی آواز سنتے ہی کئی جاٹ اپنے اپنے لٹھ لے کر آئے اور رانگھڑ کو پکڑ کر چوپاڑ میں لے گئے۔ پھر تو بنیا اپنی دھوتی سنبھال کر خوب پھیلا اور رانگھڑ کو برا بھلا کہنے لگا۔ اس میں جاٹوں نے رانگھڑ کو نیم میں لٹکا کر کہا ’’ تو اپنے ساتھ والوں کو بتا، کہاں ہیں؟‘‘ مگر اس نے کسی کا نام و نشان نہ بتایا اور یہی کہتارہا ’’ میں اکیلا ہی تھا۔‘‘ جاٹوں نے چاہا کہ اس کا سر کاٹ ڈالیں اور کسی کو خبر نہ ہو مگر پہلے سب کے سب چوپاڑ میں بیٹھ کر اس مقدمے میں مشورہ کرنے لگے اور رانگھڑ کو نیم ہی سے بندھا رہنے دیا۔ اس عرصے میں مینا تمام اسباب نالے میں رکھ اور گوجر اور میو کو وہاں چھوڑ پھر گاؤں میں آیا اور رانگھڑ کو نیم سے بندھا ہوا دیکھ کر چپکے سے چوپاڑ کی چھت پر چڑھ گیا اور اوپر ہی سے تلوار مار کر جس رسے سے رانگڑ بندھا ہوا لٹکتا تھا، اسے کاٹ ڈالا۔ رسا کٹتے ہی رانگھڑ زمین پر گرا، مینا بولا ’’ ارے بھاگ‘‘ اس آواز کا نکلنا تھا کہ دونوں بھاگے اور جاٹ ان کے پیچھے دوڑے۔ لچھمی داس تو پیٹ پکڑے ہوئے روتا پیٹتا ادھر ادھر اپڑا ہی پھرتا تھا، رستے میں مینے کو مل گیا۔ اس نے ایک ایسی تلوار ماری کہ لچھمی داس بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا ۔ پھر مینا اور رانگھڑ ایسے لپکے کہ کسی کے ہاتھ نہ آئے اور نالے میں جا چھپے۔ دولت رام اور گاؤں کے کئی جاٹ لچھمی داس کو اٹھا کے گھر لے گئے مگر اس میں کیا باقی رہا تھا، چار پانچ گھڑی کے بعد اس کی جان نکل گئی (لینے کے دینے پڑ گئے) اس وقت سب لوگ اپنی اپنی گفتگو کرنے لگے، کوئی کہتا تھا ’’ بھئی! چوروں نے بڑا غضب کیا، دیکھو ایک تو بنیے کا مال لیا، دوسرے جان بھی نہ چھوڑی۔‘‘ کوئی بولا’’ جب سے وہ کنجر یہاں آئے تھے، گاؤں میں چوریاں ہی ہونے لگیں۔ بھگوان اپنی دیا ہی رکھے۔‘‘ تھوڑی دیر میں صبح ہو گئی۔ گاؤں کے لوگ جنگل میں جا کر لچھمی داس کو پھونک آئے۔ جب یہ خبر خوشحال چند کو پہنچی تو وہ دوڑا ہوا گاؤں میں آیا اور اپنے سمدھی کی کریا کرم کرا کر اس کی ساری دولت جو باقی رہی تھی اور حساب کی بہیاں اپنے ساتھ لے کر دہلی چلا گیا اور چوروں کے ڈر سے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لیتا گیا مگر لچھمی داس کی بیوی بچوں کی کچھ خبر نہ لی اور انہیں وہیں پڑا رہنے دیا۔ لچھمی داس کی بیوی کو مدت تک یہ توقع رہی کہ جب میرے لڑکے ہوشیار ہو جائیں گے تو خوشحال چند سارا مال جو یہاں سے لے گیا ہے، انہیںحوالے کر دے گا مگر خوشحال چند نے ان کے ساتھ بڑی دغا کی، ایک ایک کوڑی کو انہیں رلایا، برادری کے لوگوں نے بہتیرا سمجھایا مگر اسے ذرا رحم نہ آیا۔ لچھمی داس کی بیوی نے چکی پیس کر اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کی، یہ دیکھ کر اس کے رشتہ داروں کا کلیجہ پھٹا جاتا تھا، سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا ’’ رانڈ کی آہ بری ہوتی ہے، کسی نہ کسی دن ان کو لے بیٹھے گی، بھلا اس کا مال کیا ہضم ہو سکتا ہے پر سمجھاوے کون؟ سدا سے حرام کا مال کھاتے رہے ہیں، وہی لپکا پڑا ہوا ہے۔‘‘ لچھمی داس کو مرے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ خوشحال چند نے دولت رام کے لڑکے کے لینے کا مہورت دکھایا اور مہورت کے دن سے چار پانچ روز پہلے مینا سے کہلا بھیجا کہ تو نے فلا نے دن اپنے بھائی بندوں کو لے کر دہلی میں چلی آئیو۔ جب وہ دن آیا تو مینا لڑکے کو کھارے میں رکھ کر، ڈھول بجواتی ہوئی لائی اور بہت سے جاٹ اور جاٹنیوں کو اپنے ساتھ لیتی آئی۔ یہاں ان سب کے واسطے چاول، کھانڈ اور گھی اور آور چیزیں پہلے سے تیار رکھی تھیں۔ انہوں نے آتے ہی خوب پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر خوشحال چند نے لڑکے کو اپنی گود میں لیا اور مینا کو چار سو روپے نقد اور کپڑوں کا جوڑا اور زیور اور اس کے خاوند تیج رام کو صرف کپڑوں کا جوڑا اور باقی جاٹوں کو ایک ایک چیرا اور جاٹنیوں کو ایک ایک اوڑھنی اور کچھ پیسے حوالے کیے۔ علاوہ اس کے نائیوں اور محلے کے خاکروب کو بھی پگڑیاں دیں، سارے برادری کے لوگوں کی دعوت کی اور سب کو ناچ دکھایا۔ مینا دو تین روز تک وہیں رہی، پھر اپنے گاؤں میں چلی گئی مگر تیج رام باقی جاٹ جاٹنیوں کو لے کر پہلے ہی چلا گیا تھا۔ جب کروڑی مل پانچ برس کا ہوا تو مہورت دکھا کر ایک روز نفیری بجواتے ہوئے اسے سال (40)میں لے گئے۔ وہاں جا کر گنیس جی کی پوجا کرائی اور سال والے نے ایک سادی تختی پر سری گنی آئینمہ لکھ کر اس لڑکے کی زبان سے کہلوایا۔ پھر خوشحال چند نے مشر کو کچھ نقدی دی اور جتنے لڑکے وہاں بیٹحے تھے، سب کو لڈر بانٹے۔ وہ لڈر لیتے ہی دفعتہ چلا اٹھے ’’ چھٹی دلوا دے۔ تیرا بیٹا جویے گا۔ گود میں(41) کا لڑکا شکار کھیلے گا۔‘‘ خوشحال چند نے مشر کو کچھ اور انعام دیا اور سب لڑکوں کو اس روز چھٹی ہو گئی۔ ہیرا نے ساری برادری میں لڈر بانٹے۔ دس پندرہ روز تک لڑکا برابر سال میں ہو گیا مگر پھر خوشحال نے اپنے مکان ہی پر اس کے پڑھوانے کی کچھ تدبیر کر لی۔ ابھی اس لڑکے کی عمر چھ برس کی بھی نہ ہوئی تھی کہ نائی اپنے ججمانوں کی لڑکیوں کی پتریاں لانے لگے کہ کسی سے اس کی پتری مل جائے اور شادی قرار پا جائے۔ جو نائی کسی لڑکی کی پتری لاتا خوشحال چند کے روبرو اس کے حسن کی تعریف کرتا او رکہتا ’’ مہاراج! لڑکا تو تمہارا سورج ہی ہے، پر لڑکی بھی چندرما سے کم نہیں اور اسی گھر جوگ ہے، پر ہمارے ججمان آپ کی برابری نہیں کر سکتے۔ ہاں بھگوان کی دی ہوئی عزت رکھتے ہیں اور کوٹھی کا کارخانہ بھی اچھی طرح چلا یا جاتا ہے۔‘‘ نائی تو اس قسم کی باتیں کر جاتے، مگر جب کوئی عورت اندر آتی تو ہیرا اس سے کہتی ’’ جی جی! نائی روز چھورے کو دیکھ جائے ہیں۔ کئی پتریاں آ چکی ہیں، پر جس چھوری کی پتری آوے ہے، وہ ننھے سے کچھ دنوں بڑی ہی نکلے ہے۔ اس کا دادا کہے ہے، بہو چھورے سے دو برس چھوٹی ہو جب بات بنے۔‘‘ وہ یہ جواب دیتی ’’ اری! کر بھی لے، چھٹائی بڑائی کیا دیکھے ہے؟ جہاں گھر اچھا دیکھ، وہیں کر لے، میں نے سنا ہے، تیرے ننھے کی پتری رام ناتھ کی چھوری کی پتری سے جڑ گئی ہے ایسا گھر دوسرا نہیں ملے گا۔ چھوری بھی ایسی ہے، جیسے گندوڑے کا ٹکڑا۔ ننھے سے کچھ تاؤ بھاؤ بڑی ہو تو ہو، اس بات کو کون دیکھے ہے؟ اور ہاں چتر بھی بڑی ہے۔‘‘ خوشحال چند اسی فکر میں تھا کہ لڑکے کی نسبت کہاں کروں کہ ایک دن کوئی شخص اس سے ملنے کو آیا اور باتیں کرتے کرتے کہنے لگا’’ کہو دولت رام کے لڑکے کی سگائی کہاں کی؟‘‘ خوشحال چند نے کہا’’ ابھی تو کہیں بھی نہیں کی۔ ہم یہ چاہیں ہیں کہ لڑکی اس سے چھوٹی ہو، سو ایسی پتری اب تک کوئی نہیں آئی۔‘‘ وہ بولا ’’ کہیں باہر بھی سگائی کر لو گے یا نہیں؟ جو باہر کر لو تو ہم بتاتے ہیں۔ بریلی میں ایک ساہوکار سدا سکھ ہے، اس کی لڑکی عمر بہت ہو، ساڑھے تین برس کی ہو۔ اس کو تم سے اور تم کو اس سے اچھا سمدھی نہیں ملے گا اور چھوری کو تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے دوسری اس ساتھ کی شہر بھر میں نہیں ہے۔‘‘ خوشحال چند نے کہا’’ بس یہی چاہیے۔ ہمیں تو بس منظور ہے پر جانے وہ بھی راضی ہو یا نہ ہو۔‘‘ اس نے کہا’’ لو میں آج ہی چٹھی لکھوا کر بیورا منگاؤں ہوں، پر میں جانوں ہوں، وہ ضرور راضی ہو جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور جاتے ہی اس مقدمے میں سدا سکھ کے نام پر ایک چٹھی لکھوائی۔ چند روز بعد اس کا جواب آیا ’’ بھائی جی! جہاں تم لالی کی سگائی ٹھہراؤ گے، ہم اس میں کچھ نہ بولیں گے۔‘‘ اس نے یہ بات خوشحال چند سے کہلا بھیجی۔ وہ اسی وقت اپنی بیوی کے پاس گیا او ربریلی کی چٹھی کا ذکر کیا۔ پھر سدا سکھ کی لڑکی کی جنم پتری منگوائی اور جب اسے اپنے لڑکے کی پتری سے مطابق کرا کر دیکھا تو دونوں پتریاں بالکل مل گئیں۔ اس کے بعد دونوں پتریوں کو بریلی بھیج دیا اور ان کے مل جانے کا حال بھی لکھ دیا۔ جب یہ پتریاں بریلی پہنچ گئیں۔ تو سدا سکھ نے اپنے نائی کو پندرہ روپے نقد دے کر اس سے کہا ’’ یہ روپے دلی لے جا اور وہیں سات پانوں کا ایک بیڑا بنوا لیجو اور روپے اور بیڑا خوشحال چند جی کے ہاں دے دیجو۔‘‘ وہ دہلی میں آ کر خوشحال چند کے مکان پر گیا۔ خوشحال چند نے اسے شربت پلوایا اور اب نسبت اچھی طرح قرار پا گئی۔ پھر سدا سکھ کا نائی مہورت دکھا کر ایک روز پندرہ روپے اور سات پانوں کا بیڑا خوشحال چند کے مکان پر لے گیا۔ اس نے وہ بیڑا تو اپنے پوتے کو کھلا دیا او رنائی کو دس ٹکے دے کر رخصت کیا اور اس روز شام تک ناچ رنگ کی محفل گرم رکھی۔ برادری کی بہت سی عورتیں بھی وہاں جمع تھیں ان میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ خوشحالو نے مونگا سے کہا ’’ بھابی! تیں نے ننھے کی سگائی اتنی دورکیوں کی، کیا تجھے یہاں کوئی بہو نہیں جڑے تھی؟‘‘ وہ بولی ’’ بہن! میں کون ہوں، اس کے دادا دادی جانیں۔ بھلا تیرا بھائی کبھی لالہ جی کے سامنے ان باتوں میں بولتا ہو گا، جو میں ساسوں جی سے بولتی؟ اور وہ تو شرم کا مارا چھورے سے بات بھی نہیں کرتا۔‘‘ اسی قسم کی گفتگو اور عورتوں میں بھی ہوتی رہی اور انجام کار سب کی سب رخصت ہو کر اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ نسبت قرار پانے کے کئی مہینے بعد سدا سکھ اپنے کنبے سمیت گڑگانوے والی سیتلا کی جات دینے گیا اور وہاں سے پھرتے وقت چار روز دہلی میں ٹھہرا۔ اس عرصے میں اس نے اپنی بیوی کے کہنے سے سمدھیوں سے ملنے کا ارادہ کیا اور ایک روز خوشحال چند سے کہلا بھیجا ’’ ہم تم سے ملا چاہتے ہیں، جو تم مہربانی کر کر آج دوپہر پیچھے فلانے مکان میں آ جاؤ اور اپنے رشتہ داروں کو بھی لیتے آؤ تو سب کے سب مل لیویں۔‘‘ خوشحال اپنے تمام رشتہ داروں کو لے کر اس مکان پر گیا۔ سدا سکھ پہلے ہی سے چار سو روپے کی تھیلی لیے ہوئے وہاں بیٹھا تھا، انہیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور رام رام کہہ کر چار سو روپے نقد خوشحال چند کو نذر دکھائے۔ پھر دولت رام اور اس کے سارے رشتہ داروں کو کچھ کچھ روپے اور کروڑی مل کو کچھ نقد اور مٹھائی کے چار تھال اور کچھ کھلونے دئیے۔ اسی طرح سے دونوں طرف کی عورتیں بھی آپس میں ملیں اور سدا سکھ کی بیوی نے ہیرا، مونگا، خوشحالو اور آور ساری عورتوں کو جو ان کے ساتھ آئی تھیں، روپے دئیے۔ دوسرے روز سدا سکھ تو اپنے کنبے سمیت بریلی کی طرف روانہ ہوا اور خوشحال چند کے ہاں سمدھیوں کا ذکر ہونے لگا۔ منیب نے دولت رام سے کہا’’ دولت رام جی! تمہیں سمدھی بہت اچھے ملے ہیں۔ با ت کرتے ہوئے منہ سے پھول جھڑتے ہیں، پر ہمارے لڑکے کو دیکھ کر وہ بھی خوش ہو گئے۔‘‘ عورتوں میں خوشحالو اپنی ماں سے پوچھنے لگی ’’ بھابی! میں نے تیری سمدھن کو دیکھا،و ہ تو بٹوا سی ہے، پر سمدھی جانے کیسا ہے۔‘‘ ہیرا بولی ’’ تیرا لالہ کہے تھا، چھریرے سے بدن کاہے۔ اس نے تیرے لالہ اور دولت کا بڑا آور ارمان کیا۔‘‘ خوشحالو بولی ’’ جیسے سمدھن نے ہمارا کیا۔‘‘ ہیرا نے کہا ’’ ہاں ری! وہ تو دونوں خصم جورو ایک ہی سے ہیں۔ جیسی وہ دبلی، پتلی، کامنی ہے ویسے ہی وہ بھی دبلا پتلا ہے۔‘‘ تھوڑے دنوں کے بعد جب ساون کا مہینہ آیا اور برسات کا موسم شروع ہوا تو بہت سی عورتیں اپنے اپنے مکانوں میں جھولے ڈال کر جھولنے لگیں اور برسات کے گیت گانے شروع کیے۔ خوشحال چند نے بھی اپنی پوت بہو کے واسطے بڑی دھوم دھام سے سندھارا (42) بھیجا۔ اس میں ایک ریشم کا رسا اور دو چاندی کی پٹڑیاں بہو کے جھولنے کے واسطے اور ایک پتلی رسی اور دو پٹڑیاں اس کی گڑیا کے لیے اور تیل یعنی زنانہ کپڑوں کا جوڑا تھا۔ یہ سب چیزیں ایک پروہت اور ایک نائی کے ہاتھ بریلی بھیجیں اور انہیں کچھ نقد روپے دے کر کہہ دیا ’’ دیکھو اس کی مٹھائی لے کر اس سارے سامان کے ساتھ نفیری بجواتے ہوئے شہر میں لے جانا اور سمدھی کے مکان پر پہنچا دینا۔‘‘ خوشحال چند نے جس طرح سے کہہ دیا تھا، اسی طرح پروہت اور نائی نے سب اسباب سدا سکھ کے گھر پہنچا دیا۔ سدا سکھ نے تیل کے سوا سب چیزیں رکھ لیں اور تیل کے نہ رکھنے کی یہ وجہ تھی کہ کوارے ناتے میں بیٹی والے کو ایسی چیزیں نہ لینی چاہئیں۔ ادھر تو سدا سکھی کی لڑکی کو سندھارا گیا، ادھر مونگا نے اپنی چار پانچ سہیلیوں کو بلا کر جدا جھولا ڈالا اور برسات کے گیت گانے شروع کیے۔ ساون بھر اس کے گھر میں یہی غل شور رہا۔ روز دوپہر کے بعد اس کی ہم عمر عورتیں جمع ہو کر جھولا جھولتیں، اور اس قسم کے گیت گاتی جاتیں۔ گیت ترجمہ اور مطلب لگا اساڑھ سہاؤنا گھن گر جت چہوں اور اساڑھ کا خوش آئند مہینا شروع ہو گیا، چاروں طرف بادل گرجنے لگے پی پی کرت پیہارا سو بولت دادر مور پپیہا پی پی کرتا ہے اور میڈنگ اور مور بھی بول رہے ہیں اب تو سکھی! اساڑھ آیا، میری سدھ پیا۔ نالیی اے سکھی! اب تو اساڑھ آ گیا مگر خاوند نے میری خبر نہ لی گھن گرج بیرن بادری، میری نیند نینن سے گئی۔ بادل گرجتا ہے، بدلی دشمن ہو رہی ہے، میری آنکھوں سے نیند جاتی رہی کس سے کہوں اپنا مرم سکھی رت اگم بالم نہیں اپنا بھید کس سے کہوں! اے سکھی! برسات کا موسم آ گیا اور خاوند پاس نہیں ہے۔ کیونکر جیون بن پی مجھے برکھا کی رت بیرن بھئی بغیر خاوند کے کیوں کر جیوں، برسات کا موسم میرا دشمن ہو گیا ہے۔ بدھنا نے میرے کرم میں پیا کی جدائی لکھ دی دنیا کے پیدا کرنے والے نے میری قسمت میں خاوند کی جدائی لکھ دی چکوی کی جو گت پت بنا سکھی سو ہی گت میری بھئی! اے سکھی! چکوی کی جو حالت بغیر چکوے کے ہوتی ہے، وہی میری حالت ہو گئی سونا بھون ہرنام بن پی پی پپیہا کر رہا بغیر ہرنام کے مکان خالی ہے، پپیہا پی پی کر رہا ہے۔ گئی بھول سب سکھ دیکھ دکھ پاپی پیا نہ گھر رہا یہ دکھ دیکھ کر سب سکھ بھول گئی، مگر ظالم خاوند ہی گھر میں نہ رہا۔ سندھارا بھیجنے کے بعد دونوں سمدھیانوں میں یہ دستور رہا کہ جب لڑکوں کا کوئی تیوہار آتا تو سدا سکھ مٹھائی اور بہت سی چیزیں پروہت اور نائی کے ہاتھ خوشحال چند کے ہاں بھیج دیتا اور جب لڑکیوں کا تیوہار آتا تو خوشحال چند اس قسم کا سامان بریلی کو روانہ کرتا۔ سدا سکھ اپنے سمدھی کے ہاں کی ساری چیزیں برادری میں تقسیم کر دیتا، مگر اس کے کنبے میں جو شخص اس کی لڑکی سے عمر میں بڑا ہوتا، خوشحال چند کے ہاں کی کوئی چیز نہ کھاتا اور اسے بیٹی کا دھن سمجھتا ہوں خوشحال چند کے ہاں سدا سکھ کا مال سب کو حلال تھا۔ جب نسبت کو تین برس گزر گئے تو ایک روز سدا سکھ نے اپنی بیوی سے کہا’’ لالی سیانی ہوتی جائے ہے، اس کا بیاہ کر دینا چاہیے اور شاستر کی بھی آ گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے، کنیا کا بواہ جلدی ہی ہو جائے تو اچھا ہے اور اس کا پن بھی بہت لکھا ہے۔‘‘ اس کی جورو بولی ’’ ہاں اب لالی کا بیاہ جلدی کر دو، برادری کی جو بیربانیاں ہمارے گھر آویں ہیں، وہ سب یہی پوچھے ہیں لالی کا بیاہ کب کرے گی؟ اور منہ پر تو نہیں کہیں ہیں، پر دل میں ضرور کہتی ہوں گی بڑے آدمی ہو کر ان کو چھوری کے بیاہ کا اب تک فکر نہیں، دونوں پتریاں بھی نکالے دوں ہوں، کسی مشر کو دکھاؤ اور بیاہ نکلواؤ۔‘‘ سدا سکھ دونوں پتریاں لے کر باہر آیا اور ایک مشر کو جو جوتش میں بڑا دخل رکھتا تھا، بلوایا اور پتریاں دے کر پوچھا ’’ مہاراج! یہ بتاؤ، لالی کا بیاہ کب ٹھہرتا ہے۔‘‘ اس نے دونوں پتریاں لے لیں اور کچھ لکیریں کھینچنی شروع کیں۔ پھر یکایک بول اٹھا ’’ لالہ صاحب! ہمارے نزدیک لڑکی کا بواہ بیساکھ سدی اشٹمی کا نکلتا ہے۔ یہ سایہ سب سایوں میں سریشٹ ہے۔‘‘ پھر سدا سکھ نے کہا ’’ تو لگن کا مہورت بھی پجارو‘‘ اس نے کچھ بڑبڑا کر اس کی بھی تاریخ بتا دی۔ جب لگن کا دن آیا تو سدا سکھ نے برادری کے تمام لوگوں کو اپنے مکان پر جمع کیا اور ان کے روبرو اسی پنڈت کو بلوا کر لگن لکھوایا۔ اب لگن کی حقیقت سنئے۔ وہ خوشحال چند کے نام پر اس مضمون کی ایک چٹھی تھی کہ فلاں تاریخ کی برات قرار پائی ہے اور علاوہ اس کے اور سب رسمیں جو بیاہ سے پہلے ہوتی ہیں، ان کی بھی تاریخیں اس میں لکھی ہوئی تھیں اور ایک زائچہ کھنچا ہوا تھا اور دونوں طرف کے بزرگ جو اب تک جیتے تھے، ان کے نام بھی اس چٹھی میں مندرج تھے۔ پنڈت نے لگن کا کاغذ لکھ کر اس کے چاروں طرف رولی سے بڑے بڑے نقطے بنا دئیے اور تھوڑی سی رولی حرفوں پر بھی چھڑی دی۔ پھر اس کاغذ میں تھوڑی سی دوب ہلدی کی پانچ گرہیں، چھالیا کی دو ڈلیاں، کچھ رنگے ہوئے چاول اور دو پیسے نقد رکھ کر لپیٹا اور اس کے اوپر کلاوہ باندھ دیا۔ اس کے بعد لڑکی کو بلا کر پہلے اس سے گنیش جی کی اور پھر لگن کی پوجا کرائی اور لگن کو ایک ناریل اور چار روپے سمیت لڑکی کی گود میں ڈال دیا اور اس کے منہ پر رولی سے مروٹ(43) کھینچ دی۔ جب یہ رسم ادا ہو چکی تو لڑکی کا ماموں اسے گود میں اٹھا کر اندر عورتوں میں لے گیا اور وہاں اس سے اس کے خاندان کے دیوتاؤں کے روبرو ڈنڈوت کرائی۔ پھر اس کی گود کی ساری چیزیں لے کر باہر مردوں میں آیا اور سب برادری والوں کے سامنے پروہت اور نائی کو دے کر کہا’’ لو جی اس کو دہلی لے جاؤ۔ سمدھی سے کہہ دینا کہ برات ہماری اور اپنی عزت کے موافق لاوے‘‘ اور نائی کی طرف مخاطب ہو کر بولا ’’ برات کا جو سامان کرے، اس سے ہم کو پہلے خبر دیجو اور جلدی سے آ کر کہہ دیجو۔‘‘ برہمن اور نائی وہ اسباب لے کر دہلی کو روانہ ہوئے اور جب وہاں پہنچے تو نائی خوشحال چند کے نائی کے ہاں اور پروہت اس کے پروہت کے ہاں جا کر ٹھہرا۔ خوشحال چند کے نائی نے فوراً اپنے ججمان کو خبر دی ’’ لالہ جی! تمہارے ہاں لگن آیا ہے۔‘‘ اس نے اسی وقت ایک پنڈت کو بلا کر لگن کے لینے کا مہورت دکھایا اور پنڈت جی نے جو دن بتایا، اس دن صبح سے سب برادری والوں کو بلایا۔ جب وہ آ کر جمع ہو گئے تو سدا سکھ کا پروہت اور نائی دونوں ایک ناریل، لگن، چار روپے نقد اور پان کا بیڑا لے کر اس کے ہاں گئے۔ خوشحال چند نے کروڑی مل کو بلا کر پٹڑے پر بٹھایا اور اس سے گنیش جی اور نوگرہ کی پوجا کرائی۔ اس کے بعد سدا سکھ کے پروہت نے اس کے ماتھے پر ٹیکا لگا کر ناریل، لگن اور روپے اس کی گود میں ڈال دئیے اور بیڑا کھلا دیا۔ اب رسم کے موافق تو یہ چاہیے تھا کہ کروڑی مل کو اس کا ماموں اندر گھر میں لے جاتا، مگر وہ آپس کی بے مزگی کے سبب سے خوشحال چند کے ہاں نہ آتا تھا، اس واسطے ایک اور شخص اسے گود میں اٹھا کر اندر لے گیا۔ وہاں دولت رام کی بہن خوشحالو نے اس کا آرتا (44)کیا اور پھرایک آدمی ساری چیزیں اس کی گود میں سے باہر لایا۔ خوشحال چند کی طرف کے ایک برہمن نے لگن کو کھولا اور اس میں سے تمام چیزیں نکال کر اس کی عبارت پڑھی اور پھر سب چیزیں اس میں رکھ کر جیسے پہلے لپٹی ہوئی تھیں، اسی طرح لپیٹ دیں، مگر ٹکا نکال کر آپ لے لیا۔ اس کے بعد خوشحال چند نے سب برادری والوں کو پان دے کر رخصت کیا اور آج کے دن سے اس کے ہاں شادی شروع ہو گئی۔ خوشحال چند نے اول کڑاہے کا مہورت دکھا کر گندوڑے بنوائے اور برادری میں تقسیم کیے۔ پھر صرافہ نانوہ (45)کی رسم ہوئی، یعنی ساہوکاروں کی کوٹھیوں کے برہمنوں کو دو دو گندوڑے اور دو دو روپے دئیے مگر اور برہمنوں کو دو دو گندوڑے اور صرف چار ہی چار آنے دئیے۔ اس کے بعد دعوت شروع ہوئی اور سات روز تک ناچ رنگ کے ساتھ رہی۔ اس عرصے میں لگن کے دو روز بعد ہیرا نے بھی اپنے کنبے کی تمام عورتوں کو بلا کر شام کے وقت ان کے روبرو نائنوں سے گیت گوائے۔ پھ رایک مکان کی دیوار کو ایک جگہ سے لپوا کر اس پر گیرو پھیرا اور پھر اس کے خشک ہوتے ہی ایک عورت نے ہلدی میں اپنا ہاتھ رنگ کر اس پر پنجے کا نشان کر دیا اور سب عورتوں نے اس کی پوجا کی۔ اسی کو تھاپے کی رسم کہتے ہیں۔ جب عورتیں پوجا سے فارغ ہو چکیں تو انہوں نے اپنے ہاتھ پاؤں میں میندھی لگائی اور رات بھر گانا ہوتا رہا۔ دوسرے روز صبح ہی مشر آیا اور اس کے کہنے سے عورتوں نے کمہاری کے ہاں سے ایک کھارا منگا کر اس پر کروڑی مل کو بٹھایا اور مشر جی نے ایک سرخ کلاوہ بٹ کر اس میں ایک لوہے کا چھلا، ایک منکا، سوراخ کی ہوئی چھالیا کی ڈلی اور رائی کی پوٹلی باندھی اور اس کی پوجا کر کے کروڑی مل کے ہاتھ میں باندھ دیا۔ اسی شے کو گنگنا کہتے ہیں اور یہ اس واسطے دولہا اور دلہن کے ہاتھ اور پاؤں میں باندھا کرتے ہیں کہ انہیں نظر نہ لگے۔ اس کے بعد چار عورتوں نے ایک رنگین کپڑے کے چاروں کونے پکڑے اور کروڑی مل کے سر پر اس کا سایہ کر کے کھڑی ہو گئیں۔ اتنے میں ایک عورت مٹی کے سات پیالے لائی۔ ایک میں رولی، دوسرے میں میندھی، تیسرے میں ہلدی، چوتھے میں تیل، پانچویں میں دہی، چھٹے میں دودھ اور ساتویں میں ابٹنا تھا۔ یہ ساتوں چیزیں مشر جی نے تھوڑی دوب پر لگائیں اور اسے لڑکے کے پاؤں، گھٹنوں، کندھوں اور ماتھے سے چھوا دیا۔ پھر چار مرد اور عورتوں نے بھی یہی عمل کیا اور لڑکا ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کچھ بتاسے دیتا گیا۔ پھر نائی نے کروڑی مل کے کپڑے اتارے اور اس کے بدن پر ابٹنا مل کر خوب نہلایا اور جو ابٹنا بچ رہا، اسے کوارے لڑکوں کو مل دیا کہ اس کے اثر سے انہیں بھی یہ دن نصیب ہو اور ان کی بھی شادی جلد ہو جائے۔ کروڑی مل نے نہا دھو کر اپنے کپڑے پہن لیے اور خوشحالو نے ایک تھالی میں آٹے کا چراغ بنا کر اس میں چار بتیاں روشن کیں اور کروڑی مل کا آرتا کیا۔ پھر اس کے ہاتھ میں ایک لوہے کا گز دے دیا کہ اس سے بھوت پریت ڈرتے رہیں اور دولہا پر آسیب کا اثر نہ ہونے پائے۔ اس ساری رسم کو بان بیٹھنے کی رسم کہتے ہیں۔ آج ہی کے دن منڈھا بھی چھوایا گیا اور اس کی اصل یہ ہے کہ چار پیالوں کے پیندوں میں سوراخ کر کے انہیں اسی طرح سے ملا کر ڈورا پرو دیا کہ ادھر ادھر سے دو دو پیالوں کے پیندے اور بیچ میں دو پیالوں کے منہ آپس میں مل گئے اور ایک کپڑا تان کر ان سب پیالوں کو اس کے نیچے لٹکا دیا۔ چار روز تک بان کی رسم ادا ہوتی رہی، پانچواں دن وہی تھا جو بریلی کی روانگی کے لیے قرار پایا تھا۔ اس دن بھی ساری رسم پوری کی گئی، مگر چار روز تک ساتوں چیزیں پاؤں سے لگانی شروع کرتے تھے اور سر پر تمام کرتے تھے۔ اس روز سر سے شروع کیں اور پاؤں پر تمام کیں اور اس عمل کو ہندوؤں کی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ اتنے دن تو تیل چڑھایا اور پھر اتارا۔ اس روز نہانے کے بعد سب دولہا کے کپڑے نائی نے لے لیے اور بیاہ کے کپڑے اس کے پہننے کے واسطے منائے۔ پہلے برہمن نے دولہا سے ان سب کپڑوں کی پوجا کرائی ۔ پھرا سے سارے کپڑے پہنائے گئے۔ اول گلبدن کا پاجامہ اور ململ کا رنگین جامہ پہنایا، پھر کمر پر پٹکا اور سر پر پگڑی باندھی۔ اس کے بعد رنگین جامے کے اوپر ایک اور زری کا جامہ پہنایا اور پٹکے کے اوپر زری کا پٹکا اور پگڑی کے اوپر زری کا سر پیچ، پھر سر پر موڑ اور ماتھے پر سہرا باندھا۔ یہ سب چیزیں لڑکے کا ماموں دیا کرتا ہے۔ مگر خوشحال چند کروڑی مل کے ماموں کا سارا اسباب دبا بیٹھا تھا، اس واسطے اس نے کچھ نہیں دیا۔ پھر بھی تمام چیزیں اسی کی طرف سے سمجھی گئیں۔ برہمن کو پگڑی باندھنے کے پانچ روپے اور نائی کو جامہ پہنانے کا سوا روپیہ دیا گیا۔ جب دولہا کپڑے پہن کر تیار ہو گیا تو خوشحالو نے آ کر اس کے ماتھے پر ٹیکا لگایا اور اس کی گود میں لڈو، ناریل اور ایک روپیہ ڈال دیا۔ پھر اور رشتہ داروں نے بھی ٹیکے لگا کر روپے دئیے۔ اتنے میں کروڑی مل کے ایک رشتے کی بھاوج نے آ کر اس کی آنکھوں میں کاجل لگایا اور خوشحال چند نے اس عورت کو ایک اشرفی دی۔ علاوہ اس کے مونگا نے دودھ کی بخشوائی سو روپے اور مینا نے ایک اشرفی لی۔ اس کے بعد برات کے چلنے کی تیاری ہوئی۔ برادری کے لوگ جو برات کے ساتھ جانے کو راضی ہو گئے تھے، سڑک پر آ کھڑے ہوئے۔ا تنے میں لڑکے کو گود میں اٹھا کر باہر لائے۔ وہاں ایک گدھا اور ایک گھوڑا دونوں پھولوں کا سہرا بندھے ہوئے دولہا کی سواری کے لیے موجود تھے۔ پہلے دولہا کا پاؤں گدھے پر رکھا (کیونکہ ہندوؤں کے اعتقاد میں گدھا سیتلا کی سواری ہے) پھر گدھے والے کمہار کو سوا روپیہ دے کر دولہا کو گھوڑے پر سوار کیا اور اس کے پیچھے ایک اور کوارا لڑکا بٹھا دیا۔ لڑکے کے سوار ہوتے ہی خوشحالو کے خاوند نے گھوڑے کی بھاگ پکڑ لی اور خوشحال چند سے ایک اشرفی لے کر چھوڑی۔ پھر سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں ہو بیٹھے اور باجا بجواتے ہوئے آگے بڑھے۔ شہر کے دروازے تک باجا بجتا رہا۔ پر باجے والوں کو انعام دے کر رخصت کیا اور لڑکے کو گھوڑے سے اتار کر اس کے بھاری کپڑے بڑھا لیے اور گاڑی میں بٹھا دیا دولہا کے ساتھ برادری کی کوئی عورت نہ گئی مگر مینا جاٹنی جس نے اس لڑکے کو پالا تھا، اپنے خاوند اور کئی جاٹوں سمیت برات کے ہمراہ ہوئی۔ سب لوگ آرام سے منزل بہ منزل چلے گئے اور خوشحال چند ہر ایک کی خاطر داری کرتا گیا۔ جب بریلی کوس بھر رہ گئی تو سب نے کپڑے بدلے۔ اتنے میں سدا سکھ کی طرف سے کچھ آدمی آئے اور شہر کے باہر جو سدا سکھ نے کسی باغ میں پہلے سے خیمے لگوا دئیے تھے، ان سب کو ان خیموں کی طرف لے گئے۔ یہ لوگ وہاں جا اترے اور شہر میں سے برات کا اسباب جمع کرنے لگے۔ جب چار گھڑی دن راہ تو نوبت نقاروں کے ساتھ برات چڑھا کر شہر میں لے گئے۔ اس وقت سب سے آگے نشان کا ہاتھی اور اس کے پیچھے کئی اونٹ، پھر کاغذ کپڑے اور موم کے پھولوں کی ٹہنیاں اور ٹٹیوں کے پیچھے پالکیاں، تان جھانوں اور گھوڑوں کی قطاریں تھیں اور پھر سارے برات والے پیادہ پا اور ان کے پیچھے دولہا ایک گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ دولہا کے آفے نفیری بج رہی تھی اور دونوں طرف دو آدمی مورچھل ہلا رہے تھے اور اس کے گرد بہت سے آدمی اپنے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی آرائش لیے ہوئے چلے جاتے تھے۔ جب برات سدا سکھ کے مکان کے قریب پہنچی تو خوشحال چند نے دولہا پر سے کچھ اٹھنیاں، چونیاں نثار کیں۔ اس عرصے میں سدا سکھ جو برادری کے لوگوں کو لیے ہوئے پہلے ہی سے اپنے مکان کے باہر کھڑا تھا، استقبال کے لیے آگے بڑھا اور دونوں سمدھیانوں کے لوگ آپس میں گلے ملے۔ پھر کروڑی مل کو اس کی سسرال کے دروازے پر لے گئے۔ وہاں اس کی ساس نے آ کر اس کا آرتا کیا، کروڑی مل نے آرتے میں سوا روپیہ ڈال دیا۔ پھر اس کی ساس نے ٹیکا لگا کر ایک روپیہ دیا جن عورتوں نے پہلے کروڑی مل کو نہیں دیکھا تھا وہ سب اسے دیکھ کر کہنے لگیں ’’ لالی کا بنا تو بنا ہی ہے، ایسے جمائی کہاں ملے ہیں!‘‘ اس کے بعد لڑکا اور سب برات والے ایک بڑے مکان میں جسے جنواسا کہتے ہیں، جا اترے۔ وہاں ان کے جاتے ہی ناچ رنگ شروع ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد سدا سکھ ایک سو ایک روپے نقد اور بہت سے برتن اور کروڑی مل کے واسطے عمدہ پوشاک اور زیور کی اکیس رقمیں اور سارے برات والوں کے لیے کھانا لے کر وہاں آیا۔ اول لڑکے کو چاندی کی چوکی پر بٹھا کر اس سے گنیش جی کی پوجا کرائی پھر اپنے ہاں کی پوشاک پہنائی، مگر موڑ پہلا ہی ہنے دیا۔ اس کے بعد ایک روپیہ اور ناریل اس کی گود میں ڈالا، پھر کروڑی مل ایک مسند پر جو چوکی کے برابر بچھی ہوئی تھی، جا بیٹھا۔ خوشحال چند کی طرف سے سدا سکھ اور اس کے ہمراہیوں پر گلاب چھڑکا گیا۔ اس وقت یہ لوگ وہاں سے سرک گئے، مگر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آئے اور سب کو کھانا کھلا کر پھر چلے گئے۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو سدا سکھ نے ایک نائی کی زبانی کہلا بھیجا کہ پھیروں کے واسطے آؤ۔ وہ لڑکے کو لے کر اپنے قریب رشتہ داروں سمیت سدا سکھ کے مکان پر گیا۔ اب یہاں کاحال سنو کہ یہ لوگ بھی پہلے ہی زبان کی رسم پوری کر چکے تھے اور منڈھا بھی چھوا لیا تھا اور اب برات کے دن بھی ساری تیاری کر لی تھی۔ سدا سکھ اور اس کی بیوی نے اس روز برت رکھا تھا۔ جب کروڑی مل پھیروں کے واسطے آیا تو اول اسے شطرنجی پر بٹھایا، پھر منڈھے کے نیچے دو پٹڑے رکھ کر اس کے اوپر ایک توشک بچھائی۔ لڑکا ایک پٹڑے پر بیٹھ گیا اور اس کی جوتی اتروا کر اس کے ہاتھ پاؤں دھلوائے اور اچمن (46) کرایا۔ اس کے بعد سدا سکھ نے اس کے ہاتھ میں مولی (47)باندھی اور اس وقت مشر نے ایک منتر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے: میں نے جو پہلے اقرار کر لیا ہے کہ میں تمہیں کنیا دان دوں گا اب اسے پورا کرتا ہوں۔ اس کے بعد وید کی کچھ عبارت پڑھ کر کروڑی مل سے گنیش اور نوگرہ کی پوجا کرائی ۔ پھر لڑکی کو وہاں لائے او راس کے آتے ہی کروڑی مل سے کہا کھڑا ہو جا۔ وہ جھٹ کھڑا ہو گیا۔ پھر لڑکی کو اس کے دائیں طرف بٹھا کر اس سے بھی گنیش اور نوگرہ کی پوجا کرائی۔ اس کے بعد آگ منگا کر منڈھے کے نیچے روشن کی اور وید کے بہت سے منتر پڑھے۔ پھر کنیا دان کی تیاری ہوئی۔ سدا سکھ اور اس کی بیوی کا گٹھ جوڑا ہوا اور دولہا دولہن کے ہاتھ میں مولی باندھ دی۔ پھرا سدا سکھ نے اپنی لڑکی کے ہاتھ میں رولی ملی۔ (اور اسے ہندوؤں کی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ لڑکی کے ہاتھ پیلے ہو گئے) اس وقت عورتوں نے کچھ راگ گایا اور دونوں طرف کے پنڈتوں نے ساکھا اچار پڑھا، یعنی لڑکے اور لڑکی دونوں کے باپ دادا اور پردادا کا نام بیان کیا اور ان کا گوتر (48) بتایا۔ اس کے بعد سدا سکھ نے لڑکی کا دایاں ہاتھ لے کر لڑکے کے دائیںہاتھ پر رکھ دیا اور پھر لڑکے کا انگوٹھا پکڑ کر اور اپنے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی، پھول، صند ل اور پانی کا بھرا ہوا سنکھ رکھ کر ایک سنکلپ پڑھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ میں یہ کنیا گنگی نامی جو فلانے کی پڑوتی اور فلانے کی پوتی اور فلانے کی بیٹی ہے زیور اور کپڑوں اور سواری اور آور اسباب سمیت نہال چند کے پڑوتے خوشحال چند کے پوتے اور دولت رام کے بیٹے کروڑی مل کو دیتا ہوں۔ یہ اس کی بیوی ہے اور میرے اس دان سے بھگوان خوش ہو۔ یہ کہہ کر انگوٹھی لڑکے کو پہنا دی اور سنکھ کا پانی اس کے ہاتھ میں ڈال دیا۔ اسی وقت پنڈتوں نے آواز دی ’’ مہاراج! تمہارا یہ دینا سپھل ہو۔‘‘ اس کے بعد خوشحال چند نے اپنے پوتے سے گائے کا دان کرایا۔ (کیوں کہ ایسا بھاری دان یعنی کنیا لے کر اس کا عوض اتارنا ضرور تھا) مگر اس وقت گائے موجود نہ تھی۔ اس کی عوض ایک اشرفی پروہت کو دے دی۔ پھر دولہا دلہن کی گانٹھ باندھ دی اور اس وقت وید کے منتر پڑھے گئے اور ہوم ہوتا رہا۔ اس کے بعد دونوں کو کھڑا کیا اور آگ کے گرد چار چکر دلوا دئیے۔ تین چکر میں لڑکی کو آگے رکھا اور چوتھے میں لڑکا آگے رہا۔ جب یہ چکر ہوتے جاتے تھے تو لڑکی کا بھائی اس کے ہاتھ میں کھیلیں دیتا جاتا تھا اور وہ انہیں آگ میں ڈالتی جاتی تھی۔ ان چکروں کے بعد دونوں اپنی اپنی جگہ پربیٹھ گئے اور ان میں آپس میں عہد و پیمان ہونے لگے، مگر پنڈت ہی ان کی طرف سے گفتگو کرتے رہے اور سنسکرت کی عبار ت جو پہلے سے اس باب میں مقرر ہے، پڑھتے رہے۔ اول سدا سکھ کے پنڈت نے لڑکی کی طرف سے جو عبارت پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے میں سات باتیں چاہتی ہوں۔ اگر تو ان پر راضی ہو تو میں بائیں (49) طرف آ جاؤں، نہیں تو اب تک کنیا ہی ہوں۔ اول جو تو یگ کرے تو بغیر میری اجازت کے نہ کریو۔ دوسرے جو برت کرے تو میرے سے پوچھ لیجو، تیسرے تینوں زمانوں یعنی لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں میری خبر لیتا رہیو۔ چوتھے جو کچھ کما کے لائے میرے آگے رکھ دیجو۔ پانچویں جو جانور خریدے، اس میں مجھ سے صلاح لے لیجو۔ چھٹے جو عیش و عشرت کی باتیں ہر موسم میں ہوتی ہیں، انہیں بغیر میرے ہرگز نہ اختیار کیجو۔ ساتویں جب میں اپنی سہیلیوں اور ہم چشموں میں بیٹھی ہوں تو میری بے وقری نہ کیجو۔ جب لڑکی کا پنڈت یہ عبارت پڑھ چکا تو اس نے کروڑی مل سے کہا ’’ کہو وشن بھلی کریں گے۔‘‘ کروڑی مل نے فوراً یہی جواب دیا۔ اس کے بعد لڑکے کی طر ف سے پنڈت نے جو کچھ پڑھا، اس کا حاصل یہ ہے: مجھے یہ سب شرطیں منظور ہیں مگر میں بھی پانچ باتیں چاہتا ہوں۔ اول بغیر میری اجازت کے گھر سے باہر نہ نکلیو۔ دوسرے کبھی کسی شرابی آدمی یا مست ہاتھی کے سامنے نہ جائیو۔ تیسرے اپنے باپ کے گھر میں مجھ سے پوچھ کر قدم رکھیو۔ چوتھے میری کسی بات کو نہ ٹالیو۔ پانچویں ہمیشہ میری خدمت کرتی رہیو اور مجھ سے محبت رکھیو۔ جب یہ عہد و پیمان ہو چکے تو لڑکی کو لڑکے کے بائیں طرف بٹھا دیا اور پھر دھرو (50)کے درشن کرائے اس کے بعد دونوں اٹھ کر اوپر کے مکان میں چلے گئے اور وہاں برہمن ہوم کرتے رہے۔ عورتوں نے لڑکے کو تھاپے کے آگے بٹھایا۔ اس کی جوتیاں پہلے ہی سے وہاں لا کر ایک چھاج کے نیچے رکھ دی تھیں، اس سے ان کی پوجا کرانی چاہی اور کہا’’ لے ان کو پوج، یہ تیرے کل دیوتا ہیں۔‘‘ وہ پہلے ہی اس امر سے واقف ہو چکا تھا اور سیکھا ہوا تھا کہ وہاں جوتیاں رکھی ہیں، ہرگز نہ پوجنی چاہئیں جھٹ بول اٹھا ’’ واہ! یہ تمہارے ہی دیوتا ہیں، میں نہیں پوجوں ہوں۔ تمہیں ان کو پوجو۔‘‘ پھر سب عورتوں نے اس سے چھن کہوائے اور روپے دئیے: چھن پکاؤں چھن پکاؤں چھن پکے کا بیڑا برات آئی چاندنی جمائی آیا ہیرا چھن پکاؤں چھن پکاؤں چھن پکے کا خرما تمہاری بیٹی کو ایسا رکھوں جیسا آنکھوں کا سرما چھن پکاؤں چھن پکاؤں چھن پکے کا روڑا دوسرا چھن جب کہوں جب سسرا دے گا گھوڑا جب سب یہ رسمیں ادا ہو چکیں تو خوشحال چند اور اس کے رشتہ دار جنوا سے میں چلے آئے۔ اس وقت صبح ہو گئی تھی اور سب رات کے جاگے ہوئے تھے، لوگ آتے ہی اپنے اپنے بستروں پر پڑ رہے۔ جب دوپہر ہوئی تو لڑکا اپنے سسرال میں گنگنا کھیلنے گیا اور اپنے ساتھ اور بہت سے لڑکوں کو لیتا گیا۔ دونوں دولہا دلہن پٹڑوں پر بیٹھے۔ نائن نے آتے ہی ایک تھالی میں پانی بھر کر اس میں ایک روپیہ ڈال دیا، پھر دولہا کا کنگنا دلہن اور دلہن کا دولہا سے کھلوایا۔ دونوں کے کنگنے ایسے مضبوط بندھے تھے کہ ان کا کھولنا بہت مشکل تھا۔ جب کروڑی مل سے گنگی کا کنگنا نہ کھلا تو عورتوں نے چاروں طرف سے خوب قہقہے مارے اور طرح طرح کے آوازے پھینکے۔ کوئی بولی ’’ ارے! تیری ماں نے تجھے خوب دودھ پلایا ہے۔‘‘ کوئی کہنے لگی ’’ ارے! بھلی ڈبوئی۔ جو یہی گرہ نہیں کھول سکتا تو آگے کو کیا کرے گا؟‘‘ جب دونوں کنگنے کھل چکے تو نائن نے انہیں ملا لیا اور کئی دفعہ روپے کے ساتھ تھالی میں پھینکا۔ دولہا دلہن دونوں اس تاک میں بیٹھے رہے کہ کب کنگنا گرے اور ہم لے لیں۔ نائن نے بھی اسے اس انداز سے چھوڑا کہ کبھی وہ دولہا کے ہاتھ لگا اور کبھی دلہن کے۔ اسی طرح سات دفعہ پھینکا، مگر آخر کو لڑکے ہی کی طرف ڈالا کہ انجام کو دولہا ہی دلہن پر غالب رہے۔ اس رسم کے بعد سب لڑکوں نے کھانا کھایا اور پھر رخصت ہو کر جنوا سے میں چلے گئے۔ دوسرا روز سدا سکھ نے سب سمدھیوں کی دعوت کی، شام سے ناچ شروع ہوا۔ جب چھ گھڑی رات گئی تو وہ اپنے رشتہ داروں او رایک پنڈت کو ساتھ لے کر جنوا سے میں گیا۔ وہاں جا کر پہلے ناچنے والیوں کی گالیاں سنیں اور اس کے انعام میں انہیں ایک اشرفی دی، پھر دونوں طرف کے پنڈت چھالیا کے چار چار ڈلیاں اپنے ہاتھ میں لے کر وہاں آ بیٹھے۔ پہلے دلہن کی طرف کے پنڈت نے سنسکرت میں ایک عبارت پڑھی، جس کا ترجمہ یہ ہے: جہان میں سب سے بڑی زمین اور زمین سے بڑا سمندر ہے، جو اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور اس سے بڑے اگت منی جو سمندر کو پی گئے اور اگت منی سے بڑا آسمان جس میں وہ جگنو کی طرح چمکتے ہیں اور ان سے بڑے وشن جی، جن کے ایک قدم کے برابر آسمان ہے اور وشن تمہارے ہر دے میں ہے تو سب سے بڑے تم ہی ہو۔ یہ پڑھ کر اپنے ہاتھ کی چھالیا کی ڈلیاں دولہا کی طرف کے پنڈت کو دے دیں۔ پھر اس نے ایک عبارت پڑھی، جس کا مطلب یہ ہے: اس جہان میں سانپوں کے سوا ایسا کوئی نہیں ہے جو تمہاری تعریف سن کر سر نہیں ہلاتا اور واہ وا نہیں کہتا اور سانپوں کو خدا نے کان ہی نہیں دئیے کہ وہ نہ تمہاری تعریف سنیں گے اور نہ سر ہلائیں گے اور اگر سانپ سر ہلایا کریں تو شیش ناگ بھی جس کے پھن پر یہ زمین ٹھہری ہوئی ہے، سر ہلائے اور زمین کا کچھ ٹھکانا نہ لگے۔ اس کے بعد سدا سکھ خوشحال چند کو بھینٹ دے کر چلا گیا اور یہاں سب لوگوں نے کھانا کھایا۔ ابھی برات رخصت نہ ہونے پائی تھی کہ دہلی سے غدر کی خبر آئی اور سب جگہ چرچا ہونے لگا کہ کالوں کی فوج میرٹھ سے بگڑ کر دہلی چلی گئی اور وہاں جا کر تمام انگریزوں کو قتل کر ڈالا اور شہر کو لوٹ لیا۔ پہلے تو خوشحال چند اور آور لوگوں کو اس بات کا یقین نہ آیا، لیکن جب یہ حال اچھی طرح کھل گیا تو خوشحال چند کے ہوش اڑ گئے اور جو لوگ اس کے ساتھ برات میں آئے تھے، ایک ایک کر کے سٹک گئے۔ خوشحال چند نے بھی جو مال و دولت کو اپنے بیٹے دولت سے زیادہ عزیز جانتا تھا، دہلی آنے کا ارادہ کیا اور دولت رام سے کہا ’’ بھائی! دلی کی خبریں سننے میں آویں ہیں، میرا ارادہ ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔‘‘ دولت رام بولا’’ چار دن کی بات ہے پھر ہم تم سبھی چلے چلیں گے۔‘‘ اس نے کہا’’ نہیں، تمہیں ابھی نہ چلنا چاہیے رستے میں گوجر اور میو لوٹتے ہیں، اتنی بڑی برات کو کب چھوڑیں گے۔‘‘ دوسرے روز صبح ہوتے ہی نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی، ایک نوکر کو اپنے لے،گاڑی میں بیٹھ کر دہلی کو روانہ ہوا۔ رستے میںاور بہت سی گاڑیاں اس کے ساتھ ہو گئیں اور ان میں سے بعض کے ہمراہ ہتھیار بند آدمی بھی تھے۔ گنگا تک تو سب گاڑیاں اچھی طرح چلی آئیں، مگر آگے بڑھتے ہی گوجروں کا ایک گروہ ان پر آ پڑا، ہتھیار بندوں کے ہتھیار دھرے ہی رہے، گوجروں کی شکل دیکھ کر سب کے سب تھرانے لگے۔ ان لٹیروں نے سب گاڑی بانوں کو گاڑیوں سے اتار دیا اور آپ گاڑیوں کو تمام آدمیوں سمیت ایک گاؤں میں جو سڑک سے ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر تھا، ہانک لے گئے۔ وہاں جا کر سب کی تلاشی لی اور جو جوشے جس کے پاس دیکھی، چھین لی۔ خوشحال چند کی ایسی بری گت کی کہ اس کے سارے کپڑے اتروا کر ایک لنگوٹی بندھوا دی، مگر جب اس نے بہت سی عاجزی اور خوشامد کی باتیں کیں تو صرف اس کی دھوتی دے دی اور نوکر کے پاس ہتھیار بندھے ہوئے تھے، اس کی تو شامت ہی آ گئی۔ تھوڑی دیر تک خوشحال چند نے اپنے نوکر کے چھٹنے کا انتظار کرتا رہا، مگر جب انہوں نے بڑی دیر تک نہ چھوڑا اور خوشحال چند سے کہا ’’ جو بھلا چاہے ہے تو جا بھاگ جا‘‘ تو خوشحال چند روتا ہوا آگے بڑھا اور اس حالت میں یہ کہتا جاتا تھا ’’ بھگوان! تیں نے یہ کیا بپتا ڈال دی۔ جو دلی میں یہی حال تو روپیہ کس نے چھوڑا ہو گا۔ عورتوں کا بھگوان جانے کیا حال ہو گا۔ اب ہمارا ٹھکانا کہیں نہیں رہا۔‘‘ گرتا پھرتا کوس بھر گیا تھا کہ پاؤں میں چھالے پڑنے لگے، پیاس کے مارے منہ خشک ہو گیا مگر کوئی کنواں نظر نہ آیا اور جو دکھائی بھی دیا تو اس پر ڈول نہ پایا۔ آخر چلتے چلتے ایک کنواں سڑک کے کنارے پر ملا وہاں ایک چمڑے کا ڈول پڑا ہوا تھا۔ پہلے سوچا کہ مذہب کے لحاظ سے چمڑ ے کے ڈول کا پانی نہ پینا چاہیے، مگر یہ خیال کیا کہ جب جان ہی جاتی ہو تو کاہے کا دھرم، جھٹ ڈول کھینچ کر پانی پی لیا۔ وہاں سے تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک میو کا لڑکا جس کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی، اسے دیکھ کر بولا ’’ لالہ! دھوتی دھرتا جا۔‘‘ خوشحال چند نے عاجزی سے کہا’’ بھائی! ایک سے بچا کر لایا ہوں۔ تیرے کس کام کی ہے؟ میں ننگا شہر میں کہاں جاؤں گا؟‘‘ اور بہت سی خوشامد کی باتیں کر کے آگے بڑھا اور طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر ہاپور پہنچا۔ چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے، وہاں بازار میں جوتے کی تلاش کرنے لگا۔ اتنے میں ایک بنیے سے ملاقات ہوئی، وہ اسے اپنے مکان پر لے گیا۔ خوشحال چند نے وہاں جا کر اپنی ساری حقیقت اس کے روبرو بیان کی اور آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ وہ بنیا بولا ’’ لالہ صاحب! روؤ کیوں ہو؟ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا اب تو آپ اپنے گھر میں آن پہنچے۔‘‘ اس طرح کی باتیں کر کے اس کی بہت خاطر داری کی اور کپڑا، جوتا اور آور جو کچھ درکار تھا، منگا دیا۔ خوشحال چند کو اپنے مال کی لو لگی ہوئی تھی، دو روز تک تو اس کے مکان پر رہا اور پھر دہلی آنے کا ارادہ کیا۔ ہرچند اس بنیے نے منع کیا اور رستے کی خطرناکی کا حال بیان کیا۔ مگر وہ کیا ماننے والا تھا، بولا ’’ جو ہونا ہے سو ہو، مجھے دلی پہنچنا ہے۔ تم سے ہو سکے تو مجھے دلی پہنچوا دو اور جو نہیں تو میں اکیلا ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘ اس بنے نے ناچار ہو کر بڑی مشکل سے ایک ٹٹو کرایے کو کر دیا اور خوشحال چند اس پر سوار ہو کر دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ تھوڑی دور گیا تھا کہ ایک طرف سے دو چار آدمیوں نے گھیرا۔ ایک نے ٹٹو پر سے دھکا دے دیا اور دوسرے نے کہا ’’ جو کچھ تیرے پاس ہے، وہ سب ڈال دے، نہیں تو ابھی مارے ڈالتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے سارے کپڑے اتار دئیے۔ پھر ان لوگوں نے اس کی خوب تلاشی لی، یہاں تک کہ اس کا منہ کھلوا کر حلق میں انگلیاں ڈالیں۔ آخر لنگوٹی بندھوا کر رخصت کیا۔ ٹٹو والا بھی اپنا سر پیٹتا رہ گیا۔ خوشحال چند گرتا پڑتا دہلی میں آیا اور دروازے میں گھستے ہی جو پوریے سپاہیوں کو ننگی تلواریں لیے بازار میں پھرتے دیکھا تو تلواروں کی چمک سے اس کی آنکھوں کے تلے اندھیرا آ گیا۔ خیر، جس طرح ہو سکا، گھر پہنچا۔ وہاں سب عورتیں اس کا یہ حال دیکھ کر رونے لگیں۔ اتنے میں اس کی بیوی بولی ’’ چلو جان بچ گئی میں نے لاکھوں پائے۔‘‘ خوشحال چند کو تو اپنے مال کی پڑ رہی تھی، آتے ہی تمام چیزیں زمین میں ایک جگہ دفن کر ادیں اور وہ جگہ ایسی ہموار کر دی کہ کسی کو یہ نہ معلوم ہو کہ یہاں کچھ دبا ہوا ہے۔ ادھر تو خوشحال چند ان مصیبتوں میں پھنسا ہی ہوا تھا، ادھر دولت رام کے سالے نے بھی سوچا کہ اس نے تو ہمارے ہاتھ دغا کی ہے، مگر اب مجھے بھی بدلہ لینے کا بہت اچھا موقع ہاتھ لگا ہے۔ یہ سوچ کر ایک انگریزی خواں کو بلایا اور خوشحال چند کی طرف سے ایک چٹھی انگریزوں کے لشکر کے کمانیر کے نام پر لکھوائی اور ایک آدمی کو کچھ روپے دینے کا اقرار کر کے کہا ’’ اس چٹھی کو لے جا اور دو چار سپاہیوں کو دکھا کر کہو۔ دیکھو خوشحال چند ساہوکار انگریزوں کو چٹھیاں بھیجا کرے ہے۔‘‘ اس نے ویسا ہی کیا۔ سپاہی فوراً اس کے مکان پر جا پہنچے اور دروازہ توڑ کر اندر چلے گئے۔ اتنے میں دولت رام کے سالے نے ایک اور چٹھی اس کے مکان میں ڈال دی۔ خوشحال چند پوربیوں کی شکل دیکھتے ہی ڈر گیا اور دالان میں سے باہر نکل کر کہنے لگا ’’ کہو بابو! کیوں کر آئے ہو؟‘‘ انہوں نے فوراً اسے پکڑ لیا اور کہا ’’ ارے تو انگریزوں کو چٹھیاں بھیجتا ہے۔‘‘ وہ بولا ’’ نہیں بابو! ہرگز نہیں۔ ہم بادشاہ کی رعیت ہیں، ہمیں انگریزوں سے کیا کام؟‘‘ اس نے ہر چند اس امر سے انکار کیا، مگر پوربیوں نے نہ مانا اور اس کا سارا اسباب لوٹ لیا۔ پھر اسے پکڑ کر اپنے جنرل کے پاس لے گئے اور وہاں اس کے حکم سے مارا گیا۔ دولت رام کا سالا جو اس امر میں سپاہیوں کا شریک بلکہ اس مقدمے کا بانی تھا، بادشاہ کے بڑے خیر خواہوں میں شمار ہونے لگا اور غدر بھر ان کے ساتھ رہا اور انہیں کا دم بھرتا رہا، مگر انجام کار انگریزوں نے اسے گرفتار کر کے پھانسی دے دی۔ اب بریلی کا حال سنئے۔ خوشحال چند کے آنے کے تھوڑی مدت بعد وہاں کا کمپو بھی بگڑ کیا اور بریلی کا ایک رئیس جس کے بزرگ پہلے بھی وہاں کے سردار تھے، اس جگہ کا حاکم ہو گیا۔ فوج کے بہتیرے آدمی اس کے ساتھ ہو گئے اور مال داروں سے روپے طلب کرنے لگے۔ مخبروں نے لوگوں کو جدا ستانا شروع کیا اور آپ ہی آپ طرح طرح کے بہتان اٹھانے لگے۔ ایک شخص سدا سکھ کے پاس آیا اور کہا ’’ لالہ! فلانے انگریز کا بہت سا روپیہ تمہارے پاس جمع ہے، اب تمہاری خبر لی جائے گی۔‘‘ سدا سکھ نے کہا’’ ہمارے ہاں کسی انگریز کا کچھ روپیہ جمع نہیں ہے، جس کے من میں آوے، دیکھ لے۔‘‘ دوسرا روز صبح ہی سدا سکھ کو یہ خبر پہنچی کہ میرے گھر کے لٹنے کا حکم ہو گیا ہے۔ یہ سنتے ہی اس نے اپنا سارا مال کہیں چھپا دیا اور آپ روپوش ہو گیا۔ سپاہیوں نے اس کے مکان کی تلاشی لی، مگر وہاں اس کا پتا نہ لگا۔ اتنے میں کوئی اس کا رشتہ دار بول اٹھا ’’ بابو! وہ اپنے سمدھی کے ہاں گیا ہو گا۔‘‘ یہ سن کر سپاہی دولت رام کے پاس آئے کہا ’’ بتا تیرا سمدھی کہاں ہے۔‘‘ اس نے کہا’’ بابو! میں کیا جانوں؟ اپنے گھر ہو گا‘‘ سپاہی بولے ’’ ہاں تو کہا(51) جانے۔ مچلائی کی باتیں کرتا ہے؟‘‘ دولت رام نے ہر چند عذر کیا، مگر انہوں نے کچھ خیال نہ کیا اور اس کی مشکیں باندھ لیں۔ چار پانچ سپاہی مکان کے اندر گھس کر کچھ اسباب لوٹنے لگے۔ا تنے میں اور پوربیے باہر سے آگئے اور دولت رام کی مشکیں بندھی ہوئی دیکھ کر اپنے دل میں سمجھے کہ یہ شخص انگریزوں کا طرف دار ہو گا۔ یہ سمجھ کر دولت رام کی چھاتی میں ایک گولی ماری کہ وہ اس کے صدمے سے مر گیا۔ پھر سب کے سب وہاں سے چلے گئے۔ تیج رام اور اس کے رشتہ دار اس روز صبح ہی کروڑی مل کو اپنے ساتھ لے کر رام گنگا نہانے چلے گئے تھے۔ وہاں سے واپس آئے تو نہایت گھبرائے۔ دولت رام کے لڑکے کو بہت سا پیار کیا۔ پھر وہاں بیٹھ کر حسرت و افسوس کی باتیں کرتے رہے۔ آخر ایک جاٹ نے کہا’’ بھائیو! جو ہوا سو ہوا۔ یہ تو اب مٹی ہے۔ اس کو پھوک آؤ‘‘ تیج رام نے اسے رام گنگا پر لے جا کر پھکوا دیا اور کروڑی مل کے ہاتھ سے اس کی کپال کریا کرائی۔ اس روز کسی نے کچھ نہ کھایا اور سب کو نہایت رنج رہا۔ دوسرے روز جاٹ بولے ’’ بھائی! ایک کام کرو اس چھورا چھوری کو سدا سکھ کے گھر چھوڑ چلو اور جس طرح ہو سکے اپنے گاؤں کو چلے چلو، نہیں تو یاد رکھنا تم بھی مارے جاؤ گے۔‘‘ تیج رام نے ہرچند سدا سکھ کی تلاش کی مگر اس کا کہیں پتا نہ ملا۔ آخر یہ صلاح ٹھہری کہ دولہا دلہن کو ساتھ لے چلنا چاہیے۔ القصہ ان دونوں کو مینا سمیت ایک گاڑی میں بٹھا دیا اور سب کے سب جاٹ بندوق، تلوار، لاٹھی، سونٹا لے وہاں سے چلے۔ جب مراد آباد سے ورے نکل آئے تو انہوں نے گوجروں کی ایک دھاڑ آتی ہوئی دیکھی۔ تیج رام نے اپنی طرف کے جاٹوں سے کہا ’’ بھائیو! تیار ہو جاؤ لٹیرے آویں ہیں۔ میں تم سے پہلے ہی کہوں تھا، یہ چھورا چھوری کاٹوم چھلا ہمیں بھی مروا دے گا۔‘‘ وہ بولے ’’ ارے! کیوں گھبرایا جائے ہے؟ آنے دے، پہلے ہمیں مار ڈالیں گے، جب ہی چھوری کی ٹوم کو ہاتھ لگاویں گے۔‘‘ جب گوجر ان کے قریب آ گئے تو ایک جاٹ نے پکار کر ان سے کہا ’’ بھئی! جو لوٹنے کی بچار کر آئے ہو تو ویسی ہی کہہ دو، ہم بھی لڑنے مرنے کو تیار ہیں جاٹ کے پوت ہیں، جو اپنے سر دیں گے تو پہلے دو چار کا کاٹ بھی لیں گے اور جو اپنی ڈگر جانا ہے تو چلے آؤ۔ ہم تم سے بولتے نہیں۔‘‘ گوجر بولے ’’ ہمیں یہ گاڑی دے دو اور ہم کچھ نہیں چاہتے۔‘‘ ان کا یہ کہنا تھا کہ جاٹوں نے بندوقوں کی ایک باڑ چھوڑی اور پھر تلواریں سوت کر گوجروں کے کئی آدمی مارے۔ جو باقی رہے تھے، وہ بھاگ گئے۔ اس کے بعد سب کے سب جاٹ اپنی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے اور گوجروں کو ہزاروں گالیاں دیتے ہوئے آگے بڑھے۔ کوئی کہتا تھا ’’ دیکھو، میں نے اس ٹھنگنے کی کیسی ناڑ کاٹی ہے۔‘‘ دوسرا بولا’’ ارے! وہ تو ایسے بھاگے، جیسے بھیڑ بھاگے ہے۔ پیچھے پھر کر بھی تو نہیں دیکھا۔‘‘ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے گنگا پر پہنچے اور ایک برہمن کے مکان پر جو ان کے گاؤں کا پروہت تھا، جا اترے اس نے ان کی بڑی خاطر داری کی۔ رات بھر وہاں رہے۔ صبح ہوتے ہی آگے بڑھے، مگر چاروں طرف دیکھتے جاتے تھے کہ ایسا نہ ہو، گوجر آ جائیں۔ تین چار ہی کوس گئے تھے کہ انہیں ایک گاؤں ملا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ وہاں دس بیس آدمی ایک جگہ جمع ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے ’’ ارے! کیا سوچو ہو، مار بھی ڈالو۔ کوئی کہتا ہے نہیں ان کو گاؤں میں رکھنا چاہیے۔ جو اپنی پناہ میں آئے، اس پر ہاتھ اٹھانا نہیں۔‘‘ اسی طرح کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ جاٹ یہ باتیں سن کر ان کی طرف گئے اور دیکھا کہ وہاں ایک انگریز اور ایک میم دونوں ننگے پاؤں بیٹھے ہیں اور میم کی گود میں ایک بچہ ہے اور کئی لٹیرے ان کے گرد کھڑے ہوئے اپنی اپنی گفتگو کر رہے ہیں۔ مینا انہیں دیکھ کر کہنے لگی ’’ جانے کس نپوتے نے ان کو دکھ دیا ہے۔ ارے اس گاؤں کے لوگ بڑے نردئی ہیں۔ چھورا تو دیکھو، جیسے گلاب کا پھول ہے۔ رام جی نے ان کے اوپر بپتا ڈال دی۔‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ میم بولی ’’ تمہارے پاس بھی بابا لوگ ہے۔ مسی بابا کو مار گئے،ا ب اس کو بھی ماریں گے۔‘‘ جاٹوں کو میم کی اس بات پر رحم آیا اور سب کے سب آپس میں کہنے لگے ’’ بھائیو! تم تو بریلی سے سر بیچ کر چلے ہو، جو ہو سکے تو ان کو بھی بچاؤ۔‘‘ یہ سن کر تیج رام نے اس گاؤں والوں سے کہا’’ ارے کیوں ان کو ستاؤ ہو؟ ایک تو وہ دن تھا جب ان کے پیادے سے بھی کانپو تھے۔ اب جو ان پر رام جی نے بپتا ڈال دی تو ان کی پاس بھی تمہیں نہیں سہاتی؟‘‘ یہ سن کر وہ سب کے سب بول اٹھے ’’ جو ایسا نو سر کا ہے تو تو ہی کیوں نہیں لے جاتا؟ رات دن ہمارے گاؤں میں تکر سوار ڈولا کریں ہیں۔ جو وہ سن پاویں گے تو ہمیں اور انہیں کولھو میں پلوا دیں گے۔ سو ہمیں کیا جو ان کے ساتھ اپنے بال بچے مروا دیں؟‘‘ جاٹ بولا’’ بھلا رے بھلا! ہم ہی لے جائیں گے۔ دیکھ لیہں گے ترک سواروں کو۔‘‘ پھر انہوں نے انگریز سے مخاطب ہو کر کہا’’ آ صاحب!ہمارے ساتھ چل۔ ہم تجھے اپنی گاڑی میں بٹھا لیں گے اور جہاں تو کہے گا وہیں پہنچا دیں گے۔‘‘ یہ سنتے ہی انگریز اور میم اپنے بچے کو لے کھڑے ہو گئے اور جاٹوں کے ساتھ چلے۔ جب اس گاؤں سے تھوڑی دور نکل گئے، جاٹوں نے میم کو جاٹنی کے کپڑے پہنائے اور انگریز اور بچے کے کپڑے بھی بدل دئیے۔ پھر ان سب کو گاڑی میں سوار کیا اور مینا گاڑی میں سے اتر کر مردوں کے ساتھ پیدل چلنے لگی۔ شام کو ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کوئی سرا نہ تھی، اس واسطے ایک بنیے کے مکان پر جا اترے۔ا تفاقاً اس گاؤں کے کسی لڑکے نے انگریز کے بے کو گاڑی میں سے اترتے ہوئے دیکھ لیا اور اپنے ماں باپ سے جا کر کہا’’ بنیے کی حویلی میں ایک فرنگی کا چھورا آیا ہے۔‘‘ اس کے باپ نے اس بات کا کچھ خیال نہ کیا اور حقہ بھر کو چوپاڑ میں جا بیٹھا۔ وہاں طرح طرح کی گفتگو ہو رہی تھی۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا ’’ ارے! آج تو اس بنیے نے اپنی حویلی میں بہت سے جاٹوں کو اتار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ فرنگی اور فرنگن بھی ہے۔ ‘‘ اس لڑکے کا باپ بولا’’ ہمارا چھورا بھی کہے تھا، پر بھئی! ہمیں تو ایمان نہ آیا۔‘‘ اس میں اور بہت سے آدمی وہاں گئے اور سارے گاؤں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ جاٹوں کے ساتھ فرنگی ہے۔ بہت سے میو، گوجر، قصاب اور جلاہے جو اس گاؤں میں رہتے تھے، بنیے کے پاس گئے اور کہنے لگے ’’ ارے! کیوں شامت آئی ہے، پھر اپنے کرموں کو بیٹھا رووے گا۔ فرنگی کو کہاں سے لا کرتیں نے اپنے مکان پر اتار لیا۔ ان کو جلدی نکال، نہیں تو مارا جائے گا۔‘‘ وہ کہنے لگا’’ نہیں تو، ہمارے گھر میں تو جاٹ اترے ہوئے ہیں، چاہے تم چل کر دیکھ لو۔ انہوں نے ہماری دکان سے سودا لیا تھا، پوچھنے لگے، یہاں اترنے کو بھی کوئی جگہ ہے؟ میں نے کہا، ہمارے مکان میں اترو، ایک مکان خالی پڑا ہے۔‘‘ ان لوگوں نے یہ سن کر بنیے کو اپنے ساتھ لیا اور اس مکان کی طرف گئے۔ جاٹوں نے جو بہت سے آدمیوں کو آتے دیکھا، جھٹ دروازہ بند کر لیا۔ بنیے نے پکارا ’’ بھائیو! دروازہ کھولو‘‘ مگر جاٹوں نے کچھ توجہ نہ کی۔ تب تو ان لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہاں ضرور کوئی انگریز ہے۔ یہ سمجھ کر اپنے اپنے گھر گئے اور فوراً ہتھیار لے کر چلے آئے۔ جاٹ بھی اپنی بندوقیں سنبھال کر چھت پر آ کھڑے ہوئے۔ وہاں دیواروں میں بہت سے موکھے بنے ہوئے تھے اور عین دروازے کے اوپر بھی کچھ سوراخ تھے۔ انہوں نے ایسا بندوبست کیا کہ جس نے دروازہ کھولنے کا ارادہ کیا، اسی کے گولی ماری۔ دو دن تک جاٹوں نے کسی کو اپنے پاس نہ آنے دیا مگر جب تیسرے دن انہوں نے دیکھا کہ بندوقیں بھرنے کو بارود اور پیٹ بھرنے کو کھانا نہیں ہے تو گھبرا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ مینا بولی ’’ یہاں تیل بہت ہے اور کڑھایا بھی رکھا ہے، اس کو چولہے پر چڑھا کر تیل تتا کر لو اور جب یہ لوگ آویں تو جلتا تیل ان کے اوپر ڈال دو۔‘‘ یہ بات سن کر ایک جاٹ بولا ’’ چاچی! بات تو تیں نے چوکھی کہی، پر دو دن سے کھانے کو کم ملا ہے اور آج ہے ہی نہیں۔ یہاں سے کسی طرح نکل ہی جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ اتنے میں انگریز بولا’’ جو تم میں سے کوئی ہمارا چٹھی میرٹھ کو لے جائے تو وہاں سے گورا لوگ آ جائے گا۔‘‘ تیج رام نے کہا’’ چٹھی تو میں لے جاؤں، پر باہر مدعی کھڑے ہیں، نکلوں کیوں کر؟‘‘ ایک جاٹ بولا’’ یہاں گھر میں ایک گھوڑی بندھی ہوئی ہے، اس کو کس کر دروازے کے برابر کھڑی کر دو ۔ جب یہ چوڑے آویں گے تو ہم اوپر سے ان پر تیل ڈالیں گے اور تو گھوڑی پر چڑھ کر تیار کھڑا رہ۔ جب وہ بھاگیں تو تو تلوار ہلاتا ہوا جھٹ نکل جائیو، کوئی سامنے نہیں پڑنے کا۔‘‘ یہ تدبیر سب کو پسند آئی۔ چولہے میں آگ جلا کر تیل چڑھا دیا، گھوڑی کو دروازے کے برابر لا کر کھڑا گیا انگریز نے بھی چٹھی لکھ کر تیج رام کو دے دی۔ جب گاؤں والوں نے دیکھا کہ ان جاٹوں کو بندوق چھوٹے ہوئے بڑی دیر ہو گئی تو کہنے لگے ’’ ارے! ان کے پاس بارود ختم ہو چکی، اب آؤ چڑھ چلو اور ایک کدال لے چلو، اس سے دروازے کو توڑیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سب جمع ہوئے اور دروازے پر آئے۔ جس وقت انہوں نے دروازہ توڑنے کا ارادہ کیا تیج رام گھوڑی پر چڑھ گیا اور آور جاٹوں نے اوپر سے جلتا ہوا تیل ان کے اوپر ڈالا۔ کئی آدمی مر گئے اور باقی الٹے بھاگے۔ ان کا بھاگنا تھا کہ تیج رام دروازہ کھول کر باہر آیا اور تلوار ہلاتا ہوا تیر کی طرح نکل گیا۔ بعض آدمیوں نے اس کا پیچھا کیا، مگر وہ ان کے ہاتھ نہ آیا اور میرٹھ پہنچ گیا۔ جاٹوں نے اس کے نکلتے ہی پھر دروازہ بند کر لیا۔ تیج رام نے انگریزی چٹھی میرٹھ کے جنرل کو دی۔ اس نے چٹھی دیکھتے ہی پچاس گورے تیج رام کے ساتھ کر دئیے۔ گاؤں والوں نے جس وقت گوروں کو آتے ہوئے دیکھا، گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے اور جو گوروں کے ہاتھ آئے، وہ مارے گئے۔ تیج رام نے جا کر بنیے کا مکان کھلوایا۔ انگریز، میم اور بچہ تینوں کے تینوں جاٹوں سمیت باہر آئے۔ پھر سب کے سب گوروں کے ساتھ میرٹھ چلے گئے۔ وہاں جا کر اس انگریز نے جاٹوں کی بڑی خاطر داری کی اور کہا ’’ سنو! تم لوگ ہمارے ساتھ رہو، ہم سرکار سے تم کو بڑا انعام دلوا دے گا۔‘‘ جاٹ بولے ’’ صاحب! اب ہم اپنے گاؤں کو جائیں گے، تم ہمارے نام لکھ لو۔‘‘ اور کروڑی مل کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ چھورے کا دادا بھی فکر میں بیٹھا ہو گا۔‘‘ آخر اس انگریز نے سب کے نام لکھ لیے اور انہیں ایک سرٹیفکیٹ دیا۔ یہ لوگ وہاں سے روانہ ہوئے اور جب دہلی پہنچے تو خوشحال چند کا حال سن کر اور بھی پریشان ہوئے۔ تیج رام کروڑی مل کو اپنے گاؤں میں لے گیا اور جب غدر ہوچکا اور پھر امن کی صورت نظر آئی تو تیج رام اور اس کے بھائیوں کو سرکار سے بہت سا انعام ملا۔ تھوڑے دنوں کے بعد تیج رام نے کروڑی مل کے دادا کا مکان بیچ کر اپنے گاؤں میں اسے ایک دکان کھلوا دی اور وہ بنج بیوپار کر کے اپنا گزارہ کرنے لگا۔ پانچواں باب مسلمانوں کی مذہبی باتوں اور ان کی ذاتوں کا بیان (اس باب میں تین فصلیں ہیں) پہلی فصل: بعض پیغمبروں کا مختصر حال جو قرآن اور حدیث(1) اور مسلمانوں کی تاریخی کتابوں کے موافق ہے اہل اسلام (2)کی کتابوں میں لکھا ہے کہ خالق حقیقی نے تمام موجودات سے پہلے حضرت محمد ؐ صاحب ہی کا نور پیدا کیا اور وہی ساری مخلوقات کے پیدا ہونے کا باعث ہیں۔ حضرت آدم ؑ کے ظاہر ہونے سے پہلے دنیا میں جن آباد تھے اور ان کی پیدائش آگ سے ہوئی تھی۔ مدت تک ان کی نسل قائم رہی، مگر جب وہ سرکش ہو گئے اور زمین پر ظلم کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل ؑ کو اور فرشتوں کے ساتھ ان کے سزا دینے کے واسطے بھیجا، انہوں نے آ کر جہان کو جنوں کی آلائش سے پاک کر دیا۔ حضرت آدم ؑ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عزرائیل ؑ کو حکم دیا کہ نرم، سخت، سرخ، سفید، سیاہ اور ہر قسم کی خاک سے ایک ایک مٹھی زمین پر سے بھرلا۔ وہ رنگ برنگ کی خاک جمع کر لایا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کا پتلا اس مٹی کے خمیر سے بنایا۔ یہ پتلا مختلف قسم کی مٹی سے بنا تھا، اس واسطے بلحاظ رنگ اور طبیعت کے بنی آدم کی پیدائش مختلف قسم کی ہوئی۔ جب پتلا بن کر تیار ہو چکا تو خدا تعالیٰ نے اس میں روح ڈالی اور اسے عزت اور بزرگی کے تخت پر بٹھایا۔ پھر کمال ظاہری اور باطنی سے آراستہ کر کے اس کی تعظیم و تکریم کے واسطے بڑے بڑے فرشتوں کو جو حضرت آدم ؑ کے تخت کے گرد ادب سے صف باندھے کھڑے ہوئے تھے، حکم دیا کہ اس کے سامنے سجدہ کرو۔ سب فرشتوں نے بلاعذر سجدہ کیا، مگر عزرائیل یعنی ابلیس نے جو جن تھا اور عبادت کے سبب سے فرشتوں میں ملا جلا رہتا تھا، اس امر سے انکار کیا اور بولا کہ میں آدم ؑ سے بہتر ہوں، کیوں کہ مجھے آگ سے اور آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اس نافرمانی کی سزا میں وہ شیطان کے لقب سے مشہور ہوا اور فرشتوں میں سے نکالا گیا اور لعنت کا طوق اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ اس کے بعد فرشتے حضرت آدم ؑ کو بہشتی لباس پہنا کر بہت اعزاز و اکرام سے جنت میں لے گئے اور جب وہ وہاں رہنے لگے تو ان کی طبیعت ایک جلیس ہمدم اور انیس محرم کی مشتاق ہوئی۔ حضرت آدم ؑ پر خواب نے غلبہ کیا اور اس وقت ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا پیدا ہوئیں۔ حضرت آدم نے بیدا رہوتے ہی دیکھا کہ ایک عورت نہایت خوبصور ت ان کے پاس بیٹھی ہے۔ بہت خوش ہوئے اور سجدہ شکر بجا لائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ان دونوں کا عقد نکاح باندھا اور ارشاد فرمایا کہ اے آدم ؑ اور حوا! تم دونوں بہشت میں رہو اور یہاں کے سارے میوے کھاؤ اور ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے ارشاد کیا کہ اس کے پاس نہ جاؤ (اور کہتے ہیں کہ وہ گیہوں کا درخت تھا) ابلیس حضرت آدم ؑ کا دشمن ہو ہی گیا تھا اور ہمیشہ اسی تدبیر میں رہتا تھا کہ کسی صورت سے بہشت میں داخل ہو اور حضرت آدم ؑ کو وہاں سے نکالے۔ آخر ایک سانپ کی مدد سے بہشت میں پہنچا او رحضرت آدم ؑ کو اسی درخت کے پھل کھانے کی ترغیب دی، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا اور کہا ’’ اگر تھوڑا سا میوہ بھی اس درخت میں سے کھاؤ گے تو ہمیشہ زندہ رہو گے اور آرام پاؤ گے‘‘ مگر حضرت آدمؑ نے یہ بات قبول نہ کی اور کہا ’’ مجھ سے خدا کی نافرمانی ہرگز نہ ہو گی۔‘‘ شیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اس پر بھی حضرت آدمؑ نے نہ مانا اور اس کے پاس سے اٹھ گئے۔ شیطان نے حضرت حوا کے پاس عاجزی کرنی شروع کی۔ اس کے درپے ہونے سے حضرت حوا نے اس درخت کے کچھ پھل آپ کھائے اور تاکید کر کے کچھ حضرت آدم ؑ کو کھلائے۔ یہی امر بہشت سے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا کے نکلنے کا سبب ہوا۔ علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ اس پھل کی تاثیر حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کے معدوں میں اچھی طرح نہ ہوئی تھی کہ بہشت کا لباس ان کے بدن پر سے گر پڑا اور دونوں ننگے ہو گئے۔ ناچار انجیر اور کیلوں کے پتوں سے انہوں نے اپنا ستر ڈھانکا اور اپنے قصور پر بہت پشیمان ہوئے۔ پھر خدا تعالیٰ کے حکم سے بہشت سے نکالے گئے۔ حضرت آدم ؑ سر اندیپ میں اور حضرت حوا جدے (3) میں گریں۔ کہتے ہیں کہ سانپ کی صورت پہلے نہایت پاکیزہ اور پسندیدہ تھی، اس گناہ میں مدد کرنے کے سبب سے بالکل مسخ(4) ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے خاک اس کی خوراک ٹھہرائی اور پیٹ اور سینے کے بل زمین کو رگڑ کر چلنا بھی اس امر کی سزا میں مقرر کیا اور عورت کا عذاب خاوند کی اطاعت کرنی اور اولاد کے جننے کا دکھ اٹھانا اور طرح طرح کی آلودگی میں آلودہ رہنا قرار پایا اور مرد کی سزا یہ مقرر ہوئی کہ وہ محنت اور مشقت سے معاش کی چیزیں بہم پہنچایا کرے۔ علاوہ اس کے خدائے تعالیٰ نے سانپ اور بنی آدم میں ہمیشہ بغض اور دشمنی ڈال دی۔ حضرت آدم ؑ بہت مدت تک گریہ و زاری اور توبہ و استغفار میں مشغول رہے۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ فرشتے ان کے پاس آئے اور گناہ معاف ہونے کی خوشخبری لائے۔حضرت آدمؑ نے بہت شکر ادا کیا اورخدا کے حکم کے موافق ایام بیض(5) کے تین روزے رکھے۔ ان روزوں کی برکت سے ان کی تکلیف بالکل دور ہو گئی اور ان کا بدن جو مصیبت اور رنج سے سیاہ ہو رہا تھا، صاف اور منور ہو گیا۔ اسی واسطے مسلمان لوگ علاوہ اور روزوں کے ہر مہینے میں یہ تین روز رکھنے بھی بہت اچھا جانتے ہیں۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس عرصے میں حضرت آدمؑ کو کعبے کے بنانے کا حکم ہوا اور انہوں نے حضرت جبرئیل ؑ کی تعلیم اور فرشتوں کی مدد سے کعبے کی بنیاد ڈالی اور حجر (6) اسود کو جسے حضرت آدم ؑ بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے، کعبے میں ایک طرف جمایا۔ پھر جب حضرت جبرئیل ؑ نے حج اور طواف کے طریق حضرت آدم ؑ کو بتائے۔ اتنے میں حضرت حوا بھی حضرت آدم ؑ کی تلاش میں پھرتی ہوئی وہاں پہنچیں اور مقام ازدلاف (7)پر دونوں کی ملاقات ہوئی اور اسی واسطے اس مقام کو جمع بھی کہتے ہیں۔ پھر تھوڑی ہی دور دونوں گئے تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ کے کہنے سے انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا اور اسی سبب سے وہ پہاڑیاں جہاں ان کا تعارف ہوا، عرفات کہلاتی ہیں۔ جب حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا نے زمین پر قیام کیا تو حضرت جبرئیل ؑ نے کچھ گیہوں اور روٹی اور لکڑی پہنچائی اور کھیتی کرنی سکھائی۔ حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا دونوں مل کر گزارہ کرنے لگے۔ جب حضرت حوا کو حمل رہتا تو ان کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی دونوں ساتھ پیدا ہوتے اور خدا تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی شریعت میں مقرر کر دیا تھا کہ ایک حمل کا بیٹا دوسرے حمل کی بیٹی سے بیاہا جائے۔اس سبب سے بنی آدم کی کثرت ہونی شروع ہوئی۔ اس کے بعد حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل میں جھگڑا ہو پڑا۔ قابیل سنگ دل نے شیطان کے بہکانے سے ہابیل مظلوم کے سر پر ایسا پتھر مارا کہ وہ جاں بحق ہو کر شہید ہوا۔ ہابیل کے شہید ہونے کے بعد قابیل قصاص کے خوف سے آوارہ اور سرگرداں پھرا کیا۔ پھر بھاگ کر ملک یمن میں چلا گیا اور نافرمانی اور کفر اختیار کیا۔ اہل اسلام بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم ؑ ہمیشہ کعبے کو حج کے واسطے جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ کوہ عرفات پر سو گئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام اولاد کو جو روز قیامت تک پیدا ہو گی، نیک بختوں کو دائیں طرف او ربدبختوں کو بائیں طرف قائم کر کے دکھایا۔ حضرت آدم ؑ نے ان سب کو اسلام کی ہدایت کی۔ پھر حضرت آدمؑ پر بیماری نے غلبہ کیا اور انہیں بہشت کے میووں کی خواہش ہوئی۔ حضرت جبرئیل ؑ اور آور کئی فرشتے کفن اور خوشبو بہشت میں سے لائے اور ملک الموت روح قبض کرنے میں مصروف ہوا۔ حضرت آدم ؑ خدا کی توحید اور تسبیح میں مشغول تھے کہ ملک الموت نے اپنا کام تمام کیا اور حضرت جبرئیل ؑ کی تعلیم کے موافق حضرت آدم ؑ کے بیٹے حضرت شیثؑ نے ان کے جنازے کی نماز پڑھی۔ اسی واسطے حضرت آدم ؑ کی اولاد کے لیے جنازے کی نماز روز قیامت تک مقرر ہوئی۔ جب حضرت آدم ؑ نے اس دنیا سے انتقال کیا تو ان کی عمر نو سو تیس برس کی تھی۔ حضرت شیثؑ حضرت آدم ؑ کے بعد ان کے بیٹے حضرت شیثؑ کو پیغمبری ملی۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ ہابیل کے صدمے میں بے قرار رہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی تسلی کے واسطے بھیجا کہ حق تعالیٰ تجھے ایک فرزند رشید عنایت کرے گا کہ اس کی نسلی سے بنی آدم ؑ کے سردار حضرت محمد ؐ پیدا ہوں گے۔ چنانچہ ہابیل کے مرنے کے پانچ برس بعد حضرت شیثؑ پیدا ہوئے اور وہ حسن صورت اور خوبئی سیرت میں حضرت آدم ؑ کے مشابہ تھے۔ حضرت شیثؑ کے زمانے میں دو قسم کے آدمی تھے۔ بعض حضرت شیثؑ کی اطاعت کرتے تھے اور بعض قابیل کی اولاد کے پیرو تھے۔ ان میں سے کچھ آدمی حضرت شیثؑ کی نصیحت سے راہ راست پر آئے اور کچھ بدستور نافرمان رہے۔ آخر کار حضرت شیثؑ اس جہان سے رخصت ہوئے اور ان کی عمر نو سو بارہ برس کی ہوئی۔ حضرت ادریس ؑ حضرت شیثؑ کے بعد حضرت ادریس ؑ کو نبوت کا درجہ ملا اور ان کا اصل نام اخنوخ ہے، مگر اس سبب سے کہ وہ آسمانی صحیفوں کے درس میں بہت مصروف رہتے تھے، انہیں حضرت ادریس ؑ (8) کہنے لگے۔ ان کے سمجھانے سے قابیل کی اولاد میں سے بہت سے آدمی اسلام لائے اور جن لوگوں کے دلوں پر گمراہی چھائی ہوئی تھی، انہیں نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوا۔ جب حضرت ادریس ؑ کی عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی تو خدا تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر بلا لیا۔ حضرت نوح ؑ حضرت ادریس ؑ کے بعد لوگ پھر گمراہ ہوئے، اس واسطے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کو پیغمبر کیا۔ انہوں نے ہر چند ہدایت کی، مگر اسی آدمیوں کے سوا کوئی اسلام نہ لایا۔ تب حضرت نوح ؑ نے وحی (9)الٰہی کے موافق ایک کشتی بنائی اور حضرت جبرئیل ؑ نے ہر جنس کے جانور جو روے زمین پر تھے، حضرت نوح ؑ کے پاس لا کر جمع کیے۔ انہوں نے ہر قسم کے جانور کا ایک جوڑا کشتی میں چڑھا لیا اور ان لوگوں کو بھی (10)جو ایمان لائے تھے اپنے پاس بٹھا لیا، انہیں لوگوں میں ان کے تین بیٹے سام، حام اور یافث بھی تھے اور ایک بیٹا جو ایمان نہ لایا تھا طوفان میں تباہ ہوا۔ اسی واسطے لکھا ہے کہ پیغمبر زادگی بغیر اعمال نیک کے بے کار ہے اور اچھے عملوں کا فائدہ بغیر نسب عمدہ کے بھی بے شمار ہے۔ جب تمام چرند و پرند اور آدمی کشتی میں بیٹھ چکے تو ایک تنور سے پانی نکلنا شروع ہوا اور آسمان سے بھی مینہ کی جھڑی لگی۔ رفتہ رفتہ پانی تمام پہاڑوں اور درختوں سے بلند ہوا اور کافر اور ان کا مال و متاع اور عمارتیں سب غرق ہو گئیں۔ چالیس دن تک طوفان ترقی پر رہا، پھر حضرت نوح ؑ کی کشتی موصل کی زمین میں کسی پہاڑ پر ٹھہری۔ کشتی والوں نے وہاں ایک گاؤں آباد کر کے اپنی تعداد کے موافق سوق الثمانین (11) اس کا نام رکھا۔ اس کے بعد ایک اور وبا آئی اور حضرت نوح ؑ اور ان کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی بیویوں کے سوا کوئی نہ بچا۔ پھر خدا تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کی نسل میں ایسی برکت دی کہ چالیس برس کے عرصے میں بہت سے ملک اور ہزاروں شہر ان کی اولاد نے بنا کر آباد کیے اور ان میں سے اکثر ملکوں کے نام ان کے آباد کرنے والوں کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت نوحؑ کی عمر نو سو پچاس برس کی ہوئی اور چھ سو برس کی عمر میں طوفان آیا۔ ان کو آدم ثانی اور شیخ الانبیاء بھی کہتے ہیں۔ حضرت ھود ؑ حضرت نوح ؑ کے بعد حضرت ھود ؑ اور حضرت صالح ؑ کو نبوت عنایت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ھودؑ کو قوم عاد کی ہدایت کے واسطے اور صالح ؑ کو قوم ثمود کی نصیحت کے لیے بھیجا۔ ان دونوں قوموں کے لوگ بہت دراز قد اور قوی اور متکبر تھے۔ قوم عاد میں سے تھوڑے سے آدمی حضرت ھود ؑ کے سمجھانے سے ایمان لائے اور باقی بت پرست رہے۔ تب قادر مطلق نے ان پر آندھی کا طوفان نازل کیا اور وہ سب تباہ اور برباد ہو گئے۔ مگر حضرت ھود ؑ اور ان کے رفیق اس آفت سے محفوظ رہے۔ جب حضرت ھود ؑ کی عمر چار سو چونسٹھ برس کی ہوئی تو انہوں نے اس دنیا سے انتقال کیا۔ قوم عام میں جو بڑا مغرور بادشاہ شداد نامی گزرا ہے، وہ حضرت ھود ؑ ہی کے وقت میں تھا۔ حضرت ھود ؑ نے ہر چند اسے ہدایت کی اور بہشت اور طرح طرح کی نعمتوں کی ترغیب دی، مگر وہ باز نہ آیا اور بولا ’’ اے ھود ؑ !میں اسی جہان میں بہشت بناؤں گا اور وہیں رات دن عیش مناؤں گا۔‘‘ آخر اس نے اپنے ملک کے عاملوں کے پاس قاصد بھیج کر سونا، چاندی اور جواہر گراں بہا اور آور بہت چیزیں منگائیں اور ایک عالی شان محل تیار کرا کر اسے باغ اور نہروں سے آراستہ کیا۔ جب اس مقام کی تعمیر کا کام تمام ہوا تو ارم اس کا نام ہوا۔ پھر شداد اپنی فوج سمیت اس کے دیکھنے کو گیا مگر منزل مقصود تک نہ پہنچنے پایا تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی اور باغ ارم کے دیکھنے کی حسرت اس کے دل میں رہ گئی۔ حضرت صالح ؑ جب قوم ثمود مال اور اولاد کی کثرت سے گمراہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں سے حضرت صالح ؑ کو پیغمبر کیا۔ا نہوں نے اس قوم کی رہنمائی میں بہت کوشش کی، مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، اس واسطے خدا تعالیٰ نے سب کافروں کو کڑک بجلی کی آواز سے ہلاک کر دیا اور وہ کلیجہ پھٹ کر مر گئے اور حضرت صالح ؑ اور ان کے ہمراہی اس صدمے سے امن میں رہے۔ جب حضرت صالح ؑ کی عمر اٹھاون برس کی ہوئی تو انہوں نے بھی وفات پائی۔ حضرت ابراہیم ؑ جس زمانے میں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے، اس زمانے میں بابل اور سواد عراق کا بادشاہ نمرود تھا۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کے پیدا ہونے سے پہلے نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے اس قدر روشن ہو گیا کہ آفتاب بھی اس کے آگے ماند معلوم ہونے لگا۔ اس نے معبروں سے اس کی خواب کی تعبیر پوچھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ تھوڑے عرصے میں ایک لڑکا پیدا ہو گا، جس کی بزرگی اور عظمت کے آگے تیری شان و شوکت بالکل جاتی رہے گی اور تیرا ملک و دین سب برباد ہو جائے گا۔ یہ سن کر نمرود نے حکم جاری کیا کہ اس سال میری عمل داری میں جو لڑکا پیدا ہو فوراً قتل کیا جائے، مگر حضرت ابراہیم ؑ کو حافظ حقیقی نے اپنی حکمت سے بچا لیا اور انہوں نے ایک جنگل کے کسی غار میں پرورش پائی۔ وہ خدا کی قدرت سے بہت جلدی بڑھ گئے اور چھوٹی سی عمر میں سعاوت و اقبال کے نشان ان کے چہرے سے ظاہر ہوئے۔ جب وہ غار سے نکلے اور ان کو ہوش آیا تو انہوں نے زہرہ ستارے کو دیکھ کر گمان کیا کہ شاید یہی میرا معبود ہے، مگر جس وقت وہ غروب ہو گیا تو کہا ’’ میں ایسی چیزوں سے محبت نہیں کرتا جو ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جائیں۔‘‘ اور پھر اسی وجہ سے ماہتاب اور آفتاب کی طرف بھی توجہ نہ کی اور انجام کار فرمایا ’’ میں سب چیزوں سے رجوع کر کے اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کا باپ بت تراش تھا اور وہ بت بنا کر حضرت ابراہیم ؑ کو دیا کرتا تھا کہ بازار میں جا کر بیچ لا۔ حضرت ابراہیم ؑ اس کے پاؤں میں رسی باندھ کر بہت حقارت سے گھسیٹتے ہوئے لے جاتے اور بازار میں لے جا کر کہتے ’’ لو خریدو! ایسی چیز کون مول لیتا ہے جو کسی طرح کا نفع نہ دے بلکہ الٹا نقصان پہنچائے؟‘‘ یہ گفتگو سن کر کوئی شخص اس کے خریدنے کا خواہشمند نہ ہوتا اور جب حضرت ابراہیم ؑ گھر میں آتے اور ان کا باپ بت کے نہ بکنے کا سبب پوچھتا تو وہ اسے بھی ویسا ہی جواب دیتے، جیسا خریداروں کے روبرو بیان کرتے۔ جب خدا کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو کافروں کی ہدایت کا حکم ہوا تو انہوں نے پہلے اپنے باپ کو سمجھایا مگر اسے کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے خلق کو اسلام کی ہدایت کی اور بتوں کی برائی کرنی شروع کی۔ یہ سن کر نمرود نے ان کو اپنے پاس بلایا۔ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ جو کوئی نمرود کے پاس جایا کرتا تھا، اسے سجدہ کیا کرتا تھا، مگر حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے آگے سجدہ نہ کیا اور کہا کہ میں اپنے پروردگار کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا۔ ان کی تقریر سن کر بہت سے آدمی ایمان لائے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ سب کافر بت خانے خالی کر کے کہیں چلے گئے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ نے موقع پا کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالا اور جو سب میں بڑا بت تھا، اسے بچا کر اس کے گلے میں ایک تبر ڈال دیا۔ جب وہ لوگ بت خانے میں آئے تو یہ حال دیکھ کر نہایت گھبرائے۔ حضرت ابراہیم ؑ پر تو پہلے ہی سے شبہ تھا۔ سب نے نمرود کے پاس جا کر ان کی فریاد کی کہ ہائے! بت خانے کی حرمت ابراہیم ؑ نے برباد کی۔ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر ان کے واسطے قید کا حکم کیا اور اس پیغمبر پر بڑا ظلم کیا، پھر آگ میں ڈلوا دیا۔ مگر خدا کی قدرت سے وہ آگ گلزار ہو گئی اور فرشتوں نے حضرت ابراہیم ؑ کا بازو پکڑ کر نہایت آرام سے وہاں بٹھا دیا اور بہشت سے خلعت فاخرہ لا کر پہنا دیا۔ جب نمرود نے یہ حال دیکھا تو نہایت حیران ہوا اور اس کا سبب حضرت ابراہیم ؑ سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ خدا کی قدرت کا ادنیٰ ظہور ہے، تو بھی اس پر ایمان لا اور کفر و شر ک سے باز آ۔ نمرود نے اپنے وزیر سے جس کا نام ہارون تھا، اس امر کی صلاح پوچھی۔ اس نے منع کیا اور کہا اتنی مدت حکومت کی اب بندگی قبول کرتا ہے اور تمام عالم میں اپنے واسطے شرمندگی اٹھاتا ہے نمرود اس کے کہنے میں آ گیا اور ایمان نہ لایا پھر حاکم حقیقی نے اس کی فوج میں مچھر بھیجے۔ انہوں نے جس پر حملہ کیا گوشت کی بوٹی اور لہو کی بوند اس کے بدن پر نہ چھوڑی۔ اس آفت سے ہزاروں آدمی اور جانور مر گئے اور ایک مچھر نمرود کے مغز میں چڑھ گیا، جس کے سبب سے اس کا عیش و آرام بالکل جاتا رہا۔ آخر بڑی تکلیف میں مبتلا رہ کر چالیس روز کے بعد اس جہان سے رخصت ہوا۔ حضرت ابراہیم ؑ بدستور لوگوں کو ہدایت کرتے رہے اور بہت سے آدمیوں کو راہ راست پر لا کر ملک شام کی طرف چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑھاپے میں دو فرزند رشید حضرت اسمعیل ؑ اور حضرت اسحق ؑ عنایت کیے۔ حضرت اسماعیل ؑ کی ماں کا نام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسحق ؑ کی ماں کا نام سارہ تھا۔ اور اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ ضعیف اور حضرت سارہ بانجھ تھیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انہیں بیٹا عطا کیا۔ جب حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ میں نا اتفاقی ہوئی تو ابراہیم ؑ حضرت جبرئیل ؑ کی رہبری کے موافق حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل ؑ کو حجاز کی طرف لے گئے اور اس میدان میں جا کر اترے، جہاں اب چاہ زمزم ہے۔ تب حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ خدا کا حکم یہ ہے کہ ان دونوں کو اس مکان میں چھوڑو اور تم گھر کی طرف اپنا منہ موڑو۔ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنی بیوی اور بچے کی جدائی کا بہت رنج ہوا مگر خدا کی رضا پر راضی ہو کر وہاں سے الٹے چلے گئے۔ اب آگے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کا حال اہل اسلام کی کتابوں میں اس طرح سے لکھا ہے کہ وہ دونوں اس میدان میں اکیلے رہ گئے۔ سب طرف جنگل ہی جنگل نظر آتا تھا، آدم زاد کا کہیں پتا نہ ملتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں کو کچھ کھجوریں اور ایک پانی کی مشک دے گئے تھے۔ جب یہ توشہ تمام ہوا تو حضرت ہاجرہ کا دل حضرت اسماعیل ؑ کی تکلیف دیکھ کر بہت بے آرام ہوا۔ وہ پانی کی تلاش میں صفا(12)پر آئیں اور پھر وہاں سے مروہ (12a)پر جا کر ’’ العطش العطش‘‘ کہہ کر چلائیں۔ جب وہاں بھی پانی نہ پایا تو بچے کے پاس آ کر اسے چھاتی سے لگایا۔ یہی کام سات بار کیا اور ہر دفعہ اپنے بچے کو پیار کیا۔ حضرت اسماعیل ؑ کا حال پیاس کی شدت سے بگڑ رہا تھا اور وہ بچوں کے دستور کے موافق اپنی ایڑیاں زمین پر رگڑ رہے تھے، اتنے میں خدا تعالیٰ کی قدرت سے ان کے قدموں کے تلے ایک چشمے کا ظہور ہوا اور زمزم اس کا نام مشہور ہوا۔ پھر قبیلہ جرہم کے لوگ جو یمن میں رہا کرتے تھے، اس طرف سے گزرے اور پانی کا چشمہ دیکھ کر حضرت ہاجرہ سے درخواست کی کہ اگر آپ کا ارشاد ہو تو ہماری قوم یہاں آ کر آباد ہو۔ حضرت ہاجرہ نے یہ امر منظور کیا اور وہ لوگ اپنے عیال و اطفال کو لے کر وہاں آ بسے اور اس مقام پر بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنا کر وہی شہر جس کا نام مکہ ہے، آباد کیا۔ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ دونوں مکے میں رہے اور ان کے سبب سے اور قومیں بھی وہاں آ کر آباد ہو گئیں اور دونوں کی خاطر داری کرتی رہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ بھی کبھی کبھی وہاں آ جاتے اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ سے مل کر چلے جاتے۔ آخر اسی جگہ حضرت ہاجرہ کا انتقال ہوا اور حضرت اسماعیل ؑ کا نکاح وہیں کسی عربی سردار کی بیٹی سے ہو گیا۔ مسلمانوں کی کتابوں میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں ہدایت کی کہ تو خدا کی راہ میں اپنے فرزند کی قربانی کر۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس حکم کی خبر حضرت اسماعیل ؑ کو دی۔ وہ فوراً قربانی کے واسطے تیار ہو گئے اور کہا میں خدا کی رضا پر راضی ہوں۔ ہر چند حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے حلق پر چھری پھیری، مگر خدا کی قدرت سے چھری کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس وقت جناب باری سے ارشاد ہوا کہ اے ابراہیم ؑ! تو امتحان میں کامل نکل اور ہم نے اسماعیل ؑ کو اس سبب سے آزاد کیا کہ اس کی پیشانی میں نور ہے اور اس نور سے وہ شخص ظاہر ہو گا جس کے واسطے دنیا اور آخرت پیدا کی گئی ہے یعنی اس نور سے حضرت محمد ؐ کا ظہور ہو گا۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ ایک بکرا لائے اور حضرت اسماعیل ؑ کی عوض اسے قربانی کرایا۔ مسلمانوں کے ہاں قربانی کے واجب ہونے کی یہی اصل ہے۔ اہل اسلام بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو حضرت جبرئیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئے اور یہ حکم پہنچایا کہ تم اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر بیت اللہ کی عمارت کرو اور اہل عالم کو طواف کے واسطے ہدایت کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ شام سے مکے میں آ کر حضرت اسماعیل ؑ سے ملے اور حضرت جبرئیل ؑ نے کعبے کا طول و عرض بتایا اور اس کے بنانے کا سارا طور سمجھایا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ دونوں بیت اللہ کے بنانے میں مصروف ہوئے۔ حضرت اسماعیل ؑ مصالح اور پتھر پہنچاتے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ عمارت چنتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوئیں تو حضرت ابراہیم ؑ نے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر کعبے کی تعمیر کی اور وہاں ان کے قدموں کے نشان ہو گئے۔ اسی پتھر کا نام مقام ابراہیم ؑ ہے۔ کعبے کے تیار ہونے کے بعد حضرت جبریل ؑ نے حج اور طواف کے سارے قاعدے بتائے اور ان کی تعلیم کے موافق حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ عمل میں لائے۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو کعبے کا متولی کیا اور آپ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ دوسرے سال اپنی بیوی حضرت سارہ کو بھی وہاں لائے اور ان سے بھی کعبے کا طواف کرایا۔ حضرت اسماعیل ؑ نے حضرت سارہ کی بہت خاطر داری کی اور وہ ان سے بہت راضی اور خوش ہوئیں پھر حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ شام کی طرف چلی گئیں۔ پھر حضرت اسحق ؑ بھی ہر سال مکے میں آتے اور بیت اللہ کے طواف اور حضرت اسماعیل ؑ کی ملاقات سے حظ اٹھاتے تھے۔ جب یہ سب کام انجام ہو چکے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اس دنیا سے انتقال کیا او ران کی عمر ایک سو پچھتر برس کی ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی مہمان نوازی مشہور ہے اور ان کی فیاضی اور سخاوت کتابوں میں مذکور ہے۔ حضرت لوط ؑ حضرت لوط ؑ ہاران کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ پر ایمان لا کر ملک شام تک ان کے ساتھ گئے تھے۔ جب شہر سدوم او راس کے آس پاس کے رہنے والے نہایت گمراہ ہوئے اور انہوں نے علاوہ بت پرستی کے وہ حرکتیں شروع کیں جو اب تک کسی نے نہ کی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کو ان کی ہدایت کے واسطے بھیجا۔ حضرت لوط ؑ نے انہیں بہت سمجھایا، مگر وہ اپنی بد فعلی سے باز نہ آئے۔ اس واسطے خدا تعالیٰ نے ان کی تباہی کے واسطے فرشتے بھیجے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بھی اس امر کی اطلاع ہوئی۔ انہوں نے حضرت جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ حضرت لوط ؑ کی قوم میں جو لوگ نیک ہیں، کیا وہ بھی بدکاروں کے ساتھ ہلاک ہوں گے؟ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا ’’ اگرچہ پچاس آدمی بھی نیک عمل ہوں گے تو ان کے سبب سے سب کو نجات دوں گا۔‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے رفتہ رفتہ دس آدمیوں تک نوبت پہنچائی اور یہ بات قرار پائی کہ اگر دس آدمی بھی نیک بخت ہوں تو سب کے سب عذاب سے محفوظ رہیں مگر وہاں نیکوں کا کیا پتا تھا۔ جب فرشتے انسان کی صورت میں ظاہر ہو کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں گئے تو شہر کے لوگوں نے ان سے بری حرکت کرنی چاہی اور حضرت لوط ؑ کے گھر کو آ گھیرا۔ حضرت جبرئیل ؑ نے ان سب کو بازوؤں کے جھوکے سے اندھا کر دیا۔ وہ کافر پریشان ہو کر وہاں سے بھاگ گئے۔ پھر فرشتوں نے شہر سدوم اور آور شہروں کو جو اس سے متعلق تھے الٹ ڈالا،ا ور پتھروں کا مینہ برسایا۔ اس عذاب سے سب کے سب کافر برباد اور تباہ ہو گئے مگر حضرت لوط ؑ جو حضرت جبرئیل ؑ کی ہدایت سے رات ہی کو وہاں سے نکل گئے تھے، اس صدمے سے محفوظ رہے۔ حضرت اسماعیل ؑ مسلمانوں کے ہاں لکھا ہے کہ جب کعبے کی تعمیر ہو چکی اور حضرت ابراہیم ؑ وہاں سے چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کو نہایت آسودہ حال کیا اور دنیا کی نعمتوں کے ساتھ ان کو نبوت بھی مرحمت فرمائی۔ حضرت ابراہیم ؑ کے مرنے کے بعد حضرت اسماعیل ؑ ملک شام میں گئے اور وہاں چند روز اقامت کی۔ پھر وحی الٰہی کے مطابق کافروں کی نصیحت میں مشغول ہوئے اور قبائل یمن اور عمالقہ (13) کو دین حق کی ہدایت کرتے رہے۔ آخر ایک سو بتیس برس کی عمر میں شہر مکہ میں وفات پائی اور وہیں اپنی ماں ہاجرہ کے پاس مدفون ہوئے۔ ان کا لقب ذبیح اللہ ہے کیوں کہ حکم الٰہی ان کے ذبح کرنے اور راہ خدا میں قربانی کے واسطے صادر ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل ؑ کے مرنے کے بعد ان کی اولاد بے شمار ہوئی۔ اس واسطے مکے میں سب کی سکونت دشوار ہوئی۔ اکثر لوگ مکے سے باہر آئے اور انہوں نے وہیں دیار عرب میں اپنے وطن بنا لیے۔ حضرت اسحاق ؑ: حضرت اسحاق ؑ اپنے پیغمبری کے زمانے میں بہت کوشش سے لوگوں کو اسلام کی ہدایت کرتے رہے اور بہت سے آدمیوں کو راہ راست پر لائے۔ حضرت اسحاق ؑ کا نکاح ان کے چچا کی بیٹی سے ہوا اور ان سے دو لڑکے حضرت عیض ؑ اور حضرت یعقوب ؑ پیدا ہوئے۔ انجام کار ایک سو اسی برس کی عمر میں ملک شام میں اس دنیا سے کوچ کیا اور اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے پاس دفن کیے گئے۔ حضرت یعقوب ؑ: خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوبؓ کو جن کا نام اسرائیل بھی ہے، نبوت کا درجہ عطا فرمایا اور ان کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے، جن سے بنی اسرائیل کی بارہ قومیں جاری ہوئیں اور انہیں اسباط (14) اور بنی اسرائیل بھی کہتے ہیں۔ ان بیٹوں میں بلحاظ جمال ظاہری اور کمال باطنی کے حضرت یوسف ؑ مستثنیٰ تھے اور وہ حسن میں ضرب المثل ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی زندگانی میں حضرت یوسف ؑ کی جدائی سے بہت تکلیف اٹھائی، مگر انجام کار اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کو ان سے ملا دیا اور یہ حال حضرت یوسف ؑ کے بیان میں مذکور ہے۔ جب حضرت یعقوب ؑ کی عمر ایک سو سینتالیس برس کی ہوئی تو انہوں نے اس عالم سے انتقال کیا۔ حضرت یوسف ؑ مسلمانوں کی کتابوں میں حضرت یوسف ؑ کا خواب دیکھنا اور ان کا قید ہونا اور خواب کی تعبیر بتانی توریت کے بیان کے موافق ہے۔ ان کا قصہ بہت عجیب اور حکایت بہت غریب ہے اور اس قصے کو قرآن میں احسن القصص لکھا ہے۔ حضرت یوسف ؑ اس قدر حسین اور صاحب جمال تھے کہ آنکھ ان کے دیدار کی تاب نہ لا سکتی تھی اور حضرت یعقوب ؑ اپنے بیٹوں میں انہیں کو زیادہ چاہتے تھے اور ایک دن ان کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے۔ اسی سبب سے ان کے سب بھائی ان سے رشک و حسد کرتے تھے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت یوسف ؑ حضرت یعقوب ؑ کی گودمیں سوتے تھے، یکایک گھبرا کر اٹھے۔ حضرت یعقوب نے اضطراب کا سبب پوچھا۔ حضرت یوسف ؑ نے کہا ’’ میں نے اس وقت ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ جس کے سبب سے مجھے بے قراری پیش آئی اور وہ خواب یہ ہے کہ میں ایک اونچے پہاڑ پر ہوں اور اس کے گرد آب رواں ہے اور وہ پہاڑ سبزہ اور پھولوں کی کثرت سے گویا بوستاں ہے۔ ناگاہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند آسمان سے اترے اور انہوں نے مجھے سجدہ کیا۔‘‘ حضرت یعقوب ؑ نے یہ خواب سن کر جان لیا کہ اونچا پہاڑ یوسف ؑ کا تخت بلند ہے اور آب رواں اس کا بخت ارجمند ہے۔ روئیدگی اور سبزہ سعادت اور کرامت کی بنیاد ہے۔ گیارہ ستاروں اور آفتاب سے گیارہ بھائی اور ماں باپ مراد ہے اور سجدے سے یہ مقصد ہے کہ یہ سب یوسف ؑ کا فرمان اور حکم اٹھائیں گے اور عجز و نیاز کی پیشانی ان کے سامنے جھکائیں گے۔ جب حضرت یوسف ؑ کے بھائی اس حال سے خبردار ہوئے تو حسد کے مارے ان کے ایذا دینے کو تیار ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ راحیل (15) کا بیٹا طرح طرح کے خواب بناتا ہے اور ایسی باتوں سے باپ کے دل کو لبھاتا ہے۔ پھر سب متفق ہو کر سیر کے بہانے سے حضرت یوسف ؑ کو حضرت یعقوب ؑ کے پاس سے لے گئے۔ نوادر القصص میں لکھا ہے کہ حضرت یوسف ؑ اپنے باپ سے جدا ہو کر چند قدم گئے تھے کہ حضرت یعقوب ؑ ان کی جدائی کے غم میں بے ہوش ہو گئے۔ جب ان کے بیٹوں کو یہ ا مر معلوم ہوا تو سب کے سب دوڑ کر ان کے پاس جمع ہوئے۔ حضرت یعقوب ؑ ہوش میں آئے اور انہوں نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر بولے کہ مجھے تیرے فرق کی بو آتی ہے اور اتنا روئے کہ حضرت یوسف ؑ کا کرتا تر ہو گیا۔ حضرت یوسف ؑ اپنے باپ سے رخصت ہوئے اور ان کے بھائیوں نے شہر کنعان سے جہاں یوسف ؑ رہتے تھے، ان کو باہر لے جا کر ایک کنوئیں میں ڈال دیا اور ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے حضرت یوسف ؑ کے کرتے میں اس کا خون لگایا اور باپ سے آ کر بیان کیا کہ یوسف ؑ کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب ؑ نے جب اپنے بیٹوں میں یوسف ؑ کو نہ دیکھا، بے ہوش ہو کر گر پڑے اور بڑی دیر تک اسی حالت میں رہے۔ جب ہوش میں آئے تو بیٹوں سے کہا ’’ جاؤ اور اس بھیڑیے کو ڈھونڈ لاؤ‘‘ وہ فوراً جنگل کی طرف گئے اور ایک بھیڑیا پکڑ کے اور اس کا منہ خون سے آلودہ کر کے حضرت یعقوب ؑ کے سامنے لائے۔ حضرت یعقوب ؑ نے اس سے پوچھا ’’ تو نے ہی میرے فرزند کو کھایا ہے؟‘‘ خدا تعالیٰ نے بھیڑیے کو بہ زبان فصیح گویا کیا اور اس نے جواب دیاکہ میں آپ کی بکریوں میں تو تصرف کر ہی نہیں سکتا ہوں، بھلا آپ کے فرزند عزیز کا کیوں کر قصد کروں گا؟ بھیڑیے کا یہ کلام سن کر حضرت یعقوب ؑ جنگل میں گئے اور فریاد شروع کی ’’ اے یوسف ؑ ! تجھے کون سے کنوئیں میں ڈالا۔ کون سے دریا میں غرق کیا؟ کس تلوار سے قتل کیا؟ کس زمین میں دفن کیا؟ یہ فریاد سن کر حضرت یعقوب ؑ کے پاس حضرت جبرئیل ؑ آئے اور کہا ’’ اے نبی اللہ! اس وقت آپ نے فرشتوں کو رلایا اور اپنے اضطراب سے انہیں بھی بے قرار کیا۔ صبر کرنا ہر حالت میں بہتر ہے۔ صبر سے کام درست ہوتے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ نے اپنے دل بے قرار کو سنبھالا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور مدد چاوہی۔‘‘ اب حضرت یوسف ؑ کا حال سنو کہ جب ان کے بھائی انہیں کنوئیں میں ڈال کر چلے گئے تو وہ ابھی کنوئیں کی تہ پر پہنچے بھی نہ تھے کہ حضرت جبرئیل ؑ نے اٹھا کر ایک پتھر پر بٹھا دیا اور وہ کرتا جوحضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کی آگ میں خدا کے حکم سے پہنا تھا اور حضرت یعقوب ؑ نے اسے تعویذ بنا کر حضرت یوسف ؑ کے بازو پر باندھ دیا تھا، نکال کر ان کو پہنا دیا اور علاوہ اس کے ہر طرح کی ان کی تسلی کرتے رہے۔ اتفاقاً سوداگروں کا ایک قافلہ شام سے مصر کو جاتا ہوا ادھر سے گزرا اس قافلے کے سردار نے جس کا نام مالک تھا، اپنے غلاموں کو پانی لانے کے واسطے اس کنوئیں پر بھیجا۔ وہ حضرت یوسف ؑ کو کنوئیں میں سے نکال کر مالک کے پاس لائے۔ کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں نے ایک مخبر وہاں بٹھا رکھا تھا اور اس سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی یوسف ؑ کو کنوئیں میں سے نکالے تو ہمیں خبر کر دیجو۔ اس نے فوراً کنعان میں جا کر انہیں اس امر کی اطلاع دی۔ وہ دوڑے ہوئے آئے اور قافلے والوں سے کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے، کئی دن سے بھاگ گیا تھا، ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بارے آج پتا لگا۔ اسے ہمارے حوالے کر دو یا تم ہی خرید لو۔ قافلے والوں نے کچھ تھوڑے سے کھوٹے درہم دے کر حضرت یوسف ؑ کو خرید لیا اور مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہلے ان کے حسن و جمال کی شہرت پہنچ گئی تھی اور سب لوگ ان کے دیکھنے کے مشتاق تھے۔ آخر کار قافلے والے نہایت حشمت و حرمت سے حضرت یوسف ؑ کو شہر میں لائے اور آور لوگ جو پہلے سے حضرت یوسف ؑ کی آرزو میں ان کے استقبال کو گئے ہوئے تھے، چاند اور ہالے کی طرح حلقہ کیے ہوئے ان کے گرد آئے۔ قافلے والوں نے حضرت یوسف ؑ کو کرسی پر بٹھا کر ان کے دام کھرے کرنے کا ارادہ کیا اور شہر کے لوگوں نے جان و مال سے اپنے تئیں ان کے لینے پر آمادہ کیا۔ حضرت یوسف ؑ نے غمگین اور آب دیدہ ہو کر سر جھکایا اور فوراً جبرئیل ؑ نے پیغام الٰہی پہنچایا ’’ اے یوسف ؑ ! فکر نہ کر، تجھے اس شہر سے ایک قدم باہر نہ لے جاؤں گا، جب تک تیری غلامی کا داغ سب کی پیشانی پر نہ لگاؤں گا۔‘‘ اس زمانے میں ایک شخص فطفیر نامی جس کا لقب عزیز تھا، فرعون (16)کے ہاں بڑا اختیار رکھتا تھا اور بت پرستی اس کا مذہب تھا، اس نے زر و جواہر گراں بہا دے کر حضرت یوسف ؑ کوقافلے والوں سے خریدا اور گھر میں لا کر اپنی بیوی سے کہا ’’ اسے اچھی جگہ رکھو اور اس کی خاطر داری کرو۔ شاید اس سے ہمیں نفع ہو، یا ہم اس کو اپنا فرزند بنائیں‘‘ یہ عورت جس کا نام راعیل تھا، نہایت خوبصورت اور نو عمر اور طیموس بادشاہ کی بیٹی اور زلیخا کے لقب سے مشہور تھی۔ اس کے دل پر حضرت یوسف ؑ کے حسن کا پہلے ہی سے نقش تھا۔ اب جو ان کو دیکھا اور اپنے خاوند کا حکم ان کے رکھنے کے واسطے سنا تو دل سے بہتر ان کے لیے کوئی مقام نہ جانا۔ اس واسطے اپنے دل میں ان کو جگہ دی اور بہت شفقت اور محبت سے رکھا۔ جب حضرت یوسف ؑ جوانی پر آئے تو قادر حقیقی نے ان کو علم اور حکمت اور حلم اور عصمت کے زیور سے آراستہ کیا۔ زلیخا تو جان و دل سے ان کی خدمت میں حاضر تھی، عزیز مصر کے حکم کو بہانہ سمجھ کر اچھے اچھے رنگا رنگ کے کپڑے ان کے واسطے تیار کیے اور تاج مرصع بنوا کر ان کے سر پر رکھا۔ روز بروز حضرت یوسف ؑ کے عشق کا شعلہ اس کے دل میں بھڑکتا گیا، یہاں تک کہ اس نے ایک روز حضرت یوسف ؑ سے ہم خوابی چاہی، مگر حضرت یوسفؑ نے خدا کا خوف کر کے اس امر سے انکار کیا اور زلیخا کے پاس سے محل کے چھ دروازوں سے باہر چلے آئے۔ زلیخا بے تابانہ ان کے ساتھ دوڑی اور ساتویں دروازے پر حضرت یوسف ؑ کا کرتا پیچھے سے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اتنے میں عزیز مصر بھی دروازے کے پاس مل گیا۔ زلیخا نہایت کھسیانی ہو کر غل مچانے لگی اور بولی ’’ ایسے شخص کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی سے فعل بد کا ارادہ کرے؟ یا تو اسے قید کرنا چاہیے یا کسی اور سخت عذاب میں مبتلا کرنا مناسب ہے۔‘‘ عزیز نے بے گناہ حضرت یوسف ؑ کو قتل کیا ہی ہوتا کہ ایک شیر خوار بچے کو خدا نے گویائی کی طاقت دی اور اس نے حضرت یوسف ؑ کی بے گناہی کی شہادت دی اور کہا کہ اگر یوسف ؑ کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو زلیخا سچی ہے اور یوسف ؑ جھوٹا ہے اور اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو زلیخا جھوٹی ہے اور یوسف ؑ سچا ہے۔ جب حضرت کا کرتا دیکھا تو واقع میں پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ اس وقت عزیز سمجھ گیا کہ یہ زلیخا کا فریب ہے۔ حضرت یوسف ؑ کو کہا کہ تو یہ راز کسی پر ظاہر نہ کر اور زلیخا کو سمجھایا کہ حقیقت میں تیری ہی خطا ہے، اپنے گناہ سے توبہ کر۔ عزیز نے اپنی طرف سے تو سب بندوبست کر دیا، لیکن عشق اور مشک کون چھپا سکتا ہے۔ یہ راز چند روز میں فاش ہو گیا اور مصر کی عورتوں نے زلیخا پر طعن و تشنیع (17)شروع کی، مگر جب ان عورتوں نے حضرت یوسف ؑ کا حسن دیکھا تو انہیں زلیخا سے بہت ندامت ہوئی اور کہا ’’ حقیقت میں زلیخا معذور ہے اور اپنی بے صبری میں ہر طرح سے مجبور ہے۔‘‘ اس کے بعد بھی زلیخا حضرت یوسف ؑ کے وصل کی تدبیریں کرتی رہی، مگر حضرت یوسف ؑ نے یہ امر ہرگز تسلیم نہ کیا۔ تب ان عورتوں نے جو زلیخا کی طرف سے حضرت یوسف ؑ کے پاس وصل کا پیام لے کر گئی تھیں، زلیخا سے آ کر کہا ’’ اگر تم یوسف ؑ کو چند روز کے لیے قید خانے میں بھیج دو تو وہاں مصیبت اٹھا کر اس آرام کی قدر جانے اور اس وقت دل و جان سے خود تمہارے وصل کا طالب ہو۔‘‘ زلیخا کو یہ بات پسند آئی اور عزیز مصر سے کہا کہ اس غلام عبرانی نے مجھے تمام خلق میں بدنام کر رکھا ہے۔ اگر تم اسے قید خانے میں بھیج دو گے تو لوگوں کو یقین آ جائے گا کہ میں بے قصور ہوں۔ عزیز بے تمیز نے حضرت یوسف ؑ کو قید خانے میں بھجوا دیا، مگر زلیخا دل سے ان کی تکلیف کی روادار نہ تھی۔ در پردہ قید خانے کے داروغہ سے کہلا بھیجا کہ یوسف ؑ کو طوق و زنجیر اتار کر ان کو بہت آرام سے رکھ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل ؑ کو حکم دیا کہ قید خانے میں جا کر یوسف ؑ کو علم تعبیر سکھا۔ چنانچہ حضرت جبرئیل ؑ نے ان کو علم تعبیر بتایا اور وہ اس علم میں یکتا ہوئے۔ حضرت یوسف ؑ جب عبادت سے فارغ ہوتے تو قیدیوں کے خواب کی تعبیر بتایا کرتے۔ اتفاقاً اسی زمانے میں فرعون مصر نے جو ریان ابن ولید کہلاتا تھا اور قوم عمالقہ سے تھا، دو شخص قید خانے میں بھجوائے۔ ایک ساقی جو اس بادشاہ کو شراب پلایا کرتا تھا اور دوسرا نان بائی (18) جو اسے روٹی پکا کر کھلایا کرتا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت یوسف ؑ ہر ایک قیدی کو خوش خبری دیتے ہیں اور سب کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔ اس کے امتحان کے واسطے بے دیکھے دو خواب بنائے۔ ایک نے کہا ’’ میں نے دیکھا ہے کہ میں انگوروں میں شراب نچوڑ رہا ہوں۔ ‘‘ دوسرا بولا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ٹھونگیں مار کر ان میں سے ٹکڑے کھا رہے ہیں حضرت یوسف ؑ نے فرمایا کہ ساقی تین دن کے بعد مخلصی پا کر درجہ اعلیٰ پر ممتاز ہو گا اور بادشاہ کو شراب پلایا کرے گا اور نان بائی سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کے سر میں سے مغز نکال کر کھائیں گے۔ ساقی اور نان بائی نے حضرت یوسف ؑ کی گفتگو سن کر کہا ’’ ہم نے تو خواب نہیں دیکھے تھے، صرف تمہاری آزمائش کے واسطے یہ باتیں بنائی تھیں۔‘‘ حضرت یوسف ؑ بولے ’’ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ اب خدا تعالیٰ کا حکم نہیں بدلتا۔‘‘ اور ساقی کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ جب تو اپنے عہدے پر پہنچے تو موقع دیکھ کر میری بھی سفارش بادشاہ سے کر دیجو۔ خدا کی قدرت سے تین دن کے بعد ساقی نے تو اپنی مراد حاصل کی اور نان بائی سولی پر چڑھایا گیا، مگر ساقی بادشاہ کے روبرو حضرت یوسف ؑ کا ذکر کرنا بھول گیا اور حضرت یوسف ؑ کئی برس تک قید خانے میں رہے۔ پھر اتفاق سے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ سات موٹی اور سات دبلی گائیں پیدا ہوئی ہیں اور دبلی گائیں موٹیوں کو کھا گئیں۔ پھر سات سبز اور سات خشک بالیں نمودار ہوئیں اور خشک بالیں سبز بالوں پر لپٹ گئیں اور ان کی سبزی اور رطوبت جذب کر لی۔ بادشاہ نے اس خواب کی تعبیر بڑے بڑے عالموں سے دریافت کیا، مگر کسی نے معقول جواب نہ دیا۔ اس وقت ساقی کو حضرت یوسف ؑ کا خیال آیا۔ اس نے بادشاہ سے ذکر کیا۔ بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ کا حال مفصل پوچھا۔ ساقی نے جواب دیا کہ ان کا قصہ بہت طویل ہے، میں تفصیل سے واقف نہیں، مگر اتنا جانتا ہوں کہ شریف زاد ہ اور حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے ہے اور جمال صورت اور کمال سیرت سے آراستہ ہے اور عزیز نے اپنی بیوی کے کہنے سے اسے زندان میں بھیجا ہے۔ بادشاہ نے ساقی کو خواب کی تعبیر پوچھنے کے واسطے حضرت یوسف ؑ کے پاس بھیجا۔ حضرت یوسف ؑ نے کہا کہ سات موٹی گائیں اور سات سبز بالیں سات برس ہیں، جن میں بہت اچھی زراعت ہو گی۔ مخلوق کو آسودگی اور رفاہت ہو گی اور سات دبلی گایوں اور سات سوکھی بالوں سے بھی سات برس کا عرصہ مراد ہے، جن میں تنگی اور عسرت ہو گی۔ لوگوں کو معاش کے حاصل کرنے میں بہت دقت ہو گی اور پچھلے سات برس کی خشکی اور قحط سے پہلے سات برس کی رطوبت اور تازگی بالکل جاتی رہے گی۔ ساقی نے آ کر یہ تعبیر بادشاہ سے بیان کی اور اسے بہت پسند آئی۔ فوراً حکم دیا کہ یوسف ؑ کو زندان سے خلاص کر کے میرے پاس لاؤِ مگر حضرت یوسف ؑ نے کہا کہ جب تک زلیخا کے مقدمے میں میری بے قصوری نہ ثابت ہو جائے گی، تب تک میں قید خانے سے باہر نہیں آنے کا۔ بادشاہ نے اس مقدمے کو تحقیق کیا۔ حضرت یوسف ؑ بالکل بے قصور ثابت ہوئے اور زلیخا نے اپنے جرم کا اقرار کیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے خاص اپنی سواری کا گھوڑا حضرت یوسف ؑ کے واسطے بھیجا اور وہ اس پر سوار ہو کر بادشاہ کے پاس آئے۔ بادشاہ اور تمام ارکان دولت ان کی صورت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پھر بادشاہ نے اپنے خواب کی تعبیر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے سننی چاہی۔ انہوں نے مفصل تعبیر بیان کی۔ بادشاہ نے کہا ’’اب کیا تدبیر کرنی چاہیے‘‘ حضرت یوسف ؑ نے فرمایا کہ تمام ملک کے عاملوں کو حکم دو کہ مصر کے دہقانوں (19)کو نہایت تاکید کریں کہ جس قدر سات برس کے عرصے میں زراعت ہو سکے، کیے جائیں اور پیداوار میں سے تھوڑا سا صرف کر کے باقی غلہ انبار رکھیں، تاکہ خشکی اور قحط کے برسوں میں یہ غلہ کام آئے۔ بادشاہ نے حضرت یوسف ؑ کو اس امر کا مہتمم کیا اور خلعت گرانمایہ اور کمر بند مرصع عنایت کر کے اپنے ملک کے تمام خزانوں کا منتظم کیا اور جب عزیز مصر مر گیا تو ان کو اور بھی اختیار حاصل ہوا۔ رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ ریان جو مصر کا بادشاہ تھا، ان کا فرمان بردار ہو گیا اور اس نے حضرت یوسف ؑ سے کہا کہ تم تاج و تخت کے مالک ہو، میں تمہاری رضا کا تابع ہوں اور تمہاری خواہش کا بندہ ہوں۔ حضرت یوسف ؑ نے غلے کا خوب انتظام کیا اور سات برس تک زمین کی پیداوار جمع کی۔ اس عرصے میں قحط کے دن آئے اور لوگ مصیبت میں مبتلا ہوئے سب نے اپنا مال و متاع صرف کیا اور سرکار سے غلہ خریدا۔ جب کچھ نہ رہا، تو انہوں نے حضرت یوسف ؑ کی غلامی اختیار کی، مگر پھر حضرت یوسف ؑ نے انہیں آزاد کیا بلکہ ان کے ساتھ اور بہت سلوک کر کے انہیں اپنے احسان کا غلام بنایا۔ اس قحط کی ہوا عراق اور شام تک پہنچی اور دور دور سے لوگ غلہ خریدنے مصر میں آئے۔ حضرت یوسف ؑ کے بھائی بھی اس ارادے سے وہاں پہنچے۔ حضرت یوسف ؑ بادشاہوں کی طرح لباس شاہانہ پہنے ہوئے مسند عزت پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان کو نہ پہچانا، مگر حضرت یوسف ؑ نے ان کی بہت خاطر داری کی۔ اس کے بعد وہ کنعان میں آئے اور باپ سے مل کر دوبارہ شہر مصر میں حضرت یوسف ؑ کے پاس آ گئے اور انجام یہ ہوا کہ حضرت یوسف ؑ نے ان کی خطائیں معاف کیں اور خدا تعالیٰ سے ان کے گناہوں کی بخشش کی دعا کی۔ حضرت یعقوب ؑ کی آنکھوں کی بینائی حضرت یوسف ؑ کی جدائی کے غم سے بالکل جاتی رہی تھی، اس واسطے حضرت یوسف ؑ نے جلدی سے اپنا کرتا ان کے پاس بھیجا کہ وہ اپنے منہ پر ڈالیں اور ان کی آنکھیں روشن ہو جائیں۔ کرتے کے منہ پر ڈالتے ہی ان کی آنکھوں کی بینائی آئی اور مرجھائے ہوئے بدن میں توانائی آئی۔ پھر بیٹوں نے حضرت یعقوب ؑ کی بہت التجا کی اور ان سے اپنی مغفرت کی دعا منگوائی۔ اتنے میں حضرت یوسف ؑ کے قاصد پہنچے اور اچھے اچھے اونٹ اور عمدہ عمدہ گھوڑے حضرت یعقوب ؑ کے پاس لے گئے۔ حضرت یعقوب ؑ اپنے عیال و اطفال سمیت کنعان سے مصر کو روانہ ہوئے اور حضرت یوسف ؑ اور ریان شاہ مصر اور تمام ارکان سلطنت شہر کے باہر حضرت یعقوب ؑ کے استقبال کو گئے۔ حضرت یعقوب ؑ نے فرزند عزیز کو سینے سے لگایا اور دونوں اس قدر روئے کہ بے ہوش ہو گئے۔ پھر حضرت یوسف ؑ نے حضرت یعقوب ؑ اور اپنی سوتیلی ماں کو تخت پر بٹھایا اور آپ بھی ان کے سامنے تخت پر بیٹھے۔ اس وقت حضرت یعقوب ؑ اور ان کی بیوی اور گیارہ بیٹوں نے حضرت یوسف ؑ کی تعظیم و تکریم کی۔ تب حضرت یوسف ؑ نے کہا ’’ میں نے جو خواب دیکھا تھا، اس کی یہی تعبیر ہے‘‘ اس کے بعد حضرت یوسف ؑ نے ایام جدائی کا سارا حال اپنے باپ کی خدمت میں عرض کیا اور اپنے بھائیوں کے واسطے علیحدہ علیحدہ مکان دل کشا معین کر کے ہر ایک کے واسطے کچھ وجہ معاش مقرر کی۔ اس طور سے بنی اسرائیل بہت خوش حالی اور فراغ بالی سے گزارہ کرنے لگے۔ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی باقی عمر حضرت یوسف ؑ کے پاس گزاری اور جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے انے بیٹوں کو وصیت کی اور حضرت یوسف ؑ کو اپنا ولی عہد مقرر کر کے عالم قدس کو روانہ ہوئے۔ حضرت یوسف ؑ نے ان کی وصیت کے موافق ان کا جنازہ شام میں لا کر حضرت اسحق ؑ کی قبر کے پاس دفن کیا اور آپ مصر کو چلے گئے۔ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں ہزاروں آدمیوں نے اسلام اختیار کیا اور مصر کا بادشاہ ریانا بن ولید بھی ان پر ایمان لایا اور وہ حضرت یوسف ؑ کی بہت اطاعت اور فرمانبرداری کرتا رہا، مگر جب اس نے وفات پائی اور قابوس ابن مصعب اس کی جگہ فرعون مصر ہوا تو ہر چند حضرت یوسف ؑ نے اسے نصیحت کی، مگر وہ راہ راست پر نہ آیا اور حالت کفر میں مر گیا۔ پھر اس کا بھائی ولید ابن مصعب تخت سلطنت پر بیٹھا اور وہ ا پنی فوج سمیت حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے میں دریائے نیل میں غرق ہوا۔ زلیخا کا حال مسلمانوں کی بعض تاریخوں سے اس طرح پایا جاتا ہے کہ اس کا خاوند عزیز مصر بہت بیمار ہوا اور اسی حالت میں مر گیا۔ اس کے بعد زلیخا نے بت پرستی چھوڑ کر حضرت یوسف ؑ کا دین اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کے دل میں اس کی محبت ڈالی اور وہ اس کے طالب ہوئے اور حکم الٰہی کے موافق دونوں کا عقد نکاح بندھ گیا۔ زلیخا سے حضرت یوسف ؑ کے گیارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ جب حضرت یوسف ؑ کی عمر ایک سو دس برس کی ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی یہودا کو بنی اسرائیل کی ریاست بخشی اور آپ نے اس دنیائے فانی سے رحلت کی۔ حضرت ایوب ؑ حضرت ایوب ؑ عیض ابن حضرت اسحق ؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت لوط ؑ کی بیٹی ان کی ماں اور افرائیم ابن حضرت یوسف ؑ کی بیٹی ان کی بیوی تھیں۔ یہ پیغمبر بہت آسودہ حال اور صاحب اولاد تھے اور دمشق کے متعلق کئی گاؤں ان کے قبضے میں تھے۔ علاوہ اس کے مویشی اور غلاموں کی بھی ان کے پاس کثرت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے امتحان کے واسطے ان کا تمام مال و متاع لے کر بالکل مفلس کر دیا، مگر وہ دل جمعی سے خدا کا شکر کرتے رہے۔ پھر ان کی اولاد مر گئی تو بھی کچھ مضطرب نہ ہوئے۔ اس کے بعد ان کو سخت بیماری لاحق ہوئی اور گوشت اور پوست پھٹنے لگا، مگر اس حالت میں بھی وہ خدا کی رضا پر راضی اور ہر طرح سے شکر گزار رہے اور عبادت سے ایک لمحہ غافل نہ ہوئے۔ ان تمام مصیبتوں میں ان کی بیوی نے ان کا بہت ساتھ دیا اور اطاعت اور خدمت گزاری میں نہایت کوشش کی۔ جب حضرت ایوب ؑ امتحان میں کامل نکلے تو شافئی مطلق نے انہیں پھر تندرستی عنایت کی اور پہلے سے دو چند اسباب اور مویشی اور غلام مرحمت کیے اور اولاد بھی عطا کی ۔ پھر وہ ہدایت کے واسطے روم کی طرف گئے اور ترانوے برس کی عمر میں وہیں وفات پائی۔ حضرت شعیب ؑ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب ؑ کو پیغمبر کر کے مدین اور ایکہ (20) کے لوگوں کی ہدایت کے واسطے حکم دیا۔ یہ لوگ باوجود بت پرستی کے پیمانے اور وزن میں بے انصافی کرتے تھے اور کھوٹے روپے اور اشرفیاں چلاتے تھے۔ علاوہ اس کے مسافروں کے لوٹنے میں بھی دریغ نہ کرتے تھے۔ حضرت شعیب ؑ نے انہیں بہت نصیحت کی۔ ان کے سمجھانے سے صرف چند آدمیوں نے راہ راست اختیار کی اور باقی اپنے افعال بد سے باز نہ آئے اس واسطے خدا تعالیٰ نے ایکہ کے لوگوں پر ایک سیاہ ابر سے آگ برسائی اور مدین کے باشندوں کو زلزلے سے ہلاک کیا۔ پھر حضرت شعیب ؑ کو حکم ہوا کہ جب تک حضرت موسیٰ ؑ پیغمبر ان کے پاس پہنچیں، وہ اپنے رفیقوں کے ساتھ مدین میں رہیں اور اطراف کے باشندوں کو دین حق کی ہدایت کریں۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ بڑے پیغمبر اور مقرب بارگاہ الٰہی تھے اور اسلام کی ہدایت کرنے میں بہت کوشش اور جاں فشانی کرتے رہے۔ جس زمانے میں وہ دونوں پیدا ہوئے، اس زمانے میں مصر کا فرعون ولید ابن مصعب تھا اور وہ بنی اسرائیل پر بڑا ظلم کرتا تھا۔ اس نے لوگوں سے پہلے بتوں کی پرستش کرائی اور پھر اپنے تئیں سجدہ کرانا چاہا، مگر بنی اسرائیل نے اس کی بات نہ مانی اور اپنے باپ دادا کی شریعت پر قائم رہے۔ اس واسطے ولید نے ان سے پتھر منگوانے اور آور محل بنوانے شروع کیے اور بڑی سخت محنتیں لیں۔ اس کے بعد اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک آگ شام کی طرف سے ظاہر ہوئی اور اس نے قبطیوں (21) کے تمام قلعے اور حویلیاں جلا دیں اور ان کے شہر اور گاؤں کا نشان باقی نہ رکھا۔ اس خواب سے وہ بے قرار ہوا اور معبروں سے اس کی تعبیر پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیا ہو گا اور وہ قبطیوں کی سلطنت کی بیخ و بنیاد اکھاڑے گا۔ فرعون نے یہ سن کر حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو فوراً قتل کیا جائے۔ یہ ظلم پانچ برس تک برابر جاری رہا اور بنی اسرائیل کے ہزاروں بچے مارے گئے۔ پھر یہ حکم ہوا کہ ایک سال کے لڑکے قتل کیے جائیں او رایک سال کے چھوڑ دئیے جائیں۔ اس بندوبست میں حضرت ہارون ؑ معافی کے سال میں پیدا ہوئے اور حضرت موسیٰ ؑ قتل کے سال میں۔ حضرت موسیٰ ؑ کا باپ عمران فرعون کا بہت مقرب تھا اور جس رات حضرت موسیٰ ؑ کا حمل رہا، اس رات وہ اور حضرت موسیٰ ؑ کی ماں دونوں فرعون کے محل میں تھے۔ القصہ ایام حمل کے گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ پیدا ہوئے تو ان کی ماں نے ارشاد الٰہی کے موافق ان کو ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ خدا کی قدرت سے وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس درختوں میں پہنچا اور لونڈیاں اسے اٹھا کر جھٹ فرعون اور اس کی بیوی حضرت آسیہ کے سامنے لائیں۔ انہوں نے اس میں سے بچے کو نکال کر موسیٰ ؑ اس کا نام رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور حضرت آسیہ کے دل میں حضرت موسیٰ ؑ کی محبت ڈال دی اور دونوں نے ان کی پرورش شروع کی۔ا س عرصے میں بعض ارکان دولت نے فرعون سے کہا کہ یہ وہی لڑکا ہے۔ جو ہماری سلطنت کے ستونوں کو گائے گا۔ اور فرماں روائی کے محل کو ڈھائے گا۔ اس کے قتل کرنے میں ایک ساعت توقف نہ کرنا چاہیے مگر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے جو بنی اسرائیل سے تھیں، کہا کہ اسے قتل نہ کرو، یہ ہمیں نفع دے گا یا ہم اسے اپنا بیٹا بنائیں گے۔ یہ سن کر فرعون ان کے قتل سے باز آیا۔ پھر حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰ ؑ کے دودھ پلانے کے واسطے انائیں (22)بلائیں، مگر حضرت موسیٰ ؑ نے کسی کا دودھ نہ پیا۔ آخر انہیں عورتوں میں ان کی ماں بھی آئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے کمال رغبت سے ان کا دودھ پینا شروع کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ چھوٹی سی عمر میں ایسے کام کرنے لگے کہ فرعون کو ان کی طرف سے شک واقع ہوا اور اس نے حضرت موسیٰ ؑ کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ مگر حضرت آسیہ کے درپے ہونے سے ان کو چھوڑ دیا۔ حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰ ؑ کی تربیت کرنے میں بہت کوشش کی اور چار سو غلام زر بفتی لباس دربر ، تاج مرصع بر سر، طوق زریں در گردن ان کی ملازمت میں رکھے۔ جس وقت حضرت موسیٰ ؑ نہایت حشمت اور تجمل سے سوار ہوتے تھے تو لوگ گمان کرتے تھے کہ یہ فرعون کا بیٹا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ اپنے اقتدار کے زمانے میں بنی اسرائیل پر بہت رحم کرتے تھے اور قبطی لوگ جو انہیں ستاتے تھے اس سے ہمیشہ رنجیدہ رہتے تھے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ کوئی قبطی بنی اسرائیل کے کسی آدمی پر سختی کر رہا تھا حضرت موسیٰ ؑ نے اس قبطی کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا ناچار اسے ایک طمانچہ مارا اور وہ ملک عدم کو سدھارا۔ جب یہ خبر فرعون کو پہنچی تو اس نے حضرت موسیٰ ؑ کے قتل کرنے کا مصمم ارادہ کیا اور ان کے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ یہ بات سن کر مصر سے شہر مدین کو چلے گئے اور وہاں حضرت شعیب ؑ پیغمبر سے جو ضعیف اور نابینا ہو گئے تھے ملاقات کی۔ حضرت شعیب ؑ بہت خاطر داری سے پیش آئے اور اپنی بیٹی صفورا نامی کا نکاح ان سے کر دیا اور یہ مہر قرار پایا کہ حضرت موسیٰ ؑ آٹھ برس تک حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چرایا کریں اور اگر دس برس تک چرائیں تو ان کا احسان ہے۔ پھر انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کو وہ لاٹھی عنایت کی جو حضرت آدم ؑ بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے اور کہا کہ اس لاٹھی کو اچھی طرح رکھنا، کام آئے گی۔ حضرت موسیٰ ؑ دس برس تک حضرت شعیب ؑ کی بکریاں چراتے رہے اور پھر جاڑے کے موس میں اپنی بیوی سمیت وہاں سے روانہ ہوئے۔ رستے میں ایک روز ابر سیاہ نمودار ہوا اور سردی بھی شدت سے پڑی۔ حضرت موسیٰ ؑ رستہ بھول گئے اور ان کو آگ کی حاجت ہوئی۔ ہر چند چقماق جھاڑی آگ نہ نکلی۔ جنگل کی طرف جو نگاہ کی تو طور سینا(23) کی طرف سے روشنی نظر آئی۔ حضرت موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی ہاتھ میں لے کر آگ لینے کو اس طرف کو روانہ ہوئے اور اپنے ساتھ والوں کو وہیں ٹھہرا گئے۔ جب وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں ایک نور کا شعلہ آسمان سے کسی سبز درخت تک روشن ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ یہ دیکھتے ہی حیران رہ گئے! پھر تھوڑی سی سوکھی لکڑیاں جمع کر کے سلگانے کو گئے۔ وہ شعلہ اونچا ہو گیا حضرت موسیٰ ؑ کو اور بھی زیادہ حیرانی پیش آئی اور وہا لٹے پھرا ہی چاہتے تھے کہ اتنے میں ایک آواز آئی ’’ اے موسیٰ !‘‘ یہ سن کر حضرت موسیٰ ؑ ادھر ادھر دیکھنے لگے،کہیں آواز کا دینے والے کا پتہ نہ لگا۔ اتنے میں ایک اور آواز سنائی دی کہ میں ہوں تیرا اور سب کا پروردگار۔ حضرت موسیٰ ؑ کا دل دھڑکنے لگا، مگر پھر مستقل ہو کر لاٹھی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے۔ جناب باری سے ارشاد ہوا کہ میں تیرا پروردگار ہوں اور تو ایک پاک میدان میں ہے جس کا نام طویٰ ہے، اپنی جوتیاں اتار ڈال۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ کو نبوت کا خلعت مرحمت کیا اور معرفت کے نور سے ان کے دل کو روشن کر کے فرمایا کہ میں نے تجھے پسند کیا۔ جو تیرے پاس وحی بھیجوں، وہ سن۔ اس کے بعد اس نے پوچھا کہ اے موسیٰ ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ عرض کیا ’’ میری لاٹھی ہے اس پر میں تکیہ کرتا ہوں اور بکریوں کے واسطے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے اور بہت سے کام نکلتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’ اسے پھینک دے‘‘ جوں ہی حضرت موسیٰ ؑ نے اسے ڈال دیا، وہ ایک ہیبت ناک اژدھا بن کر ہر طرف حرکت کرنے لگا۔ حضرت موسیٰ ؑ ڈر گئے۔ا سی وقت حکم ہوا کہ اسے پکڑ لے اور خوف نہ کر۔ حضرت موسیٰ ؑ نے سنبھل کر اسے پکڑ لیا۔ وہ بدستور لاٹھی ہو گئی۔ پھر ان کو دوسرا معجزہ عنایت کیا اور فرمایا کہ اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکال۔ حضرت موسیٰ ؑ نے گریباں میں ہاتھ ڈال کر جوں ہی باہر نکالا اس کی روشنی آفتاب کے نور پر غالب ہوئی اور یہی معجزہ عربی میں ید بیضا(24) کہلاتا ہے۔ جب حضرت موسیٰ ؑ کو یہ دونوں معجزے مرحمت ہو چکے تو ان کو فرعون کے پاس جانے اور اس کو ہدایت کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے درخواست کی ’’ میرا بھائی ہارون بھی اس بات میں میرا شریک ہو۔‘‘ یہ عرض قبول ہوئی اور ارشاد ہوا کہ تم دونوں بھائی فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے نرم کلامی سے پیش آؤ اور کہو کہ بنی اسرائیل پر ظلم نہ کر اور دین حق اختیار کر۔ ادھر تو حضرت موسیٰ ؑمصر کی طرف روانہ ہوئے، ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون ؑ پر وحی نازل کی اور حضرت موسیٰ ؑ کے حال سے مفصل خبر دی۔ حضرت ہارون ؑ مصر کے باہر حضرت موسیٰ ؑ کے استقبال کو گئے اور ان کو ساتھ لے کر شہر میں آئے۔ پھر دونوں فرعون کے پاس گئے ۔ فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور ان کا حال پوچھنے لگا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا ’’ اللہ نے مجھے اپنا رسول کر کے تیری نصیحت کے واسطے بھیجا ہے اور میرے بھائی ہارون ؑ کو اس کام میں میرا شریک کیا ہے۔ اب تو دین حق اختیار کر اور بنی اسرائیل کو جن پر طرح طرح کے ظلم کرتا ہے میرے سپرد کر۔‘‘ پھر حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے دونوں معجزے اسے دکھائے۔ پہلے اپنی لاٹھی ہاتھ سے پھینکی، وہ فوراً ایک خون خوار اژدھا بن گیا۔ ڈر فرعون پر غالب ہوا اور فریاد کرنے لگا کہ اگر تم اس بلا کو دفع کرو گے تو میں تمہاری نبوت قبول کروں گا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس اژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا، وہ فوراً لاٹھی ہو گئی۔ پھر گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا اس کی روشنی سے سب کی آنکھوں میں چکا چوندی آئی اور کوئی اس کے دیکھنے کی تاب نہ لا سکا۔ سب نے امان چاہی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پھر گریبان میں ہاتھ ڈالا وہ جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا۔ فرعون نے کہا ’’ اب تم اپنے گھر جاؤ ہم اس مقدمے میں صلاح کر کے کچھ تجویز کریں گے۔‘‘ پھر اس نے اپنی بیوی آسیہ سے اس امر کا ذکر کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کوئی عقلمند ایسی بڑی نعمت کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ بے توقف ایمان لاؤ۔ اس کے بعد ہامان بے سرو سامان سے جو اس کا وزیر تھا، پوچھا وہ بولا ’’ تو اب تک عزت میں شہرہ آفاق تھا، اب اپنی ذلت مشہور کرتا ہے۔ اس وقت تک لوگ تیری عبادت کرتے تھے، اب تو اوروں کی ملت منظور کرتا ہے۔‘‘ ہامان کی گفتگو سن کر فرعون پھر گیا اور حضرت موسیٰ ؑ کی فرماں برداری سے انکار کیا ، گر اس کی بیوی حضرت آسیہ صدق دل سے ایمان لائیں۔ فرعون نے اس مظلومہ بے گناہ کو نہایت عذاب سے شہید کیا ۔ علاوہ اس کے اور ہزاروں آدمی حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لائے تھے، انہیں بھی طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل ہوئی کہ اپنی قوم کو مصر سے باہر لے جا اور دریا کے کنارے پر مقام کر۔ بنی اسرائیل نے سفر کے سامان کی تیاری کی اور تمام مال و اسباب اور اہل و عیال کو ہمراہ لے کر آدھی رات کے وقت مصر کے باہر نکلے۔ صبح ہی فرعون کو اس امر کی اطلاع ہوئی۔ اس نے لشکر جمع کرنے کا حکم دیا اور اسی دن بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا چاہا مگر اس روز کسی خاص سبب سے توقف ہو گیا اور دوسرے دن سارا لشکر لے کر حضرت موسیٰ ؑ کے پیچھے روانہ ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کے ساتھ آگے آگے اور فرعون اپنے لشکر سمیت پیچھے پیچھے چلا جاتا تھا۔ جب دریا قریب آیا تو حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل ہوئی کہ تو اپنی لاٹھی دریا پر مار۔ حضرت موسیٰ نے فوراً دریا پر لاٹھی ماری۔ خدا کی قدرت سے دریا پھٹ گیا اور اس میں رستہ پیدا ہو گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ تمام بنی اسرائیل سمیت دریا میں داخل ہوئے اور تھوڑی سی دیر میں عبور کر گئے۔ فرعون جب وہاں پہنچا تو دریا کا حال دیکھ کر ہیبت کے مارے کانپنے لگا اور اس معجزے سے حیرت کے دریا میں غرق ہوا۔ چاہا کہ مصر کو پھر جاؤں یا حضرت موسیٰ ؑ کی اطاعت کروں، مگر ہامان نے منع کیا اور آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ آخر اس نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور تمام لشکر نے اس کی پیروی کی۔ جب چھوٹے بڑے ادنیٰ اعلیٰ دریا میں داخل ہو چکے، قاد حقیقی کے حکم سے پانی کے اجزا مل گئے اور دریا جیسا تھا، ویسا ہی ہو گیا اور سب لوگ ہلاک ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل میں سے حضرت یوشع ؑ کو چوبیس ہزار آدمیوں کے ساتھ مصر کو بھیجا۔ انہوں نے وہاں جا کر قبطیوں میں سے ایک شخص کو ان کی باقی جماعت پر حاکم بنایا اور آپ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس چلے گئے۔ بنی اسرائیل نے کئی دفعہ حضرت موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ ہمیں علیحدہ شریعت چاہیے جس کے موافق ہم عمل کیا کریں اور خدا کی رضا مندی اور خوشنودی ہمیں حاصل ہو۔ا ن کی خواہش کے موافق حضرت موسیٰ ؑ نے جناب الٰہی میں درخواست کی۔ حکم ہوا کہ کوہ طور پر آ اور وہاں آ کر روزے رکھ۔ اس وقت تیرا مطلب حاصل ہو گا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت ہارون ؑ کو اپنا خلیفہ کیا اور آپ بنی اسرائیل میں سے ستر آدمی ہمراہ لے کر کوہ طور میں گوشہ نشین ہوئے اور روزے رکھنے شروع کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کلام سے مشرف فرمایا اور توریت کی دس لوحیں عنایت کیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ لشکر تیار کر کے بیت المقدس کو قوم عمالقہ کے ہاتھ سے چھڑاؤ اور ظالموں کو وہاں سے دفع کرو۔ وہ بیت المقدس کی رف روانہ ہوئے، مگر پھر انہوں نے اس امر میں پہلو تہی کی اور حضرت موسیٰ ؑ نے ہر چند سمجھایا، کچھ کام نہ آیا۔ آخر وہ ایک جنگل میں سراسیمہ و حیران ہوئے اور عذاب الٰہی ان پر نازل ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ان کا یہ حال دیکھ کر بہت رنج کیا اور ان کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کی۔ ارشاد ہوا کہ ایسے فاسقوں کے واسطے غمگین نہ ہو۔ جب ان کے پاس خرچ تمام ہوا اور ذخیرہ نہ رہا تو حضرت موسیٰ ؑ سے بھوک کی فریاد و زاری کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جناب الٰہی میں عرض کی۔ تب احسان الٰہی کا خوان اس طرح سے مقرر ہوا کہ رات کے وقت دھنیے کے سے دانے برف سے سفید اور شہد سے شیریں درختوں پر نازل ہوئے اور عصر (25)کے وقت بھنے ہوئے پرندے اترتے۔ چنانچہ قرآن میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل پر من اور سلویٰ نازل ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس سے یہی دونوں قسم کی چیزیں مراد ہیں۔ علاوہ اس کے بنی اسرائیل کے واسطے پانی کی یہ سبیل ٹھہری کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کا جب مقام ہوتا تو وہ اپنی لاٹھی ایک پتھر پر مارتے اور بارہ سبطوں کے واسطے آب شیریں کے بارہ چشمے پیدا ہو جاتے۔ باوجود اس کے بنی اسرائیل اپنی طمع نفسانی اور کفران نعمت سے باز نہ آئے اور حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ رات دن ان چیزوں سے ہمارے منہ کا مزہ بے مزہ ہو گیا، ہم سے تو ایک قسم کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا۔ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مسور کی دال، پیاز، لہسن اور ساگ دیوے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ باتیں ناپسند آئیں اور چالیس برس کے عرصے میں سب کو تباہ کر دیا۔ ان میں سے صرف دو شخص حضرت یوشع ؑ اور حضرت کالب ؑ باقی رہے جو آخر کو نبی ہوئے۔ مگر اس عرصے میں جتنے ہلاک ہوئے، خدا تعالیٰ نے اتنے ہی ان کی نسل سے پیدا کر دئیے۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ مصر پر غالب ہوئے اور قبطی ہلاک ہوئے تو وہ مجلس میں اکثر وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ ایک روز انہوں نے خدا تعالیٰ سے سوال کیا کہ الٰہی! اگر تیرے بندوں میں کوئی مجھ سے زیادہ عالم ہو تو مجھے بتا کہ میں اس سے فائدہ حاصل کروں۔ حق تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ میرا ایک بندہ تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ میں نے اپنے علم کے راز اس کے سینے میں جمع کیے ہیں۔ وہ دریا کے کنارے پر تجھے ملے گا۔ حضرت موسیٰ ؑ مجمع البحرین (26)کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں حضرت خضر ؑ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ حضرت خضر ؑ نے پوچھا ’’ کیوں کر آنا ہوا؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ اس سفر سے میرا مقصد یہ ہے کہ چند روز تمہاری صحبت میں رہوں اور خدا نے جو علم تمہیں عطا کیا ہے، میں بھی سیکھوں۔ حضرت خضر ؑ نے کہا ’’ میری رفاقت مشکل ہے، کیوں کہ شاید میں علم باطنی سے کوئی ایسا کام کروں کہ ظاہر اس کا شرارت اور کراہت ہو اور انجام اس کا خیریت اور کرامت ہو اور تم بے پوچھے نہ رہ سکو‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے ان کی دل جمعی کر دی کہ میں تمہارے حکم کی تعمیل کروں گا اور دونوں ایک کشتی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ حضرت خضر ؑ نے کشتی کے دو تین تختے توڑ کر دریا میں پھینک دئیے اور کشتی والوں سے کہا ’’جلد اپنی کشتی کا بندوبست کرو، نہیں تو ڈوب جائے گی۔‘‘ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ بول اٹھے کہ ایسی مضبوط کشتی کو بے کار کر دینا اور اتنے لوگوں کے ڈوبنے کا خیال نہ رکھنا نہایت ظلم اور خلاف شرع ہے۔حضرت حضر ؑ نے جواب دیا ’’ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے عذر کیا کہ میں نے بھول کر یہ بات کہہ دی تھی، آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ جب دونوں کشتی سے اترے اور شہر کے پاس پہنچے، وہاں کئی لڑکے کھیل رہے تھے۔ حضرت خضر ؑ نے ان میں سے ایک خوبصورت لڑکے کو پکڑ کر زمین پر ڈال دیا اور اس کا گلا چھری سے کاٹ ڈالا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا ’’ تم نے یہ کیا غضب کیا، بے گناہ کا قتل کرنا کس مذہب میں روا ہے؟‘‘ حضرت خضر ؑ بولے، میں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تم سے صبر نہیں ہو سکنے کا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے عذر کیا اور کہا ’’ اگر اب کی دفعہ بولوں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘ اس گفتگو کے بعد آگے چلے۔ رات کو ایک گاؤں میں پہنچے، سردی کا موسم تھا۔ گاؤں والوں کے ہاں مہمان رہنا چاہا مگر انہوں نے یہ امر منظور نہ کیا۔ ناچار دونوں بھوکے پیاسے پڑ رہ۔ اس بستی میں ایک جھکی ہوئی دیوار گرنے کو تھی، صبح کو حضرت خضر ؑ نے اس دیوار کو بغیر اجرت کے درست کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ اس گاؤں کے لوگوں نے تو یہ بے مروتی کی کہ مہمان نوازی کی رسم بھی ادا نہ کی اور تم نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ مناسب تو یہ تھا کہ ان سے مزدوری لے لیتے اور بھوک کا علاج کرتے۔ حضرت خضر ؑ نے کہا ’’ اب ہمارا تمہارا ساتھ نہیں۔ یہاں سے چل دیجئے مگر یہ فعل جو بظاہر شروع کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، ان کے سبب بھی گوش دل سے سن لیجئے۔ کشتی کے توڑنے کا یہ باعث ہے کہ ایک ظالم بادشاہ کے شہر میں وہ کشتی جانے والی تھی اور وہ بادشاہ مضبوط کشتیوں کو چھین لیتا تھا، اس واسطے میں نے اس کشتی کو عیب دار کر دیا کہ اس بادشاہ کے تصرف سے محفوظ رہے اور لڑکے کے قتل کرنے کا یہ سبب ہے کہ اس کے ماں باپ نیک بخت اور ایمان دار تھے اور لڑکے سے کفر اور نافرمانی اور فساد کے سوا کوئی امر ظہور میں نہ آتا۔ میں نے اندیشہ کیا کہ اس کی بدی کا اثر ماں باپ کو پہنچے گا، اس واسطے اسے قتل کر ڈالا اور اب خدا تعالیٰ اس کے ماں باپ کو فرزند صالح (27) عنایت کرے گا اور دیوار کے درست کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ وہ دیوار دو یتیم بچوں کی ہے اور ان کا باپ نیک بخت اورپرہیز گار تھا اور دیوار کے تلے خزانہ ہے۔ اگر وہ دیوار اب گر پڑتی تو دونوں یتیم خزانے سے محروم رہ جاتے۔ اس واسطے الہام الٰہی کے موافق میں نے اس دیوار کو بنا دیا کہ اگر لڑکوں کے بالغ ہونے کے بعد گر پڑے گی تو خزانہ ان کے ہاتھ لگ جائے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت موسیٰ ؑ وہاں سے رخصت ہوئے۔ جب حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کا زمانہ نزدیک آیا تو انہوں نے حضرت یوشع ؑ کو اپنا خلیفہ بنایا اور کاتبوں کو جمع کر کے توریت کے نسخے لکھوائے اور ایک نسخہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر حضرت جبرئیل ؑ سے اس کا مقابلہ کیا۔ پھر باقی نسخے اس نسخے سے مقابلہ کر کے اسباط کو تقسیم کیے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں اس دنیا سے رحلت کی۔ چونکہ حضرت موسیٰ ؑ کو نور الٰہی کی تجلی ہوئی تھی اور انہوں نے خدا تعالیٰ سے کلام کیا تھا، اس واسطے ان کا لقب کلیم اللہ ہے۔ حضرت الیاس ؑ جب بنی اسرائیل کی سلطنت ملک شام میں متفر ق ہو گئی اور انہوں نے توریت کے احکام پر بالکل عمل نہ کیا بلکہ بت پرستی اور گمراہی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس ؑ کو پیغمبر کر کے بھیجا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت اور توریت کے مسائل پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ مگر بنی اسرائیل اپنے افعال سے باز نہ آئے بلکہ حضرت الیاس ؑ کے مارنے کے درپے ہوئے۔ اس واسطے حضرت الیاس ؑ پہاڑ میں چلے گئے اور آٹھ برس تک وہیں رہے۔ شہر بعلبک کے بادشاہ نے ان کے قتل کرنے کو بہت سے آدمی بھیجے، مگر خدا تعالیٰ نے آگ برسا کر انہیں ہلاک کر دیا۔ پھر حضرت الیاس ؑ پوشیدہ ہو کر مسکینوں اور بیوہ عورتوں کے گھروں میں اوقات بسر کرتے رہے اور جس کے گھر جاتے، خدا کی قدرت سے اس کے ہاں سرسبزی اور خوش حالی ظاہر ہوتی۔ اتفاقاً ایک روز حضرت الیسع ؑ ابن اخطوب کے گھر آئے۔ ان کی ماں بہت بیمار تھی۔ حضرت الیاس ؑ کی برکت سے اچھی ہو گئی۔ پھر حضرت الیسع ؑ نے ان کی رفات اختیار کی اور دونوں نے اپنی قوم میں آ کر ہدایت کرنی شروع کی۔ اس کے بعد حضرت الیاس ؑ اپنے رفیق الیسع ؑ کے ساتھ پہاڑ میں گئے اور وہاں ایک سجا ہوا تیز رفتار گھوڑا نمودار ہوا۔ حضرت الیاس ؑ نے حضرت الیسع ؑ کو اپنا خلیفہ بنایا اور گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھ کر چادر منہ پر ڈال کر لوگوں کی نظر سے غائب ہو گئے اور اب بھی حضرت خضر ؑ کی طرح دنیا میں موجود ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ چار شخص حالت حیات میں ہیں، حضرت ادریس ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر اور حضرت خضر اور حضرت الیاس ؑ زمین پر۔ حضرت الیسع ؑ حضرت الیسع ؑ بنی اسرائیل پر توریت پڑھتے رہے اور حضرت موسیٰ ؑ کی شریعت سکھانے میں بہت کوشش کرتے رہے۔ بنی اسرائیل کبھی ان کی متابعت کرتے تھے اور کبھی مخالفت۔ آخر الامر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ حضرت شمویل ؑ جب حضرت شمویل ؑ کو نبوت عطا ہوئی اور وہ وعظ و نصیحت میں مصروف ہوئے تو بنی اسرائیل ایمان لاء اور انہوں نے حضرت شمویل ؑ کے پاس آ کر درخواست کی کہ ہمیں قوم عمالقہ سے لڑنا ضرور ہے، تم ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کر دو۔ اس زمانے میں بنی اسرائیل میں سے ایک شخص طالوت نامی جسے ساؤل بھی کہتے تھے، سقایا چرواہا تھا۔ جب شمویل ؑ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اسے تم پر بادشاہ کر کے بھیجا ہے۔ انہوں نے پہلے تو اس کی بادشاہی سے کچھ عذر کیا، مگر پھر اس کے کار نمایاں دیکھ کر بہت خوشنودی سے اس کی اطاعت اختیار کی اور حضرت شمویل ؑ کے حکم سے اس کے ساتھ ہو کر جالوت نامی بادشاہ سے انتقام لینے چلے۔ جب جالوت نے یہ خبر سنی تو ایک لاکھ مرد شمشیر زن لے کر طالوت کے مقابلے کو آیا۔ طالوت کے ساتھ پہلے تو بہت آدمی تھے مگر پھر صرف تین سو تیرہ آدمی رہ گئے تھے۔ جالوت اس تھوڑی سی جماعت کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور تنہا سوار ہو کر میدان میں آیا۔ طالوت نے حکم دیا کہ میری فوج میں سے جو شخص اس کو مارے گا، میں اپنی بیٹی کا جو نہایت خوب صورت ہے، اس سے نکاح کر دوں اور علاوہ اس کے آدھا ملک اس کے حوالے کر دوں گا۔ آخر حضرت داؤد ؑ جو یہودا کی اولاد میں تھے، میدان جنگ میں آئے اور انہوں نے جالوت کو مار ڈالا۔ جالوت کا لشکر پریشان ہو کر بھاگا اور بنی اسرائیل نے فتح پائی۔ پھر طالوت نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت داؤد ؑ سے کر دیا اور آپ دو برس سلطنت کر کے شہید ہوا اور بنی اسرائیل کی سلطنت حضرت داؤدؑ کے قبضے میں آئی۔ حضرت داؤد ؑ حضرت شمویل ؑ پیغمبر اور طالوت بادشاہ کے بعد نبوت اور سلطنت دونوں چیزیں حضرت داؤد ؑ کو عطا ہوئیں۔ جب حضرت داؤد ؑ کی خلافت مستقل ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کو کتاب زیور عنایت کی اور اس صحیفے میں وعظ اور حکمت اور وظیفے مندرج تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کو ایسی خوش آوازی عنایت کی تھی کہ جس وقت وہ زبور پڑھا کرتے تھے و حوش و طیور ان کے گرد جمع ہو کر سنا کرتے تھے۔ علاوہ اس کے ان کو یہ معجزہ اور عطا کیا کہ ان کے ہاتھ میں لوہا بغیر آگ میں رکھنے اور کوٹنے پیٹنے کے موم سا نرم ہو جاتا تھا۔ اس معجزے کے سبب سے حضرت داؤد ؑ لوہے کی زرہیں بنایا کرتے اور باوجود ثروت سلطنت کے اسی کام کیا جرت سے اپنا خرچ کرتے تھے۔ حضرت داؤد ؑ نے چالیس برس سلطنت کر کے ستر برس کی عمر میں انتقال کیا۔ حضرت سلیمان ؑ حضرت داؤد ؑ کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان ؑ بارہ برس کی عمر میں تخت نشین ہوئے۔ یہ بادشاہ بھی سلطنت اور نبوت کے جامع تھے اور حاکم حقیقی نے ان کو اس قدر حکم اور ملک عطا کیا تھا کہ ایسا کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ چنانچہ اور وحوش و طیور اور ہوا کو ان کا فرمانبردار کیا اور اسی سبب سے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بہت جلدی سے چلے جاتے تھے۔ حضرت داؤد ؑ نے اپنی زندگی میں بیت المقدس کی بنیاد ڈالی تھی، مگر حضرت سلیمان ؑ نے اس کی تعمیر کامل کی۔ چنانچہ انہوں نے سفید، سبز اور زرد پتھروں سے مسجد کی چار دیواری بنوائی اور چاندی، سونا، موتی، لعل، یاقوت، فیروزہ اور طرح طرح کے جواہر بیش قیمت اس کی چھت میں جڑوائے کہ جن کی چمک سے وہ عبادت خانہ اندھیری رات میں روز روشن کی مانند منور معلوم ہوتا تھا۔ روے زمین کے تمام بادشاہوں نے حضرت سلیمان ؑ کی اطاعت اختیار کی اور بلقیس جو شہر سبا کی ملکہ تھی، وہ بھی حضرت سلیمان ؑ کے پاس آئی اور ایمان لائی۔ پھر حضرت سلیمان ؑ سے اس کا نکاح ہو گیا۔ یہ بادشاہ چالیس برس سلطنت کر کے اٹھاون برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آصف ابن برخیا ان کا وزیر تھا اور بڑا عاقل اور صاحب تدبیر تھا۔ حضرت یونس ؑ حضرت یونس ؑ مشہور پیغمبروں میں سے ہیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں شہر نینوا کے لوگوں کی رہبری کے واسطے بھیجا۔ حضرت یونس ؑ نے انہیں بت پرستی سے منع کیا اور دین موسوی کی ہدایت کی مگر وہ لوگ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے۔ اس واسطے حضرت یونس ؑ نے فرمایا کہ اگر تم توبہ نہ کرو گے تو تم پر عذاب نازل ہو گا اور خفا ہو کر اپنے اہل و عیال سمیت وہاں سے نکل گئے اور کسی پہاڑ میں مقام کیا۔ ان کے جانے کے بعد شہر والوں نے بارگاہ الٰہی میں رجوع کر کے بہت عجز و نیاز سے توبہ کی۔ ہر ایک نے عیش و آرام چھوڑ کر ٹاٹ کے کپڑے پہنے او رسب کے سب خدا پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم فرما کر ان سے عذاب دفع کر دیا۔ حضرت یونس ؑ کو اس امر کی مطلق اطلاع نہ ہوئی اور وہ قوم کا حال دریافت کرنے کو شہر کی طرف متوجہ ہوئے۔ رستے میں شیطان نے ان کو بہکا دیا کہ نینوا والوں پر عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر تم وہاں جاؤ گے تو لوگ تمہیں جھٹلائیں گے۔ اس سبب سے حضرت یونس ؑ شہر نینوا میں نہ گئے بلکہ دل برداشتہ ہو کر کسی اور سمت کو روانہ ہوئے اور دریا پر پہنچ کر ایک کشتی میں ہو بیٹھے۔ اتفاقاً چلتے چلتے کشتی دریا میں ٹھہر گئی۔ ملاح نے کہا کہ اس کشتی میں کوئی بندہ اپنے خداوند سے بھاگ کر بیٹھا ہے، اس واسطے کشتی اٹک رہی ہے اور حضرت یونس ؑ پر ان کے جمال و جلال کے سبب سے اس امر کا خیال بھی نہ گزرا، مگر انہوں نے خود ہی کہا کہ وہ بندہ میں ہی ہوں، مجھے دریا میں پھینک دو۔ کشتی والوں نے بہت عذر کیا، انجام کار ناچار ہو کر دریا میں ڈال دیا۔ حکم الٰہی سے ایک مچھلی ان کو نگل گئی۔ اس وقت جناب باری سے مچھلی کو ارشاد ہوا کہ ہم نے یونس ؑ کو تیرے پیٹ کا لقمہ نہیں کیا ہے بلکہ تیرے پیٹ کو اس کا قید خانہ بنایا ہے۔ خبردار اسے کچھ آسیب نہ پہنچے۔ حضرت یونس ؑ خدا کی قدرت سے کچھ عرصے تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور قادر مطلق نے اپنی حکمت سے حضرت یونس ؑ کے واسطے مچھلی کا پیٹ ایسا شفاف بنا دیا کہ وہ دریا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھتے اور تسبیح و استغفار میں مشغول رہتے۔ پھر حاکم حقیقی کے حکم سے مچھلی نے حضرت یونس ؑ کو دریا کے کنارے پر اگل دیا۔ وہاں فوراً ایک سبز درخت پیدا ہوا اور حضرت یونس ؑ نے اس کے سایے میں آرام پایا، مگر پھر وہ درخت خشک ہو گیا اور حضرت یونس ؑ پر شدت کی دھوپ پڑی، اس واسطے حضرت یونس ؑ کا دل اس درخت کے مرجھانے سے پژ مردہ ہوا اسی وقت حضرت جبرئیل ؑ آئے اور خدا کا پیغام لائے کہ اے یونس ؑ ! تجھے ایک درخت کے سوکھنے سے اس قدر غم ہوا، مجھے اپنی مخلوق کے تباہ ہونے کا کیوں نہ فکر ہوتا؟ حضرت یونس ؑ نے توبہ و استغفار کی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں مکرر ان کی قوم میں بھیجا۔ لوگ تو ان کے مشتاق ہی تھے، سب نے دیکھتے ہی ان کی بہت تعظیم و تکریم کی اور عزت و حرمت سے شہر نینوا میں لائے۔ ان کی برکت سے اس ملک میں آسودگی اور فراغ بالی ہو گئی اور وہ حکم الٰہی کے موافق دین و شریعت کی تعلیم میں مصروف ہوئے اور عمر بھر حق کی عبادت اور خلق کی ہدایت میں رہے۔ حضرت زکریا ؑ حضرت زکریا ؑ ابن باذان حضرت سلیمان ؑ ابن حضرت داؤد ؑ کی اولاد سے تھے اور یہ وہی شخص ہیں، جنہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں حضرت مریم ؑ بنت عمر ان کی پرورش کی تھی۔ حضرت مریم ؑ بھی حضرت سلیمان ؑ ابن حضرت داؤد ؑ کی نسل سے تھیں اور ان کی ماں کا نام حنہ تھا اور حنہ کی بہن کا نکاح حضرت زکریا ؑ سے ہوا تھا تو اس رشتے سے حضرت زکریا ؑ کی بیوی حضرت مریم ؑ کی خالہ ہوئیں اور اسی باعث سے حضرت زکریا ؑ حضرت مریم ؑ کی پرورش کے کفیل ہوئے۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت مریمؑ کی ماں حنہ نے نذر مانی تھی کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے بیٹا دے گا تو میں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد کر کے خالق کی عبادت کے واسطے بیت المقدس میں رکھوں گی اور وہ وہاں کی خدمت کیا کرے گا۔ خدا کی قدرت سے اسے حمل رہا اور اس کا خاوند عمران اسے حالت حمل میں چھوڑ کر مر گیا۔ جب حمل کے دن پورے ہو چکے تو اس کے ہاں یہی لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مریم ؑ تھا۔ اگرچہ حنہ کو اس وقت کچھ فکر لاحق ہوا اور اس نے جناب باری میں عرض کی کہ یہ لڑکی ہے اور لڑکی بیت المقدس کی خدمت کیا کر سکے گی؟ مگر پھر بھی اسے علمائے یہود کے پاس مسجد میں لا کر خدا کی نذر کر دیا۔ اس زمانے میں سب کے پیغمبر اور پیشوا حضرت زکریا ؑ تھے اور ان پر حضرت مریم ؑ کی پرورش کرنے کا حق بھی تھا۔ وہ حضرت مریم ؑ کو ان کی خالہ یعنی اپنی بیوی کے پاس لے گئے اور وہاں انہوں نے پرورش پائی۔ جب حضرت مریم ؑ بڑی ہوئیں تو حضرت زکریا ؑ ان کو مسجد میں لائے اور معبود حقیقی کی عبادت کے واسطے ایک علیحدہ حجرے میں بٹھا دیا اور وہاں حضرت زکریا ؑ کے سوا ان کے پاس کوئی نہ جاتا تھا۔ حضرت زکریاؑ کو اپنے ہاں بیٹا ہونے کی بڑی آرزو تھی اور بارگاہ الٰہی میں اس امر کی درخواست کیا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور حضرت جبرئیل ؑ نے ان سے آ کر کہا ’’ خدا تعالیٰ تمہیں ایک بیٹے یحییٰ ؑ نامی کی خوشخبری دیتا ہے، جو خدا کے کلمے (28) یعنی عیسیٰ ؑ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور نفس کش اور نبی ہو گا۔‘‘ حضرت زکریا ؑ نے کہا ’’ میرے ہاں کیوں کر بیٹاپیدا ہو سکتا ہے؟ میری بیوی بانجھ ہے اور میں ضعیف ہوں۔‘‘ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا ’’ خدا تعالیٰ سب شے پر قادر ہے۔‘‘ القصہ حضرت زکریا ؑ کی بیوی کو حمل رہا اور اس امر کے کئی مہینے بعد یہ اتفاق ہوا کہ ایک دن حضرت مریم ؑ اپنی خالہ کے ہاں گئیں، وہاں حکم الٰہی کے موافق حضرت جبرئیل ؑ ان کے پاس آئے۔ حضرت مریم ؑ انہیں دیکھ کر شرمائیں حضرت جبرئیل ؑ نے کہا ’’ مجھ سے کچھ اندیشہ نہ کرنا چاہیے میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا بخشنے آیا ہوں۔‘‘ حضرت مریم بولیں ’’ میرے ہاں کیوں کر بیٹا پیدا ہو گا؟ مجھے آج تک کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا ’’ تیرے خدا نے فرمایا ہے کہ بغیر باپ کے بیٹا پیدا کرنا آسان ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت جبرئیل ؑ نے حضرت مریم ؑ کے جسم میں حضرت عیسیٰ ؑ کی روح پھونک دی۔ حضرت زکریا ؑ کے بیٹے حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ ؑ سے چند مہینے پہلے پیدا ہوئے اور پھر خدا کی قدرت سے حضرت مریم ؑ کے بیٹے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت یحییٰ ؑ حضرت یحییٰ ؑ ابھی بچہ ہی تھے کہ خدا کی اطاعت میں محنت اور مشقت کیا کرتے اور اکثر بیت المقدس میں جا کر عبادت میں مشغول ہوتے اور گریہ و زاری کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ ؑ کو چھوٹی سی عمر میں نبوت عطا کی اور وہ خلق کو ہدایت او رنصیحت کرنے لگے اور بہت سے لوگوں کو دین حق پر لائے۔ حضرت یحییٰ ؑ کے وقت میں یہودیوںکے حاکم نے جس کا لقب ہردوس تھا، ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہا اور وہ لڑکی اس کی ایسی قریب رشتہ دار تھی کہ شرع کے موافق دونوں کا نکاح ناجائز تھا۔ اس واسطے حضرت یحییٰ ؑ نے اس حاکم کو نکاح سے منع کیا۔ یہ امر لڑکی اور اس کی ماں کی ناراضی کا باعث ہوا اور دونوں حضرت یحییٰ ؑ کے قتل کے درپے ہوئیں اور ہردوس کو ان کی طرف سے بہکاتی رہیں۔ آخر ایک روز ہردوس نے شراب کی مستی میں اس لڑکی کے کہنے سے حضرت یحییٰ ؑ کو قتل کروا ڈالا اور وہ تیس برس کی عمر میں شہید ہوئے۔ حضرت عیسیٰ ؑ مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ کو بہت بڑا نبی جانتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ حضرت مریم ؑ گناہ سے بری اور خدا کے نزدیک برگزیدہ تھیں اور حضرت عیسیٰ ؑ کا پیدا ہونا معجزے سے خالی نہ تھا، چنانچہ قرآن میں یہ بات مفصل لکھی ہے اہل اسلام حضرت عیسیٰ ؑ کے صرف انہیں معجزوں پر اعتقاد نہیں رکھتے جو انجیل میں بیان کیے گئے ہیں بلکہ ان کے سوا اور بھی بہت سے معجزے مانتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ مقام بیت اللحم میں جو بیت المقدس کے پاس ایک گاؤں ہے، پیدا ہوئے، حضرت مریم ؑ کو پہلے ہی سے اندیشہ تھا کہ اگر لوگ مجھ سے پوچھیں گے کہ یہ بچہ کہاں سے لائی ہو تو میں کیا جواب دوں گی؟ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کی قوم کے آدمی ان کو تلاش کرتے ہوئے آ پہنچے اور پوچھا کہ اے ہارون (29)کی بہن! تو نے یہ کیا کام کیا اور یہ بچہ کہاں سے لائی؟ حضرت مریم ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے دریافت کر لو۔ خدا کی قدرت سے حضرت عیسیٰ ؑ اسی وقت بول اٹھے کہ میں خدا کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبوت عطا کی ہے۔ آخر یہ معجزہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت مریم ؑ کو چھوڑ دیا اور ان کو بیت المقدس میں لائے۔ اس کے بعد حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰ ؑ کو لے کر مصر کو چلی گئیں او ربارہ برس تک وہیں رہیں۔ پھر ملک شام میں آ کر ناصرہ میں ٹھہریں۔ حضرت عیسیٰ ؑ قریب تیس برس کی عمر تک وہیں مقیم رہے بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی اور ان کو خلق کی رہبری کے واسطے ارشاد کیا اور کتاب انجیل ان کو عنایت کی۔ مسلمانوں کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ کی عمر قریب تیس برس کے ہوئی تو وہ نہر آرون کی طرف گئے جس کا نام شریعہ بھی ہے اور وہاں لوگوں کو ہدایت کر کے خدا کی طرف متوجہ کیا۔ اسی نہر میں حضرت یحییٰ ؑ پیغمبر نے دستور کے موافق حضرت عیسیٰ ؑ کو غوطہ دے کر اپنے مریدوں میں داخل کیا تھا اور اس وقت حضرت یحییٰ کی وفات کا زمانہ قریب تھا۔ جب حضرت عیسیٰ ؑ وعظ اور نصیحت میں مصروف ہوئے تو انہوں نے اپنی نبوت کی تصدیق کے واسطے خلق اللہ کو معجزے دکھائے چنانچہ مردے کو زندہ کرنا، مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں روح ڈالنا، اندھوں اور جذامیوں کو شفا دینا، پانی پر چلنا اور بہت سے معجزے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیے تھے لوگوں کے سامنے ظاہر کیے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے بڑے مصاحب اور مددگار بارہ آدمی تھے جو حواری (30)کہلاتے ہیں! اور یہ لوگ اکثر ان کے ساتھ رہتے تھے اور ہر امر میں ان کی اطاعت کرتے تھے۔ ایک روز سفر میں انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے ایک آسمانی خوان کی درخواست کی۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے نماز دو رکعتیں پڑھ کر خدا تعالیٰ سے اس امر کا سوال کیا۔ جناب باری میں ان کی دعا قبول ہوئی اور آسمان سے ایک خوان جس میں قسم قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے، نازل ہوا۔ سب لوگوں نے اس خوان میں کھانا کھایا اور لذیذ چیزوں سے مزہ اٹھایا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک بدستور خوان اترتا رہا اور لوگوں کا پیٹ طرح طرح کی نعمتوں سے بھرتا رہا مگر پھر گمراہوں کا فرقہ شک اور کفران نعمت کی طرف مائل ہوا اس واسطے بجائے خوان کے ان پر عذاب نازل ہوا۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں یہودیوں کا کوئی حاکم بڑا گردن کش اور ظالم سرکش تھا حضرت عیسیٰ ؑ نے اسے اپنے دین کی ہدایت کی مگر وہ باز نہ آیا بلکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے قتل کرنے کے درپے ہوا۔ اس واسطے حضرت عیسیٰ ؑ روپوش ہو گئے اور انہوں نے اپنے حواریوں کو بلا کر وصیت کی کہ میرے بعد قبیلہ قریش سے ایک عربی نبی پیدا ہو گا۔ تم اپنی اولاد کو نسلاً بعد نسل اور بطنا بعد بطن وصیت کرتے جاؤ کہ جو کوئی اس وقت موجود ہو اس پر ایمان لائے اور اس کا دین اختیار کرے اور علاوہ اس کے اور بھی بہت سی نصیحت کی باتیں ان کے روبرو بیان کیں۔ بعد ازاں ان کا ایک حواری جسے یہود اسقریوطی کہتے تھے ان سے پھر گیا اور اس نے یہودیوں کے حاکم کے پاس جا کر کہا کہ اگر میں عیسیٰ ؑ کا پتا بتا دوں تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟ اس نے کہا تیس درہم۔ یہودا راضی ہو گیا اور اس نے تیس درہم لے کر حضرت عیسیٰ ؑ کا نشان بتا دیا۔ یہودی لوگ تو حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمن ہی تھے۔ انہوں نے ان کو سولی پر چڑھانے پر مصمم ارادہ کیا۔ حاکم مطلق کے حکم سے حضرت جبرئیل ؑ فرشتہ نازل ہوئے اور وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر لے گئے اور مخبر کی شکل بعینہ حضرت عیسیٰ ؑ کی سی بن گئی۔ یہودی لوگ اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے حاکم کے پاس لے گئے اور رستے میں اس کی بہت حقارت کرتے گئے۔ کوئی اس کے منہ پر طمانچے مارتا تھا کوئی سر پر کانٹے پھینکتا تھا، کوئی کہتا تھا ’’ آپ تو مردے زندہ کرتے تھے، ہم سے اپنے تئیں کیوں نہیں چھڑا لیتے؟‘‘ یہودا نے ہرچند قسمیں کھائیں کہ میں عیسیٰ ؑ نہیں ہوں مگر انہوں نے اس کی بات تسلیم نہ کی اور کشاں کشاں اپنے حاکم کے پاس لے جا کر اسے سولی پر چڑھا دیا۔ پھر حضرت عیسیٰ ؑ کے کسی رشتہ دار نے پیلاطوس سے جو شاہ روم کی طرف سے یہودیوں کا حاکم تھا، اس کا جنازہ مانگ کر ایک قبر میں دفن کر دیا۔ اسماعیل ابو الفدا نے اپنی عربی تاریخ میں جس کا نام المختصر فی اخبارا البشر ہے، لکھا ہے کہ اس واقعے کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے اتر کر اپنی ماں مریم کے روبرو ظاہر ہوئے۔ وہ یہودا کی قبر کو اپنے بیٹے کی قبر سمجھ کر رو رہی تھیں حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا ’’ مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا ہے میں اچھی طرح ہوں دل جمعی رکھو اور میرے حواریوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔‘‘ انہوں نے حواریوں کو اکٹھا کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ان سے کہا ’’ تم روے زمین پر پھیل کر لوگوں کو ہدایت کرو اور انجیل کی منادی کے واسطے جدا جدا مقاموں پر جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر آسمان کی طرف چلے گئے اور حواری ان کے حکم کے موافق علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ اس کے بعد متی، لوقا، مرقس اور یوحنا نے ایک ایک انجیل مرتب کی۔ مسلمان لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ جانتے ہیں اور زمین پر ان کے دوبارہ آنے کے قائل ہیں۔ چنانچہ ان کی کتابوں میں قیامت کے آثار میں لکھا ہے کہ اول نصاریٰ کا خوب غلبہ ہو گا۔ پھر ایک شخص اسلامی امام مہدی نامی کی پیدائش ہو گی اور وہ مذہب اسلام کو بڑی رونق دیں گے۔ اس وقت ایک کافر جس کا نام دجال مشہور ہے، ظاہر ہو کر طرح طرح کے فریبوں سے لوگوں کو کفر کی ترغیب دے گا اور ان سے اپنی اطاعت اور عبادت کا اقرار کرانا چاہے گا۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ بھی آسمان سے اتر کر دین محمدی میں شامل ہوں گے اور حضرت امام مہدی کے ساتھ مل کر دجال اور اس کے رفیقوں کے دفع کرنے اور مذہب اسلام کے پھیلانے میں نہایت کوشش کریں گے، یہاں تک کہ سب لوگ دین محمدی اختیار کریں گے اور اس مذہب کو کمال ترقی و رونق ہو گی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد قیامت کا ہنگامہ برپا ہو گا۔ مسلمان اس امر کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد ؐ کے بیچ میں جو زمانہ تھا، اس میں دین عیسوی بجا اور درست رہا او ربہت سے دین دار عیسائیوں کو جو حضرت محمد ؐ سے پہلے تھے، معظم و مکرم جانتے ہیں اور ان کی خدا پرستی اور حسن عمل کے قائل ہیں، چنانچہ صحاب کہف (31) اور گڑھے کے شہیدوں(32)کو جن کا حال قرآن میں بھی لکھا ہوا ہے، برحق سمجھتے ہیں اور برجیس (33) اور بہت سے عیسائیوں کی توقیر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصحاب کہف ملک شام کے باشندے اور مذہب کے عیسائی تھے۔د قیانوس بادشاہ نے جو کافر تھا، انہیں قتل کرنا چاہا۔ اس سبب سے وہ کسی پہاڑ کے غار میں جا چھپے اور ایک کتے نے ان کے ساتھ بہت رفاقت کی بلکہ وہی رستہ دکھاتا ہوا انہیں غار تک لے پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب پر ایسا خواب غالب کر دیا کہ وہ مدت تک غار میں سوتے رہے۔ گڑھے کے شہیدوں کی نسبت یہ لکھا ہے کہ کوئی کافر بادشاہ عیسائیوں سے بڑی عداوت رکھتا تھا۔ اس نے ایک عیسائی لڑکے کو جس سے بڑی بڑی کرامتیں ظاہر ہوئی تھیں، شہید کیا۔ کچھ آدمی اس کی کرامتیں دیکھ کر ایمان لائے۔ بادشاہ اور اس کے رفیقوں نے زمین پر لمبا گڑھا کھدوا اور اسے آگ سے بھروا، ان آدمیوں کو وہاں ڈلوا دیا۔ یہی لوگ گڑھے کے شہید ہیں اور بادشاہ اور ان کے رفیق جنہوں نے گڑھا کھدوا کر ان عیسائیوں کو آگ میں ڈلوایا تھا، اصحاب اخدود (34) کہلاتے ہیں اور قرآن میں ان لوگوں پر لعنت لکھی ہے۔ جرجیس کا ذکر اہل اسلام کی کتابوں میں اس طرح پایا جاتا ہے کہ وہ روم میں پیدا ہوئے تھے اور فلسطین میں رہتے تھے۔ انہوں نے موصل کے بادشاہ کو جو بت پرست تھا، دین عیسائی کی ہدایت کی۔ وہ باز نہ آیا بلکہ جرجیس سے بت پرستی کرانی چاہی۔ جرجیس نے نہ مانا۔ بادشاہ نے سیخیں گرم کر کے ان کی بدن میں چبھوئیں اور طرح طرح کی سخت تکلیفیں دیں، مگر اس امر میں ان سے بڑی بڑی کرامتیں ظاہر ہوئیں اور اپنے مذہب پر قائم رہے۔ حضرت محمد ؐ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت آدم ؑ کے وقت سے حضرت ابو القاسم (35) محمد ؐ کے زمانے تک جتنے نبی پیدا ہوئے، وہ اپنی اپنی امت سے حضرت محمد ؐ کے اوصاف بیان کرتے رہے اور خدا تعالیٰ نے جو کتابیوں پیغمبروں پر نازل کیں، ان سب میں حضرت محمد ؐ کی علامتوں اور فضیلتوں سے انبیاء کو واقف کیا۔ اہل اسلام کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کا سا صبر حضرت ابراہیم ؑ کی سی مہمان نوازی، حضرت یوسف ؑ کا سا حسن، حضرت یونس ؑ کی سی عبادت اور علیٰ ہذا القیاس اور پیغمبروں کی تمام صفتیں عنایت کی تھیں اور جو جو اوصاف ہر ایک نبی میں علیحدہ علیحدہ تھے حضرت محمد ؐ کی ذات میں سب جمع ہو گئے تھے بلکہ حضرت محمد ؐ ان اوصاف میں بھی سب پر غالب تھے، کیوں کہ ان کا حسن حضرت یوسف ؑ کے حسن سے بھی زیادہ بیان کرتے ہیں اور لکھا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ ؑ نے کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے کلام کیا تو حضرت محمد ؐ نے معراج میں خلوت گاہ خاص میں جا کر گفتگو کی اور ان کو وہ قرب حاصل ہوا کہ کسی فرشتے یا نبی کو نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں کے ہاں حضرت محمد ؐ کے معجزے نہایت کثرت سے لکھے ہیں اور وہ تمام پیغمبروں کا سردار اور نبی آخر الزماں جانتے ہیں اور اسی واسطے ان کی کتابوں میں علاوہ اور لقبوں کے ان کا لقب سید المرسلین اور خاتم النبین بھی لکھا ہے اور خیر البشر بھی حضرت محمد ؐ ہی سے مراد ہے۔ یہ لوگ جس وقت حضرت محمد ؐ کا نام لیتے یا سنتے ہیں، اس وقت درود پڑھتے ہیں اور اس سبب سے ان کا اعتقاد تمام انبیاء ؑ پر ہے۔ حضرت محمد ؐ کے ساتھ اکثر اور پیغمبروں کو بھی درود میں شامل کر لیتے ہیں۔ حضرت محمد ؐ سنہ 569ء میں جب کہ فارس کا بادشاہ نوشیرواں تھا، شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ قریش (36) کے قبیلے اور ہاشم کے خاندان سے تھے اور چاہ زمزم کا اہتمام اور کعبے کا انتظام ان کے ہاں موروثی چلا آتا تھا ۔ حضرت محمد ؐ کے باپ عبداللہ قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے تھے اس واسطے ان کی ماں نے ان کی پرورش میں کوشش کی اور جب حضرت محمد ؐ کی عمر چھ برس کی ہوئی تو ان کی ماں بھی اس جہان سے انتقال کر گئیں اور ان کے دادا عبدالمطلب جو ہاشم کے بیٹے تھے ان کی پرورش کرتے رہے۔ دو برس کے بعد وہ بھی مر گئے اور انہوں نے حضرت محمد ؐ کی تربیت ابو طالب کو جو عبداللہ کے حقیقی بھائی اور قوم قریش میں سے ایک زبردست سردار تھے، سپرد کی اور وہ ان کو اپنے فرزند سے زیادہ سمجھ کر خوب اچھی طرح تربیت کرتے رہے۔ مسلمان بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو ظاہر کیا تو حضرت محمد ؐ کا نور جو تمام مخلوقات سے پہلے پیدا ہوا تھا، ان کی پیشانی میں رکھا۔ پھر وہ نور حضرت شیث ؑ پیغمبر کے حصے میں آیا۔ بعد ازاں حضرت نوحؑ کی پیشانی میں چمکا اور حضرت نوح ؑ سے ان کے بیٹے حضرت سام ؑ کو عنایت ہوا۔ اسی طرح نقل کرتا ہوا حضرت ابراہیم ؑ کی پیشانی میں روشن ہوا اور حضرت ابراہیم ؑ سے حضرت اسماعیل ؑ کو مرحمت ہوا اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں منتقل ہوتے ہوتے عبد المناف (37)کے چہرے پر رونق افروز ہوا اور اس سے ہاشم (37a) پر اور ہاشم سے عبدالمطلب (37b) پر اور عبدالمطلب سے حضرت محمد ؐ کے باپ عبداللہ پر نازل ہوا۔ مسلمانوں کا قول ہے کہ جب حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے تو تمام بت سرنگوں ہو گئے اور فارس کا آتش خانہ جو ہزار برس سے کبھی نہ بجھا تھا بالکل بجھ گیا اور اسی طرح اور بہت سے عجیب امر ظاہر ہوئے۔ جب حضرت محمد ؐ کی عمر بارہ برس کی ہوئی تو ابو طالب نے جو تجارت کے واسطے ملک شام کی طرف جاتے تھے، ان کو بھی اپنے ساتھ لیا اور قافلے والوں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ مسلمان کہتے ہیں کہ جب وہ اس سفر میں شہر بصریٰ (38)کے پاس پہنچے تو وہاں کسی صومعے (39)میں بحیرا نامی ایک راہب (40) سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ آسمانی صحفیوں سے خوب واقف تھا۔ حضرت محمد ؐ کو دیکھتے ہی ان کے آثار سے جان گیا کہ یہی نبی آخر الزمان ہیں اور ابو طالب سے کہا کہ اس لڑکے میں نبوت کی علامتیں ظاہر معلوم ہوتی ہیں، تما نہیں لے کر الٹے چلے جاؤ۔ یہودی ان کے دشمن ہیں، ایسا نہ ہو مار ڈالیں۔ ابو طالب نے راہب کی بات مان لی اور وہیں بصریٰ میں اپنا مال بیچ کر الٹے مکے کو چلے گئے۔ پھر حضرت محمد ؐ کی دیانت اور امانت کی بہت شہرت ہوئی اور رفتہ رفتہ یہ بات حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد تک جو قوم قریش میں بڑی عزت دار اور دولت مند عورت تھیں، پہنچی۔ انہوں نے حضرت محمد ؐ سے کہا کہ آپ میری طرف سے ملک شام کو تجارت کے واسطے جائیے اورمیرے غلام میسرہ نامی کو اپنے ساتھ لیجئے۔ حضرت محمد ؐ نے منظورکر لیا اور وہ میسرہ کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ جب بحیرا راہب کی منزل میں پہنچے تو وہ عالم عقبیٰ کو روانہ ہو گیا تھا اور سطورا نامی ایک راہب اس کی جگہ مسند نشیں تھا۔ا سے بھی آسمانی کتابوں سے خوب واقفیت تھی اور وہ نبی آخر الزمان کا بھی حال جانتا تھا۔ اس لیے میسرہ سے کہا کہ میں مدت سے اس جمال کے دیکھنے کا منتظر تھا، آج میری آرزو حاصل ہوئی، لیکن تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ شام جانے کا ارادہ نہ کر اور ان کی خدمت اپنی سعادت سمجھ کر، انہیں الٹا لے جا کیوں کہ شام کے یہودی ان کے دشمن ہیں۔ حضرت محمد ؐ بصریٰ میں حضرت خدیجہ ؓ کا مال بیچ کر میسرہ کے ساتھ مکے کو روانہ ہوئے اور حضرت خدیجہؓ کے پاس جا کر مال کے بیچنے کا حال بیان کیا۔ حضرت خدیجہ ؓ ان سے بہت خوش ہوئیں اور میسرہ نے ان کی بہت تعریف کی۔ مسلمان کہتے ہیں کہ اس نے حضرت خدیجہ ؓ سے حضرت محمد ؐ کی کرامتوں کا حال بیان کیا اور کہا کہ اکثر دیکھنے میں آیا کہ دھوپ کی شدت کے وقت دو فرشتے حضرت محمد ؐ پر سایہ کرتے چلتے تھے اور سطورا کا کلام بھی جو کچھ سنا تھا، ان کے روبرو نقل کیا۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے حضرت محمد ؐ سے نکاح کرنا چاہا اور حضرت محمد ؐ نے یہ بات منظور کر لی اور ہر چند قوم قریش کے اور بھی اچھے اچھے سردار حضرت خدیجہ ؓ کے حسن اور شرافت اور مال کے سبب سے ان کے نکاح کے خواہاں تھے مگر انہوں نے حضرت محمد ؐ کو سب پر ترجیح دی۔ اس نکاح کے وقت حضرت محمد ؐ کو پچیسواں برس تھا اور حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال کی تھی اور اس سے پہلے ان کے دو نکاح ہو چکے تھے اور اب وہ بیوہ تھیں۔ حضرت محمد ؐ اور حضرت خدیجہ ؓ میں کمال اتحاد رہا اور دونوں آپس میں ایک دوسرے سے شفقت او رمحبت کرتے تھے۔ حضرت محمد ؐ کے ہاں حضرت خدیجہ ؓ سے چار بیٹیاں اور کئی بیٹے پیدا ہوئے مگر بیٹوں نے چھوٹی سی عمر میں اس جہان سے انتقال کیا اور حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں حضرت محمد ؐ نے دوسرا نکاح نہیں کیا لیکن پھر ان کے کئی نکاح ہوئی اور آخر کار دس بیویاں ہو گئیں۔ ان میں سے ایک نے حضرت محمد ؐ کی حیات ہی میں وفات پائی اور نو باقی رہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد حضرت محمد ؐ کی بیویوں میں سے حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہ ؓ کو سب پر ترجیح تھی۔ جب حضرت محمد ؐ کو پینتیسواں برس شروع ہوا تو قوم قریش نے از سر نو کعبے کی تعمیر شروع کی اور حضرت محمد ؐ بھی اس کے بنانے میں شریک تھے، چنانچہ اس بنا کے وقت حجر اسود انہوں نے اپنے ہاتھ سے رکھا تھا۔ اس تعمیر میں کسی خاص سبب سے کعبے کا ایک مغربی ٹکڑا جسے حطیم کہتے ہیں پہلی بنا سے باہر رہ گیا تھا مگر مسلمان طواف کرتے وقت اسے بھی شامل کر لیتے ہیں۔ بچپن ہی سے حضرت محمد ؐ کی طبیعت غور و فکر کی طرف مائل تھی اور ان کو تنہا بیٹھ کر خدا کا دھیان کرنا بہت پسند تھا انجام کار ان کا یہ دستور ہو گیا کہ وہ اپنا توشہ لے کر کوہ حرا میں جو مکے کے قریب ہے، چلے جایا کرتے اور وہاں کسی غار میں بیٹھ کر مدت تک مراقبے (41) میں رہا کرتے۔ جب ان کی عمر چالیس برس کی ہوئی تو وہ اپنی عادت کے موافق کوہ حرا میں جا کر اعتکاف (42) میں مشغول ہوئے۔ اہل اسلام بیان کرتے ہیں کہ اس مرتبہ حضرت جبرئیل ؑ فرشتے ان کے پاس وحی لے کر آئے اور کہا کہ اے محمد ؐ پڑھ۔ حضرت محمد ؐ نے کہا ’’ کیا پڑھوں؟‘‘ انہوں نے سورہ حلق (43) بتائی اور تین دفعہ حضرت محمد ؐ کو اپنے جسم سے لگا کر بھینچا۔ اس عمل سے حضرت محمدؐ کو تمام علم لدنی (44) حاصل ہو گیا اور انہوں نے حضرت جبرئیل ؑ کی تعلیم کے موافق سورہ حلق پڑھائی پھر حضرت جبرئیل ؑ نے وہاں ایک پانی کا چشمہ پیدا کیا اور حضرت محمد ؐ کو وضو کرنا بتایا اور نماز کی دو رکعتیں پڑھائیں۔ حضرت محمد ؐ نے یہ حال حضرت خدیجہؓ سے آ کر بیان کیا۔ انہوں نے کہا مجھے امید ہے کہ آپ اس امت کے نبی ہوں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ ابن نوفل کے پاس لے گئیں اور اس کے روبرو سارا ذکر کیا۔ اہل اسلام کا مقولہ ہے کہ ورقہ ابن نوفل آسمانی صحیفوں سے خوب آگاہ تھا اور توریت اور انجیل کا عربی میں ترجمہ کیا کرتا تھا۔ علاوہ اس کے بڑے بڑے یہودی اور عیسائی فاضلوں سے حضرت محمد ؐ کی نبوت کی خبر پائی تھی۔ یہ حال سن کر بولا ’’ اے محمد ؐ! تمہیں مبارک ہو۔ جبرئیل ؑ فرشتے جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور پیغمبروں پر نازل ہوا کرتے تھے اب تمہارے پاس وحی لے کر آئے۔ یقین جانو کہ تم نبی آخر الزمان ہو۔‘‘ کچھ عرصے کے بعد پھر وحی نازل ہوئی اور متواتر آتی رہی حضرت جبرئیل ؑ خدا کے احکام حضرت محمد ؐ کے پاس پہنچاتے رہے اور حضرت محمد ؐ لوگوں کو خدا کی عبادت اور توحید کی طرف ترغیب دیتے رہے۔ سب سے پہلے حضرت محمد ؐ کی بیوی حضرت خدیجہ ؓ ایمان لائیں۔ اسی واسطے مسلمانوں کے ہاں حدیث میں ان کی بزرگی کا حال مذکور ہے اور لکھا ہے کہ عورتوں میں چار کا بہت بڑا رتبہ ہوا ہے۔ فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ عمران کی بیٹی حضرت مریم ؑ جو حضرت عیسیٰ ؑ کی ماں تھیں، خویلد کی بیٹی حضرت خدیجہؓ حضرت محمد ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ حضرت خدیجہؓ کے بعد لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ جو حضرت محمد ؐ کے چچا ابو طالب کے بیٹے اور عمر میں نو برس کے تھے، مسلمان ہوئے اور جوانوں میں حضرت ابوبکرؓ نے جو قبیلہ قریش میں ایک بڑے شریف اور نامی آدمی تھے، اسلام اختیار کیا ان کے بعد حضرت عثمانؓ بن عفان، عبدالرحمانؓ ابن عوف، سعدؓ ابن ابی وقاص، زبیرؓ ابن العوام اور طلحہؓ ابن عبداللہ جو قریش میں بڑے شریف اور معزز سردار تھے۔ مسلمان ہوئے اور پھر اور لوگ بھی اس دین میں شامل ہوتے گئے۔ جب تک حضرت محمد ؐ صرف مذہب اسلام کی خوبی اور بھلائی بیان کرتے رہے اور بتوں کی مذمت اور برائی کے درپے نہ ہوئے تب تک دین اسلام کے مخالف بھی ان سے سختی سے پیش نہ آئے اور طنز سے کہتے رہے کہ عبدالمطلب کا پوتا آسمانی خبریں دیتا ہے مگر جس وقت حضرت محمد ؐ نے ان کے جھوٹے معبودوں کو الزام لگایا اور بتوں کے عیب نکالنے شروع کیے، اس وقت سے قریش کے بت پرست اور قبائل عرب کے بڑے بڑے سردار حضرت محمد ؐ اور ان کے اصحاب کے دشمن ہو گئے اور انہوں نے مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیف دینی شروع کی۔ اس عرصے میں حضرت محمد ؐ کے چچا جن کا نام حضرت حمزہ ؓ تھا ایمان لائے اور پھر حضرت عمرؓ ابن خطاب نے جو قوم قریش میں بڑے شریف اور زبردست سردار تھے، اسلام اختیار کیا۔ اس سبب سے دین محمدی کو زیادہ قوت حاصل ہو گئی۔ حضرت عمر بہت شجاع اور جری اور عالم و فاضل تھے اور قریش لوگ بڑے بڑے کاموں میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور ایسے امور میں ان کو اپنا پیشوا جانتے تھے، چنانچہ حضرت محمد ؐ کے دفع کرنے میں جو انہوں نے مشورہ کیا تھا، اس میں بھی حضرت عمرؓ ہی کو سب سے مقدم جانا تھا مگر وہ اپنی بہن سے سورۃ طہٰ (45) سن کر بے تاب ہو گئے اور بولے ’’ جس خدا کا یہ کلام ہے، لائق نہیں ہے کہ اس کی عبادت میں قصور کیا جائے‘‘ اور فی الفور (46) کلمہ پڑھنے لگے۔ پھر گردن میں تلوار ڈالے ہوئے حضرت محمد ؐ کے پاس گئے۔ حضرت محمد ؐ چالیس آدمیوں کے ساتھ صفا کے قریب کسی مکاون میں بیٹھے ہوئے تھے۔ا نہوں نے صحن تک حضرت عمرؓ کا استقبال کیا اور معانقہ کر کے کہا ’’ اے عمرؓ! کس ارادے سے آئے ہو۔ کیا قیامت تک لڑتے ہی رہو گے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’ اے رسول اللہ! میں مسلمان ہونے اور خدا اور اس کے نبی پر ایمان لانے آیا ہوں۔‘‘ یہ سن کر حضرت محمد ؐ بہت خوش ہوئے اور حضرت عمرؓ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور اہل مجلس نے اس قدر بلند آواز سے تکبیر کہی کہ اس کا غلغلہ مکے والوں کے کان تک پہنچا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت محمد ؐ سے کہا کہ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ لات (47) اور منات کی تو ظاہر پرستش ہو اور اسلام کا مذہب پوشیدہ رہے۔ آپ بے کھٹکے باہر نکل کر لوگوں کو ہدایت کیجئے۔ یہ سن کر حضرت محمد ؐ اپنے اصحاب سمیت خانہ کعبہ کی طرف چلے ۔ حضرت عمرؓ ننگی تلوار لیے ہوئے ان کے لیے آگے بڑھے۔ جب قریش نے حضرت عمرؓ کو دیکھا تو پوچھا ’’ تیرے پیچھے کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کلمہ پڑھا اور کہا ’’ حضرت محمد ؐ رسول اللہ ہیں۔ جو کوئی تم میں سے بے جا حرکت کرے گا تو یہ تلوار ہے اور اس کا خون ہے۔‘‘ حضرت محمد ؐ نے اس روز دل جمعی سے کعبے کا طواف کیا اور نماز آشکارا پڑھی اور اسلام کو بہت قوت حاصل ہوئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ نے خدا تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ الٰہی! عمرؓ ابن خطاب اور عمر ابن ہشام یعنی ابوجہل میں سے جو شخص تیرے نزدیک محبوب ہو، اس سے اسلام کو عزت دے۔ چنانچہ عمرؓ ابن خطاب مسلمان ہو گئے اور ابو جہل حالت کفر میں بدر (48) کی لڑائی میں مارا گیا۔ اس وقت حضرت محمد ؐ نے کہا ’’ خدا کا شکر ہے کہ اس امت کا فرعون مر گیا۔‘‘ جب قریش نے حضرت محمد ؐ کے اصحاب پر بہت ظلم کیا تو ان میں سے چند آدمی حضرت محمد ؐ کے کہنے کے موافق مکے سے ہجرت کر کے حبش میں نجاشی (49) بادشاہ کے پاس جو عیسائی تھا، چلے گئے۔ اس نے ان کی بہت خاطر داری کی اور مکان اترنے کو دیا مگر قریش نے بھی نجاشی کے پاس اپنے بڑے بڑے سردار بھیجے اور اس سے حضرت محمد ؐ کے اصحاب کو مانگا۔ نجاشی نے ان کی بات پر کچھ توجہ نہ کی اور ایک مسلمان بھی ان کے حوالے نہ کیا۔ پھر قریش نے نجاشی کو کہلا بھیجا کہ آپ نے ان کو اپنے پاس تو رکھا ہے مگر ان سے دریافت کیجئے کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ نجاشی نے ان سے یہ بات پوچھی ۔ مسلمانوں نے جواب دیا کہ جو خدا تعالیٰ (50) نے قرآن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حق فرمایا ہے، وہی ہم بھی کہتے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ ؑ جو مریم ؑ کے بیٹے ہیں، خدا کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جنہیں مریم ؑ کو دیا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں۔ نجاشی نے یہ مضمون تسلیم کیا۔ القصہ کچھ عرصے تک مسلمان وہاں رہے اور پھر ان میں سے چند آدمی مکے میں آ گئے۔ مسلمانوں کا بیان ہے کہ جب حضرت محمد ؐ کی نبوت کا دسواں سال شروع ہوا، ابو طالب نے اس جہان سے انتقال کیا اور اسی میں ان کی بیوی حضرت خدیجہ ؓ بھی عالم عقبیٰ کو روانہ ہوئیں۔ ان حادثوں سے حضرت محمد ؐ کو غم پر غم ہوا اور اسی سبب سے اس برس کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہتے ہیں۔ حضرت محمد ؐ حج کے موسم میں قبائل عرب کے روبرو اچھی طرح ظاہر ہو کر وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے اور ہر ایک قبیلے کی طرف متوجہ ہو کر کہا کرتے تھے کہ اے لوگو! خدا کی اطاعت کرو اور اسے واحد جانو اور اپنے جھوٹے معبودوں کی عبادت سے باز آؤ۔ جب نبوت کو گیارہواں سال شروع ہوا تو وہ اپنے دستور کے موافق قبائل عرب کے سامنے لوگوں کی ہدایت میں مصروف ہوئے۔ اتفاقاً شہر یثرب (51) کے چھ آدمی جو قبیلہ خزرج سے تھے، اس وقت حضرت محمد ؐ سے ملے۔ انہوں نے پہلے یہودیوں سے سنا تھا کہ ایک پیغمبر پیدا ہو گا اور اس کے ظہور کا وقت نزدیک آیا ہے۔ حضرت محمد ؐ کا کلام سنتے ہی بہت اعتقاد سے ایمان لائے اور پھر یثرب میں جا کر اس مذہب کی کیفیت اور حضرت محمد ؐ کی حقیقت بیان کی اور دین اسلام کی مدد کرنے میں ساعی ہوئے اور اسی سبب سے یہ لوگ اور اور مدینے والے جنہوں نے حضرت محمد ؐ کی مدد کی تھی، انصار کہلاتے ہیں۔ حضرت محمدؐ کی معراج کا بیان اہل اسلام کی کتابوں میں اس طرح لکھا ہے کہ نبوت کے بارہویں سال ایک روز رات کے وقت حضرت جبرئیل ؑ نے آکر حضرت محمد ؐ کو جگا دیا۔ وہ اٹھ کر کعبے کی مسجد میں گئے اور وضو کر کے سات بار طواف کیا۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ ایک براق لائے اور حضرت محمد ؐ کو اس پر بٹھا کر پہلے بیت المقدس کی طرف لے گئے۔ وہاں فرشتوں کی فوج حضرت محمد ؐ کے استقبال کو کھڑی تھی۔ سب نے ادب سے سلام کیا۔ حضرت محمد ؐ براق سے اترے اور جس حلقے سے اور پیغمبر اپنی سواری کے جانور باندھا کرتے تھے، اسی حلقے سے براق کو باندھا دیا اور مسجد میں نماز پڑھی۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ حضرت محمد ؐ کو آسمان پر لے گئے۔ وہاں انبیاء سے ان کی ملاقات ہوئی اور سب نے خوش ہو کر تعظیم و تکریم کی۔ اس کے بعد بہشت اور دوزخ کو ملاحظہ کیا۔ جب اور بھی عروج پر پہنچے تو حضرت جبرئیل ؑ نے رخصت چاہی اور کہا آج میں تمہارے سبب سے یہاں تک بھی آیا اور اس سے آگے جانے کی مجھے مجال نہیں ہے: اگر (52) یک سر موے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم القصہ حضرت محمد ؐ خلوت گاہ خاص میں پہنچے اور نور الٰہی کا بخوبی مشاہدہ کیا۔ ہزاروں باریک نکتے معلوم ہوئے۔ تمام مطلب اور مقصد خاطر خواہ درست ہوئے۔ وہاں سے رخصت ہو کر بیت المقدس اور پھر خواب گاہ میں آئے۔ اتفاقاً صبح کو ابوجہل سے ملاقات ہوئی اور اس سے معراج کا ذکر ہوا۔ ابوجہل نے حضرت ابوبکرؓ سے جا کر کہا ’’ اگر آج اپنے یار کی باتیں سنو تو تعجب کرو۔ وہ کہتا ہے میں ایک رات میں بیت المقدس اور بڑے بڑے مقاموں میں ہو آیا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ بولے ’’ میں حضرت محمد ؐ کی نسبت اس سے بھی زیادہ باتوں کا اعتقاد رکھتا ہوں۔ اگر یہ امر پیش آیا تو کیا عجب ہے؟‘‘ اسی روز سے حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق ہوا اور وہ عالم میں خود بخود اس لقب سے مشہور ہو گئے۔ جب قریش مسلمانوں کو بہت تکلیف دینے لگے اور ان کا ظلم حد سے زیادہ ہوا تو حضرت محمد ؐ نے اپنے اصحاب کو مکے سے ہجرت کرنے کی اجازت دی اور وہ ان کے ایما کے موافق مدینے کو چلے گئے۔ پھر حضر ت محمد ؐ بھی مکے سے ہجرت کر کے اپنے دوست حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینے کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ نے رستے کی مصیبتوں میں ان کا بہت ساتھ دیا۔ کہتے ہیں کہ دونوں مکے سے باہر آ کر ایک غار میں جس کا نام ثور تھا، تین روز تک رہے اور خدا کی قدرت سے ایک مکڑی نے اس غار کے منہ پر جالا بنایا اور کبوتروں نے انڈے دئیے۔ جب دشمن انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچے تو یہ علامتیں دیکھ کر جان گئے کہ اس غاز میں کوئی نہیں گیا ہو گا اور اس معجزے کے سبب سے حضرت محمد ؐ اور حضرت ابوبکرؓ دشمنوں سے محفوظ رہے۔ یہی ہجرت جو مکے سے مدینے کی طرف ہوئی، تاریخ (53) اسلام کی ابتدا ہے اور اسی سے سنہ ہجری شمار کیاجاتا ہے۔ اس وقت حضرت محمد ؐ کی عمر تریپن برس کی تھی اور مسلمانوں کے ہاں لکھا ہے کہ ان کی نبوت کو تیرہ برس گزرے تھے۔ حضرت محمد ؐ ابھی مدینے میں پہنچے بھی نہ تھے کہ بہت سے لوگ ان کے استقبال کو آئے اور نہایت تعظیم و تکریم سے شہر میں لے گئے۔ حضرت محمد ؐ نے ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام کیا اور پھر وہاں ایک مسجد بنوائی جسے مسجد نبوی کہتے ہیں اور مسجد اور گھر کے تعمیر ہونے تک وہ ابو ایوبؓ ہی کے مکان میں رہے اور انہوں نے اپنے آل و عیال کو بھی مدینے میں بلوا لیا۔ مسلمانوں کی کتابوں سے دریافت ہوتا ہے کہ وہ پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے لیکن ماہ شعبان سنہ ہجری میں دو شنبہ کے دن حضرت محمد ؐ مسلمانوں کی جماعت کو ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ انہوں نے وحی الٰہی کے موافق دفعتہ کعبے کی طرف منہ کر لیا۔ان کے مقتدی بھی ان کے ساتھ ہی پھر گئے اور اس وقت سے کعبہ نماز کا قبلہ مقرر ہوا جب مہاجر (54) اور انصار لوگوں کے سبب سے اسلام کی بنیاد مستحکم ہو گئی تو حضرت محمد ؐ نے بھی قریش سے انتقام لینے اور مذہب اسلام کے جاری کرنے میں نہایت کوشش کی اور کئی دفعہ مکے کے قافلوں پر حملہ کرنے کے واسطے فوجیں بھیجیں۔ ماہ رمضان سنہ 2ہجری میں مسلمانوں اور قریش کے لوگوں میں بدر کی لڑائی ہوئی اور اس کا سبب یہ تھا کہ ابو سفیانؓ ابن حرب قریش کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے مکے کو جاتا تھا۔ جب بدر کے قریب پہنچا تو حضرت محمد ؐ کو اس امر کی اطلاع ہوئی اورو ہ تین سو تیرہ آدمی جس میں ستتر مہاجر اور باقی انصاف تھے اپنے ہمراہ لے کر بدر کی طرف گئے ابو سفیانؓ نے جھٹ ایک سوار مکے کو روانہ کر کے قریش سے مدد چاہی۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اس کی کمک کے واسطے روانہ ہوئے اور ابو سفیانؓ کے پاس نو سو پچاس سپاہی اکٹھے ہو گئے۔ جب حضرت محمد ؐ بدر پر گئے تو اصحاب نے دھوپ سے محافظت کے لیے ان کے واسطے لکڑیوں کا ایک سایہ دار مکان بنا دیا اور حضرت محمد ؐ نے حضرت ابوبکرؓ دونوں مسلح اس جگہ ٹھہرے۔ اس وقت حضرت محمد ؐ نے قوم قریش کو دیکھ کر جناب باری میں دعا کی کہ یا الٰہی! قوم فخر اور غرور سے آئی ہے۔ تو نے میری فتح او رنصرت کا وعدہ کیا ہے۔ اب مدد بھیج! حضرت محمد ؐ دعا ہی میں مشغول تھے کہ قریش کے لوگ بہت نزدیک آپہنچے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ جب قریش نے غلبہ کر کے اس مکان کو جہاں حضرت محمد ؐ تھے، آ گھیرا تو وہ دفعتہ ہوشیار ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی طرف مخاطب ہوئے کہ اے ابوبکرؓ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور یہ کہہ کر آگے بڑھے اور لوگوں کو لڑائی پر برانگیختہ کیا۔ پھر کنکروں کی ایک مٹھی دشمنوں کی طرف پھینکی۔ فوراً تمام دشمن پریشان ہو کر بھاگے اور بہتیرے مارے گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تمام مال و متاع لوٹ کر آپس میں تقسیم کر لیا۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں فرشتوں نے حضرت محمد ؐ کی مدد کی اور جس وقت حضرت محمد ؐ نے کنکروں کی مٹھی ان کی طرف پھینکی تو کوئی کافر باقی نہ رہا جس کی آنکھوں اور ناک کے نتھنوں میں کنکر نہ بھر گئے ہوں اور حضرت محمد ؐ نے حنین (55) کی لڑائی میں بھی جو سنہ 8 ہجری میں ہوئی تھی، یہ عمل کیا تھا۔ سنہ 3 ہجری میں قوم قریش سے مقام احد (56) پر ایک اور لڑائی ہوئی اور اگرچہ اس لڑائی میں قریش کو غلبہ رہا مگر پھر بھی حضرت محمد ؐ کی طاقت روز بروز زیادہ ہوتی گئی اور انہوں نے اسلام کے پھیلانے کے واسطے جابجا فوجیں بھیجنی شروع کیں۔ بعض یہودیوں کو بھی مدینے سے نکال دیا اور اس قوم کے آٹھ سو آدمی قتل ہوئے۔ ان کی عورتیں اور بال بچے گرفتار ہوئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ مکے والوں نے بڑا لشکر لے کر مدینے کا محاصرہ کیا تھا، اس وقت ان لوگوں نے بھی ان سے سازش کر لی تھی سنہ 5 ہجری میں حضرت محمد ؐ نے حضرت زینب ؓ بنت حجش سے نکاح کیا۔ یہ عورت پہلے زید ابن حارثہ سے جو حضرت محمد ؐ کا آزاد کیا ہوا غلام اور ان کا متبنی تھا، بیاہی گئی تھی، مگر پھر زید نے اسے طلاق دے دی اور طلاق کے بعد حضرت محمد ؐ نے اس سے نکاح کر لیا اور اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ سنہ 6 ہجری میں قریش نے حضرت محمد ؐ سے صلح کر لی اور دس برس کے واسطے صلح نامہ لکھا گیا۔ سنہ 7 ہجری میں حضرت محمد ؐ نے مصر اور حبشہ اور آور ملکوں کے بادشاہوں کے پاس قاصد اور نامے بھیجے اور ان میں سے بعض نے اسلام اختیار کیا اور حضرت محمد ؐ کا دین دور دور پھیل گیا۔ 8 ہجری میں حضرت محمد ؐ اور قریش کی صلح کا عہد قریش کی طرف سے ٹوٹ گیا اور اگرچہ انہیں اپنی عہد شکنی سے ندامت ہوئی اور ابو سفیانؓ دوبارہ صلح نامہ مرتب کرانے مدینے میں آئے مگر یہ امر کچھ فائدہ مند نہ ہوا اور وہ الٹے مکے کو چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ماہ رمضان میں حضرت محمد ؐ مہاجرین اور انصار اور قبائل عرب کو ساتھ لے کر مکے پر چڑھ گئے اور اس وقت ان کے ساتھ دس ہزار آدمی تھے۔ جب یہ لوگ مکے کے پاس پہنچے تو حضرت عباسؓ لشکر سے باہر نکلے تاکہ کسی پھرتے چلتے سے حضرت محمد ؐ کے آنے کی خبر قریش سے کہلا بھیجیں اور قریش حضرت محمد ؐ کے پاس آ کر امن کے خواہاں ہوں ورنہ سب مارے جائیں گے۔ اتنے میں ابو سفیانؓ سے جو جاسوسی کو آئے ہوئے تھے، ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ پہلے ہی اس عظیم الشان اور مسلح لشکر کو دیکھ کر گھبرا رہے تھے۔ بولے کہ میں اپنی نجات کی کیا تدبیر کروں ؟ حضرت عباسؓ نے کہا ’’ تو میرے ساتھ حضرت محمد ؐ کے پاس چل، میں تیری مخلصی کے باب میں کوشش کروں گا۔‘‘ ابو سفیانؓ ان کے ساتھ حضرت محمد ؐ کے لشکر میں آئے۔ جوں ہی حضرت محمد عمرؓ کے خیمے کے برابر پہنچے، انہوں نے حضرت ابو سفیانؓ کو پہچانا اور تلوار کھینچ کر باہر آئے۔ حضرت عباسؓ بہت جلد انہیں حضرت محمد ؐ کے پاس لے پہنچے اور کہا ’’ میں اسے امان دے کر لایا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ اس وقت چپکے ہو رہے اور دوسرے دن صبح کو ابو سفیانؓ نے اسلام اختیار کیا۔ حضرت عباسؓ نے حضرت محمد ؐ سے ان کی سفارش کی اور کہا کہ ابو سفیانؓ عزت طلب اور جاہ دوست ہے۔ اس پر کچھ ایسی مہربانی کیجئے کہ وہ اپنے ہم چشموں میں ممتاز ہو۔ حضرت محمد ؐ نے جواب دیا کہ جو کوئی ہمارے لشکر کے داخل ہونے کے وقت کعبے کی مسجد یا ابو سفیانؓ کے گھر میں ٹھہرے گا یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے گا، اسے امن دیا جائے گا۔ القصہ حضرت ابو سفیانؓ نے پہلے ہی سے آ کر مکے والوں کو اس امر کی اطلاع دی اور اس کے بعد حضرت محمد ؐ اپنے لشکر سمیت مکے میں داخل ہوئے اور تمام شہر کو فتح کر کے اپنے قبضے میں لائے۔ پھر حضرت خالدؓ ابن ولید کو بیس سواروں کے ساتھ بھیج کر بت خانہ عزیٰ کی عزت کھوئی اور بت خانہ سواع اور لات و منات (57)کو بھی توڑا اور ہزاروں آدمی ایمان لائے۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کعبے کے گرد و پیش تین سو ساٹھ بت تھے۔ حضرت محمد ؐان کی طرف لکڑی سے اشارہ کرتے جاتے تھے اور قرآن کا ایک فقرہ (58) پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے:’’ حق ظاہر ہوا اور باطل جاتا رہا۔‘‘ وہ بت خود بخود سرنگوں ہو کر گرتے جاتے تھے۔ حضرت محمد ؐ نے مکے کو فتح کر کے اپنی فوج اور مکے کے دو ہزار سپاہی سے قوم ہوازن کو مقام حنین پر شکست دی اور پھر شہر طوائف کو گھیر لیا مگر یہ شہر اس وقت فتح نہ ہوا، تھوڑے عرصے کے بعد مغلوب ہوا۔ جب حضرت محمد ؐ پھر مدینے میں آئے تو ان کے پاس تمام قبائل عرب کی طرف سے وکیل آنے شروع ہوئے اور انہوں نے ہر ایک قبیلے کی طرف سے سلام کے بعد اسلام کی تسلیم کا پیام دیا اور دین محمدی کی کمال ترقی ہوئی۔ 10 ہجری میں حضرت محمد ؐ نے آخری حج کیا اور لوگوں کو حج کے مناسک (59) اور آور ضروری باتوں سے خوب آگاہ کیا۔ پھر فارغ ہوکر مدینے میں آ گئے۔ اس حج کو حجتہ الوداع کہتے ہیں کیوں کہ حضرت محمد ؐ نے اس کے بعد اور کوئی حج نہیں کیا۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت محمد ؐ کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو سب سے آخر میں قرآن کی ایک آیت (60)نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ آج کے دن میں نے تمہارا دین کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمہارے واسطے دین اسلام پسند کیا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ یہ آیت حضرت محمد ؐ کی وفات کی خبر دیتی ہے اور اس کے سننے سے ان کوبہت رنج ہوا۔ آخر ماہ صفر سنہ 11 ھ میں حضرت محمد ؐ بیمار ہوئے اور حالت مرض میں انہوں نے سب لوگوں کو احکام الٰہی کے پابند رہنے کی وصیت کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ اگر مجھ پر کسی کا کچھ حق ہو یا میں نے کسی کو برا بھلا کہا ہو تو وہ اس وقت مجھ سے انتقام لے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ تم بہشت میں عورتوں کی سردار ہو گی اور میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے ملو گی۔ حضرت محمد ؐ اپنی بیماری میں بھی آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے مگر جب ان کی عمر کے تین دن باقی رہے تو انہوں نے یہ کام حضرت ابوبکرؓ کے سپرد کیا اور لوگوں کو وصیت کی کہ ابوبکرؓ کو اپنا امام بناؤ۔ حضرت ابوبکرؓ حضرت محمد ؐ کی جگہ خالی دیکھ کر نہایت غمگین ہوئے مگر حضرت محمد ؐ کے کہنے سے انہوں نے امامت کی اور حضرت محمد ؐ کو اس امر سے بہت خوشنودی حاصل ہوئی ہے۔ مسلمان جو اہل سنت (61) یا سنی کہلاتے ہیں ان کا یہی مقولہ ہے۔ اہل اسلام کے کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نے حضرت محمد ؐ سے آ کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تمہارا دل دنیا میں رہنے کو راغب ہے تو جب تک چاہو، رہو، ورنہ میں تمہارا مشتاق ہوں۔ حضرت محمد ؐ نے جواب دیا کہ تم مجھے میرے رفیق کے پاس جو سب میں اعلیٰ ہے، پہنچا دو۔ پھر ملک الموت آ کر ادب سے دروازے پر کھڑے ہوئے اور حضرت محمد ؐ کی اجازت سے مکان کے اندر آ گئے۔ اتنے میں پھر حضرت جبرئیل ؑ نے کہا کہ اب دنیا میں وحی پہنچانے کے واسطے میرا آنا نہیں ہونے کا۔ میں تمہارے ہی واسطے آیا کرتا تھا۔ یہ کہہ کر سلام کیا اور رخصت ہوئے۔ اس کے بعد حضرت محمد ؐ نے ملک الموت کو روح قبض کرنے کی اجازت دی اور اس نے اپنا کام تمام کیا۔ پھر تجہیز و تکفین کر کے انہیں حضرت عائشہؓ کے حجرے میں دفن کر دیا۔ یہ حادثہ ماہ ربیع الاول سنہ 11 ہجری میں واقع ہوا اور اس وقت حضرت محمد ؐ کی عمر تریسٹھ برس کی تھی۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قرآن شریف جو حضرت محمد ؐ کے وقت میں نازل ہوا تھا، سب کا سب ایک ہی دفعہ نہیں اترا بلکہ وحی کے ذریعے سے مختلف موقعوں پر مختلف آیتیں اور سورتیں نازل ہوئیں۔ جن آیتوں اور سورتوں کی نسبت مسلمانوں کا یہ قول ہے کہ حضرت محمد ؐ کی نبوت کی ابتدا میں جو شہر مکے میں اتریں، ان میں ویسی ہی نصیحتیں ہیں، جیسی انجیل میں ہیں اور مذہب اسلام کے مخالفوں کی نسبت کسی طرح کا تشدد نہیں ہے مگر جب حضرت محمد ؐ کی طاقت زیادہ ہو گئی اور ان لوگوں نے دین اسلام اختیار نہ کیا اور مقابلے سے پیش آئے تو قرآن شریف کے اس حصے میں جس کا نازل ہونا مدینے میں بیان کرتے ہیں، ان کی نسبت تشدد کے احکام جاری ہوئے۔ حضرت محمد ؐ کے بعد ان کے چار خلیفے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بڑے نامور ہوئے اور انہوں نے دین اسلام کے جاری کرنے میں نہایت کوشش کی اور بہت سے ملک فتح کیے۔ یہ چاروں خلیفے قوم قریش کے شریفوں میں سے تھے اور ہم جدی ہونے کے سبب سے حضرت محمد ؐ سے رشتہ بھی رکھتے تھے اور حضرت علیؓ تو حضرت محمد ؐ کے چچا ابو طالب ہی کے بیٹے تھے۔ اس رشتے کے علاوہ ان کا اور حضرت محمد ؐ کا اور بھی رشتہ تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ اور حضرت عمرؓ کی بیٹی حضرت حفصہؓ حضرت محمد ؐ سے بیاہی ہوئی تھیں اور حضرت عثمانؓ سے حضرت محمد ؐ نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ ؓ کا نکاح کیا تھا۔ جب انہوں نے وفات پائی تو اپنی دوسری بیٹی ام کلثومؓ کا نکاح ان سے کر دیا اور اسی سبب سے حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین کہتے ہیں۔ جب حضرت ام کلثومؓ بھی اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو حضرت محمد ؐ نے کہا ’’ اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی عثمانؓ ہی کو دیتا‘‘ اور حضرت علیؓ سے حضرت محمد ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا نکاح ہوا تھا اور پھر حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بیٹی حضرت ام کلثوم حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئی تھیں۔ سنی مسلمانوں کی کتابوں میں حضرت محمد ؐ کے تمام اصحاب خصوصاً ان چاروں کی بہت سی فضیلتیں اور کرامتیں لکھی ہوئی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ حضرت ابوبکرؓ کا نام عبداللہ اور کنیت ابوبکرؓ اور لقب صدیق اور ان کے باپ کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے۔ وہ حضرت محمد ؐ کے بعد پہلے خلیفہ ہوئے اور لوگوں نے ان کی بیعت اختیار کی۔ سنیوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ مسلمان ہوئے تو انہوں نے اپنا تمام مال و متاع خدا کی راہ میں صرف کیا اور حضرت محمد ؐ نے کہا ہے کہ کسی کے مال نے مجھے ایسا نفع نہیں دیا، جیسا ابوبکرؓ کے مال نے۔ علاوہ اس کے ان کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ میں کئی فضیلتیں ایسی تھیں کہ وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتیں چنانچہ انہوں نے بارہا تنہا حضرت محمد ؐ کا ساتھ دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے زمانے میں دین محمدی کی ترقی میں بہت تدبیریں کیں اور جا بجا لشکر بھیج کر یہ مذہب جاری کیا اور جو لوگ حضرت محمد ؐ کے بعد مذہب اسلام سے پھرنا چاہتے تھے، انہیں اس ارادے سے باز رکھا۔ حضرت ابوبکرؓ دو برس تین مہینے خلیفہ رہے اور تیئسویں جمادی الاخریٰ 13 ھ میں تریسٹھ برس کی عمر میں عالم عقبیٰ کو روانہ ہوئے اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں حضرت محمد ؐ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں بہت سے حافظ لڑائیوں میں کام آئے تو انہوں نے قرآن کو لوگوں کی زبانی یادداشت اور متفرق تحریروں کی مدد سے جمع کیا اور اس کی ایک نقل حضرت حفصہؓ بنت حضرت عمرؓ کے گھر میں رکھی۔ حضرت عمرؓ حضرت عمرؓ ابن خطاب کی کنیت ابو حفص اور لقب امیر المومنین (62) اور فاروق (63) ہے۔ سنیوں کی کتابوں میں حضرت عمرؓ کی فضیلت اور زہد اور تواضع اور عدل اور انصاف اور شجاعت کی بہت سی تعریف لکھی ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت محمد ؐ نے ان کے باب میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امر حق حضرت عمرؓ کی زبان اور دل پر مقرر کر دیا ہے۔ حضرت عمرؓ بہت سی لڑائیوں میں حضرت محمدؐ کے ساتھ رہے اور انہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں چار ہزار مسجدیں بنائیں اور بہت سے ملک اور شہر فتح کیے۔ وہ باوجود ایسی بڑی سلطنت اور ریاست کے اپنی وضع اور تواضع میں کچھ فرق نہ لائے اور شجاعت کے سبب سے بغیر چوکی پہرے اور چوبدار کے پھرا کرتے تھے۔ سنہ 23ھ کے آخر میں ایک روز حضرت عمرؓ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے کہ مغیرہ ابن شعبہ کے ایک عجمی غلام نے جس کا نام فیروز اور کنیت ابو لولو تھی، ان کو ایک زہر کا بجھا ہوا خنجر مارا اور انہوں نے اسی صدمے سے تریسٹھ برس کی عمر میں سلخ ذی الحجہ سنہ 23 ھ میں وفات پائی۔ حضرت عمرؓ کی خلافت ساڑھے دس برس رہی اور وہ حضرت عائشہؓ کی اجازت سے حضرت محمد ؐ اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس مدفون ہوئے۔ حضرت عثمانؓ حضرت عثمانؓ ابن عفان کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب ذوالنورین ہے۔ وہ ماہ محرم سنہ 24ھ میں تخت خلافت پر مسند نشین ہوئے۔ حضرت عثمانؓ بہت خوش حال اور فارغ البال تھے۔ ان کے زمانے میں بھی بہت سے شہر فتح ہوئے۔ وہ اکثر رات بھر قرآن پڑھا کرتے تھے اور بڑے عابد اور صائم الدھر (64) اور حیا اور کرم و بخشش میں مصروف تھے اور سنیوں کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت محمد ؐ نے ان کی نسبت کہا ہے کہ میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔ سنہ 30 ھ میں حضرت عثمانؓ کو خبر پہنچی کہ قرآن کے باب میں لوگوں کی رائے کچھ مختلف ہے۔ اہل عراق کہتے ہیں، ہمارا قرآن صحیح ہے اور اہل شام اپنا قرآن صحیح بتاتے ہیں اور اسی طرح اور ملکوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے اس امر میں بڑے بڑے صحابہ سے مشورہ کیا اور سب کی صلاح سے اس قرآن پر جو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت حفصہؓ بنت حضرت عمرؓ کے گھر میں رکھا تھا، نظر ثانی کی اور جن لفظوں میں اختلاف تھا، ان کا تلفظ قریش کی بولی کے موافق رکھا، کیوں کہ اہل اسلام قرآن کا قریش ہی کی بولی میں نازل ہونا بیان کرتے ہیں۔ آخر سب کی رائے سے یہی قرآن جاری کرایا اور کاتبوں سے اس کی نقلیں کرا کر جا بجا بھجوا دیں۔ اسی سبب سے حضرت عثمانؓ کا لقب جامع القرآن مشہور ہوا۔ اٹھارہویں ذی الحجہ سنہ 35 ہجری میں مصر کے چند مفسدوں نے حضرت عثمانؓ کا گھر گھیر لیا اور ہمسایے کے کوٹھے پر سے ان کے مکان میں کود کر ان کو قتل کیا۔ ان کی عمر بیاسی برس کی ہوئی اور خلافت بارہ برس رہی۔ حضرت علیؓ حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی کنیت ابو الحسن اور لقب مرتضیٰ اور اسد اللہ ہے۔ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ شجاعت اور سخاوت اور نفس کشی اور آور بہت سی فضیلتوں میں کامل تھے اور انہوں نے حضرت محمد ؐ کے ساتھ اکثر امور مشاہدہ کیے تھے اور حضرت محمد ؐ نے حضرت علیؓ سے کہا ہے کہ تمہارا رتبہ میرے نزدیک ایسا ہے، جیسے حضرت ہارون ؑ کا حضرت موسیٰ ؑ کے نزدیک یعنی جیسے حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی تھے، ویسے ہی تم میرے بھائی ہو۔ حضرت عثمانؓ کے قتل ہونے اور حضرت ابو سفیانؓ کے بیٹے معاویہؓ کے برگشتہ ہونے سے حضرت علیؓ کی خلافت میں بڑے بڑے جھگڑے اور فساد برپا رہے اور وہ انہیں مصیبتوں میں مبتلا رہے۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ مسجد میں نماز کو جاتے تھے کہ وہاں ایک شخص نے جو ستون کی اوٹ میں چھپا کھڑا تھا، زہر آلودہ تلوار ان کے سر پر ماری اور انہوں نے اسی صدمے سے انیسویں ماہ رمضان سنہ 40 ہجری کو تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور ان کی خلافت کا زمانہ چار برس نو مہینے ہے۔ اس وقت سے مسلمانوں کے دو فرقے سنی اور شیعہ سے نامزد ہو گئے۔ لفظ سنی منسوب ہے سنت کی طرف اور سنت کے معنی طریق کے ہیں اور طریق سے طریق نبوی مراد ہے۔ جو لوگ اپنے تئیں سنی یا اہل سنت بتاتے ہیں، وہ چاروں خلفاء کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے ہیں، کسی کو برا نہیں کہتے اور بیان کرتے ہیں کہ خلافت کی ترتیب جس طرح واقع ہوئی، بجا اور درست اور خدا اور رسول ؐ کی مرضی کے موافق ہوئی۔ لفظ شیعہ کے معنی گروہ کے ہیں اور گروہ سے مراد حضرت علیؓ کا گروہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے تینوں خلفاء کو برا کہتے ہیں اور حضرت محمد ؐ کے بعد حضرت علیؓ کو حق دار بتاتے ہیں۔ اس واسطے اس فرقے نے اپنا نام شیعہ علیؓ یعنی حضرت علیؓ کا گروہ قرار دیا ہے۔ تمام رومی، مصری، عربی اور ہندوستان کے اکثر مسلمان سنی ہیں، ایرانی اور بہت سے تاتاری اور ہندوستان کے بعض مسلمان شیعہ ہیں۔ شیعہ لوگوں کے عقیدے کے موافق امام بارہ ہوئے ہیں اور ان میں سے حضرت علیؓ پہلے، حضرت حسنؓ دوسرے اور حضرت حسینؓ تیسرے ہیں اور نو امام اور ہیں اور اس فرقے کا مقولہ ہے کہ بارہویں امام زندہ ہیں اور وہی قیامت کے قریب امام مہدی کے نام سے لوگوں کی نظروں میں ظاہر ہو جائیں گے۔ حضرت علیؓ کے بعد بھی کچھ فساد قائم رہا اور انجام کار ان کے دو بیٹوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کو یزید ابن معاویہ نے جو اپنے باپ کے بعد تخت حکومت پر بیٹھا تھا، بڑی بے رحمی سے مروا ڈالا۔ یہ دونوں حضرت محمد ؐ کے نواسے تھے مگر حضرت محمد ؐ نے ان دونوں کو متنبی کر لیا تھا اور وہ انہیں بہت چاہتے تھے اور مسلمانوں کی کتابوں میں ان کی بہت سی فضیلتیں مذکور ہیں چنانچہ ابن عساکر کی روایت میں عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ حضرت محمد ؐ نے کہا کہ جس شخص نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا، اس نے مجھ سے بغض کیا اور حضرت محمد ؐ نے یہ بھی کہا ہے کہ حسنؓ اور حسین دونوں بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت امام حسنؓ: حضرت حسنؓ کی کنیت ابو محمد ؐ اور لقب مجتبیٰ اور سبط اکبر ہے اور اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ نہایت کریم، رحیم، زاہد، عابد، سخی اور با وقار تھے اور انہوں نے دو دفعہ اپنا سارا مال اور تین دفعہ آدھا راہ خدا میں دے ڈالا۔ جب ان کی عمر پینتیس برس کئی مہینے کی ہوئی تو یزید نے مہینے میں ان کو زہر دلوا دیا اور یہ معاملہ ماہ ربیع الاول سنہ 49 ھ میں واقع ہوا۔ حضرت امام حسینؓ حضرت امام حسینؓ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سید الشہداء اور سبط اصغر ہے اور ان کا قصہ نہایت درد انگیز ہے۔ وہ اور ان کے مددگار بڑی بہادری سے مقام طف میں جسے اب کربلا کہتے ہیں، پیاسے العطش کہتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے رشتہ دار اور اصحاب اور غلام صرف بیاسی تھے اور مخالفوں کی تعداد بائیس ہزار تھی۔ علاوہ اس کے ان لوگوں نے دریائے فرات پر بھی جو میدان جنگ کے قریب واقع تھا، اپنا قبضہ کر لیا تھا اور حضرت امام حسینؓ اور ان کے ہمراہیوں میں سے کسی کو پانی کا قطرہ نہ پینے دیتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حضرت امام حسینؓ اپنے چھوٹے بیٹے علی اصغر کو جو شیر خوار تھے دشمنوں کے سامنے لا کر ان کے واسطے پانی مانگنے لگے تو انہوں نے پانی کے عوض تیروں کی بو چھاڑ کی اور وہ معصوم آب پیکاں سے سیراب ہو کر باپ ہی کی گود میں گزر گئے۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے مددگاروں نے ہزاروں مخالفوں کو مار کر وفات پائی اور یہ حادثہ جمعے کے روز عاشورے کے دن یعنی دسویں محرم سنہ 61 ھ کو واقع ہوا۔ حضرت امام حسینؓ کی عمر پچپن برس کچھ مہینے ہوئی۔ مسلمانوں کے ہاں جو محرم کی مشہور تقریب ہوتی ہے، اس میں وہ لوگ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓکا نہایت غم و الم رکھتے ہیں اور کربلا کے تمام شہیدوں اور اہل بیت کی تکلیفوں کو یاد کر کے بہت حسرت و افسوس کرتے ہیں۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ؐ نے پہلے ہی اس واقعے کی خبر دی تھی۔ چنانچہ طبرانی نے حضرت عائشہؓ سے روایت لکھی ہے کہ حضرت محمد ؐ نے بیان کیا کہ مجھے جبرئیل ؑ نے اس امر کی اطلاع دی کہ میرا لڑکا زمین طف یعنی کربلا میں شہید ہو گا اور جبرئیل ؑ نے اس مقام کی مٹی بھی مجھے لا کر دکھا دی اور ابو نعیم نے حضرت سلمیٰؓ سے روایت لکھی ہے کہ ایک دن حسنؓ اور حسینؓ دونوں میرے گھر میں کھیلتے تھے کہ اتنے میں حضرت جبرئیل ؑ آئے اور حسینؓ کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’اے محمدؐ! بے شک تیری امت اس لڑکے کو شہید کرے گی‘‘ اور تھوڑی سی مٹی حضرت محمد ؐ کو لا دی۔ حضرت محمد ؐ نے اسے سونگھا اور کہا کہ اس خاک میں سے کرب و بلا کی بو آتی ہے۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر بولے ’’ اے ام سلمہ! جب یہ خاک خون ہو جائے تو جان لینا کہ حسینؓ شہید ہو گئے۔‘‘ چنانچہ ام سلمہؓ نے وہ خاک ایک شیشے میں رکھ چھوڑی اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے وقت وہ زندہ تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ عاشورے کے دن جو میں نے اس خاک کو دیکھا تو وہ خون تھیا ور اس کے کنکروں سے خون جاری تھا۔ کہتے ہیں تھوڑے عرصے میں حضرت امام حسینؓ کے خون کا انتقام خوب طرح سے ہوا، چنانچہ کتاب صواعق محرکہ میں حضرت زہری سے روایت کی گئی ہے کہ جتنے آدمی اس خون ناحق میں شریک تھے، عذاب میں گرفتار ہوئے یا قتل ہوئے یا اندھے ہوئے یا ان کی حکومت و سلطنت تھوڑے دنوں میں خاک میں مل گئی۔ یزید بھی ماہ ربیع الاول سنہ 84ھ میں اڑتیس برس کی عمر میں بہت بری حالت میں عالم آخرت کو روانہ ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا معاویہ ابن یزید ابن معاویہ جو پہلے سے ولی عہد تھا تخت نشین ہوا۔ اس نے منبر پر چڑھ کر مسلمانوں کے سامنے خطبہ پڑھا اور بیان کیا کہ میرے باپ نے رسول ؐ کی اولاد کو ناحق قتل کیا اور طرح طرح کی بے ادبیاں کیں۔ میرے آگے اس سلطنت کی کچھ حقیقت نہیں۔ میں اسے پسند نہیں کرتا اور نہ مجھے کوئی شخص مثل حضرت عمرؓ ابن خطاب کے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خلیفہ بناؤں میں نے اپنی بیعت سے سب کو آزاد کیا۔ تمہیں اختیار ہے جسے چاہو، خلیفہ بنا لو۔ یہ کہہ کر منبر سے اترا اور اپنے گھر میں گوشہ نشیں ہو کر تمام عمر خدا کی عبادت میں مصروف رہا اور اس واقعے کے چند روز بعد اکیس برس کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گیا۔ مسلمانوں کی کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے شہید ہونے کے بعد بھی ایسی کرامتیں اور علامتیں ظاہر ہوئیں جن سے لوگوں کو اچھی طرح عبرت ہو اور درگاہ الٰہی میں ان کا قرب بخوبی ظاہر ہو جائے، چنانچہ کتاب صواعق محرکہ اور کتابوں میں اس مضمون کی بہت سی حدیثیں لکھی ہیں اور ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں دمشق میں تھا کہ حضرت امام حسینؓ کا سر وہاں گیا اور اس کے آگے ایک شخص سورۂ کہف (65) پڑھ رہا تھا۔ جب اس آیت(66) پر پہنچا، جس کا مضمون یہ ہے: کیا تو گمان کرتا ہے کہ اصحاب کہف (67) و رقیم کا قصہ ہمارے نشانوں میں سے کچھ تعجب کا نشان ہے۔ اس وقت بہت فصاحت اور بلاغت سے اس سر میں سے آواز آئی جس کا ترجمہ یہ ہے : میرے قتل کرنے اور نیزے پر اٹھانے کا قصہ اس سے بھی عجیب ہے۔ ٭٭٭ دوسری فصل: مسلمانوں کے عقائد و اعمال اسلام پانچ باتوں پر مبنی ہیـ: اول اس امر کی گواہی دینی کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اس کا بندہ اور رسول ہے، دوسرے نماز پڑھنی، تیسرے زکوٰۃ دینی، چوتھے ماہ رمضان کے روزے رکھنے، پانچویں حج کرنا۔ چنانچہ کتاب مشکوۃ المصابیح میں ابن عمر کی روایت سے اسلام کی بنیاد انہیں پانچوں باتوں پر لکھی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں ایمان سب نیکیوں کا مدار اور تمام عبادتوں کی جڑ ہے اور اس کا بڑا رکن یہ ہے کہ جو باتیں حضرت محمد ؐ نے بیان کی ہیں، ان پر صدق دل سے اعتبار کرے اور زبان سے اقرار کرنا۔ دنیا میں اسلام کے حکموں کے جاری ہونے کی شرط ہے، اسی واسطے مسلمانوں کے ہاں مومن حقیقی ہونے کے واسطے صدق دل سے اعتقاد کرنا تو لازم ہی ہے مگر زبان سے اقرار کرنا بھی ضرور ہے۔ مسلمان یقین جانتے ہیں کہ تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ایک ہی ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، وہ سب عیبوں سے بری ہے۔ تمام چیزیں اسی کے اختیار میں ہیں، کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا۔ قادر مطلق اور خالق حقیقی وہی ہے، فرشتے بھی اس کے بندے ہیں، وہ گناہ سے پاک ہیں، نور سے ان کی پیدائش ہے، جس جس کام پر خدا نے انہیں مقرر کر دیا، بے عذر اس کی تعمیل کرتے ہیں اور کھاتے پیتے کچھ نہیں، خدا کی بندگی ان کی زندگی ہے۔ ان میں سے چار بڑے مشہور ہیں: حضرت جبرئیل ؑ جو آسمانی صحیفے اور خدا کے پیغام پیغمبروں کے پاس لایا کرتے تھے۔ حضرت میکائیل ؑ جن کو بندوں کے واسطے روزی پہنانے اور اسی قسم کے کاموں کا اہتمام سپرد ہے۔ حضرت اسرافیل ؑ جو صور (1)منہ میں لیے ہوئے حکم الٰہی کے منظر ہیں اور قیامت کے دن پھونکیں گے۔ حضرت عزرائیل ؑ جن کو روحوں کو قبض کرنے کی خدمت دی گئی ہے۔ اہل اسلام اس امر کے معتقد ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو نبی پیدا کیے ہیں، سب برحق اور گناہ سے بری ہیں اور جو جو معجزے انہیں عنایت ہوئے اور جو جو صحیفے ان پر نازل ہوئے، بجا اور درست ہیں انبیاء کو تمام مخلوقات پر فضیلت ہے اور سب سے پہلے نبی حضرت آدم ؑ ہیں۔ ان کے بعد ان کی اولاد میں سے اور بہت سے نبی ہوئے اور حضرت محمد ؐ پر نبوت ختم ہو گئی اور وہ سب پیغمبروں کے سردار اور بے شک تمام مخلوقات میں افضل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو پیغمبروں پر صحیفے نازل ہوئے ہیں ایک (2) سو چار ہیں اور ان کی ترتیب یہ ہے: حضرت آدم ؑ پر دس، حضرت شیث ؑ پر پچاس، حضرت ادریس ؑ پر تیس، حضرت ابراہیم ؑ پر دس، حضرت موسیٰؑ پر ایک جسے توریت کہتے ہیں، حضرت داؤد ؑ پر ایک جو زبور مشہور ہے، حضرت عیسیٰ ؑ پر ایک جو انجیل سے نامزد ہے، حضرت محمد ؐ پر ایک جس کا نام قرآن شریف یا فرقان مجید ہے۔ مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو امر شرع محمدی کے موافق ہے، بجا ہے اور قرآن اور حدیث میں جو جو اگلے پچھلے حال لکھے ہیں، سب درست ہیں۔ حضرت محمد ؐ کے صحابہ اور اہل بیت کی بزرگی کا حال قرآن اور حدیث میں مذکور ہے۔ اسی واسطے مسلمان ان کی تعظیم و تکریم کرنی اپنا اعتقادی امر جانتے ہیں اور اولیاء کی کرامتیں بھی مانتے ہیں۔ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ جب مردے کو قبر میں رکھ چکتے ہیں تو اس کے پاس دو فرشتے جو منکر اور نکیر کہلاتے ہیں، آ کر یہ تین سوال کرتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ اگر وہ ان سوالوں کے درست جواب دیتا ہے اور کہتا ہے ’’ اللہ میرا رب ہے، اسلام میرا دین ہے، محمد ؐ میرا نبی ہے‘‘ تو اس پر خدا کی رحمت ہوتی ہے ورنہ عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قیامت کا آنا یقینی ہے اور حضرت محمد ؐ نے جو آثار قیامت کے بیان کیے ہیں، مثلاً اول نصاریٰ کا غلبہ کرنا، پھر حضرت امام مہدی کا پیدا ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان پر سے اترنا اور مذہب اسلام کی رونق ہونی، یہ سب امر بجا اوردرست ہیں۔ آدمیوں کے تمام قول و فعل خواہ نیک ہوں یا بد، ہر وقت اس کے اعمال نامے میں لکھے جاتے ہیں اور قیامت کے دن میزان و عدل میں ان کا مقابلہ ہو گا اور کمی بیشی کا لحاظ کیا جائے گا۔ گناہوں کی بیماری کا علاج توبہ اور پشیمانی ہے۔ جو شخص عجز و انکسار سے خدا تعالیٰ کی درگاہ میں رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ا سکے گناہ معاف فرماتا ہے۔ اہل اسلام یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ دوزخ کی پشت پر ایک رشتہ ہے جسے صراط کہتے ہیں۔ وہ بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے۔ سب کو اس پر سے گزرنا ہو گا۔ نیک لوگ فوراً گزر جائیں گے اور بد آدمی کٹ کٹ کر دوزخ میں گر پڑیں گے اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کے واسطے بہشت اور بدوں کے لیے دوزخ پیدا کیا ہے۔نیک لوگوں کو ان کے اعمال کے موافق بہشت کے درجوں میں سے کوئی درجہ ملے گا اور وہاں انہیں طرح طرح کی نعمتیں عنایت ہوں گی اور سب نعمتوں میں افضل خدا کا دیدار ہے۔ قرآن میں مذکور ہے کہ بہشت میں ہر قسم کا میوہ موجود ہو گا شراب طہور (3) کی ندیاں بہتی ہوں گی، شیریں چشمے جاری ہوں گے، تخت بہت آراستہ اور پر تکلف بچھے ہوں گے، سایہ دار درختوں کے نیچے نیک آدمی عمدہ عمدہ پوشاکیں پہنے ہوئے آرام سے بیٹھے ہوں گے، ان کی خدمت کے واسطے حور (4) و غلمان (5) ہر وقت حاضر ہوں گے۔ حوریں جو اہل جنت کو ملیں گی (6) بڑی بڑی آنکھوں والی اور ایسی خوبصورت اور خوش وضع ہوں گی، جیسے سیپ کا موتی صاف اور خوش رنگ ہوتا ہے۔ غلمان شراب کے پیالے بھر بھر کر بہشت کے لوگوں کو پلائیں گے اور اپنے حسن و جمال کے سبب سے مجلس میں پھرتے ہوئے ایسے معلوم ہوں گے، جیسے آب دار موتیوں کے دانے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ نیک آدمیوں کے ساتھ ان کے ماں باپ اور بیویاں اور اولاد جنہوں نے دنیا میں اچھے عمل کیے ہیں، سب کے سب بہشت میں داخل ہوں گے اور انہیں حکم ہو گا کہ یہاں ہمیشہ آرام سے رہو۔ نہ کبھی موت آئے گی، نہ کسی طرح کی تکلیف ہو گی، نہ کوئی غم و الم کی بات سنی جائے گی۔ اہل ایمان کو ان نیک عمل بیویوں کے ساتھ بہشت میں رہنے کا حکم ہو گا اور وہاں کی عورتوں کی پیدائش عجیب قسم کی ہو گی۔ سب کی سب خوب صورت، جوان، باکرہ اور ہم عمر ہوں گی۔ مسلمانوں کے ہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اہل جنت کا کلام ذکر الٰہی اور حکمت کی باتیں ہوں گی اور انہیں ایک قسم کی شراب جسے شراب طہور کہتے ہیں، مرحمت ہو گی اور تفسیر بیضاوی میں مذکور ہے کہ اس شراب کا نام طہور اس واسطے ہے کہ لغت میں طہور کے معنی پاک کرنے والے کے ہیں اور یہ شراب بہشت کے لوگوں کو دیدار خدا کے سوا سب چیزوں کی رغبت سے پاک کر دے گی اور دیدار الٰہی سب نعمتوں میں اولیٰ ہے اور یہی درجہ سب درجوں میں اعلیٰ ہے۔ دوزخ کے سات طبقے ہیں۔ ہر ایک طبقے میں گنہگار اپنے اپنے درجے کے موافق رہیں گے۔ مگر سب سے نیچے کا طبقہ جہاں نہایت سخت سزا ہو گی، منافقوں کے واسطے ہے جو ظاہر میں مسلمان کہلاتے ہیں اور باطن میں کفر کے کام کرتے ہیں۔ اس سے اوپر کا طبقہ مشرکوں کی جگہ ہے جو معبور حقیقی کو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک اور مختار جانتے ہیں۔ دوزخیوں میں سے جس شخص کے دل میں کچھ بھی نور ایمان ہو گا، وہ انجام کار اپنے گناہوں کی سزا پا کر بہشت میں چلا جائے گا اور جو لوگ ایمان سے بالکل بے بہرہ ہیں، وہ سزائے ابدی میں مبتلا رہیں گے۔ بہشت اور دوزخ کے بیچ میں ایک جگہ ہے، جسے اعراف کہتے ہیں اور تفسیر مدارک التنزیل اور آور کتابوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں وہ لوگ جن کے نیک او ربد فعل برابر ہیں اور کئی قسم کے آدمی رہیں گے مگر آخر کو یہ بھی بہشت میں جائیں گے۔ مسلمانوں کے ہاں لکھا ہے کہ قیامت کے دن حضرت محمد ؐ اور تمام انبیاء اور اولیاء اور نیک آدمی گنہگاروں کی شفاعت میں سعی کریں گے اور حضرت محمد ؐ کو ایک حوض جس کا نام کوثر ہے، عطا ہو گا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، حضرت محمد ؐ اس سے لوگوں کو سیراب کریں گے اور آور جو کوئی اس کا پانی پیے گا، پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ ذبح کیے ہوئے جانور بہشت کی خاک ہوں گے اور حضرت صالح ؑ کی اونٹنی جو معجزے کے طور پر پتھر میں سے پیدا ہوئی تھی اور حضرت یونس ؑ کی مچھلی اور اصحاب کہف کا کتا اور حضرت محمد ؐ کی سواری کی اونٹنی او ربعض پیغمبروں کے جانور بصورت مجسم بہشت میں جائیں گے اور براق جس پر حضرت محمد ؐ صاحب سوار ہو کر معراج کو گئے تھے، خود بہشتی جانو رہے۔ مسلمانوں کے ہاں دن رات میں پانچ مقرر وقتوں کی نماز فرض ہے ان کے نام یہ ہیں: فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشائ۔ فجر کی نماز کا وقت صبح صادق (7) کے ظاہر ہونے سے آفتاب کے طلوع ہونے سے کچھ پہلے تک ہے اور ظہر کی نماز کا وقت دوپہر ڈھلے سے اس لمحے تک رہتا ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے اصلی سایے یعنی اس سایے کے سوا جو ٹھیک دوپہر کے وقت ہو، دو چند ہو جائے اور حضرت امام محمد اور حضرت امام ابو یوسف کا یہ قول ہے کہ جب اصلی سایے کے سوا اس کے مثل ہی کو پہنچ جائے اور عصر کی نماز کا وقت ظہر کے بعد سے آفتاب کے غروب ہونے سے کچھ پہلے تک ہے اور مغرب کی نماز کا وقت آفتاب کے غروب ہونے کے بعد سے اس لمحے تک ہے کہ شفق نہ غائب ہونے پائے اور عشاء کی نماز کا وقت شفق کے غائب ہونے سے اس لمحے تک رہتا ہے کہ صبح صادق نہ ظاہر ہو۔ نماز کے وقتوں کی حدیں یہی ہیں جو لکھی گئیں مگر عین وقت پر نمازوں کا ادا کرنا بہتر ہے اور موسموں کے لحاظ سے انہیں حدوں میں بعض نمازیں جلد اور بعض توقف سے پڑھنی اولیٰ ہیں۔ ان نمازوں کے سوا مسلمانوں کے ہاں اور بھی نمازیں ہیں مثلاً جمعے کی نماز، دونوں عیدوں کی نمازیں، جنازے کی نماز، صلوٰۃ تسبیح، اشراق کی نماز جو آفتاب کے طلوع ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے، تہجد کی نماز جو پچھلی رات کو پڑھتے ہیں، استسقا کی نماز جو مینہ کی درخواست کے واسطے پڑھی جاتی ہے اور علیٰ ہذا القیاس یہ لوگ بہت سی نماز پڑھتے ہیں۔ اہل اسلام اپنے بچوں پر نماز کی بہت تنبیہ کرتے ہیں اور بچپن ہی میں ان سے نماز شروع کراتے ہیں۔ ان کے ہاں سات برس کی عمر میں بچوں کو نماز کی تاکید کرنی ضروری ہے اور دس برس کی عمر میں اس فرض کے ادا کرنے کے واسطے انہیں مارنا لازم ہے۔ بہتیرے مسلمان ہر روز قرآن کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں اور وظیفے اور دعائیں جو ان کے ہاں حدیث میں لکھی ہوئی ہیں، اپنا ورد رکھتے ہیں۔ اہل اسلام زکوٰۃ دینی فرض جانتے ہیں اور قرآن میں بیاسی جگہ نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ہی ذکر ہے۔ اس فرض کے ادا کرنے کے واسطے ہر قسم کے مال میں خواہ نقد، خواہ مویشی، خواہ کوئی اور جنس ہو ایک نصاب یعنی حد مقرر ہے کہ جو شخص اپنے ضروری خرچوں کے بعد اس نصاب کا مالک ہو تو سال بھر کے پیچھے اسے زکوٰۃ دینی ضرور ہے۔ علاوہ زکوٰۃ کے اہل اسلام کے ہاں اور بھی کئی صدقے مقرر ہیں مثلاً عید الفطر کے روز یعنی ماہ شوال کی پہلی تاریخ مالک نصاب پر ایک مقرر صدقہ ادا کرنا لازم ہے۔ سوائے اس کے فقیروں اور مسکینوں کو خیرات دینا اور کھانا پکوا کر کھلانا اور ہر طرح سے ا ن کی مدد کرنا مسلمانوں کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ جو شخص نصاب کا مالک ہے اس پر عید الاضحی کے دن یعنی ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ قربانی کرنی واجب ہے اور اگر خاص عید کے روز قربانی نہ کر سکے تو گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو کر دے۔ مسلمانوں کے ہاں تمام ماہ رمضان کے روزے رکھنے فرض ہیں اور اس مہینے میں یہ لوگ عبادت میں زیادہ مصروف رہتے ہیں چنانچہ مقررہ نمازوں کے علاوہ رات کے وقت تراویح (8) کی بیس رکعتیں پڑھتے ہیں۔ قرآن کی بھی بہت تلاوت کرتے ہیں اور کچھ آدمی اعتکاف (9)میں بیٹھتے ہیں۔ رمضان کے روزوں کے سوا اہل اسلام کے ہاں اور بھی روزے رکھنے بہت اچھے ہیں چنانچہ یہ لوگ ماہ ذی الحجہ کی نویں اور ماہ شعبان کی پندرہویں اور ہر مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ اور علیٰ ہذا القیاس اور بعض دنوں کے روزے رکھنے بڑے ثواب اور اجر کے حاصل ہونے کا باعث سمجھتے ہیں۔ مسلمان کعبے کا حج کرنا فرض جانتے ہیں اور فتاویٰ در مختا رمیں لکھا ہے کہ حج اس مسلمان پر فرض ہے جو تندرست ہو اور نابینا نہ ہو اور ضروری خرچوں کے سوا زاد راہ اور سواری کا بھی مقدور رکھتا ہو اور رستے میں بھی امن ہو۔ ان باتوں کے علاوہ مسلمانوں کے ہاں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا اختیارکرنا نہایت ضروری ہے اور بہتیری ایسی ہیں جن سے پرہیز کرنا لازم ہے اہل اسلام کے ہاں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی نہایت تاکید ہے اور اس امر کا ذکر قرآن اور حدیث میں بہت جگہ لکھا ہوا ہے۔ یہ لوگ سچ بولنا او رجھوٹ سے پرہیز کرنا اپنا اعتقادی امر جانتے ہیں او رکہتے ہیں کہ جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے مگر تین جگہ مضائقہ نہیں۔ اول دو آدمیوں کے تنازع اور فساد کے دفع کرنے اور صلح کرانے میں، دوسرے لڑائی کے وقت غنیم کے غافل کرنے اور چکما دینے میں، تیسرے اپنی بیوی کے خوش کرنے اور اس کے راضی رکھنے میں اور ان مقاموں پر بھی یہ شرط ہے کہ جھوٹ بولنے کے سبب سے کسی طرح کی عہد شکنی یا کوئی اور قباحت نہ لازم آتی ہو ورنہ مطلق حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔ مسلمانوں کا عام مسئلہ یہ ہے کہ آدمی کو اکل حلال(10) اور صدق مقال اختیار کرنا مقدم ہے۔ ماں باپ، استاد اوربزرگوں کا ادب کرنا، ہمسایے کے حق کا خیال رکھنا، وجہ حلال سے معاش پیدا کرنی، عزیز و اقربا کا حق سمجھنا، مہمان نوازی اور سخاوت کرنی، لوگوں سے خوش اخلاقی اور تواضع سے پیش آنا، علم کی بڑائی اور عالموں کی تعظیم کرنی اور آور اسی قسم کی باتیں عمل میں لانی اہل اسلام کے ہاں نہایت ضروری ہیں۔ مسلمان سودی روپیہ قرض دینا بہت برا جانتے ہیں اور یہ بات ان کے مذہب میں بالکل ناجائز ہے بلکہ جو شخص مسلمان ہو کر سود لے، اس کے ہاں کا کھانا بھی درست نہیں اور سود دینے والے کا بھی بہت برا درجہ لکھا ہے۔ نشہ خواہ کسی قسم کا ہو، مسلمانوں کے ہاں ہرگز جائز نہیں بلکہ مسکرات کے کارخانے کی نوکری بھی درست نہیں۔ ان لوگوں کے مذہب میں رشوت بالکل حرام ہے اور لکھا ہے کہ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ غیب کرنی، کسی کو ناحق ستانا، یتیموں کا مال کھانا، ظلم کرنا،ا پنے تئیں اچھا جاننا، اکڑ کر چلنا، تکبر کرنا، اترانا، کسی پر ناحق تہمت لگانی، امانت میں خیانت کرنی، خدا کی رحمت سے نا امید ہونا، وعدہ کر کے پورا نہ کرنا، قرآن پڑھ کر بھول جانا، جھوٹی گواہی دینی، سچ بات کی گواہی چھپانی، خدا کے سوا اور کسی کو سجدہ کرنا، کسی کا ناحق گلہ سننا، وجہ حرام سے معاش پیدا کرنی، حرام کا لقمہ کھانا، خلق کی تکلیف سے خوش ہونا، چوری کرنی، جوا کھیلنا، کھیل کود میں مشغول ہونا، نجومیوں اور ایسے ہی لوگوں کی باتوں پر اعتقاد کرنا، شرع کی باتوں پر ہنسی کرنی، منہ سے بیہودہ بات نکالنی، مردے کو پیٹنا یا پکار کر رونا، حقارت کی نظر سے کھانے کو برا کہنا، لوگوں کے دکھانے کو عبادت میں مصروف ہونا، ہنسی ٹھٹھا کرنا، ظالموں کی خوشامد کرنی اور اسی طرح کی باتیں مسلمانوں کے مذہب میں نہایت بری ہیں اور ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کا دل اور زبان یکساں ہو۔ مسلمانوں ک وایک ہی وقت میں چار بیویوں تک رکھنے کی اجازت ہے، مگر اس میں یہ ضروری ہے کہ ہر چیز میں سب کا حق برابر سمجھیں اور عدل و انصاف سے پہلو تہی نہ کریں۔ علاوہ اس کے وہ جس قدر چاہیں لونڈیاں بھی رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی لونڈی کے ہاں اس کے آقا سے اولاد ہو جائے تو ا سکی بیع جائز نہیں اور وہ اپنے آقا کے مرتے ہی آزاد ہو جائے گی۔ مسلمان اپنی بیویوں کو طلاق بھی دے سکتے ہیں اور اگرچہ یہ فعل ان کے ہاں مباح ہے مگر بہت ہی نازیبا کہتے ہیں۔ چنانچہ ان کی کتابوں میں اس امر کو ابغض المباحات یعنی مباح چیزوں میں سے نہایت ہی برا لکھا ہے۔ ہر مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوبارہ اپنے تصرف میں لا سکتا ہے، مگر تیسری طلاق کے بعد وہ اس کے نکاح میں نہیں داخل ہو سکتی، جب تک وہ کسی اور شخص کے نکاح اور قبضے میں آ کر طلاق نہ پائے۔ اہل اسلام کے ہاں عورت کے دوبارہ نکاح کرنے کی اجازت بلکہ تاکید ہے اور شرع کی رو سے اس مسئلے کے ناجائز سمجھنے والے کو کفر سے منسوب کرتے ہیں مگر ہندوستان کے مسلمان خصوصاً گاؤں کے رہنے والے بیوہ کا نکاح کم کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں مسلمانوں کو اجازت ہے کہ اپنی بیویوں کو ماریں مگر اس میں یہ شرط ہے کہ بے جا اور اس طرح کی ضرب نہ پہنچائیں جس سے ہڈی پر صدمہ آئے یا اسے زیادہ تر تکلیف ہو۔ ان کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ خاوند بیوی کو شریعت کی راہ بتائے اور دین کے مسئلوں سے آگاہ کرے۔ اگر وہ نہ سیکھے تو پہلے نرمی سے سمجھائے، اس سے نہ مانے تو اختلاط ترک کرے۔ اس سے بھی باز نہ آئے تو مارے اور انجام کار طلاق کا درجہ ہے۔ ہندوستان میں یہ رسم ہے کہ بارہا امیر اور دولت مند آدمی کبھی غریب بھی کئی بیویاں کر لیتے ہیں مگر اکثر مسلمان صرف ایک ہی نکاح کرتے ہیں۔ انگریزوں کی عمل داری میں لونڈیاں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی، اس واسطے یہاں کے مسلمان لونڈیاں کم رکھتے ہیں اور بعض آدمی جو اور عورتیں کہ نہ بیویاں ہوتی ہیں نہ لونڈیاں، اپنے گھر میں ڈال لیتے ہیں، یہ امر مسلمانوں کی شرع کے خلاف ہے۔ سنی مسلمان مذہبی امور میں چار اماموں میں سے کسی نہ کسی کے مقلد(11) ہیں او ران کے نام یہ ہیں: حضرت امام ابو حنفیہؒ جنہیں حضرت امام اعظمؒ بھی کہتے ہیں، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام احمد ابن حنبلؒ، یہ چاروں امام مذہب کے مجتہد ہیں اور مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بڑے عالم، فاضل، عابد، عارف،صادق اور منصف تھے۔ جو لوگ جس جس امام کے مقلد ہیں، وہ اسی امام سے نامزد ہیں، چنانچہ حضرت امام ابو حنفیہؒ کی تقلید کرنے والے حنفی کہلاتے ہیں اور اسی طرح باقی تین اماموں کے مقلد شافعی، مالکی اور حنبلی مشہور ہیں۔ مسلمانوں میں فقیروں کے بھی بہت سے فرقے ہیں، جن میں سے اکثر خانقاہوں اور اسی قسم کے مکانوں میں رہتے ہیں اور گوشہ گزیں ہو کر پرہیز گاری سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بعض فرقے مثلاً قلندر اور رسول شاہی بالکل آزاد منش ہیں اور کسی بات کے پابند نہیں۔ رسول شاہی فرقے کی ابتدا کو بہت عرصہ نہیں ہوا۔ اس فرقے کی بنیاد ایک شخص رسول شاہ نامی نے ڈالی اور اس کے جانشین حنیف شاہ نے اسے رونق دی۔ یہ فرقہ نشے کی چیزوں سے کچھ پرہیز نہیں کرتا بلکہ نشے میں مست رہنا دنیا کی بے تعلقی کا وسیلہ جانتا ہے مگر جو لوگ شرع کے پابند ہیں، وہ ایسے فرقے کے لوگوں کو مسلمان نہیں کہتے۔ تھوڑے عرصے سے سنی مسلمانوں کے دو فرقے اور مشہور ہو گئے ہیں۔ ایک وہابی کہلاتا ہے، دوسرا بدعتی اور اس کی اصل یہ ہے کہ ا نیسویں صدی عیسوی کے شروع میں ایک شخص عبدالوہابؒ نامی نے مکے کے گرد و نواح میں رونق پائی اور بعض احکام بہ تشدد جاری کرنے شروع کیے۔ چنانچہ نیاز نذر ماننی اور قبروں پر روشنی کرنی اور غلاف چڑھانے سے لوگوں کو سختی سے منع کیا، یہاں تک کہ 1803ء میں اس نے بہت سے آدمیوں کے ساتھ ہو کر شہر مکہ پر قبضہ کر لیا اور وہاں کے بعض عالی شان مقبرے اور برج ڈھا دئیے اور رفتہ رفتہ اور مقاموں پر بھی قابض ہو گیا۔ آخر 1818 ء میں محمد علی مصر کے فرماں روا نے ان لوگوں کو شکست دی۔ پس فرقہ بدعیہ اکثر مسلمانوں کو اسی عبدالوہابؒ کی طرف منسوب کر کے وہابی کہتا ہے مگر وہابی لوگ اپنے تئیں اہل سنت و جماعت بتاتے ہیں اور اگر لفظ وہابی بھی اپنے واسطے تسلیم کرتے ہیں تو وہاب کی طرف جو خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اپنے تئیں منسوب سمجھتے ہیں۔ برخلاف اس کے وہابیہ فرقہ بہتیرے مسلمانوں کو لفظ بدعت کی طرف منسوب کر کے بدعی (12) یا بدعتی مشہور کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعت مذہب کی نئی بات کو کہتے ہیں جس کا اختراع کسی مثال سابق پر نہ ہو۔ تو وہابی لوگ اس نظر سے کہ فرقہ بدعیہ نے بہت سی نئی باتیں جو حضرت محمدؐ اور ان کے اصحابؓ اور اصحابؓ کے تابعین کے وقت میں نہ تھیں، مذہب اسلام میںجاری کر دیں، ان لوگوں کو بدعتی بولتے ہیں۔ مگر یہ لوگ اس لفظ کو اپنے واسطے تسلیم نہیں کرتے اور وہ بھی اپنے تئیں اہل سنت و جماعت کہتے ہیں اور کوئی سی نئی بات جو انہوں نے مذہب میں اختیار کی ہے، اسے بدعت حسنہ (13)بتاتے ہیں۔ ٭٭٭ تیسری فصل: اہل اسلام کی ذاتوں کا بیان تمام مسلمانوں کے نزدیک اہل عرب جو سام ابن نوح ؑ کی اولاد میں ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو حضرت اسماعیل ؑ ابن حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں ہیں، سب سے شریف اور بزرگ گنے جاتے ہیں اور ان کی فضیلت حدیث سے ظاہر ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ نے حضرت محمد ؐ کی زبانی بیان کیا ہے کہ عرب والوں کو تین سیوں سے دوست رکھو! میں عربی ہوں اور قرآن عربی ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہے۔ ان میں قبیلہ قریش جس میں حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے ہیں، شرافت کے لحاظ سے اور بھی فوقیت رکھتا ہے اور یہ امر بھی حدیث سے بخوبی ثابت ہے۔ چنانچہ کتاب مشکوۃ المصابیح میں لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ نے حضرت محمد ؐ سے روایت کی ہے کہ جو شخص قریش کی اہانت چاہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی اہانت کرے گا اور حضرت عبداللہؓ ابن مطیع نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ حضرت محمد ؐ نے مکے کے فتح ہونے کے دن کہا ہے کہ آج کے بعد روز قیامت تک قریش لوگ قید ہو کر قتل نہ کیے جائیں اور حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت محمد ؐ سے روایت کی ہے کہ سلطنت قریش میں ہونی چاہیے اور کتاب عقائد نسفی میں لکھا ہے کہ امام فرمانروا اور حاکم پیشوا کا قریشی ہونا ضرور ہے یعنی شیخ ہو یا سید مگر قبیلہ قریش میں سے ہو کیوں کہ حضرت محمد ؐ نے کہا کہ امام قبیلہ قریش میں سے ہوا کریں ! اس قبیلے میں اسلام پہلے پہل جاری ہوا اور ابتداء میں جو لوگ اس قبیلے سے مسلمان ہوئے، وہ اس سبب سے کہ شیخ کے معنی بزرگ کے ہیں، شیخ کہلانے لگے اور خود حضرت محمد ؐ بھی اس قبیلے میں سے تھے۔ ان سب قریشی شیخوں کو اسلام کی بزرگی کے باعث سے کمال فوقیت حاصل ہوئی۔ پھر ان میں سے جو لوگ خاص حضرت پیغمبر ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد سے ہوئے، وہ سید کے نام سے معروف ہوئے اور لوگوں پر بدستور شیخ کا نام قائم رہا، مگر قریشی شیخ جو باقی تین خلفا کی اولا دمیں ہیں، وہ بھی علیحدہ علیحدہ انہیں خلفا کے نام سے پکارے گئے۔ چنانچہ جو لوگ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اولادمیں ہیں، وہ شیخ صدیقی کہلانے لگے اور جو حضرت عمر فاروقؓ کی اولاد ہیں، وہ شیخ فاروقی مشہور ہوئے اور جو حضرت عثمان غنیؓ کی اولاد میں ہیں، وہ شیخ عثمانی سے نامزد ہوئے۔ حضرت علیؓ کی اولاد جو حضرت فاطمہؓ کے سوا ان کی اور بیویوں سے ہے، وہ سید علوی کہلاتی ہے۔ جو لوگ انصار کی اولاد میں ہیں، وہ شیخ انصاری پکارے جاتے ہیں۔ مغلوں اور پٹھانوں کی اصلیں مختلف طور سے لکھی ہوئی ہیں، مگر اکثر کتابوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ مغل لوگ یافث ابن حضرت نوح ؑ کی اولاد میں ہیں اور ان کی ابتدا اس طرح سے ہے کہ یافث کی چھٹی پشت میں ایک شخص مغل نامی پیدا ہوا، جو لوگ اس کی نسل میں ہیں، وہ مغل کہلاتے ہیں اور ان لوگوں میں حضرت محمد ؐ کے کئی سو برس بعد مذہب اسلام جاری ہوا۔ پٹھانوں کی اصل کا حال انہیں کی اکثر کتابوں سے یہ دریافت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص افغان نامی سلیمان ؑ ابن داؤد ؑ کے وقت میں تھا، اس کی اولاد افغان سے نامزد ہوئی۔ پھر حضرت محمد ؐ کے زمانے میں جب دین اسلام کی بنیاد قائم ہوئی تو ان میں سے ایک شخص قیس نامی ستر آدمیوں سمیت افغانستان سے حضرت محمد ؐ کے پاس آ کر اسلام لایا اور اس نے اپنے ملک میں جا کر تمام قوم میں یہ مذہب جاری کیا۔ چونکہ افغانوں میں اسلام کی ابتداء اس شخص سے ہوئی تھی، اس واسطے ان لوگوں میں ان کا لقب بتان مشہور ہو گیا کیونکہ بتان ان کی زبان میں جہاز کے نیچے کے تختے کو کہتے ہیں۔ تو جیسے جہاز کی پائیداری اس تختے سے ہوتی ہے، ویسی افغانوں میں اسلام کی پائیداری قیس سے ہوئی اور وہ بھی بتان کہلانے لگے۔ یہی لفظ بگڑتے بگڑتے پٹھان ہو گیا اور افغانوں میں جو لوگ خاص قیس کی نسل میں ہوئے وہ بھی اس لفظ سے مشہو رہوئے۔ اگرچہ مسلمانوں میں بالا تفاق قریشیوں کو سب پر فضیلت ہے مگر پھر بھی ہندوستان میں چار قومیں شیخ، سید، مغل اور پٹھان شریف مشہور ہیں۔ ان کے سوا اور بہت سی قومیں ہیں اور ان میں سے اکثر اپنے پیشوں کے نام سے معروف ہیں مگر وہ شریف نہیں گنی جاتیں۔ جو شخص کسی اور مذہب میں سے دین اسلام میں آئے، حقیقت میں مسلمانوں کے ہاں پہلی چار ذاتوں سے اس کی ذات کچھ نہیں ہوتی، مگر جو کہ شیخ کے معنی بزرگ کے ہیں تو وہ لوگ نو مسلم پر بھی اس کی بزرگی کے لحاظ سے شیخ کا اطلاق کرتے ہیں۔ ٭٭٭ چھٹا باب جہاں آرا بیگم اور محمد یوسف گیتی آرا بیگم اور محمد جمیل الدین کا قصہ (1) جو کلام مصنف نے اپنی طرف سے لکھا ہے، اس کے پہلے م ہے اور جو غیر کی جانب سے لکھا ہے، اس کے اول غ ہے۔ (2) ایک روز کا ذکر ہے کہ کسی جگہ آندھی بڑے زور و شور سے آ رہی تھی، درختوں میں ہوا سنسنا رہی تھی، چاروں طرف کالی گھٹا چھا رہی تھی، بادلوں میں بجلی خوب آب و تاب دکھا رہی تھی، لوگوں کی نظروں میں موت کا سما پھر رہا تھا، غیر موسم کی گھٹا سے سب کے دلوں پر فکر کا بادل گھر رہا تھا، اسی جگہ سڑک کے کنارے پر ایک آباد سرا تھی جو نہایت پختہ اور خوش نما تھی۔ معمول کے موافق وہاں بہت سے مسافر آئے ہوئے تھے مگر اس حادثے سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سرا کے ایک کونے میں چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا، اس کے اندر کسی کوٹھڑی میں ایک شخص بے ہوشی کی حالت میں پلنگ پر پڑا ہوا تھا، اس کے سرہانے میں دونوں طرف دو مامائیں (3)مونڈھوں پر بیٹھی ہوئی رومال ہلا رہی تھیں اور وہیں دو خوبصورت لڑکیاں جہاں آرا بیگم اور گیتی آرا بیگم چپکے چپکے باتیں کر کے رنج و مصیبت کو بھلا رہی تھیں، ایک دوسرے کو خدا کی یاد دلا رہی تھیں، تسلی کی باتوں سے دل کے غنچہ پژمردہ کو کھلا رہی تھیں۔ باہر کسی اور مکان میں ان کے نوکر چاکر تھکے ماندے پڑے ہوئے تھے۔ پالکی، گھوڑا، رتھ اور بیل وہیں کھڑے ہوئے تھے۔ دونوں لڑکیاں آندھی اور طوفان کا ذکر کر رہی تھیں کہ اتنے میں اور بھی اس کی شدت ہوئی۔ ہوا کے زور سے شمع کافور (4) ہو گئی، چراغ گل ہو گیا۔ دونوں گل اندام اندھیرے میں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے سے رہ گئیں۔ اگرچہ تاریکی کی حالت میں وقت کی کچھ تمیز نہ ہوتی تھی مگر جب ان کے بالوں اور چہروں پر بجلی کی چمک پڑتی تھی تو رات دن کا ایک ہی وقت میں سما بندھ جاتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مینہ کا جھڑاکا شروع ہوا اور اس قدر برسا کہ سب طرف پانی ہی پانی دکھائی دینے لگا۔ یہ خوفناک حادثہ دیکھ کر جہاں آرا بیگم بولی ’’ دیکھو بوا (5) گیتی آرا! جب ہم عجیب آباد سے چلے تھے تو اس مصیبت کی کیا خبر تھی کہ ابا جان (6) کا یہ حال ہو جائے گا۔ افسوس اس جنگل میں دوا دارو کہاں سے لاؤں! ابا جان کو کیا پلاؤں! یہاں نہ حکیم(7) ہے نہ طبیب، نوکر اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، بے چارے مصیبت میں گرفتار ہیں۔ ادھر تو مجھے ابا جان کا خیال ہے، ادھر بائی جان کا دل میں جدا تصور ہے کہ وہ دہلی میں بیٹھے انتظار کر رہے ہوں گے۔ انہیں ہماری تکلیف اور مصیبت کی کیا خبر ہو گی! نہیں تو وہ جس طرح ہو سکتا، اپنے تئیں یہاں پہنچاتے اور دکھ درد میں شریک ہوتے۔ خیر اللہ تعالیٰ اسی میں کچھ بہتری کرے گا، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔‘‘ گیتی آرا بیگم جس کی نسبت جہاں آرا بیگم کے بھائی سے ہو چکی تھی، اس کا ذکر سنتے کچھ شرما ہی گئی اور بولی ’’ بوا! خدا سب کا مالک ہے، اس سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ایک دم میں ہزار دم ہیں۔ کیا تعجب ہے، ابھی خدا تعالیٰ چچا جان کو شفا بخشے۔ کیوں ایسی گھبرائی جاتی ہو؟ اب دہلی پہنچ جاتے ہیں وہاں ہر فن کا کامل آدمی موجود ہے۔ جاتے ہی کسی بڑے حکیم کو بلائیں گے، اچھی اچھی دوائیں پلائیں گے، خدا تندرست کر دے گا۔ ہراساں ہونے سے کیا ہوتا ہے صبر کرنا بہتر ہے۔‘‘ دونوں لڑکیاں اس قسم کی باتیں کر رہی تھیں اور خدا کو یاد کرتی جاتی تھیں کہ اتنے میں آندھی کم ہو گئی اور کچھ روشنی نمودار ہوئی۔ اس کے بعد اس مریض آدمی کا حال جو دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ محمد ناصر الدین نامی ایک شریف زادہ، دہلی کا نامور رئیس، ذات کا شیخ، بڑا خاندانی اور معزز آدمی تھا۔ اس کے باپ دادا کسی زمانے میں جاگیردار تھے اور بادشاہوں کے وقت میں بڑے بڑے منصبوں پر سرفراز رہے تھے۔ علاوہ اس کے وہ خود بھی بڑا لائق تھا اور اب مدت سے اپنی لیاقت اور کار گزاری کے باعث سے ضلع نور پور کے پرگنے عجیب آباد کا تحصیلدار ہو گیا تھا اور ہمیشہ بہت دیانت و امانت سے کام کرتا رہا۔ نہ کبھی کسی سے رشوت لی، نہ کسی مقدمہ میں کسی کی جانب داری کی۔ ہر دم خدا سے خوف کرتا رہتا اور اپنی عزت اور خاندان کے نام کا بڑا خیال رکھتا۔ حاکم محکوم سب لوگ اس سے راضی تھے اور دل سے اس کی بہتری چاہتے تھے۔ اس کا ایک بیٹا تھا محمد جمیل الدین اور ایک بیٹی تھی جہاں آرا بیگم۔ وہ ان دونوں سے محبت کرتا تھا مگر اپنے بڑے بھائی کی بیٹی کو بھی جس کا نام گیتی آرا بیگم تھا، ان دونوں سے کچھ کم نہ چاہتا تھا۔ گیتی آرا بیگم کے ماں باپ اسے بچہ ہی چھوڑ کر مر گئے تھے، اس سبب سے یہ لڑکی اپنے چچا ناصر الدین کے پاس رہتی تھی۔ جمیل الدین گیتی آرا بیگم سے دو برس بڑا تھا۔ جب اس کی عمر بارہ برس کی اور گیتی آرا بیگم کی دس برس کی ہوئی تو ناصر الدین نے ان دونوں کی نسبت کر دی مگر نکاح (8) مدت کے بعد ہوا اور اس وقت تک دونوں کو آپس میں ایک دوسرے سے جدا رکھنا اور ان میں پردہ کرنا ضرور سمجھا گیا۔ گیتی آرا بیگم کے ماں باپ زندہ نہ تھے اور ناصر الدین اس سے محبت بھی بہت کرتا تھا، اس سبب سے اس نے اپنی بھتیجی کی جدائی گوارا نہ کی بلکہ جمیل الدین کو عجیب آباد سے اپنے چھوٹے بھائی محمد فیض الدین کے پاس دہلی میں بھیج دیا کہ وہاں رہ کر علم تحصیل کرنے میں کوشش کرے۔ جب ناصر الدین تیس برس تک لیاقت اور دیانت سے سرکار کا کام انجام دے چکا تو اس نے پنشن کی درخواست کی۔ سرکار تو اس سے راضی ہی تھی فوراً پنشن منظور ہو گئی۔ اس نے دہلی آنے کا قصد کیا اور سفر کا سامان جو کچھ ضرور تھا سب تیار کر لیا۔ جہاں آرا بیگم اور گیتی آرا بیگم مدت سے عجیب آباد میں رہتی تھیں۔ اس سبب سے وہاں کی عورتوں کو جو ان کے گھر میں کبھی کبھی آیا کرتی تھیں، ان لڑکیوں کی جدائی کا بہت قلق ہوا اور چلنے کے دن سب کے سب اپنی اپنی سواریوں میں بیٹھ کر ملنے کے لیے آئیں۔ باہر مردانے ک مکان میں ناصر الدین کے رخصت کرنے کے واسطے پرگنے کے بہت سے آدمی جمع ہوئے۔ ناصر الدین نے اپنے آدمیوں (9) سے سارا اسباب چھکڑوں پر لدوایا اور دونوں لڑکیوں کو ایک رتھ میں سوار کر کے ان کی خدمت اور نگہبانی کے واسطے دو ماماؤں کو ان کے پاس بٹھایا اور آپ گھوڑے پر سوار ہو، رتھ، چھکڑوں اور نوکروں چاکروں کو ساتھ لے، وہاں سے روانہ ہوا۔ اس کے اخلاق کا لوگوں کے دلوں پر نقش تھا، کوئی اس کی جدائی نہ چاہتا تھا۔ سب آدمی جو باہر بیٹھے تھے، چشم پر آب افسوس کرتے ہوئے مشایعت (10)کے واسطے اس کے ساتھ ہوئے اور کئی کوس تک پہنچا کر الٹے چلے آئے۔ ناصر الدین نے دو منزل تک تو آرام سے سفر کیا مگر پھر اتفاق سے اسے بخار آ گیا اور تین روز تک برابر چڑھا رہا، کچھ ہلکا نہ ہوا۔ دہلی کئی منزل رہ گئی تھی، اس سبب سے کسی قصبے میں ٹھہر گئے۔وہاں مدت سے دہلی کا ایک طبیب رہتا تھا، اسے طلب کیا اور گھر میں اچھی طرح پردہ کر کے اندر بلایا۔ مریض کے پلنگ کے برابر بٹھایا۔ طبیب نے آتے ہی نبض دیکھی، تمام حال دریافت کیا، پوچھا ’’ شیخ صاحب! بخار کب سے ہے؟ سردی سے آتا ہے یا گرمی سے؟ کیا ہر وقت چڑھا ہی رہتاہے یا کسی وقت ہلکا بھی ہو جاتا ہے؟‘‘ ناصر الدین نے تمام حقیقت اس کے روبرو بیان کی۔ طبیب نے جواب دیا ’’ رستے کی ماندگی اور آب و ہوا کے اختلاف سے یہ بخار عارض ہو گیا ہے، مادی نہیں ہے۔ اب آپ یہیں ٹھہرئیے۔ یہ قصبہ بھی اچھا ہے، ضروری دوائیں یہاں مل سکتی ہیں اور بندہ بھی ہر وقت خدمت گزاری کو موجود ہے۔ جب شفا ہو جائے گی تو یہاں سے دہلی تشریف لے جائیے گا۔‘‘ ناصر الدین نے کہا ’’ آپ کی عنایت میں کچھ شک نہیں مگر دہلی بھی قریب ہے، وہاں سب منتظر ہوں گے۔ اب تو جس طرح ہو سکے، اپنے شہر میں پہنچ جانا مناسب ہے۔ مرض سخت معلوم ہوتا ہے۔ دیکھا چاہیے، پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے! ہرچہ (11) از غیب میرسد نیکوست۔‘‘ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اتنے میں ایک نوکر پر تکلف خاصدان لایا۔ اس میں پان کی گلوری اور الائچیاں اور پانچ روپے رکھے ہوئے تھے۔ طبیب نے گلوری کھا لی اور روپے دیکھ کر بولے ’’ آپ کو یہ تکلیف کرنی کیا ضرور تھی! میں تو آپ کا نیاز مند ہوں۔ خدمت ہی میں حاضر ہونا اپنی عزت کا باعث جانتا ہوں۔‘‘ ناصر الدین نے کہا ’’ آپ کیا فرماتے ہیں۔ یہ حقیر شے آپ کے لائق نہیں ہے مگر اس کا قبول کرنا بھی مہربانی سے بعید نہیں ہے۔‘‘ طبیب نے اس وقت اپنے ایک خدمت گار کو آواز دی اور روپے اس کے پاس رکھوا دئیے۔ پھر کچھ اور تسلی اور تشفی کی باتیں کر کے وہاں سے رخصت ہوا۔ ادھر ناصر الدین نے بھی دہلی چلنے کا قصد کیا اور دوسرے روز صبح ہوتے ہی پالکی میں سوار ہوا، اپنے تمام ہمراہیوں کو ساتھ لے، دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ رات کوایک جگہ مقام کیا اور طبیب کی تجویز سے جو دوائیاں اپنے ساتھ لیتا آیا تھا، ان کا استعمال کیا۔ علی الصباح وہاں سے آگے بڑھا اور اسی سرا میں آیا، جس کا ذکر حصے کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ یہاں اسے ایسا بے ہوشی کا بخار چڑھا کہ سب ساتھ والوں کے حواس ٹھکانے نہ رہے۔ علاوہ اس کے آندھی اور مینہ کی وہ شدت ہوئی کہ مسافر چوکڑیاں بوھل گئے۔ ان کے پنجے اکھڑ گئے، چھکے چھوٹ (12) گئے، سب کے دلوں پر دھاکا بیٹھ گیا، ہر ایک آدمی اسی شش و پنج میں پڑ گیا۔ جہاں آرا اور گیتی آرا دونوں لڑکیاں یہ حال دیکھ کر چپکے چپکے اپنے رنج و مصیبت کی باتیں کرنے لگیں اور تکلیفوں کے دور ہونے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگیں۔ ناصر الدین کو رات بھر شدت سے بخار چڑھا رہا۔ صبح کو کچھ افاقہ ہوا تو اسے پالکی میں لٹا کر دہلی لے چلے اور شام کے وقت سب کے سب شہر میں پہنچ گئے۔ وہاں فیض الدین اور جمیل الدین دونوں منتظر تھے۔ ناصر الدین کے آنے کی خبر سنتے ہی اپنے نوکروں چاکروں سمیت تھوڑی دور استقبال کے واسطے گئے اور گھر تک اس کے ساتھ ساتھ آئے۔ ان لوگوں کو جس قدر اس کے آنے کی خوشی ہوئی، اس سے زیادہ اس کی بیماری کا رنج ہوا۔ خیر جس طرح ہو سکا، پالکی سے اتار کر گھر میں لے گئے اور ایک پلنگ پر لٹایا۔ پھر پردہ کرا کے لڑکیوں کو رتھ میں سے اتارا اور سارا اسباب بھی چھکڑوں میں سے نکال کر ٹھکانے سے لگایا۔ گیتی آرا بیگم کے گھر میں جاتے ہی جمیل الدین کا وہاں جانا موقوف ہوا اور وہ باہر دیوان خانے میں رہنے لگا۔ ضرورت کے وقت کبھی کبھی پردہ ہو جاتا اور وہ گھر میں آ کر اپنے باپ سے مل جاتا۔ محمد ناصر الدین کے پاس اس کے تمام رشتہ دار اور شہر کے سارے امیر و رئیس آئے۔ ہر ایک نے اس کی خبر پوچھی ا ور تسکین و تسلی کی باتیں کیں۔ ناصر الدین کو بیماری کی شدت ہوتی گئی اور روز بروز اس کا حال بگڑنے لگا۔ جب اسے اپنی زندگی کی کچھ توقع نہ رہی تو اس نے اپنے بھائی فیض الدین کو یہ وصیت کی ’’ میرا تمام مال و متاع اور جائیداد شرع کے موافق تقسیم کرنا۔ جہاں آرا کے واسطے کوئی اچھا خاندانی عزت دار اور پڑھا لکھا لڑکا تجویز کرنا۔ میں اپنی بیٹی اور بھتیجی کو یکساں سمجھتا ہوں۔ میرے بعد گیتی آرا کو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا اور ہر طرح سے اس کی خاطر داری کرتے رہنا۔ جس قدر جلدی ہو سکے، جمیل الدین سے اس کا نکاح کر دینا۔ میرے مرنے سے کچھ ہراساں نہ ہونا۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کو ہرگز نہ چھوڑنا۔‘‘ جب ناصر الدین کی موت کا وقت قریب آیا اور نزع کی حالت میں اس کا منہ خشک ہونے لگا تو خشکی کے دور ہونے کے واسطے اس کے منہ میں پانی ٹپکایا، تھوڑا سا شربت پلایا۔ اس کے بیٹے جمیل الدین نے جو حافظ قرآن تھا اور اس وقت اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا آہستہ آہستہ سورہ یسین (13) پڑھنی شروع کی۔ پھر سب لوگ جو وہاں موجود تھے، کلمہ پڑھنے لگے۔ وہ بھی اپنے منہ سے کلمہ پڑھتا رہا اور اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی۔ یہ سنتے ہی سب مردوں اور عورتوں نے افسوس کر کے قرآن کی عبادت کا ایک فقرہ (14) جو مصیبت کے وقت پڑھا جاتا ہے، اپنی اپنی زبان سے نکالا اور اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ بالتحقیق ہم خدا ہی کے واسطے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘ اس وقت کچھ آدمی چشم پر آب ہو کر آہستہ آہستہ رونے لگے اور کسی نے چیخ مار کر آواز نہ نکالی۔ دونوں لڑکیاں جو خرد سال تھیں، اپنے تئیں ضبط نہ کر سکیں اور آواز سے رونے لگیں۔ بڑی عورتوں نے انہیں سمجھایا’’ دیکھو اس طرح رونا شرع میں منع ہے، صبر کرنا چاہیے، صبر کا اجر خدا دیتا ہے اور قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ فیض الدین نے بھی ان کی بہت تشفی کی اور محبت کی باتوں سے ان کی دل جمعی کی۔ بارے وہ بھی چپکی ہو رہیں۔ جوں ہی ناصر الدین مر گیا، وہیں اس کا منہ اور آنکھیں بند کر دیں اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ملا کر کسی کپڑے کی دھجی سے باندھ دئیے تاکہ منہ اور آنکھوں کے کھلے رہنے اور پاؤں کے جدا جدا ہونے سے اس کی ہیئت ہیبت ناک نہ ہو جائے۔ اب اس امر کی تاکید شروع ہوئی کہ جس قدر جلدی ہو سکے، نہلا دھلا، کفن دے کر، دفن کر دینا چاہیے۔ فوراً دو تین واقف کار آدمی شہر کے باہر جہاں ان کے خاندان کا قبرستان اور مقبرہ ہوا تھا، قبر کھدوانے کو بھیج دئیے اور یہاں اس کے نہلانے کو پانی گرم کرنا شروع کیا اور گرم ہوتے وقت پاکیزگی اورصفائی کے واسطے اس میں بیری (15) کے پتے اور خطمی کے پھول ڈال دئیے۔ پھر مردے کے نہلانے کی تجویز کر کے ایک علیحدہ مقام میں لمبا سا گڑھا کھودا تاکہ اس کے غسل کا پانی سب طرف نہ پھیلے اور وہیں گڑھے میں اکٹھا ہو جائے ۔ اس کے بعد ایک لمبا تختہ خوب دھو کر اور تین دفعہ خوشبو دے کر، اس گڑھے پر بچھایا اور مردے کو لا کر اس پر چت لٹایا۔ پھر اس کے عزیزوں (16) اور رشتہ داروں نے مذہب اسلام کی شرطوں کے موافق نہلایا اور غسل دینے میں تین دفعہ دائیں طرف سے، پھر بائیں طرف سے اس کے اوپر پانی بہایا۔ ادھر تو اس کے نہلانے دھلانے کا سامان ہوتا رہا، ادھر ایک بڑی چارپائی منگا کر اس کے اوپر نیا بوریا بچھایا اور سفید کپڑے کا بہت عمدہ کفن تیار کرایا۔ کفن میں تین کپڑے تھے: لفافہ، ازار اور قمیض۔ لفافہ اور ازار صرف دو چادریں تھیں اور قمیض جسے خاص مردے کی نسبت کفنی بھی کہتے ہیں، لمبے کرتے کے طور پر ایک کپڑا بیچ میں سے چاک کیا ہوا تھا۔ جب چارپائی پر بوریا بچھا چکے تو اس کے اوپر لفافہ اور پھر ازار بچھائی اور پھر چاک کی ہوئی جگہ تک کفنی پھیلائی اور باقی موڑ کر سرہانے کی طرف رکھ دی۔ جب مردے کو اچھی طرح نہلا دھلا چکے تو اس کے بدن کو کپڑے سے پونچھا اور صندل اور کافور پیس کر اس کی پیشانی، ہاتھوں، گھٹنوں اور دونوں پاؤں یعنی ان اعضاء کو جو سجدے میں زمین پر ٹکتے ہیں، لگا دیا اور یہی خوشبو کفن کے کپڑوں میں بھی چھڑک دی۔ چارپائی پر کفن چن ہی رکھا تھا، اس پر مردے کو لا کر لٹا دیا اور کفنی کے چاک میں سے اس کا سر نکال کر باقی کفنی کو جو مڑی ہوئی اس کے سرہانے رکھی تھی، اس کے اوپر پھیلا دیا۔ اس کے بعد ازار اور پھر لفافے کو لپیٹ دیا۔ سر، کمر او رپاؤں کے پاس نئے کپڑے کی دھجیوں کے تین بندھ باندھ دئیے تاکہ کفن ہوا سے نہ اڑے۔ کفن جو مرد (17) کے ساتھ قبر میں جاتا ہے، انہیں تین کپڑوں کا ہوتا ہے مگر اس ہیئت کی پوشش کے لیے ایک لمبی چادر جو مردے کو چارپائی سمیت اچھی طرح ڈھانک لے، اس کے اوپر ڈال دی اور اڑنے اور سرکنے کے اندیشے سے اس کے چاروں کونے چارپائی کے چاروں پایوں سے باندھ دئیے اور پھر عود کی بتی روشن کر کے سب طرف سے خوشبو دے دی۔ ناصر الدین کے رشتہ دار اور شہر کے بعض رئیس باہر دیوان خانے میں بیٹھے ہی ہوئے تھے، جنازہ اپنے کندھے پر اٹھا کر قبرستان کی طرف لے چلے۔ شہر میں سے اور بھی مسلمان ثواب کے خیال سے جنازے کے ساتھ ہوئے اور نوبت بہ نوبت کندھے دیتے گئے۔ جنازے کا سرہانا آگے کی طرف اور پاؤں پیچھے کی طرف تھے۔ سب آدمی کلمہ پڑھتے ہوئے موت کو یاد کرتے ہوئے، اس کے پیچھے پیچھے معتدل رفتار سے چلے جاتے تھے۔ جنگل میں ایک اچھا صاف سا مقام دیکھ کر جنازے کی نماز کے واسطے ٹھہرے۔ وہاں کسی کنوئیں پر لوگوں نے وضو کیا۔ پھر جنازے کا سر شمال (18)اور پاؤں جنوب کی طرف رکھ کر سب لوگ صفیں باندھ کر نماز کے واسطے کھڑے ہو گئے۔ ناصر الدین کے بیٹے جمیل الدین کو جو ولی (19) تھا امام بنایا۔ اس نے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس نماز میں چار تکبیریں کہیں۔ پہلی تکبیر کے بعد خدا کی پاکی اور صف و ثنا اور دوسری تکبیر کے بعد درود اور تیسری تکبیر کے بعد مغفرت اور ایمان کی دعا پڑھی اور چوتھی تکبیر کے پیچھے دائیں بائیں سلام کہہ کر نماز تمام کر دی۔ جب نماز سے فارغ ہو چکے تو جمیل الدین نے اذن عام پکار دیا، اس وقت کچھ لوگ رخصت ہو گئے اور باقی قبرستان میں جنازے کے ساتھ گئے۔ وہاں پہلے ہی سے قبر تیار ہو چکی تھی اور بشکل مستطیل چوکھونٹی کھدی ہوئی تھی۔ اس کا طول شمالی (20)اور جنوبی اور عرض مشرقی اور مغربی سمت میں تھا اور مغرب کی طرف مردے کے رکھنے کے واسطے ایک لحد(21)بنی ہوئی تھی۔ وہاں لے جا کر جنازے کو قبر کے پاس رکھ دیا پھر اس کے اوپر کی چادر اٹھائی اور مردے کو قبلے کی طرف سے قبر میں اتار کر لحد میں داخل کیا اور اس کا چہرہ ذرا قبلے کی طرف مائل کیا۔ اس کے بعد گورکنوں سے قبر کو پٹوا دیا اور اس کی صورت مسنم (22)بنوا کر وہاں پانی چھڑکوا دیا تاکہ قبر کی مٹی بالکل جم جائے، ہوا کے اثر سے اڑنے نہ پائے، اچھی طرح تھم جائے۔ جب ان کاموں سے فارغ ہو چکے تو سب نے فاتحہ پڑھی اور نوکروں نے اناج، روٹیاں اور نقدی جو پہلے سے ہاتھیوں پر اپنے ساتھ لیتے گئے تھے، مسکینوں اور فقیروں کو تقسیم کی۔ ان لوگوں کا وہاں جمگٹھا لگا ہوا تھا، سب راضی اور خوش ہو گئے، دعائیں دیتے ہوئے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ مردے کو دفن کر کے سب لوگوں نے گھر آنے کا ارادہ کیا بعید رشتہ دار اور شہر کے بعض رئیس رستے ہی میں سے جمیل الدین اور فیض الدین سے اجازت لے کر رخصت ہو گئے اور باقی عزیز و اقربا ناصر الدین کے گھر آئے۔ کھانا پکا پکایا بعض رشتہ داروں کے ہاں سے وہاں آ گیا تھا، سب نے مل کر کھایا۔ تیسرے دن صبح کے وقت اکثر رشتہ دار اور شہر کے بہت سے امیر و رئیس مردانے مکان میں جمع ہوئے اور بہت سے مسکین اور فقیر لوگ بھی آئے۔ قرآن کے تیسوں سپارے (23) جن کی جلدی علیحدہ علیحدہ بندھی ہوئی تھیں، وہاں بیچ میں رکھے ہوئے تھے۔ ہر ایک نے وہاں سے لے کرایک ایک دو دو سپارے پڑھے اور تھوڑے عرصے میں کئی قرآن ختم وہ گئے اور دو تین لاکھ دفعہ کلمہ پڑھا گیا۔ جب فاتحہ ہو چکی تو لوگوں نے جمیل الدین کے آگے اس کے باپ کی تعزیت کی اور اسے صبر شکر کرنے اور خدا کی رضا پر راضی رہنے کی نصیحت کی۔ آج کے دن بہت افراط سے کھانا پکا تھا، مسکینوں اور فقیروں کو بھی تقسیم کرایا گیا، عزیزوں اور قریبوں کو بھی کھلایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سب لوگ رخصت ہو کر چلے گئے۔ کنبے کی عورتیں کچھ تو ناصر الدین کے مرتے ہی اور کچھ آج کے دن سواریوں میں بیٹھ کر اس کے گھر گئی تھیں، ان میں سے اکثر آج ہی اپنے اپنے گھر چلی آئیں اور کچھ رہ بھی گئیں۔ اس کے بعد چند روز تک اور بھی رشتہ دار اور دوست آشنا تعزیت کے واسطے آیا کیے۔ باہر مردانے مکان میں جمیل الدین اور فیض الدین اور اندر زنانے میں فیض الدین کی بیوی نجم النساء بیگم اور دونوں لڑکیاں مہمانوں کی خاطر داری کرتی رہیں اور علاوہ اس کے جمیل الدین اور اس کی بہن جہاں آرا بیگم دونوں اپنے باپ کے مال میں سے غریبوں اور فقیروں کو بہت سا کچھ تقسیم کرتے رہے۔ ناصر الدین کے مرنے کے بعد جہاں آرا اور گیتی آرا اپنی چچی نجم النسا کے پاس رہیں اور وہ ان دونوں سے بہت محبت کرتی رہی۔ جمیل الدین باہر مردانے مکان میں رہتا اور مولوی فخر الدین سے جو فارسی اور عربی میں بڑا مسلم استاد اور معقول اور منقول میں فاضل بے بدل تھا، علم تحصیل کرتا رہتا اور پڑھنے لکھنے میں بہت توجہ کرتا، کبھی ضرورت کے وقت پردہ کرا کے اپنی چچی سے ملنے کو چلا جاتا ورنہ ہمیشہ اپنے استاد کی خدمت میں حاضر رہتا اور فخر الدین کی فرماں برداری اپنے دین کے فخر کا باعث سمجھتا۔ جب ناصر الدین کو مرے ہوئے ایک برس کا عرصہ گزر گیا تو جہاں آرا بیگم کی خالہ (24) زاد بہن مریم کا ہدیہ (25) اور کے بھائی رحمن بخش کی بسم اللہ (26) قرار پائی۔ جہاں آرا کی خالہ نے سب عورتوں کو بلاوا بھیجا اور اسے بھی اپنے گھر میں بلایا۔ ساری عورتیں نفیس نفیس پوشاکیں اور عمدہ عمدہ زیور پہن کر پردہ دار سواریوں میں بیٹھ کر اس کے گھر گئیں اور اپنی اپنی ماماؤں اور نوکروں کو بھی ساتھ لیتی گئیں۔ ہر چند جہاں آرا بیگم کے دل سے باپ کا غم دور نہ ہوا تھا اور وہ ناکتخدا (27)بھی تھی، شرم و لحاظ غالب تھا، ہر جگہ جانا نامناسب تھا مگر ایسے پاس کے رشتے میں اس کی چچی ہرگز انکار نہ کر سکی اور اپنے ساتھ لے گئی۔ جہاں آرا نے پردہ دار پالکی میں سے اترتے ہی اپنی خالہ کو بڑی تعظیم و تکریم سے سلام کیا، بہت ادب و قاعدے سے کلام کیا، اس نے اسے گلے سے لگایا اور محبت سے اپنے پاس بٹھایا۔ پھر وہ اپنی چچی کے اشارے سے اٹھ کر مہمانوں سے علیحدہ، چپکی ایک کونے میں جا بیٹھی اور اس کی دوا (28)گلاب بھی اس کے ساتھ رہی۔ اس عرصے میں وہی لڑکی مریم جس کا ہدیہ ہونے والا تھا، اس کے پاس آئی اور آتے ہی جہاں آرا بیگم کو سلام کیا۔ جہاں آرا نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اس کے پڑھنے کا حال پوچھتی رہی۔ مریم نے خوش آوازی سے اس کو قرآن کا ایک رکوع (29)سنایا۔ جہاں آرا بہت خوش ہوئی اوربولی ’’ بوا! تم بڑی ذہین ہو۔ تم نے اتنی سی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا ہے۔ عجب نہیں ہے کہ تم جلدی سے فارسی کی بھی کچھ کتابیں پڑھ لو۔‘‘ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ رحمن بخش جو چار برس کا تھا، وہاں آ گیا اور سلام کر کے جہاں آرا کی گود میں ہو بیٹھا۔ جہاں آرا نے اسے پیار کیا اور پوچھا ’’ میاں! (30)بھلا بتاؤ تو کیوں مہمان جمع ہوئے ہیں؟ اور اپنا سپارہ تو دکھاؤ، کہاں ہے؟ ہم نے سنا ہے، تمہارے واسطے کمخاب (31) کا جھمجھماتا (32)جزدان سیا گیا ہے۔‘‘ رحمن بخش نے اپنی ودا لطیفہ نامی سے کہا ’’ اچھی ددا! میرا سپارہ لائیو، میں آپا(33) جان کو دکھاؤں۔‘‘ یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک بیاہی ہوئی لڑکی جس کا نام دل افروز بیگم تھا، اس بچے کی پیاری پیاری باتیں سن کر وہاں آ بیٹھی اور وہ بھی اس سے باتیں کرنے لگی۔ رحمن بخش گو کم عمر تھا، مگر اس کی بات مزے کی تھی، چالاکی سے جواب دیتا رہا۔ دل افروز جہاں آرا کو پہلے سے جانتی تھی مگر اس وقت جان بوجھ کر اس بچے سے امتحاناً پوچھنے لگی’’ میاں! جن کی گود میں تم بیٹھے ہو یہ تمہاری کون ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’ تم کیا نہیں جانتی ہو، یہ میری آپا جان ہیں۔‘‘ دل افروز نے کہا’’ تمہاری آپا جان بڑی غریب ہیں جو ایک کونے میں خاموش بیٹھی ہیں۔ کچھ تم ہی سے باتیں کرتی ہیں، ہم سے تو بولتی بھی نہیں۔‘‘ جہاں آرا بیگم نے کچھ جواب نہ دیا مگر لطیفہ جو ان دونوں کے تعارف سے واقف نہ تھی، جھٹ بول اٹھی ’’ بیگم! تم انہیں نہیں پہچانتیں، خدا رکھے (34) جہاں آرا بیگم ہیں، ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی ہے، بات بھی کہیں نہیں ٹھہری ہے، اس لیے شرم و لحاظ سے کونے میں بیٹھی ہیں۔ ان کے باپ کا انتقال ہو گیا، شادی کا ارمان جی کا جی ہی میں رہ گیا۔ ہزاروں روپے ان کی زبان میں تھے، بڑے دور دورے تھے۔ اب بھی اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے ملکوں کی بہتیری آمدنی ہے، ہر چیز موجود ہے، مگر خدا جلدی سے ان کے بیاہ کا دن دکھائے، الٰہی مراد کے موافق شادی ہو جائے!‘‘ جہاں آرا جو پہلے ہی دل افروز کے آنے سے شرما گئی تھی، لطیفہ کی یہ باتیں سن کر اور بھی لحاظ کرنے لگی۔ یہ دیکھ کر دل افروز بولی ’’ بوا! تم مجھ سے اتنی کیوں شرماتی ہو؟ میں تو کوئی غیر نہیں ہوں، ہمیشہ تمہارے گھر والوں سے ملتی رہتی ہوں۔ دیکھو تمہارے ابا جان مجھے کیسا پیار کرتے تھے، اپنے ہاں کی لڑکیوں سے کچھ کم نہ چاہتے تھے۔ اب تمہاری چچی بھی جن کو میں خالہ جان کہتی ہوں، مجھ سے بہت محبت رکھتی ہیں۔ کیا بتاؤں کیسی الفت کرتی ہیں۔‘‘ جب دل افروز نے جہاں آرا سے اس قسم کی باتیں کیں تو اس نے بھی خیال کیا کہ یہ میرے سارے گھر سے واقف ہے اور یہ سمجھ کر اس سے کچھ گفتگو کی اور بولی ’’ بوا! جب سے ابا جان مرحوم کا انتقال ہو،ا مجھے ان کا بہت غم و الم رہتا ہے۔ ان کی محبت کا خیال آتا ہے تو چھاتی (35)پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے، پھر دل کو سمجھاتی ہوں کہ دنیا ناپائدار ہے، خدا کے سوا کسی کی ذات کو بقا نہیں۔ خیر صبر کرتی ہوں، جو گزرتی ہے دل ہی پر گزرتی ہے۔‘‘ دل افروز نے کہا’’ بوا! صبر عجب چیز ہے۔ تم اپنے دل کو بہلایا کرو۔ آؤ چلو، صحن میں پھرو، اس طرح کیوں گھٹی بیٹھی ہو، ذرا باہر نکلو۔‘‘ اس عرصے میں کھانے کا وقت آ گیا، پر تکلف دستر خوان چنا گیا، کھانا رکھا گیا، سب نے مل کر کھایا، پھر دستر خوان بڑھایا۔ اس کے بعد چلمچی (36) آفتابہ لا کر مہمانوں کے ہاتھ دھلائے، پان بنے ہوئے رکھے تھے، سب کو کھلائے۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو عورتوں نے وضو کر کے نماز پڑھی، پھر ہدیہ کی تیاری ہونے لگی، مریم کو نہلا دھلا کر بہت نفیس پوشاک اور عمدہ عمدہ زیور پہنائے، دالان میں پہلے ہی سے اچھا فرش بچھا ہوا تھا، قرینے سے تکیے لگے ہوئے تھے، وہاں صدر جگہ مسند پر مریم کو لا بٹھایا۔ اتنے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ مریم اور لڑکیوں اور بڑی عورتوں نے نماز پڑھی، پھر بہت شائستگی سے سب کی سب تکیوں سے لگ کر بیٹھ گئیں۔ بیچ میں دو کشتیاں رکھی گئیں، ایک میں مریم کا بہت عمدہ جوڑا اور دوسری میں اس کی نذر دینے کے لیے سو روپے نقد رکھے ہوئے تھے، علاوہ اس کے اسی جگہ مٹھائی کے بھی بہت سے خوان چنے ہوئے تھے۔ استانی جو مریم کے گھر ہی میں رہتی تھی، بہت تعظیم و تکریم سے لائی گئی اور صدر مجلس میں مسند پر مریم کے پاس بٹھائی گئی۔ اس نے آتے ہی نظم میں کچھ دعا پڑھی اور دعا کے ہر شعر پر سب لڑکیوں نے جو مریم کی ہم عمر تھیں، بلند آواز سے آمین کہی۔ جب دعا ختم ہو چکی تو مریم نے کھڑے ہو کر پہلے استانی کو پھر سب عورتوں کو بہت ادب سے سلام کیا، ساری مجلس میں اپنا نام کیا۔ اس کے بعد مریم کی ماں کو سب نے مبارکباد دی۔ اس نے اسی وقت دونوں کشتیوں پر سے کشتی پوش اتار کر جوڑا اور سو روپے نذر کے طور پر استانی کے روبرو پیش کیے اور کہا ’’ میں آپ کا حق کسی طرح ادا نہیں کر سکتی، اسے قبول فرمائیے۔‘‘ استانی نے کچھ تامل کے بعد دونوں چیزیں لیں اور لڑکی کو بہت سی دعائیں دیں۔ پھر نجم النسائ، جہاں آراء اور دل افروز نے مریم کے ہاتھ میں پانچ پانچ روپے دئیے اور عورتوں نے اپنے اپنے رشتے اور مقدور کے موافق ہی ڈھنگ برتا۔ پھر خوانوں کے خوان پوش اتارے گئے اور بلوریں چشتریوں میں شیرینی تقسیم ہوئی، گھر میں عورتوں کو دی گئی اور باہر دیوان خانے میں جو بعض عزیز بیٹھے تھے، انہیں بھی بھیجی گئی۔ اتنے میں مغرب کا وقت آ گیا، سب نے نماز ادا کی اور تھوڑی دیر بعد کھانا کھایا اور پھر عشاء کی نماز پڑھ کر بڑی رات گئے سونے کی تیاری کی۔ پلنگ دالانوں میں بچھے ہی ہوئے تھے، اپنے اپنے ٹھکانے سے جا لیٹیں۔ جہاں آرا اپنے پلنگ پر سو رہی اور اس کے پاس اس کی ددا گلاب بھی ایک چارپائی بچھا کر لیٹ رہی۔ پچھلی رات کو کچھ عورتیں جاگیں اور وضو کر کے تہجد کی نماز اور وظیفہ پڑھتی رہیں۔ صبح بہت سویرے ہی باقی عورتیں بھی اٹھیں، سب نے وضو کیا، نماز اداکی، بہت دیر تک وظیفہ پڑھا، خدا کی درگاہ میں دعا کی۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ دلا فروز کے گھر سے اس کا نوکر نور خاں آیا۔ اس نے اندر اطلاع کرا کے دل افروز کی ددا سوسن کو بلایا، اس کی آواز سنتے ہی وہ گھبرائی اور جھٹ ڈیوڑھی پر آئی۔ نور خاں بولا ’’ میں ایک خوشخبری لایا ہوں، بیگم صاحب سے کہہ دو ابھی حضور کے بھائی صاحب آئے ہیں، جلدی سے آپ کو بلایا ہے، گھوڑے پر سے اترتے ہی مجھے ادھر بھیجا ہے، آپ نوکروں چاکروں سے اسباب اتروا رہے ہیں۔‘‘ یہ شخص محمد یوسف نامی ایک بڑا لائق اور نو عمر جوان تھا اور اپنے سب رشتہ داروں کے ساتھ دہلی ہی میں رہتا تھا، مگر سرکاری نوکری کے سبب سے چار برس سے باہر گیا ہوا تھا اور سرکار انگریزی کو اپنی کار گزاری اور لیاقت دکھا کر چھوٹی ہی عمر میں رسالے کا جمعدار ہو گیا تھا۔ محمد یوسف اور اس کے عزیز و اقربا ذات کے اور سید بہت عزت دار آدمی تھے۔ اس کا باپ محمد یعقوب پہلے انگریزوں کے ہاں رسالدار بہادر تھا اور سکھوں کی لڑائی میں لاہور پر بہت بہادری اور ثابت قدمی سے لڑا تھا، مگر اب اس نے پنشن لے لی تھی اور بہت اچھی طرح فراغ بالی سے زندگی بسر کرتا تھا ۔ انگریز اس کی بہت توقیر کرتے تھے اور اسی کے سبب سے سرکار انگریزی میں اس کے بیٹے کی بھی بڑی عزت تھی۔ جب دل افروز نے سوسن کی زبانی اپنے بھائی کے آنے کا حال سنا تو بہت خوش ہوئی اور اس کو اس کے ملنے کا ایسا اشتیاق ہوا کہ یکایک جہاں آرا سے کہنے لگی ’’ لو (37)بوا خدا حافظ! اب میں اپنے گھر جاؤں گی اور بھائی سے ملوں گی۔‘‘ جہاں آرا کی ددا گلاب جو وہیں بیٹھی تھی، بولی ’’ بیگم! ایسی کیوں گھبراتی ہو، خدا تعالیٰ نے تمہارے بھائی کو بھیج دیا، اب دل جمعی سے جا کر مل لینا۔ آج لڑکے کی بسم اللہ ہونے کو ہے، سارے مہمان ٹھہر گئے ہیں، تمہارا رہنا بھی ضروری ہے۔ بیٹی !(38) تمہارا اور ان کی خالہ کا ایسا معاملہ نہیں ہے کہ تم بسم اللہ کا انتظار نہ کرو اور ابھی چلی جاؤ۔‘‘ دل افروز نے کہا ’’ ددا اگر مجھے بھائی کے آنے کی خبر نہ ہوتی تو کچھ مضائقہ نہ تھا، میں ٹھہر جاتی مگر اس خبر کے سننے کے بعد تو مجھ سے نہیں رہاجاتا، یہی جی چاہتا ہے کہ ابھی بھائی سے جا کر ملوں۔‘‘ اتنے میں رحمان بخش کی ددا لطیفہ بولی ’’ بیگم! تمہارے بھائی ایسے کہاں گئے ہوئے تھے جو تم ان کے آنے کی خبر سنتے ہی گھبرائیں اور چلنے کو تیار ہو گئیں؟‘‘ دل افروز نے لطیفہ کی طرف مخاطب ہو کر اپنے بھائی کا حال بیان کرنا شروع کیا اور کہا ’’ ددا! یہ میرا چھوٹا بھائی ہے، مجھے اس سے بہت محبت ہے اور وہ بھی مجھ سے ایسی الفت کرتا ہے کہ کیا بیان کروں! چشم بد دور! صورت شکل والا ہے اور اتنی سی عمر میں ایسی بہادری کے کام کرتا ہے جن کے سننے سے تعجب آتا ہے۔ وردی کے کپڑے اس پر لاکھ لاکھ زیب دیتے ہیں اور سفید پوشاک کو تو خود اسی رونق ہو جاتی ہے۔‘‘ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں دل افروز کے بھائی نے اپنے دوسرے آدمی کے ساتھ پالکی بھیجی اور بلانے کی تاکید کی۔ دل افروز فوراً جانے کے واسطے کھڑی ہو گئی اور رخصت ہونے کے ارادے سے سب سے ملنے لگی۔ اس وقت مریم کی ماں نے دل افروز کے پاس آ کر کہا ’’ بیٹی! تمہارے مزاج میں بڑی جلدی ہے، بھلا کوئی مہمان بے کھائے بھی کسی کے گھر سے جاتا ہے؟ بھائی کی بسم اللہ کا انتظار نہیں کرتیں تو کھانا تو کھاتی جاؤ، تیار ہے، دستر خوان بچھتا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ تھوڑی دیر ٹھہری رہی، پھر کھانا کھا کر اپنے گھر روانہ ہوئی۔ ادھر تو وہ جا کر اپنے بھائی سے ملی، ادھر بسم اللہ کی تیاری ہوتی رہی۔ عزیز و اقربا اور شہر کے امیروں اور رئیسوں کے لیے پہلے ہی سے رقعے بھیجے گئے تھے، عصر کی نماز پڑھتے ہی سب لوگ آئے اور مردانے مکان میں تکیوں سے لگ کر قرینے سے ہو بیٹھے۔ رحمن بخش کو نہلا دھلا بہت عمدہ پوشاک پہنائی اور ایک شخص اسے گود میں اٹھا کر باہر لایا اور صدر مقام میں اسے تکیے سے لگا کر مسند پر بٹھایا۔ا ستاد جن سے بسم اللہ پڑھوائی منظور تھی، وہاں آئے اور انہیں سب لوگ اعزازو اکرام سے صدر مجلس میں لائے۔ پاس کے رشتہ دار بھی اس وقت مسند کے پاس آ بیٹھے۔ رحمن بخش کے پاس ایک کمخواب کا جزدان تھا اور اس میں سرخ(39) طلائی کاغذ پر بسم اللہ اور سورۂ حلق (40)لکھی ہوئی تھی۔ استاد نے جزدان میں سے کاغذ نکال کر ایک تکیے پر رحمن بخش کے آگے رکھا۔ شرینی کے خوان پہلے ہی سے وہاں موجود تھے، ان میں سے ایک خوان اس کے آگے سرکا کر کہا ’’ اگر تم پڑھ لو گے تو جتنی مٹھائی چاہنا آپ لے لینا اور جتنی چاہنا اور لڑکوں کو دے دینا۔‘‘ پھر استاد جو جو اپنے منہ سے بولتا گیا، لڑکا جلدی جلدی پڑھتا گیا۔ اس کے بعد استاد اور ساری مجلس کے لوگوں نے دعا کی اور پھر سب نے مبارکباد ادا کی۔ استاد کو ایک اشرفی، سات روپے اور بھاری جوڑا دیا گیا اور آئندہ بھی ہر موقع پر اس کے حق کا بہت خیال کیا گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے رحمن بخش کے ہاتھ میں کچھ روپے دئیے، پھر مردانے اور زنانے میں شیرینی تقسیم کی گئی، لڑکے کی ماں کوبھی بہت بہت مبارک دی گئی۔ جب شام ہوئی تو سب مردوں نے باہر کھانا تناول کیا اور بہت اچھی خوشبودار گلوریاں جو منہ صاف کرنے کے واسطے تیار ہو کر آئی تھیں، کھا کر رخصت ہوئے۔ دوسرے روز عورتیں بھی سواریوں میں بیٹھ بیٹھ کر اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ جو لوگ اس تقریب میں نہیں آئے تھے، دستور کے موافق ان کے حصے خوانوں میں چنوا لیے اور ان کے گھر بھجوائے گئے۔ اس کے بعد دل افروز کو جہاں آرا کی ایسی محبت ہو گئی کہ ہمیشہ تیسرے چوتھے دن اس کی خبر کے واسطے اپنا آدمی بھیجتی رہی اور اس کی چچی نجم النسا کے مزاج کے کیفیت بھی دریافت کرتی رہی۔ ایک روز اس کے آدمی نے آ کر کہا ’’ حضور! میں ڈیوڑھی پر گیا تھا، ماما نے کہا بیگم صاحبہ آرام کرتی ہیں، آج ان کی طبیعت کچھ ماندی ہے، میں جگانہیں سکتی۔‘‘ دل افروز یہ بات سن کر بہت فکر مند ہوئی اور دوسرے روز صبح ہی سواری میں بیٹھ کر عیادت (41)کے واسطے جہاں آرا کے گھر گئی۔ اترتے ہی نجم النسا کو سلام کیا اور گیتی آر ا بیگم سے بھی ملی۔ نجم النسا نے اسے گلے سے لگایا اور جہاں آرا کے پاس لے گئی۔ جہاں آرا ایک پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی اور گلاب اس کے پاس بیٹھی ہوئی رومال ہلا رہی تھی۔ دل افروز نے جہاں آرا سے پوچھا ’’ بوا! تمہاری طبیعت کچھ علیل ہے؟ مجھ سے تو کہو، کیا حال ہے؟ جس وقت سے میں نے یہ خبر سنی ہے، اسی وقت سے دل کو ایسی بے قراری ہوئی ہے کہ کیا بیان کروں ! خیر رات تو جس طرح ہو سکا، گزاری، مگر صبح کو نہ رہ سکی۔ آپ ہی تمہارے پاس آئی، بارے تمہیں بھی ہوش و حواس میں دیکھا، دم میں دم آیا۔ اب تم اپنا مفصل حال بیان کرو، جو اچھی طرح میرا اطمینان ہو۔‘‘ جہاں آرا نے اپنے مزاج کی کیفیت اس کے روبرو بیان کی اور کہا ’’ بوا! مجھے دو روز سے اعضا شکنی اور بخار تھا، درد سر بھی شدت سے تھا، اب بخار کو افاقہ ہے، درد سر بھی کم ہے، حکیم جی آئے تھے، نسخہ پینے کو دے گئے تھے، دوائیں اچھی ہیں اور خدا کی عنایت سے مجھے موافق بھی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اپنی دوا سے نسخہ منگایا اور دل افروز کو پڑھ کر سنایا۔ دل افروز نے وہ نسخہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی دواؤں کو دیکھ کر پسند کیا۔ اتنے میں کھانے کا وقت آیا، دستر خوان بچھا کر سب نے کھانا کھایا۔ دل افروز کی پٹاری اس کی ددا اپنے ساتھ لیتی آئی تھی مگر یہاں نجم النساء ہی کے پاندان میں سے اسے گلوریاں دی گئیں اور مہمان نوازی کی ساری رسمیں پوری کی گئیں۔ جہاں تھوڑا سا دن باقی رہ گیا تو دل افروز نے نجم النسا سے گھر جانے کی اجازت مانگی اور جہاں آرا سے جا کر کہا ’’ لو بوا! خدا حافظ! اب تو میں جاتی ہوں، خدا چاہے تو عنقریب ملاقات ہو گی۔ تمہاری چچی کے ہاں لڑکا بالا پیدا ہونے والا ہے۔ بھلا وہ مجھے کاہے کو چھوڑیں گی؟ ضرور بلائیں گی۔‘‘ اس گفتگو کے بعد سوار ہو کر اپنے گھر چلی گئی مگر اب بھی بدستور اپنا آدمی اس کی خبر کے واسطے بھیجتی رہی اور جہاں تک ہو سکا، اس سے اور اس کی چچی سے ملاقات بڑھانے میں کوشش کرتی رہی۔ چند روز کے بعد رمضان کا مہینہ آیا اور دل افروز بیگم کی چھوٹی بہن قمر زمانی کا جو سات برس کی تھی روزہ قرار پایا۔ ان لڑکیوں کی ماں پہلے مر گئی تھی، اس سبب سے قمر زمانی کے روزہ رکھنے کا بلاوا اس کی بڑی بہن دل افروز کی طرف سے گیا۔ اس نے کنبے کی سب عورتوں کو بلا بھیجا، نجم النسا گیتی آرا اور جہاں آرا کو بھی کہلا بھیجا۔ ایسے دور کے رشتے میں کواری لڑکیوں کا جانا کب مناسب تھا، وہاں صرف نجم النسا بیگم کا ہو آنا واجب تھا۔ آخر وہ خود ہی پالکی میں سوار ہو کر چلی گئی اور ایک ماما کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔ دل افروز اس کے جانے سے بہت خوش ہوئی اور بڑی تعظیم سے دروازے کے پاس سے اتروا کر دالان میں لے گئی۔ وہاں بہت سے مہمان جمع تھے، سب کے سب نجم النسا سے ملے۔ اتنے میں قمر زمانی بھی آئی اور اس نے بہت ادب سے سلام کیا۔ نجم النسا نے دعا دے کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا ’’ بوا! آج تم روزے سے ہو؟ بتاؤ تو تم نے کیا سحری (42) سحری کھائی تھی اور اب روزہ کھولنے کی کیا کیا تیاریاں ہو رہی ہیں؟‘‘ وہ لڑکی اسے جواب دیتی رہی۔ جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو استانی نے آ کر اسے وضو کرایا اور پہلے پہل نماز پڑھوائی۔ نماز کے ختم ہونے کے بعد سب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس لڑکی کو نیک ہدایت دے! عبادت اور نیک نیتی کی طرف مائل رکھے، جھوٹ اور خیانت سے بچائے رکھے اور اس وقت سے ہمیشہ نماز کی اس پر تاکید رہی۔ جب آفتاب غروب ہونے کو آیا اور روزہ کھولنے کا وقت قریب آیا تو افطاری (43) کی تیاری ہونے لگی۔ پن بھتا، فالودہ اور طرح طرح کے لذیذ شربت بنائے گئے، فصل کی تازی ترکاریاں، فالسے، کھرنی، شفتالو اور آور اسی قسم کی چیزیں قرینے سے لگائی گئیں، نمک مرچ چھڑکی ہوئی، نیبو (44)نچوڑی ہوئی چٹ پٹی دالیں بلوریں طشتریوں میں رکھی گئیں۔ مغرب کی اذان ہونے سے پہلے ہی سب چیزیں تیار کر کے دیوان خانے میں جہاں مرد اکٹھے تھے، بھجوا دیں اور گھر میں بھی ہر ایک مہمان کے آگے رکھوا دیں۔ روزہ کھولنے کا وقت قریب آ ہی گیا تھا، سارے روزہ دار دعائیں مانگنے لگے۔ قمر زمانی سے بھی خدا کی درگاہ میں رجوع کروائی اور اس سے نیک باتوں کی دعا منوائی۔ سب عورتوں نے آفتاب کے غروب ہوتے ہی قمر زمانی کا روزہ کھلوایا اور فوراً آپ بھی افطار کیا، پھر مردوں نے باہر اور عورتوں نے اندر افطاری تناول کی۔ جب مغرب کی نماز سے سب فارغ ہو چکے تو پہلے کھانا فقیروں کو تقسیم کرایا گیا اور پھر مردانے اور زنانے میں جدا جدا دسترخوان بچھایا گیا۔ اس وقت کے کھانے کا کیا پوچھنا ہے! ہر قسم کی چیز موجود تھی، خاطر داری اور مہمان نوازی کی بھی کچھ کمی نہ تھی، سب نے اچھی طرح کھانا کھایا۔ مردوں کو عشاء کی نماز اور تراویح (45)پڑھنے مسجدوں میں جانا تھا، اسی وقت چلے گئے اور عورتیں تھوڑی دیر بعد گھر ہی میں نماز اور تراویح میں مصروف ہوئیں۔ پھر سب نے پچھلی رات کو سحری کھائی اور دوسرے روز بدستور روزہ رکھا۔ آج کے دن سب مہمان رخصت ہوئے اور نجم النسا بیگم بھی اپنے گھر چلی گئی۔ گیتی آرا اور جہاں آرا دونوں اس کی منتظر تھیں، انہوں نے اپنی چچی کو سلام کیا اور بہت ادب سے ملیں۔ دل افروز نے نجم النسا کی زبانی گیتی آرا اور جہاں آرا کو بہت بہت سلام کہلا بھیجا تھا، اس نے آتے ہی سلام کا پیغام ادا کر دیا۔ دل افروز کو جہاں آرا کی گفتگو اور خوش اخلاقی اور اس کی صورت و سیرت ایسی پسند نہ آئی تھی کہ وہ ہر دم اسے نہ یاد کرتی اور کوئی تدبیر اس کے ساتھ رہنے کے واسطے نہ نکالتی۔ انجام کار اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ جہاں آرا کی خوبی میں تو کچھ شک نہیں مگر میرا بھائی بھی بہت خوش وضع، نیک اطوار اور نو عمر ہے، جہاں آرا کے لائق ہے، اگر دونوں کی نسبت قرار پا جائے تو خاندانی اور خوب صورت لڑکی ہمارے ہاں آ جائے، بھائی بھی اپنے گھر سے آباد ہو جائے۔ آخر اس نے ایک روز موقع دیکھ کر محمد یوسف سے کہا ’’ بھائی! اب تم جوان ہو گئے ہو، خدا کی عنایت سے صورت شکل والے ہو، تنہا نہ رہنا چاہیے، اپنا گھر آباد کر لینا چاہیے۔ ابا جان کو بھی تمہاری شادی کا بہت خیال ہے، اگر تم شادی کر لو گے تو وہ بھی نہایت خوش ہوں گے۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’ آپا جان! ابھی تو آپ معاف رکھئے، اچھی طرح گزرے جاتی ہے، آزاد ہوں، کسی کا فکر نہیں، بیاہ کروں گا، طرح طرح کے اندیشوں میں پھنس جاؤں گا۔‘‘ دل افروز نے کہا’’ بھائی! خیر ہے ، کیا کہتے ہو، کوئی کسی کے سر پر ہمیشہ نہیں رہتا۔ ایسے میں ابا جان زندہ ہیں، خدا ان کو ہمارے سر پر قائم رکھے! ان کی زندگی میں گھر کی تجویز کر لو۔ دیکھو اچھی بات ہے اور میں جانتی ہوں، شادی تو کرو گے ہی، اب نہیں دو برس میں، چار برس میں، یوں کب تک بیٹھے رہو گے مگر جو بات (46)میں نے سوچی ہے، وہ پھر نہیں ہاتھ آنے کی۔ ذرا متوجہ ہو کر سنو اور اچھی طرح خیال کرو تو کہوں۔ بھائی! تم جانتے ہو ناصر الدین خان(47) اور فیض الدین خاں کے بزرگوں سے ہمارے بزرگوں کی راہ و رسم اور قرابت چلی آتی ہے۔ دیکھو وہ لوگ کیسے خاندانی ہیں، عزت والے، مقدور والے، غرض ہر طرح سے اچھے ہیں۔ بزرگوں کی ملاقات کے علاوہ تم بھی تو لڑکوں بالوں سے واقف ہو، باہر دیوان خانے میں جایا کرتے ہو، سب سے ملتے رہتے ہو اور عورتوں کو تو خود میں ہی دیکھ چکی ہوں۔ بس کیا تعریف کروں، کچھ کہا نہیں جاتا۔ جو تجویز میں نے سوچی ہے خدا کرے پوری ہو جائے اور وہ لوگ مان بھی لیں۔ بھائی! وہی لڑکی جہاں آرا بیگم جس کی خوبیوں کا ذکر میں گھر میں کرتی رہتی ہوں، اسی کی بات ہے۔ صورت شکل کی کیا تعریف بیان کروں! بس یہ جی چاہتا ہے کہ اسے بیٹھی دیکھا کروں۔ رنگ جیسے انار کا دانہ، نقشہ بہت درست، آنکھیں کٹورا سی، ناک ستواں، آگے قد کو دیکھو تو ویسا ہی اچھا، بات کرتے وقت منہ سے پھول جھڑتے ہیں، اخلاق اور عادتیں سب خوب۔ سگھڑ ویسی ہی، دسوں(48) انگلیاں دسواں چراغ اور بھائی! تم جو یہ کہتے ہو کہ بیاہ کرنے سے طرح طرح کے اندیشوں میں پھنس جاؤں گا، یہ تمہارا فکر بیجا ہے۔ تم جانتے ہو، جو آدمی آتا ہے، اپنا رزق اپنا ساتھ لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ابا جان کو زندہ اور تندرست رکھے! ابھی تو وہ سر پر بیٹھے ہیں، تمہیں کیا اندیشہ ہے؟ آگے خود بھی نوکر ہو، تنخواہ دار ہو، ملکوں کی بہتیری آمدنی ہے، کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ خدا کی دی ہوئی ہمہ نعمت موجود ہے، کیوں ہراساں ہوتے ہو؟ دیکھو اس بات سے نہ چوکنا، دیکھا چاہیے، وہ بھی منظور کرتے ہیں یا نہیں۔ کچھ ہی ہو پیغام تو جائے گا، اگر مان لیا تو بہتر ہے، نہیں تو ہمارا کیا بگڑتا ہے، بہتیری جگہ سے لوگوں کے رقعے (49)پھر جاتے ہیں۔‘‘ محمد یوسف نے جس وقت بہن کی یہ شائستہ تقریر سنی، خاموشی کے سوا کچھ بن نہ آیا، سر جھکا کر چپکا ہو رہا۔ دل افروز سمجھ گئی کہ بارے میرے کلام نے اس کے دل پر کچھ اثر کیا اور خدا کا شکر بجا لائی مگر اب یہ خیال ہوا کہ جہاں آرا بیگم کے ہاں کیوں کر پیام بھیجوں؟ فیض الدین خاں اور نجم النسا بیگم سے کس طرح اپنا مطلب ظاہر کروں! آخر اس کی رائے اس امر پر جمی کہ فیض الدین خاں کے ہاں لڑکا بالا پیدا ہونے والا ہے، ضرور بلاوا آنے والا ہے، جب وہاں جاؤں گی تو خود ہی اس بات کا ذکر چھیڑوں گی۔ دل افروز کا باپ محمد یعقوب چند روز سے انبالے گیا ہوا تھا، اس سے بھی اس امر کا دریافت کرنا ضرور تھا، فوراً اسے تمام حال کی اطلاع دی، وہ سن کر نہایت خوش ہوا اور دل افروز کو اس معاملے میں پیام کرنے کی اجازت دی۔ تھوڑے عرصے کے بعد فیض الدین کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ اسی وقت قریب کی رشتہ دار عورتیں وہاں آ کر جمع ہوئیں، سب طرف سے مبارکبادی کی آواز آنے لگی، دائی کو بہت سا انعام دیا، کرتہ، ٹوپی پہلے ہی سے سیا ہوا رکھا تھا، بچے کو نہلا دھلا، کرتا اس کے گلے میں ڈال دیا اور ٹوپی سر پر پہنا دی، پھر دائیں کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہی اور کچھ شیرینی چبا کر اس کے تالو کو لگا دی۔ پیٹ صاف کرنے کے واسطے کچھ دوائیں مقرر ہوتی ہیں جن کو مرکب کر کے گھٹی کہتے ہیں، وہ بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچے کو پلاتے رہے۔ ناتوانی دور ہونے اور دودھ بڑھنے کے لیے حریرے اور سٹھورے اور آور قوت دار چیزیں زچہ کو کھلاتے رہے۔ دو تین روز تک نجم النسا نے آپ لڑکے کو دودھ پلایا مگر پھر ایک انا نوکر رکھ کر اس سے کام چلایا۔ جب ساتواں دن ہوا تو نجم النسا کے بلاوے کے موافق سب عورتیں سواریوں میں بیٹھ کر اس کے گھر آئیں۔ آج کے دن صبح ہی زچہ اور بچہ کو نہلایا، ہر ایک کو بہت عمدہ جوڑا پہنایا اور سب بزرگوں کی صلاح سے لڑکے کا نام عبدالرحمن قرار پایا۔ دو(50)بکرے پہلے ہی سے منگا رکھے تھے، ادھر تو وہ ذبح کیے گئے، ادھر نائی نے بچے کے سر پر استرا پھیرا اور اس کے بال اتارے۔ سب لوگوں نے لڑکے کو کچھ کچھ روپے دئیے اور انا جو اسے گود میں لے بیٹھی تھی، وہ روپے اپنے پاس جمع کرتی گئی۔ بکروں کی کھالیں اور بہت سا گوشت فقیروں کو تقسیم کرایا گیا اور کچھ پکا کر لوگوں کو کھلایا گیا۔ بچے کے بالوں کے ہم وزن للہ چاندی دے دی او ربہت سا کچھ مسکینوں کو بانٹا۔ مہمانوں کی بڑی خاطر داری کی اور ہر طرح سے ان کی خدمت گزاری کی۔ کچھ عزیز و اقربا جو دیوان خانے میں بیٹھے تھے، انہیں بھی کھانا کھلا دیا اور کنبے میں سے جو لوگ نہیں آئے تھے، ان کے گھر بھجوا دیا۔ دل افروز بیگم تو آج کے دن کا انتظار ہی کر رہی تھی، وہ بھی بہت تجمل سے مہمانوں کے ساتھ آئی اور آتے ہی نجم النسا بیگم سے ملی اور اسے بیٹے کے پیدا ہونے کی مبارکباد دی۔ نجم النسا بھی اس سے خوش خلقی سے پیش آئی اور اس کو اپنے پاس بٹھا کر باتیں کرنے لگی۔ پھر دل افروز نے لڑکے کو پیار کیا او راسے پانچ روپے دئیے۔ نجم النسا بولی ’’ بیٹی! تمہیں یہ تکلیف کرنی کیا ضرور تھی!‘‘ دل افروز نے کہا’’ خالہ جان! آپ کیا فرماتی ہیں، میں کس لائق ہوں؟ یہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو دئیے ہیں۔‘‘ اس کے بعد بچے کو دعائیں دینے لگی، خدا اسے عمر دراز کرے! تمہیں اس کے سر پر سلامت رکھے! اپنی زندگی میں اس کا بیاہ کرو! اس کی خوشیاں دیکھو! پھر وہاں سے اٹھ کر اور مہمانوں کی مجلس میں چلی گئی اور ان سے باتیں کرتی رہی مگر اپنی گفتگو کا موقع دیکھتی رہی۔ رات کے وقت جب سب مہمان کھانا کھا کر فارغ ہوئے اور اپنے اپنے پلنگ پر جا سوئے، دل افروز زچہ کے پاس آ بیٹھی اور اس سے ادھر ادھر کا ذکر کرنے لگی، پھر حرف مطلب زبان پر لائی اور ایک اچھی تقریر سے اس کی بنا اٹھائی ’’ خالہ جان! آپ کے اور ہمارے بزرگوں کی راہ و رسم مدت سے چلی آتی ہے، بہت عرصے سے سب لوگ آپس میں ملتے جلتے رہے ہیں، دکھ درد میں ایک دوسرے کے شریک رہے ہیں۔ دیکھو تمہارے ابا جان مرحوم کا میرے دادا جان مغفور سے کیسا اخلاص تھا، کوئی کام بغیر آپس کے مشورے کے نہ ہوتا تھا، چھوٹی خالہ جان کی نسبت قرار پانے کے وقت لوگوں نے بہتیرے شبہے تمہارے ابا جان کے دل میں ڈالے مگر جو میرے دادا صاحب نے ان سے کہہ دیا، وہی انہوں نے کیا، کسی کی نہ سنی اور خدا کی عنایت سے وہ بات سزاوار بھی ہوئی اور اس سے دلوں میں اور زیادہ محبت بڑھی۔ پھر میرے چچا جان کے بیٹے کا جو آپ کے کنبے میں رشتہ ہوا، اس سے سب کا اتحاد اور بھی زیادہ ہو گیا اور عورتوں میں بھی ربط پیدا ہوا۔ خیر پہلی باتوں کا کیا ذکر کروں، اب بھی ہمارے ابا جان خالو جان سے کیسی محبت کرتے ہیں اور خالو جان بھی خدا انہیں خوش رکھے، ہر بات میں ان کا کہنا مانتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جو کچھ میں ان کی طرف سے کہوں گی، اس وقت بھی نہیں ٹالنے کے۔‘‘ نجم النسا دل افروز کے طرز کلام سے اس کا مطلب سمجھ گئی مگر اس امر کا زبان پر لانا مناسب نہ جانا اور صرف اسی قدر جواب دیا ’’ ہاں بیٹی! ہمارے تمہارے بزرگوں کی ایسی ہی راہ و رسم تھی اور اب بھی سب میں وہی محبت چلی جاتی ہے۔‘‘ دل افروز بولی ’’ خالہ جان! کیا اچھی بات ہو، جو کوئی ایسا سبب ہو جائے جس سے ہماری اور آپ کی راہ و رسم اور بھی زیادہ بڑھ جائے۔‘‘ نجم النسا نے کہا’’ اب کیا تم کچھ کم جانتی ہو جو آئندہ زیادہ ہونے کی تجویز سوچتی ہو؟ اب بھی اللہ کی عنایت سے ہمارا تمہارا بہت ربط ہے اور خدا چاہے تو آگے زیادہ ہی ہوتا جائے گا، دل جمعی رکھو۔‘‘ ہر چند دل افروز بیگم اپنی تقریر میں ایک آدھ فقرہ اس طرح کا کہہ دیتی تھی، جس سے اس کا مقصد صاف ظاہر ہو جاتا تھا مگر نجم النسا بیگم حرف مطلب دانستہ اڑا جاتی اور ایسا جواب دیتی کہ دل افروز کو ہر دفعہ نئی بات کہنی پڑتی۔ آخر اس نے کہا ’’ خالہ جان! میں آپ کی چھوٹی ہوں، مفصل نہیں کہہ سکتی ہوں، میرا منہ اس بات کے لائق نہیں ہے، سارا مطلب کیوں کر عرض کروں؟ چھوٹا منہ بڑی بات، ابا جان نے جو کچھ خط میں لکھا ہے، آپ خود ملاحظہ فرما لیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر فوراً اپنا صندوقچہ منگایا اور اس میں سے خط نکال کر نجم النسا کو دکھایا۔ یہ خط محمد یعقوب کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور دل افروز کے ایک خط کا جواب تھا۔ اس کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ برخوردار محمد یوسف کا رشتہ ناصر الدین خاں کی بیٹی سے ہونا بہت مناسب ہے اور میرا ارادہ تھا کہ میں خود وہاں آ کر فیض الدین خاں سے اس امر کا ذکر کرتا اور جس طرح ہو سکتا انہیں راضی کر لیتا مگر کیا کروں، مجبور ہوں، میرا آنا نہیں ہو سکتا، تم آپ خدا کی عنایت سے ہوشیار اور عقلمند ہو، یہ کام بہت خوبی سے انجام دے سکتی ہو، خود اپنی خالہ صاحبہ کی خدمت میں جانا اور اس طرح سے کلام کرنا کہ کوئی بات انہیں ناگوار نہ معلوم ہو۔ نجم النسا خط دیکھتے ہی بولی ’’ بوا! تمہارا معما میری سمجھ میں آگیا۔ مگر میں اس مقدمے میں کچھ نہیں بولتی، تمہارے خالو جان کو اختیار ہے، جہاں چاہیں، جہاں آرا کی نسبت ٹھہرائیں، وہی اس کے باپ کی جگہ ہیںمگر ہاں تمہاری خاطر سے یہ خط ان کے سامنے رکھ دوں گی۔‘‘ دل افروز بولی ’’ میں جانتی ہوں، خالو جان بھی جو تجویز کریں گے، آپ ہی کی صلاح سے کریں گے مگر آپ جہاں تک ہو سکے ، سعی کرنے میں دریغ نہ کیجئے گا۔‘‘ نجم النسا نے کہ’’ بوا! یہ معاملے اور قسم کے ہیں، میں رشتے کی باتوں میں کچھ دخل نہیں دیتی۔ لڑکی کے بہتیرے رقعے آئے، اس کے چچا کو کوئی جگہ پسند نہیں آئی۔ جہاں ان کا جی ٹھکے گا، وہیں بات قرار پائے گی۔‘‘ اس کے بعد دونوں میں کچھ اور باتیں ہوتی رہیں، پھرد ل افروز اپنے پلنگ پر جا کر سو رہی۔ دوسرے روز جب مہمان چلے گئے، اس نے بھی اپنے گھر جانے کا قصد کیا اور چلتے وقت زچہ خانے میں نجم النسا سے کہتی گئی ’’ خالہ جان! خدا کرے، اب بامراد ملاقات ہو۔‘‘ نجم النسا مسکرائی اور دل افروز کو گلے سے لگا کر رخصت کیا۔ تھوڑی دیر بعد فیض الدین گھر میں آیا اور اپنی بیوی کے پاس جا کر بیٹھا۔ نجم النسا نے دل افروز کی ساری گفتگو اس کے سامنے بیان کی اور محمد یوسف کے باپ کا خط بھی دکھایا، دیکھ کر خاموش ہو رہا۔ نجم النسا بولی ’’ صاحب! اتنے رقعے آئے، پھیر دئیے، کوئی پسند نہیں آتا، آخر لڑکی کی کہیں شادی کرنی ہی ہے، اس سے بہتر کون سی جگہ ہو گی؟ لڑکا نیک چلن، ہوشیار، خوبصورت ذات کا بہت اچھا، پڑھا لکھا، نوکر چاکر، کماؤ ہے، آگے باپ بھی پنشن دار ہے، اچھے مقدور والے لوگ ہیں، حاکموں کے ہاں بھی ان کی بہت عزت ہے، جیسے ہمارے گھرانے کا نام ہے ویسے ہی وہ بھی نامور ہیں، عورتیں بھی بہت ملنسا رہیں، کوئی بد مزاج نہیں، گھر کا ڈھنگ اچھا، مردوں کا برتاؤ عورتوں کے ساتھ بہت خوب۔‘‘ فیض الدین خاں نے کہا ’’ ہاں ان کے گھرانے کا حال تو خوب معلوم ہے، لوگوں کے اچھے ہونے میں کچھ شک نہیں اور ا سباب میں جو تمہاری مرضی ہے وہی مجھے بھی منظور ہے، مگر پھر بھی اچھی طرح سوچ لو، سمجھ لو، میں بھی لڑکے کا حال خوب تحقیق کر لیتا ہوں، آگے جمیل الدین بڑا بھائی ہے، اس سے بھی دریافت کر لینا چاہیے۔‘‘ القصدہ اس معاملے میں بہت سی گفتگو اور جستجو عمل میں آئی اور چند روز کے بعد اسی رشتے پر سب کی رائے قرار پائی۔ دل افروز کے گھر سے تو ہر روز یہاں کی خبر لینے کو آدمی آیا ہی کرتے تھا، جب لیت (51) و لعل میں بہت دن گزر گئے اور نجم النسا چلہ بھی نہا چکی تو ایک روز دل افروز نے اپنے آدمی کی زبانی کہلا بھیجا ’’ میرا دل آپ سے ملنے اور بچے کے دیکھنے کو بہت چاہتا ہے، کل انشاء اللہ تعالیٰ میں بھی آؤں گی۔‘‘ نجم النسا نے جواب دیا’’ بیٹی! تمہارا گھر ہے، کیوں نہیں آتیں؟ جس وقت تمہارا جی چاہے، بے تکلف چلی آؤ۔‘‘ دوسرے دن دل افروز آئی اور سب سے مل کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ آخر اپنے مطلب کی فکر کیا اور رفتہ رفتہ رشتے کا ذکر کیا۔ پھر بولی ’’ خالہ جان! یقین ہے کہ آپ نے او رخالو جان نے میرے ابا جان کی بات کو نہ ٹالا ہو گا۔‘‘ نجم النسا پہلے تو یہ بات سن کر چپکی ہو رہی، پھر دل افروز کے درپے ہونے سے ایسی گفتگو کرنے لگی جس سے اس باب میں اس کی رضا مندی پائی جائے۔ دل افروز بہت خوش ہوئی اور فوراً بول اٹھی ’’ خالہ جان! مبارک ہو‘‘ نجم النسا نے بھی اسے معقول جواب دیا، پھر تو سب عورتوں کے منہ سے مبارکباد کی آواز نکلی اور بات پختہ ہو گئی۔ دل افروز اپنے گھر آئی اور تار برقی کے ذریعے سے اپنے باپ کو اس امر کی اطلاع کرائی۔ وہ تو منتظر ہی تھا، یہ مژدہ سن کر نہایت خرسند ہوا اور دل افروز کی محبت کا درجہ بھی اس کے دل میں دوچند ہوا۔ تھوڑے دنوں کے بعد دل افروز نے لکھا کہ آپ یہاں تشریف لائیے اور بھائی کی شادی کی کوئی تاریخ ٹھہرائیے۔ محمد یعقوب خوشی خوشی دہلی میں آیا اور شادی کے سامان میں مصروف ہوا۔ پھر فیض الدین اور نجم النسا سے بھی نکاح کی تاریخ مقرر کرنے کا پیغام کہلا بھیجا۔ وہاں تو پہلے ہی سے تمام جہیز (52) بنا رکھا تھا، بلکہ ناصر الدین نے اپنی حیات ہی میں سب کچھ تیار کرا رکھا تھا۔ انہوں نے سب کے مشورے سے ایک تاریخ مقرر کر دی اور محمد یعقوب نے بھی منظور کر لی۔ جب نکاح کا دن قریب آیا تو محمد یعقوب نے تمام عزیزوں اور شہر کے رئیسوں کے نام اس مضمون کے رقعے بھیجے: رقعہ عنایت الٰہی اور فیض نامتناہی سے کمال خوشی اور خرمی کا وقت آیا ہے اور فلاں تاریخ عصر و مغرب کے درمیان برخوردار محمد یوسف کا نکاح قرار پایا ہے۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے امید ہے کہ پہر دن رہے سے غریب خانے پر آئیں اور پھر نوشہ کے ساتھ عروس کے گھر تک قدم رنجہ فرمائیں، وہاں نکاح کی رسم میں شامل ہوں اور اس کار خیر کے ثواب میں داخل ہوں۔ دوسرے دن دوبارہ میرے مکان پر تشریف لائیں اور بہ تقریب ولیمہ (53) طعام ماحضر (54) تناول فرما کر امثال و اقران میں میری آبرو بڑھائیں۔ فقط المکلف نیاز اسلوب محمد یعقوب القصہ نکاح کے روز پہر دن رہے سے لوگ آنے شروع ہوئے ایک وسیع مکان پہلے سے آراستہ تھا، اس میں بہت عمدہ فرش بچھا ہوا تھا، قرینے سے تکیے لگے ہوئے تھے، پٹا پٹی کے پردے، جھاڑ، فانوس، دیوار گیریاں اور چیزیں اپنے اپنے مرقع سے مرتب تھیں۔ سب کے سب مرد اس مکان میں آئے اور عورتیں اپنی اپنی سواریوں میں بیٹھ کر زنانے مکان میں جمع ہوئیں۔ محمد یوسف نہاد ھو، شاہانہ پوشاک پہن مردانے میں آیا اور صدر مجلس میں تکیے سے لگ کر مسند پر ہو بیٹھا۔ محمد یعقوب کی طرف سے مہمانوں کی بہت خاطر داری کی گئی اور مصالح کی تھالی جس میں بن، چکنیاں، الائچیاں اور اسی قسم کی چیزیں تھیں، ہر ایک کے آگے رکھی گئیں۔ دل افروز کا خاوند شیخ فضل احمد اور قریب رشتہ داروں نے مجلس کا خوب انتظام کیا اور جو جو چیزیں درکار تھیں، اچھی طرح ان کا سر انجام کیا۔ جب چار گھڑی دن باقی رہا اور سب لوگ اکٹھے ہو چکے تو محمد یعقوب نے اہل مجلس کی طرف مخاطب ہو کر کہا ’’ اب سب صاحب تکلیف فرما کر نوشہ کے ساتھ تشریف لے چلیں۔‘‘ یہ سنتے ہی سب لوگ کھڑے ہو گئے اور دولہا کے ہمراہ دلہن کے گھر پہنچے۔ قریب رشتے کی عورتیں بھی پالکیوں اور رتھوں میں سوار ہو کر پیچھے پیچھے آئیں۔ یہاں جمیل الدین اور فیض الدین نے خوب دھوم دھام اور کمال آرائش سے مرانہ اور زنانہ مکان سجا رکھا تھا۔ مرد مردانے مکان میں آئے اور عورتیں زنانے مکان میں اتریں۔ نوشہ کے واسطے مردانے مکان میں مسند بچھی ہوئی تھی، آتے ہی وہاں اجلاس کیا اور باقی آدمی بھی تکیوں سے لگ کر قرینے سے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد قاضی نکاح خواں جو پہلے ہی سے وہاں موجود تھا، نوشہ کے سامنے آ بیٹھا اور اس کے قریب رشتہ دار اور شہر کے بڑے بڑے رئیس بھی مسند کے گرد جمع ہو گئے۔ قاضی نے نکاح نامہ (55) پہلے سے لکھ رکھا تھا مگر لڑکی کے نام اور مقدار مہر کی جگہ چھوڑ دی تھی، دونوں اسی وقت دریافت کر کے لکھ دیں۔ پھر نکاح کا خطبہ (56) پڑھا، اس میں خدا اور حضرت محمد ؐ کی تعریف اورنکاح اور تناسل (57) کی توصیف اور آور اسی قسم کی باتیں تھیں۔ اس کے بعد جمیل الدین کی طرف جو جہاں آرا بیگم کا بھائی اور اس کا ولی (58)تھا، مخاطب ہو کر پوچھا ’’ تم نے مسماۃ جہاں آرا بیگم بنت شیخ ناصر الدین مرحوم کو لاکھ (59) روپے کے مہر پر میر محمد ؐ یوسف ابن میر محمد ؐ یعقوب کی زوجیت میں دیا؟‘‘ اس نے جواب دیا’’ ہاں دیا۔‘‘ پھر قاضی نے نوشہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا ’’ تم نے مسماۃ جہاں آرا بیگم، بنت شیخ ناصر الدین مرحوم کو لاکھ روپے کے مہر پر اپنی زوجیت میں قبول کیا؟‘‘ وہ بولا ’’ قبول کیا!‘‘ یہ آواز سنتے ہی اہل مجلس دست بدعا ہوئے اور سب لوگوں نے مبارک باد ادا کی۔ اتنے میں دلہن والوں کی طرف سے دو کشتیاں آئیں، ایک میں پانچ سو روپے نقد اور دوسری میں دولہا کا جوڑا یعنی دو شالہ، مندیل اور اسی قسم کی چیزیں تھیں۔ وہ کشتیاں دولہا کے سامنے رکھی گئیں او رپھر تمام اشیاء خبرداری سے اس کے نوکروں کو دی گئیں۔ چھواروں کے خوان وہاں پہلے ہی سے موجود تھے، کچھ تو لوگوں کو تقسیم کیے گئے اور باقی لٹا دئیے گئے۔ اس کے بعد شیرینی کے حصے بٹے اور ہر ایک کے آگے مصالح کی تھالی رکھی گئی اور پانوں کا بھی دور ہوا۔ جو لوگ دولہا کے دور کے رشتہ دار تھے، وہ اسی وقت محمد یعقوب سے اجازت لے کر اپنے اپنے گھر چلے گئے اور قریبی رشتہ دار اور بہت سے یار و آشنا وہیں ٹھہرے رہے۔ اس عرصے میں دلہن کے وداع ہونے کی تیاری شروع ہوئی، جہیز کی تمام چیزیں صندوق، پلنگ، چھپر کھٹ، برتن، شطرنجیاں اور سامان باہر رکھا گیا۔ اندر گھر میں جہاں آرا بیگم کو پہلے ہی سے خوب آراستہ کر کے دلہن بنا رکھا تھا، زیور کی گراں بہا رقمیں اور نہایت نفیس جوڑا پہنا رکھا تھا۔ یہ سب چیزیں تو اسی کی تھیں مگر علاوہ اس کے عمدہ کپڑوں کے جوڑے، بیش قیمت پوشاکیں، ایک حویلی، کمرہ، دس دکانیں اور جہاں آرا بیگم کی سواری کے واسطے پردہ دار پالکی اور رتھ اور محمد یوسف کے لیے تانجھان اور ایک گھوڑا ساز سمیت دیا گیا۔ جہاں آرا رخصت ہو کر پالکی میں سوار ہوئی اور دل افروز بھی اسی پالکی میں اس کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے میکے میں سے اس کی ددا گلاب اور دو مامائیں مہمانوں کے ساتھ کسی سواری میں بیٹھ کر اس کی خدمت کے واسطے چلیں۔ اتنے میں مردانہ محفل کے بھی سب لوگ اٹھے اور دولہا کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ محمد یوسف گھوڑے پر سوار تھا اور جہاں آرا کی پالکی اس کے پیچھے اور عزیز و اقربا اور تمام دوست آشنا بہت تجمل سے اس کے ساتھ چلے جاتے تھے۔ جب وہاں پہنچ گئے تو دلہن زنانے مکان میں اتری اور محمد یوسف، محمد یعقوب اور تمام مرد مردانے مکان میں بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد عزیز و اقربا نے کھانا کھایا اور ولیمے کی دعوت کے واسطے رات بھر تیاری ہوتی رہی۔ دوسرے صبح کو تمام رشتہ دار اور شہر کے رئیس آئے اور سب نے عمدہ عمدہ کھانے کھائے۔ جب مرد رخصت ہو گئے اور زنانے میں عورتیں بھی کھانے سے فارغ ہوئیں تو اتفاقاً دل افروز کی ددا کی نگاہ اس کے گلے پر پڑی، دیکھا تو گلے کا سارا زیور موجود ہے مگر موتیوں کی کنٹھی کا پتہ نہیں۔ یہ دیکھتے ہی بول اٹھی ’’ اے بیگم! تمہاری کنٹھی کہاں ہے؟‘‘ دل افروز نے اپنے گلے پر ہاتھ پھیرا تو کنٹھی نہ پائی، مگر اسے یہ خیال ہوا کہ ددا نے جو یہ ذکر کیا ہے، شاید اسی کے پاس ہو گی۔ یہ سوچ کر کہنے لگی ’’ میں تو تھکی ماندی تھی، رات کو پلنگ پر پڑتے ہی سو رہی، تم ہی گہنا پاتا اٹھا کر اپنے پاس رکھتی ہو، کنٹھی کی بھی تمہیں ہی خبر ہو گی۔ اچھی ددا جو تم نے اٹھائی ہو تو دے دو۔‘‘ وہ بولی ’’ نہیں بیٹی! قربان کی تھی کنٹھی اگر میں نے اٹھائی ہوتی تو پہلے ہی دے دیتی۔ اپنے صندوقچے میں دیکھو، پاندان میں ڈھونڈو، کہیں نہ کہیں تمہارے ہی پاس ہو گی۔ میں بچھونے میں بھی دیکھ لیتی ہوں، تمہیں تو اپنی چیز کی کچھ خبر رہتی نہیں، شاید وہیں پڑی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر ددا نے بچھونا جھاڑا، پلنگ اٹھایا مگر کنٹھی کا کہیں پتا نہ پایا۔ا تنے میں اور عورتوں کو بھی اس بات کی اطلاع ہو گئی۔ ہم عمر لڑکیاں جو وہاں جمع تھیں، ان میں سے ایک دل افروز کی طرف مخاطب ہوئی اور سب کو سنا کر کہنے لگی ’’ بوا! ہم ایک بات بتائیں، تمہاری کنٹھی ابھی نکل آتی ہے۔ لونڈیاں، مامائیں اور خدمت گاریں جن پر تم کو شبہ ہے، سب کو اکٹھا کر کے چار چار انگل کی تیلیاں ان کے ہاتھ میں دے دو اور انہیں اپنے پاس سے ہٹا کر تھوڑی دیر بعد وہ تیلیاں مانگ لو، جس نے تمہاری کنٹھی لی ہو گی، اس کی تیلی ایک انگل بڑھ جائے گی۔‘‘ اس گفتگو سے اس کا یہ مطلب تھا کہ جس نے کنٹھی لی ہو، وہ پہلے ہی سے اپنی تیلی ایک انگل گھٹا دے اور اس تدبیر سے چور کا پتا لگ جائے۔ ایک اور بولی ’’ بوا! اتنا بکھیڑا کیوں کرتی ہو؟ لو ذرا سی بات ہے ایک کوٹھڑی میں کوئی چیز رکھ دو اور ایک ایک کر عورت کو جس پر شبہ ہے، وہاں علیحدہ بھیجو کہ اپنے ہاتھ سے اس چیز کو چھو کر چلی جائے۔ جس نے کنٹھی لی ہو گی، اس کا ہاتھ وہیں چپکا رہ جائے گا۔‘‘ اور اس میں یہ راز تھا کہ اس شے کو عطر مل دیا جاتا، سب کے ہاتھوں میں عطر کی خوشبو آتی، مگر چور ڈر کے مارے ہاتھ نہ لگاتا اور صاف پہچانا جاتا۔ ایک اور بول اٹھی ’’ بوا! مجھے ایسا عمل آتا ہے کہ آپ سے آپ چور معلوم ہو جائے، نہ کسی سے کچھ کہو، نہ سنو۔ سب لونڈیاں اور ماماؤں کے نام علیحدہ علیحدہ پرچوں پر لکھو اور انہیں جدا جدا ایک لوٹے میں ڈالو، میں اور ایک اور لڑکی دونوں اپنی انگلیوں سے لوٹا تھام لیتی ہیں اور میں ہر ایک نام پر عمل پڑھتی جاتی ہوں جس وقت چور کے نام پر عمل پڑھا جائے گا، لوٹا خود بخود چکر کھا جائے گا۔‘‘ دل افروز یہ سب باتیں سن رہی تھی مگر اسے اس امر کا بہت خیال تھا کہ کوئی مہمان اپنے دل میں برا نہ مانے کہ اسے ہماری لونڈی یا ماما پر شک ہے۔ یہ سوچ کر اس نے کوئی عمل نہ کیا اور انجام کار اس کی نیک نیتی سے کنٹھی بھی پا گئی۔ جہاں آرا جو صبح ہی پالکی میں سوار ہو کر اپنے میکے میں چلی گئی تھی، شام کے وقت پھر سسرال میں آئی اور اسی طرح بارہا میکے اور سسرال آتی جاتی رہی اور اس کے خاوند کو اس سے کمال محبت ہو گئی اور دونوں بہت اتفاق اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ محمد یعقوب کو انبالے میں کچھ ضروری کام تھا، وہ اپنے بیٹے کی شادی کر کے پھر وہیں چلا گیا۔ جب جمیل الدین اپنی بہن کے نکاح سے فارغ ہو چکا تو اس نے مکے جانے کا عزم کیا۔ا سے حج کرنے کا بڑا شوق تھا اور وہ ہمیشہ اسی خیال میں رہتا تھا کہ جس طرح ہو سکے اپنے تئیں مکے میں پہنچاؤں۔ اس کا استاد مولوی فخر الدین بارہا اس کے روبرو حج کی فضیلتیں بیان کرتا رہتا تھا اور سوا اس کے فقہ کی کتابوں میں خود بھی حج کا بیان پڑھتا رہتا تھا۔ یہ باتیں اس کے دل پر بہت اثر کرتی تھیں اور مکے جانے کا شوق بڑھاتی تھیں مگر اس نے اپنے دل میں یہ سوچ لیا تھا کہ بہن کی شادی قریب ہونے والی ہے، اس میں میرا شامل ہونا ضروری ہے جب اس کام سے بے فکر ہو جاؤں گا تو وہاں کا قصد کروں گا۔ القصہ جہاں آرا کے نکاح کے بعد اس کے دل پر مکے جانے کی جم گئی۔ ایک روز اس کی بہن سسرال سے آئی ہوئی تھی، وہ اور نجم النسا بیگم اور فیض الدین سب کے سب کھانا کھا کر صحن میں تختوں کے فرش پر بیٹھے ہوئے کچھ باتیں کر رہے تھے، ادھر ادھر مونڈھے، کرسیاں بچھی ہوئی تھیں، مامائیں، خدمتگاریں پنکھے جھل رہی تھیں۔ جمیل الدین نے موقع دیکھ کر مکے جانے کا ذکر چھیڑا اور اپنے چچا اور چچی کی طرف مخاطب ہو کر کہا ’’ مجھے والد مرحوم کے عین حیات ہی سے کعبتہ اللہ جانے کا اشتیاق ہے، خدا تعالیٰ نے تندرستی عطا کی ہے، زاد راہ اور سواری کا بھی مقدور دے رکھا ہے، رستے میں بھی سب طرح کا امن ہے، حج کرنا مجھ پر فرض ہے۔ بہن کے نکاح سے بھی فارغ ہو چکا ہوں، اب اس امر خیر میں توقف نہ کرنا چاہیے۔ آپ بھی مجھے وہاں جانے کی اجازت دیں۔‘‘ فیض الدین اور اس کی بیوی اس معاملے میں اسے منع نہ کر سکے، لیکن اس کی مفارقت کے سبب سے دونوں اپنا رنج ظاہر کرنے لگے۔ جمیل الدین نے کہا’’ آپ میری جدائی کا فکر نہ کیجئے، دل جمعی رکھئے، میں انشاء اللہ تعالیٰ مناسک حج سے فارغ ہو کر بہت جلد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔‘‘ چند روز کے بعد وہ اپنے دو نوکروں سمیت عرب کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا چچا اور کئی رشتہ دار تھوڑی دور تک اس کے پہنچانے کو گئے اور پھر واپس چلے گئے۔ جمیل الدین بڑا عالم، فاضل، خلیق اور رحم دل تھا، بزرگوں کی بہت تعظیم کرتا تھا اور تمام گھر والوں سے اچھی طرح پیش آیا کرتا تھا، اس سبب سے سب لوگ اسے یاد کرتے تھے۔ جمیل الدین کو بھی کبھی اپنی بہن اور کبھی چچا اور چچی کا دھیان آتا، کبھی اس کے دل میں اس کی منصوبہ (60) گیتی آرا بیگم اور بچپن میں دونوں کے ایک جگہ رہنے کا خیال گزرتا۔ اسی طرح وہ رستے میں سب کو یاد کرتا تھا مگر کعبے کا شوق اور حج کا ثواب ہر دم اس کے دل کو شاد کرتا تھا۔ گیتی آرام بھی اپنے دل میں طرح طرح کے اندیشے کرتی مگر شرم و لحاظ کے سبب سے کچھ منہ سے نہ نکالتی۔ جمیل الدین کے جانے کے چند روز بعد محمد یوسف کی رخصت کے دن بھی پورے ہو گئے مگر اسے اپنی بیوی جہاں آرا بیگم سے بہت محبت تھی اور وہ ایک لمحہ اس سے جدا نہ ہونا چاہتا تھا، اس واسطے اس نے اپنے دل میں کہا ’’ میرا رسالہ انبالے میں ہے اور بہت مدت تک وہیں رہے گا، ابھی کوچ نہیں ہونے کا۔ علاوہ اس کے ابا جان کا مکان بہت پردہ دار ہے او روہ خود بھی ان دنوں میں وہیں ہیں۔ جس طرح ہو سکے، اپنی بیوی کو انبالے میں ساتھ ہی لیتا جاؤں اور غالب ہے کہ ابا جان کو وہاں ہونے سے میرے چچیا سسرے اور چچیا ساس دونوں اس بات سے کچھ ناراض نہ ہوں گے اور وہ بھی خوشی سے اس امر کی اجازت دے دیں گے۔‘‘ یہ سوچ کر پہلے اس نے اپنی بیوی کو ساتھ چلنے پر راضی کر لیا، پھر اپنی بہن دل افروز بیگم کو نجم النسا بیگم کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں جا کر اس کی مرضی دریافت کر لے۔ اگرچہ فیض الدین اور اس کی بیوی کو اس بات پر رنج ہوا مگر خاوند کو عورت کو اختیار ہوتا ہے، کچھ دم نہ مارا، سمدھیانے کا مقدمہ سمجھ کر دونوں چپکے ہو رہے۔ دل افروز نے نجم النسا سے کہا ’’ خالہ جان! ہمیں ہر طرح سے تمہاری رضا مندی منظور ہے، کوئی امر تمہاری رائے کے خلاف نہیں ہونے کا۔‘‘ نجم النسا بولی ’’ نہیں بیٹی! جو تمہاری مرضی ہے، وہی ہماری مرضی ہے۔‘‘ دل افروز بیگم اس معاملے میں ان کی اجازت لے کر اپنے گھر چلی آئی اور محمد یوسف سے ساری حقیقت بیان کی۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جہاں آرا رخصت ہونے کے لیے اپنے میکے میں آئی اور فیض الدین، نجم النسا اور گیتی آرا سے ملی۔ اس کی مفارقت سے سب ہی آزردہ خاطر تھے مگر گیتی آرا کو اس امر کا بہت قلق تھا۔ جہاں آرا بھی اس سے مل کر چشم پر آب ہوئی اور حسرت اور افسوس کی باتیں کرنے لگی، پھر بولی ’’ بوا! مجھے بھی تمہاری جدائی سے بہت رنج ہے مگر کیا کروں، مجبور ہوں، کچھ کہہ نہیں سکتی ہوں۔ خیر جو خدا کی مرضی ہے، وہی بہتر ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ تھوڑے ہی عرصے میں ملیں گے۔ آگے خط بھی آدھی ملاقات ہے، جلدی جلدی بھیجتے رہیں گے۔ میں تمہارے پاس اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا علیحدہ خط بھیجا کروں گی، تم بھی جو کچھ حال ہو، آپ ہی لکھ بھیجا کرنا۔‘‘ جہاں آرا میکے والوں سے مل کر اپنی سسرال میں آئی اور دوسرے روز چلنے کی صلاح ٹھہرائی۔ محمد یوسف نے رتھ میں اپنی بیوی اور دو ماماؤں کو بٹھایا اور آپ گھوڑے پر سوار ہو کر تین چار خدمت گار ساتھ لے، انبالے کو روانہ ہوا۔ وہاں ہنسی خوشی کئی مہینے تک رہا مگر پھر اس کے رسالے کو شاہ جہان پور جانے کا حکم ہوا اور اسے بھی وہاں جانا ضرور پڑا۔ یہ حکم سنتے ہی اسے اپنی بیوی کی جدائی کا فکر پیش آیا اور مفارقت کے غم و الم میں مبتلا ہوا۔ جہاں آرا نے بھی جس وقت یہ بات سنی، حیران و ششدر (61) رہ گئی۔ کئی دن تک دونوں کو یہی تفکر رہا اور جس قدر سفر کا زمانہ قریب آتا تھا، اسی قدر فکر و اندیشہ زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر روانگی کے ایک دن پہلے جب رات کو دونوں کھانا کھا چکے اور تنہائی کا وقت آیا تو محمد یوسف نے جہاں آرا بیگم سے کہا ’’ بیگم! مجھے تمہاری جدائی کا بہت رنج ہے مگر کیا کروں؟ مجبور ہوں، سرکار کا حکم ہے، تعمیل ضرور ہے۔ اس قدر اداس کیوں ہوتی ہو؟ دیکھو پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ تم ابا جان کے پاس چند روز رہو، میں بھی تھوڑے عرصے میں دہلی آنے کی کچھ تدبیر کروں گا اور تمہیں بھی وہیں بلا لوں گا۔‘‘ جہاں آرا جس کے دل پر غم کی گھٹا چھا رہی تھی اور آنکھوں سے مینہ کی جھڑی لگ رہی تھی، خاوند کی باتیں سن کر بولی ’’ صاحب! تمہیں کسی کے دل کی کیا خبر ہے، ان تسلی کی باتوں سے کیا فائدہ؟ ملاقات جب ہی ہو گی، جب خدا کی مرضی ہو گی۔ خیر جس طرح ہو سکے گا، ہم بھی صبر کریں گے، مگر تم اپنا دل کیوں بھاری کرتے ہو؟ تمہارے کڑھے سے میری چھاتی پھٹی جاتی ہے۔‘‘ رات بھر دونوں میں اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں، صبح کی اذان ہونے سے پہلے دونوں اٹھے، تھوڑی دیر بعد نماز پڑھی، خدا کی درگاہ میں ایام مفارقت کے دور ہونے اور زمانہ مواصلت کے قریب ہونے کی دعا کی۔ محمد یوسف نماز اور وظیفے سے فارغ ہو کر بولا ’’ لو بیگم! خدا حافظ!‘‘ جہاں آرا نے کہا ’’ خیر اللہ نگہبان ہے۔‘‘ پھر محمد یوسف اپنے باپ کے پاس آیا اور بہت ادب سے اس کی تشفی اور تسلی کی باتیں کرتا رہا۔ اس کے بعد مردانے مکان میں گیا، وہاں پہلے ہی سے اس کے دوست آشنا بیٹھے تھے، سب سے مل، گھوڑے پر سوار ہو، اپنے رسالے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں رسالہ روانہ ہوا اور کوچ مقام کرتے ہوئے چند روز بعد شاہ جہان پور پہنچ گیا۔ محمد یوسف کو وہاں گئے ہوئے کچھ بہت عرصہ نہ ہوا تھا۔ کہ دہلی میں غدر ہو گیا اور انگریزوں کی فوج جو میرٹھ میں پھر گئی تھی۔۔۔ اس نے دہلی میں آتے ہی بہت سے انگریزوں کو قتل کیا اور ان کے بنگلے جلا دئیے۔ کئی دن تک یہ لوگ بے سرو افسر رہے، پھر انہوں نے دہلی کے بادشاہ کو اپنا سردار بنا کر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کا سامان کیا۔ انگریزوں کے وقت میں جن لوگوں کی جاگیروں او رمنصبوں میں فرق یا خلل واقع ہو گیا تھا، ان میں سے چند آدمیوں نے یہ خیال کر کے کہ بادشاہ کے ذریعے سے ہماری جاگیریں پھر مل جائیں گی اور منصب سابق حاصل ہو جائے گا، بادشاہ کے ہاں رجوع کی اور انگریزوں کی عملداری جاتے رہنے سے خوش ہو گئے۔ فیض الدین کے بزرگ کسی زمانے میں جاگیردار تھے، وہ بھی اپنی جاگیر کی امید پر بادشاہ کے پاس گیا۔ بادشاہ نے اس کی بہت توقیر کی اور منصب جلیل پر سرفراز کرنے کا وعدہ کیا اور اس سبب سے اس کا دل اور بڑھ گیا۔ اس عرصے میں شہر کے باہر پہاڑی پر انگریزوں کی فوج آ پڑی اور لڑائی شروع ہو گئی۔ فیض الدین ہر روز ہتھیار باندھ، گھوڑے پر سوار ہو، فوج کے ساتھ جاتا اور گھر میں آ کر نجم النسا اور گیتی آرا سے طرح طرح کا ذکر کرتا اور کہتا ’’ اب انگریزوں کی شکست ہونے والی ہے، پہاڑی بھی فتح ہوا چاہتی ہے، ہماری جاگیر پھر ہمیں مل جائے گی، تمام عمر ہماری اولاد چین کرے گی۔ انگریزوں نے شریفوں کے رتبے گھٹا دئیے، ان کی جاگیریں مفت ضبط کر لیں، کسی نے نہ پوچھا کہ یہ لوگ عزت دار ہیں کیوں کر اپنا گزارہ کریں گے۔ ان کے وقت میں بڑے بڑے عہدے اور منصب بھی ہم لوگوں کو ملنے موقوف ہو گئے۔ عمدہ علاقوں کا تو کیا ذکر ہے، مطلق روزگار ہی کی کساد بازاری ہو گئی۔ اگر زندگی باقی ہے تو دکھا دیں گے کہ بادشاہی عملداری میں کیسے کیسے منصب شریفوں کو ملتے ہیں اور اگر لڑائی میں مارے گئے تو عاقبت میں درجہ پائیں گے۔‘‘ نجم النسا اور گیتی آرا اس کی باتوں سے نہایت رنجیدہ ہوتیں اور کہتیں ’’ تم انگریزوں کے جانے سے خوش ہوتے ہو، ان کے وقت میں کیا تکلیف تھی؟ ہر طرح سے امن چین تھا۔ یہ لوگ دین کی باتوں میں کچھ دخل نہ دیتے تھے۔ سب مسلمان نماز روزہ دل جمعی سے ادا کرتے تھے۔ کسی کو کچھ ممانعت نہ تھی۔ آگے اہل اسلام کی قدر و منزلت بھی بہت تھی۔ اب پوربیوں نے تو آ کر شہر کا ستیاناس کر دیا۔ بیٹھے بٹھائے سب کا چین کھو دیا۔ آنکھوں کی نیند اڑ گئی، دل پریشان ہو گیا۔ بھلا بال بچوں اور عورتوں کا مارنا بھی کہیں شرع میں درست ہے؟ یہ فوج والوں نے کیا غضب کیا کہ انہیں بھی نہ چھوڑا۔ ایسی باتوں سے عاقبت کے درجے کی کیا توقع رکھنی چاہیے؟‘‘ گیتی آرا کبھی کبھی یہ بھی کہا کرتی تھی ’’ چچا جان! آپ جو کہتے ہیں کہ انگریز شریفوں کی قدر نہیں کرتے، بھلا آپ ہی خیال کیجئے کہ میرے ابا جان اور منجھلے چچا جان کی کیسی خاطر کرتے تھے۔ ابا جان ڈپٹی کلکٹر تھے، جب ظہر کی نماز کا وقت آتا تو کچہری میں سے اٹھ کر نماز کو چلے جاتے اور انگریز بہت خوشی سے انہیں اجازت دیتے اور چچا جان کا بھی تحصیلداری کے علاقے میں یہی طریق رہا۔ مذہب کی باتوں میں تو یہ لوگ کسی کو نہیں روکتے۔ اپنا کیسا ہی کام ہو، کچھ خیال نہیں کرتے، نماز پڑھنے کی مہلت دے دیتے ہیں۔‘‘ لڑائی کے دنوں میں فیض الدین اور اس کے گھر کی عورتوں میں اکثر اسی قسم کی گفتگو رہتی اور عورتیں اسے بہت سمجھاتیں، مگر وہ کاہے کو باز آنے والا تھا، اسے تو کچھ اور ہی خیال تھا۔ روز دھاوے پر جاتا اور گھر میں وہاں کی سرگزشت کہہ کر سب کو جلاتا۔ ایک دن اس نے مولوی فخر الدین سے بھی اپنی شجاعت اور بہادری کا ذکر کیا اور پہاڑی پر جانے اور انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی ساری حقیقت بیان کی۔ مولوی فخر الدین تو بڑا عالم فاضل اور تفسیر اور فقہ اور حدیث اور تمام دینی علموں میں استاد مسلم تھا یہ سنتے ہی جھلا اٹھا اور علمی تقریر سے اسے سمجھانے لگا ’’ تمہارے دل میں کیا خیال خام سمایا ہے۔ کیوں الجھتے ہو؟ دیکھو ان باتوں سے باز آؤ، تہیں انگریزوں کے وقت میں کون سی تکلیف تھی جو اس طرح جلی بھنی باتیں کرتے ہو؟ انہوں نے تو ایسا آرام دے رکھا تھا کہ اب سب یاد کرتے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں سے بہت ہی ملے جلتے رہتے تھے اور انہیں بڑے بڑے عہدے دیتے تھے۔ علاوہ اس کے ان کی عمل داری میں سب لوگ اچھی طرح دل جمعی اور فراغ بالی سے مذہبی رکن ادا کرتے تھے۔ کسی ضروری بات میں حرج نہ تھا۔ کیا تم اس لڑائی کو مذہبی لڑائی جانتے ہو؟ دین اسلام کی ترقی کا باعث سمجھتے ہو؟ اگر یہ خیال کرتے ہو تو تمہارا گمان باطل ہے۔‘‘ ’’ دیکھو، پہلے کیسے اطمینان سے مسلمان لوگ با جماعت نماز پڑھتے تھے۔ مسجدیں کھلی رہتی تھیں، کچھ خطرہ نہ تھا، رات دن جس وقت جی چاہتا تھا، بے باک مسجدوں میں چلے جاتے تھے، بے کھٹکے عبادت کرتے تھے۔ جامع مسجد میں عشا کی نماز بڑی رات گئے ہوتی تھی، کچھ اندیشہ نہ تھا۔ اب رات تو ایک طرف رہی، دن دھاڑے بھی مسجدوں میں اچھی طرح جماعت نہیں ہوتی۔ بادشاہ برائے نام حاکم ہے مگر واقع میں محکوم ہے۔ فوج کا ہر شخص اپنے تئیں حاکم سمجھتا ہے۔ نہ کوئی سردار ہے، نہ امام ہے۔ ایک بے فائدہ غدر مچ رہا ہے۔ بازاری اور واقعہ طلب آدمی اس غدر میں شریک ہو گئے اور اگر کوئی شریف بھی شامل ہو گیا ہے۔ تو فوج کی زبردستی یا خوف یا کسی اور باعث سے پھنس گیا ہے۔ تم شریف ہو کر اس طرح کی باتیں کرتے ہو؟ ہوش میں آؤ، عاقبت اندیشی اختیار کرو۔ دیکھو ہندوستان کے تمام مسلمان سرکار انگریزی کے امن میں ہیں اور شرع کے موافق کوئی مستامن (62) ان لوگوں سے جن کے امن میں ہیں، مذہبی لڑائی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ فتاویٰ در مختار اور ہدایہ اور عالمگیری میں لکھا ہے کہ جو مسلمان غیر مذہب والوں کی عمل داری میں امن سے رہے اسے ان کے خون یا مال سے تعرض کرنا حرام ہے۔‘‘ ’’ خیال کرو کہ انگریزوں نے ہندوستان پر دو طرح سے حکومت حاصل کی۔ یا غلبے اور فتح کے سبب سے یا عہد و پیمان کے باعث سے۔ اور فتاویٰ عالمگیری میں مذہبی لڑائی کی شرطوں میں لکھا ہے کہ ہم میں اور دشمنوں میں عہد و پیمان نہ ہوا اور اس امر کی اور بھی شرطیں ہے کہ ان میں سے یہاں ایک بھی نہیں پائی جاتی۔ مذہب اسلام میں یہ بات مقرر ہو چکی ہے کہ اگر مسلمان اپنے اختیار سے کسی کو بادشاہ بنانا چاہیں تو مسلمان کو قوم قریش میں سے بنائیں، لیکن جو شخص اپنے غلبے سے بادشاہ ہوا ہو یا مسلمان لوگ پہلے ہی سے کسی بادشاہ کی اطاعت میں ہوں تو اس بادشاہ کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے، وہ کسی مذہب کا ہو، اس کی ا طاعت لازم ہے۔ چنانچہ کتاب تاتار خانی میں کتاب ملتقط سے نقل کی ہے کہ جس بادشاہ کی تقلید کی جائے، اس کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے اور ہمارے ہاں کا یہ مسئلہ اصل توریت مقدس سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتاب پیدائش کے انتالیسویں باب میں لکھا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے فطفیر (63) مصری کی اطاعت میں اس کی نوکری قبول کی اور نہایت وفاداری سے اس کی خدمت انجام دی ، حالانکہ فطفیر مسلمان نہ تھا۔‘‘ ’’ اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کو سرکار انگریزی کی اطاعت کرنی ضرور ہے۔ دیکھو باز آؤ، یہ ایک ناحق غدر مچ رہا ہے۔ اسے مذہبی لڑائی سے کچھ علاقہ نہیں۔ سبحان اللہ! ہمارے پیغمبر ؐ خدا تو عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کے مارنے سے منع فرمائیں اور پھر اس فوج نے دانستہ یہ امر گوارا کیا اور تم بھی مسلمان ہو کر اس کی رفاقت کرتے ہو؟‘‘ ’’ حدیث کی بڑی معتمد کتابوں بخاری (64) اور مسلم (64a) میں عبداللہؓ ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول ؐ خدا نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا اور ابو داؤد (65) میں انسؓ کی روایت سے نقل کی گئی ہے کہ رسول ؐ خدا نے فرمایا کہ ’’ نہ قتل کرو بوڑھے ضعیف کو اور نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو۔‘‘ ’’ دیکھو پیغمبرؐ خدا کے خلیفہ اول، حضرت ابوبکرؓ نے فوج کے دو افسروں ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو جو ملک شام کی طرف گئے تھے، یہ نصیحت کی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ عورتوں یا بچوں کے قتل کرنے سے اپنی فتح کو داغ لگاؤ۔ درختوں کو نہ توڑنا، اناج کو نہ جلانا اور جو عہد و پیمان کرو، اس پر ایمان داری سے قائم رہنا اور لازم ہے کہ تمہارا قول و فعل دونوں مطابق ہو۔‘‘ ’’ فیض الدین! تم فوج والوں کی باتوں پر نہ جانا اور ہرگز یہ امر نہ اختیار کرنا۔ وہ جو اہل اسلام کو بھڑکا کر کہتے ہیں کہ نصاریٰ اور مسلمانوں میں بڑی عداوت چلی آتی ہے، یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ حقیقت میں پوچھو تو مسلمانوں کے مذہب میں نصاریٰ کے سوا کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ مذہب کی رو سے مسلمانوں کا ارتباط ہو۔ قرآن شریف میں سورۂ مائدہ (66) کی پچاسی آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر ؐ سے فرمایا کہ تو سب سے زیادہ مسلمانوں کا دوست ان لوگوں کو پائے گا، جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں، اس سبب سے کہ ان میں عالم اور پارسا ہیں اور اس واسطے کہ وہ تکبر نہ؁ں کرتے سوا اس کے جس زمانے میں فارس والوں نے اہل روم کو جو عیسائی تھے، شکست دے کر روم پر غلبہ کیا تو مسلمان لوگ عیسائیوں کو شکست کھانے سے ایسے غمگین ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی کی اور ہمارے پیغمبر ؐ پر وحی بھیجی کہ میں عنقریب عیسائیوں کے فتح دینے سے مسلمانوں کو خوش کروں گا۔ چنانچہ سورۂ (67) روم کی پہلی ہی آیتوں میں یہ ذکر لکھا ہے۔‘‘ ’’ علاوہ اس کے جب مکے کے مشرکوں نے مسلمانوں کو نہایت تکلیف دی تو اسی ارتباط کے سبب سے پیغمبر خدا نے بھی مسلمانوں کو حکم (68) دیا کہ تم حبشے کو جہاں کا بادشاہ عیسائی تھا اور نجاشی کہلاتا تھا، چلے جاؤ۔ اس حکم کے موافق چند مسلمان وہاں چلے گئے اور نجاشی نے ان کی بہت خاطر داری کی۔‘‘ فیض الدین نے جس وقت مولوی فخر الدین کی یہ علمی تقریر سنی، اس کے دل پر بہت اثر ہوا مگر پھر بادشاہ نے اسے بڑا منصب عطا کیا اور اپنا مقرب خاص بنایا۔ اس باعث سے وہ لڑائی کا بہت اہتمام کرتا اور سب سے آگے دھاوے پر جاتا، اپنی زندگی کو ترقی دیتا اور موت کو نجات عقبیٰ کا باعث سمجھتا۔ ایک روز وہ کسی رسالے کو لیے ہوئے پہاڑی پر چڑھ گیا اور آگ کی بوچھاڑ میں آگے بڑھتا جاتا تھا کہ اس کے سر میں ایک گولی لگی اور وہ فوراً عالم آخرت کو روانہ ہوا۔ جب نجم النسا اور گیتی آرا کو یہ خبر پہنچی، غم و الم میں مبتلا ہوئیں۔ ادھر تو اپنی تنہائی کا فکر پیدا ہوا، ادھر جہاں آرا بیگم کی طرف سے کوئی خبر نہ آتی تھی، اس کی تشویش لاحق ہوئی۔ اس پریشانی کی حالت میں انہوں نے مولوی فخر الدین سے صلاح پوچھی۔ اس نے کہا’’ یہاں رہنا ہرگز مناسب نہیں، کہیں چلے جانا بہتر ہے۔‘‘ وہ بولیں ’’ کیا کریں، کہاں جائیں؟ رستے بند ہیں، فوجیں چلی آتی ہیں، گوجروں نے جدا ناک میں دم کر رکھا ہے، ہر جگہ لوٹ مچ رہی ہے۔ کیا مجال کہ کوئی کوس بھر بھی رستہ چل سکے۔‘‘ مولوی فخر الدین نے جواب دیا کہ اب جہاں آرا بیگم کے پاس انبالے چلی چلو۔ انبالہ امن کی جگہ ہے۔ وہاں انگریزوں کی عمل داری ہے، میں تمہارے ساتھ ہوں دو تین نوکر بھی موجود ہیں رستے میں گوجروں سے جس طرح ہو سکے گا، بھگت لیں گے اور جب انبالے پہنچ جائیں گے تو آرام سے ہو جائیں گے۔ وہاں جہاں آرا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا اور محمد یوسف کی خیر و عافیت بھی دریافت کر لینا۔ آخر سب کی یہی رائے قرار پائی اور ایک روز چلنے کی صلاح ٹھہرائی۔ نجم النسا اپنے بچے سمیت اور گیتی آرا اور اس کی ددا گاڑی میں ہو بیٹھی۔ مولوی فخر الدین اور تین نوکر سب کے سب ہتھیار باندھ کر ان کے ساتھ ہو لیے اور فوج سے بچ کر ایک اور طرف سے انبالے کی راہ لی۔ رستے میں وہی امر پیش آیا، جس کا خطرہ تھا۔ گوجر اپنے اپنے لٹھ اور تلواریں لے کر سب طرف سے نکل کھڑے ہوئے۔ مولوی فخر الدین بہت ثابت قدمی اور قائم مزاجی سے عورتوں کو سمجھانے لگے ’’ دیکھوں کچھ ہراساں نہ ہونا، استقلال سے بیٹھی رہنا، صبر کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔‘‘ یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ گوجر دھاوا کر کے آ پڑے۔ مولوی فخر الدین اور تینوں نوکر بہت بہادری سے مقابلہ کرتے رہے۔ بڑی دیر تک دونوں طرف سے کشت و خون ہوا۔ آخر مولوی فخر الدینا ور اس کے ہمراہیوں نے دنیا سے کوچ کیا اور نجم النسا کے بچے عبدالرحمن نے بھی جو اس وقت گاڑی بان کی گود میں تھا، لٹھ کے صدمے سے دم دیا۔ گوجروں نے کوب اسباب لوٹا اور ساری چیزیں لے کر بھاگ گئے۔ اب صرف نجم النسا، گیتی آرا اور اس کی ددا یہی تینوں عورتیں باقی رہ گئیں اور تکلیفیں اٹھاتی ہوئی آگے چلیں۔ نجم النسا کے دل پر اس کے لڑکے کا صدمہ ایسا نہ ہوا تھا کہ وہ زندہ رہتی۔ جیتے جی مر گئی اور اس کے فکر میں سخت بیمار ہوئی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو گیتی آرا کی طرف مخاطب ہو کر کہا ’’ بوا! تقدیر میں یہ صدمے اٹھانے تھے، ظالموں نے میرے لخت جگر عبدالرحمن کو اس بے رحمی سے مارا۔ اس کا باپ پہلے ہی مر چکا تھا، اب مجھے اپنے مرنے کا تو افسوس نہیں ہے، تمہاری تنہائی کا بہت خیال ہے۔ تم ایسے وقت میں صبر و استقلال سے رہنا، ہرگز نہ گھبرانا۔ اللہ تعالیٰ سب مشکلیں آسان کر دے گا، وہ بڑا کریم و کار ساز ہے۔‘‘ اس گفتگو کے تھوڑی دیر بعد اس نے عالم عاقبت کا رستہ لیا اور صرف گیتی آرا اور اس کی ددا باقی رہ گئی۔ گیتی آرا نے ایک گاؤں والوں کی مدد سے جس طرح ہو سکا، اس کی تجہیز و تکفین کی اور وہیں جنگل میں اسے دفن کر دیا۔ پھر حیرانی اور پریشانی کی حالت میں آگے بڑھی اور رنج و الم کا حال اپنی ددا سے کہتی گئی۔ کبھی اپنے چچا فیض الدین کی محبت اور کبھی اس کے بچے کی الفت کا ذکر کرتی، کبھی نجم النسا کی مفارقت اور اس کی رفاقت اور موافقت کا حال بیان کرتی، کبھی پہلی راحت و آسودگی کو یاد کرتی اور کہتی ’’ ددا! ابا جان نے ہمیں اسی دن کے واسطے ناز و نعمت میں پالا تھا؟ صدمے اٹھاتے اٹھاتے چھاتی پتھر بن گئی ہے۔ کچھ کہہ نہیں سکتی ہوں، ہر حالت میں صبر و شکر بہترہے۔‘‘ کبھی جہاں آرا اور اس کے خاوند کا فکر کرتی، کبھی جمیل الدین کا خیال کرتی اور دل ہی دل میں کہتی، دیکھئے اس پر کیا گزرتی ہو گی، کہاں ہو گا، کس طرح زندگی بسر کرتا ہو گا؟ انہیں خیالات میں وہ طرح طرح کی مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھا کر اپنی ددا سمیت انبالے میں پہنچی اور وہاں جا کر ابتدا سے آخر تک جہاں آرا کے روبرو سارا حال بیان کیا۔ جہاں آرا کو نہایت رنج ہوا مگر بہت استقلال سے اپنے تئیں سنبھال کر بولی ’’ بوا! مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ دیکھئے میرے عزیزوں پر کیا بنی ہو گی! اب اس وقت میری یہ حالت ہے کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔‘‘ گیتی آرا نے پوچھا ’’ بھائی محمد یوسف کہاں ہیں؟‘‘ جہاں آرا نے کہا ’’ بوا بھلا مجھے کیا معلوم! جب سے غدر ہوا ہے، کسی کی کچھ خبر نہیں ہے۔ رستے بند ہیں، نہ کوئی کہیں جا سکتا ہے، نہ آ سکتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ تم میرے پاس آ گئیں۔ آنکھوں کے سامنے رہو گی، تمہیں سے دل بہلے گا۔‘‘ ادھر تو جہاں آرا اور گیتی آرا دونوں انبالے میں رہیں۔ ادھر جمیل الدین حج سے فارغ ہو کر دہلی آیا۔ یہاں انگریزوں کا تسلط ہی ہو گیا تھا، اس نے اطمینان سے اپنے عزیز و اقربا اور استاد اور یار و آشنا کو دیکھنا شروع کیا۔ دل افروز بیگم کے خاوند شیخ فضل احمد نے غدر کے زمانے میں سرکار کی بہت خیر خواہی کی تھی، اس سبب سے سرکار نے اس کو اور اس کے مال و متاع کو اپنے امن میں رکھا تھا اور کسی کو دست اندازی نہ کرنے دی تھی۔ اتفاقاً جمیل الدین اس کے ہاں گیا اور اس سے تما حال دریافت کیا۔ اسے پہلے ہی تمام حادثوں کی اطلاع ہو چکی تھی، ساری حقیقت جمیل الدین کے روبرو بیان کر دی۔ وہ سنتے ہی فکر و اندیشہ میں مبتلا ہوا مگر صبر و استقلال قائم رکھا اور خدا کا شکر بجا لایا۔ فضل احمد نے اس کی بہت خاطر داری کی اور رات کو اس سے حج کا بیان اور رستے کی سرگزشت پوچھتا رہا۔ جمیل الدین نے کہا’’ میں دہلی سے روانہ ہو کر بمبئی گیا اور وہاں سے جہاز پر سوار ہوا۔ جب جہاز اہل یمن کے میقات (69) یعنی مقام یلملم پر پہنچا تو وہاں سے میں نے اور آور حج کرنے والوں نے احرام باندھ لیا اور احرام باندھنے کی حقیقت تم جانتے ہی ہو، وضو کرنا، ایک پاک صاف چادر گھٹنوں تک باندھنی، دوسری چادر پیٹھ پر ڈالنی، خوشبو لگانی، نماز کی دو رکعتیں پڑھنی اور حج کی نیت کرنی۔ یہی احرام باندھنے کے معنی ہیں۔ اس کے بعد میں نے عشق و فسق کی گفتگو، قتال و جدال، شکار کھیلنا، خوشبو لگانی، ناخن کتروانے، بال منڈوانے اور زیب و زینت کی ساری چیزیں بالکل ترک کر دیں اور نماز کے بعد بلکہ اکثر اوقات خدا کی صفت و ثنا کے کلمے پڑھتا رہا۔‘‘ ’’ جب مکہ معظمہ میں پہنچا تو پہلے حرم میں گیا او ربیت اللہ کو دیکھتے ہی خدا کی بزرگی اور توحید کا کلمہ پڑھا تاکہ شرک کے نام و نشان کا بھی پتا نہ رہے۔ پھر حجر اسود (70)کے پاس جا کر اسے بوسہ دیا اور خدا کی حمد کی اور رسول خدا پر درود پڑھا۔ اس کے بعد کعبتہ اللہ کو بائیں طرف کر کے دروازے کے متصل دائیں طرف سے طواف شروع کیا اور حطیم (71) کو شامل کر کے بیت اللہ کے گرد سات طواف کیے، تین جھپٹ کر اور چار اپنی رفتار سے، اور ہر دفعہ حجر اسود کو بوسہ دیتا گیا اور اسے طواف قدوم کہتے ہیں کہ جو شخص کسی اور جگہ سے آتا ہے، وہی یہ طواف کرتا ہے۔‘‘ اس طواف سے فارغ ہو کر میں نے مقام ابراہیم ؑ (72)کے پاس نماز کی دو رکعتیں پڑھیں اور پھر حجر اسود کو بوسہ دیا اور خدا کی بزرگی اور توحید کے کلمے پڑھے۔ فضل احمد بولا ’’ یہ تو بتاؤ کہ حطیم اور مقام ابراہیم ؑ کن مقاموں کے نام ہیں؟‘‘ جمیل الدین نے کہا ’’ ہمارے رسول ؐ خدا کے وقت میں جو قریش نے کعبتہ اللہ کی از سر نو تعمیر کی تھی، اس وقت کسی خاص سبب سے اس کا مغربی حصہ بنائے سابق سے باہر رہ گیا تھا، اسی کو حطیم کہتے ہیں اور طواف میں اسے بھی شامل کرنا ضرور ہے اور مقام ابراہیم ؑ اس پتھر کا نام ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے کھڑے ہو کر کعبہ تعمیر کیا تھا اور ان کے قدموں کے نشان اس پر ہو گئے تھے۔ اب آگے سنو! ان کاموں سے فارغ ہو کر میں صفا (73) پر چڑھا اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے خدا کی بزرگی اور توحید کے کلمے پڑھے اور پیغمبر ؐ خدا پر درود بھیجا اور دعا کی۔ پھر مروہ (73a) کی طرف چلا مگر میلین (74) اخضرین کے بیچ میں اپنی رفتار تیز کر لی اور مروہ پر چڑھ کر وہی کیا جو صفا پر کیا تھا اور سات دفعہ یہی عمل کرتا رہا۔‘‘ فضل احمد نے پوچھا ’’ لوگ صفا اور مروہ پر کیوں جاتے ہیں اور میلین اخضرین کے بیچ میں کس واسطے دوڑتے ہیں؟‘‘ جمیل الدین نے جواب دیا ’’ حج کے اکثر قاعدے حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے وقت سے جاری ہیں اور انہیں طریقوں پر مبنی ہیں اور تمہارے سوال کا یہ جواب ہے کہ جب وحی الٰہی کے موافق حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑ کو مکے کے میدان میں چھوڑ کر چلے گئے اور حضرت اسماعیل ؑ کو بہت شدت سے پیاس لگی تو ان کی والدہ ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں سات دفعہ صفا اور مروہ پر گئیں، مگر دونوں طرف صفا اور مروہ پر چڑھتے ہوئے حضرت اسماعیل ؑ پر ان کی نگاہ پڑتی رہتی تھی۔ اس واسطے وہ بے قرار ہو کر وہاں نہ دوڑتی تھیں اور نشیب میں میلین اخضرین کے بیچ میں حضرت اسماعیل ؑ ان کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتے تھے، اس سبب سے وہاں دوڑ کر چلتی تھیں۔ یہی طریق سب لوگوں کے واسطے مقرر ہو گیا اور اسی طرح ہر ایک بات کی کامل وجہ ہے، مگر میں تمہارے سامنے مختصر حال بیان کر رہا ہوں۔ اس عمل سے فارغ ہو کر میں نے مکہ معظمہ میں ایک مکان کرایے کو لیا اور وہاں رہنے لگا مگر احرام باندھے رکھا اور کبھی کبھی طواف بھی کرتا رہا۔‘‘ ’’ جب ماہ ذی الحجہ کی ساتویں تاریخ ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھ کر منیٰ میں گیا اور عرفہ (77) یعنی نویں تاریخ کی صبح تک وہیں رہا۔ پھر وہاں سے عرفات پر گیا۔ جب دوپہر ڈھلی تو ظہر کی نماز سے پہلے امام نے جمعے (78)کے دو خطبے پڑھے اور ان میں باقی احکام یعنی عرفات پر ٹھہرنا اور کنکریاں پھینکنی اور قربانی کرنی اور سر منڈوانا اور طواف زیارت اور آور ضروری باتیں سکھائیں اور وہاں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھیں۔ پھر امام اونٹنی پر سوار ہو کر قبلے کی طرف منہ کر کے جبل (79)رحمت کے پاس کھڑا ہوا اور دعا مانگی او رمناسک (80)تعلیم کیے۔ اس کے پیچھے خلقت قبلہ رو کھڑی ہوئی ساری باتیں سنتی اور روتی رہی۔‘‘ ’’ جب آفتاب غروب ہو گیا تو مزدلفہ (81)میں آیا اور جبل قزح (82)کے پاس اترا۔ وہاں عشا کے وقت مغرب اور عشا کی دونوں نمازیں پڑھیں۔ پھر اندھیرے میں فجر کی نماز پڑھ کر مزدلفہ ہی میں ٹھہرا اور خدا کی بزرگی اور توحید او رصفت و ثنا کے کلمے پڑھے اور رسول ؐ خدا پر درود بھیجا۔‘‘ ’’ جب روشنی ہو گئی تو منیٰ میں آیا اور تکبیر پڑھ کر جمرہ (83)عقبہ پر سات کنکریاں ماریں اور یہ عمل شیطان کے دفع کرنے کے واسطے کیا جاتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم ؑ نے کیا تھا۔ اب بعض کلموں کا پڑھنا موقوف ہو گیا۔ اس کے بعد قربانی کی، پھر سر منڈوایا اور اس وقت سے بہتیری باتیں جو احرام میں ممنوع تھیں، جائز ہو گئیں۔ اس کے بعد طواف زیارت کیا، مگر ساتوں گردشوں میں سے جھپٹ کر کسی میں نہیں چلا اور صفا اور مروہ کے بیچ میں بھی نہیں دوڑا کیونکہ یہ عمل پہلے کر چکا تھا۔‘‘ پھر منیٰ میں آیا اور رات کو وہیں رہا اور گیارہویں تاریخ دوپہر کے بعد تکبیر پڑھ کر تینوں جمار (84)پر سات سات کنکریاں ماریں۔ پہلے اس جمرہ پر جو مسجد کے پاس تھا، پھر درمیانی پر، پھر جمرہ عقبہ پر۔ جب قربانی کے تینوں دن یعنی دسویں گیارہویں اور بارہویں تاریخ گزر چکی تو چوتھے روز بہت سویرے وہاں سے چلا اور محقب (85)میں ٹھہرا۔ پھر مکہ معظمہ میں آ کر طواف صدر یعنی رخصت کا طواف کیا مگر اس میں بھی جھپٹ کر نہیں چلا اور نہ صفا اور مروہ کے بیچ میں دوڑا۔ پھر آب زمزم پیا اور بیت اللہ کی چوکھٹ کو بوسہ دیا اور ملتزم (86)پر سینہ اور چہرہ لگایا اور رو کر دعا مانگی۔ اس کے بعد مسجد میں سے باہر آیا۔ ’’ جب حج سے فارغ ہو چکا تو چند روز مکہ معظمہ میں رہا اور پھر مدینہ منورہ میں، جہاں حضرت سرور کائنات ؐ کا مزار ہے، زیارت کے واسطے گیا اور وہاں سے مراجعت کر کے مکے میں آیا اور ہندوستان کا قصد کیا۔‘‘ فضل احمد نے کہا ’’ میں آپ کی گفتگو سن کر نہایت خوش ہوں، خدا تعالیٰ سب مسلمانوں کو حج کی توفیق دے۔ اب یہ تو بتاؤ کہ آپ کو اس غدر کی کہاں خبر ہوئی اور یہاں تک کیوں کر پہنچے؟‘‘ جمیل الدین نے جواب دیا’’ جس وقت میں مکہ معظمہ سے بمبئی آیا، اسی وقت میں نے یہ غلغلہ سنا۔ بہت حیران اور متفکر ہوا کہ دہلی میں میرے عزیز و اقربا پر کیا گزری ہو گی۔ فوراً وہاں کے حاکموں سے ملا اور ایک رسالے میں مقرر ہو گیا اور بہت ثابت قدمی اور وفاداری سے اپنا کام انجام کرتا رہا۔ پھر اتفاقاً دہلی کی طرف اس رسالے کا کوچ ہوا، میں بھی اس کے ہمراہ اس طرف روانہ ہوا۔ اب اس کے ساتھ ساتھ یہاں تک پہنچا اور تم سے آ کر ملا۔‘‘ رات کو جمیل الدین اور فضل احمد دونوں اسی طرح کے ذکر کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو جمیل الدین نے دہلی کے انگریزوں کو اپنے آنے کی اطلاع دی۔ وہ اس کی خیر خواہی کے سبب سے اس سے بہت خاطر داری سے پیش آئے اور اس کی جائیداد گزاشت کر کے شہر دہلی میں رہنے اور تمام عزیز و اقربا کے بلا لینے کی اجازت دی۔ جمیل الدین نے خوب طرح مطمئن ہو کر دو تین روز بعد انبالے میں اپنی بہن جہاں آرا بیگم کے نام خط بھیجا اور تمام حقیقت اس میں لکھ دی۔ وہاں تو پہلے ہی سے کمال انتظار تھا، خط کے پہنچتے ہی سب کے سب پژمردہ خاطر نہال ہو گئے اور خوشی کا ایک سما بندھ گیا۔ اب صرف جہاں آرا بیگم کے خاوند محمد یوسف کا فکر باقی رہا، اس باب میں نگرانی خاطر کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ وہ ایک رسالے کا جمعدار تھا اور اس کی طرف سے یہ تردد تھا کہ وہ انگریزوں کی وفاداری میں ثابت قدم رہا یا فوج کے لوگ جو سرکار انگریزی سے پھر گئے تھے، اسے بھی زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ محمد یعقوب، گیتی آرا اور جہاں آرا کو دن رات یہی خیال تھا اور سب کے سب اسی فکر و اندیشہ میں مبتلا تھے۔ ایک دن اضطراب کی حالت میں جہاں آرا بیگم کی ددا گلاب بول اٹھی ’’ بیگم! آپ بھی خوب واقف ہیں اور میں بھی جانتی ہوں، غیب کا حال تو کوئی نہیں جان سکتا اور جو اس بات کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے، مگر آج تو دیوان حافظ میں فال کھولو۔‘‘ جہاں آرا نے جواب دیا ’’ ددا! نجوم اور آور ایسے ہی عملوں سے جو باتیں دریافت ہوں، ان کو سچ جاننا اور ان پر اعتقاد کرنا ہمارے مذہب میں کفر ہے۔ یہ کام ہرگز نہ کرنا چاہیے۔‘‘ گلاب نے کہا ’’ بیگم! جو کچھ فال میں نکلے، اس پر یقین کرنے سے آدمی کافر ہوتا ہے، نرے دیکھ لینے سے تو کافر نہیں ہوتا۔ بھلا دیکھ تو لو، دیوان حافظ میں کیا نکلتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر محمد یوسف کا حال دیکھنے کے واسطے طاق میں سے دیوان حافظ اٹھا لائی اور جہاں آرا بیگم کے آگے رکھ دیا۔ جہاں آرا نے جوں ہی کتاب کھولی، وہیں یہ شعر نکلا: یوسف (87) گم گشتہ باز آید بہ کنعاں غم مخور کلبہ احزاں شود روزے گلستاں غم مخور ٭٭٭ حوالہ جات پہلا باب 1۔ ذات عربی لفظ ہے اور اس کے معنی مشہور ہیں اور بہتیرے ہندو لوگ جن سے ذال کا تلفظ ادا نہیں ہو سکتا جات بولتے ہیں مگر حقیقت میں جات بھی صحیح لفظ ہے اور زبان سنسکرت میں ذات کا مترادف ہے بلکہ اگر قوم کے معنوں میں ذات کو بھی جات کا معرب کہیں تو بجا ہے۔ 2۔ ہندو لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہماری مذہبی کتابیں بہت ہی مدت کی بنی ہوئی ہیں۔ 3۔ تیرتھ میں جا کر دیوتاؤں کے درشن کرنے اور دان دینے کوجاترا کہتے ہیں۔ 4۔ قربانی کرنے اور دیوتاؤں کے روبرو نذر دینے کو جگ کرنا بولتے ہیں۔ 5۔ یہ لفظ اصل میں مواشی ہے جو عربی کے قاعدے کے موافق ماشیہ کی جمع ہے، امالہ کر کے مویشی بولنے لگے۔ 6۔ گناہوں کے عوض کرنے کو سنسکرت میں پراشچت کہتے ہیں۔ 7۔ اگرچہ کتب لغت سے دریافت ہوتا ہے کہ اس لفظ کی اصل و غول یا داغول بواو مجہول ہے جس کے معنی پکار اور حرام زادے کے ہیں مگر عجب نہیں ہے کہ دو غلہ اصل میں دوغلہ بہ تشدید لام ہو اور یہ لفظ اسی اناج پر بول سکتے ہیں جو دو قسم کے غلے سے ملا ہوا ہو۔ دوسرا باب 1۔ عام روح جسم میں پڑی ہوئی۔ 2۔ وید کے ایک منتر کا نام ہے جسے برہمن لوگ سب منتروں سے اچھا جانتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس کے پڑھنے سے بہت قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ 3۔ زبان سنسکرت میں بدھ (سنسکرت) بہ تشدید دال مہملہ بمعنی عقل کامل اور بدھ (سنسکرت) بسکون دال مہملہ بمعنی عاقل کامل ہے۔ 4۔ دال گلنے سے مطلب حاصل ہونا مراد ہے۔ 5۔ صحیح بھبما ہے، بھومی یعنی زمین کا مالک 6۔ لفظ انگرکھا مرکب ہے انگ اور رکھا سے اور زبان سنسکرت میں کل لفظ کے لغوی معنی محافظ تن ہیں۔ تیسرا باب 1,2۔ اس ایڈیشن کی ایڈیٹنگ میں م اور غ کی علامتوں کو اس خیال سے حذف کر دیا گیا ہے کہ ان سے مطالعے کی روانی میں خلل پڑتا تھا۔ 3۔ تعریف کے گیت 4۔ اکثر ہندو بہن کو جی جی اور بہنوئی کو جی جا کہتے ہیں۔ 5۔ کسی مندر پر جا کر مانی ہوئی نذر کے پورے کرنے کو جات دینا کہتے ہیں۔ 6۔ ہندو لوگ اپنے اعتقاد میں جانتے ہیں کہ سیتلا کو ٹھنڈا پانی بہت پسند ہے اور اسی سبب سے پلنڈے یعنی ٹھیلوں کی گھڑونچی کے نیچے بیٹھ کر سیتلا سے اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔ 7۔ ارداس لفظ عرضداشت کا بگڑا ہوا ہے۔ 8۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر خاوند بیوی کا یا بیوی خاوند کا نام لے تو ان کی عمر کم ہوتی ہے۔ 9۔ ہندوؤں کے اعتقاد میں مرغ اور سور کا بچہ یہ دونوں جانور بچوں کی بلائیں اور آفتیں اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ 10۔ ستیلا کو ان ناموں سے بھی پوجتے ہیں کیوں کہ وہ کلیجہ نکال لیتی ہے اور بدن پر پھپھولے ڈال دیتی ہے۔ 11۔ سیتلا کے مندر کے پاس اکثر مٹی کے ڈھیر یا پتھر کا نشان کھجلی کی پوجا کے واسطے بھی بنا ہوا ہوتا ہے۔ 12۔ جس وقت حقے کا ایسا دم لگاتے ہیں کہ تمباکو جل کر راکھ ہو جاتا ہے، اس وقت کہا کرتے ہیں کہ تمباکو چاندی ہو گیا۔ 13۔ جب مطلب بخوبی حاصل ہو جاتا ہے تو اس وقت کہا کرتے ہیں کہ نو ندھ بارہ سدھ ہو گئی اور اس کی اصل یہ ہے کہ ندھ سنسکرت میں کویر کے خزانے کا نام ہے اور سدھ آسمانی قوت کو کہتے ہیں اور ہندوؤں کے مذہب میں کویر جو خزانوں کا دیوتا ہے، اس کے قبضے میں نو خزانے ہیں اور دیوتاؤں کی قوتیں بارہ ہیں، تو نو ندھ بارہ سدھ ہو جانے سے یہ مراد ہے کہ کویر کے نو خزانے اور دیوتاؤں کی ساری قوتیں حاصل ہو گئیں۔ 14۔ بالکل ویران کر دینے کو اینٹ سے اینٹ بجانا کہتے ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کوئی مکان ٹوٹ پھوٹ کر بالکل گر پڑتا ہے تو اس کی اینٹیں علیحدہ علیحدہ ہو کر آپس میں ٹکرانے لگتی ہیں۔ 15۔ یہاں بھی اردو کے قاعدے کے موافق لفظ ہی حصر کے واسطے ہے اور فقرے کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزوں کا میسر آ جانا ممکن ہے مگر خاص میری صورت نہیں دیکھ سکے گا۔ 16۔ یعنی اے گیان چند کی بیٹی 17۔ ہندوؤں کے اعتقاد میں بھوت پریت بلی کی صورت میں بدلتے رہتے ہیں۔ 18۔ ہندوؤں کے نزدیک سیڈھو سیتلا کے بھائی کا نام ہے۔ 19۔لڑکی پر سرخ کپڑا ڈالتے ہیں۔ 20۔ یہ راگ بطور ترجیع بند کے ہے مگر بحر اور وزن کا کچھ ٹھکانا نہیں اور نہ ایسے راگوں میں ان باتوں کا کچھ لحاظ ہوتا ہے۔ اس راگ کی ابتدا میں رام منادی ہے اور اس کے پہلے حرف ندا محذوف ہے یعنی اے رام 21۔ الخ الیٰ آخرہ کا مخفف ہے اور اس سے یہ مطلب ہے کہ تمام عبارت آخر تک پڑھنی چاہیے۔ 22۔ اصل میں صحیح لفظ باغچہ ہے، تصغیر باغ کی۔ اس میں ی کا اضافہ کر کے باغیچہ بنا لیا۔ پھر بہتیرے ہندو لوگ جو فارسی نہیں جانتے اپنے اصلی تلفظ کے موافق بگیچہ اور اس کی تانیث یا تصغیر بگچی بولنے لگے۔ 23۔ اصل میں آرتی ایک پیتل کا کوئی بتیوں کا چراغ ہوتا ہے جو ہندو لوگ بتوں کے سروں کے گرد پھراتے ہیں، پھر وہ بھجن بھی جو اس وقت گائے جاتے ہیں، آرتی کہلانے لگے۔ 24۔ ہندوؤں کے ہاں اکثر خاوند کو لوگ کہتے ہیں۔ 25۔ گرد پھرنے کو پرکما کرنا کہتے ہیں۔ 26۔ مذہبی عمل کی نیت کرنے کو سنکلپ کرنا کہتے ہیں۔ 27۔ یعنی بہت دن سے روٹی نہیں کھائی، پکوان اور آور قسم کی چیزیں کھائی ہیں۔ 28۔ دکانداری کا بگڑا ہوا لفظ ہے۔ 29۔ جب کسی مورت کو مندر میں لے جا کر رکھتے ہیں تو کہتے ہیں، اس کا ستھا پن ہوا۔ 30۔ یعنی پرانی 31۔ ششدر اس مقام سے کنایہ ہے جہاں سے رہائی دشوار ہو اور مجازاً عاجز و متحیر کی جگہ بھی مستعمل ہوتا ہے اور ششدر اصل میں نرد کی بازی میں چھ خانے ہوتے ہیں کہ جب مہرہ ان کے پیچھے خانے میں پھنس جاتا ہے تو وہاں سے اس کا نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ 32۔ یہ لفظ اصل میں کمانڈر (Commander) کا بگڑا ہوا ہے جس کے معنی حاکم کے ہیں۔ 33۔ پرشھا کے معنی شہرت اور عزت کے ہیں اور بھنگ ہونے سے ٹوٹ جانا مراد ہے۔ چوتھا باب 1۔ اس ایڈیشن کے ایڈیٹنگ میں م اور غ کی علامتوں کو خیال سے حذف کیا گیا ہے کہ ان سے مطالعے کی روانی میں خلل پڑتا ہے۔ 2۔ صحیح لفظ شادباش ہے۔ اس کا مختصر شاباش ہوا اور عوام نے بگاڑ کر شابش بنا لیا۔ 3۔ لشکر کی خوراک روزانہ کو جو کمسٹریٹ سے دی جاتی ہے، انگریزی میں راشن(Ration) بولتے ہیں۔ 4۔ بعض ہندو اپنے دانتوں میں اس خیال سے سونے کی کیلیں جڑواتے ہیں کہ سونا پاک چیز ہے۔ اس کے منہ میں رکھنے سے ہم سیدھے سرگ کو چلے جائیں گے اور جب سونے کا یہ رتبہ ہوا تو اس کے منہ میں ڈالنے سے اچھا عمل کرنا مراد ہو گئی۔ 5۔ روپلڑی روپے کی تحقیر کے واسطے ایک لفظ بنا لیا ہے۔ 6۔ یہ لفظ انگریزی ہے اور اصل میں پریڈ(Parade)ہے اور اس کے معنی یہ ہیں ’’ قواعد کے واسطے فوج کا آراستہ ہو کر کھڑا ہونا۔‘‘ مگر رفتہ رفتہ اس لفظ کا اطلاق اس میدان پر بھی ہو گیا جس پر پریڈ ہوا کرتی ہے۔ 7۔ یہ مثل اس مقام پر بولی جاتی ہے جہاں مطلب حاصل ہو جائے، نقصان ذرا بھی نہ ہو اور اس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ سانپ مر جائے اور لاٹھی نہ ٹوٹنے پائے۔ 8۔ اس لفظ کی اصل ملک ملایا کی زبان سے متعلق ہے۔ 9۔ یہ لفظ اصل میں بوسپٹل (Hospital) ہے۔ 10۔ انڈنٹ(Indent) انگریزی لفظ ہے۔ اور اشیائے مطلوبہ کی فہرست پر اس کا اطلاق آتا ہے۔ 11۔ منیب عربی لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی نائب بنانے والے کے ہیں۔ اور اسی واسطے اس لفظ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو افسر ہو کر کام کرے اور اس کے آگے کوئی اور نائب ہو اور کوٹھی والے مہاجنوں کے ہاں ایک ایسا شخص مقرر ہوتا ہے جو کوٹھی کا کام اصلی مالک اور افسر کے طور پر انجام دیتا ہے اور اس کے آگے اور آدمی بطور نیابت کے کام کرتے ہیں اسی سبب سے یہ شخص بھی منیب کہلاتا ہے اور اکثر ہندو جو منیم کہتے ہیں، وہ منیب ہی کا بگڑا ہوا لفظ ہے اور منیم کی اصل منعیم قرار دینی بھی تکلف سے خالی نہیں ہے۔ 12۔ ہندو لوگ جب کوئی مکان بنواتے ہیں تو پہلے اس میں برہمنوں سے پوجا کرواتے ہیں۔ پھر برہمنوں اور برادری کے لوگوں کی دعوت کر کے اس میں جا رہتے ہیں۔ اس رسم کو جٹ کرنا کہتے ہیں۔ 13۔ وید کے منتر پڑھ کر آگ میں گھی ڈالنے کو ہوم کرنا کہتے ہیں۔ 14۔ یعنی برہمنوں کا بھوجن۔ 15۔ نقدی کی قسم ہے جو شے برہمنوں کو نذر دی جائے، اس کو وچھنا یا وکشنا کہتے ہیں۔ 16۔ پاؤں بھاری ہونا حمل رہنے سے کنایہ ہے۔ 17۔ ساد کے لغوی معنی خواہش کے ہیں اور جب کسی عورت کے حمل کو ساتواں مہینہ ہوتا ہے تو اسے مختلف کھانوں کی خواہش ہوتی ہے اور اسی سبب سے بنیوں اور بعض قوموں میں عورت کے میکے سے اس کی سسرال میں مٹھائی اور ترکاری آتی ہے۔ اسی کو ساد کہتے ہیں۔ 18۔ فارسی، عربی اور انگریزی اور اور غیر زبانوں کو ہندو لوگ راچھسٹی بدھیا کہتے ہیں۔ 19۔ بہائی ایک دیبی کا نام ہے اور ہندو لوگ بیان کرتے ہیں کہ یہ دیبی بچوں کے کان میں کچھ باتیں کہہ کر کبھی انہیں رلا دیتی ہے اور کبھی ہنسا دیتی ہے۔ اس دیبی کی شکل زچہ خانے میں اس طور سے بناتے ہیں کہ گوبر کے دو متقاطع خط بنا کر ان کے اوپر کے سروں پر آنکھوں کی شبیہ کے لیے دو کوڑیاں لگا دیتے ہیں اور اس صورت کے بنانے اور اس کے پوجنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ دیبی بچوں کے کان میں ہمیشہ خوشی کی باتیں کہتی رہے۔ 20۔ دایہ 21۔ کھارا سر کی تیلیوں کا ایک چوکھونٹا ٹوکرا ہوتا ہے۔ 22۔ یعنی کیا 23۔ اکثر ہندو لوگ اپنے ہمسایوں میں سے ان آدمیوں کو جو ان کے باپ سے چھوٹے ہوتے ہیں چچا جی کہہ کر پکارتے ہیں اور بڑوں کو تاؤ۔ 24۔ یعنی دبلے 25۔ یعنی لڑائی اور فساد 26۔ یعنی پتھر 27۔ مونگا، موتی، سونا، چاندی اور تانبا۔ 28۔ ہندوؤں کے ہاں بوڑھوں کے مرنے کی بہت خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بوڑھا آدمی اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر مرتا ہے اور اپنے پیچھے سب بال بچوں کو چھوڑ جاتا ہے۔ 29۔ طبلہ سرنگی بجانے والے کو ہندی میں جاچک کہتے ہیں۔ 30۔ بنیے لوگ وویا سسرے کو داد سسرا کہتے ہیں۔ 31۔ دھاوڑا دھائے کا مذکر ہے 32۔ دولتمند ہندو بوڑھے آدمی کی ارتھی بہت سا روپیہ لگا کر تیار کراتے ہیں اور کی شکل کبھی بجرے اور کبھی چوکھونٹی کشتی کے طور پر بنواتے ہیں۔ 33۔ کنگورہ اصل میں کنگرہ ہے۔ 34۔ دھرم شاستر کے موافق برہمن، چھتری اور ویش کو ایک خاص طریق سے جنیو پہننا اور گاتیری منتر پڑھنا لازم ہے مگر اب اکثر بنیے اس پر عمل نہیں کرتے اور باپ کے مرنے پر جنیو پہن لیتے ہیں۔ 35۔ کہتے ہیں کسی جگہ مواتیوں نے ڈاکہ ڈالنا چاہا تھا، مگر وہاں کی عورتوں نے انہیں مار کر بھگا دیا۔ اس گیت میں وہی بیان ہے اور دستور ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ امر پر گیت بن جاتا ہے۔ 36۔ ایک قسم کی شیرینی ہوتی ہے جو میدے، گھی اور کھانڈ سے بنتی ہے۔ 37 ۔ بچے کو دایہ کے ہاں سے لینے کو لینی کی رسم کہتے ہیں۔ 38۔ صحن۔ 39۔ جب کئی آدمی کسی مکان میں چوری کرنے جاتے ہیں تو وہ اپنے میں سے ایک شخص کو طاقت ور دیکھ کر اس مکان کے باہر کھڑا کر دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے آئے یا چوروں کے مقابلہ کرنے کا ارادہ کرے تو وہ وہیں اس پر ہتھیار چلائے اور اپنے رفیقوں کو بچائے۔ اسی شخص کو چوروں کی اصطلاح میں پٹھوال کہتے ہیں۔ 40۔ یعنی مکتب 41۔ یعنی یہ لڑکا جو تیری گود میں ہے، ایسا امیر ہو گا کہ سیر و شکار کیا کرے گا۔ 42۔ اس کھانے کو جو سسرا اپنی بہو کے واسطے ساون کے مہینے میں تیجوں کے تیوہار پر بھیجتا ہے سندھارا کہتے ہیں۔ 43۔ ہندوؤں کے دولہا دلہن کے ماتھے اور رخساروں پر ٹھوڑی کے نیچے تک رولی سے لکیریں کھینچ دیا کرتے ہیں، انہیں لکیروں(1)کو مروٹ کہتے ہیں۔ 44۔ دولہا دلہن کے چہرے کے گرد جو گھی کے چراغ تھالی میں رکھ کر پھراتے ہیں، انہیں آرتا کہتے ہیں اور اس رسم کو آرتا کرنا بولتے ہیں۔ 45۔ نانوہ لفظ نامے کا بگڑا ہوا ہے اور ہندو لوگ نانوہ اس فہرست کو کہتے ہیں جس میں خاص انہیں برہمنوں کے نام لکھتے ہوئے ہوتے ہیں، جنہیں دولتمند آدمی اپنے لڑکوں کی شادی میں کچھ نذر دیا کرتے ہیں۔ 46۔ مذہبی رسموں کے پہلے تھوڑے سے پانی کو چلو میں لے کر اس پر گنگا وشن گنگا وشن کہہ کر منہ میں ڈالنے کو آچمن کرنا کہتے ہیں۔ 47۔ کلاوے کی سوت کو مولی کہتے ہیں۔ 48۔ یعنی نسل کی اصل بتائی۔ 49۔ بائیں طرف آنا بیوی ہو جانے سے کنایہ ہے۔ 50۔ قطبی ستارہ 51۔ لفظ کیا کی جگہ اکثر پوربیے کہا بولتے ہیں۔ پانچواں باب پہلی فصل 1۔ اصطلاح شرع میں حضرت محمد ؐ کے قول و فعل کو اور اس کام کو جو ان کی رضا مندی سے ان کے سامنے کسی اور شخص نے کیا ہو، حدیث کہتے ہیں۔ 2۔ اسلام کے لغوی معنی فرمانبرداری کرنے کے ہیں۔ 3۔ جو مقام کسی زمانے میں خاص نام سے نامزد نہ ہوئے تھے ان کے نام بلحاظ آئندہ لکھے گئے ہیں اور ان سے وہ جگہیں مراد ہیں جہاں اب ان ناموں کے مقام واقع ہیں۔ 4۔ مصدر بمعنی مفعول ہے اور اس کے معنی ممسوخ ہو گئی، یعنی بگڑ گئی ہیں۔ 5۔ چاندنی کے دنوں یعنی ہر قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو ایام بیض کہتے ہیں۔ 6۔ حجر اسود ایک سیاہ پتھر کا نام ہے جو کعبے میں رکھا ہوا ہے۔ 7۔ ازدلاف لغت عربی میں قریب ہونے کو کہتے ہیں۔ اس مقام میں حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا دونوں قریب ہوئے تھے اور ان کی ملاقات ہوئی تھی، اس سبب سے اس کا نام مزدلفہ قرار پایا۔ 8۔ لفظ ادریس درس سے مشتق ہے۔ 9۔ خدا تعالیٰ کے پیغام کو جو خاص صورتوں سے نازل ہوتا ہے، وحی کہتے ہیں۔ 10۔ بعض آدمی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت نوح ؑ نے چھ آدمیوں کو کشتی میں بٹھایا۔ 11۔ سوق الثمانین کے لغوی معنی اسی آدمیوں کا بازار ہیں۔ 12.12a۔ صفا اور مروہ دو پہاڑیوں کے نام ہیں۔ 13۔ سام ابن حضرت نوح ؑ کی نسل میں عملیق نامی ایک شخص تھا۔ اس کی اولاد کو عمالقہ اور عمالیق کہتے ہیں۔ 14۔ بنی اسرائیل کے واسطے لفظ اسباط اسی طرح بولا جاتا ہے، جس طرح عرب کے واسطے لفظ قبائل کا اطلاق آتا ہے اور اسباط سبط کی جمع ہے اور سبط لغت میں فرزند زادے کو کہتے ہیں، بیٹی کی اولاد سے ہو یا بیٹے کی۔ 15۔ راحیل حضرت یوسف ؑ کی والدہ کا نام ہے۔ 16۔ فرعون مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا، کسی خاص شخص کا نام نہیں تھا اور اس بادشاہ کا نام ریان ابن ولید تھا۔ 17۔ تشنیع کے معنی برا کہنے او رملامت کرنے کے ہیں۔ 18۔ نان بائی مخفف ہے نان ابائی کا اور اس لفظ کا اطلاق اس شخص پر آتا ہے جو نان اور ابا یعنی روٹی اور شوربا بیچے۔ 19۔ دہقان معرب ہے دہگان کا اور دہگان مرکب ہے دہ اور گان سے۔ دہ کے معنی گاؤں کے ہیں اور گان فارسی میں نسبت کا کلمہ ہے، اس صورت میں تمام لفظ مرکب سے گاؤں والا مراد ہے۔ 20۔ ایکہ عربی میں شجرستان کو کہتے ہیں اور مدین کے قریب ایک خاص شجرستان کا نام ہے۔ 21۔ قبط حام ابن نوح ؑ کی نسل سے ایک شخص کا نام ہے اور قبطی لوگ جو مصر کے باشندے اور فرعون کے تابع تھے، اسی کی اولاد سے ہیں۔ 22۔ انا ہندی میں دایہ کو کہتے ہیں جو بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ 23۔ طور سینا ایک پہاڑ ہے اور سینا جس کی طرف طور مضاف ہے، ایک درخت کا نام ہے۔ 24۔ عربی میں یدہاتھ کو اور بیضا آفتاب کو کہتے ہیں۔ 25۔ دوسری فصل دیکھو۔ 26۔ مجمع البحرین سے وہ مقام مراد ہے، جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں، مگر بعض کا یہ خیال ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا ملنا ہی علم کے دو دریاؤں کا ملنا ہے، اس سبب سے ان کے ملنے کی جگہ کو مجمع البحرین تصور کیا۔ 27۔ کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے ماں باپ کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نکاح کسی پیغمبر سے ہوا اور ان دونوں سے ایک او رپیغمبر پیدا ہوا اور وہ ا پنی قوم کو راہ راست پر لایا۔ 28۔ یہ مضمون قرآن کی تیسری صورت کی چونتیسویں آیت کا ہے۔ 29۔ ہارون مریم ؑ کے بھائی کا نام ہے۔ 30۔ حواری لغت عربی میں دوست اور مددگار اور دھوبی کو کہتے ہیں۔ 31۔ کہف عربی میں پہاڑ کے غار کو کہتے ہیں جو کہ اصحاب کہف ایک پہاڑ کے غار میں جا کر سوئے تھے، اس واسطے اس نام سے نامزد ہوئے اور یہ لوگ اصحاب کہف و رقیم بھی کہلاتے ہیں کیوں کہ رقیم ایک لوح کا نام ہے، جس پر ان کا تمام حال لکھا ہوا تھا اور اسے کسی بادشاہ نے اس غار پر لٹکوا دیا تھا اور انگریزی کتابوں میں انہیں سیون سلیپرز (Seven Sleepers)لکھا ہے۔ 32۔ ان لوگوں کو انگریزی کتابوں میں مارٹرز آف دی کیو (Martyrs of the Cave)لکھا ہے۔ 33۔ سینٹ جارج (St. George) 34۔ اخدود عربی میں گڑھے کوکہتے ہیں۔ 35۔ ابو القاسم حضرت محمد ؐ کی کنیت ہے اور کنیت اس اسم کو کہتے ہیں جو باپ یا ماں یا بیٹا یا بیٹی کے نام سے بولا جائے اور قاسم حضرت محمد ؐ کے ایک بیٹے کا نام تھا، جو چھوٹی سی عمر میں دنیا سے انتقال کر گئے تھے۔ 36۔ قریش ایک شخص کا لقب ہے جس کی اولاد کو بھی قریش کہتے ہیں اور اصل میں قریش تصغیر ہے قرش کی اور وہ ایک مچھلی کا نام ہے جو سب مچھلیوں پر غالب ہے اور چونکہ قبلہ قریش عزت و شرافت میں تمام قبیلوں پر غلبہ اور فوقیت رکھتا ہے، اس سبب سے وہ بھی اس نام سے مشہور ہوا اور بعض کتابوں میں اس امر کی اور بھی وجہیں لکھی ہیں ۔ 37, 37a, 37b۔ یہ سب بت پرست تھے۔ 38۔ یہ شہر شام میں واقع ہے اور یہ وہ بصرہ نہیں ہے جو عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔ 39۔ نصاریٰ کے عبادت خانے کو عربی میں اکثر صومعہ بولتے ہیں۔ 40۔ نصاریٰ میں سے جو شخص پارسا ہو کر گوشہ گزیں ہوتا ہے اسے عربی میں راہب کہتے ہیں۔ 41۔ اصطلاح میں سب چیزوں کا خیال چھوڑ کر خدا کے دھیان کرنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ 42۔ خدا کے ذکر کی نیت کر کے مسجد میں کسی مرد کے علیحدہ بیٹھنے کو اعتکاف بولتے ہیں۔ 43۔ قرآن کی 96سورۃ کا نام ہے اور اہل اسلام کا مقولہ ہے کہ سب سے پہلے ہی سورۃ نازل ہوئی۔ 44۔ لفظ لدنی بفتح اول و ضم دوم و تشدید سوم منسوب ہے لدن کی طرف اور لدن کے معنی زبان عربی میں پاس اور نزدیک کے ہیں۔ اسی سبب سے علم لدنی اس علم کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بغیر اس کی محنت اور کوشش کے اپنے پاس سے عطا فرمائے۔ 45۔ قرآن کی بیسویں سورۃ کا نام ہے۔ 46۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت محمد ؐ نماز پڑھا رہے تھے، حضرت عمرؓ نے ان کے پیچھے کھڑے ہو کر قرآن سنا اور اسلام اختیار کیا۔ 47۔ لات اور منات بتوں کے نام ہیں۔ 48۔ بدر ایک کنویں کا نام ہے جو بدر ابن قریش نے کھدوایا تھا اور وہاں اسی نام کا ایک گاؤں بھی ہے۔ 49۔ نجاشی حبشے کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ 50۔ چوتھی سورۃ کی 169آیت 51۔ یثرب وہی شہر ہے جس کو مدینہ کہتے ہیں۔ 52۔ یعنی اگر ایک بال برابر آگے بڑھوں تو تجلی کی روشنی میرے پر جلا دے۔ 53۔ 22جون سنہ 622ء 54۔ جو لوگ حضرت محمد ؐ کی رفاقت میں مکے سے ہجرت کر کے مدینے میں آئے تھے وہ مہاجر کہلاتے ہیں۔ 55۔ حنین مکے اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ 56۔ احد مدینے کے پاس ایک پہاڑ کا نام ہے۔ 57۔ یہ سب بتوں کے نام ہیں۔ 58۔ سترہویں سورۃ کی 83 آیت 59۔ مناسک اصل میں حج کرنے والوں کی عبادت گاہوں کو کہتے ہیں اور مجازاً حج کے اعمال پر بھی اس کا اطلاق آتا ہے۔ 60۔ پانچویں سورۃ کی پانچویں آیت 61۔ اسی فصل میں حضرت علیؓ کا بیان دیکھو 62۔ امیر المومنین پہلے پہل حضرت عمرؓ کا لقب ہوا تھا اور پھر اور بھی اس لقب سے معروف ہوئے۔ 63۔ یعنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا۔ 64۔ ہمیشہ روزے رکھنے والا 65۔ قرآن کی اٹھارہویں سورۃ کا نام ہے۔ 66۔ آٹھویں آیت 67۔ اصحاب کہف و رقیم کا حال اسی فصل میں حضرت عیسیٰ ؑ کے بیان میں لکھا ہے۔ دوسری فصل 1۔ صور عربی میں بجانے کے سینگ کو کہتے ہیں۔ 2۔ یہ تعداد اعتقادی امور میں داخل نہیں ہے۔ 3۔ اہل اسلام کہتے ہیں کہ بہشت میں وہ شراب نہیں ہونے کی جو یہاں دنیا میں ہے بلکہ کسی اور ہی قسم کی لذیذ اور خوشبودار ہو گی جس سے نفس کو لذت،آنکھوں کو تراوت حاصل ہو۔ نہ اس سے خما رہو گا، نہ عقل میں قصور، نہ حواس میں فتور۔ 4۔ حور زبان عربی میں حوراء کی جمع ہے، مگر فارسی اور اردو میں یہ لغت مفرد مستعمل ہوتا ہے۔ حوراء اس عورت کو کہتے ہیں جس کے جسم اور آنکھوں کی سفیدی اور آنکھوں اور بالوں کی سیاہی بہت تیز اور خوش نما ہو۔ 5۔ غلمان غلام کی جمع ہے اور لغت میں اس لفظ کے معنی لڑکے کے ہیں۔ 6۔ ایسے مقاموں پر قرآن میں مصدر تزویج کے مشتق صیغے مذکور ہیں اورتزویج کے معنی بیاہنے کے اردو ترجموں میں لکھے ہیں اور تفسیری بیضاوی میں تقرین یعنی قرین اور ہم نشین کرنے کے بیان کیے ہیں اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان صیغوں کے آگے لفظ حور پر بے واقع ہوئی ہے اور جب تزویج کا صلہ مے ہوتا ہے تو اس کے معنی تقرین کے ہوتے ہیں۔ 7۔ صبح صادق وہ روشنی ہے جو رات کی تاریکی کے بعد آسمان کے گرد و نواح میں پھیل جاتی ہے۔ 8۔ تراویح ایک قسم کی نماز کا نام ہے جو مسلمان لوگ رمضان کے مہینے میں رات کے وقت پڑھا کرتے ہیں اور اس کی بیس رکعتیں ہوتی ہیں۔ 9۔ اس لفظ کی شرح پہلی فصل میں حضرت محمد ؐ کے بیان میں گزر چکی ہے۔ 10۔ یعنی حلال کھانا اور سچ بولنا 11۔ پیرو 12 ۔ عربی کے قاعدے کے موافق لفظ بعدت میں یاے نسبت لگا کر بدعی بولنا بہتر ہے، جیسے ہجرت سے ہجری 13۔ بدعت حسنہ وہ ہے جو قرآن شریف اور طریق نبوی اور قول و فعل خلفا اور اجماع علما کے خلاف نہ ہو۔ چھٹا باب 1۔ اس قصے میں جن لوگوں کا بیان ہے، ان میں سے اکثر خاندانی اور شرع کے بہت پابند تصور کیے گئے ہیں۔ اسی سبب سے ان کو ان توہمات اور بیہودہ رسموں کے پیرو خیال نہیں کیا ہے، جو ہندوستان میں کمتر درجے کے مسلمانوں میں رائج ہیں اور نہ ان کو ناچ گانے اور آور اسی قسم کی چیزوں کا شائق سمجھتا ہے، اس واسطے کہ جو لوگ شرع پر چلتے ہیں وہ ایسی چیزیں ناپسند کرتے ہیں۔ 2۔ اس اڈیشن کے ایڈیٹنگ میں م اور غ کی علامتوں کو اس خیال سے حذف کر دیا گیا ہے کہ اس سے مطالعے کی روانی میں خلل پڑتا تھا۔ 3 ۔ مسلمانوں کے ہاں جو عورت خدمت کے واسطے نوکر رکھی جاتی ہے، اسے ماما کہتے ہیں۔ 4۔ شمع کے کافور ہونے سے کنایہ ہے اس کے بجھنے سے۔ کیوں کہ کافور کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اڑ جاتا ہے۔ 5۔ مسلمانوں کا اس لفظ کا اطلاق چھوٹی بہن پر ہوتا ہے اور یہ محبت کا بھی لفظ ہے۔ عورتیں آپس میں گفتو کرتے وقت اکثر بولتی ہیں۔ 6۔ ابا باپ کو کہتے ہیں اور جان فارسی لفظ ہے۔ عزیز اور پیارے پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔ 7۔ حکیم اور دانا اس شخص کو کہتے ہیں، جو حکمت کے تمام علموں سے واقف ہو اور مجازاً یہ لفظ طبیب پر بھی بولا جاتا ہے۔ 8۔ مسلمانوں کے ہاں چھوٹی عمر میں شادی نہیں کرتے اور پہلے سے نسبت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بیاہ صرف نکاح ہی سے مراد ہے۔ 9۔ جب لفظ آدمی کی کسی شخص کی طرف نسبت کرتے ہیں تو اس سے اس شخص کا خدمت گار مراد ہوتی ہے مثلاً میرا آدمی ا ور آپ کا آدمی، اس سے میرا خدمت گار اور آپ کا خدمت گار مراد ہے۔ 10۔ کسی سے رخصت کرنے کے لیے تھوڑی دور جانے کو مشایعت کہتے ہیں۔ 11۔ یعنی جو غیب سے ظاہر ہوتا ہے،و ہی اچھا ہے۔ 12۔ ان تمام فقروں سے بیقرار ہونے اور گھبرانے سے کنایہ ہے۔ 13۔ قرآن کی چھتیسویں سورۃ کا نام ہے اور مسلمانوں کے ہاں اکثر نزع کے وقت تکلیف کے رفع کرنے کے واسطے یہ سورۃ بیمار کو پڑھ کر سنایا کرتے ہیں۔ 14۔ دوسری سورۃ کی 151 آیت 15۔ ’’ اگر اشنان‘‘ جو ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے، مل جائے تو پانی میں ڈالنا اس کا بہتر ہے، ورنہ بیری کے پتے ڈال دینا چاہئیں اور جو وہ بھی نہ ہوں تو صرف پانی ہی کافی ہے۔ 16۔ جو لوگ آپ مردے کو نہلانا نہیں جانتے، وہ اس امر کے واقف کاروں کو بلا لیتے ہیں۔ 17۔ عورت کے کفن میں مرد کے کفن سے دو کپڑے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک تو دامنی جو سر پر اڑھائی جاتی ہے اور جس میں بال لپیٹ کر دونوں طرف رکھے جاتے ہیں، دوسرے سینہ بند جو بغل سے زانو تک ہوتا ہے۔ 18۔ اس سمت سے وہ خط مراد ہے جس پر سمت قبلہ عمود ہو۔ 19۔ امامت حق اول بادشاہ کا ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو قاضی کا۔ اس کے بعد قبیلے کے امام کا، پھر ولی کا اور ولی اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بلحاظ میراث کے مردے سے زیادہ تر قریب رشتہ رکھتا ہے۔ 20۔ یہاں بھی شمالی اور جنوبی سمت سے وہ سمت سمجھنی چاہیے جس پر سمت قبلہ عود ہو اور مشرقی اور مغربی سمت سے قبلہ مراد ہے۔ 21۔ قبر کے پہلو میں جو مردے کے رکھنے کے واسطے اور جگہ بنا لیتے ہیں اسے لحد کہتے ہیں اور لحد صرف تحت زمین میں کھودی جاتی ہے۔ 22۔یعنی اونٹ کے کوہان کی سی۔ 23۔ سپارہ مختصر ہے لفظ سی پارہ کا اور لفظ سی پارہ قرآن کے تیسوں حصوں میں سے ہر ایک حصے کو کہتے ہیں۔ 24۔ خالہ عربی میں ماں کی بہن کو کہتے ہیں۔ 25۔ ہدیہ اصطلاح میں قرآن کے ختم کرنے کی تقریب کو کہتے ہیں۔ 26۔ بسم اللہ اصطلاح میں وہ تقریب کہلاتی ہے جس میں بچہ پہلے پہل پڑھنا شروع کرتا ہے۔ 27۔ کد خدا اور کتخدا دونوں درست ہیں اور کے لغوی معنی صاحب خانہ ہیں اور اصطلاح میں بیاہے ہوئے آدمی کو کہتے ہیں۔ 28۔ یہ لفظ ددہ ہے اور اصل میں ترکی ہے، اس عورت کو کہتے ہیں جو بچہ پالنے کے واسطے نوکر رکھی جاتی ہے۔ 29۔ رکوع اصطلاح میں قرآن شریف کی تھوڑی سی مقرر عبادت کو کہتے ہیں۔ 30۔ میاں ہندی میں خاوند اور آقا کو کہتے ہیں اور محبت کا بھی ایک لفظ ہے، اکثر کلام کرتے وقت آپس میں بولتے ہیں۔ 31۔ خاب فارسی میں روئیں کو کہتے ہیں۔ 32۔ یعنی خوب چمکتا ہوا اور اس قسم کے الفاظ اکثر بچوں کے سامنے بولا کرتے ہیں۔ 33۔ آپا بڑی بہن کو کہتے ہیں۔ 34۔ یہ جملہ دعائیہ ہے، یعنی خدا انہیں زندہ رکھے۔ 35۔ چھاتی پر سانپ لوٹنا، نہایت اضطراب اور غم سے کنایہ ہے۔ 36۔ یہ لفظ ترکی ہے اور اصل میں اس کا صحیح تلفظ بائے فارسی سے ہے مگر عوام چلمچی بولتے ہیں اور بعض آدمی جو سیابچی کہتے ہیں، یہ تکلف سے خالی نہیں۔ 37۔ لفظ لو لینے سے امر کا صیغہ ہے اور آگاہی کا بھی کلمہ ہے۔ 38۔ یہاں محبت کے طور پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ 39۔ سرخ طلائی کاغذ صرف بچوں کے خوش ہونے کے واسطے لکھا جاتا ہے۔ 40۔ اہل اسلام کی کتابوں میں لکھا ہے کہ قرآن کی یہی سورت پہلے پہل نازل ہوئی تھی اور اس کا ذکر پہلے حصے میں حضرت محمد ؐ کے بیان میں گزر چکا ہے۔ 41۔ بیمار پرسی 42۔ سحری اس کھانے کو کہتے ہیں جو مسلمان لوگ پچھلی رات کو کھا کر دن کو روزہ رکھتے ہیں اور اسے سحر گہی بھی بولتے ہیں۔ 43۔ افطار کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں اور افطاری اصطلاح میں ان چیزوں کو کہتے ہیں جو روزہ کھولتے ہی کھانا کھانے سے پہلے تناول کی جاتی ہیں۔ 44۔ اس لفظ کی اصل سنسکرت کی طرف راجع ہے۔ 45۔ اس لفظ کی شرح ہو چکی ہے۔ 46۔ بات اصطلاح میں شادی کے پیام کو کہتے ہیں۔ چنانچہ اکثر بولا کرتے ہیں کہ اس کی بات آئی ہے اور کبھی نسبت کی جگہ بھی اس کا اطلاق آتا ہے مثلاً اس کی بات ٹھہر گئی۔ 47۔ لفظ خان پٹھان کی قوم میں اکثر نام کا جز اور کبھی خطاب بھی ذاتی یا موروثی ہوتا ہے اور آور قوموں میں اکثر خطابی، ذاتی یا موروثی اور کبھی نام کا جز ہوتا ہے۔ 48۔ یعنی ہاتھ کی ہر انگلی ہنر کی روشنی سے چراغ کی طرح چمک رہی ہے۔ 49۔ مسلمانوں کے ہاں دستور ہے کہ جس عورت کے ہاں شادی کا پیام بھیجنا منظور ہوتا ہے، وہاں ایک کاغذ جس میں حمد اور نعت اور مرد کے حسب و نسب کا حال لکھا جاتا ہے، بھجوا دیتے ہیں اور اسی کو اصطلاح میں رقعہ کہتے ہیں مگر یہ امر کچھ ضروری نہیں ہے۔ 50۔ بیٹے کے واسطے دو بکرے اور بیٹی کے لیے ایک بکرا ذبح کیا جاتا ہے اور اسے عقیقے کی رسم کہتے ہیں۔ 51۔ لیت و لعل عربی زبان میں ان لفظوں میں سے ہیں جو فعل کے مشابہ ہیں اور یہ دونوں لفظ آرزو اور امید کے مقام پر بولے جاتے ہیں۔ 52۔ جہیز عربی لفظ ہے اور جہاز کا امالہ ہے، اس سامان کو کہتے ہیں جو بیٹی یا مردے کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ 53۔ نکاح کی ضیافت 54۔ یعنی جو کچھ موجود ہو۔ 55۔ نکاح نامہ ایک کاغذ کا نام ہے جس میں حمد و نعت اور دولہا دلہن کے نام اور مہر کی مقدار اور نکاح کی تاریخ اور آور اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں مگر اس کاغذ کا لکھا جانا کچھ ضروری نہیں ہے شرع میں صرف زبانی اقرار کافی ہے۔ 56۔ خطبہ ایک عبارت کو کہتے ہیں جس میں حمد و نعت اور نصیحت ہوتی ہے۔ 57۔ تناسل کے معنی نسل بڑھانے کے ہیں۔ 58۔ بارہا لڑکی کی طرف سے ایک وکیل مقرر کیا جاتا ہے اور وہی نکاح کی مجلس میں آ کر اس کی طرف سے اقرار کرتا ہے مگر اس صورت میں وکالت کی تصدیق کے دو گواہ ضرور ہوتے ہیں۔ 59۔ دہلی کے مسمانوں نے اب اس امر کا انتظام کر لیا ہے کہ دو ہزار روپے سے زیادہ کا مہر ہرگز نہ باندھا جائے۔ 60۔ جس لڑکی سے کسی لڑکے کی نسبت قرار پاتی ہے، اسے اس کی منسوبہ کہتے ہیں۔ 61۔ ششدر اس مقام سے کنایہ ہے ، جہاں سے رہائی دشوار ہو اور مجازاً عاجز و متحیر کی جگہ بھی مستعمل ہوتا ہے اور ششدر اصل میں نرد کی بازی میں چھ خانے ہوتے ہیں کہ جب مہرہ ان کے پچھلے خانے میں پھنس جاتا ہے تو وہاں سے اس کا نکلنا مشکل ہے۔ 62۔ مستامن اس شخص کو کہتے ہیں، جو غیر مذہب کی عمل داری میں امن سے رہے۔ 63۔ اس شخص کا لقب عزیز تھا اور اس کا ذکر حصہ اول میں حضرت یوسف ؑ کے حال میں گزر چکا ہے۔ 64,64a۔ یہ کتابیں اپنے مولفوں کے ناموں سے مشہور ہیں۔ 65۔ یہ کتاب اپنے مولف کے نام سے مشہور ہے۔ 66۔ قرآن شریف کی پانچویں سورت کا نام۔ 67۔ قرآن کی تیسویں سورت کا نام ہے۔ 68۔ یہ حال حصہ اول میں حضرت محمد ؐ کے بیان میں گزر چکا ہے۔ 69۔ میقات اصطلاح میں اس مقام کو کہتے ہیں، جہاں سے مکے جانے والا حج کا احرام باندھتا ہے اور اس طرح کے مقام پانچ ہیں اور اہل یمن کا میقات مقام یلملم ہے اور اسی جگہ سے ہندوستان والے بھی احرام باندھتے ہیں۔ 70۔ حجر اسود کی کیفیت حصہ اول میں حضرت آدم ؑ کے حال میں گزر چکی ہے۔ 71۔ حطیم کا حال حصہ اول میں حضرت محمد ؐ کے بیان میں بھی لکھا گیا ہے۔ 72 ۔ مقام ابراہیم کا بیان حصہ اول میں حضرت ابراہیم ؑ کے حال میں بھی گزر چکا ہے۔ 73,73a۔ ان لفظوں کی شرح حصہ اول میں حضرت ابراہیم ؑ کے حال میں لکھی گئی ہے۔ 74۔ عربی میں میل منارے کو کہتے ہیں اور اخضر کے معنی سبز کے ہیں اور میلین اخضرین دو سبز میناروں کے نشان ہیں۔ 75۔ منیٰ مکے کے پاس ایک گاؤں کا نام ہے۔ 76۔ اس لفظ کا بیان پہلی فصل میں حضرت آدم ؑ کے حال میں بھی گزر چکا ہ۔ 77۔ ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو عرفہ اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ اس روز حج کرنے والوں کو عرفات پر ٹھہرنا ہوتا ہے۔ 78۔ یعنی جیسے جمعے کی نماز کے پہلے پڑھے جاتے ہیں۔ 79۔ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ 80۔ اس لفظ کی شرح پہلی فصل میں حضرت محمد ؐ کے حال میں لکھی گئی ہے۔ 81۔ اس لفظ کا بیان پہلی فصل میں حضرت آدم ؑ کے حال میں گزر چکا ہے۔ 82۔ ایک پہاڑی کا نام ہے۔ 83۔ جمرہ لغت میں کنکری کو کہتے ہیں اور اس مقام پر بھی جہاں حج کرنے والے کنکریاں پھینکتے ہیں، اس لفظ کا اطلاق آتا ہے اور اس قسم کے مقاموں میں سے ایک کا نام جمرہ عقبہ ہے۔ 84۔ جمار جمرہ کی جمع ہے۔ 85۔ محقب منیٰ میں ایک مقام کا نام ہے۔ 86۔ ملتزم ایک خاص جگہ کا نام ہے۔ 87۔ اس شعر میں اس شخص کی تسکین کا مضمون ہے جو کسی کی جدائی کے غم و الم میں مبتلا ہو اور اصل میں حضرت یوسف ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کے قصے کی طرف اشارہ ہے گویا ایسی حالت میں کہ جب حضرت یوسف ؑ اپنے باپ حضرت یعقوب ؑ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End